• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تفسیر کبیر ۔ تفسیر القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد رض ۔جلد 5۔6 یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تفسیر کبیر ۔ تفسیر القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد رض ۔جلد 5۔ یونی کوڈ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورۃ مریم
یہ سورۃ مکی ہے۔اور بسم اللہ سمیت اس کی ننانوے آیات ہیں ۔
اس سورۃ کا نام اس مناسبت سے مریم رکھا گیا ہے کہ اس میںجو بڑا اور مہتم بالشان واقعہ بیان ہوا ہے اور جس کے گرد دوسرے تمام واقعات چکر لگاتے ہیںوہ حضرت مریم علیہا السلام کا واقعہ ہے۔ یوںتو حضرت مریم علیہا السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہونے کے باوجود بہرحال ایک غیر نبیہ عورت تھیں اور حضرت زکریا اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کو ان پر فضیلت حاصل تھی لیکن ہر شخص اپنے اپنے مقام کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔مثلاً جب ہم نے اس بات کا ذکر کرنا ہوکہ کوئی شخص کسی کے اعلیٰ درجہ کے کیریکٹر کو دیکھ کر اپنی ذہانت اور تقویٰ کی وجہ سے کس طرح جلد سے جلد اس پر ایمان لے آتا ہے ۔ تو صاف ظاہر ہے کہ ہم اس کی مثال میں رسول کریم ﷺکا نام نہیں پیش کر سکتے کیونکہ رسول کریم ﷺ کی مثال آپ کے مقام کی بلندی کے لحاظ سے یہاں چسپاں نہیں ہوتی۔ ایسے موقعہ پر لازماًہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام لیں گے اور انہی کے وجود کو بطور مثال پیش کرینگے۔اسی طرح خواہ ہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اپنے درجہ اور مقام میں بڑا سمجھتے ہوں لیکن اگر یہ ذکر ہو کہ کس طرح بعض ذہین اور ہوشیار لڑکے چھوٹی عمر میں ہی صداقت کو پالیتے ہیں اور اس کے لئے قربانی کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو اس امر کی مثال کے طور پر ہم حضرت ابوبکرؓکا نام نہیں لیں گے جب بھی نام لیں گے حضرت علی ؓکا لیں گے تو چونکہ اس سورۃ میں زیادہ تر ایسے امور کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو مریم اور مریمی صفات والے وجودوں کی طرف انسان کی توجہ کو منعطف کرتے ہیں ۔ اس لئے باوجود اس کے کہ اس سورۃ میں حضرت ابراہیم ؑ کا بھی ذکر ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کا بھی ذکر ہے ۔ حضرت اسماعیل ؑکا بھی ذکر ہے۔ حضرت ادریس ؑکا بھی ذکر ہے۔حضرت زکریاؑکا بھی ذکر ہے۔ حضرت یحییٰ ؑکا بھی ذکر ہے ۔اس سورۃ کا نام مریم رکھا گیا ہے۔ اس لئے کہ یہ سورۃ ہم کو مریم اور مریمی صفات والے وجودوں کی طرف توجہ دلاتی ہے۔
یہ سورۃ مکی ہے اور وہ تمام صحابہ جنہوں نے اسبارہ میں اپنی رائے ظاہر کی ہے اس کو مکی ہی قرار دیتے ہیں ۔ مغربی مصنف بھی اس سورۃ کو مکی قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ راڈول وہیری اور میور یہ تینوں مستشرق اس کے مکی ہونے کے قائل ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ اس کے زمانہ نزول کو ذرا آگے پیچھے بیان کرتے ہیں ۔ مثلا میور کے نزدیک اس کا وقت نزول قبل از ہجرت زندگی کے آخری زمانہ کے ساتھ ملتا ہے یعنی جب رسول کریم ﷺ طائف کے لوگوں کو تبلیغ کرنے کے لئے گئے اور ان کی سنگدلی اور بدسلوکی کی وجہ سے واپس آ گئے تو میور کے نزدیک اس وقت یہ سورۃ آپ پر نازل ہوئی تھی اور یہ واقعہ دسویں سال نبوت کا ہے گویا وہ اس سورۃ کو آخری مکی زندگی کی قرار دیتا ہے۔ راڈول اس کو مکی ہی قرار دیتا ہے لیکن کوئی خاص وقت اس کے لئے معین نہیں کرتا۔ اور وہیری جیسا کہ اس کی عام طور پر عادت ہے بات وہی کہہ دیتا ہے جو ہماری تاریخوں میں ہوتی ہے لیکن کوشش کرتا ہے کہ نیش زنی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دے۔ اس نے بھی یہی قرار دیا ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے لیکن ابتدائی زمانہ کی ہے ۔ صرف اپنی علمیت جتانے کیلئے اتنا فرق بتاتا ہے کہ یہ سورۃ اتنی ابتدائی نہیں جتنی صحابہ کہتے ہیں بلکہ اس سے سال بھر پیچھے کی ہے۔ حالانکہ کوئی شخص یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ تیرہ سو سال بعد پیدا ہو کر اس کو یہ کس طرح پتہ لگ گیا۔ کہ یہ سال بھر پہلے کی ہے یا بعد کی۔ اس قسم کا قول محض تمسخر ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے اسلام کا جو دوسرا دور تھا یعنی ہجرت حبشہ کا۔ اس کے ابتداء میں یہ نازل ہوئی اور پھر کچھ عرصہ تک نازل ہوتی چلی گئی ۔ گویا وہ اس کو پانچویں یا چھٹے سال کی قرار دیتا ہے۔ لیکن سند کوئی نہیں بیان کرتا۔ (کمنٹری اون دی قرآن وہیری جلد سوم)
اس بارہ میں حدیثوں سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے اور درحقیقت وہی اصل روایات ہیں جن پر اس مسئلہ کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ کیونکہ جو لوگ رسول کریم ﷺ کے ساتھ رہے اور جنہوں نے اس زمانہ کے واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا وہی صحیح گواہی دے سکتے ہیں کہ یہ سورۃ کب نازل ہوئی۔ وہ یہی ہے کہ یہ ابتدائی زمانہ کی سورۃ ہے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ جو رسول کریم ﷺ کے نہایت ابتدائی صحابہ میں سے تھے وہ اس سورۃ کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ سورۃ میرے ابتدائی اموال میں سے ہے۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓکے متعلق آتا ہے کہ قال فی بنی اسرائیل والکھف و مریم انھن من العتاق الاول و ھن من تلادی (بخاری کتاب التفسیر) یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓنے ایک مجلس میں بیان فرمایا کہ سورۂ بنی اسرائیل ، سورہ کہف اور سورہ مریم یہ ابتدائی زمانہ میں نازل ہونے والی سورتوںمیں سے ہیں۔ وھن من تلادی اور یہ میرے پرانے اموال میں سے ہیں ۔ یعنی جب میں ابتداء میں اسلام لایا تو اس وقت جو سورتیں میں نے حفظ کیں۔ ان میں یہ سورتیں بھی شامل تھیں ۔ اب ظاہر ہے کہ جوشخص ابتداء میں اسلام لایا اور جس نے یہ سورتیں یاد کیں ہم اس کی بات مانیں گے یا اس پادری کی بات مانیں گے جو تیرہ سوسال بعد پیدا ہوا۔
یہ تو مذہبی ثبوت ہے ۔ تاریخی ثبوت اس بات کا کہ یہ سورۃ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں نازل ہوئی یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جب دشمنی کا زور بڑھ گیا اور دشمنوںنے اسلام کو اپنی پوری طاقت اور قوت سے کچلنا چاہا تو رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو بلا کر فرمایا کہ تم لوگ یہاں سے ہجرت کر جائو۔ صحابہ نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ آپ ہمیں ہجرت کیلئے فرماتے ہیں تو کیا آپ بھی ہجرت کر کے تشریف لے جائیں گے رسول کریم ﷺ نے فرمایا نہیں میں اس وقت تک انتظار کروں گا۔ جب تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے ہجرت کا واضح حکم نہ مل جائے لیکن تم پر جو مظالم ہو رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے میرا دل یہی چاہتا ہے کہ تم ہجرت کر جائو انہوں نے کہا یا رسول اللہ! کونسا ملک ہے جہاں ہمیں امن میسر آسکتا ہے ۔ آپ نے مغرب کی طرف ہاتھ اٹھا کر فرمایا ادھر ایک ملک ہے جس کا بادشاہ عادل اور منصف ہے ۔ تم اگر وہاں چلے جائو تو تم کو امن میسر آ جائے گا۔ وہ اشارہ آپ کا ایبے سینیا کی طرف تھا جس کو حبشہ کہتے ہیں ۔ چنانچہ آپ کے ارشاد پر صحابہ کی ایک جماعت ادھر جانے کیلئے تیار ہو گئی۔ جو لوگ ادھر ہجرت کر کے گئے ا ن میں حضرت جعفر بن ابی طالبؓ بھی تھے جو حضرت علی کے سگے بھائی اور رسول کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔ جب یہ لوگ مکہ سے حبشہ چلے گئے تو پہلے تو کفار نے خیال کیا کہ اچھا ہوا مسلمان مکہ سے نکل گئے اور ہماری کوششیں کامیاب ہو گئیں لیکن جب انہوں نے یہ دیکھا کہ رسول کریم ﷺ اور آپ کے وفا دارخادم حضرت ابوبکر ۔ حضرت علیؓ ۔حضرت عثمان ؓاور کئی اور بڑے بڑے خاندانوں کے نوجوان اطمینان سے مکہ میں بیٹھے ہیں اور مکہ کی تبلیغ اسی پرانے جوش و خروش سے جاری ہے تو انہیں خیال آیا کہ مسلمانوں کی ایک جماعت کومکہ سے نکال دینا ہماری کامیابی نہیں کہلا سکتا بلکہ یہ ہماری شکست کی علامت ہے۔ کیونکہ اس طرح اسلام کے دو مرکز قائم ہو گئے اور مکہ سے نکل کر تبلیغ ایک قوم کی جگہ دو قوموں یعنی اہل مکہ اور مسیحیوں میں ہونی شروع ہو گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جب انہیں یہ اطلاعات بھی ملنی شروع ہو گئیں کہ ان لوگوں کو امن میسر آ گیا ہے اور نہ کوئی انہیں مارتا ہے نہ پیٹتا ہے اور نہ کسی قسم کا دکھ دیتا ہے بلکہ وہ آرام سے عبادتیں اور ذکر الٰہی کرتے اور محنت کر کے اپنے لئے روزی پیدا کرتے ہیں۔ تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ یہ تو ہم سے بڑی غلطی ہوئی ۔ کہ ہم نے سختی کی اور مسلمان بھاگ گئے۔ اگر وہ اپنے ملک میں ہی رہتے تو ہم جب چاہتے ان کو مار سکتے تھے۔ مگر اب جو غیر ملک میں چلے گئے ہیں تو ہمارے قبضہ سے نکل گئے ہیں اور بجائے اس کے کہ مسلمانوں کو ضعف پہنچتا ان کو ایسا ٹھکانہ میسر آگیا ہے کہ اب وہ ہمارے خلاف بڑی آسانی کے ساتھ پروپیگنڈا کریں گے اور ہماری ہمسایہ حکومت کو ہمارے خلاف اکسائیں گے۔ چنانچہ اس کے انسداد کے لئے انہوں نے مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ ایک وفد حبشہ جائے اور اس کے ساتھ مختلف قسم کے تحائف بھیجے جائیں جو بادشاہ اور اس کے امراء اور پادریوں وغیرہ کیلئے ہوں۔ یہ وفد بادشاہ کے سامنے پیش ہو اور اسے کہے کہ تم ہمارے ہمسایہ ہو اور تمہارے ساتھ ہمارے بڑے اچھے تعلقات ہیں ۔ لیکن اب ہماری قوم کے کچھ باغی تمہارے ملک میں آ کر پناہ گزیں ہو گئے ہیں ان لوگوں کو اپنے ملک سے نکال دو اور واپس مکہ میں بھجوا دو اور تجویز کی کہ اسی موقعہ پر بادشاہ اور اس کے درباریوں کو تحائف دئیے جائیں تاکہ ان کے دل میں نرمی پیدا ہو اور وہ ان لوگوں کوو اپس کر دیں۔
چنانچہ یہ وفد حبشہ گیا ۔ اس وفد میں حضرت عمرو بن العاص بھی جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے شامل تھے۔عمرو بن العاص بڑے لسان آدمی تھے اور عام طور پرحکومت کی طرف سے جو ڈیپوٹیشن جاتے تھے ان میں عمرو بن العاص ضرور شامل ہوتے تھے۔ چنانچہ بعض اور جگہوں پر بھی مکہ والوں نے ان کو بھیجا ہے۔ انہوں نے نجاشی بادشاہ حبشہ کے سامنے بڑی عمدہ تقریر کی اور کہا بادشاہ سلامت آپ ہمارے ہمسائے ہیں۔ یمن میں آپ کی حکومت ہے اور یمن اور حجاز ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں اس وجہ سے ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہئے۔ مگر اب یہ ایک نیا فتنہ پیدا ہو گیا ہے کہ ہمارے ملک کے کچھ بھگوڑے آپ کے ملک میں آ گئے ہیں اور آپ نے ان کو پناہ دے دی ہے۔ ہم حیران ہیں کہ آپ نے ہمارا ہمسایہ اور تعلق دار ہو کر ہمارے دشمنوں کو پناہ کس طرح دے دی ہے۔ آپ انہیں مکہ میں واپس بھجوا دیں تاکہ ہمارے تعلقات آپ سے بدستور اچھے رہیں۔ اور ان میں کوئی بگاڑ پیدا نہ ہو۔ بادشاہ نے کہا میں ان لوگوں کو بلوا کر اور ان سے پوچھ کر فیصلہ کروں گا۔ چنانچہ مسلمان مہاجرین کو بلوایا گیا اور بادشاہ نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا جھگڑا ہے صحابہ نے کہا ہمارا ن سے کوئی سیاسی جھگڑا نہیں صرف مذہبی اختلاف ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے شہر میں خدا تعالیٰ کا ایک نبی آیا جسے ہم نے قبول کر لیا۔ اب یہ لوگ ہمیں ہمارے مذہب کے مطابق عبادت کرنے نہیں دیتے اور مذہبی معاملات میں دخل دیتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپنے رنگ میں خدا تعالیٰ کی عبادت کریں اور یہ کہتے ہیں کہ جس طرح ہم عبادت کرتے ہیں اس طرح عبادت کرو اور چونکہ ہم ایسا نہیں کرتے اس لئے یہ برا مناتے اور ہمیں دکھ دیتے ہیں ۔ جس سے مجبور ہو کر ہمیں اپنا ملک اور اپنی قوم چھوڑنے پڑے۔ بادشاہ پر اس کا نیک اثر ہوا اور اس نے کہا عقائد میں اختلاف تو ہوا ہی کرتا ہے اس بنیاد پر ہم مسلمانوں کو واپس نہیں کر سکتے (تاریخ کامل ابن اثیر جلد۲صفحہ۳۲) اور اس نے مسلمانوں سے کہا کہ تم میرے ملک میں آزادی سے رہو اور اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرو۔ جب یہ جواب ممبران وفد نے سنا تو انہوں نے وہ تحائف استعمال کئے جو مکہ والوں نے انہیں دئیے تھے چنانچہ بڑے بڑے بطریقوں اور پادریوں کو انہوں نے تحفے دئیے (بطریق درحقیقت Petriarchکا عربی تلفظ ہے جو ایک بڑے پادری کو جو اپنے حلقہ میں قریبا پوپ کی حیثیت رکھتا ہے کہا جاتا ہے) اور انہیں اکسایا کہ یہ دراصل تمہارے بھی دشمن ہیں اور ہمارے بھی۔ کیونکہ ان کے خیالات اور عقائد عیسائیت کے سخت خلاف ہیں ۔ اور یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی والدہ کی ہتک کرتے ہیں ۔ اگر تم ان لوگوں کو حبشہ میں رہنے کا موقع دو گے۔ تو تم عیسائیت سے دشمنی کرو گے ۔ اس اشتعال انگیزی کے نتیجہ میں جیسا کہ آجکل ہمارے خلاف لوگوں کو جوش آ جاتا ہے ان کا بھی مشتعل ہو جانا ایک لازمی امر تھا۔ چنانچہ انہیں غصہ آیا اور انہوں نے تجویز کی کہ دوسرے دن پھر بادشاہ کے سامنے یہ معاملہ رکھا جائے ۔ چنانچہ دوسرے دن جب دربار لگا تو بڑے بڑے پادریوں نے پھر اس سوال کو اٹھایا اور انہوں نے نجاشی سے کہا کہ یہ معاملہ خالی سیاسی ہی نہیں بلکہ مذہبی بھی ہے کیونکہ یہ لوگ مذہبا ًمکہ والوں کے ہی خلاف نہیں بلکہ ہمارے بھی خلاف ہیں اور مسیح اور ان کی والدہ کی ہتک کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو اپنے ملک میں نہیں رکھنا چاہئے۔
بادشاہ نے ان کو پھر بلوایا اور پوچھا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کی ہتک کرتے ہو۔ کیا یہ درست ہے ۱ اس پر حضرت جعفرؓ جو رسول کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی اور حضرت علیؓ کے سگے بھائی تھے مسلمانوں کی طرف سے آگے بڑھے اور انہوں نے کہا۔ اے بادشاہ! میں آپ کو اپنی مذہبی کتاب کی چند آیتیں سنا دیتا ہوں ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کا ذکر ہے۔ آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ ہم ان کے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے سورۂ مریم کی چند ابتدائی آیتیں پڑھ کر سنائیں ۔ جب انہوں نے یہ آیتیں سنائیں ۔ تو چونکہ عام طور پر عیسائیوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خدا ہونے اور ان کی والدہ کے متعلق خدا کی والدہ ہونے کا خیال پایا جاتا تھا اور ایبے سینیا میں یہ مشرکانہ خیالات زیادہ تھے اس لئے پادریوں نے شور مچا دیا کہ ہمارے مسیح کی ہتک کی گئی ہے۔ مگر بادشاہ کا یہ مذہب نہیں تھا۔وہ یونیٹیرین خیالات کا تھا جو خدا تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں اور روایات سے پتہ لگتا ہے کہ وہ بعد میں مسلمان بھی ہو گیا تھا۔ اس نے کہا مسلمان جو کچھ کہتے ہیں ٹھیک ہے۔ بلکہ تاریخوں میں لکھا ہے اس نے ایک تنکا اٹھا کر کہا خدا کی قسم جو کچھ ان آیات میں بیان کیا گیا ہے میں مسیح اور اس کی والدہ کو اس سے ایک تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں سمجھتا۔ اس پر پادری اور زیادہ جوش میں آ گئے اور انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے ان لوگوں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی تو ملک میں بغاوت ہو جائے گی اور آپ کے خلاف لوگوں میں جوش پیدا ہو جائے گا۔ جب انہوں نے یہ کہا کہ اگر مسلمانوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی تو ملک میں بغاوت ہو جائے گی تو نجاشی کو غصہ آگیا اور اس نے کہا میں چھوٹا تھا کہ تم نے میرے چچا سے مل کر مجھے بادشاہت سے محروم کرنا چاہا۔ مگرمیرے خدا نے میری مدد کی اور اس نے مجھے حکومت عطا فرمائی۔ پس میں اگر بادشاہ بنا ہوں تو اس خدا کے فضل سے جس نے میرے مقابلہ میں تمہیں شکست دی اور مجھے کامیاب فرمایا۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ جس خدا نے میرے بچپن میں میری مدد فرمائی تھی اس خدا کو میں اب جوان ہو کر چھوڑ دوں گا۔ جائو جو تمہارے جی میں آتا ہے کر لو۔ میں انصاف کے معاملہ میں تمہاری کوئی بات سننے کیلئے تیار نہیں اور اس نے مکہ کے وفد کو واپس لوٹا دیا اور مسلمانوں کو عزت کے ساتھ دربار سے رخصت کیا ۔ ان واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ ہجرت حبشہ جو دعویٰ نبوت کے پانچویں سال کے نصف اول میں ہوئی۔ اس سے پہلے سورۂ مریم نازل ہو چکی تھی اور مسلمانوں میں پھیل بھی چکی تھی تبھی تو مہاجرین نے شاہ حبشہ کے سامنے اپنے عقیدہ کی توضیح کیلئے اسے پڑھا پس یہ ابتدائی زمانہ کی نازل شدہ سورۃ ہے اور ہجرت حبشہ سے پہلے کی ہے (یہ روایت جس کااوپر ذکر کیا گیا ہے محمد بن اسحا ق نے ام سلمہؓ سے اپنی سیرۃ میں اور امام احمد بن حنبل نے ابن مسعودؓ سے اپنی مسند میں بیان کی ہے) مقاتل کے نزدیک سورۂ مریم کی صرف آیت سجدہ مدنی ہے باقی ساری سورۃ مکی ہے۔ راڈول کا خیال ہے کہ اس سورۃ کی آیت ۱ تا ۳۷ کی عبارت سورۂ آل عمران کی آیت ۳۵ تا ۵۷ سے فرق رکھتی ہے (اس سورۃ میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے) وہ کہتا ہے کہ یہ فرق اس اعتراض سے بچنے کیلئے کیا گیا ہے کہ لوگ شاعر کہیں گے۔ گویا اس کے نزدیک اہل عرب کے اعتراض سے ڈر کر ان آیات کے طرز بیان کو بدل دیا گیا ہے حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ دنیا میں ہر شخص جانتا ہے کہ شعر کس چیز کا نام ہے اور اہل عرب تو خاص طور پر شعر گوئی میں مشہور تھے۔ وہ قرآن کریم کی نثر کو شعر کس طرح کہہ سکتے تھے حقیقت یہ ہے کہ ان یورپین مستشرقین نے قرآن تو کیا سمجھنا تھا انہوں نے دشمنوں کا اعتراض بھی نہیں سمجھا ۔ان کا اعتراض یہ نہیں تھا کہ یہ کوئی باوزن کلام ہے بلکہ اصل اعتراض ان کا یہ تھا کہ یہ کلام اپنے اندر شاعرانہ روح رکھتا ہے۔ مستشرقین یورپ نے یہ سمجھ لیا کہ اس سورۃ میں چونکہ ندیّا اور رضیّا وغیرہ الفاظ آتے تھے اس لئے شاید ان الفاظ کی وجہ سے مشرکین مکہ رسول کریم ﷺ کو شاعر کہا کرتے تھے حالانہ ان کا اعتراض روح شاعری کے متعلق تھا یعنی جس طرح شاعر اپنے مضمون کو مختلف پیرایوں میں بدل بدل کر بیان کرتا ہے اسی طرح قرآن کریم مختلف رنگوں میں بات کو پھیر پھیر کر بیان کرتا ہے۔ ورنہ ان میں خود بڑے بڑے شاعر موجود تھے وہ بھلا کہہ سکتے تھے کہ یہ کلام شعر ہے ۔ مگر یورپین مستشرقین نے یہ خیال کر کے کہ انہوں نے ندیّا اور رضیّا کی وجہ سے آپ کو شاعر قرار دیا تھا یہ اعتراض کر دیا کہ آل عمران میں اس طرز کوبدل دیا گیا ہے۔
میرے نزدیک اس سورۃ کا وقت نزول چوتھے سال نبوت کا آخر یا پانچویں سال نبوت کا شروع ہے کیونکہ تاریخوں سے صاف طور پر ثابت ہے کہ مکی وفد جب مسلمان مہاجرین کو حبشہ سے واپس لانے کیلئے گیا اور بادشاہ نے انہیں واپس کرنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے پادریوں کو اپنے ساتھ ملا کر مسلمانوں پر ہتک مسیح کا لزام لگا دیا۔ اس پر حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے سورۂ مریم کی ابتدائی آیات پڑھ کر حضرت مسیح ؑ کے متعلق اسلامی عقیدہ بتایا جس پر بادشاہ کی تسلی ہو گئی اور وہ اپنے جواب پر پختہ ہو گیا اور ہجرت حبشہ رجب ۵عیسوی میں ہوئی تھی یعنی رسول کریم ﷺ کے دعویٰ پر جب ساڑھے چار سال گزر چکے تھے۔ اگر ہم سال کو ابتداء یعنی محرم سے شمار کریں تو یہ عرصہ ساڑھے چار سال کا بنتا ہے اور اگر درمیان سے شمار کریں تو اور بھی چھوٹا ہو جاتا ہے کیونکہ وحی نبوت کا آغاز رمضان میں ہوا ہے میں اس وقت پورے یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ جب مورخین نبوت کے سال شمار کرتے ہیں تو پہلے سال کا شمار محرم سے کرتے ہیںیا رمضان سے۔ اگر وہ ابتدائی مہینہ سے شمار کرتے ہوں تب تو یہ ساڑھے چار سال کا عرصہ بنتا ہے اور اگر وہ رمضان سے شمار کرتے ہیں تو اس صورت میں یہ عرصہ تین سال دس ماہ کا بن جائے گا ۔ بہرحال یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہجرت حبشہ سے پہلے یہ سورۃ نازل ہوئی اور اور اتنا عرصہ پہلے نازل ہوئی کہ صحابہؓ نے اس کو یاد کر لیا۔ اس غرض کیلئے ہمیں کم از کم پانچ چھ ماہ کا عرصہ ضرور نکالنا پڑے گا ۔ جس میں یہ سورت اتنی معروف ہو گئی کہ صحابہؓ نے اس کو حفظ کر لیا۔ ان امور کو دیکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ چوتھے سال کا آخری حصہ اس کے نزول کا وقت تھا اس سے پہلے تین سال تک رسول کریم ﷺ پر برابر الہامات نازل ہوتے رہے لیکن عیسائیت کو مخاطب نہیں کیا گیا تین سال کے بعد یکدم عیسائیت کو مخاطب کیا گیا اور تفصیلی طور پر مخاطب کیا گیا ۔ جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے ذکر کے علاوہ جن پیشگوئیوں پر عیسائیوں کے نزدیک ان کے دعویٰ کی بنیاد تھی ان سب کی طرف اشارہ کیا گیا ۔ اسی طرح مسیحیوں کے عقائد کو بیان کیا گیا اور ان کو دلائل کے ساتھ رد کیا گیا اس کے چار پانچ ماہ کے بعد حبشہ کی طرف ہجرت ہو جاتی ہے جہاں عیسائی بادشاہت ہوتی ہے اور عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس سے متاثر ہو کر ایک صحابی عبید اللہ بن جحش جو مکہ سے ہجرت کر کے حبشہ گئے تھے وہاں مرتد ہو کر عیسائی ہو گئے ۔ (زرقانی جلد ۱ صفحہ ۲۱۰)
اس سورۃ کا ایسے وقت میں نازل ہونا صاف طور پر بتاتا ہے کہ اس کے نزول میں ایک بہت بڑی حکمت پوشیدہ تھی۔ جو قرآن کریم کی صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔ رسول کریم ﷺ مکہ میں پیدا ہوئے جہاں عیسائیت کا کوئی زور نہیں تھا۔ آپ کی مخالفت کرنے والے وہ لوگ تھے جن کا عیسائیت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ سوائے اس کے کہ تین چار عیسائی غلام تھے مگر ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور پھر تین سال تک آپ پر وحی ہوتی رہتی ہے مگر اس میں عیسائیت کا کوئی تفصیلی ذکر نہیں ہوتا۔لیکن یکدم چوتھے سال کے آخر یا پانچویں سال کے شروع میں تفصیلی طور پر عیسائیت کو مقابل میں رکھ کر بحث شروع کر دی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ عیسائیت کیوں پیدا ہوئی۔ مسیح ؑ کے متعلق کیا کیا پیشگوئیاں تھیں اور اسلام کے مقابلہ میں عیسائیت کی کیا حیثیت ہے اور پھر اس کے فوراً بعد ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنے ماننے والوں کو حکم دیتے ہیں کہ تم حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے جائو جہاں ایک عیسائی حکومت ہے یہ ساری باتیں بتاتی ہی کہ اس کلام کا نازل کرنے والا ایک عالم الغیب خدا ہے جب تک اسلام اور عیسائیت کے ٹکرائو کی کوئی صورت نہیں تھی اللہ تعالیٰ نے اس بات کی ضرورت نہیں سمجھی کہ قبل از وقت عیسائیت کا کوئی ذکر کیا جائے۔ لیکن جونہی وہ وقت قریب آ گیا جب مسلمانوں نے ایک عیسائی ملک میںجانا تھا تو مسلمانوں کو بیدار رکھنے اور ان کو ہوشیار کرنے کیلئے اور یہ بتانے کیلئے کہ اب عیسائیوں سے تمہارا مقابلہ ہو گا تمہیں ان کے مقابلہ میں کونسا پہلو اپنے سامنے رکھنا چاہئے یکدم ایک سورۃ نازل ہو جاتی ہے جس میں عیسائی عقائد اور عیسائی تعلیمات پر روشنی ڈالی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ مسیحیت کی کیا غرض ہے اور اس کا اصل مقصد کیا ہے۔ اس میںصاف طور پر اس امر کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ اب تم کو مسیحیوں سے واسطہ پڑنے والا ہے۔ اس لئے ان کے مذہب کے بارہ میں تم کو ہوشیار کیا جاتا ہے۔ پس سورۂ مریم کے نزول میں قطعی اور یقینی طورپر ہجرت حبشہ کی پیشگوئی مخفی تھی اور قبل از وقت مسلمانوں کو بتا دیا گیا تھا کہ اب تم ایک ایسی جگہ جانے والے ہو جہاں عیسائیت سے تمہارا واسطہ پڑے گا۔ اس لئے ان کے عقائد کے متعلق ہوشیار رہو۔ یہ ایک غیر معمولی اشارہ تھا جس کو مسلمانوں نے تو نہیں سمجھا مگر عیسائیوں نے سمجھ لیا کیونکہ ریورنڈ وہیری اور سر میور کا سارا زور اس امر کے ثابت کرنے کیلئے صرف ہو جاتا ہے کہ اس سورۃ کو کسی اور سال کی نازل شدہ قرار دیں۔ حالانکہ سورۂ مریم چوتھے سال میں نازل ہو یا آٹھویں سال میں عیسائیوں کا اس سے کیا تعلق ہو سکتا ہے اگر اس کا مضمون عیسائیت کرردّ کر دیتا ہے تو خواہ یہ چوتھے سال کے آخر میں نازل ہو یا دسویں سال میں عیسائیوں کے لئے برابر ہے مگر انہوں نے بڑا زور صرف کیا ہے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ یہ سورۃ ہجرت حبشہ سے پہلے کی نہیں کیونکہ ان کا ذہن اس طرف چلا گیا ہے کہ اگر یہ ہجرت حبشہ سے پہلے کی نازل شدہ ثابت ہو جائے تو یہ اس امر کا ایک صریح اور واضح ثبوت ہوگا کہ اس میں ہجرت حبشہ کی پیشگوئی کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ اسلام اب عیسائی ممالک میں جانے والا ہے۔ پس یہ اعتراض ان کے دل میں کھٹکا۔ اور چونکہ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ قرآن کریم میں کوئی پیشگوئی نہیں اس لئے انہوں نے ضروری سمجھا کہ اس کا کوئی حل تلاش کریں ورنہ مسلمان مجبور کریں گے کہ بتائو تمہارے پاس اس کا کیا جواب ہے کہ تین سال تک مشرکین مکہ کے سامنے عیسائیوں کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ نہ ان کی تعلیم کا نہ تاریخ کا۔ نہ غلط عقائد کا۔ مگر پھر یکدم ایک پوری کی پوری سورۃ اتاری جاتی ہے اور توجہ دلائی جاتی ہے کہ اب ایسے واقعات رونما ہونے والے ہیں کہ مسلمانوں کو عیسائیوں سے واسطہ پڑے گا اور ان ممالک میںبھی جہاں عیسائیوں کا زور ہو گا۔ اسلام کو ان کے مقابلہ کیلئے نکلنا پڑے گا۔ کیا اس سے ظاہر نہیںہوتا کہ اسلام اور عیسائیت کا جو ٹکرائو ہونے والا تھا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قبل از وقت اس کی خبر دے دی تھی اور چونکہ یہ ایسی چیز ہے جس کو برداشت کرنا ان کی طاقت سے بالکل باہر ہے اس لئے قرآنی نشان کو باطل کرنے کیلئے انہوں نے کوشش کی کہ اس سورۃ کو ہجرت حبشہ سے بعد کی قرار دیں۔مگر اس عظیم الشان نشان پر پردہ ڈالنے کیلئے انہیں اور تو کچھ نہ سوجھا اپنے آپ کو بڑا ادیب ظاہر کرنے کیلئے انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اس سورۃ کے الفاظ اور اس کا سٹائل بتا رہا ہے کہ یہ سورۃ بعد میں نازل ہوئی تھی (تفسیر وہیری جلد۳)حالانکہ عربی سٹائل کو وہ جانتے ہی نہیں ۔ بلکہ عربی تو الگ رہی اگر شکسپیئر کے ڈرامے ہی ہم ان کے سامنے رکھ دیں اور ان سے دریافت کریں کہ بتائو یہ کون سے سال کا ہے اور وہ کون سے سال کا۔ تو وہ سخت ذلیل ہو کر شرمندہ اور لاجواب ہو جائیں گے اور یہ ہرگز نہیں بتا سکیں گے کہ یہ کس سال کا ہے اور وہ کس سال کا۔ زبان کاسٹائل پہچان کر یہ بتانا کہ یہ عبارت کس سن کی ہے ایک لمبی تاریخ پر عبور کا متقاضی ہوتا ہے جس میںکوئی زبان تدریجاًارتقائی منازل طے کرتی ہے اور پھر اس میں بھی ہزاروں قسم کی غلطیاں ہو جاتی ہیں ۔ بعض شاعر ایسے گزرے ہیں جنہوں نے ابتدائی ایام میں بعض الفاظ اپنے شعروں میں استعمال کئے ہیں جن کو آخری ایام میں انہوں نے استعمال نہیںکیا ایسے شخص کی کسی نظم کو اگر ہم دیکھیں گے تو ان الفاظ کو مدنظر رکھتے ہوئے کہہ سکیں گے کہ یہ آخری زمانہ کی نظم ہے یا ابتدائی زمانہ کی مگر اس قسم کا اظہار خیال بھی صرف چند الفاظ کی بناء پر ہو گا۔یہ نہیں کہ شعر کی بناوٹ دیکھ کر کوئی شخص کہہ سکے کہ یہ فلاں زمانہ کی ہے اور وہ فلاں زمانہ کی۔ غالب بہت بڑا شاعر گزرا ہے مگر اس کے کلام پر بھی جرح کرنے والے کہتے ہیں کہ جیسے بعض سہل سے سہل شعر ہم اس کے آخری زمانہ کے کلام میں دکھا سکتے ہیں ویسے ہی بعض آسان شعر ہم اس کے ابتدائی زمانہ کے کلام میں بھی دکھا سکتے ہیں ۔ پس یہ کہنا کہ غالب کے کلام میں بعد میں امپروومنٹ ہو گئی تھی غلط بات ہے اسی طرح ریورنڈ وہیری اور سر میور کا یہ ایک فرضی ڈھکوسلہ ہے جس سے ان کا مقصد یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم اتنے بڑے ماہر فن اور ادیب ہیں کہ ہم کلام کا سٹائل دیکھ کر ہی پہچان لیتے ہیں کہ یہ کون سے زمانہ کی ہے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا ماہر فن بھی اس قسم کی بات نہیں بتا سکتا۔اس زمانہ میں ہی اگر جرمنی ، فرانس ، امریکہ اور انگلستان کے ادیبوں سے دریافت کیا جائے کہ فلاں فلاں قومی شاعر جو تم میں گزرے ہیں ان کی فلاں فلاں نظمیں کس سن کی ہیں تو وہ یہی کہیں گے کہ کیا ہم منجم ہیں کہ اس قسم کی بات بتا سکیں۔ سوائے اس کے کہ کسی کو ذاتی طور پر علم ہو کہ فلاں نظم کس سن میں کہی گئی تھی کوئی شخص نظموں کو دیکھ کر ان کے سن کی تعیین نہیں کر سکتا لیکن قرآن کریم کے متعلق وہ یہ اندازہ لگانے بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ آیتیں فلاں سن کی ہیں اور یہ فلاں سن کی ۔ اس سے ان کی غرض محض اتنی ہوتی ہے کہ جو پیشگوئی ثابت ہوتی ہو اس میں رخنہ ڈال دیں اور اسلام کی صداقت پر پردہ ڈال دیں ۔
غرض وہیری اور میور کا فعل خود دلالت کرتا ہے کہ وہ دونوں اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ اس سورۃ کا نزول ایسے وقت میں ہوا ہے کہ یہ آئندہ کے حالات کے متعلق بڑی بھاری پیشگوئی بن جاتی ہے پس انہوں نے چاہا کہ اس پر پردہ ڈال دیں اور اسے بعد کے زمانہ کی قرار دے دیں۔ غرض یہ ایک عجیب نشان ہے کہ تین سال تک متواتر کلام الٰہی نازل ہوتا رہتا ہے مگر اس میں عیسائیت کا کوئی تفصیلی ذکر نہیں ہوتا ۔ لیکن جونہی عیسائیت سے ٹکرائو کا زمانہ قریب آتا ہے ایک سورۃ نازل ہوجاتی ہے اور پھر چھ ماہ یا سال کے بعد مسلمان ہجرت کر کے ایک عیسائی ملک میں چلے جاتے ہیں ۔ وہاں عیسائیوں سے ان کی بحثیں ہوتی ہیں جس کے نتیجہ میں عیسائی ایک مسلمان کا شکار کر لیتے ہیں اور اسے عیسائی بنا لیتے ہیں لیکن مسلمانوں نے ان کے بادشاہ کا شکار کر لیا اور وہ مسلمان ہو گیا ۔ پس قبل از وقت اس سورۃ کا نازل ہونا اور اس کے معاً بعد ایسے حالات کا پیدا ہو جانا جن کے نتیجہ میں اسلام اور عیسائیت کا ٹکرائو ہو گیا اسلام کی صداقت کا ایک بہت بڑا نشان ہے۔
اس سورۃ کے نزول کے بعد عیسائیت کا ذکر زمانۂ قبل از ہجرت میں ختم ہو جاتا ہے پھر مدینہ میں جا کر عیسائیت کا ذکر شروع ہوا ہے درمیان میں عیسائیت کی طرف اشارے ضرور کئے گئے ہیں لیکن تفصیل کے ساتھ عیسائیت کا ذکر پھر سورۂ آل عمران میں ہوا ہے جو ہجرت کے بعد دوسرے یا تیسرے سال مدینہ میںنازل ہوئی۔ خود اس سورۃ کا مضمون بھی اس کے مدنی ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اس میں جنگ احد اور اس کے متعلقہ واقعات کا ذکر ہے اور یا پھر عیسائیت کا ذکر سورۂ نساء میں آتا ہے کہ وہ بھی مدنی سورۃ ہے بلکہ سورۂ آل عمران کے بعد چوتھے سال سے اس کا نزول شروع ہوا ہے اور کچھ حصہ چوتھے سال کے بعد بھی نازل ہوا ہے سورۂ نساء کے علاوہ کسی حد تک تفصیل سے عیسائیت کا ذکر سورۂ مائدہ میں ہے اور یہ سورۃ بھی سورۃ نساء کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور اکثر حصہ اس کا پانچویں اور چھٹے سال ہجری میں نازل ہوا ہے بلکہ اس کی کچھ آیتیں رسول کریم ﷺ کی وفات کے قریب بھی نازل ہوئیں۔ پس قبل از ہجرت کی سورتوں میں سے جس سورۃ میں عیسائیت کو براہ راست بیان کیا گیا ہے اور کھلے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے وہ سورۂ مریم ہے اور جیسا کہ قیاس کیا جا سکتا ہے یہ سورۃ چوتھے سال نبوت کے آخر یا پانچویں سال نبوت کے شروع میں نازل ہوئی ہے تبھی صحابہؓ نے اس کو ہجرت حبشہ سے پہلے یاد کر لیا اور حبشہ کے بادشاہ کے سامنے اسے پڑھ کر سنایا۔ اس سورۃ کا یہ وقت نزول صاف طور پر بتا تا ہے کہ اس سور ۃ میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ اب عیسائیت کے ساتھ بھی تعلقات کی بنیاد رکھی جانے والی ہے اورآنے والی حبشہ کی ہجرت کی طرف اس میں واضح طور پر اشارہ کیا گیا تھا جس سے پتہ لگتا ہے کہ قرآن کریم کا نزول ایک عالم الغیب ہستی کی طرف سے ہوا ہے ۔جو واقعات اور حالات مسلمانوں کو پیش آنے والے ہوتے تھے۔ ان کو قریب زمانہ میںبیان کر دیا جاتا تھا تاکہ وقت پر اللہ تعالیٰ کا کلام پورا ہو کر مومنوں کیلئے ان کے ایمانوں کی زیادتی کا موجب ثابت ہو ۔میں سمجھتا ہوں ریورنڈ وہیری اور میور کے دل پر بھی اسی بات کا اثر ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے باوجود تاریخی اور حدیثی شہادتوں کے اس سورۃ کو بعد از ہجرت حبشہ یا قریب ہجرت مدینہ کے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مگر ان کے دل کی دھڑکن بتاتی ہے کہ اس سورۃ کے نزول کا وقت ایک ایسا بین اشارہ تھا کہ اس کے سمجھنے سے ریورنڈ وہیری اور میور بھی نہیں بچ سکے اور انہیں اس کے نزول کا وقت بدلنے کی ناکام کوشش کرنی پڑی ۔ آخری تاریخی شہادت کی موجودگی میں وہ کیا بات تھی جس سے مجبور ہو کر ان کو اس کا وقت ِنزول بعد میں ثابت کرنا پڑا ۔ صرف یہی کہ اگر اس کا وقت نزول وہی تھا جو تاریخ بتاتی ہے تو یہ اسلام کی سچائی کا ایک بہت بڑا ثبوت تھا۔
یہاں کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ ہم یہ کس طرح مان لیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل کی ہے کیوں نہ یہ سمجھ لیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے خود بخود سوچ لیا ہو گاکہ مکہ میں مخالفت زیادہ ہے اب لازماً ہمیں ہجرت کرنی پڑے گی اور یہ بھی سوچ لیا ہوگا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کریں اس لئے انہوں نے عیسائیت کا قرآن کریم میں ذکر کر دیا اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک عقلی طور پر یہ ممکن ہے لیکن ساتھ ہی عقل اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ اگر عیسائیت کا ذکر کیا جاتا تو اس کی تعریف کی جاتی نہ کہ تردید۔ مگر اس سورۃ میں تو عیسائیوں کی شروع سے لے کر آ خر تک تردید کی گئی ہے ۔ دوسرے محمد رسول اللہ ﷺ یہ تو سوچ سکتے تھے متبعین کو حبشہ بھجوا دیں گے مگر انہیں یہ کس نے بتا دیا کہ وہ ایک لمبے عرصہ تک وہاں رہیں گے ان کے عیسائیوں سے مباحثات ہونگے اور اس لئے ضروری ہے کہ عیسائیت کے متعلق انہیں تفصیلاً واقفیت ہو کیونکہ اس سورۃ کے ذریعہ صرف یہی نہیں بتایا گیا تھا کہ ہجرت ہو گی بلکہ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ایک لمبے عرصہ تک عیسائیوں سے مقابلہ ہوگا اور ایک دوسرے کی تردید کے لئے مختلف قسم کے دلائل استعمال کئے جائیں گے ۔پس یہ وسوسہ محض بے بنیاد ہے حقیقت یہی ہے کہ عیسائیوں نے چونکہ اس قرآنی معجزہ کو محسوس کرلیا تھا اس لئے انہوں نے پورا زور لگایا کہ اس سورۃ کو ہجرت حبشہ کے بعد کی نازل شدہ سورۃ قرار دیں چنانچہ میور کہتا ہے کہ اس میںہجرت کی طرف تو اشارہ ہے مگر ہجرت حبشہ کی طرف نہیں بلکہ ہجرت طائف کی طرف ۔ گویا وہ اسے ان آخری ایام مکی کی جو طائف میں گزرے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ طائف میں بھی بعض عیسائی غلام تھے اور واقعہ طائف میں ایک عیسائی غلام عداس نامی کا ذکر بھی آتا ہے جو رسول کریم ﷺ سے ملا اور اس نے آپ سے والہانہ عقیدت کا اظہار کیا ۔ مگر اس قسم کے عیسائی غلام خود مکہ میں بھی تھے اور تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ لوہا کو ٹاکرتے تھے یا اسی قسم کے بعض اور کام کیا کرتے تھے۔ سفر طائف میں جس عیسائی غلام کا ذکر آتا ہے اس کے متعلق تاریخ میں لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو۱ اس نے کہا نینوہ کا ۔ آپ نے فرمایا کیا وہی نینوہ جس میں میرا بھائی یونس ؑ آیا تھا؟ اور پھر آپ نے اسے تبلیغ کی جس سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے آپ کے ہاتھ چوم لئے ۔ پس بے شک طائف میں بھی کچھ عیسائی تھے مگر ان کے ساتھ کوئی مذہبی مقابلہ پیش نہیں آیا کہ اس سورۃ کو طائف کے واقعہ پر چسپاں کیا جائے۔و ہیری نے بھی اسے دبے لفظوں میںہجرت حبشہ کے بعد کی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ کہتا ہے یہ سورۃ اتنی دور تو نازل نہیں ہوئی جتنی دور میور بتاتا ہے مگر اتنی قریب بھی نازل نہیں ہوئی جتنی قریب مسلمان بتاتے ہیں اس نے اس سورۃ کو بعد از ہجرت حبشہ پانچویں یا چھٹے سال کی قرار دیا ہے اور میور نے اسے گیارھویں سال میں نازل ہونے والی قرار دیا ہے۔وہیری کہتا ہے اس میں بیان کردہ واقعات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ محمد (ﷺ) کو کتاب مقدس کا بہت کم علم تھا اور جن لوگوں نے اسے بتایا وہ بھی بہت کم جانتے تھے اس کا جواب ہم اگلی آیتوں کی تفسیر میں دینگے۔
ترتیب سورۃ :
اس سورۃ کا تعلق پہلی سورتوں سے یہ ہے کہ سورۃ بنی اسرائیل میں اس سوال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ اسلام کس طرح ترقی کرے گا یہ بتایا گیا تھا کہ سلسلہ محمدیہ سلسلہ موسویہ سے مشابہ ہے جس طرح موسوی سلسلہ نے ترقی کی تھی اسی طرح اسلام بھی ترقی کرے گا چنانچہ سورۃ بنی اسرائیل میں موسوی سلسلہ کے کچھ واقعات بیان کر کے بتایا گیا تھا کہ موسوی سلسلہ کے متعلق یہ مقدر تھا کہ اس پر زمانہ موسیٰؑ کے بعد دو تباہیاں آئیں گی اور اسی طرح پر دو ترقیوں کا زمانہ بھی آئے گا اور چونکہ اسلام کی ترقی موسوی سلسلہ کے مشابہ ہے اس لئے مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلو ک ہوگایعنی جس طرح وہاں زمانہ موسیٰؑ کے بعد دو تباہیاں اور دو ترقیاں مقدر تھیں ۔ اسی طرح یہاں بھی زمانہ نبوی کے بعد مسلمانوں کے لئے دو تباہیاں اور دو ترقیاں مقدر ہیں ۔ چنانچہ جیسا کہ بنی اسرائیل کی پہلی تباہی حضرت دائود ؑ کے زمانہ کے بعد ہوئی جو بڑی ترقی کا دور تھا اور اس میںیروشلم تباہ ہوا جو یہود کا مرکز تھا۔ اسی طرح زمانہ نبوی کے بعد بنو عباس کے زمانہ میںجو بڑی ترقی کا دور تھا۔ پہلی تباہی آئی اور بغداد جو اسلامی حکومت کا مرکز تھا وہ تباہ ہو گیا اور مسلمان علماء بغداد سے بھاگ کر ادھر ادھر منتشر ہو گئے اور مرکز پر غیروں کا قبضہ ہو گیا۔ پھر جس طرح وہاں جو پہلی تباہی آئی وہ زمانہ زیادہ تر حکومت کے مرکز کی تباہی تھی۔ یعنی نبو کد نضر نے یروشلم کو تباہ کیا اور وہاں کا تمام قیمتی سامان اپنے ساتھ لے گیا اور یہود جلاوطنی پر مجبور ہوئے۔ اسی طرح یہاں جو پہلی تباہی آئی وہ بھی زیادہ تر اسلامی حکومت کے مرکز کی تباہی تھی اور زمانہ بھی قریباً قریباً وہی تھا ۔ یعنی جتنے عرصہ بعد یروشلم پر تباہی آئی اتنے عرصہ بعد ہی بغداد پر تباہی آئی۔ اس کے بعد دوسری تباہی جو ٹائٹس کے زمانہ میں یہود پر آئی وہ ایسی تھی جس کے بعد یہودی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور ان میں سے کچھ ایران کے علاقہ میں چلے گئے۔ کچھ مصر کی طرف نکل گئے اور انہیں اپنا وطن بالکل چھوڑ دینا پڑا۔ اسی طرح ایک دوسری تباہی مسلمانوں کیلئے بھی مقدر تھی ۔ چنانچہ جس طرح بنی اسرائیل کی دوسری تباہی ظہور مسیح سے پہلے شروع ہوئی اور اس کے بعد بھی کچھ عرصہ تک جاری رہی۔ اسی طرح زمانہ اسلام میں بھی ہوا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا تو اس سے کچھ عرصہ پہلے سے ہی مسلمانوں پر یہ عمومی تباہی مغربی مسیحی طاقتوں کے ذریعہ سے جو رومن ایمپائر کے قائم مقام تھیں آنی شروع ہوئی اور وہ ہر جگہ کمزور ہوتے چلے گئے ان کی حکومتیں تباہ ہو گئیں اور اسلام کو پھر ایک سخت دھکا لگا اور ساری دنیا سے اسلامی حکومت کا نشان مٹ گیا۔یہ تباہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی رہی اور بعد میں بھی جاری رہی لیکن جیسا کہ پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے مقدر یہی ہے کہ ایک عرصہ کے بعد مسلمانوں کی یہ تباہی ترقی کی صورت میں بدل جائے گی اور انہیں دنیا میں پھر عروج حاصل ہو جائے گا۔
پہلی موسوی تباہی کے بعد یہود کو دوبارہ زندگی اس طرح حاصل ہوئی تھی کہ جو دشمن قوم تھی اس نے ان کو دوبارہ یروشلم بنانے میں مد د دی اور اس نے انہیں اپنے مرکز میں لا کر بسا دیا۔ اسی طرح مسلمانوں کی پہلی تباہی کے موقعہ پر بھی ایسا ہی نشان ظاہر ہوا بلکہ یہ نشان مسلمانوں کے حق میں زیادہ مکمل صورت میں ظاہر ہوا۔ اور وہ اس طرح کہ فارس اور مید کا بادشاہ جس نے یہود کو یروشلم کے آباد کرنے میں مدد دی تھی یہودی نہیں ہوا تھا صرف ان کا ہمدرد اور خیر خواہ تھا ۔ لیکن وہ ترک بادشاہ جنہوں نے اسلامی حکومت کو تباہ کیا تھا خود مسلمان ہو گئے اور بجائے اس کے کہ وہ مسلمانوں کی تباہی میںحصہ لیتے اور ان کی ترقی اور احیاء میں حصہ لینے لگے۔ اور اسلام پھر دوبارہ ان کے ہاتھوں سے عروج کے ایک نئے دور میں سے گزرنے لگا۔ اس کے مقابلہ میں دوسری تباہی جو بنی اسرائیل پر آئی تھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حاکم قوم خود مسیحی ہو گئی اور یہودی مذہب سے اس کی اس حد تک دلچسپی ہو گئی کہ مسیحی روایتوں کے ساتھ ساتھ تورات کا ادب اور احترام اور اسرائیلی انبیاء کا ادب اور احترام بھی ان میں قائم ہو گیا۔ مسلمانوں کیلئے بھی یہی مقدر ہے کہ وہ حاکم قومیں جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو تباہ کیا ہے وہی ایک دن اسلام قبول کریں گی اور پھر دوبارہ محمد رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے دین کو دنیا میں عزت اور کامیابی حاصل ہو گی۔ اس کے بعد سورۂ کہف میں اسی مضمون کو اور کھول کر بیان کیا گیا اور یہ واضح کیا گیا کہ دوسری تباہی کے بعد جو ذریعہ خدا تعالیٰ نے موسوی سلسلہ کو ترقی دینے کا اختیار کیا تھا وہی اب بھی اختیار کیا جائے گا۔ یہ کیا ذریعہ تھا جو اختیار کیا گیا اور موسوی سلسلہ کی یہ تباہی کس طرح ترقی میں تبدیلی ہوئی۔ مسیحی دنیا اسے خوب واقف ہے ۔وہ رنگ جو اس وقت تک موسوی سلسلہ کا چلا جاتا تھا اسے یکسر بدل دیا گیا اور مسیح ناصری جنہوں نے یہ کہا تھا کہ میں قانون کو بدلنے نہیں آیا بلکہ اسے پورا کرنے آیا ہوں (متی باب ۵ آیت ۱۷۔۱۸) ان کی جماعت کو خدا تعالیٰ نے تبلیغ دین کی ایسی توفیق دی کہ ان کے ذریعہ سے پھر تورات کی حکومت ایک نئے رنگ میں دنیا میں قائم ہو گئی اور وہی قوم جو مردہ ہو چکی تھی پھر موسوی سلسلہ کے آخری خلیفہ مسیح ناصری پر ایمان لا کر دنیا میں ترقی کر گئی اور موسوی سلسلہ پھیل گیا۔ ایسا ہی بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں سے بھی ہوگا چنانچہ یہ بتانے کے لئے کہ مسلمانوں کی دوبارہ ترقی بھی ایک مسیح کے ذریعہ سے ہو گی سورۂ مریم کو سورۂ کہف کے بعد رکھا گیا اور اس میں مسیح علیہ السلام کے واقعات بیان کر کے توجہ دلائی گئی کہ ایک ایسا ہی نشان مسلمانوں میں بھی ظاہر ہوگا اور مسلمان پھر اس نشان کے ذریعہ سے ترقی کریں گے۔ چنانچہ جس طرح موسوسی سلسلہ کی ترقی ایک مسیح کے ساتھ وابستہ تھی اسی طرح اسلام کی ترقی ایک مسیح کے ساتھ وابستہ ہو گی جس طرح وہاں اصحاب کہف یعنی مسیح ناصری کے اتباع کے ذریعہ سے وہ غلبہ ملا تھا اسی طرح یہاں آنے والے مسیح کیلئے نئے اصحاب کہف پیدا ہونگے اور ان کے ذریعہ سے دوبارہ اسلام غالب آ ئے گا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے سورۂ کہف میں معرج موسوی کا ذکر کیا اور بتایا کہ معراج موسوی کے اندر ہی اسلام کی ترقی کی خبر دی گئی تھی مگر ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس معراج کے نتیجہ میں موسوی اور محمدی ؑ سلسلہ میں شدید رقابت پیدا ہو جائے گی۔ چنانچہ جب محمدی سلسلہ ترقی کرے گا۔ موسوی سلسلہ اسے رقابت کی نظروں سے دیکھے گا اور اس رقابت کے نتیجہ میں جیسا کہ عام طور پر قاعدہ ہے کہ جب دورقیب ہوں اور ان میں سے ایک ذرا بھی غافل ہو تو وہ مارا جاتا ہے۔ مسلمان غفلت کرینگے اور موسوی سلسلہ کے علمبردار یعنی مسیح ناصری کے پیرو ان پر غالب آجائیں گے اور مسلمانوں کو مغلوب کر لینگے۔
پھر اس مشابہت کے لئے سورۂ کہف میں ایک پرانا واقعہ بنی اسرائیل کی قوم کا بیان کیا اور بتایا کہ بنی اسرائیل میں ذوالقرنین کا ایک واقعہ گزرا ہے تم دیکھو کہ کس طرح ذوالقرنین کے ذریعہ تباہ شدہ یہودیوں کو دوبارہ حکومت ملی۔ وہ واقعہ بھی اس موقعہ پر ظاہر کیا جائے گا اور مسلمان جو تباہ ہو چکے ہوں گے اللہ تعالیٰ انہیں پھر ایک دوسرے ذوالقرنین کے ذریعہ سے تباہی سے بچائے گا اور پھر ان کی ترقی اور حفاظت کے سامان پیدا فرمائے گا۔
اس کے بعد سورۂ مریم کو شروع کیا گیا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بتاچکا ہوں پہلی سورتوں کے مضمون سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام کی ترقی اور اس کے تنزل کا دور موسوی سلسلہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ جس طرح موسوی سلسلہ کے ٹوٹنے پر اس کا احیاء مسیح ناصری کے ذریعہ سے ہوا جو موسوی سلسلہ کا آخری نقطہ تھا اسی طرح اسلام کی طاقت اور اس کی شوکت کے ٹوٹنے پر اس کا دوبارہ احیاء مسیح محمدی ؑ کے ذریعہ سے ہوگا جو محمدیؑ سلسلہ کا آخری نقطہ ہو گا مگر چونکہ محمدیؑ سلسلہ کا اصل مقابلہ مسیح ناصری کی قوم کے ساتھ ہوگا اور اسلام کا ٹوٹنا مسیح ناصری کی قوم کی وجہ سے ہوگا جو موسوی سلسلہ کا آخری نقطہ تھا۔ اس لئے محمدی ؑ سلسلہ جب ترقی کرے گا تو اسے اصل مقابلہ مسیح ناصری ؑ کی قوم سے ہی پیش آئے گا ۔ اس لئے اگر ہم تاریخی طور پر غور کرنا چاہیں تو ہمیں بجائے موسوی سلسلہ پر غور کرنے کے مسیحی سلسلہ پر غور کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اسلام کے اصل دشمن وہی ہیں ۔ اس مناسبت کے لحاظ سے سورۂ کہف کی تشریحات کے بعد اب وہ اس قوم کے حالات کی طرف آتا ہے جن سے مسلمانوں کا اصل مقابلہ تھا اور بتاتا ہے کہ مسلمانوں پر مسیح کے ذریعہ سے ہی تباہی آئی یعنی مسیح ناصری کی قوم کے ذریعہ سے اور مسلمانوں نے اگر تباہی سے بچنا ہے تب بھی مسیح کے ذریعہ سے ہی یعنی مسیح موعود پر ایمان لانے کی وجہ سے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اب عیسائیت کی تاریخ بیان کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ تاریخ تمہارے لئے شمع راہ ہو گی اور تمہیں مدنظر رکھنا پڑے گا کہ اس طرح عیسائیت کی بنیاد پڑی اور اس رنگ میں تمہارے احیاء کی بنیاد ڈالی جائے گی ۔ گویا سورۂ مریم۔ سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف کی تیسری کڑی ہے اور یہ تینوں سورتیں ایک ہی مضمون کی حامل اور ایک ہی طریق پر چل رہی ہیں ۔
پھر اس سورۃ کا ایک قریبی تعلق سورۂ کہف سے یہ بھی ہے کہ سورۂ کہف کے آخر میں شریعت اور توحید پر زور دیا گیا تھا اور اس سورۃ میں مسیح کے ذکر سے کلام شروع کیا گیا ہے ۔ جس کی وجہ سے شریعت اور توحید میں وہ خطرناک ابہام پیدا ہونے والے تھے اور اس طرح بات صاف کر دی گئی ۔
پھر ان دونوں سورتوں کا ایک یہ تعلق بھی ہے کہ سورۂ کہف میں مسیحیوں کی انتہاء بیان کی گئی تھی اور اس میں ان کی ابتداء بیان کی گئی ہے۔ بظاہر اس کے الٹ ہونا چاہئے تھا۔ مگر بیج چونکہ مخفی ہوتا ہے اور کسی چیز کے ظاہر ہونے کے بعد ہی اس کی حقیقت کھلتی ہے اس لئے اسے بعد میں رکھا تاکہ مسیحیوں اور غیروں پر ظاہر ہو کہ کہاں سے بات شروع ہوئی تھی اور ختم کس شکل میں جا کر ہوئی۔
خلاصہ سورۃ
اس سورۃ کے شروع کے مقطعات میں جو صفات الٰہیہ کا اختصار ہیں مسیحیت اور اسلام کے عقائد کا مقابلہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ گو مسیحیت کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے لیکن اس میں خلاف ِصداقت عقائد داخل ہو گئی ہیں اور وہ عقائد صفات الٰہیہ کے بھی خلاف ہیں (خلاصہ مفہوم کھٰیٰعص)
اس کے بعد مسیح کا واقعہ حضرت زکریا کے ذکر سے شروع کیا ۔ کیونکہ مسیح علیہ السلام کی بہت بڑی علامت جو یہود میں مشہور تھی وہ مسیح سے پہلے ایلیا نبی کا آسمان سے اتر نا تھا (ملا کی باب ۴ آیت ۵) چنانچہ مسیح کے نزول کے بعد سب سے اہم سوال ان سے یہی کیا جاتا تھا۔ اور اسی سوال کے حل کرنے کی طرف انجیل نے غیر معمولی توجہ دی ہے اور بتایا ہے کہ ایلیا سے مراد یوحنا ہے ( متی باب ۱۱ آیت ۱۵ وباب ۱۷ آیت ۱۲ و مرقس ۹ آیت ۱۳) اور یہ کہ ایلیا نے آسمان سے نہیں آنا تھا بلکہ زمین سے ہی نکلنا اور ماں کے پیٹ سے پیدا ہونا تھا (متی باب ۱۱ آیت ۱۱ولوقاب ۷ آیت ۲۸) ذکر رحمت …
ایلیا کے ذکر کے بعد مسیح ؑ کا ذکر کیا لیکن مسیح ؑ کے دعویٰ کے ذکر کی بجائے اس کی والدہ کے ذکر سے اس کا ذکر شروع کیا۔ کیونکہ مسیح ؑ کی پیدائش سے ہی بعثت محمدیہؐ کی بنیاد رکھی گئی تھی اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے ان کی دو بیویوں سے تھے۔ یعنی حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق ۔ حضرت اسماعیل پلوٹھے تھے اور حضرت اسحاق آپ کے دوسرے بیٹے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان دونوں کے بار ہ میں وعدے تھے۔
حضرت اسماعیل کے متعلق پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۰تا۱۲وب۱۷ آیت ۸ تا ۱۴و آیت ۱۸ و۲۰و باب ۲۱آیت ۱۳ ‘۱۷و ۱۸ تا ۲۱ میں وعدے موجود ہیں ۔
اور حضرت اسحاق ؑ کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں ان کا پیدائش باب ۱۷ آیت ۱۹و۲۱ میں ذکر ہے۔
پھر ان دونوں بیٹوں کیلئے مجموعی پیشگوئی پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۷ و۱۸ میں کی گئی ۔ ان حوالہ جات کو جب پیدائش باب ۱۷ آیت ۲۱ سے ملایا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عہد ابراہیمی حضرت اسحاق کے ذریعہ سے شروع ہونا تھا مگر پورا دونوں بیٹوں کے ذریعہ سے ہونا تھا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عہد ابراہیمی کا آخری ظہور نسل اسماعیل سے ہونا تھا لیکن جب عہد کا اسحاق سے بدل کر اسماعیل کی طرف پھیرا جاتا تو لازماً نسل اسحاق کو ایک بڑا دھکا لگنا تھا اور ان پر گراں بھی گزرتا تھا۔ اس لئے ضروری تھا کہ اس تبدیلی کو تدریجی طور پر ظاہر کیا جائے اور مدلل طور پر قائم کیا جائے۔
ان آیات میں اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بار بار اور متواتر عہد کے توڑنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ اب اسحاق کی نسل کی جگہ اسماعیل کی نسل کے ذریعہ سے عہد ابراہیمی کو پورا کیا جائے۔ لیکن بنو اسحاق کو آخری تنبیہ کرتے ہوئے اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک کنواری کے ہاں بیٹا پیدا کیا جائے اور اسے موسیٰ کا خلیفہ مقرر کیا جائے اس خلیفہ موسوی کی وجہ سے بنو اسرائیل کے ذریعہ سے پورا ہونے والا عہد آدھا رہ گیا یعنی باپ کا تعلق بنو اسرائیل سے کٹ گیا اور صرف ماں کا تعلق رہ گیا جو بنی اسرائیل سے تھیں ۔
پہلے لوگ سمجھتے تھے کہ بن باپ کے بچہ ہونا ناممکن ہے گو خدا کیلئے سب کچھ ممکن ہے مگر پھر بھی لوگ اس کو سنت اللہ کے خلاف کہہ دیا کرتے تھے۔ مگر تازہ تحقیق سے ثابت ہو گیا ہے کہ یہ بات سنت اللہ کے خلاف نہیں بلکہ قانون قدرت کے اندر ہے چنانچہ ہم ذیل میں ایک تازہ شہادت پیش کرتے ہیں :۔
‏ Dr. Halen Superwayیونیورسٹی کالج لندن کی یہ تھیوری ہے کہ پیدائش کیلئے ہمیشہ ضروری نہیں کہ نر کی ضرورت ہو چنانچہ Lencetلندن کے ایک ہفتہ واری میگزین میں اس کے تجربات شائع ہوتے ہیں ۔ پھر Sunday Pictorial لندن 6نومبر 1955ء میں اسی تھیوری کے متعلق ایک شائع شدہ مضمون کے جواب میں ایک ہفتہ بعد یعنی 13نومبر کو شائع ہونے والے رسالہ میں تین ایسی عورتوں کی شہادت بھی شائع ہوئی ہیں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ ان کا یہ بچہ خود بخود ہوا ہے اس کی پیدائش میں کسی مرد کا دخل نہیں۔ اس کے بعد 28دسمبر کے رسالہ میں لکھا ہے کہ انیس عورتوں نے اس امر کی مزید شہادت دی ہے۔
بہرحال چونکہ قرآن کریم کا اصل منشاء یہ تھا کہ ابراہیمی وعدہ اب محمد رسول اللہﷺ کے ذریعہ سے پورا ہواہے جو کہ بنو اسماعیل میں سے ہیں اس لئے حضرت مسیح ناصری کے بن باپ پیدا ہونے کے واقعہ کا ذکر تفصیلی طور پر کیا اور اس طرف اشارہ کیا کہ خود پیدائش مسیح ہی اس طرف اشارہ کر رہی تھی کہ بنو اسحاق کے ذریعہ سے ابراہیمی عہد کے پور اہونے کا وقت ختم ہو رہا ہے ۔ تبھی خدا تعالیٰ نے مسیح کے ذریعہ سے عہد کی آدھی اہمیت ختم کر دی۔ باقی آدھی خود مسیح ناصری کے پیروئوں نے کم کر دی کیونکہ انہوں نے ختنہ کو جو عہد کی علامت تھا موقو ف کر دیا اور اس طرح عہد کو بنو اسحق سے ہمیشہ کیلئے مٹا دیا۔ حالانکہ ختنہ ابراہیمی عہد کی خاص شرط تھی ۔ چنانچہ بائبل میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ
’’ میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کرنا اوریہ اس عہد کا نشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔‘‘
(پیدائش باب ۱۷آیت ۱۰ و۱۱)
اسی طرح لکھا ہے۔
’’ میرا عہد تمہارے جسم میں ابدی عہد ہوگا اور وہ فرزند نرینہ جس کا ختنہ نہ ہوا اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے کیونکہ اس نے میرا عہد توڑا۔‘‘ (پیدائش باب ۱۷ آیت ۱۴) واذکر فی الکتب ………
پھر حضرت مسیح کے واقعات بتائے اور ان کی صداقت کی دلیلوں کے ساتھ ان جھوٹے دعووں کا بھی ازالہ کیا جو ان کے متبعین ان کی نسبت کرتے ہیں ماشارت الیہ ……
اس کے بعد رسول کریم ﷺ کے ذکر کو چھیڑا کہ ان گزشتہ واقعات میں اور مسیح کی آمد میں ایک اسماعیلی موعود کی خبر دی گئی تھی سوو ہ محمد رسول اللہ ﷺ ہیں ۔ لیکن لوگ ان کے مخالف ہیں اور ان کی مخالفت کی بڑی وجہ ان کی کثرت ہے جو دلیل نہیں اور ان کے جھوٹا ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ خود ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں ۔ لیکن ان کی کثرت فائدہ نہ دے گی اور آخر وہ سب تباہ ہونگے۔ وانا اللہ ربی ……
پھر فرمایا آج تو یہ لوگ خوب باتیں بناتے ہیں اور اسلام کے متعلق بات سننا تک پسند نہیں کرتے لیکن ایک دن عذاب کو دیکھ کر خوب دیکھنے اور سننے لگ جائینگے اور زمین مسلمانوں کے سپرد ہو جائے گی اسمع بھم ……
اس کے بعد اس وعدہ ابراہیمی کو تفصیل سے بیان کرتا ہے جس کا ذکر پہلے اشارۃً آیا تھا اور بتاتا ہے کہ کس طرح ابراہیم سے ایک وعدہ ہوا جو اسحاق اور موسیٰ کے ذریعہ سے پورا ہوا ۔ واذکر فی الکتب ……
اس کے بعد اسماعیل کا ذکر کرتا ہے کیونکہ اس جگہ یہ بتانا مقصود تھا کہ اسحاق کے وعدہ کے بعد اسماعیل کا وعدہ پورا ہونا تھا ورنہ زمانہ کے لحاظ سے حضرت موسیٰ ؑحضرت اسماعیل کے بعد تھے ان کاذکر حضرت اسماعیل سے پہلے اس لئے کیا گیا کہ وہ اسحاق کے وعدہ کا حصہ تھے جو اسماعیلی وعدہ سے پہلے پورا ہونا ضروری تھا۔ واذکر فی الکتب……
اس کے بعد حضرت ادریس ؑ کا ذکر کیا جن کے بارہ میں رفعناہ مکانا علیا کا ذکر فرما کر بتایا کہ ان کو بھی حضرت مسیح سے رفع روحانی میںایک مشابہت ہے چنانچہ عہد نامہ قدیم پیدائش باب ۵ آیت ۲۴ میں لکھا ہے کہ حنوک (جسے عرب لوگ ادریس کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی باتیں لوگوں کو سناتا تھا ۔ بائبل میں بھی لکھا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ چلتا تھا ۔ پیدائش باب ۵ آیت ۲۲ اور اس سے مراد بھی خدا تعالیٰ کی صفات کا علم حاصل کرنے کے ہیں یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا ایک اعلیٰ ظہور تھا اور خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرتا تھا) غائب ہو گیا ۔ اس لئے کہ خدا نے اسے لے لیا کا ترجمہ قرآن کریم میں رفعناہ مکانا علیا سے کیا گیا ہے اور ایسے ہی الفاظ حضرت مسیح ناصری کے متعلق ہیں ۔ لیکن باوجود اس کے مسیحی حنوک کو خدا نہیں کہتے۔ بلکہ انسان ہی سمجھتے ہیں ۔ پھر ان لفظوں سے مسیح کو کیوں خدا سمجھنے لگ گئے ہیں بلکہ بقول بائبل حنوک کو یہ فضیلت حاصل تھی کہ وہ موت کے بغیر ہی آسمان پر چلا گیا اور خدا باپ کی طرح اس نے کبھی موت نہ چکھی ۔ واذکر فی الکتب ………
پھر بتاتا ہے کہ یہ سب لوگ آدم سے لے کر نوح تک اور نوح سے اسرائیل کے آخری نبیوں تک انسان تھے اور خدا تعالیٰ کے فرمانبردار پھر کیا وجہ ہے کہ ان میں سے مسیح کو خدائی کا عہدہ دیا جاتا ہے اولئک الذین ……
اس کے بعد بتایا کہ لوگوں نے تعلیمات سماوی کو بھلا کر لہو ولعب کو اختیار کر لیا ہے لیکن اس کا نتیجہ اچھا نہ ہوگا ۔ نتیجہ انہی کے لئے اچھا ہو گا جو ان امور سے توبہ کر کے خدا تعالیٰ کی باتوں کو سنیں گے (مخلف من بعدھم……تک)
پھر بعد الموت کا چونکہ اس زمانہ میں سب سے زیادہ انکار ہونا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا ذکر کیا اور پھر ان کے انکار کا ذکر کر کے دلیل دی کہ مابعد الموت زندگی کوئی عجیب شئے نہیں ایسا ضرور ہوگا اور مجرم ضرور سزا پائینگے اور نیک نجات حاصل کریں گے (ویقول الانسان …… تک)
پھر سچائی کے دشمنوں کا ایک حربہ بیان کرتا ہے کہ جب اخروی سزا کا ذکر کیا جاتا ہے تو منکر کہتے ہیں کہ قیامت کی بات تو قیامت کو دیکھی جائے گی اب کس کا حال اچھا ہے، کس کی دولت زیادہ ہے، کس کے افراد زیادہ ہیں ۔فرماتا ہے ہمیشہ سے سچائی آہستہ آہستہ ترقی کرتی رہی ہے جب تک وہ وقت نہ آئے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ دلیل کس کے ساتھ ہے اور قربانی اور نیک نمونہ کس کے ساتھ ہے جس کے ساتھ دلیل ہو اور جس کے ساتھ نیک نمونہ ہو۔ ظاہر ہے کہ اس دنیا میں بھی آخر وہی جیتے گا۔ (واذ اتلی…… سے ونرثہ …… تک)
اس کے بعد فرماتا ہے منکرین صداقت ہمیشہ شرک میں مبتلا ہوتے ہیں اور شرک کو تقویت کا موجب سمجھتے ہیں مگر شرک ہمیشہ ذلت اور شکست کا موجب ہوتا ہے۔ وہی چزیں جن کو لوگ تقویت کا موجب بتاتے ہیں ان کی کمزوری کا موجب ثابت ہوتی ہیں واتخذوا من دون اللہ……… سے یکون علیھم ضدا تک) پھر فرماتا ہے کہ جب دلائل سے کافر عاجز آ جاتا ہے تو دھینگا مشتی پر اتر آتا ہے مگر اس کی پروانہ کر آخر یہ دھینگا مشتی ہی تو دنیوی غلبہ کا سبب بنے گی۔ دشمن دھینگا مشتی نہ کرے تو اسلام کو دنیوی غلبہ کس طرح حاصل ہو گا(یعنی اسلام جارحانہ لڑائی کی اجازت نہیںد یتا۔ پس اس کے غلبہ کا ذریعہ یہی بن سکتا ہے کہ دشمن ظلم پر اتر آئے) جب وہ ظلم پر اتر ے گا تو مسلمانوں کو بھی لڑنے کی اجازت ہوگی ۔ اور چونکہ دشمن خدا تعالیٰ کو عقیدۃً بھی ناراض کر چکا ہو گا خدا تعالیٰ کی مدد سے مسلمان جیت جائیں گے (الم ترانا ……سے سیجعل لھم الرحمن وداً تک)
پھر فرماتا ہے کہ یہودپر کلام عبرانی زبان میںنازل ہوتا تھا لوگ یہ نہ اعتراض کریں کہ اب عربی زبان میں کلام کیوں اترا ہے ۔ ہر قوم سے ان کی زبان میں کلام ہونا چاہئے تاکہ آسانی سے تبلیغ ہو سکے اور دوست دشمن سمجھ سکیں اور کفار پر حجت تمام ہو۔ ہماری طرف سے سزا حجت کے بعد ہی دی جاتی ہے اور وہی سزا عبرتناک ہوتی ہے (فانما یَسَّرنٰہ ………)

کھیعص : میں نے متعدد بار بیان کیا ہے کہ حروف مقطعات کے متعلق مختلف ائمہ اسلام میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اگر کوئی تشریح ایسی ہو جو رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب کی جاتی ہو تو بہرحال وہ دوسرے لوگوں کے خیالات سے مقدم سمجھی جائے گی۔ اس نقطہ نگاہ سے رسول کریم ﷺ کی طرف مقطعات کے متعلق دو ہی معنے منسوب ہیں ۔ بعض روایتوں میں تو یہ آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے سامنے یہودیوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ یہ حروف اعداد کے حروف ہیں ۔ مثلا ً الم ہے اس میں الف کا ایک لام کے تیس اور م کے چالیس اعداد ہیں۔ گویا الم کے اکہتر عدد ہوئے اور رسول کریم ﷺ نے ان معنوں کو رد نہیں کیا۔پس بوجہ ان معنوں کو رد نہ کرنے کے وہ معنے بھی ہمارے نزدیک قابل قبول ہونگے۔ کیونکہ اگر وہ غلط ہوتے تو رسول کریم ﷺ ان کو رد فرما دیتے ۔ اور قرآن کریم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ معنے بھی اپنے اندر بعض پیشگوئیاں رکھتے ہیں جو وقت پر پوری ہوئیں ۔
اس کے علاوہ رسول کریم ﷺ کی طرف ایسے معنے بھی منسوب ہیں جن میںصفات الہٰیہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مثلاً یہی کھیعص ہے حضرت ام ہانی جو رسول کریم ﷺ کی چچا زاد بہن تھیں وہ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کے معنے کاف۔ ھاد۔ عالم او علیم اور صادق کے ہیں یعنی ک قائم مقام صفت کافی کا ہے ۔ ھاء قائم مقام صفت ہادی کی ہے ع قائم مقام صفت عالم یا علیم کی ہے اور ص قائم مقام صفت صادق کی ہے (فتح البیان) گویا ان مقطعات میں خدا تعالیٰ کی صفت کافی صفت ہادی صفت عالم یا علیم اور صفت صادق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
حضرت علیؓ کی بھی ان الفاظ کے متعلق ایک روایت آتی ہے جو ان معنوں کی تصدیق کرتی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی کھیعص میں صفات ِالٰہیہ کی طرف ہی اشارہ کیا گیا ہے۔وہ روایت یہ ہے کہ حضرت علیؓ کو جب کوئی بڑی مصیبت پیش آتی تو وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کرتے تھے۔ کہ یا کھیعص اغفرلی ۔ یعنی اے کھیعص مجھے معاف فرما دے اور چونکہ دعا کا صفات الہٰیہ سے خاص تعلق ہوتا ہے اس لئے یہ روایت بتاتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی کھیعص کو صفات الٰہیہ کا قائم مقام سمجھتے تھے۔
حضرت ابن عباسؓ نے بھی ان حروف مقطعات سے صفات الٰہیہ ہی مراد لی ہیں مگر انہوں نے ام ہانیؓ والی روایت سے کچھ اختلاف کیا ہے وہ کہتے ہیں ک کبیرکا ہے ھاء ھاد کی ہے یاء امین کی ہے ع سے عزیز مراد ہے اور ص سے صادق مراد ہے گویا حضرت ابن عباسؓ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ یہاں صفات الٰہیہ کا ذکر کیا گیا ہے مگر وہ اس کی تشریح میں کچھ اختلاف کرتے ہیں۔ ام ہانی ؓ کی روایت میں ک سے کاف مراد لیا گیا تھا مگر ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ اس سے کبیر مراد لیا تھا ۔ دو ع سے انہوں نے عالم یا علیم مراد لیا تھا مگر ابن عباسؓ اس سے عزیز مراد لیتے ہیں۔ اسی طرح ام ہانی ؓکی روایت میں یاء کو چھوڑ دیا گیا تھا مگر ابن عباسؓ یاء سے امین مراد لیتے ہیں ۔
ابن مسعودؓ اور بعض صحابہؓ کہتے ہیں کہ ک سے الملک مراد ہے ھاء سے الالٰہ مراد ہے یاء اور ع سے العزیز مراد ہے اور ص سے المصور مراد ہے ۔( فتح البیان)
یہ روایتیں گو مختلف ہیں مگر ہم ان سے اتنا نتیجہ نکالنے میں ضرور حق بجانب ہیں کہ رسول کریم ﷺ اور تمام صحابہؓ نے بالاتفاق ان حروف سے صفات الٰہیہ مراد لی ہیں گو اُن کی تعیین میں بعض صحابہ ؓ نے اختلاف کیا ہے لیکن یہ ظاہر ہے ک جو تعیین رسول کریم ﷺ نے فرمائی وہی مقدم ہے اور صحابہؓ کی تعیین رسول کریم ﷺ کی تعیین کے مقابلہ میں مخفی ظنی سمجھی جائے گی ۔اگر ابن مسعودؓ کچھ اور معنے کرتے ۔ابن عباس ؓ کچھ اور معنے کرتے حضرت علیؓ کچھ اورممعنے کرتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ سب نے اپنے اپنے پاس سے معنے بنائے ہیں ۔ مگر حضرت علیؓ بھی ان سے صفات الٰہیہ مراد لیتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ بھی صفاتِ الٰہیہ مراد لیتے ہیں اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بھی ان سے صفاتِ الٰہیہ مراد لیتے ہیں۔ پس ان روایات سے اتنا تو پتہ لگ گیا کہ رسول کریم ﷺ سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ حروف صفات الٰہیہ کے قائم مقام ہیں ۔ باقی ہر شخص کا اپنی اپنی عقل کے مطابق کچھ صفات الٰہیہ تجویز کرلینا کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ اس اصولی امر میں ہمیں سب متفق نظر آتے ہیں۔ کہ ان حروف میںصفات الٰہیہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔رہا یہ کہ ان حروف میں کونسی صفات بیان کی گئی ہیں اس کو سورۃ کا مضمون خود واضح کر دیتا ہے۔ اگر کوئی غلط معنے کرتا ہے تو ہمارے پاس صداقت کو معلوم کرنے کا ایک ذریعہ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم ساری سورۃ پر نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ اس میں کن صفات الٰہیہ کا ذکر آتا ہے اگر ان صفات کا ذکر موجود نہیں ہوگا تو ہم ان معنوں کو غلط قرار دیدینگے اور اگر موجود ہو گا تو ہم ان معنوں کو درست قرار دیدینگے لیکن اور سورتوں کو جانے دو اس سورۃ میں جو صفات الٰہیہ بیان کی گئی ہیں چونکہ ان کی تعیین خود رسول کریم ﷺسے ثابت ہے اس لئے اس بارہ میں کسی اور تشریح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سب سورتوں کے مقطعات کے معنے رسول کریم ﷺ سے ثابت نہیں ۔ لیکن اس سورۃ کے مقطعات کے معنے خود رسول کریم ﷺ سے ثابت ہیں اور ام ہانی ؓ کہتی ہیں کہ میں نے یہ معنے رسول کریم ﷺسے سنے ہیں اور دوسرے صحابہؓ اپنے علم کے مطابق اس کی تشریح کرتے ہیں اور چونکہ یہ مسلمہ اصل ہے کہ جو تشریح رسول کریم ﷺ سے ثابت ہو وہ ہر دوسری تشریح پر مقدم سمجھی جائے گی۔ اس لئے بہر حال ام ہانیؓ کے بیان کردہ معنوں کو ہی ترجیح دی جائے گی یعنی ک کے معنے کافی کے ہیں ھاء کے معنے ہادی کے ہیں ع کے معنے عالم یا علیم کے ہیں اور ص کے معنے صادق کے ہیں اور میرے نزدیک یہی معنے اس سورۃ کی کنجی ہیں ۔
اس جگہ ایک اور بات بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ حروف پانچ ہیں لیکن رسول کریم ﷺ نے جو صفات الٰہیہ بیان فرمائی ہیں وہ چار ہیں۔ حروف میں ک ھا یا ع اور ص مگر رسول کریم ﷺ صفات بیان فرماتے ہیں ک ھا ع اور ص کی ۔یاء کو چھوڑ جاتے ہیں ۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ یہ بات کیا ہے؟ میں سمجھتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ یاء صرف نداء کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور رسول کریم ﷺ نے اس جگہ یاء کو حرف ندا ہی قرار دیا ہے اور پہلی دو صفات بعد کی دو صفات کا نتیجہ قرار دی گئی ہیں ۔گویا ان حروف کو اگر کھولا جائے تو عبارت یوں بنے گی۔ کہ انت کاف انت ھاد یا عالم یا صادق۔ اے علیم اور اے صادق خدا تو کافی اور ہادی ہے۔
ان معنوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات کافی اور ہادی جو ظہور ہیں عالم یا علیم اور صادق کا وہ مسیحیت اور اسلام میں فیصلہ کن ہیں کیونکہ جب ہم یہ کہیں کہ اے ع اور ص تم کاف اور ہاء ہو ۔ تو اس کے صاف معنے یہ ہوں گے کہ ع اور ص منبع ہیں کاف اور ہاء کا۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو عقلی طور پر بھی ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات دو قسم کی ہوتی ہیں ۔ ایک صفات تو وہ ہوتی ہیں جو اپنا لازمی نتیجہ پیدا نہیں کرتیں۔ لیکن بعض صفات ایسی ہیں جن کا لازمی نتیجہ پیدا ہوتا ہے گویا وہ صفات بعض دوسری صفات کے لئے بطور منبع ہوتی ہیں۔ مثلاً خدا مطعم ہے مگر کھلانے کی صفت پیدا کرنے کے نتیجہ میں ظاہر ہوتی ہے اور پھر اگر رزق ہی موجود نہ ہو تووہ کھلائے گا کیا ؟ پس اس کا مطعم ہونا تقاضا کرتا ہے کہ وہ رازق بھی ہو۔ تو بعض صفات ابتدائی اور منبع کے طور پر ہوتی ہیں اور بعض تابع صفات ہوتی ہیں۔یہاں ک اور ھاء کی صفات تابع ہیں اور ع اور ص کی صفات منبع کے طور پر ہیں اور کھیعص کے یہ معنے ہیں کہ یا عالم یا صادق انت کاف انت ھاد اے علیم اور صادق خدا تو کافی اور ہادی ہے۔گویا کافی اور ہادی تابع صفات ہیں اور علیم اور صادق اصل صفات ہیں یعنی خدا تعالیٰ کے علیم اور صادق ہونے کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ خدا کافی بھی ہو اور خدا ہادی بھی ہو۔ گویااس جگہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے یہ کہتا ہے کہ تم خدا سے یہ کہو کہ کھیعص اے میرے علیم اور صادق خدا میں مانتا ہوں کہ تو علیم ہونے کی وجہ سے کافی ہے اور صادق ہونے کی وجہ سے ہادی ہے جب تو علیم ہے تو ضروری ہے کہ تو کافی بھی ہو اور جب تو صادق ہے تو ضروری ہے کہ تو ہادی بھی ہو اور یہ بات عقلی طور پر بھی ظاہر ہے۔مثلاً جب کوئی شخص عالم ہو گا تو لازماً وہ کافی بھی ہو گا جیسے علاج کیلئے تشخیص کامل کی ضرورت ہوتی ہے اور تشخیص کامل کیلئے علم کامل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس شخص کو معالجات سے تعلق رکھنے والی ساری باتیں معلوم نہیں وہ علاج نہیں کر سکتا اور جس کو معلوم ہوں و ہ لازماً صحیح علاج بھی کر سکے گا۔ پس یہ ایک واضح امر ہے کہ جو علیم ہوگا وہ کافی بھی ہوگا کیونکہ علم ہی کفایت کرتا ہے نہ کہ جہالت۔
دنیا میں دو ہی قانون جاری ہیں ۔ایک قانون قدرت اور دوسرا قانون شریعت ، قانون قدرت میںبھی کامل راہنمائی وہی کر سکتا ہے جو علیم ہو۔ جیسے وہی ڈاکٹر کامیاب ہو سکتا ہے جو بڑا جاننے والا ہو اور قانون شریعت میں بھی وہی وجود کامل راہنمائی کر سکتا ہے جو علیم ہو جو وجود ہماری جسمانی ضرورتوں کا علم نہیں رکھتا یا ہماری روحانی ضرورتوں کا علم نہیں رکھتا وہ ہمیں صحیح نسخہ بھی نہیں بتا سکتا۔ پس علیم کیلئے ضروری ہے کہ وہ کافی ہو۔ اسی طرح جو صادق ہو گا وہی صحیح ہادی بھی ہوگا کیونکہ جھوٹ اور غلطی گمراہ کرنے والی چیز ہیں اور ہادی کے لئے ضروری ہے کہ وہ صادق ہو۔ پس وہی ہادی ہو سکتا ہے جو صادق ہو بلکہ تمام صداقتوں کا منبع ہو۔ اس کے سوا ہر جگہ کی ہدایت مشتبہ اور ناقابل قبول ہو گی۔
غرض جب کوئی شخص یہ مانے گا کہ کوئی ہستی علیم ہے تو اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ صفت کافی بھی اس میں پائی جاتی ہے اور جب کوئی شخص یہ مانے گا کہ کوئی ہستی صادق ہے تو اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ صفت ہادی بھی اس میں پائی جاتی ہے اور اگر یہ دو اصول درست ہیں اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہودی مذہب جو بنیاد ہے عیسائیت کی وہ خدا تعالیٰ کو علیم بھی سمجھتا ہے اور صادق بھی سمجھتا ہے تو لازماً ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کافی بھی ہے اور خدا تعالیٰ ہادی بھی ہے ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ بائبل اس بارہ میں کیا کہتی ہے۔
پہلے ہم خدا تعالیٰ کی صفت علم کو لیتے ہیں ۔ انجیل میں لکھا ہے۔
’’ لیکن اس دن اور اس گھڑی کو میرے باپ کے سوا آسمان کے فرشتوں تک کوئی نہیں جانتا۔‘‘ (متی باب ۲۴ آیت ۳۶)
یہ حوالہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں علم کی مختلف مقداریں ہیں کوئی مقدار علم ایسی ہے جسے انسان جانتا ہے۔ کوئی مقدار علم ایسی ہے جسے فرشتے جانتے ہیں اور کوئی مقدار علم ایسی ہے جسے نہ انسان جانتا ہے نہ فرشتے جانتے ہیں صرف خدا جانتا ہے۔ گویا علم کامل صرف خدا تعالیٰ کی ذات سے مختص ہے اور جب علم کامل اسی میں ہوا تو لازماً اسے کافی بھی ماننا پڑا۔ پھر لکھا ہے۔
’’ خدا وند نے دانائی سے زمین کی بنیاد کی اور عقلمندی سے آسمان کو آراستہ کیا ۔ اس کی دانش سے گہرائیاں پھوٹ نکلیں اور آسمان سے اوس کی بوندیں ٹپکیں ۔‘‘ (امثال باب۳ آیت ۱۹و ۲۰)
یعنی خدا نے علم پر قانون قدرت کی بنیاد رکھی اور اسے آراستہ کیا اور پھر اس کے بعد جو بھی علم پیدا ہوتا ہے خواہ وہ روحانی یا جسمانی اس کے علم سے نکلتا ہے کیونکہ لکھا ہے’’ اس کی دانش سے گہرائیاں پھوٹ نکلیں ‘‘ اس کے بعد’’ آسمان سے اوس کی بوندیں ٹپکیں‘‘یعنی خدا تعالیٰ نے علم کو اتنا کامل کیا کہ آسمان بھی انسان کی ہدایت کیلئے ٹپک پڑا یعنی الہام اور کلام الٰہی نازل ہوا اور اس نے علم کو ہر رنگ میں مکمل کر دیا۔ یہ حوالہ بتاتا ہے کہ ہدایت ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور وہی کامل ہدایت ہوتی ہے کیونکہ ایک علیم ہستی اس کے پیچھے ہوتی ہے انسان اپنی طرف سے کچھ نہیں کر سکتا۔
پھر صدق کے متعلق لکھا ہے۔
’’ اے خداوند سچائی کے خدا تو نے مجھے مخلصی دی ہے۔‘‘ (زبور باب ۳۱ آیت۵)
اس سے ظاہر ہے کہ مخلصی یعنی نجات کا واسطہ "خداوند سچائی کے خدا "کے ساتھ ہے جس طرح شریعت کا واسطہ ایک علیم ہستی کے ساتھ ہے ۔ پھر لکھا ہے۔
’’ تیسری صداقت ابدی صداقت ہے اور تیری شریعت سچائی ہے۔‘‘ (زبور باب ۱۱۹ آیت ۱۴۲)
گویابائبل اور انجیل دونوں سے یہ ثابت ہے کہ علم کامل صرف خدا تعالیٰ کو حاصل ہے اور صداقت کاملہ بھی اسی کو حاصل ہے اور جب بائبل کے نزدیک علیم اور صادق صرف خدا تعالیٰ کا ہی وجود ہے تو عیسائیوں کیلئے اس امر کو تسلیم کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا۔ کہ سوائے علیم کے کوئی کافی نہیں ہو سکتا اور سوائے صادق کے کوئی نجات نہیں دے سکتا۔ اور اگر یہ دونوں باتیں درست ہیں تو پھر خدا تعالیٰ کی صفت علیم اور اس کا ظہور کافی یہ کفارہ کے خلاف ہیں خدا تعالیٰ کی صفت صادق اور اس کا ظہور ہادی شریعت کے *** ہونے اور مسیحی مسئلہ نجات کے خلاف ہیں ۔ اگر خدا تعالیٰ عالم یا علیم ہے تو مذہب میں کفارہ کی کوئی جگہ نہیں ۔ کیونکہ کفارہ کی بنیاد اس امر پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سکیم کے ماتحت اس دنیا کو چلایا اور اپنے انبیاء لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے مگر آخر وہ سکیم ناکام ہوئی اور پھر واپس لوٹ کر خدا تعالیٰ کو اپنے بیٹے کی قربانی دینی پڑی۔ اگر یہ درست ہے تو پھر نہ وہ علیم ہوا اور نہ کافی۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کی صفت صادق اور اس کا ظہور ہادی اگر درست ہے تو عیسائیوں کا شریعت کو *** قرار دینا اور نجات کیلئے کفارہ کا مسئلہ ایجاد کر لینا بالکل غلط ہے۔
غرض کٰھٰیٰعٓصٓمیں اللہ تعالیٰ نے عیسائیت کے مقابلہ کیلئے ایک بنیادی اصول بیان فرما دیا ہے اور بتایا ہے کہ عیسائیوں سے صفاتِ الٰہیہ کو مدنظر رکھ کر بحث کیا کرو اس کے نتیجہ میں ان کے تمام عقائد باطل ثابت ہو جائیں گے۔ اگر خدا کافی ہے تو پھر یہ کہنا کہ شریعت میں انسان خود رستہ تجویز کر سکتا ہے یا شریعت *** ہے بیوقوفی کی بات ہے جو کافی ہے وہ رحمت ہے اور جوغیر کافی ہے وہ *** ہے۔ اسی طرح جو صادق ہے اور جس کے اندر تمام سچائیاں پائی جاتی ہیں اگر اس کا وجود نجات نہیں دلا سکتا تو پھر کسی غیر صادق کا وجود کس طرح نجات دلا سکتا ہے ۔نجات تو وہی دلائے گا جو صادق ہو گا جیسے حضرت دائود نے کہا کہ
’’ اے خدا وند سچائی کے خدا تو نے مجھے مخلصی دی ہے‘‘ (زبور باب ۳۱آیت۵)
غرض کٰھٰیٰعٓصٓمیں عیسائیت اور اسلام کے مباحثات کا صحیح طریق بتایا گیا ہے اور مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم اگر عیسائیوں سے مقابلہ کرو تو صفاتِ الٰہیہ کی بنا ء پر کرو اور ان پر یہ امر واضح کر دو کہ تمہارے عقیدہ کو تسلیم کرلینے سے صفات باری باقی نہیں رہتیں اور جب عیسائیت کو ماننے سے صفات باری پر ہی زد پڑتی ہے تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ خدا خدا نہ رہا اور یہ واضح بات ہے کہ سچا مذہب وہی ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں سے منوائے اور اس کی صفات پر ان کا ایمان قائم کرے۔ جو مذہب خدا تعالیٰ کو ہی ختم کرتا اور اس کی صفات پر تبر رکھ دیتا ہے وہ سچا کس طرح ہو سکتا ہے۔غرض کافی اور ہادی یہ دو صفات ایسی ہیں جن کو اگر مدنظر رکھا جائے تو اسلامی تعلیم اور عیسائی تعلیم دونوں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں اور صاف طور پر پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ کیا کہتے ہیں اور اسلام کیا کہتا ہے۔وہ خدا تعالیٰ کے وجود کو کس رنگ میں پیش کرتے ہیں اور اسلام خدا تعالیٰ کے وجود کو کس رنگ میں پیش کرتا ہے پس ع اور ص وہ صفات ِمنبع ہیں جن کو اگر مانا جائے تو لازماً اسے کافی اور ہادی بھی ماننا پڑتا ہے۔ اگر اسے ہادی نہ مانا جائے تو خدا تعالیٰ کا صادق ہونا ثابت نہیں ہو سکتا۔ اور اگر اسے کافی نہ مانا جائے تو خدا تعالیٰ کا علیم ہونا ثابت نہیں ہو سکتا ۔ غرض ان مقطعات میں خدا تعالیٰ کی صفت کافی کو کفارہ کے مقابلہ میں اور صفت ہادی کو عیسائی نظریہ نجات کے مقابلہ میں رکھا گیا ہے اور درحقیقت عیسائیوں کے یہی دو بنیادی مسئلے ہیں جن میں اسلام کے ساتھ ان کا ٹکرائو ہوتا ہے۔تثلیث ان مسائل کے تابع ہے۔ اصل مسئلہ جس پر اسلام اور عیسائیت آپس میں ٹکراتے ہیں وہ کفارہ اور عدم نجات کا ہے۔ عیسائیت نجات کو بالکل نہیں مانتی اور عیسائیت کفارہ کے بغیر کوئی روحانی ترقی تسلیم نہیں کرتی۔ ان دو عقیدوں سے خدا تعالیٰ کی صفت کافی اور خدا تعالیٰ کی صفت ہادی باطل ہو جاتی ہیں ۔ اور ان دونوں صفات کے باطل ہونے سے اس کاعلیم اور صادق ہونا بھی باطل ہو جاتا ہے گویا عیسائیت کے ان ہر دو عقائد کو مان لینے سے خدا تعالیٰ کی خدائی باطل ہو جاتی ہے اور جب کسی مذہب کی تعلیم کے نتیجہ میں خدا کی خدائی باطل ہو جائے تو ہمیںیہی ماننا پڑے گا کہ وہ مذہب خود باطل ہے کیونکہ مذہب خدا تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانے کے ساتھ ہی وابستہ ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیت کے بنیادی عقائد میں سے تثلیث بھی ایک اہم عقیدہ ہے لیکن ان کا یہ عقیدہ کفارہ اور نجات کے ساتھ اس طرح وابستہ ہے کہ اگر کفارہ اور عدم نجات باطل ہو جائیں تو ساتھ ہی تثلیث بھی باطل ہو جاتی ہے اور اگر تثلیث کو الگ کر لیا جائے تو کفارہ اور عدم نجات باطل ہو جاتے ہیں چنانچہ دیکھ لو عیسائیت کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان کو نجات دلانے کیلئے خدا تعالیٰ نے اپنے اکلوتے بیٹے مسیح کو دنیا میں کفارہ کیلئے بھیجا ۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ لوگوں کے گناہ معاف نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اس کے عدل کے خلاف ہے اگر وہ انسان کے گناہ معاف کر دیتا تو وہ عادل نہ رہتا لیکن چونکہ وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ بنی نوع انسان نجات پا ئیں اس لئے اس نے اپنے بیٹے کو دنیا میں اس غرض کیلئے بھیجا کہ وہ پھانسی پر لٹک جائے اور اس کے پھانسی پر لٹک کر مر جانے کے نتیجہ میں وہ لوگ جو اس پر ایمان لائیں روحانی سزا سے بچ جائیں اور اس کا پھانسی پر لٹک کر مر جانا لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کفارہ بغیر تثلیث کے نہیںہو سکتا کیونکہ کفارہ کی بنیاد اس امر پر ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے اکلوتے بیٹے کو پھانسی دی اور تین دن کے بعد اس کو زندہ کیا۔ یہ چیز تبھی تسلیم کی جا سکتی ہے جب ایک سے زیادہ خدا ہوں۔ اگر ایک سے زیادہ خدا نہ ہوںتو یہ بات ہو ہی نہیں سکتی ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو نعوذ باللہ پھانسی دے کر تین دن کے بعد اپنے آپ کو زندہ نہیں کر سکتا۔ مگر تین خدائوں کو تسلیم کرنے کی صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ تینوں برابر کی طاقت رکھتے ہیں یا ان میں کم و بیش طاقت ہے اگر ایک کم طاقت رکھتا ہے اور دوسرا زیادہ۔ تو خد اتعالیٰ میں نقص ثابت ہو ا اور ناقص چیز تمام مذاہب کے متفقہ عقیدہ کے مطابق خدا نہیں ہو سکتی۔ اس پر کسی لمبی بحث کی ضرورت نہیں ۔ یہ ایک منطقی نظریہ ہے کہ ناقص چیز ازلی ابدی نہیں ہو سکتی اور جو ہستی ازلی ابدی نہ ہو وہ خدا نہیں ہو سکتی۔اس پر کسی لمبی بحث کی ضرورت نہیں ۔ یہ ایک منطقی نظریہ ہے کہ ناقص چیز ازلی ابدی نہیں ہو سکتی اور جو ہستی ازلی ابدی نہ وہ کدا نہیں ہو سکتی۔ اس پر تمام مذاہب متفق ہیں بلکہ عیسائیت کو بھی اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ ناقص چیز ازلی ابدی نہیں ہو سکتی اور خدا تعالیٰ کیلئے ازلی ابدی ہوناضروری ہے۔
میں ابھی نوجوان تھا قریباً بیس سال کی عمر تھی کہ میں تبدیلی آب ہوا کے لئے ڈلہوزی گیا وہاں ایک مشہور پادری آئے ہوئے تھے جن کا نام غالباً فرگوسن تھا۔انہوں نے سینکڑوں عیسائی بنا لئے تھے اور وہ پہاڑ پر بھی اپنے ٹریکٹ تقسیم کرتے اور عیسائیت کی تعلیم پھیلاتے رہتے تھے۔ کچھ مسلمان جو غیرت مند تھے وہ مولویوں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ اس فتنہ کا مقابلہ کریں مگر انہوں نے جواب دیا کہ ہم سے تو مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ آخر وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے۔ آپ چلیں اور ان سے بات کریں ہم لوگ بڑے شرمندہ ہیں ۔ میں ابھی چھوٹی عمر کا ہی تھا اور میری دینی تعلیم ایسی نہ تھی لیکن میں ان کے کہنے پر تیار ہو گیا اور ہم چند آدمی مل کر ان کی کوٹھی کی طرف چل پڑے وہاں جا کر میں نے ان سے کہا کہ پادری صاحب میں آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت ہم میز پر بیٹھے ہوئے تھے اور میرے سامنے ایک پنسل پڑی ہوئی تھی۔میں نے کہا فرمائیے اگر یہ پنسل اٹھانے کی ضرورت ہو اور آپ اس وقت مجھے بھی آواز دیں کہ آئو اور میری مدد کرواپنے ساتھیوں کو بھی آواز دینی شروع کر دیں۔ اپنے بہرے کو بھی بلائیں اپنے باورچی کو بھی بلائیں ۔اپنے اردگرد کے ہمسایوں کو بھی بلائیں اور جب سارا محلہ اکٹھا ہو جائے تو آ پ ان سے یہ کہیں کہ یہ پنسل میز پر سے اٹھا کر میرے ہاتھ میں دے دو تو وہ آپ کے متعلق کیا خیال کریںگے؟ کہنے لگا! اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے کہا مطلب خود بخود آ جائے گا آپ صرف یہ بتائیں کہ آیا یہ بات معقول ہو گی اور اگر آپ ایسا کریں تو لوگ آپ کے متعلق کیا سمجھیں گے؟ کہنے لگا پاگل سمجھیں گے۔ میں نے کہا اب یہ بتائیے کہ باپ خدا میں اکیلے دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی یا نہیں ؟ کہنے لگا تھی میں نے کہا بیٹے خدا میں اکیلے دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی یا نہیں ؟ کہنے لگا تھی میں نے کہا روح القدس خدا میں اکیلے دنیا کو پیدا کرنے کی طاقت تھی یا نہیں ؟ کہنے لگا تھی میں نے کہا پھر یہ وہی پنسل والی بات ہو گئی کہ تینوں میں ایک جیسی طاقت ہے اور اس کام کے کرنے کے قابل ہیں مگر تینوں بیٹھے وقت ضائع کر رہے ہیں حالانکہ وہ اکیلے اکیلے بھی دنیا کو پیدا کر سکتے تھے۔ میں نے کہا آپ یہ بتائیں کیا دنیا میں کوئی کام ایسا ہے جس کو باپ خدا کر سکتا ہے اور بیٹا خدا نہیں کر سکتا یا بیٹا خدا کر سکتا ہے اور روح القدس خدا نہیں کر سکتا یا روح القدس خدا کر سکتا ہے اور باپ خدا نہیں کر سکتا یا بیٹا خدا کر سکتا ہے او رباپ خدا نہیں کر سکتا؟ کہنے لگا کوئی نہیں ۔ میںنے کہا پھر جھگڑا کیا ہے اگر دو خدا فارغ بیٹھے رہتے ہیں تو یہ بڑی مصیبت ہے کہ وہ کام تو کر سکتے ہیں مگر فارغ بیٹھے وقت ضائع کر رہے ہیں اور اگر ایک کام کو تینوں مل کر کرتے ہیں حالانکہ ان تینوں میں سے ہر ایک اکیلا اکیلا بھی وہ کام کر سکتا ہے تو یہ جنون کی علامت ہے اس پر وہ گھبرا کر کہنے لگا کہ عیسائیت کی اصل بنیاد کفارہ کے مسئلہ پر ہے تثلیث کا مسئلہ تو ایمان کے بعد سمجھ میں آتا ہے میں نے کہا کہ جب تک تثلیث سمجھ میں نہ آئے انسان ایمان نہیں لا سکتا اور جب تک ایمان نہ لائے تثلیث سمجھ میں نہیں آ سکتی تو یہ تو دور تسلسل ہو گیا جس کو تمام منطقی ناممکن قرار دیتے ہیں اس پر وہ کہنے لگا کہ آپ مجھے معاف کریں کفارے پر بات کریں۔
پس درحقیقت کفارہ تعلق رکھتا ہے تثلیث کے ساتھ اگر کفارہ باطل ہو جائے تو تثلیث خود بخود باطل ہو جاتی ہے اور چونکہ یہ عقیدہ صریح مشرکانہ ہے اس لئے اس جگہ عالم کی صفت کی طرف خصوصیت سے اشارہ کیا گیا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں اس بات پر بڑی بحث کی ہے کہ جس چیز کا انسان عالم کامل ہو اسے وہ بنا بھی سکتا ہے ۔مثلاً انسان کو علم ہے کہ اینٹیں جوڑنے سے مکان بن جاتا ہے تو اس علم کے نتیجہ میں وہ مکان بنا لیتا ہے یاا سے علم ہے کہ مٹی گھول کر لکڑی کے سانچوں میں ڈھالو توکچی اینٹ بن جاتی ہے اور پھر اسے آگ میں ڈال دیا جائے تو پختہ ہو جاتی ہے تو اس علم کے نتیجہ میں وہ پختہ اینٹ بنا لیتا ہے ۔اسی طرح اگر کسی کو یہ پتہ لگ جائے کہ مٹی کس طرح بنتی ہے تو مٹی بھی بنا سکتا ہے ۔ غرض خلق علم کے تابع ہے ۔جب کسی چیز کا کامل علم حاصل ہو جائے تو اسے انسان بھی بنا سکتا ہے۔ اگر کسی کو گھڑی بنانے کا پورا علم حاصل ہو جائے تو وہ گھڑی بنا لے گا ۔ جسے افعال الاعضاء کا پور اعلم حاصل ہو جائے وہ ڈاکٹر بن جائے گا۔ غرض کسی چیز کا علم کامل خلق پر قدرت دے دیتا ہے اور جب کوئی ہستی کامل علم والی ہو تو لازماً اس کے یہ معنے ہونگے کہ وہ کامل خلق بھی کر سکتی ہے اور کامل تدبیر بھی کر سکتی ہے اور یہ کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی اور مدبر کی ضرورت نہیں۔ جیسے فرگوسن کے سامنے میں نے یہی دلیل پیش کی کہ جب تینوں خدا کامل ہیں تو پھر ایک کی موجودگی میں باقیوں کی کیا ضرورت ہے خدا باپ کو لے لو۔ خدا بیٹے کو لے لو۔ خدا روح القدس کو لے لو۔ جب باپ خدا بھی وہی کچھ کر سکتا ہے جو بیٹا خدا کر سکتا ہے اور بیٹا خدا بھی وہی کچھ کر سکتا ہے جو روح القدس خدا کر سکتا ہے تو پھر ایک خدا ہی کافی ہے باقی دو کی ضرورت نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ کاف میں صفت کافی کی طرف اشارہ کر کے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کافی ہے بندوں کی پیدائش کیلئے بھی اور ان کے نظام کیلئے بھی اور ان کی تدبیر کیلئے بھی ۔اس میںنہ کسی کفارہ کی ضرورت ہے اور نہ بیٹے اور روح القدس کی مدد کی ضرورت ہے۔
یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ باوجود خدا تعالیٰ کو کافی سمجھنے کے تم بھی تو فرشتوں کے قائل ہو۔ اسی طرح تم اس دنیا میں ہوائوں کے اور بجلیوں کے اور مادہ کے قائل ہو یا نہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان چیزوں کو ہم تابع حیثیت دیتے ہیں اور تابع حیثیت اور ہوتی ہے اور برابر کی حیثیت اور ہوتی ہے ۔تابع چیز ایسی ہی ہوتی ہے جیسے خادم ہوتے ہیں وہ خدا تعالیٰ نے اپنے آپ کو پس پردہ رکھنے کیلئے ایک قانون بنایا ہوا ہے اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا کوئی نیک نتیجہ نکلنا تھا اور ہمیں اس کے بدلہ میں انعامات ملنے تھے تو ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پس پردہ رہتی۔ کیونکہ جو ظاہر چیزیں ہیں ان پر ایمان لانا کسی ثواب کا موجب نہیں ہوتا۔ سورج ہمیں نظر آتا ہے اور ہم اس کا وجود مانتے ہیں مگر اس کے ماننے سے ہمیں انعام نہیں ملتا۔اسی طرح پہاڑ نظر آتے ہیں اور ہم ان کا وجود تسلیم کرتے ہیں مگر ہمیں ان پہاڑوں کو ماننے سے ثواب نہیں ملتا ۔چونکہ انسانی پیدائش کی غرض تکمیل روحانیت تھی اور تکمیل روحانیت ثواب کے ساتھ تعلق رکھتی تھی اس لئے جب کسی چیز کی تیزی اور اس کے ارتقاء کا سوال آئے گا لازماً امتحان اور آزمائش کا بھی سوال آ جائے گااور امتحان اور آزمائش زیادہ تر اسی چیز کے متعلق ہوتی ہیں جس کے حصول میں مشکلات حائل ہوں پس ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ کا وجود مخفی رہے ورنہ بنی نوع انسان کی ترقی کی سکیم بالکل بے کار چلی جاتی اور جب خدا نے پوشیدہ رہنا تھا تو یہ لازمی بات تھی کہ کچھ روحانی سامان پیدا کئے جاتے اور کچھ جسمانی سامان پیدا کئے جاتے ۔ روحانی اسباب میں فطرت صحیحہ اور فرشتے شامل ہیں اور جسمانی اسباب میں مادہ اور اس کو حرکت دینے والا قانون شامل ہے پس فرشتوں کا وجود یا مادہ کا وجود کسی اعتراض کا موجب نہیں عیسائی برابر کے خدا پیش کرتے ہیں اور ہم خادم اور تابع چیزیں پیش کرتے ہیں اور خادم اور تابع چیزوں کی ضرورت اس لئے ہے تا اللہ تعالیٰ کی ہستی وراء الوراء رہے اور خدا اور اس کے بندوں کے درمیان ایسا پردہ حائل رہے جس کو مجاہد اور محنت سے کام لینے والا انسان ہی پھاڑ سکے، ہر انسان نہیں غرض علم مبداء اور علم موجودات کا جو واقف ہو گا لازماً قادر مطلق وجود ہوگا۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کا صادق ہونا بھی ایک مجاہد کی نجات کا ضامن ہوتا ہے ۔ اگر انسان بغیر کفارہ کے نجات نہیں پا سکتا تھا تو تمام سابق انبیاء جھوٹے قرار پاتے ہیں اور ان کو بھیجنے والا بھی جھوٹا قرار پاتا ہے۔کیونکہ آدم آیا اور اس نے یہی کہا کہ مجھ پر ایمان لائو۔ نوح ؑ آیا اور اس نے یہی کہا کہ مجھ پر ایمان لائو۔ آدم کا واقعہ تو تورات میں تفصیل کے ساتھ موجود نہیں ۔ نوحؑ کا واقعہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور بائبل بتاتی ہے کہ نوحؑ نے آ کر یہی کہا کہ مجھ پر ایمان لائو۔ اگر انسان بغیر کفارہ کے نجات نہیں پا سکتا تو نوحؑ جھوٹا تھا اور نوح کو بھیجنے والا بھی جھوٹا تھا ۔ پھر ابراہیم آئے انہوں نے بھی بنی نوع انسان سے یہی کہا کہ جو صداقتیںمیں پیش کرتا ہوں۔ ان کو مانو۔ گو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر بھی بائبل میں ادھورا ہے جیسے آدم کا ذکر ادھورا ہے لیکن اس کے بعد موسیٰ کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور بائبل بتاتی ہے کہ انہوں نے دنیا کے سامنے اپنی تعلیم پیش کی اور ان سے یہی کہا کہ اگر تم اس تعلیم کو نہیں مانو گے تو تم خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے آ جائو گے اور اگر مانو گے تو نجات پا جائو گے ۔ انہوں نے یہ کہیں نہیں کہا کہ میں تعلیم تو دیتا ہوں مگر تم اس پر عمل نہیں کر سکتے۔ جیسے عیسائی کہتے ہیں کہ شریعت پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ موسیٰؑ نے یہی کہا کہ اگر تم عمل کرو گے تو نجات پا جائو گے۔ پس عیسائی عقیدہ اگر سچا ہے اور نجات ناممکن ہے تو موسیٰؑ جھوٹا تھا اور اس نے نعوذباللہ بڑا فریب کیا کہ اپنی تعلیم کے متعلق لوگوں سے یہ کہا کہ اگر تم اس پر عمل کرو گے تو نجات پا جائو گے اور اگر وہ نبی تھا جیسے بائبل کہتی ہے کہ وہ نبی تھا تو پھر خدا بھی نعوذ باللہ جھوٹا قرار پاتا ہے جس نے اسے اس تعلیم کے ساتھ بھیجا۔ اسی طرح موسیٰؑ کے بعد آنے والے باقی تمام انبیاء بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں کیونکہ ہر ایک نے یہی کہا کہ میری تعلیم پر چلو گے تو نجات پائو گے چنانچہ زبور میں لکھا ہے۔ حضرت دائود علیہ السلام نے بھی ہی فرمایا کہ
’’ تیری شریعت سچائی ہے‘‘ (زبور باب ۱۱۹ آیت ۱۴۲)
اگر شریعت پر عمل نہیںہو سکتا جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں کہ شریعت *** ہے تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ سچائی پر عمل نہیں ہو سکتا ۔ صرف جھوٹ پر عمل ہو سکتا ہے اور یہ بھی کہنا پڑے گا کہ سچائی سے نجات نہیں مل سکتی صرف جھوٹ سے مل سکتی ہے۔ غرض اگر ہم یہ مان لیں کہ انسان شریعت پر عمل کرنے سے نجات نہیں پا سکتا اور نبیوں کی اتباع نہیں کر سکتا تو سارے انبیاء کا سلسلہ جھوٹا ماننا پڑتا ہے لیکن اگر وہ صادق خدا ہے تو لازماً یہ بھی ماننا پڑے گا کہ نجات ہے کیونکہ خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے تمام نبیوں نے یہی کہا کہ اگر تم ہماری باتوں کو مانو گے تو نجات پا جائو گے۔
دوسرے عربی زبان میں صدق کے لفظ میں دوام کے معنے بھی پائے جاتے ہیں خالی سچائی کے معنے نہیں ۔ بلکہ وہ چیز جو قائم رہنے والی ہوتی ہے اس پر بھی صدق کا لفظ حاوی ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے صادق ہونے کے یہ معنے بھی ہیں کہ اس کا وجود اور اس کی تعلیم ہمیشہ قائم رہنے والی ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ خدا تعالیٰ کا قول اور اس کا فعل تبھی قائم رہنے والے ہو سکتے ہیں جب بنی نوع انسان بھی قائم رہنے والے ہوں۔ اگر مخلوق نے نجات نہیں پانی اور ہلاک ہو جانا ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کے قول نے بھی قائم نہیں رہنا اور اس کے فعل نے بھی قائم نہیں رہنا کیونکہ اس کا قول اور اس کا فعل مخلوق کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں لیکن اگر اس کا قول اور فعل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں تو معلوم ہوا کہ انسان قائم رہے گا اور وہ نجات پا سکتا ہے اگر اس نے فنا ہو جانا تھا تو خدا تعالیٰ کا ہمیشہ قائم رہنے والا قول اور فعل باطل ہو جاتا ہے۔ غرض صدق کامل اپنے ظلی صدق کا بھی مطالبہ کرتا ہے کیونکہ صدق دوام پر دلالت کرتا ہے اور دوام ِصفات بغیر دائمی موہبت ِصفات کے نہیںہو سکتا۔ خود بائبل بھی ہماری اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔ بائبل میں آتا ہے خدا نے انسان کو اپنی شکل پر بنایا (پیدائش باب ۱ آیت ۲۶ و ۲۷) اب خدا تعالیٰ کی شکل کے یہ معنے تو نہیں ہو سکتے کہ خدا تعالیٰ کے بھی نعوذ باللہ ہماری طرح ناک ، کان ،آنکھیں اور منہ ہیں ۔ اس کے یہی معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اندر جو صفات پائی جاتی ہیں وہ انسان کے اندر بھی پائی جا سکتی ہیں اور اگر یہ درست ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی شکل پر بنایا گیا اور خدا تعالیٰ صادق ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ انسان اپنے اندر تقویٰ اور راستبازی اور طہارت بھی پیدا کر سکتا ہے ورنہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ جو صادق ہے اس کا ارادہ اور فعل غلط نکلے اور انسان بوجہ گندی سرشت کے شیطان بن گیا۔ پس جو مذہب یہ کہتا ہے کہ انسان گندی سرشت کے ساتھ دنیا میں آیا دوسرے لفظوں میںوہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ارادہ کیا مگر کوئی وجود بھی وہ اپنی شکل پر پیدا نہ کر سکااس نے آدمؑ کو اپنی شکل پر پیدا کیا لیکن وہ گنہگار ہو گیا یعنی یا تو خدا تعالیٰ کی شکل ناقص ہے یا وہ اپنے ارادہ میں ناکام رہا اور شیطان خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ پہلے پھل کو بھی لے گیا اور اس کے اگلے پھلوں کو بھی چرا کر لے گیا بلکہ اس کے آخری پھل مسیح کی بھی آزمائش کیلئے آ گیا۔ کیا یہ خدا تعالیٰ کی ہتک نہیں اور کیا یہ عقیدہ خدا تعالیٰ کی صداقت پر حرف لانے والا نہیں ؟ خدا تو یہ کہتا ہے کہ میں نے انسان کو اپنی شکل پر بنایا مگر ہوتا یہ ہے کہ پہلا انسان بھی شیطان کی شکل پر بن جاتا ہے یعنی اس کی بات ماننے لگ جاتا ہے اور اس کی آئندہ نسل بھی ورثہ کے گناہ میں ہمیشہ کیلئے مبتلا ہو جاتی ہے اور شیطان کے نقش قدم پر چلنے لگ جاتی ہے حتیٰ کہ مسیح جو نجات دہندہ کے طو رپر آیا تھا وہ بھی اتنا کمزورثابت ہوتا ہے کہ شیطان اس کی آزمائش کے لئے آ جاتا ہے۔ (متی باب ۴ آیت ۱تا ۱۱)
مگر اس کے مقابلہ میں قرآن کریم جو تعلیم دیتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نجات دینے کیلئے کسی کفارہ کا محتاج نہیں۔ اس نے اپنے بندوں کو ہدایت کیلئے ہی بنایا ہے اور ان کی پیدائش میں فطری طور پر اس نے نیکی کا مادہ رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں شیطان کے اس دعویٰ کا ذکر کرتے ہوئے کہ وہ انسان کو خراب کرے گا فرماتا ہے۔
قال ارء یتک ھذا الذی کرمت علیّ لئن اخّرتن الی یوم القیامۃ لاحتنکنّ ذرّیّتہ الا قلیلا o قال اذھب فمن تبعک منھم فان جھنم جزاؤکم جزاء موفورا o واستفزز من استطعت منھم بصوتک واجلب علیھم بخیلک ورجلک وشارکھم فی الاموال والاولاد وعدھم وما یعدھم الشیطان الا غرورا o ان عبادی لیس لک علیھم سلطان وکفی بربک وکیلا o ربکم الذی یزجی لکم الفلک فی البحر لتبتغوا من فضلہ انہ کان بکم رحیما o (بنی اسرائیل ع۷)
یعنی جب آدم پیدا ہوئے اور ان کی عدم اطاعت اور نافرمانی کی وجہ سے شیطان پر غضب نازل ہوا تو اس نے کہا یہ آدمی جس کو مجھ پر فضیلت بخشی گئی ہے اس کے مقابلہ میں اگر آپ مجھے قیامت تک موقعہ دیں ۔تو میں اس کی اولاد پر غالب آ جائوں گا سوائے کچھ لوگوں کے۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ قرآن کریم کے رو سے (یہ عیسائیوں کا حق ہے کہ وہ کہہ دیں یہ غلط بات ہے) شیطان بھی کہنے کی طاقت نہیں رکھتاکہ سارے انسان خراب ہیں جو عیسائیوں کا عقیدہ ہے اور شیطان نے بھی یہ جرأت نہیں کی کہ سب کو خراب قرار دے بلکہ اس نے تسلیم کیا کہ کچھ انسان پھر بھی بچ جائیں گے۔ لاحتنکنّ ذریتہ الا قلیلا نہایت واضح آیت ہے اور بتا رہی ہے کہ یہ مسئلہ اتنا غلط ہے کہ شیطان کو بھی یہ جرات نہیں ہو سکی کہ وہ کہے کہ ہر انسان خراب ہے وہ بھی اقرار کرتا ہے کچھ انسان میرے حملہ سے ضرور بچ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :۔ اذھب فمن تبعک منھم فان جھنم جزاؤکم جزاء موفورا ۔ جائو ان میں سے جو اپنی مرضی سے تمہارے پیچھے چلے گا اس کو سزا دی جائے گی اور تو ان کو ڈرا یا بلا جس کو چاہے اپنی آواز سے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے لے جا اور ان کو اموال اور اولاد میں شریک کر اور انہیں وعدے دے و ما یعد ھم الشیطن الا غرورا اور شیطان تو ہمیشہ جھوٹے وعدے دیا کرتا ہے۔ انا عبادی لیس لک علیھم سلطان لیکن میں یہ بتا دیتا ہوں کہ تو نے تو یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں بندوں کو چھین کر لے جائوں گا مگر میرا دعویٰ یہ ہے کہ جو شخص میری طرف آنا چاہے گا تو اسے کبھی اپنی طرف نہیں لے جا سکے گا۔ و کفی بربک وکیلا اور وہ انسان جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے اس سے زیادہ حفاظت میں اور کون ہو سکتا ہے۔ ربکم الذی یزجی لکم الفلک فی البحر لتبتغوا من فضلہ انہ کان بکم رحیما اور تمہارا رب وہ ہے جو تمہاری کشتی کو آرام سے سمندر میں لے جاتا ہے تاکہ تم اس کے فضل کی تلاش کرو اور اللہ تعالیٰ بڑا رحم کرنے والا ہے۔
ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انسانی فطرت پاک ہے اور اگر فطرت پاک ہے تو پھر یقینا اس کو بدی پر غالب آنے کی طاقت بھی حاصل ہے اور اگر انسان بدی پر غالب آ سکتا ہے تو پھر کسی کفارہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ بلکہ صحیح فطرت کوشش اور توبہ اور اس کے نتیجہ میں خدا کا رحم نجات کیلئے کافی ہیں ۔ چنانچہ ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ :-
اول:۔ شیطان نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ وہ اکثر بنی نوع انسان کو اپنے قابو میں لے آئے گا۔ گویا قرآن کریم بنی نوع انسان کی خرابی کے عقیدہ کو شیطان کی طرف منسوب کرتا ہے یہی نہیں کہ اسلام اس کو رد کرتا ہے ۔ رد کرنا اور چیز ہوتی ہے اور کسی عقیدہ کو اتنا گندہ قرار دینا کہ اس کو شیطانی فعل کہنا بالکل اور بات ہوتی ہے ۔اس عقیدہ کے متعلق قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ یہ شیطان کا عقیدہ ہے اور شیطان کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ اس نے یہ نہیں کہا کہ سارے انسان خراب ہو جائیں گے بلکہ اس نے بھی یہ کہا کہ اکثر انسانوں کو میں خراب کر لوں گا۔
دوسری بات قرآن کریم یہ بیان فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کہا کہ تم کوشش کرو ہم تمہیں روکتے نہیں۔ ہم نے انسان کو بنایا ہی ا س لئے ہے کہ وہ تمہارا مقابلہ کرے اور اپنے اندر نیکی پیدا کرنے کی کوشش کرے لیکن فرماتا ہے تم صرف بیرونی اثرات سے ہی اس پر اپنا اثر ڈال سکو گے ورنہ فطرتاً ہم نے اسے پاک بنایا ہے۔ عیسائیت تو یہ کہتی ہے کہ گناہ انسان کے دل میںگھس گیا اور ورثہ کے طورپر نسل انسانی میں چل پڑا۔ حالانکہ اگر یہ درست ہے تو شیطان کے پیچھے چلنے کی تحریک خود انسان کے دل سے پیدا ہونی چاہئے۔ لیکن اسلام اس کے دل کو پاک قرار دیتا ہے۔ بلکہ اس انسان کے دل کو بھی پاک قرار دیتا ہے جو شیطان کے قبضہ میں چلا جاتا ہے۔ فرماتا ہے۔
واستفزز من استطعت منھم بصوتک واجلب علیھم بخیلک ورجلک وشارکھم فی الاموال والاولاد وعدھم یعنی جس کو چاہے تو اپنی آواز سے ورغلانے کی کوشش کراور جس پر چاہے اپنے گھوڑے چڑھا کر لے جا یعنی اپنا لائو لشکر اس پر لے جا اور جس پر چاہے اپنے پیادے لے جا یعنی خواہ جو غالب لوگ ہیں ان کے ذریعہ ان کو ورغلا یا جو ماتحت ہیں ان کے ذریعہ ورغلا اور خواہ تو انہیں مال کی لالچ دے یا اولاد کی ترقی کی لالچ دے بہرحال میرے بندوں پر تیرا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
اس آیت میں بنی نو ع انسان کو خراب کرنے والی جن تحریکا ت کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں جو دل سے پیدا ہوتی ہو بلکہ یہ ساری چیزیں ایسی ہیںجو باہر سے آتی ہیں اور انسان کو خراب کر دیتی ہیں ۔ مثلاً فرمایا کہ تم گانے بجانے سے انسان کو خراب کرو گے ۔ تم دھمکیوں سے اسے خراب کرو گے یعنی یہ کہ اگر سچ بولا تو پھانسی پر لٹک جائو گے یا تم نے سچ بولا تو قید ہو جائو گے پھر فرمایا وشار کھم فی الاموال تم اس کو لالچیں دو گے کہ اگر تم نے حرام مال نہ کھایا تو ہمیشہ غریب رہو گے اگر تم نے ترقی کرنی ہے تو حرام مال کھائو والاولاد۔ اسی طرح جتھے بنانے کیلئے اور پارٹی بازی کیلئے تم اسے اکسائو گے اور کہو گے کہ جب تک تم فریب نہ کرو گے کامیاب نہیں ہو سکوگے وعد ھم اور پھر ہر قسم کی ترقیات کے وعدے دو گے کہ اگر تم جھوٹ اور فریب او رمکر اور دغا بازی سے کام لو گے تو خوب ترقی کرو گے ۔ یہ ساری چیزیں ایسی ہیںجو خارجی ہیں اگر انسان کا دل ناپاک تھا تو پھر ان چیزوں کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ اللہ تعالیٰ فرمادیتا کہ چونکہ آدم نے گناہ کیا تھا اس لئے انسان گنہگار ہو گیا مگر جتنی چیزیں قرآن کریم نے انسان کو بگاڑنے اور خرابی میںمبتلا کرنے والی بیان کی ہیں وہ ساری کی ساری ایسی ہیں جو خارجی ہیں یعنی (1)گانا بجانا (2)دھمکیاں مثلاً یہی کہ کہیں انبیاء کے ماننے والے ترقی نہ کر جائیں اس لئے ان پر خوب ظلم کرو (3) حرص اور لالچ۔
غرض ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ انسان کی خرابی کیلئے تمہیں بیرونی ذرائع اختیار کرنے پڑیں گے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ اندرونی طور پر وہ محفوظ ہے ۔ مگر ورثہ کا گنا ہ اندر سے پیدا ہوتا ہے۔ باہر سے نہیں آتا جیسے کسی شخص کی والدہ کو سل کا مرض ہو اور وہ بچپن میں اپنی والدہ کا دودھ پیتا رہا ہو جس سے سل کا مادہ اس کے اندر داخل ہو گیا ہو تو ایسے شخص کو جب سل کا مرض ہو گا تو یہ اس کی اندرونی بیماری کہلائے گی لیکن ایک اور انسان ایسا ہوتا ہے جو کسی مسلول کی تیمارداری میں مشغول رہا اور اس کے کپڑوں اور سانس وغیرہ کے ذریعہ سے سل کے کیڑے اس کے اندر چلے گئے اور وہ بیمار ہو گیا ۔ اب گو سل کا مرض اس کو بھی ہوا ہے مگر اس کی بیماری باہر سے آئی ہے اوراس کی بیماری اندر سے پیدا ہوئی تھی۔ اسی طرح اور کئی بیماریاں ہیں جو ماں باپ سے ورثہ میں اولاد کو ملتی ہیں ۔ مثلاً مرگی کا مرض ہے ۔ عموماً جن بچوں کے ماں باپ کو مرگی ہوتی ہے انہیں بھی مرگی کے دورے شروع ہو جاتے ہیں ۔ یا جنون ہے یہ بھی ورثہ میں ملتا ہے ۔ ہم نے بعض دفعہ تین تین پشتوں میں جنون کا مرض منتقل ہوتے دیکھا ہے ۔ چونکہ انسان زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا اس لئے اس بارہ میں لمباتجربہ نہیںہو سکتا لیکن ممکن ہے اگر کوئی سوسائٹی بن جائے اور وہ اس کی تحقیق کرے تو شاید سات سات آٹھ آٹھ پشتوں تک یہ مرض ظاہر ہوتی چلی جائے۔ آتشک کی ایک صورت تو یقینا ایسی ہے جو سات سات پشتوں تک چلی جاتی ہے بلکہ یورپ کے تازہ لٹریچر میں مَیںنے پڑھا ہے کہ بعض دفعہ پندرہ پندرہ بیس بیس پشت تک بھی اس مرض کے نشان ملتے ہیں گو اس کی شکل اس شکل سے بدل جاتی ہے جو ابتدائی حالت میں مرض کی ہوتی ہے لیکن بہرحال آئندہ نسل میں یہ مرض چلتی چلی جاتی ہے ۔ اب یہ مرض کہیں باہر سے نہیں آتی خود انسان کے اندر اس مرض کا مادہ ہوتا ہے ۔ جب نفس پر ضعف اور کمزوری غالب آ تی ہے تو کبھی ناک کی ہڈی بیٹھنی شروع ہو جائے گی اور کبھی کوئی اور علامت ظاہر ہو جائے گی جس سے معلوم ہوگا کہ آتشک کا مادہ اس کے اندر تھا لیکن اگر یہ مرض باہر سے آئے۔ مثلاً فرض کرو باپ کو آتشک ہو گئی تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ یہ مرض اسے باپ سے ملی ہے بلکہ ہم کہیں گے کہ یہ مرض باہر سے آئی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم نے یہاں بگاڑ کے جتنے ذرائع بتائے ہیں وہ سب کے سب خارجی ہیں یہ نہیں کہا کہ آدم نے گناہ کیا تھا اس لئے انسان کو تم خراب کر لوگے بلکہ فرمایا کہ تم اسے لالچیں دو گے اس کے اندر ڈر اور خوف پیدا کرو گے ۔ اسے گانے بجانے کی طرف توجہ دلائو گے اور اس طرح تم اسے خراب کر دو گے گویا خرابی کے تمام اسباب خارجی ہونگے اندرونی نہیں ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک اور بات بیان فرمائی ہے جس میں صاف طور پر ان معنوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو میں نے مقطعات میں ک کے بیان کئے تھے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان عبادی لیس لک علیھم سلطان جو میرے ساتھ تعلق رکھنے والے بندے ہیں ان پرتیرا قبضہ کبھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان پر لالچ ڈر اور خوف وغیرہ کا کوئی اثر ہو سکتا ہے۔ وکفی بربک وکیلا اور تیرا رب اپنے بندے کا وکیل یعنی نگران ہونے کے لحاظ سے کافی ہے ۔ جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کی پناہ میں آ جائے گا تو شیطان اس پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وہ اپنا معاملہ خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے یہاں کفٰی کا لفظ استعمال کر کے صاف طور پر ان معنوں کی طرف اشارہ کر دیا جو میں نے بیان کئے تھے ۔ میں نے بتایا تھا کہ ک اس جگہ کافی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس جگہ ظاہر کر دی اور کفی کا لفظ استعمال کر کے بتا دیا کہ اس سورۃ میں خدا تعالیٰ کے کافی ہونے کا ذکر ہے ۔ جب کوئی شخص اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے تو پھر کارساز ہونے کے لحاظ سے خدا تعالیٰ اس کے لئے کافی ہوتا ہے اور شیطان اس پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ اگر ورثہ کے گناہ کی وجہ سے ہر انسان پیدائشی طور پر ناپاک ہوتا جیسے عیسائی کہتے ہیں تو ایسے لوگ خواہ تقویٰ اختیار کرتے خواہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیتے ضرور تباہ ہو جاتے مگر ایسا نہیں ہوتا جس سے صاف پتہ لگا ہے کہ گناہ بیرونی اثرات کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔فطرت اپنی ذات میں پاکیزہ ہے۔آگے اس کی دلیل دیتا ہے اور فرماتا ہے ۔ ربکم الذی یزجی لکم الفلک فی البحر لتبتغوا من فضلہ انہ کان بکم رحیما تم گناہ کو ایک خطرناک طوفان سمجھتے ہو۔ایک ایسی آفت خیال کرتے ہو جو تباہ کر دینے والی ہوتی ہے اور تم گناہ کو دیکھ کر سمجھتے ہو کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس نے انسان کے اندر ڈیرہ ڈال لیا ہے اور اب یہ اس سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ مگر فرماتا ہے گناہ اپنی ذات میں کوئی چیز ہی نہیں یہ سارا وہم ہے اس کی موٹی مثال سمندر ہے تم دیکھتے ہو کہ سمندر میں کشتیاں چلتی ہیں دخانی کشتیاں تو اب بھی چلتی ہیں جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں سودے لے جاتی ہیں لیکن پہلے زمانہ میں بادبانی کشتیوں کا رواج تھا جو ہوا کے زور پر چلتی تھیں۔ فرماتا ہے کشتیوں کا انحصار ہی ہوا پر ہے لیکن کبھی ہوا طوفان بھی بن جاتی ہے جب وہ حد سے بڑھ جاتی ہے تو طوفان کہلاتی ہے لیکن باوجود اس کے کہ کبھی کبھی ہوا طوفان بن جاتی ہے۔ جب دنیا میں ہوائوں سے کشتیاں چلا کرتی تھیں اگر دنیا سے کہا جاتا کہ ہوائیں بند کی جائیں یا طوفان بند کئے جائیں تو ساری دنیا پکار اٹھتی کہ طوفان کیا ہے یہ تو کبھی کبھی آتا ہے اگر ہوائیں بند ہو گئیں تو ہماری تجارتیں ماری جائیں گی اور ہماری روزی کا سارا سامان جاتا رہے گا۔ اگر طوفان کے نتیجہ میں ہزاروں کشتیوں میں سے کوئی ایک ڈوب بھی جاتی ہے تو کیا ہوا یہ مثال بیان فرما کر اللہ تعالیٰ اس امر کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ تم گناہ گناہ کرتے ہو حالانکہ وہ تو ایک اعتداء کا نام ہے جس طرح وہی ہوا جو جہازوں کو ایک سر ے سے دوسرے سرے تک لے جاتی ہے بعض دفعہ طوفان بن جاتی ہے اسی طرح وہی قوتیں جو انسان کی ترقی اور اس کے فائدہ کیلئے اس کے اندر رکھی گئی ہیں جب بگڑ جاتی ہیں تو انہی کا نام گناہ بن جاتا ہے۔ گویا گناہ ایک طوفان ہے جذبات کا۔ مگر طوفان ہوا کے حد سے بڑھنے کا نام ہوتا ہے اس کے نیچے اس کی سب حرکت نیک ہوتی اور نیک نتائج پیدا کرتی ہے۔ مثلاً انسان کو خدا تعالیٰ نے آنکھیں دیکھنے کیلئے دی ہیں جن سے وہ دن رات کام لیتا ہے ایک بدمعاش سے بدمعاش انسان کے بھی سارے دن کے اعمال کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اس نے اپنی آنکھوں کا کتنا ناجائز استعمال کیا ہے تو پتہ لگے گا کہ دو سو دفعہ اس نے اپنی آنکھوں کا جائز استعمال کیا ہے اور ۲۰۰؍۱ دفعہ ناجائز استعمال کیا ہے کہیں اس نے گھر کی صفائی کی ہوگی کہیں اس نے دوستوں سے ملاقات کی ہو گی۔ کہیں اس نے محنت اور مزدوری کی ہوگی اور یہ سارے کام اس نے آنکھ سے کئے ہوں گے جو آنکھوں کا جائز استعمال ہے ۔ لیکن ایک دفعہ اس نے کسی غیر عورت کو بھی دیکھ لیا ہو گا ۔ اگر اس کی آنکھ ماری جاتی تو بیشک ناجائز فعل اس سے نہ ہوتا ۔ مگر جائز فعل بھی وہ نہ کر سکتا پس فرماتا ہے ۔گناہ کی تعریف جو تم نے سمجھی ہے وہ غلط ہے۔ تم گناہ کو اپنی ذات میں بری چیز سمجھتے ہو حالانکہ وہ قوتیں جو انسان کی ترقی اور اس کے فائدہ کیلئے پیدا کی گئی ہیں انہی میں افراط اور تفریط کا نام گناہ ہوتا ہے۔ مثلاً اسراف صدقہ کی زیادتی کا نام ہے اور بخل مال کی حفاظت میں شدت پکڑنے کا نام ہے اور صدقہ اور حفاظت مال کے بغیر دنیا چل ہی نہیں سکتی۔ اسی طرح زنا ر جولیت کے بے موقعہ استعمال کا نام ہے اور رہبانیت اس کے عدم استعمال کا نام ہے اگر رجولیت کا استعمال نہ ہو تو دنیا کیونکر چلے اور اگر اس پر ضبط نہ رکھا جائے تو انسان کی صحت کس طرح قائم رہے۔
غرض ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے گناہ کا فلسفہ بیان فرمایا ہے۔ اور بتایا ہے کہ انسان کی پیدائش نیک ہے بدی باہر سے آتی ہے اور یہ دعویٰ کہ انسان کی اکثریت گناہ میں مبتلا ہو گی ایک شیطانی خیال ہے۔
(2) دوسری آیت جو اس مضمون کو واضح کرتی ہے وہ یہ ہے کہ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم o ثم رددنٰہ اسفل سافلین o الا الذین امنوا وعملوا الصلحت فلھم اجر غیر ممنون o (التین)
فرماتا ہے ہم نے انسان کو بہتر سے بہتر قوتیں دے کر پیدا کیا ہے ۔ ثم رددنٰہ اسفل سافلین مگر اس کے بعد ہم اس کو بعض دفعہ نیچے ہی نیچے لے جاتے ہیں ۔ یہاں ایک عیسائی کہہ سکتا ہے کہ ٹھیک ہے میں بھی تو یہی کہتا ہوں کہ پہلے آدم آیا اور اس نے ترقی کی مگر اس کے گناہ کی وجہ سے نسل انسانی گر گئی ۔ اس شبہ کے ازالہ کیلئے فرمایا الا الذین امنوا وعملوا الصلحت فلھم اجر غیر ممنون میں سارے انسان نہیں جاتے بلکہ وہ حصہ جو امنوا وعملوا الصلحت والا تھا وہ تو احسن تقویم پر قائم رہا۔ صرف دوسرا حصہ جس نے اس راستہ کو چھوڑ دیا تھا وہ سزا میں مبتلا ہوا اور نبیوں کی جماعت سے الگ ہو گیا ۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ الا الذین امنوا وعملوا الصلحت میں جن لوگوں کا ذکر ہے وہ نبیوں کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ہیں اور ان کی نیکی بھی کسبی ہے اور گناہ بھی کسبی ہے نہ نیکی ورثہ کی ہے نہ گناہ ورثہ کا ہے اور عیسائیوں سے ہماری بحث ہی یہی ہے کہ تم بتائو آیا نبیوں کی جماعتیں بھی کفارہ پر ایمان لائے بغیر بچ سکتی ہیںیا نہیں ؟ وہ کہتے ہیں نہیں لیکن قرآن کہتا ہے کہ مومن اور عمل صالح کرنے والوں یعنی نبی کی تعلیم کے مطابق عمل کرنے والے لوگوں کیلئے ایک غیر مقطوع اجر ہوگا۔ پس یہ خیال کہ گناہ انسان کی پیدائش میں رکھا گیا ہے بالکل غلط ہے ۔
یہاں عیسائی اعتراض کر سکتے ہیں کہ ہمارا تو یہی دعویٰ ہے کہ انسان کی فطرت میںچونکہ بدی ہے وہ نیک عمل کر ہی نہیں سکتا اور اسی لئے ہم شریعت کو *** قرار دیتے ہیں ۔ اس کا جواب قرآن کریم مندرجہ ذیل آیت میں دیتا ہے۔ فرماتا ہے:-
ونفس وما سوھا o فالھمھا فجورھا وتقوٰھا o قد افلح من زکھا o وقد خاب من دسّٰھاo (الشمس)
ہم شہادت کے طو رپر نفس انسانی کو اور اس کے اعلیٰ سے اعلیٰ قوتوں کے ساتھ پیدا کرنے کے واقعہ کوپیش کرتے ہیں ۔ سوّٰی کے معنے ہوتے ہیں جس میں کوئی کجی نہ ہو اور تسویہ کے معنے ہوتے ہیں برابر کر دینا جس میں نہ افراط ہو نہ تفریط۔ ونفس وما سوھا میں مامصدر یہ ہے اور اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ ہم شہادت کے طو رپر پیش کرتے ہیں نفس کو اور اس کے بغیر افراط و تفریط کے اعلیٰ درجہ کی قوتوں کے ساتھ پیدا کئے جانے کو ۔فالھمھا فجورھا وتقوٰھا جب ہم نے اسے پیدا کر دیا تو اس کے بعد ہم نے اس نفس کو الہام کیا فجورھا و تقوھا کہ فجور کیا ہے یعنی کن باتوں سے تو راستہ سے اِدھر اُدھر ہو سکتا ہے وتقوھا اور کون سے ایسے راستے ہیں جن پر چل کر تو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے ۔ اس آیت سے ایک تو یہ پتہ لگا کہ اللہ تعالیٰ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ انسانی نفس میں تسو یہ پایا جاتا ہے کجی نہیں پائی جاتی نیکی پائی جاتی ہے بدی نہیں پائی جاتی۔
دوسرے نہ صرف اپنی ذات میں اس میں درستی پائی جاتی ہے بلکہ اس میں نیکی اور بدی کا ایک احساس بھی پایا جاتا ہے یعنی ہم نے اس کے اندر ایک کانشنس رکھی ہے جو پہچانتی ہے کہ کونسا اچھا راستہ ہے اور کونسا برا۔ مثلاً ایک سوٹی جسے چھیل کر صاف کر لیا گیا ہو اسے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ میں صاف ہوں۔ لیکن انسان کو پتہ ہوتا ہے کہ میرے اندر فلاں خوبی پائی جاتی ہے یا مثلاً یوں سمجھ لو کہ ایک انسان جس کی جیب میں روپیہ ہو ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ آدمی بے پیسہ کے نہیں لیکن اگر اس کو پتہ نہیں کہ میری جیب میں روپیہ پڑا ہوا ہے تو وہ اس کو استعمال نہیں کر سکے گا۔
یہاں بھی دو باتیں بیان کی گئی ہیں اول یہ کہ ہم نے انسان کو ہر قسم کی کجی سے پاک بنایا ہے اور دوسرے یہ کہ صرف پاک ہی نہیں بنایا بلکہ اسے یہ بھی بتا دیا ہے کہ تیرے اندر یہ یہ باتیں خرابی کی ہوں گی اور یہ یہ باتیں نیکی ہوں گی۔ گویا وہ صرف پاک ہی نہیں بلکہ وہ اس بات سے بھی واقف ہے کہ میرے اندر جو قوتیں پائی جاتی ہیں میں نے ان کو اس اس طرح استعمال کرنا ہے اور اس کے اندر ایک کانشنس ہے جو پہچانتی ہے کہ اگر میں نے اس طرح کیا تو میرا یہ فعل بدی ہوگا اور اگر اس طرح کیا تو میرا فعل نیکی ہوگا۔
قد افلح من زکھاo وقد خاب من دسّٰھاo کی آیت میں مضمون کو اور بھی واضح کر دیا۔ کہ وہ شخص کامیاب ہو گیا جس نے اس کو پاک رکھا یعنی اس کے اندر خدا تعالیٰ نے خرابیاں پیدا نہیں کیں۔ پس جو شخص اس کے تزکیہ کو قائم رکھتا ہے اور اسے خراب نہیں ہونے دیتا وہ بڑا کامیاب انسان ہے۔ وقد خاب من وسٰھا اور جو اس کی پاکیزگی کو مسل ڈالتا اور اس کی نیکی کو اپنے پائوں سے کچل ڈالتا ہے وہ سخت ناکام و نامراد ہو گا۔
(4) پھر فرماتا ہے سبح اسم ربک الاعلیٰ o الذی خلق فسوی o والذی قدر فھدیٰ o والذی اخرج المرعیٰ o فجعلہ غثاء احوٰی o سنقرئک فلا تنسیٰ o الا ماشاء اللہ انہ یعلم الجھر وما یخفیٰ o ونیسرک للیسرٰی o فذکر ان نفعت الذکریٰ o سیذکر من یخشیٰ o ویتجنبھا الاشقی o الذی یصلی النار الکبریٰ o
(سورۃ الاعلیٰ)
یعنی اے انسان تو اپنے اعلیٰ رب کی تسبیح کر۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیونکہ معلوم ہوا کہ تیرا رب اعلیٰ ہے۔ اس کے جواب میں فرماتا ہے الذی خلق فسویٰ اس نے انسان کو پیدا کیا اور پھر اسے ہر قسم کے عیب سے پاک بنایا۔ والذی قدر فھدی پھر اس نے انسان کی طاقتوں کا ایک معیارمقرر کیا کہ اس حد تک انسان ترقی کر سکتا ہے ۔ فھدی اور پھر بتایا کہ اس مقام تک پہنچنے کی یہ یہ ترکیب ہے ۔ یعنی اگر ادنیٰ مومن بننا چاہتے ہو تو یہ یہ تدبیر ہے ۔ اعلیٰ مومن بننا چاہتے ہو تو یہ یہ کام کرو ۔شہید اور صدیق بننا چاہتے ہو تو اس اس طرح کرو ۔ گویا قد ر فھدی میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے مختلف روحانی گریڈ مقرر کر کے ساتھ ہی طریقے بھی بتادئیے کہ اس اس طرح عمل کرو گے تو ان گریڈوں کو حاصل کر لوگے۔
درحقیقت الذی خلق کے معنے الذی خلق الانسان کے ہیں ۔ کیونکہ آگے ساری باتیں وہ بیان کی گئی ہیں جو انسان سے تعلق رکھتی ہیں مثلاً ہدایت کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ واضح بات ہے کہ ہدایت درختوں کے لئے نہیں ہوتی۔ جانوروں کے لئے نہیں بلکہ انسانوں کے لئے ہوتی ہے ۔ پس فرماتا ہے تم اپنے اندازہ سے یہ معلوم نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ کا قانون انسان کے متعلق کیا ہے اور دوسری مخلوق کے متعلق کیا ہے ۔ تم کھیتیوں اورسبزیوں ترکاریوں کو دیکھو والذی اخرج المر عی فجعلہ عثاء احوی تمہیں دکھائی دے گاکہ ایک وقت کے بعد وہ بالکل بے کار اور سیاہ ہو جاتی ہیں اور ان کی کوئی چیز بھی باقی نہیں رہتی لیکن اس کے مقابلہ میں انسان آتا ہے تو انسانوں کی اچھی چیزیں یعنی ان کا مغز اور روحانیت قائم رہتی ہے۔ پچھلے سال کے پھل سے ہم فائدہ نہیں اٹھا سکتے لیکن آدم کی تعلیم آج تک قائم ہے نوح کی تعلیم آج تک قائم ہے ابراہیم کی تعلیم آج تک قائم ہے۔ موسیٰ کی تعلیم آج تک قائم ہے۔ معلوم ہوا کہ اس جگہ اور قانون ہے اور اس جگہ اور قانون ہے ۔اگر یہ گندی چیز ہوتی تو اس کے قائم رکھنے کے معنے کیا تھے اورضرورت کیا تھی کہ اسے ہزاروں سال تک زندہ رکھاجاتا؟ پھر فرماتا ہے سنقرئک فلا تنسٰی۔ آدم اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ کی تعلیم کے متعلق تو لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کیا پتہ انہوں نے یہی تعلیم دی تھی یا کچھ اور دی تھی اب ہم تجھے بتاتے ہیں کہ سنقرئک فلا تنسی ہم تجھ کو ایک سبق پڑھائیں گے جو تو کبھی نہیں بھولے گا الا ماشاء اللہ سوائے اس کے کہ کسی حکم کے متعلق خدا تعالیٰ خود کہہ دے کہ یہ عارضی ہے اور اسے بعد میں منسوخ کر دے جیسے پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جاتی تھی لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دے دیا ۔اس قسم کے عارضی احکام کے سوا ہم تجھ کو ایک ایسی تعلیم دینے والے ہیں فلا تنسٰی جسے تو بھولے گا نہیں ۔ اس جگہ مخاطب صرف رسول کریم ﷺ نہیں بلکہ تمام انسان مخاطب ہیں اور اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ انسان جتنا بھی زور لگا لے اس تعلیم کو تو بھلا نہیں سکتا۔ یعنی ہم اسے قائم رکھیںگے اور تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ اس میں انسان کے مخفی سے مخفی خیالات کا بھی ذکر ہے اور ان بیرونی حوادث کا بھی ذکر ہے جو اس کے اعمال پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔و نیّسرک للیسری اور ہم اس تعلیم کے پھیلانے میں تمہارے لئے سہولتیں بہم پہنچائیں گے اور یہ تعلیم پھیلتی چلی جائے گی ۔اگر شریعت *** ہے تو ہم ایک تعلیم بھیجنے والے ہیں ہم دیکھیں گے کہ اس پر عمل ہوتا ہے یا نہیں ۔ فذکر ان نفعت الذکری یہ جو ہم نے دلیلیں دی ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ انسانی قلوب کی اصلاح شریعت اور اس سے متعلقہ چیزوں سے ہو جاتی ہے پس انہی طریقوں کو تم بھی استعمال کرو۔ سیذکر من یخشی جب تم اس تعلیم کو پیش کرو گے تو جو لوگ اپنے دل میں خوفِ خدا رکھنے والے ہوں گے وہ اس سے ضرور فائدہ اٹھائیں گے۔ا س میں بھی اشارہ کیا ہے کہ نیکی ورثہ کی چیز ہے نہ کہ بدی۔ کیونکہ خشیت دل میں پیدا ہوتی ہے و یتجنبھا الا شقی اور اس سے وہ شخص بچنے کی کوشش کرے گا جو اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال چکا ہو۔ آیت کا یہ دوسرا حصہ بھی بتاتا ہے کہ شقاوت خودانسان کی پیدا کردہ ہوتی ہے ورنہ ہر انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے پاک ہے۔
(5) پھر فرماتا ہے الم نجعل لہ عینین ولسانا وشفتین وھدینہ النجدین (سورۃ البلد) کیا انسان یہ نہیں سوچتا کہ ہم نے اسے آنکھیں دی ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ انسان گنہگار ہے۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ انسان نے گناہ کوورثہ میں لیا ہے کیا ہم نے اسے آنکھیں نہیں دیں ۔کیا ہم نے اس نے زبان نہیں دی۔ کیا ہم نے اسے ہونٹ نہیں دئیے ۔اگر انسان فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا اور اس کی نجات کفارہ پر ہی منحصر تھی تو ہم نے اسے آنکھیں کیوں دی تھیں اور وہ دیکھتا کیوںہے اور اگر اس کا دل گندا تھا اور وہ کسی واقف انسان سے تبادلہ خیالات کر کے اپنے گند کو دور نہیں کر سکتا تھا تو ہم نے اسے زبان کیوں دی تھی اور ا س کے ہونٹ کیوں بنائے تھے وھدینٰہ النجدین۔ پھر ہر انسان کے اندر خدا تعالیٰ نے ایک کانشنس رکھی ہے جو نیکی اور بدی کا موازنہ کرتی ہے۔ اگر یہ نیکی اور بدی کا موازنہ کر ہی نہیں سکتا تو اس کانشنس کی کیا ضرورت تھی۔کفارہ تو ایسا ہی ہے جیسے گڑھے میں پتھر ڈال کر کوئی شخص یہ سمجھ لے کہ اس طرح اس کا پیٹ بھر جائے گا ۔ چیز وہ ہوتی ہے جس کا کوئی منطقی نتیجہ نکلتا ہو۔ جب اس کا کوئی منطقی نتیجہ نکلتا ہی نہیں اور انسان دیکھتا ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں تو اسے سوچنا چاہئے کہ پھر اس کی ضرورت کیا ہے ۔ اگر کفارہ پر ہی بنی نوع انسان کی نجات منحصر تھی تو کیا ضرورت تھی آنکھ کی کیا ضرورت تھی زبان کی کیا ضرورت تھی ہونٹوں کی۔ اس کے بعد فرماتا ہے وھدینٰہ النجدین۔ پھر ہم نے اس کو دونوں راستے بتادئیے۔
قرآن کریم کی یہ خوبی ہے کہ وہ بعض دفعہ چھوٹے سے چھوٹے لفظ میں بڑی بھاری بات بیان کر دیتا ہے۔ قرآن کریم میں رستہ کا ذکر کئی دوسرے مقامات پر بھی آتا ہے مگر کسی جگہ اس کے لئے سبیل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور کسی جگہ طریق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے نجد کا لفظ استعمال کیا ہے۔ سبیل اور طریق کے الفاظ چھوڑ دئیے ہیں۔ اس اختلاف سے پتہ لگتا ہے کہ یہاں مضمون کے ساتھ نجد کا ہی تعلق ہے سبیل اور طریق کا تعلق نہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لغت میں نجد کے معنے اونچے راستے کے ہیں ۔ جو چڑھائی والا ہو۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ یہ مضمون بیان کیا ہے کہ چڑھائی والے راستہ پر جب انسان چلتا ہے تو اسے تکلیف ہوتی ہے سانس پھولتا ہے اور اس کے پائوں وغیرہ میں کھلیاں پڑجاتی ہیں ۔ اسی حالت کی طرف اللہ تعالیٰ نے یہاں اشارہ کیاہے۔ یہ تو سیدھی بات ہے کہ جیسے فلا اقتحم العقبۃ میں تشریح کر دی گئی ہے اس سے دنیوی رستہ مراد نہیں ۔ کیونکہ آگے یہ مضمون آتا ہے کہ اس نے صدقہ نہیں دیا۔ خیرایت نہیں دی ،یتامیٰ اور مساکین کا خیال نہیں رکھا ۔پس صاف پتہ لگتا ہے کہ اس جگہ ظاہری رستہ مراد نہیں بلکہ دو راستوں سے مراد نیکی اور بدی کا راستہ ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جو چیز انسان کے اندر ورثہ سے آ جائے اس کے لئے اسے محنت نہیںکرنی پڑتی ۔ مثلاً آنکھیں ہیں یہ ہمیں ورثہ میں ملی ہیں ان میں ہمارا کوئی دخل نہیں۔اس لئے آنکھوں سے دیکھنے کیلئے ہمیں نہ کسی مشق کی ضرورت ہوتی ہے نہ محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے آپ ہی آپ ہم دیکھنے لگ جاتے ہیں اسی طرح زبان ہمیں ورثہ میں ملی ہے اور ہم آپ ہی آپ بولنے لگ جاتے ہیں یا ہاتھ اور پائوں ہیں یہ بھی آپ ہی آپ چلنے لگ جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہمیں ورثہ کے طور پر ملے ہیں ۔ اگر گناہ بھی ورثہ میں ملا ہوتا ۔ تو اس کے لئے کسی مشق کی ضرورت نہیں تھی اور گناہ کاراستہ چڑھائی والا راستہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ جیسے ہاتھ اور پائوں ہمیں ورثہ میں ملے ہیں ۔ ہم نے اپنے ماں باپ سے لئے۔ انہوں نے اپنے ماں باپ سے لئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمیں ان کے ہلانے جلانے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ اسی طرح گناہ بھی اگر ورثہ میں ملا ہے تو اس کے کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آنی چاہئے تھی۔ کیونکہ وہ طاقتیں جو ورثہ کے ساتھ آتی ہیں ان کے استعمال میں انسان کو محنت نہیں کرنی پڑتی۔ لیکن فرماتا ہے ہم نے نجدین بنائے ہیں یعنی اگر تم نیکی میں بڑھنا چاہو تو تمہیں اس کیلئے بھی کوشش کرنی پڑے گی اور اگر تم بدی میں بڑھنا چاہو تو تمہیں اس کے لئے بھی کوشش کرنی پڑے گی۔ پس نہ نیکی ورثہ میں ملی ہے نہ بدی ورثہ میں ملی ہے۔دونوں چیزیں ایسی ہیں جن کیلئے محنت کرنی پڑتی ہے ۔ گویا ہر چیز SELF ACQUIREDہے۔ بدی میں ترقی کرنا چاہو تو تمہیں محنت کرنی پڑے گی نیکی میں ترقی کرنا چاہو توتمہیں محنت کرنی پڑے گی ۔اگر گناہ ورثہ میں ملا ہوتاتو پہلے جھوٹ اور پہلی چوری کیلئے کوئی محنت نہ کرنی پڑتی ۔ مگر جب کوئی پہلا جھوٹ بولتا ہے تو اس کا رنگ فق ہو جاتا ہے اور جب کوئی پہلی چوری کرتا ہے وہ آپ ہی بھاگا پھرتا ہے اور بعض دفعہ تو ایسی حرکات کرتا ہے کہ لوگوں کو پتہ لگ جاتا ہے کہ اس نے چوری کی ہے ۔ہمارے میں مشہور ہے کہ ایک برہمن سے گائے ماری گئی اس زمانہ میں یہ قانون قدرت تھا کہ اگر برہمن گائے مارے تو اسے قتل کر دیا جائے۔ وہ گائے کو اپنے مکان میں ہی بند کر کے بھاگا۔ راستہ میں جب بھی وہ دو آدمیوں کو آپس میں باتیں کرتا دیکھتا۔ فوراً اس کے پاس پہنچتا اور کہتا کہ آپ گائے گائے کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہم تو گائے کا کوئی ذکر نہیں کر رہے وہ کہتا نہیں تم مجھ سے چھپاتے ہو۔ ضرور تم گائے کا ذکر کر رہے ہو ۔پھر آگے چلتا اور جب پھر دو تین آدمیوں کو آپس میں باتیں کرتے دیکھتا تو ان کے پاس پہنچتا اور کہتا یہ آپ بچھڑا بچھڑا کیا کہہ رہے ہیں ۔وہ کہتے ہم تو کوئی ذکر نہیں کررہے وہ کہتا نہیں کوئی بات ضرور ہے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ ابھی بازار ختم نہیں ہوا تھا کہ لوگوں کو شبہ پڑ گیا اور انہوں نے اسے پکڑ لیا۔ گھر گئے تومری ہوئی گائے نکل آئی تو جب انسان کسی قسم کا بھی گناہ کرتا ہے پہلی مرتبہ اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے اور وہ شرمندہ ہوتا ہے۔ چور چوری کرنے کے بعد گھبرایا پھرتا ہے ۔ڈاکو ڈاکہ مارنے کے بعد گھبرایا پھرتا ہے اگر گناہ ورثہ میں آیا ہوتا تو گناہ کا راستہ نجد کیوں ہوتا اور اس کیلئے چڑھائی کیوں چڑھنی پڑتی۔
(6) پھر فرماتا ہے قال ربنا الذی اعطٰی کل شی خلقہ ثم ھدٰی (طہ ع۲) حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون سے کہتے ہیں کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی طاقت کے مطابق قوتیں دی ہیں اور پھر یہ بتایا ہے کہ وہ اس اس طرح ترقی کر سکتی ہے ۔ا س جگہ کل شیء خلقہ میں انسان کی خلق بھی شامل ہے اور بائبل خود مانتی ہے کہ انسان اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ اس کا خدا سے تعلق ہو۔ اور وہی انسان مبارک ہے جو اس کے احکام کو سنتا اور ان پر عمل کرتا ہے ۔ (امثال باب۸ آیت ۳۴)
(7) اسی طرح فرماتا ہے ولو شئنا لاتینا کل نفس ھدھا ولکن حق القول منی لاملئن جھنم من الجنۃ والناس اجمعین (سجدہ ع۲)
اگر ہم چاہتے تو ہر جان کو اس کی ہدایت دے دیتے ۔ اس جگہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا مضمون پہلی آیتوں کے مضمون کے خلاف ہے لیکن حقیقتاً خلاف نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا و لو شئنا لھدینا کل نفس اگر یہ الفاظ ہوتے تب بھی اس کا مضمون پہلے مضامین کے خلاف نہ ہوتا ۔لیکن یہاں ھدٰ ھا کے الفاظ ہیں یعنی ہر نفس جو ہم نے پیدا کیا ہے اس کے اندر اس کی ہدایت کا بھی سامان رکھا ہے۔ بعض لوگ اس ہدایت کو نکال کر باہر پھینک دیتے ہیں اگر ہم چاہتے تو مجبور کر کے انہیں ہدایت واپس دے دیتے۔ مگر جبر سے چونکہ پیدائش ِانسانی کی غرض باطل ہو جاتی تھی اس لئے ہم نے جبر نہیں کیا۔ یہ بھی اسی بات کی دلیل ہے کہ انسان کا نفس پاک پیدا کیا گیا ہے اور ہر انسان ہدایت کے ساتھ بھیجا جاتا ہے ۔لیکن بعض لوگ اپنی حماقت اور بیوقوفی سے اپنے اندر سے ہدایت نکال کر پھینک دیتے ہیں فرماتا ہے اگر ہم چاہتے تو ہم ان کے نفس کی اندرونی ہدایت انہیں پھر واپس دے دیتے یعنی ان کو ہدایت رد کرنے کی توفیق نہ ملتی ۔ مگر جو لوگ اپنے دل کی ہدایت کو چھوڑ گئے ہمارا فیصلہ ان کے بارہ میں یہی ہے کہ ان کو ہم ان کے عمل کی سز ا دیتے ہیں ورنہ ہمارا دل یہی چاہتا تھا کہ ان کو بھی ہدایت دیتے چنانچہ اسی مضمون کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ولکن حق القول منی لاملئن جھنم من الجنۃ والناس اجمعین یعنی ہم نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ وہ اپنے اعمال کی وجہ سے دوزخ میں چلا جاتا ہے ورنہ ہماری طرف سے تو اس کی ہدایت کے سامان موجود تھے۔
(8) اسی طرح فرماتا ہے و ازلفت الجنۃ للمتقین (شعراء ع۵) ہم نے متقیوں کے لئے جنت کو قریب کر دیا ہے یعنی ایک طرف ان کی فطرت انہیں جنت کی طرف لے جاتی ہے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی مدد ان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ اسی طرح اندرونی اور بیرونی ہدایتیں ان کو جنت کی طرف راغب کرتی ہیں ۔
(9) اسی طرح فرماتا ہے و ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذاریات ع۳) میں نے جن و انس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میرے عبد بنیں۔ یعنی تمام بنی نوع انسان کے پیدا کرنے کی غرض یہ ہے کہ وہ عبد بنیں اور عبد کے متعلق دوسری جگہ قرآن کریم میں یہ تشریح آئی کہ یا ایھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبٰدی وادخلی جنتی (الفجر ع۱) یعنی اے نفس مطمئنہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنے پر راضی ہو گیا ۔توُ اپنے رب کی طرف ایسی حالت میں لوٹ آ کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے ۔ توُ اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے کے معنے یہ ہیں کہ وہ پاک ہے اور اس کا دل اس قدر صفائی اختیار کر چکا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن گیا ہے فادخلی فی عبادی۔ اس کے بعد فرماتا ہے جب یہ مقام کسی انسان کو میسر آ جائے کہ وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہو جائے اور خدا تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے تواس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کا عبد بن جاتا ہے گویا وہ جو فرمایا تھا کہ ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون ۔ میں نے جن اور انس کو صرف اپنا عبد بننے کیلئے پیدا کیا ہے اس مقصد ِپیدائش کو وہ پالیتا ہے اور جو شخص اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کر لے لازماً وہ وادخلی جنتی کا مستحق ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان کی پیدائش کی غرض یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عبد بن جائیں اور جو غرض پیدائش انسانی کی اللہ تعالیٰ قرار دے اسے کون باطل کر سکتا ہے۔ پھر نہ صرف اس نے پیدائش انسانی کی یہ غرض قرار دی ہے بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ انسانوں میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کو وہ خوشخبری دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یا ایھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبٰدی وادخلی جنتی
یہاں ایک اور لطیف اشارہ بھی کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ نفس مطمئنہ کی علامت یہ بتائی گئی ہے کہ راضیۃ مرضیۃ جن سے خدا راضی ہو گیا اور جو اپنے خدا سے راضی ہو گئے۔ ادھر خدا تعالیٰ صحابہؓ کے متعلق فرماتا ہے رضی اللہ عنھم و رضواعنہ(التوبہ ع ۱۳) اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے ۔ اب اس آیت کو سامنے رکھتے ہوئے یا ایھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبٰدی وادخلی جنتیپر غور کرو۔ تو دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یا ایتھا الجماعۃ الصحابۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبٰدی وادخلی جنتیگویا قرآن کریم کی ان آیتوں نے شہادت دے دی کہ صحابہ کرامؓ اس مقام تک پہنچ چکے تھے جس پر پہنچ کر انسان خدا تعالیٰ کے عباد میں داخل ہو جاتا اور اس کی جنت کا وارث ہو کر اپنے مقصد حیات کو پالیتا ہے۔
(10) ایک اور آیت جو اس مضمون کو واضح کرتی ہے وہ قرآن کریم میں اسی واقعہ کے سلسلہ میں بیان ہوئی ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ گزرا۔ اللہ تعالیٰ حضرت آدم کے متعلق فرماتا ہے لم نجد لہ عزما (طہ ع۶)یعنی حضرت آدم سے جو غلطی ہوئی تھی وہ اجتہادی تھی اس میں ان کے عزم کا کوئی دخل نہیں تھا۔ غلطیاں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک اجتہادی غلطیاں اور ایک عزم کے ساتھ تعلق رکھنے والی غلطیاں ۔ آگے اجتہادی غلطیوں کی کئی قسمیں ہیں اور عزم والی غلطیوں کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ غلطی اجہتادی قسم کی تھی عزم والی غلطیوں میں سے نہیں تھی۔ ارادۂ آدم نہیں تھا کہ غلطی کرے مگر ہو گئی اور یہ صاف بات ہے کہ گناہ کے دو حصے ہوتے ہیں ۔ ایک گناہ کا ظاہری حصہ ہوتا ہے اور ایک اس کا باطنی حصہ ہوتا ہے ۔ جو چیز انسان کو نجات سے محروم کرتی ہے وہ گناہ کا باطنی حصہ ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گناہ کی ظاہری سزا محض لوگوں کو مل جاتی ہے مگر نجات سے محروم کرنے والا صرف باطنی حصہ ہوتا ہے ظاہری نہیں۔ مثلاً چوری ہے چوری کہتے ہیں کسی کا مال اٹھا کر لے جانے کو۔ اب بیسیوں دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان غلطی سے دوسرے کی چیز اٹھا کر لے جاتا ہے مثلاً بعض لوگوں کے پیروں میں حس کم ہوتی ہے اور وہ دوسرے کی جوتی پہن کر چلے جاتے ہیں۔ فرض کرو ایسا شخص پکڑا جائے ۔ اس کا مقدمہ عدالت میں جائے اور وہ قید ہو جائے تو گناہ کی ایک ظاہری سزا تو اسے مل جائے گی مگر اس کا دل سیاہ نہیں ہوگا کیونکہ اس نے جوتی ارادۃً نہیں اٹھائی تھی۔
حیدر آباد کے جو نظام تھے ان کے ایک پھوپھی زاد بھائی کا بیٹا مجھے ملنے کیلئے قادیان آیا۔ اس نے کسی مقصد کیلئے مجھ سے دعا کروانی تھی ۔میرے دل میں خیال آیا کہ ایسے لوگ روز روز کہاں قابو آتے ہیں انہیں اچھی طرح نصیحت کرنی چاہئے۔چنانچہ شام کا کھانا میں نے ان کو اپنے ساتھ ہی کھلایا اور پھر میں نے انہیں نصیحتیں کرنی شروع کر دیں اور گیارہ بارہ بجے تک انہیں سمجھتا تا رہا۔ میں نے کہا بتائو تم نماز پڑھتے ہو وہ کہنے لگا گھر پر تو کبھی پڑھ ہی لیتے ہیں مگر سفر میں صفائی وغیرہ کا چونکہ پورا اہتمام نہیں رہتا اس لئے نماز نہیں پڑھی جاتی۔ میں نے کہا تم لاکھوں روپے کے مالک ہو اور اب بھی تم آئے ہو تو پانچ سات نوکر تمہارے ساتھ ہیں اگر تمہارا یہ حال ہے تو غرباء کا کیا حال ہوتا ہوگا حالانکہ غرباء پر نماز زیادہ فرض نہیں جیسے تم پرفرض ہے ویسے ہی ان پر فرض ہے مگر تمہیں ان کے مقابلہ میں بیسیوں سہولتیں حاصل ہوتی ہیں تم نے گاڑی کے کمرے ریزرو کروائے ہوتے ہیں اور تم مزے سے ان میں لیٹے ہوئے آتے ہو۔ تم خدا تعالیٰ کو کیا جواب دو گے اور نمازیں نہ پڑھنے کا کیا عذر پیش کرو گے ایک غریب تو کہہ دے گا کہ اللہ میاں پر مجھے غصہ آ گیا کہ میرے خدا نے مجھے نہیں پوچھا تو میں اس کی عبادت کیوں کروں اس کا یہ جواب چاہے پاگلانہ ہو مگر بہرحال کچھ نہ کچھ جواب تو ہے لیکن تمہارے پاس کیا جواب ہوگا؟میں نے دیکھا جس طرح کسی پر پورا اثر ہو جاتا ہے ویسی ہی کیفیت اس کی ہو گئی ۔اس کی رونے والی حالت ہو گئی اور اس نے کہا کہ اب میں باقاعدہ نماز پڑھا کروں گا گیارہ بارہ بجے کے قریب ہم فارغ ہوئے اور وہ اپنی قیام گاہ پر چلے گئے ۔گھر پہنچے تو انہوں نے اپنے نوکروں سے کہا ۔ کہ صبح نماز کیلئے مجھے ضرور جگا دینا آج میں سخت شرمندہ ہوا ہوں اگر کل انہوں نے پھر مجھ سے پوچھ لیا کہ نماز پڑھی تھی یا نہیں تو میں کیا جواب دوں گا ۔نوکروں نے کہا کہ آپ بارہ بجے سونے لگے ہیں نو بجے سو کر بھی آپ صبح نہیں اٹھتے اور اب تو بہت رات گذر چکی ہے آپ صبح اٹھیں گے کس طرح ؟ انہوں نے کہا کچھ ہو مجھے ضرور جگا دینا۔ اگر تم نے مجھے نہ جگایا تو میں تمہیں سز ادوں گا چنانچہ صبح ہوئی تو نوکروں نے جگا دیا۔ اب وہ بیچارا نماز پڑھنے کا عادی تو نہیں تھا نوکروں کے جگانے پر اٹھ تو بیٹھا مگر اسی طرح سوئے ہوئے مسجد کی طرف چل پڑا راستہ میں کہیں ٹھوکر لگتی تو نوکر دوڑ کر اسے پکڑ لیتے۔ آخر اسی طرح مسجد پہنچے اور پھر سوئے ہوئے ہی انہوں نے نماز پڑھی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو نیند کے غلبہ میں آتے وقت اپنا بوٹ تو وہیں چھوڑ گئے اور کسی کی پھٹی پرانی جوتی پہن کر چل پڑے نصف راہ تک پہنچے تو کسی نوکر کی نظر پڑ گئی اور اس نے کہا نواب صاحب یہ کیا؟ آپ تو کسی کی جوتی پہن کر آ گئے ہیں اس پر نواب صاحب کی بھی آنکھ کھلی اور وہ اپنے پائوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگے بھئی جلدی جائو اور یہ جوتی بدل لائو۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں اس کی جوتی چرا لایا ہوں ۔اس واقعہ کی وجہ سے صبح مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے میری نصیحت پر عمل کرتے ہوئے آج مسجد میں جا کر نماز پڑھی تھی مگر نیند کے غلبہ کی وجہ سے وہ اپنا نرم اور نازک اور ملائم بوٹ تو وہیں چھوڑ آئے اور کسی کی پھٹی پرانی جوتی پہن کر آ گئے اب دیکھو کسی نواب کے منہ پر تو یہ نہیں لکھا ہوتا کہ یہ نواب ہے فرض کرو جوتی کا مالک وہاں پہنچ جاتا اور ان کی گردن میں ہاتھ ڈال کر کہتا کہ چل تجھے پولیس کے حوالے کروں تو چور ہے تو بظاہر انہیں سزا مل جاتی مگر یہ غلطی انہیں نجات سے محروم کرنے والی نہیں تھی کیونکہ اس میں ان کے عزم کا دخل نہیں تھا۔ اسی طرح آتشک اور سوزاک یہ دومرضیں بظاہر گناہ کا پھل سمجھی جاتی ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ گناہ اس کا نہ ہو بلکہ اس کے باپ یا دادا کا ہو۔ فرض کرو ایک شخص کسی بیوہ سے شادی کرتا ہے اس کے پہلے خاوند کو آتشک کا مرض تھا جس سے اسے بھی آتشک ہو گئی۔ اب جب یہ اپنی بیوی کے پاس جائے گا اسے بھی آتشک ہو جائے گی اور یہ بھی اس سزا میں مبتلا ہو جائے گا ۔ اب بظاہر یہ ہے تو زنا کی سزا مگر اس کی وجہ سے وہ جہنم میں نہیں جائے گا اور نہ اس کا دل سیاہ ہوگا بلکہ شاید اس کا دل اس کی وجہ سے پہلے سے بھی زیادہ صاف ہو جائے تو اصل چیز جو دل کی سیاہ کرنے والی ہے وہ گناہ کا باطنی حصہ ہوتا ہے اس کے ظاہر ی حصہ کی وجہ سے اگر کوئی نقصان پہنچ بھی جائے تووہ عارضی ہوتا ہے مستقل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس جگہ آدم کے متعلق فرماتا ہے کہ لم نجد لہ عزما۔ آدم کے اندر ہم نے عزم نہیں پایا ۔ یعنی اس سے جو غلطی ہوئی وہ اجتہادًا ہوئی جیسے بائبل کے حوالہ جات سے ثابت ہے کہ شیطان نے کہا یہ بڑا نیک کام ہے اس کے نتیجہ میں تمہیں نیک اور بد کے پہچاننے کی طاقت حاصل ہو جائے گی اور آدم نے سمجھا کہ یہ بات درست ہے اور وہ غلطی میں مبتلا ہو گئے ۔پس ان کی غلطی اجتہادی غلطی تھی عزم والی غلطی تھی۔
(11) اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ان اللّٰہ یغفر الذنوب جمیعاً (الزمر ع۶) یعنی سچی توبہ سے انسان کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ عیسائیت کہتی ہے کہ گناہ معاف نہیں ہوتے مگر ہم یہاں یہ بحث نہیں کر رہے کہ انجیل کا بیان درست ہے یا قرآن کریم کا بیان درست ہے ۔ہم صرف یہ بحث کر رہے ہیںکہ اس بارہ میں قرآن کریم کیا کہتا ہے ۔ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ توبہ سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور جب معاف ہو جاتے ہیں تو لازماً سزا بھی معاف ہو جاتی ہے۔
(12) اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے ولمن خاف مقام ربہ جنتان (الرحمن ع۳) جو شخص خدا تعالیٰ کے مقام کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہے اسے دو جنتیں ملتی ہیں ۔ ایک اس دنیا میں اور ایک اگلے جہان میں ۔ اب یہ واضح بات ہے کہ یہاں جنت ملنے سے مراد دنیوی اموال نہیں ہو سکتے۔ اگر دنیوی اموال مراد لئے جائیں تو خدا تعالیٰ کے کئی نیک بندے ایسے گزرے ہیں جن کے دنیوی حالات تو کفار سے بہت ہی ادنیٰ تھے۔ خو درسول کریم ﷺ کو ہی لے لو۔ آج یورپ کا مزدور آپ سے زیادہ اچھا کھانا کھاتا اور زیادہ اچھے کپڑے پہنتا ہے پس اگر اس جگہ جنت سے دنیوی نعماء مراد لی جائیں تو یقینا یورپ کا مزدور جنت میں ہے اور بڑے بڑے صلحاء اور اولیاء نعوذ باللہ جنت میںنہیں تھے۔ پس اس جگہ جنت سے مراد روحانی امن ہی ہوسکتا ہے اور جنت ملنے سے مراد خدا تعالیٰ کے قرب کا حصول ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولمن خاف مقام ربہ جنتان جو شخص خدا تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہے وہ اس جہان میں بھی خدا تعالیٰ کا مقرب ہے اور اگلے جہان میں بھی خدا تعالیٰ کے قرب میں جگہ حاصل کرے گا ۔ اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ ہر انسان میں خدا تعالیٰ کا مقرب بننے کی قابلیت موجود ہے اگر گناہ انسان کو ورثہ میں ملا ہوا ہوتا تو اس کا قرب اسے کہاں حاصل ہو سکتا تھا۔
(13) اسی طرح فرماتا ہے من کان فی ھذہ اعمیٰ فھو فی الاٰخرۃ اعمیٰ (بنی اسرائیل ع۸) جو شخص اس دنیا میں اندھا ہو گا وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا ۔ اب اس کے یہ معنے تو نہیں ہو سکتے کہ جو شخص اس دنیا میں جسمانی لحاظ سے اندھا ہوگا وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہوگا۔ یہ تو بڑے ظلم کی بات ہے کہ ایک شخص اس جہان میں بھی اندھا ہو اور اسے اگلے جہان میں بھی اندھا رکھا جائے۔ اس کے معنے بھی درحقیقت خدا تعالیٰ کو اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھنے والے کے ہیں اور اندھے سے مراد وہ ہے جس نے خدا تعالیٰ کو نہیںدیکھا۔ پس من کان فی ھذہ اعمیٰ فھو فی الاٰخرۃ اعمیٰ سے دو معنے نکلتے ہیں ایک منفی صورت میں اور ایک مثبت صورت میں ۔ ایک وہ ہیںجو اعمیٰ ہیں اور ایک وہ ہیں جو اعمیٰ نہیںکیونکہ فرماتا ہے جو اس دنیا میں اعمیٰ ہو گا وہ اگلے جہان میں بھی اعمیٰ ہی رہے گا ۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ کچھ لوگ اعمیٰ ہوں گے اور کچھ اعمیٰ نہیں ہونگے پس یہ آیت بھی بتا رہی ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک بعض کا دل پاک بھی ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس جگہ یہی مضمون بیان فرماتا ہے کہ اس دنیا میں جس شخص کا قلب خراب ہو گیا (معلوم ہوا کہ ساری دنیا کا قلب خراب نہیں ) وہ اگلے جہان میں بھی خدا تعالیٰ کو دیکھنے کی قابلیت نہیںرکھے گا۔
(14) اسی طرح حدیث میں آتا ہے کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھوّد انہ او ینصّرانہ او یمجّسانہ (بخاری کتاب الجنائز باب ما قیل فی اولاد المشرکین )ہر بچہ فطرت صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے اور نیکی کی روح اپنے اندر رکھتا ہے۔ پھر اس کے ماں با پ اسے سکھا کر کبھی یہودی بنا دیتے ہیں کبھی نصرانی بنا دیتے ہیں اور کبھی مجوسی بنا دیتے ہیں ۔ اس سے بھی پتہ لگاکہ انسان جو پیدا ہوتا ہے فطرت صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے اور بدی پیدائش کے بعد اردگرد کے اثرات کے نتیجہ میں آتی ہے۔
(15) اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ہر انسان کا دل خدا تعالیٰ نے صاف بنایا ہے پھر وہ دنیا میں آ کر یا نیکی کرتا ہے یا بدی کرتا ہے جب وہ کوئی نیکی کرتا ہے تو ایک سفید نقطہ اس کے دل پر لگ جاتا ہے اور جب کوئی بدی کرتا ہے تو ایک سیاہ نقطہ اس کے دل پر لگ جاتا ہے ۔ پھر جوں جوں وہ نیکیاں یا بدیاں کرتا چلا جاتا ہے۔ ان سفید یا سیاہ نقطوں کی تعداد بڑھنی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ ایک دن اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے یا اس کا سارا دل سفید ہو جاتا ہے اگر اس کاسارا دل سفید ہو جاتا ہے تو وہ بدی سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اگر اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے تو وہ نیکی سے محروم ہو جاتا ہے (تفسیر ابن جریر زیر آیت کلا بل ران علی قلوبھم (سورۃ تطفیف) ) اس کے معنے بھی یہی ہیں کہ انسان فطرت صحیحہ لے کر دنیا میں آتا ہے اور ایک لمبے عرصے تک اس کی فطرت صحیحہ قائم رہتی ہے ۔ جب اس کا سارا دل سفید ہو جاتا ہے اور نیکی اس پر غالب آ جاتی ہے تو بغیر کفارہ کے نجات پا جاتا ہے اور جب اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے او ربدی اس پر غالب آ جاتی ہے تو پھر کوئی کفارہ اسے فائدہ نہیںدے سکتا۔ اس کے برخلاف مسیحیت یہ کہتی ہے کہ آدمؑ نے گناہ کیا اور اس کی وجہ سے اسے سزا دی گئی پھر اس کا گناہ ورثہ میں اس کی اولاد کو ملا۔اب انسان گناہ سے خود بخود نہیں بچ سکتا۔کیونکہ یہ اسے ورثہ میں ملا ہے۔ اس کے لئے کفارہ کی ضرورت تھی جو مسیح نے پیش کیا اور انسان کا تمام گناہ اس نے اپنے سر پر اٹھالیا۔ گویا مسیحی تعلیم کے مطابق انسان شیطان کا غلام بن کر پید ا ہوتا ہے او رپھر مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے کے نتیجہ میں شیطان کے پنجہ سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے۔
میں اوپر بتا چکا ہوں کہ مسیحیت کے اس عقیدہ سے تعلق رکھنے والے تمام امور کا قرآن کریم نے انکار کر دیا ہے۔ قرآن کریم کے نزدیک نہ گناہ ورثہ میں ملا نہ انسان پیدائشی لحاظ سے گنہگار ہے اور نہ اس کیلئے کسی کفارہ کی ضرورت ہے ۔ انسان کی فطرت پاکیزہ بنائی گئی ہے اور اس میں ترقی کی قابلیت رکھتی گئی ہے یہاں تک کہ وہ خدا تعالیٰ کا محبوب بھی ہو سکتا ہے اور اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس کی توبہ بھی قبول ہو سکتی ہے ۔اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے تو اس عقیدہ کار د کیا ہے کیا خود بائبل بھی اس کی تصدیق کرتی ہے؟ اگر بائبل بھی اس عقیدہ کی تصدیق نہیں کرتی تو پھر عیسائیوں کیلئے بھی اس عقیدہ کے باطل ہونے میں کوئی شبہ نہیںرہتا۔ اس بارہ میں اگر ہم غور کریں تو چار مسائل ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں ۔
1۔ یہ مسئلہ کہ انسان کو ورثہ میں گناہ ملا۔
2۔ یہ مسئلہ کہ چونکہ انسان کو ورثہ میں گناہ ملا اس لئے وہ پاک نہیں ہو سکتا۔
3۔ یہ مسئلہ کہ انسان کو ورثہ میں گناہ ملا اس لئے وہ پاک نہیں ہو سکتاتھا لیکن چونکہ خدا تعالیٰ رحیم و کریم بھی ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے رحم و کرم کے ماتحت اس کے لئے کسی قربانی کی ضرورت تھی۔
4۔ یہ مسئلہ کہ اس قربانی سے انسان حقیقۃ ًپاک ہو گیا ؟
یہ چار مسائل ہیں جو اس امر پر غور کرتے ہوئے ہمارے سامنے آتے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
پہلا مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ آدم ؑ نے گناہ کیا تھا اس لئے تمام نسل انسانی گنہگار ہو گئی کیونکہ اسے آدم سے ورثہ میں گناہ ملا ہے اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا آدم ؑ نے واقعہ میں گناہ کیا تھا اور آیا بائبل اور انجیل اس کی تصدیق کرتی ہے؟ اگر بائبل کے رو سے آدم نے گناہ ہی نہیں کیا تو یہ سارا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں بائبل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آدم نے گناہ نہیں کیا بلکہ بائبل سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے بھی گناہ نہیں کیا۔ بلکہ اس سے بڑھ کر میں نے جب بائبل کا مطالعہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ گناہ نہ آدم نے کیا تھا نہ شیطان نے بلکہ نعوذ باللہ گناہ خالص اللہ تعالیٰ کا تھا اس کا ثبوت میں ذیل میں پیش کرتا ہوں۔
آدم کا واقعہ پیدائش کی کتاب میں بیان ہے (یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ بائبل سے مراد وہ مجموعہ کتب ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے حواریوں کے حالات پر مشتمل ہے ۔ حضرت موسیٰ ؑ سے ملا کی نبی تک کے حالات کا جو حصہ ہے وہ پرانا عہد نامہ کہلاتا ہے اور حضرت مسیح اور ان کے حواریوں کے حالات پر جو حصہ مشتمل ہے وہ نیا عہد نامہ کہلاتا ہے۔ یہودیوں کے نزدیک صرف پرانا عہد نامہ واجب العمل ہے لیکن عیسائیوں کے نزدیک پرانا اور نیا دونوں عہد نامے واجب العمل ہیں ۔ پرانے عہد نامہ میںحضرت موسیٰ علیہ السلام کی پانچ کتابیں شامل ہیں۔ ان میں سے پہلی کتاب پیدائش ہے جس میں حضرت آدم علیہ السلام کا بھی ذکر ہے)
پیدائش بات ۲ آیت ۸ تا ۱۰ میں لکھا ہے: -
’’ اور خداو ند خدا نے مشرق کی طرف عدن میں ایک باغ لگایا اور انسان کو جسے اس نے بنایا تھا وہاں رکھا۔ اور خداوند خدا نے ہر درخت کو جو دیکھنے میں خوشنما اور کھانے کیلئے اچھا تھا زمین سے اگایا اور باغ کے بیج میںحیات کا درخت اور نیک و بد کی پہچان کا درخت بھی لگایا۔‘‘
اس جگہ بائبل یہ بتاتی ہے کہ آدم کی پیدائش کے بعد خدا تعالیٰ نے عدن میں ایک باغ لگایا جس میں ہر قسم کے درخت اگائے اور اس باغ کے عین وسط میں حیات اور نیک و بد کی پہچان کا درخت لگایا ۔ یہ میںآگے چل کر بتائوں گا کہ نیک و بد کی پہچان کا درخت الگ تھا اور حیات کا درخت الگ یا دونوں ایک ہی تھے ۔ میرے نزدیک یہ دونوں ایک تھے لیکن بائبل اس بارہ میں مضطرب اور متردد ہے کہیں وہ ان دونوں کو ایک درخت بتاتی ہے اور کہیں دو بتاتی ہے۔
آگے لکھا ہے۔
’’ اور خدا وند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا۔کیونکہ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا۔‘‘ (پیدائش باب ۲ آیت ۱۶و۱۷)
گویا خدا نے عدن کے باغ میں ہر قسم کے درخت لگائے اور درمیان میں حیات اور نیک و بد کی پہچان کا درخت لگایا اور آدم سے کہا کہ تجھے اور تو تمام درختوں کے پھل کھانے کی اجازت ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت میں سے کچھ نہ کھانا ۔ اگر کھائو گے تو مر جائو گے۔ آگے حوا کی روایت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے کہا ’’ جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جائو گے۔‘‘ ( پیداش باب ۳ آیت ۳)
غرض پہلے تو بائبل کی اپنی روایت ہے کہ خدا تعالیٰ نے آدم سے یہ کہا کہ اس نیک و بد کی پہچان کے درخت سے کچھ نہ کھانا ورنہ مر جائو گے اور پھر حوا کی روایت نے بھی اس کی تصدیق کر دی کہ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا تھا کہ نہ اس درخت کے پھل کو کھانا اور نہ اسے چھونا ورنہ مر جائو گے۔
اب آدم کے پاس شیطان آتا ہے (شیطان کے لئے بائبل نے سانپ کا لفظ استعمال کیا ہے) وہ آ کر کیا کہتا ہے بائبل کہتی ہے کہ -:
’’ سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہر گز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک وبد کے جاننے والے بن جائو گے۔‘‘ (پیدائش باب ۳ آیت ۵)
ان روایتوں پرغور کر کے دیکھیںتو نہ آدم کا گناہ نظر آتا ہے نہ شیطان کا۔ بلکہ سارا گناہ نعوذ باللہ خدا کا نظر آتا ہے ۔ ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ درخت زندگی کا درخت اور نیک وبد کی پہچان کا درخت تھا یعنی اس درخت سے زندگی حاصل ہوتی تھی اور اس درخت سے نیک وبد کے پہچاننے کی طاقت حاصل ہوتی تھی مگر بائبل کہتی ہے کہ خدا نے آدم سے یہ کہا کہ -:
’’ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا ‘‘ (پیدائش باب ۲ آیت ۱۷)
گویا خدا نے آدم سے جھوٹ بولا ۔ درخت تو وہ زندگی کا تھا درخت تو وہ علم کی ترقی کا تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ جس روز تو نے اس میںسے کچھ کھایا تو مر جائے گا۔ مر نے کے معنے جسمانی بھی ہوسکتے ہیں اور روحانی بھی۔ لیکن کوئی معنے لے لئے جائیں ۔ دونوں صورتوں میں خدا تعالیٰ کی یہ بات بالکل غلط ثابت ہوتی ہے۔ اگر روحانی موت مراد لو تو یہ بھی جھوٹ ہے۔ کیونکہ نیک وبد کی پہچان ؎سے انسان کی روحانی موت نہیں ہوتی بلکہ اسے روحانی زندگی ملتی ہے اور اگر جسمانی موت مراد لو تو یہ بھی جھوٹ ہے ۔ کیونکہ وہ زندگی کا درخت تھا۔ جس کے کھانے سے موت نہیں آ سکتی تھی۔ غرض بائبل کے خدا نے آدم کو دھوکا دیا کہ وہ درخت جو زندگی بخشنے والا تھا ۔ وہ درخت جو عقل پیدا کرنے والا تھا اس کے متعلق یہ کہا کہ اس کا پھل نہ کھائو۔ ورنہ مر جائو گے اور حوا بھی یہی کہتی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کہا کہ ’’تم نہ تو اسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جائو گے‘‘ ( پیدائش باب ۳ آیت ۳)
صاف پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے نعوذ باللہ من ذالک غلط بیانی کی اور آدم کو دھوکا دیا اس کے مقابلہ میں جب شیطان نے کہا کہ
’’ تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھائو تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جائو گے۔ ‘‘ ( پیدائش باب ۳۱ آیت ۵)
تو اس میں کوئی جھوٹ نہیںتھا۔ دونوں باتیں وہی تھیں جو اس درخت کے خواص میںشامل تھیں ۔ وہ حیات کا درخت تھا اور وہ نیک و بد کی پہچان کا درخت تھا ۔ یعنی اس کے کھانے سے زندگی بھی ملتی تھی اور اس کے کھانے سے نیک وبد کے پہچاننے کی قابلیت بھی پیدا ہوتی تھی۔ پس شیطان نے آدم کو دھوکا نہیں دیا بلکہ بائبل کی رو سے خود خدا نے نعوذ باللہ آدم کو دھوکا دیا پھر اور آگے دیکھو جب آدم اور حوا نے اس درخت کا پھل کھا لیا تو کیا وہ مر گئے؟وہ مرے نہیں بلکہ زندہ رہے اور شیطان کی بات ہی سچی نکلی کہ ’’ تم ہرگز نہ مرو گے‘‘ خدا تعالیٰ کی یہ بات کہ ’’ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا ‘‘ غلط نکلی۔ اسی طرح وہ اس درخت کو کھا کر جیسا کہ بائبل میں سے آگے ذکر آتا ہے نیک و بد کو بھی پہچاننے لگ گئے ۔ پس بائبل کے رو سے آدم اور شیطان کا کوئی قصور نہیں خود خدا نے ان کو دھوکا دیا ۔ آدم نے کوشش کی کہ وہ نیک وبد کو پہچاننے لگے اور آدمی بن جائے اور اس کو دنیا کا کوئی شخص بدی نہیں کہہ سکتا ۔ آدم نے نیکی کے راستہ میں ترقی کرنے کی کوشش کی اور شیطان نے کہا کہ خدا تمہیں دھوکا دے رہا ہے ۔ وہ کہتا ہے اس کے کھانے سے تم مر جائو گے حالانکہ تم مرو گے نہیں بلکہ زندہ رہو گے او رپھر اس کے کھانے سے تمہارے اندر عقل پیدا ہو جائے گی اور تمہیں سمجھ آ جائے گی کہ نیکی کیا چیز ہے اور بدی کیا چیز ہے اور بائبل خود مانتی ہے کہ اس درخت کا پھل کھانے سے ان کے اندر عقل پیدا ہو گئی اور وہ نیک و بد کو پہچاننے لگ گئے۔پس نہ آدم نے گناہ کیا اور نہ شیطان نے۔ گناہ کا مرتکب صرف ایک ہی ہے اور وہ بائبل کا خدا ہے جس نے حیات کے درخت کو جھوٹ بول کر موت کا درخت ظاہر کیا اور کہا کہ اس کے کھانے سے تم مر جائو گے۔ اور یہ مرنا یا جسمانی ہو سکتا تھا یا روحانی مگر دونوں باتیں غلط تھیں۔ جسمانی لحاظ سے بھی وہ مر نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ حیات کا درخت تھا اور روحانی لحاظ سے بھی وہ مر نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ نیک وبد کی پہچان کا درخت تھا یعنی انسان کو ایک نئی روحانی زندگی بخشنے والا تھا۔ پس اگر گناہ کیا تو آدم نے نہیں کیا بلکہ نعو ذباللہ خدا نے کیا اور آدم کو دھوکا دیا۔
یہاں عیسائیت یہ نہیں کہہ سکتی کہ خدا باپ نے جھوٹ بولا ہے خدا بیٹے نے جھوٹ نہیںبولا۔ کیونکہ عیسائیت میں جب خدا تعالیٰ کا ذکر ہو تو اس سے مراد قانیم ثلاثہ ہوتے ہیں۔ باپ خدا بیٹے سے جدا نہیں ۔ پس جب باپ خدا نے جھوٹ بولا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ بیٹے نے بھی جھوٹ بولا اور بیٹا روح القدس سے جدا نہیں ۔ پس جب باپ خدا نے جھوٹ بولا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ بیٹے نے بھی جھوٹ بولا اور روح القدس نے بھی جھوٹ بولا۔
پس اگر گناہ ورثہ میں آیا ہے تو بائبل کی رو سے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آدم گنہگار نہ تھا بلکہ خدا یا دوسرے لفظوں میں یسوع گنہگار تھا جس نے نعوذبا للہ من ذالک جھوٹ بولا اور اسی پر سارا الزام آتا ہے۔ بہرحال بائبل نے خدا تعالیٰ کو ایسی بھیانک شکل میںپیش کیا ہے جو نہایت خطرناک اور افسوسناک ہے اور ان حوالجات کی موجوگی میں یسوع ہرگز نجات دہندہ نہیں کہلا سکتا ۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جھوٹ بولنے والا اور دوسرے کو دھوکا اور فریب دینے والا نجات دہندہ ہو سکے ۔ بائبل بتاتی ہے کہ خدا نے جھوٹ بول کر آدم سے کہا کہ تم اس درخت کا پھل کھانے سے مر جائو گے اور تمہیں نقصان پہنچے گا ۔ حالانکہ وہ زندگی کا درخت تھا وہ نیک وبد کی پہچان کا درخت تھا اس کے کھانے سے نہ جسمانی لحاظ سے آدم مر سکتا تھا اور نہ روحانی لحاظ سے مر سکتا تھا۔
پھر آدم کے گنہگار ہونے کی یہ بھی دلیل ہے کہ اسے جو غلطی لگی وہ محض اجتہادی تھی ۔ قرآن کریم نے بھی یہی بتایا ہے کہ آدم سے اجتہادی غلطی ہو گئی اور اگر ہم بائبل کے واقعہ کو صحیح مانیں تب بھی یہی پتہ لگتا ہے کہ آدم سے اجتہادی غلطی ہوئی ۔ پیدائش باب ۱ آیت ۲۷ ‘۲۸ میں لکھا ہے-:
’’ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ۔ خدا کی صورت پر اس کو پیدا کیا۔ نر و ناری ان کو پیدا کیا۔‘‘
یعنی انسان جس کو خدا نے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے اس میں مرد بھی شامل ہے اور عورت بھی۔ انسان مرد بھی خدا کی صورت پر بنایا گیا ہے اور انسان عورت بھی خدا کی صورت پر بنائی گئی ہے ۔ اب خدا کی صورت پربنانے کے یہ معنے تو نہیں ہو سکتے کہ خدا تعالیٰ کے بھی اسی طرح ناک ، کان ، آنکھ اور منہ وغیرہ ہیں بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات آدم میں آ گئیں اور جب خدا تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور بتایا کہ تمہیں اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تم میری صفات کے مظہر بنو تو یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ نیک وبد کے پہچاننے کی صفت آدم میں نہ آتی۔ پس شیطان نے آدم سے کہا کہ تمہیں خدا تعالیٰ نے اپنی صفات کا مظہر بنایا ہے اور اس کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ نیک و بد کو پہچاننے کی طاقت رکھتا ہے ۔ پس جس طرح خدا نیک وبد کو پہچانتا ہے تمہیں بھی نیک وبد کو پہچاننا چاہئے اور اس کا طریق یہی ہے کہ اس نیک وبد کی پہچان کے درخت کا پھل کھا لو۔ اگر تم اسے کھائو گے نہیں تو نیک اور بد کی پہچان کس طرح کرو گے ۔ اور جب نیک اور بد کو پہچاننے کی قابلیت تم میں پیدا نہ ہو گی تو تم خدا تعالیٰ کی صفات کے کامل مظہر نہیں بن سکو گے ۔ پس ضروری ہے کہ تم اس درخت کا پھل کھائو یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ اس درخت کا پھل کھا کر خدا تعالیٰ کی طرح ہو جائو یا تیسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ اگر تم اس درخت کا پھل کھا لو گے تو تم اس مقصد کو حاصل کر لوگے جس کیلئے خدا نے تم کو پیدا کیا ہے۔
فرض کرو تمام واقعہ اسی طرح ہوا ہو تو اس کے بعد آدم کو اگر اجتہادی غلطی لگ گئی تو اس میں اس کا قصور کیا تھا۔ ایک شخص آدم کے پاس آتا ہے اور آ کر کہتا ہے کہ تم کو معلوم ہے کہ تمہیں خدا کی شکل پر پیدا کیا گیا ہے اور تم کو معلوم ہے کہ اس کے معنے صرف اتنے ہیں کہ تم خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہو اور تم کو پتہ ہے کہ اس کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ نیک وبد کو پہچانتا ہے پس اگر تم نیک وبد کی پہچان کے درخت کا پھل کھا لو گے تو تم اپنے مقصد ِپیدائش کو حاصل کر لو گے اور خدا تعالیٰ کی صفات کے مظہر بن جائو گے۔ یہ اتنی زبردست دلیل تھی کہ آدم اجتہادی غلطی میں مبتلا ہو گیا اور اس نے سمجھاکہ یہ جو کچھ کہا جا رہا ہے بالکل درست ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں آدم کے ایک دفعہ دھوکا کھانے کے باوجود اگر آج بھی اسی رنگ میں لوگوں کے سامنے دلیل پیش کی جائے تو کئی لوگ آج بھی دھوکا کھا جائیں گے اور سمجھیں گے کہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہی تھا کہ اس درخت کا پھل کھا لیا جائے یہ منشاء نہیں تھا کہ اسے نہ کھایا جائے۔
غرض آدم کوغلطی لگنے کا امکان بائبل کے رو سے موجود ہے ۔ خود بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ نیک وبد کو پہچاننا خدا تعالیٰ اپنی صفت قرار دیتا ہے۔ پیدائش باب ۳ آیت ۲۲ میں لکھا ہے:۔
’’ اور خداوند خدا نے کہا دیکھو انسان نیک وبد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا‘‘
اس جگہ ’’ ہم ‘‘ سے عیسائیوں کے نزدیک اقانیم ثلاثہ مراد ہیں یعنی ہم اقانیم ثلاثہ میں سے ایک کی مانند اور یہودیوں کے نزدیک ’’ہم ‘‘ سے خدا اور اس کے فرشتے مراد ہیں کیونکہ جیسے خدا نیک وبد کو پہچانتا ہے اسی طرح فرشتے بھی نیک اور بد کو پہچانتے ہیں پس یہودیوں کے نزدیک تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ جیسے خدا اور اس کے فرشتے نیکی اور بدی کو پہچانتے ہیں اسی طرح آدم بھی نیکی اور بدی کو پہچاننے لگ گیا اور عیسائیوں کے نزدیک اس کے یہ معنے ہونگے کہ جیسے باپ خد ااور بیٹا خدا اور روح القدس خدا نیکی اور بدی کو پہچانتے ہیں ۔ اسی طرح آدم بھی نیکی اور بدی کو پہچاننے لگ گیا۔
اس حوالہ سے صاف پتہ لگ گیا کہ نیک اور بد کو پہچاننا خدا تعالیٰ کی صفت ہے اور جو اسے پہچانتا ہے وہ خدا جیسا ہو جاتا ہے یا خدا کی صورت پر ہو جاتا ہے یا بائبل کی رو سے اس صورت پر ہو جاتا ہے جس صورت پر اسے خدا نے پیدا کیا۔
ضمناً میں یہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ حیات کے درخت کے بارہ میں بائبل کا خیال عجیب مضحکہ خیز ہے ۔ پیدائش باب ۲ آیت ۱۰و ۱۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ درخت ایک ہی تھا لکھا ہے خدا نے
’’ باغ کے بیج میں حیات کا درخت اور نیک وبد کی پہچان کا درخت بھی لگایا۔‘‘
یہاں مفرد لفظ ’’ لگایا ‘‘ استعمال کیا گیا ہے ’’لگائے‘‘ جمع کا لفظ ہے وہ یہاں استعمال نہیںکیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی درخت میں یہ دونوں صفات تھیں ۔ اس کے کھانے سے حیات بھی ملتی تھی اور اس کے کھانے سے نیک و بد کے پہچاننے کی طاقت بھی پیدا ہوتی تھی۔
اس کے بعد آیت ۱۷ میں لکھا ہے۔
’’ خدا وند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن نیک وبد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا۔‘‘
یہاں سے بھی پتہ لگتا ہے کہ ایک درخت ہے اور ایک درخت سے ہی آدم کو روکا گیا۔ اگر دو درخت ہوتے تو دونوں سے روکنا چاہئے تھا مگر وہ منع کرتا ہے ایک درخت سے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی حیات کا درخت تھا اور وہی نیک وبد کی پہچان کا درخت تھا لیکن پیدائش باب ۳ آیت ۲۲ میں لکھا ہے۔
’’ اور خدا وند خدا نے کہا دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھائے اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کر کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے ۔ اس لئے خدا وند خدا نے اس کو باغ عدن سے باہر کر دیا۔‘‘
یہاں دو درخت ہو گئے نیک وبد کی پہچان کا درخت الگ الگ ہو گیا اور حیات کا درخت الگ ہو گیا۔ چونکہ آدم نے نیک وبد کی پہچان کے درخت میں سے کھا کر نیک وبد کو پہچاننے کی قابلیت پیدا کر لی تھی اس لئے خدا نے اسے باغ عدن سے باہر نکال دیا کہ کہیں وہ حیات کے درخت کا پھل بھی نہ کھا لے اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث نہ ہو جائے۔
پھر پیدائش باب ۲ آیت ۱۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہ سے پہلے آدم کے لئے موت مقرر نہ تھی کیونکہ لکھا ہے۔
’’ جس روز تو نے اس میں سے کھایا تو مرا‘‘
جس کے معنے یہ ہیں کہ اگر آدم اور حوا اس میں سے نہیں کھائیں گے توہ نہیںمریں گے پس موت اس درخت میں سے کھانے کا نتیجہ تھی ۔ اگر نہ کھاتے تو وہ کبھی نہ مرتے۔ اسی طرح پیدائش باب ۳ آیت ۴ میں آتا ہے کہ
’’ تم نہ تو اسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جائو گے‘‘
اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ موت کو اس درخت کا پھل کھانے کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح رومیوں باب ۵ آیت ۱۲ میں لکھا ہے کہ
’’ گناہ کے سبب سے موت آئی۔‘‘
پھر یعقوب باب ۱آیت ۱۵ میں لکھا ہے:۔
ان حوالہ جات سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بائبل ایک طرف تو یہ کہتی ہے کہ اگر تم نے اس درخت میں سے کچھ کھایا تو مر جائو گے ۔ حالانکہ تھا وہ درخت حیات کا اور حیات کے درخت میں سے کھا کر انسان مرتا نہیں جیتا ہے۔
دوسری طرف رومیوں اور یعقوب میں لکھا ہے کہ موت گناہ کے نتیجہ میں آئی یعنی اگر وہ گناہ نہ کرتے تو نہ مرتے۔ اب ہم اس کے ساتھ پیدائش باب ۳ آیت ۲۲ کو ملاتے ہیں تو حیرت آتی ہے اس میں یہ ذکر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آدم کو باغ عدن میں سے نکال دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ حیات کے درخت میں سے کچھ کھا کر ہمیشہ زندہ رہے۔ حالانکہ جب گناہ کا نتیجہ موت تھا تو چونکہ وہ پہلے نیک وبد کے درخت میںسے کھا کے گنہگار بن چکا تھا اس لئے خواہ دس ہزار دفعہ بھی وہ اس درخت میں سے کھاتا وہ زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔
پس یا تو یہ کہنا چاہئے کہ گناہ کا نتیجہ موت نہیں اس درخت کے کھانے کا نتیجہ زندگی ہے لیکن ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ گناہ کا نتیجہ زندگی ہے لیکن ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ گناہ کا نتیجہ موت ہے اور د وسری طرف بائبل یہ کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو باغ عدن میں سے نکال دیا تا ایسا نہ ہو کہ وہ درخت میںسے کچھ کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے ۔ معلوم ہوا کہ گناہ کا نتیجہ موت نہیں بلکہ اس درخت کا پھل کھانے کے نتیجہ میں گناہ کے باوجود انسان زندہ رہ سکتا تھا۔
پھر یہ سوال ہے کہ آدم کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے گناہ کیا حالانکہ آدم کے باپ نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا نہ آدم کی ماں نے کوئی گناہ کیا تھا۔ اگر بغیر اس کے کہ ماں باپ نے کوئی گناہ کیا ہو بیٹا گناہ کر سکتا ہے تو بغیر اس کے ماں باپ نے کوئی نیکی کی ہو بیٹا نیکی بھی کر سکتا ہے اور اگر آدم نیکی کر سکتا تھا تو باقی لوگ کیوں نہیں کر سکتے؟ معلوم ہوا کہ اس میں ورثہ کا کوئی سوال نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا ہی ایسا ہے کہ وہ ترقی بھی کر سکتا ہے اور تنزل بھی کر سکتا ہے ۔ آدم کا باپ گنہگار نہیں تھا بلکہ اس کا تو کوئی باپ تھا ہی نہیں۔ مگر آدم نے گناہ کر لیا۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ گناہ اور نیکی دونوں خاص حالات میں ظاہر ہو سکتے ہیں اور ان چیزوں میں ورثہ کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔
پس کفارہ ایک بلا ضرورت شئے ہے۔
پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدم کا گناہ کس طرح بخشا گیا؟ اگر توبہ سے بخشا گیا تو اسی طرح اولاد کا گناہ بھی بخشا جا سکتا ہے اور کفارہ کی کوئی ضرورت تسلیم نہیں کی جا سکتی۔
غرض وہ ساری بنیاد جس پر کفارہ کی عمارت کھڑی کی گئی ہے اور جس کو مدنظر رکھتے ہوئے عیسائیت کہتی ہے کہ چونکہ انسان گناہ سے خود بخود نجات نہیں پا سکتا اس لئے کفارہ پر ایمان لانا ضروری ہے بائبل اور خود انجیل کی گواہی سے باطل ثابت ہوتی ہے۔
پھر بائبل سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آدم کا سارا واقعہ تمثیلی ہے اور اس پر کسی عقیدہ کی بنیاد رکھنا عقل کے سراسر خلاف ہے کیونکہ بائبل میں لکھا ہے کہ جب حوا نے درخت کا پھل کھا لیااور پھر آدم کو بھی دیا۔
’’ تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور ان کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں ‘‘ (پیدائش باب ۳ آیت۷)
درخت کا پھل کھانے سے ننگا ہو جانا یہ صاف بتاتا ہے کہ اس واقعہ میں تمثیلی زبان اختیار کی گئی ہے ۔
پھر لکھا ہے -:
’’ اور انہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لئے لنگیاں بنائیں اور انہوں نے خداوند کی آواز جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھرتا تھا سنی۔‘‘
(پیدائش باب ۳ آیت ۷و ۸)
یہ الفاظ بھی اس واقعہ کے تمثیلی ہونے کی واضح دلیل ہیں ۔ ٹھنڈک اور گرمی پیدا کرنے والا خود خدا ہے اور اسے ان چیزوں کی کوئی احتیاج نہیں ۔یہ نہیں کہ جس طرح لوگ گرمی کے موسم میں کوئٹہ اور مری چلے جاتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ کو بھی ضرورت ہے کہ وہ ٹھنڈے وقت باہر نکلا کرے اور گرمی سے اپنے آپ کو بچائے مگربائبل بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ٹھنڈا وقت دیکھ کر اور یہ معلوم کر کے کہ ابھی سورج نہیں نکلا باغ میں پھرنا شروع کر دیا تاکہ گرمی سے اسے تکلیف نہ ہو صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ تمثیلی زبان ہے اور جو کچھ بیان کیا گیا ہے استعارہ کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔
اسی طرح لکھا ہے :۔
’’ اور آدم اور اس کی بیوی نے اپنے آپ کو خداوند کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا۔‘‘ (آیت ۸)
یہ بھی تمثیلی زبان ہے کیونکہ خدا تعالیٰ سے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں قرآن کریم میں بھی ذکر آتا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ تعالیٰ سے مخفی ہو۔ خواہ زمین کی سطح پر کوئی چیز ہو یا تحت الثر ی میں ۔ سب اس کے علم میں ہیں مگر بائبل بتاتی ہے کہ آدم اور حوا باغ کے درختوں میں چھپ گئے تاکہ خدا تعالیٰ انہیں دیکھ نہ سکے۔ یہ الفاظ بھی اس واقعہ کے تمثیلی ہونے کا ثبوت ہیں۔
پھر ایک اور بات لکھی ہے جس سے خدا تعالیٰ کے علم کی محدودیت کا پتہ چلتا ہے لکھا ہے۔
’’ تب خداوند خدا نے آدم کو پکارا اور اس سے کہا کہ تو کہاں ہے۔‘‘ (آیت ۹)
گویا وہ خدا جو زمین و آسمان کے ذرہ ذرہ کو جانتا ہے جس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں اس نے آوازیں دینی شروع کر دیں کہ ارے آدم تو کہاں ہے ۔ ارے آدم تو کہاں ہے ۔ صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ تمثیلی زبان ہے ورنہ وہ تو عرش پر بیٹھا ہوا سب کچھ دیکھ رہا ہے اور اگر وہ دیکھ نہیں رہا تو مخلوق کی نگرانی کس طرح کر رہا ہے؟ غرض بائبل بتاتی ہے کہ جب وہ باغ میں چھپ گئے تو خدا تعالیٰ نے انہیں آوازیں دینی شروع کر دیں کہ اے آدم تو کہاں ہے۔
’’ اس نے کہا میں نے باغ میں تیری آواز سنی اور میں ڈرا کیونکہ میں ننگا تھا اور میں نے اپنے آپ کو چھپایا۔‘‘
( پیدائش باب ۳ آیت ۱۰)
کپڑے نہ ہونے کی وجہ سے آدم کا یہ خیال کر لینا کہ میں باغ میں چھپ کر خدا تعالیٰ کی نظروں سے پوشیدہ ہو جائوں گا یہ بھی عقل کے بالکل خلاف بات ہے۔
غرض یہ حوالہ صاف طور پر بتا رہا ہے کہ اس جگہ ظاہری واقعہ مراد نہیں بلکہ تمثیلی رنگ میں اس کو بیان کیا گیا ہے اور استعارہ کی زبان اس کے اظہار کے لئے اختیار کی گئی ہے اور تمثیلی کلام اور استعارات ہمیشہ تعبیر طلب ہوتے ہیں اس لحاظ سے یہ بھی ایک تعبیر طلب کلام ہے نہ کہ حقیقی واقعہ۔
پس جس کلام پر اس عقیدہ کی بنیاد رکھی گئی ہے کہ آدم نے گناہ کیا اور اس کا دل سیاہ ہو گیا ہم کہتے ہیں کہ وہ سارا کلام ہی تمثیلی ہے جیسے خدا تعالیٰ کا باغ میں پھرنا اس کا ٹھنڈے وقت سیرکیلئے آنا۔ آدم کا اسے نظر نہ آنا اور پھر اللہ تعالیٰ کا آدم کو آوازیں دینا اور کہنا اے آدم تو کہاں ہے۔ یہ سب تمثیلی کلام ہے۔ اسی طرح باقی واقعہ بھی تمثیلی ہے پس اس پر کسی مذہبی عقیدہ کی بنیا د رکھنا عقل کے خلاف ہے۔
پھر جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں آدم کا گناہ کر لینا حالانکہ اس کا نہ باپ تھا نہ ماں یہ بھی بتاتا ہے کہ گناہ اور نیکی دونوںخاص حالات میں ظاہر بھی ہو سکتے ہیں اور مٹ بھی سکتے ہیں ۔ پس کفارہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اگر باہر سے نیکی نہیں آ سکتی تو باہر سے گناہ بھی نہیں آ سکتا۔ اور اگر گناہ باہر سے آ سکتا ہے تو نیکی بھی آ سکتی ہے ۔ اگر آدم جس کا نہ باپ تھا نہ ماں اس کے اندر باہر سے گناہ آگیا تو اولاد میں باہر سے نیکی بھی آ سکتی ہے ۔ یہ دونوں چیزیں مساوی سمجھی جائیں گی۔
پھر بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ آدم گناہ کے باوجود خدا تعالیٰ کا مقدس رہا ایسا کیوں ہوا؟ اس کا جواب عیسائیوں کی طرف سے یہی دیا جاتا ہے کہ آدم کا گناہ بخشا گیا۔ ہم کہتے ہیںاسی طرح اولاد کا گناہ بھی بخشا جا سکتا ہے ان کیلئے کسی کفارہ کی ضرورت نہیں رہتی۔
کفارہ کے مسئلہ کو ثابت کرنے کیلئے یا انسان کے نفس کے ایسے خراب ہو جانے کے لئے کہ اس کی درستی اور اصلاح ناممکن ہو یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ آدم کے گناہ کے بعد انسان خراب ہو گیا اور وہ نیکی پر قائم نہیں رہ سکا۔ اگر بائبل سے یہ ثابت ہو کہ انسان آدم کے گناہ کے بعد نیکی پر قائم نہیں رہ سکا تو پھر بائبل کے مطابق کفارہ کو درست تسلیم کرنا پڑے گا لیکن اگر بائبل سے ہی پتہ لگے کہ آدم کے گناہ کے بعد (جسے قرآن کریم گناہ قرار نہیںدیتا) انسان خراب نہیں ہو ابلکہ وہ نیکی پر قائم رہا تو پھر کفارے کی بنیاد ہی باطل ہو جاتی ہے ۔ جب کفارہ کے بغیر انسان نیک بھی ہو سکتا تھا اور گناہ سے بھی بچ سکتا تھا تو اس کی نجات کیلئے کسی نئی چیز کی ضرورت نہ رہی۔ اس بارہ میں ہم انجیل ہی کی تعلیم لے لیتے ہیں ۔ رومیوں باب ۵ آیت ۱۴ میں لکھا ہے -:
’’آدم سے لے کر موسیٰ تک موت نے ان پر بھی بادشاہی کی جنہوں نے اس آدم کی نافرمانی کی طرح جو آنے والے کا مثیل تھا گناہ نہ کیا تھا۔‘‘ (رومیوں باب ۵ آیت ۱۴ )
اس جگہ آنے والے مسیح سے مراد مسیح ہے او رآنے والے کا مثیل آدم کو قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ آدم سے لے کر موسیٰ تک موت نے ان پر بھی بادشاہت کی جنہوں نے آدم کی طرح (جو مسیح کا مثیل تھا) گناہ نہیں کیا تھا ۔ گویا پولوس مانتا ہے کہ آدم سے لے کر موسیٰ تک بہت سے لوگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے گناہ نہیں کیا تھااور جب انہوں نے گناہ نہیں کیا تھا تو یہ ثابت ہوا کہ انسان گناہ سے بچ سکتا ہے ۔ بہرحال انجیل مانتی ہے کہ آدم کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا لیکن لطیفہ یہ ہے کہ چونکہ یہ مسئلہ حضرت مسیح کی صلیب کے واقعہ کے بعد جب لوگوں کی طرف سے اعتراضات ہوئے تو گھبراہٹ میں جلدی سے بنا لیا گیا تھا ۔ اسی لئے حواری کبھی کچھ کہہ دیتے تھے اور کبھی کچھ مثلاً یہی فقرہ جس کو اوپر درج کیا گیا ہے صاف طور پر بتاتا ہے کہ آدم سے لے کر موسیٰ تک ایسے کئی لوگ گزرے ہیں جنہوں نے گناہ نہیں کیا گویا آدم کے گناہ کرنے کے باوجود اس کی اولاد کو ورثہ میں گناہ نہیں ملا۔ لیکن اسی کتاب کے اسی باب کی بارہویں آیت میں لکھا ہے کہ
’’ یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اس لئے کہ سب نے گناہ کیا ‘‘
یعنی آدم کو گناہ کی سزا موت ملی ۔ اور آدم کی وجہ سے موت سب آدمیوں میں پھیل گئی ۔ اس لئے کہ سب نے گناہ کیا۔
’’ کیونکہ شریعت کے دئیے جانے تک دنیا میں گناہ تو تھا مگر جہاں شریعت نہیں وہاں گناہ محسوب نہیں ہوتا۔‘‘
(رومیوں باب ۵ آیت ۱۳)
گویا پولوس ایک ہی باب میں دو آیتیں لکھتا ہے پہلے تو یہ لکھتا ہے کہ چونکہ سب نے گناہ کیا اس لئے موت سب آدمیوں میں پھیل گئی (کیونکہ موت کے متعلق ان کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ گناہ کے نتیجہ میں آئی ہے) لیکن آیت ۱۴ میں جا کر کہہ دیا کہ
’’ موت نے ان پر بھی بادشاہی کی جنہوں نے اس آدم کی نافرمانی کی طرح جو آنے والے کا مثیل تھا گناہ نہ کیا تھا۔‘‘
لیکن اب انہیں ایک اور مشکل پیش آگئی اور وہ یہ کہ مسیحیوں کے نزدیک حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شریعت شروع ہوئی ہے پہلے نہیں۔ جب پہلے کوئی شریعت ہی نہیں تھی تو گناہ کہاں تھا؟ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ
’’ شریعت کے دئیے جانے تک دنیا میں گناہ تو تھا مگر جہاں شریعت نہیں وہاں گناہ محسوب نہیں ہوتا۔‘‘ (رومیوں باب ۵ آیت ۱۳)
گویا ان کے نزدیک شریعت اور گناہ دو اگ الگ چیزیں ہیں اور یہ بالکل درست ہے اس میں ہم بھی ان سے متفق ہیں۔ شریعت الفاظ میں بیان کرتی ہے کہ اس طرح نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تم سے ناراض ہو جائے گا اور گناہ تب ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرتا ہے جس سے شریعت نے بنی نوع انسان کو بصراحت روکا ہو ورنہ شریعت کے نزول سے پہلے گناہ محسوب نہیں ہوتا پس اتنی بات تو درست ہے۔ لیکن خواہ شریعت موجود نہ ہو جو چیز بری ہے وہ بہرحال بری ہو گی۔ مثلاً قرآن کریم نازل ہوا اور اس نے کہا کہ ظلم نہ کرو۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے اور ہم نے سمجھ لیا کہ ظلم کرنا اچھا نہیں لیکن قرآن کریم میں یہ حکم نازل نہ ہوتا اور یہ نہ کہا جاتا کہ ظلم نہ کرو ۔ تو پھر بھی ظلم کرنے والا ایک برے فعل کا مرتکب ہوتا۔ یہی حال اور برائیوں کا ہے۔ شریعت نازل نہ ہوتی تو پھر بھی برائیاں، برائیاں ہی رہتیں۔ فرق صرف اتنا ہوتا کہ ایک فعل کودس بیس آدمی برا کہتے اور دس بیس آدمی برا نہ کہتے۔ پچاس ساٹھ کہتے کہ یہ نیکی ہے اور پچاس ساٹھ کہتے یہ نیکی نہیں ۔ بہرحال احساس برائی کا اور احساس نیکی کا یہ شریعت کے ساتھ تعلق نہیںرکھتا فطرت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ یہی چیز پولولس پیش کرتا ہے کہ دنیا میںگناہ تھا لیکن جہاں شریعت نہیں وہاں گناہ محسوب نہیں ہوتا تھااور یہ نہیں سمجھا جاتا تھا کہ وہ گناہ ہے ۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر کسی موقعہ پر شریعت نہ ہو تو ہر برا فعل گناہ تو ہوگا لیکن وہ گناہ شریعت کے مطابق محسوسب نہیں ہوگا۔ مثلاً ایک جگہ پر شریعت موجود نہیں اور لوگ نمازیں نہیں پڑھتے۔ فرض کرو وہ جنگلوں میںرہتے ہیں یا دور پہاڑوں پر رہتے ہیں اور انہیں پتہ نہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺمبعوث ہو چکے ہیں تو خدا تعالیٰ ان سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے اسلام کی بتائی ہوئی نماز کیوں نہیں پڑھی یا تم نے اسلام کا بتایا ہوا روزہ کیوں نہیں رکھا۔ کیونکہ اس نماز اور روزہ کا تو انہیںکچھ پتہ ہی نہ تھا ۔ حدیثوں میں صاف طور پر آتا ہے کہ قیامت کے دن چار قسم کے لوگ شرعی مؤاخذہ سے محفوظ ہونگے۔ اول مادر زاد بہرے ۔ دوم پاگل ۔ سوم پیر فرتوت۔ چہارم وہ لوگ جن تک اسلام کی تبلیغ نہیں پہنچی اور وہ اسی حالت میں فوت ہو گئے۔ ایسے لوگوں کے امتحان کے لئے ان کی طرف کوئی اور رسول مبعوث کیا جائے گا۔ اگر وہ اسے مان لیں گے تو نجات پا جائیں گے اور اگر نہیں مانیں گے تو سزا پائیں گے (روح المعانی جلد ۴ زیر آیت و ماکنا معذبین حتی نبعث رسولا) اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم سے استدلال کر کے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ بعض لوگوں کا محاسبہ فطرت کے مطابق ہو گا یعنی قرآن کریم کی شریعت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا محاسبہ نہیں ہوگا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی فطرت کے اندر جو باتیں رکھی ہیں ان کے ماتحت ان کا محاسبہ ہوگا۔ انسانی فطرت بھی بعض چیزوں کو گناہ قرار دیتی ہے بغیر اس کے کہ شریعت انسان کی راہنمائی کرے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک چور آپ کے پاس علاج کیلئے آیا۔ آپ نے اسے نصیحت کی کہ تم لوگوں کا مال لوٹ لیتے ہو یہ بہت بری بات ہے تمہیں اس قسم کی حرام کمائی سے بچنا چاہئے۔ اس نصیحت کو سن کر وہ کہنے لگا واہ مولوی صاحب آپ نے بھی مولویوں والی ہی بات کی۔ بھلا ہمارے جیسا بھی کوئی حلال مال کماتا ہے آپ تھوڑی دیر نبض پر ہاتھ رکھ کر فیس وصول کر لیتے ہیں اور ہم سردی کے موسم میں ٹھٹھرتے ہوئے اور اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھے ہوئے جاتے ہیں۔ کس طرح ہمیںپولیس کا ڈر ہوتا ہے کس طرح قدم قدم پر ہمیں پکڑے جانے کا خوف ہوتا ہے مگر ہم تمام مصیبتوں کو برداشت کرنے کے بعد جاتے ہیں اور اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈال کر روپیہ لاتے ہیں۔ بھلا ہم سے زیادہ حلال کمائی اور کسی کی ہو سکتی ہے؟ آ پ فرماتے تھے یہ سن کر میں نے جھٹ اسے اور باتوں میں لگا دیا اور پھر تھوڑی دیر کے بعد اس سے پوچھا کہ تم چوری کس طرح کرتے ہو؟ وہ کہنے لگا ہم سات آٹھ آدمی مل کر چوری کرتے ہیں ۔ ایک گھر کی ٹوہ لگانے والا ہوتا ہے جو بتاتا ہے کہ فلاں گھر میں اتنا مال ہے ایک سیندھ لگانے کا مشاق ہوتا ہے ایک باہر کھڑا پہرہ دیتا رہتا ہے دو آدمی گلی کے سروں پر کھڑے رہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ادھر آئے تو وہ فوراً بتا دیں ۔ ایک آدمی اندر جانے والا ہوتا ہے اور ایک آدمی اچھا لباس پہن کر دور کھڑا ہوتا ہے جس کے پاس چوری کا تمام مال ہم جمع کرتے جاتے ہیں تاکہ اگر کوئی د یکھ بھی لے تو شبہ نہ کرے بلکہ سمجھے کہ یہ کوئی شریف آدمی ہے جو اپنا مال لئے کھڑ اہے باقیوں نے اپنے جسم پر تیلا ملا ہوا ہوتا ہے اور وہ لنگوٹ باندھ کر اپنی اپنی ڈیوٹی ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر ایک سنار ہوتا ہے جس کو ہم تمام زیورات دے دیتے ہیں وہ سونا گلا کر ہمیں دے دیتا ہے اور ہم سب آپس میں مل کر تقسیم کر لیتے ہیں ۔ جب وہ یہاں تک پہنچا تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے تھے میںنے کہا اگر وہ سنارا سارامال لے جائے اور تمہیں کچھ نہ دے تو پھر تم کیا کرو؟ اس پر وہ بے اختیار کہنے لگا۔ کیا وہ اتنا بے ایمان ہو جائے گا کہ دوسروں کا مال کھا جائے؟ میں نے کہا معلوم ہوتا ہے تمہاری نگاہ میں بھی ایمان اور بے ایمانی میں کچھ فرق ضرور ہے اور تمہاری فطرت سمجھتی ہے کہ فلاں فعل بے ایمانی ہے اور فلاں فعل نیکی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام بھی یہی فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی فطرت پر ایمان ہو جائے گا اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہے گا کہ تم نے وہ نماز کیوں نہیں پڑھی جو محمد رسول اللہ ﷺنے بتائی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ یہ کہے گا کہ تمہاری فطرت میں کسی نہ کسی ہستی کی عبادت کا مادہ رکھا گیا تھا تم یہ بتائو کہ اس فطرت کی آواز کے مطابق تم نے عبادت کی تھی یا نہیں ؟یا مثلاً جھوٹ ہے ، چوری ہے، ڈاکہ ہے، دوسرے کا مال تو انسان کھا لیتا ہے لیکن جب اس کا اپنا مال کوئی شخص اٹھا لیتا ہے تو کہتا ہے فلاں بڑا بے ایمان ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کی چیز کھانا یہ بھی بے ایمانی سمجھتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ شریعت کے مطابق وہ مجرم ہوگا اور اسے سزا دی جائے گی پس یہ مسئلہ تو ٹھیک ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ مسئلہ درست ہے تو پھر کفارہ کہاں رہا؟
انجیل اگر یہ کہتی کہ فطرت انسانی *** ہے تو پھر یہ مسئلہ قائم رہ جاتا لیکن انجیل یہ کہتی ہے کہ شریعت *** ہے (گلتیوں باب ۳ آیت ۱۳) یعنی وہ جو انسان کا نفس کسی فعل کو گناہ قرار دیتا ہے انجیل اس کے خلاف نہیں بلکہ انجیل کہتی ہے کہ شریعت *** ہے یعنی شریعت میں ایسے احکام دئیے گئے ہیں جن پر لوگ عمل نہیں کر سکتے اور وہ کہتی ہے کہ اسی وجہ سے مسیح نے شریعت اڑا دی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ موسیٰ ؑسے پہلے بھی شریعت اڑی ہوئی تھی اور انسان کی نجات کے لئے کسی کفارہ کی ضرورت نہیں تھی بلکہ فطرت کے مطابق عمل کرکے وہ نجات پا جاتا تھا یا فطرت کے خلاف عمل کر کے سزا پا لیتا تھا۔ پھر اب کسی کفارہ کی کیا ضرورت ہے؟ گویا اصل مسئلہ صرف اتنا بنا کہ مو سیٰؑ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے شریعت بھیج کر لوگوں کو مصیبت میں ڈال دیا ۔ مگر اس کا علاج کفارہ نہیں تھا۔ اصل علاج صرف اتنا تھا کہ شریعت کو منسوخ کر دیا جاتا۔ یہ چاہے کتنی ہی بیوقوفی کی بات ہوتی مگر بہرحال جہاں تک علاج کا سوال ہے اصل علاج صرف اتنا تھا ۔ کیونکہ رومیوں کے حوالہ سے صاف ماننا پڑتا ہے کہ موسیٰؑ سے پہلے شریعت نہیں تھی اور بوجہ شریعت نہ ہونے کے لوگوں کو شریعت کے ماتحت گنہگار نہیں قرار دیا جاسکتا تھا اور جب شریعت کے مطابق وہ گنہگار نہیں تھے تو شریعت انہیں سزا بھی نہیں دلا سکتی تھی اور پھر رومیوں کے حوالہ کے مطابق ایسے لوگ بھی تھے جو گنہگار نہیں تھے یعنی فطرت کے گنہگار بھی نہیں تھے۔
ان سارے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جو خرابی پیدا ہوئی وہ آدم کے گناہ کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کی اس غلطی سے ہوئی کہ اس نے موسیٰ ؑ کے ذریعہ ایک شریعت نازل کر دی ۔ جب لوگ اس پر عمل نہ کر سکے اور ان کی سزا کا سوال آیاتو اللہ تعالیٰ نے یسوع مسیح کو بھیج کر شریعت کو ہمیشہ کیلے اڑا دیا ۔ حالانکہ اس کیلئے یسوع مسیح کو بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی جس خدا نے موسیٰؑ کو شریعت دی تھی وہی یوشعؑ کو کہہ دیتا کہ چونکہ لوگ اس پر عمل نہیں کر سکتے اس لئے میں اسے منسوخ کر تا ہوں۔
پھر ہم پوچھتے ہیں کہ اگر گناہ ہوتا ہے مگر محسوب نہیں ہوتا تو پھر خدا تعالیٰ کا عدل کہاں رہا۔ کفارہ کی دوسری بنیاد عدل پر رکھی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ بنی نوع انسان کو گناہوں کی سزا نہ دے تو وہ عادل نہیں رہتا ۔ مگر سوال یہ ہے کہ صرف نام بدل دینے سے تو کوئی چیز اپنی ماہیت سے الگ نہیں ہو سکتی۔ایک چور چوری کر رہا ہے اور ہم کہتے ہیں اس کو کوئی سزا نہیں ملے گی کیونکہ ابھی موسیٰؑ کی شریعت نازل نہیں ہوئی۔ اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص چوری کرتا ہے اور ہم کہتے ہیں یہ دائمی جہنم میں جائے گا کیونکہ موسٰیؑ کی شریعت اس کو گنہگار قرار دیتی ہے۔ حالانکہ چیز ایک ہے اس نے بھی اسی طرح مال اٹھایا ہے جس طرح پہلے نے اٹھایا ہے ۔ مگر ایک کے فعل کو ہم اس لئے جرم قرار نہیں دیتے کہ موسیٰؑ کی شریعت ابھی نازل نہیں ہوئی اور ایک کو ہم اس لئے جرم قرار دے دیتے ہیں کہ موسیٰؑ کی شریعت نازل ہو چکی ہے۔ ایک کو ہم چھوڑ دیتے ہیں اور دوسرے کو ہم پکڑ لیتے ہیں حالانکہ دونوں سے ایک ہی فعل سرزد ہوا ہے ۔ یہ کہاں کا عدل ہے اور کونسا انصاف اس کی اجازت دیتا ہے۔ بہرحال عدل تو پھر بھی نہ رہا۔ یا مثلاً جھوٹ بولنا یا لوگوں پر ظلم کرنا ہے اگر اس سے ہم لوگوں کو منع نہیں کرتے یا یہ نہیں کہتے کہ فلاں شخص نے جھوٹ بول کر یا ظلم کر کے گناہ کیا تو ان فعلوں کا مرتکب متقی اور پاک دل کس طرح ہو سکتا ہے؟ محض ہمارے نہ روکنے کی وجہ سے۔ محض ہمارے جھوٹے کو گنہگار نہ کہنے کی وجہ سے یا ظالم کو گنہگار نہ کہنے کی وجہ سے یا چور کو گنہگار نہ کہنے کی وجہ سے وہ متقی کس طرح بن سکتا ہے ؟ اور اگر وہ گنہگار نہیں ا ور ایک دوسرا شخص انہی افعال کی وجہ سے گنہگار کہلاتا ہے تو عدل تو پھر بھی قائم نہ رہا۔
یہاں تک تو اصولی اور فلسفیانہ طور پر میں نے بحث کی ہے اب میں یہ بتاتا ہوں کہ عملاً بھی بائبل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میںنیک لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں ۔ حنوک جو حضرت آدم ؑکے پڑپوتے اور نوح کے پردادا تھے ان کے متعلق لکھا ہے۔
’’حنوک تین سو برس تک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور اس سے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں اور حنوک کی کل عمر تین سو پینسٹھ برس کی ہوئی اور حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور وہ غائب ہو گیا کیونکہ خدا نے اسے اٹھا لیا ۔‘‘ (پیدائش باب ۵ آیت ۲۲ تا ۲۴)
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حنوک خدا تعالیٰ کے ساتھ چلتے رہے۔اس کے یہ معنے تو ہو نہیں سکتے کہ حنوک اور خدا دونوں سفر پر اکٹھے رہے اور جس طرح لوگوں کو شوق ہوتا ہے کہ چلو امریکہ دیکھ آئیں یا کسی اور ملک کی سیر کر آئیں اسی طرح وہ تین سو سال تک خدا تعالیٰ کے ساتھ سیریں کرتے رہے۔ یہ بائبل کا ایک محاورہ ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ حنوک نیک انسان تھا اور خدا ئی صفات اس نے اپنے اندر پیدا کر لی تھیں یعنی جو کام خدا تعالیٰ کرتا ہے وہی کام حنوک کیا کرتا تھا۔ وہ بڑا رحم کرنے والا تھا ، وہ بڑا حسن سلوک کرنے والا تھا ، وہ ظلم نہیں کرتا تھا ، وہ ہر شخص سے پیار اور محبت سے پیش آتا تھا ، وہ عدل اور انصاف سے کام لیتا تھا ، وہ غرباء کی خبرگیری کیا کرتا تھا ۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کی یہ صفات کہ وہ رب ہے رحمن ہے رحیم ہے مالک ہے غفور ہے یہ ساری صفات اس میں بھی پائی جاتی تھیں اور پھر وہ آسمان پر اٹھا لیا گیا ۔ گویا مسیح کے ساتھ اسے کلی مشابہت تھی اور ویسا ہی مقام حنوک کو حاصل تھا جیسے مسیح کو حاصل ہوا ۔ بلکہ مسیح کو تو ساری زندگی تیس سال ملی مگر حنوک 365سال تک زندہ رہا اور تمام عمر اس نے نیکی اور تقویٰ میں بسر کی۔ اس سے پتہ لگا کہ حنوک جو آدم کا پڑپوتا اور نوح کا پڑدادا تھا وہ اتنا نیک تھا کہ گویا خدا کی مثال تھا اور پھر وہ زندہ آسمان پراٹھا لیا گیا ۔ اس کے ساتھ جب ہم حضرت مسیح کا یہ حوالہ ملاتے ہیں کہ
’’ آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سوا اس کے جو آسمان سے اترا ‘‘ (یوحناباب ۳ آیت ۱۳)
تو حنوک کا مقام اور بھی واضح ہو جاتا ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حنوک کا آنا بھی آسمان سے ہی تھا تبھی وہ آسمان پر چلا گیا۔
درحقیقت اس کے معنے بھی یہی ہیں کہ آسمان پر جانے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن پر بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ اپنا تصرف رکھتا ہے اور انہیں اپنی حفاظت اور پناہ میں لے لیتا ہے ۔ ایسے ہی لوگوں میں سے حنوک بھی تھے جنہوں نے بچپن سے ہی خدا تعالیٰ کے فضل اوراس کے رحم کے سایہ کے نیچے پرورش پائی اور بقول بائبل وہ بھی آسمان پر اٹھا لئے گئے۔
پھر حنوک سے بھی زیادہ شاندار ذکر بائبل میں ملک صدق سالم کا موجود ہے اور انجیل بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جب عراق میں ظلم ہوئے اور ان کے چچا اور بھائیوں نے انہیں دکھ دیا تو خدا تعالیٰ نے ان سے کہا کہ یہاں سے ہجرت کر کے فلسطین چلے جائیں ۔ صرف حضرت لوط ؑآپ پر ایمان لائے تھے وہ لوط ؑکو ساتھ لے کر چلے۔ آپ کی بیوی بھی ساتھ تھیں ۔ راستہ میں مصر سے ہوتے ہوئے اور حضرت ہاجرہؓ سے شادی کرتے ہوئے فلسطین پہنچے۔ اس ملک کے متعلق آپ کو بشارت مل چکی تھی کہ یہاں آپ کو جگہ دی جائے گی اور آپ کو ماننے والے یہاں پیدا ہو جائیں گے۔ جب آپ فلسطین میں آ کر بس گئے اور اردگرد کے بادشاہوں نے دیکھا کہ ابراہیم ؑ لوگوں میں مقبول ہو رہا ہے تو انہوں نے آپ سے لڑائی کی۔ آپ بھی ان کے مقابلہ میں نکلے اور انہیں شکست دی ۔ جب آپ انہیں شکست دے کر واپس آ رہے تھے تو ملک صدق سالم ایک بادشاہ آپ سے ملا۔ وہ اپنے زمانہ میں بہت بڑا نیک اور بزرگ اور ولی اللہ سمجھا جاتا تھا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے غنیمت کے اموال کا دسواں حصہ ملک صدق سالم کی خدمت میں پیش کیا۔ ملک صدق سالم نے اس روپیہ کے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ روپیہ کی مجھے ضرورت نہیں جو آدمی آپ پکڑ لائے ہیں صرف وہ دے دئیے جائیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا میں یہ مال آپ کو ضرور دوں گا تا ایسا نہ ہو کہ لوگ یہ کہیں کہ ملک صدق سالم کی وجہ سے میں دولت مند ہوا ہوں گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کو قبول کیا ۔ (پیدائش باب ۱۴آیت ۱۸ تا ۲۴)
انجیل میں اس واقعہ کو زیادہ تشریح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے لکھا ہے -:
’’ یسوع ہمیشہ کیلئے ملک صدق کے طریقہ کا سردار کاہن بن کر ہماری خاطر پیشرو کے طور پر داخل ہوا ہے‘‘
(عبرانیوں باب ۶ آیت ۲۰)
اس جگہ پولوس اپنی قوم کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ یسوع مسیح ہمیشہ کیلئے ملک صدق سالم کے طریقہ کار کا سردار کاہن بن کر ہماری خاطر پیشرو کے طور پر داخل ہوا ہے یعنی باقی لوگ تو مر جاتے ہیں ۔ موسیٰؑ آئے اور فوت گئے۔ دائود آئے اور فوت ہو گئے ، سلیمان آئے اور فوت ہو گئے لیکن ملک صدق سالم نہیں مرا۔ اسی طرح مسیح بھی نہیں مرا۔
پھر آگے لکھا ہے -:
’’ اور یہ ملک صدق سالم کا بادشاہ خدا تعالیٰ کا کاہن ہمیشہ کاہن رہتا ہے ‘‘ (عبرانیوں باب ۷ آیت ۱)
یعنی ملک صدق سالم پر کبھی موت نہیں آتی۔
پھر لکھا ہے -:
’’ جب ابراہام بادشاہوں کو قتل کر کے واپس آتا تھا تو اسی نے اس کا استقبال کیا اور اس کے لئے برکت چاہی۔‘‘ (ایضاً)
یعنی ملک صدق سالم نے براہیم کو برکت دی ۔ معلوم ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بڑا سمجھتا تھا کیونکہ بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ ملک صدق سالم نے یہ نہیں کہا کہ اے ابراہیم خدا تجھے برکت دے بلکہ اس نے یہ کہا کہ اے ابراہیم تیرے مال میں برکت ہو یعنی میں تجھے برکت دیتا ہوں۔
اور لکھا ہے -:
’’ اسی کو ابراہیم نے سب چیزوں کو وہ یکی دی ۔‘‘
آگے لکھا ہے -:
’’ یہ اول تو اپنے نام کے معنی کے موافق راستبازی کا بادشاہ ہے (کیونکہ صدق راستبازی کو کہتے ہیں ) اور پھر سالم یعنی صلح کا بادشاہ (سالم سلامتی سے نکلا ہے) یہ بے باپ ، بے ماں ، بے نسب نامہ ہے ۔ نہ اس کی عمر کا شروع نہ زندگی کا آخربلکہ خدا کے بیٹے کا مشابہ ٹھہرا۔‘‘ (عبرانیوں باب ۷ آیت ۱ تا ۳)
یعنی ملک صدق سالم کا نہ باپ تھا نہ ماں تھی۔ وہ خدا تعالیٰ کی طرح ازلی ابدی تھا۔ نہ اس کی عمر کا کوئی شروع ہے اور نہ زندگی کا آخر۔ نہ کبھی پیدا ہوا اور نہ کبھی مرتا ہے۔ وہ ہمیشہ ہمیش کیلئے زندہ ہے اور خدا تعالیٰ کے بیٹے کے مشابہ ہے جس طرح مسیح ازل سے ابد تک ہے (وہ مسیح نہیں جو مریم کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ بلکہ وہ مسیح جو اقنوم ثلاثہ میں شامل ہے) اسی طرح ملک صدق سالم بھی ازلی ابدی ہے۔ نہ اس کی کوئی ابتداء اور نہ انتہاء۔
اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس دنیا میں ایک اور وجود بھی تھا جو نیک تھا اور ایسا نیک تھا کہ وہ راستبازی اور صلح کا بادشاہ تھا اور ابراہیم کو برکت دینے کا حق رکھتا تھا۔
پھر انجیل میں حضرت زکریا ؑ اور ان کی بیوی کے متعلق لکھا ہے -:
’’ وہ دونوں خدا کے حضور راستباز اور خداوند کے سب احکام و قوانین پر بے عیب چلنے والے ہیں تھے‘‘ (لوقاباب ۱ آیت۶)
پھر یوحنا کے بارے میں حضرت زکریا علیہ السلام کو فرشتے نے کہا -:
’’وہ خداوند کے حضور میں بزرگ ہوگااور ہرگز نہ مے نہ کوئی اور شراب پئے گا اور اپنی ماں کے بطن ہی سے روح القدس سے بھر جائے گا۔‘‘ (لوقاباب ۱آیت ۱۵)
گویا یوحنا پر روح القدس کا نزول ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد نہیں ہوگا بلکہ ابھی وہ ماں کے پیٹ میں ہی ہو گا کہ روح القدس اس پر نازل ہو گا اور وہ اسے اپنے تصرف میں لے لیگا اور یہ صاف بات ہے کہ گناہ ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد شروع ہوتا ہے جب کسی پر ماں کے پیٹ میں ہی روح القدس نازل ہو جائے گا تو وہ گناہ کا مرتکب ہی نہیں ہو سکے گا۔
غرض یوحنا کے متعلق بھی انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی گناہ اور خرابی ان کے قریب نہیں آئی۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں تک کہا کہ -:
’’ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں ان میںیوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ‘‘
(متی باب ۱۱ آیت ۱۱ و۱۲)
اس طرح اس نے یوحنا کو اپنی وفات سے بھی بالا ثابت کیا۔ کیونکہ مسیح بھی عورت سے پیدا ہوا تھا اور یوحنا بھی عورت سے پیدا ہوئے۔
ان حوالوں سے ظاہر کہ انجیل کے رو سے حضرت زکریا اور ان کی بیوی دونوں بے عیب تھے اور خدا تعالیٰ کے قانون پر چلنے والے تھے۔ اسی طرح یوحنا ماں کے پیٹ سے ہی روح القدس سے بھرے ہوئے تھے اور وہ کامل اور بے عیب تھے۔ اب اگر یوحنا اور زکریاا ور ان کی بیوی بے گناہ ہو سکتے ہیں تو اسی قانون کے تحت دوسرے لوگ بھی کیوں بے گناہ نہیں ہو سکتے۔ جب عملاً حضرت مسیح سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیں جو کفارہ واقعہ ہونے سے پہلے نیک ،راستباز ، بے عیب اور شریعت پر چلنے والے تھے تو معلوم ہوا کہ کفارہ کے بغیر بھی دنیا میں نیکی قائم تھی اور جب کفارہ کے بغیر دنیا میں نیکی قائم تھی تو آئندہ بھی قائم رہ سکتی ہے اور اس کے لئے کسی کفارہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
بعض دفعہ مسیحی علماء اس سوال کے متعلق کہ پہلے لوگ جو نجات پا گئے تھے انہوں نے کس طرح نجات پائی اورپہلے لوگوں میں سے جو نیک گزرے ہیں وہ کس طرح نیک ہوئے تھے؟ یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ پہلے لوگ بھی مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے سے نیک ہوئے تھے اور مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے سے نیک ہوئے تھے اور مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے کی وجہ سے ہی ان کو نجات ملی تھی۔ مگر ظاہر ہے کہ ان کا یہ دعویٰ محض ڈھکوسلہ ہے ۔ وہ اپنے اس دعویٰ کی بنیاد محض اس بات پر رکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت دائودؑ اور بعض اور انبیاء نے مسیح کی خبر دی تھی حالانکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئیوں میں کہیں مسیح کی خبر کا پتہ نہیں لگتا۔ یہ محض ایک دھوکا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف اتنی خبر دی تھی کہ ان کی اولاد کو بابرکت کیا جائے گا اور یہ کہ ان کی اولاد کے ذریعہ خدا تعالیٰ اپنے تقدس کو ظاہر کرے گا ۔ ظاہر ہے کہ یہ خبر اولاد ابراہیم کے حق میں ہے کسی خاص فرد کے حق میں نہیں ۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جو خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی تھے وہ اس پیشگوئی کے ماتحت آ جاتے ہیں ۔ حضرت اسحاق علیہ السلام جو خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نہیں تھے وہ اس پیشگوئی کے ماتحت آ جاتے ہیں۔ اس طرح یعقوب۔ یوسف ۔ موسیٰ ۔ دائود اور زکریا سب اس پیشگوئی کے ماتحت آتے ہیں ۔ بعض اور نبیوں کی پیشگوئیوں سے بے شک معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک آنے والے مسیح کی خبر دے رہے ہیں لیکن کسی آنے والے کے متعلق خبر دینا اور یہ خبر دینا کہ خدا تعالیٰ کا ایک بیٹا ہوگا جو لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ہو گا اور اس کے بغیر دنیا کو نجات نہیں مل سکے گی ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ قریباً ہر نبی کی خبر پہلے سے موجود تھی اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خبر بھی پہلے سے موجود تھی مگر اس سے یہ نہیں نکلتا کہ ان کے آنے کی اس رنگ میں خبر موجود تھی کہ ان کے کفارہ پر ایمان لانے سے دنیا کو نجات ملے گی۔
پھر ہم کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو خبر اپنی اولاد کے متعلق دی تھی وہ خبر اگر فرض کر و اس مفہوم کی بھی ہو کہ آئندہ زمانہ میں میرا ایک بیٹا ایسا ہوگا جس سے دنیا کو نجات ملے گی تو بہرحال وہ مسیح پر چسپاں نہیں ہو سکتی کیونکہ مسیح کے دعویٰ کی ساری بنیاد اس بات پر ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں ۔ عیسائیت کہتی ہے کہ آدم کے بیٹے کا گنہگار ہونا ضروری ہے اور گنہگار دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا پس ضروری ہے کہ اس کیلئے کوئی ایسا وجود تلاش کیا جائے جو آدم کا بیٹا نہ ہو چنانچہ وہ کہتی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنا اکلوتا یسوع مسیح دنیا میں بھیجا تاکہ وہ لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے ۔ اگر مسیح خدا تعالیٰ کا بیٹا تھا تو پھر وہ ابراہیم کا بیٹا نہیں تھا اور اگر وہ ابراہیم کا بیٹا تھا تو کفارہ کا موجب نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کا بیٹا نہیں تھا۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی کو مسیح پر چسپاں کرنا کفارہ کی ساری بنیاد ہی اکھیڑ دیتا ہے ۔ مجھے یاد ہے میں چھوٹا تھا سترہ اٹھارہ سال میری عمر ہو گی کہ میں لاہور گیا اور مجھے شوق پیدا ہوا کہ میں کسی پادری سے گفتگو کروں ۔ لاہور کا سب سے بڑا پادری جو بعد میںمشنری کالج سہارنپور کا پرنسپل مقرر ہو گیا تھا میں اس سے ملنے چلا گیا اور میں نے اس سے یہی سوال کیا کہ پہلے لوگ کس طرح نجات پاتے تھے؟ وہ کہنے لگا وہ بھی مسیح پر ایمان رکھتے تھے اور اس ایمان کی وجہ سے ہی انہوں نے نجات پائی۔ میں نے کہا اگر میں کہہ دوں کہ مجھ پر ایمان لا کر انہوں نے نجات پائی ہے تو پھر اس کا کیا حل ہوگا؟ وہ کہنے لگاپیشگوئی بھی تو ہونی چاہئے۔ میں نے کہا یہ ٹھیک ہے آپ یہ بتائیں کہ مسیح کے متعلق کون سی پیشگوئی تھی؟ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی پیش کی۔ میں نے کہا آپ ابراہیم کی ساری پیشگوئیاں نکال لیں اگر ان میں ایک طرف یہ ذکر آتا ہے کہ میں اسحاق کی اولاد کو یوں برکت دوں گا تو ساتھ ہی اسماعیل ؑ کی اولاد کا بھی ذکر ہے۔ اگر آپ کا یہ حق ہے کہ آپ اس پیشگوئی کومسیح ؑ پر چسپاں کریں تو ہمیں کیوں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم اس پیشگوئی کو محمد رسول اللہ ﷺ پر چسپاں کر لیں جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے؟ پھر میں نے کہا پہلے آپ میرے اس سوال کا جواب دیں کہ کفارہ کی بنیاد اس بات پر ہے کہ مسیح ؑخدا کا بیٹا تھا۔ اگر وہ ابراہیم کا بیٹا تھا تو کفارہ نہیں ہو سکتا۔ میرے اس سوال پر اس نے بڑے چکر کھائے حالانکہ وہ پچپن ساٹھ سال کی عمر کا تھا۔ آخر گھنٹہ بھر کی بحث کے بعد وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا مجھے معاف فرمائیں ۔ یونانی میں ایک مثل ہے کہ ہر بیوقوف سوال کر سکتا ہے مگر جواب دینے کے لئے عقلمند انسان چاہئے ۔ گویا اس نے مجھے بیوقوف بنایا اور اپنے متعلق کہا کہ میں اتنا عقل مند نہیں کہ ہر بے وقوف کا جواب دے سکوں ۔ میرا بھی اس وقت جوانی کا زمانہ تھا میں بھلا کب رکنے والا تھا میں نے کہا مجھے بڑا افسوس ہے میں آپ کو عقل مند سمجھ کر ہی آیا تھا۔ تو مسیح اگر ابراہیم کی اولاد میں سے تھا تو کفارہ باطل ہو جاتا ہے اور اگر وہ خدا کا بیٹا تھا تو ابراہیم کی پیشگوئی پوری نہیں ہوتی۔ ایک صورت میں مسیح کفارہ نہیں بن سکتا اور دوسری صورت میں ابراہیم کی پیشگوئی پوری نہیں ہوتی۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی اولاد میں سے کسی آنے والے کی خبر دی ہے تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ وہ ہے کون ۔ حضرت ابراہیم کہتے ہیں کہ میری اولاد میں سے ایک شخص آئے گا اور ابراہیمی نسل میں بھی یہ مشہور ہے کہ اس نے کسی بڑے آدمی کے ظہور کی خبر دی تھی ۔ اب ہم د یکھتے ہیں کہ دنیا میں دو آدمی کھڑے ہوتے ہیں ایک کہتا ہے میں اس پیشگوئی کا مستحق ہوں اور دوسرا کہتا ہے میںاس پیشگوئی کا مستحق ہوں ایک سے ہم پوچھتے ہیں کہ تیرے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تو اس پیشگوئی کا مصداق ہے؟ وہ کہتا ہے میرا باپ فلاں تھا اس کا باپ فلاں تھا اس کا باپ فلاں تھا اس کا باپ فلاں تھا اس کا باپ فلاں تھا اس کا باپ ابراہیم تھا۔ دوسرے سے ہم پوچھتے ہیں کہ تمہارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تم ابراہیم کی نسل میں سے ہو وہ کہتا ہے میری ماں فلا ں تھی ۔ وہ فلاں سے بیاہی گئی تھی اور وہ شخص جس سے میری ماں بیاہی گئی تھی وہ فلاں کا بیٹا تھا وہ فلاں کا بیٹا تھا اور وہ ابراہیم کا بیٹا تھا ۔ کیا دنیا کا کوئی بھی معقول آدمی اس بات کو تسلیم کرے گا کہ وہ واقعہ میں ابراہیم کی اولاد میں سے ہے ۔ وہ کہتا ہے میرا باپ فلاں تھا ، دادا فلاں تھا، پردادافلاں تھا اور اس طرح چلتے چلتے وہ اپنا نسب نامہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا دیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میری ماں فلاں سے بیاہی گئی تھی اور وہ ابراہیم کی اولاد میں سے تھا۔ ہر شخص اسی کی بات مانے گا جو اپنی ماں کے شوہر کو ابراہیم کی اولاد میں سے قرار دے کر یہ سمجھ رہا ہو کہ میں بھی ابراہیم کی اولاد میں سے ہوں مسیح اور آنحضرت ﷺ کی یہی کیفیت ہے۔ حضرت مسیح کا جو نسب نامہ متی باب ۱ میں درج کیا گیا ہے اور جسے ’’ یسوع مسیح ابن دائود ابن ابراہام کا نسب نامہ ‘‘قرار دیا گیا ہے اس کے آخر میں لکھا ہے کہ
’’ یعقوب سے یوسف پیدا ہوا یہ اس مریم کا شوہر تھا جس سے یسوع پیدا ہوا جو مسیح کہلاتا ہے‘‘ (انجیل متی باب ۱ آیت ۱۶)
گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام تک مسیح کا نسب نامہ نہیں پہنچتا بلکہ یوسف کا نسب نامہ پہنچتا ہے جن سے حضرت مریم بیاہی گئی تھیں۔ اس کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں کہ میرا باپ عبداللہ تھا وہ عبدالمطلب کا بیٹا تھا اور اسی طرح چلتے چلتے آپ اس نسب نامہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا دیتے ہیں ۔ پس ہم عیسائیوں سے کہتے ہیں کہ تم جس وجود پر ابراہیم کی پیشگوئی کو چسپاں کر تے ہو اور جسے ابراہیم کی اولاد میں سے قرار دیتے ہو وہ تو صاف کہتا ہے کہ میری ماں مریم جس سے بیاہی گئی تھی وہ ابراہیم کی اولاد میں سے تھا میں ابراہیم کی اولاد میں سے نہیں ۔ لیکن ہم جس وجود پر اس پیشگوئی کو چسپاں کرتے ہیں یعنی محمد رسول اللہ ﷺ وہ یقینی طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔ پھر تم اس پیشگوئی کا مصداق حضرت مسیح کو کس طرح قرار دیتے ہو۔
باقی رہا یہ دعویٰ کہ میں دنیا کا نجات دہندہ ہوں یہ محمد رسول اللہ ﷺ نے بھی کہا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ (آل عمران ع ۴)
اے محمد رسول اللہ ﷺ تو لوگوں سے یہ کہہ دے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اس قدر روحانی ترقی حاصل کرو کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جائو تو میری اطاعت کرو اور میری بیعت میں شامل ہو جائونتیجہ یہ ہوگا کہ نہ صرف تم نجات پا جائو گے بلکہ خدا تعالیٰ کے محبوب بن جائو گے ۔ گویا محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے سے انسان کو صرف نجات ہی نہیں ملتی بلکہ وہ اس قدر روحانی ترقی حاصل کر لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے۔
اسی طرح فرماتا ہے یٰاایھا الذین اٰمنوا استجیبوا للہ وللرسول اذا دعاکم لما یحییکم (انفال ع۳) کہ اے مومنو! تم خدا اور اس کے رسول کے احکام کو قبول کرو کیونکہ وہ تمہیں زندہ کرنے کیلئے اپنی طرف بلا رہا ہے ۔ اس جگہ محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو زندہ کرتے ہیں اور چونکہ انجیل خود تسلیم کرتی ہے کہ گناہ کا نتیجہ موت ہے اس لئے ان الفاظ میں درحقیقت محمد رسول اللہ ﷺ کو دنیا کا نجات دہندہ قرار دیا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ آپ کی اتباع میں ہی بنی نوع انسان کو اس موت سے نجات مل سکتی ہے جو گناہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔
کفارہ کے متعلق ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تین اقنوم تھے تو پھر مسیح کے ذمہ کفارہ کیوں لگایا گیا۔ مان لیا کہ آدم نے گناہ کیا تھا یہ بھی ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ آدم کا گناہ ورثہ کے طو رپر اس کی اولاد میں چلا گو یہ بالکل احمقانہ بات ہے۔ اس کے بعد ہم یہ تیسری احمقانہ بات بھی مان لیتے ہیں کہ ورثہ کا گناہ ایسی چیز ہے جو کسی طرح علاج پذیر نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے بہرحال کوئی خارجی علاج چاہئے۔ پھر یہ چوتھی احمقانہ بات بھی ہم مان لیتے ہیں کہ اس ورثہ کے گناہ کا علاج کفارہ ہے گو یہ علاج بالکل ویسا ہی ہے جیسے ہمارے ملک کی مثل ہے کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ کسی کے گھٹنے پر چوٹ لگی تو اس نے اپنی آنکھ پر ہاتھ رکھ کر شور مچانا شروع کر دیا کہ ہائے مر گیا۔ ہائے مر گیا ۔ یہ بھی بالکل وہی بات ہے کہ دنیا سے گناہ دور نہیںہو سکتا لیکن مسیح کے صلیب پر لٹکنے سے وہ گناہ دور ہو گیا ۔ یہ بالکل بے جوڑ بات ہے لیکن چلو ہم مان لیتے ہیں کہ ایسا ہوا اور یہ بھی مان لیتے ہیں کہ اس کے لئے کوئی خدائی طاقتوں والا وجود چاہئے مگر سوال یہ ہے کہ اس غرض کیلئے خدا باپ نے کیوں نہ اپنے آپ کو پیش کر دیا۔آخر رحم کی صفت خدا باپ میں بھی پائی جاتی ہے یا نہیں؟ جب وہ دنیا پر اتنا رحم کرتا ہے کہ جس کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہو سکتا ۔ تو خدا باپ نے کیوں نہ اپنے آپ کو کفارہ کے لئے پیش کر دیا؟ روح القدس خدا نے کیوں نہ اپنے آپ کو پیش کر دیا؟آخر کیا وجہ ہے کہ بیٹے نے اس غرض کیلئے اپنے آپ کو پیش کیا؟ اس کے دو ہی جواب ہو سکتے ہیں یا تو یہ بات ماننی پڑے گی کہ خدا باپ اور خدا روح القدس کے مرنے سے دنیا فنا ہو جاتی تھی اس لئے خدا بیٹے نے اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کر دیا۔لیکن اس صورت میں ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بیٹا ناقص خدا ہے اس کے مرنے سے دنیا فنا نہیں ہو سکتی تھی اس لئے اسے پیش کر دیا گیا۔ باپ خدا نے اپنے آپ کو اس لئے پیش نہ کیا۔کہ اگر وہ مرا تو ساری دنیا تباہ ہو جائے گی۔ دوسرا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ خدا باپ اور خدا روح القدس کے دل میں بنی نوع انسان کی اتنی محبت اور اتنا پیار نہیں تھا جتنا پیار خدا بیٹے کے دل میں تھا۔مگر یہ جواب خدا باپ اور خدا روح القدس دونوں کو ناقص قرار دیتا ہے۔ دوسرے انجیل کے بھی خلاف ہے کیونکہ انجیل میں لکھا ہے کہ خدا محبت ہے(گرنتھیوں باب ۱۳ آیت ۱۱) اور یہ فقرہ نہ روح القدس کے متعلق ہے نہ مسیح کے متعلق ہے۔ غرض ایک صورت میں بیٹا ناقص قرار پاتا ہے اور ماننا پڑتا ہے کہ وہ ایک غیر ضروری شئے تھا جس کے مرنے سے دنیا فنا نہیں ہو سکتی تھی۔ لیکن اگر خدا باپ مر جاتا تو ساری دنیا تباہ ہو جاتی اور اگر بیٹے کے دل میں بنی نوع انسان کی کامل محبت تھی تو پھر باپ خدا اور روح القدس خدا دونوں ناقص قرار پاتے ہیں۔ بہرحال دونوں صورتوں میں ایک نہ ایک خدا ضرور ناقص قرار پاتا ہے اور ناقص چیز تمام مذاہب کے مسلمہ عقیدہ کے مطابق خدا نہیں ہو سکتی۔
پھر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہودیت کے نزدیک کفارہ ضروری ہے ؟ ہم کہتے ہیں بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ کفارہ ضروری نہیں اس لئے کفارہ کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب گناہ معاف نہ ہو سکتے ہوں لیکن بائبل کہتی ہے کہ گناہ معاف ہو سکتے ہیں اور تمام بائبل گناہوں کی معافی کی تعلیم سے بھری ہوئی ہے۔ اسی طرح ان قربانیوں کی تعلیم سے بھری پڑی ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور قبول ہوتی ہیں ۔ بلکہ بائبل بتاتی ہے کہ خود آدم کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوئے جن کی قربانیوں کو خدا نے قبول کیا اور انہیں اپنے قرب میں جگہ دی۔ بائبل میں لکھا ہے: -
’’چند روز کے بعدیوں ہوا کہ قائن اپنے کھیت کے پھل کا ہدیہ خداوند کے واسطے لایا اور ہابل بھی اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پلوٹھے بچوں کا اور کچھ ان کی چربی کا ہدیہ لایا اور خداوند نے ہابل کو اور اس کے ہدیہ کو منظور کیا (یعنی ہابل بھی خدا تعالیٰ کا مقرب ہو گیا اور اس کا ہدیہ بھی منظور ہو گیا) پر قائن کو اور اس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا۔ (یہ قائن وہی ہے جسے ہمارے ہاں قابیل کہتے ہیں ) اس لئے قائن نہایت غضبناک ہوا اور اس کا منہ بگڑا اور خداوند نے قائن سے کہا توکیوںغضبناک ہوا اور تیرا منہ کیوں بگڑا ہوا ہے (یعنی خدا تعالیٰ نے جب قائن کے ہدیہ کو قبول نہ کیا تو اس کا منہ بگڑ گیا اور اسے سخت غصہ آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا منہ بگڑا ہوا دیکھا تو اس نے کہا اے قائن تجھے کیوں غصہ آیا ہے اور تیرا منہ کیوں بگڑا ہوا ہے) اگر تو بھلا کرے تو کیا تومقبول نہ ہوگا اور اگر تو بھلا نہ کرے توگناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے اور تیرا مشتاق ہے پر تواس پر غالب آ ‘‘ (پیدائش باب ۴ آیت ۳ تا۷)
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ : -
اول : باوجود آدم کے گناہ کے اس کے بعض بیٹوں کی قربانی قبول ہوتی تھی۔چنانچہ ہابیل کی قربانی قبول ہوئی اور وہ خداتعالیٰ کا منظورِ نظر ہو گیا کیونکہ لکھا ہے کہ ’’ خداوند نے ہابل کو اور اس کے ہدیہ کو منظور کیا‘‘ ہابل کو قبول کرنے کے یہ معنے تو نہیں ہو سکتے کہ خدا نے ہابل کو اپنی گود میں اٹھا لیا۔ا س کا مطلب یہی ہے کہ خدا نے اس کو اپنا منظورِ نظر بنا لیا اور اس کے ہدیہ کو ایک زندہ قربانی تصور کیا جو انسان کے درجہ کو برابر بڑھاتی چلی جاتی ہے۔ کیونکہ قبول کرنے کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بندہ کو ملنا شروع ہو جائے۔اب ہابل اور قائن دونوں آدم کی اولاد تھے اور آدم کے گناہ کے بعد پیدا ہوئے۔ ان دونوں میں ورثہ کے طور پر گناہ آنا چاہئے تھا۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ گناہ لے کر پیدا ہوئے تھے جب انہوں نے قربانی کی تو ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی قربانی ردّکی گئی ۔ اگر ورثہ میں انہیں گناہ ملا تھا تو اول تو انہیں قربانی کرنی ہی نہیں چاہئے تھی اور اگر کرتے تو دونوں کی قربانیاں ردّکر دی جاتیں ۔
دوم اسی حوالہ میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے قائن سے کہا :
’’ اگر تو بھلا کرے تو کیا تو مقبول نہ ہوگا‘‘
یعنی اگر تو نیک بنے توکیا خدا تجھے اپنا مقرب نہ بنائے گا۔ ان الفاظ کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر تو نیک بننا چاہے تو بن سکتا ہے اور نیک بننے کادروازہ تیرے لئے ہر وقت کھلا ہے اور ’’ کیا تو مقبول نہ ہوگا ‘‘ کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا مقبول اور اس کا مقرب بننے کا دروازہ بھی تیرے لئے کھلا ہے جو نجات سے بڑا درجہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک بنی نوع انسان خدا تعالیٰ کے حضور عمل سے مقبول ہوتے تھے نہ کہ کفارہ سے۔ اور یہ کہ گناہ کرنے کے بعد بھی انسان توبہ سے مقبول ہو سکتا تھا۔ اور یہ دونوں باتیں بتاتی ہیں کہ ہر انسان نیک بھی بن سکتا ہے اور ہر انسان خدا تعالیٰ کا مقرب بھی ہو سکتا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قائن جو گناہ کی وجہ سے نامقبول ہو چکا تھا اسے یہ نہ کہا جاتا کہ اگر تو بھلا کرے تو کیا تو مقبول نہ ہو گا۔‘‘
سوم پھر لکھا ہے: -
’’اگر تو بھلا نہ کرے تو گناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے‘‘
مسیحیت کہتی ہے کہ آدم کے گناہ کے بعد گناہ انسان کے دل میں بویا گیا۔ ورثہ کے بھی یہی معنے ہوتے ہیں ۔ مگر بائبل کہتی ہے کہ گناہ اس کے دل میں نہیں گیا بلکہ وہ اس کے گھر کے دروازہ کے باہر دبکا بیٹھا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ ا نسان کے دل میں نہیں بلکہ باہر سے آتا ہے۔ پس بائبل کے نزدیک آدم کے گناہ کے بعد گناہ کا بیج انسان کے دل میں نہیں بویا گیا بلکہ ہر انسان کے دروازہ کے باہر دبکا بیٹھا ہے۔ گویا گناہ ایک خارجی شئے ہے نہ کہ ورثہ کی چیز جو جزو بدن ہو جاتی ہے۔
چہارم پھر لکھا ہے: -
’’ پر تو اس پر غالب آ‘‘
یعنی اے قائن تو اس پر غالب آ ۔ جب خدا کہتا ہے تو ایسا کر۔ تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے ایک چھوٹے بچے کو پیار میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے (سوائے اس کے کہ ہم غلط مذاق کر رہے ہوں) کہ جا اور موٹر کو اٹھا لایا یا اور ہاتھی کو پکڑلا۔ ہم اسے وہی بات کہیں گے جو اس کی طاقت کے اندر ہوگی۔ اگر دفتر میں ہی کوئی افسر اپنے چپڑاسی کو بلائے اور کہے کہ جیکب آباد کی طرف جو انجن جاتا ہے وہ اٹھا کر لے آ۔ توتم جانتے ہو وہ کیاکرے گا؟ وہ چپ کرکے اورکوئی بہانہ بناکروہاںسے کھسک جائے گا۔ اس کے چہرے کارنگ اڑ جائے گااوروہ دوسروںسے جاکرکہے گاکہ صاحب پاگل ہو گیاہے۔کیونکہ اس نے ایک ایسی بات کہی ہے جو انسانی طاقت میں ہی نہیں ۔ اسی طرح اگر گناہ دب ہی نہیں سکتا تھا تو خدا تعالیٰ نے قائن سے یہ کیوں کہا کہ تواس پر غالب آ سکتا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس کی قربانی کو رد کر دیا اور کہا کہ چونکہ تو نے اس اخلاص اور نیک نیتی سے قربانی نہیں کی جس اخلاص اور نیک نیتی سے قربانی قبول ہو سکتی ہے۔ اس لئے میں تیری قربانی کو قبول نہیں کرتا۔ مگر ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہہ دیا کہ اس کے یہ معنے نہیں کہ میں نے جو قربانی رد کر دی ہے وہ ہمیشہ کیلئے رد کر دی ہے تیرے لئے اب بھی موقعہ ہے کہ تو گناہوں پر غالب آ جائے اور میرا قرب حاصل کر لے۔ گویا انسان کے لئے اپنی ذاتی جدوجہد سے گناہ پر غالب آنا ممکن تھا ۔
غرض آدم کا گناہ تو الگ رہا ۔ قائن کے اپنے گناہ کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ کوئی ایسی چیز نہیںجو دبائی نہ جا سکے۔ اگر تو کوشش کرے تو گناہ پر غالب آ سکتا ہے اور میں تجھے یہی نصیحت کرتا ہوں کہ تو اس پر غالب آ۔اوپر کے حوالہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی قابیل کے متبع ہیں اور مسلمان ہابیل کے متبع۔ کیونکہ عیسائی کفارہ کی معافی کے قائل ہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوںکے اس لئے دشمن ہیں کہ قابیل کی طرح ان کی قربانی قبول نہیں ہوئی۔ پس وہ اس کا بدلہ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کی جماعت سے لینا چاہتے ہیں۔ پھر جیسا کہ خدا تعالیٰ نے قابیل سے کہا تھا کہ اگر تو بھلا نہ کرے تو گناہ دروازہ پر دبکا بیٹھا ہے اور تیرا مشتاق ہے۔آج کل ہمیں وہی نظارہ نظر آ رہا ہے ۔ عیسائی دنیا میں اس کثرت کے ساتھ گناہ پایا جاتا ہے کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں۔
بہرحال بائبل کے نزدیک انسان بعد از گناہ آدم بھی نیک ہو سکتا تھا اور یہ کہ گناہ کا بیج اس کے دل میں نہیں بویا گیا تھا۔ بلکہ اس وقت بھی وہ باہر سے آتا تھا اور اگر وہ گناہ کر بیٹھتا تھا تب بھی اس کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا تھا اور آئندہ گناہ پر غالب آنے کا امکان اس کیلئے موجود تھا۔ بلکہ نہ صرف وہ گناہ پر غالب آنے کی طاقت رکھتا تھا بلکہ وہ خدا تعالیٰ کا مقبول ہونے کی بھی طاقت رکھتا تھا ۔ پس وہ کیفیت جس کے نتیجہ میں کفارہ کی ضرورت مسیحی بتاتے ہیں بائبل کے بیان کے رُو سے موجود ہی نہیں ۔
ایک سوال کفارہ کے متعلق یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ فرض کرو دنیا میںنیکی موجود نہیں تھی اور فرض کرو کہ کفارہ کی ضرورت تھی۔ پھر بھی کیا اس کفارہ کیلئے خدا تعالیٰ کے بیٹے کی ضرورت تھی؟ اور دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسیح خد کا بیٹا تھا؟
یہ سوال کہ کفارہ کی ضرورت تھی ۔ اس کیلئے ہم خود مسیح کی کتاب کو دیکھتے ہیں ۔ بائبل اس بات کو مانتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء مختلف معجزات دکھاتے رہے ہیں ۔ اس کے نزدیک نبی مرد ے زندہ کرتے تھے۔ نبی بیماروں کو اچھا کرتے تھے۔ نبی تھوڑے سے کھانے کو بڑھا دیتے تھے اسی طرح اور قسم قسم کے معجزات دکھاتے تھے۔ لیکن مسیحی کہتے ہیں ( میں مسیحیوں کا لفظ اس لئے استعمال کرتا ہوں کہ بہت سی باتیں مسیحی اپنے پاس سے کہہ دیتے ہیں اور باوجود اس کے کہ انجیل بگڑ چکی ہے پھر بھی ان باتوں کا انجیل سے ثبوت نہیں ملتا) کہ گناہ کا معاف کرنا یہ انسانی طاقت سے بالا ہے۔ انبیاء بے شک مرد ہ زندہ کر لیتے تھے۔ جیسا کہ ایلیا ہ نبی اور الیسع کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے مردے زندہ کئے (نمبر۱ سلاطین باب ۱۷ آیت ۲۲ و نمبر۲ سلاطین باب ۴ آیت ۳۵) مگر گناہ کا معاف کر دینا یہ ناممکن تھا اور اس کے لئے بیٹے کے کفارہ کی ضرورت تھی۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا انجیل اس عقیدہ کی تصدیق کرتی ہے۔
انجیل میں لکھا ہے کہ لوگ ایک مفلوج کو چارپا ئی پر پڑا ہوا مسیح کے پاس لائے۔ مسیح نے اسے دیکھا اور کہا ۔
’’ بیٹا خاطر جمع رکھ تیرے گناہ معاف ہوئے‘‘ (متی باب ۹ آیت ۲)
اس پر لوگ حیران ہوگئے کہ کیا یہ گناہ معاف کرتا ہے۔ یہی بات آج کل مسیحیت کہتی ہے کہ انسان گناہ کس طرح معاف کرسکتا ہے لیکن انجیل میں لکھا ہے کہ
’’ یسو ع نے ان کے خیال معلوم کر کے کہا کہ تم کیوں اپنے دلوں میں برے خیال لاتے ہو۔ آسان کیا ہے یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یا یہ کہنا کہ اُ ٹھ اور چل پھر ‘‘
یعنی ان دونوں میں سے کون سی آسان بات ہے۔ ایک مفلوج کو یہ کہہ دینا کہ اُٹھ اور چل پھر یہ آسان ہے یا ایک گنہگار کو یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یہ آسان ہے ۔ مسیحیت کی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اٹھ اور چل پھر کہنا زیادہ آسان ہے اور یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے ناممکن ہے۔ لیکن حضرت مسیح کے متعلق انجیل بتاتی ہے کہ انہوں نے کہا ۔
’’ اس لئے کہ تم جان لو کہ ابن آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے (اس نے مفلوج سے کہا) کہ اٹھ اپنی چارپائی اٹھا اور اپنے گھر چلا جا۔ وہ اٹھ کر اپنے گھر چلا گیا لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے اور خدا کی تمجید کرنے لگے جس نے آدمیوں کو ایسا اختیار بخشا ‘‘
(متی باب ۹ آیت ۱تا۸)
گویا پہلے حضرت مسیح کے گناہ معاف کرنے کے فقرہ پر لوگ حیران ہوئے کہ کیا آدم زاد بھی لوگوں کے گناہ معاف کر سکتا ہے۔ مسیح نے کہا اس لئے کہ تم جان لو کہ ابن آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے میں اس مفلوج سے یہ کہتا ہوں کہ اٹھ اپنی چارپائی اٹھا اور اپنے گھر چلا جا۔ اس پر وہ اور حیران ہوئے اور اس خدا کی تمجید کرنے لگے جس نے آدمیوں کو ایسا اختیار بخشا ہے ۔ یہ واقعہ انجیل میں آتا ہے بتاتا ہے کہ گناہ معاف کرنا اور کسی بیمار سے یہ کہنا کہ اٹھ اور اپنے گھر چلا جا یہ معجزہ آدمیوں کا ہے خدا کا نہیں ۔
اسی طرح یوحنا باب ۸ آیت ۱ تا ۱۱ میں ایک زانیہ عورت کا قصہ درج ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس عورت کو مسیح نے معاف کر دیاحالانکہ وہ مسیح یا اس کے کفارہ پر ایمان نہیں لائی تھی۔
باقی رہا یہ امر کہ اگر خدا کے بیٹے کے ذریعہ ہی گناہ معاف ہو سکتا ہے تو کیامسیح خدا کا بیٹا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی دلیل اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہ مسیح نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مسیح میں خدائی صفات بھی پائی جاتی تھیں ؟ مثلاً ہم جب کہتے ہیں کہ خدا ہے تو اس کی ہستی کے دلائل بھی پیش کرتے ہیں اور وہ مختلف قوتیں اور طاقتیں جو انسان میں نہیں پائی جاتیں اس کی ہستی کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔لیکن مسیحی کوئی ایسی چیز پیش نہیں کرتے جو اور نبیوں میں تو نہ پائی جاتی ہو اور مسیح میں پائی جاتی ہو بلکہ بہت سی باتیں بائبل میں نبیوں کے متعلق ایسی پائی جاتی ہیں جو مسیح میں نہیں پائی جاتیں ۔ مگریہ ایک الگ بحث ہے سوال یہ ہے کہ مسیحیت کی ساری بنیاد اس بات پر ہے کہ مسیح نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا اور چونکہ اس نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا اس لئے خدا کا بیٹا ہو گیا ۔ ہم کہتے ہیں یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو خد اکا بیٹا کہا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خدا کا بیٹا کوئی اصطلاح ہے یا یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے جن معنوں میں عام طور پر یہ لفظ ہماری زبان میں بولا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ زید کا بیٹا یا عمرو کا بیٹا یا خالد کا بیٹا یا اس کے کوئی اور معنے ہیں۔
جہاں تک اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہنے کا تعلق ہے جب ہم انجیل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں حضرت مسیح کے یہ الفاظ نظر آتے ہیں کہ ’’ہاں اے باپ کیونکہ ایسا ہی تجھے پسند آیا۔ میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیا اور کوئی بیٹے کو نہیں جانتا سوائے بیٹے کے اور اس کے جس پر بیٹا اسے ظاہر کرنا چاہئے۔ ‘‘ (متی باب ۱۱ آیت ۲۶۔۲۷)
یہاں مسیح نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا ہے ۔ جہاں تک لفظوں کا تعلق ہے ہم مانتے ہیں کہ خدا کے بیٹے کے الفاظ انجیل میں مسیح کے متعلق آئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ مسیح کو بیٹا کہنے کے وہی معنے ہیں جو جسمانی بیٹے کے ہوتے ہیں یا اس کے کچھ اور معنے ہیں۔
اسی طرح یوحنا باب ۳ ایت ۱۷ میں آتا ہے: -
’’ خدا نے بیٹے کو دنیا میں اس لئے نہیںبھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اس کے وسیلہ سے نجات پائے‘‘
یہاں مسیح نے پھر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ایسی بات کہی ہے جو انجیل کے پاس ایک دوسرے حوالہ کے خلاف ہے۔ یہاں وہ کہتے ہیں ’’خدا نے بیٹے کو دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اس کے وسیلہ سے نجات پائے ‘‘ لیکن دوسری جگہ لوقا باب ۲۰ آیت ۹ تا ۱۲ میں حضرت مسیح ایک تمثیل بیان کرتے ہیں جو باغ کی تمثیل کہلاتی ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے باغ لگایا اور اسے کرایہ پر دے دیا جن لوگوں کو وہ باغ کرایہ پر دیا گیا تھا ان کے پاس باغ کے مالک نے اپنا ایک نوکر بھیجا تاکہ وہ پھل کا حصہ دے دیں ۔ لیکن باغبانوں نے اسے مارا اور خالی ہاتھ واپس کر دیا ۔ پھر اس نے ایک دوسرا نوکر بھیجا مگر انہوں نے اس کو بھی پِیٹ کر نکال دیا پھر اس نے ایک تیسرا نوکر بھیجامگر انہوں نے اس کو بھی مارا اور زخمی کر کے نکال دیا………… اس پر باغ کے مالک نے کہا اب میں اپنے اکلوتے بیٹے کو بھیجتا ہوں شاید باغبان اس کا لحاظ کریں اور باغ کا پھل اسے دے دیں لیکن جب اس کا اکلوتا بیٹا باغبانوں کے پاس آیا تو انہوں نے آپس میں مل کر یہ فیصلہ کیا کہ آئو ہم اسے قتل کردیں تاکہ یہ باغ ہماری میراث ہو جائے اور پھر ہمیںپوچھنے والا کوئی نہ رہے ۔ چنانچہ انہوں نے بیٹے کو باغ کے باہر پھانسی پر لٹکا دیا ۔ حضرت مسیح ؑیہ تمثیل بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں تم جانتے ہو پھر کیا ہوگا۔ پھر یہی بات رہ جائے گی کہ باغ کا مالک آپ آئے گا اور وہ ان مالیوں کو نکال دے گا اور باغ کو کسی اور قوم کے سپرد کر دے گا۔یہ تمثیل صاف بتاتی ہے کہ بیٹے کا آنا سزا کیلئے ہوگا چونکہ وہ لوگ باغ کا مالیانہ ادا نہیں کرتے تھے اس لئے خدا اپنے بیٹے کو بھیجے گا تاکہ ان پر حجت تمام کرکے انہیں سزا دے ۔ پس یہ تمثیل مسیح کے اس قول کے بالکل خلاف ہے کہ
’’ خدا نے بیٹے کودنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا کا حکم کرے بلکہ اس لئے کہ دنیا اس کے وسیلہ سے نجات پائے‘‘
پھر متی میں لکھا ہے کہ مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ :۔
’’ تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بنائو اور ان کو باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نا م سے بپتسمہ دو۔ ‘‘
(متی باب ۲۸ آیت ۱۹)
اس کے علاوہ بھی بعض جگہوں پر حضرت مسیح نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہا ہے ۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھلانا چاہئے کہ جہاں حضرت مسیح نے بعض جگہ اپنے آپ کو بیٹابلکہ اکلوتا بیٹا کہا ہے وہاں اکثر مقامات پر اپنے آپ کو ابن آدم بھی کہا ہے۔ پس ہمارا کیا حق ہے کہ ہم ان کے ایک دعویٰ کو دوسرے دعویٰ پر فوقیت دیں۔ مسیح ہی کہتا ہے کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور مسیح ہی کہتا ہے کہ میں ابن آدم ہوں۔ اور جب دونوں دعوے ایک شخص کے ہیں تو ان میں سے کسی ایک دعویٰ کو دوسرے دعویٰ پر فوقیت دے دینا ہمارے لئے جائز نہیں ہوسکتا۔ہمیں یا تو دلائل سے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ابن اللہ والی بات غلط ہے اور یا دلائل سے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ ابن آدم والی بات غلط ہے۔ بہرحال جب ایک شخص دونوں باتیں کہتا ہے تو محض اپنی عقل سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں بات سچی ہے اور فلاں بات غلط۔ انجیل میں لکھا ہے: -
’’ ابن آدم اس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اس لئے کہ خدمت کرے۔ ‘‘ (متی باب ۲۰ آیت ۲۸)
مثیل مسیح یعنی بانی سلسلہ احمدیہ ؑنے بھی یہی کہا ہے
؎ ’’ منہ از بہر ما کرسی کہ مامور یم خدمت را‘‘
یعنی میرے لئے کرسی نہ رکھو کہ مجھے خدا نے دنیا کی خدمت کیلئے مامور کیا ہے۔ چونکہ دنیا میں عام طور پر لوگ غرباء سے کام لیتے ہیں اور ان پر کئی قسم کے مظالم کرتے ہیں ۔ اس لئے مسیح نے کہا کہ ابن آدم اس لئے نہیں آیا کہ وہ خدمت لے بلکہ اس لئے آیا ہے کہ خدمت کرے۔ جہاں تک اخلاقی تعلیم کا سوال ہے یہ بڑی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے کہ انسان کو ظلم نہیںکرنا چاہئے اور دوسروں کی خدمت میںاپنی زندگی بسر کرنی چاہئے لیکن جہاں تک یہ سوال ہے کہ مسیح کیا تھا؟ اس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح آدم کا بیٹا تھا۔
پھر لکھا ہے
’’ جیسا نوح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابن آدم کے آنے کے وقت ہو گا‘‘ (متی باب ۲۴ آیت ۳۸)
اسی طرح اسی باب کی چوالیسویں آیت میں لکھا ہے ۔
’’ جس گھڑی تم کو گمان بھی نہ ہوگا ابن آدم آ جائے گا‘‘
یعنی مسیح کی پہلی آمد بھی ابن آدم کی حیثیت میں تھی اور جب وہ دو بارہ آئے گا تب بھی ابن آدم کی حیثیت میں ہی آئے گا۔ مگر وہ ایسا اچانک آئے گا کہ لوگوں کو اس کی آمد کا گمان بھی نہ ہوگا یعنی جس طرح خدا تعالیٰ کے انبیاء آتے ہیں اور لوگ ان کی آمد کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے انہیں جھوٹا کہنے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح مسیح ؑکے ساتھ ہو گا۔
پھر لکھا ہے : -
’’ فانی خوراک کیلئے محنت نہ کرو بلکہ اس خوراک کیلئے جو ہمیشہ کی زندگی تک باقی رہتی ہے جسے ابن آدم تمہیں دے گا‘‘
(یوحنا باب آیت ۲۷)
یعنی لوگ کوشش کرتے ہیں کہ انہیں روٹی کپڑا ملے لیکن تمہیں ان چیزوں کیلئے کوشش نہیںکرنی چاہئے۔ بلکہ اس خوراک کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے جو حقیقی زندگی بخشتی ہے اور جو ابن آدم یعنی مسیح سے حاصل ہوتی ہے ۔باقی چیزیں تو سب فانی اور عارضی فائدہ پہنچانے والی ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس تعلیم کے باوجود سب سے زیادہ حضرت مسیح کی امت نے ہی دنیا کمانے کی طرف توجہ کی ہے اور سب سے زیادہ انہوں نے ہی روحانیت کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔
پھر لکھا ہے مسیح نے کہا :-
’’ اے یہوداہ کیا تو بوسہ لے کر ابن آدم کو پکڑواتا ہے۔ ‘‘ (لوقا باب ۲۲ آیت ۴۸)
یہوداہ حضرت مسیح کا ایک شاگرد تھاجس نے تیس روپوں کے بدلے انہیں دشمنوں کے حوالے کر دیا تھا ۔ مسیح ان دنوں چھپے پھرتے تھے اور وہ ان کے شاگر د ایک ہی قسم کا لباس پہنتے تھے اور منہ کو بھی ڈھانک کر رکھتے تھے تاکہ حضرت مسیح کا ان کو پتہ نہ چل جائے (یوحنا باب ۲۱ آیت ۴) دشمن بھی آپ کی تلاش میں تھا اور وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح ہمیں پتہ لگ جائے کہ ان میں سے مسیح ؑکون سا ہے۔ آخر انہوں نے تیس روپے رشوت دے کر حضرت مسیح ؑ کے ایک شاگرد کو جس کا نام یہوداہ تھا اپنے ساتھ ملا لیا اور اس نے کہا تم میرے ساتھ چلو۔ جہاں سب اکٹھے بیٹھے ہوئے ہونگے۔ وہاں آگے بڑھ کر میں جس شخص کا بوسہ لوں تم سمجھ جانا کہ وہی مسیح ہے اور اسے گرفتار کر لینا۔ ادھر حضرت مسیح ؑکو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت الہام کے ذریعہ بتا دیا کہ تمہارا فلاں شاگرد اس طرح غداری کرے گا۔ چنانچہ جب یہوداہ دشمن کے سپاہی لے کر وہاں پہنچا اور وہ آپ کا بوسہ لینے کیلئے آگے بڑھا تو حضرت مسیح نے کہا
’’ اے یہوداہ کیا تو بوسہ لے کر ابن آدم کو پکڑواتا ہے۔ ‘‘ (لوقا باب ۲۲ آیت ۴۸)
گویا مسیح جب آیا تب بھی ابن آدم تھا جب دوبارہ آئے گا تب بھی ابن آدم ہو گا اور جب صلیب پر لٹکایا گیا تب بھی وہ اپنے قول کے مطابق ابن آدم ہی تھا۔
پس جب مسیح ؑ خود اپنے آپ کو ابن آدم کہتا ہے تو خدا تعالیٰ کے بیٹے کے ایسے معنے کرنے جو تورات اور انجیل کی تعلیم کے خلاف ہوں کس طرح جائز ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں یا تو ہم یہ کہیں گے کہ حضرت مسیح نعوذباللہ فاتر العقل لوگوں کی طرح کبھی اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دے دیتے تھے اور کبھی ابن آدم کہنے لگ جاتے تھے اور یا پھر ہمیں اس کا کوئی حل نکالنا پڑے گا اور ان میں سے ایک کو استعارہ اور دوسرے کو اصل قرار دینا پڑے گا۔ اگر ہمیں پتہ لگ جائے کہ استعارہ کونسا ہے اور اصل کونسا تو ہم بڑی آسانی سے صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں ۔ اگر ابن آدم استعارہ ہو تو پھر ابن اللہ کو اصل ماننا پڑے گا اور اگر ابن اللہ استعارہ نکل آئے تو ساتھ ہی یہ حقیقت بھی واضح ہو جائے گی کہ خدا تعالیٰ کے بیٹے کی قربانی پر جو کفارہ کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ ساری کی ساری غلط ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے جب ہم انجیل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں مسیح کے یہ الفاظ نظر آتے ہیں کہ : -
’’ مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے ‘‘ (متی باب ۵ آیت ۹)
یہاں حضرت مسیح ؑ اپنے سوا دوسرے انسانوں کو بھی خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ خدا کا بیٹا کہلانا انسان کو خدا نہیں بنا دیتا۔ اگر کسی شخص کو خدا کا بیٹا ماننے سے اس میں خدائی تسلیم کرنی پڑتی ہے تو پھر وہ تمام لو گ جو صلح کراتے ہیں اس حوالہ کے مطابق خدائی کے دعو یدار بن سکتے ہیں اور وہ تمام کے تمام اس بات کے مستحق ہو جاتے ہیں کہ کفارہ دے سکیں۔ لیکن اس حوالہ سے صرف یہی نہیںنکلتا کہ حضرت مسیح کے سوا اور لوگ بھی خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں اوراس طرح جو حق مسیح کا سمجھا گیا تھا کہ وہ لوگوں کے لئے کفارہ ہو سکتا ہے باطل ہو جاتا ہے بلکہ اس سے ایک اور بات بھی نکلتی ہے ۔ حضرت مسیح اس حوالہ سے یہ کہتے ہیں کہ
’’ مبارک ہیںوہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیںگے‘‘
اس جگہ لوگوں کو صرف خدا کا بیٹا قرار نہیں دیا گیا بلکہ وجہ بھی بتائی گئی ہے کہ وہ کیوں خدا کے بیٹے کہلائیں گے اگر خالی خدا تعالیٰ کے بیٹے کے الفاظ استعمال کئے جاتے تو یہ پتہ نہیں لگ سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ کے بیٹے کہلانے کی وجہ کیا ہے۔ ہو سکتا تھا کہ ہم کوئی وجہ پیش کرتے اور دوسرا کہہ دیتا کہ ممکن ہے کوئی اور وجہ ہو۔ لیکن حضرت مسیح نے یہاں وجہ بھی بتائی ہے کہ کیوں یہ سمجھا جائے گا کہ وہ خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور وہ وجہ صلح کرانابتائی گئی ہے۔ آپ فرماتے ہیں مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے۔ گویا صلح کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلانے کی شرط رکھا ہے اور بتایا ہے کہ جو صلح کرواتا ہے وہ بڑا مبارک ہے کیونکہ صلح کرانے سے انسان خداتعالیٰ کا بیٹا بن جاتا ہے ۔ اس حوالہ سے صرف یہی نہیں نکلتا کہ مسیح کے سوا اور لوگ بھی خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں بلکہ ایک اور بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت مسیح خدا کے بیٹے نہیں۔ اگر انہیں بیٹا کہا گیا ہے تو پھر کسی چھوٹی وجہ سے کہا گیا ہے یہ وجہ ان میں موجود نہ تھی۔ کیونکہ حضرت مسیح خود کہتے ہیں کہ
’’ یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں ۔ صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں۔ ‘‘ (متی باب ۱۰ آیت ۳۴)
گویا متی کا ایک حوالہ تو یہ بتاتا ہے کہ صلح کرانے کی وجہ سے انسان کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلانے کا حق ہوتا ہے اور دوسرا حوالہ یہ بتاتا ہے کہ یہ وجہ مسیح میں نہیں تھی اس لئے مسیح خدا کا بیٹا نہیں کہلا سکتا۔
اسی طرح ایک اور حوالہ ہے جس میں دوسرے انسانوں کو بھی خدا یا خدا کا بیٹا کہا گیا ہے اور حضرت مسیح خود یہ بتاتے ہیں کہ میرا اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہنا یہ معنے نہیں رکھتا کہ میں واقعہ میں خدا یا خدا کا بیٹا ہوں۔ یوحنا باب ۱۰ آیت ۲۵ تا ۲۹ میں لکھا ہے حضرت مسیح نے یہود سے کہا: -
’’ جو کام میں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں وہی میرے گواہ ہیں (یعنی میری سچائی معلوم کرنے کیلئے تمہیں باہر سے کسی شہادت کے معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ۔ جو کام خدا تعالیٰ نے مجھ سے کروائے ہیں وہ اپنی ذات میں اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ میں سچا اور راستباز انسان ہوں) لیکن تم اس لئے یقین نہیں کرتے کہ میری بھیڑوں میںسے نہیں ہو (یعنی چونکہ تم میری جماعت سے نہیں اس لئے تم میرے مخالف ہو) میری بھیڑیں میری آوازیں سنتی ہیں (یعنی جو لوگ میری جماعت میں سے ہیں وہ میری آواز کو سنتے اور اس پر عمل کرتے ہیں ) اور میں انہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں اور میں انہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی انہیںمیرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔ میرا باپ جس نے مجھے وہ دی ہیں سب سے بڑا ہے اور کوئی انہیں باپ کے ہاتھ سے نہیں چھین سکتا۔ میں اور باپ ایک ہیں (جب حضرت مسیح نے یہودیوں سے یہ بات کہی تو چونکہ آخری فقرہ یہ تھا کہ کوئی انہیں میرے ہاتھ سے چھین نہیں سکتا اور پھر انہوں نے یہ کہہ دیا کہ میں اور باپ ایک ہیں اور باپ سے مراد خدا تھا تو اس کے معنے یہ بن گئے کہ میں اور خدا ایک ہیں ۔ اس سے یہودیوں نے سمجھا کہ یہ شخص خدا ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے ۔ چنانچہ لکھا ہے اس فقرہ پر ) یہودیوں نے اسے سنگسار کرنے کے لئے پھر پتھر اٹھائے یسوع نے انہیںجواب دیا کہ میں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتیرے اچھے کام دکھائے ہیں ۔ ان میں سے کس کام کے سبب سے مجھے سنگسار کرتے ہو (یعنی مسیح نے ان سے کہا کہ میں لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتا ہوں کیا تم اس وجہ سے مجھے سنگسار کرتے ہو۔ میں لوگوں کو حلم اور عفو کی تعلیم دیتا ہوںکیا تم اس وجہ سے مجھے سنگسار کرتے ہو۔ میں لوگوں کو محبت الٰہی اور خدا ترسی کی تعلیم دیتا ہوں کیا تم اس وجہ سے مجھے سنگسار کرتے ہو میں بنی نوع انسان کی خود بھی خدمت کرتا ہوںاوردوسروں کو بھی خدمت کرنے کی تعلیم دیتا ہوں کیا تم اس وجہ سے مجھے سنگسار کرتے ہو جو کام خدا تعالیٰ نے میرے سپرد کئے ہیں ان میں سے بہتیرے کام میںنے کئے ہیں ۔ تم مجھے یہ بتائو کہ میرا کون سا جرم ہے جس کی وجہ سے تم مجھے سنگسار کرنا چاہتے ہو؟) یہودیوں نے اسے جواب دیا کہ اچھے کام کے سبب سے نہیں بلکہ کفر کے سبب سے تجھے سنگسار کرتے ہیں (یعنی خدمت خلق اور غریبوں سے اچھا سلوک اور حلم اور عفو کی تعلیم اور رحم دلی یہ چیزیں نہیں جن کی وجہ سے ہم تجھے سنگسار کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہمارے سنگسار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تو نے اپنی زبان سے کفر کا کلمہ نکالا ہے) اور اس لئے کہ تو آدمی ہو کر اپنے آپ کو خدا بناتا ہے (یعنی تو نے انسان ہو کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ میںخدا ہوں۔اس لئے ہم تجھے سنگسار کریں گے) یسوع نے انہیں جواب دیا کیا تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ میںنے کہا تم خدا ہو (یعنی کیا بائبل میں یہ بات درج نہیں کہ خدا نے اپنے بندوں کو خدا کہا ہے؟) جبکہ اس نے انہیں خدا کہا جن کے پس خدا کا کلام آیا اور کتاب مقدس کا باطل ہونا ممکن نہیں ۔ آیا تم اس شخص سے جسے باپ نے مقدس کر کے دنیا میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے اس لئے کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں ؟(حضرت مسیح کہتے ہیں تمہارے لئے بائبل میں خدا کا لفظ بولا گیا ہے مگر تم خدا نہیں ہو گئے نہ تم اس لفظ کی وجہ سے کافر بن گئے لیکن میرے لئے صرف بیٹے کا لفظ بولا گیا ہے اور تم کہتے ہو کہ میں کافر ہوں۔ جب مجھ سے پہلے لوگوں کے لئے خدا کا لفظ استعمال ہوا اور وہ کافر نہ ہوئے بلکہ یہ سمجھا گیا کہ یہ ایک استعارہ ہے جو استعمال کیا گیا ہے تو میرے لئے بیٹے کے لفظ کا استعمال کونسا قہر ہو گیا کہ تم نے مجھے کافر قرار دے دیا۔ یہاں حضرت مسیح نے صاف طور پر اقرار کیا ہے کہ بائبل میں جو ان کے متعلق بیٹے کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ بیٹے کے معنوں میںنہیں کیونکہ دوسروں کی نسبت خدا کا لفظ آیا ہے مگر تم یہ کبھی نہیں کہتے کہ وہ واقعہ میں خدا بن گئے تھے ۔ جب تم انہیں مشرک نہیں کہتے جب تم اس لفظ کے باوجود انہیں خدا ئی کا دعویٰ کرنے والے قرار نہیں دیتے تو مجھے کیوں کہتے ہو کہ میں نے یہ لفظ استعمال کر کے خدائی کا دعویٰ کر دیا ہے اور اس وجہ سے میں کافر اور سنگسار کئے جانے کے قابل ہوں ) اگر میں اپنے باپ کے کام نہیںکرتا تو میرا یقین نہ کرو (یعنی لفظی ہیر پھیر اور شرارتوں سے کام لینے کا کیا فائدہ؟ سوال یہ ہے کہ جو کام میں کرتا ہوں وہ خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کے جلال کے اظہار کیلئے کرتا ہوں یا اس کے خلاف کرتا ہوں ۔ موحدوں والے کرتا ہوں یا مشرکوں والے کرتا ہوں اگر میں تمام کام موحدوں والے کرتا ہوں تو الہام میں اگر میرے متعلق خدا تعالیٰ نے بیٹے کا لفظ استعمال کیا ہے تو بہرحال اس کے کچھ اور معنے کرنے پڑیں گے اور ضروری ہوگا کہ اس بارے میں کسی نتیجہ پر پہنچنے سے قبل میرے کاموں کود یکھا جائے )لیکن اگر میں کرتا ہوں تو گو میرا یقین نہ کرومگر ان کاموں کا تو یقین کرو تاکہ تم جانو اور سمجھو کہ باپ مجھ میں ہے اور میں باپ میں ۔ انہوں نے پھر اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا ‘‘
(یوحنا باب ۱۰ آیت ۲۵تا ۳۹)
اس حوالہ سے صاف پتہ لگتا ہے کہ مسیح نے خود اپنے بیٹا ہونے کے معنے کر دئیے ہیں اور بتایا ہے کہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں خداکا بیٹا ہوں تو میری مراد یہ نہیں ہوتی کہ واقعہ میں خدا کی خدائی مجھ میں آ گئی ہے یا میںبھی ایک خدا ہوں۔ بلکہ جس طرح بائبل میں دوسرے لوگوں کے متعلق آتا ہے کہ وہ خدا ہیں لیکن اس کے باوجود خدا نہیں بن گئے بلکہ یہ ایک استعارہ تھا جو استعمال ہوا۔ اسی طرح جب میں اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہتا ہوں تو یہ بھی ایک استعارہ ہوتا ہے۔ یہ مراد نہیں ہوتی کہ میں واقعہ میں خدا بن گیا ہوں۔
اس حوالہ میں یہود کی شریعت کی طرف جو اشارہ کیا گیا ہے وہ ہمیں زبور میں ملتا ہے زبور باب ۸۲ میں آتا ہے۔
’’ خدا کی جماعت میں خدا موجود ہے وہ الہٰوں کے درمیان عدالت کرتا ہے (یعنی مومن لوگ خدا ہیں اور ان خدائوں کے درمیان وہ عدالت کرتا ہے) تم کب تک بے انصافی سے عدالت کرو گے۔غریب اور یتیم کا انصاف کرو۔ غمزدہ اورمفلس کے ساتھ انصاف سے پیش آئو۔ غریب اور محتاج کو بچائو۔ شریروں کے ہاتھ سے ان کو چھڑائو۔ وہ نہ کچھ جانتے ہیں نہ سمجھتے ہیںوہ اندھیرے میں ادھر ادھرچلتے ہیں زمین کی سب بنیادیں ہل گئی ہیں۔ میں نے کہا تھا کہ تم الٰہ ہو اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو تو بھی تم آدمیوں کی طرح مرو گے اور امراء میں سے کسی کی طرح گر جائو گے۔ اے خد ا اٹھ زمین کی عدالت کر۔ کیونکہ تو ہی سب قوموں کا ملک ہو گا‘‘
حضرت دائود ؑ کے انہی کلمات کی طرف حضرت مسیح ؑ اوپر کے حوالہ میں اشارہ کرتے ہیں ۔ اس میں ایک تو یہ آیت ہے کہ
’’ وہ الہٰوں درمیان عدالت کرتا ہے‘‘
اور پھر آیت ۶ اور ۷ تو بالکل واضح ہیں یعنی یہ کہ
’’ میں نے کہا تھا کہ تم الٰہ ہو اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو۔‘‘
اس جگہ حضرت دائود ؑ یہ کہتے ہیں کہ اے بنی اسرائیل تم سب الٰہ ہو ۔ تم سب خدا ہو اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوںنے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ باوجود اس کے کہ میںنے تمہیں خدا کہا ہے اور خدا کا بیٹا بھی کہا ہے تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ چونکہ تم نہ اصلی خدا ہو اور نہ اصل میں خدا کے بیٹے ہو ۔ اس لئے تم آدمیوں کی طرح مرو گے ۔ یعنی خدا تو مرتا نہیں لیکن تم موت سے نہیں بچو گے۔ تمہیں خدا اور خدا کا بیٹا اس لئے کہا گیا ہے کہ تم دنیا میں خدا کی طرح انصاف قائم کرو گے اور خدا تعالیٰ کے قوانین لوگوں میں جاری کرو گے پس چونکہ تم دنیا میں خدا کے مظہر ہو گے اس لئے استعارۃً تمہیں کبھی خدا اور خدا کا بیٹا کہہ دیا گیا ہے۔
بعض لوگ جو اس بات کے قائل ہیں کہ انبیاء کے دلی خیالات کا نام ہی الہام ہوتا ہے وہ اس کتاب کو دائود کی زبور کہتے ہیں۔ لیکن ہم قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق اسے خدا تعالیٰ کا الہام سمجھتے ہیں اور ہمارے نقطہ نگاہ سے حضرت دائود کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا گیا تھا کہ نبی اسرائیل خد ااور خدا کے بیٹے ہیں لیکن آگے تشریح کر دی گئی ہے کہ اس کے یہ معنے نہیں کہ یہ واقعہ میں خدا یا خدا کے بیٹے بن جائیں گے۔ بلکہ خدا اور خدا کے بیٹے کہلانے کے باوجود مرینگے بھی یہ کھائیں گے بھی یہ پہنیں گے بھی صرف اس لئے ان کو خدا اور خدا کا بیٹا کہا گیا ہے کہ یہ دنیا میںانصاف قائم کریں گے اور خدا تعالیٰ کے احکام پر لوگوں کو چلائیں گے ۔ حضرت دائود ؑ بنی اسرائیل کو توجہ دلاتے ہیں کہ خدا نے تم کو اپنا نام دیا ہے۔ خدا نے تم کو اپنا بیٹا قرار دیا ہے تم کو بھی چاہئے کہ اس نام کی وجہ سے اپنے کردار کا جائزہ لو۔ غریبوں سے انصاف کرو ۔ کمزوروں کو اٹھائو ۔ ستم رسیدہ پر رحم کرو۔ عفو اور درگزرسے کام لو اور خدائی صفات اپنے اندر پیدا کرو۔
ان حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جب حضرت مسیح ؑ نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا تو ان معنوں میں نہیں کہا تھا کہ سچ مچ اپنے آپ کو خدا کا بیٹا سمجھتا تھا کیونکہ اپنے قول کے مطابق وہ اپنے آپ کو اسی طرح خدا تعالیٰ کا بیٹا سمجھتا تھا جس طرح دائود نے بنی اسرائیل کو خدا اور خدا کا بیٹا کہا۔ اسی طرح بائبل میں اور کئی مقامات پر مختلف لوگوں کے متعلق خدا یا خدا کے بیٹے کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ پس جن معنوں میں وہ خدا اور خدا کے بیٹے تھے انہی معنوں میں حضرت مسیح نے بھی اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا۔
عیسائیوں کی طرف سے عام طور پر یہ دھوکا دیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح کو خدا یا خدا کا بیٹا اور معنوں میں کہا گیا ہے لیکن یوحنا کا حوالہ صاف بتاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو انہی معنوں میں خدا کا بیٹا کہتا تھا جن معنوں میں پہلے لوگوں کو خدا اور خدا کا بیٹا کہا گیا تھا۔ اگر اور معنے ہوتے تو حضرت مسیح کی دلیل باطل ہو جاتی ہے ۔ حضرت مسیح یہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو بے شک خدا کا بیٹا کہا ہے لیکن بیٹا کہنے سے میںخدائی کا مدعی نہیں بن جاتا۔ کیونکہ پہلے لوگوں کو بھی خدا اور خدا کا بیٹا کہا گیا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ مسیح کا دعویٰ اور قسم کا تھا تو یہ دلیل باطل ہو جاتی ہے یہودی کہہ سکتے تھے کہ پہلے لوگوں کو اور رنگ میں خدا کا بیٹا کہا گیا ہے مگر تم اپنے آپ کو اور رنگ میں خدا کا بیٹا کہتے ہو۔ مگر مسیح کا اس حوالہ کو پیش کرنا صاف بتاتا ہے کہ مسیح اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ جن معنوں میں پہلے لوگوں کو خدا یا خدا کا بیٹا کہا گیا ہے انہی معنوں میں میں بھی خدا کا بیٹا ہونے کا مدعی ہوں اور جب مسیح انہی معنوں میں خدا کے بیٹے ہوئے جن معنوں میں پہلے لوگوں کو خدا یا خدا کا بیٹا کہا گیا ہے انہی معنوں میں میں بھی خدا کا بیٹا ہونے کا مدعی ہوں اور جب مسیح انہی معنوں میں خدا کے بیٹے ہوئے جن معنوں میں پہلے لوگ خدا کے بیٹے تھے تو کفارہ دینے کا حق جیسے مسیح کو حاصل تھا ویسے ہی تمام اسرائیلی نبیوں کو اور ان کے مخلص مومنوں کو حاصل تھا اور اگر ان کو یہ حق حاصل نہیں تھا تو مسیح کو بھی نہیں تھا کیونکہ کفارہ کی بنیاد مسیح کے ابن اللہ ہونے پر ہے اور میں یہ ثابت کر چکا ہوں کہ مسیح بیٹا کہلانے میں منفرد نہیں بلکہ سینکڑوں انبیاء اور ہزاروں لاکھوں مومنوں کو بھی بائبل میں خداکا بیٹا کہا گیا ہے۔
یہاں تک تو اس بات کا ثبوت پیش کیا گیا ہے کہ مسیح کے متعلق جو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خدا کا بیٹا ہونے کا مدعی تھا اور اسی لئے وہ کفار ہ ہوا یہ بائبل کی رو سے درست نہیں ۔ بے شک وہ بیٹا ہونے کا مدعی تھا مگر انہی معنوں میںجن معنوں میں پہلے لوگ خدا کے بیٹے کہلائے ور پھر وہ اس کے ساتھ ہی ابن آدم ہونے کا بھی مدعی تھا۔
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مسیح کا ابن آدم ہونا اصل حقیقت تھی یا اس کا ابن اللہ ہونا اصل حقیقت ہے اور اس کے لئے ہم پھر اس کے کلام کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔
میں نے بتایا ہے کہ مسیح نے یہ تسلیم کیاہے کہ میں انہی معنوں میں خدا کا بیٹا ہوں جن معنوں میں بنی اسرائیل خدا تعالیٰ کے بیٹے تھے اور جب مسیح کے اپنے قول سے یہ بات ثابت ہو گئی تو معلوم ہوا کہ اگر مسیح کو کفارے کا حق حاصل تھا تو ان کو بھی حاصل تھا اور اگر ان کو حاصل نہیں تھا تو مسیح کو بھی حاصل نہیں تھا۔ اب ہم ایک اور طرح اس مسئلہ پر غور کرتے ہیں ۔ دنیا میں جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں خدا کا بیٹا ہوں تو اس کا اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہنا استعارۃًبھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ واقعہ میں اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دے رہا ہو۔ اور چونکہ یہ دونوں امکان موجود ہوتے ہیں ۔ اس لئے فیصلہ کے لئے ہمیں بہرحال کوئی نہ کوئی رستہ نکالنا پڑے گا۔اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے بعض دفعہ کسی شخص کے متعلق ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ شیر ہے اور کسی کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ وہ باز ہے لیکن ہم اصلی شیر کو بھی شیر ہی کہتے ہیں ۔ ہم اپنے بچہ کو چڑیا گھر لے جاتے ہیں تو ایک جانور جو پنجرہ میں بند ہوتا ہے اس کی طرف اشارہ کر کے ہم کہتے ہیں یہ شیر ہے اور دوسری طرف ہمارے سامنے اگر کوئی بڑا بہادر اور دلیر انسان بیٹھا ہو تو اس کے متعلق بھی ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ شیر ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ بچہ کس طرح پہچانتا ہے کہ وہ شیر اور ہے اور یہ شیراور ہے؟ بہرحال کوئی پہچان ہونی چاہئے جو اس فرق کو واضح کر سکے اور وہ پہچان اسی طرح ہوتی ہے کہ بچہ نے جو نیچر ل ہسٹری کتابیں پڑھی ہوئی ہوتی ہیں ان میںیہ لکھا ہوتا ہے کہ شیر کے پنجے ہوتے ہیں دم ہوتی ہے منہ اس طرح ہوتا ہے شکل اس طرح ہوتی ہے پس جب ہم کسی انسان کو شیر کہہ دیتے ہیں اور بچہ دیکھتا ہے کہ اس کی دم نہیں ۔ا س کے پنجے نہیں اس کی شکل آدمیوں کی سی ہے تو وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اسے شیر استعارہ کے طو رپر کہا گیا ہے اور جب ہم چڑیا گھر کے شیر کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ وہی شیر ہے جس کی کتابوں میں تصویریں آتی ہیں ۔ اسی طرح جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص خدا کا بیٹا تھا اور ہم استعارۃً کلام کرتے ہیں ہماری مراد یہ نہیں ہوتی کہ وہ حقیقتاً خدا ہے یا خدا کا بیٹا ہے تو اس وقت ہمارا سامع یہ کس طرح فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس کو ہم نے جو خدا یا خدا کا بیٹا کہا ہے تو ہماری مراد استعارہ ہے حقیقت نہیں ۔ اس کے لئے بہرحال کوئی نہ کوئی معیار ہونا چاہئے تاکہ لوگوں کو کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ ﷺکے متعلق فرماتا ہے کہ ان الذین یبا یعونک انما یبایعون اللہ ید اللہ فوق ایدیھم (الفتح ع۱) اے محمدرسول اللہ ﷺوہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ تیری بیعت نہیں کرتے بلکہ خدا کی بیعت کر تے ہیں ید اللہ فوق ایدیھم ان کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ہاتھ محمدرسول اللہﷺ کا ہوتا تھا خدا کاہاتھ نہیں ہوتا تھا ۔ اب اس آیت کے باوجود ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو خدا نہیں مانتے۔ کیوں نہیں مانتے؟اس لئے کہ قرآن کریم نے بعض اور مقامات پر خداتعالیٰ کی جو خصوصیات بیان کی ہیں وہ محمد رسول اللہ ﷺ میںنہیں پائی جاتی تھیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کھاتا پیتا نہیں محمد رسول اللہ ﷺ کھاتے پیتے تھے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند مگر محمد رسول اللہ ﷺ کو اونگھ بھی آتی تھی اور نیند بھی آتی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کو بیوی کی ضرورت نہیں ۔ مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی نو بیویاںتھیں ۔ گویا وہ باتیں جو خدا میں نہیں ہوتیںوہ محمد رسول اللہ ﷺ میںپائی جاتی تھیں اور وہ باتیں جو خدا میں ہوتی ہیں وہ محمد رسول اللہ ﷺ میں نہیں پائی جاتی تھیں ۔ پس جب خدا نے کہا ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ تو ہم نے سمجھ لیا کہ یہ استعارہ ہے۔ یہ مراد نہیں کہ آپ واقعہ میں خدا بن گئے تھے۔ چنانچہ ہمارا عقیدہ اور دنیا کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہی ہے کہ آپ بشر تھے سوائے بعض جہلاء کے جو محمد رسول اللہ ﷺ کو بشر قرار نہیں دیتے۔
تھوڑا ہی عرصہ ہوا ایک دوست مجھ سے ملنے کیلئے آئے وہ اَن پڑھ تھے مگر قرآن کریم کی آیتیں بہت صاف پڑھتے تھے ۔ میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ جس دوست کے ذریعہ مجھے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق ملی ہے وہ قرآن کریم نہایت اچھا پڑھتے تھے ان کے پاس رہنے کی وجہ سے میری زبان بھی صاف ہو گئی۔ پھر انہوں نے بتایا کہ میں ایک دفعہ اپنے بعض رشتہ داروں کے پاس گیا اور انہیں میں نے کہا کہ دیکھو رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ انما انا بشر مثلکم (حم سجدہ ع۱)
میں تمہاری طرح ایک انسان ہوں۔ اس پر وہ کہنے لگے دیکھو میاں یہ اچھی طرح سن لو تم ہمارے رشتہ دار ہو اس لئے ہمیں یہ اچھا نہیں لگتا کہ ہم تمہیں ماریں لیکن اب تم چپ کر کے یہاں سے چلے جائوکیونکہ یہ بات ہم نے کبھی نہیں سنی تھی کہ محمد رسول اللہ ﷺ بھی آدمی ہیں آج تم نے یہ بات بھی کہہ دی تو بعض جہلاء اس قسم کے بھی ہیں لیکن مسلمانوں کا سمجھدار طبقہ ہمیشہ سے یہی تسلیم کرتا چلا آیا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺگو تمام انسانوں کے سردار ہیں ۔ تمام نبیوں کے سردار ہیں اور اللہ تعالیٰ کے محبوب اور پیارے ہیں ۔ لیکن بہرحال وہ انسان ہیں ۔ پس مسیح جب کہتا ہے کہ میں خدا کا بیٹا ہوں تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ وہ باتیں جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں کیا وہ ان کا مدعی ہے؟
جہاں تک کھانے پینے کاسوال ہی عیسائی یہ کہہ دیتے ہیں کہ چونکہ مسیح انسانی بھیس میں آیا تھا اس لئے وہ کھاتا پیتا تھا ۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے لیکن کم از کم جو روحانی باتیں ہیں وہ تو خدا میں رہیں گی۔ یہ تو نہیں کہ خدا اس دنیا میں آکر وہ کمالات بھی بھول جائے گا جو خدا ہونے کی حیثیت سے اس میں پائے جانے چاہئیں ۔ مرقس باب ۱۰ آیت ۱۷۔۱۸ میں لکھا ہے۔
’’ اور جب وہ باہر نکل کر راہ میں جا رہا تھا تو ایک شخص دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا اور اس کے آگے گھٹنے ٹیک کر اس سے پوچھنے لگا کہ اے نیک استاد میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں۔ یسوع نے اس سے کہا تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ‘‘
پہلی صفت خدا تعالیٰ کی اس کا نیک ہونا ہے کیونکہ عیب دار خدا نہیں ہو سکتا۔ لیکن پہلی صفت جو خدا میں پائی جانی ضروری ہے مسیح اس سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ‘‘
میں اس جگہ دوستوں کو ہوشیار کر دینا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعتراضات سن کر عیسائیوں نے اب بعض مقامات سے بائبل کو بدل ڈالا ہے۔ مثلاً اسی واقعہ کو متی میں اب اس طرح درج کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح نے اسے یہ جواب دیا کہ ’’تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے نیک تو ایک ہی ہے‘‘ (متی باب ۱۹ ایت ۱۷)
حالانکہ انگریزی بائیبلیں جو انگلستان میں چھپی ہوئی ہیں اور بائبل کے وہ اردو ایڈیشن جو 1910ء سے پہلے کے ہیں ۔ ان سب میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ حضرت مسیح نے اسے یہ جواب دیا کہ ’’ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعتراض کیا کہ تم کہتے ہو کہ مسیح خدا کا بیٹا تھا اس لئے وہ کفارہ ہو گیا حالانکہ یہ حوالہ صاف بتا رہا ہے کہ مسیح خدا نہیں تھاکیونکہ وہ تو اپنے نیک ہونے سے بھی انکاکر رہا ہے اور جب وہ خدا نہیں تھا تو کفارہ کس طرح ہوا ۔ گویا ایک طرف اس سے کفارہ باطل ہو جاتا ہے اور دوسری طرف اس سے توحیدثابت ہوتی ہے۔ عیسائیوں کو اور تو کوئی جواب نہ سوجھا۔ انہوں نے بائبل کے نئے اردو ایڈیشنوں میں ان الفاظ کی بجائے یہ الفاظ لکھ دئیے کہ : -
’’ تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے نیک تو ایک ہی ہے۔ ‘‘
گویا یہ ظاہر کیا کہ حضرت مسیح نے اسے یہ جواب د یا تھا کہ تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں سوال کر رہا ہے ۔ نیک تو صرف خدا ہے حالانکہ تمام انگریزی بائبلوں میں اور تمام یونانی اور جرمن بائبلوں میں اور اردو کی تمام پرانی بائبلوں میں یہ الفاظ تھے کہ ’’ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے ۔ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ‘‘ اس قسم کی سترہ اٹھارہ تبدیلیاں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعتراضات کے نتیجہ میں عیسائیوں نے بائبل میں کی ہیں۔ بہرحال کہنے والے نے یہی کہا کہ اے نیک استاد میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں۔ اور حضرت مسیح نے اسے کہا کہ ’’ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے ۔ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ‘‘
اس حوالہ سے باتیں نکل آئیں ۔ اول خدا میں نیکی ہے کیونکہ بغیر نیکی کے وہ خدا ہی نہیں ہو سکتا دوم مسیح میں نیکی نہیں اور ان دو باتوں کا یہ لازمی نتیجہ نکل آیا کہ چونکہ مسیح میں نیکی نہیں اس لئے وہ خدا نہیں ۔
اسی طرح متی باب ۲۴ آیت ۳۲ تا ۳۷ میں لکھا ہے:۔
’’ اب انجیر کے درخت سے ایک تمثیل سیکھو جونہی اس کی ڈالی نرم ہوتی اور پتے نکلتے ہیں تم جان لیتے ہو کہ گرمی نزدیک ہے اسی طرح جب تم ان سب باتوں کو دیکھو تو جان لو کہ وہ نزدیک بلکہ دروازہ پر ہے (یعنی مسیح کی آمد ثانی) میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں یہ نسل ہرگز تمام نہ ہوگی ۔ آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی لیکن اس دن (یعنی مسیح کی آمد ثانی کے دن) اور اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر صرف باپ۔ ‘‘
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مسیح اپنے عالم الغیب ہونے سے انکار کرتا ہے حالانکہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت اس کا عالم الغیب ہونا بھی ہے ۔ پس جب مسیح کہتا ہے کہ میں علم غیب نہیںجانتا اور مستقبل کے حالات کا مجھے علم نہیں تو دوسرے الفاظ میں وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ جب میں اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہتا ہوں تو میں حقیقتاً نہیں کہتا بلکہ صرف استعارۃً کہتا ہوں۔ یعنی میری مراد صرف اتنی ہوتی ہے کہ میں خدا کا پیارا ہوں۔
اسی طرح انجیل میں خدائے واحد کے لفظ پر بھی زور دیا گیا ہے۔ یوحنا باب ۵ آیت ۴۴ میں لکھا ہے۔
’’ تم جو ایک دوسرے سے عزت چاہتے ہو اور وہ عزت جو خدائے واحد کی طرف سے ہوتی ہے نہیں چاہتے کیونکر ایمان لا سکتے ہو۔‘‘
عیسائیت ہمارے سامنے تثلیث پیش کرتی ہے لیکن مسیح صاف طور پر خدائے واحد کا لفظ استعمال کرتا ہے اور کہتا ہے تم جو ایک دوسرے سے عزت چاہتے ہو اور وہ عزت جو خدائے واحد کی طرف سے ہوتی ہے نہیں چاہتے کیونکر ایمان لا سکتے ہو۔
اسی طرح یوحنا باب ۱۷ آیت ۳ میں لکھا ہے:۔
’’ اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں ۔‘‘
یہاں سے ایک اور بات بھی ثابت ہوئی۔ پہلا حوالہ جو یوحنا باب ۵ کا تھا اس کا ایک بودہ سا جواب مسیحی دے سکتے تھے اور وہ یہ کہ جب ہم خدائے واحد کالفظ استعمال کرتے ہیں تو ہماری مراد اقنوم ثلاثہ سے ہوتی ہے جس میں خدا باپ بھی شامل ہے خدا بیٹا بھی شامل ہے اور وہ کہتے بھی یہی ہیں کہ ’’ تین ایک ہیں اور ایک تین ‘‘
پس وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم بھی تین کو ایک سمجھتے ہیں اور خدائے واحد سے مراد خدا باپ ، خدا بیٹا اور خدا روح القدس کا مجموعہ ہے۔ اس جواب کو یوحنا کے اوپر کے حوالہ نے رد کر دیا۔ کیونکہ یہاں مسیح کا ذکر خدائے واحد سے الگ کر کے کیا گیا ہے۔
الفاظ یہ ہیں : -
’’ اور ہمیشہ کی زندگی یہی ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں‘‘
اس جگہ خدائے واحد کی جو اصطلاح استعمال کی گئی ہے اس میں مسیح شامل نہیں ۔ پس معلوم ہوا کہ مسیح سے علیحدہ ہو کر خدائے واحد بنتا ہے اس کے ساتھ مل کر نہیں اور توحید اسی کا نام ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے نہ بیٹے کو نہ روح القدس کو اور نہ کسی اور کو۔
غرض اس حوالہ نے بھی بتا دیا کہ بیٹے کا لفظ ایک استعارہ تھا جو مسیح کے متعلق استعمال کیا گیا تھا اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ وہ خدا کا شریک تھا بلکہ یہ ویسا ہی ایک پیار کا کلمہ تھا جیسے مائیں اپنے بیٹے کو کہتی ہیں کہ یہ میرا بیٹا میرے جگر کا ٹکڑا اور میرا دل ہے ۔ جس طرح بندوں کو حق حاصل ہے کہ وہ پیار میں اس طرح کلام کریں اسی طرح خدا کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بندوں سے پیار اور محبت کی گفتگو کرے۔ دنیا میں بسااوقات اپنے کسی عزیز یا دوست کے بچہ کو جب انسان دیکھتا ہے تو کہہ دیتا ہے تو میرا بچہ ہے ۔ اب یہ تو نہیںہوتاکہ وہ بعد میں ورثہ کا دعویٰ کرد ے اور کہے فلاں فلاں اس بات کے گواہ ہیں کہ اس نے ان کے سامنے مجھے اپنا بچہ قرار دیا تھا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ محبت اور پیار کے الفاظ ہوتے ہیں ۔ اسی طرح مائیں اپنے بچوں کا ذکر کرتی ہیں تو کہتی ہیں ۔ ہائے میرا کلیجہ ۔ ہائے میرا دل ۔ ہائے میری آنکھوں کی ٹھنڈک۔ اب اس کا یہ مطلب تو نہیںہوتا کہ وہ بچہ سچ مچ ان کا کلیجہ یا دل یا آنکھیں ہوتا ہے یا عورت مر جائے تو ساتھ ہی بچے کو بھی دفن کر دیا جائے اور کہا جائے کہ یہ بچہ تو ہے ہی نہیں یہ تو اس عورت کا کلیجہ یا دل تھا۔ کیا دنیا میں کبھی کسی نے ایسی حماقت کی ہے ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ محبت اور پیار کے الفاظ ہوتے ہیں ۔اسی قسم کے الفاظ خدا تعالیٰ بھی اپنے پیاروں کے متعلق استعمال کر لیتا ہے اور بعض دفعہ ان کو اپنا بچہ کہہ دیتا ہے جیسے اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کہا یا جیسے اس نے اور کئی نبیوں کو کہا ۔ پس کسی کو بیٹاکہنے کے یہ معنے نہیں کہ اب خدائے واحد نہیں رہا یا نعوذ باللہ دو یا تین خدا ہو گئے ہیں ۔
غرض یہ حوالہ بھی بتاتا ہے کہ مسیح کے نزدیک خدا اور ہے اور وہ اور۔ چنانچہ خدائے واحد کے وجود کا الگ ذکر کیا گیا ہے اور مسیح کا الگ ذکر کیا گیا ہے اگر مسیح خدا ہوتا تو اس کے علیحدہ ذکر کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ خدائے واحد میں باپ خدا بھی آ جاتا، بیٹا خدا بھی آ جاتا اور روح القدس خدا بھی آ جاتا۔مگر اسے خدائے واحد سے الگ کیا گیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے وجود میں شامل نہیں۔ پس ان حوالوں سے ثابت ہوا کہ جب مسیح کو خدا کا بیٹا کہاگیا تو اس سے مراد حقیقتاً بیٹا نہ تھا بلکہ اسے استعارہ کے طور پر بیٹا کہا گیا تھا۔
پھر مسیحی عقیدہ یہ ہے کہ مسیح خدا کی طرح بے جسم ہے ۔ جب وہ اس دنیا میں آیا تو اس نے لوگوں کے لئے جسم اختیار کیا ورنہ خدا کے بیٹے کا کوئی جسم نہیں جیسے باپ خدا کا کوئی جسم نہیں یا جیسے روح القدس خدا کاکوئی جسم نہیں ۔ اسی طرح بیٹے کا بھی کوئی جسم نہیں ۔ جب وہ اس دنیا میں آیا تاکہ بنی نوع انسان کے گناہوں کی خاطر صلیب پر لٹک جائے تو اس نے اپنے لئے ایک جسم اختیار کر لیا ۔ گویا جسم اختیار کرنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ بنی نوع انسان کے بدلہ میںپھانسی پر لٹک جائے اور ایک دفعہ موت اختیار کرے کیونکہ موت کو گناہ کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے ۔ جب مسیح نے دوسروں کا گناہ اٹھا لیا تو اس پرموت آنی لازمی تھی۔ مگر جب موت آ گئی تو اس کے بعد وہ سکیم جو بنی نوع انسان کے گناہ معاف کرانے کیلئے اختیار کی گئی تھی ختم ہو گئی۔ اب اگر عیسائیوں کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو ضروری تھا کہ مسیح جب دوبارہ زندہ ہوا تو اس کے ساتھ اس کا جسم نہ ہوتا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کی غرض پوری ہو چکی تھی۔ بنی نوع انسان کے گناہ معاف ہو چکے تھے اور اب بیٹے کے تجسم کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔ وہ ویسا ہی کامل ہو چکا تھا جیسے خدا کا باپ کامل ہے مگر انجیل سے پتہ لگتا ہے کہ صلیب کے واقعہ کے بعد بھی جب ان کے نزدیک مسیح دوبارہ زندہ ہوا مسیح کے ساتھ اس کا جسم تھا اور وہ اسی جسم سمیت آسمان پر گیا یا بعض دوسری روایتوں کے مطابق اسی جسم کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر جا کر غائب ہو گیا۔ گویا صرف یہی نہیں کہ انجیل کے روسے مسیح قبر میں سے جسم لے کر نکلا۔ حالانکہ اسے جسم کے ساتھ نکلنا نہیں چاہئے تھا۔ بلکہ وہ آسمان پر بھی اس جسم کو لے گیا ۔ حالانکہ اب جسم کے کوئی معنے ہی نہیں تھے۔ جب تک وہ دنیا میں نہیں آیا تھا اس کا کوئی جسم نہیں تھا پھر عارضی طور پر اس نے بنی نوع انسان کے گناہوں کو اپنے اوپر لینے کیلئے جسم اختیار کیا۔ اس کے بعد جب وہ غرض پوری ہو چکی تو لازماً اس کے ساتھ اس کا جسم نہیں ہونا چاہئے تھا۔ مگر انجیل بتلاتی ہے کہ دوبارہ جی اٹھنے کے بعد بھی وہ جسم سمیت اٹھا اور پھر آسمان پر بھی جسم سمیت گیا۔اس طرح اس کی خدائی کی ساری عمارت گر جاتی ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسیح جو عیسائیوں کے نزدیک خدا باپ کے برابر ہے وہ اب تک اسی جسم کے ساتھ آسمان پر بیٹھا ہوا ہے اور اس قید کے ساتھ مقید ہے ۔ اور پھر ا نجیل میں یہ بھی ذکر نہیں کہ وہ کب اس جسم سے الگ ہو گا بلکہ انجیل سے تویہ ظاہر ہے کہ جب وہ دوبارہ آئے گاتب بھی اسی جسم کے ساتھ آئے گا کیونکہ لکھا ہے جب وہ آئے گا تو
’’اس وقت لوگ ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ بادلوں میں آتے دیکھیں گے‘‘
(یعنی اس کا دعویٰ آسانی کے ساتھ نہیں پہچانا جائے گا بلکہ کئی قسم کے شکوک و شبہات بھی اس کے متعلق پیدا کئے جائیں گے)
(مرقس باب ۱۳ آیت ۲۷)
گویا انجیل یہ بتاتی ہے کہ دوبارہ بھی لوگ اس جسم کے ساتھ مسیح کو آسمان سے اترتا دیکھیں گے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اب دوبارہ مسیح پر موت نہیں آ سکتی کیونکہ پہلی موت اس پر کفارہ کے لئے آئی تھی جب وہ کفار ہ ہو چکا تو اب دوسری موت کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ یا تو عیسائیوں کو یہ ماننا پڑے گا کہ مسیح اب ہمیشہ کیلئے جسم کی قید میں رہے گا اور وہ اس سے کبھی رہائی حاصل نہیں کر سکتا اور یا انہیں یہ ماننا پڑے گا کہ وہ تھیوری جو ان کے تجسم کے متعلق انہوں نے پیش کی تھی وہ باطل ہے کیونکہ اگر یہ تھوری درست ہوتی تو صلیب کے واقعہ کے بعد انہیں جسم سے آزاد ہو جانا چاہئے تھا مگر بجائے آزاد ہونے کے وہ بائبل کے رو سے اسی جسم کے ساتھ زندہ ہوئے اور اسی جسم کے ساتھ آسمان پر چلے گئے۔
پھر عیسائیوں کا یہ دعویٰ کہ مسیح کفارہ ہو گیا ہے اس دعویٰ کے ثابت کرنے سے پہلے یہ سوال حل کرنا بھی ضروری ہے کہ کیا مسیح کفارہ پر راضی تھا ۔ ساری دلیل کفارہ کی یہی ہے کہ خدا لوگوں کے گناہ معاف نہیں کر سکتا اور چونکہ وہ معاف نہیں کرسکتا اس لئے اس نے بنی نوع انسان کے گناہوں کا کفارہ مسیح کو سزاد ے کر قبول کر لیا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر زید مقروض ہے اور بکر اس کا قرضہ ادا کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے تو زید کا قرضہ اتر جاتا ہے ۔ بنی نوع انسان گناہ کر کے خدا تعالیٰ کے مقروض ہو گئے ہیں اور وہ بوجہ عادل ہونے کے ان کو معاف نہیںکر سکتا کیونکہ ان کے خیال میں عدل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ گنہگار کو ضرور سزا دی جائے۔ پس اس کا علاج اس نے یہ کیا کہ اپنے بیٹے سے لوگوں کا قرضہ وصول کر لیا۔ فرض کرو یہ بات ٹھیک ہے۔ اگرچہ گناہ روپیہ کی طرح نہیں بلکہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی کو سرطان کا پھوڑا نکلا ہوا ہو۔ ایسے شخص کے متعلق اگر دس ہزار لوگ بھی یہ کہیں کہ یہ پھوڑا اسے نہیںنکلا ہوا بلکہ ہمیں نکلا ہوا ہے اور ہم اس کی تکلیف اٹھانے کیلئے تیار ہیں تو وہ اس کی تکلیف کو نہیں اٹھا سکتے۔ اسی طرح دنیا میں اور کئی چیزیں ہیں جن کا بدلہ نہیں دیا جا سکتااور گناہ بھی انہیں چیزوں میں سے ہے لیکن ہم فرض کر لیتے ہیں کہ گناہ کا بدلہ دیا جا سکتا ہے اور عیسائیوں کی بات درست ہے۔ تو بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی کے قرض کے بدلہ میں دوسرے سے زبردستی روپیہ چھین لینا جائز ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اگر الف کا قرضہ ب اپنی مرضی سے ادا کر دے تو ایسا کر سکتا ہے لیکن اگر الف کا قرضہ ہم معاف نہ کریں اور ب کی جیب سے جبر اً روپیہ نکال لیں تو ہم نے انصاف ہی نہیں کیا بلکہ ظلم کیا ۔ انصاف اس لئے نہیں کیا کہ ہم نے اس سے قرض وصول نہیں کیا جس سے وصول کرنا چاہئے تھا اور ظلم اس لئے کیا کہ ہم نے جبر سے کام لیا اور دوسرے کی جیب سے زبردستی روپیہ نکال لیا۔پس اگر مسیح لوگوں کے گناہوں کا قرض ادا کرنے پرراضی ہو اور باقی باتیں بھی ثابت ہو جائیں تو ہمیں مان لینا پڑے گا کہ وہ کفارہ ہو گیا ۔ لیکن اگر باقی باتیں مسیحیت ثابت بھی کر دے جن کا ہم نے اوپر رد کیا ہے اور یہ ثابت نہ کرے کہ بنی نوع انسان کے گناہ کا بوجھ اپنی مرضی سے مسیح نے اٹھایا تو کفارے کا تمام گھر وندا ختم ہو جاتا ہے کیونکہ جس کو کفارہ کیلئے پیش کیا گیا ہے وہ کفارہ دینے پر راضی نہیں تھا۔ اس کے متعلق ہم انجیل کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس بارہ میں کیا بیان دیتی ہے ۔
مرقس باب ۱۴آیت ۳۲ تا ۴۲ میں لکھا ہے:۔
’’ پھر وہ ایک جگہ آئے جس کا نام گتسمنی (Gethsemane)تھا اور اس نے (یعنی مسیح نے) اپنے شاگردوں سے کہا یہاں بیٹھے رہو جب تک میں دعا کروں۔ اور پطرس اور یعقوب اور یوحنا کو اپنے ساتھ لے کر نہایت حیران اور بے قرار ہونے لگا (یعنی حضرت مسیح نے صرف تین ساتھ لئے اور علیحدگی میںدعا کرنے کیلئے چلا گیا) اور ان سے کہا میری جان نہایت غمگین ہے یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے تم یہاں ٹھہرو اور جاگتے رہو (یعنی پہلے تو باقی شاگردوں کو پیچھے چھوڑا تھا اور صرف تین شاگرد اپنے ساتھ لئے تھے لیکن پھر اس خیال سے کہ ممکن ہے ان کی وجہ سے طبیعت میں حجاب پیدا ہو اور پوری طرح گریہ وزاری نہ ہو سکے اس نے انہیں بھی کہا کہ تم یہاں ٹھہرو اور جاگتے رہو) اور وہ تھوڑا آگے بڑھا اور زمین پر گر کر دعا کرنے لگا کہ اگر ہو سکے تو یہ گھڑی مجھ پر سے ٹل جائے۔ (یعنی صلیب پر لٹکنا جس کے ذریعہ سے اس نے تمام بنی نوع انسان کے گناہ اٹھانے تھے اس کے متعلق اس نے یہ دعا کی کہ اے خدا یہ گھڑی مجھ سے ٹل جائے اور دشمن مجھے صلیب پر نہ لٹکا دے) اور کہا اے ابا اے باپ تجھ سے سب کچھ ہو سکتا ہے اس پیالہ کو میرے پاس سے ہٹا لے (ان الفاظ کے صاف معنے یہ ہیں کہ اسے مجبور کیا جا رہا تھا کہ وہ پھانسی پر لٹکے) اپنی مرضی سے وہ پھانسی پرلٹکنے کیلئے تیار نہیں تھا پھر اس نے کہا ) توبھی جو میں چاہتا ہوں وہ نہیں بلکہ جو تو چاہتا ہے وہی ہو (یعنی میں تو یہ چاہتا ہوں کہ صلیب پر نہ لٹکوں اور کفارہ نہ بنوں۔ لیکن تو چاہتا ہے کہ میں صلیب پر لٹک جائوں گویا مجھ سے زبردستی ایک کام لے رہا ہے اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی بینکر اس شخص سے تو قرضہ وصول نہ کرے جس نے روپیہ لیا اور بازار جاتے ہوئے کسی کی جیب سے زبردستی روپیہ نکال کر یہ سمجھ لے کہ اس کا قرضہ ادا ہو گیا ہے۔ مسیح صاف الفاظ میں کہتا ہے ’’ تو بھی جو میں چاہتا ہوں وہ نہیں بلکہ جو تو چاہتا ہے وہی ہو‘‘ یعنی میں تو نہیں چاہتا کہ صلیب پر لٹکوں لیکن اگر تو لٹکانا ہی چاہتا ہے تو مجھے منظور ہے)پھر وہ آیا اور انہیں سوتے پا کر پطرس سے کہا اے شمعون تو سوتا ہے کیا تو ایک گھڑی بھی نہ جاگ سکا (پطرس کا اصل نام شمعون تھا مسیح نے اس کا نام پطر س رکھا جس کے معنے چٹان کے ہیں اور جس میںاس طرف اشارہ تھا کہ آئندہ زمانہ میںیہ شخص مسیحیت کے لئے چٹان ثابت ہو گا) جاگو اور دعا کرو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو ۔ روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے(یعنی چونکہ خدا کا منشاء ہے کہ میںصلیب پر لٹک جائوں اس لئے میرا دل تو نہیں ڈرتا مگر جہاں تک بشریت کا تعلق ہے میرا جسم اپنی کمزوری محسوس کرتا ہے) وہ پھر چلا گیا اور وہی بات کہہ کر دعا کی (یعنی پھر یہی کہا کہ اے خدا میری مرضی صلیب پر لٹکنے کی نہیں لیکن اگر تو لٹکانا چاہتا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں)اور پھر آ کر انہیں سوتے پایا کیونکہ ان کی آنکھیں نیند سے بھری تھیں اور وہ نہ جانتے تھے کہ اسے کیا جواب دیں (غرض مسیح گھبراہٹ اور بے قراری میں بار بار آتے تھے اور یہ دیکھتے تھے کہ میرے حواری اس مصیبت اور تکلیف کی گھڑی میں میرا ساتھ دے رہے ہیں یا نہیں ۔ مگر وہ جب بھی آتے حواریوں کو سویا ہوا پاتے) پھر تیسری بار آ کر ان سے کہا اب سوتے رہو اور آرام کرو۔ بس وقت آ پہنچا ہے دیکھو ابن آدم گنہگاروں کے ہاتھ میں حوالہ کیا جاتا ہے دیکھو میرا پکڑوانے والا نزدیک آ پہنچا ہے۔‘‘
اس حوالہ سے پتہ لگتا ہے کہ مسیح اپنی مرضی سے ہرگز کفارہ نہیں ہوا۔ اس کی خواہش یہی تھی کہ کسی طرح یہ پیالہ ٹل جائے اور صلیب پر اسے نہ لٹکنا پڑے ۔ پس جو کچھ ہوا زبرستی ہوا۔
اس بارہ میںدوسری گواہی لوقا کی ہے اس میں لکھا ہے۔
’’ پھر وہ نکل کر اپنے دستور کے موافق زیتون کے پہاڑ کو گیا اور شاگرد اس کے پیچھے ہو لئے اور اس جگہ پہنچ کر اس نے ان سے کہا دعا کرو کہ آزمائش میں نہ پڑو اور وہ ان سے بمشکل الگ ہو کر کوئی پتھر کا ٹپہ آگے بڑھا اور گھٹنے ٹیک کر یوں دعا کرنے لگا کہ اے باپ اگر تو چاہے تو یہ پیالہ مجھ سے ہٹا لے تو بھی میری مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو (گویا یہ انجیل بھی مانتی ہے کہ مسیح نے یہ کہا کہ میری مرضی تو اس میں نہیں لیکن اگر تیری مرضی مجھے صلیب پر لٹکانے کی ہی ہے تو میں اسے قبول کرتا ہوں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لو کہ میں تو قرضہ دینا نہیں چاہتا لیکن اگر تو چھیننا چاہتا ہے تو چھین لے) اور آسمان سے ایک فرشتہ اس کو دکھائی دیا وہ اسے تقویت دیتا تھا (یعنی خدا کو فرشتہ تقویت دیتا تھا یہ ایسی ہی بات ہے جیسے گھوڑے کو کوئی چوہابلکہ اس سے بھی کوئی چھوٹی چیز سہارا دے) پھر وہ سخت پریشانی میں مبتلا ہو کر اور بھی دلسوزی سے دعا کرنے لگا (گویا فرشتے کی تقویت بھی کام نہ آئی اور وہ اس دعا میں مشغول ہو گیا کہ کسی طرح یہ صلیب کی مصیبت مجھ سے ٹل جائے) اور اس کا پسینہ گویا خون کی بڑی بڑی بوندیں ہو کر زمین پر ٹپکتا تھا (حالانکہ وہ دن سخت سردی کے تھے ۔د سمبر کا مہینہ تھا شمالی علاقہ میںمسیح رہتے تھے اور پھر اس وقت پہاڑی پر چڑھے ہوئے تھے مگر اس پریشانی کا ان پر اتنا اثر تھا کہ ایسی سخت سردی میں بھی دعا کرتے وقت ان کا پسینہ ٹپ ٹپ بہنے لگا ۔ اس دعا کے بعد وہ اپنے شاگردوں کے پاس آئے چونکہ انسان کے لئے اپنا عیب بیان کر نا مشکل ہوتا ہے اور خیال ہوتا ہے کہ کہیں دشمن کوئی طعنہ نہ دیدے اس لئے یہاں لوقا نے ایک عجیب بات لکھ دی ہے ۔ مرقس نے تو صاف طور پر بیان کر دیا تھا کہ اس شدت گھبراہٹ میں مسیح بار بار اپنے شاگردوں کے پاس آتے اور کہتے کہ اٹھو اور دعا کرو مگر وہ اٹھنے کا نام نہیں لیتے تھے لیکن لوقا کو خیال آیا کہ یہ تو بڑی بدنامی کی بات ہے لوگ کیا کہیں گے کہ مسیح کے اچھے شاگرد تھے اتنی بڑی مصیبت میں بھی وہ نہ جاگ سکے اور باوجود اس کے مسیح بار بار کہتے تھے کہ اٹھو اور دعا کرو وہ اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ا س بدنامی کے دھبہ کو دور کرنے کیلئے لوقا لکھتا ) جب دعا سے اٹھ کر شاگردوں کے پاس آیا تو انہیں غم کے مارے سوتے پایا(گویا شدت غم میں وہ بالکل سو رہے تھے)اور ان سے کہا تم سوتے کیوں ہو (لوقا کے نزدیک اس کے معنے یہ ہوں گے کہ تم غم کیوں کرتے ہو اور شدت غم میں تم کیوں سو رہے ہو۔ گویا غم میں انسان سویا کرتا ہے اور جب غم نہ ہو تو اٹھ کر دعا کیا کرتا ہے۔ صاف پتہ لگتا ہے کہ چونکہ لوقا کو یہ خیال آگیا کہ پڑھنے والے کیا خیال کریں گے کہ یہ عجیب شاگرد تھے جو اتنی بڑی مصیبت میں ہی سوئے رہے اس لئے اس نے یہ الفاظ لکھ دئیے کہ وہ حواری شدت غم میں سو رہے تھے مسیح نے ان سے کہا) اٹھ کر کہ دعا کرو تا کہ آزمائش میں نہ پڑو۔‘‘
(لوقا باب ۲۲ آیت ۳۹ تا ۴۶)
اس حوالہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح صلیب پر لٹکنا نہیں چاہتا تھا اور کفارہ کی ساری بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ مسیح اپنی مرضی سے لوگوں کے گناہوں کے بدلہ میں صلیب پر لٹکا۔ جب وہ اپنی مرضی سے صلیب پر ہی نہیں لٹکا توکفارہ کس طرح ہوا؟
بعض دفعہ عیسائی یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس میں جبر کا کوئی سوال ہی نہیں مسیح نے خود ہی کہہ دیا تھا کہ’’ تو بھی میری مرضی نہیں بلکہ تیری ہی مرضی پوری ہو۔ ہم کہتے ہیں ٹھیک ہے ایک نبی سے یہ کب امید ہو سکتی ہے کہ خدا چاہے اور وہ نہ چاہے مسیح نے بھی جب دیکھا کہ خدا کی مرضی اسی میں ہے کہ میں صلیب پر لٹک جائوں تو اس نے خدا تعالیٰ سے کہا کہ اے خدا تیری مرضی پوری ہو ۔ لیکن اس سے اتنا تو ثابت ہو گیا کہ وہ اپنی مرضی سے کفارہ نہیں ہوا اور کفارہ خدا تعالیٰ کی مرضی سے نہیں ہوتابلکہ اگر کفارہ ہو سکتا ہے تو کفارہ دینے والے کی مرضی سے ہوتا ہے مسیح صاف طور پر کہتا ہے کہ میری مرضی نہیں کہ میں کفارہ پیش کروں یہ اور بات ہے کہ جبر کے بعد وہ تیار ہوگیا ۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے بعض دفعہ ڈاکو جنگل میں کسی مسافر کو پکڑ لیتے ہیں تو وہ ہنس ہنس کر انہیں روپیہ دینا شروع کر دیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر میں بولا تو یہ مجھے قتل کر دیں گے لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ اپنی مرضی سے انہیںروپیہ دے رہا ہوتا ہے ۔ اسی طرح یہ سوال نہیں کہ خدا نے اسے جبراً ایک بات پر تیار کر لیا۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ بات مسیح کی اپنی مرضی سے ہوئی؟اگر اس کی مرضی سے ہوئی ہے تب تووہ کفارہ ہوا ورنہ نہیں اور اوپر کے حوالہ جات بتا رہے ہیں کہ مسیح نے صاف طور پر یہ کہا کہ میری مرضی نہیں کہ صلیب پر لٹکوں۔ پس جو کچھ ہوا جبر سے ہوا اور یہ چیز ایسی ہے جو کفارہ کو باطل ثابت کر دی ہے۔
بعض عیسائی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ مسیح کی عارضی حالت تھی بعد میں اس کی یہ کیفیت بدل گئی تھی۔ اس امر کا جائزہ لینے کیلئے ہم یہ دیکھتے ہیںکہ صلیب کے وقت مسیح کی کیا حالت تھی۔ساری انجیل میں عبرانی کا ایک ہی فقرہ محفوظ ہے جو مسیح نے صلیب کے وقت بولا اور وہ فقرہ یہ ہے کہ ایلی ایلی لما سبقتنی (متی باب ۲۷ آیت ۴۶)یعنی جب مسیح کو صلیب پر لٹکایا گیا اور ان کے ہاتھوں اور پائوں میں کیل گاڑے گئے تو مسیح نے نہایت ہی دردناک طور پر خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ ایلی ایلی اے میرے خدا اے میرے خدا لما سبقتنی تو کس وجہ سے مجھ کو چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ آخر میںنے کیا گناہ کیاہے کہ تو نے مجھے چھوڑ دیا اور مجھ سے اپنے رحم و کرم کی نظر ہٹا لی۔ اس دعا سے بھی صاف پتہ لگتا ہے کہ مسیح اپنے مرضی سے صلیب پر نہیں لٹکا بلکہ آخری حالت میںبھی وہ یہی سمجھتا تھاکہ خدا نے مجھے چھوڑ دیا ہے اور اس نے مجھے اس مصیبت میںڈال دیا ہے گویا مسیح اس بات پر خوش نہیں تھا کہ اس کو صلیب پر لٹکایا جائے اور جب وہ اس بات پر خوش نہ تھا نہ صلیب سے پہلے اور نہ بعد۔ اور وہ یہ قربانی دینے کیلئے تیار نہیں تھا تو اس کا صلیب پر لٹکنا کفارہ کا موجب نہیں ہو سکتا۔
پھر اس کے ساتھ ہی ایک اور سوال بھی حل کرنا ضروری ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ کیا مسیح آدم کے گناہ سے خود پاک تھا کہ قابل کفارہ ہو؟ کفارہ کی تھیوری یہ ہے کہ انسان پاک نہیںہو سکتا کیونکہ آدم نے گناہ کیا تھا اور وہ آدم کی نسل میں سے ہے اور چونکہ نسل اپنے باپ کی وارث ہوتی ہے۔ اس لئے جو آدم کی اولاد ہے وہ بہرحال اپنے باپ کے گناہ کی وارث ہے اور چونکہ وہ گناہ کی وارث ہے اس لئے اولاد آدم گناہ سے بچ نہیں سکتی اور چونکہ وہ گناہ سے بچ نہیں سکتی اور نجات نہیں پا سکتی اور نہ کوئی گنہگار انسان دوسرے گنہگار کے لئے کفارہ ہو سکتا ہے اس لئے ضروری تھا کہ کوئی ایسا وجود ہوتا جو گنہگار نہ ہوتا اور اپنی مرضی سے لوگوں کے گناہ اٹھا لیتا اور ان کی سزا خود برداشت کر لیتا تاکہ دوسرے لوگ گناہ کی سزا سے بچ جائیں ۔ اور یہ وجود مسیح ناصری تھا جو خدا کابیٹا تھا اس نے تمام لوگوں کے گناہ اٹھا لئے اور صلیب پر لٹک کر ان کے لئے کفارہ بن گیا۔ یہ ہے کفارہ کی تھیوری ۔ اب اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مسیح گناہ سے پاک نہیں تھا تو یہ ساری تھیوری ختم ہو جاتی ہے ۔ جب وہ گناہ سے پاک ہی نہیں تھا تو کفارہ بھی نہیں ہو سکتا تھا ۔ انبیاء کے متعلق عیسائی یہی کہتے ہیں کہ چونکہ وہ گنہگار تھے اس لئے کفارہ نہیں ہو سکتے تھے ابراہیم کفارہ نہیں ہو سکتا تھا موسیٰ کفارہ نہیں ہو سکتا تھا د ائود کفارہ نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ وہ خود گنہگار تھے اور گنہگار دوسرے گنہگار کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ لیکن بائبل سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسیح خود بھی پاک نہیں تھا اور جب وہ پاک نہیں تھا تود وسرے گنہگاروں کا وہ بھی بوجھ نہیں اٹھا سکتا تھا۔
انسان کو گنہگار ثابت کرنے کی دلیل مسیحیت یہ دیتی ہے کہ وہ گناہ کرنے والے آدم کی نسل میں سے ہے اور چونکہ وہ آدم کی نسل میں سے ہے اس لئے گنہگار ہے ۔ ہم کہتے ہیں مسیح ؑ بھی حوا کے ذریعہ آدم کی اولاد میں سے تھا اور اس لئے وہ بھی گنہگار تھا۔ مسیحی کہتے ہیں کہ انسان نے گناہ آدم سے ورثہ میں لیا ہے۔ جب مسیح ؑ کا کوئی باپ ہی نہیں تھا تو آدم کا گناہ اس کے ورثہ میں نہیں آیا۔ ہم کہتے ہیں کہ ورثہ باپ اور ماں دونوں سے مل سکتا ہے ۔ مثلاً اگر ماں کے اندر آتشک ہو تو بچے کے اندر بھی آتشک کا مادہ آ سکتا ہے یا اگر ماں کو سل ہو تو بچے کے اندر بھی سل کا مادہ آ سکتا ہے۔ کئی مائیں مسلول ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی اولاد میں بھی سل کا مادہ آ جاتا ہے۔ اسی طرح مائوں کو مرگی یا جنون کا مرض ہوتا ہے تو اولاد میں بھی مرگی اور جنون کا مرض آ جاتا ہے۔ غرض دنیا کے حالات پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اخلاقی ، جسمانی یا روحانی عیوب جو ماں باپ میں ہوتے ہیں وہ ورثہ کے طور پر ان کی اولاد میں بھی منتقل ہو جاتے ہیں ۔ یہ نہیں ہوتا کہ صرف باپ سے ورثہ کے طور پر کوئی بات آ جائے اور ماں کی طرف سے نہ آئے بلکہ باپ اور ماں دونوں کا ورثہ ملتا ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے جب مسیحؑ حوا کی اولاد میں سے تھا تو خواہ اس کا باپ کوئی نہ ہو تب بھی اس نے اپنی ماں سے ورثہ کا گناہ پا لیا تھا اور وہ دوسرے انسانوں کی طرح گنہگار تھا۔ مسیح اسی صورت میں گناہ کے ورثہ سے بچ سکتا ہے جب یہ ثابت کیا جائے کہ وہ آدم اور حوا دونوں کی اولاد میں سے نہیں تھا۔ جب اس کا نہ باپ ہو نہ ماں۔ تب بے شک ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نے ورثہ کا گناہ نہیں پایا۔ اور یا پھر یہ ثابت ہو جائے کہ حوا نے گناہ نہیں کیا۔ تب حضرت مسیح ؑورثہ کے گناہ سے بچ سکتے ہیں کیونکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسیح ؑ حوا کی اولاد میں سے ہے جس نے گناہ نہیں کیا تھا آدم کی اولاد میں سے نہیں جس نے گناہ کیا تھا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس صورت میں بھی مسیح نگاہ سے نہیں بچ سکتا۔کیونکہ اگر فرض کر لیا جائے کہ حوا نے گناہ نہیں کیا تھا۔ گناہ صرف آدم نے کیا تھا تب بھی اگر مسیح کو حوا نے جنا ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ اس میں گناہ کا مادہ نہیں آیا۔ لیکن مسیح تو اس عورت کا بیٹا ہے جو حوا سے ہزاروں سال بعد ہوئی اور جو کئی ہزار واسطے حوا تک رکھتی تھی اس دوران میں ہزاروں دفعہ آدم کی اولاد نے حوا کی بیٹیوں کو چھؤا پھر اور حوا کی بیٹیاں ہوئیں تو ان کو پھر آدم کی اولاد نے چھؤا۔ اس طرح کئی ہزار چکر کھانے کے بعد حضرت مریم پیدا ہوئیں ۔ وہ اتنے ہزار چکر میں آدم کے گناہ کے اثر سے بچ کس طرح سکتی تھیں اگر تو وہ براہ راست حوا کی اولاد میں سے ہوتیں اور حوا بے گناہ ہے اور چونکہ مریم براہ راست بغیر کسی واسطہ کے حوا کی بیٹی ہے۔ اس لئے گناہ کا مادہ اس میں نہیں آیا مگر براہ راست حوا کی اولاد میں سے نہیں بلکہ حوا کی ان بیٹیوں کی اولاد میں سے ہے جو ہزاروں دفعہ گناہوں سے ملوث ہو چکی ہیں۔ پس وہ عورت جو آدم کے گناہ کا حصہ لے چکی تھی کس طرح مسیح کے پاک ہونے کا موجب ہو سکتی تھی۔
پھر یہ بھی درست نہیں کہ حوا بے گناہ تھی ۔ بلکہ بائبل سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حوا آدم سے بھی زیادہ گنہگار تھی۔
بائبل میں لکھا ہے :۔
’’ اور سانپ کل دشتی جانوروں سے جن کو خداوند خدا نے بنایا تھا چالاک تھا (یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ بائبل میں سانپ سے مراد شیطان ہوتا ہے) اور اس نے عورت سے کہا کیا واقعہ خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا (گویا شیطان حوا کے پاس گیا اور اس نے چالاکی یہ کی کہ حوا سے جا کر یہ نہیں کہا کہ میں نے سنا ہے کہ فلاں درخت کا پھل کھانے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ممانعت ہو چکی ہے بلکہ اس نے یہ کہا کہ کیا خدا نے یہ کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل نہ کھانا) عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جائو گے۔ تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اسے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جائو گے عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کیلئے خوب ہے تو اس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اس نے کھایا۔ تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور ان کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں اور انہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کراپنے لئے لنگیاں بنائیں۔اورانہوں نے خداوند خدا کی آواز جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھرتا تھا سنی اور آدم اور اس کی بیوی نے آپ کو خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا۔ تب خداوند خدا نے آدم کو پکارا اور اس نے کہا کہ تو کہاں ہے۔ اس نے کہا میں نے باغ میں تیری آواز سنی اور میں ڈرا کیونکہ میں ننگا تھا اور میں نے اپنے آپ کو چھپایا اس نے کہا کہ تجھے کس نے بتایا کہ تو ننگا ہے کیا تو نے اس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا آدم نے کہا کہ جس عورت کو تو نے میرے ساتھ کیا ہے اس نے مجھے اس درخت کا پھل دیا اور میں نے کھایا۔ تب خداوند خد انے عورت سے کہا کہ تو نے یہ کیا کِیا ۔عورت نے کہا کہ سانپ نے مجھ کو بہکا یا تو میں نے کھایا اور خداوند خدا نے سانپ سے کہا اس لئے کہ تو نے یہ کیا تو سب چوپایوں اور دشتی جانوروں میں ملعون ٹھہرا۔ تو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور اپنی عمر بھر خاک چاٹے گا اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔وہ تیر ے سر کو کچلے گا اور تو اس کی ایڑی پر کاٹے گا ۔ پھر اس نے عورت سے کہا کہ میں تیرے درد حمل کو بہت بڑھائوں گا ۔ تو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا اور آدم سے اس نے کہا چونکہ تو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور اس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھے حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا اس لئے زمین تیرے سبب سے *** ہوئی ۔ مشقت کے ساتھ تو اپنی عمر بھر اس کی پیداوار کھائے گا اور وہ تیرے لئے کانٹے اور اونٹ کٹارے اُگائے گی اور تو کھیت کی سبزی کھائے گا تو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا جب تک کہ زمین میں تو پھر لوٹ نہ جائے ۔ اس لئے کہ تو اس سے نکالا گیا ہے کیونکہ تو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا‘‘ (پیدائش باب ۳ آیت ۱تا ۲۰)
یہ وہ واقعہ ہے جو بائبل میں آدم کے گناہ کے متعلق آتا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ شیطان کا مقصود آدم کو ورغلانا تھاکیونکہ شیطان سمجھتا تھا کہ آدم کے وجود سے میری حکومت باطل ہو جاتی ہے ۔حوا کا مقام ایسا نہیں تھا کہ شیطان کو اس سے خطرہ ہوتا ۔ پس اس کی اصل غرض یہ تھی کہ آدم کو جنت سے نکالا جائے۔ گویا اصل ساکن جنت آدم تھا ۔ حوا آدم کے طفیل پیدا ہوئی اور آدم کے طفیل ہی اسے جنت ملی۔ پس شیطان کا اصل مقصد آدم کو بہکانا تھا مگر شیطان آدم کے پاس نہیں گیا بلکہ حوا کے پاس گیا اور اسے پھل کھانے پر آمادہ کیا اور پھر حوا نے آگے آدم کو پھل کھلایا۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور شیطان پہلے حوا کے پاس کیوں گیا جبکہ اس کی اصل غرض آدم کو بہکانا تھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شیطان کی اصل غرض گو آدم کو بہکانا تھی مگر وہ ڈرتا تھا کہ اگر میں براہ راست آدم کے پاس گیاتو میں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گا۔ اور آدم میرے دھوکا میں نہیں آئے گا۔ اس لئے وہ پہلے حوا کے پاس گیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ حوا جلد قابو آ جائے گی او رپھر حوا کے ذریعہ آدم کو ورغلانا آسان ہو جائے گا۔چنانچہ جب آدم سے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ
’’ کیا تو نے اس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ اسے نہ کھانا ‘‘
تو آدم نے یہی جواب دیا کہ
’’ جس عورت کو تو نے میرے ساتھ کیا ہے اس نے مجھے اس درخت کا پھل دیا اور میں نے کھایا‘‘
یعنی آپ کی طرف سے یہ عورت مجھے تحفہ کے طور پر ملی تھی۔ میں دھوکا میں آ گیا اور میں نے سمجھا کہ یہ عورت جو خدا تعالیٰ کا عطیہ ہے یہ تو غلطی نہیں کر سکتی اور میں نے اس کے کہنے سے اس درخت کا پھل کھا لیا۔ غرض آدم بھی یہی کہتا ہے کہ عورت نے مجھے بہکایا اور شیطان بھی پہلے حوا کے پاس ہی گیا اور اس نے اسے ورغلایا۔ ان واقعات سے ظاہر ہے کہ
1۔ پہلے گناہ حوانے کیا۔
2۔ حوا آدم سے زیادہ کمزور اور گناہ میںپھنسنے کے زیادہ قابل تھی۔ اسی لئے شیطان پہلے حوا کے پاس گیا حالانکہ اس کا اصل مقصود آدم تھا۔
3۔ جو نسل آدم اور حوا سے پیدا ہوگی اس میں ورثہ کے گناہ کی کمزوری اس اولاد سے کم آ ئے گی جو صرف حوا سے پیدا ہو گی۔ کیونکہ آدم اور حوا کی اولاد نے کچھ باپ کا ورثہ لیا ہے اور کچھ ماں کا ورثہ لیا ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ جب طاقتور اور کمزور چیزیں آپس میں ملتی ہیں تو وہ ایک درمیانی کیفیت پر آ جاتی ہیں لیکن وہ اولاد جو خالص حوا سے پیدا ہوگی وہ لازماً گناہ کے زیادہ قریب ہوگی۔
جب یہ حالات ہیں تو مسیح صرف حوا سے پیدا ہونے کی وجہ سے دوسرے لوگوں کی نسبت گناہ کے زیادہ قریب ہو گئے ۔ پس وہ دوسروں کے گناہوں کا کفارہ نہیں ہو سکتے۔
کہا جا سکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طاقت میں ہے کہ حوا کی نسل میں سے نیک لوگوں کو پیدا کر دے۔ ہم اس بات کو مانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ حوا کی اولاد میں سے ایسے لوگ پیدا کر دے جو ہر قسم کے گناہوں سے پاک ہوں۔ لیکن کفارہ کی بنیاد اس بات پر نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طاقت میں یہ بات داخل ہے یا نہیں کہ وہ حوا کی نسل سے نیک لوگوں کو پیدا کر دے۔ بلکہ اس بات پر ہے کہ ہر انسان پیدائشی طور پر گنہگار ہے اور یہ گناہ کا مادہ اس نے آدم سے ورثہ میں لیا ہے ورنہ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اس کی قدرت کا سوال ہے ہمارا عقیدہ تو آدم کی اولاد کے متعلق بھی یہی ہے کہ اس میں سے بھی نیک لوگ ہو سکتے ہیںاور ہوتے رہے ہیں ۔پس اگر اللہ تعالیٰ کی طاقت کا ہی سوال ہو تو خدا تعالیٰ کی طاقت میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ حوا گنہگار کی اولاد سے نیک لوگ پیدا کرے اور خدا تعالیٰ کی طاقت میں یہ بھی داخل ہے کہ وہ آدم گنہگار کی اولاد سے نیک لوگ پیدا کرے لیکن عیسائیوں کا عقیدہ تو یہ ہے کہ جو گنہگار ہو اس کی اولاد نیک ہی نہیں ہو سکتی اور جب ان کا یہ عقیدہ ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طاقت کا کیا سوال رہا اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ کہنے کیلئے تیار ہیں کہ حوا کی اولاد نیک بن سکتی ہے تو پھر ہم کہیں گے کہ خدا تعالیٰ میں یہ بھی طاقت ہے کہ وہ آدم کے نطفہ سے نیک اولاد پیدا کردے۔ ایسی صورت میں نہ ورثہ کے گناہ پر زور دینے کی کوئی ضرورت رہتی ہے نہ گنہگاروں کی نجات کیلئے خدا تعالیٰ کے بیٹے کی قربانی کی ضرورت رہتی ہے گویا کفارے کی تمام عمارت ایک آن میںمنہدم ہو جاتی ہے عیسائی سیدھی طرح تسلیم کر لیں کہ خدا تعالیٰ کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ گنہگارماں باپ سے نیک اولاد پیدا کر دے لیکن اگر وہ حوا کی اولاد کے متعلق تو خدا تعالیٰ کی طاقت تسلیم کرنے کیلئے تیار ہیں اور آدم کی اولاد کے متعلق اس کی طاقت تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تو یہ خود ایک قابل اعتراض امر ہوگا۔بہرحال اصل سوال صرف اتنا ہے کہ خدا میں نیک اولاد پیدا کرنے کی طاقت ہے یا نہیں؟اگر خدا تعالیٰ میں گنہگار ماں سے نیک اولاد پیدا کرنے کی طاقت ہے تو خدا تعالیٰ میں گنہگار باپ سے بھی نیک اولاد پیدا کرنے کی طاقت ہے اور اگر خدا میں گنہگار باپ سے نیک اولاد پیدا کرنے کی طاقت ہے تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ میں گنہگار ماں سے بھی نیک اولاد پیدا کرنے کی طاقت نہیں ۔ بہرحال اگر وہ گنہگار ماں سے نیک اولاد پیدا کرسکتا ہے تو گنہگار باپ سے بھی نیک اولاد پیدا کر سکتا ہے اور وہ گنہگار باپ سے نیک اولاد پیدا نہیں کر سکتا تو گنہگار ماں سے بھی نیک اولاد پیدا نہیں کر سکتا۔
غرض مسیح اگر گنہگار ماں کے بطن سے نیک پیدا ہو سکتا ہے تو باقی لوگ بھی نیک پیدا ہو سکتے ہیں بلکہ دوسرے لوگ مسیح سے زیادہ نیک ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے اندر باپ اور ماں دونوں کے اثرات ہیں ۔
میں نے اوپر لاہور کے ایک پادری کا ذکر کیا ہے جو بعد میں سہارنپور مشنری کالج کا پرنسپل ہو گیا ۔ میری اس سے جو گفتگو ہوئی اس کا ایک حصہ میں بیان کر چکا ہوں۔ اب گفتگو کا دوسرا حصہ بیان کرتا ہوں۔ اس پادری کا نام غالباً وڈ تھا۔ میں نے اس سے کہا پادری صاحب آپ یہ بتائیں کہ ٹھنڈے پانی اور گرم پانی کو اگر آپس میں ملائیں تو کیا ہو گا۔ وہ کہنے لگا پانی سمویا جائے گا۔کچھ گرم پانی کی گرمی کم ہو جائے گی اور کچھ سرد پانی کی سردی کم ہو جائے گی ایک درمیانی سی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔ میں نے کہا اب یہ بتائیے شیطان پہلے آدم کے پاس گیا تھا یا حوا کے پاس ؟ کہنے لگا حوا کے پاس میں نے کہا شیطان کا مقصود کیا تھا کیا حوا کو بگاڑنا مقصود تھا یا آدم کو بگاڑنا مقصود تھا؟ کہنے لگا شیطان کا مقصود تو آدم کو بگاڑنا تھا۔میں نے کہا جب آدم مقصود تھا تو وہ براہ راست آدم کے پاس کیوں نہیں گیا راستہ میں چکر کاٹنے کی اسے کیا ضرورت تھی؟ اس نے کہا وہ براہ راست آدم کے پاس اس لئے نہیں گیا کہ اس نے سمجھا حوا کمزور ہے اور میں اسے آسانی سے ورغلا لوں گا ۔ اس کے بعد آدم کو یہ حوا خود بخود ورغلائے گی میری ضرورت نہیںرہے گی۔ میں نے کہا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حوا آدم سے کمزور تھی ۔کہنے لگا ہاں۔ میں نے کہا جب حوا آدم سے کمزور تھی اور گناہ کا ارتکاب پہلے اسی نے کیا اور اسی نے آدم کو ورغلایا تو وہ وجود جو صرف حوا سے پیدا ہوا وہ بے گناہ کس طرح ہو گیا؟ میں نے کہا آپ گرم اور ٹھنڈے پانی کی مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے یوں سمجھ لیں کہ آدم کی مثال ٹھنڈے پانی کی سی تھی اور حوا کی مثال گرم پانی کی سی تھی۔ ان دونوں کے ملنے سے جو اولاد پیدا ہوتی وہ لازماً اتنی گنہگار نہیں ہو سکتی جتنی وہ اولاد گنہگار ہو سکتی ہے جو صرف حوا سے پیدا ہوئی ہے ۔ پس مسیح جو حوا سے پیدا ہوا وہ دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ گنہگار تھا۔کہنے لگا کیا مٹی میں سے سونا نہیں نکلتا؟ میں نے کہا ہمارا اور آپ کا سارا جھگڑا ہی یہی ہے۔ اگر مٹی میں سے سونا نکل سکتا ہے تو پھر آدم کو آپ بے شک گنہگار کہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی مانیں کہ اس کی اولاد نیک ہو سکتی ہے ضروری نہیں کہ وہ گنہگار ہی ہو۔اب جو میں نے اس طرح پکڑا تو کہنے لگا مٹی میں سے سونا نہیں نکلتا، سونے میں سے سونا نکلتا ہے۔ آدم چونکہ گنہگار تھا اس لئے اس کی اولاد بھی ضرور گنہگار ہو گی وہ نیک نہیں ہو سکتی کیونکہ سونے میں سے سونا نکلتا ہے ۔ میں نے کہا تو پھر حوا کا بیٹا دوسروں سے زیادہ گنہگار ماننا پڑے گا کیونکہ حوا آدم سے زیادہ گنہگار تھی۔ اس نے نہ صرف خود رخت کا پھل کھایا بلکہ آدم کو بھی کھلایا اور اس طرح وہ دوہری گنہگار بنی۔ اس پر وہ پھر جھنجلا کر کہنے لگا مٹی کی کان میں سے سونا نہیں نکلتا۔ کان مٹی کی ہوتی ہے مگر اندر سے سونا نکل آتا ہے میں نے کہا تو پھر آدم کے متعلق بھی یہی نظریہ تسلیم کریں کہ گو وہ گنہگار تھا مگر اس کی اولاد میں سے ایسے لوگ بھی پیدا ہو سکتے ہیں جو نیک ہوں اور ہر قسم کے عیوب سے پاک ہوں۔
اب عیسائیوں کے لئے صرف ایک ہی پہلو رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ مسیح کے متعلق وہ یہ کہیں کہ اس کے ماں باپ کے گناہ کا کوئی سوال پیدا نہیں ہو سکتا۔وہ ابن اللہ تھا اور اپنی ذات میں ہر قسم کے گناہوں سے پاک تھا۔ اس کے متعلق یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ حوا کی نسل میں سے ہونے کی وجہ سے وہ دوسروں کی نسبت کم گنہگار تھا یا زیادہ گنہگار تھا۔ وہ بوجہ ابن اللہ ہونے کے گناہ سے پاک تھا ۔ گویا اس کا پاک ہونا ماں کے بطن سے پیدا ہونے کے سبب سے نہیں تھا بلکہ ابن اللہ ہونے کی وجہ سے تھا۔ اس پر ہمارا یہ اعتراض ہے کہ اگر مسیح کے بغیر باپ کے پیدا ہونے میں کوئی خاص حکمت نہیں تھی اور ابن اللہ ہونے کی وجہ سے اس نے ماں باپ کا اثر قبول نہیں کرنا تھا تو اگر اس کا باپ ہوتا تب بھی اس نے اس کے اثر کو قبول نہیں کرنا تھا۔ اگر مسیح ایک شادی شدہ عورت کے گھر میں پیدا ہوتا اور اس کا باپ ہوتا تو پھر بھی اس نے آدم اور حوا کے اثر کو قبول نہیں کرنا تھاکیونکہ اس کی اصل حیثیت ابن اللہ کی تھی ۔ پھر خدا نے یہ کیا ظلم کیا کہ اس نے گنہگار تو ہونا نہیں تھا مگر پھر بھی اس نے مسیح کو ایسے رنگ میں پیدا کیا کہ وہ ساری دنیا میں ذلیل ہو گیا اور جہاں بھی لوگ بیٹھتے یہی کہتے کہ وہ نعوذ باللہ حلال زادہ نہیں جب اس نے نہ باپ کا اثر قبول کرنا تھا نہ ماں کا اثر قبول کرنا تھا تو اس جھگڑے کی ضرورت کیا تھی اور خدا نے مریم اور مسیح کو ایک گندے الزام کے نیچے رکھ کر کیوں تکلیف دی جب وہ ابن اللہ تھا اور اپنی ذات میں ہر قسم کے گناہوں سے پاک تھا تو اسے باپ او رماں دونوں سے پیدا کرنا چاہئے تھا تاکہ وہ اپنے زور سے پاک ہوتا اور ولدالزنا ہونے کے الزام سے بھی بچتا۔
اس جگہ مسیحی یہ کہہ سکتے ہیں کہ تم بھی تواس کو بن باپ مانتے ہو آخر تم کس وجہ سے یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ وہ بن باپ پیدا ہوا اور دشمن کو اس پر یہ الزام لگانے کا موقع ملا کہ وہ ولد الزنا ء ہے ۔تم کفارہ کو تو مانتے نہیں اور جو وجہ ہم پیش کرتے ہیں اس کو رد کرتے ہو۔پھر تم کیوں کہتے ہو کہ وہ بن باپ پیدا ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم مسیح کے بن باپ ہونے کی یہ وجہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ وعدہ تھا کہ آئندہ ان کی اولاد میں پے درپے انبیاء آئیں گے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت زمین وآسمان کے قیام تک ان کی نسل میں رہے گی اور پھر پے درپے نبیوں کی معرفت یہ وعدہ کیا گیا تھا ۔ یہ وعدہ صدیوں تک اس طرح متواتر پورا ہوا کہ موسوی سلسلہ کے لوگ دلیر ہو گئے اور انہیں اس امر کا یقین ہو گیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے خدا تعالیٰ اولاد ابراہیم کو نہیں چھوڑ سکتا اور موسوی سلسلہ سے نبوت اور بادشاہت باہر نہیں جا سکتی۔ اس کانتیجہ یہ نکلنا شروع ہوا کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء کا انذار بیکار جانے لگا ۔ نبی آتے اور وہ اپنی تعلیم پیش کرتے تو یہود ان کا مضحکہ اڑا دیتے۔ جیسے یرمیاہ وغیرہ آئے اور یہود نے ہنس کر ان کو رد کر دیا اور سمجھا کہ خدا نے یہ نعمت ہمیں ہمیشہ کیلئے دے دی ہے ۔ تب خدا نے انہیں بعض نبیوں کی معرفت یہ خبر دی کہ ایک کنواری بیٹا جنے گی یعنی وہ موعود آدھا اسرائیلی اور آدھا غیر اسرائیلی ہو گا۔ یہ ایک انذار تھا جس میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ اگر یہود نبیوں کی باتیں نہ سننے پر اسی طرح مصرّ رہے تو آئندہ وہ نبی آئے گا جو نہ باپ کی طرف سے اسرائیلی ہو گا اور نہ ماں کی طرف سے اسرائیلی ہو گا ۔ سو مسیح کے وجود میں وہ وعدہ پورا ہوا مسیح بن باپ کے پیدا ہوا اور اس کے ذریعہ سے یہود کو نوٹس دے دیا گیا کہ آدھی نبوت ان سے لے لی گئی ہے۔ کیونکہ نسل ہمیشہ باپ سے چلتی ہے سو انہیں کہا گیا کہ اب جو نبی آیا ہے وہ باپ کی طرف سے یہود میں سے نہیں ہے اگر اس کے انذار سے بھی یہود نے فائدہ نہ اٹھایا تو اگلا نبی بالکل ہی غیراسرائیلی ہو گا گو ابراہیم کی نسل سے ہوگا ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے وعدے تھے اور اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا تھاکہ بلا وجہ ان وعدوں کی برکات سے یہود کو محروم کر دے اس لئے اس نے پہلے متواتر انبیاء بھیجے ۔ جب یہود میں متواتر نبی آتے رہے اور ان کو یہ یقین کامل ہو گیا کہ اب یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نبوت غیر اسرائیلیوں میں چلی جائے تو خدا تعالیٰ نے اپنے بعض انبیاء کی معرفت ایک ایسے رنگ میں انذار کیا جس کے بعد اگر ان کے اندر کچھ بھی ایمان ہوتا تو ان کو ہوش آ جانا چاہئے تھا اور یہ سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اب ہماری شرارتوں کی وجہ سے ضرور کچھ ہونے والا ہے۔ مگر وہ پھر بھی نہ سمجھے اور اپنی شرارتوں پر مصرّ رہے۔ آخر خدا تعالیٰ نے اپنے انذار کے مطابق مسیح کو بن باپ پیدا کیا اور یہودیوں کو سمجھایا کہ آدھی نبوت تو ہم نے لے لی ہے اگر آئندہ بھی باز نہ آئے تو سزا کے طور پر نبوت کا باقی حصہ بھی لے لیا جائے گا ۔ چنانچہ اب جو نبی آیا ہے یہ ماں کی طرف سے تو یہودی ہے مگر باپ کی طرف سے نہیں ۔ لیکن آئندہ ایک بالکل غیر اسرائیلی نبی آئے گا گو وہ ابراہیم کی نسل میں سے ہی ہو گا چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے محمد رسول ا للہ ﷺ کو بھیجا جو بنو اسماعیل میں سے تھے اور بنی اسرائیل میں سے نبوت کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے منقطع ہو گیا ۔ پس ہمارا حضرت مسیح کو بن باپ ماننا قابل اعتراض نہیں ۔ ہمارے نزدیک اس میں بڑی حکمت ہے لیکن جو حکمت وہ بتاتے ہیںہم نے اسے رد کر دیا ہے اور بتایا ہے کہ اس طرح حضرت مسیح بے گناہ نہیں بلکہ دوسروں سے بھی زیادہ گنہگار ثابت ہوتے ہیں اور کفارہ بالکل باطل چلا جاتا ہے۔
مسئلہ کفارہ کے متعلق ایک اور قابل غور سوال یہ ہے کہ کیا مسیح کے صلیب پانے سے دنیا کا کفارہ ہو سکتا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مسیح کی صلیب کا واقعہ جس رنگ میں بائبل پیش کرتی ہے اگر ہم اسے تسلیم بھی کر لیں تب بھی یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کو دیکھتے ہوئے ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ مسیح نے واقعہ میں کوئی قربانی پیش کی تھی ۔ کیونکہ انجیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسیح صرف ڈیڑھ دن کے قریب قبر میں رہا۔جمعہ کے دن دوپہر کے وقت مسیح کی صلیب کا واقعہ ہوا ہے اور اتوار کے دن صبح کے وقت وہ اٹھ بیٹھا (مرقس باب ۱۶) جمعہ کے بعد کی رات سے ہفتہ کی شام تک چوبیس گھنٹے ہوئے اور ہفتہ کی شام سے اتوار کی صبح تک بارہ گھنٹے ہوئے گویا انجیل کی رو سے مسیح صرف 36گھنٹے قبر میں رہا۔ فرض کرو یہ عیسائی عقیدہ کہ مسیح ڈیڑھ دن تک دوزخ میں رہا درست ہو تو بھی سوال یہ ہے کہ مسیح کا ڈیڑھ دن قبر میں رہنا دنیا کے گناہوں کا کفارہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ عیسائی عقیدہ کے مطابق دوزخ ابدی ہے اور ہر انسان جو دوزخ میں ڈالا جائے گا ہمیشہ کیلئے ڈالا جائے گا۔ لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ کچھ مدت کے بعد خدا تعالیٰ دوزخیوں کو بھی معاف فرما دے گا اور انہیں جنت میں داخل کر د یگا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ امّہٗ ھاویۃ (القارعہ) یعنی دوزخ رحم مادر کی طرح ہے جس طرح رحم میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد بچہ باہر آ جاتا ہے اسی طرح دوزخی کچھ عرصہ تک دوزخ میں رہنے کے بعد اس میں سے نکل آئیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیںجنت میںداخل کر دے گا لیکن عیسائی عقیدہ یہ ہے کہ دوزخ ابدی ہے اور جو بھی اس میں جائے گا وہ اس میں سے کبھی نہیں نکل سکے گا ۔ اب ساری دنیا جو مسیح پر ایمان رکھتی ہے وہ کروڑوں کروڑ کی ہے اسی زمانہ میں ساٹھ ستر کروڑ بلکہ اس سے بھی زیادہ عیسائی ہیں ۔ اگر یہ ستر کروڑ آدمی دوزخ میں جاتا اور اس میں ابد تک رہتا تو ستر کروڑ کو ابدیت سے ضرب دے کر دیکھ لو کہ کتنا وقت بن جاتا ہے اور یہ تو صرف اس زمانہ کے عیسائیوں کی تعداد ہے ۔ اگر مسیح سے لے کر اس وقت تک کے ان تمام لوگوں کا شمار کیا جائے جو مسیح پر ایمان لائے تھے اور ایک انسانی نسل کی اوسط عمر ہم تیس سال فرض کر لیں اور دنیا کی اوسط عیسائی آبادی دس کروڑ مان لیں کیونکہ پہلے وہ تھوڑے تھے پھر لاکھ دو لاکھ ہوئے۔ پھر ستر اسی لاکھ ہوئے پھر کروڑوں کروڑ تک پہنچ گئے یہاں تک کہ ان کی ایک ایک زمانہ میںستر ستر اسی اسی کروڑ تک تعداد ہو گئی۔ اس تمام تعداد کی اوسط اگر ہم صرف دس کروڑ رکھیں اور ایک صدی میں تین نسلیںفرض کریں تو اب تک ستاون عیسائی نسلیںدنیا میں گزر چکی ہیں۔ستاون کو دس کروڑ سے ضرب دیں تو پانچ ارب ستر کروڑ آدمی بن جاتا ہے ۔ اب پانچ ارب ستر کروڑ آدمی کی سزا کو ہدایت سے ضرب دے کر دیکھو تو کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ گویا اگر مسیح کفارہ نہ بنتا تو اس پانچ ارب ستر کروڑ نے ہمیشہ ہمیش کیلئے دوزخ میں رہنا تھا اور یہ زمانہ اتنا بڑا تھا جس کی تعیین ہند سوں میں ہو نہیں سکتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بیٹے کو صرف ڈیڑھ دن دوزخ میں رکھ کر پانچ ارب ستر کروڑ آدمی کے ابدی عذاب کا کفارہ قبول کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ مسیح کو اس لئے صلیب پر لٹکایا گیا تھا تاکہ اللہ تعالیٰ کے عدل پر کوئی حرف نہ آئے۔ مگر یہ کیا عدل ہے کہ پانچ ارب ستر کروڑ عرب کی ابدیت کا عذاب ڈیڑھ دن میں پورا کر لیا گیا ۔ گویا اور لوگ دوزخ میں پڑتے تو انہیں ابد الآباد تک دوزخ میں رکھا جاتا لیکن اپنے بیٹے کا سوال آیا تو اسے ڈیڑھ دن دوزخ میں رکھ کر کہہ دیا کہ چلو سب کا کفارہ ہو گیا۔ یہ تو ویسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک گائوں کے کچھ شرارتی لڑکے باہر کھیل رہے تھے کہ انہوں نے ایک مردہ گدھادیکھا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ آئو ہم اسے پکاکر کھا لیں زندہ کیا اور مردہ کیا گوشت تو ہے ہی ۔ چنانچہ انہوں نے مل کر گدھا پکایا اور کھا لیا۔ گائوں والے ایسی باتوں کو سخت برا سمجھتے ہیں ۔ انہیں پتہ لگا تو وہ بھاگے بھاگے اپنے ملاں کے پاس گئے اور اسے کہنے لگے کہ غضب ہو گیا ۔ آج لڑکونںنے مردہ گدھا پکا کر کھا لیا ہے ایسا نہ ہو کہ خد اتعالیٰ کا کوئی عذاب ہم پر نازل ہو جائے۔ ملاں نے کہا یہ تو بڑے گناہ کی بات ہوئی ہے اب فوراً اس کا کفارہ ادا کرنا چاہئے ورنہ اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو جائے گا۔ وہ پہلے ہی گھبرائے ہوئے تھے ملاں نے انہیں اور ڈرا دیا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ملاں جی اس مشکل کا آپ ہی کوئی حل نکالیں ایسا نہ ہو کہ ہم سب برباد ہو جائیں ۔ ملاں نے کہا اچھا میںکتابیںدیکھوں گا اور پھر بتائوں گا کہ اس کاکیا علاج ہے چنانچہ وہ سارا دن فقہ کی کتابیںدیکھتا رہا اور شام کو گائوں والوں سے کہنے لگا کہ لو بھئی مسئلہ نکل آیا ہے ۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ اس گناہ کا کفارہ یہ ہے کہ ایک بڑا سا شہتیر کھڑا کر کے اس کے چاروں طرف روٹیوں کا ڈھیر لگانا شروع کر دیا جائے یہاں تک کہ وہ ڈھیر شہتیر کے آخری سرے تک پہنچ جائے اور پھر وہ روٹیاں خدا تعالیٰ کے نام پر دے دی جائیں ۔ مطلب یہ تھا کہ روٹیاں مجھے دے دی جائیں کیونکہ خدا کے نام پر جو کچھ دیا جاتا ہے ملاں کو ہی دیا جاتا ہے۔ اس نے سمجھا کہ چلو اس طرح کچھ دن مفت روٹیاں کھا لیں گے اور جو باقی رہیں گی وہ بیچ لیں گے ۔ گائوں چھوٹا سا تھا اور لوگ غریب تھے انہوں نے یہ سنا تو ان کے ہوش اڑ گئے اور کہا ملاں جی ہم تو یہ کفارہ دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔فقہ میں یہی لکھا ہے کہ اس گناہ کا کفارہ اسی طرح ادا ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے پھر آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔ ایک لڑکا بولا کہ ملاں جی کا اپنا بیٹا نور جمال بھی اس میں شامل تھا۔ انہوں نے کہا سچ کہتے ہو؟ لڑکوں نے کہا بالکل سچ ہے وہ ہمارے ساتھ تھا آخر انہوں نے مشورہ کیا۔ کہ اب پھر ملا جی سے پوچھنا چاہئے شاید مسئلہ کی کوئی شکل بدل جائے۔چنانچہ وہ پھر ملاں جی کے پاس آئے اور کہنے لگے ملاں جی آپ کا بیٹا نور جمال بھی اس میں شامل تھا یہ سن کر ملاں جی کو فکر ہوا کہ اب تو مجھے بھی کفارہ دینا پڑے گا کہنے لگا اچھا میں پھر کتابیں دیکھوں گا ۔ چنانچہ کتابیںدیکھ کر کہنے لگے لو میاں یہ مسئلہ بھی نکل آیا ہے کہ اگر اتنی توفیق نہ ہو تو پھر شہیتر کو زمین پر ڈال کر اس پر ایک ایک پھلکا رکھ دیا جائے اور وہ چندپھلکے صدقہ میں دے دئیے جائیں تو یہ تو میاں نور جمال والی بات ہو گئی کہ پانچ ارب ستر کروڑ کو اگر عذاب دیا جائے تو ابدی طور پر عذاب دیا جائے لیکن جب اپنے بیٹے کا سوال آیا تو کہہ دیا کہ ہم انصاف سے کام لے رہے ہیں ۔ ہم اسے ڈیڑھ دن دوزخ میں رکھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ ساری دنیا کے گناہوں کا کفارہ ہو گیا ۔ اور ابھی تو دنیا جاری ہے پانچ سو یا ہزار سال تک بھی دنیا اور جاری رہی تو گو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب احمدیت کی وجہ سے عیسائیت دن بدن کم ہی ہو گی ترقی نہیں کر ے گی لیکن ہمارے بڑھتے بڑھتے بھی تین چار ارب کا اس تعداد میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ مگر اتنی بڑی تعداد کے گناہوں کے کفارہ کا جب سوال آیا تو کہہ دیا گیا کہ ہم نے اپنے بیٹے کو ڈیڑھ دن دوزخ میں رکھ کر سب سزا پوری کر لی ہے اور ہمارے عدل اور انصاف کا تقاضہ پورا ہو گیا ہے۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ پانچ ارب ستر کروڑ کو تو ابدی عذاب دینے کا فیصلہ کرنا اور یہ کہنا کہ وہ دوزخ میں سے کبھی نہیں نکل سکیں گے اور اپنے بیٹے کے متعلق یہ کہہ دینا کہ چونکہ وہ ڈیڑھ دن جہنم میںرہ آیا ہے اس لئے سب لوگوں کی سزا معاف ہو گئی ہے۔ تم اس تجویز کو کسی کے سامنے رکھ کر دیکھ لو۔ مسیح اور خدا کا نام نہ لو۔ اتنا کہو کہ ایک شخص تھا جس کے ذمہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب قرض تھا لوگوں نے اس سے روپیہ کا تقاضا کیا مگر وہ ادا نہ کر سکا آخر معاملہ عدالت میں گیا اس نے درخواست کی کہ یہ قرض مجھے معاف کر دیا جائے مگر جج نے کہا کہ میں معاف نہیں کر سکتا کیونکہ معاف کرنا میرے دل کے منافی ہے میں ایسی بے انصافی نہیں کر سکتا کہ تمہارے ذمہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ ہو اور تمہیں سزا نہ دی جائے۔ مگر اس کے بعد اس نے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا کہ اس ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے بدلہ میں تم ڈیڑھ روپیہ دے دو اور جب اس نے ڈیڑھ روپیہ دے دیا تو اس نے کہا کہ اب سارا قرض معاف ہو گیا ہے۔ کیا دنیا کا کوئی بھی عقل مند اس فیصلہ کو معقول قرار دے گا؟ ہر شخص کہے گا کہ قاضی صرف بے ایمان ہی نہیں بلکہ بڑا چالاک اور فریبی بھی تھا ۔ گویا اس کا الزام بڑھ جائے گا اور دنیا اسے عادل نہیں کہے گی بلکہ کہے گی کہ وہ بڑا ظالم تھا بڑا چالاک اور فریبی تھا کہ اس نے اپنے بیٹے سے ڈیڑھ روپیہ لے کر یہ فیصلہ کر دیا کہ لوگوں کا ڈیڑھ لاکھ روپیہ ادا ہو گیا ہے ۔ اسی طرح کفارہ کی جو صورت بتائی جاتی ہے وہ خدا تعالیٰ پر الزام کو بڑھانے والی ہے گھٹانے والی نہیں ۔ اور اس قسم کے کھیل سے اس کا عادل ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ غیر عادل ہونے کے علاوہ چالاک اور دھوکے باز ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پھر ڈیڑھ دن بھی اسے دوزخ میں کیوں رکھا؟
اگر کہو کہ انسان اور خدا میں بے انداز فرق ہے چونکہ انسان کی حالت اور ہے اور خدا تعالیٰ کی حالت اور ہے اس لئے انسان کو جتنا عذاب ابدی جہنم میں ملے گا وہی عذاب خدا تعالیٰ کے بیٹے کو ڈیڑھ دن میں مل گیا ہے اس وجہ سے بنی نوع انسان کی ابدی سزا کے مقابلہ میں ابن اللہ کا صرف ڈیڑھ دن کے لئے جہنم میں جانا کوئی قابل تعجب امر نہیں۔ جوعذاب ان کو ابدیت میں ملنا تھا وہی مسیح کو ڈیڑھ دن میں مل گیا۔یہ بھی ایک جواب ہے جو دیا جا سکتا ہے۔
اس کا رویہ ہے کہ جب خدا اور انسان میں بے انداز فرق ہے اور عیسائی بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں تو بے انداز فرق کے لحاظ سے یہ انسانی طاقت میں ہی نہیں کہ وہ خدا اور اس کی مخلوق کے باہمی فرق کو سمجھ سکے بے انداز چیز انسانی اندازوں سے باہر ہوتی ہے اور اندازہ ہمیشہ اسی چیز کا کیا جاتا ہے جو محدود ہو اور جس کا سمجھنا انسانی طاقتوں کے لحاظ سے ممکن ہو۔ اب بے انداز فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے پانچ ارب ستر کروڑ انسانوں کے مجموعی عذاب کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کے متعلق یہ کہنا ہے کہ انہوں نے اندازہ لگالیا ہے کہ انسانی عذاب کی جو مقدار ہے وہ خدا تعالیٰ کو کتنے عرصہ میں مل سکتی ہے حالانکہ جب انسان اور خدا میں ہے ہی بے انداز فرق تو وہ یہ اندازہ کس طرح لگا سکتے ہیں کہ ڈیڑھ دن میں تمام عذاب خدا تعالیٰ کو پہنچ گیا ہے ۔ ایسی صورت میں تو اسے ایک منٹ کیلئے بھی دوزخ میں رکھنا درست نہ تھا بلکہ ایک سکینڈ کا ہزارواں حصہ بھی اس کے لئے کافی سے زیادہ تھا کیونکہ یہ مقابلہ محدود طاقتوں والے انسانوں اور غیر محدو د طاقتوں والے خدا کا ہے اور غیر محدود طاقت والے خدا کا اندازہ محدود طاقت والوں کے ساتھ کرنا عقل کے بالکل خلاف ہے۔ پھر تو ایک سکینڈ کی تعیین بھی اس کے لئے نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ بے انداز فرق کے لحاظ سے تو جتنی دیر آنکھ جھپکنے میں لگتی ہے اتنی دیر کا عذاب بھی خدا تعالیٰ کیلئے ناممکن ہے ۔ا یسی صورت میں ڈیڑھ دن کا اندازہ انہوں نے کہاں سے نکال لیا اور اپنی محدود طاقتوں کے ساتھ غیر محدو د طاقتوں والے خدا کے متعلق یہ کس طرح سمجھ لیا کہ اس نے ڈیڑھ دن میں وہ عذاب برداشت کر لیا جو انسان اربوں سال میں برداشت کر سکتا تھا۔
پھر یہ بھی سوال ہے کہ دوزخ میں گیا کون تھا ابن آدم گیا تھا یا ابن اللہ گیاتھا؟ اگر ابن آدم گیا تھا تو سمجھ میں آ سکتا ہے کہ ابن آدم کی روح چونکہ بہرحال جسم سے پیدا ہوتی ہے اور وہ جسم کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اس لئے اس کی روح دوزخ میں چلی گئی لیکن وہاں تو کوئی اور روح تھی ہی نہیں جسم بے شک انسان کا تھا لیکن اس میں ابن اللہ تھا اور ابن اللہ اگر جسم کی قید سے آزاد ہوجائے تو اسی وقت خدا بن جاتا ہے۔و ہ اسی وقت تک ابن آدم کہلاسکتا ہے جب تک وہ جسم کی قید میں ہے جب وہ اس جسم کی قید سے آزاد ہو جائے تو وہ اسی وقت ابن اللہ بن جاتا ہے اور جب وہ ابن اللہ ہو گیا تو اس کی حالت خدا کی سی ہو گئی اور جب اس کی حالت خدا والی ہو گی تو اس کے دوزخ میں جانے کے کوئی معنے ہی نہیں ۔ کیا خدا کو بھی سردی گرمی لگتی ہے یا وہ بھی سردی سے آرام اور گرمی سے تکلیف محسوس کرتا ہے؟ انسان کی روح تو اگر دوزخ میں جائے گی تو وہ گرمی محسوس کرے گی ۔ سرد مقام پر رکھی جائے گی تو سردی محسوس کرے گی مگر ابن اللہ جو خدا ہے اس کے لئے سردی اور گرمی کا کیا سوال ہے ۔ دوزخ بھی اس کی پیدائش ہے اور جنت بھی اس کی پیدائش ہے ۔ نہ دوزخ اسے تکلیف پہنچا سکتی ہے او رنہ جنت اسے آرام پہنچا سکتی ہے۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دوزخ میں اپنا پائوں ڈالے گا اور وہ ٹھنڈی ہوجائے گی کیونکہ خدا تعالیٰ کے لئے دوزخ کوئی چیز ہی نہیں ۔ پس اگر مسیح ابن آدم تھا اور اس میں انسانی روح تھی تو دوزخ میں خدا نہیں گیا بلکہ انسان گیا اور اگر اس میں ابن اللہ کی روح تھی تو جونہی اس کی روح جسم کی قید سے آزاد ہوئی وہ فوراً خدا کی طرح ہو گئی اور جب وہ خدا کی طرح ہو گئی تو اب خواہ اسے دوزخ میں بھی لے جائواسے کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی۔ آخر مسیح کی کوئی دو روحیں تو تھی نہیں کہ کہا جائے کہ ایک اس میں آدمی کی روح تھی اور ایک خدا کی روح تھی۔ اس میں ایک ہی روح تھی جو ابن اللہ کی تھی اور جب وہ روح جسم کی قید سے آزاد ہوگئی تو اس کیلئے دوزخ ، دوزخ ہی نہ رہا ۔ پھر اگر اس کو دوزخ میں بھی لے جائو تو وہاں اس کا جانا اس کیلئے کسی عذاب کا موجب نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ مادی احساسات سے بالا ہے نہ اس پر دوزخ اثر کرتی ہے نہ جنت۔
عیسائی بعض دفعہ گھبرا کر یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ سب تمثیلی کلام ہے تم خواہ مخواہ اسے حقیقت پر محمول کرتے ہو۔ ہم کہتے ہیں اگر یہ تمثیلی کلام ہے تو تمثیلی کلام سے نئے نئے مسئلے نہیںنکلا کرتے ۔ اس صورت میں بھی کفارہ باطل ثابت ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جب تم حقیقت بیان نہیں کر رہے بلکہ تمثیل بیان کر رہے ہو۔ تو اس سے عجیب و غریب مسائل نکالنا اور ان پر ایمان لانے کی لوگوں کو دعوت دینا تمہارے لئے جائز نہیں ہوسکتا۔ مثلاً اگر ہم کسی شخص کے متعلق یہ کہیں کہ وہ سچ مچ شیر ہے اور جب کوئی شخص ہم سے پوچھے کہ اس کی دم کہاں ہے یا اس کے پنجے وغیرہ کہاں ہیں اور ہم کہیں کہ یہ تو تمثیلی کلام تھا تم نے خواہ مخواہ اسے حقیقی شیر سمجھ لیا تو اس کے بعد ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہو سکتا کہ ہم اسے حقیقی شیر ہی کہتے پھریں۔اسی طرح اگر یہ تمثیلی کلام ہے تو عیسائیوں کو ماننا پڑے گا کہ مسیح کو ابن اللہ بھی تمثیلی طور پر کہا گیا تھا اور اگر وہ تمثیلی طور پر ابن اللہ تھا تو پھر نہ وہ لوگوں کے گناہ اٹھا سکتا تھا اور نہ ڈیڑھ دن دوزخ میں رہ سکتا تھا یہ ساری کی ساری باتیں ہی باطل اور بے حقیقت ہو کر رہ جاتی ہیں ۔
اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ عیسائیوں کی ساری باتیں مان لینے کے باوجود کہ کفار ہ بھی کوئی ممکن چیز ہے اور مسیح ابن اللہ تھا کیا یہ بات ثابت ہے کہ وہ قربانی مسیح نے پیش کر دی تھی جسے کفار ے کا موجب کہا جاتا ہے؟ انجیل کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے ۔ مسیح نہ تو صلیب پر لٹک کر مرا اور نہ اس نے وہ قربانی پیش کی جسے کفار ے کا موجب قرار دیا جاتا ہے۔مسیح کا صلیب پر سے زندہ اتر آنا درحقیقت ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں عیسائیت کی موت ہے۔اگر مسیح صلیب پر سے زندہ اتر آئے تھے تو عیسائیت کلی طو رپر ختم ہو جاتی ہے اور اگر مسیح صلیب کے واقعہ کے بعد اپنی طبعی موت مر گئے تھے تو وہ غلط عقائد جو غیر احمدیوں میں پھیلے ہوئے ہیں سب کے سب ختم ہو جاتے ہیں ۔ گویا مسیح کا صلیب پر سے زندہ اتر آنا عیسائیت کو ختم کر دیتا ہے اور مسیح کا طبعی موت مرجانا اسلام سے الحاد کو ختم کر دیتا ہے۔ اگر عیسائیت مر جاتی ہے تو اس میں بھی اسلام کی زندگی ہے اور اگر الحاد مٹ جاتا ہے تواس میںبھی اسلام کی زندگی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ دونوں کارنامے سر انجام دئیے ہیں ۔ آپ نے مسیح کو صلیبی موت سے بچا کر ایک طرف مسیح کو *** سے بچایا اور دوسری طرف عیسائیت کو مار دیا۔ کیونکہ ایک ایسا نبی جس نے رسول کریم ﷺ سے فیض حاصل نہیں کیا۔جس نے آپؐ کے دین سے استفادہ نہیں کیا۔ جس نے آپؐ کے باغ سے خوشہ چینی نہیں کی اس کا اسلام میں آنا اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کی نہ صرف ہتک ہے بلکہ ان کے کام کو بالکل ختم کر دینا ہے ۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دو حملے کر کے عیسائیت اور الحاد دونوں کو ختم کر دیا۔ ایک دفعہ آپ نے مسیح کو زندہ کر کے عیسائیت کو ختم کیا اور دوسری دفعہ آپ نے مسیح کو مار کر اسلام سے الحاد کو ختم کیا۔ یہ اتنے بڑے کارنامے ہیں جو رہتی دنیا تک یادگار رہیں گے۔ مگر افسوس ہے کہ نہ ابھی تک ہماری جماعت نے ان کارناموں کی طرف توجہ کی ہے اور نہ ان کی اہمیت کو پوری طرح سمجھا ہے۔ باقی باتیں کہ مسیح واقعہ ٔ صلیب کے بعد کہاں گیا یہ ضمنی دلائل ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش کئے ہیں ۔ اصل چیز مسیح کا صلیب سے زندہ اتر آنا ہے ۔ اگر وہ صلیب پر سے زندہ اتر آیا ہے تو عیسائیت ختم ہے۔ چنانچہ اس بات کا اقرار خود مسیحی لوگ بھی کر رہے ہیں ۔Mr.Criltondon جو کہ انٹر یونیورسٹی فیلو شپ آف لندن کے سیکرٹری جنرل ہیں انہوں نے 11مارچ1956ء کو لندن مسجد میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ
’’ اگر مسیح کی وفات کے متعلق جماعت احمدیہ کا نظریہ درست ہے تو پھر عیسائیت باقی نہیں رہ سکتی۔ اگر فی الواقع مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے تو پھر عیسائیت کی ساری بنیادہی ختم ہو کر رہ جاتی ہے اور ایسی صورت میں عیسائیت کی تمام عمارت کا زمین پر آ رہنا یقینی ہے۔‘‘ (الفضل 27نومبر 1956ء)
پس اگر مسیح طبعی موت مر چکا ہے تو مسلمانوں کا الحاد ختم ہے۔ اس طرح وہ تمام تانا بانا جو انہوں نے بنایا ہوا ہے سب کا سب ٹوٹ جاتا ہے اور وہ غلط عقائد جن میں وہ ایک عرصہ سے مبتلا ہو چکے ہیں سب کے سب باطل ثابت ہو جاتے ہیں ۔کیونکہ اگر مسیح طبعی موت مر گیا ہے توآنے والا مسیح امت محمدیہ میں سے ہو گا اور جب آنے والا امت محمدیہ میں سے ہوگا تو اسلام اور مسلمانوں کیلئے ایک بہت بڑا مطمحنظر قائم ہو جاتا ہے ۔ وہ قومیں جن کی امید یں مر جاتی ہیںفنا ہو جاتی ہیں مگر وہ قومیں جن کی امیدیں نہیں مرتیں وہ کبھی فنا نہیں ہوتیں۔ جب بھی وہ گرنے لگتی ہیں ان کی امیدیں ان کو پھر کھڑا کر دیتی ہیں ۔ پھر ان کے اندر بیداری اور ہوشیاری پیدا کر دیتی ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ ہمارے لئے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں ہمارے لئے بڑے بڑے درجے حاصل کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ لیکن جب کسی قوم کی امید کا پہلو مار دیا جائے تو وہ قوم بھی ہمیشہ کیلئے ختم ہو جاتی ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دو عظیم الشان کارنامے سر انجام دئیے ہیں ۔ ایک طرف آپ نے مسیح کو صلیب سے اترنے کے بعد زندہ کر کے عیسائیت کو مار دیا اور دوسری طرف آپ نے مسیح کو قرآن کریم کی آیات کے مطابق وفات یافتہ ثابت کر کے اسلام کو الحاد سے بچا لیا۔ یہ کیسا شاعرانہ مضمون ہے کہ آپ نے مسیح کو زندہ کر دیا اور عیسائیت کو مار دیا اور مسیح کو مار دیا اور اسلام کو زندہ کر دیا ۔ چونکہ عیسائیت کی بنیاد اس بات پر ہے کہ مسیح صلیب پر مرا ہی نہیں بلکہ زندہ رہا اور زندہ اترا تو ساتھ ہی کفارہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ بہرحال یہ ایک سوال ہے جو ہمارے سامنے آتا ہے کہ کیا مسیح صلیب پر لٹک کر فوت ہو ا اور کیا اس نے وہ قربانی پیش کی جو کفارہ کا موجب ہو سکتی تھی؟ انجیل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے مسیح نہ صلیب پر لٹک کر مرا اور نہ اس نے وہ قربانی پیش کی جسے کفارہ کہا جاتا ہے۔ اگر ہم انجیل پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کا اصل معجزہ جس پر مسیحیت کو نازہے اور جو مسیحیت کے ابتدائی آثار میں نمایاں طو رپر نظر آتا ہے یوناہ نبی کا معجزہ ہے ۔ صلیب کے واقعہ کے بعد ایک لمبے عرصہ تک عیسائی کمزور رہے ۔ وہ کبھی کسی ملک میں بھاگ کر چلے جاتے تھے اور کبھی کسی ملک میں بھاگ کر چلے جاتے تھے اور کبھی کسی ملک میں عام طور پر وہ چھپ کر رہتے تھے۔ کیونکہ جب لوگوں کو ان کا پتہ لگتا تو وہ ان پر مختلف قسم کے مظالم کرتے۔ا بتدائی مظالم کے سوا جو فلسطین میں یہودیوں کی طرف سے ہوئے۔ بعد میں یہ مظالم زیادہ تر مشرک قوموں خصوصاً رومیوں کی طرف سے ہوتے تھے۔ ایک عیسائی یہ رٹ لگانے سے نہیں رہ سکتا تھا کہ مسیح اس دنیا کا بادشاہ ہے مگر ادھر بادشاہت کا لفظ اس کی زبان پر آتا اور ادھر رومیوں کو آگ لگ جاتی اور وہ فوراً مظالم شروع کر دیتے ۔ اس زمانہ میں یہودیت کا حملہ کمزور ہو چکا تھا بلکہ بعض جگہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مسیحی چھپتے تو ان کے ساتھ یہودی بھی چھپ جاتے تھے۔ چونکہ مذہب ملتا جلتا تھا اور یہودی ابھی موسوی شریعت سے اتنے دور نہیں ہوئے تھے جتنے آجکل ہیں بلکہ اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس لئے جس طرح ہم بھی نمازیں پڑھتے ہیں اور غیر احمدی بھی روزے رکھتے ہیں ہم بھی حج کرتے ہیں اور غیر احمدی بھی نمازیں پڑھتے ہیں ہم بھی قرآن مانتے ہیں اور غیر احمدی بھی قرآن مانتے ہیں اور اگر کوئی شخص صرف ظاہری شکل دیکھے عقائد کے اختلاف پر نظر نہ ڈالے تو وہ یہی کہے گا کہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں کوئی فرق نہیں ۔ اسی طرح جو ایمان تورات پر مسیحیوں کو تھا ویسا ہی ایمان یہودیوں کو تھا۔جس طرح صدقہ و خیرات عیسائی کرتے تھے ویسے ہی صدقہ و خیرات یہودی کرتے تھے۔ جس طرح تورات کی تعلیموں کو عیسائی قابل عمل سمجھتے تھے اسی طرح تورات کی تعلیم کو یہودی قابل عمل سمجھتے تھے اور چونکہ تمام تعلیم میں دونوں مشترک نظر آتے تھے اس لئے جب رومی لوگ عیسائیت کے خلاف بھڑکے اور انہوں نے ظلم کرنے شروع کئے تو ساتھ ہی انہوں نے یہودیوں پر بھی ظلم کرنے شروع کر دئیے اور یہ خیال کیا کہ یہ بھی ان کے ساتھ ہی ہیں۔ پس ابتدائے عیسائیت میں تو ظلم یہودیوں کی طرف سے ہوئے مگر پھر شکل بدل گئی اور جب رومی دکھ دیتے تھے تو وہ عیسائیوں اور یہودیوں دونوں کو اکٹھا دکھ دیتے تھے۔ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ ان میں سے یہودی کون ہے اور عیسائی کون ہے۔ چنانچہ جب عیسائی بھاگ کر کہیں چھپتے تھے تو یہودی بھی ان کے ساتھ ہی چھپ جاتے تھے اور روما میں جو آثار پائے جاتے ہیں ان سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے مگر میں سمجھتا ہوں عیسائیوں نے یہ بڑی ہمت کی کہ باوجود اس کے کہ روم میں ان کی بڑی مخالفت تھی اور حکومت کی طرف سے ان پرشدید مظالم ہوتے تھے۔ پھر بھی انہوں نے وہاں تبلیغ پر بڑا زور دیا۔چنانچہ روم میں ان کے بڑے بھاری مشنز قائم تھے وہاں ان کی تبلیغ کی وجہ سے لوگ مخالفت بھی کرتے ، ظلم بھی کرتے، جائیدادیں بھی چھین لیتے ۔ مگر ظلم زیادہ دیر تک نہیں چلا کرتا۔ پہلے کچھ عرصہ مارتے پیٹتے اور پھر چھوڑ دیتے جیسے آجکل ہندوستان میں ہندوئوں کو بعض مقامات پر جوش آتا ہے اور وہ مسلمانوں کو مارنا شروع کر دیتے ہیں مگر کچھ عرصہ کے بعد خاموشی ہو جاتی ہے۔ پھرکسی اور علاقہ میں ظلم شروع ہو جاتا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد وہاں بھی خاموش ہو جاتی ہے۔ ان کا بڑا مرکز ایک تو روم تھا دوسرا مرکز انطاکیہ تھا اور تیسرا مرکز اسکندریہ تھا۔ ان تینوں جگہ عیسائی پادریوں پر حملے ہوتے تھے اور دشمن انہیں یا تو مار دیتا یا زخمی کر دیتا۔ان متواتر حملوں کی وجہ سے عیسائی بعض دفعہ اپنے گھروں یا محلوں میں چھپ جاتے یا بھاگ کر اردگرد کے گائوں میں چلے جاتے یا اپنی رہائش کے لئے زمین دوز جگہیں بنا لیتے۔ اس زمانہ میں یہ رواج تھا کہ بعض لوگ اپنی قبریں تہ خانوں میں بناتے تھے اور ان کے لئے زمین سے پتھر نکال کر لاتے تھے۔ ان پتھروں کے نکالنے سے جو زمین میں گڑھے بن جاتے تھے انہی کو صاف کر کے عیسائی ان میں رہنا شروع کر دیتے تھے۔ روم میں ایسی کئی جگہیں ہیں جہاں عیسائی ایک لمبے عرصہ تک چھپے رہے۔ اور جن کو کیٹا کومبز(Catacombs)کہتے ہیں۔ ان میں ابھی تک ایسی تصویریں ہیں جو دینی روح قائم رکھنے یا اپنے شہداء کی یاد تازہ رکھنے کیلئے انہوں نے کھینچی ہوئی ہیں۔ اسی طرح قبروں پر کئی جگہ کتبے لگے ہوئے ہیں۔ اور ان میں یہ ذکر ہے کہ یہ کس کی قبر ہے اور کس طرح شہید ہوا ہے ان غاروں کا ایک حصہ میں نے بھی دیکھا ہے ۔ سارا تو دیکھا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ ستر میل تک یہ علاقہ پھیلا ہوا ہے ۔ بہرحال ان کیٹا کومبز کے دیکھنے سے پرانی عیسائی تاریخ کا پتہ لگ جاتا ہے کیونکہ مسیحیت کے پھیلنے سے پہلے کے مظالم کا نقشہ ان آثار کو دیکھنے سے آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے اور کتبوںکی عبارات اور تصویروں سے پتہ لگتا ہے کہ اس وقت مسیحیوں کے کیا عقائد تھے۔ تیسری صدی مسیحی میں روم کا بادشاہ عیسائی ہو گیا تھا اور پھر مسیحیت کو طاقت حاصل ہو گئی تھی۔ اس سے پہلے زمانہ سے تعلق رکھنے والی جس قدر باتیں ہیں ان کا پتہ انہی کیٹا کومبز کے دیکھنے سے لگتا ہے ۔ ان کیٹا کومبز میں ہمیں زیادہ تر تین تصویریں ملتی ہیں ۔ ایک نوح کی کشتی کی۔ ایک گڈریا کی جس کے اردگر د بھیڑیں ہیںاور ایک یوناہ نبی کی جسے مچھلی نگل رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی تاریخ میں عیسائی مذہب کی بنیاد صرف تین چیزوں پر رکھی گئی تھی یا یوں کہو کہ تین مسئلے تھے جو عیسائیت کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتے تھے۔ گڈریا کی تصویر میں اس طرف اشارہ تھا کہ مسیح یہود کی گم گشتہ بھیڑوں کو جمع کرنے کے لئے آیا ہے ۔ نوح کی کشتی کے یہ معنے تھے کہ مسیح ہمارا نجات دہندہ ہے اور یوناہ نبی کی تصویر سے وہ معجزہ مراد تھا جس پر آگے چل کر بحث کی جائے گی۔ گویا ان تین تصویروں کے ذریعہ اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا تھاکہ مسیحیت کی بنیاد انہی تین باتوں پر ہے ۔ (1)اس پر کہ مسیح اپنی گم گشتہ بھیڑوں کو جمع کرنے کیلئے آیا ہے۔ (2)اس پر کہ مسیح نجات دہندہ ہے ۔ (3)اس پر کہ مسیح کو ویسا ہی معجز ہ دیا گیا ہے جیسے یوناہ نبی کو دیا گیا تھا۔
پس مسیحیت کی بنیاد اس معجزہ پر ہے بلکہ مسیحیت اس کو ہی ایک حقیقی معجزہ قرار دیتی ہے اور تمام ابتدائی زمانہ کے نقوش اور تصاویر جن کا مسیحیت کے لٹریچر سے پتہ لگتا ہے وہ بھی اسی طرف راہنمائی کرتی ہیں یعنی گڈریا کی تصویر جسے اپنی بھیڑوں سمیت دکھایا گیا ہے ۔ نوح کی کشتی کی تصویر اور یوناہ نبی کے مچھلی کے پیٹ میں جانے کی تصویر۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحیت کا اصل معجزہ یہی تھا خود مسیح بھی اسے اپنا منفرد اور اصل معجزہ قرار دیتا ہے ۔ انجیل میں لکھا ہے حضرت مسیح وعظ کر رہے تھے کہ
’’ بعض فقیہوں اور فریسیوں نے جواب میں اس سے کہا اے استاد ہم تجھ سے ایک نشان دیکھنا چاہتے ہیں (یعنی ہم ماننے کے لئے تو تیار ہیں لیکن دلائل سے ہماری تسلی نہیں ہوتی ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے)اس نے جواب دے کر ان سے کہا ۔ اس زمانہ کے برے اور زنا کار لوگ نشان طلب کرتے ہیں مگر یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا۔ کیونکہ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔‘‘ (متی باب 12 آیت 38تا40)
مسیح نے اس سوال کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ میں تم کو اور کئی نشان دکھا چکا ہوں تم ان سے کیوں فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اسی طرح مسیح نے یہ نہیں کہا کہ میں تم کو کئی نشان دکھائوں گا۔ بلکہ مسیح نے کہا کہ یوناہ نبی کے نشان کے سوا ان کو اور کوئی نشان نہیں دکھایا جائے ۔ گایہ بتاتا ہے کہ مسیح اپنے اس نشان کو ایک ہی نشان قرار دیتا ہے ظاہر ہے کہ خدا کا کوئی نبی ایسا نہیںہو سکتا جس نے ایک ہی نشان دکھایاہو خود انجیل سے ظاہر ہے کہ مسیح نے اور بھی کئی نشان دکھائے ہیں ۔ پس مسیح کا یہ کہنا کہ ’’ یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا‘‘ اس کے معنے یہ ہیں کہ جہاں تک یہودیت کا تعلق ہے بنیادی نشان مسیح کو یوناہ نبی والا ہی دیا جائے گا اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ابتدائی زمانہ کے مسیحیوں کی شہادت سے بھی یہی بات ثابت ہے اور درحقیقت ابتدائی زمانہ کا عیسائی ہی اس بات کا اہل تھا کہ وہ یہ سمجھتا کہ عیسائیت کی کیا غرض ہے ۔ ان کی تصویروں میں سے پہلی تصویر ہی یوناہ نبی کے مسیحی یہ تسلیم کرتے تھے کہ یوناہ نبی والا نشان ہی مسیح کا اصل نشان ہے۔ باقی دو تصویریں اس پہلی تصویر کے تابع ہیں یعنی یوناہ نبی والے نشان میں ہی نجات بھی شامل ہے اور یوناہ نبی والے نشان میں جیسا کہ میں آگے چل کر بتائوں گا گڈریا والی مثال بھی شامل ہے۔ کیونکہ مسیح واقعہ صلیب کے بعد اپنی گمشدہ بھیڑوں کو اکٹھا کرنے کیلئے ایران اور افغانستان اور کشمیر میں گیا اور اس نے انہیں خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچایا۔ اور پھر مسیح خود بھی کہتا ہے کہ ایک ہی نشان ہے جو اس زمانہ کے لوگوں کو دکھایا جائے گا اور وہ یوناہ نبی والا نشان ہے ۔ ایک ہی نشان کے معنے یہ ہیں کہ یہ ایک ہی اہم نشان ہے یا ایک ہی قابل اعتماد نشان ہے۔ غرض ابتدائی زمانہ کا عیسائی بھی تسلیم کرتا ہے کہ عیسائیت کی حقیقی شان یوناہ نبی والے نشان سے ہی ظاہر ہوتی ہے اور مسیح بھی اس کو اپنا منفرد اور مہتمم بالشان نشان قرار دیتا ہے۔
لوقا میں بھی یہ ذکر آتا ہے اس میں لکھا ہے: -
’’ اس زمانہ کے لوگ برے ہیں وہ نشان طلب کرتے ہیں مگر یوناہ کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا۔ کیونکہ جس طرح یوناہ نینوہ کے لوگوں کے لئے نشان ٹھہرا اسی طرح ابن آدم بھی اس زمانہ کے لوگوں کیلئے ٹھہرے گا۔‘‘
(لوقاباب 11آیت 30-29)
لوقا نے یہاں ایک زائد بات کہی ہے۔ متی نے تو یہ کہہ کراپنی بات ختم کر دی تھی کہ ’’یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا کیونکہ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا‘‘ یہاں متی نے اس بات پر زور نہیں دیا کہ جس طرح یوناہ نینوہ کے لوگوں کیلئے نشان ٹھہرا تھا اسی طرح ابن آدم بھی اس زمانہ کے لوگوں کے لئے نشان ٹھہرے گا۔متی نے صرف اتنا لکھا ہے کہ ’’نینوہ کے لوگ عدالت کے دن اس زمانہ کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کو مجرم ٹھہرائیں گے کیونکہ انہوں نے یوناہ کی منادی پر توبہ کر لی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو یوناہ سے بھی بڑا ہے‘‘ (متی باب 12آیت 41) مگر لوقا اس بات پر زور دیتا ہے کہ جس طرح یوناہ نینوہ کے لوگوں کیلئے نشان ٹھہرا تھا اسی طرح ابن آد بھی اس زمانہ کے لوگوں کیلئے نشان ٹھہرے گا ۔ گویا اس نشان کے متعلق وہ خاص طور پر یہ بتاتا ہے کہ نینوہ کے لوگوں کیلئے جس رنگ میںیوناہ نشان ٹھہرا تا تھا اسی رنگ میں اس زمانہ کے لوگوں کے لئے مسیح نشان ٹھہرے گا۔
ان حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل نشان جو زمانۂ مسیح میںدکھایا جانے والا تھا وہ یوناہ نبی والا نشان تھا۔ یہ نشان کیا تھا اس کے متعلق مسیح خود کہتا ہے کہ : -
’’ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میںرہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔‘‘
اس جگہ حضرت مسیح نے خود تشریح کر دی ہے کہ یوناہ نبی کے نشان سے کیا مراد ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔ مشابہت کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ ہر چیز میں مشابہت ہو بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصولی باتوں میں مشابہت ہوگی۔چنانچہ اسی مشابہت کی بناء پر مسیح کہتا ہے کہ جس طرح یوناہ نبی مچھلی کے پیٹ میں تین دن رات رہا اسی طرح مسیح قبر میں تین دن رات رہے گا ۔ گویا اس نشان کا مقصد یہ تھا کہ مسیح بھی تین دن رات قبر میںرہے اور یوناہ نبی کی طرح خدا تعالیٰ کی حفاظت میں رہے۔ آخر کسی کا مچھلی کے پیٹ میں چلے جانا تو کوئی معجزہ نہیں ۔ ہزاروں لوگ مچھلی کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں اور کوئی نہیں کہتاکہ یہ معجزہ ہوا ہے پھر یوناہ نبی کا کیا معجزہ تھا؟ یوناہ نبی کا معجزہ یہ تھا کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں خدا تعالیٰ کی حفاظت میں رہا۔ تاکہ اس کی قوم کیلئے اس کا وجود خدا تعالیٰ کا ایک نشان ثابت ہو۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ یوناہ نبی کس طرح مچھلی کے پیٹ میں تین دن رات رہا۔ اس کے لئے ہم یوناہ نبی کی کتاب کو دیکھتے ہیں اس میں لکھا ہے: -
’’ خداوند کا کلام یوناہ نبی متی پر نازل ہوا۔کہ اٹھ اس بڑے شہر نینوہ کو جا اور اس کے خلاف منادی کر کیونکہ ان کی شرارت میرے حضور پہنچی ہے (نینوہ ایک بڑا شہر تھا خدا تعالیٰ نے یوناہ سے کہا کہ جائو اور ان لوگوں کو سمجھائو) لیکن یوناہ خدا وند کے حضور سے ترسیس کوبھاگااور یافا میں پہنچا اور وہاں اسے ترسیس کو جانے والا جہاز ملا۔ اور وہ کرایہ دے کر اس میں سوار ہوا تاکہ خداوند کے حضور سے ترسیس کو اہل جہاز کے ساتھ جائے (یعنی بجائے اس کے کہ وہ اور نبیوں کی طرح خدا تعالیٰ کی ہدایت پر عمل کرتے اور نینوہ والوں کو تبلیغ کرتے ان کے دل میں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ بڑا رحیم و کریم ہے پہلے اس کی طرف سے عذاب کی خبریں ملتی ہیں او رپھر لوگوں کے تضرع پر وہ ان کو معاف کر دیتا ہے اور لوگ نبیوں کے متعلق یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو سکتا۔اس لئے میں نینوہ میں جاتا ہی نہیں چنانچہ وہ ترسیس جانے کیلئے جہاز میں سوار ہو گئے) لیکن خداوند نے سمندر پر بڑی آندھی بھیجی اور سمندر میں سخت طوفان برپا ہوا اور اندیشہ تھا کہ جہازتباہ ہو جائے۔ تب ملاح ہراساں ہوئے اور ہر ایک نے اپنے دیوتا کو پکارا اور وہ اجناس جو جہاز میں تھیں سمندر میں ڈال دیں تاکہ اسے ہلکا کریں (پہلے زمانہ میں بادبانی جہاد ہوتے تھے جو زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے اس لئے جب طوفان آتا اور جہاز ڈوبنے کا خطرہ ہوتا تو وہ اپنے سامان کا کچھ حصہ سمندر میںپھینک دیتے تھے تاکہ اس کا بوجھ ہلکا ہو جائے) لیکن یوناہ جہاز کے اندر پڑا سو رہا تھا (باقی لوگ تو دعائیں کر رہے تھے اور جہاز کا بوجھ ہلکا کر رہے تھے اور یوناہ اندر سو رہے تھے) تب ناخدا اس کے پاس جاکر کہنے لگا تو کیوں پڑا سو رہا ہے اٹھ اپنے معبود کو پکار شاید وہ ہم کو یاد کرے اور ہم ہلاک نہ ہو ں اور انہوں نے آپس میں کہا آئو ہم قرعہ ڈال کر دیکھیں کہ یہ آفت ہم پرکس کے سبب سے آئی۔ چنانچہ انہوں نے قرعہ ڈالا اور یوناہ کانام نکلا۔ تب انہوں نے اس سے کہا تو ہم کو بتا کہ یہ آفت ہم پر کس سبب سے آئی ہے۔ تیرا کیا پیشہ ہے اور تو کہاں سے آیا ہے۔ تیرا وطن کہاں ہے اور تو کس قوم کا ہے ۔ اس نے ان سے کہا میں عبرانی ہوں (ضمنی طور پر ہم یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ بائبل کا یہ بیان غلط ہے۔ یوناہ عبرانی نہیں تھا بلکہ کسی اور قوم کا نبی تھا۔ کیونکہ وہ نینوہ والوں کی طرف بھیجا گیا تھا جو کہ اشور کا دارالخلافہ تھا اور وہاں کے لوگ اشور قوم کے تھے۔ اشور الگ علاقہ ہے اور شہر بابل کے شمال سے شروع ہو کر آرمینیا کی سرحد سے جا ملتا ہے اور مشرقی طرف اس کی کردستان سے ملتی ہے اور مغربی سمت دجلہ کے مغرب کے علاقہ کے ایک حصہ پر مشتمل ہے۔ گویا موجودہ عراق کا ایک حصہ اس میں شامل ہے۔ ایک زمانہ میں اس علاقہ میں زبردست حکومت قائم تھی۔ اس کا دارالخلافہ پہلے تو اسور تھا جو موصل سے ساٹھ میل جانب شما ل واقعہ تھااور اب اسے قلعات شرجت کہتے ہیں لیکن تیرہ سو سال قبل مسیح اس شہر کو چھوڑ کر نینوہ کو دارالحکومت قرار دیا گیا۔ محققین یورپ بھی اس بارہ میں مختلف الخیال ہیں کہ آیا یونس نبی اسرائیلی ہے یا نہیں ) اور خداوند آسمان کے خدا بحر وبر کے خالق سے ڈرتا ہوں۔ تب وہ خوف زدہ ہو کر اس سے کہنے لگے تو نے یہ کیا کیا۔ کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ وہ خداوند کے حضور سے بھاگا ہے اس لئے کہ اس نے خود ان سے کہا تھا۔ تب انہوں نے اس سے پوچھا ہم تجھ سے کیا کریں کہ سمندر ہمارے لئے ساکن ہوجائے کیونکہ سمندر زیادہ طوفانی ہوتا جاتا ہے؟ تب اس نے ان سے کہا مجھ کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دو تو تمہارے لئے سمندر ساکن ہو جائے گا کیونکہ میںجانتا ہوں کہ یہ بڑا طوفان تم پر میرے ہی سبب سے آیا ہے ۔ تو بھی ملاحوں نے ڈانڈ چلانے میں بڑی محنت کی کہ کنارہ پر پہنچیں لیکن نہ پہنچ سکے کیونکہ سمندر ان کے خلاف اور بھی زیادہ موجزن ہوتا جاتا تھا۔ تب انہوں نے خداوند کے حضور گڑگڑا کر کہا اے خداوند ہم تیری منت کرتے ہیں کہ ہم اس آدمی کی جان کے سبب سے ہلاک نہ ہوں اور تو خون ناحق کو ہماری گردن پر نہ ڈالے کیونکہ اے خداوند تو نے جو چاہا سو کیا اور انہوں نے یوناہ کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور سمندر کا تلاطم موقوف ہو گیا تب وہ خداوند سے بہت ڈر گئے اور انہوں نے اس کے حضور قربانی گزرانی اور نذریں مانیں لیکن خداوند نے ایک بڑی مچھلی مقرر کر رکھی تھی کہ یوناہ کو نگل جائے اور یوناہ تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا۔ تب یوناہ نے مچھلی کے پیٹ میں خداوند اپنے خدا سے یہ دعا کی۔ میں نے اپنی مصیبت میںخداوند سے دعا کی اور اس نے میری سنی۔ میں نے پاتال کی تہ سے دہائی دی تو نے میری فریاد سنی۔ تو نے مجھے گہرے سمندر کی تہ میںپھینک دیا او رسیلاب نے مجھے گھیر لیا۔ تیری سب موجیں اور لہریںمجھ پر سے گزر گئیں اور میں سمجھا کہ تیرے حضور سے دور ہو گیا ہوں ۔ لیکن میںپھر تیری مقدس ہیکل کو دیکھوں گا سیلاب نے میری جان کا محاصرہ کیا سمندر میری چاروں طرف تھا۔ بحری نبات میرے سر پرلپٹ گئی۔ میں پہاڑوں کی تہ تک غرق ہو گیا۔ زمین کے اڑ بنگے ہمیشہ کیلئے مجھ پر بند ہوگئے۔ تو بھی اے خداوند میرے خدا تو نے میری جان پاتال سے بچائی جب میرا دل بیتاب ہوا تو میںنے خداوند کو یاد کیا اور میری دعا تیری مقدس ہیکل میں تیرے حضور پہنچی۔ جو لوگ جھوٹے معبودوں کومانتے ہیں وہ شفقت سے محروم ہو جاتے ہیں ۔میں حمد کرتا ہوا تیرے حضور قربانی گزاروں گا۔ میں اپنی نذریں ادا کروں گا۔ نجات خداوند کی طرف سے ہے اور خداوند نے مچھلی کو حکم دیا اور اس نے یوناہ کو خشکی پر اگل دیا اور خداوند کا کلام دوسری بار یوناہ پرنازل ہوا کہ اٹھ اس بڑے شہر نینوہ کو جا اور وہاں اس بات کی منادی کر جس کا میں تجھے حکم دیتا ہوں۔ تب یوناہ خدا وند کے کلام کے مطابق اٹھ کر نینوہ کو گیا اور نینوہ بہت بڑا شہر تھا۔ اس کی مسافت تین دن کی راہ تھی اور یوناہ شہر میں داخل ہوا اور ایک دن کی راہ چلا۔ اس نے منادی کی اور کہا چالیس روز کے بعد نینوہ برباد کیا جائے گا تب نینوہ کے باشندوں نے خدا پر ایمان لا کر روزہ کی منادی کی اور ادنیٰ واعلیٰ سب نے ٹاٹ اوڑھا اور یہ خبر نینوہ کے بادشاہ کو پہنچی اور وہ اپنے تخت پر سے اٹھا اور بادشاہی لباس کو اتار ڈالا اور ٹاٹ اوڑھ کر راکھ پر بیٹھ گیا اور بادشاہ اور اس کے ارکان دولت کے فرمان سے نینوہ میں یہ اعلان کیا گیا۔ اور اس بات کی منادی ہوئی کہ کوئی انسان یا جوان گلہ یا رمہ کچھ نہ چکھے اور نہ کھائے نہ پئے۔ لیکن انسان اور حیوان ٹاٹ سے ملبس ہوں اور خدا کے حضور گریہ وزاری کریں بلکہ ہرشخص اپنی بری روش اور اپنے ہاتھ کے ظلم سے باز آئے شاید خدا رحم کرے اور اپنا ارادہ بدلے اور اپنے قہر شدید سے باز آئے اور ہم ہلاک نہ ہوں۔ جب خدا نے ان کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی اپنی بری روش سے باز آئے تو وہ اس عذاب سے جو اس نے ان پر نازل کرنے کو کہا تھا باز آیا اور اسے نازل نہ کیا۔ لیکن یوناہ اس سے نہایت ناخوش اور ناراض ہوا اور اس نے خداوند سے یوں دعا کی کہ اے خداوند جب میںاپنے وطن ہی میں تھا اور ترسیس کو بھاگنے والا تھا تو کیامیں نے یہی نہ کہا تھا ۔ میں جانتا تھا کہ تو رحیم و کریم خدا ہے جو قہر کرنے میںدھیما اور شفقت میں غنی ہے اور عذاب نازل کرنے سے باز رہتا ہے ۔ اب اے خداوند میں تیری منت کرتا ہوں کہ میری جان لے لے کیونکہ میرے اس جینے سے مرجانا بہتر ہے تب خداوند نے فرمایا کیا تو ایسا ناراض ہے اور یوناہ شہر سے باہر مشرق کی طرف جا بیٹھااور وہاں اپنے لئے ایک چھپر بنا کر اس کے سایہ میں بیٹھ رہا کہ دیکھے شہر کا کیا حال ہوتا ہے۔ تب خداوند خدا نے کدو کی بیل اگائی اور اسے یوناہ کے اوپر پھیلا دیا کہ اس کے سر پر سایہ ہو اور وہ تکلیف سے بچے۔ (بائبل کہتی ہے اس نے پہلے چھپر بنایا اور پھر خدا نے کدو کی بیل اُگائی حالانکہ چھپر کے بعد بیل کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی چھپر زیادہ آرام دہ ہوتا ہے مگر قرآن کریم میں چھپر کا کوئی ذکر نہیں کیا گیاخالی بیل کا ذکر کیا گیا ہے جو ثبوت ہے کہ قرآنی بیان ہی صحیح اور عقل کے مطابق ہے) اور یوناہ اس بیل کے سبب سے نہایت خوش ہوا لیکن دوسرے دن صبح کے وقت خدا نے ایک کیڑا بھیجا جس نے اس بیل کو کاٹ ڈالا۔ اور وہ سوکھ گئی اور جب آفتاب بلندہوا تو خد انے مشرق سے لو چلائی اور آفتاب کی گرمی نے یوناہ کے سر میں اثر کیا اور وہ بیتاب ہو گیا اور موت کا آرزو مند ہوکرکہنے لگا کہ میرے اس جینے سے مر جانا بہتر ہے اور خدا نے یوناہ سے فرمایا کیا تو اس بیل کے سبب سے ایسا ناراض ہے اس نے کہا میںیہاں تک ناراض ہوں کہ مرنا چاہتا ہوں ۔ تب خداوند نے فرمایا کہ تجھے اس بیل کا اتنا خیال ہے جس کیلئے تو نے نہ کچھ محنت کی اور نہ اسے اُگایا جو ایک ہی رات میں اُگی اور ایک ہی رات میں سوکھ گئی اور کیا مجھے لازم نہ تھا کہ میں اتنے بڑے شہر نینوہ کا خیال کروں۔ جس میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ ایسے ہیں جو اپنے داہنے اور بائیں ہاتھ میں امتیاز نہیں کر سکتے اور بے شمار مویشی ہیں ‘‘ (یوناہ باب ۱ تا ۴)
یہ ہے وہ یوناہ نبی کا واقعہ جس کی طرف حضرت مسیح اشارہ کرتے ہیں ۔ اس واقعہ کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یوناہ نبی کو جب یہ الہام ہوا کہ جا اور اپنی قوم کوتبلیغ کر تو بجائے اس کے کہ وہ اپنی قوم کو تبلیغ کرتے اس خیال سے کہ نبی جب تبلیغ کرتے ہیںتو انہیں کچھ انذاری پیشگوئیاں بھی ملتی ہیں ۔ لیکن خدا تعالیٰ رحم کر کے اپنے بندوں کو معاف کر دیتا ہے اور اس طرح انہیں شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ انہوں نے ایک دوسرے ملک کو بھاگ کر جانا چاہا تاکہ وہ اس ذلت سے بچ سکیں جو انہیں اپنی قوم سے پہنچ سکتی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ وہ نینوہ کے لوگوں کی طرف ہی جائیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں ۔ چنانچہ اس نے تدبیر کر کے انہیںسمندر میں پھینکوادیا۔ اور پھر ایک بڑی مچھلی کو انہیں نگل جانے کا حکم دے دیا جس نے انہیں زندہ نگل لیا ۔ چنانچہ بائبل کے بیان کے مطابق وہ مچھلی کے پیٹ میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہے اور دعائیں زندہ شخص ہی کیا کرتا ہے نہ کہ مردہ۔ پس مچھلی کے پیٹ میں وہ زندہ گئے اور مچھلی کے پیٹ میں جب تک رہے وہ زندہ رہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق مچھلی نے آپ کو اگل دیا۔ سمندر میں نہیں بلکہ خشکی پر اور پھر انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نینوہ کے لوگوں کی تبلیغ کیلئے بھجوایا گیا ۔ چنانچہ وہ گئے اور اپنی تبلیغ میں کامیاب ہوئے۔ اس معجزہ سے ظاہر ہے کہ
(1)یوناہ نبی مچھلی کے پیٹ میںزندہ گیا۔
(2)وہ مچھلی کے پیٹ میں تین دن رات زندہ رہا۔
(3)وہ مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکلا۔
(4)اس کا اصل تبلیغ کازمانہ مچھلی کے پیٹ سے نکلنے کے بعد شروع ہوا۔
پہلے تو انہوں نے لوگوں کو بتایا ہی نہیں کہ مجھے تمہاری اصلاح کیلئے بھجوایا گیا ہے۔ ممکن ہے چند لوگوں سے انہوں نے ذکر کیا ہو لیکن عام لوگوں کو ان کے مشن کی کوئی خبر نہیں تھی۔وہ وہاں سے بھاگے اورانہوں نے چاہا کہ ایک دوسرے ملک کو نکل جائیں لیکن مچھلی کے واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر ان کو اپنے ملک میںبھجوا کر کہا کہ اب تبلیغ کرو۔ چنانچہ انہوں نے تبلیغ کی اور لوگ آپ پر ایمان لائے۔
اس نشان کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد کوئی شخص ا س امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ واقعہ اسی صورت میں مسیح پر چسپاں ہو سکتا ہے۔ جب
اول۔ مسیح زندہ قبر میں جائے
دوم۔ مسیح زندہ قبر میںرہے
سوم۔ مسیح زندہ قبر میں سے نکلے
چہارم۔ قبر سے نکلنے کے بعد اسے ایک کامیاب تبلیغ کا زمانہ میسر آئے۔
یہ چار چیزیں ہیںجو یوناہ نبی کے واقعہ سے نکلتی ہیں۔ اگر مسیحی کہانی صلیبی موت کی ٹھیک ہے تو پھر یہ چاروں باتیں غلط ثابت ہوتی ہیں (1)اگر مسیح صلیب پر مر گیا اور زندہ قبر میں نہیں گیا اور (2)اگر مسیح قبر میں تین دن رات مرا رہا بلکہ دوزخ میں رہا۔ تو یوناہ نبی سے اس کی کوئی مشابہت ثابت نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یوناہ نبی تین دن رات مچھلی کے پیٹ میںزندہ رہا۔اور اس کی خدا تعالیٰ سے صلح رہی کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا رہا۔ لیکن مسیح اول تومر کر قبرمیں گیا اور پھر دوزخ میں رہا گویا وہ خد اتعالیٰ سے دور ہو گیا۔ (3)اسی طرح اگر مسیح قبر میں سے دوبارہ زندہ ہو کر نکلے ہیں تو اس صورت میں بھی وہ یوناہ نبی کے مثیل نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ یوناہ نبی مچھلی کے پیٹ سے دوبارہ زندہ ہو کر نہیںنکلے وہ پہلے بھی زندہ تھے، مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ رہے اور زندہ ہی مچھلی کے پیٹ میں سے نکلے۔ (4)اگر قبر میں سے جی اٹھنے کے بعد مسیح کا مشن ختم ہو گیا جیسے مسیحیت کہتی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کے گناہوں کے کفارہ کے طور پر پہلے تین دن دوزخ میں رہااور جب وہ دوبارہ جی کر اٹھا تو آسمان پر اپنے باپ کے تخت پر بیٹھنے کیلئے چلا گیا۔ تو اس کی یوناہ نبی سے کوئی بھی مشابہت باقی نہیں رہتی۔کیونکہ یوناہ نبی کا تو یہ معجزہ تھا کہ اسے مچھلی کے پیٹ میں سے نکلنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک کامیاب تبلیغ کا موقع عطا فرمایا اور درحقیقت اصل معجزہ یہی تھا کہ خدا تعالیٰ نے دنیا کو یہ دکھا دیا کہ دیکھو یوناہ نے میری بات کو رد کیا اور وہ میرا پیغامبر نہ بنا وہ ڈرا کہ میں لوگوں میں ذلیل ہوں گااور لوگ مجھے قبول نہیں کرینگے۔ چنانچہ وہ بھاگا لیکن ہم نے اسے مچھلی کے پیٹ میںڈالا اور پھر مچھلی کے پیٹ میںزندہ رکھا اور آخر ہم نے مچھلی کو حکم دیا تو اس نے یوناہ کو خشکی پر اگل دیا۔ اس کے بعد ہم نے پھر اسے نینوہ میں ہی بھجوایا اور اس نے تبلیغ کی اور وہ اپنی تبلیغ میں کامیاب رہا۔ اس طرح خدا تعالیٰ نے اس بات کا اظہار کیا کہ جس شخص کو خدا اپنا پیغامبر بناتا ہے وہ اپنے آپ کو خواہ کتنا بھی کمزور خیال کرے اور خواہ دنیا کے لوگ اسے کتنا بھی حقیر سمجھیں اللہ تعالیٰ یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ اسی کے ذریعہ اپنے پیغام کو کامیاب کرے اور لوگوں میں اسے مقبول بناوے۔ یہ ہے یوناہ کا اصل نشان جو نینوہ والوں کو دکھایا گیا لیکن مسیح کا واقعہ جس رنگ میں عیسائی پیش کرتے ہیں اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو اس کی یوناہ سے کوئی بھی مشابہت ثابت نہیںہو سکتی۔کیونکہ یوناہ نبی کا اصل معجزہ یہ تھا کہ اسے تبلیغ کا موقعہ دیا گیااور لوگوں نے دیکھا کہ وہی جو اپنی کمزوری کی وجہ سے ڈر کر بھاگ گیا تھا ایک کامیاب مصلح ثابت ہوا اور لوگوں نے اس کو قبول کر کے اپنے اندر تبدیلی پیدا کی۔ ورنہ یوناہ نبی جب مچھلی کے پیٹ میں گئے تھے نینوہ والوں نے ان کو نہیں دیکھا تھا۔ یوناہ جب مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے تب بھی نینوہ والوں نے ان کو نہیں دیکھا تھا۔یوناہ جب مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکلے تب بھی نینوہ والوں نے ان کو نہیں دیکھا تھا۔ ان کے اور نینوہ والوں کے درمیان اس وقت پانچ سات سو بلکہ ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ انہوں نے یہ کب دیکھا کہ یوناہ مچھلی کے پیٹ میں گیا ہے یا مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا ہے یا مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکلا ہے پس ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں تھی جو نینوہ والوں نے دیکھی ہو۔ جب وہ مچھلی کے پیٹ میں گیا تب بھی نینوہ والوں نے اسے نہیں دیکھا۔جب وہ مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا تب بھی نینوہ والوں نے اسے نہیں دیکھااور جب مچھلی نے اسے اُگل دیا تب بھی نینوہ والوں کے پاس دوبارہ گیا اور انہوں نے دیکھا کہ یہ وہ شخص ہے جو ڈر کر بھاگ گیا تھا مگر پھر خدا تعالیٰ اسے پکڑ کر واپس لایا ہے اور جس جگہ کے متعلق یہ سمجھتا تھا کہ وہاں مجھے کامیابی نہیں ہوگی وہیں اللہ تعالیٰ نے اسے کامیابی عطا فرمائی ہے تو یہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کی طاقتوں کا ایک بہت بڑا نشان بن گیا جو انہوں نے دیکھا اور مسیح نے اپنے متعلق بھی یہی کہا تھا کہ
’’ جس طرح یوناہ نینوہ کے لوگوں کیلئے نشان ٹھہرا اسی طرح ابن آدم بھی اس زمانہ کے لوگوں کیلئے ٹھہرے گا‘‘
(لوقا باب ۱۱ آیت ۳۰)
اب سوال یہ ہے کہ نینوہ والوں نے کیا دیکھا تھا۔ نینوہ والوں نے یوناہ کو مچھلی کے پیٹ میں جاتے نہیں دیکھا۔ مچھلی کے پیٹ میں رہتے نہیں دیکھا مچھلی کے پیٹ میں سے نکلتے نہیں دیکھا۔ نینوہ والوں نے یہی دیکھا کہ ایک شخص پر الہام نازل ہوا کہ جا اور نینوہ والوں کو ہماری طرف بلا۔ مگر اسے جرأت نہ ہوئی کہ وہ خدا تعالیٰ کا پیغام ان کو پہنچائے۔ اور اس نے بھاگ کر کسی اور ملک کو جانا چاہا مگر کئی مصیبتوں اور تکلیفوں کے بعد خدا تعالیٰ اسے پھر نینوہ والوں کے پاس گیا اور نینوہ والے اس کا پیغام ماننے پر مجبو رہو گئے۔ پس اگر کوئی نشان ایسا ہے جو نینوہ والوں نے دیکھا تو وہ یہی نشان ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک مچھلی کے پیٹ میں ان کا جانا ہے یہ بھی ایک نشان ہے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنا یہ بھی ایک نشان ہے اور مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکلنا یہ بھی ایک نشان ہے مگر یہ نشانات ایسے ہیں جو نینوہ والوں نے نہیں دیکھے ۔ انہوں نے جو نشان دیکھا وہ یہی ہے کہ یوناہ نبی کے دل میں وسوسہ پیدا ہوا اور وہ وہاں سے چلا گیا۔ اس نے نہ چاہا کہ نبوت کا پیغام لوگوں تک پہنچائے لیکن خدا اُسے سینکڑوں میل سے مجبورکر کے اور کئی قسم کی تکلیفوں میں سے گزار کر پھر اسے اپنی قوم کے پاس لایا اور خدا تعالیٰ نے وہ مشن پورا کر کے دکھا دیا جس کے لئے اس نے یوناہ کو کھڑا کیا تھا۔ لوگوں نے ان کا انکار بھی کیا ، مقابلہ بھی کیا مگر آخر قوم کو جھیکنا پڑا۔ یہ نشان تھا جو نینوہ والوں نے دیکھا پس مسیح کیلئے یہ بھی نشان اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب مسیح قبر میں زندہ جائے، قبر میںزندہ رہے اور قبر میں سے زندہ نکلے۔ مگر اتنا حصہ وہ ہوگا جس کو دشمن نے نہیں د یکھا۔ اس کے بعد نشان کا یہ حصہ آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو تبلیغ کر کے جو اس وقت نینوہ کے قریب اور ایران اور افغانستان اور کشمیر میںرہتی تھیں اپنے مذہب میں داخل کرے اور اس طرح اس مقصد میں کامیاب ہو جو اللہ تعالیٰ نے اس کے سپرد کیا تھا۔ اگر ایسا ہو جائے تو یوناہ نبی سے مسیح کی مماثلت ثابت ہو جاتی ہے اور وہ معجزہ جس کے دکھانے کا انہوں نے وعدہ کیا تھا وہ دنیا پر ظاہر ہو جاتا ہے لیکن اگر ایسا نہ ہوتا یوناہ نبی والا نشان پورا نہیں ہو سکتا۔بہرحال جس طرح یوناہ نبی نے مچھلی کے پیٹ میں سے نکلنے کے بعد اپنی قوم کو تبلیغ کی اور وہ اس تبلیغ میں کامیاب ہوئے اسی طرح مسیح کے لئے بھی ضروری تھا کہ وہ قبر میں سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل کو تبلیغ کرتا اور انہیں ہدایت پر لاتا۔ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو یوناہ نبی کا نشان مکمل نہیں ہو سکتا اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے وہی نشان دکھایا ہے جو یوناہ نبی نے اپنی قوم کو دکھایا تھا۔ نینوہ والوں نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ وہ شخص جو اپنے آپ کو ناقابل سمجھتے ہوئے یہاں سے بھا گ گیا تھا اور جس نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے سے گریز کیا تھا وہ پھر ہم میں واپس آیا اور ہم اس پر ایمان لانے پر مجبور ہوئے لیکن مسیح واقعۂ صلیب کے بعد اگر غائب ہو گیا تھا تو یوناہ سے اس کی مشابہت کس طرح ہوئی اور نینوہ والوں کی طرح کونسا نشان تھا جو لوگوں نے دیکھا۔ گویا وہ نشان جو یوناہ نبی کی طرح مسیح کیلئے دکھانا ضروری تھا اور جس کا ماحصل یہ تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے بھی کام لے لیتا ہے جو اپنے آپ کو کام کے ناقابل سمجھتے ہیں وہ تو مسیح نے نہ دکھایا اور وہ حصہ جو یوناہ نبی نے لوگوں کو نہیں دکھایا تھا وہ مسیح نے دکھا دیا۔ یوناہ مچھلی کے پیٹ میں گیا مگر نینوہ والوں نے یہ نشان نہیں دیکھا۔ یوناہ مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا مگر نینوہ والوں نے یہ نشان نہیں دیکھا ۔ یوناہ مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکلا مگر نینوہ والوں نے یہ نشان نہیں دیکھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ جب یوناہ کو پھر نینوہ میں لایا تو انہوں نے لوگوں کو کام کر کے دکھایا کہ دیکھو خدا تعالیٰ سے کوئی شخص بھاگ نہیں سکتا۔ میں بھاگا تھا مگر پھر مجھے پکڑ کر خدا تمہاری طرف واپس لایا۔ یہ نشان تھا جو لوگوں نے دیکھا اور ہر شخص جو معمولی عقل و سمجھ سے کام لے کر بھی اس نشان پر غور کرے گا وہ بے اختیار یہ کہہ اُٹھے گا کہ سبحان اللہ یہ کتنا بڑا نشان ہے۔ یوناہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا پیغامبر بنے اور وہ ڈر کر کسی اور ملک کی طرف بھاگا مگر خدا اسے پکڑ کر پھر نینوہ والوں کے پاس لایا اور جب اس نے پیغام پہنچایا تو وہی نینوہ والے جن کے متعلق اس کا خیال تھا کہ وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے اس پر ایمان لانے پرمجبور ہوئے اور انہوں نے یوناہ کے سامنے اپنا سر جھکا دیا۔وہ اس نشان پر جتنا بھی غور کرے گا اسے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان لانا پڑے گا اور وہ بے اختیار کہہ اٹھے گا کہ اللہ تعالیٰ کتنی بڑی طاقتوں کا مالک ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رُتبہ بخشتا ہے لیکن اگر یوناہ لوگوں سے یہ کہتا کہ دیکھو میں مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا تھا یا مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکلا تھا۔ تو لوگ کہتے یہ بالکل جھوٹ اور فریب ہے ہم اسے نہیں مان سکتے۔ پس مسیح کی یوناہ نبی سے مماثلت اگر پوری ہو سکتی تھی تو اسی طرح کہ وہ یوناہ نبی کی طرح زندہ ہی قبر میں جاتا، زندہ ہی قبر میں رہتا اور زندہ ہی قبر میں سے نکلتا اور پھر واقعہ صلیب کے بعد بنی اسرائیل کے ایک حصہ میں کامیاب تبلیغ کرتا۔لیکن انجیل ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جو نشان یوناہ نے لوگوں کو نہیں دکھایا تھا وہ تو مسیح نے لوگوں کو دکھایا اور جو نشان یوناہ نے لوگوں کو دکھایا وہ مسیح نے نہیں دکھایا۔مچھلی کے پیٹ میں زندہ جانے، اس کے پیٹ میں زندہ رہنے اور اس کے پیٹ میں سے زندہ نکلنے کا نشان یوناہ نے نینوہ والوں کو نہیںدکھایا۔مگر انجیل کہتی ہے کہ قبر میں جانے ، قبر میں رہنے اور قبر میں سے نکلنے کا نشان مسیح نے لوگوں کو دکھایا۔ پھر بائبل بتاتی ہے کہ یوناہ نے نینوہ والوں کو یہ نشان دکھایا کہ مچھلی کے پیٹ میں سے نکلنے کے بعد اس نے تبلیغ کی اور نینوہ والے اسے ماننے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن انجیل کہتی ہے کہ مسیح قبر میں سے نکلنے کے بعد غائب ہو گیا اور اس نے کوئی تبلیغ نہیں کی ۔ گویا جو نشان یوناہ نے دکھایا تھا اور جو اصل نشان تھا وہ تو مسیح نے نہیں دکھایا اور جو نہیں دکھایا تھا وہ مسیح نے دکھایا۔ پھر بائبل تو بتاتی ہے کہ یوناہ مچھلی کے پیٹ میں زندہ گیا ، زندہ رہا ، اور زندہ نکلا ۔ لیکن مسیحی کہتے ہیں کہ مسیح قبر میں مر کر گیا ، قبر میں تین دن مردہ پڑا رہا اور پھر دوبارہ زندہ ہو کر باہر نکل آیا ۔ اگر مسیحیوں کی یہ بات درست ہے تو یوناہ نبی کا نشان مسیح نے نہیں دکھایا اور اگر اس نے یوناہ نبی کا نشان دکھایا تھا اور وہ صلیب پر نہیں مرا۔ نہ مردہ ہونے کی حالت میں قبر میںرہا تو کفارہ کا مسئلہ بالکل ختم ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ کفارہ تب ثابت ہوتا ہے جب یہ مانا جائے کہ مسیح نے صلیب پر لٹک کر لوگوں کے گناہ اٹھا لئے۔ اگر وہ زندہ ہی رہا تھا تو ثابت ہوا کہ اس نے کوئی قربانی نہیں دی تھی اور جب قربانی نہیں دی تھی تو کفارہ بھی باطل ہوا۔
غرض صلیب کا واقعہ جسے مسیحی پیش کرتے ہیں سر تاپا اس نشان کے خلاف ٹھہرتا ہے جو یوناہ نے دکھایا تھا اور جس کے دکھانے کا مسیح نے اپنی قو م سے وعدہ کیاتھا۔
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ نتیجہ جو ہم نے یوناہ نبی کی پیشگوئی سے نکالا ہے آیا اس کا ذکر مسیح کی کسی پیشگوئی میں بھی ہے؟ اس نقطہ نگاہ سے جب ہم انجیل پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ یہی بات حضرت مسیح نے بھی بیان کی ہے بلکہ مسیح سے پہلے جو انبیاء گزرے ہیں اور جنہوں نے حضرت مسیح کے آنے کی پیشگوئی کی تھی انہوں نے بھی اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے چنانچہ یسعیاہ میں لکھا ہے: -
’’خداوند یہوواہ جو اسرائیل کے تتر بتر کئے ہوئوں کا جمع کرنے والا ہے یوں فرماتا ہے کہ میں ان کے سوا جو اسی کے ہو کے جمع ہوئے ہیں اوروں کو بھی اس پاس جمع کروں گا۔‘‘ (یسعیاہ باب ۵۶ آیت۸)
یہاںیسعیاہ نبی یہ پیشگوئی فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جبکہ خدا تعالیٰ اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو پھر اکٹھا کرے گا اور ایک نبی بھیجے گا جس کے اردگرد وہ جمع ہو جائیں گی۔ یسعیاہ نبی جو اس جگہ خبر دیتے ہیں یہ مسیح کے بارہ میں ہے کیونکہ مسیح کے سوا اور کوئی شخص نہیں جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ میںبنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو جمع کرنے کیلئے آیا ہوں ۔ یہ جو گمشدہ بھیڑیں ہیںان سے مراد بنی اسرائیل کے دس قبیلے ہیں جن کو نبو کد نضر کے زمانہ میں عراقی حکومت نے حملہ کر کے تباہ کر دیا تھا ۔ اس حملہ کا افسوسناک پہلو یہ تھا کہ اس وقت یہودیوں میںپھوٹ پڑی ہوئی تھی اور وہ ایک دوسرے کی دشمنی میں مشغول رہتے تھے چنانچہ اس وقت یہود کی دو حکومتیں بنی ہوئی تھیں ایک اسرائیلی کہلاتے تھے اور دوسرے یہودی کہلاتے تھے ۔ ایک یروشلم سے تعلق رکھتے تھے اور دوسروں نے اپنا الگ دارالحکومت بنایا ہوا تھا ۔ جب عراقی حکومت نے یہودی حکومت کو تباہ کرنے کیلئے حملہ کیا تو یہود کا ایک حصہ دوسروں کی دشمنی کی وجہ سے اس کے ساتھ مل گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عراقی حکومت یہود کی آپس کی پھوٹ کی وجہ سے ملک پر غالب آ گئی اور اس نے یہود کے تمام مقدس مقامات تباہ کر دئیے حتیٰ کہ یروشلم کا معبد جو حضرت سلیمان علیہ السلام کا بنا یا ہوا تھا اس میں سؤر کی قربانی کی گئی اور اسی طرح اور بہت کچھ مظالم کئے گئے ۔ چونکہ یہود کا حکومت سے دیر سے مقابلہ چلا آتا تھا اس لئے حکومت نے فیصلہ کیا کہ اب ان کا پوری طرح قلع قمع کر دیا جائے۔ چنانچہ بارہ یہودی قبائل میں سے دس کو اس نے پکڑ لیا اور مشرق کے علاقہ میںلا کر پھیلا دیا۔ صرف دو قبائل فلسطین میں رہ گئے تھے اور یہ دو قبائل وہ تھے جنہوں نے اپنی قوم سے دشمنی کر کے دشمن کا ساتھ دیا تھا اس لئے ان سے دشمن نے رعایت برتی۔بہرحال وہ دس قبائل جو مشرق کے علاقہ میں لا کر پھیلا دئیے گئے تھے ان کے متعلق بائبل میں تو اتنا ہی لکھا ہوا ہے کہ ایران کے مشرق کے علاقہ میں یہود کے دس قبائل کو پھیلا دیا گیا۔ لیکن ہماری تحقیقات سے ثابت ہے کہ یہ علاقے افغانستان اور کشمیر کے تھے اور چونکہ ایک لمبا فاصلہ درمیان میں حائل ہو گیا تھا اور بابلیوں کی کوشش بھی یہی تھی کہ یہ لوگ واپس نہ آئیںاس لئے دیر تک ان کا حال چھپا رہا۔مگر تمام یہود انہوں نے مشرق میں نہیں بھیجے بلک کچھ لوگ اپنی خدمت کے لئے انہوں نے بابل اور اس کے ارد گرد رکھ لئے تھے ۔ یہ لوگ جو وہاں رہے تھے فارس اور مید کے بادشاہوں کی مدد سے پھر واپس آئے اور انہوں نے یروشلم کی بستیاں دوبارہ بسائیں۔ ان یہودیوں کا قرآ ن کریم میں بھی ذکر آتا ہے۔مگر وہ لوگ جو کشمیر اور افغانستان بھیج دئیے گئے تھے ان کا واپس آنا مشکل تھا اور پھر چونکہ وہ ایک لمبا عرصہ بدھوں کے ساتھ رہے اور ان کی تہذیب سے متاثرہو گئے اس لئے وہ اپنی روایات اپنی تہذیب اور اپنے تمدن کو بھی بھول گئے اس وجہ سے ان کے واپس آنے کی کوئی صورت نہیں بنتی تھی۔ ان لوگوں کے متعلق یہود کا یہ خیال تھا کہ یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مطابق مسیح ان گمشدہ بھیڑوں کو واپس لا کراپنی قوم سے ملا دے گا اور یسعیاہ نبی کی پیشگوئی جس سے یہود کو یہ امید تھی کہ ان کی گمشدہ بھیڑیں پھر اپنے بھائیوں سے آ ملیں گی وہی ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔
حضرت مسیح علیہ السلام بھی اس بارہ میں کئی جگہ پر ذکر فرماتے ہیں۔ ایک دفعہ انہوں نے اپنے شاگردوں کی جماعت کو تبلیغ کیلئے بھجوایا تو اس موقعہ پر انہوں نے اپنے شاگردوں کو جو نصیحتیں کیں ان میں سے ایک نصیحت یہ بھی تھی کہ
’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔‘‘
(متی باب ۱۰ آیت ۶)
یہ نصیحت انہوں نے اسی لئے کی تاکہ وہ پیشگوئی پوری ہو جائے جو یسعیاہ نبی نے کی تھی کہ جو اسرائیلی کھوئے گئے ہیں وہ مسیح کے ذریعہ پھر اکٹھے ہو جائیں گے آپ کہتے ہیں غیر قوموں کی طرف توجہ نہ کرنا بلکہ صرف اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا اور انہیں تبلیغ کرنا۔
اسی طرح متی باب ۱۵ آیت ۲۱تا ۲۸ میں لکھا ہے کہ ایک عورت کی لڑکی بیمار تھی معلوم ہوتا ہے اس زمانہ میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا تھا کہ جن آدمی کو بیمار کر دیا کرتے ہیں اور اگر جن نکال دیا جائے تو آدمی اچھا ہو جاتا ہے ۔ اس نے سنا ہوا تھا کہ مسیح جن نکالتا ہے ایک دفعہ حضرت مسیح کہیں جا رہے تھے کہ اس نے آپ کو دیکھ لیا اور وہ آپ کے پیچھے پیچھے شور مچاتی اور آوازیں دیتی دوڑی کہ اے خدا کے مقدس مجھ پر رحم کر اور میری لڑکی کا جن نکال دے۔ لیکن حضرت مسیح اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ غیر قوم کی تھی مگر وہ برابر شور مچاتی چلی جاتی تھی اور درخواست کرتی تھی کہ اس کی بیٹی کو بد روح سے بچایا جائے ۔ جب شاگردوں نے دیکھا کہ اس طرح ایک عورت پیچھے پیچھے شور مچاتی آ رہی ہے تو انہوں نے آپ کو توجہ دلائی کہ حضور یہ عورت میلوں میل سے بھاگی چلی آ رہی ہے اور شور مچا رہی ہے کہ میری بیٹی کی بد روح نکالی جائے۔ اس پر حضرت مسیح نے کہا۔
’’ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔‘‘
اس میں حضرت مسیح نے بتایا کہ میرا اصل مقصد یہ ہے کہ اسرائیل کے گھرانے کی وہ دس قومیں جو کھوئی گئی ہیں انہیں تبلیغ کروں اور انہیں پھر اپنے مذہب پر قائم کروں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نبیوں کو الہام سے یہ معلوم ہوچکا تھا کہ دوسری قوموں میں رہنے کی وجہ سے وہ اپنے مذہب کو بھول چکی ہیں اور موسوی شریعت پر ان کا عمل نہیں رہا اور خدا تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ دوبارہ ان کو مذہب کی طرف لایا جائے ’’ کھوئی ہوئی بھیڑوں‘‘ کے الفاظ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف ظاہری طور پر وہ غیر ملک میں چلی گئی تھیں بلکہ روحانی طور پر بھی غیر مذاہب کا اثر انہوں نے قبول کر لیا تھا پس وہ روحانی اور جسمانی دونوں لحاظ سے کھوئی ہوئی تھیں۔ اسی وجہ سے جس طرح حضرت مسیح نے یہ کہا کہ یوناہ نبی کے نشان کے سوا اور کوئی نشان یہودیوں کو نہیں دکھایا جائے گا اور یہی میرا سب سے بڑا نشان ہو گا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ میرا سب سے بڑا مشن یہی ہے کہ میں اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو پھر جمع کروں۔ اسی طرح یوحنا میں حضرت مسیح کا یہ قول درج ہے کہ
’’ میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں مجھے ان کا بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری آواز سنیں گی۔ پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہوگا۔‘‘ (یوحنا باب ۱۰ آیت ۱۶)
یہاں حضرت مسیح یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ یہودی کسی اور ملک میں رہتے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ’’میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں‘‘ یعنی اس ملک کی نہیں بلکہ وہ کسی اور ملک میں رہتی ہیں اور میرے لئے یہ امر فیصل شدہ اور مقدر ہے کہ میں ان کو لائوں ۔ ان بھیڑوں نے تو میرا نکار کیا ہے لیکن وہ میری آواز سنیں گی اور مجھے مان لیں گی یوں تو نبی کا انکار لوگ کیا ہی کرتے ہیں حضرت مسیح کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ تو ضد کی وجہ سے انکار کر رہے ہیں مگر وہ ضد کی وجہ سے انکار نہیں کرینگے بلکہ جلدی ہی مجھ پر ایمان لے آئیں گے۔
’’ پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہوگا‘‘ یہ الفاظ بھی بتاتے ہیں کہ اس وقت موسوی قوم کا ایک بڑا حصہ موسوی شریعت کو چھوڑ سبیٹھا تھا اور اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ وہ حضرت مسیح کے ذریعہ پھر ان کو موسوی مذہب کی طرف واپس لائے اور اس طرح سب کو ایک قوم بنا دے۔
ان حوالہ جات سے ثابت ہے کہ گزشتہ نبیوں کے ذریعہ سے مسیحی مشن کی نسبت یہ خبر دی گئی تھی کہ
(1) وہ اسی طرح مشرقی ممالک کے یہود کو پیغام دے گا جس طرح فلسطین کے یہود کو دے گا۔
(2) یہ کہ مسیح کے نزدیک جہاں فلسطین کی بھیڑوں نے اس کو کم مانا ہے وہاں دوسری بھیڑیں اس کی آواز کو زیادہ سنیں گی
اور اس پر جلد ایمان لائیں گی۔
(3) مسیح کا ان لوگوں تک جانا اور انہیں پیغام پہنچانا ضروری ہے۔
یہ تین باتیں ہیں جو ان حوالوں سے نکل آتی ہیں ۔ اول یہود کے ملک سے باہر کچھ یہودی قبائل ہیں جن تک مسیح اپنا پیغام پہنچائے گا ۔ دوسرے وہ لوگ اس کی بات سنیں گے اور اسے مان لیں گے ۔ تیسرے مسیح کا ان لوگوں تک جانا کوئی اختیاری بات نہیں بلکہ ان کا وہاں جانا اور پیغام پہنچانا ایک ضروری امر ہے ۔ا ن تین نتیجوں کو یوناہ نبی کی پیشگوئی سے ملا لو تو ایک ہی بات بن جاتی ہے۔ یوناہ نبی کو بھی ایک غیر ملک کی طرف بھجوایا گیا تھا چنانچہ واقعات پڑھ کر دیکھ لو۔ یوناہ نینوہ کی مملکت میں نہیں رہتے تھے انہیں الہام ہوا کہ جائو اور نینوہ والوں کو ہمارا پیغام پہنچائو جو مشرق کی طرف ہے ۔ اسی طرح مسیح کو حکم دیا گیا کہ وہ مشرق کی طرف ایک غیر ملک میں جائیں اور انہیں پیغام پہنچائیں ۔ دوسرے یوناہ نبی کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ نے جبری طور پر وہاں بھجوایاورنہ وہ تو وہاں سے بھاگے تھے اور چاہتے تھے کہ نینوہ نہ جائیں لیکن خدا تعالیٰ نے جبر کر کے یوناہ کو وہاں بھجوا دیا۔ اسی طرح پیشگوئی بتاتی تھی کہ حضرت مسیح کو بھی اللہ تعالیٰ جبر اً اپنے ملک سے نکال کر ایک غیر ملک میں لے جائے گااور ان کے ذریعہ اپنا پیغام یہود کی گمشدہ بھیڑوں تک پہنچائے گا (3)جب وہ وہاں جائیں گے تو لوگ ان کو قبول کرلینگے اور ان کے دعویٰ پر ایمان لائیں گے۔
یوناہ نبی کے ساتھ جوو اقعہ ہوا وہ اسی طرح ہوا کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں گئے ۔ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ پھر مچھلی نے ان کو خشکی پر اگلا۔ اور جب وہ اچھے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ جائو اور نینوہ والوں کو ہمارا پیغام پہنچائو۔ اس طرح یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ میں کتنا ہی بھاگوں بہرحال خدا تعالیٰ کی بات مجھے ماننی پڑے گی چنانچہ وہ واپس آئے اور انہوں نے نینوہ والوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا ۔ پہلے تو انہوں نے معمولی سا انکار کیا مگر جونہی عذاب کے آثار ظاہر ہوئے انہوں نے مان لیا۔
غرض ان حوالوں کو جب ہم یوناہ نبی کی پیشگوئی کے حوالہ سے ملا کر دیکھتے ہیںتو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یوناہ نبی والا معجزہ جو حضرت مسیح نے دکھانا تھا وہ مسیح کے زندہ قبر میں جانے ، زندہ قبر میں رہنے اور زندہ قبر میں سے نکلنے پر ہی مشتمل نہیں تھا بلکہ اس میں یہ چوتھی بات بھی بتائی گئی تھی اور یہی اہم بات تھی کہ مسیح کو خدا تعالیٰ یوناہ نبی کی طرح ان اسرائیلی قبائل کی طرف لے جائے گا جو کھوئے گئے تھے۔ اور وہ ان کو خدا کا کلام سنا ئے گا اور وہ لوگ اس کی باتیں مانیں گے اور یہ ایک ایسا نشان ہوگا جسے اسرائیل کی گمشدہ بھیڑیںدیکھیں گی۔ جیسے نینوہ کے لوگوں نے نشان دیکھا تھا ۔ اب دیکھ لو مسیح کے ساتھ جو حالات گزرے ہیں وہ بھی بالکل اسی طرح تھے ۔ مسیح فلسطین میں پیدا ہوا اور اس کی بولی عبرانی تھی۔ اس کی ماں بھی فلسطین میں موجود تھی اور اس کا جو باپ کہلاتا تھا وہ بھی وہیں موجود تھا۔ اسی طرح باپ کے دوسرے بیٹے بھی موجود تھے ۔ پھوپھی بھائی بھی وہیں تھے پھر وہاں سب کے سب ان کی اپنی قوم کے لوگ تھے۔ اپنا رسم و رواج تھا اپنا تمدن اور اپنا طریق تھا اور یہ چیزیں ایسی ہیں جو بڑی اہمیت رکھنے والی ہیں اور جن سے انسان کا غیر معمولی لگائو ہوتا ہے مگر جہاں ان کو بھیجا جا رہا تھا وہ ایک غیر ملک تھا اور اس کے ساتھ مسیح کا کوئی بھی تعلق نہیں تھا۔افغانستان کی زبان کہاں اور فلسطین کی زبان کہاں۔ اسی طرح کشمیر کی زبان کہاں اور فلسطین کی زبان کہاں اور مسیح کی زبان کہاں۔ ان دونوں میں کوئی بھی تو نسبت نہیںتھی ۔ پھر اسرائیلی قبائل بدھوںاور دوسری اقوام سے مل کر انہی کے تمدن اور انہی کے رسم و رواج کواختیار کر چکے تھے جن کا بدلنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس کے علاوہ فلسطین سے افغانستان اور کشمیر تک کا رستہ بھی بڑا کٹھن اور تکلیف دہ تھا اول تو کوئی سہولتیں میسر نہ تھیں اور پھر وہ اڑھائی ہزار میل طے کر کے جانا اور بھی مشکل تھا ۔ پس جس طرح یوناہ نبی کا دل نینوہ والوں کی طرف جانے سے گھبراتا تھا اسی طرح مسیح کا دل بھی افغانستان اور کشمیر جانے سے گھبراتا تھا کیونکہ وہاں جانے سے اپنی زبان کو چھوڑنا پڑتا تھا۔ اپنی قوم کو چھوڑنا پڑتا تھا آسان طریق یہی تھا کہ مسیح اپنی قوم میں رہتے اور فلسطین میںبیٹھے ہوئے یہود کو تبلیغ کرتے رہتے۔ مگر جس طرح یوناہ نبی نے گریز کیا تو خدا تعالیٰ نے اس پر جبر کیا اور ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ جن کے نتیجہ میں وہ مجبور ہو کر نینوہ والوں کے پاس جائیں اور انہوں نے بھی سمجھ لیا کہ خدا تعالیٰ سے بھاگنے کے کوئی معنے نہیں جہاں وہ مجھے بھجوانا چاہتا ہے وہاں مجھے ضرور جانا چاہئے اسی طرح حضرت مسیح کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کئے کہ ملک میںان کے خلاف مخالفت کی ایک عام رو چل پڑی۔ یہاں تک کہ ان پر مقدمہ ہوا۔ انہیں عدالت میں حاضر ہونا پڑا اور آخر عدالت نے انہیں پھانسی کا حکم دے دیا اور پھر صلیب پر انہیںلٹکنا پڑا ۔ یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی پیشگوئی کے مطابق اسی طرح بچا لیا جس طرح یوناہ کو بچایا تھا جس طرح یوناہ نبی کو جب سمندر میں ڈالا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی مقرر کر دی تھی جس نے انہیں زندہ نگل لیا اور پھر وہ مچھلی کے پیٹ میں تین رات دن زندہ رہے اور پھر زندہ ہی مچھلی کے پیٹ میں سے نکل آئے اور یہ دیکھ کر ان کا ایمان تازہ ہو گیا کہ میرے رب میں کتنی بڑی طاقتیں ہیں اور وہ کس طرح اپنے بندوں کی حفاظت فرماتا ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح بھی جب صلیب پر سے زندہ اترے۔ قبر میں زندہ رہے اور پھر زندہ ہی قبر میں سے باہر آئے تو ان کا ایمان بھی تازہ ہو گیا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ میں بہت بڑی طاقتیں ہیں ۔ مگر جب قبر میں سے نکلے تو اب حالات کی وجہ سے وہ اس ملک میں جانے پر مجبور ہو گئے جس ملک میں اللہ تعالیٰ انہیں بھجوانا چاہتا تھا۔ کیونکہ حکومت کی طرف سے جس کو پھانسی کا حکم مل چکا ہو اور پھر وہ بچ رہا ہو وہ اس ملک میں رہ ہی نہیں سکتا اگر رہے گا تو پکڑا جائے گا اور پھر دوبارہ پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔ غرض خدا تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ یوناہ نبی کی طرح وہ مجبور ہو کر کشمیر اور افغانستان کی طرف چلے گئے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نبی خدا کی راہ میں موت سے نہیں ڈرتا لیکن نبی نکمی زندگی کو برداشت نہیںکر سکتا۔ وہ کام کے لئے پیدا کیاجاتا ہے اور کام ہی کا عاشق ہوتا ہے ۔وہ ایک مشین ہوتا ہے جو ہر وقت چلتی ہے پھر کس طرح ہو سکتا تھا کہ مسیح اپنی باقی عمر ادھرادھر چھپ کر گزار دے۔ پس اس واقعہ نے جہاں اس کے ایمان کو اور بھی مضبوط کر دیا وہاں اسے جلد سے جلد فلسطین چھوڑ کریوناہ نبی کی طرح مشرق میں جا کر خدا تعالی کا کلام سنانے پر مجبور کر دیا۔ جب مسیح نے ان کو یہ واقعات سنائے ہونگے اور بتایا ہو گا کہ ان ان حالات کی وجہ سے میں تمھاری طرف آنے پرمجبور ہوا ہوں تو کس طرح ان کے ایمان بڑھ گئے ہوںگے اور کس طرح ان کے دلوں میں اللہ تعالی کے شکر کے جذبات پیدا ہوئے ہوں گے ۔ کشمیر کی تاریخوں سے پتہ لگتا ہے کہ جب حضرت مسیح کشمیر میں داخل ہوئے تو ان کے زخم ابھی موجود تھے۔معلوم ہوتا ہے اس زمانہ میں جراح اتنے اچھے نہیں ہوتے تھے۔چناچہ لکھا ہے کہ جب شہزادہ نبی کشمیر پہنچاتو اس کے ہاتھوںاور پیروں پر زخم تھے جن کا ایک لمبے عرصہ تک وہاں کے جراح علاج کرتے رہے جب حضرت مسیح نے ان کو یہ واقعات سنائے ہوںگے کہ اس طرح جبراً اللہ تعالی مجھے فلسطین سے نکال کرتمہاری طرف لایا ۔اگر میں وہیں رہتاتو وہ دوبارہ مجھے پھانسی دیدیتے۔تو وہ اپنی خوش قسمتی پر کتنا ناز کرتے ہونگے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالی قدرت رکھتا تھا کہ انہیں پھر بچا لیتا ۔وہ پھر صلیب پر لٹکاتے تو پھر بچا لیتا مگراس طرح صلیب پرچڑھنا اور اترنا ہی رہتا تو حضرت مسیح تبلیغ نہیں کر سکتے تھے۔ بہرحال جب یہ باتیں انہوں نے سنی ہوںگی تو ان کے دلوں میںخدا تعالی کی محبت کتنی بڑھ گئی ہوگی کہ وہ ایک نبی کو ہمارے ملک میں لایا تا کہ ہم اس کے ذریعہ ہدایت حاصل کریں ۔ بیشک بعض لوگوں نے مخالفت بھی کی ہوگی اور مخالفت ہونی بھی چاہئے مگر تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ حضرت مسیح کے بہت جلد معتقد ہو گئے اور بہت جلد انہوں نے ایک نبی کی حیثیت میں آپ کو ماننا شروع کر دیا۔ غرض ان حالات میں خدا تعالیٰ نے ان کو مجبو رکر کے وہاں بھجوا دیا ۔ اگر ہم یہ تشریح نہ مانیں تو کفارہ تو الگ رہا مسیح ایک سچا اور راستباز انسان بھی نہیں رہتا ۔ کیونکہ مسیح صاف کہتا ہے کہ میں قبر میں زندہ جائوں گا ، قبر میں زندہ رہوں گا اور قبر میں سے زندہ نکلوں گا، اور یہ کہ ان واقعات کے بعد میرا گمشدہ بھیڑوں کی طرف جانا ضروری ہے تاکہ یوناہ نبی سے میری مماثلت ثابت ہو جائے۔ یوناہ آخر کس وقت تبلیغ کیلئے نینوہ والوں کی طرف گئے تھے۔ اسی وقت جب وہ مچھلی کے پیٹ میںسے نکلے۔ اسی طرح مسیح کا اصلی کام کا زمانہ وہی تھا جب وہ قبر میں سے نکلا۔ اگر یہ بات واقع نہیں ہوئی اور اگر قبر میں سے زندہ نکلنے کے بعد مسیح نے تبلیغ نہیں کی اور اس نے اپنی گمشدہ بھیڑوں کو جمع نہیں کیا تو مسیح بھی جھوٹا ثابت ہوتا ہے اور یسعیاہ وغیرہ وہ انبیاء بھی نعوذ باللہ جھوٹے ثابت ہوتے ہیں ۔ جنہوں نے مسیح کے متعلق یہ خبر دی تھی کہ وہ بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو اکٹھا کرے گا۔
پس یہ واقعات اس امر کا قطعی ثبوت بہم پہنچاتے ہیں کہ مسیح کیلئے صلیب پر مرنا یا کفارہ ہونا مقدر ہی نہیں تھا اور اگر کفارہ کو مانا جائے تو مسیح کو سچا ماننا بھی ناممکن ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی سب سے بڑی پیشگوئی جھوٹی نکلتی ہے ۔ اسی طرح وہ کلام بھی جھوٹا ثابت ہوتا ہے جو یسعیاہ نبی پر نازل ہوا اور جس کی بعض اور نبیوں نے بھی خبر دی تھی۔ پس ثابت ہوا کہ مسیح نے وہ قربانی نہیں کی جو کفارہ ماننے والے اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اور نہ وہ کفارہ ہوا۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ جو واقعہ ہوا کیا وہ اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ مسیح زندہ قبر میں جائے گا زندہ قبر میں رہے گا اور زندہ قبر میں سے نکلے گا یا وہ اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ مسیح قبر میں مردہ گیا۔ مردہ ہونے کی حالت میں ہی رہا اور پھر دوبارہ زندہ ہو کر باہر نکلا۔ میں اس غرض کیلئے چند بڑی بڑی باتیں بیان کرتا ہوں جن سے واضح ہو جاتا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا۔
پہلی چیز تو یہ ہے کہ مسیح جس حاکم کے سامنے پیش کیا گیا وہ حاکم مسیح کا خیر خواہ تھا اور مسیح کے بعض ماننے والوں کا دوست تھا۔ مسیح کے ماننے والے جو ابھی ظاہر میں حواری نہیں بنے تھے لیکن دل سے آپ پر ایمان لا چکے تھے ان میں ایک یوسف آرمیتیا بھی تھا۔ انجیل سے پتہ لگتا ہے کہ یوسف آرمیتیا بوجہ اس کے کہ یہودیوں میں بڑا معزز اور مالدار انسان تھا پیلا طوس کا دوست تھا۔ جب مسیح پیلاطوس کے سامنے پیش ہوئے تو پیلا طوس نے بار بار کوشش کی کہ کسی طرح وہ مسیح کو چھوڑ دے۔ اس بارہ میں اس نے جو تدابیر کیںان میں سے ایک تدبیر یہ تھی کہ جس دن وہ پیش ہوئے وہ جمعہ کا دن تھا اور جمعہ کے ساتھ ہی سبت کا دن آتا تھا ۔ جو یہودیوں کا ایک مقدس تہوار ہے مگر اس دن ایک اور خاص تہوار بھی تھا جس میں رومی حکومت یہود کو خوش کرنے کیلئے ایک قیدی چھوڑا کرتی تھی تاکہ یہودیہ سمجھیں کہ حکومت مذہب کا احترام کرتی ہے اور اس کا دل ان کے مذہب سے متاثر ہے ۔ اس تقریب کی وجہ سے پیلا طوس نے یہ کوشش کی کہ وہ حضرت مسیح کو یہ کہہ کر کہ ہم نے کوئی نہ کوئی قیدی تو چھوڑنا ہی ہے چلو اسے ہی چھوڑ دیں آپ کو رہا کر دے۔ مگر یہودیوں نے کہا کہ ہم اس تجویز کو نہیں مان سکتے فلاں ڈاکو کو بیشک چھوڑ دیا جائے مگر مسیح کو نہ چھوڑا جائے (انجیل متی باب ۲۷ آیت ۲۱و ۲۲) اس بارہ میں انجیل میںبہت سے اختلافات ہیں جن میں اس وقت پڑنے کی ضرورت نہیں ۔ بہرحال مسیح کو انہوں نے چھڑوانے نہیں دیا۔ اتنے میںجب پیلا طوس اپنی ذاتی دلچسپی سے مسیح کو چھوڑنے کی کوشش کر رہا تھا عدالت میں ایک پیغامبر آیا اور اس نے کہا کہ مجھے آپ کی بیوی نے بھجوایا ہے ۔ جب پیلا طوس اس کی بات سننے کیلئے اٹھا تو اس نے کہا آپ کی بیوی نے مجھے یہ پیغام آپ تک پہنچانے کیلئے دیا ہے کہ آج میں ساری رات سوئی نہیں کیونکہ فرشتے مجھے بار بار آ کر کہتے تھے کہ یہ شخص بے گناہ ہے اسے سزا نہ دینا ورنہ مر جائو گے (انجیل متی باب ۲۷ آیت ۱۹) پیلاطوس نے جب یہ بات سنی تو اس نے مزید کوشش شروع کر دی کہ کسی طرح یہودی مسیح کو رہا کر دینا مان لیں ۔ مگر انہوں نے نہ مانا بلکہ انہوں نے دھمکی دی کہ ہم رو م میں بادشاہ کو لکھیں گے کہ ایک شخص جو حکومت کا باغی تھا اور بادشاہت کا دعویٰ کرتا تھا پیلا طوس نے اسے چھوڑ دیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ پیلا طوس بھی باغی ہے۔ یہ سن کر پیلا طوس ڈر گیا اور اس نے پانی منگوا یا۔ یہودیوں کو تمثیلی زبان میں گفتگو کرنے کا بہت شوق تھا۔ اسی طریق کے مطابق اس نے پانی منگوایا اور سب کے سامنے اپنے ہاتھ دھو کر کہا کہ مجھ پر اس گناہ کی کوئی ذمہ واری نہیں میں اس انسان کے خون سے بری ہوں ۔ اگر گناہ ہوگا تو وہ تم پر اور تمہاری اولادوں پر ہوگا۔ اس پر ان سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہاں ہاں اس کا خون ہم پر اور ہماری اولادوں کی گردن پر ہے ( انجیل متی باب ۲۷ آیت ۲۴، ۲۵) تب پیلا طوس نے مسیح کو ان کے حوالے کر دیا ہے کہ اسے لے جائو اور صلیب پر لٹکا دو۔
جب وہ مسیح کو لے کر صلیب کے مقام پر پہنچے ہیں تو انجیل سے پتہ لگتا ہے کہ اس وقت چھٹا گھنٹہ آ گیا تھا۔ اور چھٹے گھنٹے کے معنے اس زمانہ کے لحاظ سے تین اور چار بجے کے درمیان کے وقت کے ہیں ۔ اس دن دو اور مجرم بھی پیش تھے جن کو پھانسی پر لٹکایا جانا تھا۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ ایک مجرم کے لٹکانے اور تین مجرموں کے لٹکانے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ ایک آدمی کو تھوڑے وقت لٹکایا جا سکتا ہے مگر تین آدمیوں کو لٹکانے کیلئے لازماً زیادہ وقت لگے گا ۔ پھر ایک اور بات بھی ہے جس کو عام طور پر نہ مسلمان سمجھتے ہیںاور نہ بوجہ اپنے مذہب کے ناواقف ہونے کے عیسائی سمجھتے ہیں ۔ اس زمانہ میں صلیب کیلئے ایک لکڑی گاڑی جاتی تھی۔ جس کی شکل اس قسم کی ہواکرتی تھی۔



جب کسی شخص کے متعلق یہ فیصلہ ہو جاتا تھا کہ اسے صلیب پر لٹکا دیا جائے تو وہ اس لکڑی کے ساتھ سیدھا کھڑا کر دیا جاتا اور اس کے بازئوں کو پھیلا کر دو ڈنڈوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا۔ اس کے بعد مجرم کے بازوئوں اور ٹانگوں کے نرم گوشت میں کیل گاڑ دئیے جاتے اور وہ اسی طرح بھوکا پیاسا صلیب پر لٹکا لٹکا مر جاتا۔بعض حالات میں علاوہ ان کیلوں کے جو بازوئوں کے گوشت اور پنڈلیوں کے گوشت میں گاڑے جاتے تھے وہ ایک ایک کیل ہتھیلیوں میں بھی گاڑ دیتے تھے لیکن جن لوگوں کو علم التشریح کی واقفیت ہے وہ جانتے ہیں کہ یہاں بھی کیلوں کاگاڑنا ہڈیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔ بہرحال صلیب دیتے وقت کیل جسم کی ہڈیوں میں نہیں گاڑے جاتے تھے بلکہ بازوئوں اور پنڈلیوں کے نرم نرم گوشت میں گاڑے جاتے تھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جسم کے گوشت میں کیل گاڑ دینا یہ بھی انسان کو خطرناک تکلیف پہنچاتا ہے۔ بلکہ کیل تو الگ رہے معمولی ٹیکہ سے بھی بعض لوگ چیخیں مارنے لگ جاتے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اس صلیب سے انسان کی موت کئی دنوں کے بعد واقع ہوتی تھی اور وہ سسک سسک کر اپنی جان دیتا تھا فوری طور پر موت واقع نہیں ہوتی تھی۔ اس میں صرف ہیبت کا پہلو ہے جو دماغی لحاظ سے سخت اذیت پہنچاتا ہے یعنی انسان یہ دیکھتا ہے کہ اب کیل آ گئے ہیں اب ہتھوڑا آ گیا ہے۔ اب کیل گاڑنے والا آ گیا ہے۔ اب کیل گاڑنے کیلئے اٹھا ہے ۔ اب کیل جسم پر رکھا گیا ہے۔ اب کیل پر ہتھوڑا پڑنے والا ہے۔ یہ باتیں ایسی ہیں جو اس کے دماغ کو خوف زدہ کردیتی ہیں اور وہ اس کی ہیبت سے شدید متاثر ہوتا ہے ورنہ محض گوشت کٹ جانے سے ایسی تکلیف نہیں ہوتی جسے برداشت نہ کیا جا سکتا ہو۔ لڑائیوں میں ہزاروں مرتبہ تلوار لگتی ہے اور گوشت کٹ کر علیحدہ ہو جاتا ہے مگر چونکہ وہ تلوار یکدم آ پڑتی ہے اس لئے اس کی ہیبت طاری نہیں ہوتی۔ لیکن کیل کی ہیبت طاری ہو جاتی ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ اب نہ معلوم کیا ہونے والا ہے۔ لیکن تلوار لگ کر اگر گوشت کٹ جائے تو بعض دفعہ اس کی اتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی جتنی ڈاکٹر کی سوئی سے انسان محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ اس کا پتہ اسی وقت لگتا ہے جب گوشت کٹ چکا ہوتا ہے بلکہ بسااوقات ایسی حالت میں جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ ہڈی سلامت ہے تو بجائے گھبرانے کے بے اختیار الحمد للہ کہہ اٹھتا ہے۔ لیکن جب ڈاکٹر ٹیکا لگانے کیلئے سرنج تیار کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ شاید ڈاکٹر مجھے ذبح کرنے لگا ہے اور اس پر ایک ہیبت طاری ہو جاتی ہے۔ پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسیح کے ساتھ جو کچھ گزرا وہ دماغی لحاظ سے ایک نہایت ہی تکلیف دہ واقعہ تھا۔ لیکن وہ حقیقی تکلیف جس سے انسان مر جاتا ہے وہ آپ کو نہیں ہوئی۔ لیکن چونکہ آپ نازک طبیعت انسان تھے آپ نے اس تکلیف کو بھی شدت سے محسوس کیا اور بیہوش ہو گئے ۔ اس کے مقابلہ میں وہ چور جو آپ کے دائیں بائیں لٹکائے گئے تھے وہ ایک دوسرے سے مذاق کرتے رہے۔ بلکہ ان میں سے ایک نے مسیح کو طعنہ دے کر کہا کہ اگر تو مسیح ہے تو اپنے آپ کو بھی اور ہم کو بھی بچا۔ اس پر دوسرے نے اسے جھڑک کر کہا کہ تو خدا سے ڈر ہم تو اپنے کئے کی سزا پا رہے ہیں اور یہ بے گناہ ہے۔ (انجیل لوقاباب ۲۳ آیت ۳۹۔۴۰) اب دیکھو وہ صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں مگر مذاق جاری ہے کیونکہ سنگدل لوگ تھے اور ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ اسی قسم کی طبیعت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اپنے اندر سختی برداشت کرنے کا مادہ رکھتے ہیں۔کشمیر میں ہی ہمارا ایک احمدی خاندان ہے جو پہلے زمانہ میں مظفر آباد کے راجہ تھے۔ مہاراجہ کشمیر نے حملہ کر کے انہیں شکست دی اور راجہ کو قید کر کے سری نگر لے آیا اور ان کے گزارہ کیلئے وظیفہ مقرر کر دیا۔ یہ مہاراجہ رنبیر سنگھ کے عہد حکومت کی بات ہے جس کے زمانہ میں حضرت خلیفہ اول رضی ا للہ عنہ ریاست جموں و کشمیر میں ملازم تھے۔ وہ مسلمان راجہ بڑا خوبصورت اور قوی نوجوان تھا اور اس کی شکل مہاراجہ کو بڑی پسند تھی۔ ایک دن وہ پولو کھیلتے ہوئے گرا اور اس کے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ انہوں نے علاج کرایا اور ہڈی جڑ گئی۔ مگر ہڈی کچھ ٹیڑھی جڑی۔ ایک دن دربار لگا ہوا تھا کہ مہاراجہ نے کہا کیوں راجہ صاحب آپ فلاں دن پولو کھیلتے ہوئے گرے تھے اور آپ کو چوٹ آئی تھی۔ بتائیے اب ہڈی کا کیا حال ہے جڑ گئی ہے یا نہیں ؟ انہوں نے کہا جڑ گئی ہے اس نے کہا آئیے مجھے دکھائیں ۔ انہوں نے دکھائی تو کہنے لگاراجہ صاحب یہ آپ نے کیا کیا۔ یہ ہڈی تو ٹیڑھی جڑی ہے اور اس سے آپ کی خوبصورتی پر دھبہ آ گیا ہے۔ آپ اتنے خوبصورت انسان تھے آپ مجھے بتاتے تو میں اپنا ڈاکٹر آپ کیلئے مقرر کر دیتا اور اس ہڈی کو بالکل صحیح جڑوا دیتا۔ وہ اس وقت کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے بڑے اطمینان سے اپنے بازو پر دبائو ڈال کر اتنے زور سے اسے جھٹکا دیا کہ بازو دو ٹکڑے ہو گیا اور کہنے لگے ’’ مہاراجہ اب جڑوا دیں‘‘ یہ دیکھ کر مہاراجہ پر ایسی حالت ہو گئی کہ وہ بے ہوش ہو نے لگا اور دربار سے اٹھ کر چلا گیا۔ تو ایسے ایسے سنگدل لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں ان باتوں کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہوتی مگر حضرت مسیح ایک نازک مزاج انسان تھے۔ اردگرد کے چور تو مذاق کرتے رہے اور مسیح بے ہوش ہو گئے جب انہیں ہوش آیا تو کراہنا شروع کر دیا۔ مگر معلوم ہوتا ہے آپ کے حواس قائم تھے کیونکہ انجیل بتاتی ہے کہ اوپر سے آپ کی والد ہ آ گئیں ۔ آپ نے اپنی والدہ کو دیکھا اور آپ پر ایک عجیب قسم کی کیفیت طاری ہو گئی۔ آپ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ نہ معلوم میری والدہ کو اس وقت کتنی تکلیف ہو رہی ہوگی۔ سامنے ہی آپ کا ایک شاگرد تھو ما نا می کھڑا تھا ۔ آپ نے تھوما کی طرف دیکھا اور کہا۔ اے تھوما یہ تیری ماں ہے اور اپنی والدہ سے کہا اے عورت یہ تیرا بیٹا ہے۔ بعض لوگ تھوما س سے یہ غلطی کھاتے ہیں کہ تھوماس کے معنے ہوتے ہیں توام بھائی۔ جس سے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح کا باپ تھا لیکن ان کا یہ خیال غلط ہے۔ تھوماس کے معنے عبرانی میں دودھ شریک بھائی کے ہوتے ہیں ۔ پس اس نام سے صرف اتنا نکلتا ہے کہ حضرت مسیح کو جس عورت کا دودھ پلایا گیا تھا اسی عورت نے تھوماس کو بھی دود ھ پلایا تھا۔ یا یہ کہ خود حضرت مریم کا دودھ اس نے پیا تھا اور اس طرح وہ حضرت مسیح کا دودھ شریک بھائی ہو گیا تھا ۔ بہرحال حضرت مسیح نے اس چھوٹے سے فقرہ میں نہایت لطیف طریق پر ایک طرف تھوما کو توجہ دلائی کہ میں تو اس وقت صلیب پر لٹکا ہوا ہوں اور گو مجھے اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں نے اس کے وعدوں کے سمجھنے میں کوئی غلطی کی ہو۔ اس لئے اب میں اپنی والدہ کو تیرے سپرد کرتا ہوں اور اپنی والدہ سے کہا کہ تھوما کو اپنا بیٹا سمجھنا ۔ ساری انجیل میں اپنی ماں سے محبت کا اظہار اگر حضرت مسیح نے کیاہے تو صرف اس جگہ۔ ورنہ انجیل پڑھ کر کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انہیں اپنی والدہ سے کچھ خار سی ہے۔ کیونکہ کسی جگہ پر ان کی محبت کا اظہار نہیں ۔ بہرحال حضرت مسیح کی یہی کیفیت رہی۔ کبھی انہیں ہوش آجاتا اور کبھی وہ بے ہوش ہو جاتے ۔ اس موقعہ پر پیلا طوس کی طرف سے جو پہریدار مقرر کئے گئے تھے وہ بھی دل میں ان کے مرید تھے ۔ انہوں نے جب دیکھا کہ حضرت مسیح ؑ تکلیف برداشت نہیں کر سکتے تو وہ دوڑ کے گئے ۔ اور انہوں نے اسفنج کا ایک ٹکڑہ لے کر اسے شراب اور مر سے بھگویا اور حضرت مسیح کو چوسنے کیلئے دیا۔ انجیل میں تو صرف اتنا لکھا ہے کہ اسفنج کو سرکہ میں ڈبو کر انہوں نے حضرت مسیح کو چوسنے کیلئے دیا (انجیل مرقس باب ۵ آیت ۳۶) مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ آپ کو شراب اور مرکا مرکب دیا گیا (جیوش انسائیکلو پیڈیا جلد ۴زیر لفظ صلیب) عیسائی لوگ بعض دفعہ اس بات پر بڑا زور دیا کرتے ہیں کہ یہود نے آپ پر اتنا ظلم کیا کہ جب آپ شدت تکلیف سے کراہ رہے تھے تو انہوں نے شراب اور مر کے مرکب میں اسفنج بھگویا اور چوسنے کیلئے آپ کو دیا۔ حالانکہ رومی کتب کے حوالوں سے یہ بات ثابت ہے کہ جس شخص کے ساتھ وہ رعایت کرنا چاہتے تھے اور جس کو وہ تکلیف سے بچانا چاہتے تھے اس کو وہ شراب اور مر کا مرکب دیا کرتے تھے۔ معلوم نہیں طبی طور پر یہ چیز فائدہ بخش بھی ہے یا نہیں لیکن اس زمانہ میں لوگ یہی سمجھتے تھے کہ جس کو شراب اور مر دی جائے اس کی تکلیف کم ہو جاتی ہے۔ پس یہ واقعہ بھی بتا رہا ہے کہ وہ لوگ جو آپ کے پہرہ کیلئے مقرر کئے گئے تھے وہ بھی دل میں آپ کے مرید تھے اور چاہتے تھے کہ آپ کی تکلیف کو کم کرنے میں وہ جس قدر بھی حصہ لے سکتے ہوں لیں ۔ پھر جیسا کہ میں بتاچکا ہوں انہیں جمعہ کے دن پچھلے پہر صلیب پر لٹکایا گیا تھا اور مغرب سے سبت کا دن شروع ہو جاتا تھا ۔ آج کل تو رات کے بارہ بجے کے بعد سے اگلا دن شمار کیا جاتا ہے لیکن اسلامی طریق یہ ہے کہ سورج کے غروب ہونے کے ساتھ ہی یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اگلا دن شروع ہو گیا ہے اور یہی طریق بنی اسرائیل میں بھی رائج تھا۔ اس لحاظ سے سورج کے غروب ہوتے ہی سب کا دن شروع ہو جاتا تھا اور یہودیوں میں یہ بات مشہور تھی کہ اگر کوئی سبت کے دن صلیب پر لٹکا رہے تو اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے ۔ چنانچہ دو تین گھنٹہ کے بعد ہی پیلا طوس نے انہیں توجہ دلائی کہ اگر یہ صلیب پر لٹکا رہا اور سبت کا دن شروع ہو گیا تو تم پر عذاب آ جائے گا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے یکدم ایک زور دار آندھی چلا دی جس سے چاروں طر ف تاریکی چھا گئی (انجیل مرقس باب ۱۵ آیت ۳۳) اس کو دیکھ کر یہودی اور بھی ڈرے کہ ایسا نہ ہو یہ صلیب پر رہے اور سبت شروع ہو جائے ۔چنانچہ انہوں نے پیلاطوس سے خود درخواست کی کہ اب ان کو اتار لیا جائے (انجیل یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۱) ایسا نہ ہو کہ ہم پر عذاب نازل ہو جائے۔ اب فرض کرو انہیں سورج غروب ہونے سے آدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ پہلے اتار لیا گیا تھا ۔ تب بھی ان کی صلیب کا وقت کچھ نہ کچھ تو ضرور کم ہو جائے گا اگر سات بجے سورج غروب ہواکرتا تھا اور ساڑھے تین بجے انہیں صلیب پر لٹکایا گیا تھا تو یہ کل وقت ساڑھے تین گھنٹے بنتا ہے لیکن چونکہ شدید آندھی کی وجہ سے سخت تاریکی چھا گئی تھی اور سبت شروع ہو جانے کے خوف سے انہیں جلدی اتار لیا گیا تھا اس لئے اگر آدھ یا پون گھنٹہ بھی یہ وقت فرض کر لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اڑھائی سے تین گھنٹہ تک حضرت مسیح کو صلیب پر رہنا پڑا۔ حالانکہ اس صلیب پر سات سات دن تک بھی بعض لوگ زندہ رہتے تھے اور وہ صرف بھوک اور پیاس کی وجہ سے یا زخموں کا زہر جسم میں پھیل جانے کی وجہ سے ہلاک ہوتے تھے۔ پھر یہ بھی قاعدہ تھا کہ جو لوگ صلیب پر سے زندہ اتر آتے تھے ان کی ہڈیاں توڑ دی جاتی تھیں۔ مگر پہرے دار چونکہ حضرت مسیح کے مرید تھے انہوں نے چوروں کی تو ہڈیاں توڑ یں مگر حضرت مسیح کی ہڈیاں نہیں توڑیں دراصل صلیب دینے کے اصل معنے بھی ہڈیاں توڑ کر گودا نکال دینے کے ہیں اور یہ نام اسی لئے رکھا گیا تھا کہ اگر لوگ صلیب پر مرتے نہیں تھے بلکہ بعد میں ہڈیاں توڑ کر ان کا گودا نکالا جاتا تھا لیکن حضرت مسیح کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں (انجیل یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۳)۔ پھر حضرت مسیح کے صلیب پر سے زندہ اتر آنے کا ایک یہ بھی ثبوت ہے کہ انجیل میں لکھا ہے ۔ جب حضرت مسیح کو اتارا گیا تو ایک سپاہی دوڑتا ہوا گیا اور اس نے آپ کی پسلی میں آہستہ سے نیزہ مار کر دیکھا تو اس میں سے خون اور پانی بہ نکلا (انجیل یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۴) جسم میں سے خون اور پانی نکلنا یہ تو کوئی محاورہ نہیں ۔ اس کے معنے یہی ہیں کہ سیال خون نکل آیا ۔ ورنہ انجیل کا بیان ہی اگر درست ہو تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ پانی الگ چیز ہے اور خون الگ۔اور خون کو سیال بنانے والی سِرم کے علاوہ کوئی اور بھی چیز ہے حالانکہ کوئی اور چیز ہے ہی نہیں ۔ پس اس کے معنے پانی اور خون کے نہیں بلکہ بہتے ہوئے خون کے ہیں۔ مگر یہودیوں میں انہوں نے یہ مشہور کر دیا کہ وہ مر گیا ہے اور اسی لئے ہم نے اس کی ہڈیاں نہیں توڑیں۔ معلوم ہوتا ہے یہودی بھی دل میں گھبرائے ہوئے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے ایک بے گناہ کو سزا دلوائی ہے پس چونکہ ان کے دل میں چور تھا اور وہ جانتے تھے کہ ہم ایک نیک اور خدارسیدہ انسان کو سزا دلوا رہے ہیں اس لئے جب انہوں نے ایک شدید آندھی دیکھی توڈر گئے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا عذاب معلوم ہوتا ہے اور انہوں نے زیادہ مزاحمت نہیں کی۔ بلکہ کہا کہ اچھا اگر وہ مر گیا ہے تو اسے دفن کر دو۔
ان تمام واقعات سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح کے صلیب پر مرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہو سکتا۔عام طور پر ساتویں دن تک بھی لوگ زندہ رہا کرتے تھے اور ہڈیاں توڑ کر انہیں مارنا پڑتا تھا کجا یہ کہ اڑھائی یا تین گھنٹہ تک صلیب پر رہنے کے نتیجہ میں وہ فوت ہو جاتے۔ ان کا صلیب پر لٹکنے کا وقت زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین گھنٹے ہو سکتا ہے مگر جب اس صلیب پر سات سات دن تک بھی لوگ زندہ رہتے تھے تو ساڑھے تین گھنٹہ بلکہ اس سے بھی کم عرصہ میں آپ کس طرح فوت ہو سکتے تھے اور پھر وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ آپ کے ماننے والے آپ کے پہریدار تھے اور انہوں نے آپ کی تکلیف کو کم کرنے اور آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بہرحال جب حضرت مسیح کو صلیب پر سے اتار لیا گیا تو یوسف آرمیتیاپیلا طوس کے پاس آئے اور اس سے کہا کہ لاش میرے حوالے کی جائے۔ چنانچہ پیلا طوس نے حکم دے دیا کہ لاش یوسف آرمیتیا کو دے دی جائے (انجیل متی باب ۲۷ آیت ۵۸) اس کے بعد یوسف آرمیتیانے ان کو ایک قبر میں جا کر رکھ دیا۔ مگر وہ قبر ہماری قبروں جیسی نہیں تھی۔ اس قبر میں تو کسی کو رکھا جائے تو اس کا سانس بند ہو جائے کیونکہ یہ اور طرح بنائی جاتی ہے وہ قبر ایک کھلی کوٹھڑی تھی جو چٹان میں کھدی ہوئی تھی (انجیل متی باب ۲۷ آیت ۶۰) یوسف آرمیتیانے اس قبر میں حضرت مسیح کو جا کر رکھ دیا اور سامنے دروازہ پر ایک پتھر لڑھکا دیا (انجیل متی باب ۲۷ آیت ۶۱) تاکہ لوگوں کو شبہ بھی نہ ہو اور ہوا کی آمدورفت بھی جاری رہے۔ یہ سارے واقعات بتاتے ہیں کہ یہ امر قطعی طور پر ناممکن تھا کہ مسیح صلیب پر مر سکتا ۔ یوں تو بعض دفعہ انسان بیٹھے ہوئے زمین پر سے اٹھنے لگتا ہے تو اس کا دم نکل جاتا ہے چلتے چلتے کھڑا ہوتا ہے تو دم نکل جاتا ہے مگر یہ اور چیز ہے ہم جس امر پر بحث کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ عام طور پر ان حالات میںجو حضرت مسیح کو پیش آئے لوگ مرا نہیں کرتے بلکہ زندہ رہتے ہیں اور حضرت مسیح کی موت بھی ان حالات میں قطعی طور پر ناممکن تھی۔شروع سے لے کر آخر تک ان کے ساتھ ایسے لوگ رہے جو ان کے مرید تھے یا ان کے دوست اور خیرخواہ تھے اور انہوں نے ہر ممکن کوشش آپ کو بچانے کیلئے کی۔ پھر ان کی خیرخواہی کا اس امر سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جب حضرت مسیح کو صلیب پر سے اتار لیا گیا اور ایک قبر میں رکھ دیا گیا تو یہودیوں نے درخواست کی کہ جس کوٹھڑی میں مسیح کو رکھا گیا ہے اس پر تین دن تک پہرہ لگا دیا جائے کیونکہ مسیح کہا کرتا تھا کہ یوناہ کی طرح تین دن رات کے بعد زندہ ہو جائوں گا۔ مگر پیلا طوس نے انہیں سرکاری پہریدار دینے سے انکار کر دیاا ور کہا کہ ’’ تمہارے پاس پہرے والے ہیں جائو جہاں تک تم سے ہو سکے اس کی حفاطت کرو‘‘ (انجیل متی باب ۲۷ آیت ۶۵)
پیلا طوس کی اس انکار سے یہی غرض تھی کہ اگر سرکاری پہریدار مقرر کئے گئے تو حضرت مسیح باہر نہیں نکل سکیں گے اور اگر وہ پہریداروں کا مقابلہ کریں گے تو ان کا مقابلہ حکومت کا مقابلہ سمجھا جائے گا لیکن اگر عام لوگ پہرہ پر ہوئے تو ان کا مقابلہ آسانی کے ساتھ کیا جا سکے گا۔ پس پیلا طوس نے انکار کرد یا اور کہا کہ میں پولیس دینے کیلئے تیار نہیں۔
پھر اس کے بعد جو واقعات ہوئے وہ بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے۔
اگر عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق مسیح مر کر زندہ ہو چکے تھے تو وہ خدا کے بیٹے بن چکے تھے۔ا یسی صورت میں انہیں لوگوں کا کوئی ڈر اور خوف نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر انجیل بتاتی ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد وہ چھپ چھپ کر پھرا کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے بھی کہا کرتے تھے کہ کسی کو بتانا نہیں کہ میں زندہ ہوں۔ بلکہ انجیل سے پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے حواریوں کو بھی نہیں بتایا تھا کہ وہ کہاں رہتے ہیں ۔ ممکن ہے یوسف آرمیتیاکے مکان میں ہی رہتے ہوں۔کیونکہ لکھا ہے کہ مسیح یکدم ظاہر ہو جاتا اور پھر تھوڑی دیر کے بعد ہی کہیں ادھر ادھر غائب ہو جاتا۔ ایک دفعہ جب وہ اپنے حواریوں کے پاس آئے تو انہیں دیکھنے کے باوجود یہ یقین نہ آیا کہ یہ سچ مچ مسیح کھڑا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ انہوں نے مچھلی کا ایک ٹکڑا اور کچھ شہد دیا اور اس نے ان کے سامنے کھایا تب انہیں یقین آیا کہ وہ واقعہ میں مسیح کو دیکھ رہے ہیں ۔ (انجیل لوقاباب ۲۴ آیت ۴۱تا ۴۳)
اب یہ ظاہر ہے کہ کوئی روح ایسا نہیں کیا کرتی۔ اس قسم کے کام جسم ہی کیا کرتا ہے مگر چونکہ قانون حکومت کے مطابق وہ پھانسی کی سزا کے مستحق ہو چکے تھے اور اگر پکڑے جاتے تو دوبارہ پھانسی پر لٹکا دئیے جاتے اس لئے ضروری تھا کہ وہ چھپ کررہتے اور حواریوں کو بھی نہ بتاتے کہ وہ کہاں رہائش رکھتے ہیں ۔
بہرحال انجیل کے بیانات سے یہ امر قطعی طور پر ثابت ہے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ وہ صلیب پر زندہ رہے۔قبر میں زندہ رہے اور پھر زندہ ہی اس قبر میں سے نکلے اور انہوں نے حواریوں کو بتایا کہ میں زندہ ہوں ۔ لطیفہ یہ ہے انجیل بتاتی ہے جب تھوما کو یہ خبر پہنچی کہ مسیح زندہ ہے تو اس نے کہا جب تک میں اس کے ہاتھوں میں کیلوں کے نشان نہ دیکھوں گا اور جب تک ان کیلوں کے نشان میں اپنی انگلی نہ ڈالوں گا میں اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں کہ مسیح دوبارہ زندہ ہو گیا ہے ۔ اس پر حضرت مسیح نے تھوما کو بلایا اور کہا میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ میری پسلی پر ڈال اور دیکھ کہ میں مسیح ہی ہوںکوئی روح نہیں۔
(انجیل یوحنا باب ۲۰ آیت ۲۴ تا ۲۹)
یہ سارے واقعات بتاتے ہیں کہ حضرت مسیح نے جو پیشگوئی کی تھی کہ یوناہ نبی کا نشان اس قوم کو دکھایا جائے گا وہ لفظ بلفظ پوری ہو ئی۔ایک گوشت پوست والے مسیح کو صلیب پر لٹکایا گیا مگر وہ صلیب پر زندہ رہا۔ وہ زندہ قبر میں داخل ہوا اور زندہ ہی قبر میں سے نکلا اور اس کے بعد وہ لوگوں سے چھپتا پھراکیونکہ قانون اس ملک میں رہنے کی انہیں اجازت نہیں دیتا تھا اور یہی اللہ تعالیٰ کی وہ مخفی تدبیر تھی جس کے ماتحت وہ مجبور ہوئے کہ کشمیر اور افغانستان کی طرف جائیں اور بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو تلاش کریں۔ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ ان حالات کے نتیجہ میں مسیح اس ملک میں رہنا مناسب ہی نہیں سمجھے گا اور وہ خوشی سے خود ان قوموں کی طرف چلا جائے گا جن کی ہدایت اور اصلاح کیلئے اسے مبعوث کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ اب فلسطین میں میرا رہنا مشکل ہے تووہ مشرق کی طرف چلے گئے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام بنی اسرائیل کے ان دس قبائل کو پہنچاتے رہے جو کشمیر اور افغانستان میں آ بسے تھے۔ اس بحث کا اگلا حصہ بائبل سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ افغانستان اور کشمیر کی تاریخوں اور بعض پرانی قبائلی روایات وغیرہ سے اس کا تعلق ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی ایک کتاب میں جس کا نام ’’ مسیح ہندوستان میں ‘‘ ہے اس موضوع پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور تاریخی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد حضرت مسیح ہجرت کر کے افغانستان اور کشمیر کی طرف آ گئے تھے۔ اس کے علاوہ بعض اور تحقیقاتیں بھی ہوئی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مغرب کی طرف سے ایک نبی جسے شہزادہ نبی کہا جاتا تھا اور جس کے ہاتھوں اور پائوں میں زخموں کے نشانات تھے ہجرت کر کے کشمیر میں آیا اور اس نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا۔
غرض کھیعصمیں عیسائیت کے ابطال کیلئے خدا تعالیٰ کی چار صفات پیش کی گئی ہیں ۔یعنی صفت کافی ، صفت ہادی ، صفت علیم اور صفت صادق اور جیسا کہ میں شروع میں بتا چکا ہوں خدا تعالیٰ کی صفت کافی اور ہادی اس کی صفت علیم اور صادق کے تابع ہیں جو علیم ہوتا ہے وہ کافی ہوتا ہے اور جو صادق ہوتا ہے وہ ہادی ہوتا ہے۔ اس وقت ہی کسی کا علاج ناقص ہوتا ہے جب اسے ساری مرض کا علم نہ ہو۔ یا مرض کا علاج معلوم نہ ہو۔ تشخیص ناقص ہو تب بھی نسخہ ناقص ہوتا ہے لیکن جو علیم ہو گا اور جسے ہر بات کا علم ہو گا اس کا نسخہ اپنی ذات میں مکمل ہو گا یہ نہیں ہوگا کہ باوجود علم کے وہ مرض ادھورا بتائے یا باوجود علم کے نسخہ ناقص لکھے۔ دوسری صفت صادق ہے صادق کے معنے ہوتے ہیں مخلص سچا اور دوستی میں پکا ۔ اب جو شخص سچا ہو گا مخلص ہوگا اور دوستی میں پکا ہوگا لازماً وہ ہادی بھی ہو گا۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک صادق انسان کا دوست اور پیارا اور رحم کا مستحق وجود ڈوب رہا ہو اور وہ اسے نکالے نہیں۔ تباہ ہو رہا ہو اور وہ اسے بچائے نہیں۔ غرض علیم کی صفت کے ماتحت ہادی لفظ آتا ہے۔ عیسائیت کے تمام مسائل اپنی چار صفات کے اردگر چکر کھاتے ہیں کیونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے علیم اور کافی ہونے کو اور اس کے صادق اور ہادی ہونے کو نہیں سمجھا اور اس لئے انہوں نے غلط عقائد اختیار کر لئے۔ اس سورۃمیں چونکہ خدا تعالیٰ نے عیسائیت کا ذکر کیا ہے اس لئے خصوصیت کے ساتھ ان صفات کو بیان کیا گیا ہے جو عیسائیت کے رد میں کام آنے والی تھیں۔
میں نے بتایا تھاکہ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ان مقطعات کو صفات الٰہیہ قرار دیا ہے اور میری ایک پرانی رؤیا بھی اس کی تصدیق کرتی ہے ۔ میں ایک دفعہ سندھ سے آ رہا تھاکہ میں نے رویاء میں دیکھا کہ کسی نے مجھ سے کہا ہے کہ قرآن کریم میں جو کھیعصآتا ہے ان حروف مقطعات میں میرا بھی ذکر آتا ہے اور چونکہ میرا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کام ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مثیل مسیح ناصری ہیں اس لئے درحقیقت ان حروف مقطعات میں میرا ذکر ہونے کے یہ معنے ہیں کہ کھیعص میں مسیحیت کا ذکر ہے اور جب اس میں پہلی مسیحیت کا ذکر تو اس لحاظ سے ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے کافی اور ہادی ہونے اور اس کے علیم اور صادق ہونے کی صفات کو نہ سمجھ کر غلط مذہب اختیار کر لیاا ور ہمارے حق میں یہ مقطعات اس لحاظ سے ہونگے کہ ہم نے انہی صفات سے کام لے کر عیسائیت کا رد کر دیا۔ گویا مراد تودونوں سلسلے ہوں گے مسیح ناصری کا سلسلہ بھی اور مسیح موعود کا سلسلہ بھی مگر عیسائیت کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ان صفات کو مدنظر نہ رکھ کر وہ صحیح راستہ سے بھٹک گئے اور ہمارے لئے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات نے ہماری تائید کی اور ہم نے ان کے ذریعہ سے عیسائیت کو کچل دیا۔
درحقیقت دنیا میں تمام روحانی کام صفاتِ الٰہیہ سے ہی چلتے ہیں اور اگر کسی کو علم صحیح عطا ہو جائے تو وہ صرف صفات الٰہیہ سے ہی تمام غلط مذاہب کو رد کر سکتا ہے اورا ن کا باطل ہونا ثابت کر سکتا ہے۔
---------------------------------------------------------------------------------------

(اس سورت میں ) تیرے رب کی (اس) رحمت کا ذکر (ہے) جو اس نے اپنے بندہ زکریا پر (اس وقت) کی جب اس نے اپنے رب کو آہستہ آوازسے پکارا ۔ ۳؎
۳؎ حل لغات
ذکر رحمت ربک خبر ہے ایک مبتداء محذوف کی جو ھذا ہے یعنی ھذا زکر رحمت ربک یہ ذکر ہے تیرے رب کی رحمت کا ۔ یہاں مصدر جو ذکر ہے فعل کا عمل کررہا ہے اور یہ عبارت اپنے معنوں کے لحاظ سے اس طرح ہے کہ ھذا ذکر رحمت ربک عبدہ ای زکریا حین نادہ یہ ذکر ہے تیرے رب کی رحمت کا ۔ وہ رحمت جو اس نے اپنے بندہ پر کی۔ کون سے بندہ پر ؟ زکریا پر۔ کس وقت کی؟ جب اس نے اپنے رب کو ایک ایسی آواز میں پکارا جو خفی یعنی آہستہ تھی۔
نادی کے معنے ہوتے ہیں صاح بہ یعنی اونچی اور بلند آواز سے پکارا اور نادی فلانا کے معنے ہوتے ہیں جالسہ فی النادی اس کے ساتھ مجلس میں اٹھتا بیٹھتا رہا اور اس کے معنے فاخرہکے بھی ہوتے ہیں ۔ یعنی کسی کے ساتھ مفاخرت کی باتیں کیں اور نادی بسرہ کے معنے ہوتے ہیں اظھرہ اس نے اپنے دل کا رازاس پر ظاہر کیا (اقرب)
تفسیر :
میں اوپر بتا چکا ہوں کہ اس سورۃ میں عیسائیت پر بحث کی گئی ہے اور عیسوی عقائد کی تردید کیلئے کھیعص میں چار صفات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ دو بنیادی صفات کی طرف اور دو ایسی صفات کی طرف جو ان صفات کا لازمی ظہور ہیں ۔ بنیادی صفات علیم اور صادق کی ہیں اور وہ صفات جو ان دو کا لازمی نتیجہ ہیں وہ کافی اور ہادی کی صفات ہیں ۔
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اس جگہ زکریا سے وہ زکریا مراد نہیں جن کی کتاب بائبل میں شامل ہے۔ وہ زکریا ۴۸۷ سال قبل مسیح گزرے ہیں اور یہ زکریا وہ ہیں جو حضرت مسیح کے قریب زمانہ میں آپ کی والدہ کے کفیل تھے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زکریا بھی نبی تھے لیکن اناجیل میں ان کا ذکر بطور کاہن کیا گیا ہے بطور نبی کے نہیں۔ مگر اس مشکل کو رسول کریم ﷺ کی ایک حدیث بالکل حل کر دیتی ہے۔آپ فرماتے ہیں اِنَّ اللّٰہ یبعث لھذہ الامۃ علی رأس کل مائۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا (ابو داؤد جلد۲ کتاب الملاحم صفحہ ۲۱۲) یعنی اللہ تعالیٰ اس امت میں ہر صدی کے سر پر احیاء دین کیلئے ایک مجدد مبعوث فرمایا کرے گا۔ اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے وعدہ اللّٰہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم (نور ع ۷) یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور عمل صالح کرنے والوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں بھی زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے خلفاء یعنی مجددین کو پہلے زمانہ کے اسرائیلی خلفاء کا مثیل قرار دیا ہے۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل (مکتوبات امام ربانی دفتر اول حصہ چہارم صفحہ ۳۳ مکتوب نمبر۲۳۴ ،نمبر۲۴۹)یعنی میری امت کے علماء روحانی یعنی مجددین انبیاء بنی اسرائیل کی طرح ہیں ۔ پس ممکن ہے کہ ایسے نبی جو کسی دوسرے نبی کے کام کی تکمیل کیلئے آتے ہوں ان کے لئے بائبل میں کاہن کا لفظ استعمال ہوتا ہو۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے متعلق بھی کفاریہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ یہ شخص کاہن ہے معلوم ہوتا ہے بنی اسرائیل ایسے رنگ میں نبیوں اور کاہنوں کا ذکر کیا کرتے تھے۔ لیکن چونکہ مکہ والے کاہن کو برا سمجھتے تھے جب رسول کریم ﷺ نبی ہونے کا دعویٰ کرتے تو وہ سمجھتے کہ یہ کاہن ہے لیکن اس کے علاوہ جب ہم بائبل پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ یہود کے حالات دیکھ کر بہت چھوٹی چھوٹی جگہوں میں اپنے نبی بھیج دیا کرتا تھا یہاں تک کہ بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ بعض دفعہ سینکڑوں انبیاء ایک ہی زمانہ میں ہوئے ہیں (نمبر۱ سلاطین باب۲۲آیت ۶) بلکہ بعض بڑے بڑے پایہ کے انبیاء بھی ایک ہی زمانہ میں بھیجے گئے ہیں ۔ چنانچہ حر قی ایل ۔ دانی ایل اور یرمیاہ یہ سب ایک ہی وقت میںآگے پیچھے ہوئے بلکہ کچھ حصہ ان کی زندگیوں کا متوازی بھی گزرا ہے۔ پس اگر بائبل نے زکریا کو نبی نہیں کہا تو یہ کوئی قابل تعجب بات نہیں ۔ جب بائبل کہتی ہے کہ بعض دفعہ ایک ایک زمانہ میں چار چار سو نبی آئے (نمبر۱ سلاطین باب ۲۲ آیت ۶) اور وہ نام ایک کا بھی نہیں لیتی تو معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل میں اتنی کثرت سے نبی آیا کرتے تھے کہ بائبل نے ان کے ناموں کی طرف توجہ ہی نہیں کی۔ قرآن کریم نے اپنی ضرورت کے مطابق جن نبیوں کا نام ضروری سمجھا لے لیا اور بائبل نے جن نبیوں کی ضرورت سمجھی ان کا نام لے لیا۔ باقیوں کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ کون تھے اور ان کے کیا نام تھے۔ بہرحال حضرت زکریا کو انجیل نے گو کاہن قرار دیا ہے مگر قرآن کریم انہیں نبی قرار دیتا ہے اور اس جگہ زکریا سے وہی زکریا مراد ہیں جو حضرت مسیح کی والدہ کے کفیل تھے اور حضرت مسیح کے قریب ترین زمانہ میں گزرے ہیں ۔
عیسائیت کے تفصیلی ذکر سے پہلے حضرت زکریا کا ذکر کرنے کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہود میں یہ پیشگوئی پائی جاتی تھی کہ مسیح کی آمد سے پہلے ایلیاہ نبی کا آنا ضروری ہے۔ چونکہ حضرت زکریا کے ہاں یحییٰ پیدا ہونے والے تھے اور حضرت یحییٰ ارہاص تھے مسیح ناصری کے یعنی وہ اس لئے آئے تھے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے آنے کے لئے راستہ تیار کرتے یا دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ وہ یہود کو حضرت مسیح سے واقف اور انٹرڈیوس کرانے کے لئے آئے تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے مسیح کے ذکر سے پہلے حضرت زکریا کا ذکر فرمادیا۔ چنانچہ جب ہم بائبل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ملاکی نبی کی یہ پیشگوئی نظر آتی ہے کہ ’’دیکھو خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں ایلیاہ نبی کو تمہارے پاس بھیجو ں گا۔‘‘ (ملا کی باب ۴ آیت ۵)
اس جگہ ’’خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن‘‘ سے مراد حضرت مسیح کی آمد ہے۔ چنانچہ جب مسیح ناصری نے دعویٰ کیا تو یہود نے یہی سوال کیا کہ وہ ایلیا ہ جو آنے والا تھا وہ کہاں ہے؟ حضرت مسیح نے جواب دیا کہ اس سے مراد یوحنا ہے اور فرمایا کہ
’’چاہو تو مانو ایلیاہ جو آنے والا تھا یہی ہے۔‘‘ (انجیل متی باب ۱۱ آیت ۱۴)
پس چونکہ حضرت یحییٰ جن کا انجیل میں یوحنا نام آتا ہے اور جو ایلیاء نبی کے بروز تھے جب تک ظاہر نہ ہوتے حضرت مسیح نہیں آسکتے تھے اس لئے ضروری تھا کہ مسیح کے ذکر سے پہلے حضرت یحییٰ کی پیدائش کا ذکر کیا جاتا تا ملا کی نبی کی پیشگوئی کے پورا ہونے کی طرف اشارہ کر دیا جاتا اور لوگوں کو بتا دیا جاتا کہ دیکھو وہ ایلیا ہ بھی آ گیا جس کی ملا کی نبی نے خبر دی تھی اور پھر ہمارا مسیح بھی دنیا میں ظاہر ہو گیا۔
دوسری وجہ قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش کا موجب حضرت مریم علیہا السلام ہوئیں۔ چنانچہ سورہ ٔ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
کلمادخل علیھا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا قال یمریم انی لک ھ۔ذا قالت ھو من عند اللہ ان اللہ یرزق من یشاء مغیر حساب o ھنالک دعا زکریا ربہ قال رب ھب لی من لدنک ذریۃ طیبۃ انک سمیع الدعا o (آل عمران ع ۴)
یعنی حضرت زکریا علیہ السلام جو حضرت مریم کے کفیل تھے اور جن کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی وہ ایک دفعہ اپنی عبادت گاہ میں گئے اور انہوں نے دیکھا کہ حضرت مریم جو اس وقت چھوٹی بچی تھیں ان کے پاس کھانے پینے کی چیزیں پڑی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے مریم سے پوچھا کہ انی لک ھذا بیٹی تمہیں یہ چیزیں کہاں سے ملی ہیں ۔ چھوٹے بچوں سے عام طور پر لوگ محبت او رپیار کی وجہ سے اس قسم کی باتیں پوچھا ہی کرتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا ھومن عنداللّٰہ یہ اللہ تعالیٰ نے دی ہیں ۔ مفسرین اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کیلئے آسمان سے یہ چیزیں بھجوا دیا کرتا تھاحالانکہ یہاں آسمان سے آنے کا کوئی ذکر نہیں۔ یہ جواب صرف اس نیک تربیت کا نتیجہ تھا جو حضرت مریم علیہاالسلام نے جب یہ جواب دیا تو ایک تین چار سال کے بچہ کے منہ سے یہ بات سن کر کہ اللہ سب کچھ دیتا ہے یہ نعمتیں بھی اللہ نے ہی دی ہیں حضرت زکریا علیہ السلام کے دل پر چوٹ لگی اور انہوں نے خیال کیا کہ جب واقعہ یہی ہے کہ ہر چیز اللہ دیتا ہے اور ایک بچی بھی یہی کہہ رہی ہے تو میں تو سمجھدار اور تجربہ کار ہوں میں کیوں نہ یقین کروں کہ ہر چیز خدا ہی دیتا ہے۔ چنانچہ ھنالک دعا زکریا ربہ یہ جواب سن کر حضرت زکریا علیہ السلام کو توجہ ہوئی کہ میں بھی اپنی ضرورت کی چیز خدا تعالیٰ سے مانگوں۔ میرے گھر میں بھی کوئی بچہ نہیں ۔ اگر مریم کی طرح میرے گھر میں بھی بچہ ہوتا اور میں اس سے پوچھتا کہ چیز تمہیں کس نے دی ہے اور وہ کہتا کہ خدا نے تو جس طرح مریم کی بات سن کر میرا دل خوش ہوا ہے اسی طرح اپنے بچہ کی بات سن کر میرا دل خوش ہوتا۔پس حضرت مریم علیہا السلام حضرت یحییٰ کی پیدائش کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرانے کا ایک محرک ہو گئیں اور اس طرح بالواسطہ طور پر جہاں خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے ماتحت حضرت یحییٰ علیہ السلام حضرت مسیح کے ارہاص کے طور پر آئے وہاں حضرت مریم علیہاالسلام جو حضرت مسیح کی والدہ تھیں حضرت یحییٰ کی پیدائش کیلئے ارہاص بن گئیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے حضرت زکریا کی دعا سنی اور ان کے گھر میں بچہ پیدا ہو گیا۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ذکر رحمت ربک عبدہ زکریا ۔ یہاں خالی یہ نہیں فرمایا کہ ذکر رحمت ربک زکریا بلکہ عبدہ زکریا فرمایا ہے ۔ اس میں جیسا کہ میں آگے چل کر بتائوں گا ایک بہت بڑی حکمت ہے اور قرآن کریم کا یہ کمال ہے کہ وہ ہر لفظ ایسے موقع پر استعمال کرتا ہے جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے کوئی لفظ زائد یا بے معنی نہیں ہوتا۔
اس آیت میں بھی پہلے فرمایا ذکر یعنی ھذا ذکر اور ذکر کے معنے صرف ایک واقعہ بیان کرنے کے نہیں ہوتے بلکہ اسے یاد کرانے کے ہوتے ہیں۔ یعنی جو واقعہ ہم بیان کرنے لگے ہیں یہ ایسا اہم ہے کہ ہر شخص کو یہ واقعہ یاد رکھنا چاہئے اور خدا تعالیٰ کی طاقتوں اور اس کی قدرتوں پر ایمان لانا چاہئے۔ رحمت ربک ۔ یہ واقعہ کیا ہے یہ تیرے رب کی رحمت کا نشان ہے۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ رحمت تھی زکریا پر۔ ربوبیت ہوئی مریم کی۔ پھر ربک کیوں کہا گیا۔ خالی یہ کیوں نہیں کہا کہ ذکر رحمۃ الرب ۔ یہ رب کی رحمت کا ذکر ہے رحمت ربک کیوں کہا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کا رب کی بجائے ربک کے الفاظ لانا صاف بتا رہا ہے کہ یہاں کسی ایسی چیز کا بیان ہے جس میں ربوبیت محمدؐ کا بھی ذکر ہے ۔ اب اگر غور کرو تو معلوم ہوگا کہ جس طرح یحییٰ علیہ السلام ارہاص تھے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اسی طرح حصرت عیسیٰ علیہ السلام ارہاص تھے محمد رسول اللہ ﷺ کے کیونکہ حضرت عیسیٰ کے وجود میں جو بن باپ پیدا ہوئے یہ خبردی گئی تھی کہ اب موسوی دور ختم ہو چکا ہے اور وہ پیشگوئی شروع ہونے والی ہے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے بیٹے اسماعیل کے متعلق یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ’’ دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے برو مند کروں گا اور اسے بہت بڑھائوں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بنائوں گا۔‘‘
(پیدائش باب ۱۷ آیت ۲۰ و پیدائش باب ۲۱ آیت ۱۸)
اسی طرح وہ وعدہ پور اہونے والا ہے جو موسیٰ سے کیا گیا تھا کہ
’’ خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اس کی سننا۔‘‘
(استثناء باب ۱۸ آیت ۱۵)
پس یہ واقعہ چونکہ ایک لمبے سلسلہ کی کڑی تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے رحمت ربککے الفاظ استعمال کئے اور محمد رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ یہ تیرے رب کی رحمت کا نشان ہے کہ اس نے اتنے لمبے عرصہ سے دنیا کو تیری طرف متوجہ کرنے کیلئے تیار کیا ۔ پہلے اس نے یحییٰ کو پیدا کیا جو عیسیٰ کے لئے ارہاص تھا۔ پھر اس نے عیسیٰ کو پیدا کیا جو تیرے لئے راستہ صاف کرنے والا تھا۔
پھر فرماتا ہے عبدہ زکریا حالانکہ اگر عبد کا ذکر نہ بھی کیا جاتا تب بھی فقرہ مکمل تھا۔ اس لفظ کو زائد کرنے میںحکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں دو قسم کی ہوتی ہیں ۔ ایک عمومی اور ایک خصوصی یعنی ایک وہ رحمتیں ہوتی ہیں جو صفت رحمانیت کے ماتحت ہوتی ہیں اور مومن اور کافر سب کو ملتی ہیں اور ایک وہ رحمتیں ہوتی ہیں جو خاص طو رپر اعلیٰ درجہ کے کارکنوں کو ملتی ہیں۔ جو جزاء کے طور پر ہوتی ہیں اور صفت رحیمیت کے ماتحت نازل ہوتی ہیں ۔ رحمت ربک میں صرف رحمت کا ذکر تھا یہ پتہ نہیں لگتا تھا کہ یہ رحمانیت سے تعلق رکھنے والی رحمت ہے یا رحیمیت سے تعلق رکھنے والی رحمت ہے۔ عبدہ نے بتا دیا کہ یہ رحیمیت والی رحمت ہے وہ رحمت مراد ہے جو کسی کام کے نتیجہ میں نازل ہوتی ہے ایسے احسان کا ذکر نہیں جو بغیر خدمت اور کوشش کے صرف رحمانیت کے نتیجہ میں کیا جاتا ہے۔
اگر صرف زکریا کہا جاتا تو یہ سارا مضمون غائب ہو جاتا لیکن عبدہ زکریا کہہ کر بتایا کہ ہم نے زکریا پر جو رحمت نازل کی وہ عام رحمت نہیں تھی بلکہ خود زکریا بھی بہت نیک تھے اور انہوں نے بڑی بڑی خدمات کی تھیں۔ یہ سارا مضمون صرف و نحوکے چند اشاروں میں اللہ تعالیٰ نے ادا کر دیا ہے۔
اس سے یہ بھی پتہ لگا کہ ایک دعا ایسے شخص کی ہوتی ہے جو رحمت کا مستحق نہیں ہوتا اور ایک دعا ایسے شخص کی ہوتی ہے جو رحمت کا مستحق ہوتا ہے مگر رحمت کی صفت بھی آپ ہی آپ ظاہر نہیں ہوتی بلکہ اس کیلئے بھی بعض ایسی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اس رحمت کو ابھارنے والی ہوں چنانچہ کبھی مشکلات کبھی دشمنوں کے مظالم اور کبھی اپنی بیکسی اور بے بسی انسانی قلب میں دعا کا ایک غیر معمولی جوش پیدا کر دیتی ہے اور آسمان سے اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو جاتی ہے ۔ گویا صفات الٰہیہ کا ظہور بعض خاص خاص محرکات کی وجہ سے ہوا کرتا ہے ۔ اس جگہ اس رحمت کے نزول کی کیا وجہ ہوئی اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں کیا ہے کہ اذ نادیٰ ربہ ندآء خفیا یعنی حضرت زکریا کے پکارنے کی وجہ سے وہ رحمت آئی جو خالص خدمت گاروں کیلئے آیا کرتی ہے۔
جیسا کہ اوپر بتا یا چکا ہے نَادٰی کے کئی معنے ہوتے ہیں جن میں سے ایک معنے بلند آواز سے پکارنے کے بھی ہیں مگر وہ معنے یہاں چسپاں نہیںہو سکتے کیونکہ اگر وہ معنے لئے جائیں تو پھر خفیا کے کوئی معنے نہیں بنتے۔ پس یہاں لازماً کوئی اور معنے لینے پڑیں گے اور وہ معنے یہی ہیں کہ اس نے مخفی آواز میں اپنے دل کا بھید اس پر ظاہر کیا۔
دنیا میں دو طرح کی دعائیں ہواکرتی ہیں۔ ایک تو وہ دعا ہوتی ہے جس میں انسان دوسروں کو بھی شریک کرنا چاہتا ہے اور اس غرض کیلئے وہ بلند آواز سے دعائیہ کلمات کو دوہراتا چلا جاتا ہے اور ایک دعا ایسی ہوتی ہے جو انسان علیحدگی میں کرتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اور بھی اس کے ساتھ شامل ہو ۔ جب ایسی دعا ہوتی ہے تو اس کا اصل مقام اخفاء ہوتا ہے۔ یعنی آہستہ آہستہ دعا کرنا تاکہ دوسروں کے کانوں میں آواز نہ پڑے۔ مثلاً اگر اس میں اضطراب اور اضطرار ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں نے لوگوں کے سامنے تضرع سے دعا کی تو میری آواز نکلے گی جس کو میں پسند نہیں کرتا تووہ علیحدگی میں دعا کرتا ہے تاکہ اس کے اضطراب اور اضطرار پر کوئی دوسرا مطلع نہ ہو۔ یہاں حضرت زکریا کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ نادی ربہ نداء خفیا حضرت زکریا نے آہستہ آواز میں دعا کی یعنی وہ اس دعا میں دوسروں کو شریک کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ کیوں نہیں کرتے تھے؟ اس کا ہمیں سورۂ آل عمران سے پتہ چلتا ہے اور یہاں بھی اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب کسی انسان کو الٰہی ارشادات سے یہ معلوم ہو کہ اب خدا تعالیٰ کا فیضان کسی اور طرف منتقل ہونے والا ہے تو چاہے وہ خود اللہ تعالیٰ کے انوار کا حامل ہو اس کے دل کو دکھ پہنچتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اس کے ہاتھ سے وہ نور ختم ہو بلکہ وہ چاہتا ہے کہ خواہ ایک منزل پرے ہٹ کر نور ختم ہو بہرحال میں وہ آخری چراغ نہ بنوں جس پر آسمانی نور کا خاتمہ ہو۔ سورۂ آل عمران سے پتہ چلتا ہے کہ مریم کی حالت دیکھ کرحضرت زکریا کو یہ شبہ پڑ گیا تھا کہ آنے والا اسرائیلی موعود مریم کے بطن سے پیدا ہونے والا ہے ۔ کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ایسے اشارے ہوئے کہ مریم کا خیال رکھو ادھر مریم نے چھوٹی عمر میں ایسی باتیںشروع کر دیں جو ان کی نیکی اور تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار پر دلالت کرتی تھیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان کیلئے اپنے نشانات دکھانے شروع کر دئیے اور لوگوں کے دلوں میں ان کے تقویٰ اور ان کی بندگی کا احساس پیدا کر دیا۔ چنانچہ کوئی کھانا لا رہا ہوتا ، کوئی پھل پیش کر رہا ہوتا اور کوئی اور چیز تحفتہً لا کر دے رہا ہوتا۔ ادھر انہوں نے مریم کو دیکھا کہ اس کے دل میں کوئی دنیوی رغبت نہیں۔ بچہ ہونے کے باوجود وہ محسوس کرتی تھیں کہ یہ نعمتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی ہیں اور اسی کے فضل اور احسان کا نتیجہ ہیں۔ حضرت زکریا نے ان تمام باتوں کو دیکھ کر محسوس کیا کہ وہ موعود جس پر بنی اسرائیل کی نبوت کا خاتمہ مقدر ہے۔ مریم کے پیٹ سے پیدا ہونے والا ہے ادھر ملا کی نبی اور بعض دوسرے انبیاء کی پیشگوئیاں ان کے سامنے تھیں جو بتا رہی تھیں کہ بنی اسرائیل میں نبوت کا سلسلہ اب ختم ہونے والا ہے۔ پس حضرت زکریا نے اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ بنی اسرائیل میں نبوت کا فیضان اب ختم ہونے والا ہے اللہ تعالیٰ سے وہ دعا کی جس کا ان آیات میں ذکر آتا ہے اور کہا کہ اے میرے رب میرے دل میں دیر سے یہ خواہش پائی جاتی تھی مگر آج مریم کی بات سن کر میرا دل بیقرار ہو گیا ہے اور میں اپنے دل کا راز تجھ پر ظاہر کرنے کیلئے مجبور ہو گیا ہوں پس یہاں نادی کے وہ معنے نہیں جو شور مچانے کے ہیں بلکہ نادی ربہ نداء خفیا کے یہ معنے ہیں کہ اس نے خدا سے وہ راز سربستہ بیان کیا جو اس نے اپنے دل میں چھپایا ہوا تھااور خدا تعالیٰ سے مانگتا نہیں تھا مریم کی بات سن کر اس کے دل میں جوش پیدا ہوا اور اس نے اپنے رب سے اپنے درد کا اظہار کر دیا۔ بیشک خدا تعالیٰ کیلئے کوئی چیز راز نہیں مگر جب تک کوئی دعا مانگی نہیں جائے گی اصطلاحاً اسے ایک راز ہی سمجھا جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اسی رنگ میں ایک جگہ خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
؎ وہ دے مجھ کو جو اس دل میں بھرا ہے زباں چلتی نہیں شرم و حیا ہے
حقیقت یہی ہے کہ کئی خواہشیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں بندہ ایک مدت تک چھپائے رکھتا ہے اور کہتا ہے خدا تعالیٰ سے کیا مانگنا ہے لیکن کسی وقت محرک ایسا پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے دل کا راز سربستہ خدا تعالیٰ کے سامنے ظاہر کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے نداء خفیا میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ خدایا یہ میرے دل کا ایک راز تھا۔ میری پہلے سے یہی خواہش تھی کہ مجھے بیٹا ملے مگر اب مریم کی بات میں نے سنی ہے تو اس خواہش کو دل میں چھپائے رکھنے کی طاقت نہیں رہی۔


ترجمہ آیت نمبر ۵ :
(اور) کہا اے میرے رب (میری حالت تو یقینا ایسی ہے کہ ) میری تمام ہڈیاں تک کمزور ہو گئی ہیں اور (میرا) سر بڑھاپے کی وجہ سے بھرک اٹھا ہے اور اے میرے رب میں (کبھی بھی) تجھ سے دعائیں مانگنے کی وجہ سے ناکام و نامراد نہیں رہا۔ ۴؎
۴؎ حل لغات :
الوھن کے معنے ہیں ضعف من حیث الخلق او الخلق (مفردات) یعنی خواہ پیدائش کے لحاظ سے کمزوری ہو یا اخلاق کے لحاظ سے کمزوری ہو اسے وھن کہتے ہیں پس وھن العظم منی کے معنے ہوں گے کہ میری ہڈیاں کمزر ہو گئی ہیں ۔
تفسیر :
حضرت زکریا علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے میرے رب میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں ۔ قاعدہ یہ ہے کہ بڑھاپے میں ہڈیاں Brittleہو جاتی ہیں یعنی ایسی نازک ہو جاتی ہیں کہ ذرا سی ٹھوکر سے بھی ٹوٹ جاتی ہیں اور ان کا جڑنا مشکل ہو جاتا ہے اسی لئے جو ان کی ہڈی تو جلدی جڑ جاتی ہے لیکن بوڑھے آدمی کی ہڈی ٹوٹ جائے تو وہ آسانی سے نہیں جڑتی۔ پس رب انی وھن العظم کے یہ معنے ہوئے کہ میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور میرا ضعف اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اب مجھ میں تاب مقاومت باقی نہیں رہی۔ واشتعل الرأس شیبا۔ اور میرا سر بڑھاپے کی وجہ سے شعلے مارنے لگ گیا ہے۔ بال جب سفید ہو تے ہیں تویکدم سفید نہیں ہوتے بلکہ پہلے بالوں کا رنگ اڑتا ہے اور وہ سیاہی سے زرد ی مائل ہو جاتے ہیں پھر ان میں سفیدی آتی ہے مگر وہ اتنی تیز اور نمایاں نہیں ہوتی۔ صرف ہلکی ہلکی سفیدی ہوتی ہے لیکن جب بڑھاپا غالب آ جائے تو سر کے بال بہت زیادہ سفید ہو جاتے ہیں ۔اسی کیفیت کا ان الفاظ میں اظہار کیا گیا ہے کہ میرا سر تو اب بڑھاپے کی وجہ سے شعلے مارنے لگ گیا ہے۔
ولم اکن بدعائک رب شقیا۔ اور اے میرے رب میں تیری دعا کے ساتھ کبھی شقی نہیں ہوا۔
اس کے ایک معنے یہ ہیں بدعائی ایاک یعنی تجھے پکارنے کی وجہ سے یا ان دعائوں کی وجہ سے جو میں تجھ سے مانگا کرتا ہوں میں کبھی شقی نہیں ہوا۔میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ مجھے اپنے کسی مقصد میں ناکامی ہوئی ہو اور شقاوت میرے حصہ میں آئی ہو۔
شقاوت سعادت کی ضد ہے اور سعادت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ایسی مدد انسان کے شامل حال ہونا جس سے اسے خیر حاصل ہو جائے اور شقاوت کے معنے ہوتے ہیں خدا تعالیٰ کی مدد کا میسر نہ آنا جس کی وجہ سے اسے مخصوص خیر حاصل نہ ہو۔ ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت کے دونوں مطلب لئے جا سکتے ہیں ۔ یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ تیرے حضور دعا کرنے کی وجہ سے مجھے کبھی ناکامی نہیں ہوئی اور یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ اے میرے رب چونکہ تو نے مجھے اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے اس لئے تیرے مخصوص کر لینے کی وجہ سے اور تیرے انعامات کی وجہ سے میں نے یہ برکت پائی ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہو اکہ مشکلات میں مجھے ناکامی ہوئی ہو بلکہ ہمیشہ مجھے کامیابی ہوئی ہے اور میں نے اپنے مقصد کو حاصل کیا ہے۔



ترجمہ آیت نمبر۶،۷ :
اور میں یقینا اپنے رشتہ داروں سے اپنے (مرنے کے) بعد (کے سلوک) سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ پس تو اپنے پاس سے ایک دوست (یعنی بیٹا) عطا فرما اور جو میرا بھی وارث ہو اور آل یعقوب (سے جو دین و تقویٰ ہم کو ورثہ میں ملا ہے اس ) کا بھی وارث ہو اور اے میرے رب اس کو (اپنا ) پسندیدہ (وجود) بنائیو ۔ ۵؎
حل لغات :
موالی مولی کی جمع ہے اور اس کے بہت سے معنے ہیں چنانچہ مولی کے ایک معنے دوست کے بھی ہوتے ہیں اور مولی کے معنے ابن العم یعنی چچا زاد بھائی کے بھی ہیں جنہیں پنجابی میں ’’ شریکے والے‘‘ کہتے ہیں (اقرب) اس جگہ موالی سے مراد شریک ہی ہیں اور مطلب یہ ہے کہ میں اپنے شریکوں سے ڈرتا ہوں کہ وہ نہ معلوم میرے بعد کیسا معاملہ کرینگے۔
عاقر اس مرد یا عورت کو کہتے ہیں جس کے ہاں کوئی اولاد نہ ہو۔ اصل میں عقر کے معنے زخمی کر دینے کے ہیں ۔ چنانچہ عقر الخلۃ کے معنے ہوتے ہیں قطع رأسھا کلہ مع الجمار فیبست یعنی اس نے کھجور کے درخت کا اوپر کا حصہ اس قدر کاٹ دیا کہ وہ سوکھ گیا اور اس میں پھل لگنا بند ہو گیا (اقرب)۔ جس مرد یا عورت کی اولاد نہ ہو چونکہ وہ بھی اپنے خاندان کو زخمی کر دیتا اور اسے مار دیتا ہے اس لئے بے نسلی کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے اصل معنے کاٹ دینے اور زخمی کر دینے کے ہی ہیں ۔ عقر کا لفظ عورت کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے او رمرد کیلئے بھی۔
الولیّ : الوالی کے معنے ہیں المحب و الصدیق محب اور دوست نیز اس کے معنے ہیں النصیر ۔ مددگار ۔ وقال ابن فارس وکل من ولی امرا احدفھو ولیہ جو شخص کسی کے امور کو سنبھالنے والا ہو وہ اس کا ولی کہلاتا ہے۔ نیز ولی کے معنے حافظ النسب کے بھی ہیں یعنی نسب کا محافظ (اقرب)
مفردات میںہے ھب لی من لدنک ولیا ای ابنایکون من اولیائک یعنی ایسا بیٹا عطا کر جو تیرے مقربین میں سے ہو۔
تفسیر:
اس دعا میں حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنی ضرورت حقہ کا اظہار کیا ہے ۔ وہ کوئی دولت مند نہیں تھے کہ انہیں اپنے بعد اپنی دولت کا فکر ہوتا وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی تھے پس ان کا خوف دولت کے جانے کا نہیں تھا بلکہ تعلیم کے مفقود ہونے کا تھا۔ حضرت زکریا علیہ السلام پر وہت فیملی میں سے تھے اور ان کے رشتہ دار بھی پروہت تھے جو بیت المقدس اور دوسری عبادت گاہوں کے ساتھ تعلق رکھتے تھے ۔ حضرت زکریا علیہ السلام ان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ الٰہی ان میں ایسی دنیا داری آچکی ہے کہ ان کا کوئی قدم یہودیت اور مذہب کو بچانے کیلئے نہیں اٹھتا۔ معلوم ہوتا ہے مسلمان پیروں کی طرح یہود میں بھی بزرگی وراثت بن گئی تھی اور گدیاں قائم ہو گئی تھیں جیسے مسلمانوں میں پیر مر جائے تو اس کے بیٹے کو پیر بنا لیا جاتا ہے چاہے وہ کیسا ہی بے دین ہو۔ اسی طرح وہاں بیٹا موجود ہوتا تو بیٹا گدی سنبھال لیتا۔ بیٹا نہ ہوتا تو چچا کا بیٹا گدی پر بیٹھ جاتا۔ گویا ان کی حالت مسلمان پیروں جیسی ہو گئی تھی جو کہلاتے تو پیر ہیں مگر عملی لحاظ سے و ہ دین سے کوسوں دور ہوتے ہیں ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک سید پیر صاحب کا لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ وہ ایک دفعہ گھوڑے پر سوار ہو کر ہرن کے شکار کیلئے گئے۔ شکار کرنا منع نہیں رسول کریم ﷺ نے گو خود شکار نہیں کیا مگر حدیثوں سے ثابت ہے کہ آپ شکار کروایا کرتے تھے چنانچہ ایک غزوہ میں آپ نے سعد بن ابی وقاص کو بلایا اور فرمایا کہ دیکھو وہ ہر ن جا رہا ہے اسے تیر مارو۔ جب وہ تیر مارنے لگے تو آپ نے پیار سے اپنی ٹھوڑی ان کے کندھے پر رکھ دی اور فرمایا اے خدا اس کا نشانہ بے خطا کر دے۔ تو شکار بری چیز نہیں ۔ اس میں جو لطیفہ ہے وہ آگے آتا ہے بہرحال پیر صاحب نے ہرن کے پیچھے اپنا گھوڑا ڈال دیا۔ ہرن بہت مضبوط تھا اس نے بھاگنا شروع کیا اور کئی میل تک بھاگتا چلا گیا۔ اس زمانہ میں بندوقیں نہیں تھیں۔ تیر یا نیزہ سے شکار کرتے تھے۔ پیر صاحب بھی ہرن کے پیچھے اپنا گھوڑا دوڑاتے چلے گئے اور آخر اسے زخمی کر کے گرا لیا۔ جب وہ نیچے اترے اور ہرن کو ذبح کرنے لگے تو بجائے اس کے کہ وہ تکبیر کہہ کر اسے ذبح کرتے انہیں اتنا غصہ چڑھا ہوا تھا کہ چھری پھیرتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے کہ ’’ ارے سؤر تو نے تو میرا گھوڑا ہی مار دیا ہے اے سؤر تو نے تو میرا گھوڑا ہی مار دیا ہے‘‘گویا غصہ یہ تھا کہ وہ بھا گا کیوں۔ حالانکہ انسان ہو یا جانور جسے بھی اپنی جان کا خوف ہوگا بھاگے گا۔
غرض یہودیوں میں بھی مسلمانوں کی طرح یہ رواج تھا کہ جب خاندان میں ایک دفعہ کوئی بزرگ ہو جاتا تو اس کی اولاد اس کی گدی سنبھال لیتی تھی خواہ وہ کیسی ہی نالائق ہوتی ۔ حضرت زکریا علیہ السلام اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انی خفت الموالی من وراء ی۔ خدایا میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے بھی ڈرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ان کے اندر دین کی خدمت کا کوئی احساس نہیں ۔ وکانت امراتی عاقرا ۔ اور پھر میری بیوی بھی بانجھ ہے اگر میں جوان ہوتا یا میری بیوی جوان ہوتی تو ہو سکتا تھا کہ میرے ہاں کوئی اولاد پیدا ہو جاتی کیونکہ بوڑھے مرد سے بھی جوان عورت کو بچے پیدا ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح بعض دفعہ ادھیڑ عمر والی عورت اگر کسی جوان مرد سے شادی کر لے تو اس کے ہاں بھی بچے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں مگر فرماتے ہیں دنیا میں بچے پیدا ہونے کے جو اسباب ہوتے ہیں وہ نہ میرے اندر پائے جاتے ہیں اور نہ میری بیوی کے اندر پائے جاتے ہیں ۔ فھب لی من لدنک ولیا پس اے خدا تو مجھے اپنے پاس سے ایک ایسا شخص عطا فرما جو ہمارے خاندان کی اولادوں کا حافظ ہو اور ان کو دین پر قائم کرے۔ یرثنی و یرث من اٰل یعقوب جو میرابھی وارث ہو اور آل یعقوب کا بھی وارث ہو۔ یعنی جو میرے اندر قوم کی خدمت اور دین کی اشاعت کیلئے نیک جذبات پائے جاتے ہیں وہ بھی اس میں پائے جائیں اور اسی طرح بنی اسرائیل میں جو نیکیوں کا ورثہ چلا آتا ہے اور موسیٰ اور ہارون اور دائود اور سلیمان اور دوسرے انبیاء سے انہوں نے جو جو خوبیاں حاصل کی ہیں وہ سب کی سب اس میں پائی جائیں ۔ واجعلہ رب رضیا۔ اور اے میرے رب تو اس کو دنیا میں ایک پسندیدہ وجود بنا دے۔
دیکھو یہ کسی لطیف دعا ہے اور کس طرح دعا کے چاروں کونے اس میں پورے کر دئیے گئے ہیں۔ اس دعا کو اگر ہم اپنے الفاظ میں بیان کریں تو اس کی یہ صورت ہو گی کہ ’’ اے میرے خدا اندرونی قوی مضمحل ہو گئے ہیں ۔ میرا بیرونی چہرہ مسخ ہو گیا ہے۔ میں ہمیشہ سے ہی ترے الطاف خسروانہ کا عادی ہوں ۔ اس لئے مایوسیاں اور ناکامیاں میں نے کبھی دیکھی نہیں ۔ ناز کرنے کی عادت مجھ میں پیدا ہو چکی ہے ۔ رشتہ دار میرے برے اور موت کے بعد گدی سنبھالنے کے منتظربیوی میری بیکار۔ ان سب وجوہ کے ساتھ میں مانگنے آیا ہوں اور کیا مانگنے آیا ہوں یہ مانگنے آیا ہوں کہ اے میرے خدا تو مجھے بیٹا دے۔ ایسا بیٹا دے جو میرا ہم خیال اور دوست ہو ایسا بیٹا جو میرے بعد تک زندہ رہنے والا اور میرے خاندان کو سنبھالنے والا ہو اور ایسا بیٹا دے جو میرے اخلاق اور آل یعقوب کے اخلاق کو پیش کرنے والا ہو ۔ گویا صرف میرے نام کو ہی زندہ نہ کرے بلکہ اپنے دادوں پر دادوں کے نام کو بھی زندہ کردے اور پھر وہ انسانوں ہی کیلئے باعث خوشی نہ ہو بلکہ اے میرے رب وہ تیرے لئے بھی باعث خوشی ہو۔‘‘
سبحان اللہ کیسی لطیف دعا ہے کہ اندر میرا خراب ہو چکا ہے باہر میرا خراب ہو چکا ہے بیوی میری بیکار ہو چکی ہے رشتہ دار میرے خراب ہو چکے ہیں اور میں مانگتا یہ ہوں کہ تو مجھے بیٹا دے مگر اس بڑھاپے میں بھی میںناقص بیٹا نہیں مانگتا بلکہ میں یہ مانگتا ہوں کہ تو مجھے وہ بیٹا دے جو میرے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور اپنے باپ دادوں کے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور پھر وہ میرا ہی پسندیدہ نہ ہو بلکہ تیرا بھی پسندیدہ اور محبوب ہو۔ یہ دعا ہے جو حضرت زکریا علیہ السلام نے کی۔ بے شک وہ پیشگوئیوں کی بنا پر جانتے تھے کہ نبوت کا نور اب بنی اسرائیل سے چھینا جانے والا ہے مگر پھر بھی انسان خیال کرتا ہے کہ شاید کوئی ایسا ذریعہ نکل آئے جس سے قوم بچ جائے اور وہ ہلاکت اور تباہی کے گڑھے میں نہ گرے ۔ پس حضرت زکریا علیہ السلام نے یحییٰ کیلئے اس لئے دعا کی کہ وہ جانتے تھے کہ اب ایک ایسا شخص آنے والا ہے جس پر بنی اسرائیل کی نبوت ختم ہو جائے گی۔ سو انہوں نے چاہا کہ کوئی ایسی صورت نکل آئے جس کے نتیجہ میں آنے والے موعود کو قوم مان لے اور اس کی امداد اور نصرت کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائے اور خدا تعالیٰ کا نور کچھ دنوں کیلئے اور ہماری قوم میں باقی رہ جائے ۔ چنانچہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا انجیل سے جو حال معلوم ہوتا ہے اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی آمد کی بڑی غرض یہی تھی کہ قوم کو حضرت مسیح پر ایمان لانے کیلئے تیار کریں۔ انجیل میں لکھا ہے حضرت یحییٰ نے لوگوں سے کہا ’’ میں تو تمہیں توبہ کے لئے پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں لیکن جو میرے بعد آتا ہے (یعنی مسیح ) وہ مجھ سے زور آور ہے میں اس کی جوتیاں اٹھانے کے لائق نہیں وہ تمہیں روح القدس اور آگ سے بپتسمہ دے گا‘‘ (انجیل متی باب ۳ آیت ۱۱)
بہرحال حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سارا زور اس بات پرمعلوم ہوتا ہے کہ وہ خود مقصود نہیںبلکہ مسیح کی مدد کیلئے کھڑے ہوئے ہیں اور حضرت زکریا علیہ السلام نے جو دعا مانگی وہ بھی اسی لئے مانگی تھی کہ ان کا بیٹا آنے والے اسرائیلی موعود کے لئے رستہ صاف کرے۔ شاید وہ اپنی کوشش اور جدوجہد سے بنی اسرائیل کو آنے والے مسیح کی طرف متوجہ کر سکے اور اس طرح قوم پر جو عذاب آنے والا ہے وہ ٹل جائے ۔ یہ چیز ہے جو حضرت زکریا علیہ السلام کے سامنے تھی۔ اب اس پس منظر کے سامنے ساری عیسائیت کو رکھ لو اس کی کوئی حقیقت بھی باقی نہیں رہتی ۔ عیسائیت اپنے آپ کو بنیاد قرار دیتی ہے اور یہ پس منظر بتاتا ہے کہ وہ عمارت کی آخری اینٹ تھی کسی نئے مذہب اور نئے اصول کی تعلیم اس کا مقصد نہیں تھا بلکہ ایک لمبے عرصہ سے جو نبوت اور وحی و الہام کا سلسلہ بنی اسرائیل میں جاری تھا اس کے خاتمہ کا اس ذریعہ سے اعلان کیا گیا تھا ۔ گویا مسیحیت کوئی بنیادی چیز نہیں بلکہ خاتمہ کی اینٹ ہے حضرت زکریا کی کوشش یہ تھی کہ یہ نور کچھ اور دیر قائم رہے اور انہیں ایک ایسا بیٹا ملے جو اس بات کیلئے اپنا پور ا زور صرف کر دے کہ بنی اسرائیل مسیح کے منکر نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا سن کر حضرت یحییٰ کو بھیج دیا اور اس نے اپنا سارا زور بھی لگا لیا مگر پھر خدا تعالیٰ کی تقدیر ہی پوری ہوئی اور وہی کچھ ہوا جس کا وہ فیصلہ کر چکا تھا۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں جب فرشتے ان کے پاس لوط کی بستی کی ہلاکت کی خبر لے کر آئے یا انسان آئے جیسا کہ ہمارا عقیدہ ہے اور انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے لوط کی قوم کو تباہ کرنے کا حکم دیا ہے تو اس خبر کو سن کر انہیں درد پہنچا اور انہوں نے دعا کرنی شروع کی کہ یا اللہ اس قوم پر سے عذاب ٹل جائے ۔ دعا کرتے کرتے ان کے دل میں جوش پید اہو گیا اور انہوں نے کہا خدایا! ’’ کیا تو نیک کو بد کے ساتھ ہلاک کرے گا شاید اس شہر میں پچاس راستباز ہوں کیا تو اسے ہلاک کرے گا اور ان پچاس راستبازوں کی خاطر جو اس میں ہوں اس مقام کو نہ چھوڑے گا۔ ایسا کرنا تجھ سے بعید ہے کہ نیک کو بد کے ساتھ مار ڈالے اور نیک بد کے برابر ہو جائیں ‘‘
اللہ تعالیٰ نے کہا اے ابراہیم !
’’ اگر مجھے سدوم میں شہر کے اندر پچاس راستباز ملیں تو میں ان کی خاطر اس مقام کو چھوڑ دوں گا‘‘
اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خیال آیا کہ معلوم ہوتا ہے اس میں پچاس بھی نیک آدمی نہیں ہیں اور انہوں نے کہا کہ اچھا
’’ اگرچہ میں خاک اور راکھ ہوں شاید پچاس راستبازوں میں پانچ کم ہوں کیا ان پانچ کی کمی کے سبب سے تو تمام شہر کو نیست کرے گا اس نے کہا اگر مجھے وہاں پینتالیس ملیں تو میں اسے نیست نہیں کروں گا۔پھر اس نے اس سے کہا کہ شاید وہاں چالیس ملیں ۔ تب اس نے کہا کہ میں ان چالیس کی خاطر بھی یہ نہیں کروں گا ۔ پھراس نے کہا ۔خداوند ناراض نہ ہو تو میں کچھ اور عرض کروں۔ شاید وہاں تیس ملیں ۔ اس نے کہا اگر مجھے وہاں تیس بھی ملیں تو بھی ایسا نہیں کروں گا۔ پھر اس نے کہا ۔ دیکھئے میں نے خداوند سے بات کرنے کی جرأت کی شاید وہاں بیس ملیں ۔ اس نے کہا میں بیس کی خاطر بھی اسے نیست نہیں کروں گا۔ تب اس نے کہا خداوند ناراض نہ ہو تو میں ایک بار اور کچھ عرض کروں۔ شاید وہاں دس ملیں ۔ اس نے کہا ۔ میں دس کی خاطر بھی اسے نیست نہیں کروں گا۔‘‘
(پیدائش باب ۱۸ آیت ۲۳ تا ۳۳)
اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام خاموش ہو گئے۔اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب یہ بستی ضرور تباہ ہو کر رہے گی ۔ اب دیکھو خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی خوش کر دیا اور اپنی تقدیر بھی پوری کر دی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب یہ دعا کر رہے ہوں گے تو وہ اپنے دل میں کتنے خوش ہوں گے اور انہوں نے اسے خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان سمجھا ہو گا کہ خدا تعالیٰ ایک بستی کو بتاہ کرنے کا ارادہ کر چکا ہے مگر ان کی دعا اور التجا پر وہ کہتا ہے کہ اچھا میں نے تمہاری بات مان لی اگر اس میں پچاس مومن ہوئے تو میں اس بستی کو کبھی ہلاک نہیں کروں گا۔ پھر وہ پینتالیس پر آئے تو خدا تعالیٰ نے یہ بات بھی مان لی پھر چالیس پر آئے تو یہ بات بھی مان لی۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے دس پر بات آ گئی مگر اس کے بعد خود بخود ان کی زبان بند ہو گئی اور انہوں نے خیال کیا کہ اب میں ا س سے زیادہ خدا تعالیٰ کو اور کیا کہوں۔ میری تو اب زبان ہی نہیں چلتی۔ اسی طرح حضرت زکریا کے دل میں جب اس بات سے گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ قوم تباہ ہونے والی ہے تو ان کے دل میں خیال آیا کہ میں تو اتنا بوڑھا ہو چکا ہوں کہ اس بوجھ کے اٹھانے کی اب مجھ میں ہمت ہی نہیں رہی ۔ اگر خدا تعالیٰ مجھے کو ئی بیٹا دے اور ایسا بیٹا دے جو نبی ہو اور وہ آنے والے اسرائیلی موعود کا راستہ صاف کرے اور لوگوں کو اس پر ایمان لانے کی تحریک کرے تو ممکن ہے یہ عذاب ہماری قوم پر سے ٹل جائے اور خدا تعالیٰ کا نور اس میں کچھ اور مدت تک باقی رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بہت اچھا ہم تجھے بیٹا دیں گے اور اسے نبی بھی بنا دینگے مگر پھر بھی ہماری تقدیر ہی پوری ہو گی یہودی قوم پھر بھی ایمان نہیں لائے گی بلکہ خود تمہارا بیٹا انہی لوگوں کے ہاتھ سے قید خانہ میں قتل کیا جائے گا۔

ترجمہ آیت ۸ :
(اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ) اے زکریا ہم تجھے ایک لڑکے کی خبر دیتے ہیں ( جوجوانی کی عمر تک پہنچے گا اور ) اور اس کا نام (خدا کیطرف سے ) یحییٰ ہو گا ہم نے اس سے پہلے کسی کو اس نام سے یاد نہیں کیا۔ ۶؎
۶؎ حل لغات :
غلام کا لفظ تین مختلف عمروں والوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے یعنی پیدائش سے لے کر جوانی تک کی عمر والے کو بھی غلام کہتے ہیں۔ جوانی سے لے کر کہولت تک کی عمر والے کو بھی غلام کہتے ہیں اور کہولت سے لے کر بڑھاپے تک کی عمر والے کو بھی غلام کہتے ہیں۔ گویا زندگی کے چار دروں بچپن، جوانی ‘ ادھیڑ عمر اور بڑھاپے میں سے بڑھاپے کو چھوڑ کر باقی تینوں زمانوں کے لئے غلام کا لفظ بولا جاتا ہے۔
سمیّ کے معنے ہم نام کے بھی ہوتے ہیں ۔ اور سمی کے معنے نظیر اور مثل کے بھی ہوتے ہیں ۔ (اقرب)
تفسیر :
دعا مانگنے والا خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ انسان زکریا تھا جس نے اللہ تعالیٰ سے ایک کامل دعا مانگی۔ اب دوسرے کامل کی قبولیت کو دیکھو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سنو اے زکریا! ہم تمہیں ایک بچہ کی بشارت دیتے ہیں جو ادھیڑ عمر تک پہنچے گا مگر بڑھاپا نہیں دیکھے گا۔ اسمہ یحییٰ اور اس کا نام یحییٰ ہوگا ۔ یہ بات ظاہر ہے کہ پیدائش سے پہلے نام نہیں رکھا جاتا بلکہ پیدائش کے بعد نام رکھا جاتا ہے۔ پس اسمہ یحییٰ کے معنے یہ ہیں کہ جب وہ پیدا ہو تو تم اس کا نام یحییٰ رکھنا۔ یہ مطلب نہیں کہ بچہ پیدا ہوتے ہی کہنا شروع کر دے گا کہ میرا نام یحییٰ ہے۔
یحییٰ کے متعلق یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم میں تو ان کا نام یحییٰ آتا ہے لیکن اردو بائبل میں یحییٰ کی بجائے یوحنا نا م لکھا ہے ۔ عبرانی اور یونانی زبان میں انہیں Johnاور Jhananبھی کہتے ہیں ۔ انگریزی بائبلوں میں ان کا نام Johnلکھا ہے۔ عبرانی کے متعلق تو مجھے معلوم نہیں کہ یوحنا کے کیا معنے ہیں لیکن عربی میں یہ بامعنی لفظ ہے اور یحییٰ کے معنے ہیں وہ شخص جو زندہ رہتا ہے ۔ پس اسمہ یحییٰ میںاس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ یہ بچہ زندہ رہے گا تم اس کا نام یحییٰ رکھنا یا اس کی صفت یحییٰ ہوگی اور ہمیشہ زندہ رہنے والا ہوگا۔قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ شہداء ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اس لحاظ سے یحییٰ نام میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ یہ خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوگا اور ایسے اعلیٰ درجہ کا روحانی مقام رکھے گاکہ دنیا میں اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا چنانچہ یہ واضح بات ہے کہ مسیح جیسا نبی کبھی مر نہیں سکتا اور جب مسیح مر نہیں سکتا مسیح اس لئے نہیں مر سکتا کہ وہ ایک نہ مرنے والے نبی محمد رسول اللہ ﷺ کا ارہاص تھا اور یوحنا اس لئے نہیں مر سکتا کہ وہ مسیح کا ارہاص تھا۔ جو خود ایک نہ مرنے والے نبی کا ارہاص تھا چنانچہ دیکھ لو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اب تک ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء گزرے ہیں ۔مگر ہمیں تو سو نبیوں کا بھی علم نہیں باقی سب مر گئے ہیں پس نبی کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے بعض زندہ رہتے ہیں اور بعض مر جاتے ہیں۔ حضرت یحییٰ ؑ ان نبیوں میں سے ہیں جو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھے گئے ہیں کیونکہ ان کی نبوت مسیح ؑ کے ساتھ وابستہ تھی اور مسیح ؑ اس لئے نہیں مر سکتے کہ ان کی نبوت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وابستہ تھی جو ہمیشہ کے لئے زندہ رہنے والے نبی ہیں۔
لم نجعل لہ من قبل سمیا۔ سمی کے معنے ہوتے ہیں اسی قسم کا نام رکھنے والا یعنی ہم اسم۔ اور سمی کے معنے مثل کے بھی ہوتے ہیں۔ مفسرین غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اس جگہ سمی ہم اسم کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور مراد یہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام سے پہلے دنیا میں کسی کا نام یحییٰ نہیں رکھا گیا تھا۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ خود بائبل میں بعض ایسے لوگوں کا ذکر آتا ہے جن کا نام یوحنا تھا۔ چنانچہ نمبر2سلاطین باب 25آیت 23میں یہودیوں کے ایک سردار کا نام یوحنا لکھا ہے۔ اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک پڑپوتے کا نام یوحنا تھا۔ دیکھونمبر1 تواریخ باب 3آیت 15 ۔ اسی طرح عزرا نبی کے ساتھ جو لوگ ایران سے یروشلم بنانے کے لئے آئے ان میں سے ایک شخص کا نام یوحنا تھا (عزرا باب 8 آیت 12) پس مفسرین کا یہ خیال کہ اس نام کا پہلے کوئی شخص نہیں گذرا یہ واقعات کے خلاف ہے۔
عیسائیوں کو ایسی بات خدا دے ۔ انہوں نے سمیاً کے معنے مفسرین کے بیان کے مطابق یہ سمجھ لئے کہ اس کا ہم نام کوئی نہیں اور پھر بائبل سے یوحنا کے ہم نام بتانے لگے گئے اور پھر اس اعتراض کو مزید پختہ کرنے کے لئے یہ کہنا شروع کر دیا کہ گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ کسی سے بائبل کی تھوڑی سی باتیں سنی ہوئی تھیں ان سے دھوکاکھا کر آپ نے یہ خیال کر لیا کہ یحییٰ نام کا پہلے کوئی شخص نہیں گزرا۔ چنانچہ اس کے لئے وہ یہ حوالہ بیان کرتے ہیں کہ انجیل میں لکھا ہے جب حضرت زکریا کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو چونکہ وہ اس سے پہلے گونگے ہو چکے تھے اس لئے آٹھویں دن ان کے رشتہ دار لڑکے کا ختنہ کرنے آئے اور انہوں نے نے تجویز کیا کہ اس کا نام اس کے باپ کے نام پر زکریا رکھا جائے مگر اس کی ماں نے کہا نہیں اس کا نام یوحنا رکھا جائے۔ اس پر انہوں نے اس سے کہا۔ کہ: -
’’ تیرے گھرانے میں کسو کا یہ نام نہیں‘‘
(لوقا باب آیت 61)
یعنی تیرے خاندان میں چونکہ پہلے یہ کسی کا نام نہیں اس لئے ہم یہ نام نہیں رکھتے۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ انہوں نے حضرت زکریا کو اشارہ کیا کہ تو اس کا کیانام رکھنا چاہتا ہے۔ انہوں نے تختی منگوا کر اس پر لکھا کہ اس کا نام یوحنا ہے اور اسی وقت ان کی زبان کھل گئی اور وہ بولنے لگے گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ انجیل میں یہ جو فقرہ آتا ہے کہ
’’تیرے گھرانے میں کسو کا یہ نام نہیں‘‘
معلوم ہوتا ہے یہ فقرہ کسی نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو سنایا مگر انہیں پوری طرح یاد نہ رہا اور بجائے اس کے کہ وہ یہ سمجھتے کہ یوحنا نام زکریا کے خاندان میں سے کسی کا نہیں تھا۔ انہوں نے قرآن میں یہ لکھوا دیا کہ اس سے پہلے یہ نام دنیا میں کسی شخص کا نہیں تھا۔ حالانکہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ ہی نہیں کیاکہ اس سے پہلے کسی کا نام یوحنا نہیں تھا۔ قرآن کے الفاظ بالکل واضح ہیں۔ مفسرین کی غلطی ان کے ساتھ ہے۔ قرآن کریم تو یہ کہتا ہی نہیں کہ ان کا ہم نام کوئی نہیں تھا۔ قرآن کریم یہ کہتا کہ لم نجعل لہ من قبل سمیا۔ ہم نے اس سے پہلے کسی اور کو اس کا سمی نہیں بنایا۔ اب بتائو کہ بچوںکے نام ان کے ماں باپ رکھا کرتے ہیں یا خدا رکھا کرتا ہے؟ عیسائیوں میںدیکھ لو۔ ہندوئوں میں دیکھ لو۔ مسلمانوں میں دیکھ لو۔ کون نام رکھا کرتا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے۔کہ ماں باپ بچوں کے نام رکھا کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لم نعجل لہ من قبل سمیا ہم نے اس سے پہلے کسی کا نام یوحنا نہیں رکھا۔ اب فرض کرو یوحنا دنیا میں دس کروڑ بھی ثابت ہو جائیں۔ تب بھی کیا حرج ہے۔ کیونکہ سوال یہ نہیں کہ یوحنا نام پہلے تھا یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے پہلے کسی اور کا نام خود خداتعالیٰ نے یوحنا رکھا تھا؟ بے شک کروڑ چھوڑ دس ارب یوحنا ثابت ہو جائیں ان کا نام خدا نے یوحنا نہیں رکھا تھا بلکہ ان کے ماں باپ نے رکھا تھا اور قرآن کہتا ہے کہ ہم نے یہ نام پہلے کسی کا نہیں رکھا۔ اگر ایک نام دس کروڑ دفعہ بھی ماں باپ رکھیں تب بھی خدا اگر پہلی دفعہ کسی کا وہ نام رکھے گا تو وہ تو یہی کہے گا کہ میں نے یہ نام اس سے پہلے کسی کا نہیں رکھا ۔ ہمارے ملک میں لاکھوں محمدہوں گے۔ لاکھوں عبداللہ ہوں گے۔ لاکھوں عبدالرحمن ہوں گے۔ لاکھوں عبدالرحیم ہوں گے مگر ان کے نام ماں باپ نے رکھے ہیں۔ اگر کل کسی کو الہام ہو کہ تو اپنے بیٹے کا نام عبدالرحمن رکھ اور پھر وہ اس کا نام عبدالرحمن رکھ دے تو کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے عبدالرحمن تو اس سے پہلے لاکھوں ہوں خدا نے ا سے پہلے اور کسی کا نام عبدالرحمن نہیں رکھا۔ وہ نام ان کے ماں باپ نے رکھے ہیں۔ اسی طرح اگر تو خداتعالیٰ نے یہ کہا ہوتاکہ یوحنا کا ہم نام کوئی نہیں ہو گا تب تو اعتراض ہو سکتا تھا لیکن قرآن تو یہ کہتا ہے کہ ہم نے اور کسی کو یہ نام نہیں دیا اور یہ ٹھیک بات ہے کہ جتنے نام بتائے جاتے ہیں وہ سب ایسے ہیں جو ماں باپ نے رکھے تھے اور یہاں اس کا نام ذکر ہے جو خداتعالیٰ نے رکھا۔ اس لئے اعتراض کی کوئی بات نہیں۔
دوسرے عربی زبان میں سمیا کے معنے مثل کے بھی ہوتے ہیں پس لم نجعل لہ من قبل سمیا کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیںکہ ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی مثل نہیں بنایا۔ گویا اس میں ان کے بے مثل ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اب سوال ہو سکتا ہے کہ یحییٰ بے مثل کس طرح ہو گئے۔ کیاموسیٰ ؑاس جیسا نہیں تھا؟ ہم کہتے ہیں بے مثل ہونا بھی اپنے اپنے دائرہ میں ہوتا ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں فلاں شخص گھوڑے کا بے مثل سوار ہے۔ فلاں بے مثل کاتب ہے۔ فلاں بے مثل انگریز ہے۔ اب اس کے یہ معنے تو نہیں ہوتے کہ جو گھوڑے کی سواری میں بے مثل ہے وہ بے مثل کاتب بھی ہے یا بے مثل رنگساز بھی ہے یا بے مثل تفسیر لکھنے والا بھی ہے۔ جو شخض بے مثل کہلاتا ہے وہ اپنی کسی خاص خوبی میں بے مثل کہلاتا ہے۔ یہ مراد نہیں ہوتی کہ سارے جہان کی خوبیاں اور کمالات اس میں پائے جاتے ہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ یحییٰ کس بات میں بے مثل تھے۔ اس نقطہ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یحییٰ وہ پہلے نبی ہیں جن کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ وہ الیاس کا نام پا کر آئے ہیں گویا ارہاص والے نبیوں میں سے یہ پہلے نبی تھے جو الیاس کا نام پاکر اس کی خو بو پر آئے۔ اس سے پہلے پرانے نبیوں میں کوئی ایسا نبی نہیں مل سکتا جو کسی دوسرے نبی کے لئے ارہاص کے طور پر آیا ہو۔ لیکن یحییٰ کے بعد حضرت مسیح ؑ آگئے جو محمد رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ارہاص تھے۔ اور پھر حضرت سید احمد صاحب بریلوی آ گئے جوحضرت مسیح موعود ؑکے لئے ارہاص تھے۔ پس لم نجعل لہ من قبل سمیا میں یہی خبر دی گئی تھی کہ ہم نے اس سے پہلے کسی اور کو اس کا مثل نہیں بنایا۔ یعنی یحییٰ وہ پہلے شخص ہیں جو کسی کے مثیل ہو کر آئے ہیں چنانچہ دیکھ لو اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ہیں تو ہمیں بار بار یحییٰ کا نام لینا پڑتا ہے۔ کیونکہ پیشگوئیوں میں بتایا گیا تھا کہ مسیح آسمان سے نازل ہو گا۔ جب مخالف ہم سے پوچھتے ہیں کہ بتائو وہ مسیح کہاں ہے؟ تو ہم کہتے ہیں مسیح ناصری کے وقت میں بھی لوگوں نے یہی سوال کیا تھا۔ جب حضرت مسیح ؑ نے دعویٰ کیا تو لوگوں نے پوچھا کہ ملا کی نبی کی کتاب میں ایلیاہ ؔ کے دوبارہ نزول کی خبر دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ وہ مسیح سے پہلے آئے گا وہ ایلیاہ کہاں ہے۔ حضرت مسیح ؑ نے جواب دیا کہ یوحنا ہی ایلیاہ ہے۔ اگر چاہو تو قبول کر لو۔ پس جس طرح وہاں ایلیاہ کے نام پر یوحنا آیا اسی طرح یہاں مسیح ناصری کے نام پر خداتعالیٰ نے ایک دوسرے مسیح کو بھیج دیا۔ اس طرح اب ہماری جماعت بھی مجبور ہے کہ وہ یحییٰ کے نام کو زندہ رکھے کیونکہ مثلیت کا نکتہ انہی کے ذریعہ سے حل ہوا ہے۔
غرض لم نجعل لہ من قبل سمیا سے یہ مراد ہے کہ ہم نے اس کا مثل پہلے نہیںبنایا اور اسے ایسی خصوصیت عطا فرمائی ہے جو پہلے کسی کو نہیں دی گئی۔ چنانچہ موٹی مثال موجود ہے کوئی بتا دے کہ یوحنا سے پہلے کسی اور نبی کو مثیل ایلیاہ قرار دیاگیا ہو۔ اگر عیسائی اور یہودی بھی مانتے ہیں کہ اس پہلو کے لحاظ سے اس کاکوئی مثل پہلے نہیں گذرا تو اس کا بے مثل ہونا ثابت ہو گیا۔ بے مثل ہونے کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ ساری دنیا کی خصوصیات کسی میں پائی جائیں۔ کسی ایک بات میں بھی اگر کوئی بے مثل ہو تو اسے بے مثل کہا جا سکتا ہے۔ جیسے ایک بات میں نے بھی بتا دی ہے۔ اسی طرح اور بھی بعض خوبیاں ہو سکتی ہیں جو ان کو بے مثل بنانے والی ہوں۔ انجیل میں بھی اس کے مطابق ہی حضرت یحییٰ ؑکی تعریف آئی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح ؑنے کہا کہ
’’ میں تم سے کہتا ہوں کہ ان میں سے جو عورتوں سے پیدا ہوئے یوحنا بپتسمہ دینے والے سے کوئی نبی بڑا نہیں۔‘‘
(انجیل لوقا باب 7آیت 28)
گویا انجیل بھی ان کو بے مثل قرار دیتی ہے۔ مگر انجیل نے جو مثال دی ہے وہ غلط ہے۔ انجیل کہتی ہے کہ اس سے کوئی بڑا نبی نہیں ہوا مگر کیا وہ موسیٰ ؑسے بھی بڑا تھا ؟ حالانکہ وہ موسیٰ ؑ کا تابع تھا۔ کیا وہ ابراہیم ؑ سے بھی بڑا تھا؟ حالانکہ وہ ابراہیم کا تابع تھا۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات جو بیان کی گئی ہے غلط ہے۔ کیونکہ موسیٰ ؑ اور ابراہیم ؑ اور دوسرے کئی انبیاء یوحنا سے بڑے تھے۔لیکن قرآن نے جو کچھ فرمایا ہے اس میں اس نے یہ مثال نہیں دی صرف اتنا کہا ہے کہ کسی بات میں ہم نے اسے بے مثل بنایا تھا۔ مسیح کہتا ہے کہ وہ بڑے نبی ہونے میں بے مثل ہے مگر خود عیسائی عقیدہ اس کے خلاف ہے پس حضرت یحییٰ کے بے مثل ہونے کا ثبوت بھی انجیل سے مل گیا اور انجیل کے جھوٹا ہونے کا ثبوت بھی مل گیا۔ جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافق تیرے پاس آتے ہیں اور قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے ۔ خداتعالیٰ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے مگر خد اس بات کا بھی گواہ ہے کہ یہ منافق اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔ اسی طرح اس حوالہ سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ قرآن نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو جو بے مثل کہا تھا وہ درست تھا ۔ انجیل بھی اسے بے مثل مانتی ہے مگر ساتھ ہی جو وجہ اس نے بتائی اس نے بتا دیا کہ انجیل جھوٹی ہے اور قرآن سچاکیونکہ وہ وجہ خود عیسائی مسلمات کے خلاف ہے اور وہ یوحنا کو تمام انبیاء سے بڑا قرار نہیں دیتے۔
اب میں بتاتا ہوں کہ یوحنایعنی یحییٰ کا انجیل سے کیا حال معلوم ہوتا ہے۔
لوقا میں لکھا ہے زکریا کاہن اور اس کی بیوی الیسبات (یعنی الزبتھ) بڈھے تھے۔ عورت بانجھ تھی۔ لڑکا کوئی نہ تھا۔ دونوں نیک اور راستباز تھے۔ ایک دن وہ خوشبو جلانے کے لئے ہیکل میں گیا تو فرشتہ ملا جس نے کہا کہ
’’زکریا مت ڈر کہ تیری دعا سنی گئی اور تیری جورو الیسبات تیرے لئے ایک بیٹا جنے گی تو اس کا نام یوحنا رکھنا اور تجھے خوشی و خورمی ہو گی اور بہتیرے اس کی پیدائش سے خوش ہوں گے کیونکہ وہ خدا وند کے حضور بزرگ ہو گا اور نہ مے اور نہ کوئی نشہ پئے گا اور اپنی ماں کے پیٹ ہی سے روح القدس سے بھر جائے گا اور بنی اسرائیل میں سے بہتوں کو ان کے خداوند خدا کی طرف پھیرے گا اور وہ اس کے آگے الیاس کی طبیعت اور قدرت کے ساتھ چلے گا۔‘‘
(لوقا باب آیت 5تا25)
پھر لکھا ہے کہ یہ فرشتہ جبریل تھا اور لکھا ہے کہ چونکہ زکریا نے فرشتہ کی بات پر شک کیا اس لئے اسے یوحنا کی پیدائش بلکہ ختنہ کے وقت تک کے لئے یعنی قریباً دس ماہ کے لئے گونگا کیا گیا۔ یہ بات قرآن شریف سے مختلف ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ ان کے نبی ہونے کے لحاظ سے قرآن کریم کا بیان زیادہ درست ہے۔ قرآن کریم کا بیان ایک نبی کی شان کے مطابق ہے اور انجیل کا بیان نبی کی شان کے خلاف ہے۔
بائبل کے بیان اور قرآنی بیان میں کچھ اختلافات بھی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں: -
(1) قرآن کہتا ہے کہ حضرت زکریا ؑ کو دعا کی تحریک حضرت مریم علیہ السلام کے ایک معصومانہ کلام سے ہوئی ۔ بائبل اس بارہ میں خاموش ہے مگر خاموش ہونا واقعہ کے غلط قرار دینے کے مترادف نہیں ہوتا۔ بائبل نے جہاں بشارت کا ذکر کیا ہے تسلیم کیا ہے کہ زکریا ؑ بیٹے کے لئے دعا کیاکرتے تھے۔ کیونکہ لکھاہے فرشتے نے اسے کہا کہ ’’تیری دعا سنی گئی‘‘ (لوقا باب آیت 13) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زکریا بیٹے کے لئے دعا کیا کرتے تھے۔ لیکن بائبل نے یہ نہیں بتایا کہ اس دعا کا محرک کیا ہوا۔قرآن کریم نے یہی واقعہ ابتداء سے بیان کیا ہے اور بتایا کہ جب حضرت مریم علیہ السلام سے ان کی باتیں ہوئیں تو اس بچی کے معصومانہ کلام سے ان کے دل میں دعا کا جوش پیدا ہوا اور انہوںنے اپنے رب سے یہ دعا کی گویا بائبل نے صرف اتنا واقعہ بیان کیاہے جو بعد کا ہے دعا کے محرک کا ذکر اس نے نہیں کیا۔ اس سے اس کے نقص کا تو اظہار ہوتا ہے لیکن قرآن کریم کی غلطی ظاہر نہیں ہوتی۔
ہمارے پاس اس بات کا ثبوت کہ قرآن کریم کی روایت ہی صحیح ہے یہ ہے کہ حضرت یحییٰ ؑ حضرت زکریا ؑ کی آخری عمر میں پیدا ہوئے تھے اور اس با ت کو خود بائبل بھی تسلیم کرتی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ جب فرشتہ نے انہیں یحییٰ کی پیدائش کی خوشخبری دی تو انہوں نے کہا کہ
’’میں اس بات کو کس طرح جانوں۔ کیونکہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی عمر رسیدہ ہے‘‘۔
(لوقا باب 1آیت 19)
اب سوال یہ ہے کہ حضرت زکریا نے اس سے پہلے کیوں نہیں دعا کی؟ آخری عمر میں جا کر دعا کرنا صاف بتاتا ہے کہ کوئی نیا محرک پیدا ہوا تھا اور وہ نیا محرک یہی تھا کہ حضرت مریم ؑ پیدا ہو چکی تھیں جن کے ایک معصومانہ کلام سے انہیں دعا کی تحریک پیدا ہوئی۔ پس قرائن اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ قرآن کریم کی بات ہی صحیح ہے۔ بہرحال اس بات کو اختلاف قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص صبح کی بات بیان کرے اور دوسرا دس بجے کی اور ان دونوں باتوں کو سامنے رکھ کرکوئی شخص کہنا شروع کر دے کہ ان میں بڑااختلاف ہے۔ ہر شخض جو حقیقت کو سمجھتا ہو گا وہ فوراً کہے گا کہ ان میں اختلاف کونسا ہے۔ ایک صبح کی بات ہے او ر دوسری دس بجے کی ہے۔ اختلاف تب ہوتا جب ایک ہی وقت کی بات میں متضاد بیان ہوتا۔ بائبل کے یہ الفاظ کہ اے زکریا تیری دعا سنی گئی بتاتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کو قبولیت دعا سے شروع کرتی ہے لیکن قرآن کریم جو واقعہ بیان کرتا ہے وہ دعا کرنے سے پہلے کا ہے۔ پس بائیبل کی اس خاموشی کے صرف یہ معنے ہیں کہ قرآن کریم میں ابتداء سے واقعہ بیان کیا گیا ہے اور بائبل نے اس دعا کے محرک کا ذکر نہیں کیا۔ اس سے اس کے بیان کے نامکمل ہونے کا تو پتہ چلتا ہے لیکن قرآن کریم کی غلطی ظاہر نہیں ہوتی۔
(2) بائبل کہتی ہے کہ ایک فرشتہ نے یہ بشارت دی مگر قرآن کہتا ہے کہ خداتعالیٰ نے کہا کہ اے زکریا تیرے ہاں بیٹا ہو گا۔ بظاہر یہ اختلاف ہے لیکن حقیقت میں نہیں۔ کیونکہ خداتعالیٰ کا کلام اکثر فرشتے لاتے ہیںاور فرشتے اپنے پاس سے غیب کی باتیں نہیں کر سکتے ورنہ ان کو خدا ماننا پڑے گا۔ پس اگر فرشتے نے کہا تب بھی وہ خدا کی طرف سے کہا اس لئے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ فرشتے نے یوں کہا اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے یوں کہا اور چونکہ اس جگہ پر یہ الفاظ ہیں کہ ’’تیری دعا سنی گئی‘‘ اس لئے اس کے معنے یہ ہیں کہ فرشتے کو خدا نے بتایا تھا کہ میں نے زکریا کی دعا سن لی ہے۔ پس فرشتہ کا قول خداتعالیٰ کی نمائندگی میں تھا اور اس کا ذکر دونوں طرح کیا جاسکتا تھا۔ اس طرح بھی کہ فرشتے نے کہا اور اس طرح بھی کہ خدا نے کہا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے خواب میں اگر کوئی شخص آم دیکھتا ہے تو اس کی تعبیریہ ہوتی ہے کہ اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا۔ اب اگر کوئی شخص ایسی خواب دیکھے اور اس کے ہاں لڑکا پیدا ہو جائے اور اس کی پیدائش پر کہے خدا نے مجھے پہلے سے بتایا دیا تھا کہ میرے ہاں لڑکا ہو گا تو کیاکوئی شخص کہہ سکتا کہ تم جھوٹ بولتے ہو تمہیں خدا نے کب کہا تھا تم نے تو آم دیکھا تھا؟ اگر کوئی شخص ایسا اعتراض کرے تو سب لوگ اسے پاگل کہیں گے کیونکہ خواہ آم کی شکل میں اسے بتایا گیا ہو بہرحال بتایا تو اسے خدا نے ہی تھا۔ اسی طرح تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ فرشتے نے یوں کہا اور تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ خدا نے یوں کہا۔ آخر فرشتہ اپنے پا س سے تو کچھ نہیں کہتا ہے۔ وہ تو جو کچھ کہتا ہے خدا کی طرف سے ہی کہتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کے ایک دوسری جگہ کے بیان سے ظاہر ہے کہ یہی حقیقت ہے کیونکہ سورئہ آل عمران میں اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فنادتہ الملٰئکۃ و ھو قائم یصلی فی المحراب ان اللہ یبشرک بیحییٰ (آل عمران آیت 4رکوع12) یعنی حضرت زکریا علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے تھے کہ اتنے میں ملائکہ ظاہر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ خدا تمہیں یحییٰ کی پیدائش کی بشارت دیتا ہے۔ دیکھ لو یہاں خداتعالیٰ کے بولنے کا ذکر نہیں بلکہ ملائکہ کے بولنے کا ذکر ہے۔ پس معلوم ہواکہ سورئہ مریم میں خداتعالیٰ کے بولنے کا جو ذکر ہے اس سے مراد بھی براہ راست بولنا نہیں بلکہ ملائکہ یا ان کے سردار جبریل کی معرفت بولنا ہے جیسا کہ سورئہ آل عمران میں لکھا ہے ۔ پس یہ اختلاف نہیں ایک مزید لطیف تشریح ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ فرشتہ جب کلام کرتا ہے تو وہ خداتعالیٰ ہی کا کلام ہوتا ہے۔ اس کے متعلق یہ بھی کہہ سکتے ہیں خدا نے یوں کہا اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ فرشتہ نے یوں کہا۔ وہیریؔ اس جگہ لکھتا ہے کہ مسلمان دماغ بھی کیسا عجیب ہے بائبل میں لکھا ہے کہ جبریل ظاہر ہوا لیکن قرآن کہتا ہے کہ فرشتوں نے اسے پکارا اور پھر اسے ایک معمولی اختلاف سمجھتے ہیں۔ گویا وہیری نے ہنسی اڑائی ہے کہ مسلمان بھی عجیب انسان ہیں اتنا بڑا اختلاف قرآن اور انجیل میں پایاجاتا ہے اورپھر اسے معمولی قرار دیا جاتا ہے حالانکہ اگر غور کیا جائے تو یہ کہنا بھی ٹھیک ہے کہ فرشتوں نے یوں کہا اور یہ کہنا بھی درست ہے کہ فرشتہ نے یوں کہا۔ کیونکہ قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جتنے اہم کلام ہوتے ہیں ان کے نزول کے وقت کئی کئی فرشتے ساتھ ہوتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عالم الغیب فلایظھر علی غیبہ احداo الا من ارتضیٰ من رسول فانہ یسلک من بین یدیہ و من خلفہ رصداo لیعلم ان قد ابلغوا رسلت ربھم و احاط بما لدیھم و احصی کل شیی عدد o (سورۃ جن رکوع2) یعنی اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور وہ سوائے اپنے رسولوں کے اور کسی کو اپنے غیب سے کثرت کے ساتھ اطلاع نہیں دیتا اور پھر جو غیب نازل ہوتا ہے اس کے ساتھ بہت سے فرشتے بھی نازل ہوتے ہیں تاکہ وہ اس کلام کی نگرانی کریں۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنا کوئی اہم کلام کسی فرشتہ کے ذریعہ بھجواتا ہے تو اس کے ساتھ اَوربھی بہت سے سپاہی فرشتے متعین ہوتے ہیں۔ پس فرشتہ کہو تب بھی درست ہے کیونکہ بولتے وقت ایک ہی بولے گا اور اگر فرشتے کہو تب بھی درست ہے کیونکہ کلام الٰہی کے ساتھ کئی کئی فرشتے آتے ہیں۔ جب خداتعالیٰ نے یہ کہا کہ فنادتہ الملئکہ اسے ملائکہ نے پکارا تو اس کے معنے یہ تھے کہ چونکہ یہ ایک اہم کلام تھا اس لئے ہم نے بہت سے فرشتوں کے ساتھ اپنا کلام بھجوایا اور اگر انجیل نے اسے ایک فرشتہ قرا ر دیا ہے تب بھی درست ہے کیونکہ جب بولے گا تو ایک ہی بولے گا ۔ مگر اس کا بولنا دوسروں کی نمائندگی میں ہو گا۔ جیسے گورنر یا وزراء سے ملنے کے لئے جب کوئی وفد جاتا ہے تو اخباروں والے یہی لکھتے ہیں کہ وفد نے یہ بات کہی۔ حالانکہ وفد نہیں بولتا بلکہ ان کی طرف سے کوئی ایک شخص بولتا ہے۔ آئیں گے سات آ ٹھ لیکن بولے گا ایک۔ اگر سات آٹھ یکدم بولنا شروع کر دیں تو گورنر ان سب کو نکال دے کہ تم کیسے بد تہذیب ہو۔ اسی طرح فرشتہ کہو تب بھی درست ہے اور فرشتے کہو تب بھی درست ہے۔ تعجب ہے کہ اتنی معمولی بات جس کے یوروپین لوگ رات دن عادی ہیں اور وہ وفود کے طریق ملاقات کو اچھی طرح جانتے ہیں وہی اگر قرآن کریم میں آ جائے تو اس پر ہنسی اڑانے لگ جاتے ہیں۔ کسی شاعر نے کہا ہے ع
ایں گنا ہیست کہ در شہر شما نیز کنند
یہ گنا ہ وہ ہے جو تمہارے شہر میں بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم کہتے ہیں یہ طریق وہ ہے جو رات دن تمہارے ہاں جاری ہے اس پر اعتراض کیسا؟
پھر ہم بائبل کو دیکھتے ہیں تو اس میں بھی اس قسم کی مثالیں ملتی ہیں۔ چنانچہ پیدائش باب 18میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق آتا ہے :
’’پھر خدا وند ممرے کے بلوطوں میں اسے نظر آیا اور وہ دن کوگرمی کے وقت اپنے خیمہ کے دروازہ پر بیٹھا تھا اور اس نے اپنی آنکھیں اٹھا کر نظر کی اور کیا دیکھتا ہے کہ تین مرد اس کے سامنے کھڑے تھے۔ وہ ان کو دیکھ کر خیمہ کے دروازہ سے ان سے ملنے کو دوڑا اور زمین تک جھکا اور کہنے لگا کہ اے میرے خدا وند اگر مجھ پرآپ نے کرم کی نظر کی ہے تو اپنے خادم کے پاس سے چلے نہ جائیں بلکہ تھوڑا سا پانی لایا جائے اور آپ اپنے پائوں دھو کر اس درخت کے نیچے آرام کریں۔ میں کچھ روٹی لاتا ہوںآپ تازہ دم ہو جائیں تب آگے بڑھیں کیونکہ آپ اسی لئے اپنے خادم کے ہاں آئے ہیں۔ انہوں نے کہا جیسا تو نے کہا ہے ویسا ہی کر اورابراہام ڈیرے میں سارا کے پاس دوڑا گیا اور کہا کہ تین پیمانہ باریک آٹا جلدلے اور اسے گوندھ کر پھلکے بنا اور ابراہام گلہ کی طرف دوڑا اور ایک موٹا تازہ بچھڑا لا کر ایک جوان کو دیا اور اس نے جلدی جلدی اسے تیار کیا۔ پھر اس نے مکھن اور دودھ اس بچھڑے کو جو اس نے پکوایا تھا لے کر ان کے سامنے رکھا اور آپ ان کے پاس درخت کے نیچے کھڑا رہا اور انہوں نے کھایا ۔ پھر انہوںنے اس سے پوچھا کہ تیری بیوی سارہ کہاں ہے۔ اس نے کہا وہ ڈیرے میں ہے تب اس نے کہا میں پھر موسم بہار میں تیرے پاس آئوں گا اور دیکھ تیری بیوی سارہ کے بیٹا ہو گا (دیکھو یہاں پہلے خدا نظر آتا ہے۔ پھر تین مرد دکھائی دیتے ہیں اور وہ باتیں شروع کر دیتے ہیں مگر یکدم ان کی گفتگو میں ہی پھر یہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ میں پھر موسم بہار میں تیرے پاس آئوں گا) اس کے پیچھے ڈیرے کا دروازہ تھا ۔ سارہ وہاں سے سن رہی تھی اور ابرہام اور سارہ ضعیف اور بڑی عمر کے تھے۔اور سارہ کی وہ حالت نہیں رہی تھی جو عورتوں کی ہوتی ہے۔ تب سارہ نے اپنے دل میں ہنس کر کہا کیا اس قدر عمر رسیدہ ہونے پر بھی میرے لئے شادمانی ہوسکتی ہے۔ حالانکہ میرا خاوند بھی ضعیف ہے۔ پھر خدا وند نے ابرہام سے کہا (اب پھر میں کی بجائے خدا وند ہو گیا ہے) کہ سارہ کیوں یہ کہہ کر ہنسی کہ کیا میرے جو ایسی بڑھیا ہو گئی ہوں واقعی بیٹا ہوگا ۔ کیا خداوند کے نزدیک کوئی مشکل ہے۔ موسم بہار میں معین وقت پر میں تیرے پاس پھر آئوں گا اور سارہ کے بیٹا ہو گا۔ تب سارا انکار کر گئی کہ میں نہیں ہنسی کیونکہ وہ ڈرتی تھی پر اس نے کہا نہیں تو ضرور ہنسی تھی۔‘‘
(پیدائش باب 18آیت 1تا 15)
اس حوالہ کو دیکھو۔ پہلے یہ کہا گیا ہے کہ ابراہیم ؑ کو خدا نظر آیا۔ پھر خدا کی بجائے تین مرد کہا گیا اور انہوں نے گفتگو شروع کر دی اور کھانا بھی کھایا۔ اس کے بعد پھر تینوں غائب ہو گئے اور ذکر اس طرح شروع کیا گیا کہ ’’ اس نے کہا میں پھر موسم بہار میں تیرے پاس آئوں گا‘‘۔ یعنی پھر تین کا ذکر ایک شخص کے طور پر کرنا شروع کر دیا گیا اور ان کے لئے ضمیر ’اس‘ اور ’’میں‘‘ کی استعمال کی گئی۔ مگر آگے چل کہہ دیا گیا کہ ’’خدا وندنے ابرہام سے کہا کہ سارہ کیوں یہ کہہ کر ہنسی کہ کیا میرے جو ایسی بڑھیا ہو گئی ہوں واقعی بیٹاہو گا‘‘۔ پس اس میں تو عیسائیوں کے لئے کوئی تعجب کی بات نہیں۔ لیکن اگر قرآن نے ایک جگہ یہ کہہ دیا کہ ملائکہ نے زکریا کو خبر دی تھی اور دوسری جگہ یہ کہہ دیا کہ خدا نے اسے خبر دی تھی تو اس میںان کے نزدیک بڑے تعجب کی بات ہے۔ حالانکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اس میں نہ کوئی اختلاف ہے اور نہ تعجب کی بات ہے۔ انجیل میں بے شک ایک فرشتے کا ذکر آتا ہے مگر جیسا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے اہم کلام کے ساتھ کئی فرشتے نازل ہوا کرتے ہیں گو کلام ایک ہی فرشتہ کرتا ہے۔ پس ہم بائبل کے بیان کو بھی غلط نہیں کہتے۔ اس نے بھی ٹھیک کہا اور قرآن نے جو کچھ کہا وہ بھی ٹھیک کہا۔
(3) انجیل میں لکھا ہے کہ وہ مسیح کے لئے بطور ارہاص ہو گا مگر قرآن میں اس کا ذکر نہیں۔ یہ بھی ایک اختلاف ہے جو عیسائیوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک اس کا یہاں ذکر نہیں مگر سورئہ آل عمران میں لکھا ہے مصدقا بکلمۃ من اللہ (آل عمران ع 3 ) پس اختلاف کوئی نہ رہا۔ انجیل میں لکھا ہے کہ وہ ایلیاہ کی روح اور اس کی قوت میں مسیح کے آگے آگے چلے گا اور قرآن نے یہ کہا ہے کہ وہ اپنی آمد سے ایک پیشگوئی کو پورا کرے گا جو صحف سابقہ میں پائی جاتی ہے اور یہ ضروری نہیں ہوتا کہ سب واقعہ ایک ہی جگہ بیان ہو۔ بائبل میں بھی کوئی ٹکرہ کسی جگہ پایا جاتا ہے اور کوئی کسی جگہ۔
(4) قرآن میں لکھا ہے کہ زکریا کو تو تین دن خاموش رہنے کانشان دیا گیا (خواہ خود خاموش رہنے کا یا خداتعالیٰ کی طرف سے زبان بند ہو جانے کا) مگر بائبل کہتی ہے کہ ان کی زبان بطور سزا بند رہی اور یحییٰ ؑ کی پیدائش کے بعد ان کے ختنہ کے دن تک وہ گونگے رہے۔ آخر ختنہ کے دن جب انہوںنے یہ لکھ کر دیا کہ اس کا نام یحییٰ رکھو تب ان کی زبان کھلی۔ (لوقا باب 1آیت 64)
ان دونوں میں اختلاف تو ہے لیکن خود سوچ لو کہ عقل اور فطرت کسے سچا بتاتی ہے۔ ایک نبی یا بائبل کے بیان کے مطابق کاہن پر (جو ایسا ہی مقام رکھتا ہے جیسا ہمارے ہاں محدث کا مقام ہوتا ہے) خداتعالیٰ ابراہیمی انعام نازل کرتا ہے یعنی جس طرح ابراہیم ؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں بیٹے کا وعدہ کیا تھا اسی طرح زکریا ؑ کے ساتھ اس نے بیٹے کا وعدہ کیا ایسے بیٹے کاجو بقول مسیح ؑ سب نبیوں کا موعود تھا اور اس نے ضرور پیدا ہونا تھا۔ کیونکہ اس کے بغیر مسیح ؑ پیدا نہیں ہو سکتے تھے۔ لیکن محض زکریا کے اس قول پر کہ میں بھی بوڑھا ہوں اور میری بیوی بھی بوڑھی ہے بچہ کہاں سے ہو گا اس پر یہ عذاب نازل کیا جاتا ہے کہ اسے دس ماہ کے لئے گونگا کر دیا جاتا ہے حالانکہ بائبل سے ثابت ہے کہ یہی فعلِ سرّی زوجہ ابراہیم ؑ نے بھی کیا تھا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ
’’ سارہ نے اپنے دل میں ہنس کر کہا کیا اس قدر عمر رسیدہ ہونے پر بھی میرے لئے شادمانی ہو سکتی ہے حالانکہ میرا خاوند بھی ضعیف ہے‘‘
(پیدائش باب 18 آیت 12)
لیکن اس پر کوئی عذاب نازل نہیں ہوا اور خداتعالیٰ نے اس کو ایک دن کے لئے بھی گونگا نہیں کیا۔ حالانکہ اگر یہ فعل جرم تھا تو اس جرم کے بدلہ میں یہی عذاب سارہ پر بھی نازل ہونا چاہئے تھا۔ مگر اس پر توکوئی عذاب نازل نہیں ہوا اور زکریا ؑ نے یہی بات کہی تو اسے دس ماہ کے لئے گونگا کر دیا گیا۔
پھر بائبل سے ہی ثابت ہے کہ زکریا کا یہ قول انکار کے طور پر نہ تھا بلکہ محض اظہار تعجب کے طور پر تھا یعنی کتنی بڑی عظمت اور شان کا نشان ہے۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ لوقا میں فرشتہ کا یہ قول درج ہے کہ ’’ اے زکریا مت ڈر کہ تیری دعا سنی گئی‘‘
(لوقا باب 1آیت 13)
اب سوال یہ ہے کہ کیا زکریا اس دن بوڑھے ہوئے تھے یا زکریا کی بیوی اس دن بوڑھی ہوئی تھیں وہ لازماً چھ مہینے یا سال دو سال پہلے بوڑھے ہو چکے تھے اور اگر یہ بات انہیں قطعی طور پر ناممکن نظر آتی تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے ہاں بیٹا پیدا ہی نہیں ہو سکتا تو وہ اس قسم کی دعا کرتے ہی کیوں؟ ان کا دعا کرنا اور بائبل میں فرشتے کا یہ قول درج ہونا کہ ’’ اے زکریا مت ڈر کہ تیری دعا سنی گئی‘‘ بتاتا ہے کہ زکریا کا اس بات پر ایمان تھا کہ خدا ایسا کر سکتا ہے۔ زکریا جانتا تھا کہ میں بوڑھا ہو چکاہوں۔ زکریا جانتا تھا کہ میری بیوی بھی بوڑھی ہو چکی ہے۔ مگر وہ یہ بھی یقین رکھتا تھا کہ خداتعالیٰ بڑی قدرتوں کا مالک ہے۔ اس لئے وہ اس سے دعائیں کرتا رہتا تھا۔ پس جب اس کی دعا کی قبولیت کی اطلاع اسے ملی تو وہ حیرت و استعجاب کا شکارتو ہو سکتا تھا کہ خداتعالیٰ ایسا قادر ہے کہ ایسی غیر معمولی دعا بھی سن سکتا ہے مگر وہ منکر اور متردد نہیں ہو سکتا تھا اور سزا منکر اور متردد کو ملا کرتی ہے۔ حیرت اور ستعجاب ظاہرکرنے والے کو انعام ملا کرتا ہے۔ پس بائبل کی اپنی شہادت قرآنی معنوں کی تائید کرتی ہے کہ زکریا نشان کا طالب ضرور ہوا مگر انکار کا مرتکب نہیں ہوا۔ پس بائبل کا یہ بیان کہ اسے سزا ملی اور وہ دس ماہ تک گونگا رہا غلط ہے اور قرآن کریم کا یہ بیان ہی درست ہے کہ صرف تین دن تک اس نے کلام نہ کیا۔ اور یہ خاموشی ذکر الٰہی کے لئے تھی نہ کہ بطور سزا کے۔ جیسا کہ سورئہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایتک الا تکلم الناس ثلثۃ ایام الا رمزا واذکر ربک کثیر ا وسبح بالعشی والابکار (آل عمران 4رکوع) یعنی تیرے لئے حکم یہ ہے کہ تو لوگوں سے تین دن تک کلام نہ کرے سوائے اشارہ کے اور بجائے لوگوں سے باتیں کرنے کے ان ایام میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرتے رہو اور صبح اور شام اس کی تسبیح کرو۔ چونکہ تین دن انہوں نے ذکر الٰہی کرنا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دے دیا کہ ان دنوں میں اور باتیں نہ کرو ۔ ورنہ اسے کوئی بیماری نہیں تھی۔ چنانچہ قرآن کریم نے اسی الزام کو دور کرنے کے لئے جو انجیل نے حضرت زکریا پر لگایا ہے کہ وہ گونگے ہو گئے تھے فرمایا ایتک الا تکلم الناس ثلث لیال سویا۔ تیرا نشان یہ ہے کہ تو تین دن رات کلام نہیں کرے گا مگر ہو گا بے عیب اور تندرست (سویا) کوئی بیماری تجھے نہیں ہو گی۔ اب دیکھ لو قرآنی بات کتنی سچی نظر آتی ہے کہ خدا نے جب حضرت زکریا کی دعا قبول کی تو انہوں نے کہا خدایا اب مجھے بھی شکریہ کا موقع دیجئے۔ خدا نے کہا تین دن مسجد میںاعتکاف بیٹھو اور ذکر الٰہی میں مشغول رہو یہ تمہاری طرف سے ہمارے شکریہ کا ایک نشان ہوگا لیکن بائبل کا بیان عقلاً بھی غلط ہے یعنی دلیل کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔
قرآن کریم اور بائبل میں یہ ایک نمایاں فرق ہے کہ بائبل ہمیشہ انبیاء پر گناہ کا الزام لگانے پر دلیر ہوتی ہے۔ مگر ایسے ہر الزام کی قرآن کریم تردید کرتا ہے۔ مثلاً بائبل میں لکھا ہے کہ ہارون نے شرک کیا (خروج باب 32آیت 1تا 6) قرآن کہتا ہے کہ اس نے شرک نہیں کیا۔ بائبل کہتی ہے کہ زکریا نے خدا کی قدرت کا انکارکیا تو اسے سزا ملی (لوقا باب 1آیت 20، 21) قرآن کہتا ہے کہ اس نے خدائی وعدہ کو سن کر چاہا کہ اسے شکریہ کا کوئی کام بتایا جائے چنانچہ خداتعالیٰ نے تین دن چپ کا روزہ رکھنے اور ذکر الٰہی کی کثرت کا ارشاد فرمایا اور اس عرصہ میں ان پر نہ کوئی عذاب آیا نہ بیماری ہوئی۔
اسی طرح بائبل نے حضرت سلیمان ؑ کو مجرم اور عیاش اور بے دین قرار دیا ہے (نمبر1سلاطین باب 11آیت 1تا 6) لیکن قرآن کریم نے ان کو راستباز اور مومن اور نیک قرار دیا ہے۔ یہ کتنا بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ قرآنی تاریخ سچی ہے اور بائبل کی روایات مخدوش۔ اگر یہ لوگ جن کا ذکر ہے خدا کے برگزیدہ تھے تو پھر ان سے ان افعال کا ارتکاب نہیں ہو سکتا اور اگر برگزیدہ نہ تھے تو پھر نبیوں میں ان کا ذکر کرنا حماقت ہے۔ عجیب بات ہے کہ وہی باتیں جو بائبل میں نبیوں کی نسبت لکھی ہیں عوام الناس یا پادریوں کے ماں باپ کی نسبت کہی جائیں تو وہ لڑنے مرنے پر تیار ہو جائیں گے مگر دلیری سے ان باتوں کو نبیوں کی نسبت تسلیم کر لیتے ہیں۔
(5) بائبل کہتی ہے کہ جب مریم حاملہ ہوئیں اور یوحنا کی ماںکے پاس گئیں تو یوحنا کی ماں روح القدس سے بھر گئیں اور بولیں کہ ’’یہ کیونکر ہوا کہ میرے خدا وند کی ماں میرے پاس آئی کہ دیکھ تیرے سلام کی آواز جونہی میرے کان تک پہنچی لڑکا میرے پیٹ میں خوشی سے اچھل پڑا۔‘‘ (لوقا باب 1آیت 43، 44)لیکن قرآن کہتا ہے کہ اتینہ الحکم صبیا (مریم آیت 1) اور یہ کہ سیدا و حصورا (آل عمران آیت رکوع4) یعنی اس کو خدا نے روحانی طاقت اور روحانی حکمت اور روحانی بادشاہی بچپن سے ہی عطا فرمائی تھی۔ اور یہ کہ وہ سردار تھا اور ہر قسم کی بدیوں سے پاک اور منزہ تھا۔ گویا عیسائیوں کے نزدیک اختلاف یہ ہے کہ بائبل تو یحییٰ کو مسیح ؑ کا غلام قرار دیتی ہے مگر قرآن کہتا ہے کہ یحییٰ سید تھا اور بچپن سے ہی اسے سرداری عطا کی گئی تھی۔
اس کاجواب یہ ہے کہ انجیل کے دوسرے حوالوں سے ظاہر ہے کہ لوقا کا بیان محض زیب داستان کے لئے ہے ورنہ حقیقت سے اسے دور کا بھی تعلق نہیں۔ اگر یوحنا مسیح ؑ کا خادم تھا جیسا کہ لوقا نے اس واقعہ میں لکھا ہے تو کیا مصیبت پڑی تھی کہ مسیح ؑ یوحنا کا شاگرد ہوتا۔ اناجیل کے مصنفوں نے اپنے آقا کو عزت دینے کے لئے اس موقعہ پر سخت ظلم کئے ہیں۔ مثلا متی کہتا ہے کہ مسیح ؑ یوحنا سے بپتسمہ پانے کے لئے آیا اور اسے کہا کہ مجھے اپنا مرید بنائو تو یوحنا نے کہا کہ میں تجھ سے بپتسمہ پانے کا محتاج ہوں (متی باب 3آیت 14) یعنی حضور میرے استاد ہیں اور میں تو آپ کا شاگرد ہوں میں آپ کو کس طرح بپتسمہ دے سکتا ہوں۔ پھر یہ بات مسیح ؑ کے منہ میں بھی ڈالی گئی ہے کہ ’’اب ہونے دے کیونکہ ہمیں مناسب ہے کہ یوں ہی سب راستبازی پوری کریں‘‘ (انجیل متی بات 3آیت 15) یعنی ہے تو یہ ٹھیک کہ میں بڑا ہوں اور تو چھوٹا ہے لیکن چونکہ نبی خبر دے چکے ہیں اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ جواب کتنا غیر معقول ہے ۔ اگر مسیح یوحنا کی شاگردی سے بالا تھا تو نبیوں نے یہ پیشگوئی کیوں کی اور خداتعالیٰ نے ایسا مقدر کیوں کیا؟ یہ عجیب بات ہے کہ مسیح جاتا ہے یوحنا کی بیعت کرنے اور یوحنا آگے سے یہ کہتا ہے کہ میں کس کی بیعت لوں میں تو خود چھوٹا ہوں اور تو بڑا ہے اور مسیح کہتا ہے پہلے نبیوں سے غلطی ہو گئی ہے۔ ہے تو یہی درست کہ میں بڑا ہوں لیکن چونکہ وہ ایک بات کہہ چکے ہیں اس لئے اب اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہے۔
یہ ایسی ہی بات ہے جیسے شیعوں کا عقیدہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج کی رات خداتعالیٰ کے پاس گئے اور باتیں ہونے لگیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ حضور اتنی دور سے میں چل کر آیا ہوں اب دیدار تو کروا دیجئے۔ اس پر اللہ میاں نے پردہ اٹھایا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا دیکھا کہ حضرت علی ؓ بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا حضور نے اتنی تکلیف دے کر بلایا ۔ یہ دیدار تو نیچے بھی روزانہ ہو جاتا ہے۔ خداتعالیٰ نے کہا اس میں بھی راز ہوتے ہیں۔ اسی قسم کا راز یوحنا والے واقعہ میں ہے کہ مسیح یوحنا کے پا س ان کے مرید بننے کے لئے جاتے ہیں اور یوحنا کہتے ہیں توبہ توبہ بھلا مجھ میں یہ جرأت ہو سکتی ہے کہ میں آپ کی بیعت لوں اور حضرت مسیح کہتے ہیں کہ ہوں تو میں ہی سردار لیکن چونکہ نبیوں کے منہ سے ایک بات نکل چکی ہے اس لئے اس کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ کیا لغویت ہے۔ مرقس نے بھی اسی رنگ کو اختیار کیا ہے گو اوپر والی گفتگو اس نے بیان نہیں کی۔ لوقا نے بھی اس گفتگو کا تو ذکر نہیں کیا لیکن یوحنا کی شاگردی اور ماتحتی کا اوپر کے واقعہ میں اظہار کیا ہے۔ یوحنا نے مسیح کے یوحنا سے بپتسمہ پانے کا ذکر چھوڑدیا ہے مگر ان باتوں سے کیا بنتا ہے۔ تین اناجیل کہہ رہی ہیں کہ یوحنا نے مسیح کو بپتسمہ دیا جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ استاد بنا۔ بے شک مسیح اس سے بڑھ گیا مگر بڑھنے کے وقت بڑھا۔ اس سے پہلے تو وہ بہرحال یوحنا کا شاگرد تھا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے دنیا میں کئی شاگرد استا د سے بڑھ جاتے ہیں۔ استاد پرائمری پاس ہوتا ہے لیکن اس کا شاگرد ایم اے پاس کرلیتا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ جب وہ پرائمری میں پڑھ رہا ہو تو پرائمری کا استاد اسے پڑھانے سے انکار کر دے اور کہے کہ تو بڑا ہے اور میں چھوٹا ۔ بے شک جب وہ ایم اے ہو جائے گا تو استاد سے آگے نکل جائے گا۔ لیکن اس سے پہلے وہ اپنے استاد کی شاگردی سے انکار نہیں کر سکتا۔ پس یہ کہناکہ یوحنا نے پیٹ سے اس کی بڑائی کا اقرار کیا ایک عبث فعل ہے۔ اگر ایسا تھا تو اسے بپتسمہ پر مقرر ہی کیوں کیا گیا؟
قرآن نے جو بات بیان کی ہے کہ یوحنا مسیح کا مصدق تھا وہیری اپنی کتاب کی جلد 2ص 17میں اس پر سخت برافروختہ ہوا ہے کہ ایک ماتحت اور چھوٹے درجہ کے نبی کو مصداق قرار دیا گیا ہے۔ مگر یہ اس کی حماقت ہے ۔ جو کچھ قرآن نے کہا ہے وہ انجیل نے بھی کہا ہے اور بتایا ہے کہ وہ مسیح کے لئے بطورارہاص تھا۔
(6) قرآن کہتا ہے کہ مریم کے پاس رزق آتا تھا بائبل میں اس کا ذکر نہیں۔ اس اختلاف سے کچھ ثابت نہیں ہوتا یہ ایک طبعی امر ہے کہ لوگ بچوں کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ خصوصاً ان بچوں کو جو نذر کے ہوں اور لوگ ان کی خدمت کرتے ہیں۔ جو لوگ صحیح طور پر ان کی قدر سمجھتے ہیں وہ ان کا ادب اور احترام کرتے ہیں اور جو نہیں سمجھتے وہ انہیں صدقہ وغیرہ دے دیتے ہیں۔ اسی جذبہ کے ماتحت حضرت مریم کے لئے بھی لوگ مختلف تحائف لاتے ہوں گے۔ چنانچہ میور اور آرنلڈ نے اپنی کتب میں مسیحیوں کی روایات سے اس کے مشابہ باتیں نقل کی ہیں (دیکھو وہیری جلد 2ص16) اور انہوں نے اسے معجزانہ رنگ میں بیان کیا ہے۔ مگر اس کے یہ معنے بھی نہیں کہ ہم تفاسیر کے قصوں کو صحیح نہیں سمجھیں۔ مثلاً تفاسیر والے لکھتے ہیں کہ حضرت زکریا نے مریم کے پاس کھانا دیکھا تو انہیں شبہ ہوا کہ کوئی بدمعاش آتا ہے اور وہ اس قسم کی چیزیں پہنچاتا ہے۔ چنانچہ وہ مریم کو کمرہ میں بند کر دیتے تھے اور پھر سات دروازے آگے پیچھے بند کر دیتے تھے مگر رزق ان کے پاس پھر بھی آ جاتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مفسرین کو سات دروازوں سے کوئی خاص دلچسپی ہے کیونکہ یوسف ؑ کے واقعہ میںبھی وہ لکھتے ہیں کہ زلیخا نے سات دروازے بند کرکے یوسف کو ورغلانے کی کوشش کی۔ پس سات دروازوں سے مفرین کوکوئی خاص لگائو ہے۔ مریم کو بھی اگر روٹی آتی تھی تو سات بند دروازوں سے اور زلیخا اگر یوسف کو چھیڑتی تھی تو سات دروازے بند کرکے۔ قرآن نے صرف اتنا کہا ہے کہ حضرت زکریا نے ان کے پاس کھانے پینے کی چیزیں دیکھیں تو انہوں نے پوچھا کہ یہ چیزیں تمہیں کس نہ دی ہیں۔ حضرت مریم نے جواب دیا کہ اللہ نے۔ ایک معصوم بچی کے یہ الفاظ ان کے لئے دعا کا محرک بن گئے اور انہوں نے کہا کہ خدایا مجھے بھی ایک بچہ عطا فرما جو اپنے اندر روحانی اوصاف اور کمال رکھتا ہو۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہودی روایتوں سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے جیسا کہ میور اور آرنلڈ نے اپنی کتب میں بیان کیا ہے۔


(زکریانے) کہا اے میرے رب! میرے ہاںلڑکاکیسے ہو سکتا ہے حالانکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہائی حد کو پہنچ چکا ہوں۔ (الہام لانے والے فرشتہ نے) کہا کہ (جس طرح تو کہتا ہے واقعہ) اسی طرح(ہے) (مگر) تیرا رب کہتا ہے کہ یہ (بات) مجھ پر آسان ہے اور (دیکھ کہ)میں تجھے اس سے پہلے پیدا کر چکا ہوں حالانکہ تو کچھ بھی نہیں تھا۔
حل لغات :
عتی عتی سے بنا ہے اور عتا کے معنے حد سے نکل جانے کے ہیں۔ عاتیاسم فاعل ہے۔عتی بھی عاتی کے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے۔ امام راغب کہتے ہیں کہ آیت من الکبر عیتا میں عتی سے مراد بڑھاپے کی اس حالت کے ہیں جس کا کوئی مداو ا اور علاج نہیں ہو سکتا۔
تفسیر :
حضرت زکریا کو جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ملی کہ ان کے ہاں لڑکا پیدا ہو گا تو انہوں نے کہا اے میرے رب انّٰی یکون لی غلم میرے ہاں کس طرح بیٹا پیدا ہو گا وکانت امراتی عاقرا حالانکہ میری بیوی بانجھ ہے و قد بلغت من الکبر عیتا اور میں بڑھاپے کی انتہاء کو پہنچ چکاہوں۔
غلام ہونے میں دو باتیں پائی جاتی تھیں۔ اول یہ کہ بیٹا ہو اور دوسرے یہ کہ کہولت کی عمر تک پہنچنے والا ہو۔ اور پھر جب کسی شخص کو بیٹے کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ تم بھی اس کی زندگی کا اچھا حال دیکھو گے۔ حضرت زکریا اتنے عظیم الشان انعام کے وعدہ پر استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اول تو میں بوڑھا اور میری بیوی بانجھ اور پھر میں حد درجہ کا بوڑھا لیکن مجھے یہ بتایا جاتا ہے کہ میرے ہاں بیٹا ہو گا اور اس کی پیدائش کے بھی کچھ عرصہ بعد تک میں زندہ رہوں گا اور اس کی تربیت کر سکوں گا۔ گویا یہ ذوالعجائب الہام ہے۔ قال کذالک اس نے کہا اسی طرح ہو گا قال ربک ھو علی ھیّن۔ تیرا رب کہتا ہے کہ یہ بات مجھ پر آسان ہے۔
ہمارے مفسرین نے اس جگہ عیسائیوں سے ڈر کر یہ لکھا ہے کہ قال کذالک میں فرشتہ کے قول کا ذکر ہے اور قال ربک میں اللہ تعالیٰ کی بات بیان کی گئی ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں کثرت سے ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ حاضر کا صیغہ استعمال ہو رہا ہوتا ہے مگر وہ غائب میں بدل جاتا ہے اور غائب کا صیغہ استعمال ہو رہا ہوتا ہے اور پھر وہ حاضر میں بدل جاتا ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ قال کذالک کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ یہ فرشتہ کا قول ہے اور اگلے حصہ کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فرشتہ اگر کچھ کہتا ہے تو وہ بھی خداتعالیٰ کی طرف ہی منسوب ہوتا ہے کیونکہ فرشتہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ خداتعالیٰ کا کلام دوسرے تک پہنچاتا ہے۔ پس اس امتیاز کی کوئی ضرورت نہیں اگر فرشتہ نے یہ کہا تھا کہ اسی طرح واقعہ ہو گا تب بھی اس نے خداتعالیٰ کی طرف سے ہی کہا تھا اپنی طرف سے نہیں کہا۔ پس یہ بات بھی خداتعالیٰ کی طرف ہی منسوب ہو گی۔ درحقیقت قال کذالکاورقال ربک میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ دونوں باتوں کو تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی سمجھو کہ اس کلام کا منبع خدا تھا اور جہاں خود کلام کرے وہاں یہ سمجھو کہ اب اس نے براہ راست کلام کیا ہے۔
وقد خلقتک من قبل ولم تک شیئا اور اس سے پہلے میں نے تجھے پیدا کیا تھا اور توکچھ بھی نہیں تھا۔ میرے نزدیک یہاں جسمانی پیدائش مراد نہیں کیونکہ جسمانی پیدائش زکریا سے خاص طور پر تعلق نہیں رکھتی تھی۔ اگر پیدائش جسمانی کا ذکر ہوتا تو خلقتک کی بجائے یہ کہنا چاہئے تھا کہ ساری دنیا کو میں نے پیدا کیا ہے حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں تھی ۔ مگر یہاں حضرت زکریا کو خاص طور مخاطب کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جسمانی پیدائش کا ذکر نہیں بلکہ درحقیقت اس طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کا لم نجعل لہ من قبل سمیا میں ذکر آتا ہے کہ ہم تجھے ایک غیر معمولی بیٹا عطا فرمائیں گے جو بعض باتوں میں بے مثل ہو گا۔ اول بیٹا ہونا اور پھر بعد تک زندہ رہنے والا بیٹا ہونا اور پھر غیر معمولی شان کا بیٹا ہونا یہ ساری باتیں اپنے اندر حیرت انگیز رنگ رکھتی تھیں۔ قال کذالک قال ربک ھو علی ھین میں اللہ تعالیٰ نے پہلی دو باتوں کا جواب دے دیا تھا۔ اب تیسری بات کا جواب دیتا ہے کہ تمہاری بھی پہلے کوئی حیثیت نہیں تھی مگر پھر ہم نے تمہیں علوم بخش دئیے ۔ اسی طرح ہم میں یہ بھی طاقت ہے کہ ہم تیرے بیٹے کو بھی علوم عطا فرما دیں۔

ترجمہ۔ (زکریا نے )کہا اے میرے رب! میرے لئے کوئی حکم بخش۔ فرمایا تیرے لئے یہ حکم ہے کہ تو لوگوںسے تین راتیں متواتر کلام نہیں کرے گا (یعنی کلام نہ کرنا) ۔
تفسیر :
آیت کے معنے قرآن کریم میں کئی مقامات پر حکم کے بھی آئے ہیں۔ آیات قرآنیہ کو بھی اسی وجہ سے آیات کہا جاتا ہے کہ ان میں احکام الٰہیہ کا بیان ہوتا ہے پس رب اجعل لہ ایۃ کے یہ معنے ہیں کہ خدایا مجھے کوئی حکم دے جس کی میں تعمیل کروں۔ یعنی تو نے جو مجھ پر یہ احسان فرمایا ہے میں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اب تو مجھے کوئی ایسا حکم دے جو تیرے شکر کی ایک ظاہری علامت ہو اور جس کو پورا کرکے میرا دل خوش ہو جائے کہ میں نے رب کا حکم پورا کر دیا ہے۔
بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں آئندہ کی خبروں کے لئے نشان مقرر ہوتے تھے جن میں سے بعض نشان تو آسمانی ہوتے تھے اور بعض میں صرف عبادت کا حکم ملتا تھا۔ چنانچہ پیدائش باب 9میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے حضرت نوح اور ان کی اولاد سے آئندہ سب دنیا پر طوفان نہ لانے کا عہد کیا اور اس کے لئے قوس قزح کو نشان مقرر کیا۔ بائبل کے الفاظ یہ ہیں کہ: -
’’ خدا نے نوح اور اس کے بیٹوں سے کہا کہ دیکھو میں خود تم سے اور تمہارے بعد تمہاری نسل سے اور سب جانداروں سے جو تمہارے ساتھ ہیں۔ کیا پرندے کیا چوپائے۔ کیا زمین کے جانور یعنی زمین کے ان سب جانوروں کے بارے میں جو کشتی سے اترے عہد کرتا ہوں۔ میں اس عہد کو تمہارے ساتھ قائم رکھوں گا کہ سب جان دار طوفان کے پانی سے پھر ہلاک نہ ہوں گے اور نہ کبھی زمین کو تباہ کرنے کے لئے پھر طوفان آئے گا اور خدا نے کہا کہ جو عہد میں اپنے اورتمہارے درمیان اور سب جانداروں کے درمیان جو تمہارے ساتھ ہیں پشت در پشت ہمیشہ کے لئے کرتا ہوں اس کا نشان یہ ہے کہ میں اپنی کمان کو بادل میں رکھتا ہوں ۔وہ میرے اور زمین کے درمیان عہد کا نشان ہو گی اور ایسا ہو گا کہ جب میں زمین پر بادل لائوں گا تو میری کمان بادل میں دکھائی دے گی اور میں اپنے عہد کو جو میرے اور تمہارے اور ہرطرح کے جاندار کے درمیان ہے یاد کروں گا اور تمام جاندار وں کی ہلاکت کے لئے پانی کا طوفان پھر نہ ہوگا اور کمان بادل میں ہو گی اور میں اس پر نگاہ کروں گا تاکہ اس ابدی عہد کو یاد کروں جو خدا کے اور زمین کے سب طرح کے جاندار کے درمیان ہے۔ پس خدا نے نوح سے کہا کہ یہ اس عہد کا نشان ہے جو میں اپنے اور زمین کے کل جانداروں کے درمیان قائم کرتا ہوں۔‘‘ (پیدائش باب 9آیت 9تا 17)
یہ روایت گو بگڑی ہوئی ہو مگر بہرحال اس سے یہود کی روایات اور ان کے دستور کا علم ہو جاتا ہے اور پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ جب کوئی عہد کرتا تھا تو اس کے پورا ہونے کا وہ کوئی ظاہری نشان بھی مقرر کر دیتا تھا۔ اسی طرح بعض دفعہ ایسا نشان مقرر کیا جاتا تھا جس کا کرنا خود بندے کے اختیار میں ہو۔ چنانچہ پیدائش باب 17آیت 9تا 11میںلکھا ہے کہ خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ
’’تو میرے عہد کو ماننا اور تیرے بعد تیری نسل پشت در پشت اسے مانے اور میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کیا کرنا اور یہ اس عہد کانشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔‘‘
اسی طرح حزقی ایل باب 20میں سبت کو ایک نشان قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ
’’میرے سبتوں کو مقدس جانو کہ وہ میرے اور تمہارے درمیان نشان ہوں تاکہ تم جانو کہ میں خدا وند تمہارا خدا ہوں۔‘‘
ان حوالجات سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں کسی نیک کام کا کرنا پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے لئے ایک ظاہری نشان سمجھا جاتا تھا۔ اسی رنگ میں حضرت زکریا نے بھی خداتعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی مجھے کوئی نشان دیا جائے یعنی مجھے کوئی ایسا حکم دیاجائے کہ جب میں اسے پورا کر وں تو یہ وعدہ اٹل ہو جائے کیونکہ جب بندہ اپنا وعدہ پورا کر دے تو اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ ضرور پورا کرتا ہے اور اس کوکسی اور رنگ میں نہیں بدلتا۔
قال ایتک الا تکلم الناس ثلث لیال سویا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا تیرے لئے وہ حکم جو اس بات کی علامت ہو گا کہ تو نے خدا کا شکر ادا کر دیا ہے یہ ہے کہ تو لوگوں سے تین راتیں کلام نہیں کرے گا اس حالت میں کہ تو تندرست اور بے عیب ہو گا اور بغیر کسی بیماری کے ہو گا۔ اور ان دنوں میں ذکر الٰہی کرتا رہے گا۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ کہ ایتک الا تکلم ثلث لیال بلکہ فرمایاہے الا تکلم الناس تو لوگوں سے کلا م نہیں کرے گا۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کامل صرف انسانوں سے ہی نہیں بلکہ خداتعالیٰ سے بھی باتیں کیا کرتا ہے ۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت زکریا علیہ السلام نے خداتعالیٰ سے کتنی لمبی باتیں کی ہیں کہ رب انی وھن العظم منی واشتعل الرأس شیبا ولم اکن بدعائک رب شقیا o وانی خفت الموالی من وراء ی وکانت امراتی عاقرا فھب لی من لدنک لیا o یرثنی ویرث من ال یعقوب واجعلہ ربرضیا o یہ تمام باتیں کسی آدمی سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ سے کی گئی ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے بعض دفعہ فرشتوں سے بھی ہمکلام ہوتے ہیں ۔ پس الناسکے لفظ نے اس کلام کا اسثناء کر دیا جو خدا اور اس کے ملائکہ سے کی جاتی ہے اور اس طرف اشارہ کر دیا کہ یہ صر ف ایک روز تھا جس میں انہیں خاموشی کے ساتھ ذکرالٰہی کرنے کی تاکید کی گئی تھی۔ یہ نہیں کہ ان کی زبان ماری گئی تھی۔ اگر زبان ماری جاتی تو لا تکلمکہنا چاہئے تھا مگر کہا یہ گیا ہے کہ الا تکلم الناستوان تین راتوں میں لوگوں سے کلام نہیں کرے گا یعنی ان تین راتوں میں لوگوں سے کلام نہ کیجیئو۔ گویا تو خدا کے لئے اپنے اوپر یہ واجب کر لے گا کہ میں نے تین رات دن لوگوں سے گفتگو نہیں کرنی حالانکہ تو تندرست ہو گا اور تجھ طاقت ہو گی کہ تو باتیں کرے۔
یہاں خداتعالیٰ کے ایک وعدے کو اس کے ایک حکم کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا ہے۔ اس میں حکم یہ ہے کہ اگر بندہ وہ حکم پورا کر دے جو خداتعالیٰ کی طرف سے اسے دیا گیا ہے تو وہ وعدہ کسی صورت میں بھی ٹل نہ سکے اور وہ بہرحال پورا ہو جائے۔
اسی طرح ثلاث لیال سے صرف تین راتیں مراد نہیں بلکہ دن بھی ساتھ ہی مراد ہیں۔ جیسے حضرت موسیٰ علی السلام کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ووعدنا موسی ثلثین لیلۃ (اعراف ع 17) ہم نے موسیٰ ؑ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا حالانکہ وہاں دن بھی مراد ہیں۔ پس یہاں بھی تین راتوں سے تین رات دن مراد ہیں نہ کہ صرف تین راتیں۔

ترجمہ : اس کے بعد(زکریا) محراب سے نکل کر اپنی قوم کے پاس گئے۔ اور انہیں آہستہ آواز میں کہاکہ صبح اور شام خداتعالیٰ کی تسبیح کرتے رہو ۔
حل لغات :
محراب کے معنے چوبارہ کے بھی ہوتے ہیںاور محراب کے معنے گھر کے اچھے حصہ کے بھی ہوتے ہیں۔ مسجد کے محراب کو اسی لئے محراب کہتے ہیں کہ وہاں امام کھڑا ہوتا ہے جو سب سے زیادہ معزز ہوتا ہے اور محراب اس جگہ کو بھی کہتے ہیںجہاں بادشاہ علیحدگی میںمسائل پر غور کرنے کے لئے بیٹھتے ہیں اور عوام کو وہاں آنے کی اجازت نہیں ہوتی اور قلعہ کو بھی محراب کہتے ہیں اور شیر کی کچھار کو بھی محراب کہتے ہیں۔ (اقرب)
اوحی الیہ ایحاء کے معنے ہوتے ہیں ۔ بعثہ اس کو مبعوث کیا۔ اسی طرح اوحی بکذا کے معنے ہوتے ہی الھمہ بہ ۔ اس کو کسی بات کی خبر دی اور اساس میں لکھا ہے کہ وحیت الیہ واوحیت اذا کلمتہ بما نخفیہ من غیرہ یعنی وحیت الیہ اور اوحیت کے معنے ہوتے ہیں ایسی طرز پر بات کرنا کہ دوسرے اس کو نہ سنیں۔ اور مصباح ؔمیں ہے کہ بعض العرب یقول وحیت الیہ ووحیت لہ و اوحیت الیہ ولہ یعنی بعض اہل عرب کے نزدیک و حیت الیہ اور وحیت لہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ معنے سب کے ایک ہی ہیں۔ پس اوحی کے معنے صرف اشارہ کرنے کے نہیں بلکہ اس سے مراد کسی سے ایسے رنگ میں بات کرنا ہے کہ دوسرے لوگ نہ سنیں۔
بکرۃصبح سے دوپہر تک کو کہتے ہیں۔اور عشیادن کے آخری حصہ کو کہتے ہیں۔ بعض زبان دان کہتے ہیں کہ مغرب سے عشاء تک کے وقت کے لئے عشی کا لفظ بولا جاتا ہے (اقرب)
تفسیر :
حضرت زکریا ؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب تین رات دن خاموش رہ کر ذکر الٰہی کرنے کی ہدایت ہوئی تو انہوں نے نیت کرلی کہ میں اب کوئی بات نہیں کروں گا اور خدا کے ذکر میں مشغول رہوں گا۔ چنانچہ وہ اپنے کمرہ میں سے یا مسجد کے اس حصہ میں سے جہاں امام کھڑا ہوتا ہے باہر آئے اور انہوں نے ایسے رنگ میں بات کی کہ غیر لوگ اس کو نہ سنیں گویا نہایت آہستگی سے اپنے دوستوں کے پاس کھڑے ہو کر بات کی تاکہ غیر لوگ نہ سنیں۔ ا س سے بھی معلوم ہوا کہ ان کے گونگے ہونے کا کوئی سوال نہیں تھا صرف ایسے رنگ میں بات کرنا مراد تھا کہ دوسروں کو سنائی نہ دے۔
سورئہ آل عمران میں اوحی الیھم کی بجائے رمزا کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایتک الا تکلم الناس ثلثۃ ایام الا رمزا (آل عمرا ع4) رمزا کے معنے چونکہ عام طور پر اشارہ کے ہوتے ہیں س لئے انجیل سے متاثر ہوکر ہمارے مفسرین نے بھی ا س کے معنے اشارہ کے کر لئے ہیں حالانکہ لغت والے لکھتے ہیں کہ اس کے معنے ہونٹوں سے یا آنکھوں سے یا بھووں سے اشارہ کرنے کے ہیںاور ظاہر ہے کہ ہونٹوں سے انسان اشارہ نہیں کیا کرتا صرف آہستگی سے گفتگو کیا کرتا ہے ۔ پس ہونٹوں کے اشارہ کا مطلب بھی یہی ہے کہ صوت نہ نکلے جیسے کسی کا گلا خراب ہو تو کہا جاتا ہے کہ تم اس طرح بولو کہ تمہاری آواز نہ نکلے۔ بلکہ ثعالبی جو لغت کے امام ہیں وہ تو اپنی کتاب فقہ اللغۃ میں لکھتے ہیں کہ ھومختصل بالشفۃ رمز کا لفظ ہونٹوں سے اشارہ کرنے کے لئے مخصوص ہے۔ (اقرب و فقہ اللغۃ فصل فی تفصیل تحریکات مختلفۃ) یعنی صرف ہونٹ سے بولنا گلا استعمال نہ کرنا اور یہ معنے اوحی الیھم کے بالکل مطابق ہیں یعنی اونچا بولنا ان کو منع تھا۔ ہونٹوں میں یعنی آہستہ کلام کر سکتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اجازت تھی۔ چونکہ خدائی ارشاد پہنچانے کے لئے بعض قریبی لوگوں کو بتانا ضروری تھا اس لئے انہوں نے آہستگی سے کہہ دیا کہ میں خدائی حکم کے ماتحت تین دن ذکر الہٰی کروں گا تم بھی صبح و شام ذکر الٰہی کرو۔
بکرۃ چونکہ صبح سے لے کر دوپہر تک کے وقت کو کہتے ہیں اور عشیا کا لفظ زوال سے لے کرر ات تک کے وقت پر استعمال ہوتا ہے اس لئے بکرۃ و عشیا سے مراد یہ ہے کہ تم سارا دن عبادت کرو۔ میں بھی یہ ایام عبادت میں بسر کروں گا ۔


(اس کے بعد یحییٰ پیدا ہو گیا اور ہم نے اسے کہا) اے یحییٰ ! تو (الٰہی) کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لے اور ہم نے اسے چھوٹی عمر میں ہی (اپنے) حکم سے نواز تھا۔ (اور یہ بات) ہماری طرف سے بطور مہربانی (اور شفقت کے تھی) اور (اسے )پاک کرنے کے لئے (تھی)اور وہ بڑ امتقی تھا ۔
حل لغات :
حنان کے کئی معنے ہیں اس کے معنے رحمت کے بھی ہیں۔ رزق کے بھی ہیں۔ برکت کے بھی ہیں۔ دل کی نرمی کے بھی ہیں۔ ہیبت کے بھی ہیں اور وقار کے بھی ہیں(اقرب) اس جگہ حنانا من لدنا کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے اسے دل کی نرمی بخشی۔
تفسیر :
اس آیت سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ تورات اور اس کے صحیفے اس وقت تک منسوخ نہیں ہوئے تھے کیونکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام پر کسی نئی کتاب کے اترنے کے نہ مسلمان قائل ہیں اور نہ عیسائی۔ پس الکتب سے مراد تورات ہی ہے جس کومضبوطی سے پکڑنے کا حضرت یحییٰ علیہ السلام کو حکم ہوا اور پھر آگے مسیح نے بھی یوحنا سے بپتسمہ لیا۔ گویا اسی کے دین کی اتباع کا اقرار کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کوئی نئی کتاب نہیں لائے کیونکہ جب ایک ہی زمانہ میں دو نبی ظاہر ہو رہے تھے اور ایک ہی قوم کی طرف آنے والے تھے اور ایک دوسرے کا شاگر دہونے والا تھا تو کس طرح ممکن تھا کہ ایک تو تورات پر مضبوطی سے قائم ہو اور دوسرا اس شریعت کو منسوخ کرکے ایک اور کتاب لے آئے۔ پس یہ الفاظ اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ موسوی شریعت ابھی جاری رہنے والی تھی۔ اگر وہ مسیح ؑ کے ذریعہ منسوخ ہونے والی ہوتی تو اتنی شدت کے ساتھ نہ کہا جاتا کہ خذاالکتب بقوۃ ۔ اس کتاب پر مضبوطی کے ساتھ عمل کرو۔ یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اس وقت تک بنی اسرائیل کے لئے تورات ہی واجب العمل تھی۔ اگر وہ جلدی ہی منسوخ ہو جانے والی ہوتی تو ا س قدر تاکید نہ کی جاتی کہ تم پوری مضبوطی کے ساتھ اس پر عمل کرو۔ یہ الفاظ دفع الوقتی کے لئے استعمال نہیں ہو سکے بلکہ اسی صورت میں استعمال ہو سکتے ہیں جب اس شریعت نے ابھی کچھ عرصہ تک قائم رہنا ہو۔
واتینہ الحکم صبیا۔ اور ہم نے اس کو بچپن کی عمرسے ہی حکم دیا تھا۔ صبیاکے معنے بچپن کی عمر کے بھی ہوتے ہیں لیکن درحقیقت مراد یہ ہے کہ وہ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا قرب عطا کر دیا۔ یعنی ابھی لوگ ان کو بچہ ہی جانتے تھے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ان پر کلام نازل ہونے لگ گیا۔ ہماری زمین میں بھی محاورہ ہے کہ فلاں تو ابھی کل کا بچہ ہے۔ مراد یہ ہوتی ہے کہ ابھی تو وہ چھوٹی عمر کا ہے۔ یہ مطلب نہیںہوتا کہ وہ دودھ پیتا بچہ ہے لیکن اس کے علاوہ جوانی کے لئے بھی یہ لفظ بول لیتے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس زمانہ میں دو نبی یعنی حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام آگے پیچھے آئے اور ان دونوں کے متعلق صبیاکا لفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ جب ان کی والدہ نے یہودیوں سے کہا کہ اس سے بات کرو تو انہوں نے کہا کیف نکلم من کان فی المھد صبیا ہم ایک بچہ سے کس طرح بات کر سکتے ہیں گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو لوگوں نے صبیکہا اور یحییٰ علیہ السلام کو بھی خدا نے صبیقرار دیا۔ اس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ ہے کہ انہوں نے بچپن میں کلام کی تو حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ ایتنہ الحکم صبیا۔ پھر وہاں تو دشمنوں نے آپ کو صبی قرار دیاہے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یکلم الناس فی المھد و کھلا (آل عمران ع 5) کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں مگر آپ کے متعلق صبی کا لفظ دشمنوں نے ہی استعمال کیا ہے۔
جس طرح اتینہ الحکم صبیا میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ اگر مسیح ؑکی عظمت کے تم اس وجہ سے قائل ہوکہ وہ بچپن میں ہی اپنے دشمنوں پر بھاری تھا تو وہی عظمت تم یحییٰ کو بھی کیوں نہیں دیتے جبکہ ہم نے اسے بھی بچپن میں ہی اپنا قرب عطا کردیا تھا ۔ اسی طرح یہاں بھی حضرت مسیح ؑ کی تعلیم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ عیسائیوں کا بڑا زور اس امر پر ہے کہ حضرت مسیح ؑ نرمی اور حلم اور عفو اور بردباری کی تعلیم دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلہ میں فرمادیا کہ یحییٰ بھی دل کا بڑا حلیم اور بردبار اور نرم مزاج تھا۔ اگر نرمی اور حلم کسی فضیلت کا باعث ہیں تو یہ فضیلت حضرت یحییٰ کو بھی حاصل ہے ۔غرض جتنی باتیں حضرت مسیح ؑ کی افضلیت کے متعلق پیش کی جاتی ہیں ان سب کی اللہ تعالیٰ نے اس جگہ تردید کردی ہے۔
(1) کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح ؑ دل کے بڑے حلیم تھے اور ان کی طبیعت میں رافت اور محبت تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یحییٰ بھی دل کا بڑا حلیم تھا اور اس کی طبیعت میں بھی رافت اور محبت ڈالی گئی تھی۔
(2) کہا جاتا ہے کہ مسیح ؑ ایک نئی شریعت لایا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے یحییٰ کو بھی کہا تھا کہ خذ الکتب بقوۃ تو اس کتاب پر مضبوطی سے عمل کر۔
(3) کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے بچپن میں کلام کیا اور یہ ان کی فضیلت کی دلیل ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے یحییٰ کو بھی بچپن میں اپنا مامور بنا کر لوگوں کی طرف بھیج دیا تھا۔
(4) کہا جاتا ہے کہ مسیح ؑ گناہوں سے پاک تھا کیونکہ ساتھ ہی فرماتا ہے وزکوۃ اس میں پاکیزگی اور تقدس بھی پایا جاتا تھا۔
غرض جتنی خصوصیات حضرت مسیح ؑ میں بیان کی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ نے وہ سب کی سب حضرت یحییٰ میں بیان کر دی ہیں اور اس طرح عیسائیوں پر حجت تمام کی ہے کہ اگر ان خصوصیات کی وجہ سے حضرت مسیح کو تم تمام نبیوں پر فضیلت دیتے ہو تو پھر یحییٰ کو بھی تم ایسا ہی کیوں نہیں سمجھتے جبکہ اس میں بھی یہی باتیں پائی جاتی تھیں۔
وکان تقیا ۔ اور وہ صاحب تقویٰ تھا۔ پہلے فرمایا کہ اس میں زکوٰۃ یعنی پاکیزگی پائی جاتی تھی پھر فرمایا کہ اس میں تقویٰ پایا جاتا تھا۔ اردو میں جب ہم معنی الفاظ آ جائیں تو انسان سمجھتا ہے کہ ان کے کوئی الگ الگ معنے نہیں صرف ایک ہی مفہوم کو مختلف الفاظ میں حسن کلام کے لئے ادا کیا گیا ہے۔ لیکن عربی زبان میں یہ بات نہیں۔ عربی زبان میں ہر لفظ الگ الگ معنے رکھتا ہے۔ پس کان تقیا اور مفہوم کا حامل ہے اور زکوٰۃ کا لفظ اور مفہوم کا حامل ہے۔ زکوٰۃ کا لفظ عربی زبان میں اندرونی خرابیوں کو دور کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور تقویٰ کا لفظ باہر سے آنے والی خرابیوں کو دور کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پس اس آیت کے معنے یہ ہوئے کہ ہم نے اس کو اپنے پاس سے حلم اور نرمی بخشی اور ہم نے اس کے اندرونی خیالات بھی پاکیزہ بنائے اور جو باہر سے خرابیاں آتی ہیں ان کے مقابلہ کی بھی اس کو طاقت بخشی۔
و برا ………… عصیااور وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا تھا اور ظالم اور نافرمان نہیں تھا 11؎
11؎ حل لغات:۔ برنی یمینہ کے معنے ہوتے ہیں صدق۔ اس نے اپنی قسم کو پورا کرکے دکھایا یعنی اپنی بات کا پکا اورسچا نکلا۔ اور براوالدہ کے معنے ہوتے ہیں احسن …… بہ ۔ اس نے اپنے والد کی پوری اطاعت کی اور اس کے ساتھ نرمی اور محبت کا سلوک کیا۔ وتحریر ……ھہ اور جو باتیں اس کو پسند تھیں ان کو اس نے اختیار کیا اور جو باتیں اس کا ناپسند تھیں ان کو اس نے چھوڑ دیا فھو…… وبار ۔ ایسے شخص کو بر بھی کہتے ہیں اور بار بھی کہتے ہیں (اقرب)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان اپنے باپ کو خوش کرنے کے لئے ظاہری اور باطنی طور پر وہ تمام اخلاق اپنے اندر پیدا کر لے جن کو وہ پسند کرتا ہو اور ان تمام برائیوں کو ترک کر دے جن کو وہ ناپسند کرتا ہو تو اس وقت سے اسے بر اور بار کہتے ہیں ۔ لیکن بری میںبار سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے۔
جبرالعظم کے معنے ہوتے ہیں اصلحہ من کسر۔ اس نے ٹوٹی ہوئی ہڈی کو درست کیا۔ لیکن جبرالعظم بنفسہ۔ کے معنے ہوں گے صلح بعد الکسر ۔ ہڈی ٹوٹ گئی تھی مگر پھر درست ہو گئی اور جبرالفقیر کے معنے ہوتے ہیں اغناہ اس نے فقیر کو غنی کر دیا۔ اور جبر فلانا علی الامر کے معنے ہوتے ہیں اکرھہ ۔ اس نے فلاں کو کسی کام پر سختی سے مجبور کیا (اقرب) گویا جہاں اس کے معنے اصلاح کرنے کے ہیں وہاں کسی کی مرضی کے خلاف اس پر ظلم کرکے جبراً اس سے کام لینے کے بھی ہیں گویا ایک معنے ایسے ہیں جن میں نیکی اور اصلاح پائی جاتی ہے اور ایک معنے ایسے ہیں جن میں سختی اور ظلم پایا جاتا ہے۔
عصیا بمعنے عاصی استعمال ہوا ہے یعنی وہ نافرمان نہیں تھا۔
تفسیر:۔
برابوالدیہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اس کا اپنے ماں باپ سے یہ سلوک تھا کہ وہ ان کا پورا مطیع اور فرمانبردار تھا۔ وہ ان تمام اخلاق فاضلہ کو پسند کرتا تھا جن کو وہ پسند کرتے تھے اور ان تمام برائیوں سے بچتا تھا جن کو وہ ناپسند کرتے تھے۔
ولم……… عصیا ۔ اور پھروہ جبار اور نافرمان بھی نہیں تھا۔
یہ خوبیاں چو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں یہ بھی اسی لئے بیان کی ہیں کہ عیسائی حضرت مسیح ؑ کے متعلق یہ کہا کرتے ہیں کہ اس نے کیا ہی اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی ہے کہ
’’جو کوئی تیرے داہنے گالے پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔‘‘
(انجیل متی باب 5آیت39)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یحییٰ بھی جبار نہیں تھا۔ اس نے جو تعلیم دی اس میں بھی ظلم کا کوئی پہلو نہیں تھا۔
اسی طرح عیسائی حضرت مسیح ؑکی یہ بڑی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا
’’ جو قیصر کا ہے قیصرکو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو‘‘
(انجیل متی باب 22آیت21)
اللہ تعالیٰ فرمایا ہے کہ یحییٰ بھی عصیا نہیں تھا۔ اس نے بھی یہی تعلیم دی تھی کہ نافرمانی مت کرو۔ اور قیصر کا حق قیصر کو اور خدا کا حق خدا کو دو۔

غرض وہ ساری خوبیاں جو حضرت مسیح ؑ میں بیان کی جاتی ہیں۔ اللہ تعایٰ نے اپنے رنگ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بھی تھیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت یحییٰ حضرت مسیح ؑ سے درجہ میں کم تھے لیکن یہاچہ درہ اور مقام پر بحث نہیں۔ بلکہ اللہ تعالی ٰاس
بات کا ذکر کر رہا ہے کہ حضرت مسیح ؑ میں کوئی نرالی خصوصیت نہیں تھی۔ چونکہ عیسائی حضرت مسیح کو غیر معمولی عظمت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان میں بعض اخلاق مخصوص طور پرپائے جاتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کو رد کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ ساری خوبیاں حضرت یحییٰ ؑ میں بھی پائی جاتی تھیں۔ اگر ان باتوں کی وجہ سے تم عیسیٰ کو فضیلت دیتے ہو تو یحییٰ کو کیوں فضیلت نہیں دیتے؟

اور جب وہ پیدا ہوا تب بھی اس پر سلامتی تھی اور جب وہ مرے گا اور جب وہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا (تب بھی اس پر سلامتی ہوگی) ۔
تفسیر :
اس آیت میں اللہ تعالیٰ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے کہ جب وہ پیدا ہوئے تب بھی اس پر سلامتی تھیں اور جب وہ مرے گا تب بھی اس پر سلامتی ہو گی اور جب وہ زندہ کرکے دوبارہ اٹھایا جائے گا تب بھی اس پرسلامتی ہو گی۔ اس سے بعض لوگوں کا ذہن اس طرف منتقل ہوا ہے کہ یہاں سلامتی سے جسمانی سلامتی مراد ہے اور چونکہ یہ سلامتی ان کی موت کے دن کے لئے بھی مقدر تھی۔ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے۔ حالانکہ اگر آپ سلامتی نازل ہونے کا یہی مفہوم ہے کہ آپ قتل سے محفوظ رہے تو قیامت کے دن آپ پر سلامتی نازل ہونے کے کیا معنے ہیں۔کیا قیامت کے دن بھی کوئی دشمن آپ کے قتل کی تدبیر کرے گا کہ اس دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی سلامتی آپ کے لاحق حال ہو گی۔ اگر سلامتی کا اس جگہ یہی مفہوم لیا جائے کہ اس میں دشمنوں کی تدابیر قتل کا رد ہے۔ تو اس کے معنے یہ بنیں گے کہ جس دن حضرت یحییٰ پیدا ہوئے اس دن بھی وہ قتل سے محفوظ رہیں گے۔ جس دن وہ فوت ہوں گے اس دن بھی وہ قتل نہیں ہوں گے اور جب قیامت کے دن دن وہ دوبارہ زندہ ہوں گے تو اس دن بھی قتل نہیں ہوں گے۔ اب بتائو کیا قیامت کے دن بھی وہ قتل ہو سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے متعلق یوم یبعث حیا پر بھی سلامتی کا وعدہ کرنا پڑا۔
درحقیقت اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں تین مختلف زمانوں کو بیان کیا ہے مگر لوگوں نے غلطی سے اس کا مفہوم کچھ کا کچھ سمجھ لیا۔ دراصل انسانی زندگیاں تین ہوتی ہیں۔ ایک زندگی شروع ہوتی ہے انسانی پیدائش اور ختم ہوتی ہے انسانی موت پر۔ دوسری زندگی موت سے شروع ہوتی اور قیامت تک قائم رہتی ہے۔ اس زندگی کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے۔ مگر اس کے بعد ایک تیسرا زمانہ ہے۔ جسے قرآن کریم یوم البعث قرار دیا ہے اور جس دن کامل طور پر جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل کر دئے جائیں گے۔ یہ تین ابتدائی نقطے ہیں انسانی زندگی کے ۔ پیدائش ابتدائی نقطہ ہے حیوۃ الدنیا کا۔ موت ابتدائی نقطہ ہے حیات برزخی کا۔ اور یوم البعث ابتدائی نقطہ ہے حیات اخروی کا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے تینوں نقطہ ہائے حیات میں سلامتی ہی سلامتی ہے اس کی پیدائش پر بھی ہماری طرف سے سلامتی نازل ہو گی اور وہ زندگی بھر اس سے متمتع ہوتا رہے گا۔ پھر جب وہ وفات پا ئے گا تب بھی اس پر سلامتی نازل ہو گی اور وہ عالم برزخ میں بھی سلامتی سے حصہ پائے گا اور اس کے بعد جب یوم البعث آئے گا تو اس دن بھی اس پر سلامتی نازل ہو گی اوروہ اخروی حیات میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت رہے گا۔
غرض اس آیت میں قتل کا کوئی ذکر ہی نہیں ۔ اس میں تین زندگیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام ان تینوں زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کی سلامتی کے مورد ہوں گے مگر یہ سلام صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحیی علیہ السلام کے لئے نہیں آیا بلکہ سب مومنوں کے لئے آیا ہے۔ چنانچہ سور ہ انعام ع 6 میں آتا ہے واذاجائک الذین یؤمنون بایتنا فقل سلام علیکم کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ۔ یعنی جب تیرے پاس ہماری آیتوں پر ایمان لانے والے لوگ آئیں تو ان کو ہمارا یہ پیغام دے دینا کہ تم پر سلام ہو ۔ تمہارے رب نے تمہارے لئے اپنے آپ پر رحمت واجب کرلی ہے۔ یہ سلام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے حالانکہ ان میں سے کئی شہید ہوئے۔ پھر سب مومنوں کی نسبت آتا ہے۔ الذین تتوفھم الملئکۃ طیبین یقولون سلام علیکم ادخلوا الجنۃ بما کنتم تعلمون(نحل ع 4) یعنی جن لوگوں کی روح فرشتے اس حالت میں نکالتے ہیں کہ وہ انہیں کہتے چلے جاتے ہیں کہ تم پرسلامتی ہو۔ جائو اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جائو۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ فرشتے مومنوں کی جان کئی طرح نکالتے ہیں۔ تو کیا اگر سلامتی کے معنے دشمنوں کے ہاتھوں سے نہ مارے جانے کے ہیں تو یہ عجیب بات نہ ہو گی کہ دشمن ان کو قتل بھی کر رہا ہو گا اور فرشتے ساتھ ساتھ سلام بھی کرتے جا رہے ہوں گے۔ گویا جو بات ہو رہی ہو گی اس کی تردید کر رہے ہوں گے۔ اسی طرح سورئہ طہ میں آتا ہے والسلام علی من اتبع الھدیجو بھی ہدایت کے تابع چلے اس پر سلامتی ہے۔ اگر سلام کے معنے دشمنوں کے قتل سے محفوظ رہنے کے لئے جائیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ کبھی کوئی مومن قتل نہیں ہوتا ۔ پھر سورئہ مائدہ ع 3میں مومنوں کی نسبت فرمایا ہے یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام یعنی قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کو جو خداتعالیٰ کی رضا کے تابع ہوتے ہیں سلام کے راستے دکھاتا ہے۔ اب اگر سلام کے معنے دشمنوں کے ہاتھوں قتل نہ ہونے کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو ایسی زندگی بخشتا ہے کہ وہ کبھی دشمن کے ہاتھ سے قتل نہیں ہوتے جوالبداہت غلط ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سلام ایک وسیع معنوں کا حامل لفظ ہے ۔ بعض موقعوں پر یقینا اس کے یہ معنے بھی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ دشمن کے کسی حملہ سے بچا لے گا لیکن بعض جگہ بیماری سے بچانے کے اور بعض جگہ ناکامی سے بچانے کے معنے ہوں گے۔ بہرحال بغیر کسی زبردست قرینہ کے ایک عام لفظ کے کوئی خاص معنے کرنے اور وہ بھی ایسے جو تاریخی واقعات کے سراسر خلاف ہوں کسی صورت میں بھی درست نہیں ہو سکتے۔ پس یہاں سلامتی سے جسمانی سلامتی مراد نہیں بلکہ روحانی سلامتی مراد ہے۔ اگر جسمانی سلامتی مراد ہو تو موت کے دن بھی اس پر سلامتی ہونے کے کوئی معنے نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ انسان جب بھی مرتا ہے کسی بیماری یا حادثہ سے مرتا ہے اور جب وہ کسی بیماری یا حادثہ سے ہلاک ہو گا تو اس کے لئے سلامتی کہاں ہوئی۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں جسمانی سلامتی مراد نہیں بلکہ روحانی سلامتی مراد ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ جس دن وہ پیدا ہو گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہو گی اور وہ تمام دماغی اور جذباتی کمزوریوں سے محفوظ ہو گا اور جس دن وہ مرے گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہو گی یعنی وہ تمام روحانی امراض سے پاک ہو گا اور جس دن وہ دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہو گی۔
یہ آیت بھی حضرت مسیح ؑکی ایک خصوصیت کو رد کرنے کے لئے بیان کی گئی ہے۔ مسلمان کہتے ہیں کہ سوائے حضرت عیسیٰ ؑ اور اس کی والدہ کے دنیا میں کوئی شخص مس شیطان سے پاک نہیں۔ یہ بات عیسائیوں نے نہیں کہی بلکہ مسلمانوں نے مسیحیوں پر احسان کرکے ان کے لئے پیدا کی ہے ۔ خداتعالیٰ جانتا تھا کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب خود مسلمانوں نے یہ کہنا شروع کر دینا ہے کہ مسیح ؑ مس شیطان سے پاک تھا اور یہ اس کی ایک ایسی خصوصیت ہے جس میں وہ منفرد ہے۔ اس کی تردید کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ کی نسبت فرما دیا وسلم علیہ یوم ولد ۔یوحنا بھی اپنی پیدائش کے دن خداتعالیٰ کی سلامتی کے نیچے تھا۔ اگر پیدائش کے وقت شیطان ہرشخص کو چھیڑتا ہے توکیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ کیا ہی برکت والا وہ دن تھا جس دن یحییٰ پیدا ہو اور شیطان نے اسے چھیڑا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر شیطان ہر انسان کو اس کی پیدائش پر چھیڑتا ہے تو یحییٰ کی نسبت یہ نہیںکہا جا سکتا کہ وہ بڑی برکتوں والا اور سلامتی کا دن تھا جس دن یحییٰ پیدا ہوا۔ ہاں اگر شیطان نے اسے نہیں چھیڑا تب بے شک کہا جا سکتا ہے کہ وہ بڑی ہی برکتوں والا دن تھا جب یحییٰ پیدا ہوا اور شیطان نے اسے چھیڑا۔ پس حضرت یحییٰ علیہ السلام میں اللہ تعالیٰ نے وہ ساری خوبیاں بیان کر دی ہیں جو عیسائیوں کے نزدیک حضرت مسیح میں پائی جاتی تھیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں جو اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور کمالات پائے جاتے تھے۔ مسلمانوں نے ان کو عیسائیوں کے سامنے پیش کرنا تھا اور عیسائیوں نے ان کا انکار کرتے ہوئے یہ کہنا تھا کہ ساری خوبیاں تو مسیح میں پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے ذریعہ مسلمانوں کی توجہ اس طرف پھیری کہ تم انجیل میں یوحنا کے حالات دیکھ لو تمہیں وہ ساری خوبیاں بلکہ ان سے بھی بڑ ھ کر یوحنا میں دکھائی دیں گی جو مسیح ؑ میں بیان کی جاتی ہیں۔ میں نے بتایا ہے کہ یوحنا کے متعلق اناجیل میں یہاں تک لکھا ہے کہ
’’میں تم سے کہتا ہوں کہ ان میں سے جو عورتوں سے پیدا ہوئے یوحنا بپتسمہ دینے والے سے کوئی نہیں بڑا نہیں‘‘
(انجیل لوقا باب 7آیت 28)
اسی طرح یوحنا کے متعلق سابق انبیاء کی پیشگوئیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ پس مسیح ؑ کو کوئی خاص خصوصیت حاصل نہیں جس کی وجہ سے اسے خدا یا خدا کا بیٹا قرار دیا جا سکے۔ باقی یہ کہ ایک بڑا تھا اور ایک چھوٹا۔ اس سے ہم بھی انکار نہیں کرتے۔ لیکن یہ کہ وہ کوئی نرالی خصوصیات رکھتا تھا یہ ایک ایسی بات ہے جو اناجیل کے رو سے بالکل باطل ہے بلکہ یوحنا کے متعلق تو یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ وہ خدا کے حضور میں بزرگ ہو گا اور ہرگز نہ مَے نہ کوئی اور شراب پئے گا۔‘‘ (انجیل لوقا باب 1آیت 15)
اور مسیح انجیل کے رو سے نہ صرف خود شراب پیتا تھا بلکہ شراب بنانے کا معجزہ بھی اس نے دکھایا تھا (انجیل یوحنا باب 2آیت 1تا 11) اسی طرح مسیح ؑ اگر روزہ رکھتا اور عبادتیں کرتا تھا تو یہ باتیں یوحنا میں بھی پائی جاتی تھیں۔ غرض خداتعالیٰ نے اس سورۃ میں مسلمانوں کو یہ گر بتایا ہے کہ عیسائیوں کے مقابلہ میں تم یحییٰ کے حالات کو دیکھو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ جتنی باتیں مسیح کے متعلق بیان کی جاتی ہیں وہ ساری کی ساری یوحنا میں بھی پائی جاتی ہیں اور جب یہ حالت ہے تو مسیح کی اس میں خصوصیت کیا رہی۔
پس یایحیی خذ الکتب بقوۃ سے آخر رکوع تک مسیحیت کے رد کے دلائل بیان کئے گئے ہیں اور مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بیان کرو گے تو عیسائی مانیں گے نہیں۔ ہم تمہیں گر بتاتے ہیں کہ انجیل میں یوحنا کا ذکرپڑھو۔ وہاں تمہیںوہی باتیں ملیں گی جو عیسائی حضرت مسیح ؑ میں بیان کرتے ہیں۔ پس تم انہیں بتائو کہ مسیح ؑ میں کوئی نرالی خصوصیت نہیں جس کی وجہ سے اسے خدایا خدا کا بیٹا قرار دیا جا سکے۔

اور تو(اس) کتاب میںمریم کا (جو) ذکر (آتا ہے اسے)بیان کر (خصوصاً اس با ت کو کہ) جب وہ اپنے رشتہ داروں سے مشرقی (جانب ایک) جگہ چلی گئی ۔
حل لغات :
انتبذ کے معنے ہوتے ہیں اعتزل وتنحی ناحیۃ ۔ وہ الگ ہو گیا اور ایک طرف چلا گیا۔ (اقرب)
شرقی کے متعلق لغت میں لکھا ہے الشرقی المنسوب الی الشرق وکل مکان فی جھۃ الشرق وکل ما اتجہ نحو الشرق ۔ یعنی شرقی کے معنے مشرق کی طرف کے بھی ہوتے ہیںاور شرقی ہر ایسے مکان کوبھی کہتے ہیں جس کا منہ مشرق کی طرف ہو ۔ (اقرب)
تفسیر :
واذکر فی الکتب مریم کے یہ معنے ہیں کوتو کتاب میں مریم کا ذکر کر یاکتاب میں مریم کا جو ذکر ہے اس کو اپنے ذہن میں لا۔
الکتٰب سے مراد اگر قرآن کریم لیا جائے تو اس کا یہ مفہوم ہو گا کہ اس قرآن کے ذریعہ تو مریم کا ذکر بیان کر۔ لیکن الکتب سے مراد بائبل بھی ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ بائبل میں مریم کا جو ذکر آتا ہے اس کو بیان کر یا اسے اپنے ذہن میں ملا۔ یہ ظاہر ہے کہ بائبل میںبہت کچھ غلط واقعات اپنی طرف سے شامل کر دئیے گئے ہیں پس واذکر فی الکتب مریم کے یہ معنے ہوں گے کہ بائبل میں مریم کے جوحالات بیان کئے گئے ہیں ان کو بھی دیکھو اور پھر قرآن کریم میں جو حالات بیان ہوئے ہیں ان کو پڑھو اور دونوں کا مقابلہ کرکے اندازہ لگائو کہ مریم کے حالات کس کتاب نے زیادہ عمدگی کے ساتھ ان کی شان کے مطابق پیش کئے ہیں۔
اس سورۃ میں خداتعالیٰ نے پہلے حضرت زکریا علیہ السلام کا واقعہ بیان کرکے یحییٰ کی پیدائش کا ذکر کیا کیونکہ پیشگوئیوں کے مطابق یحییٰ کی پیدائش مسیح ؑ کے لئے بطور ارہاص تھی اور مسیح ؑ دنیامیں اس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتے تھے جب تک کہ ان سے پہلے ایلیاہ کا بروز ظاہر نہ ہو جاتا۔ اب خداتعالیٰ یحییٰ کے ذکر کے بعد مریم کا ذکر کرتا ہے۔ کیونکہ جس طرح یحییٰ کا وجود مسیح ؑ سے پہلے ضروری تھااور یحییٰ کا آنا ایک نشان کے طور پر تھا اسی طرح مسیح کی بن باپ ولادت بھی یہود کے لئے ایک عظیم الشان نشان تھی۔ کیونکہ اس ذریعہ سے یہود کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ اب بنی اسرائیل میں سے نبوت کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس نعمت کو ان کے دوسرے بھائیوں کی طرف منتقل کر دے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہم نے بیسیوں دفعہ سنا ہے کہ مسیح کی بن باپ ولادت نبوت کا کا نٹا پھیرنے اور یہود کو یہ بتانے کے لئے تھی کہ بنی اسرائیل سے خداتعالیٰ نے اب اپنا منہ موڑ لیا ہے۔ اور وہ ان کی بداعمالیوں کی سزا میں اب نبوت کا سلسلہ ایک دوسری قوم میں منتقل کرنے والا ہے۔ چونکہ سلسلہ نسب باپ کی طرف سے چلتا ہے اس لئے خداتعالیٰ نے مسیح کوبن باپ پیدا کیا۔ یہ بتانے کے لئے کہ اب یہود میں کوئی مرد ایسا نہیں رہا جس کی اولاد میں سے کسی کو نبی بنایا جا سکے۔ چنانچہ اب ہم جس کو نبی بنا رہے ہیں بغیر باپ کے بنا رہے ہیں صرف اس کی ماں اسرائیلی ہے مگر آنے والے نبی میں اتنا حصہ بھی نہیں ہو گا اور اللہ تعالیٰ اسرائیل سے اپنے تعلقات کلی طور پر منقطع کر لے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں بھی اس مسئلہ کا بار بار ذکر فرمایا ہے چنانچہ مواہب الرحمن وغیرہ میں یہ مضمون پایا جاتا ہے اور درجنوں دفعہ ہم نے آپ کی زبان سے بھی یہ بات سنی ہے کہ حضرت مریم بھی ایک علامت تھیں اس خدائی انتباہ کی کہ نبوت اب بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل میں منتقل ہونے والی ہے اور موسیٰ ؑ کی اس پیشگوئی کا ظہور بالکل قریب ہے جس میں اس نے بتایا تھا کہ
’’خدا وند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں (یعنی بنی اسماعیل) میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔‘‘ (استثناء باب 18آیت 15)
پس چونکہ مریم بھی ایک خدائی نشان تھیں اس لئے ہمیں پوری طرح تحقیق کرنی چاہئے کہ بائبل اور قرآن نے ان کا وجود کس شکل میں پیش کیا ہے۔
عربی زبان میں حضرت مسیح ؑ کی والدہ کے لئے مریم کا لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن عبرانی زبان میں اس کا تلفظ کئی رنگ میں آتا ہے۔ چنانچہ ماریہؔ۔ مریمؔ۔ مریوم۔ یہ تین تلفظ ہیں جن میں اس لفظ کو ادا کیا جاتا ہے۔ انجیل میں جہاں حضرت مسیح کی والدہ کا ذکر آتا ہے وہاں تو مریم کا لفظ ہی استعمال کیا گیا ہے مگر جہاں دوسری عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہاں ان کا نام کبھی مریم آتا ہے اور کبھی ماریہ۔ غرض مریمؔ۔ ماریہؔ اور مریوم یہ مختلف تلفظ ہیں جو اس زمانہ کے لوگوں میں رائج تھے۔ مگر غالباً حضرت مسیح کی عظمت کی وجہ سے ان کی والدہ کے لئے صرف ایک ہی نام رکھا گیا تھا یعنی مریم۔
سب سے پہلے بائبل میں یہ نام تورات کے صحیفہ میں آیا ہے اور اس میں حضرت موسیٰ ؑ کی ہمشیرہ کا یہ نام بتایا گیا ۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہی وہ بہن تھی جو موسیٰ کے دریا میںپھینکنے کے بعد ان کے پیچھے پیچھے گئی جیسا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر آتا ہے یعنی میم کی زیر سے۔ اس کے بعد یہ نام دوسری دفعہ نئے عہد نامہ میں آتا ہے اور اس جگہ کا تلفظ مریم میم کی زبر سے آتا ہے۔
اس لفظ کے معنوں میںاختلاف ہے۔ بعض نے لکھا ہے اس کے معنے سمندر کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنے سمندر کا ستارہ کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ مریم کے معنے ’’دن کی مالکہ‘‘ کے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنے ’’ماسٹر کی مہر‘‘ کے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنے سمندر کے استاد کے لئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ مریم کے معنے سمندر کی مر (Myrrh)کے ہیں۔ مر قسم کی گوند ہوتی ہے جو دوائوں میں استعمال ہوتی ہے۔
درحقیقت جن لوگوں نے عبرانی زبان کی تحقیق کی ہے وہ کہتے ہیں کہ مریم کے جو مختلف معنے کئے گئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے مشابہ بعض اور الفاظ عربی اور ایرانی اور دوسری زبانوں میں پائے جاتے ہیں ۔ لوگوں نے ان زبانوں کے ملتے ہوئے الفاظ سے یہ معنے اخذ کر لئے اور اس طرح اختلاف پیدا ہو گیا۔ مثلاً ’’سمندر کے مِر‘‘ کے جو معنے کئے گئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ موسیٰ ؑ کی بہن کا نام تورات میں مریم آتا ہے اور مَرْعربی زبان میں ایک گوند کانام ہے اور یَم ْسمندر کو کہتے ہیں۔ پس انہوں نے دوسری زبانوں کے مشابہ الفاظ کو دیکھ کر مِریم کا یہ ترجمہ کر لیا کہ ’’سمندر کا مِر‘‘ ۔ اسی طرح بعض معنے ایرانی ا ور دوسری زبانوں کے ملتے ہوئے الفاظ سے اخذ کئے گئے ہیں۔ لیکن جن لوگوں نے Hebrewزبان کی پوری تحقیق کی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ اس کے معنے یا توسینہ زور کے ہیں یا موٹی کے ہیں۔ گویا اس کے ایک معنے خود سر کے اور ایک موٹاپے کے لئے جاتے ہیں۔ خود سر کا مفہوم بھی موٹاپے کی طرف ہی جاتا ہے کیونکہ جو مضبوط بچہ ہوتا ہے وہی اَڑتا اور مقابلہ کرتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ عام طور پر جو بچے مشکل سے پیدا ہوتے تھے اور وزنی ہوتے تھے ان کا نام رکھا جاتا تھا ۔ بعض نے کہا ہے کہ اصل میں ہر ملک کی خوبصورتی کا معیار الگ الگ ہوتا ہے۔سامی نسلوں میں یعنی یہودیوں اور عربوں میں موٹاپا خوبصورتی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے بانت سعاد میں شاعر اپنی محبوبہ کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
ھیفاء مقبلۃ عجزاء مدبرۃ
یعنی جب وہ سامنے سے آ رہی ہو تو پتلی کمر والی دکھائی دیتی ہے اور جب واپس جا رہی ہوتو موٹی دکھائی دیتی ہے۔ تو چونکہ موٹاپا ان میں خوبصورتی کا معیار تھا اس لئے جو لڑکی خوبصورت ہوتی تھی اور موٹی بھی ہوتی تھی اس کا نام مریم رکھ دیا جاتا تھا۔ لیکن بعض نے کہا ہے کہ صرف خوبصورتی کی وجہ سے یہ نام رکھا جاتا تھا۔ یہ معنے غالباً انہوں نے اس لئے کر لئے ہیں کہ حضرت مریم کی عیسائیوں میں جو تصویریں پائی جاتی ہیں ان میں وہ زیادہ موٹی نظر نہیں آتیں۔
انجیل میں جیسا کہ میں بتا چکاہوں کہ مریمؔ اور ماریہؔ کے نام تبدیل ہوتے رہتے ہیں یعنی ایک دوسرے کی جگہ بولے جاتے ہیں۔ لیکن حضرت مسیح ؑ کی والدہ کے لئے ہمیشہ مریم کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے اس زمانہ میں یہ نام بہت معروف تھا کیونکہ انجیل میں کئی عورتوں کا یہ نام مذکور ہے۔
مریم کی زندگی کے حالات :
انجیل قبل از ولادت مسیح مریم کے حالات کے بارہ میں بالکل خاموش ہے۔ متی باب 1آیت 18سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ مریم کنواری حاملہ ہوئی تو یوسف جس سے اس کی منگنی ہوئی تھی اس نے اسے چھوڑنا چاہا مگر فرشتہ نے اسے منع کیا اور اسے یوسف کی جورو قرار دیا اور کہا اے یوسف تو اپنی جورو کو گھر لے جا۔ اس سے پہلے کوئی واقعہ متی میں نہیں ہے۔ مرقس نے اس پیدائش کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا۔ لوقا نے اس معجزانہ پیدائش کا ذکر کیا ہے ۔ مگر اسی وقت اس نے مریم کا ذکر کیا ہے جب فرشتہ نے اسے حمل کی خبر دی اور وہ حاملہ ہو گئی کیونکہ لکھا ہے کہ مریم کنواری تھی اور اس کی یوسف سے منگنی ہوئی تھی مگر شادی سے پہلے فرشتہ نے اسے حمل کی خبر دی اور وہ حاملہ ہوئی(انجیل لوقا باب 1آیت 27تا 35) لیکن حاملہ ہونے سے پہلے کے حالات پر لوقا نے کوئی روشنی نہیں ڈالی۔ صرف اتنا بتایا ہے کہ مریم زکریاکی بیوی کی رشتہ دار تھی اور اس کے گھر آتی جاتی تھی۔ اس کے ماں باپ اور اس کے بچپن کے حالات پر اس نے کوئی روشنی نہیں ڈالی۔ یوحنا اس بارہ میں بالکل خاموش ہے۔
قرآن کریم نے مریم کے خاندان کا بھی ذکر کیا ہے اور اس کی والدہ کا بھی ذکر کیا ہے اور اس کی پیدائش کا واقعہ بھی ذکر کیا ہے جس سے مسیح کی پیدائش کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ آخر اتنابڑا نشان دکھانے کے لئے کوئی ابتدائی علامات بھی تو ہونی چاہئیں۔ وہ ابتدائی علامات قرآن کریم پیش کرتا ہے انجیل نہیں۔ چنانچہ سورئہ آل عمران ع 4میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عمران کے خاندان کی ایک عور ت تھی (یعنی موسوی خاندان کی) اس نے اپنے دل میں محسوس کیا کہ کہ دین کی حالت خراب ہو رہی ہے اور اس کی اصلاح کے لئے واقفین زندگی کی ضرورت ہے۔ اگر میرا بچہ ہوا تو میں اس کام کے لئے اسے وقف کر دوں گی اور خداتعالیٰ سے اس نے یہ وعدہ کیا اور دعا کی کہ وہ اس کی نذر کو قبول کرے اور اس میں برکت دے۔ لیکن جب اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو بجائے لڑکے کے وہ لڑکی تھی جس پر اسے مایوسی ہوئی کہ وہ کام جس کے لئے اس نے اپنی اولاد وقف کی تھی لڑکے سے نہ ہو سکے گا اور گھبرا کر پھرخدا سے دعا کی کہ الٰہی اب کیاکروں میرے گھر میں تو لڑکی پیدا ہو گئی ہے حالانکہ خدا جانتا تھا کہ جو نر اولاد اس نے مانگی تھی وہ اس لڑکی برابر کام نہیں کر سکتی تھی۔
اصل بات یہ ہے کہ زمانہ کی خرابی کا احساس تو نیک لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو چکا تھا مگر اس خرابی کو دور کرنے کا جوصحیح وقت تھا اسے وہ نہیں جانتے تھے۔ وہ دیکھتے تھے کہ خرابی پیدا ہو چکی ہے اور دین سے محبت رکھنے والے لوگوں کے دلوں میں جوش تھا کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ مرد اپنی جگہ فکر مند تھے اور عورتیں اپنی جگہ فکر مند تھیں۔ عورتوں نے اس طرف توجہ کی کہ ہم اپنی اولادیں خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف کریں گی مگر ان کو کیا معلوم تھا کہ اس اصلاح کا صحیح موقعہ کونسا ہے۔ اگر مریم کی والدہ کی دعا اس وقت قبول ہوتی تو مسیح ؑ اپنے وقت سے بیس سال پہلے پیدا ہو جاتے۔ حالانکہ درمیان میں یحییٰ نے بھی آنا تھا اور ان کا آنا مسیح کے لئے ارہاص کے طور پر تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو اس رنگ میں قبول کیا کہ بجائے اس کے کہ انہیں وہ بیٹا دیتا جو دین کی خدمت کرتا اس نے انہیں وہ بیٹی دی جس سے آگے چل کر ایک عظیم الشان بیٹا پیدا ہونے والا تھا۔ اس طرح دعا بھی قبول ہو گئی اور زمانہ کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو وقت مقدر تھا وہ بھی نہ ٹلا۔
غرض خداتعالیٰ جو حالات سے واقف تھا اگر اسی وقت اس کی دعا سن لیتا تو وہ بچہ اس خدمت کو سر انجام نہیں دے سکتا تھا جو امّ ِ مریم کے ذہن میں تھی۔ اس نے پرانی پیشگوئیوں کے مطابق کہ کنواری لڑکا جنے گی جویہود کو نجات دلوائے گا اور وہ ایک غیر معمولی فرزند کی ماں ہو گی۔ لڑکے کی بجائے لڑکی دے دی اور اس کی ماں کی دعا اس رنگ میں سنی گئی کہ لڑکی سے ایک ایسا فرزند پیدا ہو جو یہود کی رستگاری کا موجب ہوا۔
بہرحال ماں نے جب دیکھا کہ لڑکی ہوئی ہے تو چونکہ نذر مان چکی تھی اس نے اسے علماء اور مجاوروں کی تربیت میں دے دیا ۔ مگر اس لئے نہیں کہ وہ بے بیاہی رہے بلکہ صرف دینی تربیت کے لئے ۔ کیونکہ ماں دعا کرتی ہے کہ میں اس کے لئے اور اس کی اولاد کے لئے تجھ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ شیطان سے محفوظ رہیں۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے اس خیال سے کہ میں چونکہ دعا کر چکی ہوں اس لئے اگر علماء کے سپرد اسے کیا گیا تو وہ اس کی اچھی تربیت کریں گے اور اسے دین کی باتیں سکھائیں گے اور یہ آگے اپنی اولاد کو سکھائے گی اسے پادریوں اور مجاوروں کے سپرد کر دیا۔ ورنہ ان کی خواہش تھی کہ یہ لڑکی شادی کرے اور اسکے بچے پیدا ہوں کیونکہ وہ اس کے لئے اور پھر اس کی اولادکے لئے بھی دعا کرتی ہیں کہ وہ شیطان سے محفوظ رہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ چاہتی تھی کہ ان کی بیٹی شادی کرے اور اس کے بچے ہوں۔
خداتعالیٰ نے ماں کی دعا سنی اور مریم پر خاص فضل کیا۔ وہ زکریا کاہن کی تربیت میں پلی اور دوسرے کاہنوں کی نگرانی میں رہی اور اس کے دل میں دین کی محبت پیدا ہوئی۔ چنانچہ بچپن ہی میں وہ اس یقین پر پہنچی کہ جو کچھ ملتا ہے خدا سے ملتا ہے۔ اس کے ایک ایسے ہی جواب سے زکریا متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنے لئے بھی لڑکے کی دعا کی جس سے یحییٰ پیدا ہوئے اور اس طرح عیسیٰ کی ماں عیسیٰ کے ارہاص والے نبی کے پیدا کرنے میں ممد ہوئی اور اپنے بیٹے کی سخت سے سخت مشکل کے حل کرنے والی بن گئی کہ ایلیاہ نبی کی آمد کے بغیر اس کا دعویٰ ثابت نہ ہو سکتا تھا سو یحییٰ ایلیاہ کامثیل بنا اور عیسیٰ کی ماں کی ایک معصوم حرکت سے اس کا وجود ظہورمیں آیا۔
مریم کی بعد کی زندگی کے حالات انجیل میں یہ لکھے ہیں کہ حمل کے بعد یوسف اسے گھر لے گیا۔ شادی کاکوئی ذکر نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہود میں منگنی شادی ہی سمجھی جاتی تھی اور حضرت مسیح ؑ پیدا ہوئے ۔ ان کی پیدائش تک یوسف نے مریم سے کوئی تعلق نہ رکھا۔ ان کی پیدائش کے بعد وہ ان کے پاس گیا اور دوسرے بچے پیدا ہوئے ۔ (انجیل متی باب 1آیت 25)
پھر لکھا ہے
’’یسوع بچپن سے اپنے ماں باپ سے نفور تھا اور جب اس نے دعویٰ کیا مریم اس پر ایمان نہیں لائی بلکہ اس کی باتوں کو تعجب سے دیکھتی رہی‘‘۔
متی باب 12آیت 46تا 50میں لکھا ہے: -
’’جب وہ بھیڑسے یہ کہہ ہی رہا تھا تو دیکھو اس کی ماں اور بھائی باہر کھڑے تھے اور اس سے بات کرنا چاہتے تھے۔ کسی نے اس سے کہا دیکھ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے تجھ سے بات کیا چاہتے ہیں۔ پر اس نے جواب میں خبر دینے والے سے کہا کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی اور اپنا ہاتھ اپنے شاگردوں کی طرف بڑھا کر کہا کہ دیکھو میری ماں اور میرے بھائی کیونکہ جو کوئی میرے باپ کی جو آسمان پر ہے مرضی چلتاہے میرا بھائی اور بہن اور ماں وہی ہے۔‘‘
اس سے پتہ لگا کہ مسیح نے اپنے بھائیوں اور اپنی ماں کو مومن نہیں قرار دیا۔ کیونکہ انہوں نے یہ کہا کہ ’’ جو کوئی میرے باپ کی جو آسمان پر ہے مرضی پر چلتا ہے میرا بھائی اور بہن اور ماں وہی ہے یعنی یہ خدا کی مرضی پر چلنے والے نہیں۔
پس انجیل کی رو سے حضرت مریم منکرہ اور کافرہ تھیں۔ انہوں نے مسیح کی باتوں کو نہیں مانا۔ مرقس باب 2آیت 31تا 35اور لوقا باب 8آیت 20میں بھی یہی مضمون ہے۔ اور یوحنا تو اس واقعہ پر بالکل خاموش ہے۔
متی میں پھر اور وضاحت سے لکھا ہے کہ لوگوں نے کہا کہ کیا یسوع کی ماں اور بھائی اور سب بہنیں ہمارے ساتھ نہیں۔ یعنی لوگوں نے کہا کہ اگریہ سچا ہے تو اس کی ماں ہمارے ساتھ کیوں ہے۔ اس کے بھائی ہمار ے ساتھ کیوں ہیں۔ اس کی بہن ہمارے ساتھ کیوں ہیں۔ وہ اس پر کیوں ایمان نہیں لائے۔ گویا متی صاف طور پر اقرار کرتا ہے کہ مسیح پر نہ مریم ایمان لائی تھیں نہ مسیح کی بہنیں ایمان لائی تھیں نہ مسیح کے بھائی ایمان لائے تھے۔ اور یہود کہا کرتے تھے کہ یسوع کے سب بھائی اور بہنیں اور اس کی والدہ ہمارے ساتھ ہیں۔ اگر یہ سچا ہے تو چاہئے تھا کہ وہ اس پر ایمان لاتے۔ جس پر مسیح نے کہا کہ
’’نبی اپنے وطن اور گھر کے سوا اور کہیں بے عزت نہیں ہے۔‘‘ (انجیل متی باب13آیت 55تا 57)
یعنی میں اپنے وطن میں بے عزت ہوں اور اپنے گھر میں بھی بے عزت ہوں۔ مگر میری یہ بے عزتی اس بات کی دلیل نہیں کہ میں جھوٹا ہوں کیونکہ نبیوں کے گھر والے ہمیشہ ان کے مخالف ہوا کرتے ہیں۔
پھر یہیں تک بس نہیں۔ مرقس باب 3سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے عزیز اور رشتہ دار اسے پاگل سمجھا کرتے تھے۔ چنانچہ لکھا ہے۔
’’جب اس کے عزیزوں نے یہ سنا تو اسے پکڑنے کو نکلے کیونکہ کہتے تھے وہ بے خود ہے۔‘‘
(انجیل مرقس باب 3آیت 21)
گویا بجائے اس کے کہ وہ اس پر ایمان لاتے وہ اسے دیوانہ اور مجنون سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ اسے پکڑ کر رکھیں تاکہ وہ ادھراُدھر نہ پھرے۔
ان واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ انجیل کے نزدیک مریم اور ان کی دوسری اولاد اور یوسف جو باپ کہلاتا تھا مسیح ؑ پر ایمان نہیں لائے اور مسیح ؑ ان سے تُر شروئی سے پیش آتا تھا حتیٰ کہ بائبل کے رو سے عین صلیب کے وقت بھی مسیح ؑ نے اپنی ماں کی طرف توجہ نہیں کی۔ ماں کے دل میں درد تھا اور وہ صلیب کے وقت وہاں پہنچی۔ مگر بائبل بتاتی ہے کہ اس وقت بھی مسیح ؑنے اپنی ماں سے محبت کے ساتھ بات نہیں کی بلکہ اسے جب کھڑا دیکھا تو تھوماؔ سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ تیری ماںے اور مریم سے کہا اے عورت یہ ہے تیرا بیٹا۔ (انجیل یوحنا باب 9آیت 26و 27) گویا اس وقت بھی انجیل کی رو سے مسیح کے دل میں مریم کی نسبت اتنا بغض تھا کہ بجائے یہ کہنے کے کہ اے ماں یا اے مریم مسیح نے اس وقت بھی یہ کہا کہ اے عورت یہ ہے تیرا بیٹا۔ اس طرح انہوں نے اپنا اخلاقی فرض تو ادا کر دیا اور ماں کو اس کا ٹھکانہ بتا دیا اور تھوما سے بھی کہہ دیا کہ اس کی اپنی ماں کی طرح خدمت کرنا لیکن اس وقت بھی ان کے جذبات انجیل کی رو سے اتنے زخمی تھے کہ بجائے اس کے کہ ایسے خطرناک موقعہ پر جبکہ انہیں صلیب پر لٹکایا جا رہا تھا وہ اپنی محبت کا اظہار کرتے انہوں نے اس وقت بھی ماں کا لفظ نہیں بولا بلکہ اسے اے عورت کہہ کر مخاطب کیا۔
پھر انجیل کے بیان کے مطابق اس کی اپنی ماں سے بے رخی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ ایک عورت نے اس کے لیکچر سے متاثر ہو کر کہا کہ
’’مبارک ہے وہ پیٹ جس میں تُو رہا اور وہ چھاتیاں جو تُونے چوسیں۔‘‘
یعنی کیا ہی وہ اچھی عورت تھیں جس کے پیٹ میں تُو رہا۔ اور کیا ہی وہ اچھی عورت تھی جس کی چھاتیوں سے تو نے دودھ پیا۔ اب کم از کم اس موقعہ پر ہی مسیح اس عورت کی تعریف کو پی جاتے اور کچھ نہ کہتے۔ مگر مسیح سے اتنی بات بھی برداشت نہ ہو سکی اور انہوں نے کہا
’’ہاں مبارک ہیں وہ جو خدا کا کلام سنتے ہیںاور اسے مانتے ہیں ‘‘۔ (انجیل لوقا باب 11 آایت 27و 28)
یعنی وہ ماں کوئی مبارک نہیں جس کے پیٹ میں میں رہا۔ وہ ماں کوئی مبارک نہیں جس کی چھاتیوں سے میں نے دودھ پیا۔ بلکہ مبارک وہ ہیں جو خدا کا کلام سنتے اور اسے مانتے ہیں جس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ مریم نے خدا کا کلام سنا اور نہ اسے مانا۔ غرض دوسرے کے منہ سے بھی وہ ان کی تعریف نہیں سن سکتے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ ان کے دشمن جانی تھے اور وہ انہیں مومن نہیں سمجھتے تھے۔
لیکن قرآن خود مسیح ؑ کے منہ سے کہلواتا ہے کہ برابوالدتی (مریم ع 2) میں تو اپنی ماں کا بڑا فرمانبردار ہوں۔ میں اس سے بڑی محبت اور پیار کرنے والا ہوں۔ اب خود ہی دیکھ لو کہ ان دونوں میں سے کونسی تاریخ سچی ہو گی۔ ایک طرف بائبل کہتی ہے کہ فرشتہ نے مریم سے کہا کہ
’’خدا کی طرف سے تجھ پرفضل ہوا ہے اور دیکھ تو حاملہ ہو گی اور تیرے بیٹاہو گا۔ اس کا نام یسوع رکھنا وہ بزرگ ہو گا خداتعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا۔‘‘ (انجیل لوقا باب 1آیت 30، 31)
مگر باوجود اس کے فرشتہ اسے ایک ایسی خبر دے گیا تھا جوظاہری حالات کے لحاظ سے قطعی طور پر ناممکن نظر آتی تھی۔ اور پھر خدا نے اس ناممکن کو ممکن بنا کر دکھا دیا ۔ پھر بھی یہ عظیم الشان نشان دیکھنے کے باوجود وہ بائبل کے مطابق مسیح کو پاگل سمجھتی رہی اور اس پر ایمان نہ لائی۔ یوں اگرکسی کو بچہ کے متعلق خواب آ جائے اور پھر اس کے ہاں بچہ پیدا بھی ہوجائے تو بے شک یہ ایک نشان تو ہو گا مگر اتنا بڑا نہیں ہو گا جتنا یہ معجزہ تھا۔ اگر کسی عورت کو ایسی خواب آ جائے اور پھر اس کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے اور وہ نیک بھی بن جائے تب بھی ممکن ہے کہ ماں کسی وقت ناراض ہو کر اسے کہہ دے کہ تو نے میرا کوئی حق ادا نہیں کیا۔ لیکن یہاں کوئی معمولی نشان نہیں دکھایا جاتا۔ یہاں ایک کنواری حاملہ ہوتی ہے۔ فرشتہ اس کے پاس آتا ہے اور اسے خبر دیتا ہے کہ تیرے ہاں بچہ ہو گا اور وہ اپنے اندر یہ یہ صفات رکھے گا۔ اور پھر واقعہ میں اسے حمل ہوجاتا ہے اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ دنیا میںغیر معمولی عزت اور شہرت حاصل کرتا ہے۔ کیا دنیا کی کوئی بھی عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ اتنے عظیم الشان واقعہ کے بعد بھی وہ عورت اپنے بچہ کو پاگل کہے گی یا اس کے دعویٰ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے گی جس نے خداتعالیٰ کی قدرت کا اتنا عظیم الشان نشان دیکھا ہو ۔ اس کے لئے تو انکار کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی پس انجیل کا یہ بیان کہ وہ اپنی ماں کا نافرمان تھا عقلی لحاظ سے بھی بالکل ناقابل تسلیم ہے۔ مگر قرآن خود مسیح کی زبان سے یہ کہلواتا ہے کہ برابوالدتی میں تو اپنی والدہ سے نہایت ہی حسن سلوک کرنے والا ہوں۔
پھربائبل کہتی ہے کہ مریم کافرہ تھی مگر قرآن کہتاہے کہ فتقبلھا ربھا بقبول حسن و ابتھا نباتا حسنا (آل عمران ع4) یعنی خدا نے مریم کی والدہ کی دعا کو قبول فرمایا اور وہ نیکیوں پر پختہ ہو گئی اور خداتعالیٰ نے اسے غیر معمولی ترقی اور عظمت بخشی۔ پس قرآن اسے مومن اور اعلیٰ درجہ کی نیکیوں کی حامل قرار دیتا ہے لیکن انجیل جو اسے خدا کی ماں قرار دیتی ہے وہ اسے کافرہ اور بے ایمان ٹھہراتی ہے۔
پھر فرماتا ہے ان اللہ اصطفٰک وطھرک واصطفک علی نساء العلمین (آل عمران ع ۵) یعنی اے مریم اللہ تعالیٰ نے تجھ کو بزرگ بنایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تجھے پاک کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تجھے اس زمانہ کی ساری عورتوں پر فضیلت بخشی ہے۔ غرض قرآن وہ بات کہتا ہے جو فطرت کہتی ہے اور انجیل وہ بات کہتی ہے جس کا فطرت انکار کرتی ہے۔ اتنے بڑے نشان کے بعد یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ مریم انکار کرے۔ پس صحیح بات وہی ہے جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے۔ دشمن کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعات کا صحیح علم نہیں تھا انہوں نے غلط باتیں اس میں درج کر دیں۔ ہم ان سے کہتے ہیں اے احمقو! تم صحیح لکھنے والوں کو اس قرآن کے سامنے لائو۔وہ جس کے متعلق تم کہتے ہو کہ اسے پتہ نہیں تا وہ تو سچی باتیں بتاتاہے اور جن کے متعلق تم کہتے ہو کہ انہیں سب کچھ پتہ تھا وہ جھوٹی باتیں بتاتے ہیں۔ کیا یہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا عظیم الشان ثبوت نہیں؟
اس جگہ اللہ تعالیٰ نے اصطفک علی نساء االعلمین کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ انجیل میں کئی مریموں کا نام آتا ہے جن کی نیکی اور تقدس کی بری تعریف کی گئی ہے لیکن وہ مریم جو ماں تھی مسیح کی اسی کو عیسائیوں نے مسیح کا دشمن اور مخالف ظاہر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم مریم مگدلینی اور دوسری عورتوں کو ام عیسیٰ پر فضیلت دیتے ہو۔ حالانکہ تم جن مریموں کو لئے بیٹھے ہو وہ اس مریم کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی تھیں۔ سب سے بہتر اور سب سے مقدس وہی مریم تھی جو عیسیٰ کی ماں تھی۔
پھر فرماتا ہے یامریم اقنتی لربک واجدی وارکعی مع الراکعین (آل عمران ۵ )
راکع اس شخص کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان خالص عطا کر دیاجائے۔ پس یامریم اقنتی لربک واجدی وارکعی مع الراکعین کے یہ معنے ہیں کہ اے مریم اپنے رب کی فرمانبردارہو۔ اس کی عبادت بجا لائو اور باقی مومنوں کے ساتھ مل کر اس کی جماعت میں شامل رہو۔ گویا قرآن صاف طور پر اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ مریم اول درجہ کے ایمانداروں میں سے تھیں۔ مگر انجیل کہتی ہے کہ وہ بد عورتیں جو مسیح کے سر پر تیل ملا کرتی تھیں وہ توبا ایمان تھیں اور جس نے اتنا بڑا معجزہ دیکھاوہ بے ایمان تھی۔
اب بظاہر یہ سب عام باتیں ہیں کوئی مخفی اور غیب کی باتیں نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کرنے کے بعد کہ مریم خداتعالیٰ کی فرمانبردار اور نماز گزار اور مومنوں کی جماعت میں شامل تھی فرماتا ہے ذٰلک من انباء الغیب نوحیہ الیک (آل عمران ۵) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تیری طرف وحی کے ذریعہ نازل کر رہے ہیں۔ یعنی یہ باتیں تمہیں بظاہر معمولی نظر آتی ہیں لیکن انجیل ان باتوںکو کھا گئی ہے اور اس لئے اب یہ غیب کی خبریں بن گئی ہیں۔ انجیل میں لکھا ہے کہ مریم کافرہ تھی۔ انجیل میں لکھا ہے کہ وہ مسیح کو پاگل سمجھتی تھی مگر ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ یہ سب باتیں غلط ہیں۔ وہ ایماندار تھی ،وہ فرمانبردار تھی اور وہ مسیح پر سچے دل سے ایمان لانے والوں میں شامل تھی۔ وہیریؔ کہتا ہے کہ قرآن کو پتہ نہیں کہ صحیح واقعات کیا ہیں اور قرآن کہتا ہے کہ ہم تمہیں وہ تاریخ بتا رہے ہیں جو بائبل میں بھی درج نہیں۔ یہ کتنا عظیم الشان نشان ہے قرآن کی صداقت کا کہ بائبل جو عیسائیوں کی کتاب ہے اور جس میں مسیح اور اس کی والدہ کے متعلق سچی باتیںہونی چاہئیں تھیں وہ تو غلط باتیں لکھتی ہے اور قرآ ن کے متعلق سچی تاریخ پیش کرتا ہے۔ فرماتا ہے ذٰلک من انباء الغیب نوحیہ الیک ۔ یہ باتیں انجیل میں نہیںلکھیں۔ یہ عیسائیوںنے چھپا دی تھیں اب ہم تم کو بتا رہے ہیں کیونکہ ان کے بغیر مسیح کی کہانی پوری نہیں ہوتی۔
حقیقت یہ ہے کہ انجیل کا بیان بتاتا ہے کہ اپنے قرب کو ظاہر کرنے کے لئے حواریوں نے خدا کی ماں پر الزام لگانے سے دریغ نہیں کیا۔ محض یہ ظاہرکرنے کے لئے ہم متی ؔاور مرقسؔ ور لوقاؔ اور یوحناؔ اور تھوماؔ بڑے مقرب تھے مسیح کی والدہ پر انہوں نے انتہائی ظلم کیا کہ اسے کافرہ اور بے ایمان قرار دے دیا۔ لیکن قرآن نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیا اور بتا دیا کہ مریم مومنہ تھی، مریم راستبا زتھی اور انجیل میں جو باتیں ان کے خلاف لکھی ہیں وہ سراسر جھوٹی اور مفتریانہ ہیں۔
وہیری نے الزام لگایا تھا کہ قرآن جھوٹا ہے لیکن قرآن نے تیرہ سو سال پہلے بتا دیا تھا کہ ہم اس میں وہ باتیں بیان کر رہے ہیں جو انجیل میںبھی نہیں یا یہ کہ انجیل نے ان کے متعلق جھوٹ بولا ہے اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ قرآن سچا ہے اور انجیل جھوٹی۔
اذانتبذت من اھلھا مکانا شرقیا حضرت مریم کا وطن جیسا کہ بائبل سے ثابت ہوتا ہے ناصرہ تھا ان کا بھی اور ان کے خاوند یوسف کا بھی لیکن چونکہ عبادت گاہ یروشلم تھی قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے (بائبل سے نہیں) کہ بچپن میں ان کو دینی تعلیم و تربیت کے لئے یروشلم میں حضرت زکریا ؑ کے پاس چھوڑ گیا تھا مگر جیسا کہ قرآن کریم سے ہی پتہ چلتا ہے حضرت مریم کی والدہ کا یہ منشاء نہیں تھاکہ وہ کاہن یا نن بنیں۔ اس لئے انہوں نے ہمیشہ وہاں نہیں رہنا تھا۔ چنانچہ حضرت مریم کے متعلق انہوں نے دعا کی تھی کہ الٰہی اس کی اولاد بھی پیدا ہو جو نیکی اور تقویٰ پر قائم رہنے والی ہو۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کی شادی کرنا چاہتی تھیں پس جب وہ جوان ہوئیں اور بالغ ہو گئیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی والدہ انہیں ناصرہ اپنے وطن لے گئیں۔ پس اذانتبذت من اھلھا مکانا شرقیا سے یروشلم اور اس میں رہنے والے مراد نہیں۔بلکہ اس سے ان کے وہی اہل مراد لئے جائیں گے جو کہ ناصرہ میں تھے۔ ان سے وہ ایک طرف ہو کر مکان شرقی میں چلی گئیں۔
یہ شرقی مکان کیا تھا؟ مفسرین کہتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ نظارہ دیکھا تو وہ کسی مشرقی شہر کی طرف گئی تھیں۔ انجیل کہتی ہے کہ وہ ناصرہ میں تھیں جو ان کا اور ان کے خاوند کا وطن تھا (انجیل لوقا باب ۱آیت ۲۶ تا ۳۱) اور ناصرہ یوروشلم کے شمال کی طرف ہے نہ کہ مشرق کی طرف۔ پس یہ معنے نہیں لئے جا سکتے کہ حضرت مریم اس وقت یروشلم سے ناصرہ کو چلی گئیں بلکہ اس جگہ ناصرہ کی رہائش کے زمانہ کا کوئی واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ بہرحال جہاں تک بائبل کی تاریخ کا سوال ہے حضرت مریم مشرق کے مکان کی طرف نہیں گئیں بلکہ اپنے وطن میں رہیں اور یوروشلم کے لحاظ سے وہ شمال میں تھیں۔
بائبل کی تاریخ کوئی معتبر تاریخ تو ہے نہیں مگر بہرحال اس کی اپنے زمانہ کے متعلق باتیں بلاعقلی یا نفعلی دلیلوں کے رد نہیں کی جا سکتیں کیونکہ وہ اس زمانہ کے قریب کی باتیں ہیں اور چونکہ شرقی کے معنے عربی زبان میں ایسے مکان کے بھی ہوتے ہیں جس کا منہ مشرق کی طرف ہو اور مشرق کے بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے مکانا شرقیا کے معنے ہوئے۔ مشرق کی جانب یا ایسے مکان جس کا منہ مشرق کی طرف تھا۔ ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم قرآن کریم کی بنا ء پر بائبل کے بیان کو رد بھی نہیں کر سکتے اور آسانی سے یہ معنے کر سکتے ہیں کہ وہ ایک ایسے مکان میں گئیں جس کا منہ مشرق کی طرف تھا۔
اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ قرآن کریم میں تو اہم باتیں بیان کی جاتی ہیں آخر یہ کوئی قصہ کہانی کی کتاب تو ہے نہیں کہ غیرضروری تفصیلات بھی بیان کی جائیں اور بتایا جائے کہ فلاں نے اس رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا اور اس کی پگڑی اس رنگ کی تھی۔اس میںتو وہی باتیں بیان ہوتی ہیں جو اپنے اندر اہمیت رکھتی ہیں۔ پس سوال پیدا ہوتاہے کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ کیوں فرمایا کہ وہ ایک مکان شرقی کی طرف گئیں۔ مکان شرقی کی کوئی خصوصیت ہونی چاہئے جس کا مریم کے واقعہ سے تعلق ہو۔ ور نہ یہ ایک بے معنی بات بن جائے گی۔
سو یاد رکھنا چاہئے کہ یہود کے نزدیک مشرق کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ سب سے اول تو رات میں لکھا ہے کہ
’’خدا وند خدا نے عدن میں پورب کی جانب سے ایک باغ لگایا اور آدم کو جسے اس نے بنایا تھا وہاں رکھا۔‘‘ (پیدائش باب ۲آیت ۸)
پورب کے معنے مشرق کے ہوتے ہیں یعنی خدا نے عدن میں مشرقی جانب جنت بنائی اور اس میں آدم کو رکھا گیا۔ پس بائبل کے نزدیک جنت اور انسانی ابتداء کا تعلق مشرق سے ہے۔
بابلی لوگ جہاں یہودی قید ہو کر گئے تھے اور جن کے خیالات اور روایات سے وہ بہت ہی متاثر تھے وہ بھی مشرق کو بہت متبرک خیال کرتے تھے ۔ وہ مشرق کو روشنی کا دروازہ سمجھتے تھے اور طوفان نوح سے بچانے والا جو ہیرو تھا (اسے تم لیڈر کہہ لو یا پیغمبر کہو) ان کا عقیدہ تھا کہ وہ مشرق کاباشندہ تھا لیکن مغرب کی نسبت ان کا خیال تھا کہ وہ مردوں کی دنیا ہے۔ غرض بابلی لوگ مشرق کو روشنی کا دروازہ اور مغرب کو مردوں کی دنیا خیال کرتے تھے اور طوفان نوح سے بچانے والے بطل کو وہ مشرق کا باشندہ سمجھتے تھے۔
حزقیل نبی بھی چونکہ اسی علاقہ میں رہے اس لئے وہ بھی اپنی کتاب میںلکھتے ہیںکہ
’’روح مجھ کو اٹھاکے خدا وند کے گھر کے پوربی دروازہ پر جس کا رخ پورب کی طرف ہے لے گئی۔‘‘ (حزقیل باب۱۱آیت ۱)
یعنی جوہیکل بنی ہوئی تھی اس کا دروازہ پورب کی طرف تھا ۔ معلوم ہوتا ہے اس خیال سے کہ مشرق کی طرف روشنی آتی ہے وہ ہیکلوں میں بھی اس امر کو مدنظر رکھتے تھے کہ ان کے دروازے مشرق کی طرف ہوں اور وہ اس کو برکت والا خیال کرتے تھے۔
متی باب ۲آیت ۲ میں لکھا ہے کہ مجوسی آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے پورب میں اس کا ستارہ دیکھا اور اسے سجدہ کرنے کو آئے ہیں یعنی مسیح کی پیدائش پر انہوں نے مشرق میں ستارہ دیکھا اور انہوں نے سمجھا کہ وہ جس کے آنے کی صحیفوں میں خبر تھی پیدا ہو گیا ہے۔ گنتی باب ۲۴ آیت ۱۷ میں ہے۔
’’یعقوب میں سے ایک ستارہ نکلے گا۔‘‘
اس میں ایک نبی کی خبر دی گئی تھی اور روایات اسے مشرق کی طرف بتاتی تھیں۔ پس چونکہ پہلی کتابوں میں ایک ستارہ کے نکلنے کی خبر تھی اور یہودی روایات میں یہ بات پائی جاتی تھی کہ وہ ستارہ مشرق سے نکلے گا۔ اس لئے پورب سے جو لوگ آئے انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک ستارہ مشرق میں دیکھاہے جس سے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ نبی جس کے آنے کی پیشگوئی کی گئی تھی پیدا ہو گیا ہے۔
مکاشفات باب ۷ آیت ۲میں لکھا ہے : -
’’پھر میں نے ایک فرشتے کو پورب سے اٹھتے دیکھا جس کے پاس زندہ خدا کی مہر تھی۔‘‘
مکاشفات بے شک مسیح کے بعد کی کتاب ہے لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہود اور نصاریٰ میں مشرق کا خاص احترام تھا اور وہ عبادت گاہوں کے دروازے مشرق کی طرف بناتے تھے بلکہ بعض مشرق کی طرف منہ کرکے عبادت بھی کرتے تھے۔ اس وجہ سے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ مریم ایک عبادت گاہ میں جسکا منہ مشرق کی طرف تھا تاکہ جنت اولیٰ اور بشارت عظیمہ سامنے رہیںعبادت کے لئے گئیں۔
یادرکھنا چاہئے کہ عیسائیوں کے عبادت گاہ اور مسلمانوں کی عبادت گاہ میں فرق ہوتا ہے۔ عیسائیوں کی عبادت گاہ میں جدھرامام کا منہ ہوتا ہے اسی طرف مقتدیوں کا منہ نہیں ہوتا بلکہ ان دونوں کے منہ آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو امام بھی قبلہ رو کھڑا ہوتا ہے اور مقتدیوں کا منہ بھی قبلہ رخ ہوتا ہے۔ مگر ان میں عبادت گاہ کا دروازہ مشرق کی طرف ہو گا۔ امام اور مقتدی سب اس دروازہ سے داخل ہوں گے مگر اندر داخل ہوکر امام اپنا منہ مشرق کی طرف کر لے گا اور مقتدی اپنا منہ مغرب کی طرف کر لیں گے یا یوں کہو کہ مقتدیوں کا منہ امام کی طرف ہو گا اور امام کا منہ مقتدیوں کی طرف ہو گا۔
غرض عیسائی اپنی عبادت گاہوں کا دروازہ مشر ق کی طرف بناتے ہیں بلکہ بعض فرقوں کے متعلق یہ ثابت ہے کہ وہ عبادت بھی مشرق کی طرف ہی منہ کرتے ہیں۔ میں یہ تحقیق نہیں کر سکا کہ آیا سارے ایسا کرتے ہیں یا صرف بعض فرقے ایسا کرتے ہیں۔ بہرحال بعض فرقوں کے متعلق میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ وہ مشرق کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے ہیں۔ پس مکانا شرقیا کے معنے یہ ہوئے کہ وہ مکان جس کا منہ مشرق کی طرف تھا۔ معلوم ہوتا ہے جب حضرت مریم جوان ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں دعا کا جوش پیدا کیا اور وہ گھر سے نکلیں اور ایک عبادت گاہ میں گئیںوہ عبادت گاہ ایسی تھی جس کا منہ مشرق کی طرف تھا اس یادگار میں کہ جنت اور انسانی ابتداء کا تعلق مشرق سے ہے۔


ترجمہ :
اور( اپنے اور ) ان (یعنی رشتہ داروں) کے درمیان پردہ ڈال دیا (یعنی ان سے تعلق قطع کرکے اپنے آپ کو چھپا دیا) اس وقت ہم نے اس کی طرف اپنا کلام لانے والا فرشتہ(یعنی جبرئیل) بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک تندرست بشر کی شکل میں ظاہر ہوا۔
حل لغات : -
روح کے معنے اس چیز کے ہیں جس سے حیات نفس قائم ہے اور روح کے معنے نبوت کے بھی ہیں اور روح کے معنے جبریل کے بھی ہیں اور روح کے معنے وحی کے بھی ہیں ۔ نبوت کو روح اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی انسان کو ایک نئی روحانی زندگی بخشتی ہے اور جبریل کو بھی اسی لئے روح کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسا کلام لاتا ہے جو زندگی بخش ہوتا ہے۔ اسی طرح وحی کو بھی اسی لئے روح کہتے ہیں کہ وہ ایمان کو تازہ کرتی ہے غرض یہ ساری چیزیں روح کہلاتی ہیں۔
تفسیر : -
فاتخذت من دونھم حجابا کا یہ مطلب ہے کہ انہوں نے دعا میں خلوت کے حصول کے لئے پردہ کھینچ لیا۔ موجودہ زمانہ میں مکانوں کے اندر دروازے بنائے جاتے ہیںجو آسانی کے ساتھ بندکر لئے جاتے ہیں لیکن اس زمانہ میں دروازوں کا رواج نہیں تھا صرف پردے کھینچ لئے جاتے تھے بلکہ بنو عباس کے زمانہ تک شاہی محلات کے اندر دروازے نہیں ہوتے تھے۔ شاہان مغلیہ کی عمارتوں سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تخلیہ کے لئے پردہ ڈال لیا کرتے تھے۔ پس فاتخذت من دونھم حجابا کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کوئی ایسی بات کرنے کے لئے علیحدہ ہوئیں جس میں حجاب کی ضرورت تھی۔ بلکہ چونکہ وہ دعا اور عبادت کے لئے علیحدہ ہوئی تھی اور اس کے لئے تخلیہ کی ضرورت تھی انہوں نے پردہ کھینچ لیا تاکہ لوگ ان کونہ دیکھیںاور وہ علیحدگی میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر سکیں۔ حضرت زکریاعلیہ اسلام بھی عبادت گاہ میں تھے جب انہیں الہام ہوا۔ اسی طرح حضرت مریم بھی عبادت گاہ میں ہی تھیں جب انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ملی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وہ تخلیہ میں گئیں اور دعا میں مشغول ہو گئیں تو ارسلنا الیھا روحنا ہم نے اپنا فرشتہ ان کی طرف بھیجا۔ فتمثل لھا بشرا سویا اور وہ ان کے لئے ایک مثالی جسم بن گیاجیسے خواب میں اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس نے بکرا ذبح کیا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کا کوئی بیٹا یا بیٹی یا کوئی اور قریبی رشتہ دار فوت ہو جائے گا۔ یا خواب میں چوہا دیکھے تو اس سے مراد کوئی منافق ہو گا یا خواب میں دیکھے کہ میرے گھر میں چور آیا ہے تو اس سے مراد داماد ہو گا۔ اب تعبیر بظاہر بالکل بے جوڑ نظر آتی ہے۔ لیکن ہرشخص جانتا ہے کہ ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تصویری زبان میں یہ واقعات اس کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہاں بھی اسی مثالی وجود کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا کہ فتمثل لھا اس نے ان کے لئے ایک تمثیلی شکل اختیار کر لی۔ بشرا سویا ایک ایسے انسان کی صورت جو تندرست تھا۔ گویا اس وقت حضرت مریم پرجو کلام نازل ہوا ان الفاظ میں اس کی کیفیت بتائی گئی ہے کہ وہ کس رنگ میں نازل ہوا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ آپ پر وحی کس طرح نازل ہوتی ہے تو آپ نے فرمایاکبھی تو وہ گھنٹی کی آواز کی طرح نازل ہوتی ہے یعنی یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک گھنٹی بجی ہے اور اس کے بعد کلام الٰہی نازل ہونے لگتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کا کوئی فرشتہ آتا ہے اور وہ مجھ سے بات کرتا ہے اور کبھی وہ دوسری شکل اختیار کر لیتا ہے۔
یہاں بھی اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا کہ وہ وحی ایسی نہیں تھی جو مریم کے کا ن پر پڑی یا اس کی زبان پر جاری ہوئی۔ بلکہ وہ ایک خواب یا کشف کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ انہوں نے کشف میں دیکھا کہ ایک فرشتہ سامنے آیا ہے جو ایک تندرست انسان کی شکل میں ہے اور اس فرشتہ نے انہیں خداتعالیٰ کا پیغام پہنچایا ہے۔ درحقیقت اگر ہم گہرا غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہی ہے جو نزول کے وقت مختلف شکلیں اختیار لیتا ہے اور کبھی وہ کسی شکل میں نازل ہو جاتا ہے اور کبھی کسی شکل میں۔ حضرت مریم پر جب کلام الٰہی نازل ہوا تو اس کلام نے اس وقت ایک انسان کی شکل اختیار کر لی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ جبریل تھا جو ان کے سامنے ظاہر ہوا۔ حالانکہ اگر اسے جبریل کہو تب بھی حقیقت تو وہی ہے جو میں نے بتائی ہے کہ خداتعالیٰ کا کلام ہی مختلف شکلیں اختیار کرتا ہے مثلاً اگر کوئی شخص خواب میں بینگن دیکھتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوںگے کہ کلام نے بینگن کی شکل اختیار کر لی یا اگرکوئی شخص فرشتہ دیکھتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ کلام الٰہی نے اس وقت فرشتہ کی شکل اختیار کر لی۔ بہرحال خداتعالیٰ کا کلام نزول کے وقت مختلف رنگ اختیار کر لیتا ہے۔
میں ابھی چھوٹا بچہ تھا کہ میں نے رویاء میں دیکھا کہ جس طرح کٹورہ بجائیں تو اس میں سے ٹن کی آواز نکلتی ہے۔ اسی طرح کسی نے کٹورہ بجایا ہے اور اس میں سے ٹن کی آواز پیدا ہوئی ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ آواز پھیلنی شروع ہوئی اور پھیلتی چلی گئی۔ جس طرح دریا میں پتھر پھینکا جائے تو اس کے بعد پانی میں ایک دائرہ سا بن جاتا ہے جو پھیلتا چلا جاتا ہے اسی طرح وہ آواز جو ّ میں پھیلنی شروع ہوئی اور آخر پھیلتے پھیلتے جو ّکے عین وسط میں ایک خالی فریم پیدا ہو گیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ اس فریم میں ایک تصویر بننی شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ اس تصویر نے انسان کی شکل اختیا رکر لی۔ پھر یکدم اس میں حرکت پیدا ہوئی اور تصویر میں سے ایک آدمی کود کر نکلا اور میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا میں خدا کا فرشتہ ہوں۔مجھے خدا نے تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ میں تمہیں سورئہ فاتحہ کی تفسیر سکھائوں میں نے کہا سکھائو۔ چنانچہ اس نے مجھے سورئہ فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کر دی۔ جب وہ ایاک نعبد و ایاک نستعینتک پہنچا تو کہنے لگا کہ اب تک جتنی تفسیریں لکھی گئی ہیں اسی آیت تک لکھی گئی ہیں اگر تم کہو تو تمہیں اس سے آگے بھی سکھا دوں۔ میں نے کہا ہاں آگے بھی سکھائوں چنانچہ اس نے مجھے ساری سورئہ فاتحہ کی تفسیر سکھا دی۔
اب دیکھو اس رویاء میں آواز پیدا ہوئی آواز فریم بن گئی۔ فریم میں تصویر ظاہر ہوئی اور تصویر آدمی کی شکل میں کود کر میرے سامنے آ گئی اور اس نے مجھ سے بات کی۔ پس یہ ساری چیزیں اسی رنگ میں ہوتی ہیں کہ کلام الٰہی مختلف شکلیں اختیار کر لیتا ہے۔ پس اس میں خاص بات کوئی نہیں جن لوگوں کو اس کوچہ کا علم نہیں وہ حیران ہوتے ہیں کہ نہ معلوم یہ کیا بات ہے مگر اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ اس کے قسم کے واقعات کثرت سے ہوتے رہتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک واقعہ حضرت مریم سے پیش آیا اور کلام الٰہی ایک آدمی کی شکل بن کر ان کے سامنے آ گیا۔ اس سے حمل کی حقیقت بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی طرف سے صرف کن فیکونکا ایک نشان تھا نہ کہ کسی فرشتے یا روح کا ان کے اندر داخل ہو جانا۔
اس جگہ روحنا کا جو لفظ آتا ہے اس سے مسیحی یہ نتیجہ نکالتے ہیںکہ خدا مریم کے اندر داخل ہو گیا تھا اور وہ خیال کرتے ہیں کہ قرآن نے ان کے عقیدہ ابنیت کی تصدیق کر دی ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ وہ ایک فرشتہ تھا جو ان کے سامنے متمثل ہوا مگر چونکہ ا س جگہ روحنا کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنے ہیں ’’ہماری روح‘‘ اس لئے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ جب خدا کہہ رہا ہے کہ ہماری روح نے ایک تمثل اختیار کیا تو اس کے صاف طور پر یہ معنے ہیں کہ خدا مریم کے اندر داخل ہو گیا تھا اور ان کا یہ عقیدہ کہ مسیح خدا یا خدا کا بیٹا تھا درست ہے۔
اس کاجواب یہ ہے کہ لوقا باب ۱ آیت ۳۵ میں ہے کہ فرشتہ نے حضرت مریم سے کہا کہ
’’روح القدس تجھ پر نازل ہو گا‘‘
جب فرشتہ نے مریم سے یہ کہا کہ روح القدس تجھ پر نازل ہو گا اور قرآن کہتا ہے کہ خدا مریم کے اندر داخل ہو گیا تو یہ انجیل کی تصدیق نہ ہوئی بلکہ تردید ہوئی کیونکہ انجیل تو یہ مانتی ہی نہیں کہ خدا اس کے اندر داخل ہوا تھا۔ وہ صرف اتنا کہتی ہے کہ روح القدس اس پر نازل ہوا تھا۔
پھر متی باب ۱ آیت ۱۸ میں ہے
’’وہ روح القدس سے حاملہ پائی گئی ۔‘‘
یہاں معاملہ اور بھی مشتبہ ہو گیاکیونکہ متی کے الفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف القدس اس پر نازل ہی نہیں ہوا بلکہ روح القدس اس کے اندر داخل ہو گیا۔
اسی طرح متی باب ۱ آیت ۲۰ میں ہے
’’جو اس کے رحم میں ہے سو روح القدس سے ہے۔‘‘
اس میں روح القدس سے حاملہ ہونے کی تشریح کر دی کہ جو اس کے رحم میں ہے سو روح القدس سے ہے یعنی اس کے نطفہ سے ہے۔ یہاں اور بھی مشکل پیش آگئی کیونکہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا مریم کے اندر داخل ہوا تھا یا روح القدس مریم کے پیٹ میں داخل ہوا تھا۔ کیونکہ متی یہ بتاتا ہے کہ روح القدس مریم سے ملا اور اس کے نطفہ سے آگے مسیح پیدا ہوا پس عیسائیوں کا یہ خیال کہ قرآن نے انجیل کی تصدیق کر دی ہے بالکل غلط ہے ۔ اول تو قرآن کہتا ہے کہ روح نے متمثل ہو کر اسے خبر دی یہ نہیں کہتا کہ روح اس کے اندر چلی گئی اور انجیل خدا کی جگہ روح القدس کا حمل بتاتی ہے۔ گویا دونوں باتیں مسیحی عقیدہ کے خلاف ہیں۔ مسیحی عقیدہ جو مشہور ہے وہ یہ ہے کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے اور قرآن یہ نہیں کہتا اور انجیل کا مطلب یا تو یہ ہے کہ وہ روح القدس کا فرزند تھا یا یہ کہ خدا روح القدس تھا اور یہ دونوں باتیں مسیحی عقیدہ کے خلاف ہیں۔ قرآن صرف اتنابتاتا ہے کہ ایک فرشتہ ان کے سامنے متمثل ہوا اور اس نے انہیں خداتعالیٰ کی طرف سے ایک بیٹے کی خبر دی۔ پس روحنا سے عیسائیوںکا یہ نتیجہ نکالنا کہ قرآن انجیل کا مصدق ہے بالکل غلط ہے۔

ترجمہ
(مریم نے اس سے )کہا میں تجھ سے رحمن (خدا) کی پناہ مانگتی ہوںاگر تیرے اندر کچھ بھی تقویٰ ہے ۔
تفسیر:
یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کی طرف رحمن کا لفظ منسوب کیا ہے اور یقینا خداتعالیٰ کی بات ہی درست ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ عیسائیت خدا تعالیٰ کی رحمانیت ہی کی منکر ہے اور عیسائیت کی بنیاد ہی اس امر پر ہے کہ خدا رحمن نہیں۔ اگر وہ رحمن ہے تو پھر وہ گناہ بھی بخش سکتا ہے لیکن عیسائیت کہتی ہے کہ وہ کسی کو بخش نہیں سکتاکیونکہ یہ اس کے عدل کے خلاف ہے گویا جو کام اس دنیا میں ہرانسان کرتا ہے اور جس کام کے کرنے پر انسان کی تعریف کی جاتی ہے نہ کہ مذمت وہ خدا نہیں کر سکتا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کا رحم تقاضا کرتا تھا کہ وہ اپنے بندوں کو بخشے۔ پس اس نے اپنے بیٹے کو دنیامیں بھیجا اور وہ لوگوں کے گناہوں کے بدلہ میں پھانسی پر لٹک گیا۔ اب چونکہ تمام گناہ خود اس نے اٹھا لئے ہیں اور وہ لوگوں کے گناہوں کے بدلہ میں کفار ہ ہو گیا اس لئے لوگوں کو کسی اور عمل کی ضرورت نہیں وہ مسیح ؑ پر ایمان لانے کے نتیجہ میں ہی نجات پا جائیں گے۔ غرض عیسائیت کی ساری بنیاد ہی اس امر پر ہے کہ خدا رحمن نہیں۔ لیکن قرآن کہتا ہے کہ حضرت مریم نے جب یہ نظارہ دیکھا تو انہوں نے کہا۔ انی اعوذ الرحمن منک ان کنت تقیا۔ اگر تو تقی ہے تو میں تجھ سے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں ۔ رحمن کے معنے ہیں وہ ہستی ہے جو بغیر کسی عمل کے انسان کو اپنی نعمتوں سے متمتع فرماتی ہے۔
یہ ایک رویاء کا نظارہ تھا جو حضرت مریم نے دیکھا اور رویاء میں جب انسان کوئی خطرہ کی بات دیکھتاہے۔ تو جس طرح مادی دنیا میں وہ گھبراتا ہے اسی طرح خواب میں بھی گھبراتا ہے۔ مثلاً اگر تم رویا ء میں دیکھو کہ تم اوپر سے گرنے لگے ہو توڈرو گے۔ اگر تم دیکھوکہ تم ڈوبنے لگے ہو تو تم گھبرائو گے۔ اسی طرح خواب میں اگر کوئی دیکھے کہ وہ مرنے لگا ہے تو وہ خوش نہیں ہو گا بلکہ غمزدہ ہوگا۔ پس بے شک یہ ایک کشفی نظارہ تھا جو انہوں نے دیکھا۔ لیکن ظاہر میں جو بات ناپسندیدہ ہو وہ اگر کشف میں پیش آئے تو انسان ناپسندیدگی کا ہی اظہار کرے گا۔ اسی وجہ سے حضرت مریم نے جب فرشتہ کو انسانی صورت میں اپنے سامنے کھڑا دیکھا تو وہ گھبرا گئیں اور انہوں نے کہا کہ انی اعوذ الرحمن منک ان کنت تقیا۔ ان الفاظ میں ان کے قلب کی کیفیت بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ حضرت مریم اس نظارہ کو دیکھ کر اس قدر گھبرائیں کہ انہوں نے اس سے کہا کہ اگر تجھ میں تقویٰ پایا جاتا ہے تو میں خدائے رحمن سے دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے تیرے شر سے بچا لے۔ رحمن کے معنے ہیں وہ ہستی جو بے محنت اور کوشش کے اپنے فضل نازل کرتی ہے۔ گویا وہ اس قدر گھبرا گئیں کہ انہوں نے کہا خدایا تو میرے عمل کو نہ دیکھ کہ میں نے تیری رضا کے لئے کچھ کیا ہے یا نہیں میں تجھے رحمانیت کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ تو مجھے اس کے شر سے محفوظ رکھ۔ اگر اس میں رحیمیت کا واسطہ ہوتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ خدایا کچھ عمل میں نے بھی کئے ہوئے ہیں ان کی جزاء کے طورپر میں تجھ سے درخواست کرتی ہوں کہ مجھ پررحم فرما لیکن وہ رحیمیت کا واسطہ نہیں دیتیں۔ وہ اپنے انتہائی درد اور کرب کی کیفیت کا اظہار کرتے ہوئی رحمانیت کا واسطہ دیتی ہیں اور کہتی ہیں خدایا میرا کوئی عمل نہیں مجھ بے عمل پر ہی رحم کر دے اوریہ کرب و بلا کا وقت مجھ سے دور فرما دے۔
ان الفاظ میں اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ جب انسان انتہائی مشکلات میں مبتلا ہو اور کرب و بلا نے اسے گھیرا ہوا ہو تو اس وقت وہ اللہ تعالیٰ سے اسی طرح دعا کیا کرے کہ خدایا میرا کوئی عمل نہیں۔ لیکن میں بے عمل ہوتے ہوئے بھی تیری رحمانیت کا تجھے واسطہ دیتا ہوں اور تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ تو مجھ پر اپنا فضل نازل فرما۔
ان کنت تقیا انہوں نے اس لئے کہا کہ خدا کا واسطہ دینا بھی اسی شخص پر کچھ ڈال سکتا ہے جس میں خدا کا ڈر اور خوف پایا جائے ورنہ قاتل جب قتل کرتے ہیں تو لوگ انہیں بار بار خدا کا واسطہ دیتے ہیں مگر ان کے دلوں میں ذرا بھی رحم پیدا نہیں ہوتا۔ آج کل ہماری مخالفت میں بھی لوگوں کا یہی حال ہے۔انہیں خدا کا لاکھ دفعہ خوف دلایا جائے ان کو خدا کا خوف آتا ہی نہیں۔ حضرت مریم بھی جانتی تھیں کہ اگریہ نیک نہیں تو اس کے سامنے خدا کا نام لینا بیکار ہے بلکہ ادب کے بھی خلاف ہے پس انہوں نے کہا کہ میں خدا کا واسطہ تو تجھے دیتی ہوں مگر ایسی شرط کے ساتھ کہ تو نیک ہو۔ اگر تو نیک نہیں تو پھر میں خدا سے کہوں گی کہ وہ آپ میری حفاظت کرے۔

ترجمہ :-
(اس پر اس فرشتہ نے )کہامیں تو صرف تیرے رب کا بھیجا ہوا پیغامبر ہوں۔ تاکہ میں تجھے (وحی کے مطابق ایک پاک لڑکا دوں(جو جوانی کی عمر تک پہنچا گا)
حل لغات: -
غلام کے متعلق پہلے بتایا جا چکا ہے کہ بچہؔ ، جوانؔاور ادھیڑؔ عمر والا تینوں کے لئے غلام کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور زکیا کا لفظ زکوٰۃ سے ہے اور اس سے کے معنے ایسے شخص کے ہیں جس میں اندرونی پاکیزگی پائی جاتی ہو۔
تفسیر: -
جب حضرت مریم نے کہا کہ اگر تم میں کچھ تقویٰ ہو اور تم خداتعالیٰ سے ڈرتے ہو تو رحمن کے نام سے پناہ مانگتی ہوں۔ توفرشتہ نے کہا گھبرائو نہیںمیں تمہارے رب کی طرف سے ایک پیغامبر کے طو رپر آیا ہوں لاھب لک غلٰما زکیا تاکہ میں تم کو ایک زکی غلام دوں۔
رسولکا لفظ بتاتا ہے کہ بعض لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ شخص درحقیقت حضرت مریم کا خاوند تھا یا خداتعالیٰ کی طرف سے خاوند تجویز کیا گیا تھا یہ درست نہیں۔ کیونکہ وہ یہ نہیں کہتا کہ میں کوئی کام کرنے آیا ہوں بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے صرف ایک پیغامبر کے طور پر بھجوایا گیا ہوں۔ لاھب لک غلٰما زکیا
اھب کے متعلق بھی خیال ہو سکتا ہے کہ شاید اس کے معنے دینے کے ہوں اور مراد یہ ہو کہ وہ تعلقات رکھے لیکن یہ بھی درست نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کا یہ طریق ہے کہ جو چیز یقینی اور قطعی ہو وہ ایسے لفاظ میں بیان کرتا ہے جن میں شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہو مثلاً مستقبل کی خبر بیان کی جاتی تو اسے ماضی کے صیغہ میں بیان کیا جاتا ہے یہ بتانے کے لئے کہ تم اس بات کو ایسا ہی سمجھو جیسا کہ یہ ہو چکی ہے۔ اس طرح اس پیشگوئی پر زور دینے کے لئے کہ یہ پیشگوئی ضروریپوری ہو گی اس نے اھب کہا جس کے معنے یہ ہیں کہ میں دینے آیا ہوں۔ یعنی اس بات کوایسا ہی سمجھو کہ گویا بیٹا مل گیا ہے۔ ورنہ سب جانتے ہیں کہ لڑکا خدا دیا کرتا ہے فرشتہ نہیں دیا کرتا۔ پس اھب لک سے مراد صرف لڑکے کی خبر ہے نہ کہ لڑکا دینا۔خدائی خبر چونکہ یقینی ہوتی ہے اس لئے اسے گویا چیز کے مل جانے کے برابر ظاہر کیا اور اس نے کہا کہ میں خدائی وحی کے مطابق تجھ کو ایک پاک لڑکا دینے آیا ہوں یعنی میں اس لئے آیا ہوں کہ تجھ کو ایک پاک لڑکے کے پیدا ہونے کی خبر دوں اور یہ کشف قطعی اور یقینی ہے۔ اسے ایسا ہی سمجھو جیسا کہ لڑکا مل گیا ہے۔

ترجمہ :
(مریم نے )کہا میرے ہاں لڑکا کہاں سے ہو گا حالانکہ اب تک مجھے کسی مرد نے نہیں چھوا اور میںکبھی بدکاری میں مبتلا نہیںہوئی ۔
حل لغات :
بغیکے معنے ہوتے ہیں جو تجاوز عن الاقتصاد کرے۔ یہ تجاوز اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی۔ انسان عدل سے احسان کی طرف جائے گا تو اچھا ہو گا اور حق سے باطل کی طرف تجاوز کرے گا تو برا ہو گا۔ اور بغت المراۃکے معنے ہوتے ہیں فجرت اس نے بدکاری کی۔ لتجاوزھا الی ما لیس لھا ۔ کیونکہ جو حق تھا اس سے وہ آگے نکل گئی۔ (مفردات)
تفسیر :
حضرت مریم بھی زکریا کی طرح تعجب کا اظہار کرتی ہیں اور فرماتی ہیں کہ انی یکون لی غلام میرے ہاں بچہ کس طرح پیدا ہو سکتا ہے۔
اس جگہ غلام سے مراد بچہ ہی ہے بڑی عمر کا انسان مراد نہیں۔ یوں تو بڑی عمر کا آدمی بھی عربی زبان کے لحاظ سے غلام کہلاتا ہے لیکن یہ چونکہ مریم کا کلام ہے اور ان کے لئے حیرت کی بات بچہ پیدا ہونا ہی تھا اس لئے اس جگہ غلام کے معنے بچہ ہی کے لئے جائیں گے۔ بہرحال حضرت مریم کو تعجب پیدا ہوا کہ میرے ہاں کس طرح بچہ پیدا ہو سکتا ہے جبکہ مجھے نہ توکسی مرد نے چھوا ہے اور نہ میں باغیہ ہوں۔
اگر حضرت مریم کے اس استعجاب کو ظاہری حالات پر محمول کیاجائے اور خواب میں بھی ان کے وہی حواس سمجھے جائیں جو جاگتے ہوئے ہوتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ چونکہ ظاہر میں ایسی بات ناممکن ہوتی ہے اس لئے رؤیا میں بھی انہوں نے وہی بات کہہ دی جو ظاہر میں کہی جاتی ہے۔ خواب میں دونوں قسم کی کیفیات انسان پر وارد ہوتی ہیں کبھی صرف نظارہ اور کلام تاثیر رویاء کے نیچے ہوتا ہے دلی جذبات تاثیر رویاکے نیچے نہیں ہوتے۔ کبھی انسان دیکھتا ہے کہ بیٹا مارا گیا ہے اور وہ بڑا خوش ہے حالانکہ بیٹے کے مرنے پر انسان کو خوشی نہیں ہو سکتی وہ ضرورروتا اور غمزدہ ہوتا ہے۔ پس جب رویاء میں وہ بیٹے کے مرنے پر خوش ہوتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ رویاء میں اس کے جذبات بھی تاثیر رویاء کے نیچے تھے۔ ورنہ بیٹے کے مارے جانے پر اسے رونا چاہئے تھا۔ اگر وہ خوش ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کے قلب کی کیفیت بھی رئویا کے ماتحت تھی۔ لیکن بعض دفعہ دیکھے گا کہ بیٹا مارا گیا ہے اور میں رو رہا ہوں۔ اب جہاں تک بیٹے کے مارے جانے کا سوال ہے۔ اس کی تعبیر تو یہ ہو گی کہ اس کا بیٹانیک ہو گا اور دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے گااور اس تعبیر پر اسے خوش ہونا چاہئے۔ مگر چونکہ اس نے دیکھا کہ وہ رو رہا ہے اس لئے ہم یہ کہیں گے کہ اس کا رونا رویاء کی تعبیر کے نیچے نہ تھا بلکہ ظاہری کیفیات کے تابع تھا۔ غرض کبھی تاثیر قلبی رویاء کے نظارہ کے ماتحت نہیںہوتی۔ ایک شخص خواب میں گنا دیکھتا ہے اور بڑا خوش ہوتا ہے۔ حالانکہ گنے کی تعبیر غم ہے۔ پس خواب میں اس کا خوش ہونا بتاتا ہے کہ اس وقت تعبیر اس پر اثر نہیں کر رہی تھی بلکہ ظاہری حالات اثر کر رہے تھے۔ چونکہ ظاہر میں انسان گنا ملنے پر خوش ہوتا ہے اس لئے خواب میںبھی وہ خوش ہو گیا۔ اور اگر وہ گنا ملنے پر رو رہا ہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اس وقت اس کے دل کی کیفیت بھی رویاء کی تعبیر کے نیچے تھی۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کو صرف تعبیر الرویاء جاننے والے ہی سمجھ سکتے ہیں دوسرے لوگ نہیں۔ پس اگر اس قول سے حضرت مریم کی تعبیر ظاہری مراد لی جائے تو اس سے صرف اتنا نکلے گا کہ چونکہ ظاہر میں ایسی باتیں بری سمجھی جاتی ہیں اس لئے جب اس نے یہ بات کہی تو حضرت مریم نے کہا۔ ہائے ہائے تم کیسی باتیںکر رہے ہو کبھی مردوں کے بغیر بھی بچہ پیدا ہو ا ہے اور اگر یہ الفاظ بھی تاثیر رویاء کے ماتحت سمجھے جائیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ چونکہ ان کو بلا مرد کے ایک بچہ کی ولادت کی خبر دی جا رہی تھی اس لئے وہ حیرت ظاہر کر رہی ہیں کہ کیا خدا مجھ سے یہ سلوک کرے گا۔
بہرحال اس آیت سے صاف ثابت ہے کہ حضرت مریم نے یہی سمجھا تھا کہ بغیر شادی کے اور شادی سے پہلے اولاد ہو گی۔ کیونکہ لم یمسسنی بتاتا ہے کہ وہ سمجھتی تھیں کہ اولاد اس رویاء کے دن کے بعد شادی سے پہلے ہو گی ورنہ ماضی کے ذکرکی نفی کے معنے کیا ہوئے۔
دوسرے لم اک بغیا بھی یہی بتاتا ہے۔پہلا جائز تعلق کی نفی کرتا ہے اور دوسرا ناجائز تعلق کی۔ آئندہ شادی کے ہونے یا نہ ہونے کا وہ ذکر تک نہیں کرتیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے اس وقت یہ سوال نہیں تھا کہ مجھے وقف کیا ہوا ہے اس لئے میرے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی بلکہ اس وقت ان کے سامنے اپنی ماضی کی حالت تھی جس میں اولاد ناممکن تھی۔ اگر آئندہ تعلقات کے نتیجہ میں وہ اولاد کاوعدہ سمجھتیں تو وہ یایہ کہتیں کہ میری تو شادی نہیں ہو سکتی پھر اولاد کیسی اور یا پھر شادی کا احتمال تھا وہ اس وعدہ پر تعجب نہ کرتیں۔

ترجمہ :
(فرشتہ نے) کہا (بات) اسی طرح (ہے جس طرح تو نے کہی) (مگر) تیرے رب نے یہ کہا ہے کہ یہ (کام) مجھ پر آسان ہے اور (ہم اس لئے یہ لڑکا پیدا کریں گے) تاکہ اسے لوگوں کے لئے ایک نشان بنائیںاور اپنی طرف سے رحمت کا (موجب بھی) بنائیں اور یہ (امر) ہماری تقدیر میں طے ہو چکا ہے ۔
حل لغات :
مقضیا عربی زبان میں قضاء اور قدر دو الگ الگ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں مگر عام طور پر لوگ ان دونوں لفظوں کو ہم معنی سمجھتے ہیںحالانکہ حقیقتاً یہ ہم معنے نہیں۔ مفردات میں لکھا ہے القضاء فصل الامر قولا کان ذٰلک او فعلا۔ قضاء کسی امرکے فیصلہ کرنے کا نام ہے خواہ وہ قولاً ہو یا فعلاً ہو۔ وکل واحد منھما علی وجھین الٰھی و بشری اور یہ قضاء الٰہی بھی ہوتی ہے اور بشری بھی۔ یعنی کبھی خداکے متعلق قضاء کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے اور کبھی بشر کے متعلق قضاء کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے۔ والقضاء من اللہ تعالیٰ اخص من القدر لانہ الفصل بین التقدیر فالقدر ھو التقدیر والقضاء ھو الفصل و والقطع یعنی جب قضاء الٰہی کا ذکرکیا جائے تو وہ قدر سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ کیونکہ قدر صرف ایک معیار یا سکیم کے تجویز کرنے کو کہتے ہیں اور قضاء کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس سکیم کے جاری کرنے کا فیصلہ کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب شام تشریف لے گئے اور وہاں طاعون پڑ گئی۔ جو طاعون عمواس کے نام سے مشہور ہے اور حضرت ابو عبیدہ ؓ اور اسلامی لشکر نے آپ کا استقبال کیا تو اس وقت صحابہ ؓ نے مشورہ دیا کہ چونکہ اس وقت علاقہ میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس لئے آپ کو واپس تشریف لے جانا چاہئے۔ حضرت عمر ؓ نے ان کے مشورہ کو قبول کرکے فیصلہ کرلیا کہ آپ واپس لوٹ جائیں گے۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ ظاہرپر بڑا اصرار کرنے والے تھے انہیں جب اس فیصلہ کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ اتفرمن القضاء کیا آپ قضا الٰہی سے بھاگ رہے ہیں؟ حضرت عمر ؓ نے کہا افر من قضاء اللہ الی قدراللہ میں اللہ تعالیٰ کی قضاء سے اس کی قدر کی طرف بھاگ رہاہوں یعنی اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فیصلہ ہے اور ایک عام فیصلہ۔ یہ دونوں فیصلے اسی کے ہیں کسی اور کے نہیں۔ پس میں اس کے فیصلہ سے بھاگ نہیں رہا بلکہ اس کے ایک فیصلہ سے اس کے دوسرے فیصلہ کی طرف جا رہاہوں۔ تاریخوں میں لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ کو جب طاعون کی خبر ملی اور آپ نے مشورہ کے لئے لوگوں کواکٹھا کیا تو آپ نے دریافت کیا کہ شام میں تو پہلے بھی طاعون پڑا کرتی ہے پھر لوگ ایسے موقعہ پر کیاکیاکرتے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ جب طاعون پھیلتی ہے تو لوگ بھاگ کر ادھر ادھر چلے جاتے ہیں اور طاعون کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی مشورہ کی طرف آپ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ خداتعالیٰ نے ایک عام قانون بھی بنایا ہوا ہے کہ جوشخص طاعون کے مقام سے بھاگ کر ادھر ادھر کھلی ہوا میں چلا جائے وہ بچ جاتاہے۔ پس جبکہ یہ قانون بھی خداتعالیٰ کا ہی بنایا ہوا ہے تو میں اس کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کر رہا بلکہ اس کی قضاء سے قدرکی طرف لوٹ رہاہوں۔ یعنی خداتعالیٰ کے خاص قانون کے مقابلہ میں اس کے عام قانون کی طرف جا رہا ہوں۔ پس تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں بھاگ رہا ہوں میں صرف ایک قانون سے اس کے دوسرے قانون کی طرف جارہا ہوں ۔پس حضرت عمر ؓنے بھی قضاء اور قدر میں فرق کیاہے اور مفردات والے لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے اس قول کا مفہوم یہی تھا۔کہ ان القدر ما لم یکن قضاء فمرجو ان یدفعہ اللہ یعنی جب تک قدر قضاء کارنگ اختیار نہ کرلے اُس وقت تک امید ہوتی ہے کہ خداتعالیٰ نے اُسے ٹلادے۔گویا آپ نے بتایا کہ چونکہ میں ابھی اس ملک میں داخل نہیں ہوااور خداتعالیٰ نے ایک دوسرا قانون بھی بنایا ہو ا ہے کہ جو لوگ طاعون زدہ مقام سے اِدھر اُدھر بھاگ جاتے ہیں وہ بچ جاتے ہیں اِس لیے میں اُسی کے ایک دوسرے قانون سے فائدہ اُٹھا رہا ہوں ۔فاذا قضی فلا مدفع لہ لیکن جب وہ فیصلہ کردے تو پھر اُس کے فیصلہ سے کوئی بچ نہیں سکتا۔
تفسیر:
ھو علی ھین کے یہ معنی نہیں کہ اور لوگوں کے لئے تو یہ بات مشکل ہے اور میرے لئے آسان ہے کیونکہ انسان کے لئے تو یہ چیز قطعی طور پر ناممکن ہے۔ یہاں صرف خداتعالیٰ کے پہلو کو ہی مد نظر رکھا گیا ہے متقابل بیان مد نظر نہیں اور مراد یہ ہے کہ جب میں کسی کام کا ارادہ کر لوں تو میرے لئے کوئی مشکل نہیں۔
ولنجعلہ ایۃ للناس ورحمۃ منا اس جگہ لام لامِ عاقبت ہے یعنی ہم ضرور ایسا کرینگے اور اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ہماری ایک آیت ہو جائیگا اور لوگو ںکے لئے ایک نشان بن جائیگا اور ہمارے اس فعل کے نتیجہ میں وہ لوگوں کیلئے رحمت بن جائے گا ۔مراد یہ کہ ہم جو اُسے بغیر باپ کے پیدا کریں گے تو یہ نشان ہو گا اس بات کا کہ ابراہیمی نُور اب ہم بنی اسرائیل سے نبی اسمعیل کی طرف منتقل کرنے والے ہیں۔ورحمۃ منااور پھر اس کے ساتھ ہی ہم اُسے لوگوں کیلئے رحمت بنادیں گے ۔ یہاں سوال پیداہوتا ہے کہ جب بنی اسرائیل میں نبوت کا سلسلہ منقظع ہو گیا تو مسیح لوگوں کے لئے رحمت کس طرح بنا ؟اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ مسیح کے ظہور کے بعد اُس کی تعلیم سے یہود کی خشونت اور اُن کی درشتی میں جو کمی آنے والی تھی اُس کا رحمۃ منامیں ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے یہود کی خشونت کو دُور کیا جائے گا۔کیونکہ وہ دُنیا کو محبت اور پیا ر کی تعلیم د ے گا اور رحم پر اپنا سارا زور صرف کرے گا ۔پس وہ لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمت کا ایک ذریعہ بن جائے گا ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ بنی اسرائیل سے بنی اسمٰعیل کی طرف نعمت نبوت منتقل ہونے کے نتیجہ میں ہی نبی آخر الزمان نے پیداہونا تھا پس چونکہ وہ ذریعہ بننے والا تھا رحمتہ للعالمین کے ظہور کا اور وہ رحمت والی تعلیم کا راستہ صاف کرنے والا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے اُسے اپنی رحمت کے ماتحت نازل کیا ہے یعنی ہم نے اُ س کو ذریعہ بنایا ہے اُس عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے کا جس کے نتیجہ میں نبی آخر الزما ن نے پیداہونا ہے۔ گویا مسیح ایک کُنجی تھا اس دروازہ کی جس کے کھلنے پر خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی رحمت نے دنیا پر نازل ہونا تھا۔
یہ قرآن کریم کا کتنا بڑا کمال ہے کہ مسیح سردار تو عیسائیوں کے ہیں لیکن انجیل میں جہاں مسیح کی پیدائش کی پیشگوئی ہے وہاں یہ ذکر تک نہیں کیا گیا کہ مسیح دنیا کو محبت کی تعلیم دے گا ۔مگر قرآن مجید نے اُس کی پیدائش کی پیشگوئی میں ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی پیدائش سے پہلے مریم کو بتا دیا تھا کہ وہ محبت کی تعلیم دے گا۔یہ مضمون قرآن کریم کے انصاف اور کمال پر دلالت کرتا ہے اور انجیل کے ناقص ہونے کی دلیل ہے ۔مسیح ؑ کا سب سے بڑا کمال اس کی رحم کی تعلیم تھی ۔مگر انجیل نے اس کی پیدائش کی پیشگوئی میں اس کا ذکر تک نہیں کیا ہاں قرآن نے کیا ہے جو اس کے کامل اور سچا ہونے کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تمام انبیاء اپنے اپنے رنگ میں خدا تعالیٰ کی آیت ہوتے ہیں ۔مگر عیسائیوں کی عادت ہے کہ وہ بعض الفاظ سے نا جائز فائدہ اٹھا نے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ولنجعلہ ایۃ للناس ورحمۃ منا حضرت مسیح کی اہمیت پر دلالت کرتے ہیں اور ہم بھی اُن کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں مگر عیسائی اِس قسم کے الفاظ سے انہیں غیر معمولی اہمیت دے دیتے ہیں ۔ ہمارا اُن سے یہ اختلاف نہیں کہ ہم نعوذباللہ ادنیٰ درجہ کا نبی سمجھتے ہیں ۔ہم بھی مسیح کو خدا تعالیٰ کا نبی اور رسول سمجھتے ہیں مگر ہم یہ نہیں سمجھتے کہ انہیں کوئی ایسی فوقیت حاصل تھی جو دوسرے نبیوں کو حاصل نہیںتھی یا اُن میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ کمالات پائے جاتے تھے ۔بہر حال اس آیت میں حضرت مسیح کے متعلق جو آیت کا لفظ آیا ہے عیسائی اُس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اُنہیں قرآن نے غیر معمولی اہمیت دی ہے مگر یہ درست نہیں۔قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ اس نے آیت کا لفظ اور لوگوں کے متعلق بھی استعمال کیا ہے چنانچہ ایک نبی کے متعلق آتا ہے ۔ولنجعلک ایۃ للناس اس جگہ پہلے ایک نبی کی رئو یا ء بیان کی گئی ہے اور پھر اس رویا کو بیان کرکے کہا گیا ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم تجھے لوگوں کیلئے آیت بنادینگے ۔ یہ حزقیل نبی تھے موسیٰ ؑ اور دائود ؑ سے درجہ میں چھوٹے تھے ۔
پھر نبی تو الگ رہے اُونٹنی تک کو آیت کہا گیا ہے۔چنانچہ اعراف ع۱۰ میں آتا ہے ھذۃ نا قۃ اللہ لکم ایۃ ۔یہ خدا کی اونٹنی ہے جو تمہارے لئے آیت ہے ۔اگر اونٹنی آیت ہو سکتی ہے تو مسیح کے آیت ہونے میں اس کی کونسی فضیلت رہی ۔
پھر فرعون کے متعلق فرماتا ہے ۔فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک اٰیۃ (یونس)
ہم آج تیرے جسم کو بچا لیں گے تاکہ تو اپنے بعد میں آنے والوں کے لئے ایک آیت بن جائے ۔گویا قرآن کریم میں مسیح کے علاوہ دوسرے رسولوں کو بھی آیت کہا گیا ہے ۔جانوروں کو بھی آیت کہا گیا ہے بلکہ ایک دشمن خدا اور کافر فرعون کو بھی آیت کہا گیا ۔پس آیت کے اتنے ہی معنے ہیں کہ اُس کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی صداقت نظر آجاتی ہے۔ یہ معنے نہیں کہ اُسے دوسروں سے کوئی بڑا درجہ حاصل ہوجاتا ہو۔ اِسی طرح یہ جو فرمایا کہ رحمۃ منا یہ بھی کوئی خاص فضیلت کی بات نہیں ۔حضرت یحییٰ کے متعلق اس سے پہلے فرمایا گیا تھا کہ حنانا من لدنا اور حنان کا لفظ عربی زبان میں رحمت کے معنو ں میں ہی استعمال ہوتا ہے ۔چنانچہ لُغت والے لکھتے ہیں کہ حنان اس اظہا ر محبت کو کہتے ہیں جس میں آواز ہو ۔جیسے ماں کو بعض دفعہ جوش آتا ہے تو وہ اپنے بچہ کو پچکارنے لگ جاتی ہے اور زبان سے بھی محبت اور پیا ر کے الفاظ دُہراتی ہے۔ پس محبت کے کمال پر جبکہ زبان سے بھی محبت کا اظہار ہونے لگے حنان کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور یہ محبت بغیر رحمت کے نہیں ہو سکتی جب بھی اس قسم کا اظہار ہو گا پہلے رحمت آئے گی ۔پس حنان کا لفظ بھی رحمت کے مترادف ہے اور یہ حضرت یحییٰ کے متعلق استعمال ہوا ہے کہ ہم نے اُسے حنان دی اور اُس میں رحمت پیدا کردی ۔بلکہ مزید بات یہ ہے کہ یحییٰ کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے اُ سے حنان یا رحمت اپنے پاس سے بخشی ۔لیکن مسیح کے لئے یہ نہیں کہاگیا کہ ہم نے اُسے رحمت بخشی بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے اُسے لوگوں پر رحمت کرکے اُتارا ۔گویا رحمت خدا تعالیٰ کیطرف منسوب کی گئی ہے نہ کہ مسیح کی طرف پس یحییٰ ایک مجسم رحمت تھے اور عیسیٰ ؑ صرف لوگوں کے لئے رحمت کا نشان بنا کر بھیجے گئے تھے اور ظاہر ہے کہ مجسم رحمت بڑی چیز ہے ۔ پھر رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت نہ صرف یہ کہا گیا آپ رحمت بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ آپ رحمتہ للعالمین تھے فرماتا ہے وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین (الانبیاء) اے ہمارے رسول ہم نے تجھے تمام جہان کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے گویا حضرت عیسیٰ کو رحمت بھی نہیں کہا صرف رحمت کا نشان کہا ۔حضرت یحییٰ کو رحمت کہا اور محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق فرمایا کہ ہم نے اُن کو رحمت ہی نہیں بنایا بلکہ ایسی رحمت بنایا ہے جو مختص القوم اور مختص الزمان نہیں بلکہ سارے جہان کے لئے اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے ہے۔گویا رسول کریم ﷺ کو۔
(۱) ایک تو رحمت بنایا گیا نہ کہ صرف لوگوں پر رحمت کرکے بھیجوایا گیا۔
(۲) دوسرے رحمت بھی مختص القوم ومختص الزمان نہیں بنایا گیا بلکہ رحمت للعالمین بنایا گیا ۔
یہاں ایک عیسائی کہ سکتا ہے کہ ہم یہ نہیں مان سکتے کہ وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین میں آپ کو سارے جہان کے لئے رحمت قرار دیا گیا ہے کیونکہ مریم کی نسبت بھی تو کہا گیا ہے کہ اُسے عالمین کی عورتوں پر فضیلت دی گئی ہے جیسا کہ فرما تا ہے ان اللہ اصطفٰک وطھرک واصطفک علی نساء العلمین مگر آپ لوگ وہاں نساء العالمین کے یہ معنی کرتے ہیں کہ مریم کو اپنی قوم کی عورتوں پر فضیلت دی گئی تھی ۔اگر وہا ں عالمین سے صرف قوم کی عورتیں مراد ہو سکتی ہیں تو یہاں بھی یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین میں آپ کو اپنی قوم کے لئے رحمت قرار دیا گیا ہے نہ کہ سارے جہان کے لئے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ الفاظ محدود معنے بھی رکھتے ہیں اور غیر محدود بھی ۔ یہ سیا ق وسباق سے پتہ چلتا ہے کہ کسی لفظ کے معنے محدود ہیں یا غیر محدود ۔ سورئہ انبیاء میں غیر عرب قوموں کا ذکر کرکے اس فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے ۔خصوصاََ بنی اسرائیل کا ذکر کرکے کیونکہ پہلے بتایا ہے ان الا رض یرثھا عبادی الصلحون اور پھر یہ آیت آتی ہے ۔پس اس جگہ بنو اسرائیل کو شامل کر کے تما م انسانوںپر رسول کریم ﷺ کی فضیلت کا ذکر ہے ۔اس لئے یہ وعدہ بہر حال وسیع ہے ۔اگر غیر قوموں کا ذکر نہ ہو تا تو تمہارا حق تھا کہ تم کہتے کہ جس طرح وہا ں تمہارے نزدیک صرف بنی اسرائیل کی عورتوں پر مریم کی فضیلت کا ذکر اِسی طرح یہا ں یہ بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو اس زمانہ کے عربوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے ۔مگر یہاں عربوں کا ذکر نہیں بلکہ غیر قوموں کا ذکر ہے اور بنی اسرائیل کی نعمتیں اُن سے چھین کر مسلمانوں کو دئیے جانے کا بیان ہے پس سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ رحمتہ لّلعالمین میں غیر قومیں بھی شامل ہیں لیکن مریم والا وعدہ صرف اپنی قوم کی عورتوں کے متعلق ہے پس رسول کریم ﷺ کے متعلق مختص القوم والزمان ہونے کے معنے نہیں لئے جاسکتے کیونکہ وہاں ایک غیر قوم کا ذکر ہے۔ ایسی قوم کا جو اپنے آپ کو ساری دنیا سے افضل سمجھتی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نعمتیں چھین کر مسلمانوں کو دینے کا وعدہ کرتا ہے۔ پس رسول کریم ﷺ کا رحمت ہونا صرف قبائل عرب کیلئے نہیں بلکہ سب اقوام ِ عالم کیلئے ہے۔
وکان امرامقضیا چونکہ پہلے خدا تعالیٰ نے یہ کہا تھا کہ ھو علی ھینیعنی خدا اگر کسی کو بغیر باپ پیدا کرنا چاہے تو اُس کے لئے یہ کو ئی مشکل امر نہیں اِس لئے اب یہ بتا تا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قضاء تھی کہ مریم کے ہاں ایسا بیٹا پیدا ہوگا جو بغیر باپ کے ہوگا اور اس طرح بنی اسرائیل سے سلسلہ ٔ نبوت کا انقطاع ہو کر بنی اسمٰعیل میں منتقل ہو جائیگا ۔یہ وہ تقدیر نہیں تھی جو ٹل جا تی بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے متعلق احکام جاری ہو چکے تھے۔

اس پر مریم نے (اپنے پیٹ میں) اُس (بچہ )کو اٹھا لیا اور پھر اس کو لے کر ایک دور مکان کی طرف چلی گئی۔
تفسیر :
حضرت مریم کس طرح حاملہ ہوئیں یہ ایک الٰہی راز ہے جو قانونِ قدرت سے بالا ہے یا اگر قانون قدرت میں شامل ہے تو یہ ایک ایسا حصہ ہے جس کا ابھی انسان کو علم نہیں ہوسکا ۔قانون قدرت کے بھی کئی راز ایسے ہیں جن کا ابھی انسان کوپتہ نہیں لگا جیسے اٹیم بم کا اس سے پہلے نسلِ انسانی کو کوئی علم نہیں تھالیکن اب اس کا انکشاف ہوا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے کئی راز ایسے ہیں جن کو ابھی دنیا دریافت نہیں کرسکی ۔اُنہی اسرار میں سے ایک بن باپ ولادت بھی ہے ۔ بہر حال وہ خدا جس نے کُن سے سب کچھ پیدا کیا ہے وہ مادہ میں بھی نئے تغیر پیدا کرسکتا ہے لیکن اس کے علاوہ تاریخ میں ہمیں بعض ایسی شہادتیں بھی نظر آتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اور بچے بھی بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں ۔مثلاََمنچو خاندان جو چین پر حکمران تھا اور جو ۰۶؁ یا ۰۷ ؁ میں آکر تباہ ہوا اس کی بنیاد بھی اِسی طرح پڑی کہ اس خاندان کی ایک پڑدادی بغیر نکاح کے حاملہ ہوگئی لوگوں نے بڑا شور مچایا مگر اس نے کہا اِس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ وہ کسی گڈریا کی بیٹی تھی اُس نے کہا میں ایک دن اپنے جانور چرا رہی تھی کہ ایک فرشتہ نازل ہو اور اس نے کہا کہ میں تجھ پر خدا کا نور ڈالتا ہوں تیرے ہا ں ایک لڑکا پیدا ہوگا چنانچہ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ مجھے حمل ہو گیا ہے پس اس میں میرا کوئی قصور نہیں ۔
لوگوں نے یہ بات سنی تو انہوں نے کہا یہ ایک آئندہ کی خبر بتا رہی ہے انتظار کروکہ کیا ہوتا ہے چنانچہ نو ماہ کے بعداس کے ہاں لڑکا پیدا ہوگیا ۔لوگوں نے کہا کہ اس عورت کی پہلی بات تو سچی ہو گئی اب اگلی خبر کا انتظار کرنا چاہئے۔ چنانچہ وہ لڑکا جوان ہوا اور اٹھارہ بیس سال کی عمر میں اس کی شادی ہوگئی پھر جلد ی ہی اس کے ہاں بھی ایک لڑکا پیدا ہوگیا ۔وہ پندرہ سولہ برس کا تھا کہ ملک میں فساد ہوگیا۔چونکہ وہ بہادر تھااُس نے نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملایا اور حملہ کرکے اِرد گرد کے دیہات پر قابض ہوگیا ۔اس کا میابی سے اس کا حوصلہ بڑھااور اس نے آگے قدم بڑھایا ۔پھر وہاں کامیابی ہوئی تو اور آگے بڑھا یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ چین کا بادشاہ بن گیا۔ اس واقعہ نے ثابت کردیا کہ جو کچھ اُس عورت نے کہا تھا درست تھا اور اسے خدا ہی نے خبر دی تھی ۔اِسی طرح چنگیز خاں نو ترکوں کی دوسری نسل کا سردار ہے اس کے متعلق بھی ایسا ہی واقعہ ہو ا۔ترکوں کی دو شاخیں ہیں ۔ایک شاخ برلاس ہے جس میں سے ہم ہیں اور دوسری شاخ وہ ہے جس میں چنگیز خان ۔باتو خان۔جتلائی خان وغیرہ مشہور لوگ گذرے ہیں ۔چنگیز خاں کا باپ جب مرگیا اور اس کی ماں بیوہ ہوگئی توملک کے رواج کے لحاظ سے اُسکی ماں ہی بادشاہ تسلیم کی گئی۔ایک دن اس کی ماں نے درباریوں کو بلایا اور کہا کہ مجھے حمل ہوگیا ہے درباریوں نے شور مچادیا کہ ہم تجھے قتل کردیں گے ۔اُس نے کہا اس میں میرا کوئی قصور نہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیا ہے اور وہ میرے آر پار ہوگیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی مجھے بتایا گیا کہ تیرے ہاں ایک لڑکا ہوگا جو دنیا کا بادشاہ ہو گا ۔ چنانچہ اس کے بعد جب میں بیدار ہوئی تو مجھے حمل ہو چکا تھا ۔ انہوں نے یہ سُنکر صبر کر لیا اور فیصلہ کیا کہ ہمیں اس خبر کے پورا ہونے کا انتظار کرنا چاہئے چنانچہ اسی حمل سے چنگیز خاں پیداہوا جس سے ساری دنیا میں بڑی بھا ری تباہی آئی اور دنیا کا بادشاہ بنا۔
اِسی طرح اور بہت سے واقعات انسائیکلوپیڈیا بر ٹینیکا میں بیان کئے گئے ہیںاور عجیب بات یہ کہ اس قسم کے جتنے بچے پیدا ہوئے ہیں اُن کے پیدا ہونے سے پہلے عورتوں کو کوئی نہ کوئی خواب بھی آئی ہے جس کی وجہ سے ہم اُن پر الزام نہیں لگا سکتے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے جھوٹ بولا ۔پس مسیح ؑ کی بن باپ ولادت کوئی قابل تعجب نہیں ۔کیونکہ مسیح ؑ کی پیدائش کے علاوہ اس قسم کے اور بھی کئی واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں ۔
فحملتہسے مراد وہی حمل ہے جو اس رویاء کے نتیجہ میں ہوا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی بات تسلیم کی ہے چنانچہ ’’مواھب الرحمن ‘‘ میں آپ نے صاف طور پر لکھا ہے کہ یہ بات ہمارے عقائد میں داخل ہے کہ مسیح بن باپ پیدا ہوئے اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے لئے سوائے اِن دو صورتوں کے اور کوئی صورت ہی نہیں کہ یا تو ہم یہ کہیں کہ وہ خدا کے حکم کے ماتحت پیدا ہوئے تھے اور یا یہ کہیں کہ اُن کی ولادت نا جائز تھی ۔غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے اپنا عقیدہ یہی بیا ن فرمایا ہے کہ مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور یہی ہمارہ عقیدہ ہے ۔میں نے زیادہ زور اس پر اس لئے دیا ہے مولوی محمد علی صاحب امیر غیر مبایعین نے لکھا ہے کہ مسیح کا باپ تھا اور اُس کا نا م یوسف تھا حالانکہ جیسا کہ بتا چکا ہوں انجیل کے رُو سے بھی یوسف نے اُس وقت تک مریم کے ساتھ تعلقات نہیں رکھے جب تک کہ مسیح پیدا نہیں ہوگئے۔
فانتبذت بہ مکانا قصیا اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حمل کے ایام میں ایک وقت حضرت مریم پر ایسا بھی آیا جب انہیں کہیں دور جانا پڑا۔اس کے متعلق جب ہم بائبل پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں وہاں سے کچھ تفصیل ملتی ہے۔ وہ تفصیل یقیناایسی ہے کہ اگر اُس میں غلط بیانی کی کوئی وجہ ثابت نہ ہو تو اُسے تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
لوقا باب ۲ میں لکھا ہے کہ
ـــ’’اُن دنوں میں ایسا ہوا کہ قیصر اگسطس کی طرف سے یہ حکم جاری ہو اکہ ساری دنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں ۔یہ پہلی اسم نویسی سوریہ کے حاکم کورینس کے عہد میں ہوئی اور سب لوگ نام لکھوانے کے لئے اپنے اپنے شہر کو گئے پس یوسف بھی گلیل کے شہر ناصرہ سے دائود کے شہر بیت لحم کو گیا جو یہودیہ میں ہے اس لئے کہ وہ دائود کے گھرانے اور اولاد سے تاکہ اپنی منگیتر مریم کے ساتھ جو حاملہ تھی نام لکھوائے ‘‘ (انجیل لوقاب باب ۲ آیت اتا ۴)
انجیل کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ چونکہ قیصر اگسطس نے حکم دیا تھا کہ تمام شہرو ں اور گائوں کے لوگوں کے نام لکھے جائیں اس لئے یوسف بھی جو حضرت مریم کے شوہر تھے ناصرہ سے بیت لحم گئے کیونکہ وہ دائود کی نسل میں سے تھے اور بیت لحم اُس وقت قبیلہ دائود کا ایک بہت بڑا شہر تھا ۔اس سفر میں حضرت مریم بھی اُن کے ساتھ تھیں ۔مگر آگے لکھا ہے کہ چونکہ بیت لحم میں بہت سے لوگ اپنے نام لکھوانے کے لئے آئے ہوئے تھے اس لئے انہیں سرائے میں جگہ نہ ملی اور وہ کہیں باہر ٹھہرے ۔وہیں حضرت مریم کو دردِزہ شروع ہو ا اور بچہ پیدا ہوگیا ۔ (انجیل لوقاب باب ۲آیت ۷)
بیت لحم یروشلم سے جنوب کی طرف پانچ میل کے فاصلہ پر ہے اور بہت زرخیز علاقہ ہے ۔ناصرہ سے بھی بیت لحم جنوب کی طرف ہے اور قریباً ستّرمیل دُور ہے۔پس مکانا قصیا میں اسی سفر کی طرف اشارہ کیاگیا ہے جس کا انجیل میں ذکر آتا ہے کہ وہ ناصرہ سے بیت لحم گئیں۔

پس (جب وہ وہاں پہنچی)تو اُسے دردِزہ (اٹھی اور اُسے)مجبورکرکے ایک کھجور کے تنہ کی طرف لے گئی (جب مریم کو یقین ہو گیا کہ اسکے ہا ں بچہ ہونیوالا ہے تو اس نے دنیا کی انگشت نمائی کا خیا ل کرکے)کہا اے کاش میں اس سے پہلے مرجاتی اور میری یاد مٹا دی جاتی ۔
حل لغات :
مخاض کے معنے شدت کے ساتھ دردِزہ ہونے کے بھی ہیں اور مخاض پیدائش کے وقت کے قریب آجانے کو بھی کہتے ہیں ۔اِس وقت کے قریب آجانے کی بڑی علامت بھی دردِزہ ہی ہوا کرتی ہے۔
جذع تنے کو بھی کہتے ہیں اور بڑی شاخ کوبھی کہتے ہیں۔
تفسیر :
کھجور کے تنہ کی طرف انسان تبھی جاتا ہے جب وہ گھر میں نہ ہو اور جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے بائبل میں یہ ذکر آتا ہے کہ انہیں سرائے میں جگہ نہ ملی اور چونکہ وہ میدان میں ڈیرہ ڈالے پڑی تھیں معلوم ہوتا ہے اس جگہ پر کوئی کھجور کا درخت ہو گا جس کے نیچے وہ اُس وقت آگئیں ۔
ہمارے مفسرین کہتے ہیں کہ وہ درد کا سہارا لینے کے لئے وہاں گئیں تھیں لیکن درد کا سہارا لینے کی وجہ جیسا آگے چل کر بتائوں گا میرے نزدیک عیسائی روایتوں سے ڈر کر بنائی گئی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ہر درخت سایہ بھی دیتا اور سہارا بھی دیتا ہے اور یہ دونوں باتیں ایک ہی وقت میں اس کے اندر پائی جاتی ہیں ۔پھر انہوں نے سہارا کیوں کہا سایہ کیوں نہ کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائی روایات سے مطابقت رکھنے کا خیال ہمارے مفسرین کے ذہنوں پر غالب رہااور انہوں نے سایہ کی بجائے سہارا لینے کا ذکر کر دیا ۔اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ درد میں سہارے کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔چنانچہ جب شدید دردِزہ ہورہا ہو تو اُس وقت ہوشیار عورتیں زچہ کو پکڑا دیتی ہیں اور اُسے کہتی ہیں کہ ہمارے ہاتھ کو زور سے دبائو ۔وہ زور سے دباتی ہے تو اُسے درد میں ایک قسم کا سہارا مل جاتا ہے اور بچہ آسانی سے پیدا ہوجاتا ہے ۔ پس اتنی بات تو درست ہے کہ درد میں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن میرے نزدیک اس آیت کے متعلق مفسرین کی یہ توجیہ درست نہیں ۔
قالت یلیتنی مت قبل ھذا و کنت نسیا منسیا بعض لوگوں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں چونکہ بچہ جو پیداہونیوالا تھا بغیر باپ کے تھا اس لئے وہ گھبرائیں اور انہوں نے کہا کہ ہا ئے اب میں کیا کرونگی اور لوگوں کو کیا جواب دونگی ۔لیکن میرے نزدیک یہ درست نہیں ۔ تجربہ کا ر لوگ جانتے ہیں کہ پہلا بچہ ہمیشہ اتنی تکلیف کے ساتھ ہوتا ہے کہ عورت بے اختیار ہوکر کہتی ہے کہ ہائے میں اس سے پہلے مرگئی ہوتی ۔میں نے اپنے خاندان میں اپنی بیویوں اور بچیوں کو بھی دیکھا ہے ۔اُن میں سے ہر ایک اپنے پہلے بچہ کی ولادت پر یہی کہتی تھی ہائے میں اس سے پہلے مر جاتی ۔اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ واقعہ بھی اپنی ذات میں غیر معمولی تھا کہ ایک کنواری کے ہاں لڑکا پیدا ہوا مگر عام طور پر پہلوٹھے بچوں کی پیدائش کی تکلیف پر لڑکیا ں اسی طرح کہا کرتی ہیں ۔ پس اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی میں سمجھتا ہوں کہ شاید اس میں مخفی طور پر اُس حدیث کی تردید کی طرف بھی اشارہ ہو جس میں یہ ذکر آتا ہے کہ ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اُسے چھوتا ہے جسکی وجہ سے وہ رونے لگتا ہے لیکن مسیح جب پیدا ہو اتو شیطان نے اُسے نہیں چھُوا۔ پیدائش پر بچہ اس لئے روتا ہے کہ راستہ تنگ ہوتا ہے اور وہ نہایت تکلیف کے ساتھ رحم مادر میں سے باہر آتا ہے اُدھر عورت چیختی ہے کیونکہ اُسکی ہڈیاں ٹوٹتی ہیں ۔پس اللہ تعالیٰ نے یہ بتا کر کہ حضرت مریم کو اچھی خاصی درد ہوئی اس طرف بھی اشارہ کردیاہے کہ جب مریم کو اتنی درد ہوئی تو تم سمجھ سکتے ہو کہ عیسٰی کو بھی ضرور درد ہوئی ہوگی اور وہ بھی تکلیف سے چیخا چلایا ہو گا۔


پس (فرشتہ نے )اس کو نچلی جانب کیطرف سے پکارکر کہا کہ (اے عورت) غم نہ کر اللہ (تعالیٰ) نے تیر ی نچلی جانب ایک چشمہ بہایا ہوا ہے (اسکے پاس جا اور اپنی اور بچہ کی صفائی کر ) اور (وہ ) کھجور (جو تیرے قریب قریب ہوگی اس)کی ٹہنی کو پکڑ کر اپنی طرف ہلا۔ وہ تجھ پر تازہ بتازہ پھل پھینکے گی ۔
حل لغات :
تحتکے معنے نیچے کے بھی ہوتے ہیں اور نشیب کے بھی ہوتے ہیں کیونکہ نشیب بھی نیچے کی طرف ہوتا ہے ۔ اگر تم کسی پہاڑ پر جارہے ہوتو وہ جگہ بھی نیچے کہلائے گی جس طرف پہاڑی اُترتی ہو اور وہ جگہ جو تمہارے پائوں کے نیچے ہوگی وہ بھی تحت کہلائیگی ۔
سریا سرَیٰ سے ہے جس کے معنے چلنے والی چیز کے ہیں لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ سریا سرو سے ہے جس کے معنی بلندیٔ شان اور عظمت کے ہیں ۔
ھزّ کے معنے زور سے ہلانے کے ہوتے ہیں۔
تفسیر :
فنادھا من تحتھا سے مفسرین کا ذہن پائوں کے نیچے والے معنوں کی طرف چلا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسٰی چونکہ نیچے تھے اس لئے انہوں نے یہ آواز دی مگر بعض نے کہا ہے کہ اس مراد حضرت مسیح ؑ نہیں بلکہ فرشتہ ہے جس نے پائوں کی طرف سے کلام کیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس جگہ مراد فرشتہ ہی ہے ۔مگر یہ بالکل احمقانہ خیال ہے کہ فرشتہ نے جسم کے نیچے سے بات کی۔ تحتھاسے مراد نشیب ہے کیونکہ جس جگہ پر اُن کے ہاں بچہ پیدا ہوا اُس کے پاس نشیب تھا اور نشیب کے نیچے چشمہ تھا ۔ بائبل کی روایت سے پتہ لگتا ہے کہ بچہ بیت لحم میں پیدا ہوا اور بیت لحم ایک پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے جو سمندر سے ۲۳۵۰ فٹ اونچی ہے ۔اس کے ارد گرد سبز وادیاں ہیں جو سارے یہود اہ سے زیادہ سر سبز ہیں ۔اس پہاڑی کے اندر دو تین چشمے ہیں جن کو چشمئہ سلیمان کہتے ہیں اور یہیں سے شہر میں پانی لایا جاتا ہے ۔ گویا شہر میںپانی نہیں بلکہ تالاب سلیمان سے نالیوں کے ذریعہ پانی لایا جا تا ہے ۔مگر شہر سے جنوب مشرق کی طرف آٹھ سو گز یعنی نصف میل پر اور وہ بھی نیچے ڈھلوان کی طرف چشمہ ہے (قاموس کتاب المقدس ترجمہ وتالیف ڈاکٹر جارج ای پوسٹ ایم ڈی )پس فنادھا من تحتھا سے مراد ہے کہ اُنہیں چشمہ کی طرف سے آواز آئی ۔انسان آواز سے بھی اندازہ لگا لیتا ہے کہ جگہ کہاں ہے ۔مثلاََ اگر ہمیں کوئی شخص بائیں طرف سے آواز دے تو ہم اُس آواز سے فوراََ قیاس کرلیں گے کہ یہ آواز ہمیں بائیں طرف سے آئی ہے دائیں طرف سے نہیں آئی ۔پس حضرت مریم کو جگہ بتانے کے لئے کہ تمہیں کہاں سے پانی ملے گا فرشتہ نے اُس نشیب سے اُنہیں آوازدی اور اس طرح بتایا کہ پہاڑی کا جو نشیب ہے یہاں سے تمہیں پانی مل جائے گا ۔ یہ مراد نہیں کہ وہ اُن کی کمر کے نیچے سے بولا ۔جغرافیہ سے بھی ثابت ہے کہ وہاں چشمے پائے جاتے ہیں ۔
اصل بات یہ ہے کہ بائبل بتاتی ہے حضرت مریم جب بیت لحم گئیں توانہیں ٹھہرنے کے شہر میں جگہ نہیں ملی پس وہ شہر سے باہر جاکر رہیں اور بائبل بتاتی ہے کہ وہ اس جگہ رہیں ۔ گڈریے اپنے جانور چرایا کرتے تھے (انجیل لوقاب باب۲آیت ۸) اور گڈریے اپنے جانور ہمیشہ شہر سے کچھ فاصلے پر چرایا کرتے ہیں اسی وجہ سے لکھا ہے کہ جب بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے اُسے کھلیان میں ڈالا ۔ پس شہر اور چشموں کے درمیان کسی جگہ پر جاکر ٹھہر گئیں ۔شاید انہیں یہ بھی خیال ہو کہ اگرمیں شہرمیں رہی تو لوگ شور ڈالیں گے یہ کس کا بچہ ہے اس لئے بہتر ہے کہ شہر سے کچھ فاصلہ پر جا کر رہوں ۔ چنانچہ انہوں نے نے شہر سے کچھ فاصلہ پر ڈیرہ لگادیا ۔ جہاں سے پانی نزدیک تھا مگر بوجہ اجنبی جگہ ہونے کے انہیں علم نہیں تھا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے فرشتہ نے اُنہیں الہاماً بتا دیا کہ اس طرف چشمہ بہ رہا ہے ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مسیح ؑ کو اس ذریعہ سے حضرت اسمعٰیل سے مشابہت دی گئی ہو ۔حضرت اسمعٰیل علیہ السلام بھی جب مکہ میں چھوڑے گئے تو اُن کی والدہ کو اللہ تعالیٰ کے فرشتہ نے آوازدی تھی کہ جا ہم نے تیرے بیٹے کے پائوں تلے سے چشمہ پھوڑ دیا ہے۔بہر حال یہ خدا تعالیٰ کا ایک نشان تھا کہ اس نے حضرت مریم کی گھبراہٹ کے وقت انہیں بتا دیا کہ فلاں جگہ پانی ہے وہاں سے تم اپنی ضرورت پوری کرلو۔
ہمارے مفسرین تحتک سریاکے یہ معنی کرتے ہیں کہ خدانے تیرے نیچے ایک شاندار وجود بنایا ہے یعنی تیرا بچہ بڑی شان والا ہوگا اور بعض نے کہا کہ یہ لفظ حضرت مسیح ؑ کی شان کی بلندی اور اُن کی عظمت کے اظہار کے لئے بولا گیا ہے ۔در حقیقت ہمارے مفسرین کو شوق ہے کہ وہ اُٹھتے بیٹھتے حضرت مسیح کی تعریف کرتے رہیں اور اُن کی شان کی بلندی کے قصے بیان کرتے پھیریں ۔اُن کے پیدا ہونے کا ذکر ہو تو کہتے ہیں کہ تمام دنیا میں سے صرف وہی مسِ شیطان سے پاک تھے اور موت کا ہو توکہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا ہے ۔ پس یہ معنے اُن کی اِسی دیرینہ ذہنیت کا نتیجہ ہیں حالانکہ بات سیدھی تھی بچہ پیدا ہوا تو ماں کو اپنی اور بچہ کی صفائی کے لئے پانی کی ضرورت تھی ۔ خیال تھا کہ کپڑے دھونے اور بچے کو نہلانے کے لئے پانی کی ضرورت تھی ۔ خیال تھا کہ پکپڑے دھونے اور بچے کو نہلانے کے لئے پانی کہاں سے آئیگا فرشتے نے کہا کہ نیچے پانی موجود ہے وہاں سے اپنی ضرورت پوری کرلو اور جغر افیہ سے ثابت ہے کہ بیت لحم میں پہاڑی کے نیچے چشمے موجود ہیں ۔
اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ فکلی واشربی وقری عینا یعنی کھا اور پی اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر ۔کھجور کا ذکر چونکہ پہلے آچکا ہے اس لئے مراد یہ ہے کہ کھجوریں کھا اور پانی پی اور تجھے یہ جو فکر تھا کہ میں گندکا کیا علاج کروں گی اُس کو اب دُور کردے اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔ یہ اگلی عبارت صاف طور پر بتارہی ہے یہاں سریاکے معنے رفعت کے نہیں بلکہ چشمہ کے ہیں ۔پہاڑی کے نشیب میں چشمہ تھا ۔خدا تعالیٰ نے کہا کہ کھجوریں کھا ۔پانی پی او ر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر ۔
اب اس مقام پر ایک بہت بڑی مشکل پیش آجاتی ہے جس کو حل کرنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ عیسائی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت مسیح ؑ کی پیدائش ۲۵دِسمبرکو ہوئی اور لوقا کہتا ہے کہ قیصر اگسطِس نے اُس وقت مردم شماری کا حکم دیا تھا جس کے لئے یوسف اور مریم ناصرہ سے بیت لحم گئے اور وہیں حضرت مسیؑح کی پیدائش ہو ئی ۔ گویا ۲۵ دسمبر کو ۔اُس زمانہ میں جب قیصر اگسطِس کے حکم کے ماتحت یہودکی پہلی مردم شمارہوئی مسیح ؑ بیت لحم میں پیدا ہوئے۔ قرآن بتاتا ہے کہ مسیح اس موسم میں پیدا ہوئے جس میں کھجور پھل دیتی ہے اور کھجور کے زیادہ پھل دینے کا زمانہ دسمبر نہیں ہوتا بلکہ جولائی اگست ہوتا ہے اور پھر جب ہم یہ دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایک چشمے کا بھی پتہ بتایا جہاں وہ اپنے بچے کو نہلا سکتی تھیں اور اپنی صفائی کر سکتی تھیں تو اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جولائی اگست کا مہینہ تھا ورنہ سخت سردی کے موسم میں چشمہ کے پا نی سے نہانا اور بچے کو بھی غسل دینا خصوصاََ ایک پہاڑ پر اور عرب کے شمال میں عقل کے بالکل خلاف تھا ۔لیکن عیسائی تاریخ یہی کہتی ہے کہ حضرت مسیح ؑ دسمبر میں پیدا ہوئے اور اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت مسیح کی پیدائش دسمبر میں ہوئی تھی تو سوال پیدا ہو تا ہے کہ قرآن تو حضرت مریم سے کہتا کہ ھزی الیک بجذع النخلۃ تساقط علیک رطبا جنیا تو کھجور کے تنہ کو ہلا تجھ پر تازہ کھجوریں گریں گی ۔حالانکہ کھجور اُس وقت بہت کم ہوتی ہے۔کھجور زیادہ تر جولائی اگست میں ہو تی ہے اور مسیح کی پیدائش دسمبر میں ہوئی۔ پس اگریہ درست ہے کہ مسیح دسمبر میں پیدا ہوئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے کھجور کا کیوں ذکر کیا جبکہ کھجوریں اُس موسم میں ہوتی ہی نہیں ۔اس اعتراض سے ڈر کر ہمارے مفسرین نے یہ لکھ دیا کہ حضرت مریم کھجور کے تنہ کے پاس درد کا سہارا لینے گئی تھیں۔ انہیں خیال آیا کہ مسیح کی پیدائش دسمبر میں بتائی جاتی ہے اور دسمبر میںکھجورکے درخت پر بہت کم پھل لگتا ہے پھر وہ کھجور کے سوکھے درخت کے پاس کیوں گئی تھیں ۔اِس کا جواب اُنہوں نے یہ سوچا کہ وہ درد کا سہار الینے گئی تھیں ۔مگر انہیں یہ خیال نہ آیا کہ ساتھ قرآن نے یہ کہا کہ کھا اور یہ بھی کہا ہے کہ کھجور کے تنہ کو ہلا تو تجھ پر تازہ کھجوریں گرینگی ۔ صرف اس وجہ سے کہ عیسائی بیان اُن کے سامنے تھا کہ مسیح دسمبر میں پیدا ہوئے اوردسمبر میں کھجور کو بہت کم پھل لگتا ہے ۔ انہوں نے یہ معنی کر لئے کہ وہ سہارا لینے کے لئے کھجور کے سوکھے درخت کے پاس گئی تھیں لیکن بعض مفسروں کو فکلی اور تسٰقط علیک رطبا جنیا کا بھی خیال آیا اور انہوں نے لکھا ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا ۔حضرت مریم کھجور کے سوکھے درخت کو ہلاتیں تو تازہ بتازہ کھجوریں گرنی شروع ہوجا تی تھیں۔
دوسری مشکل ہمارے سامنے یہ پیش آتی ہے کہ یہ واقعہ یہود یہ میں ہوا ہے ۔قرآن اس موقعہ پر کھجور کا ذکر کرتا ہے اور بائبل کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں زیتون بادام اور انگور ہوتا تھا کھجور کا ذکر نہیں آتا اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ دسمبر میں بادام بھی نہیں ہوتا۔ انگور بھی نہیں ہوتا اور زیتون بھی نہیں ہوتا گویا قرآن صرف کھجور کا ذکر کرتا ہے مگر دسمبر میں کھجور بہت کم ہوتی ہے اور تاریخ بائبل یہودیہ میں زیتون ، بادام اور انگور کا تو ذکر کرتی ہے لیکن کھجور کا ذکر نہیں کرتی اور پھر یہ تینوں چیزیں بھی دسمبر میں نہیں ہوتیں ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیااس علاقہ میں جسمیں انجیل حضرت مسیح کی پیدائش بتاتی ہے کھجور ہوتی تھی یا نہیں ۔اِس کے متعلق جب ہم بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خود بائبل اس بات پر گواہ ہے کہ اُس علاقہ میں کھجور ہو کرتی تھی ۔چنانچہ لکھا ہے
"تب موسٰی کے سُسر قینی کی اولاد کھجوروں کے شہر سے بنی یہوداہ کے ساتھ یہوداہ کے بیابان کو جو عراد کے دکھن کی طرف ہے چڑھیں ۔" (قاضیوں باب ۱آیت ۱۶)
عراد جس کا حوالہ میں ذکر آتا ہے بیت لحم سے کوئی سو میل کے فاصلہ پرہے اور چونکہ اس سے شمالی کی طرف کھجوروں کا شہر تھااس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت لحم کے قریب قریب یقینا کھجوریں پائی جاتی تھیں ۔ پھر یہودیہ کا علاقہ جس میں بیت لحم ہے چونکہ عرب سے ملتا ہے اس لئے بھی اُس میں کھجوروں کا پایا جانا بالکل قرین قیاس ہے لیکن اس تحقیق سے الی جذع النخلۃ تک تو بات ٹھیک ہوگئی ۔پتہ لگ گیا کہ اُس علاقہ میں کھجور پائی جاتی تھی لیکن یہ سوال ابھی حل نہیں ہوا کہ قرآن کہتا ہے کہ مسیح جس موسم میں پیدا ہوئے اُس وقت کھجوریں درخت پر لگی ہوئی تھیں اور کھجوریں بھی پختہ تھیں اور کھانے کے قابل تھیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح دسمبر میں پیدا ہوئے جبکہ کھجوریںبہت کم ہوتی ہیں ۔اس سے لازماً یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک حضرت مسیح ؑ کی پیدائش اس موسم میں ہوتی ہے جس میں کھجور لگی ہوئی ہوتی ہے مسیحی تاریخوں سے پتہ لگتا ہے کہ مسیح ۲۵دسمبر کو پیدا ہوا ۔بعض اس کا وقت اپریل بتاتی ہیں ۔مگر دسمبر یا اپریل میں کھجور درخت پر بہت کم ہوتی ہے ۔پس ہمیں اس مسئلہ کی مزید تحقیق کی ضرورت پیش آتی ہے ۔
میں نے کہا تھا کہ لوقا نے جوکچھ بیان کیاہے اگر اُس میں غلط بیانی کی کوئی وجہ نہیں تو ٹھیک ہے لیکن اب اس قرآنی آیت نے ہمیں مجبور کردیا ہے کہ ہم وہ وجہ تلاش کریں جس کی بناء پر ان دونوں باتوں کا آپس میں جوڑ نظر نہیں آتا ۔اس نقطہ نگاہ سے اب ہم پھر تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لوقا کو مردم شماری کے بارہ میں غلطی لگی ہے ۔وہ کہتا ہے کہ یوسف اور مریم مردم شماری کی غرض سے ناصرہ سے بیت لحم گئے ۔لیکن جب ہم روما کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ لگتا ہے کہ مسیح کی پیدائش کے سن میں کوئی مردم شماری ہوئی ہی نہیں ہوئی اور وہ لکھتا ہے کہ یہ یہود کے لئے اتنی نئی چیز تھی کہ وہ حیران ہوتے تھے اور تعجب کرتے تھے کہ اس مردم شماری کی غرض کیا ہے ۔اگر سات سال پہلے بھی مردم شماری ہوچکی ہوتی تویہود اتنے حیران کیوں ہوتے ؟ علاوہ ازیں تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہیروڈ (HEROD)کی وفات کے وقت کون سٹیسلس واردس گورنر تھا۔ لوقا کا بیان کردہ کورینس (QUIRINIUS) نہیں تھا بلکہ رومی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے گورنر سینٹی نس (SENTINIS) اور (TITNIS) تھے ۔اول الذکر ۹قبل مسیح سے ۶قبل مسیح تک رہا اور دوسرے کا ذکر تاریخ میں ۱۰ قبل مسیح میں آتا ہے ۔(انسائیکلوپیڈیا ببلیکا زیر لفظ کرانیکل) اس سے نتیجہ نکلا کہ مسیح کی پیدائش سے دس سال قبل سے لے کر ہیروڈ کی وفات تک کورنیس نام کا کوئی گورنر تھا ہی نہیں ۔پس جبکہ دس سال قبل مسیح سے بعد وفات ہیروڈ تک کے گورنروں کے نام ہمیں معلوم ہیں اور اُن میں سے کوئی بھی لوقا کا بیان کردہ کورنیس نہ تھا اور جوزیفس کے بیان کے مطابق اُس وقت کوئی مردم شماری ہی نہ تھی تو ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ لوقا کے ذہن میں واقعات مشوش ہوگئے ہیں۔یا تو اُس نے مردم شماری کا ذکر سن کر جو کئی سال بعد ہوئی تھی ،یہ سمجھ لیا کہ وہ پہلے ہوئی تھی اور یوسف اس کے لئے باہر گئے تھے اور پھر پیدائش کا واقعہ اُس نے ساتھ ملالیا ۔اور یا پھراُس نے جان بوجھ کر اُن واقعات کو بدلا اور یہی حقیقت ہے۔ اب میں بتاتا ہوں کہ کس طرح قرآنی بات سچی ثابت ہوتی ہے ۔
بات یہ ہے کہ حضرت مریم بغیر خاوند کے حاملہ ہوئیں ۔خاوند نے شور مچایا کہ یہ میرا حمل نہیں ۔اِدھر خاوند کو خواب آگئی کہ مریم کو اپنے گھر میں لے آکیونکہ وہ جو کہتی ہے ٹھیک کہتی ہے۔مگر جس کو خواب آگئی اُسکی تسلی ہوگئی کہ میری بیوی بدکار نہیں۔لیکن شہر والے تو نہیں مان سکتے تھے جو بھی سُنیگا وہ کہیگا کہ حرام کا ہے۔ اور کوئی خاوند یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کی بیوی کو بد کار کہا جا ئے ۔پس چونکہ لوگوں میں بدنامی کا ڈر تھا ۔اِس لیے تین چار مہینے جب تک حمل چھپ سکتا تھا وہ اپنے گھر میں رہے اورجب دیکھا کہ پیٹ بڑا ہورہا ہے اور حمل اب چھپ نہیں سکتا تو ایک دور کے علاقہ میں چلے گئے اور وہا ں جا کر بچہ پیدا ہوا ۔اب لوقا کیلئے اس بات کے اظہار میں کیا مشکل تھی لوقا کیلئے یہ مشکل تھی کہ وہ صرف یہی نہیں بتاتا کہ مریم کو خواب میں فرشتہ ملا اور اُس نے بتایا کہ تو حاملہ ہوگی بلکہ وہ ساتھ ہی معجزے بھی بیان کرنے شروع کردیتا ہے کہ ادھر مریم حاملہ ہوئیں اور اُدھر خداوند کے ظہور کی وجہ سے معجزے ظاہر ہونے لگ گئے۔ چنانچہ مریم حضرت زکریا کی بیوی سے ملنے گئیں تو وہ کہنے لگیں کہ ’’ میرے خداوند کی ماں میرے پاس آئی ہے ‘‘پھر کہا کہ ’’ دیکھو تیرے سلام کی آواز جونہی میرے کا ن تک پہنچی لڑکا میرے پیٹ میں خوشی سے اُچھل پڑا ۔‘‘(لوقا باب۱ آیت ۴۳،۴۴) اور یہ ظاہر بات ہے کہ جب اس حمل کے ساتھ ہی معجزات ظاہر ہونے لگ گئے تھے تو حمل کو چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ مگر اِدھر واقعات بتارہے تھے کہ یوسف اور مریم ایک لمبے عرصہ تک باہر رہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یوسف کو خواب آچکی تھی کہ میری بیوی کا کوئی قصور نہیں ۔ مگر صرف یوسف کی خواب سے کیا بنتا تھا۔سوال لوگوں میں بدنامی کا تھا پس یوسف نے یہ تدبیر کی کہ جب تک حمل چھپ سکتا تھا انہیں اپنے گھر میں رکھا اور جب دیکھا کہ اب حمل چھپ نہیں سکتا تو وہ اُنہیں کسی دور مقام پر لے گیا تاکہ لوگوں میں بدنامی نہ ہو اور بچہ کہیں باہر ہی پیدا ہوجائے لیکن لوقا کی غرض یہ تھی کہ مسیح کی خدائی ثابت کرے اِس لئے اُس نے حمل کے ساتھ ہی مسیح کے معجزے بیان کرنے شروع کردئیے کہ ابھی وہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہی تھا کہ زکریا کی بیوی حضرت مریم کو دیکھکر کہہ اُٹھیں کہ میرے خداوند کی ماں میرے پاس آئی ہے بلکہ زکریا کی بیوی تو الگ رہی یوحنا جو ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں تھا وہ بھی خوشی سے اچھل پڑا اور پیٹ میں ہلنے لگ گیا ۔پس لوقا نے یہ سمجھا کہ اگر حمل کی وجہ سے مریم کا باہر جانا ثابت ہو تو یہ خیال کیاجائے گا کہ گویا مریم اور اُس کے خاوند یوسف اللہ تعالیٰ کے اِس قدر نشانات اور معجزات کے باوجود لوگوں کے اعتراض سے ڈرتے تھے لیکن اِدھر وہ اس امر سے بھی انکار نہیں کر سکتا تھا کہ یوسف اور مریم باہر گئے ۔ پس سوال پیدا ہوتا تھا کہ جب یہ حمل معجزانہ تھا اور جب حمل کے ساتھ ہی مسیح کے معجزات بھی ظاہر ہونے لگ گئے تھے تو پھر اس حمل کو چھپانے کی ضرورت نہیں تھی اور جب نہیں تھی تو پھر یوسف اور مریم باہر کیوں گئے ۔اس اعتراض سے بچنے کے لئے وہ سات سال بعد کی مردم شماری کے واقعہ کو پہلے بیان کرتاہے تاکہ یوسف اور مریم کے باہر جانے کی ایک قانونی وجہ نکل آئے اور لوگو ں کو بتایا جا سکے کہ وہ حمل کو چھپانے کے لئے باہر نہیں گئے بلکہ اس لئے گئے تھے کی قیصر نے مردم شماری کا حکم دیا تھا اور اُن کابیت لحم میں جانا ضروری تھا ۔ پس رومی تاریخ کے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ لوقا نے پردہ ڈالا۔ درحقیقت یہ مردم شماری اُس وقت نہیں ہوئی محض پیدائش کو چھپانے کے لئے یہ سفر تھا نہ کہ مردم شماری کے لئے اور واقعہ بھی یہی ہے۔ یوسف خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت حضرت مریم کو اپنے گھر تو لے آیا مگر دیکھا کہ اگرمیں مریم کو پنے گھر میں ہی رکھوں تو میری ناک کٹتی ہے پس اُس نے یہ تدبیر کی کہ جب حمل چھپ نہیں سکتا تھا تو وہ انہیں اپنے ساتھ لیکر کسی بہانہ سے سفر پر چلاگیا ۔ اب سیدھی بات ہے کہ اگر وہ بچہ پیدا ہونے کے فوراََ بعد ہی اپنے شہر میں واپس آجاتے تو اعتراض قائم رہتا کہ مریم کو تمہارے گھر آئے تو ابھی پانچ ماہ ہی ہوئے تھے یہ بچہ کہاں سے پیدا ہوگیا ۔ اگر وہ ٹھیک نوماہ کے بعد بھی واپس آتے اور کہتے کہ جائز حمل کے نتیجہ میں پید ا ہوا ہے تو بچہ کی شکل سے لوگ پہچان جاتے کی یہ نوزائیدہ بچہ ہے یا اس کی پیدائش پر چار پانچ ماہ گذر چکے ہیں ۔اسبات کو چھپانے کا صرف ایک ہی طریق تھا کہ وہ کئی سال باہر رہتے چنانچہ بڑی عمر کا بچہ لے آئو تو پھر کچھ پتہ نہیں لگ سکتا کہ وہ کب پیدا ہوا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اُن کو کئی سال باہر رہنا پڑا۔ میں قیاساََ سمجھتا ہوں کہ وہ آٹھ نو سال باہر رہے اور پھر واپس آئے ۔بہر حال چونکہ یوسف حضرت مریم کو اپنے گھر لے آئے تھے لیکن گھر لانے سے پہلے چند ماہ کا حمل تھا ۔اس لئے سمجھاجا سکتا ہے کہ اگر وہ چند سال باہر رہتے تو اس پر پر دہ پڑ جاتا اور یہ سمجھا جاتا کہ عیسٰی شادی کے بعد جائز حمل سے پیدا ہوئے ہیں لیکن اگر اُسی وقت لے آتے تو راز فاش ہوجاتا ۔فرض کرو یوسف حضرت مریم کو اپریل میں اپنے گھر لایا تو لوگ حمل کا وقت اپریل سے شروع کریں گے اور اس طرح اُن کے نزدیک دسمبر میں بچہ پیدا ہو جانا چاہیے ۔اگر وہ اگست ستمبر میں پیدا ہوجاتا ہے تو لوگ کہیں گے کہ یہ حرام کا بچہ ہے کیونکہ خاوند تو اسے اپریل میں اپنے گھر لایا تھا اور بچہ اگست ستمبر میں پیدا ہو گیا۔ اگر وہ بچہ باہر جنوالیتا ہے اور واپس اُس وقت آتا ہے جب شادی پر نو مہینے گذر جاتے ہیں تب ہر شخص جو بچے کو دیکھے گا کہیگا کہ یہ دسمبر میں پیدا ہوا ہے اور کہیں گے کی یہ تین چار ماہ کا معلوم ہوتاہے ۔آخر کون شخص ہے جو تین مہینے اور ایک مہینہ کے بچہ میں فرق نہ کر سکے پس اگر یوسف دسمبر میں ہی اپنے بچے کو لے آتے اور کہتے کہ یہ اِسی مہینہ میں پیدا ہوا ہے تو ہر شخص کہتا کہ یہ بالکل غلط بات ہے یہ تو پانچ چھ ماہ پہلے کا معلوم ہوتاہے ۔اِس پر پردہ اُسی صورت میں پڑ سکتا تھا جب وہ کئی سال باہر رہتے۔ چونکہ قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ حضرت مسیح اس موسم میں پیداہوئے جس موسم میں کھجور تیا ر ہوتی ہے اور کھجور زیادہ تر جولائی اگست میں ہوتی ہے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ جولائی یا اگست میں پیدا ہوئے اور حضرت مریم کو اکتوبر یا نومبر میں حمل ہوا ۔اگر وہ جولائی کے مہینہ میں یا اگست کے شروع میں پیدا ہوئے تھے تو حضرت مریم کو اکتوبر میں حمل ہوا اور اگر وہ اگست کے وسط یا آخر میں پیدا ہوئے تو حضرت مریم کو نومبر میں حمل ہو ا ۔ بہر حال قرآن کریم کی تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت مریم کو ۱۵ اکتوبر سے ۱۵ نومبر تک کسی تاریخ میں حمل ہوا ہے تبھی جاکر اُس موسم میں بچہ پیدا ہوتا ہے جس میں کھجورزیادہ تر پھل دیتی ہے۔ نومبر میں حمل ہو ا تو مریم اپنی ماں سے تو نہیں چھپا سکتی تھی اُس نے اپنی ماں کو ضرور بتایا ہوگا اور پھر ماں نے اپنے رشتہ داروں کوبتایا ہو گااور وہ روئے پیٹے ہوں گے اور پھر یوسف کے پاس گئے ہوں گے کہ وہ کسی طرح مریم کو اپنے گھر لے آئے اور یہ بات دب جائے ۔یوسف نے پہلے انکار کرنا چاہا مگر خدا تعالیٰ نے خواب میں اُسے حکم دیا کہ وہ انکار نہ کرے اور مریم کو اپنے گھر لے آئے اب وہ خدا سے بھی ڈرتا تھا اور لوگوں سے بھی ڈرتا تھا وہ خدا تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں مریم کو اپنے گھر میں لے آیا ۔فرض کرو فروری میںیامارچ کے آخر میں وہ اُن کو اپنے گھر لایا اور مئی جون میں جب اس نے دیکھا کہ اب حمل پر پر دہ نہیں پڑ سکتا تو وہ کوئی بہانہ بناکر جنوب کی طرف سفر پر چلاگیا اور بیت لحم میں پہنچ کر بچہ پیدا ہوگیا ۔اب اگر اُسی وقت وہ اپنے بچہ کو واپس لے آتے تو بڑے بیوقوف بنتے کیونکہ وہ تو نکلے ہی اس لئے تھے کہ لوگوں کو بچہ کی پیدائش کا علم نہ اور وہ یہ نہ کہیں کہ مریم تو تمہارے گھر میں مارچ میں آئی تھیں جولائی یا اگست میں بچہ کس طرح پیدا ہوگیا ۔اگر وہ چھ مہینے کے بعد بھی واپس لاتے تب بھی بیوقوف بنتے کیونکہ وہ کہتے کہ ایک مہینہ ہوا ہمارے ہاں یہ بچہ پیدا ہوا ہے اور اس کی شکل چار پانچ مہینے کے بچے والی ہوتی اور چار پانچ مہینے کا فرق بڑا بھاری فرق ہوتا ہے ۔ پس وہ کئی سا ل باہر رہے تاکہ اسبات پر پر دہ پڑ جائے اور لوگوں کے ذہنوں سے یہ بات نکل جائے اور جب وہ بچہ بڑا ہو گیا تو پھر اپنے وطن میں واپس آئے ۔متی سے بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ کئی سال مصر میں رہے (انجیل متی باب ۲آیت۱۳) اب واقعات تویہ بتاتے ہیں کہ یوسف اور مریم لوگوں سے ڈر کر باہر گئے ۔ مگر لوقا بتاتا ہے کہ مسیح ابھی اپنی ماں کے پیٹ میں ہی تھا کہ اُس کے معجزے ظاہر ہونے شروع ہوگئے اور سب کو پتہ لگ گیا کہ مریم روح القدس کی وجہ سے حاملہ ہے ۔اب جبکہ سب کو پتہ لگ گیا تھا اور مسیح کے معجزے بھی ظاہر ہونے شروع ہوگئے تھے تو اس حمل کو چھپانے اور اُن کے باہر جانے کی کوئی وجہ نہ تھی مگر دوسری طرف واقعات بتاتے ہیں کہ یوسف اور مریم باہر گئے اور باہر ہی بچہ پیداہوا ۔ پس سوال پیدا ہوتا تھا کہ اگر سب کو علم تھا کہ مریم روح القدس سے حاملہ ہے تو پھر یوسف اور مریم باہر کیوں گئے۔اس سوال کو حل کرنے کے لئے لوقا سات سال بعد کی مردم شماری کو سات سا ل پہلے بیان کرتا ہے ۔ اُس نے خیال کیا کہ ستر اسی سال گذر چکے ہیں (کیونکہ لوقا کی انجیل مسیح ؑ کے واقعہ صلیب کے بعد لکھی گئی ہے ) کون یاد رکھے گا کہ مردم شماری کس سال میں ہوئی۔آئو ہم دنیا کے سامنے یہ وجہ پیش کردیں کہ یوسف اور مریم کسی اور غرض سے نہیں بلکہ مردم شماری کی غرض سے ناصرہ سے بیت لحم گئے تھے لیکن قرآن تو سچی بات بتاتا ہے ۔اُس نے وہ بات بتائی ہے جو عین فطرت انسانی کے مطابق ہے اور اس سے واضح ہوتاہے کہ مسیح ؑ کی پیدائش دسمبر میں نہیں ہوئی جیسا کہ عیسائی بتلاتے ہیں بلکہ جولائی یا اگست میں ہوئی ہے جبکہ کھجور کے درخت کثرت سے پھل تیار ہوجاتا ہے ۔ عیسائیوں نے دسمبر کی پیدائش محض اس لئے بیان کی ہے تاکہ اصل واقعہ پر پردہ پڑا رہے اور لوگ یہ سمجھیں کہ حضرت مسیح شادی کے بعد جائز حمل سے پیدا ہوئے ہیں ۔
پھر انجیل میں مسیح کی پیدائش کا موقع بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’اسی علاقہ میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلّہ کی نگہبانی کررہے تھے ۔‘‘ (لوقا باب ۲ آیت ۸)
ظاہر ہے کہ گرمی کا موسم تھا نہ کہ شدید سردی کا ۔دسمبر کا مہینہ تو علاوہ شدید سردی کے فلسطین میں سخت بارش اور دُھند کاہوتا ہے۔ کون تسلیم کرسکتا ہے کہ ایسے موسم میں کھلے میدان میں چرواہے اپنے گلّوں کو لیکر باہر نکل آئے تھے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ گرمی کا موسم تھا چنانچہ پیکس تفسیر بائبل میں انجیل لوقا کے مفسّر پرنسپل اے۔جے۔گریوایم۔اے۔ڈی کی طرف سے لوقا کے اس بیان پر حضرت مسیح ؑ کی پیدائش جس موسم میں ہوئی تھی اُس وقت چرواہے گلّوں کو باہر نکال کر کھلے میدان میں راتیں بسر کرتے تھے مندرجہ ذیل تبصرہ موجود ہے کہ یہ موسم ماہ دسمبر کا نہیں ہوسکتا ہمارا کرسمس ڈے مقابلۃ ًبعد کی ایک روایت ہے جو کہ پہلے مغرب میں پائی گئی ‘‘۔اسی طرح بشپ جارنس اپنی کتاب RISE OF CHRISTIANITYمیں تحریر کرتے ہیں :
’’اس تعین کے لئے کوئی قطعی ثبوت نہیں ہے کہ ۲۵ دسمبر ہی مسیح کی پیدائش کا دن تھا اگر ہم لوقا کی بیان کردہ ولادت مسیح کی کہانی پر یقین کرلیں کہ اس موسم میں گڈریے رات کے وقت اپنی بھیڑوں کے گلّہ کی نگرانی بیت لحم کے قریب کھیتوں میں کرتے تھے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی پیدائش موسم سرما میں نہیں ہوئی جبکہ رات کو ٹمپریچر اتنا گرجاتا ہے کہ یہود یہ کے پہاڑی علاقہ میں برف باری ایک عام بات ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کرسمس ڈے کافی بحث و تمحیص کے بعد قریباََ ۳۰۰ ؁ء میں متعین کیاگیا ہے‘‘(ص۷۹)
پس اِن حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ مسیح کی پیدائش دسمبر میں نہیں ہوئی۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب حضرت مریم کو دردِزہ ہوئی تو وہ ایک کھجور کے نیچے گئیں اور کھجور اُس وقت موجود تھی ۔لیکن انجیل جس زمانہ کی خبر دیتی ہے اُس وقت کھجور نہیں ہوتی ۔میں نے بتایا ہے کہ در حقیقت انجیل کی غلط بیانی کی ایک وجہ موجود ہے اور وہ یہ کہ لوقا بتاتا ہے کہ مسیح سے حاملہ ہونے پرصرف مریم کو خبر نہیں ہوئی بلکہ جب وہ اپنی بہن الزبتھ کو ملنے گئیں جو زکریا کی بیوی تھیں تو اُن کے پیٹ میں یحییٰ خوشی سے ہلا جس سے یہ بات دوسروں میں بھی پھیل گئی کہ مریم حاملہ ہے ۔پھر قرآن تو خاموش ہے ۔لیکن انجیل بتاتی ہے کہ حضرت مریم کو جب فرشتہ نے خبر دی کہ تُوحاملہ ہوگی تو انہوں نے صرف تعجب کا ہی اظہار نہیں کیا کہ بغیر خاوند کے مجھے کس طرح حمل ہوسکتا ہے بلکہ وہ اس پر خوش ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ ’’دیکھ میں خداوندکی بندی ہوں میرے لئے تیرے قول کے موافق ہو‘‘ (انجیل لوقا باب۱ ۳۸)اب اس چیز کے ساتھ یہ بات ملتی نہیں کہ جب حمل ہوچکا تھا اور لوگوں پر ظاہر ہوچکا تھا کہ یہ بچہ روح القدس سے ہے باپ سے نہیں اور مریم کو بھی فرشتے کی وجہ سے تسلی ہوگئی تھی اور وہ خوش تھیں کہ مجھے ایسا حمل ہوا ہے تو پھر وہ اپنی جگہ سے غائب کیوں ہوئیں کیونکہ ساری انجیلیں اِسبات پر متفق ہیں کہ بچہ کسی اور جگہ ہوا ۔سوال یہ ہے کہ کسی اور جگہ کیوں ہوا اپنے وطن میں ہی کیوں نہ ہوا ؟ اس بات کو چھپانے کے لئے کہ غائب ہونے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ وہ اپنا بچہ چھپانا چاہتی تھیں لوقا کہتا ہے کہ چونکہ وہ مردم شماری کا وقت تھا اسلئے وہ اپنے نام لکھوانے کیلئے وہاں گئے تھے اور مردم شماری کا مہینہ دسمبر بتایا جاتا ہے۔ اِس سے اُن کی غرض یہ تھی کہ شہر والوں پر یہ ظاہر کریں کہ مسیح دسمبر میں پیداہوا ہے اور اُس دن سے نو مہینے پورے ہوجاتے ہیں جب یوسف اُسے اپنے گھر میں لایا اور اس طرح حمل پر پردہ پڑ جاتا ہے ۔لیکن قرآن نے تو اصل واقعہ بیان کرنا تھااِس لئے اُس نے اُس وقت سے تاریخ بیان کی ہے جب وہ روح القدس سے حاملہ ہوئیاور بائبل نے اُس وقت سے تاریخ بنانے کی کوشش کی ہے جب وہ یوسف کے گھر میں آئی ۔تم یوں سمجھ لو کہ قرآنی بیان کے مطابق حضرت مریم نومبر میں حاملہ ہوئیں اِس لحاظ سے نو مہینے جولائی کے آخر میں ختم ہوجاتے ۔چونکہ بعض بچے ۲/۱ ۸ ماہ بعد بعض ۹ماہ بعد اور بعض ساڑھے نوماہ بعد پیدا ہوتے ہیں ۔اِس لئے ہم اندازاََ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ ۱۵جولائی سے ۱۵ اگست تک کسی وقت میں پیدا ہوئے اور اُس وقت کھجور بکثرت ہوتی ہے لیکن انجیل کہتی ہے کہ وہ ۲۵دسمبر کو پیدا ہوئے ۔اب ہم ۲۵دسمبر سے اُلٹ حساب کرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ حضرت مریم کو ۲۵ مارچ کو حمل ہو ااور چونکہ عیسائیوں نے مسیح کی پیدائش اُس وقت کی بتائی ہے جبکہ یوسف کے مریم کو گھر لا لانے کے بعد نوماہ ہوتے تھے اس لئے معلوم ہوتاہے کہ مارچ میں کسی وقت یوسف اُن کو اپنے گھر میں لایا ۔نومبر میں وہ حاملہ ہوئی تھیں ۔فرض کرو ۱۵ نومبر کو وہ حاملہ ہوئیں چوتھے مہینے جاکر حمل نمایا ں ہوجاتا ہے چوتھے مہینے جب بات کھلی تو یوسف خدا کے حکم سے اُن کو اپنے گھر میں لے آیا ۔اب لوگوں کو یہ بتانے کے لئے کہ یہ حلال کا حمل ہے حرام کانہیں عیسائیوں نے مارچ سے حساب لگایا اور اس کے ٹھیک ۹ماہ بعد دسمبر میں اُس کی پیدائش بتائی ۔ پس عیسائی مجبور تھے کہ اُنکی تاریخ پیدائش ۲۵دسمبر ہی بتاتے ورنہ لوگوں کو کیا جواب دیتے کہ خاوند کے گھر میں مارچ میں آئی اور بچہ پیدا ہوگیا جولائی اگست میں ۔اس کا ایک ہی طریق تھا کہ وہ اُن کی تاریخ پیدائش کو چھپا دیتے اور کسی بعد کے مہینہ میں اُن کی ولادت ظاہر کرتے۔
یوں سمجھ لوکہ نومبر میں مریم حاملہ ہوئیں مارچ میں پیٹ بڑا ہوگیا اور یوسف تک بات پہنچی اُس نے ارادہ کیا کہ طلاق دیدوں۔ مگر خدا تعالیٰ نے خواب میں بتلایا کہ یہ بدکار نہیں بلکہ اسے معجزانہ طورپر حمل ہواہے۔چنانچہ مارچ میں وہ انہیں گھر لے آیا ۔ممکن ہے فروری میں ہی لے آیا ہو مئی جون میں کوئی عذر کرکے وہ انکو ناصرہ سے باہر لے گیا ۔اب خاوند ساتھ تھا اور اُسے یقین تھا کہ یہ خدائی فعل ہے وہ انہیں شہر سے باہر لے گیا۔ جولائی کے کے آخر یا اگست میں حضرت مسیح پیداہوئے ۔چند سال یوسف باہر رہے جب واپس آئے تو پیدائش دسمبر کی بتائی یا یوں کہوکہ یوسف نے تو پیدائش ٹھیک ہی بتائی انجیل نے انکی پیدائش دسمبر میں بتائی جو مارچ میں مریم کو گھر لانے کی صورت میں ۹ماہ بعد کی تھی تا کہ لوگ سمجھیں کہ مسیح یوسف کی اولاد سے ہے اس صورت میں کھجور کا معاملہ بھی صاف ہوجاتا ہے کیونکہ جولائی اگست میں کھجوریں بکثرت لگی ہوئی ہوتی ہیں ۔ظاہر ہے کہ جب یوسف اس واقعہ سے شرماتا تھا اور جب وہ اس پر پردہ ڈالنا چاہتا تھا تو اُسکے سوا کیا صورت تھی کہ وہ حمل اُس وقت سے ظاہر کرتا جب مریم اُنکے گھر آگئی تھیں اور اِس صور ت میں اس کے حمل کو چار پانچ ماہ بعد کی ظاہر کرنی ضروری تھا اور اسی طرح پیدائش بھی چار پانچ ماہ بعد ظاپر کرنی ضروری تھی ۔ ممکن ہے سات سال کے بعد جو مردم شماری ہوئی وہ دسمبر میں ہوئی ہو اور اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے لوقا نے اُسے پیدائش کے سال پر چسپاں کردیا ہو۔ ظاہر ہے کہ لوقا نے ستر اسی سال بعد کتاب لکھی ہے اتنے عرصہ بعد کسی کو کیا یاد رہتا ہے کہ کب مردم شماری ہوئی تھی ۔اس تشریح سے جو نہایت اہم تشریح ہے اور جو رومن تاریخ کے واقعات سے موید ہے اور انجیل کی روایا ت کی روشنی اس کی تائید کرتی ہے قرآن میں پھل دار کھجور کے ذکر کا واقعہ صاف ہوجا تا ہے۔

پس ان کو کھائو اور(چشمہ سے پانی بھی ) پیو اور (خود نہاکر اور بچہ کو نہلا کر)اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ۔پھر اگر (اس عرصہ میں )تو کسی مرد کو دیکھے تو کہہ دے میں نے رحمن (خدا) کے لئے ایک روزے کی نذر کی ہوئی ہے پس آج میں کسی انسان سے بات نہیں کرونگی۔
تفسیر :
خدا نے کہا کہ کھائو اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی رکھو۔ فاما ترین من البشر احدا اور اگر تمہیں کوئی شخص نظر آئے تو فقولی انی نذرت للرحمن صوما فلن اکلم الیوم انسیا اُسے کہو کہ آج میں نے خدا کے لئے روزہ رکھاہوا ہے پس آج میں کسی سے بات نہیں کروں گی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں روزہ سے مراد خاموشی کا روزہ ہے یعنی اُن کے لئے کلام کرنا بالکل ممنوع تھا ۔لیکن میرے نزدیک یہ درست نہیں ۔دراصل حضرت مریم کو بھی زکریا کی طرح روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا اور حضرت زکریا کے متعلق میں بتا چکا ہوں کہ اُنہیں اونچی آواز سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے سے روک دیا گیا تھا لیکن آہستہ بولنا اُن کے لئے جائز تھا ۔یہاں بھی اِسی رنگ کا روزہ مراد ہے یعنی حضرت مریم کو خداتعالیٰ نے حکم دیا کہ زیادہ باتیں نہیں کرنی بلکہ اپنا وقت ذکر الٰہی میں بسر کرنا ۔پس روزہ سے مراد وہ روزہ نہیں جس میں کھا نا پینا ترک کیا جا تا ہے کیونکہ اُس وقت تو وہ نفاس کی حالت میں تھیں اور وہ روزہ اُس وقت ہوتا ہی نہیں۔ اور پھر خصوصاََ اس لئے بھی روزہ مراد نہیں لیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کلی واشربیکھائو اور پی جس سے معلوم ہوا کہ کھانا پینا اُن کے لئے منع نہیں تھا۔ پس یہاں صوم سے مراد یہ ہے کہ زیادہ باتیں نہیں کرنی ۔ زیادہ باتیں میں اس لئے کہتا ہوں کہ ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے کہاہے قولی۔ کہو ۔اگر بات بالکل منع تھی تو وہ کہہ کس طرح سکتی تھیں کہ میں روزہ سے ہوں ۔یہ لفظ صاف بتاتا ہے کہ اُنہیں بات کرنا بالکل منع نہ تھا وہ ایک حد تک بات کرسکتی تھیں۔ لیکن ساتھی ہی ہدایت تھی کہ اپنے وقت کو ذکر الٰہی میں بسر کریں ۔اِس میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ ابھی بچہ پیدا ہوا تھا اس لئے لازماََ جوبھی ملتا وہ ضرور پوچھتا کہ یہ کس کا بچہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ آج ذکر الٰہی کرواور جو شخص تم سے کچھ پوچھنا چاہے تو اُسے بھی کہہ دو کہ آج میں نے ذکر الٰہی کرناہے۔ اِسطرح بات ختم ہوجائیگی اور اگلی بات پیداہی نہیں ہوگی ۔پس صوم سے مراد کلام کی حد بندی ہے یعنی فضول اور لغو باتیں نہیں کرنی ۔بلکہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرناہے ۔ اس سے یہ بھی پتہ لگ گیا کہ نفاس اور حیض کی حالت میں ذکر الٰہی منع نہیں ۔ لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں کہ ایسی حالت میں دل میں بھی ذکر الٰہی نہیں کیا جاسکتا حالانکہ اگر ذکر الٰہی منع ہو جائے تو روحانیت بالکل مرجائے بلکہ بعض لوگ تو مُنہ سے بھی ذکر الٰہی کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ عورت حیض کے دنوں میں بھی قرآن کوکسی کپڑے یا رومال سے پکڑ کر اور پھر صاف سُتھرے کپڑے پر رکھ کر پڑھ سکتی ہے ہاتھ سے پکڑنا اس لئے منع ہے کہ ممکن ہے ہاتھ کو حیض کی نجاست لگی ہو ئی ہو۔چنانچہ جن عورتوں نے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سے قرآن پڑھا ہے وہ اب بھی حیض کے ایام میں کپڑے پر قرآن رکھ کر پڑھ لیتی ہیں ۔ میرا یہ عقیدہ نہیں لیکن اگر کوئی پڑھے تو ہم اُسے کہتے کچھ نہیں۔کیونکہ قرآن بہر حال خدا تعالیٰ کا کلام ہے اگر کسی کے نزدیک حیض کی حالت میں اُسے دیکھ کر پڑھنا جائز ہو تو کیا حرج ہے ۔

اس کے بعد وہ اس کو لیکر اپنی قوم کے پاس اس کے دعویٰ کی تصدیق کرتی ہوئی آئی۔ جنہوں نے کہا اے مریم تُونے بہت بُرا کام کیا ہے ۔
تفسیر :
مفسرین اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ جب وہ وہاں سے فارغ ہوئیں اور چلنے پھرنے کے قابل ہوئیں تو اپنی قوم کے پاس آئیں ۔بچہ اُن کی گود میں تھا ۔انہوں نے اعتراض کیا کہ مریم تُو نے یہ کیا بلا ماری ہے حضرت مریم نے کہا مجھ سے کیا پوچھتے ہو اس بچہ سے پوچھ لو ۔چنانچہ حضرت مسیح ؑ اُس وقت بولے اور انہوں نے کہا کہ میں خدا کا نبی ہو ں ۔گو یا مسیح کا پہلا معجزہ ہی جھوٹا تھا ۔وہ نبی نہیں تھا مگر اُس نے کہا میں نبی ہوں ۔وہ نماز نہیں پڑھتا تھا مگر اُس نے کہا خدا نے مجھے نماز کا حکم دیا ہے حالانکہ وہ اُس وقت پوتڑوں میں پاخانہ پھرتا تھا گویا مفسرین کے نزدیک حضرت مسیح ابھی اپنی ماں کی گود میں ہی تھے کہ انہوں نے جھوٹ بولنے کی مشق شروع کردی اور جب اُن پر نماز فرض نہیں تھی کہنے لگے کہ نماز پڑھتا ہوا اور جب پوری طرح ہو ش بھی نہیں تھا تو کہنے لگے کہ میں نبی ہو گیا ہوں اس بارہ میں اُن کا استدلال تحملہ اور یکلم الناس فی المھدسے ہے ۔
اب ہم انجیل کو دیکھتے ہیں کہ وہ اسبارہ میں کیا کہتی ہے ۔مرقس کہتا ہے کہ یوحنا کے ظہور کے وقت ناصرہ میں تھا (انجیل مرقس باب۱آیت ۹)
متی باب ۴آیت ۱۳ میں بھی لکھا ہے کہ جب یوحنا گرفتار ہوا تو مسیح ناصرہ چھوڑ کر کفر نا حوم ایک گلیلی شہر میں گیا گویا وہ یہ تو نہیں بتاتے کہ پیدائش کے بعد حضرت مسیح ناصرہ کب گئے مگر یہ بتا تے ہیں کہ جب یوحنا کا ظہو ر ہوا تو اُس وقت وہ نا صرہ میں تھے اور اس کی گرفتاری پر وہ کفرنا حوم چلے گئے ۔اِس سے پتہ لگا کہ حضرت مسیح ؑ جب جوان ہوئے توناصرہ میں آتے جاتے تھے ۔لوقا سے معلوم ہوتا ہے کہ پیدائش کے کچھ دنوں بعد یوسف اور مریم ناصرہ چلے گئے اور وہیں مسیح پلا۔ (انجیل لوقا باب۲آیت ۳۹)گویا یوحنا اِسبارہ میں بالکل خاموش ہے۔متی کچھ نہیں کہتا کہ وہ پیدا ہو کر کہا ں گئے ۔مرقس کچھ نہیں کہتا وہ پیدا ہوکر کہاں گئے لیکن لوقا کہتا ہے کہ وہ ناصرہ گئے ۔
لوقا باب ۱ آیت ۲۶و۲۷میں لکھا ہے کہ خداکا فرشتہ مریم پر ناصرہ میں ظاہر ہوا اور وہیںاُسے حاملہ ہونے کی خوشخبری دی۔ یہ حوالہ بتاتا ہے کہ حضرت مریم ناصرہ میں رہتی تھیں مردم شماری کے لئے بیت لحم گئیں اور پھر بچہ پیدا ہونے پر نا صرہ میں آگئیں اور حضرت مسیح وہیں ناصرہ میں رہے یہاں تک کہ یوحنا نے نبوت کا دعویٰ کیا ۔
اِس روایت کے مطابق حضرت مریم ناصرہ کی رہنے والی تھیں اور وہیں وہ مسیح کو لے گئیں اور لے جانے کا وقت پیدائش کے معاََ بعد کا ہے ۔ اگر یہ بیا ن درست ہے تو معلوم ہو اکہ مسیح کو اس کی والدہ پیدائش کے معاََ بعد اپنے وطن لے گئی تھیں جس کا نا م ناصرہ تھا۔ اس صورت میں اِن آیات کا مطلب یہ ہوگا کہ مسیح نے پیدا ہوتے ہی کلام کیا ۔کیونکہ قرآنی الفاظ یہ ہیں کہ فاتت بہ قومھا حضرت مریم اپنے رشتہ داروں اور تعلق والوںکے پاس اُن کو لائیںاور مسیح نے اُن سے کلام کیا ۔پس اگر یہ صحیح ہے کہ وہ ناصرہ کی رہنے والی تھیں اور ناصرہ میں ہی اپنے بچے کو لے گئیں اور پیدائش کے چند دن بعد لے گئیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح نے پیدائش کے چند دن بعد ہی کلام کیا ۔لیکن اب ہم تحقیق کرتے ہیں کہ کیا لوقا کا یہ بیا ن ٹھیک ہے کہ مریم ناصرہ کی تھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیا ن درست نہیں۔
متی میں لکھا ہے کہ جب مسیح پیدا ہوا تو اُس وقت مریم بیت لحم میں تھیں لیکن وہ اصل وطن کا ذکر نہیں کرتا بلکہ باب۲ میں جو ذکر ہے اُس سے شبہ ہوتا ہے کہ اُن کا وطن بیت لحم کے سوا کوئی اور تھا مگر وہ بیت لحم کے قریب ہی تھا۔ اس کے بعد اُس میں لکھا ہے کہ چونکہ بادشاہ ہیرو دیس کو شبہ تھا کہ یہ لڑ کا جو پیدا ہوا ہے بڑا ہوکر حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرے گاکیونکہ مجوسی فقیروں نے اُسے بتایا تھا کہ ایسا لڑکا پیدا ہوا ہے اور ہم پورب میں اُس کا ستا رہ دیکھ کر آئے ہیں اس لئے ہیرو دیس نے انہیں کہا کہ جب تمہیں اُس کا پتہ ملے تو مجھے بھی بتانا۔ اُس کی غرض یہ تھی کہ میں اُسے مروا ڈالوں گا تاکہ حکومت کو نقصان نہ پہنچے مگر متی کہتا ہے جب مجوسی آئے اور انہوں نے حضرت مسیح کو دیکھ لیا تو رات کو فرشتہ نے اُنہیں کہا کہ اب ہیرودیس کے پاس نہیں جانا چنانچہ وہ کسی دوسرے راستہ سے اپنے ملک کو روانہ ہوگئے ۔ان کے جانے کے بعد یوسف پر فرشتہ ظاہر ہوا اور اُس نے کہا کہ بادشاہ بچہ کو مروانا چاہتا ہے تو اُٹھ اور بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر میں بھا گ جا ۔چنانچہ یوسف اور مریم بچے کو لیکر مصر میں بھا گ گئے ۔اِدھر جب بادشاہ نے دیکھا کہ مجوسی واپس نہیں آئے بلکہ کسی اور راہ سے اپنے ملک کو واپس چلے گئے ہیں تواُسے سخت غصہ آیا اور اُس نے حکم دے دیا کہ بیت لحم اور اُس کے گردو نواح کے وہ تمام لڑکے جو دوسال یا اس سے چھوٹی عمر کے ہوں قتل کردئیے جائیں (یہ قصہ دراصل موسیٰ ؑ کی نقل میں بنایا گیا ہے) بہر حال یوسف خدا سے خبر پاکر مسیح کو مصر لے گیا اور خدا تعالیٰ نے کہا تو اُس وقت تک مصر میں ہی رہ جب تک کہ میں دوبارہ تجھ کو کوئی خبر نہ دُوں (متی باب ۲)
اب دیکھو یہ بیان لوقا سے کتنا مختلف ہے ۔ لوقا کہتا ہے کہ مریم پیدائش کے معاََ بعد نا صرہ گئیں اور متی کہتا ہے کہ وہ مصر گئیں اور متی کہتا ہے کہ یہ قیاسی بات نہیں بلکہ الہاما ًیوسف کو کہا گیا کہ تُو نے وطن واپس نہیں جانا بلکہ مصر جاناہے اور پھر الہاما ًکہا کہ تُو نے مصر سے نہیں ہلنا جب تک کہ میں دوبارہ تجھ پر الہام نازل نہ کروں ۔چنانچہ وہ وہاں رہے یہانتک کہ ہیرودیس مر گیا ۔پھر خدا نے اُس کو خبر دی کہ اب ہیرو دیس مرگیا ہے تو واپس اسرائیل کے ملک چلا جا۔ لیکن جب یوسف واپس آیا اور اُسے معلوم ہوا کہ اَرخَلاؤس اپنے باپ کی جگہ پر بیٹھا ہے تو وہ ڈر اکہ اگر میں اسرائیل کے ملک یعنی یہودیہ میں گیا تو مجھے مار ڈالیں گے (اس سے معلوم ہوا کہ بائبل کی رُو سے وہ جوڈیا یعنی یہودیہ کے کسی شہر کا باشند ہ تھا ) تب خدا سے اطلاع پاکر (گویا خدا تعالیٰ کو اَر خَلاؤس کا پہلے علم نہ تھا ) وہ جلیل کے ایک شہر ناصرہ میں جا کر رہا تاکہ وہ جو نبیوں نے کہا تھا پورا ہوکہ وہ ناصری کہلائیگا (انجیل متی باب ۲ آیت اتا ۲۳)
اس حوالہ سے کتنی باتیں ظاہر ہوتی ہیں :
۱۔ اس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح بیت لحم میں پیدا ہوا۔
۲۔ پیدائش کے بعدیو سف خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت مریم اور بچہ کو لیکر مصر گیا ۔
۳۔ مصر میں وہ ہیرو دیس کی وفا ت تک رہا ۔
۴۔ ہیرو دیس کی وفات بعد خدا تعالیٰ نے اُسے اپنے ملک میں واپس جانے کے لئے کہا ۔
۵۔ مگر جب وہ وطن میں واپس جانے سے ڈرا تو خدا تعالیٰ سے علم پاکر وہ گلیل کے شہر نا صرہ میں گیا ۔
۶۔ اور خدانے کہا کہ تو نا صرہ میں اس لئے جا تاکہ وہ جو نبیوں نے کہا تھا پورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا ۔
اگر وہ ناصرہ کے رہنے والے ہوتے تو خدا کیوں کہتا کہ تُو ناصرہ چلا جا تاکہ وہ جو نبیوں نے کہا تھا پورا ہو کہ وہ نا صری کہلائے گا۔ اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ یوسف نا صرہ کا رہنے والا نہیں تھا بلکہ اس کا وطن کوئی اور تھا ۔نا صرہ میں مصر سے واپس آنے کے بعد اُس نے قیام کیا ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ مسیح ؑ کا وطن نا صرہ نہ تھا ۔وہ نا صرہ پیدائش کے معا ًبعد نہیں گیا بلکہ مصر سے واپسی پر گیا ۔اگر فوراََ بھی گیا تو نا صرہ میں رشتہ دارو ں سے گفتگوکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ وہاں اُس کے کوئی رشتہ دار نہ تھے اور قرآن رشتہ داروں سے گفتگو کا ذکر کرتا ہے کیونکہ فرماتا ہے کہ اتت بہ قومھا وہ اُسے اپنے رشتہ داروں اور قوم کے لوگوں کے پاس لائی ۔
اب ہمیں اِن دونوں بیا نوں سے پتہ لگ گیا کہ اگر لوقا کا بیا ن صحیح ہے کہ پیدائش کے کچھ دنوں کے بعدیوسف اور مریم ناصرہ چلے گئے تو متی کے حوالہ سے پتہ لگتا ہے کہ ناصرہ لے گئی تھی تب بھی وہاں اُنکے بولنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ قرآن اُن کے بولنے کا ذکر وہاں کرتا ہے جہاں اُن کی قوم کے لوگ تھے اور اگر وہ مصر میں رہا اور پھر نا صرہ گیا جو اس کا وطن نہیں تھا تو بچپن میں بولنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ بائبل کے بیان کے مطابق یوحنا کے دعو ے بلکہ اس کی گرفتاری تک وہ ناصرہ میں رہا ۔پس یہ کلام یوحنا کے دعویٰ تک کے زمانہ کا بھی نہیں سمجھا جا سکتا۔ کیونکہ اُس وقت تک ناصرہ میں تھا ۔
متی سے پتہ لگتا ہے مسیح یروشلم میں دو دفعہ گیا ہے جس کے ارد گرد اُن کا وطن تھا ۔ایک دفعہ بارہ برس کی عمر میں اور ایک دفعہ بتیس سال کی عمر میں ۔ بارہ سال کی عمر میں جب وہ یروشلم آیا تو اس وقت کوئی خاص واقعہ نہیں ہوا ۔سوائے اس کے کہ وہ بزرگوں کی باتیں سنتا تھا اور کھیل کود میں شامل نہیں ہوتا تھا ۔ اِس کے بعد وہ ۳۲ سال کی عمر میں دوبارہ یروشلم آیا اور اسی علاقہ میں اُس کے رشتہ دار ثابت ہوتے ہیں ۔ پس اِن دو سفروں میں کسی ایک سفر میں ہی اس کا یہ مکالمہ ہو سکتا ہے اور غالباًیہ مکالمہ دوسرے سفر میں تھا جب وہ مسیحیت کی تبلیغ کرنے کے لئے یروشلم آیا جس نسبت لکھا ہے کہ وہ اس کی بعثت کے قریباًتیسرے سال میں ہوا تھا جبکہ وہ دوسال سے اپنے دعویٰ کا اعلان کرچکا تھا (انجیل متی باب۲۱) ۔ اُس وقت اس کے مُنہ سے یہ کلمات جو قرآن کریم نے کہے ہیں بالکل درست ثابت ہوتے ہیں ۔پہلے سفر کے حالات جب بچہ تھا اس پر چسپا ں نہیں ہوتے۔
خلاصہ یہ ہے کہ رشتہ داروں سے مسیح ؑ نے باتیں کیں ۔انجیل کہتی ہے کہ پیدائش کے بعد مسیح ؑ ناصرہ گیا وطن نہیں گیا ۔پس وطن کسی دوسرے وقت میں گیا اور دوسری جگہ یروشلم کا گرد ونواح ہے جہاں اُس کا جا نا دو دفعہ ثابت ہے ۔ایک دفعہ بچپن میں جب اُس کی ماں اور باپ اُس کے حالات سے ابھی نا آشنا تھے اور دوسری دفعہ جب وہ مدعی ہوکر گیا ۔پس یہ گفتگو اُسی وقت ہوئی ۔اس سے پتہ لگ گیا کہ اتت بہ قومھا تحملہ سے وہ زمانہ مراد ہے جب مسیح ۳۳ سال کے ہوچکے تھے اور دعویٰ نبوت کرچکے تھے ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے تحملہ سے کیا مراد ہے ۔ بچہ کو تو ما ں اُسی وقت اُٹھا تی ہے جب وہ چھوٹا ہوتا ہے ۔سویاد رکھنا چاہیے کہ بیشک اس کے ایک معنے گود میں اٹھا نے کے ہیں ۔لیکن اِس کے علاوہ مجازی طور پر یہ کسی کا ساتھ دینے اور اس کی تائید اور نصرت کرنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن کریم میں آتا ہے مثل الذین حملوا التورۃ ثم لم یحملوھا (جمعہ ع۱) یعنی وہ لوگ جن پر تورات رکھی گئی تھی لیکن انہوں نے اُسکو اُٹھا یا نہیں ۔اب دیکھو یہاں حمل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر حملوا کے یہ معنی نہیں کہ تورات انکے سروں پر رکھدی گئی تھی بلکہ اُسکی تائید کرنے کا انکو حکم دیا گیا تھا اور جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ لم یحملوھا تو اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ ہر یہودی نے تورات اپنے ہاتھ سے پھینک دی تھی بلکہ مطلب یہ تھا کہ انہوں نے تورات کی تبلیغ اور تائید چھوڑ دی تھی ۔چنانچہ مفردات امام راغب میں مثل الذین حملوا التورۃ ثم لم یحملوھاکے معنی کرتے ہوئے لکھا ہے کلفوا ان یقوموا بحقھا فلم یحملوھایعنی یہودیوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ تورات کے واجبات کو ادا کریں اُس کی ظاہری اور باطنی طور پر تائید وحفاظت کریں اور اُس کے احکام پر خود بھی عامل ہوں اور دوسروں کو بھی اسکی تبلیغ کریں لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا ۔گویا خدا تعالیٰ نے حملوا کہا مگر اسکے یہ معنے نہیں کہ ہر یہودی کے سر پر تورات رکھی گئی تھی اور خدا تعالیٰ نے لم یحملوھا کہا مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ ہر یہودی نے تورات اُٹھا کر پھینک دی تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے یہ فرما یا کہ انہوں نے تورات نہیں اُٹھا ئی تو انہوں نے ظاہر میں تورات اُٹھائی ہوئی تھی اور جب خدا تعالیٰ نے کہا کہ تو رات اُن پر رکھی گئی تو ظاہرمیں اُن کے سروں پر کوئی تورات نہیں تھی ۔پس حمل کے معنے کبھی تائید اور نصرت اور ساتھ دینے کے بھی ہوتے ہیں ۔ انجیل کہتی ہے کہ مسیح ؑ پر اُن کی ماں ایمان نہیں لائی لیکن قرآن کہتا ہے کہاتت بہ قومھا تحملہجب انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ماں اُن کے ساتھ اُن کی تصدیق کرتی اور اُن کے دعویٰ کی تائید کرتی ہوئی آئی ۔اِسی طرح تحملہ کے معنی حوصلہ دلانے اور ہمت بڑھانے کے بھی ہوسکتے ہیں ۔پس اتت بہ قومھا تحملہ کے یہ معنے نہیں کہ حضرت مریم مسیح کو اُٹھائے ہوئے تھیں بلکہ مرادیہ ہے کہ وہ مسیح ؑ کی تعلیم پر عمل کرنے والی اور اس کی تصدیق کرنے والی تھیں ۔ گویاانجیل نے جو الزام لگایاتھا کہ مریم حضرت مسیح کو نہیں مانتی تھی قرآن کریم نے اتت بہ قومھا تحملہ کے الفاظ میں اس کی تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے ۔ وہ تو مسیح ؑ کے ساتھ ساتھ آئی تھیں اور کہتی تھیں کہ میں اس پر ایمان لاتی ہوں یہ سچا ہے۔ تم کہتے ہویہ حرام کا بچہ ہے کیا حرام کے بچے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں ۔تم اس سے بات کرکے تو دیکھو تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ یہ حلال زادہ ہے یا نہیں ۔
قالوا یامریم لقد جئت شیئا فریا انہوں نے کہا اے مریم تو نے یہ کیا گند پھیلایا ہے ۔ پہلے تونے ایک گندہ کام کیا اور آگے یہ بھی خدا پر جھوٹ بولنے لگ گیا ۔گویا انہوں نے یہ طعن کیا کہ چونکہ یہ حرام کا تھا اس لئے ایسی باتیں کرنے لگ گیا ہے ۔

اے ہارون کی بہن ! تیرا باپ تو برا آدمی نہیں تھا ۔
تفسیر :
یعنی اے ہارون کی بہن تیرا باپ تو برا آدمی نہیں تھا اور تیری ما ں بھی بدکار نہیں تھی پھر یہ کیا اندھیر ہوگیا ہے ۔ مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت مریم کی دوسری والدہ سے ایک اور بھا ئی تھا جس کا نام ہارون تھا لیکن یہودی تاریخ سے سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔اِس لئے ایسی بے دلیل بات پیش نہیں کی جا سکتی ۔بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مریم کو ہارون کی بہن اس لئے کہا کہ وہ انکی نسل میں سے تھیں ۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ الزبتھ جو حضرت زکریا کی بیوی تھیں بائبل سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہارون کے خاندان میں سے تھیں اور چونکہ یہ اُن کی رشتہ دار تھیں اس لئے قرآن نے اُن کو اُن کے قبیلہ کی زبان میں اُخت ِہارون کہہ دیا (دیکھو القرآن از جارج سیل زیر آیت یا اُخت ِہارون) یہ اُن عیسائیوں نے تشریح کی ہے جو منصف مزاج ہیں اور تعصب کا مادہ اپنے اندر نہیں رکھتے ۔ بعض عیسائیوں نے تو اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم تاریخ سے ایسے ناواقف تھے کہ اُنہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ہارون حضرت مسیح سے چودہ سو سال پہلے گذرے ہیں لیکن بعض دوسرے عیسائیوں نے خود اعتراض کو ردّ کیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ یہ بات غلط ہے۔محمد رسول اللہ ﷺ کو موسیٰ اور ہارون کے زمانہ کا خوب علم تھا ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہی کئی جگہ ذکر آتا ہے کہ موسیٰ اور ہارون کے بعد فلاں نبی آئے پس یہ اعتراض صیح نہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ چونکہ حضرت زکریا کی بیوی الزبتھ ہارون کے خاندان میںسے تھیں اور مریم اُن کی رشتہ دار تھیں اِس لئے انہوں نے حضرت مریم کو بھی ہارون کی بہن کہہ دیا۔
حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی ایک دفعہ یہ اعتراض پیش ہواتو آپ نے فرمایا کہ یہود انبیاء وصلحا ء کے نام پر اپنے اپنے خاندان کے مردوں عورتوں کے نام رکھ لیا کرتے تھے (تفسیر فتح البیان جلد ۶وتفسیر ابن جریر جلد ۱۶)لیکن میرے نزدیک اس کے ایک اورمعنی بھی ہیں ۔جس سے معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے حضرت مریم کو ہارون کی بہن طنز کے طور پر کہا ہے۔ بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کی ایک سوتیلی بہن تھی جو ہارون کی سگی تھی یا بعض مورخوں کے نزدیک وہ حضرت موسیٰ کی سوتیلی بہن نہیں بلکہ سالی تھی اور اس کا نام بھی مریم تھا ۔گنتی باب۱۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مریم نے جو ہارون کی سگی بہن اور حضرت موسیٰ ؑ کی سوتیلی بہن تھی اور بعض کے نزدیک حضرت موسیٰ کی سالی تھی ۔بہر حال ہارون سے اُس کا زیادہ رشتہ تھا اور موسیٰ ؑ سے کم ۔ہارون کے ساتھ مل کر ایک کوشی عورت سے شادی کرنے کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اعتراض کئے تھے ۔قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ یہ اعتراض اس حد تک تھا گویا ناجائز تعلق قائم کیا گیا ہے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یایھا الذین امنوا لا تکونوا کالذین اٰذوا موسیٰ فبراہ اللہ مما قالو (احزاب ع۹)یعنی اے ایمان والوں تم اُن لوگوں کی طرح مت بنو جنہوں نے موسیٰ ؑ کو اذیت دی اور پھر خدانے اُس کی بریت کی ۔ معلوم ہوتا ہے یا تو اُن کا یہ اعتراض تھا کہ ایک بدکار عورت سے موسیٰ نے شادی کرلی ہے ۔ بہرحا ل پتہ لگتاہے کہ اُن پر ناجائز رشتہ کا الزام لگایا گیا تھا ۔بائبل میں لکھا ہے کہ اس جرم کی سزا میں مریم کو کوڑھی کردیا گیا۔ مگرچونکہ بائبل ایک طرف یہ بتاتی ہے کہ ہارون اور مریم دونوں نے اعتراض کیا اور دوسری طرف بائبل سے ہی معلوم ہوتاہے کہ صرف مریم کو سزا ملی ہارون کو سزا نہیں ملی ۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون کانام بائبل میں حسب معمول انبیاء پر اعتراض کرنے کے شوق میں درج کیا گیا ہے ورنہ ایک جرم میں دونوں کو سزا کیوں نہ ملتی ۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ ہارون نے اعتراض نہیں کیا صرف مریم نے اعتراض کیا تھا ۔آخر ہارون کی سفارش پر حضرت موسیٰ ؑ نے خداتعالیٰ سے دعا کی اور مریم کا قصور معاف کیاگیا اور صرف سات دن کوڑھی بن کر رہنا پڑا ۔ لیکن اس جرم سے پہلے جس شان اور عظمت کے ساتھ اُس کا ذکر کیا جاتا ہے اس شان اور عظمت سے بعد میں اُس کا ذکر نہیں کیاگیا بلکہ بعض تو اس کی طرف اور بھی عیوب منسوب کرتے ہیں۔ پس میرے نزدیک یاخت ھارون کہہ کرانہوں نے طعنہ دیا ہے اے ہارون کی بہن یعنی جس طرح اس مریم نے قہر مارا اور وہ کوڑھی ہوگئی تھی اسی طرح تونے بھی کوڑھیوں والا کام کیاہے ۔پس ان الفاظ میں اُن کی طعنہ زنی تھی کہ اُس مریم نے بھی طوفان اٹھایا تھا تُونے بھی طوفان اُٹھایا ہے ۔ اس نے موسیٰ پر بدکاری کا الزام لگایا تھا اور تُو نے آپ بدکاری کی ہے حالانکہ تیرا باپ بُرا نہیں تھا اور تیری ماں بھی بُری نہیں تھی پس تُو نے یہ کیا گند اُچھالا ہے ۔

اس پر اُس نے اُس (بچہ ) کی طرف اشارہ کیا۔ اس پر لوگوں نے کہا ہم اس سے کس طرح باتیں کریں جو کل تک پنگھوڑے میں بیٹھنے والا بچہ تھا۔
تفسیر :
جیسا کہ میں اُوپر بتا چکا ہوں ہمارے نزدیک حضرت مسیح کی ولادت بغیر باپ کے ہوئی تھی اور الٰہی نشان کے طور پر ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے یہ فعل اس لئے کیا کہ حضرت موسیٰ ؑ کی نسل سے جو نبیوں کا سلسلہ چلا آرہا تھا خدا تعالیٰ اسکو ختم کرکے بنی اسمعیل کی طرف منتقل کرنا چاہتا تھا اور یہ سلسلہ اتنا لمبا ہوگیا تھا کہ بنو اسحاق کے خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا کی نبوت اُن کے گھروں سے منتقل ہوکر اب کسی اور قوم میں چلی جائے گی اس کے لئے ایک بڑی ٹھوکر کی ضرورت تھی اور وہ ٹھوکر حضرت مسیح ؑ کی بن باپ پیدائش تھی ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک معجزہ تھا مگر یہ معجزہ ایک ابتلا کا رنگ لئے ہوئے تھا ۔
معجزے کئی قسم کے ہوتے ہیں ۔ایک معجزے ہدایت دینے کے لئے اور لوگوں پر حجت تمام کرنے کے لئے ہوتے ہیں ۔ وہ ایسے معجزے ہوتے ہیں جن کو دشمن سے بھی منوایا جا سکتا ہے ۔اگر منوایا نہ جاسکے تو وہ حجت کس طرح ہوسکتے ہیں۔ پس جو معجزے حجت کے لئے آتے ہیں وہ ایسی شکل میں آتے ہیں جن کو منوایا جاسکے۔ مثلاََ ایک پیشگوئی ہے جسے شائع کردیا گیا ۔ دشمن نے اُس پر بحث کی۔ اس کے مختلف پہلوئوں پر جرح کی اور پھر وہ پیشگوئی پوری ہوگئی تو اُ س کا کوئی دشمن انکار نہیں کرسکتا ۔سوائے اُن کے جو ضدی طبیعت کے ہوں یا مثلاََ قرآن کریم کا معجزہ ہے یہ ایسا معجزہ ہے جو عیسائی سے بھی منوایا جا سکتا ہے ہم اُسے کہہ سکتے ہیں کہ قرآن سامنے پڑ ا ہے اگر ہمت ہے تو اس جیسی کتاب بنا لائو ۔ یاعرفان الٰہی کا معجزہ ہے ۔فطرت کے باریک رازوں کو ظاہر کرنے کا معجزہ ہے ۔یہ ہر ایک سے منوایا جاسکتا ہے۔ توجو معجزے ہدایت کے لئے آتے ہیں اُن کے لئے یہ شرط ہوتی ہے کہ وہ ایسے ہی ہوں جن کو دشمن سے بھی منوایا جاسکے۔اِسی طرح بعض معجزات ایسے ہوتے ہیں جو صرف تقویت ایمان کے لئے ہوتے ہیں اُن کا منوایا جانا ضروری نہیں ہوتا وہ صرف مومنوں کے از دیاد ایمان کے لئے ظاہر کئے جاتے ہیں اور ایسی شکل میں ظاہر کئے جاتے ہیں کہ مومن تو مان لیتا ہے اور کافر نہیں مانتا مثلاً رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیانی سوراخوں سے ایک دفعہ پانی پھوٹ نکلا اور ایک لوٹا پانی بہت سے لوگوں کی ضروریا ت کے لئے پورا ہوگیا یا تھوڑا سا کھانا کھا لیا اور وہ سیر ہوگئے یا مثلاََ یہ معجز ہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے کُرتے پر سرخی کے چھینٹے پڑے ۔اب ایک مومن اِن معجزات کو مان جائے گا لیکن دوسرا کہے گا کہ اپنے مریدوں سے جھوٹ بلوالیا ہے یا مثلاً میں نے ایک دفعہ کشفی حالت میں دیکھا کہ میرے مُنہ میں مشک ڈالا گیا ہے ۔جب میں جاگا تو میرے منہ سے مشک کی خوشبو آرہی تھی اور اُس سے کہا کہ سونگھ کر دیکھو میرے منہ سے کسی چیز کی خوشبو آرہی ہے یا نہیں ۔اُس نے سونگھا تو کہا کہ مشک کی خوشبو آرہی ہے ۔اب یہ معجزہ میرے لئے تقویت ایمان کا موجب تھا ۔ میری بیوی کے لئے بھی تقویت ایمان کا موجب تھا مگر دوسروں کے لئے اس کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا ۔ اِسی طرح ایک دفعہ مجھے روزہ لگااور بہت تکلیف ہوئی اس حالت میں یکدم مجھ پر غنودگی طاری ہوئی اور میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ آیا اور اُس نے میرے مُنہ میں پان ڈالا ہے جب میری آنکھ کھلی تو پیاس بالکل غائب تھی۔تو ایک معجزے تقویت ایمان کے لئے ہوتے ہیں اور وہ مخصوص ہوتے ہیں مومنوں کے لئے اورایک آیت ہوتے ہیں یعنی دشمنوں پر حجت تمام کرنے کے لئے آتے ہیں ۔یہ معجزے ایسے ہوتے ہیں جنہیں دشمنوں کے سامنے کھلے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور کچھ معجزے ایسے ہوتے ہیں جو ابتلائی ہوتے ہیں اوراُن میں رنج اور کوفت کا پہلو پایا جا تا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کسی حکمت کے ماتحت اُن کو ظاہر فرماتا ہے ۔ حضرت مسیح کی بن باپ ولادت بھی ایسے ہی ابتلائی معجزوں میں سے ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ یہود کو بتائے کہ اب نبوت تم میں ختم ہونیوالی ہے اور اس کے نشان کے طور پر اُس نے مسیح کو بن باپ پیدا کردیا لیکن یہودی مذہب پر ایمان لانیوالوں کے لئے یہ بات ماننی کہ آئندہ ہماری قوم میں سے نبوت مٹ جائے گی اور ایک غیر قوم میں چلی جائیگی بالکل ناممکن تھا ۔اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ یہودی قوم کی توجہ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف پھرائے اور اس نے ایک کنواری کے بطن سے حضرت مسیح کو پیدا کردیا ۔ بے شک یہ ایک معجزہ تھا لیکن یہود کے لئے یہ معجزہ نہیں تھا ۔وہ سنتے ہی کہتے تھے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے یہ شخص (نعوذباللہ) حرامزادہ ہے ۔ خود مسیح کیلئے بھی یہ معجزہ تقویت ایمان کا موجب نہیں تھا بلکہ وہ شرمندگی سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو ابن آدم کہا کرتا تھا ۔ قرآن کریم نے ابن مریم نام رکھ دیا ۔وہ اپنے آپ کو ابن آدم بھی اِسی لئے کہتے تھے کہ لوگ پوچھتے ہونگے کہ کس کے بیٹے ہو وہ کہتے کہ میں ابن آدم ہوں ۔قرآن کریم نے ایک آسان ذریعہ اختیار کرلیا کہ اُن کی والدہ کی طرف انہیں منسوب کردیا اور کہہ دیا کہ وہ ابن مریم تھے پس یہ ایک معجزہ تو ہے مگر بنی اسرائیل کی ٹھوکر کیلئے اور ان کو ہوشیار کرنے کے لئے کہ جس مامور کے تم ماننے والے ہو اس کا باپ بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا اس ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے کانٹا بدل دیا اور ظاہر کردیا کہ غیر قوم سے نبی آئیگا۔ گو یا یہ ایک ٹھوکر تھی محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اور عیسائیوں کے لئے اسلام کا رستہ کھولنے کے لئے۔
فاشارت الیہحضرت مریم جب مسیح ؑ کے ساتھ اپنی قوم میں آئیں تو انہوں نے کہا اے مریم تُو نے یہ کیا بدکاری کی ہے تُو تو بڑے اچھے خاندان میں سے تھی ۔ فاشارت الیہاس پر انہوں نے اُس کی طرف اشارہ کیا ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم جانتی تھیں کہ عیسیٰ ؑ نے جواب دینا ہے تبھی تو انہوں نے اس کی طرف اشارہ کیا ۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ نے اس موقعہ پر معجزانہ کلام کیا یہ فقرہ اُن کی تردید کرتا ہے ورنہ مریم کو کس طرح پتہ تھا کہ یہ کلام کریگا۔ اشارت الیہکا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے بھی بولا کرتا تھا اور چونکہ بولا کرتا تھا اس لئے انہیں پتہ تھا کہ اب بھی بولیگا۔
اگر کہا جائے کہ سورئہ آل عمران سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت مریم کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ یکلم الناس فی الھدو وکھلا (آل عمران)یہ بچہ مہدوکہل میں باتیں کرے گا اس لئے انہوں نے اسکی طرف اشارہ کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ آل عمران میں جس الہام کا ذکر ہے اُس میں مو قع نہیں بتایا گیا کہ کس موقع پر بات کریگا صرف اتنا کہا گیا ہے کہ بات کریگا ۔ پس سوال یہ ہے کہ اس موقع پر انہوں نے کیوں اشارہ کیا ؟ یا تو الہام بتایا کہ وہ ہمیشہ ہی دُودھ پیتے زمانہ میں باتیں کرے گا اور چونکہ وہ پہلے بھی باتیں کیا کرتا تھا اس لئے اس موقعہ پر بھی اُنہوں نے اس کی طرف اشارہ کردیا۔ مگر اس کا توکوئی بھی قائل نہیں کہ اس سے پہلے بھی عیسیٰ ؑ بولا کرتے تھے اور بعد میں بھی بولا کرتے تھے اِس لئے یہ الہام اس فعل کا محرک نہیں ہو سکتا ۔اُن کا حضرت مسیح ؑ کی طرف اشارہ کرنا در حقیقت یہود کے اعتراض کا جواب تھا ۔انہوں نے اعتراض یہ کیا تھا کہ تُو نے ایک نا جائز فعل کا ارتکا ب کیا ہے اور اپنی قوم اور خاندان کو بدنام کیا ہے حضرت مریم نے اس اعتراض کا جواب اس رنگ میں دیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کردیا کہ تم اس سے باتیں کر کے دیکھ لو کیا تمہیں یہ بدکاری کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے ۔ اگر تمہار اخیال درست ہے کہ میں نے ایک حرام فعل کا ارتکا ب کیا ہے تو پھر بدکاری کے نتیجہ میں یہ عظیم الشان لڑکا کس طرح پیدا ہوگیا ۔تمہارے اصل کے مطابق تو خود یہ لڑ کا تمہارے تما م شبہات اور وساس کو دور کرنے والا اور میری بریت کو ثابت کرنے والا ہے ۔
قالوا کیف نکلم من کان فی المھد صبیا یہ آیت حضرت مسیح ؑ کے بچپن میں کلام کرنے کے متعلق بطور دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ہم اس سے کس طرح کلام کریں جو کہ مہد میں ایک بچہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کے متعلق یاد رکھنا چائیے کہ مہد کا لفظ تیاری کے زمانہ کے لئے بھی بولا جا تاہے ۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ ومھدت لہ تمھیدا (مدثر ع1)یعنی میں نے کافر کو مال دیا، روپیہ دیا اور اس کی ترقیات کے لئے بڑے بڑے سامان مہیا کئے ۔ پس مہد کا لفظ محاورۃََ اُس زمانہ کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو تیا ری کا زمانہ ہو اور تیاری کا زمانہ جوانی کا زمانہ ہوتا ہے کیونکہ اُس زمانہ میں انسان آئندہ کے لئے اپنے اندر طاقتیں جمع کرتا ہے یہاں بھی جوانی کے زمانہ کے لئے استعارۃََ مہد کا لفظ بولا گیا ہے اور قوم کے بڑے لوگ چھوٹی عمر کے نوجوانوں کا ذکر الٰہی الفاظ میں کیا کرتے مگر اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ واقعہ میں پنگھوڑے میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ یہ مراد ہوتی ہے کہ ہم سے بہت چھوٹے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کو دیکھ لو آپ کی عمر ساٹھ سال کے قریب تھی۔ بڑھا پا شروع ہوچکا تھا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کفار مکہ کی طرف سے ایک رئیس آپ سے گفتگو کرنے کے لئے آیا تو وہ بار بار کہتا کہ اے بچے میں تجھے کہتا ہوں کہ میری بات مان لو ۔ حالانکہ اُسوقت آپ قریباََ ساٹھ سال کی عمر کے تھے مگر پھر بھی وہ آپ کو بچہ کہتا تھا کیونکہ خود اسی سا ل کا تھا۔ تو قوم کے بڑے لوگوں کا یہ کہہ دینا کہ اس سے ہم کیا گفتگو کریں یہ تو ابھی کل کا بچہ ہے کوئی قابل تعجب بات نہیں ۔مولوی سید محمدؐاحسن صاحب امرو ہی جب سخت غصّہ میں آیا کرتے تو انجمن کے ممبروں سے کہا کرتے تھے کہ تم کل کے بچے ۔دودھ پیتے بچّے میرے سامنے بات کرتے ہو ۔اب اگر کوئی اس بات کو سُنکر یہ کہنا شروع کردے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چودہ ممبروں پر مشتمل ایک انجمن بنائی تھی جس میں صرف ایک جوان شخص تھا باقی سب دُودھ پیتے بچے تھے تو یہ کیسی ہنسی والی بات ہوگی ۔جس طرح مولوی محمد ؐ احسن صاحب کہتے تھے کہ تم کل کے بچے ہو اسی طرح یہودی کہتے کہ یہ جو ہمارے سامنے پوتڑ وں میں کھیلا ہوا ہے کیا ہم اس سے بات کریں ۔ یعنی ابھی تو اس کے سیکھنے کے دن ہیں یہ ہمیں کیا بتائیگا کہ ہم اس سے بات کریں گویا ان الفاظ میں وہ اپنے علم و فضل اور اپنی عمر کی بڑائی پر فخر کرتے ہیں ۔
دیکھو سورئہ آل عمران میں بتایا گیا ہے کہ یکلم الناس فی المھدوکھلا (ع۵)مسیح مہد اور کہل میں کلام کرے گا ۔ اِس سے مسلمان یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ ایک پیشگوئی ہے جس میں بتا یا گیا تھا کہ مسیح بچپن میں کلام کرے گا اور مہد سے مراد حقیقی مہد ہے لیکن یہ نتیجہ نکا لنا درست نہیں ۔کیونکہ سورئہ آل عمران میں مہد کے ساتھ کہل بھی لگایا گیا ہے ۔ اگرمہد میں بولنا معجزہ ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا کہولت میں بولنا بھی معجزہ ہوتاہے ۔کیا ۳۳ سے پچاس سال تک کی عمر میں جو کہولت کا زمانہ ہوتاہے لوگ بولا کرتے ہیں یا تینتیس سے پچاس سال تک کی عمر والا اگر بولے تو اُسے بڑا معجزہ مراد نہیں بلکہ بولنے کی نوعیت مراد ہے اگر کسی عمر میں بولنا مراد ہوتا تو ساتھ کہل کا لفظ کیوں ہوتا ۔اگر کہل میں بولنا معجزہ ہوتا ہے تو پھر مہد سے مراد بھی دودھ پیتے بچے کا کلام کرنا مراد ہوسکتا ہے اور اگر کہولت کا کلام عام بات ہے مہد کا زمانہ بھی وہی زمانہ لیا جائے گا جس میں عام بچے بولتے ہیں ۔اس پر سوال ہو سکتا ہے کہ پھر پیشگوئی کیو ں کی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مہد کے زمانہ کے متعلق پیشگوئی کرنیکی وہی ضرورت ہے جو کہولت کے زمانہ کے متعلق پیشگوئی کرنے کی۔ آخر کہولت کی عمر والے باتیں کیا کرتے ہیں یا نہیں جب کیا کرتے ہیں تو پھر یہاں پیشگوئی کیوں کی ؟بہر حال کو ئی نہ کوئی غرض ہے جس کے ماتحت اللہ تعالی نے یہ پیشگوئی کیوں کی ہے اور ہمیں وہ غرض تلاش کرنی چاہیے ۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ کلام اپنی ذات میں معجزہ ہوتاہے قطع نظر عمر کے۔یعنی ہے تویہ معجزہ اگر معجزہ نہ ہوتا تو پیشگوئی نہ ہوتی اور یہ نہ کہا جاتا کہ ایسا ہوجائے گا مگر سوال یہ ہے کہ معجزہ آیا عمر کے لحاظ سے ہوتا ہے یا اس میں کوئی اور بات ہوتی ہے ؟ ہم مان لیتے ہیں اگر دو مہینے کا بچہ بول پڑے تو یہ بڑ امعجزہ ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کہتا ہے وہ پچاس سال کی عمر میں بھی بولے گا پچاس سال کی عمر میں بولنا کس طرح معجزہ ہوسکتا ہے؟اس کا جواب وہی ہے جو میں اُوپر دے چکا ہوں کہ قطع نظر عمر کے کلام اپنی ذات میں بھی معجزہ ہوتا ہے ۔مثلاََ قرآن کریم ایک بڑا معجزہ ہے مگر رسول کریم ﷺ پر یہ کس وقت نا زل ہونا شروع ہوا ۔ جب آپ دومہینے کے بچے تھے یا چالیس سا ل کے تھے۔چالیس سال کی عمر سے قرآن کریم نازل ہونا شروع ہو ا اور تریسٹھ سال کی عمر تک نازل ہوتا چلا گیا ۔مگر ہم پھر بھی اُس کو معجزہ کہتے ہیں ۔کیا اس لئے کہ آپ دو مہینے کے تھے جب یہ نازل ہوا یا تین مہینے کے تھے جب یہ نازل ہوا ۔بلکہ ہم اس کلام کو کلام کی وجہ سے معجزہ کہتے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کلام اِس شان کا ہے کہ دنیا اس کی مثال لانے سے عاجز ہے ۔پس یکلم الناس فی المھد وکھلا کے یہ معنے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ اپنی تیا ری اور جوانی کے زمانہ میں بھی اور کہل کے زمانہ میں بھی ایسی باتیں کریں گے جو معجزانہ ہوں گی۔ اور تمام انبیا ء ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے قرب اور اسکی محبت کے مقام پر فائز ہوتے ہیں ۔خود رسول کریم ﷺ نے تریسٹھ سال تک وہ کلام کیا کہ مسیح ؑ تو مسیح ؑ ،موسیٰ ؑ کا کلام بھی اس کے مقابلہ میں ہیچ ہے ۔چنانچہ موسیٰ کی تورات اور عیسیٰ کی انجیل قرآن کے مقابلہ میں حقیقت ہی کیا رکھتی ہیں ۔حالانکہ یہ کلام چالیس سال کی عمر میں نازل ہونا شروع ہوا تھا ۔پس خدا ہی یہ بتا سکتا تھا کہ مسیح ایسا کلام کرے گا جو معجزہ ہوگا ۔یہ معجزہ دو مہینے کے بچہ کے کلام کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اس کلام کی ذاتی خوبیوں اور حُسن کی وجہ سے ہے۔ پس مہد کے معنے بچپن کے کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اگر وہ جوانی میں بھی ایسی باتیں کرتے تھے جو عام آدمی نہیں کرسکتے تھے تو وہ معجزہ تھا ۔جس طرح رسو ل کریم ﷺ چالیس سال کی عمر میں بولے مگراُن کا کلام پھر بھی معجزہ تھا اور ایسا معجزہ کہ مسیح کو اس کا ہزارواں حصہ بھی نصیب نہیں ہوا ۔ پس محمد رسول اللہ ﷺ اور موسیٰ ؑ وغیرہ کا کلام جس طرح بڑی عمر میں معجزہ تھا اور خدا تعالیٰ ہی اس کے متعلق پہلے سے بتاسکتا تھا اسی طرح مسیح کے متعلق تھا ۔ پس پیشگوئی کی ضرورت مہد میں کلام کرنے کیلئے نہ تھی کیونکہ اس کے ساتھ کہل بھی لگا ہوا ہے کیونکہ کلام خاص جس طرح جوانی میں معجزانہ ہوتا ہے اسی طرح کہولت اور بڑھاپے میں بھی معجزانہ ہوتا ہے ۔



(یہ سُنکر ابن مریم نے ) کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس نے مجھے کتاب بخشی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے ۔ اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اس نے مجھے بابرکت (وجود) بنایا ہے اور جب تک میں زندہ ہوں مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید کی ہے اور مجھے اپنی والدہ سے نیک سلوک کرنیوالا بنایا ہے اور مجھے ظالم اور بد بخت نہیں بنایا۔
تفسیر :
یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ اگر مہد سے مراد بچپن کا زمانہ ہی لیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ حضرت مسیح ابھی دُودھ پیتے بچے تھے کہ آپ نے یہ کلام کیا تو اِن آیات میں جس قدر باتیں انہوں نے بیان کی ہیں وہ ساری کی ساری اُس وقت جھوٹی بنتی ہیں ۔اگر وہ دو مہینے کی عمر میں بولے تھے تو غو ر کرو وہ کیا کہتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں انی عبداللہ عبداللہ کے معنے اس جگہ محض مخلوق کے نہیں ہوسکتے کیونکہ مخلوق ہونے کے لحاظ سے تو سب انسان برابر ہیں اور حضرت مسیح اپنی وہ خصوصیا ت بیان کررہے ہیں جن میں انہیں دوسروں سے امتیاز حاصل ہے پس عبداللہ کے معنے ہیں خدا تعالیٰ کی کامل اطاعت کرنیوالا اوراُس کی صفات کو دنیا میں ظاہر کرنے والا۔ ایک دودھ پیتا بچہ کہتا کہ میں اللہ کا مطیع اور فرما نبردار ہوں میں اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے اخلاق کو دنیا میں ظاہر کرنے والا ہوں ۔اب اگر دُودھ پیتا بچہ ایسا کہتا ہے تو وہ یقیناجھوٹ بولتا ہے کوئی معجزہ نہیں دکھاتا بلکہ اُس کی اپنی حالت یہ تھی کہ ابھی اُس کو طہارت بھی اس کی ماں کرواتی تھی۔وہ چوستا تھا ماں کا پستان اور کہتا تھا کہ میں عبداللہ ہوں۔ کیا عبداللہ کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی ماں کا پستان پکڑ کر چُوسنا شروع کردے۔ یہ عجیب نظارہ ہوگا کہ اِدھر وہ کہتا ہوگا انی عبداللہ اور پھر ماں کی طرف مُنہ کرکے اس کا پستان چوسنے لگ جاتا ہوگا گویا فعل کرتا ہے بچے والا اور دعویٰ کرتا ہے بڑے مقرب اور پاکیزہ انسانوں والا اور پھر جو کچھ کہتا ہے محض جھوٹ ہے ۔ کہتا ہے میں اللہ کا عبدہوں اور اس کی عبادت کرتا نہیں تھا بلکہ اگر وہ اُس وقت اپنے دعویٰ کے مطابق نماز پڑھنی شروع کردیتا تو اُس کی ماں اُسے پھینک کر چلی جاتی اور شاید وہ سارا دن پاخانہ میں لتھڑا رہتا ۔
پھر کہتا ہے اتنی الکتباُس نے مجھے کتاب دی ہے ۔سوال یہ ہے اُس وقت خدا تعا لیٰ نے اُسے کونسی کتا ب دی تھی ؟
پھر کہتا ہے وجعلنی نبیااس نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے حالانکہ یہ جھوٹ تھا ۔
اِسی طرح کہتا ہے وجعلنی مبٰرکا این ما کنت اُس نے مجھے برکت والا بنایا ہے جہاں کہیں بھی میں ہوں ۔چلنا آتا نہیں ماں گود میں اُٹھائے پھرتی ہے اور کہتا یہ ہے کہ اینما کنت جہاں کہیں بھی میں جا ئوں خدا تعالیٰ کی برکت میرے ساتھ ہے ۔
واوصٰنی بالصلوٰۃ اور اس نے مجھے نماز کا حکم دیا ہے حا لانکہ طہارت بھی کوئی دوسرا کراتا تھا اور نماز پڑھنی آتی نہیں تھی۔
والذکٰوۃ اور اس نے مجھے زکوۃ کا حکم دیا ہے حالانکہ اس کے پوتڑے بھی اس کی ماں بناتی تھی اور کہتا یہ ہے کہ مجھے خدا نے زکوۃ دینے کا حکم دیا ہے ۔
وبرا بوالدتی اور میں اپنی ماں کا بڑا فرمانبردار ہوں حالانکہ ماں کی کیا فرمانبرداری کرنی تھی ماں تو اُسے اپنا خون چوسا رہی تھی اور اپنی گود میں اٹھائے پھرتی تھی اور راتوں کو اُس کے لئے جاگتی تھی ۔
ولم یجعلنی جبارا شقیا اور اس نے مجھے جبار اور شقی نہیں بنایا حالانکہ اُس وقت اُس نے جبار کیا ہونا تھا چٹکی کاٹنے سے وہ رونے لگ جاتا تھا ۔
غرض اگر یہ درست ہے کہ انہوں نے بچپن میں کلام کیا تو یہ جتنی باتیں ہیں سب کی سب جھوٹ بن جاتی ہیں ۔لوگ کہتے ہیں کہ یہ آئندہ کی خبریں تھیں جو اُن کی زبان پر جاری ہوئیںلیکن اگر اتنی باتوں کو آئندہ کی خبریں بنانا ہے تو صرف اِسی با ت کو کہ وہ بچپن میں کلام کرے گا آئندہ کی خبر کیونہ کہا جائے ۔سارا سوال حل ہوجاتا ہے ۔پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ آخر اس سے اللہ تعالیٰ کی غرض کیا تھی۔ وہ کہتے ہیں غرض یہ تھی کہ یہود کو معجزہ دکھایا جائے حا لانکہ اس معجزے سے بجائے اس کے کہ وہ کچھ فائدہ اٹھاتے وہ تو اور زیادہ بگڑے ہونگے کہ یہ جو کچھ کہتا ہے جھوٹ کہتا ہے ۔ کہتا ہے کہ خدا نے مجھے کتاب دی حالانکہ اس کے پاس کوئی کتاب نہیں ۔کہتا ہے کہ اُس نے مجھے نبی بنایا ہے حالانکہ ابھی اُس کو طہارت بھی اس کی ماں کرواتی ہے ۔ کہتا ہے کہ اُس نے مجھے زکوۃ کا حکم دیا ہے حالانکہ پاس پیسہ بھی نہیں اور اگر کہو کہ دشمن پر صرف اُن کا بولنا حجت تھا گویا معجزہ کسی اور بات میں نہیں تھا بلکہ معجزہ صرف اتنا تھا کہ اتنی چھوٹی عمر کا بچہ بول پڑ ا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں اتنے جھوٹ بلوانے کی کیا ضرورت تھی ۔ ایک دو ماکا بچہ تو اگر خالی اتنا ہی کہدیگا کہ ’’چچا جان کیا حال ہے آپ کیسی باتیں کررہے ہیں خدا کا خوف کریں ‘‘ تو بڑے بڑے جبہّ پوش فقیہوں اور فریسیوں نے اُس وقت بھاگ جانا تھا اتنے جھوٹ بلوانے کی ضرورت ہی نہیں تھی حقیقت یہ ہے کہ حضرت مریم کئی سال باہر رہیں جب وہ تیس سال کے ہوگئے (انجیل لوقاباب۳ آیت ۲۳) اور اللہ تعالیٰ نے اُن کو نبوت کے مقام پر فائز کردیا تو حضرت مریم اُنکو ساتھ لیکر اپنی قوم واپس آئیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے دشمن رشتہ دار ٹو ہ میں رہے یہ تدبیر کارگر نہ ہوئی اور دشمنوں نے راز کا پتہ لگا ہی لیا اور یا پھر خدا تعالیٰ نے اپنے نشان کو نمایاں کرنے کیلئے راز فاش کروادیا۔
عربی کی کتابوں میں ایک لطیفہ لکھا ہے جو دراصل لطیفہ نہیں بلکہ کثیفہ ہے مگر اس لئے کہ یہا ں چسپاں ہوتا ہے اُسے بیان کردیتا ہوں ۔
ہماری عربی کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوئی مولوی صاحب تھے جو بڑے بے وقوف اور بخیل تھے ۔ جو بھی روپیہ آتا اُسے جمع کرلیتے اور بیوی کو صرف آنہ دو آنے خرچ کرنے کے لئے دے دیتے۔ تنگ آکر وہ طلاق لے لیتی دوسری آتی تو اُسے بھی اس مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا آخر ایک عورت آئی اور اس نے ارادہ کر لیا کہ میں اس بخیل سے اس کا سا را روپیہ چھین لوں گی چنانچہ اُس نے آتے ہی اپنے پاس سے خوب مزیدار چیزیں پکا پکا کر اُسے کھلانی شروع کر دیں اور کہتی یہ میرے بھائی نے بھیجی ہیں۔ یہ میرے چچا نے بھیجی ہیں یہ میرے فلاں رشتہ دارنے بھیجی ہیں۔ اِسی طرح اُس نے پیاز اور لہسن وغیرہ خوب کھلانے شروع کر دئیے اُس نے یہ پتہ بھی لگا لیا کہ روپیہ کہاں رکھاہے چنانچہ وہ رسّی کو موم لگاکر اس جگہ لٹکاتی جہاں روپیہ رکھا تھا اور ایک اشرفی نکال لیتی اور اُس سے اُسے کھلانا پلانا شروع کردیا جب وہ اشرفی ختم ہوجاتی تو ایک اور نکال لیتی ۔آخر نفاخ چیزیں کھاکھاکراُس کا جگر خراب ہوگیا اور پیٹ پھولنا شروع ہوگیا ۔ جب اس کا پیٹ کچھ زیادہ بڑھ گیا تو عورت نے اس کا پیٹ ملنا شروع کردیا اور پیٹ ملتے ملتے کہا کہ تمہیں حمل ہوگیا ہے۔ وہ گو مولوی تھا مگر بے وقوف تھا ۔سنتے ہی کہنے لگا خبردار کسی کو بتانا نہیں ورنہ میری بڑی بدنامی ہوگی ۔اُس نے کہا فکر نہ کرو میں کسی کو نہیں بتاتی غرض اس طرح اس کا پیٹ پھولتا چلاگیا اور وہ یقین دلاتی چلی گئی کہ یہ حمل ہے نو ماہ کے بعد اُس نے اپنی ایک ہمسائی سے جو اس کی سہیلی تھی مشور ہ کیا اور دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ کسی کا بچہ اٹھا کر لے آتے ہیں اور اسے دکھادیتے ہیں کہ یہ تیرے حمل کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے چنانچہ وہ کسی اور کا بچہ لے آئے اور انہوں نے اُس کا پیٹ خوب ملنا شروع کیا اور پھر ایک بچہ نکال کر دکھادیا کہ لو یہ بچہ پیدا ہوگیا ہے اس نے منتیں کرنی شروع کیں کہ کسی کو بتانا نہیں اور پھر کہا کہ اب بچہ تو پیدا ہو گیاہے اس کے دُودھ کا کیا انتظام ہوگا وہ کہنے لگی کہ دُودھ کا فکر نہ کرومیں اس کا خود انتظام کرلوں گی۔ ادھر اُس نے سارے شہر میںخبر مشہور کردی کہ مُلا جی کے پیٹ سے بچہ پیدا ہوا ہے اور سارے شہر کے لوگ اُس کے پاس آنے لگے ۔وہ اس قدر گھبرایا کہ شہر چھوڑ کر ہی بھاگ گیا اور پندرہ بیس سال تک اِدھر اُدھر پھرتا رہا ۔آخر اُسے خیال آیا کہ اب تو بات پرانی ہوچکی ہے سب لوگ اس قصہ کو بھول چکے ہوں گے آئو اب وطن واپس چلوں چنانچہ بیس سال کے بعد وہ اپنے شہر میں واپس آیا ۔شہر کی حالت بالکل بدل چکی تھی ۔پُرانے لوگوں میں سے کئی مرچکے تھے اور بچے جوان ہوچکے تھے ۔ایک جگہ کچھ نوجوان کھیل رہے تھے ۔اس نے ایک لڑکے کو بلایا اور پوچھا کہ کچھ جانتے ہو فلاں مکان کس گلی میں ہے۔ اُس نے جواب دیا کہ مجھے توکچھ علم نہیں ۔وہ حیران ہوا اور اُس نے پوچھا کہ لڑکے تمہاری عمر کتنی ہے ۔اُس نے کہا عمر کا تو مجھے علم نہیں مگر جس سال قاضی کے پیٹ سے بچہ پیداہوا تھا اُسی سال میں پیداہو ا تھا ۔ ایسا ہی لطیفہ اس جگہ گزرا حضرت مریم تو بھاگیں مگر وہ رشتہ دار جو اُن کے شریک تھے انہوں نے اس واقعہ کو یاد رکھا اور جب آپ واپس پہنچیں اور انہوں نے دیکھا کہ وہی بچہ آگیا ہے جس کی خبر مشہور ہوئی تھی تو انہوں نے حضرت مریم کو طعنہ دیا ۔
فاشارت الیہ اُن کے طعنہ پر حضرت مریم شرما گئیں اور انہوں نے حضرت مسیح کی طرف اشارہ کردیا مگر وہ بچہ اب جوان ہوکر خدا تعالیٰ کا نبی بن چکا تھا۔ اُس نے کہاتم کیا بکواس کرتے ہو انی عبداللہ اٰتٰنی الکتب وجعلنی نبیامیں خدا تعالیٰ کی صفات کو دنیا میں ظاہر کرنیوالا ہو ں۔ میں خدا تعالیٰ کے اخلاق کو دنیا میں قائم کرنے والا ہوں ۔خدا نے مجھے کتاب دی ہے اور خدا نے مجھے نبی بنا یا ہے کیا ایسی اولاد حرام کی اولاد ہوسکتی ہے وجعلنی مبارکا این ما کنت اور اُس نے مجھے مبارک بنایا ہے جہاں کہیںبھی میں ہو واوصنی بالصلوٰۃ والزکوٰۃ اور خدا نے مجھے نماز کا اور زکوۃ کا حکم دیا ہے مادمت حیاجب تک کہ میں زندہ رہوں ۔ اگر یہ دُودھ پیتے زمانہ کا معجزہ تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دُودھ پیتے وقت چلتے پھرتے بھی تھے اور نماز یں بھی پڑھتے تھے اور زکوتیں بھی دیتے تھے حالانکہ اس بات کونہ غیر احمدی مانتے ہیں اور نہ عیسائی مانتے ہیں ۔ اگر کہو کہ یہ آئندہ کی پیشگوئیاں تھیں تو سوال یہ ہے کہ وہ بولا تو اس لئے تھا کہ لوگ ایمان لاتے مگر اس سے تو اُن کے ایمان اور بھی خطرہ میں پڑگئے ہونگے کہ یہ کیسا جھوٹا ہے کہتا کیاہے اور اس کی حالت کیا ہے جب اس نے کہا ہوگا کہ اتنی الکتبمجھے اُس نے کتاب دی ہے تو وہ کہتے ہوں گے صریح جھوٹ ہے دکھائو کتا ب کہاں ہے اور پھر اگر اُس نے کتاب دے دی تھی تو اس کے اوّل منکر خود مسیح ؑ ہوئے کیونکہ اُس پر عمل نہیں کیا ۔
اِسی طرح جب انہوں نے کہا ہو گا کہ وجعلنی نبیا اس نے مجھے نبی بنایا ہے تو وہ کہتے ہوں گے کیسا جھوٹا ہے ۔تجھے نبی بنایاہے ۔ تُوتو ابھی ما ں کا پستان چوس رہاہے ۔
جب کہا ہو گا کہ وجعلنی مبارکا این ما کنت تو وہ کہتے ہوں کہ خوب ! ماں کی گود سے اُتر نہیں سکتا اور کہتا یہ ہے کہ میں جہاں کہیں جائوں خدانے مجھے برکت والا بنایا ہے۔
جب کہا ہوگا واوصٰنی بالصلوٰۃ والزکوٰۃ مجھے اس نے نماز اور زکوۃ کا حکم دیاہے تو انہوں نے کہا ہوگا کہ اچھا فرمائیے آپ نے کتنی نمازیں پڑھی ہیںاور پھر دھیلہ آپ کی جیب میں نہیں اور کہتے یہ ہیں کہ مجھے اُس نے زکوۃ کا حکم دیا ہے ۔
جب کہا ہو گا وبرابوالدنیمیں اپنی ماں سے بڑا حسن سلوک کرنے والاہوں ۔ توکہتے ہوں گے کہ تُو ماں کے کپڑوں پر تو پیشاب کررہا ہے اور ما ں تجھے خون چوسا رہی ہے اور توکہتاہے کہ میں اپنی ماں کا بڑا فرمانبردار ہوں ۔
اسی طرح جب کہا ہوگا کہ ولم یجعلنی جبارا شقیا مجھے اُسنے جبار اور شقی نہیں بنایامیں ایسا نہیں ہوں کہ لوگوں پر ظلم کروں اور اُن کے حقوق تلف کروں تو وہ کہتے ہوں گے کہ تُو نے ظلم کیا کرناہے تجھے تو خود بات بات میں دوسروں کی احتیاج ہے ۔
لیکن اتنے جھوٹ بولنے کی بجائے وہ صرف اتنا ہی کہہ دیتے کہ چچا جان آپ میری ما ں پر کیسا ظلم کررہے ہیں اور کیسی جھوٹی باتیں اُس کے متعلق کہہ رہے ہیں ۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ اتنی بات سے ہی اُن مولویوں اور پنڈتوں نے بھاگ جانا تھا ۔ان دعووں کے ساتھ تو یہ معجزہ رہا ہی نہیں صریح جھوٹ بن گیا ہے جس کا دشمن پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ اس زمانہ کی باتیں ہیں جب وہ جوان ہوئے اور تیس سال کی عمر میں یورو شلم آئے اُس وقت حضرت مریم بھی اُن کے ساتھ تھیں ۔وہ جانتی تھیں کہ رشتہ دار مجھے طعنہ دیں گے پس جب انہوں نے طعنہ دیا اور کہا کہ یمریم لقد جئت شیئا فریاتو انہوں نے کہا تم مجھے کیا طعنہ دیتے ہو اسی سے پوچھ لو حضرت مسیح ؑنے کہا تم یہ کیا باتیں کررہے ہو خدا نے مجھے نبی بنایا ہے خدا نے مجھے تقویٰ و طہارت عطا کیا ہے خدا نے مجھے علم الکلام عطا کیا ہے ۔خدا نے مجھے اخلاق فاضلہ سے متصف کیا ہے ۔وبرا بوالدتی اگر ماں میرے لئے ایسی ٹھوکر کا موجب ہوتی تو میں اُس کا اتنا خدمت گزار کیوں ہوتا ۔خدا نے اس کی نیکی دیکھ کر ہی اُسے چن لیا اور مجھے اُس کے گھر میں پیدا کردیا ۔
پس یہاں مہد سے بچپن کا زمانہ نہیں بلکہ بڑی عمر کا کلام مراد ہے یعنی تیس سا ل کی عمر کا جو کہولت سے پہلے ہوتاہے ۔ کہولت کا زمانہ تیس سے پچاس تک کا ہوتا ہے اس کے بعد بڑھاپا شروع ہوتا ہے ۔مسیح تیس سال کی عمر میں نبی ہوئے اور ۳۳ سال تک اپنے ملک میں رہے ۔پس اُنہیں مہد وکہولت میں بولنے کا موقع ملا ۔بڑھاپے میں بولنے کا موقع انہیں غیر ملکوں میں جا کر ملا ۔
ان آیا ت کے متعلق اس وقت تک میںنے یہ مضمون بیان کیاہے کہ قرآن کریم حضرت مسیح ؑ کے متعلق کیانظریہ پیش کرتا ہے۔ آیا انہوں نے اس وقت کلام کیا تھا جب وہ ابھی اپنی ماں کی گود میں تھے یا اُس وقت کلام کیا تھا جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت کے مقام پر فائز ہوچکے تھے مگر جیسا کہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے ان آیا ت کا تعلق صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں بلکہ عیسائیوں کے ساتھ بھی ہے اور اُن کی طرف سے یہ سوال پیداہوسکتا ہے کہ قرآن کریم نے ہمارے لیڈر کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ غلط ہے چنانچہ اب میں اسی سوال کی طرف آتا ہوں کہ آیا عیسائی بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں کہ مسیح ؑ نے یہی کچھ بیان کیا تھا اور لوگوں سے یہ کہا تھا کہ انی عبداللہ اٰتٰنی الکتٰب وجعلنی نبیا عیسائی مفسر اور عیسائی مصنف جو اسلام کے متعلق کتابیں لکھتے ہیں وہ اس موقع پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور نہایت غصہ سے رسول اکرم ﷺ پر حملہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ نے اپنی بات منوانے کے لئے مسیح کے مُنہ میں جھوٹی باتیں ڈالیں ۔گویا علماء نے اپنے قول سے مسیح کی طرف تو ایک معجزہ منسوب کیا لیکن اپنے آقا اور سردار محمد رسول اللہ ﷺ کو عیسائیوں سے گالیا ں دلوائیں اور انہیں جھوٹا کہلوایا ۔وہ کہتے ہیں مسیح تو خدا تھا پھر انی عبداللہ اور اتنی الکتاب وجعلنی نبیا کہنے کے کیا معنے ہوئے ان کے نزدیک محمد رسول اللہ ﷺ نے (نعوذباللہ ) اپنی بات سچی ثابت کرنے کیلئے مسیح ؑ کی زبان سے اس قسم کے فقرے کہلوائے ہیں۔جو بالکل غلط ہیں اور جن کو مسیح ؑ کی طرف کسی صورت میں بھی منسوب نہیں کیاجا سکتا چنانچہ اس موقع پر وہ اپنی شدید نفرت کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم نے حضرت مسیح ؑ کی طرف بالکل غلط دعادی منسوب کردئیے ہیں پس ہم ان آیا ت سے اس وقت تک نہیں گذر سکتے جب تک ہم یہ ثابت نہ کردیں کہ جو کچھ قرآن کریم نے بیان کیا ہے وہ درست ہے اور اناجیل سے وہی باتیں ثابت ہوتی ہیں جو قرآن کریم نے بیان کی ہے ۔ یہ اسلامی تعلیم یا اسلام ہسٹری کا سوال نہیں کہ ہم خاموشی سے گذر جائیں اور کہیں کہ کسی غیر کا اس سے کیا تعلق ہے یہ ایسی باتیں ہیں جو ایک قوم کے لیڈر کے متعلق کہی گئی ہیں او ر دعویٰ کیا گیا ہے اُس نے یہ باتیں کیں ۔پس اُس لیڈر کے اتباع کاحق ہے کہ وہ کہیں کہ ان باتوں کا ثبوت لائو اور اگر واقعہ میں انجیل سے ان باتوں کا کوئی ثبوت نہ ملے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن انسانی کتاب سمجھا جائے گا اور یہ خیال کیا جائیگا کہ نعوذ باللہ قرآن کریم نے لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے لیکن اگر یہ ثابت ہوجائے کہ جو کچھ قرآن کریم نے بیان کیاہے وہ درست ہے اور انجیل سے بھی یہی باتیں ظاہر ہوں تو نہ صرف یہ سوال حل ہوجائیگا کہ مسیح ؑ مہد میں نہیں بولا بلکہ یہ سوال بھی حل ہوجائیگا کہ مسیح ؑ کی طر ف خدائی کا دعویٰ منسوب کرنا غلط ہے مسیح ؑ بھی ایک ویسا ہی انسان تھا جیسا کہ اور لوگ اس دنیا میں پائے جاتے ہیں ۔
قرآن کریم نے حضرت مسیح ؑ کی طرف جو باتیں منسوب کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے کہاانی عبداللہ میں اللہ کا بندہ ہوں اسی طرح انہوں نے کہا اتنی الکتب وجعلنی نبیااُس نے مجھے کتاب دی ہے اور اس نے مجھے نبی بنا یا ہے ۔ اب یہ باتیں اگر درست ہیں تو اس میں شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ مسیح نہ خدا تھا نہ خدا کا بیٹا تھا بلکہ وہ خدا کا ایک نبی تھا ۔ پس ان آیا ت پر یقینا عیسائیوں کو چڑنے کا حق ہے گو بد کلامی کا حق نہیں ۔یہ تو انہیں حق حاصل ہے کہ وہ کہیں کہ قرآن کریم نے مسیح کی طرف غلط دعاوی منسوب کردئیے ہیں مگر اُن کا یہ حق نہیں کہ و ہ بد زبانی پر اتر آئیں اور گالیوں سے کام لیں ۔ بہرحال جب ہم انجیل پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی عقائد غلط فہمیوں پر مبنی ہیں اور اسلام اور قرآن نے جو بات کہی ہے وہی صحیح اور درست ہے ۔
پہلی بات قرآن کریم یہ بیان کرتا ہے کہ مسیح نے کہا انی عبداللہ اب اگر انجیل بھی یہی کہتی ہے کہ مسیح اللہ کا بندہ تھا قرآن کریم کی بات سچی ثابت ہو جائے گی ۔ پس سب سے پہلے ہم اسی با ت کو لیتے ہیں اور قرآن کریم کے اس بیان کی تائید کے لئے متی باب ۴آیت اتا ۱۱ کو پیش کرے ہیں ۔اس میں لکھا ہے :
’’تب یسوع روح کے وسیلے بیابان میں لایا گیا تاکہ شیطا ن اُسے آزمائے اور جب چالیس دن اور چالیس رات روزہ رکھ چکا آخر کو بھوکا ہوا تب آزمائش کرنے والے نے اس کے پاس آکے کہا اگر تُو خدا کا بیٹا ہے تو کہہ کہ یہ پتھر روٹی بن جائیں ۔اس نے جواب میں کہا لکھا ہے کہ انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی جیتا ہے ۔ تب شیطان اُسے مقدس شہر میں اپنے ساتھ لے گیا اور ہیکل کے کنگورے پر کھڑا کرکے اس سے کہا اگر تُو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرادے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیر ے لئے اپنے فرشتوں کو فرمائے گا اور وے تجھے ہاتھوں پر اُٹھا لیں گے ۔ایسا نہ ہو کہ تیرے پائوں کو پتھر سے ٹھیس لگے ۔ یسوع نے اس سے کہا یہ بھی لکھا ہے کہ تُو خدا وند اپنے خدا کو مت آزما ۔پھر شیطان اُسے ایک بڑے اونچے پہاڑ پر لے گیا اور دنیا کی ساری بادشاہتیں اور انکی شان وشوکت اُسے دکھائیں اور اُس سے کہا اگر تو گر کے مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دیے دونگا تب یسوع نے اُسے کہا اے شیطان دور ہو کیونکہ لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور اس اکیلے کی بندگی کر( یہ آیات بتاتی ہیں کہ گو مسیح ؑ نے شیطان کو سجدہ نہیں کیا مگر مسیحی قوم نے آخر شیطان کو سجدہ کیا تبھی اُن کو دنیا کی بادشاہت مل گئی ۔ کیونکہ انجیل بتاتی ہے کہ دنیا کی بادشاہت شیطان کو سجدہ کرنے کے نتیجہ میںملتی ہے ) تب شیطان اُسے چھوڑ گیا اور دیکھو فرشتوں نے آکے اُسکی خدمت کی ۔‘‘
یہ بیا ن کس تفصیل سے مسیح کی انسانیت کی طرف اشارہ کررہا ہے ۔ سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ شیطان اُسے آزمانے کے لئے آیا ۔اب کوئی عقلمند یہ نہیں مان سکتا کہ شیطان جس نے مسیح کو آزمانا چاہا وہ اتنا بھی نہیں جانتا تھا کہ خدا کیا ہو تا ہے اور اس کی کیا صفات ہیں اور اس کے اندر کیا کیا طاقتیں پائی جاتی ہیں ۔بائبل میں جہاں بھی شیطان کا ذکر آتا ہے وہاں سے اتنا تو پتہ لگتا ہے کہ شیطان ایک باغی وجود تھا اور خدا تعالیٰ کی معرفت کاملہ اس کو حاصل نہیں تھی لیکن ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اتنا ضرور جا نتا تھا کہ خدا کیا ہوتا ہے اور اس کی کیا طاقتیں ہیں ۔ پس شیطان کا مسیح کے پاس اُس کی آزمائش کے لئے آنا جبکہ وہ جانتا تھا کہ خدا تعالیٰ کو آزمایا نہیں جا سکتا صاف بتاتا ہے کہ شیطان یہ بھی جانتا تھا کہ مسیح خدا نہیں ۔ورنہ اگر وہ جانتا کہ یہ خدا ہے تو وہ اُسے آزمانے کے لئے کیوں آتا۔
پھر لکھتا ہے جب وہ چالیس دن اور چالیس رات کا روزہ رکھ چکا تو ’’آخر بھوکا ہوا‘‘ اب چالیس دن اور چالیس رات کے روزہ کے اگر یہ معنے بھی لئے جا ئیں کہ اُس نے چالیس دن رات کھانا نہیں کھایا تب بھی اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ۔ گاندھی جی نے توساٹھ ساٹھ دن کے بھی روزے رکھے ہیں ۔ پھر یہاں صرف بھوکا رہنے کا ذکر ہے پیاسا رہنے کا ذکر نہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ جس طرح گاندھی جی پھلوں کا رس اور سوڈا وغیرہ پی لیا کرتے تھے اسی طرح وہ بھی چالیس دن رات صرف پانی اور پھلوں کا رس وغیرہ پیتے رہے روٹی انہوں نے نہیں کھائی لیکن بہرحال جب چالیس دن اور چالیس رات کا روزہ ختم ہوا تو انجیل بتاتی ہے کہ انہیں بھوک لگی اور جب وہ بُھوکے ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہ انسان تھے خدا نہیں تھے کیونکہ بھوک انسان کو ہی لگا کرتی ہے خدا کو نہیں ۔
عیسائی اس موقع پرکہا کرتے ہیں کہ چونکہ مسیح ؑ انسانی جسم میں تھا اس لئے انسانی حوائج بھی اس کے ساتھ لگے ہوئے تھے ۔ ہمارا تو اعتقاد ہے کہ اس کا جسم بھی انسانی تھا اور اس کی روح بھی انسانی تھی ۔ لیکن بہر حال ہم عیسائیوں سے کہتے ہیں کہ کم ازکم تم نے مسیح کا انسانی جسم مان لیا۔ اب رہ گیا یہ سوال کہ اس میں انسانی روح تھی یا خدائی ۔اس کا حل اگلی آیا ت سے ہوجاتا ہے ۔
لکھا ہے شیطان نے اُس سے کہاکہ
’’اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو کہہ کہ یہ پتھر روٹی بن جائیں ۔‘‘
اس پر حضرت مسیح ؑ نے کہا
’’لکھا ہے کہ انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے مُنہ سے نکلتی ۔جیتاہے۔‘‘
یعنی شیطان نے کہا کہ پتھر کو روٹی بنا دے ۔اب پتھر کو روٹی بنانا خدا کے اختیا ر میں ہے انسان کے اختیار میں نہیں ۔پس چونکہ یہ چیز خدا کے اختیار میں تھی اس لئے شیطان نے کہا کہ جب تُو کہتا ہے کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور لوگ بھی تجھے ایک فوق العا دت وجود سمجھتے ہیں تو تُو پتھر کو روٹی بنادے مگر اُس نے ایسا نہ کیا جس کے معنے یہ ہیں کہ اُس میں خدائی طاقتیں نہیں تھیں ۔
اِس موقع پر عیسائیوں کی طرف سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ روٹی نہ بنانے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس میں خدائی طاقتیں نہیں تھیں کیونکہ یہ امر اس کی مرضی پر منحصر تھا ۔اگر اس کا جی چاہتا تو وہ پتھر کو روٹی بنا سکتا تھا ۔مگر چونکہ اُس نے نہ چاہا کہ وہ ایسا کرے اس لئے پتھر روٹی نہ بن سکا ۔ پس اگر مسیح نے یہ معجزہ نہیں دکھایا تو اس سے اُس کے عجز کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ اُس نے جب شیطان کی گستاخی دیکھی تو اُس نے اُس کی بات کو رد کر دیا اور کہہ دیا کہ تم کون ہوتے ہو جو مجھ سے ایسا سوال کرو ۔ جامیں پتھر کو روٹی نہیں بناتا۔
اس کا جوب یہ ہے کہ اس امر کا فیصلہ کرنے کے لئے مسیح نے پتھر کو روٹی کیوں نہ بنایا ہمیں اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ مسیح ؑ نے اس سوال کا جواب کیا دیا ہے ؟ اگر تو مسیح ؑ یہ جواب دیتا کہ میں پتھر کو روٹی نہیں بناتا یہ امر میری مرضی پر منحصر ہے تم کون ہو جو مجھے اس امر پر مجبور کرو تب تو یہ بات درست تسلیم کی جاسکتی تھی کہ مسیح ؑ نے پتھر کو روٹی اس لئے نہیں بنایا کہ وہ بنا نہیں سکتا تھا بلکہ اس لئے نہیں بنائی کہ وہ بنا نا نہیں چاہتا تھا لیکن مسیح یہ جواب دیتا ہے کہ
’’لکھا ہے کہ انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہرایک بات سے جو خدا کے مُنہ سے نکلتی جیتا ہے ‘‘۔
اب سوال یہ ہے کہ وہاں کون سے دو وجود تھے جو باتیں کررہے تھے ۔ کیا روٹی کھانے والا وجود وہاں مسیح ؑ کے علاوہ کوئی اور بھی تھا ؟صاف ظاہر ہے کہ شیطان روٹی کھانے والا نہیں تھا ۔ روٹی کھانے والا وجود صرف مسیح ؑ تھا اور مسیح ؑ یہ جواب دیتے ہیں آدمی روٹی کے بغیر بھی جیتا ہے ۔گویا مسیح ؑ نے اس امر کا اقرار کی کہ میں انسان ہوں اور روٹی کا محتاج ہوں لیکن اگر خدانے مجھے روٹی نہیں دی تو مجھے خدا کے کلام پر اعتبار کرنا چائیے اور ایسی باتیں نہیں کہنی چاہئیں کہ پتھر روٹی بن جائیں ۔
پھر اس نے کہا کہ
’’انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ۔جیتاہے‘‘
یہ بھی وہ اپنے متعلق ہی کہتا ہے ۔ پس معلوم ہوکہ مسیح ؑ خدا کی باتوں سے جیتا تھا اور جو خدا کی باتوں سے جیتا ہے وہ خدا نہیں ہوسکتا ۔
پھر لکھا ہے :
’’تب شیطان اُسے مقدس شہر میں اپنے ساتھ لے گیا اور ہیکل کے کنگورے پر کھڑا کرکے اُس سے کہاکہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرادے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیرے لئے فرشتوں کو فرمائیگا اور وے تجھے ہاتھوں پر اٹھا لیں گے ۔ ایسا نہ ہو کہ تیرے پائوں کو پتھر سی ٹھیس لگے ‘‘
یعنی شیطان نے کہا کہ تم ہیکل کے کنگرے سے اپنے آپکو نیچے گرادو۔ اگر تم ایسا کروگے تو میں سمجھ لوں گا کہ تم خدا ہو کیونکہ خدا کو چوٹ نہیں لگ سکتی ۔ اسپر مسیح نے کہا :
’’یہ بھی لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو مت آزما ‘‘ یعنی یہ کام بھی میں اس لئے نہیں کرتا کہ میں اپنے خدا کو کس طرح آزمائوں میں خدا کا ایک بندہ ہوں اور بندوں کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنے خدا کو مت آزمائیں ۔
پھر شیطان اُسے ایک بہت اونچے پہاڑ پر لے گیا اور دنیا کی ساری بادشاہتیں اور ان کی شان وشوکت اُسے دکھائیں اور اُس سے کہا اگر تُو گر کے مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دے دُوں گا ‘‘۔یہ الفاظ بھی بتاتے ہیں کہ مسیح ؑ خدا نہیں تھا کیونکہ خدا کی تو سب چیزیں ہیں جب وہ مسیح ؑ کو کہتا ہے کہ اگر تو مجھے سجدہ کرے تو میں سب کچھ تجھے دے دُوں گا ۔تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ شیطان جانتا تھا کہ یہ خدا نہیں ورنہ خداکو کوئی کہہ سکتا ہے کہ میں تجھے سب چیزیں دے دُوں گا ۔ جو چیزیں ہیں ہی خدا کی وہ خدا کودینے کے کیا معنے ہیں ۔ پس اگر مسیح ؑ شیطان کی نظر میں خدا ہوتاتو وہ اُسے یہ کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ اگر تُو مجھے سجدہ کردے تو میں دنیا کی سب نعمتیں تجھے دے دونگا اور پھر جب مسیح ؑ نے جواب میں یہ نہیں کہا کہ یہ سب چیزیں میری ہیں تو اس سے بھی پتہ لگا کہ وہ بھی اپنے آپ کو خدا کا بندہ ہی سمجھتا تھا ۔اگر مسیح ؑ خدا ہوتا تو مسیح ؑ کاجواب یہ ہونا چاہیے تھا کہ میں تو خداہوں اور میری ہی یہ سب چیزیں ہیں تم میری ہی چیزیں مجھے دینے کا کیا وعدہ کرتے ہو ۔مگر مسیح اس کا بھی یہ جواب دیتا ہے کہ
’’ اے شیطان دُور ہو کیونکہ لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور اُس اکیلے کی بندگی کر‘‘۔گو یا مسیح ؑ نے اقرار کرلیا کہ میں صرف خدا کا ایک بندہ ہوں اور میرا کام یہ ہے کہ میں اُسی کو سجدہ کروں اور اُسی کی عبادت بجالائوں ۔
لوقا باب۴ آیات ۱تا ۱۳ میں بھی یہی باتیں بیان کی گئی ہیں صرف اس میں اتنی بات زائد ہے متی نے تو یہ لکھا ہے کہ وہ چالیس دن اور چالیس رات بھوکا رہنے کے بعد آزما یا گیا اور یہاں یہ لکھا ہے کہ چالیس دن تک شیطان اُسے آزماتا رہا ۔ ہمارے مولوی کہتے ہیں کہ مسیح ؑ کو شیطان نے مس بھی نہیں کیا اور انجیل کہتی ہے کہ چالیس دن تک شیطان اُسے اپنے ساتھ لے کر پھرتا رہا اور مختلف آزمائشوں میں سے اُسے گذرنا پڑا ۔گو یا اُ س کوخدا ماننے والے تو اس کو مس شیطان سے پاک نہیں کہتے لیکن محمد رسول ﷺ کے اتباع باقی سب نبیوں کو مس شیطان سے آلودہ قرار دیتے ہیں صرف اُس نا م نہاد خدا کے بیٹے کو جس کے متعلق اُس کی اُمت بھی کہتی ہے کہ چالیس دن تک شیطان کے ساتھ پھرتا رہا مس شیطان سے پاک قرار دیتی ہے ۔پھر لطیفہ یہ ہے کہ مسلمان مولوی تو یہ کہتے ہیں کہ پیدائش کے وقت جب وہ بچہ تھا اس وقت بھی اُسے شیطان نے نہیں چھوا ۔لیکن انجیل کہتی ہے کہ جب وہ بالغ اور عاقل تھا تب بھی شیطان کے ساتھ ساتھ پھرتا تھا صرف ایک دو منٹ کے لئے نہیں بلکہ چالیس دن تک پھرتا رہا۔
پھر یوحنا باب۴ آیت ۲۲ میں لکھا ہے کہ تم جسے نہیں جانتے اس کی پرستش کرتے ہو ہم جسے جانتے ہیں اس کی پرستش کرتے ہیں کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔‘‘
اس حوالہ سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت مسیح اپنے آپ کو خدا کا ایک بندہ سمجھتے تھے کیونکہ فرماتے ہیں کہ میں اور باقی یہودی اُس خدا کی پرستش کرتے ہیں جس کو ہم جانتے ہیں اور تم اس کی پرستش کرتے ہو جسے تم نہیں جانتے ۔
پھر خدائی کی ایک بڑی علامت علم غیب ہوتا ہے اگر کوئی خدائی دعویدار ہو تو ضروری ہے کہ علم غیب بھی اسے حاصل ہومگر مسیح کہتا ہے کہ
’’اُس دن یا اس گھڑی کی بابت کوئی نہیںجانتا نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر باپ‘‘۔(مرقس باب ۱۳ آیت۳۲)
اُس دن یا اُس گھڑی میں اختلاف ہے کہ اس سے کیا مراد ہے ۔بعض لوگ اس سے قیامت مراد لیتے ہیں اور بعض اس سے مسیح کی آمد ثانی مراد لیتے ہیں ۔ بہر حال قیامت مراد ہویا مسیح کی آمد ثانی حضرت مسیح ؑ کہتے ہیں کہ اُس گھڑی کونہ میں جانتا ہوں نہ آسمان کے فرشتے جانتے ہیں صرف خدا جانتا ہے کہ وہ کب آئے گی ۔گویا علم غیب کے متعلق حضرت مسیح ؑ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے مجھے حاصل نہیں ۔اگر وہ خدا ہوتا تو اُسے بھی یہ علم غیب حاصل ہوتا ۔
اسی طرح مرقس باب۱۰ آیت ۱۷،۱۸ میں لکھا ہے
’’اور جب وہ باہر نکل کر راہ میں جا رہا تھا تو ایک شخص دوڑ تا ہوا اُس کے پاس آیا اور اس کے آگے گھٹنے ٹیک کر اُس سے پوچھنے لگا کہ اے نیک اُستا د میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں۔ یسوع نے اُس سے کہا تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے ۔ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا۔‘‘
ان آیا ت میں حضرت مسیح دو دعوے کرتے ہیں ایک یہ کہ نیک صرف خداہے ۔دوسرا یہ کہ میں نیک نہیں ہوں ۔اب اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میں خدا نہیں ۔ تم منظقی صغریٰ کبریٰ بنالو۔ اس کے سوا کوئی اور نتیجہ نکل نہیں سکتا ۔ایک طرف یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ نیک صرف خدا ہ ہے اور دوسری طرف یہ کہا گیا ہے کہ میں نیک نہیں ۔اِن دو دعووں کا سوائے اس کے اور کو ئی مفہوم نہیں کہ میں خدا نہیں گو یا حضرت مسیح انسان ہونیکا اس جگہ قرار کرتے ہیں۔
یہاں یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ بعض مسلمان بغیر حقیقت پر غور کرنیکے اس جگہ عیسائیوںسے بھی زیادہ جوش میں آجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا مسیح ؑ نیک نہیں تھا ۔ اگر کسی احمدی سے یہ سوال کیا جا ئے تو وہ کہے گا کہ تم عیسائیوں سے پوچھوان کی کتاب میںیہ لکھا ہے ۔ پس اس کے جواب کی اصل ذمہ داری ان پر ہے ہم پر نہیں۔ لیکن اگر ہمیں ہی جواب دینا پڑے تو ہم یہ جواب دیں گے کہ عبداللہ کی نیکی کسبی ہوتی ہے اور یہاں حضرت مسیح کی مراد اس نیکی سے ہے جو ذاتی ہوتی ہے انسان کی نیکی کسبی ہوتی اور خدا تعالیٰ کی نیکی ذاتی ہوتی ہے۔ اسی لئے خدا قدوس کہلاتا ہے لیکن انسان قدوس نہیں کہلا سکتا کیونکہ وہ اپنی ذات میں بے عیب ہے اور انسان بے عیب کوشش سے بنتا ہے۔ خدا تعالیٰ پر کوئی وقت ایسا نہیں آیا جب وہ ناقص تھا اور پھر اس نے کامل بننے کی کوشش کی لیکن انسان پہلے ناقص ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اپنے کمال کو پہنچتا ہے ۔ پہلے وہ بچہ ہوتا ہے پھر اسے عقل آتی ہے تو وہ نماز شروع کرتا ہے اس کے بعد ایک دن کی نماز اسے کچھ اور آگے لے جاتی ہے۔ دو دن کی نماز اسے اور آگے لے جاتی ہے۔ تین دن کی نماز اسے اور آگے لے جاتی ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ جیسے آج سے اربوں ارب سال پہلے تھا اسی طرح آج بھی ہی اس کی قدوسیت نہ پہلے کم تھی اور نہ آج زیادہ ہے لیکن انسان کی نیکی کسی وقت کم ہوتی ہے اور کسی وقت زیادہ ہوتی ہے چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہو۔ جب وہ بچہ ہوتا ہے تو اس کی نیکی ادنیٰ ہوتی ہے جب وہ صداقتوں کو سمجھنے لگ جاتا ہے تو اس کی نیکی کا معیار اور زیادہ ترقی کر جاتا ہے اور جب اس پر شریعت یا الہام نازل ہونا شروع ہوتا ہے تو اس کی روحانیت اور زیادہ ترقی کر جاتی ہے۔ پس جب مسیح نے کہا کہ میں نیک نہیں تو اس کے صرف اتنے معنے تھے کہ میرے اندر ذاتی نیکی نہیں کسبی نیکی ہے۔
اسی طرح یوحنا میں لکھا ہے کہ ایک عورت کو لوگ پکڑ کر آپ کے پاس لائے اور کہا کہ یہ عورت زنا کی حالت میں پکڑی گئی ہے۔ موسیٰ ؑ کی شریعت کے مطابق زانیہ کی سزا سنگساری ہوتی ہے مگر ہم اسے آپ کے پاس لائے ہیں آپ اس کے متعلق کیا فتویٰ دیتے ہیں ۔ مسیح نے جواب دیا کہ جو شخص تم میں بے گناہ ہے وہ آگے آئے اور سب سے پہلے اس کو پتھر مارے۔ وہ لوگ یہ سن کر بھاگ گئے۔ حضرت مسیح نے اس عورت سے پوچھا کہ تجھ پر حکم لگانے والے لوگ کہاں چلے گئے اس نے کہا کہ بھاگ گئے ۔ حضرت مسیح نے کہا جامیں بھی تجھ پر کوئی حکم نہیں لگاتا۔ اس بارہ میں انجیل کے اصل الفاظ یہ ہیں ۔ لکھا ہے :
’’فقیہ اور فریسی ایک عورت کو لائے جو زنا میں پکڑی گئی تھی اور اسے بیچ میں کھڑا کر کے یسوع سے کہا اے استاد یہ عورت زنا میں عین فعل کے وقت پکڑی گئی ہے ۔ توریت میں موسیٰ ؑنے ہم کو حکم دیا ہے کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کر یں پس تو اس عورت کی نسبت کیا کہتا ہے۔ انہوں نے اسے آزمانے کے لئے یہ کہا تاکہ اس پر الزام لگانے کا کوئی سبب نکالیں ۔ مگر یسوع جھک کر انگلی سے زمین پر لکھنے لگا۔ جب وہ اس سے سوال کرتے ہی رہے تو اس نے سیدھے ہو کر ان سے کہا کہ جو تم میں بے گناہ ہو وہی پہلے اس کے پتھر مارے اور پھر جھک کر زمین پر انگلی سے لکھنے لگا۔ وہ یہ سن کر بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک ایک ایک کر کے نکل گئے اور یسوع اکیلا رہ گیا اور عورت وہیں بیچ میں رہ گئی۔ یسوع نے سیدھے ہو کر اس سے کہا۔ اے عورت یہ لوگ کہاں گئے۔ کیا کسی نے تجھ پر حکم نہیں لگایا؟ اس نے کہا اے خداوند کسی نے نہیں ۔یسوع نے کہا میں بھی تجھ پر حکم نہیں لگاتا۔ جا پھر گناہ نہ کرنا۔‘‘ (انجیل یوحنا باب ۸ آیت ۳ تا ۱۱)
اب دیکھو فقیہی اور فریسی کہتے ہیں کہ موسیٰ کی شریعت میں ایسی عورتوں کو سنگار کرنے کا حکم ہے۔ حضرت مسیح کہتے ہیں کہ تم میں سے وہ شخص پہلے پتھر چلا ئے جو بے گناہ ہو۔ مگر جب سب لوگ ایک ایک کرکے غائب ہو گئے تو مسیح نے اس عورت سے کہا کہ میں بھی تجھ پر حکم نہیں لگاتا جس کے معنے یہ ہیں کہ میں بھی بے گناہ نہیں ہوں۔ یہ حوالہ بھی بتاتا ہے کہ مسیح اپنے گنہگار ہونے کا اقرار کرتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ وہ بندہ ہونے کا اقرار کرتا ہے۔
دوسری بات قرآن کریم نے حضرت مسیح کی طرف یہ منسوب کی ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا اتنی الکتب اس نے مجھے کتاب دی ہے۔ اس کے لئے دیکھو یوحنا باب ۸ آیت ۲۸ جہاں حضرت مسیح کہتے ہیں کہ میں
’’ اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتا۔ بلکہ جس طرح باپ نے مجھے سکھایا اسی طرح یہ باتیں کہتا ہوں۔‘‘
یہ حوالہ اس امر پر صراحتاًدلالت کرتا ہے کہ حضرت مسیح لوگوں کو جو کچھ تعلیم دیتے تھے وہ اپنی طرف سے نہیں دیتے تھے بلکہ وہی کچھ بتاتے تھے جو خدا انہیں بتاتا تھا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتابلکہ جس طرح باپ نے مجھے سکھایا ہے اور جس طرح اس نے مجھے تعلیم دی ہے اسی طرح میں لوگوں سے کہتا ہوں ۔ مجھے یہ اختیار حاصل نہیں کہ میں اپنی طرف سے انہیں کچھ کہوں۔
اسی طرح حضرت مسیح کہتے ہیں :
’’ یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا ہوں ۔ منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو۔‘‘ (انجیل متی باب ۵ آیت ۱۷۔۱۸)
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح یہود کی طرف اس لئے مبعوث کئے گئے تھے کہ وہ تورات کو رائج کریں ۔ پس قرآن کریم نے جو ان کے متعلق اتنی الکتب کے الفاظ استعمال کئے ہیں وہ بالکل صحیح اور درست ہیں ۔ اتنی الکتب کے الفاظ اس لحاظ سے بھی استعمال ہوئے ہیں کہ ایک پہلے نبی کی کتاب پر عمل کرنے اور دوسروں سے عمل کروانے کا انہیں حکم تھا اور اس لحاظ سے بھی کہ پہلی کتاب کی تفسیر انہیں الہاماً سکھائی جاتی تھی اور یہ دونوں باتیں انجیل سے ثابت ہیں ۔ حضرت مسیح نے یہ بھی کہا کہ میں تورات کو رائج کرنے اور اس کے احکام پر عمل کروانے کیلئے آیا ہوں اور یہ بھی کہا کہ میں اپنی طرف سے کوئی تعلیم نہیں دیتا بلکہ وہی کچھ کہتا ہوں جو خدا مجھے سکھاتا ہے۔
تیسری بات قرآن کریم نے یہ بتائی ہے کہ حضرت مسیح نے اپنی قوم کے سامنے نبوت کا دعویٰ پیش کیا اور کہا کہ وجعلنی نبیا خدا تعالیٰ نے مجھے نبی بنایا ہے۔ اس کی صداقت بھی انجیل سے ثابت ہے۔ یوحنا میں لکھا ہے حضرت مسیح نے کہا :
’’ جس نے مجھے بھیجا ہے وہ میرے ساتھ ہے (نبی اسی کو کہتے ہیں جسے لوگوں کی ہدایت کیلئے بھیجا جائے) اس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا کیونکہ میںہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو اسے پسند آتے ہیں ۔‘‘ (انجیل یوحنا باب ۸ آیت ۲۹)
یہ الفاظ ایک رنگ میں وجعلنی نبیا کی ہی تفسیر ہیں ۔ اسی طرح لکھا ہے فریسیوں نے حضرت مسیح سے کہا :
’’ ہمارا ایک باپ ہے یعنی خدا ۔ یسوع نے ان سے کہا اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھ سے محبت رکھتے ۔ اس لئے کہ میں خدا میں سے نکلا اور آیا ہوں۔ کیونکہ میں آپ سے نہیں آیا بلکہ اسی نے مجھے بھیجا۔‘‘ (انجیل یوحنا باب ۸ آیت ۴۱۔۴۲)
یہاں بھی ’’اسی نے مجھے بھیجا‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو حضرت مسیح کی نبوت اور رسالت کے مقام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس حوالہ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کا خدا تعالیٰ کو اپنا باپ کہنا ان کی الوہیت پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ یہود بھی اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے بیٹے کہا کرتے تھے۔ چنانچہ فریسیوں نے ان سے کہا :
’’ ہمارا ایک باپ ہے یعنی خدا ‘‘ معلوم ہوا کہ بیٹا ہونے میں مسیح کی خصوصیت نہیں یہ یہود میں عام محاورہ تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کو اپنا باپ کہا کرتے تھے اور اس قسم کے محاورہ کا ان میں رائج ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ جن لوگوں کے دلوں میں محبت الٰہی پائی جاتی ہو اور جو صرف مادی چیزوں کے پیچھے جانے والے نہ ہوں بلکہ روحانیت کی سچی تڑپ اور خدا تعالیٰ کے وصال کی حقیقی خواہش رکھتے ہوں وہ جذبات محبت کے غلبہ کے وقت خدا تعالیٰ کو ماں اور باپ کی شکل میں ہی دیکھتے ہیں اور رئویا اور کشوف میں بھی خدا تعالیٰ اپنے منتخب کردہ بندوںکو بعض دفعہ اپنا وجود ماں یا باپ کی شکل میں ہی دکھاتا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں نے اپنے باپ کی شکل میں خدا تعالیٰ کو دیکھا اور میں نے ایک دفعہ خدا تعالیٰ کو حضرت اماں جان کی شکل میں دیکھا تھا تو جہاں اخلاص اور محبت کے جذبات پائے جاتے ہیں وہاں بندے اپنی محبت کے جوش کے وقت خدا تعالیٰ کو ماں یا باپ کی حیثیت میں ہی دیکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ بھی رئویا و کشوف کے ذریعہ جب اپنی محبت ان پر ظاہر کرتا ہے تو بالعموم باپ یا ماں کی شکل میں ظاہر کرتا ہے۔ آگے یہ ایک باریک روحانی نکتہ ہے کہ وہ کن حالات میں اپنے آپ کو باپ کی شکل میں دکھاتا ہے اور کن حالات میں اپنے آپ کو ماں کی شکل میں دکھاتا ہے ۔ بہرحال یہ دونوں وجود محبت کا ایک نشان سمجھے جاتے ہیں مگر دونوں کی محبت میں فرق ہوتا ہے۔ ماں کی محبت اور رنگ کی ہوتی ہے اور باپ کی محبت اور رنگ کی ہوتی ہے ۔ ماں کی ذمہ داریاں اور قسم کی ہوتی ہیں اور باپ کی ذمہ دایاں اور قسم کی ہوتی ہیں ۔ جب خدا تعالیٰ ماں کی محبت اور ماں کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے تو وہ ماں کی شکل میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے اور جب وہ باپ کی محبت اور باپ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے تو باپ کی شکل میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔ چونکہ نبیوں کے پیرو اور ان پر ایمان لانے والے لوگ ان کی زبان سے یہ باتیں سنتے رہتے ہیں کہ ہمارا خدا ہم سے ماں او رباپ کی طرح محبت کرتا ہے اس لئے وہ بھی ان کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں ۔اسی رنگ میں جب یہود میں خدا تعالیٰ کے انبیاء آئے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار کا بار بار ذکر کیا اور بتایا کہ ہم سے خدا نے یوں محبت کی ہو جس طرح باپ اپنے بیٹے سے کرتا ہے یا ماں اپنے بچے سے کرتی ہے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کو باپ کہنے لگ گئے۔ اسی محاورہ کو حضرت مسیح بھی استعمال کرتے اور خدا تعالیٰ کو اپنا باپ کہتے تھے۔
دوسرا مسئلہ اس حوالہ سے یہ نکلتا ہے کہ حضرت مسیح کہتے ہیں :
’’ اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھ سے محبت رکھتے اس لئے کہ میں خدا میں سے نکلا اور آیا ہوں‘‘
یعنی جس سے محبت ہوتی ہے اس کی محبت کا تقاضا ہوتا ہے کہ ان چیزوں سے بھی محبت رکھی جائے جن سے محبوب محبت رکھتا ہو۔اس میں مدارج کا سوال نہیں ہوتا کہ فلاں چھوٹا ہے اور فلاں بڑا بلکہ انسان صرف یہ دیکھتا ہے کہ خواہ میرا مقام بڑا ہے جب میرا محبوب اور پیارا فلاں سے محبت رکھتا ہے تو میرا بھی فرض ہے کہ میں اسے محبت کروں۔
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے متعلق ذکرآتا ہے کہ ایک دفعہ بادشاہ ان سے ملنے کیلئے آیا وہ کھڑے ہو گئے اور بادشاہ سے ملے اور پھر بیٹھ گئے پھر وزیر ملنے کیلئے آیا تو وہ اسی طرح بیٹھے رہے کھڑے نہیں ہوئے۔ اس کے بعد بادشاہ کا پہریدار آیا تو پھر وہ کھڑے ہو گئے اور کھڑے ہونے کے بعد بیٹھ گئے جب یہ لوگ چلے گئے تو کسی نے کہا آپ نے یہ کیا کیا کہ جب بادشاہ آیا تو آپ اس کے اعزا ز کیلئے کھڑے ہو گئے۔ وزیر آیا تو کھڑے نہ ہوئے لیکن پہریدار آیا تو پھر کھڑے ہو گئے ۔ا نہوں نے فرمایا بادشاہ کے آنے پر میں اس لئے کھڑا ہوا تھا کہ بادشاہ کی اطاعت کا حکم ہے۔ وزیر کے آنے پر میں اس لئے کھڑا نہیں ہوا کہ وزیر کی اطاعت کا حکم نہیں ۔ اس کے بعد پہریدار آیا تو میں پھر کھڑا ہو گیا مگر اس لئے کہ وہ حافظ قرآن تھا۔ اب دیکھو پہریدار ایک ادنیٰ ملازم تھا لیکن چونکہ شاہ ولی اللہ صاحب کے محبوب کا کلام اس نے یاد کیا ہوا تھا اس لئے باوجود چھوٹا ہونے کے آپ اس کے آنے پر کھڑے ہو گئے۔ یہی بات حضرت مسیح بیان فرماتے ہیں کہ اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھے بھی عزیز سمجھتے اور میری مخالفت نہ کرتے۔ا سی نقطہ نگاہ کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باوجود اس کے کہ آپ کا رتبہ بہت بڑا تھا فرمایا کہ
؎’’خاکم نثار کوچہ ٔ آل محمد ؐاست ‘‘
ادھر آپ اپنا مقام حضرت امام حسین ؓ سے بڑا بتاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اپنے علماء سے پوچھو کہ تمہارا مسیح جس نے آسمان سے آنا ہے وہ امام حسین سے بڑا ہو گا یا چھوٹا۔ لیکن دوسری طرف امام حسین ہی نہیں امام حسین کی اولاد در اولاد پر اپنی جان قربان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے قابل احترام وجود ہیں کیونکہ وہ بہرحال محمد رسول اللہ ﷺ کی اولاد ہیں ۔تو رتبہ اور مقام اور چیز ہے اور محبت کا تعلق اور چیز ہے۔ پس حضرت مسیح کہتے ہیں کہ اگر واقعہ میں تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہوتا اور تم اس کے بیٹے ہوتے تو تم مجھ سے محبت کیوں نہ کرتے ۔ تمہارا مجھے یہ چاہنا بتاتا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے بیٹے نہیں ’’ اس لئے کہ میں خدا میں سے نکلا اور آ یا ہوں ‘‘ یعنی اپنے محبوب کی طرف سے آنے والی ہر چیز پیاری ہوتی ہے۔ پس تم جو مجھ سے محبت نہیں رکھتے تو معلوم ہوا کہ تمہارے دلوں میں اپنے محبوب کی بھی کوئی قدر نہیں ۔
حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم ﷺ ایک دفعہ کھڑے تھے کہ بادل آیا اور بارش ہوئی اس کے قطرات گرے تو آپ نے اپنی زبان باہر نکالی اور بارش کا قطرہ اس پر لے لیا۔ پھر آپ نے سمجھا کہ ممکن ہے میرے اردگرد کے لوگ یہ سمجھیں کہ میں نے کیا خلاف مرتبت بات کی ہے اس لئے آپ نے فرمایا یہ میرے رب کی تازہ نعمت آئی ہے ۔ یہی مضمون حضرت مسیح بیان فرماتے ہیں کہ ’’ میں خدا میں سے نکلا اور آیا ہوں ‘‘ یعنی میں خدا تعالیٰ کا ایک تازہ انعام ہوں۔ اگر تم خدا تعالیٰ سے سچی محبت رکھنے والے ہوتے تو تم میری قدر کیوں نہ کرتے۔
’’ کیونکہ میں آپ سے نہیں آیا بلکہ اسی نے مجھے بھیجا ‘‘ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ مسیح نے جب اپنے آپ کو بیٹا کہا تو صرف رسول ہونے کی حیثیت سے ہی کہا ہے۔
اسی طرح لوقا باب ۴ آیت ۱۶ تا ۲۲ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ایک دفعہ ناصرہ میں سبت کے دن عبادت خانہ میں گئے تو وہاں ان کو یسعیاہ نبی کی کتاب دی گئی کہ اس میں سے وعظ کریں ۔ انہوں نے کتاب کھول کر وہ مقام نکالا جہاں لکھا تھا :
’’ خداوند کا روح مجھ پر ہے اس لئے کہ اس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے لئے مسح کیا۔ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی پانے کی خبر سنائوں۔ کچلے ہوئوں کو آزاد کروں اور خداوند کے سال مقبول کی منادی کروں ۔‘‘
اور پھر لوگوں کو وعظ و نصیحت کی۔ جب درس دے چکے تو لکھا ہے :
’’ جتنے عبادت خانہ میں تھے سب کی آنکھیں اس پر لگی تھیں۔ وہ ان سے کہنے لگا کہ آج یہ نوشتہ تمہارے سامنے پورا ہوا ہے۔‘‘
یعنی یسعیاہ نبی کی کتاب کا جو نوشتہ تھا وہ آج پورا ہو گیا ہے۔ اس نوشتہ کا یسعیاہ باب ۶۱ آیت ۱ تا ۳ میں تفصیلی طور پر ذکر آتا ہے۔ حضرت یسعیاہ کہتے ہیں :
’’خداوند خدا کی روح مجھ پر ہے کیونکہ خداوند نے مجھے مسح کیا تاکہ میں مصیبت زدوں کو خوشخبریاں دوں (یسعیاہ کہتے ہیں کہ خدا نے مجھے مسح کیا ہے تاکہ میں مصیبت زدوں کو خوشخبری سنائوں۔ مگر عیسائی کہتے ہیں کہ اس میں مسیح کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے) اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں ٹوٹے دلوں کو درست کر وں اور قیدیوں کیلئے چھوٹنے اور بندھوئوں کیلئے قید سے نکالنے کی منادی کروں کہ خداوند کے سال مقبول کا اور ہمارے خدا کے انتقام کے روز کا اشتہار دوں اور ان سب کو جو غمزدہ ہیں تسلی بخشوں کہ صیہوں کے غمزدوں کیلئے ٹھکانہ کردوں کہ ان کو راکھ کے بدلے پگڑی اور نوحے کی جگہ خوشی کا روغن اور اداسی کے بدلے ستائش کی خلعت بخشوں تاکہ وے صداقت کے درخت اور خداوند کے لگائے ہوئے پودے کہلاویں کہ اس کا جلال ظاہر ہو۔‘‘ (یسعیاہ ب ۶۱ آیت ۱تا ۳)
عیسائیوں کے نزدیک یسعیاہ نبی کی یہ پیشگوئی حضرت مسیح پر چسپا ںہوتی ہے۔اگر یہ درست ہے اور یہ پیشگوئی واقعہ میں حضرت مسیح پر چسپاں ہوتی ہے تو پھر یہاں خدا کا ذکر نہیں بلکہ ایک انسان کے آنے کا ذکر ہے اور وہ جعلنی نبیاکے ماتحت ہی آتا ہے کیونکہ لکھا ہے :
’’ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں ٹوٹے دلوں کو درست کروں اور قیدیوں کیلئے چھوٹنے اور بندھوئوں کیلئے قید سے نکالنے کی منادی کروں ‘‘
’’ اس نے مجھے بھیجا ہے ‘‘ کا عربی میں یہی ترجمہ ہوگا۔ کہ ارسلنی اس نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے ۔ یا جعلنی نبیا اس نے مجھے اپنا نبی بنایا ہے۔
یہ بھی یاد رکھو کہ اس پیشگوئی کے الفاظ مصلح موعود والی پیشگوئی کے الفاظ سے بالکل ملتے جلتے ہیں ۔ یعنی اس پیشگوئی میں بھی اسی قسم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس قسم کے الفاظ یسعیاہ نبی کی اس پیشگوئی میں استعمال کئے گئے ہیں ۔
پھر متی باب ۲۱ آیت ۱۰۔۱۱ میں لکھا ہے :
’’ اور جب وہ یروشلم میں داخل ہوا تو سارے شہر میں ہلچل پڑ گئی اور لوگ کہنے لگے یہ کون ہے۔ بھیڑ کے لوگوں نے کہا یہ گلیل کے ناصرہ کا نبی یسوع ہے۔‘‘
یہی بات قرآن کریم نے بیان کی ہے کہ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ مجھے خدا نے نبی بنا کر بھیجا ہے۔
پھر یوحنا باب ۷ آیت ۱۴ تا ۱۶ میں لکھا ہے کہ یسوع ایک دن ہیکل میں جا کر تعلیم دینے لگا۔ اس پر یہودیوں نے متعجب ہو کر کہا کہ اس کو بغیر پڑھے کیونکر علم آ گیا۔
’’ یسوع نے جواب میں ان سے کہا کہ تعلیم میری نہیں۔ بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے۔‘‘
گویا یہود نے جب تعجب کیا کہ اسے بغیر پڑھے تورات کا علم کس طرح آ گیا تو حضرت مسیح نے کہا یہ میری تعلیم نہیں بلکہ اس خدا کی ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ پس ان الفاظ میں بھی وہ اپنے رسول ہونے کا اعلان کرتے ہیں ۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کا کمال ذاتی ہوتا ہے۔ اگر وہ خدایا خدا کے بیٹے ہوتے تو یہ کمال ان کے اندر ذاتی طور پر موجود ہونا چاہئے تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ میرا اس میں ذاتی کمال کوئی نہیں خدا نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے یہ تعلیم مجھے سکھائی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی لکھا ہے کہ
؎دگر استاد انامے ندا نم
کہ خواندم درد بستان محمدؐ
یعنی میں کسی اور استاد کا نام نہیںجانتا کیونکہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کے سکول میں پڑھا ہوں ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ میرے علم قرآنی علوم ہیں اور گو آپ نے ادب کے طور پر محمد رسول اللہ ﷺ کا نام لیا ہے لیکن آپ کا اشارہ قرآن کریم کی طرف ہی ہے جو خدا تعالیٰ کا نازل کردہ ہے۔ پس آپ کا یہ شعر وہی معنے رکھتا ہے جو حضرت مسیح کے اس فقرہ کے ہیں کہ ’’ میری تعلیم میری نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے۔‘‘
پھر وہ اسی باب کی سترھویں آیت میں کہتے ہیں :
’’ اگر کوئی اس کی مرضی پر چلنا چاہے تو وہ اس کی تعلیم کی بابت جان لے گا کہ خدا کی طرف سے ہے یا میں اپنی طرف سے کہتا ہوں‘‘
یعنی وہ لوگ جو سچے دل سے تحقیق کرنا چاہیں وہ اگر تحقیق کریں گے تو معلوم کر لیں گے کہ یہ تعلیم میری نہیںبلکہ میرے خدا کی ہے۔ پہلی آیت میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ خدا نے مجھے بھیجا ہے اور اب اس آیت میں وہ اپنے اس دعویٰ پر اصرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تعلیم میں نے نہیں بنائی بلکہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہے ۔ پھر وہ اور زیادہ اس پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں :
’’ جو اپنی طرف سے کچھ کہتا ہے وہ اپنی عزت چاہتا ہے لیکن جو اپنے بھیجنے والے کی عزت چاہتا ہے وہ سچا ہے اور اس میں ناراستی نہیں ‘‘ (آیت ۱۸)
اس میں وہ پھر اپنے رسول ہونے پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو شخص یہ کہے کہ میں اپنے پاس سے علم دیتا ہوں وہ جھوٹا ہے لیکن وہ شخص جو یہ کہے کہ میں خدا تعالیٰ سے علم حاصل کر کے دیتا ہوں وہ سچا ہے ۔ گویا حضرت مسیح عیسائیوں کو جن کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح خدا تھا اور اپنے علم سے بولتا تھا جھوٹا قرار دیتے ہیں اور مسلمانوں کے اس عقیدہ کو کہ مسیح خدا کا بندہ تھا سچا قرار دیتے ہیں ۔
پھر یوحنا باب ۸ آیت ۱۶ میں فرماتے ہیں :
’’ اگر میں فیصلہ کروں بھی تو میرا فیصلہ سچا ہے کیونکہ میں اکیلا نہیں بلکہ میں ہوں اور باپ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔‘‘
گویا وہ پھر جعلنی نبیا پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے میرے خدا نے بھیجا ہے۔
اسی طرح سترھویں آیت میں فرماتے ہیں :
’’ تمہاری توریت میں بھی لکھا ہے (استثناء باب ۱۷ آیت ۷ باب ۱۹ آیت ۱۵) کہ دو آدمیوں کی گواہی مل کر سچی ہوتی ہے۔ ایک تو میں خود اپنی گواہی دیتا ہوں اور ایک باپ جس نے مجھے بھیجا میری گواہی دیتا ہے۔‘‘
گویا وہ اپنی سچائی کی دو شہادتیں پیش کرتے ہیں ۔ ایک یہ کہ میں اس لئے سچا ہوں کہ میں خود کہتا ہوں کہ میں سچا ہوں اور دوسرے میں اس لئے سچا ہوں کہ خدا کہتا ہے میں سچا ہوں اور جب تمہاری شریعت میں یہ لکھا ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی سچی تسلیم کی جائے گی اور میری سچائی پر بھی دو شہادتیں موجود ہیں تو تم کیوں میری سچائی کے قائل نہیں ہوتے۔
دیکھو یہ جو مسیح نے کہا ہے کہ ’’ ایک تو میں خود اپنی گواہی دیتا ہوں ‘‘ یہ وہی دلیل ہے جو قرآن کریم نے ان الفاظ میں پیش کی ہے کہ فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون (یونس ع۲)
ورنہ گواہی دینے والا بعض دفعہ جھوٹا بھی ہو سکتا ہے اور دنیا میں ہزاروں ایسے واقعات ملتے ہیں۔ پس اس جگہ گواہی سے یہ مراد نہیں کہ چونکہ میں اپنے آپ کو سچا کہتا ہوں اس لئے میں سچا ہوں بلکہ اس جگہ اپنی گواہی سے مراد آپ کی دعویٰ نبوت سے پہلے کی زندگی کا پاکیزہ ہونا ہے اور حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ ایک تو میری سابقہ زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں اور دوسرے خدا نے میری تائید میں جو نشانات دکھائے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ میرا دعویٰ سچا ہے اور درحقیقت نبیوں کی زندگی کا خلاصہ صرف اتنا ہی ہوتا ہے باقی سب جھگڑے لغو اور فضول ہوتے ہیں ۔ میں نے اپنی کتاب ’’ دعوۃ الامیر ‘‘ میں اسی دلیل کو پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ دلیل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں۔
؎آفتاب آمد دلیل آفتاب
اگر کوئی پوچھے کہ آفتاب کے نکلنے کی کیا دلیل ہے تو ہم اسے یہی کہیں گے کہ آفتاب کی دلیل خود آفتاب کا وجود ہے ۔ اسی طرح ایک شخص جس کی ساری زندگی ایک کھلے ورق کی طرح لوگوں کے سامنے ہے۔ جس کے متعلق اپنے اور بیگانے سب جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا خطرناک سے خطرناک اوقات میں بھی سچ سے کام لیتا ہے۔ اگر وہ خدا تعالیٰ کے متعلق کوئی بات کہے تو کوئی احمق اور بے وقوف ہی ہو گا جو اس کا انکار کرے اور کہے کہ اس نے جھوٹ بولا ہے لیکن اس شہادت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ایسے شخص کا کیریکٹر اور چال چلن لوگوں کیلئے ایک کھلی کتاب کی طرح ہو۔ وہ شخص جس کی زندگی کے حالات لوگوں کو معلوم نہیں وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری پہلی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں۔
مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہماری جماعت میں سے ایک شخص جو اچھا مخلص اور سمجھدار تھا مگر بعد میں غیر مبایعین میں شامل ہو گیا اس کے بعد پھر خدا تعالیٰ نے اس پر فضل کیا اور وہ ہماری جماعت میں شامل ہو گیا۔ ایک دفعہ کسی جھگڑے کے موقعہ پر دوسرے سے کہنے لگا کہ میرا اپنا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں ۔ میں اس وقت بچہ تھا مگر مجھے یہ سن کر ہنسی آئی کہ اس کا وجود بھلا لوگوں کیلئے کس طرح صداقت کا نشان بن سکتا ہے۔ اس کی زندگی کے توحالات ہی لوگوں کو معلوم نہیں ۔ پس اس آیت کو وہی شخص اپنی ذات پر چسپاں کر سکتا ہے جس نے لوگوں کے سامنے چیلنج کے طور پر اپنی زندگی کو پیش کیا ہو اور لوگوں نے بھی کرید کرید کر اس کے حالات زندگی کو دیکھا ہوا ہو ۔ ایک عام آدمی کی زندگی تو ہوتی ہی پردے میں ہے وہ اس دلیل کو پیش کس طرح کر سکتا ہے۔ اسی طرح انبیاء کی صداقت کے جو اور دلائل ہیں ان کے متعلق بھی لوگ غلطی کر تے ہیں اور بعض دفعہ ایک ایسی بات اپنی صداقت کے ثبوت میں پیش کر دیتے ہیں جو موقع اور محل کے لحاظ سے وہاں چسپاں ہی نہیں ہوتی۔
سید نور صاحب کابلی جو اب (۵۶ء سے پہلے) فوت ہو چکے ہیں نبوت کا دعویٰ کیا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ ایک دوست ان کے پاس گئے تو وہ واپس آ کر مجھے کہنے لگے کہ ان کی اور باتوں کا جواب تو مجھے آ گیا ہے لیکن ایک دلیل کو میں رد نہیں کرسکا اور وہ یہ کہ انہوں نے کہا تم لوگ مجھے پاگل کہتے ہو حالانکہ قرآن میں یہ لکھا ہے کہ جتنے نبی اور رسول آئے سب کو لوگ پاگل کہا کرتے تھے۔ پس تمہارا مجھے پاگل کہنا میری صداقت کی دلیل ہے میرے جھوٹے ہونے کی دلیل نہیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ تو بالکل سیدھی بات تھی نبی کو اس کے دعویٰ کے بعد محض اس کے دعویٰ کی وجہ سے لوگ پاگل کہتے ہیں لیکن سید احمد نور صاحب سے کہئے کہ آپ نے تو ابھی دعویٰ بھی نہیں کیا تھا کہ ہم آپ کو رسیوں سے باندھا کرتے تھے۔ پس ایک پاگل کا اپنے آپ کو نبی کہنا اور چیز ہے اور نبی کو لوگوں کا پاگل کہنا بالکل اور چیز ہے۔ اگر تو نبوت کے دعویٰ کے بعد لوگ انہیں پاگل کہنے لگ جاتے پہلے وہ دماغی لحاظ سے بالکل ٹھیک ہوتے تو کچھ دلیل بھی تھی لیکن انہیں تو دعویٰ سے پہلے ہی کئی دفعہ جنون کی وجہ سے رسیوں سے باندھا جا چکا ہے۔ تو یہ دلیل بھی غلط استعمال ہونے لگ گئی ہے۔ اسی طرح ایک نبی کی صداقت کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اس کی سابق زندگی اتنی شاندار ہوتی ہے کہ ہر قسم کے حالات میں سے گزرنے کے باوجود لوگ اس کی زندگی کو بالکل بے عیب پاتے ہیں ۔ اردگرد کے لوگ اسے ٹٹو لتے ہیں۔ ایسے حالات اس پر گزرتے ہیں جب جھوٹ کے بغیر اس کی نجات کی کوئی صورت نہیں ہوتی مگر پھر بھی وہ جھوٹ نہیں بولتا اور لوگوں پر واضح ہو جاتا ہے کہ یہ شخص نیک اور راستباز انسان ہے۔ لیکن عام آدمیوں کی زندگیاں نمایاں نہیں ہوتیں ۔ بیسیوں چور ہوتے ہیں لیکن لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ چور ہیں۔ بیسیوں جھوٹے ہوتے ہیں مگر چونکہ ان کے حالات لوگوں کے سامنے نہیں آتے اس لئے وہ مخفی رہتے ہیں۔ پس یہ آیت صرف انبیاء ہی اپنے اوپر چسپاں کر سکتے ہیں ۔ وہ لوگوں کو چیلنج دیتے ہیں کہ تم نے ہماری زندگیوں کو دیکھا ۔ تم نے ہمارے حالات کو دیکھا۔ تم نے ہمارے اخلاق اور عادات کی جستجو کی۔ مگر تم نے یہی دیکھا کہ ہم جھوٹ بولنے والے نہیں ۔ پس جب ہم انسانوں پر جھوٹ نہیں بولتے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم خدا پر جھوٹ بولنے لگ جائیں ۔ یہی دلیل حضرت مسیح پیش کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں :
’’ تمہاری توریت میں بھی لکھا ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی مل کر سچی ہوتی ہے۔ ایک تو میں خود اپنی گواہی دیتا ہوں اور ایک باپ جس نے مجھے بھیجا میری گواہی دیتا ہے۔‘‘
اب اگر اپنی گواہی سے صرف اتنی ہی مراد ہو کہ چونکہ میںکہہ رہاہوں اس لئے میری بات سچی ہے تو اس طرح تو دنیا میں تباہی مچ جائے۔ کیا عدالت میں مقدمہ پیش ہو تو ملزم کہہ سکتا ہے کہ ایک توا س واقعہ کا میں گواہ ہوں اور ایک خدا گواہ ہے۔ اگر وہ ایسا کہے تو سب ہنسنے لگ جائیں گے۔ پس اس جگہ مسیح نے درحقیقت وہی دلیل پیش کی ہے کہ
؎آفتاب آمد دلیل آفتاب
وہ اپنے یسوع ہونے کی حیثیت کو پیش نہیں کرتا بلکہ دعویٰ نبوت سے پہلے کی زندگی کو متحدہا نہ طور پر پیش کرتا ہے۔ مگر بہرحال اس سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وہ بندہ تھا۔ رسول تھا۔ خدائی کا دعویدار نہیں تھا۔
پھر متی باب ۲۱ آیت ۹ میں لکھا ہے :
’’ اور بھیڑ جو اس کے آگے آگے جاتی اور پیچھے پیچھے چلی آتی تھی پکار پکار کر کہتی تھی ابن دائود کو ہوشعنا ۔ مبارک ہے وہ جو خدا کے نام سے آتا ہے عالم بالا پر ہو شعنا ۔‘‘
یہ ایک پیشگوئی تھی جس میں مسیح کی آمد کی خبر دی گئی تھی ۔ پس جب یہ پیشگوئی پوری ہوئی تو لوگ خوش ہوئے کہ وہ شخص جس کے آنے کی خبر دی گئی تھی وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آ گیا ہے۔ بہرحال یہاں حضرت مسیح کو ابن دائود کہا گیا ہے گویا انہیں بنی اسرائیل کا ہی ایک فرد قرار دیا گیا ہے خدا نہیں کہا گیا۔
پھر مرقس باب ۶ آیت ۲ تا ۵ میں لکھا ہے کہ
’’ جب سبت کے دن مسیح عبادت خانہ میں تعلیم دینے لگا تو لوگ سن کر حیران ہوئے کہ یہ کیا حکمت ہے جو اسے بخشی گئی ہے۔ کیا یہ وہی نہیں جو مریم کا بیٹا اور یعقوب اور یوسیس اور یہود اہ اور شمعون کا بھائی ہے اور کیا اس کی بہنیں یہاں ہمارے ہاں نہیں ۔‘‘
یعنی اس کے بھائی اور بہنیں تو سب مذہب میں ہمارے ساتھ متفق ہیں اس کے ساتھ نہیں پھر یہ باتیں اسے کیسے آ گئیں ۔ا س پر حضرت مسیح نے کہا :
’’نبی اپنے وطن اور اپنے رشتہ داروں اور اپنے گھر کے سوا اور کہیں بے عزت نہیں ہوتا۔‘‘ (مرقس باب ۶ آیت ۵)
گویا وہ صاف طور پر اپنے آپ کو نبی کہتا ہے اور بتاتا ہے کہ نبی اپنے وطن اور اپنے رشتہ داروں اور اپنے گھر کے سوا اور کہیں بے عزت نہیںہوتا۔
یوحنا باب ۴ آیت ۴۴ میںبھی یہی مضمون بیان ہوا ہے لکھا ہے کہ
’’ یسوع نے خود گواہی دی کہ نبی اپنے وطن میں عزت نہیں پاتا۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے کچھ رشتہ دار اس کے ضرور مخالف تھے۔
یوحنا باب ۵ آیت ۳۷ میں حضرت مسیح فرماتے ہیں :
’’ باپ نے مجھے بھیجا ہے اور با پ جس نے مجھے بھیجا ہے اسی نے میری گواہی دی ہے‘‘
گویا ایک ہی آیت میں دو دفعہ انہوں نے اپنے آپ کو رسول کہا ہے :
پھر یوحنا باب ۴ آیت ۱۹ میں لکھا ہے :
’’ عورت نے اس سے کہا اے خداوند مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تو نبی ہے۔‘‘
گویا لوگ بھی اس کو نبی کہتے تھے اور وہ بھی اپنے آپ کو نبی کہتے تھے مگر آج کل کے عیسائی کہتے ہیں کہ وہ خدا تھے۔
غرض عیسائیوں نے قرآن کریم کے اس بیان پر جو گالیاں دی ہیں وہ درحقیقت رسول کریم ﷺ کو نہیں دیں بلکہ اپنے مسیح کو گالیاں دی ہیں جس نے خود یہ دعوے کئے ہیں ۔
چوتھی بات قرآن کریم نے یہ بیان کی ہے کہ وجعلنی مبارکا اینما کنت یہ الفاظ بھی اس کے انسان ہونے پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ خدا اپنی ذات میں مبارک ہے اور انسان اس سے برکت حاصل کرتا ہے۔ خدا مبارک ہوتا ہے اور انسان مبارک ہوتا ہے۔ میرے ایک بچے کا نام مبارَک ہے۔ کوئی غلطی سے اسے مبارِک کہہ دیتا ہے تو میں کہتا ہوں یہ مبارِک نہیں مبارَک ہے۔ اسے برکت دی گئی ہے۔ برکت دینے والا خدا ہے پس حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ مجھے خدا نے برکت دیا گیا بنایا ہے اور جو مبارک ہے وہ یقینا انسان ہے۔ کیونکہ خدا کو کوئی برکت نہیں دے سکتا خدا تعالیٰ کے اندر ساری طاقتیں ذاتی ہیں وہ کسی سے کوئی طاقت نہیں لیتا۔ پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مسیح مبارک ہے وہ برکت نہیں دیتا بلکہ برکت مانگتا ہے تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ وہ ایک انسان تھا اس کیلئے دیکھو یوحنا باب ۸ آیت ۲۹ جہاں وہ کہتا ہے :
’’ اور جس نے مجھے بھیجا ہے میرے ساتھ ہے۔ باپ نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا (گویا وہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ مدد کا محتاج ہے اور یہ بھی کہ خدا نے اس کی مدد کی ہے) کیونکہ میں ہمیشہ ایسے کام کرتا ہوں جو اسے خوش آتے ہیں ۔‘‘
پھر مرقس باب ۶ آیت ۳۹ تا ۴۱ میں لکھا ہے :
’’ تب اس نے انہیں حکم کیا کہ ان سب کو ہری گھاس پر بانٹ بانٹ کر کے بٹھائو وے سو سو اور پچا س پچا س بانٹ میں بیٹھے۔ تب اس نے وہ پانچ روٹیاں اوردو مچھلیاں لے کے آسمان کی طرف دکھا کے برکت چاہی ۔‘‘
یعنی مسیح کے پاس ایک دفعہ بہت سے لوگ آ گئے آپ نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ ان کو کھانا کھلانے کیلئے قطاروں میں بٹھا دو۔ پھر مسیح نے پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں اپنے ہاتھ میں لیں اور آسمان کی طرف دیکھا اور خدا تعالیٰ سے برکت چاہی۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ سمجھتا تھا کہ برکت صرف خدا تعالیٰ ہی دے سکتا ہے۔
پھر لکھا ہے کہ اس نے ’’ روٹیاں توڑیں اور اپنے شاگردوں کو دیں کہ ان کے آگے رکھیں اور اس نے وے دو مچھلیاں ان سب میں بانٹیں وے سب کھا کے سیر ہوئے۔‘‘ (آیت ۴۱۔۴۲)
یعنی پھر برکت آ بھی گئی۔ پہلے مسیح نے خدا سے برکت مانگی اور پھر خدا نے اسے برکت دے بھی دی۔ پس مرقس تسلیم کرتا ہے کہ خدا مبارِک ہے اور مسیح مبارَک ہے ۔ خدا برکت دینے والا ہے اور مسیح برکت لینے والا ہے۔
پھر یہی مضمون مرقس باب ۸ آیت ۶ تا ۸ میں بھی بیان ہوا ہے ۔ لکھا ہے :
’’ پھر ا س نے بھیڑ کو حکم کیا کہ زمین پر بیٹھ جائیں اور اس نے وہی سات روٹیاں لیں اور شکر کر کے توڑیں (یعنی روٹی ملنے پر اس نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا ) اور اپنے شاگردوں کو دیں کہ ان کے آگے رکھ دیں اور ان کے پاس کئی ایک چھوٹی مچھلیاں تھیں ۔ سو اس نے برکت مانگ کے حکم کیا کہ انہیں بھی ان کے آگے دھریں چنانچہ انہوں نے کھایا اور سیر ہوئے۔‘‘
اس جگہ پھر برکت مانگنے کا ذکر ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پھر وہ برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آ بھی گئی۔ یہ کہ یہ کیا معجزہ ہے ۔ اس جگہ ہمیں اس تفصیل میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہمارا مقصد ان حوالوں سے صرف اس قدر ہے کہ قرآن کریم نے کہا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ وجعلنی مبرکا اینما کنت اور بائبل بھی یہی کہتی ہے کہ اس نے خدا تعالیٰ سے برکت مانگی اور خدا تعالیٰ نے اسے برکت دی۔ پس قرآن کریم کا دعویٰ بالکل درست ہے اگر قرآن نے غلط دعویٰ کیا ہے تو پھر بائبل بھی غلط اور ناقابل اعتبار ہے۔
حدیثوں میںبھی اسی قسم کے بعض واقعات آتے ہیں ۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے غلہ خریدا جو چلتا چلا گیا اور ختم ہونے میں ہی نہیں آتا تھا۔ آخر مجھے خیال آیا کہ دیکھیں تو سہی کہ ہے کتنا ۔جب اس کو تولا تو ختم ہو گیا ۔ بے شک بعض دفعہ انسان اپنی تدبیر اور حکمت عملی سے بھی تھوڑی چیز میں گزارہ کر لیتا ہے لیکن بعض دفعہ انسانی ہاتھ کا کوئی دخل نظر نہیں آتا اور برکت چلتی چلی جاتی ہے ۔ یہ ایک ایسا راز ہے جس کو انسان بیان نہیں کر سکتا۔ میرے گھر کے بہت سے افراد ہیں چار بیویاں ہیں ۔ بائیس بچے ہیں اور پھر بچوں کی اولادیں ہیں ۔ کئی ایسے ہیں جو ابھی کوئی کام نہیں کرتے اور کئی ایسے ہیں جو کام تو کرتے ہیںلیکن بوجہ دینی خدمت کرنے کے جو رقم ان کو ملتی ہے اس میں ان کا گزارہ نہیں ہوتا اور ہمیشہ ان کے اخراجات کا کچھ حصہ مجھے برداشت کرنا پڑتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی میں حساب کرنے لگوں تو دماغ پریشان ہو جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان اخراجات کے پور اہونے کا کوئی راستہ ہی نہیں ۔ مگر حساب نہ کروں تو روپیہ آ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب ضرورتوں کو پورا کر دیتا ہے۔
ایک دفعہ میں دریا پر سیر کرنے کیلئے گیا ہوا تھا کہ ایک دن ہم نے صرف ایک چوزہ اور ایک چھوٹی سی مرغابی تیار کروائی یہ کھانا ہمارے لئے کافی تھا۔ مگر ہم مغرب کی نماز پڑھ کر بیٹھے تو اردگرد کے علاقہ کے تیس چالیس آدمی آ گئے۔ ان میں سے ایک دو تو احمدی تھے اور باقی ان کے غیر احمدی رشتہ دار تھے۔ مگر انہوں نے یہ نہ بتایا کہ وہ کیوں آئے ہیں۔ میں نے سمجھا کہ وہ تھوڑی د یر ٹھہر کر چلے جائیں گے مگر وہ اتنی دیر بیٹھے کہ عشاء کی نماز کا وقت ہو گیا۔ آخر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگوں کے آنے کی کیا غرض ہے؟ کہنے لگے ہم نے ایک نکاح پڑھوانا ہے۔ میں نے کہا بہت اچھا چنانچہ میں نے نکاح پڑھ دیا۔ مگر وہ نکاح پڑھوانے کے بعد پھر بیٹھ گئے۔ غالباً وہ اسی نیت سے آئے تھے کہ ہم کھانا کھا کر ہی جائیں گے۔ پہلے تو میرے دل میں بخل پیدا ہوا کہ ہم کچھ دیر اور انتظار کر لیتے ہیں شاید یہ چلے جائیں ۔ مگر جب میں نے دیکھا کہ یہ تو جانے کا نام ہی نہیں لیتے۔ تو میں نے ام طاہر مرحومہ ؓ کو رقعہ لکھا کہ اس طرح مہمان آ گئے ہیں۔ چالیس کے قریب یہ ہیں چھ سات گھر کے افراد ہیں اور بیس کس قریب دفتر کے آدمی اور بعض دوسرے لوگ ہیں ان ستر آدمیوں کے کھانے کا کیا انتظام ہوگا۔ انہوں نے مجھے کہلا بھیجا کہ ہم تو آپ کا ہی انتظا رکر رہے تھے۔ میںنے باورچی سے اس بارہ میں بات کر لی ہے آپ بے فکر رہیں ۔ چنانچہ اس کے بعد سب کو کھانے کے لئے بٹھا دیا گیا اور وہ دستر خوان پر سے سیر ہو کر اٹھے۔ جب میں باہر سے فارغ ہو کر گھر آیا تو میں نے ام طاہر سے کہا کہ آج تم کو تو کھانا نہیںملا ہوگا۔ انہوں نے کہا ملا کیوں نہیں ۔ میں نے بھی کھا لیا ہے اور کچھ کھانا بچ بھی گیا ہے اب اس میں کچھ باورچی کا بھی کمال ہوگا مگر کچھ خدا تعالیٰ کا بھی فضل تھا کہ ستر آدمی دو چوزوں پر بیٹھ گئے اور سیر ہو کر اٹھے تو خدا تعالیٰ کی برکتیں کئی رنگوں میں ظاہر ہوتی ہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک حد تک اس میں اخفاء کا بھی پہلو ہوتا ہے جیسے میں نے اپنے متعلق ہی بتایا ہے کہ حساب کرنے بیٹھوں تو دماغ پریشان ہو جاتا ہے اور طبیعت سخت کوفت محسوس کرتی ہے لیکن حساب نہ کروں تو سب کام خود بخود ہو جاتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی اسی رنگ میں اللہ تعالیٰ نے سلوک کیا اور رسول کریم ﷺ کے متعلق بھی حدیثوں میں اسی قسم کے کئی واقعات آتے ہیں ۔
پھر متی باب ۲۶ آیت ۲۶ تا ۲۸ میں بھی یہی لکھا ہے کہ
’’ ان کے کھاتے وقت یسوع نے روٹی لی اور برکت مانگ کے توڑی پھر شاگردوں کو دے کر کہا لو کھائو یہ میرا بدن ہے پھر پیالہ لے کر شکر کیا اور انہیں دے کر کہا تم سب اس میں سے پیو کیونکہ یہ میرا لہو ہے یعنی نئے عہد کا لہو جو بہتوں کے گناہوں کی معافی کیلئے بہایا جاتا۔‘‘
یہاں بھی یہی ذکر ہے کہ مسیح نے برکت مانگ کر روٹی توڑی اور شاگردوں سے کہا کہ کھائو یہ میرا بدن ہے اور پانی دے کر کہا کہ پیئو یہ میرا خون ہے عیسائیوں میں عشاء ربانی کی جو عبادت پائی جاتی ہے اس کی بنیاداسی واقعہ پر ہے۔
اسی طرح لوقا باب ۱ آیت ۴۱۔۴۲ میں لکھا ہے کہ جب مریم حاملہ ہوئیں اور یحییٰ کی ماں سے ملنے کیلئے گئیں تو اس نے حضرت مریم سے کہا کہ ’’ تو عورتوں میں مبارک اور تیرے پیٹ کا پھل مبارک ہے۔‘‘
گویا اس جگہ وہی مضمون ہے جو جعلنی مبرکا کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
پھر لوقاباب ۱۱ آیت ۲۷۔۲۸ میں لکھا ہے :
’’جب وہ یہ باتیں کہہ رہا تھا تو ایسا ہوا کہ بھیڑ میں سے ایک عورت نے پکار کر اس سے کہا مبارک ہے وہ پیٹ جس میں تو رہا اور وہ چھا تیاں جو تو نے چوسیں اس نے کہا ہاں مگر زیادہ مبارک وہ ہیں جو خدا کا کلام سنتے اور اسے مانتے ہیں ۔‘‘
غرض جعلنی مبرکا کے ثبوت میں انسانوں کی شہادتیں بھی انجیل میں موجود ہیں ۔
پانچویں بات قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی کی ہے کہ حضرت مسیح نے کہا واوصانی بالصلوۃ خد اتعالیٰ نے مجھے نماز کا حکم دیا ہے یہ بھی انسان ہی کی صفت ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کو کوئی حکم دینے والا نہیں ہوتا اور پھر اس کے لئے نماز کا بھی کوئی سوال نہیں ۔ اس کیلئے دیکھو لوقاباب ۹ آیت ۱۸ جہاں لکھا ہے۔
’’جب وہ تنہائی میں دعا کر رہا تھا اور شاگر د اس کے پاس تھے تو ایسا ہوا کہ اس نے ان سے پوچھا کہ لوگ مجھے کیا کہتے ہیں ‘‘
اس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح دعائیں کرنے کا عادی تھا اور دعائیں بھی وہ زیادہ تر اپنی ترقی اور دعویٰ کی کامیابی کیلئے کرتا تھا کیونکہ اس کا یہ کہنا کہ لوگ مجھے کیا کہتے ہیں بتاتا ہے کہ اس کے دماغ پر یہ امر حاوی تھا کہ لوگوں کے متعلق اسے معلوم ہونا چاہئے کہ آیا وہ اسے سچا سمجھتے ہیں یا جھوٹا سمجھتے ہیں ۔ یہ فقرہ بتاتا ہے کہ وہ دعا اپنے سلسلہ کی ترقی اور دعویٰ کی کامیابی کیلئے کرتا تھا۔
پھر لوقاباب ۱۱ آیت میں لکھا ہے :
’’اور ایسا ہوا کہ وہ ایک جگہ دعا مانگتا تھا جب مانگ چکا ایک نے اس کے شاگردوں میں سے اس کو کہا اے خداوند ہم کو دعا مانگنا سکھاجیسا کہ یوحنا نے اپنے شاگردوں کو سکھایا اس نے ان سے کہا جب تم دعا مانگو تو کہو اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے ۔ تیرے نام کی تقدیس ہو تیری بادشاہت آوے تیری مراد جیسی آسمان پر زمین پر بھی آوے۔ ہماری روز کی روٹی ہر روز ہمیں دے اور ہمارے گناہوں کو بخش کیونکہ ہم بھی ہر ایک کو جو ہمارا قرضدار ہے بخشتے ہیں اور ہمیں آزمائش میں نہ ڈال بلکہ ہم کو برائی سے چھڑا۔،،
یہاں سے بھی یہی پتہ لتا ہے کہ وہ دعا کا عادی تھا ۔ یہ الفاظ کہ ’’ایسا ہوا کہ وہ ایک جگہ دعا مانگتا تھا‘‘ مسیح دعا مانگتے ہوں گے۔ ان کے ساتھیوں پر بھی اس دعا اور گریہ وزاری کا اثر ہوا اور انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی بتائیے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے کیا مانگا کریں۔ اس پر حضرت مسیح نے ان کو یہ دعا سکھلائی۔ یہ دعا عیسائیوں کی سورۂ فاتحہ ہے لیکن غور کر کے دیکھو قرآن کریم کی سورۂ فاتحہ میں اور انجیل کی اس دعا میں کتنا عظیم الشان فرق ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ فاتحہ شروع شروع ہی ان الفاظ سے ہوتی ہے۔ بسم للہ الرحمن الرحیم میں اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت مانگتے ہوئے جو بے مانگے دینے والا اور ہمارے کاموں کے بہتر سے بہتر نتائج پیدا کرنے والا ہے اس کے حضور یہ دعا کرتا ہوں۔ گویا سورۃ فاتحہ جو دعا ہے اس کی قبولیت کیلئے بھی اللہ تعالیٰ نے ایک دعا سکھلائی ہے یعنی پیشتر اس کے کہ وہ دعا مانگی جائے اس دعا کو صحت نیت کے ساتھ مانگنے کیلئے اور ان سامانوں کے حصول کیلئے جن سے کام لے کر دنیا میں ترقی حاصل ہوتی ہے اورجو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ و تصرف میں ہیں اور اسی طرح ان پیدا کردہ سامانوں سے صحیح طور پر کام لینے کیلئے اور ان کے اعلیٰ درجہ کے نتائج کے حصول کیلئے جو انسان کو مزید انعامات کا مستحق بنا دیتے ہیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو جوش میں لاتا ہے جن کا دعا کی قبولیت کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ یہ کیسی کامل دعا ہے کہ ابھی دعا شروع بھی نہیں کی گئی کہ اس کی قبولیت کیلئے اور اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی استعانت طلب کی جاتی ہے اور اس کی رحمانیت اور رحیمیت کا واسطہ دے کر التجاء کی جاتی ہے کہ وہ اپنی مدد انسان کے شامل حال رکھے اور اس کے لئے ہر قسم کے سامان مہیا فرمائے اور نہ صرف سامان مہیا فرمائے بلکہ ان کے اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج بھی پیدا فرمائے ۔ پھر وہ کہتا ہے الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم ملک یوم الدینگویا وہ خدا تعالیٰ کی چار صفات بیان کرتا ہے اور یہ چاروں اصولی صفات ہیں جن کے اردگرد باقی تمام صفات چکر کھاتی ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں مسیح کہتا ہے :
’’اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو۔‘‘
گویا وہ محض اس کو قدوس کہتا ہے حالانکہ قدوس ان صفات میں سے ایک صفت ہے جو اس کے گرد چکر کھا رہی ہیں۔
پھر سورۂ فاتحہ میں پہلے اللہ تعالیٰ کا اسم ذات بیان کیا گیا ہے مگر مسیح کہتا ہے ’’ اے ہمارے باپ‘‘حالانکہ باپ کا لفظ اس کی صرف ایک صفت کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی یہ لفظ صرف اتنا بتاتا ہے اس کے اندر باپ کی سی شفقت اور رحم پایا جاتا ہے حالانکہ صرف باپ ہی رحم کرنے والا نہیں ہوتا ماں بھی رحم کرنے والی ہوتی ہے بھائی بھی رحم کرنے والا ہوتا ہے استاد بھی رحم کرنے والاہوتا ہے۔ بادشاہ بھی رحم کرنے والا ہوتا ہے اور سب اپنے اپنے دائرہ میں محبت اور احسان کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم نے ان ساری صفات کو جمع کر کے اس کا اسم ذات بیان کیا۔ یعنی اللہ جس میں ساری صفات جمع ہیں بے شک باپ بھی مہربان ہوتا ہے مگر وہ اللہ کا مقابلہ نہیں کرسکتاکیونکہ اللہ تعالیٰ میں باپ والی محبت بھی شامل ہے ، ماں والی محبت بھی شامل ہے، بیٹے والی محبت بھی شامل ہے، بھائی والی محبت بھی شامل ہے ، استاد والی محبت بھی شامل ہے، محلہ کی پنچایت والی محبت بھی شامل ہے، بادشاہ والی محبت بھی شامل ہے لیکن باپ میں ان محبتوں سے کوئی محبت بھی شامل نہیں ہوتی۔ پس قرآنی دعا کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ اس دعا میں خدا تعالیٰ کے اسم ذات کو پیش کرتا ہے جس میں تمام قسم کے کمالات اور خوبیاں جمع ہیں۔ اس کے بعد اس نے صفات کی تقسیم شروع کی اور کہا کہ وہ رب ہے ، رحمن ہے، رحیم ہے ، مالک یوم الدین ہے لیکن ا نجیل نے صرف اتنا کہا کہ
’’تیرے نام کی تقدیس ہو‘‘
حالانکہ تقدیس جھوٹی بھی ہو سکتی ہے اور سچی بھی ۔ بتوں کو لوگ قدوس کہتے ہیں لیکن وہ مقدس نہیں ہو جاتے۔ پھر انجیل نے یہ بھی نہیں کہا کہ تو مقدس ہے بلکہ کہا ہے کہ ’’’تیرے نام کی تقدیس ہو‘‘ یعنی لوگ تجھے مقدس کہا کریں حالانکہ مقدس کہنے والے جھوٹے بھی ہو سکتے ہیں اور سچے بھی ہو سکتے ہیں ۔
پھر لکھا ہے’’تیری بادشاہت آوے‘‘ مگر قرآن کہتا ہے کہ وہ مالک یوم الدین ہے اس کی بادشاہت نے آنا کیا ہے وہ توساری دنیا پر چھائی ہوئی ہے ۔ پھر وہ تو یہ کہتا ہے کہ تیری بادشاہت آوے اور قرآن کہتا ہے کہ خالی بادشاہت کچھ چیز نہیں بادشاہتیںقائم ہوتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں تیری بادشاہت وہ ہے جو انجام تک ممتد ہوتی اور پھیلتی چلی جاتی ہے گویا خدا تعالیٰ کو وہ بادشاہت حاصل ہے جو کبھی ختم ہونے والی نہیں جس کی طرف مالک یوم الدین میں اشارہ کیا گیا ہے۔
پھر انجیل کہتی ہے کہ
’’تیری مراد جیسی آسمان پر زمین پر بھی آوے‘‘
یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی شان کے بالکل خلاف ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو وہ ہے جو دوسروں کی مرادیں پوری کرنے والا ہے مگر اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ زمین پر بھی تیری مرادیں پوری ہوں گویا جس طرح فقیروں کو خیرات ڈال دی جائے تو وہ خوش ہو کر کہتے ہیں کہ اللہ تیری مرادیں پوری کرے اسی طرح خدا تعالیٰ کو بھی دعا دی گئی ہے کہ تیری مرادیں پوری ہوں۔ حالانکہ خدا تعالیٰ کو یہ کہنا کہ تیری مراد یں پوری ہو جائیں اس سے زیادہ ہتک آمیز بات اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔
اس کے بعد قرآن کریم نے ایک فقرہ استعمال کیا ہے جس کا انجیل میں ذکر تک نہیں۔ قرآن کریم نے صفات الٰہیہ کے بعد انسان کو یہ سکھایا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے کہے کہ ایاک نعبد و ایاک نستعین یعنی اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں گویا ان الفاظ میں انسان خدائی طاقتوں کا اقرار اور اپنی عبودیت کا اظہار کرتا ہے لیکن انجیل نے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
پھر قرآن کریم نے کہا ہے کہ اھدنا الصراط المستقیم صرا ط الذین انعمت علیھم یعنی اے خدا دنیا کے بھی کام ہیں اور دین کے بھی کام ہیں ۔ زمین کے بھی کام ہیں اور آسمان کے بھی کام ہیں ۔ اگر میں باپ ہوں تو مجھ پر باپ کی ذمہ داریاں ہیں۔ ماں ہو تو مجھ پر ماں کی ذمہ د اریاں ہیں ۔ خاوند ہوں تو مجھ پر خاوند ہونے کی ذمہ داریاں ہیں ۔ بیوں ہوں تو مجھ پر بیوی ہونے کی ذمہ دایاں ہیں ۔ سپاہی ہوں تو مجھ پر سپاہی ہونے کی ذمہ داریاں ہیں ۔ کرنیل ہوں تو مجھ پر کرنیل ہونے کی ذمہ داریاں ہیں ۔ جرنیل ہوں تو مجھ پر جرنیل ہونے کی ذمہ داریاں ہیں۔ بادشاہ ہوں تو مجھ پر بادشاہ ہونے کی ذمہ داریاں ہیں ۔ فلاسفر ہوں تو مجھ پر فلاسفر ہونے کی ذمہ داریاں ہیں ۔ صناع ہوں تو مجھ پر صناع ہونے کی ذمہ داریاں ہیں ۔ غرض مجھ پر کئی قسم کی ذمہ داریاں ہیں تو میرے ہر کام میں کامیابی کا قریب ترین راستہ مجھے دکھا۔ مگر مسیح کہتا ہے کہ
’’ ہماری روز کی روٹی ہر روز ہمیں دے‘‘
گویا جس طرح کھانا کھاتے وقت بلی پاس آ بیٹھتی ہے یا طوطا اور کوا آ بیٹھتا ہے اور روٹی کا ایک ٹکڑہ اٹھا کر ہم اسے بھی ڈال دیتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی گئی ہے کہ ’’ ہماری روز کی روٹی ہر روز ہمیں دے‘‘
پھر کہا گیا ہے کہ
’’ ہمارے گناہوں کو بخش کیونکہ ہم بھی ہر ایک کو جو ہمارا قرضدار ہے بخشتے ہیں ‘‘
لیکن قرآن کریم نے سورہ فاتحہ میں غیر المغضوب علیھم ولا الضالین کہہ کر بتایا ہے کہ گناہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک گناہ Positiveہوتا ہے اور ایک گناہNegativeہوتا ہے یعنی ایک گناہ مثبت ہوتا ہے اور ایک گناہ منفی ہوتا ہے۔ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو نواہی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو نیکیوں کے نہ کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں ۔ انجیل کی دعا میں صرفPositiveگناہوں کا ذکر ہے۔ Negativeگناہوں کا ذکر نہیں ۔ یعنی یہ تو دعا کی گئی ہے کہ جو گناہ ہم کر بیٹھے ہیں وہ ہمیں بخش دے لیکن اس امر کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا کہ جو نیکیاں ہم نے نہیں کیں ان کے بدنتائج سے ہمیں محفوظ رکھ۔ اس کے مقابلہ میں قرآن کریم نے غیر المغضوب علیھم میں Positiveگناہوں کا ذکر کیا ہے۔ اور ولاالضالین میں Negativeگناہوں کا ذکر کیا ہے یعنی جو نیکیاں ہمیں کرنی چاہئے تھیں لیکن ہم نے نہیں کیں ان کے بدنتائج سے بھی ہمیں بچا اور اسی طرح ہم کو اس بات سے بھی بچا کہ جو کام کرنے والے ہیں وہ ہم نہ کریں اور نیکی کے رستہ سے بہک جائیں ۔
آخر میں کہا گیا ہے کہ
’’ ہمیں آزمائش میںنہ ڈال بلکہ ہم کو برائی سے چھڑا۔‘‘
یہ فقرہ اس پہلے فقرہ کا ہی نتیجہ ہے کہ ’’ ہمارے گناہوں کو بخش ‘‘ اس میں کوئی زائد بات نہیں بیان کی گئی لیکن قرآن کریم نے اس دعاکی ضرورت ہی نہیں سمجھی کیونکہ اھدنا الصراط المستقیم کے ماتحت جب ہمیں ان لوگوں کا راستہ دکھایا جائے گا جو منعم علیہ گروہ میں شامل تھے تو ہم آزمائش میں پڑیں گے ہی نہیں ۔
بہرحال اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مسیح دعا مانگا کرتا تھا اور یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ قرآنی دعا اور مسیح ؑ کی دعا میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
اسی طرح لوقا باب ۵ آیت ۱۶ میں لکھا ہے ’’ پروہ بیابان میں الگ جا کے رہا اور دعا مانگتا رہا تھا‘‘ یعنی وہ ایک دفعہ جنگل میں جا کے رہا تاکہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگے۔ یہ اوصانی بالصلوٰۃ کی صداقت کا کیسا واضح اور کھلا ثبوت ہے اوصاہ بکذا کے معنے ہوتے ہیں عھد الیہ یعنی مستقل طو پرکام کرنے کی تاکید کی۔ حکم محض ا س بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہم فلاں بات کا تقاضا کرتے ہیں اور وصیت کے مفہوم میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ ہم مستقل طور پر زور سے اس کام کو جاری رکھنے کی تاکید کرتے ہیں۔ پس اوصانی بالصلوٰۃ کے یہ معنے ہیں کہ اس نے مجھے دعائیںکرنے کی بڑے زور سے تاکید کی ہے اور کہا ہے کہ تم ہمیشہ دعائیں کرتے رہو اور جو حوالے میں نے بتائے ہیں ان سے یہی امر ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح مستقل طور پر دعائیں کرنے کا عادی تھا۔
پھر لوقا باب ۲۲ آیت ۳۲ میں آتا ہے
’’لیکن میں نے تیرے لئے دعا مانگی کہ تیرا ایمان جاتا نہ رہے۔‘‘
یہاں بھی دعا کا ذکر ہے۔
اسی طرح لوقا باب ۲۲ آیت ۱۴ میں ہے
’’ اور اس نے ان سے تیر کے ایک ٹپے پر بڑھ کے گھنٹے ٹیک کر دعامانگی۔‘‘
یعنی اتنی دور جتنے فاصلہ پر تیر گرتا ہے گویا اندازاً سو ڈیڑھ سو فٹ کے فاصلہ پر تشہد کی طرح گھٹنے ٹیک کر اس نے دعا کی۔
پھر اسی بات کی آیت ۴۴ میں لکھا ہے
’’اور وہ جان کنی میں پھنس کے بہت گڑ گڑا کے دعا مانگتا تھا اور اس کا پسینہ لہو کی بوند کی مانند ہو کر زمین پر گرتا تھا۔‘‘
یعنی حضرت مسیح اس طرح گڑا گڑا کر دعا مانگ رہے تھے یوں معلوم ہوتا تھا ان کے پسینہ کی جگہ خون بہہ رہا تھا۔
اسی طرح آیت ۴۵ میں لکھا ہے
’’اور دعا سے اٹھ کر اپنے شاگردوں کے پاس آیا اور انہیں غم سے سوتا پایا۔‘‘
اپنی تعریف بھی کتنی کرتے ہیں ۔ دعاکی نہیں اور غفلت کی حالت میں سو گئے۔ لیکن بتایا یہ جاتا ہے کہ انہیں اتنا غم پہنچا کہ وہ سو گئے۔ حضرت مسیح ؑ پھر ان کے پاس آئے اور کہا کہ
’’تم کیوں سوتے ہو اٹھ کر دعامانگو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو۔‘‘
دوسری چیز زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ جو کچھ خداتعالیٰ انہیں دیتا ہے وہ آگے لوگوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ پس نبیوں کا زکوٰۃ دینا درحقیقت ان کا اپنے مریدوںکو اس کی تلقین کرنا ہوتا ہے۔
متی باب ۲۲ میں آتا ہے کہ فریسی حضرت مسیح ؑ کے پا س آئے اور آ کر کہا کہ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ آیا قیصر کو ہم اس کا ٹیکس ادا کریں یا نہ کریں۔ ان کی غرض یہ تھی کہ اگر یہ جواب دیں گے کہ ادا کرو تو ہم قوم کو اکسائیں گے اور کہیں گے کہ یہ حکومت کا خوشامدی ہے یہ لوگوں کو تعلیم دیتا ہے کہ قیصر کو جزیہ اداکرناچاہئے اور اگر یہ جواب دیں گے کہ نہ دو تو ہم شور مچا دیں گے کہ یہ حکومت کا باغی ہے۔ یہ وہی مولویوں والی چال تھی جو آج کل ہمارے خلاف چلی جاتی ہے۔ حضرت مسیح ؑ نے ان کی شرارت کو بھانپ لیا ۔ چنانچہ لکھا ہے :
’’یسوع نے ان کی شرارت سمجھ کے کہا اے ریاکارو مجھے کیوں آزماتے ہو۔ جزیہ کا سکہ مجھے دکھلائو۔ وے ایک دینا ر اس کے پاس لائے۔ تب اس نے ان سے کہا یہ صورت اور سکہ کس کا ہے۔ انہوں نے کہا قیصر کا پھر اس نے کہا پس جوچیزیں قیصر کی ہیں قیصرکو اور جو خدا کی ہیں خدا کودو۔ انہوں نے یہ سن کر تعجب کیا اور اسے چھوڑ کر چلے گئے۔‘‘ (انجیل متی باب۲۲آیت ۱۸ تا ۲۲)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے اموال میں سے خداتعالیٰ کا حصہ دینے کا قانون تسلیم کیا ہے اور یہی چیز ہے جسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔
پھر متی باب ۱۵میں لکھا ہے ’’تب یسوع نے اپنے شاگردوں کو اپنے پاس بلا کے کہا کہ مجھے اس جماعت پر رحم آتا ہے کہ تین دن میرے ساتھ رہی اور ان کے پاس کچھ کھانے کو نہیں اور میں نہیں چاہتا کہ انہیں فاقہ سے رخصت کروں ایسا نہ ہو کہ راہ میں کہیں ناطاقت ہو جائیں۔ اس کے شاگردوں نے اس سے کہا کہ اس ویرانہ میں ہم اتنی روٹیاں کہاں سے پاویں کہ ایسی جماعت کو آسودہ کریں۔ تب یسوع نے انہیں کہاکہ تمہارے پاس کتنی روٹیاں ہیں ۔ وے بولے سات اور کئی ایک چھوٹی مچھلی۔ تب اس نے جماعتوں کو حکم کیا کہ زمین پر بیٹھ جاویں۔ پھر ان سات روٹیوں اور مچھلیوں کو لے کر شکر کیا اور توڑ کر اپنے شاگردوں کو دیا اور شاگردوں نے لوگوں کو اور سب کھا کے آسودہ ہوئے اور ٹکڑوں سے جو بچے رہے تھے انہوں نے سات ٹوکریاں بھر کر اٹھائیں اور کھانے والے سوا عورتوں اور لڑکیوں کے چارہزار مرد تھے اور جماعتوں کو رخصت کرکے کشتی پر چڑھا اور مگدلا کی اطراف میں آیا۔‘‘
(انجیل متی باب۱۵ آیت ۳۲ تا ۳۹ )
بائبل کے بیان میں ہمیشہ مبالغہ ہوتا ہے ممکن ہے چار پانچ ہی آدمی ہوں جنہیں چار ہزار کہہ دیا گیا ہو جیسے سکھوں کی عادت ہے کہ ایک آدمی بھی آ جائے اور وہ دروازہ کھٹکھٹائے تو اندر والا پوچھتا ہے۔ باہر کون ہے؟ اس پرباہر والا جواب دیتا ہے’’فوجاں‘‘ وہ پوچھتا ہے کتنی؟ وہ جواب دیتا ہے سوا لاکھ۔ جس طرح سکھ ایک آدمی کو سوا لاکھ کہہ دیتے ہیں اسی طرح بائبل کے لکھنے والے بھی تعداد میں خوب مبالغہ کرتے ہیں۔ موسیٰ کی قوم کی تعداد بتائی گئی ہے تو اس میں اتنا مبالغہ کیا گیا ہے کہ کوئی حد نہیں۔ حالانکہ وہ کوئی بڑی قوم نہیں تھی۔ اسی طرح اس واقعہ میں بھی خوب مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔ مگر بہرحال ا س سے ظاہرہے کہ بھوکوں کو روٹی کھلانے کا جذبہ اس کے اندر موجود تھا اور وہ غریبوں اور بھوکوں کو کھانا کھلایا کرتا تھا۔یہی واقعہ دوسری جگہوں میں بھی آتا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعودفرماتے ہیں کہ برا بوالدتی خداتعالیٰ نے مجھے اپنی والدہ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا ذکر لوقا باب ۲ آیت ۵۱ میں آتا ہے جہاں لکھا ہے :
’’اور وہ ان کے ساتھ روانہ ہوکر ناصرؔت میں آیا اور وہ ان کے تابع رہا اور اس کی ماں نے یہ سب باتیں اپنے دل میں رکھیں۔‘‘
یعنی مسیح اپنی ماںکی اطاعت کرتا تھا۔ لیکن جہاں لوقا نے یہ لکھا ہے کہ وہ اپنی ماں کا تابع رہا وہاں باقی سب انجیل نویسوں نے لکھا ہے کہ وہ عملاً اپنی ماں کے احکام کو توڑتا رہا۔ کسی جگہ اس نے سختی سے اپنی ماں کو ڈانٹا کسی جگہ یہ کہا کہ میں نہیں جانتا کہ تم کون ہو۔ کسی جگہ یہ کہا کہ تم چلے جائو میں تمہارے پیچھے آنے کے لئے تیار نہیں۔ لیکن قرآن ہر جگہ یہی بتاتا ہے کہ وہ اپنی ماں کا فرمانبردار تھا اور اس نے ہمیشہ اپنی والدہ کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔
پھر فرماتا ہے ولم یجعلنی جباراً شقیا اس نے مجھے جبار اور شقی نہیں بنایا۔ جبار کا لفظ اضداد میں سے ہے۔ یعنی اس کے ایک معنے ٹوٹے ہوئے کی اصلاح کرنے والے کے ہیں اور اس کے ایک معنے دوسرے کا حق مار کر اور اس کو ذلیل کرکے اپنے آپ کو اونچا کرنے والے کے ہیں۔ گویا ایک شخص تو ایسا ہوتا جو جائزطور پر بڑائی حاصل کرکے بڑا بنتا ہے اور ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو دوسرے کو گرا کر اور اس کا حق مار کراس کے اوپر چڑھتا ہے۔ پس جبار کے ایک معنے ہیں دوسرے کو گرا کر اور اسے ذلیل کرکے اپنی بڑائی اور بلندی چاہنے والا اور اس کے دوسرے معنے ہیںٹوٹے ہوئے کی اصلاح کرنے والا۔ جبار کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو تو اس کے معنے ہوتے ہیں ٹوٹے کام بنانے والا اور جب انسانوں کے متعلق یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے ہوتے ہیں دوسروں کو گرا کر اپنی ترقی چاہنے والا۔ گویا جبار کا لفظ ایسا ہے جس کے مقابلہ میںنرم دل اور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے کے الفاظ آئیں گے۔ پس جب حضرت مسیح نے کہا کہ لم یجعلنی جبار شقیا تو اس کے معنے یہ تھے کہ مجھے خداتعالیٰ نے جو اخلاق بخشے ہیں ان کے لحاظ سے اس نے مجھے جبار نہیں بنایا یعنی اس نے مجھے نرم دل اور لوگوں کے ساتھ محبت کرنے والا وجود بنایا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ انجیل اس بارہ میں کیا کہتی ہیں۔ اس کے لئے متی باب ۱۱ آیت ۲۹ میں ہمیں حضرت مسیح ؑ کے یہ الفاظ نظر آتے ہیں کہ
’’میرا جؤا اپنے اوپر لے لواور مجھ سے سیکھو کیونکہ میں حلیم اور دل سے خاکسار ہوں تو تم اپنے جیوں میں آرام پائو گے کیونکہ میرا جؤا ملائم اور میرا بوجھ ہلکا ہے۔‘‘
اس حوالہ میں وہ اپنے آپ کو دل کا حلیم اور خاکسار کہتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ میں لوگوں پر ظلم نہیں کرتا۔ ان کا حق نہیں چھینتا بلکہ اگر کوئی حکم بھی دیتا ہوں تو اس لئے کہ لوگوں کا فائدہ ہو۔ محض اپنی حکومت جتانے کے لئے میں کوئی حکم نہیں دیتا۔
اسی طرح متی باب ۲۱آیت ۵ میں آتا ہے :
’’صیہوں کی بیٹی سے کہو۔ دیکھ تیرا بادشاہ فروتنی سے گدھی پر بلکہ گدھی کے بچہ پر سوار ہو کے تجھ پاس آتا ہے۔‘‘
ا س حوالہ سے بھی ظاہر ہے کہ وہ اپنے آپ کوفروتن کہتا ہے یعنی بجائے اس کے کہ لوگوں کو گرا کر اور ان کو کمزور کرکے وہ اپنی برتری کی کوشش کرتا وہ اپنے آپ کو لوگوں کا خادم بتاتا ہے لیکن اس کے اظہار کے لئے وہ صورت نہایت مضحکہ خیز استعمال کرتا ہے۔ یعنی کسی غیر شخص کی گدھی کے بچہ پر سوار ہو کر شہر میں آتا ہے۔ چنانچہ انجیل میں لکھا ہے :
’’اور جب وہ یروشلم کے نزدیک پہنچے اورزیتون کے پہاڑ بیت ؔ فگے کے پاس آئے تو یسوع نے دو شاگردوں کو یہ کہہ بھیجا کہ اپنے سامنے کے گائوں میں جائو۔ وہاں پہنچتے ہی ایک گدھی بندھی ہوئی اور اس کے ساتھ بچہ پائو گے انہیں کھو ل کر میرے پا س لئے آئو۔ اور اگر کوئی تم سے کچھ کہے تو کہنا کہ خدا وند کو ان کی ضرورت ہے۔‘‘ (انجیل متی باب ۲۱ آیت ۱ تا ۳)
جبار کے ساتھ دوسرا لفظ شقی استعمال کیا گیا ہے ۔ شقی عربی زبان کا لفظ ہے جو سعادت کے مقابل میںاستعمال ہوتا ہے۔ بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کے معانی اپنی ذات میں بیان ہو سکتے ہیں لیکن بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کے معنے صرف نسبت سے سمجھے جا سکتے ہیں۔ عربی زبان میں شقی اور سعید بھی ایسے ہی الفاظ ہیں جن کے معانی نسبت سے سمجھے جاتے ہیں ورنہ یوں لغت میں دیکھو کہ سعید کے کیا معنے ہیں تو وہاں لکھا ہو گا السعید من لم یکن شقیا۔ سعید وہ ہے جو شقی نہ ہو اور شقی کے معنے دیکھیں تو لکھا ہو گا الشقی من لم یکن سعیدا۔ شقی وہ ہے جو سعید نہ ہو۔ پس یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے متضاد ہیں اور لغت دیکھنے والا حیران ہوتا ہے کہ میں ان کے معنے کہاں سے نکالوں۔ مگر جب وہ لغت کی وضع کی طرف جاتا ہے تو اس پر اس لفظ کے معنے کھل جاتے ہیں۔ درحقیقت سعید کے معنے ہوتے ہیں وہ شخص جو کسی دوسرے کی مدد سے اپنے مقصد حاصل کر لے اور یہ لفظ خداتعالیٰ کے لئے نہیں بولا جاتا کیونکہ سعیدکے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے کوئی دوسری طاقت کا میاب کروائے اور شقی وہ ہوتا ہے جس کی مدد سے کوئی دوسری طاقت انکار کر دے۔ پس شقی کے معنے ہوں گے جو شخص جائز مددگار اور جائز نصرت کرنے والے کی مدد سے محروم ہو اور اس کی تائید حاصل نہ کر سکے۔ اس کے لئے دیکھو یوحنا باب ۱۶ آیت ۳۳ جہاں حضرت مسیح فرماتے ہیں: -
’’میں نے تمہیں یہ باتیں کہیں تاکہ مجھ میں اطمینان پائو۔ تم دنیا میںمصیبت اٹھائو گے لیکن خاطر جمع رکھو کہ میں نے دنیا کو جیتا ہے۔‘‘
یعنی تم پر مصیبتیں آئیں گی اور لوگ تمہیں کچلنا چاہیں گے لیکن تم یقین رکھو کہ آخر مجھے فتح حاصل ہو گی۔ ہر نبی جو دنیا میں آیا اس نے لوگوں کے سامنے یہی دعویٰ کیا ہے کہ مجھے فتح حاصل ہو گی اور میرے مقابل پر کھڑے ہونے والے لوگ ناکام ہوں گے۔ مگر تعجب ہے آج ہم پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ تم نے یہ کیوںکہا کہ ہم فتح پائیں گے حالانکہ اگر کوئی جھوٹے طور پر دعوے کرے تو وہ بھی یہی کہا کرتا ہے کہ میں فتح پائوں گا اور جس کو خداتعالیٰ کہے کہ میں تجھے کامیاب کروں گا وہ اگر یہ نہ کہے کہ میں کامیاب ہوں گا تو اور کیا کہے۔ مسیح بھی یہی کہتا ہے کہ ’’میں نے دنیا کو جیتا ہے۔‘‘ اس کے یہی معنے ہیں کہ لم یجعلنی شقیا۔ میںشقی نہیں ہوں میں دنیا کو جیتنے والا ہوں۔
اسی طرح لوقا باب ۱۰ آیت ۹ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے اپنے حواریوں سے کہاکہ جب تم تبلیغ کے لئے کسی شہر میں جائو تو ’’وہاں کے بیماروں کو چنگا کرو اور ان سے کہو کہ خدا کی بادشاہت تمہارے نزدیک آئی۔‘‘
یعنی تم تسلی رکھو کہ تم جلدی فتح پالو گے اور کامیابی تمہیں حاصل ہو جائے گی۔
غرض وہ ساری باتیں جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں انجیل میں بھی موجود ہیں۔ پس عیسائیوں کا یہ کہنا کہ اپنی طرف سے باتیں بنا کر مسیح ؑ کے منہ میں ڈال دی گئی ہیں یا تو ان کے جھوٹ پر اور یا پھر ان کی اپنی کتب سے ناواقفیت پردلالت کرتا ہے۔

اور جس دن میں پیدا ہوا تھا اس دن بھی مجھ پر سلامتی نازل ہوئی تھی اور جب میں مروں گا اور جب مجھے زندہ کرکے اٹھایا جائے گا (اس وقت بھی مجھ پر سلامتی نازل کی جائے گی) ۔
تفسیر :
حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق بھی خداتعالیٰ نے یہی کہا ہے کہ والسلام علیہ یوم ولد ویوم یموت ویوم یبعث حیا (مریم ع ۱) لیکن وہاں خود اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ کے متعلق کہا ہے کہ جس دن وہ پیداہو گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہو گی۔ جس دن مرے گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہو گی اور جس دن وہ دوبارہ زندہ کیاجائے گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہو گی اور یہاں حضرت مسیح نے اپنی زبان سے کہا کہ والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیا o اس آیت سے دو نہایت غلط استدلال کئے جاتے ہیں۔ والسلام علی یوم ولدت سے تو یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ حضرت مسیح کو شیطان نے نہیں چھوا اور یوم ابعث حیا سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ حضرت مسیح کو کو صلیب پر نہیں لٹکایا گیا۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ اگر ا س سے یہ استدالال کیا جا سکتا ہے۔ کہ حضرت مسیح ؑ کو شیطان نے نہیں چھوا تو یہی الفاظ حضرت یحییٰ کے متعلق بھی استعمال ہوئے ہیں ان کے متعلق یہ کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا کہ وہ مس شیطان سے پاک تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ ان کی عصمت پر دلالت نہیں کرتے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ پیدائش سے ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں بابرکت بنایا ہے اور اس میں مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں۔ موسیٰ ؑ اور دائود ؑ اور سلیمان اور دوسرے ہزاروں ہزار انبیاء سب اپنی پیدائش کے وقت سے ہی بابرکت تھے۔ اور یوم اموت سے جو یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ مسیح صلیب پر نہیں لٹکا یہ بھی درست نہیں کیونکہ صلیب پر لٹکنا سلامتی کے خلاف نہیں بلکہ صلیب پر لٹک کر مر جانا سلامتی کے خلاف ہے۔ بائبل میں لکھا ہے کہ
’’جسے پھانسی ملتی ہے وہ خدا کی طرف سے ملعمون ہے‘‘۔ (استثناء ب ۲۱ آیت۲۳)
پس یوم اموت کے یہ معنے ہیں کہ میری موت ایسی نہیں ہو گی جس کو *** کہا جا سکے بلکہ میری موت خداتعالیٰ کی رضا میں ہو گی اور میرا رفع خداتعالیٰ کی طرف ہو گا۔ پس یوم اموت میں صلیب کی موت کی تو نفی پائی جاتی ہے مگر اس سے صلیب پر لٹکائے جانے کی نفی ثابت نہیں ہوتی۔ لیکن ا س سے یہ نتیجہ بھی نہیں نکلتا کہ حضرت یحییٰ ؑ شہید نہیں ہوئے۔ کیونکہ دشمن کے ہاتھوں سے خداتعالیٰ کی راہ میں شہید ہونا سلامتی کے خلاف نہیں ہوتا۔ حضرت یحییٰ شہید نہیں ہوئے مگر جب آپ کے سامنے کثرت کیساتھ حوالہ جات پیش کئے گئے جن سے حضرت یحییٰ کی شہادت ثابت ہوتی تھی تو آپ نے اپنے عقیدہ سے رجوع فرما لیا ۔ آپ بھی شروع میںحضرت یحییٰ کی شہادت کے خلاف یہی دلیل پیش کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کے متعلق فرماتا ہے و سلام علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیا۔ حالانکہ موت سلامتی کے خلاف نہیں ہوتی خواہ وہ طبعی موت ہو یا تلوار کے ذریعہ ہو۔ اگر موت سلامتی کے خلاف ہوتی تب تو یہ نتیجہ نکالا جا سکتا تھا لیکن جب موت سلامتی کے خلاف ہی نہیں توچاہے کسی کو بخار نے مار دیا ہو یا تلوار نے مار دیا ہو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن صلیب پر لٹک کر مرنا یقینا سلامتی کے خلاف ہے اور حضرت یحییٰ کی موت صلیب پر نہیں ہوئی اس لئے ان الفاظ سے ان کے قتل ہونے کا رد نہیں ہوتا۔ لیکن یوم اموت سے حضرت مسیح کے صلیب پر لٹک کر مارے جانے کی ضرورنفی ہوتی ہے کیونکہ بائبل کے بیان کے مطابق وہ *** موت تھی۔ اس آیت سے بظاہر تو مسیح کی بڑی عظمت معلوم ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ مسیح انسان تھا خدا نہیں تھا۔ کیونکہ والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت دلالت کرتا ہے کہ سلامتی کہیں اور سے آئی ہے اور کسی پر نازل ہوئی ہے۔ سلامتی دینے والا کوئی اور وجود ہے اور جس پر سلامتی نازل ہوئی ہے اور وجود ہے۔
خداتعالیٰ کا ایک نام جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے السلام بھی ہے۔ اب اگر ہم اس نام کی طرف منسوب کرتے ہوئے اپنے بچوں کا نام رکھیں گے تو عبدالسلام نام رکھیں گے یا کسی پر سلامتی پہنچانا چاہیں گے تو سلام علیہ یا السلام علیکم کہیں گے ۔ لیکن اس کے کبھی یہ معنے نہیں ہوں گے کہ تم قتل نہیں کئے جائو گے یا صلیب پر نہیں لٹکائے جائو گے۔ اسی طرح ہم نمازوں میں بھی کہا کرتے ہیں کہ السلام علیک ایھا النبی لیکن ہم یہ کبھی نہیںکہیں گے کہ السلام علی اللّٰہ سوائے اس کے کہ کبھی استعارہ کے طور پر کوئی شخص اس لفظ کا استعمال کر لے۔ مثلاً کوئی شخص خداتعالیٰ کا تصور اپنے ذہن میں لائے اور اس کی محبت میں محو ہو کر ایک ربودگی کی کیفیت میں اسے السلام علیککہہ دے۔ اگروہ ایسا کہے تو وہ محض ایک استعارہ ہو گا۔ اسے حقیقت پرمحمول نہیں کیا جائے گا۔ بہرحال جب ہم کسی کے متعلق سلامتی کا لفظ استعمال کریں گے تو یہی مراد لیں گے کہ وہ شخص انسان ہے اور سلامتی کا محتاج ہے اور ہمارے ذہن میں اس وقت یہ مضمون بھی ہو گاکہ سلامتی دینے ولا صرف خد ہے۔ والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت میں حضرت مسیح اپنی پیدائش اور موت دونوں وقتوں کے متعلق کہتے ہیں کہ مجھ پر سلامتی نازل کی گئی ہے ایک ایسی ہستی کی طرف سے جو سلام ہے ویوم ابعث حیا۔ اسی طرح جب میں زندہ کیا جائو ںگا تو اس دن بھی مجھ پر سلامتی نازل ہو گی ابعث حیاکے الفاظ بھی بتاتے ہیںکہ سلامتی بخشنے والا کوئی اور وجود ہے اور سلامتی حاصل کرنے والا کوئی اور ہے۔
بظاہر تو اس آیت میں حضرت مسیح کی بڑی شان نظر آتی ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ حضرت مسیح کا مقام کتنا بلند تھا کہ ان کی پیدائش پر بھی اور موت پر بھی اور دوبارہ حیات پر بھی سلامتی نازل کی گئی ہے۔ لیکن درحقیقت اصل مفہوم اس آیت کا یہی ہے کہ مسیح انسان تھا، خدا نہیں تھا اور جبکہ یہ الفاظ مسیح کی انسانیت پر دلالت کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ وہ انسان تھا خدا نہیں تھا تو طبعی طورپر عیسائیوں کے دلوں میں اعتراض پیدا ہوگا کہ ہمارے خدا کو انسان ثابت کرنے کے لئے جھوٹے کلمے اس کے منہ میں ڈال دئیے گئے ہیں ۔ پس چونکہ اس آیت سے بھی عیسائیوں کے لئے اعتراض کا موقع پیدا ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم انجیل کو دیکھیں اور غور کریں کہ وہ اس بارہ میں کیا کہتی ہے۔
یوم ابعث حیا کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے دو معنے ہوں گے۔ ایک ہمارے نقطہ نگاہ سے اور ایک عیسائیوں کے نقطہ نگاہ سے کیونکہ ہمارے اور ان کے نقطہ نگاہ میں بڑا بھاری فرق ہے۔ ہمارے نزدیک مسیح صلیب پر مرا نہیں بلکہ وہ صلیب پر لٹک کر کالمیتہوا۔ پس ہمارے نزدیک یوم ابعث حیا سے مراد وہ وقت ہوگاجب مسیح ؑکو صلیب پر لٹکایا گیا اور اس پر ایک رنگ میںموت طاری ہوئی لیکن پھر وہ اس موت سے بچا لیا گیا۔ لیکن عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح صلیب پر سچ مچ مر گیاتھا اور تین دن کے بعد خدا نے اسے پھر زندہ کر دیا۔ پس عیسائی نقطہ نگاہ سے یوم ابعث حیاسے مراد وہ وقت ہو گا جب وہ صلیبی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہوا۔
ا س میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک وہ بھی بعث ہے جب انسان اپنی حقیقی موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا لیکن اس سلامتی کا ہم دوسرے کو کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتے اور ابعث حیاکے جو معنے میں نے کئے ہیں اس کا ثبوت ہم ہر عیسائی کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ کیونکہ انجیل سے ظاہر ہے کہ خدا نے اسے موت کی شکل سے نجات دی اور صلیب سے بچا لیا۔ اس کے مقابلہ میں عیسائیوں پر ان کے نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس طرح حجت تمام کر سکتے ہیںکہ تم خود مانتے ہو کہ مسیح مر گیا تھا اور پھر وہ زندہ ہوگیا ۔ گویا اسے سلامتی حاصل ہوئی لیکن اگر ہم یہ کہیں گے کہ اگلے جہان میں مسیح پر سلامتی نازل ہو گی تو اس سلامتی کی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہو گی حالانکہ وہ چیزیں جن کو دشمن کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ان کی سچائی ثابت کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ہمارے پاس دلائل ہوں ورنہ دشمنان کو مان نہیں سکتا۔
بے شک بعض چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیںکہ ان کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی مگر وہ صرف ایسی ہی ہوتی ہیں جن کا عقائد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر ہم یہ ثابت کر دیں کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے تو ایک غیر مومن کے لئے ہمارا اتنا ثابت کر دینا کافی ہے۔ آگے یہ کہ کیا کیا نعماء ہیں جو اسے جنت میں دی جائیں گی اور وہ نعمتیں کس شکل اورصورت میں ہوں گی اس کے لئے ہمیں کسی دلیل کے پیش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ صرف ہمارے ایمان میںشامل ہے۔ اس کا تعلق ان اعتقادات کے ساتھ ہے جن کو دوسروں سے منوانے کے لئے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ہمارے پاس آئے اور کہے کہ ثابت کرو کہ جنت میں انسان جو کچھ خواہش کرے گا وہ پوری ہو جائے گی۔ تو ہم اسے کہیں گے کہ تمہارا یہ مطالبہ فضول ہے تمہارے ساتھ جو تعلق رکھنے والی چیز ہے وہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان زندہ ہو جاتا ہے۔ باقی یہ کہ زندہ ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔ یہ ان باتوں میں سے نہیں جن کو ثابت کرنا ہمارے لئے ضروری ہو۔ بعض لوگوں نے ایسی باتوںکو ذوقیات قرار دیا ہے اور بعض نے انہیں ایمانیات کا حصہ قرار دیا ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر خوش ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اگلے جہان میں ان کے لئے بڑی بڑی نعمتیں تیار کی ہوئی ہیں۔ بہرحال ہمیں اس بات کی ضرورت نہیں ہوتی کہ ہم دلیل دے کر اپنے دشمن سے بھی ان باتوں کو منوانے کی کوشش کریں لیکن اس جگہ ایک دعویٰ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ مسیح ؑ کی ولادت پربھی اس کے لئے سلامتی نازل ہوئی اور بعدمیں بھی وہ ہمیشہ سلامتی کا مورد رہا۔ پس ضروری ہے کہ ہمارے پاس اس سلامتی کے دلائل موجود ہوں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا اس سلامتی کا انجیل میں کہیں ذکر آتا ہے۔ اس کے لئے جب ہم انجیل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ؑکی جب پیدائش ہوئی تو گڈرئیے جو شہر سے باہر اپنے جانور چرایا کرتے تھے اور جن کے قریب ہی جنگل میں حضرت مسیح ؑ پیدا ہوئے تھے انہوں نے کشفی حالت میں دیکھاکہ فرشتے کہہ رہے ہیںکہ
’’ خدا کو آسمان پر تعریف اور زمین پر سلامتی اور آدمیوں سے رضا مندی ہو وے‘‘ (انجیل لوقا بب ۲ آیت ۱۴)
اس فقرہ میں تین باتیں کہی گئی ہیں ۔ اولؔ خداتعالیٰ کی آسمان پر تعریف ہو۔ دومؔ خداتعالیٰ کی زمین پر سلامتی ہو۔ سومؔ خداتعالیٰ کی آدمیوں سے رضا مند ی ہو۔
اس فقرہ کا پہلا حصہ تو ہے ہی خداتعالیٰ کے متعلق کہ آسمان پر اس کی تعریف ہو۔ اس لئے اس حصہ کے متعلق کسی طرح تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ خداتعالیٰ خود سلامتی والا ہے اور اس کے لئے ہر جگہ سلامتی ہے اس کے سلامت نہ رہنے کے متعلق کوئی خطرہ پیدا نہیں ہو سکتا کہ یہ دعا مانگی جائے کہ اسے زمین پر سلامتی ہو۔ زمین پر سلامتی کے محتاج انسان ہوا کرتے ہیں اور انہی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی عطاکی جاتی ہے۔ تیسرا حصہ یہ ہے کہ اسے آدمیوں سے رضا مندی ہو۔ یہ فقرہ تمام بنی نوع انسان سے تعلق رکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلیں اور انہیں اس کی رضا حاصل ہو۔ بہرحال پہلے حصہ میں خداتعالیٰ کا ذکر آ گیا کہ اس کے لئے آسمان پر تعریف ہو۔ تیسرے حصہ میں تمام بنی نوع انسان کا ذکر آ گیا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہو۔ اب رہ گیا دوسرا حصہ جو زمین پر سلامتی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے سو ظاہر ہے کہ جب یہ کشف مسیح کی پیدائش پر دکھایا گیا تو لازماً زمین پر سلامتی کے الفاظ بھی حضرت مسیح ؑ کے ساتھ ہی تعلق رکھتے ہیں ورنہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خداتعالیٰ کو آسمان پر تو سلامتی حاصل ہے لیکن زمین پر سلامتی حاصل نہیںحالانکہ خداتعالیٰ کی سلامتی کو نہ پہلے کبھی کوئی خطرہ پیدا ہو ا ہے اور نہ آئندہ پیدا ہو سکتا ہے۔ پس ’’زمین پر سلامتی‘‘ کے الفاظ کا یہی مفہوم ہے کہ مسیح کی پیدائش سلامتی کا موجب ہے گویا انجیل نے بھی بتا دیا کہ مسیح کی پیدائش کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے سلامتی نازل کی گئی تھی۔
پھر یوحنا ۱۶ آیت ۳۲ میں حضرت مسیح ؑکہتے ہیں :
’’تو بھی میں اکیلا نہیں کیونکہ باپ میرے ساتھ ہے‘‘
آپ فرماتے ہیں اگر تم مجھ کو چھوڑنا چاہو توبے شکل چھوڑ دو۔ تمہارے متعلق مجھے زیادہ سے زیادہ یہی خطرہ ہو سکتا ہے کہ اگر فتنے پیداہوئے اور مصائب کا دور آیا تو تم مجھے چھوڑ کر علیحدہ ہو جائو گے لیکن اگر تم ایسا کرو تب بھی مجھے کوئی پرواہ نہیں کیونکہ میں اکیلا نہیں خدا میرے ساتھ ہے۔ تمہار ے ساتھ ہونے سے مجھے کوئی تقویت نہیں پہنچتی اور تمہارے علیحدہ ہونے سے مجھے کوئی ضعف نہیں پہنچتا۔ گویا انجیل میں ان کی ولادت پر بھی سلامتی کا ذکرآتا ہے اور پھر زندگی میں بھی ہمیشہ ان کے سلامت رہنے کا ذکر موجود ہے۔
پھر واقعہ صلیب کے وقت بھی جو یہودیوں اور مسیحیوں کے نزدیک ان کی حقیقی موت کا وقت تھا اور ہمارے نزدیک اس وقت موت کی صرف ایک شکل ظاہر ہوئی ان پر سلامتی نازل ہوئی اور خدا نے انہیں نہیں چھوڑا۔ چنانچہ اعمال میںلکھا ہے :
’’خدا نے یسوع ناصری کو روح القدس اور قدرت سے ممسوح کیا۔ وہ نیکی کرتا اور ان سب کو جو شیطان کے ہاتھ سے ظلم اٹھاتے تھے چنگا کرتا پھرا کیونکہ خدا اس کے ساتھ تھا۔‘‘ (اعمال باب ۱۰ آیت ۳۸)
پھر وہ وقت جب انسان پر حقیقی موت آتی ہے اس میں بھی مسیح پر سلامتی نازل ہونے کا ذکرہے ۔ چنانچہ اعمال میںلکھا ہے :
’’میں آسمان کو کھلا اور ابن آدم کو خدا کے داہنے ہاتھ کھڑے دیکھتا ہوں۔‘‘ (اعمال باب ۷ آیت۵۶)
اسی طرح لوقا باب ۲۲ میں ۶۹ میں حضرت مسیح ؑ فرماتے ہیں :
’’اب سے ابن آدم خدا کی قدرت کے داہنے ہاتھ بیٹھا رہیگا۔‘‘
یعنی واقعہ صلیب کو دیکھ کر دشمن یہ خیال کرے گا کہ اس نے مجھے تباہ کر دیا ہے مگر میں خدا کے داہنے ہاتھ جا بیٹھوں گا اور اس کا فضل میرے شامل حال ہو گا۔
یہ وہ سلامتی کے دعوے ہیںجو انجیل میں موجود ہیں اور بتاتے ہیں کہ مسیح انسان تھا خدا نہیں تھا کیونکہ ان کی سلامتی کی دلیل یہ دی گئی ہے کہ خدا ان کے ساتھ ہے پس معلوم ہوا کہ انہیں سلامتی خدا کی طرف سے آتی ہے۔ اگر وہ خود خدا ہوتے تو انہیں کہنا چاہئے تھا کہ میں تو خدا ہوں اور خدا مر ہی نہیں سکتا۔ مگر انہوں نے یہ نہیں کہا۔ اسی طرح انہوں نے یہ بھی نہیں کہا کہ میں بالقوّہ سلامتی رکھتا ہوں بلکہ کہا کہ خدا میرے ساتھ ہے۔ پس معلوم ہوا کہ وہ انسان تھے خدانہیں تھے۔
اس جگہ ایک اور امر بھی یاد رکھنے والا ہے اور وہ یہ کہ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیھما السلام کے ذکر کو اللہ تعالیٰ نے ساتھ تو اس لئے ملایا تھا کہ یہ بتاتا کہ حضرت یحییٰ ؑ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ارہاص کے طور پر آ ئے تھے مگر ان دونوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ بھی آپس میں اتنی ملتی ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں وجود ایک ہی جوہر کے دوٹکڑے تھے مثلاً
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم نے یہ بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا اتنی الکتب وجعلنی نبیا ۔ ا س کے مقابلہ میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق آتا ہے یا یحیی خذ الکتب بقوۃ و اتینہ الحکم صبیا گویا وہاں بھی نبوت اور جوان عمر میں نبوت اور کتاب ملنے کا ذکر ہے اور یہاں بھی نبوت اور کتاب ملنے کا ذکر ہے۔
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق آتا ہے و جعلنی مبرکا اینما کنت واوصٰنی بالصلوٰۃ والزکوۃ ما دمت حیا اور حضرت یحییٰ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حنانا من لدنا وزکوۃ و کان تقیا۔
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ برا بوالدتی ولم یجعلنی جبارا شقیا اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ برا بوالدیہ ولم یکن جبارا عصیا ۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں والسلام علی یوم ولت و یوم اموت و یوم ابعث حیا اور حضرت یحیی علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وسلم علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیا۔
یہ تمام الفاظ آپس میں بہت ہی مشابہ ہیں اور معانی کے لحاظ سے بھی ان میں اشتراک پایا جاتا ہے مثلاً حضرت مسیح کے متعلق کہا گیا ہے واوصنی بالصلوٰۃ والزکوٰۃ اور اوصا ہ بکذا اور وصاہ بکذا کے معنے ہوتے ہیںعھد الیہ یعنی اس کے متعلق اس کو پختہ وصیت کی۔ ایسی وصیت جو عہد کی حد تک جا پہنچتی ہے اور ادھر حضرت یحییٰ ؑ کے متعلق کہا گیا ہے کہ خذالکتب بقوۃ۔ یہ الفاظ بھی زور اور شدت پر دلالت کرتے ہیں۔
پھر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا ہے کہ لم یکن جبارا عصیا عصیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق کہا گیا کہ لم یجعلنی جبارا شقیا۔ یعنی حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق تو یہ کہا گیا ہے کہ وہ جبار نہ تھے اور نہ گنہگار اور حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ ان کو خدا نے جبار نہیں بنایا اور ناکام نہیں بنایا۔ گویا اس جگہ حضرت یحییٰ کی ذاتی خوبیوں پر زیاد زور دیا گیا ہے۔ کیونکہ گنہگار نہ ہونا یہ ذاتی خوبی پر دلالت کرتا ہے اور لم یجعلنی جبارا شقیا میںشقی نہ ہونے پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور شقی نہ ہونا ایک قومی خوبی ہے ۔ کسی روحانی لیڈر اور نبی کی کامیابی کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس کی جماعت دنیا پر غالب آ جائے اور پھیل جائے پس مسیح کی قومی خوبی بیان کی گئی ہے اور یحییٰ کی ذاتی خوبی بیان کی گئی ہے۔ اس میں درحقیقت حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ ان کی قوم بحیثیت قوم دنیا میں باقی نہیں رہے گی اور حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہ بتایا تھا کہ ان پر ایمان لانے والے لوگ بحیثیت جماعت دنیا میں قائم رہیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام درمیانی نبیوں میں سے ایک نبی ہے جن کی حیثیت ایک مجدد کی سی تھی۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام سلسلہ موسویہ کی آخری کڑی تھے اور خدائی سنت یہ ہے کہ سلسلہ کی ابتدائی اور آخری کڑی کو خاص اہمیت دی جاتی ہے اور ان کے نامؔ اور کامؔ اور سلسلہؔ کو باقی رکھا جاتا ہے لیکن درمیان میں آنے والے لوگوں کے کام بانی سلسلہ کے کام میں مدغم ہو جاتے ہیں اور ان کی کوئی علیحدہ حیثیت باقی نہیں رہتی۔ حضرت دائود علیہ السلام ایک بڑ ے نبی تھے لیکن ان کا کام موسیٰ کے کام میں مدغم ہو گیا۔ حضرت یسعیاہ ؑ ایک بڑے نبی تھے۔ یرمیا ہ ؑ ایک بڑے نبی تھے۔ حزقیل ؑ ایک بڑے نبی تھے ۔ عزرا ؑ ایک بڑے نبی تھے لیکن ان سب کے کام موسیٰ ؑ کے کام میں مدغم ہو گئے۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کام کو ایک علیحدہ حیثیت دی گئی۔ کیونکہ وہ سلسلہ موسویہ کی آخری کڑی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی لکھتے ہیں کہ آنے والا مسیح ؑ قیامت کے دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے ایک اور چھوٹا سا جھنڈا لے کر کھڑا ہو گا۔ یعنی اس کا نام علیحدہ طور پر جماعتی لحاظ سے قائم رکھا جائے گا جبکہ باقی لوگوں کے کام کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام میں مدغم کر دیا جائے گا گویا اس کی تصویرکو ایک چھوٹے پیمانہ میں الگ بھی دکھایا جائے گا ۔ یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری میںاتنی اعلیٰ شان حاصل کی ہے کہ اس کو ایک مخصوص حیثیت بھی حاصل ہے۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ان کے متعلق خدا کہتا ہے کہ ان پر سلامتی ہو گی اور حضرت مسیح اپنے متعلق خود کہتے ہیں کہ مجھ پر سلامتی ہو گی۔ یہ دونوں قول ایک رنگ میں ایک دوسرے پر برتری رکھتے ہیں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے اسے تو اس رنگ میں برتری حاصل ہے کہ خدا کہہ رہا ہے کہ ان پر سلامتی ہو گی اور خدا کا کہنا ایک بڑی بات ہے۔ لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کے قول کو اس رنگ میں برتری حاصل ہے کہ آخر کسی کو اپنی سلامتی کا اسی طرح پتہ چل سکتا ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے اسے خبر ملے کہ تو سلامت رہے گا۔ پس گو زبان سے انہوں نے یہ نہیں کہا کہ مجھے خدا نے کہا ہے کہ مجھے پر سلامتی ہو گی۔ لیکن بہرحال یہ امر ظاہر ہے کہ انہیں خداتعالیٰ نے ہی بتایا ہو گا تبھی انہوں نے لوگوں سے یہ بات کہی۔ مگر انہوںنے اس سلامتی کو اپنی طرف منسوب کیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ان میں کن فیکونوالی طاقت پائی جاتی تھی کہ میرے اوپر سلامتی ہو گی اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس سلامتی سے محروم نہیں کر سکے گی۔
اس تقابل سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش بھی سلامتی والی بتائی گئی ہے اور حضرت مسیح کی پیدائش بھی سلامتی والی بتائی گئی ہے اور حضرت مسیح کی پیدائش بھی سلامتی والی بتائی گئی ہے۔ اب اگر اس کے صرف اتنے ہی معنے ہوں کہ یحییٰ بھی بچ جائیں گے اور مسیح بھی بچ جائے گا تو اس میں یحییٰ ؑ اور مسیح ؑ کی کوئی خاص خصوصیت نظر نہیں آتی اس طرح تو جتنے بچے زندہ رہتے ہیں وہ سب خداتعالیٰ کی سلامتی کے نتیجہ میں ہی زندہ رہتے ہیں۔ درحقیقت ان الفاظ سے بتانا یہ مدنظر ہے کہ ان دونوں کی پیدائش اپنے ساتھ الٰہی نشان رکھنے والی ہو گی۔ گویا سلامتی نہیں کہ ان کو جسمانی لحاظ سے سلامتی حاصل ہو گیاور یہ زندہ رہیں گے۔ وہ تو جو بچہ بھی زندہ رہتاہے ان دونوں کے متعلق خصوصیت سے یہ کہنا کہ ان کی پیدائش سلامتی والی ہو گی بتاتا تھا کہ ان کے ذریعہ دنیا پر سلامتی نازل ہو گی یہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایسے نشانات لے کر آئیں گے کہ ان کی پیدائش دنیا کو کفر سے نجات دینے والی ہو گی، ان کی پیدائش دنیا کو بے ایمانی سے نجات دینے والی ہو گی۔ جو بھی یحییٰ کی معجزانہ پیدائش اور اس کے کارناموں کو دیکھے گا اور جو بھی عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش اور اس کے حیرت انگیز کاموں کا مشاہدہ کرے گا اور اس تغیر کو دیکھے گا جو انہوں نے دنیا میں پیدا کیا اور ان نشانات کودیکھے گا جو ان کے ذریعہ ظاہر ہوئے اس کا ایمان تازہ ہو گا۔ اس کا کفر دور ہو گا۔ اس کی بے ایمانی اس سے جاتی رہے گی شکوک و شبہات اور وساوس کی تاریکیاں دور ہو جائیں گی خدا کا نور اس کی آنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہو گا اور سمجھے گا کہ ہمارا خدا بڑا قادر خدا ہے ۔ پس ایک تو یحییٰ ؑ اور مسیح ؑ کی پیدائش کو خداتعالیٰ نے سلامتی والا قرار دیا۔
پھر فرمایا کہ یحییٰ کی موت بھی سلامتی والی ہو گی اور مسیح ؑ کی موت بھی سلامتی والی ہو گی۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ ان کی موت انسانی دخل سے پاک ہو گی جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ چونکہ اس جگہ سلامتی کا لفظ آتا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے۔ حالانکہ کوئی شخص شہادت حاصل کرے یا طبی طور پر وفات پائے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جب اس نے مرنا ہی ہے تو پھر وہ کسی طرح مر جائے بات ایک ہی ہو گی۔ یا تو اس کا یہ مطلب ہوتا کہ وہ موت سے محفوظ رہیں گے اور اگر انہوں نے موت سے ہی محفوظ رہنا تھا تو پھر اموت کا لفظ نہیں آنا چاہئے تھا ۔ یہ کہنا چاہئے تھا کہ وہ ساری عمر موت سے محفوظ رہیں گے لیکن جب خداتعالیٰ نے یہ کہا کہ اس کی موت کے وقت بھی سلامتی ہو گی تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ خداتعالیٰ فنا ہونے کی نفی نہیں کر رہا اور جب اس نے فنا ہونے کی نفی نہیں کی تو پھر موت خواہ کسی آدمی کے ہاتھ سے ہو یا فرشتہ کے ہاتھ سے بات ایک ہی ہے۔ پس اس کا یہ مطلب تو نہیں ہو سکتا۔ بہرحال کوئی ایسا مطلب ہونا چاہئے کہ موت کے باوجود یحییٰ ؑ اور مسیح ؑ پر خداتعالیٰ کی طرف سے سلامتی ہو اور وہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ جس مقصد کو لے کر وہ دنیا میں کھڑے ہوئے تھے اور جس مدعا کے حصول کے لئے ان کی دنیا میں بعثت ہوئی تھی اس مقصد اور مدعا کے راستہ میں ان کی موت حائل نہیں ہو گی۔ وہ مر جائیں گے مگر ان کا نام زندہ رہے گا اور اس طرح ان کی موت بھی سلامتی والی موت ہو گی اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اگر موت کے باوجود کسی شخص کا پیغام رکا نہیں۔ اگر موت نے اس کے کام کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ زور کے ساتھ جاری ہو گیا ہے تو یقینا اس کی موت سلامتی والی ہے اور اگر موت کے ساتھ ہی اس کا کام بھی فنا ہو گیا اور اس کا نام بھی مٹ گیاہے تو اس میں کیا شبہ ہے کہ اس کی موت ہلاکت اور بربادی والی موت ہے۔ لیکن اگرموت کے بعد بھی کسی کا کام جاری رہے تو ہم اس کو مردہ نہیں کہہ سکتے۔
تاریخوں میں لکھا ہے کہ مامون نے اپنے دو بیٹوں کو فراء کے پاس جو ایک مشہور نحوی گزرے ہیں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بٹھایا۔ ایک دن فراء کسی کام کے لئے اٹھا تو دونوں شہزادے دوڑ پڑے تاکہ اس کے سامنے اس کی جوتیاں سیدھی کرکے رکھیں مگر چونکہ دونوں اکٹھے پہنچے تھے اس لئے ان کا آپس میں جھگڑا شروع ہو گیا۔ ایک کہتا تھا میں ان کے آگے جوتیاں رکھوں گا اور دوسرا کہتا تھا میں رکھوں گا۔ آخر دونوں نے ایک ایک جوتی اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دی۔ جب مامون کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو اس نے فراء سے کہا کہ ماھلک من خلف مثلک ۔ جس شخص کے ایسے شاگرد باقی رہ جائیں جو اس کا اتنا ادب اور احترا م کرنے والے ہوں وہ کبھی مر نہیں سکتا۔ اسی طرح جس شخص کی جماعت دنیا میں قائم رہے ۔ جس کے نام لیوا دنیامیں موجود ہوں جو اس کے نام اور کام کو زندہ رکھنے والے ہوں اس کی موت سلامتی والی موت کہلائے گی۔ کیونکہ موت تو آئی مگر موت نے اس کے کاموں میں تعطل پیدا نہیں کیا۔ پس جب ہم یہ کہیں گے کہ فلاں کی موت سلامتی والی ہے تو اس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ وہ کسی انسان کے ہاتھ سے مر نہیں سکتا۔ کیونکہ جب انسان مر گیا تو چاہے کسی طرح مرا اس سے کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔ سلامتی والی موت وہ کہلاتی ہے جس موت کے بعد بھی انسان کا نام زندہ رہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے چنانچہ دیکھ لو حضرت یحییٰ علیہ السلام مر گئے۔ ان کی جماعت کا وجود تک باقی نہیں رہا مگر آج سارے مسلمان کہتے ہیں کہ یحییٰ علیہ السلام۔ وہ قرآن میں جب بھی یہ پڑھتے ہیں وسلام علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیا تو حضرت یحییٰ ؑ کا ذکر تازہ ہوجاتا ہے ۔ ان کی زندگی آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے اور محبت اور احترام کے جذبات ان کے متعلق پیدا ہو جاتے ہیں۔ پس باوجود موت کے وہ زندہ ہیںاور قیامت تک زندہ رہیں گے یہی حال حضرت مسیح ؑ کا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسیح ؑ کے ماننے والے دنیا میں موجود ہیں لیکن حقیقتاً وہ اب ان کے ذریعہ زندہ نہیں۔ کیونکہ وہ مسیح کو نہیں بلکہ خدا کے بیٹے کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں جس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اصل میں مسیح اگر زندہ ہے تو اسلام کے ذریعہ سے ۔ مسیح ؑ زندہ ہے قرآن کے ذریعہ سے۔ مسیح ؑ زندہ ہے ہماری جماعت کے ذریعہ سے ۔ کیونکہ اسلام اور قرآن ہی ہیں جو حقیقی مسیح ؑ کو دنیا میں پیش کر رہے ہیں۔ پس اس سلامتی سے مراد یہ ہے کہ یحییٰ ؑ اور مسیح ؑ کے نام دنیا میں زندہ رہیں گے۔ انکی سچی تعلیم دنیا میں قائم رہے گی۔ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے اور پھر قرآن اور اسلام کے ذریعہ ایک دائمی حیات کے وارث ہوں گے۔
آگے حضرت یحییٰ ؑ کے متعلق آتا ہے کہ ان پر اس دن بھی سلامتی ہو گی یوم یبعث حیا اور حضرت مسیح ؑ بھی کہتے ہیں کہ والسلام علی .....یوم ابعثحیا۔ اب سوال پیدا ہوتاہے کہ اس سلامتی کا ثبوت کیا ہے اور کون جا کر دیکھے گا کہ اس دن ان پر سلامتی نازل ہوتی ہے یا نہیں۔ اس طرح تو ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ جب میں مرنے کے بعد اٹھوں گا تو مجھے یہ یہ مدارج ملیں گے اور ہمارے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں کہ ہم تحقیق کرکے فیصلہ کر سکیں کہ کہنے والے کی بات صحیح ہے یا غلط۔
اس سوال کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ کہنے والے کی ہر بات کو اس کی سابق اور گزشتہ باتوں پر قیاس کیا جاتا ہے اور پھر ایک نتیجہ نکال لیا جاتا ہے ۔ یہ قانون دنیا میں ہر جگہ جاری ہے اور قرآن کریم نے بھی بعث بعدالموت کے ثبوت میں اسے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین سے کہا ہے کہ تم ان پیشگوئیوں پر غور کرو جو تہاری تباہی اور اسلام کی ترقی کے متعلق کی گئی ہیں اور جن کے ساتھ اگلے جہان سے تعلق رکھنے والے بعض وعدے وابستہ کر دئیے گئے ہیں۔ ان دنیوی ترقیات کے ساتھ تعلق رکھنے والی پیشگوئیوں پر غور کرکے تم سمجھ سکتے ہو کہ جب وہ باتیںپوری ہو رہی ہیں جن کے متعلق کوئی عقل تسلیم نہیں کر سکتی تھی کہ پوری ہو جائیں گی تو اسی پر قیاس کرکے تم یہ بھی سمجھ سکتے ہو کہ آخرت کے متعلق ہماری طرف سے جو خبریں دی گئی ہیں وہ بھی ایک دن پوری ہو کر رہیں گی۔ یہی دلیل اس مقام پر دی گئی ہے اور تیسری بات کے ذکرسے پہلے دو اور باتیں بیان کی گئی ہیں جو اس دنیا کی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور پھر ان کی شہادت پیش کرتے ہوئے تیسری بات کے تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ نہ ہو اور وہ سمجھ لے کہ جب پہلی دو باتیں سخت مخالف حالات کے باوجود پوری ہو گئی ہیں تو یہ تیسری بات کیوں پوری نہ ہو گی۔ یہ بات ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص دنیا میں آ کر اپنی قربانی اور ایثار سے اپنی نیکی اور تقویٰ اور پاکیزگی سے کام لے کر ایسا تغیرپیدا کر دیتا ہے جس کی دنیا میں کوئی شخص بھی امید نہیںکر سکتا تھا اور وہ ان باتوں کی پہلے سے خبر دے دیتا ہے تو یقینا یہ انقلاب اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ اگلے جہان کے متعلق جو اس نے خبر دی ہے وہ بھی ضرور سچی ہو گی ۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت مسیح پیدا ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمارے ذریعہ سے خداتعالیٰ کی بزرگی اور تقدیس ظاہر ہو گی اور ہم دنیا میںن علی یوم ولدت و یوم قائم کر دیں گے اور کفر اور شیطنت کو دنیا سے نابود کر دیں گے۔ لوگوں نے ان کی مخالفت کی۔ حکومتوں نے ان کو کچلنا چاہا مگر باوجود اس کے کہ مخالفین نے انہیں مارا پیٹا۔ یہاں تک کہ ایک کو قتل کر دیا اور دوسرے کو پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیا اور باوجوداس کے کہ ان کے راستہ میں ہر قسم کی روکیں پیدا کی گئی ہیں، پھر بھی جو تعلیم وہ لائے تھے وہ دنیا میں پھیل گئی۔ وہ لوگ جو بڑی بڑی طاقتیں رکھنے والے تھے تباہ ہو گئے یہاں تک کہ حکومتیں مٹ گئیں اور یحییٰ اور مسیح کامیاب ہوئے۔ جب آدھی بات اتنے مخالف حالات میں پوری ہو گئی ہے تو ہر شخص کہے گا کہ دوسری بات بھی ضرور سچی ہو گی۔ اگر حضرت مسیح صرف اتنا کہتے کہ والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت تو ایک مخالف کے لئے شبہ کی گنجائش ہو سکتی تھی اور وہ کہہ سکتا تھا کہ میں اس بات کو کس طرح مان لوں کہ جب مسیح زندہ ہو گا تو اس پر سلامتی ہو گی۔ مگر خد انے اسے تیسری جگہ رکھا ہے اس سے پہلے یہ دو باتیں بیان کی گئی ہیں والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت گویا بتایا کہ تین سلامیاں آئیں گی۔ ایک پیدائش پر سلامتی ہو گی، ایک موت پر سلامتی ہو گی اور ایک دوبارہ حیات پر سلامتی ہو گی۔ اب غور کرکے دیکھ لو حضرت زکریا ؑ کے گھر میں پیدا ہونے والے یحییٰ کے متعلق ان کے بچپن میں کون کہہ سکتا تھا کہ وہ اتنا بڑا انسان بنے گا اور دنیا کی نجات کا باعث ہوگا۔ حضرت عیسیٰ کے متعلق کون کہہ سکتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا نبی ہو گا اور مخالف حالات میں ترقی کی انتہائی منازل طے کر جائے گا یقینا کوئی انسان اس قسم کی بات نہیں کہہ سکتا تھا کیونکہ وہ دوسرے کے مستقل سے ناواقف ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی پیدائش سے بھی پہلے اس قسم کی خبریں دیں اور پھر ویسا ہی ہو گیا جیسے خدا نے کہا تھا۔ یہ پیدائش سے قبل خداتعالیٰ کا خبریں دینا اور پھر ویسا ہی وقوع میں آ جانا بتاتا ہے کہ ان کی پیدائش یقینا معجزانہ تھی اور جو کچھ خدا نے کہا تھا وہ سچ ثابت ہوا۔پھر انہوں نے کہا کہ ہم بے شک مر جائیں گے مگر ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے وہ ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا ۔ جیسے سیفٹی ایکٹ کے ماتحت گورنر پنجاب کی طرف سے مجھے ۱۹ مارچ ۵۳ء کو نوٹس ملا اور ڈی۔ ایس۔ پی مجھے وہ نوٹس دینے کے لئے آیا تو میں نے اس سے کہا کہ میری گردن تمہارے گورنر کے ہاتھ میں ہے لیکن تمہارے گورنر کی گردن میرے خدا کے ہاتھ میں ہے۔ تمہارے گورنر نے میرے ساتھ جو کرنا تھا وہ کر لیا اب میرا خدا اپنا ہاتھ دکھائے گا۔ جب وہ اٹھنے لگا تو میں نے پھر اسے کہاکہ یہ ایک حقیقت ہے جو پوری ہو کر رہے گی اور جب میری یہ بات پوری ہو گی تو اس وقت میں تمہیں یاد دلائوں گا کہ میں نے گورنر کے متعلق جو کچھ کہا تھا وہ پورا ہو گیا ہے۔ چنانچہ جب اس گورنر کوپنجاب سے رخصت کیا گیا تو میں نے اپنا آدمی اس کی طرف بھیجا اور کہا کہ تمہیں یاد رہے میں نے اس رو زتمہیں کیا کہا تھا۔ اس نے کہا مجھے خوب یاد ہے بلکہ میں دوسرے دوستوں سے بھی اس کا ذکر کرتا رہا ہوں۔ پھر ایک شخص کے سامنے اس نے یہ بھی کہا کہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ نے میری گردن پر بھی اپنا ہاتھ ڈالا ہوا ہے۔ تو مرنے کو انسان مر جاتا ہے لیکن اگر کسی شخص کا نام زندہ رہتا ہے، اس کا کام زندہ رہتا ہے، اس کی تعلیم زندہ رہتی ہے، تو وہ مرتا نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہتا ہے۔ یہی حقیقت حضرت مسیح بیان فرماتے ہیں کہ والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت۔ زندگی میں ہی نہیں میری موت کے بعد بھی مجھے اللہ تعالیٰ کی سلامتی حاصل ہو گی۔ موت کے بعد انسان کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ زندگی میں تود وسرے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بڑا چالاک تھا، بڑا ہوشیار اور فریبی تھا، اس نے اپنی چالاکی کی وجہ سے دنیا کو فتح کر لیا۔ لیکن مرنے کے بعد چالاکی بھی ختم ہو جاتی ہے، دھوکا بازی بھی ختم ہو جاتی ہے، رسوخ اور اقتدار بھی ختم ہو جاتا ہے، خدمت خلق بھی ختم ہو جاتی ہے۔ پھر تو خدا ہی کسی کا نام زندہ رکھنا چاہے تورکھ سکتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت یحییٰ ؑ بھی مر گئے، حضرت مسیح ؑ بھی مر گئے، مگر ان کے نام دنیا میں آج تک زندہ ہیں۔ جب یہ دو باتیں پوری ہو چکی ہیں تو اب تیسری بات میںکیا شبہ رہا۔ جب دو غیرممکن باتیں ممکن ہو گئی ہیں تو تیسری بات کے سچا ہونے میں کسی کو کیا شبہ ہو سکتا ہے۔ پس بے شک وہ زندگی نظر نہیںآتی مگر ان دو دعووں کو جو ویسے ہی ناممکن تھے خداتعالیٰ نے اس کے ساتھ ملا دیا اور اس طرح بتایا کہ جب یہ باتیںپوری ہو گئی ہیں تو وہ بات بھی ضرور پوری ہو کر رہے گی۔
دوسراؔ جواب اس کا یہ ہے کہ علاوہ اس بعث کے جو مرنے کے بعد مقدر ہے ہر نبی کی ایک دوسری بعثت اس دنیا میں بھی ہوتی ہے اور ہرنبی اپنے بعد میں آنے والے ایک اور نبی کی شکل میںدنیا میں ظاہر ہوتا ہے ۔ گویا اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ ہر سچے نبی کے بعد ایک اور نبی مبعوث ہوتا ہے جو کہتا ہے کہ فلاںنبی سچا تھا اور اس طرح اس پہلے نبی کی سچائی دنیا میں دوبارہ قائم کی جاتی ہے اور اس کی شہادت کے ذریعہ اسے دوبارہ سلامتی ملتی ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میںآئے اور عظیم الشان کارنامے انہوں نے سرانجام دئیے مگر اس کے بعد آہستہ آہستہ جب ایک لمبازمانہ آپ کی بعثت پر گزر گیا تو لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ پتہ نہیں موسیٰ سچا بھی تھا یا نہیں۔ تب خداتعالیٰ کی طرف سے مسیح ؑ آیا اور اس نے اعلان کیا کہ موسیٰ سچا تھا۔ پس موسیٰ ؑ کو دوبارہ زندگی ملی ۔ اور یحییٰ ؑ اور مسیح ؑ کو دوبارہ زندگی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ملی۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ افمن کان علی بینۃ من ربہ ویتلوہ شاھد منہ ومن قبلہ کتاب موسی اماما ورحمۃ اولئک یؤمنون بہ ومن یکفر بہ من الاحزاب فالنار موعدہ فلا تک فی مریۃ منہ انہ الحق من ربک ولکن اکثر الناس لا یؤمنون( ہود ع ۳) فرماتا ہے کیا یہ شخص جھوٹا ہو سکتا ہے جس کی زندگی میں ہی خداتعالیٰ کے ہزاروں نشانات جمع ہیں اور پھر موسیٰ کی خبریں اس کے متعلق پہلے سے موجود ہیں اور اس کی وفات کے بعد ہم ایک اور ماموربھیجیں گے جو اس امر کی تصدیق کرے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے تھے ۔ گویا اس کا ماضی وہ ہے حال یہ ہے اور مستقبل یہ ہے کہ ہم خود آسمان سے ایسے آدمی بھیجتے رہیں گے جو محمدرسول اللہ صلی علیہ وسلم کی صداقت کی شہادت دیں گے اور گواہی دیں گے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ کا سچا رسول ہے ۔ گویا یہ دوبارہ بعثت ہو گی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ اس لئے سورئہ جمعہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخرین میں مبعوث ہونے کا نام بھی بعثت ہی رکھا گیا ہے چنانچہ فرماتا ہے ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم اٰیٰتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین واٰخرین منھم لما یلحقوا بھم وھو العزیز الحکیم الحکیم (سورۃ جمعہ ع ۱) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثتیں مقدر ہیں ۔ آپ کی ایک بعثت اولین میں ہوئی ہے اور آپ کی دوسری بعثت آخرین میں ہو گی۔ یوم ابعث حیا میں وہی بعثت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو سورئہ جمعہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق استعمال ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی محاورہ میں بعثت کا لفظ اس موقعہ پر بھی استعمال ہوتا ہے جب کوئی نبی آئے اور وہ اپنے وجود کے ذیعہ کسی پہلے آنے والے نبی کو دوبارہ زندہ کر دے اور اس کی صداقت کو دنیا پرظاہر کر دے۔
پس والسلام علی ..... یوم ابعث حیا کے یہ معنی ہیں کہ جب کوئی دوسرا نبی اور مامور آئے گا اور میری تصدیق کرے گا تو تم اس وقت سمجھ لوگے کہ جو باتیں میں کہہ رہا ہوں وہ خداتعالیٰ کی طرف سے کہہ رہا ہوں۔ وہ ایک غیرملک میں آئے گا اور غیر قوم میں سے آئیگا لیکن وہ کہے گا کہ میں سچا ہوں۔ چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور ا نہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بھی تصدیق کر دی اور وہ بات پوری ہوگئی جو انہوں نے کہی تھی کہ والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت ویوم ابعث حیا اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بھی تصدیق کر دی اور وہ بات پوری ہو گئی جو خداتعالیٰ نے ان کے متعلق کہی تھی کہ وسلام علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیا۔ ان معنوں کی رو سے اس آیت کو قیامت پر چسپاں کرنے کی ضرورت ہی نہیںرہتی۔ اسی دنیا میں ان کی دوبارہ بعثت پر خداتعالیٰ کی سلامتی کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

(دیکھو ) یہ (حقیقی) عیسیٰ ابن مریم ہے اور یہ (اس کا) (اصل) سچا واقعہ ہے جس میں وہ (لوگ)اختلاف کر رہے ہیں۔
حل لغات :
امتراء اختلاف کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جس میں ایک شخص دوسرے کی بات کو رد کرتا ہے اور دوسرا شخص اپنے مدمقابل کی بات کی ترید کرتا ہے ۔ اس کو تردد ہوتا ہے اس کی باتیں ماننے میں اور اس کو تردد ہوتا ہے اس کی باتوں کے ماننے میں۔
تفسیر :
حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح ؑ کے متعلق خود عیسائیوں میں اور پھر عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی آپس میں اختلاف پایا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف عقائد رکھتے ہیں۔ یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ حق ان کے پاس نہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ مسیح کی ماں بھی خدا تھی اور کوئی کہتا ہے کہ وہ خدا نہیں تھی۔ کوئی کہتا ہے کہ مسیح واقعہ میں خدا کا ایک حصہ تھا اور کوئی کہتا ہے کہ ایک روح پیدا کی گئی تھی جس پر خداتعالیٰ نے اپنا فضل نازل کر دیا۔ حتیٰ کہ صلیب کے واقعہ کے متعلق بھی یہودیوں اور عیسائیوں میں اختلاف پاجاتا ہے بلکہ خود عیسائیوں کا بھی آپس اتفاق نہیں۔
شایدد نیا میں سوائے مسیح ؑ کے اور کوئی شخص ایسا نہیں جس کے متعلق اس قدر اختلاف پایا جاتا ہو ۔ مسلمانوں کو دیکھا جائے تو پھر ان میں بھی مسیح ؑ کے متعلق بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ مسیح ؑ مر چکا ہے اور مسلمان کہتے ہیں کہ مسیح ؑ مرا نہیں بلکہ وہ آسمان پر زندہ ہے۔ اسی طرح واقعہ صلیب کو لیا جائے تو اس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ مسلمان کہتے ہیں کہ مسیح ؑصلیب پر نہیں لٹکا ہم کہتے ہیں کہ وہ صلیب پر تو لٹکایا گیا تھا مگر مرا نہیں۔ یہودی کہتے ہیں کہ وہ صلیب پر لٹکایا گیا اور مر گیا۔ عیسائی کہتے ہیں وہ صلیب پر لٹکایا گیا اور مرا لیکن پھر زندہ ہو گیا۔ گویا دنیا کی چار بڑی جماعتیں صرف واقعہ صلیب کے بارہ میں ہی شدید اختلاف رکھتی ہیں۔ غیر احمدی کہتے ہیں کہ وہ صلیب پر لٹکائے ہی نہیں گئے۔ ہم کہتے ہیں وہ لٹکائے توگئے مگر صلیب پر فوت نہیں ہوئے۔ یہودی کہتے ہیں وہ صلیب پر لٹکایا گیااور مر گیالیکن پھر زندہ ہو گیا۔ غرض عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں میں مسیح ؑ کے متعلق بڑا بھاری اختلاف پایا جاتا ہے۔ پھر آگے یہودیوں اور عیسائیوں کے مختلف فرقوں کا آپس میں اختلاف ہے۔ اسی طرح مسیح ؑ کی پیدائش لے لو تو اس میں جھگڑا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قدرت کاملہ سے معجزانہ طور پر بغیرباپ کے پیدا کر دیا۔ غیر مبایعین کہتے ہیں کہ وہ یوسف کے نطفہ سے تھے۔ عیسائی کہتے ہیں کہ وہ خدا کانطفہ تھا۔ یہودی کہتے ہیں کہ وہ حرام کا نطفہ تھا۔ غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ذلک عیسی ابن مریم قول الحق الذی فیہ یمترون۔
یہ بھی درحقیقت ایک چوٹ ہے جو عیسائیوں پر کی گئی ہے۔ خدا تعالیٰ کے وجود سے زیادہ سچی اوریقینی کوئی چیز نہیں۔ مگر مسیح ؑ کے متعلق ایک بات بھی قطعی طور پر ثابت نہیں ۔ پس ذلک عیسی ابن مریم کہہ کر چوٹ کی گئی ہے کہ عیسائی حضرت مسیح ؑ کو خدا بنائے پھرتے ہیں۔ حالانکہ انہیں ان کی کسی بات کے متعلق بھی یقین حاصل نہیں۔ آئو ہم تمہیں یقینی بات بتاتے ہیں کہ وہ کون تھا۔ وہ ہمارا ایک رسول تھا جو دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا۔
یہاں حضرت مسیح ؑ کو عیسی بن مریم کہا گیا ہے۔ عیسائی مصنف اس پر پھر چڑتے ہیں کہ ہمارے مسیح ؑ کو ابن مریم کیوں کہا گیا ہے وہ تو خدا کا بیٹا تھا۔ اسے ابن مریم محض ہمیں چڑانے اور دکھ دینے کے لئے اور دنیا پر یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ خدا نہیں تھا کہا گیا ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ انجیل میں بھی حضرت مسیح کو ابن مریم کہا گیا ہے۔
مرقس باب ۶ آیت ۳ میں آتا ہے :
’’کیا یہ مریم کا بیٹا بڑھئی نہیں اور یعقوب اور یوسیس اور یہود اہ اور شمعون کا بھائی نہیں اور کیا اس کی بہنیں ہمارے پاس یہاں نہیں ہیں اور انہوں نے اس سے ٹھوکر کھائی۔‘‘
یعنی لوگوں نے جب مسیح ؑ کو دیکھا تو کہا کہ یہ بڑے بڑے دعوے کرتا پھرتا ہے کہ میرے ساتھ خداتعالیٰ کے یوں وعدے ہیں اور اس طرح مجھے اس نے اپنے فضلوں اور انعامات کا مورد بنایا ہے کیا یہ وہی مریم کا بیٹا بڑھئی نہیں جو ہماری چارپائیاں اور میزیں درست کیا کرتا تھا اور آج ایسے دعوے کر رہاہے۔
حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ نمازیںپڑھایاکرتے تھے۔ ان کا لہجہ بڑا عمدہ تھا۔ آواز بڑی بلند تھی اور ان کی تقریر میں بڑا جوش پایا جاتا تھا۔ میں اگرچہ بچہ تھا مگر مجھے خوب یاد ہے جب وہ اس مضمون پر پہنچتے تو بڑے جوش سے کہا کرتے تھے کہ کیا چیز ہے جو عیسائی ہمارے مقابلہ میں پیش کر سکتے ہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو بڑی بلند شان ہے۔ آپ کا ایک نائب اس زمانہ میں احیاء اسلام کے لئے آیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بڑے اچھے خاندان میں سے ہے۔ شاہی نسل میں سے ہے ہزاروں سال کی تاریخ اس کے خاندان کی عظمت کو ظاہر کررہی ہے۔ اس کے مقابلہ میں میرے کانوں میں پہلے مسیح کی ابھی تک یہ آواز گونج رہی ہے کہ کسی نے چارپائیاں ٹھیک کروانی ہو ں تو کروا لے کسی نے ٹوٹی ہوئی کرسیوں کی مرمت کروانی ہو تو کروا لے۔ انجیل کے اس حوالہ میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ لوگوں نے کہا کیا یہ مریم کا بیٹا بڑھئی نہیں۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ کیا یوسف نجار کا بیٹا نہیں۔ بلکہ کہا کہ کیا یہ مریم کا بیٹا بڑھئی نہیں۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ مسیح نے اپنے طور پر بھی بڑھئی کا کام کیا ہے ۔ مسیح بے شک انجیل میں اکثر جگہ اپنے آپ کو ابن آدم کہتا ہے لیکن ابن آدم ہونے میں تو تمام بنی نوع انسان اس کے شریک ہیں۔ اس میں مسیح ؑ کی کوئی خصوصیت نہیں۔ لیکن قرآن کریم ایک ایسا نام دیتا ہے جس سے مسیح ؑ کی آسانی کے ساتھ شناخت ہو سکتی ہے۔ اگر قرآن کریم عیسیٰ بن آدم کہتا تب بھی مشکل پیش آتی کیونکہ ہزاروں لوگوں کے نام عیسیٰ ہیں اور وہ بھی ابن آدم ہیں۔ اگر خالی ابن آدم کہا جاتا تو اس لحاظ سے اور بھی دقت پیش آتی کیونکہ سارے انسان ابن آدم ہیں پھر وہ پہچانا کس طرح جاتا۔
مسیحی اسے خدا کا بیٹا کہتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایسا لفظ ہے جو بائبل میں عام طورپر استعمال ہوتا ہے۔ پس یہ بھی مسیح کی شناخت کا کوئی قطعی ذریعہ نہیں تھا کیونکہ بائبل کے رو سے سب نیک لوگ خدا کے بیٹے ہیں اور اگر وہ خدا کے بیٹے سے ظاہری بیٹا مراد لیں تو پھر خدا تعالیٰ کا ظاہری بیٹاہونے کے کوئی ظاہری ثبوت بھی ہونے چاہئیں جو نہیں ہیں۔
درحقیقت حضرت مسیح کی صحیح شناخت اسی نام سے ہوتی ہے جو خدا نے اس کے لئے تجویز کیا ہے یعنی ’’ابن مریم‘‘۔ اگر ہم اس کو صرف عیسیٰ کہیں تو ہر ضلع میںبیسیوں لوگ ایسے نکل آئیں گے جن کا نام عیسیٰ ہو گا۔ ہماری جماعت میں بھی کئی ایسے لوگ موجود ہیں جن کا نام عیسیٰ ہے۔ گو اب یہ نام کم رکھا جاتا ہے کیونکہ عیسیٰ کی نسبت محمدؐ اور احمدؐ کی محبت لوگوں کے دلوں میں زیادہ ہے اور وہ محمدؐ اور احمدؐ کے نام پرا پنے بچوں کے نام رکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں لیکن پھر بھی ایسے کئی لوگ ہماری جماعت میں نکل آئیں گے جن کا نام عیسیٰ ہو گا اور پرانے غیر احمدیوں میں تو سینکڑوں لوگ اس نام کے موجود ہیں۔ پس اگر صرف عیسیٰ کہا جاتا ہے تو یہ حضرت مسیح کی شناخت کا کوئی یقینی ذریعہ نہیں تھا۔ اگر عیسیٰ ابن آدم نام رکھا جاتاتب بھی مشکل پیش آتی کیونکہ ہر عیسیٰ آدم کا بیٹا ہے اس میں مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں۔ اگر خدا کا بیٹا کہا جاتاتو سب لوگ کہتے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے ۔ ان مشکلات کو دور کرتے ہوئے قرآن نے مسیح کو عیسیٰ بن مریم کہہ دیا جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا۔ سب کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے اور مسیح کی شناخت کا ایک بڑا عمدہ ذریعہ ہے۔
پس قابل اعتراض انجیلوں اور مسیحیوں کا قول ہے نہ کہ قرآن کا۔

خدا (تعالیٰ) کی شان کے یہ خلاف ہے کہ وہ کوئی بیٹا بنائے وہ اس بات سے پاک ہے۔ وہ جب کبھی کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے (ایسا) ہوتا جائے تو ویسا ہی ہونے لگتا ہے ۔ پھر اسے مدد کے لئے بیٹا بنانے کی کیا ضرور ت ہے۔
حل لغات :
عربی زبان میں جب ما کان لہ کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیںتو اس سے دوسرے شخص کی قابلیت یا اس کی شان کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ چنانچہ ماکان لہ ان یفعل کذا کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ وہ کہاں اس قابل ہوا کہ ایسا کرے یا اس کی شان اعلیٰ کے خلاف تھا کہ وہ ایسا کرتا۔ گویا یا تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اس کی شان اتنی اعلیٰ ہے کہ ایسا ادنی کام اس کی طرف منسوب ہی نہیں ہو سکتا اور یا پھر یہ معنے ہوں گے کہ یہ کام اتنا اعلیٰ ہے کہ اس میں یہ قابلیت ہی نہیں کہ وہ اس کو سرانجام دے سکے۔
تفسیر :
اوپر جو تشریح کی جا چکی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک معنے تو یہاں چسپاں ہی نہیں ہو سکتے یعنی یہ معنے کرنے کہ اللہ تعالیٰ کی ایسی شان کہاں کہ اس کا بیٹا ہو۔ یہ تو قطعی طور پر غلط ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے۔ عورتیں تو کہہ دیتی ہیں کہ ہماری قسمت ایسی کہاں کہ ہمارے ہاں بیٹا پیدا ہو لیکن خداتعالیٰ کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی ایسی شان کہاں کہ اس کے ہاں بیٹا ہو۔ اس جگہ صرف دوسرے معنے ہی چسپاں ہوں گے کہ خداتعالیٰ کی شان اس سے بہت بالا ہے کہ ایسی ذلیل اور ادنی بات اس کی طرف منسوب کی جائے اور کہاجائے کہ اس نے بیٹا بنا لیا ہو۔ یہاں یتخذ من ولد کہا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ اس کا بیٹا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیوں میں اس بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بیٹا ہونا اور بیٹا بنا لینا یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ عیسائیوں میں سے بعض بیٹا بنا لینے کی تھیوری کے قائل ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اگر ہم یہ کہیں گے مسیح خدا کا بیٹا ہے تو لوگ اس بات کو مانیں گے نہیں اور کہیں گے کہ کیا کوئی ایسی عورت تھی جس سے خدا نے تعلق پیدا کیا اور اس سے خداتعالیٰ کا بیٹا پیدا ہوا۔ اس لئے وہ بیٹا ہونے کی بجائے بیٹا بنا لینے کی تھیوری کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی شان اور اس کی عظمت نے پسند کیا کہ اپنے لئے ایک بیٹا تجویز کرے۔ سو اس نے مسیح کو اپنا بیٹا بنا لیا پس چونکہ عیسائیوں میں اس بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے وہ الفاظ استعمال کئے جو دونوں قسم کے لوگوں پر چسپاں ہو جاتے ہیں اور آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ خداتعالیٰ کی شان کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ کوئی بیٹا اختیار کرے۔ چاہے یہ کہا جائے کہ کوئی اس کا اپنا بیٹا ہے اور چاہے یہ کہا جائے کہ کسی کو اس نے اپنا بیٹا بنا لیا ہے۔ اب یہ صاف بات ہے کہ جب کسی غیر کو اپنا بیٹا بنا لینا بھی اس کی شان کے خلاف ہے تو اس کا کوئی اپنا بیٹا ہونا تو اس کی شان اور عظمت کے بالکل منافی ہو گا۔
اس جگہ یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ جو شخص کسی امر کا مدعی ہوتا ہے ہمیشہ اپنے دعویٰ کا ثبوت پیش کرنا اس کے ذمہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ فلاں شخص کے دو سینگ ہیں اور جواب میں وہ شخص کہے کہ نہیں تم غلط کہتے ہو ۔ تو اس پر اگر پہلاآدمی یہ کہے کہ اچھے اگر تمہارے سر پر سینگ نہیں تو ا س کا ثبوت دو۔ تو ہر شخض اسے پاگل قرار دے گا اور کہے گا کہ ثبوت پیش کرنا تمہارا کام ہے کیونکہ دعوی تم کر رہے ہو تو اس کا کام نہیں کہ وہ ثبوت پیش کرے۔
حضرت مسیح ؑ کے متعلق چونکہ عیسائی اس بات کے مدعی ہیں کہ وہ خداتعالیٰ کے بیٹے ہیں اس لئے ان کے ابن اللہ ہونے کا ثبوت پیش کرنا عیسائیوں کے ذمے ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ یہی ثبوت پیش کرتے ہیں کہ چونکہ انجیل میں حضرت مسیح ؑ کو خدا کا بیٹا کہا گیا ہے اس لئے ہم بھی انہیں خداتعالیٰ کا بیٹا تسلیم کرتے ہیں۔ پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم انجیل پر غور کریں اور دیکھیں کہ کیا اس میں خداتعالیٰ کے بیٹے کے وہی معنے پائے جاتے ہیں جو عیسائی پیش کرتے ہیں ۔
لوقا باب ۲۰ آیت ۳۵۔۳۶ میں لکھا ہے :
’’جو لوگ اس جہان کے اور قیامت کے شریک ہونے کے لائق ٹھہرتے نہ بیاہ کرتے ہیں اور نہ بیاہے جاتے۔ پھر نہیں مرنے کے کیونکہ وے فرشتوں کی مانند ہیں اور قیامت کے بیٹے ہو کے خدا کے بیٹے ہیں۔‘‘
حضرت مسیح ؑ کہتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو اپنی زندگیاں خداتعالیٰ کے لئے وقف کر دیتے ہیں ایسے لوگوں پر روحانی موت نہیں آتی اور وہ خداتعالیٰ کے بیٹے کہلاتے ہیں گویا مسیح تمام نیک اور پاک لوگوں کے لئے ’’خداتعالیٰ کے بیٹے‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
پھر یرمیاہ باب ۳۱ آیت ۹ میں خدا تعالیٰ حضرت یرمیاہ کو مخاطب کرکے کہتا ہے :
’’میں اسرائیل کا باپ ہوں اور افرائیم میرا پلوٹھاہے۔‘‘
اس حوالہ میں سارے بنی اسرائیل کو خداتعالیٰ کا بیٹا کہاگیا ہے اور افرائیم جو بنی اسرائیل کا ایک قبلیہ تھا اسے اپنا پلوٹھا قرار دیاگیا ہے ۔
پھر متی باب ۵ آیت ۱۶ میں لکھا ہے :
’’تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وے تمہارے نیک کاموں کو دیکھیں اور تمہارے باپ کی جوآسمان پر ہے ستائش کریں۔‘‘
اس میں حضرت مسیح نے اپنے سب مخاطبین کو خدا کا بیٹا قرار دیا ہے۔
پھر متی باب ۶ آیت ۸ میںلکھا ہے :
’’ تمہارا باپ تمہارے مانگنے سے پہلے جانتا ہے کہ تمہیں کن کن چیزوں کی ضرورت ہے‘‘
پھر حضرت مسیح ؑ نے اپنے متبعین کو جو دعا سکھلائی ہے اس میں بھی یہی کہا ہے کہ خدا باپ ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں جب تم دعا مانگو تو اس طرح مانگوکہ
’’ اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو۔‘‘ (انجیل متی باب ۶ آیت ۹)
پھر متی باب ۶آیت ۴ ۱ میں ہے :
’’ اگر تم آدمیوں کے گناہ بخشوگے تو تمہارا باپ بھی جو آسمان پر ہے تمہیں بھی بخشے گا‘‘
پھر متی باب ۶ آیت میں ۱۸میں ہے :
’’تو آدمی پر نہیں بلکہ اپنے باپ پر جو پوشیدہ ہے روزہ دار ظاہر ہو اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہوں آشکار تجھے بدلہ دے۔‘‘
اس سے پہلے آپ یہ مضمون بیان فرماتے ہیں کہ لوگ روزہ رکھتے ہیں تو لوگوں پر اپنے روز ہ کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ چونکہ ریاکاری سے کام لیتے ہیں اس لئے وہ کسی بدلہ کے مستحق نہیں لیکن اگر تم محض خدا کے لئے روزہ رکھو تو تمہارا باپ جو تمہارے دل کے حالات سے واقف ہے وہ تمہیں بدلہ دے گا۔
متی باب ۱۰ آیت ۲۸ تا ۳۰ میں آتا ہے :
’’جو بدن کو قتل کرتے ہیں اور روح کو قتل نہیں کر سکتے ان سے نہ ڈرو بلکہ اسی سے ڈرو جو روح اور بدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کر سکتا ہے۔ کیا پیسے کی دو چڑیاں نہیں بکتیں اور ان میں سے ایک بھی تمہارے باپ کی مرضی بغیر زمین پر نہیں گر سکتی۔ بلکہ تمہارے سر کے بال بھی سب گنے ہوئے ہیں پس ڈرو نہیں۔‘‘
پھر مرقس باب ۱۱ آیت ۲۶ میں لکھا ہے :
’’اگر تم معاف نہ کرو گے تو تمہارا باپ جو آسمان پر ہے تمہارے قصور بھی معاف نہ کرے گا۔‘‘
اس جگہ سارے انسانوں کو خداتعالیٰ کا بیٹا قرار دیا گیا ہے۔
پھر لوقا باب ۶ آیت ۳۶ میں لکھاہے :
’’جیسا تمہارا باپ رحیم ہے تم رحیم ہو۔‘‘
لوقا باب ۱۲ آیت ۳۰ میں لکھا ہے :
’’تمہارا باپ جانتا ہے کہ تم ان کے محتاج ہو۔‘‘
لوقا باب ۱۲ آیت میں ۳۲ میں لکھا ہے :
’’تمہارے باپ کو پسند آیا کہ بادشاہت تمہیں دے۔‘‘
پھر یوحنا باب ۸آیت ۴۱ میں لکھا ہے کہ یہود نے کہا :
’’ ہمارا باپ ایک ہے یعنی خدا‘‘
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ یہودیوں میں یہ محاورہ رائج تھا کہ وہ اپنے آپ کو خداتعالیٰ کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ اسی طرح بائبل خود یہودیوں کو کہتی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے بیٹے ہو اور حضرت مسیح سب لوگوں کو خداتعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر تم دعا کرو تو اس طرح کیا کرو کہ
’’اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے۔ تیرے نام کی تقدیس ہو۔‘‘
اسی طرح ہم حواریوں کے خطوط کو دیکھتے ہیں تو ان میں بھی ہمیں یہی مضمون نظر آتا ہے۔ چنانچہ افسیوں باب ۴ آیت ۶ میں لکھا ہے :
’’ایک خدا جو سب کا باپ کہ سب کے اوپر اور سب کے درمیان اور تم سب میں ہے۔‘‘
یعنی خدا تمام انسانوں کا باپ ہے اور بندے اس کے بیٹے ہیں۔
اسی طرح خروج باب ۴ آیت ۲۲ میں لکھا ہے :
’’اسرائیل میرا بیٹا بلکہ میرا پلوٹھا ہے‘‘
غرض تمام بائبل کیا عہد نامۂ قدیم اور کیا عہد نامۂ جدید اس قسم کے حوالجات سے بھری پڑی ہے کہ تمام بنی نوع انسان خواہ وہ نیک ہوں یا بد۔ خصوصاً نیک۔ خصوصاً مسیح کے حواری یا بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے خداتعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ وہ خداتعالیٰ کو اپنا باپ کہتے ہیں اور خدا انہیں اپنابیٹاکہتا ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح ؑ بھی یہی تلقین فرماتے ہیں کہ تم اس محاورہ کو استعمال کیا کرو اور خداتعالیٰ کو ’’اے ہمارے باپ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا کرو۔ پس اگر انجیل میں مسیح ؑ کے متعلق بھی کسی جگہ یہ الفاظ آ گئے ہیں کہ وہ خدا کا بیٹا ہے تو ہمیں اس کے وہی معنے کرنے پڑیں گے جو بائبل کے دوسرے مقامات سے ثابت ہیں۔ اس کے خلاف ہمارے لئے کوئی اور معنے کرنے جائز نہیں ہوں گے اور نہ عیسائیوں کا حق ہے کہ وہ محض ان الفاظ کی وجہ سے انہیں خدا قرار دے دیں۔
غرض خداتعالیٰ فرماتا ہے ماکان للہ ان یتخذ من ولد خدا تعالیٰ کی شان کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا قرار دے ۔ ایک ہوتا ہے کسی کو بمنزلہ ولد قرار دینا۔ یہ چیز بالکل الگ ہے۔ اس کے معنے محض اتنے ہوتے ہیںکہ اس شخص کو خداتعالیٰ نے اپنا پیار اقرار دیا ہے لیکن ولد کے یہ معنے ہیں کہ کسی کو خداتعالیٰ کا حقیقی بیٹا کہاجائے اور حقیقی بیٹے کا درجہ خداتعالیٰ کسی کو نہیں دیتا۔ حقیقی بیٹا اپنے باپ کا وارث ہوتا ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ خداتعالیٰ کسی کو اپنا وارث بنا دے۔ کیونکہ اس نے مرنا نہیں یا اپنی صفات اس کو دے دے۔ بیٹا اپنے باپ سے ورثہ کے طور پر اس کے ہاتھ پائوں ناک کان منہ اور دوسرے تمام اعضاء لیتا ہے لیکن کوئی بندہ خداتعالیٰ سے ورنہ میں اس کی صفات نہیں لے سکتا۔ صفات الٰہیہ کا اپنے اندر پیداکر لینا اور چیز ہے اور ورثہ کے طور پر کسی چیز کا حاصل کرنا اور چیز ہے۔ صفات الٰہیہ کو اپنے اندر پیدا کرنا کسب کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جیسا کہ شاگرد اپنے استاد سے جو کچھ حاصل کرتا ہے کسب کے ذریعہ حاصل کرتا ہے ۔ یہ چیز خداتعالیٰ کے متعلق بھی جائز ہے مگر بیٹا اپنے باپ سے کئی چیزیں ورثہ کے طور پر لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے کوئی چیز ورثہ کے طور پر نہیں لی جاتی ۔ اس سے اگر کوئی شخص لے گا تو کسباً یا عطیۃ ً ہی لے گا۔ مثلاً انگریزوں کا رنگ گورا ہوتا ہے۔ ان کے ہاں جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوگا اس کا رنگ گورا ہو گا۔ یہ نہیں ہو گا کہ بچہ پیدا ہونے کے کچھ عرصہ بعد وہ اپنے لڑکے کو بلائیں اور کہیں کہ آئو ہم تمہیں اپنے رنگ میں سے تھوڑا سا رنگ دے دیں۔ اسی طرح حبشیوں کے ہاں بیٹا پیدا ہو گا تو سیاہ رنگ کا ہی پیدا ہو گا۔ یہ نہیں ہو گا کہ باپ اپنے بیٹے کو بلائے اور کہے کہ آئو میں تم کو اپنے بالوں میں سے کچھ بال دے دوں ۔ اپنے رنگ میں سے کچھ رنگ دے دوں یا تمہیں ناک، کان اور منہ وغیرہ دوں۔ یہ سب چیزیں وہ ورثہ میں پیدائش کے ساتھ ہی لے کر آتا ہے ۔ اس رنگ میں نہ خداتعالیٰ کا کوئی بیٹا ہو سکتا ہے اور نہ خداتعالیٰ کی شان ہے کہ اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں۔ باقی رہا یہ کہ کسی کو خداتعالیٰ کی طرف سے محبت اور پیار کے طور پر یا اس سے اپنے تعلق کے اظہار کے لئے بیٹا کہہ دیا جائے تو اس میں مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں۔ انجیل بتاتی ہے کہ سب لوگ خداتعالیٰ کے بیٹے ہیں یہاں تک کہ وہ گنہگاروں کو بھی اس کا بیٹا قرا ردیتی ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ جو قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ ماکان للہ ان یتخذ من ولد اللہ تعالیٰ کی شان کے یہ خلاف ہے کہ وہ کوئی بیٹا اختیار کرے ۔کیا اس کی شہادت بھی بائبل سے ملتی ہے یا نہیںملتی۔
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم میں اس ہستی کا نام جو تمام صفات حسنہ سے متصف اور تمام دنیا کی خالق اورمالک ہے اللہ استعمال ہوا ہے جو خداتعالیٰ کا اسم ذات ہے۔ سوائے عربی زبان کے اور کسی زبان میں بھی خداتعالیٰ کا اسم ذات نہیں۔ بائبل میں یہوا کا لفظ اس رنگ میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ اسم ذات ہوتا ہے لیکن حقیقتاً یہوا اسم ذات نہیں۔ اصل میں عربی اور عبرانی یہ دونوں زبانیں آپس میں بڑی حد تک ملتی جلتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے رہنے والے تھے جو عرب کا ہی ایک حصہ ہے۔ پھر آپ عراق سے ہجرت کرکے کنعان چلے گئے اور وہاں سے ان کی قوم آگے مصر کو نکل گئی مگر آپ کنعان میں ہی رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب کنعان میں رہتے تھے تو ان کا ایک بیٹا جس کا نام اسماعیل تھا بچپن میں الٰہی حکمت کے ماتحت مکہ پہنچا دیا گیا۔ ان کا دوسرا بیٹا اسحاق تھا جو ان کے ساتھ رہا۔ اس وجہ سے ان کی زبانیں آپس میں ملتی جلتی تھیں اور عبرا نی اور عربی میں بہت معمولی فرق تھا۔ یہوا کا لفظ بھی جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کااسم ذات ہے اور جوبائبل میں استعمال ہوا ہے درحقیقت عربی زبان میں کا ہی ایک بگڑا ہوا لفظ ہے۔ بہرحال بائبل میں خداتعالیٰ کے متعلق یہوا کے لفظ کا استعمال پایا جاتا ہے چنانچہ یسعیاہ باب ۴۲ آیت ۸ میں لکھا ہے: -
’’یہوا میں ہوں یہ میرا نام ہے اور اپنی شوکت دوسرے کو نہ دوں گا ۔‘‘
یہ بالکل وہی مضمون ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے کہ ما کان للہ ان یتخذ من ولد خداتعالیٰ کی شان کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ کوئی بیٹا اختیار کرے ۔ اس جگہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’یہوا‘‘ میرا نام ہے اور میں اپنی شوکت کسی دوسرے کو نہ دوں گا۔ یعنی کوئی اور وجود ایسا نہیں جو میری عظمت اور میری قدرت اور میری شوکت میں شریک ہو سکے۔
یہ’’یہوا‘‘ کا لفظ درحقیقت یا ھو سے بنایا گیا ہے۔ یاھوکے معنے ہیں اے وہ ہستی جو غائب ہے اور نظر نہیں آتی۔ پس یہ بھی ایک صفاتی نام ہے ذاتی نام نہیں۔ اور صرف خداتعالیٰ کے موجود ہونے اور اس کے آنکھوں سے غائب ہونے پر دلالت کرتا ہے یا خداتعالیٰ کے موجود ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ یا حرف ندا ہے اور اس چیز پر دلالت کرتا ہے جو موجود ہو۔ اور ھویہ بتاتا ہے کہ وہ ہے تو موجود مگر نظروں سے غائب ہے۔ پس یہ بھی اسم ذات نہیں اور یہوا کے معنے یہ ہیں کہ اے وہ ہستی جو ہے تو سہی مگر چونکہ آنکھوں سے نظر نہیںآتی اس لئے وہ ھو کہلا سکتی ہے انت نہیں کہلا سکتی۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عربی اور عبرانی آپس میں کس حد تک ملتی ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد اس زبان میں بہت کچھ تبدیلی پیدا ہو گئی لیکن باوجود اس زبان کے بدل جان کے حضرت مسیح ؑ کے زمانہ میں بھی جو یہود کا آخری زمانہ تھا اور وہ جس کے بعد وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ۔ عبرانی زبان عربی زبان سے اتنی ملتی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ عبرانی عربی کی ہی ایک بگڑی ہوئی صورت ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح ؑ نے جو آخری فقرہ صلیب پر کہا اور جس کے بعد انہیں ہوش نہیں رہا اور جو ایک ہی فقرہ ہے جس کے متعلق تمام محققین اس بات پر متفق ہیں کہ وہ یقینا حضرت مسیح ؑ کا ہی فقرہ ہے وہ یہ تھا کہ
ایلی ایلی لما سبقتانی
یہ ایلی درحقیقت عربی زبان کا ایلی ایلی ہے ۔ عبرانی میں خداتعالیٰ کو ایل کہتے ہیں اور عربی میں خداتعالیٰ کو ایل کہتے ہیں۔عبرانی والے کہیں گے جبراایل اور عربی والے کہیں گے کہ جبرائیل۔ وہ اسرافیل اور عربی والے کہیں گے اسرافِیل ۔ پس ایلی ایلی کو اگر ہم عربی لہجہ میں ادا کریں گے تو کہیں گے
ایلی ایلی
یعنی اے میرے خدا۔ اے میرے خدا ۔ آگے ہے ’’ لما ‘‘ یہ وہی عربی لم ہے۔ یعنی کس لئے یا کیوں؟ ’’سبقتانی‘‘ ۔یہ بھی عربی کا ہی ایک بگڑا ہوا لفظ ہے۔ عربی میں کہیں گے سبقتنی اور عبرانی میں کہیں گے سبقتانی۔ پس ایلی ایلی لم سبقتنی کے یہ معنے ہوئے کہ اے میرے خدا۔ اے میرے خدا تو مجھے کیوں چھوڑ کر آگے چلا گیا ۔ سبق کے معنے ہوتے ہیں آگے نکل گیا۔ پس حضرت مسیح ؑ دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے میرے خدا اے میرے خدا تو مجھ سے کیوں آگے نکل گیا اورمیں پیچھے رہ گیا اگر تو میرے پاس ہوتا تو میری مدد کرتا۔
یہ کتنا عربی زبان سے ملتا جلتا فقرہ ہے۔ صرف اٖیلی اٖیلی کی جگہ ایلی ایلی اور لم کی جگہ لما اور سبقتنی کی جگہ سبتقانی کر دیا گیا ہے اور یہ ایک ہی فقرہ ہے جو حضرت مسیح کا انجیل میںموجود ہے۔ باقی الفاظ کے متعلق کوئی یقینی شہادتیں نہیں لیکن اس فقرہ کے متعلق بائبل کے تمام مفسرین متفقہ طور پر لکھتے ہیں کہ یہ فقرہ یقینی طور پر وہی ہے جو حضرت مسیح ؑ نے کہا۔ پس عبرانی کوئی الگ زبان نہیں۔ عربی زبان کی ہی ایک بگڑی ہوئی صورت ہے۔ ذرا عبرانی کو چست کر دو تو عربی بن جائے گی۔ بہرحال ان کے ہاں ایل کا لفظ خداتعالیٰ کے لئے بولا جاتا ہے۔
خداتعالیٰ کے لئے ’’ایلوہیم‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ہیم جمع کی ضمیر ہے۔ عربی میں جمع کے لئے ھم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ عبرانی میں اسے ہیم بنا دیا گیا ہے۔ بہرحال ایلوہیم کے لفظی معنے یہ ہیں کہ کئی خدا۔ مگر اس لفظ سے مراد یہ ہوتی ہے کہ بڑا خدا یا شاند ار خدا۔
پہلے زمانہ میں جب کسی شخص سے مخاطب ہو کر کوئی بات کہی جاتی تھی تو عرب لوگ اسے انت کہا کرتے تھے مگر آج کل انت کی بجائے انتم کا لفظ استعمال ہونے لگ گیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عرب لوگ ہمیشہ انت انت کہا کرتے تھے مگر اب معمولی رئیس یا استاد یا افسر یا ڈپٹی کمشنر یا گورنر سے بھی ملاقا ت ہو تو اسے انت کی بجائے انتم کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ اسی طرح عبرانی زبان میں تمدن اور تہذیب کا دور آ جانے کی وجہ سے خداتعالیٰ کے اعزاز کے لئے ایلوہیم کا لفظ استعمال ہوتا تھا جو جمع کا صیغہ ہے۔ جس طرح غیر متمدن اقوام میں گفتگو کے وقت تو کا لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن تمدن آ جائے تو وہ تم کہنے لگ جاتے ہیں پھر اور زیادہ تمدنی شان پیدا ہو جائے تو آپ کہنے لگے جاتے ہیں۔ اسی طرح خداتعالیٰ کے ادب اور اس کے اعزاز کے لئے وہ ایلوہیم کا لفظ استعمال کیا کرتے تھے جس کے معنے الٰہوں اور معبودوں کے ہیں۔ یہ اہلوہیم بھی عربی زبان کے لفظ الھۃ کی ایک بگڑی ہوئی صورت ہے۔ گویا جسے عربی میں الہکہتے ہیں عبرانی میں اسے ایلوہیم کہتے ہیں۔ جسے عربی الہکہتے ہیں عبرانی میں اسے ایلواہ کہتے ہیںاور جیسے عربی میں اٖیل کہتے ہیں عبرانی میں اسے ایل کہتے ہیں۔ مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان میں سے کوئی بھی خداتعالیٰ کا اسم ذات نہیں۔ یہ تمام نام خداتعالیٰ کے صفاتی اسماء ہیں۔
اس تمہید کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ گو بائبل میں خداتعالیٰ کے لئے اللہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا لیکن پھر بھی پرانے عہد نامہ میں خداتعالیٰ کو وحدہ لاشریک تسلیم کیا گیا ہے چنانچہ استثناء باب ۶ آیت ۴ میں لکھا ہے :
’’ سن لے اے اسرائیل خداوند ہمار ا خدا اکیلا خداوند ہے۔‘‘
’’اکیلاخداوند‘‘ہونے کے یہی معنے ہیں کہ وہ وحدہ لاشریک ہے اور جب وہ وحدلاشریک ہوا تو یہ بات بھی سچی ثابت ہوئی کہ ماکان للہ ان یتخذ من ولد
پھر یسعیاہ باب ۴۲ آیت ۸ میں ہے :
’’یہوا میں ہوں یہ میرا نام ہے اور اپنی شوکت دوسرے کو نہ دوں گا۔‘‘
اپنی شوکت دوسرے کو نہ دوں گا یہ ماکان للہ ان یتخذ من ولدپر دلالت کرتا ہے۔ یعنی نہ صرف یہ کہ میرا بیٹا نہیں بلکہ میں کسی کو اپنا بیٹا بنائوں گا بھی نہیں۔ گویا تم اگر یہ کہو کہ میں نے کسی کو اپنا بیٹا بنا لیا ہے اور اپنی طاقتیں اس کو دے دی ہیں تو یہ بھی غلط ہو گا۔ میں اپنی صفات کسی اور کو نہیں دیتا۔
اب ہم انجیل کو دیکھتے ہیں جس پر مسیح ؑ کے ابن اللہ ہونے کی بنیاد رکھی جاتی ہے تو اس میں بھی ہمیں یہی تعلیم نظر آتی ہے کہ خداتعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔ چنانچہ مرقس باب ۱۲ آیت ۲۹ میں لکھا ہے کہ ایک شخص حضرت مسیح کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ آپ مجھے وہ سب سے بڑا حکم بتائیں جس پر عمل کرنا میرے لئے سب سے زیادہ ضروری ہو۔ حضرت مسیح نے اسے فرمایا
’’سب حکموں میں اول یہ ہے کہ اے اسرائیل سن وہ خدا وند جو ہمارا خدا ہے ایک ہی خدا وند ہے‘‘۔ (انجیل مرقس باب ۱۲ آیت ۲۹)
پھر مسیح کے حواریوں نے جو خطوط لکھے ہیں ان میں بھی یہی بات بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ رومیوں میں لکھا ہے :
’’اسی واحد دانا خدا کو یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہمیشہ حمد پہنچا کرے۔‘‘ (رومیوں باب ۱۶ آیت ۲۷)
گویا مسیح کا ذکر کرکے اس کے مقابلہ میں ایک خدا کو پیش کیا گیا ہے اور کہا گیاہے کہ اسی کوواحد دانا یعنی عظیم خدا کو یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہمیشہ حمد پہنچا کرے۔
پھر ایک حواری کہتا ہے :
’’لیکن مجھ پر اس لئے رحم ہوا کر یسوع مسیح مجھ بڑے گنہگار پر کمال صبر ظاہر کرے تاکہ میں ان کے واسطے جو اس پر ہمیشہ کی زندگی کے لئے ایمان لاویں گے نمونہ بنوں۔ اب انسانی بادشاہ۔ غیر فانی۔ نادیدنی۔ واحد حکیم خدا کی عزت اور جلال ابدالاباد ہو وے۔‘‘ (نمبر۱ تمطائوس باب ۱۶،۱۷)
اس میں خدا تعالیٰ کو ازلی قرار دیا گیا ہے۔ بادشاہ قرار دیا گیا ہے۔ غیر فانی قراردیا گیا۔ نادیدنی قرار دیا گیا ہے۔ یعنی جو نظر نہیں آتا لیکن مسیح تو نظر آتا تھا۔ واحد قرار دیا گیا ہے۔ حکیم قرار دیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ ان صفات کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے خدا کی ضرورت نہیں ہو سکتی۔
پھر یہوداہ کے خط میں لکھا ہے :
’’جو خدا واحد حکیم اور ہمارا بچانے والا ہے‘‘ (یہوواہ کا عام خط باب ۱ آیت ۲۵)
غرض ایک طرف پرانا عہد نامہ خداتعالیٰ کو ’’خدائے واحد‘‘ قرار دیتا ہے اور دوسری طرف نیا عہد نامہ بھی اسے ’’ خدا واحد‘‘ قر ار دیتا ہے ۔ پس ماکان للہ ان یتخذ من ولد میں بائبل اور انجیل دونوں قرآن کریم کے ساتھ متفق ہیں ۔ جوکچھ قرآن نے کہا ہے وہی تورات نے کہا ہے اور وہی انجیل نے تعلیم دی ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ اس تعلیم کے باوجود یہود ا ور نصاریٰ دونوں نے شرک کی کئی باتیں پیدا کر لیں اور وہ صداقت سے منحرف ہو گئے۔ یہود کی طرف جو انبیاء مبعوث ہوئے بائبل سے معلوم ہوتا ہے وہ یہی کہا کرتے تھے کہ ہم تمہیں کیا سمجھائیں۔ ہم ہمیشہ تمہیں سمجھاتے رہے مگر تم پھر شرک کرنے لگ جاتے ہو۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی وحدانیت کی دلیل بیان فرماتا ہے کہ سبحٰنہ وہ پاک ہے۔ فرماتا ہے ہم اپنی توحید کا ذکر صرف بائبل کی نقل کی وجہ سے نہیں کر رہے بلکہ اس لئے کر رہے ہیں کہ اس مسئلہ کی دلیل پر بنیاد ہے اور وہ دلیل یہ ہے کہ سبحنہ وہ پاک ہے۔
بیٹا دنیا میں کیوں ہوا کرتا ہے؟ تمام دنیا پر غور کرکے دیکھ لو بیٹے کا قانون صرف انہی چیزوں میں جاری ہے جو اپنے کام کے ختم ہونے سے پہلے فنا ہو جاتی ہیں۔ انسان کا کام دنیا میں موجود ہے لیکن وہ مر رہا ہے۔ اس لئے اسے بیٹے کی ضرورت ہے۔ بکروں کی ضرورت دنیا میں موجود ہے لیکن بکرے مر رہے ہیں اس لئے بکروں کی نسل کی ضرورت ہے ۔ پہاڑوں کی ضرورت دنیا میں موجود ہے لیکن پہاڑ بھی موجود ہیں وہ فنا نہیں ہو رہے اس لئے پہاڑوں کے لئے کسی بیٹے کی ضرورت نہیں۔ سورج کی ضرورت موجود ہے لیکن سورج بھی موجود ہے اس لئے سورج کے لئے کسی بیٹے کی ضرورت نہیں۔ چاند اور ستاروں کی دنیا کو ضرورت ہے۔ پہلے بھی ضرورت تھی اور اب بھی ہے لیکن چاند اور ستارے بھی موجود ہیں۔ وہ فنا نہیں ہو رہے اس لئے چاند اور ستاروں کے لئے کسی بیٹے کی ضرورت نہیں۔ پس تناسل کا سلسلہ انہی چیزوں کے ساتھ چلتا ہے جو اپنی ضرورت سے پہلے ختم ہو جاتی ہیں اور جو چیزیں اپنی ضرورت تک جاری رہتی ہیںفنا نہیں ہوتیں ۔ ان میں تناسل کا سلسلہ بھی جاری نہیں۔ اللہ تعالیٰ اسی دلیل کا اس جگہ ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے سبحنہ۔ اگر تم سوچنا شروع کرو کہ بیٹے کی کیا وجہ ہوا کرتی ہے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ بیٹا ہونے کی تین وجوہات ہوا کرتی ہیں۔
اول شہوت نفسانی ۔ یعنی انسان کے اندر بعض مادے ایسے جمع ہو جاتے ہیں کہ اگر وہ رکے رہیں تو صحت کو نقصان پہنچانے کا موجب بن جاتے ہیں ۔ اس لئے ان کا نکالنا ضروری ہوتا ہے۔ پس یا تو اپنی بیوی کے ذریعہ نکلیں گے اور یا وہ رویاء شہوانی کے ماتحت نکل جائیں گے۔ بہرحال نکل ضرور جائیں گے۔
دوسرے ہر انسان کو ایک مونس اور غمگسار کی ضرورت ہوتی ہے اور بغیر مونس اور غمگسار ساتھی کے وہ آرام محسوس نہیں کرتا۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ہر قسم کے آرام کے باوجود آدم افسردہ اور حیران پھرتا تھا تب خداتعالیٰ نے کہا یہ بیوی کا محتاج ہے آئو ہم اس کی بیوی پیدا کریں چنانچہ خدا نے آدم کے لئے حوا پیدا کی اور اس کی پریشانی اور افسردگی دور ہوئی۔ پس جب انسان اپنی ذات میں خوش نہ رہ سکے اور اسے اطمینان حاصل نہ ہو تو اس کے لئے ایک ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔
تیسرے ۔ اسی طرح جب اپنے کام کے ختم ہونے سے پہلے کوئی فنا ہو جائے گا تو لازماً اسے ضرورت ہو گی کہ اس کا کوئی بیٹا ہو جو اس کے کام کے تسلسل کو جاری رکھے اور اس کے فنا ہونے کی وجہ سے کام کو نقصان نہ پہنچے۔
یہ تین چیزیں ہیں جو بیٹے کی ضرورت کا بنیادی باعث ہوتی ہیں۔
(۱) انسان کے اندر ایسے مادوں کا جمع ہو جانا جو اس کی صحت کو نقصان پہنچانے والے ہوتے ہیں۔
(۲) انسان کے اندر ایسے ساتھی کی خواہش کا پایا جانا جس کے بغیر اسے اطمینان قلب حاصل نہیں ہو سکتا۔
(۳) انسان کا اپنی ضرورت سے پہلے فنا ہو جانا اور یہ تینوں چیزیں نقص پر دلالت کرتی ہیں۔ یہ ماننا کہ خداتعالیٰ کے اندر ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جس کا نکالنا ضروری ہوتا ہے اگر وہ نہ نکالے تو اس کی صحت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے نقص پر دلالت کرتا ہے۔
یہ ماننا کہ خداتعالیٰ کو اپنے کسی مونس اور غمگسار کے بغیر اطمینان حاصل نہیں ہوتا اور وہ افسردہ رہتا ہے نقص پر دلالت کرتا ہے۔
یہ ماننا کہ خدا وقت سے پہلے مرجائے گا اور اس لئے ضروری ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو نقص پر دلالت کرتا ہے ۔ پس فرماتا ما کان للہ ان یتخذ من ولد سبحنہ ۔ اگر تم غور کروکہ بیٹا کیوں ہوا کرتا ہے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ بعض زائد مادوں کا انسانی جسم میں جمع ہو جانا ، ساتھی کی خواہش اور موت۔ یہ تین وجوہ ہیں جن کی بناء پر بیٹے کا تقاضا کیا جاتا ہے اور یہ تینوں نقص پر دلالت کرتی ہیں۔ نہ کسی کامل ذات میں ایسے مادے جمع ہو سکتے ہیں جو اس کی صحت کو خراب کرنے والے ہوں۔ نہ کسی کامل ذات کو اپنے لئے کسی مونس اور غمگسار ساتھی کی ضرورت ہو سکتی ہے اور نہ کسی کامل ذات پر موت آ سکتی ہے۔ حالانکہ بیٹے کے لئے یہ تینوں باتیں ضروری ہیں۔
اذا قضٰی امرا فانما یقول لہ کن فیکون ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ بیٹے کی ضرورت اسے مدگار کے طورپر ہے۔ سواس شبہ کے ازالہ کے لئے فرمایا کہ اذا قضی امرا۔ اس بات کو بھی سوچ لوجب اللہ تعالیٰ کسی امر کا فیصلہ کرتا ہے تو فانما یقول لہ کن فیکون وہ صرف اتنا کہہ دیتا ہے کہ کن ایسا ہو جائے فیکون پس وہ چیز عالم وجود میں آ جاتی ہے۔
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ کن کو کہتا ہے ۔ ان کے نزدیک کن کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پہلے کوئی مادہ موجود ہوتا جسے اللہ تعالیٰ کن کہتا ہے۔ سو یاد رہے کہ کن کا لفظ عربی زبان میں کسی کو کہنے کے لئے بھی بولاجاتا ہے اور محض اظہار خواہش کے لئے بھی بولا جاتا ہے ۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب شام کی طرف لشکرکشی کی تو ابو خیثمہ ؓ ایک صحابی تھے جن پر آپ کو بڑا اعتماد تھا اور آپ ان سے بڑی محبت رکھتے اور آپ سمجھتے تھے کہ اپنے فرض کے ادا کرنے میں یہ شخص غفلت سے کام نہیں لے سکتا۔ لیکن جب آپ لشکر کے ساتھ شہر سے کچھ فاصلہ پر جا پہنچے اور آپ نے اپنے صحابہ ؓ کا جائزہ لیاتو آپ کو ابو خیثمہؓ نظر نہ آئے جس پر آپ کو بہت افسوس ہوا کہ مجھے اس پر اتنی حسن ظنی تھی اور وہ اس جہاد سے پیچھے رہ گیا ہے۔ جب آپ چلے تو کسی نے کہا حضور کوئی شخص پیچھے سے آرہا ہے۔ آپ نے اس طرف دیکھا اور فرمایا کن ابا خیثمہ۔ جب گرد ہٹی اور وہ شخص قریب پہنچا لوگوں نے دیکھا۔ کہ وہ ابو خیثمہ ؓ ہی تھا۔ اس پر آپ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی کہ اس نے آپ کی خواہش کو اتنی جلدی پورا فرما دیا (غزوئہ تبوک سیرۃ حلبیہ ) اب کن اباخیثمہ کے یہ معنے نہیں تھے کہ آ تو کوئی اور رہا تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ وہ ابو خیثمہ بن جائے بلکہکن ابا خیثمہ کے یہ معنے تھے کہ خداکرے کہ یہ آنے والا شخص ابو خیثمہ ہی ہو تو عربی زبان میں یہ ایک محاور ہے کہ بعض دفعہ خواہش کے اظہار کے لئے بھی کن کا لفظ بولیا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ جنس تبدیل کرنا مدنظر ہو اور اس کے لئے کن کا لفظ استعمال کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ ہمارا یہ ارادہ ہے اور پھر وہ اسی طرح ہو جاتا ہے جس طرح خداتعالیٰ کا منشاء ہوتا ہے۔ پس یہ جو اعتراض کیا جاتاہے کہ کن فیکون سے معلوم ہوتا ہے کہ روح اور مادہ ازلی ہیں خداتعالیٰ روح اور مادہ کو حکم دیتا ہے اور وہ ایک شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔ یہ عربی زبان کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ بے شک کن کسی چیز کو مخاطب کرنے کے لئے بھی اس لفظ کا استعمال کر لیا جاتا ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کن ابا خیثمہ فرمایا۔ اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ اے زید تو بکر کی شکل بدل لے بلکہ اس کے صرف اتنے معنے تھے کہ اے کاش یہ آنے والا ابو خیثمہ ؓ ہی ہو۔ اسی طرح خداتعالیٰ کہتا ہے کہ ایسا ہو جائے اور وہ چیز کسی شکل میں موجود ہو جاتی ہے ہاںخداتعالیٰ کے لئے اے کاش کے الفاظ استعمال نہیں ہو سکتے بندے بے شک خواہش کا اظہار کریں گے تو اسی رنگ میں کریں گے کہ اے کاش فلاں بات اس طرح ہو جائے۔ لیکن خداتعالیٰ صر ف اس قدر اظہار کرتا ہے کہ ایسا ہو جائے اور وہ بات وقوع میں آ جاتی ہے ۔ یہاں بھی کن فیکون کے یہی معنے ہیں کہ خداتعالیٰ جب کسی خواہش کا اظہار کرتا ہے یا کسی بات کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی وہ خواہش اور وہ ارادہ فوراً پورا ہو جاتاہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ عربی زبان کی یہ خوبی ہے کہ اس میں الفاظ وہ استعمال کئے جاتے ہیں جو خود اپنے متقضٰی پر دلالت کرنے والے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ ’’جب وہ کسی چیز کو چاہتا ہے ‘‘ یا کہیں گے کہ ’’جب وہ کسی بات کو چاہتا ہے تو ویسی ہی ہو جاتی ہے۔‘‘ حالانکہ ’’چیز ‘‘اور ’’بات‘‘ حقیقت پر دلالت نہیں کرتے۔ دو چار دن ہوئے مجھے ایک شامی دوست کا خط آیا جس میں ایک فقرہ اس نے یہ لکھا کہ اذا اراداللّٰہ بشی ئٍ ۔ جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے ۔ مجھے اس وقت خیال آیا کہ اپنی طرف سے تو اس نے بڑا عمدہ فقرہ لکھا ہے لیکن عربی زبان کے لحاظ سے شی ئٍ کے لفظ میں بھی ارادہ شامل ہوتا ہے چنانچہ شی ئٍ کے معنے عربی میں یہ ہوتے ہیں کہ وہ چیز جس کو چاہا جائے۔ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے ان اللہ علی کل شی ء قدیر۔ اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے کیا وہ اپنی موت پر بھی قادر ہے حالانکہ شی ء کے معنے بات کے ہیں ہی نہیں۔شی ء کے معنے مشیت کے ہیں ۔ پس ان اللہ علی کل شی ء قدیرکے یہ معنے ہیں کہ ان اللہ علی کل شی ء قدیر علی کل مشیتہ اب کیا یہ خدا کی مشیت ہو گی گی کہ وہ اپنے آپ کو مار ڈالے اگر یہ خدا کی مشیت نہیں ہو سکتی تو ان اللہ علی کل شی ء قدیر پر یہ اعتراض بھی نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح یہاں فرمایا ہے کہ اذا قضی امرا اردو زبان کے لحاظ سے اس کا یہ ترجمہ ہو گا کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرے۔ لیکن عربی کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جب وہ کسی ایسی چیز کا ارادہ کرے جس کا اس نے حکم دیا ہے۔ گویا امر کا لفظ مامور پر دلالت کرتا ہے اور شی ء کا لفظ مشیت پر دلالت کرتا ہے۔ پس یہ الفاظ ہی ایسے ہیں کہ ان پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اذا قضی امرا میں امر کے معنے مامور کے ہیںیعنی وہ چیز جس کا حکم دے۔ اور ان اللہ علی کل شی ء قدیرمیں یہ مضمون نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ ہر بات جس کو وہ چاہے اس پر وہ قادر ہے ۔ پس اذا قضی امرا کے معنے یہ ہیں کہ جب وہ کسی ایسی چیز کا فیصلہ کرے جو اس کے احکام میں شامل ہو اور اس کی شان کے مطابق ہو ۔ تو فانما یقول لہ کن فیکون وہ صرف کن کہہ دیتا ہے اور وہ چیز ہو جاتی ہے۔
غرض امر کے معنے جہاں بات کے ہیں وہاں عربی زبان کے لحاظ سے اس میں سریہ ہے کہ بات وہ ہو جس کا فیصلہ کیا گیا ہو۔ جسے پسند کر لیا گیا اور جو اس کی شان کے مطابق ہو۔ یہ نہیں کہ ہر لغو بات خداتعالیٰ کی طرف منسوب کر دی جائے اور کہنا شروع کر دیاجائے ۔ کیا خدا ایسا نہیںکر سکتا۔ جیسے بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر وہ چوری کا ارادہ کر لے تو کیا چوری کر لے گا۔ حالانکہ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اپنے آپ کو یہ حکم دیا کرتا ہے کہ جا اور چوری کر اور کیا چوری ان چیزوں میں سے ہے جو خداتعالیٰ کی پسندیدہ ہیں۔ پس یہ سوال ہی احمقانہ ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بتایا ہے کہ بیٹے کی اُسے ضرورت ہوتی ہے جو خود کام نہ کر سکے اور جسے اپنی مدد کے لئے دوسروں کے سہارے کی ضرورت ہو۔ جب خداتعالیٰ کو کسی مددگار کی ضرورت ہی نہیں اور جب وہ سارے کام خود کر لیتا ہے تو اس کے متعلق بیٹے اور روح القدس کا وجود کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے۔

اور اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے اس کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے مگر مختلف گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا (اور سچائی کو چھوڑ دیا) پس جن لوگوں نے ایک بڑے دن میں حاضر ہونے کا انکار کیا ان پر عذاب نازل ہو گا۔
تفسیر :
فرماتا ہے یقینا اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے فاعبدوہپس تم اسی کی عبادت کرو۔ جب خدا باپ کے متعلق تم بھی سمجھتے ہو کہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور وہ قادر مطلق ہے توقادر مطلق کو چھوڑ کر کسی اور کو خداتعالیٰ کا بیٹا تسلیم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
اللہ تمہارا بھی رب ہے اور میرا بھی۔ وہ تمہارا بھی مالک ہے اور میرا بھی ۔ جھگڑا کیسا اور رقابتیں کیسی۔ ان جھگڑوں کو چھوڑ واور سمجھ لو ھذا صراط مستقیم یہ سیدھا راستہ ہے۔ تم ان چیزوں کی طرف چلے گئے ہو جن کی عدد ی ضرورت کو تم بھی تسلیم کرتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ خداتعالیٰ پر موت نہیں آ سکتی کہ اسے بیٹے کی ضرورت ہو۔ تم جانتے ہو کہ خداتعالیٰ کو بیوی کی ضرورت نہیں اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ اس کے اندر ایسے مادے جمع نہیںہوتے جو بیٹوں کی پیدائش کا موجب بنتے ہیں۔ پھر جب تم بھی ان باتوں کو تسلیم کر تے ہو تو آئو اور سیدھے راستہ پر چلتے ہوئے خدائے واحد کی عبادت کرو۔ صراط مستقیم کو چھوڑ کر تم ٹیڑھے راستہ کو کیوں اختیار کر رہے ہو۔

پس جن لوگوں نے ایک بڑے دن میں حاضر ہونے کا انکار کیا ان پر عذاب نازل ہو گا۔
تفسیر :
احزاب حزب کی جمع ہے اس کے عام معنے تو الجماعۃ الناس کے ہوتے ہیں یعنی انسانوں کی کوئی جماعت لیکن لغت والے لکھے ہیں کہ اس سے مراد خالی گروہ نہیں ہوتا بلکہ کل قوم تشالت قلوبھم و اعمالھم فھم احزاب ۔ وہ تمام قومیں جن کے افراد کے قلوب میں ہم رنگی پیدا ہو چکی ہو اور ان کے اعمال میں بھی ہم رنگی ہو احزاب کہتے ہیں ۔ یوں تو پچاس ساٹھ یا سو آدمی کہیں کھڑے ہوں تو انہیں حزب کہہ دیں گے ان معنوں میں کہ یہ ایک طائفہ یا گروہ ہے۔ لیکن استعمال میں آہستہ آہستہ اس لفظ کو یہ خصوصیت دے دی گئی ہے کہ صرف ایسے لوگوں کو حزب قرار دیا جائے گا جو ایک خیال اور ایک عقیدہ کے ہوں۔ اگر کسی جگہ بہت سے لوگ جمع ہوں جن میں عیسائی بھی ہوں، یہودی بھی ہوں، مسلمان بھی ہوں، دہریہ بھی ہوں، سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے بھی ہوں۔ تو محاورہ کے لحاظ سے ہم انہیں حزب نہیں کہیں گے۔ حزب اس وقت کہیں گے جب ان کے مذہبی اور تمدنی اور سیاسی خیالات اور اعمال ایک رنگ کے ہوں تو فاختلف الاحزاب من بینہم میں اگر لوگوںکی عام جماعت مراد لی جائے تو یہ معنے درست نہیں ہوں گے ۔ کیونکہ جن لوگوں کو مسیح ؑ کے متعلق دلچسپی ہی نہیں انہوں نے اختلاف کیوں کرنا ہے ۔ اختلاف کرنے والے وہی ہو سکتے ہیں جن کی دلچسپی مسیح ؑ کے ساتھ وابستہ ہے۔ لیکن دوسری طرف اگر حزب کے معنے ان لوگوں کے لئے جائیں جن کے قلوب اور اعمال میں مشارکت پائی جاتی ہو تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو ایک رنگ اور خیالات کے ہوں اور جن کے اعمال میں بھی یکجہتی پائی جاتی ہو انہوں نے اختلاف کیا کرنا ہے ۔ یہ بھی تضاد رکھنے والی بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک طرف تو انہیں یک رنگ کہا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اختلاف کیا۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ اختلاف درحقیقت پیدا ہی یکرنگی کے بعد ہوتا ہے۔ جیسے میں نے بتایا ہے کہ اگر کسی امر کے متعلق لوگوں کو دلچسپی ہی نہ ہو تو انہوںنے اختلاف کیوں کرنا ہے ۔ اسی طرح اختلاف بھی اسی وقت اہمیت رکھتا ہے جب خیالات اور اعمال میں مشارکت پائی جاتی ہو اور پھر اختلاف بھی نظر آ رہا ہو۔ مثلاً اگر مسلمانوں میں قرآن کریم کے بارے میں اختلاف پیدا ہو جائے تو یہ اختلاف بڑی اہمیت رکھے گا کہ مسلمان ایک طرف قرآن کو بھی مانتے ہیں اور دوسری طرف اسی قرآن کے بارہ میں اختلاف بھی کرتے ہیں۔ لیکن اگر عیسائیوں میں قرآن کریم کے بارہ میں اختلاف ہو تو ان کا اختلاف کوئی اہمیت نہیں رکھے گا کیونکہ ہر شخص کہے گا کہ یہ تو قرآن کو مانتے ہی نہیں۔ ان کا اختلاف کونسی اہمیت رکھتا ہے۔ تو اختلاف وہی اہمیت رکھتا ہے جو ایک عقیدہ اور ایک خیال رکھنے والے لوگوں کے اندر پایا جاتا ہو من بینہم کے الفاظ بھی بتا رہے ہیں کہ یہاں حزب کے معنے الجماعۃ من الناسکے نہیں بلکہ ہم خیال اور ہم عقیدہ لوگ مراد ہیں اور یہی قابل تعجب ہوا کرتا ہے کہ ایک کتاب پر ایمان رکھنے والے لوگ ہوں ایک رسول پر ایمان لانے والے لوگ ہوں ایک مقصد اور ایک مدعا اپنے سامنے رکھنے والے لوگ ہوں اور پھر ان میں اختلاف پیدا ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فاختلف الاحزاب من بینھم ۔ یہ لوگ مسیح کو ماننے والے اوراور اس کے ساتھ عقید ت رکھنے والے ہیں ان کی کتاب ایک تھی۔ ان کے عقائد ایک تھے۔ ان کے اعمال ایک تھے۔ مگر کتنی بدقسمتی ہے کہ پھر انہوں نے اختلاف کرنا شروع کر دیا۔کسی نے کہا مریم ایک بشر تھی جو خداتعالیٰ کا بیٹا جنی اور کسی نے کہا کہ مریم خداتعالیٰ کی بیوی تھی اور وہ خدائی صفات اپنے اندر رکھتی تھی۔ چنانچہ سال ڈیڑھ سال کی بات ہے پوپ نے اعلان کیا تھا کہ عقیدہ کہ مریم خدا تعالیٰ کی بیوہ اور خدائی صفات اپنے اندر رکھتی تھی یہی رومن کیتھولکس کا آفیشل عقیدہ سمجھا جائے گا۔ پھر بعض نے کہا کہ خدا ایک ہے مسیح اپنے اندر صرف خدائی صفات رکھتے تھے اور وہ انسان کی صورت میں اس دنیا میں ظاہر ہوئے۔ بعض نے کہا کہ نہیںمسیح ؑ خدا تھا اور مسیح ؑ کا خدا ہونا بطور ایک مادی وجود کے تھا۔ وہ کہتے ہیں تین شخصیتیں ماننی ضروری ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ تین شخصیتیں ماننی ضروری نہیں صرف اتنا ماننا ضروری ہے کہ ان تینوں میں خدائی حیثیتیں پائی جاتی ہیں۔ یہ لوگ اس مسیح کو جو دنیا میں ظاہر ہوا انسان ہی سمجھتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ خدا بیٹا الگ تھا جس کا اس مسیح کے ساتھ جو دنیا میں ظاہر ہو ا تعلق ہو گیا۔ یہ لوگ تین شخصیتوں کے نہیں بلکہ تین حیثیتوں کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک حیثیت سے خدا باپ ہے ایک حیثیت سے خدا بیٹا ہے اور ایک حیثیت سے خدا روح القدس ہے۔ مگر جو تین شخصیتیں مانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا باپ اپنی زات میں الگ وجود ہے خدا بیٹا اپنی ذات میں الگ وجود ہے اور خدا روح القدس اپنی ذات میں الگ وجود ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فاختلف الاحزاب من بینھم خود انہی میں سے یہ گروہ جو عیسیٰ کو ماننے والا ہے باوجود اتحاد مذہب اور اتحاد عقیدہ اور اتحاد عمل کے اختلا ف کا شکار ہو گیا۔
فویل للذین کفروا من مشھد یوم عظیم اس اختلاف کے نتیجہ میں لازماً ایک گروہ کے متعلق یہ ماننا پڑے گا کہ وہ حق پر ہے اور ایک کے متعلق یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ضلالت پر ہے چاہے دس گروہ ہو جائیں۔ مگر بہرحال اختلاف کے نتیجہ میں دو فریق بن جائیں گے۔ ایک حق پر ہو گا اور ایک باطل پر۔ وہ لوگ جو باطل عقائد میں مبتلا ہو گئے ہیں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فویل خدائے واحد نے اپنا ایک بندہ توحید کے قائم کرنے کے لئے بھیجا تھا گر ان لوگوں نے اسی کو خد ابنا لیا۔ یہ بہت بڑا جرم ہے جو ان سے سرزد ہوا پس ان پر عذاب اور *** ہے۔ ویل کے معنے عذاب کے بھی ہوتے ہیں اور ویل کے معنے *** کے بھی ہوتے ہیں۔ پس فویل للذین کفروا من مشھد یوم عظیم کے یہ معنے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے ایک بڑے دن میں حاضر ہونے کا انکار کر دیا ان پر ہمارا عذاب نازل ہو گا اور خداتعالیٰ کی طرف سے انہیں دوری کا پیغام دیا جائے گا۔ یوم عظیم کی انسان تمنا کیا کرتا ہے کیونکہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے اس دن بدلے ملیں گے اور وہ کہتا ہے کاش اس دن مجھے بھی خدا نظر آ جائے لیکن اگر وہ اس طرح نظر آئے کہ انسان اس کے سامنے مجرم کی طرح پیش ہو تو اس سے زیادہ ذلت اور بدقسمتی کی بات اور کیا ہو گی۔
حضرت ضرار ؓ ایک جنگ میں شامل تھے۔ قیصرکی فوجوں کے ساتھ لڑائی ہو رہی تھی کہ اس کی طرف سے ایک جرنیل نکلا جس نے بہت سے مسلمان سپاہی مار ڈالے ۔ حضرت ابوعبیدہ ؓ جو اسلامی فوج کے کمانڈر انچیف تھے انہوں نے ضرار ؓ کو بلایا اور کہا اب تم اس جرنیل کے مقابلہ کے لئے جائو۔ مگر یک دم انہوں نے اپنی پیٹھ موڑی اور خیمہ کی طرف بھاگ پڑے۔ ان کا بھاگنا تھا کہ اسلامی لشکر میں مایوسی کی ایک لہر دوڑ گئی اور عیسائیوں نے خوشی سے نعرہ بلند کیا کہ اتنا بڑا آدمی ہمارے جرنیل کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر میدان سے بھاگ نکلا ہے۔ حضرت ضرار جب واپس بھاگے تو کمانڈر انچیف نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جائو ضرار سے پتہ لو کہ کیا ہوا ہے اور کیوں میدان سے بھاگا ہے؟ وہ شخص ان کے پاس پہنچا تو اس وقت ضرار اپنے خیمہ سے باہر نکل رہے تھے اس نے کہا۔ ضرار آج تم نے سب مسلمانوں کو ذلیل کر دیا اور سب میں مایوسی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ تم اس جرنیل کے مقابلہ سے بھاگ کھڑے ہوئے بتائو تمہیں کیا ہوا تھا اور تم کیوں بھاگے؟ اس نے کہا بات یہ ہے کہ جب میں اس جرنیل کے مقابلہ کیلئے نکلا اور اس کے سامنے کھڑا ہوا تو یکدم مجھے یاد آیا کہ میںنے زرہ بکتر پہنی ہوئی ہے ۔ زرہ پہننے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ تلوار بھی جسم پر اثر نہ کرے اور نیزہ بھی جسم پر اثر نہ کرے۔ وہ لوہے کی ایک صدری ہوتی ہے اور اگر اچھی مضبوط زرہ ہو تو تلوار نہ صرف اسے کاٹ نہیں سکتی بلکہ زرہ پر لگنے کی وجہ سے خود خراب ہو جاتی ہے ۔ تو انہوں نے کہا آج صبح میں نے زرہ پہن لی تھی جو اس وقت بھی میں نے پہنی ہوئی تھی جب میں اس کے سامنے ہوا تو چونکہ یہ جرنیل نیز ہ زنی اور تلوار چلانے کا بڑا مشاق ہے اس لئے میرے دل نے کہا اے ضرار کیا تجھے خدا تعالیٰ کی ملاقات سے اتنی نفرت ہے کہ اس بہادر جرنیل کے سامنے تو زرہ پہن کر کھڑا ہوا ہے تاکہ تو مارا نہ جائے ۔ اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ اگر آج میں مارا گیا تو میرے لئے جہنم کے سوا اور کوئی ٹھکانہ نہیں ہو گا کیونکہ خدا کہے گاکہ تجھے میرے ملنے کی خواہش نہیں تھی اگر خواہش ہوتی تو تو زرہ پہن کر کیوں لڑتا۔چنانچہ میں دوڑا اور اپنے خیمہ میں آیا تاکہ میں زرہ اتار دوں اور اگر اس لڑائی میں مارا جائوں تو اللہ تعالیٰ سے خوشی اور بشاشت کے ساتھ ملوں ۔ تو یوم عظیم وہی ہے جس میں خدا تعالیٰ کی ملاقا ت ہو اور خدا تعالیٰ کی ملاقات وہی ہے جس سے خوشی اور سکون حاصل ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فویل للذین کفرو امن مشھدیوم عظیم ۔ کتنی بدقسمتی ہے، کتنی بڑی *** کی بات ہے کہ ایک شخص خدا سے ملے گا مگر بجائے خوش ہونے کے اس کا دل چاہے کہ میں یہاں سے دور بھاگوں۔ یہ ذلت اور رسوائی ان لوگوں کو اس لئے پہنچے گی کہ جس سے ان کو تعلق جوڑنا چاہئے تھا اس سے انہوں نے اپنا تعلق توڑا اور وہ شخص جو خدا تعالیٰ کا ایک بندہ اور ادنیٰ غلام تھا اسے انہوں نے خدا کی جگہ پر بیٹھا دیا ۔
ترجمہ آیت نمبر۳۹
جس دن وہ ہمارے حضور حاضر ہوںگے ان کی قوت شنوائی بہت تیز ہوگی اور نظریں بھی بہت تیز ہوںگی ۔ لیکن وہ ظالم آج بہت بھاری گمراہی میں مبتلا ہیں ۔
۳۱؎۔ تفسیر :۔
اسمع بھم وابصریہ عربی زبان کاایک محاورہ ہے اور عام طور پر ہمارے صرفی اور نحوی اس کے یہ معانی کرتے ہیں ’’ وہ کیا ہی خوب سننے والے اور دیکھنے والے ہوں گے ‘‘ لیکن بعض نحویوں نے کہا ہے کہ اسمع وابصر کلمہ تعجب کے طور پر نہیں بلکہ حقیقی امر کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔ پس اُن کے نزدیک اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ان لوگوں کو سنائو اور انہیں اُن کی حالت دکھائو۔ یعنی ان لوگوں کی جو کیفیت ہے وہ ان پر اچھی طرح واضح کرو لیکن عربی محاورہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے پہلے معنے ہی قابل ترجیح ہیں کہ ’’وہ کیا ہی خوب سننے والے اور کیاہی خوب دیکھنے والے ہونگے۔
یومایاتوننا جس دن وہ ہمارے پاس آئیں گے ۔ کیونکہ اُس روز تمام باتیں کھل جائیںگی ۔ ہر قسم کے پیچ جو مذہبی مسائل میں پیدا ہو چکے ہیں دور ہوجائیںگے ۔ پادریوں ،پنڈتوں اور مولویوں کی جھوٹی روایتوں کی وجہ سے انسانی عقلوں پر جو پردہ پڑگیاہے وہ اُٹھ جائے گا ۔ کان اس روز حقیقت کو سن رہے ہوں گے اور آنکھیں اس روز حقیقت کو دیکھ رہی ہوںگی ۔ لیکن اس حقیقت کے کھلنے کا کیا نتیجہ ہوگا ۔ ایک مومن پر جب حقیقت کھلے گی تو چونکہ چیز وہی ہوگی جس کو وہ اس دنیا میں مان رہا ہوگا ۔ اس لئے وہ خوش ہوگا کیونکہ اس کے سامنے کوئی نئی چیز نہیں ہوگی بلکہ وہی ہوگی جس کو وہ اس دنیا میں مان رہا تھا ۔ ایک مومن جس نے خدا تعالیٰ کے متعلق یہ ایمان رکھا کہ وہ حمید ہے ، وہ مجید ہے ، وہ غفار ہے ، وہ ستار ہے ، وہ مہیمن ہے ، وہ شکور ہے ، وہ غفور ہے ، وہ رب ہے وہ رحمن ہے وہ رحیم ہے ، وہ مالک یوم الدین ہے ۔ قیامت کے دن جب حقیقت کھلے گی او روہ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا تو اسے رحمانیت کے بڑے وسیع معنے معلوم ہوں گے ۔ رحیمیت کے بڑے وسیع معنے معلوم ہوں گے ۔ مالک یوم الدین کے بڑے وسیع معنے معلوم ہونگے اسی طرح خدا تعالیٰ کی باقی تمام صفات کے اُسے بڑے وسیع معنے معلوم ہوں گے لیکن اس کے باوجود وہ خوش ہوگا کہ میں نے صحیح راستہ اختیار کیا تھا۔ جیسے کوئی شخص دور سے سبزہ دیکھتا ہے تو اس کی او ر کیفیت ہوتی ہے ۔ اور جب قریب آکر دیکھتاہے تو اس کی اور کیفیت ہوتی ہے ۔کیونکہ اس وقت اسے ہر چیز نظر آنے لگ جاتی ہے لیکن باوجود اس کے کہ اس کی کیفیات میں فرق ہوتاہے سبزہ کے قریب پہنچ کر اس کی خوشی بڑھ جاتی ہے کم نہیں ہوتی لیکن ایک اور شخص ایسا ہوتاہے جو دور سے اژدہا دیکھتا ہے اور نظر کی کمزوری کی وجہ سے خیال کرتا ہے کہ وہ کوئی ٹیلہ ہے اور اس کی طرف بڑھنا شروع کردیتاہے تاکہ رات کے وقت وہاں قیام کرے اور شیر اور چیتے کے حملہ سے محفوظ رہے لیکن جب وہ اس کے قریب پہنچتاہے تو دیکھتاہے کہ وہ ٹیلہ نہیںبلکہ اژدہا ہے اور اس کا دل حست سے لبریز ہوجاتاہے ۔ اسی طرح قیامت کے دن جب کفار پر حقیقت کھلی گی تو وہ حسر ت کے ساتھ کہیں گے کہ یہ کیا نکلا؟ ہم تو کچھ اور ہی سمجھ رہے تھے ۔
لٰکن… اس کے یہ معنے نہیں کہ اسمع… کے بعد ضلالت ملتی ہے ۔ کیونکہ جب آنکھیں کھل جائیں اور کان کھل جائیں تو اس کے بعد ہدایت ملتی ہے ضلالت نہیں ملتی ۔ مطلب یہ ہے کہ انہیں پتہ تو تو لگ جائے گا کہ جو کچھ وہ مان رہے تھے وہ بالکل غلط تھا مگر اس وقت وہی چیز انسان کا کام آسکتی ہے جس کو پہلے مانتاہو ۔ وہ عقیدہ کام نہیں آسکتا جو اس پرروزا انسان پر روشن ہوا ہو ۔ ایک عیسائی جسے خدائے واحد نظر آجائے گا اس کے دیکھنے سے وہ شرک سے پاک نہیں ہوجائے گا اگر وہ پاک ہو جاتا تو دوزخ میں کیوں جاتاپس اس کے یہ معنے نہیں ۔کہ اس دن ان کو گمراہی ملے گی بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اس دن اُن کو گمراہی کا علم حاصل ہوگا ۔
آیت نمبر ۴۰‘۴۱ترجمہ :۔
اور اُن کو اس دن سے ڈرا جس دن (افسوس اور )مایوسی چھائی ہوئی ہوگی (یعنی قیامت کے دن سے ) جب سب معاملات کا فیصلہ ہوجائیگا اور (اب تو )یہ لوگ غفلت میں (پڑے ہوئے) ہیں او ایمان نہیں لاتے ۔ ہم یقینا ساری زمین کے بھی وارث ہونگے اور ان لوگوں کے بھی جو اس پر رہتے ہیں اور (آخر کار )سب لوگ ہماری طرف ہی لوٹاکر لائے جائیں گے ۔ ۳۲؎۔‘۳۳؎
۳۲؎‘۳۳؎ تفسیر:۔
’’حسرت کادن ‘‘اس لئے کہا کہ اس روز حقیقت کھل جائے گی مگر چونکہ ان کے دلوں میں ایمان نہیں ہوگا اور سامنے کچھ اور نظر آرہا ہوگا اس لئے انہیںاپنے عقائد کی غلطی معلوم کر کے افسوس ہوگا اذقضی…جس دن حقیقت کے مطابق فیصلہ کردیا جائے گا یا جس دن امر الٰہی کا اعلان سچائی کی تائید میں ہوگا جھو ٹ کی تائید میں نہیں ۔پس جب اعلان ہوگا تو ان کے دلوں میں حسرت ہوگی کہ کاش ہم اس سے پہلے ایمان لا چکے ہوتے۔ وھم… مگر تمام حقائق کو سمجھ لینے کے باوجود پھر بھی وہ غفلت میں مبتلا رہیں گے اور ایمان لانے کے لئے اپنے قدم نہیں بڑھائیں گے ۔
یہاں سے یہ ایک عجیب حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ صداقت کو دیکھ کر بھی دل کبھی یکدم نہیں بدلا کرتے ۔ اسمع …میں بتایا تھا کہ وہ دیکھ بھی رہے ہوں گے اور وہ سن بھی رہے ہوں گے اور پھر یوم یاتو ن … وہ ہمارے پاس بھی پہنچ چکے ہونگے لیکن وھم … پھر بھی بوجہ سابق کفر اور بداعمالیوں کے ان کا دل اتنا ملوث ہوگا کہ حقیقت کو دیکھنے کے باوجود اس کے اندر صفائی پیدا نہیں ہوگی اور وہ دوزخ میں داخل کئے جائیں گے جس کے معنے یہ ہیں کہ حقیقت کھل جانے کے بعد بھی بوجہ اپنی پرانی عادت کے انسان اپنے طریق کو نہیں چھوڑ سکتا اور پھر بھی اسے تاریکی اور ظلمت ہی پسند آتی ہے چنانچہ دیکھ لو ہر قسم کے نشانات دیکھنے کے باوجود کفار پھر بھی اعراض ہی کرتے رہتے ہیں ان کے دلوں میں اتنی صفائی پیدا نہیں ہوتی کہ خدا تعالیٰ کا نو ر ان میں جذب ہوسکے ۔ وہ نشانات دیکھتے ہیں مگر پھر بھی ہدایت سے دور رہتے ہیں ۔
گذشتہ آیات میں عیسائیوں کا ذکر کرکے بتایا گیا تھا کہ ایک دن ان پر حقیقت کھل جائے گی اور انہیں پتہ لگ جائے گا کہ خدا تعا لیٰ ہمارے ساتھ نہیں بلکہ کسی اور دین کے ساتھ ہے لیکن باوجود اس علم کے وہ سچائی کو قبول کرنے سے اعراض کریں گے اب فرماتاہے کہ انا…… ان لوگوں کو انسانوں اور مالوں پر حکومت حاصل ہوگی لیکن فیصلہ کے دن انسانوں اور مالوں کی بادشاہت مومنوں اور سچائی پر قائم ہونے والوں کو دے دی جائے گی اور ان لوگوں سے چھین لی جائے گی گویا اس میں اسلام اور احمدیت کی ترقی کی طرف بھی اشارہ ہے اور اس طرف بھی کہ عیسائیت کا اس وقت ساری دنیا پر غلبہ ہوگا جس وقت یہ آیات نازل ہوئی ہیں اس وقت عیسائیت کے پاس بے شک حکومت تھی مگر ان کی حکومت بہت ہی محدود تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ایک زمانہ میں ساری دنیا کی حکومت ان سے چھین لی جائے گی جس کے معنے یہ ہیں کہ پہلے ساری دنیا کی حکومت ان کے





قبضہ میں چلی جائے گی اور پھر وہ حکومت ان سے چھینی جائے گی کیونکہ کوئی چیزتبھی چھینی جاسکتی ہے جب وہ دوسرے کے پاس موجود ہو ۔ پس یہ کہنا کہ دنیا کی حکومت ان سے چھین لی جائے گی اس میں دو پیشگوئیاں پائی جاتی تھیں ۔ ایک یہ کہ ساری دنیا کی حکومت ان کو ملے گی اور دوسری یہ کہ دنیا کی حکومت ان سے چھین لی جائے گی ۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ہم کسی غریب آدمی کے متعلق کہیںکہ ایک سال کے بعد ہم ایک کروڑ روپیہ اس سے چھین لیں گے۔ اب اس فقرہ میں یہ بھی مفہوم پایا جاتاہے کہ ایک کروڑ روپیہ اس غریب آدمی کے قبضہ میں آجائے گا اور یہ بھی کہ وہ کروڑ روپیہ اس سے چھین لیا جائے گا ۔اسی طرح انانحن نرث الارض میں بھی دوپیشگوئیاں کی گئی ہیں ایک یہ کہ عیسائی ایک زمانہ میں ساری دنیا پر چھا جائیں گے اور ساری دنیا کے وارث ہو جائیں گے اور تمام بنی نوع انسان ان کے ماتحت ہوجائیں گے اور پھر یہ کہ ہم ہی اس کے وارث ہوجائیں گے یعنی ہم وہ زمین ان سے چھین لیں گے اور اپنے نیک بندوں کو دے دیں گے ۔ ومن علیھا اور پھر زمین پر جتنے لوگ ہوں گے ان کے بھی ہم ہی وارث ہوجائیںگے یعنی نہ صرف عیسائی اس وقت دنیا کے بادشاہ ہوں گے بلکہ لوگ بھی کثرت کے ساتھ عیسائی ہوجائیںگے ۔ انانحن نرث الارض میں بتایا کہ انہیں دنیوی شان و شوکت حاصل ہوگی اور من علیھا میں بتایا کہ تعداد کبھی ان کی زیادہ ہوگی چنانچہ اس کے بعد امریکہ دریافت ہوا جو عیسائیوں کے قبضہ میں ہے ۔ اب اگر امریکہ چھینا جائے تو عیسائیوں سے ہی چھنیا جائے گا کیونکہ وہاں ان ہی کا غلبہ ہے اگر فلپائن چھینا جائے تو عیسائیوں سے ہی چھینا جائے۔ اگر چین کے بہت سے علاقے چھینے جائیں تو عیسائیوں سے ہی چھینے جائیں گے ۔کیونکہ وہاں کئی کروڑ عیسائی پائے جاتے ہیں اگر آسٹریلیا چھینا جائے تو عیسائیوں سے ہی چھینا جائے گا اگر یورپ چھینا جائے تو عیسائیوںسے ہی چھینا جائے گا اگر افریقہ چھینا جائے تو چونکہ اس کا اکثر حصہ عیسائی ہے اس لئے وہ بھی عیسائیوں سے ہی چھینا جائے گا اگر جزائر چھینے جائیں تو عیسائیوں سے ہی چھینے جائیں گے ۔ غرض فرمایا انانحن نرث الارض ہم وارث ہوجائیں گے زمین کے بھی اور ان کے بھی جو اس زمین پر رہتے ہیں اور ان کو اپنی ماتحتی میں لے آئیں گے ۔ ماتحتی کے معنے یہ ہیں کہ وہ لوگ خدائے واحد کی بادشاہت کو قبول کرلیں گے ۔ پہلی آیت میں بتایا تھا کہ عیسائیت بحیثیت قوم ایمان نہیں لائے گی۔ اب بتاتاہے کہ عیسائیت تو قیامت تک باقی رہے گی لیکن جہاں تک اکثریت کا سوال ہے زمین بھی ان سے چھین لی جائے گی اور ان کی اکثریت بھی ان سے چھین لی جائے گی اور زمین خداکی ہوجائے گی یعنی ان لوگوں کی ہوجائے گی جو خدائے واحد کے پرستار ہیں اور روئے زمین کے تمام لوگ بھی موحدین کے ماتحت آجائیں گے ۔ گویا اس میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ احمدیت دنیا کے اکثر افراد کو اپنے اندر جذب کرلے گی اور عیسائیت اس کے مقابلہ میں شکست کھا جائے گی ۔
والینایرجعون اور عیسائی لوگ جو آج خدائے واحد سے منہ پھیرے بیٹھے ہیں اور ایک خدا کے بندے کی پرستش کررہے ہیں مسیح ؑ کے گرد ٹھوکریں کھانے کے بعد آخر خدا کی طرف لوٹائے جائیںگے یعنی ان میں تبلیغ اسلام کی جائے گی اور وہ اسلام کو قبول کرکے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی طرف لوٹیں گے اور شرک کو چھوڑ کر خداتعالیٰ کی توحید کے قائل ہوجائیں گے ۔

اور تو قرآن کریم کے رو سے ابراہیم کا ذکر کر ۔ وہ یقینا بڑا راستباز تھااور نبی تھا۔
تفسیر :
یوں تو الکتاب ایک عام لفظ ہے جو کسی جگہ قرآن کریم کے لئے استعمال ہوا ہے اور کسی جگہ بائبل کے لئے مگر اس جگہ الکتاب سے مراد قرآن کریم ہی ہے اور اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تو قرآن کریم کے رو سے ابراہیم کا ذکر کر یعنی تو ابراہیم کو اس شکل میں پیش کر جو قرآن کریم میںبیان کی گئی ہے ۔ نہ کہ اس شکل میں جو بائبل میں بیان کی گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بائبل میں ابراہیم کو صدیق نہیں بتایا گیا بلکہ اس کی طرف یہ جھوٹ منسوب کیا گیا ہے کہ اس نے بادشاہ سے ڈر کر اپنی بیوی کو بہن کہہ دیا ۔ چنانچہ اس بارہ میں بائبل کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’ابراہام وہاں سے جنوب کے ملک کی طرف چلا اور فارس اور شور کے درمیان ٹھہر ا اور جرار میں قیام کیا اور ابراہام نے اپنی بیوی سارہ کے حق میں کہا کہ وہ میری بہن ہے اور جرار کے بادشاہ ابی ملک نے سارہ کو بلوالیا لیکن رات کو خدا ابی ملک کے پاس خواب میں آیا اور اس سے کہا کہ دیکھ تو اس عورت کے سبب سے جسے تو نے لیاہے ہلاک ہوگا کیونکہ وہ شوہر والی ہے ۔ پر ابی ملک نے اس سے صحبت نہیں کی تھی سو اس نے کہا اے خداوند کیا تو صادق قوم کو بھی مارے گا ۔ کیا اس نے خود مجھ سے نہیںکہا کہ یہ میری بہن ہے اور وہ آپ بھی یہی کہتی تھی کہ وہ میرا بھائی ہے ۔ میں نے تو اپنے سچے دل اور پاکیزہ ہاتھوں سے یہ کیااور خدا نے اسے خواب میں کہاں ہاں میں جانتا ہوں کہ تو نے اپنے سچے دل سے یہ کیا اور میں نے بھی تجھے روکا کہ تو میرا گناہ نہ کرے اسی لئے میں نے تجھے اس کو چھونے نہ دیا ۔ اب تو اس مرد کی بیوی کو واپس کردے کیونکہ وہ نبی ہے اور وہ تیرے لئے دعاکرے گا او رتو جیتارہے گا ۔ پر اگر تو اسے واپس نہ کرے تو جان لے کہ تو بھی اور جتنے تیر ے ہیں سب ضرور ہلاک ہوں گے ۔ تب ابی ملک نے صبح سویرے اٹھ کر اپنے سب نوکروں کو بلایا اور ان کو یہ سب باتیں کہہ سنائیں تب وہ لوگ بہت ڈرگئے اور ابی ملک نے ابراہام کو بلاکر اس سے کہا کہ تو نے ہم سے یہ کیاکِیا اور مجھ سے تیرا کیا قصو ر ہوا کہ تو مجھ پر اور میری بادشاہی پر ایک گناہ عظیم لایا ۔ تو نے مجھ سے وہ کام کئے جن کا کرنا مناسب نہ تھا ابی ملک نے ابراہام سے یہ بھی کہا کہ تو نے کیا سمجھ کر یہ بات کی ۔ ابراہام نے کہا کہ میرا خیال تھا کہ خدا کا خوف تو اس کو ہرگز نہ ہوگا اور وہ مجھے میری بیوی کے سبب سے مارڈالیںگے اور فی الحقیقت وہ میری بہن بھی ہے کیونکہ وہ میر ے با پ کی بیٹی ہے اگرچہ میری ماں کی بیٹی نہیں پھر وہ میری بیوی ہوئی اور جب خدانے میرے باپ کے گھر سے مجھے آوارہ کیا تو میں نے اس سے کہا کہ مجھ پر یہ تیری مہربانی ہوگی کہ جہاں کہیں ہم جائیں تو میرے حق میں یہی کہنا کہ یہ میرا بھائی ہے ۔‘‘ (پیدائش باب ۲۰آیت ۱تا ۱۳)
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ بائبل ابراہیم کو جھوٹا قرار دیتی ہے ۔ پس چونکہ بائبل میں ابراہیم کو صدیق نہیں بتایا گیا بلکہ اس کی طرف یہ جھوٹ منسوب کیا گیاہے کہ اس نے بادشاہ سے ڈرکر اپنی بیوی کو بہن کہا اور اپنی بیوی سے بھی یہی کہاکہ تو مجھے اپنا بھا ئی کہنا اس لئے فرماتاہے کہ تو ابراہیم کو اس شکل میں پیش کر جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے نہ کہ اس شکل میں جو بائبل میں بیان کی گئی ہے ۔ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ یہ بیان بالکل غلط ہے انہ کان صدیقانبیا ابراہیم صدیق بھی تھا او نبی بھی تھا ۔
صدیق کے کئی معنے ہوتے ہیں ۔ ایک معنے صدیق کے یہ ہیں کہ من کثر منہ الصدق جو شخص زیادہ سچ بولے ۔کبھی کبھار بے احتیاطی ہوجائے تو اور بات ہے ورنہ اپنی طرف سے وہ سچ بولنے کی کوشش کرے ۔
دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ من لایکذب قط جس کے منہ سے کسی صورت میں بھی جھوٹ نہ نکلے گویا وہ بہت زیادہ احتیاط سے اپنی زبان سے الفاظ نکالنے کا عادی ہو اور غلطی سے بھی جھوٹ نہ بولتا ہو ۔
تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ من لا یتاتی منہ الکذب لتصورہ و الصدق جو شخص سچ کا اتنا عادی ہو کہ جھوٹ اس کے منہ سے نکل ہی نہ سکے تویا دوسرے معنے تو یہ تھے کہ وہ جھوٹ بول ہی نہیں سکتا۔ سچائی اس کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے ۔
چوتھے معنے اس کے یہ ہیں کہ من صدق بقولہ واعتقادہ و حقق صدقہ بفعلہ جو شخص اپنے قول اور اعتقاد سے دونوں باتوں میں سچائی بیان کرے یعنی اس کی بات بھی سچی ہو او اس کا عقیدہ بھی سچاہو ۔ مثلاًایک عیسائی دیکھتاہے کہ اس کے بیٹے نے زید کو مارڈالا ہے۔ مقدمہ عدالت میں پیش ہوتاہے اور اسے گواہی کے لئے بلایا جاتاہے وہ کہتاہے کہ واقعہ میں میرے بیٹے نے اس شخص کو ماراتھا ۔ وہ اپنے بیٹے کی جان کی پروا ہ نہیں کرتا اور سچ بولتاہے ۔ اب ایسے شخص کو ہم صادق تو کہیں گے لیکن اسے صدیق نہیں کہیں گے ۔ کیونکہ صدیق میں یہ شرط ہے کہ من صدق بقولہ واعتقادہ وہ اپنے قول میں بھی سچاہو اور اپنے اعتقاد میں بھی سچاہو ۔ اس نے بے شک سچ بولا مگر اعتقادی لحاظ سے وہ سچائی پر قائم نہیں تھاپس وہ صادق تو ہے مگر صدیق نہیں وحقق صدقہ بفعلہ اور پھر اس کا عمل بھی اس کی قولی او ر اعتقادی سچائی کی تائید کررہاہو ۔ یہ گویا کمال صدیقت ہوتاہے ۔
پھر لکھا ہے الصدیقون ھم قوم دوین الانبیاء فی الفضیلۃ یعنی اللہ تعالیٰ کے انعامات جو انبیاء کو حاصل ہوتے ہیں وہ ان سے نیچے اتر کر صدیقین کو حاصل ہوئے ہیں۔(مفردات)
چونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کی نسبت یہ لفظ بولا ہے اس لئے لازماًہمیں اس کے وہی معنے کرنے پڑیں گے جو شان ابراہیمی کے مطابق ہوں اور وہ تیسرے اور چوتھے معنے ہی ہوسکتے ہیں یعنی سچ کی اسے اتنی عادت تھی کہ وہ جھوٹ بول ہی نہیں سکتاتھا ۔ سچ اس کی فطرت ثانیہ بن چکا تھا ۔ وہ ایسا راستباز تھا کہ اس کی بات بھی سچی تھی اس کا اعتقاد بھی سچا تھا اور اس کا عمل بھی سچا تھا ۔
اس جگہ ایک اور سوال بھی پیدا ہوتاہے جس کا حل کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ صدیق نچلا درجہ ہے اور نبوت اس سے بڑا مقام ہے ۔جب کسی شخص کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ نبی ہے تو صدیقیت کے معنے اجمالی طور پر اسی میں آجاتے ہیں ۔ پھر خداتعالیٰ نے حضر ت ابرہیم کو صدیقاًنبیاً کیوں کہا ۔ کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ صدیق ہوکر نبی ہوگیا یا وہ صدیق اور نبی ایک وقت میں تھا ؟
اس کے متعلق یہ امر یاد رکھناچاہئے کہ نہ صرف صدیق کا لفظ بلکہ درحقیقت تمام صفات حسنہ اپنے اندار دو معنے اور دواستعمال رکھتی ہیں ۔ ایک استعمال بطورِ صفت کے ہوتاہے ایک استعمال بطور درجہ کے ہوتاہے ۔ مثلاًجب ہم کسی شخص کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ کاذب ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ جھوٹ اور کذب بیانی کی صفت اس میں پائی جاتی ہے ۔لیکن کبھی کاذب کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس شخص نے جھوٹ اور کذب بیانی کی اتنی عادت ڈال لی ہے کہ کاذب اس کا ایک درجہ اور مقام ہوگیا ہے ۔ غرض جتنے بھی صفاتی الفاظ آتے ہیں وہ سب دو رنگ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کبھی وہ صفاتی الفاظ صدور فعل پر دلالت کرتے ہیں اور کبھی حصول مقام پر دلالت کرتے ہیں ۔کبھی ایساہوتاہے کہ ایک دفعہ بھی فعل صادر ہوجائے تو وہ لفظ اس شخص کی طرف منسوب کردیا جاتاہے اور کبھی ان معنوں میں استعمال ہوتاہے کہ یہ چیز اسے مقام کے طور پر حاصل ہے یا وہ اس چیز کا اتنا عادی ہوچکا ہے کہ یہ اس کی حیثیت ذاتیہ بن گئی ہے ۔ جب اس قسم کے الفاظ صفات کے طور پر استعمال ہوں تو ہر بڑے درجہ کے لئے چھوٹا درجہ استعمال ہوسکتاہے ۔ مثلاً ہر نبی مومن بھی ہے ۔ خود رسول کریم ﷺ کے متعلق قرآن کریم میں آتاہے کہ امرت ان اکون من المؤمنین (یونس ) مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ رسول کریم ﷺ کا درجہ اور مقام مومن کا تھا ۔پس صالح ، شہید اور صدیق کے الفاظ بطور صفات بھی استعمال ہوتے ہیں اور بطور درجہ بھی ۔ جب صفات کے طور پر استعمال ہوں تو ہر بڑے درجہ کے لئے چھوٹادرجہ استعمال ہوسکتاہے مثلاًہر شہید صالح ہے ،ہر صدیق صالح اور شہید ہے اور ہر نبی صدیق ، شہید اور صالح ہے لیکن جب درجہ کے معنوں میں استعمال ہو تو پھر ہر لفظ اپنے درجہ کے لئے بولا جائے گا دوسرے کے لئے نہیں کیونکہ درجہ کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ یہی خصوصیت مسلمہ اس میں پائی جاتی ہے ۔ مثلا ً جب کوئی شخص صدیق کے درجہ کو حاصل کرتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے صدیقیت کا درجہ حاصل کرلیا ہے ۔ ایسی صورت میںشہید کا لفظ اس کے ساتھ درجہ اور مقام کے بیان کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا ۔ یا نبی کی اہم حیثیت چونکہ نبوت کی ہوتی ہے اور یہ اس کا مقام ہوتاہے اس لئے جب اس کے مقام کااظہا ر کیاجائے گا تو صرف نبی کا لفظ استعمال کیا جائے گانبی کے ساتھ صدیق کا لفظ استعمال نہیں کیا جائے گا کیونکہ نبوت کا درجہ صدیقیت کے مقام پر مشتمل ہوتاہے ۔ پس جب کسی بڑے درجہ کے ساتھ چھوٹا درجہ استعمال کیا جائے تو وہ درجہ اور مقام کے بیا ن کرنے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ صفت بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ اس جگہ بھی صدیق کا لفظ صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ مقام صدیقیت حاصل کرنے والا تھا ۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ ہمارا نبی تھا جس کی صفات میں سے ایک اہم صفت یہ تھی کہ وہ سچ بولنے میں اپنے زمانہ میں بے نظیر تھا ۔ پس یہاں صدیق سے مراد درجہ نہیں بلکہ راستبازی کا اعلیٰ نمونہ مراد ہے ۔
ابراہیم ؑکون شخص تھا اور کیوں یہاں ابراہیم ؑ کا ذکر کیا گیا ؟ یہ ایک سوال ہے جو طبعی طور پر پیدا ہوتاہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس سورۃ میں پہلے زکریا ؑ کا ذکر کیا گیا ۔ پھر یحییٰ کا ذکر کیا گیا ۔ پھر مسیح کا ذکر کیا گیا اور مسیح ؑ کے بعد اب ابراہیم کا ذکر شروع کردیا ہے ۔ ابراہیم ؑ کے بعد اسحاق ؑ یعقوب ؑ اور موسیٰ کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر اسمٰعیل کا ذکر کیا گیا ہے ۔ عیسائی کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے ان انبیا ء کا آگے پیچھے ذکر اس لئے کیا ہے کہ انہیں پتہ نہیں تھا کہ پہلے کون نبی ہوا ہے او ربعد میں کون نبی آیا تھا ۔ چنانچہ اسی لئے انہوں نے مسیح ؑ کے بعد ابراہیم کا ذکر کردیا ۔ حالانکہ حضرت ابراہیم ؑ بہت پہلے گذرے تھے اور موسیٰ کے بعد اسمٰعیل ؑ کا ذکر کردیا حالانکہ موسیٰ بعد میں ہوئے ہیں او راسماعیل پہلے گذرچکے تھے ۔ پس ان کے نزدیک اس آگے پیچھے ذکر کی وجہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کو علم نہیں تھا کہ کونسا نبی پہلے گذراہے اور کونسا نبی بعد میں آیا ہے ۔ حالانکہ جس ترتیب سے انبیاء گذرے ہیں قرآن کریم نے اس ترتیب کے ساتھ ہی ان کو بیان کیا ہے جس سے پتہ لگتاہے کہ قرآن کریم کو نبیوں کی تاریخ کا علم تھا بلکہ خود بعض یورپین مصنفین نے لکھا ہے کہ یہ کہنا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو علم نہیں تھا کہ انبیاء کس ترتیب سے آئے ہیں غلط ہے ۔ قرآن کریم نے اس ترتیب سے بھی انبیاء کا ذکر کیا ہے جس ترتیب کے ساتھ وہ آئے ہیں ۔ پس اگر کسی جگہ قرآن کریم نے اس ترتیب سے اختلاف کیا ہے تو وہ کہتے ہیںکہ اس کی کوئی اور وجہ ہوگی گویا عیسائیوں کے اعتراض کو انہوں نے خود ہی ردکردیا ہے اور کہا ہے کہ جہاں قرآن کریم انبیاء کا تاریخی طور پر ذکر کرتاہے وہاں اسی ترتیب سے ذکر کرتاہے جس ترتیب سے وہ دنیا میں آئے ہیں اور جہاں اس نے آگے پیچھے ذکر کیا ہے وہاں اس کا کوئی اور مقصد ہوگا ۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو نبیوںکی تاریخ کا علم نہیںتھا ۔
میرے نزدیک حضرت مسیح ؑکے ذکر کے بعد حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مسیحیت اپنے آپ کو شاخ قرار دیتی ہے موسویت کی اور موسویت اپنے آپ کو کڑی قراردیتی ہے ابراہیمی سلسلہ کی گویا مسیح ؑکا تعلق آخر ابراہیم ؑ سے جاکر ثابت ہوتاہے اور یہی بات ہمیں انجیل بتاتی ہے ۔ چنانچہ انجیل میں کہیں ابراہیمی تخت کا حضرت مسیح کو وارث بتایاگیا ہے اور کہیں دائو دی تخت کا اس کو وارث بتایا گیاہے پس مسیح ؑ کی صداقت جب بھی زیر بحث آئے گی ابراہیم کا ذکر ضرور کیا جائے گا کیونکہ جب مسیحیت ابراہیمی سلسلہ کی ایک شاخ ہے اور جڑیہ ثابت کرتی ہو کہ خدا ایک ہے اور شاخ یہ کہتی ہو کہ خدا دو یا تین ہیں تو لازماًہمیں ماننا پڑے گا کہ شاخ جو کچھ کہہ رہی ہے وہ غلط ہے ۔ جب بانی سلسلہ موسویہ یا بانی سلسلہ اسرائیلی شرک کا دشمن تھا تو اس کی نسل کا ایک فردشرک کو قائم کرنے والا کس طرح ہو سکتاہے ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے زکریا کا زکر کیا جو یحییٰ کا والد تھے ۔ پھر یحییٰ کا ذکر کیا جو مسیح ؑ کے لئے ارہاص کے طور پر آئے تھے ۔ پھر مسیح کا ذکر کیا اور اس بات کے دلائل دئیے کہ وہ ہمارا موحد بندہ تھا ۔ اس نے شرک کی تعلیم نہیں دی بلکہ ہمیشہ خدائے واحد کی پرستش کی تاکید کی ہے ۔ اب فرماتاہے ہم تمہارے سامنے ایک اور دلیل پیش کرتے ہیں ۔ تم کہتے ہو کہ مسیح کے اندر خدائی پائی جاتی تھی اور مسیح دنیا کا آخری نجات دہندہ تھا ، اس کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ہم تمہیں ابراہیم کی طرف لے چلتے ہیں اور تمہیں بتاتے ہیںکہ وہ ایک خد امانتاتھا اور شرک کا شدید ترین دشمن تھا اور تم سمجھ سکتے ہو کہ جب جڑ ایک بات کا انکا ر کرتی ہو تو شاخ کس طرح کہہ سکتی ہے کہ میرے اندر وہ بات پائی جاتی ہے ۔ پس یہ ایک طبعی ترتیب ہے جس کے ماتحت خد اتعالیٰ نے مسیح کا ذکر کر نے کے بعد ابراہیم کا ذکر کیا اور عیسائی قوم کو اس طرف تو جہ دلائی کہ تم سوچو کہ ابراہیم کیا کہتاہے ابراہیم کاکام بائبل میں دیکھو اس نے جو تعلیم دی ہے اس کو پڑھو اور پھرغور کرو کہ وہ باتیں جو تم کہتے ہوکہ مسیح نے کہی ہیں کیا وہ ابراہیم کی باتوں سے ملتی ہیں یا وہ اس کے خلاف ہیں ۔ اگر وہ اس کے خلاف ہیں تو معلوم ہوا کہ وہی باتیں مسیح کے متعلق سچ ہیں جو ہم مسیح کے متعلق کہتے ہیں ۔ پس مسیح کے بعد ابراہیم کا ذکر قابل اعتراض نہیں بلکہ طبعی ترتیب یہی تھی کہ ابراہیم کاذکر کیا جاتا اور یہ ترتیب د و وجوہ سے اختیا رکی گئی ہے ۔
اول یہ بتانے کے لئے کہ بانی سلسلہ موسویہ یا اسرائیلی شرک کا دشمن تھا ۔ پھر اس کی نسل کا ایک فرد شر ک کا قائم کرنے والا کس طرح ہوسکتاہے ۔
دوم یہ بتانے کیلئے کہ ابراہیم نے دو بیٹوں کے متعلق خبر دی تھی ایک اسحاق کی جس میں سے موسیٰ نے سلسلہ کی بنیاد رکھی دوسرے اسماعیل کی ۔ موسوی سلسلہ کو کبھی ختم ہونا چاہئے تھاتاکہ اسماعیلی سلسلہ کے وعدے شروع ہوتے ۔پس مسیح کی آمد سے جو بغیر باپ کے تھا اسرائیلی سلسلہ ختم ہوا تاکہ اسماعیلی سلسلہ شروع ہو ۔ اسی وجہ سے اس سورۃ میں پہلے زکریا کا ذکر کیا جو مسیح کے لئے بطو ارہاص آنے والے وجود کے والد تھے ۔پھر حضرت یحییٰ کا ذکر کیا کیونکہ وہ مسیح کے لئے بطور ارہاص آئے تھے ۔ پھر مسیح کا ذکر کیا اور اس بات کے دلائل دئیے کہ وہ خدا تعالیٰ کی توحید کے قائل تھے ۔ اس کے بعد ابراہیم کا ذکر کیا اور بتایا کہ جب مسیحیت ایک شاخ ہے ابراہیمی سلسلہ کا تو تم سوچو کہ کیا یہ شرک کی تعلیم جڑمیں بھی پائی جاتی تھی یا نہیں ۔ جب ابراہیم جس کی تم ایک شاخ ہو موحد تھا تو اس کی نسل کا ایک فردشرک کو قائم کرنے والا کس طرح ہوگیا ۔ اس کے بعد اسحاق اور یعقوب اور موسیٰ کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ وعدے جو اسحاق کے ساتھ کئے گئے تھے پورے ہوگئے اور تمہارا سلسلہ ختم ہوگیا اب ہم تمہیں ان وعدوں کی طر ف توجہ دلاتے ہیں جو ابراہیم کے دوسرے بیٹے اسماعیل کے متعلق کئے گئے تھے اور تمہیں بتاتے ہیں کہ انہی وعدوں کے مطابق اسماعیل کی نسل میں سے محمد رسول اللہ ﷺ آگئے ہیں ۔ پھر تمہیں ان پر کیا اعتراض ہے ۔اگر اوپر کا مضمون مد نظر نہ ہوتا تو اس ترتیب کا کوئی مفہوم نہ تھا کیونکہ مسیح کے بعد ابراہیم نہ تھے اور موسیٰ کے بعد اسماعیل نہ تھے ۔ پس مسیح کے بعد ابراہیم پھر موسیٰ اور پھر اسماعیل کی طرف چلے جانا صاف بتاتاہے کہ اس جگہ وہی مضمون مراد ہے جو میں نے بیان کیا ہے دوسر اکوئی مضمون اس جگہ مراد نہیں ۔ انبیاء کی ترتیب کے بارہ میں یہ وہ علم ہے جوخد اتعالیٰ نے صر ف مجھے ہی عطافرمایا ہے چنانچہ تیرہ سو سال میں جس قدر تفاسیر لکھی گئی ہیں ان میں سے کسی تفسیر میں بھی یہ مضمون بیان نہیں کیا گیا اور کوئی نہیں بتا تا کہ نبیوں کا ذکر کرتے وقت یہ عجیب ترتیب کیوں اختیار کی گئی ہے ۔ صر ف مجھ پر خدا تعالیٰ نے اس نکتہ کو کھولا ہے جس سے اس ترتیب کی حکمت اور اہمیت بالکل واضح ہوجاتی ہے ۔
بائبل میں حضرت ابراہیم ؑ کا نام ابرام آتاہے اور لکھا ہے کہ
’’جب ابرام ننانوے برس کا ہو اتب خدا وند ابرام کو نظر آیا اور اس سے کہا کہ میں خدائے قادر ہوں تو میرے حضور میں چل اور کامل ہو او ر میں اپنے اور تیرے درمیان عہد کرتاہوں کہ میں تجھے نہایت بڑھائوں گا ۔ تب ابرام منہ کے بل گرااور خدااس سے ہمکلام ہو کر بولا کہ دیکھ میں جو ہوں میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہوگا اور تیرا نام پھر ابرام نہ کہلایا جائے گا بلکہ تیرا نام پھر ابراہام ہوگا کیونکہ میں نے تجھے بہت قوموں کاباپ ٹھہرایا ہے ‘‘ (پیدائش باب ۱۷آیت ۱تا ۷)
انسا ئیکلوپیڈیا ببلیکا میں لکھا ہے کہ ابرہام کے کوئی معنے نہیں ۔صرف ضلع جگت کے طور پر ابرام کو ابرہام کہہ دیا گیاہے ۔ ضلع جگت کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ایک لفظ سنکر اسی کے مشابہ کوئی اور لفظ اس سے نکال لیاجائے مثلاً تاش کا ایک پتہ اینٹ ہوتاہے اور ایک پتے کانام پان ہوتاہے ۔ فرض کر و دوشخص آپس میں تاش کھیل رہے ہیں اور ایک نے اینٹ کا پتہ پھینکا ہے دوسراکہتاہے ’’گلوری کھائیں گے ‘‘اور یہ کہہ کر وہ پان کا پتہ پھینک دیتاہے ۔ اس کو ضلع جُگت کہیں گے یعنی لفظ سے لفظ کی طرف اشارہ کیا یعنی وہ پان کے پتہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اسی کے مشابہ ایک اور لفظ اس سے نکال لیتاہے اور کہتاہے ’’گلوری کھائیں گے ‘‘ ۔ اسی طرح انسا ئیکلو پیڈیا ببلیکا والا لکھتا ہے کہ ابرام سے ابراہام بھی ضلع جگت کے طور پر کردیا گیاہے ۔ پہلے ابرام نام تھا پھر کہہ دیا کہ اب چونکہ تو بڑا ہوگیاہے اس لئے تو ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہوگا ورنہ اس کے معنے کوئی نہیں مگر یہ درست نہیں حقیقت یہ ہے کہ عربی اور عبرانی زبانیں آپس میں بہت حد تک ملتی ہیں۔ صرف فرق یہ ہے کہ عبرانی زبان کئی سوسال تک بولی نہیں گئی اور بوجہ اس کے کہ وہ بولی نہیں گئی لوگ اس زبان کی باریکیاں بھول گئے ہیں لیکن عربی زبان ہمیشہ بولی جا رہی ہے اور اس وجہ سے عربی زبان کے الفاظ کی باریکیاں بھی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ اگر لوگ عبرانی کو نہ بھولتے تو انہیں معلوم ہوتاکہ عبرانی زبان عربی زبان سے ہی نکلی ہوئی ہے یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لوکہ عبرانی زبان عربی کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے مثلا ً حضرت مسیح کایہ فقرہ کہ ایلی ایلی لما سبقتنی ۔ یہ عربی سے کتنا مشابہ ہے سبقتنی عربی زبان کا لفظ ہے جسے عبرانی میں ذرالمبا کرکے سبقتانی بنادیا گیا ہے اور ایل بھی عربی زبان کا ہی لفظ ہے جو خدا کے لئے استعمال ہوتاہے اور لما دراصل لم ہے ۔ پس جبکہ عربی اور عبرانی آپس میں اتنی ملتی ہیں تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ آیا عربی زبان میں بھی اس کے کوئی معنے پائے جاتے ہیں یا نہیں ۔ اس نقطہ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتاہے کہ عربی زبان میں ابرام کے معنے بات کو پکا کرنے کے ہوتے ہیں چنا نچہ ابرم الکلام کے معنے ہوتے ہیں احکمہ اس نے کلام کو خوب پکا کیا اور ابرم علیہ فی الجدال کے معنے ہوتے ہیں الح قاصداافحامہ اس نے بات کو خوب پکا کیا اور نہایت عمدگی سے بحث کی جس میں اس نے غرض یہ رکھی کہ دوسراسمجھ جائے یعنی اس کا مقصد اسکا تِ خصم نہیں تھا بلکہ اسے سمجھانا مراد تھا ۔ پس ابرام کے معنے ہوئے ایسی عمدہ بات کرنے والا اور ایسی اچھی بحث کرنے والا جو دوسرے کو اپنا مافی الضمیر اچھی طرح سمجھادے اور اسے ساکت کردے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے انبیاء کے جو نام رکھے جاتے ہیں وہ ان کی آئندہ زندگی کے کاموں کی طرف اشارہ کرنے والے ہوتے ہیں ۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتاہے کہ نام رکھنے والے مومن نہیں ہوتے جیسے محمد رسول اللہ ﷺ کا نام اللہ تعالیٰ نے نہیں رکھا بلکہ آپ کے دادا نے رکھا اور آپ کی والدہ نے اس نام کو پسند کیا لیکن ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ نے تصرف کیا اور اس نے ان سے وہی نام رکھوایا جو پیشگوئیوں میں موجود تھا ۔ یہی حال دوسرے نبیوں کے ناموں کاہے ۔مثلا ًاسحاق ضحک سے ہے اس میں یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ وہ بڑاہنسوڑ اور خوش مزاج ہوگا۔ چنانچہ بائبل میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ کو حضرت اسحاق کی پیدائش کی خوشخبری دی گئی تو ’’سارہ نے اپنے دل میں ہنس کر کہا کیا اس قدر عمر رسیدہ ہونے پر بھی میرے لئے شادمانی ہوسکتی ہے حالانکہ میرا خاوند بھی ضعیف ہے ‘‘ (پیدائش باب ۱۸آیت ۱۲)
یہ واقعہ بتاتاہے کہ اس نام کا ہنسنے کے ساتھ تعلق ہے لیکن چونکہ بائبل کے لکھنے وا لے لغت کے واقف نہیں تھے انہوں نے اضحاک کی بجائے اضحاق لکھ دیا ۔ لیکن عربی میں وہی معرب کر کے استعمال ہوگیا ۔
اسی طرح اسماعیل سمع سے ہے اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ خدا اس کی دعاکو سنے گا چنانچہ حضرت اسماعیل نے پیر مارے اور چشمہ پھوٹ پڑا ۔ اب بظاہر یہ ویسے ہی نام تھے جیسے اور لوگوں کے نام ہوتے ہیں مگر یہ وہ نام تھے جوالہاماًرکھے گئے اور خاص مقصد اور مدعاکے ماتحت رکھے گئے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کا نام بے شک الہام سے نہیں رکھا گیا ماں باپ نے آپ کانام رکھا تھا مگر ان کی زبانوں پرخدانے تصرف کیا او ر اس نے ان سے وہی نام رکھوایا جس کا پیشگوئیوں میں ذکر آتاتھا ۔ اسی طرح ابراہیم کاباپ یا چچابے شک مشرک تھا مگر جس طرح محمد رسول اللہ ﷺ کا نام الٰہی تصرف کے ماتحت رکھا گیا اسی طرح خداتعالیٰ نے ابراہیم کے باپ کی زبان پر بھی تصرف کیا اور اس نے وہی نام رکھا جو ان کی آئندہ زندگی کا ایک اجمالی نقشہ اپنے اندر رکھتاتھا ۔ حضرت ابراہیم ؑ عراق میں پیدا ہوئے تھے جو عرب کا ایک حصہ ہے اور وہاں عربی زبان ہی بولی جاتی تھی ۔ عبرانی تو عربی سے بگڑکر بنی ہے پس خدانے آپ کانام آپ کے باپ سے ابرام رکھوایا جس میں یہ پیشگوئی مخفی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو بڑی اچھی بحث کرنے کی توفیق دے گا اور صداقت کے اظہار کے لئے یہ اپنے مد قابل کے سامنے اس عمدگی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرے گا کہ وہ ساکت اور لاجواب ہوکر رہ جائے گا ۔ چنانچہ قرآن کریم میں حضرت ابرہیم ؑ کے جو واقعات بتائے گئے ہیں ان سے ابراہیم کی یہ صفت ظاہر ہوتی ہے ۔ایک موقعہ پر آپ نے بادشاہ سے بحث کی اور سورج کے طلوع و غروب سے استدلال کیا تو قرآن کریم کہتاہے کہ فبھت الذی کفر (بقرۃ) وہ کافر بادشاہ مبہوت ہو کر رہ گیا اور آپ کے دلائل کا کچھ بھی جواب نہ دے سکا ۔ اسی طرح ستاروں ۔ چاند اور سورج کے نظام سے آپ نے خدائے قادر کی ذات پر استدلال کیا اور مشرکین کے سامنے دلیلیں دیں تو وہ گھبرااٹھے ۔ بت توڑے تو ایسی دلیلیںدیں کہ وہ لاجواب ہو کر رہ گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اس شخص نے ہمارے مذہب کا ستیاناس کردیاہے ۔
یہودی روایات سے بھی یہ معلوم ہوتاہے کہ آپ بچپن سے ہی بڑی عمدہ بحث کرنے کے عادی تھے چنانچہ انہی روایات میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ باپ نے انہیں دوکان پر بٹھادیا کہ اگر کوئی بت خریدنے کے لئے آئے تو اسے بت دے دینا ۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ ایک بڈھا شخص آیا اور ا س نے کہا میں کوئی بت خریدنا چاہتاہوں انہوں نے پوچھا کو نسا بت لیں گے اس نے ایک بت کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ فلاں بت مجھے چاہئے وہ اٹھے اور بت لاکر اس کے سامنے رکھ دیا اور پھر پوچھا کہ آپ کی عمر کیاہے اس نے کہا میری عمر ستر سال کی ہے ۔حضرت ابرہیم نے کہا یہ بت تو ابھی کل ہی بن کر آیا ہے اور آپ ستر سال کے ہوچکے ہیں کیا اتنی بڑی عمر کے ہوکر آپ کو شرم نہیں آئے گی کہ اس بت کے آگے سرجھکائیں جو ابھی کل ہی بن کر آیا ہے ۔ اس بڈھے پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ وہ اس بت کو وہیں چھوڑ کر چلاگیا ۔ جب اس کے بھائیوں کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے باپ سے شکایت کی کہ یہ تو ہمارے گاہک خراب کرتاہے ۔ باپ نے حضرت ابراہیم ؑ سے پوچھا تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے یہ بت تو ابھی کل بن کر آیا تھا ۔ کیا وہ بڈھا اس بت کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے اچھالگ سکتا تھا ؟ تو صداقت کی تائید کے لئے دلائل پیش کرنا اور اپنے مخالف سے نہایت عمدہ بحث کرنا یہ حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کا ایک نمایاں وصف ہے ۔قرآن کریم پڑھ کر دیکھ لو اس سے بھی یہی معلوم ہوتاہے اور بائبل پڑھ کر دیکھ لو تو اس سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ ابراہیم اعلیٰ درجہ کی بحث کرنے والا تھا اور وہ اپنے مخالف کو چپ کردیتا تھا ۔ پس ابراہیم بے معنی نام نہیں بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ بڑی عمدہ بحث کرنے ولا ہوگا نہایت اعلیٰ درجہ کے دلائل پیش کرنے والا ہوگا او ر ایسی باتیں کرے گا جن سے دوسراشخص حقیقت کو سمجھ جائے گا جیسے اس بڈھے سے آپ نے گفتگو کی تو پھر وہ ٹھہر انہیں بلکہ اسی وقت بت چھوڑ کر بھاگ گیا ۔ اور اس نے سمجھ لیا کہ میرا اس کے آگے سرجھکانا درست نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عبرانی زبان میں بھی اس کے یہی معنے ہوں گے اورخدا تعالیٰ نے ابرام اسی لئے ان کا نام رکھوایا تاکہ یہ بتائے کہ یہ بڑی بحث کرنے والا ہوگا مگر عبرانی زبان کا علم کم ہو جانے کی وجہ سے اسرائیلی علامات کو دھوکا لگا اور انہوں نے خیال کرلیا کہ یہ بے معنی لفظ ہے حالانکہ ابرام سے ابراہام میں تبدیلی کی وجہ خود بائبل نے بھی بتادی ہے کہ چونکہ تو ’’بہت قوموں کاباپ ‘‘ہوگا ۔ اس لئے آئندہ تیرانام ابرام ایک فرد نہیں ہوگا بلکہ ابراہام ہوگا اور یہ عبرانی کا قاعدہ ہے کہ ھا لگانے سے جمع بن جاتی ہے گویا وہ ایک فردنہ رہا بلکہ بہت سے افراد کا مجموعہ ہوگیا۔ قرآن کریم نے بھی فرمایا ہے کہ ان ابراھیم کان امۃ (النحل ع۱۶) ابراہیم ایک امت تھا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ وہ ابرام سے ابراہام بن گیا تھاگویا جو بات قرآن کریم نے بیان کی ہے وہی بات بائبل بھی بیان کرتی ہے مگر یہ جاہل لوگ جن کی زبان مٹ چکی ہے کہتے ہیں کہ ابرام کو ابراہام محض قافیہ بندی کے طور پر کہہ دیا گیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ذومعنی لفظ ہے او ربہت بڑی حقیقت پر دلالت کرتاہے ۔ یہ کہنا کہ یہ تو ایک مشرک نے نام رکھا تھایہ کوئی دلیل نہیں محمد رسول اللہ ﷺ کانام خدانے نہیںرکھا لیکن اس نے نام رکھنے والوں کی زبانوں پر تصرف کردیا اور چاہے کوئی سچے مذہب کو نہ مانے اس حقیقت سے تو انکار نہیں کر سکتا کہ ہر چیز خد تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت ہے ۔ اگر درخت خداتعالیٰ کے تصرف کے نیچے ہیں۔ اگر آم کی گٹھلی خدا تعالیٰ کے تصرف کے نیچے ہے اگر خربوزہ کی بیل خدا تعالیٰ کے تصرف کے نیچے ہے تو ابراہیم کا باپ کیوں خداتعالیٰ کے تصرف کے نیچے نہیں تھا اور کیوں وہ اس سے ایسا نام نہیں رکھوا سکتا تھا جس میں ابراہیم کی آئندہ زندگی کے کارناموں کی طر ف اشارہ ہوتا ۔ پھر ابرام سے ابرہام اس لئے بنا کہ عبرانی زبان کا قاعدہ ہے کہ ھا لگانے سے جمع بنتی ہے اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ھا میں بھی اس کے مشابہ خصوصیت ہے ۔ چنانچہ عربی زبان میں ھمجمع کے لئے آتاہے پس یہ خیال کہ اس لفظ کے کوئی معنے نہیں اور ابرام کو ابراہام صرف ضلع جگت کے طور پر کہہ دیا گیاہے حقیقت لغت کے نہ جاننے کی وجہ سے پید اہوا ہے ۔
بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ ابراہیم اُوْر کے رہنے والے تھے جو چلڈیا کا ایک شہر تھا ۔ یعنی وہ عراق میں پیدا ہوئے ۔ ان کی قوم ستارہ پرست تھی ان کے والد کا نام تارہ تھا ۔ قرآن کریم نے سورئہ انعام میں ان کانام آزربتایا ہے لیکن یہ تعجب کی بات نہیں ابرہام کو ابرہیم یسوع کو عیسیٰ حنوک کو ادریس اور یوحنا کو یحییٰ لکھنا اگر اعتراض کی بات نہیں تو تارہ کو آزر کہنا بھی کوئی اعتراض کی بات نہیں ہوسکتی ۔ یہ صرف ان کے ناموں کو عربی بنانے کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کے مطالعہ سے پتہ لگتاہے کہ وہ وہی نام استعمال کرتاہے جو عربوں کی زبان سے آسانی سے ادا ہوسکیں اور یا پھر قرآن مجید اصل نام کا ترجمہ کرلیتاہے جیسے حنوک کے جو معنے ہیں وہی معنے ادریس کے ہیں پس ہوسکتاہے کہ تارہ سے قرآن نے آزر بنالیا ہو کیونکہ ت ز سے بدل جاتی ہے ۔اور قلب کے ذریعہ الف پہلے آجاتاہے اور اس طرح آزربن جاتاہے یہ ادب کے لئے ہے ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ عربوں کی زبان پر تارہ نہیں چڑھتاتھا انہوںنے تارہ کو زارّ کہنا شروع کردیا اور زار سے آزر بن گیا اور یا پھر یہ بھی ہوسکتاہے کہ آزر ان کے کسی اور عزیز کانام ہو ۔ بہر حال قرآن کریم چونکہ مغرب نام استعمال کرتاہے اس لئے تارہ کی بجائے آزر ہونا کوئی اعتراض کی بات نہیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تارہ اور آزر آپس میں معنوی اشتراک رکھتے ہوں ہمیں چونکہ تارہ کے معنے معلوم نہیں اس لئے ہم اسبارہ میں قطعی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ممکن ہے اگر تحقیق کی جائے تو تارہ اور آزر آپس میں معنوی اشتراک بھی رکھتے ہوں ۔بہر حال آزر ایک معرب نام ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق لکھا ہے کہ ان کو اپنے والد سے اختلاف ہوا تو وہ اسے چھوڑ کر مصر چلے گئے اور وہاں سے پھر واپس کنعان آگئے ۔حضرت خلیفہ اول ؓ کو اصرار تھا کہ آزر ان کے باپ کا نہیں بلکہ چچا کا نام تھا اور باپ فوت ہوچکا تھا ۔بعض یہودی روایات سے بھی اس کا ثبوت ملتاہے کہ وہ یتیم تھے ۔اب کے متعلق آپ قرآن کریم سے استدلال کرتے تھے کہ چچا کے لئے بھی بولاجاتاہے چنانچہ ابناء یعقوب کے متعلق سورئہ بقرہ میں آتاہے کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ تم کس کی عبادت کروگے تو انہوں نے کہا نعبد الھک و الہ اٰباء ک ابراھیم و اسمعیل و اسحاق الٰھا واحدا (بقرہ ع۱۶) اس میں اسمٰعیل کو بھی انہوں نے اپنااب قرار دیاہے حالانکہ وہ ان کے چچا تھا اس سے معلوم ہوتاہے کہ عربی زبان میں اب کا لفظ چچا کیلئے بھی استعمال ہوسکتاہے ۔ یہ سب کچھ درست ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایساہے ؟ حضرت خلیفہ اول ؓ کے اس خیال کی بڑی بنیاد یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ اتنا بڑا مشرک ابراہیم کاباپ کس طرح ہوگیا ۔ یہ ایک ذوقی بات ہے ۔ ہو تو حرج نہیں ، نہ ہو توحر ج نہیں۔ اصل میں ہمیں تاریخ پر بنیاد رکھنی چاہئے جو اس بارہ میں زیادہ تر اس شخص کے باپ ہونے پر ہی دلالت کرتی ہے ۔ باقی رہانام کا سوال سو قرآن عربی شکل میں نام دیتاہے یا معنوں کا ترجمہ کرتاہے ۔ پس بائبل کے تارہ اور قرآن کے آزر کا فرق قرآن کے بیان کو غلط نہیں بتاتا کہ ہمیں ان دوکو الگ الگ ہستیاں ثابت کرنیکی ضرورت ہو ۔
ابراہیم روحانی عالم کاباپ تھااور آئندہ اصلاح اس کی ذریت کے ساتھ خواہ جسمانی ہو خواہ روحانی مخصوص کی گئی تھی ۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ووھبنالہ اسحاق و یعقوب و جعلنا فی ذریتہ النبوۃ والکتٰب (العنکبوت) یعنی ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطاکئے اور اس کی ذریت میں ہم نے نبوت اور کتاب رکھ دی ۔ گویا یہ وعدہ کیا کہ آئندہ نبی ابراہیم کی اولاد میں سے آئیں گے ۔ بائبل میں بھی اسحاق کے متعلق پیدائش باب ۲۲آیت ۱۵تا ۱۸میں وعدہ کیا گیا ہے کہ اس کی نسل کو ترقی دی جائے گی اور زمین کی سب قومیں اس سے برکت پائے گی ۔ اسی طرح اسماعیل کے متعلق پیدائش باب ۲۱ آیت ۱۳تا ۱۸میں لکھا ہے :
’’ اس لونڈی کے بیٹے سے بھی میں ایک قوم پیدا کروں گا اس لئے کہ وہ تیری نسل ہے ‘‘ (آیت ۱۳)
اسی طرح لکھا ہے :
’’خداکے فرشتہ نے آسمان سے ہاجرہ کوپکارا اور اس سے کہا اے ہاجرہ تجھ کوکیاہو امت ڈر کیونکہ خد انے اس جگہ سے جہاں لڑکا پڑا ہے اس کی آواز سن لی ہے اُٹھ اور لڑکے کو اُٹھا اور اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کیونکہ میں ا س کو ایک بڑی قوم بنائوں گا ‘‘ (آیت ۱۸)
اس سے پتہ لگتا ہے کہ عہد صرف ایک بیٹے کے متعلق نہیں تھا بلکہ دونوں کے متعلق تھا ۔ اسی طرح پیدائش باب ۱۷آیت ۱۹تا۲۱میں لکھاہے :
’’تب خدا نے فرمایا کہ بے شک تیری بیوی سارہ کے تجھ سے بیٹا ہوگا تو اس کانام اضحاق رکھنا اور میں اس سے اور پھر اس کی اولاد سے ا پنا عہدجو ابدی عہد ہے باندھوں گا اور اسماعیل کے حق میں بھی میں نے تیری دعاسُنی ۔دیکھو میں اسے برکت دوں گا اور اسے برومند کروں گا اور اسے بہت بڑھائوں گا او راس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بنائوں گا لیکن میں اپنا عہد اضحاق سے باندھوں گا جو اگلے سال اسی وقت ِ معین پر سارہ سے پیدا ہوگا اور جب خدا ابراہام سے باتیں کر چکاتو اس کے پاس سے اوپر چلاگیا ۔‘‘
اس سے معلوم ہوتاہے کہ خدا تعالیٰ کا حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت اسحاق ؑدونوں کے متعلق یہ عہد تھا کہ انہیں برکت دی جائے گی مگر ساتھ ہی یہ بھی بتادیا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا عہد پہلے اسحاق کے ذریعہ سے پورا ہوگا اور پھر اسماعیل کے ذریعہ سے ۔پیدائش باب ۱۷آیت ۷،۸ سے بھی یہی ثابت ہوتاہے کہ یہ عہد دونوں بیٹوں کے لئے تھا چنانچہ لکھا ہے :
’’میں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ان کی سب پشتوں کے لئے اپنا عہد جوابدی عہد ہوگا باندھوں گا تاکہ میں تیرا اور تیرے بعد تیری نسل کا خد ا رہوں اور میں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنعان کا تمام ملک جس میں تو پردیسی ہے ایسا دوںگا کہ وہ دائمی ملکیت ہوجائے اور میں ان کا خدا ہوں گا ‘‘
اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عہد صرف بنواسحاق کے ساتھ نہیں تھا بلکہ ابراہیم کی ساری نسل اور ان کی سب پشتوں کے ساتھ تھا ۔ صر ف اس قدر تصریح کردی گئی تھی کہ اس کے وعدے پہلے بنو اسحاق کے ساتھ پورے ہوں گے اور پھر بنو اسمٰعیل کے ساتھ۔ پس موسیٰ کا سلسلہ کبھی ختم ہونا چاہئے تھا تاکہ بنو اسماعیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے جو وعدے تھے وہ بھی پورے ہوتے ۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنعان کا ملک دوں گا۔ اگر کنعان کی حکومت کبھی مسلمانوں کے پاس نہ آئی ہو تی تو عیسائی کہہ سکتے تھے کہ اسحاق کی نسل کو توکنعان کی حکومت ملی لیکن مسلمان اس سے محروم رہے ۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ کنعان جتنا عرصہ مسلمانوںکے پاس رہا ہے اس سے کم عرصہ یہود کے پاس رہا ہے ۔فلسطین پر یہود کا موجودہ قبضہ ۱۳۶۷ھ میں ہوا ہے ۱۶ہجری میںمسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا اور اس وقت سے لے کر ۱۹۴۷ ء تک مسلمان اس پر قابض رہے ہیں۔ صرف حروب صلیبیہ کے زمانہ میں باون سال عیسائی پھر اس پر قابض ہوگئے تھے ۔ بہرحال ایک سو آٹھ سال اگر نکال بھی دئیے جائیں تو ۱۲۵۹سال مسلمان کنعان پر قابض رہے ہیں اس کے مقابلہ میں موسیٰ ؑ سے مسیح ؑ تک کا زمانہ بھی تیرہ سوسال ہے لیکن اس عرصہ میں یہود دوسوسال بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ عرصہ کنعان کی حکومت سے محروم رہے ہیں ۔ ۷۳۳قبل مسیح میں اسورین حکومت نے فلسطین کو فتح کیا اور یہودی کو اپنا باجگذار بنالیا ۔ اس کے بعد ۲۰۸ قبل مسیح میں ایک مصری بادشاہ ’’نیکو ‘‘ نے اسوریوں کو شکست دی او ریہود اسوریوں کی بجائے مصریوں کے باجگذار بن گئے ۔
۵۸۷قبل مسیح میں شاہ بابل نبو کد نضرنے یروشلم پر چڑھائی کی اور اس نے یہود کو جلاوطن کردیا ۔ یہی عرصہ ایک سو چھیالیس سال بن جاتاہے ۔ پھر سترسال کے قریب وہ عرصہ ہے جس میں یہود جلاوطن رہے اور جس کے بعدمید اور فارس کے بادشاہ نے انہیں واپس یروشلم جانے کی اجازت دی گویا یہود ۸۴ ۱۰ سال کنعان پر قابض رہے اور مسلمان ۱۲۵۹ سال قابض رہے ۔ پس جہاں تک اس پیشگوئی کا تعلق ہے اس نے بھی بتادیا کہ وہ ابراہیمی عہد جو اسحاق کی نسل سے پورا ہونا تھا اب ختم ہوچکا ہے اور کنعان بنو اسحاق کی بجائے خدا تعالیٰ کے سچے دین کے پیرووں کو دیا جارہا ہے ۔ چنانچہ پہلے ابرہیمی دور میں موسیٰ سے مسیح تک وہ اس سے تھوڑا عرصہ یہود کے پاس رہا جتنا دوسرے ابراہیمی دور میں وہ مسلمانوں کے پاس رہا اور اب جو واپس ہوگا تو پھر کبھی ان کے ہاتھ سے نہیں جائے گا ۔
خلاصہ یہ کہ مسیح ابراہیمی وعدوں میں سے ایک وعدہ کی آخری کڑی تھا اور ابراہیم موحد تھا پس مسیح ؑ کے ذکر کے بعد مورث اعلیٰ کا ذکر کیا تا بتائے کہ اس منبع سے دودریا نکلتے تھے۔ ایک کا آخری حصہ مسیح تھا اس کے بعد لازماً دوسرے دریانے اپنا بہائو مکمل کرناتھا پس واپس ابراہیم کا ذکر لاکر اسحاق اور یعقوب اور موسیٰ کا ذکر کیا تاکہ بنی اسرائیل کے سلسلہ کی طرف اشارہ کرے ۔
میں بتا چکا ہوں کہ بائبل کے رو سے حضرت ابراہیم "اور " میں جو چلڈ یا کا ایک شہر تھا پیدا ہوئے یعنی عرق میں ان کی پیدائش ہوئی تھی او ر ان کی قوم ستارہ پرست تھی ۔ قرآن کریم کی روسے حضرت ابرہیم ؑ کے اب یا والد مشرک تھے اور حضرت ابراہیم ؑ پر شرک کی برائی قرآن کریم کی روسے اپنے باپ کی زندگی میں ہی ظاہر ہوگئی تھی اور وہ ان کو نصیحت کرتے رہتے تھے ۔ نصیحت پر وہ خفاہوگئے اور ان کو دھمکی دی اور غصہ کی شدت دیکھتے ہوئے نصیحت کی کہ کچھ مدت تک کہیں باہر چلے جائو اور میری آنکھوں کے سامنے سے ہٹ جائو تاکہ میراغصہ ٹھنڈا ہوجائے ورنہ ممکن ہے کہ میں تمہیں کوئی نقصان پہنچادوں ۔ ان کی اس شدید ناراضگی کو دیکھ کر حضرت ابراہیم ؑاس ملک سے ہجرت کرگئے ۔ قرآن کریم سے پتہ لگتاہے کہ لوط بھی ان کے ساتھ گئے ۔ اسی طرح حضرت ابرہیم کی بیوی سارہ بھی ان کے ساتھ تھیں ۔ جاتے ہوئے حضرت ابراہیم یہ وعدہ کر گئے کہ میں آپ کیلئے دعا کروں گا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مشرک کے لئے زندگی میںدعا کرنا جائز ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی ایسے مشرک کیلئے دعاکرنا جائز ہے جس پر اتمام حجت کی سند نہ ملے جیسے رسول کریم ﷺنے اپنی والدہ حضرت آمنہ کو مشرکہ قراردیا ہے لیکن آپ نے ان کیلئے دعا بھی کی ۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۵)وہاں سے جانے کے بعد ان کے گھر میں اولاد پیدا ہوئی ۔ پہلے ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی بائبل کہتی ہے کہ حضرت ابرہیم کے والد اُور کلدی سے ہجرت کرکے اور ابراہیم او رلوط کو ساتھ لے کر حران نامی جگہ چلے گئے تھے ۔ گویا قرآن کریم تو یہ بتاتاہے کہ جہاں ان کے والد تھے وہاں سے حضرت براہیم ہجرت کرکے چلے آئے مگر بائبل بتاتی ہے کہ ان کے والد نے ہی وہ ملک چھوڑ دیا تھا اور ان کا ارادہ کنعان آنے کا تھا لیکن حران پہنچ کر وہ ٹھہر گئے اور وہیں مر گئے (پیدائش باب ۱۱ آیت ۳۱، ۳۲)
اس کے بعد پیدائش باب ۱۲ میں لکھا ہے کہ خداتعالیٰ نے ابراہیم سے کہاکہ وہ اپنے باپ اورقرابتیوں کو چھوڑ کرنکل چلے تاکہ خداتعالیٰ تجھے وہ ملک دکھائے جس میں تجھے رہنا ہے چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت ابرہیم لوط کو اور اپنی بیوی کو اورنوکروں چاکروں کو لے کر وہاں سے نکلے اور کنعان گئے جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے بتایا کہ یہاں آپ نے رہنا ہے ۔اس کے بعد ملک میں قحط پڑا تو قحط کی تکلیف سے بچنے کے لئے حضرت ابرہیم مصر چلے گئے جہاں بعض ایسے واقعات گزرے جن کے نتیجہ میں حضرت ہاجرہ جو آپ کی دوسری بیوی بنیں وہیں سے آپ کو ملیں اور آپ پھر واپس کنعان آگئے ۔
بائبل اپنے اس بیان میں خاموش ہے کہ ابراہیم کے والد کلدیا سے کیوں نکلے تھے َ؟ قرآنی بیان سے تو پتہ لگتا ہے کہ صرف ابرہیم نکلے اوراس لئے نکلے کہ ان کے اپنے باپ کے مذہب اور اپنی قوم کے مذہب سے اختلاف تھا او ریہ ایک طبعی بات ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ابرہیم کے والد کیوں نکلے ۔آخر ہر کام کی کوئی وجہ ہوتی ہے مگر بائبل یہ نہیں بتاتی کہ ابراہیم کے ساتھ ان کے والد نے بھی کلدیہ کو کیوں چھوڑ دیا ۔
پھر بائبل اس پر بھی خاموش ہے کہ ابراہیم کے والد کنعان کیوں جانا چاہتے تھے ۔ حضرت ابرہیم ؑ تو کنعان میں اس لئے گئے کہ وہ ان کے لئے اور ان کی آئندہ نسل کے لئے موعود تھا لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ملک جس کا ابراہیم کے لئے وعدہ تھا اس کا ان کے باپ کو کیوں خیال پیدا ہوا او ر وہ وہاں کس لئے جانا چاہتے تھے ؟
پھر بائبل اس بارہ میں بھی خاموش ہے کہ جب ان کے باپ کنعان جانے کے ارادہ سے نکلے تھے تو حران میں کیوں ٹھہر گئے ۔
پھر بائبل کہتی ہے کہ خد تعالیٰ نے ابراہیم سے کہا کہ تو اپنے باپ اور قبیلے کو چھوڑ کر نکل چل ۔ سوال پیدا ہتاہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ کیوں حکم دیا ؟ بائبل بھی یہی کہتی ہے کہ ماں باپ سے حسن سلوک کرنا چاہئے اور قرآن کریم بھی یہی کہتاہے اس میں کوئی شبہ نہیںکہ قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ انکے والد مشرک تھے لیکن بائبل انہیں مشرک قرار نہیں دیتی اور دوسری طرف یہ بتاتی ہے کہ خداتعالیٰ نے حضرت ابرہیم سے کہا کہ اپنے باپ اور قبیلے کو چھوڑ کر نکل چل ۔
پھر بائبل یہ تو کہتی ہے کہ اپنے قبیلے کو چھوڑ کر نکل چل لیکن یہ نہیں بتاتی کہ وہ قبیلہ تھا کون سا؟ بائیبل کی کتاب پیدائش سے معلوم ہوتاہے کہ اُور کلدی سے تارہ صرف ابراہیم کی اس کی بیوی اورلوط ہی کو لے کر نکلا تھا۔ قرآنی بیان کے مطابق حضرت ابرہیم ، ان کی بیوی اور لوط اس ہجرت میں شریک تھے ان کا باپ ان کے ساتھ نہیں تھا لیکن اس سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ وہ قبیلہ کونسا تھا جس کو چھوڑ نے کا خداتعالیٰ نے حکم دیا ؟قبیلہ صرف ابرہیم، لوط اور سارہ تھے اور یہ کنعان جاتے وقت بھی ابراہیم کے ساتھ تھے پھر وہ کن کو چھوڑ کر نکلا۔
پس بائبل اول تو یہی نہیں بتاتی کہ باپ جس سے شریعت نے حسن سلوک کا حکم دیا ہے اسے خداتعالیٰ نے چھوڑ نے کا کیوں حکم دیا ۔پھر یہ نہیں بتاتی کہ وہ قبیلہ کون سا تھا جسے چھوڑنے کا حکم دیا گیا ۔ صرف چار آدمی تھے جو اُور سے نکلے۔ باپ حران میں پہنچ کر فوت ہوگیا تھا ۔ پھر وہ کونسے رستہ دار تھے جنہیں وہ چھوڑ کر نکلا۔
غرض بائبل کا بیان بہت مبہم ہے اور اس کے اندر ایسی کئی باتیں پائی جاتی ہیں جو خلاف عقل نظر آتی ہیں ۔
حران شہر کلدی علاقہ اور شام کے درمیان میں تھا ۔ جب چلڈیا سے چلیں تو فلسطین کی طر ف راستہ میں یہ شہر آتاہے ۔ یہ بڑا بھاری شہر تھا تمام تجارتی قافلے یہاں ٹھہرا کرتے تھے اور اسے تجارتی دروازہ کہتے تھے ۔ اس کے علاوہ یہ مذہبی سنٹر بھی تھا اور یہاں ایک بہت بڑا مندر چاند دیوتاکا تھا ۔وہ لوگ جو چاندکے پرستار تھے وہ اس جگہ آتے اور نذرانے وغیرہ چڑھاتے تھے ۔
طالمودی روایات یعنی وہ احادیث جو یہود میں پائی جاتی ہیں وہ بھی قرآنی بیان کی تصدیق کرتی ہیں چنانچہ طالمودی روایات سے پتہ لگتاہے کہ ابراہیم کا باپ مشرک تھا بلکہ طالمودی روایات بتاتی ہیں کہ وہ اتنا مشرک تھا کہ مشرکانہ عبادت گاہوں کا متولی بھی تھا۔ اسی طرح طالمودی روایات سے پتہ لگتاہے کہ وہ بت بھی فروخت کیا کرتاتھا اور ان سے یہ بھی پتہ لگتاہے کہ اس ملک کا بادشاہ بھی بت پرست تھا اور وہ ابراہیم کو جلانے کے لئے تیار ہوگیا تھا ۔جیسا کہ قرآن کریم میں ذکر آتا ہے ۔بہر حال حضرت ابراہیم کے بارہ میں تین قسم کی روایتیں پائی جاتی ہیں اول قرآنی روایات دوم بائبل کی روایا ت سوم طالمودی روایا ت بائبل کی روایات اتنی مجروح اور غیر معقول ہیں کہ کوئی بات بھی یقین کے ساتھ درست نہیںکہی جاسکتی ۔ بائبل اتنا تو بتادیتی ہے کہ ابراہیم کے باپ نے بھی اپنا ملک چھوڑ دیا مگر کوئی وجہ نہیں بتاتی کہ آخر انہوں نے اپنا ملک کیوں چھوڑا لیکن قرآن بتاتاہے کہ ابراہیم نے ہجرت کی اور اس لئے کی کہ اس کا باپ مشرک تھا اس کی قوم ستارہ پرست تھی اور یہ اختلاف اس قدر ترقی کرگیا کہ آخر حضرت ابراہیم ہجرت پر مجبور ہوگئے ۔ پھر بائبل کہتی ہے کہ تارہ نے بھی کنعان جانا چاہا مگر یہ نہیں بتاتی کہ کنعان جانے کا اسے کیوں خیال پیدا ہوا ۔ پھر یہ نہیں بتاتی کہ جب کنعان جانے کے ارادہ سے نکلے تھے تو حران میں کیوں ٹھہر گئے اس کے بعد یہ نہیں بتاتی کہ خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے جو یہ کہا کہ تو اپنے باپ اور قبیلہ کو چھوڑ کر نکل چل ، تو وہ کونسا قبیلہ تھا جسے انہوں نے چھوڑا ۔ لوط اور سارہ تو ان کے ساتھ ہی رہے ہیں اور ان کے علاوہ اور رشتہ دار ساتھ تھا نہیں ۔ پھر وہ قبیلہ کو نسا تھا جسے چھوڑ نے کا حکم دیا گیا اسی طرح بائبل یہ بھی نہیں بتاتی کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کوکیوں حکم دیا کہ تو اپنے باپ کو چھوڑ دے جبکہ بائبل یہ بھی نہیں بتاتی کہ ان کا باپ مشرک تھا ۔غرض قرآنی بیان زیادہ صحیح ہے گو اس کا بائبل کی روایت سے اختلاف ہے۔

(اورتو اس وقت کو بھی یاد کر اور لوگوں کے سامنے بیان کر) جب ابراہیم نے اپنے باپ سے کہا تھا کہ اے میرے باپ تو کیوں ان (چیزوں ) کی پرستش کرتا ہے جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ تیری کسی تکلیف کو دور کر نے پر قادر ہیں ۔
تفسیر :
فرماتاہے ابراہیم کے ان واقعات کو یاد کرو جبکہ اس نے اپنے باپ سے کہا کہ اے میرے باپ تو کیوں اس کی عبادت کرتاہے جو نہ سنتاہے نہ دیکھتاہے اور نہ تیرے لئے کسی چیز کا قا ئم مقام ہو سکتاہے ۔
اَبَتِ منادیٰ کے طور پر آتاہے اور تا ۔ ی کے قائم مقام ہوتی ہے گویا ابت ابی کا قائمقام ہے ۔ عرب لوگ یہ دونوں لفظ استعمال کر لیتے ہیں یعنی ابیبھی کہہ دیتے ہیں اور ابت بھی کہہ دیتے ہیں ۔
مالا یسمع ولا یبصر جو نہیں سنتا اور نہیں دیکھتا۔
اس سے پتہ لگتاہے کہ الٰہی صفات میں سے اہم صفات اس کا سننا اور دیکھنا ہے۔ باقی ساری صفات اس کے تابع ہیں ۔ اگر سننے اور دیکھنے کی صفت اس میں نہ پائی جائے توکوئی مشاہدہ والی دلیل خداتعالیٰ کی ہستی کے متعلق نہیں رہ جاتی ۔ سب سے بڑی دلیل خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق یہی ہوتی ہے کہ ہم نے خداتعالیٰ سے دعاکی کہ خدایاہمارا فلاں کام ہوجائے اور وہ کام ہوگیا جس سے پتہ لگ گیا کہ خداموجود ہے ۔ اگر اس کا سننا اور دیکھنا ثابت نہ ہو تو پھر بنی نوع انسان سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ کسی غیر سے دو ہی ذریعہ سے تعلق ہو سکتاہے یا کانوں کے ذریعہ اور یا پھر آنکھوں کے ذریعہ ۔یا تو انسان دوسرے کی آواز سن کر پتہ لگا لیتاہے کہ اسے کوئی ضرورت در پیش ہے اور وہ اس کی مدد کے لئے پہنچ جاتاہے اور یا پھر آنکھوں سے دیکھ کر سمجھ لیتاہے کہ فلاں شخص مصیبت میں گرفتار ہے اور وہ اس کی مدد کے لئے بیتاب ہوجاتاہے ۔ پس ایک تعلق رکھنے والا خدا تبھی ہو سکتاہے جب اس میں سننے اور دیکھنے کی صفت موجود ہو حضرت ابراہیم ؑ اپنے باپ کو بتوں کے ناقابل پرستش ہونے کی یہی دلیل دیتے ہیں کہ یابت لم تعبد ما لا یسمع و لا یبصر اے میرے باپ تو کیوں اس کی عبادت کرتاہے جو نہ سنتاہے اور نہ دیکھتاہے ۔ جب یہ دونوں صفات اس میں نہیں پائی جاتیں تو اس کی عبادت کرنے کا فائدہ کیا؟ ولا یغنی عنک شیئا اور نہ وہ کسی بات میں کفایت کرتاہے مااغنی فلان شیئا کے معنے ہوتے ہیں لم ینفع فی مھم ولم یکف موء ونۃ کسی کام میں اس نے نفع نہ پہنچایا اور کسی ضرورت کے موقعہ پر اس نے کفایت نہ کی ۔ مثلاً اگر کسی پر قرضہ ہو اور دوسرا شخص وہ قرض اتار دے یا کوئی بیمار ہو اور دوسرااس کے علاج کے لئے جدوجہد کرے تو وہ اس کا قائم مقام ہو جاتاہے اورا س کے بوجھ کو ہلکاکرنے کا موجب بن جاتاہے ۔ مگر فرمایا لایغنی عنک شیئا یہ بت تو وہ ہیں جو تیرے لئے کسی قسم کا بوجھ بٹانے کا موجب نہیں ہوسکتے پھر ان کی عبادت کا فائدہ کیا؟
یہ لایغنی عنک شیئا دراصل دلیل کا ایک ٹکڑا ہے جو لایسمع ولا یبصر کے ساتھ مل کر مکمل ہوتی ہے۔ اگر کسی شخص کے کان ہوں او وہ دوسرے کی آواز بھی سن لے کہ دوڑو اور میری مدد کے لئے پہنچو لیکن لولا لنگڑا ہو تو خالی سن لینا دوسرے کو کیا فائدہ پہنچاسکتاہے یا کسی نے دیکھ تو لیا کہ فلاں شخص کنوئیں میں گرنے لگا ہے لیکن اتنی ہمت نہیں کہ دوڑ کر اسے بچاسکے تو اس کے دیکھنے کا کیا فائدہ ۔ سننا اور دیکھنا تبھی فائدہ پہنچاسکتاہے جب دوسرے کی مدد کرنے کی طاقت بھی موجود ہو ۔ پس لایسمع ولا یبصر والی دلیل لا یغنی عنک شیئاکے ساتھ مل کر مکمل ہوتی ہے کیونکہ کسی کی تکلیف معلوم کرنے کے دوہی ذرائع ہوتے ہیں ۔ یا تو انسان سن کر پتہ لگاتاہے یا دیکھ کر پتہ لگاتاہے لیکن دیکھنا اور سننا کافی نہیں ہوتاجب تک ایسی طاقت بھی موجود نہ ہو کہ دوسرے کی مدد کا ارادہ انسان پوراکر سکے ۔ جب وہ ایسا کرلے تو اس کی دوستی کی زنجیر مکمل ہوجاتی ہے مگر فرمایا یہ بت تو ایسے ہیں کہ نہ یہ تمہاری آواز سنتے ہیں نہ تمہاری تکلیف کو دیکھتے ہیں اور نہ یہ کسی ضرورت کو پورا کرسکتے ہیں پھر ان کی عبادت کرنا کتنی بڑی حماقت کی بات ہے ۔
یہاں کوئی شخص کہہ سکتاہے کہ وہ کیوں نہیں سنتے ۔ ہمارا اعتقاد ہے کہ وہ سنتے ہیں کیوں نہیں دیکھتے ہمار ا اعتقاد ہے کہ وہ سنتے ہیں اگر یہ بت دیکھتے اور سنتے نہیں تو تمہارے خداکے دیکھنے اور سننے کا کیا ثبوت ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے خداکے سننے کا ثبوت یہ ہے کہ ہم اسے پکارتے ہیں اور وہ ہماری پکار کا جواب دیتاہے اور اس کے دیکھنے کا ثبوت یہ ہے کہ ہم مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو وہ ہماری مدد کرتاہے ۔ پس اس کا ہماری مدد کرنا اور ضروریات کو پورا کرناثبوت ہے اس کے سمع اور بصر کا لیکن بت چونکہ کوئی ضرورت پوری نہیں کرتے اور وہ کسی تکلیف کے موقعہ پر انسان کی مدد نہیں کرتے اس لئے یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ سمع اور بصر نہیں رکھتے ۔ ورنہ یہ کس طرح ہوسکتاتھا کہ ان کے کانوں تک بات پہنچے وہ اپنی آنکھوں سے کوئی نظارہ دیکھیں اور پھر مدد نہ کریں۔
حدیثوں میں آتاہے ایک صحابی کہتے ہیں میرے مسلمان ہونے کی وجہ ہی یہ ہوئی کہ ہم جاہلیت کے زمانہ میں بتوں کے اس قدر شائق ہوا کرتے تھے کہ جب ہم گھر سے باہر کسی سفر پر جاتے تو اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی بت بھی رکھ لیتے تھے تاکہ اس کی برکت سے بلائیں اور مصیبتیں ہم سے دور رہیں ۔ ایک دفعہ میں سفر پر گیا اور بت اپنے ساتھ لے لیا راستہ میں اتفاقاً مجھے کوئی کام یاد آگیا اور میں نے کہیں جانا چاہا ۔ مگر اسباب میرے پاس بہت تھا او رکسی دوسری جگہ اسے اٹھاکرلے جانا میرے لئے بہت مشکل تھا ۔ میں نے وہیں جنگل میں اسباب رکھا بت کو پاس بٹھایا اور اسے کہا حضور والا آپ ذرا میرے اسباب کا خیال رکھیں کہ میں ایک ضروری کام کے لئے جارہا ہوں چنانچہ میں اطمینان کے ساتھ خوش خوش چلا گیا کہ میں اپنا اسباب اللہ میاں کے سپرد کر آیا ہوں ۔ واپس آیا تو کیا دیکھتاہوں کہ ایک گیدڑ ٹانگ اٹھاکر اس بت پر پیشاب کر رہا ہے ۔ مجھے یہ دیکھ کر سخت غصہ آیا اورمیں نے آتے ہی اس بت کو اٹھا کر پرے پھنک دیا او رکہا کمبخت گیدڑ کے پیشاب سے تو تو اپنے آپ کو بچانہیںسکتامیرے اسباب کو کیا بچائے گا ۔ اس وقت مجھے خیال آیا کہ مسلمان جو کچھ کہتے ہیں ٹھیک ہے اور میں واپس آکر مسلمان ہوگیا ۔
اسی طرح ایک اور صحابی کہتے ہیںکہ ہم ایک دفعہ سفر پر گئے تو میںنے خیال کیا کہ پتھر کا بت اٹھانا تو مشکل ہوگا اسباب بھی زیادہ ہے ۔ آٹے کا بت بناکر ساتھ رکھ لیتے ہیں ۔ چنانچہ میں نے آٹے کا بت بنایا اور ساتھ رکھ لیا ۔ اتفاقاً راستہ میں آٹا ختم ہوگیا اور کھانے کے لئے کوئی چیز نہ رہی جب سخت بھوک لگی تو اسی بت کو کوٹ کرہم نے آٹا گوندھا اور روٹی پکا کر کھالی ۔ پھر مجھے خیال آیا کہ جس خدا کو میں کھا گیا ہوں اور وہ مجھے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچاسکا وہ کیسا خداہے اور میں مسلمان ہوگیا ۔ یہی حقیقت لایغنی یغنی عنک شیئا میں بیان کی گئی ہے کہ وہ کسی قسم کا تم کو فائدہ نہیں پہنچاسکتے ۔ کوئی شخص اس پر بھی اعتراض کرسکتاہے کہ لوگوں کی کئی خواہشات اتفاقی طورپر بھی پوری ہوجاتی ہیں پھر یہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت کس طرح ہوا ۔مثلاً بعض لوگوں کے ہاں بیٹا ہوجائے تو وہ کہتے ہیں کہ فلاں پیر کی قبر پر سجدہ کرنے کی وجہ سے ہوا ہے یا فلاں جگہ چڑھاوا چڑھایا تھا تو اس کی وجہ سے یہ کام ہوا ہے سواس کے متعلق یادرکھنا چاہئے کہ لا یسمع و لا یبصر ولا یغن عنک شیئا میں تین باتیں بیان کی گئی ہیں اور یہ تینوں باتیں آپس میں جوڑ رکھتی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کردلیل بنتی ہیں ۔ یعنی سمع اور بصر اور اغناء ۔ جب یہ تینوں چیزیں ملتی ہیں تب دلیل مکمل ہوتی ہے اور جب یہ زنجیر مکمل ہوجائے تو ا س کے بعد کوئی کام نہ اتفاقی قرار پاسکتاہے اورنہ کسی بت وغیرہ کی طرف منسوب ہوسکتا ہے۔ مثلا ً اگر کسی کام کے متعلق دعائیں کی گئی ہیں اور پھر کوئی نتیجہ برآمد ہوا ہے تو ہم یہ نتیجہ نکالیں گے کہ یہ کام خدانے کیا ہے لیکن اگر دعائیں نہیں کی گئیں اور وہ کوئی غیر معمولی کام بھی نہیں تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ دنیا میں کچھ نہ کچھ کام اتفاقی ہی ہوا کرتے ہیں ۔

اے میرے باپ مجھے ایک خاص علم عطا کیا گیا ہے جو تجھے نہیں ملا ۔ پس (باوجود اسکے کہ میں تیرا بیٹاہوں ) تومیری اتباع کر میں تجھے سیدھا راستہ دکھائوں گا ۔
حل لغات :
سویاًّ کے معنے الاستواء ولانصاف کے بھی ہیں یعنی کسی چیز کا توازن ٹھیک ہونااور اس کے معنے مستوی کے بھی ہیں یعنی جس میں کسی قسم کی کجی نہ ہو ۔
تفسیر :
حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ مجھے یقیناًخدا تعالیٰ کی طرف سے اس قسم کاعلم ملا ہے جو تجھ کو نہیں ملا پس تو میری اتباع کر میں تجھے ایک ایسا رستہ دکھائوں گا جس میں نہ زیادتی پائی جاتی ہے نہ کمی ۔نہ افراط ہے نہ تفریط ۔
میں سمجھتاہوں سب سے بڑا ابتلا حضرت ابراہیم ؑ کے لئے یہی تھا کہ باپ کہہ لو یا چچا کہہ لو جو بھی وجود تھا بہر حال وہ ان کے پالنے والا تھا اسے جا کر آپ کو یہ کہنا پڑا کہ یابت انی قد جاء نی من العلم ما لم یأتک اور دعویٰ کرنا پڑا کہ مجھے وہ علم حاصل ہے جو آپ کو حاصل نہیں ۔ اپنے بڑوں کے سامنے بات کرنی بڑی دوبھر ہوتی ہے پس میرے نزدیک حضرت ابراہیم ؑ کے بہت بڑے ابتلائوں میں سے ایک ابتلا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسے زمانہ میں مبعوث کیا جب ان کو پالنے والا یا جننے والا باپ موجود تھا او راسے بتانا پڑا کہ تمہاری غلطی ہے اور کہنا پڑا کہ
فاتبعنی اھدک صراطا سویا
آج سے میں تمہارا روحانی باپ ہوں اور تم میری روحانی اولاد ہو ۔بچے تو بعض دفعہ بیوقوفی سے ایسی بات کر دیتے ہیں چنانچہ میرے نواسے کبھی میرے پاس آجائیں تو میں پیار سے اپنی لڑکی کو پکڑ کر ان سے کہتاہوں یہ میری بیٹی ہے اس پر وہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی کہہ دیتے ہیں یہ میری بیٹی ہے ۔ پس بچے تو بعض دفعہ بیوقوفی سے ایسی بات کہہ دیتے ہیں لیکن ایک جوان اور بالغ مرد کا جاکر کہنا کہ والد صاحب آج سے آپ والد نہیں رہے ہیں میں آپ کا والدبن گیا ہوں آپ کی تربیت کا وقت گذرچکا اب میں آپ کی غلطیا ں نکالوں گاآپ میری غلطیاں نہیں نکال سکتے۔ یہ زبان سے کہنا بڑامشکل کام ہے۔

اے میرے باپ شیطان کی عبات نہ کر ۔ شیطان یقیناً (خدائے )رحمان کا نافرمان ہے ۔
حل لغات :
لاتعبدالشطیننہی کا صیغہ ہے جو عبد سے بنا ہے اورعبداللّٰہ کے معنے ہیںطاع لہ وخضع وذل۔وخدمہ یعنی اللہ کی اطاعت کی اس کی فرمانبرداری کی (اقرب) پس لاتعبدالشطین کے معنے ہوںگے تو شیطان کی فرمانبرداری نہ کر ۔
تفسیر :
اس آیت میں کہا گیا ہے کہ لا تعبدالشطین تو شیطان کی عبادت نہ کر حالانکہ شیطان کی عبادت دنیا میں کوئی نہیں کرتااس سے پتہ لگتاہے کہ عبادت خالی سجدہ کرنے کا نام نہیں بلکہ کسی کی بات کو بلا دلیل پورے طور پر ماننابھی عبادت ہی کہلاتاہے ۔ اگر کوئی شخص اپنے برے ساتھیوں کی بات اس طرح مانتاہے کہ عقل سے کام نہیں لیتاتو وہ بھی مشرک ہے اگر کوئی شخص اپنے نفس کی بات اس طرح مانتاہے کہ عقل سے کام نہیںلیتاتو وہ بھی مشرک ہے ۔ ابراہیم کا باپ آخر شیطان کو نہیں پوجتاتھا بلکہ بتوںکو پوجتاتھا مگر قرآن کہتاہے کہ جن کی تو پوجا کرتاہے یہ شیطان ہیں ۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ کسی کی اگر خلاف عقل اتباع ہو تو وہ بھی شیطان کی ہی عبادت ہوتی ہے ۔خواہ یہ شیطان نفس کی صورت میں ہوخواہ برے ساتھیوں کی صورت میں ہو اور خواہ بدارواح کی صورت میںہوشیطان انسان کا نفس بھی ہوتاہے اور شیطان انسان کے برے ساتھی اور دوست بھی ہوتے ہیں اور شیطان وہ بدروحیں بھی ہوتی ہیں جوبدی کا عادی ہوجانے کے بعد انسان پر غالب آجاتی ہیں اور اسے بری باتیں سکھاتی ہیں جس وقت انسان اپنے نفس کے برے مشوروں پر جرح کرنا چھوڑدے جس وقت انسان اپنے دوستوں کی بری باتوں پر تنقید کرنا چھوڑدے جس وقت انسان پنی بد اعمالی سے ایسے گند میں جاپڑے کہ شیطانی روحوں کااس کے ساتھ واسطہ ہوجائے تو اس وقت قرآنی اصطلاح میںیہ کہاجاتاہے کہ وہ شیطان کی عبادت کررہا ہے۔ درحقیقت بلاوجہ تنقید چھوڑدینا اور بری باتوں کو قبول کرتے جانا بھی ایک رنگ کی عبادت ہی ہے پس لاتعبدالشیطٰن میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جب کسی شخص کے سامنے بری باتیں آتی ہیں اور وہ ان پر تنقید نہیںکرتاان پر جرح نہیں کرتااور بغیر جرح اور بغیر غور اور بغیر فکر کے ان کو قبول کرلیتاہے تو درحقیقت وہ ان کو خد ا کا مقام دیتاہے کیونکہ خدا کا مقام ہی ایساہے کہ جس کے متعلق کوئی سوال نہیں کیا جاسکتا۔ بہر حال جب یہ ثابت ہوجائے کہ خدا ہے تو بلا چون وچرا اس کی بات ماننی ضروری ہوتی ہے لیکن جب کوئی ہستی خدا ثابت نہ ہو یا خد اکی قائمقام ثابت نہ ہو تو اس وقت ہر بات جرح کر کے ماننی چاہئے ۔
ان الشیطان کان للرحمن عصیا کے الفاظ بھی بتارہے ہیں کہ اس جگہ بت مراد نہیں ۔ کیا تم نے کبھی پتھروں کو دیکھا کہ وہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا انکار کر رہے ہوں ۔ پتھروں نے خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا کیا انکا ر کرنا ہے وہ تو بے جان چیزیں ہیں پس یہ الفاظ بھی اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ یہاں بت مراد نہیں۔ فرماتاہے شیطان رحمن کی نافرمانی ہی کیا کرتاہے ۔
عصیٌ کے معنے عاصی اور گنہگار کے ہیں ۔ عصییٌ کا فاعل عاصی بھی آجاتاہے اور بعض دفعہ فعیل کے وزن پر عصیٌ آجاتاہے۔
اگر بت مراد لئے جائیں تو اس آیت کا یہ ترجمہ ہوگا کہ بت خدا تعالیٰ کے نافرمان ہیں حالانکہ بت نافرمان ہیں ہی نہیں ۔ وہ بے جان چیزیں ہیں انہیں تو اتنا بھی پتہ نہیں کہ انہیں کسی نے پاخانہ میں ڈال دیا ہے یا کوئی شخص ان کے آگے جھک کر سجدہ کررہا ہے ۔ پس عصیاً نے اس بات کو حل کردیا کہ تعبدالشطین سے بلا دلیل بات مان لینا مراد ہے بت مراد نہیں ۔

اے میرے باپ میں ڈرتاہوں کہ تجھے (خدائے ) رحمان کی طرف سے (نافرمانی کی وجہ سے ) کوئی عذاب نہ پہنچے جس کے نتیجہ میں تو شیطان کا دوست ہوجائے۔
تفسیر :
اس جگہ اللہ تعالیٰ نے عذاب کیلئے رحمن کا لفظ استعمال کیا ہے حالانکہ عذاب نازل کرنا خدائے رحمن کاکام نہیں عذاب نازل کرنیوالی خدا تعالیٰ کی بعض اور صفات ہیں مثلا ً جبار خدا عذاب نازل کرتاہے قہار خدا عذاب نازل کرتاہے ذوالانتقام خدا عذاب نازل کرتاہے اسی طرح بعض اور نام ہیں جو خداتعالیٰ کی صفت عذاب کی طرف اشارہ کرتے ہیں اورجن کے ماتحت اس کی نافرمانی کرنے والوں پر عذاب نازل ہوتاہے مگر یہاں رحمن کی صفت کا ذکر یاگیا ہے اور کہا گیا ہے کہ انی اخاف ان یمسک عذاب من الرحمن میں ڈرتاہوں کہ خدائے رحمن کی طرف سے تجھے عذاب نہ پہنچ جائے ۔ پس سوال پیدا ہوتاہے کہ اس سے کیا مراد ہے ؟
سویادرکھنا چاہئے کہ ہر عذاب کی صفت کسی نہ کسی وجہ سے ظاہر ہوتی ہے کبھی انسان اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا انکار کرتاہے تو عذاب کی صفت ظاہر ہوتی ہے کبھی رحیمیت کا انکا ر کرتاہے تو عذاب کی صفت ظاہر ہوتی ہے کبھی مالکیت کا انکا ر کرتاہے تو عذاب کی صفت ظاہر ہوتی ہے کبھی صفت احیاء کا انکا ر کرتاہے تو عذاب کی صفت ظاہر ہوتی ہے کبھی صفت اغناء کا انکا ر کرتاہے تو عذاب کی صفت ظاہر ہوتی ہے غر ض عذاب کی صفات مستقل نہیں ۔ یعنی آپ ہی آپ بلا وجہ عذاب کی صفت ظاہر نہیں ہوتی بلکہ کسی نیک صفت کے انکا ر یا اس کے رد کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہے اگر عذاب کی صفت کو ہم مستقل سمجھیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہمار اخدا نعوذ باللہ ظالم ہے اور آپ ہی آپ اس کا دل چاہتاہے کہ میں لوگوں کو پیس ڈالوں ، ان پر عذاب نازل کروں اور انہیں تباہ اور برباد کردوں او ریہ جابرانہ اور ظالمانہ طریق ہے جو خداتعالیٰ جیسی رحیم وکریم ہستی کے بالکل منافی ہے ۔ پس جبکہ اس کی سزا والی صفات صفات مستقلہ نہیںبلکہ کسی دوسری صفت کی نسبت سے ظاہر ہوتی ہیں تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کی صفت عذاب کبھی رحمانیت کی وجہ سے نازل ہوتی ہے کبھی رحیمیت کی وجہ سے نازل ہوتی ہے کبھی غفاریت کی وجہ سے نازل ہوتی ہے ، کبھی ستاریت کی وجہ سے نازل ہوتی ہے ، کبھی خداتعالیٰ کی صفت ستار ایک انسان کے عیبوں کو چھپاتی چلی جاتی ہے مگر وہ پھر بھی باز نہیں آتااور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر عذاب نازل ہوجاتا ہے ۔ اب اس پر عذاب توآیا مگر خدا تعالیٰ کی صفت ستاری کی وجہ سے کبھی وہ ایک شخص کو رزق دیتاچلا جاتاہے مگر باوجود کثرت رزق کے وہ نافرمانی میں بڑھتاچلا جاتاہے۔ جب خداتعالیٰ اس کی متواتر نافرمانیوں کو دیکھتاہے تو اس پر عذاب نازل کرتاہے ۔ اب اس پر عذاب تو آیا مگر صفت رزاق کی وجہ سے جب اس نے خدا تعالیٰ کی اس صفت کی ہتک کی تو اس پر عذاب آگیا ۔ پس انی اخاف ان یمسک عذاب من الرحمن کے یہ معنے ہیں کہ میں ڈرتاہوں کہ تجھ پر وہ عذاب نازل نہ ہوجو رحمانیت کی صفت کی وجہ سے نازل ہوتاہے ۔ تمہیں خدا نے مالک بنایا تھا آگ کا ، تمہیں خدانے مالک بنایا تھا ہوا کا ، تمہیں خد انے مالک بنایا تھا پانی کا ، اور یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو خدا تعالیٰ نے ان پررحمانیت کی وجہ سے تم کو دیں مگرا نہیں چیزوں کو تم نے اس کا شریک بنالیا ۔
دنیا میں جس قدر بت پائے جاتے ہیں وہ سارے کے سارے رحمانیت کے ماتحت آتے ہیں ۔ حضر ت عیسیٰ ؑ کو خداتعالیٰ نے بھیجا اور اس لئے بھیجا کہ وہ اس کے بندوں کی خدمت کریں مگر لوگوں نے انہی کو خداکا بیٹابنالیا تو شرک ہمیشہ رحمانیت کی صفت کے انکار کے نتیجہ میں پیدا ہوتاہے ۔ اسی لئے ہندو اور عیسائی خدا تعالیٰ کو رحمن نہیں مانتے ۔ ہندوئوں نے جب اپنی تعلیم پر غور کیا تو انہیں ماننا پڑا کہ خدا روح اور مادہ کا خالق نہیں۔ اگر وہ اسے خالق مانیں توساتھ ہی اسے رحمن بھی ماننا پڑے گا اور رحمان ماننے سے ہندو مذہب ختم ہوجاتاہے ۔ اسی طرح عیسائی خدا تعالیٰ کو رحمن مانیں تو انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ شریعت *** نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا تقاضا ہے کہ اس کی طرف سے ہدایت آئے اور جب شریت *** نہیں بلکہ اس پر عمل کرکے انسان نجات پاسکتاہے تو کفارہ کا انکار کرنا پڑا ۔ کفارہ کے انکار سے مسیح کی ابنیت ختم ہوگئی اور جب مسیح کی ابنیت ختم ہوگئی تو عیسائیت بھی فنا ہو گئی ۔ پس شرک میں سب سے بڑا انکار خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا ہی کرنا پڑتاہے اس لئے جوقومیں شرک کرتی ہیں ان کے متعلق خدا تعالیٰ کی رحمانت کی صفت کہتی ہے کہ میری ہتک انتہاء تک پہنچ چکی ہے ۔ اب ان پر عذاب نازل ہونا چاہئے پس انی اخاف ان یمسک عذاب من الرحمن کا یہ مطلب نہیں کہ رحمانیت عذاب نازل کرتی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ رحمانیت کی صفت اس عذاب کا موجب ہوجاتی ہے ۔
فتکون للشیطن ولیا پس تو شیطان کا دوست ہوجائے یہ الفاظ بھی اسی بات پردلالت کرتے ہیں کہ یہاں شیطان سے بت مراد نہیں کیونکہ بتوں سے تو وہ پہلے ہی دوستی کررہا تھا ۔
میں اوپر بتاچکا ہوں کہ شیطان کے ساتھ تین ذرائع سے تعلق پیدا ہوتاہے ۔ اول نفس کے ذریعہ سے یعنی نفس انسان کو گمراہ کرتاہے اور اس کا شیطان سے تعلق ہو جاتاہے دوسرے برے ساتھیوں کے ذریعہ سے اور تیسرے جب شیطان کے ساتھ براہ راست تعلق ہوجائے تو بدارواح اس کے نفس پر پر توڈالتی ہیں اور اسے گمراہی میں بڑھاتی چلی جاتی ہیں ۔
پہلے یہ کہا تھا کہ تو شیطان کی عبادت نہ کر کیونکہ شیطان خدائے رحمان کا نافرمان ہے اس کے بعد یہ کہا کہ اگر تم عبادت شیطان سے باز نہ آئو گے توخداتعالیٰ کی رحمانیت کی صفت تم پر عذاب لانے کی موجب بن جائے گی اور اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ تم شیطان کے دوست ہوجائو گے ۔ گویا عبادت ِشیطان سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ انسان شیطان کا دوست بن جائے کیونکہ پہلے صرف اتنی بات تھی کہ یہ اپنے نفس کے گمراہ کن خیالات کی وجہ سے شیطان کی بات مانتاتھا یا اپنے برے دوستوںکی وجہ سے شیطان کی بات مانتاتھا مگر پھر ترقی کرکے اس کا شیطان سے براہ راست تعلق ہوجاتاہے جس طرح مومنوں کی نیکیو ں میں ترقی کرتے کرتے فرشتوںسے براہ راست تعلق ہوجاتاہے ۔

اس پر ابراہیم کے باپ نے کہا اے ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے متنفر ہورہا ہے ؟ اے ابراہیم اگر تو باز نہ آئیگا تو میں تجھے ضرور سنگسار کردوںگا اور(بہتر ہے کہ ) تو کچھ دیر کے لئے میری نظروں سے اوجھل ہو جا (تاکہ غصہ میں کچھ کر نہ بیٹھوں )
حل لغات :
رغب عنہ کے معنے ہوتے ہیں اعراض کرنا یا نفرت کرنا جس طرح رغب الیہکے معنے ہوتے ہیں کسی چیز کی طرف رغبت اور شوق کے ساتھ جانا گویا نفرت اور اعراض کے لئے رغب عنہ کے الفاظ آتے ہیں اور کسی کی طرف شوق اور محبت کے ساتھ جانے کے لئے رغب الیہ کے الفاظ آتے ہیں ۔ حضرت ابرہیم ؑ کے والد نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے کہا کہ راغب انت الھتی یا ابراہیم ۔ اے ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے نفرت کرتاہے لئن لم تنتہ لا رجمنک اگر تو اس طریق سے باز نہیں آئے گا تو میں تجھے رجم کروں گا ۔
رجمہ کے معنے ہوتے ہیں رماہ بالحجارۃ اس کو پتھر مار مار کر ماردیا (۲) قتلہ اس کو قتل کردیا (۳) قذفہ اسکو الزام یا تہمت لگائی (۴) لعنہ اس کو *** کی اور اسکے لئے بدعائیں کیں (۵) شتمہ اس کو گالیاں دیں (۶) ھجرہ اس سے قطع تعلق کرلیا (۷) طردہ اس کو دور کردیا (اقرب ) پس لئن لم تنتہ لا رجمنک کے یہ معنے ہوئے کہ اگر تو باز نہیں آئے گا تو میں تجھ کو سنگسار کردوں گا اگر تو باز نہیں آئے گا تومیں تجھ کو قتل کردوں گا اگر تو باز نہیں آئے گا تو میں تجھے سب میں بدنام کردوں گا کہ یہ اپنی قوم کا مذہب نہیں مانتا۔ یا اگر تو باز نہیںآئے گا تو میں لوگوں کے سامنے تجھ سے نفرت کا اظہار کروں گا یا اگر تو باز نہیں آئے گا تومیں تجھے گالیاں دوں گا یا اگر تو باز نہیں آئے گا تومیں تجھے چھوڑ دوں گا اور اپنے گھر سے نکال دوں گا۔
واھجرنی ملیًّالیکن پھر بھی میں تیر ا باپ ہوں ۔میرے نفس کی حالت یہ ہے کہ میرادل چاہتاہے تجھے سنگسار کردوں ۔میرا دل چاہتاہے تجھے قتل کردوں میرادل چاہتاہے تجھے بدنام کروں میرا دل چاہتاہے تجھ پر لعنتیں ڈالوں کہ معبود تجھے تباہ کردیں ۔ میرا دل چاہتاہے کہ میں تجھے خوب پیٹ بھر کر گالیاں دوں ۔ میرا دل چاہتاہے کہ میں تجھے اپنے گھر سے نکال دوں ۔مگر پھر میری باپ والی محبت جوش میں آجاتی ہے ۔ اس لئے میں تجھے کہتاہوں کہ کچھ مدت کے لئے میرے سامنے سے ہٹ جا ۔ تاکہ میرا غصہ دورہوجائے ۔ ایسانہ ہوکہ میں کوئی حرکت کر بیٹھوں اور تجھے نقصان پہنچ جائے ۔
تفسیر :
اس سے پتہ لگتاہے کہ جب کوئی شخص غلطی سے یا اپنے ماں باپ کی سنی سنائی باتوں کی وجہ سے کوئی ایسی بات ماننے لگ جائے جو خلاف حقیقت ہوتی ہے تو اس کے انکا ر پربھی اسے غیرت آجاتی ہے لیکن جب انکار دلیل اور عقل کے ماتحت ہوتاہے تو غیرت بھی دلیل اور عقل کے ماتحت ہوتی ہے اور جب غصہ دلیل اور عقل کے ماتحت نہیں ہوتاتو سلوک بھی دلیل اور عقل کے ماتحت نہیں ہوتا چنانچہ دیکھ لو محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس بھی آپ کے مخالف آتے اور کہتے تھے کہ ہم آپ کی بات نہیںمانتے خود ابوجہل آپ کا قریبی رشتہ دار تھا جو آپ کا شدید ترین دشمن تھا ۔اسی طرح آپ کے بعض دوست تھے جو آپ پر ایمان نہیں لائے حکیم بن حزام آپ کا ایک بڑا گہر ادوست تھا جو مشرک تھا اور بہت بعد میں ایمان لایا وہ آپ سے اتنی محبت رکھتاتھا کہ ایک دفعہ وہ تجارت کے لئے شام گیا تو اس نے ایک اعلیٰ درجے کا کوٹ دیکھا باوجود اس کے کہ وہ کا فر تھا اور رسول کریم ﷺ اس وقت مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لے گئے تھے پھر بھی اس نے کہایہ کوٹ اتنا اچھا ہے کہ محمد ﷺ کے سوا اور کسی کے جسم پر نہیں سج سکتا۔ چنانچہ وہ کوٹ خرید کر مکہ میں لایا او پھر مکہ سے تین سومیل کا سفر کرکے مدینہ پہنچا اور آپ کی خدمت میں اس نے وہ کوٹ پیش کیا اور کہا کہ مجھے یہ کوٹ اتنا پسند آیا تھا کہ میں نے سمجھا سوائے آپ کے اور کسی کو یہ سج نہیں سکتا۔ چنانچہ اب میں یہ کوٹ آپ کی خدمت میںپیش کرنے کے لئے لایا ہوں آپ نے فرمایا اس کی کیا قیمت ہے ؟ اس نے کہا قیمت کیسی ! میں تو محض دوستی کی خاطر لایا ہوں آپ نے فرمایا تمہاری دوستی کی میرے دل میں قدر تو بہت ہے مگر میں نے عہد کیا ہوا ہے کہ میں کسی مشرک کا تحفہ قبول نہیں کروںگا ۔اب چاہو تو یہ واپس لے جائو اور چاہو تو قیمت لے لو ۔ اس کو صدمہ تو بہت ہوا مگر اس نے کہا میں اتنی دور سے یہ چیز آپ کے لئے خرید کر لایا تھا اور دوستی کے طور پر لایا تھا مگر آپ واپس کرتے ہیں میں یہ تو پسند نہیںکرتاکہ کوئی اور شخص اس کوٹ کو پہنے ، آپ قیمت ہی دینا چاہتے ہیں تو دے د یں چنانچہ اس نے قیمت لے لی اور رسول کریم ﷺ نے وہ کوٹ رکھ لیا ۔ اب دیکھودشمن آپ کے بھی تھے بلکہ ایسے ایسے دشمن تھے کہ حضرت عمر وبن العاص کہتے ہیں میں جن دنوں رسول کریم ﷺ کا مخالف تھا ان دنوں میرے دل میں آپ کا اتنا بغض تھااور آپ سے مجھے اتنی شدید نفرت تھی کہ میں اس بغض اور نفرت کی وجہ سے آپ کی شکل تک نہیں دیکھ سکتاتھا لیکن اس ساری مخالفت کے باوجود جب طائف میں آپ پر پتھر پڑے توآپ نے غصہ میں دشمن سے یہ نہیں کہا کہ لا رجمنک بلکہ اس وقت جب دشمن پتھر مار رہا تھا خدا تعالیٰ کا ایک فرشتہ ظاہر ہوا اور اس نے کہاخدانے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس قوم پر عذاب نازل کروں ۔ سامنے پہاڑی تھی فرشتہ نے اس پہاڑی کی طرف اشارہ کیا اور کہا خدانے مجھے کہاہے کہ میں یہ پہاڑی ان پر الٹا دوں اور زلزلہ سے انہیں تباہ کردوں آپ نے فرمایا نہ ایساہرگزنہ کرنا ۔ اگر تم ان لوگوں کو تباہ کردوگے تو مجھ پر ایمان کون لائے گا ۔پھر آپ نے دعاکی اور فرمایا اے میرے خدامیری قوم جانتی نہیں کہ میں کون ہوں اس لئے میراانکا ر کررہی ہے تو ان کی خطائوں کو معاف فرما اور ان کی غلطیوں سے درگزرکر ۔
غرض رسول کریم ﷺ جس عقیدہ پر قائم تھے چونکہ ا س کی دلیل آپ کے پاس موجود تھی اس لئے آپ کواگر غصہ بھی آتاتھا تو اس کی بھی دلیل ہوتی تھی اور اگر درگذر فرماتے تھے تو اس کی بھی دلیل ہوتی تھی ۔ اسی طرح حضرت ابرہیم کے پاس چونکہ دلیل تھی ان کاغصہ بھی دلیل کے ماتحت تھا اور ابراہیم کے باپ کے پاس چونکہ دلیل نہیں تھی اس لئے اس کاغصہ بھی بے دلیل تھا ۔ آخر ابراہیم نے اسے کہا کیا تھا یہی کہا تھا کہ یہ باتیں اچھی نہیںبری ہیں ۔ آخر کسی بات کو بلا دلیل کیوں مانتے ہیں ۔جس چیز کو بھی مانیں اس پر ماننے سے پہلے جرح کریں ، تنقید کریں ، غور وفکر کریںاور پھر اسے قبول کریں ۔ یہ تو شرک ہے کہ انسان بغیر کسی دلیل کے دوسرے کی بات مان لے ۔ اس پر وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتاتھا کہ یہ کل کا بچہ مجھے آج سمجھانے لگاہے ۔ مگر اس کے طیش کی یہ حالت ہے کہ و ہ کہتا ہے۔میں تجھے مارڈالوںگا میں تجھ پر پتھرائو کروں گامیں تجھ پر لعنتیں ڈالوں گا ۔میں تجھے گالیاں دوں گا ۔میں تجھے لوگوں میں بدنام کروں گا ، میں تجھ سے قطع تعلق کرلوں گا ، میں تجھے اپنے گھر سے نکال دوں گا ۔مگر اس قدر طیش اور غضب کے باوجود وہ آج کل کے مولویوں سے پھر بھی اچھا تھا کیونکہ غصہ آیا تو ساتھ ہی یہ بھی خیال آگیا کہ یہ میرا بیٹاہے اور اسے کہا کہ اس وقت میری آنکھوں کے سامنے سے ہٹ جا ایسانہ ہوکہ میں تجھے کوئی نقصان پہنچادوں لیکن پنجاب کی ۵۳ والی شورش میں مولویوں نے احمدیوں کو تلاش کر کر کے مارا ہے ۔ ابراہیم ؑ کا باپ مشرک تھا جس کے لئے خداتعالیٰ نے دعاسے بھی منع کردیا ۔ مگر وہ کہتاہے مجھے غصہ آگیا ہے میرانفس اس وقت قابومیں نہیں تو تھوڑی دیر کے لئے میرے سامنے سے ہٹ جا ۔لیکن اس فتنہ وفساد کے دنوں میں مولویوں نے لوگوں سے یہ کہا کہ احمدیوں کی عورتوں کو بے شک پکڑکرلے جائو تم پر کوئی گناہ نہیں ۔
غرض ابرہیم کے باپ نے تو غصہ کی حالت میں ذراسوچنے کی مہلت چاہی مگر بعض بڑے علماء نے ۵۳ ء میں سوچنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں سمجھی ۔
ملیاً کے معنے عربی زبان میں لمبے زمانہ کے ہوتے ہیں مگر لمبے زمانہ سے مراد صدی دوصدی نہیں کیونکہ عربی کا محاورہ ہے کہتے ہیں مرَّملی من الیل رات میں سے ایک ملی گذر گئی ہے ۔گویا اگر بارہ گھنٹے کی رات ہو اور چھ سات گھنٹے گذرجائیں تو کہیں گے کہ ایک ملی گذرگئی ہے ۔ پس واھجرنی ملیا کے یہ معنے نہیں کہ سالوں کے لئے مجھ سے جدا ہوجائو۔ بلکہ یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ دوچار گھنٹہ کے لئے میری آنکھوںسے پرے ہوجائو تاکہ میرا غصہ ٹھنڈا ہوجائے ۔

(اس پرابراہیم نے ) کہا اچھا میری طرف سے تجھ پر ہمیشہ سلامتی کی دعاپہنچتی رہے (یعنی میں تجھ سے الگ ہوجاتاہوں ) میں اپنے رب سے تیرے لئے ضرور مغفرت کی دعاکروں گا وہ مجھ پر بہت ہی مہربان ہے ۔
تفسیر :
حضرت ابراہیم ؑ نے جب اپنے باپ کی یہ حالت دیکھی تو انہوں نے کہا کہ آپ کو تو اس بات پر غصہ آیا ہوا ہے کہ میں آپ کے جھوٹے معبودوں کو کیوں نہیں مانتالیکن میں اس بات کو دیکھ کر بھی کہ آپ میرے سچے معبود کو نہیں مانتے آپ سے یہی کہتاہوں کہ خدا آپ پر رحم کرے ۔ آپ مجھے اس لئے رجم کرنا چاہتے ہیں کہ میں آپ کے جھوٹے معبودوں کو کیوں نہیں مانتا۔آپ مجھے اس لئے قتل کرنا چاہتے ہیں کہ میں آپ کے جھوٹے معبودوں کو کیوں نہیں مانتاآپ مجھے اس لئے لوگوں میں بدنام کرنا چاہتے ہیں کہ میں آپ کے جھوٹے معبودوں کو کیوں نہیں مانتا۔ آپ مجھ پر اس لئے لعنتیں ڈالنا چاہتے ہیں کہ میں آپ کے جھوٹے معبودوں کو کیوں نہیں مانتا آپ مجھے اس لئے گالیاں دینا چاہتے ہیں کہ میں آپ کے جھوٹے معبودوں کو کیوں نہیں مانتا۔ آپ مجھ سے اس لئے قطع تعلق کرنا چاہتے ہیں کہ میںآپ کے جھوٹے معبودوں کو کیوں نہیں مانتا۔ آپ مجھے اس لئے گھر سے نکال دینا چاہتے ہیں کہ میں آپ کے جھوٹے معبودوں کو کیوں نہیں مانتالیکن اے میرے باپ آپ میرے سچے معبود کو نہیں مانتے اور پھر بھی میں یہی کہتاہوں کہ خدا آپ پر رحم کرے ۔ گناہ آپ نے کیا ہے لیکن میرا رب اب بھی معاف کرنے والا ہے ۔میں آپ کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعاکروں گا ۔
انہ کان بی حفیا۔ حفی کے معنے ہوتے ہیں العالم یتعلم الشیٔ استقصاء ایسا شخص جو کوشش اور جدوجہد کے ساتھ کوئی بات نکالتاہے اور حفی کے معنے المبالغ فی الاکرام والبر والمظھر السرور والفرح والمکثر السؤال عن حال الرجل کے بھی ہیںیعنی ایسا شخص جو دوسرے کی عزت اور اس کا احترام کرنے میں اور اس کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرنے میں کما ل کردے اور اس کو دیکھ کر انتہا ء درجہ کی خوشی اور فرحت کا اظہار کرے اور کثر ت کے ساتھ پوچھے کہ آپ کا کیا حال ہے ۔ کیا میں آپ کی کوئی خدمت کر سکتاہوں ۔ یعنی لوگوں کی خیر خواہی میں جوشخص انتہائی درجہ رکھتاہو اسے حفی کہتے ہیں پس انہ کا بی حفیا کے یہ معنے ہوئے کہ میرا رب میرے اعزاز اور اکرام کے لئے بے انتہا کوشش کرتاہے وہ میری کامیابی کو دیکھ کر بڑا خوش ہوتاہے اور ہر وقت میرا حال پوچھتارہتاہے اور اگر مجھے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ بے تاب ہو جاتاہے ۔ جب میں اپنے اس محسن خدا کو دیکھتاہوں اور اس کے متعلق میرے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے تو ساتھ ہی مجھے خیال آتاہے کہ اس محبت اور حسن سلوک کا ایک چھوٹاسا نمونہ میرے ماں باپ بھی ہیں ۔ پس میرافرض ہے کہ میں ان سے بھی محبت کروں اور ان سے بھی عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئوں ۔ گویا اس وجہ سے کہ ماں باپ مجھ سے حسن سلوک کرتے ہیں یا ماں باپ مجھ سے محبت رکھتے ہیں میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا نہیں ہوتی بلکہ جب میں اپنے خدا کو دیکھتاہوں کہ وہ مجھ سے اتنی محبت کرتاہے اور میری ضروریا ت کا اتنا خیال رکھتا ہے تو مجھے خیال آتاہے کہ اسی قسم کی محبت کا ایک نمونہ میرے ماں باپ بھی ہیں ۔ پس خداکی محبت تقاضا کرتی ہے کہ میں اپنے ماں باپ سے بھی محبت کروں یہ تقویٰ کا کیا ہی لطیف معیار ہے ۔ بعض لوگ نیکیوں میں نیچے سے اوپر جاتے ہیں اور بعض اوپر سے نیچے کی طرف آتے ہیں ۔حضرت ابراہیم ؑ اوپر سے نیچے کی طرف آتے ہیں آپ فرماتے ہیں میں اپنے ماں باپ کی وجہ سے خداتعالیٰ سے محبت نہیں کرتابلکہ خداتعالیٰ کے الطاف کریمانہ کو دیکھ کر کہتاہوں کہ میں اپنے ماں باپ سے بھی پیار کروں۔ پس انہ کان بی حفیا میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کا پیار اور اس کا حسن سلوک دیکھنے کی وجہ سے میرا دل کہتاہے کہ جب میرا محسن اور مربی خدامجھ سے اتنا پیار کرتاہے تو اسی کی رحمت کا ایک نمونہ میرے ماں باپ بھی ہیں ۔ پس میرا فرض ہے کہ میں اپنے والدین سے بھی حسن سلوک کروں ۔اسی لئے میں آپ کا اعزاز کرتاہوں اور آپ کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعاکرتاہوں کہ وہ آپ کا گناہ معاف کرے اور آپ پر اپنا رحم نازل فرمائے ۔

اور (اے باپ ) میں تم کو اور جن (وجودوں ) کو تم اللہ کے سواپکارتے ہو سب کو چھوڑ دونگا اور صرف اپنے رب کے حضور دعائیں مانگوں گا (اور) یقیناً میں اپنے رب کے حضور دعا کرنے کی وجہ سے بدنصیب نہیں بنوں گا۔
تفسیر :
آپ نے کہا ہے کہ مجھے چھوڑ کر چلے جائو آپ نے ٹھیک کہاہے۔ میرا گذارہ آپ کے ساتھ مشکل ہے آپ نے بتوں کو پوجنا ہے اور میں نے خداکو پوجنا ہے آپ کو خداکی پرستش پر غصہ آتاہے اور مجھے بتوں کی پرستش پر غصہ آتاہے ۔
اعتزلکم کے یہ معنے نہیں کہ میں آئندہ بت نہیں پوجوں گا کیونکہ وہ تو پہلے ہی بتوں کی پرستش نہیں کرتے تھے ۔اعتزلکم کے معنے یہ ہیں کہ میں اس جگہ کو چھوڑدوں گا ۔وماتدعون من دون اللہ اور ان بتوں کو بھی چھوڑدوں گا جن کی آپ پرستش کرتے ہیں وادعو ربی اور میں ایسی جگہ چلا جائوںگا جہاں خداہی خدانظر آئے گا۔ عسیٰ الا اکون بدعاء ربی شقیا ۔ اس طرح بظاہر میں اپنے اوپر موت وارد کرلوں گاکیونکہ میرا ملک مجھ سے چھٹ جائے گا میری قوم مجھ سے الگ ہوجائے گی میرا قبیلہ مجھ سے جداہوجائے گا مرے دوست اور ساتھی میرے ساتھ نہیں رہینگے مگر میں امید کرتاہوں کہ جب میں اپنے محبت کرنے والے خدا کو پکاروں گا تواپنے مقاصد کو پالوں گا ۔ مجھے دوست بھی مل جائیں گے مجھے ساتھی بھی مل جائیں گے مجھے ہمدرد بھی مل جائیں گے اور مجھے قوم بھی مل جائے گی ۔

اور پھر جب (ابراہیم ) ان (یعنی اپنے ) لوگوں سے بھی اور جن کی وہ اللہ کے سواپوجا کرتے تھے (ان سے بھی) جداہوگیا تو ہم نے اسے اسحاق اور (اس کے بعد ) یعقوب عطافرمائے ۔اور ان سب کو ہم نے نبی بنایا ۔
تفسیر :
جب اس نے ان کو چھوڑدیا اور ان کو بھی چھوڑ دیا جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے سواپرستش کرتے تھے تو ہم نے اسے اسحاق دیا اور یعقوب دیا وکلاجعلنانبیا اور پھر ہم نے ان سب کو نبی بنادیا ۔ یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ کلا کا لفظ دو پر بھی بولا جاسکتاہے چنانچہ بعض اور مقامات پر بھی کلا کا لفظ استعمال ہواہے مگر مراد صرف دو ہی ہیں ۔اس جگہ اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا ذکر ہے حضرت ابراہیم ؑ پہلے سے نبی ہوچکے تھے پس یہاں کلا سے یہ دونبی مراد ہیں اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ ۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
اور ہم نے ان کو اپنی رحمت میں سے ایک (وافر ) حصہ عطافرمایا اور ہم نے ان کے لئے ہمیشہ قائم رہنے والا اعلیٰ درجہ کا ذکر خیر مقرر فرمایا ۔
تفسیر :
قرآنی محاورہ میں رحمت سے دو چیزیں مراد ہوتی ہیں ۔اول وہ چیزیں جو خدا تعالیٰ کی رحمت عام کے نتیجہ میں ملتی ہیںمثلاً ایک شخص اللہ تعالیٰ کے حضور دعاکرتاہے کہ خدایا مجھے رحم کرکے بیٹا دیجئے اور اسے بیٹامل جاتاہے۔ اب اسے رحم کی وجہ سے کیا ملا ؟ بیٹاملا یا ایک شخص دعاکرتاہے کہ خدایا تو اپنے رحم سے مجھے مقدمہ میں فتح دیجئیو اور اسے مقدمہ میں کامیابی ہوجاتی ہے اسے رحم کی وجہ سے کیا ملا ؟ اسے رحم کی وجہ سے مقدمہ میں کامیابی ملی ۔ یا ایک اور شخص دعاکرتاہے کہ خدایا رحم کرکے میری تنگی دور کیجئے اور اس کی مالی تنگی دور ہوجاتی ہے تو اسے رحم کی وجہ سے کیاملا ؟ رزق کی کشائش ملی اور اس کی تنگی دور ہوئی ۔ یہ خداتعالیٰ کی رحمت کا عام ظہور ہے اور یہ سلوک کافر کے ساتھ بھی ہوتاہے ، منافق کے ساتھ بھی ہوتاہے اور مومن کے ساتھ بھی ہوتاہے مگر بعض انعامات ایسے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اور عام لوگ ان میں شریک نہیں ہو تے ۔یہاں بھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص سلوک کا ذکر کرتاہے اورفرماتاہے ہم نے ابراہیم ؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ کے ساتھ عام سلوک نہیںکیا بلکہ اپنی رحمت ہی ان کے حوالے کردی ۔ یہاں موہوب چیز بیٹانہیں، موہوب چیز روپیہ نہیں موہوب چیز کوئی عہدہ اور رتبہ نہیں بلکہ خود رحمت ہے ۔ فرماتاہے ووھبنا لھم من رحمتنا ہم نے اپنی رحمت ہی ان کے قبضہ میں دے دی او ر کہہ دیا جو بھی مانگو گے تمہیں مل جائیگا ۔ جیسے حضرت خلیفہ اول ؓ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں نے حج کیا اور مجھے پہلی دفعہ خانہ کعبہ نظر آیا تو مجھے یاد آیا کہ حدیثوں میں آتاہے کہ خانہ کعبہ جب پہلی دفعہ نظر آئے تو اس وقت جو دعا بھی کی جائے وہ قبول ہوجاتی ہے ۔ اس وقت میں نے سوچنا شروع کیاکہ میں کونسی دعامانگوں ۔آخر مجھے خیال آیا کہ اگر آج میں کوئی دعامانگوں اور وہ قبول بھی ہوجائے تو ممکن ہے کل مجھے کوئی اور ضرورت پیش آجائے اس لئے کیوں نہ کوئی ایسی دعاکروں جو اپنی ذات میں میری ساری ضرورتوں کوپورا کرنے والی ہو ۔ چنانچہ میں نے دعاکی کہ الٰہی جو بھی دعا میں تجھ سے مانگا کروں وہ قبول ہوجایا کرے میں ۔ نے بھی حضرت خلیفہ اول ؓ کی اتباع میں خانہ کعبہ کو دیکھ کر یہی دعا کی تھی کہ الٰہی جو بھی دعائیں تجھ سے کروں اسے تو اپنے فضل سے قبول فرما لیا کر ۔
تو فرماتاہے ووھبنا لھم من رحمتنا ہم نے اپنی رحمت ہی ان کے حوالے کردی ۔ ہم نے کہا ایک ایک چیز کیا دینی ہے چلو ہم اپنی رحمت ہی تمہارے حوالے کرتے ہیںگویا انہیں عمر عیار کی زنبیل مل گئی کہ جس چیز کی ضرورت ہوئی ہاتھ ڈالا اور نکل آئی۔
جعلنالھم لسان صدق علیا صدق کی طرف جب کسی شئے کو اضافت دی جائے تو اسکے معنے ہوتے ہیں صادق ومرضی یعنی ایسی چیز جو اپنے مفہوم میں کامل اور پسندیدہ ہو مثلاً اگر کہا جائے کہ آم صادق ہے تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ آم کی جس قدر خصوصیات ہوتی ہیں وہ اس میں کامل طور پر پائی جاتی ہیں اور وہ نہایت ہی پسندیدہ اور مرغوب الطبع ہے یا اگر کہا جائے کہ خربوزہ صادق ہے تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ ایک اچھے خربوزہ میں جو لذت اور خوشبو اور ذائقہ پایا جانا چاہئے وہ اس میں کامل طور پر پایا جاتاہے اور اس کے کھانے سے لذت حاصل ہوتی ہے پس وجعلنالھم لسان صدق کے یہ معنے ہوئے کہ ان کو وہ زبا ن ملی جو اپنی جگہ کامل اور پسندیدہ تھی یعنی خداتعالیٰ نے ان کو ایسی توفیق دی کہ ان کی باتیں نہایت اعلیٰ درجہ کی ہوا کرتی تھیں ان میں تلخی نہیں ہوتی تھی ۔بغض اور کینہ کا اظہار نہیں ہوتا تھا اور پھر حکمت والا کلام ہوتاتھا ۔ ہر شخص جوانکی باتیں سنتاتھا کہتاتھا کہ یہ کیا ہی اچھی باتیں ہیں لیکن لسانکے معنے جس طرح ان کی اپنی زبان کے ہیں اسی طرح ان کے متعلق دوسروں کی زبان کے بھی ہوسکتے ہیں ۔ اس صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے ان کو ایسی جماعتیں دیں یا انکو ایسے افراد عطافرمائے جو ان کے متعلق ایسی باتیں کرتے تھے جو بڑی اچھی ہوتی تھیں بڑی پسندیدہ اور قابل تعریف ہوتی تھیں گویا خود ان کا کلام بھی بڑا اعلیٰ درجے کا تھا اور ان کو ایسے مطیع اور فرمانبردار لوگ بھی ملے جو ان کی سچی ، کامل اور پسندیدہ تعریفیں کرنے والے تھے ۔
پھر صدق کی طرف اضافت کسی چیز کے قائم رہنے پر بھی دلالت کرتی ہے یعنی صدق کی طرف جب کسی شئے کو اضافت دی جائے تو اسکے معنے دائمی کے بھی ہوتے ہیں ۔
اس صورت میں وجعلنالھم لسان صدق سے یہ مراد ہوگا کہ ان کو ایسی باتیں ملیں جو ہمیشہ قائم رکھی جائیں گی اور اگر دوسرے معنے لیں یعنی لسان سے ابراہیم ؑ اور اسحاقؑ او یعقوبؑ کی زبان نہ ہو بلکہ دوسروں کی زبان ہو تو اسکے یہ معنے ہوں گے کہ ہمیشہ ہی ان کی تعریف کر نیوالے لوگ دنیا میں موجود رہیں گے جو کہیں گے کہ ابراہیم ؑ بڑا اچھا تھا ۔ اسحاق بڑا اچھا تھا یعقوب بڑا اچھا تھا گویا خداتعالیٰ ہمیشہ دنیا میں ایسے لوگ پیدا کرتارہے گا جو ان کے نیک ذکر کو قائم رکھیں گے اور ان کی پرحکمت اور اعلیٰ درجہ کی باتیں لوگوں میں پھیلاتے رہیں گے ۔
علیاً لسان کی صفت ہے اور اس کے تین معنے ہیں ۔اول المرتفع یعنی بلند دوم الشریف سوم الشدید ۔ ان معنوں کے لحاظ سے وجعلناھم لسان صدق علیا کے یہ معنے بن جائیں گے :
اول:ان کو بلند زبان ملی ۔یعنی وہ بڑی اعلیٰ درجہ کی باتیںکرتے تھے ۔ نہایت پرحکمت،ہر قسم کے بغض اور کینہ سے پاک ، دلوں میں نورایمان پیداکرنے والی اور اخلاق اور پاکیزگی کو ترقی دینے والی یا ان کو بلند تعریف ملی یعنی لوگ انکی تعریف کرتے تھے تو وہ بڑی بلند تعریف ہوتی تھی ۔جیسے امت محمد یہ کو بھی یہ دعا سکھائی گئی کہ اللھم صل علیٰ محمدؐ و علی ال محمد کما صلیت علی ابرٰھیم وعلیٰ ال ابرٰھیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابرٰھیم و علیٰ ال ابرٰھیم انک حمید مجید گویا زبان بھی ملی تو بلند ملی اور تعریف بھی ملی تو بلند ملی ۔
دوسرے معنوں کے لحاظ سے وجعلنالھم لسان صدق علیا کے یہ معنے ہوں گے کہ ان کو شریف زبان دی گئی یعنی ان کی زبان بڑی شستہ تھی ان کی باتوں میں گندنہیں تھا ان کی باتوں میں کینہ ،کپٹ اور بغض نہیں تھا نہایت پاکیزہ اور شائستہ گفتگو کے وہ عادی تھے اور یا پھر اسکے یہ معنے ہونگے کہ ہماری طرف سے انکو شریف تعریف ملی یعنی لوگ انکی تعریف کرتے تھے تو کہتے تھے کہ ان کے اخلاق نہایت اعلیٰ درجہ کے ہیں بڑے بزرگ اور مقدس انسان ہیں ۔
علیاً کے تیسرے معنے شدید کے ہیں اس لحاظ سے وجعلنا لھم لسان صدق علیا کے یہ معنی ہونگے کہ ہم نے انکو شدید زبان دی یعنی ایسی زبان جو صداقت کے اظہار کے لئے بڑی دلیر تھی ۔ اگر کوئی مشرک یا خداتعالیٰ کی ہتک کرنیوالا انکے سامنے آتاتو وہ اسے صاف کہہ دیتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھ سکتے تمہارا راستہ الگ ہے اور ہمارا الگ ۔ اور یا پھر اسکے یہ معنے ہونگے کہ ہماری طرف سے انکو شدید تعریف ملی یعنی انکو ایسی تعریف کرنیوالے لوگ ملے کہ اگر انکی گردنوں پر چھریاں بھی رکھدی جائیں تو وہ یہی کہیں گے کہ ابراہیم ؑ بڑا اچھا تھا ۔ اسحاق ؑ بڑا اچھا تھا یعقوب ؑ بڑا اچھا تھا ۔چنانچہ دیکھ لو مسلمان جب بھی حضرت ابرہیم ؑ یا حضرت اسحاق ؑ یا حضرت یعقوب ؑ کا نام لیتے ہیں تو ہمیشہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کہتے ہیں ۔ اسی طرح وہ ہر نماز کے آخر میں اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ پر اور اسکی اولاد پر بڑی سلامتی نازل کی تھی اور اس کو بہت برکت دی تھی ۔ گویا اس زمانہ میں یہ پیشگوئی صرف مسلمانوں کے ہاتھوں پوری ہورہی ہے ۔
غرض لسان صدق علیاً کے دس معنے ہوگئے ۔

اور تو قرآن کے مطابق موسیٰ کا بھی ذکر کر ۔ وہ ہمارا منتخب بندہ تھا او رسول (اور) نبی تھا ۔
تفسیر :
حضرت اسحق ؑاور یعقوبؑ کے ذکر کے بعد اب اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ کا ذکر فرماتاہے ۔درحقیقت حضرت اسحق ؑ او ریعقوب ؑ کا ذکر صرف ضمناًکیا گیا تھا اصل مقصود حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر تھا جس کی طرف واذکر فی الکتٰب ابرٰھیم کے الفاظ بھی اشارہ کرتے ہیں ۔ حضرت اسحاق اور یعقوبؑ کا ذکر عہد ابراہیمی کے صرف اس حصہ کی طرف اشارہ کرنے کیلئے کیا تھا جس کا تعلق بنو اسحاق کے ساتھ تھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسوی سلسلہ کو لے لیا اور اس طرف اشارہ کیا کہ ابراہیمی نسل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ تھا اور جس کا ایک ظہور اسحاق اور اس کی اولاد کے ساتھ وابستہ تھا اس میں ایک خاص روحانی مقام کی طرف اشارہ کیا گیا تھا جو موسوی مقام ہے کیونکہ اس عہد کا ایک نشان جیسا کی بائبل میں ذکر آتاہے کنعان پر قبضہ قرار دیا گیا تھا او یہ قبضہ حضرت موسیٰ ؑ کے زمانہ میں ہوا اور حضرت موسیٰ ؑ کے ذریعہ ہی تشریعی نبوت کی بنیاد بنی اسرائیل میں پڑی ۔ غرض عیسوی سلسلہ کے سمجھنے کے لئے پہلے ابراہیم ؑ کی طرف توجہ دلائی پھر اس طرف توجہ دلائی کہ ابراہیم ؑ کی نسل میں اسے اسحاقؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے جووعدے تھے وہ پورے ہونے شروع ہوئے اور پھر انہی وعدوں کے سلسلہ میں موسیٰ آگئے اس مناسبت سے اللہ تعالیٰ ابرہیم ؑ اور اسحاق ؑاور یعقوبؑ کے ذکر کے بعد موسیٰ ؑ کا ذکر فرمایاہے ۔
فرماتاہے واذکر فی الکتٰب موسیتوکتاب میں موسیٰ کو بھی یاد کر ۔انہ کان مخلصا و کان رسولا نبیا وہ ہمارا ایک مخلص بندہ اور ہمارا رسول اور نبی تھا۔
اَخلَصَ کے معنے ہوتے ہیں کسی چیز کو خالص کرلینا اور تمام قسم کی ملونیوں اور خرابیوں سے بچالینا۔
ایک ہوتاہے مخلِص اور ایک ہوتاہے مخلَص ۔کہتے ہیں فلاں شخص بڑا مخلص ہے مخلص وہ ہوتاہے جو اپنے تعلقات کے سلسلہ میں ہر قسم کی مداہنت اور نفاق کو اپنے دل سے دور کردے ۔اور مخلصوہ ہوتاہے جسے خداتعالیٰ ہر قسم کے بد خیالوں ،وہموں اور قسم قسم کے شبہات او روساوس سے خود باہر نکال لے ۔ گویا مخلصوہ ہوتاہے جسے خداتعالیٰ محض اپنے لئے انسانوں میں سے منتخب کرلیتاہے اور اسے ہر قسم کی گندگی سے پاک کردیتاہے ۔یوں سمجھ لوکہ جیسے عورتیں آٹاپسوانے لگی ہیں تو وہ آٹاپسوانے سے پہلے گندم کو صاف کرتی اور اس میں سے مٹی وغیرہ نکالتی ہیں یا جب گوشت پکانے لگتی ہیں تو اس کے چھیچھڑے وغیرہ دور کرتی ہیں اب جہاں تک گندم کا سوال ہے وہ ان کے گھر میں پہلے سے موجود ہوتی ہے گوشت بھی صبح سے آیا ہوا ہوتاہے ۔مگر جب وہ کسی خاص مقصد کے لئے ان چیزوں کو استعمال کرنے لگتی ہیں ۔تو ان کی صفائی کے لئے خاص توجہ سے کام لیتی ہیں ۔گندم پڑی ہوئی ہوتی ہے لیکن جب پسوانے لگیں تو کنکر اور تنکے وغیرہ اس میں سے نکال دیتی ہیں یا جب آٹاپکانے لگی ہیں تو اس وقت اسے چھانتی ہیں اسی طرح گوشت پہلے سے موجود ہوتاہے مگر جب گوشت پکانے کا وقت آئے تو اس وقت عورت اس کے چھیچھڑے وغیرہ دور کرتی ہے یا مثلا ًترکاری گھر میں پڑی ہوئی ہوتی ہے اور اس پرمٹی وغیرہ لگی ہوئی ہوتی ہے ۔مگر جب ترکاری پکانے کا وقت آتاہے تو پھر عورتیں اسے پانی سے دھوتی اور چھیلتی ہیں اوراس کی مٹی وغیرہ دور کرتی ہیں تو مخلصہونے کا وقت وہ ہوتاہے جب کسی چیزکے استعمال کا وقت آجائے ۔یوں اچھی چیز ہمیشہ اچھی ہی ہوتی ہے ۔جو طیب ہے وہ طیب ہی ہوگی مگر اس کی پوری صفائی اس وقت کی جاتی ہے جب اس کے استعمال کا وقت آئے۔ پس کان مخلصا ً میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسے وقت میں پیدا ہواجب خدانے اسے انسانوں میں سے الگ کرلیا اور اسے اچھی طرح پاک کرلیا تاکہ وہ کام جو خداتعالیٰ کی طرف سے اس کے سپرد ہونے والا تھا اسے عمدگی کے ساتھ سرانجام دے سکے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی آپ ہی آپ اتفاقاً نہیں ہوجاتابلکہ الٰہی انتخاب سے ایک روح کو اس کے لئے الگ کیا جاتاہے گویا مخلصکا لفظ دلالت کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ کسی خدمت کے لئے اسے مامور کرناچاہتاتھا ۔
وکان رسولا نبیا پہلے مخلص بن گیا اور پھر کام کیا سپرد کیا ؟ کام صالحیت کا بھی سپرد ہوسکتاتھا ۔شہادت کا بھی سپرد ہوسکتاتھا۔ صدیقیت کا بھی سپرد ہوسکتاتھا مگر ہم نے اسے چنا او رپھر رسالت اور نبوت کے مقام پر فائز کردیا عام طور پر ہمارے مفسرین بھی یہی کہتے ہیں اور ہمارے متکلمین بھی یہی لکھتے ہیں کہ رسول وہ ہوتاہے جو کتاب لاتاہے اورنبی وہ ہوتاہے جو کتاب نہیں لاتا۔لیکن وہ خداتعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مامور ہوتاہے ۔ چنانچہ کوئی تفسیر اُٹھا کر دیکھ لو اس میں یہ لکھا ہوگا کہ رسول وہ ہوتاہے جو مامور ہو اور کتاب لائے ۔ اب اگر رسول کے یہی معنے ہیں تو نبیّاًکے کیا معنے ہوئے ۔ نبی ان کے نزدیک وہ ہوتاہے جو مامور ہومگر کتاب نہ لائے ۔اب جو مامور ہو ا اور کتاب لایا وہ جب رول ہو گیا تو نبی تو آپ ہی آپ ہوگیا ۔ پھر رسولاً کہنے کے بعد نبیاً کہنے کی کیا ضرورت تھی ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کے نزدیک نبی ہونے کے بعد رسول ہونا ضروری نہیں مگر رسول ہونے کے ساتھ تو نبی ہونا ضروری ہے ۔یہ نہیں ہوسکتاکہ ایک شخص مامور بھی ہو اور کتاب بھی لائے اور نبی نہ ہو مگر یہ ہوسکتاہے کہ ہم ایک شخص کے متعلق لفظ نبی بولیں مگر اس کے پاس کتاب نہ ہو مگر قرآن نے رسولاکو پہلے رکھا ہے اور نبیاً کو پیچھے رکھا ہے ۔اگر درجہ مراد ہوتاتو اللہ تعالیٰ کہتاکہ کان نبیارسولاً وہ نبی بھی تھا اورپھر ہم نے اسے کتاب بھی دی مگر وہ پہلے اسے رسول کہتاہے اور پھر نبی کہتاہے ۔ پس اگر رسول اور نبی کی وہی تعریف ہے جو عام مسلمان کرتے ہیں تو پھر اسکا مطلب کیا ہو ا۔ یہ تو جاہل آدمی کا طریق ہے کہ وہ کہے کہ صاحب یہ چالیس سال کے ہیں اور یہ دس سال کے بھی تھے ۔ہاں اگر کوئی کہنا چاہے تو یہ کہہ سکتاہے کہ ان کی عمر دس سال ہے اور مجھے خدانے بتایا ہے کہ یہ چالیس سال کی عمر تک زندہ رہیں گے ۔ قرآن تو ایک حکیم اور علیم ہستی کا کلام ہے ۔یہ کس طرح ہوسکتاہے کہ اسکے کلام میں یہ بات آجائے کہ فلاں شخص رسول بھی ہے اور نبی بھی جبکہ رسالت میں ہی نبوت بھی شامل ہے کیونکہ یہ ہو نہیں سکتاکہ ایک شخص مامور ہو اور کتاب بھی لائے مگر وہ نبی نہ ہو ۔
پس معلوم ہوا کہ یہ معنے یہاں چسپاں نہیں ہوسکتے یہاں بہر حال کوئی اور معنے کرنے پڑیں گے اور وہ معنے وہی ہیں جو ہماری جماعت کیا کرتی ہے کہ رسول کے معنے ہوتے ہیں بھیجاہوا اور نبی کے معنے ہوتے ہیں خبر دینے والا اور یہ بالکل صحیح بات ہے کہ پہلے انسان رسول ہوگااور پھر نبی ہوگا ۔ پہلے خدا اسے بھیجے گا اور پھر وہ لوگوں کو خدا کی باتیں بتائے گا ۔ پس رسالت پہلا مقام ہے اور نبوت اس کے بعد کا ۔کوئی شخص نبی نہیں ہوسکتاجب تک وہ پہلے رسول نہ ہو مثلا ً جب خدانے کہاکہ اے محمد ﷺ میں تجھے دنیا کی اصلاح کے لئے بھجواتاہوں تو محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول بن گئے اورجب محمد رسول اللہ ﷺ نے یہ کہا کہ اے مکہ والو! میں تمہیں خداکی طرف سے یہ خبر دیتاہوں تو وہ نبی بن گئے ۔جب خدانے یہ کہاکہ اے عیسیٰ میں تجھ کو بنی نوع انسان کی طرف بھیجتاہوں تو عیسیٰ رسو ل بن گئے اورجب عیسؑی نے یہ کہا کہ اے لوگومیں تمہیں خداتعالیٰ کی طرف سے یہ پیغام دیتاہوں تو وہ نبی بن گئے کیونکہ رسول کے معنے ہیں سننے والا اورنبی کے معنے ہیں بات بتانے والا۔ پہلے وہ سنے گا تو پھر لوگوں کو کچھ بتائے گا ۔یہ کس طرح ہوسکتاہے کہ وہ سنے بعد میں اور پہنچائے پہلے ۔اسی لئے قرآن کریم نے جہاں بھی بیان کیاہے رسول کا لفظ پہلے رکھا ہے اور نبی کا بعد میں ۔سورہ احزاب میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اللہ و خاتم النبین اسی طرح سورہ اعراف میں فرماتاہے الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوبا عند ھم فی التورٰۃ والانجیل پھر اسی سورہ اعراف میں دوسری جگہ آتاہے اَمِنُو بِاللّہ ورسولہ النبی الامی الذی یؤمن باللہ و کلمٰتہ واتبعوہ لعلکم تھتدون غرض ہر جگہ رسول کا لفظ پہلے رکھا ہے اور نبی کا لفظ پیچھے ۔ آگے چل کر انہی آیات میں حضرت اسمٰعیل کے متعلق آتاہے کہ کان رسولاً نبیا حالانکہ حضرت اسماعیل ؑ کے متعلق سب لوگ مانتے ہیں کہ انہیں کوئی کتاب نہ ملی ۔وہ اسی شریعت پر چلتے تھے جو حضرت ابرہیم ؑ کی تھی اور حضرت ابراہیم پر ایمان لانے والے صرف اسماعیل ؑ ،اسحاق ،ؑلوطؑ اور ان کے چند خادم ہی تھے ۔اگر حضرت ابراہیم کے معاًبعد حضرت اسماعیل ؑ کو الگ کتاب مل گئی تھی تو ان کی شریعت پر عمل کس نے کیا ۔ پس حضرت اسماعیل ؑ کے متعلق جو یہ الفاظ آئے ہیں یہ بھی غیر احمدیوں کے خیالات کی تردید کرتے ہیں ۔
اصل بات یہ ہے کہ رسول اور نبی ایک ہی چیز ہے کیونکہ رسول کے معنے MASSENGER کے ہوتے ہیں اور نبی کے معنے بہت خبریں دینے والے کے ہوتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جس شخص کو خدا تعالیٰMASSENGER بنا کر بھیجے گا لازماًاسے کوئی پیغام بھی دے گا اور جو شخص لوگوں پر امور غیبیہ کو ظاہر کرے گا وہ لازماًخداتعالیٰ کا بھیجا ہواہوگا۔پس درحقیقت ایک مامور من اللہ کا وہ نقطہ جو خدا سے ملتاہے اسکے لحاظ سے اسے رسول کہتے ہیں کیونکہ وہ خداکا بھیجاہوا ہے لیکن اس کا وہ نقطہ جو بندوں سے ملتاہے اس کے لحاظ سے وہ خدا کا نبی کہلاتا ہے یعنی ان کو خدا کی خبریں دیتاہے ۔ پس جو رسول ہو وہ نبی بھی ضرور ہوگا کیونکہ خداتعالیٰ بغیر پیغام کے کسی کو نہیں بھیج سکتا اور جو نبی ہو وہ ضرور رسول بھی ہوگا کیونکہ اگر خدانے اسے نہیں بھیجا تو وہ جھوٹاہوگا اور مامور من اللہ جھوٹے نہیں ہوتے ۔

اور ہم نے موسیٰ کو طور کی دائیں جانب سے پکارااور اسکو اپنے اسرار بتاتے ہوئے اپنے قریب کرلیا ۔
حل لغات :
جانب کے معنے پہلو اورکناراکے ہیں ۔
طور ایک خاص پہاڑ کا بھی نام ہے جو سیناء میں ہے اور طور کے معنے عربی زبان میں صرف پہاڑ کے بھی ہوتے ہیں۔
الایمن یعنی دائیں کے بھی ہیںاور ذوالیمن یعنی برکت والے کے بھی ہیں ۔
ایمن کا لفظ اس جگہ جانب کی بھی صفت ہوسکتاہے اور طور کی بھی ۔ اگر ایمن کے معنے دائیں کے کئے جائیں تو جانب کی صورت میں اس کے یہ معنے ہوںگے کہ ہم نے طور پہاڑ کی دائیں جانب سے پکارا اور طور کی صورت میں یہ معنے ہوں گے کہ طور سے جو اس کے دائیں جانب تھا ہم نے اسے آوازدی مگر چونکہ اس میں کوئی خاص حکمت نظر نہیں آتی اس لئے مبارک کے معنے زیادہ درست ہیں ۔ اس صورت میں اس آیت کے یہ معنے ہوںگے کہ ہم نے طور پہاڑ کی برکت والی جانب سے اسے پکارا یعنی جہاں اللہ تعالیٰ کے الہامات پہلے نازل ہوچکے تھے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لوکہ ہم نے بابرکت طور سے اسے پکارا ۔
تفسیر :
اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ الہٰی کلام جس جگہ نازل ہوتاہے وہ جگہ بھی بابرکت ہوجاتی ہے ۔میں نے دیکھا ہے بعض لوگ جب ہماری جماعت میں نئے نئے داخل ہوتے ہیں اور وہ جماعت کے دوستوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ میرے ہاتھوں کو بوسہ دے رہے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ کیا ہاتھوں کو بوسہ دینا شرک تو نہیں ؟ خصوصاً اہل حدیث میں سے جو لوگ ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں و ہ بعض دفعہ اس قسم کا سوال کردیتے ہیں حالانکہ حدیثوں سے صاف ثابت ہے کہ صحابہ ؓ بھی رسول کریم ﷺ کے ہاتھ چوما کرتے تھے ۔ وہ اہل حدیث کہلاتے ہیں مگر اس قسم کی حدیثوں کو بھول جاتے ہیں ۔
اصل بات یہ ہے کہ بے جان چیز بھی اگر کسی بابرکت وجود سے وابستہ ہوجائے تو وہ برکت والی ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح خداتعالیٰ کا کلام جب کسی جگہ پر نازل ہوتاہے تو وہ جگہ بھی بابرکت ہوجاتی ہے ۔
گذشتہ فسادات کے دنوں میں میرے پاس گورنمنٹ کے بعض افسر پیغامات وغیرہ دینے یا چٹھیاں وغیرہ پہنچانے کے لئے آتے رہے ہیں وہ جب بھی میرے پاس آتے ہمیشہ معذرت کرتے کہ ہم مجبور ہوکر آپ کی خدمت میں آئے ہیں کیونکہ گورنمنٹ نے ہمیں بھیجاہے ۔ ہم شرمندہ بھی ہیں مگر کیاکریں گورنمنٹ نے یہ نازک ذمہ داری ہمارے سپرد کردی ہے اور اب ہم مجبور ہیں کہ اسی طرح کریں ۔ایک دفعہ ایک افسر نے جب اسی قسم کے الفاظ میں معذرت کی تو میں نے اسے کہا کہ بتائیے رسول کریم ﷺ کی جوتی برکت والی تھی یا نہیں ؟اس نے کہا کیوں نہیں وہ بڑی برکت والی تھی کیونکہ رسول کریم ﷺ کے پائوں میں تھی میں نے کہا اب بتایئے کیا ابوجہل کی جوتی منحوس تھی یا نہیں ؟اس نے کہا یقیناً منحوس تھی کیونکہ وہ ابوجہل کے پائوں میں تھی ۔میں نے کہا اس جوتی کی اس میں کیا خوبی تھی جو رسو ل کریم ﷺ کے پائوں میں تھی اور اس جوتی کا اس میں کیا قصور تھا جو ابوجہل کے پائوں میں تھی کہ ایک جوتی کو ہم نے برکت والی بنادیا اور دوسری جوتی کو ہم نے منحوس کہہ دیا ؟ میں نے کہا بغیر کسی ارادہ کے بھی اگر کسی اچھے آدمی کا انسان ہتھیار بن جائے تووہ اچھا ہوجاتاہے اور کسی برے آدمی کا ہتھیاربن جائے تو برا ہوجاتاہے ۔ اسی طرح خداتعالیٰ کا الہام جب اس پہاڑ پر نازل ہوا تو پہاڑ بھی بابرکت ہوگیاجیسے خانہ کعبہ میںکیا خصوصیت ہے کہ اسے برکت والا کہا جاتاہے خانہ کعبہ میں ہی خصوصیت ہے کہ وہاں اللہ تعالیٰ کا الہام نازل ہوا اور خداتعالیٰ کے نبیوں نے وہاں عبادتیں کیں اور دعائیں کیں اور ان پر اس کے انعامات نازل ہوئے ۔ اسی طرح جس مقام پر بھی اللہ تعالیٰ کی برکت نازل ہوجائے وہ برکت ہمیشہ کیلئے چلتی چلی جاتی ہے ۔ بلکہ جیسا کہ میں ایک دفعہ بتاچکا ہوں انسان کی برکت بدل سکتی ہے کیونکہ انسان جب نیکی کا رستہ ترک کرکے گنہگار ہوجاتاہے تو خداتعالیٰ کی برکت اٹھ جاتی ہے لیکن بے جان چیز چونکہ گناہ نہیں کرتی اس لئے جب وہ ایک دفعہ بابرکت ہو جاتی ہے تو ہمیشہ کے لئے مبارک رہتی ہے اور کبھی بھی اس کی برکت اس سے جدانہیں ہوتی ۔ ضمنی طور پر اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کیاگیاہے کہ طور کی وحی موسیٰ اور اس کی قوم کے لئے بڑی مبارک تھی ۔
نجیّاًکے تین معنے ہوتے ہیں ۔
اول جس سے مخفی بات کی جائے ۔
دوم جس سے بات کی جائے ۔
سوم نجیّاً کے ایک معنے السریعکے بھی ہیں الناقہ النجیۃ تیز چلنے والی اونٹنی کو کہتے ہیں ۔ یہ تینوں معنے اس آیت پر چسپاں ہوجاتے ہیں یعنی (۱) ہم نے اس کو قریب کیا اس کے ساتھ اسرار کی بات کرتے ہوئے ۔یعنی علوم روحانیہ اور عرفانیہ اس پر ظاہر کئے شریعت چونکہ لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل کی جاتی ہے اس لئے اگر اس کے معنے مخفی بات کے کئے جائیں گے توتورات مراد نہیں ہوگی کیونکہ وہ کوئی مخفی چیز نہیں تھی بلکہ وہ تو نازل ہی اسی لئے کی گئی تھی کہ اسے لوگوں تک پہنچایا جائے پس نجیّاًسے صرف وہ پیغام مراد ہے جس میں موسیٰ ؑ کے علاوہ دوسرے لوگ شریک نہیں تھے اور عقلاً بھی وہی بات مخفی کہلا سکتی ہے جس میں دوسرے شریک نہ ہوں ۔ پس اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے موسیٰ کو قریب کیا اور اس سے وہ باتیں کیں جن میں دوسرے لوگ شریک نہیں تھے ۔اس پر ہم نے اپنے علوم روحانیہ نازل کئے اس سے محبت اور پیار کی باتیں کیں اور اسے اپنے خاص اسرار بتائے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ جن لوگوں پر اپنی شریعت یاروحانیت کے رازکھولتاہے ان کو اپنا مقرب بنالیتاہے ۔
(۲)نجیاًّ کے تیسرے معنے سریعاًکے ہیں پہلے فرمایا تھا کہکان مخلصاً موسیٰ کو ہم نے انسانوںمیں سے چن لیا اوراب فرماتاہے کہ جب بات کرنیکا وقت آیا تو قربنہ نجیا ً ہم نے کہا موسیٰ آہستہ آہستہ نہیں تیز قدم کے ساتھ چل کر ہماری طرف آئو چنانچہ موسیٰ دوڑتے ہوئے ہماری طرف آیا ۔جیسا کہ سورہ طٰہٰ میں ہی ذکر آتاہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے کہا وعجلت الیک رب لترضٰی یعنی اے میرے رب میں اس لئے تیرے پاس جلدی جلدی آیا ہوں تاکہ تو میرے اس فعل سے خوش ہوجائے ۔
دوسرے معنے اس کے یہ ہوسکتے ہیں کہ ہم نے اس کو قریب کیا جبکہ ہم سرعت کے ساتھ اس کی طرف چل رہے تھے یعنی موسیٰ کو بھی ہم نے کہا کہ تیز تیز ہماری طرف آاور ہم نے بھی اس کی طرف محبت میںدوڑنا شروع کردیا ۔گویا اس میں وہی مضمون بیان کیا گیاہے جو ایک حدیث میں آتاہے کہ بندہ جب خداتعالیٰ کی طرف چل کرجاتاہے تو خداتعالیٰ اس کی طرف دوڑکر آتاہے ۔ یہاں بھی ایساہی ہوا ۔اُدھر سے موسیٰ خداکی طرف دوڑا اور ادھر سے خداموسی ٰ کی طرف دوڑا اور دونوں آپس میں مل گئے ۔

اورہم نے اس (یعنی موسیٰ )کو اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون نبی بناکر (مددگار کے طورپر ) دیا ۔
حل لغات :
اخاہ ۔وھبناکا مفعول ہے ۔اور مراد یہ ہے کہ ہم نے موسیٰ کو اس کا بھائی بخشا۔
تفسیر :
قرآن کریم میں دوسری جگہ سورئہ طٰہٰ میں آتاہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعاکی تھی کہ واجعل لی وزیرا من اھلی میرے اہل میں سے مجھے ایک مدد گار عطافرمایا جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وہ دعاسنی اور حضرت ہارون کو بھی نبوت کے مقام پر فائز کردیا ۔اس جگہ وھبنا لہ من رحمتنا اخاہ ھارون نبیا میں اس طرف اشارہ کیاگیا ہے کہ اور انبیاء کا مقام نبوت ایک الگ رنگ رکھتاہے اور ہارون کا مقام نبوت اور رنگ رکھتاہے ۔ ہارون ہم نے موسیٰ کو اپنی رحمت سے عطاکیاتھا گویا وہ نبی تو تھا مگر موسیٰ کا ایک خادم اورآپ کے ماتحت کے طور پر تھا ۔

اور تو قرآن کے مطابق اسماعیل کا بھی ذکر کر ۔وہ بھی یقینا سچے وعدوں والا تھا اور رسول او رنبی تھا ۔
تفسیر :
اب اللہ تعالیٰ اس تمام ذکر کو پھر اسماعیل ؑ کی طرف واپس لوٹاتاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتاہے کہ عیسوی سلسلہ کوئی الگ سلسلہ نہیںبلکہ موسوی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور موسوی سلسلہ کا تعلق حضرت ابرہیم ؑ کے ساتھ ہے جن کے دوبیٹے تھے اسماعیل اور اسحق۔ اسحاق کے متعلق بھی وعدہ تھا کہ خدااسے اور اس کی نسل کو ترقی دے گا اور اپنا عہد اس کے ذریعہ سے پوراکرے گا اور اسماعیل کے متعلق بھی وعدہ تھا کہ خدا اسے برکت دے گا اسے بڑھائے گا اور اسے ایک بڑی قوم بنائے گا لیکن بائبل سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ عہد ابرہیمی گو اسحاق کے ذریعہ شروع ہونا تھا مگر پورا ان کے دونوں بیٹوں کے ذریعہ سے ہونا تھا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسی حکمت کے ماتحت پہلے ابراہیم اور اسحاق کا ذکر کیا او رپھر موسیٰ کا ذکر کرکے بتایا کہ عیسیٰ تو نسل ابراہیمی کے دو سلسلوں میں سے صرف ایک سلسلہ کی آخری کڑی ہے اسے تم نے آسمان پر کیوں چڑھا رکھاہے اور کیوں سمجھتے ہو کہ دنیا کا جو آخری نجات دہندہ آناتھا وہ مسیح کی شکل میں آچکا۔ تم جانتے ہو کہ ہم نے ابراہیم ؑ سے اسحاق کے متعلق بھی وعدہ کیا تھا اور اسماعیل کے متعلق بھی وعدہ کیا تھا ۔ اسحق اور اس کی نسل کے ساتھ ہمارا جو وعدہ تھا وہ پورا ہوا جس کی آخری کڑی کے طور پر مسیح دنیامیں آیا ۔ اب تم ابراہیم کے دوسرے بیٹے اسمٰعیل کو بھی یاد کرو اس کے متعلق ہم نے ابراہیم سے جو وعدے کئے تھے وہ وعدے بھی ہم نے پورے کرنے تھے یا نہیں ۔ ہم نے بنو اسحاق کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے موسیٰ جیسا عظیم الشان نبی ان میں پیدا کردیا ۔ اب اسماعیلی وعدوںکے پورا ہونے کا وقت آیا تو ہم نے اس کی نسل میں سے محمد رسول اللہ ﷺ کو پیداکردیا ۔ غرض اسماعیل کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ابراہیمی عہد کے دوسرے ظہور کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کیا ہے اور عیسائیوں کو بتلایا ہے کہ جس قسم کا درجہ تم عیسیٰ ؑ کو دیتے ہو اگر وہ درست ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اسماعیل کے متعلق جو وعدے کئے گئے تھے وہ بھی ختم ہوگئے ہیں اور ابرہیمی دعائیں بھی ضائع ہوگئی ہیں ۔ حالانکہ حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ دو وعدے کئے گئے تھے ایک اسحاق کے متعلق اور ایک اسماعیل کے متعلق گویا بتایا گیا تھا کہ نسل ابراہیمی سے برکتوں کے دو سلسلے جاری ہوں گے ایک سلسلہ اسحاق کے ذریعہ چلے گا اور ایک سلسلہ اسماعیل کے ذریعہ چلے گا ۔ اسماعیل اگر چہ بڑا لڑکا تھامگر خدانے فرمایا کہ میں اپنا عہد اسحاق سے شروع کروں گا چنانچہ وہ سلسلہ شروع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے دوہزار سال تک بنواسحاق کو نبوت اور حکومت عطافرمائی ۔ اب اگر مسیح پر آکر یہ تمام سلسلہ ختم ہوجاتا تھا تو اس کے معنے یہ تھے کہ اسماعیل کے متعلق جو کچھ کہا گیا تھا وہ بالکل جھوٹ تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ تمہارا یہ کہنا کہ عیسیٰ ایسے مقام پر تھا کہ جس کے بعد عہدابراہیم ختم ہوگیا بائبل کے صریح خلاف ہے ۔ تمہیں اب اس دوسرے سلسلہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے جو ہم نے ابرہیم کے دوسرے بیٹے اسماعیل کی نسل میں سے جاری کیا ہے ۔
انہ کان صادق الوعد و کان رسولا نبیا ان لفاظ میں عیسائیوں اور یہودیوں پر ایک سخت چوٹ کی گئی ہے ۔ فرماتاہے۔ اسماعیل بڑے سچے وعدے کرنے والا تھا مگر تمہارے نزدیک میں ہی جھوٹے وعدے کرنے والا ہوں ۔ وہ ہمارے لئے اپنی جان تک دینے کے لئے تیار رہتاتھا ۔خود بائبل میںلکھاہے کہ
’’اس کا ہاتھ سب کے خلاف اورسب کے ہاتھ اس کے خلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوںکے سامنے بسا رہے گا ‘‘
(پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۳)
یعنی اس کی زندگی ہمیشہ تلواروں کے سایہ تلے گذرے گی اور وہ دین کے لئے ہمیشہ اپنے بھائیوں سے نبرد آزما رہے گا ۔
اسی طرح بائبل میں حضر ت اسماعیل کے متعلق آتاہے کہ ’’خدا اس لڑکے کے ساتھ تھا ‘‘ (پیدائش باب ۲۴ آیت ۲۰)
گویا بائبل کی شہادت بھی اس امر پر موجود ہے کہ حضرت اسماعیل خطرناک حالات میں سے بھی گذرے مگر پھر بھی انہوں نے خداکو نہ چھوڑا ۔جب وہ دین کے لئے اس قدر فدائیت کی روح اپنے اندر رکھتاتھا اور خداتعالیٰ کی خاطر خطرناک سے خطرناک حالات میں اپنے آپ کو ڈالنے کیلئے تیار رہتاتھا تو اے عیسی ٰ کے ماننے والو! کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں اسے چھوڑدوں اور ان خبروں کو پورانہ کروں جو اس کی آئندہ نسل کے متعلق میں نے دی تھیں ۔حالانکہ کان رسولاً نبیاً اسے میں نے دنیا کی طرف بھیجا تھا اور پھر میں نے اسے خبریں بھی دی تھیں ۔گویا میں نے اسماعیل کے متعلق دوہری خبریں دیں ۔ایک دفعہ میں نے ابراہیم کے ذریعہ اسماعیل اور اس کی نسل کی ترقی کی خبردی اور دوسری دفعہ خود اسماعیل کو میں نے اسبارہ میں الہامات کئے اور اسماعیل وہ تھاجو بڑے سچے وعدے کرنے والا تھا ۔ مگر اب تم یہ چاہتے ہوکہ میں ابراہیم کو بھی جھوٹا ثابت کروں اور اسماعیل جو بڑا راست باز انسان تھا اس کو بھی جھوٹا ثابت کروں او رخود بھی جھوٹا بنوں ۔

اور اپنے اہل کو نماز اور زکوٰۃ کی تاکید کرتارہتاتھا اور اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ وجود تھا ۔
تفسیر :
فرماتا ہے جب میں نے اس کو کہا کہ میں آئندہ تیر ی نسل میں سے ہدایت او ر رشد کا ایک سلسلہ جاری کرنے والا ہوں ۔ تو اس نے اس امید میں تہیہّ کر لیا کہ اب میں اپنی اولاد کو ہمیشہ نیکی کی باتیں سکھلائوں گا تاکہ خدائی وعدوں کے پورا ہونے میں آسانی ہو ۔ چنانچہ وہ اپنی اولاد کو ہمیشہ نمازوں اور دعائوں کی تاکید کیا کرتاتھا اور زکوٰۃ دیا کرتا تھا او ر خدانے جو کام اس کے سپرد کیا تھا اس کو وہ پوراکرنے والا تھا اور خدا اس سے بڑا خوش تھا ۔مگر ان ساری باتوں کے باوجود تم کہتے ہو کہ خدا نے حضرت مسیح کو اپنا بیٹا بنا کر بھیج دیا اور اب دنیا کی نجات کے لئے آئندہ کوئی نیا سلسلہ قائم نہیں ہوسکتا۔کیا یہ عقل کی بات ہے کہ اتنے عرصہ سے ہماری پیشگوئیاں چلی آرہی ہوں اور پھر وہ پوری نہ ہوں ۔افسوس ہے کہ ہمارے مفسرین نے اس حکمت کو نہیں سمجھا کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے یہاں اسماعیل کا ذکر کیا ہے کیوں اس سے پہلے موسیٰ اور ہارون کا ذکر کیاہے۔ پھر موسیٰ اور ہارون کے ذکر سے پہلے کیوں اسحق اور یعقوب کا ذکر کیا ہے اور اسحاق اور یعقوب کے ذکر سے پہلے کیوں ابراہیم کا ذکر کیاہے ۔وہ صرف اتنا لکھ دیتے ہیں کہ برسبیل تذکرہ ابراہیم کا ذکر آگیا کہ برسبیل تذکرہ موسیٰ کا ذکر آگیا برسبیل تذکرہ اسماعیل کا ذکر آگیا ۔گویا جس طرح ہم بعض دفعہ غلطی سے دوسروں کا آگے پیچھے ذکر کردیتے ہیں اسی طرح خداتعالیٰ سے بھی نعوذباللہ غلطی ہوگئی ہے کہ اس نے ترتیب سے ذکر کرنے کی بجائے ان نبیوں کا آگے پیچھے ذکر کردیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک ایک نبی کا ذکر اپنے مقام پر ہے کسی ایک نبی کا ذکر بھی آگے پیچھے نہیں ۔ پہلے زکریا ؑ کاہی ذکر ہونا چاہئے تھا پھر یحییٰ کا ہی ذکر ہونا چاہئے تھا ۔پھر مسیح کا ہی زکر ہونا چاہئے تھا پھر ابرہیم کا ہی ذکر ہونا چاہئے تھا پھر اسحاق اور یعقوب کا ہی ذکر ہونا چاہئے تھا پھر موسیٰ اور ہارون کی ہی ذکر ہونا چاہئے تھا اور پھر اسماعیل کا ہی ذکر ہونا چاہئے تھا ۔ یہ بتانے کے لئے کہ ایک سلسلہ تو مکمل ہوگیااب دوسرے سلسلہ کی طرف چلو جس خدا نے اتنا بڑا سلسلہ چلایا ہے کیاوہ دوسر اسلسلہ نہیں چلائے گا؟

اور تو قرآن (کریم ) کے رو سے ادریس کا بھی ذکر کر ۔ وہ بھی صدیق نبی تھا اور ہم نے اسے نہایت اعلیٰ مقام تک پہنچایا تھا ۔
تفسیر :
اس آیت کے متعلق دو سوال پیدا ہوتے ہیں ۔اول یہ کہ ادریس ؑ کون تھا ۔اور دوسرایہ کہ ادریس ؑ کاذکر اس جگہ کیوں آیا ؟
مفسرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ ادریس حنوک کانام تھااور حنوک حضرت آدم ؑ کے پڑپوتے اور حضرت نوح ؑ کے دادا تھے ۔ انگریزی میں حنوک کو (ENOCH ) لکھتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ ا لیاس ہیں اور انکے الیاس لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ا لیاس کے متعلق بھی یہ خیال پایا جاتاہے کہ وہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں۔ دوسرے حضرت مسیح کے متعلق یہ خبر تھی کہ ان کے آنے سے پہلے ایلیا نبی آسمان سے دوبارہ آئے گا۔ پس انہوں نے اس خیال سے کہ مسیح ؑ کے ساتھ الیاس کی مشابہت ہے یہ قیاس کیا ہے کہ اس جگہ ادریس سے الیا س ہی مراد ہے مگر ایسے لوگ بہت کم ہیں اور یوں بھی یہ خیال اس وجہ سے غلط ہے کہ قرآن کریم میں الیاس کا نام آتاہے ۔ پس الیاس کا ہی کسی دوسرے نام سے ذکر کرنا غیر معقول تھا یا تو عرب لوگ الیاس کا تلفظ ادا کرنے سے قاصر ہوتے تب بے شک کہا جاسکتاتھا کہ اس جگہ ادریس سے الیاس مرادہے مگر جب الیاس کانام قرآن کریم نے استعمال کیا ہے تو ادریس سے الیاس مراد لینایقینا غلط ہے اور اس کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی ۔حنوک کے معنے اور ادریس کے معنے آپس میںملتے جلتے ہیں ۔حنوک کے معنے عبرانی زبان میں DEDICATIONٰٓیا INSTRUCTIONکے ہیں یعنی سکھانا یا کسی چیز کی طرف منسوب کردینا (انسائیکلوپیڈیا ببلیکا ) اور ادریس کے معنے بھی اسی رنگ کے ہیں ۔ درس کے معنے ہیں پڑھااور درس کے معنے ہیں پڑھایا۔ پس ادریس کے معنے ہوئے بڑا پڑھنے والایا بڑا پڑھانے والا ۔ گویا INSTRUCTION کے معنے بھی اس میں آجاتے ہیں اور DEDICATION کے معنے بھی اس میں آجاتے ہیں کیونکہ جو شخص کسی کام میں لگا رہتاہے وہ اس میں ماہرہوجاتا ہے اور اسی کام کے لئے وقف ہوجاتاہے ۔پس ادریس کے معنوں میں بھی یہ پایا جاتاہے کہ ’’بڑی مہارت رکھنے والا اور فن کے لئے وقف ہوجانا ‘‘ گویا جو معنے عبرانی میں حنوک کے پائے جاتے ہیں وہی ادریس کے عربی میں پائے جاتے ہیں۔
اقرب الموارد والا لکھتاہے کہ یہ لفظ عَلَمِ عجمی ہے یعنی عجمی نام ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ غیر منصرف ہے اورغیر منصرف اگر علم ہو تو اس کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ عجمی ہو چونکہ ادریس غیر منصرف ہے اس لئے بوجوہ علم ہونے کے یہ عجمی لفظ بھی ہے ورنہ یہ غیر منصرف نہ ہوتا ۔
ابن السکیت کا خیا ل ہے کہ یہ غیر منصر ف ہے اور عربی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ادریس کے معنے عربی زبان میں پائے جاتے ہیں جیسے اَبلَسَ سے اِبلِیسہے اسی طرح اَدرَسَ سے اِدرِیس ہے۔پس یہ لفظ عربی ہے اور انہوں نے اس پر اصرار کیا ہے اور کہاہے کہ جیسے یعقوب عقب سے اور اسرائیل اسرال سے نکلاہے اسی طرح ادریس اَدرَسَ سے نکلاہے اور گو انہوں نے یہ نہیں لکھا مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض اور نام بھی ایسے پائے جاتے ہیں جوعربی زبان سے نکلے ہیں مثلاًاضحاق ضحک سے ہے اسماعیل سمع سے ہے ۔ پس ان کے نزدیک ادریس عربی لفظ ہی ہے لیکن جو دوسرے ماہرین زبان ہیں ان کے نزدیک یہ ناقابل قبول بات ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ عربی ہوتاتو غیر منصرف نہیں ہوسکتاتھا ۔اس صورت میں یہ عربی علم قرار دیا جائے گا اور عربی علم غیر منصر ف نہیں ہوتا۔ پس انہوں نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس لفظ کو عربی قرار دینے کے لئے دو باتیں ضروری ہیں ۔ ایک یہ کہ علم ہو اور دوسری یہ کہ غیر منصر ف نہ ہو ۔
اصمعی نے اور قرطبی نے اور صاحب کشاف نے لکھا ہے کہ ہوسکتاہے کہ جس زبان کا یہ لفظ ہے اس زبان میں قریباًقریباً انہی معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوتاہو جن معنوں میں عربی میں استعمال ہوتاہے ۔اس وجہ سے ابن السکیت کو غلطی لگ گئی ہو اور انہوں نے سمجھ لیا ہو کہ یہ عربی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی یہی مانتے ہیں کہ یہ عربی نہیں ۔ اگر عربی ہوتاتو غیر منصرف نہ ہوتالیکن ہم یہ سمجھیں گے کہ اس زبان میں بھی اس کے یہی معنے ہونگے ۔ اس وجہ سے ابن السکیت کو دھوکہ لگ گیا مگر میرے نزدیک دونوں فریق کو دھوکہ لگا ہے ۔ابن السکیت نے جو یہ کہا ہے کہ یہ عربی لفظ ہے یہ غلط ہے ۔اگر قاعدہ کی روسے یہ عربی ہوتا توغیر منصرف نہیں ہوسکتاتھا اور جو دوسرے علماء نے کہا ہے کہ عجمی لفظ ہے اور عجمی لفظ ہونے کیوجہ سے غیر منصر ف ہوگیا ہے انہوں نے بھی حقیقت کو پورے طور پر نہیں سمجھا اس لئے کہ وہ بھی مانتے ہیں کہ اس کانام حنوک تھا اور جب اسکا نام حنوک تھا تو پھر ادریس اس کا ترجمہ ہوا اور جب یہ ترجمہ ہوا تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ اس میں علمیت نہیں رہی اور اسکے غیر منصرف ہونے کی بھی کوئی وجہ نہ رہی کیونکہ غیر منصرف ہونے کیلئے ضروری ہے کہ اگر علم ہوتو وہ عجمی ہو ۔ اگر ادریس ترجمہ ہے حنوک کا توپھر علمیت نکل گئی اور اگر یہ علم ہے تو پھر ادریس حنوک کا نہیں بلکہ کسی اور نبی کانام ہوگا اور اگر وہ حنوک ہی ہے تو ادریس اس کا ترجمہ ہو ااور جب یہ ترجمہ ثابت ہوگیا تو علمیت سے بھی نکل گیا ۔پس جن لوگوں نے اسے غیر منصرف قرار دیا ہے انہیں بہر حال غلطی لگی ہے ۔ورنہ اسے غیر منصرف قرار دینے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی ۔
اب ہم اسبات پر غور کرتے ہیں کہ جب ادریس حنوک کا ترجمہ ہے تو پھر عربوں نے اسے غیر منصرف کیوں قرار دے دیا آخر عربوں میں ادریس کانا م پہلے بھی پایا جاتاتھا او روہ قرآن کریم کے نزول سے پہلے ہی اس کے غیر منصرف ہونے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ پس جب نزول قرآن سے پہلے ہی وہ اسے غیر منصرف قرار دے چکے تھے تو ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ ان کو یہ غلطی کیوں لگی اور وہ اس دھوکہ میں کس طرح مبتلا ہوگئے کہ یہ غیر منصرف ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ہمارے علماء کو یہ دھوکا رہا ہے کہ وہ عربی زبان کے بھی بڑے ماہر ہیں اور غیر زبانوں کا بھی بڑا مطالعہ رکھتے ہیں حالانکہ وہ عربی زبان کے تو بے شک ماہر ہونگے مگر غیر زبانوں کے متعلق ان کا مطالعہ بہت ہی محدود تھا اورنہ صرف غیر زبانوں کے متعلق بلکہ غیر مذاہب کے متعلق بھی ان کی معلومات نہایت سطحی تھی ۔ ہم جب تفاسیر پڑھتے ہیں اور ان میں بائبل کے حوالے آتے ہیں تو ہمیں ان حوالوں کو پڑھ کر شرم آجاتی ہے کیونکہ وہ اتنے غلط اور خلاف واقعہ ہوتے ہیں کہ تورات او ر انجیل سے انہیں کوئی دور کی بھی نسبت نہیں ہوتی بالکل غلط اور سرتاپا غلط حوالہ جات ان تفسیروں میں آجاتے ہیں اور لکھا ہوتاہے کہ یہ بات تورات میں ہے ۔یہ بات انجیل میں ہے ۔حالانکہ وہ با ت نہ تورات میں موجود ہوتی ہے نہ انجیل میں موجود ہوتی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ محض یہودیوں سے بات سن کر اپنی کتابوں میں درج کرلیتے تھے اور یہودی ان سے کھیل کھیلتے تھے ۔وہ بالکل جھوٹی باتیں اپنی طر ف سے بنا کر انہیں بتادیتے تھے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ یہودی بڑے دیانتدار ہیں ۔جب انہوں نے اپنے مذہب کے متعلق ایک بات بتائی ہے تو وہ ضرور سچی ہوگی ۔چنانچہ جب بھی انہیں بائبل کے متعلق کوئی بات دریافت کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی تو وہ یہودی علماء کے پاس چلے جاتے اور وہ انہیں با لکل من گھڑت قصے اور واقعات بتادیتے اور یہ ان قصوں کو اپنی تفسیروں میں درج کرلیتے ۔ جب یہودیوں کو اس کا علم ہوتاتو وہ اور زیادہ ہنسی اُڑاتے کہ دیکھو ہم نے ان سے مذاق کیا تھا اور انہوں نے اس کو اپنی کتابوں میں درج کر لیا ۔ اب یہ لوگوں کی نگاہ میں خوب رسو ا ہونگے۔اس سے بے شک ہمارے علماء کی دیانتداری اور نیکی تو ثابت ہوتی ہے مگر ساتھ ہی یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ غیر مذاہب کے متعلق ان کا علم بہت محدود اور ناقص تھا ۔اگر خداتعالیٰ کسی وقت مسلمانوں کو توفیق دے اور وہ تفاسیر میں سے تورات اور انجیل کا باب نکال دیں تو گو یہ ایک غیر معمولی با ت ہوگی مگر اس کے نتیجہ میں ہمیں غیر مذاہب والوں کے سامنے وہ ذلت محسوس نہیں ہوگی جو اب محسوس ہوتی ہے ۔ اتنی غلط باتیں تورات اور انجیل کے متعلق تفسیروں میں پائی جاتی ہیں کہ جن کی کوئی حد ہی نہیں ۔حدیثوں میں آتاہے کہ حضرت ابن عباس سے کسی نے پوچھا کہ فلاں بات کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟انہوں نے کہا میں پھر بتاؤںگا۔ چنانچہ وہ شخص چلا گیا اس کے بعد راوی کہتاہے کہ حضرت ابن عباس ؓنے مجھے بلایا اور کہا کہ فلاں یہودی کے پاس جائو اور اس سے پوچھو کہ تمہاری کتابوں میں اس کے متعلق کیا لکھا ہے۔ اُس نے ایک نہایت ہی لغو اور فضول او ربیہودہ قصہ بیان کردیا ۔ دوسرے دن وہ شخص آیا تو راوی کہتا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے اسے وہی لغو اور بے ہودہ قصہ بتادیا جو اس یہودی نے بتایا تھا ۔ اب اس میں حضرت ابن عباس ؓ کا قصورنہیں قصور اس یہودی کا ہی ہے مگر حضرت ابن عباسؓ کا اتنا قصور ضرور ہے کہ انہوں نے مؤمنانہ طور پر یہ یقین کرلیا کہ وہ خبیث اور بے ایمان یہودی جو کچھ کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے ۔ مگر باوجود اس کے کہ حضرت ابن عباس نے جو کچھ کیا اپنی سادگی اور نیکی کے نتیجہ میں کیا ، پھر بھی ہماری کتابو ں میں ان باتوں کا موجود ہونا ہمارے لئے بڑی شرم کی بات ہے ۔ آج کل ہم بھی تحقیقات کرتے ہیں مگر اس تحقیق میں ہم عربی کی کتابوں سے مدد لیتے ہیں ۔عبرانی اور یونانی کتابیں دیکھتے ہیں ۔لغت کو مد نظر رکھتے ہیں تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں اورپھر کوئی بات پیش کرتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ کسی وقت ہماری تحقیق میں بھی کوئی غلطی ثابت ہوجائے ۔ مگر بہرحال ہماری باتیں سچ کے گرد چکر لگارہی ہیں کیونکہ ہماری بنیاد حقیقت لغت اور اسرار لغت اورتاریخی واقعات پر ہے اور بعض مفسرین کی بنیاد محض جھوٹے واقعات اور جھوٹے قصوں پر ہے اور ان دونوں میں بڑا بھاری فرق ہے ۔ ان مفسرین میں سے بعض کا یہ طریق تھا کہ وہ یہودیوں کے پاس جاتے اور ان سے دریافت کرتے کہ فلاں بات کس طرح ہے اور یہودی ان سے مزاق کردیتے تھے ۔مثلاًرعد کا لفظ آیا تو وہ کسی یہودی عالم کے پاس چلے گئے اور اس سے پوچھا کہ بتائیے رعد کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ رعد ایک فرشتہ ہے جو آسمان پر ہوتاہے ۔ اس کے اتنے پر ہوتے ہیں وہ اس طرح پر ہلاتاہے تو اس سے سیٹیوں کی آواز پیدا ہوتی ہے ۔ سیٹیوں کی آواز سے مورپیدا ہوتے ہیں ۔ مور کے پروں سے ا ٓگ نکلتی ہے اور آگ سے کڑک اور چمک پیدا ہوجاتی ہے ۔اب اس شخص نے تو ایک مزاق کیا تھا مگر انہوں نے اپنی سادگی سے یہ سمجھ لیا کہ اس نے جو کچھ بکواس کیا ہے وہ بالکل درست ہے اور یہی رعد کی تفسیر ہے ۔اس چیز نے ان تفاسیر کے علمی پایہ کو بہت گرادیاہے۔ بہرحال یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ادریس کا نام اسلام سے پہلے عربوں میں پایا جاتاتھا اورحنوک کامفہوم ادریس سے ملتاجلتاہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ جس کا نام حنوک تھا اسے ادریس کیوں کہتے تھے؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ بعض لوگوںکے دونام بھی ہوتے ہیں ۔ہم نے کئی لوگ ایسے دیکھے ہیں جن کو بعض دفعہ دوسرے ناموں سے بھی بلایا جاتاہے اور جب پوچھا جائے کہ یہ کیا ؟ تو لوگ کہتے ہیں کہ ان کا فلاں نام بھی ہے ۔پس ہوسکتاتھا کہ یہ توجیہہ کرلی جاتی کہ حنوک کا ادریس بھی نام تھا ۔ مگر اس میں ہمارے لئے دقت یہ ہے کہ یہودی لٹریچر میں کہیں بھی ادریس کانام نہیں آتا ۔یہودی نیم مسلمہ عہد نامہ قدیم یعنی ایپوکریفا میں ایک ایڈراس ESDRAS نام آتاہے ۔ مگر اس کی باتیں حنوک پر چسپاں نہیں ہوتیں ۔ جو باتیں قرآن کریم نے حضرت ادریس کے متعلق بیان کی ہیں وہ حنوک پر ہی چسپاں ہوتی ہیں ایڈراس(ESDRAS )پر نہیں ۔پس اس مسئلہ کو ہم اس طرح بھی حل نہیں کرسکتے کہ ادریس حنوک کا دوسرا نام تھا۔
میرے نزدیک اس کا ایک اور حل ہے اور وہ یہ کہ بعض دفعہ دوسری قوم کے لوگ سمجھانے کے لئے نام کا ترجمہ کردیتے ہیں یہی طریق حنوک کے بارہ میں بھی اختیار کیا گیاہے ۔ معلوم ہوتاہے کسی یہودی نے اپنے کسی عرب دوست کے سامنے حنوک کانام لیا تو وہ حیران ہوا کہ یہ حنوک کیا چیز ہے ۔وہ یہودی کوئی ذہین شخص تھا او عربی بھی جانتاتھا ۔خود مدینہ میں بھی یہود آباد تھے اس نے حنوک کا عربی میں ترجمہ کرکے بتادیا کہ حنوک کو تم ادریس سمجھ لو ۔ یوں حنوک کانام بھی عربی میں موجود ہے مگر ایک اور شکل میں چنانچہ عربی زبان میں حنوک کا لفظ پایا جاتاہے اور اس سے حنوک کا سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں تھا ۔ مگر چونکہ یہ لفظ عربی میں اس شکل میں نہیں پایا جاتااس لئے اس کی طرف ذہن نہیں جاتا۔ بہرحال اس یہودی عالم نے عربوں کو سمجھانے کے لئے حنوک کا ترجمہ ادریس کردیا ۔اب یہ لازمی بات ہے کہ جب ایک عرب اس نام کو سنے گا تو وہ خیال کریگا کہ یہ علم بھی ہے اور عجمی بھی ہے کیونکہ اس کا بتانے والا عجمی ہوگا ۔پس میرے نزدیک اس کو غیر منصرف اس لئے کہا گیا ہے کہ یہودیوں نے کسی زمانہ میں اسلام سے پہلے عربوں کو یہ بتانے کے لئے کہ حنوک کیا چیز ہے۔ایسے الفاظ میں جو اہل عرب کے لئے قریب الی الفہم تھے اس کا ترجمہ کرکے ادریس بتادیا ۔ جیسے اس شخص کو جو بڑے عزم اور ارادے والا ہو انگریزی میں ولیم (WILLIAM )کہتے ہیں ۔ولیم مجموعہ ہے will او رHELM کا اورWILL کے معنے ارادہ اور HELM کے ایک معنےHELMET کے ہیں اور HELMET کے معنے لوہے کی خود کے ہوتے ہیں ۔پس ولیم کے معنے ہوئے زرہ جیسی یا خود جیسی نیت اور عزم رکھنے والا ۔ اس کا عربی میں ترجمہ کریں گے تو اولوالعزم کہہ دیں گے ۔ اب اگر کسی انگریز کے سامنے ہم اس کا ذکر کریں اور وہ ہم سے پوچھے کہ اولوالعزم کیا ہوتاہے؟ تو ہم کہیں گے ولیم ۔گویا اس کو سمجھانے کے لئے ہم اسی کی زبان میں اس کا ترجمہ کردیں گے اور یہ طریق نہ صرف دنیا میںرائج ہے بلکہ خداتعالیٰ بھی اسی طرح کرتاہے ۔
میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ میں انگلستان گیا ہوں اور ایک فاتح جرنیل کی طرح اس میں داخل ہوا ہوں اور میں اس وقت سمجھتاہوں کہ میں ولیم دی کنکررہوں (یہ رؤیا تفصیل کے ساتھ الفضل ۲۴جون ۱۹۲۴؁ ء میں چھپا ہوا ہے )چونکہ الہاموں میں میرا ایک نام اولوالعزم بھی آیا ہے اس لئے خداتعالیٰ نے مجھے اس کا ترجمہ کرکے دکھا دیا ۔ تو اصل حقیقت یہ ہے کہ عربوں کو حنوک کا ترجمہ کرکے ادریس بتایا گیا اور چونکہ ان کے سامنے اسے نام کے طور پر پیش کیا گیا اس لئے انہوں نے سمجھا کہ یہ علم ہے اور چونکہ بتانے والا عجمی تھا انہوں نے یہ بھی سمجھ لیا کہ یہ عجمی ہے ۔اصل میں عربی اور عبرانی دونوں ایک ہی زبانیں ہیں مگر رفتہ رفتہ عرب بھی اس بات کو بھول گئے اور یہودی بھی بھول گئے کہ عربی اور عبرانی تو ایک ہی چیز ہیں ۔ اس وجہ سے انہوں نے عبرانی کو بالکل غیر زبا ن سمجھ لیا۔ یہودیوں کے نزدیک عربی غیر زبان تھی اور عربوں کے نزدیک عبرانی غیر زبان تھی حالانکہ عربی زبان اصل تھی اور عبرانی ایک قبیلہ کی زبان تھی ۔ باقی رہا عربی اور عبرانی کا اختلاف سو یہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ہم تو دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ زبان ایک ہی ہوتی ہے مگر ایک علاقہ والا اور طرح بولتاہے اور دوسرے علاقہ والاور طرح بولتاہے ۔
میں جب حج کے لئے گیا تو سیٹھ ابوبکر صاحب کے ہاں جدہ میں ٹھہر ا۔ اُن کا ایک یمنی نوکر تھا ۔میں اس سے عربی زبان میں گفتگو کرتارہا اور میں نے دیکھا کہ وہ میری باتوں کو خوب سمجھتاتھا مگر کسی کسی بات پر وہ حیران ہو کر میرا منہ دیکھنے لگ جاتااور اسے پتہ نہ لگتاکہ میں نے کیاکہا ہے ۔ آخر میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ بات کیا ہے َ تو اس نے کہا کہ یمنیوں اور حجازیوں کے بعض الفاظ میں بڑا بھاری فرق ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ وہ آپ کی بات کو سمجھ نہیں سکتا۔ پھر اس نے لطیفہ سنایا کہ مکہ میں ایک امیر عورت تھی جس کا ایک یمنی ملازم تھا ۔یمن کے لوگ اکثر مکہ میں علم حاصل کرنے کے لئے آجاتے ہیں اورچونکہ ان کی معاش کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہوتا اس لئے وہ گھر وں میں ملازم ہوجاتے ہیں ۔ اسی وجہ سے مکہ میں یمنی نوکر بڑی کثرت کے ساتھ مل جاتے ہیں ۔بہرحال وہ اس عور ت کے ہاں ملازم تھا ۔ وہ عورت حقہ پینے کی عادی تھی ۔ یوں بھی مکہ والے حقہ پینے کے بڑے شائق ہوتے ہیں وہ بڑے بڑے خوبصور ت حقے پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ سو سو روپیہ میں خرید تے ہیں اورحقہ کے نیچے جو پانی والا برتن ہوتاہے وہ بھی مٹی کانہیں بلکہ شیشے کا ہوتا ہے۔ ہمارا ملک چونکہ غریب ہے اس لئے یہاں لوگ معمولی حقہ پر گذارہ کر لیتے ہیں اور حقے کا برتن جس میںپانی ڈالا جاتاہے وہ بھی مٹی کا ہی ہوتاہے مگر ان کے بڑے بڑے نفیس حقے ہوتے ہیں ۔ شیشے کا برتن ہوتاہے جس میں سے پانی اُوپر کو اٹھتاہو انظر آتاہے اور لمبے لمبے پیچوان ہوتے ہیں جن میں پانچ پانچ چھ چھ گزکا چکر پڑا ہوا ہوتاہے ۔ ایک دن جبکہ اس عورت نے حقہ کا پانی بدلنا چاہا تو اسنے اپنے نوکر کو بلایا اور کہا غیرالشیشۃ۔ شیشہ کا پانی بدل دو ۔ لفظی لحاظ سے تو اس کے اتنے ہی معنے ہیں کہ شیشہ بدل دو مگر محاورہ میں اسکے یہ معنے ہوتے ہیں کہ شیشہ کا پانی بدل دو ۔لیکن یمنی زبان میں غیر الشیشۃ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ شیشے کا برتن توڑ دو ۔جب اس عورت نے نوکر سے کہا کہ غیر الشیشۃ تو وہ حیران ہوکر کہنے لگا کہ ستی ھذاطیب۔ آقایہ تو بڑی اچھی چیز ہے ۔ستی ، سیدتی سے بگڑا ہواہے ۔اسے غصہ آیا کہ میں کہہ رہی ہوں پانی بدل دے اور یہ کہتاہے کہ یہ تو بڑا اچھا ہے چنانچہ وہ اسے ناراض ہوئی کہ قلت لک غیر الشیشۃ میں جو تجھ سے کہتی ہوں کہ شیشے کا پانی بدل دے پھر تو کیوں نہیں بدلتا۔ اس نے پھر ڈرتے ڈرتے کہا ستی ھذا طیب۔بیگم صاحبہ ! یہ تو بڑا اچھا ہے اس عورت نے اسے ڈانٹ کر کہا کہ جب میں تمہیں بار بار ایک بات کہہ رہی ہوں تو تم کیوں نہیںمانتے ۔ اس پر اس نے شیشے کا برتن اٹھایا اور زور سے دیوار کے ساتھ مارکر اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ۔عورت نے شور مچادیا کہ کم بخت تونے یہ کیا کردیا ۔اتنا قیمتی برتن تونے ضائع کردیاہے ۔اس نے کہا میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ برتن بڑا اچھاہے اسے ضائع مت کریں مگر آپ ماننے میں ہی نہیں آتی تھیں ۔اب میں نے آپ کے حکم کو مان کر اسے توڑ دیا ہے تو آپ خفا ہورہی ہیں ۔ اس پر عورت اور زیادہ خفا ہوئی مگر آخر کسی یمنی زبان کے واقف نے اسے بتایاکہ اس میں نوکر کا کوئی قصور نہیں ۔یمن میں تغیر کے معنے تکسیر یعنی توڑ دینے کے ہی ہوتے ہیں ۔
تو زبان میں تھوڑے تھوڑے فاصلہ سے ہی بڑے بڑے تغیرات پیدا ہوجاتے ہیں ۔عربی اور عبرانی میں بھی اسی وجہ سے فرق نظر آتاہے ورنہ اسماعیل اور اسحاق دونوں ابرہیم کی اولاد میں سے ہی تھے مگر چونکہ اسماعیل اور جگہ رہے اور اسحاق اور جگہ اس لئے عربی اور عبرانی میں فرق پیدا ہوگیا ۔لیکن اس فرق کے باوجود کوئی لفظ نکال لو وہ عربی سے ضرور ملتاجلتاہوگا ۔ مجھے تو بہت ہی کم کوئی ایسا لفظ نظر آیا ہے جو عربی سے نہ ملتاہو ۔ حنوک کو ہی دیکھ لو ۔عبرانی میں حنوک کہا جاتاہے اور عربی میںحنک کا لفظ موجود ہے یا مثلاًحضرت مسیح ؑ نے صلیب کے وقت کہا کہ ایلی ایلی لما سبقتانی ۔یہ سبقتانی عربی کا سبقتنی ہی ہے ۔صرف عبرانی میں ت کو لمبا کردیا گیا ہے۔ یا مثلا ً اسمٰعیل جو سمع اور ایل سے مرکب ہے اسے عبرانی میں یشمائیلکہتے ہیں ۔پس عربی اور عبرانی دراصل ایک ہی زبانیں ہیں مگر سوال یہ نہیں کہ حقیقت کیاہے بلکہ سوال یہ ہے کہ عرب والے کیا سمجھتے ہیں ۔عرب والے عبرانی کو غیر زبان سمجھتے ہیں اور عبرانی زبان والے عربی کو غیر زبان سمجھتے ہیں ۔ پس چونکہ وہ شخص جس نے حنوک کا عربوں کو نام بتایا اور جس نے اس کی آسانی کے لئے اس کا عربی میں ترجمہ کردیا وہ ایک ہیرو تھا ۔ اس لئے عربوں نے اس کو غیر منصرف بنالیا اور سمجھ لیا کہ یہ علم عجمی ہے ۔بہر حال جس وجہ سے اسے غیر منصرف بنایا گیا وہ یہی تھی ورنہ ادریس ایک عربی لفظ ہے جو درس سے نکلا ہے ۔ ابن السکیت نے تو صرف چند مثالیں دی ہیں اور کہا ہے کہ یعقوب عقبسے اور اسرائیل اسرال سے نکلا ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ عربی اور عبرانی کے سارے ہی الفاظ آپس میں ملتے ہیں درحقیقت عربی اور عبرانی دوبہنیں ہیںیا یوں کہو کہ عربی ماں ہے اور عبرانی بیٹی ۔یوں تو سنسکرت وغیرہ بھی عربی زبان ہی کی بیٹی ہیں۔ مگر وہ زبانیں ایسی ہیں جیسے پڑپوتی ہوتی ہیں اور عبرانی وہ زبان ہے جو عربی کے پیٹ میں سے نکلی ہوئی ہے ۔پس چونکہ عبرانیوں نے حنوک کا ادریس کی شکل میں ترجمہ کرکے عربوں کو بتایا اس لئے عربوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ علم بھی ہے اور عجمی بھی ۔اصمعی قرطبی اور صاحب کشاف کا یہ کہنا کہ وہ لوگ جو ادریس کو عربی لفظ قرار دیتے ہیں جاہل ہیں ،یہ دراصل ان کی اپنی ناواقفیت کا ثبوت ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ یعقوب بھی عقبسے نکلا ہے ۔اسماعیل بھی سمع ایل سے نکلا ہے ادریس بھی درس سے نکلا ہے یسوع بھی ساع یسوع سے نکلا ہے جس کے معنے ہلاکت اور زوال کے ہیں ۔ چونکہ حضرت مسیح کے لئے صلیب مقدر تھی اس لئے پہلے سے ہی آپ کا یہ نام رکھ دیا گیا اور بتادیا گیا کہ یہ کسی مصیبت میں مبتلا ہوگا جیسے رسول کریم ﷺ کا نام خداتعالیٰ نے آپ کی والدہ اور دادانے محمد رکھوایا اور آپ کی کامیابی اور اعلیٰ درجہ کی زندگی کی طرف اس نام میں ہی اشارہ کردیا ۔
غرض یہ ساری غلطی عربی اور عبرانی کے نہ سمجھنے کی وجہ سے لگی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اس کو عجمی قراردیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ادریس کے کوئی معنے نہیں ۔جیسے ان کے نزدیک اسمٰعیل کے بھی کوئی معنے نہیں ۔اضحاق کے بھی کوئی معنے نہیں حالانکہ ادریس کے بھی معنے ہیں ۔اسمٰعیل کے بھی معنے ہیں ۔اضحاق کے بھی معنے ہیں اور اسرائیل کے بھی معنے ہیں ۔ابن السکیت نے لکھا ہے کہ اسرائیل اسرال سے نکلا ہے مگر یہ درست نہیں ۔اسرائیل کا عبرانی تلفظ یسرائیل ہے جو یسر اور ایل سے مرکب ہے ۔ یسر کے معنے جنگجو اور بہادر سپاہی کے ہیں اور ایل کے معنے خدا کے ہیں ۔پس اسرائیل کے معنے ہیں خداکا بہادر سپاہی حنوک جسے انگریزی میں اینوخ لکھتے ہیں۔ اسکے معنے جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے خوب سکھانے والے کے ہیں اور ادریس کے معنے خوب پڑھانے والے کے ہیں ۔ خوب پڑھانے والا اور سکھانے والا ہم معنے الفاظ ہیں پس ادریس یقیناًحنوک کا عربی ترجمہ ہے ۔مگر عربوں کو جب حنوک کے معنے بتائے گئے تو انہوں نے ادریس کو نام سمجھا اور چونکہ انہوں نے یہ یہودیوں سے سنا تھا اس لئے انہوں نے اس کو عجمی نام سمجھا اور اس کو غیر منصرف قرار دے دیا ۔
حنوک یعنی ادریس کا ذکر بائبل میں کتاب پیدائش میں آتاہے ۔چنانچہ پیدائش باب ۴میں اسے قائن کی نسل سے لکھا ہے (قائن وہی ہے جسے عربی میں قابیل کہتے ہیں اور جوہابیل کا قاتل تھا)گویا ایک حنوک قائن کا بیٹاتھا ۔اس کا بیٹاعیراد۔ اس کا بیٹا محویاایل اس کا بیٹا مقوسا ایل ۔ اس کا بیٹالمک اس کے بیٹے یابل یوبل ایک بیوی سے اور دوسری سے توبلقائن۔
باب ۵میں لکھا ہے کہ جب ہابیل مارے گئے تو آدم کو اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ سیت بیٹا دیا ۔سیت وہی ہیں جن کو ہمارے مفسرشیث ؑ کہتے ہیں سیت سے انوس ۔انوس سے متینان متینان سے محلل ایل اور محلل ایل سے یارد اور یارد سے حنوک اورحنوک سے متوسَلْح ۔متوسلح سے لمک پیداہوا اور لمک سے نوح پیدا ہوا ۔ (پیدائش باب ۵آیت ۳ تا۲۹)
ان روایات سے معلوم ہوتاہے کہ ابتدائے آفرینش سے ہی حنوک کا نام مقبول ہوگیا تھا چنانچہ آدم کی پانچ سات پشتوں میں ہی دو آدمیوں کا نام حنوک رکھا گیا ۔ایک قائن کا بیٹا تھا اور ایک سیت نبی کا پانچویں پشت میں پوتاتھا اور یہ حنوک ہے جسے ادریس کہا گیاہے جو حضرت نوح ؑ کے دادا تھے ۔اسلامی روایات کے مطابق آدم ؑ کے نسب نامہ میں پہلے نبی آدم تھے جو باپ تھے ۔ دوسرا نبی شیث تھا جو آدم کابیٹا تھا ۔تیسرا نبی حنوک تھا جو آدم کا پانچواں پڑپوتا تھا اور چوتھا نبی نوح تھا جو پانچویں پڑپوتے کا پوتاتھا ۔
حنوک کے حالات :
بائبل کی کتاب پیدائش باب ۵آیت ۲۱تا۲۴میں لکھاہے کہ حنوک ۳۶۵سال تک زندہ رہا اور متوسلح کی پیدائش پر جو اس کا پہلا بیٹاتھا او ر۶۵سال کی عمر میں پیدا ہوا ۔ حنوک خداکا مقرب بنا اور تین سوسال تک اس مقام پر قائم رہا بائبل کے الفاظ یہ ہیں کہ وہ تین سوسال تک خداکے ساتھ ساتھ چلتارہا (یعنی خداتعالیٰ کی معیت اسے حاصل ہوئی) ۔ پھر لکھاہے کہ خداکے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہی وہ غائب ہوگیا ۔اس لئے کہ خدانے اسے لے لیا ۔
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ اسکے یہ معنے ہیں کہ حنوک یعنی ادریس موت تک نیکی پر قائم رہا اور ایسی حالت میں اس پر موت آئی مگر الفاظ پرستی کا براہو بعض یہود اور مسلمانوں نے عجوبہ پرستی سے کام لیکر اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ گویاخدا تعالیٰ نے اسے آسمان پر اٹھالیا (ایسے مسلمانوںکے نزدیک وہ آسمان پر اٹھائے جانے والو ں کی فہرست میں شامل ہے جن میں الیاس اور مسیح ناصری کا وجود بھی ہے ) ۔
بائبل کہتی ہے وہ خداتعالیٰ کے ساتھ ساتھ چلتاتھا۔اگر ’’لے لیا‘‘ کے معنے لفظی کئے جائیں تو ’’ساتھ ساتھ چلتاتھا‘‘کے معنے بھی لفظی کرنے ہونگے اور اس صورت میں یا تو ان آیات کا یہ ترجمہ کرنا ہوگا کہ ادریس آسمان میں ساری عمر رہا اوروہاں خدااور وہ ساری عمر چہل قدمی کرتے رہے اور یا یہ معنی کرنے ہوںگے کہ حنوک کے ۶۵سال کی عمر کو پہنچنے پر خداتعالیٰ زمین پر آگیا اور حنوک کے ساتھ رہتارہا ۔ بہرحال ۳۶۵سال کی عمر میں آسمان پر اٹھائے جانے کا مسئلہ یہاں سے نہیں نکلتایا یہ ثابت ہوتاہے کہ ۶۵سال کی عمر میں حنوک آسمان پرچلاگیااور اس کی بیوی بھی وہیں چلی گئی اور آسمان پر اس کے کئی بیٹے بیٹیاں پیدا ہوئیں (باب ۵آیت ۲۳)کیونکہ اسی وقت سے اس کے خداکے ساتھ ساتھ چلنے کا بھی ذکر ہے اور اس کے بیٹے بیٹیاں پیدا ہونے کا بھی ذکر ہے اوریاپھریہ ماننا پڑے گا کہ حنوک یا ادریس آسمان پر گیاہی نہیں بلکہ خداآسمان سے زمین پر اترکر اس کے پاس آگیا اور چونکہ خداکا پھرآسمان پر جانا بائبل سے ثابت نہیں اس لئے یہی کہنا پڑے گا کہ خدا پھر زمین پر ہی رہا ۔
خلاصہ یہ کہ غیر طبعی اور خلاف سنت الٰہیہ بائبل کی آیتوں کے معنے کرکے ایسا تمسخرانہ مضمون خداتعالیٰ کی طر ف اور بائبل کی طرف منسوب کردیا گیا ہے جسے کوئی عقل تسلیم نہیں کرسکتی ۔سیدھی سادی بات تھی کہ حنوک آخری دم تک خداتعالیٰ کا مقرب رہااور خداتعالیٰ کا قرب اسے زندگی میں بھی حاصل رہا اور مرنے کے بعد بھی وہ اس کے مقربوں میں شمار ہو ا۔
یہی محاورہ خداتعالیٰ کے ساتھ چلنے کا اور جگہوں میں بھی بائبل میں آیا ہے لیکن وہاں اس کے معنے آسمان پرجانے کے کوئی نہیں کرتا۔مثلاًنوح ؑ کے بارے میں آتاہے ’’نوح خداکے ساتھ ساتھ چلتاتھا‘‘ (پیدائش باب ۶آیت ۹)
پھر حضرت ابرہیم ؑ کے بارے میں آتاہے ’’تو میرے حضور میں چل اور کامل ہو ‘‘ (پیدائش باب ۱۷آیت ۱)
اسی طرح تمام بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے آتاہے کہ اے انسان خدا تجھ سے کیاچاہتاہے یہی کہ ’’اپنے خدا کے ساتھ فروتنی سے چلے‘‘ (میکاہ باب۶آیت ۸)
اب کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ تمام بنی اسرائیل سے یہ کہا گیا ہے کہ تم اپنا سر نیچا کرکے خداکے ساتھ ٹہلا کرو۔
پس خداکے ساتھ چلنے کے ہرگز یہ معنے نہیں کہ خداتعالیٰ کسی مقام پر ہے جہاں انسان اس کے ساتھ چلتاہے اور نہ اٹھا لینے کے معنے مقام بدلنے کے ہیں بلکہ اس کے معنے بھی صرف نیک انجا م پانے اور موت کے بعد خداتعالیٰ کا مقرب ہونے کے ہیں ۔
نئے عہد نامے میں بھی حنوک یا ادریس کا ذکر ہے مگر وہاں اپنی علمیت جتانے کے لئے ک ؔ کو قؔ سے بدل کرلکھاگیاہے حالانکہ یہ غلط ہے ۔ میں بتاچکا ہوں کہ عربی میں بھی حنک کا لفظ موجود ہے ۔پس اس کا تلفظ حنوک ہی ہے حنوق نہیں ۔بہرحال عبرانیوں باب ۱۱ آیت ۵میں لکھا ہے ’’ایمان کے سبب سے حنوق اٹھایا گیا تاکہ موت کو نہ دیکھے اور نہ ملا اس لئے کہ خدانے اسے اٹھالیا تھا‘‘۔
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ پولوس یہود کے ا س عام عقیدے سے متاثر تھا کہ حنوک بوجہ نیک ہونے کے موت سے بچ گیا اورآسمان پر اٹھالیا گیا ۔حالانکہ یہ عقیدہ مسیحی عقیدے کے خلاف ہے ۔مسیحی عقیدہ کی بنیا د اس امر پر ہے کہ موت گناہ سے ہے اور گناہ ورثہ سے ہے اورآدم کے گناہ کی وجہ سے تمام بنوآدم گناہ گارہیں ۔ انہیںمسیح نے کفارہ کے ذریعہ ورثہ کے گناہ سے نجات دی لیکن پولوس نے یہ نہ سوچا کہ حنوک مسیح کے بغیر موت سے نجات پاگیا اور نیک ہوگیا اور مسیحی بلکہ حواری بھی باوجود کفارہ پر ایمان لانے کے موت سے نجات نہ پاسکے یادوسرے لفظوں میںنیک نہ ہوسکے ۔پس جب مسیح کفارہ پر ایمان لانے کے باوجود موت سے نہیں بچے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ گناہوں سے پاک نہیں ہوئے اور حنوک مسیح پر ایمان لائے بغیر موت سے بچ گیا اور نیک ہوگیاتو اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ کفارہ کی ساری تھیوری ہی باطل ہے ۔
بائبل کے بعض ماہرین حزقیل باب ۱۴آیت ۱۴ اور حزقیل باب ۲۸آیت ۳میں جو دانی ایل کانام آتاہے اس سے درحقیقت حنوک یعنی ادریس قرار دیتے ہیں ۔
حزقیل باب ۱۴آیت ۱۴ میں لکھا ہے ’’ہرچند یہ تین شخص نوح اور دانی ایل اور ایوب اس میں موجود ہوتے تو خداوندیہوداہ کہتاہے کہ وے اپنی صداقت سے فقط اپنی ہی جانوں کوبچاتے ‘‘
یعنی یہود آج کل اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ اگر نوح اور دانی ایل اور ایوب بھی ان میں موجود ہوتے تب بھی خدا ان کی وجہ سے یہود کو اپنے عذاب سے نہ بچاتا ۔ وہ صرف اپنی ہی جانوں کو بچاسکتے تھے یہود ان کیوجہ سے خداتعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے تھے ۔ان الفاظ پر بائبل کے عالم ہیلی وے (HELEVY )نے اور بعد میں شین (CHEYNE ) نے انسائیکلو پیڈیا ببلیکا کی جلد ۲ میں یہ ثابت کیاہے کہ دانی ایل اس جگہ پر غلط لکھ دیا گیاہے اصل میں اس جگہ پر حنوک (یعنی ادریس ) مراد ہے ۔ کیونکہ کہا جاتاہے کہ حزقیل کازمانہ مسیح سے قریباً پونے چھ سوسال سے چھ سو سال قبل تھا اور یہی زمانہ دانی ایل کا بھی ہے ۔پس ان علماء کا خیال ہے کہ چونکہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اس جگہ پر سابق انبیا ء کا ذکر ہے اس لئے دانی ایل کا نام غلطی سے لکھا گیا ہے درحقیقت اس جگہ پر حنوک کا ذکر ہے۔ ہمیں اس بحث میںپڑنے کی ضرورت نہیں کہ یہاں دانی ایل کانام ہے یا حنوک کاہم اس بحث سے جو فائدہ اٹھا سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہودی علماء تسلیم کرتے ہیںبائبل میں غلط باتیں لکھی گئی ہیں ۔چنانچہ ایک معین غلطی یہ ہے کہ بائبل میں دانی ایل کانام لکھا ہے لیکن یہودی اور عیسائی علماء کہتے ہیں کہ یہاں دانی ایل غلط لکھا گیا ہے اصل میں حنوک کانام چاہئے ۔
اسی طرح حزقیل کی کتاب کے باب ۲۸کی آیت ۳میں لکھا ہے ۔ ’’دیکھ تو دانی ایل سے زیادہ دانشمند ہے ‘‘
یہاں بھی دانی ایل غلط لکھاگیاہے او راس جگہ بھی درحقیقت حنوک کا لفظ تھا ۔ اگر یہ استدلال درست ہے اور بظاہر حالات اس کی تائید میں ہیں تو اس سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ عہد نامہ قدیم کے انبیا ء کی زبانوں پر حنوک کا نام اپنی دانائی اور اپنے تقویٰ میں بطور ایک ضرب المثل کے جاری رہتاتھا یعنی علاوہ اس نتیجہ کے کہ بائبل میں دانی ایل کا نام آتاہے اور کہا جاتاہے کہ اس سے مراد دانی ایل نہیں بلکہ حنوک ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ بائبل میں دیدہ ودانستہ یاجہالت سے تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ۔ ایک یہ نتیجہ بھی نکلتاہے کہ جب بائبل دانی ایل کو دانشمندی میں نمونہ قرار دیتی ہے اور بائبل کے علماء کہتے ہیں کہ اس سے حنوک مراد ہے تو بائبل کے اصل الفاظ یہ ہوئے کہ
’’دیکھ تو حنوک سے زیادہ دانشمند ہے ‘‘
گویا حنوک کانام اپنی دانائی کی وجہ سے قدیم انبیاء کی زبانوں پر بطو ر ایک ضرب المثل کے جاری رہتاتھا ۔
حنوک کا ذکر یہودی اور مسیحی احادیث ولٹریچر میں :
یہودیوں کی مشہور مذہبی کتاب ٹارگم( TARGUM ) میں جو ان کی احادیث کا مجموعہ ہے جیسے ہمارے ہاں مشکوٰۃ ہے لکھا ہے کہ حنوک خداکانیک بندہ تھااور اس کومتاترن(METATRON ) اور سفراربہّ(SAFRA RABBA ) یعنی بڑے عالم یا مذہبی علوم کے عالم کا خطاب دیکر خدانے آسمان پر اٹھالیا ۔
سفر کے معنے عربی زبان میں کتاب کے ہوتے ہیں اور اسفار اس کی جمع ہے ۔پس سفرا کے معنے ہوئے کتابیں او رسراربہ کے معنے ہوئے خدائی علوم والا ۔متاترن کے متعلق میں نے تحقیقات نہیں کی ، لین اس کے معنے بھی بڑے عالم کے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ بہرحال ٹارگم میں لکھاہے کہ حنوک کو خداتعالیٰ نے متاترن اور سفراربہّ کا خطاب دے کر آسمان پر اٹھالیا ۔لیکن بعض یہودی کتابوں میں لکھا ہے کہ حنوک آخری عمر میں نیکی کے رستہ سے ہٹ گیا تھا اور خدانے اسے اس لئے اٹھالیا تاکہ وہ بدکار ہوکر برا انجام نہ دیکھے اور یہ بھی لکھا ہے کہ وہ آسمان پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ طاعون سے مرا تھا ۔ (جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد ۵ ۔۱۷۸)
یہودی کتب میں یہ بھی آتاہے کہ لکھنے کاعلم حنوک نے ایجاد کیا تھا ۔اسی طرح علم ہیئت اور حساب بھی اسی نے ایجاد کیا تھا (جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد ۵صفحہ ۱۷۸ بحوالہ سفر پوہاسین YUHASIN SEFER )مسلمانوں میں بھی اسی قسم کی روایات آتی ہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے یہودی کتب سے ہی یہ باتیں نقل کی ہیں ۔
یہودیوں کی ابتدائی تاریخ میں حنوک کانام قریباًمٹ گیا تھا لیکن کچھ صدیوں کے بعد حنوک کا ذکر ان کی کتابوں میں آنے لگا ۔ چنانچہ بعد میںایک الہامی کتاب حنوک کی کتاب کے نام سے ان میں شائع ہوتی رہی ۔ سفر حنوک (یعنی کتاب حنوک ) میں لکھاہے کہ لوگوں کے گناہوں کیوجہ سے خدانے زمین کو چھوڑ دیا او رحنوک کو آسمان پر اٹھالیا اور آسمانی خزانوں کا اس کو نگران مقرر کردیااور فرشتوں کا سردار مقر کردیا اور خداکے تخت کے سامنے خاص مصاحب کے طور پر وہ مقرر کیا گیا ۔ اس کو سب راز معلوم ہیں اور فرشتے اس کی پشت پر ہیں اور وہ خداکامنہ ہے اور وہ خدا کے احکام کو دنیا میں جاری کرتاہے ۔ وہ روحانی علوم سکھاتاہے وہ آرام کی جگہ پر روحوں کو لیجاتاہے اور خداکے منہ کا شہزادہ کہلاتاہے ۔اسی طرح اس کانام تورات کا شہزادہ ،دانائی کا شہزادہ، عقل کا شہزادہ اور شان و شوکت کا شہزاد ہ بھی ہے ۔،موسی ؑ پر خداکا پیغام لانے والا وہی تھا (گویا ایک طرح اسے جبریل کا عہدہ دیا گیا تھا )
سفر حکالوت (SEFER HEKALOTیعنی تذکرہ انبیاء واولیاء)میں لکھاہے کہ ربی اسماعیل جب آسمان پر گیا تو وہ ساتویں آسمان پر جاکے ادریس کو ملا جس کو متاترن کا عہد ہ دیا گیاہے ۔وہاں حنوک نے اپنے اٹھا ئے جانے کا قصہ مندرجہ ذیل الفاظ میں اس سے بیان کیا :
زمین کی بدی کی وجہ سے جو شمہازائی (SHAMAZAI ) اور عزائیل (AZAEL) نے پیدا کی حنوک کو خدانے آسمان پر اٹھایا تاکہ وہ دیکھ لے کہ خدا ظالم نہیں ۔
یہ عزائیل وہی ہے جسے عربی میں عزازیل کہتے ہیں اور مراد یہ ہے کہ جب شیطان نے دنیا میں شرارتیں شروع کیں اور لوگوں نے خدائی احکام کو نہ مانا تو اللہ تعالیٰ نے دیکھاکہ حنوک کو یہ برا لگاہے ۔ چنانچہ اس نے حنوک کو آسمان پر اُٹھالیا ۔ وہاں اسے متاترن کا عہدہ دیا گیا او ر دانائی کے سب دروازے اس کے لئے کھولے گئے اور سب فرشتوں کااسے سردار مقرر کیا گیا اور اس کے مادی جسم کو نورانی جسم میں تبدیل کردیا گیا ۔
حئی حنوک (HAYYE HANOK ) نامی کتاب جسے عربی میں حیات حنک کہیں گے یعنی حنوک کی زندگی کے حالات (حنک عربی میں اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی عمر کے مختلف کاموں سے تجربات حاصل کرلے گویا صاحب تجربہ آدمی ) اس پہلی کتاب سے بعد میں لکھی گئی ہے ۔اس میں لکھا ہے کہ حنوک ایک نیک راہب تھا اسے آسمانی آواز نے دنیا کے لوگوں کی طرف بھیجا پھر اس نے ان کو آکر توبہ کی تعلیم دی وہ اسے بہت سے شاگرد اس کے گرد جمع ہوگئے اور دانائی میں ترقی کرتے کرتے وہ بادشاہ منتخب کیا گیا۔ ۲۴۳سال تک اس نے دنیا میں امن قائم رکھا لیکن آخر اس نے خلوت کی خواہش کی اور اپنا تخت چھوڑ دیا مگر کبھی کبھی لوگوں کو تعلیم دینے کے لئے ظاہر ہوجاتا تھا ۔ کچھ عرصہ کے بعد خداتعالیٰ نے اسے زمین چھوڑنے کا حکم دیا اور آسمان پر خداکے بیٹوں کی حکومت اس کے سپرد کی (خداکے بیٹوں سے یہودیوں کے نزدیک خداکے فرشتے مراد ہیں )وہ آسمان پر ایک گھوڑے پر سوار ہوکر گیا جس طرح ایلیا ہ نبی آسمان پر گیا تھا بہت سے لوگ اس کو آسمان پر چڑھتے ہوئے دیکھنے کے لئے جمع ہوئے اور انہوں نے اس کی سخت منتیں کیں کہ وہ آسمان پر نہ جائے اور ان میں رہے لیکن اس نے ان کی نہ سنی اور آسمان پر چلا گیا ۔بعض یہودیوں کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس نے موسوی قانون کے نازل ہونے پر اسے اختیار کر لیاگو قانوناًوہ صرف نوح کی شریعت کا پابند تھا جس میں صرف سات احکام تھے ۔ یہ ایسی ہی روایت ہے جیسے ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ
چہ خوش گفت است سعدی درزلیخا
الآیا ایہا الساقی ادرکأساۃًوّنادِلْہا
یعنی سعدی نے زلیخامیں کیا ہی اچھا کہا ہے کہ
الآیا ایہا الساقی ادرکأساۃًوّنادِلْہا
حالانکہ زلیخا سعدی نے نہیں لکھی بلکہ ملاںجامی ؒنے لکھی ہے اورپھر جو بات بیان کی ہے وہ نہ سعدی نے کہی ہے نہ ملاں جامی نے بلکہ حافظ شیرازی نے کہی ہے ۔ اسی طرح اس روایت میں کہا گیا ہے کہ وہ نوح کی شریعت کا پابند تھا حالانکہ نوح اس کا پوتا تھا۔ عیسائی لٹریچر میں سے کتاب عبرانیوں کا حوالہ پہلے درج کیا جاچکا ہے ۔اس کے علاوہ عیسائیوں میں حنوک کے متعلق دو کتابیں پائی جاتی ہیں جن کو الہامی صحیفے قرار دیا جاتاہے۔ کہا جاتاہے کہ یہ مسیح سے پہلے لکھی گئی تھیں مگر ان کا وجود صرف مسیحیوں میں ملتاہے ۔اسی لئے اسے مسیحی لٹریچر کا حصہ ہی کہا جاسکتاہے ۔ان میں سے ایک صحیفہ حنوک مطابق حبشی کلیسیا کے ہے اور ایک صحیفہ حنوک مطابق روسی کلیسیا ء (SLAVONIC )کے ہے۔ حبشی کتاب تو مختلف روایتوں کے ٹکڑوں کا مجموعہ ہے لیکن SLAVONIC یعنی روسی کتاب حنوک ایک زیادہ تفصیلی کتاب ہے ۔ ان دونوں کتابوں سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ حنوک اپنی زندگی میں ہی آسمان پر چلا گیا اور وہ خداکے فرشتوں کے ساتھ آسمان اور زمین میں چلتا پھرتا تھا ۔پھر وہ اپنی رشتہ داروں کے پاس آیا اور اس نے ان کو وہ باتیں بتائیں جو اس نے آسمان پر دیکھی تھیں اور پھر آخر میں وہ آسمان پر اٹھالیا گیا ۔اپنے آسمانی سفر میں (۱)ا س نے آسمان اور زمین کے راز معلوم کئے اور (۲) طبیعات کے تمام قانون اس پر کھولے گئے (۳) اس نے خداکے بیٹوں یعنی فرشتوںکو بھی دیکھا جن کو کہ انسان کی بیٹیوں سے بدکاری کرنے کے جرم میں سزا دی گئی تھی (۴) اس نے ان سزایافتہ فرشتوں کی سفارش کی۔
حنوک کی کتاب کا ذکر یہودی اور عیسائی لٹریچر میں عام طور پر پایا جاتاہے گوکسی معین شکل میں اس کا ذکر نہیں ۔تیسری صدی عیسوی میں عیسائی علماء نے اس کتاب کو غلط قرار دینا شروع کیا ۔ نویں صدی عیسوی کے بعد اس کا ذکر با لکل ہی عیسائیت کے لٹریچر سے اڑ گیا لیکن ۱۷۷۳؁ء میں بروس (BRUCE )نامی سیاح نے ایبے سینیامیں اس کے دو نسخے دریافت کئے اور انیسویں صدی میں اسکے کئی ایڈیشن شائع کئے گئے ۔ ان نسخوں کی تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ حبشی نسخہ اصل میں عبرانی میں لکھا گیاتھا اور پھر اس کا یونانی میں ترجمہ کیا گیا ۔ اس یونانی نسخے سے حبشی زبان میں اور پھر لاطینی زبان میں اس کا ترجمہ کیا گیا ۔۸۷-۱۸۸۶؁ء یونانی نسخے کے بھی کچھ ٹکڑے مل گئے اور وہ چھاپے گئے ۔یہ کتاب عیسائی لٹریچر میں نہایت اہم سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس کتاب سے قبل از مسیح یہودی مذہبی تاریخ پر اور مذہبی خیالات پر اہم روشنی پڑتی ہے ۔ (جیوش انسائیکلو پیڈیا جلد ۵صفحہ ۱۷۸تا۱۸۱)
سلافی زبان یعنی روسی زبان میں ایک کتاب حنوک کے رازوں کی کتاب کے نام سے ملتی ہے ۔ اس کتاب کا وجود صرف سلافی زبان میں پایا جاتاہے لیکن اب اس کے جرمنی اور انگریزی میں ترجمے ہوگئے ہیں ۔ اس میں زیادہ تفصیل کے ساتھ حنوک کے حالات بیان کئے گئے ہیں اور مختلف ٹکڑوں کو ایک ترتیب دے دی گئی ہے ۔ یہ کتاب اصل میں یونانی میں لکھی گئی تھی اس کے بعد سلافی زبان میں اس کاترجمہ ہوا ۔کچھ حصے عبرانی سے ترجمہ کئے ہوئے بھی معلوم ہوتے ہیں ۔بائبل کے مشہور عالم چارلس (CHARLES) کاخیال ہے کہ اس کتاب کا اکثر حصہ ایک ہی مصنف کا لکھاہوا ہے اور غالباًوہ مصر کا رہنے والا تھا کیونکہ مصری خیالات کا پرتو اس میں نظر آتاہے ۔یہ کتاب علماء کے نزدیک پچاس سے ستر سال قبل مسیح لکھی گئی ہے ۔اس کتاب میں ایک نئے خیال کابھی اظہا ر کیا گیا ہے۔یعنی دوزخ کو بھی آسمان پر ہی قرار دیا گیا ہے اور لکھا ہے کہ دوزخ تیسرے آسمان پر ہے اور گناہ گار فرشتے دوسرے آسمان پر رکھے گئے ہیں ۔
حنوک کے متعلق جو واقعات اوپر بیان ہوئے ہیں یہ مختلف انبیا ء کے واقعات سے مشابہت رکھتے ہیں ۔بلکہ مختلف قوموں کے بزرگوں کے واقعات سے مشابہت رکھتے ہیں مثلاًالیاس کے واقعات سے اسی طرح حرقیول( HERCULES) گینی میڈ (GENYMEDE ) سیمی رامیس (SEMIRAMIS)زی سو تھروس (XISUTHRUS ) اور بادشاہ اناکوس (ANNACUS )کے واقعات بھی اسی قسم کے بتائے جاتے ہیں (جیوش انسائیکلو پیڈیا جلد ۵ صفحہ ۱۷۹) بابل کے بادشاہ ایمی دو رانکی EMMEDURANKI کے حالات بھی جو بابل کے ابتدائی بادشاہوں میں سے ساتواں تھا اسی طرح کے بتائے جاتے ہیں۔
بعض لوگوں نے کہاہے کہ حنوک اصل میں سورج دیوتاکا نام ہے۔ آہستہ آہستہ یہ ایک انسان کانام قرار دے دیا گیا ہے کیونکہ اس کی عمر ۳۶۵سال بتائی گئی ہے اور ۳۶۵دن سورج کے سال کے ہوتے ہیں۔ تعجب ہے کہ مسیحی مصنفوں کو ۳۶۵سال کی بنا ء پر حنوک کو سورج دیوتا قرار دینے کاخیال تو آگیالیکن یہ خیال نہ آیا کہ حنوک کے بیٹوں بیٹیوں اور دادوں پڑدادوں کی عمریں نوسو او ر دس سو اسی بائبل میں بیان کی گئی ہیں ۔پس بجائے اس کے کہ ۳۶۵کی بنا ء پر آدمی کو خیالی قرار دیا جائے دوسری لمبی عمروں کو دیکھتے ہوئے آدمیوں کی بجائے عمروں کو کیوں نہ خیالی قرار دیا جائے ۔ اگر ۳۶۵کا ایک عدد حنوک کو خیالی قرار دینے کے لئے کافی ہے تو وہ دس بارہ عمریں جو آٹھ سو ۔نوسو اور ہزار سال کی بیان کی گئی ہیں۔ ان کی بنا ء پر ان اعداد کو ہی کیوں نہ خیالی قرار دے دیا جائے ؟ اسلامی لٹریچر میں حنوک کا ذکر ادریس کے نام سے کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے ادریس اور حنوک کے معنے ایک ہی ہیں ۔اس لئے مفسرین قرآن کا یہ نظریہ کہ ادریس سے مراد حنوک ہی ہے بالکل درست معلوم ہوتاہے ۔ اسی طرح ادریس کے حالات کی طرف جو اشارہ قرآن کریم میں پایا جاتاہے وہ بھی اس سے ملتاجلتاہے ۔ احادیث میں ذکر آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ادریس کو اپنے معراج میں چوتھے آسمان پر دیکھا (ابن کثیر جلد ۶صفحہ ۲۰۴)تفاسیر میں اسرائیلی روایتوں کے ذریعہ سے یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ ادریس ؑ اپنے ایک دوست فرشتہ کے ذریعہ سے چوتھے آسمان پر گئے اور وہاں عزرائیل نے انکی جان نکالی لیکن بعض دوسرے مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ ادریس ؑ کی جان نہیں نکالی گئی چنانچہ مجاہد کا قول ہے کہ ادریس ؑ کو آسمان پر اٹھا لیا گیا اور وہ مرے نہیں جس طرح کہ عیسیٰ ؑ کو آسمان پر اٹھالیا گیا ۔حضرت ابن عباس ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ انکو چھٹے آسمان پر اٹھالیا گیا حسان ؓ کی روایت ہے کہ ان کو جنت کی طرف لیجایا گیا ۔یہ تمام روایات اسرائیلی ہیںیعنی کوئی بھی روایت ایسی نہیںجو رسول کریم ﷺ سے مروی ہو سوائے معراج کی حدیث کے جس میں رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ انہوں نے چوتھے آسمان پر ادریس ؑ کو دیکھا ۔ پس جہاں تک اسلامی روایتی لٹریچر کا سوال ہے بہت سی وہ لغو باتیں جو اسرائیلی لٹریچر میں پائی جاتی ہیں مسلمانوں نے بھی نقل کی ہیں لیکن جہاں تک اسلامی مذہبی لٹریچر کا سوال ہے حدیثوں میں صرف ادریس کے چوتھے آسمان پر ہونے کاذکر ہے اور قرآن کریم میں صرف یہ ذکر ہے کہ وہ راست باز تھے اور نبی تھے اور انکو بلند مقام پر خداتعالیٰ نے اٹھا یا اور حقیقتاً حنوک کے اتنے ہی حالات ہیں جن کو سچاکہا جاسکتاہے اور کتاب پیدائش سے بھی اتنا ہی پتہ لگتاہے کہ وہ خدا کے ساتھ چلتاتھا یعنی راستباز تھا اور یہ کہ خدانے اس کو ایک بلند مقام پر ااٹھا لیا یعنی اس کاانجام بخیر ہو ا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو مرنے کے بعد بھی اعلیٰ درجات عطافرمائے ۔
ادریس ؑ کے متعلق یہ جو ذکر آتاہے کہ ا ٓسمان سے ان کے لئے گھوڑا آیا اور اس پر وہ چڑھ کر گئے بعینہ ایسا ہی ذکر مسلمانوں کی معراج کی روایتوں میں بھی ہے ۔ مسلمانوں میں بھی یہ روایت پائی جاتی ہے کہ رسول کریم ﷺ کے لئے ایک سواری آسمان سے لائی گئی جس کا نام براق تھا اور آپ اس پر چڑھ کر آسمانوں پر گئے ۔درحقیقت یہ آسمان پر جانا ایک اعلیٰ درجہ کا کشف ہے ۔ انسان نورانی جسم کے ذریعہ سے آسمانوں پر بھی جاتاہے اور خداتعالیٰ کو بھی دیکھتاہے لیکن یہ مادی جسم ان کاموں کے قابل نہیں ہے ۔نہ یہ آسمانوں پر جاتاہے نہ یہ خداکو دیکھتاہے ۔عجوبہ پرست لوگ ان باتوں کو مادیات کی طرف لے جاتے ہیں اور غیرمعقول باتیں بنانے لگ جاتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کا ایمان کمزور ہو جاتاہے اور وہ سائنس اور مذہب کے اختلاف کی الجھنوں میں پڑجاتے ہیں ۔کاش کہ یہ لوگ حقیقت کو اس کی حد تک رکھتے اور مذہب کو کھیل اور تمسخر نہ بنالیتے ۔
حنوک کا خداکے ساتھ چلنا :
حنوک کے متعلق جو یہ آیا ہے کہ وہ خدکے ساتھ ساتھ چلتاتھا اس کے مشابہ الفاظ حضرت اسماعیل ؑ کے متعلق بھی آتے ہیں لکھاہے کہ
’’خدا اس لڑکے کے ساتھ تھا ‘‘ ( پیدائش باب ۲۴آیت ۲۰)
بلکہ درحقیقت یہ ا لفاظ خداکے ساتھ ساتھ چلنے سے بھی زیادہ زور دار ہیں کیونکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا ہر وقت اس کے ساتھ تھا۔ خواہ وہ چلتاتھا یا لیٹتا تھا یا سوتا تھا ۔ یہی مشابہت ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم میں اسماعیل اور ادریس کا ذکر اکٹھا آتا ہے۔ قرآن کریم میں دو جگہ پر ادریس ؑ کاذکر ہے ۔ایک اسی جگہ سوئہ مریم میں اور دوسراسورہ انبیاء میں ۔ سورئہ انبیا ء میں ان الفاظ میں ذکر ہے ۔واسماعیل وادریس و ذاالکفل کل من الصٰبرین (انبیاء) اور اس سورۃ میں حضرت اسماعیل ؑ کے ذکر کے معاًبعد حضرت ادریس کا ذکر آتاہے ۔چنانچہ یہ آیات یوں ہیں :۔واذکرفی الکتٰب اسمٰعیل انہ کان صادق الوعد وکان رسولا نبیا o و کان یأمر اھلہ بالصلٰوۃ والزکٰوۃ وکان عند ربہ مرضیا o واذکر فی الکتٰب ادریس انہ کان صدیقا نبیا o ورفعنٰہ مکانا علیا (مریم ع۴) ان آیات میں اسماعیل ؑ کو صادق الوعد اور ادریس کو صدیق ، اسماعیل کو بھی نبی اور ادریس کو بھی نبی قرار دیا گیاہے ۔
غرض چونکہ الٰہی صحیفوں میں ان دونوں نبیوں کے لئے ’’خدا کے ساتھ‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے تھے اس مشابہت کی وجہ سے قرآن کریم میں ان کا اکٹھا ذکر آتاہے ۔
اب یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اسماعیل ؑ اور ادریس کا ذکرتو ان کی باہمی مشابہت کی وجہ سے اکٹھا ہوگیا ۔یہاں جس مضمون کو بیان کیا جارہا ہے اس کے لحاظ سے ادریس ؑ کی طرف توجہ دلانے میں کیا حکمت ہے ؟ ذکر یہ تھا کہ حضرت زکریا نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں بیٹا عطافرمائے ۔چنانچہ اس دعاکے نتیجہ میں حضرت یحییٰ پیدا ہوئے جن کا مسیح سے پہلے ارہاص کے طور پر آنا ضروری تھا پھر اللہ تعالیٰ نے مسیح کا ذکر کیا جو اصل مقصود تھا اور بتایا کہ مسیح کے متعلق عیسائی دنیا کے جو عقائد ہیں وہ غلط ہیں ۔ مسیح خدا یا خدا کا بیٹا نہیں تھا بلکہ موسوی سلسلہ کی ایک کڑی تھا ۔ پھر بتایا کہ موسوی سلسلہ پیدا ہوا تھا ابراہیم کی دعا سے او رابراہیم کے ساتھ دو وعدے تھے ۔ ایک وہ جو اسماعیل ؑ اور اس کی نسل کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور دوسرے وہ جو اسحاق ؑ اور اس کی نسل کے ساتھ تعلق رکھتے تھے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مسیح ؑ کے ذکر کے بعد پہلے ابراہیم کا ذکر کیا پھر اسحاق او ریعقوب کا ذکر کیا اور پھر موسیٰ ؑ کا ذکر کیا اور بتایا کہ بنو اسحاق کی ترقی کے متعلق میں نے ابراہیم کے ساتھ جو وعدے کئے تھے وہ پورے ہوگئے ۔ اس کے بعد اسماعیل کا ذکر کیا اور فرمایا کہ یہ خیال کرلو کہ جس خدانے اتنی دیر تک بنو اسحق کے ساتھ اپنے وعدے پورے کئے ہیں کیا وہ اسماعیل کے وعدوں کو پورا نہیں کرے گا جو بڑا راست باز اور صادق الوعد تھا اور جس کے کاموں کی وجہ سے خدااس سے بڑا خوش تھا ۔ جس شخص نے ہمارے ساتھ اتنی وفاداری کی کیا ہم اس کے ساتھ بے وفائی کریں گے اور اس کے متعلق اپنے وعدوں کو جھوٹا ہونے دیں گے ۔چنانچہ اس مناسبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون ؑ کے ذکر کے بعد اسماعیل کا ذکر کیا اور بتایا کہ ابراہیمی وعدوں کی ایک کڑی تو مسیح پر آکر ختم ہوگئی مگر اس کا ایک دوسرا وعدہ بھی ہے تم اس کو بھی یاد کرو ۔ چنانچہ واذکر فی الکتٰب اسمٰعیل کہہ کر اللہ تعالیٰ نے وہ اسماعیل والا وعدہ یاد دلادیا ۔ رسول کریم ﷺ کا ذکر اس جگہ نہیں کیا گیا کیونکہ آپ اسی اسماعیلی وعدہ میں آجاتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اسماعیل کے ذکرکے بعد ادریس ؑ کا ذکر کیوں کیا گیا اور اس میں کیا حکمت مدنظر ہے ؟ سو یاد رکھناچاہئے کہ مسیح کے متعلق وہ خیال جس پر اس کی خدائی کی بنیاد رکھی جاتی ہے اس کا آسمان پر چلے جانا ہے اور یہ ایک ایسا خیال ہے جس میں بدقسمتی سے مسلمان بھی عیسائیوں کے ساتھ متفق ہیں اور وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ زندہ ہیں اور آسمان پر بیٹھے ہیں ۔عیسائی مسیح کے بن باپ پیدا ہونے کی وجہ سے اس کی خدائی کا استدلال نہیں کرتے۔ خود عیسائیوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ یوسف کا بیٹا تھا اور اس میں وہ کوئی حرج نہیں سمجھتے ۔وہ کہتے ہیں اگر مریم کا بیٹا ہونے سے اس کی خدائی میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا تویوسف کا بیٹا ہونے سے اسکی خدائی میں کیا نقص واقع ہوسکتاہے ۔ پس وہ اس کی خدائی کی بنیا د واقعہ پیدائش پر نہیںبلکہ آسمان پر زندہ چلے جانے کے عقیدہ پر رکھتے ہیں اور یہ ایک ایسا نقطئہ نگاہ ہے جس کی ابھی تک تردید نہیں کی گئی تھی ۔عیسائیوں کے باقی سب اعتراضات کی تردید کی جاچکی ہے مگر ان کے اس خیال کی تردید ابھی باقی تھی کہ مسیح آسمان پر زندہ چلاگیا ۔چنانچہ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ادریس ؑ کا ذکر فرمایا اور اس طرف اشارہ کیا کہ انجیل میں حضرت مسیح ؑ کے آسمان پر جانے کے متعلق جو الفاظ پائے جاتے ہیں ویسے ہی الفاظ بلکہ ان سے بھی زیادہ شاندار الفاظ حضرت ادریس یا حنوک کے متعلق پائے جاتے ہیں ۔مسیح ؑکے متعلق تو صرف اتنا ہی لکھا ہے کہ
’’وہ انہیں برکت دے رہا تھا کہ ایسا ہواکہ ان سے جدا ہوگیا اور آسمان پر اٹھایا گیا ‘‘ (لوقاباب ۲۴ آیت ۵۱)
مگر ادریس کے متعلق لکھا ہے کہ وہ
’’خداکے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور وہ غائب ہو گیا کیونکہ خدانے اسے اٹھالیا ۔‘‘ (پیدائش باب ۵آیت ۲۴ )
پس اگر مسیح ؑ آسمان پر جانے کی وجہ سے خدایا خداکا بیٹا کہلا سکتاہے تو ادریس ؑ کی الوہیت کا بھی مسیحی دنیا کو اقرار کرنا چاہئے کیونکہ بائبل کی رو سے وہ بھی آسما ن پر اٹھایا گیا تھا ۔
بہر حال ادریس ایک ایساوجود ہے جس کے ذریعہ مسیحی دنیا کے اس خیال کی تردید ہوتی ہے جس پر مسیح کی الوہیت کی بنیاد رکھی گئی ہے یعنی مسیح کا آسمان پر زندہ چلے جانا اور صرف یہی ایک حصہ تھا جس کی ابھی تک تردید نہیں ہوئی تھی۔باقی سب باتوں کی خداتعالیٰ نے تردید کردی تھی مگر عیسائیوں کے اس خیال کی ابھی تردید باقی تھی کہ مسیح آسمان پر چلا گیا ہے اور یہ ایک ایسی بات تھی جو پہلے کسی نبی میں تسلیم نہیںکی جاتی۔ نہ زکریا ؑ کے متعلق لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ آسمان پر گئے نہ یحییٰ ؑ کے متعلق لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ آسمان پر گئے نہ ابراہیم ؑ کے متعلق لوگ تسلیم کرتے ہیںکہ وہ آسمان پر گئے نہ اسحاق ؑ اور یقوب ؑ کے متعلق لوگ تسلیم کرتے ہیںکہ وہ آسمان پر گئے نہ موسیٰ ؑکے متعلق لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ آسمان پر گئے ہیں نہ ہارون ؑ کے متعلق لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ آسمان پر گئے نہ اسماعیل ؑ کے متعلق لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ آسمان پر گئے ۔صرف ادریس ؑکے متعلق کہا جاتاہے کہ وہ آسمان پر گئے او روایات کے مطابق جس شان سے ادریس ؑ کا آسمان پرجانا بتایا گیا ہے اس شان سے مسیح کا بھی آسمان پر جا ناثابت نہیں۔ پس واذکر فی الکتٰب ادریس انہ کان صدیقا نبیا o ورفعنٰہ مکانا علیا o میں بتایا کہ مسیح کے متعلق تم کہتے ہوکہ وہ آسما ن پر گیا ۔ہم تمہارے سامنے ادریس ؑ کو پیش کرتے ہیں۔ادریس ؑ کے حالات مسیح کے حالات سے زیادہ شاندار ہیں پس اگر ان حالات کی وجہ سے جو مسیح کو پیش آئے وہ الوہیت میں شریک ہوسکتاہے تو ادریس اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے خداتعالیٰ کی الوہیت میں شریک قرار دیاجائے ۔
قرآن کریم میں بھی مسیح کے تعلق تو صرف اتناہی آتاہے کہ رفع اللہ الیہ (نساء ع۲۲)خدانے اسے اپنی طرف اٹھالیا مگر ادریس کے متعلق فرماتاہے کہ رفعنہ مکانا علیا ہم نے اسے ایک بلند مقام پر اٹھالیا چنانچہ معراج کی حدیث میں بھی آتاہے کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت مسیح کو دوسرے آسمان پر اور ادریس ؑ کو چوتھے آسمان پر دیکھا۔گویا وہ مسیح سے بھی اونچا اٹھایا گیا ۔ پس اگر ان الفاظ پر بنیا د رکھتے ہوئے تم مسیح کو خدا قرا دیتے ہو تو ادریس ؑ کو کیوں خدا قرار نہیں دیتے ۔

یہ سب کے سب وہ لوگ تھے جن پر خدا(تعالیٰ)نے نبیوں میں سے انعام کیا تھا ۔ان (نبیوں )میں سے جو آدم کی اولاد تھے اور جو ان لوگوں کی اولاد تھے جن کو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں بچایا اور ابراہیم اور یعقوب کی (اولاد تھے ) اور ان (لوگوں )میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت دی اور اپنے لئے منتخب کرلیا جب ان کے اوپر (خدائے )رحمن کا کلام پڑھاجاتا تھا تو وہ سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے (زمین پر)گرجاتے تھے ۔
تفسیر :
اب اوپر کی بحث کا اللہ تعالیٰ ایک نتیجہ نکالتاہے اور فرماتاہے کہ باوجود ان انعامات کے جو زکریاؑ پر نازل ہوئے ۔باوجود ان انعامات کے جو یحییٰ پر نازل ہوئے ۔باوجود ان انعامات کے جو عیسیٰ پر نازل ہوئے ۔باوجود ان انعامات کے جو ابراہیم ؑ پرنازل ہوئے۔ باوجود ان انعامات کے جو اسحاق ؑ پر نازل ہوئے۔ باوجود ان انعامات کے جو یعقوبؑ پرنازل ہوئے۔باوجود ان انعامات کے جوموسیٰ ؑپرنازل ہوئے ۔باوجود ان انعامات کے جو ہارون ؑ پر نازل ہوئے۔ باوجود ان انعامات کے جو اسمائیل ؑ پرنازل ہوئے ۔
باوجود ان انعامات کے جو ادریس ؑپر نازل ہوئے ۔ اولئک الذین انعم اللہ علیہم من النبیین من ذریۃ اٰدم یہ سارے کے سارے انسان ہی تھے ۔بے شک یہ خداکے نبی تھے مگر خدا یا خداکے بیٹے نہیں تھے ۔ اگر تم مسیح کی زندگی کے حالات اور موسیٰ اور ابراہیم اور دوسرے انبیاء کے حالات پر غور کرو تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ یہ ذریت آدم میں سے تھے اور ان لوگوں میں سے تھے۔ جن کو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا اور ابراہیم کی اولاد میں سے تھے اور اسرائیل کی اولاد میں سے تھے اور یہ وہ لوگ تھے جن کو ہم نے ہدایت دی اور انہیں برگزیدہ بنالیا ۔ان لوگوں پر جب خدائے رحمن کی آیتیںپڑھی جاتی تھیں تو یہ لوگ خداتعالیٰ کے حضور میں گر جاتے تھے ۔سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے ۔چونکہ وہ خدا کو ہی اپنا رب سمجھتے تھے ۔
مفسرین کہتے ہیں کہ ذریت آدم سے ادریس کی طرف اشارہ کیا گیاہے اور ممن حملنامع نوح سے ابراہیم کی طرف اشارہ کیا گیاہے اور ذریت ابراہیم سے اسماعیل اور اسحق اور یعقوب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ اسی طرح وہ اسرائیل سے پہلے ومن ذریۃ ۔ اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ ممن کاعطف کس پر ہے سو میرے نزیک یہ من النبیین پرہے ۔یعنی وہ نبی ایسے تھے جن کو ہم نے ہدایت دی اور انہیں برگذیدہ بنالیا ۔ اس پراعتراض ہوسکتاہے کہ کیا نبی ھدایت یافتہ نہیں ہوتے ۔جب خداتعالیٰ نے انہیں نبی کہہ دیا تھا تو ان کا مہدی اور مجتبیٰ ہونا تو اسی میں آگیا تھا پھر اس کاعلیحدہ ذکر کیوں کیا گیا ؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ کبھی صفت ایک خاص خیال کے دور کرنے کے لئے بھی بیان کردی جاتی ہے ۔اسرائیلی اور مسیحی مذہب میں نبیوں کو عام طور پر گنہگار اور خطاکار بیان کیا گیا ہے ۔چنانچہ بائبل پڑھ کر دیکھ لو یہود نے حضرت نوح ؑ پر بھی الزام لگائے ۔حضرت لوط ؑ کیطرف بھی گندے افعال منسوب کئے۔ حضر ت داود ؑ کو بھی گنہگار ٹھہرایا حضرت ہارون ؑ کو بھی خداتعالیٰ کی نافرمانی کرنے والا قرار دیا ۔غرض کوئی نبی ایسانہیں جسے انہوں نے گنہگار نہ کہا ہو ۔اسی طرح عیسائی اللہ تعالیٰ کے سب ابنیا کو گنہگار قرار دیتے ہیں بلکہ انجیل میں یہاں تک لکھا ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے کہا ’’جتنے مجھ سے آگے آئے چور اور بٹ مار ہیں ‘‘ (یوحنا باب ۱۰ آیت ۸)
گویا عیسائی اور یہودی دونوں قومیں انبیاء کو گنہگار قرار دیتی ہیں ۔یہودی تو اپنے گناہوںپر پردہ ڈالنے کے لئے ان کی طرف گناہ منسوب کرتے ہیں اور عیسائی اس لئے ان کو گنہگار قرار دیتے ہیں تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ چونکہ وہ گنہگار تھے اسلئے نجات کاموجب نہیں ہوسکتے۔ نجات صرف مسیح پرایمان لانے کے ساتھ وابستہ ہے ۔غرض انبیاء کو گنہگار ثابت کرنے کے لئے ایک ایک غرض ان دونوں قوموں کے مد نظر ہے۔ ایک غرض یہودیوں کے سامنے ہے جس کیوجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء کو گنہگار قراردیتے ہیں اورایک غرض عیسائیوں کے سامنے ہے جس کی وجہ سے وہ سب انبیاء کو گنہگار قرار دیتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ممن ھدیناواجتبینا میں یہودیوں اور مسیحیوں کے انہی خیالات کی تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ انکو ہماری طرف سے صرف لفظی طورپر نبی کانام نہیں دیا گیا بلکہ وہ فی الحقیقت خداتعالیٰ کی طر ف سے ھدایت یافتہ تھے اور برگذیدہ بھی تھے ۔ تم کہتے ہو کہ وہ خداکے نافرمان تھے حالانکہ انکی حالت یہ تھی کہ جب رحمان خداکی نشانیاں ان پرپڑھی جاتیں تو وہ سجدہ کرتے ہوئے اورروتے ہوئے خداتعالیٰ کے حضور گرجاتے تھے۔

پھران کے بعد ایک ایسی نسل آئی جنہوں نے نماز کو ضائع کردیا اور نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ گئے ۔پس وہ عنقریب گمراہی کے مقام تک پہنچ جائیں گے ۔سوائے اس کے جو توبہ کرلے گااور ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا ۔یہ (لوگ )جنت میں داخل ہونگے اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ (یعنی ان جنتوں میں )جو ہمیشہ رہنے والی ہیں اور جن کا (خدائے )رحمن نے اپنے بندوں سے ایسے وقت میں وعدہ کیا ہے جبکہ وہ ان کی نظروں سے ابھی پوشیدہ ہیں ۔یقیناخداکاوعدہ پورا ہوکر رہتاہے ۔
حل لغات :
غیّ کے معنے ہیں (۱)الضلال گمراہی (۲)الخیب ناکامی (۳)الانہماک فی الجہل جہالت کی باتوں میں انہماک (۴)الہلاک ہلاکت۔(اقرب الموارد)
مفردات میں لکھا ہے کہ الغی جھل من اعتقاد فاسد ۔ غیّ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلط عقیدہ سے پیدا ہوتی ہے۔
تفسیر :
اس میں بتایا گیا ہے کہ ان کی امتیں بگڑتے بگڑتے ایسی حالت پر پہنچ گئیں کہ نمازوںکی پابندی انہوں نے ترک کردی۔ یادعاؤں کی رغبت ان کے دلوں میں سے جاتی رہی اور انہوں نے شہوات کی پیروی کی ۔شہوات سے لازماًبدکاری مرادنہیں ہوتی ۔بے شک بعض جگہ بدکاری بھی معنی ہوتے ہیں اورہمیں ان معنوں کا انکار نہیںمگر یہاں اسکے یہ معنے نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ اپنے غلط اجتہادات کے تابع ہوگئے اور کلام الہٰی کی وہ غلط تأویلات جو انہوں نے اپنی نفسانیت کے ماتحت کی تھیں ان کے پیچھے چل پڑے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ گمراہ ہوگئے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جب بھی انسان خداتعالیٰ کی کتاب کی تفسیر خود اس کتاب کے ذریعے نہیں کرتا بلکہ اپنے اجتہادات سے کام لینا شروع کردیتاہے تو اس کاقدم غلط تأویلات کی طرف اٹھنا شروع ہوجاتاہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ ہلاک ہوجاتاہے کیونکہ ھدایت اور کامیابی اور علم اور نجات کادروازہ صر ف اس کتاب نے کھولا ہوتاہے ۔ اب کتاب خواہ موجود ہو لیکن انسان اپنی عقل اور اپنے اجتہاد سے اس میں نئی نئی باتیں داخل کرناشروع کردے تو خداتعالیٰ کی ھدایت مشتبہ ہوجائے گی اور بوجہ اس کے کہ وہ اپنے نفس کے پیچھے چل رہا ہوگا ہلاکت اور بربادی ا س کا احاطہ کرلے گی ۔
انہماک فی الجہل کی ایک یہ بھی قسم ہے کہ انسان ان باتوں کے پیچھے پڑ جاتاہے جن کاروحانیت کی اصلاح یا خداتعالیٰ کے قرب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ محض نئے نئے لطیفے نکالنا اس کاکام رہ جاتاہے ۔حقیقت اور معرفت سے وہ زیادہ سے زیادہ دور ہوتاچلاجاتاہے ۔
حضرت خلیفہ اول ؓ کے پاس ایک دفعہ ایک مولوی صاحب آئے اورکہنے لگے مولوی صاحب میں آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ میر ا کام لوگوں میں وعظ کرنا ہے اور وعظ کیلئے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ایک المبکیات کی اورایک المضحکات کی یعنی ایک ان باتوں کی جو لوگوں کو رلانے والی ہوں اور ایک ان باتوں کی جو لوگوں کو ہنسانے والی ہوں ۔آپ نے چونکہ بڑی بڑی کتابیں پڑھی ہوئی ہیں اس لئے اب مجھے کوئی ایسی کتاب بتائیں جس میں کچھ رولانے والی باتیں ہوں اور کچھ ہنسانے والی باتیں ہوں تاکہ میں اس سے فائدہ اٹھاکر لوگوں کو رلا یا ہنسا سکوں ۔غرض انسان جب گرتاہے تو پھر ایسی ہی لغو باتوں کے پیچھے پڑ جاتاہے ۔اسی طرح جب خداتعالیٰ کی کتاب پر غور کرنے کی عادت نہیں رہے گی تو عجیب وغریب قصوں کی طرف توجہ ہوجائے گی اور انہیں قصوں کو خداتعالیٰ کی کتاب کی تفسیر سمجھ لیا جائے گا ۔
میں نے بعض پرانے مفسرین کو دیکھا ہے ایسے ایسے لغو قصے وہ اپنی تفسیروں میں لاتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتاہے انہیں قرآن کریم پر غور کرنے کی عادت ہی نہیں ۔ان کا انہماک محض انہماک فی الجہل ہوتاہے ۔الانہماک فی الحکمت نہیں ہوتا مثلاًایک نے لکھ دیا کہ فرشتے کے دس پر ہوتے ہیں ۔اس پر دوسرا تلاش کرتاہے کہ کوئی پندرہ پروں والی بھی روایت ہے یا نہیں ۔ جب کوئی یہودی بتادیتاکہ ہاں پندرہ پروں والی بھی ایک روایت ہے ۔تو وہ لکھتا کہ فرشتے کے دس نہیں پندرہ پر ہوتے ہیں اور فلاں روایت سے ثابت ہے ۔پھر کوئی اور یہودی کہہ دیتا کہ فرشتے کے سو پر بھی ہوتے ہیں اس پر وہ سو پروں والا قصہ لے بیٹھتے ہیں ۔مگر پھر اس پر بھی تسلی نہیں ہوتی اورپوچھتے ہیں کہ کیا ہزار پروں والی بھی کوئی رویت ہے ۔ اس پریہودی پھر ایک روایت گھڑ کربتادیتے اور ہمارے مفسر بڑے خوش ہوتے ہیں کہ اب ہزار پر ثابت ہوگئے ہیں اور لوگ ہیںکہ مزے لے رہے ہیں اورکہتے ہیں سبحان اللہ فلاں مولوی صاحب تو بڑے علامہ ہیں ۔انہوں نے ایک ہزار پروں والی روایت بیان کی ہے ۔ غرض حقیقت کو چھوڑ کرلغویا ت کے پیچھے پڑ گئے حالانکہ ان لغویات کا نہ مذہب سے تعلق ہے نہ ایمان سے تعلق ، نہ خداسے تعلق ہے۔ محض جاہلانہ اور احمقانہ باتیں ہیں ۔ اگر مسلمان قرآن پر غو ر کرتے جیسے یہودی اگر تورات پر غور کرتے۔عیسائی اگر انجیل پر غور کرتے ۔تو خواہ تورات اور انجیل اب بگڑی ہوئی حالت میں ہیں پھر بھی وہ اس جہالت سے بچ جاتے مگر چونکہ مسلمانوں نے قرآن پر غور کرنا ترک کردیا اور عیسائیوں اور یہودیوں نے تورات اور انجیل پر غور نہ کیا اس لئے خدا کی کتاب ان کے لئے ھدایت کا موجب نہ ہوئی اور وہ گمراہی میں مبتلا ہوگئے ۔
مفردات والوںنے بھی غی کی لطیف تفسیر کی ہے کہ الغی جہل من اعتقاد فاسد یعنی جب انسان جھوٹے اعتقادات اور غلط روایات خداتعالیٰ کی کتاب اور اسکے دین کی طرف منسوب کرتاہے تو اس کے نتیجہ میں جو جہالت پیدا ہوتی ہے اس کو غیّ کہتے ہیں۔ اگر یہ لوگ نمازیں پڑھتے اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرتے دعاؤں اور انابت سے کام لیتے اور اپنے غلط اجتہادات کے پیچھے چلنے کی بجائے خداتعالیٰ کے الہام اور اس کے کلام سے راہنمائی حاصل کرتے تو ان کا یہ انجام نہ ہوتا۔ مگر چونکہ انہوں نے دونوں باتیں چھوڑ دیں اس لئے ان حالات کانتیجہ گمراہی اور ناکامی اور جہالت دینی اور ہلاکت ہی پیدا ہونا تھا جو ہوگیا ۔حقیقت یہ ہے کہ نمازوں میں سستی کی وجہ سے خداتعالیٰ کاوصال ہاتھ سے جاتاہے اور اس کی صفات کاعلم انسان کو حاصل نہیں ہوتا۔پس اس کے نتیجے میں ضلال پیدا ہوتاہے۔دعا کی کمی کی وجہ سے ناکامی آتی ہے ۔اتباع شہوات سے علم اور دلیل سے رغبت کم ہوکر جہالت میں انہماک پیدا ہوتاہے اور ان سب چیزوں کے جمع ہونے کی وجہ سے ہلاکت پیدا ہوتی ہے ۔الامن تاب واٰمن و عمل صالحا سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے توبہ کی اور ایمان لائے اور مناسب حال عمل کئے۔
صالح کے معنے نیک عمل کے نہیں بلکہ مناسب حال عمل کے ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص جہاد کے وقت نماز پڑھنے لگ جائے تو وہ بے شک عمل نیک کررہا ہوگا مگر وہ عمل صالح نہیں ہوگا ۔اگر کوئی نماز کے وقت وعظ شروع کردے تو گو وہ وعظ ایک عمل نیک ہے مگر عمل صالح نہیں کہلائے گا۔اگر ایک شخص عید کے دن کھانے سے پرہیز کرتاہے ۔(روزہ تو عید کے دن شیطان رکھتاہے )یا نہانے دھونے کی طرف توجہ نہیں کرتا تو بے شک یہ تو کہاجاسکے گا کہ اس شخص کے اندر زہد پایا جاتاہے مگر ا س کا عمل عمل صالح نہیں کہلائے گا ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم جہاں بھی زور دیتاہے خالی نیک عمل پر زور نہیں دیتا بلکہ ایسے عمل پر زور دیتاہے جو مناسب حال ہو ۔وہ کہتاہے چندے کاموقع ہو تو چندہ دو نماز کا موقع ہو تو نماز پڑھو رازداری سے کام لینے کا موقع ہوتو راز داری سے کام لو ۔جہاد کاموقع ہو تو جہاد کرو ذکر الہٰی کا موقع ہوتو ذکر الٰہی کرو ۔ فاولٰئک یدخلون الجنۃ ولا یظلمون شیئا یہ لوگ ہیں جو جنت میں داخل کئے جائیں گے اور ان پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا ۔جنت عدن وہ کیا ہے جنت ؟ وہ جنتیں عدن والی ۔یعنی ہمیشہ رہنے والی ۔ عدن سے وہ عدن مراد نہیںجو عرب کا ایک حصہ ہے اور اس کے جنوب مغرب میں واقعہ ہے ۔بلکہ مراد یہ ہے کہ ایسی جنتیںہونگی جو ہمیشہ رہنے والی ہونگی۔
عدن کے معنے عربی زبان میں قائم رہنے کے ہوتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ عدن بالمکان اقام بہ والبلد توطنہ وقیل منہ جنٰت عدن ای جنت اقامۃ لمکان الخلود (اقرب) یعنی عدن بالمکان کے معنے کسی جگہ مستقل رہائش اختیار کرلینے کے ہوتے ہیں ۔عدن بلد کے معنے شہر کو اپنا وطن بنالینے کے ہوتے ہیں اور کہاجاتاہے کہ جنات عدن بھی اسی لئے کہتے ہیں کہ جنت مستقل رہائش گاہ کانا م ہوگا اور اس میں انسان دائمی طور پر رہے گا ۔ پھر فرماتاہے ۔التی وعد الرحمن عبادہ بالغیب یہ وہ جنتیں ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے غیب کیساتھ یا غیب کے مطابق وعدہ کیا ہے ۔
بالغیب سے مراد یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے اس وقت ان سے ان جنتوں کا وعدہ کیا جب کہ وہ نظر نہیں آتی تھیں ۔یعنی بظاہر ان جنتوں کے ملنے کے کوئی آثار نہیںتھے مگر پھر بھی وہ مل گئیں ۔یہ جنتیں دنیا میں بھی مسلمانوں کو ملی ہیں اور آخرت میں بھی خداتعالیٰ نے مسلمانوںکویہ جنتیں دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ جب دنیا میں وہ جنتیں مل گئیں جن کے کوئی آثار نہیں تھے تو یہ چبوت ہے کہ محمد ﷺ نے جو دعویٰ کیا ہے وہ خداتعالیٰ کی طر ف سے ہے اور جس طرح ایک وعدہ پوراہوگیاہے اسی طرح اس کا دوسرا وعدہ بھی ضرور پور اہوگا ۔
لیکن بالغیب کے ایک یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ ان کے ایمان بالغیب کی وجہ سے خدا ئے رحمن نے یہ وعدہ کیا ہے ۔ یعنی انہوں نے خداتعالیٰ کو نہیں دیکھاتھا ۔دلائل سنے تو کہا خداہے اور اس پر ایمان لے آئے ۔انہوں نے فرشتے نہیں دیکھے تھے دلائل سنے تو کہا ۔فرشتے ہیں اور ان پر ایمان لے آئے ۔ انہوںنے حیات بعد المو ت کونہیںدیکھاتھا ۔دلائل سنے تو کہا کہ مرنے کے بعد بھی ایک زندگی ہے اور ایمان لے آئے ۔ پس فرماتا ہے چونکہ ایک غیب انہوں نے دکھایاہے یعنی جوچیزیں ان کی نظروں سے پوشیدہ تھیں ان پر وہ ہماری خاطر ایمان لے آئے اس لئے ہم نے بھی ان کو وہ جنتیں دیں جو ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتی تھیں ۔ ان لوگوں نے اپنی زندگیوں میں غیب کا ایک اعلیٰ نمونہ دکھایا ہم نے کہا اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آؤ اور یہ لوگ ایمان لے آئے ۔حالانکہ اللہ تعالیٰ کو انہوں نے نہیں دیکھاتھا۔ہم نے کہا فرشتوں پر ایمان لے آؤ او ر یہ لوگ ایمان لے آئے ۔حالانکہ فرشتے انہوں نے نہیں دیکھے تھے۔ ہم نے کہا جنت پر ایمان لے آؤ اور یہ لوگ ایمان لے آئے ۔حالانکہ جنت انہوں نے نہیں دیکھی تھی ۔پس چونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی ان باتوں پر یقین کیا جو نظر نہیں آتی تھیں ۔خداتعالیٰ نے بھی ان کو وہ جنتیںدیں جو انہیں نظر نہیں آتی تھیں۔
انہ کان وعدہ مأتیا حقیقت تو یہ ہے کہ اس کاوعدہ نظروں کے سامنے لاکے چھوڑ دیا جاتاہے ۔مأتیاً کے معنے ہوتے ہیں ’’لایا گیا ‘‘اور مراد یہ ہے کہ وہ وعدہ یعنی جنت ایسا ہے کہ اس کے پاس یہ لوگ لائے جائیں گے ۔ گویا جنت انہیںجبراً دی جائے گی۔ یعنی وہ لو گ تو صرف خداکے وصال کے بھوکے ہوں گے ۔جنت کی خواہش ان کے دلوں میں نہیں ہوگی مگر چونکہ خدا نے وعدہ کیا تھا۔ اس لئے خدانے کہاکہ تمہیں بہر حال جنت لینی پڑے گی ۔پس اس کا وعدہ سامنے لایا گیا اور انہیں جنت میں داخل کردیا گیا۔
یہ کلام احسان کے کمال پر دلالت کرتاہے اور بتاتاہے کہ ان میں جنت لینے سے انکار کرنیکی طاقت ہی نہیںہوگی۔



وہ ان (جنتوں) میں کوئی لغو بات نہیں سنیںگے ۔بلکہ صرف سلامتی (اور امن کی باتیں سنیں گے )اور ان (جنتوں )میں ان کو صبح اور شام رزق ملے گا ۔یہ وہ جنت ہے جس کاوارث ہم اپنے بندوں میں سے ان کو کریں گے جو متقی ہونگے ۔
تفسیر :
الا سلاماًاستثناء متصل بھی ہوسکتاہے او ر استثناء منقطع بھی ۔ استثناء متصل کی صور ت میں اس کے یہ معنے ہونگے کہ وہاں کا زائد کام بھی اگر ہوگا تو وہ بھی سلامتی ہی ہوگا۔لغو کے معنے ہوتے ہیں ایسا کام جو فضول ہو مثلاًاگر کوئی بات میں ایک منٹ میں کرسکتا ہوں لیکن اس پر میں دو منٹ خرچ کردیتاہوں تو ایک منٹ کی گفتگو لغو سمجھی جائیگی ۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ مجھ سے ملنے کے لئے آتے ہیں تو بجائے اس کے کہ جس مقصد کے لئے وہ آئے ہیں اس کے متعلق گفتگو شروع کریں وہ آتے ہی ایک لغو اور بے ہودہ قصہ شروع کردیں گے جس کا ان کے مقصد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔کہیں گے ہم میرٹھ گئے تھے وہاں ہمارے فلاں شخص کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات ہیں ۔اس سے ایک روز میں ملنے کے لئے چلاگیا اور اس نے مجھ سے یہ باتیں کیں پھر میرا فلاں شخص سے جھگڑاشروع ہوگیا ۔ اسی سلسلہ میں مجھے لاہور آنا پڑا یہاں آکر فلاں سے ملا پھر فلاں سے ملنے چلاگیا ۔اس کے بعد ایک ضرورت پیش آئی اور میں نے چاہا کہ آپ سے بھی ملاقات کرلوں ۔غرض اس طرح ایک لمبا قصہ بیان کرنا شروع کردیتے ہیں جس کا ان کی بات کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا۔تو انسان جب باتیں کرتاہے تو خواہ وہ ضروری ہی ہوں ان کیساتھ بعض زائد باتیں بھی لگالیتاہے ۔مگر اللہ تعالیٰ فرماتاہے لایسمعون فیھالغوا وہ اس میں کوئی بات ایسی نہیںسنیں گے جو لغو ہو کوئی کہے فرض کرو کوئی لغو بات ہوجائے تو اس کاجوب یہ دیا کہ اگر ایسا فرض بھی کرلیا جائے تو وہ بھی اچھی بات ہی ہوگی بری بات نہیں ہوگی ۔گویا اگر کوئی زائد لفظ بھی ان کی زبان سے نکلے گا تو خیر کا ہی ہوگا شر کانہیں ہوگایا یوں کہوکہ وہاں ضرورت سے زیادہ اگر کوئی شے ہوگی تو سلامتی ہی ہوگی اور سلام ہی وہاں کا زائد کلام ہوگا ۔
استثنا منقطع کی صورت میں اس کے یہ معنے ہونگے کہ لغو تو ان کے پاس بھی نہیں پھٹکے گا ۔ہاں سلامتی کی باتیں ہر جگہ ہوںگی کیونکہ خدائے سلام کے پاس ہونگے دارالالسلام میں ہونگے اور فرشتے سلام کہہ رہے ہونگے۔
اس آیت میں ایک اور نقطے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ اس جگہ لغو کام کرنا نہیں کہابلکہ لغو باتیں سننافرمایاہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ا نسان اپنی نسبت تو حسن ظنی سے کام لیتا ہے لیکن دوسرے کی نسبت عیب کو جلد سنتااور مشہور کرتاہے ۔مگر وہاںلوگوں کی نیکی اس قدر ترقی یافتہ ہوگی کہ کوئی شخص دوسرے پر بدظنی نہیں کرے گا اور جس مقام پر کوئی شخص دوسرے کی نسبت ادنیٰ سے ادنیٰ بری بات بھی نہ سنے وہ جگہ یقینا نیکی کا ایک اعلیٰ مقام ہو گی ۔
ولھم رزقھم فیھا بکرۃ وعشیا اور اُن کیلئے اس میں رزق ہوگا صبح بھی اور شام بھی ۔بعض نے اس کے یہ معنے کئے ہیںکہ چونکہ خداتعالیٰ نے رزق کے متعلق اسراف منع کیا ہے اس لئے انہیں صرف دو وقت کھانا ملے گا ایک صبح کو اور ایک شام کو ۔مگر یہ صحیح نہیں ۔بکرہؔ اور عشیّا۔۔دونوں وسیع لفظ ہیں ۔بکرۃ کے معنی صرف صبح کے نہیں بلکہ اوّل النہار یعنی دن کے ابتدائی حصے کے بھی ہیں اور عشیا ً صرف شام کونہیں کہتے بلکہ زوال شمس سے صبح تک کے وقت کو کہتے ہیں ۔ پس بکرۃ وعشیاً سے یہ مراد ہے کہ ہر وقت ان کو رزق ملے گا ۔
ممکن ہے کوئی کہے کہ ہر وقت کوئی کس طرح کھا سکتاہے ؟سو اس کا جواب یہ ہے کہ رزق کے معنی ہیں ’’دی جانے والی چیز ‘‘ اور وہ چیز جو انہیں وہاں ہروقت ملے گی وہ دیدار الہٰی کلام لہٰی اور خداتعالیٰ کی طرف سے سلامتی کا پیغام ہے ۔اور کلام الہٰی یا دیدار الہٰی کوئی ایسی چیز نہیں کہ اس سے کسی کو بدہضمی ہونے کا ڈر ہو ۔پھر یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ خداتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ولھم الرزق بلکہ فرمایا ہے ولھم رزقھم ان کو وہ رزق ملے گا جو ان کے مناسب حال ہوگا ۔ پس تم اس سے صر ف روٹی مراد نہ لو خداتعالیٰ ان کے مناسب حال انہیں رزق عطافرمائے گا اور وہ رزق صرف صبح شام نہیں دے گا بلکہ ہر وقت دے گا ۔
تلک الجنۃ التی نورث من عبادنا من کان تقیا۔ یہ وہ جنت ہے جس کا ہم اپنے ان بندوں کو وارث کردیں گے جو کہ متقی ہیں۔

اور فرشتے ان سے کہیں گے کہ ہم تو صرف تمہارے رب کے حکم سے اترتے ہیں ۔ اور جو کچھ ہمارے آگے ہے اور ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ ان دونوں (جہات ) کے درمیان میں ہے سب کچھ خدا کا ہے اور تمہارا رب بھولنے والا نہیں۔
تفسیر :
ہمارے مفسرین اس جگہ یہ معنے کرتے ہیں کہ یہ آیت اس لئے نازل ہوئی کہ جب اصحاب کہف اور ذوالقرنین اور روح کے متعلق لوگوں نے رسول کریم ﷺ سے سوال کیا تو آپ نے ان سوالات کے جلد جواب دینے کا وعدہ کیا مگر جبرائیل کے آنے میں دیر ہوئی جس سے آپ کو بڑی تکلیف ہوئی ۔ جب کچھ مدت کے بعد وہ پھر آیا تو آپ نے اس سے شکایت کی کہ ارے میاں تم نے ہمیں کیوں چھوڑ دیا ؟ اس نے کہا ہم اپنی مرضی سے تھوڑاآتے ہیں ہمیں خدا بھیجتاہے تو ہم آجاتے ہیں نہیں بھیجتا توہم نہیں آتے ۔
قطع نظر اس سے کہ ایسا ہوا ہے یا نہیں سوال یہ ہے کہ اس گفتگو کے ذکر کا یہ موقع کونسا ہے ؟ ذکر یہ تھا کہ عیسیٰ ؑ ہمارا ایک پیارا بندہ تھا مگر وہ خدایا خد اکا بیٹا نہیں تھا ۔اسی جیسی خوبیاں رکھنے والے اور بھی کئی انبیا ء دنیا میں آئے اورپھر عیسیٰ ؑ تو محض ایک کڑی تھا اس سلسلہ کی جو نسل اسحاق سے شروع ہوا ۔ اسے تم آخری نجات دہندہ کس طرح قرار دے سکتے ہو ۔ اگر وہ آخری وجود تھا تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ اسماعیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے کئے تھے وہ سب کے سب جھوٹے ہوگئے ۔ پھر بتایا کہ ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب اور موسیٰ اور ہارون اور اسماعیل اور ادریس یہ سب کے سب ہمارے نیک اور برگزیدہ بندے تھے اور ہماری جنت کے محتاج تھے۔ اسی طرح عیسیٰ بھی ہماری جنت کا محتاج ہے مگر اسکے بعد ہمیں بتایا جاتاہے کہ فرشتوں نے رسول کریم ﷺ سے کہا کہ ہم تو خداکے حکم سے نازل ہوئے ہیں وہ اگر ہمیں نازل نہ کرے تو ہمارا اس میں کیا قصور ہے ۔ حالانکہ اس کا پہلے مضمون سے کوئی جوڑ ہی نہیں بنتا ۔اگر وہ قرآن کریم پر غور کرتے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے اور قصے کہانیوں کے پیچھے نہ چلتے تو خدا ان کی رہنمائی کرتا اور ایسی خطرناک غلطیوںسے انہیں بچالیتا مگر مصیبت یہی ہے کہ انہوں نے قرآن کریم پر غور کرنے کی بجائے قصوں اور کہانیوں کو اختیار کر لیا اور حقائق سے دور ہوتے چلے گئے ۔
میں جب سورہ کہف کا درس دینے لگا اور میں نے اس سورۃ پر غور کیا تو اور سورۃ تو سب حل ہوگئی مگر ایک آیت کی مجھے سمجھ نہ آئی۔ میں نے بہت سوچا اور غور کیا مگر وہ آیت مجھے بالکل بے جوڑ معلوم ہوتی تھی ۔ آخر میں نے درس دینا شروع کردیا ۔جوں جوں وہ آیت قریب آتی جائے میری گھبراہٹ بڑھتی چلی جائے کہ اب اس آیت کے متعلق کیا ہوگا ۔یہاں تک کہ صرف دویاتین آیتیں رہ گئیں مگر پھر بھی وہ میری سمجھ میں نہ آئی ۔ اس وقت میری گھبراہٹ بہت زیادہ ہوگئی مگر جس وقت میں اس سے پہلی آیت پر پہنچا تو مجھے یوں معلوم ہوا کہ مگر جو شخص قصوں اور کہانیوں کے پیچھے چل پڑتا ہے اور تدبر فی القرآن کو ترک کردیتاہے وہ خود بھی گمراہ ہوتاہے اور خداتعالیٰ کی طرف بھی ایسی باتیں منسوب کردیتاہے جو اس کی شان کے منافی ہوتی ہیں ۔
اب میں بتاتاہوں کہ یہ کتنا سیدھا سادہ مضمون ہے جس کو ہمارے مفسرین نے اتنا بے جوڑ بنادیا ۔اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیات میں بیان فرمایا تھاکہ لایسمعون فیھا لغوا الا سلٰما یعنی لغو تو جنتیوں کے پاس بھی نہیں پھٹکے گاہاں سلام ہر جگہ ہوگا ۔یہ سلام کیا ہوتاہے ؟ ہر شخص جانتاہے کہ السلام علیکم کو سلام کہا جاتاہے ۔پس لایسمعون۔۔۔۔۔ کے یہ معنے تھے کہ انہیں کثرت کے ساتھ سلام پہنچایا جائیگا مگر یہاں یہ نہیں بتایا کہ وہ کس کا سلام ہوگا۔ اسلئے ہم قرآن کریم کے دوسرے مقامات کو دیکھتے ہیں تو وہاں ہمیں اس کی تشریح نظر آتی ہے ۔سورئہ فرقان میں آتاہے یلقونفیھا تحیۃ و سلاما (فرقان ع۶)جنتیوں کو تحیہ اور سلام پہنچایا جائے گا۔گویا وہی مضمون جو اس جگہ بیان کیا گیا ہے اسی کو ایک دوسرے پیرایہ میں سورئہ فرقان میں بیان کردیا گیاہے ۔اسی طرح سورئہ رعد میں آتاہے والملٰئکۃ یدخلون علیھم من کل باب سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار (رعدع۳)یعنی وہاں ہردروازے سے ملائکہ جنت میں داخل ہوں گے اور انہیں کہیں گے کہ تم نے دنیا میں جو خداتعالیٰ کے لئے صبر کیا تھا اس کے بدلہ میں ہم تمہیںسلامتی پہنچاتے ہیںاور یہ آخری گھر جو تم کو ملا ہے کیا ہی اچھا گھر ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ خداتعالیٰ کے فرشتے جنتیوں کے پاس آئیں گے اور انہیں سلام پہنچائینگے ۔ اب جہاں تک یہ سوال تھا کہ سلام کون پہنچا ئے گا یہ تو حل ہوگیا اور پتہ لگ گیا کہ خداتعالیٰ کے فرشتے مومنوں کو سلام پہنچائیں گے مگر یہاں ایک نئی بات پیدا کردی گئی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے تلک الجنۃ التی نورث من عبادنا من کان تقیا یہ وہ جنتیں ہیں جن کا ہم اپنے متقی بندوں کو وارث بنائیںگے اور وارث ہمیشہ بیٹا ہوتاہے کوئی غیر نہیں ہوتا۔پس درحقیقت اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ بتایا ہے کہ ہر متقی خداکا بیٹا ہے اور جنت خداکا گھر ہے جس میں ان متقیوں کو اتارا جائیگا گویا یہ ایک نیا مضمون بیان کیا گیا ہے ۔پہلے سلام کا ذکر کیا اور پھر بتایا کہ ہمارا مومن اور متقی بندہ مہمان کے طور پر جنت میں نہیں جائیگا ۔دوست کے طورپر جنت میں نہیں جائے گا ۔سائل کے طور پر جنت میں نہیںجائے گا بلکہ ہم اسے اپنا بیٹا قراردے کر اور وارث بنا کر جنت میں داخل کرینگے اورکہیں گے کہ جائو اور اس میں ہمیشہ کے لئے رہو ۔
اس میں ایک طرف تو مسیح کے بیٹے ہونے کی خصوصیت کو رد کیا ہے اور بتایا ہے کہ ہرمومن خداتعالیٰ کا بیٹاہے ۔دوسرے اس طرف اشارہ کیاہے کہ جنت کی جو نعمتیں ملیںگی وہ بطور حق اور اکرام کے ہوں گی۔ورنہ عطاء تو فقیر کو بھی ملتی ہے ۔پس یہ عطاتواپنے اندر صدقہ کا رنگ نہیںرکھے گی بلکہ یہ عطاء میراث ہوگی اور اس کے لینے والے پر ظاہر کیا جائے گا کہ یہ تمہارا حق ہے ۔جس طرح اولاد کا باپ کے مال پر حق ہوتاہے ۔صرف یہ فرق ہوگا کہ وہ اپنے باپ کی زندگی میں ہی وارث ہوں گے ۔
پس چونکہ اس جگہ نورثُ کہہ کر ہر مومن کو خداتعالیٰ کا بیٹا اور جنت کو عطاء میراث قرار دیا گیا تھا اس لئے جب خداتعالیٰ نے یہ بتایاکہ وہاں مومنوں کو سلام پہنچایاجائے گا تو طبعاً ہر مومن کے دل میں یہ خیال پیدا ہونا تھا کہ جب میں بیٹا بن گیا تو یہ سلام تو باپ کی طرف سے ہونا چاہئے ۔سو اس طبعی خیال کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان سلام پہنچانیوالے ملائکہ کی طرف سے یہ جواب دیا کہ ومانتنزل الا بامر ربک اے مومن ہم یہ سلام تیرے باپ کی طرف سے ہی تجھے پہنچارہے ہیں ،ہم اپنی طرف سے نہیں کر رہے۔ بے شک جنت میں سلام ہم پہنچائیں گے مگر ہوگا تمہارے باپ کی طرف سے ہی کیونکہ ہم فرشتے تو خود کوئی بات کرہی نہیں سکتے۔پس تم نورثُپر گھبراکر یہ خیال نہ کرو کہ جب خدا ہمارا باپ بن گیا اور ہم اس کے بیٹے بن گئے تو پھر فرشتے یہ سلام کیوں پہنچارہے ہیں ۔یہ سلام تو ہمارے باپ کی طرف سے آنا چاہئے ، یہ سلام تمہارے باپ کی طرف سے ہی ہے ہم تو صرف اس کا سلام پہنچانے والے ہیں ۔یہ مضمون ہے جو ان آیات میں بیان کیا گیا ہے ۔یہاں اس ذکر کا کوئی موقع ہی نہیںکہ جبریل کچھ عرصہ نہ اُتراتو رسول کریم ﷺ گھبراگئے اور اسپر آپ کو یہ الہام ہوا ۔یہ بالکل بے جوڑ بات ہے ۔اصل مضمون یہی ہے کہ جب فرشتے سلام لائیں گے تو مومنوںکے دلوں میں خیال پیدا ہوگاکہ یہ کیسا سلام ہے ۔آیا یہ ہمارے باپ کی طرف سے ہے یا کسی اورکی طرف سے۔ اس کا فرشتے یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ سلام تمہارے روحانی باپ نے ہی بھیجا ہے ہم تو صرف ایک پیغامبر ہیں ۔
لہ مابین ایدینا وما خلفنا وما بین ذٰلک اور یہ اتنا قیمتی تحفہ اس کی طرف سے آیا ہے کہ اس نے اس کی حفاظت کے لئے ہمارے آگے اور پیچھے پہریدار مقرر کردئیے ہیں تاکہ یہ ضائع نہ ہوجائے۔
وماکان ربک نسیا اور یہ کس طرح ہوسکتاتھاکہ خداتعالیٰ اپنی روحانی اولاد کو اپنے گھر میں اتارے اور اسکو سلام بھجوانا بھول جائے ۔ جس طرح تم نے خداسے محبت کی اور اسے نہیں بھلایا اسی طرح اس نے بھی تم کو یادرکھااور اپنے فرشتوں کو بھیجاکہ جائو اور میری طرف سے سلام پہنچاآئو۔
لیکن اس مضمون کے علاوہ ایک اور بھی مضمون ہے جس کی طرف ان آیات میںاشارہ کیاگیاہے اور وہ یہ کہ سوئہ مریم میں حضرت ابراہیم ؑ سے لے کران کی اولاد تک کے انبیاء کا ذکر ہے جن میں حضرت موسیٰ بھی شامل ہیں جنکی کتاب میں علاوہ اپنی وحی کے حضرت ابرہیم ؑ اوران کی اولاد کے کوائف بھی درج ہیں ۔جب رسول کریم ﷺ نے دعویٰ فرمایا تو عیسائیوں اور یہودیوں نے اعتراض کیا کہ نبی تو بنی اسرائیل میں سے آنا چاہئے اور یعقوب کی نسل میں سے ہونا چاہئے ۔یہ نبی عربوںمیں سے کس طرح آگیا ؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی زبانی دیا کہ ہم تو اپنے رب کے حکم سے نازل ہوتے ہیں ۔اس نے عرب کی طرف ہم کو بھیجا ہم ان کی طرف آگئے وہ اسرائیل کی طرف بھیجتا تھا تو ہم ادھر چلے جاتے تھے ۔پس یہ اعتراض کیاہے؟
یہ اعتراض توہوسکتاتھا کہ نبیوں والی باتیں اس میں نہیں پائی جاتیںلیکن یہ اعتراض نہیں ہوسکتاکہ ایک عرب پر کلام کیسے نازل ہوگیا ۔کیونکہ کلام خدا کے حکم سے اترتاہے اور جن پر خدا کا کلام اترتاہے ان کوجنات ارضی و اخروی عطاکی جاتی ہیں ۔چنانچہ حضرت موسیٰ کو کنعان ملا اور محمد رسول اللہ ﷺ کو سارا عرب بھی ملا فلسطین بھی ملا اور ساری دنیا بھی ملی ۔
اس کے آگے فرمایا ’’ تیرا رب بھولنے والا نہیں ‘‘یعنی اس نے موسیٰ کے ذریعہ خبر دی تھی کہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے بھی یعنی بنو اسماعیل میں سے ایک نبی بھیجا جائے گا ۔ اور یسعیاہ نبی کے ذریعہ سے اس نے کہا تھا کہ عرب میں بھی خداکاکلام اترے گا پھر یہ کس طرح ہوسکتاتھاکہ خداکی دونوں باتیںجھوٹی ہوتیں ۔خداتعالیٰ بھولتانہیں ۔عیسائی اور یہودی بے شک بھول جائیں مگر خداتعالیٰ نہیں بھولاکہ اس نے موسیٰ سے کیا کہا تھا ۔جب اس نے کہا تھا کہ ’’میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوںگا اور جو کچھ میں اسے حکم دوںگا وہی وہ ان سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لونگا ‘‘(استثنا ء باب ۱۸آیت ۱۸،۱۹) تووہ اس کو کس طرح بھول سکتا تھا ۔اسی طرح وہ اس وحی کو نہیں بھول سکتا تھا جو یسعیاہ نبی پر نازل ہوئی کہ عرب میںبھی الہامی کلام اترے گا (یسعیاہ باب ۲۱ آیت ۱۳ تا۱۷ وباب ۹آیت ۶،۷ )اسی طرح وہ اس وحی کو بھی نہیں بھول سکتاتھا جو اس نے عیسی ٰ ؑ کو کی اور جس کے مطابق انہوں نے اپنے حواریوں سے کہا کہ
’’ مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گالیکن جو کچھ سنیگا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریںدیگا۔ ’’
(یوحناباب۱۶آیت۱۲،۱۳)
پس اس نبی کاآنا ضروری تھاجو سب روحانی راز دنیا کو بتادے ۔

(وہ )آسمانوں کا (بھی)رب (ہے )اور زمین کا بھی (رب)اور جوکچھ ان دونوں کے درمیان ہے ۔پس (اے مسلمان) اس کی عباد ت کر اور اسکی عبادت پر ہمیشہ قائم رہ ۔ کیا تو اس کا کوئی ہم صفت جانتاہے ۔
تفسیر :
عربی زبان میںاصطبرعلیہ ایک محاورہ ہے جس کے معنے ہیں کسی با ت پر مضبوطی سے قائم رہنا اور اسکے متعلق جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرنامگر یہاں واصطبر علی عبادتہ نہیں کہا کہ عبادت پر مضبوطی سے قائم رہ بلکہ یہ کہا ہے کہ واصطبر لعبادتہ تو اس کی عبادت کیلئے ہمت اور بہادری کا مظاہر ہ کر ۔ اس میں بتایا گیاہے کہ لوگ تجھے عبادت خالص نہیں کرنے دیں گے ۔پس تو مخالفت کی پرواہ نہ کر بلکہ بہادری اور استقلال کے ساتھ اس پر قائم رہ اورپھر لعبادتہکہہ کر یہ بتایا کہ ان اوصاف کا مظاہرہ محض عبادت کی خاطرکر ۔ عبادت پر قائم تو انسان اور کئی وجوہ سے بھی ہوسکتاہے ۔یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ عبادت کی خاطر جرأت اور عبادت کی خاطر بہادری اور عبادت کی خاطر استقلال دکھا ۔گویا عبادت کو دوسری اشیا کیلئے نہیں بلکہ دوسری اشیاء کو عبادت کے لئے پسند کر اور عبادت تیرے لئے ذریعہ کا کام نہ دے بلکہ تیرا مقصود اور مدعا بن جائے ۔پس واصطبرلعبادتہ کے یہ معنے ہوئے کہ تو عبادت کی خاطر جرأت اور بہادری سے کام لے ۔یہ نہیں کہ عبادت پر قائم رہنے کے لئے جرأت دکھا بلکہ عبادت کی خاطر جرأت دکھا عبادت کی خاطر دلیری دکھا عبادت کی خاطر استقلال دکھا تاکہ تیری عبادت زیادہ اعلیٰ سمجھی جائے اور عبادت تیرے لئے ایک ذریعہ نہ بنے بلکہ عبادت ہی تیرامقصود بن جائے ۔اسی طرح رب السموت کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کردیاہے کہ اب خدا رب العالمین کی حیثیت سے کلام کرے گا صرف بنی اسرائیل کو مخاطب نہیں کرے گا ۔

انسان ہمیشہ یہ کہتارہے گا کہ کیا جب میں مر جائوں گا تو پھر زندہ کرکے اٹھایا جائوںگا ۔ کیا انسان کو یہ بات یاد نہیں کہ ہم نے اسکو اس سے پہلے پیدا کیا تھا اور (اس وقت )وہ کوئی چیز نہیں تھا۔
تفسیر :
مرنے کے بعد کی زندگی ہمیشہ ہی لوگوں کے لئے شبہات اور تردد کا موجب رہی ہے کیونکہ وہ نظر نہیں آتی اورمرنیوالے لوگوں سے سوائے اس کے کہ کوئی اعلیٰ درجے کے روحانی انسان ہوںکسی قسم کا تعلق باقی نہیں رہتا۔ اس لئے خواہ کسی قوم اور مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوں مرنے کے بعد کی زندگی کے متعلق ان کے دلوں میں ہمیشہ شبہات قائم رہتے ہیں مگر عجیب بات یہ ہے کہ جہاں سب سے زیادہ شبہ اس زندگی پرکیا جاتاہے وہاں سب سے زیادہ یقین بھی اسی زندگی کے متعلق پایا جاتاہے۔ چنانچہ عام طور پر لوگ مردوں کے نام پر کھانا کھلاتے ہیں مردوں کے نام پرکپڑے تقسیم کرتے ہیں اور مردوں سے ملنے کی خواہش ان کے دلوں میں پائی جاتی ہے ۔ان کی اپنی زندگی دیکھو تو انہیں حیات بعد الموت پرکوئی یقین نہیں ہوتاکیونکہ اس زندگی پر ایمان رکھنے کا کوئی اثر ان کے اعمال میں نظر نہیں آتا۔جب انسان کو سچے دل سے یہ یقین ہو کہ مرنے کے بعد اس نے خداتعالیٰ کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے حاضر ہوناہے تو لازماًاس کی زندگی پر اس کا اثر پڑنا چاہئے ۔ اس کے اعمال میں اصلاح ہونی چاہئے ۔اس کے خیالات میں درستی ہونی چاہئے ۔لیکن جہاں ان کی اپنی زندگی پر اس کا کوئی اثر نظرنہیں آتا وہاں مرنے والوں کی ارواح کو ثواب پہنچانے کے لئے وہ کئی قسم کے کام کرتے بھی نظر آتے ہیں ۔ مثلاًیہی کہ مردوں کے لئے غرباء کو روٹی کھلادی یا ان کے ثواب کی خاطر کپڑے تقسیم کردئیے یہ عجیب قسم کا متضاد مقام ہے جو انسانی عمل سے ظاہر ہوتاہے اور درحقیقت انسان کی یہ شبہ والی حالت ایسی ہے کہ نہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین نہیں رکھتااور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ یقین رکھتاہے۔ جب ہم اس کی اپنی زندگی کو دیکھتے ہیں تو مابعدالموت زندگی کا جو اثر اس کے اعمال پر پڑناچاہئے وہ ہمیں نظر نہیںآتا۔ لیکن جب ہم مرنے والوں کے متعلق اس کے جذبات کودیکھتے ہیں تو ہمیںمعلوم ہوتاہے کہ اپنے مرنے ولے رشتہ داروں کے متعلق اس کے دل میں اس قسم کی تڑپ اور تمنا پائی جاتی ہے کہ وہ زندہ ہوں تو میں ان سے ملوں لیکن ایک طبقہ دنیا کا ایسا بھی ہے جو کہتاہے کہ مرنے کے بعد ہم نے نہیں جینا اور ایک طبقہ ایسا ہے جو کہتاہے کہ ہم نے جینا ہے ۔مگر جو طبقہ یہ کہتاہے کہ ہم نے مرنے کے بعد جینا ہے اس کی زندگی کے حالات میں کبھی کبھی اس خیال کی بھی جھلک آجاتی ہے کہ ہم نے نہیں جینا اور جو طبقہ یہ کہتاہے کہ ہم نے نہیں جینا اس کی زندگی کے حالات میں کبھی کبھی اس خیال کی بھی جھلک آجاتی ہے کہ ہم نے جینا ہے ۔گویا جو ہاں کہتاہے اس پرنہ کا زمانہ آتا رہتاہے اور جو نہ کہتاہے اس پرہاں کا زمانہ آتا رہتا ہے۔ لیکن عام طور پر جہاں تک انسان کی اپنی زندگی کا سوال ہوتاہے وہ اسے اگلی زندگی کے خیالات سے متاثر کرنے کیلئے تیار نہیںہوتااور جہاں تک مرنیوالوں کے متعلق اپنے جذبات کے اظہار کا سوال ہوتاہے وہ ان کے لئے قربانی کرنے کو تیار ہوجاتاہے کیونکہ ان کیلئے اسے جو قربانی کرنی پڑتی ہے وہ اتنی زیادہ نہیں ہوتی ۔ صرف اتناہی ہوتاہے کہ کوئی مرگیا تو اس کے نام پر غرباء کو روٹی کھلادی یا کپڑے تقسیم کردئیے یا خیرات دے دی لیکن اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے کے لئے بہت بڑا بوجھ برداشت کرنا پڑتاہے۔ مثلاًسچ بولنا پڑتاہے جھوٹ اور فریب سے بچنا پڑتاہے ۔نفسانی خواہشات کو ترک کرنا پڑتاہے ۔خدا تعالیٰ کے احکام کو ماننا پڑتاہے اور یہ کام ایسے ہیں جو قربانی چاہتے ہیں ۔پس وہ ان کے لئے تیار نہیں ہوتا لیکن روٹی یا کپڑا دے دینا چونکہ اتنا بڑاکام نہیںہوتا۔ اس لئے وہ ان کے لئے تیار ہوجاتاہے۔
ویقول الانسان ء اذا ما مت لسوف اخرج حیا میں جس انسان کا ذکر کیا گیا ہے اس کے متعلق بھی خداتعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ وہ کہتاہے میں نے مرنے کے بعد زندہ نہیں ہونا بلکہ اذامت لسوف اخرج حیا میں استفہامیہ رنگ اختیا ر کیا گیا ہے اور اس پر تعجب کا اظہا ر کیا گیا ہے ۔یہ نہیں کہ وہ مرنے کے بعد زندہ نہ ہونے پر متیقن ہے بلکہ مرنے کے بعد کی زندگی کے متعلق وہ متردد ہے اور کہتاہے کہ کیا جب میں مرجاؤں گا تو ضرور زندہ کیاجائونگا ۔ گویا اس کی شبہ والی کیفیت کو پیش کیا گیا ہے۔اس سے یہ مضمون نہیںنکلتاکہ وہ لازماًقیامت کا منکر ہے ۔
اوپر کی تمہید میں نے اسی لئے بیان کی تھی کہ دنیا کے عقائد دیکھ کر معلوم ہوتاہے کہ مرنے کے بعد کی زندگی کا کلی انکار بہت کم پایاجاتاہے لیکن یقینی اقرار بھی بہت کم پایا جاتاہے ۔لوگوں کا بہت سا حصہ ایساہے کہ خواہ بعث بعدالموت کو وہ مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں ان کی حالت ہمیشہ تردد والی رہتی ہے کہ ایسا ہونا ہے یا نہیں ہونا ۔عیسائیوں میں مذہباًیہ بات پائی جاتی ہے کہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی انسان کو حاصل ہوگی چنانچہ حضرت مسیح ؑنے ایک دفعہ یہودیوں سے اس کے متعلق بحث بھی کی یہودیوں میں دو گروہ پائے جاتے تھے ۔ایک وہ جن کا عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد زندگی ہوتی ہے اور دوسرے وہ جن کا عقیدہ تھاکہ مرنے کے بعد زندگی نہیں ہوتی۔ وہ گروہ جس کا عقیدہ تھا کہ مرنیکے بعد کوئی زندگی نہیں اس کے بعض افراد حضرت مسیح ؑ کے پاس آئے اور اس بارے میں سوال کیا تو آپ نے یہ فرمایا کہ تم نے تورات (خروج باب ۳،۶)میں نہیںپڑھا کہ خداوند کو ابراہام کاخدا اور اضحاق کا خد ا اور یعقوب کا خدا کہاگیا ہے اور تم جانتے ہوکہ
’’خدامردوں کا خدانہیں بلکہ زندوں کا ہے ۔کیونکہ اس کے نزدیک سب زندہ ہیں ‘‘ (لوقاب ۲آیت ۳۸ومتی ۲۲ب آیت ۳۲)
یعنی تمہیں بائبل سے یہ نتیجہ نکالنا چاہئے کہ ابراہیم ؑ او ر اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ کی روحیںزندہ ہیں اور ان کے باپ دادا کی روحیں بھی زندہ ہیں ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ ہمار اخدا زندوں کا نہیں بلکہ مردوںکا خداہے۔
اسی طرح فرماتے ہیں ’’قیامت میں بیاہ شادی نہ ہوگی بلکہ لوگ آسمان پر فرشتوں کی مانند ہونگے ‘‘ (متی باب ۲۲آیت ۳۰)
پھر پولوس لکھتاہے ۔’’ہم جانتے ہیں کہ جب ہمارا خیمہ کا گھر جو زمین پر ہے گرایا جائے گا تو ہم کو خداکی طرف سے آسمان پر ایک ایسی عمارت ملے گی جو ہا تھ کا بنا ہوا گھر نہیں بلکہ ابدی ہے ‘‘۔ (۲گرنتھیوں باب ۵آیت ۱)
اسی طرح لوقامیں ایک غریب اوردولت مند کا قصہ بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح ؑ مرنے کے بعد کی زندگی کی طرف لوگوں کو توجہ دلاتے ہیں۔آپ فرماتے ہیں ’’ایک دولت مند تھا جو ارغوانی اورمہین کپڑے پہنتا اور ہر روز خوشی مناتا اور شان وشوکت سے رہتاتھا اور لعزر نام ایک غریب ناسوروںسے بھرا ہوا اس کے دروازے پر ڈالا گیا تھا۔ اسے آرزو تھی کہ دولت مند کی میز سے گرے ہوئے ٹکڑوں سے اپنا پیٹ بھرے بلکہ کتے بھی آکر اس کے ناسور چاٹتے تھے اور ایسا ہوا کہ وہ غریب مرگیا اور فرشتوں نے اسے لے جاکر ابراہام کی گودمیں پہنچادیا اور دولتمند بھی ہوا اور دفن ہوا ۔ اس نے عالم ارواح کے درمیان عذاب میں مبتلاہوکر اپنی آنکھیں اٹھائیں اور ابراہام کو دور سے دیکھا اور اس کی گود میں لعزر کو اور اس نے پکار کر کہا کہ اے باپ ابرہام مجھ پر رحم کرکے لعزر کو بھیج کہ اپنی انگلی کا سرا پانی بگھو کر میری زبان ترکرے کیونکہ میں اس آگ میں تڑ پتاہوں ۔ ابراہام نے کہا بیٹا یاد کر کہ تو اپنی زندگی میں اپنی اچھی چیزیں لے چکا اور اسی طرح لعزر بری چیزیں۔ لیکن اب وہ یہاں تسلی پاتاہے اور تو تڑپتاہے اور ان سب باتوں کے سوا ہمارے تمہارے درمیان ایک بڑاگڑھا واقعہ ہے۔ ایسا کہ جو یہاں سے تمہاری طرف پار جانا چاہیں نہ جاسکیں اور نہ کوئی ادھر سے ہماری طرف آسکے ۔اس نے کہا پس اے باپ میں تیری منت کرتا ہوں کہ تو اسے میرے باپ کے گھر بھیج کیونکہ میرے پانچ بھائی ہیں تاکہ وہ ا ن کے سامنے ان باتوں کی گواہی دے ۔ ایسانہ ہو کہ وہ بھی اس عذاب کی جگہ میں آئیں ۔ابراہام نے اس سے کہا ان کے پاس موسیٰ اور انبیا ء تو ہیں ان کی سنیں ۔اس نے کہا نہیں اے باپ ابراہام ہاں اگر کوئی مردوں میں سے ان کے پاس جائے تو وہ توبہ کرلیںگے ۔اس نے اس سے کہا کہ جب وہ موسیٰ اور نبیوں ہی کی نہیں سنتے تو اگر مردوں میں سے کوئی جی اٹھے تو اس کی بھی نہ مانیں گے ۔‘‘
(لوقاباب ۱۶آیت ۱۹تا۳۱)
’’مکاشفہ ‘‘میں بھی لکھا ہے :
’’پھر میں نے آسمان میں سے یہ آواز سنی کہ لکھ ۔مبارک ہیں وہ مردے جو اب سے خداوند میں مرتے ہیں روح فرماتاہے۔ بے شک کیونکہ وہ اپنی محنتوں سے آرام پائیںگے اور ان کے مال ان کیساتھ ساتھ ہوتے ہیں ‘‘ (مکاشفہ باب ۱۴آیت ۱۳)
غرض حضرت مسیح ؑ نے بعث بعدا لموت کی تائید کی ہے اور عیسائی لٹریچر بھی سارے کاسار ا اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے کہ مرنے کے بعد ہر انسان کو ایک نئی زندگی حاصل ہوگی ۔ صرف اس قدر فرق ہے کہ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح ؑ کے دوبارہ آنے پر اسی دنیا میں ساری روحیںآجائیںگی اور یہیں ان کو جزاء سزاء دی جائے ۔چنانچہ متی میں لکھاہے :
’’میں تم سے سچ کہتاہوں کہ جب ابن آدم نئی پیدائش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا تو تم بھی جو میرے پیچھے ہولئے ہو بارہ تختوں پر بیٹھ کر اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کروگے اورجس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں یا باپ یا ماں یابچوں یا کھیتوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اس کو سو گنا ملے گا اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہوگا۔‘‘ (متی باب ۱۹آیت ۲۹)
اسی طرح مکاشفہ میں لکھا ہے کہ وہ لوگ ’’جنہوں نے نہ اس حیوان کی پرستش کی تھی نہ اس کے بت کی اور نہ اس کی چھاپ اپنے ہاتھوں اور ماتھے پر لی تھی وہ زندہ ہوکر ہزار برس تک مسیح کے ساتھ بادشاہی کرتے رہے اورجب تک یہ ہزار برس پورے نہ ہولئے باقی مردے زندہ نہ ہوئے ۔پہلی قیامت یہی ہے ۔‘‘ (مکاشفہ باب ۲۰آیت ۴تا ۶)
مگر باوجود اس کے کہ ہر مذہب نے اُخروی حیات کو تسلیم کیا ہے اس زمانے میں سب سے بڑا انکا ر بعث بعد الموت کا ہی کہا جاتاہے اور اس زندگی کے متعلق ایک قسم کے تذبذب اور شک والی کیفیت لوگوں کے قلوب میں پائی جاتی ہے ۔پس ’الانسان ‘ سے مراد عام انسان نہیں کیونکہ ان میں تو وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کو اس زندگی پرکامل یقین ہے ۔اس جگہ ’الانسان‘سے وہی انسان مراد ہے جو اُخروی حیات پر تعجب کا اظہار کرتاہے اور کہتاہے کہ کیا واقعہ میں مَیں نے مرنے کے بعد زندہ ہونا ہے اور یا پھر ’الانسان ‘سے مراد جنس انسان ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ شخص جو جنس انسان سے تعلق رکھتاہے وہ یہ بات کہتاہے اور یہ سخت قابل تعجب ہے کیونکہ انسان تو دو اُنسوںسے مرکب ہے اوراسکی فطرت بعث مابعدا لموت پردلالت کرتی ہے ۔پھر انسان ہو کروہ یہ کیونکر کہہ سکتاہے کہ کیا واقعہ میں میں نے مرنے کے بعد زندہ ہونا ہے ۔ جب ہم ’کیا ‘کا لفظ بولیں تواسمیں دونوں باتیں آجاتی ہیں یعنی نامعلوم ایسا ہونا ہے یا نہیں ہونا
اولیذکر الانسان انا خلقنٰہ من قبل ولم یک شیئا فرماتاہے کیا یہ انسان اس بات کو نہیں جانتاکہ اس سے پہلے ہم نے اسکو پیدا کیا حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں تھا ۔لم یک شیئاسے مراد یہ ہے کہ وہ کوئی ایسی چیزنہیںتھاجوقابل ذکر ہو ۔جیسے دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ھل اتیٰ علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئا مذکورا پس لم یک شیئا سے یہ مراد ہے کہ وہ کسی ایسی حیثیت میں نہیں تھا جو قابل ذکر ہو ۔یا جس کو کوئی اہمیت دی جاسکے ۔یعنی وہ نطفہ کی حالت میں تھا یا جمادات اور نباتات کی حالت میں تھا ۔گویا اس وقت ایک شئے تو تھی مگر شیئاًمذکورا نہیںتھی۔شیئاًمذکورا وہ چیز ہوتی ہے جو اہمیت رکھتی ہواور توجہ کے قابل ہو ۔اگر ایک ذلیل اور حقیر اور ناقابل ذکر چیز کو ترقی دیکر اللہ تعالیٰ نے انسان بنا دیا تو وہی انسان اگر مرنے کے بعد مٹی ہوجاتاہے تو اس مٹی سے دوبارہ انسان بنا دینا کوئی تعجب کی بات نہیں ہوسکتی ۔

پس تیرے رب کی قسم ہم (جو تیرے رب ہیں )ان لوگوںکو (پھر ایک دفعہ )اٹھائینگے اور شیطانوں کو بھی (اٹھائینگے او ر) پھر اُن سب کو جہنم کے گرد ایسی صورت میں حاضر کرینگے کہ وہ زانووں کے بل گرے ہوئے ہونگے۔ ۵۵؎
۵۵؎ حل لغات :۔ جثیّ ۔۔۔۔کے معنے ہوتے ہیں ۔جلس علی۔۔۔۔ گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اوقام علیٰ ۔۔۔ یااپنے پائوں کی انگلیوں پر کھڑاہو جثاسی سم فاعل جاث آتاہے کعنی اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھنے وال جثی جاث سے جمع کا صیغہ ہے (اقرب ) مفردات میں ہے کہ یہ مصدر بھی ہوسکتاہے۔
۵۵ ؎ تفسیر:۔
فرماتا ہے ہم تیرے ہی رب کی قسم کھا کر کہتے ہیں لنحشرنھم کہ ہم ضرور انکو اکٹھا کریں گے واشیطان اور ان شیطانوں کو بھی اکٹھا کریں گے جو ان کو ورغلارہے ہیں اس سے پتہ لگتاہے کہ انسان سے مراد وہی انسان ہے جس کا پہلے ذکر ہے ورنہ اگر اعلیٰ درجہ کے مومن اور صدیق اور شہداء اور انبیاء وغیرہ مراد ہوتے تو شیطانوں کا یہاں کیا ذکر تھا ؟ شیاطین کا ذکر کرنا صاف بتاتا ہے کہ الانسان سے وہی انسان مراد ہیں جو حیات بعد الموت پرپور ایمان نہیں رکھتے ۔فرماتاہے ہم ان کو بھی اکٹھا کریں گے اور شیاطین کو بھی اکٹھا کریں گے یعنی وہ فلسفی لوگ جو حیات بعدا لموت کے متعلق ان کو شہات میں مبتلا کرتے رہے ہیں ان سب کو اکٹھاکرکے لائیںگے ثم لن۔۔۔۔۔ پھر ہم ان سب کو جہنم کے گرد حاضر کریں گے اس حال میں کہ وہ گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہونگے ۔
جہنم کے متعلق تمام مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ عجمی لفظ ہے عربی زبان میں اس کا کوئی مادہ نہیںپایا جاتااور عجمی زبانوں کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ارمیک( ARAMAIC ) لفظ ہے جو ’’مقام سزا بعد الموت ‘‘ کے لئے استعمال ہوتاہے ۔عبرانی زبان میں یہ لفظ جھنّہ (GEHENNA ) استعمال ہوتاہے جو ارمیک زبان میں اصل میں ھنوم (HINNOM )تھا مگر پھر اسے جھنوم (GE-HINNOM ) بنالیا گیا ۔
یہ بھی خیال کیا جاتاہے کہ ھنوم کسی بے لفظ کا ٹکڑا ہے اور اسکے معنے ’’وادی ونریزی ‘‘یا ’’قتل عام ‘‘ کے سمجھے جاتے ہیں (انسائیکلو پیڈیا ببلیکا زیر لفظ ھنوم ویلی کالم ۲۰۷۰)
جہاں تک میراخیال ہے یہ ’’جھنوم ‘‘ (GEHINNOM )عربی زبان کا ہی ایک بگڑاہوا لفظ ہے ۔ع۔ربی میں ’’ھنم‘‘ کے معنے چیتے کے ہوتے ہیں اور ’’ذُوھنم ‘‘کے معنے ہوتے ہیں چیتوں والی جگہ ارمیک والوں نے بھی کہا ہے کہ یہ کسی لمبے لفظ کا ٹکڑا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اس کے معنے ’’وادی خونریزی ‘‘یا قتل عام ‘‘ کے ہیں پس میرے نزدیک یہ اصل میں ’’ذوھنم ‘‘تھا یعنی وہ جگہ جہاں چیتے رہتے ہیں اور لوگوں کو پھاڑتے اور زخمی کرتے ہیں ۔عجمی لوگ چونکہ عربی کی ذال کو عموماً جیم سے بدل دیا کرتے ہیں اس لئے ارمیک والوں نے ’’ذوھنم ‘‘ کو ’’جھنوم ‘‘ بنالیا اور عربی والوں نے پھر اس لفظ کو عجمیوں سے لے کر جھنم بنالیا ۔اس قسمکی مثالیں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں کہایک زبان سے بعض دفعہ دوسری زبان میںکوئی لفظ گیا اور اس نے بگڑ کر کوئی اور شکل اختیار کرلی ۔پھر اس بگڑی ہوئی شکل کو اصل زبان والوںنے واپس لیکر ایک اور لفظ کا جامہ پہنالیا یہ لفظ بھی اصل میں ’’ذوھنم‘‘ تھا یعنی چیتوں والیٰ جگہ اور یہ عربی زبان کا لفظ تھا ۔عربوں سے عجمیوں نے یہ لفظ لیا اور اسکو ’’ جھنوم ‘‘ بنالیاپھر عربوں نے عجمیوں سے’’ جھنوم‘‘ لفظ لے کر جھنم بنالیا ۔
اس کے علاوہ میرے نزدیک یہ بھی ہوسکتاہے کہ جہنم کا لفظ دو ثلاثی لفظوں کو ملاکر بنایا گیا ہو یعنی جہن اور جہم کو ۔جہن کے معنے عربی زبان میں قریب ہونے کے ہیں اور جہم کے معنے برا منہ بناکر ملنے کے ہیں۔ پس جہنم اصل میں جہن جہم ہے اور مراد یہ ہے کہ وہ چیز جس کی طرف انسان شوق سے جاتاہے مگر جب پا س جاتا جاتاہے تو منہ بناتاہے ۔درحقیقت اس نام میں ہی جہنم کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے ۔ اور بتایا گیا ہے کہ انسان پہلے دوزخ میں جانے والے افعال کا ارتکاب اس کو اچھا سمجھ کر کرتاہے مگر ان افعال کی وجہ سے جب وہ دوزخ کے قریب پہنچتاہے تو منہ بنا نے لگ جاتاہے کہ یہ تو بڑا برامقام ہے گویا اس کیفیت کے اظہار کے لئے جو دوزخ دیکھنے سے پیدا ہوتی ہے اور ان کا موں کی وجہ سے جن کو بظاہر انسان اچھا سمجھتاہے مگر وہ اسے دوزخ کے قریب کرتے چلے جاتے ہیں

اس مقام کا نام جہنم رکھا گیاہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی اسی رنگ میںایک لفظ کی تشریح کی ہے ۔آپ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘میں تحریر فرماتے ہیںکہ خنزیر کا لفظ دراصل خنز اور ار سے مرکب ہے ۔ خنز کے معنے ہیں ’’بہت برا‘‘ اور ار کے معنے ہیں ’’دیکھتاہوں ‘‘ ۔پس خنزیر کے معنے ہیں کہ میںاسکو بہت برا ، فاسد اور خراب دیکھتاہوں ۔یعنی اس جانور کے اندر بعض ایسی خصلتیں پائی جاتی ہیں جو اس کی گندگی اور خرابی ظاہر کرنے والی ہیں ۔اس شکل میں میں سمجھتاہوں کہ جہنم بھی جہن اور جہم سے مرکب ہے یعنی جہنم ایک ایسی چیز ہے جس کے قریب جانے کی انسان کو شش کرتاہے یعنی وہ ایسے افعال پسند کرتاہے جو اسے جہنم کے قریب لے جانے کا موجب ہوتے ہیں مگر جب جہنم اسے نظر آتاہے تو اسکی بری شکل ہوجاتی ہے اور وہ کہتاہے اوہو یہ تو بہت برا مقام ہے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جاچکا ہے جثایجثو کے معنے ہوتے ہیں گھٹنوں کے بل گرجانا یا انگلیوں کے بل کھڑاہوجانایعنی انسان جب کسی چیز کو اپنی ایڑیاں اٹھاکر اور انگلیوںکے بل کھڑے ہوکر دیکھنے کی کوشش کرتاہے تو اس حالت کو جثیا کہتے ہیںاور جب دوگھٹنوں کے بل بیٹھ جاتاہے جیسے تشہد کی حالت میں بیٹھتے ہیں تو اس حالت کو بھی جثیاکہتے ہیں ۔ اس جگہ یہ دونوں معنے چسپاں ہوجاتے ہیں کیونکہ جہنم کا ذکر ہے اور انسانی فطرت میںیہ بات داخل ہے کہ جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو پہلے کھڑے ہو کر جھانگتاہے کہ کیا چیز آرہی ہے یا کونسی مصیبت ہے جس میں میں گرفتار ہونے والا ہوں مگر جب وہ مصیبت کو دیکھ لیتاہے تو اس کی طاقت زائل ہوجاتی ہے اور وہ گھٹنوں کے بل گرجاتاہے ۔

پھر ہم ہر ایک گروہ میں سے ایسے لوگوں کو الگ کرلیں گے جو (خدائے ) رحمان کے سخت دشمن تھے اور ہم خوب جانتے ہیںکہ ان میں سے کون دوزخ میں جانیکے زیادہ قابل ہے ۔
حل لغات:
الشیعۃ کے معنے ہیں الفرقۃ گروہ (اقرب)۔
ثم۔حرف عطف یدل علی الترتیب والتراخی یعنی ثم حرف عطف ہے جو کبھی ترتیب کے بیان کرنے کے لئے آتاہے اور کبھی یہ بتانے کیلئے کہ یہ کام دیر سے ہوا ہے (اقرب)
ِصلی۔ صَلَی النَار کے معنے ہوتے ہیں قاسٰی حرھا واحترق بھا ودخل فیھا کہ آگ کی گرمی برداشت کی اور اس میںجلا اور اس میں داخل ہوا (اقرب) صلیّمصدر ہے گویا اس کے معنے ہونگے ۔آگ میںجلنا یا اس کی گرمی برداشت کرنا
تفسیر :
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ میں داخل ہونے سے پہلے ہرگروہ کفار میں سے ان کے سرکردہ لوگوں کو خاص سزا دینے کے لئے الگ کرلیا جائے گا۔ایھم اشد علی الرحمن عتیا میں علی کے معنے خلاف کے ہیں یعنی وہ لوگ جو خدائے رحمن کے خلاف سب سے زیادہ سرکشی اور تمرّد اختیار کرنے والے ہوں گے ۔
اس کے بعدفرمایا ثم لنحن اعلم بالذین ھم اولی بھا صلیا اورہم ان لوگوں کو خوب جانتے ہیں جو آگ کے عذاب کے زیادہ مستحق ہیں ۔ان آیات میں پہلا ثم ترتیب کے لفظ سے ہے اور دوسرا ثم خالص عطف پر دلالت کرتاہے اور یہ پہلے مضمون کی تشریح ہے کہ ثم لنحن اعلم بالذین ھم اولی بھا صلیا یہ ثم ایسا ہی ہے جیسے اردو میں کہتے ہیں کہ ’’اور بات یہ ہے ‘‘اس کا یہ مطلب نہیں ہوتاکہ پہلی بات کے بعد یہ بات ہوئی بلکہ مطلب یہی ہوتاہے کہااس بات کے ساتھ ہی ایک یہ بات بھی ہے اسی مفہوم میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ثم لنحن اعلم بالذین ھم اولی بھا صلیا ایک یہ بات بھی ہے کہ ہم سب سے زیادہ ان لوگوں کو جانتے ہیں جو اس آگ میں پڑنے کے زیادہ مستحق ہیں ۔
غرض پہلاثم یعنی ثم لننزعن میں جو ثم آیاہے وہ ترتیب کے لحاظ سے ہے یعنی پہلے واقعہ کے بعد یہ ہوگا لیکن ثم لنحن اعلم میں درجہ مراد ہے کیونکہ ثم کا لفظ عربی زبان میں زمانہ ؔاور مکانؔ اور وضعؔ کی ترتیب کے لئے بھی آتاہے اور مراد یہ ہے کہ ہم خوب جانتے ہیںکہ ان کے مدارج کفر کیا ہیں اور کون کسی مقام پر رکھے جانے کے قابل ہے کیونکہ علم الٰہی نزوع کے بعد نہیں آتابلکہ وقت کے لحاظ سے علم عمل سے پہلے ہوتاہے ۔ پس یہاں ثمسے مراد بعد نہیں ہوسکتا کیونکہ فرماتاہے ثم لنحن اعلم پس یہ جاننا درجہ کے لحاظ سے ہے وقت کے لحاظ سے نہیں ۔پہلے فرمایا کہ ثم لننزعن من کل شیعۃ ایھم اشد علی الرحمن عتیا ہم کفار کے ہرگروہ میں سے ان کے بڑے بڑے لیڈروںکو نکال لیں گے ۔ پھرکہا کہ بات تو یہ ہے کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ کون اس عذاب کا زیادہ مستحق ہے اور جاننا ہمیشہ کام سے پہلے ہوتاہے ۔ تم پہلے ایک بات کو جانتے ہو اور پھر کام کرتے ہو ۔تم نے لاہور جانا ہے توپہلے تمہارے دل میں لاہور جانے کا خیال آئے گا اور پھر تم لاہور جائوگے ۔ تم نے مدرسہ جانا ہے تو پہلے مدرسہ جانے کا خیال آئے گا اور پھر تم مدرسہ جائو گے ۔تم نے کھانا کھانا ہے تو پہلے تمہارے دل میںکھانا کھانے کاخیال آئے گا اورپھر کھانا کھائو گے ۔ تو جب بھی انسان کوئی کام کرنے لگے گا علم پہلے ہوگا اورکام بعد میںہوگا مگر یہاں علم سے پہلے ثم کالفظ ہے اور چونکہ علم ہمیشہ پہلے ہوتاہے اورکام بعد میں ہوتاہے اس لئے پتہ لگ گیا کہ یہ ثم درجہ کے لحاظ سے ہے یعنی ہم اس بات کو خوب جانتے ہیںکہ کون کس عذاب کا مستحق ہے ۔پس یہاں یہ مر اد نہیں کہ یہ بات پہلے فعل کے بعد ہوگی بلکہ یہ مراد ہے کہ جولوگ درجہ کفر میں بڑے ہیں ان کو پہچاننا تو ہمارے علم کا حصہ ہے۔
ایھم اشدّ کے متعلق مفسرین نے بحث کی ہے کہ یہاں ایَّھم چاہئے تھا لیکن آیا ایُّھم ہے اس کے متعلق خلیل کہتاہے کہ یہ رفع حکایت کی وجہ سے آیا ہے اور مراد یہ ہے ثم لننزعن الذین یقال فیھم ایھم اشد یعنی ہم ایسے لوگوں کو جن کے متعلق یہ کہاجائے گا کہ وہ سب سے زیادہ سرکش اور متمرد ہیں دوسروں سے علیحدہ کرلیں گے لیکن بعض نے کہا ہے کہ لننزعن من کل شیعۃ ۔ میں ننزعن کا مفعول من کل شیعۃ آچکاہے اور ایھم اشدّ علی الرحمن عتیا ایک زائد مستقل جملہ ہے ۔اور مراد یہ ہے کہ پوچھنے والا پوچھتا ہے ’’وہ کون ہیں ‘‘تو اس کا جواب ملتاہے ایھم اشد علی الرحمن عتیا یعنی جب خداتعالیٰ نے کہا کہ ہم ہرگروہ کفار میں سے ایک جماعت کو الگ کرلینگے تو پوچھنے والا پوچھتاہے وہ کو ن لوگ ہیں اس پر وہ کہتاہے ایھم اشد علی الرحمن عتیا
بعض نے کہا ہے کہ اس کی ایک قرات ایھم بھی آتی ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہرگروہ میں سے جو خداکے زیادہ منکر ہیں ان کو نکال لیاجائے گا۔
صلیاًکے معنے صرف آگ میںجل جانے کے نہیں بلکہ جو شخص آگ کی گرمی سے متاثر ہو اسکے لئے بھی یہ لفظ استعمال کرلیا جاتاہے چنانچہ کہتے ہیںصلی النار وبھا۔ قاسٰی حرھا او احترق یعنی صلی النار وبھا کے یہ معنے ہوتے ہیںکہ اس نے آگ کی گرمی محسوس کی یا اس سے جل گیا ۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ خداتعالیٰ نے اولیٰ بھا صلیا کیوں کہا اولیٰ بھا صلیاکے یہاں دو معنے ہوسکتے ہیں۔ایک یہ کہ یہ لوگ دوسروں سے زیادہ مستحق ہیں آگ میں پڑنے کے اور دوسرے یہ کہ بہ نسبت دوسری چیز وںکے یہ لوگ آگ میں پڑنے کے زیادہ مستحق ہیں یعنی اولیٰ بالنار صلیا یا اولی الناس بالنار بہ نسبت اور چیزوںکے یہ آگ میں پڑنے کے زیادہ مستحق ہیں یا بہ نسبت اور لوگوں کے یہ آگ کے عذاب کے زیادہ مستحق ہیں۔ پس سوال پیدا ہوتاہے کہ وہ دوسرے کون ہیں جس کے مقابل پر یہ آگ کے زیادہ مستحق ہیں یا دوسری کونسی عذاب کی اقسام ہیں جن کے مقابل پر یہ آگ کے زیادہ مستحق ہیں ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ اصحاب تثلیث کا ذکر ہے اور قرآن کریم سے پتہ لگتاہے کہ اصحاب تثلیث کی ترقی کا زیادہ تر تعلق آلات نار سے ہوگا اور وہ اپنے مخالفوںکو بھی زیادہ تر آلات نارسے ہی ڈرائیں گے۔مثلاًبندوق ہے ۔توپ ہے ۔ بم ہے یا اب ایٹم بم نکل آیا ہے ۔ان سب میں آگ سے کام لیا جاتاہے ۔اس سے پہلے لوگ لوہے سے کام لیتے تھے مثلاًتلوار تھی ،نیزہ تھا ،ہتھوڑے تھے ، گرز تھے اور یا پھر پتھر اور غلیل وغیرہ سے کام لیتے تھے لیکن یا جوج وماجوج کا زمانہ آیا تو انہوں نے آگ سے کام لینا شروع کردیا۔ ان کے ناموں میں بھی اس طرف اشارہ کیاگیا تھا ۔چنانچہ یہ دونوںلفظ اج سے نکلے ہیں جس کے معنے آگ کے ہیں گویا یاجوج و ماجوج ان کا اس لئے نام رکھا گیاتھا کہ انہوں نے آگ سے زیادہ کام لینا تھا اور آتشیں اسلحہ کے استعمال سے ہی انہوں نے دنیا پر غلبہ پانا تھا چنانچہ دیکھ لو پستول ،ریوالور ،بندوق ،رائفل ،بم اور پھر ایٹم بم یہ سارے کے سارے آگ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور اپنے مخالفوںکو مغلوب کرنے کا ان کے پاس یہی ایک ذریعہ ہے ۔ مسلمانوں کو بھی انہوں نے انہی آلات حرب سے مغلوب کیا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں نے یہ چیزیں استعمال نہ کیں کیونکہ ان کے مولویوں نے ان کو خراب کیا اور کہا کہ آ گ سے کسی کو عذاب دینا سوائے خداتعالیٰ کے اور کسی کے لئے جائز نہیں یا کہہ دیا کہ یہ کوئی جادوہے جس کے زور سے یکدم بہت سے لوگ مارے جاتے ہیں۔ ورنہ ہتھیار ہوتا تو اس کے استعمال سے ایک ایک آدمی مرتا ۔پس چونکہ یہ جادو ہے اور جادو سیکھنے سے شیطان کے ساتھ تعلق ہوجاتاہے اس لئے ان کے آلات کا استعمال جائز نہیں ۔پس مسلمانوںپر جو تباہی آئی اس کی زیادہ تر وجہ یامولویوں کے فتوے ہیں اور یا پھر مغربی اقوام کے آتشین اسلحہ ۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اس دن جب ہماری سزاکا وقت آئے گا تو یہ لوگ دوسروں سے زیادہ آگ کے مستحق ہونگے کیونکہ باقی لوگوں نے آگ سے اتنا کام نہیں لیا جتنا ان لوگوں نے لیا ہے ۔میں سمجھتاہوں اگر باقی ساری دنیا کے آلات حرب جمع کرلئے جائیں تو وہ ان کولوگوںکی ایک چھوٹی سے چھوٹی حکومت کے اسلحہ سے بھی کم ہونگے ۔اگر ہندوستان ،پاکستان اورچین کی حکومتوں کے پاس جس قدر سامان حرب ہے وہ جمع کیا جائے تو میں سمجھتاہوں کہ جتنی بندوقیں اور گولیاں ان تینوںممالک کے پاس مجموعی طور پر ہوںگی وہ شائد فرانس کے برابر بھی نہیںہوںگی ۔ پس چونکہ ان لوگوںنے سب سے زیادہ آگ کی کھیل کھیلی ہوگی اس لئے ہم بھی سب سے زیادہ انہیں لوگوں کو آگ کا عذاب دیں گے اور اس دن انہیں معلوم ہوجائے گاکہ آگ کے عذاب کے یہ لوگ زیادہ مستحق ہیںیا دوسرے ۔
عذاب کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہوںگے کہ کئی قسم کے عذاب ہوسکتے ہیں ۔مثلاً پانی کا بھی عذاب ہوسکتاہے ۔بیماریوں کا بھی عذاب ہوسکتاہے ۔سردی کا بھی عذاب ہوسکتاہے اور خوفناک نظاروںکا بھی عذاب ہوسکتاہے مگر انہوں نے چونکہ لوگوں کو آگ کا عذاب دیا ہوگااس لئے آگ کا عذاب ہی ان کے زیادہ مناسب ہوگایعنی ان پر ایسے عذاب نازل ہوں گے جن میں سوزش اور جلن اور آگ پائی جاتی ہوگی ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ کوئی سوزش کا عذاب ان لوگوں کے لئے مقدر ہے ۔



اور تم میں سے ہر شخص اس (یعنی دوزخ )میں جانیوالاہے یہ خدا (تعالیٰ )کا ایسا پکا وعدہ ہے جو ہوکر رہے گا اور ہم متقیوں کو بچالیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرے ہوئے چھوڑ دیںگے۔
تفسیر :
وان منکم الا واردھا کے لفظی معنے یہ ہیں کہ تم میں سے کو ئی شخص نہیںمگر وہ اس آگ میں داخل ہونے والا ہے ۔
عام طور پر ہمارے مفسرین نے اس آیت سے یہ سمجھا ہے کہ ہر انسان دوزخ میں ڈالاجائے گا مگر یہ غلط ہے ۔ اس لئے کہ یہ ذکر ہی کا فروں کا ہے مومنوں کا ذکر نہیں۔ چنانچہ فرمایا تھا ویقول الانسان ء اذا ما مت لسوف اخرج حیا انسان کہے گاکہ کیا جب میں مرجائوں گا توپھر زندہ کرکے اٹھایا جائوںگا ۔ اب کیا یہ مومن کہا کرتے ہیں کہ ہم نے مر کر نہیںاٹھنا ۔اس میں بہر حال انہی لوگوں کا ذکر ہے جو کہتے ہیںکہ ہم نے مرکرنہیںاٹھنا یا اس زندگی کے متعلق ان کے دلوں میں شعبہ والی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ اس طرح فوربک لنحشرنھم والشیٰطین میں بھی کفار کا ذکر ہے ثم لننزعن من کل شیعۃ ایھم اشد علی الرحمن عتیا میں بھی انہی کا ذکر ہے ۔ پس جبکہ اس جگہ پرذکر ہی کفار کا ہے تو ان منکم الا واردھا سے بھی کفار ہی مرادہوں گے اورانہی کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ کان علی ربک حتما مقضیا یہ تیرے رب کا وعدہ ہے جوضرور پورا ہونے والا ہے۔ حتماًمقضیا کے معنے ہیں وعدًا واجبا مقضیا ایساوعدہ جو واجبی ہے اور لازمی ہے اور ضرور پورا ہو کررہے گا۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے اس آیت کے عام تفسیری معنے قبول کئے ہیں اور آئینہ کمالات اسلام (صفحہ۱۴۳،۱۴۴)میں تحریر فرمایا ہے کہ ان منکم سے سب انسان مراد ہیں اورہر انسان دوزخ میںجائے گا لیکن معنے یہ کئے ہیں کہ دوزخ دوقسم کی ہے ایک اس دنیا کی اور ایک اگلے جہان کی ۔ کفار تو اگلے جہان کی دوزخ میں گرائے جائیں گے مگر مومنوں کو اگلے جہان کی دوزخ میں نہیں گرایاجائے گابلکہ اسی دنیا میں اسکو خداتعالیٰ کی راہ میں جو تکالیف پہنچتی ہیں وہ اس دوزخ کاقائم مقام ہوجائیں گی۔ گویا آپ نے ان منکم الا واردھا کو پچھلی آیات کے ساتھ ملاکر اس کے معنے نہیں کئے بلکہ مستقل طور پر اس آیت سے ایک نتیجہ نکالا ہے اور فرمایاہے کہ ان منکم الاواردھاکے یہ معنے ہیں کہ تم میں سے ہرشخص اس دوزخ میں داخل ہونے والا ہے ۔مگر کفار تو اگلے جہان کی دوزخ میں ڈالے جائیں گے اورمومنوں کو اس دنیا میں جو تکالیف برداشت کرنا پڑتی ہیں وہ اس جہنم کا قائم مقام ہوجائیںگی اوراس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ معنے بھی درست ہیں ۔ خود رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مومنوں کو کافروں سے بہت زیادہ دنیاکی تکالیف پہنچتی ہیںبلکہ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ خداتعالیٰ کا کو ئی شخص جتنا زیادہ پیا را ہوتاہے اتنی ہی زیادہ اسے دنیا کی تکلیفیں پہنچتی ہیں پس یہ معنے بھی صحیح ہیں ۔
احادیث میں بھی اس آیت پر بحث آئی ہے جس سے معلو م ہوتاہے کہ جو معنے میں نے کئے ہیں اور جو معنے حضر ت مسیح موعود ؑ نے کئے ہیں وہ دونوں احادیث سے ثابت ہیں چنانچہ حضرت حفصہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ بدراور حدیبیہ کے صحابہ ؓ میں سے کوئی شخص دوزخ میں نہیں جائے گا۔ حضرت حفصہؓ کہتی ہیں میں نے کہا یارسول اللہ و این قول اللہ تعالیٰ وان منکم الا واردھا یعنی اگر یہ بات درست ہے تو پھر خدتعالیٰ کا یہ قول کہاں گیا کہ ان منکم الا واردھا ۔ یعنی اس میں تو یہ ذکر ہے کہ سب لوگ دوز خ میں جائیںگے اس پرآپ نے فرمایا مہ یعنی بس بس جیسے ہمارے ہاں کہتے ہیںکہ چپ بھی کر ۔ وہ آیت کہاں گئی کہ ثم ننجی الذین اتقوا ونذر الظٰلمین فیھا جثیا (مسلم بحوالہ جامع البیان ) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یہاں ثم کے معنے اورکے ہیں ۔ورنہ حضرت حفصہ ؓ کی بات کی تردید نہیں ہوتی بلکہ اس کی تصدیق ہوجاتی ہے کیونکہ اگر اس کے یہ معنے کئے جائیںکہ پھر ہم متقیوںکو نجات دیں گے تواس کے معنے یہ بنتے ہیںکہ متقی بھی دوزخ میں ڈالے جائیںگے۔ گویا وہی بات ثابت ہوجاتی ہے جو حضرت حفصہ ؓ نے کہی تھی مگر رسول کریم ﷺ ان کی بات کی تردید فرماتے ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ آپ نے یہاں ثم کے معنے اورکے کئے ہیں اور اسے ایک الگ جملہ قراردیاہے گویا نجات پانے والے وہ ہیں جو جہنم میں نہیں جائیںگے اور یہاں کوئی الگ جملہ نہ ہو تو حضرت حفصہ ؓ کی بات ٹھیک ہوجاتی ہے ۔
اس حدیث سے ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ثم ننجی الذین اتقوا کو ایک الگ قول قراردیاہے اوریہ مرادلی ہے کہ ہم دوزخیوںکو دوزخ میں ڈالیں گے اورمومن کودوزخ میں ڈالے بغیر جنت میں لے جائینگے۔
زجاج کہتے ہیں کہ ایک دوسری آیت بھی اس مضمون کی تائید کرتی ہے کہ مومن دوزخ میں ڈالے بغیر جنت میں داخل کئے جائیں گے اور وہ آیت یہ ہے کہ ان الذین سبقت لھم منا الحسنٰی اولٰئک عنھا مبعدون یعنی وہ لوگ جن کے متعلق ہماری طرف سے یہ فیصلہ کیاجاچکا ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیاجائے گا وہ دوزخ کے قریب بھی نہیں جائیںگے ۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ یہ گروہ ایسا بھی ہے جو نہ صرف یہ کہ دوزخ میں نہیںڈالاجائے گا بلکہ دوزخ کے قریب بھی نہیںجائے گا ۔پس زجاج کہتے ہیں کہ ان منکم الا واردھا سے یہ مراد ہے کہ کفار دوزخ میںجائیںگے اور ثم ننجی الذین اتقوا ایک الگ قول ہے اور اس کے معنے یہ ہیںکہ ہم مومنوں کو دوزخ میںڈالے بغیر جنت میںلے جائیںگے زجاج کے علاوہ مجاہد کا بھی یہی قول ہے ۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے اس آیت کی جو تشریح فرمائی ہے اس کی تصدیق بھی حدیثوں سے ہوتی ہے چنانچہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ بخار کے متعلق بتایا کہ یہ کیا چیز ہے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتاہے ھی ناری اسلطھا علی عبدہی المؤمن لتکون حظہ من النار یہ میری آگ ہے جو میں اپنے مومن بندہ پر اس لئے مسلط کرتاہوں کہ اگلے جہاں کی دوزخ کا حصہ اس کو یہیں مل جائے ۔یہی حضرت مسیح موعو دؑ فرماتے ہیںکہ مومن کو اس دنیا میں جوتکلیفیں پہنچتی ہیںوہ درحقیقت اگلے جہان کی دوزخ کا ایک حصہ ہوتی ہیں ۔اسی طرح رسو ل کریم ﷺ فرماتے ہیں الحمی حظ المؤمن من النارٔ بخار دوزخ میں سے مومن کا حصہ ہے یعنی مومن اگلے جہان کی دوزخ میں تونہیں ڈالاجاتا لیکن جب یہاں اسے بخار چڑھ جاتاہے اور بیماریاں آجاتی ہیں تو اسے بھی اس آگ سے ایک حصہ مل جاتاہے ۔گویا کافراگلے جہاں میں مرنے کے بعد آگ کے عذاب میں مبتلا کیا جائیگا اور مومن اسی دنیا میں مختلف تکالیف سے حصہ لیکر جو درحقیقت دوزخ کا ہی ایک حصہ ہے اگلے جہان میں جنت میں چلا جائیگا ۔ یہ دونوں حدیثیں قرطبی نے تہذیب التہذیب اور طبری کے حوالہ سے بیان کی ہیں ۔اور یہ جو میں نے معنے کئے ہیں کہ یہاں ان منکم الا واردھا سے کافر مراد ہیں اور جودرحقیقت حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے ۔ حدیثوںسے بھی معنے ثابت ہیں اورحضرت ابن عباس ؓ بھی اسی کے قائل تھے اورکہتے تھے کہ ھذا خطاب للکفار (قرطبی) اس سے مومن مراد نہیں بلکہ کافرمراد ہیں اور وہ اس آیت کی تشریح ان منکم کی جگہ ان منھم پڑھکر کیا کرتے تھے (قرطبی ) یعنی وہ کافر جن کا پہلے ذکر ہے ا ن میں سے ہر شخص دوز خ میں ڈالا جائے گا ۔عسکرمہ اور ایک اورتابعین کی جماعت بھی اس قرات کو جائز قراردیتی تھی کہ ان منکم الا واردھا جائے قرطبی کہتے ہیںکہ یہ جائز ہے کہ منکم ہو مگر ضمیر غائب مراد ہو جیسے قرآن کریم میںدوسری جگہ آتاہے کہ وسقھم ربھم شرابا طھورا ان ھذا کان لکم جزاء وکان سعیکم مشکورا (دھر) یہاں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہوسقھم ربھم شرابا طھورا اور پلائیگا انکو ان کا رب ایک پاک کرنے والا شربت مگر آگے فرماتاہے ان ھذ ا کان لکم جزاء یہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزاء ہے اورتمہاری کوششوںکی قدر کی گئی ہے ۔ اسجگہ پہلے سقھم ربھم کہہ کر غیب کی ضمیر استعمال گئی ہے اور پھر ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ انا ھذاکان لکم جزاء یہ تمہارے لئے جزاء ہے وکان سعیکم مشکورا اور تمہاری سعی کی قدر کی گئی ہے ۔ اس مثال کوپیش کرکے علامہ قرطبی کہتے ہیں کہ ان منک الا واردھا میں بھی غائب کی ضمیر کی طرف منکم کہہ کر اشارہ کیاگیا ہے اورمراد کافرہی ہیں مومن نہیں ۔
غرض دونوںمعنے جومیں نے اوپر کئے ہیںوہ حدیثوں سے بھی اور رسول کریم ﷺ کے صحابہ ؓ کے اقوال سے بھی ثابت ہیں ۔

او رجب انہیں ہماری کھلی کھلی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کافر مومنوںسے کہتے ہیں (بتاؤ تو) ہم دونوں فریق میں سے کونسا فریق درجہ کے لحاظ سے اور ہم جلیسوں کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے ۔
حل لغات :
الندی کے معنے ہیں النادی ۔مجلس (اقرب)
تفسیر :
واذا تتلی علیھم اٰیٰتنا بینات کالوگ عموماًغلط ترجمہ کرتے ہیں ۔شاہ رفیع الدین صاحب نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ ’’جب پڑھی جاتی ہیں اوپر ان کے نشانیاں ہماری ظاہر ‘‘۔حالانکہ یہ نہ اردو ہے اور نہ اس کے کوئی معنے ہیں۔ تلاعلیہکے معنے ہوتے ہیں ’’اس کو پڑھ کر سنایا ‘‘جب انسان اسی طرز پر پڑھے کہ اس کی غرض یہ ہوکہ دوسرا بھی سن سکے تو اس کے لئے عربی زبان میں تلاعلیہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں ۔پس واذاتتلی علیھم اٰیاتنا بینات کاترجمہ یہ ہوگا کہ جب ہماری آیات انکو پڑھ کر سنائی جاتی ہیںجو بیّنات بھی ہوتی ہیں۔
عربی زبان اور قرآن کریم کی یہ خصوصیت ہے کہ جو الفاظ وہ کسی مضمون کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کرتاہے ان میںنہ صرف اشارہ پایا جاتاہے بلکہ اس مضمون کی وضاحت بھی انہیں الفاظ میں موجود ہوتی ہے ۔مثلا ًاردو میں عام طور پر نشانات الٰہیہ کے متعلق معجزہ یا نشان وغیرہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیںحالانکہ ان میں سے کوئی لفظ بھی ایسا نہیں جو معجزات کی غرض وغایت اور ان کے حقیقی مقصد کو واضح کرنے والا ہو ۔ معجزہ بھی یوں تو عربی زبان کا لفظ ہے مگر قرآن کریم نے اس لفظ کو کہیں استعمال نہیں کیا ۔اسی طرح حدیث میں بھی یہ لفظ استعمال نہیںہوا ۔یہ لفظ لوگوں نے خود وضع کیاہے مگر یہ بھی اس مضمون کو ادانہیںکرتاجس کے لئے اسے تجویز کیا گیا ہے ۔قرآن کریم نے اس کیلئے آیت کا لفظ استعمال کیاہے ۔ آیت کے معنے علامت اور نشان کے ہوتے ہیں ۔اسی سے نشان کالفظ بنایا گیا۔ مگر نشان کا لفظ بھی وہ مضمون ادانہیں کرتاجو آیت کا لفظ اداکرتاہے ۔ آیت کالفظ اس بات پر دلالت کرتاہے کہ کوئی چیز کسی دوسری چیز کی طر ف اشارہ کرتی اور اس کی طرف راہنمائی کرتی ہے ۔اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نشان ظاہر کئے جاتے ہیں وہ بغیر کسی مقصد کے نہیںہوتے کوئی نہ کوئی مقصد اور کوئی نہ کوئی غرض انکے ساتھ وابستہ ہوتی ہے ۔ معجزہ کا لفظ صرف ایک طاقت کا اظہار کرتاہے جیسے کسی کو ڈنڈاماراجائے اور وہ بھاگ جائے تو اس ڈنڈامارنے والے کی طاقت کا اندازہ ہوجاتاہے لیکن آیت یہ بتاتی ہے کہ کسی خاص مقصد کو سامنے رکھاگیاہے اور اس مقصد کو واضح کرنے اور لوگوں کو سمجھانے کیلئے اسے ایک دلیل کے طور پر پیش کیا گیاہے ۔
دنیا میں جس قدر مذاہب پائے جاتے ہیں ان پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ ہر مذہب لوگوں کے سامنے بعض ایسی چیزیں بھی پیش کرتاہے جو نظر نہیں آتیں اور چونکہ وہ پوشیدہ ہوتی ہیں اس کے ثبوت کیلئے بعض دوسری دلیلیں پیش کرنی پڑتی ہیں ۔ان میں سے بعض دلیلیں تو خالص عقلی ہوتی ہیں اور بعض دلیلیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اس کی قدرت اور اس کے علم غیب کا بھی ثبوت رکھتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا سمجھنا لوگوںکے لئے زیادہ آسان ہوتاہے۔ مثلاًانبیاء کی نبوت کا مسئلہ ہے ۔آج تک دنیا میں کسی نے نہیں دیکھا کہ آسمان سے فرشتہ آیا ہو اور اس نے کسی نبی سے باتیںکی ہوں ۔پس چونکہ یہ ایک مخفی چیز ہے اس لئے اس کی تصدیق آیات سے کی جاتی ہے جواس بات کی علامت ہوتی ہیں کہ یہ نبی جو کچھ کہہ رہا ہے اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہہ رہا ہے ۔ اسی طر ح خداتعالیٰ کا وجود آج تک کسی نے نہیں دیکھا پس اس کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے بعض دلائل دئیے جاتے ہیں جس سے وہ وجود ہماری آنکھوں کے قریب آجاتاہے اور عقل قبول کر لیتی ہے کہ خداتعالیٰ موجود ہے اور اس کے اندر یہ یہ صفات پائی جاتی ہیں ۔ایسی دلیلیں قرآن کریم کی رو سے آیات کہلاتی ہیں کیونکہ وہ خداتعالیٰ کے علم غیب یا اس کی قدرت یا اس کے حی وقیوم ہونے کے ثبوت کے طورپر ظاہر ہوتی ہیں ۔ مثلاًایک نبی غیب کی خبر دیتاہے اور ساتھ ہی کہتاہے کہ خد انے مجھے یہ خبر بتائی ہے۔ اب ہرشخص جانتاہے کہ انسان میںغیب معلوم کرنے کی طاقت نہیں ۔اگر ہو تو یہ کبھی نہیں ہوسکتاکہ وہ اس طاقت کو اپنی طرف منسوب نہ کرے ۔ہم تو دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنی شہرت کے لئے دوسرں کی خوبیاں بھی اپنی طرف منسوب کرلیتے ہیں ۔کتاب پڑھیں گے اور ا س کے مضامین اپنے نام پر شائع کرنے شروع کردیں گے مصنف کہیں بیٹھا ہوا ہوتاہے اور اس کی محنت اپنی طرف منسوب کرناشروع کردیتے ہیںبلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی اچھا کام ہو لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے اپنی طرف منسوب کرلیں ۔ ہمارے سکول کی ٹیم ایک دفعہ امرتسر کھیلنے کے لئے گئی ۔میں اس وقت اگر چہ تعلیم سے فارغ ہوچکا تھا لیکن میرا مدرسہ سے ابھی تعلق قائم تھا کیونکہ میں نیا نیا نکلاتھا اس لئے میں بھی ساتھ چلاگیا ۔وہاں خالصہ کالج والوں سے میچ مقرر تھا ۔وہ دوست جنہوں نے کھیل میں حصہ لینا تھاوہ تو وہیںرہے اورمیں لاہور چلاآیا ۔جب واپس گیا تو بعض دوست جو مجھ سے زیادہ تعلق رکھنے والے تھے وہ میرے استقبال کے لئے اسٹیشن پرآگئے ۔ان میں سے ایک نے بتایاکہ ہمارا میچ بڑا شاندار رہا ۔لوگوں نے خوب داددی اورہم نے بڑی نمایاں کامیابی حاصل کی ہے ۔
اس خبر سے مجھے طبعاً خوشی ہوئی اور میں نے کہا الحمدللہ ۔پھر وہ کہنے لگایوں تو سب کی ہی تعریف ہوئی مگر ہمارے کیپٹن کی لوگوں نے اس قدرتعریف کی کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں ۔مجھے اس سے اورزیادہ خوشی ہوئی ۔ کیپٹن میاں بشیر احمد صاحب کے سالے تھے اور وہ واقعہ میں بہت اچھے کھلاڑی تھے مگر اس کے بعد کہنے لگا ایک عجیب بات آپکو یہ بتائوں کہ ٹیم کا کیپٹن سب لوگ مجھے سمجھتے تھے۔ گویا جسقدر کیپٹن کی تعریف ہوئی وہ سب اس نے اپنی طرف منسوب کرلی ۔تو دنیا میں قاعدہ یہ ہے کہ اگر کسی کی اچھی چیز لوگوں کو نظر آئے توان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے اپنی طرف منسوب کرلیں ۔ لوگ شاعروں کے شعر چراکر اپنے نام سے شائع کروادیتے ہیں مگر ایسا کون بے وقوف ہوگا جو اعلیٰ درجہ کا شاعر ہو بڑے بڑے شاعروں اورادیبوں سے خراج تحسین حاصل کرنیوالا ہو اور پھر وہ اپنے شعر کے متعلق کہے کہ یہ میرا نہیں بلکہ فلاں شاعر کاہے ۔ ہاں ادنیٰ درجہ کے لوگ ایسا کرلیتے ہیں کہ خود شعر بنایا اور لوگوں کی تعریف حاصل کرنے کیلئے کہہ دیا کہ یہ انوری کاہے یا خاقانی کا ہے یاسعدی کیا ہے یا حافظ کا ہے ۔
غرض یہ تو ہوجاتاہے کہ دوسروں سے تعریف کروانے کے لئے بعض دفعہ اپنی چیز لوگ مشہور آدمیوں کی طرف منسوب کردیتے ہیں مثلا ًحدیث خود بنائی اور کہہ دیا کہ رسول کریم ﷺ نے ایسا فرمایا ہے لیکن یہ مثال کہیں نظر نہیں آئیگی کہ کوئی قادر الکلام انسان اپنا کلام دوسرے کی طر ف منسوب کردے ۔خود اعلیٰ درجہ کا شعر کہے اور منسوب اسے کسی اور کی طرف کردے کیونکہ کوئی شخص ایسی بات دوسرے کی طر ف منسوب کرنیکے لئے تیارنہیں ہوسکتا جس سے اس کی اپنی شہرت میں اضافہ ہوتاہو۔
اب اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے غور کر و کہ ایک نبی جب دنیا میں آتاہے اور غیب کی خبریں لوگوں کو بتاتاہے تو وہ یہ نہیں کہتاکہ میں ایسا کہتاہوں ۔بلکہ کہتاہے کہ خدنے مجھے یہ بات کہی ہے ۔اگر اسے ذاتی طور پر غیب کا علم حاصل ہو تو غیب کی خبریں اسے خداتعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔وہ اسی لئے ان خبروں کو خداتعالیٰ کی طرف منسوب کرتاہے کہ اسے کامل یقین ہوتاہے کہ خدانے ہی اسے یہ خبر یں بتائی ہیں ورنہ وہ اپنی خوبی کسی اور کی طرف کیوںمنسوب کرے ۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ غیب کی خبریں پوری بھی ہوجاتی ہیں اور اس طرح جہاں اس کی اپنی نبوت کی سچائی دنیا پر ظاہر ہوجاتی ہے اور پتہ لگ جاتاہے کہ ا سکا خداتعالیٰ کے ساتھ تعلق ہے وہاں یہ بھی پتہ لگ جاتاہے کہ ایک ایسی ہستی موجود ہے جو علم غیب جانتی ہے ۔اسی طرح خداتعالیٰ کا حی و قیوم ہونا ہے ۔ایک بیمار مرنے لگتاہے۔اسکی نبضیں چھوٹ جاتی ہیںکہ خداتعالیٰ کا ایک بندہ اسے ہاتھ لگاتاہے اور اس میں زندگی کے آثار ازسرنو ظاہر ہونے شروع ہوجاتے ہیں ۔اس کا سانس درست ہو جاتاہے۔اس کے حواس قائم ہوجاتے ہیں اوراس کی کھوئی ہوئی طاقت پھر واپس آجاتی ہے ۔دیکھنے والا دیکھتاہے اورا س بات پر ایمان لاتاہے کہ ہمارا خداحی وقیوم ہے کیونکہ اس شخص میں طاقت نہیں تھی کہ اسے اچھا کرتالیکن اس کی دعااور توجہ سے ایک مردہ جسم میں بھی جان پڑگئی جو اسبات کا ثبوت ہے کہ ہمارا خدا حی و قیوم ہے یا مثلاً ایک شخص کے ہاں اولاد نہیںہوتی تھی سالہاسال گذر گئے اوراس کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہ ہوا ۔خداتعالیٰ کے ایک نبی یا اس کے کسی برگزیدہ بندہ نے اس کے لئے دعاکی اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہوگیا ۔یہ نشان اس بات کا ثبوت ہوگا کہ ہمارا خداخالق ہے ۔ پس آیات ان نشانات کو کہتے ہیں جو کسی اعلی شئے کے ثبوت کے لئے ظاہر ہوتے ہیں مثلا ًخداتعالیٰ کی ہستی کے ثبوت کے لئے یانبوت انبیا ء وغیرہ کے سمجھانے کے لئے گویاکوئی اہم مقصد ان کے سامنے ہوتاہے۔ بے موقع اور لغو طور پروہ ظاہر نہیں ہوتے ۔جیسے لوگوںمیں مشہور ہے کہ مکہ میں گدھوں والے جب مکہ سے باہرجاتے ہیں تو گدھوں پرپتھر لاد کرلے آتے ہیں مگر جب مکہ میں پہنچتے ہیں تووہ پتھر تربوز بن جاتے ہیں ۔ اب پتھروں اور تربوز کا آپس میں کوئی جوڑ نظر نہیںآتا اورنہ اس نشان کی کوئی ضرورت نظر آتی ہے لیکن اس نشان میں ہمیں ضرور جوڑ نظر آتاہے کہ خدانے کہا کہ خانہ کعبہ محفوظ رہے گا ۔ابرہہ آیا اور وہ اپنی ساری طاقت اورقوت کے باوجود شکست کھا گیا یارسو ل کریم ﷺ نے اس حالت میںجبکہ کوئی بھی آپ کیساتھ نہیںتھاخبردی کہ میں جیت جائونگا اور پھر مکہ والوں کی سرتوڑ مخالفت کے باوجود آپ جیت گئے اور آپ کے دشمن ناکام ونامراد رہے ۔یہ آیتیں ہیں جوبتاتی ہیں کہ خداہے۔رسول کریم ﷺ اس کے سچے رسول ہیںاورایک طاقتور ہستی ان کی مدد کررہی ہے۔
پھر آیتیں دنیا میں ایسی بھی ہوتی ہیں جو نشان توہوتی ہیں لیکن وہ اپنی غر ض وغایت بیان نہیںکرتیں لیکن فرماتاہے وہ آیات ہیںجوبیّنات ہیں یعنی نہ صرف کسی مقصد کو اپنے سامنے رکھتی ہیں بلکہ اس مقصد کو کھول کر بیان بھی کرتی ہیں اور یہ بھی بتاتی ہیںکہ وہ نشان اپنی ذات میں کیوں ظاہر ہوگا۔ گویا وہ کوئی بے معنے کام نہیں ہوتابلکہ جو بھی نشان آتاہے وہ نہ صرف خدااور اسکے انبیا ء وغیرہ کے لئے ثبوت ہوتاہے بلکہ خود اپنی ذات میں بھی موقع کے مناسب اور برمحل ہوتاہے ۔پس آیت بینّہ وہ ہے جو
(۱) کسی اعلی شئے کو دکھانے اور قریب کرنیکے لئے ظاہر ہو ۔اور
(۲) وہ بے معنی نہ ہو بلکہ موقع کے مناسب ہو اور کسی مفید مقصد کیلئے ظاہر ہو ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام ایک دفعہ لدھیانہ تشریف لے گئے ۔حضر خلیفہ اول ؓ کے خسرصوفی احمد جان صاحب جو ایک مشہور پیر اور بزرگ انسان تھے اور جنہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کی کتاب ’’براہین احمدیہ ‘‘ بھی پڑھی ہوئی تھی۔انہوں نے جب آپکی تشریف آوری کی خبر سنی تو بڑے خوش ہوئے اور اپنے ایک مرید سے جوکابل کے شہزادوں میں سے تھے آپکی دعوت کروائی۔ حضرت مسیح موعود ؑ ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور جب کھانے سے فارغ ہوئے تو صوفی صاحب آپ کو مکان تک پہنچانے کے لئے آپ کے ساتھ ہی چل پڑے ۔صوفی احمد جان صاحب رتر چھتّروالوں کے مرید تھے (رتّر چھتّر گو رداسپور کے علاقہ میں ہے ) حضر ت مسیح موعود ؑ نے راستہ میں دریافت فرمایا کہ صوفی صاحب سنا ہے رتّر چھتّر والوں کی آپ نے بارہ سال تک خدمت کی ہے کیا آپ بتاسکتے ہیںکہ آپ نے ان کی صحبت سے کیا فیض حاصل کیا ؟ انہوں نے کہا حضور وہ بڑے بزرگ اور باخدا انسان تھے۔میں بارہ سال ان کی صحبت میں رہااور بڑا فائدہ حاصل کیا ۔ پھر انہوں نے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا جو ان کے پیچھے آرہا تھا اور کہاحضور ان کی برکت سے اب مجھ میں اتنی طاقت پید اہوچکی ہے کہ اگر میں اس شخص کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھوں تو فوراً زمین پر گرپڑے اور تڑپنے لگ جائے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ یہ سنتے ہی کھڑے ہوگئے ۔تھوڑی دیر خاموش رہے اورپھر اس سوٹی کوجوآپ کے ہاتھ میں تھی زمین پر رگڑتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ میاں صاحب پھر اس کا آپ کو کیا فائدہ پہنچا اور اگر ایسا ہوجائے تو اس شخص کو کیا فائدہ پہنچے گا۔ وہ چونکہ اہل اللہ میں سے تھے اس لئے آپ نے ابھی اتنا ہی فقرہ کہا تھا کہ و ہ فوراً سمجھ گئے اور کہنے لگے حضور میں وعدہ کرتاہوں کہ آئندہ میں ایسا نہیں کروں گا ۔ میں سمجھ گیا ہوںکہ یہ ایک بے فائدہ چیز ہے۔اس کادین اور روحانیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ اب بظاہر یہ ایک آیت تو تھی کیونکہ طاقت ظاہر ہوئی اور ایک چلتے ہوئے آدمی کو گرالیا مگر اس کی نیکی کے ساتھ کیا تعلق ہے ۔یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کسی کو مکا مار کر گرالیا جائے کیو نکہ جس طرح مکا مارنے سے دوسرا گرجاتاہے اسی طرح ایک مسمر یزم کی مشق رکھنے والا آدمی دوسرے پر نظر ڈال کر اسے گراسکتاہے ۔پس اس سے اتنا توثابت ہوجاتاہے کہ جس نے نظر ڈالی ہے اس میں بڑی طاقت ہے مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ جس نے نظر سے دوسرے کو گرالیاہے اس کاخداتعالیٰ سے تعلق ہے ۔ پس یہ ایک آیت تو تھی مگر بینہ نہیںتھی ۔بینہ وہ آیت ہوتی ہے جو اپنی غرض بھی بیان کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ اس نشان کا مقصد کیاہے۔
زیر تفسیر آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہی بیان فرمایا ہے کہ الٰہی معجزات خیالی آیت نہیں ہوتے بلکہ ساتھ ہی وہ بینات بھی ہوتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان کی غرض کیا ہے ۔ان سے کونسا فائدہ مدنظر ہے اور دنیا کو کیا نفع پہنچانا مقصود ہے مثلاًحضر ت مسیح موعود ؑ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اعلان فرمایا کہ پنجاب میں طاعون آئے گی ۔اب یہ ایک آیت تو تھی مگر ساتھ ہی بینہ بھی تھی کیونکہ آپ نے تشریح کردی کہ چونکہ ان لوگوں نے الٰہی تعلیم کو چھوڑ کر دوزخ کی طرف اپنا قدم بڑھالیا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ان پر دنیا میں ہی اپنا عذاب نازل کرے گا تاکہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہواور وہ خدتعالیٰ کی طرف متوجہ ہوسکیں ۔اگر اس کی بجائے آپ صرف یہ کہہ دیتے کہ طاعون آئے گی جس سے دشمن کے آدمی بھی مرجائینگے اور کچھ میرے آدمی بھی مرینگے تو یہ ایک آیت توہوتی مگر بینہ نہ ہوتی ۔غرض ان دوالفاظ میں اللہ تعالیٰ نے اسلامی معجزات کی حقیقت بیان کر دی ہے اور بتایا ہے کہ الٰہی آیات کسی اہم مقصد کیلئے ظاہر ہوتی ہیں اس مقصد کو خوب کھول کر بیان کرتی ہیںاور پھر وہ آیات موقع کے مناسب اور بر محل ہوتی ہیں ۔
اب بتاتاہے کہ ۔واذا تتلٰی علیھم اٰیٰتنا بینات قال الذین کفروا للذین اٰمنوا ای الفریقین خیر مقاما واحسن ندیا جب ہماری آیات ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیںتو کافرمومنوں کو کہتے ہیں کہ ’’ نونقد نہ تیرہ ادھار‘‘ تم خبریں دے رہے ہو ’’تیرہ ادھار ‘‘کی اور ہم خبریں دے رہے ہیں ’’نقد ‘‘کی ۔ تم کہتے ہو کہ اگر ہمارے پیچھے چلوگے تو تمہیں جنت ملے گی ۔تمہیں بڑے بڑے انعامات ملیں گے ۔اللہ تعالیٰ کی رضاء اور خوشنودی حاصل ہوگی اور ہم کہتے ہیں کہ جوتیاں تمہاری ٹوٹی ہوئی ہیں ۔کپڑے تمہارے پھٹے ہوئے ہیں کھانے کوتمہارے پاس کچھ نہیں اور ہم میں سے ہر ایک کے پاس دس دس نوکر اور غلام ہیں ۔گھروں میں دولت بھری ہوئی ہے ۔عزت ہماری زیادہ ہے ۔اختیارات ہمارے زیادہ ہیں ۔تعداد ہماری زیادہ ہے ۔تم ان باتوں میں ہمارا مقابلہ کر کے دیکھو ۔آئندہ کے متعلق تم کیا وعدے کرتے ہو ۔یہ دلیل یقیناایسی ہے کہ اگر اس کا کوئی توڑ نہ ہوتو دوسرے کو ساکت اور لاجواب کرنے کے لئے بالکل کافی ہے۔وہ کہتے ہیں تم اور باتوں کو جانے دو ۔تم یہ بتاؤ کہ تمہارا گھر اچھا ہے یا ہمارا ؟ تمہارے پاس سامان زیادہ اچھاہے یا ہمارے پاس ؟ معزز لوگ ہماری مجلسوں میں آتے ہیں یا تمہاری مجلسوں میں ؟مدد حاصل کرنے کے لئے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں یا تمہارے پاس ۔اگر مال ہمارے پاس زیادہ ہے ،دولت ہمارے پاس زیادہ ہے ،اختیارات ہمارے پاس زیادہ ہیں ، تعداد میں ہم زیادہ ہیں ،معزز لوگ ہمارے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ،مدد حاصل کرنے کے لئے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں ، بڑے بڑے عہدے ہمارے پاس زیادہ ہیں ،ہر قسم کا سازو سامان ہمارے پاس موجود ہے تو ہم اچھے ہوئے یا تم اچھے ہوئے ۔

اور ہم نے ان سے پہلے بہت سے زمانوںکے لوگوں کو ہلاک کیا ہے جوسامانوں کے لحاظ سے اور ظاہر ی شان وشوکت کے لحاظ سے(ان لوگوں سے)اچھے تھے ۔
حل لغات :
الاثاث کے معنے ہیں متاع البیت گھر کاسامان ۔وقیل ھو ما یتخذ للاستعمال والمتاع اور بعض اہل زبان یہ کہتے ہیںکہ اثاث اس سامان کو کہتے ہیں جو استعمال میں آتاہے۔ وقیل المال کلہ اور بعض اہل زبان کہتے ہیںکہ سارے گھر کے سامان کو خواہ وہ کیسا ہو اثاث کہتے ہیں ۔(اقرب)
الرأیُ کے معنے ہیںالمنظر ۔منظر (اقرب)
تفسیر :
فرماتاہے ا گر تو دولت موجودہ کا تمہارے پاس ہونا اسبات کا ثبوت ہے کہ آئندہ یہ حالات بدلیں گے نہیں تو پھر تو یہ دلیل ٹھیک ہے اور ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ چیزیں تمہارے پاس ہیں ،ہمارے پاس نہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ کم اھلکنا قبلھم من قرن کبھی تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ ہم تم سے پہلے کتنے قرن ہلاک کرچکے ہیں ۔
قرن کے معنے ایک صدی کے بھی ہوتے ہیں اور صدی کے قریب زمانہ یعنی اسی نوے سال کو بھی قرن کہہ دیتے ہیں ۔اسی طرح ایک زمانہ یا ایک نسل کے لوگوں کو بھی قرن کہتے ہیں ۔ زمانہ کے دور کو بھی قرن کہتے ہیں اور ہر ایسی قوم جو تمام کی تمام ہلاک ہوگئی اور اس میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا اسے بھی قرن کہتے ہیں۔(اقرب)
رئیاًکے معنے منظر یا اچھے منظر کے ہوتے ہیں ۔فرماتاہے اگر وہ غور کریں تو انہیں معلوم ہوگاکہ کتنے ہی قرن ایسے گذرے ہیں جن کو ہم نے ہلاک کردیا ۔یعنی دنیا میں اب تک کتنی ہی قومیں ایسی گذر چکی ہیں جوتمام کی تمام ہلاک ہوگئیں اور ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہا حالانکہ ان کے پاس ان سے زیادہ اچھے سامان تھے اور ان کی مجلسوں میں ان سے زیادہ قیمتی سامان ہوا کرتے تھے ۔گویا ان کی طاقت ان سے زیادہ تھی ، ان کی شوکت ان سے زیادہ تھی ،ان کا دبدبہ اور رعب ان سے زیادہ تھا مگر پھر بھی وہ ہلاک ہوگئیں۔ جب ان سے زیادہ سامان اور زیادہ طاقت اور زیادہ شوکت رکھنے والی قومیںہلاک ہوچکی ہیں تو کم سے کم یہ لوگ یہ تونہیں کہہ سکتے کہ ہم ہلاک نہیںہوسکتے ۔ یہ الگ سوال ہے کہ انہوں نے ہلاک ہوناہے یا نہیں ہونامگر بہرحال ہلاک نہ ہوسکنے والی بات غلط ہوگئی کیونکہ ان سے زیادہ طاقت ور اور شاندار قومیں اس سے پہلے ہلاک ہوچکی ہیں ۔
اس جگہ چونکہ عیسائیوں کاذکر ہے اس لئے یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ عیسائیوں سے زیادہ سامان رکھنے والے اور عیسائیوں سے زیادہ شان وشوکت کے مالک اور کون لوگ ہوئے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جو سامان ان کے پاس ہیں اورجو طاقتیں اور قوتیں ان کو حاصل ہیں نہ یہ سامان پہلی حکومتوں کے پاس تھے اور نہ ایسی طاقتیں اور قوتیں ان کو حاصل تھیں پھر وہ کون لوگ ہیں جنہیں زیادہ سازوسامان والااور زیادہ شان وشوکت رکھنے والی قراردیا گیاہے ؟
سو یادرکھنا چاہئے کہ طاقت اور قوت بھی ایک نسبتی امر ہے ۔مثلا ًایک شخص ایساہے جس کے پاس ہزارروپیہ ہے اور اس کے مخالف کے پاس دوسوروپیہ ہے اور ایک او رشخص ایساہے جس کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہے اور اس کے مخالف کے پاس ننانوے لاکھ ننانوے ہزار روپیہ ہے ۔ اب گواس کے پاس ہزارروپے والے سے بہت زیادہ روپیہ ہے مگر نسبتی طور پر یہ اس سے طاقت میں کمزور ہے کیونکہ جس دشمن سے ہزار رپے والے کامقابلہ ہے اس سے وہ پانچ گناطاقتورہے اور جس دشمن سے اس کا مقابلہ ہے اس سے صرف ایک ہزار روپیہ اس کے پاس زیادہ ہے ۔پس گو اس کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہے اور دوسرے کے پاس ایک ہزار مگر دشمن کی طاقت کو مد نظر رکھتے ہوئے نسبتی لحاظ جس کے پاس ایک ہزارروپیہ ہے وہ زیادہ طاقتور ہے اور جس کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہے وہ کم طاقتور ہے ۔ پس طاقتوں کامقابلہ ہمیشہ نسبتی طور پر ہوتاہے۔ صرف یہی نہیں دیکھا جاتاکہ کس کے پاس روپیہ کی کتنی مقدار ہے بلکہ یہ بھی دیکھا جاتاہے کہ اس کے دشمن کے پاس کتنا روپیہ ہے اور پھر نسبت کے مطابق فیصلہ کیا جاتاہے ۔اس نقطہ نگاہ سے جب ہم تاریخ پر غور کرتے ہیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ جس زمانہ میںفرعون کو طاقت حاصل تھی اس زمانہ میں دنیا میں اور کوئی بادشاہ ایسا نہیںتھا جو فرعون کے مقابلہ میں کھڑا ہوسکتا۔ جس زمانہ میں سکندر کو طاقت حاصل تھی اس زمانہ میں ساری دنیا میں کسی کو سکندر کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں تھی ۔ جس زمانہ میں چنگیز خان کو طاقت حاصل تھی اس زمانہ میں ساری دنیا میں اور کوئی طاقت ایسی نہیں تھی جوچنگیز خان کا مقابلہ کرسکتی ۔ اس میں کوئی شبہ نہیںکہ جہاں تک نقدی اور سامانوں کاسوال ہے یا جہاں تک فوج کی تنظیم کاسوال ہے آج امریکہ یقینا چنگیز اور سکندر اور نپولین سے ہزاروں گنازیادہ طاقتورہے مگر اس کے مقابلہ میں امریکہ کے دشمن کو جو طاقت حاصل ہے وہ بھی سکندر اور چنگیز اور نپولین کے دشمنوں سے ہزاروں گنا زیادہ ہے۔ سکندر یونان سے اٹھا اور چار ہزار میل کا سفر کرکے ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور کوئی حکومت اس کا مقابلہ نہ کرسکی مگر یہیں امریکہ والے کو ریا میں ہی گئے توجان چھڑانی مشکل ہوگئی ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ آج چین اور روس کی طاقت بھی امریکہ کے برابر ہوچکی ہے ۔پس امریکہ آج سارے سازو سامان کے باوجود نسبتی طور پرسکندر سے کمزور ہے۔ نسبتی طور پر وہ چنگیزسے بھی کمزور ہے کیونکہ چنگیز اور سکندر کا مد مقابل امریکہ کے مد مقابل سے بہت زیادہ کمزور تھا ۔اسی طرح مید اور فارس کے بادشاہوں کو لے لو ۔بخت نصر کو لے لو ۔ہزاروں میل تک ان کامقابلہ کرنیوالا کوئی نہیں تھا جس طرف بھی یہ اپنی فوجوں کو بڑھادیتے تھے لوگ ان کے مقابلہ میں ہتھیار ڈالتے چلے جاتے تھے مگر اب امریکہ ذراقدم بڑھاتاہے توچین سامنے کھڑاہوجاتاہے کچھ اور قدم بڑھاتاہے توروس نکل آتاہے اورایک دوسرے کے مقابلہ میں ایساتوازن قائم رہتاہے کہ یوں معلوم ہوتاہے یہ برابر کی ٹکر ہیں یا اگر کچھ فرق بھی ہے تو دواورپونے دوکا ۔ لیکن پہلے زمانہ میںدواور پونے دو کافرق نہیں تھا بلکہ دواور 1/10کا تھا ۔پس بے شک ظاہری شان و شوکت ان میں زیادہ پائی جاتی ہے مگر نسبتی لحاظ سے یہ پہلوںکے مقابلہ میں کمزور ہیں ۔ سکند ر ساری دنیا میں نکل جاتاتو کوئی اس کے مقابلہ میں نہیں اٹھتاتھا اور اگر کوئی مقابلہ کیلئے کھڑاہوتا تو شکست کھاتا،مگر امریکہ میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ ساری دنیا پر غلبہ حاصل کر سکے ۔ پس فرماتاہے جب تم سے زیادہ شان وشوکت رکھنے والی حکومتیںہم نے تباہ کردیں ہیں جب تم سے زیادہ سازوسامان رکھنے والی قومیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں تو تم کس طرح یہ خیال کر سکتے ہوکہ تم تباہ نہیں ہوگے ۔

تو کہہ دے کہ جو شخص گمراہی میں (پڑا) ہو (خدائے )رحمن اُسے ایک عرصہ تک ڈھیل دیتاجاتاہے یہاں تک کہ جب ایسے لوگوں کے سامنے وہ عذاب آجائیگا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا (یعنی )یادنیوی عذاب یا (قومی ) کامل تباہی ۔اس وقت وہ جان لیں گے کہ کون شخص مکان کے لحاظ سے بدتر ہے اور دوستوں کے لحاظ سے کمزور ہے ۔
تفسیر:
فرماتا ہے دنیا میں قائم رہنے کا ذریعہ یہ ہوتاہے کہ انسان سیدھے راستہ پر چل رہا ہو اگر وہ سیدھے راستے پر نہیں چلتا تو ہر عقلمند سمجھ لیتاہے کہ یہ آج گرا یاکل کیونکہ یہ ہونہیں سکتاکہ ایک شخص غلط راستے پرچل رہا ہو ۔تباہی اور ہلاکت کی طرف جارہا ہو اور پھر تباہی اور ہلاکت کے گڑھے میں نہ گرے ۔اگر کوئی شخص غلط راستے پر چل رہا ہے اورپھر بھی یہ امید رکھتا ہے کہ وہ کامیاب ہوگا تو اس کی ایسی ہی مثال ہوگی جیسے کہتے ہیںکہ شیخ چلی ایک درخت پرچڑھ کر اسی شاخ کو کاٹنے لگ گیا جس پر وہ بیٹھاتھا ۔کوئی شخص نیچے سے گذرا تو اس نے کہا کہ میاں یہ کیا کررہے ہو کہ جس شاخ پر تم بیٹھے ہو اسی شاخ کو تم کاٹ رہے ہو تم تو نیچے گرپڑو گے ۔اس نے کہا جائو جائو بڑانبی بن کر آیا ہے ۔تمہیںکیا پتہ کہ میں نیچے گروں گایانہیں ۔وہ کہنے لگاصاف نظر آرہاہے کہ جب تم اسی شاخ کوکاٹ رہے ہو جس پر بیٹھے ہوتو جب شاخ کٹی تو تم بھی نیچے آگرو گے ۔کہنے لگا جاؤ اور اپنا کام کرو ہم نے بہت لوگ ایسے دیکھے ہوئے ہیںجو اس قسم کے دعوے کیا کرتے ہیں۔چنانچہ وہ چلاگیا ۔اب یہ سیدھی بات تھی کہ اس نے بہرحال نیچے گرناتھا چنانچہ جب شاخ کٹ گئی تو وہ نیچے آپڑا۔ اب وہ اس شخص کی طرف بھاگا جس نے کہا تھا کہ ایسامت کرو ورنہ گرجائوگے اسے کہنے لگا کہ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی کہ میں نے تمہاری بات نہ مانی ۔اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تم خداتعالیٰ کے نبی ہو اس نے کہا میں بالکل نبی نہیں۔میں نے تواپنی عقل سے ایک قیاس کیا تھا کہ جب تم اسی شاخ کو کاٹ رہے ہو جس پر بیٹھے ہو تو ضرور گرو گے ۔کہنے لگا نہیں تم ضرور نبی ہو ۔اب تم مجھے یہ بتائو کہ میں کب مروں گا ۔اس نے کہا مجھے ضرور بتائو ۔آخر اس نے پیچھا چھڑانے کے لئے کہہ دیا کہ جس دن تمہارے منہ سے خون آیا اس دن تم مرجائو گے ۔وہ یہ سن کر واپس آگیا۔ وہ جلاہا تھا ۔ایک دن تانی تن رہا تھا کہ سرخ تاگا اس کے دانتوں میں پھنس گیا۔جس کا رنگ دانتوںپر لگ گیا اوراس نے یہ سمجھاکہ میرے منہ سے خون آگیا ہے چنانچہ وہ اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ میں اب مرنے لگا ہوں میرے کفن دفن کی تیاری کرو ۔ایسی ہی جہالت ان لوگوں میں پائی جاتی ہے ۔جب واقعات نظر آتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ یہ لوگ غلط راستے پرجارہے ہیں تو یہ کہنا کہ اس غلط راستے پر چلنے کانتیجہ کس طرح نکلے گا اور ہم ہلاک اور برباد کس طرح ہوسکتے ہیں با لکل شیخ چلی والی بات ہے ۔ایک طرف روس کی طاقت دیکھی جائے اور دوسری طرف امریکہ کی طاقت دیکھی جائے توصاف پتہ لگتاہے کہ یہ دونوںمقابل کی طاقتیں ہیں اورجب ان میں ٹکر ہوئی تو یہ دونوں تباہ ہوکر رہیں گی۔جس طرح گذشتہ جنگ میںجرمنی تباہ ہوا ، اٹلی برباد ہوا ، فرانس ختم ہوااسی طرح اب جنگ ہوئی تو روس اور امریکہ ختم ہوجائیںگے ۔ اسی مضمون کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ کرتاہے اور فرماتاہے کہ جس کی گمراہی ثابت ہوچکی ہو اس کے انجام کے متعلق کوئی دورائیں ہو ہی نہیں سکتیں۔تم یہ دیکھو کہ تم ضلالت پائی جاتی ہے یا نہیں اوراگر تم میں ضلالت پائی جاتی ہے تو پھر ہم ٹھیک کہتے ہیں کہ خواہ تمہاری کتنی بھی طاقت ہو تم ایک دن ختم ہوجائو گے کیونکہ تم غلط راستے پر جارہے ہو ۔
فلیمدد لہ الرحمن مدا یہ امر کاصیغہ ہے یعنی چاہئے کہ رحمن اس کو اورمہلت دے مگر مراد یہ ہے کہ رحمن اس کو اور مہلت دے گا یعنی امر اس جگہ خبر کے معنوں میں زور دینے کیلئے استعمال ہواہے اوربتایا گیا ہے کہ ایسا ضرور ہوگا۔عربی زبان کا طریق کہ اس میں بعض دفعہ امر کا صیغہ استعمال کیا جاتاہے اور مراد زور دینا ہوتاہے ۔اس جگہ بھی امر کا صیغہ استعمال کرنے میں یہی حکمت مد نظر ہے یعنی بتایا گیاہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ضرور مہلت دے گا اور پھر اسے سزادے گا تاکہ دنیا بڑی دیر تک اس کی شان وشوکت دیکھنے کے بعد اس کی عبرتناک تباہی کودیکھیں اور اس نشان کی اہمیت کی قائل ہو ۔فلیمدد لہ الرحمن مدا کے معنے یہ ہیں کہ چاہئے کہ رحمان اس کو اور مہلت دے مگر مرادیہ ہے کہ شان معجزہ اسی طرح ظاہر ہوتی ہے کہ خدائے رحمان ابھی اس کو اور ڈھیل دے ۔گویا بظاہر تو اس قوم کے حالات کو دیکھ کر یہ کہنا چاہئے کہ خدا اس قوم کوغارت کرے ۔خدا اس قوم کو تباہ اور برباد کرے مگر اس نشان کی عظمت اور اہمیت اتنی عظیم الشان ہے کہ بجائے یہ کہنے کے کہ خدااس قوم کو غارت کرے ۔ایک عقلمنداور روحانی انسان یہ کہے گاکہ یہ قوم ابھی اور اونچی ہو۔ کیونکہ یہ جتنی زیادہ اونچی ہوگی اتنا ہی اس کاگرنا زیادہ عظیم الشان ہوگا ۔
حتی اذا راوا ما یوعدون اما العذاب واما الساعۃ یہاںتک کہ جب وہ دیکھیںگے وہ چیز جس کاان سے وعدہ کیا جارہاہے یا عذاب اور یا پھر ساعت کا ۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ کسی شک کا اظہار کیا جارہا ہو کہ معلوم نہیں کیا چیز دیکھیںگے ؟ عذاب دیکھیں گے یا ساعت دیکھیں گے بلکہ مراد یہ ہے کہ مختلف قوموںاورحکومتوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جوعذاب آیا کرتے ہیں وہ خدائی سنت کے مطابق سب کیلئے ایک وقت میں ظاہر نہیں ہوتے بلکہ پہلے ایک قوم پر عذاب آتاہے پھرکچھ وقفے کے بعد دوسری قوم پر آتا ہے پھر کچھ وقفے کے بعد تیسری قوم پر آتاہے اور بعض قومیں ایسی ہوتی ہیں جن پرعذاب نہیں بلکہ ساعت کی گھڑی آجاتی ہے اور یہ دونوں سلسلے پہلو بہ پہلو چلتے ہیں ۔پچھلی لڑائی قیصر جرمنی کے لئے ساعت تھی مگر فرانس اور انگلستان کیلئے عذاب تھی ۔یہ دونوںبچ گئے۔ مگر کمزور بھی ہوگئے ۔پس اما العذاب واما الساعۃ کے یہ معنے نہیں کہ یا عذاب آئے گا اوریا پھر ساعت آئے گی بلکہ مراد یہ ہے کہ کسی قوم کیلئے ہمارا عذاب نازل ہوگا اور کسی قوم پر ساعت آجائے گی اوریہی دنیا میں ہوتا چلاآیا ہے ۔پہلی جنگ عظیم ہوئی تو اس میں قیصر جرمنی ختم ہوگیا ، زار روس ختم ہوگیا ، بادشاہ ٹرکی ختم ہوگیا اور انگلستان ،فرانس اور بیلجیئمپرعذاب آیا ۔اسی طرح دوسری جنگ عظیم ہوئی تو اس میں ہٹلر اور مسولینی پر ساعت آگئی اور وہ تباہ ہوگئے ۔لیکن فرانس اور انگلستان کے لئے عذاب آگیااور وہ کمزور ہوگئے ۔پس فرماتاہے جس دن ہمارے وعدے کی گھڑی آپہنچی اس دن کسی کیلئے عذاب کا وعدہ پورا ہوجائے گا اور کسی کے لئے ساعت کاوعدہ پورا ہوجائے گا ۔ ساعت کے معنے ہمیشہ قیامت یا آخری فیصلے کے ہوتے ہیں مگر یہاں قیامت مراد نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ عذاب کیساتھ متبادل نہیں ۔ یہاں مراد قومی فیصلہ ہی ہے جو عذاب سے متبادل شئے ہے کیونکہ سب قوموں کاایک وقت میں فیصلہ نہیں ہوتا۔ بعض ایک وقت میں عذاب دیکھیں گی اور بعض با لکل ختم ہوجائیں گی ۔اس طرح باری باری سب کا فیصلہ ہوجائے گا ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ جیسے دنیا کی سب قوموں سے ہوتا چلا آیاہے۔ اسی طرح مسیحیوں سے بھی ہوگا اوربعض پر اس کی طرف سے عذاب نازل ہوگا اوربعض کی ساعت آجائے گی ۔
فسیعلمون من ھو شر مکانا واضعف جندا اس وقت ان کو معلوم ہوجائے گا کہ کس کا مقام رہائش برا ہے اور کون اپنے لشکروں کے لحاظ سے زیادہ کمزور ہے ۔یعنی اس وقت جب وہ مومنوں کے ہاتھوں میں خداتعالیٰ کی تائیدات دیکھیں گے تویہ اقرار کرنے پر مجبور ہونگے کہ گو یہ کمزور تھے مگر ان میں ترقی کرنے کا مادہ پایا جاتا تھا اور گو ہم طاقتور تھے مگر ہمارے اندر ہلاکت اور بربادی کا مادہ پایا جاتاتھا۔ایک درخت ایسا ہوتاہے جو بظاہر بڑا پھیلاہوا نظر آتا ہے مگر وہ سو سال کا بڈھاہوتاہے اور اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہوتاہے ۔اس کے مقابلے میں ایک گٹھلی ہوتی ہے جس میں سے ایک کونپل نکل رہی ہوتی ہے ۔بظاہر وہ کونپل ایک حقیر سی چیز نظر آتی ہے اور درخت بڑا مضبوط دکھائی دیتاہے مگر ہرعقلمند جانتا ہے کہ اب آئندہ یہ کونپل ہی ترقی کرے گی کیونکہ ابھی سارا مستقبل اس کے سامنے پڑا ہے اور وہ درخت جو سو سال کابڈھا اور اند ر سے کھوکھلا ہوچکا ہے وہ آج نہیں تو کل گر جائے گا ۔پس اس دن جب نتائج ظاہر ہونگے تویہ لوگ اقرار کریں گے کہ ہم تو مرنے والے تھے ۔بڑھنے اور ترقی کرنے کا مادہ تو انہی لوگوں میں پایاجاتاتھا ۔اسی طرح فرماتاہے اس دن ان پر یہ حقیقت بھی کھل جائے گی کہ کس کا لشکر کمزور تھا ۔آیا خدا کا لشکر کمزور تھا یا ان کا لشکر کمزور تھا ۔اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ انہیں اپنے اعلیٰ درجے کے تمدن اور بڑے بڑے لشکروں پر ناز ہوگا ۔مومنوں کی طاقت اس وقت نظر نہیں آئے گی ۔وہ مشرقیوں کو اچھی رہائش نہ ہونیکا طعنہ دینگے اور ساتھ ہی کہیںگے کہ ہمارے پاس بڑے بڑے لشکر ہیں اورہماری طاقت تم سے بہت زیادہ ہے ۔مگر آخر ان کی یہ دولت بھی چھن جائے گی ۔کیونکہ خدا مومنوں کو ابھارنے اور کافروں کے مٹانے کا فیصلہ کرچکا ہوگا۔پس یہ دن بدن اونچے ہوتے چلے جائیںگے اور وہ دن بدن نیچے ہوتے چلے جائیںگے اور آخر ایک دن دنیا یہ تسلیم کرلے گی کہ یہ لوگ ترقی کی طرف جارہے تھے اور وہ تنزل کی طرف جارہے تھے۔

اور اللہ (تعالیٰ ) ہدایت یافتہ لوگوںکو ہدایت میں بڑھاتاجائے گا اور باقی رہنے والے (یعنی )نیک اعمال خدا کی نظر میں سب سے بہتر شے ہیں جزا کے لحاظ سے بھی اور انجام کے لحاظ سے بھی ۔
تفسیر :
اس میں بتایا گیا ہے کہ جوںجو ںحالات میں تغیر پیدا ہوتاہے مومن کا ایمان بھی بڑھتاچلاجاتاہے گویا کوئی تغیر اس کے قدم کو سست اور اس کے ایمان کو کمزور نہیں کرتابلکہ ہر نیا تغیر اس کی طاقت اور قوت کو بڑھانے والا ہوتاہے ۔ہم اپنی جماعت میں بھی دیکھتے ہیںکہ جب بھی کوئی تغیر پیدا ہوا اس کے نتیجہ میں ہمیشہ جماعت نے ترقی کی ہے ۔کتنا بڑاصدمہ تھا جو قادیان سے نکلنے پر جماعت کو پہنچا۔ اول تو قادیان کے متعلق ہماری جماعت میں ایک قسم کاشرک پایاجاتاتھا اور و ہ سمجھتے تھے کہ ہم نے قادیان سے کبھی نہیںنکلنا اس شرک کے ٹوٹنے پر جماعت کو ایک بڑا دھکا لگا اور کئی کمزور ایمان والے متزلزل ہوگئے ۔ بعض لوگ بے شرمی سے اپنے منہ سے تو یہ کہتے تھے کہ احمدیت سچی ہے لیکن ان کے دل کہتے تھے کہ اگر احمدیت سچی ہوتی تو ہم قادیان سے کیوںنکلتے مگر اب دیکھو قادیان سے نکل کر ہماری جماعت کو کتنی بڑ ی طاقت حاصل ہوئی ہے ۔قادیان میں سالوں بعدکبھی کوئی غیر ملکی آیا کرتا تھا مگر قادیان سے ہجرت کے بعد متواترکئی ممالک سے لوگوں نے یہیں تعلیم کے لئے آنا شروع کردیا۔اب بھی دس بارہ غیر ممالک کے لوگ یہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ابھی کئی لوگوںکی چٹھیاں آتی رہتی ہیں کہ ہمیں بھی وہاں آنے کی اجازت دی جائے مگربوجہ مالی تنگی کے ان کی درخواستوں کو رد کرنا پڑتاہے ۔ اسی طرح قادیان میں ہمارے بہت تھوڑے مشن تھے مگر اب کئی نئے ممالک میں مبلغین بھجوائے جاچکے ہیں اور کثرت سے لوگ احمدیت سے روشناس ہورہے ہیں ۔اسی طرح قادیان کے بجٹ سے اب ہمارا یہاں کا بجٹ بھی بڑھ گیا ہے ۔غرض سلسلہ کے تمام کاموں میںجس قدر ترقی اور زیادتی ہوئی ہے وہ حیرت انگیز ہے ۔یہ حقیقت اللہ تعالیٰ نے اس آیت میںبیان فرمائی ہے کہ ہم مومنوںکو ترقی دیتے چلے جاتے ہیںیہ نہیںکہ انہیں صدمات نہیںپہنچتے صدمات ان کوبھی پہنچیں گے مگر جس وقت مخالفت کے بادل چھٹیں گے دشمن ِصداقت کمزور نظر آئے گا اور مومن پہلے سے زیادہ مضبوط ہوجائیگا ۔
والبقیت الصٰلحت خیر عند ربک ثوابا وخیر مردا ۔ اور باقی رہنے ولی نیک باتیں ہی تیرے رب کے نزدیک سب سے اچھی ہیں یعنی انسان کے وہ اعمال جو خداتعالیٰ کے حضور مقبول ہوجائیں وہی اس کا حقیقی سرمایہ ہیں یایوں سمجھ لو کہ باقیات الصالحات وہ چیزیں ہیں جو خدتعالیٰ کے خزانہ میںچلی گئیں ۔حضرت مسیح ؑ نے کہا ہے کہ
’’اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتاہے اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کر و جہاں نہ کیڑا خراب کرتاہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں ‘‘
(متی باب ۶آیت ۱۹ ۔۲۰)
پس چونکہ حضرت مسیح نے اپنی قوم سے یہ کہا کہ اپنے لئے زمین پر مال جمع نہ کرو بلکہ آسمان پر مال جمع کرو ۔اس لئے اللہ تعالیٰ عیسائیوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتاہے کہ تم اپنی جس قدر طاقتیں پیش کرتے ہے وہ اسی زمین سے تعلق رکھنے والی ہیں ۔تمہاراایٹم بم بھی اسی دینا کاہے ۔تمہاری توپیں بھی اسی دنیاکی ہیں ۔تمہارے گولے بھی اسی دنیا کے ہیں ۔تمہاری تجارتیں بھی اسی دنیا کی ہیں ۔تمہارے جتھے بھی اسی دنیا کے ہیں مگر مومن جن کے متعلق تم کہتے ہو کہ وہ کمزور اور ناطاقت ہیں ان کا بینک آسمان پر کھلاہواہے۔کیا مسیح ؑ کی بات تمہیں یاد نہ رہی کہ جو چیز آسمان پر ہے وہی محفوظ ہے اور جو زمین پر ہے وہ غیر محفوظ ہے ۔ان کی باقیات الصالحات خدا کے بینک میںہیں جس کو دیوالہ نہیںنکل سکتااور وہ بہت بہترہیںثواب کے لحاظ سے بھی اور پھر واپسی کے لحاظ سے بھی۔ یعنی اصل مال بھی انہیں وہیں سے ملے گا او ثواب بھی وہیں سے ملے گا یایوں کہو کہ مول بھی وہیں سے ملے گااور بیاج بھی وہیں سے ملے گا ۔ ثواب بیاج ہوگیا اور خیر مرداًمول ہوگیا ۔گویا اس طرف اشارہ کیا کہ تمہیں اپنے بنکوں پر بڑاناز ہے اورتم سمجھتے ہو کہ تمہارا روپیہ بنکوں میں ضرور ہونا چاہئے کیونکہ تمہیں انٹرسٹ ملے گا لیکن تم اس حقیقت کو بھول گئے کہ اصل مال وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے بنک میں محفوظ ہے اور اسی کا دیا ہوا انٹرسٹ حقیقی انٹرسٹ ہے۔

کیا تو نے اس شخص کی حالت پرکبھی غور نہیںکیا جس نے ہمارے نشانوں کا انکار کیا اور کہا کہ مجھے یقینا بہت سامال اور بہت سے بیٹے دئیے جائیں گے ۔کیا اس نے غیب (کاحال ) معلوم کرلیا ہے یا(خدائے )رحمان سے کوئی وعدہ لے لیا ہے ۔
تفسیر:
فرماتاہے ذرا بتائو تو سہی وہ شخص جو ہماری آیتوں کا انکار کرتاہے اور کہتا ہے کہ میرے مال کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے بدلہ میںمجھے اور مال ملے گا ۔میں اسے تجارت پر لگائوں گا اور اپنے مال میں اضانہ کرتاچلاجائوںگااور میرے بیٹوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ میرا خاندان اور میری نسلیںترقی کریں گی ۔ گویا افزائش نسل کے لئے جس قدر سامانوں کی ضرورت ہے وہ مرے پاس ہیں تمہارے پاس نہیں۔فرماتاہے اطلع الغیب تم بتاؤ کہ کیا اس نے غیب دیکھ لیا ہے ۔کیا پہلے لوگوں کے پاس مال نہیں تھا اور پھر وہ تباہ نہیں ہوگئے۔ کیا پہلے لوگوں کے پا س اولادیں نہیں تھیں اور کیا وہ اولادیں ان کے کام آئیں ؟ عاد کے پاس کتنی بڑی طاقت تھی سارے عرب اور عراق اور فلسطین اور شام پر ان کی حکومت تھی مگر اب زمینیں کھود کھود کر عاد قوم کے آثار تلاش کئے جاتے ہیں اور اگر کسی کو کوئی نشان مل جاتاہے تو وہ بڑا خوش ہوتاہے کہ میں نے ایک تاریخی کارنامہ سرانجام دیاہے ۔ اسی طرح فراعنہ کو دیکھ لو ان کی کتنی بڑی طاقت تھی ۔لوگ ان کانام سن کر لرز تے تھے اور خود انکی یہ حالت تھی کہ اگر وہ دربار میں آتے تو اپنے منہ پر نقاب ڈال لیتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم اتنی بڑی شان کے مالک ہیں کہ اگر کوئی شخص ہمارا چہرہ دیکھ لے گا تو وہ کوڑھی ہوجائے گا ۔مگر اب ان کی لاشیں نکال نکال کر عجائب گھروں میںرکھی جاتی ہیں اورکہا جانتاہے کہ یہ فلاں فرعون کی لاش ہے اور یہ فلاں فرعون کی لاش ہے ۔ میں نے خود مصر کے عجائب گھر میں ایسی لاشیں دیکھی ہیں ۔فرانس کے عجائب گھر میں بھی لاشیں ہیں اور اب امریکہ والے کوشش کررہے ہیں کہ وہ بھی کسی فرعون کا لاش لے جائیںگویا فراعنہ مصر کی لاشوں کی اب ایسی ہی حیثیت رہ گئی ہے جیسے پرانے برتنوں کی ہوتی ہے کہ لوگ انہیں تماشہ کے طورپر عجائب گھروں میں رکھ دیتے ہیں ۔انہیں کیا خبر تھی کہ ایک زمانہ میں ہماری لاشوں کیساتھ یہ سلوک ہونے ولا ہے ۔پس فرماتاہے تم جو دعوے کرتے ہو کہ ہم تباہ نہیں ہوسکتے ہمارے پاس مال ہے اور ہماری نسلیں خوب ترقی کررہی ہیں کیا تمہیں غیب کا علم حاصل ہے ۔ام اتّخذ عند الرحمٰن عھدا یا خدانے تم سے کوئی عہد کیا ہوا ہے کہ وہ تمہیںہلاک نہیںکرے گا ۔ یہی دوباتیں ہیں جن پر تم اپنے اس دعویٰ کی بنیاد رکھ سکتے ہو لیکن اگر تمہیں غیب کا علم حاصل نہیں اور خدانے تمہارے ساتھ کوئی عہد بھی نہیں کیا ۔تو صرف اموال اور اولاد کا تمہارے پاس ہونا تمہیں تباہی سے نہیں بچاسکتا کیونکہ دنیوی لحاظ سے بڑی بڑی طاقتیں آج تک تباہ ہوچکی ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ غیب کی خبریں یا تو نجومی ، رمال اور ارڑ پوپو وغیرہ بتایا کرتے ہیں اوریا پھر اللہ تعالیٰ کے انبیا بتایا کرتے ہیں۔ یوں تو بعض دفعہ بچے بھی ضد میں آکر کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں فلاں چیز کا پتہ ہے حالانکہ انہیں پتہ نہیں ہوتا۔مگر بچوں کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔توجہ یا تو نجومیوں اور ارڑپوپوں کی بات کی طرف کی جاتی ہے اور یا پھر اللہ تعالیٰ کے انبیا ء کی طرف کی جاتی ہے۔ پس چونکہ انہی دو ذرائع سے لوگ غیب کی خبریں حاصل کرتے ہیں اس لئے اس جگہ بھی انہی دونوں باتوں کی طرف اللہ تعالیٰ اشارہ کرتاہے اور فرماتاہے اطلع الغیب کیا تم جو کچھ کہہ رہے ہو یہ نجومیوں اور ارڑ پوپوں کی پیشگوئی ہے ۔اُم اتخذ عندالرحمن عھدا یا خداتعالیٰ کے کسی بنی نے ایسا کہا ہے ؟

ایسا ہر گز نہیں ہوگا ہم اس کے اس قول کو محفوظ رکھیں گے اور اس کے عذاب کو لمباکردیںگے ۔
حل لغات :
مفردات میں لکھاہے کہ کلا روع و زجر و ابطال لقول القائل کے لئے آتاہے یعنی اس کے معنے دھتکار نے کے بھی ہوتے ہیں۔زجر کے بھی ہوتے ہیں اور یہ پہلے قول کو رد کرنے کیلئے بھی آتاہے ۔گویا جہاں کلا کالفظ استعمال ہوگا وہاں مراد یہ ہوگی کہ پہلے جوکچھ کہا گیا ہے وہ غلط ہے ۔صحیح بات وہ ہے جو ہم آگے بیان کرتے ہیں ۔
تفسیر :
فرماتاہے یہ بالکل غلط بات ہے نہ انہیں غیب کا علم حاصل ہے اور نہ خدانے ان سے کو ئی عہد کیا ہوا ہے۔ سنکتب ما یقول ہم ضرور وہ بات لکھ لیں گے جو یہ کہہ رہے ہیں اور وہ کہتے یہ ہیں کہ لاوتین ما لا و ولدا ۔ ہمیں مال بھی ملے گا اور ہمیں اولاد بھی ملے گی ۔ان کایہ قول معاف نہیں ہوگا بلکہ ان کا حساب لینے کے لئے اسے یاد رکھا جائے گا اور ہم اسبات کو کبھی بھولیں گے نہیںکہ انہوں نے ہمارے بندوں کے سامنے یہ دعویٰ کیا تھا اور اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے بندوں کے سامنے ہی انکو جھوٹاثابت کریں ۔
ونمد لہ من العذاب مدا اور جس طرح ہم نے ان کے آرام کی مدت لمبی کردی اور انہوںنے مومنوں کو طعنہ دیا کہ ہمیں طاقت اور شوکت حاصل ہے اور تم ہمارے مقابلہ میں بالکل کمزور اور ذلیل ہو۔ اسی طرح اب ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے عذاب کو بھی لمبا کریں ۔ہم نے انہیں ایک لمبی مہلت دے کر اپنے مومن بندوںکو لمبے عرصہ تک شرمندہ کروایا اور وہ کمزوروں او رناطاقتوروں کی طرح ان کیسامنے کھڑے رہے۔ پس چونکہ ہم نے ہی ان لوگوں کو مہلت دے کر اپنے مومن بندوں کو شرمندہ کروایا تھا اور اسلام پر لوگوں کے لئے اعتراض کا موقع پیدا ہوا تھا اس لئے اب ہمارا ہی فرض ہے کہ ہم اس کے بدلہ میں ان کے عذاب کو بھی لمبا کریں تاکہ مومن کو یہ تسلی ہوکہ میرا بھی کوئی ہمدرد اور نگران ہے ۔

اور جس (چیز)پروہ فخر کررہا ہے اس کے ہم وارث ہوجائیں گے اور وہ ہمارے پاس اکیلا ہی آئے گا۔
تفسیر :
مایقولکی تشریح پہلی آیت میں موجود ہے ۔فرماتاہے وقال لاوتین مالا و ولدا وہ کہتاہے کہ مجھے مال بھی ملے گا اور اولاد بھی ملے گی۔ یہ دعویٰ تھا جو اس نے لوگوں کے سامنے کیا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ونریثہ ما یقول یعنی نرث منہ ما یقول جو کچھ وہ کہا کرتا تھااس کے ہم وارث ہوجائیں گے یعنی وہ مال جو اس کوحاصل ہے اور وہ اولاد جس کی وجہ سے وہ دعوے کررہا ہے ہم یہ دونوں چیزیں اس سے چھین لیں گے ۔
اسی طرح پہلی آیات میںیہ گذر چکا ہے کہ قال الذین کفروا للذین اٰمنوا ای الفریقین خیر مقاما و احسن ندیا یعنی کافر مومنوں سے یہ کہتے ہیں کہ تم ہمیں بتائو کہ مال اور دولت اور عزت اور رتبہ کس کو حاصل ہے ۔ اگر یہ چیز یں ہمیں حاصل ہیںتمہیں حاصل نہیں تو ہم دونوں میں سے کون اچھا ہوا ۔ پس مایقول مراد مال اور عزت اور رتبہ اور اولاد ہے ۔ فرماتاہے ہم ان چیزوں میںاس کے وارث ہوجائیںگے یعنی ان سے مال بھی چھین لیں گے ۔اس کی دولت بھی چھین لیں گے ۔ ان کی عزت بھی چھین لیں گے ۔ان کا رتبہ بھی چھین لیں گے ۔ان کی اولاد یں بھی چھین لیںگے ۔ویاتینا فرداً اور وہ ایک فرد کی حیثیت ہیں ہمارے پاس آئیں گے ۔
یاتینافرداً میں مال کا ذکر نہیںکیا گیا ۔صرف اس کی ذاتی حیثیت کی طرف اشارہ کردیاگیاہے کیونکہ انسان کے دوقسم کے ساتھی ہوتے ہیں۔ایک وہ ہوتے ہیں جورشتہ داری کی وجہ سے انسان کے ساتھ ہوتے ہیں۔جیسے ماں باپ ہوئے یااولاد ہوئی یا بہن بھائی ہوئے یا بیوی ہوئی اور ایک وہ ہوتے ہیں جو حصول فائدہ کے خیال سے جو مال اور رتبہ کاایک لازمی نتیجہ ہوتاہے انسان کے اردگرد اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔ گویا وہ دولت اور عزت کے بھوکے ہوتے ہیں ۔یا شہرت کے خواہشمند ہوتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ کسی کے پاس مال ہے اور وہ بڑا صاحب رسوخ انسان ہے ۔ تو مختلف قسم کے فوائد کے حصول کیلئے وہ اس کی خوشامدیں کرنے لگ جاتے ہیںاوراسکے ساتھی اور دوست بن جاتے ہیں ۔مگر فرمایا جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو صرف ایک فرد کی حیثیت میں ہوگا کسی قسم کے ساتھی اس کے ساتھ نہیں ہونگے ۔
پہلے فرمایا تھا کہ ہم مال اور اولاد دونوں کے وارث ہوجائیں گے ۔اب بتاتاہے کہ چونکہ ہم ان کی اولادیں چھین لیںگے اس لئے وہ اکیلے رہ جائیںگے اور چونکہ ہم مال بھی لے لیں گے ۔ اس لئے وہ لوگ جومال کی وجہ سے ان کے ارد گرد اکٹھے تھے اور جو را ت دن خوشامدیں کرتے رہتے تھے وہ بھی بھاگ جائیں گے ۔غرض یأتینافرداً میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی طرف اشارہ کیاہے کہ ہم ان کے مال اور اولاد دونوں لے لیں گے ۔ فرداً میں اولاد اور خدم ومصاحب سب کی نفی کردی اور جو حصول فائدہ کیلئے ساتھ ہوتے ہیںان کی نفی میں مال و دولت کی نفی خود بخود آگئی کیونکہ وہ لوگ تبھی ساتھ چھوڑتے ہیں جبکہ مال اور رتبہ نہ رہے۔
کفار مکہ کو ہی دیکھ لو ان لوگوں کو اپنی اولادوں پر کتنا بڑا ناز تھا مگر پھر وہی اولادیں خداتعالیٰ نے ان سے چھین کر محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں ڈال دیں اور سردار ان کفار ذلیل ہو کر رہ گئے ۔
رسول کریم ﷺ نے جب بنو مصطلق پرلشکر کشی کی تو وہاں انصار اورمہاجرین میں کنوئیں سے پانی نکالنے پر جھگڑاہوگیا اوراس جھگڑے نے اس قدر طول کھینچا کہ انصار اور مہاجرین نے تلواریں نکال لیںاور وہ ایک دوسرے سے لڑائی پر آمادہ ہوگئے۔عبد اللہ بن ابی بن سلول نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھا چنانچہ وہ آگے بڑھا او راس نے کہا اے انصار !یہ تمہاری ہی غلطیوں کا نتیجہ ہے کہ آج تمہیںیہ دن دیکھنا پڑا ۔میں تمہیں پہلے ہی سمجھاتاتھا کہ تم ان مہاجرین کو اپنے سرنہ چڑھائو ورنہ کسی دن تکلیف اٹھائو گے مگر تم نے میری بات نہ مانی ۔اب خداکاشکر ہے کہ تمہیں بھی اس حقیقت کا احساس ہوا ۔مگر گھبرائو نہیں اور مجھے مدینہ پہنچ لینے دو پھردیکھو گے کہ مدینہ کا سب سے معزز انسان یعنی وہ کمبخت خود مدینہ کے سب سے زیادہ ذلیل انسان یعنی نعوذ باللہ محمد رسول اللہ ﷺ کو وہاں سے نکال دے گا اور یہ فتنہ پھر کبھی سر نہیںاٹھائے ۔ گا جب اس نے یہ الفاظ کہے تو انصار اور مہاجرین دونوں سمجھ گئے کہ ہمارے جوش سے اس نے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہا ہے چنانچہ وہ سنبھل گئے اور انہوں نے آپس میں صلح کرلی ۔مگر اس دوران میں کسی نے دوڑکر رسول کریم ﷺ کو اطلاع دے دی کہ یا رسول اللہ عبداللہ بن ابی بن سلول نے آج اس اس طرح کہا ہے ۔آپ نے عبداللہ بن ابی بن سلول اور ا س کے دوستوں کو بلالیا اور فرمایا کہ کیابات ہوئی ہے ۔ انہوں نے اس واقعہ سے بالکل انکارکردیا اور کہا کہ یہ بالکل غلط بات ہے ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں لیکن بات سچی تھی پھیلنی شروع ہوئی اور عبداللہ کے بیٹے تک بھی یہ بات جاپہنچی کہ آج اسکے باپ نے ایک جھگڑے کے موقع پر یہ کہا ہے کہ مجھے مدینہ پہنچ لینے دو پھر وہاں کا معزز ترین انسان یعنی وہ خود۔ مدینہ کے ذلیل ترین انسان یعنی نعوذ باللہ محمد رسول اللہ ﷺ کو وہاں سے نکال کر رہے گا ۔وہ ایک مخلص نوجوان تھاوہ یہ سنتے ہی بیتاب ہوگیا اور اسی وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور کہنے لگا یا رسول اللہ میں نے سنا ہے کہ آج میرے باپ نے یہ الفاظ کہے ہیں ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہاں میرے پاس بھی رپورٹ پہنچ چکی ہے ۔ اس نے کہا یا رسول اللہ اس جرم کی سزا سوائے اس کے اور کیا ہوسکتی ہے کہ آپ میرے باپ کو قتل کرنے کاحکم دے دیں اور یہ بالکل جائز اور درست سزاہے مگر یارسول اللہ میں یہ درخواست کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں کہ اگر آپ میرے باپ کے قتل کا حکم نافذ فرمائیں تو کسی اور کو قتل کرنے کا حکم نہ دیں بلکہ مجھے حکم دیں کہ میں اپنے باپ کو قتل کروں کیونکہ اگر آپ نے کسی اور مسلمان کو حکم دیا اور اس نے میرے باپ کوقتل کر دیاتو ممکن ہے کہ شیطان کسی وقت مجھے ورغلادے کہ یہ میرے باپ کاقاتل ہے اور میںجوش میں اس پر حملہ کربیٹھوں ۔اس لئے آپ کسی اور کو حکم دینے کی بجائے مجھے یہ حکم دیں کہ میں اپنے باپ کو اپنے ہاتھ سے قتل کردوں ۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ۔ہم اسے کوئی سزا دینانہیں چاہتے ۔ اس نے کہا یا رسول اللہ یہ ٹھیک ہے کہ آپ اس وقت اسے کوئی سزا دینا نہیں چاہتے لیکن اگر پھر کسی وقت اسے سزا دینا مناسب سمجھیں تو میری درخواست ہے کہ آپ رحم فرما کر مجھے ہی حکم دیں کہ میں اپنے باپ کو قتل کردوں ۔ رسول کریم ﷺ نے پھر فرمایا ہمارا اسے سزاد ینے کا کوئی ارادہ نہیں ہم تمہارے باپ کے ساتھ نرمی اور ملاطفت کا ہی سلوک کریں گے ۔ وہ وہاں سے اٹھا اور خاموشی کے ساتھ چلا آیا مگر اس کا دل ان الفاظ کی وجہ سے جل رہا تھا اور اسے کسی پہلو قرار اور اطمینان نہیں آتا تھا۔ جب لشکر مدینہ کی طرف واپس لوٹا اور عبداللہ بن ابی بن سلول اندر داخل ہونے لگا تو اسکا بیٹا اپنی سواری سے کود کر اپنے باپ کے سامنے جاکر کھڑا ہو گیا اور اس نے تلوار اپنی میان سے نکال لی اور باپ سے کہا تمہیں یاد ہے تم نے وہاں کیاا لفاظ کہے تھے ۔ تم نے کہا تھا کہ مدینہ کا معزز ترین انسان میں ہوں اور مدینہ کا ذلیل ترین انسان نعوذبا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ ہے ۔خدا کی قسم میں تمہیں اس وقت تک مدینہ میںداخل نہیں ہونے دوں گا جب تک تم میرے سامنے یہ اقرار نہ کرو کہ مدینہ کا ذلیل ترین انسان میں ہوںاور مدینہ کا معزز ترین انسان محمد رسول اللہ ﷺ ہے ورنہ میں اسی تلوار سے تمہارا سراڑادوں گا ۔ عبداللہ نے جب یہ نظارہ دیکھا کہ اس کا بیٹا اس کے سامنے تلوار لے کر کھڑاہے اور وہ کہتا ہے کہ کہو میں مدینہ کا ذلیل ترین انسان ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ مدینہ کے معززترین انسان ہیں تو اس کا دل لرز گیا اور اس نے سمجھ لیاکہ اگر آج میں نے یہ الفاظ نہ کہے تو میرے بیٹے کی تلوار میرا خاتمہ کئے بغیر نہ رہے گی ۔چنانچہ اس نے اپنے تمام دوستوں اور ساتھیوںکے سامنے جن میں وہ اپنی بڑائی کے گیت گا یا کرتاتھا اقرارکیا کہ میں مدینہ کا ذلیل ترین انسان ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ مدینہ کے معززترین انسان ہیں او پھر اس نے اپنے باپ کو شہر میں داخل ہونے کے لئے رستہ دیا ۔
اس سے زیادہ بھلا یأتینا فرداً کی صداقت کی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ وہ بیٹے جن پر ناز کیا کرتے تھے وہ ان سے چھینے گئے اوران کے بیٹے محمد رسول اللہ ﷺ کے بیٹے بن گئے ۔ اسی طرح ابو جہل کا بیٹا محمد رسول اللہ کابیٹا بنا ۔عاص کا بیٹا (عمر وبن العاص)محمد رسول اللہ ﷺ کا بیٹا بنا۔ ولید کا بیٹا خالد آپ کا بیٹا بنا۔ابوسفیان کا بیٹا معاویہ آپ کا بیٹا بنا۔یہ وہ لوگ تھے جو اپنی اولادوں پر فخر کیا کرتے تھے اپنے مال اوردولت پر فخر کیا کرتے تھے مگر خداتعالیٰ نے انکا مال بھی ان سے لے لیا اور ان کی اولادیں بھی ان سے لے لیں ۔
اسی طرح فرمایاہے آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا ۔ونرثہ ما یقول و یأتینا فردا۔ نہ مال ان کے پا س رہیں گے نہ اولادیں ان کے کام آئیںگی ۔نہ خوشامدی ان کے ارد گرد رہیں گے ۔یہ ساری چیزیںہم لیکر اپنے مومن بند وں کو دے دینگے اور یہ لوگ لنڈورے کے لنڈورے رہ جائیںگے ۔

اوران لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا بہت سے معبود بنا چھوڑے ہیں اس امید سے کہ وہ ان لوگو ںکیلئے عزت کا موجب بنیں گے ۔
حل لغات :
العز۔ خلاف الذل (اقرب الموارد) عزت کا لفظ ہمیشہ ذلت کے مقابل میں استعمال ہوتاہے ۔پس ذلت کے مقابل جو چیز ہے اسے عزت کہا جائے گا ۔
تفسیر :
بت پرستوں کی تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ بت بنانے کی ایک بڑی وجہ لوگوں میں عزت اور شہرت حاصل کرنے کی تمنا ہوا کرتی تھی ۔ وہ لوگ بڑے بڑے بت بناتے تھے جیسے مصریوں نے ابوالہول بنایا سینکڑوں فٹ اونچاہے اور ساری دنیا میں اس کی شہرت ہے ۔دور دور سے لوگ آتے اور اس کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں گویا خالی بت نہیں بلکہ وہ ایسی شان کا بت بناتے تھے کہ اسکی طرف خود بخود توجہ پھر جاتی تھی اورلوگ کہتے تھے کہ فلاں بت بڑا عظیم الشان ہے یا ان کے ایسے ایسے شاندار معبد بناتے تھے کہ دیکھنے والے دیکھتے اور حیران ہوکر رہ جاتے ۔پھر ان بتوں پر میلے کئے جاتے ہزاروں ہزارروپیہ خرچ کیا جاتا اور اپنے وہ ہمسایوں پر فخر کرتے کہ ہم نے کتنا بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے ۔مثلا ً سومنات کا بت بنایا اور اس پر لاکھوں روپیہ خرچ کردیا ۔اب ایک دیکھنے والا جب بت کو دیکھتاہے کہ اس کی آنکھیں ہیرے کی ہیں ۔اس کے سر پر تاج ہے ۔اس کے ہاتھ میں سونے کاگرز ہے اور اس کاقد اتنا بڑاہے کہ سر چھت سے لگاہوا ہے تو وہ مرعوب ہوجاتاہے اور سمجھتاہے کہ جتنا سونا اور چاندی اور ہیرے اور جواہر اس بت کے پاس ہیں اتنی دولت تو میری سات پشتوں کے پاس بھی نہیں ہوسکتی ۔ پس اس پر ہیبت طاری ہوجاتی ہے اور بت بنانے والوں کی عظمت کا اسے قائل ہونا پڑتاہے ۔پس چونکہ بت پرست بڑے بڑے بت بناتے تھے اور پھر اپنے ہمسایوں پر فخر کرتے تھے کہ ہم نے اتنا روپیہ خر چ کیا ہے اور جتنا زیادہ وہ روپیہ خرچ کرتے تھے اتنی ہی ان کی عزت بڑھتی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں واتخذومن دون اللہ اٰلھۃ لیکونوا لھم عزا فرما کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ خداکے بنانے پر توان کو کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا کیونکہ وہ ازل سے موجود ہے ۔یہ لوگ صرف اپنی عزت او ر شہرت کیلئے بڑے بڑے بت بناتے ہیں ان پر سونا اور چاندی اور ہیرے اور جواہرات خرچ کرتے ہیںاور ان کے بڑے بڑے معبد بناتے ہیں تاکہ لوگوں میں فخر کر سکیںکہ ہمارا معبد اتنا شاندار ہے ہمارا بت اتنا بڑا ہے اور ہم نے اس پر اتنا روپیہ خرچ کیاہے ۔اس کے مقابلہ میں اسلامی مساجد کو دیکھو کہ وہ کتنی سادہ ہوتی ہیں۔خانہ کعبہ کتنی سادگی کا مظہر ہے ۔خود رسول کریم ﷺ کی قبر کتنی سادہ ہے ۔ہر انسان سمجھ سکتاہے کہ جو شخص اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جائے گاوہ خالص خداتعالیٰ کی عبادت کیلئے جائے گا ۔ہیرے اور جواہرات اور سونے اور چاندی کیلئے نہیں جائے گا ۔اسی طرح جو شخص رسول کریم ﷺ کی قبر پر دعا کرنے کے لئے جائے گا وہ صر ف عقیدت اور محبت کے جذبات کے ساتھ وہاں جائے گا ۔کوئی بلند و بالااور شاندر عمارت دیکھنے کیلئے وہاں نہیںجائے گا ۔
افسوس ہے کہ مسلمانوں نے بھی اب مساجد کو فخرو مباہات کا ذریعہ بنالیا ہے ۔مسجد کی ضرورت ہو یانہ ہو وہ محض اپنے نام اور نمود کے لئے بڑی بڑی مسجدیں بنادیتے ہیںاور پھر ہزاروں روپیہ خرچ کرکے ان پر نقش ونگار کرتے اور بڑے بڑے بیل بوٹے بناتے ہیں حالانکہ ان کے اندر نماز پڑھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
میں مصرکی جامع مسجد دیکھنے کیلئے گیا تو میں نے دیکھا کہ محراب کو چھوڑ کر مسجد کے ایک کونہ میں چند آدمی نماز پڑھ رہے ہیں۔ امام سمیت غالباًوہ چار یا پانچ آدمی تھے جب وہ نماز پڑھ چکے تومیں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہاں نماز ہوچکی ہے اور آپ لوگ پیچھے رہ گئے تھے ؟ کہنے لگے کیا کریں شرم آتی ہے کہ اتنی بڑی مسجد میںہم صرف تین یاچار آدمی نماز پڑھنے والے ہیں ۔اسی شرم کے مارے ہم محراب میںکھڑے نہیں ہوتے ایک کونہ میں نماز پڑھ لیتے ہیں تاکہ اگر کوئی شخص ہمیں دیکھ لے تو وہ یہی سمجھے کہ یہ نماز سے پیچھے رہ گئے تھے ۔غرض مسلمانوں میں بھی آجکل یہ نقص پیدا ہوچکا ہے کہ وہ نماز کی طرف تو توجہ نہیںکرتے اور بڑی بڑی مسجدیں بنادیتے ہیں حالانکہ مسجد کی خوبی اس کی سادگی میں ہے اور اسلام نے انہیں روحانی زینت کا موجب بنایا ہے اس لئے نہیں بنایا کہ اسے فخرو مباہات کاموجب بنالیاجائے۔ہاں نمازیوں کے لئے صفائی اور گنجائش اور صحت کا خیال ضرور رکھنا چاہئے کہ یہ زینت نہیں ضرور ت ہے ۔
غرض فرماتاہے واتخذوا من دون اللہ اٰلھۃ لیکونوا لھم عزا ۔ یہ لوگ بڑے بڑے بت بناتے ہیںان بتوں کے معبد بناتے ہیں ان پر میلے لگاتے ہیں تاکہ لوگوں میں انکی شہرت ہو اوروہ تعریف کریںکہ فلاں کا بت بڑا شاندار ہے یافلاں نے بڑاشاندار میلہ لگایا ہے ۔
اس کے علاوہ لیکونوا لھم عزا ۔ میں ا س طرف بھی اشارہ کیاگیاہے کہ بت پرست بت کو ذریعہ شفاعت قرار دیتاہے اور اسے خداتعالیٰ کے حضور میںقرب کا موجب بناتاہے ۔ اس کے نزدیک وہ خود حضور دربار کااہل نہیںاس لئے و ہ کسی درباری کا درباری بن جاتاہے تاکہ اس کے خادموں میںشامل ہوکر خداکے دربار میں چلا جائے ۔ وہ سمجھتاہے میں بہت گنہگار ہوں میں خدا کے دربار میں کہاں پہنچ سکاہوں ۔یہ بت بڑی شان رکھتے ہیں میں انکی عبادت کروں گا تو ان کے غلاموں اور خادموں میں شامل ہوکر میں بھی خداتعالیٰ کے دربار میں پہنچ جائوں گا ۔جیسے ڈپٹی کمشنر کہیںجاتاہے تو اس کاچپڑاسی بھی اس کی وجہ سے بڑے بڑے افسروںتک پہنچ جاتاہے۔بت پرست بھی سمجھتاہے کہ میںاس بت کی عبادت کرکے اس قابل ہوجائوںگا کہ خداتعالیٰ کے دربار میںبیٹھ سکوں مگر خداتعالیٰ جو حاضر وناظر ہے وہ اس کا حاجتمند نہیں اس کا دروازہ ہر ایک کیلئے کھلاہے ۔ اسی مضمون کی طرف قرآن کریم میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ
الا للہ الدین الخالص والذین اتخذوا من د ونہ اولیاء ما نعبد ھم الا لیقربونا الی اللہ زلفٰی ان اللہ یحکم بینھم فیما ھم فیہ یختلفون ان اللہ لا یھدی من ھو کاذب کفار o (الزمر) یعنی دوسرںکی شرکت میں میں عبادت قبول کرنے کو تیار نہیں ۔ خدا تعالیٰ کے سوا جو لوگ دوسروں کو پوجتے ہیں سمجھتے ہیں کہ ہم تو انکی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیںکہ ہمیں وہ خداتعالیٰ کے قریب کردیں یعنی وہ خداکے مقرب ہیںجب ہم ان سے تعلق پیدا کریںگے تو ان کے ذریعہ سے ہم بھی خدا کے دربار میں چلے جائیںگے ۔ فرماتاہے یہ اچھے درباری ہیں کہ ایک دوسرے سے لڑائی ہورہی ہے اورایک بت کے نام پر دوسرے پرچڑھائی کی جارہی ہے ۔خداکے قرب میں تو وہ جائیںگے مگر درباری کے طورپر نہیں بلکہ ملزم کے طور پر اور خداتعالیٰ فیصلہ کرے گا کہ انکے دعوے کیا حقیقت رکھتے تھے اور یہ لوگ دوجرموں کے مرتکب ہیں ۔اول جھوٹے کہ اپنے منہ سے بتوں یا اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوںکی طرف وہ باتیں منسوب کرتے ہیںجو ان میںنہیںہیں۔دوسرے خداتعالیٰ کے احسانوں کے سخت منکر ہیں کہ وہ توایسا بلند شان ہو کر ان کو نوازتاہے اوریہ جھوٹے معبودوں کی پناہ لیتے پھرتے ہیں ۔ ان اللہ ل یھدی من ھو کاذب کفار ۔ میں کاذب کہہ کر انکو جھوٹا بتایا کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بتوں میں کوئی طاقت نہیںپائی جاتی اور پھر ان کی طرف خدائی طاقتیں منسوب کرتے ہیں اورکفار کہہ کر بتایا کہ وہ بڑے ناشکرے ہیں وہ خداتعالیٰ کے متواتر احسانات کو دیکھتے ہیں اورپھر خداتعالیٰ کی پناہ میں آنے کی بجائے اپنے جھوٹے معبووں کی پناہ ڈھونڈرہے ہیں ۔

ایسا نہیں ہوگا وہ معبود ایک دن ان کی عبادتوں کا انکار کر ینگے اور ان کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے ۔
حل لغات :
ضدّ کے معنے مخالف کے بھی ہیں اور ضد کے معنے معاون کے بھی ہیں مگر دونوں صورتوں میں معنے ایک ہی ہیں یعنی ان کے خلاف ان کے دشمن بن کر کھڑے ہوں گے یا ان کے خلاف سچائی کے مدد گار بنکر کھڑے ہونگے ۔
تفسیر :
کلاکہہ کربتایا کہ ان بت پرستوں کی بڑی غرض تو یہ ہے کہ انہیں عزت حاصل ہو مگر یہ بت ان کے لئے عزت کاموجب نہیں بلکہ ذلت کاموجب ہوں گے اور یہ لوگ خود اپنے منہ سے انکی عبادت کا انکار کریں گے اور یہ بھی کہ وہ معبود انکی عبادت کا انکار کریں گے ۔ گویا سیکفرون میں جو ضمیر استعمال کی گئی ہے یہ بتوں کی پرستش کرنیوالوںکی طرف بھی جاتی ہے اور ان کے معبودوں کی طرف بھی جاتی ہے ۔ اس کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ سیکفرون العٰبدون بعبادتھم اور یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں سیکفرون المعبودون بعبادتھم یعنی بتوں کی عبادت کرنے والے خود اپنے منہ سے انکی عبادت کا انکار کریں گے اور کہیں گے کہ ہم نے انکی کبھی عبادت نہیں کی یا یہ کہ معبود ان کی عبادت کا انکار کریں گے اور کہیں گے کہ یہ با لکل جھوٹ بولتے ہیں انہوں نے ہماری عبادت نہیںکی بلکہ ان کے سامنے انکی اپنی اغراض اور شہر تیں تھیں جن کے لئے یہ عبادت کرتے رہے ۔ قرآن کریم میں یہ دونوں معنے استعمال کئے گئے ہیںچنانچہ سوئہ بقرہ میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اذتبرالذین اتبعوا من الذین اتبعوا وراوا العذاب وتقطعت بھم الاسباب ۔ وقال الذین اتبعوا لو ان لنا کرۃ فنتبرا منھم کما تبرء وا منا (بقرۃ) یعنی جس دن وہ لوگ جن کی فرمانبرداری اور اطاعت کی جاتی تھی ان لوگوں سے جوانکی اطاعت کا دم بھرتاتھے اپنی برأت اور نفرت کا اظہار کریںگے اور وہ خدائی عذاب کواپنی آنکھوںسے دیکھ لیںگے اور ہر قسم کے اسباب کو منقطع پائیںگے تووہ لوگ جو اس دنیا میں ان کی اتباع کرتے رہے ہیں اس نظارہ کو دیکھ کر کہیںگے کہ اگر ہمیں دوبارہ دنیا میں لوٹادیا جائے تو ہم ان سے اسی طرح بیزاری اور نفرت کااظہار کریں جس طرح آج یہ ہم سے بیزار ہورہے ہیں۔
اسی طرح سورئہ قصص میںفرماتاہے کہ معبود ان باطلہ کہیں گے تبرأنا الیک ما کانوا ایانا یعبدون (قصص) یعنی اے خدا ہم تیرے سا منے اپنی برأت کا اظہار کرتے ہیں یہ لوگ ہماری نہیںبلکہ اپنے نفسوں کی عبادت کیا کرتے تھے ۔غرض اس آیت میں ضمائر دونوں طرف جاسکتی ہیں ۔یہ معنے بھی ہوسکتے ہیںکہ مشرک اپنی عبادت کا انکار کریںگے اور اپنے معبودوں کے خلاف کھڑے ہوجائیںگے اور ان کا انکار کریںگے جیسا کہ سورئہ اعراف میں آتاہے کہ جب فرشتے مشرکوں کی جان نکالتے ہیں توان سے پو چھتے ہیں کہ ماسوی اللہ معبود اب کہاں ہیں تو وہ کہتے ہیں ضلوا عنا وہ تو کہیںبھاگ گئے ہیںآج ہمیں نظر نہیںآتے ۔
اسی طرح یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ معبودان باطلہ ان لوگوں کی عبادت کا انکار کریں گے اور مشرکوں کے خلاف گواہی دیں گے جیسا کہ سورئہ قصص ہی کی آیت اوپر لکھی جاچکی ہے :
اسی طرح معبودوں کے متعلق قرآن کریم میں ایک اورجگہ آتاہے کہ واذا را الذین اشرکوا شرکاء ھم قالوا ربنا ھٰؤلاء شرکاؤنا الذین کنا ندعوا من دونک۔ فالقوا الیھم القول انکم لکاذبون (نحل) یعنی جب وہ مشرک لوگ جو شرک کیا کرتے تھے اپنے معبودان باطلہ کو دیکھیںگے تو کہیں گے کہ حضور !یہ ہیں وہ معبود جن کو ہم تیرے سوا پوجا کرتے تھے۔ انہوں نے ہم کو خراب کیا ہے ۔وہ معبود کہیں گے کہ یہ خبیث بالکل جھوٹ بولتے ہیںہم نے انہیں خراب نہیںکیا ۔یہ آپ اپنی اغراض کے لئے شرک کرتے رہے ہیں ۔گویا وہی معبود جن کو آج عزت کا موجب سمجھا جاتاہے اس دن ان کے لئے ذلت کا موجب ہوجائینگے۔
اسی طرح سورئہ انعام میںآتاہے ویوم نحشرھم جمیعا ثم نقول للذین اشرکوا این شرکاؤکم الذین کنتم تزعمون o ثم لم تکن فتنتھم الا ان قالوا واللہ ربنا ماکنا مشرکین (انعام) یعنی اس دن ہم سب کو اکٹھا کریں گے اور پھر ہم مشرکوں سے کہیں گے کہ کہاں ہیں تمہارے معبود جن کے متعلق تم کہا کرتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں اس پر سوائے اس کے ان کااور کوئی جواب نہیں ہوگا کہ حضور ہم ان خبیثوں کو کیا جانتے ہیں ہم نے تو کبھی شرک نہیںکیا ۔
اسی طرح سورئہ یونس میں آتاہے :
وقال شرکاؤُھم ما کنتم ایانا تعبدون (یونس)
یعنی اس روز معبودان باطلہ ان سے کہیں گے کہ تم نے توہمار ی کبھی پرستش نہیںکی۔
سورئہ روم میں بھی مشرکوں کے متعلق آتاہے کہ
وکانوا بشرکاء ھم کٰفرین (روم)
مشرک اپنے معبودان باطلہ کا انکار کریں گے اور کہیں گے کہ ہم نے انکو کبھی اپنا خدا نہیں مانا۔
یکونون علیھم ضدا ۔ میں اوپر بتاچکا ہوںکہ ضد کے ایک معنے معاون کے بھی ہیں ۔پس اس آیت کے معنے یہ ہونگے کہ وہ معبود اس دن مشرکوں کے خلاف خدا تعالیٰ کے معاون ہوجائیںگے یا اس دن مشرک اپنے معبودوں کے خلاف خداتعالیٰ کے معاون ہوجائیںگے ۔یعنی اس دن معبودان باطلہ او رمشرک جہاں ایک دوسرے کے مخالف ہوجائیںگے وہاں وہ دونوں سچائی اور راستی کے معاون بھی ہوجائیں گے ۔مشرک کہیں گے کہ ہم معبودوں کی عبادت نہیں کرتے اور معبود کہیں گے کہ مشرک ہماری عبادت نہیں کرتے تھے ۔
اس جگہ ایک اور امر بھی یادرکھنا چاہئے اوروہ یہ کہ یکونون علیھم ضدا میں ضد کا لفظ جمع ہونا چاہئے تھا مگر آیا مفرد ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ مفرد کا لفظ استعمال کرکے اللہ تعالیٰ نے ان کے کمال اتحاد کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ گو وہ مختلف گروہوں سے تعلق رکھنے والے ہوں گے مگر اس معاملہ میں انکا اختلاف با لکل ختم ہوجائے گا اور وہ یک زبان ہوکر کہیں گے کہ ہمارا ان معبودان باطلہ سے کوئی تعلق نہیں اور معبودان باطلہ سے کوئی تعلق نہیںاور معبودان باطلہ بھی یک زبان ہوکر کہیںگے کہ ہماراان مشرکوںسے کوئی تعلق نہیں ۔یعنی اس دن اس قسم کی حالت ہوگی کہ اس دن کی سختی کو دیکھ کراور اس دن کی مایوسی کو دیکھ کراور اس دن کے خطرات کو دیکھ کر مشرک بھی فردِ واحد کی طرح یک زبان ہوکر کہیںگے کہ ہم ان معبودان باطلہ سے بیزار ہیں اور معبودان باطلہ بھی یک زبان ہوکر فردِواحد کی طرح کہیںگے کہ ہم ان مشرکوںسے بیزار ہیں۔گویااس امر کے اظہار کے لئے کہ باوجود لاکھوںاور کروڑوں ہونے کے وہ فرد ِواحد کی طرح متفقہ طور پر غیر اللہ کی عبادت کا انکار کریں گے ۔جمع کی بجائے مفرد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مشرک بھی انکار کرکے اپنی جان بچاناچاہیںگے اور معبودان باطلہ بھی انکار کرکے اپنی جان بچانا چاہیںگے (املاء مامن بہ الرحمن ) یہ عربی زبان کی کتنی بڑی خوبی ہے کہ اس تھوڑے سے فرق سے کہ جمع کی جگہ مفرد کا لفظ استعمال کیا گیاہے ایک وسیع مضمون اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان کردیاہے اورنہ صرف یہ بتایا ہے کہ یہ بت جن کو وہ اپنے لئے عزت کاموجب سمجھ رہے ہیں ان کیلئے ذلت کاموجب ہوںگے بلکہ اس میں انکی بے بسی بھی بیان کردی گئی ہے ،خطرہ کی سختی بھی بیان کردی گئی ہے اور یہ بھی بیان کردیا گیا ہے کہ خطرہ اس وقت اتنا قریب پہنچ چکا ہوگا کہ انہیں سوچنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوگی ۔ معبودان باطلہ کے دماغ بھی ایک ہی نتیجہ پر پہنچیں گے اور مشرکوں کے دماغ بھی ایک ہی نتیجہ پرپہنچیں گے اور وہ بغیر سوچنے کے اور غور کرنے کے اور بغیر کسی قسم کا مشورہ کرنے کے یک زبا ن ہو کر انکی عبادت سے انکار کردیں گے اور سمجھیں گے کہ یہی ایک راستہ ہے جس پرچل کرہم بچ سکتے ہیں۔ غرض بتایا کہ اس وقت خطرہ سخت ہوگا بے بسی انتہا درجہ کی ہوگی اورمشرک بھی اور معبود ان باطلہ بھی سوائے اس نتیجہ کے اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچیںگے کہ وہ غیر اللہ کی پرستش کاانکار کردیں ۔وہ اس وقت تعداد کے لحاظ سے لاکھوں اور کروڑوں ہونگے مگر نتیجہ پر پہنچنے کے لحاظ سے فرد واحد کی حیثیت اختیار کریں گے اور یک زبان ہوکر مشرک معبودوں کی اور معبود مشرکوں کی تردید کریںگے ۔یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ اکثر معبود تو بے جان ہوتے ہیں پھر وہ کیسے بات کریں گے اس کے تین جواب ہیں :
(۱)ایک تو یہ کہ کچھ معبود جو جاندار ہیں جیسے ملائکہ او مسیح ؑ وغیرہ وہ ایسا کریںگے بے جانوں کی طرف سے خود ہی جواب آجائیگا۔
(۲)دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ کبھی کبھی روحانی دنیا میں ایسا بھی ہوتاہے کہ بے جان چیزیں بھی متمثل ہو کر جواب دے دیتی ہیں ۔چنانچہ خوابوں اور کشوف میںکثرت کے ساتھ ایسا ہوتاہے ۔بعض دفعہ درخت بولنے لگ جاتے ہیں۔بعض دفعہ مکان بولنے لگ جاتے ہیںبعض دفعہ دیوار بولنے لگ جاتی ہے اور انسان ان کے کلام سے ویساہی اثر قبول کرتاہے جیسے زندہ اور جاندار چیزوں کے کلام سے اثر قبول کرتاہے ۔حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک دفعہ ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مکان مجھے کہتاتھا کہ یہاں سے جلدی نکلو میں گرنے والا ہوں ۔پس اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ بے جان بت کس طرح کلام کریںگے ۔وہ بے شک بے جان ہیں مگر اس وقت متمثل ہو کر اُنہیں ذلیل کرنے کے لئے یہ جواب دیںگے اور چونکہ اس وقت روحانیت تیز ہو جائے گی وہ سمجھ جائیںگے کہ حقیقت یہی ہے ۔
(۳)تیسرا جواب اس کا یہ ہے کہ بت درحقیقت پرانے بزرگوں یا ملائکہ کے تمثیلی وجود ہیں ۔رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ بت اصل میں پتھر نہیںبلکہ یہ قوم کے بزرگوں کی ایک تمثیل اور نقل ہیں ۔جیسے حضرت اسماعیل ؑ کی قوم نے عزت کی تو ان کا ایک بت بنالیا ۔یا فرشتوں کی عزت کی توان کے نام پر بت بنالئے ۔پس چونکہ یہ بت ایک تمثیلی وجود ہیں اس لئے جن کی وہ تمثیل ہیںوہ جواب دینگے اور وہی جواب بتوںکا سمجھا جائے گا ۔اور چونکہ اصل معبود وہی ہیں اس لئے انہی کاجواب حقیقی جواب ہوگا۔ مثلاً جس فرشتے کا بت بناکر پوجا جاتاہے وہ فرشتہ کھڑا ہوگا اور سب کے سامنے انہیں ذلیل کریگا یا حضرت اسماعیل ؑ جن کابت بنا کر اسکی پرستش کی جاتی تھی کہیں گے کہ یہ جھوٹ بولتے ہیںمیں توآپ خداتعالیٰ کو ماننے والااور اسکی پرستش کرنے والا تھا ۔پس باوجود اس کے کہ بتوں کی اکثریت بے جان ہے یعنی لوگ یا تو پتھروںکو پوجتے ہیں ۔یا درختوں کو بوجتے ہیںدریائوں کوپوجتے ہیں ۔چونکہ وہ ان بتوں کو بعض پرانے بزرگوں یا ملائکہ وغیرہ کا قائم مقام سمجھتے ہیں اورکہتے ہیںکہ یہ بت فلاںدیوتا کا قائم مقام ہے ۔یہ بت فلاںفرشتہ کی تمثیل ہے یہ بت فلاں بزرگ کا مجسمہ ہے ۔ اس لئے وہی فرشتہ او بزرگ ان کیسامنے آئیںگے اورکہیںگے کہ ہم تو خدتعالیٰ کے عبادت گذارہیں ۔مگر تم نے ہماری ہی پرستش شروع کردی ۔ہم تمہارے اس فعل سے بیزار ہیں اورتمہیںکسی قسم کی ہمدردی کامستحق نہیںسمجھتے اور چونکہ اصل معبود وہی ہیں اس لئے ان کے جواب میں سب کے سب بت بھی شریک ہوجائیگے ۔
آیت نمبر۸۴
ترجمہ :۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ ہم نے شیطانوں کو چھوڑ رکھا ہے کہ وہ کافروں کو اکساتے رہیں۔ ۶۷؎
۶۷؎ حل لغات:۔ اّزُّ کے اصل معنے ہنڈیا کے ابال کے ہوتے ہیں لیکن عام طور یہ کسی کو جوش دلانے کے معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ پس توزھم۔۔۔کے معنے یہ ہیں کہ وہ ان کو خوب جوش دلاتے ہیں ھز کے معنے بھی ہلانے اور جوش دلانے کے ہوتے ہ ہیںلیکن اذ کا لفظ ھز سے معنوں میں زیادہ قوی ہوتاہے ۔(مفردات)
ارسل کے معنے عام طور پر بھیجنے کے ہوتے ہیں لیکن ا سکے ایک معنے علاوہ بھیجنے کے خلیٰ کے بھی ہوتے ہیں یعنی اس کو چھوڑ دیا اورا سے ارادوں میں مزاحم نہ ہوا چنانچہ عربی میں کہتے ہیں ارسلت ۔۔۔ اور اسکے معنے یہ ہوتے ہیںکہ خلیت۔۔۔ یعنی جب اونٹ کے رسے کھول دیئے جائیںاورا سے آزادانہ طور پر بلاروک ٹوک پھر نے دیا جائے تو کہتے ہیں ارسلت۔۔۔ اور مراد یہ ہوتی ہے کہ خلیتہ میں نے اسے چھوڑ دیا ہے ۔
۶۷؎ تفسیر :۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ ہمارا اصل کام تو یہ ہوتاہے کہ ہم شیطانوں سے اپنے بندوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔جیسے قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر فرماتاہے کہ ان ۔۔۔۔

ہم نے اپنے بندوں پرشیطان کے لئے غلبہ مقدر نہیں کیا لیکن یہ قسم کفار کی ایسی ہوتی ہے کہ اس میںہم اپنی حفاظت واپس لے لیتے ہیں اور شیطانوں کو ان پر حملہ کرنے کیلئے کھلاچھوڑ دیتے ہیںکہ اب تمہارا جوجی چاہے کروہم تمہارے معاملات میںکو ئی دخل دینے کے لئے تیا ر نہیں۔گویاارسلکے یہ معنے نہیںکہ ہم ان پر حملہ کرنے کے لئے شیطانوںکو بھجتے ہیںیا خود انہیں کفار کے پیچھے لگادیتے ہیںبلکہ ا سکے معنے یہ ہیں کہ پہلے تو ہم شیطانوں کو باندھے رکھتے ہیںیا جب وہ حملہ کرتے ہیںتو ہم ان کے اور اپنے بندوںکے درمیان کھڑے ہوجاتے ہیں اوران کا مقابلہ کرتے ہیں لیکن یہ قسم کفار کی ایسی ہے کہ جب شیطان حملہ کرتے ہیں تو ہم انہیںکہتے ہیںکہ جوکچھ تمہاری مرضی ہے کرو اور ہم ان دونوں کے درمیان سے اپنے وجود کو نکال لیتے ہیں کیونکہ دونوں میںایسی موانست ہوجاتی ہے کہ وہ شوق سے ایک دوسرے کی طرف بھاگتے ہیں ۔
غرض اس جگہارسل کے یہ معنے نہیں کہ ہم انہیں حملہ کرنے کے لئے بھجتے ہیں بلکہ اس کے معنے ہیں کہ پہلے تو ہم انہیں باندھے رکھتے ہیںیااگر وہ حملہ کرتے ہیں تو ہم ان کا مقابلہ کرتے ہیں لیکن ایک وقت ایسا آجاتاہے کہ ہم ان دونوںکے درمیان آنے سے رک جاتے ہیں کیونکہ ان دونوں میں ایسا اتحاد ہو جاتاہے اور اس قسم کی محبت باہمی پیدا ہوجاتی ہے کہ انتہائی شوق سے ایک دوسرے سے بغلگیر ہونے کیلئے دوڑتے ہیں ۔اس لئے ہم ان کے معاملات میں دخل دینے سے انکار کردیتے ہیں ۔توزھم ازاً کے تین معنے ہیں :
اولؔ یہ کہ وہ ان کو معاصی کی طرف رغبت دلاتے ہیں کیونکہ بہر حال جب شیطان کسی کو اکسائیگا تو ایسے ہی کاموں پر اکسائے گا جو اس کی طبیعت کے مطابق ہوں اور چونکہ شیطان کا معاصی سے ہی تعلق ہے اس لئے شیطان کا کسی کو اکسانا یہی معنے رکھتاہے کہ وہ اسے معاصی کی رغبت دلائے گا ۔اگر یہ کہاجائے کہ استاد لڑکے کو بہت اکساتاہے تو فوری طورپر انسانی ذہن اسی طرف جائے گا کہ وہ لڑکے کو تعلیم کی ترغیب دیتاہے اور اسے باربار اس طرف متوجہ کرتاہے یا اگر کہاجائے کہ کرکٹ کا کپتان بہت اکساتاہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ لڑکوں کو کرکٹ کھیلنے کی ترغیب دیتاہے ۔ شیطان چونکہ شیطانی کاموں پر ہی اکساسکتے ہیں اس لئے توزھم ازاّکے ایک معنے یہ ہوں گے کہ وہ ان کو معاصی کی ترغیب دلاتے ہیں ۔
دوسرے معنے یہ ہوں گے کہ وہ انکو اتنا اکساتے جاتے ہیں کہ آخر وہ جہنم میں جاگرتے ہیں یعنی وہ انہیں معاصی کی رغبت دلاتے ۔۔۔ ۔چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ قدم بڑھاتے بڑھاتے وہ جہنم میںجاگرتے ہیں۔
تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ وہ انکو مسلمانوں کا مقابلہ کرنے اور ان پر حملہ کرنے کے لئے جوش دلاتے ہیںکیونکہ شیطان اپنے مدمقابل کے خلاف ہی انہیںاکساسکتاہے اور اس کااصل مقابلہ اسلام اور مسلمانوںسے ہی ہے ۔ شیطان چونکہ براہ راست حملہ نہیںکر سکتااس لئے وہ اپنے ساتھیوں کو ابھارتااور انہیںاکساتا ہے کہ اٹھو اور مسلمانوںپر حملہ کرو۔

پس تو ان کے خلاف جلدی میںکوئی قدم نہ اٹھا ہم نے انکی تباہی کے دن گن رکھے ہیں ۔
تفسیر :
فرماتاہے جب حالات یہ ہیں تو تم کو کیا ضرورت ہے کہ تم ان کی سزا کے متعلق سکیمیں سوچو اور ان کے خلاف مختلف قسم کی تدابیر عمل میں لائو ۔ہماری ہدایت تمہیں یہ ہے کہ لا تعجل علیھم تم ان کے خلاف اپنے ارادوں میں یا ان کے خلاف اپنے حملوں میں یا انکے خلاف اپنی تدبیروں میں یا ان کے خلاف اپنی دعائوں میں ہرگز جلدی نہ کرو اور چونکہ اس جگہ کسی خاص بات کی تعیین نہیںکی گئی ۔اس لئے جتنی باتیںدوسروں کے خلاف کی جاسکتی ہیں وہ ساری کی ساری اس جگہ مراد ہوسکتی ہیں ۔اس جگہ تدبیریں بھی مراد ہو سکتی ہیں خیالات بھی مراد ہوسکتے ہیں غم وغصہ اور رنج کے جذبات بھی مراد ہوسکتے ہیں ۔ دعائیں بھی مراد ہوسکتی ہیں ا ن سب باتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے لاتعجل علیھم تم کسی قسم کی تدبیر میں بھی انکے خلاف جلد بازی مت کرو ۔کیوں ؟ اس لئے کہ پہلی آیت بتارہی ہے کہ خدا نے ان پر شیطانوں کو چھوڑا ہوا ہے ۔خدامیں طاقت تھی کہ جب وہ حملہ آور ہوتے تواپنے بندوں کو ان کے حملہ سے بچالیتا۔خدامیں طاقت تھی کہ وہ ان کے حملوں کوناکام کردیتامگر وہ خدا جس کی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ جب شیطان حملہ کرنے کیلئے آتاہے تو وہ اس حملہ کامقابلہ کرنے کے لئے شیطان اور بندہ کے درمیان آکر کھڑا ہوتاہے جب اس نے اپنے آپ کودرمیان سے نکال لیا ہے تو معلوم ہوا کہ اس میںکوئی خدائی حکمت ہے اور جب خدائی حکمت ایک اور بات کا تقاضا کرتی ہے تومومن کی شان کے خلاف ہے کہ وہ اسی چیز کے مقابلہ کے لئے کھڑاہوجائے جسے خدائی مشیت کے ماتحت ڈھیل دیجارہی ہے ۔مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیںکہ دشمنان اسلام کے خلاف کسی قسم کی تدبیریں کرناجائز نہیں۔یہ مطلب بھی نہیں کہ سچائی سے عناد رکھنے والوں کے خلاف کسی قسم کے جذبات غیرت جوش میںنہیںآنے چاہئیں ۔اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اگر کوئی جماعت اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں کررہی ہوتو تم اسکی کوششوں کو باطل کرنے کے لئے کوئی جائز تدبیر نہ کرو بلکہ صرف اس چیز کا مقابلہ کرنے سے روکاہے جس کاذکر پہلی آیت میں آچکا ہے ۔
الم ترکہہ کراللہ تعالیٰ نے بتایاتھا کہ حالات ظاہر ہیں اوراگر تم غورکرو توتم سمجھ سکتے ہو کہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ الٰہی مشیت کے ماتحت ہورہا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اگر کوئی بات ایسی ہو کہ ہمیں یقینی طور پر معلوم نہ ہو کہ اس کے متعلق خدائی تدبیر کیا ہے یاوہ کوئی ایسا واقعہ ہو جو قانون قدرت کے عام قوانین کے ماتحت ہے تواس وقت ہمیں اجازت ہے کہ ہم دشمن کے حملوں کا دفاع کریں ہمیں اجازت ہے کہ ہم اس کے خلاف جائز اور مطابق ِقانون تدابیر اختیار کریں لیکن جب نظر آجائے کہ خدااپنی عام سنت کے خلاف ایک کام کررہا ہے تو اس وقت یہی حکم ہوتاہے کہ فلا تعجل علیھم اس وقت بدعا کرنا بھی منع ہوتاہے ۔اس وقت تدبیریں کرنابھی منع ہوتاہے ۔اس وقت صرف اتنا ہی حکم ہوتاہے کہ دشمن کے حملوں کو برداشت کرو اور صبر سے کام لو۔
حقیقت یہ ہے کہ دشمن جب شرارت میں حد سے بڑھ جاتاہے تومومن گھبراجاتے ہیںاورکبھی گھبراکر اظہار غیرت کرتے ہیں کبھی نبی یا اسکے خلفاء سے کہتے ہیں کہ دشمن کی تباہی کی دعامانگو کبھی جہاد کا فتویٰ دیتے ہیں ۔لیکن بسا اوقات ان کی تباہی ایک سکیم کے ساتھ مقرر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ تسلی دیتاہے کہ جلدی نہ کرو وقت پر سب کام ہوجائیگا اور ان کی سزا خداتعالیٰ کی طرف سے آجائے گی۔
انما نعد لھم عدا ۔ تمہاری یہ حالت ہے کہ تم سو بھی جاتے ہو ۔تم دشمن سے غافل بھی ہوجا تے ہو لیکن ہمیں تو انکی یہ باتیں اتنی بر ی لگ رہی ہیں کہ ہم خود ان کی تباہی کی گھڑیاں گن رہے ہیں۔جب ہماری حالت یہ ہے کہ ہم خود انکی گھڑیاں گن رہے ہیں کہ کب وقت آئے اور ہم ان کی گردن مروڑ کر رکھ دیں تو تم کیوں جلدی کرتے ہو ۔تم میںتو طاقت ہی نہیںکہ ان کامقابلہ کرسکو۔
دیکھو اس جگہ جہاد کے متعلق کیسی واضح اور اہم ہدایت دی گئی ہے اورکس طرح اس عظیم الشان نظر یہ کی تائید کی گئی ہے کہ جو بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود ؑ نے موجود ہ زمانہ میںجہاد کے متعلق پیش فرمایا ہے ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب مسلمانوںکا ایک حصہ یہ کہے گا کہ اسلام کی ترقی اب اسی طرح ہوسکتی ہے کہ ان کفار سے جہاد کیاجائے اور انہیں تلوار کے زور سے مٹانے کی کوشش کی جائے مگر ان کی یہ رائے بالکل غلط ہوگی ۔صحیح اور درست راستہ یہی ہوگا کہ ان کے مقا بلہ میں جلد بازی سے کام نہ لیا جائے اور ان کے حملوں کو صبر کے ساتھ برداشت کیاجائے اور صرف روحانی تدابیر اختیا رکی جائیںیعنی تبلیغ اسلام اور دعائیںوغیرہ ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ جو خداتعالیٰ کی طر ف سے دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجے گئے تھے انہوں نے لوگوں کے سامنے یہ اعلان فرمایا کہ
یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافر وں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا
آپ نے فرمایا کہ جب مسلمانوں کے پاس کسی قسم کی طاقت ہی نہیں تو ان پر جہاد بالسیف کس طرح فرض ہوسکتاہے ۔جب وہ وقت آئے گا تو اللہ تعالیٰ جس رنگ میں چاہے گا مسلمانوںکو ان کے مقابلہ کی طاقت عطافرمادے گا ۔بہرحال آپ نے جہاد کے متعلق مسلمانوں کے رائج الوقت خیالات کی تردید فرمائی اور یہ وہ حقیقت ہے جو لاتعجل میں بیان فرمائی گئی ہے۔
اصل با ت یہ ہے کہ اس سورۃ میں مسیحیوں کی جن ترقیات کاذکر کیا گیاہے وہ آئندہ زمانہ میں ہونے والی تھیں بلکہ حدیثوں اور قرآن میں انہیں آخری زمانہ کے ساتھ وابستہ کیا گیاہے پس لاتعجل سے مراد رسول کریم ﷺ کاوجود نہیں بلکہ آئندہ زمانہ کا مسلمان مراد ہے اور بتا یاگیا ہے کہ وہ ایک وقت مسیحیوں کی ترقی کو دیکھ کر ان سے جہاد کرنے کے شوق میں مبتلا ہوجائے گا چنانچہ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ جس زمانہ میں مسیحیت مسلمانوں کا شکار تھی اور ان کو اس سے مقابلہ کرنیکی طاقت تھی اس وقت تک تو مسلمان ان کی طرف سے غافل رہے اور جب مسیحیت دنیا میں پھیل گئی تو انہیںجہاد کا خیال آیا حالانکہ اس وقت خداکی مشیت نعد لھم عدا والی ظاہر ہوچکی تھی اور اس علم کے بعد مسلمانوں کو چاہئے تھا کہ سابق غفلت پر استغفار کرتے اور آئندہ کیلئے اللہ تعالیٰ سے مجملا ًدعا کرتے کہ ان کے فتنہ سے مسلمانوں کو بچائے اور جہاد بالقرآن شروع کردیتے تاکہ سابق غفلت کا ازالہ ہوجاتا اور قرآن کریم کی برکت سے مسیحیت کی طاقت ٹوٹ جاتی مگر انہوں نے جہاد بالسیف کا بے موقع اظہار کرکے مسیحیوںکو اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کاموقع دیا اور اس سے متاثر ہو کر ہزاروں مسلمان مسیحی ہوگئے ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون حضرت مسیح موعود ؑ ایک ہی شخص تھے جنہوں نے اس نقص کی طرف توجہ دلائی ۔مگر اس وجہ سے ان پر کفر کے فتوے لگائے گئے اور کہا گیا کہ یہ شخص اسلامی ترقی کادشمن ہے حالانکہ اسلامی ترقی کاواحد ذریعہ اس زمانہ میں اسلام کی صحیح تعلیم کی اشاعت تھا تاکہ خود مسیحیوں میں سے ایک حصہ کو جیتاجائے اورباقی حصہ کے دل سے غلط فہمیاں دور کی جائیںمگر افسوس کہ اس خدمت کی وجہ سے آپ کو اتنی گالیاں مسلمانوں نے دیں کہ شاید کسی مامور کو اتنی کثرت سے اوراس مقدار میںگالیاں نہیں ملی ہوںگی ۔میں سمجھتاہوں کہ جتنی گالیاں اس زمانہ کے علماء نے ایک ایک دن اور ایک ایک جلسہ میں بانی سلسلہ احمدیہ کو دی ہیںاس قدر گالیاں سابق ماموروں کو شاید دس دس سال میں بھی نہ ملی ہوںگی بلکہ گذشتہ زمانہ کے علماء کی زبان پر ایسا گند بھی آیا ہی نہ ہوگا ۔اس ظلم کا بدلہ قیامت کے دن ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے لیں گے ۔وہ خود ان ظالموں پراپنی ناراضگی کا اظہار کریں گے اورہمارے دلوں پر تسکین کا مرہم رکھیںگے ۔ انشا ء اللہ تعالیٰ
یہ امر بھی یادرکھنا چاہئے کہ فلا تعجل علیھم کے یہ معنے نہیںکہ ان کے خلاف کسی قسم کی دعا نہیںکرنی چاہئے بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ مومنوں کو گھبرانا نہیں چاہئے اور مایوس نہیں ہوناچاہئے ورنہ بعض قسم کی دعائیں ایسی ہیں جو اصولی رنگ میں جائز ہیں۔ مثلاًیوں کہنا کہ اللہ تعالیٰ عیسائیوں کی طاقت کو توڑدے بالکل جائز ہوگا جیسے حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی دعاکی اور فرمایا کہ
یارب سحقھم کسحقک طاغیا
وانزل بساحتھم لھدم مکانھم
مگر یہ اصولی دعا ہے ان کے کسی خاص فعل کے متعلق نہیںکہ چونکہ انہوں نے فلاں حملہ کیا ہے اس لئے انہیں تباہ کیاجائے۔ محض اصولی رنگ میں خداتعالیٰ سے اس خواہش کا اظہار کیاگیا ہے کہ وہ عیسائیوں کی طاقت کو توڑدے ۔اس رنگ میں عیسائیت کے خلاف دعائیںبھی کی جاسکتی ہیں مگر ان کے کسی خاص فعل پر بددعا کرنا جائز نہیں ہوگا۔
بہر حال فلا تعجل علیھم میں جہاد کے مسئلہ کو بالکل واضح کردیا گیاہے اوراللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ہم نے ان کے لئے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے اورہم ان کی ہلاکت کی گھڑیاں گن رہے ہیں۔ جب وہ وقت آئے گا توہم خود پکڑ لیں گے تم ان کے مقابلہ میںکیا کرسکتے ہو تم سے تو کچھ بھی نہیں ہوسکتاجو کچھ کرنا ہے ہم نے ہی کرنا ہے ۔

جس دن ہم متقیوں کو زندہ کرکے (خدائے )رحمان کے حضور میں اکٹھا کرکے لے جائینگے ۔
حل لغات :
وفد کی تشریح کرتے ہوئے مفردات والے لکھتے ہیںکہ ھم الذین یقدمون علی الملوک مستنجزین الحوائج یعنی وفد سے وہ لوگ مراد ہوا کرتے ہیں جو بادشاہوں کے پاس اس غرض کے لئے جاتے ہیں کہ اپنی حوائج اور ضروریات ان سے پوی کروائیں۔
تفسیر :
جہاں تک اگلے جہان کا سوال ہے اس میںکوئی شبہ نہیںکہ یہ آیت بھی اور اس سے اگلی آیات بھی اگلے جہان پر چسپاں ہوجاتی ہیں اوراس صورت میں ہم اس آیت کے یہ معنے لے لیں گے کہ قیامت کے دن سب مومن خداتعالیٰ کے سامنے اجتماعی طور پر پیش ہونگے لیکن سوال یہ ہے کہ اس جگہ ان دنیوی ترقیات کاذکر ہے جو عیسائیوںنے حاصل کیں اور دنیوی ترقیات کے متعلق ایک مومن کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ جب یہ لوگ مرجائیںگے تو انہیںاگلے جہان میں عذاب دیا جائے گا بلکہ اس کے دل میں یہی خیال آتاہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کومیرے سامنے ذلیل کرے اور اسلام کوفتح عطافرمائے ۔ بیشک وہ معنے ہم نظر انداز نہیں کرسکتے لیکن جب ساری سورۃ میں عیسائیوںکے دنیوی عروج اور ان کی شان و شوکت کا ذکر کیا گیاہے تواس کے بعدیہ بات کتنی پھسپھسی نظر آتی ہے کہ الٰہی ان کا قیامت کے دن بیڑہ غرق ہو ۔ اگر ان کا اگلے جہان میں ہی بیڑہ غرق ہونا ہے تو دنیا ہماری اس بات کو کس طرح مانے گی ۔وہ تو یہی کہتی رہے گی کہ انہوں نے بڑے مزے اٹھائے ہیں پس لازماًہمیں اس کے ایسے معنے کرنے پڑیںگے جو اس دنیا پر بھی چسپاں ہوسکیں لیکن چونکہ الفاظ ایسے ہیں جو اگلے جہان پر بھی چسپاں ہوجاتے ہیں اس لئے ہم یہ معنے بھی نظر انداز نہیں کرسکتے کہ اس دن مومن خداتعالیٰ کے حضور اجتماعی طور پر حاضر ہونگے اور انعام واکرام سے نوازے جائینگے لیکن پہلے ہمیں اسی دنیاپر اس آیت کو چسپاں کرنا پڑے گا اورجب ہم اس آیت کودنیاپر چسپاں کریں تو یوم نحشر المتقین الی الرحمن وفدا کے سوائے اس کے اور کوئی معنے نہیں ہوسکتے کہ جب ہمارے فیصلہ کا وقت آئے گا تو اس وقت ہم خود مومنوں کے دلوں میں القاء کریں گے کہ اب ان کی ہلاکت کیلئے اجتماعی طورپر دعائیں مانگو ۔ہم روزانہ نمازیں پڑھتے ہیں جنہیںتمام مومن اکٹھے ہوکر خدتعالیٰ کے حضور حاضر ہوجاتے ہیں ۔ یہی حشرہے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور بتایاگیا ہے کہ اس د ن ہم سب مسلمانوںکو خدائے رحمن کی طرف اکٹھا کرکے لے جائیں گے یعنی اس دن ان کے دلوںمیں ہم ایک آگ لگادیں گے اورانہیںکہیںگے کہ اب وہ وقت آگیاہے جس کا تم انتظار کر رہے تھے ۔آئو اورہم سے دعائیں مانگو تاکہ ہم اس قوم کے خلاف اپنے فیصلہ کونافذ کردیں ۔
وفد کا لفظ عربی زبان میں اس وقت استعمال ہوتاہے جب کوئی جماعت کسی بادشاہ کے سامنے اپنی حاجات لے کر پیش ہو اور نماز میں روزانہ پانچ وقت مسلمان اجتماعی طورر اپنی اغراض لیکر خداتعالیٰ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں گویا وفد کے اندر جتنی باتیں ضروری ہوتی ہیں وہ مسلمانوںکی نماز میں پائی جاتی ہیں ۔ وفد کا لفظ چاہتاہے کہ جماعت ہو ۔وفد کا لفظ چاہتاہے کہ اس جماعت کی کوئی غرض ہو اور پھر وفد کا لفظ اس بات کا بھی تقاضا کرتاہے کہ وفد میںشامل ہونیوالوں کا اچھالباس ہو کیونکہ انہوں نے بادشاہ کے دربار میں پیش ہوناہوتاہے اور یہ ساری باتیں نماز میں پائی جاتی ہیں ۔ نماز جماعت کے ساتھ ہوتی ہے نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضوراپنی حاجات پیش کی جاتی ہیں اورپھر نماز کے متعلق یہ بھی حکم ہے کہ صاف ستھرے کپڑے پہن کر نماز پڑھنی چاہئے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ یبنی اٰدم خذوازینتکم عند کل مسجد (اعراف) اے بنی نوع انسان ہر نماز کے وقت زینت کا خیال رکھاکرو اسی لئے شریعت نے حکم دیا ہے کہ نماز سے پہلے وضو کیا جائے صاف ستھرے کپڑے پہنے جائیں ۔کوئی بودار چیز نہ کھائی جائے ۔پھر جب نماز میں انسا ن کھڑا ہوتاہے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتاہے اھدناالصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم پس وفد کے طور پر پیش ہونیکی بہترین صورت نماز ہے اور آیت کے یہ معنے ہیں کہ اس دن ہم مومنوں کے دلوں میں خود تحریک پیدا کریں گے کہ ان کی تباہی کے لئے ہم سے دعائیںکرو۔
اگر اس آیت کومرنے کے بعد کی زندگی پر چسپاں کیا جائے تو یوم نحشر المتقین الی الرحمن وفدا سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ بعث بعد الموت دو قسم کی ہے ایک بعثت فردی اور ایک بعثت اجتماعی ۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ ہر انسان کو مرنے کے بعد ایک زندگی ملتی ہے مگر وہ فردی زندگی ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ جیسا کہ قرآن کریم سے بھی ثابت ہے اور حدیثوں میں بھی اس کی تفصیل آتی ہے ایک ایسی بعثت ہوگی جس میں تمام کے تمام انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اکٹھے کئے جائیںگے اور وہ بعثت اجتماعی اس بعثت فردی سے کچھ فرق رکھتی ہوگی ۔وہ لوگ جنہوںنے پورا غور نہیں کیا ان کے دماغ مشوّش ہوجاتے ہیں کہ ادھر تو کہتے ہیںکہ موت کے معاًبعد ایک نئی زندگی شروع ہوجاتی ہے اور اُدھر کہتے ہیںکہ ایک دن ساری دنیا اکٹھی ہوگی ۔ ان دونوںباتوں کا آپس میں جوڑ کیا ہوا؟ یہ اعتراض اسی لئے پید اہوتاہے کہ انہوں نے اس امر پر غور نہیں کیا کہ بعثتیں دو قسم کی ہیں ایک بعثت وہ ہے جو موت کے معاً بعد شروع ہوجاتی ہے او رجس میں انسان اگلے جہان کے انعامات یا عذاب محسوس کرنے کے لئے نئی طاقتیں حاصل کرتاہے ۔مگر اس کی یہ حالت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کسی کی طفولیت یا بچپن کا زمانہ ہوتاہے اس کے بعد جب سارے انسانوں کومجموعی طور پر ایسی طاقت حاصل ہوجائے گی کہ وہ وہاں کے ثواب اور عذاب کو کامل طور پر محسوس کرسکیں اور ان کی حالت ایک جان بالغ مرد کی سی ہوجائیگی جو دنیا کی نعمتوں سے پوری طرح حظ اٹھانے کے قابل ہوجاتاہے تو اس وقت تمام انسانوں کا حشر ہوگا جس میں مومن بھی شامل ہوںگے اور کافربھی ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں آل فرعون کاذکر کرتے ہوئے فرماتاہے کہ النار یعرضون علیھا غدوا وعشیا ویوم تقوم الساعۃ ادخلوا اٰل فرعون اشدالعذاب (مومن) یعنی آل فرعون پر صبح اور شام آگ پیش کی جاتی ہے لیکن جب قیامت کا دن آئے گاتو ہماری طرف سے حکم دیا جائے گا کہ آل فرعون کو اس سے بھی زیادہ شدید عذاب میں داخل کردو ۔اسی طرح حدیثوں میں آتاہے کہ قیامت کے دن تمام لوگوں کو دوزخ پر سے گذرنا پڑیگا جہاں ایک پل بچھایاجائے گا جو تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہوگا ۔ بعض لوگ تو اسپر سے بجلی کی طرح گذر جائینگے ۔بعض ہوا کی سی تیزی اختیار کریں گے اور گذرجائیںگے ۔ بعض پرندوں کی طرح اڑتے ہوئے گذر جائیںگے بعض گھوڑوں کی طرح دوڑتے ہوئے گذرجائیںگے بعض گھسٹتے ہوئے لولوں لنگڑوں کی طرح گزر جائیں گے اور کافر اور منافق کٹ کر نیچے گریں گے اور جہنم میںجاپڑیں گے ۔ غرض ایک حشر اکٹھا ہوگااور ایک انفرادی ہوگا ۔ یہ آیت اجتماعی حشر پردلالت کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ صرف انفرادی بعث ہی نہیں بلکہ ایک اجتماعی بعث بھی مقدر ہے ۔
نحشُرُ التقین الی الرحمن وفدا ۔ کے متعلق مفسرین نے بحث کی ہے کہ کیا وہ جنت کی طرف جائیںگے یا للہ تعالیٰ کی طرف ۔بعض نے کہا ہے کہ جنت کی طرف اور چونکہ وہ خداتعالیٰ کا گھر ہے اس لئے الی الرحمن کے الفاظ استعمال کرلئے گئے ہیں اور مراد یہ ہے کہ جو جنت کی طرف گئے وہ ایسے ہی ہیں ۔گویا وہ خدتعالیٰ کی طرف گئے اور اس کی مثال میں وہ سورئہ صافات میں سے حضرت ابراہیم ؑ کا وہ قول پیش کرتے ہیںکہ انی ذاھب الی ربی سیھدین (صافات) حضرت ابراہیم ؑ کنعان کی طرف ہجرت کرکے جاتے ہیںمگر کہتے یہ ہیں کہ اپنے رب کی طرف جارہا ہوںکیونکہ وہ مقام خدانے ان کے لئے چنا تھا جس طرح خدتعالیٰ کے منتخب کردہ مقام کی طرف ہجرت کرکے جانے پر حضرت ابراہیم ؑ نے یہ کہاکہ انی ذاھب الی ربی اسی طرح ان کے جنت کی طرف جانے کو نحشر المتقین الی الرحمن وفدا کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔اسی طرح حدیث بخاری میں آتاہے کہ من کانت ھجرتہ الی اللہ ورسولہ فھجرتہ الی اللہ ورسولہ یعنی جس کی ہجرت اللہ اور رسول کی طرف ہے وہ اللہ اور رسول کی طرف جاتاہے حالانکہ درحقیقت وہ مدینہ کی طرف گیا ہوتاہے ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ کسی موعود مقام یا چنے ہوئے مقام کی طرف جانا بھی خداکی طرف جانا کہلاتا ہے ۔ پس وہ کہتے ہیں کہ درحقیقت اس کے معنے جنت کی طرف جانے کے ہیں مگر چونکہ وہ خداکا گھر ہے اس لئے ان کاجنت کی طرف جانا گویا خداکی طرف جانا ہوگا ۔بعض نے کہاہے کہ نہیںوہ خداتعالیٰ کی طرف ہی جائیںگے بعض احادیث میں یہ آتاہے کہ پہلے وہ خدتعالیٰ کی طرف جائیںگے اور پھر جنت کی طرف ۔
یہ سب اختلاف اس وجہ سے ہے کہ خداتعالیٰ کو مجسم مانا گیا ہے اور پھر اسے ایک مقام میں محدود کیا گیا ہے ۔آیات قرآنیہ اور احادیث دونوں سے ظاہر ہوتاہے کہ خداتعالیٰ ہر جگہ ہے ۔مدینہ کو ہجرت ہو تو وہ مدینہ میںہے ۔حبشہ کو ہجرت ہو تو وہ حبشہ میں ہے اور خداتعالیٰ کے برگزیدہ بندے جہاں جائیںوہیں خداتعالیٰ موجود ہواہے بلکہ کفار کے لئے بھی وہ ہر جگہ ہوتاہے ۔قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔ والذین کفروا اعمالھم کسراب بقیعۃ یحسبہ الظماٰن ماء حتی اذا جائہ لم یجد ہ شیئا ووجد اللہ عندہ فوفّٰہ حسابہ (نور)
یعنی کافروں کے اعمال سراب کی طرح ہوتے ہیں جیسے کسی وادی میں سراب نظر آئے تو پیاسا آدمی اسے پانی سمجھ لیتاہے ۔مگر جب وہ پانی سمجھ کروہاں جاتاہے تو اسے پانی نہیں ملتالیکن اسے خدانظر آجاتاہے اور وہ اس سے سارا حساب لے لیتاہے ۔ گویا اس کا تباہی اور بربادی کے مقام پر پہنچنا خداکاملنا قرار دیاگیا ہے ۔اسی طرح مومنوں کے متعلق آتاہے کہ جہاں وہ جاتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ نظر آجاتاہے جیسے فرماتاہے اینماتولو فثم وجہ اللہ (بقرۃ) جس طرف بھی تم اپنا منہ کرو وہیں تم اللہ تعالیٰ کو موجود پاؤگے یا جیسے قرآن کریم میںہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کرکے فرماتاہے کہ ان الذین یبایعونک انما یباعون اللہ ید اللہ فوق ایدیھم (فتح) وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی بیعت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھ کے اوپر ہے ۔اب وہ ہاتھ تو محمد رسول اللہ ﷺ کا تھا مگر اسے خدا نے اپنا ہاتھ قرار دیدیا ۔اس میں بھی درحقیقت وہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ مومن جہاں جاتاہے اسے خدا نظر آجاتاہے ۔اسی طرح کافر کو بھی خدا نظر آجاتاہے مگر وہ اسے عذاب کی شکل میں نظر آتاہے ۔بہر حال اللہ تعالیٰ کا وجود کسی خاص جگہ میں محدود نہیں اور پھر وہ مجسم بھی نہیں۔ قرآن کریم میں ہی آتاہے کہ نحن اقرب الیہ من حبل الورید (ق) کہ ہم انسان کی رگ جا ن سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔پس وہ چیز جو ہمارا احاطہ کئے ہوئے ہے اور جو تجسم سے پاک ہے اور غیر محدود ہے ۔اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ کسی خاص جگہ پر بیٹھاہوا ہوگا اور مومن گھوڑوں پر چڑھ کر اس کی ملاقات کے لئے جارہے ہونگے بالکل نامعقول بات ہے ۔
احادیث میںآتاہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت علی ؓ نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے تو وفد سوارہی دیکھے ہیں۔ یہ خداتعالیٰ کی طرف جانے والے وفد کیسے ہونگے ۔یعنی جب بادشاہوں کی طرف ان کی ملاقات کے لئے وفد جاتے ہیں تو گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں نہایت اچھے اور قیمتی لباس پہنے ہوئے ہوتے ہیں اور بڑی شان کے ساتھ جاتے ہیں خداتعالیٰ کی طرف جو لوگ وفد کی صورت میں جائیںگے وہ کس طرح جائیںگے ؟ آپ نے فرمایا کہ جنت کے اونٹ ان کی سواری کیلئے لائے جائیںگے ۔ (قرطبی )
الثعلبی ؔ نے اسی روایت کو اس طرح نقل کیا ہے کہ جب خداتعالیٰ کو مل کرمومن نکلیںگے توان کے لئے سواریاںلائی جائیںگی یعنی پہلے وہ سوار ہو کر نہیںجائیںگے بلکہ پیدل جائیںگے ۔لیکن جب ملاقات کرکے نکلیںگے تو انہیںسواریاں دی جائیںگی ۔
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یاایھا الناس انکم لتحشرون الی اللہ حفاۃ عراۃ غرلا ۔ کہ اے لوگو ! تم کو جب خداکے سامنے اٹھایا جائیگا تو تم ننگے ہوگے اپنے پائوں سے بھی او رننگے ہوگے جسم سے بھی اور بے ختنہ کے ہوگے۔ اب جو بے ختنہ ننگے پائوں اور ننگے بدن ہوں گے ان کے لئے گھوڑوں یا اونٹوں پر سوار ہو کر جانیکا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بہرحال یہی تسلیم کرناپڑتا ہے کہ وہ پیدل جائیں گے چنانچہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ مومن جب خداتعالیٰ کو مل کرنکلیں گے تو ان کے لئے سواریاں لائی جائینگی وہ اس حدیث سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ جائیںگے ننگے اور پیدل اور آئینگے سوار اور ملبوس۔
یہاں بھی وہی غلطی کی گئی ہے ۔یہ سب محاورے ہیںجن کو ظاہر پر محمول کیا گیا ہے ۔وہاں کے لباس اور روح کی سواریاں اس دنیا کی نہیں ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ بعث کے معاًبعد ایک گھبراہٹ ہوگی ۔اس کے بعد فوراً مومن سنبھل جائیںگے اور اکرام اور اعزازسے نوازے جائیں گے اور حدیث شفاعت سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ اس وقت لوگ سخت گھبرائے ہوئے ہونگے مگر آہستہ آہستہ مومنوں کے دلوں میں ایک سکون اور اطمینان پیدا کردیا جائیگا اور انہیں تسلی دی جائیگی اور خداکے ملنے سے مراد اسی طرح ملنا ہے جس طرح ایک محدود شے غیر محدود سے مل سکتی ہے ۔ یہ نہیں کہ خداعرش پر بیٹھا ہوا ہوگا اور مومن گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہوکر اس سے ملنے کے لئے جائیں گے اس میں کوئی شبہ نہیںکہ مومن وہاں خداتعالیٰ سے ملیں گے مگر یہ ملاقاتیں اسی طرح کی ہونگی جس طرح اللہ تعالیٰ کے خاص بندے اسی دنیا میں اس سے ملاقات کیا کرتے ہیں۔ صرف اسقدر فرق ہوگا کہ اگلے جہان میں چونکہ ہمارامادی جسم نہیں ہوگا اس لئے وہ ملاقات زیادہ مکمل اورشاندار ہوگی ۔ یہ نہیںہوگاکہ اگلے جہان میں خدامحدود ہوجائے ۔جب ہم جو محدود ہیں وہاں غیر محدود ہوجائینگے تو خداجوغیر محدود ہے اس کے متعلق یہ خیال کرلینا کہ وہ محدود ہوجائیگایہ عقل کے بالکل خلاف ہے ۔ اگر ہم نے بھی وہاںان جسمانی بندشوںسے آزاد ہوجاناہے تو خداتعالیٰ کومحدود سمجھ لینا عقل کے صریح خلاف ہے ۔ بے شک حفاۃ عراۃ کے الفاظ ایسے ہیں جن سے بظاہر شبہ پڑتاہے کہ شاید وہاں مومن اسی طرح ملاقات کے لئے جائیںگے جس طرح یہاں پیدل اور سوار بادشاہوں کی ملاقات کے لئے لوگ جایا کرتے ہیں ۔مگر یہ شبہ بھی درست نہیں ۔رات کو انسان سویا ہوا ہوتاہے ۔اس وقت وہ ننگے پائوں ہوتاہے اور پھر کپڑے بھی اسنے زیادہ تر اتارے ہوئے ہوتے ہیں مگر پھر بھی اسے خدامل جاتاہے ۔
میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی ایک تحریر میں نے ایک دفعہ دیکھی جس میں یہ لکھا تھا کہ اے خدا!لوگ کہتے ہیں کہ میں تجھے چھو ڑدوں مگر میں تجھے کس طرح چھوڑ دوں جب ساری دنیا سورہی ہوتی ہے جب میرے دوست اور رشتہ دارمجھ سے علیحدہ ہوجاتے ہیں بلکہ میرانفس بھی مجھے چھوڑ کر الگ ہوجاتاہے اس وقت تو میرے پاس آتاہے اورکہتاہے کہ گھبرانہیںمیں تیرے ساتھ ہوں ۔اگر حضرت مسیح موعود ؑ کی سوئے ہوئے بھی خداتعالیٰ سے ملاقات ہوجاتی تھی تو روحانی طورپر اس میں کونسی تعجب کی بات ہے کہ سب مومن خداتعالیٰ سے اجتماعی طورپر ملیں اور وہ انہیں اپنے اکرام و انعام سے نوازے ۔ جب آدمی نیم بہوشی یاغنودگی کی حالت میں خداتعالیٰ سے مل سکتاہے تو ننگے بدن یا ننگے پیر ہونے کی حالت میں خداتعالیٰ سے کیوںنہیں مل سکتا؟ روحانی نقطہ نگاہ سے ایک ہی وقت میں انسان کا ننگے پیر ہونا ننگے بدن ہونااوراس کانامختون ہونا بھی ممکن ہے اور پھر خداتعالیٰ سے اس کا اعزاز واکرام کے ساتھ ملن بھی ممکن ہے ۔صرف اتنی بات ضرور ی ہے کہ ان امور کو ظاہر ی طورپر دیکھنے کی بجائے انسان روحانی طورپر دیکھنے اورسمجھنے کی کوشش کرے۔
بعض دفعہ انسان پیاسا لیٹتاہے اور کشف میں اسے محبت الٰہی کا پیالہ پلایا جاتاہے ۔جس سے اس کے ماد ی جسم میں بھی طراوت پیدا ہوجاتی ہے اور اس کی پیاس دور ہوجاتی ہے۔ اب گو اسے ایک پیالہ پلایا گیا جس سے اس کی پیاس بھی بجھ گئی مگر روحانی نقطہ نگاہ سے اس کے یہ معنے ہونگے کہ ہم نے اس کے دل میں اپنی محبت پیداکردی ہے ۔ اسی طرح جب رسول کریم ﷺ کے سامنے کشفی حالت میں پانی اور شراب اور دودھ کے پیالے پیش کئے گئے اور آپ نے صرف دودھ کا پیالہ لے لیا اورپانی اورشراب کا پیالہ رد کردیا ۔تو گو دودھ کے پیالہ کی یہ تعبیر تھی کہ آپ کی امت ہلاکت سے بچی رہے گی اوراسے الہٰی علوم سے ہمیشہ حصہ ملتارہے گامگر ہم تمثیلی طورپر یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے جسم نے اسوقت پیاس محسوس کی جس پر خدتعالیٰ کی طرف سے آپ کودودھ کا پیالہ دیاگیا اور اس کے پینے سے آپ کواسقدر سیری ہوئی کہ آپ کی پیاس بالکل جاتی رہی ۔سارے جھگڑے صرف اس وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ انسان ان باتوں کوجسمانیات کی طرف لے آتاہے حالانکہ ان کا تعلق جسمانیات سے نہیںبلکہ روحانیات سے ہے ۔ اگر انسان ہربات کوروحانی نقطہ نگاہ سے دیکھے اور سمجھے کہ ننگے پیر ہونابھی روحانی دنیا میں ایک مفہوم رکھتاہے ۔ننگے بدن ہونابھی ایک مفہوم رکھتاہے ۔نامختون ہونا بھی ایک مفہوم رکھتاہے ۔گھوڑوں اور اونٹوںپر سوار ہونابھی ایک مفہوم رکھتاہے تو خواہ اس سے بھی بڑھ کرعجیب وغریب حدیثیں آجائیں وہ فوراً سمجھ لیتاہے کہ وہاں کی روحانی کیفیات کا یہ ایک ظاہری نقشہ صرف ہمیں سمجھانے کے لئے کھینچا گیا ہے۔ ورنہ ہر ظاہر ایک باطن بھی رکھتاہے اور اصل چیز وہی باطن ہے جوخالص روحانی چیز ہے اور مادیات سے بہت بالا ہے ۔

اور مجرموں کو ہانکتے ہوئے جہنم کی طرف لے جائیں گے۔
حل لغات :
ساق الماشیۃ سوقا و سیاقا و اساق اسیاقا کے معنے ہوتے ہیں حثھا علی السیر من خلفاس نے سواری کوپیچھے کی طرف ہانکا یعنی اسے سونٹامارمار کر چلایا ۔ اس لئے وہ شخص جو اس لئے مقرر کیا جاتاہے کہ مجرموںکے پیچھے پیچھے چلے اور انکی نگرانی رکھے یا اونٹوں وغیرہ کے پیچھے چلے اسے سائق کہا جاتاہے اور ساق الحیث کے معنے ہوتے ہیں سردہیعنی اس نے بے تحاشالمبی باتیںشروع کردیں ۔
تفسیر :
عربی زبان میں جرنیل کوقائد کہتے ہیں اور قائد وہ ہوتاہے جوفوج کے آگے آگے چلتاہے ۔یورپین افواج میں جرنیل کا مقام بالعموم پیچھے ہوتاہے پس عربی کے لحاظ سے وہ سائق کہلا ئیگا قائد نہیں ۔ سائق جانوروں کے لئے ہوتاہے یامجرموںکے لئے کیونکہ وہ آگے بڑھنے میں خوشی محسو س نہیں کرتے۔جانور کی مرضی ہوتی ہے کہ میںجہاں جانا چاہوں جائوں اور آدمی کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اس سے کام لے یااسے پانی وغیرہ پلانے کے لئے لے جائے ۔پس جانور اپنی مرضی سے نہیںبلکہ اپنے مالک کی مرضی سے چلتاہے ۔اسی طرح مجرموں کا بھی جی نہیں چاہتاکہ وہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوں اس لئے ان کیلئے بھی ایک سائق ہوتاہے جو انہیں اپنی نگرانی میں مجسٹریٹ کی طرف لے جاتاہے ۔غرض مجرموںکے لئے اور یا پھر جانوروں کے لئے ساق کا لفظ استعمال ہوتاہے چنانچہ سائق اونٹوں کے چرواہے کو کہاجاتاہے ۔ اس طرح کمزوروں کیلئے بھی یہ لفظ استعمال ہوجاتاہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جب جنگ کے احکام نازل ہوئے تومومنوں میں سے ایک گروہ کی یہ حالت تھی کہ کانما یساقون الی الموت وھم ینظرون (انفال) وہ سمجھتے تھے کہ گویا وہ موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں بار بار یہ خیال اٹھتاتھا کہ ہمیں کہا جاتا تھاکہ رحم کرو ۔ہر ایک سے محبت کے ساتھ پیش آئو ۔حسن سلوک کرو ۔نرمی اور ملاطفت سے کام لومگر اب کہتے ہیںکہ جنگ کرو ۔پس اس وقت یہ انہیں ایسی چیز نظر آتی تھی جو عام تعلیم کے خلاف تھی اس لئے جب انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان کی طبیعتوں پرگراں گذرا ۔یہ نہیں کہ وہ نافرمانی کرنے کیلئے تیار ہوگئے تھے بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ انہیں یہ عجیب چیز نظر آئی کیونکہ اس میں ان کے لئے بڑی تلخی تھی اور انہیں اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں سے ہی لڑنا پڑتاتھا جن سے لڑنا ان پر طبعاً گراں گذرتاتھا مگر اسی فعل کے نتیجہ میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی اور وہ جنت کی طرف دھکیل دئیے گئے ۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ قرآن کریم میں صرف مجرموں اور کمزوروں کیلئے نہیں بلکہ مومنوں کے لئے بھی ساقکالفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ سورۃ زمر میں ہے ۔وسیق الذین اتقوا ربھم الی الجنۃ زمرا اگر سیق کے معنے زور سے اور دھکیل کر آگے کرنے کے ہیں تو اس کے کیا معنے ہوئے ؟ مفسرین نے تو یہ جواب دیا ہے کہ کفار کے لئے جونسوق کا لفظ آیا ہے اس کے معنے کفار کو دھکیل کرلے جانے کے ہیںلیکن مومن کے لئے یہ لفظ ان کی سواریوں کودھکیلنے کی مناسبت سے ہے ۔یعنی خداتعالیٰ ان کی آمد کا منتظر ہوگااور فرشتے ان کی سواریوں کو مارمار کر بھگارہے ہوں گے تا کہ جلد پہنچیں ۔
میرے نزدیک اس کے دوجواب اور ہیں ۔اول تو یہ کہ کفار کی نسبت اس سے پہلے آیا ہے کہ وسیق الذین کفروا الی جھنم زمرا پس آگے جوار کے لحاظ سے وہی لفظ مومنوںکی نسبت بھی استعمال کردیا ہے ۔ پس اس جگہ اس کے معنے صرف چلانیکے ہیں آگے یاپیچھے کا ذکر نہیں اور نہ اہانت عزت کی طرف اشارہ ہے صرف پہلے سیق کی متابعت میں یہ لفظ استعمال کیاگیاہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ کفار کی موجودہ حالت اور مومنوںکی سابق حالت کا اس لفظ سے نقشہ کھینچاگیا ہے ۔ کافرعذاب سے بھاگتاہے۔مومن نعمتوں اور آسائشوں سے بچتاہے ۔ وہ تو صرف زیارت باری کا خواہشمند ہوتاہے ۔پس مومنوں کی نسبت یہ لفظ رکھ کر بتایا ہے کہ جس طرح کافر تکلیف سے بچتاہے ، مومن آرام کی زندگی سے بچتاہے ۔مگر خداتعالیٰ اسے زبردستی دیتاہے ۔یہ ایساہی ہے جیسا کہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اچھا کھانا یا کپڑااستعمال نہیںکرتاجب تک کہ خدتعالیٰ اپنی ذات کی قسم کھاکرمجھے مجبور نہیں کرتاکہ میں اچھا کھانا کھائوں یا اچھا کپڑا پہنوں ۔پس مومنوںکے دلوں کی اس کیفیت کا نقشہ کھینچنے کے لئے یہ لفظ استعمال کیاگیاہے نہ یہ کہ ظاہری طورپر ان کو دھکیل کر جنت کی طرف لیجایا جائے گا۔
سائق کے مقابلہ میں قائد کا لفظ استعمال ہوتاہے ۔ قائد کا لفظ ایک طرف افسر کی بہادری پراو ردوسری طرف فوجوںکی بشاشت پر دلالت کرتاہے ۔ تیسرے اچھا نمونہ دکھاکر دوسروں کو تحریص دلانیکی طرف اشارہ ہوتاہے۔درحقیقت عمدہ لیڈر وہ ہوتاہے جس میں یہ تینوں باتیں پائی جائیںیعنی وہ اپنے نمونہ کے ساتھ فوج کو رغبت دلائے اور انہیں بتائے کہ میں بھی قربانی کرتاہوں تم بھی ہر قسم کی قربانی سے کام لو ۔پھر خود اس کے اندر ایسی بشاشت پائی جائے کہ وہ خداتعالیٰ کی راہ میں مرنے میں ایک لذت محسوس کرے کیونکہ قائد وہی ہوتاہے جواپنے ساتھیوں سے آگے دوڑ رہا ہوتاہے ۔سپاہی اسکے پیچھے پیچھے ہوتے ہیںاور وہ دشمن سے مقابلہ کرنے کیلئے آگے آگے جارہا ہوتاہے۔ اسی طرح کامیاب جرنیل وہ ہوتاہے جس کے سپاہیوں میں بھی بشاشت پائی جائے چنانچہ قائد کے لفظ میں اس طرف بھی اشارہ ہوتاہے کہ مجھے اپنے پیچھے دیکھنے کی ضرورت نہیں میرے ماتحت اپنے فرائض کا ایسا احساس رکھتے ہیں کہ وہ خود بخود میرے پیچھے چلے آئیں گے ۔غرض سائق اور قائد دو متقابل الفاظ ہیں ۔سائق پیچھے پیچھے چلتاہے او رقائد فوج کے آگے آگے چلتاہے اور اپنے نمونہ سے سپاہیوں کی ہمت بڑھاتااور ان کے اندر ایک نیا ولولہ اور نئی زندگی پیدا کرتاہے ۔امریکن تاریخ میں ایک نہایت ہی لطیف واقعہ بیان ہواہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ کامیاب لیڈر کس طرح اپنے نمونہ سے اپنے ساتھیوں کے دلوں کو فتح کیا کرتے ہیں۔
یونائیٹڈسٹیٹس امریکہ پہلے انگریزوں کے ماتحت ہوا کرتاتھاایک عرصہ کی غلامی کے بعد ان میں آزادی کی تحریک پیدا ہوئی مگر اس وقت انکی حالت یہ تھی کہ ان کے پاس مقابلہ کے لئے فوجیں نہیںتھیں اور نہ ہی کافی مقدار میں سامان جنگ موجود تھا اور انگریزوں کے پاس فوجیںبھی تھیں اور ہرقسم کاسامان جنگ بھی تھا ۔بہرحال جب تحریک آزادی شروع ہوئی تو زمینداروں اور مزدوروں وغیرہ نے اپنے آپ کو والنٹیرزکے طور پر پیش کرنا شروع کردیا اورسارے ملک میںانگریزوں کے خلاف ایک آگ لگ گئی ۔جب یہ تحریک زیادہ مضبوط ہوگئی تو انہوں نے اپنے میں سے ایک افسر مقرر کیا جس کانام واشنگٹن تھا اسی کے نام پربعد میں امریکہ میں واشنگٹن شہر بنایا گیا ہے ۔یہ ایک سیدھا سادہ آدمی تھا ۔جنگی فنون میںکچھ زیادہ مہارت نہیںرکھتاتھامگر اخلاص اور درد قومی اس کے اندرموجود تھا ۔وہ سارے ملک میں چکر لگاتاتقریریں کرتا اور لوگوں کو ابھارتاکہ آزادی بڑی نعمت ہے اس کے لئے جدوجہد کرو ۔ایک دفعہ وہ اپنے ملک کاچکر لگارہا تھاکہ اس نے ایک جگہ پر دیکھا کہ کوئی قلعہ بن رہا ہے اور کارپورل نگرانی کے لئے پاس کھڑا ہے ۔کام کرنے والے صرف چار پانچ سپاہی تھے اتفاقاً ایک دوشہتیر ایسے آگئے کہ ان کا اوپر چڑھانا مشکل ہوگیا ۔وہ زور لگالگاکر اوپر کھینچتے مگر وہ پھر نیچے گرجاتے اور وہ کارپورل پاس کھڑاانہیں کہتا جاتاکہ شاباش خوب زور لگائو ۔شاباش ہمت نہ ہارو مگر آگے بڑھ کر ان کی مدد نہیںکرتاتھا ۔اسی دوران میں واشنگٹن وہاں سے گذرا ۔وہ اس وقت ایک سفید گھوڑے پرسوار تھا ۔اس نے جب یہ نظارہ دیکھاتو اپناگھوڑاروک لیا اور پوچھا کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔ لوگوں نے بتایاکہ انگریزی فوج آرہی ہے اس کے مقابلہ کے لئے ہم یہ قلعہ بنارہے ہیں تاکہ سپاہی اس میں ٹھہر سکیں اس نے کہا پھر اس قلعہ کے بننے میں دقت کیاہے ؟ انہوں نے کہا دقت یہ ہے کہ شہتیر بہت بھاری ہیںاورہم سے اوپرچڑھائے نہیںجاتے اس نے کارپورل سے پوچھاکہ تم ان کی کیوں مددد نہیںکرتے ؟ اسنے کہاکہ میں تو افسرہوں ۔میرافرض یہ ہے کہ میں ان سے کام لوں اور ان کی نگرانی کروں واشنگٹن نے یہ بات سنی تو فوراً اپنے گھوڑے پرسے اترا اور سپاہیوں کے ساتھ مل کر اسنے کام کرناشروع کردیا یہاں تک کہ شہتیر اوپر چڑھ گئے ۔جب کام ہوچکا اوروہ گھوڑے پرسوار ہو کرواپس جانے لگاتو کارپورل نے اسے کہا کہ میں آپ کااپنی طرف اور اپنی قوم کی طرف سے شکریہ اداکرتاہوں ۔کہ آپ نے اس مشکل کام میں ہماری مدد کی ۔واشنگٹن نے جواب میں کہاآپ کی مہربانی میں صرف اس قدر کہناچاہتاہوںکہ جب کبھی آپ کسی ایسی مصیبت میں پھنس جائیںکہ آپ کو دوسرے کی کی مدد کی ضرورت ہو ۔تو اپنے کمانڈرانچیف واشنگٹن کوبلالیاکرنا۔
یہ قائد کی مثال ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہر کام کے لئے پیش کردیتاہے اورقربانی کے وقت وہ دوسروں سے پیچھے نہیں بلکہ ان کے آگے آگے ہوتاہے اوراپنے نمونہ سے ان کے اندر کام کی تحریص پیداکرتاہے ۔اگر کسی اعلی درجہ کے قائد کے ہوتے ہوئے بھی لوگ اس کے نمونہ سے فائدہ نہ اٹھائیں تو یہ ان کی بڑی بدقسمتی ہوتی ہے۔
ہم نے خدام کے افسروں کانام بھی قائد اسی لئے رکھا ہے کہ وہ اپنے نمونہ سے لوگوں کے دل فتح کریں ۔
وزداً کے معنے پانی پرانے کے ہوتے ہیںچنانچہ لغت میںلکھاہے الورد۔۔۔۔ اسی طرح اس کے معنے پیاس کے بھی ہوتے ہیں۔اس کے معنے پانی کے حصہ کے بھی ہوتے ہیںاورورد کے معنے اس پانی کے گھاٹ کے بھی ہوتے ہیں جس پرلوگ آتے جاتے ہیںتاکہ پانی وغیرہ پئیں اوراس کے معنے اس قوم کے بھی ہوتے ہیں جوکسی پانی والی جگہ پرجمع ہوجاتی ہے ۔اس آیت میںبتایا گیاہے کہ کفار کا حشر بھی اجتماعی ہوگا۔مگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہونے سے گھبرائینگے ۔اسلئے ان کو مارمار کر اکٹھا رکھا جائیگا ۔اور آخر وہ جہنم کی طرف دھکیلے جائیںگے اس حالت میں کہ وہ ایسی جگہ پر جانے کے محتاج ہوںگے جہاں انکی پیاس بجھے ۔یہا ں الفاظ ان کے عذاب کی شدت پر دلالت کرتے ہیں یعنی وہ ا سبات کے محتاج ہوںگے کہ ان کو کوئی ایسا مقام ملے جہاں وہ آرام کریں اور انہیں پینے کیلئے پانی ملے ۔اگر باوجود اس شدید احتیاج کے انکومارمار کر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا اور وہ اتنا خطرناک اور تکلیف دہ مقام ہوگاکہ وہ اسکی طرف رخ کرنا بھی پسند نہیںکریں گے۔
آیت نمبر۸۸
ترجمہ :۔ اس دن کسی کو شفاعت کا اختیار نہ ہوگا سوائے اس کے جس نے (خدائے )رحمان سے عہدلے چھوڑا ہے ۔ ۷۱؎
۷؎ حل لغات :۔ لغت میں لکھا ہے الشفع ۔۔۔۔ یعنی شفع اس بات کوکہتے ہیںکہ کسی چیز کو اپنی ہم جنس اور مشابہ چیز کے ساتھ ملالیا جائے وقیل ۔۔۔۔ اور شفع کے معنے مخلوقات کے بھی ہوتے ہیں من حیث ۔۔۔۔۔ کیونکہ دنیا میں جتنی چیزیں ہیں وہ ساری کی ساری مرکب ہیں کماقال۔۔۔۔۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ہم نے ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے ۔
اسی طرح شفاعت کے متعلق لکھا ہے ۔الشفاعت۔۔۔۔۔۔۔ یعنی شفاعت کے معنے ہیں کسی شخص کا دوسرے کے ساتھ اس طرح پر مل جانا کہ وہ اس کا مددگار ہوجائے اور اس کے متعلق سوال کرنے والا بن جائے اور اس لفظ کا اکثر استعمال کسی اعلیٰ چیز کے ساتھ ادنیٰ چیز کو ملانے پرکیا جاتاہے ۔ یعنی دوسری چیز جس کو ساتھ ملایا جاتاہے وہ مثل تو ہوتی ہے لیکن درجہ اور مقام کے لحاظ سے وہ ادنیٰ ہوتی ہے انہی معنوں میں وہ شفاعت بھی ہے جو قیامت کے سن ہوگی جیسا کہ اللہ تالیٰ قرآن کریم میںفرماتاہے کہ لایملکون۔۔۔۔۔اسی طرح فرماتاہے مامن ۔۔۔۔
۷۱؎ تفسیر:۔
اوپر کے معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شفاعت کی تھیوری بالکل حل ہوجاتی ہے ۔مسلمانوں میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتاہے کہ ہر مسلمان جس نے کلمہ پڑھ لیا اسکی قیامت کے دن رسول کریم ﷺ شفاعت فرمائیگے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ شفاعت ہے ہی گنہگاروں کے لئے اور وہ بڑے فخر سے کہا کرتے ہیں ۔ ؎ کہ مستحق شفاعت گنہگار انند ۔
حالانکہ شفاعت کے لئے محمد رسول اللہ ﷺ کا مثیل ہونا ضروری ہے ۔او ر وہی شخص آپ ﷺکی شفاعت کا مستحق ہو سکتاہے جس نے پوری کوشش کی کہ وہ رسول کریم ﷺ جیسا بنے مگر بعض کوتاہیوں کی وجہ سے وہ اپنے اس ارادہ میں سوفی صدی کامیاب نہ ہوسکا اس کی اس کمی کو پوراکرنے کے لئے رسول کریم ﷺ خداتعالیٰ کے حضور درخواست فرمائیں گے کہ خدایا اس شخص نے میرا مثیل بننے کے لئے پوری کوشش کی ہے مگر بعض کمزوریوں نے اسے اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب نہیں ہونے دیا۔میں تجھ سے درخواست کرتاہوں کہ تو اس پر رحم فرما اور اس کی کوتاہیوں کو نظر انداز فرماتے ہوئے اسے بھی اپنے قرب سے حصہ دے ۔پس شفاعت گنہگار کے لئے نہیں بلکہ اس کے لئے بھی قانون مقرر ہیں ۔چنانچہ پہلا قانون یہی ہے کہ وہ شفاعت کرنے والے کامثیل ہو ۔اگر وہ مثیل نہیں ہوگا تو اس کی شفاعت نہیں کی جائے گی ۔
دوسراقانون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو ۔چنانچہ لایسوشفعون۔۔۔۔ میں یہی بات بیان کی گئی ہے کہ شفاعت کامستحق بننے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص سے راضی ہو
تیسرا قانون یہ ہے کہ شفاعت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا اذن حاصل ہو جیسا کہ وہ فرماتاہے مامن۔۔۔۔۔ کوئی شخص اس وقت تک شفیع نہیں بن سکتاجب تک شفاعت کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن نہ ہو اگر محض گناہ شفاعت کا موجب ہوتاجیسا کہ مسلمانوں میں عام طورپر خیال پایا جاتاہے تو شفاعت کے لفظ اور رضا اور اذن کی شرط کی کیا ضرورت تھی پھر تو کہنا چاہئے تھاکہ جو بھی گنہگارہوگا محمد رسول اللہ ﷺ قیامت کے دن اس کی شفاعت فرمادیں گے ۔
حقیقت یہی ہے کہ جب تک کوئی شخص رسول کریم ﷺ کا مثیل نہ بن جائے اس وقت تک وہ آپ کی شفاعت کامستحق نہیں ہو سکتا۔اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے تم بازار میں جائو اور دوکاندار سے کہو کہ مجھے اچھی قسم کے لنگڑے آم دو ۔وہ چند اچھے آم نکال کرتمہیںدے دیتاہے اور تم انہیں ٹوکری میں ڈال لیتے ہو ۔اب اگر تمہیں ضرورت زیادہ ہے اور ویسے آم تمہیں اورنہیںمل سکتے تو تم دکاندار سے کہو گے کہ اس سے ملتے جلتے اگر کچھ چھوٹے سائز کے آم ہوں تو وہ بھی رکھ دو۔چنانچہ باوجود اس کے کہ لنگڑے آم کا سائز اور ہوگا اس وجہ سے کہ تمہیںضرورت ہوگی تم ذرا چھوٹے سائز کے آم بھی لے لوگے اور کہو گے کہ یہ آپس میں ملتے ہی ہیں اگر ان کا سائز کچھ چھوٹاہے تو کیا ہوا ۔لیکن تم اس کی جگہ کوئی ٹوٹی ہوئی جوتی نہیںرکھوگے تم اس کی جگہ کیلے کا چھلکا نہیں لے آئو گے ۔تم اس کی جگہ آم کی گٹھلیاں نہیںلے آئو گے تم بہر حال آم ہی لائو گے خواہ وہ سائیز میں کچھ کم ہی ہوں ۔اسی طرح شفاعت میںبھی ایک مشابہت کا پایاجانا ضروری ہے ۔شفاعت کے معنے یہ ہیں کہ ایسے انسان جو کوشش کریں گے کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ ان کے متعلق خداتعالیٰ کے حضور عرض کریں گے کہ خدایا انہوں نے میرامثیل بننے کی کوشش کی تھی لیکن ان کے اعمال میں کچھ کمی رہ گئی اب اس کمی کوتو اپنے فضل سے پورا فرمادے ۔یہ نہیںکہ حرام کاری کررہے ہیں فساد کررہے ہیں ۔قتل کررہے ہیں جھوٹے نعرے لگارہے ہیں ناکردہ گناہ لوگوں پر الزام لگارہے ہیں ۔اور ساتھ ساتھ کہہ رہے ہیں ؎ کہ مستحق شفاعت گنہگار انند
جوشخص پوری کوشش کرتاہے کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر چلے جو شخص پوری کوشش کرتاہے کہ وہ صحابہ ؓ کے نقش قدم پر چلے لیکن باوجود اس کوشش اور جدوجہد کے اس کے اعمال میں کچھ کمی باقی رہ جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس جدوجہد اور کوشش کی محمد رسول اللہ پر انکشاف فرمائے گا اور آپ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے لئے رحم کی درخواست کریںگے اور فرمائیںگے کہ اس شخص نے کوشش تو کی تھی لیکن پیچھے رہ گیا ۔اب تو اپنے فضل سے اس کی کمی کو پور افرمادے یہی لغت والے لکھتے ہیں کہ شفاعت کے لئے ہم مثل ہوتاایک لازمی امر ہے ۔کیونکہ ایک قسم کی جب دوچیزیں ہوں جن میں سے ایک ادنیٰ ہو اور ایک اعلیٰ ،توادنیٰ کو اعلیٰ سے ملانے کوشفاعت کہاجاتاہے ۔یہی حقیقت اللہ تعالیٰ اس آیت میں بیان فرماتاہے کہ لایملکون۔۔۔۔۔ اس دن کسی کو شفاعت کا اختیار نہ ہوگا۔سوائے اس کے جس نے خدائے رحمن سے عہد لے چھوڑاہے اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح ؑ جس کو عیسائی خداکا بیٹاقرار د یتے ہیں اس کو شفاعت کا کوئی حق حاصل نہیںہوگاکیونکہ شفاعت کے ذکر کے ساتھ ہی یہ کہا گیاہے کہ خدا کابیٹاقرار دینابڑے گناہ کی بات ہے ۔پس یہ کیونکر ہوسکتاہے کہ جس چیز کاخیال بھی خداتعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو وہی چیز جس شخص کی طرف منسوب کی جارہی ہو اسے شفاعت کاحق حاصل ہو ۔اس جگہ الامن۔۔۔۔ سے مراد رسول کریم ﷺ ہیں جن کو خداکی وحی نے بتایا کہ قیامت کے دن ان کی شفاعت قبول کی جائے گی۔
چنانچہ حضر ت جابربن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے پانچ خصوصیتیں ایسی عطافرمائی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے اور کسی نبی کو نہیں ملیں (۱) مجھے ایسا رعب عطاء فرمایا گیا ہے کہ مہینہ بھر کی مسافت پر بھی دشمن مجھ سے لرزہ براندام رہتاہے ۔(۲) میرے لئے زمین کے چپہ چپہ پرخدائے واحد کی عبادت کرنا جائز قرار دیا گیاہے (۳) غنائم کے اموال میرے لئے حلال کئے گئے ہیں (۴)سابق انبیاء صرف اپنی اپنی قوموں کی طرف مبعوث ہوئے تھے مگر مجھے اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کے لئے مبعوث فرمایا ہے ۔(۵) اور مجھے قیامت کے دن شفاعت کا حق دیا گیا ہے ۔ (بخاری کتاب الصلوۃ باب جعلت لی الارض مسجداہ طہورا)
اسی طرح حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن جب تمام انبیاء شفاعت سے انکار کرینگے اور میں خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں جھکا ہواہونگا تومجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا جائے گاکہ اے محمد رسو ل اللہ ﷺ سجدہ سے اپنا سر اٹھا اور اللہ تعالیٰ سے مانگ کہ تجھے دیا جائے گا اور اس کے بندوں کی شفاعت کر کہ تیری شفاعت قبول کی جائیگی ۔(بخاری کتاب التفسیر زیر آیت ذری من حلملامع نوح)
سورئہ زخرف میں بھی اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کے شفیع ہونے کاذکر کرتے ہوئے فرماتاہے ۔تبارک۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ بڑی ہی برکت والی ذات ہے جس کے قبضہ و تصرف میں زمین و آسمان کی بادشاہت ہے ۔اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اس کا بھی وہی بادشاہ ہے اور قیامت کا علم بھی صرف اسی کوحاصل ہے اور تم سب کو اسی کی طرف لوٹایا جائے گا ۔اور وہ معبودان باطلہ جن کو یہ لوگ خدا کے سوا پکارتے ہیں ہرگز شفاعت کا اختیار نہیںرکھتے۔صرف وہی شفاعت کا حق رکھتاہے جوسچ کی گواہی دے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ اور کفار اس حقیقت کو اگر وہ غور کریں توخوب سمجھ سکتے ہیں اس آیت سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ شفاعت کامقام صرف محمد رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہوگا۔اور کسی کو نہیںاور یہی بات اس جگہ بیان کی گئی ہے۔
آیت نمبر۸۹
ترجمہ :۔ اور یہ (لوگ) کہتے ہیںکہ (خدائے )رحمان نے بیٹابنالیاہے ۷۲؎
۷۲؎ تفسیر:۔
فرماتاہے یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ انہیں مسیح کی شفاعت حاصل ہوگی ۔حالانکہ ان کومسیح کی شفاعت کس طرح حاصل ہوسکتی ہے مسیح ؑ تو ہمارا موحد بندہ تھا اور یہ مسیح کو خداتعالیٰ کا شریک ٹھہرارہے ہیں جب یہ ہمارے موحد مسیح کے ساتھ مشابہت ہی نہیں رکھتے تو انہیںاس کی شفاعت کس طرح حاصل ہوسکتی ہے ۔شفاعت مثیل کے لئے ہوسکتی ہے اوریہ اس کے مثیل نہیں ۔یہ لوگ مسیح کی تعلیم کے سراسر خلاف خدائے رحمان کی طرف ولد منسوب کررہے ہیں۔حالانکہ رحمن اور ولد ہونا متضاد ہوتے ہیں اور خداتعالیٰ رحمن ہے اس کایہ مطلب نہیں کہ وہ خداتعالیٰ کو رحمن مانتے ہیں وہ ایسانہیںمانتے لیکن دلیل کا ایک طریق یہ بھی ہوتاہے کہ خواہ مخالف مانے یانہ مانے جب ایک واقعہ ظاہر ہو تو اس واقعہ ثابتہ کے ساتھ نتیجہ کو ملادیا جاتاہے ۔یہاں بھی اسی طرح کیا گیا ہے ۔بے شک وہ نہیں مانتے کہ خدارحمن ہے مگر چونکہ حقیقت یہی ہے کہ وہ رحمان ہے اور رحمن خداولد کامحتاج نہیں ہوسکتااس لئے عیسائیوں کا دعویٰ یقینا غلط ہے اور اس غلط ادّعا کے بعد یہ امید رکھنا کہ ہمارے حق میںشفاعت ہوگی بڑی بھاری غلطی ہے ۔
آیت نمبر۹۰
ترجمہ :۔ (توکہہ دے ) تم ایک بڑی سخت بات کہہ رہے ہو ۔ ۷۳؎
۷۳؎ حل لغات :۔ ادّا کے معنی ہیں امراً۔۔۔۔۔ ایساناپسندیدہ امرجس پر لوگوںمیں شورمچ جائے ۔دنیا میں ناپسندیدہ اعمال کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ایک ناپسندیدہ امر ایساہوتاہے جس کو لوگ دیکھتے ہیںتو ہنس کے چلے جاتے ہیں ۔ایک ناپسندیدہ امر ایسا ہوتاہے جس کو لوگ دیکھتے ہیں تو اغماض کر لیتے ہیں ۔ایک ناپسندیدہ امر ایسا ہوتاہے جس کو لوگ دیکھتے ہیںتو گھورتے ہوئے چلے جاتے ہیں لیکن ایک ناپسندیدہ امر ایسا ہوتاہے جس کو لوگ دیکھتے ہیںتو شور مچادیتے ہیں کہ یہ کیا ہوا ۔ادّا کے معنے ایسے ہی ناپسندیدہ فعل کے ہیںجس کو فطرت تسلیم کرنے سے انکار کردے اور لوگوں میں شور برپا ہوجائے کہ یہ کیا ہوگیا۔
۷۳؎ تفسیر:۔
شرک کی انتہائی برائی بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ تم نے ایک ایساکام کیا ہے جو فطرت صحیحہ کے خلاف ہے اورجس کے متعلق اپنی ناپسندیدہ گی کے جذبات کے اظہار سے کوئی شریف آدمی رک نہیں سکتا۔یہ کسی فعل کی حددرجہ کی ناپسندیدگی کا ثبوت ہوتاہے کہ اس کے خلا ف ہر انسان بے تحاشا احتجاج کرنے پرتیار ہوجائے اور اسے کسی صورت میں بھی برداشت کرنے پر آمادہ نہ ہو ۔اس میں بتایا گیا ہے کہ شرک ایک ایسا فعل ہے جس کو ماننے سے فطرت انکار کرتی ہے اور یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب عیسائیت اسلام کے اعتراضات سے ڈرکر خود تثلیث کے اور معنے کرنے لگ گئی ہے ۔مگر عجیب بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ تو کہتاہے کہ اس کے خلا ف ہر انسان کو آواز اٹھانی چاہئے مگر اس زمانہ میںجو لوگ اس فتنہ کے خلاف آواز اٹھار ہے ہیں اور خداتعالیٰ اور خداتعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے رات دن کو ششیں کررہے ہیں وہی مسلمان کہلانے والوں کی نگاہ میں کافراور بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔وہ عیسائیوں کے ساتھ جو مسیح کو خداکاشریک قرار دیتے ہیںتو محبت کے ساتھ پیش آتے ہیں مگر جو توحید کے قیام کے لئے عیسائیوں کوتبلیغ کرتے ہیںان کو کافر قرار دیتے ہیں۔
آیت نمبر۹۱‘۹۲
ترجمہ:۔ قریب ہے کہ (تمہاری بات سے )آسمان پھٹ کر گرجائیں اورزمین ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے ۔او پہاڑریزہ ریزہ ہو کر زمین پر جاپڑیں ۔اس لئے کہ ان لوگوں نے (خدائے )رحمان کا بیٹاقرار دیا ہے ۔۷۴؎
۷۴؎ حل لغات :۔ تفطر ۔۔کے معنے ہوتے ہیں کسی چیز کااپنے اندر سے ضعف کی وجہ سے ٹوٹ جانا ۔چنانچہ تفطر۔۔۔ کے معنے ہوتے ہیں ۔انشق۔۔۔ وہ چیز پھٹ گئی اور تفطرت۔۔۔ کے معنے ہوتے ہیںتصدعت۔۔۔ یعنی زمین پھٹ کر اندر سے سبزی نکل آئی اور تفطر۔۔۔ کے معنے ہوتے ہیںبد۔۔۔ شاخ کے پتے نکلنے شروع ہوگئے گو یا کسی چیز کے اندر سے جب کوئی چیز باہر نکلنی شروع ہوجائے تو اس کیلئے تفطر کا لفظ استعمال کیا جاتاہے ۔اس کے معنے یہ ہوتے ہیںکہ وہ چیز آپ ہی آپ پھٹ گئی ہے اورفطر کے معنی کسی چیز کو نئے سرے سے شروع کرنے کے ہوتے ہیں۔
ھدا کے متعلق لغت میںلکھا ہے کہ الھدۃ۔۔۔ یعنی دیوار کااس زور سے گرناکہ اس کے گرنے سے آواز پیدا ہو اسے ھدا کہتے ہیں اگر کوئی دیوار آہستگی ہے گرجائے اور آواز پیدانہ ہو تو اس کیلئے ھدا کالفظ استعمال نہیں ہوگا۔ھداکالفظ اسی وقت استعمال ہوگا جب وہ اس زور سے گرنے کہ ساتھ ہی آواز بھی پیدا ہو۔
۷۴؎ تفسیر:۔
اس آیت میںاللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ شرک کے خلاف آسمانوں کے اندر ایسا جوش پیدا ہوگیا ہے کہ یوں معلوم ہوتاہے وہ اس جوش کی وجہ سے پھٹ جائیںگے اور زمین میں بھی ایسا اندرونی جوش پیدا ہوچکا ہے کہ اس کا سینہ چاک ہو جائے گا اور پہاڑوں پر بھی اس کا اتنا اثر ہے کہ قریب ہے کہ وہ بھی بیتاب ہوکر یکدم گرجائیںاور ان کے گرنے سے ایک شور برپا ہوجائے ۔یعنی یہ دعویٰ آسمان ااور زمین اور پہاڑوںکے لئے گراںہے آسمانوں کیلئے اس لئے گراں ہے کہ یہ آسمانی تقاضوں کے خلاف ہے ۔ صفات الیٰہہ اور ملائکہ کا تصور سب اس کے متباعد ہیں اور زمین بھی اس کے خلاف ہے یعنی فطرت صحیحہ بھی اس کے خلاف ہے اور پہاڑوںکا وجود یعنی ترقی کے جذبات اور احساسات جوفطرت کا ایک اعلیٰ مقام ہے وہ بھی اس کے خلاف ہے۔کیونکہ انبیت کفار ہ کی متلزم ہے اور کفارہ انسان کی اعلیٰ درجہ کی ترقیات کے خلاف ہے اور انسان کی پستی پردلالت کرتاہے ۔جوکچھ عیسائت کفارہ اور انبیت سے ثابت کرتی ہے اسلام اسے انسانکی اعلیٰ ترقیات سے قابل حصول قرار دیتاہے۔پس جبال بھی اس کے وجود کے خلاف ہیںگویا آسمان اور زمین اور جبال اپنے مطابق روحانی وجودوں کی طرف اشارہ کرنے کے لئے آتے ہیں۔او جہاں بھی انسان کی اعلیٰ ترقیات کے حصول پر عتراض کیاجائے گا اورجہاں بھی اللہ تعالیٰ کے رحم اور اس کے عفو اور اس کی مہربانی کی صفات کو نظر انداز کیا جائے گا لازماً اس سے آسمان بھی پھٹے گاکیونکہ خدابھی اسے ناپسند کریگا اور فرشتے بھی اسے ناپسند کریںگے اور زمین بھی پھٹے گی کیونکہ انسان بھی اس کو ناپسند کریگا اور جبال بھی پھٹیں گے کیونکہ انسانوں میں سے جو اعلیٰ درجہ کے انسان ہیںیعنی خداتعالیٰ کے انبیاء وہ بھی اس کوناپسند کریںگے۔
عام انسان اس تعلیم کواس لئے ناپسند کرے گا کہ وہ کہے گایہ تعلیم میرے لئے ہرقسم کی ترقی کا راستہ بند کردیتی ہے ۔
اعلیٰ انسان اس لئے اس تعلیم کوناپسند کرے گا کہ وہ کہے گا یہ تو میری تجربہ شدہ چیز ہے اورمجھے مل چکی ہے اب یہ کیا کہہ رہے ہیںکہ ایسی ترقی کسی انسان کو حاصل نہیںہوسکتی۔اور اللہ اور اس کے فرشتے اس لئے ناراض ہونگے کہ ہم تو اپنی نعمتیں ان کودے رہے ہیںاور یہ کہہ رہے ہیں کہ خداتعالیٰ ایسا نہیں کرسکتاپس انسان اس کی مخالفت کرے گااور کہے کہ عجیب بات ہے میرے لئے ایک ہی امید کا سہارا تھاوہ بھی اس تعلیم نے توڑ دیا ۔اعلیٰ انسان اس تعلیم کی مخالفت کرے گا اورکہے گامیں نے تو ا پنی آنکھوںسے خداتعالیٰ کے انعامات کو نازل ہوتے دیکھاہے یہ کیا بکواس ہے کہ ایسے انعامات کسی انسان کو حاصل نہیںہوسکتے اور پھر خدااور اسکے ملائکہ بھی ناراض ہوں گے کہ ہم تواپنی نعمتوں سے ا نہیں حصہ دے رہے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو معاف نہیں کرسکتا ۔کسی کی توبہ قبول کرکے اسے اپنے قرب میںجگہ نہیں دے سکتاپس آسمان اور زمین اور جبال تینوں اس کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے یعنی آسمانی ہستیاں اس کو ناپسند کریں گی اور ان کے دل پھٹ جائیںگے ۔اسی طرح انسانکی فطرت بھی اس کو دیکھ کرچلا اٹھے گی ۔وتخر۔۔۔ اور پھر اس صدمہ سے جو اعلیٰ درجہ کی روحانی ہستیاں ہیں وہ بھی گھبرا کر کہیں گی کہ یہ کیا ظلم ہو رہا ہے ہمیں ایک چیز ملی ہوئی ہے اور یہ لوگ کہتے ہیںکہ وہ مل ہی نہیں سکتی ۔
منکرین الہام سے جب بھی میری گفتگو ہوتی ہے میں انہیںکہاکرتاہو ںکہ میںتمہاری دلیلوں کو کیا کروں جبکہ خدا مجھ سے خود ہم کلام ہوتاہے اگر خداتعالیٰ کی طرف سے مجھ پر الہامات نازل نہ ہوتے توشاید میںخیال کرلیتاکہ تمہاری دلیلوں میں کچھ وزن ہوگا لیکن اب ان دلائل کا مجھ پر کیا اثر ہوسکتاہے جبکہ خود مجھ پر الہامات نازل ہوتا ہیں۔مجھے تویہ دلیلیں سنکر ہنسی آتی ہے کہ خداموجود ہے اس کاکلام ہم پرنازل ہوتاہے اوردلائل یہ دئیے جارہے ہیںکہ ایسا نہیںہوسکتا۔پھر جو چیز میںنے دیکھ لی ہے حالانکہ میںمحمد رسول اللہ ﷺ کے خادموں میں سے ہوںاس کے متعلق میں یہ کس طرح تسلیم کرسکتاہوں کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ یاحضرت مسیح موعودؑ نے نہیںدیکھی ہوگی جب نیچری کہتے ہیںکہ رسولکریم ﷺ کے خیالات عالیہ کانام قرآن ہے توسن کر ہنسی آتی ہے کہ جب ہمیں معین الفاظ میں الہام ہوتے ہیںتو رسول کریم ﷺ کی شان تو بہت بالا ہے ۔ آپ پر خدائی الفاظ میں ہی قرآن کیوں نازل نہیں ہوسکتا تھا تخر۔۔۔ میں اسی طرف اشارہ کیا گیاہے کہ جواعلیٰ درجہ کے روحانی لوگ ہیں اور جنہوںنے ان تمام انعامات کا مشاہدہ کیا ہوا ہے وہ اسبات کوسن کر ایسا محسوس کریں گے کہ گویا وہ سارے مقامات جو ان کو حاصل ہیں ان کو انہوںنے گرادیاہے۔
آیت نمبر۹۳
ترجمہ :۔ اور (خدائے)رحمن کی شان کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ کوئی بیٹابنائے ۷۵؎
۷۵؎ تفسیر:۔
عیسائیوںکا عقیدہ ابنیّت خداتعالیٰ کی صفت رحمانیت کے بالکل خلاف ہے یہی وجہ ہے کہ عیسائیت خداتعالیٰ کو رحمان تسلیم نہیں کرتی او وہ دنیا کی نجات کیلئے بیٹے کی قربانی کا تصور پیش کرتی ہے ۔اگر یہ درست ہے کہ خداتعالیٰ لوگوں کے گناہوںکو معاف نہیں کرسکتا تھا اور اس نے اپنے بیٹے کو قربان کرکے لوگوںکوبچالیا تو اس کی رحمانیت کہاں گئی ۔یہ بخشش کاکام تو اسکی رحمانیت نے کرناتھا اسیلئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتاہے کہ الرحمن ۔۔۔ یعنی کلام الٰہی جو بنی نوع انسان کی ہدیت کیلئے نازل ہوتا ہے خداتعالیٰ کی صفت رحمانیت کاہی نتیجہ ہوتاہے ۔لوگوں کی گمراہی کودیکھ کر خداتعالیٰ کی صفت رحمانیت جوش میں آتی ہے اور جس طرح ظاہری عالم میں بغیر مانگنے کے اس نے ہزاروں ہزارنعمتیں پیداکردی ہیں اسی طرح روحانی عالم میں وہ کلام الٰہی نازل کرتاہے جس پرعمل کرکے دنیانجات پاجاتی ہے ۔
آیت نمبر۹۴
ترجمہ:۔ کیونکہ ہرایک جو آسمانوں اورزمین میں ہے وہ (خدائے )رحمن کے حضور میں غلام کی صورت میں حاضر ہونیوالا ہے ۷۶؎
۷۶؎ تفسیر :۔
یعنی جب ہرچیز اسکے تابع فرمان ہے توپھر بیٹے کی کیا ضرورت ہے بیٹا تو اس لئے ہوتاہے کہ وہ اپنے باپ کی مدد کرے یاباپ کی موت کے بعد اسکے نام کوزندہ رکھے جب خدتعالیٰ کی کسی کی مدد کی احتیاج نہیں اور ہر چیز پر اسکی دائمی حکومت ہے توپھر بیٹے نے کس پرحکومت کرنی ہے ۔
آیت نمبر۹۵
ترجمہ (خدانے)ان کوگھیر رکھاہے اور گن رکھاہے ۷۷؎
۷۷؎ تفسیر:۔
یہ پہلی آیت کی تشریح ہے اور مراد یہی ہے کہ جب ان میں سے ایک ایک کی گنتی خدتعالی ٰکے پاس محفوظ ہے تو اسے بیٹے کی کیاضرورت ہے بیٹے کی احتیاج تو تب ہوتی جب کوئی کام ایسا بھی ہوتاجسے وہ خود سرانجام نہ دے سکتا۔
آیت نمبر۹۶
ترجمہ:۔ اور وہ سب کے سب قیامت کے دن (فرداً) فرداً اسکی خدمت میں حاضرہونگے۔ ۷۸؎
۷۸؎ تفسیر:۔
عیسائی کہتے ہیںکہ مسیح نے ہمارابوجھ اٹھالیاہے اللہ تعالیٰ اسکی تردیدکرتاہے اور فرماتاہے کہ اس دنیا میں بھی خداتعالیٰ کاقانون چل رہا ہے اور مرنے کے بعد بھی اسی کاقانو ن جاری ہوگا اور ہرشخص فرداًفرداً اس کے مانے اپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے حاضر ہوگا ۔پس یہ غلط خیال ہے کہ تمہاری جگہ مسیح ؑ صلیب پرلٹک گیا اور اس نے تمہارا بوجھ اٹھالیا ہرشخص کو اپنی صلیب آپ اٹھاکر چلنا پڑے گا جیساکہ مسیح ناصری نے بھی کہا ہے۔ ’’جو کوئی اپنی صلیب نہ اٹھائے اورمیرے پیچھے نہ آئے وہ میرا شاگرد نہیں ہوسکتا۔‘‘(لوقاباب ۱۴ آیت ۳۴ )
اسی طرح انہوں نے کہا۔ ’’اگر کوئی میر ے پیچھے آناچاہے تواپنی خودی سے انکار کرے اواپنی صلیب اٹھائے اور میرے پیچھے ہولے ‘‘ مرقس باب ۸آیت ۳۴ )
میں سمجھتاہوں کہ اس آیت میں اسی طرف اشارہ کیاگیاہے کہ جب مسیح ؑ خود اس امر کی وضاحت کر چکاہیکہ ہر شخص کو اپنی صلیب آپ اٹھانی پڑیگی تو تم کسی طرح سمجھتے ہو کہ تمہارے سب بوجھ اس نے اٹھالئے ہیں۔
آیت نمبر۹۷
ترجمہ :۔ یقینا وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کئے ہیں (خدائے ) رحمان ان کے لئے ود پیدا کردے گا۔ ۷۹؎
۷۹؎ حل لغات:۔ ودّ اس محبت کوکہتے ہیںجو محبوب کے ساتھ گہرا اور مضبوط تعلق پیدا کردے اور دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہوجائیںجس طرح جانور کو کیلے کے ذریعہ زمین کے ساتھ باندھ دیا جاتاہے اسی طرح ودّ میں یہ مفہوم پایا جاتاہے کہ خداتعالیٰ کاانسان سے ایسا مضبوط تعلق قائم ہوجائے کہ وہ کٹ نہ سکے ۔یہ لفظ و د کی شکل میں بھی استعمال ہوتاہے ود کی شکل میںبھی استعمال ہوتاہے اور ود کی شکل میں بھی استعمال ہوتاہے او تینوں شکلوںمیں محبت شدید کے معنوں میں ہی آتاہے ۔
اس کے معنوں کی حقیقت اس طرح واضح ہوتی ہے کہ ود ّ عربی زبان میں وتد یعنی میخ کوبھی کہتے ہیں اس وجہ سے کہ اس کے ذریعہ جانور کو زمین کے ساتھ باندھ دیا جاتاہے ۔پس ودّ ایسی محبت کانا م ہے جو محب اور محبوب دونوں کو اس طرح جوڑدیتی ہے جیسے کیلا گاڑ کرجانور کو باندھ دیا جاتاہے اور وہ زمین کے ساتھ متعلق ہوجاتاہے ۔بیشک رغبت اور انس کے الفاظ بھی عربی زبان میں اظہار محبت کے لئے استعمال ہوتے ہیںمگر ان میں وہ شدت محبت نہیں پائی جاتی جو ودّ میں پائی جاتی ہے رغبت کے معنے صرف اتنے ہوتے ہیںکہ میرے دل میں شوق پیداہوگیا ہے اس میں یہ مفہوم داخل نہیں ہوتاکہ محبوب کے دل میں بھی کوئی شوق پیدا ہوا ہے یا نہیں ۔اور انس میں یہ مفہوم پایا جاتاہے کہ میرے دل میں بھی شوق پید اہوگیا ہے اور میرے محبوب پر بھی میری محبت کااتنا اثر ہوا ہے کہ اس نے اپنا منہ میری طرف کرلیا ہے مگر ود میں یہ مفہوم داخل ہے کہ اس نے صرف منہ ہی نہیںکیا بلکہ محبت نے ہماری آپس میں گرہ باندھ دی ہے او رہمیں ایک دوسرے سے وابستہ کردیا ہے قرآن کریم میںجو کفار کے بتوں کے نام آئے ہیں ان می سے ایک بت کانام ود بھی آیا ہے (نوع ع۲) کیونکہ مشرکین کاخیال تھا کہ جیسے کیلے کازمین سے تعلق ہوتاہے ایساہی اس بت کا خداتعالیٰ سے تعلق ہے یہ لفظ مدارج محبت کے لحاظ سے رغبت اورا نس سے بڑھکر لیکن خلہ سے نچلے مقام پر ہے کیونکہ خلہ کے معنے یہ ہوتے ہیںکہ ایسی محبت جو جسم کے سوراخ سوراخ میںداخل ہوجائے۔ ود میںیہ کیفیت تو پیدا نہیں ہوتی لیکن ایساا مستقل تعلق ضرور پیدا ہوجاتاہے کہ وہ کٹ نہیں سکتا۔
۷۹؎ تفسیر:۔
حضرت مسیح ؑکے تعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ ولنجعلہ۔۔۔۔۔ کہ ہم اسے لوگوں کے لئے ایک نشان اور اپنی طرف سے رحم کاذریعہ بنائیںگے گویا مسیح کے لئے رحمت کا لفظ آیا تھا مگر مسلمانوںکیلئے ود کالفظ اللہ تعالیٰ نے استعمال فرمایا ہے اور جیسا کہ حل لغات میں بتایا جاچکاہے ود اس محبت کو کہتے ہیں جو کیلے کی طرح گڑی ہوئی ہو ۔
قرآن کریم کی یہ خوبی ہے کہ وہ بعض جگہ ایسے ا لفاظ استعمال کرتاہے جن کوچکر دیکر کئی کئی مضامین نکل آتے ہین یہاں بھی اسی قسم کاطریق اختیار کیا گیا ہے کیونکہ یہاں لھم کالفظ استعمال کیاگیا ہے جس کے معنے ہی ان کے فائدہ کے لئے کیونکہ اللہ تعالیٰ ود پیدا کرے گا اسے اللہ تعالیٰ نے مخفی رکھا ہے تاکہ جتنے معنی پیدا ہوسکتے ہوں وہ اس ایک لفظ سے ہی پید اہوجائیں ۔
اس نقطئہ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیںتو سیجعل۔۔۔۔ کے معنے عربی زبان کے لحاظ سے یوںبنتے ہیںکہ مومنوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اپنی محبت کیلے کی طرح گاڑدیگا یا یہ کہ اپنے دل میں مومنوں کی محبت کیلے کی طرح گاڑدیگا یا یہ کہ مومنوںکے دل میں بنی نوع انسان کی محبت کیلے کیطرح گاڑدے گا یا یہ کہ بنی نو ع انسان کے دل میں مسلمانوں کی محبت کیلے کی طرح گاڑدے گا یہ چار معنے ہیں جو اس آیت سے مستنبط ہوتے ہیں۔
(۱) پہلے معنے اس کے یہ ہیں کہ مومنوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اپنی محبت کیلے کی طرح گاڑدے گا چنانچہ دیکھ لو وہ شخص جو خداتعالیٰ کے انعامات پر غور کرے گا ۔اس کی رحمانیت کیوجہ سے فیضان کو دیکھے گا اور اس کے بے شمار احسانات کا مطالعہ کرے گااس کے دل میںلازمی طورپر خداتعالیٰ کی محبت پیدا ہوگی اور وہ اس کے قرب میںبڑھنے کی کوشش کرے گا ۔عیسائی کہتے ہیںکہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنا بیٹادنیا کی نجات کے لئے بھیجا ہے اس لئے بنی نوع انسان کافرض ہے کہ وہ اس سے محبت کریں مگر خداکہتاہے کہ ہم تو آپ تم سے رات دن محبت کر رہے ہیں ہم رحمن ہیں اور اپنی صفت رحمانیت سے تم کو ہر وقت حصہ دے رہے ہیںکیا تم ہمارے ان انعامات کو دیکھ کر ہم سے محبت نہیں کر سکتے ؟ مسیح کو صلیب پرچڑھتے ہم نے نہیںدیکھا اور پھر ہمارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیںکہ وہ ہماری خاطر صلیب پرچڑھا ۔لیکن خداتعالیٰ کا سورج ہم پرروز چڑھتاہیں ۔خدا تعالیٰ کا چاند ہم ہمیشہ آسمان پر چمکتا دیکھتے ہیں ۔خداتعالیٰ کے پیدا کردہ دریا ہمیں اس دنیا میں اپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔پھر خداتعالیٰ نے ہمیں آنکھیں دیں جن سے ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔یہ آنکھیںہمارے ماں باپ نے ہمیں نہیں دیں نہ ہم نے کہیں سے خریدی ہیں صرف خدانے اپنی رحمانیت کے طفیل ہمیں عطاکی ہیں ۔اسی طرح اس نے ہمیں زبان دی ہے جس سے ہم بولتے ہیں۔غلہ دیا ہے جو ہم رات دن کھاتے ہیںچاول دیئے ہیں۔گوشت دیاہے ،ترکاریاں دی ہیں، مال دیا ہے ،صحت دی ہے عزت دی ہے ۔غرض خداتعالیٰ کی رحمانیت کے ہزاروں ہزار نظارے ہم روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔اور ہمارادل انتہائی محبت کے ساتھ خداتعالیٰ کی طرف جھک جاتاہے مگر تعجب ہے عیسائی کہتے ہیںکہ ہم محبت الٰہی اس واقعہ کی بناپر کریں جو ہم نے نہیںدیکھا اور ان ہزاروں ہزار انعامات کی بنا پر نہ کریں جو ہم روزانہ دیکھتے ہیں۔
(۲) دوسرے معنے اس کے یہ ہیںکہ خداتعالیٰ اپنے دل میں مومنوں کی محبت کے لئے کی طرح گاڑدیاگ اور ایسی محبت کرنے والوںسے خاص تعلق پیدا کریگا یا معنے بھی مسلمانوں کے وجود سے ظاہر ہوئے ۔چنانچہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ مسلمانوں کاخداتعالیٰ نے ایسا ساتھ دیا اور اپنی محبت اور پیار کی ان سے ایسا سلوک کیا کہ جس کی مثال دنیا میںاور کہیںنظر نہیںآتی ۔
(۳) تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوں میں بنی جوع انسان کی محبت کیلئے کی طرح گاڑدے گا ۔حضرت مسیح ؑنے بھی انجیل میں باربار یہی تعلیم دی ہے کہ دوسروں سے محبت کرو اور ان سے نیکی اور حسن سلوک کے ساتھ پیش آئو ۔مگر اس محبت کے پیدا کرتے کایہ ذریعہ نہیںکہ مسیح پر ایمان لایا جائے بلکہ حقیقی محبت بنی نوع انسان کی تب پیدا ہوتی ہے جب انسان خود اپنے آپکوایک رنگ میں خداکا بیٹا سمجھ لے۔مسیح کوخداکا بیٹا سمجھتے سے یہ محبت پیدا نہیںہوسکتی ۔یہ محبت تب پیدا ہوتی ہے جب انسان ود کامقام حاصل کرلے ۔اور جس طرح جانورکیلے کے ذریعہ زمین کے ساتھ باندھ دیاجاتاہے اسی طرح وہ خداتعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہوجائے جب اس کے دل میں لازمی طورپر جاگزیں ہوجاتی ہے صرف مسیح پر ایمان لانے سے یہ محبت پید انہیںہوسکتی ۔
(۴) چوتھے معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کے دل میں مسلمانوں کی محبت کیلے کی طرح گاڑدیگا۔یہ بھی محبت کا ایک لازمی نتیجہ ہے کیونکہ جب کسی کی محبت ہوگی تو انسان اسکی خدمت بھی کرے گا اور اس کے ساتھ حسن سلوک بھی کریگا اور اس سے محبت اور پیار کے ساتھ بھی پیش آئے گا اور جب وہ ایسا کرے گا تو لوگوں کے دلوں میںبھی اس کی محبت پیدا ہوجائے گی پس سیجعل۔۔۔ کے ایک یہ بھی معنے ہیںکہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی محبت بنی نوع انسان کے دل میں کیلے کی طرح گاڑدیگا ۔چنانچہ اس کی مثال ہمیںرومی فتوحات میںملتی ہے ۔ایک موقعہ پر جب عیسائی لشکر بڑی تعداد میںآگے بڑھا اور مسلمانوں نے سمجھا کہ اب ہم ان کامقابلہ نہیںکرسکتے تو جو روپیہ مسلمانوں نے ملک کی حفاظت کے ٹیکس کے طور پر وصول کیا تھا وہ سب ملک کے لوگوں کو واپس کردیا اور اس کااثر عیسائیوں اور یہودیوں پر اتنا ہوا کہ وہ روتے ہوئے مسلمانوں کے لشکر کو وداع کرنے گئے اور پادری بھی اور دوسرے لوگ بھی دعاکرتے جاتے تھے کہ خدامسلمانوں کو واپس لائے ۔اور یہودی اتنے متاثر تھے کہ وہ کہتے تھے کہ خداکی قسم ہم اپنی جانیں دے دیں گے مگر عیسائی لشکر کو شہر میںداخل نہیںہونے دیںگے ۔محبت کا یہ عملی وعظ مسیح کی محبت کی تعلیم سے کتنا زیادہ شاندار ہے ۔مسیح نے تو صرف منہ سے کہا تھا کہ خدامحبت ہے مگر مسلمانوںنے عملاًثابت کیا کہ خدا محبت ہے اور مسیح کیلئے تو رحمت کا لفظ استعمال ہو اتھا مگر قرآن نے مسلمانوں کیلئے ود کا لفظ استعمال کیا جواس سے بہت زیادہ شدید ہے کیونکہ ودّ کے معنے ہیںکہ محبت اتنی شدید ہوگئی کہ وہ کیلے کی طرح گڑگئی پس کجا انجیل کی محبت کی تعلیم اور کجا قرآن کی محبت کی تعلیم دونوں میں زمیں و آسمان کافرق ہے۔
غور کرو کہ اس جگہ تھوڑے سے لفظوںمیںخداتعالیٰ نے کتنا وسیع مضمون بیان کردیاہے اس مضمون کا انالذین۔۔۔۔۔ کے ساتھ یہ جوڑہے کہ (۱)ایمان اور (۲)مناسب حال عمل سے لوگ محبت کرتے ہیں ۔
ایمان میں چونکہ امن دینے کے معنے پائے جاتے ہیںاس لئے مومن وہ ہے جو لوگوں کیلئے برکات اور امن کا موجب ہو اور عمل صالح کے معنے ہیںایسا عمل جو ضرورت کے مطابق اور مناسب حال ہو پس جس شخص میںیہ دو خوبیاں پائی جائیںگی کہ وہ لوگوں کے لئے امن کاباعث ہوگا اور اس کے تمام اعمال مناسب حال ہونگے اس سے لوگ لازمی طور پر محبت کرینگے ۔
(۳) پھر ایمان اور عمل صالح کاایک لازمی نتیجہ یہ بھی پیدا ہوگا کہ اس کے دل میںلوگوں کی محبت پیدا ہوجائیگی ۔کیونکہ جو شخص سب سے نیک سلوک کرتاہے لازمی طور پر اس کے دل میںبھی لوگوں کی محبت پیداہوتی ہے ۔
(۴) اور پھر جو شخص لوگوں سے حسن سلوک کریگا اور ان کے بوجھوںکوبٹائے گا اور ان کی ترقی میں حصہ لیگا اوران کے دکھوںکو دور کریاگا لازماً اس کی محبت بھی لوگوں کے دلوں میںپیداہوجائیگی ۔
(۵) اسی طرح جو شخص بنی نوع انسان سے محبت کرتاہے اس کے دل میںخدا تعالیٰ کی محبت بھی پید اہوجاتی ہے جیسے وہ شخص جو کسی بچہ سے محبت رکھتاہے وہ اس کے ماں باپ سے بھی محبت کرتاہے یہ ناممکن ہے ک وہ بچے سے محبت کرے اور ماںباپ سے نفرت رکھے ۔
(۶) پھر جوشخص خداتعالیٰ کے عیال سے محبت کرتاہے خدتعالیٰ بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتاہے ۔
غرض ایمان اورعمل صالح کے نتیجہ میں بنی نوع انسان کی محبت دل میں پیدا ہوتاہے ۔اور بنی نوع انسان کی محبت کا لازمی نتیجہ یہ پیدا ہوتاہے کہ لوگ بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیںپھر جو شخص بنی نوع انسان سے محبت کے ساتھ پیش آتاہے اس کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت بھی پیدا ہوجاتی ہے ۔تم یہ کس طرح کرسکتے ہو کہ ایک اچھی کتاب پڑھو تو کتاب سے تو تم محبت کرو اور کتاب لکھنے والے سے محبت نہ کرو ۔یا ایک تصویر کو تو تم پسند کرو لیکن مصور کو تم پسند نہ کرو جو شخص بنی نوع انسان سے محبت رکھتاہے اس کی محبت لازمی طورپر خداتعالیٰ کی طرف منتقل ہوجاتی ہے اور وہ مخلوق کے بعد خالق سے بھی محبت کرنے لگ جاتاہے ۔یہی وہ چیز ہے جسے صوفیاء کی اصطلاح میں عشق مجازی کہاجاتاہے یعنی انسانوںکی محبت کے نتیجہ میںخداتعالیٰ کی محبت کا پیدا ہونا مگر بد قسمتی سے مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ ظاہری حسن کو دیکھ کر خداتعالیٰ کی محبت پیداہوتی ہے حالانکہ یہ بالکل غلط ہے ظاہری حسن کے نتیجہ میں نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی محبت کے نتیجہ میںخداتعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور پھر جو شخص خداتعالیٰ کے عیال سے محبت کرتاہے ۔خداتعالیٰ بھی اس کے لئے اپنی محبت کو مخصوص کردیتاہے اوران چاروں امور کے نتیجہ میںکسی کفارہ کی ضرورت نہیںرہتی ۔
آیت نمبر۹۸
ترجمہ :۔ پس ہم نے تو اس (قرآن )کو تیری زبان میںآسان کرکے اتاراہے تاکہ تو اس کے ذریعہ سے متقیوں کو بشارت دے اور اسکے ذریعہ سے جھگڑا لو قوم کو ہشیار کرے ۔
۸۰؎ تفسیر:۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ شریعت *** نہیںہم نے اسے سلجھے ہوئے آسان الفاظ میں بیان کردیا ہے ۔*** تب ہوتی جب یہ قابل عمل نہ ہوتی یا ہم کوئی ایسا حکم دیتے جس پر عمل کرنا لوگوں کے لئے نقصان دہ ہوتا ۔اگر ہم نے ایسے ہی احکام دئے ہیں جن پر عمل ہو سکتاہے اورپھر ایسے احکام دیئے ہیںجن پر عمل کرنے میں لوگوں کا اپنا فائدہ ہے تو پھر شریعت *** کس طرح ہوئی ! پس یسرنہ۔۔۔۔ میں بتایا کہ ہم نے اسے سلجھے ہوئے آسان الفاظ میں بیان کردیا ہے جس کو مومن خوب سمجھ سکتے ہیں اور اسے قابل عمل یقین کرتے ہیں۔اگر قابل عمل نہ ہو تو تبشیر نہیںانذار ہوتاہے ۔اور جب یہ بات ہے تو شریعت کو *** قرار دینا کس طرح درست ہوسکتاہے ۔ہاں جو جھگڑالو ہوں وہ بے شک نہیں مانتے ۔مگر وہ تو شریعت کو *** کہیں یا رحمت بہر حال نہیںمانیں گے۔
اس میں یہ بتایا گیاہے کہ قرآن کریم ہر صحیح الفطرت انسان کے نزدیک قابل عمل کتاب ہے اور وہ عمل کرنے والوں کے لئے رحمت اور بشارت ہے۔ لیکن جوشخص ارادہ کرلے کہ میںنے نہیںماننا اس کے لئے آسان یا مشکل کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا۔اس کے سامنے توجوچیز بھی رکھی جائے گی اس کا وہ انکار کردے گا۔کیونکہ اس کی فطرت میںمخالفت ہے ۔لیکن جس کی فطرت میںکجی نہیں اورجو فطرت صحیحہ رکھنے والا انسان ہے وہ جانتاہے کہ شریعت خداتعالیٰ کی رحمت ہے اور اس کے تمام احکام بنی نوع انسان کے فائدہ کیلئے ہیں ۔اور خدانے اس کو آسان اور قابل عمل بنایا ہے۔
آیت نمبر۹۹
ترجمہ :۔ اورکتنی ہی بستیاں ہیںجوان سے پہلے گذری ہیں (کہ ہم ان کوہلاک کرچکے ہیں)کیا تو ان میںسے کسی کو بھی کسی حس کے ذریعہ سے محسوس کرتاہے یا ان کی بھنک سنتاہے ؟ ۸۱؎
۸۱؎ حل لغات:۔تحسُّ۔حسّ الشی ئو بالشیء کے معنے ہوتے ہیںعلمہ وشعربہ واردکہیعنی کسی چیز کو جاننا اوراسے خوب اچھی طرح پہچاننا اور احس عنہ خیراکے معنے ہوتے ہیں راٰی اس نے دیکھا اس جگہ تحس منھم احد کے الفاظ آئے ہیں جن سے ظاہر ہوتاہے کہ اس جگہ تحس منھم من احد کے مقابلہ میں تسمع لھم رکزا کے الفاظ آئے ہیںجنسے طاہر ہوتاہے کہ اس جگہ تحس۔۔ میںرویت والے معنوں کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔رکزاًکے معنے ہیں الصوت الخفی ایسی آواز جوبہت آہستہ ہو۔
۸۱؎ تفسیر:۔
فرماتا ہے عیسائیوں کا سارا غرور اس وجہ سے ہے کہ ان کو طاقت حاصل ہے شریعت کو *** قرار دینااور کفارہ وغیرہ مسائل کاایجاد کرنا سب غلط ہے اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ عیاشیاں کرنا چاہتے ہیں اور خداتعالیٰ کے قانون پر عمل کرنا نہیںچاہتے انہیں اپنی طاقتوں پر گھمنڈ ہے اور یہ لوگ خیال کرتے ہیںکہ ان پر کبھی زوال نہیںآسکتا حالانکہ ان کو مغرور نہیںہونا چاہئے ہم ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو تباہ کرچکے ہیں ۔کیا آج ان میں سے کسی قوم کے نشان تمہیںنظر آتے ہیں۔یا ان کی ہلکی سی آواز بھی سنائی دیتی ہے ؟ یعنی آج ان کے نشان تک نظر نہیں آتے اُنکی تاریخ تک مشتبہ ہوگئی ہے اور ان کی آہٹ تک سنائی نہیںدیتی ۔یعنی ان کے کام بالکل مخفی ہوگئے ہیں۔یہاںتک کہ ان کے وجود کے آثار تک مٹ گئے ہیں اگر پہلی قوموں کے لوگ اس طرح صفحہ ہستی سے ناپید ہوچکے ہیںتوان کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری طرف سے ان کے لئے اماالعذب۔۔۔ کااعلان ہوچکا ہے۔جن کے لئے عذاب مقدر ہے وہ عذاب میںمبتلاہونے کے بعد خدائے واحد پر ایمان لائیں گے ۔اورجن کے لئے عذاب مقدر نہیں بلکہ کامل تباہی مقدر ہے وہ اس طرح تباہ کر دئے جائینگے کہ وہ خود نظر آئیںگے اور نہ ان کے آثار تک دکھائی دیں گے ۔ایمان غالب آجائیگا اور کفر دنیا سے ہمیشہ کے لئے مٹ جائے گا ۔
سورۃُ طٰہٰ مکی
ترجمہ :۔ اور بسم اللہ کو شامل کرکے اسکی ایک سو چھتیس آیات ہیں ۔اور آٹھ رکوع ہیں۔۱؎
۱؎ یہ سورۃ بلاختلاف مکی ہے ۔حضرت عبداللہ بن مسعوؓ اسے ابتدائی سورتوں سے قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیںکہ سب سے پہلے جو سورتیں میں نے حفظ کیں ان میں سے ایک یہ بھی سورۃ ہے اس کے ساتھ انہوں نے سورہ بنی اسرائیل ، کہف ،مریم اور انبیا ء کو بھی گنا ہے (بخاری کتاب التفسیر )
دہیریؔ نے اسے مکی زندگی کے تیسرے دور یعنی قبل از ہجرت کے سالوں میں شمار کیا ہے کیونکہ اس میں انبیاء بنو اسرائیل کے ذکر تفصیل سے آتے ہیں روایت اور تاریخ کی موجود گی میں محض انبیا ء کے ذکر کی وجہ سے جو سورئہ مریم میں بھی موجود اور جسے ابتدائی کہا جاتاہے اسے آخری زمانہ کی مکی قرار دینا بہت بڑی جرات ہے ۔ ہم اوپر بتاچکے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ جو ابتدائی صحابی ہیںاس سورۃ کو اپنی ابتدائی یاد کی ہوئی سورتوں میں سے قرار دیتے ہیں۔
تعلق وترتیب :۔
اس سورۃ کا سورئہ مریم سے قریبی تعلق یہ ہے کہ سورئہ مریم کے آخر میںیہ ذکر کیا گیا تھاکہ فانما۔۔۔ یعنی یہ کلام تجھ پر تیری زبان میںاس لئے نازل کیا گیا ہے کہ تو آسانی سے اپنے گرد وپیش لوگوں کو تبلیغ کر سکے اور وہ تیری بات کو سمجھ سکیں اور شریروں پر حجت تمام ہو۔اسی مضمون کو اس سورۃ کے شروع میں پھیلایا گیاہے اوراس میں حکمت یہ ہے کہ سورئہ مریم اصولی طورپر مسیحیت کے بارہ میںہے جن کا ایک نقطئہ مرکزی یہ ہے کہ شریعت *** ہے ۔اس سورۃ میںاس مرکز ی نقطئہ کا رد کیا ہے اور بتایاہے کہ شریعت رحمت ہوتی ہے *** نہیں ۔وہ بوجھ نہیںہوتی بلکہ انسان کیلئے سہولت پیدا کرتی ہے چنانچہ فرماتاہے۔مانزلنا۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن کا نزول تجھے عزت بخشنے اور خداتعالیٰ کا سپرد کردہ کام آسان کرنے کے لئے ہے تجھے تکلیف اور دکھ میں ڈالنے کے لئے نہیں۔اسلئے لفظاً و معناً ہر قسم کی سہولتیں اس کتاب کے نزول میںمد نظر رکھی گئی ہیں۔زبان تیری اپنی ہے عبادت سلیس ہے مطلب مطابق فطرت و عقل ہے اور عمل آسان ہے غرض ہررنگ میںاس کتاب کو بوجھ ہونے سے بچایا گیاہے۔
اس سورۃ کاوسیع تعلق پہلی سورۃ سے یہ ہے کہ سورۃمریم مسیحیت کی ابتدائی تاریخ بیان کی گئی تھی اور بتایاگیا تھاکہ مسیح ؑ کی آمد تو توحید کے قیام کے لئے تھی مگر مسیحیوں نے اسے شرک کاذریعہ بنا دیا اور شریعت کو اڑا دیا اور اسے *** قرار دے دیا۔اب سورۃ طٰہٰ میںابتدائے اسرئیلیت کی طرف مضمون کو منتقل کیا گیاہے ۔اور بتایا ہے کہ موسیٰ کا بڑاکارنامہ اس کی شریعت تھی ۔چنانچہ موسوی سلسلہ کی طرف اس سورۃ میںاللہ تعالیٰ نے تفصیل سے توجہ دلائی اور بتایا کہ موسوی سلسلہ شریعت اور توحید پر قائم تھا۔اس کی شاخ عقلاًتوحید کے خلاف نہیں ہوسکتی ۔پس توحید کے خلاف مسیحی تعلیم بعد کی داخل شدہ ہے ۔
پھر اللہ تعالیٰ موسیٰ ؑ سے ابتدائے آفرینش تک شریعت اور گناہ کی حقیقت بیان کرنے کے لئے مضمون لے گیاہے جس کا نہ سمجھنا درحقیقت لاشریعت اور شرک مسیحی کی جڑ اور منبع ہے ۔لاشریعت کی اسلئے کہ اگر ابتدائے عالم سے وحی کو جاری نہ سمجھا جائے تویہ بھی ماننا پرے گا کہ انسان کسی زمانہ میں بغیر شریعت کے بھی رہ سکتاہے اور شرک کامنبع اس لئے کہ اگر خدا
تعالیٰ کی طرف سے وحی نہیں آئی توپھر انسان کو کوئی قانون اپنے لئے بنانا پڑیگا اوروہی خداکاقائم مقام ہوجائیگا یعنی خداکاشریک بن جائیگا۔خخلاصہ مضامین:۔
خلاصہ مضامین:۔
اس سورۃ کے مضامین کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن آسانیاں پیدا کرنے کیلئے آیا ہے نہ کہ تکلیف میں ڈالنے کے لئے اس کا سمجھنا آسان ہے مگر دل کی کھڑکی کھولنی ضروری ہے اس میںبنی نوع انسان کے ادنیٰ اوراعلیٰ احساسا ت اوران کی تمام ضرورتوںکاذکر ہے اور خدا تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش سے انسانی پیدائش میں یہ بات مد نظر رکھی تھی کیونکہ وہ فطرت کے باریک رازوںسے واقف ہے اور ہر قسم کی ضرورتوں کے سامان مہیا کرنے اس کے اختیار کیں ہیں۔پس جو قانون خدا تعالیٰ دے وہ عذاب نہیںبلکہ رحمت ہے (آیت ۳تا ۹ )
مسیحیوں کو چاہئے کہ ان صداقتوں کے سمجھنے کے لئے موسیٰؑ کے حالات پر غور کریں اور سوچیں کہ کس طرح مایوسی کے وقت میںاللہ تعالیٰ نے اسکی مدد کی اور اسے ہدایت بخشی اور اس پر ابناوجود ظاہرکیا جو توحید کے رنگ میںہی تھا۔غرض موسیٰ کو برگزیدہ بنایا گیا اور وہ وحی الٰہی کا حامل ہوا اور اسے سب سے پہلا حکم شریعت توحید کا ہی دیا گیا اور کہا گیا کہ لاالہ الا ۔یعنی تمام جہان میںصرف میں ہی ایک معبود ہوں ۔اور عبادت الٰہی کی تاکید کی گئی اور برے بھلے عمل کی جزا ورسزا کاوعدہ دیا گیا اوربتایا گیا کہ جزاورسزامطابق اعمال ہوگی نہ کہ مطابق کفارہ (آیت ۱۰تا۱۶)
پھر موسیٰ کو بتایا گیا کہ اصلاح قوم کاحقیقی ذریعہ صحبت صلحاء ہے (آیت ۱۷ تا ۲۴ )
پھر فرماتاہے ہم نے موسیٰ ؑ کو اس کی قوم کے لئے صحیح ذریعہ اصلاح بتاکر اسے فرعون کی طرف جانے کاحکم د یا اور اس کے لئے دعاکا طریق سکھایا جو خداتعالیٰ سے کی جاتی ہے نہ کہ کسی غیر اللہ سے اوراس کے بھائی کو اس کی درخوست پر اس کے ساتھ مقرر کیااور خداتعالیٰ نے فرمایا کہ یہ میرا دوسرااحسان ہے ۔پہلااحسان وہ تھا کہ فرعونیوں سے بچانے کے لئے تجھے دریا میں ڈالا گیا اورمیں نے تجھے اس سے نجات دلوائی اور تیرے رشتہ داروں کو تیرے پاس جمع کردیا (اایت ۲۵ تا۴۱ )پھر جب تیری جنگ فرعونی حکومت سے چھڑی تو ہم نے تجھے بچایا اور تجھے نجات دی ۔اور میںتیری روحانی پرورش کرتارہا یہاں تک کہ تو اصل کام کے قابل ہوگیا اور ہم نے کہا اب جا اور فرعون کو سمجھا اور اپنی قوم کو اس سے لے کرکنعان کے ملک کی طرف لے جا۔چنانچہ وہ گئے او رفرعون کو سمجھایا (آیت ۴۱ تا۷۷ )
جب فرعون نے نہ مانا توہم نے موسیٰ ؑ کو بنی اسرائیل کے نکال لے جانے کاحکم دے دیا فرعون نے پیچھا کیا مگر سزاپائی (اایت ۷۸ تا۰۸ )
پھرطور پرکلام الٰہی کا سلسلہ شروع ہوا اورشریعت نازل ہوئی اورتوبہ کا دروازہ کھولا گیا (آیت ۸۱ تا۸۳ )
مگر باوجود اس کے بنی اسرائیل نے شرک کیا جس پر انکو سزاملی اور توحید کی طرف انکو کھینچ کر لایا گیا۔(آیت ۸۴ تا۹۹)
یہ مسیح سے پہلے کے مذہبی حالات ہیںاور بعد میںتوآیا ہے۔توبھی وہی تعلیم لایا ہے ۔پھر یہ درمیان میںبے جوڑ تعلیم کیسی آگئی جو شریعت کو *** کہتی ہے اور خداکے شریک قرار دیتی ہے۔ (آیت ۱۰۰تا ۱۰۳)
اس کے بعد مسیحیوں کے عذاب اور انکی ہزار سالہ ترقی کاذکر کیا ۔یعنی چوتھی صدی ہجری سے چودھویں صدی ہجری تک جس میںسے تین صد اعلیٰ ترقی کے سال ہونگے۔جس طرح مسلمانوں کے ہزار سال میں تین صد اعلیٰ ترقی کے سال تھے ۔اس فرق سے کہ مسلمانوں کے پہلے تین صد اعلی ٰتھے او رمسیحیوںکے آخر ی تین صد اعلیٰ ہونگے ۔اور اس فرق سے کہ عیسائیوں کو رسول اللہ ﷺ سے پہلے چھ سو سال مذہب کے قیام کے ملے اور مسلمانوںکے رسول اللہ ﷺ کے تیرہ سوسال گذرنے کے بعد چھ سوسال اسلام کے روحانی استحکام کے ملیں گے (آیت ۱۰۴تا ۱۰۵)
فرماتا ہے اس وقت لوگ سوال کریںگے کہ یہ پہاڑ اڑینگے کس طرح؟ یعنی یہ عیسائی حکومتیںجو اتنی زبردست ہوگئی ہیںکس طرح تباہ ہونگی ؟ مگر ہم بتاتے ہیں کہ وہ اڑجائیںگے اور مسلمان ترقی پاجائینگے (آیت ۱۰۶ تا ۱۱۳ )
اس کے بعد پھر ابتدائی سورۃ کے مضمون کی طرف رجوع کیا کہ اس قرآن کا سمجھنا آسان ہے ۔کیونکہ یہ قرآن ملکی زبان میں ہے (غالباً مسیحیوںکوطعنہ ہے جو انجیل کے یونانی میں ہونے پر زور دیتے ہیں ) او پھر اس میںمضمون بھی خوب کھول کر بیان کیا گیا ہے اس لئے تمثیل والی مصیبت سے محفوظ ہے جس کا کثرت سے اور مبالغہ آمیز طورپر استعمال انجیل میں کیا جاتاہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیںکہ قرآن کریم میں بھی مثل کا لفظ استعمال ہوا ہے جیساکہ وہ فرماتاہے ۔ولقد ۔۔۔۔ اور یہی مضمون سورۃ کہف رکوع ۸میں بھی بیان ہوا ہے مگر وہاں مثل کا لفظ تمثیل کے معنوں میںنہیں آتا بلکہ بیان کے معنوں میںاستعمال ہواہے اورمراد یہ ہے کہ ہم نے قرآن کریم میںہرقسم کے مضامین مختلف پیرایوں میںعمدگی کے ساتھ بیان کردیئے ہیں(آیت ۱۱۴ )
پھر بتایا کہ شریعت *** نہیں بلکہ رحمت ہے اس لئے احکام سماوی کے متعلق خود فیصلے نہیں کرنے چاہئیں بلکہ وحی کاانتظار کرنا چاہئے (آیت۱۱۵)اس کے بعد موسیٰؑ سے اوپر عروج کیا اور بتایا کہ آدم کا وہ واقعہ جس پر مسیحیت کی ساری بنیاد ہے محض ایک غلط فہمی ہے اس سے زیادہ اسکی کوئی حقیق نہیںاور اس سے زیادہ حقیقت ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ آدم جس سے یہ واقعہ پیش آیا تھااس کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی ایک خاص سکیم کے ماتحت تھی پھرکس طر ح ممکن تھا کہ خداتعالیٰ کی سکیم ناکام ہوجاتی ۔چنانچہ بائبل میںبھی لکھاہے کہ :خدانے آدم کو اپنی صورت پرپیدا کیا ‘‘ (پیدائش باب ۱ تا آیت ۲۷ )
لیکن ساتھ ہی بائبل یہ بھی کہتی ہے کہ آدم نے حوا کے ورغلانے پرگناہ کیا (پیدائش باب ۳آیت ۱۲ ) اس کے مقابلہ میںقرآن کہتاہے کہ آدم نے گناہ نہیںکیابلکہ صرف ایک لغزش تھی جوبغیر ارادہ کے اس سے ظہور میں آئی جیسا کہ فرماتاہے کہ فنسی۔۔۔۔ پس قرآن کریم کامضمون عقل کے بھی مطابق ہے اور بائبل کے بھی اس بیان کے مطابق ہے کہ آدم کو خداکی شکل پرپیدا کیاگیا لیکن بائبل کابیان آپس میں تضاد رکھتاہے بائبل نے پہلے خود کہا کہ آدم خداکی شکل پر پیدا کیا گیا تھالیکن بعد میںاس کیافعال کو شیطانی قرار دے دیا حالانکہ اگر ٓآدم نے فی الواقعہ گناہ کیاتھا تو درحقیقت خداتعالیٰ کی سکیم فیل ہو ئی ا ورنعوذ بااللہ اس کی کمزوری ثابت ہوئی (آیت ۱۱۶ تا ۱۲۴ )
پس شریعت سے منہ موڑناتباہی کاموجب ہے اور وہی ایسا کرتاہے جوبینائی سے محروم ہوتاہے (آیت ۱۲۵ تا۱۲۹ )
پھر بتایا کہ یہ خیال نہیں کرناچاہئے کہ صداقت کے منکر بھی دنیامیںموجود ہیںاو ر انہیںسزانہیںمل رہی
آسمانی قانونکے مطابق ہرچیز کا ایک وقت مقرر ہوتاہے تو اپنے لوگوں کی اصلاح میںلگارہ انجام کا ر تیری ہی فتح ہوگی (آیت ۱۳۰ تا۱۳۳ )
اس کے بعد فرمایا کہ جب تیرے دلائل لوگ سنتے ہیںتوکہتے ہیںکہ نشان کیوں نہیں دکھاتے؟ تو کہ نشان وہی ہے جو پہلے نبیوں نے دکھایا ۔تمہارے تجویز کردہ نشان کیا حقیقت رکھتے ہیںپہلے نبیوں کے دشمنوںکو بھی مہلت ملی تھی مگر حجت تمام ہوتے پر عذاب آیا اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ورنہ خداتعالیٰ پر ظلم کا الزام عائد ہوتاہے (آیت ۱۳۴ تا۱۳۶ )
آیت نمبر۱‘۲
ترجمہ :۔ (میں )اللہ (تعالیٰ)کا نام لے کرجوبے حد کرم کرنیوالا (اور)باربار رحم کرنیوالا ہے (پڑھتا ہوں) اے کامل قوتوں والے مرد ۲؎
۲؎ تفسیر :۔
ہم نے سورۃ یونس کی تفسیر کے ابتداء میںقرآنی قطعات پر بحث کرتے ہوئے لکھاتھاکہ طٰہٰ بھی حروف مقطعات میں سے ہے لیکن بعد میں لغت اور مفسرین کے اقوال پراور اس سورہ کے مضامین پر مزید غور سے معلوم ہوا کہ چونکہ حروف مقطعات کی طرح طہء اس جگہ کوئی مستقل لفظ کا قائم مقام نہیں اور نہ ہی اس جگہ کسی او رمستقل لفظ کی قائم مقام ہے بلکہ ھاء طاء کے ساتھ مل کر ایک مستقل معنے دیتی ہے اور وہ معنے یارجل کے ہیں اس لئے اسے ایک مستقل لفظ قرار دینا چاہئے ۔حروف مقطعات میں سے نہیںسمجھنا چاہئے ۔چنانچہ تفسیر فتح البیان میںلکھاہے کہ انھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (تفسیر فتح البیان جلد ۶ صفحہ ۴۹ ) یعنی جو قبائل عرب میں سے ہیں ان کی زبان میں طٰہٰ کے معنے یارجل کے ہیں کلبی کہتے ہیں کہ اگر تم کسی عک قبیلہ کے شخص کو یارجل کہہ کی پکارو تو وہ بالکل جواب نہیںدیگا ہاں اسے طٰہٰ کہو تو وہ بول پڑے گا قطرب جو ایک مشہور لغوی اور نحوی ہیںاور سیبویہ کے خاص شاگردورں میں سے تھے کہتے ہیں کہ یہ لفظ طے قبیلہ میںبھی اسی مفہوم میںاستعمال ہوتاہے ۔لسان العرب میں بھی اس استعمال کاذرکر کیا گیاہے پس طٰہٰ کے معنے عرب کے مختلف قبیلوں میں چونکہ اے مرد کاملا القویٰ کے پائے جاتے ہیں۔اس لئے ہم نے طٰہ ٰ کاترجمہ اسی نظریہ کے ماتحت کیا ہے اور اسی نظریہ کے ماتحت اب ہم سورئہ طٰہٰ کو سورئہ مریم کے مضمون کا تسلسل قرار دیتے ہیں ۔
کامل قوتوں والے مرد سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مردانگی کی تمام اعلیٰ صفات یعنی شجاعت اور سخاوت اور بدی کا مقابلہ وغیرہ کامل طورپر محمد رسو اللہ ﷺ میں پائی جاتی ہیں اور اسی وجہ سے تمام عالم انسانی میں صرف آپ ہی کامل انسان کہلانے کے مستحق ہیں ۔چنانچہ جب ہم تاریخ پر نظر دالتے ہیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ محمد رسو اللہ ﷺ حقیقتاً ایک کامل انسان تھے اور آپ میں وہ تمام اوصاف بدرجہ اتم پائے جاتے تھے جو ایک کامل قوتیں رکھے والے مرد کے اندر پائے جانے چاہئیں ۔مثلاًبدی کے مقابلہ کی قوت کو ہی لے لو ۔اس نقطہ نگاہ سے جب محمد رسو اللہ ﷺ کی زندگی کاجائزہ لیا جائے تو آپ کے پاکیزہ و مطہر قلب میں ہمیں بدی کے مقابلہ کی اس قدر شدید تڑپ دکھائی دیتی ہے کہ جس کی دنیا میں اور کہیں نظیر نہیں آتی ۔آپ ابھی نبوت کے مقام پر فائز بھی نہیںہوئے تھے کہ آپ نے اس فطری جذبہ کے مطابق اس راستہ کی تلاش اور جستجو شروع کردی جس پر چل کر اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کا عرفان حاصل ہوسکتاہو اس وقت حالت یہ تھی کہ آپ کا گرد وپیش سارے کاسارا کفر اور شرک سے بھراہواتھا ۔کوئی قوم ایسی نہ تھی جو شرک اور بت پرستی میں مبتلا نہ ہو ۔ایک طرف آپ کے ملنے والے عیسائی اور یہودی لوگ تھے جو شرک میں مبتلا ہوچکے تھے اور دوسری طرف مکہ کے لوگ تھے جوسرتاپا شرک میں ملوث تھے آپ نے ان تینوںقوموںکو دیکھا اور آپ کو محسوس ہوا کہ ان قوموں کے اندر معرفت کے کوئی آثار نـظر نہیں آتے کفار مکہ شرک کے اندر سر سے پائوں تک غرق تھے یہاں تک کہ خانہ کعبہ کے اندر بھی تین سو ساٹھ بتوںکی پرستش ہوتی تھی ۔ادھر یہودی اور عیسائی بھی شرک میں مبتلاتھے اور خدا کا خانہ بالکل خالی ہوچکاتھا ۔یہودی لوگ یوں تو زبان سے شرک کے قائل نہ تھے مگر وہاں ایک نبی کو خداکا بیٹا قرار دیتے تھے جیسا کہ قرآن کریم میںہی آتا ہے کہ یہودی کہتے تھے عزیرابن اللہ (توبہ ع۵) یعنی عزیر اللہ کابیٹاہے ۔بہرحال یہ تینوں قومیں یعنی کفار مکہ اور یہودی اور عیسائی خداتعالیٰ کی معرفت اور صدقت پر قائم نہ تھیں ۔یہود کوتو حضرت عیسیٰ ؑ نے ان کی نافرمانیوں اور مخالفت کی وجہ سے مجرم قراردے دیاتھا ۔پس وہ قوم جو مجرم قرار پاچکی تھی وہ کسی طرح کسی کی رہنمائی کرسکتی تھی عیسائی مشرک تھے کیونکہ وہ ایک خداکی بجائے تین خدامانتے تھے اور مکہ والے بت پرست تھے پس جب آپ نے دیکھاکہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور تفرید ان تینوں قوموں کے ا ندر مفقود ہے اور یہ سارے کے سارے کفر اور شرک کے تاریک گڑھوں میںگر چکے ہیں توآپ کے دل میںتڑپ پیدا ہو ئی کہ میں کوئی ایسا رستہ تلاش کروں جو للہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہو ۔یہ تڑپ آپ پر اتنی غالب آئی کہ آپ کو دنیا سے نفرت ہوگئی اور آپ نے اپنے گرد پیش کے شرک سے نفرت ظاہر کرتے ہوئے ان لوگوںکی مجالس میںشرکت سے پرہیز کرنا شروع کردیا جو دن رات بتوں کی پرستش کیا کرتے تھے مگر چونکہ آپ کے چاروں طرف ایسے لوگ بستے تھے جوبتوںپر چڑھاوے چڑھاتے تھے اور بتوںکی تعریف میںشعر کہتے تھے اور ان سے کلی علیحدگی ایک ناممکن امر تھا اس لئے آپ نے ارادہ کیاکہ کہیںالگ ہو کر خدائے واحد سے مدد طلب کی جائے تاکہ اس کی طرف سے ہدیت کے سامان پیدا ہوں چنانچہ آپ حضرت خدیجہ ؓ سے کئی دن کا کھانا ساتھ لیکرمکہ سے باہر تین چار میل کے فاصلہ پرغارحرامیںتشریف لے جاتے اور وہاں یاد الٰہی میںمشغول رہتے اس زمانہ میں اور تو کوئی خاص کھانانہ ہوتاتھا صرف کچھ کھجوریں ستو اور سوکھاگوشت آپ اپنے ساتھ لے جاتے اور متواتر کئی کئی د ن اس غار میںعبادت الٰہی اور دعائوں میںمشغول رہتے تاکہ آپ کواور دوسرے بنی نوع انسان کو وہ رستہ مل جائے جوخداتک پہنچاتاہے ۔یہ تڑپ تھی اور پھر یہ ایسی تڑپ تھی جس میں کسی انسانی مدد کا کو ئی سوال نہ تھا کیونکہ دنیا کا کوئی انسان اس میںآپ کا ہاتھ نہیںبٹا سکتا تھا۔دوسرے کاموں میںتو عزیزوںاور دوستوں کی مدد کام دے سکتی ہے یاروپیہ کام دے سکتاہے لیکن اس کام میں کوئی انسانی طاقت آپ کی ممد نہ ہوسکتی تھی اگر تو آپ کے زمانہ میں کوئی مذہب حقہ موجود ہوتا تو اسکی مدد ایک ذریعہ بن سکتی تھی۔مگر آپ کے زمانہ میں کوئی مذہب حقہ موجود نہ تھا اور تمام کی تمام قومیں شرک میں مبتلا تھیں اس لئے وحدانیت کی تلاش کی تڑپ ایک ایسی چیز تھی جس میںسوائے خداتعالیٰ کے دنیا کی کوئی طاقت آپ کی مدد نہ کر سکتی تھی ۔حضرت خدیجہؓ آپ کی وفادار اور غمگسار بیوی تھیں مگر وہ بھی اس معاملہ میں آپ کی کوئی مدد نہ کرسکتی تھیںآپ کے دوست بھی اس میںآپ کی کوئی مدد نہ کرسکتے تھے آپ کے اقراباء بھی اس میں آپ کی کو ئی مدد نہ کر سکتے تھے عیسائی راہب بھی اس میںآپکی کوئی مدد نہ کرسکتے تھے اور مکہ کے کاہن بھی اس میں آپ کی کوئی مدد نہ کرسکتے تھے بلکہ وہ تو خود گم گشتہ راہ تھے انہوں نے آپ کی کیا مدد کرنی تھی ان سب سے بہتر خود آپ کی اپنی فطرت تھی جوبچپن سے ہی ایسی تھی کہ شرک سے سخت متنفر تھی چنانچہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ کے چچا زیدبن عمرو جنہوںنے زمانہ جاہلیت میںہی شرک چھوڑدیا تھا اور جو اپنے آپکوشرک کے خلاف ایک بڑے مقام پر سمجھتے تھے رسول کریم ﷺسے ملے گفتگو کے بعد آپ نے ان سے فرمایا کہ آئو کھانا کھا لو ۔اسپر زید نے کہا میںمشرکوں کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھایا کرتا۔یہ سن کررسول کریم ﷺ نے فرمایامیںنے کبھی شرک نہیںکیا ۔مگر زید نے تویہودیوں کی صحبت میںرہ کر شرک کی تھوڑی بہت مخالفت سیکھی تھی اور رسول کریم ﷺ کی فطرت میں پیدائشی طورپر یہ بات موجود تھی یوں احکام الٰہی اور شریعت کی تفاصیل الہام الٰہی کے ذریعہ آپ کو معلوم ہوئیں لیکن جہاںتک توحید سے محبت اور شرک سے انتہائی نفرت کا سوال ہے یہ چیز بچپن سے ہی رسول کریم ﷺ کی فطرت میں موجود تھی ۔آپ اتنا توجانتے تھے کہ خدا ایک ہے اور ایک ہی ہوناچاہئے لیکن خدا تک پہنچنے کے لئے اور معرفت کے حصول کے لئے رستہ کون ساہے یہ آپ کومعلو م نہ تھا ۔اسی چیز کی تلاش میںآپ غارحرامیںعبادت کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے ایک دن آپ اپنے معمول کے مطابق عبادت الٰہی میں مشغول تھے کہ خداتعالیٰ کا فرشتہ آپ پر ظاہر ہوا اور اس نے کہااقراء یعنی پڑھ آپ نے فرمایا۔ماانا۔۔۔یعنی میںتو پڑھ نہیںسکتا فرشتے نے یہ سنا توآپ کو زور کے ساتھ اپنے سینے سے لگاکر بھینچااور چھوڑ کر پھر کہا اقراء مگر آپ نے پھر وہی جوب دیا کہ ماانا۔۔۔ فرشتہ نے پھر آپ کو پکڑا اور زیادہ زور کے ساتھ سینہ سے لگاکر بھینچااور چھوڑکر کہااقراء مگر آپ نے پھر فرمایا ماانا ۔۔۔ اسپر فرشتہ نے تیسری بار پھر آپ کو پکڑا اور نہایت زور کے ساتھ سینہ سے لگاکر بھینچا اورکہا اقراء۔۔۔۔ یعنی اپنے رب کا نام لیکر پڑھ جس نے دنیا کی تمام اشیا ء کو پیدا کیا ہے اورجس نے انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے ۔ہم پھر تجھے کہتے ہیںکہ پڑھ ۔تیرارب بڑاکریم ہے جس نے انسان کو قلم کے ساتھ سکھایا ہے اور اس نے انسان کووہ کچھ سکھایا ہے جووہ پہلے نہیںجانتاتھا ۔(بخاری باب بدء لوحی )
یہ آیا ت آپ پر پہلے دن غار حرامیں نازل ہوئیں اور اس طرح خدتعالیٰ ٰکی طرف سے آپ کوبتایا گیا کہ اب آپ کو وہ علوم عطاکئے جانے والے ہیںجو اس سے پہلے دنیا میںکوئی انسان نہیںجانتا۔اس جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیٰںفرمایا کہ ہم تجھے وہ علوم عطاکرینگے جن کو انسان بھول چکا ہے۔بلکہ فرمایا ہم تجھ پر وہ علوم ظاہر کریں گے جن کوپہلے کوئی نہیںجانتااگر اللہ تعالیٰ یہ فرماتاکہ میںتجھے وہ علوم عطاکرونگا جو انسان بھول چکا تھا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ میںتجھے و ہ علم اور ہدایت دے رہاہوں جو میںنے ابراہیم کو دی تھی اور اب انسان اس کو بھول چکاہے یا میںتجھے وہ علوم عطاکررہا ہو ںجو میںنے نوح کو دئے تھے اوراب انسان ان کو بھول چکا ہے ۔یامیں تجھے وہ علوم عطاکررہا ہوں جو میں نے موسیٰ کو دیے تھے اوراب انسان انکو بھول چکا ہے ۔یامیں تجھے وہ علوم عطاکررہا ہوں جو میں نے عیسیٰ کو دئیے تھے اور اب انسان ان کوبھول چکا ہے ۔یامیں تجھے وہ علوم عطاکررہا ہوں جو میں نے اور انبیاء کوعطاکئے تھے اوراب انسان ان کوبھول چکا ہے بلکہ اس نے یہ فرمایا کہ علم۔۔۔۔میں تجھے وہ علوم عطا کرنے والا ہوں جو نہ آدم ؑ کو ملے نہ ابراہیمؑ کو ملے نہ موسیٰ کو ملے نہ عیسیٰ کو ملے اور نہ کسی اور نبی کو ملے ۔پس درحقیقت ان پہلی آیتوں میں ہی اللہ تعالیٰ نے بتادیا تھاکہ آپ خاتم النبین کے مقام پر فائز ہونے والے ہیںاور آپکواللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی تعلیم ملنے والی ہے جو پہلے کسی نبی کو حاصل نہیں تھی ۔گویا طٰہٰ میں جوحقیقت ایمان کی گئی ہے اس کی طرف اس ابتدائی الہام میںبھی اشار ہ کردیا گیا اور بتادیا گیا کہ آپ روحانی نقطہ نگاہ سے اپنے اندر کامل قوتیں رکھنے والے ہیںاور اسی وجہ سے آپ کو ایک کامل اور غیرمتبدل تعلیم عطاکی جانے والی ہے
اب اس کے بعد ایک اور مرحلہ شروع ہوا جس نے ثابت کردیا کہ آپ حقیقۃً طٰہٰ تھے اور ایک کامل انسان میں جسقدر اوصاف پائے جانے چاہئیں وہ سب کے سب آپ میں پائے جاتے تھے جب اللہ تعالی ٰنے فرمایا کہ اقراء یعنی جا اور دنیاکو میرا پیغام پہنچادے تو یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ ؑ سے کہاکہ جا اور فرعون تک میرا پیغام پہنچادے تو حضر ت مو سیٰ ؑ نے گھبرا کر کہا کہ واجعل۔۔۔ اے خدا یہ ایسا بوجھ نہیںجس کو میں اکیلابرداشت کرسکوں اس لئے میری مدد کے لئے میرے ہی اہل میں سے ایک آدمی میرے ساتھ مقرر کردیں ۔مگر محمد رسول اللہ ﷺ نے ایسا نہیں کہا۔بلکہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ سے کہا کہ جا اور دنیا تک میرا پیغام پہنچادے توا ٓپ نے اکیلے ہی اس بوجھ کو برداشت کرلیا اور خداتعالیٰ کا پیغام پہنچانے کیلئے اپنے گھر کی طرف چل پڑے آپنے گھر پہنچ کر حضرت خد یجہ ؓ کو یہ تمام واقعہ سنایا اور پھر کہ القد ۔۔۔۔ یعنی خداتعالیٰ نے ایک بہت بڑا کام میرے سپرد کیا ہے ۔میں ڈرتاہوں کہ میں اس عظیم الشان کام کو سرانجام بھی دے سکوں گا یانہیں۔حضرت خدیجہؓ جو آپ کی پاکیزہ زندگی کی شاہد تھیں انہوںنے یہ سنتے ہیں کہا کلا۔۔۔ نہیںنہیںایسا ہرگز نہیںہوسکتا۔خداکی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیںکریگا ۔انک۔۔۔۔ کیونکہ آپ ہمیشہ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیںاور لوگوں کے بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ ا خلاق فاضلہ جو دنیا سے مٹ چکے ہیںان کوازسرنو قائم کررہے ہیںاور ہمیشہ مہمان نوازی کرتے ہیں اگر کوئی شخص بغیر کسی شرارت کے مصیبت میں پھنس جائے توآپ اس کی اعانت فرماتے ہیں۔یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایسے عظیم الشان اوصاف رکھنے والے انسان کو خداچھوڑ دے (بخاری باب بدرالوحی)
دنیا میں انسان کے اخلاق اور اس کے کردار کی سب سے بڑی گواہ اس کی بیوی ہوتی ہے ۔جو رات دن اس کے حالات کو دیکھتی رہتی ہے ۔ پس یہ گوہی سب سے زیادہ معتبر گواہی ہے جس سے ثابت ہوتاہے کہ رسول کریم ﷺ واقعہ میںطٰہٰ تھے یعنی ایک کامل مرد میں جو فجائل اور اوصاف پائے جانے چاہئیں وہ سب کے سب آپ میں اپنی پوری شان کیساتھ پائے جاتے تھے ۔چنانچہ جب ہم رسو ل کریم ﷺ کے حالات زندگی پر تفصیلی طورپرغور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتاہے کہ آپ کی پیدائش سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے آپ میںوہ تمام اوصاف ودیعت فرمادئیے تھے جو ایک کامل القویٰ مرد میں پائے جانے چاہئیں تاکہ آپ ہرقسم کے لوگوں کیلئے نمونہ بن سکیں ہمیںاس سے انکار نہیںکہ حضرت مسیح ؑ بھی ایک اعلیٰ درجہ کے نبی تھے لیکن وہ ہر زمانہ اور ہرقوم کے لوگوں کے لئے نمونہ نہیںتھے ۔مثلاًانجیل سے آپ کی شادی ثابت نہیں۔اس لئے شادی شدہ لوگو ںکی متاہلانہ زندگی میں آپ کو ئی راہنمائی نہیںکرسکتے ۔
اسی طرح آپ بادشاہ نہیںہوئے کہ ٓاج بادشاہ یہ کہہ سکیں کہ مسیح ؑ ہمارے لئے بھی نمونہ ہے مگر محمد رسو اللہ ﷺ ایسے حالات میں سے گذرے جن کے نتیجہ میں آپ دنیا کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے ایک بے مثال نمونہ بن گئے اور پھرزندگی کے ہر مرحلہ میں آپ کے اپنے اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور بلند کردار کا اظہا ر کرکے ثابت کردیا کہ آپ کے اندر کامل روحانی قوتیں ودیعت کی گئی ہیں۔مثلا ًرسول کریم ﷺ کے والد آپ کی پیدائش سے قبل ہی فوت ہوچکے تھے اور بہت چھوٹی عمر میں آپکی والدہ کا بھی انتقال ہوگیا تھا۔ مگر داداکی زیرنگرانی جو باپ قائم مقام تھاآپ نے بتادیا کہ اخلاق کیسے ہونے چاہئیں۔یتیم کی حالت دو قسم کی ہوتی ہے ۔یا توبچہ بہت ہی سرچڑھ جاتاہے یا بہت ہی پژمردہ رہنے لگتاہے اگر اس کے نگران ایسے لوگ ہوں جو اس کی دلجوئی کے خیال سے ہر وقت پیارہی کرتے رہیں تو اس کی اخلاقی حالت بہت ہی گرجاتی ہے اور اگر وہ ایسے لوگوں کی تربیت میں ہو جوسمجھیں کہ ہمارا بچہ تو یہ ہے ہی نہیںتو یتیم کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے مگر بچپن میںہی رسول کریم ﷺ کا نمونہ ایسا اعلیٰ تھا کہ آپ کے ہمجولی بیان کرتے ہیں کہ گھر میں کسی چیز کے لئے آپ چھیناجھپٹی نہیںکرتے تھے بلکہ وقار کے ساتھ اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے تھے حتیٰ کہ چچی خود بلاکر آپ کاحصہ دیتیں پھر آپ وقار کیساتھ ہی اس کا استعمال کرتے ۔آپ کی رضاعی والدہ کا بیان ہے کہ آپ میں ایسی سعادت تھی کہ بچے بھی حیران رہ جاتے تھے ۔رضاعی بھائی بیان کرتے ہیںکہ آپ لغو کھیلیں نہیںکھلیتے تھے ۔مذاق کرلیتے تھے مگر جھوٹی باتوں سے سخت نفرت تھی اس زمانہ میں ایسی ہمدردی آپ کے اندرپائیجاتی تھی کہ چھوٹے بچے بھی آپ کواپناسردار سمجھتے تھے پھر جس قسم کا حسن سلوک آپ نے ابوطالب اور اپنی چچی سے کیا ہے اس کی نظیر سگے بیٹوں میںبھی نہیںملتی فتح مکہ کے بعد لوگوں نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ !آپ کس مکان میں ٹھہرینگے اس پرآپ نے بغیر کسی قسم کے غصہ کے فرمایا عقیل نے کوئی مکان باقی چھوڑاہے کہ اس میںٹھہریں یعنی چچازاد بھائیوںنے مکان بیچ دیئے ہیں۔اب ہمارا کونسا مکان ہے جس میں ہم ٹھہریں ۔پھر آپ نے نہ صرف باپ کی محبت کوابوطالب کے متعلق قائم رکھابلکہ دوسروں کو بھی تعلیم دی کہ ماں باپ کواف بھی نہ کہو۔
اس کے بعد آپ جوان ہوئے لوگ اس عمر میںکیاکچھ نہیںکرتے ۔عرب میں اس وقت کوئی قانون نہ تھا کوئی اخلاقی ضابطہ نہ تھا ۔لوگ اس پر فخر کرتے تھے کہ ہمارا فلاں کی عورت یا لڑکی سے ناجائز تعلق ہے اس ماحول میںرہنے والے نوجوانوں سے کو ئی شخص بلند کردار کی توقع نہیں کر سکتامگر محمد رسول اللہ ﷺ نے ایسی گندی فضا کے باوجود جوانی میں ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ لوگ آپ کو امین اور صد وق کہتے تھے یہ کہنا کہ آپ جھوٹ نہ بولتے تھے آپ کی ہتک ہے کیونکہ آپ صداقت کا یسا اعلیٰ نمونہ تھے کہ جس کی نظیر نہیںملتی ۔اور صداقت کامقام جھوٹ نہ بولنے سے اوپر ہے پس آپ کا یہی کمال نہیںکہ آپ جھوٹ نہیںبولتے تھے بلکہ آپ کاکمال یہ ہے کہ آپ صدوق کہلاتے تھے ۔آپ کے کلام میںکسی قسم کا اخفاء اور پردہ دری یافریب نہ ہوتاتھا۔یہی وجہ تھی کہ آپ جوکچھ کہہ دیتے تھے لوگ اسے تسلیم کرلیتے آپ نے اہل مکہ سے کہا کہ اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑالشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیاتم یقین کر لوگے ۔سب نے کہاہاں ہم مان لیںگے (بخاری کتاب التفسیر سورئہ شعوء) حالانکہ ویران علاقہ تھا اور صفا اور مروہ پر چڑھ کر دور دور نظر جاتی تھی ایسی حالت میں آپ کی بات ماننے کے صاف معنے یہی تھے کہ وہ اپنی آنکھوں کو جھوٹاسمجھتے حالانکہ وہ دیکھ رہے ہوتے کہ کوئی لشکر نہیں مگر وہ سب کے سب اپنی آنکھوں کوجھوٹاسمجھنے کیلئے تیار تھے لیکن یہ کہنے کیلئے تیار نہیںتھے کہ آپ غلط کہہ رہے ہیںاور جب سب نے یہ اقرار کرلیا تو آپ نے فرمایا ۔خدانے مجھے تمہاری ہدایت و اصلاح کے لئے بھیجاہے۔پھر آپ کی صداقت کے متعلق ایک شدید ترین دشمن کی گواہی موجود ہے اہل مکہ کو جب خیال ہوا کہ حج کے موقعہ پرلوگ جمع ہونگے تو عین ممکن ہے کہ آپ ان میں سے بعض کواپنے ساتھ ملالیںتو وہ لوگوںکو آپ سے بدظن کر نے کی تجویزیں سوچنے لگے کسی نے کہا یہ مشہور کردو کہ یہ شاعرہے کسی نے کہا یہ مشہور کردو کہ یہ مجنوں ہے ۔اتنے میں ایک شخص بولا اور کہنے لگا اسمیںگھبراہٹ کی کونسی بات ہے ۔ہم کہہ دیں گے کہ یہ جھوٹاہے اس پرانہی میں سے ایک مخالف نضربن الحارث بڑے جوش سے کھڑاہوگیا اور کہنے لگا ۔محمد ﷺ تمہارے درمیان جوان ہوا ہے اس کے اخلاق تم سب سے زیادہ اچھے تھے وہ تم سب سے زیادہ راستباز تھا ۔وہ تم سب سے زیادہ امین تھا مگر جب تم نے اس کی کنپٹیوں میںسفید بال دیکھے اور وہ تمہارے پاس وہ تعلیم لیکر آیا جس کا تم انکار کررہے ہوتو تم نے کہہ دیا کہ وہ جھوٹاہے خداکی قسم وہ ہرگز جھوٹانہیں۔ (سفاء قاضی عیاض)
پھرہم آپ کی زندگی کے اخلاقی پہلو اور غرباء کی امداد کو لیتے ہیںتو ا سمیں بھی ہمیں آپ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔
مکہ کے بعض اشخاص نے مل کرایک ایسی جماعت بنائی تھی جوغریب لوگوںکے حقوق کی حفاظت کرے اور چونکہ اس کے بانیوں میںسے اکثر کے نام میںفضل آتاتھا اس لئے اسے حلف الفضول کہا جاتاہے ۔اس میںآپ بھی شامل ہوئے یہ زما نہ نبوت سے بہت پہلے کی بات ہے۔ بعد میںصحابہ ؓ نے ایک دفعہ اس کے متعلق دریافت کیا ۔تو آپ نے فرمایا یہ تحریک جو مظلوموں کی امداد اور غرباء کے حقوق کے لئے جاری کی گئی مجھے ایسی پیاری تھی کہ اگر آج بھی مجھے کوئی شخص اس کی طرف بلائے تو میںاس میںشا مل ہونے کے لئے تیار ہوں ۔گویا غرباء کی امداد کیلئے دوسرں کی ماتحتی سے بھی آپ کو کوئی عار نہیںتھا ۔ پھر آپ نے جب حضرت خدیجہ ؓ سے شادی کی تو اس وقت آپ کے پاس کوئی مال نہ تھا۔بعض لوگوںنے روایت کی ہے کہ آپ کے والد نے چند بکریاں اور ایک دواونٹ آ پ کے لئے چھوڑے تھے (طبقات اب سعد) مگر یہ جائیداد ایسی قلیل تھی کہ اسکاہونا نہ ہونابرابر ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامل قوتوںکے ساتھ پیدا فرمایا تھااور آپ صحیح معنوں میںطٰہ ٰکے مصداق تھے اس لئے آپ کی طبیعت میں حرص بالکل نہ تھی اور سرچشمی مال کو پہنچی ہوئی تھی یہاںتک کہ آپ کی قوم نے آپ کو امین کا خطاب دے دیااور آپ کی دیانت وامانت کاسکہ تسلیم کرلیا ۔
ایک دفعہ صدقات کاکچھ روپیہ آیا اور اسے تقسیم کرتے ہوئے ایک دنیار کسی کو نے میںگرگیاجسے اٹھانے کاآپ کو خیال نہ رہا ۔نماز کے بعد یاد آیا تو لوگوں کے اوپرسے پھاندتے ہوئے آپ جلدی سے اپنے گھر تشریف لے گئے صحابہ ؓ نے دریافت کیا کہ یارسو اللہ ! کیابات تھی آپ نے فرمایا اس اس طرح ایک دینار تقسیم کرنے سے رہ گیا تھا میںنے چاہا کہ جس قدر جلدی ممکن ہو اسے بھی تقسیم کردوں غرض مال ودولت کے باوجود آپ نے ایسی سرچشمی او ر استغناء ظاہر کی کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے ۔جو کچھ آتا آپ خداتعا لیٰ کی را ہ تقسیم کردیتے حالا نکہ گھر کی یہ حالت تھی کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیںکہ بعض دفعہ ایک ایک مہینہ تک ہمارے گھروں میںآگ نہیںجلتی تھی ہم اونٹنی کا دودھ پی لیتے یا کھجور یں کھا لیتے تھے یا بعض دفعہ کوئی ہمسایہ دودھ یا کوئی اور چیز بھیج دیتاتو وہ استعمال کرلیتے اورکبھی فاقہ سے ہی رہتے تھے (شمائل ترمذی بابماجاء فی عیش النبی ﷺ )
یہ اس زمانہ کی حالت ہے جب کثرت سے دولت آرہی تھی۔غرض آپ نے ہرحالت میںاعلیٰ نمونہ دکھایا آپ کوروپیہ ملامگر پھر بھی اپنی غربت کو قائم رکھا ۔آپ مجرد رہے اور ایسااعلیٰ نمونہ دکھایاکہ دنیاحیران ہے آپ نے پچیس برس کی عمر میںشادی کی جبکہ عرب میںسولہ سترہ برس کا لڑکا پورابالغ ہوجاتاہے اور اس عمر میں بھی ایک بڑی عمر کی بیوہ کے ساتھ شادی کی۔پھرشادی کے بعد حضرت خدیجہؓ نے جب اپنی ساری دولت آپ کے حوالے کردی جو اپنے سب سے پہلا کام یہ کیاکہ سب غلاموں کوآزادکردیا ۔
دشمنوں کے ظلم سہنے میںبھی آپ نے ایسا نمونہ دکھایا جوبے نظیر ہے طائف مٰیںتبلیغ کے لئے تشریف لے گئے تو پتھروں کی بچھاڑ کی وجہ سے سر سے پائوں تک آپ زخمی ہوگئے مگرایسی حالت میں بھی جب خداتعالیٰ کا فرشتہ آیا اور اس نے کہاکہ اگر چاہو تو ابھی ان لوگوں کوسزا دے دی جائے تو آپ نے فرمایا نہیں لوگ نادانی سے ایسا کررہے ہیں ۔ پھر جب کبھی ضرورت پیش آتی آپ فوراً ان دشمنوں کی امداد کرنے کے لئے تیار ہوجاتے جو آپ کی ایذا رسانی پر ہمیشہ کمر بستہ رہتے تھے ۔کوئی نہیںجو آپ کے پاس آیا ہو اور آپ نے اس کی حاجت روائی سے انکار کردیا ہو وہ شہر جہاں سے رات کے وقت چھپ کر آپ کو ھاگنا پڑا تھا اس شہر کے شدید ترین معاند جب مغلوب ہونے کے بعد آپ کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے فرمایا لاتثریب علیکم۔۔۔۔۔ جاو آج تم پر کوئی گرفت نہیں ۔میں نے تم سب کو معاف کردیا ہے حالانکہ ان لوگوں میں سے بعض ایسے تھے جنہوں نے آپ کے صحابہ ؓ کو اونٹوں سے باندھ باندھ کر چیر ڈالا ۔بعض ایسے تھے جنہوں نے عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر انہیں شہید کر ڈالابعض ایسے تھے جنہوں نے صحابہ ؓ کو جلتی ری پر لٹالٹا کر انہیں دُکھ دیا اور ان کا جینا دوبھر کردیا ۔ مگر آپ نے ان سب کو معاف کر دیا اور اس طرح بتادیا کہ آپ کے اندر کتنا عدیم المثال عفو پایا جاتاہے ۔
آپ نے تجارت بھی کی اور ایسی کہ حضرت خدیجہ ؓ کے غلام کہتے ہیں ہم نے ایسا ایماندار کوئی نہیںدیکھا۔سب سے زیادہ نفع آپ کوہونا تھا اور آپ کی چیز میںاگر کو ئی نقص ہوتاتو آپ خود ہی اس کو ظاہر کردیتے تھے ۔نتیجہ یہ ہوتاکہ گاہک تلاش کرکرکے آپ سے مال خریدتے تھے ۔آپ کا غریبوں سے معاملہ ایسااحسان کا تھاکہاایک دفعہ ایک شخص نے آپ کی گردن میں پٹکا ڈال لیا اور کہا مجھے کچھ مال دو آپ نے اسے کچھ نہیں کہا بلکہ صرف یہ جواب دیا کہ میں۔ بخیل نہیں ہوں اگر میرے پاس مال ہوتو میں ضرور دے دیتا۔اس وقت دس ہزار آدمی آپ کے ہاتھ پر اپنی جان و مال کوقربان کرنیکا عہد کرچکا تھا ۔اگر آپ ذرابھی اشارہ کر دیتے تو وہ اس کی گردن اڑادیتے مگر آپ نے اس پر خفگی کا اظہار نہیںکیا۔
پھر شجاعت اوردلیری آپ میں اسقدر تھی کہ مکہ کی مخالفت جب انتہا کو پہنچ گئی تو رئوسائے قریش نے ابو طالب کو دھمکی دی کہ اگر تم نے محمد ﷺ کونہ روکا تو تمہیں بھی نقصان اٹھانا پڑے گا ۔اور ہم تمہیں اپنی سرداری سے الگ کردینگے ۔ابوطالب اس دھمکی سے گھبراگئے اور جب رسول کریم ﷺ گھر آئے تو انہوں نے بلاکر کہا کہ مکہ کے ریئس اس اس طرح کہتے ہیںیہ ممکن نہیںکہ کوئی ایسی پالیسی اختیار کرلو جس سے ان کی بھی دلجوئی ہو جائے ۔رسو ل کریم ﷺ نے فرمایا ۔چچامیں ساری تکالیف برداشت کرلونگا مگر میںخداتعالیٰ کاپیغام پہنچانے سے کبھی رک نہیںسکتا ۔خداکی قسم اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیںاورچاند کو میرے بائیںبھی لاکر رکھدیں تب بھی میںخدائے واحد کی توحید پھیلانے سے باز نہیںرہ سکتامیں کام میں مشغول رہوں گااور اس کے لئے اپنے خون کاآخری قطرہ تک بہانے سے بھی دریغ نہیںکروں گا۔
غرض ایک کامل قوتوں والے انسان کے اندر جسقدر اوصاف پائے جانے چاہئیں وہ سارے کے سارے اپنی پوری شان اور عظمت کے ساتھ محمد رسو ل اللہ ﷺ میںپائے جاتے تھے ۔آپ کے اندر شجاعت بھی پائی جاتی تھی سخاوت بھی پائی جاتی تھی احسان بھی پایا جاتا تھا،وفاداری بھی پائی جاتی تھی ۔تحمل بھی پایا جاتاتھااور حم بھی پایا جاتاتھا حلم بھی پایاجاتاتھا، ایثار بھی پایا جاتاتھا ،دیانت بھی پائی جاتی تھی ،اخوت بھی پائی جاتی تھی ،تواضع بھی پائی جاتی تھی ،غیرت بھی پائی جاتی تھی ،شکر بھی پایا جاتاتھا ،استقلال بھی پایا جاتاتھا، وقاربھی پایا جاتا تھا ،بنی نوع انسان کی خیر خواہی بھی پائی جاتی تھی ،بلند ہمتی بھی پائی جاتی تھی ،صبر بھی پایا جاتاتھا،رافت بھی پائیجاتی تھی ،بدی کے مقابلہ کی طاقت بھی پائیجاتی تھی ۔ قوت برداشت بھی پائی جاتی تھی ،جفاکشی بھی پائیجاتی تھی ،سادگی بھی پائی جاتی تھی،صلہ رحمی بھی پائی جا تی تھی سچائی بھی پائی جاتی تھی ،غرباء پروری بھی پائی جاتی تھی ،مصیبت زدوں کی مدد کی خواہش بھی پائی جاتی تھی ،مہمان نوازی بھی پائی جاتی تھی ،بزرگوں کاادب اور چھوٹوں پر شفقت بھی پائی جاتی تھی ،محبت الٰہی بھی پائیجاتی تھی ،توکل بھی پایا جاتاتھا ۔عبادات کی محافظت بھی پائی جاتی تھی ۔غرض کونسی خوبی تھی جو آپ میںنہ پائی جاتی ہو ۔اور کونساکمال تھا جو آپ میں موجود نہ ہو یہی حکمت ہے جس کے ماتحت سورئہ مریم کے بعد اس سورۃ کو رکھا گیا ہے اور ایک لطیف پیرایہ میں اس طرف اشارہ کیا گیا کہ جب حضرت مریم ؑ کے پیٹ میں حضرت عیسیٰ ؑ پڑے تھے تو گو جس فرشتے نے آپ کوحضرت عیسییؑ کی پیدائش کی خبر دی تھی وہ بشراً ۔۔۔کی شکل میںآیا تھا ۔یعنی ایک تندرست مرد کی شکل میںظاہر ہوا تھا جیسا کہ سوئہ مریم میںآتاہے فتمثل ۔۔۔ لیکن رسول کریم ﷺ کی پیدائش کی خبر کسی فرشتے نے ایک تندرست بشر کی شکل میںظاہر ہوکر نہیںدی بلکہ آپ خود ایک کامل القویٰ مرد تھے جن کے اندر تمام مردانہ صفات اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر تھیں۔گویا حضوت عیسیٰ کو تو یہ صفت بالواسطہ اوروہ بھی نامکمل شکل میںملیںکیونکہ حضرت عیسیٰ کی خبر دینے والا فرشتہ بشر کہلاتا تھا رجل نہیں۔ اوربشر کا وجود متمدن انسان کے دورسے پہلے تھا یعنی بشر انسان کا پہلا درجہ تھا لیکن رجل انسان کاآخری درجہ ہے۔ پس محمد رسول اللہ ﷺ کامل قوائے انسانی کے ظہور تھے اس وجہ سے بقول انجیل جب ان پر جبریل نازل ہوا تووہ ایک کبوتر کی شکل میں نازل ہوا (متی باب ۳آیت ۱۶ ) جو ایک کمزور اور نحیف جانور ہے اور بلی بھی اس کوکھا جاتی ہے ۔مگر جب وہی جبریل رسول کریم ﷺ پرنازل ہوا تو ایک قوی ہیکل انسان کی صور ت میںنازل ہوا جس نے اپنی پوری طاقت سے رسو ل کریم ﷺ کو بھینچا۔چنانچہ رسو ل کریم ﷺغارحراوالے واقعہ کی تفاصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب فرشتہ میرے پاس ٓیااور میں نے ماانا۔۔۔ کہا تو فغطنی۔۔۔۔ اس نے مجھے ایسابھینچاکہ میری مقابلہ کی طاقت بالکل جاتی رہی۔
یہ حدیث اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آنحضور ﷺ پر نازل ہونے والا فرشتہ ایک قوی ہیکل انسان کی صورت میںظاہر ہوا تھا جبکہ مسیحؑ پر نازل ہونے والا فرشتہ ایک کبوتر کی شکل میں ظاہر ہوا کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ خود کامل قوائے انسانی کے ظہور تھے اور یہی وہ خصوصیت ہے جسکی طرف طٰہٰ میںاشارہ کیاگیا ہے۔
آیت نمبر۳
ترجمہ:۔ ہم نے تجھ پر(یہ)قرآن اس لئے نازل نہیںکیا کہ تو دکھ میںپڑجائے۔ ۳؎
۳؎ حل لغات:۔ تشقیٰ۔۔۔وہ شقی ہوگیادراصل شقادہ کالفظ سعادہ کے مخالف میں ظاہرکرنے کے لئے بولا جاتاہے ۔اور (اقرب)سعادۃکے معنے یںمعاونۃ ۔۔۔ بھلائی اوربرکت حاصل کرنے کئے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کردہ اسباب کی امداد (مفردات ) پھر مفردات میں شقاء کے معنے کرتے ہوئے امام راغب ؒ لکھتے ہیں قال۔۔۔۔۔ یعنی بعض اہل زبان کہتے ہیں کہ تھکان اور تکلیف کے معنوں میںبھی شقادۃ کا لفظ استعمال ہوتاہے ۔پس لتشقیٰ کے معنے ہونگے تجھ کو تھکان اور تکلیف لاحق ہو ۔ تو اپنے مقصد کے حصول میںخداتعالیٰ کے پیداکردہ اسباب کی امداد سے محروم رہے۔
۳؎ تفسیر:۔
یہ آیت اسی مضمون کی تصدیق کرتی ہے جو سورئہ مریم میںبیان کیاگیا تھا کہ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے آسان کرکے اتاراہے تاکہ متقیوں کیلئے بشارت ہو اور مسیحی قوم کے اس عقیدہ کی تردید کی گئی تھی کہ شریعت *** ہے ۔اب فرماتاہے کہ قرآن کانزول اس لئے نہیںکہ تو مشقت میں پڑے بلکہ اس لئے ہے کہ تجھ کو تیر ے فرائض یاد کرائے جائیںاور جوشریعت انسان کو اس کی ذمہ داری یاد کرتی ہے وہ *** نہیںکہلا سکتی وہ تو ایک اچھا ساتھی ہے جو وقت پر انسان کو صحیح طریقہ بتاتا رہتاہے پس ماانزلنا۔۔۔۔۔ میں بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم میں جتنی تعلیم نازل ہوئی ہے وہ انسان کیلئے رحمت اور برکت کا موجب ہے اسکی کوئی تعلیم ایسی نہیں جواسکی فطرت کے خلاف ہو اوراس طرح اسے دکھ اور تکلیف میںڈالنے والی ہو۔
اسی طرح اس آیت میںاس طرف بھی اشارہ ہے کہ جب تو کامل القویٰ انسان ہے جوہمارے سپرد کردہ فرائض کو اچھی طرح اداکرسکتاہے اور کر رہا ہے تو کس طرح ہوسکتاتھا کہ ہم تجھے تباہ کرتے کیونکہ کوئی شخص اپنی قیمتی چیزکوتباہ نہیںکیاکرتا۔پس ہم نے یہ قرآن تجھے تباہ کرنے کے لئے نہیںبلکہ تجھے اور تیری قوم کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلانے کے لئے نازل کیا ہے اور اس لئے نازل کیا ہے تاکہ تم گمراہی سے بچ جائو۔
آیت نمبر۴
ترجمہ :۔ (یہ تو) صرف (خداسے )ڈرنے والے انسان کے لئے راہنمائی اور ہدایت (کیلئے )ہے ۴؎
۴؎ حل لغات :۔ یخشیٰ ۔۔۔۔سے مضارع احد مذکر غائب کا صیغہ ہے او یمشی کے معنے ہیںخافہ۔۔ اس سے ڈرا (اقرب ) مفردات میںہے الخشیۃ ۔۔۔ کہ خشیت کا لفظ خون کے لے جو کسی کی عظمت کی وجہ سے لاحق ہو اور یہ عام طور پر اس لئے ہواہے کہ جس سے ڈراجاتاہے اس کی شخصیت اور اس کے مقام کا علم ہوتاہے کہ وہ کس مرتبہ کا ہے(مفردات ) پس یخشی کے منے ہوںگے جو خدتعالیٰ کی عظمت سے ڈرتاہو ۔اور اس کے مقام اور مرتبہ کا خوف رکھتاہو۔
۴؎ تفسیر:۔
فرماتاہے یہ قرآن دوسری کتابوں کی طرح محض انسان کے دل میںخداکاڈرہی پیدانہیںکرتابلکہ ڈر پیداکرنے کے بعد انسان کواور اوپر لے جاتاہے اورخدا سے ملادیتاہے ۔یعنی اس کادوست بنا دیتاہے ۔چنانچہ قرآن کریم کے شروع میںبھی فرمایاہے کہ یہ کتاب ھدی۔۔۔۔۔ ہے یعنی جولوگ متقی ہوتے ہیںانکو مزید راستہ دکھاکر خداتعالیٰ تک پہنچادیتی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ مقرب لوگ صرف ڈرا نہیں کرتے بلکہ انعامات کے امید وار بھی ہوتے ہیںاورمحبت کے شعلے ان کے دلوں میںبھڑک رہے ہوتے ہی اوریہی وہ عالی مقام ہے جس کو قرآن کریم کے سواور کوئی کتاب پیش نہیںکرتی ۔
آیت نمبر۵
ترجمہ :۔ (قرآن )اس کی طرف سے اتاراہوا ہے جس نے زمین میںاور اونچے آسمان کوپیدا کیاہے ۵؎
۵؎ حل لغات:۔تنزیلاًنزل کا مصدر ہے اور یہ اس لئے منصوب ہے کہ اس سے پہلے فعل محذوف ہے یعنی انزلنہ۔۔۔ کہ ہم نے اسکو خوب اچھی طرح اتاراہے ۔العلیٰ ۔کی جمع ہے اور العلیا ۔۔۔کا مونث کا صیغہ ہے (مفردات ) پس اسمٰوٰت العلیٰ کے معنے ہوں گے بلند آسمان ۔
۵؎ تفسیر :۔
اس آیت میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جس خدانے مادہ کو پیدا کیا اور بے انتہا درجوں میں پیداکیا ہے یہاں تک کہ اس کے بالائی حصے نظر تک نہیںآیت وہ خدا اگر روحانی دنیا پیدا کریگا تو اس کو بھی اسی شکل میں پیدا کریگا یعنی ایسے ایسے بلند روحانی مقامات اس میںرکھے گا کہ وہ روحانی آسمان کہلانے کے مستحق ہونگے ۔اور جس طرح یہ جسمانی آسمان دنیا کی خدمت میںلگاہوا ہے اسی طر ح و ہ روحانی آسمان دنیا کی روحانی خدمت میںلگارہے گا ۔اور لوگ اس کی مدد سے بلند سے بلند تر ہوتے چلے جائیں گے ۔اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ کے ایک ادنیٰ خادم حضرت معین الدین صاحب چشتی ؒ نے فرمایا کہ ؎
دمیدم روح القدس اندر معینے می دمد من نمی گویم مگر سن عیسیٰ ثانی شدم
یعنی جبریل ؑ ہر گھڑی معین الدین چشتی ؒ کے کان میں بول رہا ہے پس گو میں منہ سے نہیںکہتامگر واقعہ یہی ہے کہ میں عیسیٰ کا نظیر ہوگیا ہوں حضرت عیسٰی ؑنے تو پادری اور پوپ پیدا کئے جن میںہزاروں عیوب پائے جاتے ہیںلیکن محمدرسول اللہ ﷺ نے حضرت معین الدین صاحب چشتی ؒ جیسے وجود پیداکئے یعنی خود عیسیٰ پیدا کئے ۔
اسی طرح آپ کے ایک اور خادم یعنی بانی ء سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیںکہ۔
الا منکر از شان محمد ۔ہم از نور نمایان محمد ؐ کرامت گرچہ بے نام ونشان است بیابنگر زغلامان محمدؐ
(آئنہ کمالات اسلام کے آخری صفحات )
یعنی اے و ہ شخص جو محمد رسول اللہ ﷺ کی شان اور آپ کے چمکتے ہوئے انور کا منکر ہے کان کھول کر سن لے کہاگر چہ کرامت اس زمانہ میںہر جگہ مفقود ہے مگر تو آاور اسے محمدؐ رسول اللہ ﷺ کے غلاموں میں دیکھ لے ۔
آیت نمبر۶
ترجمہ :۔ (وہ) رحمن (ہے جو)عرش پر مستحکم طورپر قائم ہوگیا ہے ۔۶؎
۶؎ حل لغات :۔ العرش۔سریر۔الملک ۔بادشاہ کا تخت ۔العز ۔عزت وغلبہ ۔قوام الامر معاملات اور امور کی درستی کاذریعہ اور مدار ۔ عرش من البیت : سقفہ مکان کی چھت ۔العرش الملک بادشاہت (اقرب ) مفردات میں ہے ۔وسُمی۔۔۔۔۔۔ بادشاہ کے بیٹھنے کی جگہ یعنی تخت کو بھی عرش کہتے ہیںاسوجہ سے کہ وہ بلند ہوتاہے اور عرش میںبلندی کے معنے پائے جاتے ہیں۔وکنی۔۔۔۔ اور عرش کے لفظ کو عزت اور غلبہ اور بادشاہت کے مفہوم کے اداکرنے کیلئے بھی استعمال کرلیا جاتاہے وقولہ۔۔۔۔۔ اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے لئے جو یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیںکہ وہ عرش والا ہے اس سے خداتعالیٰ کی بادشاہت اور غلبہ کی طرف اشارہ کیا گیاہے نہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کاکوئی خاص تخت ہے جس پر وہ قرار فرماہوتاہے کیونکہ اس سے تجسم لازم آتاہے اور اللہ تعالیٰ تجسم سے پاک ہے (مفردات )
استویٰ:۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب استویٰ کا لفظ کسی انسان کے لئے استعمال کریں تو یہ معنے ہون گے کہ وہ عین عنفوان شباب کو پہنچ گیا ۔اور اس عمر کو جاپہنچاجبکہ اسکی ساری طاقتیں اور قوتیں پختہ ہو کر ظاہر ہوگئیں اور کام کرنے لگیں۔اور جب استویٰ ۔۔۔کہیں تو یہ معنے ہونگے کہ وہ کسی جگہ کا مالک ہوگیا ۔تو وہ کسی خاص تخت پر نہ بیٹھا ہو ۔اور استویٰ ۔۔۔ کے معنے ہوتے ہیںاستولی۔۔۔ وہ کسی چیز پر غالب آگیا (اقرب )
۶؎ تفسیر:۔
فرماتاہے کلام الٰہی کا نزول صفت رحمن کے ماتحت ہوتاہے ۔یعنی خداتعالیٰ اپنے بندوں کی کمزوری دیکھ کر خود ہی ان کی ہدایت کے لئے جوش میں آتاہے ۔اس آیت میں عیسائیت کا رد کیا گیا ہے کیونکہ عیسائیت کفارہ کی قائل ہے اور کفارہ اور رحمانیت اکٹھے نہیںہوسکتے ۔کیونکہ کفارہ تبھی سچاہوسکتاہے جبکہ خداتعالیٰ بغیر کسی کام کے کسی پر رحم نہ کرسکے لیکن رحمن کے معنے یہ ہیںکہ بغیر کسی سابقہ خدمت کے رحم کرنے ولی ہستی چنانچہ مسلمانوںکی سب کتابوں پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھاہوتاہے ۔لیکن عیسائی مصنف اپنی کتابوں سے پہلے اول تو کچھ لکھتے نہیں اور اگر بعض لوگ کچھ لکھتے بھی ہیں تو اپنی اپنی مرضی کے مطابق الفاظ منتخب کرکے لکھ لیتے ہیں۔چنانچہ بعض لوگ تو
’’بسم الاب الہادی الجواد ‘‘ لکھتے ہیں (ستم ہا مان منظومہ منشی کیدارنارتھ صاحب ) بعض
’’بسم اللہ الہادی الجواد‘‘ لکھ دیتے ہیں (شہادۃ القرآن او بعض یہ الفاظ لکھ دیتے ہیںکہ ’’خداتعالیٰ کے نام پر جوہادی لاشریک ہے ‘‘ (بہت بیش قیمت عطر کی شیشی مصنفہ پادری ٹسڈل صاحب )
گویا اور الفاظ تو وہ استعمال کرتے ہیں لیکن رحمن کا لفظ چھوڑ دیتے ہیںکیونکہ رحمن کا لفظ ان کے مذہب کے خلاف ہے مگر دنیا کا ذرہ ذرہ بتارہا ہے کہ خدا رحمن ہے ۔بچہ پیدا ہوتا ہے تو کوئی نیکی کرکے تونہیںآتامگر خدتعالیٰ اس کی ماں کی چھاتیوں میں دودھ اتاردیتاہے اور یہ انعام بغیر کسی نیکی کے ہوتاہے ۔اسی طرح جوانی تو پیدائش کے بڑے عرصہ بعد آتی ہے لیکن اس کے جسم کو سردی گرمی سے بچانے کے لئے کپڑے اور مکان کا سامان پہلے سے موجود ہوتاہے ۔پس دنیاکا ذرہ ذرہ خداتعالیٰ کی رحمانیت پر دلالت کررہا ہے ۔اسی طرح ہر مذہب بھی اس کی رحمانیت کا ثبوت ہے کیونکہ خداتعالیٰ کا کلام جب نازل ہوتاہے توکسی نیکی کے بدلہ میں نازل نہیںہوتابلکہ بطور احسان نازل ہوتاہے ۔چنانچہ قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی قرآن کریم کے نزول کا ذکر ہے یہی فرمایاگیا ہے کہ قرآن کریم کور حمن خدانے نازل کیا ہے ۔رسول کریم ﷺ کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ فرماتاہے ماکنت۔۔۔۔۔ تو نہیںجانتا تھا کہ ایمان کیا ہوتاہے اورکتاب کیا ہوتی ہے پس قرآن جو تجھ پر نازل ہواہے نہ کسی ایمان کے نتیجہ میں نازل ہواہے اور نہ کسی کتاب پر عمل کرنیکے نتیجہ میں نازل ہوا ہے ۔بلکہ محض اس محبت کی مخفی چنگاری کے بدلہ میںنازل ہواہے جوتیرے دل میں خدا کے لئے اس طرح سلگ رہی تھی جس طرح بچہ کے دل میںماں کے لئے محبت کی مخفی چنگاری سلگ رہی ہوتی ہے ۔
عرش کے متعلق یہ امر یاد رکھناچاہیئے کہ عرش کوئی مادی چیز نہیںبلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات تنزلی کا نقطہ مرکزی ہے یعنی خداتعالیٰ کی جو صفات بندوں سے تعلق رکھتی ہیں ان کو خداتعالیٰ عرش پر سے ظاہر کرتاہے جس طرح بادشاہ اپنی رعایا کے لئے اپنے تخت حکومت پر سے احکام دیتے ہیں۔ عرش کی مفصل بحث کیلئے دیکھیں سورۃ یونس آیت ۴ چونکہ کلام الٰہی خداتعالیٰ کی طرف سے مختلف قسم کے احکام پر مشتمل ہوتاہے اسلئے فرمایا الرحمن۔۔۔۔۔ یہ قرآن ہے تورحمانیت کی صفت کے ماتحت یعنی انسانوںکی کسی خدمت کے نتیجہ میں نازل نہیںہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کے غیر محدود رحم نے بندوں کی ہدایت کے لئے نازل کیاہے مگر خدا کے رحمن ہونے کی وجہ سے یہ دھوکا نہ کھالینا کہ اس کلام کو رد کردینا معمولی بات ہے بلکہ یاد رکھنا کہ رحمن خدانے اپنے تخت شاہی پر بیٹھ کر یہ اعلان کیاہے اور اس کو رد کرنا اس کی بادشاہت کا انکار کہلائے گا اور تمہیںسزا کامستحق بنادیگا۔
آیت نمبر۷
ترجمہ :۔ آسمانوںاور زمین میں جو کچھ ہے او وہ بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے اسی کاہے ۔نیز (وہ بھی ) جو گیلی مٹی کے نیچے ہے ۔ ۷؎
۷؎ حل لغات :۔ الثریٰ ۔۔۔۔۔ گیلی مٹی ۔ (اقرب)
۷؎ تفسیر:۔
اس میں عرش پرقائم ہونے کی تشریح کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ دنیا کے بادشاہ جب اپنے تخت حکومت پر بیٹھتے ہیں توان کی حکومت محدود ہوتی ہے مگر خداتعالیٰ کی حکومت آسمانوںپر بھی ہے زمیں پر بھی ہے اور زمین کے نچلے طبقوں پر بھی ہے پس اسکے احکام کورد کرنا دنیا کی چوٹی سے لے کر اس کے نچلوں سے نچلے طبقہ تک ساری مخلوقات کو اپنا مخالف بناناہے ۔اسی طرح اس میںیہ بھی اشارہ ہے کہ جو لوگ اسکی تعلیم پر عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو اور جوکچھ آسمانوں اور زمین کے درمیان ہے اورجوکچھ زمین کے نچلے طبقات میں ہے سبکو ان کی تائید میںلگادیتاہے ۔
آیت نمبر۸
ترجمہ :۔ اگر تو اونچی آوازسے بولے تو خداسکو بھی سنتاہے اور اگر آہستہ آواز سے بولے تو اس کو بھی سنتاہے ۔ کیونکہ وہ پوشیدہ بات کو بھی جانتاہے اور جو بہت ہی پوشیدہ ہوتی ہے اسے بھی جانتاہے ) ۸؎
۸؎ حل لغات :۔ تجھر ۔۔۔۔بات کرتے ہوئے اپنی آواز بلند کی (اقرب ) پس ان تجھر ۔۔ کے معنے ہونگے اے مخاطب اگر تو بات کرتے وقت اپنی آواز بلند کرے ۔
۸؎ تفسیر:۔
یہ آیت پہلی آیت کی مزید تشریح ہے ۔ظاہر ہے کہ جو بلندیوں کا مالک ہے وہ اونچی آواز کو بھی سنتاہے اوجوزمین کے نچلے طبقہ کامالک ہے وہ آہستہ آواز کو بھی سنتاہے ۔ورنہ ان دونوں حصوں پرحکومت کس طرح کرسکتاہے ۔
آیت نمبر۹
ترجمہ :۔ اللہ (وہ ذات )ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اسکی بہت سی اچھی صفات ہیں۔۹؎
۹؎ حل لغات :۔ الاسمائُ۔۔۔۔۔ اسم کی جمع ہے اور اسم کے لفظ کی تشریح کرتے ہوئے علامہ ابوالبقاء اپنی کتاب کلیات میںلکھتے ہیںالا سم۔۔۔۔۔۔کہ اسم اس کو بھی کہیں گے کہ جو کسی چیز کی حقیقت اور ذات کوبیان کرے اوراس کوبھی کہیں گے جو اس چیز کی صفات کو بیان کرے۔
الحسنی۔احسن۔ سے مونث کا صیغہ ہے اور الحسن کے معنے ہیںعبارۃ۔۔۔۔۔ ہروہ چیز یاحالت جو خوش کرے اور انسان کے دل میں اس کے لینے کی خواہش پیدا ہو پھر لکھاہے کہ حسن کا لفظ عام لوگوں کے استعمال میںان چیزوں کی خوبصورتی کے لئے استعمال ہوتاہے جن کو آنکھ دیکھ سکتی ہے لیکن قرآن مجید میںجن چیزوں کے لئے حسن کا لفظ استعمال ہواہے اس سے بصیرت کے ساتھ معلوم کئیے جانے والا حسن مراد ہے ۔(مفردات ) پس الاسماء الحسنیٰ کے معنے ہونگے بہترین صفات ۔
۹؎ تفسیر:۔
فرماتاہے کہ جب خداتعالیٰ ہی آسمانوں کا مالک ہے اورخداتعالیٰ ہی زمین کے نچلے طبقوں کابھی مالک ہے توپھر اور کوئی معبود ہو ہی نہیںسکتاکیونکہ اس کے سوااور کونسی جگہ رہ جائیگی جو اس معبود کی ملکیت ہوگی ۔
آیت نمبر۱۰
ترجمہ:۔ اور (اسکے ثبوت میںہم کہتے ہیںکہ ) کیا تیرے پاس موسیٰ کا واقعہ پہنچاہے (یانہیں) ۱۰؎
۱۰؎ حل لغات :۔ الحدیث الخیر۔۔۔۔۔ یعنی حدیث کے معنے خبرکے ہیںخواہ وہ چھوٹی ہویابڑی (اقرب)
۱۰؎ تفسیر:۔
حضرت موسیٰ ؑ چونکہ رسول کریم ﷺ کی طرح ایک صاحب شریعت نبی تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے واقعہ کو یہ بتانے کے لئے پیش کیاہے کہ ان کے ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ نے عرش سے دنیاپر روحانی حکومت کی تھی اور ان پر بھی کلام الٰہی نازل ہواتھا۔
آیت نمبر۱۱
ترجمہ :۔ یعنی جب اس نے ایک آگ دیکھی تو اس نے اپنے اہل سے کہااپنی جگہ ٹھہرے رہو میں نے ایک آگ دیکھی ہے ممکن ہے کہ میں وہاں جاکر اس آگ میں سیکوئی انگارہ تمہارے لئے بھی لے آئوں یا آگ پر (اپنے لئے کوئی روحانی ) ہدایت حاصل کروں۔ ۱۱؎
۱۱؎ حل لغات :۔ اُمکثوا ۔مکث۔یمکث سے امر کاجمع کاصیغہ ہے او مکث با لمکان کے معنے ہیںلبثو اقام ۔کسی جگہ پر ٹھہرا (اقرب ) مفردات میںہے المکث۔ثبات مع انتظار۔ کسی جگہ پر ٹھہرکرکسی کا انتظار کرنامکث کہلاتاہے ۔پس امکثو ۔کے معنے ہوں گے تم ٹھہرو اور انتظار کرو۔
اٰنست۔ اٰنس سے واحد متکلم کا صیغہ ہے ۔اور اٰنس الشیء کے معنے ہیںابصر ہ اس کو دیکھا (اقرب ) پس انست ناراً کے معنے ہونگے میںنے آگ دیکھی ہے ۔
قبس۔ ۔۔۔۔۔ آگ کا وہ انگارہ جو بڑی آگ سے لیاجاتاہے۔
۱۱؎ تفسیر:۔
اس آیت میںجو یہ فرمایا ہے کہ موسیٰ ؑ نے’’ ایک آگ ‘‘ دیکھی اس سے روحانی اور کشفی نظارہ مراد ہے نہ کہ کوئی ظاہری آگ ۔کیونکہ جسمانی آگ دیکھنے والا یہ نہیںکہا کرتا کہ میںنے ’’ایک آگ ‘‘ دیکھی ہے بلکہ وہ یہ کہتاہے کہ میں نے آگ دیکھی ہے ۔ اگر حضرت موسیٰ ؑ نے کوئی جسمانی آگ دیکھی ہوتی تو عربی محاورہ کی روسے انہیںالنار یعنی آگ کا لفظ استعمال کرنا چاہئے تھا۔ مگر یہاں ناراً کا لفظ استعمال کیاگیا ہے جس کے معنے ایک آگ کے ہیں۔پس ’’ایک آگ‘‘ کہہ کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ ایک روحانی نظارہ تھا اور حضرت موسیٰؑ بھی سمجھتے تھے کہ جسمانی لکڑیوں یا کوئلو ں کی آگ نہیںہے ۔اور یہ جو فرمایا کہ میں شاید وہاں سے تمہارے لئے کوئی انگارہ لائوں ۔اس میں اس طرف اشارہ تھاکہ روحانی جلوے دوقسم کے ہوتے ہیںایک جلوے وہ ہوتے ہیںجو صرف اسی کی ذات تک محدود نہیںہوتے جس پر وہ ظاہر ہوتے ہیں۔بلکہ اس کے دوستوں اور قوم کے لئے بھی ہوتے ہیںجیسے کہ جلوۃ نبوت اور جلوہ نزول شریعت اور ایک جلوہ وہ ہوتاہے جوصرف دیکھنے والے کی ذات تک محدود ہوتاہے ۔جیسے جلوہ ولایت ۔پس حضرت موسیٰ ؑ نے مدین سے مصر واپس آتے ہوئے جب راستہ میںایک روحانی نظارہ دیکھا توانہوں نے اپنے اہل سے کہاکہ مجھے یوں معلوم ہوتاہے کہ خداتعالی ٰکوئی جلوہ دکھانے والا ہے ۔اگر تو وہ ہدیت نبوت ہوئی اور وہ جلوہ شریعت والا ہوا اور مجھے حکم ہوا کہ دوسروں کو بھی تعلیم دو تو میں اس میں سے کوئی انگارہ یعنی کوئی تعلیم اپنے خاندان یا اپنی قوم کے فائدہ کے لئے بھی لے آئو نگا اوراگر یہ جلوہ شریعت والا نہ ہوا بلکہ صرف ہدایت ولایت ہوئی اورمیری ذات تک محدود ہوئی تو کم سے کم میںاپنی جان کیلئے ہی کوئی ہدایت اس سے حاصل کرونگا اوراس سے فائدہ اٹھا کرواپس چلا آئوں گا۔ زیر تفسیر آیت سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کے بعض واقعات کو بیان کرنا شروع کیاہے ۔اور ابتدائً بتایا ہے کہ کس طرحان کااللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم کلامی کاسلسلہ شروع ہوا ۔حضرت موسیٰ ؑ مصرمیں پیدا ہوئے اوعمر کاابتدائی حصہ آپ نے مصرمیںہی گزارالیکن پھر بعض واقعات سے مجبور ہوکر مدین تشریف لے گئے اور دس سال وہاں قیام کیا اور وہیںشادی کی دس سال وہاں ٹھہرنے کے بعد اہل وعیال سمیت واپس مصر تشریف لارہے تھے کہ راستے میںآپ نے خدا تعالیٰ کی تجلی کا مشاہدہ آگ کی صورت میں کیا ۔بائبل میں بھی اس واقعہ کاذکر آتاہے ۔مگر بائبل نے اس واقعہ کی جوتفصیل بیان کی ہے اس میںاور قرآن کریم کے اس بیان کردہ واقعہ میںکچھ اختلاف ہے جس کو مد نظر رکھنا ضروری ہے ۔ اس اختلاف کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن کریم بتاتاہے کہ حضرت موسیٰ ؑ جب مدین سے مصر کی طر ف اپس تشریف لارہے تھے توا للہ تعالیٰ کی وحی ان پر نازل ہوئی اوربائبل بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونیکا واقعہ پہلے پیش آیا ۔اس کے بعد حضرت موسیٰ ؑ مدین تشریف لے گئے اورپھر مدین سے اپنے اہل وعیال کو لیکرمصر روانہ ہوئے ۔چنانچہ خروج باب ۳آیت ۱،۲ میں لکھاہے :۔
’’ اور موسیٰ اپنے خسریترؔو کی جومدیان کاکاہن تھا بھیڑبکریاں چراتاتھا اوروہ بھیڑ بکریوں کو ہنکاتا ہوا انکو بیابان کی پرلی طرف سے خدا کے پہاڑ حرب کے نزدیک لے آیااور خداوند کا فرشتہ ایک جھاڑی میںسے آگ کے شعلہ میں اس پر ظاہر ہوا ‘‘
اور آخر میں لکھاہے:۔
’’ تب موسیٰ لوٹ کراپنے خسریتروؔ کے پاس گیا اور اسے کہاکہ مجھے ذرااجازت دے کہ اپنے بھائیوں کے پاس جو مصرمیں ہیںجائوں اور دیکھوںکہ وہ ابتک جیتے ہیں کہ نہیںیترو نے موسیٰ سے کہا ۔سلامت جا ۔اور خداوند نے مدیان میںموسیٰ سے کہاکہ مصر کو لوٹ جاکیونکہ وہ سب جو تیری جان کے خواہاں تھے مرگئے ۔تب موسیٰ اپنی بیوی اوربیٹیوں کو لے کر اور ان کوایک گدھے پر چڑھاکر مصرکولوٹا‘‘
(خروج باب ۴آیت ۱۸ تا ۲۰ )
گویا بائبل یہ بتاتی ہے کہ مدین میںہی ایک دن جبکہ حضرت موسیٰؑ اپنی بھیڑ بکریوں کو چراتے ہوئے حودب کی چٹان کی طرف گئے تو وہاں ایک جھاڑی میںانہیںخدائی جلوہ دکھائی دیا ۔اس کے بعد وہ اپنے خسرکے پاس آئے اور ان سے اجازت حاصل کرکے اپنی بیوی اور بچوں کومصر لے گئے لیکن قرآن کریم بتاتاہے کہ یہ واقعہ انہیںمدین سے مصرجاتے ہوئے پیش آیا جبکہ ان کے اہل وعیال بھی ان کے ہمراہ تھے ۔
اس اختلاف کے متعلق یہ امر یادرکھنا چاہئے کہ بائبل کا غور سے مطالعہ کرنے والے یہ امر اچھی طرح جانتے ہیںکہ بائبل میںآدمیوںکی تعداد اور وقت کے اندازے بالکل غلط دیئے گئے ہیںجن پر کوئی معقول انسان اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔چنانچہ جہاں تاریخی طور پر ہزاروں کی تعداد ہوتی ہے بائبل اس تعداد کولاکھوں بیان کرتی ہے اور جہاںسینکٹروں میل کا فاصلہ ہوتاہے بائبل اسے قریب کامقام ظاہر کرتی ہے۔اس وجہ سے بائبل کا بیان ایسانہیںہوسکتاکہ اسے اس واقعہ کے متعلق یقینی او ر قطعی قرار دیا جاسکے ۔مثلاً اسی واقعہ میںخدائی تجلی ظاہر ہونے کامقام حودب کاپہاڑ قرار دیا گیاہے جو دشت سینا میںہے اور مدین سے سینکڑوں میل کے فاصلہ پر ہے مگر اسے بیان اس رنگ میںکیا گیا ہے کہ گویا مدین سے میل آدھ میل کے فاصلہ پرکوئی مقام تھا جہاں حضرت موسیٰ ؑ اپنی بکریوں کو چرانے لے گئے ۔اور وہاں ان پر خدائی کلام نازل ہوا اور اس کے بعد وہ پھراپنے خسر کے مکان پر آئے اوران سے اجازت چاہی کہ وہ اپنی بیوی اوربچوںکو مصرلے جائیں۔حالانکہ اول تو یہ عقل کے بالکل خلاف ہے کہ سینکڑوں میل پر کوئی بکریاں چرانے کے لئے لے جائے اوراسی شام کو واپس آجائے پھر اگر انہوں نے ا پنے بیوی بچوں کو ساتھ ہی لے جاناتھا۔تو وجہ کیا تھی کہ وہ پہلی دفعہ ہی انکو ساتھ نہ لے گئے اور اتنالمبافاصلہ طے کرنے کے بعد دوبارہ واپس آئے اور ان کوساتھ لے گئے ۔اگر انہوں نے اپنے بیوی بچوں کولے جانا تھاتو عقلاً انہیںپہلی دفعہ ہی ساتھ لے جانا چاہئے تھا ۔نہ یہ کہ سینکڑوں میل اکیلے چلے جاتے اور پھر واپس آتے اوربیوی بچوں کوساتھ لے جاتے لیکن قرآن کریم بتاتاہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے اہل وعیال ان کے ساتھ تھے ۔یہ غلط ہے کہ وہ دوبارہ آئے اور اپنے بیوی بچوں کولے گئے ۔پس بائبل کابیان عقل کے بالکل خلاف ہے لیکن جوبات قرآن نے کہی ہے وہ عقل کے مطابق ہے ۔اسی طرح بائبل کا بیان جغرافیہ کے بھی خلاف ہے ۔جہاں دومقامات میںسینکڑوں میل کافاصلہ ہو وہاں یہ کہنا کہ وہ بکریاں چراتے ہوئے وہاں چلاگیا کسی طرح درست نہیںمانا جاسکتا۔پس قرآن کریم نے جو کچھ کہاعقلا ً اور جغرافیہ کے مطابق ہے اور بائبل جو کچھ کہتی ہے وہ عقلاًاور جغرافیہ کے خلاف ہے ۔ پھر ایک اوربات بھی قابل غور ہے اوروہ یہ کہ اس نظارہ کے دورا ن میںان کے بیوی بچوں کے متعلق کوئی بات نہیںکہی گئی۔اگر توا نہیںیہ کہاجاتاکہ تمہارااپنے بیوی بچوں کے متعلق کوئی بات نہیںکہی گئی ۔ اگر تو انہیںیہ کہاجاتاکہ تمہارا پنے بیوی بچوںکوبھی ساتھ لے جانا ضروری ہے تب توسمجھا جاسکتاتھاکہ حضرت موسیٰؑ نے یہ سینکڑوں میل کافاصلہ دوبارہ اس لئے طے کیا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کریںمگر اس قسم کاکوئی اشارہ بائبل میںنہیںپایا جاتاکہ اللہ تعالیٰ نے انہیںیہ کہاہو کہ اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے جائو ۔پس اس نظارہ کے بعد ان کے مدین میںواپس آنیکی کوئی معقول وجہ سمجھ میںنہیںآئی ۔لیکن قرآن بتاتاہے کہ ان کے اہل وعیال اس وقت ساتھ ہی تھے کیونکہ وہ سینکڑوں میل کے سفر پر جارہے تھے اورکوئی وجہ نہیںتھی کہ وہ اپنے بیوی بچوں کو مدین میں ہی چھوڑجاتے ۔پس قرآن کریم کا بیان عقل اور جغرافیہ کے بالکل مطابق ہے مکر بائبل کابیان کسی طرح بھی درست نہیںسمجھا جاسکتا۔
آیت نمبر۱۲
ترجمہ :۔ پھر جب وہ اس (آگ ) کے پاس پہنچا تو اسے آواز دی گئی کہ اے موسیٰ۔ ۱۲؎
۲۱؎ تفسیر:۔
جب حضرت موسیٰ ؑ اس بظاہر آگ نظر آنے والی چیز کے پاس پہنچے ۔تو ان کو الہام ہواکہ اے موسیٰ ! میںتیرارب ہوں اس کایہ مطلب نہیںکہ وہ آگ موسیٰ ؑ کا رب تھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس جلوہ کو ظاہر کرنے والا موسیٰؑ کا رب تھا کیونکہ آگ نہیںبولاکرتی۔خدابولاکرتاہے۔
آیت نمبر۱۳
ترجمہ :۔ میںتیرارب ہوں ۔پس تواپنی دونوں جوتیاں اُتار دے کیونکہ تو اس پاک وادی طوٰی میںہے۔ ۱۳؎
۱۳؎ حل لغات:۔ طویً ۔طری ۔۔۔ کے معنے ہوتے ہیں۔کاغذ کولپیٹا (اقرب )اور تاج العروس میں طویً کے معنے الشیئُ ۔کے بھی لکھے ہیںیعنی ایسی چیز جو ٹیڑھی ہو سیدھی نہ ہو۔مفردات میںہے ۔قیل ۔۔۔۔ کہتے ہیں طویٰ اس وادی کانام ہے جہاں حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہم کلام ہوا تھا ۔وقیل۔۔۔۔۔ ماہرین لغت کے نزدیک طویً کے لفظ میںاس مفہوم کو ادا کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو چن کر اس روحانی مقام پر پہنچادیا جہاں عام حالات میںمجاہدات سے پہنچنا مشکل ہوتاہے (مفردات )
۱۳؎ تفسیر :
فاخلع ۔۔۔کے لفظی معنے تو یہی ہیںکہ اپنی جوتیاں اتار دے مگر مراد یہ کہ اپنے ہر قسم کے دنیوی تعلقات کو خداکی خاطر توڑ دے او ر کلی طورپر اپنے خداکا ہوجاکیونکہ رویا یا کشف کی حالت میں اگر جوتی دیکھی جائے ۔تو علم تعبیر الرویا کے لحاظ سے اس سے مراد انسان کے متعلقین کا وجود ہوتاہے جیسے اس کی بیوی ہوئی۔یا بچے ہوئے یادوست او رشتہ دار وغیرہ ہوئے اور چونکہ یہ ایک کشفی نظارہ تھا جو حضرت موسیٰ نے دیکھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے فاخلع۔۔۔۔ ۔فرما کرانہیں یہ ہدایت دی کہ اپنے تمام مادی تعلقات کو اب خداکی خاطر توڑدے کیونکہ انک۔۔۔۔ طویً اب تو ایک ایسی روحانی وادی میں داخل ہو چکا ہے جو دوطرف چکر کھاتی ہے یعنی ایک طرف تو اس کاخداسے تعلق ہے اور دوسری طرف اس کا بندوںسے تعلق ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجھے نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا گیاہے اور یہ ایسا مقام ہے جہاں پر کھڑاہونے والا انسان دنیاسے کٹ کرخداتعالیٰ کی طرف چلاجاتاہے ۔اور انسانی فطرت کارخ مادیات کو چھوڑ کرروحانیات کی طرف پھر تاہے اس لئے تیرافرض ہے کہ اب تواپنے تمام دنیوی تعلقات اور محبتوں کو ترک کرکے کامل طورپر اپنے خداکا ہوجا اور اسی سے اپنا تعلق استوار رکھ۔
آیت نمبر۱۴
ترجمہ:۔اور میںنے تجھے (اپنے لئے) چن لیاہے پس تیری طرف جو وحی کی جاتی ہے اس کو تو سن (اور اس پر عمل کر) ۱۴؎
۱۴؎ حل لغات :۔ اخترتک۔اکتار۔سے متکلم کاصیغہ ہے اور اختارہ من لرجال ۔۔۔۔ کے معنے ہیںانتقاہ ۔۔۔من بینھم۔۔ کہ اس کو تمام لوگوںمیںسے کسی کام کے لئے چن لیا اور خاص کرلیا (اقرب) پس اختارتک۔۔ کے معنے ہونگے میںنے تجھے تمام دوسرے لوگوں میںسے اپنے کام کیلئے چن لیا ہے اور خاص کرلیاہے ۔
۱۴؎ تفسیر:۔
اس آیت سے بھی ظاہر ہے کہ ٓاگ میں سے کوئی چیز نہیں بولی بلکہ خداکی طرف سے وحی ہوئی تھی کیونکہ یہاں وضاحتاً اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ اے موسیٰ !میں نے تجھے چن لیا ہے پس جوتیری طرف وحی کی جاتی ہے تواس کو سن اور اس پر عمل کر ۔
آیت نمبر۱۵
ترجمہ :۔ میں یقینا اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں۔پس تو میری ہی عبادت کر ۔اور میرے ذکر کیلئے نماز قائم کر ۱۵؎
۱۵؎ حل لغات :۔ اقم ۔اقام سے امر کا صیغہ ہے اور انام ۔۔کے معنے ہوتے ہیں ادامہ کسی چیز کوہمیشہ کیلئے رکھا اور اقام الصلوۃ کے معنے ہیںادام ۔۔۔ہمیشہ نماز پڑھتارہا ۔اور اقام الصلٰوۃ کے معنے ہوتے ہیں نادلھا نماز کے لئے دوسرںکوبلایا ۔(اقرب)
۱۵؎ تفسیر:۔
اقم الصلٰوۃ لذکری کے یہ معنے ہیںکہ خود بھی نماز پڑھ او دوسروں سے بھی پڑھوا ۔گویا اقامت صلوٰۃ کے معنے باجماعت نماز اداکرنے کے ہیں۔اور باجماعت نماز سوائے اسلام کے اور کسی مذہب میںادانہیںکی جاتی و ہاں رسمی طورپر لوگ عبادت کے لئے اکٹھے ہوجاتے ہیں جیسے عیسائی گرجا میںاور یہودی صومعہ میں اقم الصلٰوۃ لذکری للذکری کے دو معنے ہوسکتے ہیںایک تو یہ کہ چونکہ میں نے تجھے یاد کیا ہے اس لئے تو میرے شکر کے طورپر نماز پڑھ ۔اور دوسرے یہ کہ میرے ذکر کیلئے نماز پڑھ ۔یعنی تیری نماز دکھاوے کے لئے نہ ہو بلکہ صرف میرے ذکر کے لئے ہو۔
آیت نمبر۱۶
ترجمہ :۔قیامت یقینا آنے والی ہے ۔قریب ہے کہ میںاسے ظاہر کردوں ۔تاکہ نفس کے اپنے اعمال کے مطابق جزادی جائے ۱۶؎
۱۶؎ حل لغات :۔ اخفی ۔اخفیٰ سے متکلم کاصیغہ ہے اور اخفی خفی سے باب افعال ہے جواپنے اندر متضاد معنے رکھتاہے یعنی اس کے معنے ظاہر کرنے کے بھی ہیں او رچھپانے کے بھی ہیں چنانچہ خفاہ کے معنے ہوتے ہیں اظہرہ اس کوظاہر کردیا اور اس کے ایک معنے سترہ کے بھی ہوتے ہیںیعنی چھپادیا (اقرب) اسی طرح اکفی ۔۔کے معنے کرتے ہوئے لکھاہے ازال خفائّ اس کے پردے کودور کردیا(اقرب) یعنی اسکو ظاہر کردیا۔
۱۶؎ تفسیر:۔
ان الساعۃ ۔۔۔۔ میں اکفیھاکے دونوں معنے ہوسکتے ہیں یہ بھی کہ عذاب کی گھڑی آنیوالی ہے قریب ہے کہ میںاسے چھپا دوں اور یہ بھی کہ عذاب کی گھڑی آنیولی ہے قریب ہے کہ میںاسے ظاہر کردوں ۔چنانچہ حل لغات میںبتایا جاچکاہے کہ اخفی ۔۔۔کے ایک معنے یہ بھی ہوتے ہی کہ ازال خفائہ اس کے پرد ہ کو دور کردیا یعنی اسے ظاہرکردیاعربی زبان کا قاعدہہے کہ جب کسی مجرد فعل کوباب افعال میں لے آئیںتو اس میںسب کے معنے پیداہوجاتے ہیںجیسے کہتے ہیںشکانی۔۔۔کہ اس نے شکایت کی تو میںنے اس کی شکایت کا ازالہ کردیا پس ان الساعۃ ۔۔۔۔۔ کے دونوں معنے ہوسکتے ہیںیہ بھی کہ اسے چھپائے رکھوں اور یہ بھی کہ اسے ظاہر کردوں اگر اس کے معنے چھپا ئے رکھوں اوریہ بھی کہ اسے ظاہر کردوں اگر اس کے معنے چھپائے رکھوں کے کئے جائیں تو اس آیت کایہ مفہوم ہوگاکہ یہ مخالف اتنے گندے ہوگئے ہیںکہ میںچاہتاہوں کہ ان سے اس عذاب کی گھڑی کو پوشیدہ رکھوں تاکہ عذاب ان پر اچانک آجائے اور انہیںاس کے ازالہہ کا کوئی موقہ نہ مل سکے اور اگر اس کے معنے ظاہر کرنے کے ہوں تو مراد ہوگی کہ وہ گھڑی جو تیری ترقی اور تیرے دشمنوںکی تباہی کیلئے مقدر ہے وہ آرہی ہے اور قریب ہے کہ میںاس کوظاہر کردوں یعنی عنقریب ایسے حالات پیداہونے والے ہیںکہ تیرے دشمنوں کی تباہی کے آثار ظاہر ہونے لگ جائیںگے اور میری ان آثار کو ظاہر کرنے سے غرض یہ ہوگی کہ جوشخص اپنے اعمال کے مطابق جزاپالے جوماننے والے ہیںوہ انعام حاصل کرلیں اور جو منکر ہیںوہ سزاپالیں بماتسعی میں باء کے معنے مطابق کے ہیںاور ما مصدر یہ ہے ۔مطلب یہ ہے کہ تاہر نفس اپنے عمل کے مطابق جزاپالے۔
آیت نمبر۱۷
ترجمہ۔ پس جو (شخص ) قیامت پرایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہشات کے پیچھے چلتاہے تجھے قیامت پر ایمان لانے سے روک نہ دے جس کے نتیجہ میںتو ہلاک ہوجائے۔ ۱۷؎
۱۷؎ حل لغات:۔تردیٰ۔۔۔۔سے مخاطب کا صیغہ ہے اور ردیکے معنے ہوتے ہیںہیںوہ ہلاک ہوگیا (اقرب ) پس فتردیٰ کے معنے ہونگے توہلاک ہوجائے ۔
۱۷؎ تفسیر :۔
فرماتاہے اے موسیٰؑ تجھے کسی ایسے شخص کی مخالفت خداتعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض سے نہ روکے جو اس ساعت پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خوہشات کے پیچھے پڑاہو ا ہے ور نہ تو بھی مصیبت میںمبتلا ہو جائیگا ۔اس آیت میںبھی سورۃ کے اس پہلے حصہ کی تصدیق کی گئی ہے کہ ماانزلنا۔۔۔۔ یعنی قرآن اس لئے نازل نہیںہوا کہ تجھے تنباہی میںڈالے اورکہاگیاہے کہ اے موسیٰ جو تیر ی تعلیم پرعمل کریگا وہ تباہ نہیںہوگا بلکہ جو اس کو چھوڑیگا وہ تباہ ہوگا۔ چنانچہ بائبل کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہی پیغام دیا کہ ’’ اگر تو خداوند اپنے خداکی بات کو جانفشانی سے مان کر اس کے ان سب حکموںپر جو آج کے دن میںتجھ کو دیتاہوں احتیاط سے عمل کرے تو خداوند تیراخدادنیاکی سب قوموں سے زیادہ تجھ کو سرفراز کریگا اور اگر تو خداونداپنے خداکی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہونگی اور تجھ کو ملیںگی شہر میںبھی تو مبارک ہوگا اورکھیت میںبھی مبارک ہوگا۔تیری اولاد اور تیری زمین کی پیداوار اور تیرے چوپایوں کے بچے یعنی گائے بیل کی بڑھتی اورتیری بھیڑ بکر یوں کے بچے مبارک ہونگے ۔تیرا ٹوکرا اور تیری کٹھوتی (یعنی ٓاٹاگوندھنے کابرتن ) دونوںمبارک ہوںگے اور تو اندر آتے وقت مبار ک ہوگا اور باہر جاتے وقت بھی مبارک ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اگر تو ایسا نہ کرے کہ خدا وند اپنے خداکی بات سن کر اس کے سارے احکام اور آین پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتاہوں احتیاط سے عمل کرے تو یہ سب لعنتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو لگیں گی ۔شہر میںبھی تو *** ہوگااور کھیت میںبھی *** ہوگا ۔تیرا ٹوکرا اورتیری کٹھوتی دونوںلعنتی ٹھہریںگے ۔تیری اولاد اور تیری زمینکی پیداوار اور تیریگائے بیل کی بڑھتی اورتیری بھیڑبکر یوں کے بچے *** ہونگے۔تو اندر آتے *** ٹھہرے گااور باہر جاتے بھی *** ٹھہرے گا۔‘‘ (استثناء باب ۲۸ آیت ۱تا ۲۰)
گویاوہی مضمون جوقرآن کریم میںبیان کیا گیاہے تورات میںبھی موجودہے۔ اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ رسول کریم ﷺ چونکہ حضرت موسیٰ ؑ کے مثیل تھے اس لئے جس طرح حضرت موسیٰؑ نے یہ کہا کہ اگر تو تورات کی تعلیم پرعمل کریگا تو تو اند آتے وقت مبارک ہوگااورباہر جاتے وقت بھی مبارک ہوگا ‘‘ اسی طرح آپ کو اللہ تعالی ٰکی طرف سے یہ دعاسکھائی گئی کہ وقلرب۔۔۔۔۔ یعنی اے میرے رب میرادوبارہ مکہ میںداخل ہونابھی مبارک ہو اورمیرامکہ سے نکلنابھی مبارک ہو گویا اس آیت کی رو سے بھی آپ کامثیل موسیٰ ہونا ثابت ہے۔
آیت نمبر۱۸‘۱۹
ترجمہ :۔ اور(ہم نے اسوقت موسیٰ سے کہا کہ ) اے موسیٰ یہ تیرے دائیںہاتھ میںکیاہے ؟ (اس نے)کہا ۔یہ میرا سونٹاہے ۔میںاس پر سہارا لیتاہوں اور اس کے ذریعہ سے اپنی بکریوں پر (درختوں کے)پتے جھاڑتاہوں اور اس کے سوابھی اس میںمیرے لئے اور کئی فائدے پوشیدہ ہیں ۔۱۸؎
۱۸؎ حل لغات:۔ اتوکو۔۔۔۔۔۔ سے۔۔۔۔۔۔متکلم کاصیغہ ہے اور توکا ۔۔۔۔۔کے معنے ہوتے ہیںتحمل۔۔ سونٹے پر سہارالیا (اقب) پس اتوّکوُ کے معنے ہو نگے میںسہارا لیتاہوں۔ اھشُّ ۔ھش سے ہے اور ھش۔۔۔کے معنے ہوتے ہیں خبطہ۔۔۔درخت کے پتوں کوسونٹے سے ماراتاکہ وہ گرپڑیں (اقرب) پس اھشُ کے معنے ہونگے میںجھاڑتاہوں۔ماٰرب۔ارب کی جمع ہے اورلارب کے معنے ہیںالحاجہ ضرورت (اقرب)
۱۸؎ تفسیر:۔
یہ عصا جو حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے ہاتھ میںدیکھا یہ بھی ایک کشفی نظارہ تھا۔اور عصا سے مراد درحقیقت بنی اسرائیل تھے جوانہیںکھائے گئے ۔چنانچہ لغت میں عصا کے ایک معنے جماعت کے بھی لکھے ہیں۔(اقرب)
جب اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا کہ وماتلک۔۔۔ یاموسیٰ تو حضرت موسیٰؑ کو طبعاًاس طرف توجہ پیداہو ئی کہ مجھ سے عصا کے بارے میںکیوںسوال کیا گیا ہے اور انہوںنے اس کی خوبیاں بیان کرنی سروع کردیںکہ اتوکو ۔۔۔۔۔۔ میںاس پر سہارالیتاہوںاور اس کے ذریعہ سے میں اپنی بکریوں پر درختوں کے پتے جھاڑتاہوںاو راس کے سوابھی اس میںمیرے لئے کئی قوم کے فوائد اور منافع ہیں۔
سہارالینے کا یہ مفہوم ہے کہ میںان لوگوں پر اعتماد رکھتاہوںاور اشاعت د ین کے کاموں میں ان کی معاونت اور امداد چاہتاہوں ۔اور اھش۔۔۔۔۔ کے یہ معنے ہیںکہ میںان کے ذریعہ اپنے توابع کے فوائد کی نگرانی کرتاہوں غنم قوم کا حصہ نہیںہوتی بلکہ ایک تابع چیز ہوتی ہے پس جب عصا کے معنے قوم کے ہوئے تو اس آیت کے یہ معنے بنے کہ میںاپنی قوم کے ذریعہ سے اپنے توابع کے فوائد کی بھی نگرانی کرتاہوں ۔حقیقت یہ ہے کہ تمام نبی اپنے متبعین سے چند ہ لیتے آئے ہیںاور اس کے ذریعہ سے اپنی قوم کے غریبوں کے علاوہ دوسری قوم کے غرباء اور شریف لوگوںکی بھی مدد کرتے رہے ہیں۔جیساکہ گلہ بان اپنی بھیڑوں کی حفاظت کرتاہے چنانچہ قرآن کریم میں بھی مسلمانوں کے لئے زکوٰۃ کا حکم ہے اور زکوٰۃ کے جہاں اخرجات گنائے گئے ہیںان میں غر یب اور مصیبت زدہ مسلمانوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اور مسافروں کا بھی ذکر کیا گیا ہے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ۔اور مئوتفتہ القلوب کا بھی ذک کیا گیا ہے جویقینا غیر مذاہب کے لوگ ہونے ہیں۔اور اس طر ح موسیٰ ؑ کے واقعہ کو سوفیصد ی محمد رسول اللہ ﷺ پر چسپاں کردیا گیاہے ۔ان کوبھی حکم دیا گیاہے کہ اپنی قوم سے زکوۃ لو ۔ یعنی اپنی قوم کے سونٹے کے ساتھ درختوں کے پتے جھاڑو لیکن وہ پتے تمہاری قوم کے ہی کام نہ آئیںبلکہ ان لوگوں کے بھی کام آئیںجو تمہاری قوم سے باہر ہیں۔اور جانور کہلانے کے مستحق ہیں۔
آیت نمبر۲۰
ترجمہ :۔ (اس پر )اس (یعنی خدتعالیٰ )نے فرمایا ۔اے موسیٰ :اس عصاکو زمین پر پھینک دے ۱۹؎
۱۹؎ تفسیر:۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔اے موسیٰ :اس عصاکو زمین پر پھینک دے ۔یعنی دیکھ کہ اگر تو اپنی قوم کی نگرانی چھوڑ دے تو اس کانتیجہ کیا نکلتاہے۔
آیت نمبر۲۱
ترجمہ :۔ سو اس نے اسے زمین پرپھینک دیاجس کے بعد اس نے اچانک دیکھا کہ وہ سانپ ہے جو دوڑ رہا ہے ۔ ۲۰؎
۲۰؎ تفسیر:۔
فالقھا۔۔۔۔۔۔ انہوںنے اسے زمین پر پھینک دیا ۔تو اچانک کیا دیکھا کہ وہ ایک سانپ ہے جودوڑ رہا ہے ۔چنانچہ حضرت موسیؑ نے اپنی زندگی میںدیکھ لیا کہ قوم کی ذراسی بھی نگرانی چھوڑنے پر و ہ سانپ کی طر ح زہریلی بن گئی مثلاً حضرت موسیٰ ؑ چند دنوںکے لئے ہی پہاڑ پرگئے تو اسی عرصہ میںوہ و ہ قوم بت پرست ہوگئی ۔اسی طر ح جب کبھی حضرت موسیٰ ؑ کی نگرانی میںرخنہ پڑا تو وہ قوم خراب ہوگئی
آیت نمبر۲۲
ترجمہ :۔ اس پر اس (یعنی اللہ تعالیٰ )نے فرمایا ۔اس کو پکڑلے اور ڈرنہیںہم اسکو پھر اس کی پہلی حال کی طرف لوٹادینگے ۔ ۲۱؎
۲۱؎ حل لغات :۔ السیرۃ کے معنے ہیںالھیئۃ ہیت (اقرب)
تفسیر:۔
سونٹے کو سانپ کی شکل میںدیکھ کر حضرت موسیٰ ؑ گھبرائے تو اللہ تعالیٰ نے کہا۔ڈرو نہیں۔یہ تمہاری قوم ہی ہے ۔اس کواچھی طرح پکڑلو۔ یہ پھر اصل حالت۔ کی طرف لوٹ آئے گی ۔اورایک مفید وجود بن جائے گی ۔یعنی تیری قوم تیری زندگی میںمستقل طورپر خراب نہ ہوگی بلکہ جب بھی تو اس کی طرف توجہ کرے گاوہ ٹھیک ہو جائے گی۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت موسیٰ ؑ کی غیر حاضری میںبے شک آپ کی قوم کاایک حصہ شرک میںمبتلاہوگیا۔مگر جب آپ واپس آئے تو آپ کے ذریعہ اس قوم کی پھر اصلاح ہوئی او راسنے اپنے فعل سے توبہ کی ۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںان کی اس توبہ کاذکر کرتے ہوئے فرماتاہے کہ فتاب علیکم (البقرۃ ع۶ ) اس واقعہ کے بعد پھرحضرت موسیٰ ؑ کی کوشش سے قوم درست ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے اس سے رحمت اورعفو کاسلوک کیا ۔گویا حضرت موسیٰ ؑ کی قوم سے علیحدگی نقصان دہ ثابت ہوئی لیکن جونہی آپ نے قوم کی طرف توجہ کی وہ پھردرست ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ہرقسم کی قربانیاں کرنے لگ گئی۔
آیت نمبر۲۳
ترجمہ:۔ اور اپنے ہاتھ کوبغل میںدبالے ۔جب تو اسے نکالے گاتو وہ سفید ہوگا۔مگر بغیر کسی بیماری کے یہ ایک اور نشان ہوگا۔ ۲۲ ؎
۲۲؎ حل لغات:۔اید کے معنے ہیں الکف ۔ہاتھ نیز اس ایک معنے الجماعۃ کے بھی ہیں یعنی جماعت (اقرب)تعطیر الانام میں ہے کہ الیدُ ۔۔۔۔۔اگر کوئی ہاتھ دیکھے تو اس سے مراد لڑکا بھائی مال ۔بیوی ۔شریک اور دوست ہوتاہے ۔
لجناح کے معنے ہیںالعضدبازو ۔۔۔۔۔ کسی چیز کی ذات اور جب افاجی۔۔۔۔ کا فقرہ کوئی شخص کہے تو معنے ہونگے ای فی ذراہ ۔۔ میںاس کی پناہ اور سایہ تلے ہوں (اقرب)
۲۲؎ تفسیر:۔
خداتعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہا کہاپنے ہاتھ کو اپنے پہلو کے ساتھ لگالو عربی زبان میںید کے معنے بھائی کے بھی ہوتے ہیںاور جب اس کے معنوں کو وسیع کیا جائے تو اس کے معنے قوم کے بھی ہوتے ہیں۔کیونکہ قوم کے افراد بھی اعیان و مدد گار کے طور پر کام آتے ہیںپس اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو وضمم یدک۔۔۔۔۔ کہہ کر توجہ دلائی کہ تیری قوم میں سے جو کار آمد لوگ ہیںاور تیرے ساتھ ملنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو اپنے ساتھ چمٹالو ۔وہ بڑے تورانی وجود بن جائیںگے ۔اور بڑے بڑے روحانی کمالات ان سے ظاہر ہونگے ۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ کو حکم ہوا کہ اپنے ہاتھ کو سینہ سے لگاواور آپ نے اس حکم کی تعمیل کی تو اس وقت وہ بالکل سفید اور نورانی تھا ۔اور یہ سفیدی کسی بیماری کے نتیجہ میں نہیں تھی ۔درحقیقت یہ ایک کشفی نظارہ تھا جو آپ نے دیکھا اور ایک عظیم الشان تعبیر کا حامل تھا ،لیکن بائبل اس کے متعلق یہ کہتی ہے کہ ۔
’’اس نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پررکھ کر اسے ڈھانک لیا اور جب اسنے اسے نکال کردیکھا تواس کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا۔‘‘
(خروج باب ۴آیت ۶)
گویا نعوذ باللہ حضرت موسیٰ ؑ کاہاتھ اس وقت کوڑھ کی وجہ سے سفید ہوگیا تھا ۔حالانکہ کوڑھ کیوجہ سے سفید ہونا ایک عذاب ہے اور یہ مقام الٰہی تجلی اور اسکی نشان نمائی کا تھا ۔ایسے موقعہ پر کسی عذاب کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتاہے ۔پس بائبل کی یہ بات بالہدایت غلط ہے اگر حضرت موسیٰ ؑ نے اس وقت اپنے آپ کو کوڑھی دیکھا تھا تو ان کا ایمان کیا بڑھا ہوگا ۔وہ تو غمزدہ ہوئے ہونگے کہ مجھے کوڑھ ہوگیا ۔لیکن قرآن کہتاہے کہ بیضاء من۔۔۔۔ اس کاہاتھ سفید تو تھا مگر کوڑھ سے اسے کوئی مشابہت نہ تھی ۔
ہم نے بتایا ہے کہ یہ ایک کشفی نظارہ تھا اور اس کی تعبیر یہ تھی کہ اپنی قوم کے کارآمد لوگوں کو اپنے ساتھ ملائوان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے منغیر۔۔میں اس امر کی طرف اشارہ کیاگیا تھا کہ ان لوگوں میںجونیکی پائی جائیگی وہ ایسی کامل ہوگی کہ اس میںکسی قسم کی خرابی نہیںہوگی ۔بعض لوگ ظاہر میںاچھے نظر آتے ہیںلیکن اندرونی طورپر نہایت خراب ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی ؑ کو بتایا کہ جب تم ان لوگوں کو اپنے قریب رکھوگے تویہ کامل طور پر روحانی وجود بن جائیں گے خرابیاں اس میںاسی وقت پیدا ہونگی جب یہ تجھ سے دور ہوجائیں گے ۔
آیت نمبر۲۴
ترجمہ:۔ (اورہم یہ اس لئے کرینگے )تاکہ اس کے نتیجہ میںہم تجھ کو اپنے بڑے بڑے نشانات دکھائیں۔ ۲۳؎
۲۳؎ تفسیر:۔
اس میںبتایا گیاہے کہ ہم نے یہ نشان تجھے یہ یقین پیداکرنیکے لئے دکھائے ہیںکہ ہم تیرے ہاتھ پر اور بھی نشان ظاہر کریں گے جن سے تیرامشن کامیاب ہوجائے گا ۔چانچہ سورئہ اعراف میںاللہ تعالیٰ نے ان نشانات کا ذکرکیاہے جو حضرت موسیٰ کے ہاتھ پر دکھائے گئے ۔وہ فرماتاہے فارسلنا۔۔۔۔۔ یعنی جب فرعون اور اس کی قوم نے ہماری بات ماننے سے انکار کیاتو ہم نے ان پر کئی قسم کے عذاب بھیجے جن میں طوفان ۔ٹڈیوں جوئوں ۔مینڈکوں اور خون کا عذاب شامل تھا۔اور یہ ایسے نشانا ت تھے جن کو ہر ایک مشاہدہ کرسکتا تھا لیکن ان نشانوں کے باوجود فرعو ن اور اس کی قوم ہماری بات ماننے پر آمادہ نہ ہوئی۔
اسی طرح فرماتاہے وادخل۔۔۔۔یعنی ہم نے موسیٰ سے کہا کہ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میںڈالو اور پھر نکلالو تو وہ بغیر کسی بیماری کے سفید نظر آئیگا ۔یہ معجزہ ان نو معجزات میںسے ایک ہے جو حضرت موسیٰ کے ہاتھ پر فرعون اور اس کی قوم کے لئے دکھائے گے لیکن انہوں نے ان معجزات سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔
بائبل میںبھی ان نشانات کاذکر آتاہے ۔ چنانچہ پہلا نشان عصاکا ہے جس کا ذکر ان الفاظ میںکیاگیاہے :۔
’’ اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ یہ تیرے ہاتھ میںکیا ہے اس نے کہالاٹھی پھر اس نے کہاکہ اسے زمین پر ڈالدے ۔اس نے اسے زمین پر ڈالا اور وہ سانپ بن گئی ۔اور موسیٰ اس کے سامنے سے بھاگا ۔تب خداوند نے موسیٰ سے کہاہاتھ بڑھاکر اس کی دم پکڑے اس نے ہاتھ بڑھایا اوراسے پکڑلیا وہ اس کے ہاتھ میںلاٹھی بن گیا‘‘ ۔ (خروج باب ۴آیت ۲تا۴)
۲۔پھر دوسر نشان ہاتھ کی سفیدی کا ہے اس کے متعلق لکھاہے ۔
’’ پھر خداوند نے اسے یہ بھی کہاکہ اپنا ہاتھ اپنے سینہ پررکھ کر ڈھانک لے ۔اس نے اپناہاتھ اپنے سینے پررکھ کر اسے ڈھانک لیا اورجب اس نے اسے نکال کردیکھاتو اس کاہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا ‘‘(خروج باب ۴ آیت ۶،۷)
۳۔تیسرا نشان دریا کے لہو ہوجانے کا ہے چنانچہ لکھاہے ۔ ’’موسیٰ اور ہارون نے خداوند کے حکم کے مطابق کیا اور اس نے لاٹھی اٹھا کر اسے فرعون اور ا س کے خادموں کے سامنے دریاکے پانی پرمارا اور دریا کا پانی سب خون ہوگیا ۔اور دریا کی مچھلیاں مرگئیں اور دریا سے تعفن اٹھنے لگا۔اور مصری دریاکا پانی نہ پی سکے ۔‘‘ (خروج باب ۷آیت ۲۰،۲۱ )
۴۔ چوتھا نشان مینڈکوں کا ہے اس کے متعلق لکھاہے۔
’’ خداوند نے موسیٰ کو فرمایا کہ ہارون سے کہہ اپنی لاٹھی لے کر پنا ہاتھ دریاوں اورنہرں اورجھیلوں پر بڑھا۔اور مینڈکوں کو ملک مصر پرچڑھا لا ۔چنانچہ جتنا پانی مصر میںتھا اس پر ہارون نے اپناہاتھ بڑھایا اور مینڈک چڑھ آئے اور ملک مصر کو ڈھانک لیا۔‘‘ (خروج باب ۸آیت ۵تا۷ )
۵۔ پانچواں نشان جوئوںکا ہے اس کے متعلق آتاہے:۔ ’’تب خداوند نے موسیٰ سے کہاکہ ہارون سے کہہ اپنی لاٹھی بڑھاکرزمین کی گرد کو مار تاکہ وہ تمام ملک مصر میںجوئیںبن جائے ۔انہوں نے ایساہی کیا اور ہارون نے اپنی لاٹھی لے کراپناہاتھ بڑاھایا اورزمین کی گرد کو مارہ ۔اور انسان اور حیوان پرجوئیںہوگئیں اور تمام ملک مصر میںزمین کی ساری گرد جوئیںبن گئیں۔‘‘ (خروج باب ۸ تا آیت ۱۶تا۱۸ )
۶۔ چھٹا نشان مچھروں کے عذاب کاہے چنانچہ لکھاہے :۔ ’’ خداوند نے ایسا ہی کیا اور فرعون کے گھر اور اس کے نوکروں کے گھر وں اور سارے ملک مصر میںمچھروں کے غول کے غول بھر گئے ۔اور ان مچھروں کے غولوںکے سبب سے ملک کا ناس ہوگیا۔‘‘ (خروج باب ۸ آیت ۲۴)
۷۔ ساتواں نشان مری کا ہے ۔چنانچہ لکھاہے۔ ’’اور خداوند نے ایک وقت مقرر کردیا اور بتادیا کہ کل خداوند اس ملک میںیہی کام کریگا ۔اور خداوند نے دوسریدن ایسا ہی کیا اور مصریوں کے سب چوپائے مرگئے لیکن بنی اسرائیل کے چوپایوں میں سے ایک بھی نہ مرا ۔‘‘
(خروج باب ۹ آیت ۵ تا ۶ )
۸ ۔ آٹھواں نشان جسموں پر پھوڑے نکلنے کاہے چنانچہ لکھا ہے :۔
’’اور خداوند نے موسی ٰاور ہارون سے کہا کہ تم دونوں بھی کی راکھ اپنی مٹھیوں مین لیلو اور موسیٰ اسے فرعون کے سامنے آسمان کی طرف اڑادے اور وہ سارے ملک مصر میںباریک گرد ہوکر مصر کے آدمیوں اور جانوروں کے جسم پر پھوڑے اور پھپھولے بن جائیگی ۔سو وہ بھٹی کیراکھ لیکر فرعون کے آگے جاکھڑے ہوئے اور موسیٰ نے اسے آسمان کی طرف اڑادیا اوروہ آدمیوں اورجانوروں کے جسم پر پھوڑے اور پھپھولے بن گئی ‘‘ (خروج باب ۹ آیت ۸تا۱۱ )
۹۔ تواں نشان اولونکاہے ۔چنانچہ لکھا ہے کہ:۔ ’’ اور خداوند نے موسیٰ سے کہاکہ اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بڑھا کرسب ملک مصر میںانسان اور حیوان اورکھیت کی سبزی پر جو ملک مصر میںہے اولے گریں۔اور موسیٰ نے اپنی لاٹھی آسمان کی طرف اٹھائی اور خداوند نے رعد اور اولے بھیجے ۔اور آگ زمین تک آنے لگی ۔اور خداوند نے ملک مصر پر اولے برسائے ۔پس اولے گرے اور اولوں کے ساتھ آگ ملی ہوئی تھی او وہ اولے ایسے بھاری تھے کہ جب سے مصری قوم آباد ہوئی ا یسے اولے ملک میںکبھی نہیںپڑے تھے ‘‘ ۔(خروج باب ۹اایت ۲۲،۲۳،۲۴ )
۱۰ ۔ دسواں نشان ٹڈیوں کا ہے ۔چنانچہ لکھ ہے:۔’’تب خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ ملک مصر پر اپنا ہاتھ بڑھاتاکہ ٹڈیاں ملک مصر پر آئیں اور ہر قسم کی سبزی کو جو اس ملک میںاولوں سے بچ رہی ہے چٹ کرجائیں۔پس موسیٰ نے ملک مصر پر اپنی لاٹھی بڑھائی ۔اور خداوند نے اس سارے دن اور ساری رات پروا آندھی چلائی اور صبح ہوتے ہوتے پروا آندھی ٹڈیاں لے آئی اور ٹڈیاں ساے ملک مصر پر چھا گئیں ۔اور وہیںمصر کی حدود میںبسیرا کیا اور ان کا دل ایسا بھاری تھا کہ نہ تو ان سے پہلے ایسی ٹڈیاں کبھی آئیں ۔نہ ان کے بعد پھر آئینگی ۔کیونکہ انہوں نے تمام روئے زمین کو ڈھانک لیا ۔ایسا کہ ملک میںاندھیرا ہوگیا اورانہوں نے اس ملک کی ایک ایک سبزی کو اور درختوں کے میووں کو جو اولوں سے بچ گئے تھے چٹ کرلیا ۔‘‘ (خروج باب ۱۰ اایت ۱۲ تا ۱۶ )
۱۱۔ گیارھواں نشان تاریکی کانشان ہے چنانچہ ۔لکھاہے:۔ ’’پھرخداوند نے موسیٰ سے کہاکہ اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بڑھا ۔تاکہ ملک مصر میںتاریکی چھاجائے ۔ایسی تاریکی جسے ٹٹول سکیں اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بڑھا یا اور تین دن تک سارے ملک مصر میںگہر ی تاریکی رہی ۔تین دن تک نہ تو کسی نے کسی کو دیکھا اور نہ کوئی اپنی جگہ سے ہلا ۔‘‘ (خروج باب ۱۰ آیت ۱۲ تا۲۳ )
۱۲۔ بارھوان نشان پلوٹھے بچوں کامرنا ہے چنانچہ لکھاہے:۔ ’’ اور آدھی رات کو خداوند نے ملک مصر کے سب پلوٹھوں کو فرعون جو اپنے تخت پر بیٹھا تھااس کے پلوٹھے سے لیکر وہ قیدی جو قید خانہ میںتھا اسکے پلوٹھے تک بلکہ چوپایوں کے پلوٹھوں کو بھی ہلاک کردیا اور فرعون اور اسکے سب نوکر اور سب مصری رات ہی کو اٹھ بیٹھے اور مصر میں بڑاکہرام مچ گیا کونکہ ایک بھی ایسا گھر نہ تھا جس میں کوئی نہ مراہو ‘‘ (خروج باب ۱۲ آیت ۲۹ تا ۳۰ )
۱۳ ۔تیرھواں نشان سمندر سے پار گذرنے کاہے چنانچہ لکھاہے:۔
’’ پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تند پوربی آندھی چلاکر اور سمندر کو پیچھے ہٹاکر اسے خشک زمین بنادیا ۔اور پانی دوحصے ہوگیا اوربنی اسرائیل سمندر کے بیچ میںسے خشک زمین پرچل کر نکل گئے ۔اور ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ پانی دیوار کی طرح تھا۔‘‘ (خروج باب ۱۴ اایت ۱۲ ،۲۲ ) جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکاہے قرآن کریم نے صرف نونشانات کا ذکر کیاہے۔یعنی
۱۔ عصاؔ کانشان
۲۔ یدبیٖضاء کانشان
۳۔طوفان کانشان
۴۔ٹڈیوں کانشان
۵۔جوئوں کا نشان
۶۔ مینڈکوں کانشان
۷۔ خون کانشان
۸۔قحط کانشان جیسے فرمایا۔ولقد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۹۔ سمندر سے پار گذرنے کانشان۔
ان نشانات کے بیان کرنے میں قرآن کریم اور بائبل میںاختلاف نظر آتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ بائبل نے ان نشانات کے بارے میںبڑے مبالغہ سے کام لیاہے ۔ورنہ قرآن کریم نے جن نشانوں کا نو کی تعداد میںذکر کیاہے اس میںبائبل کے بیان کردہ تمام کے تمام نشانات آجاتے ہیں ۔چنانچہ طوفان میںاولوں اور تاریکی کا نشان شامل ہے لیکن بائبل میںاس کو علیحدہ علیحدہ بیان کیا گیا ہے ۔ اسی طرح قرآن کریم نے خون کانشان بیان کیا ہے لیکن بائبل نے اسے دریا کے لہو ہوجانے اور جسموں پر پھوڑے اور پھنسیاں نکلنے میں تقسیم کردیا ہے ۔حالانکہ دریا کے پانی کے خون ہوجانے کا مفہوم صر ف اس قدرہے کہ دریا کا پانی اس قدر خراب ہوگیا تھا کہ جو کوئی اس کوپیتااس کاخون خراب ہوجاتاتھا۔اسی طرح پلوٹھے بچوں کی موت کا نشان بائبل نے علیحدہ بیان کیاہے حالانکہ اسے علیحدہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔یا تو یہ نشان دم ؔکے نشان کے ماتحت آجاتاہے اور یا پھرقمل ؔکے ماتحت مچھروں کا نشان بھی آجاتاہے کیونکہ عربی زبان میںقمل کے معنے ان چھوٹے کیڑوں کے بھی ہوتے ہیںجن کے چھوٹے چھوٹے پر ہوتے ہیں(اقرب) غرض ان نشانات کے بارے میںقرآن کریم کا بیان بالکل صحیح اور درست ہے۔
آیت نمبر۲۵‘۲۶
ترجمہ:۔ فرماتا ہے ۔یہ نشان دکھا کر ہم نے موسیٰ سے کہا ۔کہ اب فرعون کی طرف جا ۔کیونکہ وہ سرکش ہے ۔حضرت موسیٰ ؑ نے کہا الٰہی میں جاتاہوں لیکن آپ میرے سینہ کو کھول دیجیئے اور میرے کام کو اسان کر دیجیئے اور میری زبان کو چلادیجئے اور اس کی ساری گرہیں کھول دیجئے تاکہ فرعون اور اس کے ساتھی میری بات کو سمجھ سکیں ۔کیونکہ جو پیغام مجھے دیا گیا ہے اس کا ان لوگوںکیلئے سمجھنا بڑا مشکل ہے۔
اس دعا میںحضرت موسیٰ ؑ نے پہلے یہ کہا ہے کہ اے میرے رب میرا سینہ کھول دے یعنی میرے اندر اس کام کیلئے ایک قسم کی دیوانگی جوش اور ولولہ پیدا فرمادے ۔اور میرے معاملہ میں میرے لئے آسانیاں پیدا کردے ۔یعنی ایسی تعلیم اور ایسے احکام مجھے دے کہ لوگ اس کو ماننے کے لئے تیار ہوں ۔اور اسی طرح وہ تعلیم ایسی اعلیٰ درجہ کی ہو کہ جس کا پھیلانا آسان ہو او پھر مجھے اس کے بیان کرنے کی بھی توفیق عطا فرماتامیں اسے عمدہ طرق سے پیش کرسکوں ۔اور اس کے بعد ا ے میرے خدا لوگوں کی طبائع اس طرف پھیر دے تاکہ وہ اس تعلیم کی طرف توجہ کرنے لگیں ۔حضرت موسیٰ ؑ کی اس دعاسے ظاہر ہے کہ ہدایت درحقیقْت خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے۔تقریروں اور دلیلوں سے نہیںآتی اسی لئے حضرت موسیٰ ؑ نے دعاکی کہ الٰہی جوتعلیم میںدوں اس پر خود بھی عمل کروں اور دوسرے لوگ بھی اس کو آسانی سے مان لیں۔ ان آیات میں تبلیغ کا یہ گر بتایا گیا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ دعاکرتا رہے ۔پس ہمارے مبلغین کو یہ دعا باربار مانگتے رہنا چاہئے ۔
آیت نمبر۲۷تا۳۳
۲۵؎ ترجمہ :۔ (یعنی ) ہارون کو جو میرا بھائی ہے ۔اس کے ذریعہ سے میری طاقت کو مضبوط کر ۔اور اس کو میرے کام میں شریک کر ۔۲۵؎
۲۵؎ حل لغات :۔ وزیر کے معنے معاون کے ہیں (اقرب) الازر کے معنے ہیں الظھر ۔پیٹھ القوۃ ۔طاق اور قوت (اقرب)
تفسیر:۔ اس آیت سے حضرت موسیٰ ؑ اور رسول کریم ﷺ کافرق ظاہر ہے جب حضرت موسیٰ ؑ کو پہلی وحی ہوئی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعاکی کہ مجھے کوئی ساتھی بھی دے ۔اور اس کے ذریعہ سے میری طاقت کو بڑھا ۔مگر محمد رسول اللہ ﷺ نے گوتھوڑے سے وقفہ کے لئے انکساراً یہ ظاہر کیا کہ میںاتنا بڑابوجھ اٹھانے کے ناقابل ۔مگر پھر اکیلے ہی اس بوجھ کواٹھانے کے لئے تیار ہوگئے تبھی قرآن کریم فرماتاہے ۔ وانہ لماقام عبداللہ ۔۔۔۔۔ یعنی جب ہمارا بندہ محمد رسول اللہ ﷺ کھڑاہوتا ہے تاکہ خدا کی عبادت کو دنیا میںقائم کرے تو لوگ اس پر حملہ کرنے کے لئے دوڑے چلے آتے ہیں۔پس محمد رسول اللہ ﷺ ساری عمر اکیلے کھڑے رہے اور ساری قوم کے حملے سہتے رہے ۔چنانچہ تاریخ میں آتاہے کہ جب اُحد کے موقعہ پر کفار کا ایک تجربہ کا ر جرنیل آگے بڑھا اور صحابہ ؓ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اس کے آگے کھڑے ہوگئے تو اس نے کہا ۔میرا صرف محمد رسول اللہ ﷺ سے مقابلہ ہے آپ نے فرمایا میرے اور اس کے درمیان سے ہٹ جائو پھرجب وہ حملہ کرتے ہوئے آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے صرف اپنانیزہ بڑھا کر اسے چھودیا ۔قتل کرنے کی پھر بھی کوشش نہیں کی اس پروہ شخص یہ چلاتاہوا دوڑ گیا کہ ہائے میںمر گیا ۔ہائے میںمر گیا ۔جب اس کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ تم تو اتنے بڑے جرنیل ہو اس تھوڑے سے زخم سے کیوں چلارہے ہو تو اس نے کہاتم کو معلوم نہیںاس شخص کے نیزہ کی انی میں سارے جہنم کی آگ بھری ہوئی تھی مجھے یوں معلوم ہورہا ہے کہ میرا سارا جسم جل رہا ہے (سیرۃ الحبیبہ جلد ۲ صفحہ ۲۵۶)
اسی طرح غزوہ حنین کے موقعہ پر جب دشمن دائیں بائیں کے ٹیلوں پر چڑھ کر تیر برسا رہا تھا اورمکہ کے نو مسلموں کے بھاگ جانے کی وجہ سے صحابہؓ کے پائوں بھی اکھڑ گئے تھے ۔آپ نے اپنے گھوڑے کو ابڑ لگائی ۔اور اکیلے کافروں کے دورویہ لشکروں میںگھس گئے ۔اس وقت حضرت ابوبکر ؓ نے آگے بڑھ کر آپ کے گھوڑے کی باگ پکڑلی اور کہا ۔یا رسول اللہ مسلمانوں کو لوٹنے دیجئے وہ تھوڑی دیر میں ہی آپ کے گرد جمع ہوجائیںگے اس پر آپ نے حضرت ابوبکر ؓ کو سختی سے ہٹادیا اور فرمایا میرے گھوڑے کی باگ چھوڑدو اور گھوڑے کو ایڑلگاتے ہوئے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے کہ ۔اناالنبی لاکذب۔۔۔۔۔۔ (بخاری کتاب المغازی ماب قول اللہ تعالیٰ ویوم حنین اذاعجب تکم کثر تکم )
اے لوگو میںموعد نبی ہوں ۔میںجھو ٹا نہیں۔تم مجھے مار نہیںسکتے مگر میرے اس نشان کو دیکھ کر مجھے خدا نہ بنالینامیںعبد المطلب کا بیٹا اور انسان ہوں ۔کتنا عظیم الشان فرق ہے مسیح ؑ میں اور مرے آقامیں وہ ساری رات یہ دعائیں مانگتارہا کہ ’’( اے میرے باپ اگر ہوسکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے‘‘ (متی باب ۲۶ آیت ۳۹ ) مگر پھربھی اسکو لوگوں نے خدابنادیا وہ صرف دوگھنٹے صلیب پر لٹکا رہا اور اتنے عرصے میںہی خداتعالیٰ سے شکایت کرنے لگاکہ ’’اے میرے خدا ! اے میرے خدا! تونے مجھے کیوں چھوڑ دیا ‘‘ (متی باب ۲۷ آیت ۴۷ ) مگر میر ا محمد ﷺ ایسے دشمن کے نرغہ میںگھر گیا جودوطرف پہاڑیوںپر چڑھاہواتھا ۔اور دونوں طرف سے اس پر تیراندازی کررہا تھا ۔اور اس کے ساتھی ایک فریب میں آکر بھاگ گئے تھے۔مگر پھر بھی وہ اپنے خداسے مایوس نہیں ہوا ۔اور پھربھی اس نے یہی کہا کہ میںانسان ہوں خدانہیں کیسی اندھی ہے وہ دنیا جو ان واقعات کے بعد بھی مسیح کو آسمان پر چڑھاتی ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کو زمین میں دفن کرتی ہے ۔اگر آسمان پر کوئی چڑھ سکتاتھاتو محمد رسول اللہ ﷺ اور اگرزمین میں دفن ہونے کا کوئی مستحق تھا تو مسیح ؑ ناصری ۔مگر یہ طاقت اللہ ہی کو ہے کہ وہ لوگوں کو آنکھیں دے کہ وہ ہر ایک کا مقام پہچانیں۔
آیت نمبر۳۴تا۳۶
ترجمہ :۔ تاکہ ہم (دونوں )کثرت سے تیری تسبیح کریں اور کثرت سے تیرا ذکر کریں۔توہمیں خوب دیکھ رہاہے ۔ ۲۶؎
۲۶؎ تفسیر:۔
حضرت موسیٰ ؑ توکثرت سے تسبیح کرنے کے لئے ایک ساتھی مانگ رہے ہیںلیکن محمد رسول اللہ ﷺ اکیلے ہی اس کام کوکرتے تھے ۔جیسا کہ سوۃ مزمل میںآتاہے ان ربک۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی تیرارب اس بات کو خوب جانتاہے کہ تو کبھی دوتہائی رات کے قریب ۔کبھی آدھی رات اور کبھی تہائی رات نماز میںکھڑا رہتاہے اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید بجالاتاہے اور تیری اقتدامیں مومنوں کا ایک بڑاگروہ بھی تیرے ساتھ عبادت اور ذکر الٰہی میںمشغول رہتاہے پس اس آیت سے بھی محمد رسول اللہ ﷺ اور حضرت موسیٰ ؑ کے مقام کا فرق ظاہر ہے ۔
آیت نمبر۳۷ تا۴۱
ترجمہ :۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔اے موسیٰ جو تونے مانگا تجھے دیا گیا ۔اور ہم (اس سے پہلے ) ایک بار اور بھی تجھ پر احسان کرچکے ہیں۔جب ہم نے تیری ماں پر وحی کے ذریعہ وہ سب کچھ نازل کردیاجو ایسے موقعہ پر نازل کرنا ضروری تھا۔(جس کی تفصیل یہ ہے ) کہ اس یعنی موسیٰ کو تابوت میںرکھ دے پھر اس تابوت کو دریا میں رکھدے پھر اس کے بعد یوں ہو کہ دریا ہمارے حکم سے اس تابوت کو ساحل تک پہنچادے تاکہ اسکو وہ شخص لے جائے جو میرا بھی اوراس یعنی موسیٰ کابھی دشمن ہے اور تجھ پر میںنے اپنی طرف سے محبت نازل کی یعنی تیرے لئے لوگوں کے دلوں میںمحبت پیدا کی اور اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے پالا گیا ۔(یہ اس وقت ہوا ) جب تیری بہن (ساتھ ساتھ چلتی جاتی تھی اور کہتی جاتی تھی کہ اے لوگو کیا میں تمہیں اس عورت کا پتہ بتائوں جو اسکو پال لیگی ۔اور اس طرح ہم نے تجھ کو تیری ماں کی طرف لوٹادیا تاکہ اسکی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں اوروہ غم نہ کرے ۔اور (اے موسیٰ ) تونے ایک شخص کو قتل کردیا تھا پھر ہم نے تجھ کو اس غم سے نجات بخشی اورہم نے تجھ کو اورکئی امتحانوںمیںڈال کر اچھی طرح آزمایا (جس کے بع د) تو کئی سال مدین کے لوگوں میںرہا پھر اے موسیٰ ہوتے ہوتے تو اس عمر کو پہنچ گیا جو ہماریکام کے قابل ہوتی ہے ۲۷؎
۲۷؎ حل لغات :۔ لتصنع ۔الصنع کے معنے یں اجادۃ لعل ۔۔کسی کام کو اچھی طرح سے کرنا (اقرب ) اور علی عینی کامحاورہ اس وقت استعمام کیا جاتاہے جب کسی کی حفاظت اور شفقت مطلوب ہو۔ا(اقب ) پس لتصنع علیٰ عینی کے معنے ہونگے تاکہ تو ہماری خاص شفقت اور رحمت میںپرورش پائے
اصطنع فلانا لنفسہ کے معنے ہیں اختارۃ لنفسہ اس کو اپنے لئے چن لیا (اقرب ) پس اصطنعتک لنفشی کے معنے ہونگے میںنے تجھ کو اپنے کام کے لئے چن لیا۔
۲۷؎ تفسیر:۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ سے فرمایا کہ اے موسیٰ جو کچھ تو نے مانگاہے وہ سب کچھ ہم نے تجھے دیا ۔اس ،میں اشارہ رسول کریم ﷺ سے بھی وعدہ ہے کہ آپ کو بھی وہی کچھ دیا جائیگا جو آپ مانگیں گے ۔
پھر ہم نے اسے کہا کہ یہ ہمارا دوسری دفعہ احسان ہے پہلی دفعہ او راحسان تھا جب تیری ماںنے تجھے ہمارے حکم کے مطابق دریا میںپھینک دیا تھا اور ہم نے ایسا ذریعہ اختیار کیا تھا کہ جس کی وجہ سے تو پھر اپنی ماں کی طرف لوٹادیا گیا اور یہ نشان جو دریا سے بچانے کا تھا اس لئے ظاہر کیا تاکہ تو میرے فضل کے نیچے پرورش پائے ۔
اس جگہ بائبل کے اس بیان کی طرف اشارہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ کو ان کی ماں نے ٹوکرے میںرکھ کر دریا میں ؎ڈال دیا اور وہ بہتے ہوئے اس جگہ پر جالگے جہاں فرعون کی بیٹی سیر کررہی تھی اور اس نے آپ کو دیکھا تو اسے رحم آیا او رکہنے لگی کہ یہ کسی عبرانی کا بچہ ہے ۔اور اس نے کہا اور اس نے کہا لائو ہم اس بچے کو پال لیںمگر اس کی سمجھ میںنہ آتاتھاکہ پالیں کس طرح اتنے میں حضرت موسیٰ کی بہن بہنا پے کی محبت سے بے تاب ہو کر دریا کے کنارے آتی ہوئی نظر آئی اور اس نے دیکھ لیا کہ موسیٰ کو فرعون کی لڑکی نے پسند کرلیا ہے اور اس کی پرورش کرنا چاہتی ہے مگر حیران ہے کہ کس طرح پرورش کرے تو وہ آگے بڑھی او راس نے اپنی ماں کا پتہ بتایا کہ وہ اس بچہ کو پال لے گی ۔اور اس طرح بیٹا اپنی ماں کی گودمیںآگیا ۔
بائبل نے اس واقعہ کو ان الفاظ میںبیان کیاہے ’’کہ چونکہ فرعون کاحکم تھا کہ اسرائیلی بچوں مار دیاجائے اس لئے اس خوف سے موسیٰ کی ماں نے سرکنڈوں کا ایک ٹوکرالیااوراس پر چکنی مٹی اور رال لگاکر لڑکے کواس میںرکھا اور اسے دریا کے کنارے جھائومیںچھوڑ آئی ‘‘(خروج باب ۲ آیت ۳ )
بائبل کے اس بیان اور قرآن کریم کے اس بیان میںایک فرق ہے اوروہ یہ کہ قرآن کریم کے اس بیان میںایک فرق ہے او روہ یہ کہ قرآن کریم تو بتاتاہے کہ ہم نے موسیٰ کی ماں کو یہ وحی کی کہ ان اقذفیہ۔۔۔۔ یعنی اسے تابوت میںرکھدے اور پھر اس کودریا میںڈال دے لیکن بائبل میں سرکنڈوں کے ٹکرے میںڈالنے کاذکر ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اختلاف کوئی حققت نہیںرکھتاکونکہ مختلف ملکوں میںسامان رکھنے کے لئے مختلف چیزوں سے برتن بنائے جاتے ہیں۔دریا کے کنارے کے لوگ چھاڑیوں کی شاخوں سے ایسے بکس بنالیتے ہیںجن میںوہ چیزیں رکھتے ہیںعربی زبان میں ہم اس کو تابوت کہہ دیں گے ۔یہ ضرو ری نہیںکہ تابوت سے مراد لکڑی کابنا ہوا بکس ہو ۔پس یہ اختلاف کوئی حقیقی اختلاف نہیں۔لیکن پھر بھی قرآنی الفاظ زیادہ درست ہیںاسلئے کہ جس چیز کو دریا میںڈالا جائیگا وہ بہر حال ایسی ہی ہوگی جس کے اندر پانی داخل نہ ہوسکے گا اسی لئے بائبل بھی بتاتی ہے کہ سرکنڈے کے ٹوکرے پر چکنی مٹی اوررال لگاکر اس کے سوراخوں کوبند کیاگیا اورجب سرکنڈے کے ٹکیڑے پرمٹی اور رال وغیرہ لگاکر اسے اچھی طربند کیا گیا تووہی ٹوکراتابوت بن گیا ہم دیکھتے ہیں کہ رسو ل کریم ﷺ کو حضرت موسیٰ کی پرورش کے واقعہ سے بھی ایک مشابہت حاصل ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ موسیٰ کو دودھ پلوانے کے لئے اس کی بہن نے کوشش کی لیکن رسول کریم ﷺ کودودھ پلانے والی عورت کو خداتعالیٰ خود پکڑ کر آپ کے پاس لے آیا ۔چنانچہ تاریخوں میںلکھا ہے کہ مکہ کے ارد گرد کے گائوں کی عورتیںایک خاص موسم میںمکے میںجمع ہوجاتی تھیں تاکہ امیروں کے بچے دودھ پلانے کے لئے اپنے ساتھ لے جائیں ۔جب رسول کریم ﷺ چند ماہ کے ہوگئے اور وہ وقت آیا جب عورتیں باہر سے ا ٓتی تھیں تو باہر سے کچھ عورتیں آئیںجن میں آپ کی ہونے والی دائی حلیمہ بھی تھی ۔حلیمہ کا خاندان غریب تھا۔اس لئے جن امیر گھروں میںبھی وہ گئی انہوں نے ا پنابچہ اسے دینے سے انکار کردیا یہ سمجھ کر کہ یہ غریب عورت بچے کو اچھی طرح سے پال نہیںسکے گے ۔حلیمہ سارا دن مکہ کے گھروں میںپھرتی رہی اور رد ہوتی رہی اور میرے آقاکی ماں بیوہ آمنہ اپنے گھر میں کسی مناسب دایہ کا انتطار کرتی رہی لیکن کسی مناسب دا یہ نے اس گھر میںجھانکناتک پسند نہ کیا ۔اس خیال سے کہ آمنہ کے یتیم بچے کے پالنے کابدلہ کون دیگا جب سارادن مکہ کے ہرگھر سے حلیمہ دھتکاری گئی تو اس نے خیال کیا کہ اگر میںبغیر بچے کے گئی تو بدنام ہو جائونگی ۔چلو اگر کسی امیر گھرانے کا بچہ نہیںملتاتو غریب گھرانہ کا یتیم محمد ہی ساتھ لیتی جائوں (سیرۃ الحلبہ جلد او ل صفحہ ۹۶ ) گویا ساری دائیوں کا رد کردہ بچہ اس دایہ نے لے لیا جسے سب مکہ والوں نے رد کردیا تھا۔اور اس طر ح وہ پیشگوی پوری ہوئی جو صحف سابقہ میںآچکی ہے کہ
’’جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوگیا ‘‘ (متی باب ۲۱ آیت۴۲ )
دایہ بھی معمار ہوتی ہے کیونکہ وہ بھی بچہ کی پرورش کرتی اور اسے کھڑاہونے کے قابل بناتی ہے ۔غر ض وہ تمام دائیوں کا رد کیا ہوا بچہ حلیمہ کے گھر گیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کیلئے ایک صحت ا فزامقام پرپرورش کا انتظام فرمادیا ۔مگر خداتعالیٰ کی غیرت دیکھو کہ جس یتیم بچے کے لے جانے سے حلیمہ ڈرتی تھی اسی یتیم بچے کو خداتعالیٰ نے ایک دن اس کی قوم سے لڑوادیا اور اس کوغالب کردیا ۔حلیمہ کی قوم کے بہت سے افراد غزوہ حنین میںقید ہوئے اور بہت سے جانور پکڑے گئے ۔حلیمہ کی قوم کے مالدار فرعون حلیمہ کے غریب بچوں سے سفارش کی خواہش کرنے سے گھبراتے تھے لیکن آخر مجبورہوکر ان کے پاس گئے ۔اور جاکر کہا کہ قوم کی نظر تو تمہیںپرہے ۔جائو اورمحمد رسول اللہ ﷺ کے سامنے اپنی قوم کی سفارش کرو ۔رسول کریم ﷺ دیر تک ان کاانتظارکرتے رہے تھے ۔آخر مجبور ہوکر آپ نے حلیمہ کی قوم کے اموال غنیمت کو فوجیوں میںتقسیم کردیا تھا۔صرف غلام رہنے دئیے تھے جب حلیمہ کی ایک بچی آپ کے پاس سفارش کیلئے آئی توآپ نے فرمایا میںنے تمہارابہت انتظار کیا ۔آخر تنگ آکر مال تقسیم کر دیا ۔اب تم خود ہی پسند کرلو ۔آیامیںمال واپس لے کرتم کو دیدوں یاقیدی تم کودیدوں اس نے قوم سے مشورہ کیاا ور کہاہمیںقید ی جاہئیںمال نہیں چاہئے ۔رسول کریم ﷺ نے لشکر اسلام کے سامنے یہ معاملہ رکھاانہوں نے کہا ۔یارسول اللہ ہم خوشی سے ا پنے اپنے قیدی آزاد کرنے کے لئے تیار ہیںچنانچہ اسی وقت بنو ہوازن کا چھ ہزار قیدی رہا کردیاگیا۔
(سیرۃ الحلبیہ جلد ۳ صفحہ ۱۴۰۔۱۴۱ )
اب موسیٰ کی پرورش کے واقعہ اور محمد رسول اللہ ﷺ کی برورش کا واقعہ کا مقابلہ کرکے دیکھو یہ دونوں واقعات آپس میں مشابہ بھی ہیںلیکن پھ بھی محمد رسول اللہ ﷺ کی پرورش کے واقعہ سے اپنی شان میںہزاروں گنازیادہ ہے ۔ اللھم صل علی محمد واعل محمد ۔
آیت نمبر۴۲‘۴۳‘۴۴
ترجمہ:۔اورمیں نے تجھ کو اپنی ذات کیلئے (روحانی ترقی دیتے دیتے ) تیار کیا ۔(پس جب تو اس عمر کو پہنچ گیا تو میںنے تجھے کہا کہ )تو اور تیرا بھائی میرے نشان لے کر جائو اور میرے ذکر میں کوئی کوتاہی نہ کرو ۔تم دونوں ہی فرعون کے پاس جائو کیونکہ اس نے سرکشی اختیار کررکھی ہے ۔ ۲۸؎
۲۸؎ حل لغات ۔لاتینیا ۔ونیٰ سے انہی کاصیغہ ہے اور ونی الرجل فی الامر کے مرنے ہیںفثروضعف کمزور ہوگیا اور سست ہوگیا (اقرب )پس لتینیا ۔۔ کے معنے ہونگے ۔تم دونوں سستی نہ کرنا۔
۲۸؎ تفسیر:۔
رسول کریم ﷺ کو اس واقعہ میںبھی حضرت موسیٰ ؑ سے مشابہت ہے ۔چنانچہ آپ کو بھی اللہ تعالیٰ نے فرعون کی مشابہ قوم کی طرف بھیجااور فرمایا۔اناارسلنا۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم نے تمہاری طرف محمد رسولاللہ ﷺ کو اسی طرح تمہارا نگران بناکر بھیجاہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف موسیٰ کو بھیجا تھا ۔مگر فرق یہ ہے کہ گو فرعون کی طرح آپ کی قوم نے بھی آپ کوقتل کرنے کی دھمکی دی مگر آپ ڈرے نہیںبلکہ بڑی جرات سے خدا تعالیٰ کا پیغام ان لوگوں تک پہنچاتے رہے اس کے بعد جب مکہ کے رئوساء نے دیکھا کہ ان کے اپنے گھروں میںایسے لوگ پیدا ہورہے ہیںجوبتوں میں خدائی طاقت تسلیم نہیںکرتے اور وہ کھلے طور پر خدائے واحد کی پرستش کرتے ہیںتو یہ بات ان کی برداشت سے بالکل باہر ہوگئی اور وہ ا کٹھے ہوکر رسول کریم ﷺ کے چچا ابوطالب کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ ہم نے آپکی خاطر اب تک آپ کے بھتیجے کو کچھ نہیںکہامگر اب معاملہ حد سے نکل چکا ہے اور یہ ہمارے بتوںکی تذلیل کررہا ہے اس لئے آپ یا تو اسے سمجھائیںاور اس طریق سے اسے یاد رکھنے کی کوشش کریں ورنہ ہم صرف اس کا نہیںبلکہ آپ کا بھی مقابلہ کریں گے اور آپ کو اپنی قوم کی سرداری سے الگ کردیں گے ۔ابو طالب کے لئے اپنی ریاست کو چھوڑنا ایک نہایت ہی تلخ گھونٹ تھا ۔انہوں نے سرداران قریش سے وعدہ کر لیا کہ میںاپنے بھتیجے کو سمجھانے کی کوشش کروںگا ۔چنانچہ ان کے چلے جانے کے بعد ابو طالب نے رسول کریم ﷺ کو بلوایا اور ان سے کہا کہ اے میرے بھتیجے اب تیری قوم تیرے خلاف سخت مشتعل ہوچکی ہے اور قریب ہے کہ وہ تجھے بھی اور ساتھ ہی مجھ کو بھی ہلاک کردیں ۔میں تجھے خیر خواہی اور ہمدردی سے کہتاہوں کہ تو بتوں کو برا بھلا نہ کہہ ۔ورنہ میںاپنی ساری قوم کامقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔جب ابو طالب نے یہ بات کہی تو اس وقت انکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے انہیں غمزدہ دیکھ کر رسول کریم ﷺ کی آنکھوں میںبھی آنسو آگئے ۔مگر آپ نے فرمایا ۔خداکی قسم اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیںاور چاند کو میرے بائیںبھی لاکر کھڑاکردیں تب بھی میںا س کام کو نہیںچھوڑ سکتاجس کے لئے خدانے مجھے کھڑاکیا ہے۔اور اے میرے چچا اگر آپ کو اپنی کمزوری اور تکلیف کا احساس ہے تو بے شک مجھے اپنی پناہ میںرکھنے سے دست بردار ہو جائیں۔میںخداتعالیٰ کی توحید کی اشاعت سے کسی صورت میںبھی نہیںرک سکتا۔میںاس کام میں مشغول رہوں گا یہاں تک کہ خدامجھے موت د ے دے رسول کریم ﷺ کے اس جواب کا ابوطالب پر اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے کہا ۔اے میرے بھتیجے جا اور اپنے کام میںمشغول رہ اگر قوم مجھے چھوڑنا چاہتی ہے تو بے شک چھوڑ دے ۔میںتجھے بھی نہیںچھوڑ سکتا(سیرۃ ابن ہشام جلد اول صفحہ ۸۸ )
اسی طرح اُحد کی جنگ میںجب آپ زخمی ہوکر ایک گڑھے میںگر گئے اور لوگوں میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ رسول کریم ﷺ شہید ہوگئے ہیں تو اس سے دشمنوں میںخوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ۔اور ابو سفیان نے سامنے کی پہاڑی پر چڑھ کر بلند آواز سے کہا بتائو محمد ﷺ کہاں ہے ؟ چونکہ اس وقت بہت سے مسلمان زخمی پڑے تھے اور لشکر منتشر ہوچکا تھا اور خطرہ تھا کہ کفار پھر لوٹ کر مسلمانوں پر حملہ نہ کردیں اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی جواب نہ دے ۔جب اس نے دیکھا کہ مسلمان بالکل خاموش ہیں اور وہ کوئی جواب نہیںدے رہے جس کے معنے یہ ہیںکہ محمد رسول اللہ ﷺ واقعہ میں شہید ہوچکے ہیں ۔تو پھر اس نے کہ اابوبکر ؓ کہاں ہے ۔رسول کریمﷺ نے پھر فرمایا کہ کوئی نہ بولے جب اس سوال پر بھی ابوسفیان نے مسلمانوں کو خاموش دیکھا تو اس نے سمجھ اکہ ابوبکر ؓ بھی مارے گئے ہیںاس پر پھر اس نے بلند آواز سے کہا کہ بتائو عمر ؓ کہاں ہے ؟ رسول کریم ﷺ نے پھرفرمایا کہ کوئی جواب نہ دے اس سے ابوسفیان کو یقین ہوگیا کہ عمر ؓ کو بھی ہم نے مارڈالا ہے اور اس نے بڑے جوش سے کہااُعلُ ھبل۔اُعلُ ھبل۔۔یعنی ہبل جو ہمارابڑابت ہے اس کی شان بلند ہو کیونکہ آج اسنے اپنے مخالفوں کوچن چن کر ہلاک کردیا ہے ۔جب اس نے یہ نعرہ لگایا تو چونکہ رسول کریم ﷺ بار بار صحابہؓ کو یہ ہدایت دے چکے تھے کہ خاموش رہو ۔اس لئے صحابہ ؓ پھر بھی خاموش رہے اوروہ بولے نہیں۔اس پر رسول کریم ﷺ نے بڑے جوش سے فرمایا جواب کیوں نہیںدیتے ۔کہواللہ اعلیٰ واجل۔اللہ اعلیٰ واجل ۔یعنی اللہ ہی اعلیٰ اوربلند شان والا ہے اللہ ہی اعلیٰ اوربلند شان والاہے ۔صحابہؓ نے یہ جواب دیا تو ابوسفیان کہنے لگالنالعزی ۔۔۔۔ ہمارے پاس تو عزیٰ ہے مگر تمہارے پاس کوئی عزیٰ نہیں اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ۔کہو اللہ مولٰنا ولامولی لکم ۔ہمار االلہ حافظ و ناصر ہے مگر تمہارا کوئی حافظ و ناصر نہیں (سیرۃ لاھلنبہ جلد ۲ صفحہ ۲۷۰) اب دیکھوباوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺ سمجھتے تھے کہ یہ موقعہ انتہائی طور پر نازک ہے اور اگر اس وقت دشمن کو جواب دیا گیا تو ممکن ہے کہ وہ دوبارہ حملہ کردے ۔جب ابوسفیان نے اللہ تعالیٰ کی توحید پر حملہ کیا تو آپ سے برداشت نہ ہوسکا اور آپ نے بڑے جوش سے فرمایا تم غلط کہتے ہو ہبل اور عزیٰ میںکیا طاقت ہے اصل طاقت تو زمین آسمان کے خدا میںہے جس کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی نہیںہل سکتا۔غرض خطرناک سے خطرناک مواقع پر بھی رسول کریم ﷺ ایک نڈر اور بہادر پہلوان کی طرح دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہوجاتے تھے اور ایک لمحہ کے لئے بھی ڈراور خوف کو اپنے پاس نہیں آنے دیتے تھے۔
آیت نمبر۴۵‘۴۶‘۴۷‘۴۸‘۴۹
ترجمہ :۔ او ر تم دونوں اس سے نرم نرم کلام کرو ۔شائد کہ وہ سمجھ جائے یا (ہم سے ) ڈرنے لگے ۔دونوں نے عرض کیا ۔اے ہمارے رب ہم ڈرتے ہیںکہ وہ ہم پر زیادتی نہ کرے یا ہم پر حد سے زیادہ سختی نہ کرے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم دونوں بالکل نہ ڈرو میںتمہارے ساتھ ہوں (تمہاری دعائیں بھی ) سنتاہوں اور تمہاری حالت بھی دیکھتاہوں پس دونوں اس کے پاس چلے جائو اور اس سے کہو کہ ہم دونوں تیر ے رب کے رسول ہیں۔پس ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے اور ان کو تکلیفیں مت دے ۔ہم تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے ایک بڑانشان لیکر آئے ہیںاور (تجھے بتاتے ہیںکہ ) جو (شخص ہماری لائی ہوئی ) ہدایت کے پیچھے چلے گا(خداکی طرف سے) اس پر سلامتی نازل ہوگی ۔ہم پر یہ وحی نازل کی گئی ہے ۔کہ جو کوئی(خداکے نشان کو )جھٹلائے گا ۔اور پیٹھ پھیرلے گا ۔اس پرعذاب نازل ہوگا ۲۹؎
۲۹؎ حل لغات :۔ یفرط۔فرط۔سے مضارع کاصیغہ ہے اور فرطہ کے معنے ہوتے ہیںاٰذاہ ۔اس کو تکلیف دی ۔پس ان یفرط کے معنے ہونگے کہ وہ ایزار یا دکھ دے فرط فی لامر کے معنے قصر فیہ کے بھی ہیںیعنی کسی معاملہ میںکمی کی(اقرب) پس ان یفرط کے یہ بھی معنے ہوسکتے ہیں ۔کہ وہ کمی کرے یعنی ہماری بات ہی نہ سنے ۔
۲۹؎ تفسیر:۔
اس میںبھی رسول کریم ﷺ کی حضرت موسیٰ سے مشابہت پائی جاتی ہے مگر حضرت موسیٰ کو تو صرف یہ کہا گیا تھا کہ فرعون سے نرم نرم باتیںکرنااور محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق فرمایا گیا کہ وہ نڈر ہو کہ خداکے متعلق باتیںسناتے ہیں بلکہ ان کے مرید بھی ایسے ہی ہیںچنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔ ودُوالوتدھن۔۔۔۔۔۔ یعنی اے محمد رسول اللہ ﷺ کفارچاہتے ہیں کہ تو اپنے دین کے متعلق ذرانرمی کرے تو وہ بھی نرمی کرنے لگ جائیں مگر تو ایسا نہیںکرتا ۔اور مومنوں کے متعلق فرمایا ۔اشدائُ علی۔۔۔۔۔۔ یعنی دشمن کتناہی ان پر نرمی کرکے ان کو دین کے معاملہ میںنرم کرناچاہے وہ کبھی دین کے معاملہ میںکوئی لچک نہٰیں کھاتے۔ہاں مومن اگر سختی بھی کریںتو اس کوبھلادیتے ہیں۔
لعلہ یتذکر ۔۔۔ میںاللہ تعالیٰ فرعون کے متعلق کہتاہے کہ شاید وہ نصیحت پکڑے اور ڈرسے یہاں سوال پیداہوتاہے کہ کیا خداتعالیٰ کو علم تھا یا نہیں کہ وہ مانے گا یا نہیں اگر تھا تو شاید کا لفظ کیوں رکھا اور اگر یہ شاید یقین کے معنوںمیں آیا ہے تو یہ بات غلط نکلی کیونکہ فرعون نے مانا نہیںپھر شاید کیا مطلب ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لعل بے شک شک پردلالت کرتاہے لیکن ماہرین لغت کہتے ہیںکہ لعل میںامید کے معنے بھی پائے جاتے ہیںاور یہ ضروری نہیںکہ یہ امید فائل کی طرف سے ہو بلکہ کبھی فائل کی طرف سے ہوتی ہے کبھی سامع کی طرف سے اور کبھی اس شخص کی طرف سے جس کے متعلق بات کہی گئی ہو آیت لعلاہ ۔۔۔۔ لعل کالفظ موسیٰ ؑ اور ہارون کے لئے ہے یعنی قولا لہ قولا۔۔۔۔۔ یعنی اس امید کے ساتھ فرعون کوتبلیغ کرنا کہ شاید وہ ہدایت پاجائے پس لعل کے لفظ سے کوئی غلط فہمی نہیںہونی چاہئے ۔خداتعالیٰ کا کلام جو کسی پیشگوئی پر مشتمل ہوتاہے اس میںبالعموم یہی طرق اختیار کیا جاتاہے کہ اگر دوسراشخص اپنی اصلاح کرلے گا توبچ جائے گا اور اگر نہیں کرے گاتو ہلاک ہوگا۔
آیت نمبر۵۰‘۵۱‘۵۲
ترجمہ :۔ (اس پر فرعون نے )کہا اے موسیٰ ! تم دونوں کارب کون ہے ؟ (موسیٰ نے )کہا ہمارارب وہ ہے جس نے ہر چیز کو ( اسکی ضرورت کے مطابق اعضاء عطاکئے ہیںاورپھر ان (اعضاء) سے کام لینے کا طریقہ سکھایا ہے ۔(فرعون نے کہا) اگر یہ بات ہے تو پہلے لوگوں کاکیا حال تھا (یعنی وہ تو ان باتوں کو نہیں مانتے تھے ان سے کیا سلوگ ہوگا؟) موسیٰ نے )کہا ان (پہلے لوگوں )کا علم تومیرے رب کو ہے (ان سب کے حالات اسکی )کتاب میں محفوظ ہیں میرا رب نہ بھٹکتاہے اورنہ بھولتاہے۔ ۳۰؎
۳۰؎ تفسیر :۔
جب خداتعالیٰ کی صفات اوراسکی وحی نازل کرنے کی عادت کاذکر فرعون نے سنا تو چونکہ وہ ان باتوں سے ناواقف تھا اس نے حیران ہوکر موسیٰ سے پوچھاکہ اے موسیٰ یہ کیسا خداتونے پیداکر لیاہے جو پہلے لوگوں سے کبھی سنا نہ تھا ۔اس پر موسیٰ نے کہاکہ کیا دیکھتے نہیںہو کہ دنیا میں ایک کامل نظام پایاجاتاہے اور ہر مخلوق کو اسکی ضرورت کے مطابق اعضاء ملے ہیںاور ان اعضاء سے کام لینے کا طرق بھی وہ پیدائش سے سیکھ کر آتی ہے اس پر فرعون نے کہا کہ فمابال۔۔۔۔ اگر یہ بات ہے تو ہمارے باپ دادے جو ان باتوں سے ناواقف تھے انکا تو بُراحال ہوگا۔اس طرح اس نے لوگوں کو اشتعال دلانا چاہا اور وہی حربہ استعمال کیا جو ہمیشہ سے انبیا ء کے مخالف استعمال کرتے چلے آرہے ہیں دنیا میں عام طورپر سچائی کے مقابلہ میںلوگوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کہا جاتاہے کہ اگر تم سچے ہو توپھر ہمارے باپ دادے تو جھوٹے اور جہنمی ہوئے اور جب کسی بات کے ساتھ جذبات مل جاتے ہیں تو دلیل لوگوں کی نگاہ سے غائب ہوجاتی ہے ۔مثلاً جب توحید کی تبلیغ کی جارہی ہو تو ایک بت پرست فوراً کھڑاہوجاتاہے اور کہتاہے سنو یہ توحید کے پرستار کیا کہتے ہیں۔کہتے ہیںتمہارے باپ دادے بڑے جاہل تھے بڑے احمق اور نادان تھے جو بتوں کے آگے سر جھکاتے رہے اب کون شخص یہ ماننے کے لئے تیار ہوسکتاہے کہ اس کے باپ دادا واقعہ میںجاہل تھے آخر کافر کو بھی اپنے ماں باپ سے محبت ہوتی ہے اس لئے وہ برداشت نہیںکرسکتاکہ انہیںبرابھلا کہا جائے پس جب وہاں کے سامنے شرک کو اس رنگ میں پیش کرتاہے کہ تمہارے باپ دادے اسے مانتے تھے اور یہ لوگ کہتے ہین کہ وہ جاہل اور بے ایمان تھے ۔تو لوگوں میںاشتعال پیداہو جاتاہے ۔اور وہ کہتے ہیںیہ ہمارے باپ دادا کو برا بھلا کہتے ہیں انہیںقتل کردو ۔ان کامال و اسباب لوٹ لو اور انہیںاپنے ملک سے نکال دو ہم اپنے ماںباپ کی ہتک برداشت نہیں کرسکتے ۔غرض مخالف ہمیشہ اس اشتعال انگیز حربہ سے کام لیتے رہے ہیں ۔مگر یہ حربہ دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوا فطرت صحیحہ ہمیشہ غالب آتی رہی ہے اور یہ حربہ ناکامیاب ہوتارہا ہے۔
قال علمھا عند ربی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اسے جواب میں کہا کہ باپ دادوں کا حال تو خداکومعلوم ہے یعنی اللہ تعالیٰ پر شخص سے اس کے حالات کے مطابق معاملہ کرتاہے مجھے کہامعلوم ہے کہ تمہارے باپ دادوںتک کونسی سچائی پہنچی تھی اور کونسی سچائی نہیں۔پہنچی یایہ کہ ان پر حجت تمام ہوئی تھی یا نہیں۔جزاسزا تو پورے حالات کے علم کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور وہ صرف خداکو ہے پھر میںاس بارہ میں کیا کہہ سکتاہوں جو حقیقت سے بے خبر ہوں ۔
اسی امر کے متعلق بانی سلسلہ احمدیہ نے تحریر فرمایاہے کہ جزا سز ا تمام حجت سے تعلق رکھتی ہے اور تمام حجت کا تعلق خداتعالیٰ سے ہے ۔بندہ اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔چنانچہ جب آپ پر بعض شریروں نے الزام لگایا کہ آپ اپنے نہ ماننے والوں کو جہنمی قرار دیتے ہیں۔توآپ نے اس سے صاف انکار کیا اور فرمایا کہ میں تو خادم ہوں میرا عقیدہ تو اپنے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے متعلق بھی یہی ہے کہ ان کے نہ ماننے والوںمیںسے بھی وہی دوزخی ہونگے جن پرحجت تمام ہوچکی ہوگی ۔چنانچہ آپ نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میںتحریر فرمایا ہے ۔
’’ ڈاکڑ عبد الحلیم خان اپنے رسالہ المسیح الدجال وغیرہ میں میرے پر یہ الزام لگاتاہے کہ گویا میںنے اپنی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ جو شخص میرے پر ایمان نہیںلائیگا گو وہ میرے نام سے بھی بے خبر ہوگا اور گووہ ایسے ملک میں ہوگا جہاں تک میری دعوت نہیں پہنچی تب بھی وہ کافر ہوجائیگا اور دوزخ میں پڑے گا ۔یہ ڈاکٹر مزکور کاسراسر افتراء ہے۔میں نے کسی کتاب یا کسی اشتہار میںایسا نہیںلکھا۔اس پرفرض ہے کہ وہ ایسی کوئی میری کتاب پیش کرے جس میں یہ لکھا ہے ۔یاد ہے کہ اس نے محض چالاکی سے جیسا کہ اس کی عادت ہے یہ افتراء میرے پر کیا ہے ۔یہ تو ایسا امر ہے کہ بالہدایت کوئی عقل اس کو قبول نہیں کرسکتی ۔جو شخص بکلی نام سے بھی بے خبر ہے اس پر مواخذہ کیونکہ ہوسکتاہے ۔۔۔۔ایسا ہی عقیدہ میرا آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کے بارہ میں بھی ہے کہ جس شخص کو آ نحضرت ﷺ کی دعوت پہنچ چکی ہے اور وہ آپ کی بعثت سے مطلع ہوچکا ہے اور خداتعالیٰ کے نزدیک آنحضرت ﷺ کی رسالت کے بارہ میں اس پر تمام حجت ہوچکا ہے وہ اگر کفر پر مرگیا توہمیشہ کی جہنم کا سزاوار ہوگا اور تمام حجت کا علم محض خدا تعالیٰ کو ہے۔ہاں عقل اسبات کو چاہتی ہے کہ چونکہ لوگ مختلف استعداد اور مختلف فہم پر محمول ہیںاس لئے اتمام حجت بھی صرف ایک ہی طرز سے نہیںہوگا ‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۷۸ ،۱۷۹ )
آیت نمبر۵۴‘۵۵
ترجمہ :۔ (وہی ہے ) جس نے تمہارے لئے اس زمین کو فرش کے طورپر بنایا ہے ۔اور اس میںتمہارے لئے راستے بھی نکالے ہیں ۔اور آسمان سے پانی اتاراہے ۔پھر(تو ان سے یہ بھی کہہ دے کہ ) ہم نے اس پانی کے ذریعہ سے مختلف قسم کی روئید گیوں کے جوڑے پیدا کئے ہیں۔(پس ) تم بھی کھاو او راپنے جانوروں کو بھی چرائو اس میں عقل والے لوگوں کے لئے بہت سے نشان ہیں ۔ ۳۱؎
۳۱؎ حل لغات :۔ شتیّٰ ۔الشتیت کی جمع ہے جس کے معنے ہیں المفرق ۔مختلف اور متفرق (اقرب )
۳۱ ؎ تفسیر :۔
حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کو یہ جواب دینے کے بعد کہ جزا سزا دینے والا تو صرف خداہے جس کو سب باتوں کا علم ہے پھر میںتمہیں کیا بتاسکتاہوں اسے سمجھانے کی کوشش کی اور فرمایا کہ دیکھو ۔اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو ایسابنایا ہے کہ اس سے انسان زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاسکتاہے او پھر سفر کے ایسے طریق نکالے ہیںکہ ان کے ذریعہ سے وہ ایک ملک سے دوسرے ملک تک جاسکتاہے اور اس نے آسمان سے پانی اتاراتاکہ زمین اپنی روئیدگی نکالے ۔پھر اس پانی سے وہ مختلف قسم کی روئیدگیا ں نکالتاہے ۔ تاکہ تم بھی کھائواور تمہارے جانور بھی کھائیں۔ پھر تم کیوں نہیں سمجھتے کہ اسی طر ح خداتعالیٰ آسمان سے روحانی پانی بھی اتارتاہے یعنی وحی اور اس سے مختلف روحانی علوم پیدا کرتاہے تاکہ جو اعلیٰ درجہ کے لوگ ہیںوہ بھی اس سے فائدہ اٹھائیںاور جو ادنیٰ یعنی چارپایوں کی طر ح ہیںوہ بھی اپنے ظرف کے مطابق اس سے فائدہ اٹھائیں ۔اگر کوئی سوچنے والا ہو تو اس مثال سے وہ بہت کچھ فائدہ اٹھاسکتا ہے یعنی جس طرح مادی پانی آسمان سے نازل ہوتاہے اسی طرح روحانی پانی یعنی الہام الٰہی بھی آسمان سے نازل ہوتاہے اور اس کے ذریعہ سے بھی آدمیوں اورجانوروں کی غذامہیا کی جاتی ہے یعنی ان لوگوں کی غذابھی جو اعلیٰ روحانی طاقتیں رکھتے ہیںاوران لوگوں کی غذابھی جن کی روحانی حالت کمزور ہوتی ہے ۔فاخرجنا بہ۔۔۔۔۔۔ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ نباتات کے جوڑے ہیں ۔اس مسئلہ کاسوائے چند ایک چیزوں مثلاً کھجور کے آج سے سو سال قبل کسی کو علم نہیںتھا مگر اب بے شمار نباتی چیزوں کے جوڑے ثابت ہوچکے ہیںجو قرآن کریم کی صداقت کا ایک عظیم الشان ثبوت ہے ۔
آیت نمبر۵۶
۳۲ ؎ ترجمہ:۔ ہم نے اسی (زمین)سے تم کوپیداکیاہے اور اسی میںتم کولوٹادیں گے ۔اور اسی میں سے تم کودوسری دفعہ نکا لیں گے۔۳۲ ؎
۳۲؎ تفسیر:۔
گذشتہ آیات میںحضرت موسیٰ ؑ کے اس مکالمہ کاذکر ہے جوان کافرعون کے ساتھ ہوا ۔اس مکالمہ کے دوران میںانہوں نے خداتعالیٰ کے متعلق اپنا عقیدہ نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا تھا اب اس کے بعد فرماتاہے ۔منھا۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم نے تمہیںاسی زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی زمین میںتمہیںمرنے کے بعد لوٹائیں گے اورپھر اسی زمین سے تم کو دوبارہ نکال کر کھڑاکرینگے ۔یہ وجاحت اللہ تعالیٰ نے اسلئے فرمائی کہ فرعون کی قوم ستارہ پرست تھی اور ان کا عقیدہ تھا کہ ستاروں سے روحیں اترتی اورجنم لیتی ہیںاور پھر وہیںچلی جاتی ہیں۔اس عقیدہ کے ماتحت ہند وستان میں سورج بنسی اور چندر بنسی قومیں بنیں جن کے ناموں میںاس طرف اشارہ تھا کہ چاند اور سورج سے جن روحوں نے اتر کر جنم لیا ان کے خاندانوں کے یہ نام ہیں ۔پس چونکہ ان کا عقیدہ تھاکہ دنیاکے کاروبار کا تعلق ستاروں سے ہے ۔اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے خداہی سب کچھ کرتاہے او ر اسی کے قبضہ و تصرف میں تمام ارواح ہیں۔
اس آیت سے حضرت مسیح ؑ کی وفات بھی ثابت ہوتی ہے ۔کیوں کہ اس میںبتایا گیا ہے کہ انسان کی زندگی اس کی موت اور اس کادوبارہ بعث اسی زمین سے وابستہ ہے ۔پس جب یہ ایک مسلمہ قانون ہے تو حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر کیسے جاسکتے ہیں۔
آیت نمبر۵۷‘۵۸
ترجمہ :۔ اورہم نے اس یعنی فرعون کو اپنے ہر قسم کے نشان دکھائے مگر باوجود ان کے وہ جھٹلانے پر مصر رہا اور انکار کرتا چلاگیا اورکہنے لگا اے موسیٰ کیا تو اس لئے ہمارے پاس آیا ہے تاکہ اپنی سحربیانی کے ذریعہ سے ہم کو ہماری زمین سے نکال دے ۔۳۳؎
۳۳؎ تفسیر:۔
اس میںفرعون موسیٰ کی ایک اور چال کی کاذکر کیا گیا ہے ۔وہ یہ نہیںکہتاکہ موسیٰ مجھ کوتخت حکومت سے الگ کر کے خود اس پرقبضہ کرناچاہتاہے بلکہ وہ اسے ایک قومی سوال بنا کر کہتاہے کہ کیا تو اس لئے آیاہے کہ اپنی چالوں سے ہمیں ہماے ملک سے نکال دے ۔تویا اس نے چاہا کہ ملک کے تمام باشندوں کو موسیٰ کے خلاف بھڑکادے اور انہیں جوش دلائے کہ موسیٰ تمہیںنکال کر اپنی قوم کی حکومت قائم کرنا چاہتاہے اس وقت فرعون کی حکومت مصر پر اسی طرح تھی جس طرح انگریز ایک مدت تک ہندوستان پرحکمران رہے ہیں۔اس لئے اسنے اصل باشندوں کو بھی بھڑکا نا ضروری سمجھا تاکہ موسیٰ کی مخالفت ایک قومی مسئلہ بن جائے ۔
آیت نمبر۵۹
ترجمہ :۔اگر یہ بات ہے تو ہم بھی تیرے مقابلہ میں ویسا ہی جادو لائیں گے ۔پس ہمارے درمیان اور اپنے درمیان ایک وقت اور مقام معود مقرر کر نہ اس سے ہم پیچھے ہٹیں اور نہ تو ہٹے ۔وہ (ایک ایسا) مکان ہو جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہو ۔ ۳۴؎
۳۴؎ حل لغات :۔لاتخفہ ۔اخلف سے ہے اور اخلفہ ما وعدہ کے معبے ہیں قال شیئاًولم یفعلہ یعنی کسی بات کے کرنے کا وعدہ کیا اور پھر نہ کیا (اقرب ) پس لانخلفہ کے معنے ہونگے ۔ہم وعدہ کے خلاف نہیں کریںگے ۔
سویً کے معنے ہیں العدل ۔برابر ۔ الوسط۔ درمیانہ (اقرب) اور لانخلفہ نحن ولاانت مکاناً سوی ً میں مکا نا ً سوی ً کے معنے ہیں معلمًا ای ذالمعلم ۔ یعنی ایسی جگہ جس تک پہنچنے کے نشانات کا سب کو علم ہو گویا ایسی مشہو جگہ جس کو سب جانتے ہوں ۔ (اقرب)
۳۴؎ تفسیر:۔
معلوم ہوتاہے فرعون موسیٰ مکہ کے لوگوں کی نسبت زیادہ منصف تھا ۔ اسی طرح آجکل کے بعض مولویوں کی نسبت بھی اس میںزیادہ انصاف پایا جاتا تھا ۔کیونکہ وہ موسیٰ کے مشورہ سے مقابلہ کے لئے ایسی جگہ مقرر کرتاہے جہاں فساد کا کوئی خطرہ نہ ہو اور موسیٰ اور فرعون کو ایک جیسے حقوق حاصل ہوں ۔لیکن آجکل کے مولوی یا پادری جس سے اختلاف ہوتا ہے اسے ایسی مجلس میںبلاتے ہیں جس میں ان کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہو تاکہ فساد ہو اور وہ اپنے دشمنوں کو مار پیٹ سکیں۔
آیت نمبر۶۰
ترجمہ :۔ اس پر موسیٰ نے کہا کہ تمہارے ہمارے اکٹھے ہونیکے دن تمہاری عید کا دن ہو ۔اور نیز ہ بھر سورج چڑھے سب لوگوں کو جمع کیا جائے ۔۳۵؎
۳۵ ؎ تفسیر:۔
حضرت موسیٰ ؑ یہی چاہتے تھے کہ کوئی ایسی جگہ تجویز ہو جوفریقین کیلئے مساوی ہو اسلئے انہوں نے کہا موجدکم۔۔۔۔۔ کہ زینت یعنی عید کا دن ہوناچاہئے ۔یہان کا ایک مقدس دن تھا جس میں کسی پر کوئی زیادتی نہیں کی جاتی تھی جیسے عربوں میں حج کے ایام مقدس سمجھے جاتے ہیں پھر صبح کاوقت مقرر کیا گیا یہ بھی بہت اچھا وقت تھا کیونکہ دن میں کام کرنے کی وجہ سے لوگوں کے دماغ تھکے ہوئے ہوتے ہیں اور اچھی طرح توجہ پیدا نہیں ہوسکتی لیکن صبح کے وقت دماغ تازہ ہوتاہے اس لئے بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے ۔
آیت نمبر۶۱‘۶۲‘۶۴۶۳
ترجمہ :۔اس پر فرعون پیٹھ پھیر کر چلا گیا اور جو تدبیر یں اس سے ممکن ہوسکتی تھیں انکو مہیا کیا ۔اور پھر موسیٰ کی طرف لوٹا۔تب موسیٰ نے ان سے کہااے لوگو ! تم پر ہلاکت ہو ۔اللہ پر جھوٹ نہ باندھو ۔ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو عذاب کے ذریعہ سے پیس ڈالے ۔اور جوکوئی خداپر افتراء کرتاہے وہ ناکام ہوجاتاہے ۔ یہ سن کر فرعون اور اس کے ساتھی آپس میں جھگڑنے لگے اور خفیہ منسوبے کرنے لگے ۔اور انہوں نے کہا یہ دونوں یعنی موسیٰ اور ہارون اور کچھ بھی نہیں صرف جادوگر ہیںجو یہ چاہتے ہیں کہ تم کو تمہاری زمین سے اپنے جادو کے زور سے نکال دیں ۔ اور تمہارے اعلیٰ درجہ کے مذہب کو تباہ کردیں ۔ ۳۶؎
۲۶؎ حل لغات :۔ یسحتکم ۔اسحت سے مضارع کا صیغہ ہے اور اسحت کے معنے ہوتے ہیں استاصلۃ اس کوجڑھ سے اکھیڑدیا (اقرب ) پس یسحتکم کے معنے ہونگے تم کو ہلاک کردیگا ۔جڑھ سے اکھیڑ دیگا۔ المئلی کے معنے افضل ۔اعلیٰ (اقرب)
۳۶؎ تفسیر:۔
قالو ۔۔۔۔ یہ فرعون کے ساتھیوں کا قول ہے جہنوں نے لوگوں کو جوش دلانے کیلئے کہا کہ یہ تو چاہتے ہیں کہ تم کو اپنے فریب میں ملک سے نکال دیں اور تمہارا مذہب جو سب سے افضل ہے اس کو مٹادیں گویا دنیوی اور مذہبی دونوں طریق سے انہوں نے لوگوں کو اشتعال دلانا چاہا ۔
آیت نمبر۶۵
ترجمہ :۔ پس چاہئے کہ تم بھی اپنی تدبیریں سوچ لو پھر سب کے سب ایک جماعت کی شکل میں آئو اور جو شخص آج جیتے گا وہ ضرور بامراد ہوگا۔۳۷؎
۳۷؎ تفسیر :۔
آجکل دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ اس غلط فہمی میںمبتلا ہے کہ اچھے مقصد کیلئے خواہ کیسے ہی ذرائع استعما ل کرنے پڑیں جائز ہوتے ہیں حالانکہ ناجائز ذرائع کے ساتھ کسی چیز کے حصوں کی کوشش ہی اس بات کاثبوت ہوتاہے کہ اس چیز کا صداقت کے ساتھ کوئی واسطہ نہیںیہی حربہ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے استعمال کیا اور لوگوں کو اکسایا کہ تم سے جو کچھ دھوکا فریب ممکن ہو اس سے کام لو اور جسقدر چالبازی کرسکتے کرو تمہارا مقصد دیہ ہے کہ تم نے موسیٰ پرغلبہ حاصل کرنا ہے پس یہ مت دیکھو کہ تمہاری تدابیر کیسی ہیں یہ دیکھو کہ تم نے کامیاب ہونا ہے پس جس قدر تدابیر اختیار کر سکتے ہو اختیار کرو۔
آیت نمبر۶۶
ترجمہ :۔ اس پر ان لوگوں نے جن کو موسیٰ کے مقابلہ کیلئے فرعون نے جمع کیا تھا کہا کہ اے موسیٰ یاتو اپنی تدبیر پھنک یعنی ظاہرکر یاہم تجھ سے پہلے پھنکیں ۔۳۸؎
۳۸؎ تفسیر:۔
ساحر موسیٰ ؑ کے مقابلہ کیلئے تو تیار ہوگئے ۔مگر باوجود اس کے کہ فرعون ان کے ساتھ تھا اور اسوجہ سے ان کے اندر کبر اور غرور ہونا چاہئے تھا انہوںنے نہایت ادب کے ساتھ کہا کہ اے موسیٰ بتایئے آپ ابتدا کریں گے یا ہم ابتداء کریں ۔مثنوی رومی والوں نے اس کے متعلق ایک نہایت ہی لطیف بات لکھی ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ان کایہی ادب تھا جو ان کے کام آیا اور اللہ تعالیٰ نے جونکتہ نوازہے انہیں دولت ایمان سے بہرہ ور فرمادیا ۔
آیت نمبر۶۷
ترجمہ :۔(تب موسیٰ نے) کہا (بہتر یہ ہے) کہ تم اپنی تدبیر پھینکو (یعنی ظاہر کرو) پس انہوں نے جو تدبیر کی اس کے نتیجہ میں ان کی رسیاں اور ان کے سونٹے موسیٰ کو ان کے فریب کی وجہ سے یوں نظر آئے گویا کہ وہ دوڑ رہے ہیں۔ ۳۹؎
۳۹؎ تفسیر:
فاذا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے معلوم ہواہے کہ جادو گروںکی ان رسیوں اور سونٹوں میں یا تو پارہ تھا یا لچکدار پیچ تھے جن کے دبانے کی وجہ سے وہ ہلنے لگ جاتے تھے۔یورپ سے آجکل ایسی چیزیں بہت کثرت سے آتی ہیں ۔معلوم ہوتاہے کہ مصر میں بھی ایسی صنعت جاری تھی اور اسی کو جادوگروں نے مقابلہ کیلئے اختیار کیا ۔
آیت نمبر۶۸‘۶۹‘۷۰
ترجمہ ۔اور موسیٰ اپنے نفس میں پوشیدہ طور پر ڈرا۔ (تب) ہم نے وحی کی (اے موسیٰ) مت ڈر۔ کیونکہ تو ہی غالب آئے گا۔ اور جو کچھ تیرے دائیں ہاتھ میں ہے اس کو زمین پر ڈال دے جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس سب کو وہ نگل جائے گا (یعنی اس کا بھانڈا پھوڑ دیگا)انہوں نے جو کچھ کیا ہے وہ تو فریب کاروں کا ایک فریب ہے اور فریب کار جس طرف سے بھی آے (خدا کے مقابلہ میں ) کامیاب نہیں ہو سکتا۔
۴۰؎ حل لغات :۔ اوجس۔۔۔ کے معنے ہوتے ہیں احس واضمر ۔محسوس کیا اور چھپایا ۔(اقرب ) خیفۃ کے معنے ہیں الحالۃالتی۔۔۔۔ وہ حالت جوخوف کی وجہ سے انسان پرطاری ہوتی ہے (اقرب) تلقف۔۔ ۔کے معنے ہوتے ہیں تناولہ۔۔۔کسی چیز کو جلدی سے لے لیا (اقرب) پس تلقف کے معنے ہونگے جلدی سے نگل لے گا۔
۴۰؎ تفسیر:۔
اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو الہام کے ذریعہ بتادیا کہ ان چیزوں کے اندر پیچ ہیں اورکچھ نہیں ۔ان پر زور سے سونٹامار وہ پیچ ٹوٹ جائیں گے اوران کی حرکت بند ہوجائیگی اور اس طرح معنوی طورپر تیر ا سونٹاانکی رسیوں اور سانپوں کی نگل جائے گا ۔یعنی ان کافریب لوگوں پر ظاہر کردیگا۔
آیت نمبر۷۱
ترجمہ :۔ پس جب موسیٰ کے سونٹاڈالنے کے بعد فرعون کے لائے ہوئے چالباز اپنی کمزوری سمجھ گئے تو وہ اپنی ضمیر کی آواز سے سجدہ میںگرائے گئے اور کہنے لگے ہم ہارون اور موسی ٰکے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ ۴۱؎
۴۱ ؎ تفسیر:۔
القہ السحرۃ سجداً۔۔۔۔ بڑامعنے خیز فقرہ ہے ۔جو بتاتاہے کہ جادو گروں کی شکست اتنی واضع تھی کہ یوں معلوم ہوتاتھا کہ کسی خفیہ طاقت نے ان کے پائوں تلے سے زمین نکال لی ہے ۔چنانچہ وہ سجدہ میں گر گئے ۔اور چونکہ اپنی شکست سے ان کو یقین ہوگیا تھا کہ موسیٰ ؑ کا رب ان کی تائید میں ہے اس لئے فوراًکہہ اٹھے کہ آمنّا برب ھارون و موسیٰ ۔ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔
آیت نمبر۷۲
ترجمہ :۔ اس پر فرعون نے کہا کیا تم میرے حکم سے پہلے ہی اس پر ایمان لاتے ہو (معلوم ہوگیا کہ ) وہ تمہارا سردار ہے جس نے تم کو یہ چالاکیاں سکھائی ہیں پس اس فریب کی سزا میںمیں تمہارے ہاتھ اور پائوں اپنی اپنی خلاف ورزی کی وجہ سے کاٹ دونگا ۔ اور میں تم کو کھجور کے تنوں سے باندھ کر صلیب دے دوں گا ۔اور تم کو معلوم ہوجائے گا کہ ہم میںسے کون زیادہ سخت اور دیر پاعذاب دے سکتاہے ۴۲؎
۴۲؎ حل لغات :۔ من خلا ف کے معنے ہیں اھداھما۔۔۔۔۔۔ یعنی ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کاپائوں (مفردات ) او من خلاف کے معنے مخالفت کی وجہ سے بھی ہوسکتے ہیں۔(مفردات)
۴۲؎ تفسیر :۔
فرعون کا دعویٰ تھا کہ ہم ایسے لوگ بلائیں گے جوموسیٰ سے بڑے ہونگے مگر جب ساحر شکست کھا کر موسیٰ کے قدموں میں گر گئے تو فرعون کو سخت غصہ آیا اور اس نے اپنی ذلت چھپانے کیلئے ان سے کہا کہ تم میرے کہنے سے پہلے ہی کیوں ایمان لے آئے ۔اب میںتمہیںاس کی سزا دوںگا ۔
من خلاف ۔۔۔ کے یہ معنے ہیںکہ خلاف ورزی کی وجہ سے یا یہ کہ ایک ہاتھ اور ایک پائوں مختلف اطراف سے کاٹوں گا ۔مثلاً دایاں ہاتھ اور بایاں پائوں یہ اس لئے کیا جاتاتھا تاکہ انسان بالکل ناکارہ ہوجائے ۔
آیت نمبر۷۳‘۷۴‘۷۵‘۷۶‘۷۷
ترجمہ :۔ اس پر انہوں نے یعنی فرعون کے پہلے ساتھیوں یاساحروں نے کہاہم تجھ کو ان نشانات پر فوقیت نہیںدے سکتے جو خداکی طرف سے ہم تیرے پاس آئے ہیںاور نہ اس خداپر جس نے ہم کو پیدا کیا ۔پس جو تیرازور لگتاہے لگالے ۔تو صرف اس دنیا کی زندگی کو ختم کرسکتاہے ۔ہم اب اپنے رب پر ایمان لاچکے ہیں تاکہ وہ ہمارے گناہوںکو معاف کردے اور اس دھوکا بازی کے مقابلہ کو بھی معاف کردے جس کے لئے تو نے ہم کو مجبور کیا تھا ۔اور اللہ سب سے بہتر اور سب سے زیادہ قائم رہنے والا ہے حقیقت یہ ہے کہ جوکوئی شخص اپنے رب کے پاس مجرم کی حیثیت سے حاضرہوتاہے اسے یقینا جہنم ملتی ہے ۔نہ وہ اس میںمرتاہے اور نہ زندہ رہتاہے ۔ اور جو شخص مومن ہونے کی حالت میں جبکہ وہ ساتھ ساتھ مناسب حال عمل بھی کرتاہوگا اس یعنی خداتعالیٰ کے پاس آئیگا تو ایسا ہر شخص اعلیٰ درجے پائیگا ۔وہ درجے ہمیشہ رہنے والے باغات ہونگے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میںرہتے چلے جائیں گے اور یہ ان شخص کا مناسب بدلہ ہے جو پاکیزگی اختیار کرتاہے ۔ ۴۳؎
۴۳؎ تفسیر:۔
وہی جادوگر جو پہلے فرعون سے بھیک مانگ رہے تھے ایمان نصیب ہوتے ہیںاتنے دلیر ہوگئے کہ فرعون کے سامنے کھڑے ہوگئے اور اسے کہ دیا کہ ہم تیری بات سننے کیلئے تیار نہیں ہم تو اسی بات کو مانیںگے جو ہمارے خد ا کی طرف سے آئیگی تو اگر کچھ کر سکتاہے تو یہی کہ دنیا کی زندگی کو منقطع کردے سو بے شک کردے ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہمیں خوشی ہے کہ خدانے اپنے فضل سے ہمیں حق کی شناخت کی توفیق عطافرمادی ہے اب دنیا کی کوئی طاقت ہمیںکفر کی طرف واپس نہیںلوٹاسکتی ۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر ایمان کامل کسی کو نصیب ہو جائے تو پھر دنیا کی مشکلات اور دنیا کی تکالیف اس کی نگاہ میںبالکل بے حقیقت ہوجاتی ہیںاحادیث میںایک واقعہ بیان ہوا ہے جس سے پتہ لگتاہے کہ ایمان کی کیا کیفیت ہوتی ہے اور جب وہ کسی شخص کو سچے طور پر حاصل ہوجائے تو اس کی نگاہ میںدنیا کتنی بے حقیقت ہوجاتی ہے احد کی جنگ میں ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس کے نتیجہ میںلوگوں میں یہ مشہور ہوگیا کہ محمد رسو ل اللہ ﷺ شہید ہوگئے ہیں ۔تمام مدینہ میںایک کہرام مچ گیا ۔اور عورتیں اور بچے بلبلاتے اور چیختے ہوئے میدان جنگ کی طرف دوڑپڑے شہر سے نکلنے والی عورتوں میں ایک ستر سالہ بڑھیا بھی تھی اسکی بینائی اتنی کمزور ہوچکی تھی کہ دور کی چیز کو وہ نہیںدیکھ سکتی تھی اور قریب آجانے پر بھی وہ زیادہ تر دوسرے کو اس کی آواز سے ہی پہچانتی تھی ۔رسول کریم ﷺ بھی اس وقت میدان جنگ سے بخیرت واپس تشریف لا رہے تھے اور آپ کی خاص طورپر حفاظت کرنیکے لئے ایک انصاری صحابی ؓ آپ کے ساتھ ساتھ چلے آرہے تھے ۔اور وہ اس فخر میں آپ کے اونٹ کی نکیل پکڑے ہوئے تھے کہ ہم خداکے رسول کو میدان جنگ سے زندہ و سلامت لے آئے ہیں ۔ان کے ایک دوسرے بھائی اسی جنگ میں شہید ہوچکے تھے جب مدینہ سے عورتوں اور بچوں کا ایک ریلا روتا اور بلبلاتاہو انکل رہا تھا تو اس صحابیؓ نے دیکھا کہ ان کی سترسالہ بڑھیا ماں بھی بے تابی کے ساتھ چلی آرہی ہے اس نابینا بڑھیا کے قدم لڑکھڑارہے تھے اسے رستہ نظرنہیں آتا تھا۔اور وہ پریشانی کے عالم میںادھر ادھر دیکھ رہی تھی ۔جب اس صحابی ؓ نے اپنی ماں کو دیکھاتو انہوں نے کہا ۔یارسول اللہ ! میری ماں یارسول اللہ !میری ماں ! مطلب یہ تھاکہ اس کا جوان بیٹااس بڑھاپے کی عمر اورکمزوری میں مارا گیا ہے ۔آپ اس کی طرف توجہ فرمائیں تاکہ اسکے دل کوتسکین حاصل ہو ۔رسول کریم ﷺ بھی اس بات کو سمجھ گئے ۔وہ بڑھیا قریب آئی تو آپ نے فرمایا ۔میری اونٹنی کو کھڑاکرو ۔پھر آپ نے اس عورت کو مخاطب کیا اور فرمایا ۔ اے خاتون !میں تمہارے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتاہوں ۔کہ خداتعالیٰ نے تمہارے بیٹے کو شہادت کا مرتبہ دیا وہ تمہیںصبر دے اور تمہارے اس غم کو دور کرے ۔نظر کی کمزوری کی وجہ سے وہ عورت حیران ہوئی کہ یہ آواز مجھے کہاںسے آرہی ہے وہ تو یہی سمجھی تھی کہ محمد رسول اللہ ﷺ شہید ہوگئے ہیں اور آواز تھی محمد رسول اللہ ﷺ کی دیکھتے دیکھتے اس کی نظر آپ کے چہرہ پر پڑ گئی ۔اور اس نے پہچان لیا کہ آپ ہی ہیںاور آپ ہی اس وقت مجھ سے بول رہے ہیں۔تو جیسے عورت خفگی میں بولتی ہے بڑی تنک کر کہنے لگی ۔یارسو ل اللہ آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیںیارسول اللہ آپ زندہ آگئے میرے بیٹے کا یہاں کیا ذکر ہے ۔ سوال تو آپ کی زندگی کا تھا ۔سو الحمدللہ کہ آپ خیریت سے آگئے ۔
تو حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم کوخدامل جائے اور اگر اپنے ایمان کے نتیجہ میں اور ہرقسم کے خطرات کو مول لینے کے بعد خداکا دامن ہمارے ہاتھ میںآجائے توہمیں بڑی سے بڑی مصیبت کی بھی پرواہ نہیںہوسکتی رسو ل کریم ﷺ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ اگر کسی شخص کو سچے دل کے ساتھ حلاوت ایمان نصیب ہو جائے تو وہ اسکے بعد اگر اس کو آگ میںبھی ڈال دیا جائے تو وہ اسکو بہت زیادہ پسند کریگا بہ نسبت اس کے کہ وہ اپنے عقیدہ کو چھوڑدے ۔(بخاری کتابالایمان )
ایک اور حدیث میںآتاہے کہ پرانے زمانہ کی امتوںمیںسے جن کو ایمان نصیب ہوتا تھا لوگ انکے سروں پر آرے رکھ کر انہیںچیر دیتے تھے اور وہ کٹ کر دوٹکڑے ہوجاتے تھے لیکن اپنے ایمان پر قائم رہتے تھے ۔صحابہ ؓ میں بھی اس کی نظیریں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں ۔ حضرت بلال ؓ کو ہی دیکھ لو ۔انہیںبھوکا رکھاجاتا تھا اس کے بعد انکو تپتی ہوئی ریت پر لٹاتے ۔بڑا ساگرم پتھر ان کے سینہ پررکھتے اور پھر ایک آدمی ان کے سینہ پر چڑھ جاتااور کودتااور کہتاکہو محمد رسو ل اللہ ﷺ جھوٹے ہیں اورلات مناۃ اورعزیٰ خداکے شریک ہیں ۔ زبان ان کی لٹک جاتی تھی گلاان کا خشک ہوجاتا تھامگر وہ یہی کہتے جاتے تھے کہ اشھدان لاالہ الا اللہ اور جب بالکل ہی بے دم ہو جاتے تو فرماتے احد احد یعنی خداایک ہی ہے ۔غرض اس قربانی کا صحابہؓ نے جو نمونہ د کھایا تاریخ اس کے ذکر سے بھری پڑی ہے ۔یہی نمونہ ان جادوگروں نے دکھایا اور فرعون سے صاف صاف کہہ دیا کہ ہم تیری بات سننے کیلئے تیار نہیں ۔ہم تو اسی بات کو مانیں گے جو ہمارے خداکی طرف سے آچکی ہے اورجس کی صداقت کا ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرچکے ہیں ۔
آیت نمبر۷۸‘۷۹‘۸۰
ترجمہ :۔ اورہم نے موسیٰ کو وحی کی تھی کہ میرے بندوں یعنی اپنی قوم کو رات کے اندھیرے میں نکال کر لیجا پھر انکو سمندر میں ایک راستہ بتاجو خشک ہو ۔ نہ تم کو یہ ڈر ہوگا کہ کوئی شخص آکر پیچھے سے پکڑلے اور نہ تم سمندر کی تباہی سے ڈرو گے ۔اس پرموسیٰ اپنی قوم کو لیکر سمندر کی طرف گئے اور فرعون اپنے لشکر لیکر انکے پیچھے پیچھے چلا اور شمندر نے اس کو اور اسکے ساتھیوں کو بالکل ڈھانپ لیا ۔اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور ہدایت کا طریق نہ بتایا۔ ۴۴؎
۴۴ ؎ تفسیر:۔
فرماتا ہے ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ ہمارے بندوں یعنی بنی اسرائیل کو راتوں رات مصر سے نکال لے جائو ۔اور سمندر میں سونٹا مار کر ان کے لئے خشک راستہ بنادو تم اس طرح اس کو پار کرلوگے اور تعاقب سے اور ڈوبنے سے نہ ڈرو ۔پھر فرعون نے اپنے لشکروں سمیت بنی اسرائیل کا تعاقب کیا لیکن سمندر کا ایسا ریلا آیا کہ وہ غرق ہوگئے اور یوں فرعون نے اپنی قوم کو تباہی میںڈالا اور اس سے بچ نہ سکا۔
ان آیات سے معلوم ہوتاہے کہ جب بنی اسرائیل مصر سے نکلے تو فرعون نے ان کا تعاقب کیا ۔جب وہ قریب پہنچے تو بنی اسرائیل گھبراگئے خداتعالیٰ نے ان کو تسلّی دی اور موسیٰ سے کہا کہ سمندر پر سونٹا ماریں ۔ان کے سونٹامارنے سے سمندر میں ایک راستہ ہوگیا اور دونوں طرف پانی اس طرح معلوم ہوتاتھا جس طرح ریت کے ٹیلے جب وہ اس میں سے گذرگئے توان کے بعد فرعونیوں نے بھی گذرنا چاہا مگر اتنے میںپانی واپس آگیااور وہ سمندر میں غرق ہوگئے ۔
قرآن کریم میں اس واقعہ کے متعلق دولفظ استعمال کئے گئے ہیں ۔ایک فرق اور ایک انفلق۔ جس کے معنے جداہوجاتے کے ہیںپس قرآن کریم کے الفاظ کے مطابق اس واقعہ کی یہی تفصیل ثابت ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل کے گذرنے کے وقت سمندر کنارہ سے ہٹ گیا تھااور جوخشکی نکل آئی تھی اس میںسے بنی اسرائیل گذرگئے تھے ۔اور بحرہ احمر کے اس کنارہ پرجس پر سے موسیٰ گذرے یہ نظارہ عموماً نظر آتارہتاہے چنانچہ لائف آف نپولین میں بیان کیا گیا ہے کہ جب نپولین مصر گیا تو وہ اس جگہ کو دیکھنے گیا جس کی نسبت روایت میںہے کہ وہاں سے مصری گزرے تھے اس وقت لہر پیچھے کو ہٹی ہوئی تھی ۔وہ ایشائی کنارہ کی طرف چلا گیا ۔اور مختلف چیزوں کے دیکھنے میں اس کا بہت سا وقت لگ گیا ۔جب وہ واپس لوٹنے لگا تو رات آگئی اور یہ جماعت راستہ بھول گئی ۔رات کی تاریکی بڑھ گئی اورگھوڑے زیادہ سے زیادہ پانی کی اونچی ہونے والی لہروں میں دھنسنے لگے ۔حتیٰ کہ پانی گھوڑوں کے ٹانگوں تک پہنچ گیا۔ اور ہلاکت یقینی ہوگئی ۔اس مصیبت سے نپولین نے اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو اسی نہ گھبرانے والی طبیعت کے ذریعے نکالا جو اسے کسی موقعہ پر بھی چھوڑتی نہ تھی ۔گھوڑے آد ھی رات کے وقت جاکر کہیں پانی سے باہر نکلے جب کہ وہ چھاتی تک پانی میں ڈوبے ہوئے تھے ۔اس کنارہ پر لہر بائیس فٹ تک اونچی اٹھتی ہے ۔نپولین نے باہر نکل کر کہا کہ :۔ ’’اگر میں اس طریق پر فرعون کی طرح غرق ہوجاتا توتمام مسیحی پادریوں کو میرے خلاف وعظ کرنے کا ایک اچھا مصالحہ مل جاتا۔
‏ SIFE FO NEPOLEON BONAPART BY JEAN S.C. ABBOT.) ) اس واقعہ میں معجزہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ایسے وقت میں سمندر کے سامنے پہنچایا جبکہ جزرکا وقت تھا اور اس نے مصریوں کے راستہ میں اس قوم کی رکاوٹیں ڈالنی شروع کردیں جن سے ان کی رفتار سست ہو گئی ۔یہاں تک کہ پانی کے لوٹنے کا وقت آگیا ۔بائبل میں لکھا ہے کہ خدانے ’’ ان کے رتھوں کے پہئیوں کو نکال ڈالا سو ان کا چلانا مشکل ہوگیا‘‘ (خروج باب ۱۴ آیت ۲۵ )
معلوم ہوتاہے کہ فرعون جب سمندر پر پہنچاہے اس وقت حضرت موسیٰ ؑ سمندر کے اس خشک ٹکڑے کا جس سے وہ گذر رہے تھے اکثر حصہ طے کر چکے تھے ۔فرعون نے ان کو پار ہوتے دیکھ کر جلدی سے اس میں اپنی رتھیں ڈال دیں مگر سمندر کی ریت جو گیلی تھی اس کی رتھوں کے لئے مہلک ثابت ہوئی ۔اور اسکی رتھیں اس میں پھنسنے لگیں اور اس قدر دیر ہوگئی کہ مد کا وقت آگیا ۔اور پانی بڑھنے لگا اب نہ وہ آگے بڑھ سکتاتھا ۔اور نہ پیچھے ہٹ سکتاتھا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ سمندر نے اسے درمیان میں آلیا اور وہ اور اس کے ساتھی سمندر میں غرق ہوگئے ۔
آیت نمبر۸۱‘۸۲‘۸۳
ترجمہ :۔ اے بنی اسرائیل ! ہم تم کو تمہارے دشمن سے نجات دے چکے ہیںاور اسکے بعد ہم تم سے طور کے دائیں طرف ایک بالمقابل وعدہ کر چکے ہیں ۔اور ہم نے تم پر ترنجبین اور بٹیر بھی اتارے تھے تاکہ تمہارے لئے خوراک مہیا کریں اور کہا تھاکہ جو کچھ ہم نے تمہیںدیا ہے اسمیں سے پاک چیزیں کھائو اور اس رزق کے بارے میںظلم سے کام نہ کیناتاایسانہ ہوکہ تم پر میرا غضب نازل ہوجائے اورجس پر میرا غضب نازل ہو وہ بلند ی سے گرجاتاہے ۔اور جو شخص توبہ کرے اور ایمان لائے اورپھر مناسب حال عمل بھی کرے اور ہدایت پاجائے تو میں اسکے بڑے سے بڑے گناہ معاف کردیا کرتاہوں ۔ ۴۵؎
۴۵؎ حل لغات :۔ المن ۔من یمن کا مصد ر ہے ۔چنانچہ کہتے ہیں من علیہ ۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دوسرے کو اس کے کسی محنت طلب کام کے بغیر انعام دینا اور اس کے ساتھ نیکی اور احسان کاسلوک کرنا اسی طرح المن کے معنے ہیں کلمایمن۔۔۔۔۔ یعنی ہو وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کسی شخص کو محنت اور مشقت کے بغیر محض اپنے فضل سے عطافرمائے ۔وہ من کہلاتی ہے ۔اسی طرح لکھاہے ۔کلّ۔۔۔۔۔ یعنی ہروہ رطوبت جو آسمان سے درختوں اورپتھروں پر گرتی ہے اور وہ میٹھی ہوتی ہے اور پھر شہد کی طرح گاڑھی ہوجاتی ہے اورگوند کی طرح سوکھ جاتی ہے جیسے شیرخشت اور ترنجبین اسے بھی من کہتے ہیں۔
السلویٰ کے معنے ہیں العسل ۔شہد ۔کل ما۔۔۔۔ ہر وہ چیز جو انسان کی تسلی کا موجب ہو ۔طائر۔۔۔۔ بٹیر یاتلیر کا مانند سفیدپرندے وقیلالسلویٰ۔۔۔ اور بعض نے کہا ہے کہ سلوٰی گوشت کو کہتے ہیں ۔مفردات میں لکھاہے کہ السلویٰ ۔۔۔۔۔ یعنی سلویٰ کے اصل معنے اس چیز کے ہیں جو انسان کو تسلی دلادے ۔
۴۵؎ تفسیر:۔
بنی اسرائیل جب مصر سے نکل کر کنعان کی طرف آئے تو جس علاقہ میں سے انہیں گذرنا پڑا وہ بہت غیر آباد تھا اور اور دور دراز فاصلہ پر بعض شہر آباد تھے ۔اب تک یہ علاقہ ایسا ہی ہے اور اب بھی اس علاقہ سے گذرنا کوئی آسان کام نہیں بے شک ا س علاقہ میں اب ریل جاری ہوگئی ہے اور سفر میں سہولتیں پیدا ہوگئی ہیںلیکن اس کی غیر آبادی میں اب بھی کوئی فر ق نہیںآیا ۔کیونکہ یہ علاقہ آبادی کے قابل زمینوں سے خالی ہے ۔ اور بے آب وگیا ہ میدانوں پر مشتمل ہے ۔ترکوں نے جنگ عظیم میں بہت کوشش کی کہ کسی طرح مصر میں داخل ہوکر انگلستان اور ہندوستان کے تعلقات قطع کردیں لیکن پانیکی دقت اور سامان خورد نوش کی کمی کی وجہ سے عقلوںکو حیرت میں ڈال دینے والی قربانی کے باوجود وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے ۔انگریزوں نے بھی شرع میں بہت زور مارا لیکن خشک اور چٹیل میدانوں کی وجہ سے وہ بھی سویز کے راستہ سے فلسطین میں داخلہ ہوسکے ۔آکر جنرل ایلنبیؔ نے نیل سے پانی لے کر سویز کے اوپر سے نلوں کے ذریعہ سے پانی گذارا اور اس علاقہ کو جو بڑے شہر وں کے لئے ناقابل تھاقابل سکونت بنادیا ۔صلیبی جنگوں کے وقت جب فلسطین اورشام کے محاذپر یورپ کی تمام اقوام کے منتخب بہادر اس نیت سے ڈیرے ڈالے پڑے تھے کہ اسلام کے بڑھنے والے سیلاب کو روک دیں اس وقت بھی دشت سینا مسلمانوں اور مسیحیوں سے راستہ دینے کاٹیکس لیتارہا تھا ۔نویں صدی کے آخر اور دسویںصدی کے ابتدائی حصہ میں نہ معلوم کتنے اسلامی اور مسیحی لشکر پانی نہ ملنے کھانے کی کمی کے سبب اس دشت میں تباہ ہوگئے تھے ۔
پانی کی کمی کے سبب گذرنے والے قافلوں کو لازماًان چشموں یا تالابوں کے پاس سے گذرنا پڑتا تھا جو کہیں کہیں اس دشت میں پائے جاتے تھے اور اس وجہ سے جو فریق بھی غالب ہواتھا ۔اسے دوسرے فریق کے آدمیوں کو مارنے کاایک آسان بہانہ مل جاتاتھا۔کیونکہ تھوڑے سے آدمی ان چشموں یاتالابوں پر مقرر کردینے سے بھی اس بات کی کافی ضمانت ہوجاتی تھی کہ حریف کے آدمی نقصان اٹھائے بغیر مصر سے فلسطین کی طرف نہیںجاسکتے ۔چنانچہ اسامہ بن منقذاپنی کتاب الاعتبار میں لکھتے ہیں کہ الجعفر نامی چشمہ جو مصر اور فلسطین کے درمیان تھا کسی وقت فرنگیوں سے خالی نہیںہوتاتھا۔ ہمیشہ اس جگہ سے لوگوں کو بچ کر جانا پڑتا تھا۔ایک دفعہ انہیںسیف الدین ابن سالار وزیر مصر نے شاہ نورالدین کے پاس بھیجا کہ وہ طبریہ پر حملہ کریں تو ہم مصر سے غزہ پر حملہ کرکے فرنگیوں کو وہاں قلعہ بنانے سے روک دیں ۔وہ کہتے ہیںکہ ہم الجعفرچشمہ پر پہنچے تو اتفاقاً اس وقت فرنگی وہاں موجود نہ تھے ۔لیکن طے قبیلہ میں سے بنوابی خاندان کے کچھ لوگ وہاں تھے جن کے جسم پر چمڑے کے سوا گوشت کانام ونشان تک نہ تھا ۔۔آنکھیں باہر نکلی ہوئی تھیں اور بالکل بدحال ہو رہے تھے وہ کہتے ہیںمیں نے ان سے پوچھاکہ تم لوگ یہاں کس طرح گذارہ کرتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ مردار کی ہڈیاں ابال کر اس پرگذارہ کرتے ہیں اور کوئی چیز کھانے کی یہاں نہیںہے ۔ان کے کتے بھی اسی پر گذارہ کرتے تھے ۔ہاں گھوڑے چشمے کے ارد گرد کی گھاس پر گذارہ کرتے تھے ۔اسامہ لکھتے ہیںکہ میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ تم لوگ یہاں اس حالت میں کیوں پڑے ہو ۔دمشق کی طرف کیوں نہیںچلے جاتے ۔توانہوں نے جواب دیا کہ اس خیال سے کہ وہاں کی وبائوں سے ہمیں نقصان نہ پہنچے۔ اسامہ ؔ حیرت کا اظہار کرتے ہیںکہ کیسے بیوقوف لوگ تھے ان کی اس وقت کی حالت سے بڑھ ک وباء کیا نقصان پہنچاسکتی تھی ۔
غرض دشت سینا ایک ایسا خطرناک علاقہ ہے کہ بڑی جماعتوں کیلئے بھی بغیر خاص انتظام کے اس میں سے گذرنا مشکل ہے اور اس میں قیام کرنا تو اوربھی مصیبت ہے ۔پھر بنی اسرائیل جن کے بیس سال سے زائد عمر کے نوجانوں میں سے جنکی خدمت کے قابل مردوں کی تعداد چھ لاکھ سے زیادہ بتائی گئی ہے (یہ تعداد بائبل کی روسے ہے ورنہ ہم اسکو صریح غلط سمجھتے ہیں۔قرآن کریم اس بارہ میں یہ فرماتاہے کہ ۔ وھم الوف (بقرۃ) وہ ساری قوم اس وقت ہزاروں کی تعدادمیںٰ تھی اور قرآنی بیان ہی عقل کے مطابق اور سچاہے اور جو بے سروسامانیکی حالت میں مصر سے بھاگے تھے اس علاقہ میں سے کس طرح گذرے اور کس طرح اڑتیس سال تک اس علاقہ میں انہوں نے بسر کیا ؟ یہ ایک ایساسوال ہے جوصدیوں سے دنیا کو حیرت میں ڈال رہاہے ۔بائبل نے اس کاجواب من کے نزول اور حورب چٹان میں بارہ چشموں کے پھوٹنے کے معجزہ سے دیاہے ۔ وہ بتاتی ہے کہ اس مظلوم قوم کی خداتعالیٰ نے مدد کی اور اپنے فضل سے اس نے ان کے لئے کھانے اور پینے کا سامان مہیا کیا ۔میں اس وقت پانی کی تحقیقات کو چھوڑتاہوں اور صرف من کی تحقیق کی طرف متوجہ ہوتاہوں ۔
بائبل کا بیان پڑھنے کے بعد طبعاً یہ سوال پیداہوتاہے کہ (۱) من کیا چیز تھی ؟ (۲) کیا اس کاوجود معجزانہ تھا ؟ (۳) کیا بنی اسرائیل اسے کھاکر ایک طویل مدت تک زندگی بسر کوسکتے تھے پہلے سوال کاجوب دیتے وقت خود بخود یہ سوال بھی پیدا ہوتاتھا ۔کہ اس غذا کو من کانام بنی اسرائیل نے دیا تھا ۔ یا پہلے سے اس کا یہ نام تھا ۔اگر بنی اسرائیل نے اسے اس نام سے پکارا تو کیوں ؟ کیا اس غذاکی کسی اندرونی خاصیت کی وجہ سے یاکسی او روجہ سے خورج باب ۱۶ آیت ۱۵ میں من کاسب سے پہلے ذکر ہے اس میں لکھاہے کہ جب بنی اسرائیل ایلیم روانہ ہوئے تو راستہ میں خوراک نہ ملنے کے سبب انہوں نے شور مچایا ۔چنانچہ خداتعالیٰ نے ان سے گوشت اور روٹی کا وعدہ کیا شام کو بے شمار بٹیر جنگل میں آگئے جنہیں پکڑ کر انہوں نے گوشت کھایا اور صبح کے وقت ایک چیز زمین پر پڑی ملی جو چھوٹی چھوٹی سفید رنگ کی تھی جسے دیکھ کر بنی اسرائیل آپس میں کہنے لگے ’’من ‘‘ کیونکہ و ہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا ہے ۔ عربی میں من کے معنے کون کے ہیں پس درحقیقت یہ بھی عربی لفط جو عبرانی نے استعمال کرلیا ہے فرق صرف یہ ہے کہ عربی میںمن جاندار کے لئے بولا جاتاہے غیر جاندار کے لئے نہیں مگر معلوم ہوتاہے عبرانی میں یہ لفظ بے جان کیلئے بھی استعمال ہونے لگ گیا تھا ۔تب موسیٰ نے ان سے کہا یہ وہی روٹی ہے جو خداوند نے کھانے کو تم کودی ہے (خروج باب۱۶ آیت ۱۵ )
اس آیت کی بنا پر بعض لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ من کالفظ اس جگہ بطور استفہام استعمال ہواہے اور اس کے معنے یہ ہیںکہ یہ کیا چیز ہے بعد میں یہ لفظ نام کے طورپر بنی اسرائیل میں استعمال ہونے لگا۔چنانچہ اسی بات کو آیت ۳۱ میں لکھا ہے ۔
’’اور بنی اسرائیل نے اسکانام من رکھا ۔‘‘
بعض محقیقین جارج امیرز کی اتباع میںاس تشریح کو غلط سمجھتے ہیں ان کاخیال ہے کہ ان لفظوں کی مشابہت سے مغالطہ ہوگیا ہے اصل میں یہ لفظ ’’منو‘‘ ہے اقر قطبی ابان کا لفظ ہے اور اسکے معنے قبطی زبان میں کھانے کے ہیں ۔اس لئے بنی اسرائیل نے من سوال او ر استفہام کے طور پر نہیںکہا بلکہ چونکہ خداتعالیٰ نے کہا تھا کہ یہ موعودہ روٹی ہے انہوں نے اس کا نام منبا(یعنی خوراک ) رکھ دیا ۔کیونکہ اس کا کوئی اور نام انہیں معلوم نہ تھا ۔ان کا خیال ہے کہ من استفہامیہ کا استعمال ارمیک زبان میں نہیں اور یہ قابل تعجب امر ہے کہ اس مفہوم میں جس میںارمیک زبان کا کوئی اور لفظ استعمال نہیں ہوا یہ لفظ مستعمل ہوجاتا ۔مگر مسٹر فیلڈ نے اس حیرت کو بائبل کے ایک قدیم یونانی نسخہ سے دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔نیز اس نسخہ سے دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔نیز اس نسخہ میں خروج باب ۱۶آیت ۱۵کے الفاظ ’’من ‘‘ کی بجائے ’’کیا یہ من ہے ‘‘ کے الفاظ ہیں ۔اور اگر یہ فرق صحیح تسلیم کر لیا جائے تو من خوراک کے معنوں میں درست ثابت ہوتاہے ۔اور استفہام کے الفاظ کا علیحدہ موجود ہونا ثابت کردیتاہے کہ من کا لفظ اس جگہ استفہام کے طور پر استعمال نہیں ہوا تھا۔
اس میںشبہ نہیںکہ عبرانی کا لفظ جو اس جگہ استعمال ہوا ہے اس کے معنے استفہام کے بھی ہوتے ہیں لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ لفظ بنی اسرائیل کی جلاوطنی اور اس کے بعد کے زمانہ میں ان معنوںمیں صرف عزاؔاور دانیال کی کتب میں استعمال ہوا ہے ۔جلاوطنی سے پہلے کے زمانہ میں اس کا استعمال ان معنوںمیں نظر نہیںآتااور اس وجہ سے بعض اہل نظر نے اسے ارمیک قرار دیا ہے ہم جب اس لفظ کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے تورات کے دوسرے مقامات کا مطالعہ کرتے ہیں کہ بے جان چیزوں کے متعلق سوال کرنے کا کیا طریق ہے تو وہاں ہمیں ایک ایسی بات مل جاتی ہے جو اس سوال کو ہمارے لئے قطعی طور پر حل کردیتی ہے اور وہ یہ کہ تورات میں جہاںبے جان چیزوں کے متعلق سوال کیا گیا ہے وہاں ’’منہ ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔چنانچہ خروج باب۴ آیت میں ہے ۔ ’’خداوند نے موسیٰ سے کہاکہ یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے اس نے کہا لاٹھی ‘‘
اس جگہ عبرانی میں لفظ ’’م زہ ‘‘ ہے ۔یعنی یہ کہا ہے ۔یہ الفاظ عربی کے الفاظ ’’ماذا ‘‘ سے ملتے ہیں ’’م زہ ‘‘ کا یہ استعمال غیر معمولی ہے ورنہ احبار باب ۲۵ آیت ۲۰ ۔سیموئیل باب ۳ آیت ۱۷ ۔زبور باب ۱۲۰ آیت ۳ امثال باب ۳۰ آیت ۴ اور دیگر مقامات میں پرانی عبرانی زبان میں کیا کے لئے لفظ ’’ منہ‘‘ استعمال کیا گیا ہے ۔اس کے مقابلہ میںجاندار کے متعلق سوال کے موقع پر کون کے لئے پیدائش۱۸ / ۲۷ وپیدائش/ 5 ۳۳ وخروج ۱۱ / ۱۵ اسموئیل ۱۰ / ۲۵ زبور۶ / ۴ وغیرہ عبرانی کالفظ ’’زی ‘‘ استعمال ہوا ہے اس فرق کو دیکھ کر صاف طورپر واضح ہوجاتاہے کہ خروج باب ۱۶ میں جو ’’من ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ کیا کے معنوں میں نہیں ۔کیونکہ پانی عبرانی زبان میںکیاکیلئے ’’من ‘‘ نہیںبلکہ ’’منہ ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے ۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جلاوطنی اور اس کے بعد کے زمانہ میں جب ’’من ‘‘ کا لفظ سوال کے لئے استعمال ہونے لگاتو اس نے جان نہیں بلکہ جاندار کے متعلق سوال کیا جاتاتھا جیسا کہ عربی زبان میں ہے ۔ چنانچہ عزرا ۵ اور دانیال ۲ میں ’’من ‘‘ کا لفظ سوال کے لئے استعمال ہوا ہے لیکن وہاں سوال جانداروں کے متعلق ہے ۔پس معلوم ہوا کہ اول تو تورات کے نزول کے وقت من کا لفظ سوال کیلئے استعمال نہیںہوتاتھا۔دوم نبی اسرائیل کی جلاوطنی کے زمانہ سے جب یہ لفظ سوال کے لئے استعمال ہونے لگا اس وقت بھی یہ لفظ قاعدہ کے طور پر جاندار چیزوں کے متعلق سوال کرنیکے لئے استعمال ہوتاتھا نہ یہ کہ بے جان چزوں کے متعلق معلوم ہوتاہے اس وقت بنی اسرائیل عربوں سے خلط ملط کرنے لگ گئے تھے اور عربی زبان کے صحیح محاورات اس میں استعمال ہونے لگ گئے تھے اور استثناء کے طورپر اگر کہیں اس کے خلاف ا ستعمال ہواہے تو اسے بطور سند پیش نہیںکہاجاسکتا ۔لہذا خروج باب۱۶ میں ’’من ‘‘ کے معنے کیا ہے کے کرنا اور اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ’’من ‘‘ کو من اس لیئے کہاگیا تھا کہ بنی اسرائیل نے اسے پہچاننے کی وجہ سے من کے لفظ سے اس کے متعلق سوال کیا تھا درست نہیں۔یہ غلط فہمی یوروپین مصنفین کو اس لئے ہوئی ہے کہ وہ عبرانی جیسی مردہ زبان کی تحقیق کرتے وقت اس امر کو نظر انداز کردیتے ہیں۔کہ عبرانی کی ماں عربی زبان زندہ موجودہے ۔عبرانی الفاظ کی حقیقت کے سمجھنے میں جب مشکلات ہوں تو انہیں عربی زبان سے مدد لینی چاہئے ۔اس موقعہ پر اگر وہ عربی سے مدد لیتے تو انہیں معلوم ہوجاتاکہ عربی زبان میں ما بے جان کے لئے اور من جاندار کے لئے استعمال ہوتاہے اور پھر اس علم کی روشنی میں بائبل کے الفاظ کو دیکھتے تو ان پر واضح ہوجاتاکہ یہی قاعدہ بائبل کی عبرانی میں بھی مد نظر رکھا گیا ہے اور اس طرح اس لغزش سے بچ جاتے مگر اتنی تعریف ان کی ضرور کرنی پڑتی ہے کہ انہوں نے یہ فرق ضرور محسوس کیاہے کہ من کا لفظ سوال کے معنوں میں جلاوطنی کے زمانہ اور اس کے بعد استعمال ہوا ہے (دیکھو انسائکلوپیڈیا ببلیکا جلد ۳ زیر لجھظ منا ) پہلے نہیں ۔اور اسکی بنا پر بعض نے من کے معنے استفہام کے سوا کچھ اورلینے کی کوشش کی ہے چنانچہ جیساکہ میںلکھ چکا ہوں جارج ایمبرز نے اس لفظ کو قطبی لفظ منو سے ماخوذ قرار دیا ہے جس کے معنے خوراک کے ہیں ۔اسی طرح جی سنیس (JESENIUS ) نے اپنی لغت میں من کی وجہ تسمیہ عربی لفظ من سے بیان کی ہے جس کے مرنے فضل اور احسان کے ہیں اس مصنف کے خیال کے مطابق اس چیز کانام من اس لئے رکھا گیا تھا کہ وہ خداتعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوئی تھی اور جہاں تک میںسمجھتاہوں یہ وجہ زیادہ قرین قیاس ہے ۔
اب میں اس سوال کو لیتاہوں کہ من کیا چیز تھی ؟ بائبل سے معلوم ہوتاہے کہ وہ شبنم کے ساتھ گرتی تھی اور سفید سفید گول دھنئے کے بیجوں کی طرح ہوتی تھی اور لوگ اسے چکی میں پیس کر یا اورکھلی میں کوٹ کر توے پر پکاتے تھے یا پھلکیاں بناتے تھے اور اس کا مزہ تازہ تیل کا ساتھا ۔جب دھوپ نکل آتی تو من پگل جایا کرتاتھا ۔(خروج باب ۱۶ آیت ۲۲ وگنتی ۱۱ ) یہ چیز سبت کے دن نہیںگرتی تھی اور اگر لوگ جمع کرتے تھے تو سڑجاتی تھی ۔سوائے اس کے جوسبت کے دن کے لئے جمع رکھی جاتی تھی۔یہ من برابر چالیس سال تک بنی اسرائیل پر نازل ہوتارہا (خروج باب ۱۶ آیت ۳۵ ) اور اس وقت بند ہوا جب انہوں نے موعودہ امین میں قدم رکھا اور وہاں کا دانہ کھایا (یشوع۵)
اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا کوئی ایسی چیز ہے جو بائبل کی بیان کردہ صفات کے مطابق ہو اور سینا مقام میںپائی جاتی ہو ۔اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر معجزانہ امور کو نظر انداز کردیں و ہمیںمعلوم ہوتاہے کہ فی الواقعہ ایک ایسی چیز سینا کے علاقہ میں پائی جاتی ہے جو شبنم کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے اور دھوپ کی گرمی میںپگل جاتی ہے اور تیل کا سا اس کا مزہ ہوتاہے اور سفید رنگ کی ہوتی ہے جس کی ایک قسم کوہمارے ملک میں شیر خشت کہتے ہیں ۔اور دوسری کو ترنجبین اور ہندی میں اسے یورس چرط کڑا یعنی جوانسہ کی شکر کہتے ہیںکونکہ ہندوستان میں یہ چیز جو نسے کے درخت سے نکالی جاتی ہے ۔لاطینی میں اسے منا کہتے ہیںاور اس چیز کی ماہیت پوری طرح طبی کتب میں بھی درج ہے اور انسائیکلو پیؑیڈیا برٹینگا میں بھی بیان ہے ۔یوروپین سیاحوں نے شہادت دی ہے کہ اب تک اس علاقہ من ملتاہے ۔گو وہ شبنم کے ساتھ نہیںگرتا۔بلکہ ٹیمر کس گیلیگا نامی درخت کا رس ہوتاہے جس کی چھال کو جب ایک کیڑا چھید تاہے تو اس سے یہ رس ٹپکتاہے ۔بغیر کیڑے کے انسانی طریقوںسے درخت کی چھال میںشگاف کرنے سے بھی یہ رس گر کر جم جاتاہے ۔اور مختلف ممالک میں اس درخت سے مختلف طریقوںسے اس کو جمع کیا جاتاہے ۔سسلی اور خراسان کا من مشہور ہے۔ ہندوستان میں بھی جوانسہ کے درخت سے وید من بناتے ہیں ۔مصر سے مصنوعی من بناہوا ٓتاہے لیکن اطباء اسے پہچان لیتے ہیں پرنارڈٹ جرمن سیاح کا بیان ہے کہ سینا میں موجود ہ درختوں کی تعداد کا اندازہ لگاتے ہوئے کہا جاسکتاہے کہ سالانہ اڑھائی تین سو سیر تک من تیار ہوسکتاہے مگر خیال کیا جاتاہے کہ پہلے زمانہ میںجنگل زیادہ وسیع ہوتا تھا اور اس سے بہت زیادہ من تیار ہوسکتا تھا ۔بائبل میں بنی اسرائیل کی جو تعداد لکھی ہے اس کے مطابق انہیں روزانہ چھبیس ہزار سات سو پچاس من کے قریب من کی ضرورت ہوتی ہوگی ۔اور سالانہ ایک کروڑ منکے قریب لیکن اڑہائی تین سو سیر سالانہ جواب وہاں پیدا ہوتاہے اور ایک کروڑ من جس کی انہیںضرورت ہوتی تھی ان دونوں اندازوں میں اس قدر فرق ہے کہ خواہ قوت واہمہ کو کتنا ہی آزاد چھوڑدیا جائے خیال بھی نہیںکیا جاسکتاکہ کسی زمانہ مٰناس علاقہ میں اس قدرجنگل تھاکہ ایک کروڑ من من پیدا ہو جاتاتھا خصوصاً جب ہم اس امر کو مد نظر رکھیں کہ اس علاقہ کا اکثر حصہ ایسا ہے کہ اس میں درخت پیدا ہی نہیںہوسکتے ۔
اس مشکل کا ایک حل تویہ ہے کہ ہم سمجھ لیں کہ بائبل میں جو تعداد بنی اسرائیل کی لکھی ہے ۔وہ مبالغہ آمیز ہے ۔گنتی باب ۱ سے معلوم ہوتاہے کہ بنی اسرائیل کے بیس سال سے زائد عمر کے لڑنے کے قابل مرعوں کی تعداد بارھویں قبیلہ کو چھوڑکر جن کی گنتی نہیں کی گئی چھ لاکھ تین ہزار اور پانچ سو پچاس تھی ۔اگر بارھویں قبیلہ کا اندازہ کرلیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ کل لڑنے کے قابل مرد ساڑھے چھ لاکھ تھے عورتوں بچوں اور جنگ کے ناقابل بوڑھوں کی تعداد کا اندازہ لگانے کے لئے ہم اس تعداد کو دس گنا زیادہ کر لیتے ہیںکیونکہ یہ ایک عام اندازہ ہے کہ چھ فیصدی سے لیکردس فیصدی تک ملک کی آبادی جنگی خدمت کے قابل ہوتا ہے ۔ہم خیال کرلیتے ہیں کہ بنی اسرائیل سے سختی سے جنگی خدمت لی جاتی تھی اور کل تعداد بننی اسرائیل کی جنگی سپاہیوں سے صرف دس گناتھی یعنی ساٹھ لاکھ تھے کیونکہ اتنے آدمی مصر سے اتنے قلیل عرصہ میںنکل ہی نہیںسکتے تھے پھر یردنؔ پار کی بستی جس میںآکر وہ بسے ہیں اس قدر آبادی کی حامل نہیںہوسکتی فلسطین کی آبادی کا اندازہ ۱۹۲۶ ؁ء میں آٹھ لاکھ باون ہزار دوسو اڑسٹھ تھا (انسائکلو پیڈیا برٹنکا چودھواں ایڈیشن ) اور اس ملک کا کل رقبہ ۹ ہزار مربع میل ہے اور پھر اس کا ایک بڑاحصہ ناقابل سکونت ہے ۔صرف ریت کے میدان ہیں جنہیںآباد نہیں کیا جاسکتا بلکہ اب بھی جبکہ یہودیوں نے امریکہ کی مدد سے اسے آباد کیا ہے اس کی کل آبادی پندرہ لاکھ ہے۔پس اس ملک میںجو پہلے سے آباد تھا ساٹھ لاکھ آدمیوں کا آکر بس جانا بالکل خلاف عقل ہے ۔
ایک اور دلیل سے بھی یہ امر خلاف عقل معلوم ہوتاہے کہ بنی اسرائیل ساٹھ لاکھ تودرکنار چند لاکھ بھی ہوں اور وہ اس طرح کہ حضرت اسحاق ؑ کی پیدائش سے لیکر حضرت یعقوب ؑ کے مصر میں داخل ہونے تک قریباً دوسو سال کا عرصہ بائبل کے بیان کے مطابق گذراہے اس عرصہ میں حجرت ابراہیم ؑ کی نسل کے افراد تک پہنچتے ہیںعیسی کی اولاد کو بھی اگر اسقدر فرض کرلیا جائے تو دوسو سال میں چوبیس افراد تک ان کی نسل پہنچتی ہے اس کے بعد مصر سے نکلنے کے زمانہ تک دوسو سال گذرے ہیں پس عام اندازہ تو یہی ہو سکتاہے کہ حضرت یعقوب ؑ کے بارہ بیٹوں کی نسل اس دوسوسال میں چھ سات سو افراد تک پہنچ گئی ہوگی لیکن اگر ہم یہ بھی فرض کرلیں کہ وہ بہت شادیاں کرتے تھے اور اولاد زیادہ ہوتی تھی تب بھی پندرہ بیس ہزار سے زائد تو کسی صورت میںبھی ان کی تعداد نہیںہوسکتی اور اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے ۔ کہ بنی سرائیل اپنے سفر کے دوران میںمعمولی شہر کے آدمیوں سے بھی ڈرتے تھے اور اس کامقابلہ نہیںکرسکتے تھے۔ یہ امر یقینی معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ دواڑہائی ہزار سپاہیوں سے زیادہ نہیںتھے اس اندازہ کے ماتحت من کی وہ مقدار جو بنی اسرائیل کے لئے ضروری ہوتی ہوگی بہت کم رہ جاتی ہے ۔لیکن یہ سوال پھر بھی باقی رہ جاتاہے کہ کیا بنی اسرائیل من پر گذارہ کر سکے تھے ؟ من جیساکہ بتایا جاچکا ہے ایک گوندہے جو ہے بھی سہل اس غذاپر انسان چند دن سے زیادہ گزارا نہیں کر سکتاپھر بنی اسرائیل نے اڑتیس سال تک اس پر کیونکر گذارا کیا ؟ نئے یوروپین محققین بھی اس سوال کی معقولیت کے قائل ہوگئے ہیں اور اب ان کا یہ خیال ہے کہ من کی جو ماہیت بائبل میں بتائی گئی ہے اس میں مبالغہ اور تداخل ہوگیا ہے ۔من ان کے نزدیک لچن LICHEN کے دانوں کا نام ہے جو قحط کے دنوں میں لوگ کھانے لگتے ہیں ۔لچن ایک بوٹی ہے جو سطح کے اوپر ہی اگ آٹی ہے جڑکے لئے اسے زمین کی ضرور ت نہیںہوتی اس لئے چٹانوں کی سطح اور درختوں کی چھال پر بھی اگ آتی ہے اس کی بعض قسمیں پتھروں پر اگتی ہیں خصوصاً چونسے کے پتھروں پر اور جب اسے پتھر سے الگ کیا جائے تو جوار کے کچلے ہوئے دانے کے مشابہ ہوجاتی ہے جب یہ بوٹی پک جائے تو اس کے چھلکے جڑسے الگ ہو کر گول شکل اختیار کر لیتے ہیں اور ہلکا ہونے کی وجہ سے ہو ا ا نہیں اڑاکر دور دور لے جاتی ہے (انسائیکلوپیڈیا ببلیکاجلد۳)
علماء بناتات کے نزدیک یہ بوٹی کھمب کی قسموں میں سے ہے ۔اگر نئے یوروپین محققین کی رائے تسلیم کرلی جائے تو پھر یہ سوال حل ہوجاتاہے کہ بنی اسرائیل نے اس کھانے پر گذاراہ کس طرح کیا ؟ لیکن وہ سوال پھر پیدا ہوجاتاہے کہ بائبل کی بیان کردہ من کی ماہیت کے ساتھ اس بوٹی کی کوئی منسبت نہیںنہ یہ بوٹی میٹھی ہوتی ہے نہ اس کا مزہ تازہ تیل کا سا ہوتاہے اور نہ یہ بوٹی دوپہر کو پگل جاتی ہے ۔
میرے نزدیک اس سوال کا جواب بائبل اور اس کی متعلقہ کتب سے نہیںمل سکتا۔یوروپین محققین خواہ کتناہی زور لگائیں وہ اس سوال کاپوری طرح جواب نہیںدے سکتے کیونکہ وہ اس سرچشمہ سے دور ہیں جس سے حقیقی علم عطاہوتاہے ۔پس اگر ہمیں صحیح جواب کی ضرورت ہے تو ہمیں چاہئے کہ قرآن اور حدیث سے مدد حاصل کریں ۔
قرآن کریم اور حدیث میں من کے متعلق مندرجہ ذیل حقائق ھیان ہوئے ہیں ۔(۱)المتراالی۔۔۔۔۔۔۔ (بقرۃ) یاتجھے ان لوگوں کا حال معلوم نہیںجو اپنے گھروں سے موت کے ڈرسے اس حال میںنکلے تھے کہ وہ ہزاروں کی تعداد میںتھے اس پر اللہ نے انہیں کہا کہ مرجائو پھر اس نے انہیں زندہ کردیا ۔(۲)وانزلنا علیکم۔۔۔۔۔۔(بقرۃ)اور ہم نے تم پرمن اور سلویٰ اتارا تھا اور کہا تھا کہ جو کچھ ہم نے تمیں دیاہے اس میںسے اعلیٰ اور پاکیزہ چیزوں کو کھائو۔
(۳) بخاری میں سعید بن زیدؓ کی روایت ہے قال قال رسول اللہ ﷺ۔۔۔۔۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کھمب بھی من کی اقسام میں سے ہے ترمذی میںابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ۔ان ناساً۔۔۔۔۔۔۔نبی کریم ﷺ کے صحابہؓ میں سے بعض لوگ اعرابکے توہمات کے مطابق باتیں کر رہے تھے کہ کھمب زمین کی چیچک ہے ۔رسول کریم ﷺ نے اس بات کو سنکر فرمایا کہ کھمب من کی اقسام میںسے ہے اوپر کی آیات و احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ (۱) بنی اسرائیل لاکھوںکی تعداد میںمصر سے نہیں نکلے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں نکلے تھے (۲)جو چیزان کے کھانے کے لئے مہیا کی گئی تھی وہ غذاکے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کی تھی اور ایسی نہ تھی جو غذائیت یامزے کے لحاظ سے تکلیف دہ ہو ۔(۲) جو چیز بنی اسرائیل کو کھانے کے لئے ملی تھی وہ ایک چیز نہ تھی بلکہ کئی چیزین تھیں اور ان کئی چیزوں میں سے ایک کھمب بھی تھی ۔
یہ ایک عجیب بات ہے کا من کا ذکر قرآن کریم میںتین جگہ پر آیا ہے ۔ایک سورۃ بقرۃ میںایک سورۃ اعراف میں اور ایک سورۃ طٰہٰ میں اور تینوں جگہ اس کے ذکر کے بعد کلو من طیبات کا فقرہ ہے جس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ اس خیال کی تردید کرنا مقصود ہے کہ وہ کھانا ایک ہی تھا اور طبیعت پر بوجھ ڈالنے والاتھا یا غذایت کے لحاظ سے ادنیٰ قسم کا تھا ۔ جب ہم لچن کی جس کاذکر اوپر آچکا ہے تحقیق کرتے ہیںتو معلوم ہوتاہے کہ وہ بھی کھمب کی قسم کا پوداہے چنانچہ انسائیکلو پیڈیا برٹینکا میں لکھا ہے :۔
’’لچن اور کھمب کے اقسام کابالکل آپس میں ملتے جلتے ہیں۔اوریہ امر ان اقسام کی مشابہت سے جوایک دوسر ے کی طبعی سرحد پر واقع ہیں بالکل ظاہر ہوجاتاہے ‘‘
لیکن یہ امر ظاہر ہے کہ لچن خود کوئی اچھا کھانا نہیں ہے بلکہ قحط کے ایام میں مجبوراً اسے لوگ کھاتے ہیں ۔اس کے برعکس کھمب اعلیٰ درجہ کے کھانوں میں سے ہے اور گراں قیمت پر فروخت ہوتی ہے اور خاص طورپراسے امراء کیلئے بویاجاتاہے ۔اور فرانس میںتو اس کی اسقدر کھپت ہے کہ پیرس میںایک زمیندار دن میں تین ہزار پونڈ تک کھمب منڈی میں فروخت کرنیکے لئے بھیجتاہے اور پھر ہے یہ جلداگنے والی چیز چنانچہ انگریزی میں اس چیز کو جو جلد ہوجانے والی ہو شرومؔ گرتھ یعنی کھمب کی طرح پیدا ہونے والی کہتے ہیںاور ایسے لوگوں کیلئے جو کھانے سے تنگ ہوں ایسی ہی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو جلد اگ آئیںاور جلد استعمال میںآسکیں اب کیا یہ صاحبان بصیرت کیلئے عجیب بات نہیں کہ بائبل کے کثیر نسخوں اور علم طبیعات کے ماہروں کی امداد کے باوجودیورپ بیسویں صدی میں جس نتیجہ پر من کے متعلق پہنچاہے او وہ بھی ناقص صورت میںاسکی قرآن کریم میں آج سے تیرہ سو سال پہلے نہایت جامعیت کے ساتھ تو ضیح کردی گئی تھی ۔
میں یہاں تک مندرجہ بالا آیت اور احادیث سے سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دشت سینا میں کھمب ترنجبین اور ایسی ہی اور چیزیں جو جلد تیار ہوجاتی تھیں پیدا کردیںجن سے بنی اسرائیل کو بآسانی غذاملنے لگی اسی طرح تلیئر وغیرہ کثرت سے آگئے کیونکہ ان علاقوں میں ٹڈی بہت ہوتی ہے اور تلیئر زیادہ تر ان مقامات کو پسند کر تاہے جن میںٹڈی ہو کیونکہ وہ ٹڈی بڑے شوق سے کھاتاہے اور چونکہ اس کیلئے انہیںکوئی محنت نہیںکرنی پڑتی تھی اس غذاکانام من یعنی احان الٰہی سے ملنے والی غذارکھا گیا ۔وہ ایک قسم کی غزانہ تھی بلکہ کئی قسم کی غذائیں تھیں ۔کیونکہ حدیث کے الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ کئی طرح کامن تھا ۔ہاں سب میں ایک مشابہت تھی اور وہ یہ کہ غذائیں ہل چلاکر اور محنت کرکے بنی اسرائیل کو پیدانہیں کرنی پڑتی تھیں ۔لیکن چونکہ غذائیں اور تلیئر وغیرہ جو اس وقت کثرت سے جنگل میں آگئے تھے شکم میں قبض پیدا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ترنجبین بھی کثرت سے پیداکردی جسے دوسری غذائوں میں ملا کر کھانے سے ان کی صحت درست رہتی تھی ۔پس یہ ایک حقیقت ہے کہ من جس کا کثرت سے ان ایام میں پیدا ہونا ایک معجزہ تھا لیکن خود اس کا وجود اس دنیا کی چیزوں میں سے تھا ۔وہ ایسی غذا تھی جسے ایک عرصہ تک کھایا جاسکتاتھا ۔اور اسکی مصلح ترنجبین بھی ساتھ ہی پیدا کردی گئی تھی تاکہ جنگل کی خشک غذاصحت کو نقصان نہ پہنچائے اور تشریح کے ساتھ سب سوال حل ہوجاتے ہیں یہ بھی کہ من کو لوگ دیر تک کس طرح کھاتے رہے ؟ اور یہ بھی کہ وہ تیل کی طرح تھی اور اس سے روٹیاں بھی پکتی تھیں اور پھلکیاں بھی بنائی جاتی تھیں کیونکہ وہ ایک چیز نہ تھی بلکہ کئی چیزوں کانام من تھا ۔اور اس تشریح کو تسلیم کرکے کوئی خلاف عقل بات بھی تسلیم نہیںکرنی پڑتی کیونکہ تلیئر وغیرہ کی قسم کی چیزوںپر ایک ایسی قوم جس کاہم سیاسی اغرض کیلئے جنگل میں رہنا ضروری ہو گذارا کر سکتی ہے اور قرآن کریم بتائی ہوئی تعداد کے مطابق قوم کا اس جنگل میں آسانی سے بسراوقات کرسکتا ناممکنات میں سے نہیں ہے ۔
سلوٰ ی کے معنی بھی من کی طرح ایک عام ہیں اور ایک خاص اس کے عام معنے تو ہر اس چیز کے ہیں جو تسلی دینے والی ہو ۔اور خاص معنوں کے لحاظ سے وہ ایک پرندے کابھی نام ہے جو تلیئر کے مشابہ ہوتاہے ۔اور شہد کو بھی سلوٰی کہتے ہیں بائبل میںاس کاذکر گنتی باب ۱۱ آیت ۳۱ تا۳۴ میں اس طرح آتاہے :۔
’’ پھر موسیٰ اور وہ اسرائیلی بزرگ لشکر گاہ میں گئے اور خداوند کی طرف سے ایک آندھی چلی اور سمندر سے بٹیریں اڑالائی اور ان کو لشکر گاہ کے برابر اور اس کے گرد اگرد ایک دنکی راہ تک اس طرف اور ایک ہی دن کی راہ تک دوسری طرف زمین سے قریباً دو دو ہاتھ اوپر ڈال دیا اور لوگوں نے اٹھ کر اس سارے دن اور اس ساری رات اور اس کے دوسرے دن بھی بٹیریں جمع کیں ۔‘‘
غرض سلوٰی میںپرندے شہد اور تمام ایسی غذائیں جو قلب کو تسکین دیتی ہیں شامل ہیں چونکہ اللہ تعالیٰ چاہتاتھاکہ بنی اسرائیل کو جنگل میں آزاد رکھ کر ان میں جرات اور بہادری کے اخلاق پیدا کرے اسلئے اس نے اپنے فضل سے ان کے لئے ایسی غذائیں مہیا فرمادیں جو بغیر محنت کے ملتی تھیں اور جن میں گوشت بھی شامل تھا ۔اور پھل اور سبزی ترکاری کی قسم کی غذائیں بھی شامل تھیں تاکہ ان کی غذ ئی ضرورت بھی پوری ہو اور ان کی صحت بھی اچھی رہے۔ اس کے بعد فرمایا :۔ کلو من ۔۔۔۔۔۔۔ کہ جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے پاک چیزیں کھائو اور اس رزق کے بارے میں تم ظلم سے کام نہ لو یعنی چونکہ تمہیں جنگل میں رزق مل رہا ہے ایسا نہ ہو کہ زبردست سارارزق جمع کرلے اور غریب کومحروم کردے اگر ایسا کرو گے تو تم پر میرا غضب نازل ہوگا۔
آیت نمبر۸۴‘۸۵
ترجمہ:۔اور ہم نے کہا اے موسیٰ تم اپنی قوم کو چھوڑ کر کس لئے جلدی جلدی آگئے ہو ؟موسیٰ نے جواب میں کہا کہ وہ لوگ میرے پیچھے پیچھے آرہے ہیں اور اے میرے رب میںاسلئے تیرے پاس جلدی سے آیا ہوں تاکہ تو میرے اس فعل پر خوش ہوجائے ۔۴۶؎
۴۶؎ تفسیر:۔
پاک لوگ خداتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کس طرح بیتاب رہتے ہیںاس کا ایک نمونہ ان آیات میں دکھائی دیتاہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کے لئے ایک وقت مقرر کیا تاکہ اس وقت میں ان سے کلام کرے تو حضرت موسیٰ ؑ اپنی قوم سے آگے آگے تیزی کے ساتھ چلتے ہوئے وہاں پہنچے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ تیز تیز کیوں چل رہے ہو ؟ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا ۔حضور مجھ پر اظہار خوشنودی فرمانے والے تھے ایسے وقت میں میں تیزی سے آگے نہ بڑھتاتو کیا کرتا اور میری قوم تو میرے نقش قدم پر ہی چل رہی ہے اس لئے میراان کے ساتھ رہنا کوئی ضروری نہ تھا۔
آیت نمبر۸۶‘۸۷‘۸۸‘۸۹‘۹۰
ترجمہ :۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے کہا ہم نے تیری قوم کو تیرے بعد ایک آزمائش میں ڈال دیا ہے اور سامری نے ان کو گمراہ کردیا ہے ۔اس پر موسیٰ اپنی قوم کی طرف غصے سے بھرے ہوئے افسردہ لوٹ گئے او اپنی قوم سے کہا اے میری قوم ! کیا تمہارے رب نے تم سے ایک اچھا وعدہ نہیںکیا تھا؟ کیا اس وعدہ کے پوراہونے میں کوئی دیر ہوگئی تھی ؟یا تم چاہتے تھے کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کوئی غضب نازل ہو ۔سو تم نے میرے وعدے کو رد کردیا انہوں نے کہا ہم نے تیرے وعدے کو اپنی مرضی سے رد نہیںکیا ۔بلکہ فرعون کی قوم کے زیورات کا جو بوجھ ہم پر لادا گیاتھا اس کو ہم نے پھینک دیا ۔اور اسی طرح سامری نے بھی اس کوپھنک دیاپھر اس نے ان کے لئے یعنی ہمارے لئے ایک بچھڑا تیار کای جومحض جسم ہی تھااس سے ایک بے معنی آواز نکلتی تھی یعنی حقیقی بچھڑا نہیںتھا پھر اس نے اور اسکے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا بھی اور موسیٰ کابھی خدا ہے اور وہ اسے بھول کر پیچھے چھوڑ گیاہے ۔بیشک سامری اور اس کے ساتھیوں نے ایسا کیا مگر کیا وہ خود نہیںدیکھتے تھے کہ وہ بچھڑا انکی کسی بات کا جواب نہیں دیتا۔اور نہ ان کو کوئی ضرر پہنچاسکتاہے اور نہ نفع پہنچاسکتاہے ۔۴۷؎
۴۷؎ تفسیر:۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم کو تو ہماری ملاقات کا اتناشوق ہے مگر تمہاری قوم کا یہ حال ہے کہ ادھر تم ہماری طرف آئے اور ادھر وہ سامری کے بہکانے سے بہک گئی اس پر موسیٰ غصہ اور افسوسکی حالت میں واپس لوٹے اور اپنی قوم سے کہا کہ کیا تمہار ے رب نے نہایت اعلیٰ اور شاندار وعدہ تم سے نہیںکیا تھا ۔یعنی تمہارے نبی کوہم کلام ہونے کے لئے نہیںبلایا تھا ۔کیا تم اتنے بے ایمان ہو کہ اتنی تھوڑی سی دیر میں تمہارا ایمان ضائع ہوگیایاتم کو اپنے ربکے غضب کے نازل ہونے کی خواہش ہے ۔جس کی وجہ سے اتنے تھوڑے عرصہ میں ہی تم خداکو بھول گئے اور میری اطاعت کا جو تم نے اقرار کیا تھا اس کی تم نے خلاف ورزی شروع کردی ۔انہوں نے کہا ہم نے تیرے وعدے کو اپنی مرضی سے نہیںجھٹلایا بلکہ فرعون کی قوم کے زیورات چلتے ہوئے ہم پر لاددیئے گئے تھے تیرے جانے کے بعد وہ زیورات ہم نے اٹھا کر ایک جگہ رکھ دیئے اور سامری نے بھی ایسا ہی کیا ۔پھر اس نے ان زیورات کو پگھلاکر ایک بے جان بچھڑابنا دیا جس میں سے ایک بے معنے آواز نکلتی تھی ۔جس پر موسیٰ کی سب قوم بول اٹھی کہ اے لوگو یہ تمہارامعبود ہے ۔اور موسیٰ کا بھی یہی معبود تھا۔ جو پہاڑ پرجانے کے شوق میں اسے بھول گیا۔
حملنا اوزاراً۔۔۔۔۔۔ سے معلوم ہوتاہے کہ یہ زیورات مصریوں نے خود دیے تھے مگر بائبل کہتی ہے بنی اسرائیل نے مصریوں سے سونے چاندی کے برتن عاریۃً لئے اور ان کو خوب لُوٹا اور وہ بھی دیتے چلے گئے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ وہ یہاں سے نکل جائیںتاکہ ان کے سبب سے وہ مالک نہ ہوجائیں چنانچہ خروج باب ۱۲ آیت ۳۵ ۔۳۶ میں لکھاہے :۔
’’ او ر بنی اسرائیل نے موسیٰ کے کہنے کے موافق یہ بھی کیا کہ مصریوں سے سونے چاندی کے زیور اور کپڑے مانگ لئے اور خداوند نے ان لوگوں کو مصریوں کی نگاہ میں ایسی عزت بخشی کہ جو کچھ انہوںنے مانگا انہوں نے دے دیا سو انہوں نے مصریوں کو لوٹ لیا ۔‘‘
گویا بائبل حضرت موسیٰ ؑ پر یہ الزام لگاتی ہے کہ ان کے کہنے کے مطابق بنی اسرائیل نے مصریوں سے سونے چاندی کے زیورات اور کپڑے مانگ لئے اور انہوں نے مصریوں کو خوب لوُٹالیکن قرآن کریم اس کی تر دید کرتاہے اور فرماتاہے کہ انہوں نے وہ زیورات نہیںمانگے بلکہ مصریوں نے آپ انکو دئیے ۔اور انسانی عقل اس کی تائید کرتی ہے کیونکہ نبی ڈاکو نہیںہوتامگر بائبل ایک طرف حضرت موسیٰ کو خداکانبی قرار دیتی ہے اور دوسری طرف انہیںڈاکو ثابت کرتی ہے ۔حالانکہ خود بائبل کی ایک اندرونی شہادت بتارہی ہے کہ موسیٰ پر یہ الزام سراسر غلط ہے ۔چنانچہ گو بائبل نے یہ کہاہے کہ بنی اسرائیل نے مصریوں سے خداکے حکم سے زیورات مانگے مگر خروج باب ۱۲ میں ہی لکھا ہے کہ جب مصریوں پر عذاب آیا اورسارے مصر میں پلوٹھے بچوں کی ہلاکت سے ایک کہرام مچ گیا تو فرعون نے موسیٰ اور ہارون کو بلواکر کہا کہ تم بنی اسرائیل کو لے کر میری قوم کے لوگوں میں سے نکل جائو اور ’’مصری ان لوگوںسے بضد ہونے لگے یعنی ان کے پیچھے پڑگئے تاکہ ان کو ملک مصر سے جلد باہر چلتاکریںکیونکہ وہ سمجھے کہ ہم سب مرجائٰنگے ۔‘‘ (خروج باب ۱۲ آیت ۳۳)
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مصر ی خود دل سے چاہتے تھے کہ وہ لوگ مصر سے نکل جائیں پس قرین قیاس یہی ہے کہ انہوں نے خود ان کو زیورات دیئے تاکہ وہ عبادت کیلئے باہر جائیں اوران کا عذاب ٹل جائے ۔اور یہی بات قرآن کریم نے بیانکی ہے بلکہ ممکن ہے سامری نے بھی ان لوگوںسے یہی کہا ہو کہ اگر یہ لوگ باہر نکلیں گے تومیں اس کے لئے سونیکا بچھڑابنا دونگا اور ان سے اسکی پوجا کروائوں گا اور یہ لوگ تمہارے مذہب میں واپس آجائیں گے ۔
فقذفنھا۔۔۔۔۔۔ سے ظاہر ہوتاہے کہ ان لوگوں نے ان زیورات سے نفرت کرکے اسے پھینک دیا تھا مگر سامری نے اس سے بچھڑا تیار کرلیا اور بچھڑابھی ایسا جو بولتاتھا۔چونکہ وہ مصرمیں بچھڑے کی پرستش ہوتی دیکھ آئے تھے اور فرعون بھی اس کے آگے سجدہ کرتاتھا ۔اس لئے اس کے خیال میں اس سے زیادہ اعلیٰ چیز اور کیا ہوسکتی تھی پس وہ کہتے ہیں کہ ایک تو بچھڑا دوسرا سونے کا اور تیسرابولنے والا اسکے بعد بھی اگر ہم اس کی عبادت نہ کرتے توکیا کرتے ۔گویا وہ اپنی مجبوری کا اظہار کررہے ہیں ۔اور موسیٰ سے کہتے ہیں کہ آپ ہماری بھی تو مجبوری دیکھیںاگر اتنی باتوںکے بعد بھی ہم اس کی پرستش نہ کرتے توکیا کرتے ۔ان کی مجبوری بالکل ویسی ہی تھی جیسا کہ استاذی المکرم حضرت موسیٰ نورالدین صاحبؓ فرمایا کرتے تھے کہ ایک مولوی کے متعلق مجھے معلوم ہوا کہ اس نے ایک شادی شدہ عورت کاکسی دوسرے مرد سے نکا ح پڑھ دیاہے ۔فرماتے تھے مجھے اس سے سخت حیرت ہوئی اور میں نے اس مولوی کو بلواکر کہا کہ مولوی صاحب میں نے آپ کے متعلق ایک بات سنی ہے ۔مجھے اعتبار تونہیںآتاکہ وہ درست ہو مگر چونکہ میرے پاس اسکاذکر کیا گیاہے اس لئے آپ سے بھی میں بیان کردیناچاہتاہوں میں نے سناہے کہ آپ نے ایک عورت کانکاح پرنکاح پڑھ دیاہے ۔وہ سن کر بڑے جوش سے کہنے لگا۔مولوی صاحب آپ پہلے تحقیق تو کرلیا کریں۔یونہی سنی سنائی باتوں میں نہ آ جایا کریں ۔یہ بھی تو دیکھیں کہ میری مجبوری کیا تھی آپ نے فرمایا اسی لئے تو میں نے آپکو بلوایا ہے تاکہ آپ سے سارے حالات کاعلم ہوجائے ۔وہ کہنے لگا مولوی صاحب دوسرے فریق نے جب چڑے جتنا روپیہ نکال کر میرے سامنے رکھ دیا تو پھر میں نکاح نہ پڑھتاتو او رکیا کرتا یہی مثال موسیٰ کی قوم کی ہے وہ کہتے ہیںہم نے تیرے عہد کو اپنی مرضی سے نہیں ٹلایا ۔ہم تو اس پر مجبور کردیئے گئے تھے اور وہ مجبوری یہ تھی کہ فرعون کی قوم کے زیورات کابوجھ ہم پر لاد دیا گیا تھا ۔ وہ ہم نے پھینک دیا اور اسی طر ح سامری نے بھی اس کوپھینک دیا مگر اس کے بعد سامری نے انہی زیورات کو ڈھال کر ایک عجیب وغریب بچھڑاتیار کردیا جس میںسے آواز بھی نکلتی تھی اب بتاییء ہم اس کی کس طرح پرستش نہ کرتے ۔اس بچھڑے کو دیکھنے کے بعد ہمارے لئے انکار کی کوئی صورت ہی نہ رہی۔سامری کا یہ واقعہ ساحروں کے واقعہ کی حقیقت بھی کھول دیتاہے اور اس سے یہ پتہ لگ جاتاہے کہ مصریوں میں اس قسم کی کرتب بازی کا رواج تھا اور وہ مکینیکل کھلونے بنایا کرتے تھے ۔
اصل بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کی قوم مصر سے آرہی تھی اورفرعون کی قوم میںبیل کی پوجاکاعام رواج تھابلکہ سب سے بڑامندر مصر کاوہی تھاجس میںایک بے عیب بیل بطور دیوتاکے رکھاجاتاتھا۔چنانچہ انسائیلو پیڈیاآف ویلجن اینڈ ایتھکس جلد ۱ صفحہ ۵۰۷میںلکھا ہے کہ مصریوںمیںجانور کو پوجاکرنیکا جورواج تھاا س میں سب سے اہم مقام بیل کو حاصل تھاجب کوئی پرانا بیل مرجاتاتھا تو ایک نئے بیل کی تلاش کی جاتی تھی ۔اور جس گلّے میںسے یہ بیل ملتا تھا اس کے مالک کو بڑی عزت دی جاتی تھی اور جو شخص اس کو تلاش کرتاتھا اس کو بھی بہت بڑاانعام دیاجاتاتھا۔اسی طرح نیو سٹنڈرڈ ڈکشنری میں ایپسؔ کے لفظ کے نیچے لکھا ہے کہ یہ ایک مقدس بیل ہوتاتھا ۔جس کی مصری لوگ قدیم زمانہ میںپوجاکرتے تھے اس کی پیدائش کے دن کو ایک عام چھٹی کے طورپر ملک میں منایا جاتاتھا۔ اور اس کی موت پر تمام ملک میں ماتم کیا جاتاتھا ۔اور یہ ماتم اسوقت تک جاری رہتا تھا جب تک کہ ایک نیا ایپسؔ ان علامتوںکے مطابق نہ مل جاتاجن سے اس کے خدا کے مظہر ہونے کاثبوت حاصل ہوجاتا۔غرض فرعون کی قوم چونکہ بیل کی پرستش کی عادی تھی ۔اس لئے محکوم قوم ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل میں بھی مشرکانہ خیالات پیدا ہوگئے اور موسیٰ کی غیرحاضری سے فائدہ اٹھاکر سامری نے انہیںپھر شرک کے راستہ پرڈال دیا اور وہ بچھڑے کوبڑے ادب کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئے سامری جو درحقیقت دل سے کافر انسان تھااس نے قوم کی اس کمزوری ء ایمان سے فائدہ اٹھایا اوران سے کہا کہ اپنے زیورات لائو اورمیں بھی اپنا سونا ڈالتاہوں اس سے میں فرعونیوں کی طرح کا ایک بچھڑا تمہیں بنادونگا ۔وہ سامری کی یہ بات سن کر خوش ہوگئے۔کیونکہ بچھڑے کاادب فرعونیوں سے ا ن کو ورثہ کے طورپر ملاتھا ۔جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ مصر کا بڑابت بچھڑاہی ہوتا تھا۔ اور تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ زمیندار ملکوں میں عام طور پر گائے کوخدا سمجھاجاتاتھا۔چنا نچہ ہندوستان میں سب ہندو گائے کوخداسمجھتے ہیںاور ایک گائے کے ذبح کرنے پر ہزاروں مسلمانوں کا قتل جائز اور درست جانتے ہیں۔بلکہ ہندوئوں کے کئی مندر ایسے ہیں جن میں گائے یا بچھڑ ے کی شکل پر بت بنایا جاتاہے اس کی یہی وجہ ہے کہ وہ گائے کو ایک جانور نہیںبلکہ دیوتا سمجھتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ سامری نے جو بچھڑابنایاتھا اس میں ایسی ترکیب رکھی تھی کہ اس میں سے ایک بے معنی آواز نکلتی تھی ۔معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سیٹیاں بنائی جاتی ہیںسامری نے بچھڑااسی طرح بنایا تھا۔ کہ اگر پیچھے سے ہواداخل ہو تو منہ کی طرف سے آواز نکلتی تھی ۔بے وقوف یہودی جو قوم فرعون کے غلام تھے اور اس کے دین سے متاثر وہ اس دھوکا میںآگئے اور انہو ںنے سمجھاکہ موسیٰ جو کہتا تھاکہ خدا مجھ سے خداکلام کرتاہے تو درحقیقت اس کے پاس کوئی ایسا ہی بچھڑاتھا جس کی بات سے وہ فال نکال لیا کرتاتھا۔
آیت نمبر۹۱‘۹۲‘۹۳‘۹۴
ترجمہ:۔ اور ہارون نے موسیٰ کوواپس آنے سے بھی پہلے ان سے کہہ دیا تھا کہ اے قوم تم کو اس بچھڑے کے ذریعہ آزمائش میںڈالا گیا ہے اور تمہارا رب تو رحمن خداہے پس میری اتباہ کرو اور میرے حکم کو مانو اور شرک نہ کرو مگر اس ضدی قوم نے کہا جب تک موسیٰ ہماری طرف واپس نہ آئے ہم برابر اسکی عبادت میں مشغول رہیں گے ۔ جب موسیٰ واپس آئے تو انہوںنے ھارون سے کہااے ہارون جب تو نے اپنی قوم کوگمراہ ہوتے دیکھا تھا تو تجھے کس نے منع کیا تھا کہ تو میرے نقش قدم پر نہ چلے ؟کیا تو نے میرے حکم کی نافرمانیکی
۴۸؎ تفسیر:۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضر ت ہارون ؑ شرک میں شامل نہیںتھے بلکہ انہوںنے اپنی قوم کوشرک سے سختی کے ساتھ روکا تھا لیکن بائبل کہتی ہے کہ وہ شرک میںشامل تھے چنانچہ تورات میں لکھا ہے ۔
’’ اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اتر نے میں دیر لگائی تو وہ ہارون کے پاس جمع ہوکر اس سے کہنے لگے کہ کہ اٹھ ہمارے لئے دیوتابنا دے جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ ہم نہیںجانتے کہ اس مرد موسیٰ کو جو ہم کو ملک مصر سے نکال کر لایا کیاہو گیا ۔ہارون نے ان سے کہا تمہاری بیویوں اور لڑکوں او رلڑکیوںکے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں ان کو اتار کر میرے پاس لے آئو چنانچہ سب لوگ اس کے کانوںسے سونے کی بالیاںاتار اتار کر انکو ہارون کے پاس لے آئے او راس نے ان کو ان کے ہاتھوں سے لیکر ایک ڈھالا ہوا بچھڑابنایا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی تب وہ کہنے لگے اے اسرائیل یہی تیراوہ دیوتاہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال کر لایا ‘‘ (خروج باب ۳۲آیت ۱تا۴) پھر لکھا ہے کہ ہارون نے اس بچھڑے کیلئے قربان گاہ بنائی اور اسے بنی اسرائیل کامعبود قرار دیا چنانچہ لکھاہے ۔
’’یہ دیکھ کر ہارون نے اس کے آگے ایک قربان گاہ بنائی اور اس نے اعلان کردیا کہ کل خداوند کے لئے عید ہوگی اور دوسرے دن صبح سویرے اٹھ کر انہوںنے قربانیاں چڑھائیں ۔اور سلامتی کی قربانیاں گذرائیں ۔پھر ان لوگوںنے بیٹھ کر کھایا پیا اور اٹھ کر کھیل کود میں لگ گئے ۔
(خروج باب ۳۲آیت ۵،۶)
ایک ادنیٰ سی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتاہے کہ جس سے خدا بولاکرتا تھا وہ ایک بچھڑے کو خدا کس طرح قرار دے سکتاہے ۔ایک شخص جو اپنے بھائی سے ہم کلام ہوتاہے وہ کبھی ایسی غلطی کر سکتاہے کہ ایک گیدڑ کو اپنا بھائی سمجھ لے مگر بائبل جو دعوٰی کرتی ہے کہ وہ موسیٰ پر نازل ہوئی تھی وہ کہتی ہے کہ ہارون شرک میں شامل ہوگیا تھا۔
لیکن عقل سلیم نے جب بھی اسپر غور کیا یہی فیصلہ کیا کہ اس بارہ میں موسیٰ پر نازل ہونے والی بائبل جھوٹی تھی ۔لیکن دوہزار سال بعد نازل ہونے والا قرآن سچاہے ۔بلکہ اگر بائبل کو غور سے دیکھا جائے تو اس کی اندرونی شہادت بھی اس واقعہ کو غلط قرار دیتی ہے ۔چنانچہ بائبل بتاتی ہے کہ جب حضرت موسیٰ کو معلوم ہوا کہ لوگوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی ہے تو وہ سخت غیظ و غضب کی حالت میں پہاڑ سے واپس تشریف لائے اور بچھڑے کو آگ میں جلاکر اسے خاکستر کیا اور اس کی خاک پانی پر چھڑک کربنی اسرائیل کو پلوائی ۔چنانچہ بائبل میں لکھا ہے ۔ ’’ اس نے اس بچھڑے کو جیسے انہوں نے بنایا تھا لیا اور اسکو آگ میں جلا یا ۔اور اسے باریک پیس کر پانی پر چھڑکا اور اس میں سے بنی اسرائیل کو پلوایا ۔‘‘
(خروج باب ۳۲ آیت ۲۰ )
پھر موسیٰ نے اس کی سزا میں حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قریبی کو قتل کرے اور اس طرح تین ہزار آدمی مارے گئے چنانچہ بائبل کہتی ہے ۔
’’ اور اس نے ان سے کہا کہ خداوند اسرائیل کا خدایوں فرماتاہے کہ تم اپنی اپنی ران سے تلوار لٹکا کر پھاٹک پھاٹک گھوم گھوم کر سارے لشکر گاہ میںاپنے اپنے بھائیوں اور اپنے اپنے ساتھیوں اور اپنے اپنے پڑوسیوں کو قتل کرتے پھرو ۔او ربنی لاوی نے موسی ٰکے کہنے کے موافق عمل کیاچنانچہ اس دن لوگوں میں سے قریباًتین ہزار مرد کھیت رہے ۔‘‘ (خروج باب ۳۲ آیت ۲۷،۲۸ )
پھرموسیٰ نے خدا سے درخوست کی کہ ۔ ’’ ان لوگوں نے بڑا گناہ کیا کہ اپنے لئے سونے کادیوتابنایا اور اب اگر تو ان کا گناہ معاف کردے تو خیر ورنہ میرا نام اس کتاب میںسے جو تونے لکھی ہے مٹادے ۔‘‘ (خروج باب ۳۲ آیت ۳۲ ) مگر ’’خداوند نے موسیٰ سے کہاکہ جس نے میرا گناہ کیاہے میں اسی کے نام کو اپنی کتاب میںسے مٹائوں گا۔‘‘ (خروج باب ۳۲ آیت ۳۳ )
اس فتنہ کو فرد کرنے کے بعد وہ پھر پہاڑ پرگئے تو خداتعالیٰ نے ان کوحکم دیاکہ ’’ہارون کو مقدس لباس پہنانا اور اسے مسیح اور مقدس کرنا ۔تاکہ وہ میرے لئے کاہن کی خدمت کو انجام دے اور اس کے بیٹوں کو لاکر ان کو کرتے پہنانا اور جیسے ان کے باپ کو مسح کرے ویسے ہی ان کو بھی مسح کرنا تاکہ وہ میرے لئے کاہن کی خدمت کو انجام دیں ۔اور ان کا مسح ہونا ان کے لئے نسل درنسل ابدی کہانت کا نشان ہوگا ۔اور موسیٰ نے سب کچھ جیسا خداوند نے اس کو حکم کیا تھا اس کے مطابق کیا ۔‘‘ (خروج باب ۴۰ آیت ۱۳ تا۱۶ )
اسی طرح گنتی باب ۳ میں بھی ذکر آتاہے کہ ہارون اور اس کے بیٹوں کو بنی لاوی کی کہانت سپرد کرکے ان کانام ہمیشہ کے لئے قائم کردیاگیا۔ بائبل کے ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ جہاں اور لوگوں پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا گیا اور مجرموں کو قتل کی سزائیں دی گئیں وہاں حضرت ہارون ؑ پر بجائے کسی ناراضگی کا اظہار کرنے کے اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ ہارون کو مقدس لباس پہنایاجائے اور نہ صرف اس کی عزت افزائی کی جائے بلکہ اس کی تمام اولاد کو بھی قابل اعزاز سمجھا جائے اور عبادت گاہوں کی نگرانی کاکام ان کے سپرد کیاجائے اب کیاایک مشرکانہ فعل کا یہی نتیجہ ہوا کرتاہے اور کیا ہارون ؑ اگر اسی فعل کے مرتکب ہوتے جس کابائبل انہیںمرکتب قرار دیتی ہے تو خداتعالیٰ کی طرف سے ان سے یہی سلوک کیاجاتا ۔جب اس شرارت کے تمام سرغنے قتل کردیئے گئے تھے تو حضرت ہارون ؑ کو کیوںقتل نہ کیا گیا۔اور جب خدانے موسیٰ سے کہا تھا کہ جس نے میرا گناہ کیا ہے میں اس کے نام کو اپنی کتاب میں سے مٹائونگا ۔‘‘(خروج باب ۳۲ آیت ۳۳ )
تو اگر حضرت ہارون قصور وار تھے تو ان کانام کیوں نہ مٹایاگیا ۔بلکہ بائبل تو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خداتعالیٰ نے ہارون پر اظہارر ناراضگی کرنیکی بجائے اپنی خوشنودی کا اظہار کیا ۔اور حکم دیا کہ آئندہ تمام عبادت گاہوں کا انتظام ہارون اور اس کے بیٹوں کے سپرد کردیا جائے ۔
اللہ تعالیٰ کا یہ انعام اور اس کی طرف سے خوشنودی کا اظہا ر بتارہا ہے کہ بچھڑا بنانا تو الگ رہا حضرت ہارون اس کے پجاریوں میں سے بھی نہیںتھے بلکہ جیساکہ قرآن کریم بتاتاہے انہوں نے بنی اسرائیل کو شرک سے روکا اور انہیںتوحید پر قائم رکھناچاہا مگر انہوں نے ہارون ؑ کی بات ماننے سے انکار کردیا ۔یہ حقیقت اتنی واضح ہے کہ انسائکلوپیڈیا برٹنیکا والا بھی ہاورن ؑکے شرک کرنیکے واقعہ کو غلط قرار دیتاہے اور اس سے یہ استدلال کرتاہے کہ بائبل میں کئی واقعات بعد میں بڑھا دیئے گئے ہیں (انسائکلوپیڈیا برٹینیکا جلد ۴ زیر لفظ CALF THE GOLDEN وجلد ۱۵ زیر لفظ موسیٰ۔تورات کے مطالعہ سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے پہاڑ پرجاتے ہوئے بنی اسرائیل سے وقت کی کوئی تعین نہیں کی تھی ۔بلکہ صرف اتنا کہا تھا کہ ’’جب تک ہم لوٹ کر تمہارے پاس نہ آجائیںتم ہمارے لئے یہیںٹھہرے رہو۔‘‘ (خروج باب ۲۴ آیت ۱۴ ) اورپھر وہ ’’پہاڑ پر چالیس دن اور چالیس رات رہا۔‘‘ (خروج باب ۲۴ آیت ۱۸ )
لیکن موسیٰ کے پہاڑ پرجانے کے بعد جب بنی اسرائیل نے ان کے آنے میں دیر محسوس کی تو انہوں نے ہارون سے اپنے لئے بچھڑا بنوالیا۔قرآن کریم اس کے خلاف یہ کہتاہے کہ موسیٰ تیس راتوں کے وعدہ سے گئے تھے مگر بعد میں اللہ تعالی ٰنے ان پر احسان فرماکر دس راتیں اور اپنے ساتھ ہم کلام ہونیکا شرف عطافرمادیا ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔ووعدنا موسیٰ۔۔۔۔۔۔۔ (اعراف ) یعنی ہم نے موسیٰ سے تیس ر اتوں کاوعدہ کیا تھا ۔مگر پھر ہم نے دس راتیںاور بڑھاکر انہیں تکمیل تک پہنچا دیا ۔اور یوں اس کے رب کاچالیس رات کا وعدہ اس سے پورا ہوا ۔
ان دونوں بیانات میںسے قرآنی بیان صاف طورپر سچامعلوم ہوتاہے ۔کیونکہ تبھی تو بنی اسرائیل ان کی غیر حاضری میں گھبراگئے ۔ورنہ اگر غیر معین وقت ہوتا تو ایک مہینہ کچھ زیادہ وقت نہیںتھا کہ اس عرصہ میں وہ گھبرانے لگ جاتے ۔ان میں گھبراہٹ اسی لئے پیدا ہوئی کہ موسیٰ تیس راتوں کا وعدہ کرگئے تھے مگر تیس راتیں گذرنے کے بعد واپس نہیںآئے ۔معلوم نہیںوہ کہاں غائب ہوگئے ہیں۔سامری نے موسیٰ کی اس غیر حاضری سے فائدہ اٹھایا اور قوم میں فتنہ کھڑاکردیا ۔
حضرت ہارون ؑ نے اس موقعہ پر جو یہ کہا کہ یاقوم انمافتنۃ بہ ۔۔یعنی اے میری قوم تمہیں اس بچھڑے کے ذریعے ایک آزمائش میں ڈالا گیا ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ تمہاری اصل آزمائش کاوقت اب آیا ہے گویا فرعون کے عذاب اس آزمائش کے مقابل پر بالکل ہیچ تھے کیونکہ و ہ آزمائش دشمن کی طرف سے تھی جس میںقدرتاً سب لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیںلیکن جب اندرسے فتنہ کھڑاہو تو کئی کمز ور طبائع ڈانوانڈول ہوجاتی ہیں ۔پس حضرت ہارونؑ اپنی قوم کو توجہ دلاتے ہیںکہ بے شک پہلے بھی تمہارے سامنے مختلف آزمائشیںآتی رہی ہیںمگر انمافتنہم۔۔۔تمہاری آزمائش کا اصل وقت اب آیا ہے اور اب دنیاپرظاہر ہو جائیگا کہ تم میںسے کون سچے دل سے ایمان لایاتھااو کون اپنے دعویٰ ایمان میںجھوٹاتھا ۔اس سے معلوم ہوا کہ اندرونی فتنوں کوکبھی حقیر نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ پوری تندہی سے ان کامقابلہ کرنا چاہئے ۔کیونکہ خطرے والا فتنہ وہی ہوتاہے ۔خواہ قوم کتنی بھی تھوڑی ہو اگر اندرونی فتنہ اس میں نہ ہو تو دشمن اسے مٹانہیںسکتالیکن اگر اندرونی فتنہ پیدا ہو تو پھرتباہی کا خطرہ پیدا ہوجاتاہے ۔
اس جگہ ایک مختصر سانوٹ سامری کے متعلق بھی دے دینا ضروری معلوم ہوتاہے میرے نزدیک سامری کسی خاص شخص کانام نہیںبلکہ یہ ایک صفاتی نام ہے جو اب آہستہ آہستہ فلم بن گیا ہے ۔سمر اصل میں کیل ٹھونکنے کو کہتے ہیں ۔اور سامر اس شخص کوکہتے جوکیل ٹھونکتا ہے چنانچہ لغت میں لکھاہے سمر کے معنے ہوتے ہیں اوثقہ ۔۔۔۔ اس نے کسی چیز کے بناتے وقت اس کی مضبوطی کا خاص خیال رکھا۔اور اسے کیلوںسے جڑدیا پس لوہار ترکھان سنار اورمعمار وغیرہ سب سامر کہلائیں گے ۔معلوم ہوتاہے بنی اسرائیل میں آہن گر ی نجاری معمار ی اور سنار وغیرہ کاکام کرنیوالے کچھ لوگ تھے جن کو اپنے پیشہ کی مناسبت کے لحاظ سے سامرہ کہنے لگ گئے تھے انہی پیشہ وروں میں سے یہ کوئی فتنہ پرداز شخص تھاجس نے توحید کے خلاف ایک خطرناک فتنہ کھڑا کردیا ۔اس تحقیق کے مطابق سامرہ اس قبیلے کانام تھاجویہ کام کرتے تھے اور سامر اسے کہا جاتا تھا جواس قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا ۔اب تو مختلف پیشے مختلف قوموںاور افراد میںپائے جاتے ہیں ۔مگراس زمانہ میں چونکہ ابھی میل جول کے ذرائع بہت محدود تھے اور پیشہ وروں کو کام کے حصول میںبہت دقت پیش آتی تھی اسلئے معلوم ہوتاہے کئی کئی پیشے ایک ہی قوم میں اکٹھے ہوتے تھے گویا یہ ایک پیشہ ور قبیلہ تھا جو لوہار ترکھان سنار اور معمار وغیرہ کاکام جانتے تھے اورانہی کے ایک فرد سے اس فتنہ کی ابتداء ہوئی بلکہ اگر تاریخ کازیادہ گہرا مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ انہی لوگوںسے خفیہ سو سائٹیاں شروع ہوئی ہیں بلکہ حضرت سلیمان ؑ کے وقت میں بھی اسی قوم نے فتنہ اٹھایا تھااور اس وقت ان کے ایک لیڈر ہیرام نے جوحضرت سلیمان ؑ کے تعمیر کردہ معید کا سب سے بڑاکاریگر تھا آپ کامقابلہ کیا تھا۔فری مینز اپنے آپ کو اسی کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔اسی طرح ہماری جماعت میںمستریوںکا فتنہ ایک مشہور فتنہ ہے ۔پس سامری ایک پیشہورقبیلہ کا فرد تھاجسے اپنے کام کی مناسبت کے لحاظ سے سامرہ کہا جاتا تھا اور سامری اس کا صفاتی نام تھامگر آہستہ ٓاہستہ یہی نام اس کا علم کے طورپرمشہور ہو گیا۔
معلوم ہوتاہے یہودیوں میں یہ قبیلہ دیر تک طاقتور رہا ہے ۔چنانچہ تاریخوںسے پتہ لگتاہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی مدینہ منورہ میں بنو قریظ سنار اور لوہار کاہی کام کرتے تھے۔
آیت نمبر۹۵
ترجمہ:۔ ہارون نے کہا اے میری ماں کے بیٹے نہ میری داڑھی کے بال پکڑ او ر نہ میرے سر کے بال پکڑ میں تو اس بات سے ڈرگیاتھا کہ تو یہ نہ کہے کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ پیدا کردیا ہے اور میری بات کا خیال نہیں رکھا کہ قوم کی تنظیم قائم رہے ۔۴۹؎
۴۹؎ حل لغات :۔ ترقب رقب سے ہے او رقبہ کے معنے ہوتے ہیں اننظرہ ۔ اس کا انتظار کیا اور جب رقب الشی ء کہیںتو معنے ہونگے حرسہ اس کی نگہبانی کی ۔(اقرب)
۴۹؎ تفسیر:۔
اس جگہ حضرت ہارون ؑ نے حقیقی عذرپیش کیاہے اور بنایا ہے کہ میں نے ان لوگوں کوروکا تو تھا لیکن زیادہ سختی اس لئے نہیںکی کہ کہیں یہ مقابل پر کھڑے نہ ہوجائیںاور تویہ الزام نہ دے کہ قوم میں بغاوت پیدا کردی اورمیرے حکم کا انتظار نہ کیا ۔یا تو نے میرے اس حکم کاکہ امن رہے خیال نہیںرکھارقب کے دونوں معنے ہوتے ہیں رقب کے معنے انتظرکے بھی ہوتے ہیں او رقب کے معنے حرص کے بھی ہوتے ہیں چنانچہ کہتے ہیں اناارقب۔۔۔۔۔۔۔ آج رات میں تیری نگہبانی کرنگا پس حضرت ہارون ؑ کہتے ہیںکہ میں نے صرف اس خیال سے ان پرزیادہ سختی نہیں کی کہ مبادا آپ یہ کہہ دیں کہ تونے قوم میں تفرقہ پیدا کردیا اور میرے حکم کاانتظار نہیں کیا ۔یا تو نے میرے اس حکم کاکہ امن رکھاجائے خیال نہیںرکھا۔بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ سمجھتے ہیںکہ نبی کسی دوسرے نبی کامطیع نہیں ہو سکتاوہ صرف مطاع ہوتاہے ۔حالانکہ یہ تو درست ہے کہ نبی مطاع ہوتاہے مگر ان لوگوں کا جن کی طرف وہ مبعوث کیاجاتاہے ۔یہ نہیںکہ وہ اور کسی کامطیع نہیں ہوتا ۔اسطرح تو کہناپڑیگاکہ نعوذبااللہ ۔۔۔۔۔ نبی خداتعالیٰ کا بھی مطیع نہیںہو سکتا حالانکہ یہ بات بالہدایت باطل ہے انہی آیات کودیکھ لو ۔حضرت ہارونؑ اپنی قوم کو کہتے ہیں کہ فاتبعونی۔۔۔۔۔ تم میری اطاعت اختیار کرو اور میرے حکم کی نافرمانی مت کرو گویا انہوں نے اپنے آپ کو قوم کا مطاع قرار دیا ۔مگر دوسری طرف جب حضرت موسیٰ ؑ پہاڑ سے واپس تشریف لائے تو انہوںنے حضرت ہارون سے کہا کہ افعصیت۔۔۔۔ کیاتو نے میرے حکم کی نافرمانی کی ہے اس سے صاف معلوم کہ حضرت ہارون اپنی قوم کے تو مطاع تھے لیکن حضرت موسیٰ کے مطیع تھے اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ میں نے صرف اس خیال سے ان لوگوں پرزیادہ سختی نہیں کی کہیں آپ مجھے یہ الزام نہ دیں کہ میں نے آپ کے حکم کاانتظار نہ کیا ۔او ربنی اسرائیل میں تفرقہ پیدا کردیا ۔گویا وہ ہر اہم بات میں انکے حکم کے منتظر رہتے تھے اور اس بات کاخیا ل رکھتے تھے کہ کہیں موسیٰ کی اطاعت میں کوئی فرق نہ آجائے۔یہ بات بتاتی ہے کہ عوام الناس کایہ خیال کہ نبی کسی دوسرے نبی کا مطیع نہیںہوتاقرآن کریم کی رو سے بالکل غلط ہے۔
آیت نمبر۹۶‘۹۷
۵۰؎ ترجمہ:۔ اس پر موسیٰ سامری سے مخاطب ہوئے اور کہا ۔اے سامری تیراکیا معاملہ ہے اس نے کہا میںنے وہ کچھ دیکھا جو ان لوگوں نے نہیں دیکھا تھا ۔اور میں نے اس رسول (یعنی موسیٰ کی باتوں میںسے کچھ اختیار کرلیں اور کچھ اختیار نہ کیں ) پھر (جب موقعہ آیا تو ) میں نے ان ختیار کی ہوئی باتوںکو بھی پھینک دیا اور میرے دل نے یہی چیز مجھے اچھی کر کے دکھائی تھی ۔(موسیٰ نے ) کہا اچھا تو جا تیری اس دنیا میں یہی سزاہے کہ تو دنیا میں ہر ایک سے یہ کہتا رہے کہ مجھے چھو ئو نہیں یعنی مجھ کوموسیٰ نے گندہ قرار دے دیا ہے اور موسیٰ نے سامری سے یہ بھی کہا کہ تیرے لئے ایک وقت مقرر ہے یعنی سزا کا جس کو تو ٹلا نہیں سکے گا۔۵۰؎
۵۰؎ حل لغات:۔ اثر کے معنے حدیث کے ہیں یعنی بات (اقرب) اور لرسول میں الف لام معہود ذہنی کا ہے یعنی وہ رسول جس کو سب مخاطب لوگ بھی جانتے ہیںاور میں بھی جانتا ہوں یعنی موسیٰ ؑ ۔
۵۰؎ تفسیر:۔
اس آیت کایہ مطلب ہے کہ سامری نے کہا کہ اے موسیٰ تیری قوم تو بے وقوف تھی میںعقلمند تھا میں نے تیرے وہ حالات دیکھے جو تیری قوم نے نہیںدیکھے ۔یعنی وہ تو اندھادھند تجھے نبی مان رہی تھی میںنہیں مان رہا تھا ۔سو میں نے تیری باتوں میںسے کچھ اختیار کرلیں اور کچھ پر ایمان نہ لایا اور جن باتوں پر ایمان لایا وہ بھی اس لئے تاکہ تیری قوم دھوکا میںآکر مجھے اپنا لیڈر بنالے ۔ اس کے بعد جب میں نے مصلحت اس کے خلاف دیکھی اور تیرے پہاڑ پر جانے کے بعد تیری قوم کو میں نے ڈگمگاتے پایا تو وہ تعلیم جو پہلے میں نے اختیار کرلی تھی اسے میں نے پھینک دیااور جس طرح پہلے تجھ پر ایمان لانا میرے نفس نے پسند کیا تھا اب اس نے مجھے یہ صلاح دی کہ اسے چھوڑدوں کیونکہ جب میںنے دیکھاکہ تیری قوم شرک کی طرف جھکی ہوئی ہے تو ایک بچھڑابناکر ان کے آگے پیش کردیا تاکہ وہ مجھے اپنا لیڈر بنالیں ۔یہ سب باتیں سنکر حضرت موسیٰ ؑ نے کہاکہ تو نے قوم میںعزت حاصل کرنے کیلئے یہ طریق اختیار کیا تھا۔اب تیری سزایہی ہے کہ تجھے قوم میں ذلیل کیاجائے ۔پس جب تک تو زندہ رہے تیرافرض ہے کہ جب بھی بنی اسرائیل کے پاس سے گذرے تو کہتاجائے کہ مجھے کوئی نہ چھوئے کیونکہ موسیٰ نے مجھ سے تعلق رکھنے سے منع کردیاہے مگر یہ سزا بہر حال دنیوی ہے ۔تیرے لئے ایک اور سزا بھی مقرر ہے جو ضرور پوری ہوکر رہے گی۔ لوگ کہتے ہیںکہ اپنی قوم کے نظام کیلئے بھی کسی سے کلام کرنے کو روکنا جائز نہیں ۔تو سب سے پہلے مجرم حضرت موسیٰ ہیں جنہوں نے سامری کو حکم دے دیاکہ تو جب بھی بنی اسرائیل کے پاس سے گذرے تو یہ کہاکر کہ موسیٰ کے حکم کے مطابق میرے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھے ۔
حقیقت یہ ہے کہ قومی نظام کے مطابق قطع تعلقی ایمان کے مظاہرہ کا نام ہے ۔اور اسے مقاطعہ نہیں کہاجاسکتا اگر یہ مقاطعہ ہے تو چاہیے کہ ہر مسلمان اپنے بچوں کوپنڈتوں کے پاس پڑھنے کے لئے بھیجاکرے تاکہ وہ وید کی باتیں سیکھیں یا عیسائی پادریوں کے پاس بھیجا کرے تاکہ وہاں سے انجیل کی باتیں سیکھیں ۔سارے پاکستان اور مصر میں شور مچاہواہے کہ عیسائی سکولوں میں استادوں کو انجیل پڑھانے کی اجازت نہ ہو ۔ ورنہ ایسے سکولوں میںمسلمان بچوں کو داخل کرنے سے منع کردیا جائے ۔اگر جوش ایمان کے ماتحت ان لوگوں سے جوظاہر میں قوم کے ساتھ شامل ہوکر فریب کرتے ہیںکسی قوم کااپنی مرضی سے انقطاع کرنا ناجائز ہے تو پھر تو کوئی قوم اپنے ایمان کی حفاظت کرہی نہیں سکتی اگر کسی کے باپ کو کوئی گالی دیتاہے تو وہ اس سے کلام نہیںکرتا۔کیا اس کی نسبت کہاجاتاہے کہ وہ مقاطعہ کر رہا ہے ۔یا یہ کہاجاتاہے کہا وہ غیرت کاثبوت دیتاہے ۔اسی طرح اگر کو ئی شخص کسی گروہ میں شامل ہوکر اس گروہ کے عقاید کیخلاف آہستہ آہستہ اس کے نوجوانوں کو ورغلائے اور والدین اپنے بچوں کو اس سے ملنے سے روکیں تو یہ بھی بائیکاٹ نہیںغیرت ایمانی ہے ۔
آیت نمبر۹۸
ترجمہ :۔ اور تو اپنے معبود کی طرف دیکھ جس کے سامنے بیٹھ کر تو اس کی پرستش کیاکرتا تھا ۔ہم اس کو جلائینگے اور پھر اس کو سمندر میں پھنک دیںگے۔ ۵۱؎
۵۱؎ حل لغات :۔نسفہ کے معنے ہوتے ہیں عصہ اس کو کاٹا (اقرب)او ر نسف الشی ء کے معنی ہیں غربلہ (لسان لعرب )کسی چیز کو چھلنی سے چانا ۔پس لننسفنہ ۔۔۔کے معنے ہونگے ہم اس کو کاٹیں گے اور پھر اس کو چھلنی میںچھائیں گے ۔
۵۱؎ تفسیر:۔
حضرت موسیٰ ؑ نے سامری سے کہا کہ انقطاع تعلق کے علاوہ اس دنیامیں تجھے یہ روحانی سزابھی ملے گی کہ جس معبود کی تو پوجا کرتاتھا ہم اس کو جلادیں گے اور اس کی راکھ کودریا میں پھینک دیں گے تاکہ تجھ پر یہ بات کھل جائے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔
اس جگہ یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ بت توسونے کا تھا اس کو جلا کر اس کی راکھ سمندر میں پھینکنا ایک بے معنے بات ہے ۔سونا جل کر راکھ نہیںہوا کرتااور اگر کشتہ بناکر اس کو راکھ کی طرح بھی کردیتے ہیں تب بھی اس میں بہت سی دوائیں پڑتی ہیں اسی وجہ سے لوگ دو تین تولہ سونے کا کشتہ بناتے ہیں لیکن یہ سونا فرعون کے دارلخلافہ کے امراء کو سونا تھا اس کا کشتہ بنانا آسان کام نہیںتھا۔عیسائی جوکہ یہودیت کے قائم مقا م ہیںاور جن کی کتابوں میں ابتدا ء ً یہ باتیں درج ہیںوہی یہ اعتراض کرتے ہیںکہ قرآن کریم میںلغو قصے درج ہیں حالانکہ قرآن کریم نے ان کتابوں کا لکھاہوا واقعہ درج کیا ہے اور اس صورت میں درج کیا ہے کہ وہ معقول ہوگیا ہے ۔
اصل بات یہ ہے کہ آواز نکالنے کیلئے لکڑی کو استعمال کیا جاتاہے کیونکہ اس میں آسانی کے ساتھ انسانی گلے کے مشابہ پردے پیدا کئے جاسکتے ہیں۔جیسے مرلی میں۔پس قرآن نے صرف اس طرف اشارہ کیا ہے کہ بت میں سے اس نے کس طرح آواز پیدا کرلی یعنی اس کے منہ کی طرف سے اس نے کچھ لکڑی استعمال کی جس میں مرلی کی طرح کے پردے بنائے جب ہوا س میں سے نکلتی تو ٓاواز پیدا ہوتی جب بت کو آگ میں ڈالا گیا ۔تو سونا تو پگھلا مگر لکڑی جل کر راکھ ہوگئی جس راکھ کو بت سمیت اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا گیا ۔لیکن چونکہ نسف کے معنے کاٹنے کے بھی ہیں اور دھاتوں کو ریتی کے ساتھ رگڑ کر کاٹاجاتاہے اور اسی طرح نسف کے معنی چھلنی میں ڈال کر چھاننے کے بھی ہیںاس لئے اس آیت کایہ مفہوم بھی ہے کہ ہم پہلے تو اس بت کو ریتی کے ذریعہ سے رگڑ کر اس کو ریزہ ریزہ کردیں گے ۔پھر لکڑی کی راکھ سمیت اس کو چھلنی میں ڈالیںگے اور اس کے بعد راکھ اور باریک ذرات تو سمندر میں پھینک دیں گے اور سونے کے ریزے جو اب بت کی شکل میں نہیں رہے اور جن سے شرک پیدا نہیں ہوسکتاان کو قوی ضرورت کے لئے استعال کرلیںگے کیونکہ ہماری غرض صرف خدا کی واحدانیت ثابت کرنا ہے ۔
آیت نمبر۹۹
ترجمہ :۔ تمہار ا معبود تو صرف اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔وہ ہرایک چیز کوجانتاہے ۔ اسی طرح ہم تیرے سامنے پہلے لوگوں کی خبریں بیان کرتے ہیں ۔ اور ہم نے تجھے اپنے پاس سے ذکر یعنی قرآن عطافرمایا ہے ۔ ۵۲؎
۵۲؎ تفسیر:۔
اس آیت میںیہ دعوٰی کیا گیا ہے کہ اس واقعہ کی جو تفصیل ہم نے بیانکی ہے وہ صحیح ہے اور جوتفصیل اسرئیلی روایات میں آتی ہے وہ جھوٹی ہے کیونکہ قرآن کو خدا نے نازل کیا ہے اور خداتعالیٰ ہی ہرچیز کو جانتاہے ۔یہ واقعہ جس کا اوپر ذکر کیاگیا ہے مسلمان مفسرین نے اسرائیلی روایات کے مطابق یوں بیان کیاہے کہ الرسول سے مراد موسیٰ نہیںتھے بلکہ جبرائیل تھے ۔اور اثر سے مراد بات نہیںتھی جیسا کہ لغت میںلکھاہے بلکہ قدموں کے نشان تھے اور سامری نے یہ کہا تھا کہ جب جبرائیل ترے پاس آیاکرتاتھا تو تیری قوم کو تو وہ نظر نہیںآتا تھالیکن مجھے نظر آتا تھا ۔میں نے ایک دن جبرائیل کے پائوں تلے کی مٹی اٹھالی پھر جب بچھڑا بنایا تو سونا پگھلا کر اس میں وہ مٹی ڈال دی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بچھڑا بولنے لگ گیا۔
یہ قصہ بالہدایت باطل او رغلط ہے اول تو یہ کہ اگر یہ صحیح ہوتا تو اللہ تعالیٰ کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اس طرح ہم تجھے پرانی باتیںبتاتے ہیںاور تجھے اپنے پاس سے حقیقت کی تفصیل عطا کرتے ہیںپھرتو ساری کی ساری حقیقت پرانی کتابوں میں موجود تھی ۔ کسی ایسے دعوٰی کی ضرورت تھی دوسرے اس بات کے ماننے کیلئے ہمارے مفسریں جیسے سادہ لوح آدمی چاہئیں کہ موسیٰ کے اعلیٰ درجہ کے متبعین نے تو جبرائیل کو نہ دیکھا لیکن سامری جو کافرہی تھا اس نے دیکھ لیا ۔
پھر اس بات کوماننا بھی بڑی سادگی کی بات ہے کہ جبرائیل کے پائوں کی مٹی ڈالنے سے سونے کابچھڑا بولنے لگ گیا۔حالانکہ معمولی سنار بھی جانتے ہیں کہ اگر خول دار بت بنایا جائے اور اس کے منہ کی طرف ایک سوراخ کیاجائے اور اس میں مرلی کی طرح لکڑی کے پردے بنادئے جائیں اور ایک سوراخ اس کی پیٹھ کی طرف کیاجائے تو جب پیٹھ کی طرف سے ہوا آئیگی تو منہ میں سے آواز نکلے گی ۔جیساکہ مرلی اور سیٹیوں میں ہوتاہے ۔پس واقعہ وہی صحیح ہے جو ہم نے لکھا ہے اور قرآن کے الفاظ کے مطابق ہے مفسرین کو یہ غلطی لگی ہے کہ ایک توانہوں نے اسرئیلی روایتوں کو سچ سمجھ لیا ۔دوسرے انہوں نے لغت پر غور نہیں کیا ۔اگر وہ لغت پرغور کرتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ اثر کے معنے بات کے بھی ہیں اور الرسول کے معنے لغت کے مطابق معلوم رسول کے بھی ہیںنہ کہ جبرائیل کے ۔
آیت نمبر۱۰۰‘۱۰۱‘۱۰۲‘۱۰۳
ترجمہ :۔ جو اس سے منہ پھیرے گا وہ قیامت کے دن ایک بہت بڑابوجھ اٹھائے گا ایسے لوگ اس حالت میںبڑی دیر تک رہیںگے اور قیامت کے دن یہ بوجھ اور بھی تکلیف دہ ہوگا ۔جس دن کہ بگل میں پھونکا جائیگا اور اس دن مجرموں کو ہم اس حالت میںاٹھائیںگے کہ ان کی آنکھیںنیلی ہونگی وہ آپس میںآہستہ آہستہ باتیں کرینگے کہ تم توصرف دس صدیاں اس دنیا میںحاکم رہے ہو ۔ ۵۳؎
۵۳؎ تفسیر:۔
یوم القیامۃ قرآن و حدیث سے دوثابت ہوتے ہیں ایک مرنے کا دن جس کے متعلق حدیث میںآتا ہے کہ من مات۔۔۔۔ یعنی جوشخص مرگیااسکی قیامت کادن آگیا اور ایک قیامت کادن وہ ہوگا جس دن سب اگلے پچھلے لوگ زندہ کرکے اٹھائے جائٰنگے ۔اس آیت میںجوپہلا یوم القیامۃ آیاہے اس سے مراد انسانی موت کادن ہے اور جودوسرا یوم القیامۃ آیا ہے اس سے مراد تمام قوموںکے زندہ ہوکر اٹھائے جانے کادن ہے جب مشرکین کے انجام کا ساری قوموںکو پتہ لگ جائے گا اور سب قومیںشرک سے نفرت کرنے لگ جائینگی ۔
یہ موجود ہ زمانہ کے متعلق خبر ہے کہ اس میں ہر مشرک قوم دعویٰ کرنے لگ گئی ہے کہ درحقیقت وہ موحد ہے ۔کیا ہندو اور کیا عیسائی سب کہنے لگ گئے ہیں کہ ہم تو ایک خداکو مانتے ہیں۔ہمارے متعلق لوگوں کو غلط فہمی ہوگئی ہے ۔ فرماتا ہے یہ پیشگوئی اس وقت پوری ہوگی جب تمام اقوام میںبیداری پیدا ہو جائے گئی ۔اور مشر ک لوگ خصوصیت کے ساتھ نیلی آنکھوں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں گے مطلب یہ کہ اس دن شرک زیادہ تر نیلی آنکھوں والی قوموں میں ہوگا یعنی یوروپین اور امریکن لوگوں میں سے اور گو وہ پہلے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں یہ سمجھتے ہونگے کہ ہم ہمیشہ دنیا پر حکومت کریںگے لیکن اس دن ان میں یہ کانا پھوسی شروع ہوجائیگی کہ تمہاری عمر تو صرف دس تھی یعنی دس صدیاں مراد یہ ہے کہ تمہاری ترقی کا زمانہ صرف ایک ہزار سال تھا۔تم اسی پر اتراگئے اور خداتعالیٰ کی توحید کو بھول گئے۔
آیت نمبر۱۰۵
ترجمہ :۔ ہم خوب جانتے ہیں اس کو جو وہ کہیں گے جب ان میںسے سب سے زیادہ ان کے مذہب پر چلنے والا کہے گا۔ کہ تم ایک تھوڑی سی مدت ٹھہرے ہو ۔ ۵۴؎
۵۴؎ تفسیر:۔
فرماتاہے نحن ۔۔۔۔ ہم ان کی باتوں کوخوب جانتے ہیںجس وقت ا ن میںسے سب سے بڑالیڈر یہ کہے گا کہ اگر حقیقت دیکھی جائے تو تم نے بہت تھوڑا عرصہ اس دنیا میںبادشاہت کی ہے ۔
لفظی طور پر تو اس آیت میں یہ کہاگیا ہے کہ تم نے ایک دن بادشاہت کی ہے لیکن یوم کے معنے چونکہ عربی زبان میں وقت کے بھی ہوتے ہیں اور یوم کے متعلق قرآن کریم میں آتاہے کہ اللہ تعا لیٰ کا ایک دن ہزار سال کا ہوتاہے جیسا کہ وہ فرماتاہے ان یوم عنہ۔۔۔۔۔ خدا کا ایک دن ہزار سال کا ہوتاہے اور اس سے پہلے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم ’’دس ‘‘رہے ہو اور دس سے مراد دس صدیاں بھی ہوسکتی ہیںجو ہزار سال کے برابر بنتی ہیں اس لئے الیوماًکے بھی دو معنی ہو سکتے ہیںکہ تم ’’یوم‘‘ خداوندی رہے ہو یعنی دس صدیاں اور یہ بھی کہ جب آخر میں سزا مل گئی تو عیش کا زمانہ بہت چھوٹاہوگیا ۔اور یہی کہنا ٹھیک ہے کہ تم نے بہت تھوڑی دیر دنیا میں ترقی حاصل کی اور آکر میں تم کو ہلاک کر دیا گیا۔
آیت نمبر۱۰۶‘۱۰۷‘۱۰۸‘۱۰۹‘۱۱۰
ترجمہ :۔اور وہ تجھ سے پہاڑوں کے متعلق پوچھتے ہیں تو کہہ دے کہ ان کو میرارب اکھاڑ کر پھینک دیگا ۔اور ان کو ایک ایسے چٹیل میدانکی صورت میںچھوڑدے گا کہ نہ تو تو اس میں کوئی موڑ دیکھے گا اور نہ کوئی اونچائی اس دن لوگ پکارنے والے کے پیچھے چل پڑیں گے جس کی تعلیم میںکوئی کجی نہ ہوگی او ر رحمن خدا کی آواز کے مقابلہ میں انسانوں کی آواز یں دب جائیں گی ۔پس تو سوائے کھسر پسر کے کچھ نہ سنیگا اس دن شفاعت سواء اس کے جس کے حق میں شفاعت کرنے کی اجازت رحمن خدادے گا اور جس کے حق میں بات کہنے کو وہ پسند کرے گا کسی کو نفع نہ دے گی ۔۵۵؎
۵۵؎ حل لغات :۔ ینسف نسف سے مضارع کاصیغہ ہے اور نسف کے معنے ہوتے ہیںاقتلعہ جڑھ سے اکھیڑ دیا ۔چنانچہ کہتے ہیں نسف الریح الشی ئّ یعنی ہوانے چیزوں کو جڑسے اکھیڑدیا (اقرب)
الجبل کے معنے ہوتے ہیں کل وتد الرض عظم وطال ۔پہاڑ سید القوم وحالمھم ۔ قوم کاسردار اور عالم (اقرب) المت کے معنے ہیں المکانالمرتع بلند مکان (اقرب) حمد کے معنے ہیںالصوت الخفی ۔بالکل نیچی آواز (اقرب)
۵۵؎ تفسیر:۔
اس آیت میں اس طرف اشارہ کیا گیاہے کہ جبنیلی آنکھوں والے یعنی یوروپین لوگ یہ پیشگوئی پڑھیں گے تو کہیں گے کہ قرآن تو یہ کہتاہے کہ عیسائی حکومتیں تباہ ہوجائیں گی ۔لیکن اگر یہ صحیح ہے تو ہمارے ڈیوک اور ایمپرر او کنگ کہاں جائیںگے ؟ اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس تباہی کے آنے سے پہلے ہی ان کو ختم کر دیا جائے گا ۔اور تمام ملکوں میں ڈیماکرسی قائم ہوجائے گی اور اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ آہستہ آہستہ لوگ قرآن لانے والے کی آواز سننے لگ جائیںگے جس کی تعلیم میں کوئی کبھی نہیں ۔او رحمن خدا کی آواز بلند ہونے لگ جائے گی اور شرک کی آواز دھیمی پڑنے لگ جائے گی اور یا تو ترقی کے لیئے عیسائی ہونا بڑی سفارش سمجھا جاتاتھا اور یا اس زمانہ میں ترقی کے لئے مسلمان ہونا سفارش سمجھا جائے گا ۔
مسلمان ہونے کانتیجہ ہم نے اس بات سے نکالا ہے کہ اس آیت میںکہا گیا ہے کہ شفاعت اسی کوفائدہ دیگی جس کے لئے رحمن خدا اجازت دے گا ۔اور جس کے متعلق بات کہنے پروہ راضی ہوگا اور قرآن کریم میں مسلمانوں کے متعلق آتاہے کہ ’’رضی اللہ عنھم ورضو عنہ ‘‘
(مجادلہ ع)
کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا اوروہ اللہ سے راضی ہو گئے ۔پس رضی لہ قولاً میں مسلمانوں کاذکر ہے کہ اس وقت مسلمان ہونا ہی ترقی کا سب سے بڑا معیار سمجھا جائیگا ۔
آیت نمبر۱۱۱
ترجمہ :۔وہ جو کچھ انکے آگے آنے والا ہے اس کو بھی جانتاہے اور جوکچھ ان کے پیچھے گذر چکا ہے اسکو بھی جانتاہے اور وہ اپنے علم کے ذریعہ سے اس یعنی خدکا احاطہ نہیںکرسکتے ۔۵۶؎
۵۶؎ تفسیر :۔
اس جگہ دعوٰی کی گیا ہے کہ یہ پیشگوئی ضرور پوری ہوکر رہے گی کیونکہ یہ خدائے علیم کی طرف سے ہے ۔
آیت نمبر۱۱۲
ترجمہ :۔ اور اس دن زندہ اور قائم رکھنے والے خدا کے سامنے سب بڑے لوگ ادب سے جھک جائیںگے ۔اور جوظلم کریگا وہ ناکام رہیگا۔ ۵۷؎
۵۷؎حل لغات :۔ وجہ کے معنے ہوتے ہیں سیدالقوم ۔قوم کا سردار (اقرب) القیوم کے معنے ہوتے ہیں اقائم الحافظ لکل شی ۔۔۔۔(مفردات ) یعنی ایسا وجود جو خود قائم ہے اور دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے ۔(مفردات)
۵۷؎ تفسیر :۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آخر وہ وقت آجائیگا جبکہ سب بڑے بڑے لوگ اور قومیں اور حکومتیں خداتعالیٰ کے سچے دین کے سامنے جھک جائیں گی اور اسلام میں داخل ہوجائیگی ۔
آیت نمبر۱۱۳
ترجمہ اور جس نے وقت کی ضرورت کے مطابق عمل کئے ہونگے اور وہ مومن بھی ہوگا وہ نہ تو کسی قسم کے ظلم سے ڈریگا اور نہ کسی قسم کی حق تلفی سے ۵۸؎
۵۸؎ حل لغات :۔ھضم ھضم کا مصدر ہے ۔فلانا کے معنے ہوتے ہیں ظلمہ ۔۔۔ اس پر ظلم کیا اور اسکی اشیا ء اور جائیداد پرقبضہ کرلیا ۔
تفسیر:۔
فرماتاہے ۔اس زمانہ کے آنے سے پہلے وہ زمانہ تھاکہ مسلمان ظلم اور حق تلفی سے ڈرتے تھے مگر پھر وہ زمانہ آجائے گا جبکہ خود عیسائی بھی مسلمان ہوجائینگے اور مسلمان ظلم اور حق تلفی سے محفوظ ہوجائیںگے ۔
آیت نمبر۱۱۴
ترجمہ :۔ اور اسی طرح ہم نے اس کتاب کوعربی زبان کے قرآن کی صورت میںاتاراہے اوراس میںہرقسم کے انذار کو کھول کھول کر بیان کیاہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں یا یہ قرآ ن ان کے لئے خدا کی یاد کاسامان نئے سرے سے پیدا کرے ۔۵۹؎
۵۹؎ تفسیر :۔
عیسائیوں کے اسلام لانیکی یہ ترکیب کی گئی ہے کہ قرآ ن کو ایسی زبان میں نازل کیا گیا ہے کہ ہر غیر متعصب اس کو سمجھ سکتاہے پس جب عیسائیوں کی آنکھیں کھل جائیںگی تو وہ اس کو ماننے لگ جائیںگے ۔اور جو ضدی ہونگے وہ اگر عقل سے نہیںمانیںگے تو عذابوں سے گھبراکر مان لیں گے ۔یا قسم قسم کے عذابوں سے تباہ کردیئے جائٰنگے ۔اور قرآن کریم خداکی یاد پید اکرنے کے لئے نئے نئے مضامیں عیسائیوں کے سامنے رکھے گا جو ان کی ہدایت کا موجب ہونگے ۔اور ان کے دلوں مین نیکی کا مادہ پیدا کر دینگے۔
اس آیت میں قرآن کالفظ استعمال فرما کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ کتاب کثرت سے پڑھی جائیگی اور عربیا ً کہہ کر یہ بتایاہے کہ اس کے مفہوم کا سمجھنا بھی آسان ہوگا کیونکہ یہ ہر بات دلیل کے ساتھ بیان کرے گی ۔
آیت نمبر۱۱۵‘۱۱۶
ترجمہ :۔ پس اللہ تعالیٰ جو بادشاہ ہے بڑی شان والا ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والاہے اور تو قرآن کی وحی اترنے سے پہلے اسکے بارے میںجلدی سے کام نہ لے اور ’’مجملاً‘‘ یہ کہتا رہ کہ اے میرے رب میرے علم کو بڑھا اورہم نے اس سے پہلے آدم کو ایک امر کی تاکید کی تھی مگر وہ بھول گیا ۔اورہم نے خوب جانچ لیا کہ اس کے دل میں ہمارا حکم توڑنے کے متعلق کوئی پختہ ارادہ نہیںتھا۔ ۶۰؎
۶۰؎ تفسیر:۔
اس آیت میں بتایاگیاہے کہاللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ا نسان بہت سے امور میں اپنی عقل استعمال کرے لیکن وہ شخص جو اس حکمت کو نہیں سمجھتا وہ چاہتاہے کہ جھٹ خدا کی وحی نازل ہو کر تمام تفصیلات بیان کردے اور مجھے سوچنا نہ پڑے ۔فرماتاہے یہ ٹھیک نہیںوحی جب مکمل ہو جائیگی تو جتنی ضروری باتیں ہیں اس میں بیان ہوجائیں گی ۔اور جن باتوں کے متعلق خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان خود سوچ کر فیصلہ کرے وہ اس میںبیان نہیں ہونگی ان باتوں کے متعلق ہدایت حاصل کرنے کا طریق یہ ہے کہ انسان مجملا ً یہ دعا کرتارہے کہ الٰہی جن جن شخصی یاقومی کاموں کیلئے مجھے ہدایت کی ضرورت ہو تو میرے دل پر ان کے متعلق روشنی نازل کر دیا کر ۔تاکہ میں اور میر ی قوم گمراہ نہ ہو اور میرے علم کو ہمیشہ بڑھاتا رہ ۔
دنیا میں عام طور پریہ خیال کیا جاتاہے کہ بچپن سیکھنے کا زمانہ ہوتاہے جوانی عمل کا زمانہ ہوتاہے اور بڑاھاپا عقل کازمانہ ہوتا ہے۔
زمانہ ہوتاہے لیکن قرآن کریم کی رو سے ایک حقیقی مومن ان ساری چیزوںکو اپنے اندر جمع کرلیتاہے اس کا بڑھاپا اسے قوت عمل اور علم کی تحصیل سے محروم نہیں کرتا اس کی جوانی اس کی سوچ کو ناکارہ نہیں کردیتی بلکہ جس طرح بچپن میں جب وہ ذرابھی ہولنے کے قابل ہوتاہے ہر بات کو سن کر اس پر فوراً جرح شروع کردیتاہے اور پوچھتاہے کہ فلاں بات کیوں ہے اور کس لئے ہے ۔اور اس میںعلم سیکھنے کی خواہش انتہا درجہ کی موجود ہوتی ہے اسی طرح اس کا بڑھاپا بھی علوم سیکھنے میںلگارہتاہے اور وہ کبھی بھی اپنے آپ کوعلم کی تحصیل سے مستغنی نہیںسمجھتا ۔اس کی موٹی مثال ہمیں رسو ل کریم ﷺ کی مقدس ذات میںملتی ہے آپ کو پچپن چھپن سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ الہاما ً فرماتاہے کہ قل رب زدنی علما ً ۔یعنی اے محمد رسول اللہ ﷺ تیرے ساتھ ہمارا سلوک ایسا ہی ہے جیسے ماں کا اپنے بچہ کے ساتھ ہوتاہے اس لئے بڑی عمر میںجہاں دوسرے لوگ بے کار ہوجاتے ہیں اورزائد علوم اور معارف حاصل کرنیکی خواہش ان کے دلوں سے مٹ جاتی ہے اور ان کو یہ کہنے کی عادت ہو جاتی ہے کہ ایساہوا ہی کرتاہے تجھے ہماری ہدایت یہ ہے کہ تو ہمیشہ خداتعالیٰ سے دعا کرتا رہ کہ خدایا میرا علم اور بڑھا ۔میرا علم اور بڑھا ۔پس مومن اپنی زندگی کے کسی مرحلہ میں بھی علم سیکھنے سے غافل نہیں ہوتا بلکہ اس میں وہ ایک لذت اور سرور محسو س کرتاہے ۔ اس کے مقابلہ میںجب انسان پرایسا دور آجاتاہے جب وہ سمجھتاہے کہ میں نے جو کچھ سیکھنا تھاسیکھ لیا ہے اگر میں کسی امر کے متعلق سوال کروں گا تو لوگ کہیں گے کیسا جاہل ہے اسے ابھی تک فلاں بات کا بھی پتا نہیں۔ تو وہ علم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتاہے ۔دیکھ لو حضرت ابراہیم ؑ بڑی عمر کے آدمی تھے مگر پھر بھی کہتے ہیںرب ارنی ۔۔۔۔ دنیا کے لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ احیاء موتیٰ پر کبھی غور نہیںکرتے اور انسانی زندگی انہیں عجوبہ معلوم ہوتی ہے ۔ہزاروں سال سے زندگی کا دور چلاآرہا ہے مگر انہوںنے یہ کبھی نہیںسوچا کہ انسان کی زندگی کس طرح شروع ہوئی ہے ۔اس زمانہ میں صرف ڈارونؔ کی ایک مثال ہے جس کے دل میں یہ سوال پیدا ہوا کہ زندگی کس طرح ظاہر ہوئی ہے اور وہ کیا کیا مدارج ہیں جن میںسے انسان گذراہے اسکی تحقیق غلط تھی یا صحیح بہر حال اس کے دل میںخیال پیدا ہوا اور اس کے بعد ساری دنیا میںایک رو چل گئی کہ دیکھیں دنیا کس طرح پید اہوئی ہے ؟ اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ نے بھی اللہ تعالیٰ سے سوال کیاکہ رب ارنی کیف ۔۔۔۔ گویا وہی خیال جو دنیوی اور مادی لوگوں کے دلوں میں ڈارونؔ کے زمانہ میںپید اہو آج سے ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیم ؑ کے دل میں بھی پید اہو ااور انہوںنے کہا اے میر ے رب یہ بے جان مادہ کس طرح زندہ ہوجایا کرتاہے؟ڈارونؔ نے تو مادی احیاء کے متعلق جستجو کی تھی مگر حضرت ابراہیم ؑ کو مادی زندگی سے کوئی غرض نہیں تھی انہیںروح کی زندگی مطلوب تھی اور انہوں نے چاہا کہ میں اللہ تعالیٰ سے یہ پتہ لگائوں کہ ارواح کسی طرح زندہ ہوا کرتی ہیںجب حضرت ابراہیم ؑ نے یہ سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ ابراہیم تو تو پچاس ساٹھ سال کا ہوچکا ہے ۔اب یہ بچوں کی سی باتیں چھوڑ دے ۔ بلکہ اس نے بتایا کہ ارواح کس طرح زندہ ہوا کرتی ہیں ۔پس ہر عمر میںعلم سیکھنے کی تڑپ اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے ۔اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ الٰہی میراعلم بڑھا ۔کیونکہ جب تک انسانی قلب میںعلوم حاصل کرنے کی ہروقت پیاس نہ ہو اس وقت تک وہ کبھی ترقی حاصل نہیں کرسکتا۔پھر آدم کی مثال دیتاہے اور بتاتاہے کہ تم نسل آدم میں سے ہو ۔آدم تم سے بڑاتھا چھوٹانہ تھا ۔وہ تمہارا باپ تھا اور مامور من اللہ تھا ۔ اور اپنے دل میںخداتعالیٰ کی اطاعت کا جوش رکھتاتھا جب ہم نے زمانہ کی ضرورت کے مطابق اس پر احکام نازل کئے تو گو وہ دل سے خداتعالیٰ کی فرمانبرداری کا ارادہ کر چکا تھا مگر پھر بھی بعض باتوں کو وہ بھول گیایعنی ان کے بارہ میں اس سے غفلت ظاہر ہوئی تو تم جو ٓادم کے بیٹے ہو اور اس سے چھوٹے درجہ کے ہو کیوں ہر معاملہ میں خداتعالیٰ کے یقینی احکام مانگتے ہو ۔جو احکام آجائیںان پرعمل کرنے کی کوشش کرو ۔اور جو نہ آئیںان پر خود غور کرو اور خداتعالیٰ کی مدد مانگتے رہو ۔اور اس سے ہمیشہ یہ دعاکرتے رہو کہ یا اللہ جو سچاعلم ہے اور ہمارے لئے مفید ہے وہ ہم کو عطا کر تاکہ ہم اس کی روشنی میں ہدایت کے راستہ پرگامزن ہو سکیں۔
اس آیت میں لم نجد۔۔۔۔۔۔کے الفاظ بتاتے ہیںکہ آدم سے صرف ایک اجتہادی غلطی ہوئی تھی جس میں اس کے عزم اور ارادہ کا کوئی دخل نہیں تھا ۔چنانچہ قرآن کریم نے سورئہ اعراف میںبتایا ہے کہ جب شیطان اخلاص کاجبہ پہن کر آدم کے پاس گیا تو قاسمھماانی۔۔۔۔۔۔ وہ آدم اور اسکے ساتھیوںکے سامنے قسمیں کھاکھا کر کہنے لگا کہ میںتو آپ لوگوں کا بڑاخیر خواہ ہوں ۔گویا ظاہری مخالفت کو چھوڑ کر وہ منافقانہ رنگ میں آدم کی جماعت کے ساتھ شامل ہوگیا ۔ اور اس نے اپنے اخلاص کاانہیںقسمیںکھا کھا کر یقین دلایا جیسا کہ سورئہ منافقون میں اللہ تعالیٰ نے منافقون کا یہی طرق بتایا ہے کہ وہ محمد رسو اللہ ﷺ کے پاس آتے اور قسمیںکھا کھا کر کہتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔خدتعالیٰ فرماتاہے کہ یہ درست تو ہے کہ تو اللہ کارسول ہے مگر خداتعالیٰ اس بات پر بھی گواہ ہے کہ یہ منافق اپنی قسموںمیں بالکل جھوٹے ہیں ۔اس لئے ان منافقوں سے ہمیشہ بچتے رہو ۔یہی طریق زمانہ آدم کے منافقین کے سردار نے تیا رکیا ۔اور آدم کو اپنے اخلاص اور فدائیت کا یقین دلایا اس پر آدم نے یہ اجتہاد کیا کہ گو یہ شخص پہلے ابلیسی روح اپنے اندر رکھتاتھا مگر اب تو یہ مخالفت کاراستہ ترک کر چکا ہے اس لئے اب اس سے تعلق رکھنے میںکوئی ہرج نہیں ۔
چنانچہ اس اجتہادی غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس حالت میں وہ رہتے تھے اس سے انہیںنکلناپڑا لم نجد ۔۔۔میں انکی اسی اجتہادی غلطی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ شیطان نے آدم کو بغیراس کے کہ اس کا اپناارادہ ہوتا پھسلا دیا۔
آیت نمبر۱۱۷
ترجمہ :۔ اور یہ بھی یاد کرو کہ جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم (کی پیدائش کے شکریہ میں) (خداکو ) سجدہ کرو ۔تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کردیا ۔اس نے انکار کیا۔ ۶۱؎
۶۱؎ تفسیر:۔
بعض لوگ سوال کیو ںکرتے ہیںکہ سجدہ کا حکم تو ملائکہ کو دیا گیا تھا۔اگر ابلیس نے سجدہ نہیںکیا تو اس کا قصور کیا ہوا ؟ اس سوال کا رسول کریم ﷺ کی ایک حدیث بالکل حل کردیتی ہے آپ فرماتے ہیں۔اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے سے محبت کرتاہے تو وہ جبریل کو کہتاہے کہ میں فلاں شخص سے محبت کرتاہوں تو بھی اس سے محبت کر ۔چنانچہ وہ اس سے محبت کرنے لگ جاتاہے ۔پھر جبریل آسمان والوں میں منادی کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فلاں بندے سے محبت کرتاہے تم بھی اس سے محبت کرو ۔اس پر تمام آسمان والے اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح ترقی کرتاچلا جاتاہے ۔یہاں تک کہ یوضع لہ۔۔۔۔۔۔ اس بندے کے لئے زمین میں بھی قبولیت پھیلادیجاتی ہے (بخاری جلد ۲ کتاب بدرالخلق باب ذک الملائکۃ) اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوبین سے محبت کرنے کا حکم فرشتوں کو دیتاہے اور پھر وہ اس حکم کو دنیا میںجاری کردیتاہے ۔ پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حکم فرشتوں سے مخصوص نہیں ہوتا بلکہ اہل زمین بھی اس میںشامل ہوتے ہیں ۔اس حکم کی طرف اس آیت میںاشارہ کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ سوائے ابلیس کے اور سب نے میرے حکم کی اطاعت کی اور وہ آدم کی تائید میں مشغول ہوگئے۔
اس تشریح سے قرآن کریم کی وہ آیت بھی حل ہوجاتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ ابلیس سے فرماتاہے کہ ۔ مامنعک۔۔۔۔۔۔ کہ باوجود اس کے کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا کہ تو آدم کی فرمانبرداری کر ۔پھر تجھے میرے اس حکم کی اطاعت سے کس چیز نے روکا ؟ اس جگہ بھی امرلمہء ملکی کا ہی نام رکھا گیا ہے ۔ورنہ یہ مراد نہیں کہ ابلیس کو کوئی علیحدہ حکم دیا گیا تھا۔
آیت نمبر۱۱۸‘۱۱۹‘۱۲۰‘۱۲۱‘۱۲۲‘۱۲۳
ترجمہ :۔ اس پر ہم نے آدم سے کہا ۔اے آدم یہ ابلیس یقینا تیرا اور تیرے ساتھیوں کا دشمن ہے پس تم دونوں گروہوںکو یہ جنت سے نہ نکال دے کہ اسکے نتیجہ میں تو اور تیرا ہر ساتھی مصیبت میں پڑجائے ۔یقینا اس جنت میں تیرے لئے یہ مقدر ہے کہ تو بھوکا نہ رہے اور نہ تیرے ساتھی اور تو ننگانہ رہے اور نہ تو پیاسارہے ۔اور نہ دھوپ میں جلے اسپر شیطان نے اس کے دل میں وسوسہ ڈالا اور کہا اے آدم کیا میں تجھے ایک ایسے درخت کا پتہ دوں جو سدا بہار ہے ۔اور ایسی بادشاہی کاپتہ دوں جو کبھی فنا نہ ہوگی ۔پس ان دونوں نے یعنی آدم اور اس کے ساتھیوں نے اس درخت میں سے کچھ کھایا یعنی اس کا مزہ چکھا جس پر ان دونوں کی کمزوریاں ان پرکھل گئیں اور وہ دونوں اپنے اوپر جنت کی زینت کے سامان یعنی اعمال نیک لپیٹنے لگ گئے ۔او رآدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس وہ صحیح راستہ سے بھٹک گیا۔ اس کے بعد اس کے رب نے اس کو چن لیا او راسپر رحم کی نظر ڈالی اور اسے صحیح طریق کار بتایا ۔ ۶۲؎
۶۲؎ تفسیر:۔
ان آیات میںاللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ ہم نے آدم کو جنت میں رکھاتو شیطان ان کا مد مقابل بن کر کھڑاہوگیا اس پر اللہ تعالیٰ نے آدم سے فرمایا کہ اے آدم یہ تیر ا بھی دشمن ہے اور تیری بیوی یاتیرے ساتھیوں کا بھی دشمن ہے ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکال دے او رتم تکلیف میںمبتلاہوجائو ۔تیرے لئے خداتعالیٰ کا یہی فیصلہ ہے کہ تو اس جنت میںنہ بھوکا رہے نہ ننگا نہ پیاسا رہے اور نہ گرمی کی تکلیف تجھے ستائے ۔اگر تو نے اسکی بات مانی تو یہ جنتی گھر جو مومن کے لئے مقرر ہے اس میں سے وہ تجھے نکال دے گا ۔یعنی اس کی بات ماننے سے تو جنت سے محروم رہ جائیگا ۔اس کے یہ معنے نہیںکہ وہ اس وقت اس جنت میں تھے جس کا موت کے بعد مومنوں سے وعدہ کیاگیا ہے ۔چنانچہ اگلی آیات اس امر کو بالکل واضح کردیتی ہیں۔کیونکہ شیطان بھی آدم سے جنت کاوعدہ کرتاہے ۔اگر وہ اس وقت جنت میںتھے تو اس وعدہ سے دھوکا کیونکر کھا سکتے تھے ؟ صاف ظاہر ہے کہ شیطان کے قول سے انہوں نے یہی دھوکاکھایا کہ یہ ہمارے مقصد میں ممد ہے ۔پس اس جگہ جنت سے اخروی جنت مراد نہیںبلکہ دنیوی جنت مراد ہے ۔اور یہ جو بعض دوسرے مقامات پر آتاہے کہ انہیںجنت میںرکھاگیا تو درحقیقت اس سے مراد بھی دنیوی جنت ہے جو اخروی جنت کا پیش خیمہ ہوتاہے اور جس کے ملے بغیر انسان کو اخروی جنت بھی نہیںمل سکتی بہرحال جب اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ۔کہ شیطان تمہارا دشمن ہے تو شیطان نے اپنا بھیس بدلااور اس نے آدم کے پاس آکرکہا۔کہ کیا میںآپ کو ایک ایسے درخت کا پتہ دوں جس کا پھل کھانے سے آپ کودائمی حیات مل سکتی ہے اور ایسی حکومت کاآپ کو پتہ دوں جو کبھی تباہ نہیںہوگی ۔ جب اس طرح کی چکنی چپڑی باتیںاس نے کیں توآدم کو دھوکا لگ گیا۔اور انہوں نے اور ان کی جامعت نے یاآدم اور اس کی بیوی نے اس درخت کا پھل کھالیا جس کے قریب جانے سے اللہ تعالیٰ نے انہیں روکا تھا ۔ اور چونکہ آدم کا یہ فعل خدائی منشاء کے خلاف تھا ۔اس لئے یکدم اس فعل کے برے نتائج ظاہر ہونے شروع ہوگئے اور آدم کی آنکھیںکھل گئیںکہ اسنے خدائی منشاء کی خلاف ورزی کر کے سخت غلطی کا ارتکاب کیاہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے فبدت ۔۔۔۔ درخت کا پھل کھانے سے انکا ننگ ظاہر ہونا شروع ہوگیا اور اس فعل کے برے نتائج ان پر روشن ہوگئے اور انہوں نے سمجھا کہ ہم ایک عیب کے مرتکب ہوئے ہیںجب آدم کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوا تو طفقا۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اس غلطی کے ازالہ کے لئے جنت کے پتوں سے اپنے آپ کوڈھانکنا شروع کردیا ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ آدم نے خداکے حکم کی نافرمانی کی تھی جس سے وہ تکلیف میںمبتلا ہوا ۔مگر پھرخدانے اسے بزرگی دی ۔اور جب اس نے ورق الجنۃ سے اپنے آپکوڈھانکناشروع کردیا تو خداتعالیٰ نے اسے وہ راستہ دکھادیا جو اسے اور اس کی جماعت کو کامیابی کی منزل کی طرف لے جانے والا تھا۔عربی زبان میںورق کے معنے زینت کے بھی ہوتے ہیں۔اور ورق کے معنے نسل کے بھی ہوتے ہیں۔چنانچہ لغت میںلکھاہے الورق ۔۔۔۔۔اینی دنیا کی خوبصورتی اور اس کی رونق کوورق کہتے ہیں۔اسی طرح عربی زبان کا محاورہ ہے انت طیب الورق ۔۔۔اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ تو طیعب النسل ہے ان دونوں محاوروں کے لحاظ سے طفقا ۔۔۔کے یہ معنے ہوئے کہ آدم نے جنت کی زیتت اور اس کے جمال سے اپنے آپ کو ڈھانکناشروع کردیا ۔اور یہ ظاہر ہے کہ جنت کا جمال اس کے مومن اور پاکباز ساکن ہوتے ہیں اسی طرح دوسرے معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کا یہ مطلب ہوا کہ آدم نے ایک پاکیزہ نسل کے ذریعہ شیطانی فریب کاازالہ کرنا شروع کر دیا اور وہ کامیاب ہوگیا۔
بائبل نے اس واقعہ کو ان الفاظ میںبیان کیاہے :۔
’’ سانپ کل دشتی جانوروںمیںسے جن کو خداوند خدانے بنایا تھا چالاک تھا اور اس نے عورت سے کہا ۔کیا واقعی خدانے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا ۔ عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیںپر جودرخت باغ کے بیچ میں ہے اس کے پھل کی بابت خدانے کہاہے کہ تم نہ تو اسے کھانااور نہ چھونا ۔ورنہ مرجائو گے تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خداجانتاہے کہ جس دن تم اسے کھائو گئے ۔تمہاری آنکھیں کھل جائینگی اور تم خداکی مانند نیک وبد کے جاننے والے بن جائو گے ،۔عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتاہے ۔اور عقل بخشنے کے لئے خوب ہے تو اس کے پھل میںسے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا ۔اور اسنے کھایا تب دونوں کی آنکھیںکھل گئیں اور انکو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیںاور انہوں نے انجیرکے پتوں کوسی کر اپنے لئے لنگیاں بنائیں ۔ ‘‘ (پیدائش باب ۳ آیت ۱تا۷ )
اس جگہ بائبل نے ورق الجنۃ کی بجائے انجیر کے پتوں کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے انجیر کے پتے سی کر اپنے لئے لنگیاں بنائیں ۔اب ہم دیکھتے ہیںکہ کیا انجیر اور ورق الجنۃ دو مختلف چیزیں ہیں یا ایک ہی چیز کے دو مختلف نام ہیں اس غرض کیلئے ہم علم تعبیر الرئویا کو دیکھتے ہیںتو ہمیں تعطی الانام میںیہ لکھاہوا نظر آتاہے کہ التین ۔۔۔۔ یعنی جب کوئی شخص رئویا یا کشف کی حالت میںانجیر دیکھے تو اس کے معنے صالح اور نیک لوگوں کے ہوتے ہیں ۔اوریہی ورق الجنۃ کے معنے ہیں کیونکہ ورق پاکیزہ نسل کو کہتے ہیںاور ورق الجنۃ کے معنے تھے جنت کی پاکیزہ نسل ۔پس قرآن اور بائبل میں اس بارہ میںکوئی اختلاف نہ رہا ۔دونوں اس امرپر متفق ہیںکہ شیطان جب آدم کو دھوکا دے چکا توآدم نے اپنی غلطی کااحساس کرتے ہوئے مومنوںکی جماعت کو اپنے ساتھ ملاکر شیطانی تدابیر کو ناکام کردیا ۔شیطان نے چاہا تھا کہ اس ذریعہ سے وہ آدم کو شکست دیدے مگر بجائے اس کے کہ آدم کا یہ فعل ان کے لئے کسی مستقل نقصان یاخرابی کاباعث بنتاان کے اندر ایک نئی بیداری پیدا ہوگئی اور انہوں نے مومنوں کی پاکیزہ جماعت کو اپنے ساتھ ملاکر شیطان کے پھیلائے ہوئے فتنہ کو کچل کر رکھ دیا ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ثم ۔۔۔۔۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم کو چن لیا اور اس پررحم کی نظر ڈالی اور اسے صحیح طریقہ کار بتادیا اور اسنے شیطان کی تمام تدابیر کو خاک میں ملادیا۔
لوگوں نے غلطی سے قرآن کریم کی آیت انّ لک۔۔۔۔۔ کے یہ معنے لئے ہیںکہ آدم ایسے مقام پررکھاگیا تھا جہاں نہ اسے بھوک ہی لگتی تھی نہ پیاس ۔حالانکہ اگر انہیں بھوک ہی نہیں لگتی تھی تو وکلامنھا۔۔۔۔۔۔ کے کیامعنے ہوئے ؟ جب خدا نے انکی بھوک ہی اڑادی تھی تو اس کے بعد یہ کہنا اب خوب کھائو پیو عقل کے بالکل خلاف ہے ۔پس کلا کے لفظ نے بتادیا کہ انہیںبھوک اور پیاس لگی تھی مگر پھرسوال پید اہوتاہے کہ اس آیت کے کیامعنے ہوئے ؟ سو یادرکھنا چاہیے کہ پہلا دور انسانی جو آدم کے ذریعہ قائم ہوا وہ صرف تمدنی ترقی تک محدود تھا اللہ تعالیٰ نے اس وقت کی معلومہ دنیا میںحضرت آدم ؑ کے ذریعہ سے ایک تمدنی حکومت قائم کی اور اسد حکومت کی غرض یہ بتائی کہ ( ۱) ۔ ایک دوسرے کی کھانے کے معاملہ میں مدد کی جائے گی (۲)۔ ایک دوسرے کی پینے کے معاملہ میں مدد کی جائیگی۔(۳)۔ ایک دوسرے کی عریانی کو دور کرنیکے معاملہ میں مدد کی جائے گی ( ۴ )۔ایک دوسرے کی رہائش کے معاملہ میں مددکی جائے گی ۔گویا کھانا ۔پانی ۔کپڑا اورمکان یہ چار چیزیں انہیں اس تعاونی حکومت میں حاصل ہونگی ۔پس ان لک۔۔۔۔۔ میں اللہ تعالیٰ نے دور تمدن کے حکومتی نظام کا ڈھانچہ بیان کردیا اور بتایا کہ اے آدم اگر لوگ اعتراض کریں ۔تو تو انہیںکہ دے کہ اس حکومت کا پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ تم بھو کے نہیں رہو گے گویا تمہاری خوراک کی حکومت ذمہ دار ہوگی ۔دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ تم ننگے نہیںپھرو گے کیونکہ تمہارے کپڑوں کی بھی حکومت ذمہ دار ہوگی ۔تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ تم پیاسے نہیں رہو گے کیونکہ تمہیںپانی مہیا کرنے کی بھی حکومت ذمہ دار ہو گی اور چوتھا فائدہ یہ ہوگا کہ تم بے گھر بھی نہیں رہو گے کیونکہ تمہارے لئے مکانات مہیا کرنے کی بھی حکومت ذمہ دار ہوگی ۔غر ض اس آیت میں اس نئے نظام کی تفصیل بیان کی گئی ہے جو حضرت آدم ؑ کے ذریعہ قائم کیا گیا ۔ اور لوگوں کو بتایا گیا کہ اگر اس نئے نظام کے ماتحت تم رہو گے تو تمہیںیہ یہ سہولتیں حاصل ہونگی ۔
آیت نمبر۱۲۴
ترجمہ:۔ (اور خداتعالیٰ نے ) کہا تم دونوں گروہ اس میںسے سارے کے سارے نکل جائو تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوںگے ۔پس اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے ۔ تو جو میری ہدایت کی اتباع کرے گا و ہ کبھی گمراہ نہ ہوگا اور نہ کبھی ہلاکت میں پڑیگا۔ ۶۳؎
۶۳؎ حل لغات :۔ ھبط الواری کے معنے ہوتے ہیں نزلہ اس وادی میںاترا او ھبط مین ۔۔۔۔۔کے معنے ہوتے ہیں انتقل ۔ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا گیا (کلبات ابولبقاء )پس اھبطاکے معنے ہونگے تم دونوں یہاں سے چلے جائو ۔
۶۳؎ تفسیر:۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ہم نے کہا ۔تم دونوں یہاں سے چلے جائو تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہونگے اس جگہ دونو ں سے آدم اور حوا مراد نہیں ۔کیونکہ اس صورت میںآیت کے یہ معنے بنیں گے کہ آدم اور حوا آپس میں دشمن رہیںگے اور یہ بات بالہدایت باطل ہے دونوں سے مراد درحقیقت دو گروہ ہیں یعنی ایک وہ گروہ جو آدم کے ساتھ تعلق رکھنے والا تھا اور ایک وہ گروہ جو شیطان کے ساتھ تعلق رکھنے والا تھا ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اے آدم اور شیطان سے تعلق رکھنے والے گروہ تم دونو ں اس جگہ سے چلے جائو ۔اب تم دونوں گروہ آپس میںہمیشہ دشمن رہو گے ۔چنانچہ اس کی ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اھبطا کے ساتھ جمیعاً کا لفظ بھی آتا ہے حالانکہ وہ کیلئے عربی زبان میںجمیعاً کبھی نہ آتا ۔یہ جمیعاً کا لفظ اسی لئے بڑھایا گیا ہے کہ آدم کے بھی کئی ساتھی تھے اور شیطان کے بھی کئے ساتھی تھے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ تم سب اس جگہ سے چلے جائو اسی طرح بعضکم ۔۔۔۔ میں بھی کم کا لفظ جو تین یاتین سے زیادہ افراد کے لئے بولا جاتاہے بتارہا ہے کہ جن کو نکلنے کا حکم دیا گیا تھا وہ ایک جماعت تھی نہ کہ دوافراد ۔
آیت نمبر۱۲۵‘۱۲۶‘۱۲۷‘۱۲۸
ترجمہ :۔ اور جوشخص میرے یاد دلانے کے باوجود اعراض سے کام لے گا اسے تکلیف والی زندگی ملے گی ۔ اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے ۔جس پر وہ کہے گا ۔اے میرے رب تو نے مجھے کیوں اندھا اٹھایا ؟ حالانکہ میں تو خوب دیکھ سکتاتھا۔اس پر خداتعالیٰ فرمائے گا تیرے پاس بھی تو ہماری آیا ت آئی تھیں جس کو تو نے بھلا دیا تھا سو آج تجھ کو بھی خداکی رحمت کی تقسیم کے وقت ترک کردیا جائیگا ۔اورجو خدائی قانون سے باہرچلا جاتاہے اور اپنے رب کی آیات پر ایمان نہیں لاتا اسکے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے اور یہ تو دنیوی سلوک ہے آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ سخت اور بہت مدت تک جانیوالا ہے ۶۴؎
۶۴؎ حل لغات :۔ الضنک۔۔۔ یعنی ضنک تنگی کو کہتے ہیں(اوب) پس معیشۃ ضنکا کے معنے ہونگے تنگ زندگی ۔
۶۴؎ تفسیر :۔
اس آیت میں منکروںکے لئے پہلے تو ایک دنیوی سزا کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان کو اس دنیا میں ایک تکلیف دہ زندگی ملے گی اور پھر اخروی سزا کا ذکر کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ قیامت کے دن وہ اندھے اٹھائے جائینگے یہاں تک کہ ان میںسے ہرشخص چلا اٹھے گا کہ اے خدا میں تو اس دنیامیںاچھا سوجھ بوجھ والا آدمی تھا اس دنیامیں تو نے کیا کیا کہ تجھے اندھا اٹھایاجس سے معلوم ہوتاہے کہ اندھا اٹھانا اگلے جہان کا عذاب ہے اللہ تعالیٰ جواب میںفرماتاہے کہ دنیامیں تو بھی ہمارے نشانوں کے پاس اندھا ہوکر آتاتھا۔ اور ان کو بھول جاتا تھا ۔اس لئے آج اس دنیا میںتجھ کو بھی بھلادیا گیاہے اور جوبھی اپنے رب کی آیات پرایمان نہ لائے اور حدسے بڑھ جائے اس کو ہم ایسی ہی جزا دیا کرتے ہیںاو آخرت کا عذاب تو اس اندھے اٹھائے جانیکے عذابسے بھی زیادہ ہوگا ۔اس آیت کے مفہوم میں ایک الجھن ہے جس کو اس جگہ دور کرنا ضروری ہے ۔اور وہ یہکہ پہلے حصہ میں تو یہ کہاگیاہے کہ مجھے تونے اندھاکرکے کیوں اتھایاجس کے معنے یہ ہیںکہ یہ اخروی زندگی کا ذکر ہے اس دنیا کی زندگی کا ذکر نہیں قرآن بھی کہتاہے ونحشرہ یوم لالقیامۃ اعمی ٰ اور کافربھی کہتاہے کہ رب لم۔۔۔۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خداتعالیٰ بھی اورکافر بھی دونوں اس بات پر متفق ہیںکہ یہ اخروی زندگی کے عذاب کا ذکر ہے لیکن ان آیات کے معاً بعد پھر یہ فرمایاکہ ولعذاب ۔۔۔۔ کہ آخرت کاعذاب اس سے بھی سخت ہوگا ایک بالکل بے جوڑ فقرہ معلوم ہوتاہے اور انسان حیران ہوتاہے کہ جب پہلے بھی عذاب آخرۃ کا ذکر آچکا ہے تو پھر دوبارہ عذاب آخرۃ کا ذکر کیوں کیا گیا ہے ۔اور یہ کونسا عذاب آخرت ہے جو پہلے عذاب آخرت سے بھی زیادہ سخت ہوگا ؟ اس مشکل کاحل یہ ہے کہ قرآن و احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ یوم آخرت ایک لمباوقت ہے جس میں مختلف اوقات میں کفار کی مختلف حالتیں ہونگی ۔چنانچہ سورۃ انعام میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ولقد۔۔۔۔۔۔ یعنی آج تو تم ہمارے پاس اس طرح اکیلے اکیلے آئے ہو جس طر ح ہم نے تمہیںپہلی مرتبہ پید اکیا تھا ۔اور جوکچھ ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیاتھا ۔اور جو کچھ ہم نیء تمہیںدیاتھا اسے تم اپنے پیچھے چھوڑ آتے ہو ۔اور پھریہ کیا بات ہے کہ ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان شفعا کو نہیں دیکھتے جن کے بارہ میںتم بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے اور کہاکرتے تھے کہ وہ تم میںخداکے شریک ہیںبات یہ ہے کہ آج تمہارے آپس کے رشتے بالکل کٹ گئے ہیںاور جوکچھ تم کیا کرتے تھے وہ سب کچھ تم سے کھویا جاچکا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ یوم آخرت میںایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ کافروں اور ان کے معبودوں کے درمیان تعلق منقطع ہوجائیگا اور وہ اپنے شرک کے دعویٰ کو بھول جائیں گے ۔یعنی دنیا میں تو ان کو اصرار تھا کہ جن بتوںکو ہم پوجتے ہیںوہ واقعہ میںخدکے شریک ہیںاور ہم اس دعوٰی میں سچے ہیںیعنی اپنے مذہب کی سچائی دیکھ رہے ہیں۔ لیکن قیامت کے دن ایک وقت آئے گا کہ وہ سب دعوے ان کو بھول جائیںگے اور وہ بت جن کو وہ دنیا میںپوجتے تھے ان کے دماغ سے اوجھل ہوجائیگے گویاوہ ان کی خدائی سے منکر ہوجائینگے اس وقت وہ اپنی دنیوی حالت کا مقابلہ اخروی حالت سے کرینگے اور کہیں گے کہ اے خدا یہ کیا ہوگیا کہ ہم دنیا میں تو اپنے بتوں کی خدائی دیکھ رہے تھے اور اسی لئے ان پر ایمان لائے تھے لیکن اب وہ سب دلیلیںغائب ہوگئیںاور اب ہمیںکچھ بھی نظر نہیں آتا ۔گویاہم دنیاکے مقابلہ میںبالکل اندھے ہو گئے ہیں۔یہ حالت بھی ایک عذاب کی ہوگی کیونکہ ان کو معلوم ہو جائیگا کہ وہ دنیامیںجس چیز کو صحیح سمجھتے تھے وہ غلط تھی اس احساس کا پید اہوجانا خود ایک عذاب پیدا کرتاہے ۔ اور اس آیت میںا سی طرف اشارہ ہے کہ مرنے کے بعدپہلا عذاب کافروں کو یہ ملے گا کہ انکویقین ہو جائیگا کہ جن جؤکو ہم خداکا شریک قرار دیتے تھے وہ اس کے شریک نہیںاور وہ یقین کرلیںگے کہ شاید ہمار ی روحانی بصیرت ماری گئی ہے کہ معبود ان الٰہی اب ہمیں معبود ان الٰہی نظر نہیں آتے ۔فرماتاہے ضمیرکا عذاب بھی بڑاعذاب ہے اور خصوصاً اس صورت میں جب کہ وہ دنیا کے عقیدہ کے بطلان کو صحیح سمجھیں گے اور دنیاکے عقیدہ کو غلط سمجھیںگے اور حیران ہونگے کہ ہم ایسی بات کو کس طرح صحیح سمجھتے رہے ۔جب یہ بات اتنی واضح تھی تو کیا اب ہم اندھے ہوگئے ہین کہ ہم کو اپنے ۔معبودوں کی سچائی تک نظر نہیں آتی ۔اس کے بعد آیت کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ یہ عذاب توکچھ بھی نہیںاصل عذاب تو وہ ہے جو بعد میںآنے والا ہے یعنی جہنم کا عذاب یہ ضمیر کاعذاب بھی بے شک گھبراہٹ پیدا کرتاہے اور یوں محسوس ہوتاہے کہ گویاتم اب اندھے ہوگئے ہو اور پہلے سوجا کھے تھے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تم پہلے اندھے تھے اور اب بینا ہو ۔اور جب اس حقیقت کے مطابق تم پر عذاب آئیگا تب تم کو معلوم ہوگا کہ تم اندھے دنیا میںتھے کہ غلط چیزکو صحیح سمجھتے تھے لیکن بینا اب ہوکہ غلط کو غلط سمجھنے لگ گئے ہو اور صحیح کو صحیح ۔ پس درحقیقت اس آیت میںایک طنریہ کلام کیا گیا ہے جس سے کفار کے عقیدہ پر طنز کی گئی ہے کہ وہ بے وقوف شرک کرتے ہوئے بھی ا پنے آپ کو بینا سمجھتے ہیں۔حالانکہ آخرت میںاس شرک کے منکر ہوجائنگے اور حیران ہونگے کہ کیا اب ہم اندھے ہیں یاپہلے اندھے تھے ۔یہ کیا حماقت ہے کہ جب ہم اندھے تھے تو اپنے آپ کوبیناسمجھتے تھے ۔
اس آیت کے متعلق ایک اور سوال بھی قابل حل ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتاہے کہ من ۔۔۔۔جوشخص میرے ذکرسے اعراض کریگا اسے ایک تنگ زندگی میںسے گذرناپڑیگا۔مگر ہمیںتو یہ دکھائی دیتا ہے کہ غیر مذاہب والوںکو معیشت کی کوئی تنگی نہیںبلکہ ان میں سے اکثریت ایسی ہے جن کی مالی حالت مسلمانوں سے بدرجہا بہتر ہے اور ہر قسم کے عیش اور آرام کے سامان انہیںمیسر ہیںاس سوال کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ معیشت کے معنے اس چیز کے ہوتے ہیںجس سے انسانی زندگی قائم رہے اور انسانی زندگی کے قیام کے لئے صرف کھانا پینا یامال و دولت کا میسر آجانا ہی ضروری نہیں ہوتابلکہ اور بھی ہزاروں چزیں ہیںجوانسان کی مذہبی ۔تمدنی ۔ اور روحانی زندگی کو سنوار نے والی ہیںاویہی وہ چیزیں ہیںجوا لٰہی تعلیم سے اعراض کرنے والوںکو میسر نہیں آتیں اوراس لحاظ سے انکی معیشت ان پرشدید طور پر تنگ ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وسعت عمل خداتعالیٰ کی صفات پر ایمان لانے اور انکے مطابق اپنے اندر تغیر پید اکرنے کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اور جو شخص صفات الٰہیہ پر ایمان نہ رکھتا ہو اس کادائرہ عمل نہایت محدود ہوتاہے ۔ دائرہ عمل ہمیشہ اعلیٰ مطمح نظر سے وسیع ہوتاہے اور جب کوئی اعلیٰ مطمح نظر سامنے نہ ہو تو اعمال بھی محدود ہوجاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے مقابلہ میںفلاسفروںکے اخلاق بالکل ہیچ ہوتے ہیں اور پھر انکے اندر جوتھوڑے بہت اخلاق پائے بھی جاتے ہیں ۔ان کا دائرہ عمل محدود ہوتاہے ۔مثلاً رسول کریم ﷺ کو ہی دیکھا جائے تو ہمیںآپ کے اندر تمام اخلاق دکھائی دیںگے آپ میں سچائی بھی شاندار طور پر نظرآئے گی آپ میں امانت بھی شاندار طورپر نظر آئے گی آپ میں سخاوت بھی شاندار طورپر نظر آئے گی ۔آپ میں رحم بھی شاندار طور پر نظر آئے گا۔آپ میںغریبوںکی پرورش کامادہ بھی شاندار طورپر نظر آئے گا ۔آپ میںانصا ف بھی شاندار طورپر نظر آئیگا آپ میںتوکل بھی شاندار طورپر نظر آئیگا۔ اسی طرح تحمل ۔بردباری۔ دوسروں کے جذبات کا احترم ۔عورتوں سے حسن سلوک ۔بنی نوع انسان کی خدمت صبر چشم پوشی ۔تعاون باہمی ۔بہادری وفائے عہد اور اسی قسم کے سینکڑوں اخلاق آپ کے اندر شاندار طورپر دکھائی دیںگے ۔ لیکن کوئی فلاسفر ایسا نہیں نکل سکتاجو تمام اخلاق فاضلہ کاجامع ہو بلکہ کسی میںکوئی ایک خوبی ہوگی اور کسی میںدو اور پھرانکا دائرہ بھی محدود ہوگا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جب تک کوئی اعلیٰ مطمح نظر نہ ہو اور جب تک کوئی ایساکامل نمونہ سامنے نہ ہو جس کی نقل کی جاسکے اسوقت تک اعمال ایک محدود دائرہ میںہی چکر کھاتے رہتے ہیںاوران میںوسعت پیدا نہیں ہوسکتی اور چونکہ کلام الٰہی کامنکر خداتعالیٰ سے اعراض کرنے کیو جہ سے صفات الیٰہ کو اپنے اندر پیدانہیں کرتا اس لئے قیامت کے دن بھی جب خداتعالیٰ کی صفات کا ظہور ہوگا تو وہ ان کو پہچان نہیں سکے گا اوراندھوں کی طرح کھڑارہے گا ۔جس طر ح وہ شخص جس نے کبھی خربوزہ نہیںدیکھا ۔خربوزے کو دیکھ کر بھی اسے پہچان نہیںسکتا اسی طرح وہ شخص جس نے صفت الٰہیہ کو اپنے اندر پیدا نہیں کیا وہ صفات الٰہیہ کے ظہو ر کو بھی پہچان نہیںسکے گا ۔ او ر نابیناہونے کی حالت میںاٹھے گا اس پر وہ گھبرا کر کہے گا کہ میںتو بڑابصیر تھا مجھے آج اندھا کیوں پیدا کیا گیاہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائیگا کہ کذالک۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں ہم نے اپنے رسولو ں کے ذریعہ بیسیوں نشانات و معجزات ظاہر کئے تھے مگر ان کی طرف کبھی توجہ نہ کی اگر تم بینا ہوتے تو ہماری آیت کا انکار کیوں کرتے ۔پس چونکہ تم پہلے بھی اندھے تھے اس لئے آج بھی اندھے ہی اٹھے ۔اس سے معلوم ہوا کہ اخروی نابینادرحقیقت روحانی ہی ہوگی ۔کیونکہ فرماتاہے جس طرح اب تم روحانی امور کو نہیںدیکھ سکتے اسی طرح تم دنیامیں روحانی امور کو نہ دیکھ سکے تھے اگر روحانی نابینائی مراد نہ ہوتی تو کذالک کا لفظ استعمال نہ ہوتا۔دوسری دفعہ کذالک اسلئے استعمال کیاکہ پہلے جہان میں بھی تیر ے عمل کی وجہ سے ہم نے تجھے چھوڑ دیاتھااور اب بھی چھوڑ دیا ہے تجھے ہم نے بیناکبھی قرار نہیں دیا۔
آیت نمبر۱۲۹
ترجمہ :۔ کیا ان لوگوںکو اس بات سے ہدایت حاصل نہ ہوئی کہ ان سے پہلی گذری ہوئی قوموں میں سے بہتوں کو ہم نے ہلاک کردیا یہ لوگ ان کے گھروں میںچلتے پھرتے ہیں اس میں عقل والے لوگوں کے لئے بڑے نشان ہیں ۔ ۶۵؎
۶۵؎ تفسیر :۔
فرماتا ہے تاریخ شاہد ہے کہ جن گذری ہوئی قوموں کی وادیوں اور علاقوں میںلوگ رہتے ہیںوہ بھی شرک میںمبتلا تھیںلیکن آخر تباہ ہوگئیں پھریہ کیوں اس سے نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔
آیت نمبر۱۳۰
ترجمہ :۔ اور اگر ایک بات تیرے رب کی طرف سے پہلے نہ گذرچکی ہوتی اور مدت بھی مقرر نہ ہوتی تو عذاب ان قوموں کے لئے دائمی بن جاتا۔اور ایک لمبے عرصہ تک جاری رہتا۔ ۶۶؎
۶۶؎ تفسیر:۔
لو لا کلمۃً سے مراد اس جگہ پر رحمتی وسعت کل شیئٍ (اعراف) والا قانون ہے ۔یعنی ہم یہ فیصلہ کرچکے ہیںکہ ہمارا رحم ہماری گرفت پرغالب رہتاہے اگر ہمارا یہ فیصلہ نہ ہوتااور گناہوںکیوجہ سے فوراً عذاب آجایا کرتاتو جس ملک پرعذاب آتاوہ اس کے لئے دائمی بن جاتااور ایک لمبے عرصہ تک جاری رہتااس عذاب سے نجات پانیکی کوئی راہ انہیںنظر نہ آتی۔
آیت نمبر۱۳۱
ترجمہ:۔ پس جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں تو اس پرصبرکر کیونکہ تیرے رب کی سنت یہی ہے کہ رحم سے کام لیاجائے اور سورج کے چڑھنے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے اس کی حمد کے ساتھ اسکی تسبیح بھی کیاکر تاکہ اس کے فضل کو حاصل کرکے تو خوش ہوجائے ۶۷؎
۶۷؎ تفسیر:۔
مفسرین کاقول ہے کہ اس جگہ قبل طلوعٍ الشمس وقبل غروبھا سے صبح اور عصر اور اٰناّالیل سے مغرب او ر عشاء اور اطراف النھار سے ظہر اور ضحٰی یعنی چاشت کی نمازیں مراد ہیں۔کیونکہ وہ بھی نصف کے کناروں پر ہو تی ہیںایک زوال سے پہلے اور ایک زوال کے بعد یاخالی ظہر کہ وہ دونوں نصف کے کناروں پر واقع ہے ۔
آیت نمبر۱۳۲
ترجمہ :۔ اور ہم نے جو کچھ ان میںسے بعض لوگوںکو دنیوی زندگی کے زیبائش کے سامان دے رکھے ہیںتو اس کی طرف اپنی دونوںآنکھوں کی نظر کو پھیلا پھیلا کرمت دیکھ کیونکہ یہ سامان انکو اس لئے دیا گیا ہے کہ ہم اس کے ذریعہ سے انکی ازمائش کریں اور تیرے رب کا دیا ہوا رزق سب سے اچھا اور باقی رہنے ولا ہے ۶۸؎
۶۸؎ حل لغات :۔ زھرُالدنیا۔کے معنے ہوتے ہیں یھجتھا۔۔۔۔ دنیاکی خوبصورتی اور حسن (اقرب)
لنفلنھم۔۔۔۔ کے معنے ہیںخبرہ ۔اس کی آزمائش کی نیز اس کے معنے ہیںاضلہ ۔اس کو گمراہ کیا اسی طرح جب یہ کہیںکہ فتن۔۔۔۔ تومعنے ہوتے ہیںاذابہ ۔۔۔۔۔ یعنی جب سنالہ کیلئے فتن کا لفظ استعمال ہو تو معنے یہ ہوتے ہیںکہ اس نے سونے کو آگ میں ڈال کر اسپر آگ تپائی تاکہ سونا پگھل جائے اور خالص سونا علٰحیدہ ہوجائے اور کھوٹ علٰیحدہ ہوجائے پس لنفتنھم کے معنے ہونگے ہم معلوم کرلیں ہم اچھے اور برے کی تمیز کردیں ۔
۶۸؎ تفسیر:۔
انسان بعض دفعہ دوسرے کی دولت دیکھ کر لالچ میںآجاتاہے اور چاہتا ہے کہ وہ دولت اسکو مل جائے لیکن اس آیت میںبتایاگیا ہے کہ جب یوروپین قومیںترقی کریں اور بہت دولت سمیٹ لیں تو مسلمانوں کو چاہئے کہ انکی دولت دیکھ دیکھ کر لالچ میں نہ آئیںکیونکہ یہی دولت آخر ان کی تباہی کا موجب ہوگی جیسا کہ موجودہ زمانہ میںہورہاہے کہ یورپ اور امریکہ کی دولت کو دیکھ کر روس کے منہ میں پانی بھر آیا اور اسنے بھی ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم ایجاد کرلئے تاکہ انکی مدد سے مغربی ممالک کی دولت چھین لے ۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے فرما تاہے کہ تم اپنی دولت خداکے ہاں جمع کر و ۔کیونکہ جو دولت خداکے ہاں جمع ہوتی ہے اسے کوئی چھین نہیں سکتا ۔اور وہ بہتر بھی ہوتی ہے اور ہمیشہ قائم بھی رہتی ہے ۔
آیت نمبر۱۳۳
ترجمہ :۔ اور تو اپنے اہل کو نماز کی تاکید کرتارہ ۔اور تو خود بھی اس حکم یعنی نماز پرقائم رہ ہم تجھ سے رزق نہیں مانگتے بلکہ ہم تجھے رزق دے رہے ہیںاور انجام تقوٰی ہی کابہتر ہوتاہے ۔۶۹؎
۶۹؎ تفسیر:۔
فرماتا ہے کہ یہ قانون قدرت ہے کہ بچے ماں باپ کے پیچھے چلتے ہیںاس لئے عیسائیوں کی ترقی کے زمانہ میںہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنی اوالاد کوتماز کی تاکید کرتارہے اور خود بھی نمازوں کا پابند رہے تاکہ اس کی اولاد بھی اسی رنگ میںرنگین ہو کیونکہ جو شخص عبادت پر قائم رہتاہے اللہ تعالیٰ اس کو ضرو ر حلال رزق دیتاہے اور اس سے رزق مانگتانہیں۔بظاہر یہ بات غلط معلوم ہوتی ہے کیونکہ تمام انبیاء دین کی خدمت کیلئے چندے مانگتے چلے آئے ہیںاور اسلام نے بھی زکوٰۃ اور صدقات پر خصوصیت سے زور دیاہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ زکوٰۃ یا صدقہ میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں انکا مال کم نہیںہوتابلکہ ہمیشہ بڑھتاہے ۔اور اس کافائدہ خود لوگوں کو ہی پہنچتاہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ ماآتیتم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جولوگ اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں ۔وہی اپنے مالوں کو بڑھانے والے ہوتے ۔پس چندے لینا یاصدقہ و زکوٰۃ وغیرہ اس آیت کے خلاف نہیں۔
آیت نمبر۱۳۴
ترجمہ:۔ اور وہ کہتے ہیںکہ کیوں وہ ہمارے پاس اپنے رب کی طرف سے کوئی نشان نہیں لاتا۔کیا ان کے پاس ویسا نشان نہیںآیاجیساکہ پہلی کتابوں میں بیان ہوچکا ہے ۔۷۰؎
۷۰؎ تفسیر:۔
فرماتاہے نشان جادوگری کا نام نہیںبلکہ پہلے انبیاء کی پیشگوئیاں بھی نشان ہوتی ہیںاور محمد رسول اللہ کے حق میںپہلے انبیا ء کی پیشگوئیاں موجود ہیں۔ پھر یہ کیوں ایمان نہیںلاتے ۔اگر محمد رسول اللہ نہ آتے تو ان کی اعتراض ہوتا کہ ہماری طرف تو کوئی نبی آیا ہی نہیں ور نہ ہم مان لیتے لیکن نبی آگیا ہے اس لئے اب سزاکا انتظار کرنے کے سوا ان کیلئے کوئی چارہ نہیں آخر میں حق کھل جائے گامگر اس وقت ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیںہوگا۔
آیت نمبر۱۳۵
ترجمہ:۔ اور اگر ہم ان کو اس رسول سے پہلے کسی عذاب کے ذریعہ سے ہلاک کردیتے تو وہ کہتے اے ہمارے رب تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا اگر تو ایسا کرتا توہم تیرے نشانون کے پیچھے چل پڑتے قبل اس کے کہ ہم ذلیل اور رسواہوجاتے ۔۷۱؎
۷۱؎ تفسیر:۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ بنی نو ع انسان کی تو جہ اس امر کی طرف منعطف کرتا ہے کہ اگر رسولکی بعثت سے پہلے ہم ان پر عذاب نازل کردیتے تو یہ لوگ ہم پر اعتراض کرتے کہ جب ہم گمراہ تھے اور ہدایت کے محتاج تھے تو تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا تاکہ ہم ذلیل اور رسوا ہونے سے پہلے ہی تیرے احکام کو قبول کرلیتے اللہ تعالیٰ ان کے اس اعتراض کو رد نہیںکرتا۔بلکہ اسے تسلیم کرتاہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کی ہدایت کے لئے انبیا ء اوررسل کی بعثت کا انتظام نہ ہوتا تو بندوںکا حق تھا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرتے کہ جب اس نے ان کے پاس کوئی ہادی ہی نہیں بھیجے تو وہ ان سے جواب طلبیء کیوں کرتاہے افسوس ہے کہ اس زمانہ میںمسلمانوں نے بھی یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ دنیا میںخواہ کتنی گمراہی پھیل جائے اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کے لئے کسی مامور کو مبعوث نہیں کر سکتا۔حالانکہ اللہ تعالیٰ ان آیات میں اسی بات کی تردید کرتاہے اور فرماتاہے کہ اگر ہم دنیامیںاپنے مامور نہ بھیجیں تو لوگ بجا طور پر یہ اعتراج کر سکتے ہیں کہ جب اس نے ہدایت کا کوئی سامان ہی نہیں کیا تو وہ انہیں عذاب کیوں دیتاہے گویا مسلمان اپنے عمل سیاس اعتراض کو تقویت دے رہے ہیں جس اعتراض کو مٹانے کے لئے اس کی طرف سے ہمیشہ مامورین آتے رہے ہیں ۔
آیت نمبر۱۳۶
ترجمہ:۔ تو کہہ دے ہر ایک شخص اپنے انجام کی انتظار میںہے پس تم بھی اپنے انجام کاانتظار کرتے رہو ۔اور تم کوجلدی ہی معلوم کرلوگے کہ کون شخص سیدھے راستہ پر چلنے والوں اور ہدایت پانے والوں میں سے ہے اور کون نہیں ۷۲؎
۷۲؎ تفسیر:۔
اس جگہ سیدھے راستہ کے لئے سویً کا لفظ استعمال کیاگیاہے ۔جس کے معنے ایسے راستہ کے ہیںجو افراط اور تفریط سے منزہ ہو (مفردات ) اسی طرح سویً کا لفظ کامل اور مضبوط کے معنوں میں بھی استعمال ہوتاہے ۔( لسان ا لعرب ) پس اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تمہیں جلدی پتہ لگ جائیگا کہ محمد رسول اللہ ﷺ جو تعلیم لوگوںکے لئے لائے ہیں وہ افراط اور تفریط سے منزہ ہے اور ایسی کامل درجہ کی تعلیم ہے کہ خواہ زمانہ کے حالات کتنے بھی بدلیں ۔وہ کبھی متروک قرار نہیںدی جاسکتی یعنی دائمی اور غیر متبدل قانون ہے ۔اور تمہیںپتہ لگ جائیگا کہ کون شخص ہدایت پانے والوں میں سے ہے اور کون نہیںیعنی جس شخص کو ایسی شریعت ملے جو کبھی منسوخ نہ ہو سکتی ہو اور نہ زمانہ کے حالات سے کبھی بدل سکتی ہو ۔وہی شخص اور اس کے متعبین کامل ہدایت یافتہ کہلا سکتے ہیں ۔ اور جو لوگ اس سے الگ ہوتے ہیں وہ کبھی بھی ہدایت یافتہ نہیں ہو سکتے ۔کیونکہ جس شخص کو زمانہ کے بدلے ہوئے حالات کو دیکھ کر ہمیشہ اپنا ایمان اور عمل بدلناپڑتا ہے اس کے متعلق یہ تسلیم نہیںکیا جاسکتا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ ہے کیونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے وہی ہدایت ہوتی ہے جو قابل عمل ہو سوائے اس کے کہ وہ خود اس کو کسی زمانہ میںایک نئے الہام کے ذریعہ سے بدل دے بہر حال انسان اسکو نہیںبدل سکتا کیوں کہ کوئی انسان خداکی تعلیم کا قائم مقام نہیں بناسکتا۔
سورۃ الاانبیاء ۔مکی
ترجمہ :۔سورۃ انبیاء ۔یہ سورہ مکی ہے ۔۱؎
۱؎ یہ سورۃ خلاف مکی ہے ۔ صر ف امام سیوطیؒ نے ساتویں آیت کو مدنی قرار دیا ہے (اتقان ) وہیری کے نزدیک یہ سوۃ نویں سال نبوت کی معلوم ہوتی ہے ۔کیونکہ اس میں کفار کی مخالفتوں کا ذکر ہے ۔یہ دلیل ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ چونکہ سورئہ رحمن میں بحیرہ قلزم اور بحرہ احمر کے ملائے جانے کا ذکر ہے ۔اور بڑے بڑے جہازوںکے چلنے کاذکر ہے اور یہ امور انیسویں صدی کے آخر میںہوئے ہیں اس لئے یہ سورۃ انیسویں صدی کے آخر میںنازل ہوئی ہے ۔ انسان جب تعصب اور بددیانتی پر اتر آتا ہے تو وہ ایسی ایسی احمقانہ باتیں ہی کیا کرتاہے ۔وہیری کیلئے کیسا آسان راہ موجود تھاکہ صحابہ ؓ جن کے زمانہ میں یہ سورۃ نازل ہوئی انہوں نے شہادت دی ہے کہ یہ سورۃ ۵؁ ھ دعویٰ نبوت سے پہلے نازل ہو چکی تھی ۔اور انہوں نے اسے حفظ کرلیا تھا ۔اس لئے یہ سورۃ ۵؁ ھ دعوٰی نبو ت سے پہلے نازل ہوچکی تھی اور انہوںنے اسے حفظ کر لیا تھا ۔اس لئے یہ سورۃ ۵؁ ھ سے پہلے کی نازل شدہ ہے مگر چونکہ ریورنڈ وہیری یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ قرآن کریم غیر الہامی کتاب ہے اس لئے ان کے لئے یہ امر ماننا مشکل تھا کہ بعض باتیںاس میں وقت سے پہلے پیشگوئی کے طور پر بیان کی گئی تھیں ۔
حقیقت یہی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق کہ سورئہ کہف ۔مریم ۔طٰہٰ اور انبیاء ابتدائی زمانہ کی نازل شدہ ہیںجنکو انہوں نے اپنے اسلم کے شروع زمانہ میںیاد کیا تھا ۔(بخاری کتاب التفسیر) اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ابتدائی مسلمانوں میں سے ہیں۔یہ سورتیں بہر حال ابتدائی زمانہ کی ہیںاور چونکہ سورئہ مریم ہجرت حبشہ کے شرور میںنجاشی کے دربار میںپڑھی گئی تھی ۔اور ہجرت حبشہ ۵؁ھ کے شروع میں ہوئی تھی اس لئے یہ سوتیں پہلے چار سال کے اندر کی ہیںپس سورئہ انبیاء ۵؁ ھ کے ابتداء سے پہلے نازل ہوئی تھی اور وہیری کادعویٰ سراسر لغو اور بے دلیل ہے ۔
ترتیب سورۃ :۔
یہ سورۃسورہ طٰہٰ کے بعد آتی ہے اور اس کا قریبی تعلق سورہ طٰہٰ سے یہ ہے کہ سورئہ طٰہٰ کے آخر میں یہ مضمون تھاکہ کفار پر عذاب تو آئے گا مگر حجت تمام کرنے کے بعد ۔اس لئے صبر سے کام لو اپنے وقت پر ضرور منکرین محمد ﷺ پر عذاب آکر رہے گا ۔اس مضمون کے تسلسل میں سورئہ انبیاء کے شروع میں یہ فرمایا گیا ہے کہ لوگوںکے ھساب کا وقت قریب آگیا ہے لیکن وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیںاور برابر انکار کئے جاتے ہیں۔گویا عذاب کی خبر کے متعلق جو کچھ سورئہ طٰہٰ کے آخر میںکہا گیا تھا اسے سورئہ انبیاء میں جاری رکھا گیا ہے ۔ یہ تو اس کا قریبی تعلق ہے پچھلی کئی سورتوں کے تسلسل کے لحاظ سے اس کاتعلق پچھلی سورتوں سے یہ ہے کہ سورئہ مریم میںحضرت مسیح ؑ کا ذکر کیا گیا تھا کہ ان کے متعلق مسیحیوں کو غلطی لگی ہے کہ (۱) انہیں خدائی صفات دے دی ہیں۔(۲) ان کے ذریعہ سے شریعت کو منسوخ قرار دیاہے اور شریعت کو لغت قرار دیا ہے (۳) اور نجات کو توبہ او عمل صالحہ کی جگہ کفارہ سے وابستہ کردیاہے ۔یہ غلطیاں ان کو حق سے دور لے گئی ہیں۔طٰہٰ میں حضرت موسیٰ ؑ کاذکر کرکے ان دعووں کی نقلی تردید کی او بتایا کہ مسیحی سلسلہ تو موسوی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔مگر موسیٰ کے حالا ت ان سب دعووں کی تردید کرتے ہیں اس کا سارا فخر تو شریعت لانے میٰںتھا ۔اگر شریعت ایک *** ہے تو موسیٰ کا وجود قابل نفرت ہونا چاہئے نہ کہ قابل فخر پھر حضرت آدم کا ذکر کرکے گناہ کی تھیوری کو اس کی جڑ تک پہنچاکر اس امر کی تردید کی گئی کہ گناہ ورثہ کے ذریعہ سے قائم ہوا ہے اور پھر بتایا کہ بنی نوع انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سزائیں اگر گنا ہ سے بچنا ممکن ہے تو پھر سزا کیسی ؟ پھر تو سزا آتی ہی نہیںچاہئے نبی سزا کوپکا کرنے کی جگہ اس کے امکان کو گھٹانے کے لئے آتے ہیں۔پس اگ شریعت *** ہے تو نبی سزا کے امکان کو گھٹاتانہیں بڑھاتا ہے ۔سورہ انبیا ء میںاسی مضمون کو لمباکر کے بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایک نہیںدو نہیںآدم سے لے کر مسیح تک اور پھر محمد رسو ل اللہ ﷺ تک تمام دشمنان انبیاء کو سزاملتی رہی ہے ۔اگر گناہ ورثہ میں ملاہے ۔اگر اس سے بچنے کی انسان میںتوفیق نہیں تو تو ایسا کیوں ہوا ؟ پس مسیح کے آنے سے پہلے بعض اشخاص کابرگزیدہ ہونا اور بعض کاسزا پانا بتاتاہے کہ ورثہ کے گناہ کا عقیدہ محض ایک ڈھکو نسلہ ہے ۔
خلاصہ ء مضامین :۔
عذاب آرہاہے مگر یہ لوگ مختلف بہانوں سے اپنے نفس کو تسلی دے رہے ہیں(آیت ۲) کوئی بھی نیا پیغام لوگوں کو ہدایت دینے کے لئے نہیں آتا کہ یہ لوگ اس سے تمسخر نہ کرتے ہوں ۔یعنی سب انبیاء نے لوگوں کو ہدایت کے لئے بلایا ہے اگر گناہ ورثہ میںملا ہے تو ہدایت کی طرف بلانے کے معنے ہی کیا ہوئے؟
کفار بے سوچے سمجھے انبیا پر اعتراض کرتے رہے ہیں۔مثلا ً یہ کہ یہ تمہارے جیسا انسان ہے (حالانکہ ہادی کااپنے مخاطبین جیسا انسان ہونا ہی ضروری ہے یہ آیت بھی اب اللہ ہونے کے عقیدہ کو رد کرتی ہے اس کی باتیں بڑی دلکش ہیںتم بڑے عقلمند ہو تم اس کے دھوکا میںکیوں آو گے ۔ہمارا نبی اس کے جواب میںکہتاہے کہ میں کیا جواب دے سکتاہوں ۔خدائے سمیع و علیم خود جواب دیگا ۔(آیت ۳تا۵)
اس کے بعد منکرایک قدم اور آگے بڑھتے ہیںاور کہتے ہیںکہ بہیودہ خوابیںاسے نظر آتی ہیں بلکہ یہ سر تاپا جھوٹ بناتاہے اور اس جھوٹ کو شاعرانہ زبان میں پیش کرکے لوگوں کو دھوکا دیتاہے اسے چاہئے کہ پہلوںکی طرح عذاب لائے ۔فرماتا ہے کہ سب نبی انسان ہی تھے اس لئے اب بھی انسان ہی آیا چنانچہ پہلی کتب میںپڑھ کر دیکھ لو کہ پہلے رسول بھی انسان ہی تھے ۔ذرا پوچھ کر تو دیکھو ۔ہر اک کھانا کھاتاتھا ۔اور آکر مرا (جن میںمسیح بھی شامل تھا ) اور پھر ان کے منکروں کو ہم نے تباہ کردیا۔(آیت ۶ تا ۱۰)
ان لوگوں کو یہ سوچناچاہئے کہ قرآن کریم ان پر کیا بوجھ ڈالتاہے ۔اس کے ذریعہ سے ان کی عزت کے سامان ہی پید اہوتے ہیں
(آیت ۱۱ )
اور جو خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والی سچائیوں کے منکر ہوتے ہیںعذاب ہی پاتے ہیں (آیت ۱۲ تا ۱۶ )
کبھی یہ بھی ان لوگوں نے سوچا کہ خدتعالیٰ جیسی حکیم ہستی دنیا کو بلاغرض نہیںپیدا کر سکتی تھی یعنی صرف ایک کھلونے کے طور پر ۔لیکن کھلونا بھی تو کھیلنے والا اپنے پاس رکھتاہے نہ کہ دوسروں کے حوالے کر دیتا ہے ۔جیسا کہ یہ دنیا انسانوں کے سپرد کردی گئی ہے ۔پس یاد رکھو کہ ہم حق کو باطل سے ٹکرادیں گے (آیت ۱۷تا ۱۹)
زمین و آسمان پر اللہ تعالیٰ کا قبضہ ہے اور اس کے قریب جتنا کوئی ہو اتنا ہی وہ متواضع اور عبادت کی طرف راغب ہوتاہے (آیت ۲۰،۲۱ )
جب ساری دنیا میںایک ہی قانون ہے تو شرک کا مسئلہ یہ لوگ کہاں سے نکالتے ہیںشرک سے تو اختلاف لازمی ہے اور تمام انبیا ء شرک کے خلاف تعلیم دیتے آئے ہیں پس دنیا بھر میںایک قانون کا ہونا ثابت کرتاہے کہ جو مشرکانہ باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کی جاتی ہیںان سے وہ پاک ہے (خداتعالیٰ کی طرف شرک عیسائیت کی طرف سے اسی بنا پر منسوب کیاجاتاہے کہ خداتعالیٰ گناہ معاف نہیںکر سکتا ۔اس کیلئے بیٹے کی قربانی کی ضرورت تھی لیکن اللہ تعالیٰ تو مالک کامل ہے اور مالک کامل پر عفو کرنے کی وجہ سے کئی الزام نہیںآتا ) پھر فرماتاہے کہ مسیحی لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور بھی معبود ہیں جیسے روح القدس اور مسیح ؑ۔یہ درست نہیں خداایک ہی ہے ۔اور یہ تعلیم میںنہیںدیتابلکہ مجھ سے پہلے جتنے رسول گذرے ہیں سب یہی تعلیم دیتے چلے آئے ہیں کیا ابراہیم اور کیا اسحاق اور کیا موسیٰ بائبل اس سے بھری پڑی ہے (آیت ۲۲ تا۲۵ )
پہلے زمانوں میںبھی خداتعالیٰ کی طرف سے ہدایت دینے والے انسان ہی آتے رہے ہیں ۔مسیح کی طرح خدا کا کوئی بیٹا نہیںآیا پھر مسیح کس طرح کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے ایک انسان کو اپنا بیٹا بنالیاہے ۔اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کیونکہ بیٹاایسی ہستیوں کے لئے ضروری ہوتاہے جنہوں نے مرجانا ہو لیکن اللہ تعالیٰ تو ہر عیب سے پاک ہے اور موت اس کے قریب بھی نہیںآتی اس کو بیٹے کی کیا ضرورت ہے ۔اسی طرح بیٹے کی خواہش ان ہستیوں میں ہوتی ہے جن کو مدد گاروں کی ضرورت ہو ۔لیکن اللہ تعالیٰ کو کسی مدد گار کی ضرورت نہیں ۔وہ سب کام آپ ہی کرسکتاہے ۔ وہ تو شروع دن سے اپنے بندوں میں سے کچھ لوگوں کو چن کر انہیںاپنی رسالت کے ساتھ عزت بخشا کرتاہے ۔اسی طرح اس نے مسیح کو چنا اور عزت بخشی ۔پس خداتعالیٰ کے اس احسان کی بے قدری کرنا اور ایک بندے کو جس کو خدانے عزت بخشی تھی اس کا بیٹا قرار دیکر اس کاہمسر بنادینا سخت ظلم ہے (آیت۲۶ ،۲۷ )
اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے جتنے نبی آئے ہیں وہ تو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے تابع قرار دیتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے ماتحت چلتے تھے درحقیقت مسیح بھی ایسا ہی تھا ۔صرف مسیحیوں نے مبالغہ کرکے اسکو دوسرے نبیوں کی صف سے باہر نکال دیا ہے ۔ورنہ وہ ایک برگزیدہ انسان تھا۔ ( آیت ۲۸،۲۹)
پھر فرماتا ہے مشرک تو جہنم کاعذاب پاتاہے تم اپنے بزرگوں کی طرف الٰہی صفات منسوب کرکے ان کو جہنمی کیوں بناتے ہو۔ (تعجب ہے کہ مسیحیوں نے اشارۃً نہیںبلکہ وضاحتاً اپنے عقیدہ کا یہ جزوبنالیا ہے کہ مسیح صلیب سے اتارے جانے کے بعد تین دن جہنم میں رہا۔لیکن قرآن فرماتاہے کہ مسیح جہنمی نہیںتھا وہ خداتعالیٰ کا برگزیدہ اور بخشاہو اانسان تھا ایسے برگزیدہ انسان کو تین دن چھوڑ تین سیکنڈ کیلئے بھی جہنم قرار دینا ایک ظلم عظیم ہے ) (آیت ۳۰)
خدائی طریق یہ ہے کہ جب دنیا روحانیت سے محروم ہو جاتی ہے تو وہ آسمان سے رحمت کے دروازے کھول دیتاہے ۔اور الٰہی پانی سے دنیا میں ازسرنونیکی قائم ہوجاتی ہے اور اس کے بعد آسمانی سلسلہ میں بڑے بڑے روحانی آدمی پیدا ہوتے رہتے ہیںجن کے ذریعہ سے نیکی کو قائم رکھا جاتاہے ۔اور اللہ تعالیٰ کی امداد سے یہ کارخانہ چلتاہے ۔او ررات اور دن دنیاپر آتے ہی رہتے ہیںکسی وقت سورج کام کرتاہے کسی وقت چاند ۔یہی روحانی عالم کاحال ہے نہ ایک سال نیکی نہ ایک سال بدی ۔پس یہ سلسلہ نیکی بدی اور تاریکی اور روشنی کادیکھ کر یہ خیال کرناکہ پیدائش عالم ناکام رہی ہے غلط ہے یہ سلسلہ تو طبعی ہے اور مادی دنیا بھی اس کے مطابق چل رہی ہے ۔پھر اس پراعتراض کیسا اوراس کی وجہ سے کفارہ وغیرہ عقائد نکالنے کی ضرورت کیاہے (یہ عقیدے اسی خیال کے ماتحت ہیںکہ گویانبوت کا سلسلہ ناکام رہا ہے نہ نیکی بڑھی ہے نہ بدی گھٹی ہے ۔ (آیت ۳۱،۳۴)تمام انبیاء فوت ہوئے مسیح بھی فوت ہو محمد رسول اللہ ﷺ بھی فوت ہونگے مگر اس سے روحانی سلسلہ میں کوئی فرق نہیںآتا ۔جس طرح سورج کے ڈوبنے سے کوئی فرق نہیں آتا ۔ہر اک کا ایک کام ہوتاہے وہ کرتاہے ۔اور چلاجاتاہے اصل زنجیر سارے عالم میں صرف خداتعالیٰ کی ہستی ہے (آیت ۳۵،۳۶)
دشمن تجھ پرہنسی کرتے ہیںکہ ایک انسان اتنا دعویٰ کرتاہے حالانکہ سوال کلام کے لانے والے کانہیں سوال کلام کے بھیجنے والے کا ہے ۔اور وہ مرنے کے بعد بھی ان کو پکڑ سکتاہے اور پکڑیگا (آیت۳۷)
خداتعالیٰ عذاب دینے میں ڈھیلاہے اسلئے لوگ غرور میں آجاتے ہیں۔حالانکہ آثار پیدا ہو رہے ہیں کہ اسلام غالب ہوگا ۔(آیت ۳۸تا ۴۵ ) جو کچھ میں کہتاہوں خداتعالیٰ کی وحی سے کہتا ہوں ۔عذاب آکر رہیگا ۔اس وقت یہ لوگ پچھتا ئیںگے لیکن ہم عذاب دینے میںبھی ظلم نہیںکرینگے ۔ہر اک کے اعمال کے مطابق معاملہ کریںگے ۔ (آیت ۴۶تا ۴۸ ) اس رسو ل سے پہلے موسیٰ آچکا ہے ۔اور اس نے بھی لوگوں کو نجات کی دعوت دی (اگر نجات مل نہ سکتی تھی تو ایسا کیوںکیا ؟ ) (آیت ۴۹،۵۰) مگر یہ ذکر اس سے زیادہ مکمل ہے اس میںسب اعلیٰ تعلیمیںجمع ہیں(آیت ۵۱)
موسیٰ ؑ سے پہلے ابراہیم ؑ آیا جس کی طرف مسیح اپنے سلسلہ کو منسوب کرتاہے مگر ابراہیم نے بھی شرک سے لوگوں کوروکا اور اس نے زمین و آسمان کاپیدا کرنے والا اللہ کو قرار دیا۔نہ یہ کہ کلام یعنی مسیح سے دنیاپیدا ہوئی اور مشرکوں کی غلطی اس طر ح ثابت کی کہ اصنام کو نقصان پہنچ سکتاہے اسی طرح مسیح کو پہنچا اور اسے پھانسی دی گئی ۔(آیت ۵۲تا ۷۱ )
ہم نے ابرہیم ؑ کوچنا اور اسے ایک ملک کا وارث کردیا اورلوط جیسے لوگ اس پرایمان لائے اور اسحق جیسا بیٹااور یعقوب ؑ جیسا پوتااسے دیااو یہ لوگ نیک تھے ۔(یعنی کفارہ کی ضرورت نہیں پیش نہ آئی کفارہ کے رو سے تو ہر مسیح ابراہیم ؑ او اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ اور موسیٰ سے بڑا ہونا چاہئے کیونکہ ہر عیسائی کو کفارہ کے ذریعہ سے نجات مل چکی ہے جو انہیںنہیں ملی ) (آیت۷۲تا۷۶)
پھر نوح ؑ کو دیکھو اسے ہم نے نجات دیاور اس کے دشمنوںکوہلاک کیا۔اگر ورثہ کاگناہ تھا تو وہ کیوںتباہ ہوئے ؟ (آیت ۷۷،۷۸)
اسی طرح دائود ؑ و سلیمان ؑ کو ہم نے اعلیٰ مقام دیا ۔بغیر کفارہ کے ان کو یہ مقام کیوں ملا۔ چونکہ دائود سے مسیح ؑ کاشجرہ ملایا جاتاہے اس لئے ان کا خاص طور پرذکر کیا (آیت ۷۹تا ۸۳)
پھر ایوب ؑ کو دیکھو ۔اس کی عبادت اس کے کام آئی اس کے مصائب مسیح ؑ سے بڑھ کر تھے اگر خدا کی راہ میںتکلیف اٹھانا فائدہ دیتاہے تو اسے سب سے برا ہونا چاہئے تھا پھر اسماعیل ؑ ادریس ؑ او ر ذوالکفل ؑ یہ سب لوگ خداکی راہ میں قربانی کرنے والے تھے ۔ آخر ایک ہی صابر کو یہ درجہ ابنیت کاکیوں دیا جاتاہے ؟ (آیت ۸۴تا ۸۷)
پھر ذولنون کو دیکھو جس سے مسیح اپنی مشابہت بتاتاہے ۔اس نے بھی تو تکالیف اٹھائیں وہ کیوں کفارہ کا موجب نہ بنا (آیت۸۸،۸۹ )
پھر زکریا ؑ کو لو اور اس کے بیٹے کو ۔زکریا جو نیکی پرقائم اور اس کابیٹابھی انجیل کی رو سے نیک اور خدکی راہ میں مرنے والا تھا ۔وہ کیوںکفارہ کاموجب نہ بنے انکے بعد مریم ؑ اور مسیحؑ آئے ان کا ذکر بے شک دنیامیںپھیلے گامگر بہرحال ان لوگوںسے ان کے حالات مختلف نہیں۔پیدئش مسیحؑ اگر غیرمعمولی تھی تو پیدائش یحیٰ ؑ بھی غیر معمولی تھی ۔ (ایک کے ساتھ باپ کا اور ایک کے ساتھ ماں کا ذکر کیاہے ۔تا دونوںکی معذوری ظاہر ہو ۔بیوی کے علاج کابھی ذکر کیا ہے نیک دونوں تھے ۔مصائب دونوں نے برداشت کئے ۔پھریحیٰؑ کیوںنہ کفارہ کا موجب ہوا ؟ (آیت ۹۰تا ۹۲)
یہ سب کے سب انسان ایک قسم کی طاقتوں والے تھے ۔ او ر ایک ہی قانون کے تابع تھے ۔اور سب میری طرف توجہ دلاتے تھے۔پس اب نیاطریق اختیار نہ کرو ۔آیت ۹۳
مگر تعجب ہے کہ لوگ تفرقہ کرتے ہیں۔اور مجرب آزمودہ راستہ کوچھوڑ تے ہیں۔حالانکہ ہمارا طریق شروع سے ایک ہے جونیک ہوگااس سے نیک سلوک ہوگا۔(آیت ۹۴ ،۹۵)
ہماری یہ سنت ہے کہ جب کوئی قوم ہلاک ہوتی ہے تو اسے دوبارہ اٹھنے کاموقعہ نہیں ملتا لیکن یاجوج ماجوج کے وقت ایساہوگا (جو مسیحی ہوں گے جنکاذکر ہے) جب وہ سب طرف سے دنیاپر چھاجائیںگے تو اس کے بعد دنیاایک نئی روچلے گی۔اور یاجوج ماجوج پر عذاب نازل ہوگا اور وہ سب سامان جن پر ان کو غرور ہوگا تباہ ہوجائینگے اس وقت مومن عذاب سے بچائے جائیںگے ۔مگر کفر کانظام لپیٹ دیا جائیگا اور اس کے بعد پھرمومن فلسطین کے مالک ہوجائیںگے (آیت ۹۶ تا ۱۰۷)
اے محمد رسول اللہ ﷺ تو رحمت کے طور پر آیاہے تاکہ کفارہ کی *** سے بچا کر توبہ کادروازہ کھولے ۔تو توحید کااعلان کر اور منکروں کوہوشیار کر ۔تیری قوم بھی فلسطین سے نکالی جائیگی پس تو ابھی سے دعاکردے کہ اے خدا! اس طرح اسلم اور یہودیت کے معاملہ میںشبہ پیداہوجاتاہے تو ایسا فیصلہ کر کہ اسلام کی سچائی ظاہر ہوجائے ۔او پھر اس ملک میںمسلمانوںکا غلبہ ہوجائے ۔(آیت ۱۰۸تا ۱۱۳)
آیت نمبر۱‘۲
ترجمہ :۔ (میں) اللہ (تعالیٰ) کانام لے کر جوبے حد کرم کرنیوالا اور بار بار رحم کرنے والا ہے(پڑھتاہوں ) لوگوں کے حساب لینے کاوقت قریب پہنچ چکاہے مگر وہ پھر بھی وہ غفلت میںپڑے ہوئے ہیںاور اعرض کرتے جارہے ہیں ۔
۲؎ حل لغات :۔ اقترب الوعد کے معنے ہیںترب ۔وعدہ کے پوراہونے کاوقت آگیا ۔(اقرب)
۲؎ تفسیر:۔
مغربی مصنفین کا خیال ہے کہ سورۃ انبیا ء نویں سال میں نازل ہوئی ہے مسلمان مفسرین چونکہ ُتک مارنے کے عادی نہیںانہوں نے اسے مکی قرار دیا ہے ۔اگر مغربی مصنفین کے اس دعوٰی کو تسلیم کرلیا جائے کہ یہ سورۃ نویں یادسویں سال نبوت میں نازل ہوئی ہے تو ا سکے معنے یہ ہیںکہ اقترب ۔۔۔۔۔۔ میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی مکہ سے ہجرت کا وقت قریب آرہا ہے جس کے نتیجہ میںمکہ والوں کی تباہی کے سامان پیدا ہو جائیںگے دوسرے اس میںمدینہ میں اسلام کے پھیلنے کی طرف بھی اشارہ ہوگا جہاں محمد رسول اللہ ﷺ کی فتح کی بنیاد رکھی گئی تھی تعجب ہے کہ عیسائی مستشرقین جیسے ہوشیار لوگ آپ ہی اپنے جال میں پھنس گئے اور انہوں نے اس سورۃ کے نزول کی تاریخ ایسی مقرر کر دی جو ہجرت اور مدینہ میںاسلام پھیلنے کے قریب کے زمانہ کی تھی اور اسطرح تسلیم کر لیا کہ قرآن کریم خدائی کتاب ہے اور اس میں غیب کی اہم خبریں بتائی گئی ہیں جن خبروں کے مطابق عرب جیسے وسیع ملک پر چند سال میں ایک چھوٹی سی قوم غالب آگئی اور مکہ جو ابتدائے عالم سے کبھی فتح نہیںہوا تھااس قوم کے ہاتھوں فتح ہوگیا ۔
اقترب ۔۔۔۔ میں ڈرایا جارہا ہے کہ عذاب آنے والا ہے اس کے متعلق سوال پیدا ہوتاہے کہ جوشخص ابھی مانتا ہی نہیں اس پر افسوس کس بات کاکہ وہ غفلت میں پڑا ہوا ہے وہ تو یہ سنکر ہنسے گا کہ میں تو مانتاہی نہیںپھر مجھ پر افسوس کیسا ہورہا ہے ؟
اس کے متعلق یاد رکھناچاہیئے کہ اقترب کے لفظ سے معلوم ہوتاہے کہ عذاب کے ابتدائی آثار ظاہر ہو رہے ہیں اس لئے خداتعالیٰ فرماتاہے کہ یہ لوگ جو نہیں مانتے انہیںاتنا تو سوچنا چاہئے کہ اس عذاب سے بچنے کاکیا طریق ہے اور کیوں اس کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔آخر اس کی کوئی وجہ تو ہونی چاہئے مگر چونکہ یہ اس طرف توجہ نہیں کرتے اور اتنا بھی نہیںسوچتے اس لئے معلوم ہو ا کہ یہ لوگ غفلت میںپڑے ہوئے ہیں ۔
اس زمانہ میں بھی بعینہ یہی حالت ہے عذاب کے نشان پے درپے ظاہر ہو رہے ہیں ۔اطمنان قلب کسی کو بھی حاصل نہیں لیکن باوجود اس کے کوئی نہیںدیکھتاکہ اس کی کیا وجہ ہے اور فتنہ و فساد کے اصل منبع کے طرف کوئی توجہ نہیںکی جاتی لوگ یہی چاہتے ہیںکہ جوتکلیف یا روک ہمارے سامنے ہے وہ کسی طرح ہٹ جائے ۔نتیجہ یہ ہے کہ وہ عذاب میںدن بدن زیادہ پھنس رہے ہیںاور جب تک وہ مصائب کے اصل منبع کو بند کرنے کی کوشش نہیں کرینگے ۔یہی حالت جاری رہے گی ۔
آیت نمبر۳‘۴
ترجمہ :۔ ان کے پاس انکے رب کی طرف سے کبھی کوئی نئی یاد دہانی نہیںآتی مگر وہ اسے مانتے بھی جاتے ہیںاو راس سے ہنسی مذاق بھی کرتے جاتے ہیںان کے دل غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا چپکے چپکے مشورے کرتے ہیںاو رکہتے ہیںکہ دیکھتے نہیں یہ شخص تم جیسا ہی ایک بشر ہے پھر کیا تم اس کی فریبانہ باتوں میں آتے ہو حالانکہ تم خوب سمجھتے ہو ۔۳؎
۳؎ حل لغات :۔ الذکر کے معنے ہیں التلفظ ۔۔۔کسی چیز کاتلفظ کرنا ۔نیز اس کے معنے ہین احضار۔۔۔۔۔ کہ ذہن میںکسی چیز کو اس طرح بار بار لایا جائے کہ وہ ذہن سے اتر نہ جائے ذکر کے ایک معنے الصیت کے بھی ہیںیعنی شہرت ۔نیز اس کے معنے ہیں الشرف بزرگی چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ انہ۔۔۔ کہ یہ کتاب تیرے لئے اور تیری قوم کیلئے شرف اور عزت کاموجب ہے ۔اسی طرح ذکر کے معنے ہیں الکتاب ۔۔۔۔ کہ وہ کتاب جس میںدین اور مذہب کی تفصیلات کا ذکر ہو اگر ذکر۔۔۔کا فقرہ بولیں تو معنے ہونگے الصلب۔۔۔ مضبوط اور پکی بات (اقرب )
محدث کے معنے ہیں نقیض۔۔۔ یعنی نیا ملعبون لعب سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے اور لعب فی الامر ۔۔کے معنے ہیں استخف ۔۔۔اس نے دین کی باتوں کو معمولی سمجھا اور انکو حقیر قرار دیا (اقرب)
النجوٰی کے معنے ہیںپوشیدہ بات کرنا نیز اس کے معنے ہیں السربھید (اقرب) السحر کے معنے ہیںکل مالطف۔۔۔ ہر وہ بات جس کا ماخذ لطیف اور دقیق ہو اسی طرح اس کے معنے ہیں الفساد فساد ۔۔۔۔۔۔غلط بات کا ایسے رنگ میں پیش کرنا کہ وہ صحیح اور درست نظر آئے وان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی جب کسی کلام کے متعلق یہ کہیںکہ وہ سحر ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ کلام کرنے والا جب کسی کی تعریف کرتاہے تو ایسے رنگ میںکرتاہے کہ لوگوں کے دلوں کو موہ لیتاہے اور جب کسی کی مذمت کرتاہے تو ایسا طریق اختیار کرتاہے کہ لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہوجاتے ہیںاور وہ اسکو سچاسمجھنے لگتے ہیں (اقرب)
۳؎ تفسیر :۔
ان آیات میں بتایاگیاہے کہ مکہ والوں کا قرآن کریم کی باتوں کو حقیر سمجھنا اور اسلام سے ہنسی کھیل کرناکو ئی نئی بات نہیںدنیاکے تمام کفار ہمیشہ سے ہر نئے الہام کی مخالفت کرتے آئے ہیں اور اسے سن کر ان کے دل خداتعالیٰ کی طرف متوجہ نہیںہوئے بلکہ ہنسی مذاق کی طرف متوجہ رہے ہیں اور خداکے پیغام کو مٹانے کے لئے کافروں کے سردار ہمیشہ منصوبے کرتے رہے ہیں ۔انہیںیہ کبھی خیال نہیںآیا کہ یہ خداتعالیٰ کا کلام ہے اور ہم انسان ہیںبلکہ اس کلام کو انسان کی طرف منسوب کرکے یہی سمجھتے رہے ہیںکہ یہ تو ایک آدمی ہے اور ہم بڑی قوم ہیں یہ ہم سے بچکر کہاں جاسکتاہے اور اس کی اعلیٰ تعلیم سے مجتنب رہنے کیلئے اپنی قوم کو سمجھاتے رہے اور کہتے رہے ہیںکہ اس کی دلفیریب باتوں پرنہ جانا جب تمہاری تعداد زیادہ ہے اور یہ مدعی تمہارے مقابلے میںاکیلا ہے تو آخر تم ہی غالب آئو گے لاھیہ۔۔۔۔ جیسا کہ حل لغات میں بتایا جاچکا ہے نجوٰی کے معنے پوشیدہ بات کرنے کے ہیںپس نجوٰی جو خود مخفی ہوتاہے اس کے ساتھ اسرو کا لفظ مبالغہ کے لئے لگایا گیا ہے یعنی ایسے خفیہ منصوبے کرتے ہیں جن کا لوگوں کو علم تک نہیں ہوتا پھر پبلک میںکہتے ہیں حل ۔۔۔۔ کہ یہ تو ایک تمہارے جیسا انسان ہے کیا تم اس کے کلام کو جو سحر ہے سنتے ہو اور اسے قبول کرتے ہو حالانکہ تم کو علم ہے کہ سب ملمع سازی کی باتیں ہیں ۔
آیت نمبر۵
ترجمہ:۔ ان باتوںکو سنکر محمد رسول اللہ نے کہا میرارب جانتاہے ان باتوں کو جو آسمان میں کہی جاتی ہیں اور انکو بھی جو زمین میںکہی جاتی ہیں اور وہ بڑا سننے والا او ربڑا جاننے والاہے ۔ ۴؎
۴؎ تفسیر:۔
فرماتاہے عالم الغیب خداکو کفار کے یہ ارادے پہلے سے معلوم تھے کہ وہ خفیہ منصوبے کریں گے اورپھر پروپیگنڈہ کرکے لوگوان کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے اس لئے اس نے اپنے الہام میں اور انسانی قلوب میںپہلے سے اس کاعلاج رکھ دیا ہے یہ تو رسولوں کو صرف ایک بشر سمجھتے ہیںلیکن یہ نہیںجانتے کہ رسولوں کے پیچھے ایک دعائیں سننے والا اور غیب کاجاننے والا خدا بھی ہے اسلئے خواہ یہ انکے خلاف دنوں کو منصوبے کریں یا راتوں کو اور خواہ ان منصو بوں کو ظاہر کریں یاپوشیدہ رکھیں اللہ تعالیٰ ان کے منصوبوں کو توڑ کر رکھ دیگا ۔
آیت نمبر۶
ترجمہ:۔ بلکہ انہوں یعنی مخالفوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے ،کہ یہ کلام تو پریشان خوابیں ہیں بلکہ پریشان خوابیں بھی نہیں اس نے دیدہ و دانستہ یہ باتیں اپنے پاس سے بنالی ہیں بلکہ وہ ایک شاعرانہ مزاج رکھنے والا آدمی ہے جس کے دماغ میںطرح طرح کے خیالات اٹھتے رہتے ہیںپس چاہئے کہ ہمارے پاس کوئی نشان لے آئے جس طرح کہ پہلے رسول نشانوں کے ساتھ ساتھ بھیجے گئے تھے ۵؎
۵؎ حل لغات :۔ اضغاث الضغث کی جمع ہے اور الضیغث کے معنے ہیں قبضۃ ۔۔۔۔گھاس کے مٹھی بھرتنکے جو خشک اور تر ملے جلے ہونگے ماکان مکتلطا۔۔۔۔ ایسی خبریں یا ایسی باتیں جو سچی اور جھوٹی ملی جلی ہوں اور ان کی کوئی حقیقت نہ ہو ۔ حلام حلم کی جمع ہے اور حلم کے معنے ہوتے ہیں و ہ خواب جو انسان سونے کی حالت میں دیکھتاہے لیکن عام طورپر پراگندہ خوابوں پر یہ لفظ بولاجاتاہے (اقرب)
جغاث احلام ۔کے معنے ہیں حالم۔۔۔۔۔ کہ ایسی خوابیں جو پراگندہ خیالات کے ساتھ ملی ہوئی ہوں جن کی تعبیر اور تاویل کرنی درست نہ ہو( اقرب)
شاعر شعر سے نکلاہے ہو شخص جو شعر کہتاہے اس کو بھی شاعر کہتے ہیں اور وہ شخص جو انسانی شعور یعنی جذبات سے کھیلتاہے اس کو بھی شاعر کہہ لیتے ہیں۔
۵؎ تفسیر:۔
الہام کی تردید میںکفار کوئی ایسی بات تو پیش نہیںکرسکتے جس میں دلائل کے ذریعہ اسکو رد کیا گیا ہو ۔صرف یہ کہہ کر اپنے متبعین کو تسلی دے دیتے ہیں کہ تمہیں بھی تو کبھی کبھی پریشان خوابیں آجایا کرتی ہیں ۔اگر اس شخص کو آگئیں تو کونسی عجیب بات ہے ۔تم بھی تو کبھی کبھی جھوٹ بول لیا کرتے ہو ۔اگر اس نے جھوٹ بول لیا تو کونسی بات ہے تم بھی تو ضرورت کے موقعہ پر جذبات کو ابھارنے والی باتیں کرلیتے ہو ۔اس نے جذبات کو ابھارنے والی باتیںکرلیں تو کیا بات ہے یاپہلے تو وہ یہ کہتے ہیںکہ کچھ پریشان خوابیںاس نے دیکھی ہونگی پھر اس سے بھی ڈرتے ہیں کہ کم از کم اسکو سچاتو مانا ۔پھر کہتے ہیں مفتری ہے مگر پھر اس دعوٰ ی کو بھی بڑاسمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیںکہ ایسے صادق کی نسبت لوگ یہ بات کس طر ح مانیںگے؟ چنانچہ پھر کہتے ہیں یہ یونہی تمسخر ہے جیسے شاعرباتیں بناتاہے ۔
چونکہ رسو ل کریم ﷺ پر نازل ہونے والے کلام میں کوئی ایک شعر بھی نہیں اور قرآن کریم خود کہتاہے کہ یہ کلام کسی شاعر کا نہیں اس لئے یاد رکھنا چاہئے کہ جب قرآن کریم کے متعلق یا پہلے نبیوں کی نسبت شاعر کا لفظ آتاہے تو اس سے مراد عرف عام والا شاعر نہیں ہوتا بلکہ محض جذبات سے کھیلنے والا انسان ہوتاہے بانی سلسلہ احمدیہ بھی کبھی کبھی شعر کہتے تھے مگر وہ شاعر نہیں کہلاسکتے ۔وہ خود کہتے ہیں ؎
کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق ۔ اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعایہی ہے ۔
زمیندار اخبار چالیس سال سے اس بات پر تمسخر اڑاتارہا ہے کہ مرزاصاحب شعر کہتے ہیں۔حالانکہ نہ ان کے شعروں میںکوئی لطافت ہے نہ فصاحت او نہ زباندانی کی جھلک ۔غریب زمیندار تو یہ سمجھتا رہا کہ اس سے وہمرازاصحاب کی تردید کر رہاہے ۔حالانکہ وہ اس ذریعہ سے احمدیوں کو یہ ہتھیا ر مہیا کر کے دے رہا تھا کہ باوجود کچھ موزوں کلام کہنے کے مرزاصاحب شاعرنہیںکہلا سکتے او ران کے ملہم ہونے پر کوئی اعتراج نہیںہوسکتا ۔فلیاتینا۔۔۔۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ کفار اپنے باپ دادوں کو آپ جھوٹاکہتے ہیں پہلے زمانوںکی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر نبی کو لوگوں نے کہا کہ یہ نشان نہیںلایا لیکن انہی لوگوں کی اولاد نے آگے محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میںاپنے باپ دادوںکوجھوٹاکہہ دیا او یہ کہنے لگے کہ پہلے رسول تو آیات لایا کرتے تھے مگر محمد رسول اللہ کوئی آیت نہیں لائے دیکھو خداتعالیٰ کی تدبیر کیسی زبردست ہے جب پہلے نبیوں کے دشمن یہ کہتے تھے کہ لائو نشان دکھائو تو خدا کے فرشتے ان پر ہنستے ہونگے کہ ٹھہر جائو ابھی تمہارے پوتے پڑپوتے تمہیںجھوٹاکہیںگے۔چنانچہ اس کی ظاہری صورت یہ پیدا ہوگی کہ وہی نبی جن کی قوم ان کو کہتی تھی کہ تم کوئی نشان کیوں نہیں لائے جب مرگئے تو ان کی قوم نے ان کی طرف مضحکہ خیز باتیں منسوب کردیں کبھی کہ دیا وہ مردے زندہ کرتے تھے جیسا کہ مسیح کی قوم نے کہا کبھی کہہ دیا کہ کدھر ان کے پیر ہوتے تھے ادھر مقدس مقامات اپنی جگہ سے ہٹ کر پھر جاتے تھے جیسا کہ سکھوں نے کہہ دیا کہ جب باوانانک ؒ مکہ گئے تو جدھر ان کے پیر ہوتے تھے مکہ ادھر ہی ہوجاتا تھا غرض یہ مضحکہ خیز باتیں تھیں جن کے فریب میںانکی اولاد آگئی اور جب انہوں نے یہ کہا کہ جس طر ح پہلے رسول آیتیں لائے تھے موجودہ رسول بھی لائے تو ان کامطلب یہ تھا کہ جس طرح پہلے رسولوں کے مرنے کے بعد ہم نے ان کے معجزات کے متعلق کہانیاںبنالی تھیں ہماری کہانیوںکے مطابق نشان لائو ۔حالانکہ وہ رسول خداکے رسول تھے ان کافروںکے رسول نہیںتھے اور خداتعالیٰ اپنی سنت آپ نہیںتوڑا کرتا۔کیا کوئی احمق سے احمق بادشاہ بھی لوگوں نے دیکھا ہے جو اپنا قانون خود توڑنے لگ جائے ؟
آیت نمبر۶
ترجمہ ۔ ان سے پہلی بستیوں میں سے بھی جنکو ہم نے ہلاک کردیا تھاکوئی ایمان نہیںلایاتھا ۔تو پھرکیایہ ایمان لے آئینگے ؟ ۶؎
۶؎ حل لغات :۔ تریۃ کے معنے شہراور بستی کے ہیںلیکن یہاں قریۃ سے اہل قریہ مراد ہیں یعنی بستی اور شہر کے رہنے والے۔
۶؎ تفسیر :۔
فرماتاہے جب پہلی قوموں پر ہلاکت آگئی تو کیا وہ لوگ ایمان لائے تھے۔اب ان لوگوں کا بھی عذاب قریب ہے پھر یہ کس طرح ایمان لائیںگے۔
قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پراس امر کی وجاحت فرمائی ہے کہ صرف یونس ؑ کی قوم ایسی تھی جو عذاب کے آثار دیکھنے کے بعد ایمان لے آئی اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی برکات سے نوازا ہے ۔اس کے علاوہ اور کوئی قوم ایسی نہیںگذری جس نے عذاب کے آثار دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا ہو۔اور وقت کے نبی پر ایمان لے آئی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتاہے فلولاکانت ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یونسؑ کی قوم کے سوا کیوں کوئی اور قوم ایسی نہ ہوئی جو ایمان لاتی تو اس کاایمان لانا اسے نفع دیتا صرف یونسؑ کی قوم ایسی تھی کہ جب وہ ایمان لائی تو ہم نے دنیامیںاس سے رسواکن عذاب دور کردیا اور ان لوگو ں کو ایک لمبے عرصہ تک فائدہ پہنچایا ۔قرآن کریم کے یہ الفاظ صاف بتاتے ہیںکہ ان میںصرف ماضی کے ایک واقعہ کا ہی ذکر نہیںکیاگیا بلکہ اس خواہش کابھی اظہار کیاگیاہے کہ کیوں یونس ؑ کی قوم کی طرح اور اقوام بھی نہ ہوئیںجو ایمان لاکر نجات حاصل کرتیں ۔گویااللہ تعالیٰ کی طرف سے تونہ کا دروازہ بنی نوع انسان کے لئے ہمیشہ کھلا رہتاہے ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح یونس ؑ کی قوم ایمان لائی اور اللہ تعالیٰ نے اسے عذاب سے نجات دی اسی طرح رسول کریم ﷺ کی قوم بھی عذاب کے آنے کے بعد آپ پر ایمان لائی اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی برکات سے بہرہ ور فرمایا ۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب مکہ والوں کو انتہائی ذلت کے ساتھ محمد رسول اللہ ﷺ کے سامنے جھکنا پڑا اور خالد ؓ اور عمر و بن العاص جیسے لوگ جنہوںنے بعد میں ساری دنیا کو اسلام کے لئے فتح کیا اسلام لے آئے اور جب مسلمانوںکاجرار لشکر مکہ میںداخل ہوا اور مکہ کی حکومت تہ و بالا کردی گئی تو ہندہ جیسی دشمن اسلام عورت بھی ایمان لے آئی اور ابوجہل کا بیٹاعکرمہ بھی ایمان لے آیا یونس ؑ کے بعد صرف رسول کریم ﷺ کی ایک ذات ہے جن کی قوم پر عذاب آیا مگر پھربھی وہ ایمان لے آئی یہ رسول کریم ﷺ کے دم قدم کی برکت تھی ورنہ نہ یہ بات مسیح کو نصیب ہوئی نہ کسی اور نبی کو صرف یونس ؑکو پہلے نبیوں میںسے اور محمد رسول للہ کو آخری نبیوں میں سے اور محمد رسوللہ کو آخری نبیوں میںسے یہ بات نصیب ہوئی۔ ﷺ ۔
یہ جو فرمایا کہ جب پہلے ایمان نہیں لائے تو کیایہ ایمان لے آئیںگے؟ اس سے یہ مرادنہیں کہ وہ ایمان نہیںلائینگے ۔وہ تو لے آئے تھے ۔بلکہ اس میں ا ن کے اپنے خیالات کارد ہے اور یہ بتایا ہے کہ عقلی قاعدہ کے مطابق تو وہ ایمان نہیںلاسکتے تھے اتنے شدید ظلموں کے بعد اگر اایک قوم مغلوب ہوتی ہے تو اس کو ایمان نصیب نہیں ہوتا بلکہ اس کے مرد قتل کر دیے جاتے ہیںجیساکہ موسیٰ ؑ کو اپنے دشمن کنعانیوں کے ساتھ سلوک کر نیکا حکم دیا گیا ۔(استثنا باب ۲۰ آیت ۱۴ ) یہ محمد رسو ل اللہ ﷺ ہی کی ذات ستودہ صفات تھی کہ موسیٰ ؑ اور پہلے نبیوں کے طریق کے خلاف ظالم اہل مکہ کو جب انہوںنے فتح کر لیا ۔تو یہ اعلان کردیاکہ لہاتثریب ۔۔۔۔ آج تم پر کسی قسم کی گرفت نہیں تم سبکو معاف کیاجاتاہے ۔ حتی کہ جب عکرمہ بن ابوجہل اپنی بیوی کے اصرار پر حبشہ کی طرف بھاگتے ہوئے لوٹ کر واپس آیا تو اس نے رسو ل کریم ﷺ سے آکر کہا۔ یا محمد میری بیوی کہتی ہے آپ نے مجھے معاف کریا ہے اور میںمکہ میںرہ سکتاہوں ۔کیا یہ ٹھیک ہے آپ نے فرمایاہاں ٹھیک ہے عکرمہ نے کہا ۔یامحمد آپ کا شکریہ مگر میں اپنامذہب بد لنے کے لئے تیار نہیں کیا اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے بھی میںآپ کی مملکت میںرہ سکتاہوں آپ نے فرمایا۔ہاںجب ا س نے یہ سنا تو بے اختیار کہہ اٹھا اشھد ان لا الہ ال اللہ۔۔۔۔ میںگواہی دیتاہوں کہاللہ ایک ہے اور محمد اس کے رسول ہیںعکرمہ حقیقت سے ناواقف تھا اس نے یہ سمجھاکہ اللہ کے رسول ہونے کی وجہ سے آپ نے مجھے معاف کیاہے حالانکہ موسیٰ ؑ بھی اللہ کے رسول تھے اور انہوںنے اپنے مد مقابل قوم کو فتح کرکے زن و مرد کو قتل کردیا تھا۔
عکرمہ ؓ کو تو یہ کہنا چاہئے تھاکہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے ۔او ر محمد ! میںیہ بھی گواہی دیتاہوں کہ تیرانام ہی محمد نہیںبلکہ تو وہ محمد ہے جس کی سب نبیوں نے خبردی ہے اور جس کے سب انبیاء گن گاتے رہے ہیں ۔
آیت نمبر۸
ترجمہ۔ اور تجھ سے پہلے بھی ہم نے صرف بعض مردوں کو رسول بناکر بھیجا تھا جنکی طرف ہم وحی کیاکرتے تھے ۔ اگر تم یہ بات نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ کر دیکھ لو ۔ ۷؎
۷؎ تفسیر:۔
اس میںبتایاگیاہے کہ تجھ سے پہلے رسول بھی کامل القوٰی انسان ہوتے تھے ۔ان میںاور دوسرے شریف مردوں میںیہی فرق ہوتاتھاکہ خدا ان کی طرف وحی کرتاتھا ۔اس جگہ دوسرے انبیاء کو بھی رجالاً کے الفاظ سے یاد کیا ہے یعنی کامل القویٰ لوگ ۔یہ محمد رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میںنہیںبلکہ اپنی قوم کے لوگوںکے مقابلہ پر ہے ہر نبی اپنی قوم کے لوگوںمیںسے اشرف اور اعلیٰ ہوتاہے ۔پھر فرماتاہے جو تم سے پہلے اہل کتاب گذر چکے ہیں ان سے پوچھ لو کہ ان کی طرف بھی انسان رسول آئے ہیںیاخدا رسول آیا ہے ۔
یہ آیت درحقیقت کفار کے اس اعتراض کا الزامی جواب ہے کہ حل حاذٓ الابشر ۔۔۔ یعنی یہ تو تمہارے جیسا ایک آدمی ہے کیاتم اس کی باتوں پر ایمان لاتے ہو۔ ؟
اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے بھی ہدایت کے لئے آدمی ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی نازل کیاکرتے تھے اگر تم کو معلوم نہ ہو تو یہود اور نصاریٰ سے پوچھ لو ۔کیونکہ رسول کریم ﷺ کے مخالف اگر اور نہیںتو کم از کم حضرت ابراہیم ؑ کی نبوت اور آپ کے خدا رسیدہ ہونے کے تو ضرور قائل تھے۔ پس جب وہ بشر رسول تھے تو اب ایک بشر رسول کے آنے پرانہیںکیوں اعتراض ہے ۔اس قسم کے الزامی جواب سے فائدہ یہ ہوتاہے کہ معترض جس بات کو تسلیم کرتاہے اس کے خلاف اسے تعصب نہیںہوتابلکہ اس کی تائید میںاس کے پاس دلائل ہوتے ہیں ۔پس بجائے اس کے کہ جس بات پر نیااعتراض کیا ہو اس کی تائید میں دلائل دیئے جائیں۔یہ زیادہ سہل طریق ہوتاہے کہ خود اسی کی تسلیم کردہ باتوں میں سے کوئی اس کے سامنے پیش کردی جائے تاکہ ا سکی تائید میں جو دلائل اس کے ذہن میں ہوں انہی کے ذریعہ سے وہ اس بات کی صداقت کو بھی سمجھ لے جس پر وہ اعترض کرتاہے یہاں بھی بجائے یہ ثابت کرنے کے کہ نبی کیلئے بشر ہوناضروری ہے اللہ تعالیٰ صرف یہ حوالہ دیتاہے کہ پہلے نبی جن کو تم مانتے ہو و ہ بھی تو ایسے ہی تھے پھر تم نے انکو کیوںمانا تھا۔
آیت نمبر۹
ترجمہ:۔ اور ہم نے ان رسولوںکو ایسا جسم نہیں دیاتھا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں ۔اور نہ وہ غیر معمولی عمر پانے ولے لوگ تھے ۔ ۸؎
۸؎ حل لغات :۔ الجسد کے معنے ہیںجسم الانسان انسان کاجسم ۔وکل ۔۔۔۔ہر وہ مخلوق جو نہ کھاتی ہے اور نہ پیتی ہے جیسے جن اور ملائکہ (اقرب)
۸؎ تفسیر:۔
یہاں سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہئے کہ حضرت عیسیٰؑ کی قوم تو ان کو ابن اللہ مانتی ہے یارام اور کرشن کی قوم ان کوخدامانتی ہے کیونکہ وہ ابن اللہ مانیں یا خدامانیں وہ اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ وہ عورتوں کے پیت سے پیدا ہوئے اور انسانوں جیسا جسم رکھتے تھے اور کھانے پینے سے آزاد نہیںتھے اور نہ موت سے آزاد تھے یہ اقرار ثابت کرتاہے کہ درحقیقت ان کی قوم ان کو انسان ہی مانتی تھی چنانچہ دیکھ لو اسام کے ذریعہ سے توحیدکی ضرب ایسی کار ی پڑی کہ اب ہندو اور عیسائی بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ ہم موحد ہیں ۔
آیت نمبر۱۰
ترجمہ :۔ او رہم نے جو وعدہ ان سے کیا تھا اسے پورا کر دکھایا اور انکو اورانکے سواجن کو چاہا دشمنوں سے نجات دی اور جو حد سے بڑھنے والے تھے انکو ہلاک کردیا ۔۹؎
۹؎ حل لغات :۔ مسرفین ۔۔۔اسرف سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے ۔اور اسرف فی کذا کے معنے ہوتے ہیں جاوزالحد ۔حد سے تجاوز کیا اسی طرح اس کے معنے ہیں خطاء ۔غلطی کی ۔جھل ۔نادانی کی غفل ۔غفلت برتی (اقاب) پس مسرفین کے معنے ہونگے ۔حد سے تجاوز کرنیوالے ۔غلطی کرنے والے نادانی کرنیوالے ۔
۹؎ تفسیر:۔
بے شک ان لوگوں سے غیر معمولی سلوک ہوا مگر غیر معمولی سلوک الٰہی باتوں کے معاملہ میںتھا جن کا ذکرالہام میں آیا تھا ۔ورنہ عام طبعی باتوں میںوہ دوسرے انسانوں کے مشابہ تھے ۔
آیت نمبر۱۱
ترجمہ:۔ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب اتاری ہے جس میںتمہاری بزرگی کے سامان ہیں ۔کیا تم عقل نہیںکرتے۔ ۱۰؎
۱۰؎ حل لغات :۔ ذکر کے معنے سرف کے ہیںیعنی بزرگی اور عزت (اقرب)
۱۰؎ تفسیر:۔
فرماتاہے الہام الٰہی رحمت کے طورپرآتاہے نہ کہ *** کے طورپر جیسا کہ عیسایوں کاخیال ہے ۔چنانچہ د یکھ لو ۔قرآن کریم میں وہ تعلیم ہے کہ اگر تم اس پرعمل کرو گے تو تم کو بڑاشرف نصیب ہوگا مثال کے طورپر قرآن کہتاہے ہمیشہ سچ بولو قرآن کہتاہے ایفائے عہد کرو ۔قرآن کہتاہے چوری نہ کروقرآن کہتاہے ظلم نہ کرو ۔قرآن کہتاہے کہ مال ہو تو غریبوں پر خرچ کرو ۔صرف اپنے نفس کا خیال نہ رکھو ہاں اپنے اہل وعیال کو بھی توفیق کے مطابق خرچ دو ۔قرآن کہتا ہے کہ اگر دو حکومتیں آپس میںلڑپڑیں تو ان میںصلح کرائو ۔اور صلح کے وقت اپناحصہ بٹوارہے میںنہ رکھو اور جب معاملہ کرو انصاف اور عدل کے ساتھ کرو بیویوں اور نوکروں کے ساتھ نیک سلوک کرو ۔مزدور کو اس کا حق اداکرو مسافروں کی خبر گیری رکھو قرضداروں کے قرضے چکائو ۔غلاموں کو آزاد کرائو ۔ جو مخلوقات مانگ نہیںسکتی یعنی بے زبان ہے یامانگنے کو عار سمجھتی ہے ان کی خبر گیری کرو اور ظالم کو اس حد تک معاف کرو کہ اس کی اصلاح ہو۔مگر جب معاف کرنے سے شرارت پیدا ہو تو معاف نہ کرو ۔اب دیکھ لو جو شخص اس تعلیم پرعمل کریگا اس کو عزت نصیب ہوگی یاذلت ؟ اگر اس تعلیم پرعمل کرنا *** ہے تب تو عیسائی سچے ہیں لیکن اگر اس تعلیم پرعمل کرنا *** کا موجب نہیںبلکہ عزت کا موجب ہے تو قرآن سچاہے اور مسیحیت جو شریعت کو *** قرار دیتی ہے جھوٹی ہے ۔
آیت نمبر۱۲‘۱۳
ترجمہ:۔ اور کتنی ہی بستیاں ہیں جو ظلم کیاکرتی تھیں ۔کہ ہم نے ان کو کاٹ کر رکھ دیا اور ان کے بعد ایک اور قوم کو پیداکردیا ۔پس جب (ہلاک ہونے والے لوگوں نے ) ہمارے عذاب کو محسوس کیاتو لگے اس سے بچنے کے لئے دوڑنے ۔ ۱۱؎
۱۱؎ حل لغات:۔ قصمنا قصم سے جمع متکلم کا صیغہ ہے اور قصم الشی کے معنے ہوتے ہیں کسرہ وبانہ ۔اس کو توڑدیااور ٹکڑے ٹکڑے کردیا او مختلف حصوں کو علحٰیدہ کردیا اور جب قصمۃ اللہ کہیں تو معنے ہونگے ۔اھانہ ۔۔۔۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل و خوار کیا ۔(اقرب)
مفردات میں ہے وکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے معنے ہیںہم نے بہت سی بستیوںکو تباہ و برباد کردیا ۔اور اسطرح ہلاک و ویران کیا کہ ان کے مکانات ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگئے ۔ ۔الباس ۔۔۔۔۔۔ یرکضون رکض سے جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے اور وکض کے معنے ہوتے ہیں حرک رجلاہ اپنے پائوں کوحرکت دی اور رکض منہ کے معنے ہیں ھرب مسرعاً جلدی جلدی بھا گا (اقرب) پس یرکضون کے معنے ہونگے وہ جلدی جلدی بھاگتے تھے ۔
۱۱؎ تفسیر :۔
فرماتاہے ۔نیکی اور بدی کی لہریں دنیا میںہمیشہ چلتی رہتی ہیں ۔انسان ایک عرصہ کے بعد بگڑ جاتاہے ۔پھر اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کرتاہے اور جب وہ اصلاح کے سامان پیدا کرتاہے ۔پہلے مفسد ہوگیااصلاح کرنے والے کا مقابلہ کرتے ہیں ۔اور پھر ہمیشہ بھاگ جاتے ہیں ۔ اس جگہ ظالم کے معنے ایسے شخص کے ہیں جو اپنے حقوق اور طاقتوں کوغیر محل استعمال کرتاہے یا کوئی حقیقت جو کسی کی طرف منسوب کرنی چاہئے وہ نہیںکرتا۔یا جو بات کسی میں نہیںہے وہ سواسکی طرف منسوب کر دیتاہے ۔دنیا میںتمام بدیاں انہی باتوں سے پید اہوتی ہیں ۔اگر ہر ایک طاقت کو اپنے موقعہ اور محل پر استعمال کیاجائے تو ہمشہ نیک نتائج پید اہوں نقصان کا موجب وہی بات ہوتی ہے جوبے جاطرق سے کی جاتی ہے ۔ وہ بستیاں جنمیںرہنے سالے اپنی طاقتوں کے بے جا اور بے محل استعمال کرکے ظالم بن گئے تھے انکے متعلق خداتعالیٰ فرماتاہے کہ ہم نے انکو ہلاک کردیااور ان کی جگہ دوسری قوم کو کھڑاکردیا۔
آیت نمبر۱۴‘۱۵
ترجمہ :۔ تب ہم نے کہا )دوڑو نہیں اور ان چیزوں کی طرف جن کے ذریعہ سے تم آرام کی زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے گھروںکی طرف واپس جائو تاکہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق سوال کیاجائے اسکا انہوں نے یہ جوب دیا کہ اے افسوس ہم تو عمر بھر ظلم ہی کرتے رہے ۔۱۲؎
۱۲؎ حل لغات :۔ اترفتم ۔۔۔۔۔۔ مجہول کاصیغہ ہے اور اس کے معنے ہیںزیدکو نعمت نے خوشحال بنادیا اسی طرح اترفتہ ۔۔۔کلے معنے ہوتے ہیں اطغتہ ۔۔۔اسکو نعمت اور خوشحالی نے متکبر اور سرکش بنادیا (اقورب ) مفردات میں ہے الترفہ ۔۔کہ معنے ہیںنعمتوں کی کثرت ۔پس اس کے معنے ہونگے کہ جن چیزوں کے ذریعہ سے تم آرام اور نعمت کی زندگی بسر کرتے تھے ان کی طرف لوٹو ۔
۱۲؎ تفسیر:۔
اس آیت میں بتایاگیا ہے کہ مجرم لوگ آخرمیں اپنی غلطی کااقرار کرتے ہیں مگر ان کی یہ اصلاح صرف سزا کے زمانہ تک رہتی ہے اس کے بعد پھر بگاڑ شروع ہوجاتاہے ۔
آیت نمبر۱۶
ترجمہ :۔ اور وہ یہی بات کہتے چلے گئے یہاں تک کہ ہم نے ان کو ایک کٹی ہوئی کھیتی کی طرح کردیا جسکی سب رونق برباد ہو چکی تھی ۔ ۱۳؎ حل لغات :۔حصیداً کے معنے ہیں الزرع المحمود کٹی ہوئی کھیتی خامدین خامد سے جمع کا صیغہ ہے جو خمد سے اسم فائل ہے ۔او ر خمدت لانار کے معنے ہیںآگ بجھ گئی او کامدین کے معنے ہیںای ۔۔۔۔وہ ایسے ہوگئے کہ انکی کوئی حس باقی نہ رہی یا وہ مردہ ہوگئے (اقرب)
۱۳؎ تفسیر:۔
فرماتاہے ۔ہم نے ان کی جڑوں کو کاٹ دی اور وہ بجھی ہوئی آگ کی طرح ہوگئے ۔یعنی بڑھنے اور ترقی کرنے کامادہ ان میں نہ رہا۔انکی امنگیں جاتی رہیں اور انکی ترقی کی خواہشیں مٹ گئیں جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ کاعذاب نازل ہوتاہے ۔ان کی یہی حالت ہے ۔
آیت نمبر۱۷
ترجمہ :۔ اور ہم نے آسمان کو اورزمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے محض کھیل کے طور پر پید نہیں کیا ۔بلکہ انکی پیدائش میں حکمت تھی ۔ ۱۴؎
۱۴؎ حل لغات:۔ لاعبین ۔۔۔ لاعب کی جمع ہے جو لعب سے اسم فاعل ہے او رلعب الرجل کے معنے ہیں ضد جد ومزح ۔یعنی سنجیدگی کے بالمقابل کی حالت اختیار کی اور مزاح کرنے لگ گیا ۔او ر یا صرف مزے کی خاطر کام کیا یاہنسی کھیل میںکام کیا ۔
۱۴؎ تفسیر:۔
یہاں فرماتاہے کہ آسمان اور زمین پرغور کرکے دیکھو ہم نے انکوبغیر حکمت کے نہیں پیداکیا ۔بلکہ حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے ۔پھر کس طرح ہوسکتاہے کہ انسان کو جو اشرف المخلوقات ہے بے حکمت پید اکیاہو کہ کھائے پیئے اورمرجائے ۔
آیت نمبر۱۸‘۱۹
ترجمہ :۔ اگر ہم نے کوئی دل بہلاوا ہی تجویز کرناہوتا تو اس کو اپنے قرب میںتجویز کرتے لیکن ہم تو حق کو بطل پراتھامارتے ہیںاور وہاس کاسرتروڑ دیتاہے اور وہ باطل فوراً ہی بھاگ جاتاہے۔اورتم پرتمہاری باتوں کی وجہ سے افسوس ہے ۔ ۱۵؎
۱۵؎ حل لغات :۔ حل لغات :۔ نقذف قذف سے مضارع متکلم کا صیغہ ہے اور قذف بہ کے معنے ہوتے ہیںرمیٰ بہ اس کو پھینکاعربی میںمحاورہ ہے ھم بین۔۔۔۔۔۔ ان میں سے بعض تو سونٹے سے مارنے والے ہیں اور بعض پتھر مارنے والے ہیں(اقرب )
پس نقذف بالحق علی لباطل کے معنے ہیں ہم حق کوباطل پرپتھر کی طرح مارتے ہیں ۔
یدمغ دمغ سے مضارع کا صیغہ ہے اور دمغہ کے معنے ہیںشجہ حتی بلغت اسجہ ۔۔۔ اس کے سرکوایسا زخم لگایا کہ وہ زخم اس کے دماغ تک پہنچ گیا۔نیز جب دمغ ۔۔۔۔۔۔۔ کہیںتو معنے ہوتے ہیں البطلہ ۔ اس کو باطل کر دیا اور مٹادیا پس یدمغہ کے معنے ہیں اس کا سرتوڑ دیتاہے اور اس پر غالب آجاتاہے ۔
۱۵؎ تفسیر:۔
مفسرین ا س کے یہ معنی کرتے ہیںکہ اگر ہم انکو کھیل کے طورپر پید اکرتے تو اپنے پاس رکھتے کیونکہ کھیل کی چیزیں اپنے پاس رکھی جاتی ہیں اسی طرح کہتے ہیں کہ لھو کے معنے بیٹے کے ہیں اور خداتعالیٰ یہ کہتاہے کہ اگر ہم نے کوئی بیٹابنانا ہوتا تو اپنی جنس کا بناتے نہ کہ انسان بناتے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ لھو سے مراد مرد اور عورت کا خاص تعلق ہے اور مراد یہ ہے کہ اگر میں نے ایسا تعلق رکھنا ہوتا تو اپنی جنس سے رکھتا نہ کہ انسان کی جنس سے مگر میرے نزدیک چونکہ آگے یہ ذکر ہے کہ بل۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے اس کا بیٹے یاعورت سے کوئی تعلق نہیں۔البتہ کھلونے والے معنے درست ہیں اور مراد یہ ہے کہ اگر ہم کھلونوں سے کھیلنے والے ہوتے تو کھلونا اپنے پاس رکھتے تمہیں کیوں دیتے مگر اس کے ایک معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ہم نے جو یہ دنیاکا کارخانہ بنایا ہے جس سے بنی نوع انسان اتنا فائدہ اٹھاتے ہیں کیا اس کارخانہ کو ہم نے ہنسی اور تمسخر کے طور پر ہی بنایا ہے ۔اگر اسی لئے بنایا ہے تو کیا ہم اپنی ہی ذات سے تمسخر کرتے ہیں ۔یہ تو کوئی عقلمند نہیں کیا کرتا۔ پھر ہم ایسے کس طرح کر سکتے تھے ۔بل نقز۔۔۔بلکہ ہم تو ہمیشہ حق و حکمت کی باتیں دنیا میں بھجتے رہتے ہیں تاکہ وہ باطل کا سر کچل دیں اور ہمیشہ باطل حق کے مقابلہ میں بھاگ جاتاہے پس اگر یہ دنیا ہم نے بے حقیقت پید اکی ہوتی تو الہام الہٰی کاسلسلہ دنیا میںکیوں جاری کرتے ۔ ؟ ولکم۔۔۔۔۔۔۔ اس میںبتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ کی باتوں پرہنسی اڑانا بہت معیوب بات ہے۔اور اس کا بڑا خطرناک نتیجہ نکلتاہے کیا ہنسی اور مذاق کے لئے ان کے پاس خداکا کلام ہی رہ گیا ہے اگر وہ اس سے باز نہ آئے تو ان پر سخت عذاب نازل ہوگا۔
آیت نمبر۲۰‘۲۱‘۲۲
ترجمہ:۔ اورجو وجود بھی آسمان میںہیں اور زمین میںہیں سب اسی کے ہیں۔او ر جو اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے سرتابی نہیں کرتے ۔ اورنہ اس سے تھکتے ہیں وہ رات کوبھی اور دن کوبھی تسبیح کرتے ہیں ۔اور وہ اس سے رکتے نہیں ہیں ۔کیا ان لوگوں نے زمین میںسے معبود بنالئے ہیں ؟ ااور وہ (مخلوقات) پیدا کرتے ہیں ۔ ۱۶؎
۱۶؎ حل لغات :۔ یستحسرون۔استحسر سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور استحسر کے معنے ہیںاعیا ۔وہ تھک گیا اور لایستحسرون کے معنے ہونگے لایعیون منھاوہ عبادت سے تھکتے نہیں ۔(اقرب)
ینشرون انشر سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے۔اور انشراللہ ا لمیت کے معنے ہوتے ہیں احیاہ اللہ تعالیٰ نے مردہ کوزندہ کیا (اقرب) پس ینشرون کے معنے ہونگے وہ زندہ کرتے ہیں مخلوق پیداکرتے ہیں ۔
۱۶؎ تفسیر :۔
فرماتا ہے کہ تم دیکھو آسمان اور زمین میںجو کچھ ہے وہ خداکاہے اور جب یہ سب کچھ خدکا ہے تو کیاتم سمجھتے ہو کہ وہ انسانوںکو تباہ ہونے دیگا اور ان کے لئے ہدایت کا سامان نہیں کرے گا دنیامیںکوئی شخص اپنی چیز کو آپ تباہ نہیںکیا کرتاپھر تم کس طرح سمجھتے ہو کہ زمین و آسمان میںجوکچھ ہے سب خداکاہو ۔اور پھر بھی اسے اپنے بندوںکی اصلاح کا خیال نہ ہو ۔وہ ہمیشہ ان کی اصلاح کے لئے اپنے مامور بھیجتارہتاہے اور جس شخص کے عمل بتاتے ہیں کہ وہ خدارسیدہ ہے وہ کبھی تکبر کرکے خداتعالیٰ کی عبادت سے ہٹ نہیں جاتا ۔ اور نہ خداکی عبادت سے تھکتاہے بلکہ ایسے لوگ رات اور دن بغیر وقفہ کے تسبیح کرتے رہتے ہیں یہ لوگ تو خود بے وقوف ہیںاور ہماری طرف بے وقوفی منسوب کرتے ہیںکہ آپ اپنے ہاتھوں سے بت بناتے ہیںاور ان کی پوجا کرنے لگ جاتے ہیں اور ہمارے متعلق بھی خیال کرتے ہیں کہ ہم خود ایک مخلوق پید اکرکے اس کو اپنابیٹا یا ہمسر بنا لیتے ہیں۔
آیت نمبر۲۳
ترجمہ :۔ مگر ان دونوں یعنی زمین و آسمان میںاللہ کے سوا اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہوجاتے ۔پس اللہ تعالیٰ جو عرش کابھی رب ہے تمام نقصوںسے پاک ہے اور ان باتوں سے بھی جو وہ کہتے ہیں ۔ ۱۷؎
۱۷؎ حل لغات :۔ یسفون وصف سے مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے اور وصف ۔۔کے معنے ہوتے ہیں نعتہ ۔۔۔کسی چیز کی اندرونی کیفیت کو بیان کرنا ۔(اقرب) پس یصفون کے معنے ہونگے وہ بیان کرتے ہیں ۔
۱۷؎ تفسیر:۔
فرماتاہے ۔کیا یہ سمجھتے نہیں کہ زمین وآسمان میںاللہ کے سوا اور بھی معبود ہوتے تو زمین و آسمان تباہ ہوجاتے ۔یعنی اگر کئی معبود ہوتے تو دنیامیں کئی قانون نیچر ہوتے ۔اور دنیاتباہ ہوجاتی مگر قانون نیچر دنیامیںایک ہی نظر آتاہے مجھے یاد ہے جب میںچھوٹا تھا ۔ غالباً میری عمر اس وقت کوئی اکیس سال کی تھی کہ ایک سندھ کے مولوی صاحب غالباً مولانا عبید اللہ صاحب سندھی جو اکثر قادیان آتے رہتے تھے ۔استازی لامکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ لامسیح اول ؓ کو ملنے کے لئے آئے اور انہوں نے یہ آیت آپ کے سامنے رکھی کہ آپ اس کوحل کردیں اور یہا ںا عتراض کیا کہ قرآن نے یہ کیا کہا ہے کہ اگر کئی معبود ہوتے تو زمین و آسمان میں فساد پید ہو جاتا حالانکہ معبود تو کہتے ہیں ایسے ہیں جو کامل القویٰ ہو انسان بادشاہ دنیامیں لڑتے ہیں ۔ اگر واقعہ میںخداکے سوا اور کئی خداہوتے تو وہ آپس میں کیوں لڑتے ۔استاذی لمکرم حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ لمسیح الاول ؓ نے ان کو کئی جواب دیئے مگر انکی تسلی نہ ہوئی بڑی دیر کے تک وہ عتراض کرتے چلے گئے ۔مجھے اب تک وہ کمرہ یاد ہے جہاںیہ بناتیںہوئی تھیںبلکہ ابتک وہ جہتیں بھی یاد ہیں جس طرف دونوں کے منہ تھے ۔استاذی المکرم حضرت مولوی صاحب ؓ کامنہ اس وقت شمال کی طرف تھا ۔ اور سندھی مولوی صاحب کا منہ جنوب کی طرف تھا ۔اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے جب بحث لمبی ہوگئی اور سندھی مولوی صاحب جو اغلبا ً مولانا عبید اللہ ساحب سندھی تھے نے کہا کہ اعترض کا کوئی جواب نہیںہو سکتا تو استاذی المکرم حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓ نے بڑے جوش سے کہاکہ آپ مجھ سے کہتے ہیںکہ میںجواب نہیں دے سکتا ۔ ذرا اس بچہ سے جو میرا شاگرد ہے بحث کرکے دیکھ لیں ۔مولوی عبیداللہ صاحب کو معلوم تھا کہ میںبانئے سلسلہ احمدیہ کابیٹاہوں ۔وہ تھے تو دیوبندی مگر ایک لمبے عرصہ تک مختلف پیروںکے میری بھی رہ چکے تھے اور پیروں کا ادب ان کے دل میں بڑاتھا ۔استاذی المکرم کی بات سن کر کہنے لگے ان سے میںبحث نہیںکرونگا یہ تو مرزا صاحب کے بیٹے ہیں ۔معلوم نہیںاگر بحث ہوجاتی تو میں اسوقت کیاجواب دیتالیکن اب میں سمجھتاہوں کہ بیشک اٰلھہُ کامل القویٰ ہوتے ہیںلیکن انکا کامل القویٰ ہونا ہی بتاتاہے کہ وہ ایک وقت میں ایک سے زیاد ہ نہیں ہوسکتے ۔مذکورہ بالاواقعہ تو ۹؁ ء کاہے ۱۱ ؁ ء میں میں ڈلہوزی گیا وہاں چرچ نے یروپین پادریوں کے آرام کے لے کچھ کوٹھایاں بنائی ہوئی ہیں ۔پادری ینگسن صاحب جن کے ذریعہ سے سیالکوٹ میںعیسائیت مضبوط ہوئی ہے وہ وہاں سے بدل کر جنوبی ہند میں کسی جگہ پرمقرر ہوئے تھے اور گرمیاں گذارنے کے لئے ڈلہوزی آئے ہوئے تھے ۔وہ جواںسال بڈھا روزانہ شام کو اسلام کے خلاف پمفلٹ ہاتھ میںپکڑ کر بازار میںپھرتاتھا۔اور مسلمانوں میں تقسیم کرتامسلمان بے عمل تو بہت ہیں مگر جوش میںبھی بہت جلد آجاتے ہیں خصوصا ً ان پڑھ طبقہ ۔چنانچہ ڈلہوزی اور ساتھ کی چھائونی بیلوں میں بڑا شور پڑگیا کہ اس پادری کے ساتھ کسی مسلمان عالم کی بحث کرانی چاہئے ۔بیلون جو ڈلہوزی کے پاس چھائونی ہے اس کی جامع مسجد کے امام ایک کشمیری مولوی تھے ان کو پتہ تھا کہ میں آیا ہوا ہوں ۔ جب لوگ ان کے پاس گئے تو انہوںنے کہاکہ میں نے سنا ہے کہ مرزا صاحب کا بیٹا آیا ہوا ہے ۔اس کو مباحثہ کے لئے لے جائو عیسائیوں سے مباحثہ قادیانی اچھا کرتے ہیں ۔میں تو ناتجربہ کار تھا مگر جب ایک وفد میرے پاس آیا تو مجھے ان کی بات ماننی پڑی اور میں نے مباحثہ کرنے کیلئے آمادگی ظاہر کردی۔ایک برات کی شکل میں ہم آٹھ نو آدمی پادری صاحب کی کوٹھی پہنچے وہاں انہوںنے یہ سوال اٹھایا کہ آپ بتائیں آپ ہیں کس مذہب کے میرے دل میں فوراً خداتعالیٰ نے ڈال دیا کہ ان کا منشا یہ ہے کہ میرے سوالوں کو ٹلادیں اور اسلام پر اعتراض شروع کردیں ۔میں نے ان سے کہا کہ آپکو اس سے کیا غرض ہے کہ میں کس مذہب کا ہوں آپ یہاں عیسائیت کی تبلیغ کے لئے آئے ہیں ۔آپ مجھے تین خدائوں کی تھیوری سمجھادیں۔اگر آپ کامیا ب ہوگئے تو خواہ میں کسی مذہب کا پیروہو امیں آپ کی بات مان لونگا پہلے تو وہ ایچ پیچ کرتے رہے لیکن آخر انہیںمیری بات ماننی پڑی اور میں نے گفتگو یوں شروع کی کہ بتائیے خدا باپ کامل ہے یا ناقْص اگر وہ ناقص ہے تو خدانہیں ہو سکتا۔اسی طرح روح القدس کامل ہے یاناقص اگر وہ ناقص ہے تو وہ بھی خدانہیں ہوسکتا اسی طرح تیسرا اقنوم بیٹاکامل خداتھا یا ناقص خدا ۔اگر وہ ناقص تھا تو و ہ بھی خدانہیں ہوسکتا انہوںنے میری ان تینوں باتوںکو مان لیا ۔پھر میں نے ان سے پوچھاکہ کیا خداباپ کو اس زمین و آسمان پیداکرنیکی طاقت کلی طور پرحاصل تھی یا وہ کسی کی مدد کامحتاج تھا ۔؟ اوپر کی بات سے ظاہرہے کہ وہ یہ نہیٰںکہہ سکتے تھے کہ وہ کسی کی مدد کا محتاج تھا پھر میں نے یہ کہاکہ روح القدس اس ساری کائنات کو پیدا کرنے پر کلی طور پر قادر تھا یا کسی کی مدد کامحتاج تھا ۔انہوں نے کہا نہیں کل طور پر قادر تھا۔ پھرمیں نے پوچھا کہ کیا خدا بیٹا اس کائنات کے پیدا کرنے پر کل طور پر قادر تھا یا کسی کی مدد کامحتاج تھا۔ انہوں نے پھر یہی کہا کہ وہ کلی طور پر قادر تھا میں نے کہا پادری صاحب پھر سوال حل ہوگیا۔کہنے لگے کس طرح؟ میں نے ایک پنسل انکی میز سے اٹھاکر ان کے قریب رکھدی اور میں نے کہا پادری صاحب اس پنسل کو اٹھاکر دوسری جگہ رکھنے پر آپ قادر ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں پھر میں نے ایک تیسرے شخص کی طرف اشارہ کرکے کہاکہ کیا یہ صاحب قادرہیں ؟پادری صاحب نے کہا ہاں میں نے کہا جب ہم تینوں شخص اپنی ذات میںاس پنسل کو ہلانے پر قادر ہیں لیکن پھربھی ہم تینوں کھڑے ہوکر شور مچادیں کہ او بہرہ ادھر آئو او باورچی ادھر آئو جب وہ کمرے میں داخل ہوں تو ہم ان سے کہیںکہ ہم تینوںسے مل کر یہ پنسل ادھر رکھ دو توبتائیے وہ ہمیں پاگل سمجھیں گے یانہیں۔پادری صاحب نے کہاآپ کامطلب؟ میں نے کہا صرف جواب دے دیجئے ۔انہوںنے کہا ہاں پاگل کہیں گے ۔میںنے کہاجب خدا باپ او رخدابیٹااور خداروح القدس تینوں کائنات کے پیدا کرنے پر بزاتہ قادرہیں اور اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کو اس کام کے لئے بلاتے ہیں جس کو وہ اکیلے اکیلے کرسکتے ہیں تو بتایئے دوسرے خدابلانے والے خداکواور ہم لوگ اس خداکو پاگل کہیںگے یانہیں ۔ اور پاگل خداہو ہی نہیںسکتا۔یاتو پاگل کہلا کر وہ خدنہ رہے گایا ایسے پاگل دنیامیں وہ اودھم مچاددیں گے کہ دنیاہی تباہ ہوجائے گی۔ یہی جواب سندھی مولوی صاحب کو دینا مناسب تھا۔مگر اس وقت انہوں نے بحث کرنے سے انکار کردیا حقیقت یہی ہے کہ اگر خداتعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود ہیں یعنی کامل القویٰ ہستیاں موجود ہیںتو دنیاکے کام کومل کر چلانا جبکہ ان میں سے ہر ایک اس کام کو چلا سکتاہے ان کو پاگل ثابت کریگا۔اور خدائی سے ان کو جواب مل جائیگا۔ اور اگر خدائی سے جواب نہ ملے گا تو ماننا پڑیگا کہ یہ پاگل دنیاکو تباہ کرکے رکھدیںگے
پس یہ آیت بڑی سچی ہے اور اس پر کوئی اعترض نہیں پڑتا۔محض ادھوری منطق کے ذریعہ اس پراعترض کیاجاتاہے ۔
فسبحان اللہ ربالعرش عمایصیفون ۔ اس آیت میں بتایاکہ اگر یہ لوگ عقل سے کام لیں تو ہماری اوپر کی دلیل اتنی مضبوط ہے کہ انکو رب العرش خدایعنی دنیاپرحکمران خداکے پاک ہونے اور ایک ہونیکااقرار کرنا پڑے گا۔
آیت نمبر۲۴‘۲۵
ترجمہ:۔ جو کچھ وہ کرتا ہے اسکے متعلق وہ کسی کو جواب دہ نہیںہوتا۔حالانکہ وہ لوگ جوابدہ ہوتے ہیں کیا انہوںنے اس کے سوا معبود بنالئے ہیں؟ تو کہہ دے اپنی دلیل لائو ۔یہ قرآن تو ان کے لئے بھی جومیرے ساتھ ہیں شرف کاموجب ہے اور جو مجھ سے پہلے گذر چکے ہیں ان کے لئے بھی شرف کاموجب ہے لیکن ان میںسے اکثر حق کو پہچانتے نہیں اس لئے اس سے اعراض کرتے ہیں ۔ ۱۸؎
۱۸؎ حل لغات:۔ ذکر۔۔۔۔وہ کتاب جس میں دین کی تفصیلات ہوں اور مذہب کے اصول ہوں اور جب الذکر من القول کہیں تو معنے ہونگے القلب المیتین ۔مضبوط اور ٹھوس بات ۔(اقرب)
۱۸؎ تفسیر :۔
اللہ تعالیٰ چونکہ واحد مالک ہے کوئی دوسرا شخص اس سے جواب طلبی کا حقدار نہیں لیکن تمام کے تمام کسی نہ کسی کے سامنے جواب دینے کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔پس ان کاکمزور اور ناقص ہیںثابت ہے ۔ویسے ناقص العقل اور ناقص القویٰ لوگوں کا خدا کے سوا معبود قرار دینا خود ہی ایک ہنسی کی بات ہے ان کی بات تو ماننے کے قابل ہے نہیںان کی بات تبھی صحیح ہو سکتی ہے جب خدااس کاگواہ ہو لیکن یہ خداکی گواہی کبھی پیش نہیں کر سکتے ۔پھر فرماتاہے کہ اس قرآن کو دیکھو ۔یہ محمد رسول اللہ کے زمانہ کے مومن لوگوں کے شرف کا بھی اظہار کرتاہے اور جو محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے زمانہ کے لوگ تھے ان کے شرف کو بھی ظاہر کرتاہے ۔اگر محمد رسول اللہ ﷺ اور اس کے اتباع عظیم الشان شرف کے مالک نہ ہوتے تو یہ کبھی پہلے زمانہ کے نبیوں اور ان کے متبعین کے شر ف کااظہار نہ کرتا جیسا کہ قرآن میںآتاہے ۔ وان من۔۔۔۔۔کہ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جس میںخدتعالیٰ کا کوئی نہ کوئی نبی نہ آیاہو ۔قرآن مسیح ؑ کی طرح نہیںہے جو کہتاہے کہ جتنے مجھ سے پہلے آئے سب چور اور ڈاکو ہیں (یوحنا باب ۱۰آیت ۸) کیونکہ مسیح اپنے اور اپنے حواریوں میں کوئی ایسی عملی اورظاہری خوبی پیش نہیں کرسکتاتھا جس کی بناپر وہ پہلے لوگوں پر اپنی فضیلت ثابت کر سکے ۔پس اپنی اور اپنے ساتھیوں کی عزت ثابت کرنے کے لئے اس کے پاس یہی چارہ کار تھا کہ وہ موسیٰ اور یرمیاۃ اور حزقیل اور الیاس کو چور اور بٹمار کہتا تاکہ لوگ سمجھ لیںکہ پہلے نبی چور اور بٹمار تھے ۔اور عیسیٰ اور اس کے ساتھی چور اور بٹمار نہیں۔اس لئے ان سے بہتر ہیں ۔مگر محمد رسول اللہ ﷺنے بجائے پہلے نبیوںکو چور اور بٹ مار کہنے کے انکو اعلیٰ درجہ کے اخلاق کامالک قرار دیا اور ان کے خدا رسیدہ ہونے اور خداکے محبوب ہونے کا اقرار کیا نتیجہ یہ نکلا کہ جب تک آپ ان سے زیادہ اخلاق ظاہر نہ کرتے اور اپنے آپ کو خداتعالیٰ کازیادہ محبوب ثابت نہ کرتے آپ اپنے دعوٰی کو ثابت نہیںکرسکتے تھے پس قرآن کا طریق استدلال نہ صرف مشکل ہے بلکہ اعلیٰ ہے ۔عیسائیت نے آسان راستہ اختیار کیا مگر انجیل اور قرآن میںیہ فرق ہے کہ انجیل نے کہ امسیح چوروں سے اچھا ہے کیونکہ پہلے نبی چورتھے ۔ اور قرآن نے کہا کہ محمد رسو اللہ خداکے گزرے ہوئے محبوبوں سے بھی زیادہ اس کا محبوب ہے او اعلیٰ کردار والے لوگوں سے بھی زیادہ اعلی کردار کاآدمی ہے پس قرآن نے یہ دعویٰ نہیںکیا کہ محمد رسوال اللہ ﷺ چوروں کا سردار ہے بلکہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ بزرگوں اور محبوبان الٰہی کا سردار ہے اور ظاہر ہے کہ چوروں کے سردار سے محبوبان الٰہی کا سردار یقینا بڑا ہوگا اور اسی طرح وہ شخص جو پہلے نبیوں کو چوراور ڈاکو قراردیتاہے (یوحان باب ۱۰ آیت ۸) اس سے وہ شخص اعلی ٰہوگا جو پہلے نبیوں کی فضیلت کو تسلیم کرکے ان پراپنی فضیلت ثابت کرتاہے فصل اللہ علیہ وسلم مگر فرماتاہے بل ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور اسلام کی فضیلت کامعاملہ تو بالکل صاف تھا ۔لیکن جو لوگ حقیقت جاننے کی کوشش نہیںکرتے وہ اعراض سے کام لے رہے ہیں۔
آیت نمبر۲۶
ترجمہ :۔ اورہم نے تجھ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے ہیں ہم ان میںسے ہر ایک کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میںایک ہی خداہوں ۔پس صرف میری عبادت کرو ۱۹؎
۱۹؎ تفسیر:۔
یعنی اے محمد رسو ل اللہ ! تجھ سے پہلے رسول بھی سب انسان ہی تھے اگر تو انسان ہے تو اس میں تیری کوئی ہتک نہیںاور سوائے انسان کے وہ پہلے رسول کچھ بھی ہو نہیںسکتے تھے کیونکہ خدا صرف ایک ہے ۔
اس آیت سے ظاہر ہے کہ سب انبیا ء کا مشترکہ مشن اشاعت توحید تھا۔خواہ کوئی نبی ہندوستان میں پیدا ہوا ہو جو کسی زمانہ میںشرک وبت پرستی کاگھر تھا یامصر میں پید اہوا ہو جہاں ایک انسان کو خدا سمجھا جاتاتھا یا ایران میں پیدا ہوا ہو جو آتش پرستوں کا مرکز تھا ۔ یاکسدیوں کے اُور میں پیدا ہوا ہو جو بتوں سے اٹاپڑا تھا یا مکہ مکرمہ میںظاہر ہوا ہو جہاں کے رہنے والوں نے خدا کے گھر کو بھی بتوں سے خالی نہیں رکھا تھا مگر بڑے سے بڑے نبیوں کی زندگیوں کا رسول کریم ﷺ کی زندگیوں سے مقابلہ کر کے دیکھ لو آپ نے جس رنگ میںشرک کی بیخ کنی کی ہے اور توحید کو روئے زمین پر پھیلانے میںجس جانفشانی اور قربانی سے کام کیا ہے اس کی نظیر دنیا کے اور کسی نبی کی زندگی میں نظر نہیں آسکتی ۔رسول کریم ﷺ جس زمانہ میں مبعوث ہوئے اس وقت توحید دنیاسے بالکل مٹ چکی تھی چنانچہ ہندووںکی کتابوں میں بھی لکھا ہے کہ اس وقت دنیا میں بڑی خرابی پیدا ہوچکی تھی اور عیسائیوں کی کتابوںمیں لکھا ہے کہ اسوقت شرک پھیل چکا تھا ۔بلکہ وہ لکھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت اور ترقی کی وجہ ہی یہی ہوئی کہ عیسائی قوم بگڑ چکی تھی اور عیسائیوں نے اسلام کی توحید کو دیکھ کر اسے قبول کرلیا ۔یہی بات زرتشتی کہتے ہیں ۔کہ اس زمانہ میںچونکہ زرتشتی لوگ توحید کو چھوڑ چکے تھے انہیںمسلمانوں کی پیش کر دہ توحید پسند آگئی اور وہ مسلمان ہوگئے غرض سب مذاہب کی کتابوں میں لکھاہے کہ اس وقت شرک پھیل چکا تھا او ر دنیامیں توحید باقی نہیںرہی تھی رسول کریم ﷺ نے اس زمانہ میں پید اہو کر اور پھر ایسے مقام میں پید اہو کر جو توحید سے بالکل ناواقف تھا اورپھر ایسی قوم میں پید اہو کر جس کاکوئی مذہب نہیںتھا ۔اور جو نہ وید کو الہامی مانتی تھی نہ تورات کو نہ انجیل کو الہامی مانتی تھی نہ ژند د دادستا کو ۔ توحید کو ایسے کامل اور ایسے اعلیٰ رنگ میں پیش کیاکہ آج آپ کے مخالف بھی اس کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں آپ نے دنیاکو صرف یہ نہیںکہا کہ توحید کو مان لو بلکہ یہ بھی بتایا کہ کس طرح مانو اسی طرح آپ نے صرف یہ جنہیںفرمایا کہ شرک نہ کرو بلکہ یہ بھی کہا کہ شرک سے کسی طرح بچو ۔ پھر آپ نے صرف یہ نہیںکہا کہ توحید کو مان لو بلکہ توحید کے دلائل دے کر کہا کہ اسے مانو اسی طرح آپ نے صرف یہی نہیںکہا کہ شرک نہ کرو بلکہ دلائل اور براہین سے شرک کی برائی سمجھا کراس سے نفرت پیش کی۔چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ شر ک کی تردید کرتے ہوئے نہایت لطیف پیرایہ میں فرماتاہے ۔قل ھو اللہ احد اللہ الصمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفو احد ۔ اس چھوٹی سی سورۃ میںجو سوئہ اخلاص کے نام سے موسوم ہے اللہ تعالیٰ نے چار اقسام کے شرک پیش کرکے اس کا رد کیا ہے فرماتاہے ۔تم خداتعالیٰ کی ہستی کے متعلق مختلف خیالات میں مبتلاہو او ر قسم قسم کی تھیوریا ں ایجاد کرتے ہو طرح طرح کے فلسفے او نکتے نکالتے ہو اور خداتعالیٰ کے متعلق مختلف تصورات قائم کرتے ہو لیکن خداتعالیٰ کے متعلق جو یقینی بات ہے اس کا نقطہ مرکزی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر رنگ میںاور ہرطرح ایک ہی ہے نہ وہ کسی کی ابتدائی کڑی ہے اورنہ آخری سرا ۔نہ کسی کے مشابہ ہے اورنہ کوئی اسکے مشابہ اس لئے اگر خداتعالیٰ جیسی کوئی اورذات قرار دو گے تو تم اس کی احدیت پر حملہ کرنے ولالے سمجھے جائو گے
پھر شرک کی ایک قسم یہ بھی ہوتی ہے کہ صفات کے لحاظ سے کسی کو خداکا شریک قرار دیا جائے ۔اللہ تعالیٰ نے اللہ الصمد کہہ کر اس کی تردید کی اور بتایا کہ صمدیت صرف اللہ تعالیٰ کی ذات میںہی پائی جاتی ہے ۔اس لئے اس کے دروازہ سے بھٹکنا کسی انسان کے لیئے فائدہ مند نہیں ہوسکتا تم دنیا میں جس کو بھی اپناحاجت روا سمجھو گے وہ میر ا ہی محتاج ہوگا اس لئے تم چشمہ کو چھوڑ کر گلاس کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہو۔
پھر فرمایا لم یلد ولم یولد ۔خدتعالیٰ کے متعلق یہ بھی یاد رکھو کہ وہ ہمیشہ سے چلاآیا ہے اور ہمیشہ رہیگا۔نہ اس نے کسی کو جنا ہے کہ اس کابیٹا اسکاقائم مقام ہو سکے اورنہ اس کا کوئی باپ ہے کہ جس سے اس نے ورثہ میںطاقتیں حاصل کی ہوں ۔گویاخداپہلے بھی صمد تھا ۔اب بھی صمد ہے اور آئندہ بھی وہی صمد ہوگا ۔ اس لئے تمہیں اسی سے مدد مانگنا اپنا شعار بنانا چاہئے ۔
پھر فرماتاہے ولم یکن لہ کفو ً احد کسی مخلوق میں یہ طاقت نہیںکہ وہ خداتعالیٰ کا کفو یعنی اس کا شریک ہوسکے ۔خدتعالیٰ کی شان اتنی بلند ہے اور اس کامقام اتناارفع ہے کہ انسان خواہ کتنااونچا چلاجائے وہ اس کا عہد ہی رہے گا ۔اور ہمیشہ اس کی مدد کا محتاج ہوگا۔
یہ وہ توحید ہے جسے اسلام نے پیش کیا ہے اور جس کے بغیراسلامی نقطہ نگاہ سے کسی انسان کو تقدس حاصل نہیں ہو سکتا۔
پھر اللہ تعالیٰ ایک اورمقام پر توحیدپرزور دیتے ہوئے فرماتاہے اللہ لا الہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔(بقرہ ع ۳۴) ان آیات میں یہ مضمون بیان کیاگیاہے کہا للہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنی ذات میں ہمیشہ زندہ رہنے والا اور دوسروں کو بھی زندہ رکھنے والا ہے ۔ لاتاخاہ۔۔۔اسے نہ کبھی اونگھ آتی ہے نہ نیند ۔گویا اس کے کاموں میںکبھی کوئی وقفہ نہیںپڑا ۔ لہ مافی۔۔۔۔زمین و آسمان میںجوکچھ ہے اسی کے قبضہ و تصرف میںہے من ذالذی۔۔۔۔ کون ہے جوبغیراس کے اذن کے اس کے حضور کسی کی شفاعت کر سکے بہت شک خداتعالیٰ نے دعائیںقبول کرنے کا سلسلہ جاری رکھاہوا ہے مگر کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ وہ اپنے زور سے خداتعالیٰ سے کوئی بات منواسکتاہے ۔،خداخود کسی کی شفاعت کے متعلق اجازت سے تو انسان کچھ مانگ سکتا ورنہ نہیں یعلم۔۔۔۔۔ جانتاہے جو ہو چکا اورجو آئندہ ہوگا ۔گویا توحیدکے لئے علم کامل ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ علم کامل کے بغیر تصرف کامل نہیں ہوسکتا۔ پس خداتعالیٰ کے متعلق علم کامل کا ماننا ضروری ہے ۔ ولایحیطون۔۔۔۔۔۔اور دنیا میں کوئی انسان خدتعالیٰ کے دئے ہوئے علم کے بغیر کچھ حاصل نہیں کرسکتا ۔پس انسان کو ہمیشہ یہ سمجھنا چاہئے کہ جو کچھ اسے حاصل ہونا ہے خداتعالیٰ سے ہی حاصل ہونا ہے پھر فرماتاہے وسع کرسیہ۔۔۔۔۔ اس کی کرسی ساری زمین اورآسمانون پر چھائی ہوئی ہے یعنی ہر زرہ جو حرکت کرتاہے خدا تعالیٰ کے تصرف کے ماتحت کرتاہے ۔ والایعودہ۔۔۔۔ اور زمین وآسمان کی حفاظت میں کبھی ناغہ نہیںہوتا۔یہ ہمیشہ جاری رہے گی ۔وھو العلی۔۔۔مگر اس کی قدرت ظاہر ہو رہی ہے وہ اتنابلند ہے کہ کوئی شخص اس کی کنُہہ تک نہیںپہنچ سکتامگر اس کے ساتھ ہی وہ العظیم بھی ہے یعنی اپنی قدرتوںکے ظہور سے اتنا روشن ہے کہ ہر شخص جو کوشش کرے اسے پاسکتاہے اور اسکا وصال حاصل کرسکتاہے
غرض رسول کریم ﷺ نے دنیا کو بتایا کہ توحیدکامل یہ ہے کہ خداتعالیٰ سے کامل اتحاد اور وصال حاصل ہو جائے جب کوئی شخص خداتعالیٰ کو پالے توا سوقت یہ کہاجاسکتاہے کہ اس نے اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کرلیا ۔
یہ وہ توحید ہے جو رسول کریم ﷺ نے پیش کی ۔اور پایا کہ تمہاری کامیابی اسی میںہے کہ تمہارا اسی دنیامیںخداسے وصال ہو جائے اور سوائے خداکے تمہاری نگاہ اور کسی وجود پر نہ پڑے ۔دنیا نے آپ کے اس پیغام کا انکار کیااور بڑی سختی سے آپ کا مقابلہ کیا آپ کو بڑی بڑی اذیتیں پہنچائی گئیں ۔اور بڑی بڑی رکاوٹیں آپ کے مقصد میں حائل کی گئیں ۔مگر آپ نے خدائے واحد کے نام کی بلند ی کے لئے ہر مصیبت کا خوشی سے خیر مقدم کیااور ہر دکھ کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور کسی نازک سے نازک موقعہ پر بھی مداہنت یا نفاق کو برداشت نہیںکیا احد کی جنگ میںجب بعض مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کی فتح شکست میںبدل گئی اور کفار نے پیچھے سے حملہ کرکے مسلمانوں کو تتر بتر کردیا بلکہ خود رسو ل کریم ﷺ دشمن کے دبائو کی وجہ سے ایک گڑھے میںگرگئے اورلوگوں میںمشہور ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ شہید ہوگئے تو اس وقت مسلمانوں کی یہ کیفیت تھی کہ زمین و آسمان ان کے لئے تنگ ہوگئے مگر جلدی ہی انہیں معلوم ہوگیا کہ رسول کریم ﷺ زندہ ہیںچنانچہ صحابہ ؓ نے آپکو لاشوں کے نیچے سے نکالا اور جوں جوں مسلمانوں کو علم ہوتا گیا وہ آپ کے گرد جمع ہوتے گئے مگر پھربھی ان کی تعداد تھوڑی تھی ۔رسول کریم ﷺ ان کو ساتھ لے کر پہاڑ کے ایک دامن میں چلے گئے اس وقت ابو سفیان نے بڑے تکبر سے آواز دی کہ مسلمانو ! کہاں ہے تمہارا محمد ﷺ ہم نے اسے مار دیاہے ۔صحابہؓ جواب دینا چاہتے تھے مگر آپ نے روک دیا ۔ابو سفیان نے پھر آواز دی اور کہا ۔کہاں ہے ابوبکرؓ صحابہ ؓ پھر جواب دیناچاہتے تھے مگر رسول کریم ﷺ نے پھر بھی روک دیا ۔پھر اس نے بڑے جوش سے کہاکہاں ہے عمر ؓ ؟ حضرت عمر ؓ کہنا ہی چاہتے تھے کہ میںتمہارا سرتوڑنے کیلئے یہاں موجود ہوں ۔مگر آپ نے فرمایا مت بولو ۔دراصل ابو سفیان کی غرض یہ تھی کہ وہ پتہ لگائے کہ کون کون زندہ ہے اور کون کون نہیں ۔آج کل بھی جنگ میں ایسی خبریں مشہو کردی جاتی ہیںجن کی اصل غرض صرف اطلاع حاصل کرنا ہوتی ہے ۔مثلاً مشہور کردیا جاتاہے کہ فلاں جرنیل پکڑا گیا ہے یافلاں جہاز ڈوب گیاہے اور جس حکومت کا وہ جرنیل یا جہاز ہوتاہے خاموش رہتی ہے تردیدنہیں کرتی تاکہ دشمن کو معلومات حاصل نہ ہوں یہی غرض ابوسفیان کی بھی تھی مگر جب مسلمانوں کی طرف سے کوئی جواب نہ ملاتو اس نے سمجھ لیا کہ یہ تینوں مسلمان لیڈر مارے گئے ہیںاس پر اس نے بڑے زور سے اپنا مشرکانہ نعرہ بلند کیا ۔اور کہا اُبل ھُبل اُبل ھُوبل ۔یعنی ہمارا ھبل دیوتا بڑی شان والا ہے اس لئے اس نے مسلمانوں کو شکست دیدی ہے چونکہ صحابہ ؓ کو بار بار رسول کریم ﷺ فرماچکے تھے کہ خاموش رہو ۔اس لئے اس مشرکانہ نعرہ پر بھی وہ خاموش رہے ۔اسپر رسو ل کریم ﷺ نے بڑے جوش سے صحابہ ؓ سے کہا۔جواب کیوں نہیں دیتے انہوں نے کہایا رسو ل اللہ ہم کیا کہیں آپ نے فرمایا کہو اللہ اعلیٰ واجل یعنی تمہارے ھبل کی کیاحقیقت ہے اللہ تعالیٰ ہی بلند اور سب سے زیادہ طاقتور ہے اب دیکھو رسول کریم ﷺ نے کس طرح اپنی اور اپنے صحابہؓ کی موت کا اعلان تو برداشت کرلیامگر جب خداتعالیٰ کانام آیاتو اسوقت آپ نے اس بات کی کوئی پروانہ کی کہ ہم تھوڑے ہیںاگر دشمن کو پتہ لگ گیا تو وہ حملہ کرکے نقصان پہنچائیگا بلکہ آپ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ جواب دو تمہار ھُبل ہمارے خدا کے مقابلہ میںکیا حقیقت رکھتاہے۔
پھر اس واقعہ پر غور کرو کہ بڑے بڑے رئوسا اکٹھے ہوکر ابوطالب کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنے بھتیجے کو سمجھالو ۔ورنہ ہم تمہیںبھی اپنی سرداری سے الگ کردیں گے اس پر ابو طالب آپ کو بلاتے ہیں او چاہتے ہیں کہ آپ بتوںکے بارہ میںکچھ نرمی ختیار کرلیںمگر آپ فرماتے ہیںاے چچا اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیںاور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر کھڑاکردیں ۔تب بھی میں خداتعالیٰ کی توحید کا اعلان کرنے سے باز نہیں رہ سکتا ۔اگر آپ کو اپنی قوم عزیز ہے تو بیشک مجھے چھوڑ دیںاور اپنی قوم سے مل جائیںمیرے لئے میرا خداکافی ہے ۔
غرض رسو ل کریم ﷺ کی زندگی کا ایک ایک واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے دل میں سوائے اس کے اور کوئی خواہش نہیں تھی کہ شرک مٹ جائے اور خداتعالیٰ کی توحید دنیامیںپھیل جائے ۔
پھر حدیثوں میں آتاہے کہ جب آپکی وفات کاوقت قریب آیا تو آپ گھبراہٹ میں کبھی اس پہلو پرجھکتے تھے اور کبھی اس پہلو پر اور فرماتے کہ خدا یہود اور نصاریٰ پر *** کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کے مرنے کے بعد ان کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا یہ آپ کی آخری وصیت تھی جو آپ نے اپنی امت کو کی اور انہیں کھلے الفاظ میں انتباہ کیاکہ دیکھنا میرے بندے ہونے کو کبھی نہ بھول جانا اور میری قبر کو ایک قبر سے زیادہ کبھی کچھ نہ سمجھنا ۔باقی امتیں بے شک اپنے نبیوں کی قبروں پر سجدے کریں یاان کی قبروں پر چڑھاوے چڑھائیں تمہار کام یہی ہونا چاہئے کہ تم خدائے واحد کے آستانہ پر جھکو اور اسکو اپنا ملجاء و ماویٰ سمجھو۔
پھر محمد رسول اللہ ﷺ کی زبان پر غرغرئہ موت کے وقت جو آخری الفاظ جاری ہوئے وہ بھی یہی تھے کہ الی لرفیق۔۔۔۔۔۔میں ا ب عرش معلی پربیٹھنے والے مہربان دوست کی طرف جاتاہوں ۔ یہ آخری الفاظ تھے جس کے بعد آپ کی روح جسد اطہر سے پرواز کر گئی اور آپ اپنے خدا کے حضور جاپہنچے ۔غرض ایک ایک قدم اور ایک ایک سانس پررسول کریم ﷺ نے جس رنگ میںاللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے جلال کا اظہار کیا ہے اور جس طرح اپنے عشق اور محبت کاثبوت دیا ہے اس کی مثال دنیاکے اور کسی نبی میں دکھائی نہیںدیتی ۔
آیت نمبر۲۷
ترجمہ :۔ اور یہ لوگ کہتے ہیںکہ رحمن خدانے بیٹا بنالیاہے ان کی بات درست نہیںوہ تو ہرکمزوری سے پاک ہے حقیقت یہ ہے کہ جن کو یہ بیٹاکہتے ہیںوہ خداکے کچھ بندے ہیںجن کو خداکی طرف سے عزت ملی ہے ۔ ۲۰؎
۲۰؎ حل لغات :۔سبحانہ۔ سبحان اللہ کے معنے ہیں ابری اللہ من السوء براء ۃ میں اللہ تعالیٰ کی ہر برائی سے برا ء ت کرتاہوں (اقرب ) پس سبحانہ کے معنے ہونگے میںاللہ تعالیٰ کو لڑکابنانے سے پاک قرار دیتاہوں
۲۰؎ تفسیر :۔
فرماتاہے ۔یہ لوگ جھوٹ بول کر کہتے ہیںکہ رحمن خدانے اپنا ایک بیٹا بنایا ہوا ہے حالانکہ سب پہلے نبیوں کے حالات پرغور کرکے دیکھ لو وہ یہی کہتے تھے کہ ہم بندے ہیں صرف خدانے ہم کوعزت بخشی ہے چنانچہ مسیح جس کو خداکا بیٹا قرار دیاگیاہے ہمیشہ اپنے آپکو اب آدم کہتارہا ۔اب جو شخص خداکا بیٹا تھا اگر وہ اپنے آپ کواب آدم کہتاتھا تو کیانعوذبااللہ اس کے یہ معنے نہیںکہ وہ اپنے باپ کے سوا اپنے آپ کو دوسرے کی طرف منسوب کرتاتھایہ کتنابڑا الزام ہے جو عیسائی لوگ خداتعالیٰ کے ایک معزز بندہ پرلگاتے ہیں۔
آیت نمبر۲۸
ترجمہ:۔ وہ خدا کی بات سے ایک لفظ بھی زیادہ نہیں کہتے ۔او ر وہ اسکے حکموں پر عمل کرتے ہیں۔۲۱؎
۲۱؎ حل لغات :۔ لایسبقونہ ۔سبق سے مضارع منفی کا صیغہ ہے اور سبقہ کے معنے ہوتے ہیں تقدم ۔۔۔اس سے آگے بڑھ گیا اور اس کو پیچھے چھوڑ دیا (اقرب) پس لایسبقونہ بالقول ۔ کے معنے ہونگے وہ خداکی بات سے ایک لفظ بھی زیادہ نہیں کہتے ۔
۲۱؎ تفسیر:۔
یعنی خدا تعالیٰ کے نیک بندے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہتے جو خدانے ان سے نہ کہی ہو ۔اور ہمیشہ خداتعالیٰ کے فرماںبردار رہتے ہیں پھر وہ خداکس طرح ہوسکتے ہیں۔
آیت نمبر۲۹
ترجمہ۔ وہ یعنی خدا اس کو بھی جانتاہے جو انہیںآئندہ پیش آنیوالاہے اور جووہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور وہ سوائے اس کے جس کیلئے خدانے یہ بات پسند کی ہو کسی کیلئے شفاعت نہیںکرتے یعنی معبودان باطلہ اور وہ اس کے خوف سے لرزتے رہتے ہیں ۲۲؎
۲۲؎ حل لغات:۔ مشفقون لشفق سے اسم فاعل جمع کاصیغہ ہے او اشفق ۔۔۔کے معنے ہوتے ہیںخاف وحازر اس سے ڈرا (اقرب) پس مشفۃ ان کے معنے ہونگے ڈرنے والے ۔
۲۲؎ تفسیر:۔
فرماتاہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام حالات سے واقف ہے جوکام انہوں نے کرلئے ان سے بھی واقف ہے او رجو رہ گئے ان سے بھی واقف ہے اور انکو بغیر قید کے شفاعت کا حق نہیں جس کے حق میںخدااجازت دے اسی کے حق میںشفاعت ہوسکتی ہے ۔پس بخشش بہر حال خداکے ہاتھ میںہی رہی بائبل میںبھی لکھاہے :۔
’’اگر ایک آدمی دوسرے کا گناہ کرے تو خدااس کا انصاف کریگالیکن اگر آدمی خداوندی گناہ کرے تو اس کی شفاعت کو ن کریگا ۔‘‘
(۱سموئیل باب ۲ آیت ۲۵) یرمیاہ باب ۷ آیت ۱۶میں بھی آتاہے:۔
’’تو ان لوگوں کے لئے دعا نہ کر اور ان کے واسطے آواز بلند نہ کر اور مجھ سے منت اور شفاعت نہ کر کیونکہ میںتیری نہ سنو نگا‘‘ پس بخشش کسی انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ صرف خداتعالیٰ کے اختیار میںہے۔
آیت نمبر۳۰
ترجمہ :۔ اور جو بھی ان میںسے کہے کہ میںخداکے سوا معبود ہوں ہم اس کو جہنم میں ڈالیں گے اور ہم ظالموں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔
۲۳ ؎ تفسیر:۔
فرماتاہے کہ انسان کیلئے خدائی کادعوٰی اتناباطل ہے کہ جہاں افتاء اور تکذیب کی سزا اس دنیا میں بھی دی جاتی ہے وہاں خدائی کے دعویٰ کی سزا اس دنیامیں نہیں دی جاتی بلکہ اگلے جہان میں دی جاتی ہے ۔اور فرماتا ہے کہ اس قسم کے ظالموںکو ہم اس طرح سزادیاکرتے ہیں یعنی اگلے جہان میں۔ اس آیت میںجواب ہے ان لوگوں کاجوکہتے ہیںکہ فلاں شخص الوہیت کامدعی تھامگر پھراسے اس دنیا میںکیوں سزا نہ ملی ۔ نبوت کادعویٰ کرنے والوں کے متعلق اسی جہان میں سزا کاوعدہ ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے لو تقول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر یہ رسول ہم پر افتراء کرتااورکوئی بات اپنی طرف سے بناکر ہماری طرف منسوب کردیتاتو ہم اس کوداہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی رگ جان کاٹ دیتے یعنی اسکوتباہ کردیتے لیکن خدائی کادعویٰ کرنے والے کے متعلق فرماتاہے فذالک۔۔۔ اس کو اس دنیامیںسز ادینے کی ضرورت نہیں اسکو ہم اگلے جہان میںجہنم میں ڈالیں گے اس میںحکمت یہ ہے کہ جھوٹانبی چونکہ سچے نبیو ںکی طرح انسان ہی ہوتاہے لوگوں کو شبہ پڑ سکتاہے کہ کہیںیہ سچانہ ہو اس لئے اس کو فوراً سزادینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ لوگوں پر حق کھل جائے لیکن خدائی کادعویٰ کرنے والا کھاتاپیتااور سوتاہے جو خدائی کے منافی اس لئے اس کے دعویٰ سے دھوکا کوئی الّو ہی کھاسکتاہے پس اس کافریب کھولنے کے لئے دنیامیںسزادینے کی ضرورت نہیں ہوتی اگلے جہان کی سزاہی کافی ہے یہی وجہ ہے کہ بہاء اللہ وغیرہ جو خدائی کے مدعی تھے ان کو اس دنیا میںسزا نہیں ملی آخرت میںملے گی کیونکہ ان کے خدائی کے دعوٰی کا جھوٹ ہونا بالہدایت ظاہر تھا۔ ہے تو ذیل کا واقعہ لطیفہ لیکن چونکہ اس سے حقیقت روشن ہوجاتی ہے میںاس کو بیان کردیتاہوں ۔
کہتے ہیں کسی سائیں فقیر نے خدائی کا دعویٰ کیا چند چیلے بنالئے جو ہروقت اس کے گرد بیٹھے رہتے تھے ۔باری باری شہر میں جاکر بھیک مانگ لاتے تھے اور خداصاحب اور ان کے چیلے خٰوب پرلطف غذائیںاڑاتے تھے ۔ایک مومن زمیندار ہمسایہ میں رہتاتھا اس کو غصہ چڑھتاتھا مگر مشٹنڈے چیلوں کی وجہ سے کچھ نہ کرسکتاتھا۔اور ہر وقت موقعہ کی انتظار میں رہتا تھا ایک دن شاید مانگنے کاپروگرام دور کا تھا ۔اس لئے سارے چیلے اکٹھے اپنے خداکو اکیلاچھوڑ کرمانگنے کیلئے چلے گئے ۔زمیندار کو موقعہ ہاتھ آیا بڑے ادب سے جاکر اس فقیرکے آگے جاکر بیٹھ گیا اور اٹھ کر اسکی گردن پکڑلی اور زور سے ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا اور کہامیرے باپ کو تونے ماراتھا ۔آج میرے قابو آیاہے پھرکہا میری ماںکو تونے ماراتھا پھر ایک اور تھپڑمارا پھر کہامیرے فلاں بیٹے کو تونے مارا تھا اور زور سے ایک اور تھپڑ مارا پھر ایک اور بیٹے کانام لیا اورکہا ۔میرے اس بیٹے کو بھی تونے مارا تھا اور ایک اور تھپڑ مارا اسی طرح سب رشتہ داوں اور دوستوں کانام لیتاگیا اور ہر ایک کانام لے لے کر ایسے زور سے تھپڑ مارتا کہ آواز گونج جاتی تھی اور کہتاجاتا تھا کہ میں تو بیس سال سے تیر امنظر تھا۔آج تو میرے قابو چڑھاہے میںتجھے کبھی نہیںچھوڑوں گا ۔آخر ڈرکر خداکے مدعی فقیر نے گھٹنے ٹیک دیئے اور بولا میری توبہ میںکوئی خدانہیں ہوں ۔اب دیکھو خدائی کے دعویٰ کاپول کتنی جلدی کھل گیا اگرصرف نبوت کا دعوی ٰہوتاتو ہر تھپڑ پر کہتامیں تو آدمی رسول ہوں میںنے تیرے رشتہ داروں کو کسی طرح مارنا تھا وہ تو خدانے مارے ہیں بلکہ کہتاکہ پہلے نبیوں کو بھی لوگوںنے دکھ دیئے ہیںتو مجھے دکھ دے کر میری نبوت ثابت کررہا ہے ۔
پس حقیقت یہ ہے کہ جھوٹے مدعی رسالت کے جھوٹ کو خدا ہی ظاہر کرتا ہے اس لئے آسمانی نشانوں سے اسے تباہ کیا جاتاہے او بہت جلد تباہ کیا جاتاہے لیکن جھوٹے مدعی الوہیت کو آسمانی نشانوں سے تباہ کرنے کی ضرورت نہیںہوتی ۔ہرروز جب وہ کھاناکھاتاہے ہرروز جب وہ پانی پیتاہے تو ظاہر ہوجاتاہے کہ وہ خدانہیںہرروز جب وہ سوتا ہے ۔پاخانہ پیشاب کو جاتاہے تو ظاہر ہوجاتاہے کہ خدانہیںجب و ہ شادی کرتاہے اور بچہ ہوجاتاہے تو ظاہر ہوجاتاہے کہ وہ خدا نہیںاس کے زمانہ میں کوئی الّو یاگدھاہی اس کو خدا مان سکتاہے ۔جیساکہ بہاء اللہ کے اتباع ۔لیکن اس کی موت کے بعد اس کی تعلیم یا اس کے آنے والے مامور اس کی خدائی کا پرد ہ چاک کردیتے ہیں جیسے مسیح کے اپنے اقوال اور تاریخ اس کی خدائی کا پردہ چاک کررہے ہیں ۔
آیت نمبر۳۱
ترجمہ:۔ کیا کفار نے یہ نہیںدیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے پس ہم نے ان کو کھول دیا ۔اور ہم نے پانی سے ہرچیز کو زندہ کیا پس کیا وہ ایمان نہیں لاتے ؟ ۲۴؎
۲۴؎ حل لغات:۔ رتقاکے معنے ہیں سدہ ۔۔۔اسکو بند کردیا (اقرب) اسی طرح یہ لفظ فتق کے خلاف استعمال کیا جاتاہے اور فتق ۔۔۔کے معنے ہوتے ہیں شقہ کسی چیز کو پھاڑ دیا اور فتق ۔۔۔ کے معنے ہیں نقض خیا طتہ ۔۔۔۔۔کہ کپڑے کی سیون کو کھول دیا او وہ علحیدہ ہو کر مختلف حصے ہوگیا۔(اقرب ) مفردات میں ہے الرتق ۔۔۔یعنی رتق کے معنے ملنے اور اکٹھے ہونیکے ہیں اور کانتارتقا کے معنے ہیں منضمین دونوں ملے ہوئے تھے (مفردات )
۲۴؎ تفسیر:۔
فرماتاہے کیا ان کافروںکو معلوم نہیں کہ آسمان اور زمین جڑے ہوئے تھے پھر ہم نے ان کو چیر کر الگ کردیا اس میںپیدائش عالم کی ایک ایسی حقیقت بیان کی گئی ہے جو اس صدی سے پہلے لوگوں کو معلوم نہیں تھی اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی کرہ فلکی تیار ہوتاہے تو اس کی یہ صورت ہوتی ہے کہ ذرات کا ایک وسیع ڈھیر فضامیںجمع ہوجاتاہے ۔ آہستہ آہستہ وہ سمٹنا شروع ہوجاتاہے ۔جب اس کے درمیان ذرات کچھ زیادہ سمٹ جاتے ہیںتو وہ چکر کھانے لگ جاتے ہیںاور ان کے ارد گردکامادہ دھکا کھاکر دور جاپڑتاہے اسی طرح پیدا ہونے ولے نظام ہائے فلکی میںسے ایک نظام شمسی ہے جس میںہماراکرہ ار ض واقع ہے ۔نظام شمسی کے عالم وجود میں آنے کے متعلق جتنے بھی نظریات سائنسدانوں نے آج تک پیش کئے ہیں ان میں کم وبیش اس حقیقت کااقرار موجود ہے کہ کرہ ارض اپنی موجودہ شکل سے پہلے سورج یاسورج جیسے ایک ستارے کا حصہ تھی ۔تازہ ترین نظریہ جس کی تصریح فریڈ ہائل (کیمبرج یونیورسٹی ) نے کی ہے یہ ہے کہ یہ ستارہ ہمارے سورج کاہمراہی ایک SUPER NOVA تھا اور اس کے پھٹنے سے سیارے عالم وجود میںآئے حتی کہ زمین ایک علحیدہ وجود کی شکل میںظاہر ہوئی زمین میںسے بعد میںپانی کے بخارات پید اہوئے اور پانی کے وجود سے آگے زندگی کاوجود پیدا ہو ا۔(دی نیچر آف دییونیدرس مصنفہ فریڈہامل ۲۹ تا ۱۰۹)
اللہ تعالیٰ انہی حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے کہ کیا اس نظارہ کو دیکھ کر یہ ایمان نہیں لاتے آخر دنیاکاباربار پیدا کی جارہی ہے ۔کیوں زندگی پید اکرنے کیلئے بادلوں سے پانی اتارا جاتاہے ۔دنیا کابار بار پیداکرنااور بادلوںسے متواتر پانی کااترنا اور اس سے زندگی کاپیدا ہونا بتاتاہے کہ یہ دنیا بلاوجہ نہیں پید اہوئی اس کوکسی بڑی غر ض کیلئے پیداکیا گیا ہے اور اس غرض کوپوراکرنے کیلئے روحانی پانی کاآسمان سے اترتے رہنا بھی ضروری ہے کہ ہرطبقہ کے لوگ اپنی روحانی زندگی کیلئے اس سے سامان حاصل کرتے رہیں۔
آیت نمبر۲۳
ترجمہ :۔ اورہم نے زمین میںپہاڑ بنائے تاایسا نہ ہوکہ وہ یعنی زمین ان یعنی اہل زمین سمیت شدید زلزلہ میںمبتلاہوجائے ۔اور ہم نے زمین میںکھلے کھلے راستے بھی بنائے تاکہ یہ لوگ انکے ذریعہ سے مختلف مقامات تک پہنچیں ۔۲۵؎
۲۵؎ حل لغات :۔رواسی کے معنے ہیں الجبال ۔۔۔مضبوط پہاڑ (اقرب ) تمید ماد سے مضارع مونث غائب کا صیغہ ہے اور مادا ۔۔۔۔کے معنے ہیں اس نے حرکت کی اور ٹیڑھاہوگیا ۔اور مادت ۔۔۔۔۔ کے معنے ہیں دارت ۔زمین نے اس کے سمیت چکر کھایا (اقرب) مفردات میں ہے المید اضطر ۔۔۔۔یعنی بڑی چیز کاحرکت کرنا اور ہلنا مید کہلاتاہے جیسے زمین بعض اوقات ہلتی ہے اسی طرح بعض ماہرین لغت کہتے ہیں کہ مادنی ۔۔۔ اور اس کے معنے ہوتے ہیںاطعمنی یعنی مجھے کھاناکھلایا (مفدات )
فجاج ۔الفج کی جمع ہے او لفج کے معنے ہیں دوپہاڑ وں کے درمیان کا کھلااور واضح راستہ (اقرب)
۲۵؎ تفسیر:۔
فرماتاہے ہم نے زمین میںپہاڑ بنائے ہیںتاکہ وہ انسانوں سمیت تہ وبالا نہ ہوجائے یعنی پہاڑوں کی غرض یہ ہے کہ زمین اپنی تمکنت کی حالت پر قائم رہے کیونکہ علم طبقات الارض سے ثابت ہے کہ زمین اندر سے اب تک بھی گرم ہے لیکن شروع پیدائش میں زیادہ گرم تھی یعنی تغٖیرات کے نتیجہ میںجب زمین کی گرمی نے اندر کی چھپی ہوئی چٹانوں کو گلا دیا اور بہت سی گیس پیداہوگئی تو گیس نے زور مار کرباہر نکلنا چاہا اور اس نکلنے کی کوشش سے زلزلہ آیااور آتش فشاں پہاڑ پھوٹے اسی طرح پہاڑوں کے عالم وجود میںآنے میںزمین کے اندرونی حصہ کی سطح پرقشری حصوں کے توازن ISOSTASY) ) کو بھی دخل ہے اس لحاظ سے پہاڑ گویا سطح زمین کے توزن کاذریعہ بھی ہیں اورزمین کے اندر پید اہونے والے معمولی تغیرات کو زمین کی سطح پر کسی بڑے انقلاب کاموجب بننے سے روکتے ہیںسوائے ایسے استثنائی واقعات کے جوزمین پر ایک قیامت کی طرح وارد ہوسکتے ہیں اور جن کا ثبوت کرہ ارض کی گذشتہ تاریخ سے ظاہر ہے جو زمین ہی کے موجودہ آثار سے معلوم ہوئی ہے پس پہاڑ زمین کو تہ و بالا ہونے سے بچاتے بھی ہیں اور ان کے بعض حصے آتش فشانی کی شکل میں زمین کی اندرونی طاقتوں کا نقشہ بھی پیش کرتے رہتے ہیں ۔دیکھو (مارولز اینڈ مسٹر یز آف سائینس ‘‘ مصنفہ ایلی سن ہاکس ایف آر اے ایس زیرعنوان کرسٹ آف دی ارتھ ‘‘ نیز دیکھیں انسائکلوپیڈیابرٹینکا زیر عنوان جیالوجی)
اللہ تعالیٰ ان مادی پہاڑوں کاذکر کرتے ہوئے فرماتاہے کہ روحانی عالم کے اندر جو گرمی بھری ہوئی ہے وہ بھی جو ش میںآکر آتش فشاں پہاڑوں کی طرح دنیاپر تباہی لاتی ہے لیکن پھر ہم روحانی پانی کے ذریعہ سے اس آگ کو ٹھنڈا کردیتے ہیں اور کچھ سبزہ زار میدانوں والے پہاڑ ظاہر ہو جاتے ہیںیعنی اولیاء اللہ۔
پھر فرماتاہے کہ ہم نے ان پہاڑوں کے درمیان بڑے بڑے کھلے راستے بنائے ہیں تاکہ لوگ ان پرچل کر فائدہ اٹھائیں چنانچہ ابتداء تاریخ سے پتہ چلتاہے کہ لشکروںکی نقل و حرکت ہمیشہ پہاڑی رستوں کے ذریعہ ہی ہوا کرتی تھی کیونکہ میدانوں میں رستوں کاپہچاننا مشکل ہوتاہے لیکن پہاڑوں کے اندر قدرت نے جو خود بخود وادیاں اور رستے بنائے ہوئے ہوتے ہیں ان کا پہچاننا آسان ہوتاہے اور دور دور کی قومیںان رستوں کے ذریعہ آسانی کے ساتھ ادھر ادھر آجاسکتی ہیں ۔فرماتاہے جس طرح مادی دنیامیںتمہیںیہ نظارہ نظر آتاہے اسی طر ح روحانی پہاڑوںکی ہدایت کے ساتھ لوگ روحانی سفر طے کرتے ہیںاور اس طرح مادی اور روحانی سلسلہ آپس میںمتوزی چلتاچلا جاتاہے۔
آیت نمبر۳۳
ترجمہ :۔ اور ہم نے آسمان کوایک محفوظ چھت یعنی حفاظت کا ذریعہ بنایاہے اور پھر بھی وہ اس کے نشانوں یعنی آسمان سے ظاہر ہونیوالے نشانوں سے جوان کے فائدہ کیلئے ہیں اعراض کرتے ہیں ۔ ۲۶؎
۲۶؎ تفسیر:۔
فرماتا ہے ہم نے آسمان کوایک محفوط چھت بنایا ہے یعنی جس طرح دور آسمان کے کرے نظام شمسی کی حفاظت کر رہے ہیں اسی طرح وہ لوگ جن پر آسمان سے روحانی پانی اترتاہے ۔نظام روحانیکی حفاظت کررہے ہیں مگر پھربھی لوگ اسکی طرف توجہ نہیںکرتے۔
آیت نمبر۳۴‘۳۵
ترجمہ:۔ اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو او ر سورج اور چاند کو پید کیا ہے یہ سب آسمانی سیارے اپنے اپنے محور میں بے روک چل رہے ہیں۔اور ہم نے کسی انسان کوتجھ سے پہلے غیر طبعی عمر نہیںبخشی کیا اگر تو مرجائے تو وہ غیرطبعی عمر تک زندہ رہیںگے؟ ۲۷؎
۲۷؎ حل لغات :۔ یاد رکھنا چاہئے کہ سمآء اور چیزہے اور فلک اورچیز ہے فلک درحقیقت نظام شمسی کے پھیلاو کانام ہے اور ان وسعتوں کو کہتے ہیں جن میں نظام شمسی کے افراد چکر لگاتے رہتے ہیں اقرب میں ہے الفلک ۔۔۔کہ فلک ستاروں کی گردش کی جگہ کانام ہے مفردات میں ہے الفلک مجر الکواکب کہ فلک ستاروں کی حرکت گاہ کانام ہے یسبحون سبح سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے ا ور السبح جو سبح کامصدر ہے کے معنے ہیں المرء۔۔۔۔۔۔۔؛پانی یاہوامیںجلدیسے گذرنا (اقرب) پس یسبحون کے معنے ہونگے وہ اپنے مدارمیں تیزی سے حرکت کر رہے ہیں الخلد مفردات میںہے الخلود ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کسی چیز کاخراب ہونے سے اور فساد پذیر ہونے سے محفوط رہنا اور اپنی اصلی حالت پرقائم رہنا اور ہر وہ چیز جس سے تغیر اور خرابی دور ہوتی ہے اور اپنی اصلی حالت پر و ہ قائم رہتی ہے اس کے لئے خٰلود کالفظ بولاجاتاہے ۔ کفلھم ۔۔۔۔۔ چنانچہ چولہے کے پتھروں کو بھی خوالد کہتے ہیںکیونکہ جہاں چولھے بنائیجاتے ہٰیںوہ پتھر ایک عرصہ تک وہیں پڑے رہتے ہیںاور اس وجہ سے ان کو خوالد نہیں کہتے کہ وہ ابدالا باد تک باقی رہیں گے ۔
۲۷؎ تفسیر:۔
فرماتاہے رات اور دن اور سورج اور چاند سب خداہی کے پیدا کردہ ہیںاور کسی غرض سے پیدا کئے گئے ہیں ۔رات بھی انسانی ضرورت کوپورا کرتی ہے اور دن بھی سورج بھی اور چاند بھی اور سورج اور چاند دونوںایک مقررہ راستہ پرچل رہے ہیں ۔یعنی ہمیشہ ہی انسان کو رات اوردن کی ضرورت رہے گی اور سورج اور چاندکے ذریعہ سے ہمیشہ رات اوردن آتے رہیںگے ۔
اسی طرح روحانی سورج اور روحانی چاند بھی ظاہرہوتے رہیںگے روحانی سورج مرے گا تو روحانی چاند آجائے گا ۔ چنانچہ فرماتا ہے کہ اے روحانی سورج یعنی محمد رسول اللہ ۔اگر تو نے مرناہے تو کیا انہوں نے زندہ رہناہے ! ہر ایک انسان کے لئے مقدر ہے کہ آخرت کا مزہ چکھے لیکن تیرے مارنے والا خدایک روحانی چاند پیدا کرنے پر بھی قادر ہے پھر اسلام کیلئے مایوسی کی کونسی بات ہے۔
آیت نمبر۳۶
ترجمہ:۔ ہرجان موت چکھنے والی ہے اور ہم تمہاری برے اور اچھے حالات سے آزمائش کرینگے ۔ اور آخر ہماری طرف ہی تم کو لوٹاکر لایا جائے گا ۔۲۸؎
۲۸؎ تفسیر:۔
فرماتاہے ہر انسان جواس دنیا میںپیدا ہوا ہے اس کے ساتھ خدانے موت لگائی ہوئی ہے بے اندازہ زندگی کسی کوبھی نہیں ملتی۔ونبلونکم۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم تم کو منحوس اور اچھی گھڑیوں کے ذریعے سے آزماتے رہیں گے ۔یعنی خدائی طریق یہ ہے کہ وہ کبھی خیر کے ذریعہ بنی نوع انسان کی آزمائش کرتاہے اور کبھی شرکے ذریعہ ان کی آزمائش کرتاہے یعنی کبھی تووہ بنی نوع انسان کو یہ موقعہ دیتاہے کہ خداتعالیٰ کے انبیا ء ظاہر ہوں تو وہ انکی فرما نبرداری اور اطاعت کرکے ترقی حاصل کریں اور کبھی تاریکی کے دور میںجب نبیوںکی بعثت پرایک لمبازمانہ گذ ر جاتا ہے وہ لوگوں کوموقعہ دیتاہے کہ ان میں سے سمجھدار اور دور اندیش انسان اپنی عقل سے کام لے کر اس صحیح تعلیم کو جو فطرت کے مطابق ہو اخذ کریں اور بدی کی رو میں بہنے کی بجائے انبیاء کے طریق کو دنیا میںقائم رکھنے کی کوشش کریں یہ دونوں طریق ہیںجن سے لوگوں کی آزمائش کاسلسلہ جاری ہے اسی طریق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے کہ کبھی آسمانی چاند مٹ جائیگا اور تاریکی چھا جائیگی اور کبھی پھردوسرا چاند ظاہر ہوجائیگا ۔والینا۔۔۔۔ اور ہر چاند کامقصدد یہ ہوگا کہ وہ لوگوں کو خداکی طرف لوٹائے۔
آیت نمبر۳۷
ترجمہ :۔ اور جب تجھے کفار دیکھتے ہیںتو تجھ کو صرف ایک حقیر چیز سمجھتے ہیں اور کہتے ہیںکیا یہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کی کمزوریاں گناتاہے ؟ حالانکہ وہ خود رحمن خدا کے ذکر کا انکار کرتے ہیں ۲۹؎
۲۹؎ حل لغات :۔ ھزو۔ھزو کے معنے ہوتے ہیں سخر منہ اس سے ہنسی مذاق کیا (اقرب) او ر ھزو کے معنے ہونگے ہنسی اور مذاق
۲۹؎ تفسیر:۔
فرماتاہے کافرہمیشہ تیری ہنسی اڑاتے ہیںاور کہتے ہیں کہ کیا یہ شخص تمہارے معبودوں کی تباہی کی خبردیتا ہے اور وہ یہ نہیںسوچتے کہ وہ تو رحمن خدا کے ذکرکو مٹانا چاہتے ہیں اگر محمد رسول اللہ ان پیداکردہ شخصیتوں کو مٹاناچاہے جن کو کفار نے خدابنا چھوڑاہے تو یہ ہنسی کی کونسی بات ہے ۔گویا آپ تو حقیقی خداکے بھی منکر ہیں لیکن محمد رسول اللہ ﷺ جب ان کے جھوٹے معبودوں کا ذکر کرتے ہیں تو ان کاتمسخر اڑاتے ہیں اور کہتے ہیںکہ اس کی کیا حیثیت ہے کہ ہمارے معبودوں کا حقارت کے ساتھ ذکر کرے ۔
آیت نمبر۳۸
ترجمہ :۔ انسان کے اندر جلد بازی کا مادہ رکھاگیا ہے سو یادرکھ میں تم کواپنے نشان دکھائوںگا پس تم جلد بازی سے کام نہ لو ۔ ۳۰؎
۳۰؎ تفسیر:۔
فرماتاہے ۔محمد رسول اللہ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ سمجھتے ہیںکہ ہم اس کے مخالف ہیں۔لیکن پھر بھی ہم پر عذاب نہیں آتا ۔گویا محمد رسول اللہ کی ہنسی اور تحقیر صرف اس لئے ہے کہ عذاب میںدیر ہو رہی ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ عذاب جلدی آجائے ۔آیت کے لفاظ یہ ہیں انہیں جلدی سے پیدا کیا گیا ہے مگر جلدی کوئی مادہ نہیں جس سے کوئی دوسری چیز بنائی جائے یہ عربی زبان کاایک محاورہ ہے ۔چنانچہ عربی زبان میںجب یہ کہا جائے کہ خلق من فلان تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ شخص فلاں مادہ سے بنایاگیا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ فلاں امر اس کی طبیعت میںداخل ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی اس محاورہ کو مختلف مقامات پر استعمال فرمایا ہے ۔ سورئہ روم میںفرماتاہے۔اللہ الذی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیںضعف سے پیدا کیا ہے ۔ اب بتاو کیا ضعف کوئی مادہ ہے اس کامطلب صرف یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں کمزوری رکھی گئی ہے چنانچہ جب بچہ پیدا ہوتاہے فطرتی طور پر سخت کمزور ہوتاہے ۔پھر آہستہ آہستہ اس کے قویٰ مضبوط ہوتے ہیںمگر بڑھاپے میں پھر اس پرضعف طاری ہوجاتاہے اور اس کی طاقتیں اسے جواب دے دیتی ہیں ۔پس یہاں خلق کم من ضعف سے مراد بچے کے قویٰ کی کمزوری اورا س کاضعف ہے ۔یہ مراد نہیںکہ کمزوری کوئی مادہ ہے جس سے و ہ پید اہوتاہے اسی طر ح قرآن کریم میں ذکر آتاہے کہ ابلیس نے کہا کہ خلقتنی ۔۔۔۔ اے خدا تو نے تو میری طبعت میں آگ کامادہ رکھا ہے اور اس میں طین کامادہ ہے مجھے توکو ئی بات کہے تو آگ لگ جاتی ہے ۔اس لئے میں تو آدم کی طرح دوسرے کی بات کبھی نہیں مان سکتا ارد و میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتاہے چنانچہ کہتے ہیں فلاں شخص تو آگ ہے اب اس کے یہ معنے نہیںہوتے کہ اس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں بلکہ مطلب یہ ہوتاہے کہ اسے کوئی نصیحت کی جائے تو آگ لگ جاتی ہے ۔انگریزی میںبھی کہتے ہیںکہ فلاں شخص تو فائر برینڈہے یعنی ایسا شرارتی ہے کہ ہر جگہ آگ لگا دیتاہے یہی محاورہ اس جگہ استعمال ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ خلق ۔۔۔۔جلدی سے پیدا کیا گیا ہے یعنی انسانی فطرت میںجلد بازی رکھی گئی ہے اور وہ چاہتاہے کہ جو کام بھی ہو جلدی سے ہوجائے لیکن خداتعالیٰ کی طرف سے ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتاہے اس لئے فرماتاہے ساوریکم ۔۔۔۔۔ تم محمد رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئیاں سنتے ہی اسے جھوٹاجھوٹا کیوں کہنے لگ جاتے ہو ۔تم جلدی نہ کرو محمد رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کا نتیجہ آخر نکل آئی گا اور ہماری پیشگوئیاں پوری ہو کر رہیںگی ۔
آیت نمبر۳۹‘۴۰
ترجمہ :۔ اور یہ سن کر وہ کہتے ہیں اگر تم لوگ یعنی مسلمان سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟ ۳۱؎؎
۳۱؎ تفسیر:۔
مگر کفار پھر بھی نہیںسمجھتے وہ یہی کہتے جاتے ہیں کہ اگر سچے ہو تو عذاب کاوعدہ جلدی پورا کرو آخر وہ عذاب کب آئیگا؟
آیت نمبر۴۰‘۴۱
ترجمہ :۔ اگر کفار اس گھڑی کوجان لیتے جبکہ وہ نہ اپنے مونہوںسے اور نہ اپنی پیٹھوں سے آگ کو ہٹا سکیںگے ۔اور نہ کسی کی طرف سے ان کی مدد کی جائیگی تو وہ اتنی تعلی نہ کرے لیکن وہ عذاب ان کے پاس اچانک آئے گا اوران کو حیران کردیگا پس وہ اس کو رد کرنے کی طاقت نہیں رکھیں گے اور نہ ان کو کوئی مہلت دی جائیگی ۔ ۳۲؎
۳۲؎ حل لغات:۔ وجوھھم۔۔۔۔۔۔۔۔ کے معنے ہیں اول ۔۔۔۔۔ ہر چیز کا سامنے کاحصہ اسی طرح الوجہ کے معنے ہیں سید قوم قوم کاسردار نفس ۔۔۔کسی چیز کاوجود عزت (اقرب)
تبھتھم۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو اچانک آلیا اور تاتیھم۔۔۔۔۔۔ کے معنے ہیں ای تغلبھم۔۔۔۔۔کہ انکو مصیبت اچانک آئیگی اور ان کوحیران کردیگی (اقرب )ینظرون ۔۔۔ انظر سے مضارع جمع مذکر غائب کامجہول کاصیغہ ہے اور انظر کے معنے ہیں اسکو مہلت دی(اقرب) ولاھم۔۔۔ کے معنے ہونگے انہیںمہلت نہ دی جائیگی ۔
۳۲؎ تفسیر:۔
اصل بات یہ ہے کہ سزا ملنے سے پہلے انسان اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتا اور یہ لوگ بھی نہیںسمجھ رہے لیکن جب عذاب آجائیگا اور نہ صرف چھوٹوں پر بلکہ بڑوں پر اور ان کے مدد گاروں پر بھی آجائے گا اور کوئی مدد کرنے والانہیں رہے گا ۔اس وقت ان کو ہوش آئے گی وہ عذاب اچانک آئے گا اور ان کو حیران کردے گا اور یہ اس کو رد کرنے کی طاقت نہیں پائیںگے اورنہ خداہی ان کومہلت دیگا۔
اس آیت میںبتایا گیا ہے کہ کفار اس عذاب کو نہ اپنے مونہوںسے ہٹاسکیںگے اور نہ اپنی پیٹھوںپرسے ہٹاسکیںگے یعنی نہ سامنے آنے والا عذاب ان سے دور ہو سکے گا ۔ اور نہ پیچھے سے آنیوالا عذاب ان سے دور ہو سکے گا سامنے آنے والے عذاب سے وہ عذاب مراد ہے جس کے نشانات ظاہر ہوجائیں اور پیچھے آنے والے عذاب سے وہ عذاب مرادہے جو اچانک آجاتاہے اور جس کاا نسان کو پتہ تک نہیں لگتا بل تاتیھم۔۔۔۔۔۔ سے ظاہرہے کہ جو عذاب ان کیلئے مقدر ہے وہ اچانک آئیگا گویاانکی پیٹھوں کی طرف سے عذاب کاآنا مقدر ہے ۔انہیںپتہ بھی نہیں لگے گا کہ عذاب کب آنیوالا ہے اور کس طرح آنے والا ہے۔
آیت نمبر۴۲
ترجمہ :۔اور تجھ سے پہلے جو رسول گذرے ہیں ان سے بھی ہنسی کی گئی تھی لیکن نتیجہ یہ ہو ا کہ جنہوں نے ان رسولوںسے ہنسی کی تھی ان کو انہی باتوں نے آکر گھیر لیا جن کے ذریعہ سے وہ نبیوں کی ہنسی اڑاتے تھے ۔۳۳؎
۳۳؎ حل لغات:۔ حاق بہ کے معنے ہیں احاط اس کو گھیر لیا (اقرب)
۳۳؎ تفسیر:۔
اور یہ تجھ سے مذاق کرتے ہیں یہ کو ئی نئی بات نہیںپہلے رسولوں سے بھی ایسا ہی ہوتاچلا آیاہے لیکن آخر انجام مخا لفوں کا ہی برا ہوا ہے اوران کے ٹھٹھے کا وبال انہی پر عذابکی صورت میںپڑا ہے ۔اگر تیرے مخالفوں کاانجام بھی برا ہوا تو یہ اس بات کاثبوت ہوگا کہ تو ہمارا سچارسول ہے اور یہ لوگ جھوٹے ہیں ۔
آیت نمبر۴۳
ترجمہ:۔تو کہہ دے کہ رات یادن کے وقت رحمن خدا کی گرفت سے تم کو کون بچاسکتاہے ؟ لیکن (حقیقت یہ ہے کہ ) وہ اپنے رب کے ذکر سے اعراض کررہے ہیں۔ ۳۴؎
۳۴؎ حل لغات :۔ یکلوئُ کل سے مضارع واحد مذکر غائب کاصیغہ ہے اورکلو کے معنے ہیںحفطہ ۔۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت اور نگہبانی کی (اقرب)پس یکلا کے معنے ہیں حفاظت کرتاہے۔
۳۴؎ تفسیر:۔
فرماتاہے تمہاری رات اوردن میںکئی قسم کی مشکلات اور مصائب پیدا ہوتے ہیں بعض مصائب رات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور بعض دن کے ساتھ مگر کوئی پوشیدہ ہستی ان کو ٹلاتی چلی جاتی ہے اور تمہاری حفاظت کرتاہے۔آخر یہ رحمن کے سواکون ہستی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ کئی قسم کی وبائیں اور بلائیںہیںجو رات کی وجہ سے پید اہوتی ہیںاور کئی قسم کی وبائیںاور بلائیںہیںجو د ن کی وجہ سے پید اہوتی ہیںان بلائوںاور آفتوں اور بیماریوں اور عذابوںکو جانتے تو سائنس والے ہیںمگر اثر ان کاساری پبلک پر پڑتاہے جوان سے بے خبر ہوتی ہے اورجن کوپتہ بھی نہیں ہوتاکہ کوئی بلائیںہمارے لئے تیار ہورہی ہیں مگر پھرمخفی طورپر کچھ ایسے غیبی سامان پیداہوتے ہیںکہ وہ بلائیں دور ہوجاتی ہیںفرماتاہے یہ رحمان خداہی ہے جوانکو دور کرتاہے لیکن ان لوگوں کو بھی سبق نہیں ملتا اور یہ صداقتوں کامقابلہ کرتے چلے جاتے ہیں۔مونہہ سے تو یہ کہتے ہیں کہ ایک جھوٹاابھی پیدا ہوا ہے ہم اسکی مخالفت کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انکو اپنے خداکی یا د کرنے کی رغبت ہی نہیںہے چونکہ ذکر الٰہی سے ان کا دل گھبراتاہے اس لئے انبیاء کاانکار کرتے ہیں تاکہ خداتعالیٰ کی طرف توجہ نہ کرنی پڑے اوران ذمہ داریوںسے بچے رہیںجو ایمان لانیولو ں پر ڈالی جاتی ہیں۔ ہر شخص جوتاریخ سے ذرا بھی واقفیت رکھتاہے جانتاہے کہ انبیا ء کی اصل مخالفت اسی بات پر ہوتی ہے کہ وہ دنیوی لھوولعب سے ہٹ کر خداکی یاد کی طرف لوگوں کو لانا چاہتے ہیں اور یہی وجہ محمد رسول اللہ ﷺ کے انکار کی بھی ہے ورنہ محمد رسول اللہ کوئی ایسی بات نہیں کہتے تھے جو انسان کی فطرت یا اخلاق کے خلاف ہو اور نہ وہ لوگوں سے کچھ مانگتے تھے کہ انکی بات ماننا لوگوں پر بوجھ ہوتا روحانی نقطہ نگاہ سے ا س آیت میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جب بھی کوئی روحانی چاند یا روحانی سورج ظاہر ہوتاہے تو ا اسکی سچائی ظاہر کرنے کے لئے خداکی طرف سے عذاب آتاہے سو اے لوگو بتائو کہ خواہ چاند کا وقت ہویاسورج کا خداتعالیٰ کے عذاب سے تمہیں کون بچاسکتاہے ۔بل ھم ۔۔۔ میں بتایا کہ ان کی یہ حالت صرف اعرض عن ذکر اللہ کے سبب سے ہے ۔
آیت نمبر۴۴
ترجمہ:۔ کیا ان کی تائید میںکوئی سچے معبود ہیں جو انکی ہمارے عذاب سے بچالیں ؟ وہ معبد تو اپنی جانوں کی بھی حفاظت نہیںکرسکتے اور نہ ہمارے مقابلہ میںکوئی انکاساتھ دے سکتا ہے ۔ ۳۵؎
۳۵؎ تفسیر:۔
پھر فرماتا ہے تم تو خدا تعالیٰ کی عبادت سے بچنا چاہتے ہو لیکن اس کے نتیجہ میں جوعذاب آئیگا اس سے کوئی جھوٹامعبود تمہیں نہیں بچاسکے گا بلکہ وہ جھوٹے معبود تو اپنے آپ کوبھی نہیں بچاسکتے اور نہ اپنا کوئی مدد گار پیدا کر سکتے ہیں ۔
آیت نمبر۴۵
ترجمہ :۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ان کو بھی اوران کے باپ دادوں کو بھی بہت سامال و متاع دے رکھا تھا یہاں تک کہ ان پرایک لمبازمانہ گزر گیا پس کیا یہ نہیںدیکھتے کہ ہم ان کے ملک کی طرف بڑھ رہے ہیں اور کناروںکی طرف سے اسے چھوٹاکرتے جارہے ہیں تو کیا اس سے یہی نتیجہ نکلتاہے کہ وہ غالب آئیںگے ۔ ۳۶؎
۳۶؎ حل لغات :۔ اطراف طرف کی جمع ہے اور طرف کے معنے ہیں حرف ۔۔۔کسی چیز کاکنارہ طرف الرجل کریم۔معزز آدمی (اقرب)
۳۶؎ تفسیر:۔
حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قوم کی عمر لمبی ہوجاتی ہے تو ہوتکبر کی مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے اور یہ نہیںدیکھتی کہ اس وقت اس کی تباہی کے سامان پیدا ہورہے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ ایسا ہوتاچلا آیا ہے ۔بلکہ موجودہ زمانہ میں ہی انگریزوں اور فرانسیسیوں کو ہی دیکھ لولمبی حکومت کے بعد خود ان کی حکومت ہی انکے لئے وبال جان بن گئی اور ان کی شہنشاہت کے اجزا خود ان کے لئے ایک ذلت کاطوق بن گئے ۔
ہندوستان انگلستان سے کتنی دور تھا اور پھر انگریزوں نے کتنی شاندار حکومت یہاں کی لیکن پچھلی بڑی جنگ میں مسٹر چرچل کے قول کے مطابق ہندوستان انگریز کے گلے کاپتھر بن گیا او چرچل چیخ اٹھاکہ اگر انگلستان کو بچانا چاہتے ہو تو اس پتھر کو سمندر میںپھینک دو اب مصر اورملایا اسی طرح پتھر بن کے گلے میںلٹکے ہوئے ہیں کچھ عرصہ کے بعد نیوزی لینڈ آسٹریلیا اور کینیڈا گلے کے پتھر بن جائیں گے مگر پھر بھی کچھ عرصہ تک انگلستان کا غرور قائم رہے گا اور انگریز یہی سمجھتے رہیںگے کہ ہم غالب ہیں مگر آخر خداتعالیٰ کی وحی جیتے گی۔
تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہواہے کہ سب سے بڑی مصیبت ہمیشہ یہی رہی ہے کہ جب دنیامیںکوئی قوم طاقتور ہوجاتی ہے تو اسے جتنی زندگی ملتی ہے چاہے وہ ساٹھ سال کی ہو یاسو سال کی ہو یادوسو سال کی ہو اس زندگی کی وہ ایسی عادی ہو جاتی ہے کہ سمجھتے ہیں اب ہماری یہ حالت بدلے گی نہیں فرماتاہے کیا وہ یہ نہیںدیکھتے کہ گو محمد رسول للہ کو پوری فتح حاصل نہیں ہوئی لیکن محمد رسول اللہ کے مخالفوں کی حکومت کا پھیلاو کم ہونا شروع ہوگیاہے او ران کے اثر کے وہ حصے جنکو کنارے کہناچاہئے اب سمٹناشروع ہوگئے ہیں کی اس بات کو دیکھنے کے باوجود وہ خیال کرتے ہیں کہ آخر وہی غالب آئیںگے ۔یعنی جبکہ اسلام روز بروز ترقی کررہاہے ا ور و ہ کم ہورہے ہیں تو وہ کیونکر خیال کرسکتے ہیں کہ وہ غالب آجائیںگے۔
آیت نمبر۴۶‘۴۷‘۴۸
ترجمہ :۔ تو ان سے کہہ دے کہ میں تو تم کو وحی کے ذریعہ سے ہوشیار کررہا ہوں اور خوب سمجھتاہوں کہ جب روحانی بہروں کو ہوشیار کیا جائے تو وہ آواز نہی سن سکتے اور اگر ان کوعذاب کی گرمی کا کوئی جھونکالگ جائے تو وہ ضرور کہیںگے ہم پر افسوس ہم تو ظلم ہی کرتے رہے۔اور ہم قیامت کے دن ایسے تول کے سامان یعنی پورا پورا تولنے والے سامان پید ا کرینگے کہ جنکی وجہ سے کسی جان پر ذراسا بھی ظلم نہیں کیا جائیگا اور اگر ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی کو ئی عمل ہوگا تو ہم اس کو موجود کردینگے اور ہم حساب لینے میںکافی ہیں ۔ ۳۷؎
۳۷؎ حل لغات :۔ النفحہ ۔۔۔۔۔عذاب کاایک حصہ (اقرب)القسط کے منے ہی اعدل ۔انصاف (اقرب)الخردل ۔۔۔۔۔یعنی باریک باریک دانے جو سیاہ ہوتے ہیںاور ان میں سے بعض سفید بھی ہوتے ہیں (اقرب) اردو میں ہم انہیںرائی کہتے ہیں ۔
۳۷؎ تفسیر :۔
فرماتاہے اے محمد رسول اللہ تو ان سے کہہ دے میںتو کسی طاقت کامدعی نہیں کمزور انسان ہوں ۔خد کی وحی میں تمہارے عذاب کی خبر آئی ہے وہ تم کو سناتاہوں مگر تم بہرے ہوگئے ہو کتنابھی ڈرائوں سنتے نہیںلیکن جب عذاب آجائیگا تو اس وقت یہ لوگ کہیں گے کہ افسوس ہم تو ظالم تھے مگر کیا ان کایہ کہنا ان کو نفع دے سکے گا جب مقدرت ظلم کے وقت وہ ظلم کرتے رہے تو مقدرت ظلم کے چھینے جانے پر افسوس کرنے کا کیا فائدہ ؟ اور ہم اس فیصلہ کے دن انصاف کے ترازو رکھ دیں گے تاکہ جتنا جتنا کوئی مجرم ہے اس کو سزا مل جائے گی اور کسی پر تھوڑاسا بھی ظلم نہیں کیا جائیگا اور اگر کسی نے ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی نیکی کی ہوگی تو اس کابدلہ اسکو مل جائیگا دیکھو یہ کتنی زبردست صداقت ہے جو قرآن کریم نے بیان کی ہے ابوجہل کتناشدیددشمن تھا مگر اس کے اندر کی نیکی کسی دوسرے شخص کو نظر نہیں آئی لیکن جب خدائی فیصلہ کا دن آیا تو ا سکے بیٹے کو مسلمان کردیا گیااور وہ اعلیٰ درجہ کا اسلامی جرنیل ثابت ہو اسی طرح ابوسفیان اسلام کاکتنا دشمن تھا ظاہرمیں دیکھنے والے یہی سمجھتے تھے کہ یہ اور اس کا خاندان ہمیشہ سزاپائیں گے مگر اس کے اندر بھی کوئی نیکی تھی جب وقت آیا تو اس کابیٹاآدھی مملکت اسلامیہ کا حاکم بنا اور قریباً سو سال تک اس کے خاندان نے تمام عالم اسلام پرحکومت کی اور اس کے بعد اندلس پر قریباً پانچ سو سال تک حکومت کی یہ جزا محض عالم الغیب خدا کی طرف سے ہی آسکتی ہے اگر انسان جزا دیتاتو ابو جہل اور اس کے خاندان کو اور ابو سفیان اور اسکے خاندان کو پیس ڈالتا۔
اوپر کے مضمون کے علاوہ یہ آیت کہ وان کان ۔۔۔۔۔۔۔جہنم کے غیرمنقطع ہونے کے عقیدہ کو بھی ردکر رہی ہے کیونکہ اس آیت میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کسی نے ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی نیکی یابدی کی ہوگی تو اس کاحساب لیاجائے گا اب اگر بدی کی وجہ سے انسان جہنم میںچلاگیا اور ابدالاباد تک وہیںرہا تو نیکیو ں کا بدلہ کب پائیگا پس ضرور ی ہے کہ جہنم کاعذاب منقطع ہو اور نیکیوں کی جزا کے لئے اسے جنت میںداخل کیاجائے آریوںکی عقیدہ ہے کہ خداتعالیٰ حساب کے وقت روح کاایک گناہ باقی رکھ لیتاہے چنانچہ پہلے تو وہ نیک روحوںکو نجات دے دیتاہے مگر پھر اس گناہ کیوجہ سے انہیں مختلف جوتوں میںڈالتارہتاہے ۔ گویاان کے نزدیک خداتعالیٰ انعام پہلے دیتاہے اور عذاب پیچھے تاکہ روح ابدی نجات نہ پاجائے مگر اسلام کہتاہے کہ خداتعالیٰ گناہوں کی سزاپہلے دیتاہے اور پھرانسان کو نجات دیتاہے اور ہر عقلمند سمجھ سکتاہے کہ اسلام کہتاہے کہ خداتعالیٰ گناہوں کی سزاپہلے دیتاہے اور پھرانسان کونجات دیتاہے اور ہر عقلمند سمجھ سکتاہے کہ اسلام کی تعلیم ہی فطرت صیحیحہ کے مطابق ہے گناہ کو چھپارکھنا اور پھرسلسلہ انعام کومنقطع کر کے عذاب میں مبتلاکر دینا ایسا ہی ہے جیسے بنیا کسی کو روپیہ قرضدے کر اس کا بہت ساحصہ تو وصول کرلیتاہے مگر کچھ حصہ باقی رہنے دیتاہے کہ چند سالوں کے بعد پھرسود سمیت اس سے ایک بہت بڑی رقم وصول کر سکے اس قوم کی کینہ توزی کسی انسان میںبھی برداشت نہیں کی جاسکتی کجا یہ کہ اسے خداتعالیٰ کی طر ف منسوب کیاجائے لیکن اسلام کہتاہے کہ جس شخص کے لئے سزامقدر ہوگی اسے پہلے سزادی جائے گی اور پھراس کی نیکیوں کاانعام دیاجائیگا ااور یہ انعام غیرمنقطع ہوگااور اس میں کوئی رخنہ واقع نہیں ہو گا
چنانچہ اللہ تعالی ٰایک دوسرے مقام پر فرماتاہے کہ جولوگ میری جنت میںداخل ہوجائیں گے وہ اس سے کبھی نکالے نہیںجائیںگے پس اسلام کی تعلیم عقل اور فطرت کے مطابق ہے جبکہ آرین مذہب کی تعلیم خداتعالیٰ پرظلم کاالزام عائد کرنے والی ہے۔
آیت نمبر۴۹‘۵۰
ترجمہ:۔ اور ہم نے موسیٰ ؑاورہارون ؑ کو امتیازی نشان بخشا تھا۔ اور روشنی بخشی تھی۔اور متقیوں کے لئے ایک یاد ہانی کی تعلیم بخشی تھی وہ متقی جو اپنے رب سے غیب میں بھی ڈرتے ہیں اور جو جزا سزا کے وقت مقرر سے بھی ڈرتے رہتے ہیں ۔ ۳۸؎
۳۸؎ حل لغات :۔ لفرقان کے معنے ہیں کل ۔۔۔۔ہر وہ معجزہ جس سے حق اور باطل کے درمیان امتیاز ہوجائے النصر ۔ مدد لبرھان۔ دلیل الصبح ۔ صبح (اقرب)
۳۸؎ تفسیر:۔
فرماتاہے ہم نے موسیٰؑ اور ہارون ؑ کو ایک امتیاز اور روشنی دینے والی اور متقیوں کو خداتعالیٰ کی یاد دلانے والی کتاب بخشی تھی ایسے متقی جو علیحدگی میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیںاور اپنے انجام سے ڈرتے رہتے ہیں ۔
آیت نمبر۵۱
ترجمہ :۔ او ر یہ قرآن ایسی یاددہانی کرنیولی کتاب ہے جس میں تمام آسمانی کتابوں کی خوبیاں بہہ کرآگئی ہیں اس کوہم نے اتارا ہے پس کیا تم ایسی کتاب کے منکر ہو ۳۹؎
۳۹؎ تفسیر:۔
مبارک دراصل برکۃ سے نکلاہے اور برکۃ کے معنے گڑھے کے ہوتے ہیں جس میں ارد گرد کاتمام پانی جمع ہوجاتا ہے قرآن کریم کومبارک اسی لئے کہا گیا ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جس میںپچھلی سار ی صداقتوں اور اعلیٰ درجے کی تعلیموںکو جمع کردیاگیاہے ۔
فرماتا ہے یہ قرآن جو ساری برکتیںاپنے اندر جمع رکھتاہے ۔اور تورات کی طر ح خداکویاد دلانے والا ہے ہم نے تجھ پر اتاراہے مگر پھربھی لوگ اس کاانکار کرتے ہیں اس جگہ چونکہ قرآن کریم کو ذکرکیاگیا ہے اس لئے جہاں خدتعالی ٰنے مومنوں کوذکر لہٰی کرنیکاحکم دیاہے وہاں ا سکے ایک معنے یہ بھی ہوتے ہیں کہ قرآن کریم کو پڑھو اور اس پرعمل کرو ۔
آیت نمبر۵۲تا ۸۶
ترجمہ :۔ اورہم نے اس سے پہلے ابراہیم کو اس کی صلاحیت اور قابلیت عطاکی تھی اورہم ا سکے اندرونہ سے خوب واقف تھے جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا یہ کیا مجسمے ہیں جن کے آگے تم بیٹھے رہتے ہو ۔انہوں نے کہاہم نے اپنے باپ دادوں کو دیکھاتھاکہ وہ ا ن کی عبادت کرتے تھے اس نے کہاتب تم بھی اور تمہارے باپ دادے بھی ایک کھلی گمراہی میں مبتلاتھے ۔انہوں نے کہاکیاتو ہمارے پاس ایک حقیقت لے کر آیاہے یاتوہم سے مذاق کررہاہے اس یعنی ابراہیم نے کہاحقیقت یہ ہے کہ تمہارا آسمانوںکابھی رب ہے اور زمین کابھی رب ہے وہی ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے اورمیںا سبات پرتمہارے سامنے گواہ ہوں اور اسنے کہا خداکی قسم جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جائو گے تو میںتمہارے بتوںکیخلاف ایک پکی تدبیر کروںگا پھراس نے ان یعنی بتوں کو ٹکڑے ٹکرے کردیاسوائے ان میں سے بڑے کے تاکہ وہ ایکدفعہ پھراس کے پاس آئیں اس پر انہوںنے کہا کہ ہمارے معبودوںسے یہ کام کس نے کیاہے؟ ایسا کرنیوالا یقینا ظالموں میںسے ہے تب کچھ دوسرے لوگوں نے کہا ہم نے ایک نوجوان کوجس کانام ابراہیم ہے انکی کمزوریاں بیان کرتے سناہے تب قوم کے سرداروں نے کہااگر بات یوں ہے تو اس شخص کو سب لوگوں کے سامنے لائو شاید وہ اس کے متعلق کو ئی فیصلہ کریں پھر انہوںنے کہااے ابراہیم کیا یہ کام تونے ہمارے معبودوں سے کیاہے ؟ ابراہیم نے کہاکہ آخر کسی کرنے والے نے یہ کام ضرور کیاہے یہ سب سے بڑا بت سامنے کھڑاہے اگر وہ بول سکتے ہیںتو ان سے یعنی بڑے بت سے پوچھ کر دیکھو ۔اس پر وہ اپنے سرداروں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے کہا سچی بات تو یہ ہے کہ ظا لم تم ہی ہو اور وہ لوگ اپنے سروں کے بل گرائے گئے یعنی لاجواب کئے گئے ۔اور انہوںنے کہا کہ تو جانتاہے کہ یہ تو بولانہیں کرتے ۔ابراہیم نے کہاتو کیا تم اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی شے کی پرستش کرتے ہوجو نہ تمہیںنفع دیتی ہے نہ نقصان پہنچاتی ہے ۔ہم تم پر افسوس کرتے ہیںاور اس پرجس کی تم اللہ کے سواعبادت کرتے ہو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔؟ ۴۰ ؎
۴۰؎ حل لغات:۔الرشد ۔۔۔۔۔۔حق بات پراس طرح قائم رہناکہ انسان مضبوطی سے اسے اختیار کرلے ۔جزائً۔ٹکڑے اور توڑی ہوئی چیز ۔ماتکسر۔۔۔۔کسی چیز کا حصہ جو ٹوٹ کر علیحدہ ہوجاتاہے۔(اقرب) نکسو ۔نکس ۔ سے جمع مذکر غائب مجہول کاصیغہ ہے۔ اور نکس ۔ کے معنے ہوتے ہیںقلبہ علی رسہ وجعل۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو سرکیبل الٹاکردیااور نچلے حصے کو اوپر اور اوپر کے حصہ کو نیچے کردیا اسی طرح نکس ۔۔کے معنے ہوتے ہیں۔ طاطاہ من ذلٍ۔۔۔ اس نے ذلت سے سر نیچے کرلیا (اقرب) نکس المریض۔ کے معنے ہوتے ہیں عاد۔۔۔۔ یعنی مریض کو دوبارہ بیماری نے آلیا اور مرض کاپھراعادہ ہوگیا او ر نکس لرجل کے معنے ہیںضعف وعجز ۔ وہ ضعیف اور عاجز ہوگیا (اقرب) پس نکسو ۔۔۔کے معنے ہوئے (۱) اپنی پہلی حالت یعنی شرارت کی طرف دوبارہ لوٹ آئے (۲) ان کے سرذلت سے نیچے گرائے گئے (۳) جیساکہ اوپر حل لغات سے ظاہر ہے کہ النکس کے اصلی معنے یہ ہیںکہ کسی چیز کو اس طرح الٹاناکہ اس کا اوپر کاحصہ نیچے اور نیچے کاحصہ اوپر ہوجائے ۔علامہ آلوسی مصنف روح المعانی لکھتے ہیںکہثم نکسو۔۔۔۔۔ کالفظ ان معنوں میں استعمال ہوتادرست ہے کہ حضرت ابراہیم کے مخالفوں نے شرمندگی سے اپنے سرنیچے ڈال دیئے اور وہ حیرت میںڈوب گئے۔
۴۰؎ تفسیر:۔
فرماتاہے موسیٰ سے پہلے ابراہیم کو بھی ہم نے اس کے زمانہ کے مطابق ہدیت بخشی تھی اور ہم اس زمانہ کے حالات کو خوب جانتے تھے اس کا چچااور اس کی قوم مشرک تھے اس جگہ اب بمعنے چچا استعمال ہوا ہے ۔کیونکہ حضرت ابراہیم ؑ کے والد فوت ہوچکے تھے اس نے اپنے چچا اور اپنی قوم سے کہاکہ ماھذہ۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیا مجسمے ہیںجن کے آگے تم رات دن بیٹے رہتے ہو انہوں نے کہاہم نے تو اپنے باپ دادوںکوبھی دیکھاہے کہ وہ ان کی عبادت کیا کرتے تھے ماھذہ ۔۔۔کے الفاظ ان بتوں کی تحقیر کے لئے استعمال کئے گئے ہیں ورنہ حضرت ابراہیم ؑ خوب جانتے تھے کہ وہ کیا چیز ہیں ۔
درحقیقت طرز کلام کی واقفیت بھی کلام کے سمجھنے میںخاص طور پر مدد دیتی ہے ۔حضرت ابرہیم ؑ کی عادت تھی کہ وہ عام طور پرتعریضاًکلام کیا کوتے تھے بل ۔۔۔۔کا کلام بھی اسی طرز کاہے اور ماھزہ۔۔۔ بھی اسی رنگ میںکہاگیا ہے کہ یہ کیا چیز ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو ۔مراد یہ ہے کہ کیا ایسی ذلیل اور حقیر چیزوں کی تم پر ستش کرتے ہو ۔
اس جگہ رسو ل کریم ﷺ اور حضرت ابراہیم ؑ کی ایک عجیب مماثلت ثابت ہوتی ہے ۔رسول کریم ؑ کے باپ بھی آپ کی پیدئش سے پہلے فوت ہوچکے تھے اور حضرت ابراہیمؑ کے والد بھی ان کی پیدا ئش سے قبل فوت ہوگئے تھے اور دونوان کو ان کے چچا نے پالا تھااور پھر دونوں پالنے والے بھی مشرک تھے ۔ اور دونوں نبیوں نے ان کو توحید کی تبلیغ کی ۔حضرت ابرہیم ؑ کے چچا اور ان کی قوم نے بھی ان کو کہاتھا کہ ہمارے باپ دادے ان بتوںکی پوجاکرتے تھے اس لئے ہم ان کو نہیں چھوڑ سکتے۔اسی طرح رسول کریم ﷺ نے جب ابوطالب کو اسلام لانے کی دعوت دی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ اے میرے بھتیجے میںجانتاہوں کہ تیری باتیں سچی ہیںمگر لوگ کہیں گے کہ اس نے اپنے باپ دادے کا مذہب ڈرکر چھوڑ دیا ہے (سیرۃ ابنب ہشام جلد اول صفحہ ۱۴۶)
پھر حضرت ابراہیم ؑنے بھی اپنے بزرگوں سے یہی کہااور رسول کریم ﷺ نے بھی اپنے بزرگوںسے ہی کہاکہ آگ تمہارے باپ دادے گمراہ ہونگے تو کیاپھربھی تم ان کے پیچھے چلو گے۔(مائدہ )
اس پرحضر ت ا براہیمؑ کی قوم نے کہاکہ کیا تم مذاق کر رہے ہو یاکو ئی سچی تعلیم لائے ہو کیایہ درست ہے کہ ہمارے باپ دادا بھی غلطی کر سکتے تھے انبیا کے دشمن چونکہ د ل میںان کی قوت استدلال سے متاثر اور مرعوب ہوتے ہیں انکی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ خود ہی کہہ دیںکہ ہم تو ہنسی کرتے تھے اور اس طرح ان کو اس فکر سے نجات ملے جیسے حضرت خلیفۃ لمسیح اول ؓ حکیم الہ دین صاحب کاحال سناتے تھے کہ وہ وفات مسیح کے منکر تھے اور کہتے تھے کہ مرزاصاحب نے صرف مولویوںکو شرمندہ کرنے کیلئے یہ دعوی ٰکیاہے اگریہ سب معافی مانگ لیں تو وہ فوراً اس دعویٰ کو باطل ثابت کردیںگے ان لوگوں کی مثال اس شخص کی طرح ہوتی ہے جو سخت حادثہ میںمبتلاہوتاہے اور اس کے دل میںایک خفیف جھلک امید کی پیدا ہوتی ہے کہ شاید یہ خواب ہی ہو ۔حضرت ابرہیم ؑ کی قوم نے بھی ا ٓپ سے ہی کہا کہ کیاتم ہم سے مذاق تو نہیں کررہے کیا یہ درست ہے کہ ہمارے باپ دادا بھی غلطی کرسکتے تھے۔حضرت ابراہیم ؑ نے جواب دیاکہ تمہارارب آسمان اور زمین کارب اورانکاپیدا کرنے والا ہے اور میں اس پر دلیل سے قائم ہوںاوراسکا گواہ ہوں اور میںتمہارے گھروں کی طرف لوٹ جانے کے بعد تمہارے بتوں کیساتھ ایک تدبیر کوونگا ۔مفسریںکہتے ہیں کہ یہ کلام ا ن میںسے کسی ایک نے سن لیاتھاعید کے جاتے وقت سب سے آخر میں جو ضعفاء تھے ان میں سے بعض نے سن لیامگر یہ کلام غالباً انہوںنے اپنے دل میںکہاتھا ۔حالانکہ اس کے صرف اتنے معنے ہیںکہ جب انہوں نے دلائل سے نہ ماناتو حضرت ابراہیم ؑ نے عملی صورت میں ان کے بتوں کی برائی ان پرظاہر کرنی چاہی ۔جو زیادہ موثر دلیل ہوتی ہے ۔چنانچہ اس نے بڑے بت کو چھوڑ کر باقی بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے کہ شاید وہ خدتعالیٰ کی طرف لوٹیںاس پر اس کی قوم کے لوگ بہت بگڑگئے اور کہاکہ ہمارے معبودوںسے یہ کام کس نے کیاہے وہ بڑاظالم ہے جو لوگ ابراہیم ؑ سے بحث کرکے آتے تھے انہوںنے کہا کہ ایک نوجوان ان بتوںکابرائی سے ذکر کرتاتھا۔ اس کانام ابرہیم ہے ۔سمیعنا فتی۔۔۔۔۔۔سے مراد بھی یہی ہے کہ انکابری طرح ذکر کرتاتھا چنانچہ اسی سورۃ میں آتاہے واذا۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اے محمد رسول للہ ﷺ جب کفار تجھے دیکھتے ہیں تو وہ تجھے ایک حقیر چیز سمجھتے ہیںاور کہتے ہیںکہ کیا یہی وہ شخص ہے جو تمہارے معودوںکابری طرح ذکر کرتاہے حالانکہ وہ خود رحمن خدا کے ذکر کا انکار کرتے ہیں۔بہرحال جب ابراہیم کے متعلق کچھ لوگوں نے مذ کوہ بالا باتیں کیں تو ابراہیم کی قوم نے کہاکہ سب شہریوں کے سامنے اس کو لائو تاکہ جن لوگوں نے اس کو مخالفت کرتے دیکھاہے وہ اس پر گواہی دیں اس طرح ثابت ہو جائیگا کہ بتوںکامنکر ہی یہ کام کر سکتاہے ۔یا یہ کہ اس کے متعلق وہ یہ فیصلہ کیا کریں کہ اس کو کیا سزاملنی چاہئے اور یایہ کہ وہ بھی اس کی سزا دیکھیں پھر انہوں نے حضرت ابراہیم ؑ سے کہاکہ اے ابراہیم کیایہ سب کچھ تیری کرتوت ہے ابراہیم نے کہاکہ ہاں ۔بل فعلہ۔۔۔ یہ کام کسی نے کیا تو ضرور ہوگا بغیر کسی کے کرنے کے آپ ہی آپ تو ہو نہیںسکتا۔کبیر ھم ھذا۔۔۔ اب یہ بت ان میں سے سب سے بڑا ہے تو ان صاحب سے پوچھو اگر بت بول سکتے ہیںتو یہ صاحب جوابدیدیںگے ۔مجھ سے کیوں پوچھتے ہو ۔بل فعلہ ۔۔۔کے ایک تو یہ معنے ہیںکہ بل فعلا ۔۔۔یعنی یہ کام کسی نے تو ضرور کیا ہوگا اس صورت میںبلکہ کے معنے اجراب کے نہیںہونگے بلکہ تصدیق کے ہوں گے کہ ہاں کسی نے تو کیا ہی ہوگا ۔اور وقف سے ثابت ہوتاہے کہ اگلا حصہ الگ ہے اور اس میں سوال کیاہے کہ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو اس بڑے بت سے پوچھ لیتے ۔
دوسرے معنے یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ اپنی عادت کے مطابق تعریضاًکلام کرتے ہیں کہ نہیںمیںنے کیوں کرناتھااس نے کیا ہوگا ایسے کلام سے مراد انکار نہیں ہوتا بلکہ یہ مراد ہوتی ہے کہ کیایہ سوال بھی پوچھنے والا تھا میں نہ کرتا تو کیااس بت نے کرنا تھا؟
یہ جواب سن کر وہ لوگ دلوں میںشرمندہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ تم خود ہی ظالم تھے پھر مزید غور پر اور بھی شرمندہ ہو ئے یا اپنی شرارت کی طرف لوٹ آئے اور بولے کہ ابراہیم تم جانتے ہو کہ یہ تو بولتے نہیں ۔تب حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ کیاخداتعالیٰ کے سوا ان بتوںکی تم پرستش کرتے ہوجو تمہیں کچھ بھی نفع نہیںدیتے۔اور نہ نقصان دیتے ہیں ۔
اوپر کی آیات میں حضرت ابراہیم ؑ کارسول کریم ﷺ سے ایک زبردست مقابلہ کیا گیا ہے ۔حضرت ابراہیم ؑ کے والد بھی بچپن میں فوت ہو گئے تھے اور محمد رسول اللہ ؑﷺ کے والد بھی آپ کی پیدائش سے پہلے فوت ہوگئے تھے اور دونوں کو ان کے چچائوں نے پالا تھا جو دونوں مشرک تھے دونوں نے اپنے چچائوںکو توحید کی تبلیغ کی مگر دونوں نے توحید کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔یہ دونوں نبی توحید پر بڑی مضبوطی سے قائم تھے اور دونوں علی وجہ البصیر ت خداتعالیٰ کو خالق ارض وسما سمجھتے تھے۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ نے بھی بت توڑے اور محمد رسول اللہ ﷺ نے بھی بت توڑے جب ان کی قوم کے لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے تھے اور محمد رسول اللہ ﷺ نے اس وقت بت توڑے جبکہ دوپہر کا وقت تھا اور کعبہ کے پاس تمام لوگ جمع تھے آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اسے آپ سارے مکہ والوں کے سامنے بتوں پر مارتے اور انہیںگراتے جاتے تھے اور کسی کی مجال نہیںتھی کہ وہ اُف بھی کر سکے (تاریخ الحلیبہ جلد ۳) ابراہیم ؑ بے شک براآدمی تھا مگر کتنا فرق ہے ابراہیم ؑ میںاور میرے محمد میں ﷺ
آیت نمبر۶۹تا۷۱
ترجمہ :۔ (اس پر غصہ میں آکر ) کہنے لگے اس شخص کو جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تم نے کچھ کرنے کا ارادہ کیا ہے تب ہم نے کہا اے آگ تو ابراہیم ؑ کیلئے ٹھنڈی بھی ہوجا اور اس کے لئے سلامتی کاباعث بھی بن جا۔ اور انہیوں نے اس سے کچھ برا سلوک کرناچاہا مگر ہم نے ان کو ناکام بنادیا ۔ ۴۱؎
۴۱؎ حل لغات :۔ الکید۔۔۔۔۔۔ تدبیر اور کسی کے ساتھ شرارت کرنا ۔ الحیلۃ ۔حیلہ الحرب ۔لڑائی ۔نیز اس کے معنے ہیں ارادسہ۔۔۔۔ دوسرے کواس طور پر نقصان پہنچانا کہ اس کو معلوم نہ ہو ۔(اقرب)
۴۱؎ تفسیر:۔
حضرت ابراہیم ؑ کی قوم نے کہاکہ اگر کچھ کرنا ہی ہے تو ابراہیم کو جلا دو ۔اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ۔ہم نے کہا ۔اے آگ تو ابراہیم کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا ۔اور قوم ابراہیم نے اس کے خلاف ایک تدبیر کرنی چاہی ۔مگر ہم نے اس کا ناکام کردیا ۔
معلوم ہوتاہے کہ کسی غیبی سمان یعنی آندھی یا بارش وغیرہ سے آگ بجھادی گئی تھی ۔اسی لئے اللہ تعالیٰ یہ فرماتاہے کہ اے آگ ۔ٹھنڈی ہوجا۔یہ نہیںفرماتا کہ اے آگ جلا نہیں۔درحقیقت ایمان بالغیب کے قیام کے لئے بھی کسی ایسے ہی طریق کی ضرورت ہوتی ہے جس میں ایک حد تک اخفا کا بھی پہلو ہو ۔ورنہ ایمان لانے کاکوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
اس واقعہ میں بھی محمد رسول اللہ ﷺ کو حضرت ابراہیم ؑ سے ایک بڑی مماثلت ہے قوم ابراہیم نے کہا تھااس کو جلا دو ۔اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ۔گویا وہ سمجھتے تھے کہ معبودوںکی مدد کا کوئی راستہ کھلا ہے ۔ مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی قوم نے آپ کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ انکو قید کر دو یا قتل کردو یا اپنے شہرسے جلاوطن کردو ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںاس کاذکر کرتے ہوئے فرماتاہے ۔واذیمکربک۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس وقت کو بھی یاد کرو جبکہ کفار تمہارے متعلق یہ منصوبے کررہے تھے کہ وہ تجھے قید کردیں یاقتل کردیں یا تجھے اپنے وطن سے باہرنکال دیں اور وہ اس کے متعلق بڑی بڑی تدبیریں سوچ رہے تھے مگر اس کے مقابلہ میںخدابھی اپنی تدبیر کر رہا تھا ۔اور خداتعالیٰ سے بہتر اور کون تدبیر کرنے ولا ہے ۔چنانچہ دیکھ لو مکہ والوں نے لڑائی کی آگ متواتر دس سال رسول کریم ﷺ کے خلاف جلائی مگرناکام رہے اور وہی لڑائیاں جو محمد رسول اللہ کے جلانے کے لئے کی گئی تھیں محمد رسو ل اللہ کی ترقی اور کامیابی کا موجب ہوئیں اور آخر محمد رسول اللہ فاتحانہ رنگ میںمکہ میںداخل ہوئے اور پرانے سے پرانے دشمن آپ کی بیعت کرنے کے لئے آئے ہندہ کے متعلق آپ نے کہا تھا کہ چونکہ اس نے مسلمانوں کے مروانے میںبڑا حصہ لیا ہے اس لئے جہاں بھی ملے اسے قتل کردیا جائے وہ چادر اوڑھ کر دوسری عورتوںکے ساتھ مل کر بیعت کرنے کے لئے آگئی ۔اور جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا ۔اے عورتو !وعدہ کرو کہ ہم شرک نہیںکریںگی تو ہندہ جو بڑی جوشیلی عورت تھی تڑپ کر بولی ۔یا رسول اللہ کیا اب بھی ہم شرک کرینگی ۔آپ اکیلے تھے اور ہمارے بت او ر بت اورسب عرب والے ہمارے ساتھ تھے پھر بھی ہم ہار گئے اور آپ جیت گئے ۔ہم ایسے بیوقوف نہیںکہ اب بھی سمجھیں کہ بتوں کے ہاتھ میںکوئی طاقت ہے ۔دیکھو محمد رسول اللہ کی فتح نے مشرکوں کو مایوس کردیا تھا جبکہ ابراہیم ؑ کے دشمن آخر تک کہتے رہے کہ آئو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ۔
اس جگہ اس امر کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم نے جس بت خانہ کے بت توڑے تھے وہ کسی دوسرے کا نہیںتھا بلکہ ان کا اپنا خاندانی بت خانہ تھااگر وہ دوسروںکاہوتا تو اس کاتوڑنا ان کیلئے جائز نہ ہوتا۔یہ حضرت ابرہیم ؑ کے خاندان کا اپنا بت خانہ تھا اور انہیںورثہ میں ملا تھا اور چونکہ حضر ت ابراہیم ؑ بچپن سے ہی شرک سے سخت نفرت رکھتے تھے اس لئے انہوں نے اس بت خانہ کو جو ان کی آمدنی کاایک بڑا بھاری ذریعہ اور ملک میںان کی عزت اور نیک نامی کاباعث تھا۔ توڑ دیا ۔جب انہوںنے بتوںکوتوڑتو سارے ملک میںایک شور مچ گیا بادشاہ کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا گیا ۔ملک کے دستور اور بادشاہ کے قوانین کے مطابق اس فعل کی سزا جلادینا تھا ۔یہ ایک پرانی رسم تھی کہ جو بتوںکی ہتک کرتااسے جلادیا جاتا تھا ۔کیونکہ بتوں کی ہتک کرنا ارتداد سمجھا جاتا تھا اور ارتداد کی سزا پرانے زمانہ میںتو جلانا تھایا سنگسار کرنا۔چنانچہ یورپ میںجب پراٹسٹنٹ عقیدہ کے عیسائی پیدا ہوئے تو انہیںمرتد قرار دے کر آگ میںجلایا جاتا تھا ۔اس کے مقابلہ میںایشیا میںسنگسار کرنے کارواج تھا ۔حضرت ابراہیم ؑ کو معلوم تھا کہ بتوں کے توڑنیکی وجہ سے یہ سزا تجویز ہوگی مگر خداتعالیٰ چاہتا تھا کہ اپنا نشان دکھائے ۔آخر ان لوگوں نے آگ جلائی اور اس کے اندر حضرت ابراہیم ؑ کو ڈال دیا۔ لیکن عین اس موقعہ پربادل آیاجس نے آگ کو ٹھنڈا کر دیا اور حضرت ابراہیم ؑ اس میںسے صحیح سلامت نکل آئے ۔چونکہ بت پرست بہت وہمی ہوتے ہیں ۔اس لئے جب ادھر انہوںنے آگ جلائی اور ادھر بادل آگیا اور آگ بجھ گئی ۔تو انہوں نے سمجھا کہ خداکی مشیت یہی ہوگی اس لئے انہوں نے حضرت ابراہیم ؑ کو چھوڑ دیا۔
آیت نمبر۷۲
ترجمہ :۔ اور ہم نے اسے بھی اور لوط ؑ کو بھی اس زمین کی طرف نجات دی جس میںہم نے تمام جہانوں کیلئے برکتیں رکھی تھیں۔ ۴۲؎
۴۲؎ تفسیر:۔
حضرت ابراہیم ؑ پہلے اور میںرہتے تھے جوعراق کے علاقہ میںتھا۔وہاں سے آپ حاران کی طرف جو بالائی عراق ہے میں واقع ہے تشریف لے گئے اور وہاں سے کنعان کی طرف خداتعالیٰ کے حکم سے آپ نے ہجرت کی اور یہ زمین آئندہ ان کی اولاد کیلئے مقرر کردی گئی ۔ان آیات میںاللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ خداتعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو لوط دونوں کو نجات دی اور کامیاب کرکے فلسطین میںلے گیا۔بعینہ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو بھی دشمنوں سے نجات دی اور ان کے غلام عمر ؓ کو ایک فاتح کی شکل میںبیت المقدس میںلے گیا۔
آیت نمبر۷۳
ترجمہ :۔ اور ہم نے اسے اسحق بھی بخشا اور یعقوب بھی بطور پوتے کے دیا۔اور ہم نے سبکو نیک بنایا ۔ ۴۳؎
۴۳؎؎ حل لغات :۔نافلۃ ۔النفل کے معنے ہوتے ہیںالزیادۃعلی الواجب جوکسی کو دینا واجب اور ضروری تھا اس سے زیادہ دیا اور نافلہ ۔۔۔کو بھی کہتے ہیںیعنی پوتے کو (مفردات )
۴۳؎ تفسیر:۔
پھر فرماتاہے ہم نے ابراہیم کو اسحاقؑ او ریعقوب ؑ انعام کے طور پربخشے ۔ایسا ہی محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے بھی وعدہ ہے چنانچہ مسلمانوں کو دعا سکھائی گئی ہے ۔ اللھم صلی علیٰ محمد ٍ ۔۔۔۔۔۔ یعنی اے اللہ محمد رسول اللہ ﷺ پر اور آپ کی آنے والی روحانی اولاد پر اسی طرح فضل نازل فرمائے تھے بعض لوگ اپنی نادانی سے یہ اعتراض کیا کرتے ہیںکہ محمد رسول اللہ ﷺ کا درجہ تو حضرت ابراہیم ؑ سے بہت بڑاہے پھر ایک بڑے درجہ والے کیلئے یہ دعاکرنا کہ اسے وہ کچھ ملے جو اسے چھوٹے درجے والے کوملاتھا ۔اور نہ صرف ایک دفعہ یہ دعاکرنا بلکہ قیامت تک کرتے چلے جانا ایک مضحکہ خیز امر ہے اور یہ ایسی ہی دعاہے جیسے کہ کسی ای ۔اے ۔سی کو کہا جائے کہ خداتمیںتھانیدار بنادے اس کے متعلق یہ امر یاد رکھانا چاہے کہ قرآن کریم نے حضرت ابراہیم ؑ کی دو قسم کی خوبیوں کا ذکر کیا ہے ایک خوبیاں تو وہ ہیں جو ان کی ذاتی ہیں مثلاً یہ کہ ابراہیم ؑ حلیم تھا ۔ اواہ تھا ۔منیب تھا۔ صدیق تھا۔ خداکامقرب تھا۔ ان خوبیوں اور مدارج کے لحاظ سے محمد رسول اللہ ﷺ یقینا حضرت ابراہیم ؑ سے افضل ہیں ۔اگر آپ افضل نہ ہوتے تو آپ خاتم النبین اور سید ولد آدم کس طرح ہوسکتے ہیں پس جہاں تک محمدی مقام کاسوال ہے وہ ابراہیمی مقام سے یقینا افضل ہے مگر حضرت ابراہیم ؑ کی ان ذاتی خوبیوں کے علاوہ قرآن کریم سے ہمیںان کی ایک اور خوبی بھی معلوم ہوتی ہے۔جو قومی انعام کے رنگ میں ظاہر ہوئی اور وہ یہ کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعامانگی تھی کہ ربنا۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی اے ہمارے رب ہمیںاپناسچا فرمانبردار بنائیواور ہماری ذریت میںسے بھی ایک ایسی امت پیدا کیجو تیری رضا کوحاصل کرنے والی اور تیری راہوں پر چلنے والی ہو اللہ تعالیٰ نے اس دعاکو اس رنگ میں قبول فرمایا کہ وہ فرماتاہے وجعلنا ۔۔۔۔۔۔(عنکبوت ع۳) ہم نے ابراہیم کی ذریت میںنبوت رکھ دی گویا حضرت ابراہیم ؑ نے خداتعالیٰ سے جو کچھ مانگا تھا اللہ تعالیٰ نے اس سے بڑھ کر آپ کوانعام دیا اس نقطہ نگاہ سے جب ہم درود میںیہ کہتے ہیں کہ اے اللہ تو محمد ﷺ پربھی اسی طرح فضل نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم پر فضل نازل فرمایا ۔تو اس کے معنے ہوتے ہیں کہ خدا یا جومعاملہ تو نے ابراہیم ؑ سے کیا تھا وہی سلوک محمد ﷺ سے بھی کرنا جس طرح حضر ت براہیم ؑ نے جو کچھ مانگا تھا تونے اس سے بڑھ کر ان کو انعام دیا۔ اسی طرح محمد ﷺ نے جو کچھ مانگا ہے اس سے بڑھ کر آپ کو انعام دیجیئو اب یہ امر ظاہر ہے کہ حضر ت ابراہیم ؑنے اپنے عرفان کے مطابق دعائیںکیں اور محمد ﷺ نے اپنے عرفان کے مطابق کیں ۔ بلکہ محمد ﷺ نے خداتعالیٰ سے اتنی دعائیں کی ہیںکہ مجموعی طورپر بھی اتنی دعائیںنہیںکی ہونگی ۔ پھر جب یہ مسیلمہ امر ہے کہ محمد ﷺ کا عرفان ابراہیمی عرفان سے بہت بالا تھا تو پھریہ بھی یقینی امر ہے کہ آپ کی دعائیں بھی حضرت ابراہیم ؑ کی دعائوں سے بڑھی ہوئی تھیں ۔او ر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو جوکچھ ملنا ہے وہ بھی ابراہیمی انعام سے بہت زیادہ ہے پس درود میں محمد ﷺ کے مدارج کی بلندی اور آپ کی امت کی ترقی کے لئے اتنی جامع دعا سیکھائی گئی ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی دعا تصور میںبھی نہیںآسکتی ۔کیونکہ اس میںیہ سکھایا گیا ہے کہ الٰہی وہ رحمتیں جو حضرت ابراہیم ؑ کے ذریعہ ان کی ذریت پر نازل ہوئیں ان سے بڑھکر رسول کریم ﷺ کے ذریعہ نازل کی جائیں یعنی جس طرح ابرہیم ؑ کو ان کے مانگنے سے بڑھکر ملا ہے اسی طر ح محمد رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ مانگاہے آپکو بھی اس سے بڑھ کر انعام دیا جائے ۔اور چونکہ وسعت فیض کے لحاظ سے رسول کریم ﷺ کی دعائیں بہت بڑھی ہوئی ہیںاس لئے آپ کے انعامات بھی ابرہیمی انعا مات سے بہت بڑھکر ہیں۔ لوگوں کو غلطی صرف کما کے لفظ سے لگی ہے ۔حالانکہ اس جگہ مامصدر یہ ہے اور کماصلیۃ کے صرف اتنے معنے ہیں کصلوتک۔۔۔علی ابراہیم یعنی جس طرح تونے ابراہیم پراپنی برکات نازل کیں اسی قسم کی برکات محمد ﷺ پر بھی نازل فرما اگر کما صلیۃکی بجائے الیٰ قدر ماصلیۃ کہاجاتا تو بے شک اس کے یہ معنے ہوسکتے کہ تو محمد ﷺ پر اس درجے کا درود بھیج جس درجے کا درود تم نے ابراہیم ؑ پر بھیجا تھامگر یہاں درجے کاذکر نہیں بلکہ قسم کا ذکر ہے اور مراد یہ ہے کہ جس قسم کی برکت حضرت ابراہیم ؑ اور آپ کی اولاد کو دی گئی تھی وہی قسم محمد ﷺ اور آپ کی اولاد کو بھی ملے ۔اور وہ یہی برکت ہے کہ جو کچھ ابراہیم ؑ نے مانگا تھا خدانے اس سے بڑھکر اسے انعام دی اسی طرح ہمیںیہ دعا سیکھائی گی ہے کہ جو کچھ محمد رسول اللہ نے مانگاہے اے خدا تو اس سے بڑھ کر محمد ﷺ اور آپ کی امت پر انعام اکرام کی بارش نازل فرما آجکل اسلام کے خلاف سب سے برا فتنہ عسایئت کاہے ۔اور عیسائیت اس بات کی مدعی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد میںسے تھے پس درود میںیہ دعا سیکھائی گئی ہے کہ سے خدا یہ جتنی ترقیاں عیسائیت کو مل رہی ہیںیہ حضر ت براہیم ؑ کے ان وعدوں کی وجہ سے ہیں جو تو نے ان سے کیے تھے ۔ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیںکہ ابراہیمی وعدوںکیوجہ سے اس کی ایک شاخ جو اسحاق ؑ سے تعلق رکھتی تھی اس پر جو تو نے فضل نازل کئے ہیں اس سے بڑھ کر اسمائیل ؑ کی نسل یعنی محمد ﷺ اور آپ سے تعلق رکھنے والوںپرفضل نازل فرما ۔اگر اللہ تعالیٰ ادھر سے اپنی برکتیں ہٹالے اور انکا رخ اسمائیل ؑ کی نسل کی طرف پھر دے تو عیسایت ایک دن میںختم ہوجاتی ہے پس یہ ایک عظیم الشان دعاہے جو اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے سیکھائی گئی ہے اور پھر یہ ایک ایسی دعا ہے جس میںدنیا کے ہر ملک اور ہر علاقے کامسلمان شامل ہے گویا یہ ایسی کامل دعا ہے کہ نہ آقا اس سے باہر رہتاہے ۔ اور نہ امت محمدیہ کاکوئی فرد باہر رہتاہے آجکل یورپین اقوام کو جو طاقت حاصل ہے یہ صرف ان وعدوں کی وجہ سے جو اسحاق ؑ کی نسل سے کئے گئے تھے اگر اب اسماعیل ؑ کی نسل سے اس کے وعدے پورے ہونے شروع ہوجائیں۔تو عیسائیت اس طرح ختم ہوجائے گی جس طرح محمد ﷺ کے آنے پر حزقیل یرمیاہ یسعیا ہ اور یحیٰ وغیرہ ختم ہوگئے ہیں اور اسلام کو وہ شوکت حاصل ہوجائے گی جو مسلمانوں کے وہم وگمان میںبھی نہیں ہے۔
آیت نمبر۷۴تا ۷۶
ترجمہ :۔ اور ہم نے انکو لوگوں کا امام بنایا ۔وہ ہمارے حکم سے ان کو ہدایت دیتے تھے ۔اورہم نے ان کی طرف نیک کام کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی وحی کی اور وہ سب ہمارے عبادت گذار بندے تھے اور ہم نے اسے لوط بھی بخشا جسے ہم نے حکم بھی عطاکیا اورعلم بھی اور اس کو اس بستی سے نجات دی ۔جوکہ نہایت گندے کام کرتی تھی ۔وہ یعنی لوط کے شہر کے رہنے والے ایک بہت بری قوم یعنی نافرمان تھے ۔اور ہم نے اس یعنی لوط کو اپنی رحمت میں داخل کیا ۔ وہ ہمارے نیک بندوںمیںسے تھا۔ ۴۴؎
۴۴؎ تفسیر:۔
فرماتاہے یہ سب لوگ اپنے زمانہ کے امام تھے اور خداتعالیٰ کے حکم کو دنیامیںپھیلاتے تھے بعینہ اسی طرح رسول کریم ﷺ بھی فرماتے ہیںکہ ان اللہ ۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ میری امت میںبھی ہرصدی کے سرپر ایسے انسان مبعوث فرماتارہی گاجو دین اسلام کی تجدید کریں گے اور انسانوں کی داخل کی ہوئی خرابیوں کو دور کرکے اسلام کو پھرنئے سرے سے قائم کردینگے ۔یہ حدیث درحقیقت وہی مضمون بیان کررہی ہے جو قرآن کریم نے انا نحن ۔۔۔۔ میں بیان فرمایاہے ۔ یعنی ہم نے ہی اس قران کو نازل کیاہے اورہم ہی قیامت تک اس کی حفاظت کرتے رہیںگے۔گویاوہی مضمون جو قرآن کریم میں بیان کیاگیا تھا ۔رسول کریم ﷺ نے ایک دوسرے پیرایا میں لوگوں کو سمجھانے کے لئے بیان فرمادیا تاکہ ظاہرپرست لوگ اس آیت سے قرآن کریم کی صرف ظاہر ی حفاظت ہی مرادنہ لے لیں بلکہ وہ سمجھیں کہ اس میں قرآن کریم کی معنوی حفاظت کابھی وعدہ کیا گیا ہے جس کے لئے مجددین اور مامورین کا ا ٓناضروری ہے اور اگر غور سے کام لیا جائے تو درحقیقت یہی وہ فوقیت ہے جو اسلام کو دوسرے مذاہب پر حاصل ہے ۔ورنہ اگر صرف قصے اور روایات ہی کسی مذہب کی افضلیت ثابت کرنے کے لئے کافی ہوں تو ہندووں اور عیسائیوں کے ہاں بھی کچھ کم قصے نہیں اسلام کا فخر صرف اس بات میںہے کہ اللہ تعالیٰ ہر زمانے میں سلام کی صداقت کے ثبوت کیلئے ایسے مقدس انسان کھڑے کرتاہے جو خود اپنے وجود کو اسلام کی صداقت کے ثبوت کے طورپرپیش کرتے ہیں۔اور کہتے ہیںکہ اسلام کا خدا ہمارے ساتھ اب بھی کلام کرتاہے اور ہمیںاپنے غیب سے اطلاع دیتاہے ۔ اگر تمہارے اندر بھی سچائی پائی جاتی ہے تو آئو اور ہمارا مقابلہ کرلو مگر دنیا کے کسی مذہب کا پیرو اس مقابلے میں کھڑانہیں سکتا کیونکہ وہ جانتاہے کہ وہ صرف ایک مردہ مذہب کاپیرو ہے جواپنی زندگی کاکوئی تازہ ثبو ت پیش نہیںکرسکتا ۔گویاانکی مثال اس درخت کی سی ہے جو جس کے پتے خزاںکی وجہ سے جڑھ گئے اب نہ وہ اپنے میووں سے کسی کا پیٹ بھر سکتاہے اور نہ اپنی چھاوں میںکسی کو بٹھا سکتاہے ۔ لیکن السلام ایک ثمرود درخت ہے ۔جس کے شیریں پھلوں سے کوئی زمانہ بھی محروم نہیں رہتا ۔اور اس طرح اسلام اور محمد ﷺ کی صداقت ہر زمانے میںلوگوں پرروشن ہوتی رہتی ہے ۔ولوطاً۔۔۔۔۔۔ یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نبیوں کی بعثت کی بڑی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اس چشمہ فیض تک پہنچائیں جس سے سراب ہوئے بغیر انکی روحانی زندگی قائم نہیںرہ سکتی یعنی اللہ تعالیٰ سے انکو وابستہ کردے اوراس سے اس کو مضبوط پیوند کردیں ۔اوریہ بات علوم روحانیہ کے حصول کے بغیر کبھی سرانجام نہیںدی جاسکتی ۔وہی شخص روحانی امور میںلوگوں کو ہدایت دے سکتاہے جس سے خداتعالیٰ کی معرفت تامہ حاصل ہو اور اس کے قرب کے ذرائع اسے معلوم ہوں اور اس کی صفات کا باریک در باریک علم اسے حاصل ہو پس مدعی ماموریت کے لئے ضروری ہے کہ خداتعالیٰ خود اس کی علمی غور پر داخت کرے اور اسے ایسے روحانی علوم عطا فرمائے جو اس زمانے کے لحاظ سے بے نظیر ہوں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط ؑ کے متعلق بیان فرمایا کہ آیتینا ۔۔۔۔۔۔ ۔اور اسی طرح اور کئی انبیا کے متعلق فرمایا کہ ہم نے انہیں اپنے علم سے نوازہ تھادرحقیقت علمی معجزات ایک مامور کی صداقت معلوم کرنے کا بڑا زبردست ذریعہ ہوتے ہیں جن کے مقابلے میں مخالفین بالکل گونگے ہوکر رہ جاتے ہیں ۔یہ علمی معجزات اگرچہ دنیامیں ہر نبی کو ملتے چلے آئے ہیں مگر عظمت اور شان کے ساتھ محمد ﷺ کو یہ معجزہ ملا ہے ۔اس کی دنیاکے اور کسی نبی میںنظیر نہیں مل سکتی باقی انبیا ء کے معجزات تو اب ایک قصہ ماضی کی شکل اختیار کرچکے ہیں جن کا کوئی ثبوت دنیا کے سامنے پیش نہیںکیا جاسکتا۔مگر محمد ﷺ کو وہ علمی نشان بخشا گیا ہے جو قیامت تک زندہ رہنے والا اور ہر زمانے میںدشمنوںپر حجت تمام کرنے والا ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ایسی پاک کتاب عطا فرمائی جس کے متعلق رہتی دنیاتک یہ ایک کھلاچیلنج موجودہے ۔ کہ اگر تم میں ہمت ہے تو آئو اور اس کتاب کی نظیر تیار کردو اور اگر اور نہیں تو اس کی ایک سورت میںہی جس قدر علوم اور معارف اور پیش گویاں اور تذکیئہ نفس کے ذرائع بیان کئے گئے ہیں اسی قدر حقائق اور معارف جیسی ایک سورت ہی بنا کر دیکھا دو مگر تیرہ سو سال سے زیادہ عرصہ گذر گیا ۔ دنیااس چیلنج کو قبول نہیں کرسکی ۔اور قیامت تک وہ اسی طرح اس چیلنج کو قبول کرنے سے گریز کرتی رہے گی اور اس طرح پر عقلمند انسان یہ ماننے پر مجبور ہوگا کہ محمد ﷺ کے علوم کامقابلہ کرنا نہ ممکن امر ہے ۔
آیت نمبر۷۷‘۷۸
ترجمہ:۔ اور یاد کر نوح کو جب اس نے اس (یعنی ابراہیم کے واقعہ ) سے پہلے (ہم کو )پکارہ او ر ہم نے اسکی دعاسنی پس ہم نے اس کو بھی اور اسکے اہل کو بھی ایک بڑی گھبراہٹ سے نجات دی ۔اور ہم نے اسکی اس قوم کے مقابلہ میں مدد کی جس نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا۔ وہ بہت بری قوم تھی ۔پس ہم نے ان سبکو غرق کردیا۔ ۴۵؎
۴۵؎ حل لغات:۔الکرب کے معنے ہیں لحزن ولغم یاخذ بالنفس ۔غم واندوہ جو انسان کو لاحق ہوجاتاہے ۔(اقرب)
۴۵؎ تفسیر:۔
اس جگہ حضرت نوح ؑ کا ذکر کیا گیا ہے جنہوںنے خداتعالیٰ سے دعا کی اور خدانے اسے قبول کر لیا اس ذکر سے محمد رسول اللہ ﷺ کے ذکر کو آدم تک پہنچا دیا گیا ہے کیونکہ نوح آدم کا پوتا تھا اور وہ پہلا نبی تھا جس پر شریعت کا نزول ہوا چنانچہ رسو ل کریم ﷺ نے حضرت نوح ؑ کے متعلق فرمایا ہے کہ اول نبی سرعت علی ۔۔۔۔۔کہ نوح پہلانبی تھا جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے شریعت نازل ہوئی ۔اس مضمون کی طرف قرآن کریم کی اس آیت میں بھی اشارہ کیاگیا ہے کہ انااوحینا۔۔۔۔۔ یعنی اے محمد رسول اللہ ہم نے تیری طرف اسی طرح وحی نازل کی ہے جس طرح ہم نے نوح اور اس کے بعد آنے والے انبیاء کی طرف وحی کی تھی گویا قرا ٓن کریم کی رو سے عقائد کے متعلق پہلی وحی حضر ت نوح ؑکو ہوئی کیونکہ ا س زمانہ میںایک طرف تو انسانی دماغ کا ارتقاء اس حد تک پہنچ چکا تھا ۔کہ اس نے صفات الیٰہہ کاادراک کرنا شروع کردیا تھا۔اور دوسری طرف انسانوں میں وہ گنا ہ پید اہونے لگ گئے تھے جو تمدن کا ایک لازمی نتیجہ ہوتے ہیں پس خرابیوں کی اصلاح اور مزید روحانی ترقیات کادروازہ کھو لنے کے لئے حضرت نوح ؑ کے پہلا شارع نبی بنا کر بھیجا گیا ۔حضرت ابراہیم ؑ بھی حضرت نوح ؑ کی شریعت کے پیروں میںسے ہی تھے ۔چنانچہ قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ان من۔۔۔۔۔یعنی ابراہیم ؑ بھی نوح ؑ کے گروہ میں سے تھا اور چونکہ رسول کریم ﷺ بھی اپنے زمانہ کے نوح تھے اور نوح والا پیغام آپ کی وحی میں بھی شامل تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں نوح ؑ کاذکر کرکے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر شریعت *** ہے تو پھر نوح ؑ کابھی انکار کرو جس کے ذریعہ نسل انسانی کے لئے شریعت کاآغاز ہو ا ۔اور جس کے پیروں میںابراہیم جیسا جلیل القدر نبی بھی شامل تھااور اگر شریعت *** نہیںبلکہ ہمیشہ شریعت کاانکار کرنے والے سزا یاب ہوتے رہے ہیں جس طرح نوح ؑ کے زمانہ میںوہی لوگ تباہ ہوئے جنہوں نے نوح کی بات ماننے سے انکار کردیاتھا ۔اور وہی لوگ کامیاب ہوئے جو آپ کی ہدایت پرچلے تو اب بھی یاد رکھو کہ کامیابی انہی کو حاصل ہوگی جو محمد رسول اللہ ﷺپر ایمان لارہے ہیں اور آپ کے مخالفوں کو سوائے ناکامی و مامرادی کے اورکچھ حاصل نہیں ہوگا ۔
آیت نمبر۸۰تا ۸۲
ترجمہ :۔ اور یاد کر دائود کو بھی اور سلیمان کو بھی جبکہ وہ دونوں ایک کھیتی کے جھگڑے میںفیصلہ کررہے تھے اس وقت جبکہ ایک قوم کے عامی لوگ اسکو کھا گئے تھے یعنی تباہ کر گئے تھے اور ہم ان کے فیصلہ کے گواہ تھے۔ہم نے اصل معاملہ سلیمان کو سمجھادیا اور سب کو ہی ہم نے حکم اور علم عطافرمایاتھا ۔اور ہم نے دائود کے ساتھ اہل عیال کو بھی اور پرندوں کو بھی کام پرلگادیا تھا وہ سب خدا کی تسبیح کرتے تھے اورہم یہ سب کچھ کرنے پرقادر تھے ۔اور ہم نے اس کو ایک لباس کا بنانا سکھایا تھا ۔تاکہ وہ تمہاری جان لڑائی میںبچائے ۔پس کیا تم شکر گذار بنوگے ؟اور ہم نے سلیمان کے لئے تیز ہوا کو بھی مسخر کر چھوڑاتھا جو اسکے حکم کے مطابق چلتی تھی اس زمین کی طرف جس میں ہم نے برکت رکھی تھی اور ہم سب کچھ جانتے ہیں ۔۴۶؎
۴۶؎ حل لغات :۔ نفشت نفش سے مونث کاصیغہ ہے اور نفشت الابل اس الغنم کے معنے ہیںرعت لیلا بلاراع ٍ رات کے وقت اونٹ یابکریاں کھیتی کو چرگئیں جبکہ کوئی گڈریا یانگہبان شخص ان کو روکنے والا نہ تھا ۔(اقرب) الجبال۔ الجبل ۔کی جمع ہے اور لجبل کے معنے ہیںپہاڑ ۔نیز اس کے معنے ہیں سید الوقوم وعالمھم۔۔۔قوم کاسردار اورعالم ۔(اقرب) ۔عاصفۃ عصف سے اسم فاعل مونث کاصیغہ ہے اور عصف الریح عصفا ۔کے معنے ہیں اشتدت ہو اسخت تیز چلیہ (اقرب) پس عاصفہ کے معنے ہونگے تیز چلنے والی ۔
۴۶؎ تفسیر:۔
پھر فرماتاہے کہ دائودؑ اور سلیمان ؑ کو یاد کرو جبکہ وہ ایک کھیتی کے بارہ میں فیصلہ کر رہے تھے جبکہ اس کھیتی میں قوم کی بکریاں داخل ہوکر کھیتی کھا گئی تھیں۔مفسریں کہتے ہیں کہ کسی کی کھیتی بکریاں چرگئی تھیں ۔حضرت دائود ؑ نے بکریاں کھیتی والے کو دلا دیں ۔حضرت سلیمان ؑ نے کہاکہ نہیںبکریوں والاپانی دے اور کھیتی ہری کرے اور جب کھیتی پہلے جیسی ہو جائے تو اپنی بکریاں واپس لے لے ۔اس فیصلہ میںاگر یہ واقعہ اسی طرح ہوا ہو تو کوئی خاص بات نہیںکہ جسے قرآن کریم میں اس جگہ بیان کیاجائے ۔
میرے نزدیک اس آیت میںیہ بتایا گیا ہے کہ جب بھی نبی کی قوم عزت باتی ہے تو دائود ؑ اور سلیمان ؑ کے زمانہ کی طرح ان کی قوم کے حریص لوگ نظام میںتفرقہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور چارپایہ مزاج لوگ دین کی کھیتی کو چرنے لگ جاتے ہیں ۔فرماتا ہے اس کا علاج ہم نے سلیمان کو سکھا دیا تھا ۔جس کے نتیجہ میں بنی اسرائیل کی ہمسایہ قومیںجو چھاپے مار کر ان کی حکومت کو برباد کرنا چاہتی تھیں ان کے حملوں سے اس نے اپنی مملکت کو بچالیا اور نظام کی حفاظت کی ۔
بے شک سلیمان اور دائود دونوں کو بادشاہت بھی ملی تھی اور علم بھی ملاتھا مگر اس بارہ میں سلیمان ؑ کا طریق ٹھیک تھا اصل بات یہ ہے کہ حضرت دائود ؑ جنگی آدمی تھے اور انہوں نے ظالموں اور مفسدوں کو بڑی سخت سزائیں دی تھیں ۔بلکہ بعض جگہ ان کے دوتہائی مرد قتل کردیئے تھے ۔حضر سلیمانؑ کو اللہ تعالیٰ نے یہ فہم عطافرمایا کہ اب ہمسایوں سے نرمی کرو تو انکی عداوت کم ہو جائیگی ۔چنانچہ حضرت سلیمانؑ نے زیادہ تر معاہدات سے کام لیا اور اس طرح تمام ہمسایوں سے اپنی مملکت کو بچالیا مگر اس کے علاوہ ففھمنھا۔۔۔ میںایک اور حکمت بھی مدنظر رکھی گئی ہے ۔اور وہ یہ کہ اسرائیلی مصنفوںبلکہ یورپ کے مصنفوں کا بھی خیال ہے کہ حضرت دائود کی پالیسی اعلیٰ تھی اور حضرت سلیمان کاطریق عمل ناقص تھا۔اللہ تعالیٰ اس کی تردید کرتے ہوئے فرماتاہے کہ ہم نے سلیمان کو اس جھگڑے کا فیصلہ کرنا خوب سکھایا تھا ۔اورچونکہ اس سے شبہ پیداہوتا تھا کہ پھرکیا دائود کو نہیںسکھایا تھا؟ اس لئے اگلے حصہ میں وللا۔۔۔کہہ کر اس کا بھی ازالہ کردیا اور بتادیاکہ حضرت سلیمان کو سکھانے سے یہ مراد نہیں کہ حضرت دائود کا طریق عمل غلط تھا بلکہ اس سے سلیمان پرعائد کردہ ایک الزام کاازالہ مقصود ہے ۔
اس کے بعد فرماتاہے کہ دائود ؑ کے ساتھ بھی بڑے بڑے لوگ شامل تھے جو اس کے ساتھ مل کر خداتعالیٰ کی تسبیح کرتے تھے اور پرندے بھی اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے ۔یعنی روحانی لوگ بھی اس کے ساتھ مل کر خداتعالیٰ کی تسبیح کرتے تھے اور پرندے بھی اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے یعنی روحانی لوگ بھی اس کے گرد جمع ہو گئے تھے جن کی برواز اور نظریں آسمان پر ہوتی ہیں ۔
ان آیات میںاللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ وسخرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی ہم نے داود ؑ کے لئے پہاڑ وں کو مسخر کر دیا تھا جو ہر وقت تسبیح کرتے تھے اور پرندے بھی مسخر کردیئے تھے اور ہم یہ سب کچھ کرنے پر قادر تھے اسی مضمون سے ملتاجلتا مضمون دوسری سورتوں میںبھی بیان ہوا ہے ۔چنانچہ سورہ سبا رکوع ۲ میں بھی آتاہے ۔ولقد ۔۔۔۔ یعنی ہم نے دائود پر بڑافضل کیا اور ہم نے پہاڑوں سے کہا کہ اے پہاڑو اس کے ساتھ چلو اور پرندوں کو بھی حکم دے دیا کہ اس کے ساتھ رہیں اس کے لئے ہم نے لوہا نرم کردیا اور اسے کہا کہ اس لوہے سے زرہیں بنائو او نیک اعمال کرو ۔میںتمہارے کاموں سے خوب واقف ہوں ۔
اسی طرح سورئہ نمل میں آتاہے ولقد۔۔۔۔۔ یعنی حضرت سلیمان ؑ دائودؑ کے وارث بنے اور انہوں نے کہااے لوگو مجھے اور میرے باپ کو پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہم کو ہر چیز دی گئی ہے اور ہم پر یہ خداتعالیٰ کا بہت بڑافضل ہے اور سلیمان کے لئے لشکر جمع کئے گئے ۔وہ لشکر انسانوں کے بھی تھے اور جنوں کے بھی تھے اور پرندوں کے بھی تھے ۔
پھر سورئہ ص رکوع ۲ میںآتاہے واذکر ۔۔۔۔۔۔ یعنی ہمارے بندے دائودؑ کو بھی یادکرو ۔جو بڑی طاقت والا تھا ۔وہ ہماری درگاہ میںبات بات پر جھکتا تھا ہم نے اس کے لئے پہاڑ مسخر کردیئے تھے جو صبح شام تسبیح کرتے تھے ۔اسی طرح پرندے بھی اس کی خاطر اکٹھے کردیئے تھے اور یہ سب کے سب اس کے کامل مطیع اور فرمانبردار تھے ۔
ان آیا ت کی بنا پر مفسرین لکھتے ہیںکہ حضرت دائود ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کے قبضہ میںپہاڑ بھی تھے جن بھی تھے ۔پرندے بھی تھے اوروہ سب مل کر حضر ت دائود ؑ کے ساتھ ذکر الٰہی کرتے تھے جب وہ کہتے سبحان اللہ تو پہاڑ بھی اور پرندے بھی اور جن بھی اور حیوانات بھی سب سبحان اللہ کہنے لگ جاتے ۔جیسے کشمیری واعظوں کادستور ہے کہ لیکچر دیتے ہوئے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد خود سستانے کیلئے کہہ دیتے ہیں ’’پڑھو درود ‘‘ وہ بھی گویااسی طرح کرتے تھے جب خود ذکر الٰہی کرتے کرتے تھک جاتے تو کہتے ہمالیہ کرتسبیح اوروہ تسبیح کرنے لگ جاتا ۔پھر جب انہیںآرام آجاتا تو کہتے چپ کرجائو اب میںتسبیح کرتاہوں بعض کہتے ہیں پہاڑوں وغیرہ کاسبحان اللہ کہناکون سی بڑی بات تھی وہ باقاعدہ رکوع و سجود بھی کرتے تھے جب حضر ت دائود ؑ سجدے میںجاتے تو سارے پہاڑ اور پرند چرند بھی سجدے میںچلے جاتے ۔اور جب وہ رکوع کرتے تو سب رکوع کرنے لگ جاتے ۔بعض کہتے ہیں اس تاویل سے بھی مزہ نہیں آیا ۔اصل بات یہ ہے کہ حضرت دائود ؑ جہاں بھی جاتے پہاڑ آپ کے ساتھ چل پڑتے ۔حضر ت دائود ؑ تھے شام میں اور یہ ہمالیہ ۔شوالک اور ایلپس سب آپ کے ساتھ ساتھ پھرا کرتے تھے اسی طرح پرندے بھی مل کر تسبیح کرتے تھے ۔ان دنوں چڑیاں چوں چوں نہیں کرتی تھیں ۔بکریاں میں میں نہیں کرتی تھیں بلکہ سب سبحان اللہ سبحان للہ کہا کرتے تھے کوئی یہ نہ پوچھے کہ بکری کس طرح پرندہ ہوگیا ۔کیونکہ تفسیروں میںاسی طرح لکھا ہے غرض وہ عجیب زمانہ تھا اسی طرح سلیمان ؑ پرخداتعالیٰ نے ایک اور مہربانی کی اور وہ یہ کہ جن انکے حوالے کردئیے جو ان کے اشارے پر کام کرتے تھے جب وہ چلتے تو پرندے ان کے سر پر اپنے پر پھیلا کر سایہ کرتے تھے ۔وہ یہ بھی کہتے ہیںکہ نعوذ با اللہ حضرت دائود ؑ بڑے شکی طبعیب کے آدمی تھے جب کہیں باہر جاتے تو اپنی بیویوں کوگھر میں بند کرجاتے ۔ایک دفعہ گھر میںآئے تو دیکھا ایک جوان مضبوط آدمی اندر پھر رہا ہے ۔ وہ اسے دیکھ کر سخت خفاء ہوئے اور کہنے لگے تجھے شرم نہیںآتی کہ اندر آگیا ہے پھر اس سے پوچھا کہ جب مکان کے تمام دروازے بند تھے تو تو اندر کس طرح آگیا۔ وہ کہنے لگا میں وہ ہوں جسے دروازوں کی ضرورت نہیں آپ نے پوچھا کیا تو ملک الموت ہے اس نے کہا ہاں اور اس نے آپ کی جان نکال لی ۔حضرت دائود ؑ کو جب دفن کرنے لگے تو تمام پرندے اکٹھے ہوگئے اور انہوںنے آپ پر پروں سے سایہ کیا کہتے ہیں حضرت سلیمان ؑ تمام پرندوں کی بولی جانتے تھے ۔ کسی نے کہا کہ جانوروںکی بولیاں جانتے تھے یانہیں تو مفسریں نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ جانتے تو تھے مگر اختصار کے لحاذ سے صرف پرندوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔کہتے ہیں ایک دفعہ بارش نہ ہوئی تو لوگوں نے حضرت سلیمان ؑ سے کہا کہ چلیں استثقاء کی نماز پڑھائیں حضرت سلیمان ؑ نے کہا گھبراو نہیں بارش ہوجائے گی ۔کیونکہ ایک کیڑی پیٹھ کے بل کھڑے ہوکر کہہ رہی تھی کہ خدایا اگر بارش نہ ہوئی تو ہم مرجائیں گی ۔(تفسیراب کثیر برحاشیہ فتح البیان جلد ۷ صفحہ ۲۰۴تا ۲۱۰)
یہ وہ واقعات ہیںجو استعارے اور تشبیہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مفسرین کو گھڑنے پڑے ہیں حالانکہ بات بالکل صاف تھی ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ہم نے دائود ؑ کے لئے پہاڑوں کو مسخر کردیا جو تسبیح کرتے تھے اب ہم دیکھتے ہیںکہ کیاایسے قصوں کی ضرورت ہے ۔حضرت دائود ؑ کے متعلق اگر خدنے یہ کہا ہے کہ ہم نے اس کے لئے پہاڑ مسخر کردیئے تو اللہ تعالیٰ ہمارے متعلق بھی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اللہ الذی۔۔۔۔۔۔ فرماتاہے اے محمد ﷺ پر ایمان لانے ولے مومنو اور اے کافرو اور اے منافقو ہم نے تم میںسے ہرایک کے لئے سمندر مسخر کردئیے ہیں جس میں کشتیاں اس کے حکم سے چلتی ہیں تاکہ تم خداکا فضل تلاش کرو اور صرف سمندر ہی نہیں آسمان اور زمین میںجو کچھ ہے وہ بھی ہم نے تمہارے لئے مسخر کردیا ہے او راس میں غور وفکر کرنے والوں کے لئے بڑے بڑے نشانات ہیںاب اس آیت سے حضرت دائود ؑ والی آیت بالکل حل ہوجاتی ہے ۔کیونکہ اس آیت میںاللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ زمین وآسمان میںجس قدر چیزیں ہیںخواہ دریاہیں یاپہاڑ سب انسان کے لئے مسخر ہیں اب یہ عجیب بات ہے کہ پہاڑ میرے لئے بھی مسخر ہو ںمگر میرے ساتھ ہمالیہ کی ایک اینٹ بھی نہ چلے اور دائود کے ساتھ پہاڑ کاپہاڑ چلنے لگ جائے اگر دائود کے ساتھ واقعات ہوئے ہیںتو ہمارے ساتھ بھی ہونے چاہیئں اور اگر ہمارے ساتھ نہیں ہوتے تو صاف پتہ لگ گیاکہ حضرت دائود کے ساتھ بھی ایسانہیں ہوتا تھا ۔
اب رہا سوال تسبیح کا کوئی کہہ سکتاہے کہ قرآن میںتولکھاہے پہاڑ اور پرندے حضرت دائود ؑ کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے ۔کیا اب بھی یہ چیزیں تسبیح کرتی ہیں ؟ سو اس کاجواب اللہ تعالیٰ نے سورئہ جمعہ میںدے دیا ہے ۔فرماتاہے یسبح للہ ۔۔۔۔۔۔یعنی سورج بھی تسبیح کررہا ہے چاند بھی تسبح کررہا ہے ستارے بھی تسبیح کررہے ہیں اسی طرح مافی السموٰت ۔۔۔۔۔۔۔۔جو کچھ آسمانوں اور زمین میںہے سب تسبیح کررہے ہیں ۔درخت بھی تسبیح کررہے ہیں اس کے پتے بھی تسبیح کررہے ہیں ۔آم بھی تسبیح کررہے ہیں ۔کیلا بھی تسبیح کر رہاہے ۔بلکہ کیلے کاچھلکا جو ہم اتار کر پھینک دیتے ہیں وہ بھی تسبیح کررہا ہے ۔روٹی بھی تسبیح کررہی ہے تھالی بھی تسبیح کررہی ہے ۔جب تم چائے پیتے ہو تمہارے ہونٹ بھی تسبیح کررہے ہوتے ہیں ۔چائے بھی تسبیح کررہی ہوتی ہے۔مصری یا کھانڈبھی تسبیح کررہی ہوتی ہے ۔پیالی بھی تسبیح کررہی ہوتی ہے پرچ بھی تسبیح کررہی ہوتی ہے ۔اسی طرح مکان بھی اور چھت بھی اور دیواریں بھی اور دروازے بھی اسی طرح وہ بستر جس پر تم لیٹتے ہو وہ بھی بستر کی چادر اور توشک اور رضائی بھی سب سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ رہی ہوتی ہیں اور جب ہرچیز سبحان اللہ کہہ رہی ہے تو حضرت دائود ؑ کے لئے اگر یہی الفاظ آجائیں تو اس کے نئے معنے بن جاتے ہیں۔دیکھ لو ۔وہ دونوں باتیں جو حضرت دائود ؑ کے متعلق کہی گئی تھیں ہمارے لئے بھی موجود ہیں ہمارے لئے بھی خدا کہتاہے کہ میں نے ہرچیز مسخر کردی اور وہ یہ بھی کہتاہے کہ ہمارے زمانہ میںبھی ہر چیز تسبیح کررہی ہے ۔بلکہ حضر ت دائود ؑ کے لئے تو صرف یہ کہاگیا ہے کہ پہاڑ اور پرندے تسبیح کرتے تھے مگر ہمارے لئے یہ کہا گیا ہے کہ جو کچھ آسمانوں او زمینوں میں ہے سب تسبیح کرتے ہیں او اس کی وجہ یہ ہے کہ تسبیح سے مراد یہ ہے کہ ہرچیز یہ ثابت کررہی کہ خدا بے عیب ہے ۔چونکہ اسلام نے دنیا بھر سے عیب دور کرنے تھے اس لئے مسلمانوں کو یہ بتایا گیا کہ زمین و آسمان میںجو کچھ ہے وہ تسبیح کررہا ہے لیکن حضرت دائود نے چونکہ صرف جبال یعنی اہل جبال سے عیب دور کرنے تھے اور وہ ساری دنیاکی طرف مبعوث نہیںہوئے تھے بلکہ ایک محدود مقام کی طرف تھے اس لئے حضرت دائود کے لئے صرف جبال نے تسبیح کی لیکن محمد رسو ل اللہ چونکہ سارے جہان کی طرف تھے اس لئے آپ نے فرمایا جعلت لی ۔۔۔ زمین کاایک ٹکڑا بھی ایسا نہیں جو تسبیح نہیں کررہا ۔اس لئے ہم جہاں جائیں گے وہ مسجد بن جائیگی پس یسبح اللہ والے مضمون کو دائود ؑ کے مضمون میں محدود کرکے صرف پہاڑوں رکھا گیا ہے ۔ اس لئے کہ رسول کریم ﷺ مافی السمٰوٰ ت ۔۔۔۔ کے لئے تھے اور حضر دائود ؑ صرف چند اہل جبال کے لئے ۔
باقی رہا اولی معہ ۔۔۔۔ کے الفاظ سے یہ استدالال کہ پہاڑ حضرت دائود کے ساتھ ان کی تسبیح میں شامل ہو جاتے تھے اس کاجواب یہ ہے کہ یہاں بھی محمد رسول اللہ ﷺکے طفیل دنیا کاذرہ ذرہ تسبیح میںشامل ہے ۔کوئی کہے کہ پھرحضرت دائود کی خصوصیت کیا ہوئی تو یادرکھنا چاہئے کہ اس میںتو ان کی کوئی خصوصیت نہیں کہ پہاڑ ان کے لئے مسخر تھے کیونکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ زمین و آسمان میںجو کچھ ہے وہ خداتعالیٰ نے سب انسانوں کے لئے مسخر کردیا ہے ۔جس ملک کا خدا تعالیٰ کسی کو بادشاہ بنادیتا ہے اس میںاسے عام انسانوں سے زیادہ عظمت حاصل ہوئی ہے پس گو زمین و آسمان کی چیزیں حضرت دائود کے لئے اسی طرح مسخر تھیںجس طرح تمام بنی نوع انسان کیلئے ۔لیکن حضرت دائود کو ایک زائد فائدہ یہ تھا کہ خداتعالیٰ نے انکو بادشاہ بھی بنا دیا تھا ۔پس گو تسخیر بعینہ وہی ہے جوہرانسان کے لئے ہے مگر اس تسخیر کی عظمت میں فرق ہے
اب میںلغت سے بتاتاہوں کہ اس کے اور معنے بھی ہیں ۔چنانچہ جبل کے معنے لغت میںسید القوم کے لکھے ہیںپس حضرت دائود کے لئے جہاںمسخر کردینے کے معنے یہ تھے کہ حضرت دائود یہود کے وہ بادشاہ تھے جنہیوں نے ارد گرد کے قبائل پرفتح پائی اور وہ ان کے ماتحت ہوگئے ۔حضرت دائود ؑ سے پہلے کوئی بادشاہ ایسا نہیںہو اجس نے اپنی قوم کے علاوہ دوسری اقوام پر بھی حکومت کی ہو لیکن حضرت دائود پہلے بادشاہ تھے جن کے ارد گرد کے حکمران ان کے مطیع ہوگئے تھے اگر کوئی کہے کہ قرآن میں ۔۔۔۔کالفظ آیا ہے تم اس کے معنے مطیع کے کس طرح کرتے ہو تو اسکا جواب یہ ہے کہ جبال چونکہ مونث ہے اس لئے ۔۔۔کالفظ آیا ہے ۔ورنہ اس کامطلب یہی ہے کہ وہ قومیںآپ کی مطیع ہوگئی تھیں۔اور پھر اقوام کا لفظ بھی عربی میں مونث ہے ۔کیونکہ وہ جمع ہے اور جمع مونث ہوتی ہے باقی رہے طیور ۔سو طیور کے لئے تسبیح قرآن میںآئی ہیںاور اس امر کاکہیںذکر نہیں کہ وہ حضرت دائود کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے مگر لوگوں کو عربی کے ایک معمولی قاعدہ سے ناواقفیت کی وجہ سے دھوکا لگ گیا ۔اور وہ خیال کرنے لگے کہ جبال کے ساتھ طیور بھی تسبیح کیا کرتے تھے ۔حالانکہ قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ ۔وسخرنا۔۔۔۔۔۔یہاں طیر پرزبر ہے اور زبر دینے والا سخر کالفظ ہے مطلب یہ ہے کہ ہم نے دائود ؑ کے لئے پہاڑ مسخر کردیئے تھے جو تسبیح کرتے تھے اسی طرح ہم نے طیر بھی مسخر کردیئے یہاں کوئی تسبیح کاذکر نہیںصرف اتنے معنے کئے جاسکتے ہیں کہ انہیںپرندوں سے کام لینے کاعلم آتاتھا ۔ جیسے کبوتروں سے خبر رسانی کاکام لیا جاتاہے ۔پس قرآن میں سخر انا ۔۔۔۔۔۔ہے یسبحن کا فاعل الطیر نہیںہے ۔
دوسری آیت یہ ہے ۔اناسخرنا لجبال۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاںبھی طیر کا نا سب سخر ہے ۔
تیسری آیت یہ ہے ولقد۔۔۔۔ ہم نے دائود پر بڑافضل کیا۔اور پہاڑوں سے کہااے پہاڑو تم اسکے ساتھ گونج پیدا کرو اسی طرح ہم نے اسے پرندے بھی دئیے گویا یہاںبھی آتیناالطیر فرمایاگیا ہے یہ نہیںکہاگیا ۔کہ پرندے تسبیح کیا کرتے تھے ۔غرض طیر کا ناصب یا سخر ہے یا اتیٰ ہے ۔اور اسکے معنے یہ ہیں کہ ہم نے حضرت دائود ؑ کو طیر بھی دیے تھے لیکن میںکہتا ہوں اس کے معنے اگر تسبیح کے بھی کرلو تو جب زمین و آسمان کی ہرچیز تسبیح کررہی ہے تو پرندوں کی تسبیح میں کون سی عجیب بات ہوسکتی ہے مجھے ہمیشہ آجکل کے مسلمان مولویوں پرتعجب آیا کرتاہے کہ جب حضر ت دائود ؑ یاحضرت سلیمان ؑ یاحضرت عیسیٰ ؑکے متعلق کوئی آیت آئے تو اسکے وہ اور معنے لے لیتے ہیں لیکن اگر ویسی ہی آیت محمد ﷺ کے لئے آجائے تو اس کے اور معنے کرلیتے ہیں ۔حضرت دائود ؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ پہاڑ اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے تو کہتے ہیں پہاڑ واقعہ میں سبحان اللہ سبحان اللہ کیا کرتے تھے اور جب محمد ﷺ کے متعلق خداتعالیٰ کہے کہ ہم نے زمین و آسمان مسخر کردئیے تو کہیں گے یہاں تسبیح مراد ہے اسی طرح محمد ﷺ کے متعلق یہ ذکر آتاہے کہ انہوں نے مردے زندہ کئے تو کہیں گے یہاں مردوں سے روحانی مردے مراد ہیں ۔لیکن حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق اگر یہ الفاظ آجائیںتو جب تک وہ یہ نہ منوالیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ نے مردوں کے نتھنوں میںپھونک مار کر انہیں زندہ کردیا تھا ۔اس وقت تک انہیں چین ہی نہیںآتا ۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیاطیر کے متعلق قرآن کریم میںکوئی اشارہ ہے یا نہیں ۔سوجب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیںمعلوم ہوتاہے کہ طیر کئی قسم کے ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔وما من ۔۔۔۔۔کہ زمین پر چلنے والے جانور اور پرندے سب تمہاری طرح قومیں اور گروہ ہیںاب یہاں ہم دیکھتے ہیںکہ خداتعالیٰ نے پرندوں کے لئے یہ شرط لگائی ہے کہ یطیر ۔۔۔ کہ وہ پرندے جو اپنے پروں کے ساتھ اڑتے ہیںجس سے معلوم ہوتاہے ۔کہ ایک پرندہ ایسا بھی ہوتاہے جو پروں سے نہیںاڑتا پھر اس سے بھی واضح آیت ایک اور ملتی ہے جس سے صاف طورپرپتہ لگتاہے کہ واقعہ میں طیر کسی اور چیز کانام ہے ۔سورئہ نور میںاللہ تعالیٰ فرماتاہے الم تران۔۔۔۔۔۔۔ فرماتاہے کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح وہ تمام ذو العقول کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمینوں میںہیں ۔وہ طیر بھی جو صفیں باندھ باندھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ۔ اوران گروہوں میںسے ہر ایک کو نماز اور تسبیح کا طریق معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ ان ذوی العقول کے تمام اعمال سے واقف ہے ۔یہاں تین دلیلیں اس بات کی موجود ہیںکہ طیر سے مراد پرندے نہیں۔ اول من کا لفظ ہمیشہ ذوی العقول کے لئے استعمال ہوتاہے ۔غیر ذوی العقول کے لئے نہیں ۔ پھریہ بھی قابل غور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے من فی لسموات والارض میں سے صرف طیر کو کیوں نکالا ۔جنات اور دوسری مخلوق کاالگ ذکر کیوں نہیںکیا ۔ کیا اس سے صاف طورپریہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ طیر کوئی الگ چیز ہے ۔پھرفرماتاہے کل قد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب سارے قرآن میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ پرندے بھی نماز پڑھاکرتے تھے ۔مگر اللہ تعالیٰ یہ فرماتاہے کہ وہ خالی تسبیح ہی نہیںکرتے بلکہ انہیںنماز کا بھی علم ہے او وہ صفیں باندھ باندھ کر نماز یں پڑھتے ہیں۔آخر میںفرمایا ۔ واللہ علیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یفعلون کا صیغہ پھرذوی العقول کیلئے استعمال ہوتاہے آخر تم نے کبھی ایسے طیر بھی دیکھے ہیںجو صفیںباندھ باندھ کرنمازیںپڑھتے ہوں ۔ایسے طیر تو دنیا میں صرف مسلمان ہی ہیں اور کوئی نہیں۔پس من کا استعمال کل ۔۔۔۔کا استعمال اور واللہ علیم ۔۔۔۔۔۔ کے الفاظ بتارہے ہیںکہ اس میںانسانوںکا ہی ذکر ہے خصوصاً وہ بلند مرتبہ انسان جو باجماعت نمازیں ادا کیاکرتے ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر طیر سے مراد اس جگہ مومن ہی ہیں تو پھر انہیںطیر کیوں کہا گیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی اعمال کا جو نتیجہ ہو یافطرتی طاق ہو اسے عربی میں طائر کہتے ہیں ۔اور اس کاذکر قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی آتاہے ۔اللہ تعالیٰ سورئہ اعراف میںفرماتاہے ۔فاذا ۔۔۔۔۔۔ فرماتاہے جب ان کو کوئی خوشی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ ہماراحق ہے اور جب انکو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ موسی ٰکے بدعمل کا نتیجہ ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے انما ۔۔۔۔۔ ان کاپرندہ خدا خدا کے پاس ہے اب وہ تو کہتے ہیں کہ ہم پر موسیٰ کی وجہ سے عذاب آیاہے اور خداکہتاہے تمہارا پرندہ ہمارے پاس موجود ہے ان دونوں کاآپس میںجوڑ کیا ہو ا اس کے لئے لغت دیکھی جائے تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے لغت میںلکھاہے کہ طائر انسانی عمل کوبھی کہتے ہیں (اقرب) اور اس جگہ یہی معنے مراد ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ان لوگوں کے تمام اعمال ہمارے پاس محفوظ ہیں لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں پھر فرماتاہے ۔ قالو۔۔۔۔۔۔۔ جب ثمود کے پاس حضر ت صالح ؑ نبی آئے تو انہوںنے یہ کہنا شروع کردیا کہ تیرے اور تیرے ساتھیوں کے برے عمل کی وجہ سے ہم تباہ ہوئے ہیں جیسے آجکل کہتے ہیںکہ حضرت مرزاصاحب کیوجہ سے ہی طاعون اور دوسری وبائیں آئیں ۔فرماتاہے ان کے نبی نے ان کو جواب دیا کہ طائرکم ۔۔۔کہ تمہارا طائرخداکے پاس ہے بل انتم۔۔۔۔بلکہ تم ایک ایسی قوم ہو جس کے پاس اللہ تعالیٰ کا عذاب آنے والا ہے پھرتین رسولوں کی سورۃیٰس میں ذکر کرکے فرماتاہے ۔قالو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب وہ مصلح اور رسول ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری وجہ سے بڑی تکلیفیں اٹھارہے ہیں۔اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے ۔انہوںنے کہا ۔تمہارا پرندہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے عمل تمہیں تباہ کردینگے ہمیںتو کوئی نقصان نہیںپہنچا سکتے۔
ان تمام مقامات پرطائر کالفظ استعمال ہوا ہے جو قوت عملیہ اور نتیجہ عمل کے معنوں میں ہے اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس لفظ کے استعمال کی حقیقت کیا ہے اور اس کی انسان کے ساتھ نسبت کیا بنتی ہے سو اس کے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیںسورئہ بنی اسرائیل میں ایک آیت نظر آتی ہے جوہمیںاس مضمون کے بہت زیادہ قریب کردیتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے وکل ۔۔۔۔۔۔۔ فرماتاہے ۔ہر انسان کے ساتھ ہم نے ایک پرندہ اس کی گردن کے نیچے باندھا ہواہے اور ہم قیامت کے دن اس کے اعمالنامہ کو اس کے سامنے لائیںگے اورکہیں گے اسے پڑھ ہم حساب نہیںکرتے تو اپنی نیکی بدی کا حساب کر لے جوہدایت پاتاہے وہ اپنے لئے پاتاہے اور جوگمراہ ہوتاہے اس کانقصان بھی اسی کوہوتاہے ۔کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا ۔اور ہم اس وقت تک لوگوں کوعذاب نہیںدیتے جب تک کوئی رسول مبعوث نہ کرلیں ۔
یہاں قرآن کریم نے طائر کے نہایت لطیف معنے کئیے ہیں اور بتایا ہے کہ ہر انسان کی گردن کے نیچے پرندہ ہے اب ہم دیکھتے ہیںکہ اس کامفہوم کیا ہے ۔سو جب ہمیں خدانے بتا دیا ہے کہ یہ پرندہ ہر انسان کی گردن کے نیچے ہے تو ہمیںیہ تو نظر آرہا ہے کہ کوئی پرندہ گردن کے نیچے نہیںہوتا۔پس صاف معلوم ہو اکہ اس پرندے سے مراد کوئی اور چیز ہے اور وہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ قوت عمل یا نتیجہ اعمال کا نام خداتعالیٰ نے طائر رکھا ہے ۔پس جو بھی انسان اعمال کرتاہے ان کی پرندے والی شکل بنتی چلی جاتی ہے ۔اگر تو انسان نیک اعمال بجالائے ۔و ہ انسان کو آسمان روحانیت کی طرف اڑا کر لے جائینگے جیسے ہوائی جہاز فضائے آسمان میں اڑاکر لے جاتاہے ۔اور اگر برے اعمال ہوں گے تو لازماًپرندہ بھی کمزور ہوگا ۔ اور انسان بجائے اوپراڑانے کے نیچے کی طرف گریگا ۔اب قرآن کریم ایک طرف تو یہ بیان کرتاہے کہ ہم نے ہرانسان کے ساتھ ایک طائر باندھ رکھا ہے ۔اگر وہ اچھے عمل کریگا تو وہ طائر اسے اوپر اڑاکر لے جائیگا ۔اور اگر برے اعمال کریگا تو وہ اسے نیچے گرادیگا ۔دوسری طرف رسول کریم ﷺ اسی مضمون کو ان الفاظ میں ادا فرماتے ہیںکہ کل مولودٍ۔۔۔۔۔۔۔ کہ ہر انسان کے اندر خدا تعالیٰ نے ترقی کی قابلیت رکھی ہوئی ہے ۔پھر ماں باپ اسے یہودی یامجوسی یا نصرانی بنادیتے ہیں ۔گویا ہرانسان میں اڑنے کی طاقت ہے ۔یہی مضمون کل انسان ٍ ۔۔۔میں بیان کیا گیا ہے کہ جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتاہے تو اس کاپرندہ بھی اس کے ساتھ پیدا کردیا جاتاہے ۔پھر بعض ماں باپ اس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں ۔اور بعض جو بچ جاتے ہیں ان کے لئے دوسری صورت پیدا ہوجاتی ہے ۔یہ انسان طائر جو اچھے لوگ ہوتے ہیں عمل نیک کی وجہ سے ان کاطائر یعنی مادہ ترقی کرتارہتاہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ فاطرمیںفرماتا ہے الحمدللہ فاطر ۔۔۔۔۔ کہ سب تعریفیں اس اللہ کی ہیںجو آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے والا ہے اور جس نے فرشتوں کو بنایاجن کے پرہوتے ہیں دو دو تین تین اور چار چار پھر انسانوں کی طرف آتاہے اور فرماتاہے۔من کان ۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہیںیہ تومعلوم ہوگیا کہ فرشتوں کے ہم نے ترقی کیلئے کئی کئی پر بنائے ہیں مگر اے انسانو یاد رکھو کہ تمہارے لئے بھی ترقی کے مواقع ہیںبلکہ تم اگر چاہو تو فرشتوں سے بھی بڑھ سکتے ہو ۔یاد رکھو تمام عزت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میںہے ۔اور اسی کی طرف سچی اور پاکیزہ روحیں بلند ہوتی ہیںیعنی جن میںخداکا کلام داخل ہو وہ ترقی کرجاتے ہیں۔مگر خالی نہیں بلکہ العمل الصالح ۔۔۔اعمال صالحہ کا اسے سہارا چاہئے ۔گویاا لکلم۔۔۔ ایک پرندہ ہے مگر وہ اکیلانہیں اڑ سکتابلکہ اعمال صالحہ کی مدد سے صعود کرتاہے ۔اور اس طرح اس کے دوپر بن جاتے ہیںجن کی وجہ سے وہ آسمان روحانیت کی طرف پرواز کرنے لگ جاتاہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ پرندے کی دوخاصیتیں ہوتی ہیں ۔ایک تو یہ کہ وہ اونچاجاتاہے۔یعنی فضامیںاڑتاہے ۔دوسرے یہ کہ اس کا آشیانہ ہمیشہ اونچاہوتاہے ۔اور بہت شاذ ونادر ایسا ہوتاہے کہ اس کاآشیانہ اونچی جگہ نہ ہو ۔جو پرندے آشیانوں میںرہتے ہیں ۔وہ بھی درختوں کی ٹہنیوں پر آشیانہ بناتے ہیںاور جوبغیر آشیانے کے رہتے ہیںوہ بھی کسی درخت پربسیرا کرتے ہیںنیچے نہیںبیٹھتے ۔یہی دوخاصیتیں قرآن کریم میں مومنوں کے متعلق بیان کی گئی ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔واذا قیل۔۔۔۔۔۔۔ اے مومنو جب تمہیںکہا جائے کہ اٹھو تو فوراً اٹھ کھڑے ہوا کرو ۔اور نبی یااس کے خلیفہ کی آواز پردوڑ پڑاکرو ۔کیونکہ ۔ یرفع اللہ۔۔۔۔۔کہ اس کے نتیجہ میںاللہ تعالیٰ ان لوگو ں کوجوتم میں سے مومن ہیںاونچا کردیگا ۔گویا اوپر اڑنے کی خاصیت کا مومنوں کے متعلق بھی ذکر آگیا ۔
دوسری خاصیت یہ تھی کہ پرندے اپنا آشیانہ ہمیشہ اونچا بناتے ہیں۔اس کا بھی مومنوں میںپایا جانا قرآن کریم سے ثابت ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ فی بیوت۔۔۔۔۔۔۔ فرماتاہے یہ نور کچھ گھروں میںہے ۔ جن گھروں کے متعلق ہمارا حکم ہے کہ انہیں اونچا کردیا جائے ۔ویذکر۔۔۔۔۔۔ ان گھروں میںصبح وشام تسبیحیں ہوتی ہیں ۔مگر فرمایا رجال ہماری مراد آدمیوں کو اونچاکرنا ہے نہ کہ گھروں کو ۔گویاپرندے کی جو دو خاصیتیںتھیں ان دونوں کا مومنوں کے اندر پایاجانا بھی بیان کردیا ۔اور بتادیاکہ عمل صالح مومن کو اڑاکر اللہ تعالیٰ کی طرف لے جاتا ہے ۔حدیثوں میں بھی آتاہے کہ جب کوئی مومن مرتاہے تو اس کی روح کو فرشتے آسمانوں کی طرف لے جاتے ہیں اورکہتے ہیں دروازے کھول دو ۔ایک مومن کی روح آتی ہے ۔مگر جب کافر مرتاہے تواس کی روح اٹھائی نہیں جاتی بلکہ نیچے پھینکی جاتی ہے۔
غرض طیر سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی روحیں ہیںجو وسعت حوصلہ اپنے اندر رکھتی ہیں اور دین کیلئے ہر قسم کی بلندیوں پر چڑھنے کیلئے تیار ہتی ہیں وہ مشکلات کی پرواہ نہیں کرتیں اور نہ مصائب سے گھبراتی ہیں بلکہ ہرقسم کی قربانیوں کے لئے آمادہ و تیار رہتی ہیںرسول کریم ﷺ کے سامنے کھڑے ہو کرایک دفعہ ایک صحابی نے کہا ۔یا رسول اللہ آپ حکم دیجیئے ہم اپنے گھوڑے سمندر میںڈالنے کے لئے تیار ہیںاور ذرابھی نہیں پوچھیں گے کہ حضور نے یہ حکم کیوں دیا ۔گویا مومن کو پرندہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ان قابلیتوں کا ذکر کیا ہے ۔جو مومنوں کے اندر پائی جاتی ہیںاور بتایا ہے کہ وہ سفلی زندگی کی بجائے علوی زندگی اختیار کرتا اور نیچے جھکنے کی بجائے اوپر کی طرف اڑتاہے ۔
یہی حکمت ہے جس کے ماتحت حضرت دائود ؑ پر ایمان لانے والوں کا نام طیر رکھا گیا اور بتایا گیا کہ وہ آسمان روحانی کی طرف پرواز کرنے والے لوگ تھے اور ان کے اندر خاص روحانی استعدادیںپائیجاتی تھیں۔سفلی زندگی سے انہیں کوئی دور کا بھی واسطہ نہیںتھا ۔پھرفرماتاہے ۔وعلمنہ صنعۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے دائود کو زرہیں بنانیکافن بھی سکھایا تھا ۔تاکہ وہ اپنی قوم کی جنگوں میںحفاظت کرے ۔اسی طر ح ہم نے سلیمان پر یہ فضل کیاکہ خداتعالیٰ کے حکم سے ہوئیںاس کے بیڑے کو مختلف جہات میں لے جاتی تھیں جن میںشام اور فلسطین بھی شامل تھے ۔
انسائکلو پیڈیا ببلیکا سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت سلیمان ؑ خلیج عقبہ سے مشرقی عرب کے اوپر کی طرف اپنا بیڑہ بھجتے تھے جو سونا وغیرہ لاتاتھااور اس سے بہت فائدہ اٹھا تے تھے ۔
یہ امر بھی یاد رکھناچاہئے کہ تجری بامرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں امر کی ضمیر خداتعالیٰ کی طرف بھی جاسکتی ہے اور حضرت سلیمان ؑ کی طرف بھی اگر سلیمان ؑ اس جگہ مراد ہوں تو اس سے ان کاحکم مراد نہیںہوگا بلکہ اس سے ان کاکام مراد ہوگا ۔
آیت نمبر۸۳
ترجمہ :۔ اور کچھ سرکش لوگ ایسے تھے جو اس کے لئے سمندروںمیں غوطے لگاتے تھے اور اس کے سوا بھی اور کام کرتے تھے ۔اور ہم ان کے لئے نگرانی کاکام کرتے تھے ۴۷؎
۴۷؎ حل لغات :۔ اشیٰطین ۔شطن۔ البر کے معنے ہوتے ہیں کنواں بہت گہرا ہوگیا ۔اور شیطٰن کے معنے ہیں کل عاتٍ ۔۔۔۔سرکش انسان (اقرب) پس شیاطین سے مراد دور دور تک غوطہ لگانے والے لوگ ہیںجو ان کی ماتحت قوموں میںسے تھے اور کافر تھے ۔
۴۷؎ تفسیر:۔
فرماتا ہے ۔کئی قسم کے سرکش لوگ ہم نے سلیمان ؑ کے ماتحت کردیئے تھے جو اس کے لئے غوطہ لگاتے تھے او رکئی قسم کے کام کرتے تھے۔ اور ہم اپنی تدبیر اسے ان کی حفاظت کرتے رہتے تھے ان آیات میںاللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرت دائود ؑ کا ذکر کیا ہے جو اپنے زمانہ میںبڑی زبردست حکومت کرتے رہے تھے اور پھرحضرت سلیمان ؑ کا ذکر کیا قرآنی زمانہ میں حقیقی دائود رسول کریم ﷺ تھے جنہوںنے اپنے دشمنوں سے عملاً جنگیں کیں اورجنگ کے سامان تیا ر کئے اور حضرت سلیمان ؑ کے مشابہ اس امت میںبنو عباسؓ اور بنو امیہ کی حکومتیں تھیں جن کے عہد میں دولت و ثروت کی یہ کیفیت تھی کہ بنو عباس کے ایک خلیفہ مامون الرشید کے متعلق تاریخ میںلکھاہے کہ مامون نے ایک دفعہ مصر کے علاقہ کادورہ کیااس کاطریق تھا کہ وہ ہرگائوں میںایک رات دن ٹھہرتاتھا ۔جب وہ طاء ؔالنمکل نامی ایک گائوں میں پہنچا تو وہاں اس نے قیام کرنا مناسب نہ سمجھا اور آگے چل پڑا ۔اس پر اس گائوں کی ایک معزز بڑھیا خاتون مامون الرشید کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے درخواست کی کہ آپ ہمارے گائوں میںبھی قیام فرمائیں ۔مامون الرشید نے اس کی درخواست کو منطور کر لیا اور وہاں قیام کیااس خاتون نے اپنی حیثیت کے مطابق مامون اور اس کے تمام ہمراہیوں کی دعوت کا پر تکلف سامان کیااور جب مامون روانہ ہونے لگاتو اس عورت نے اشرفیوںکی دس تھیلیاں مامون کے نذرکیں ۔ مامون پہلے ہی ا سکی دعوت کے اہتمام سے متعجب تھا اب جو اس نے اشرفیوں کی دس تھیلیاں دیکھیں تو وہ اور بھی متعجب ہوا اور اس نے ان اشرفیوں کے قبول کرنے سے معذرت ظاہر کی وہ خاتون کہنے لگی ۔بادشاہ سلامت یہ تو کوئی بڑی چیز نہیں ۔یہ سونا تو ہمارے گائوں کی مٹی میںسے پیداہوتاہے اور اس کے علاوہ میرے پاس ابھی بہت کچھ سونا موجود ہے جب مامون الرشید نے بات سنی تو اس نے اس ہدیہ کوخوشی سے قبول کرلیا ۔ (اوم المالک فی حوال المالک ۱۳۷؎بحوالہ تہذیب الاخلاق جلد ۳ ۱۴۲؎ )
آیت نمبر۸۴‘۸۵
ترجمہ:۔ اور تو ایوب ؑ کو بھی یاد کر جب اس نے اپنے رب کو پکار کر کہا ۔کہ میری حالت یہ ہے کہ مجھے تکلیف نے آپکڑا ہے ۔اور اے خدا تو سب رحم کرنیوالوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔پس ہم نے اس کی دعاسنی اور جو تکلیف اس کو پہنچی ہوئی تھی اس کو دور کردیا ۔اور اس کو اس کے اہل و عیال بھی دئیے اور ان کے سوا اپنی طرف سے رحم کرتے ہوئے اور بھی دیئے ۔اور ہم نے اس واقعہ کو عبادت گذار وں کیلئے ایک نصیحت کاموجب بنایا ہے ۔ ۴۸؎
۴۸؎ حل لغات :۔ الضمر ۔ضد النفع۔۔۔۔نقصان ۔سوئُ ۔۔۔بدحالی اور تکلیف (اقرب)
۴۸؎ تفسیر:۔
ان دونوں کے بعد حضرت ایوب ؑ کا ذکرکیاگیاہے ۔جن کی ساری عمر مشکلات میںکٹ گئی گھی رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے لحاظ سے شاید حضرت علی ؓ کو حضرت ایوب ؓ سے نسبت دی جاسکے اور مسیح موعود ؑ کے زمانہ کے لحاط سے تو بہرحال یہ ایک پیشگوی ہے جو وقت پر آکر ظاہر ہوگی حضرت ایوب ؓ جن کا ذکر اس جگہ پر آتاہے ان کے متعلق مختلف اقوام نے روشنی ڈالی ہے مسلمانوں نے عیسائیوں نے اور ان یہودی مورخوں نے جو کہ مذہب کی روشنی میںتاریخ لکھتے ہیں مسلمانوں نے جو کچھ ان کے متعلق لکھاہے وہ یہ ہے کہ ’’ایوب کے والد کا نام اسوؔص تھاان کے والد کانام تارؔح تھا ان کے والد کانام روم تھا ان کے ان کے والد کانام عیصؔ تھااور انکے والد کانام اسحاق ؑ تھا اور ان کے والد کانام ابراہیم تھا اور ان کی والدہ لوط بن ہاران کی اولاد میںسے تھیں عیصؔ نام جوغالباًایوب کے پردادا کے والد کاتھاعیسو ؔکامخفف ہے کیونکہ بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت اسحاق کے ایک بیٹے کانام عیسو تھا ) پھرمسلمان مورخ یہ کہتے ہیں کہ ایوب بڑے مالدار تھے اورشام اوراسکے ملحقہ ملکوں کی زمینیں ان کی ملکیت تھیں اور گائیوںاور اونٹوں بکریوں گھوڑوں اور گدھوں کی ان کے پاس کوئی انتہانہ تھی ان کے پانچ سو ہل چلتے تھے ۔اور پانچ سو غٖلام تھے ۔اہل وعیال بھی بہت تھے ۔مگر آپ دولت کے باوجود بڑے نیک تھے اور مساکین یتامیٰ اور بیوگان کی پرورش کرتے تھے اور بڑے مہمان نواز تھے ۔ شیطان اپنی کوشش کے باوجود ان کو ورغلانے میںکامیاب نہیں ہوا آپ پر یمن کے تین آدمی ایمان لائے تھے ابلیس ان کے زمانہ میں آسمانی خبروں کو چوری چوری سن لیتا تھا (یہ خبر ہمارے مفسرین ہر نبی کے متعلق دیتے ہیں ایک دفع ایوب ؑ نے بڑے اخلاص سے درود پڑھا اور فرشتوں نے اس کاجواب دیاتو شیطان نے وہ بھی سن لیا ۔اللہ تعالیٰ نے ایوب ؑ کادرود سن کر اس کی بڑی تعریف کی اس پر ابلیس کو حسد ٓاگیا۔اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میںحاضر ہوا اور اس نے کہا کہ ایوب پرجو آپ نے نعمتیںنازل کی ہیں ان کیوجہ سے وہ نیک ہے اگر آپ اس کی نعمتوں کو چھین لیں تو وہ آپ کی اطاعت سے نکل جائیگا ۔تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔جامیںنے تجھے اس کے مال اس کے اسباب پرتصرف بخشا اور اس نے ان سب چیزوں کو ہلاک کردیا مگر ایوب نے تب بھی الحمدللہ ہی کہا تب شیطان دوبارہ اللہ تعالیٰ کے پاس گیا اور کہا ابھی اس کی صحت تو باقی ہے اس لئے وہ شکر گذار ہے اس پراللہ تعالیٰ نے فرمایا جائو اس کے جسم پر بھی تجھے تصرف دیاجاتاہے لیکن یاد رکھنا اس کی زبان دل اور عقل پر تیرا قبضہ نہ ہوگا ۔چنانچہ ان کے جسم میںکھجلی کی بیماری پیدا ہوگئی ۔اور جسم کارنگ تبدیل ہوگیا اور زخموں میںکیڑے پڑگئے تب بستی والوں نے انہیں گھر سے نکال دیااس وقت وہ ایک جھونپڑہ میں چلے گئے جہاں ان کی ایک بیوی رحمت نامی ان کی خدمت گار تھی آپ پر ایمان لانے والے تینوں آدمیوں نے بھی آپ کوچھوڑدیا بعض کے قول کے مطابق حضرت ایوبؑ اس مصیبت میں ۱۸ سال رہے اوربعض کے قول کے مطابق ۳ سال رہے اور بعض کے قول کے مطابق سات سال رہے اس وقت کوئی ان کے قریب تک نہ آتا تھا سوائے ان کی بیوی کے جو ان کوکھانا لاکر دیتی تھی ۔جب حضرت ایوب خداتعالیٰ کی حمد کرتے تو وہ بھی ان کے ساتھ شریک ہوتی ۔تب شیطان گھبرایااور اس نے کہاکہ آدم ؑ کی بیوی کو بھی پھسلایا گیاتھاکیوں نہ ایوب کی بیوی کو بھی پھسلایاجائے تب وہ ان کی بیوی کے پاس آیا ۔اور اسنے ایک بکری کابچہ دے کر کہا کہ اگر ایوب تیرے نام پراس کو ذبح کردیں تو اچھے ہوجائیں گے بیوی نے حضرت ایوب ؑ سے یہ ذکر کیا تو انہوں نے اس کو ڈانٹا اور کہا یہ تو خداکادشمن ہے تم کیوں اس کے فریب میںآئیں ۔خداتعالیٰ نے اتنی لمبی مدت تک نعمتیںدی تھیں اگر چند سال مشکلات کے آگئے تو کیا ہو اپھر قسم کھائی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے شفا ء دی تو وہ بیوی کو اس کی غلطی پر سوکوڑے لگائیںگے اور بیوی کو گھر سے نکال دیا اور کہا کہ میںاللہ کے سوا کسی کے نام پر جانور ذبح کرنے کیلئے تیار نہیں ۔پڑھ آپ نے دعا کی کہ انی مسنی۔۔۔۔۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔اے ایوب میںنے تیری دعاسن لی اُٹھ اورزمین پر پائوں مار تو چشمہ پھوٹ پڑا آپ نے اس سے غسل کیاتو ساری بیماری جاتی رہی اورجانی کا زمانہ عود کاآیا آپ نے ایک دفعہ پھرپائوں مارا تو ایک اور چشمہ پھوٹ پڑ اس سے آپ نے پانی پیا اور سب اندرونی بیماریاں جاتی رہیں ۔اس وقت ان کی بیوی کو خیال آیاکہ گو ایوب نے مجھے میری غلطی پر نکال دیا مگر وہ بھوکے مرجائیں گے ۔وہ ان کو ڈھونڈتی ہوئی آئی مگر ان کو اپنی جگہ پر نہ پایا ۔وہ روتے روتے سب جگہ ان کو ڈھونڈنے لگی آخر وہ ان کومل گئے اور حضر ت ایوب ؑ نے اس طرح قسم پوری کی کہ سو تیلیاں اکٹھی لے کر ان کومار یں (تفسیرخازن)
یہ واقعہ لوگوں کو اتنا دلچسپ نظرآیا ہے کہ ہندووں کی تاریخ میں بھی پایا جاتاہے اور یہودیوں کی تاریخ میںبھی بعض جگہ نام بدل دیئے گئے ہیںبائبل میں حضرت ایوبؑ کی ایک مستقل کتاب ہے جس کے ۴۲باب ہیں اور اس کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ وہ حضرت مسیح سے ۱۵۲۰ سال پہلے گذرے ہیں یعنی حجرت موسیٰ سے قریبا۲۰۰ سال پہلے مغربی محقیقین کے نزدیک حضرت ایوب ایک غیراسرائیلی نبی تھے ۔کیونکہ وہ عیسو کی نسل میںسے تھے جو کہ اسرئیلی کابڑا بھائی تھا اور عوض کے رہنے والے تھے جو دور آخر کے SIDON کا شہر تھا ۔اور شام اور خلیج عقبہ کے درمیان واقع تھا۔ (جیوش انسائکلوپیڈیا اور انسائکلو پیڈ آف اسلام )
مگر میرے نزدیک یہ بات درست نہیںکیونکہ اس ملک کے لوگوں کی بنی اسرائیل سے سخت عداوت تھی اور اسکی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بنی اسرائیل کو اپنے علاقہ میںسے گذر کر کنعان نہ جانے دیا تھا اور اس عداوت کے سبب سے بنی اسرائیل ہمیشہ ان سے جنگ کرتے رہتے تھے اور صرف ایک قلیل عرصہ کے لئے ان لوگوں کے حملوں کے مقابلہ میں ان دونوں قوموں کی آپس میں صلح ہوئی تھی ۔ایسے دشمن قبیلہ کے بزرگ کاواقعہ سب دنیاکے واقعات کو چھوڑ کر بائبل میں درج کرنا خلاف قیاس ہے ۔محقیقین اس امر پر متفق ہیںکہ ایوب کی کتاب میں جو زبان استعمال ہوئی ہے وہ نویں سے چوتھی صدی قبل مسیح کی زبان ہے اور اس زمانہ یہودی بخت النصر کے ہاتھوں قید ہو کر ہند کے قریب کے علاقوں میں پھیلائے جاچکے تھے ادھر ہندووں میںایک واقعہ ہریش چندر کے نام سے مشہور ہے جو اس واقعہ سے بہت کچھ ملتاجلتاہے پس کچھ تعجب نہیںکہ یہ وہیں سے لیاگیا ہو اس کاثبوت خود ایوب کی کتاب سے بھی ملتا ہے کیونکہ اس میں لکھا ہے کہ شیطان خداکے دربارمیں حاضر ہوا ۔اب یہ خیال کہ شیطان خد اکے دربار میںجاتاہے یہود اور ان کے اردگرد کی اقوام کانہیں بلکہ خالص ہندوستانی خیال ہے جو بری اور اچھی روحوں کو خداتعالیٰ کے دربار میںحاضر کرتے ہیں اوران کی آپس میںخوب باتیں ہوتی رہتی ہیں۔
بہرحال پرانے عہد نامہ میںکتاب ایوب باب ۱ میںلکھا ہے کہ عُوض کی سرزمین میں ایک شخص ایوب نامی تھا وہ شخص نہایت نیک اور متقی تھا اس کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیںاس کے پاس ۷۰۰۰بھیڑیں ۳۰۰۰ اونٹ ۵۰۰ اونٹ ۵۰۰ جوڑے بیل اور ۵۰۰ گدھیاں تھیںاس کے نوکرچاکر بہت تھے اور اس کے برابر مشرق میں کوئی مالدار نہ تھا اس کے بیٹے بڑے مالدار تھے ۔ایوب کے بیٹے جب جوان ہوئے توان کی طرف سے قربانیاں کیںتاکہ اور ان کاکوئی گناہ ہو تو معاف ہوجائے ۔ایک د ن خداکے حضور میںفرشتے پیش ہوئے اور ان میں شیطان بھی شامل ہوگیا تب اللہ تعالیٰ نے شیطان سے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو او رکیامیرے بندے ایوب کو دیکھاہے اس نے کہاادھر ادھر سے پھر کے آیا ہوں اور ایوب کومیں نے دیکھا ۔کہ خداترسی کرتاہے مگر مفت میں نہیںبلکہ اس لئے کہ تونے اس پر بڑی نعمتیں نازل کی ہیں تو ذرااس کی نعمتیں لے لے پھردیکھ کہ وہ تجھ پر ملامت کرتا ہے یا نہیں۔
اس پر خداتعالیٰ نے کہاکہ اس کے مال کو جس طرح چاہے تباہ کردے مگر اس کے جسم پر ہاتھ نہ بڑھائیو۔اس کے بعد ایسا ہوا کہ دشمنوںنے اس کے نوکروں پر حملہ کردیا اور ان کو قتل کردیا ۔اسی طرح آسمان سے بجلی گری اور اس نے ان کے نوکر چاکر اور مال و اسباب کو جلادیا پھرکسی نے اطلاع دی کہ ان کے بیٹوںکو غلام بنا کر دشمن لے گئے ہیں اس پرایوب نے اپنا پیراہن چاک کیا اور رونے لگااور سجدہ کیا اور کہا کہ میٰںجس طرح ماں کے پیٹ سے ننگا آیا اسی طرح ننگا ہی جائونگا ۔مگر ان سب مصائب کے باوجود ایوب نے خداپر الزام نہ لگایا(باب ۲) اس کے بعد پھر ایک دن فرشتوں میںمل کر شیطان خداتعالیٰ کے سامنے حاضر ہو ااو ر خداتعالیٰ کے پوچھنے پر کہ تونے ایوب کا حال دیکھاکہ وہ کیساشکر گذار ہے شیطان نے کہا انسان اپنے جسم کے لئے بھی سب مال قربان کردیتاہے ۔تو اس کے جسم اور ہڈی کو نقصان پہنچاپھردیکھ اس کا شکر کہاں باقی رہتا ہے ۔خداتعالیٰ نے شیطان کو کہاکہ بے شک اس کی جسمانی صحت کو نقصان پہنچادے مگر اس کی جان نہ جائے تب شیطان نے اس کی جلد میں ایک بیماری پیدا کردی اور سرسے لے کر تلووں تک پھوڑے نکل آئے تب اس کی بیوی نے کہا اب یہ شکر گذاری چھوڑ خدا کو ملامت کر اور مرجا ایوب نے بات نہ مانی اور کہا یہ کس طر ح ہوسکتاہے کہ ہم اس کی نعمتیںلیںاور دیں کچھ نہ تب اس کے تینوں مرید دور دور کے علاقوں سے آئے اور اس کی حالت زار دیکھ کر رونے لگ گئے (باب ۳تب ایوب نے یہ دیکھ کر کہ اس کو بدی کی طرف پھرانے کی کوشش کی جارہی ہے اپنی پیدائش پر *** کی (باب۴) اس پر اس کے ایک مرید نے اس کو کہاکہ عذاب تو خداکے دشمنوں پر آیا کرتاہے ۔نیکوں پر نہیںاس لئے ضرور تیرے اندر کوئی بدی ہے (باب ۵) تب ایوب نے کہا سزا بدی کی وجہ سے ملتی ہے ۔سزاکے وقت انسان کو چاہئے کہ اپنے آپکو خداپر چھوڑدے (باب ۶) تب ایوب دعاکرتاہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ پرموت نازل کرے تو بہتر ہے (باب۷) بعد میںایوب پچھتا تاہے ۔اور اس پر عزر کرتاہے کہ میںنے کیوں موت کی تمنا کی بابٌ ان کا ایک مرید بلدو امی بتاتاہے کہ خدتعالیٰ ہمیشہ نافرمانوں کو سزا دیتاہے (باب ۹) پھرلکھاہے ایوب نے اپنے معترضین کوجوابدیا کہ میں نہ اپنے آپ کو نیک کہتاہوں اورنہ یہ کہتاہو ں کہ خداعادل نہیں ۔ خدا عادل ضرور ہے مگر موت اور ہلاکت تو ہر ایک پر آرہی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ جب وہ بے گناہ کو سزادے رہا ہوتاہے تو وہ اس کاامتحان کر رہا ہوتاہے ۔پھر اس نے کہا کہ زمین پر شریر حاکم ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ میری عمر تیز تیز گذر رہی ہے میرا یہ کہنا کہ میںپوری طرح صبر کروں گا بے فائدہ ہے ۔کیونکہ تم لوگ تو پھر بھی مجھے گناہ گار قرار دو گے۔ کیونکہ تمہار ا یہ یقین ہے کہ خدا تعالیٰ صر ف شریر کو سزا دیتاہے اور میرا یہ یقین ہے کہ خدا تعالیٰ بے گناہ کو بھی تکلیف میں ڈالتاہے کہ آزمائش کرے (باب ۱۰) آخر میںایوب کا قصہ بائبل نے اس طرح ختم کیا ہے کہ اس کے شاگرد جو اس سے کج بحثی کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کوا لہام کیا کہ بیل اور بکرے ایوب کے پاس لائو اور اپنے گناہوں کی معافی کے لئے اس سے سوختنی قربانی کروائو اس کے بعد لکھا ہے کہ اس کے دوست بچے بیویاں سب واپس آگئے ۔دولت اس کی دوگنی ہوگئی اور بڑی لمبی عمر تک زندہ رہا ۔
جیسا کہ اوپر لکھا جاچکا ہے ایوب سے ملتا جلتا قصہ ہندوستان میںبھی پایا جاتاہے ۔ہندووں میں ایک شخص کانام جس کے ساتھ یہ واقعہ گذرا ہریش چندر لکھا ہے واقعہ قریبا ً ایوب جیسا ہے کیونکہ اس کے متعلق بھی لکھا ہے کہ دیوتائوں کے ساتھ شیطان مل کر خدا کے پاس گیا اور اس سے ہریش چندر کی تعریف سن کر خدا سے اجازت لی کہ میں اس کا مال تباہ کردوں مگر ہریش چندر اپنے سچ اور دیانت پر قائم رہا کئی تجربے ہوئے مگر وہ نہ پھسلا بائبل میںاشارہ ملتاہے کہ ایوب کاواقعہ ہندوستان سے آیا ہے اور ایوب غالباً اس کے نام کاترجمہ ہے یا استعارۃ رکھا گیا ہے وہ اشارہ جو ہریش چندر کے متعلق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ بائبل میں لکھاہے کہ وہ اتنا مالدار تھا کہ اہل مشرق میں ویسا کوئی مالدار نہ تھا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ مشرق یعنی ہندوستان سے آیا تھا اور بائبل نے اس قصہ کو اپنے اندر درج کرلیا ہم نے اوپر مفسرین کی روایتیں بھی دے دی ہیں اور بائبل کی بھی ان دونوں کو ملا کر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مفسرین نے یہودیوں سے یہ روایتیں نقل کی ہیں کیونکہ بہت سی باتوں میںیہ روایتیںبائبل کے قصے سے ملتی ہیں اور بعض میں مختلف بھی ہیں یہ اتفاق اور اختلاف بتاتا ہے کہ ذریعہ معلومات تو ایک ہی ہے مگر پور اقابل اعتبار نہیں قرآن کریم جو ان سب لغویات سے پاک ہے اس نے اس قصہ کی فضولیا ت کو حذف کردیا ہے اور جو واقعات اس نے بیان کئے ہیں ان سے صرف اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ ایوب بڑامالدار تھا او ر اس کابڑا خاندان تھا وہ ایک مشرک ملک میںرہتا تھا جس کابادشاہ ظالم تھا ۔ظالم ملک کے متعلق یہ آیت شہادت دیتی ہے کہ اذ نادیٰ ۔۔۔۔۔ یعنی ایوب ؑ نے اپنے رب کو پکار کہ شیطان نے مجھ کو تھکان اور تکلیف پہنچائی ہے شیطان کے معنے عربی زبان میں سرکش کے ہوتے ہیں(اقرب) پس اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ایک سرکش بادشاہ مجھے تکلیفیں دیتا ہے اور تھکان اور عذاب پہنچارہا ہے یعنی اس کے ظلم کی وجہ سے مجھے ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ جانا پڑتاہے اور میرے مال اور خاندان کو وہ نقصان پہنچاتاہے اور اس طرح مجھے دکھ دیتا ہے ۔یہ جو ہم نے لکھا ہے کہ وہ بادشاہ کے ظلم سے مجبور تھے کہ ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ جائیں اس کاثبوت یہ آیت ہے کہ اُرکض۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنی سواری کو ایڑی مار اور ساتھ ہی سواری کو درخت کی ایک ٹہنی سے بھی مارتا جا تاکہ تیرا سفر جلدی طے ہو جب تو ایسا کریگا تو سامنے تجھے ایک چشمہ نظر آئیگا جس میں نہانے کا بھی سامان موجود ہوگااور پیاس بجھانے کا بھی اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضر ت ایوبؑ کسی پہاڑی علاقہ میں رہتے تھے جن لوگوں نے کشمیر دیکھا ہے وہ اس کو خوب سمجھ سکتے ہیٰن کشمری کے لوگ جب گھوڑے پر سوار ہوکر پہاڑی سے اترتے ہیں تو بے تہاشا دونوں ایڑیاں گھوڑوں کو مارتے جاتے ہیں اور ایک ہاتھ سے درخت کی شاخ بھی مارتے جاتے ہیں اور ایک ہاتھ سے درخت کی شاخ بھی مارتے جاتے ہیں تاکہ سفر جلدی طے ہو اور ٹھنڈے چشمے بھی عام طور پر پہاڑوں پر پائے جاتے ہیں۔پس قرآنی روایت کے مطابق اتنا ہی پتہ لگتا ہے کہ ایک ظالم بادشاہ کی تعذیب سے بچنے کیلئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت ایوب نے اپنے ملک سے ہجرت کی جو علاقہ پہاڑی بھی تھا اور چشموں والا بھی تھا اور ایڑیاں انہوںنے گھوڑے کو ماری تھیں نہ کہ زمین پر مار کر چشمہ پھوڑا تھا اور درخت کی مو ٹی شاخ جس کے آگے کئی چھوٹی چھوٹی شاخیں لگی ہوئی تھیں سواری کو اس کے دوڑانے کے لئے مار رہے تھے ۔نہ یہ کہ انکی بیوی نے ان کو شرک کی تعلیم دی تھی اور انہو ں نے قسم کھائی تھی کہ میںاسے سو کوڑے مارونگا اور پھر قسم سے بچنے کے لئے یہ بہانہ بنایا کہ سو تیلیوں کا ایک جھاڑو پکڑ کر بیوی کو مار دیا ۔یہ دھو کا مفسرین نے صرف حنث کے لفظ سے کھایا ہے جس کے معنے ہوتے ہیں قسم توڑنا اور توجہیہ یہ کی ہے کہ سو تیلیاں بیوی کو مار دے اور قسم نہ توڑ حالانکہ قرآن میںنہ سو کوڑوں کا ذکر ہے اور نہ سو تیلیاں مارنے کا ذکر ہے ۔ضغث ۔کے معنے صرف ایسی شاخ کے ہوتے ہیںجس میںکچھ خشک تیلیاں بھی ہوں اور کچھ سبز بھی اور ایسی ہی شاخ گھوڑوں کے مارنے کیلئے لوگ مہیا کرتے ہیںتاکہ سبزی کی وجہ سے وہ لچکدار ہو اور خشکی کی وجہ سے چمڑے میں چبھے حنث کے معنے عربی میں مال ۔۔۔۔ کے بھی ہیں پس بجائے اس دوراز عقل قصہ بنانے کے مفسرین کو چاہئے تھا کہ اس کے یہ معنے کرتے کہ ایک مشرک بادشاہ کی بادشاہت سے نکل جانیکاحکم حضرت ایوب کو تھا اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ گھوڑے پر چڑھ ایڑیاں بھی مار اور درخت کی شاخ بھی مار اور جلدی جلدی اس ملک سے نکل جا تاکہ جلدی سے تو مشرکوں سے دور ہوجائے اور اس ملک سے نکلنے میںدیر نہ لگا ۔اور شرک کرنیوالوں کی طرف مائل نہ ہو یعنی مشرکوں میںنہ رہ حنث کے معنے جو مال ۔۔۔۔کے ہیں تو اس کے یہ معنے نہیں کہ دل سے باطل کی طرف مائل نہ ہو بلکہ اس جگہ جسمانی میلان بھی مراد ہو سکتاہے جو ہمسائگیت پر دلالت کرتاہے اور اسطرف اس جگہ اشارہ ہے فرماتاہے کہ جلدی جلدی شرک کے علاقہ سے نکل جا گھوڑے کی سواری کی تھکان کی پرواہ نہ کر بادشاہ کے ظلم کی تھکان کی تو کوئی علاج نہیں تھا۔گھوڑ ے کی سواری کی تھکان کا علاج موجود ہے سامنے چشمہ ہے اس میںنہا اور اس سے پانی پی اور اس ملک کو چھوڑدینے پر افسو س نہ کر ہم تیرے تمام رشتہ داروں کو وہاں پہنچا دینگے بلکہ ان جیسے اور بھی دینگے یعنی اس ملک میںبھی تیرے خیرخواہ پید اہوجائیں گے اس بات میں رسول کریم ﷺ کو حضر ت ایوب ؑ سے مشابہت ہے ۔رسول کریم ﷺ کو بھی بھاگ کر شرک کا علاقہ چھوڑنا پڑاجہاں پانی نہیں ہوتا تھا ۔او رپھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مکہ میں چھوڑی ہوئی بیو یوں کو بھی مدینہ پہنچا دیا اور ویسی ہی پاکباز اور نیک بیویاں مدینہ میںاو ربھی دیں ۔یہی حضرت ایوب ؑ سے وعدہ تھا کہ اے ایوب مشرک بادشاہ کی حکومت کو چھوڑدے اور دوسرے علاقہ میں نکل جاوہاں تیری تکلیفوں کو دور کردینگے اور تیرے رشتہ دار بھی پہنچادیںگے بلکہ انہی جیسے بھی دینگے اور نہانے اور پینے کے لئے پانی بھی کثرت سے مہیا ہوگا ۔
آیت نمبر۸۶
ترجمہ :۔اور اسمائیل کو بھی یاد کر اور ادریس کو بھی اور ذوالکفل ؑ کو بھی یہ سب کے سب صبر کرنے والے تھے ۔ ۴۹؎
۴۹؎ تفسیر:۔
حضرت اسمعٰیل ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بڑے بیٹے تھے ۔گو عیسائی کئی بہانوں سے ان کو لونڈی کا بیٹا قرار دے کر اپنے حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں ۔ اور حضرت ادریس ؑ کے حالات سورئہ مریم کی تفسیر میںدرج کئے جاچکے ہیں اب ہم ذوالکفل کے متعلق اپنی تحقیق پیش کرتے ہیں ۔
ذوالکفل کاذکر نام لے کر قرآن کریم میںدو جگہ پر آتاہے ۔ایک تو یہی آیت ہے جس میںاسمٰعیل ؑ ادریس ؑ اور ذوالکفل کا اکٹھا ذکر آتا ہے اور دوسرے سورئہ ص میں اسماعیل ؑ یسعیاہؑ اور ذوالکفل کااکٹھا ذکر آتا ہے ۔گویا دو سورتوں یعنی انبیاء او ر ص میں ان کا زکر آتا ہے ایک جگہ پر اسماعیل ؑ اور ادریس ؑ کے ساتھ اور دوسری جگہ پراسماعیل اور یسعیا ہ ؑ کے ساتھ ۔
اسلامی مفسرین نے ذوالکفل کے متعلق بہت سی روایتیں نقل کی ہیں اور یہ دعویٰ کیاہے کہ وہ ایک غیر نبی شخص تھا جیسے بعض کے نزدیک ایک نبی نے اور بعض کے نزدیک ایک بادشاہ نے اپناقائم مقام مقرر کیا جو دن کو روزہ رکھتا تھا اور رات کو عبادت کرتا تھا ۔اور غصہ میںکبھی نہیںآتا تھا۔
ایک روایت عبد ا للہ بن عمر ؓ سے رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب کرکے حدیثوں میںیہ آتی ہے جسے علاوہ اور کتابوں کے مسند احمد ؒ اور سنن ترمذی میں بھی بیان کیاگیا ہے کہ ذولالکفل ایک شخص تھا جس نے ایک عورت کو بدکاری پر مجبور کیا اور اسے کچھ رقم دی ۔عورت فاقوں کی وجہ سے مجبور تو ہوگئی لیکن رونے لگ گئی اس پر اسے خداکاخو ف آگیا ۔اور اس نے اس عورت کو چھوڑ دیا ۔او رخود بھی توبہ کولی ۔
اس حدیث میں کو ئی ایسے الفاظ نہیں ہیںجن سے معلوم ہو کہ یہ وہی ذوالکفل ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں آتاہے بلکہ انہی حدیثوں میںاس کانام ذولکفل بھی آتاہے پس اگر یہ حدیثیں درست ہیں تو بالکل ممکن ہے کہ یہ روایت کسی اور شخص کے متعلق ہو ۔کیونکہ ہر عقلمند سمجھ سکتاہے کہ یہ واقعہ ایسا نہیں جس کے مر تکب کو انبیا ء کے ساتھ گنا جائے ۔اور اسمٰعیل ؑ اور ادریس ؑ اور اسمٰعیل او ر یسعیا ہ کے ساتھ اس کانام لیا جائے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ذوالکفل معرب ہے حزقیل ؑ کا ۔یاء وائو سے بدلتی رہتی ہے او ر وائو فاء سے بدل جاتی ہے ۔پس حزقیل سے حزکفل اور اس سے ذوالکفل ہوجانا کوئی بعید بات نہیں ۔یہ بھی ہو سکتاہے کہ حزقیل کا عربی میںترجمہ کرکے اسے ذوالکفل کہہ دیا گیا ہو ۔کیونکہ حزقیل کے معنے ہیں ’’جسے خدا کی طرف سے طاقت ملی ہو‘‘ اور کفل کے معنے بھی حصہ کے ہیں ۔پس ذوالکفل کے معنے ہیں جس کو بڑا حصہ ملا ہو۔پس ہو سکتاہے کہ عربوں نے حزقیل کانام سنکر اور عبرانی میں اس کے معنے سنکر اس کا ترجمہ ذوالکفل کر لیا ہو۔
یسعاء ؑ کے ساتھ اس کے نام کا نا مزید ثبوت ہے کہ یہ نبی حزقیل ہی ہیں ۔
حزقیل او یسعاہ کاخاص جوڑتھاجو پشگوئیاں یسعایاہ نے کی تھیں وہ حزقیل کے زمانہ میں پوری ہوئی تھیں اور یہودی مصنف یسعیاہ اور حزقیل کاباہم مقابلہ بھی کرتے ہیں ۔
بائبل کے لٹریچر میں حزقیل ایک مشہور مذہبی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی بتدائی عمر یروشلم کی عبادت گاہ میں صرف ہوئی تھی جہاں انہوں نے دینی تعلیم بھی حاصل کی ۔
حزقیل ان لوگوںمیںسے تھے جن کو بابل کابادشاہ قید کرکے یروشلم سے لے گیا تھا ۔انکی کتاب میںباربار ان کی قید کے زمانہ کا ذکر آتاہے گو وہ علماء کے لیڈر نہیں تھے مگر بوجہ ان کے بڑھتے ہوئے رسوخ کے بادشاہ نے ان کو اس قابل سمجھا کہ ان کو گرفتار کرکے یروشلم سے لے جائے۔
غالباً ان کی پیدائش ۶۲۲قبل مسیح ؑ کی تھی اور ۵۹۲ ؁قبل مسیح ؑ میں ان کا الہامی زمانہ شروع ہوتا ہے جب وہ قریباً تیس سال کے تھے اندازاً بائیس سال تک انہوں نے بنوت کی اور ۵۷۰ ؁ قبل مسیح میں۵۲ سالکی عمر میں انہوں نے وفات پائی ۔
حزقیل نے شادی بھی کی یروشلم کی دوبارہ آبادی کی انہوں نے پیشگوئی بھی کی اور اس کاذکر قرآن کریم میںسورئہ بقرہ ع۳ میں آتا ہے ۔
حزقیل کو اس لحاظ سے خاص اہمیت حاصل ہے کہ ان کے زمانہ کے بعدیہود نے قریباًقریباًظاہری بت برستی چھوڑ دی جو اس سے پہلے زمانوں میںبار بار ان میں عود کر آتی تھی ۔
بعض ائمہ بائبل کا خیا ل ہے کہ حزقیل اسرائیلی نبیوں میںسے آخری نبی تھا ۔اس کے بعد جو لوگ پیدا ہوئے وہ در حقیقت بڑے بڑے علماء تھے ۔یایوں کہہ لو کہ خالی مجددانہ رنگ رکھتے تھے ۔نبوت کا رنگ نہیں رکھے تھے ۔
حزقیل اپنے آپ کوآدم زاد کہتے تھے چنانچہ دیکھو حزقیل باب ۲ آیت ۱، باب ۳ آیت ۲۵،باب ۴ آیت ۱ ،باب ۵ آیت ۱،باب ۶آیت (مسیح بھی اپنیآپ کو ن آدم کہتا تھااو حنوک کے متعلق بھی آتا ہے کہاسے بن آدم کہا گیا ) غرض کثرت کے ساتھ ان کو آدم زاد یا دوسرے لفظوں میں ابن آدم کہا گیا ہے بلکہ قریباً جہاں بھی خدا ان کو مخاطب کرتاہے آدم زاد کے لفظ سے مخاطب کرتاہے یہ ایک مشابہت ہے جوحزقیل ؑ اور ادریس ؑ اور مسیح میں ہے حزقیل کچھ عرصہ تک خاموش بھی رہے اور انہوں نے کہا کہ میںخدا کے حکم سے خاموش رہا ہوں(حزقیل ۳:۲۶) اس میںان کو زکریاؑ سے مشابہت معلوم ہوتی ہے ۔حزقیل کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بنو کدنضر کے بہت مداح اور اسرائیل اور مصر اور ٹائر کے خلاف ان نے جو اقدام کئے تھے ان کو وہ جائز سمجھتے تھے اور ان لوگوں کی شرارتوں کا اسے نتیجہ سمجھتے تھے۔ حزقیل کی کتاب غالباًبائبل کی پہلی اور آخری کتاب ہے جس کا کچھ حصہ خود نبی نے لکھاہے ۔اسی کتاب کے کچھ حصے تو ان کے بیان کئے معلوم ہوتے ہی اور کچھ لکھے ہوئے ہیں۔(انسائکلو پیڈیا ببلیگا صفحہ ۱۴۵۶تا ۱۴۵۸)
حزقیل نبی اور اسی طرح یرمیاہ نبی کی کتا بوں کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں اس بات کی تائید میں تھے کہ بابلی حکومت کی مخالفت نہ کی جائے بلکہ اس کی تائید کی جائے ۔اس وقت کے علماء نے یرمیا ہ نبی اور حزقیل دونوں کو ہی ملک کاغدار قرار دیا ۔جس طرح تائٹس کے زمانہ میںرومیوں کی حمایت کرنے والے مسیح کو بھی یہودیوں نے غدا ر قرار دیا تھا ۔یااس زمانہ کے علماء نے مسیح معود ؑ کو جنہوں نے سکھوںکے مقابلہ میںانگریزوں کی تعریف کی غدا ر قرار دیا ۔اس کے برخلاف حزقیل نے ان لوگوں کو غدار قرار دیا ہے جوبابلی حکومت کا مقابلہ کرنے کی تلقین کرتے تھے حزقیل کا خیال تھا کہ وہ یہودی جو پکڑ کر بابل لائے گئے ان کے ذریعہ ایک نئے یہودی قوم جو اپنے مذہب پر قائم ہوگی کھڑی کی جائیگی چنانچہ یہ پیشگوی پوری ہوئی اور اس کے بعد یہودیوں نے کبھی ظاہری شرک نہیں کیا ۔ کچھ تو اس وجہ سے کہ جو سزا ان کوملی تھی اس سے سبق حاصل ہوگیا ۔ اور کچھ اس وجہ سے کہ ا یک لمبے عرصہ تک بت پرست قوم میںرہنے کی وجہ سے ان پر بتوں کی حقیقت واضح ہوگئی (اس معاملہ مینحزقیل ؑ کو مسیح ناصر ی اور مسیح محمدی سے مشابہت حاصل ہے )
حزقیل اپنی کتاب کے پہلے باب میںبتاتے ہیںکہ کس طرح خداتعالیٰ نے اپنے آپ کو بابل میںظاہر کیا اور پھران کو نبوت کاکام سپرد کیاان کی کتاب کے باب ۳آیت ۲۶سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کے بتدائی دنوں میں حضرت زکریا ؑ کی طرح انہیںخاموش رہنے کاحکم ملا تھا ۔
حزقیل اپنی قوم کی دوبارہ نجات اور ترقی کی بھی خبر دیتے ہیں اور ایک لمبے عرصہ تک اس کے محفوظ رہنے کی پیشگوئی کرتے ہیں حزقیل نے دوبارہ یروشلم کے معبد بنانے کے متعلق بھی پیشگوئی کی ہے ۔اور اس کے متعلق ہدایتیں دی ہیں ۔ چنانچہ انکی کتاب باب ۴۰،۴۱،۴۲،۴۳،۴۴ میںوہ تمام قوانین بیان کئے گئے ہیں جن کے مطابق معبد بنایا جائے گا ۔اور جس کے مطابق کاہن کام کریں گے ۔
حزقیل فرشتوںکا ذکر نہیں کرتا لیکن وہ یہ ضرورکہتا ہے کہ روحیں اس کوا ٹھاکر لے گئیں او ریقینا اس سے یہی معلوم ہوتاہے کہ وہ فرشتوں کی طرف اشارہ کرتاہے ۔انسان کے متعلق حزقیل کی یہی تعلیم ہے کہ وہ مقدر ہے اور بد سے نیک اور نیک سے بد ہونیکی طاقت رکھتاہے ۔وہ اس کاطریقہ یہی بتاتاہے کہ انسان ارادہ کرے اورعزم کرلے ۔چنانچہ حزقیل باب ۱۸ میں تمثیل کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح اچھے باپ سے برا بیٹا اور برے باپ سے اچھا بیٹا پیداہوسکتاہے ۔ اور یہ کہ باپ کا گناہ بیٹے کو نہیں پہنچتا او راس کی سزا اس کو نہیںملتی چنانچہ وہ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ’’تم کہو گے کہ کیا بیٹا باپ کے گناہ کابوجھ نہیںاٹھاتا سو جبکہ بیٹے نے و ہ جو شروع میںدرست اور روا ہے کہااور اسنے میرے حکموںکو حفظ کیا تو وہ یقینا ًجئے گا ۔وہ جان جو گناہ کرتی ہے سو ہی مریگی بیٹا باپ کی بد کاری کابوجھ نہیں اٹھائے گا ۔نہ باپ بیٹے کی بدکاری کا بوجھ اٹھاویگا ۔صادق کی صداقت اس پر ہوگی اور شریر کی شرارت اس پرپڑیگی لیکن اگر شریر اپنی ساری خطائوں سے جواسنے کی ہیںباز آوے اور میرے سارے حکموںکو حفظ کرے او رجو کچھ شروع میں درست اور رواہے کرے تو وہ یقینا جیئے گا ۔وہ نہ مرے گا۔اس کے سارے گناہ جو اسنے کئے ا س کیلئے محسوب نہ ہونگے ۔ ’’ (حزقیل باب ۱۸ اایت ۱۹ تا ۲۲ ) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حزقیل تونہ کے ذریعہ سے دائمی زندگی کے قائل تھے ۔
پھر وہ توبہ پر زیادہ زور دیتا ہے اور کہتا ہے ’’ سو توبہ کرو اور اپنی ساری بدکاریوں سے باز آئو تاکہ بدکاری تمہاری ہلاکت کا باعث نہ ہو سارے برے کام جنہیںکر کے تم گناہ گار ہوتے ہو آپ سے جدا کر کے پھینک دو اور اپنے لئے ایک نیادل اور نئی روح پیدا کرو ۔ ‘‘ (آیت ۳۰ ،۳۱ ) (انسائکلو پیڈیا ببلیکا )
حزقیل کے متعلق یہودی لٹریچر میںلکھا ہے کہ وہ جوشوعا کی اولاد میں سے تھا۔ او ربعض کہتے ہیں کہ وہ یرمیاۃ کابیٹا تھا ۔حزقیل کے متعلق لکھاہے کہ اس نے یسعیاہ سے زیادہ تفصیل کے ساتھ خدا کے تخت گاہ کاحال بیان کیا لیکن یہودی علماء کہتے ہیں کہ اس کے یہ معنے نہیںکہ و ہ یسعاء سے بڑا تھا ۔اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی تھی ۔علماء یہود کے نزدیک حزقیل مردے زندہ کیا کرتے تھے اس کے متعلق بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ رویا تھی جس کو یہ شکل دے دی گئی ہے ۔(اس بارہ میں بھی ا نہیںمسیح سے مشابہت تھی )
سیمونیڈ یاکتاب موفانیبو کین باب ۲آیت ۴۶ جیوش انسائیکلوپیڈیا یاصفحہ ۳۱۵ کالم ۲ )
قرآن کریم میںبھی اس واقعہ کاذکر ہے اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ رویاہی تھی (سورہ بقرہ رکوع۳)
حزقیل جلا وطنی میں بابل کے پاس ہی فوت ہوئے اور ایک لمبے عرصہ تک ان کی قبر کی زیارت یہودی اور مسلمان کرتے رہے ۔چنانچہ ڈیر نمرود کے پاس کفلؔ جگہ پر یہ قبر بتائی جاتی ہے (اس جگہ کانام کفل ہونا صاف بتاتاہے کہ عربوںکیزبان میںحزقیل کانام ہی کفل تھا ) (جیوش انسائکلو پیڈیا)
حزقیل نبی بائبل کے مورخوں کے نزدیک ساتویں صدی قبل مسیح کے آخر میںپیدا ہوئے اور قریباً ۵۷۰سال قبل مسیح ؑ کے آخر تک زندہ رہے حزقیل نبی کادعویٰ تھا کہ خداتعالیٰ کی رویت ان کو حاصل ہوئی حزقیل زیادہ تر اپنی قوم کی تباہی کی خبریں دیتے ہیں چنانچہ اپنی کتاب کے باب ۲ میں انہوں نے ایک رویا بیان کی ہے جس میں ایک کتاب انہیں دکھائی گئی اور انہیں کہا گیا کہ تم اس کو کھالو اس کتاب پر لکھا تھا نوحہ مام او ر واویلا اس میں اشارہ کیاگیا تھا کہ ان کی ساری زندگی ان الفاظ کے ماتحت گذرے گی ۔ حزقیل کے زمانہ میں معلوم ہوتا ہے یہودیوں میں تہذیب بہت بڑھ گئی تھی اور وہ ایک مضبوط قوم بن گئے تھے گو سیاسی طور پر وہ کمزور ہوگئے تھے ان کی جتھ بندی کی وجہ سے کوئی شخص ان کو حق نہیں سنا سکتا تھا ۔جو حق بات کہتا تھا سارے اس کے پیچھے پڑجاتے تھے اسی وجہ سے باب ۳ میں حزقیل سے کہا گیا کہ جو کچھ میںتجھے کہوں وہ لوگوں کو پہنچا ۔ورنہ تو ذمہ دار ہوگا یہ وہی تعلیم ہے جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے کہ یاایھالرسول ۔۔۔۔۔۔ یعنی اے ہمارے رسول لوگوں کو وہ ساری تعلیم پہنچا جو میں نے تجھ پر نازل کی ہے اور اگر تو ساری تعلیم نہیںپہنچا ئیگا تو یہ سمجھا جائیگا کہ تو نے کوئی حصہ بھی نہیں پہنچایا ۔ باب ۵ میں بتایا گیا ہے کہ حزقیل کو استرے سے اپنے سر اور داڑھی کے بال منڈوانے کاحکم دیا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہودی داڑھی تو رکھتے تھے مگر اسے کوئی ضروری چیز نہیں سمجھا جاتا تھا ۔
باب ۶ میں حزقیل بتاتاہے کہ توحیدکی مخالفت کی وجہ سے یہود تباہ کئے جائیںگے مگر تھوڑے سے لوگ بچائے جائیںگے ۔
باب ۷ میں وہ پھر بنی اسرائیل کی تباہی کی خبر دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ خداتعالیٰ کی سچی جماعت جب بگڑتی ہے تو غیر قوموں کو اس پر مسلط کیاجاتا ہے اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ غیرقومیں خود بھی بری ہیں ۔وہ خواہ کتنی ہی بگڑی ہوئی ہوں سچی کتاب سے تعلق رکھنے والی جماعت پر انکو مسلط کردیاجاتا ہے تاکہ نبی کی جماعت توبہ کرے اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرے۔
باب ۹میں وہ بتاتا ہے کہ جو لوگ سچے دین سے تعلق رکھ کر بگڑتے ہیں ان کے حق میںشفاعت بھی قبول نہیں کی جاتی ۔
باب ۱۱میں وہ بتاتا ہے آخر بنی اسرئیل کو نجات دی جائیگی ۔اور وہ بابل کی حکومت کی قید سے آزاد ہوجائیںگے ۔
باب ۱۲ میں وہ یہودیوں کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ الٰہی کلام پر تمسخر اڑاتے ہیں اور پیشگوئیوں کو فضول قرار دیتے ہیں لیکن خداتعالیٰ حزقیل کی پیشگوئیوں کو سچا کرکے یہودیوں کو جھوٹا کریگا ۔اس باب میںایک آیت قرآن کریم کی ایک آیت کے نہایت ہی مشابہ ہے فرماتاہے:۔ ’’جن کی آنکھیںہیںکہ دیکھیںپروہ نہیںدیکھتے او ر ان کے کان ہیں کہ سنیں پروہ نہیں سنتے کیونکہ وہ باغی خاندان ہیں ‘‘(آیت ۲) قرآن کریم میںآتا ہے لھم۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ دیکھتے نہیں اوران کے کان ہیں مگر وہ سنیں گے نہیں۔وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں کیونکہ جانور تو پھر بھی کچھ سن لیتا ہے اور کچھ دیکھتا ہے ۔مگر یہ روحانی اندھے اور روحانی بہرے نہ کچھ دیکھتے ہیں اور نہ کچھ سنتے ہیں ۔
باب ۱۳ میں وہ ان لوگوں کو ملامت کرتاہے جو کہ جھوٹے طورپر خدارسیدہ بنتے ہیں ۔
باب ۲۹ میں وہ مصر کی بنو کد نضر کے مقابلہ میں ایک زبردست شکست کی خبر دیتا ہے مگر چالیس سال کے بعد وہ پھراس کے بحال ہونے کی بھی خبر دیتا ہے ۔
باب ۳۷ آیت ۱تا ۱۴ میں وہ اپنی ایک خواب کا ذکر کرتا ہے جو اس نے بنی اسرائیل کے دوبارہ زندہ کئے جانے کے بارہ میں دیکھا اس خواب کاذکر سورئہ بقرہ ع۳ میںبھی آتا ہے جہاں فرماتاہے۔ او کالذی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس شخص کے واقعہ پر غور کرو جو ایک ایسے شہر کے پاس سے گذرا جس کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنی چھتوں کے بل گراہو اتھا ۔اسکو دیکھ کر اس شخص نے کہاکہ اللہ تعالیٰ اس شہر کی ویرانی کے بعد اسے کب آباد کریگا ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے سوسال تک خواب میں مردہ رکھا پھر اسے اٹھایا اور فرمایا ۔اے میرے بندے تو کتنے عرصہ تک اس حالت میں رہا اس نے کہااے میرے رب میںاس حالت میں صرف ایک دن یادن کاکچھ حصہ رہا ہوںتب اللہ تعالی ٰنے فرمایا یہ بھی ٹھیک ہے ۔ اور تو اس حالت میں سوسال تک بھی رہا ہے ۔اب تو اپنے کھانے اور پینے کے سامان کی طرف دیکھ وہ سڑانہیںاور پانی گدھے کی طرف بھی دیکھ اور ان دونوں کاسلامت رہنا دیکھ کر سمجھ لے کہ تیرا خیال بھی اپنی جگہ درست ہے اور ہماری بھی اور ایسا ہم نے اس لئے کیا ہے تاکہ تجھے لوگوں کے لئے ایک نشان بنائیںاور تو ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم انہیں کس طرح اپنی اپنی جگہ رکھ کر جوڑتے ہیں پرجب اس پر حقیقت پورے طور پر ظاہر ہو گئی ۔تو اس نے کہا۔میںعلی وجہ البصیرت جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قادر ہے ۔
عوام یہودیوں نے اس خواب کے یہ معنے لئے ہیںکہ حزقیل گویا مردے زندہ کرتے تھے لیکن چوٹی کے علماء نے یہ تشریح کی ہے کہ دوحقیقت یہ ایک خواب تھا یہی غلط فہمی قرآن کریم کی اس آیت کے متعلق بھی ہوئی عام طور پر لوگوں نے یہ خیال کرلیا کہ سورئہ بقرہ کی مذکورہ بالا آیت میںمردہ کے زندہ کرنے کا ذکر ہے ۔حالانکہ مردہ زندہ کرنے کا ذکر نہیں۔ایک مردہ قوم کے زندہ ہونے کاذکر ہے ۔ باب ۳۸،۳۹میں وہ یاجوج ماجوج کی خبر دیتاہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح وہ دنیا پر چھاجائینگے لیکن آخر اللہ تعالیٰ ان کی تباہی کے سامان کریگا ۔پھرباب ۴۰ سے آگے وہ یروشلم کے دوبارہ بنائے جانے کی تفصیلیںبیان کرتا ہے سارے باب اسکی کتاب کے ۴۸ ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ان تینوں نبیوںکا ذکر کرکے فرماتا ہے کہ کل من ۔۔۔۔ اور اس سے اشارہ کرتا ہے کہ ایوب ؑ کے بعد ہم نے ان تینوں نبیوں کاذکر اس لئے کیا ہے کہ یہ بھی صابرتھے اور ایوب ؑ سے مصیبت برداشت کرنے میںمشابہت رکھتے تھے ۔چنانچہ حضرت اسماعیل ؑ کو اپنے باپ اورملک کی جدائی اختیار کرنی پڑی اور ادریس ؑ اور ذوالکفل ؑ کا بھی مختلف مصائب اور آفات میں سے گذر نا پڑا جیسا کہ ان کے حالات سے ظاہر ہے ۔
آیت نمبر۸۷
ترجمہ :۔ اورہم نے ان سب کو اپنی رحمت میںداخل کیا تھا اور وہ سب نیکوکار تھے ۵۰؎
۵۰؎ تفسیر:۔
اس میںیہ بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ صابر بھی تھے مگر خداتعالیٰ نے ان پررحمتیںبھی بڑی نازل کی تھیں جس طرح حضرت سلیمان ؑ اور حضرت ایوب کو بڑی دنیوی عزت بھی دی تھی ۔اسی طرح ان تینوں انبیا ء کوبڑی دنیوی عزت بھی بخشی گئی تھی ۔مگر ان پرمصائب بھی بڑے آئے ۔
آیت نمبر۸۸‘۸۹
ترجمہ :۔ اور ذالنون یعنی یونس کو بھی یاد کرجب وہ غصہ کی حالت میںچلاگیااوردل پریقین تھا کہ ہم اس کو تنگ نہیںکریںگے پس مصائب میں اس نے ہم کو پکارا اور کہا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔تو پاک ہے ۔میںیقینا ظلم کرنے والوں میںسے تھا پس ہم نے اس کی دعا کو سنا اورغم سے اسے نجات دی ۔اور ہم اسی طرح مومنوں کو نجات دیا کرتے ہیں ۔ ۵۱؎
۵۱؎ حل لغات :۔ النون کے معنے ہیںالحوت یعنی مچھلی (اورب)پس ذالنون کے معنے ہوئے مچھلی والا ۔ ظن ۔۔۔کے معنے ہوتے ہیںعلمہ ۔۔۔کسی چیز کو معلوم کرلیااور اسکا یقین کرلیا (اقب) نقدر علیہ :۔ قدر سے مضارع جمع متکلم کاصیغہ ہے اور قدراللہ علیہ کے معنے ہوتے ہیںتضی۔۔۔اللہ نے اس کے خلاف فیصلہ کیا۔او رقدر ۔۔۔۔کے معنے ہیں ضیق اسنے اہل وعیال پرتنگی کی (اورب ) پس لن نقدر علیہ کے معنے ہونگے (۱) ہم تنگی نہیںکریںگے (۲) ہم اس کے خلاف فیصلہ نہیںدیںگے ۔
۵۱؎ تفسیر:۔
اب یونس نبی کاحال بیان کرتاہے کہ وہ بھی ان سب نبیوں سے مشابہت رکھتے تھے ان کو بھی ایک وقت میںتکالیف پہنچیں مگر دوسرے وقت میںخداتعالی ٰنے انکو بڑی عزت بخشی ۔چنانچہ فرماتا ہے کہ ایک دفعہ وہ ناراض ہوکر اپنے ملک سے نکل گئے مگر دل پریقین تھاکہ ہم اس پر تنگی نازل نہیں کرینگے چنانچہ مصیبت کے وقت انہوںنے اللہ تعالی ٰکو پکارا کہ اے خداتیرے سوا کوئی معبود نہیںتو پاک ہے غلطی مجھ سے ہی ہوئی ہے ۔
بائبل کی کتاب یوحناہ میںیونس نبی کا حال اس طرح درج ہے کہ خدا کی طرف سے ان کو نینوا کی طرف جو ایک بڑا اور شرارتی شہر تھا جانیکا حکم ہو ااور کہا گیا کہ وہ اس کے خلاف پیشگوئی کریں ۔مگر حضرت یونس ڈرے کہ نینوا والے توبہ کرلیں گے اور عذاب سے بچ جائیںگے پس وہ نینوا جانے کی بجائے یافاچلے گئے اور ترشیش کی طرف جانے والے ایک جہاز میںسوار ہوگئے لیکن دفعۃًجہاز کو طوفان نے آگھیر ا۔ملاحوں نے دیوتائوں سے بہت دعائیں کیںمگر کچھ فائدہ نہ ہوا ۔آخر قرعہ ڈال کر انہوں نے معلوم کرناچاہا کہ یہ عذاب کس کے سبب سے آیا ہے ۔اس پر حضرت یونس ؑ کانام قرعہ نکلااور انہوں نے ان سے جاکر حال پوچھا ۔انہوں نے اپنا سب حال بتایا اور کہا کہ میں خداتعالیٰ کے حکم سے بھاگا ہوں مجھے پانی میںپھینک دو اس طرح عذاب سے محفوظ رہوگے ۔چنانچہ لوگوں نے انہیں پانی میںپھنک دیااور طوفان تھم گیا۔خداتعالیٰ نے ایک مچھلی کوحکم دیااور وہ حضرت یونس ؑ کو نگل گئی ۔اس کے پیٹ میں حضرت یونس تین دن رات رہے آخر ان کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے سنا اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیںاگلدے چنانچہ مچھلی نے ان کواگل دیا۔اس واقعہ کاذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ہم نے ان کی دعاسن لی اور ان کو غم سے نجات دی اور مومنوں کو ہم اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں۔
حضرت یونس ؑ کی اس دعا سے قبولیت دعا کاایک گر معلوم ہوا ہے جسے ہمیشہ اپنے مدنظر رکھنا چاہئے اور وہ یہ کہ دعا سے پہلے انسان کوچاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کر لیا کرے اور پھراپنی دعا اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا کرے ۔ چنانچہ دیکھ لوحضرت یونس ؑ نے پہلے یہی کہاکہ لاالہ الاانت ۔۔۔۔۔ یعنی اے میرے رب تو کامل تعریف کامستحق ہے اور تیرے سوا اور کوئی معبود قابل پرستش نہیںاور پھرتو ہر قسم کے نقائص اور عیوب سے منزہ ہے ۔ اس تسبیح و تحمیدکے بعد انہوںنے اپنامدعا پیش کیا اور اللہ تعالیٰ سے اپنی مصیبت میں مدد چاہی یہی طریق ہر مومن کو اختیار کرناچاہیے او دعا میںتسبیح وتحمید کو مقام سمجھنا چاہئے دنیا میںبھی جب کسی کے دروازہ پر کوئی سائل آتا ہے تو وہ پہلے مالک مکان کی تعریف کرتا ہے اور اس کی خوبیوں کے گیت گاتاہے ۔اورپھر اپنا مدعا پیش کرتا ہے او رسمجھتا ہے کہ اب میرا آنارائیگاں نہیں جائگا ۔یہی طریق عمل دعا میںاختیار کرناچاہئے اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کی عظمت وجبروت کااقرار کرنے اور اس کی تسبیح و تحمید کرنے کے بعد حرف مدعازبان پرلانا چاہئے ۔
آیت نمبر۸۸‘۸۹
ترجمہ:۔ اور زکریاکو بھی یاد کر جب اس نے اپنے رب کوپکارا تھااور کہاتھا کہ اے میرے رب مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو وارث ہونیوالوں میں سے سب سے بہتر ہے اور ہم نے اس کی دعا کو سنااور اس کو یحیٰ عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کی خاطر تندرست کردیا۔وہ سب لوگ نیکیوں میں جلد ی کرتے تھے اور ہم کومحبت اور خوف سے پکارتے تھے۔اور ہماری خاطر عجز کی زندگی بسر کرتے تھے ۔ ۵۲؎
۵۲؎ حل لغات :۔ رھبا ً رھب الرجل رھباً کے معنے ہیںخاف وہ ڈرا (اقرب) پس رھب کے معنے ہونگے ڈراو رخوف ۔
۵۲؎ تفسیر:۔
پھر زکریاؑ کا واقعہ بیان کرتا ہے کہ وہ بھی اسی جماعت میں شامل تھے ۔ اور فرماتاہے کہ زکریا ؑ کو بھی یاد کرو جب اس نے اپنے رب سے دعا کی اور کہا کہ اے میرے رب مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے تب ہم نے اس کی دعاسنی اور اسکی بیوی کی اصلاح کی اور اس کو یحیٰ عطاکیا ۔(دیکھ لو ۔اصولی طور پر اس سرے گھرانے کے حالات حضرت ایوب ؑ سے ملتے ہیں ) پھر وجہ بیان کرتا ہے کہ ہم نے ان لوگوں کی تنگیوں کو کیوں بدل دیا اس لئے کہ یہ گروہ نیکی کرنے میںجلدی کرتا تھااور ہمارے انعام کی رغبت سے اور ہماری سزا کے خوف سے ہمیں پکاراتارہتا تھا ۔اور ہمیشہ ہمارے حضور عاجزی کیاکرتا تھا۔
آیت نمبر۹۰
ترجمہ :۔ او ر اس عورت کو بھی یادکر جس نے اپنے ماموس کی حفاظت کی پس ہم نے اس پراپنا کچھ کالم نازل کیا ۔اور اسکو اور اس کے بیٹے کو دنیاکے لئے ایک نشان بنایا ۔یہ تمہاری امت (یعنی تمہارے ابدی دشمن ) ایک ہی راہ چلنے والے تھے اور میںتمہارا رب ہوں ۔پس تم میری ہی عبادت کرو ۔ ۵۳؎
۵۳؎ تفسیر:۔
پھرحضرت مریم کاذکر کرتاہے کہ وہ جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی تھی اس کو بھی یاد کرو ۔اس پرہم نے اپنا کلام نازل کیا تھا ۔اور اس کے بیٹے کو تمام دنیا کے لئے نشان بنادیا تھا۔اور یاد رکھو کہ یہ ساری جماعت ایک ہی قسم کی جماعت ہے اور میںتم سب انسانوں کا رب ہوں ۔پس میری عباد ت کرو ۔
آیت نمبر۹۴
ترجمہ :۔اور انہوں نے (یعنی انبیاء کے مخالفوںنے ) شریعت کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے اندر تقسیم کر لئے تھے۔ (حالانکہ ) وہ سب ہماری طر ف لوٹائے جانے والے ہیں ۔ ۵۴؎
۵۴؎ حل لغات :۔ تقطعو ۔تقطع سے جمع کاصیغہ ہے اور تقطع ۔۔۔۔۔ کے معنے ہیں تقسمہ ۔۔ انہوںنے اپنے معاملے کو تقسیم کرلیا ۔وقیل ۔۔۔۔ اور بعض ماہرین لغت کہتے ہیں کہ تقطع ۔۔۔۔۔ کے معنے ہیں انہوںنے اپنے معاملے میں اختلاف کیا ۔(اقرب)
۵۴؎ تفسیر:۔
فرماتا ہے ان انبیاء کے مخالف لوگ ایسے تھے کہ انہوںنے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا مگر آخر وہ سب ہماری طرف ہی آئیںگے اور ہم انکا حساب ان سے لیںگے ۔
آیت نمبر۵۹
۵۵؎ ترجمہ :۔اور جو کوئی مناسب حال عمل کرے گا اورساتھ ہی مومن بھی ہوگا ۔تو اسکی کوشش کو رد نہ کیا جائے گا ۔ اورہم اسکے نیک اعمال کو لکھ رکھیں گے ۔
۵۵؎ تفسیر:۔
پس جو کوئی اچھے عمل کرے گا اور ساتھ ہی مومن بھی ہوگا تو اس کی کوشش ضائع نہیں جائے گی اورہم اس کے سب نیک اعمال لکھتے چلے جائیں گے ۔
آیت نمبر۹۶‘۹۷
ترجمہ :۔ اور ہر ایک بستی جسے ہم نے ہلاک کیا ہے اس کے لئے یہ فیصلہ کردیاگیا ہے کہ اس کے بسنے والے لوٹ کر اس دنیامیںنہیں آئینگے یہاںتک کہ جب یاجوج اور ماجوج کے لئے دروازہ کھول دیاجائیگا ۔اور وہ ہرپہاڑی اور ہر سمندر کی لہر پرسے پھلانگتے ہوئے دنیامیںپھیل جائیںگے ۔
۵۶؎ حل لغات:۔ حدب کے معنے ہیں الموج پانی کی موج یا لہر ۔اسی طرح اس کیء معنے ہیں الغلظ۔۔۔۔ سخت اونچی زمین (اقرب) مفردات میں ہے الحدب ۔۔۔۔۔ زمین پر اٹھی ہوئی جگہ یعنی ٹیلہ ۔ینسلون۔۔۔۔ نسل سے مضارع جمع مذکر غایب کاصیغہ ہے اور نسل الماش ۔ کے معنے ہیں اسراع۔۔چلنے والے نے اپنی رفتار میںجلدی کی ۔ (اقرب)
۵۶؎ تفسیر
فرماتاہے ہر بستی جس کو ہم فنا کرچکے ہیں اس پر اس وقت تک واپس لوٹنا حرام ہے جب تک کہ یاجوج اورماجوج کو آزاد نہ کردیاجائے اوروہ ہر پہاڑ کی چوٹی اور سمندر کی ہر لہر پر سے پھلانگتے کودتے دنیامیں پھیل نہ جائیں یعنی آخر ی زمانہ میں جبکہ یاجوج اور ماجوج یعنی روس اور مغربی ممالک کو دنیامیںپھیلنے کیلئے آزاد کردیا جائے گا اور وہ تمام دنیاپر پہاڑ کی ہرچوٹی اور سمندر کی ہر لہر سے کودتے پھاندتے ہوئے پھیل جائینگے یعنی ان قوموں کاغلبہ ہوجائے گا ۔ جیسا کہ آج کل ہورہا ہے ۔تو اس کے بعد ان کی تباہی کے متعلق ہمارا وعدہ پور ہوگا ۔
چونکہ پہاڑ کو چوٹیاں اورسمندر کی لہرین اونچی ہوتی ہیں اس لئے یہ دو قومیں جن کے لئے پہاڑوں اور سمندروں کی لہروں کے اوپرسے پھلانگتے اور کودتے ہوئے دنیامیںپھیل جانا مقدر تھا ان کے متعلق ینسلون کا لفظ استعال کیا گیا ہے آجکل کا زمانہ وہی ہے کہ ایک طرف روس آدھی دنیاپر قابض ہے اور دوسری طرف مغربی ممالک دوسرے حصہ دنیا پر قابض ہیں ۔
اور دونوں اپنے اپنے اصول کو لوگوں میں راسخ کرنے کی فکر میں ہیں ایک فریق جمہوریت کو اس کے تمام ایوب سمیت دنیا میںترقی دینے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسرا فریق قابلیت اور لیاقت کو ترقی دینا چاہتا ہے اور جمہوریت کو روح کو دبانا چاہتا ہے ۔یہ دو اصول اس وقت دنیا میں ایک دوسرے کے مقابلے میںغلبہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ایک اصل تو اس بات کی جدوجہد میںمشغول ہے کہ افراد کی طاقت کو بڑھاکر دنیا میںغلبہ حاصل کیاجائے اور دوسرا اصل اس غرض کیلئے کوشاں ہے کہ اعلیٰ قابلیت کو راہنمائی کی باگ ڈور دے کر دنیا پر غلبہ حاصل کیاجائے ۔ان دونوں گروہوں نے دنیا پر کامل طور پر غلبہ حاصل کیا ہوا ہے ۔اور ساری دنیا ان دو گروہوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی ہے ۔ اسلام ان دونوں کے خلاف اور ان دونوں سے بالکل الگ ایک درمیانی راہ پیش کرتاہے ۔ وہ انفرادیت کو بھی نظر انداز نہیںکرتا ۔
اور وہ چیدہ افراد کی طاقتوں سے کام لینے کو بھی نا پسند نہیں کرتا ۔وہ یہ اجازت بھی نہیںدیتا کہ افراد کی حریّت کو کچل دیا جائے ۔اور یہ بھی اجازت نہیںدیتا کہ چیدہ افراد کی قابلت سے دنیا کو محروم کردیا جائے ۔غرض اسلامی تعلیم کادائرہ اپنی وسعت کے ساتھ ان دونوں گروہوں پر حاوی ہے اوروہ دونوں کے درمیان ایک راستہ بتاتاہے۔وہ ایک طرف تو یہ تسلیم کرتاہے کہ سب انسانوں میں ذہنی مساوات نہیں بعض دماغ زیادہ قابلیت رکھتے ہیں ۔اور بعض کم بعض زیادہ قربانیاں کرسکتے ہیں اور بعض کم ۔ بعض زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں اور بعض کم پس قوم کو زیادہ سمجھدا ر زیادہ عقلمند اور زیادہ فہیم و تدبر رکھنے والوںکی قابلیت سے محروم نہیں کرنا چاہئے مگر دوسری طرف وہ یہ بھی تسلیم کرتاہے کہ افراد کی مجموعی رائے بھی بڑی طاقت رکھتی ہے ۔اوراس کو نظر انداز کرنا اتنا آسان نہیںہوتا ۔جتنابعض لوگ خیال کرتے ہین اور نہ اسے نظر انداز کرنا انسانی ترقی کومدنظر رکھتے ہوئے مناسب ہے ۔
بہر حال یہ دونوں اصول آجکل کلی طور پر دنیا کو تقسیم کئے ہوئے ہیں ۔آدھی دنیا ایک طرف ہے اور آدھی دوسری طرف ۔یعنی آدھی دنیا مغربی ڈیما کریسی کی دلدادہ ہے اور آدھی دنیا ڈکٹیٹر شپ کی طرف مائل ہے مگر خدا تعالیٰ کا کلام بتاتاہے کہ آخر اسلام کو فتح حاصل ہوگی اور مخالف اسلام طاقتیں تو ڑدی جائینگی ان طاقتوں نے دنیا میںبہت دیر تک حکومت کر لی ہے ۔ اب خدا کی غیر ت بھڑک رہی ہے اب محمد رسول اللہ ﷺ کی حکومت دنیا میںپھر قائم کی جائے گی خدا کی بادشاہت پھراس زمین پر لائی جائیگی ۔خدا کے وجود کے دشمن مٹائے جائیں گے خواہ دنیا کی کتنی بڑی قومیں ان کی تائید میںکھڑی ہوجائیں ۔اور یقینا وہ دن دنیا کے لئے بڑا مبارک ہوگاہمارا خدا پھر اپنے تخت پر بٹھایا جائیگا ہمارے رسول کا جھنڈا پھرہوامیںلہرائیگا ۔اور وہ امن اور صلح کا پیغام جو محمد رسول اللہ ﷺ نے دیا تھا دنیا میں پھیلے گا اور دشمنو کی زبانیں بند ہوجائیں گی اور وہ اپنے منہ سے اس بات کااقرار کریںگے کہ وہ خدا کے مقدس پر خاک ڈالنے میںناکام رہے ہیں اور اپنے اس فعل پر وہ سخت شرمندہ اور مادم ہونگے ان آیا ت کے متعلق ایک یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس جگہ جو یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ تمام قومیں جو ہلاک ہوچکی ہیں ان کے متعلق ہمارا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ وہ دوبارہ اس دنیا میںواپس نہیں آئیں گی یہاں تک کہ یاجوج ماجوج کے زمانہ میں مردے زندہ ہونے لگ جائیںگے کیونکہ قرآن کریم دنیا میںمردوں کے دوبارہ زندہ ہونیکا قطعی طور پر منکر ہے وہ صاف طورپر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بعض ارواح یہ استدعا کریں گی کہ ان کو واپس کیا جائے تاکہ وہ دوبارہ نیک اعمال کریں اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کلًا۔۔۔۔۔۔ ایسا ہرگز نہیںہوسکتا کیونکہ قیامت تک روحوں اور اس دنیا کے درمیان ایک حد فاصل مقرر کردی گئی ہے اور کوئی روح اس دنیا کی طرف واپس نہیں لوٹ سکتی پس دنیا میں مردوںکا دوبارہ احیا ء قرآنی تعلیم کے روسے بالکل ناممکن ہے پھر سوال پیش ہوتا ہے کہ اس آیت کاکیا مفہوم ہے ۔سو جیسا کہ خلاصہ مضامین میںبیان کیا جاچکا ہے اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ جب کوئی قوم ہلاک ہوجاتی ہے سنت الٰہیہ کے مطابق اسے دوبارہ ا ٹھنے کاموقعہ نہیں ملتالیکن یاجوج اور ماجوج کے زمانہ میںان کی تباہی و بربادی کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نئی رو چلے گیا جس کے نتیجہ میں کفر کا نظام لپیٹ دیاجائیگا اور وہ مسلمان جن میںزندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے پھر ایک فاتح اور طاقتور قوم کی شکل اختیا ر کرلیں اور اسلام دنیا پرغالب آجائے گا ۔
آیت نمبر۹۸تا۱۰۱
ترجمہ :۔ اور خدا کا سچا وعدہ قریب آجائیگا تو اس وقت کا فروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور وہ کہیں گے ہم پر افسوس ہم تو اس دن کے متعلق سخت غفلت میںپڑے رہے بلکہ ہم لوگ تو ظالم تھے اسوقت کہاجائیگا تم بھی اور جن چیزوں کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے تھے سب کی سب جہنم کا ایندھن بنیںگی ۔تم سب اس میںداخل ہوگے اگر وہ ہستیاں جن کو یہ لوگ معبود بناتے ہیں واقعہ میں معبود ہوتیں تو پھر وہ کبھی جہنم میںنہ جاتیں اور یہ ہستیاں تو مدتوں اس میںپڑی رہیں گی۔وہ اس میںچیخیں گے اور وہ اس میںسمجھانے والوں میں سے کسی کی بات نہیں سنیںگے۔۔۵۷؎
۵۷؎ حل لغات :۔ شاخمۃ شخص سے اسم فائل مونث کاصیغہ ہے ۔اور شخص ۔۔۔کے معنے ہیں فتح ۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنی دونوں آنکھوں کو کھولا اور وہ اس طرح کھلی رہیں کہ وہ حرکت نہ کرتی تھیں ۔گویا ایک طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھنا شروع کردیا اور کسی اور طرف نہ دیکھ سکا اسی طرح شخص ببعرہ کے معنے ہیں دفعہ ۔آنکھ کو اٹھایا ۔(اقرب ) پس شاخمۃ کے معنے ہونگے اوپر اٹھنے والی اور ٹکٹکی لگا کر دیکھنے والی آنکھ
زفیر :۔۔ کے معنے الداھیتہ ۔مصیبت اول ۔۔۔۔۔کی ابتدائی آواز جئو اس کے گلے سے نکلتی ہے جو چیخ کے مشابہ ہوتی ہے (اقرب) مفردات میں ہے الطفیر ۔۔۔۔۔۔ یعنی سانس کا اس طور پر آنا کہ اس سے پسلیاں پھول جائیں (مفردات )
۵۷؎ تفسیر:۔
فرماتا ہے جبگ وعدہ کے پورا ہونے یعنی ان قوموں کے سزا پانے کاوقت آجائیگا تو گھبراہٹ میں ان کی آنکھیں چڑھی کی چڑھی رہ جائیںگی ۔اور وہ اپس میںکہیں گے افسوس ہم اس سے غفلت برتتے رہے بلکہ ہم گناہوں میں بڑھتے چلے گئے تب اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ تم اور تمہار ے معبود آج جہنم میںجائو گے اگر تمہارے معبود سچے ہوتے تو اس ذلت کو کیوں برداشت کرتے ؟ اس آیت میںاس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ گو وہ گمراہی کا زمانہ ہوگا مگر بت پرستی مٹا دی جائیگی اسی طرح اس میںیہ بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک وقت میںتو یہ قومیںبڑا فخر کر ینگی مگر جب سزا کاوقت آجائیگا تو چلانے لگیں گی اور ایک دوسرے سے تعاون چھوڑدیں گی ۔
آیت نمبر۱۰۲تا ۱۰۴
ترجمہ:۔ یقینا وہ لوگ جن کے متعلق ہماری طرف سے نیک سلوک کا وعدہ ہوچکا ہے وہ اس دوزخ سے دور رکھے جائیںگے ۔وہ اس کی آواز تک نہیںسنیںگے ۔اور وہ اس حالت میں جسے ان کے دل چاہتے ہیںہمیشہ رہیں گے ۔بڑی پریشانی کا وقت بھی ان کو غمگین نہیں کرے گا اور فرشتے ان سے ملیں گے او رکہیں گے یہ وہ تمہارا دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ۔ ۵۸؎
۵۸؎ حل لغات :۔ حسیس کے معنے ہیں الصوت الخفی ۔ہلکی آواز (اقرب)
۵۸؎ تفسیر:۔
یعنی جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے بشارتیں ہونگی وہ ان عذابوںسے بچائے جائیںگے اور ان کی بھنک تک نہ سنیںگے او ر جو کچھ ان کے دل چاہیں گے ان کو ملے گا ۔ اور ایک لمبے عرصہ تک یہی سلوک ہوتا چلا جائیگا ۔بڑے عذاب کی تباہی ان کو غمگین نہیں کرے گی ۔اور فرشتے ان پر نازل ہونگے اور ان کو تسلی دیتے ہوئے کہیں گے کہ اس دن کا تم سے وعدہ کیاجاتا تھا ۔
آیت نمبر۱۰۵
ترجمہ :۔ جس دن ہم آسمان کو اسطرح لپیٹ دینگے جس طرح نہیاں تحریر کو لپیٹ لیتی ہیں جس طرح ہم نے تمہاری پیدائش کو پہلی دفعہ شروع کیا تھا اسی طرح پھر اسکو دہر ائینگے یہ ہم نے اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے ہم ایساہی کرنیکا ارادہ رکھتے ہیں ۔ ۵۹؎
۵۹؎ حل لغات :۔ تطوی طویٰ سے جمع متکلم کا صیغہ ہے او طوی۔۔۔کے معنے ہوتے ہیں نقیض ۔۔۔ صحیفہ کو لپیٹا اقرب) پس نطوی کے معنے ہونگے ہم لپیٹیں گے ۔ اور کطی ۔۔۔کے معنے ہیں طئے لکاتب ۔۔۔یعنی جس طرح کاتب کتاب کو لپیٹ دیتا ہے ۔(اقرب)
۵۹؎ تفسیر:۔
فرماتاہے ۔یہ وہ دن ہوگا کہ ہم آسمان کو یعنی اس وقت کی بادشاہیوں کو اسطرح لپیٹ دیںگے جس طرح کتاب کا صیفحہ تحریر کو لپیٹ دیتا ہے اور ہم اعلان کردیںگے کہ جس طرح ہم نے تم کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کریںگے یہ پکا وعدہ ہے جس کو ہم پورا کرکے چھوڑیںگے ۔
آیت ۱۰۶تا ۱۰۸
ترجمہ :۔ اور ہم نے زبور میں کچھ نصیحتیں کرنے کے بعد یہ لکھ چھوڑا ہے کہ ارض مقدس کے وارث میرے نیک بندے ہونگے ۔اس مضمون میں ایک پیغام ہے اس قوم کیلئے جو عبادت گذار ہے ۔اور ہم نے تجھے دنیا کے لئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔۶۰؎
۶۰؎ حل لغات :۔ بلاغ کے معنے ہیں الا ۔۔۔۔۔۔ اپنے مقصد اور مدعا کی انتہا ئی حد تک پہنچنا ۔نیز اس کے معنے ہیں التبلیغ پہنچانا اسی طرح اس کے معنے الکفایۃ کے بھی ہیں یعنی کافی ہوتاہے۔(مفردات)
۶۰؎ تفسیر:۔
فرماتا ہے ہم نے زبور میں کچھ شرائط بیان کرنے کے بعد یہ بات لکھ چھوڑی ہے کہ ارض مقدس کے وارث ہمارے نیک بندے ہونگے اس میںعبادت گذار بندوں کے لئے ایک پیغام ہے اور ہم نے تجھ کو ساری دنیا کی طرف رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔مطلب یہ ہے کہ بائبل میں جو یہ پیشگوئی تھی کہ صرف خدا کے نیک بندے ارض مقدس میں رہیں گے اس سے کوئی اس وقت دھوکا نہ کھائے جبکہ بنی اسرائیل اس ملک پر غالب آجائیںگے ۔کیونکہ اس پیشگوئی میںاس طرف بھی اشارہ تھاکہ اگر کوئی وقفہ پڑا تو پھر خدا کے بندے اس ملک پر غالب آجائیںگے اس لئے فرماتاہے کہ عبادت گذار بندوں کے لئے اس میں ایک پیغام ہے یعنی مسلمانوں کو تو ہوشیا ر کردے کہ ایک وقت ایسا آئیگا کہ پھر بنی اسرئیل اس پر قابض ہو جائینگے اس لئے یہاں عابدین کا لفظ دائود ؑ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کیا اور بتایا کہ میرے بندوں کو کہہ دے کہ ہوشیار ہوجائو۔اگر کسی وقت تم نے میرے عباد بننے میںکمزوری دکھائی تو پھر اللہ تعالیٰ یہودیوں کو اس ملک میںواپس لے آئے گا لیکن مسلمانوں کو چاہئے کہ پھر عبادت گذار بن جائیں ۔اس کے نتیجہ میںوہ پھر غالب آجائینگے اور ان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ رسول کریم ﷺ سب زمانوں کے لئے رحمت ہیں اور رسول کریم ﷺ کا زمانہ اس وقت ختم نہیں ہوجاتا جب بنی اسرئیل فلسطین پرقابض ہوں ۔بلکہ اس کے بعد بھی وہ زمانہ ہے جس کے لئے رسول کریم ﷺ رحمت ہیں ۔پس مایوس نہیں ہوناچاہئے جب دوبارہ رحمت الٰہی جوش میں آجائیگی مسلمان دوبارہ فلسطین میں غالب آجائیںگے ۔
اس آیت میںزبور کی جس پیشگوئی کی طرف اشارہ کیاگیا ہے اس کازکر زبور باب ۳۷ میں آتا ہے اس میںلکھا ہے ۔
’’ تو بد کردارں کے سبب سے بیزار نہ ہو ۔ اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر کیونکہ وہ گھاس کی طرح جلد کاٹ ڈالے جائیںگے ۔اور سبزہ کی طرح مرجھا جائیں گے ۔ خداوند پر توکل کر اور نیکی کر ملک میں آباد رہ اس کی وفاداری سے پرورش پا خداوند میںمسرور رہ ۔اور وہ تیرے دل کی مرادیں پوری کرے گا ۔اپنی راہ خداوند پر چھوڑ دے اور اس پر توکل کر وہی سب کچھ کرے گا ۔وہ تیری راست بازی کو نور کی طر ح اورتیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا ۔خداوند میں مطمئن رہ اور صبر سے اس کی آس رکھ اس آدمی کے سبب سے جو اپنی راہ میں کامیاب ہوتا اور برے منصوبوں کو انجام دیتاہے ۔بیزار نہ ہو ۔قہر سے باز آاور غضب کو چھوڑ دے ۔بیزار نہ ہو ۔اس سے برائی ہی نکلتی ہے کیونکہ بد کردار کاٹ ڈالے جائیںگے ۔لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہونگے ۔کیونکہ تھوڑی دیر میں شریر نابود ہوجائے گا ۔تو اس کی جگہ کو غور سے دیکھے گا ۔ پروہ نہ ہوگا لیکن حلیم ملک کے وارث ہونگے ۔اور سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہیںگے ۔‘‘
(زبور باب۳۷ آیت ا تا ۱۱)
اسی طرح زبور باب ۳۷ آیت ۲۹ میں لکھا ہے ۔ ’’ صادق زمین کے وارث ہونگے اور اس میںہمیشہ بسے رہیں گے ۔‘‘
مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وعدہ ارض مقدس کے متعلق بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا ۔یہ کوئی غیر مشروط وعدہ نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ نیکی اور تقویٰ اور صلاحیت کی شرط لگائی گئی تھی اور انہیںکھلے طور پر بتادیاگیاتھا کہ اگر تم نے شرارتوں پر قمر باند لی اور بد کرداریوں کو اپنا شیوہ بنالیا تو یہ ملک تم سے چھین لیا جائے گا ۔چنانچہ حضرت موسیٰ ؑ نے انہیں انتباہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم سرکشی پیدا ہوگئی تو ۔’’جیسے تمہارے ساتھ بھلائی کرنے اور تم کو بڑھانے سے خداوند خوشنود ہو ا ایسے ہی تم کو فنا کرانے اور ہلاک کرڈالنے سے خداوند خوشنود ہوگا ۔ اور تم اس ملک سے اکھاڑ دیے جائو گے ۔ جہاں تو اس پر قبضہ کرنے کو جارہا ہے ۔اور خداوند تجھ کو زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں میں پراگندہ کرے گا ۔ وہاں تو لکٹری اور پتھر کے اور معبودوں کی جن کو تو یا تیرے باپ دادے جانتے بھی نہیں پرستش کرے گا۔ ‘‘ (استثنا ء باب ۲۸آیت ۶۳ ،۶۴ )
مگر اس کے ساتھ ہی اللہ تعالی ٰنے حضرت موسیٰ ؑ کو یہ بھی خبر دے دی کہ ا س عذاب کے بعد بنی اسرائیل نے اپنے اندر تبدیلی پیدا کی تو ان پر پھر رحم کیاجائیگا ۔چنانچہ فرمایا ۔
’’خداوند تیر خداتیری اسیری کو پلٹ کر تجھ پر رحم کریگا اور پھر کر تجھ کو سب قوموں میںسے جن میںخداوند تیرے خدانے تجھ کو پراگندہ کیا ہو جمع کرے گا اگر تیرے آوارہ گروہ دنیا کے انتہائی حصوں میں بھی ہوں تو وہاں سے بھی خداوند تیر اخدا تجھ کو جمع کر کے لے آئیگا ۔‘‘
(استثناء باب ۳ آیت ۳ ،۴)
گو یا حضرت موسیٰ ؑ کے ذریعہ بنی اسرائیل کو یہ خبر دی گئی تھی کہ جب تمہاری شرارتیں بڑھ گئیں تو یہ ملک تم سے چھین لیاجائیگا ۔ مگر اس کے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے گا اور یہ زمین پھر تمہارے سپرد کر دی جائے گی ۔مگر اس کے بعد پھر دوبارہ ایک تباہی کی خبر دی گئی اور بتایا گیا کہ یہود پھرسرکش ہوجائیںگے اور پھر ان پر الٰہی عذاب نازل ہوگا اور وہ اس ملک سے نکال دیئے جائنگے ۔چنانچہ حضرت موسیٰ ؑ نے اس کی بھی پیشگوئی کی ۔اور فرمایا کہ ۔
’’انہوں نے اجنبی معبودوں کے باعث غیرت اور مکروہات سے اسے غصہ دلایا ۔۔۔۔۔۔خدا وند نے یہ دیکھ کر ان سے نفر ت کی کیونکہ اسکے بیٹوں او بیٹیوںنے اسے غصہ دلایا (اس جگہ تمام یہودی مردوں اور عورتوں کو خداتعالیٰ کے بیٹے او ربیٹیاں قرار دیا گیا ہے )تب اس نے کہا ۔میں اپنا منہ ان سے چھپالوںگا ۔اور دیکھو نگا کہ ان کاانجام کیسا ہوگا کیونکہ وہ گردن کش نسل اور بے وفا اولاد ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ میں ان پرآفتوں کاڈھیر لگائونگا اور اپنے تیروں کو ان پر ختم کروںگا وہ بھوک کے مارے گھل جائیں گے اور شدید حرارت اور سخت ہلاکت کالقمہ ہوجائیںگے اور میں ان پردرندوں کے کے دانت اور زمین پرکے سرکنے والے کیڑوں کازہر چھوڑ دونگا باہر وہ تلوار سے مرینگے اور کوٹھڑیوں کے اندر خوف سے جواں مرد اور کنواریاں دودھ پیتے بچے اور پکے بال والے سب یوں ہی ہلاک ہونگے ‘‘
(استثانء باب ۳۲ آیت ۱۶ تا ۲۵ )
غرض حضرت موسیٰ ؑ کے ذریعہ بنی اسرئیل کو دوتباہیوں کی خبردی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ اس ملک پرتمہارا قبضہ دائمی نہیںہوگا ۔بلکہ پہلے تمہاراقبضہ ہوگا اور پھر تم نکالے جائوگے۔پھر تمہارا قبضہ ہوگا اور پھر تم نکالے جائوگے ۔اللہ تعالیٰ کایہ کلام کس شان اور عظمت سے پورا ہو ا ۔اس کی تفصیل سورئہ بنی اسرائیل کے مطالعہ سے معلوم ہوسکتی ہے ۔اللہ تعالیٰ اس میں فرماتاہے۔ وقضینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم نے تورات میںبنی اسرائیل کویہ بات کھول کر پہنچادی تھی کہ تم یقینا اس ملک میںدو دفعہ فساد کروگے ۔اور یقینا تم بڑی سرکشی اختیار کرو گے چنانچہ جب ان دو دفعہ کے فسادات میں سے پہلی دفعہ کاوعدہ پورا ہونے کاوقت آیا تو ہم نے اپنے بعض بندوں کو تمہاری سرکوبی کیلئے تم پرکھڑاکردیا ۔جو سخت جنگجو تھے اور وہ تمہارے گھروں کے اند رجاگھسے اور یہ وعدہ بہرحال پورا ہو کر رہنے والا تھا ۔پھر ہم نے تمہاری طرف دوبارہ دشمن پرحملہ کرنے کی طاقت کو لوٹا دیا۔اور ہم نے مالوں اور بیٹوں کے ذریعہ سے تمہاری مددکی اور ہم نے تمیں جتھے کے لحاظ سے پہلے سے بھی زیادہ مضبوط کردیا ۔
پھر فرماتاہے۔ فاذاجاء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب دوسری بار والا وعدہ پورا ہونے کا وقت آگیا ۔تاکہ وہ دشمن تمہارے منہ خوب کالے کریں ۔اور تمہارے معزز لوگوں سے ناپسندیدہ معاملہ کریں اور اسی طرح ،مسجد میںداخل ہوںجس طرح وہ اس مسجد میںپہلی بار داخل ہوئے تھے اور جس چیز پر غلبہ پائیں اسے بالکل تباہ وبرباد کردیں تو ہم نے اپنی اس پیشگوئی کو بھی پورا کردیا مگر اب بھی کچھ بعید نہیں کہ تمہارا رب تم پر رحم کردے ۔لیکن اگر تم پھر اپنے ا س رویئے کی طرف لوٹے تو ہم بھی اپنے عذاب کی طرف لوٹیں گے ۔اور یقینا ہم نے کافروں کیلئے قید خانہ بنایا ہے ۔ان آیات سے ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ فلسطین کا ملک خداتعالیٰ کے نیک بندوں کو ملے گا ۔اور چونکہ پہلے یہود سے یہ وعدہ کیا گیا تھا ۔اس لئے ان کو یہ ملک ملا ۔مگر ملک دیتے وقت خداتعالیٰ نے کچھ شرائط بھی عائد کردیں ۔اور فرمایا کہ کچھ عرصے کے بعد تمہاری شرارتوں کی وجہ سے ہم یہ ملک تم سے چھین لیں گے ۔ چنانچہ فرمایا فاذاجاء ۔۔۔۔۔۔۔ جب ان دو بار کے فسادوں میںسے پہلی بار کا وعدہ پورا ہونے کاوقت آئے گا تو ہم اپنے حکم کے ساتھ ایک قوم کو مقرر کریںگے ۔جو بڑی جوجی طاقت رکھتی ہوگی ۔ اور وہ فلسطین کے تمام شہروں میں گھس جائے گی ۔اور تمہاری حکومت کوتباہ کردے گی مگر ثم رددنا ۔۔۔۔۔۔۔کچھ مدت کے بعد یہ ملک ہم تم کو واپس دے دیںگے ۔اور تمہاری طاقت اور قوت کو بحال کردیںگے ۔ وامددنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم تم کو مال بھی دیںگے اور بیٹے بھی دیںگے اور تمہیں تعداد میںبھی بہت بڑھا دیںگے لیکن پھر ایک وقت کے بعد ہم دوبارہ یہ ملک تم سے چھین لیںگے چنانچہ فرمایا فاذا جاء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب دوسراوعدہ پوراہونے کا وقت آئے گا تو اس لئے کہ وہ لوگ جن کو عارضی طور ہم یہ ملک دینے والے ہیں وہ تمہارے منہ خوب کالے کریں اور جس طرح پہلی دفعہ انہوں نے تمہاری عبادت گاہ کی بے حرمتی کی تھی اسی طرح اس دفعہ بھی اس کو ذلیل کریں ۔یہ دشمن پھر تمہارے ملک میںجاگھسے گا ۔اور تمہاری عبادت گاہ کو ذلیل کرے گا ۔اور جس جس علاقے میں جائے گا تباہی مچاتا چلا جائے گا ۔ مگر فرمایا عسیٰء ربکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ بعید نہیں کہ اب بھی تمہار رب تم پر رحم کردے یعنی اس کے بعد پھرہم یہ فیصلہ کریںگے ۔ کہ یہ ملک واپس دے دیا جائے مگر یہاں یہ نہیںفرمایا کہ وہ یہودیوں کو دیاجائے گا بلکہ فرمایا ۔عسیٰ ربکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خداتم پر رحم کرے گا یعنی اس بدنامی کو دور کردے گا ۔ جو تمہارے دنیا میںہوئی ۔ وان عدتم۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر تم اپنی شرارتوں سے پھر بھی باز نہ آئے تو ہم بھی اپنی اسی سنت کی طر ف لوٹیں گے ۔اور پھریہ ملک تم سے چھین لیں گے ۔وجعلنا۔۔۔۔۔۔اور جہنم کو ہم تمہارے لئے قید خانہ بنا دینگے یعنی پھرتم اس ملک میںواپس نہیںآسکو گے ۔چنانچہ دیکھ لو خداتعالیٰ نے کہاتھا کہ یہ ملک کچھ عرصہ تمہارے پاس رہے گا مگر اس کے بعد چھینا جائے گا چنانچہ بابلی فوجیں آئیں اور انہوں نے عبادت گاہیں بھی تباہ کیں ،شہر بھی تباہ کئے اور سارے ملک پر قبضہ کرلیا او ر تقریباً ڈیڑھ سوسال تک حکومت کی اس کے بعد وہ حکومت بدل گئی اور پھر یہودی اپنے ملک پر قابض ہوگئے ۔پھر مسیح کے بعد رومی لوگوں نے اس ملک پر حملہ کیا اور اس کو تباہ وبرباد کیا ۔اسی طرح مسجد کو تباہ کیااور اس کے اندر سوئور کی قربانی کی اور اس پر انکا لمبے عرصہ تک قبضہ رہا ۔ لیکن آخر رومی بادشاہ عیسائی ہوگیا ۔ اس لئے یہاں یہ نہیںفرمایا تھاکہ یہودیوںکو یہ ملک واپس دیا جائے گا بلکہ فرمایا تھا ۔ پھرہم تم پر رحم کریںگے ۔ یعنی تمہاری وہ بے عزتی دور ہوجائے گی چنانچہ جب رومی بادشاہ عیسائی ہوگیاتو پھر موسیٰ کو بھی ماننے لگ گیا ۔دائود ؑ کو بھی ماننے لگ گیا۔اسی طرح باقی جس قدر انبیا ء تھے ان کو بھی ماننے لگ گیا تھا۔ وہ عیسیٰ کو ماننے والا لیکن حضرت عیسیٰ ؑ بھی چونکہ موسوی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے ۔ عیسائی بادشاہت یہودی نبیوںکاادب کرتی تھی ۔تورات کاادب کرتی تھی ۔ بلکہ تورات کو بھی اپنی مقدس کتاب سمجھتی تھی گویا خداکا رحم ہوگیا ۔مگر فرماتاہے ۔ ان عدتم عدن ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر اس کے بعد تم لوگ پھربگڑے اور شرارتیں کیں تو پھر ہم تمہارے ہاتھ سے یہ بادشاہت نکال دیںگے ۔یعنی پھرمسلمان آجائیں گے ان کے قبضے میںیہ ملک چلا جائے گا اور وہ عبادی الصالحون۔۔۔۔۔نبیںگے اور تمہارے لئے جہنم پیدا ہوجائے گا ۔جس میںتم ہمیشہ جلتے رہوگے اس تفصیل سے معلوم ہوسکتا ہے اس جگہ مندرجہ ذیل امور بیان کئے گئے ہیں ۔۱۔یہ ملک یہود سے چھین کر ایک اور قوم کو دے دیاجائے گا ۔۲۔کچھ عرصے کے بعد پھر یہ ملک یہود کوواپس مل جائے گا ۔ ۳۔ کچھ عرصے کے بعد یہ پھر ان سے چھین لیا جائے گا ۔ ۴۔ اس کے بعد یہ ملک پھر واپس کیا جائے گا۔ مگر یہود کے ہاتھ نہیں آئے گا ۔بلکہ موسوی سلسلے کے ماننے والوں یعنی عیسائیوں کے ہاتھ میںچلا جائے گا ۔۵۔ اگر پھریہ شرارت کی گئی ( اب اس میں عیسائی بھی شامل ہوگئے کیونکہ وہ بھی یہودیوں کا ایک گروہ تھے ۔) تو پھریہ زمین ان سے چھین لیجائے گی اور ایک اور قوم کو دے دی جائے گی یعنی مسلمانوں کو مگر اس جگہ یہ نہیں فرمایا کہ وہ مسجد میںداخل ہوکر اس کی ہتک کریںگے ۔ اس لئے کہ مسلمانوں کے نزدیک بھی حضر موسیٰ ؑ اور ان کے تمام ماتحت انبیاء مقدس تھے ۔ مگر ان کی جگہیںبھی مقدس تھیں ۔ اس لئے مسلمان ان کی مسجدوں میں وہ خرابیا ں نہیں کرسکتے تھے جو بابلیوں او ر رومیوں نے کیں ۔
یہ عجیب لطیفہ اور قوموں کی ناشکری کی مثال ہے کہ بابلیوں نے یہودیوں کے ملک کو تباہ کیا اور ان کی مسجد کو ذلیل کیا ۔ یوروپین صنف کتابیں لکھتے ہیں تو بابلیوں کو کوئی گالی نہیں دیتا کوئی انکو برا بھلا نہیںکہتا ۔ کوئی ان پر الزام نہیںلگاتا ۔ رومیو ں نے اس ملک کو لیا اور اس مسجد میں خنزیر کی قربانیاں کیں عیسائی رومی تاریخ پر کتابیں لکھتے ہیں ۔گبن نے بھی’’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر۔ THE DECLINE AND FALL OF THE ROMAN EMPIRE لکھی ہے مگر سب کتابوںکو دیکھ لو وہ کہتے ہیں رومن ایمپائر جیسی اچھی ایمپائر کوئی نہیں حالانکہ انہوںنے ان کی مسجد کو گندہ کیا مگر وہ قوم جس نے ان کی مسجد کو گندہ نہیں کیا اس کو گالیاں دی جاتی ہیں ۔
حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں فلسطین فتح ہوا اور جس وقت آپ یروشلم گئے تو یروشلم کے پادریوں نے باہر نکل کر شہر کی کنجیاں آپ کے حوالے کیں اور کہا کہ آپ اب ہمارے بادشاہ ہیں ۔آپ مسجد میںآکر دو نفل پڑھ لیں تاکہ آپ کوتسلی ہوجائے کہ آپ نے ہماری مقدس جگہ میں جو آ پ کی بھی مقدس جگہ ہے نماز پڑھ لی ہے ۔حضرت عمر ؓنے کہا میں تمہاری مسجد میں اس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ میں ان کا خلیفہ ہوں ۔کل یہ مسلمان اس مسجد کو چھین لیںگے اور کہیں گے کہ یہ ہماری مقدس جگہ ہے ۔ اس لئے باہر ہی نماز پڑھوں گا تاکہ تمہاری مسجد نہ چھینی جائے ۔
پس ایک وہ تھے جنہوں نے وہاں خنزیر کی قربانی کی اور یورپ کامنہ اس کی تعریف کرتے ہوئے خشک ہوتا ہے اورایک وہ تھا جس نے ان کی مسجد میں دونفل پڑھنے سے بھی انکار کیا ۔ کہ کہیں مسلمان کسی وقت یہ مسجد نہ چھین لیں ۔ اور اس کو رات دن گالیاں دیجاتی ہیں ۔ کتنی ناشکر گذار اور بے حیا قوم ہے ۔اب مسلمانوں کے پاس فلسطین آجانے کے بعد سوال ہوسکتا ہے کہ یہ ملک یہودیوں کے ہاتھ بھی نہ رہا ۔ اور عیسوی سلسلے کے پاس بھی نہ رہا ۔ یہ کیا معمہ ہے ؟ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ ایک راز نہیں پڑتا اس لئے کہ بعض دفعہ کسی بات پر جھکڑ اہوتاہے اور وراثت کے کئی دعوے دار بن جاتے ہیں تو سچے وارث کہتے ہیں کہ ہم ان کے وارث ہیں ۔اور ان کے حق میںفیصلہ کردیا جاتاہے یہی صورت اس جگہ واقعہ ہوئی ہے ۔خداملک دینے والا تھا ۔ خداکے سامنے مقدمہ پیش ہوا کہ موسیٰ اور دائود کے وارث یہ مسلمان ہیں ۔یا موسیٰ اور دائود کے وارث یہ یہودی اور عیسائی ہیں ۔توہائیکوٹ نے ڈگری دی کہ اب موسیٰ اور دائود کیء وارث مسلمان ہیں ۔ چنانچہ ڈگری سے ان کو ورثہ مل گیا۔
پھر آگے چل کر فرماتاہے کہ فاذاجاء وعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کے بعد ایک اور وقت آئے گا ۔ کہ یہودیوں کو دنیا کے اطراف سے اکٹھا کرکے فلسطین میں لاکر بسادیا جائے گا چنانچہ وہ وقت اب آیا ہے ۔ جب کہ یہودی اس جگہ پر قبضہ کئے ہوئے ہیں۔کراچی اور لاہور میں میںجب بھی گیاہوں مسلمان مجھ سے پوچھتے رہے ہیں کہ یہ تو خدائی وعدہ تھا کہ یہ سرزمین مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے گی ۔ پھر یہودیوں کو کیسے مل گئی ۔ میں نے کہا۔کہاں وعدہ تھا۔ قرآن میں تو لکھاہے کہ ۔پھریہودی بسائے جائیںگے ۔ کہنے لگے ۔اچھاجی یہ تو ہم نے کبھی نہیںسنا ۔میں نے کہاتمہیںقرآن پڑھانے ولا کوئی ہے ہی نہیں تم نے سننا کہاںسے ہے ۔ میر ی تفسیر پڑھو تو اس میںلکھاہوا موجود ہے ۔ تو یہ جو وعدہ تھاکہ پھریہودی ارض کنعان میں آجائیںگے قرآن میںلکھا ہوا موجود ہے ۔ سورئہ بنی اسرئیل رکوع ۱۲میں یہ لکھا ہوا ہے ۔ کہ فاذا جاء وعد ال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ آخر ی زمانہ کاوعدہ ا آئے گا ۔پھر ہم تم کواکٹھاکرکے اس جگہ پرلے آئیںگے ۔
اس جگہ وعدہ ۔۔۔۔ سے مرادمسلمانوں کے دوسرے عذاب کا وعدہ ہے اور بتایا ہے کہ ا مسلمانوں پر جب یہ عذاب آئیگا اور دوسری دفعہ ارض مقدس ان کے ہاتھ سے نکل جائیگی اس وقت اللہ تعالیٰ پھریہود کو اس ملک میںواپس لے آئیگا اس جگہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہوئے کہا کرتے ہیںکہ یہود کے آنے کی وجہ سے سلام منسوخ ہوگیا ۔گویا ان کے نزدیک اسلام کے منسوخ ہونے کی یہ علامت ہے کہ عبادی الصالحون نے اس پر قبضہ کرنا تھا ۔جب مسلمان وہاں سے نکال دیئے گئے تو معلوم ہو اکہ مسلمان عبادی ۔۔۔ نہیں رہے ۔یہ اعتراض زیادہ تر بہائی قوم کرتی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ یہی پیشگوئی تو رات میں موجود ہے یہی پیشگوئی قرآن میں موجود ہے اور اس پیشگوئی کے ہوتے ہوئے اس ملک کو بابلیوں نے سوسال رکھامگر اس وقت یہودی مذہب بہائیوں کے نزدیک منسوخ نہیں ہوا ۔ٹائٹس کے زمانہ سے لیکر سو دو سو بلکہ تین سوسال تک فلسطین روم کے مشرکوں کے ماتحت رہا وہ عیسائیوں کے قبضہ میںنہیںتھا۔یہودیوں کے قبضہ میں نہیں تھامسجد میںسور کی قربانیکی جاتی تھی ۔اور پھر بھی یہودیت کو سچا سمجھا جاتا تھالیکن یہودیوں کے آنے پر نوسال کے اندر اندر اسلام منسوخ ہوگیاکیسی پاگل پن والی اور دشمنی کی بات ہے اگر واقعہ میں کسی غیرقوم کے اندر آجانے سے کوئی پیشگوئی باطل ہوجاتی ہے اور عارضی قبضہ بھی مستقل قبضہ کہلاتاہے تو تم نے سو سال پیچھے ایک دفعہ قبضہ دیکھا ہے تین سو سال دوسری دفعہ کافروں کاقبضہ دیکھاہے اس وقت یہویت کو تم منسوخ نہیں کہتے اس وقت کی عیسایت کو تم منسوخ نہیںکہتے لیکن اسلام کے ساتھ تمہاری عداو ت اتنی ہے کہ اسلام میں نو سال کے بعد ہی تم اس قبضہ کو منسوخی کی علامت قرار دیتے ہو جب اتناقبضہ ہوجائے جتنا یہودیت اور عیسائیت کے زمانہ میںرہا تب تو کسی کا حق بھی ہوسکتا ہے کہ کہے لوجی اسلام کے ہاتھ سے یہ ملک نکل گیا لیکن جب تک اتنا قبضہ چھوڑ اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ہوا تو اس پراعتراض کرنا محض عداوت نہیںتو اور کیا ہے ۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے بنہائی ہیں جنکا اپنا وہی حال ہے جیسے ہمارے ہاں مثل مشہور ہے کہ نہ آگا نہ پیچھا وہ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں ۔حالانکہ مکہ مسلمانوں کے پاس ہے مدینہ مسلمانوں کے پاس ہے او یہ دو اہم اسلامی مراکز ہیں ۔ہم ان سے کہتے ہیں ’’چھاج بولے تو بولے چھلنی کیا بولے جس میںنو سو سوراخ ‘‘ ۔تمہاراکیا حق ہے کہ تم اسلام پر اعتراض کرو تمہارے پاس توایک چپہ زمین بھی نہیں جس کو تم اپنا مرکز قرار دے سکو ۔اسلام کامکہ بھی موجود ہے اور اسلام کامدینہ بھی موجود ہے ۔وہ تو ایک زائد انعام تھا ۔وہ ملک اگر عارضی طور پر چل گیا تو کیا اعترض ہے ؟
بہیایت ۱۸۴۴ ؁ سے شروع ہے اور اب ۱۹۵۸ ؁ ہے اس کے معنی یہ ہیںکہ انکے مذہب کو قائم ہوئے ایک سوچودہ سال ہوگئے اور ایک سوچودہ سال میںایک گائوں بھی تو انہوںنے مقدس نہیںبنایا ۔وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیںحکومت حاصل نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس بھی توحکومت نہیںہم نے تو چندسال میں ربوہ بنا لیا پہلے قادیان بنا ہوا تھا ۔ اب ربوہ بنا ہوا ہے یہاں ہم آتے ہیں ۔نمازیں پڑھتے ہیں ۔اکٹھے رہتے ہیں پرفلسطین میں بھی کرؔمل پہاڑ کی چوٹی پر ایک پورا گائوں احمدیوں کا ہے جس کانام کبابیرؔ ہے بہائی بھی توبتائیں کہ دنیا میں ان کا کوئی مکان ہے یادنیا میں کسی جگہ پروہ اکٹھے ہوتے ہیں ؟ لیکن اسلام پر صرف نوسال کے قبضے کیوجہ سے ان کے بغض نکلتے ہیں ۔اور کہتے ہیں کہ اسلام ختم ہوگیا ۔اور اپنی حالت یہ ہے کہ ۔ عکہ کو مرکز قرار دیا ہوا ہے او ر کہتے ہیں حدیثوںمیں بھی پیشگوئیاںتھیں کہ عکہ انکے پاس ہوگا اور تورات میںبھی پیشگوئیاں تھیں مگر اب عکہ میں بہائیوں کانام ونشان بھی نہیں ہے اور ان کے لیڈر شوقی افندی جو عکہ کے بجائے سال کا اکثر حصہ سوئٹزر لینڈ میں گزارا کئے وہ بھی وفات پاچکے ہیں اوران کے بعد ابھی تک بہائیوں کا کوئی قائم مقام لیڈر بھی تجویز نہیںہوا ۔پھر اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں اور کئی جاہل ان کے اعترضوںسے مرغوب ہوجاتے ہیں ۔ غرض بابلیوںکے آنے اور رومیوں کے عارضی طورپر وہاں آجانے کو جس کاعرصہ ایک دفعہ ایک سوسال دوسری دفعہ قریباًتین سو سال کا تھا ۔اگر موسیٰ اور دائود کے پیغام کے منسوخ ہونے کی علامت نہیں قرار دیاگیا تو اس وقت یہود کا عارضی طورپر قبضہ جس میںصرف چند سال گذرے ہیں اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت کس طرح قرار دیاجاسکتاہے بلکہ یہ تو اس کے صادق ہونے کی علامت ہے ۔ جب اس نے خود یہ پیشگوئی کی ہوئی تھی کہایک دفعہ مسلمانوںکو نکالا جائے گا اور یہودیواپس آئیںگے تو یہودیوںکاواپس آنا اسلام کے منسوخ ہونیکی علامت نہیں اسلام کے سچاہونے کی علامت ہے ۔ کیونکہ جو کچھ قران نے کہاتھاوہ پوراہوگیا۔ باقی رہا یہ کہ پھر عبادی الصالحون کے ہاتھ میںکس طرح رہا ؟۔سو اس کا جواب یہ ہے کہ عارضی طورپر قبضہ پہلے بھی دو دفعہ نکل چکا ہے ۔ اور عارضی طورپر اب بھی نکلا ہے ۔ اورجب ہم کہتے ہیں کہ ’’عارضی طورپر ‘‘تو لازماًاس کے معانی یہ ہیںکہ پھر مسلمان فلسطین میںجائیںگے اور بادشاہ ہوںگے اور لازماًاس کے یہ معنے ہیں کہ پھر یہود ی وہاں سے نکالے جائیں گے اور لازماًاس کے یہ معنے ہیںکہ یہ سارا نظام جس کو یو۔ این ۔او کی مدد سے اور امریکہ کی مددسے قائم کیا جارہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دے گا کہ وہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجادیں ۔اور پھر اس جگہ پر لا کر مسلمانوں کو بسائیں۔ دیکھو حدیثو ں میںیہ پیشگوئی آتی ہے ۔حدیثوں میںیہ ذکر ہے کہ فلسطین کے علاقے میں اسلامی لشکر آئے گا اور یہودی اس سے بھاگ کر پتھروں کے پیچھے چھپ جائیںگے ۔ اور جب کوئی مسلمان سپاہی اس پتھر کے پاس سے گذرے گا تو و ہ پتھر کہے گا کہ اے مسلمان خداکے سپاہی میرے پیچھے ایک یہودی کافر چھپا ہوا ہے اس کو مار جب رسول کریم ﷺ نے یہ بات فرمائی تھی اس وقت کسی یہودی کافلسطین میںنام ونشان بھی نہیں تھا ۔ اس حدیث سے صاف پتہ لگتا ہے رسول کریم ﷺ پیشگوئی فرماتے ہیںکہ ایک وقت میں یہودی اس ملک پرقابض ہوئے مگر پھر خدا مسلمانوں کو غلبہ دے گا اور اسلامی لشکر اس ملک میںداخل ہونگے اور یہودیوںکو چن چن کے چٹانوں کے پیچھے ماریںگے ۔ پس عارضی میں اس لئے کہتا ہوں کہ ۔ ان الارض۔۔۔۔۔۔۔کاحکم موجود ہے مستقل طورپر تو فلسطین عبادی الصالحون کے ہاتھ میں رہنی ہے ۔سو خداتعالیٰ کے عبادی الصالحون محمد ﷺ کی امت کے لو لازماًاس ملک میں جائیںگے۔نہ امریکہ کے ایٹم بم کچھ کرسکتے ہیںنہ ایچ بم کچھ کرسکتے ہیں ۔نہ روس کی مدد کچھ کر سکتی ہے ۔ یہ خداکی تقدیر ہے یہ تو ہوکر رہنی ہے چاہے دنیا کتنا زور لگالے اس جگہ پرایک اعترض کیا جاسکتا ہے اور وہ اعترض یہ ہے کہ جہاں وعد لاخرۃ فرمایا ہے ۔اور تم کہتے ہو کہ وعد الاخرہ سے مراد آخری زمانہ ہے ۔مگر سورئہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میںبھی تو ایک وعد الاخرہ کا ذکر ہے جس میںرومیوں کے حملے کا ذکر ہے تو کیوں نہ یہ سمجھا جائے کہ یہ جعنا۔۔۔۔۔۔۔۔رومیوں کے حملے کے تعلق ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وہ وعد الاخر ہ نہیں ہوسکتا اس لئیء اس سورۃ وعد الاخرہ کو عذابکا قائم مقام قرار دیا ہے اور اس صورت میںوعد الاخرہ کو انعام کاقائم مقام قرار دیاہے ۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ عذاب کی پیشگوئی کو انعام سمجھ لیا جائے ۔ اس جگہ توفرمایا ہے کہ جب دوسری دفعہ والاو عدہ پورا ہونے کا وقت آئے گا تو تم کو تباہ کردیاجائیگا اوراس آیت میں ذکر ہے کہ جب وعدہ لاخر ہ آئے گا تو پھر تم کو لاکے اس ملک میںبسادیا جائے گا اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ وعدہ الاخر ہ اور ہے اور وعدہ الاخرہ اور ہے ۔ وہاں وعدہ الاخرہ سے مراد ہے موسی سلسلہ کی پیشگوئی کی آخری کڑی اوریہاں وعدہ الااخرہ سے مردایہ ہے کہ آخری زمانہ یا محمد ﷺ کے ازمانے کی پیش گوئی ۔
پس یہ الفاظ گو ملتے ہیں لیکن دونوں کی عبارت صاف بتارہی ہے کہ یہ اور وعدہ ہے اور وہ اور وعدہ ہے ۔وہ وعدہ عذاب کا ہے اور یہ وعدہ انعام کاہے ۔اور انعام کاقائم مقام عذاب کا وعدہ نہیں ہوسکتا۔
آیت نمبر۱۰۹‘۱۱۰
۶۱؎ ترجمہ :۔تو کہہ دے کہ مجھ پر تو صرف یہ وحی ہوتی ہے کہ تمہاراخدا ایک ہے ۔ پس کیا م اس بات کو مانو گے کہ نہیں۔پس اگر وہ پیٹھ پھیر لیں تو تو ان سے کہ دے کہ میں نے تم میں سے مومن و کافر کو برابر خبر دے دی ہے ۔ او ر میں نہیں جانتا کہ وہ امر جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھاقریب ہے یابعید ۔ ۶۱؎
۶۱؎ حل لغات :۔ اذنتکم ۔ اذف سے متکلم کا صیغہ ہے اور اذن کے معنے ہونگے ۔میںنے تم کو اطلاع دیدی ہے بتا دیا ہے ۔
۶۱؎ تفسیر:۔
فرماتا ہے ۔میری وحی تو توحید پرمشتمل ہے باقی سب چیزیں اس کی تابع ہیں پس اگر تم اس آواز کو سن لو ۔تو تم پرفضل ہوجائیگا ۔اوراگر ا ٓواز سے منہ پھیر لو ۔تو اچھی طرح سن لو کہ تمہاری تباہی کے وقت کے متعلق مجھے معلوم نہیںکہ جلد آنے والا ہے یا بدیر لیکن وہ آکر رہے گا ۔
آیت نمبر۱۱۱‘۱۱۲
ترجمہ :۔خدا تعالیٰ ظاہر بات کو بھی جانتا ہے ۔اور جوتم چھپاتے ہو اسے بھی جانتا ہے ۔اور میں نہیںجانتا کہ وہ بات جو اوپر بیان ہوئی ہے شاید تمہارے لئے ایک آزمائش ہے اور اس سے ایک عرصہ تک تمہیں فائدہ پہنچانا مدنظر ہے یاہمشہ ہمیش کے لئے ۔۶۲؎
۶۲؎ حل لغات :۔ فتنہ کے معنے ہیں الخبرۃ ۔۔۔۔آزمائش اور امتحان ۔الضلال ۔۔۔۔گمراہی ۔گناہ اور کفر الفضیحۃ ۔رسو ائی ۔العذا ۔عذاب ۔العبرۃ عبرت ۔المال ولا ولاد ۔مال او اولاد ۔اختلاف ۔۔۔۔۔۔۔ لوگونکی آپس کی آرا ء مخالفت اور انکے درمیا ن لڑائی اور جھگڑا کا پیدا ہونا بھی فتنہ کہلاتا ہے ۔(اقرب)
۶۲؎ تفسیر:۔
فرماتاہے ۔خداظاہر بات کوبھی جانتاہے اور چھپی بات کوبھی اور میں نہیںجانتا کہ جوکلام تمہا ر ے سامنے پیش کیاجارہا ہے اس کا انکار تم کو ایک لمبی تباہی میں مبتلاکردیگا یاکچھ عرصہ کے لئے تم ترقیات حاصل کولوگے ۔
آیت نمبر۱۱۳
ترجمہ :۔ اس وحی کے آنے پر محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے میرے رب ۔تو حق کے مطابق فیصلہ کردے اورہمارا رب تو رحمن ہے اور اے کافرو جو تم باتیںکرتے ہو انکے خلاف اسی سے مددمانگی جاتی ہے ۶۳؎
۶۳؎ تفسیر :۔
اس آیت میں رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طر ف سے اپنی امت کے متعلق ایک دعا سکھائی گئی ہے ۔ اور کہا گیا ہے کہ اے محمد رسول اللہ تو دعا کر کہ خدایا جس وقت مسلمانوں پر تنزل کا زمانہ آئے اور یہودی پھرارض مقدسہ میں آجائیںتوگو میری امت کے لوگ اس وقت کمزور ہونگے مگر اصل حکومت تو میری ہی ہوگی جو تیری طرف سے قیامت تک کے لئے خاتم الا لنبیین مقرر ہوا ہوں ۔پس مسلمانوں کی شکست میری شکست ہوگی اور میں تیرے حضور میں محبوب ہوں اور یہودی تیرے حضور میں مغضوب ہیں ۔پس میں تجھ سے دعا کرتاہوں کہ اسی وقت میں میر الحاظ کرکے میری قوم اور یہودیوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردے اور میری قوم کو یہودیوں پر فتح دے تاکہ پھرمیری قوم عباد ی الصالحون میں شامل ہوکر فلسطین پر قابض ہوجائیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ جو دعا محمد ﷺ کی زبان سے قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے وہ ضرور پوری ہوکر رہے گی۔کیونکہ خداتعالیٰ تمسخر نہیں کیا کرتا ۔پس مسلمانوں کو ایک طرف تو اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ قرآن کریم کے ذریعے سے خداتعالیٰ نے ان کو تنبیہہ کردی ہے اور دوسری طرف انہیںاپنے انجام سے مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ خداتعالیٰ نے ان کی دوبارہ کامیابی کیلئے محمد ﷺ کے ذریعے سے دعا کرواد ی ہے جو پوری ہوکر رہے گی ۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تفسیر کبیر ۔ تفسیر القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد رض ۔جلد 6۔ یونی کوڈ

سُوْرَۃُ الْحَجِّ مَدَنِیَّۃٌ
سورۃ حج۔ یہ سورۃ مدنی ہے
وَھِیَ مَعَ ۔۔۔۔رُکُوْعَاتٍ
اور بسم اللہ سمیت اس کی 79آیات ہیں ۔اور دس رکوع ہیں ۱ ؎
۱ ؎ یہ سورۃ علماء تاریخ قرآن کے نزدیک مکّی اور مدنی ہے ۔یعنی کچھ مکّی حصہ اور کچھ مدنی ۔ابن ؔ عباس ؓ اور مجاہدؔ کے نزدیک آیت نمبر22,21,20یعنی تین آیتیں مدنی ہیں ۔ابنؔ عباسؓ سے ایک اور روایت بھی ہے کہ تیئیسویں آیت بھی مدنی ہے گویا ان کے نزدیک چار آیتیں مدنی ہیں۔ضحاکؔ کا خیال ہے کہ ساری سورۃ ہی مدنی ہے ۔
ترتیب
قرین کی ترتیب کے لحاظ سے سورۂ انبیاء کے مضمون سے اس کا سلسلہ ملتا ہے ۔اُس سورۃ میں اصل مضمون ہی یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے دنیا میں عذاب آتا رہتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اگر انسان صحیح راستہ اختیار کرے تو وہ نجات پا سکتا ہے ۔پھر بتایا تھا کہ تیری قوم پر بھی عذاب آئیگا ۔چنانچہ سورۂ انبیاء کی آخری آیت ہی یہ تھی کہ قَالَ رَبِّ ۔۔۔ماتَصِفُوْنَ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے میرے رب ! تُو حق کے مطابق فیصلہ کردے اور ہمارا ربّ تو رحمن ہے اور (اے کافرو) جو تم باتیں کرتے ہو اُن کے خلاف اس سے مدد مانگی جاتی ہے ۔گویا اس آیت میں منکرین کیلئے عذاب کی دُعا سکھائی گئی تھی ۔اب سورۃ الحج میں اس دُعا کا جواب دیا اور پہلی آیت ہی یہ رکھی کہ یَآ اَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوْا۔۔۔۔عَظِیْمٌیعنی اے لوگو! تم اپنے رب کا تقویٰ کرو۔کیونکہ فیصلہ والا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے ۔یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے حکم سے اب دُعا میں مشغول ہو گئے ہیں تم اگر بچنا چاہتے ہو تو اپنے نفس کی اصلاح کرکے اس عذاب سے بچنے کی دعا میں لگ جائو ۔سورۃ کی لمبی ترتیب کے لحاظ سے اس سورۃ میں مریم ؔ ۔ طٰہ اور انبیاء ؔ کے مضمون کو تکمیل تک پہنچایا گیاہے ۔سورۃ مریم میں اصول مسیحیت بتا کر اُن کا ردّ کیا گیا تھا کیونکہ مسیحیت کی تردید کئے بغیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ثابت نہیں ہو سکتی تھی ۔محمد رسول اللہ ﷺ کا دعویٰ اوّل شریعت جدید کے لانے کا اور دوم ساری دنیا کی طرف آنے کا تھا ۔اگر مسیحیت اپنی اصلی شکل میں قائم تھی تو ایک سچا اور قابل ِ عمل دین دنیا میں موجود تھا اُس کے ہوتے ہوئے کسی ایسی شریعت کا آنا جائز نہ تھا جو سب قوموں کیلئے ہو۔کیونکہ جب مسیحیت ایک زندہ مذہب تھا تو مسیحیوں کو اسلام کی کیا ضرورت تھی ! پس سورۃ مریم میں مسیحیت کے اصول کا ردّ کیا اور مسیح ؑ کی پیدائش اور اس کے دعویٰ کے حالات بیا ن کئے اور اُسے دوسرے نبیوں جیسا ثابت کیا۔سورۃ طٰہٰ میں مسیحیت کے اس دعویٰ کو تفصیل سے ردّ کیا کہ شریعت *** ہے۔سورۃ انبیاء میں اس مضمون کی دوسرے رنگ میں وضاحت کی کہ اگر ورثہ کے گناہ سے انسان پاک نہیں ہوسکتا تو ایک لمبا سلسلہ انبیاء کا کس لئے آیا اور اُن کے دشمنوں کو سزاکیوں ملی ؟ کیونکہ ورثہ کے گناہ کی وجہ سے تو انسان مجبور ہے اور مجبور کو سزا نہیں دی جا سکتی ۔
اب اس سورۃ میں بتا یا ہے کہ اگر مسیح آخری نقطہ روحانیت کا تھا تو اُن کے بعد کوئی نبی اور کوئی شریعت نہیں آنی چاہئیے تھی کیونکہ مسیح کامل ترین تھا۔اور شریعت متروک ہو چکی تھی لیکن محمد ؐ رسول اللہ کا وجود اس دعویٰ کو باطل کر دیتا ہے ۔اُس کے سّچا ہونے کی پہلی دلیل یہ ہے کہ سابق انبیاء کی طرح اُس کے دشمن ہلاک ہونگے۔دوسری دلیل یہ ہے کہ اس کی تعلیم ضروری اور پُر حکمت باتوں پر مشتمل ہے ۔تیسری دلیل یہ ہے کہ اس کے ماننے والے روحانی اور مادی طور پر ترقی کر جائیں گے ۔چوتھی دلیل یہ ہے کہ محمد ؐ رسول اللہ کو غیر معمولی برکات آسمان سے ملیں گی ۔اور پانچویں دلیل یہ ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ بشمولیت مسیحیت اس سے شکست کھا جائینگے ۔
خلاصۂ سورۃ
اس سورۃ کے شروع میں عذاب الہٰی سے ڈرایا گیا ہے جو محمد رسول اللہﷺ کے دشمنوں کو پہنچے گا ( یَٓاَ یُّھَا النَّاسُ۔۔۔۔۔۔۔عَذَابُ اللہِ شَدِیْد تک آیت نمبر 3,2)
پھر بتا یا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دلائل ہیں ۔اور دلائل کا مقابلہ زبانی دعوے نہیں کر سکتے۔(وَمِنَ النَّاسِ ۔۔۔۔۔۔۔وَلَبِْٔسَ الْعَشِیْر تک آیت نمبر4تا14)
اس کے بعد بتا یا گیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تائیدات سماوی ہیں ۔ان کے ہوتے ہوئے ان کے دشمن خواہ کسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں کس طرح جیتنے کی اُمید رکھ سکتے ہیں ۔( اِنَّ اللہَ یُدْخِلُ۔۔۔۔مَنْ یُّرِیْدُ تک۔ آیت نمبر15تا 17)
پھر اس کی تعلیم ایسی پُرامن اور بابرکت ہے اور اس کے مخالفوں کی تعلیم ایسی تکلیف دہ ہے کہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں ٹھہر ہی نہیں سکتی ۔( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔۔۔۔۔عَذَابٍ اَلِیْمٍ تک آیت نمبر 18تا 26)
یہ ابراہیمی دعا کے دوسرے حصہ کا مصداق ہے پھر یہ کیونکر ناکام رہ سکتا ہے ۔اس کی ناکامی ابراہیم ؑ کی بھی ناکامی ہے ۔( وَ اِذْ بَوَّاْنَا۔۔۔۔۔کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ تک آیت نمبر27تا 39)
بے شک محمد رسول اللہ ﷺ کی سخت مخالفت ہے اور بے شک اُس نے ایک لمبے عرصے تک صبر کیا ہے مگر خداتعالیٰ اسے دفاع کی اجازت دے گا اور اپنی مدد سے اِسے فتح دے گا ( مسیحیت دفاع کو بھی ناجائز قرار دیتی ہے ۔یہ تعلیمی مقابلہ ہے ) اور اس کا انجام تما گزشتہ اولو العزم رسولو ں کی طرح ہو گا۔(اُذِنَ لِلَّذِیْنَ۔۔۔۔۔اَصْحٰبُ الْجَحِیْم تک آیت نمبر40تا52)۔
پھر فرمایا کہ سب نبیوں کی مخالفت ضروری ہوتی ہے شیطان ان کی کامیابی کے راستہ میں روڑے اٹکاتا ہے لیکن خداتعالیٰ ہمیشہ ان روکوں کو دُور کرکے انبیاء کو فتح دیتا ہے ۔ایسا ہی اب بھی کر یگا ۔اور سب ادیان پر محمد رسول اللہ ﷺ غالب آئیں گے ۔اور مختلف موقعوں پر ثابت ہوجائے گا کہ وہ سچے مذہب پر قائم ہیں وَمَآ اَرْسَلْنَا۔۔۔۔۔عَذَابٌ مُّھِیْنٌ تک آیت نمبر53تا58)
دفاعی مقابلے کی نسبت بتا یا کہ یہ جائز ہوتا ہے بلکہ جو لوگ دین کیلئے دفاعی جنگ کر تے ہیں خداتعالیٰ اُن کی مدد کرتا ہے ۔اگر ایسا نہ ہو تو دنیا میںہدایت ناکام ہو جائے ۔( وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا۔۔۔۔۔۔ھُوَ الْعَلَيُّ الْکَبِیْرُ تک آیت 59تا63)
پھر بتا یا کہ ہدایت آتی ہی کامیاب ہونے کے لئے ہے جس طرح بارش دنیا کو تازگی دینے کیلئے ہوتی ہے ۔یہ ایک دَور ہوتا ہے جو چلتا رہتا ہے ۔جب ہدایت ایک دَور ختم کر لیتی ہے تو وہ دوسرے دَور کیلئے بیکار ہوجاتی ہے اور نئے دَور کی تعلیم کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔(اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ ۔۔۔یَسِیْرٌ تک آیت ۶۴ تا ۷۱)
فرمایا ہے کہ اس کا بڑا نشان یہ ہوتا ہے کہ پہلے دَور کی ہدایت ( انسانی خیالات سے مخلوط ہو جانے اور نئے زمانہ کی ضرورتوں کو پورا نہ کر سکنے کی وجہ سے ) خدائی تائید سے محروم ہو جاتی ہے ۔اگر وہ اب تک خداتعالیٰ کی پسندیدہ ہدایت ہوتی تو جو نصرت اُسے پہلے ملتی تھی اب کیوں نہ ملتی ۔یہی وجہ ہے کہ سابق ہدایت کے مدعی خداتعالیٰ کی جگہ اپنے ہاتھ میں سزا لینا چاہتے ہیں مگر خداتعالیٰ کی نصرت سے محرومی کی وجہ سے ناکام ہو جاتے ہیں ۔( وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَمْ۔۔۔۔۔۔۔وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ تک آیت ۷۲تا ۷۳)
پھر بتا یا کہ خدا تعالیٰ کی نصرت کے مقابلہ میں وہی سابق کا منصور مذہب بالکل بے کار ہو کر رہ جاتا ہے اور خدائی آواز جس نئے وجو د کے حق میں اُٹھتی ہے وہی جیتتا ہے ۔(یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ ۔۔۔۔تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ تک آیت ۷۴ تا ۷۷)
اس وقت چونکہ محمد رسول اللہ ﷺ وہ موعود وجود ہیں ۔اس لئے خداتعالیٰ کی مدد ان کو حاصل ہوگی پس ان کے پیرؤں کوان کی پوری اطاعت کرنی چاہئیے تا کہ وہ کامیاب ہوں ۔انہیں یاد رکھنا چاہئیے کہ سابق پیشگوئیاں بھی ان کے حق میں ہیں اور اُن کا رسول ہی موعود نہیں بلکہ ان کی قوم بھی موعود ہے اور خداتعالیٰ کی مدد سے وہ کامیاب ہونگے ۔( یَٓااَیُّھَا الَّذِیْنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔وَنِعْمَ النَّصِیْرُ تک آیت۷۸ تا ۷۹)
بسم اللہ الرحمن الرحیم ہ
(میں )اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنیوالا (پڑھتا ہوں)
یٰٓاَ یُّھَالنَّاسُ اتَّقُوْا۔۔۔۔۔۔۔عَذَابَ اللہِ شَدِیْدٌ ہ
اے لوگو! تم اپنے ربّ کا تقویٰ کر و۔ کیونکہ فیصلہ والا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے ۔جس دن تم اس کو دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی عورت جس کو دودھ پلا رہی ہوگی اُس کو بھُول جائیگی ۔اور ہر حاملہ عورت اپنے حمل کو گِرا دے گی۔اورتُو لوگوں کو دیکھے گا کہ وہ بد مستوں کی طرح ہیں ۔حالانکہ وہ بد مست نہیں ہونگے لیکن اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے ۔ ۲؎
۲؎ حل لغات:
اِتَّقُوْا ۔وَقٰی سے باب افتعال اِتَّقیٰ بنتا ہے ۔اور اِتَّقُوْا اسی باب سے امر کا جمع مذکر کا صیغہ ہے ۔ وَقَاہُ کے معنے ہیں سَتَرَہ‘ عَنِ۔۔۔وَحَفِظَہ‘ : اُس تکلیف سے بچایا اور محفوظ رکھا ( اقرب )۔مفردات میں ہے ۔الوِقَایَۃُ: حِفْظُ الشَّیْئِ۔۔۔۔وَیَضُرُّہ‘ یعنی وَقَایَۃ ( جو وَقٰی کا مصدر ہے) کے معنے ہیں کسی چیز کو اس امر سے بچانا جو اس کو نقصان پہنچائے یا تکلیف دے۔اورالتَّقْوٰی کے معنے ہیں جَعْلُ النَّفْسَ ۔۔۔۔یُخَافُ ۔ خطرے والی چیزوں سے نفس کو حفاظت میں رکھنا ( مفردات ) اسی طرح اَلوِ قَایَۃُ کے معنے ہیں وہ چیز جس کے ذریعہ سے دوسری چیز بچائی جاتی ہے ( اقرب) جیسے درخت کی چھال یا کتاب کی جلد۔پس اِتَّقُوْا کے معنے ہونگے اللہ تعالیٰ کو آفات سے بچنے کیلئے ڈھال بنائو ۔اَلسَّاعَۃُ : جُزْئٌ مِّنْ اَجْزَائِ الزَّمَانِ ۔ زمانہ کے حصوں میں سے ایک حصّہ جسے ہم گھڑی یا کچھ وقت سے تعبیر کرتے ہیں ۔وَ یُعَبَّرُ بِہٖ عَنِ الْقِیَامَۃ اور ساعۃ کے لفظ سے کبھی قیامت بھی مراد لی جاتی ہے ۔وَقِیْلَ اَلسَّاعَاتُ اللَّتِیْ ۔۔۔۔لِلْمُحَاسَبَۃِ علماء نے بیان کیا ہے کہ وہ ساعات جن کو قیامت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے تین ہیں (۱)اَلسَّاعَۃُ الْکُبْرٰی جبکہ لوگوں کو محاسبہ کیلئے قبروں سے اٹھایا جائیگا۔(۲)اَلسَّاعَۃُ الْوُسْطیٰ وَھِیَ ۔۔۔۔ساعت وسطیٰ اور یہ ایک زمانہ کے لوگوں کا مرنا اور ختم ہونا ہے ۔(۳) وَالسَّاعَۃُ الصُّغْرٰی ۔۔۔۔اِنْسَانٍ مَوْتُہ‘۔اور ساعت صغریٰ انسانی موت کا نام ہے ۔پس ہر انسان کی ساعۃ اُس کی موت ہے (مفردات) پس اَلسَّاعَۃُ کے معنے ہونگے ۔ہلاکت کی گھڑی یا وہ خاص گھڑی جس کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
تَذْھَلُ: ذَھَلَ سے مضارع واحد مؤنث کا صیغہ ہے اور ذَھَلَہُ کے معنے ہیں نَسِیَہ‘ لِشُغْلٍ کسی کا م کی وجہ سے جس میں وہ مشغول تھا اسے بھُول گیا ( اقرب ) پس تَذْھَلُ کے معنے ہونگے وہ بھُول جائیگی ۔سُکٰریٰ : سَکْرَان کی جمع ہے جو سَکِرَ سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے ۔اور سَکِرَ مِنَ الشَّرَابِ کے معنے ہیں شراب کے نشے سے مدہوش ہوگیا ( اقرب) پس سکارٰی کے معنے مدہوش کے ہیں۔
تفسیر :۔
اس آیت کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ ضروری نہیں کہ اس آیت کا مفہوم آخرت پر ہی چسپاں کیا جائے ۔بلکہ شدید جنگوں یا زلزلوں میں بھی یہ حالت پیش آتی رہتی ہے ۔جب ضلع کانگڑہ میں1905ئ؁ کا زلزلہ آیا جس سے تیس ہزار کے قریب آدمی مر گئے تھے اور جو زخمی ہوئے اُن کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی اور گائوں کے گائوں اس طرح مٹ گئے کہ ان کا نام و نشان نہ رہا اور تمام پنجاب ایک سرے سے دوسرے سرے تک مل گیا تو اُس وقت لوگوں کا بالکل یہی حال ہو ا تھا ۔اسی طرح 1935ئ؁ میں جب کوئٹہ میں زلزلہ آیا اور مجروح اور زلزلہ سے بچے ہوئے لوگ سپیشل ٹرینوں کے ذریعہ واپس آتے تو لوگ دیوانہ وار روتے ہوئے سٹیشنوں پر اِدھر اُدھر اپنے رشتہ داروں کی تلاش میں دوڑتے پھرتے ۔اور جب انہیں اپنا کوئی رشتہ دار نظر نہ آتا تو ان کے نالہ وبکا سے ماتم برپا ہو جاتا۔ایک اخبار کے نامہ نگار نے لکھا کہ میں نے ایک عورت کو دیکھا وہ اس طرح اسٹیشن پر پھر رہی تھی جس طرح ایک شرابی نشہ میں مدہوش ہو کر لڑھکتا پھرتا ہے۔وہ کبھی دائیں گِرتی کبھی بائیں اور روتے ہوئے کہتی کہ سارے ہی مرگئے کوئی بھی نہیں بچا۔بعض لوگوں نے بیان کیا کہ جب مصیبت زدہ لوگوں سے پوچھا جاتا تو وہ جواب دینے کی بجائے چیخیں مار کر روپڑتے پھر کئی آدمی اس صدمہ کی وجہ سے پاگل ہوگئے ۔ان دنوں اخبارات میں چھپاتھا کہ کوئٹہ سے ملتان کو گاڑی آرہی تھی کہ راستہ میں دو عورتیں شدت غم کی وجہ سے پاگل ہوگئیں ۔ایک اور شخص بھی دیوانہ ہوگیا اور اُس نے چلتی گاڑی سے چھلانگ لگا دی ۔غرض یہ ایک ایسا درد ناک نظارہ تھا کہ اس نظارہ کو دیکھنے والے توکیا پڑھنے والے بھی ششدر رہ جاتے تھے اور اُن کے دل کرب و اضطراب سے بھر جاتے تھے ۔
اسی طرح 15، جنوری ۱۹۳۴ء ؁کو جب بہار میں ایک قیامت نما زلزلہ آیا جس کے متعلق لارڈ ریڈنگ سابق وائسرائے ہند نے لنڈن میں ایک تقریر کرتے ہوئے چشم پُر آب ہو کر کہا تھاکہ
ــ’’ یہ زلزلہ ایسا ہیبتناک ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔‘‘
( اخبار سول 10، فروری 1934ئ؁)
تو اُس وقت بھی لوگوں کی یہی کیفیت ہوئی تھی ۔اخبار ’’ حقیقت ‘‘ لکھنٔو نے لکھا کہ
’’ انسان تو انسان حیوان بھی اس قہر ِ خدا سے حواس باختہ ہوگئے تھے ۔اور درندے نہایت بدحواسی سے آدمیوں کے پاس بھاگتے ہوئے جا رہے تھے ۔‘‘
( حقیقت 18، جنوری 1934ئ؁ )
’’ امرت بازار پتر کا ‘‘ کے نامہ نگار نے لکھا کہ
’’ میں نے کئی آدمیوں کو کھڑکیوں سے چھلانگیں لگاتے دیکھا ۔مگر اُن کے نیچے آنے سے پہلے دیواریں گِر جاتی تھیں ۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انسانی سِروں ، ہاتھوں اور بازوئوں کی بارش ہو رہی تھی ۔‘‘
( پرتاپ لاہور 26جنوری1934ئ؁ )
مونگھیر کی تباہی کے متعلق ایک شخص نے اپنا چشم دید ماجرا بیان کرتے ہوئے لکھا کہ اُس وقت ’’ زمین میں دائیں اور بائیں دو حرکتیں ہوئیں بعد ازاں ایسا معلوم ہوا کہ کسی نے زمین کو چرخی پر رکھ کر گھما دیا ہے ۔میرے ہوش و حواس زائل ہوگئے ۔آدھ گھنٹہ کے بعد سنبھلا تو ایک عجیب منظر میرے سامنے تھا ۔جہاں تک نظر جاتی تھی کھنڈر ہی کھنڈر دکھائی دیتے تھے ۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں مونگھیر میں نہیں ۔شہر کی حالت اتنی تبدیل ہوگئی تھی کہ میں اپنا گھر ہی نہ پہچان سکا ۔‘‘
( انقلاب یکم فروری1934ئ؁ )
اخبار ’’ ملاپ ‘‘ کے ایڈیٹر نے لکھا کہ
’’ باپ بچوں کی تلاش میں سرگردان ہیں ۔بچے اپنے ماتا پتا کو تلاش کر رہے ہیں۔گِرے ہوئے مکانات میں جو بچے بچ رہے ہیں وہ ایک ایک اینٹ اُٹھا کر دیکھ رہے ہیں کہ اُن کے ماتا پتا نیچے سے نظر آسکیں اور انہیں پیا ر سے ہلا سکیں لیکن بھونچال نے کس کو زندہ رہنے دیا ہے ۔جب مکان کھودتے کھودتے لاش نکلتی ہے تو پھر چیخ و پکار کا کیا ٹھکانہ ۔پتھر سے پتھر دل بھی روتا ہے ۔‘‘
( ’’ ملاپ ‘‘ 25جنوری1934ئ؁ )
یہی حال جنگ میں ہوتا ہے ۔چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ جنگ میں ایک عورت کو دیکھا جو دیوانہ وار دوڑی پھرتی تھی ۔اُس کا بچہ کہیں گُم ہو گیا تھا ۔وہ کبھی ایک بچہ کو اُٹھاتی اور کبھی دوسرے کو اور پھر پاگلوں کی طرح اپنے بچہ کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی۔یہاں تک کہ اُسے اپنا بچہ نظر آگیا ۔اُس نے لپک کر اُسے گود میں اُٹھا لیا۔اُس سے پیا ر کرنے لگی اور پھر آرام اور سکون سے بیٹھ کر اُسے دودھ پلانے لگ گئی ۔رسول کریم ﷺ نے یہ نظارہ دیکھا تو فرمایا کہ تم نے جو اس عورت کی گھبراہٹ کا نظارہ دیکھا ہے اس سے کہیں زیادہ گھبراہٹ اللہ تعالیٰ کو اپنے گنہگار بندے کے پانے کی ہوتی ہے ۔
( مسلم کتاب التوبہ )
یہ جو کہا گیا ہے کہ تُو ان لوگوں کو شراب سے متوالے دیکھے گا حالانکہ وہ شراب سے متوالے نہیں ہونگے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح متوالے کی حرکات اس کے قبضے میں نہیں ہوتیں اسی طرح ڈر کی وجہ سے ان لوگوں کی حرکات بھی اُن کے قبضہ میں نہیں ہونگی ۔خطرناک جنگ میں بھی لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے ۔چنانچہ اگر اس آیت کو جنگ پر ہی چسپاں کیا جائے تو میرے نزدیک اس کو فتح مکّہ پر چسپاں کرنا چاہئیے ۔اس سورۃ کا نا م بھی سورۃ الحج رکھا گیا ہے جس میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک عظیم الشان جنگ کے نتیجہ میں مسلمانوں کیلئے حج ممکن ہو جائیگا۔یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ اکثر سورتوں کے نام رسول کریم ﷺ نے خود رکھے ہیں اور اس سورۃ کے تیسرے رکوع میں حج کا ذکر بھی آتا ہے ۔اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی ذکر ہے جن کے ذریعہ حج بیت اللہ قائم ہوا۔پس یہ آیتیں ایک عظیم لڑائی پر دلالت کرتی ہیں ۔جس کے بعد مسلمانوں کیلئے حج کا راستہ کھل جانا مقدر تھا ۔
بیشک ا س آیت میں زَلْزَلَۃُ السَّاعَۃِ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن سے بادیٔ النظر میں یہ شبہ پید ا ہوسکتا ہے کہ شاید اس میں عالمِ آخرت کے اُس عذاب کا ذکر کیا گیا ہے جو کفار کیلئے مقّدر ہے لیکن یہ درست نہیں۔قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ساعۃ کا لفظ صرف اُخروی قیامت کیلئے استعمال نہیں کیا گیا بلکہ انبیاء کی جماعتوں کی ترقی اور اُن کے دشمنوں کی تباہی کیلئے بھی ساعۃ ، کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔مثلاً سورۃ البقرۃ میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۔۔۔۔۔۔بِغَیْرِ حِسَابٍ ( البقرۃ ۲۶ رکوع) یعنی جن لوگوں نے کفر اختیا ر کیا ہے انہیں دنیوی زندگی خوبصورت کرکے دکھائی گئی ہے ۔اور وہ اُن لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں ہنسی اور تمسخر کرتے ہیں حالانکہ جن لوگوں تقویٰ اختیار کیا ہے وہ اِن کفار پر قیامت کے دن غالب ہونگے ۔اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے ۔اس آیت میں بتا یا گیا ہے کہ کفار اس دُنیا کی زندگی کو ہی اپنا مفتہیٰ قرار دیتے ہیں اور انہیں اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ ہے ۔حالا نکہ اصل چیز انجام ہے اور انجام مسلمانوں کا اچھا ہوگا اور وہ قیامت کے دن اِن کفار پر غالب آئیں گے ۔اب اگر اس کے یہ معنے کئے جائیں کہ مرنے کے بعد اگلی زندگی میں مسلمانو ں کو کفار پر غلبہ میّسر آجائیگا تو یہ معنے کفار کیلئے اسلام کی صداقت کا کوئی ثبوت نہیں رہتے ۔وہ تو کہیں گے کہ یہ تمہاری اپنی خوابیں ہیں ۔ہمیں تو نہ مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین ہے اور نہ ہم یہ مان سکتے ہیں کہ تمہیں اُس زندگی میں ہم پر کوئی غلبہ میّسر آئیگا ۔یہ محض زبانی دعوے ہیں جن میں کوئی حقیقت نہیں ۔پھر یہ بھی قابلِ غور بات ہے کہ جب مرنے کے بعد ایمان لانا کسی انسان کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا تو کفار کے سامنے مسلمانوں کے اس غلبہ کو پیش کرنے کا فائدہ کیا ہو گا ۔پس یہ آیت اگر عالم آخرت پر چسپا ں کی جائے تو اس کے کوئی معنے نہیں بنتے اور نہ یہ اسلام کی صداقت کا کوئی ثبوت قرار پا سکتا ہے ۔حقیت یہ ہے کہ اس جگہ یوم القیامۃ سے مُراد فتح مکّہ وغیرہ کی قسم کے واقعات ہیں جن میں مسلمانوں کو ایسا بین غلبہ میّسر آیا کہ جب رسول کریم ﷺ نے کفار سے پُوچھا کہ بتائو اب تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ۔تو انہوں نے کہا آپ ہم سے وہی سلوک کریں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا ۔گویا انہوں نے اقرار کر لیا کہ جس طرح یوسف ایک دن اپنے بھائیوں پر غالب آگیا تھا اسی طرح تجھے بھی خدا نے ہم پر غلبہ عطا کر دیا ہے ۔پس ہم تجھ سے اس سلوک کی امید رکھتے ہیں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا ۔چنانچہ رسول کریم ﷺ نے بھی فرمادیا کہ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللہُ ۔۔۔۔۔۔۔فَاَنْتُمُ الطُّلَقَاء ( سیرۃ الحلبیہ جلد ۳ ص ۱۱۳) یعنی آج تم پر کوئی گرفت نہیں اللہ تعالیٰ تمہارے قصورو ں کو معاف فرمائے کہ وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔جائو تم سب کے سب آزاد ہو ۔قرآن کریم کی یہ آیت بتا تی ہے کہ قیامۃ کے لفظ کا استعمال اسلامی فتوحات کیلئے بھی کیا گیا ہے ۔اسی طرح یَٓااَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا۔۔۔۔۔ عَذَابَ اللہِ شَدِیْدٌ میں فتح مکّہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اور بتا یا گیا ہے کہ کفّا ر پر ایک قیامت نما زلزلہ آنے والا ہے ۔جس کو دیکھ کر وہ ایسے سراسمیہ اور حیران ہوجائیں گے کہ انہیں اپنے بچائو کی کوئی صورت نظر نہیں آئے گی اور بد مستوں کی طرح لڑھک رہے ہونگے ۔چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد جب معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قریش مکّہ نے بنوبکر کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے معاہدہ قبیلہ بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا اور اُن کے کئی آدمی مار ڈالے تو بنو خزاعہ نے فوراً چالیس آدمی تیز اونٹو ں پر بٹھا کر مدینہ میں اس بد عہدی کی اطلاع دینے کیلئے روانہ کر دیئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ باہمی معاہدہ کے مطابق اب آپ ہمارا بدلہ لیں اور مکّہ پر چڑھائی کر یں ۔یہ وفد ابھی مدینہ نہیں پہنچا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کشفی رنگ میں رسول کریم ﷺ کو مکّہ والوں کی اس بد عہدی کی اطلاع دے دی ۔چنانچہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات جبکہ رسول کریم ﷺ کی میرے ہاں باری تھی آپ رات کے وقت تہجد کیلئے اُٹھے ۔جب آپ وضو کر رہے تھے تو میں نے سُنا کہ آپ نے بلند آواز سے فرمایا۔لَبَّیْکَ۔لَبَّیْکَ۔لَبَّیْکَ! اور پھر آپ نے تین دفعہ فرمایا نُصِرْتَ ۔ نُصِرْتَ ۔نُصِرْتَ ! حضرت میمونہ ؓ کہتی ہیں میں نے کہا ۔یا رسول اللہ ! آپ نے یہ کیا فقرات فرمائے ہیں ۔یہ تو ایسے الفاظ ہیں جیسے آپ کسی سے گفتگو فرما رہے تھے ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں نے ابھی دیکھا ہے کہ خزاعہ کا ایک وفد میرے پاس آیا ہے اور وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ قریش نے بنو بکر کے ساتھ مل کر اُن پر حملہ کر دیا ہے اور اُن کے کئی آدمی مار ڈالے ہیں ۔اب آپ معاہدہ کے مطابق ہماری مدد کریں اور مکّہ والوں پر چڑھائی کر یں ۔اور میں نے انہیں کہا ہے کہ میں تمہاری مدد کیلئے بالکل تیار ہوں۔اب ادھر تو خزاعہ والوں نے اپنا وفد مدینہ بھجوا دیا اور اُدھر مکّہ والوں کو فکر ہوئی کہ اگر ہماری معاہدہ شکنی کی خبر مدینہ پہنچی تو مسلمان ہمار ا مقابلہ کر یں گے ۔چنانچہ انہوں نے ابو سفیان کو مدینہ بھجوایا اور اُسے کہاکہ جس طرح بھی ہو سکے تماس معاہدہ میں ردّ و بدل کروا دو تا کہ ہم پر معاہدہ شکنی کا کوئی الزام نہ آئے ۔وہ مدینہ پہنچا اور اُس نے یہ زور دینا شروع کیا کہ چونکہ صلح حدیبیہ کے وقت میں موجود نہیں تھا اور میں مکّہ کا بڑا رئیس ہوں اس لئے میرے دستخطوں کے بغیر وہ معاہدہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔اب میں چاہتا ہوں کہ نئے سرے سے معاہدہ کیا جائے ۔وہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں بھی حاضر ہو ا اور حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ سے بھی ملا مگر کسی نے اس کی طرف توجہ نہ کی ۔آخر جب ہر طرف سے مایوس ہو گیا تو خود ہی مسجد میں کھڑے ہو کر اُس نے اعلان کر دیا کہ چونکہ میں اس معاہدہ میں شامل نہیں تھا اور میں مکہّ کا رئیس ہوں اس لئے وہ معاہدہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔اب میں نئے سرے سے معاہدہ کرتا ہوں۔مسلمان اُس کی اس بے وقوفی پر ہنس پڑے اور وہ سخت ذلیل اور شرمندہ ہوا اور ناکام مکّہ کو واپس چلا گیا ۔اسی دوران ان میں رسول کریم ﷺ نے مکّہ پر حملہ کرنے کیلئے دس ہزار کا لشکر تیار کر لیا اور آپ منزلوں پر منزلیں طے کرتے ہوئے رات کے وقت مکّہ کے قریب جا پہنچے اور آپ نے حکم دے دیا کہ ہر خیمہ کے آگے آگ روشن کی جائے ۔ایک جنگل میں رات کے وقت دس ہزار آدمیوں کے خیموں کے سامنے بھڑکتی ہوئی آگ ایک ہیبتناک منظر پیش کر رہی تھی ۔مگر چونکہ آپ نے یہ تیاری نہایت مخفی رکھی تھی اس لئے مکّہ والوں کو اس بات کا کوئی علم نہ تھا کہ اسلامی لشکر اُن کے سامنے ڈیرہ ڈالے پڑا ہے لیکن اندر ہی اندر وہ سخت خوف زدہ تھے ۔اور ابو سفیان کی ناکامی انہیں اور زیادہ پریشان کررہی تھی ۔آخر انہوں نے دوبارہ ابو سفیان سے کہا کہ تم پھر مدینہ جائو اور مسلمانوں کے ارادوں کی خبر لو ۔ابو سفیان اپنے ساتھیوں کے ساتھ جب مکّہ سے باہر نکلا تو اُس نے سارے جنگل کو آگ سے روشن پا یا ۔وہ حیران ہوا کہ یہ کون لوگ ہیں۔چنانچہ ابو سفیان نے اپنے ساتھیوں سے پُو چھا کہ یہ کیا ہے ۔کیا آسمان سے کو ئی لشکر اُتر آیا ہے ۔انہوں نے مختلف قبائل کے نا م لئے مگر ابو سفیان ہر نام پر کہتا کہ اس قبیلہ کے لوگ تو بہت تھوڑے ہیں اور اِن کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اندھیرے میں آواز آئی ۔ابو حنظلہ ! یہ ابو سفیان کی کُنیت تھی ۔ابو سفیان نے آواز پہچان لی اور کہا ۔عبا س !تم کہاں ! اُس نے کہا سامنے محمد رسول اللہ ﷺ کا لشکر پڑا ہے ۔اگر تم اپنی جان کی خیر چاہتے ہو تو فوراً میرے پیچھے سواری پر بیٹھ جائو۔ورنہ عمر ؓ میرے پیچھے آرہا ہے اور وہ تیری خبر لیگا ۔چنانچہ حضرت عباس ؓ نے جو ابو سفیا ن کے گہرے دوست تھے اس کا ہاتھ پکڑا اور کھینچ کر اپنے پیچھے بٹھا لیا ۔اور سواری کو دوڑاتے ہو ئے رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے ۔وہاں جاتے ہی ابو سفیان کو انہوں نے رسول کریم ﷺ کے قدموں میں دھکا دیکر گر ا دیا ۔اور عرض کیا یا رسول اللہ ابو سفیان بیعت کرنے کیلئے حاضر ہو ا ہے ۔ابو سفیان اس نظارہ کو دیکھ کر اسقدر مبہوت ہو چکا تھا کہ اس کے منہ سے بات تک نہ نکلی ۔رسول کریم ﷺ نے اُسے دیکھا تو فرمایا عبا س! ابو سفیان کو اپنے ساتھ لے جائو اور رات کو اپنے پاس رکھو۔صبح اسے میرے پاس لانا۔جب صبح اُسے رسول کریم ﷺ کے پاس لایا گیا تو اُس وقت فجر کی نماز کا وقت تھا ۔جب اُس نے دیکھا کہ ہزاروں مسلمان محمد رسول اللہ ﷺ کی اقتداء میں کبھی کھڑے ہو جاتے ہیں ۔کبھی رکوع میں چلے جاتے ہیں ۔کبھی سجدہ میں گِر جاتے ہیں اور کبھی تشہد میں بیٹھ جاتے ہیں تو اُس نے اپنی بیوقوفی سے سمجھا کہ شاید یہ میرے لئے کوئی نئی قسم کا عذاب تجویز ہو رہا ہے ۔اور میرے قتل کی تدبیریں ہو رہی ہیں ۔چنانچہ اُس نے حضرت عبا س ؓ سے کہا کہ عباس ! یہ لوگ صبح صبح کیا کر رہے ہیں ۔میں دیکھتا ہوں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے تو دس ہزار آدمی اُنکی اقتداء میں کھڑے ہو گئے۔وہ رکوع میں گئے تو دس ہزار آدمی رکوع میں چلے گئے ۔وہ تشہد میں بیٹھے تو دس ہزار آدمی تشہد میں بیٹھ گئے ۔حضرت عبا س ؓ نے کہا یہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں ۔وہ حیران ہو کر کہنے لگا میں نے قیصر کا دربار بھی دیکھا ہے اور کسریٰ کا بھی ۔مگر میں نے تو ان بڑے بڑے بادشاہوں کی بھی اس طرح اطاعت نہیں دیکھی جس طرح یہ لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کر رہے ہیں۔حضرت عباس ؓ نے کہا ! ابو سفیان تم تو یہ کہتے ہو ان لوگوں کی تو یہ کیفیت ہے کہ اگر محمد رسول اللہ ﷺ انہیں کہیں کہ کھانا پینا چھوڑ دو تو یہ کھانا پینا بھی چھوڑ دیں ۔نماز کے بعد حضرت عبا س ؓ ابو سفیان ؓ کو رسول کریم ﷺ کی خدمت میں لے گئے ۔آپ نے ابو سفیا ن کو دیکھا اور فر مایا کہ ابو سفیا ن کیا ابھی تم پر وہ حقیقت روشن نہیں ہوئی کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ابو سفیان نے کہا۔میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔میں یہ بات اچھی طرح سمجھ چکا ہوں کہ اگر خدا کے سوا کوئی او ر بھی معبود ہوتا تو ہماری کچھ تو مدد کرتا ۔اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے فرمایا ۔ابو سفیان ! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ لو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ابو سفیا ن نے ترد د کا اظہار کیا۔مگرحضرت عباسؓ کے زور دینے کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ اُس کے دونوں ساتھیوں نے بھی بیعت کر لی تھی اُس نے بھی اسلام قبول کر لیا ۔پھر اُس نے کہا یا رسول اللہ ! اگر مکّہ کے لوگ تلوار نہ اُٹھائیں تو کیا وہ امن میں ہونگے ؟ آپ نے فرمایا ۔ہاں ! ہر شخص جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیگا اور مقابلہ نہیں کریگا اُسے امن دیا جائیگا ۔حضرت عباس ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ابو سفیان کو اپنے اعزاز کا زیاد ہ خیال رہتا ہے اس کی عزت کا بھی کوئی سامان کیا جائے۔آپ نے فرمایا اچھا جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائیگا اُسے بھی امن دیا جائیگا۔اُس نے کہا یا رسول اللہ ! مکّہ کی آباد ی کو مدنظر رکھتے ہوئے ابو سفیان کا گھر بہت چھوٹا ہے۔آپ نے فرمایا جو شخص حکیم بن حزام کے گھر میں داخل ہو جائیگا اُسے بھی امن دیا جائیگا۔اورجو شخص اپنے ہتھیار پھینک دیگا اُسے بھی امن دیا جائیگا ۔اور جو کوئی خانہ کعبہ میں چلا جائیگا اُس کو بھی امن دیا جائیگا ۔اُس نے کہا ۔یا رسول اللہ ! یہ جگہیں بھی مکّہ کی آبادی کے لحاظ سے کافی نہیں ۔آپ نے فرمایا اچھا میرے پا س کچھ کپڑا لائو۔جب کپڑا لایا گیا تو آپ نے اُس کا ایک جھنڈا بنایا اور پھر وہ جھنڈا آپ نے ایک صحابی ؓ ابو رویحہؓ کو دیا جو حضر ت بلا ل ؓ کے بھائی بنے ہوئے تھے ۔اور فرما یا کہ یہ بلا ل ؓ کا جھنڈا ہے جو کوئی اس کے نیچے آکر کھڑا ہو جائیگا اُس کو بھی معاف کر دیا جائیگا ۔
یہ تاریخی واقعہ بتاتا ہے کہ جب ابو سفیان نے مکّہ میں جا کر اعلان کیا ہوگا ۔تو کس طرح لوگ پاگلوں کی طرح اپنے اپنے گھروں کی طرف ۔خانہ کعبہ کی طرف ۔بلال ؓ کے جھنڈے کی طرف اور ابو سفیان اور حکیم بن حزام کے گھر کی طرف دوڑ پڑے ہونگے ۔اور کس طرح اُن کے دل اُس وقت لرز رہے اور ٹانگیں لڑکھڑا رہی ہونگی ۔اور اُن کے حواس باختہ ہو رہے ہوں گے ؟ اس موقعہ پر رسول کریم ﷺ نے جو بلال ؓ کا جھنڈا بنایا یہ ایک لطیف طریقہ مکّہ والوں کو ذلیل کرنے اور بلال ؓ کا دل خوش کرنے کا تھا ۔مکّہ والے صالہا سال تک بلال ؓ کو اس کے اسلام لانے کی وجہ سے مارا کرتے تھے ۔رسول کریم ﷺ کے دل میں خیال آیا کہ بلا ل ؓ دل میں کہیگاکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی قوم کو تو معاف کر دیا مگر میرے سینہ اور چھاتی پر لگے ہوئے زخموں کا کوئی بدلہ نہ لیا۔پس آپ نے اُن کا جھنڈا بنا کر اُن کے ایک منہ بولے بھائی کے ہاتھ میں دے دیا اور فرما یا کہ جو کوئی بلال ؓ کے جھنڈے کے نیچے آکر کھڑ ا ہو گا اُسے بھی معاف کیا جائیگا ۔( سیرۃ الحلبیہ جلد ۳ ص۹۳ ) اور اس طرح ایک ہی وقت میں آپ نے اپنی رحم دلی کا ثبوت بھی دے دیا اور بلال ؓ کے زخموں پر پھایا بھی لگا دیا ۔اَللَّھُمِّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِکَ وَسَلَّم۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ ۔۔۔۔۔۔اِلٰی عَذَابِ السَّعِیْرِہ
ترجمہ ۔ اور لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارہ میں بغیر علم کے بحث کرتے ہیں ( اور) ہر حق سے دُور اور سرکش کی اتباع کرتے ہیں (حالانکہ ) اِن سرکشوں اور حق سے دُور لوگوں ) کے متعلق فیصلہ کیا جاچکا ہے کہ جو شخص بھی ایسے آدمیوں میں سے کسی کے ساتھ دوستی کریگا وہ ( سرکش اور حق سے دُور شخص اُسکو بھی گمراہ کر دیگا اور دوزخ کے عذاب کی طرف لے جائے گا۔ ۳؎
۳؎ حل لغات : مَرِیْدٍ۔ اَلْخَبِیْثُ الْمُتَمَرِّدُ الشَّرِیْرُ۔مرید کے معنے ہیںشریر اور سرکش ۔
السَّعِیْرُ کے معنے ہیں اَ لنَّارُ ۔آگ ( اقرب)
تفسیر : فرمایا کہ بغیر واضح دلیل کے تو کسی معاملہ میں بھی نہیں جھگڑنا چاہئیے ۔پھر یہ کتنا ظلم ہے کہ کو ئی شخص خدا تعالیٰ کے متعلق کج بحثی شروع کر دے اور کسی سرکش شیطان کے پیچھے لگ جائے۔حالانکہ یہ الٰہی تقدیر ہے کہ جو شخص سرکش شیطان کے پیچھے لگ جائے اور اس کا دوست بن جائے ۔وہ اُسے گمراہ ہی کرتا ہے اور اُسے عذاب ہی کا رستہ دکھاتا ہے ۔اس آیت سے ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص بار بار شیطان کی بات ماننے لگتا ہے تو ان دونوں کا آپس میں دوستانہ تعلق ہو جاتا ہے اور یہ تعلق آخر اُسے جہنم تک پہنچا کر رہتا ہے ۔ایک دوسرے مقام پر بھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ یَّکُنِ الشَّیْطٰنُ لَہ‘ قَرِیْنًا فَسَآئَ قَرِیْنًا ہ ( نساء رکوع 6) کہ شیطان جس کا ساتھی بن جاتا ہے اُسے یاد رکھنا چاہئیے کہ وہ بہت ہی بُرا ساتھی ہے ۔اگر اس حالت میں بھی انسان اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہ کرے تو پھر بدیوں میں بڑھتے بڑھتے آخر وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ شیطان اس کا دوست نہیں رہتا بلکہ آقا بن جاتا ہے ،اور وہ اُس کی غلامی میں پورے طور پر جکڑا جاتا ہے ۔گویا مومن تو ہدایت پر سوار ہوتے ہیں مگر یہ شخص اتنا گِرجا تا ہے کہ شیطان اُس کی پیٹھ پر سوار ہو جاتا ہے اور وہ جدھر چاہتا ہے اُسے ہانک کر لے جاتا ہے ۔ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ بعض انسانوں کو ہم نے ایسا بنایا ہے کہ وہ شیطان کی پرستش کرنے لگ گئے ہیں ( مائدہ رکوع 9)گویا یہ ذلت کا انتہائی مقام ہے کہ وہ انسان جسے خدا نے اپنا عبد بننے کیلئے پیدا کیا تھا وہ اپنی بد کر داریوں سے شیطان کی فرمانبر داری کرنے لگ جا تا ہے ۔
اس جگہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کے بارے میں بھی کچھ روشنی ڈال دی جائے کہ وہ کیا چیز ہے ۔شیطان کے معنے عربی زبان کے لحاظ سے حق سے دُور ہونے والے وجود کے ہیں یا بدی میں ترقی کر جانے والے کے ۔اور ابلیس ایسے وجود کو کہتے ہیں جو مایوس ہو جائے ۔میری تحقیق کے مطابق شیطا ن اور ابلیس ایک ایسے وجود کا بھی نام ہے جسے خدا تعالیٰ نے انسانوں کے امتحان کیلئے ملائکہ کے مقابل میں رکھاہے ۔اس شیطان کیلئے اُس وقت تک کہ اس کا کا م پورا ہو موت نہیں ۔حضرت آدم علیہ السلام کے بالمقابل جو وجود کھڑا ہو اتھا وہ یہ شیطان بھی تھا اور اس کے اظلال بھی تھے ۔لیکن قصّۂ آدم میں جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں اُن کے دو حصّے ہیں۔ایک حصّہ بدی کے محرک کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ایک حصّہ اُس کے اظلال کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔پس حضرت آدم علیہ السلام کے وقت کا شیطان زندہ بھی ہے اور مر بھی چکا ہے۔وہ زندہ ہے اِن معنوں میں کہ محرک بدی انسانی نسل کے اس دنیا میں موجود رہنے تک قائم رکھا جائیگا ۔اور وہ مُردہ ہے ان معنوں میں کہ اُس کے وہ اظلال جن کا قصّہ آدم ؑ میں ذکر آتا ہے وہ اُسی زمانہ میں فوت ہوچکے ہیں ۔وہ شیطان جو محرک ِ بدی ہے اُس کے متعلق تو کسی ثواب اور عذاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔کیونکہ ایک آدمی کو قتل کرنیوالا آدمی پھانسی پاتا ہے لیکن بیسیو ں آدمیوں کو جلادینے والی بجلی تو کسی سزا کی مستحق نہیں ہوتی ۔زلزلہ کا مادہ علاقوں کو اجاڑ دیتا ہے۔اولوں کی بارش زمیندار و ں کو تباہ کر دیتی ہے ۔آندھیاں شہروں کو ویران کر دیتی ہیں ۔یہ دُکھ دینے والی چیزیں ہیں لیکن کسی شرعی الزام کے نیچے نہیں آتیں ۔بے شک شیطان اور ابلیس کا ٹھکانہ جہنم ہے جس طرح فرشتوں کا ٹھکانہ جنّت ہے لیکن نہ فرشتے جنّت سے متلذّذ ہو سکتے ہیں اور نہ شیطان جہنّم سے متالم ۔شیطان ایک ناری وجود ہے ۔کیا آگ کا انگارہ بھی بھٹی میں دُکھ پا سکتا ہے ؟ اُس کا تو مقام ہی وہی ہے ۔پس شیطان کے دوزخ میں جانے کے یہ معنے نہیں کہ اُس کو سزا دی جائے گی بلکہ وہ جس جگہ کی چیز ہے وہیں چلی جائیگی ۔ملائکہ اگر جنّت میں جائیں گے تو وہ کسی انعام کے بدلہ میں نہیں جائیں گے ۔اِسی طرح شیطان بھی دوزخ میں کسی سزا کی وجہ سے نہیں جائیگا ۔ہاں جو اس کے اظلال ہیں وہ اپنے اپنے مراتب کے مطابق سزا پائیں گے۔اس لئے کہ وہ ایسے کام کرتے ہیں جن کیلئے اُنکو پیدا نہیں کیا گیا ۔سزا ہمیشہ اُن کاموں کی ملتی ہے جو خلاف قانونِ طبعی ہوتے ہیں ۔انسان کو چونکہ خلقتًانیکی کیلئے پیدا کیا گیا ہے جیسے فرمایا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ۔ اس لئے جو شخص عبودیت کو ترک کر تا اور عبادت کو بھُلا دیتا ہے وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے ، مگر محرک بدی تو پیدا ہی امتحان کیلئے کیا گیا ہے اُس کو تو سزا تبھی مل سکتی ہے جب وہ تحریک ِ بدی میں سُستی کرے ۔ہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھر اسکو بُرا کیوں کہا جاتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی چیز کا بُرا ہونا اور شے ہے اور سزا کا مستحق ہونا اور شے۔ پاخانہ کو گھر سے اٹھا کر اس لئے نہیں پھینکتے کہ اسکو سزا دیتے ہیں بلکہ اس لئے کہ اُس کا رہنا ہماری صحت کیلئے مضر ہوتا ہے ۔یہی حال محّرک بدی شیطان کا ہے ۔وہ بیماری اور گناہ کا نمائندہ ہے ۔اس لئے لازمی طور پر اُسے برا کہا جائیگا لیکن باوجود اس کے وہ سزا کا مستحق نہیں ۔ہاں اس کے ماتحت کچھ اظلال ہیں جو انسانوں میں سے بھی ہیں اور جنّوں میں سے بھی ۔ایسی بد ارواح جن کا مقصد ِ پیدائش بدی نہیں لیکن بدی کو پسند کر کے وہ بدی کی محرّک ہو جاتی ہیں ۔یا ایسے انسان جو بدی کیلئے نہیں پید ا کئے گئے لیکن وہ بدی کو پسند کرکے بدی کے محّرک بن جاتے ہیں۔یہ لوگ بھی اپنے اپنے درجہ کے مطابق شیطان اور ابلیس ہیں ۔اور سزا کے مستحق ہیں ۔
یَٓا اَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِيْ رَیْبٍ۔۔۔۔۔۔۔بَیِّنٰتٍ وَّ اَنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یُّرِیْدُ
ترجمعہ () اے لوگو! اگر تم دوبارہ اٹھائے جانے کے متعلق شبہ میں ہو تو (یاد رکھو ) ہم نے تم کو پہلے مٹی سے پیدا کیا تھا ۔پھر نطفہ سے ۔پھر ترقی دیکر ایک ایسی حالت سے جو کہ چمٹ جانیکی خاصیت رکھتی تھی پھر ایسی حالت سے کہ وہ ایک بوٹی کے مشابہ تھی ۔کچھ عرصہ تک تو وہ ایک کامل بوٹی کی شکل رہی اور کچھ عر صہ تک ناقص بوٹی کی شکل رہی تاکہ ہم تم پر ( حقیقت حال ) ظاہر کر دیں ۔اور ہم جس چیز کو چاہتے ہیں رحموں میں ایک مدّت تک قائم کردیتے ہیں ۔پھر ہم تم کو ایک بچّہ کی شکل میں نکالتے ہیں ۔( پھر بڑھاتے جاتے ہیں ) جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تم اپنی مضبوطی ( کی عمر) کو پہنچ جاتے ہو اور تم میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو اپنی طبعی عمر کو پہنچ کے فوت ہو جاتے ہیں اور بعض تم میں سے ایسے ہو تے ہیں جو اپنی انتہائی بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تاکہ بہت کچھ علم حاصل کرنے کے بعد بالکل علم سے کورے ہو جائیں ۔اور تُو زمین کو دیکھتا ہے کہ وہ ( کبھی کبھی ) اپنی سب طاقت کھو بیٹھتی ہے پھر جب ہم اُس کے اوپر پانی نازل کرتے ہیں تو وہ جوش میں آجاتی ہے اور بڑھنے لگتی ہے اور ہر قسم کی خوبصورت کھیتیاں اُگانے لگتی ہے۔یہ اس لئے ہوتا ہے کہ ( ظاہر کیا جائے کہ ) اللہ تعالیٰ ہی قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی ہستی ہے اور وہ مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے ۔اور ہر چیز کیلئے جو وقت مقرر ہے وہ ضرور آکر رہیگا ۔اس میں کوئی شبہ نہیں ۔اور اللہ تعالیٰ یقینا اُن کو جو قبروں میں ہیں دوبارہ اُٹھائیگا۔اور لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے متعلق بغیر علم ، بغیر ہدایت اور بغیر کسی روشن کتاب کے اس میں بحث کرتے ہیں کہ اپنے پہلو موڑے ہوئے ( ہوتے) ہیں ( یعنی اظہار تکّبر کرتے ہیں ) تا کہ اللہ کے راستہ سے لوگوں کو گمراہ کریں ۔ایسے لوگوں کیلئے دنیا میں بھی رسوائی ہوگی اور قیامت کے دن بھی ہم اُنکو جلنے والا عذاب پہنچائیں گے ۔تمہارے ہاتھوں نے جو کچھ پہلے کیا تھا اُس کے نتیجہ میں یہ بات ظاہر ہوگی اور ( اس سے معلوم ہوگا کہ ) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ہر گز کسی قسم کا ظلم نہیں کرتا ۔اور لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت صرف بد دلی سے کرتے ہیں ۔پس اگر اُنکو کوئی فائدہ پہنچ جائے تو وہ اس (عبادت ) پر خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچ جائے تو اپنے منہ کی سیدھ لوٹ جاتے ہیں ۔وہ دنیا میں بھی گھاٹے میں پڑ جاتے ہیں اور آخرت میں بھی ۔اور یہی کھلا کھلا گھاٹا ہے ۔وہ اللہ کے سوا اُس چیز کو ہلاتے ہیں جو نہ اُن کو نقصان پہنچاتی ہے اور نہ نفع دیتی ہے ۔اور یہی انتہائی درجہ کی گمراہی ہے ۔وہ اس ( شخص ) کو بُلاتے ہیں جس کا ضرر اُس کے نفع سے زیادہ قریب ہے ۔ایسا آقا بھی بہت برا ہے اور ایسے ساتھی بھی بہت بُرے ہیں ۔اللہ تعالیٰ یقینا مومنوں کو جو مناسب حال عمل بھی کرتے ہیں ایسے باغات میں داخل کرے گا جن ( کے سایہ ) میں نہریں بہتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ جو چاہے کرتا ہے ۔جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی ( یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ) مدد کبھی نہیں کریگا نہ دُنیا میں نہ آخرت میں ۔تو اُسے چاہئیے کہ وہ ایک رسّی آسمان تک لے جائے (اور اوپر چڑھ جائے ) پھر اُسے کاٹ ڈالے۔پھر وہ دیکھے کہ کیا اُس کی تدبیر اس بات کو دُور کر دیتی ہے جو اُسے غصّہ دلا رہی ہے ( یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آسمانی امدادیں اور فتوحات ) اور ہم نے اسی طرح اس ( یعنی قرآن ) کو کھلے کھلے نشانات بنا کر نازل کیا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ یقینا جس کے متعلق ارادہ کرتا ہے اُسے صحیح راستہ دکھا دیتا ہے ۔ ۴؎
۴؎ حل لغات ۔ مُضْغَۃ’‘ کے معنے ہیں قِطْعَۃُ لَحْمٍ گوشت کا ٹکڑا ۔
مُخَلَّقَۃ’‘ کے معنے ہیں قَا مَّۃُ الْخَلْقِ ۔ پوری پیدا ئش والا ۔
ھَامِدَۃ’‘ : ھَمَدَتِ الْاَرْضُ کا فقرہ جب بولتے ہیں تو مراد ہوتی ہے اِذا لَمْ یَکُنْ بِھَاحَیَاۃ’‘ وَلَا عُوْد’‘ وَلَا نَبْت’‘ وَلَا مَطَر’‘ ۔جب زمین میں زندگی کے آثار نہ ہوں یعنی نباتا ت وغیرہ نہ ہو۔الاساس میں ہے ۔اَرْض’‘ ھَامِدَۃ’‘ قَدْ یَبسَ نَبَاتُھَاوَتَحَطَّمَ کہ جب اَرْض’‘ ھَامِدَۃ’‘ کا فقرہ بولیں تو اس سے مُراد یہ ہوتی ہے کہ وہ زمین جس کی نباتات خشک ہو چکی ہو ۔اور خشک ہو کر ٹوٹ پھوٹ چکی ہو ۔
اِھْتَزَّتْ : اِھْتَزََّّ سے مؤنث کا صیغہ ہے ۔اور اِھْتَزَّتِ الْاَرْضُ کے معنے ہیں اَنْبَتَتْ ۔زمین نے اُگایا ۔
بَھِیْج’‘ : بَھِجَ سے صفت مشّبہ کا صیغہ ہے ۔اور بَھِجَ بَہٖ کے معنے ہیں فَرِحَ بِہٖ وَسُرَّ ۔اس کو دیکھ کر خوش ہوا ۔پس بَھِیْج’‘ کے معنے ہونگے ۔خوش کرنے والا
عِطْف’‘ کے معنے ہیں جانب ۔پہلو ( اقرب )
حَرْفٍ : اَلْحَرْفُ مِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ طَرْفُہ‘ و َ شَفِیْرُہ‘ وَحَدُّ ہ‘۔ حَرْف’‘ کے معنے ہیں ہر چیز کا کنارہ اور اُس کی حد ۔
اَلْعَشَیْرُ کے معنے ہیں اَلصَّدِّ یْقُ دوست ۔( اقرب )
تفسیر : فرمایا ہے ، اے لوگو ! تم کو مرنے کے بعد کی زندگی کے متعلق کیوں شبہات ہیں ۔کیا تم دیکھتے نہیں کہ تمہاری پہلی پیدائش کس طرح بے جان چیزوں سے ہوئی ہے ۔مٹی سے سبزہ نکلتا ہے ۔پھر اس سبزہ کو کھا کر نطفہ بنتا ہے ۔پھر نطفہ خون کے لوتھڑے کی شکل اختیار کر تا ہے پھر وہ گوشت کی شکل اختیا ر کر لیتا ہے ۔جسکا کچھ حصہ تو انسانی جسم کی شکل اختیا ر کر چکا ہوتا ہے اور کچھ حصّہ ابھی ایسی شکل اختیار نہیں کر چکا ہوتا ۔پیدا ئش کی یہ ترتیب اس لئے رکھی گئی ہے تاکہ ہم اس سے تمہاری روحانی پیدا ئش کا اندازہ بھی تمھیں بتا سکیں۔اور جب ہم جنیں کو ایک حد تک پیدا کر لیتے ہیں توہم اس کو ایک عرصہ تک رحم میں رکھتے ہیں ۔پھر اُسے ایک بچہ کی شکل میں باہر نکالتے ہیں تاکہ آہستہ آہستہ تم اپنی جوانی کو پہنچو ۔اور تم میں سے کسی کی رُوح تو پہلے ہی یعنی دنیا میں کام کرنے سے پہلے قبض کر لی جاتی ہے ۔اور تم میں سے بعض کو بڑھاپے کی کمزور عمر تک لے جایا جاتا ہے تاکہ ایک خاص مقدار تک علم حاصل کر کے وہ بالکل جاہل ہو جائے ۔اور تم زمین کو بھی دیکھتے ہو کہ وہ بالکل بے طاقت پڑی ہوئی ہوتی ہے لیکن جب ہم اُس پر پانی بر ساتے ہیں تو وہ لہلہانے لگتی ہے اور اس کی سبزی اُگنے لگتی ہے اور ہر قسم کے خوبصورت نباتی جوڑے اُگانے لگتی ہے ۔یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر بات پوری ہو کر رہتی ہے ۔اور وہ مُردوں کو زندہ کرتا ہے ۔اور وہ ہر اس چیز پر قادر ہے جو اس کے منشاء کے مطابق ہو تی ہے ۔ہم نے یہ ترجمہ اس لئے کیا ہے کہ یہاں یہ نہیں آیا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر’‘ یعنی خدا تعالیٰ کی قدرت کا اظہار پسندیدہ چیزوں میںہوتا ہے ۔نا پسند یدہ چیزوں میں نہیں۔پس یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیا خدا جھوٹ بول سکتا ہے ؟ یا کیا خدا چوری کر سکتا ہے ؟ یا کیا خدا خود کشی کر سکتا ہے کیونکہ یہ سب چیزیں ناپسند دیدہ ہیں ۔اور قدرت کے اظہار کے خلاف ہیں۔قرآن شریف یہی کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پسندیدہ چیزوںکا اندازہ کرنے والا ہے جو قَدِیْر’‘ کے معنے ہیں ۔یعنی ایسے امور کو ظاہر کرنے والا ہے جو اس کے منشاء کو پورا کرتے ہوں ۔غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان تمام باتوں کو دیکھ کر تمہیں سمجھ لینا چاہئیے کہ جس طرح جسم کی پیدائش تدریجًا ہوتی ہے اسی طرح رُوح کی پیدا ئش بھی تدریج سے ہوتی ہے ۔پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کرتے ہی مسلمانوں کی ترقی اور اپنی تباہی کی امید نہیں لگا بیٹھنی چاہئیے ۔جس طرح جسم آہستہ آہستہ پیدا ہوتا ہے اسی طرح اسلام اور مسلمان بھی آہستہ آہستہ کمال حاصل کریں گے ۔اور جس طرح جسم پر ایک عرصہ کے بعد تنزل وارد ہوتا ہے اور وہ بالکل بے کار ہو جاتا ہے اسی طرح مسلمانوں کے مقابلہ میں تم بھی کچھ عرصہ کے بعد تنزل کا شکار ہو جائو گے اور تباہ ہو جائو گے ۔پس جلدی نہ کرو ۔نہ خدا کی طرف سے آنے والی زندگی فوراً اثر ظاہر کرتی ہے اور نہ قوموں پر آنے والی موت فوراً نتیجہ خیز ہوتی ہے ۔ہاں خدا کی باتیں ضرور پوری ہو کر رہتی ہیں ۔اور جس کیلئے زندگی مقدّر ہو اسکو زندگی مل جاتی ہے ۔اور جس کیلئے تباہی مقدّر ہو اُس پر تباہی آجاتی ہے ۔اور جن کیلئے زندگی مقدّر ہے خواہ وہ قبروں میں پڑے ہوئے نظر آتے ہوں پھر بھی وہ زندہ ہو کر رہیں گے اور جن کیلئے موت مقدّر ہے وہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کج بحثی کرتے چلے جائیں گے اور تکبّر سے کا م لیں گے اور چاہیں گے کہ دوسروں کو بھی گمراہی میں ڈالیں لیکن آخر وہ دنیا میں بھی ذلیل ہونگے اور قیامت کے دن بھی عذاب پائیں گے ۔لیکن خدا کی طرف سے آنے والا عذاب بلاوجہ نہیں ہوتا وہ انسان کی اپنی کرتوتوں کی وجہ سے ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ انسان اُس کی طرف پوری طرح متوجہ ہو ۔بے دلی سے اُس کی عبادت مقبول نہیں ہوتی ۔خوشی اور رنج دونوں میں اُس کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہئیے ۔ورنہ ایسے ایمان کا کوئی فائدہ نہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ ایمان جو انسان کو خدا تعالیٰ کے انعامات کا وارث کرتا اور اس کو مقّرب اور نعماء الٰہیہ کا جاذب بنا تا ہے وہ وہی ایمان ہوتا ہے جو ہر قسم کے شکوک و شبہات سے پاک اور ماسوی اللہ کی محبت سے خالی ہو۔ ہمارے ملک میں بھی لوگ کہا کرتے ہیں کہ دو کشتیوں میں پائوں رکھنے والا انسان غرق ہو کر رہیگا ۔اسی طرح خدا تعالیٰ بھی ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتا جو مُنہ سے تو اس کے ساتھ اپنی محبت کا دعویٰ کرتے ہوں اور عملی طور پر رات دن وہ دنیا پر گرے رہتے ہوں اور خدائی احکام کو پس پشت ڈال رہے ہوں ۔جب ترکوں نے بغداد پر حملہ کیا تو اٹھارہ لاکھ آدمی انہوں نے قتل کر دیا تھا ۔ایسی تباہی اور بربادی کے وقت کچھ لوگ ایک بزرگ کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ آپ دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس تباہی سے بچالے۔انہوں نے کہا میں کیا دُعا کروں ۔میں تو جب بھی ہاتھ اٹھاتا ہوں مجھے آسمان سے ملائکہ کی یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ اَیُّھَ الْکُفَّارُ اُقْتُلُوا لْفُجَّارَ یعنی اے کافر ان فاجر مسلمانوں کو خوب مارو۔حالانکہ بظاہر اُن میں سے ایک فریق جو مارا جارہا تھا خدا اور اس کے رسول ؐ پر ایمان رکھتا تھا اور دوسرا فریق دین سے کوئی تعلق نہیں رکھتا تھا مگر چونکہ مسلمان کہلانے والوں نے مذہب کو صرف نام کے طورپر قبول کیا تھا ۔اپنے قلوب میں انہوں نے کوئی تغّیر پیدا نہیں کیا تھا ۔اس لئے ان پر عذاب آگیا ۔پس انسان کو چاہئیے کہ وہ ہمیشہ اپنے ایمان کا جائزہ لیتا رہے اور دیکھتا رہے کہ اس کا خداتعالیٰ کے ساتھ کیسا تعلق ہے ۔اور آیا عسر اور یُسر دونوں حالتوں میں وہ وفاداری کے ساتھ اپنے عہد پر قائم ہے یا نہیں ۔اگر انعام کے وقت وہ خدا تعالیٰ کی تعریف کرتا اور مصیبت کے وقت یہ کہنا شروع کر دیتا ہے کہ خدا نے پہلے مجھ پر کونسا احسان کیا تھا جو یہ مصیبت بھی بھیج دی تو صاف پتہ لگ جاتا ہے کہ اُس کا ایما ن محض دھوکا تھا ۔کا مل الایمان وہی شخص کہلا سکتا ہے جو ہر ابتلاء اور مصیبت میں ثابت قدم رہتا ہے ۔بلکہ مصائب کے آنے پر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اور زیادہ جھک جاتا اور اپنے اندر پہلے سے بھی زیادہ عجز اور انکساری پیدا کرتا ہے ۔یہی بات اس جگہ بیان کی گئی ہے اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں ہر حالت میں خداتعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط رکھنا چاہئیے ۔اور کسی مصیبت میں بھی اس سے اپنا تعلق قطع نہیں کرنا چاہئیے ۔حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک بدوی نے رسول کریم ﷺ کی بیعت کی اور اسلام میں داخل ہوگیا مگر چنددنوں کے بعد ہی اُسے بخار ہوگیا ۔اس پر وہ رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اپنی بیعت واپس لیتا ہوں ۔ کیونکہ مجھے تپ آنے لگا ہے ( بخاری جلد ۴ ص۱۶۷مطبوعہ عثمانیہ مصریہ ) مگر اس کے مقابلہ میں ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے اپنی جانیں قربان کردیں مگر رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ساتھ جو عہد انہوں نے کیا تھا اس میں کوئی رخنہ واقع نہ ہونے دیا ۔حقیقت یہ ہے کہ سچے تعلق اور اخلاص کا پتہ ہی اسی وقت لگتا ہے جب انسان پر کوئی ابتلاء آتا ہے ۔ورنہ آرام اور آسائش کی حالت میں تو کمزور ایمان والے بڑی عقیدت اور تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔قرآن کریم کے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی یہ کیفیت بیان فرمائی ہے کہ
کُلَّمَٓا اَضَآ ئَ لَھُمْ مَّشَوْا فِیْہِ وَاِذَٓا اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ قَامُوْا ( بقرۃ رکوع ۲)کہ جب کبھی بجلی ان کے لئے روشنی پیدا کر دیتی ہے تو وہ اُس میں چلنے لگتے ہیں اور جب اندھیرا کر دیتی ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں۔یعنی امن کے دن ہوں تو منافق مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں ۔لیکن مشکلا ت کا وقت آئے تو الگ ہو جاتے ہیں ۔ایسا ایمان انسان کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا ۔اس آیت میں یہی بتا یا گیا ہے کہ جس شخص کا تعلق خدا تعالیٰ سے ایسا کمزور ہو وہ بھی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔اور پھر یہ تو اور بھی حماقت ہے کہ انسان خدا کی عبادت کو چھوڑ کر بتُوں کی عبادت اختیار کرے جو نہ نقصان دیتے ہیں نہ نفع ۔بلکہ اُن کی عبادت سے نقصان کا احتمال تو ہے نفع کا نہیں ۔ان لوگوں کے مقابلہ میں وہ لوگ جو ایک خدا کی پر ستش کرتے ہیں وہ اگلے جہان میں بھی سُکھ پائیں گے اور اس دُنیا میں بھی سُکھ پائیں گے ۔چنانچہ جو لوگ ایسا گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے کامل موحد بندے یعنی محمد رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی مدد نہیں کریگا۔نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں انہیں چاہئیے کہ وہ آسمان تک ایک رسی لے جائیں اور اُس پر چڑھ کر رسّی کو کاٹ ڈالیں ۔اور زمین پر گِر کر مر جائیں کیونکہ اُن کی یہ اُمید کبھی بر نہیں آئے گی۔وہ اسی طرح تمّنا ئیں کرتے کرتے ہلاک ہو جائیں گے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی اور آپ کے عروج کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے ۔پس اپنی ناکامی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی دیکھنے سے انہیں اُن کی موت ہی بچا سکتی ہے ۔اس کے سوا اور کوئی ذریعہ باقی نہیں ۔آسمان پر خدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی کامیابی اور آپ کی غیر معمولی فتوحات کا فیصلہ کر چکا ہے ۔اور دشمنوں کے مقابلہ میں اُس کی تلوار کھچ چکی ہے ۔اب مخالف بے شک جتنی چاہیں تدبیریں کریں اور بیشک حسد کی آگ انہیں رات دن جلاتی رہے انہیں یاد رکھنا چاہئیے کہ جس بات پر انہیں غصّہ آرہا ہے اُسکے متعلق اُن کی تدبیریں ہمیشہ ناکامی و نامرادی کا مُنہ دیکھیں گی اور وہ ایک دن ایڑیاں رگڑ رگڑ کر حسد کی موت مریں گے ۔لیکن اسلام ترقی کرے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم دنیا میں پھیل کر رہے گی ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْد’‘ ہ
ترجمہ () یقیناجو لوگ ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر) ایمان لائے اور وہ لوگ جو یہودی بن گئے اور صابی اور نصرانی اور مجوسی اور وہ لوگ بھی جنہوں نے شرک کیا ۔اللہ تعالیٰ یقینا ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کردے گا ۔اللہ تعالیٰ یقینا ہر ایک چیز کا نگران ہے ۔ ۵؎
۵؎ تفیسر: فرماتا ہے جولوگ توحید پر چلتے ہیں اُن کے بھی مختلف مدارج ہیں ۔ایک درجۂ توحید تو مسلمانوں کا ہے اور ایک درجہ یہودیوں کا اور ایک صابیوں کا اور ایک عیسائیوں کا ( عیسائی شروع میں موحد ہوتے تھے ) اور ایک مجوس کا اور ایک مشرکوں کا ( مشرک قوم میں بھی بعض لوگ ایسے تھے ۔جو توحید کے قائل تھے ۔چنانچہ مکّہ کا ایک شخص زید تھا ۔جو خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل تھا ۔)پھر فرمایا کہ ان سب مدعیانِ ایمان کا اللہ تعالیٰ آخری فیصلہ کے دن فیصلہ کردے گا یعنی جو اُن میں سے اپنے دعویٰ میں سچّے ہونگے وہ غالب آجائیں گے اور جو اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہونگے وہ اپنے اپنے جھوٹ کے مطابق مغلوب ہو جائینگے چنانچہ فیصلہ کے دن مسلمان غالب آگئے اور مشرک جن میں سے بہت کم لوگ موحد تھے بالکل تباہ ہو گئے اور یہود اور صابی اور نصاریٰ اور مجوسی اپنی اپنی کمزوری کی حد تک سزا پاگئے ۔جس سے ثابت ہو گیا کہ اسلام سچّا مذہب ہے ۔اس آیت سے بعض لوگ یہ غلط نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہودی اور عیسائی اور صابی سارے کے سارے دینوں کو اسلام سچّا قراد دیتا ہے حالانکہ اس کے اصل معنوں کی رد سے اس جگہ ایک معیار ِ صداقت بتا یا گیا ہے کہ جو اس معیارِ صداقت پر پورا اُترے گا ۔وہ سچّا ہوگا یہ نہیں کہا گیا کہ یہ قومیں سچّی ہیں ۔
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہ‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَایَشَٓائُ ہ
ترجمہ()( اے اسلام کے مخالف! ) کیا تُو نہیں دیکھتا کہ جو کوئی بھی آسمان میں ہے وہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتا ہے اور اسی طرح جو کوئی زمین میں ہے اور سورج بھی اور چاند بھی اور ستارے بھی اور پہاڑ بھی اور درخت بھی اور چارپائے بھی اور لوگوں میں سے بھی بہت سے۔لیکن لوگوں میں سے ایک گروہ کثیر ایسا ہے جس کے متعلق عذاب کا فیصلہ ہو چکا ہے اور جس کو خدا ذلیل کرے ۔اُسے کوئی عزّت دینے والا نہیں ۔اللہ تعالیٰ جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے ۔ ۶؎
۶؎ تفسیر : فرماتا ہے ۔آسمان اور زمین میں ایک ایسا قانون جاری ہے کہ جس کی فرمانبرداری سے کوئی شخص اپنے آپ کو آزاد نہیں کر سکتا ۔مثلاً دیکھو خداتعالیٰ نے زبان بنائی ہے ۔اب ایک طرف تو انسان کو اتنی آزادی حاصل ہے کہ وہ اس زبان سے اگر چاہے تو خدا تعالیٰ کو بھی گالیاں دے لے لیکن دوسری طرف اگر اس زبان کے سامنے دنیا کے تمام بادشاہ ، وزراء ، علماء اور فقہاء ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جائیں کہ میٹھے کو کھٹا چکھ یا کھٹے کو کڑوا چکھ تو وہ ایسا کبھی نہیں کر ے گی ۔وہ میٹھے کو میٹھا ہی چکھے گی ۔اور کھٹے کو کھٹا ہی چکھے گی ۔گویا ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے انسان کواتنی آزادی دی ہے کہ اگر وہ چاہے تو خدا تعالیٰ کو بھی بُرا بھلا کہہ لے۔اور دوسری طرف اس میں اتنی طاقت بھی نہیں رکھی کہ وہ میٹھے کو کڑوا چکھے یا کڑوے کو میٹھا چکھے۔اور اگر کسی جگہ اس میں تبدیلی بھی نظر آتی ہے تو وہ بھی خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت ہی ہوتی ہے ۔مثلاً اگر کسی کا جِگر خرا ب ہے تو اُسے میٹھی چیز کڑوی لگتی ہے یا بعض خرابیو ں کی وجہ سے نمک تیز محسوس ہونے لگتا ہے یا میٹھی چیز میں مٹھاس کم معلوم ہو تی ہے ۔یا پھیکی چیز کڑوی معلوم ہو تی ہے مگر یہ تبدیلی بھی خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے ماتحت ہی ہوتی ہے ورنہ جن چیزوں پر انسان کو اختیار حاصل نہیں ان میں اُس کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی ۔مثلاً تمہاری انگلی ہے ۔اگر تم اُسے کسی سوئی کے ناکہ میں ڈالنے کی کوشش کرو تو اس کو ناکہ میں نہیں ڈال سکتے خواہ کوئی جرنیل ہو ۔نواب ہو ، بادشاہ ہو ، دُنیا کی بڑی سے بڑی حکومت اس کے پاس ہو ۔وہ اپنی انگلی سوئی کے ناکہ میں نہیں ڈال سکتا ۔یا مثلاً آواز ہے اگر تمہیں کسی عزیز کی آواز آرہی ہو۔توتم اگر چاہو بھی تواُسے کسی دوسرے شخص کی آواز نہیں بنا سکتے ۔کسی کے ہاں بدصورت لڑکا پیدا ہو تو اگر وہ چاہے کہ وہ خوبصورت ہو جائے تو وہ اُسے خوبصورت نہیں بنا سکتا۔کسی کے لڑکے کا قد چھوٹا ہو تو اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ وہ اس کے قد کو لمبا کر دے یا مثلاًخداتعالیٰ نے آنکھ دیکھنے کیلئے بنائی ہے تو آنکھ ہمیشہ سُرخ کو سُرخ اور زرد کو زرد دیکھے گی یہ کبھی نہیں ہوگا کہ وہ سُرخ کو زرد دیکھنا چاہے تو وہ زرد دیکھنے لگ جائے اور زرد کو سُرخ دیکھنا چاہے تو سُرخ دیکھنے لگ جائے ۔گویا ایک قانون ہے جس کی اطاعت سے کوئی شخص باہر نہیں نکل سکتا ۔اسی طرح سورج کیا اور چاند کیا اور ستارے کیا اور پہاڑ کیا اور درخت کیا اور چوپائے کیا سب ایک خاص نظام کے ماتحت کام کر رہے ہیں ۔اور ہر ایک اپنی اپنی ڈیوٹی ادا کر رہا ہے ۔پھر تم اِن چیزوں کو خدا کس طرح قرار دیتے ہو۔یہ چیزیںتو خود تمہارے سامنے ایک خد متگار کے طور پر کھڑی ہیں مگر تم ایسے احمق ہو کہ انہی کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جاتے ہو اور اس طرح اپنے آپ کو ذلیل کرتے ہو۔اس نظام ِکائنات کی طرف اِس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کائنات پر غور کرنے سے صاف ثابت ہو تا ہے کہ تمام کائنات قانون قدرت کے تابع ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار ہے ۔اور اکثر انسان بھی قانونِ قدرت کے تابع ہیں ۔اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ بعض انسان قانونِ قدرت سے آزاد ہیں بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ بعض انسان قانون ِ قدرت کو توڑ نے کی بھی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔جیسے بدپرہیزی کے ذریعہ ۔اور ان لوگوں میں سے اکثر پر عذاب آجاتا ہے ۔جو قانونِ قدرت کے اٹل ہو نے پر دلالت کرتا ہے ۔اور ثابت ہو جاتا ہے کہ خداتعالیٰ کے قانون کو توڑنے سے کو ئی شخص عزّت نہیں پا سکتا اور اُسی کی مشئیت آخر دنیا میں غالب آتی ہے ۔
ھٰذَانِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ ہ ع۲۳
ترجمہ()یہ دو باہم مخالفت کرنے والے گروہ ایسے ہیں جو اپنے رب کے بارہ میں جھگڑرہے ہیں ۔پس جو اللہ تعالیٰ کی مذکورہ بالا صفات کے کافر ہوئے اُن کیلئے آگ کے کپڑے بنائے جائیں گے۔او ر اُن کے سِروں پر گر م گرم پانی ڈالا جائیگا۔(حتّی کہ ) اس گرم پانی کی وجہ سے جو کچھ اُن کے پیٹ میں ہے وہ بھی گل جائیگا اور اُنکے چمڑے بھی (گل جائینگے)۔اور اُن کیلئے لوہے کے ہتھوڑے ( تیار کئے جائیں گے )۔جب وہ غم اور فکر کی وجہ سے اُس عذاب سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو پھر اسی طرف لوٹا دیئے جائیں گے ( اور کہا جائیگا) جلانے والا عذاب بھگتتے چلے جائو ۔ ۷؎
۷؎ حل لغات :
یُصْھَرُ صَھَرَ سے مضارع مجہول کا صیغہ ہے اور صَھَرَ الشَّیْئَ کے معنے ہیں اَذَابَہ‘۔ اُس نے پگھلایا ۔پس یُصْھَرُ کے معنے ہیں اُس کو پگھلایا جائیگا ۔
مَقَامَعُ : اَلْمِقْمَعَۃُ کی جمع ہے ۔اور اَلْمِقْمَعَۃُ کے معنے ہیں اَلْعَمُوْدُ مِنْ حَدِیْدٍ لوہے کی گرز۔ وَقِیْلَ کَالْمِحْجَنِ یُضْرَبُ بَہٖ رَأ سُ الْفِیْلِ۔ بعض علمائے لغت یہ کہتے ہیں کہ مَقْمَعَۃ’‘ کے معنے ایسی چھڑی کے ہیں جس کے ذریعہ سے ہاتھی کے سر پر ضرب لگائی جاتی ہے ۔اسی طرح مَقْمَعَۃ’‘ کے معنے ہیںخَشْبَۃ’‘ یُضْرَبُ بِھَا الْاِنْسَانُ عَلٰی رَأسِہٖ لِیُذَلَّ وَیُھَانَ۔وہ لکڑی جس کے ذریعہ سے انسان کے سر پر اس لئے مارا جاتا ہے تا کہ وہ ذلیل اور رسوا ہو (اقرب)۔
۷؎ تفسیر : فرماتا ہے۔یہ دو گروہ یعنی قانونِ قدرت کی اتباع کرنیو الے اور اس سے آزادی چاہنے والے اپنے رب کے بارے میں جھگڑتے رہتے ہیں ۔لیکن نتیجہ ثابت کر دیتا ہے کہ ان میں سے حق پر کو ن ہے اور باطل پر کون ۔چنانچہ قانونِ قدرت کا مقابلہ کرنیوالے ہمیشہ ناکامی اور نا مرادی کا مُنہ دیکھتے رہتے ہیںاور ایک روحانی آگ میں پڑے رہتے ہیں۔اُن کے سروں پر بھی گرم پانی پڑتا رہتا ہے ایسا گرم پانی جو اُن کے پیٹوں تک کی چیزوں کو جلا دیتا ہے ۔یعنی اُن کے دماغوں میں ایسے وحشیانہ خیالات آتے رہتے ہیں جو اُن کو سیاہ باطن ثابت کرتے رہتے ہیں ۔ایسے لوگوں کو سخت سزا دی جائیگی ۔جو صرف اندرونی ہی نہیں بلکہ بیرونی بھی ہوگی ۔یعنی پہلی سزا تو یہ ہوگی کہ اُن کے دلوں میں پریشان خیالات اٹھیں گے جن سے اُن کا باطنی امن بر باد ہو جائیگا ۔اور پھر بیرونی سزائیں بھی ملیں گی ۔یعنی خارجی امن بھی بر باد ہو جائیگا ۔اور جتنی کوشش بھی وہ عذاب سے بچنے کی کرینگے اتنا ہی وہ اُس میں اور پھنستے چلے جائیں گے ۔کیونکہ اُن کے عذاب کی بنیاد اُن کے دماغی خیالات پر ہو گی ۔اوردماغی خیالات پر قابو پانا اُن کے بس کی بات نہیں ۔پس اندرونی سزا بھی اور بیرونی سزا بھی جاری رہے گی ۔کیونکہ اندرونی سزا بیرونی سزا کو کھینچتی ہے ۔
اس آیت میں روحانی اور جسمانی دونوں عذابوں کا ذکر ہے ۔اور بتایا گیا ہے کہ اُن کے جسم تو آگ میں جلتے ہی ہونگے ۔اُن کے دلوں میں بھی آگ لگی ہوئی ہوگی جس سے بچنے کا انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آئیگا۔
اِنَّ اللّٰہَ یُدْ خِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَلِبَا سُھُمْ فِیْھَا حَرِیْر’‘ ہ آیت ۲۴
ترجمعہ() اللہ تعالیٰ یقینا مومنوں کو جو مناسب حال عمل کرتے ہیں ایسے باغات میں رکھّے گا جن ( کے سایہ ) میں نہریں بہ رہی ہوں گی ۔اُن کو اس میں سونے اور موتیوں کے جڑاو والے کنگن پہنائے جائیں گے ۔اور اُن کا لباس اُس میں ریشم کا ہوگا۔ ۸؎
۸؎ تفسیر: اس سے یہ مرادنہیں کہ مادی سونے کے کنگن اُن کو پہنائے جائیں گے ۔مادی سونا تو وہ حقیر چیز ہے جس کو اس دنیا میں بھی مومن پھینک دیتا ہے ۔اگلے جہاں میں اُس کو کیا مزہ آئیگا ۔پس یہ ایک تمثیلی زبان ہے ۔اور کنگن سے مراد زینت کا سامان ہے ۔اور سونے سے مراد یہ ہے کہ وہ سامان تباہ ہونے والا نہیں ہوگا۔کیونکہ سونے کو زنگ نہیں لگتا اور موتی سے بھی یہی مراد ہے کہ وہ سامان انسان کی طبیعت میں ایک چمک اور ملائمت پیدا کر یں گے ۔جیسا کہ موتی ہوتا ہے ۔
وَ لِبَا سُھُمْ فِیْھَا حَرِیْر’‘ میں بتایا کہ اگلے جہاں میں انہیں ایسا تقویٰ ملے گا جس کے اختیار کرنے میں انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ بھی لباس سے مشابہت رکھتا ہے ۔جیسا کہ آتا ہے ۔
وَ لِبَا سُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْر’‘( اعراف رکوع ۳) مگر فرماتا ہے کہ اس دنیا میں تو تقویٰ کا لباس پہننے کے لئے بڑی جدو جہد کرنی پڑتی ہے اور تکلیف اٹھانی پڑتی ہے ۔لیکن اگلے جہان میں تقویٰ کا لباس ریشم کے مشابہ ہوگا ۔یعنی اس کو اختیار کرنے کیلئے تکلیف نہیں اٹھانی پڑے گی بلکہ وہ نہایت آرام دہ ہوگا اور طبیعت خود بخود ہی تقویٰ کی طرف مائل ہو گی اُسے مجبور نہیں کرنا پڑے گا ۔
وَھُدُوْ آ اِلَی الطَّیِّبِ ۔۔۔۔۔۔ اِلَی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ ہ
ترجمہ()اور اُن کی پاک باتوں کی طرف راہنمائی کی جائے گی ۔اور قابلِ تعریف طریق کار کی ہدایت کی جائے گی ۔ ۹؎
۹؎ تفسیر: : پھر فرماتا ہے کہ صرف لباس ہی نہیں اُن کی زبان بھی بڑی اچھی ہوگی اور طور طریقہ بھی اچھا ہوگا ۔یہاں تک کہ اُن کے ہمسائے اور اللہ تعالیٰ بھی اُن کے طور طریقے کی تعریف کرے گا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنّت صرف بیکار بیٹھنے کی جگہ نہیں بلکہ عمل کا مقام ہے ۔صرف اتنا فرق ہے کہ اس جہان میں انسان سے گناہ بھی صادر ہو جاتا ہے ۔مگر وہاں کوئی بُرا فعل سر زد نہیں ہوگا ۔اور انسان ہر قسم کے روحانی تنزل سے محفوظ رہے گا ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَیَصُدُّوْنَ ۔۔۔۔۔۔۔مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ ہ
ترجمہ() (لیکن) وہ لوگ جوکافر ہیں اور اللہ کے راستہ سے اور بیت اللہ کی طرف جانے سے جس کو ہم نے تمام انسانوں کے فائد ہ کیلئے بنایا ہے روکتے ہیں ( حالانکہ وہ بیت اللہ ایسا ہے جسکو ہم نے تمام انسانوں کیلئے بنایا ہے ) ان کیلئے بھی جو اُس میں بیٹھ کر عبادت کرتے ہیں اور اُن کیلئے بھی جو جنگلوں میں رہتے ہیں ۔اور جو کوئی شخص اس ( دنیا ) میں ظلم کی راہ سے کو ئی کجی پیدا کرنا چاہے گا اُس کو ہم دردناک عذاب دیں گے ۔ ۱۰؎
۱۰؎ حل لغات: یَصُدُّوْنَ صَدَّ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور صَدَّ عَنْہُ کے معنے ہیں اَعْرَضَ عَنْہُ ومَالَ ۔اس سے اعراض کیا اور ہٹ گیا ۔اور صَدَّ فُلَا فًا عَنْ کَذَا کے معنے ہیں مَنَعَہ‘ وَ دَفَعَہ‘ وَصَرَفَہ‘ عَنْہُ ۔ کسی کو کسی بات سے روکا اور دُور رکھا اور ہٹا ئے رکھا ۔ (اقرب ) پس یَصُدُّوْنَ کے معنے ہونگے (۱) وہ رکتے ہیں (۲) وہ دوسروں کو روکتے ہیں ۔
اَلْعَاکِفُ کے معنے ہیں اَلْمُقِیْمُ۔ رہنے والا ۔اَلْبَادُ کے معنے ہیں اَلْمُقِیْمُ الْبَادِیَۃِ ۔یعنی صحرا اور جنگل میں رہنے والا (مفردات ) ۔
اِلْحَاد’‘ ۔ اَلْحَدَ کا مصدر ہے اور اَلْحَدَ عَنْ دِیْنِ اللّٰہِ کے معنے ہیں مَالَ و حَادَ وَعَدَلَ ۔خداتعالیٰ کے دین سے ہٹ گیا ۔اور مَنْ یُّرِدُ فِیْہِ بِاِ لْحَادٍ بِظُلْمٍ کے معنے ہیں اَیْ یُرِدْ عُدُوْلًا عَنِ الْحِقِّ کہ جو حق سے دور ہونے اور ہٹنے کا ارادہ کرے گا ۔
۱۰؎ تفسیر: فرماتا ہے جو لوگ کعبۃ اللہ کے ساتھ تعلق چھوڑ دیں گے اور اس کی طرف جانے میں روک پیدا کریں گے وہ دنیا میں مساوات قائم کرنے سے محروم رہیں گے اور آخرت میں بھی عذاب پائیں گے ۔سَوَآئَ اِلْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ میں اس مساوات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اسلام نے بیت اللہ کے قیام میں مدنظر رکھی ہے اور بتایا ہے کہ یہ مسجد کسی خاص فر د کے لئے نہیں بلکہ تمام بنی نو ع انسان کیلئے بنائی گئی ہے ۔اس میں غریب اور امیر اور شرقی اور مغربی کا کوئی امتیاز نہیں ۔اس کا دروازہ ہر ایک کیلئے کھلا ہے ۔اس کیلئے بھی جو اُس میں بیٹھ کر خدا کی عبادت کرتا ہے اور اس کیلئے بھی جو جنگلوں میں رہتا ہے ۔تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک عیسائی قبیلہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذہبی تبادلہ خیالات کرنے کیلئے آیا جس میں اُن کے بڑے بڑے پادری بھی شامل تھے ۔مسجد میں گفتگو شروع ہوئی اور گفتگو لمبی ہوگئی ۔معلوم ہوتا ہے وہ اتوار کا دن تھا جو عیسائیوں میں عبادت کا دن ہے ۔جب اُن کی نماز کا وقت آگیا تو اس قافلہ کے ایک پادری نے کہا کہ اب ہماری عبادت کا وقت ہے آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم باہر جاکر نماز ادا کر آئیں ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔آپ لوگوں کو باہر جانے کی کیا ضرورت ہے ہماری مسجد میں ہی عبادت کر لیں ۔آخر ہماری مسجد بھی خدا تعالیٰ کے ذکر کیلئے ہی بنائی گئی ہے ۔چنانچہ ان لوگوں نے اپنے طریق کے مطابق مسجد نبویؐ میں ہی عبادت کی ۔(تفسیر جامع البیان لابن جریر الطبری ۔الجزء الثالث ص100مطبوعہ المیمنہ مصر) یہ تاریخی واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کے نزدیک مسجد کا دروازہ ہر مذہب و ملّت کے شرفاء کیلئے کھلا ہے اور وہ اپنے اپنے طریق کے مطابق اس میں عبادت بجا لا سکتے ہیں ۔
پھر عبادات میں مساوات قائم کرنے کیلئے اسلام نے امامت کیلئے بھی کسی خاندان یا کسی خاص قوم کی خصوصیت نہیں رکھی ۔عیسائیوں میں مقرر ہ پادری کے سوا کوئی دوسرا آدمی نماز نہیں پڑھا سکتا ۔سکھّوں میں گرنتھی کے سوا دوسرا شخص گرنتھ صاحب کا پاٹھ نہیں کر ا سکتا لیکن اسلام
پادریوں اور پنڈتوں کا قائل نہیں ۔وہ ہر نیک انسان کو خداتعالیٰ کا نمائندہ سمجھتا ہے اور ہر نیک انسان کو نماز میں راہنمائی کا حق دیتا ہے۔پھر غریب اور امیر مسجد میں ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ایک جج اور ایک ملزم اور ایک جرنیل اور ایک سپاہی پہلو بہ پہلو کھڑے ہوتے ہیں۔اورکوئی شخص کسی دوسرے کو اُس کی جگہ سے پیچھے نہیں ہٹا سکتا ۔انگریزوں کے گرجوں میں مختلف سیٹوں پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ یہ جگہ فلاں لاٹ صاحب کیلئے ہے ۔اور یہ فلاں خاندان کیلئے مخصوص ہے ۔لیکن مسلمانوں میں اس قسم کا کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جاتا کیونکہ مسجد میں اسلام نے ہر ایک کو برابر کا حق دیا ہے ۔میں جب عرب ممالک میں گیا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ ایک مسجد کی ایک جہت میں ایک حجرہ بنا ہوا تھا ۔اور اس کے ارد گرد کٹہرا لگا ہوا تھا ۔میں نے بعض لوگوں سے اس کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہو اکہ پُرانا زمانہ میں جب بادشاہ آتے تھے تو وہ اس حجرہ میں نماز پڑھا کرتے تھے۔اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ایک دفعہ کوئی بادشاہ آیا۔اور اس کے ساتھ ہی ایک جھاڑو دینے والا بیٹھ گیا ۔اُسکے نوکروں نے اُسے ہٹا نا چاہا تو سب مسلمان اور قاضی پیچھے پڑگئے اورانہوں نے کہا یہ خدا کی مسجد ہے ۔یہاں چھوٹے اوربڑے کا کوئی سوال نہیں ۔مسجد میں اگر کوئی بڑے سے بڑا آدمی بھی بیٹھا ہو تو اُس کے ساتھ اُس دن کا نو مسلم جو خاکروبون یا ساہنسیوں میں سے آیا ہو کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتا ہے۔چاہے وہ بڑا آدمی بادشاہ ہی کیوں نہ ہو ۔چنانچہ اس کو نہ اٹھایا گیا ۔مگر بادشاہ پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ اُس نے جگہ بدل کر پیچھے کی طرف اپنے لئے حجرہ بنوایا ۔میں نے جب یہ واقعہ سُنا تو اپنے دل میں کہا کہ اسلام کے ایک حکم کی بے حرمتی کی وجہ سے خداتعالیٰ نے آئندہ اس سے مسجد میں نماز پڑھنے کی توفیق ہی چھین لی ۔کیونکہ جس جگہ حجرہ بنایا گیا تھا وہ مسجد کا حصّہ نہیں تھا ۔بہر حال اسلام نے مساجد میں بڑے اور چھوٹے کا کوئی امتیاز نہیں رکھا ۔اور اس طرح بنی نوع انسان میں اُس نے ایک بے نظیر مساوات قائم کر دی ہے ۔
وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِ بْرٰھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ ۔۔۔ وَالرُّ کَّعِ السُّجُوْدِ ہ
ترجمہ () اور ( یاد کرو) جب ہم نے ابراہیم ؑ کو بیت اللہ کی جگہ پر رہائش کا موقعہ دیا ( اور کہا ) کہ کسی چیز کو ہمارا شریک نہ بنائو۔اور میرے گھر کو طواف کرنیوالوں کیلئے اور کھڑے ہو کر عبادت کرنیوالوں کیلئے اور رکوع کرنیوالوں کیلئے اور سجدہ کرنیوالوں کیلئے پاک کر ۔ ۱۱؎
۱۱؎ حل لغات :
بَوَّاْنَا ۔ بَوَّاْ سے جمع متکّلم کا صیغہ ہے ۔اور بَوَّأَ لَہ‘ مَنْزِلًا کے معنے ہوتے ہیں ھَیَّاہُ وَ مَکَّنَ لَہ‘ فِیْہِ اُس کے لئے مکان تیار کروایا اور اس میں اس کو جگہ دی ( اقرب) پس بَوَّاْنَا لِاِ بْرَاھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ کے معنے ہیں ۔ہم نے ابراہیم ؑ کو خانہ کعبہ کے مقام پر جگہ دی ۔
۱۱؎ تفسیر:
فرماتا ہے کہ یاد رکھو کہ ہم نے اس گھر کی تعمیر ابراہیم ؑ کے زمانہ سے شروع کی ہے ۔اور اس تعلیم سے شروع کی ہے کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگ شرک نہ کریں اور مسافروں اور اس گھر کے پاس رہنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کیلئے اس گھر کو پا ک رکھیں ۔اِن آیات سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جس قربانی کا مطالبہ کیا تھا ۔اور جس کے ماتحت وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ کر چلے گئے اس کی اصل غرض یہ تھی کہ وہ بڑے ہو کر بیت اللہ کی حفاظت اور دینِ ابراہیمی کی خدمت کریں ۔اور ان کے ذریعہ وہ اولاد پیدا ہو جس کے ہاتھوں خداتعالیٰ اپنے دین کا آخری دور قائم کرنا چاہتا تھا ۔پس درحقیقت حضرت اسماعیل ؑ کو جس دن بیت اللہ کے پاس چھوڑا گیا اُس دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا اعلان کیا گیا ۔کیونکہ بیت اللہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی اللہ تعالیٰ کے ذکر کا آخری گھر ہونا تھا ۔اور اُس کی تیاری حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمانہ ہی سے شروع کر دی گئی ۔دُنیا میں جب بھی کوئی بڑا کام ہونے لگتا ہے تو پہلے سے اس کی تیاری شروع کردی جاتی ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چونکہ مکّہ میں ظہور مقّدر تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق دو ہزار سال پہلے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذریعہ سے تیار ی شروع کر دی ۔یہ کتنا اہم مقام ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ دو ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کو حکم دیتا ہے کہ میرے اس گھر کو صاف کرو ،کیونکہ یہاں میرا وہ نبی آنے والا ہے جس کے نور سے ساری دنیا منّور ہو گی ۔چنانچہ فرمایا ۔
طَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّٓائِفِیْنَ وَالْقَٓائِمِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ
تم میرے اس گھر کو اُن لوگوں کیلئے تیار کرو جو طواف کرنے کیلئے یہاں آئیں گے۔جو قیام کرنے کیلئے یہاں آئیں گے ۔اور جو یہاں آکر رکوع اور سجدہ کریں گے ۔مگر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے زمانہ میں اور اس کے بعد کتنے لوگ تھے جو اس نیّت کے ساتھ وہاں آیا کرتے تھے ۔طواف تو لوگ کرتے ہی تھے مگر کتنے لوگ تھے جو وہاں جا کر اپنی عمر یں خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کیلئے وقف کر دیتے تھے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے سینکڑوں سال کی تاریخ محفوظ ہے ،مگر وہ تاریخ ہی بتاتی ہے کہ اس وقت وہاں بُت پرستی ہی بُت پرستی تھی ۔نہ خدا کیلئے کوئی اعتکاف بیٹھنے والا تھا ۔نہ خدا کیلئے کوئی قیام کرنے والا تھا ۔نہ خدا کیلئے وہاں رکوع ہوتا تھا اور نہ خدا کیلئے وہاں سجدہ ہوتا تھا ۔بلکہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرتے انہیں مارا اور پیٹا جاتا تھا ۔پس یہ باتیں جو بیان کی گئی ہیں کہ میرے اس گھر کو تیار کرو تاکہ طواف کرنے والے قیام کرنے والے اور کامل رکوع اور کامل سجدہ کرنے والے یہاں آئیں ۔یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی ہونے والی تھیں ۔اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو اسی تیاری کیلئے مقرر کیا گیا تھا ۔باقی رہا یہ سوال کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے پھر کیا کا م کیا ؟اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے ظاہر ی رنگ میں کعبہ کی تعمیر کی ۔اسی طرح اُنہی کے ذریعہ خداتعالیٰ نے زمزم نکلوایا۔ بعد میں جو خرابیاں نظر آتی ہیں اُنکی وجہ سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پر اعتراض نہیں ہو سکتا ۔اصل غور کرنے والی بات یہ ہے کہ گو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے جن لوگوں کو اپنے بعد چھوڑا اُن میں سے بہت سے مشرک اور بُت پر ست ہو گئے ۔مگر کیا دنیا کا کوئی شخص اس امر سے انکار کر سکتا ہے کہ دین کو پھیلانے کی قابلیت انہی لوگوں کے اندر تھی ۔اہل مکّہ نے بے شک اسلام کی مخالفت کی ۔قریش نے بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی اور شدید مخالفت کی ۔بلکہ ابوجہل کو پیش کرکے کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ جس قوم میں ابوجہل جیسے لوگ پیدا ہو نے والے تھے کیا اس کے متعلق یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ
طَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّٓائِفِیْنَ وَالْقَٓائِمِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ
کہ میرے اس گھر کو کامل طواف کرنیوالوں او ر کامل قیام کرنے والوں اور کامل رکوع اور سجود کرنے والوں کیلئے تیار کرو؟ میں اُسے کہونگا کہ اے نادان ؛ تجھے ابوجہل تو نظر آگیا جس کا کام ختم ہوگیا۔مگر تجھے ابوبکر ؓ نظر نہ آیا جس کا کام آج تک جاری ہے ۔تجھے عتبہ اور شیبہ تو نظر آگئے جو پیدا ہو کر فنا ہو گئے ۔مگر تجھے عمر ؓ ، عثمان ؓ اور علیؓ نظر نہ آئے جن کو دائمی حیات بخشی گئی ہے اور جن کے کارنامے قیامت تک دُنیا سے محو نہیں ہو سکتے ۔پس بے شک وہ لوگ خراب ہو گئے تھے ۔مگر اُن کی یہ خرابی ایسی ہی تھی جیسے کوٹ پر مٹی پڑ جائے ۔یا وہ ہیرا تو تھے مگر تراشا ہو ا ہیرا نہیں تھا ۔جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اور آپ کی قوتِ قدسیہ کی برکت سے وہ تراشے گئے تو وہی ہیرے دنیا کی بہترین متاع شما ر ہونے لگے ۔چنانچہ ابوجہل مکرمہ ؓ کی صورت میں ۔عاصی اور وائل عمرو ؓ کی صورت میں ،ولید خالدؓ کی صورت میں ، اور ابو سفیان ، معاویہ اور یزید ابن ابوسفیان کی صورت میں ظاہر ہوا ۔جب تک سونے کے ذرات مٹی میں ملے ہوئے ہوتے ہیں اُن کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی ۔مگر جب کسی ماہر کی نگاہ اُن پر پڑتی ہے تو وہ اُن ذرّات کو مٹی سے علٰیحدہ کر لیتا ہے اور پھر وہی ذرّات بہت بڑی قیمت پر فروخت ہوتے ہیں ۔اسی طرح ہیرا جب تک پتّھر میں رہتا ہے اُس کی قدر و قیمت کا کسی کو احساس نہیں ہوتا ۔مگر جب کوئی ماہر اُسے کاٹ کر ہیرے کو اپنی اصل شکل میں دنیا کے سامنے پیش کر تا ہے تو اس کی قیمت لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ تک پہنچ جاتی ہے ۔پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اُن میں خرابیاں پیدا ہوئیں مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن میں صفائی پیدا کی ۔تو انہی میں ابوبکر ؓ ، عمرؓ ، عثمان ؓ اور علی ؓ پیدا ہوئے ۔بلکہ اور ہزاروں لوگ پیدا ہوئے اُن میں طلحہ ؓ جیسے لوگ پیدا ہوئے ۔اُن میں زبیر ؓ جیسے لوگ پیدا ہوئے ۔اُن میں عبدالرحمن ؓ بن عوف جیسے لوگ پیدا ہوئے ۔اُن میں ابو عبیدہؓ جیسے لوگ پیدا ہوئے ۔اُن میں سعد ؓ اور سعیدؓ جیسے لوگ پید اہوئے ۔اُن میںعثمان ؓ بن مظعون جیسے لوگ پیدا ہوئے ۔یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے نام کو روشن کرنے کیلئے اپنے جذبات کی انتہائی قربانی کی ۔یہاں تک کہ اُن میں سے ہر شخص زندہ ابراہیم ؑ بن گیا ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد میں سے تھے ۔مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ آپ ابوا براہیم ؑ بھی تھے ۔اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ سے آپ کی روحانی اولاد میں ہزاروں ابراہیم پیدا ہوئے جنھوں نے دنیا کے سامنے پھر وہی نظارہ پیش کر دیا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیش کیا تھا۔ غرض اللہ تعالیٰ نے جب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو مکّہ میں بھیجا تو درحقیقت یہ تیاری تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی ۔خداتعالیٰ نے انہیں کہا کہ تم ہمارا گھر تیار کرو ۔کیونکہ ہمارا محبوب اور ہمارا آخری شرعی رسول دنیا میں نازل ہونے والا ہے ۔تم آج سے ہی ہمارے محبوب کی آمد کی تیاری میں مشغول ہو جائو اور آج سے ہی ایسی اولاد پیدا کرو جو میرے محبوب کو ابوبکر ؓ دے ۔جو میرے محبوب کو عمر ؓ دے۔جو میرے محبوب کو عثمان ؓ دے ۔جو میرے محبوب کو علی ؓ دے ۔جو میرے محبوب کو طلحہ ؓ ۔زبیر ؓ ۔حمزہ ؓ اور عباس ؓ دے۔اور اسی طرح کے اور سینکڑوں صحابہ ؓ اُس کے حضور بطور نذر پیش کرے ۔یہی مفہوم تھا طَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّٓائِفِیْنَ وَالْقَٓائِمِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْد کا۔
ورنہ ظاہری معنوں میں تو مکّہ والوں نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بعد دین کا کوئی اچھا نمونہ نہیں دکھا یا ہاں چونکہ اس پیشگوئی کا ظہور رسول کریم صلی اللہ علیہ السلام کے زمانے سے شروع ہونا تھا۔اس لئے خدا تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکّہ میں لاکے رکھا تاکہ وہ ایسی اولاد تیار کریں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خدمت کرے اور اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے جلال کے اظہار کیلئے وقف کر دے ۔مگر اس کے علاوہ چونکہ دنیا کی تمام مساجد بھی بیت اللہ ہیں ۔کیونکہ وہ بھی خداتعالیٰ کے ذکر کے لئے مخصوص ہوتی ہیں اور بیت اللہ کے ظل کے طورپر ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں قائم فرمایا ہے اس لئے کہ یہ احکام صرف بیت اللہ کیلئے ہی مخصوص نہیں بلکہ ہر مسجد پر بھی ظّلی طور پر چسپاں ہوتے ہیں ۔
اس نقطۂ نگاہ سے اگر غور کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں مساجد کی تین اہم اغراض بیان کی گئی ہیں ۔
اوّل ۔ مساجد اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ مسافر اُن سے فائدہ اٹھائیں ۔
دوم ۔ مساجد اس لئے بنائی جاتی ہیںکہ شہرمیںرہنے والے اُن سے فائدہ اٹھائیں ۔
سوم ۔ مساجد اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ رکوع و سجود کرنے والے یعنی اللہ تعالیٰ کی رضاکیلئے اپنی زندگہ وقف کرنے والے اور توحیدِ کامل پر قائم لوگ اُن سے فائدہ اٹھائیں ۔
مسافر تو مسجد سے اس رنگ میں فائدہ اٹھاسکتا ہے کہ اگر اُسے کو ئی اور ٹھکانہ نہ ملے تو وہ اُس میں چند روز قیام کرکے رہائش کی دِقتّوں سے بچ سکتا ہے ۔ اور مقیم اس رنگ میں فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ مسجد شورو شغب سے محفوظ مقام ہو تا ہے ۔وہ اس میں بیٹھ کر اطمینان اور سکون سے دعائیں کر سکتا اور اپنے رب سے مناجات کر سکتا ہے ۔اور وہ لوگ جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے دین کیلئے وقف کر دیتے ہیں اُن کا اصل ٹھکانہ تو مسجد ہی ہوتا ہے ۔کیونکہ مسجد مومنوں کے اجتماع کا مقام ہوتی ہے اور دُعائوں اور ذکر الٰہی کی جگہ ہوتی ہے ۔ایسے مقام سے کوئی سچا عشق اور تعلق رکھنے والا انسان جدا ہی نہیں ہو سکتا ۔مگر یہ امر بھی مدنظر چاہئیے کہ ذکر الٰہی کا قائم مقام وہ تمام کا م بھی ہیں جو قومی فائدہ کے ہوں ۔خواہ وہ قضاء کے متعلق ہوں یا جھگڑوں اور فسادات کے متعلق ہوں یا تعلیم کے متعلق ہوں یا کسی اور رنگ میں مسلمانوں کی ترقی اور اُن کے تنزل کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں ۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو اگر دیکھا جائے تو لڑائیوں کے فیصلے بھی مسجد میں ہوتے تھے ۔قضاء بھی وہیں ہوتی تھی ۔تعلیم بھی وہیں ہوتی تھی ۔جس سے معلو م ہوتا ہے کہ مساجد صرف اللہ اللہ کرنے کیلئے ہی نہیں بلکہ بعض دوسرے کام بھی جو قومی ضرورتوں سے تعلق رکھتے ہیں مساجد میں کئے جا سکتے ہیں ۔کیونکہ اسلام میں ذکر الٰہی صرف اس بات کا نا م نہیں کہ انسان سبحان اللہ سُبحان اللہ کہتا رہے بلکہ اگر کوئی بیوہ کی خدمت کرتا ہے ۔تو وہ بھی دین ہے ۔اگر کوئی یتیم کی پرورش کرتا ہے تو وہ بھی دین ہے ۔اگر کوئی شخص لوگوں کے جھگڑے دور کرتا اور اُن میں صلح کراتا ہے تو یہ بھی دین ہے۔پس وہ تمام کام جن سے قوم کو فائدہ پہنچے اور جو قوم کے اخلاق اور اسکی دنیوی حالت کو اونچا کریں ذکر الٰہی میں شامل ہیں اور اُنکا مساجد میں کرنا جائز ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اگر کوئی مہمان آجاتا تو آپ مسجد میں ہی صحابہ ؓ کو مخاطب کرکے فرماتے کہ فلاں مہمان آیا ہے تم میں سے کون اسے ساتھ لے جائیگا ۔اب بظاہر یہ روٹی کا سوال تھا۔لیکن درحقیقت دین تھا ۔اس لئے کہ اس سے ایک دینی ضرورت پوری ہوتی تھی ۔لوگوں نے غلطی سے دین کے معنوں کو بہت محدود کر دیا ہے ۔حالانکہ دین اس لئے نازل ہوا ہے کہ انسان کا خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرے اور خداتعالیٰ بغیر کسی خدمت کے بندہ سے نہیں ملتا بلکہ وہ یتیم کی پرورش کرنے سے ملتا ہے ۔وہ بیوہ کی خدمت کرنے سے ملتا ہے ۔وہ کافر کو تبلیغ کرنے سے ملتا ہے ۔وہ مومن کو مصیبت سے نجات دلانے سے ملتا ہے ۔پس ان باتوں کا اگر مسجد میں ذکر کیا جاتا ہے تو یہ دنیا نہیں بلکہ دین کا ہی حصّہ ہوگا۔ہاں مساجد میں خالص ذاتی کاموں کے متعلق باتیں کرنا منع ہے ۔مثلاً اگر تم کسی سے پوچھتے ہو کہ تمہاری بیٹی کی شادی کا کیا فیصلہ ہوا یا کہتے ہو کہ میری ترقی کا جھگڑا ہے افسر نہیں مانتے تو یہ باتیں مسجد میں جائز نہیں ہونگی ۔سوائے امام کے کہ اُس پر تمام قوم کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس کا حق ہے کہ وہ ضرورت محسوس ہو نے پر ان اُمور کے متعلق بھی لوگوں سے باتیں کرلے۔بہر حال مسجد میں خالص ذاتی کاموں کے متعلق باتیں کرنا منع ہے ۔مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے تو وہ اس کے متعلق مسجد میں اعلان نہ کرے ۔( صحیح مسلم مع شرحہ النووی جلد اوّل ص210مطبوعہ اصح المطابع )
پس مساجد صرف ذکر الٰہی کیلئے نہیں لیکن ذکر الٰہی ان تمام باتوں پر مشتمل ہے جو انسان کی ملّی ، سیاسی ، علمی اور قومی برتری اور ترقی کیلئے ہوں ۔لیکن وہ تمام باتیں جو لڑائی و نگہ فساد یا قانون شکنی سے تعلق رکھتی ہوں خواہ اُن کا نام مِلّی رکھ لو یا سیاسی ، قومی رکھ لو یا دینی انکا مساجد میں کرنا جائز ہے ۔اسی طرح مساجد میں ذاتی امور کے متعلق باتیں کرنا بھی منع ہے ۔کیونکہ اسلام مسجد کو بیت اللہ قرار دیتا اور اُسے اللہ تعالیٰ کے ذکر کیلئے مخصوص قرارد یتا ہے ۔
وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ۔۔۔۔۔۔۔ وَلْیَطَّوَّفُوْابِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ ہ
ترجمہ() اور تمام لوگوں میں اعلان کردے کہ وہ حج کی نیت سے تیرے پاس آیا کریں ۔پیدل بھی اور ہر ایسی سواری پر بھی جو لمبے سفر کی وجہ سے دُبلی ہو گئی ہو ( ایسی سواریاں ) دُور دُور سے گہرے راستوں پر سے ہوتی ہوئی آئینگی ۔تاکہ وہ ( یعنی آنیوالے ) اُن منافع کو دیکھیں جو اُن کیلئے ( مقرر کئے گئے )ہیں ۔اور کچھ مقرر دنوں میں اللہ تعالیٰ کو اُن نعمتوں کی وجہ سے یاد کریں جو ہم ہم نے انکو دی ہیں ( یعنی ) بڑے جانوروں کی قسم سے ( جیسے گائے اونٹ وغیرہ ) پس چاہیئے کہ وہ اُن کے گوشت کھائیں اور تکلیف میں پڑے ہوئے نادار کو کھلائیں ۔پھر اپنی میل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور پُرانے گھر ( یعنی خانہ کعبہ ) کا طواف کریں ۔ ۱۲ ؎
۱۲؎ حل لغات:
رِجَلًا ۔رَجُل’‘ کی جمع ہے اور اَلرَّاجِلُ کے معنے ہیں وہ آدمی جس کے پاس کوئی سواری نہ ہو ۔یعنی پیادہ
ضَامِر’‘ : اَلْقَلِیْلُ اللَّحْمِ الدِّ قِیْقُ ۔تھوڑے گوشت والا یُقَالُ جَمَل’‘ ضَامِر’‘ وَفَاقَۃ’‘ ضَامِرَۃ’‘ یہ لفظ اونٹ اور اونٹنی دونوں کیلئے جبکہ وہ لاغر ہوں ۔اور ان کا گوشت تھوڑا ہو بولا جاتا ہے ۔
اَلْفَجُّ کے معنے ہیں اَلطَّرِیْقُ الْوَاسِعُ الوَاضِعُ بَیْنَ جَبَلَیْنِ ۔وہ کھلا راستہ جو دو پہاڑوں کے درمیان ہو تا ہے ۔
تَفَثٌ کے معنے ہیں اَلْوَاسَخُ ۔میل ( اقرب )
۱۲؎ تفسیر:
فرماتا ہے ۔ہم نے ابراہیم ؑ کویہ بھی کہہ دیا تھا کہ یہ حکم صرف تیرے لئے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کیلئے ہے کہ لوگ دُوردُور سے سفر کی وجہ سے دُبلی ہونے والی سواریوں پرچڑھ کر جو رستوں میں بھی کثرتِ سفر کی وجہ سے گڑھے ڈال دینگی اور تیز دوڑنے والی ہونگی تیرے پاس آئیں تاکہ دنیوی نفع بھی اُن کو پہنچے اور مقررہ دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی وہ خوب کریں اور اس طرح ساری دنیا میں ایک دین قائم ہو جائے ۔اور چاہئیے کہ تم میں سے مالدار لوگ قربانیوں کے گوشت میں سے خود بھی کھائیں اور باقی غریبوں کو بھی کھلائیں ۔اور جب قربانیاں کر چکیں تو نہائیں ۔اور اپنی میل دُور کریں ۔یعنی جسمانی لحاظ سے بھی اپنی صفائی کریں اور روحانی لحاظ سے بھی اپنے دلوں کے گند دُور کریں ۔اور انہوں نے خداتعالیٰ سے جو عہد باندھے تھے اُن کو پورا کریں اور اس پُرانے عبادت خانہ کا طواف کریں ۔اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ایک بے جان چیز کو خداتعالیٰ کا مرتبہ دیا گیا ہے بلکہ طواف کرنا ایک پُرانی رسم تھی جو قربانی دینے کی علامت تھی ۔لوگ بیماروں کے گرد طواف کرتے تھے جس کے معنے یہ ہوتے تھے کہ ہم قربان ہوجائیں اور یہ بچ جائیں ۔اس آیت میں اسی طرف اشارہ ہے کہ ایسے لوگ دنیا میں پیدا ہوتے رہیں جو اس گھر کی عظمت اور خداتعالیٰ کی عبادت کو قائم رکھنے کیلئے اپنی جانیں قربان کرتے رہیں ۔ورنہ طوافِ ظاہری تو اپنی ذات میں کوئی بڑی بات نہیں ۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حج ِ بیت اللہ کا ذکر فرمایا ہے جو ایک اہم اسلامی عبادت ہے اور جس کے مطابق ہر سال لاکھوں آدمی جن میں سے کوئی کسی قوم کا ہوتا ہے اور کوئی کسی ملک کا ایک دوسرے کے رسم و رواج ایک دوسرے کی زبان اور ایک دوسرے کی عادات وغیرہ سے ناواقف ہوتے ہوئے مکّہ مکّرمہ میں جمع ہوتے ہیں اور اپنے عمل سے اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اسلامی توحید نے مسلمانوں کے دلوں کو ایسا متحد کر دیا ہے کہ باوجود اختلافِ زبان ۔اختلافِ عقائد ۔ اختلاف ِ رنگ و نسل ۔ اختلاف ِ خیالات اور اختلافِ آب و ہوا کے ہم اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیّک کہہ کر ایک جگہ پر جمع ہونے کیلئے تیار ہیں ۔اسی طرح مسلمانوں نے اپنے عمل سے ظاہری حج کے علاوہ یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ خانہ کعبہ کی حفاظت کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں اور جب تک مسلمانوں میں یہ رُوح قائم رہیگی کسی دشمن کی یہ طاقت نہیں ہوگی کہ وہ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرے یا مسلمانوں کی یکجہتی کو توڑ سکے ۔کیونکہ جب تک خانہ کعبہ رہیگا مسلمانوں کی یکجہتی بھی قائم رہے گی ۔اُن کی آنکھوں کے سامنے نہ صرف یہ نظارہ ہوتا ہے کہ دنیا کے کن کن کونوں میں خداتعالیٰ نے اسلام کو پھیلا دیا بلکہ وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایک بے آب و گیاہ جنگل سے بلند ہونیوالی وہ آواز جس کو غیر تو الگ رہے اپنے بھی نہیں سُنتے تھے اور آواز دینے والے کو ہر قسم کے مظالم کا تختۂ مشق بناتے تھے۔آج دنیا کے کونوں ، کونوں تک پہنچ کر لاکھوں انسانوں کے اجتماع کا باعث بن رہی ہے ۔وہ اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان نشان کو دیکھتے اور اپنے ایمانوں میں ایک تازگی اور لطافت محسوس کرتے ہیں کہ کہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پید اہوئے جنہوں نے ایک ایسی آواز بلند کی جو گونجی اور گونجتی چلی گئی ۔یہاں تک کہ وہ دُور دراز ملکوں میں پہنچی اور لاکھوں لوگو ں کو یہاں کھینچ لائی ۔اور وہ مکّہ جہاں رہنے والوں کی اذیتّوں اور تکلیفوں کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا اور جنھیں اِس سرزمین میں لَٓا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے کی اجازت تک نہیں تھی آج اُسی مکّہ مکّرمہ میں ہر ایک کی زبان پر اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ اَللّٰہُ اَکْبَر۔ لَٓا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ۔اَللّٰہُ اَکْبَر ُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ جاری ہے اور وہ لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ کہتے جارہے ہیں ۔گویا اس وقت خداتعالیٰ اُن کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور وہ اُس سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ ہم حاضر ہیں ۔ہم اقرار کرتے ہیں کہ تیرا کوئی شریک نہیں صرف تُو ہی اس امر کا مستحق ہے کہ بندوں کو آواز دے ۔اور اے خدا تیرے بلانے پر ہم تیرے حضور حاضر ہیں ۔پس مکّہ مکّرمہ وہ مقام ہے جہاں ہر سال لاکھوں مسلمان صرف اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ وہ خداتعالیٰ کی عبادت کریں ۔اور دنیا کے سامنے اس بات کی شہادت پیش کریں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین آج بھی زندہ ہے۔اورآپ کے خادم آج بھی آپ کی آواز کو بلند کرنے کیلئے دنیامیں موجود ہیں ۔گویا حج دنیا کو یہ پیغام پہنچاتا ہے کہ اسلام کی رگوں میں اب بھی زندگی کا خون دوڑ رہا ہے ۔اب بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق رکھنے والے لوگ اسلام کے مرکز مکّہ مکّرمہ میں جمع ہیں اور انہوں نے اپنے اس تعلق کا اعلان کیا ہے جو انہیں اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہے ۔انہوں نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ چاہے کمزورہی سہی لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا اب بھی دنیا میں موجو د ہیں اور اب بھی مسلمانوں کی قومی زندگی کی رگ پھڑک رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جس طرح نماز اور روزہ اور زکوٰۃ کو ضروری قرار دیا ہے اسی طرح اُس نے حج کو بھی ایک ضروری فریضہ قرار دیا ہے۔بے شک حج کی اصل غرض روحانی طور پر یہ ہے کہ انسان ہر قسم کے تعلقات کو توڑ کر دل سے خدا کا ہو جائے ۔مگر اس غرض کو پورا کرنے کیلئے خداتعالیٰ نے ایک ظاہر ی حج بھی رکھ دیا اور صاحب استطاعت لوگوں پر یہ فرض قرار دے دیا کہ وہ گھر بار چھوڑ کر مکّہ مکّرمہ میں جائیں ۔اور اس طرح اپنے وطن اور عزیز و اقرباء کی قربانی کا سبق سیکھیں ۔کیونکہ اسلام جسم اور رُوح دونوں کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے جس طرح دنیا میں ہر ایک انسان کا ایک مادی جسم ہوتا ہے اور اس جسم میں رُوح ہوتی ہے ۔اسی طرح مذہب اور روحانیت کے بھی جسم ہوتے ہیں جن کو قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔مثلاً اسلام نے نماز کی ادائیگی کیلئے بعض خاص حرکات مقرر کی ہوئی ہیں ۔اب اصل غرض تو نماز کی یہ ہے کہ انسان کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت پیدا ہو۔اس کی صفات کو وہ اپنے ذہن میں لائے اور اُن کے مطابق اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کرے ۔ان باتوں کا بظاہر ہاتھ باندھنے یا سیدھا کھڑا ہو نے یا زمین پر جھک جانے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا مگر چونکہ کوئی رُوح جسم کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی اس لئے خداتعالیٰ نے جہاں نماز کا حکم دیا وہاں بعض خاص قسم کی حرکات کا بھی حکم دیدیا۔جن مذاہب نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا اور انہوں نے اپنے پیروؤں کیلئے عبادت کرتے وقت جسم کی حرکات کو ضروری قرار نہیں دیا وہ رفتہ رفتہ عبادت سے ہی غافل ہوگئے ہیں ۔اور اگر اُن میں کوئی نماز ہوتی بھی ہے تو ایک تمسخر سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ۔اسی طرح گو حقیقی حج یہی ہے کہ انسان ہر قسم کے تعلقات کو منقطع کرکے خدا کا ہو جائے ،چنانچہ اسی لئے خواب میں اگر کوئی شخص اپنے متعلق دیکھے کہ اُس نے حج کیا ہے تو اُس کی تعبیر یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد خداتعالیٰ کی عبادت اور اُس کا قرب حاصل کرنا ہے ۔جیسے وہ فرماتا ہے کہ مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِ لَّا لِیَعْبُدُوْنَ کہ میں نے بنی نوع انسان کو صرف اپنا مقرب بنانے کیلئے پیدا کیا ہے ۔پس حج اس بات کی علامت ہے کہ جس غرض کیلئے انسان کو پیدا کیا گیا تھا وہ اُس نے پوری کرلی ۔یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ حج کیا ہے ؟خداتعالیٰ کی روایت اور اس کا دیدار ۔مگر اس کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک ظاہر ی جسم بھی رکھ دیا تا کہ جسم کے ذریعہ رُوح کی بھی حفاظت ہوتی رہے ۔پھر حج اُس سچّے اخلاص کے واقعہ کو بھی تازہ کرتا ہے جس کا نمونہ آج سے چارہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دکھا یا اور جس کے نتائج آج تک دنیا کو نظر آرہے ہیں ۔اُوؔر کی سرزمین میں آج سے چار ہزار سال پہلے ایک مشرک گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا( دیکھو پیدائش باب 11آیت28 ) اُس نے ایسے لوگوں میں تربیت پائی جن کا رات دن مشغلہ خدا کا شریک بنانا۔اور ُبتوںکی پرستش کرناتھا۔مگر وہ بچہ ایک نورانی دل لے کر پید اہوا تھا ۔اور وہ بچپن سے ہی بُتوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا ۔جب دنیا کی بڑھتی ہوئی گمراہی اور اُس کے طوفانِ ضلالت کو دیکھ کر خداتعالیٰ نے چاہا کہ بنی نوع انسان میں سے کسی کو اپنا بنائے ۔تو اُس کی جوہر شناس نگاہ نے کسدؔیوں کی بستی میں سے ابراہیم کو چنا ( پیدائش باب11آیت 31) اور اُسے اپنے فضل سے ممسوح کیا ۔اور اُسے کہا کہ اے ابراہیم جا اور اپنے بیٹے کو قربان کر تاکہ لوگوں سے الگ میری خاص حفاظت اور نگرانی میں ایک پنیری لگائی جائے ۔نیکی اور تقویٰ کی پنیری ۔ایک چشمہ پھوڑاجائے ۔پاکیزگی اور طہارت کا چشمہ ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا بہت اچھا ۔میں تیار ہوں چنانچہ انہوں نے اپنے اس بیٹے کو جو بڑھاپے میں نصیب ہواتھا ۔اس وادیٔ غیر ذی زرع میں لاکر چھوڑ دیا ۔جس کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ اُس میں کھانے اور پینے کا کوئی سامان نہیں تھا ۔ایسی پُر خطر اور بھیانک وادی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف اس لئے اپنے بیٹے اور اُس کی والدہ کو چھوڑا تاکہ خدا کا ذکر بلند ہو اور اُس کی کھوئی ہوئی عظمت دنیا میں پھر قائم ہو ۔صرف ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجور اُس ماں اور بچے کو دئے گئے جن کے متعلق یہ الٰہی فیصلہ تھا کہ اب انہوں نے اسی جنگل میں ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی بسر کرنی ہے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سوچا کہ ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجور کتنے دن کا م دے سکتی ہے ۔پھر سوائے ریت کے ذّروں اور آفتاب کی چمک کے او ر کوئی چیز میری بیوی اور بچے کیلئے نہیں ہوگی ۔یہ سوچتے ہی اُن پر رقت طاری ہوگئی۔اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔حضرت ہاجرہ ؓ ان کی آنکھوں کی نمی اور ہونٹوں کی پھڑ پھڑ اہٹ سے سمجھ گئیں کہ بات کچھ زیادہ ہے ۔وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیچھے چلیں اور کہنے لگیں ابراہیم ؑ ! تم ہمیں کہاں چھوڑ چلے ہو ۔یہاں تو پینے کیلئے پانی تک نہیں اور کھانے کیلئے کوئی غذا نہیں ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دینا چاہا مگر رقّت کی وجہ سے آواز نہ نکل سکی ۔تب حضرت ہاجرہؓ نے کہا کہ کیا آپ خدا کے حکم سے ایسا کر رہے ہیں یا اپنی مرضی سے ۔اس پر انہوں نے آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا دئیے جس کے معنے یہ تھے کہ میں خدا کے حکم کے ماتحت ایسا کر رہا ہوں ۔اس جواب کو سُن کر یقین اور ایمان سے پُر ہاجرہؓ جو اپنی جوانی کی عمر میں تھی اور جس کا ایک ہی بیٹا تھا جو اُس وقت موت کی نذر ہو رہا تھا فوراً رُک گئی اور کہنے لگی اگر یہ بات ہے تو پھر خدا ہمیں کبھی ضائع نہیں کریگا ۔آخر پانی ختم ہو ا۔غذا ختم ہوئی اور باوجود اس کے کہاس علاقہ میں کوئی چیز نظر نہ آتی تھی حضرت ہاجرہ ؓ اپنے بچے کی تکلیف کو نہ دیکھ کر جو پیاس سے تڑپ رہا تھا ایک ٹیلے پر چڑھ گئیں کہ شاید کوئی آدمی نظر آئے اور اس سے پانی مانگ لیں یا شاید کوئی آبادی دکھائی دے ۔انہوں نے جس حد تک انسانی نظر کام کر سکتی تھی دیکھا مگر انہیں کہیں پانی کا نشان نظر نہ آیا ۔تب وہ اسی گھبراہٹ میں اُتریں اور دوڑتی ہوئی دوسرے ٹیلے پر چڑھ گئیں ۔وہاں سے بھی دیکھا مگر پانی کے کوئی آثار نظر نہ آئے ۔اسی کرب و اضطراب کی حالت میں حضرت ہاجرہ ؓ سات دفعہ دوڑیں ۔اور آخر اُن کا دل بیٹھنے لگا کہ اب کیا ہوگا ۔اس پر معًا خداتعالیٰ کا الہام نازل ہوا کہ اے ہاجرہ ؓ ! خدا نے تیرے بچے کیلئے سامان پیدا کر دیا ہے ۔جا اور اپنے بچے کو دیکھ ۔حضرت ہاجرہ ؓ واپس آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ جہاں بچہ پیاس سے تڑپ رہا تھا وہاں پانی کا ایک چشمہ اُبل رہا ہے ۔یہی وہ چشمہ ہے جس کو چاہ زمزم کہتے ہیں ۔زمزم درحقیقت اُس گیت کو کہتے ہیں جو خوشی میں گایا جاتا ہے۔معلوم ہوتا ہے حضرت ہاجرہ ؓ نے اُس چشمہ کانام خود زمزم رکھا تھا کیونکہ اس چشمہ کے ذریعہ سے اپنے بچہ کی نجات کی خوشی میں اُن کیلئے شکریہ میں گانے کا موقعہ پیدا ہوا تھا ۔پانی کا تو اللہ تعالیٰ نے اس طرح انتظام کر دیا اب غذا کی فکر تھی ۔اتفاقًا ایک قافلہ راستہ بھول گیا اور وہ اُسی جگہ آپہنچا جہاں حضرت ہاجرہ ؓ بیٹھی تھیں ۔قافلہ والوں کو پانی کی سخت ضرورت تھی انہوں نے جب وہاں چشمہ دیکھا تو حضرت ہاجرہ ؓ سے کہا کہ ہم آپ کی رعایا بن کر یہاں رہیں گے ۔آپ ہمیں اس جگہ بسنے کی اجازت دے دیں ۔حضرت ہاجرہ ؓ نے انہیں اجازت دیدی۔اور وہ وہاں حضرت ہاجرہ ؓ اور اسمٰعیل ؑ کی رعایا بن کر رہنے لگے ۔اور پیشتر اس کے کہ اسمٰعیل ؑ جو ان ہوتا خدا نے اُسے بادشاہ بنا دیا ۔
( بخاری کتاب بدء الخلق)
آج تک حج کے ایّام میں حضرت ہاجرہ ؓ کے اس واقعہ کی یاد گار کے طور پر ہی صفاؔ اور مروہؔ پر ہر حاجی کو سات دفعہ دوڑنا پڑتا ہے ۔یہ دوڑنا حضرت ہاجرہ ؓ کے نقشِ قدم پر چلنے کا ایک اقرار ہوتا ہے ۔یہ دوڑنا اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اگر ہمیں بھی خدا کیلئے کسی وقت اپنے عزیزوں کو چھوڑ نا پڑا تو ہم انہیں چھوڑنے میں کوئی دریغ نہیں کریں گے ۔پس حج ایک اہم عبادت ہے جو اسلام نے مقرر کی ہے ۔جب کوئی شخص مکہ مکرمہ میں جاتا ہے اور مناسکِ حج کو پوری طرح بجا لاتا ہے تو اس کی آنکھوں کے سامنے یہ نقشہ آجاتا ہے کہ کس طرح خداتعالیٰ کے لئے قربانی کرنیو الے ہمیشہ کیلئے زندہ رکھے جاتے ہیں ۔
پھر حج سے مسلمانوں کے اندر مرکزبت کی روح بھی پیدا ہوتی ہے اور انہیں اپنی اور باقی دنیا کی ضرورتوں کے متعلق غورو فکر کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے ۔اسی طرح ایک دوسرے کی خوبیوں کو دیکھنے اور اُن کو اخذ کرنے کا انہیں موقع ملتا ہے اور باہمی اخوت اور محبت میں ترقی ہوتی ہے ۔غرض حج ارکانِ اسلام میں سے ایک اہم رُکن ہے جس کی طرف اسلام نے لوگوں کو توجہ دلائی ہے ۔وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت عطا فرمائی ہو اور جن کی صحت سفر کے بوجھ کو برداشت کر سکتی ہواُن کا فرض ہے کہ وہ اس حکم پر عمل کریں اور حج بیت اللہ کی برکات سے مستفیض ہوں ۔میں سمجھتا ہوں آجکل کے امراء کیلئے سب سے بڑی نیکی حج ہی ہے کیونکہ باوجود مال و دولت کے وہ کبھی حج کیلئے نہیں جاتے اورجو لوگ حج پر جاتے ہیں اُن میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جن پر حج واجب نہیں ہوتا ۔میں جب حج کیلئے گیا تو ایک حاجی میرے پاس آیا اور اُس نے مجھ سے کچھ مانگا ۔حضرت نانا جان صاحب ؓ مرحوم میرے ساتھ تھے انہوں نے اُسے کہا کہ اگر تمہارے پاس کچھ نہیں تھا تو تم حج کیلئے آئے کیوں ؟ وہ کہنے لگا ۔میرے پاس بہت روپے تھے مگر سب خرچ ہوگئے ۔حضرت نانا جان مرحوم پوچھا کہ کتنے روپے تھے وہ کہنے لگا جب میں بمبئی پہنچا تھا تو میرے پاس پینتیس (35)روپے تھے اور میں نے ضروری سمجھا کہ حج کر آئوں ۔تو وہ پینتیس (۳۵)رپوئوں کو ہی بہت سمجھتا تھا مگر مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ۳۵ہزار بلکہ ۳۵۔۳۵لاکھ روپے رکھتے ہیں اور پھر بھی وہ حج کیلئے نہیں جاتے لیکن غرباء میں بہت حاجی نظر آتے ہیں ۔ایک شخص ساری عمر تھوڑا تھوڑا روپیہ جمع کرتا رہتا ہے اور جب چند سو روپیہ اسکے پاس اکٹھا ہو جاتا ہے تو وہ تمام عمر کا اندوختہ لے کر حج کے لئے چل پڑتاہے ۔حالانکہ اُسی روپیہ پر اُس کے بیوی بچوں کی آئندہ زندگی کا مدار ہوتا ہے ۔وہ اگر اس روپے سے اچھے بیل خرید لے یا کچھ ایکڑزمین لے لے تو اس کے بیوی بچوں کیلئے سہولت پیدا ہو سکتی ہے لیکن وہ اس بات کی کوئی پروا نہیں کرتا اور روپیہ اٹھا تا اور حج کیلئے چل پڑ تا ہے تو ۔امراء کیلئے سب سے بڑی نیکی حج ہے ۔کیونکہ وہ حج میں سب سے زیادہ کوتاہی کرتے ہیں ۔ اسی طرح کئی ملازم ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پنشن لے کر حج کو جائیں گے لیکن یہ خیال نہیں کرتے کہ پنشن پانے کے بعد زندگی بھی پائیں گے یا نہیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ پنشن لینے کے بعد ایسے بیمارپڑتے ہیں کہ اس قابل ہی نہیں رہتے کہ حج کو جا سکیں ۔پنشن تو گورنمنٹ دیتی ہی اُسی وقت ہے جب اچھی طرح نچوڑ لیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اب یہ ہمارے کام کا نہیں رہا۔پھر بعض لوگ کاروبار کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ اگلے سال جائینگے پھر اُس سے اگلے سال کا ارادہ کر لیتے ہیں ۔حالانکہ دُنیا کے کام تو ختم ہوتے ہی نہیں ۔اگر خداتعالیٰ نے توفیق دی ہو تو جلدی حج کرلینا چاہئیے ۔
میں جب تعلیم کیلئے مصر گیا تو ارادہ تھا کہ حج بھی کرتا آئونگا ۔مگر یہ پختہ ارادہ نہ تھا کہ اُسی سال حج کرونگا ۔یہ بھی خیال آتا تھا کہ واپسی پر حج کرونگا ۔جب میں بمبئی پہنچا تو وہاں نانا جان صاحب ؓ مرحوم بھی آملے ۔وہ براہ راست حج کو جارہے تھے ۔اس پر میرا بھی ارادہ پختہ ہو گیا کہ اسی سال ان کے ساتھ حج کر لوں ۔جب پورٹ سعید پہنچے تو میں نے رئویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر حج کی نیت ہے تو کل ہی جہاز میں سوار ہو جائو کیونکہ یہ آخری جہاز ہے گو حج میں ابھی دس پندرہ روز کا وقفہ تھا مگر فاصلہ بھی وہاں سے قریب ہے۔اس لئے خیال کیا جاتا تھا کہ ابھی اور کئی جہاز حاجیوں کے مصر سے جدہ جائیں گے ۔میرے ساتھ عبدالحی صاحب عرب بھی تھے وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ اگلے جہاز پر چلے جائیں گے ۔مگر مجھے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اگر نیت ہے تو اسی جہاز سے جائو ورنہ جہازوں میں روک پیدا ہو جائے گی ۔اس لئے میں نے چلنے کا پختہ ارادہ کر لیا ۔وہاں جو ایک دو اصحاب واقف ہوئے تھے وہ بھی کہنے لگے کہ ابھی تو کئی جہاز جائیں گے ۔قاہرہ اور اسکندریہ وغیرہ دیکھتے جائیں ۔اتنی دُور آکر ان کو دیکھے بغیر چلے جانا مناسب نہیں مگر میں نے کہا کہ مجھے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ کل نہ جانے سے حج رہ جانے کا خطرہ ہے اس لئے میں تو ضرور جائونگا ۔چنانچہ اُس جہاز ران کمپنی سے گورنمنٹ کا کوئی جھگڑا تھا اس جھگڑے نے ایسی صورت اختیار کرلی کہ وہ جہاز آخری ثابت ہوا اور کمپنی والے اس سال حاجیوں کیلئے کوئی اور جہاز نہ لے گئے ۔
غرض کئی لوگ حج کی خواہش تو رکھتے ہیں مگر وقت پر اُسے پورا نہیں کرتے اور اس طرح وہ ایک بہت بڑی نیکی سے محروم رہ جاتے ہیں ۔پس جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے استطاعت عطا فرمائی ہو۔وہ حج بیت اللہ سے مشرف ہونے کی کوشش کریں مگر حج میں بھی جب تک تقویٰ اور خشیۃ اللہ کو مدّنظر نہ رکھا جائے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ۔میں جب حج کرنے کیلئے گیا تو سوؔرت کے علاقہ کے ایک نوجوان تاجر کو میں نے دیکھا کہ جب وہ منٰی کی طرف جا رہا تھا تو بجائے ذکرالٰہی کرنے کے اردو کے نہایت ہی گندے عشقیہ اشعار پڑھتا جا رہا تھا اتفاق کی بات ہے کہ جب میں واپس آیا تو جس جہاز میں مَیں سفر کر رہا تھا اُسی جہاز میں وہ بھی واپس آرہا تھا ایک دن میں نے موقعہ پا کر اُس سے پوچھا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ حج کیلئے کیوں آئے تھے ۔میں نے تو دیکھا ہے کہ آپ منٰی کو جاتے ہوئے بھی ذکر الٰہی نہیں کر رہے تھے ۔اُس نے کہا اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں حاجی کی دوکان سے لوگ سودا زیادہ خریدا کرتے ہیں جہاں ہماری دوکان ہے اُس کے بالمقابل ایک اور شخص کی دوکان بھی ہے ۔وہ حج کرکے گیا اور اُس نے اپنی دوکان پر حاجی کا بورڈ لگا لیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے گاہک بھی اُدھر جانے لگ گئے ۔یہ دیکھ کر میرے باپ نے مجھے کہا کہ تُو بھی حج کر آ تا کہ واپس آکر تُو بھی حاجی کا بورڈ اپنی دوکان پر لگا سکے ۔اب بتائو کہ کیا اُس کا حج اس کیلئے ثواب کا موجب ہوا ہوگا ۔ثواب کا تو کیا سوال ہے اُس کا حج اُس کیلئے یقینا گناہ کا موجب ہوا ہوگا ۔پس انسان کو اپنے تمام کاموں میں ہمیشہ یہ امر ملحوظ رکھنا چاہیئے کہ اچھے سے اچھا کام کرنے میں بھی خداتعالیٰ کی رضا کو مدّنظر رکھے ۔ورنہ وہی نیکی اس کیلئے ہلاکت اور عذاب کا باعث بن جائیگی۔بے شک حج ایک بڑی نیکی ہے لیکن اگر کوئی شخص محض اس لئے حج پر جاتا ہے کہ اس کا لوگوں میں اعزاز بڑھ جائے یا رسم و رواج کے ماتحت جاتا ہے یا اس لئے جاتا ہے کہ لوگ اُسے حاجی کہیں تو وہ اپنا پہلا ایمان بھی مٹا کر آئیگا ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃوالسلام سُنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ سردی کا موسم تھا ۔کسی ریل کے اسٹیشن پر کوئی اندھی بڑھیا گاڑی کے انتظار میں بیٹھی تھی ۔اس کے پاس کوئی کپڑا بھی نہ تھا سوائے ایک چادر کے جو اُس نے پاس رکھی ہوئی تھی۔تاکہ جب گاڑی میں بیٹھنے کے بعد تیز ہوا کی وجہ سے سردی محسوس ہو تو اوڑھ لے ۔اُس نے وہ چادر پاس رکھی ہوئی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ اُسے ٹٹول لیتی تھی ۔ایک شخص اس کے پاس سے گذرا اور اُس نے سوچا کہ یہ تو اندھی ہے او ر پھر اندھیرا بھی ہو چکا ہے ۔اس لئے اگر میں یہ چادر اٹھا لوں تو نہ اس کو پتہ لگے گا اور نہ پا س کے لوگوں کو پتہ لگے گا ۔اس پر اُس نے چپکے سے وہ چادر کھسکا لی ۔بڑھیا چونکہ بار بار اُسے ٹٹولتی تھی اُسے پتہ لگ گیا کہ کسی نے چادر اٹھالی ہے ۔اُس نے جھٹ آوازیں دینی شروع کر دیں کہ اے بھائی حاجی میری چدّر دے دو۔میں اندھی غریب ہوں اور میرے پاس اور کوئی کپڑا نہیں ۔وہ شخص فوراً واپس مڑا اور اُس نے چادر تو آہستہ سے اُس کے ہاتھ میں پکڑا دی مگر کہنے لگا ۔مائی یہ تو بتائو تمہیں کس طرح پتہ لگا کہ میں حاجی ہوں ۔وہ بڑھیا کہنے لگی بیٹا ! ایسے کام سوائے حاجیوں کے اور کوئی نہیں کر سکتا ۔میں اندھی کمزور اور غریب ہوں ، سردی کا موسم ہے اور میں بالکل اکیلی ہوں ۔ایسی حالت میں میرا ایک ہی کپڑا چُرانے کی کوئی عادی چوربھی جرأ ت نہیں کر سکتا۔یہ ایسا کا م ہے جسے حاجی ہی کر سکتا ہے ۔
غرض حج کااُسی صورت میں فائدہ ہو سکتا ہے جب انسان اپنے دل میں خداتعالیٰ کا خوف رکھے اور اخلاص اور محبت کے ساتھ اس فریضہ کو ادا کرے ۔اگر وہ اخلاص کے ساتھ حج کیلئے جاتا ہے تو وہ ایمانوں کے ڈھیر لے کر واپس آتا ہے اوراگر وہ اخلاص کے بغیر جاتا ہے تو وہ اپنے پہلے ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ ان آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو الْبَیْتُ الْعَتِیْق قرار دیکر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ نہیں بتایا بلکہ وہ پہلے سے بنا ہو ا تھا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل ؑ کے ساتھ مل کر صرف پہلے نشانوں پر اس کی دوبارہ تعمیر کی تھی ۔چنانچہ حضرت حاجرہ ؓ اور حضرت اسمٰعیل ؑ کو چھوڑ تے وقت انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور جو دُعا کی اُس میں بھی یہ الفاظ آتے ہیں کہ رَبَّنَٓا اِنّٓيْ اَسْکَنْتُ مَنْ ذُرِّ یَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ ( ابراہیم 18رکوع۶)کہ اے میرے رب میں اپنی اولاد کو تیرے مقدس گھر کے قریب اس وادی میں چھوڑ چلاہوں جہاں نہ کھانے کیلئے کوئی دانہ ہے اور نہ پینے کیلئے کوئی چشمہ ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے بھی پہلے تعمیر ہو چکا تھا ۔اسی مضمون کی طرف اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی اشارہ فرمایا ہے کہ
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ للِنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَمُبَارَکً وَّ ھُدًی لِّلْعَالَمِیْنَ ( آل عمران رکوع۱۰)یعنی سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے روحانی فائدہ اور ان کی ایمانی حفاظت کیلئے بنایا گیا تھا وہ وہی ہے جو مکّہ میں ہے ۔اس میں ہر قسم کی برکتیں جمع کر دی گئی ہیں اور تمام دنیا کے لوگوں کیلئے اس میں فضل اور رحمت کے سامان اکٹھے کردئیے گئے ہیں۔اس آیت میں وُضِعَ لِلنَّا سِ کے الفاظ اس پیشگوئی کے بھی حامل تھے کہ اس گھر کے ذریعہ وہ لوگ جو متفرق ہو چکے ہونگے پھر اکٹھے کر دئیے جائیں گے ۔یعنی عالمگیر مذہب کا اس کے ساتھ تعلق ہوگا ۔اور ساری دنیا کو جمع کرنے کا یہ گھر ایک ذریعہ ہوگا ۔چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مختلف اقوام ِ عالم کو ایک ہاتھ پر جمع کردیا اور اسی طرح کعبہ تمام متفرق لوگوں کو اکٹھا کرنے کا ذریعہ بن گیا ۔یسعیاہؔ نبی نے بھی اس کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا تھا :۔
’’ رب الافواج فرماتا ہے میں نے اس کو صداقت میں برپا کیا ہے اور میں اُس کی تمام راہوں کو ہموار کرونگا ۔وہ میرا شہر بنائیگا ۔اور میرے اسیروں کو بغیر قیمت اور عوض لئے آزاد کر دیگا ۔خداوند یوں فرماتا ہے کہ مصر کی دولت اور کوش کی نجات اور سباؔکے قد آور لوگ تیرے پاس آئینگے اور تیرے ہونگے۔وہ تیری پیروی کریں گے وہ بیڑیاں پہنے ہوئے اپنا ملک چھوڑ کر آئیں گے اورتیرے حضور سجد ہ کریں گے وہ تیری منّت کریں گے اور کہیں گے ۔یقینا خداتجھ میں ہے اور کوئی دوسرا نہیں اور اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ۔‘‘
(یسعیاہ باب ۴۵ آیت ۱۳،۱۴)
اس پیشگوئی میں پہلی بات تو یہ بتائی گئی تھی کہ ایک خدا کا شہر بنایا جائیگا چنانچہ ساری دنیا میں صرف بلد اللہ الحرام ہی ایک ایسا شہر ہے جو خدا کا شہر کہلاتا ہے۔پھر بتا یا گیا تھا کہ اس کو بنانیوالا یعنی اس کی عظمت کو قائم کرنے والا میرے اسیروں کو بلا اُجرت لئے چھڑائیگا ۔چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ کو فتح کرکے بلا کسی تاوان لینے کے لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کی آواز بلند کرکے قیدیوں کو چھوڑ دیا۔اسی طرح آپ روحانی قیدیوں سے بھی یہی کہتے رہے کہ لَٓا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا ( انعام ع۱۰)یعنی میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ۔پھر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہی مصر کی دولت اور کوشؔ کامنافع اور سباؔ کے قد آور لوگ آئے ۔
گزشتہ انبیاء میں سے صرف حضرت مسیح ؑ کے متعلق عیسائی دعویٰ کرتے ہیں کہ شاید وہ اس پیشگوئی کے مصداق ہوں ۔لیکن ان میں ایک بات بھی اِن باتوں میں سے نہیں پائی جاتی ۔بیشک مصر پر رومیوں کا ایک عرصہ تک قبضہ رہا لیکن کوش کا منافع اُن کو نہیں ملا ۔گو مسیحی مؤرخوں نے زور دیکر ایتھوپیا کو کوشؔ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔مگر تازہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کوشؔ جس کا یسعیاہؔ میں ذکر آتا ہے وہ علاقہ ہے کو ایلام اور میڈیا کے درمیان میں واقع ہے ۔ایلام کا علاقہ خلیج فارس کے کنارے کا دجلہ تک کا علاقہ ہے ۔اور میڈیا کیپین لیک کے جنوب کا علاقہ ہے ۔اس علاقہ کا منافع عیسائیوں کو کبھی نہیں ملا۔یعنی یہاں کے لوگوں نے مسیحیت کو قبول نہیں کیا۔اسی طرح سباؔ کے قد آور آدمی بھی مسیحی مقامات پر سجدہ کرنے کیلئے نہیں گئے ۔اور اگر جائیں بھی تو وہ تثلیث کی تائید کرنے والے ہونگے حالانکہ یسعیا ہ بتاتا ہے کہ اس پیشگوئی کے مصداق ایک خدا کی پرستش کے لئے اس شہر میں جمع ہونگے اور وہاں یہ آوازیں دیتے ہوئے آئیں گے کہ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ۔لیکن اسلام کو یہ سب باتیں حاصل ہیں ۔کعبہ کو خدا کا گھر ماننے والے مصر میں بھی ہیں ، یمن میں بھی ہیں جس میں سباؔ واقع ہے اور کوش ؔ میں بھی ہیں اور یہاں سے ہزاروں لوگ ہر سال اس شہر کو جاتے ہیں جو خدا کا گھر کہلاتا ہے ۔اور وہاں جا کر اس گھر میں جو خدا کا گھر کہلاتا ہے یہ کہتے ہوئے داخل ہوتے ہیں کہ لَبَّیْکَ ۔ لَبَّیْکَ ۔ اَلّلَّھُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ یعنی میں حاضر ہوں ۔میں حاضر ہوں اے میرے اللہ میں حاضر ہوں ۔تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔میں حاضر ہوں ۔پس اس پیشگوئی میں بھی مکّہ مکّرمہ کی طرف رجوع ِ خلائق کا اشارہ پایا جاتا تھا۔جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پوری ہوئی ۔اور اسی تعلق کے قیام کیلئے نماز میں بیت اللہ کی طرف مُنہ کر نے کا حکم دیا گیا ۔
بہرحال بیت اللہ ایک نہایت ہی پُرانا مقام ہے اور تاریخ بھی اس کے قدیم ہونے کی شہادت دیتی ہے۔چنانچہ سرولیم میور ’’ لائف آف محمد ؐ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مکّہ کے مذہب کے بڑے اصولوں کو ایک نہایت ہی قدیم زمانے کی طرف منسوب کرنا پڑتا ہے گو ہیرو ڈوٹس مشہور یونانی جغرافیہ نویس نے نام لیکر کعبہ کا ذکر نہیں کیا مگر وہ عربوں کے بڑے دیوتائوں میں سے ایک دیوتا اِلا لات کا ذکر کرتا ہے (یعنی خداوئوں کا خدا) اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مکّہ میں ایک ایسی ہستی کی پرستش کی جاتی تھی جسے بڑے بڑے بتوں کا بھی خدا مانا جاتا تھا (c.11/102)
پھر لکھا ہے کہ مؤرخ ڈایو ڈورس سکولس جو مسیحی سنہ سے پچاس سال پہلے گذرا ہے وہ بھی لکھتا ہے کہ عرب کا وہ حصّہ جو بحیرۂ احمر کے کنارے پر ہے اُس میں ایک معبد ہے جس کی عرب بڑی عزت کرتے ہیں ۔
( دیپاچہ لائف آف محمد ؐ c.11/103)
پھر لکھتا ہے کہ قدیم تاریخوں سے پتہ نہیں چلتا کہ یہ بنا کب ہے۔یعنی یہ اتنا پُرانا ہے کہ اس کے وجود کا تو ذکر آتا ہے مگر اس کی بناء کا پتہ نہیں چلتا ۔یہ بالکل اَلْبَیْتُ الْعَتِیْق کا ہی مفہوم ہے جو دوسرے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے ۔
پھر لکھتا ہے کہ بعض تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ نے اسے دوبارہ بنایا تھا ۔اور کچھ عرصہ تک اُن کے پاس رہا اور تورات سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تباہ ہو ئے تھے (خروج باب ۱۷ آیت ۸تا ۱۶ وگنتی باب ۲۴ آیت ۲۰) گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے بھی بہت پہلے عمالقہ اس پر قابض رہ چکے تھے اور وہ بھی اس کے بانی نہ تھے بلکہ یہ گھر اُن سے بھی پہلے کا بنا ہوا تھا اور انہوں نے اُس کے تقدس پر ایمان لاتے ہوئے اسے دوبارہ تعمیر کیا تھا ۔پس تاریخی شواہد کی رو سے بھی بیت اللہ کا بیت عتیق ہونا ایک ثابت شدہ حقیقت ہے ۔
اس موقعہ پر حضرت محی الدین صاحب ؒ ابن عربی کے ایک کشف کا ذکر کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب فتوحات ِ مکیہ کی جلد ۳میں بیان فرمایا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ کشفی حالت میں دیکھا کہ میں بیت اللہ کا طواف کر رہا ہوں اور میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں جو بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں مگر وہ کچھ اجنبی قسم کے لوگ ہیں جن کو میں پہچانتا نہیں ۔پھر انہوں نے دو شعر پڑھے جن میں سے ایک تو مجھے بھول گیا مگر دوسرا یاد رہا۔وہ شعر جو مجھے یاد رہا وہ یہ تھا کہ
؎ لَقَدْ طُفْنَا کَمَا طُفْتُمْ سِنِیْنَا
بِھٰذَا لْبَیْتِ طُرًّا اَجْمَعِیْنَا
یعنی ہم بھی اس مقد س گھر کا سالہا سال اسی طرح طواف کرتے رہے ہیں جس طرح آج تم اس کا طواف کر رہے ہو ۔وہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس پر بڑا تعجب ہو ا پھر اُن میں سے ایک شخص نے مجھے اپنا نام بتا یا مگر وہ نام بھی ایسا تھا جو میرے لئے بالکل غیر معروف تھا ۔اس کے بعد وہ شخص مجھ سے کہنے لگا کہ میں تمہارے باپ دادوں میں سے ہوں ۔میں نے پوچھا کہ آپ کو وفات پائے کتنا عرصہ گذر چکا ہے اُس نے کہا کہ چالیس ہزار سال سے زیادہ عرصہ گذر رہا ہے ۔میں نے کہا زمانۂ آدم پرتو اتنا عرصہ نہیں گذرا ۔اُس نے کہا کہ تم کس آدم کا ذکر کرتے ہو کیا اُس آدم کا جو تمہارے قریب ترین زمانہ میں ہوا ہے ۔یا کسی اور آدم کا ۔وہ کہتے ہیں اس پر معًا مجھے آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث یا د آگئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ آدم پیدا کئے ہیں ۔اور میں نے سمجھا کہ میرے یہ جدِّاکبر بھی انہیں میں سے کسی ایک آدم سے تعلق رکھنے والے ہونگے ۔
( فتوحات مکیہ جلد ۳ باب ۳۹۰ص۵۴۹)
حضرت محی الدین صاحب ؒ ابن عربی کا یہ کشف بھی بتا رہا ہے کہ بیت اللہ نہایت قدیم زمانہ سے دنیا کا مرکز اور لوگوں کی ہدایت کا ایک ذریعہ بنا رہا ہے اور اسی طرح یہ دنیا بھی لاکھوں سال سے چلی آرہی ہے ۔چنانچہ آج سے ہزار ہا سال قبل بھی لوگ اس مقّدس گھر کا اِسی طرح طواف کرتے رہے ہیں جس طرح آج ہم بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں ۔یہی حقیقت قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے کہ یہ البیت العتیق ہے جو زمانۂ قدیم سے خدا تعالیٰ کے انوار و برکات کا تجلی گاہ رہا ہے اور قیامت تک دنیا کو ایک مرکز پر متحد رکھنے کا ذریعہ بنا رہیگا ۔
ذَلِکَ وَمَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰہِ ۔۔۔۔۔۔۔۔حُنَفَٓائَ لِلّٰہِ غَیْرَ مُشْرِکِیْنَ بَہٖ
ترجمہ() بات یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ عزّت والی جگہوں کی تعظیم کرتا ہے تو یہ اس کے رب کے نزدیک اُس کیلئے اچھا ہوتا ہے اور اے مومنو! تمہارے لئے سب چوپائے ہلال کیلئے گئے ہیں سواے اُن کے جن کی حُرمت قرآن میں بیان ہو چکی ہے ۔پس چاہئیے کہ تم بُت پرستی کے شرک سے بچو اور (اسی طرح ) اپنی عبادت اور فرمانبرداری صرف اللہ کیلئے مخصوص کرتے ہوئے جھوٹ بولنے سے بچو اور تم خدا کا شریک کسی کو نہ بنائو ۔ ۱۳؎
۱۳؎ حل لغات :
اَلرَّجْسُ کے معنے ہیں اَلْقَذَرُ گندگی ۔اَلْعَاثَمَ ۔گناہ ۔اَلْعَمَلُ الْمُؤدِّی اِلَی الْعَذَابِ :عذاب تک کے جانے والا عمل ۔اَلْعِقَابُ ۔سزا اَلْغَضَبُ: غضب ۔ناراضگی
اَلْاَدْثَانُ : اَلْوَثَنُ کی جمع ہے اور اَلْوَثَنُ کے معنے ہیں اَلصَّنَمُ ۔بُت اَلزَوْرُ کے معنے ہیں اَلْکَذِبُ : جھوٹ اَلشِّرْکُ بِا للّٰہِ ۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اَلْبَاطِلُ ۔باطل ( اقرب)
تفسیر :
فرماتا ہے ۔جو بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کی عزّت کرتا ہے ۔اُس کو اُس کے ربّ کے پاس درجے ملتے ہیں یعنی خدا کے حضور میں عزّت حاصل کرنے کا اصل طریق یہ ہے کہ خدا جس زمانہ میں جن چیزوں کی عزت کرنے کیلئے کہے اُن کی عزّت کی جائے ۔
پھر فرماتا ہے کہ چوپائوں میں سے کچھ تم پر حلال کئے گئے ہیں مگر وہ چوپائے جو بُتوں پر چڑھائے جاتے ہیں وہ تم پر حرام کئے گئے ہیں ۔ان سے بچو اور جھوٹ بھی مت بولو ۔یعنی چوپایوں کا اس طرح مشرکانہ طورپر قربان کرنا یہ ایک جھوٹ ہے ۔اور شرک بھی مت کرو ۔کیونکہ خانہ کعبہ کی بنیاد دنیا کی سب قوموں کے جمع کرنے کیلئے اور ایک مذہب قائم کرنے کیلئے رکھی گئی تھی ۔اور سب قومیں صرف توحید پر ہی جمع ہو سکتی ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ توحید کو قبول کئے بغیر انسانی ذہن کبھی بھی اُلجھنوں اور پریشانیوں سے نجات نہیں پاسکتا۔چنانچہ واقعات بتاتے ہیں کہ جن لوگوں نے خداتعالیٰ کی ہستی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا وہ ہمیشہ اُلجھنوں اور پریشانیوں کے چکر میں ہی پھنسے رہے اور کبھی بھی حقیقی امن اور سکون اُن کو نصیب نہیں ہوا۔انسان جب اس دنیا کے پردہ پر پہلی مرتبہ ظاہر ہوا تو اس وقت سورج اُسے ایک سنہری تھال نظر آتا تھا ۔چاند اُسے ایک چمکدار ٹکیہ کی مانند دکھائی دیتا تھا ۔اور ستاروں میں سے کوئی اسے دانوں کے برابر ۔کوئی بیروں کے برابر اور کوئی اخروٹوں اور سیبوں کے برابر نظر آتا تھا ۔اور زمین کی جھاڑیاں اور درخت اُسے سورج ، چاند اور ستاروں سے بھی بڑے معلوم ہوتے تھے ۔اس کیلئے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ سینکڑوں میل دُور جہاں تک اس کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا جہاں وہ پہاڑوں پر چڑھ کر بھی نہیں پہنچ سکتا ایک چھوٹی سی ٹکیہ نمودار ہو کر ساری دنیا کو روشن کرد یتی ہے ۔اور رات کے وقت ایک چھوٹی سی سفید تھالی ظاہر ہو کر سارے عالم کو چاندنی سے بھر دیتی ہے ۔ہزاروں ہزار ٹمٹمانے والے ستارے جَوّ میں پھیل جاتے ہیں اور چمک چمک کر اُس کی آنکھوں کو خیرہ کر تے ہیں اور اس کی نظر کیلئے ایک دلفریب نظارہ پیدا کرتے ہیں ۔اور جب دن آتا ہے تو غائب ہو جاتے ہیں ۔یہ چیزیں اُسے ورطۂ حیرت میں ڈالنے والی تھیں اور یقینا اُسے ہمیشہ حیرت میں مبتلا رکھتیں اگر خداتعالیٰ کا ہاتھ ابتداء میں ہی اُسے پکڑ کر سیدھا راستہ نہ دکھا دیتا ۔ہم دیکھتے ہیں گھر میں کوئی معمولی ساکھٹکا بھی ہوتا ہے تو گھر والے اُٹھ کر تجسّس شروع کر دیتے ہیں ۔کوئی کہتا ہے چھپکلی ہو گی کوئی کہتا ہے چوہا ہوگا۔کوئی کہتا ہے چور ہوگا ۔گویا ایک معمولی ساکھٹکا چھپکلی اور چوہے سے لیکر چور تک پہنچا دیا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے بھی انجیل میں پیشگوئی کی ہے کہ آنیوالا مسیح چوروں کی طرح آئیگا ۔چنانچہ انہوں نے اپنے حواریوں سے کہا کہ ’’ جاگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تمہارا خداوند کس دن آئیگا ۔لیکن یہ جان رکھو کہ اگر گھر کے مالک کو معلوم ہوتا کہ چور رات کے کونسے پہر آئیگا تو جاگتارہتا اور اپنے گھر میں نقب نہ لگا نے دیتا ۔اس لئے تم بھی تیار رہوکیونکہ جس گھڑی تم کو گمان بھی نہ ہوگا ۔ابن آدم آجائے گا۔‘‘
(متی باب ۲۴آیت۴۳،۴۴)
اس پیشگوئی میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ اُس کے آنے سے ایک کھٹکا پیدا ہوگا جسکی وجہ سے لوگ اُسے چور بنائیں گے لیکن ہوگا وہ خدا کا راستباز نبی ۔غرض ایک معمولی ساکھٹکا بھی جب انسان کو پریشان کر دیتا ہے تو ظاہر ہے کہ ایسے نظارے اُسے کس قدر حیران کر سکتے ہیں مگر جونہی کہ انسانیت سِن شعور کو پہنچی اللہ تعالیٰ نے اُسکے کان میں یہ آواز ڈال دی کہ میں تیرا اللہ تعالیٰ ہوں اور جو کچھ تجھے نظر آتا ہے یہ سب میری مخلوق ہے جس طرح کہ تو مخلوق ہے اور تو ایک دن مر کر میرے سامنے آنے والا ہے اور یہ سب چیزیں جو تجھے نظر آتی ہیں خواہ قریب ہوں یا بعید میں نے تیرے فائدہ اور تیری خدمت کیلئے پیدا کی ہیں اور سب تجھے نفع پہنچانے کے کاموں پر لگی ہوئی ہیں ۔اس آواز نے اسے کتنی پریشانیوں سے بچا لیا ۔اگر پہلا انسان یعنی آدم اپنے سِن شعور کو پہنچنے کے بعد اس آواز کو نہ سُنتا تو اُس کیلئے کس قدر مصیبت ہوتی اور وہ کتنی پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتا ۔دن چڑھتا تو اُس کیلئے ایک تکلیف کاآغاز ہوجاتا کہ سورج کی کہنہ معلو م کرے۔اور رات ہوتی تو ایک اور پریشانی کا دروازہ کھل جاتا کہ چاند کی حقیقت معلوم کرے ۔اور پھر یہ پتہ لگا ئے کہ ان چیزوں کا اس سے کیا تعّلق ہے اور یہ اُسے نفع یا نقصان پہنچا سکتی ہیں یا نہیں ؟ اور اس سے خوش ہو سکتی ہیں یا نہیں ! ہم دیکھتے ہیں کہ جنہوں نے اس آواز سے فائدہ نہیں اُٹھایا وہ اب تک انہیں چکروں میں پڑے ہوئے ہیں ۔چنانچہ تمام بُت پرست قومیں انہی الجھنوں میں مبتلا ہیں ۔کوئی کہتی ہے کہ چاند اور سورج پر ارواح چھا جاتی ہیں اور وہ ناراض یا خوش ہوتی ہیں ۔ اگر کسی شخص نے کوئی ایسا کام کیا جس کا نتیجہ خراب نکل آیا تو اُس نے خیال کر لیا کہ چاند پر چھائی ہوئی ارواح کو یہ بات پسند نہیں آئی ۔اور اگر کسی نے کوئی کام کیا اور اُس کا اچھا نتیجہ نکل آیا تو اُس نے یہ سمجھ لیا کہ سورج کی روح کے نزدیک یہ کام اچھا ہے ۔مگر آدم کیسا مطمٔن تھا اور کس بشاشتِ قلب سے بیٹھا تھا کیونکہ اُسے خداتعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ یہ سب چیزیں خدا نے اس کیلئے مسخّر کر دی ہیں ۔اور اس کی خدمت پر لگی ہوئی ہیں ۔اسی لئے اُسے سورج اور چاند کی ناراضگی یا خوشنودی کے سامانوں کی تلاش میں پریشان ہو نے کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔موحد اور خدا رسیدہ آدم ان سب پریشانیوں سے محفوظ تھا ۔اور خداتعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتا تھا ۔اگر تجسّس صرف اس حد تک ہو کہ سورج مادی چیز ہے اُس کی شعاعوں میں اللہ تعالیٰ نے کیا کیا فائدے رکھے ہیں ۔تو یہ ایک سائنس کی تحقیقات ہوگی ۔اس میں گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں لیکن اگر وہ ان چیزوں کو ہی خدا کا مرتبہ دے دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ان کا تعلق اس زندگی اور موت سے ہے او ر یہ اس کے اور اس کے بیوی بچوں کے آرام و راحت پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں تو اُسے دن رات ایک خلش رہیگی کہ معلوم نہیں یہ چیزیں مجھے کیا نقصان پہنچائیں ۔اور گر نقصان پہنچادیں تو معلوم نہیں میں اُس کا کس طرح ازالہ کروں ۔غرض مشرک کی ساری زندگی ایک ذہنی پریشانی اور گھبراہٹ کی تصویر ہوتی ہے۔اور وہ حیران ہوتا ہے کہ میں اپنے مصائب کا کیا علاج کروں ! وہ کبھی ایک بُت کے آگے جھکتا ہے اور کبھی دوسرے کے آگے ۔کبھی اس کی ناراضگی کا اُسے خو ف آتا ہے اور کبھی اُس کی خفگی کا ۔کبھی ستاروں سے ڈرتا ہے اور کبھی سورج اور چاند سے لرزتا ہے اور کبھی پتھر کے بے جان بتوں سے اُس کا خون خشک ہوتا ہے ۔غرض زندگی کے کسی مرحلے میں بھی اُسے اطمینان نصیب نہیں ہوتا۔اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو فَاجتَنِبُوا الرِّ جْسُ مِنَ الْاَوْثَانِ ۔ اگر تم ذہنی کشمکش اور پریشانیوں سے نجات حاصل کرنا چاہئیے ہوتو بُت پرستی کے شرک سے بچو اور کامل موحد بن جائو پھر تمھیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی ۔اور تمھیں دکھائی دیگا کہ ساری دُنیا تمہاری خدمت میں لگی ہوئی ہے۔
پھر فرماتا ہے کہ ہم تمہیں دوسری نصیحت یہ کرتے ہیں کہ تم جھوٹ سے بچو۔کیونکہ یہ بھی روحانیت کو تباہ کر دینے وا لا مرض ہے ۔اور پھر مشرک اپنی ذات میں سب سے بڑا جھوٹ ہے کیونکہ جو طاقتیں خداتعالیٰ نے کسی کو نہیں دیں اُن کے متعلق ایک مشرک کہتا ہے کہ فلاں فلاں چیزیں ہیں اور اس طرح جھوٹ کی نجاست پر مُنہ مارتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کی علامتوں میں سے ایک بڑی بھاری علامت راستبازی ہوتی ہے ۔اور یہ علامت ایسی ہے جو اپنی ذات میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے ۔مگر افسوس ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ راستبازی کی قدرو قیمت کو نہیں سمجھتے ۔خصوصیت کے ساتھ اس زمانہ میں یہ فرض زیادہ پایا جاتا ہے کیونکہ یہ زمانۂ مداہنت اور نفاق کا زمانہ ہے اور تہذیب کے معنے آجکل یہ سمجھے جاتے ہیں کہ بات کرنیوالا دوسرے کے خیالات کا اس حد تک خیال رکھے کہ اگر اُسے سچائی بھی چھپانی پڑتے تو اس سے دریغ نہ کرے ۔مگر زمانہ کی رَد کے باوجود ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اس بدی کا پورے زور سے مقابلہ کرے اور اُسے کچلنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرے کیونکہ جھوٹ بولنے والا دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے اور دھوکا ایک ایسی چیز ہے جس سے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے ۔پس جھوٹ بولنے والا صرف اخلاقی مجرم ہی نہیں بلکہ بنی نوع انسان کا دشمن اور انہیں تباہ کرنے والا بھی ہے ۔اور اس عیب کو مٹانا ہر سچّے اور مخلص مسلمان کا فرض ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی علامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس کی ایک علامت یہ ہے کہ جب وہ بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور منافق کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُسے دوزخ کے سخت ترین مقام میں رکھا جائیگا ۔گویا خداتعالیٰ منافقوں کے ساتھ کفّار سے بھی سخت معاملہ کرے گا۔اس لئے کہ کافر کی وجہ سے تو کافر کو ہی نقصان پہنچتا ہے مگر منافق کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے ۔جو قوم اپنے افراد میں سے جھوٹ نہیں مٹا سکتی اور اس کے باوجود وہ یہ سمجھتی ہے کہ اُسے ترقی اور عزّت حاصل ہو جائیگی ۔اُس کا خیال ایسا ہی خام ہے جیسے ایک بچہ کا یہ خیال کہ وہ چاند کے پاس پہنچ جائیگا یا ستاروں کے پاس پہنچ جائیگا ۔جس طرح ایک بچہ کی چاند یا ستاروں تک پہنچنے کی خواہش ناکام رہتی ہے اسی طرح وہ قوم جس کے اندر جھوٹ پایا جاتا ہو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور راستبازی کا یہ حال تھا کہ آپ کا دشمن بھی اقرار کرتا تھا کہ آپ سچّائی کے اعلیٰ مقام پر ہیں ۔چنانچہ جب آپ پر یہ وحی نازل ہوئی کہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلائو تو آپ نے صفا پر چڑ ھ کر مکّہ کے لوگوں کو بُلانا شروع کیا۔جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا اگر میں تمہیں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت بڑا دشمن تم پر حملہ کرنے کیلئے جمع ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے؟ اب بظاہر یہ ناممکن تھا کہ اتنی بڑی فوج وہا ں جمع ہو اور مکّہ والوں کو اس کا علم تک نہ ہو ۔مگر انہوں نے کہا کہ ہاں ہم مان لیں گے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے ۔
( تفسیر روح المعانی زیر آیت تَبَّتْ یَدَٓا اَبَیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ)
اسی طرح جب قیصر رومانے ابو سفیا ن کو اپنے دربار میں بُلا کر اس سے پُوچھا کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھیوں نے تمہارے ساتھ کبھی جھوٹا معاہدہ کیا ہے تو ابو سفیان نے کہا کہ پچھلے افعال کے متعلق تو میں کو ئی گرفت نہیں کرتا ۔لیکن اب انہوں نے ایک نیا معاہدہ کیا ہے ۔دیکھیں وہ عہد شکنی کرتے ہیں یا نہیں ۔اس پر قیصر نے کہا کہ آئندہ کا ذکر جانے دو ۔جب اُس نے پیچھے تمہارے ساتھ کوئی عہد شکنی نہیں کی تو یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ آئندہ بھی نہیں کرے گا ۔تو شدید سے شدید دشمن کو بھی جو آپ سے لڑائی کر رہا تھا یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ آپ کے متعلق یہ کہے کہ آپ نے کبھی جھوٹ بولا ہے یا کوئی معاہدہ شکنی کی ہے۔یہی وہ چیز تھی جس کی وجہ سے مسلمان جب کسی ملک میں جاتے تو وہاں کے باشندے اُ ن کے اعلیٰ اخلاق کو دیکھ کر اُن کے اسقدر گرویدہ ہو جاتے کہ وہ اپنے ہم قوم اور اپنے ہم مذہب افراد سے بھی اُن کی زیادہ عزت کرتے اور اُن کی سلامتی کی دُعائیں کرتے ۔چنانچہ تاریخ میں لکھا ہے کہ مسلمانوں نے جب حمص پر قبضہ کر لیا جو رومیوں کے علاقہ میں تھا ۔تو کچھ عرصہ کے بعد مسلمانوں کو دوبارہ دشمن کے حملہ کا خطرہ پیدا ہوگیا ۔اور انہوں نے مناسب سمجھا کہ اس وقت حمص کو خالی کر دیا جائے اس فیصلہ کے بعد مسلمانوں نے وہاں کے عیسائیوں کو بُلایا اور اُن سے کہا کہ ہم تم ست جزیہ وصول کر چکے ہیں مگر یہ جزیہ اس شرط کے ماتحت لیا گیا تھا کہ ہم تمہارے جان و مال کی حفاظت کریں گے ۔اب چونکہ خود ہمارے لئے ایک نازک صورتِ حالات پیدا ہوگئی ہے اور ہم تمہاری حفاظت نہیں کر سکتے اس لئے ہم جزیہ کی رقم تمہیں واپس کر تے ہیں ۔چنانچہ کئی لاکھ روپیہ جو عیسائیوں سے جزیہ کے طور پر لیا گیا تھا انہیں واپس کر دیا گیا۔اس اعلیٰ درجہ کے نمونہ کا اُن عیسائیوں پر اتنا اثر ہوا کہ جب اسلامی لشکر روانہ ہوا تو وہ ساتھ ساتھ روتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ خدا تم کو دوبارہ ہم میں واپس لائے اور یہودی بھی بڑے جوش سے یہ کہتے جاتے تھے کہ توراۃ کی قسم جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کر سکتا ۔
( قتوح البلدان بلازری ص۱۳۷)
غرض سچّائی ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر کسی قوم کا رعب قائم نہیں ہو سکتا ۔جو لوگ سچّائی اور دیانت کا نمونہ دکھاتے ہیں وہ اپنی قوم کو چار چاند لگا دیتے ہیں ۔اور جو لوگ یہ نمونہ نہیں دکھاتے وہ اپنی قوم کا گلا کاٹنے والے ہوتے ہیں ۔
وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَاَ نَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَٓائِ فَتَخْطَفُہُ۔۔۔۔۔۔۔مَکَان ٍسَحِیْقٍ ہ
ترجمہ() اور جو اللہ کا شریک کسی کو بناتا ہے وہ آسمان سے گِر جاتا ہے اور پرندے اُس کو اُچک کر لے جاتے ہیں ۔اور ہوا اُس کو کسی دور کی جگہ پر پھینک دیتی ہے ۔ ۱۴؎
۱۴؎ حل لغات
اَلسَّحِیْقُ : اَلْمَکَانُ الْبَعِیْدُ ۔دور کی جگہ ( اقرب)
تفسیر : فرماتا ہے ۔توحید کے مقابلہ میں شرک کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی شخص بلندی سے گِر جائے اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور ہوا اس کے ٹکڑوں کو دُور دُور پھینک دے کیونکہ مشرک اپنے کئی آقا تجویز کرتا ہے اور ہر آقا کو اس کے گوشت پر حق ہے ۔
اس جگہ یاد رکھنا چاہئیے کہ شرک کا مسٔلہ ایسا سیدھا سادہ نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے بلکہ نہایت باریک مسٔلہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اکثر قومیں جو بظاہر شرک کی مخالف ہیں عملاً شرک میں مبتلا پائی جاتی ہیں اور اس کا سبب یہی ہے کہ وہ شرک کی حقیقت سمجھنے سے قاصر رہی ہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ شرک کی کوئی ایک تعریف نہیں ہے بلکہ مختلف نقطہ ہائے نگاہ سے اس مرض کی حقیقت کو سمجھا جاسکتا ہے ۔جب تک اُسے ایک تعریف کے اندر لانے کی کوشش کی جائے اُس وقت تک یہ مسٔلہ ایک عقدۂ لانیحل ہی رہتا ہے ۔میرے نزدیک شرک مندرجہ ذیل اقسام میں منقسم ہے :
اوّل : یہ خیال کرنا کہ ایک سے زیادہ ہستیاں ہیں جو یکساں طاقتیں رکھتی ہیں اور سب کی سب دنیا کی حاکم اور سردار ہیں ۔یہ شرک فی الذات ہے ۔
دوسرے :یہ خیال کرنا کہ دنیا کی مدبّر ہستیاں ایک سے زیادہ ہیں جن میں کمالات تقسیم ہیں کسی میں کوئی کمال ہے اور کسی میں کوئی ۔یہ شرک بھی شرک فی الذات میں ہی داخل ہے ۔
تیسرے :وہ اعمال جو مختلف قوموں میں عاجزی اور انکساری کیلئے اختیار کئے گئے ہیں ۔اُن میں سے جو درجہ کے انتہائی عاجزی کے اعمال ہیں اُن کو خدا کے سوا کسی اور کیلئے اختیار کرنا مثلاً سجدہ انتہائی ادب اور تذلّل کے اظہار کا ذریعہ ہے ۔پس یہ عمل صرف خدا کیلئے جائز ہے کسی اور کیلئے نہیں لیکن سجدہ کے علاوہ بھی مختلف اقوام میں مختلف حرکاتِ بدن انتہائی تذلّل کیلئے قرار دے دی گئی ہیں ۔جیسے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا ، یا رکوع وغیرہ کرنا ۔ان سب امور کو خدا تعالیٰ نے عبادتِ الٰہی کا حصّہ بنا دیا ہے ۔پس اب یہ عمل کسی اور کیلئے جائز نہیں ۔
چہارم :شرک کی چوتھی قسم یہ ہے کہ انسان اسباب ظاہری کے متعلق یہ سمجھے کہ ان سے میری سب ضروریات پوری ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ کے تصّرف کا خیال دل سے ہٹا دے اور یہ خیال کرے کہ صرف مادی اسباب ہی ضرورت کو پورا کرنے والے ہیں ۔یہ بھی شرک ہے ۔ہاں اگر یہ خیال کرے کہ ان سامانوں میں خداتعالیٰ نے فلاں کے ماتحت ان کے نتائج پیدا ہوں گے تو یہ شرک نہیں ہو گا ۔
پنجم:شرک کی پانچویں قسم یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی وہ مخصوص صفات جو اُس نے بندوں لو نہیں دیں جیسے مردہ کو زندہ کرنا یا کوئی چیز پیدا کرنا یا خداتعالیٰ کا ازلی اور غیر فانی ہونا ایسے امور میں خداتعالیٰ کی خصوصیّت کو مٹا دیا جائے ۔اور ان صفات میں کسی غیر کو شریک کر لیا جائے خواہ اس عقیدہ کی بنا پر ہی شریک کیا جائے کہ خدا نے اپنی مرضی اور اپنے اذن کے ساتھ یہ صفات یا ان کا کچھ حصّہ کسی خاص شخص کو دیدیا ہے ۔یہ بھی شرک ہی ہو گا ۔
ششم : شرک کی چھٹی قسم یہ ہے کہ اسان خداتعالیٰ کے بنائے ہوئے اسباب کو بالکل نظر انداز کر دے اور یہ سمجھے کہ کسی شخص یا کسی چیز بلا ان اسباب کے استعمال کرنے کے جو خداتعالیٰ نے کسی خاص کام کیلئے مقرر کئے ہیں اپنی خاص طاقت کے ذریعہ سے اس کام کو پورا کر دیا ہے ۔مثلاً خداتعالیٰ نے آگ کو جلانے کیلئے پیدا کیا ہے ۔اب اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ کسی شخص نے اپنی ذاتی طاقت سے بلا دوسرے ذرائع استعمال کرنے کے جو قانونِ قدرت میں رکھے گئے ہیں آگ لگا دی تو یہ شرک ہو گا لیکن اس میں مسمریزم وغیرہ شامل نہیں کیونکہ یہ طاقتیں خود قانون قدرت کے اندر شامل ہیں کسی شخص کے ذاتی کمالات نہیں ۔
ہفتم : شرک کی ساتویں قسم یہ ہے کہ یہ خیال کیا جائے کہ خدا کو کسی بندہ سے ایسی محبّت ہے کہ وہ اس کی ہر ایک بات مان لیتا ہے کیونکہ اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ وہ بندہ خدائی طاقتیں رکھتا ہے ۔
ہشتم : شرک کی آٹھویں قسم یہ ہے کہ کسی ایسی چیز کے متعلق جسے خداتعالیٰ کے قانونِ قدرت نے کسی کام کے کرنے کی کوئی طاقت نہیں دی ۔اس کے متعلق یہ خیال کر لیا جائے کہ وہ فلاں کام کر لے گی۔مثلاً خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے آپ کو اَلسَّمِیْع قرار دیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ کامل طور پر لوگوں کی دعائوں کو سُنتا اور اُن کی حاجات کو پورا فرماتا ہے ۔یعنی فاصلہ اور وقت کا اُس پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔اب اگر کوئی شخص خداتعالیٰ سے دُعا کرنے کی بجائے مُردوں کی قبروں پر جاتا اور اُن سے اپنی مرادیں مانگتا ہے تو وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ اس نے خداتعالیٰ کے اَلسَّمِیْعُ ہونے میںمُردوںکوبھی شریک کر لیا ۔حالانکہ قرآن کریم اس کی صراحتاً تردید کر تا ہے اور فرماتا ہے کہ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ۔۔۔۔۔اَیَّاکَ یُبْعَثُوْنَ ( النحل ع ۲)یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا جن معبود انِ باطلہ کو لوگ اپنی مدد کیلئے پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں اور وہ سب کے سب مردہ ہیں نہ کہ زندہ ۔اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کب دوبارہ اٹھائے جائیں گے ۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے اس خیال کی تردید فرمائی ہے کہ ہمارے معبود بھی دلوں کے بھید جانتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے ۔جو خالق ہو وہی اپنی مخلوق کی اندرونی طاقتوں اور اُس کی ضروریات سے آگاہ ہو سکتا ہے مگر جن کو تم پکارتے ہو وہ تو خود سب کے سب مخلوق ہیں انہوں نے تمہارے حالات کو کیا جاننا ہے ۔اور پھر وہ مُردہ ہیں زندہ نہیں ۔انہوں نے تمہاری مدد کیا کرنی ہے۔انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کب اُٹھائے جائیں گے گویا اُن کا انجام بھی دوسروں کے ہاتھ میں ہے ۔ایسی صورت میں اگر کوئی شخص کسی قبر پر جاتا اور مردہ کوکسی تصّرف کیلئے کہتا ہے تو وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے ۔اسی طرح بتوں ، دریائوں ، سمندروںاور سورج اور چاند وغیرہ سے مُراد یں مانگنا اور دُعائیں کرنا بھی شرک میں ہی شامل ہے ۔
نہم : شرک کی نویں قسم یہ ہے کہ ایسے اعمال جو مشرکانہ رسوم کا نشان ہیں گو اب شرک کی مشابہت نہیں رکھتے ان کا بلا ضرورت ِ طبعی ارتکاب کیا جائے مثلاً کوئی شخص کسی قبر پر دیا دجلا کر رکھ آئے تو خواہ وہ صاحب قبر سے دُعا کرے یا نہ کرے یا صاحبِ قبر کو خدا سمجھے یا نہ سمجھے یہ فعل بھی شرک کے اندر آجائیگا کیونکہ یہ عمل پہلے زمانہ کے مشرکانہ اعمال کا بقیہ ہے ۔وہ لوگ خیال کرتے تھے کہ مُردے قبروں پر واپس آتے ہیں اور جن لوگوں کی نسبت معلوم کرتے ہیں کہ انہوں نے اُن کی قبروں کا احترام کیا ہے اُن کی مدد کرتے اور ان کے کاموں کو تکمیل تک پہنچا دیتے ہیں ۔اسی لئے لوگ قبروں پر دئیے یا پھول وغیرہ رکھ آتے تھے ۔ان یاد گار وں کو تازہ رکھنا بھی چونکہ شرک کی مدد کرنا ہے ۔ا سلئے یہ بھی شرک میں ہی داخل ہے اسی طرح درختوں پر رسیّاں وغیرہ باندھنی یا قبروں پر چڑھاوے چڑھانے اور ٹونے کرنے سب اسی قسم میں شامل ہیں ۔میں نے جو یہ کہا ہے کہ بلا ضرورت طبعی ایسے کام کرنے منع ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کہیں جا رہا ہو اور راستہ میں رات آجائے اور مجبوراً کسی مقبرہ میں ٹھہرنا پڑے تو یہ ضروری نہیں کہ وہاں انسان اندھیرے میں ہی بیٹھا رہے بلکہ اگر دیا جلا کر روشنی کا انتظام کرلے تو یہ جائز ہوگا۔
دہم : شرک کی دسویں قسم یہ ہے کہ خواہ عمل نہ ہو ۔مگر دل میں محبت ، ادب ، خوف اور اُمید کے جذبات اور لوگوں کے متعلق خداتعالیٰ سے زیادہ یا اُس کے برابر رکھے جائیں ۔کامل موحد وہی ہے جو شرک کی ان تمام اقسام سے بچے اور اللہ تعالیٰ کی احدیت پر سچّے دل سے ایمان لائے ۔حق یہ ہے کہ شرک انسان کا نقطۂ نگاہ بہت ہی محدود کر دیتا ہے اور اس کی ہمت کو گِرا دیتا ہے ۔اور اس کے مقصد کو ادنیٰ کر دیتا ہے ۔مشرک انسان یہ خیال کرتا ہے کہ وہ براہ راست خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور اُسے کسی واسطہ کی ضرورت ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اور انسانوں کے درمیان کوئی واسطہ نہیں رکھا اور سب انسانوں کے لئے اُس نے اپنے قرب کے دروازے کھلے رکھے ہیں جو چاہے اُن میں داخل ہو جائے ۔بے شک ایک دنیوی بادشاہ کیلئے سب رعایا سے تعلق رکھنا ممکن نہیں ہوتا ۔مگر اللہ تعالیٰ کی طاقتیں محدود نہیں ہیں ۔اُ س کی طاقت اور قدرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ سب سے براہِ راست تعلق رکھے اور انہیں اپنے قرب میں جگہ دے ۔
ذٰلَکَ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَٓائِرَ اللّٰہِ۔۔۔۔۔۔۔اِلَی الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ ہ
ترجمہ()حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ (تعالیٰ ) کی مقرر کردہ نشانیوں کی عزت کریگا اُس کے اس فعل کو دلوں کا تقویٰ قرارد یا جائے گا ۔یاد رکھو کہ ان قربانیوں سے ایک مدت تک تم کو نفع حاصل کر نا جائز ہے ۔پھر خدا کے پُرانے گھر تک اس کو پہنچانا ضروری ہے ۔ ۱۵ ؎
۱۵؎ حل لغات
اَلْعَتِیْقُ کے معنے ہیں اَلْقَدِیْمُ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ۔تمام چیزوں میں سے پرانی چیز ۔اَلْکَرِیْمُ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ وَالْخِیَارُ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ۔معززاور بہترین چیز ۔( اقرب)
تفسیر :
فرماتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلنا اُس کے شعائر کی عظمت بجا لانا اس کی مقرر کردہ عزت والی جگہوں کی تعظیم کرنا اور اس کے نشانات کی حرمت کو قائم رکھنا خدا تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا بلکہ اس سے خود انسان کے اپنے دل میں نیکی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ میں وہ ترقی کرنے لگتا ہے ۔چنانچہ قربانیوں کو ہی دیکھ لو ۔یہ پہلے کچھ مدّت تک تم لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں اور پھر خانہ کعبہ پر پہنچتی ہیں تو ذبح کی جاتی ہیں ۔لیکن پھر بھی اُن کا گوشت تم لوگوں کے فائدے کیلئے ہی تقسیم ہوتا ہے خدا کو نہیں پہنچتا خداتعالیٰ کو تو وہی اخلاص پہنچتا ہے جس کے ماتحت تم نے قربانیاں کی ہوتی ہیں ۔پس اصل چیز دل کا اخلاص اور وہ ایمان ہے جو انسان کے اندر پایا جائے۔اور یہی چیز اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں قدرو قیمت رکھتی ہے ۔اس جگہ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَٓائِرَ اللّٰہِ فَاِ نَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تعظیم ِ شعائر اللہ تقوی القلوب میں داخل ہے۔یعنی متقی ہونے کیلئے اللہ تعالیٰ کے نشانات کی عزت و توقیر کرنا ضروری ہو تا ہے ۔کیونکہ وہ خداتعالیٰ کی ہستی پر دلالت کرتے ہیں ۔درحقیقت اسلام نے یہ کلیّہ پیش کیا ہے کہ انسان کے ظاہری اعمال کا اس کے باطن پر اور اس کے باطن کا ظاہر پر اثر پڑتا ہے ۔پس جو شخص اُن مقامات کا ادب کرتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہار ہوا ہو یا اُن ہستیوں کا ادب کرتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا کلام اُترا ہو یا اُس کے نشانات کی حامل ہوں تو چونکہ یہ ادب اُس کے دل کے تقویٰ اور خشیٔت الہٰی کی وجہ سے ہوگا ۔اس لئے طبعی طور ہر اُس کی دلی پاکیزگی کا اس کے ظاہر پر بھی اثر پڑے گااور اس طرح وہ ظاہری اور باطنی دونوں طور پر نیکیوں سے آراستہ ہو جائیگا ۔
یہ آیت گو بہت چھوٹی سی ہے لیکن انسان کے فرائض اور اس کی ذمہ داریوں کو اس میں ایسے کھلے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص سمجھ اور عقل سے کا م لینے والا ہو تو وہ اسی کے ذریعہ اپنے تما م اعمال کو درست کر سکتا ہے ۔انسان کی تمام تر سعادت اسی میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شعائر کا ادب کرے اور ان کی عظمت کو ہمیشہ ملحوظ رکھے ۔ورنہ اُس کا ایمان سلامت نہیں رہ سکتا ۔
وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًالِّیَذْکُرُوااسْمَ اللّٰہِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ہ
ترجمہ() اور ہر ایک قوم کے لئے ہم نے قربانی کا ایک طریق مقرر کیا ہے تاکہ وہ اُن چارپایوں پر جو اللہ تعالیٰ نے انکو بخشے ہیں اللہ تعالیٰ کا نام لیں ۔پس یاد رکھو کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے ۔پس تم اُسی کی فرمانبرداری کرو ۔اور جو خدا کے سامنے عاجزی کرنیوالے ہیں انکو خوشخبری دیدے ایسے لوگوں کو کہ جب اللہ کا نام اُن کے سامنے لیا جائے تو اُن کے دل کانپ جاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی خوشخبری دیدے جو اپنے پر نازل ہونیوالی مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انکو دیا ہے ہماری خوشنودی کیلئے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں ۔اور ہم نے قربانی کے اونٹوں کو بھی قابلِ عزت بنایا ہے ۔اُن میں تمہارے لئے بہت بھلائی ہے ۔پس انہیں صفوں میں کھڑا کرکے اُن پر خدا کا نام لو ۔اور جب اُن کو پہلو زمین پر لگ جائیں تو اُن کے گوشت میں سے خود بھی کھائو اور اُنکو بھی کھلائو جو اپنی غربت سے پریشان ہیں۔اسی طرح ہم نے اُن جانوروں کو تمہارے فائدے کیلئے بنایا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو ۔ ۱۶ ؎
۱۶؎ حل لغات
اَلْبُدْنُ :اَلْبَدَنَۃُ کی جمع ہے ۔اور اَلْبَدَنَۃُ کے معنے ہیں نَاتَۃ’‘ اَوْ بَقَرَۃ‘ تُنْحَرُ بِمَکَّۃَ سُمِّیَتْ بِذٰلِکَ لِاَ نَّھُمْ کَانُوْا یُسْمِنُوْ نَھَا۔یعنی بَدَنَۃ اُس اونٹنی یا گائے کو کہتے ہیں جو مکّہ میں حج کے موقع پر ذبح کی جاتی ہے ۔اور بَدَنَۃْ بَدَنَ سے ہے جس کے معنے بدن کے بڑے ہو جانے کے ہیں ۔اور قربانی کو اس لئے بَدَنَۃ‘ کہتے ہیں کہ لوگ اس کو کھلا پلا کر خوب موٹا کرتے ہیں ۔
شَعَٓائِر’‘ : شَعِیْرَ ۃ’‘ کی جمع ہے اور اَلشَّعِیْرَۃُکے معنے ہیں اَلْعَلَامَۃُ ۔ علامت
صَوَٓافّ’‘: اَلصَّآ فَّۃُ کی جمع ہے اور اَلصَّآفَّۃُمِنَ الْاِبِلِ کے معنے ہیں اَلْوَاضِعَۃُ قَوَائِمَھَا صَفًّا جن کو ایک قطار میں کھڑا کیا جائے ۔
وَجَبَتْ : وَجَبَ کے معنے ہوتے ہیں سَقَطَ وَمَاتَ ۔وہ گِر گیا اور مر گیا ۔پس وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا کے معنے ہونگے۔جب وہ اونٹ پہلوئوں پر گِر جائیں اور اُن کی جان نکل جائے ۔
اَلْقَانِعُ : قَنَعَ سے اسم فاعل ہے ۔اور قَنَعَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں سَأَ لَ وَتَذَلَّلَ ۔اُس آدمی نے سوال کیا اور سوال کرنے میں عاجزی اختیار کی ۔پس اَلْقَانِعُ کے معنے ہونگے سوال کرنیوالا
اَلْمُعْتَرَّ : کے معنے ہیں اَلْفَقِیْرُ ۔اَلْمُعْتَرِ ضُ للْمَعْرُوْفِ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّسأَ لَ۔اپنی حالت کو پیش کرکے بغیرسوال کرنے کے مانگنے والا ۔(اقرب )یعنی ایسا شخص جو مُنہ سے سوال نہیں کرتا بلکہ اپنی حالت سے سوال کر تا ہے ۔
تفسیر :
فرماتا ہے ۔قربانی کا طریق ہم نے ہر قوم میں جاری کیا ہے ۔تاکہ وہ اُن چوپایوں پر جو اللہ تعالیٰ نے اُن کو عطا فرمائے ہیں اُس کا نام لیا کریں۔اور اس طرح اس کے اس عظیم الشان احسان کا کہ اُس نے اُن کیلئے خوراک اور سواریاں پیدا کی ہیں کم سے کم زبانی شکریہ ادا کریں ۔حقیقی شکریہ تو یہ ہے کہ جس طرح اُس نے اُن کی قربانی کیلئے جانور پیدا کئے ہیں وہ اپنے نفس کی قربانیاں اُس کیلئے اور اُس کے دین کیلئے کریں ۔پس تم بھی ایک خدا کیلئے قربانی کرو ۔اور اس کے فرما نبردار ہو جائو اور اے رسول جو بھی ہمارے حضور میں عجزو انکسار سے رہنا چاہیں اور ہمارا نام آتے ہی اُن کے دل لرز جائیں اور مصیبتوں پر وہ صبر کریں اور باجماعت نمازیں ادا کیا کریں اور اپنے اموال غریبوں پر خرچ کرتے رہیں اُن کو بتا دے کہ یہ ایسا راستہ ہے جس سے وہ اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میںبھی عزت حاصل کریں گے ۔
وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًالِّیَذْکُرُوااسْمَ اللّٰہ عَلیٰ مَارَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ میں اللہ تعالیٰ نے دو امور کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ایک تو اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ سب مذاہب میں قربانی کا وجود پایا جا تاہے ۔اور دوسرے یہ بتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے الہٰی رضاء کیلئے ہمیشہ جانوروں کی قربانی کا حکم دیا گیا ہے ۔پس جن قوموں میں انسانی قربانی کا رواج رہا ہے وہ درحقیقت مذہب کے بگاڑ کی وجہ سے پید ا ہوا ہے ۔ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں جانوروں کی قربانی کا ہی حکم دیا گیا تھا ۔بائیبل کے مطالعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانوں میں انسانی قربانی کا رواج ہوا کرتا تھا جو بنی اسرائیل میں بھی اُن کے بگاڑ کے زمانہ میں جاری ہو گیا اور انہوں نے بُتوں پر اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو قربان کرنا شروع کر دیا ۔چنانچہ نمبر ۲سلاطین باب ۱۶ میں آخز بادشاہ کے متعلق لکھا ہے کہ
ـ"اس نے وہ کام نہ کیا جو خداوند اُس کے خدا کی نظر میں بھلا ہے ۔جیسا اُس کے باپ دائود نے کیا تھا ۔بلکہ وہ اسرائیل کے بادشاہوں کی راہ پر چلا اور اُس نے ان قوموں کے نفرتی دستور کے مطابق جن کو خداوند نے بنی اسرائیل کے سامنے سے خارج کر دیا تھا اپنے بیٹے کو بھی آگ میں چلوایا۔"
(باب ۱۶ آیت ۲،۳)
نمبر ۲تواریخ باب ۲۸ آیت ۴ میں صرف ایک بیٹے کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ لکھا ہے کہ آخز نے " اپنے ہی بیٹوں کوآگ میں جھونکا ۔ "گویا صرف ایک بیٹے کی نہیں بلکہ کئی بیٹوں کی اُس نے قربانی کی ۔
اسی طرح بنی اسرائیل کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے ہوسیع بادشاہ کے عہد میں "بعل کو پُوجا اور انہوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو آگ میں چلوایا اور فال گیری اور جادو گری سے کام لیا۔"( نمبر۲ سلاطین باب ۱۷ آیت ۱۷)
حزقیاہ کے بیٹے مکسی کے متعلق بھی لکھا ہے کہ اُس نے ’’ خداوند کی ہیکل کے دونوں صحنوں میں مذبح بنائے اور اُس نے اپنے بیٹے کو آگ میں چلایا۔‘‘( نمبر ۲ سلاطین باب ۲۱ آیت ۶)
اس بارہ میں بھی تواریخ کا بیان سلاطین سے کسی قدر مختلف ہے یعنی سلاطین میں تو صرف ایک بیٹے کی قربانی کا ذکر کیا گیا ہے مگر تواریخ میں لکھا ہے کہ ’’ اُس نے بن ہنوم کی وادی میں اپنے فرزندوں کو بھی آگ میں چلوایا ۔‘‘ ( نمبر ۲ تواریخ باب ۳۳ آیت ۶)
حضرت دائو د علیہ السلام بھی اس بُرائی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ انہوں نے اپنے بیٹوں بیٹیوں کو شیا طین کے لئے قربان کیا اور معصوموں کا یعنی اپنے بیٹے بیٹیوں کا خون بہایا ( جوکہ ایک بُرا فعل تھا اور شرک پر دلالت کرتا تھا ) جن کو انہوں نے کنعان کے بتوں کیلئے قربان کر دیا اور ملک خون سے ناپاک ہو گیا ۔ـ‘‘ ( زبور باب ۱۰۶ آیت ۳۷، ۳۸)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی انسانی قربانی کا رواج تھا جس سے شریعت موسویہ میں بڑی سختی کے ساتھ روکا گیا ۔چنانچہ استثناء میں لکھا ہے ’’ جب تو اس ملک میں جو خدا وند تیرا خدا تجھ کو دیتا ہے پہنچ جائے تو وہاں کی قوموں کی طرح مکروہ کام کرنے نہ سیکھنا ۔تجھ میں ہر گز کوئی ایسا نہ ہو جو اپنے بیٹے یا بیٹی کو آگ میں چلوائے یا فال گیر یا شگون نکالنے والا یا افسون گر یا جادوگر یا منتری یا جنات کا آشنا یا رتال یا ساحر ہو ۔کیونکہ وہ سب جو ایسے کام کرتے ہیں خداوند کے نزدیک مکروہ ہیں ۔‘‘ ( استثناء باب ۱۸ آیت ۹ تا ۱۱)
احبار میں بھی لکھا ہے کہ ’’ تُو اپنی اولاد میں سے کسی کو مولک ( یہ کنعانیوں کا ایک بت تھا ) کی خاطر آگ میں سے گذرنے کے لئے نہ دینا ۔اور نہ اپنے خدا کے نام کو ناپاک ٹھیرانا ۔‘‘ ( احبار باب ۱۸ آیت ۲۱)
اسی طرح لکھا ہے ’’ خداوند نے موسیٰ سے کہا تُو بنی اسرائیل سے یہ بھی کہہ دے کہ بنی اسرائیل میں سے یا اُن پر دیسیوں میں سے جو اسرائیلوں کے درمیان بودو باش کرتے ہیں جو کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی کو مولک کی نذر کرے وہ ضرور جان سے مارا جائے ۔اہل ملک اُسے سنگسار کریں ۔اور میں بھی اُس شخص کا مخالف ہونگا اور اُسے اس کے لوگوں میں سے کاٹ ڈالوں گا ۔اس لئے کہ اُس نے اپنی اولاد کو مولک کی نذر کر کے میرے مقدس اور میرے پاک نام کو ناپاک ٹھہرایا اور اگر اُس وقت جب وہ اپنی اولاد میں سے کسی کو مولک کی نذر کرے اہل ملک اس شخص کی طر ف سے چشم پوشی کرکے اُسے جان سے نہ ماریں تو مَیں خود اُس شخص کا اور اُس کے گھرانے کا مخالف ہو کر اُس کو اور اُن سبھوں کو جو اُس کی پیروی میں زنا کار بنیں اور مولک کے ساتھ زنا کریں اُن کی قوم میں سے کاٹ ڈالونگا ۔‘‘ ( احبار باب ۲۰ آیت ۱ تا ۶)
لیکن باوجود اس کے کہ بائیبل انسانی قربانی کو بُرا قرار دیتی ہے پھر بھی بائیبل بتاتی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے یہی حکم دیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو چھری سے ذبح کریں ۔چنانچہ پیدائش میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو حکم دیا کہ ’’ تو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اُسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتائو نگا سو ختی قربانی کے طور پر چڑھا ۔تب ابراہام تے صبح سویر ے اُٹھ کر اپنے گدھے پر چارجامہ کسا اور اپنے ساتھ دو جوانوں اور اپنے بیٹے اضحاق کو لیا اور سوختنی قربانی کیلئے لکڑیاں چیریں اور اُٹھ کر اُس جگہ کو جو خدا نے اُسے بتا ئی تھی روانہ ہو ا ۔‘‘ ( پیدائش باب ۲۲ آیت ا تا ۳)
پھر لکھا ہے ’’ وہاں ابراہام نے قربان گاہ بنائی اور اُس پر لکڑیاں چنیں اور اپنے بیٹے اضحاق کو باندھا اور اُسے قربان گاہ پر لکڑیوں کے اوپر رکھا اور ابراہام نے ہاتھ بڑھا کر چھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے ۔تب خداوند کے فرشتے نے اُسے آسمان سے پکارا کہ اے ابراہام ۔اے ابراہام ! اُس نے کہا میں حاضر ہوں ۔پھر اُس نے کہا کہ تُو اپنا ہاتھ لڑکے پر نہ چلا اور نہ اس سے کچھ کر کیونکہ میں اب جان گیا کہ تُو خدا سے ڈرتا ہے ۔اس لئے کہ تُونے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ کیا ۔اور ابراہام نے نگاہ کی اور اپنے پیچھے ایک مینڈھا دیکھا جس کے سینگ جھاڑی میں اٹکے تھے ۔تب ابراہام نے جاکر اُس مینڈھے کو پکڑا اور اپنے بیٹے کے بدلے سوختی قربانی کے طور پر چڑھا یا ۔‘‘ ( پیدائش باب ۲۲ آیت ۹ تا ۱۳)
اب اگر اسی طرح واقعہ ہوا ہو کہ خداتعالیٰ نے پہلے الہامًا حضرت ابراہیم ؑ کو یہ کہا ہو کہ جائو اور اپنے بیٹے کو چھُری سے قربان کر دو۔اور پھر جب وہ قربان کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں روک دیا تو پہلا حکم بالکل بے فائدہ قرار پایا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اس طرح قربان کریں ۔تو انہیں قربان کرنے کا حکم کیوں دیا گیا اور کیوں بعد میں اُن سے صرف مینڈھے کی قربانی کو قبول کر لیا گیا ۔پس بائیبل جو کچھ بتاتی ہے وہ عقلی طور پر ایک قابلِ اعتراض صورت ہے جس میں خداتعالیٰ کے ایک حکم کو بے کار قرار دینا پڑتا ہے ۔لیکن قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے یہ رؤیا دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں جس کی تعمیل میں انہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک وادیٔ غیر ذی زرع میں جا کر چھوڑ دیا اور اس طرح عملی رنگ میں اپنے ہاتھوں انہیں ذبح کر دیا ۔گویا بائیبل حضرت ابراہیم ؑ کے واقعہ میں انسانی قربانی کو بطور اصل پیش کرتی ہے اور جانور کی قربانی کو اس کا قائم مقام قرار دیتی ہے ۔لیکن اسلام صرف جانور کی قربانی کو ہی اصل قربانی قرار دیتا ہے اور بتا تا ہے کہ ہر مذہب میں خداتعالیٰ کی طر ف سے جانوروں کی قربانی ہی اصل قربانی مقر ر کی گئی تھی ۔انسانی قربانی کا جو اُن میں رواج پیدا ہوا وہ منشاء الٰہی کے خلاف اور مذہب کے بگاڑ کا نتیجہ تھا۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسانی قربانی کا رواج منشاء الٰہی کے خلاف تھا تو پھر حضرت ابراہیم ؑ کو رؤیا میں یہ کیوں دکھا یا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ رؤیا دراصل اپنے اندر تعبیری رنگ رکھتی تھی جسے بعد میں رُونما ہونے والے واقعات نے ظاہر کر دیا ۔اور وہ تعبیر یہ تھی کہ ایک دن حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے اسمعٰیل ؑ کو خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک ایسی جگہ اور ایسے حالات میں چھوڑ کر آئیں گے کہ جہاں ظاہر ی حالا ت کے مطابق اُن کی موت یقینی ہو گی لیکن اللہ تعالیٰ اُن کی اس قربانی کو قبول فرما کر اُن کی زندگی کے سامان پیدا کر دیگا اور اُن کے ذریعہ سے اس قدیم معبد کو جسے اللہ تعالیٰ دنیا کا آخری معبد بھی بنانا چاہتا تھا آباد کر ائے گا تاکہ جس طرح اللہ اوّل اور آخر ہے اسی طرح اس کا گھر یعنی مکہ مکرمہ بھی اوّل گھر اور آخر گھر بن جائے ۔چنانچہ مسلمانوں میں عیدالاضحی کی یاد گار کسی ایسے بکرے کی قربانی کے بدلے میں نہیں جو حضرت ابراہیم ؑ نے ذبح کیا ہو بلکہ خود حضرت اسمعٰیل ؑ کی قربانی کی یاد گار میں ہے ۔جو بیت اللہ کو آباد رکھنے کیلئے کی گئی ۔اور اس میں کیا شبہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا اپنے بیٹے کو ایک بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آنا اپنے ہاتھوں قتل کرنے کے متراد ف تھا ۔بلکہ حقیقتًا اُس سے بھی زیادہ ۔کیونکہ قتل کرنے سے ایک منٹ میں جان نکل جاتی ہے اور اس طرح اگر خداتعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو انہوں نے سسک سِسک کر جان دینی تھی ۔پس حضرت ابراہیم ؑ کا یہ رؤیا انسانی قربانی کی ترویج کے لئے نہیں تھا بلکہ اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دُنیا کو یہ سبق دینا چاہتا تھا کہ اصل قربانی یہ ہے کہ انسان اس غرض سے تکلیف اُٹھائے کہ اس کا فائدہ دنیا کو پہنچے ۔پس وہی قربانی اس کی نظر میں مقبول ہو سکتی ہے جو بنی نوع انسان کی زندگی کا موجب ہو ۔اس جگہ یہ امر بھی مدّنظر رکھنا ضرور ی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا فرما کر قربانی کی حقیقت اور اس کے فلسفہ پر بھی نہایت لطیف رنگ میں روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ محض قربانی کو ئی چیز نہیں بلکہ خداتعالیٰ کی نگا ہ میں وہ جذبۂ اخلاص قدرو قیمت رکھتا ہے جو اس قربانی کے پس پشت ہوتا ہے ۔اگر کوئی شخص اعلیٰ درجہ کا دُنبہ تو ذبح کر دیتا ہے لیکن وہ قربانی میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کو مدنظر نہیں رکھتا تو اسکی یہ قربانی خداتعالیٰ کے حضور ایک پرکاہ کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھ سکتی ۔یہ لطیف اشارہ اللہ تعالیٰ نے مَنْسَکاً کا لفظ استعمال فرما کر کیا ہے جس کے معنے عربی زبان میں شِرْعَۃُ النَّسْکِ ۔نَفْسُ النَّسْکِ اور مَوْضَع’‘ تُذْبَحُ فِیْہِ النَّسِیْکَۃُ کے ہوتے ہیں یعنی مَنْسَک’‘ قربانی کے طریق کو بھی کہتے ہیں۔ نفسِ قربانی کو بھی کہتے ہیں اور اُس جگہ کو بھی کہتے ہیں جہاں قربانی کی جاتی ہے اور نَسِیْکَۃ کا لفظ جو عربی زبان میں قربانی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے نَسَکَ سے نکلا ہے اور نَسَکَ لِلّٰہِ کے معنے ہوتے ہیں تَطَوّعَ بِقُرْبَۃٍ و ذبحَ بوَجْھِہٖ ( اقرب) یعنی کسی نیک کام کو بغیر اس کے کہ اُس کے کرنے کا حکم دیا گیا ہو یا بغیر اس کے کہ اُس کی ذمہ داری کسی پر ڈالی گئی ہو اپنی خوشی اور رضا سے کسی شخص نے سرانجام دیا ۔اور اس نیت سے کام کیا کہ خداتعالیٰ کی خوشنودی اُسے حاصل ہو جائے ۔گویا نَسِیْکَہُ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ جبر کے ماتحت نہ ہو بلکہ طبعی رغبت اور ارادہ اور خواہش سے ہو اور پھر خالصۃً لِلّٰہ ہو ۔اور اسی طرح نَسَکَ التَّوْبَ کے معنے ہوتے ہیں غَسَلَہ‘ بِالْمَائِ فَطَھَّرَہ‘ ۔اُس نے کپڑے کو پانی سے دھویا اور اُس میں سے ہر قسم کی مَیل نکال دی۔پس اس آیت میں مَنْسَکًا کا لفظ استعمال فرما کر اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم ہمیشہ اپنی خوشی اور بشاشت ِ قلبی کے ساتھ قربانیوں میں حصّہ لو ۔یہ نہ ہو کہ تمہیں کسی کا جبر قربانی پر آمادہ کر رہا ہو ۔کیونکہ خداتعالیٰ کے حضور وہی قربانی مقبول ہوتی ہے جو بشاشتِ قلب کے ساتھ کی جائے ۔دوم صرف بشاشتِ قلب کا مدنظر رکھنا ہی تمہارے لئے ضروری نہیں بلکہ اس سے اگلا قدم یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُسکی خوشنودی کو ملحوظ رکھتے ہوئے قربانیاں کرو ۔اور تیسری بات یہ ہے کہ قربانی کرتے وقت اپنے دل کے تما م گوشوں کو ٹٹو لو اور دیکھو کہ کیا کسی دنیوی غرض کی ملونی تو اس میں نہیں کیونکہ اگر ایسا ہو تو تمہاری قربانی خداتعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا شرف حاصل نہیں کر سکتی ۔یہ نہایت لطیف اور قیمتی اسباق اللہ تعالیٰ نے محض ایک چھوٹے سے لفظ میں بیان کر دئے ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر انسان اپنی قربانیوں کے اعلیٰ نتائج حاصل کر سکتا ہے۔وَبَشِّرِالْمُخْبِتِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَ ا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَالصَّابِرِیْنَ عَلیٰ مَآ اَصَابَھُمْ وَالْمُقِیْمِی الصَّلٰوۃِ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کرنے والوں کی چار علامات بتا ئی گئی ہیں ۔
اوّل یہ کہ اللہ تعالیٰ کا نام آنے پر اُن کے دل کانپ اُٹھتے ہیں ۔دوم خدا تعالیٰ کی راہ میں مصائب اور مشکلات
کے آنے پر وہ اُن کو بخندہ پیشانی بر داشت کرتے ہیں ۔سوم با جماعت نمازیں ادا کرتے ہیں ۔چہارم اُنکو خداتعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بھی ملتا ہے اس کا ایک حصہ وہ اس کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں ۔اس جگہ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ میں صرف روپیہ ہی شامل نہیں کہ انسان کچھ روپے خداتعالیٰ کی راہ میں دے کر اپنے فرض کو ادا کرنے والا سمجھا جا سکے بلکہ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ میں اُس کی آنکھیں بھی شامل ہیں اس کا دماغ بھی شامل ہے ۔اُس کے کان بھی شامل ہیں اس کی ناک بھی شامل ہے اُس کے ہاتھ اور پائوں بھی شامل ہیں ۔اُس کا دھڑ بھی شامل ہے ۔پھر مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ میں اس کا مکان بھی شامل ہے ۔وہ گندم بھی شامل ہے جو وہ استعمال کرتا ہے بلکہ وہ مولیاں اور گاجریں اور گُڑ بھی شامل ہیں جو زمیندار پیدا کرتا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ روپیہ خرچ کر کے ایک شخص مالی قربانی کرنے والا قرار پا سکتا ہے لیکن شریعت صرف مالی قربانی کا حکم نہیں دیتی بلکہ شریعت یہ کہتی ہے کہ ہم نے تمہیں جو کچھ دیا ہے اس کاایک حصہ تم خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو ۔پس اگر کوئی شخص اپنی ساری جائیداد بھی چندہ میں دے دیتا ہے لیکن اس کی آنکھیں خداتعالیٰ کے بندوں کی خدمت میں حصہ نہیں لیتیں ۔اُس کے ہاتھ پائوں خداتعالیٰ کے بندوں کی خدمت میں حصہ نہیں لیتے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اپنی ساری جائیداد دے کر اپنے فرض کو ادا کر دیا ہے ۔یہ چیز منطق تو کہلا ئیگی لیکن دین کہلائیگا ۔دین کا تقاضا پورا کرنے کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ اپنے سارے جسم کو خداتعالیٰ کے بندوں کی خدمت کیلئے استعمال کرے ۔احادیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن جب تمام انسان خداتعالیٰ کے سامنے پیش ہو نگے تو وہ بعض لوگوں سے کہے گا کہ اے میرے بندو! میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا ۔میں ننگا تھا تم نے مجھے کپڑے پہنائے میں بیمار ہوا تم نے میری تیماداری کی ۔اس لئے جائو اور میری جنت میں داخل ہو جائو ۔وہ بندے کہیں گے ۔توبہ توبہ ہماری کیا طاقت تھی کہ ہم تجھے کھانا کھلاتے یا پانی پلاتے یا کپڑے پہناتے یا بیماری پر تیری عیادت کرتے تو تو ان تمام باتوں سے پاک ہے ۔وہ فرمائے گا یہ درست ہے لیکن جب میرا ایک ادنیٰ سے ادنیٰ بندہ تمہارے پاس آیا اور وہ بھوکا تھا تو تم نے اُسے کھانا کھلایا تو گویا مجھے ہی کھانا کھلایا ۔اور اسی طرح جب میرا ایک ادنیٰ سے ادنیٰ بندہ تمہارے پاس آیا اور وہ پیاسا تھا ۔اور تم نے اُسے پانی پلایا توگویا تم نے مجھے ہی پانی پلایا ۔اسی طرح جب تم نے ایک ننگے تو کپڑا پہنایا یا ایک بیمار کی تیماداری کی تو تم نے ایک بندے کو کپڑا نہیں پہنایا یا ایک بندے کی تیماداری نہیں کی بلکہ درحقیقت تم نے مجھے کپڑا پہنایا ۔اور تم نے میری تیماداری کی ۔اس لئے جائو اور میر ی جنت میں داخل ہو جائو ۔غرض مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس قدر طاقتیں اور قوتیں ملی ہوئی ہیں اُس پر فرض ہے کہ وہ اپنی ہر طاقت کو بنی نوع انسان کی بھلائی کیلئے صرف کرے اور صرف اس امر پر خوش نہ ہوجائے کہ اُس نے روپیہ دیدیا تھا یا نماز پڑھ لی تھی یا روزہ رکھ لیا تھا ۔
ٍ دیکھو رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ مالی قربانی کی تحریک کی تو ایک صحابی جن کے پاس اَور کچھ نہیں تھا وہ جَو کی دو
مٹھیاں لائے اور انہوں نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیں منافقوں نے اس بات کو دیکھا تو وہ ہنسے اور کہنے لگے لو اَب دنیا جَو کی ان دومٹھیوں سے فتح ہوگی ۔حالانکہ اگر اُن کی آنکھ کھلی ہوتی تو وہ سمجھتے کہ یہ جَو کی دو مٹھیاں نہیں تھیں بلکہ اسلام کی محبت میں پیتاب ہونے والے ایک دل کے خون کے دو قطرے تھے جو اُس نے محمد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کئے ۔اور دنیا دل کے خون کے قطروں سے ہی فتح ہوا کرتی ہے ۔دنیاوی سامانوں سے نہیں ۔پس ایمانِ کامل کی علامت یہ ہے کہ جو کچھ تم گھروں میں کھاتے ہو اور جو کچھ کماتے ہو اور جو کچھ پہنتے ہو اور جو کچھ خرچ کرتے ہو ۔اُس کا ایک حصہ خداتعالیٰ کی راہ میں بھی دو اور اپنی ہر طاقت بنی نوع انسان کی بھلائی اور اُن کی بہبودی کے لئے صرف کرو ۔
پھر فرماتا ہے ۔وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ ۔اور تُو ان کو بتا دے کہ قربانیوں کو ہم نے شعائر اللہ قرار دیا ہے ۔یعنی وہ انسان کو خدا تک پہنچاتی ہیں اور اُن کے ذریعہ سے دینی اور دنیوی بھلائی ملتی ہے ۔پس قربانی کے دنوںمیں قربانیوں کو صف در صف کھڑا کرکے اُن پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا کرو تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے کام آئیں ۔چنانچہ جب وہ ذبح ہو کر اپنے پہلوئوں پر گِر جائیں تو خود بھی اُن کا گوشت کھائو اور صابر غریب اور مضطر غریب کو بھی کھلائو ۔یہ سب مال ہم نے تم کو دیا ہے تاکہ اس کو غریبوں پر خرچ کرکے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو ۔ان آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے ان قربانیوں کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے جو حج بیت اللہ کے موقعہ پر کی جاتی ہیں اور بتایا ہے کہ یہ قربانیاں شعائر اللہ میں داخل ہیں اور تمہارے لئے ان قربانیوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی برکت رکھی گئی ہے ۔وہ لوگ جو حقائق سے نا آشنا ہیں وہ بھی اور مسلمانوں میں سے بھی بعض نادان یہ اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ اسلام نے یہ قربانی بغیر کسی حکمت کے رکھی ہے کیوں نہ اس روپیہ کے بدلہ میں کالج جاری کئے جائیں اور اس طرح قومی ترقی کے سامان کئے جائیں ۔فرض کرو حج کے موقعہ پرچالیس ہزار بکرا ذبح ہوتا ہے اور ایک بکرے کی اوسط قیمت پچیس روپے بھی فرض کی جائے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ایک کروڑ پچیس لاکھ روپے کا بکرا ذبح ہو جاتا ہے ۔پھر اونٹ وغیرہ بھی ہوتے ہیں ان سب کو ملا کر اندازاً دو کروڑ روپیہ ان قربانیوں پر خرچ ہو جا تا ہے ۔پس لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بجائے اس کے یہ روپیہ قربانیوں پر ضائع کیا جائے کیوں نہ اس کے بدلہ میں عربوں کی تربیت کا انتظام کیا جائے اور مکہ مکرمہ میں کالج اور سکول وغیرہ جاری کر دئیے جائیں ۔میں ہمیشہ ان کو یہ جواب دیا کرتا ہوں کہ بعض دفعہ قوم پر ایسے اوقات بھی آیا کرتے ہیں جب اُسے ایسی قربانیا ں کرنی پڑتی ہیں جو بظاہر بے فائدہ نظر آتی ہیں ۔انہی قربانیوں کی ٹریننگ کیلئے اسلام نے یہ سلسلہ جاری کیا ہے تاکہ ایسے مواقع پر خواہ انہیں کوئی حکمت نظر آئے یا نہ آئے وہ قربانی کرتے چلے جائیں ۔مثلاً اگر کسی ملک میں کوئی اکیلا مسلمان ہو اور وہا ں کی حکومت مذہب کے خلاف کوئی جابرانہ حکم دیدے جس سے وہ اسلام کو مٹانا چاہتی ہو ۔تو ایسی صورت میں اسلامی تعلیم کے مطابق وہ یہ نہیں کہیگا کہ جب قربانی کا کوئی فائدہ نہیں تو میں اپنے آپ کو کیوں قربان کروں بلکہ وہ فوراً قربانی کیلئے اپنے آپ کو پیش کر دے گا ۔کیونکہ جب تک وہ اپنے آپ کو قربان نہیں کرے گا دوسروں کے دلوں میں قربانی کی تحریک پیدا نہیں ہوگی ۔وہ اگر پھانسی پر چڑھ جائیگا ۔تو پھر کوئی دوسرا شخص بھی پھانسی کے تختے پر چڑھنے کیلئے نکل آئیگا ۔وہ دوسرا شخص پھانسی دیا جائیگا تو تیسرا شخص نکل آئیگا اور اس طرح قدم بقدم تمام قوم میں ایسا جوش پیدا ہو جائیگا کہ وہ اسلام کی حفاظت کے لئے دیوانہ وارکھڑے ہو جائیں گے اور کفر کو شکست کھانے پر مجبور کر دیں گے ۔
جب رسول کریم ﷺ نے مکہّ مکرمہ میں دعویٰ فرمایا تو اس وقت جن صحابہ ؓ نے قربانیاں کیں ۔وہ بظاہر کیسی بے فائدہ اور کیسی بے نتیجہ نظر آتی تھیں ۔مگر پھر انہی قربانیوں کے نتیجہ میں مکہ فتح ہوا اور سارا عرب اسلامی جھنڈے کے نیچے آگیا۔جب صحابہ ؓ مکہ میں قربانیاں کر رہے تھے اُس وقت کوئی شخص یہ قیاس بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایک دن انہی قربانیوں کے نتیجہ میں رسول کریم ﷺ کو عظیم الشان شوکت ملنے والی ہے ۔اُس وقت جن عورتوں کی شرمگاہوں میں نیز ے مار مار کر انہیں مارا جاتا تھا ،جن مردوں کو اونٹوں کے ساتھ باندھ کر انکو ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا تھا اُن عورتوں اور مردوں کی قربانیوں کو دیکھ ہر شخص سمجھتا تھا کہ یہ لوگ بیکار اپنی عمریں ضائع کر رہے ہیں ۔ایسے ہی لوگوں میں سے ایک عثمان ؓ بن مظعون بھی تھے۔عرب کا ایک مشہور شاعر لبید ایک مجلس میں اپنے اشعار سُنا رہا تھا کہ اُس نے یہ مصرع پڑھا۔
؎ اَلَا کُلُّ شَیْئٍ مَا خَلَا اللّٰہَ بَاطِلُ
یعنی سُنو کہ خدا کے سوا ہر چیز تباہ ہونے والی ہے ۔عثمانؓ بن مظعون نے یہ مصرع سُنتے ہی بڑے زور سے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے ۔خدا کے سوا ہر چیز واقع میں فنا ہونے والی ہے ۔عثمانؓ بن مظعون اُس وقت چھوٹی عمر کے بچے تھے جب انہوں نے تعریف کی تو لبید ناراض ہو گیا ۔اور اُس نے لوگوں سے کہا کہ اس لڑکے نے میری ہتک کی ہے کیا میں اپنے اشعار میں ایک چھو کرے کی تائید کا محتاج ہوں بعض لوگ اُسے مارنے کے لئے اُٹھے لیکن بعض اَور نے دخل دے کر اس معاملہ کو رفع دفع کر ا دیا ۔اور اُسے کہ دیا کہ اب تم نے کچھ نہیں کہنا ۔اس کے بعد لبید نے اس شعر کا دوسرا مصرح پڑھا کہ
؎ وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مُحَالَۃَ زَائِل‘
یعنی ہر نعمت بہر حال ایک دن ختم ہو نے والی ہے ۔اس پر عثمانؓ بن مظعون سے برداشت نہ ہو سکا اور انہوں نے کہا ۔جنت کی نعمتیں کبھی ختم نہیں ہو ں گی ۔لبید کو سخت غصّہ آیا اور اُس نے کہا میں اس مجلس میں اَب اپنے شعر سُنا نے کیلئے تیار نہیں ۔اس پر لوگ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے عثمانؓ بن مظعون کو مارنا شروع کر دیا ۔اور ایک شخص نے اتنے زور سے گھونسہ مارا کہ عثمانؓ بن مظعون کی ایک آنکھ کا ڈیلا با ہر نکل آیا ۔اُن کے والد کا ایک دوست بھی اُسی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اور پہلے وہ اُسی کی پناہ میں رہتے تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ دوسرے مسلمانوں کو ماریں پڑ رہی ہیں اور وہ آرام سے مکہ میں پھرتے ہیں تو انہوں نے اس رئیس سے جا کر کہہ دیا کہ میں تمہاری پناہ میں نہیں رہنا چاہتا ۔چنانچہ اُس نے اعلان کردیا کہ عثمانؓ اب میری پناہ میں نہیں ۔اُسے یہ جرأت تو نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ سب لوگوں کے سامنے اُن کی مدد کرتا ۔لیکن جب اُن کی آنکھ نکل گئی تو جس طرح کسی غریب آدمی کے بچے کو کوئی امیر آدمی کا بچہ مارے پیٹے تو غریب ماں اپنے بچہ کو ہی مارتی ہے اور اُس پر غصّہ نکالتی ہے ۔اسی طرح وہ ان مارنے والوں پر تو غصہ نہیں نکال سکتا تھا اُس نے عثمانؓ پر ہی غصّہ نکالا۔ اور کہا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ تو میری پناہ سے نہ نکل ۔اب دیکھا تُو نے کہ اُس کا کیا نتیجہ نکلا۔حضرت عثمانؓ بن مظعون نے جواب دیا کہ چچا تم تو مجھ پر اس لئے خفا ہو رہے ہو کہ میری ایک آنکھ کیوں نکلی لیکن خدا کی قسم میری تو دوسری آنکھ بھی خداتعالیٰ کی راہ میں نکلنے کیلئے تڑپ رہی ہے ۔اب کیا کوئی عقلمند اس وقت قیا س کر سکتا تھا کہ اُنکی ایک آنکھ کا نکلنا دین کو کوئی فائد ہ پہنچا سکتا ہے ۔واقعہ یہی ہے کہ اُس وقت یہ تمام قربانیاں بالکل نے کار نظر آتی تھیں لیکن اگر عثمانؓ بن مظعون کی ایک آنکھ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں نہ نکلتی ۔اگر عثمانؓ بن مظعون کی دوسری آنکھ خدا تعالیٰ کی راہ میں نکلنے کیلئے تڑپ نہ رہی ہوتی ۔اگر عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے نہ مارے جاتے ۔اگر مکّہ کے ابتدائی دور میں صحابہ ؓ اپنی جانیں قربان نہ کرتے تو مسلمان وہ قربانیاں کبھی پیش نہ کر سکتے جو انہوں نے بدر اور اُحد کے موقعہ پر پیش کیں ۔وہ قربانیاں کبھی پیش نہ کر سکتے جو انہوں نے احزاب کے موقعہ پر پیش کیں ۔یہی قربانیاں تھیں جنہوں نے اُن کے اندر جوش پیدا کیا ۔اُن کے اندر اخلاص پیدا کیااور انہیں قربانی کے نہایت اعلیٰ مقام پر لا کر کھڑا کر دیا ۔اسی طرح بے شک وہاں ہزاروں بکرے ذبح ہوتے ہیں جن کو گوشت بظاہر ضائع چلا جاتا ہے اور اُس کو کھانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا مگر اسلام پھر بھی قربانیوں کو حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ لَکُمْ فِیْھَا خَیْر’‘ تمہارے لئے اس میں خیراور برکت رکھی گئی ہے ۔تمہیں ان قربانیوں کے تسلسل کو ہمیشہ جاری رکھنا چاہئیے ۔اور ان دُور رس نتائج پر نظر رکھنی چاہئیے جو ان قربانیوں کے نیتجہ میں پیدا ہوتے ہیں ۔اُس احمق بادشاہ کی طرح نہیں بننا چاہئیے جس نے فوج کے خرچ کو بے مصرف قراردیکر اُسے توڑ دیا تھا ۔اور سمجھ لیا تھا کہ وقت آنے پر قصاب یہ کام کرلیں گے ۔مگر نتیجہ یہ ہوا کہ سارا ملک اس کے ہاتھ سے جاتا رہا ۔خود رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ہمیں ایک ایسا واقعہ نظر آتا ہے۔جس میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے یہی سبق دیا تھا کہ بعض دفعہ ایسی قربانی بھی کی جاتی ہے جس کا بظاہر کو ئی فائدہ نظر نہیں آتا ۔مگر پھر بھی قوم کو قربانی میں حصّہ لینا پڑتا ہے ۔صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جب رسول کریم ﷺ نے مشرکین مکّہ سے صلح کر لی تو صحابہ ؓ کے اندر اس قدر بے چینی پیدا ہوئی کہ حضرت عمر ؓ جیسا آدمی بھی گھبرا گیا۔اور انہوں نے رسول کریم ﷺ سے کہا کہ یا رسول اللہ ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ نہیں کیا تھا کہ ہم حج کریں گے ۔آپ ؐ نے فرمایا ٹھیک ہے مگر یہ کب کہا تھا کہ اسی سال کریں گے ۔غرض صحابہ ؓ کے لئے یہ ایک بہت بڑا صدمہ تھا جس سے انہیں دو چار ہونا پڑا ۔اسی لئے جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنی قربانیاں یہیں ذبح کر دو تو وہ حیران ہوئے کہ ہمیں یہ کیا حکم دیا گیا ہے ۔قربانی تو مکّہ میں ہونی تھی اور پھر عمرہ یا حج کے بعد ہونی تھی ۔مگر ہمیں یہیں قربانی کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے ۔جب ہم مکّہ گئے نہیں ۔خانہ کعبہ کا ہم نے طواف نہیں کیا ۔عمرہ یا حج نہیں کیا ۔تو قربانی کیسی ۔جب صحابہ ؓ قربانیاں کرنے میں شامل ہوئے ۔تو رسول کریم ﷺ اپنے گھر تشریف لے گئے اور اپنی ایک بیوی سے فرمایا کہ آج تیری قوم کو میں نے یہ حکم دیا تھا مگر اُس نے میری اس بات کو نہیں مانا ۔انہوں نے کہا یا رسول اللہ انہوں نے محبت کی کمی کی وجہ سے ایسا نہیں کیا بلکہ اس صدمہ کا اُن کی طبیعتوں پر اسقدر اثر ہے کہ وہ اپنے حواس میں نہیں رہے ۔آپ اپنی قربانی کو ذبح کرنا شروع کر دیجئیے اور صحابہؓ سے کچھ نہ کہیں ۔پھر دیکھیں کہ اس کا کیا اثر ہوتا ہے ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا بہت اچھا ۔آپ ؐ نے نیزہ ہاتھ میں لیا اور سیدھے اپنی قربانی کی طرف گئے۔آپ ؐ کا اپنے اونٹ کو نیزہ مارنا تھا کہ صحابہ ؓ دیوانہ وار اُٹھے اور اپنی قربانیاں ذبح کرنے لگ گئے ۔اب دیکھو یہ قربانی بظاہر بے معنے تھی ۔صحابہ ؓ مکّہ میں داخل نہیں ہوئے تھے ۔انہوں نے خانہ کعبہ کا طواف نہیں کیا تھا ۔انہوں نے عمرہ یا حج نہیں کیا تھا مگر پھر بھی انہوں نے اپنی قربانیاں ذبح کر دیں ایسا کیوں ہوا ؟ صرف اسلئے کہ اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ اگر لوگ تمہیں بیت اللہ تک نہیں جانے دیتے تو جہاں انہوں نے تمہیں روک دیا ہے تم وہیں قربانی کرد و اور سمجھ لو کہ یہی مقام خدا تعالیٰ کا گھر ہے ۔غرض یہ بھی بظاہرایک بے مصرف قربانی تھی مگر محمدرسول اللہ ﷺ نے صحابہ ؓ کو اس قربانی کا حکم دیا اور اس طرح بتا دیا کہ خواہ کوئی قربانی تمہیں کتنی ہی بے مصرف دکھائی دیتی ہو تمہارا کام ہچکچاہٹ کا اظہار کرنا نہیں ۔تمہارا کام قربانیوں کی آگ میں اپنے آپ کو جھونک دینا ہے ۔تمہیں خدا نے اپنے دین کا سپاہی بنایا ہے ۔تمہارے ہاتھوں پر کفر اور شیطنت کی شکست مقدر ہے ۔تم کام کرنے کیلئے پیدا کئے گئے ہو۔پس تمہارا جرنیل تمہیں جو کچھ کہتا ہے تم کرو ۔اور جس طرح تمہیں لے جانا چاہتا ہے اُس کے پیچھے جائو ۔یہی روح ہے جس کے نتیجے میں تمہیں خیر اور برکت حاصل ہوگی اور جس کے بعد دنیا کی کوئی قوم تمہارے مقابلہ میں کھڑی نہیں ہو سکے گی ۔
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لَحُوْمُھَا وَلَادِمَآؤُ ھَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ ہ
ترجمہ() یاد رکھو کہ ان قربانیوں کے گوشت اور خون ہر گز اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچتے لیکن تمہارے دل کا تقویٰ اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے ۔درحقیقت اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان قربانیوں کو تمہاری خدمت میں لگا دیا ہے تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی وجہ ہے اس کی بڑائی بیان کرو ۔اور تو اسلام کے احکام کو پوری طرح ادا کرنیوالوںکو بشارت دے ۔ ۱۷؎
۱۷؎ تفسیر :
یعنی یاد رکھو قربانیوں میں یہ حکمت نہیں کہ اُن کا گوشت یا اُن کا خون خداتعالیٰ کو پہنچتا ہے۔بلکہ اُن میں حکمت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور وہ تقویٰ خداتعالیٰ کو پسند ہے ۔بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ کیا خداتعالیٰ نعوذ باللہ ہندوؤں کے دیوتائوں کی طرح خون کا پیاسا اور گوشت کا بھوکا ہے کہ وہ جانوروں کی قربانی کر نیکا حکم دیتا ہے ۔اور اُن کی جان کی قربانی کو شوق سے قبول فرماتا ہے اور قربانی کرنے والوں کو بہشت کی بشارت دیتا ہے ۔اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ دیا ہے کہ قربانیوں میں یہ حکمت نہیں کہ اُن کا گوشت یا اُن کا خون اللہ تعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ اس میں حکمت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے انسانی قلب میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور وہ تقویٰ خداتعالیٰ کو پسند ہے پس وہ لوگ جو بکرے یا اونٹ یا گائے کی قربانی کرکے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو پا لیا وہ غلطی کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ یہ کوئی چیز نہیں کہ خود ہی جانور ذبح کیا اور خود ہی کھا لیا ۔اس سے اللہ تعالیٰ کو کیا ۔یہ تو تصویری زبان میں ایک حقیقت کا اظہار ہے جس کے اندر بڑی گہری حکمت پوشیدہ ہے ۔جیسے مصّور ہمیشہ تصویریں بناتے ہیں مگر اُن کی غرض صرف تصویر بنانا نہیں ہوتی بلکہ اُن کے ذریعہ قوم کے سامنے بعض اہم مضامین رکھنے ہوتے ہیں ۔چنانچہ کبھی وہ زنجیر بناتے ہیں جس سے مراد قومی اتحاد ہوتا ہے اور کبھی وہ طلوع آفتاب کانظارہ دکھاتے ہیں اور اُس کا مطلب قومی ترقی ہوتا ہے ۔اسی طرح یہ ظاہری قربانی بھی ایک تصویری زبان ہے جس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ جانور ذبح کرنے والا اپنے نفس کی قربانی پیش کرنے کیلئے تیار ہے ۔پس جو شخص قربانی کرتا ہے وہ گویا اس امرکا اظہار کرتا ہے کہ میں خداتعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کردو نگا ۔اس کے بعد دوسرا قدم یہ ہوتا ہے کہ انسان جس امر کا تصویری زبا ن میں اقرار کرے عملاً بھی اُسے پورا کر کے دکھا دے ۔کیونکہ محض نقل جس کے ساتھ حقیقت نہ ہو کسی عزت کا موجب نہیں ہو سکتی ۔آخر تھیٔٹر والوں کو شرفاء کیوں نا پسند کر تے ہیں اسی لئے کہ تھیٔٹر میں جو نقال بادشاہ بنتے ہیں اُن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی لیکن حقیقی بادشاہ کی سب لوگ عزت کرتے ہیں تھیٔٹر میں بادشاہ بننے والا اگر عملی زندگی میں اس کیلئے جدو جہد کرے تو اُسے بُرا نہیں سمجھا جائیگا لیکن محض نقل کسی عزت کا موجب نہیں ہو سکتی ۔اسی طرح جو شخص بکرے کی قربانی کے ساتھ اپنے نفس کی قربانی بھی کرتا ہے وہ شرفا ء کے نزدیک قابلِ احترام ہے ۔لیکن جو شخص صرف بکرے کی قربانی پر اکتفا کرتا ہے وہ نقال اور بھانڈ ہے اور اس لئے کسی عزت کا مستحق نہیں۔پھر اگرغور کرکے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ سوائے اُن قصابوں کے جو جانوروں کو روزانہ ذبح کر نے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں دوسرے لوگوں کی طبیعت پر جانور کو ذبح ہوتے دیکھ کر ایک گہرا اثر پڑتا ہے اور اُن کے خیالات میں ایک زبردست ہیجان پیدا ہو جاتا ہے ۔حتّٰی کہ اسی اثر کے ماتحت بعض قوموں نے قربانی کو ظلم قرار دیدیا ہے ۔اُن کا یہ فعل تو کمزوری کی علامت ہے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قربانی کا اثر طبیعت پر ضرور پڑتا ہے ۔اور اسی اثر کو پیدا کرنے کیلئے قربانی کو عبادت میں شامل کیا گیا ہے ۔گویا قربانی کے ذریعہ سے ہر انسان اس امر کا اقرار کرتا ہے کہ جس طرح یہ جانور جو مجھ سے ادنیٰ ہے میرے لئے قربان ہوا ہے اسی طرح میں بھی اقرار کرتا ہوں کہ اگر مجھ سے اعلیٰ چیزوں کے لئے مجھے اپنی جان دینی پڑے گی تو میں بھی خوشی سے اپنی جان دے دوں گا ۔اب غور کرو جو شخص قربانی کی اس حکمت کو سمجھ کر قربانی کرتا ہے اسکی طبیعت پر اس کا کس قدر گہرا اثر پڑے گا اور کس طرح وہ اپنے اس فرض کو یاد رکھے گا جو اُس کے پیدا کرنیوالے کی طرف سے اُ س پر عائد ہوتا ہے ۔اس ذبح کی یاد ہمیشہ اس کے دل میں تازہ رہے گی ۔اور اس کا دل اُسے کہتا رہیگا کہ دیکھ تُو نے اپنے ہاتھوں سے بکرے کو ذبح کر کے اس امر کا اقرار کیا تھا کہ ادنیٰ چیز اعلیٰ کیلئے قربان کی جاتی ہے ۔اب تجھے بھی اس قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئیے جو صداقتوں کے قیام کیلئے یا بنی نوع انسان کی تکالیف کے دُور کرنے کیلئے تجھے کرنی پڑیں ۔یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ تمہاری قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون ۔بلکہ خداتعالیٰ کو وہ ارادۂ نیک پہنچتا ہے جو خشیت اللہ کو مدنظر رکھ کر تم نے کیا تھا ۔یعنی اگر تم اس غرض کو پورا کرو گے جس کے لئے تم نے قربانی کی ہے تو فائدہ ہو گا ورنہ صرف گوشت کھانے اور خون بہانے کا کام تم سے ہو اہے جس کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں۔اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے کسی عمل کی ظاہر ی شکل نتیجہ پیدا نہیں کرتی بلکہ قربانی کی وہ رُوح نتیجہ پیدا کرتی ہے جو اس عمل کے پسِ پشت کا م کر رہی ہوتی ہے ۔پس حالات کے اختلافات کی وجہ سے بعض دفعہ عمل کی ظاہر ی شکل میں جو اختلاف پیدا ہو جاتا ہے وہ کسی شخص کو ترقی سے روکتا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نتیجہ کے وقت ا س کی قربانی کی رُوح کو مدنظر رکھ کر اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے ۔مثلاً ایک شخص کے پاس دس ہزار روپیہ ہو اور وہ اس میں سے سو روپیہ غرباء میں تقسیم کر دے ۔اور ایک شخص جس کے پاس صرف دس روپے ہوں وہ اُن میں سے پانچ روپے دے دے تو نتیجہ پانچ اور سو کے مطابق نہیں نکلے گا بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ دونوں کو کتنی ضرورتیں تھیں اور اُن میں سے زیادہ بہتر کونسی ہے اور جب بدلہ اس اصل کے ماتحت ملے تو ظاہری اختلاف کے باوجود کسی شخص کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا جس طرح محض جانوروں کو قربانی کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی بلکہ خداتعالیٰ کو وہ اخلاص پہنچتا ہے جس کے ماتحت قربانی کی جاتی ہے ۔اور وہ محبتِ الٰہی پہنچتی ہے جو اس قربانی کی محرک ہوتی ہے ۔جس کے پاس تقویٰ ہو اُس کی اٹھنی بھی اُس شخص کے سور وپے سے زیادہ قیمت رکھتی ہے جو تقویٰ سے خالی ہو ۔کیونکہ قرآن کریم نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خون اور گوشت کو نہیں دیکھتا بلکہ قربانی کرنے والے کی نیت کو دیکھتا ہے ۔ایک امیر آدمی آسانی کے ساتھ سو اونٹ یا سو دُنبے خداتعالیٰ کی راہ میں ذبح کر سکتا ہے ۔لیکن ایک غریب آدمی جو سال بھر قربانی کیلئے پیسے جمع کرتا رہتا ہے اور جس کا ایک ایک دن اس حسرت میں گذرتا ہے کہ کاش میرے پاس اتنی رقم جمع ہو جائے کہ میں ایک دفعہ عید کے موقع پر قربانی کرکے اُس کا کچھ گوشت خدا کی راہ میں تقسیم کردوں اور کچھ گوشت اپنے دوستوں کو تحفۃً پیش کر وں ۔وہ اگر سال بھر کی محنت اور تگ و دو کے بعد ایک معمولی سی بکری یا چھوٹی سی دُنبی قربان کرتا ہے تو کیا تم سمجھتے ہو کہ خداتعالیٰ اس کی معمولی سی بکری یا چھوٹی سی دُنبی کو رّد کر دیگا ۔اور اس امیر کے موٹے تازے دُنبوں کو قبول کر لے گا ۔اگر خداتعالیٰ انسانی عمل پر فیصلہ کرتا تو یقینا اُس امیر کے موٹے تازے دُنبے قبول کرلئے جاتے ۔اور اس غریب کی معمولی سی بکری یا چھوٹی سی دُنبی رّد کر دی جاتی ۔مگر اللہ تعالیٰ کافیصلہ انسانی اعمال پر نہیں ہوگا ۔بلکہ وہ فرماتا ہے یَنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ۔خداتعالیٰ کے حضور قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تمہارے دلی جذبات اُس تک پہنچتے ہیں ۔یعنی اُن کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے اگر اُس کے پاس گوشت اور خون پہنچا کرتا تو وہ اچھا گوشت پسند کر لیتا اور وہ اُن قربانیوں کو قبول کر لیتا جن میں بہت زیادہ خون بہایا گیا ہو ۔مگر فرماتا ہے ہمارے پاس ان چیزوں میں سے کوئی چیز نہیں پہنچتی ۔ہمارے پاس تو قربانی کے پیچھے جو نیّت ہوتی ہے وہ پہنچا کر تی ہے ۔اگر ایک چھوٹی سی دُنبی ذبح کرنے والے کی نیت بہت اعلیٰ تھی اور دو سو بڑے بڑے دُنبے ذبح کرنے والے کی نیت ایسی اعلیٰ نہیں تھی تو قیامت کے دن جس نے دو سو دُنبے ذبح کئے ہونگے اگر اُس کے ساتھ اعلیٰ اخلاص نہ ہوگا تو اُس کے ساتھ دو سو دُنبے نہیں ہونگے بلکہ ایک مریل سی دُنبی ہوگی ۔اور جس نے ایک چھوٹی سی دُنبی ذبح کی تھی اگر اُس نے اعلیٰ اخلاص اور محبت کے ساتھ یہ قربانی کی تھی تو قیامت کے دن اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی دُنبی نہیں ہوگی بلکہ ہزار ہا موٹے تازے دُنبے ہونگے کیونکہ اُس جہان میں سب کی سب چیزیں نیّت کے تابع ہو جاتی ہیں ۔یہ تو روحانی نقطۂ نگاہ سے قربانیوں کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔مادی لحاظ سے غور کرو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے جس قدر اشیاء دنیا میں پیدا کی ہیں اُن میں سے ہر ایک کا ایک چھلکا ہوتا ہے اور ایک مغز ہوتا ہے ۔دنیا میں کوئی مغز ایسا نہیں جو بغیر چھلکے کے ہو ۔اور کوئی چھلکا ایسا نہیں جس کے اندر مغز نہ ہو ۔یہی کیفیت روحانی اعمال کی بھی ہے مثلاً نماز میں قیام اور قعود اور رکوع اور سجود ایک چھلکا ہیں ۔لیکن وہ رُوحانی اثر جو اس قیام و قعود اور رکوع و سجود کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے وہ مغز ہے ۔قربانیوں میں بھی کسی جانور کو ذبح کرنا ایک قشر ہے لیکن وہ اخلاص جو اس قربانی کے پیچھے کا م کررہا ہوتا ہے وہ مغز ہوتا ہے ۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہاری قربانیوں کے گوشت اور خون خدا تک نہیں پہنچتے بلکہ تمہارا تقویٰ خدا تک پہنچتا ہے ۔ممکن ہے کوئی شخص کہے کہ اگر تقویٰ ہی کی ضرورت تھی تو پھر جانور کیوں قربان کروائے جاتے ہیں ۔اس کا ایک جواب تو یہی ہے کہ ہر مغز اپنے ساتھ قشر بھی رکھتا ہے اور دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ قشر بے فائدہ چیز نہیں بلکہ غرباء کے کام آنے والی چیز ہے چونکہ غربا ء عام طور پر اس مقوی خوراک سے محروم رہتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک صدقہ اس قسم کا بھی جاری کر دیا جس میں جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے تاکہ غرباء کے دل بھی نہ ترستے رہیں اور وہ اس مقوی غذا سے اپنی مالی تنگی کی وجہ سے محروم نہ رہیں ۔چنانچہ فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان قربانیوں پر تم کو اس لئے ملکیت بخشی ہے تاکہ تم خداتعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ان پر خداتعالیٰ کا نام لیتے رہو اور غریبوں کی پرورش کرتے رہو اور یاد رکھو کہ جو خداتعالیٰ کے احکام کی تعمیل کریں انکو بڑے بڑے انعام ملتے ہیں ۔
اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ لَایَحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍا ہ
ترجمہ () اللہ تعالیٰ یقینا ان لوگوں کی طرف سے جو کہ ایمان لائے ہیں دفاع کرتا رہیگا ۔اللہ تعالیٰ یقینا ہر خیانت کرنے والے اور انکار کرنیوالے کو پسند نہیں کرتا ۔ ۱۸؎
۱۸؎ تفسیر :
فرماتا ہے مومنوں کو ڈرنا نہیں چاہئیے خداتعالیٰ خود انکی طر ف سے اُنکے دشمنوں سے لڑیگا اور انہیں اُن کی کوششوں میں ناکام کریگا ۔لیکن انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ جو لوگ خائن ہوتے ہیں اسی طرح وہ لوگ جو خداتعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے باوجود نا شکر ے ہوتے ہیں یعنی اپنے اموال کو غریبوں پر خرچ نہیں کرتے ۔اللہ تعالیٰ ان کو پسند نہیں کرتا بلکہ انہی کو پسند کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو مختلف طریقوں سے بنی نوع انسان پر خرچ کر تے رہتے ہیں ۔مثلاً قربانیوں کا گوشت کھلا کر یا کپڑے وغیرہ دے کر یا اور مختلف ذرائع سے ۔
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْ ا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ ہ
ترجمہ() وہ لوگ جن سے بلاوجہ جنگ کی جارہی ہے انکو بھی جنگ کرنیکی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ اُن پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کی مدد پر قادر ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کے گھروں سے صرف ان کے اتنا کہنے پر کہ اللہ ہمارا رب ہے۔بغیر کسی جائز وجہ سے نکا لا گیا ۔اور اگر اللہ تعالیٰ اُن یعنی کفار میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ سے شرارت سے باز نہ رکھتا تو گرجے اور یہودیوں کی عبادت گاہیں اور مسجدیں جن میں اللہ تعالیٰ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے بر باد کر دئے جاتے۔اور اللہ تعالیٰ یقینا اُس کی مدد کریگا جو اُس کے دین کی مدد کریگا ۔اللہ تعالیٰ یقینا بہت طاقتور اور غالب ہے یہ یعنی مہاجر مسلمان وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو دنیا میں طاقت بخشیں تو وہ نمازوں کو قائم کریں گے اور زکوٰتیں دیں گے ااور نیک باتوں کا حکم دیں گے اور بری باتوں سے روکیں گے ۔اور سب کاموں کا انجام خدا کے ہاتھ میں ہے ۔اور اگر یہ دشمن تجھے جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے نوح ؑ کی قوم نے بھی اور عاد اور ثمود نے بھی اور ابراہیم کی قوم نے بھی اور لوطؑ کی قوم نے بھی اور مدین کے اصحاب نے بھی اپنے نبیوں کو جھٹلایا تھا اور موسیٰ ؑ کی تکذیب بھی کی گئی تھی ۔پس میں نے انکار کر نے والوں کو کچھ ڈھیل دی پھر انکو پکڑ لیا ۔پس سو چو کہ میرا انکار کیسا خطر ناک تھا ۔اور کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو ہم نے اس حالت میں ہلاک کیا تھا کہ وہ ظلم کر رہی تھیں وہ آج اپنی چھتوں پر گِری پڑی ہیں ۔اور کتنے کنوئیں ہیں جو بالکل متروک ہیں اور کتنے اونچے اونچے قلعے ہیں جو بالکل تباہ ہو چکے ہیں ۔کیا وہ زمین میں چل کر نہیں دیکھتے تا کہ اُن کو ایسے دل حاصل ہو جائیں جو ان باتوں کو سمجھنے والے ہوں یا کان حاصل ہو جائیں جو ان باتوں کو سننے والے ہوں ۔کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ ظاہری آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں اندھے ہوتے ہیں ۔ ۱۹؎
۱۹ ؎ حل لغات :
اَلصَّوَامِعُ : اَلصَّوْمَعَۃُ کی جمع ہے ۔مفردات میں ہے ۔اَلصَّوْمَعَۃُ کُلُّ بِنَا ئٍ مُتَصَمِّعِ الرَّأسِ اَیْ مُتَلَا صِقَۃً ۔ہر ایک عمارت جس کے اوپر گنبد بنا ہو ا ہو ۔اقرب میں ہے کہ اَلصَّوْمَعَۃُ کا لفظ راہب کے منارہ پر بولا جاتا ہے ۔
بِیَع’‘ : بِیْعَۃُ کی جمع ہے ۔اور اَلْبِیْعَۃُ کے معنے ہیں مَعْبَدُ النَّصَارٰی ۔عیسائیوں کی عبادت گاہ
صَلَوَات’‘ : یہودیوں کے کنیسہ کو کہتے ہیں
مَکَّنَا : مَکَّنَ سے جمع متکلم کا صیغہ ہے اور مَکَّنَا مِنَ الشَّیْئِ کے معنے ہیں ۔جَعَلَ لَہ‘ عَلَیْہِ سُلْطَنًا وقدرۃ ۔اُسے کسی چیز پر غلبہ اور قدرت دیدی ۔پس اِنْ مَکَّنَا کے معنے ہونگے اگر ہم غلبہ دیدیں ۔
نَکِیْر’‘ کے معنے ہیں ۔اَلْاِنْکَارُ ۔انکار اور نَکِیْرِیْ کے معنے ہیں ۔میرا انکار
مُعَطَّلَۃُ : عَطَّلَ الْبِٔرَ کے معنے ہیں تَرَکَ وِرْدَھَا کنوئیں پر جانا چھوڑ دیا ۔وَکُلُّ مَاتُرِکَ ضَائِعًا فَقَدْ عُطِّلَ ۔اور ہر وہ چیزجس کی نگرانی چھوڑ دی جائے اور وہ ضائع ہو جائے اُس کیلئے عُطِّلَ کا لفظ بولتے ہیں ( اقرب) پس بِئر’‘ مُعَطَّلَۃُ کے معنے ہونگے ایسے کنوئیں جن پر کوئی نہ جاتا ہو مَشِیْد’‘ کے معنے ہیں ھُوَ مَا طُلِیَ بِالشِّیْدِ وَقِیْلَ ھُوَ الْمَرْ فُوْعُ الْمُطَوَّلُ ۔وہ عمارت جو چونہ گچ ہو یا بلند و بالا ہو ( اقرب)
تفسیر :
ان آیات میں وہ اصول بیان کئے گئے ہیں جن کے ماتحت مسلمانوں کو مخصوص حالات میں اللہ تعالیٰ نے دفاعی جنگ کی اجازت دی ہے ۔اسلام عیسائیت کی طر ح یہ نہیں کہتا کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دو ( متی باب ۵ آیت ۳۹) بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص تم پر ظالمانہ حملہ کرے یعنی بغیر کسی گناہ کے تمہیں اپنے گھروں سے نکال دے صرف یہ کہنے کی وجہ سے کہ اللہ ہمارا رب ہے تو تم اس کا مقابلہ کر و ۔اور یہ نہ سمجھو کہ ہم تھوڑے ہیں ۔کیونکہ اگر تم مظلوم ہو لو خداتعالیٰ تمہاری مد د کے لئے آئیگا اور وہ تمہاری مدد کرنے پر قادر ہے ۔اور یاد رکھو کہ یہ حکم دنیا میں امن قائم رکھنے کیلئے ہے ۔اگر ہم یہ حکم دے کر ایک قوم کو انصاف قائم کرنے کیلئے کھڑا نہ کر دیتے تو عیسائیوں کے گرجے اور یہودیوں کی عبادت گاہیں اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں اللہ تعالیٰ کا نام بڑی کثرت سے لیا جاتا ہے سب گِرا دی جاتیں ۔پس جو مسلمان دین میں دخل اندازی کرنے والی جنگ کے مقابلہ کیلئے کھڑا ہو جاتا ہے وہ درحقیقت اپنی مدد نہیں کرتا بلکہ اُن کی مدد کرتا ہے کیونکہ وہ صرف اپنے مذہب کا دفاع نہیں کرتا بلکہ سب مذاہب کا دفاع کرتا ہے ۔پس لازمًا اللہ تعالیٰ بھی اس کی مد د کرے گا اور چونکہ اللہ تعالیٰ قوی اور غالب ہے ایسا مسلمان بھی قوی اور غالب ہو جائیگا کیونکہ ایسا مسلمان اس ارادہ سے کھڑا ہوتا ہے کہ اگر اس کو طاقت ملے گی تو نماز با جماعت بھی قائم کریگا اور زکوٰۃ بھی دیگا ۔اور نیک باتوں کا حکم بھی دیگا اور بُری باتوں سے بھی رو کے گا اور چونکہ یہ سب امور اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہیں اور ساری باتوں کا نتیجہ اللہ تعالیٰ نکالتا ہے اس لئے جو شخص خداتعالیٰ کے منشاء پر چلے گا وہی جیتے گا ۔یہ نہیں ڈرنا چاہئیے کہ مخالفت سخت ہے ۔سچائی کی مخالفت نوح ؑ اور عاد اور ابراہیم کے زمانے سے چلی آئی ہے ۔مگر ہمیشہ ہی سچائی جیتتی ہے اور اس کے مخالفوں کی تباہی کے نشان اب تک دنیا میں موجود ہیں ۔پس ان نشانوں کو دیکھو او رفائدہ اٹھائو کیونکہ اصل دیکھنا دل کا کام ہے آنکھوں کا کام نہیں ۔
ان آیا ت سے جو مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دینے کیلئے نازل ہوئی ہیں ظاہر ہے کہ اسلامی تعلیم کی رُو سے جنگ کی اجازت صرف اُسی صورت میں ہوتی ہے جب کوئی قوم دیر تک کسی دوسری قوم کے ظلموں کا تختہ مشق بنی رہے اور ظالم قوم اُسے رَبُّنَا اللّٰہَ کہنے سے روکے ۔یعنی اُس کے دین میں دخل دے اور وہ جبراً اسلام سے لوگوں کو پھرائے یا اُس میں داخل ہونے سے جبراً باز رکھے اور اس میں داخل ہونے والوں کو صرف اسلام قبول کرنے کے جرم میں قتل کرے ۔اُس قوم کے سوا کسی دوسری قوم سے جہاد نہیں ہوسکتا لیکن اگر جنگ ہوگی تو صرف سیاسی اور ملکی جنگ ہوگی جودو مسلمان کا فرض نہیں ہوگا بلکہ صرف انہی مسلمانوں کا فرض ہو گا جو اُس لڑنے والی حکومت میں بس رہے ہوں کیونکہ یہ جنگ حب الوطنی کی جنگ کہلائے گی ۔دینی جنگ نہیں کہلائے گی اور رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ یعنی وطن کی محبت بھی ایمان کا ایک حصہ ہے ۔پھر بتا تا کہ ایسی مظلوم قوم کا فرض ہو تا ہے کہ جب اُسے طاقت ملے تو وہ تمام مذاہب کی حفاظت کرے اور اُن کی مقدس جگہوں کے ادب و احترام کا خیال رکھے اور اس غلبہ کو اپنی طاقت اور قوت کا ذریعہ نہ بنائے بلکہ غریبوں کی خبر گیری ، ملک کی حالت کی درستی اور فتنہ و شرارت کے مٹانے میں اپنی قوتیں صرف کرے ۔کیونکہ اسلام دنیا میں بطور شاہد اور محافظ کے آیا ہے نہ کہ بطور جابر اور ظالم کے ۔وہ لوگ جو اسلامی جہاد پر اعتراض کیا کرتے ہیں انہیں سوچنا چاہئیے کہ کیا اس قسم کی لڑائی مسلمانوں کے اختیار میں ہے کہ جب اُن کا جی چاہے شروع کردیں اور کفار کو قیدی بنانا شروع کر دیں ۔اس قسم کی جنگ کی ابتداء تو دشمن کی طرف سے ہی ہو سکتی ہے اور جب اُس سے بچنا اُس کے اختیار میں ہے تو اس کے بعد بھی اگر وہ ایسی جنگ کرتا ہے اور جبراً دوسروں کا مذہب اُن سے بدلوانا چاہتا ہے تو یا تو وہ پاگل ہے اور یا اس قابل ہے کہ اُسے سزا دی جائے کیونکہ اُسے اختیار تھا کہ وہ حملہ نہ کرتا ۔اسے اختیار تھا کہ وہ دوسروں پر ظلم نہ کرتا ۔اُسے اختیار تھا کہ وہ دین کیلئے جنگ نہ کرتا اور اس طرح اپنے آپکو ہلاکت اور بر بادی سے بچالیتا ۔
اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ اِنَّ اللّٰہَ یُدَافِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے بعد اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا پر یہ اعتراض پڑتا تھا کہ جب بندے خود کفار سے لڑے تو خداتعالیٰ نے کس طرح دفاع کیا ؟ ان آیا ت میں اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ گو بظاہر مومن لڑیں گے لیکن وہ بھی اور دوسرے لوگ بھی جانتے ہیں کہ وہ کمزور ہیں ۔جیت نہیں سکتے پس اِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ نَصْرِھِمْ لَقَدِیْر’‘ فرما کر بتا یا کہ اصل لڑائی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوگی ۔مومن تو اس کا صرف ایک ہتھیار ہو نگے جن سے وہ کام لیگا ۔فتح دینا اُس کے اختیار میں ہوگا ۔اور وہ فتح دیگا اور یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ یہ لڑائی خدا نے لڑی ہے نہ کہ انسانوں نے ۔پھر اگلی آیات میں بھی فرما دیا کہ وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہ‘ کہ جو لوگ خداتعالیٰ کے دین کی تائید کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کی مدد کیا کرتا ہے ۔گویا باوجود مومنوں کے لڑنے کے اصل دفاع اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہی رہا ۔
وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ یُّخْلِفُ اللّٰہُ وَعْدَہ‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ ہ
ترجمہ ()یہ لوگ عذاب مانگنے میں جلدی کرتے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کبھی اپنا وعدہ جھوٹا نہیں کرتا ۔اور کوئی دن خدا کے نزدیک تمہاری گنتی کے ہزار سالوں کے برابر ہوتا ہے ۔اور کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو پہلے تو میں نے مہلت دی حالانکہ وہ ظلم کر رہی تھیں ۔پھر میں نے اُن کو پکڑ لیا اور میری ہی طرف سب نے لوٹ کر آنا ہے ۔تو کہدے اے لوگو! میں تمہاری طرف صرف ایک ہوشیار کرنیوالے کی حیثیت سے آیا ہوں ۔پس جو ایمان لائیں گے اور اس کے مناسب حال عمل کریں گے ۔انہیں خداتعالیٰ کی بخشش اور معزز رزق حاصل ہوگا ۔اور وہ لوگ جنہوں نے ہمارے نشانوں کے متعلق ( اس غرض سے) جدوجہد کی کہ وہ ہم کو عاجز کر دیں وہ لوگ جہنم میں پڑنے والے ہیں ۔ ۲۰؎
۲۰ ؎ حل لغات :
اَمْلَیْتُ۔ اَمْلیٰ سے واحد متکلم کا صیغہ ہے ۔اور اَمْلٰی کے معنے ہوتے ہیں اَمْھَلَہ‘ ۔اُس کو مہلت دی ( اقرب) پس اَمْلَیْتُ کے معنے ہونگے میں نے اُن کو مہلت دی ۔
تفسیر :
فرماتا ہے ۔حق کے مخالف ہمیشہ عذاب کے متعلق جلد بازی کیا کرتے ہیں مگر اُن کے اس فریب میں نہیں آنا چاہئیے کیونکہ خدا کا ایک دن تو ہزار سال کے برابر ہے ۔وہ آہستہ آہستہ عذاب لاتا ہے ۔چنانچہ پہلے لوگوں کو بھی دیکھو کہ انہوں نے صداقتوں کا انکار کیا مگر فوراً تباہ نہ ہوئے پھر ایک دن خدا کا عذاب آگیا اور وہ تباہ ہو گئے ۔اس آیت میں اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ فرماکر جہاں اللہ تعالیٰ نے عذاب کی شدت کا ذکر کیا ہے اور بتا یا ہے کہ تم تو عذاب مانگ رہے ہو مگر جب وہ آیا تو تمہاری یہ حالت ہوگی کہ تمہیں عذاب کی ایک گھڑی ہزار برس کے برابر معلوم ہو گی ۔اور تمہیں اس سے چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آئے گی ۔وہاں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں اس ہزار سالہ دَور کا بھی ذکر فرمایا ہے جس میں کفر کو پھر اپنا سر اٹھانے کا ایک موقع ملنا تھا اور فرمایا ہے کہ تم عذاب کے لئے جلدی نہ کرو ۔اللہ تعالیٰ ابھی تمہیں ایک ہزار سال تک اَور ڈھیل دینا چاہتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ تم کیسے اعمال بجالاتے ہو ۔جب یہ ہزار سالہ دَور گذر جائیگا تو تمہیں اپنی بد اعمالیوں کی ایسی سزا ملے گی جو نہایت عبرت ناک ہو گی اور جس کے نتیجہ میں کفر کی صف ہمیشہ کے لئے لپیٹ دی جائیگی۔سورۂ طٰہٰ میں بھی اللہ تعالیٰ کفر کی اس تباہی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَئِذٍ زُرْقًا ہ یَّتَخَافَتُوْنَ بَیْنَہُمْ اِنْ لَّبِشْتُمْ اِلَّا عَشْرًا ( طٰہٰ ع ۵) یعنی جس دن کہ بگل بجایا جائیگا اُس دن ہم مجرموں کو اس حالت میں اٹھائیں گے کہ اُن کی آنکھیں نیلی ہونگی اور وہ آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کرتے ہوئے کہیں گے کہ تم تو صرف دس صدیاں اس دنیامیں رہے ہو ۔اس آیت میں مشرکوں کو نیلی آنکھوں کے ساتھ اٹھائے جانے سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اُس زمانہ میں شرک زیادہ تر نیلی آنکھوں والی قوموں یعنی یو روپین اور امریکن لوگوں میں ہوگا ۔اور یہ لوگ صرف دس سو سال تک دنیا میں حکومت کرنے کی طاقت پائیں گے ۔چنانچہ تیسری صدی سے ان لوگوں نے ترقی کرنی شروع کی اور چودھویں صدی میں آکر یعنی دس سو سال گذر نے کے بعد ان پر زوال آنا شروع ہوگیا ۔تاریخ سے ثابت ہے کہ ۲۷۱؁ھ میں عیسائیوں نے سر اٹھانا شروع کیا تھا ۔جس کی طرف سورۂ رعد کے ابتداء میں ہی الٓمٓرٰ کے الفاظ میں اشارہ کیا گیا تھا۔۲۷۱ میں دس صدیاں شامل کی جائیں تو ۱۲۷۱بن جاتا ہے ۔اب سن عیسوی نکالنے کے لئے ۱۲۷۱ میں رسول کریم ﷺ کے زمانہ سے پہلے کے ۶۲۱ سال شامل کئے جائیں تو ۱۸۹۲ بن جاتے ہیں ۔اور چونکہ سورۂ رعد مکّی سورۃ ہے جو ہجرت سے دو تین سال پہلے نازل ہوئی تھی اس لئے ۱۸۹۲ سے اگر دو سال نکالے جائیں تو ۱۸۹۰ اور تین سال نکالے جائیں تو ۱۸۸۹ رہ جاتے ہیں اور ۱۸۸۹؁ء ہی وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے لوگوں سے بیعت لی اور عیسائیت کی تباہی کی بنیاد رکھ دی گئی ۔چنانچہ دیکھ لو عیسائی حکومتوں میں سے سب سے بڑی حکومت انگلینڈ کی تھی ۔لیکن جب وہ زمانہ ختم ہوگیا اور اُن کی تباہی کا زمانہ آگیا تو ہندوستان سے وہ اس طرح بھاگے کہ اَب ہندوستان میں اُن کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا حالانکہ ہندوستان ہی سلطنت برطانیہ کے تاج کا ہیرا کہلاتا تھا ۔یہ لوگ پہلے تو اپنی طاقت کے گھمنڈ میں یہ خیال کرتے تھے کہ ہم کبھی تباہ نہیں ہو سکتے ۔جیسا کہ سورۂ کہف میں بتا یا گیا تھا کہ وَمَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَائِمَۃً ( کہف ع ۵) یعنی ان لوگوں کی رُوح رواں یہ کہے گی کہ میں اس امر کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتی کہ ہم پر بھی تباہی کی گھڑی آنیوالی ہے ۔مگر جب اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا اور ان کی طاقتیں بالکل ٹوٹ جائیں گی تو اُس وقت ان پر بھی یہ حقیقت روشن ہو جائیگی کہ ان کی ترقی کا زمانہ صرف ایک ہزار سال تھا بلکہ اس کے بعد تباہی اور بر بادی ہی اُن کے لئے مقدر تھی ۔پھر انہی د س صدیوں کو ایک یوم بھی قرار دیا گیا ہے ۔چنانچہ فرماتا ہے نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ اِذْ یَقُوْلپ اَمْثَلُھُمْ طَرِیْقَۃً اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا یَوْمًا ( طٰہٰ ع ۵)یعنی اپنی تباہی کے موقعہ پر وہ جو کچھ کہیں گے ہم اُسے خوب جانتے ہیں جبکہ اُن میں سے سب سے زیادہ اُن کے مذہب پر چلنے والا کہیگا کہ اگر حقیقت پر غور کیا جائے تو تم صرف ایک مقرر وقت تک رہے ہو ۔یعنی پیشگوئی کے مطابق د س صدیاں ۔سورۂ سبا میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ۔۔۔۔۔۔۔سَاعَۃً وَّ لَا تَسْتَقْدِمُوْنَ( سبا ع ۳)یعنی مخالف کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو ساری دنیا میں اسلام کے پھیل جانے کا وعدہ کب پورا ہوگا ۔تو انہیں کہہ دے کہ تمہارے لئے ایک وقت ِ معین کا اعلان کر دیا گیا ہے ۔تم نہ تو اُس سے ایک گھڑی پیچھے رہ سکو گے اور نہ آگے بڑھ سکو گے ۔یہاں بھی ایک یوم سے مراد ایک ہزار سالہ زمانہ ہے جیسا کہ سورۃ سجدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلیٰ الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مَقْدَارُہ‘ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ( سجدہ ع ۱) یعنی اللہ تعالیٰ امرِ اسلامی کو آسمان سے اتار کر زمین میں اپنی تدبیر کے ساتھ قائم کر یگا ۔مگر پھر و ہ اُس کی طرف ایک ایسے دن میں چڑھنا شروع کر دے گا جو تمہاری گنتی کے ہزار سالوں کے برابر ہوگا لیکن اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ اسلام کے غلبہ کے سامان پیدا فرمائیگا ۔اور کفر کو تباہ کر دیا جائے گا ۔چنانچہ اس موعود عذاب کا سورۂ مریم میں ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے کہ قُلْ مَنْ کَانَ فِی الضَّلَالَۃِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ھُوَ شَرّ’‘ مَّکَانًا وَّاَضْعَفُ جُنْدًا ( مریم ع ۵) یعنی تو انہیں کہدے کہ جو شخص گمراہی میں مبتلا ہو خدائے رحمن اُسے ایک عرصہ تک ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے ۔یہاں تک کہ جب ایسے لوگوں کے سامنے وہ سب کچھ ظاہر ہو جائیگا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے یعنی یا تو دنیوی عذاب یا کامل قومی تباہی تو اس وقت وہ جان لیں گے کہ کون ہے جو مکان کے لحاظ سے بد تر اور دوستوں کے لحاظ سے کمزور ہے ۔یعنی اُس وقت نہ تو اُن کا تمدن اُن کو محفوظ رکھ سکے گا جس پر اُن کو بڑا ناز ہوگا اور نہ اُن کے دوست اور ساتھی اور مدد گار اُن کے کسی کام آئینگے اُن کی دولت بھی اُن سے چھن جائیگی اور اُن کے ساتھی بھی اُن سے الگ ہو جائیں گے ۔اور وہ ہلاکت اور بر بادی کا شکار ہو جائیں گے ۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ الرَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَاللّٰہُ عَلِیْم’‘ حَکِیْم’‘ ہ
ترجمہ () اور ہم نے تجھ سے پہلے نہ کوئی رسول بھیجا نہ نبی مگر جب بھی اُس نے کوئی خواہش کی شیطان نے اُس کی خواہش کے رستہ میں مشکلات ڈال دیں ۔پھر اللہ تعالیٰ اُسکو جو شیطان ڈالتا ہے مٹا دیتا ہے ۔اور جو اس کے اپنے نشان ہوتے ہیں اُن کو مضبوط کر دیتا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ بہت جاننے والا حکمت والا ہے ۔ ۲۱؎
۲۱؎ حل لغات :
تَمَنّٰی : تَمَنَّی الشَّیْئَ کے معنے ہیں اَرَادَہ‘ کسی چیز کے کرنے کا ارادہ کیا اور تَمَنَّی الْکِتَابَ کے معنے ہیں قَرَأَہ‘ ۔کتاب کوپڑھا ۔اَلْاُمْنِیَۃُ کے معنے ہیں اَلْبِغیَۃُ ۔خواہش مَایَتَمَنّٰی ویقدر ۔جس کی خواہش کی جاتی ہے ۔یَنْسَخُ: نَسَخَ سے مضارع واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے اور نَسَخَ الشَّیْئِ نَسْخًا کے معنے ہیں اَزَالَہ‘ ۔کسی چیز کو دُور کر دیا چنانچہ کہتے ہیں نَسَخْتُ حُکْمَہ‘ بِحُکْمِ فُلَانٍ ۔میں نے فلاں کے حکم سے اُس کے حکم کو منسوخ کر دیا ( اقرب ) پس یَنْسَخُ کے معنے ہونگے وہ زائل کر دیتا ہے ۔وہ ختم کر دیتا ہے ۔
تفسیر :
یہ آیت قرآن کریم کی نہایت آسان آیت بھی ہے اور اس کو مفسرین نے خطرناک آیت بھی بنا دیا ہے ۔اور وہ اس طرح کہ وہ اس آیت کو سورۂ نجم کی بعض آیات سے ملا دیتے ہیں اور پھر بعض خیالی دقتوں کے ذریعہ سے اس کو ایک نہایت ہی خطرناک حربہ اسلام کے خلاف بنا دیتے ہیں ۔حالانکہ سورۂ حج اور سورۂ نجم کا کوئی بھی جوڑ نہیں ۔سورۂ نجم کی جن آیتوں کو ان کے ساتھ ملا کر ایک ہوّا بناد یا گیا ہے وہ یہ ہیں ۔اَفَرَئَ یْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی وَمَنٰوۃَا لْثَالِثَۃَ الْاُخْرٰی ۔مفسرین کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ایک دفعہ خانہ کعبہ کے صحن میں آئے اور سب کفار بھی وہاں جمع ہو گئے اور آپ نے یہ آیتیں پڑھنی شروع کیں کہ اَفَرَئَ یْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی وَمَنٰوۃَا لْثَالِثَۃَ الْاُخْرٰی اور اس کے بعد آپ نے فرمایا وَتِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلیٰ وَاِنَّ شَفَا عَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی یعنی یہ تینوں اونچی گر دنوں والے دیوتا ہیں اور ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے ۔( نعوذباللہ مِنْ تِلْکَ الْخُرَافَاتِ ) اس کے بعد جب سورۃ کے آخر تک پہنچے تو آخری آیت یہ تھی فَاسْجُدُوْ اللّٰہِ وَاعْبُدُوْا اور تم اللہ کے حضور ہی سجدہ کرو اور اس کی فرمانبرداری کرو ۔چونکہ اس جگہ قرآن کریم میں سجدہ کرنیکا حکم ہے ۔آپ نے اس جگہ سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ صحابہ ؓ نے بھی اور کفار نے بھی سجدہ کیا ۔بلکہ ولید بن مغیرہ جو ایک خطرناک دشمنِ اسلام تھا اس نے بھی زمین پر سے کنکر اٹھا کر اپنے ماتھے کو لگا لئے گویا سجدہ کر لیا ۔یہ واقعہ جب مکہ میں مشہور ہوا تو ایک شور مچ گیا ۔لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ سارامکہ مسلمان ہوگیا ہے کیونکہ سب کفار نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر سجدہ کر لیا ہے ۔مسلمان مفسر کہتے ہیں کہ یہ آیتیں جو آپ ؐ نے پڑھیں کہ وَتِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلیٰ وَاِنَّ شَفَا عَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی یہ قرآن کا حصہ نہیں تھیں ۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے بعد میں ان کو منسوخ کر دیا ۔چنانچہ موجودہ قرآن میں یہ آیتیں نہیں ہیں ۔وہ اس کہانی کی حقیقت یہ بیان کرتے ہیں کہ سورۂ حج میں یہ آیت آتی ہے کہ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ اِلَّا اِذَا تَمَنّٰی اَلْقَی الشَّیْطَانُ فِيْ اُمْنِیَّتِہٖ ۔یعنی ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر اُس کی یہ حالت تھی کہ جب کبھی وہ وحی پڑھتا تھا شیطان اُس کی وحی میں اپنی طرف سے کچھ ملا دیتا تھا ۔پھربعد میں خداتعالیٰ شیطانی وحی کو منسوخ کر دیتا تھا۔اسی طرح جب رسو ل کریم ﷺ نے سورۃنجم کی آیتیں خانہ کعبہ میں پڑھیں تو شیطان نے ( نعوذ باللہ من ذالک ) آپ ؐ کی وجی میں یہ بات ملا دی کہ وَتِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلیٰ وَاِنَّ شَفَا عَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی ۔جب رسول کریم ﷺ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تو مکہ کے کفار نے سمجھا کہ آپ نے اپنے دین میں کچھ تبدیلی کر دی ہے اور آپ کے ساتھ سجدہ میں شامل ہو گئے ۔جب مکہ میں شور پڑگیا کہ کفار مسلمان ہوگئے ہیں تو کفار نے کہا کہ ہم نے تو صرف اس لئے سجدہ کیا تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی تلاوت میں یہ فرمایا تھا وَتِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلیٰ وَاِنَّ شَفَا عَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی جس میں صاف طور پر ہمارے بتوں کو تسلیم کر لیا گیا تھا ۔پس جب محمد رسول اللہ ﷺ نے ہمارے بُتوں کو تسلیم کر لیا تو ہم نے بھی جواب میں اُن کے خدا کے آگے سجدہ کر دیا ۔جب کفار کا یہ قول مشہور ہوا تو مفسرین کہتے ہیں کہ چونکہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ اُس وقت کوئی آواز آئی تھی جس میں یہ الفاظ سُنے گئے تھے کہ وَتِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلیٰ وَاِنَّ شَفَا عَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی اس لئے معلوم ہو تا ہے کہ اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ ہر نبی کی زبان پر شیطان کبھی کبھی خدائی منشاء کے خلاف الفاظ جاری کر دیتا تھا ۔لیکن اس آیت میں الفاظ جاری کر دیتا تھا ۔لیکن اس آیت میں الفاظ جاری کرنے کا کوئی ذکر نہیں بلکہ آیت کے صرف اتنے معنے ہیں کہ جب کوئی نبی دنیا میں کوئی خواہش کرتا ہے اور نبی کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ دنیا کی اصلاح ہو جائے ۔اُس وقت شیطان جو اس کی کامیابی کو ناپسند کرتا ہے اُس کے راستہ میں روکیں ڈال دیتا ہے ۔اَلْقٰی کے معنے ڈال دینے کے ہوتے ہیں ۔پس اَلْقٰی الشَّیْطٰنُ فِی ْ اُمْنِیَّتِہٖ کے یہی معنے ہیں کہ اُس کی خواہشوں کے راستہ میں کوئی چیز ڈال دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ شیطان روک ہی ڈالیگا نبی کی مدد تو نہیں کریگا ۔پس ان الفاظ سے یہ معنے لینا کہ شیطان اس کی زبان پر شرکیہ الفاظ بھی جاری کر دیتا ہے صریح ظلم ہے ۔مگر مشکل یہ ہے کہ اوپر کے بیان کردہ واقعہ کی روایت کو بڑے پایہ کے محدثین نے صحیح تسلیم کیا ہے ۔چنانچہ ابن حجر جیسا محدث لکھتا ہے انّ ثلاثۃ اسانیہ منھا علیٰ شرط الصحیح ( فتح البیان ) یعنی مختلف راویوں سے جو بڑے ثقہ تھے یہ روایت آتی ہے کہ جن میں سے تین روائتیں اتنی معتبر ہیں جتنی بخاری ؒ کی ۔اسی طرح بزاز ؒ اور طبرانی ؒ نے بھی اسے درست تسلیم کیا ہے( ھمیان الزاد ) جس کی وجہ سے ہم اس روایت کو کلی طور پر رّد نہیں کر سکتے ۔لیکن خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے اس کا حل سمجھا دیا ہے جو یہ ہے کہ جب مسلمان ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تو مکہ والوں کو اُن کا حبشہ جانا بڑا بُرا لگا ۔اور انہوں نے اپنے بعض آدمی نجاشی شاہِ حبشہ کے پاس بھیجے کہ کسی طرح اُن کو سمجھا کر واپس مکہ لے آئیں ( سیرۃ الحلبیہ ) اور تاریخوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ جس وقت یہ سجدہ والا واقعہ ہوا ۔اُس وقت کچھ مہاجرین حبشہ سے لوٹ کر مکہ آگئے ۔اور جب اُن سے لوگوں نے پوچھا کہ تم لوگ واپس کیوں آگئے ہو تو انہوں نے کہا ۔ہمیں تو یہ اطلاع پہنچی تھی کہ مکہ کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں ( ابن خلدون ) مکّہ کے جو لوگ اُن سے ملے تھے ۔انہوں نے کہا کہ مکّہ والے تو کوئی مسلمان نہیں ہوئے ۔بات یہ ہے کہ تمہارے رسول نے قرآن کی کچھ آیتیں ایسی پڑھی تھیں جن سے شرک کی تائید ہوتی تھی ۔اس لئے تمہارے رسول کے ساتھ مل کر مکہ والوں نے بھی سجدہ کرد یا مگر جبکہ بعد میں تمہارے رسول نے اُن آیتوں کو منسوخ قرار دے دیا تو مکہ والے پھر اپنے دین کی طرف لوٹ آئے ۔یہ باتیں سن کر وہ مہاجر پھر واپس حبشہ چلے گئے ( سیرۃ الحلبیہ ) ۔
سورۂ نجم کی تلاوت کا واقعہ اور مسلمانوں کے حبشہ سے آنیکا واقعہ اتنا قریب قریب ہے کہ خود جغرافیہ اس کو رّد کر تا ہے ۔مکہ سے اس زمانہ کی بندر گاہ شعیبہ کا فاصلہ اکیلے سوار کے لئے کم ازکم چار پانچ دن کا بنتا ہے ۔چنانچہ زرقانی میں لکھا ہے کہ مسافتھا طویلۃ جِدًّ کہ مکہ سے شعیبہ کا فاصلہ بہت زیادہ ہے ۔اور وہاں سے حبشہ کی بندرگاہ کا فاصلہ بھی کوئی چار پانچ دن کا بنتا ہے ۔کیونکہ اس زمانہ میں لوگ صرف بادبانی کشتیوں میں سفر کرتے تھے اور وہ بھی ہر وقت نہیں چلتی تھیں کیونکہ کوئی جہاز رانی کی کمپنیاں نہیں ہوتی تھیں جب کسی ملّاح کو فرصت ہوتی تھی وہ اپنی کشتی اُدھر لے آتا تھا جس میں بعض دفعہ مہینوں کا فاصلہ ہو جاتا تھا ۔اور حبشہ کی بندرگاہ سے لے کر اُس زمانہ کے حبشہ کے دارالحکومت کا فاصلہ کوئی دو مہینہ کے سفر کا ہے۔گویا اگر یہ خبر سورۂ نجم کی تلاوت کے بعد مکّہ سے جاتی اور پھر مسلمان وہاں سے روانہ ہوتے تو مختلف فاصلوں اور دربارِ حبشہ کی اجازت وغیرہ کے زمانہ کو ملا کر کوئی اڑھائی تین ماہ میں لوگ واپس آسکتے تھے ۔مگر وہ سجدہ والے واقعہ کے بعد پندرہ بیس دن کے اند ر اندر واپس آگئے ۔کیونکہ مسلمان حبشہ جانے کیلئے رجب میں روانہ ہوئے تھے اور شعبان و رمضان حبشہ میں ٹھہرنے اور شوال میں واپس پہنچ گئے ( زرقانی ) اور حبشہ ٹھہرنے اور واپس مکہ پہنچنے کا کل عرصہ تین ماہ سے بھی کم بنتا ہے (سیرۃ الحلبیہ )اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ نجم کی تلاوت والا واقعہ بنایا گیا ہے یعنی بعض مکہ کے سرداروں نے پہلے سے یہ تدبیر سوچی اور کوئی سوار حبشہ دوڑا دیاکہ مسلمانوں میں جاکر مشہور کر دو کہ مکّہ کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں اور انہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل کر سجدہ کیا ہے ۔لیکن جب انہوں نے اندازہ کیا کہ اَب حبشہ والے آنے ہی والے ہونگے تو سوچا کہ اُن کے آنے پر ہم کیا جواب دیں گے کیونکہ آکر وہ دیکھیں گے کہ مکّہ والے تو ابھی تک کافر ہیں اس لئے یہ مشہور کر دیا کہ سجدہ کرنا ( نعوذ باللہ ) شرکیہ آیتوں کی وجہ سے تھا اور محمد رسول اللہ ﷺ کا ان آیتوں کو منسوخ کرنا جو درحقیقت منسوخ کرنا نہ تھا بلکہ یہ اعلان کرنا تھا کہ ایسی کوئی آیتیں میں نے نہیں پڑھیں کفّار مکّہ کے واپس کفر پر آجانے کی وجہ تھا ۔اب یہ تدبیر تبھی کامیاب ہو سکتی تھی جب کہ کوئی شرکیہ آیتیں اس مجلس میں کہلائی جاتیں جس میں آپ نے تلاوت کی تھی ۔معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے نہیں بلکہ کسی خبیث کا فر نے اپنے سرداروں کے مشورہ سے پیچھے سے یہ فقرے پڑھ دئیے اور بوجہ اس کے کہ سینکڑوں آدمی موجود تھے اور مکّہ کے سارے رئو ساء جمع تھے ۔شور میں پہچا نا نہیں گیا کہ یہ آواز کس کی ہے ۔اور کفار نے مشہور کر دیا کہ چونکہ محمد رسول اللہ ﷺ نے یہ فقرے کہے ہیں اس لئے ہم نے سجدہ کر دیا تھا ۔جو لوگ مجلس کے کناروں پر بیٹھے تھے انہوں نے بھی چونکہ یہ فقرے آپ کی تلاوت کے وقت بآواز بلند کہہ دئیے تھے ۔اس لئے اُن لوگوں نے بھی یہ خیال کیا کہ شاید محمد رسول اللہ ﷺ نے ہی یہ فقرے کہے ہوں ۔پس اس کہانی کا حل تو یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی تلاوت کے وقت کفار نے پہلے سے سوچے سمجھے ہوئے منصوبہ کے مطابق کسی خبیث سے یہ فقرے بلند آواز سے کہلا دیئے اور اُن کی سکیم کا ثبوت یہ ہے کہ مہاجرین حبشہ اُسو قت سے پہلے مکہ پہنچ گئے جبکہ سورۂ نجم والے واقعہ کو سُن کر وہ مکّہ آسکتے تھے ۔بلکہ اگر اُس وقت ہوائی جہاز بھی ہوتے تو جتنے وقت میں وہ آسکتے تھے اُس سے بھی پہلے پہنچ گئے ۔پس اُن کا وقت سے پہلے مکّہ آجانا بتا تا ہے کہ وقت سے پہلے اُن کو کہلا بھیجا گیا تھا کہ مکّہ والے مسلمان ہوگئے ہیں اور عین اُن دنوں میں جبکہ وہ سکیم کے ماتحت آسکتے تھے مکہ والوں نے یہ اوپر کے الفاظ کسی خبیث کے منہ سے بلند آواز سے کہلوا دئیے۔پھر اگر اُن حدیثوں کو نظر انداز کر دیا جائے جو صراحتًا قرآن کریم کے خلاف ہیں تو یہ سورۃ ہی اس واقعہ کی تردید کرتی ہے کیونکہ ان آیتوں سے پہلے جن میں کہا گیا ہے شیطان نے شرکیہ مضمون ملاد یا تھا یہ ذکر ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے خدا کو دیکھا ہے بلکہ یہ بھی کہ دو دفعہ دیکھا ہے چنانچہ پہلے فرمایا وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃُ اُخْرٰی یعنی اُس نے یقینا اپنے خدا کو ایک دفعہ اور دیکھا ہے ۔اور پھر فرمایا لَقَدْ رَأی مِنْ اٰیَتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کے بڑے بڑے نشانات دیکھے ہیں اُس کے مقابلہ میں کافروں کو کہا گیا ہے کہ اَفَرَئَ یْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزّٰی یعنی بتائو تو سہی کہ کیا تم نے بھی محمد رسول اللہ ﷺ کی طرح اپنے بُتوں کا کوئی نشان دیکھا ہے ۔یعنی تم نے نہیں دیکھا مگر محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے خدا کے بڑے بڑے نشانات دیکھے ہیں ۔یہ تو شرکیہ آیا ت سے پہلے کی آیتیں ہیں ۔اور ان شرکیہ آیا ت کے بعد کی یہ آیت ہے کہ اِنْ ھِیَ اِلَّا اَسْمَآئ’‘ سَمَّیْتُمُوْھَا اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُ کُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ یعنی یہ بتوں کے نام تو تم نے خود رکھ لئے ہیں ۔خدا تعالیٰ نے اس کے لئے کوئی دلیل نہیں اتاری ۔اب بتائو کہ کیا یہ ممکن ہے کہ شرک کے اقرار سے پہلے بھی شرک کی تردید کی آیتیں ہوں اور اُن کے بعد بھی شرک کی تردید کی آیتیں ہوں ۔باوجود اس کے کوئی شخص کہدے کہ ان دو تریدوں کے درمیان محمد رسول اللہ ﷺ کی زبان پر شیطان نے شرک کے کلمات جاری کر دئیے تھے ۔شیطان کو تو ہمارے مفسّر عقلمند کہتے ہیں ۔یہاں تک کہ سورۂ بقرۃ کی آیات میں شیطان کو فرشتوں کا اُستاد قرار دیتے ہیں ۔اور شیطان اور خداتعالیٰ کے مباحثے میں خدا کو ہرایا گیا ہے مگر اس کہانی والا شیطان تو کوئی گدھا معلوم ہوتا ہے کہ اُس کو شرکیہ کلمات کیلئے دو زبر دست توحیدی آیات کے درمیان ہی مقام ملا ۔اس شیطان کو تو پاگل خانہ میں داخل کرنا چاہئیے ۔ایسا اُلّو خدا کے بندوں کو بہکاتا کس طرح ہے ؟ پھر یہ لطیفہ دیکھو کہ یہ سورۃ اس آیت پر ختم ہوئی ہے فَاسْجُدُوْ ا لِلّٰہِ وَاعْبُدُوْا کہ اے لوگو اللہ کے سامنے سجدہ کرو اور صرف اسی کی عبادت کرو ۔اس آیت کو سُن کر کون گدھا تھا جو یہ سمجھتا تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے کوئی شرکیہ کلمات کہہ دئیے ہیں ۔غرض اس سورۃ کی آیت آیت ہی اس کہانی کو رّد کر رہی ہے ۔یہ اندرونی شہادت ہے اور بیرونی شہادت یہ ہے کہ مہاجرین حبشہ اس کہانی کو سُن کر اس وقت مکہ میں واپس نہیں آسکتے تھے جس وقت وہ آئے جیسا کہ میں پہلے ثابت کر چکا ہو ں۔اب میں سورۂ حج کی زیرِ تفسیر آیت کو لیتا ہوں جس کی بناء پر اس واقعہ کو جائز قرار دیا گیا ہے اور بتا تا ہوں کہ اس آیت کا وہ مفہوم نہیں جو مفسرین نے لیا ہے ۔اس آیت کے مفسرین تو یہ معنے کرتے ہیں کہ تجھ سے پہلے جتنے نبی اور رسول گذرے ہیں جب کبھی وہ اپنی وحی کی تلاوت کیا کرتے تھے شیطان اُن کی وحی میں کچھ ملا دیا کرتا تھا ۔پھر اللہ تعالیٰ شیطان کے ملائے ہوئے کو منسوخ کر دیتا تھا اور اپنی آیات کو مضبوط کر دیتا تھا ۔لیکن یہ معنے بالکل غلط ہیں ۔اوّل تو اس لئے کہ تَمَنّٰی کے معنے صرف پڑھنے کے نہیں ہوتے بلکہ ارادہ کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور اُمْنِیَۃ’‘ کے معنے صرف تلاوت کے ہی نہیں ہوتے بلکہ مطلوب و مقصود کے بھی ہوتے ہیں ( اقرب) ان دونوں لفظوں کے مذکورہ بالا معنے مدنظر رکھتے ہوئے آیت کے معنے یوں ہونگے کہ ’’ ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر جب بھی وہ کوئی ارادہ کرتا تھا ۔شیطان اُس کے ارادہ میں کچھ ڈال دیتا تھا ۔پھر اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے کو راستے سے ہٹا دیتا ہے اور اپنے نشانوں کو قائم کر دیتا ہے ۔‘‘ ان معنوں کو دیکھو تو پتہ لگ جائیگا کہ مفسرین کے معنے یہاں چسپاں ہی نہیں ہو سکتے ۔ان معنوں کی رُو سے اس آیت کے معنے صرف یہ بنتے ہیں کہ کوئی رسول اور نبی نہیں گذرا جس کے ارادوں یعنی شرک کے تباہ کرنے کے ارادوں کو ناکام رکھنے کیلئے شیطان کوئی روکیں نہ ڈالتا ہو ۔لیکن نبیوں کے مطلوب و مقصود کو ناکام کرنے کیلئے شیطان خواہ کتنی کوششیں کر ے اور اُن کے راستہ میں کتنی مشکلات بھی ڈالے ،ا للہ تعالیٰ شیطان کی ڈالی ہوئی مشکلات کو اُن کے راستہ سے ہٹا دیتا ہے او ر نبیوں کو کامیاب بنانے کیلئے جن نشانوں کی خبر دیتا ہے اُن کے پورا ہو نیکے سامان پیدا کر دیتا ہے ۔سو اس طرح نبی جیت جاتے ہیں اور شیطان ہار جاتا ہے ۔اب جو تاریخی واقعات ہیں اُن سے بھی لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ آیا جو مفسرین نے معنے کئے ہیں ۔وہ واقعات کے مطابق ہیں ۔تفسیری معنوں کے مطابق محمد رسول اللہ ﷺ کو ہارنا چاہئیے تھا اور شرک کو غالب آجانا چاہئیے تھا لیکن ہوا یہ کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے خانہ کعبہ میں رکھّے ہوئے بُتوں کو اپنے ہاتھ سے توڑا اور شرک ہمیشہ کیلئے مٹ گیا ۔ پس آج تک کوئی بھی نبی اور رسول ایسا نہیں آیا جس کے ہر مقصد اور ہر مدعا اور ہر خواہش اور ہر تڑپ کے آگے شیطان نے روکیں نہ ڈالی ہوں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر نبی کامیاب ہو گیا ۔تو پھر میرا ٹھکانا کہیں نہیں ۔جس طرح مرتا ہوا آدمی پورا زور لگاتا ہے کہ وہ کسی طرح موت کے نیچے سے نکل جائے اسی طرح شیطان اور اس کی ذریّت انبیاء اور اُنکی جماعتوں کے خلاف پورا زور لگاتی ہے ۔جنہوں نے مرنے والوں کو دیکھا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس بے ہوشی میں بھی جس میں دنیا و مافیہا کی اُسے کوئی خبر نہیں ہوتی جبکہ ساری طاقت زائل ہو چکی ہوتی ہے اور تمام قوت خرچ ہو چکی ہوتی ہے مرنے سے چند منٹ پہلے مرنے والا اس طرح زور لگا تا ہے کہ گویا وہ پھر اس دنیا میں واپس آنا چاہتا ہے ۔اس کا سارا جسم ہل جاتا ہے ۔گردن اُٹھ جاتی ہے اور وہ اپنی طاقت کا آخری ذرّہ تک اس لئے خرچ کر دیتا ہے کہ بچ جائو ں ۔یہ اس انسان کی حالت ہوتی ہے جو بے ہوشی میں ہوتا ہے جس کی طاقت خرچ ہو چکی ہوتی ہے ۔جو سُوکھ کر کانٹا ہو تا ہے پھر اُس کی کیا حالت ہوگی جو بے ہوش نہ ہو اور جس کی طاقت خرچ نہ ہوئی ہو ۔ایک چھوٹے بچے کو ہی کنوئیں میں ڈراوے کے طور پر دھکیل کر دیکھ لو کس طرح وہ چمٹ جاتا ہے اور عام طاقت سے آٹھ دس گنے زیادہ طاقت اُس میں پیدا ہو جائیگی ۔ایک ایسا آدمی جسے کُشتی میں پہلوان ایک منٹ میں گِرا سکتا ہے اُس کے متعلق پہلوان سے کہو کہ اُسے کنوئیں میں گِرا کر دیکھے تو ایک منٹ چھوڑ ایک گھنٹے میں بھی نہیں گِرا سکے گا ۔اس لئے کہ کشتی میں تو وہ سمجھتا ہے مقابلہ ہے اگر گِر بھی گیا تو کیا ہو ا۔مگر جب وہ یہ سمجھے کہ موت آنے لگی ہے تو اپنی ساری طاقت خرچ کریگا اور اتنا زور لگا ئے گا کہ اوّل تو زبر دست کے برابر ہو جائے گا ورنہ اُس کے قریب قریب رہیگا ۔جب خداتعالیٰ کی طرف سے دنیا میں کوئی سلسلہ قائم کیا جاتا ہے تو اُس وقت ایسی ارواح خبیثہ جو شیطان سے تعلق رکھتی ہیں یا بعض گناہوں کی وجہ سے شیطان نے اُن پر تصرف پایا ہوا ہوتا ہے جوش میں آجاتی ہیں اور سارا زور اس بات کے لئے صرف کرتی ہیں کہ کسی طرح سچائی دنیا میں نہ پھیلے ۔یہ لوگ جو الٰہی سلسلوں کے مقابلہ میں کھڑے ہوتے ہیں کبھی تو ایسے ہوتے ہیں جو اِن سلسلوں میں نام کے لحاظ سے شامل ہوتے ہیں جیسے عبدا للہ بن ابی ابن سلول اور اُس کے ساتھ تعلق رکھنے والے اور کبھی ایسے ہوتے ہیں جو نام کی طرف تو منسوب ہوتے ہیں لیکن نظام کی طرف منسوب نہیں ہوتے ۔جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں خوارج تھے ۔اور کبھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو نہ نام کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور نہ نظام کے لحاظ سے کوئی تعلق رکھتے ہیں ۔جیسے مکّہ کے کفار اور یہود اور نصارٰی ۔یہ سب لوگ مل کر اُن مقاصد میں روک بننا چاہتے ہیں جن کو پورا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کے انبیاء دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں ۔اور ہر قسم کی مشکلات اُن کے راستے میں کھڑی کر دیتے ہیں ۔مگر اللہ تعالیٰ اپنے نشانات کے ساتھ نبیوں کی تائید کرتا اور شیطان کو اس کے تمام منصوبوں میں ناکام کر دیتا ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ جس طرح شکاری کُتے کو اگر کسی چور کے کپڑے کی خوشبو سونگھا کر چھوڑ دیا جائے تو وہ دس بیس بلکہ سو میل تک بھی پیچھے جا کر اُسے پکڑ لیتا ہے ۔اسی طرح شیطان کو بھی تقدس کی خوشبو سے دشمنی ہے اور جس میں سے اُسے یہ خوشبو آئے اُس پر وہ دیوانہ وار حملہ کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ جس سے تقدس کی خوشبو آتی ہے اُسے چیر ڈالے۔جب آدم ؑ نے خداتعالیٰ سے تقدس کی خوشبو پائی تو وہ حضرت آدم ؑ کے پیچھے دوڑا ۔پھر حضرت نوح علیہ السلام آئے اور انہوں نے خوشبو پائی تو وہ اُن کے پیچھے دوڑا ۔پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے اور ان کے ذریعہ سے یہ خوشبو پھیلی تو وہ اُن کے پیچھے دوڑ پڑا ۔پھر حضرت رام ۔حضرت کرشن ۔حضرت زرتشت ۔حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ آئے تو اُنکے پیچھے دوڑ پڑا ۔اگر ان سب میں ایک ہی قسم کی خوشبو نہ ہوتی تو ان پر شیطان کا حملہ بھی ایک رنگ میں نہ ہوتا ۔چونکہ ان کی خوشبو ایک ہی طرح کی تھی اور وہ توحید کی خوشبو تھی اس لئے شیطان نے اُن کے زمانوں میں حملہ بھی ایک ہی رنگ میں کیا۔مگر فرماتا ہے فَیَنْسَخُ اللّٰہُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ وَاللّٰہُ عَلِیْم’‘ حَکِیْم’‘ ۔اللہ تعالیٰ شیطان کی تمام روکوں کو مٹا دیتا ہے اور اس تعلیم کو قائم کر دیتا ہے جو اُس کی طرف سے آتی ہے ۔اور اللہ تعالیٰ بڑا جاننے والا اور حکت والا ہے ۔
لَِّٰجْعَلَ مَایَلْقِی الشَّیْطٰنُ فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھَمْ مَّرَض’‘ وَّ الْقَاسِیَۃِ قُلُوْبُھُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اَوْیَاْ تِیَھُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ ہ
ترجمہ () نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو مشکلات شیطان ڈالتا ہے وہ اُن لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہیں جن کے دلوں میں بیماری ہو تی ہے اور جن کے دل سخت ہوتے ہیں اور ظالم لوگ ہر خدائی بات کی شدید مخالفت کرنے پر تُلے رہتے ہیں ۔اور یہ سب کچھ اسلئے ہوتا ہے تاکہ وہ لوگ جو علم والے ہوتے ہیں جان لیں کہ وہ یعنی قرآن تیرے رب کی طرف سے مجسم سچائی ہے اور اس پر ایمان لے آئیں ۔اور ان کے دل اُس کے آگے جھک جائیں اور اللہ تعالیٰ مومنوں کو ضرور سیدھے راستہ کی طرف ہدایت بخشنے والا ہے ۔اور کافر اس قرآن کے متعلق اُس وقت تک کہ تباہی کی گھڑی اچانک آجائے یا اُن کے پاس اُس دن کا عذاب آجائے تو اپنے پیچھے کچھ نہیں چھوڑتا شبہ میں پڑے رہیں گے ۔۲۲؎
۲۲؎ حل لغات :
اَلْفِتْنَۃُ کے معنے ہیں اَلْخِبْرَۃُ وَالْاِبْتِلَائُ ۔امتحان و آزمائش ۔اَلضَّلَالُ وَالْاِثْمُ وَالْکُفْرُ ۔گمراہی ۔گناہ اور کفر ، اَلْفَضِیْحَۃُ رسوائی ۔اَلْعَذَابُ ۔عذاب اَلْعِبْرَۃُ ۔عبرت
شِقَاقٍ : شَاقَّہ‘ شِقَاقًا کے معنے ہیں خَالَفَہ‘ وَعَادَاہُ ۔اس کی مخالفت اور دشمنی کی ۔وَحَقِیْقَتُہ‘ اَنْ یَّاْتِیَ کُلُّ وَاحِدٍمِّنْھُمَا فِیْ شِقٍّ غَیْرَ شِقٍّ صَاحِبِہٖ ۔عربی زبان میں شق کے معنے جاننے کے ہوتے ہیں اور شَاقَّہ‘کے معنے ہوتے ہیں ۔دونوں نے اپنا اپنا پہلواختیار کیا اور ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق نہ کیا ( اقرب ) پس شِقاق’‘ کے معنے ہونگے مخالفت کرنا ۔
تُخْبِتُ : اَخْبَتَ سے مضارع واحد مؤنث کا صیغہ ہے ۔اور اَلْاِخْبَاتُ ( جو اَخْبَتَ کا مصدر ہے ) کے معنے ہیں اَللِّیْنُ وَالتَّوَاضِعُ ۔نرمی اور عاجزی ( مفردات ) پس تُخْبِتُ کے معنے ہیں ۔عاجزی کریں اور تواضع اختیار کریں
مِرْیَۃ’‘: کے معنے ہیں اَلشَّکُّ ۔شک اَلْجَدَلُ جھگڑا ( اقرب)
یَوْم’‘ عَقِیْم’‘ کے معنے ہیں جس میں کوئی خیرو برکت کہ ہو ( اقرب) مفردات میں ہے ۔یَوْم’‘ عَقِیْم’‘ الَافَرَحَ فِیْہِ ۔ایسا دن جس میں کوئی خوشی نہ ہو ۔
تفسیر :
اب سوال پیدا ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ شیطان کو نبیوں کے راستہ میں کیوں روکیں ڈالنے دیتا ہے ۔اس کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ایسا اس لئے کرتے ہیں تاکہ اِن شیطانی فتنوں کے ذریعہ نبیوں کی جماعتیں ہر قسم کی منافقت اور بے ایمانی رکھنے والوں سے پا ک ہو جائیں اور دشمنوں کی عداوت لوگوں پر ظاہر ہو جائے ۔جب شیطان روکیں پیدا کرتا ہے تو جن لوگوں کے دلوں میں بدی ہوتی ہے اور جن کے قلوب سخت ہوتے ہیں وہ اس کی بات مان لیتے ہیں اور بلاوجہ مومنوں پر ظلم کرنے لگ جاتے ہیں ۔پس کمزور ایمان والوں کی کمزوری اور دشمنوں کی دشمنی دونوں ظاہر ہو جاتی ہیں اور پتہ لگ جاتا ہے کہ اسلام کے دشمن ضد اور مخالفت میں کس قدر بڑھے ہوئے ہیں ۔اور یہ بھی پتہ لگ جاتا ہے کہ اسلام پر سچا ایمان لانے والے لوگ شریروں کی شرارتوں سے ڈرتے نہیں بلکہ ایمان میں اَور بھی بڑھتے ہیں ۔اور اس طرح مومنوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں بڑھاتا چلا جاتا ہے ۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بیان فرمایا ہے کہ جب بھی کوئی نبی آتا ہے اور وہ لوگوں کی اصلاح کی تجاویز کرتا ہے تو شیطان اسکے راستہ میں روکیں ڈالنی شروع کر دیتا ہے مگر اُس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منافق اور کمزور ایمان لوگ الگ ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ اپنے سلسلہ کی مضبوطی اور اس کی عظمت کو اور بھی بڑھا دیتا ہے ۔اب ان معنوں پر غور کرو اور دیکھو کہ یہ معنے تمام نبیوں کو عمومًا اور محمد رسول اللہ ﷺ کو خصوصًا کس طرح شیطان کے تصرف سے محفوظ رکھتے ہیں ۔بلکہ اُلٹا یہ بتاتے ہیں کہ نبیوں پر شیطان کا تصرف تو الگ رہا شیطان اُن سے ماریں کھاتا ہے۔اور جب تم قرآن کریم کی یہ آیت مدنظر رکھیں کہ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَان’‘ ( سورۂ بنی اسرائیل ع ۷) کہ میرے بندوں پر تجھے کبھی غلبہ نصیب نہ ہوگا تو میرے کئے ہوئے معنے ہی ٹھیک ثابت ہوتے ہیں ۔اور مفسرین کے کئے ہوئے معنے غلط ثابت ہوتے ہیں ۔کیونکہ کسی نبی کی زبان پر شیطان کا قبضہ خصوصًا وحی کی تلاوت کے وقت تو اتنا بڑا
’’ سلطان‘‘ ہے کہ جس کی مثال دنیا میں نہیں پائی جاتی ۔ہم تو معمولی انسانوں کو دیکھتے ہیں کہ حکومتیں اُن پر کتنا ہی جبر کریں وہ اُن کے خلاف نعرے لگاتے جاتے ہیں ۔پھر یہ کہنا کہ محمد رسول اللہ ﷺ جو سب نبیوں کے بھی سردار تھے شیطان نے اُن کی زبان پر تصرف کر لیا اور نعوذبا للہ اُن کے منہ سے شرکیہ کلمات نکلوا دئے ۔یہ تو سورۂ بنی اسرائیل والی آیت کی صریح تردید ہے اور قرآن کریم کی کوئی آیت دوسری آیت کی تردید نہیں کر سکتی ۔چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا ( سورۃ النسآء آیت ۸۳)یعنی کیا وہ قرآن پر غور نہیں کرتے ۔اگر یہ خداتعالیٰ کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں عظیم الشان اختلاف پائے جاتے بعض لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں کہ اس آیت میں چونکہ کثیر ًا کا لفظ ہے اس لئے اس کے معنے یہ ہیں کہ خداتعالیٰ کے سوا دوسروں کے کلام میں بہت سے اختلاف پائے جاتے ہیں لیکن خدا کے کلام میں بہت سے اختلا ف نہیں پائے جاتے ۔چونکہ یہاں کثیرًا کا لفظ ہے اس لئے یہ آیت ایک اختلاف کو رّد نہیں کرتی مگر کثیر کے معنے عربی زبان میں عظیم الشان کے بھی ہوتے ہیں ۔چنانچہ مفردات میں لکھا ہے وَلَیْسَتِ الْکَثْرَۃُ بِشَارَۃ’‘ اِلیٰ الْعَدَدِ فَقَطْ بَلْ اِلیٰ الْفَضْلِ ( مفردات ) یعنی قرآن شریف میں بعض جگہ جو کثیر کا لفظ استعمال ہو ا ہے اس کے صرف یہ معنے نہیں کہ تعداد میں زیادہ بلکہ مطلب یہ ہے کہ شان میں بڑا اور قرآن کریم میں یہ اختلاف ماننا کہ ایک طرف تو وہ کہتا ہے کہ میرے نیک بندوں پر شیطان کوکبھی تصّرف نہیں ہوگا ۔اور دوسری طرف وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہر نبی اور رسول پر شیطان کو تصرف دیا گیا تھا وہ اس کی وحی میں اپنی طرف سے کچھ ملا دیتا تھا یہ اتنا بڑا اختلاف ہے کہ جس سے بڑا اختلاف قیاس کرنا بھی مشکل ہے پس سورۂ نساء کی آیت کے مطابق اس کے ایسے معنے کرنے بالکل باطل اور غلط ہیں اور قرآن کریم کی تعلیم کے صریح خلاف ہیں ۔دوسری تشریح آیت لَوَ جَدُوْا فِیْہِ اِخْتِلَافًا کَثِیْرًا کی یہ ہے کہ منطق کے قضیہ حملیہ کی رُو سے بالمقابل قضیہ نکالنا جسے مفہوم ِمخالف بھی کہتے ہیں جائز نہیں ہوتا ۔مثلاً اگر ہم یہ کہیں کہ فلاں شخص کا سر بڑا ہے تو اس فقرہ سے یہ نتیجہ نکالنا ہر گز جائز نہیں ہوگا کہ اُس کے پائوں جھوٹے ہیں اسی طرح قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ لَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا جو قضیہ شرطیہ پر مشتمل ہے قضیہ حملیہ کی صورت میں یہ معنے رکھتا ہے کہ غیر اللہ کے کلام میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہونگے کہ خدا کے کلام میں تھوڑا سا اختلاف ہوتا ہے کیونکہ یہ نتیجہ ایک ایسا مفہوم ِ مخالف ہے جو منطق کی رُو سے جائز نہیں جیسا کہ ہم اوپر کی مثال سے ظاہر کر چکے ہیں ۔
پھر فرماتا ہے ۔وَلَا یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہُ حَتّٰی تَاْتِیَھُمُ السَّاعَۃُ بَغْتَۃً اَوْیَاْتِیَھُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ۔کفار اُس وقت تک صداقت کے بارے میں شبہ میں ہی رہتے ہیں یہاں تک کہ اُنکی تباہی کی گھڑی اُن پراچانک آجاتی ہے یا اُن پر عذاب کا وہ دن آجاتا ہے جو اپنے پیچھے کچھ بھی نہیں چھوڑتا ۔دیکھ لو رسول کریم ﷺ کی ہجرت کے زمانہ میں کون شخص تھا جو یہ یقین رکھتا تھا کہ مکہ میں رہنے والے چند غریب لوگ تھوڑے ہی عرصہ میں سارے عرب پر چھا جانے والے ہیں لیکن ہجرت کے معًا بعد یعنی دوسرے ہی سال مکہ کے وہ رئو ساء جو اسلام کی ہستی کو مٹا دینے پر تُلے ہوئے تھے اور جو غریب مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم کر تے تھے بدر کے میدان میں اسطرح ذبح کر دئیے گئے جس طرح باولے کُتے گائوں کی گلیوں میں مروا دئیے جاتے ہیں ۔حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں طوفان آیا مگر طوفان آنے سے قبل آخری وقت تک آپ کی قوم ہنستی رہی اور یہی کہتی رہی کہ ہاں ہم غرق ہو جائیں گے اور تم بچ جائو گے ۔اگر ہم غرق ہو گئے تو وہ جگہ کہاں ہے جہاں تم بھاگ جائو گے لیکن سالہا سال کی ہنسی کے بعد جسے بائیبل نے شاعرانہ رنگ میں سینکڑوں سال کا زمانہ کہا ہے یکدم طوفا ن آیا اور وہ لوگ غرق ہو گئے جو آپ پر ہنسی کیا کرتے تھے اور آپ کی کشتی پہاڑ کی چوٹی پر جا ٹھہری ۔قرآن کریم اور بائیبل دونوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر سے بھاگے تو آخر وقت تک ان کی قوم کے لوگ بھی یہ نہیں سمجھتے تھے کہ ہماری نجات کا وقت آگیا ہے اور فرعون نے بھی کہا کہ یہ تھوڑے سے لوگ ہیں ۔فورًا فوجیں جمع کرو یہ ہم سے بھاگ کر کہاں جا سکتے ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے لوگوں کو فرعون کا لشکر نظر آیا تو انہوں نے کہا اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ ہم ضرور پکڑے جائیں گے لیکن وہی لوگ جو آدھ گھنٹہ پہلے یہ سمجھتے تھے کہ ہم اب فرعون کے ہاتھ سے بچ نہیں سکتے آدھ گھنٹہ بعد انہوں نے دیکھا کہ بادشاہ کے وہ وزراء اور فوجیں جن پر اس کی شوکت کا دارو مدار تھا غوطے کھاتے ہوئے سمندر کی تہ میں جا رہے ہیں ۔پھر اس عذاب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔جب ہم دیکھتے ہیں کہ فرعون اُن بادشاہوں میں سے تھا جو اپنے مُنہ پر ہمیشہ نقاب اوڑھے رہتے تھے اور انہوں نے لوگوں میں یہ مشہور کر رکھا تھا کہ جو شخص بادشاہ کی شکل دیکھ لے وہ کوڑھی ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اُس کی ہتک کرتا ہے ۔اس لئے وہ ہمیشہ اپنے منہ پر نقاب رکھتے تھے یہ بتانے کیلئے کہ ہم ایسے عالیشان انسان ہیں کہ ہماری شکل دیکھنا بھی ہر کس و ناکس کا کام نہیں اور اگر کسی شخص کے لئے بادشاہ اپنا نقاب اٹھا دیتا تھا تو وہ بڑا مقرب سمجھا جاتا تھااور وہ اپنی قوم کا سردار بن جاتا تھا مگر آج اُسکی لاش قاہرہ کے عجائب گھر میں پڑی ہوئی ہے جسے میں نے ۲۴؁ء میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔مگر دیکھنے والا کن جذبات کے ماتحت اُسے دیکھتا ہے ۔اچھے جذبات کے ماتحت نہیں بلکہ ہر دیکھنے والا اُس پر *** ڈالتا ہے اور کہتا ہے ۔خبیث توتھا موسیٰ ؑ کو دکھ دینے والا۔غرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے جن عذاب آتا ہے تو وہ بعض دفعہ ایسا اچانک آتا ہے کہ انسان دیکھتے ہی دیکھتے اُس کی لپٹ میں بھسم ہو کر رہ جاتا ہے ۔یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ یہ لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت میں اسی طرح شکوک و شبہات میں ہی مبتلا رہیں گے یہاں تک کہ ایک دن اچانک انکی تباہی کی گھڑی آجائیگی اور وہ اُس سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں پائیں گے ۔اور یا پھر اُن پر ایسا عذاب نازل ہو گا جو اُن کی شوکت کا کوئی نشان تک باقی نہیں رکھے گا ۔چنانچہ فتح مکہ بھی ایک ساعت تھی جو اچانک کفار مکہ پر آئی ۔اور جس نے اُن کے تمام بل اس طرح نکال کر رکھ دئیے کہ وہ لوگ جو محمد رسول اللہ ﷺ اور آپکے ساتھیوں کو ابتدائے اسلام سے دکھ دیتے چلے آرہے تھے اس قدر عاجزاور درماندہ ہو گئے کہ انہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ سے یہ عاجز انہ التجا کی کہ آپ ہم پر رحم کریں اور ہم سے وہی سلوک کریں جو یوسف ؑ نے اپنے بھائیو ں کے ساتھ کیا تھا ۔اور اس قدر انقلاب اُن میں پیدا ہو ا کہ وہی لوگ جو کل تک محمد رسول اللہ ﷺ کے خون کے پیاسے تھے آپکی حفاظت کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے لگ گئے اور عَذَابُ یَوْمٍ عَقِیْمٍ سے حضرت ابن عباس ؓ مجاہد اور قتادہ کے نزدیک بدر کا عذاب مراد ہے جس نے کفار کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیں اور اُن کے رعب اور دبدبہ کو خاک میں ملا دیا ۔
اَلْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ لِّلّٰہِ یَحْکُمُ بَیْنَھُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَاُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَاب’‘ مُّھِیْن’‘ ہ
ترجمہ () اُس دن جب سب بادشاہت اللہ ہی کی ہوگی وہ اُن کے درمیان فیصلہ کرے گا ۔پس مومن جو ایمان کے مناسب حال عمل بھی کرتے ہونگے وہ نعمت والی جنتوں میں رہیں گے ۔اور کافر اور ہماری آیتوں کے منکر تو وہ ہیں جن کے لئے رسوائی کا عذاب مقدر ہے ۔ ۲۳؎
۲۳؎ حل لغات :
جَنّٰتِ النَّعِیْمِ : اَلنَّعِیْمُ کے معنے ہیں الْخَفْضُ دَالدَّعَۃُ ۔آرام آسائش ۔اَلْمَالُ ۔مال ( اقرب ) اسی طرح النَّعِیْمُ کے معنے ہیں اَلنِّعْمَۃُ الْکَثِیْرَۃ بہت سی نعمت ( مفردات ) پس جَنّٰتِ النَّعِیْمِ کے معنے ہونگے (ا) ایسی جنات جن میں آرام و آسائش حاصل ہوگا ۔(۲) مال و دولت والی جنات (۳) بہت سی نعمت والی جنات
تفسیر :
فرماتا ہے جب یہ ساعۃ آگئی تو اُس دن خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم ہو جائیگی اور شرک اور کفر دنیا سے مٹ جائیگا ۔چنانچہ دیکھ لو فتح مکہ کے بعد خدا کا وہ گھر جسے حضرت ابراہیم ؑ اور آپ کے بیٹے حضرت اسمعٰیل ؑ نے خدا ئے واحد کی پرستش کے لئے بنایا تھا اور جسے بعد میں اُن کی گمراہ اولاد نے تین سو ساتھ بتوں سے بھر دیا تھا کس طرح بتوں سے خالی کیا گیا ۔اور کس طرح ایک ایک بُت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بیت اللہ سے باہر پھینک دیا گیا رسول کریم ﷺ ایک ایک بُت پر سونٹی مارتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ جِآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ۔یعنی حق آگیا ہے اور باطل بھاگ گیا ہے ۔اور باطل تو ہے ہی بھاگ جانے والا ۔جب رسول کریم ﷺ نے سب سے بڑے بُت ھبل پر اپنی چھڑی مار ی اور وہ گِر کر ٹوٹ گیا ۔تو ایک صحابی ؓ نے ابو سفیان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ابو سفیان ! تمہیں یاد ہے اُحد کے دن تم نے کتنے غرور میں یہ نعرہ لگا یا تھا کہ اُعْلُ ھُبُلْ ۔اُعْلُ ھُبُلْ یعنی ہبل کی شان بلند ہو ہبل کی شان بلند ہو ۔آج دیکھ لو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہبل کے ٹکڑے پڑے ہوئے ہیں ۔ابو سفیان کھسینا ہو کر بولا ۔بھائی یہ باتیں جانے بھی دو ۔اگر محمد رسول اللہ ﷺ کے خدا کے سوا کوئی اور بھی خدا ہوتا تو آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں یہ کبھی نہ ہوتا ۔اب تو ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ خدائے واحد کے سوا اَور کوئی خدا نہیں ۔غرض اَلْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ لِّلّٰہِ کی پیشگوئی اُس روز بڑی شان سے پوری ہوئی اور عرب کے ایک سرے سے لیکر اُس کے دوسرے سرے تک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی آوازیں گونجنے لگیں ۔
پھر فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا لصّٰلِحٰتِ فِيْ جَنّٰتٍ النَّعِیْمِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بَاٰیٰتِنَا فَاُلٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَاب’‘ مُّھِیْن’‘ میں بتایاکہ الٰہی سلسلوں کی ترقی میں شیطان خواہ کس قدر روڑے اٹکائے اور کتنے ہی منصوبے کرے آخر میں خداتعالیٰ کے نبی ہی جیتتے ہیں ۔اور کفار کی سب تدبیریں ناکام ہو کر رہتی ہیں ۔چنانچہ مومن تو ترقی کر جاتے ہیں لیکن مخالفین خائب و خاسر ہو کر غم و غصہ اور ناکامی و ذلت کی آگ میں جلتے رہتے ہیں اور یہ دنیا ہی اُن کے لئے دوزخ ہو جاتی ہے ۔اَلْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ لِّلَّہِ میں ضمنی طور پر ایک اعتراض کا جواب بھی پایا جاتا ہے ۔بعض لوگ سورۂ فاتحہ کے الفاظ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن پر اعتراض کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت یہ کیوں کہا گیا ہے کہ وہ مَالِکَ ہے یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ وہ مَلِکْ ہے ۔حالانکہ مَلِکْ یعنی بادشاہ کا تصرف مَالِکْ یعنی قابض سے زیادہ ہوتا ہے ۔اس اعتراض کا جواب اَلْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ لِّلّٰہِ میں موجو دہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس میں فرماتا ہے کہ اُس دن حکومت اللہ ہی کی ہو گی اور وہ اُن کے درمیان فیصلہ کرے گا ۔گویا اللہ تعالیٰ صرف مالک ہی نہیں بلکہ متصرف ِ کامل یعنی بادشاہ بھی ہے ۔لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ آجکل کے بادشاہوں کی طرح کسی بالا قانون کا پابند ہے ۔کیونکہ وہ خود فرماتا ہے کہ بالا قانون کی پابندی صرف اس کے لئے ہوتی ہے جس کے فیصلہ میں ظلم اور استبداد پایا جائے ۔لیکن خدا رحمن ہے اُس کے فیصلہ میں استبداد نہیں پایا جاتا ۔اور ظلم نہیں پا یا جا تا ۔بلکہ وہ سب کے ساتھ رحم اور بخشش کا سلوک کرتا ہے اور ایسا معاملہ کرتا ہے جس کے نتیجہ میں لوگوں کو فائدہ پہنچے ۔اسی طرح سورۂ فرقان میں فرماتا ہے اَلْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُ لِلرَّحْمٰنِ ( فرقان ع ۳) کہ اُس دن حکومت واقعی رحمن خدا ہی کی ہوگی ۔اسی طرح ایک اور جگہ فرماتا ہے ثُمَّ مَآ اَدْرَکَ مَایَوْمُ الدِّیْنِ ۔یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْس’‘ لِّنَفْسٍ شَیًْٔا وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِّلّٰہِ ( سورۃ الانفطار ) کہ تجھے کس چیز نے بتایا ہے کہ جزا و سزا کا وقت کیا ہے ؟ وہ وقت ہوگا جس دن کوئی جان کسی جان کی کچھ بھی مالک نہیں ہوگی اور اُس دن اللہ ہی کا حکم ہوگا ۔ان آیات سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بادشاہت بھی حاصل ہے ۔پس مالک کا لفظ جو سورۂ فاتحہ میں استعمال کیا گیا ہے وہ ان معنوں میں نہیں کہ خداتعالیٰ صرف مالک ہے مَلِکْ یعنی بادشاہ نہیں ۔بلکہ ان معنوں میں ہے کہ وہ مالک بادشاہ ہے اور یہ ظاہر بات ہے کہ مالک خالی بادشاہ سے بہتر ہوتا ہے یعنی خالی بادشاہت کسی کو تمام افراد یا اشیاء پر پورا تسلط نہیں بخشتی ۔ایک بادشاہ کو یہ ہر گز اختیار حاصل نہیں کہ وہ رعایا اور ملک کی دولت سے جس طرح چاہے سلوک کرے ۔لیکن بادشاہ اُن اشیاء میں جو اس کی مملوکہ ہوں بالکل اور قسم کا تصرف رکھتا ہے جو اُس تصرف سے جو اُسے صرف بادشاہت کی وجہ سے حاصل ہو تا ہے زیادہ مکمل اور اعلیٰ ہوتا ہے ۔پس مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کہہ کر خداتعالیٰ کی ملکیت کی قسم بیان کی گئی ہے یعنی یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خالی مَلِکْ نہیں بلکہ مَلِک ہے جو ساتھ ہی سب مخلوق کا مالک بھی ہے اور جو مالک بادشاہ ہو اُسے تصرف میں پوری آزادی حاصل ہوتی ہے ۔
وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَاِنَّ اللّٰہَ لَعَلِیْم’‘ حَلِیْم’‘ ہ
ترجمہ () اور وہ لوگ جو اللہ کے راستہ میں ہجرت کرتے ہیں پھر مارے جاتے ہیں یا طبعی موت مر جاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ انکو نہایت اعلیٰ انعام بخشے گا ۔اور اللہ تعالیٰ انعام بخشنے والوں میں سب سے اچھا ہے ۔وہ ضرور ان کو ایسی جگہ میں داخل کرے گا جسے وہ پسند کریں گے اور اللہ تعالیٰ بہت جاننے والا اور بہت سمجھ رکھنے والا ہے ۔ ۲۴؎
۲۴؎ تفسیر :
اس جگہ جو یہ کہا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جائیں گے یا مر جائیں گے اللہ تعالیٰ انکو رزق دے گا ۔اس کے صرف یہی معنے نہیں ہیں کہ جنت میں اُن کو رزق ملے گا کیونکہ دشمن کہہ سکتا ہے کہ نہ تو میں نے جنت دیکھی ہے نہ مجھے اس کا پتہ ہے ۔بلکہ اس سے قوم کے افراد بھی مراد ہیں کیونکہ قوم کے ہم خیال لوگوں سے جو سلوک ہوتا ہے وہ ساری قوم سے سمجھا جاتا ہے ۔پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مہاجرین میں سے بعض بے شک قتل کئے جائیں گے اور بعض مر جائیں گے لیکن بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ اُن کو اور اُن کی قوم کو بہت سی دنیوی اور اخروی نعمتیں دے گا ۔یعنی زندہ رہنے والوں کو دنیاوی نعمتیں تو بادشاہت کی صورت میں ملیں گی اور اخروی نعمتیں ایمان کی زیادتی کی صورت میں ملیں گی ۔
ذٰلِکَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِہٖ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوّ’‘ غَفُوْر’‘ ہ
ترجمہ () یہ با ت اسی طرح ہے اور جو شخص اتنی ہی سزا دے جتنی اُسے تکلیف دی گئی تھی مگر باوجود اس کے اُس کا دشمن اُلٹا اُس پر چڑھ آئے تو اللہ تعالیٰ ضرور اُسکی مدد کریگا اللہ تعالیٰ یقینا بہت معاف کرنیوالا اور بہت بخشنے والا ہے ۔ ۲۵؎
۲۵؎ حل لغات :
بُغِیَ عَلَیْہِ ۔بَغٰی عَلَیْہِ سے مجہول کا صیغہ ہے اور بَغٰی عَلَیْہِ کے معنے ہیں ۔اِسْتَطَالَ عَلَیْہِ وَظَلَمَہ‘ ۔اس پر ظلم کیا اور دست درازی کی ( اقرب ) پس بُغِیَ عَلَیْہِ کے معنے ہونگے ۔اس پر ظلم کیا گیا
تفسیر :
یعنی یہ جو ہم نے تعلیم دی تھی کہ ظلم کو ہر دفعہ معاف کرنا ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ ظلم کا بدلہ لینا بھی جائز ہوتا ہے ۔اس کے متعلق اگر یہ خیال کرو کہ اگر ہم بدلہ لیں گے تو دشمن اور بھی شرارت میں بڑھ جائیگا اور اس طرح ہماری مصیبت زیادہ ہو جائیگی تو یاد رکھو کہ اگرتم مظلوم ہونے کے بعد حد کے اندر بدلہ لو گے اور پھر بھی دشمن تم پر مزید ظلم کرنے کیلئے تیار ہو جائیگا تو خداتعالیٰ کی مدد تم کو حاصل ہو گی ۔اور تمہارے لئے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی ۔یہ آیت بظاہر اس جگہ بے تعلق نظر آتی ہے لیکن اگر اوپر کے رکوع کا مضمون دیکھا جائے تو اُس میں یہ آیت نظر آئے گی کہ وَالَّذِیْنَ سَعَوْا فِيْ اٰیٰتِنَا مُعٰجِزِیْنَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ اسی طرح اُس میں فرمایا گیا ہے کہ وَمَا ٓ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّا اِذَا تَمَنّٰی اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِيْ اُمْنِیَّتِہٖ پھر اس سے بھی اوپر چلیں تو یہ آیت نظر آئے گی کہ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ نَصْرِھِمْ لَقَدِیْر’‘ اور پھر اس سے بھی پہلے یہ آیت آتی ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ یُدَافِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ ۔ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ گذشتہ دو رکوعوں سے جنگ میں چاہے سچائی کی تائید کرنے والے لوگوں کی تعداد کتنی بھی کم ہو پھر بھی وہ جیتیں گے ۔پس جنگ کے اس پہلو کو بھی بیان کرنا ضروری تھا کہ کفار میں اگر اَور جوش پیدا ہو ا تو کیا بنیگا۔پس یہ آیت بے تعلق نہیں بلکہ سابق مضمون کے تسلسل میں بیان کی گئی ہے ۔
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ یَوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّھَارِ وَیُوْلِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ وَاَنَّ اللّٰہَ سَمِیْع’‘ بَصِیْر’‘ ہ
ترجمہ () یہ سزا و جزا کا سلسلہ اس لئے چلتا ہے کہ ثابت ہو کر اللہ تعالیٰ رات کو دن میں داخل کر دیتا ہے اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ یقینابہت دعائیں سُننے والا اور بہت حالات دیکھنے والا ہے ۔ ۲۶؎
۲۶؎ حل لغات :
یُوْلِجُ : اَوْلَجَ سے مضارع کا صیغہ ہے اور اَوْلَجَ کے معنے ہیں اَدْخَلَہ‘ اس کو داخل کیا ( اقرب ) پس یُوْلِجُ کے معنے ہونگے وہ داخل کرتا ہے ۔
تفسیر :
فرماتا ہے اپنی مصیبتوں اور دشمن کی ترقی سے گھبرانا نہیں چاہئیے کیونکہ دنیا کی تاریخ سے معلو م ہو تا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں ایک دن گِر جاتی ہیں اور گِری ہوئی قومیں ایک دن بڑ ھ جاتی ہیں ۔پس اگر آج تمہارے دشمن کی باری ہے تو کل تمہاری بار ی ہوگی ۔
دوسرے یہ بھی نہیں بولنا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ دعائیں سُنتا ہے اور اپنے بندوں کے حالات دیکھ رہا ہے ۔اس جگہ نور کے بعد ظلمت اور ظلمت کے بعد نور سے اچھی حالت کے بعد تکلیف کی حالت اور دُکھ کے بعد سُکھ کی حالت پیداکرنا مراد ہے ۔اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ نظامِ عالم سے بید خل نہیں بلکہ وہ مظلوم کا ساتھ دیتا اور اس کے لئے اپنی قدرت اور جلال کو ظاہر کرتا ہے پس مسلمانوں کیلئے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں ۔وہ ان کی ضرور مدد کریگا اور ان کے لئے ترقی کے راستے کھول دیگا ۔
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ۔۔۔۔۔۔۔اِنَّ اللّٰہَ لَطِیْف’‘ خَبِیْر’‘ ہ
ترجمہ () یہ دعائیں سُننا اور حالات سے واقف رہنا اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں قائم ہے اور دوسری چیزوں کو قائم رکھتا ہے اور اس لئے کہ جس چیز کو وہ خدا کے سوا پکارتے ہیں وہ تباہ ہونیوالی ہے اور اس لئے کہ اللہ ہی سب سے اوپر ہے اور سب سے بڑا ہے ۔کیا تونے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اُتارا ہے جس سے زمین سر سبز ہو جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ یقینا اپنے بندوں سے مہربانی کا سلوک کرنیوالا ہے اور انکے حالات سے بہت با خبر ہے۔ ۲۷؎
۲۷؎ حل لغات :
اَلْبَاطِلُ ۔بَطَلَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے ۔اور بَطَلَ کے معنے ہوتے ہیں فَسَدَ خراب ہو گیا ۔اَوْسَقَطَ حُکْمُہ‘ ۔اُس کا حکم ختم ہو گیا ۔وَذَھَبَ ضِیَا عًا وَخُسْرًا ۔ضائع ہو گیا اور گھاٹا کھا کر ختم ہو گیا ( اقرب) پس اَلْبَاطِلُ کے معنے ہونگے ۔ضائع ہو جانے والا او ر گھاٹا کھا کر ختم ہونے والا ۔
تفسیر :
اب بتا یا ہے کہ وہ نظام عالم میں دخل اس لئے دیتا ہے کہ اصل قائم رہنے والی ہستی وہی ہے اور باطل ہلاک ہونے والا ہے ۔اگر بندے باطل سے تعلق رکھیں گے تو وہ بھی ہلاک ہونگے اور اگر حق اور صداقت سے تعلق رکھیں گے تو وہ بھی قائم رہیں گے ۔پس تم جو واجب الوجود خدا کیساتھ تعلق رکھو گے ان لوگوں کے مقابلہ میں کس طرح ہار سکتے ہو جو ہلاک ہونیوالی تعلیم کے ساتھ وابستہ ہیں ۔یہ تو اس کی ہتک ہے کہ اُس کی طرف سے قائم ہونیوالا سلسلہ تباہ ہو جائے ۔اس سے اُس کے عليّ اور کَبِیْر ہونے پر اعتراض آتا ہے ۔تمہارا خدا یقینا بڑا ہے ۔اس لئے تم بھی بڑے ہوگے اور تمہارے دشمن کا بُت چھوٹا ہے ۔اس لئے لازمًا وہ ذلیل اور رسوا ہوگا ۔مادی دنیا کو بھی دیکھ لو ۔جب مادی پانی نازل ہوتا ہے تو وہ شاداب ہو جاتی ہے اسی طرح روحانی پانی نازل ہوگا تو تم کیوں شاداب نہیں ہوگے ۔خصوصًا جب خدا دلوں کے بھید بھی جانتا ہے اور خبرد ار ہے ۔
لَہ‘ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وِ اِنَّ اللّٰہَ لَھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ ہ
ترجمہ () جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اُس کا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ یقینا اپنے سوا سب وجودوں کی مدد سے بے نیاز اور تعریفوں کا مالک ہے ۔ ۲۸؎
۲۸؎ تفسیر :
فرماتا ہے زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے وہ خدا کا ہی ہے ۔اور اس کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ۔پس ہر قربانی جو وہ تم سے چاہتا ہے صرف تمہارے فائدے کیلئے چاہتا ہے اپنے فائدے کیلئے نہیں ۔چنانچہ اسلامی تعلیم پر غور کر کے دیکھ لو اُس نے جس قدر احکام دئیے ہیں محض بنی نو ع انسان کے فائدہ کیلئے دیئے ہیں اس لئے نہیں دئیے کہ اُن سے اُس کی خدائی میں کوئی اضافہ ہوتا ہے ۔اگر اُس نے نمازوں کا حکم دیا ہے یا روزوں کا حکم دیا ہے یا زکوٰۃ اور صدقہ و خیرات کا حکم دیا ہے یا حج کا حکم دیا ہے تو یہ تمام احکام ایسے ہیں جن کا بالذات فائدہ خود انسان کو ہی پہنچتا ہے ۔خداتعالیٰ کو نہیں ۔مثلاً نماز کو ہی لے لو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآ ئِ وَالْمُنَکَرِ ( عنکبوت ع ۵) نماز انسان کو بدیوں اور برائیوں سے روکتی ہے ۔پس جو شخص صحیح معنوں میں نماز پڑھتا ہے اُسے دوسرے روحانی فوائد کے علاوہ ذاتی طور پر یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ وہ برائیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔اسی طرح نماز سے یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ قومی شیرازہ کو متحد رکھنے کا خیال ہر وقت انسان کے ذہن میں جاگزیں رہتا ہے اور اسے یہ احساس رہتا ہے کہ ہمارا وقت ایک واجب الاطاعت امام ہونا چاہئیے جسکی متابعت میں خداتعالیٰ کے نام کو بلند کیا جا سکے ۔پھر مسجد میں پانچوں وقت نماز کے لئے جانا ایسی چیز ہے جو بنی نوع انسان کو ذاتی فائدہ پہنچانے والی چیز ہے کیونکہ اُس کے نتیجہ میں ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت ہوتی رہتی ہے ۔اور مسلمان تنظیمی رنگ میں اس سے بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔اسی طرح روزہ ایک اہم اسلامی عبادت ہے مگر اس کا فائدہ بھی خود انسان کو پہنچتا ہے خداتعالیٰ کو نہیں ۔روزہ کے ذریعہ افراد کے اندر مشقت بر داشت کرنے کی عادت پیدا ہو تی ہے اور یہ ایسی چیز ہے جو مختلف اوقات میں اس کے بے حد کام آتی ہے ۔اسی طرح روزہ کے ذریعہ غرباء کی حالت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اُن کو ابھارنے اور ترقی دینے کا جذبہ ترقی کرتا ہے ۔جس سے بحیثیت مجموعی تمام قوم فائدہ اٹھاتی ہے اور ترقی کی منزلیں جلد جلد طے کرنے لگتی ہے ۔ یہی حال زکوٰۃ کا ہے وہ بھی قومی ترقی کا ایک زبر دست ذریعہ ہے کیونکہ حکومت امراء سے اُن کے اموال کا ایک حصہ لے کر غرباء پر خرچ کرتی ہے اور اس طرح فقراء ۔ مساکین ۔مؤلفۃ القلوب اور مصائب و آفات میں مبتلا انسان اس روپیہ سے اپنے پائوں پر کھڑے ہو نے کی طاقت حاصل کر لیتے ہیں ۔اور قوم اور ملک میں ضعف پیدا نہیں ہوتا ۔اسی طرح حج بھی ارکان اسلام میں شامل ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس کا فائدہ بھی خود مسلمانوں کو ہی پہنچتا ہے کیونکہ اس سے ایک تو خداتعالیٰ کی خاطر اپنا وطن چھوڑنے کی عادت پیدا ہو تی ہے اور پھر مکّہ مکرمہ میں جب دنیا کے تمام اطراف سے مسلمان جمع ہوتے ہیں تو عالمی اخوت کا احساس ترقی کرتا ہے اور باہمی اتحاد کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں ۔
غرض اسلامی شریعت نے جس قدر احکام دئیے ہیں خود بنی نوع انسان کے فائدہ کیلئے دئیے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ اُن میں سے کسی چیز کا محتاج نہیں ۔
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَئُ وْف’‘ الرَّحِیْم’‘ ہ
ترجمہ () کیا تو نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے کام پر جو کچھ بھی زمین میں سے اُسے بغیر مزدوری کے لگا رکھا ہے۔ اور کشتیاں بھی سمندر میں اُس کے حکم سے چلتی ہیں ۔اور اُس نے آسمان کو روک رکھا ہے کہ کہیں زمین پر سوائے اُس کے حکم کے گِر نہ جائے ۔اللہ تعالیٰ یقینا لوگوں سے بہت شفقت کرنیوالا اور اُن پر بار بار رحم کرنیوالا ہے ۔ ۲۹؎
۲۹؎ حل لغات :
سَخَّرَہ‘ کے معنے ہیں کَلَّفَہ‘ بِلَااُجْرَۃِ ۔بغیر مزدوری اور اُجرت کے اُس کو کام میں لگا یا ( اقرب ) پس سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ کے معنے ہونگے کہ زمین کی ہر چیز کو بغیر اس کے کہ تم کوئی معاوضہ ادا کرو تمہاری خدمت میں اُس نے لگا دیا ہے ۔
تفسیر :
فرماتا ہے ۔اگر وہ تمہاری چھوٹی چھوٹی قربانیوں کا محتاج ہوتا تو زمین کی ہر چیز جو اُس کے قبضہ میں تھی وہ تمہاری خدمت میں کیوں لگادیتا ۔اُس نے تو جو کچھ پیدا کیا ہے تمہارے فائدہ اور بھلائی کیلئے پیدا کیا ہے تاکہ تم اس کی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھاکر ترقی کر سکو۔ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانہ کی سائنس قرآن کریم کی اس بیان کردہ صداقت کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرتی چلی جا رہی ہے ۔اور ہزاروں اشیاء جن کو پہلے بالکل بے کار سمجھا جا تا تھا اُن کے عجیب در عجیب خواص معلوم ہو رہے ہیں ۔سم الفار ۔بیش اور کچلہ نے ہزاروں انسانوں کو ہلاک کیا مگر اب وہی سم الفا راور بیش اور کچلہ کروڑوں انسانوں کی زندگی کا موجب بن رہے ہیں ۔اسی طرح سانپ کے ڈسنے سے بیشک ہزاروں اموات ہوتی ہیں مگر اُسی سانپ کے زہر کو کئی قسم کے خطرناک امراض میں استعمال کر کے اس کے تریاقی فوائد حاصل کئے جارہے ہیں ۔اور لاکھوں انسان اس سے نئی زندگی حاصل کر رہے ہیں ۔پاخانہ کتنی گندی اور بظاہر بیکار نظر آنے والی چیز ہے مگر یہی چیز کھاد بن کر نبی نوع انسان کو کتنا بڑا فائدہ پہنچاتی ہے غرض کوئی چیز ایسی نہیں جو اپنے اندر افادیت کا پہلو نہ رکھتی ہو اور جس کی پیدائش بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کیلئے نہ کی گئی ہو ۔پہاڑوں کو ہی دیکھ لو یہ بنی نوع انسان کو کتنابڑا فائدہ پہنچارہے ہیں جب موسم گرما کی تپش سے انسانی بدن جھُلسنے لگتا ہے تو پہاڑوں میں بلندی پر پہنچ کر وہ نہایت آرام اور سکون کی زندگی بسر کر نے لگتا ہے اور آفتاب کی حدت سے امن میں آجاتا ۔پھر انہی پہاڑوں سے سونا اور چاندی اور لوہا اور ابرق اور کروم اور دوسری کئی قسم کی قیمتی دھاتیں حاصل کی جاتی ہیں ۔نمک جپر انسان زندگی کا انحصار ہے انہی پہاڑوں میں پیدا ہوتا ہے ۔پھر کئی قسم کی جڑی بوٹیاں ہیں جو وہاں پائی جاتی ہیں اور جن سے انسان طبی رنگ میں بھی فائدہ اٹھاتا ہے اور تجارتی رنگ میں بھی ۔اسی طرح دریائوں اور نہروں سے تمام ملک سیراب ہوتا ہے ہر قسم کی فصلیں ترقی کرتی ہیں اور باغات سر سبز و شادات ہوتے ہیں۔درختوں کو لے لو تو وہ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچارہے ہیں ۔اور ان کی عمارتی ضروریات کو بھی پورا کر رہے ہیں اور جلانے والی لکڑی اور کوئلہ کی صورت میں بھی ساری دنیا کے کام رہے ہیں ۔غرض دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جو خداتعالیٰ نے اپنے بندوں کے فائدہ کیلئے نہ پیدا کی ہو ۔اور اگر کسی چیز کا فائدہ ابھی تک لوگوں کو معلوم نہیں ہو سکا تو یہ صرف انسانی علم کی کوتاہی کا نتیجہ ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے کرۂ ارض کی تمام اشیاء انسانوں کی خدمت کے لئے پیدا کی ہیں اُس نے پہاڑوں اور اُن کی برفوں اور اُن کے درختوں اور اُن کے پھولوں اور اُن کی بوٹیوں اور اُن کے اندر چھپی ہوئی کوئلہ کی کانوں ۔سیسہ کی کانوں تانبہ کی کانوں اور ہیرے اور جواہرات کی کانوں کو بھی انسانی فائدہ کیلئے پیدا کیا ہے اور اُس نے زمین کے صحرائوں میں رہنے والے جانوروں اور پانی کے پتال میں رہنے والی مچھلیوں اور ہوا کے پرندوں کو بھی انسانی فائدہ کیلئے پیدا کیا ہے۔غرض ہر چیز خواہ وہ زمین کے اندر سے نکالی جانے والی ہو یا جنگل میں اُگنے والی ہو یا دریائوں کے نیچے سے مہیا ہونے والی ہو یا پہاڑوں سے حاصل کی جانے والی ہو صرف انسان کی خدمت کیلئے پیدا کی گئی ہے ۔مگر افسوس کہ وہی انسان جس کی خدمت کیلئے اللہ تعالیٰ ان تمام اشیاء کو پیدا کیا تھا کبھی ایسا بیوقوف بن جاتا ہے کہ پتھر کے بے جان بُتوں کے آگے اپنا سر جھکا دیتا ہے ۔کبھی ستاروں کو ہر قسم کی بر کت اور نحوست کا اصل موجب قرار دے دیتا ہے اور کبھی سورج اور چاند کی پرستش کرنے لگتا ہے اور وہ خدا جس نے ان چیزوں کو ایک خد مت گار کے طور پر پیدا کیا تھا اُس سے غافل ہو جاتا ہے ۔حالانکہ جب وہ اُن کے سامنے اپنا ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوتا ہے یا اُن سے منتیں کر رہا ہوتا ہے تو یہ ایسی ہی بات ہوتی ہے جیسے اپنے غلام کی منّتیں کر رہا ہو یا افسر اپنے چپڑاسی سے ڈر رہا ہو ۔اگر دنیا میں کہیں ایسا نظارہ نظر آئے تو ہر شخص ایسے افسر کو پاگل قرار دیگا ۔مگر مذہبی دنیا میں ایسے ہزاروں پاگل پائے جاتے ہیں جو اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے ان چیزوں کو خدائی طاقتوں سے متصف قرار دیتے ہیں اور اس طرح اپنی انسانیت کی شرمناک تذلیل کے مرتکب ہوتے ہیں ۔
وَیُمْسِکُ السَّمَآئَ اَنْ تَقَعَ عَلیَ الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِہٖ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اُس نے عذاب کیلئے مختلف قسم کی قیود لگا دی ہیں تاکہ بنی نوع انسان اُن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں اورپیشتر اس کے کہ وہ کسی عذاب کی لپیٹ میں آئیں خداتعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کر کے اُس کی رضا حاصل کر لیں اور عذاب سے محفوظ ہو جائیں۔یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ عذاب ہمیشہ دو قسم کے ہوا کرتے ہیں ۔ایک تو شرعی عذاب ہوتے ہیں اور ایک طبعی عذاب ہوتے ہیں ۔شرعی عذاب اسی وقت آتا ہے جب لوگ خداتعالیٰ کے کسی رسول کی تکذیب کریں ۔مگر طبعی عذاب کیلئے یہ کوئی شرط نہیں بلکہ جو قوم بھی ترقی کے اُن اسباب سے غافل ہو جائیگی جو خداتعالیٰ نے مادی عالم میں مقرر کئے ہوئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے عام قانون کے ماتحت خود بخود ہلاک ہو جائیگی ۔جیسا کہ آج تک نقشۂ عالم پر ہزاروں قومیں اور حکومتیں اُبھریں اگر پھر ایک وقت ایسا آیا جبکہ وہ کمزوری اور النحطاط کا شکار ہوتے ہوتے مٹ گئیں اور صفحہ عالم پر اُن کا نشان تک باقی نہ رہا۔ان قوموں کی ہلاکت اور بر بادی اللہ تعالیٰ کی محبت کی کمی یا ا ُس کے رسولوں کے انکار کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ اس لئے ہوئی کہ انہوں نے ترقی کے اُن قوانین کو نظر انداز کر دیا جو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جاری کئے ہوئے ہیں ۔ان دونوں قسم کے عذابوں کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی مختلف آیات میں ذکر فرمایا ہے ۔شرعی عذابوں کے متعلق تو فرماتا ہے ۔وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا ( بنی اسرائیل ع ۲) یعنی ہم کسی قوم پر عذاب نہیں بھیجتے جب تک اس کی طرف اپنا کوئی رسول نہ بھیج لیں ۔جب رسول کے آنے کے بعد اس قوم پر اتمام حجت ہو جاتی ہے اور وہ انکار اور تکذیب میں بڑھتی چلی جاتی ہے تو آخر اس قوم کی تباہی کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے ۔اور وہ عذاب کا شکار ہو جاتی ہے۔یہ شرعی عذاب ہے جو مامورین کی تکذیب کے نتیجہ میں قوموں پر آتا ہے اس عذاب کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ اس کے متعلق پہلے سے پیشگوئیوں میں خبر دے دی جاتی ہے یا غیر معمولی طور پر دنیا میں ایسی بلائوں اور آفات کا ظہور ہونے لگتا ہے جن کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں ملتی ۔مثلاً یکد فعہ زلزلوں پر زلزلے آنے شروع ہو جاتے ہیں یا بیماریاں ۔قحط ۔لڑائیاں اور دوسری قسم کے مصائب ایک ہی وقت میں اس طرح جمع ہو جاتے ہیں کہ لوگوں میں ایک شور مچ جاتا ہے اور ہر شخص تسلیم کرتا ہے کہ یہ غیر معمولی حوادث ہیں ۔ان شرعی عذابوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ یہ عذاب وقفہ وقفہ کے بعد آتے ہیں تاکہ جو لوگ عذاب کے ان متواتر جھٹکوں سے بیدار ہو سکیں وہ بیدار ہو جائیں اور کلی تباہی سے محفوظ رہیں ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے اس قانون کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَاِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ لَحْمَۃً مِّنْ بَعْدِ ضَرَّآئَ مَسَّتْھُمْ اِذَا لَھُمْ مَّکْر’‘ فِیْ اٰیَاتِنَاقُلِ اللّٰہُ اَسْرَعُ مَکْرًا ۔اِنَّ رُسُلَنَا یَکْتُبُوْنَ مَاتَمْکُرُوْنَ ( یونس ع ۳) یعنی جب ہم لوگوں کو کسی دُکھ اور مصیبت کے بعد اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ جھٹ ہمارے نشانوں کے متعلق کوئی نہ کوئی مخالفانہ تدبیر شروع کردیتے ہیں تو انہیں کہہ دے کہ اللہ کی تدبیر بہت ہی جلد کار گر ہو اکرتی ہے اور تم جو تدبیریں کرتے ہو ہمارے فرستادے انہیں لکھتے رہتے ہیں ۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ہمارا عذاب کبھی یکدم نازل نہیں ہوتا بلکہ پہلے عذاب کا ایک جھٹکا آتا ہے جسے کچھ عرصہ کے بعد دور کر دیا جاتا ہے تاکہ لوگ توبہ سے کام لیں اور اپنے مظالم اور گناہوں سے باز آجائیں لیکن بد سرشت لوگ پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے وہ عذاب کے وقت تو کسی قدر ڈر جاتے ہیں مگر جب عذاب میں کمی واقع ہوتی ہے تو پھر ہمارے کلام اور احکام کے خلاف اپنی تدابیر شروع کر دیتے ہیں ۔فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کی تدبیر تو بہت جلد نافذ ہو جاتی ہے مگر وہ خود ہی لوگوں پر احسان کرتے ہوئے اپنی تدبیر کو روکے رکھتا ہے ۔کیونکہ نہ تو اُسے لوگوں کے کام بھول سکتے ہیں کہ اُسے فوراً بدلہ لینے کی ضرورت ہو اور نہ سزا دینے میں اُسے کوئی مشکل پیش آسکتی ہے کہ وہ سمجھے کہ اگر اس وقت میں نے سزا نہ دی تو بعد میں مشکل پیش آجائے گی وہ ہر وقت سزاد ے سکتا اور کوئی بات بھی اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں اس لئے مخالفین کو تکبر اور اعراض سے کام نہیں لینا چاہئیے ۔جب اُن کی کلی تباہی کا فیصلہ کر دیا گیا تو پھر انکی کوئی تدبیر اُنکو بچا نہیں سکے گی ۔یہ تو شرعی عذابوں کا ذکر تھا طبعی عذابوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُخَیِّرُوْا مَابِاَنْفُسِھِمْ
( رعد ع۲)
یعنی اللہ تعالیٰ کبھی کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خوداپنی اندرونی حالت کو نہ بدل دے ۔جب وہ خود اپنے اعمال سے اُس مقام کو کھو بیٹھتی ہے جو خداتعالیٰ نے اُسے عطا کیا تھا تو خداتعالیٰ کا سلوک بھی اس سے بدل جاتا ہے اور وہ قوم ہلاکت کے گڑھے میں گِر جاتی ہے گویا خداتعالیٰ تو چاہتا ہے کہ لوگ اُس کے انعامات کے وارث ہوں مگر جب وہ خود اپنے ہاتھوں زہر کھانا شروع کر دیں تو خدائی قانون کے ماتحت وہ زہر اُن کا خاتمہ کر دیتی ہے ۔یہی وہ قوانین ہیں جن کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے ۔اور بتایا گیا ہے کہ اُس نے اپنی رحمت کے ہاتھ سے تم سے عذاب کو روک رکھا ہے اور اُسے کسی قسم کی شرائط کے ساتھ مشروط کر دیا ہے اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم خداتعالیٰ کے اس قانون سے فائدہ اٹھائو ۔اور خدائی احکام کو قبول کر کے اس کے شرعی عذاب سے اور قوانینِ نیچر کی اتباع کر کے اس کے طبعی عذاب سے بچو ۔اور خداتعالیٰ کی پیدا کردہ تمام نعماء سے صحیح رنگ میں فائدہ اُٹھائو ۔
وَھُوَ الَّذِیْ اَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَحْیِیْکُمْ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَکَفُوْر’‘ ہ
ترجمہ () اور وہی ہے جس نے تم کو زندہ کیا ۔پھر تم کو مارے گا ۔پھر تم کو زندہ کرے گا انسان یقینا بڑا نا شکر ا ہے ۔ ۳۰؎
۳۰؎ حل لغات :
کَفُوْر’‘ ۔کَفَرَ سے نکلا ہے اور کَفَرَ نِعْمَۃَ لِلّٰہِ کے معنے ہیں جَحَدَ ھَا وَسَتَرَھَا وَھُوَ ضِدُّ الشُّکْرِ۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کیا اور ان کو چُھپا یا ۔اور کفر کا لفظ ان معنوں میں شکر کے مخالف معنے ادا کرنے کیلئے استعمال کیا جا تا ہے ۔
کلیات ابوالبقاء میں ہے ۔اَلْکُفْرُ تَغْطِیَۃ نِعَمِ الْمُنْعِمِ بِالْجُحُوْدِ ۔احسان کرنے والے کی نعمتوں کا انکار کرکے ان نعمتوں پر پردہ ڈالنا اور لوگوں سے چھپا نا کفر کہلاتا ہے ۔پس کَفُوْر’‘ کے معنے ہونگے ناشکری کرنیوالا خداتعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کر نے والا ۔
تفسیر :
فرماتا ہے ۔خداتعالیٰ انسان کو ہمیشہ ترقیات دیتا رہتا ہے اور ترقی کے بعد نافرمانی کی صورت میں تباہی بھی لاتا ہے تاکہ اس کا دل صاف ہو اور جب دل صاف ہو جاتا ہے تو پھر زندہ کر دیتا ہے مگر انسان خداتعالیٰ کے سب احسان دیکھ کر بھی ناشکری میں لگا رہتا ہے ۔
پھر ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَحْیِیْکُمْ سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ ایک ہی وقت میں مُمِیْت بھی ہوتا ہے اور مُحْي بھی ۔ور مارتا بھی ہے اور زندہ بھی کرتا ہے ۔اور ہر موت اپنے ساتھ ایک نئی حیات لاتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو کھانے پینے کی چیزیں مرتی ہیں تو وہ مرکر کھاد جیسی قیمتی چیز پیدا کر دیتی ہیں ۔تم روٹی سے ایک روٹی کا کام لے سکتے ہو ۔مگر روٹی کے فضلہ سے دس روٹیاں پیدا کی جاتی ہیں ۔پس کوئی چیز دنیا میں ایسی نہیں جس پر موت آئے مگر وہ حیات پیدا نہ کرے ۔نابینا انسان دیکھتا ہے تو کہتا ہے خدا مار رہا ہے ۔مگر آنکھوں والا جب دیکھتا ہے تو کہتا ہے خدا زندہ کر رہا ہے اور درحقیقت یہ آنکھ خداتعالیٰ کے انبیاء و مرسلین اور اُن کی جماعتوں کو ہی ملتی ہے ۔پس خداتعالیٰ کی طرف سے صرف موت کبھی نہیں آتی بلکہ اس کی طرف سے آنیوالی ہر موت زندگی کا پیغام اپنے ساتھ لاتی ہے ۔جنگ بدر میں بیشک مسلمانوں کے بھی کچھ آدمی مارے گئے ۔مگر کیا بدر کی جنگ ہی نہیں تھی جس نے عرب کو زندہ کر دیا اسی طرح جنگِ اُحد میں کچھ مسلمان مارے گئے اور کچھ جنگ احزاب میں کام آئے مگر انہی جنگوں کے نتیجہ میں جب اہل عرب میں اصلاح پیدا ہو گئی ۔تو اُن میں سے ہر ایک شخص کو زندگی کی رُوح نظر آنے لگی ۔پھر فتح مکّہ کے وقت بھی بعض موتیں ہوئیں لیکن اگر مکّہ فتح نہ ہوتا تو عرب کے لاکھوں لوگوں کی زندگی کس طرح ممکن تھی ۔ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان موتوں میں ہی عرب کی زندگی مخفی تھی ۔پس موت بسا اوقات حیات کا موجب ہو جاتی ہے ۔بشرطیکہ لوگ خداتعالیٰ کی طرف توجہ کریں اور اپنی عملی زندگی میں تغّیر پیدا کریں ۔
لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا ھُمْ نَاسِکُوْہُ ۔۔۔۔۔۔۔۔اِنَّکَ لَعَلیٰ ھُدًی مُّسْتَقِیْمٍ ہ
ترجمہ () ہم نے ہر ایک اُمت کیلئے ایک عبادت کا طریق مقرر کیا ہے جس کے مطابق وہ چلتی ہے ۔پس اس طریق یعنی اسلام کے متعلق وہ تجھ سے بحث نہ کریں کیونکہ یہ خدا کا مقرر کردہ ہے اور تو انہیں اپنے رب کی طرف بُلا کیونکہ تُو سیدھے راستہ پر ہے ۔۳۱؎
۳۱؎ حل لغات :
نَاسِکُوْہ‘ ۔نَسَکَ سے اسم فاعل نَاسِک’‘ ہوتا ہے اور نَاسِکُوْنَ نَاسِک’‘ سے جمع ہے ۔نَاسِکُوْہ‘ میں ن گِرا ہوا ہے اور ہ ضمیر غائب ہے ۔نَسَکَ الرَّجُلُ نَسْکًا کے معنے ہیں تَزَ ھَّدَ وَتَعَبَّدَ وَتَقَشَّفَ اس نے خدا کی عبادت کی اور دنیا سے بے رغبت ہوگیا اور زینت کے سامانوں کو اُس نے چھوڑ دیا ۔اور جب نَسَکَ اللّٰہِ کا فقرہ بولیں تو معنے ہونگے ۔تَطَوَّعَ بِقُرْبَۃٍ وَذَبَحَ لِوَجْھِہٖ خدا کا قرب چاہنے کیلئے خوشدلی سے عبادت کی اور اُس کی ذات کے لئے قربانی کی ( اقرب) پس نَاسِک’‘ کے معنے ہونگے عباد ت کرنیوالا ۔خداتعالیٰ کیلئے قربانی کرنیوالا ۔مَنْسَک’‘ کے معنے ہیں شِرْعَۃُ النَّسْکِ عبادت کا طریقہ ۔قربانی کا طریقہ (اقرب )۔
یُنَازِعُ : نَازَ عَ سے مضارع کا صیغہ ہے اور نَازَعَہ‘ مُنَازَعَۃً کے معنے ہیں خَاصَمَہ‘ ۔اُس سے جھگڑا کیا ( اقرب) پس فَلَا یُنَا زِعُنَّکَ کے معنے ہونگے وہ نہ جھگڑا کریں ۔
تفسیر :
فرماتا ہے ۔ہر مذہب والوں کیلئے کوئی نہ کوئی دین چاہئیے ۔پس تیرے دین کے متعلق تیرے دشمنوں کے پاس جھگڑنے کی کوئی وجہ نہیں ۔اُن کو تو یہ دیکھنا چاہئیے کہ تیرا دین اپنے رب کی طرف بلاتا ہے یا نہیں اور لوگوں کو صراط مستقیم دکھاتا ہے یا نہیں ؟ اگر وہ لوگوں کو خداتعالیٰ کی طرف بلاتا ہے اور صاف طور پر کہتا ہے کہ فَاِلٰھُکُمْ اِلٰہ‘ وَّاحِد’‘ فَلَہ‘ اَسْوامُوْ ( حج ع ۵) اے لوگو! تمہارا معبود ایک ہی ہے اُسی کی فرمانبرداری کرو اور وہ انہیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی ہدایت کرتا ہے ۔جیسا کہ ہر نماز میں بلکہ نماز کی ہر رکعت میں یہ دُعا سکھائی گئی ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اے خدا ہمیں سیدھا راستہ دکھا ۔تو پھر ان کی دشمنی محض ان کی کینہ توزی پر دلالت کرتی ہے ورنہ جو شخص خدائے واحد کی طرف بلائے اور لوگوں کو صراط مستقیم پر چلنے کی ہدایت کرے اُس سے جھگڑنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی ۔اُس سے جھگڑا اُسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب خداتعالیٰ کے وجود کاہی انکار کیا جائے یا یہ ثابت کیا جائے کہ صراط مستقیم کے بغیر بھی انسان اپنے مقصود کو حاصل کر سکتا ہے ۔لیکن جب خداتعالیٰ کی ہستی تسلیم کئے بغیر کوئی دین دین ہی نہیں کہلا سکتا اور صراط مستقیم پر چلنے کے بغیر کسی کامیابی کا حصول ہی ممکن نہیں تو دشمنوں کی لڑائی یہ تو ثابت کر سکتی ہے کہ اُن کے دل بغض و حسد کی آگ سے جل رہے ہیں مگر یہ ثابت نہیں کر سکتی کہ وہ کسی معقولیت کی بنا پر لڑائی کر رہے ہیں ۔
ا س آیت میں اِنَّکَ لَعَلیٰ ھُدًی مُّسْتَقِیْمٍ فرما کر اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرما دی ہے کہ دنیا خواہ کس قدر مخالفت کرے آخر وہی تعلیم دنیا میں غالب آئے گی جو محمد رسول اللہ ﷺ پیش فرما رہے ہیں ۔اور تمام مذاہب کے جھنڈے ایک دن اسلامی جھنڈے کے مقابل میں سرنگوں ہو جائیں گے ۔چنانچہ دیکھ لو جب محمد رسول اللہ ﷺ نے عقیدۂ توحید کو پیش کیا اُس وقت دنیا کی کیا کیفیت تھی ۔عیسائی تین خدائوں کے قائل تھے ۔زرتشی نور اور ظلمت کے الگ الگ دیوتا قرار دیتے تھے۔مجوسی آگ کی پرستش کر تے تھے ۔بتوں کے پجاری لات و منات کو اپنا خدا قرار دے رہے تھے اورتمام دنیا شرک سے بھری ہوئی تھی مگر آج اسلام کی پیش کردہ توحید دنیا پر اس قدر غالب آچکی ہے کہ عیسائی بھی اپنے آپکو موحد کہتے ہیں اور بُتوں کے پجاری بھی تسلیم کرتے ہیں کہ خدا تو ایک ہی ہے یہ بُت محض ایک واسطہ ہیں جن کے ذریعہ الٰہی دربار تک پہنچا جا تا ہے ۔حالانکہ جب اسلام نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ خدا ایک ہے تو اس وقت مکّہ کے لوگوں کو اس دعویٰ پر اس قدر حیرت ہوئی تھی کہ انہوں نے یہ کہنا شروع کرد یا تھا کہ اَجَعَلَ الْاٰلِھَۃَ اِلٰھًا وَّاحِدًا ۔اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئ’‘ عُجَاب’‘ ( ص ع ۱ ) یعنی کیا اس نے بہت سے معبودوں کو ایک معبود بنا دیا ہے ۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے جو کبھی سُنی نہیں گئی۔گویا انہوں نے یہ سمجھا کہ معبود تو کئی ہیں مگر یہ شخص جو ایک خدا کہتا ہے تو شائد اس نے سب معبودوں کو کوٹ کاٹ کر ایک معبود بنا دیا ہے مگر اب ساری دنیا اسلامی توحید کو اپنا رہی ہے اور مشرک قومیں بھی شرک کرنے کے باوجود توحید کا انکار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتیں ۔یہی حال دوسرے مسائل کا ہے ۔یورپ ایک بڑی مدت تک اسلامی مسائل پر اعتراض کرتا رہا ۔مگر اب وہاں کے بعض اچھے تعلیم یافتہ اعلیٰ طبقہ کے لوگوں میں وہی باتیں جو پہلے اسلام کے خلاف سمجھی جاتی تھیں اب اُس کی صداقت کا ثبوت سمجھی جانے لگی ہیں۔ میں جب اپنے علاج کے سلسلہ میں لنڈن گیا تو میرے وہاں پہنچنے سے چند دن پہلے وہاں کا ایک مشہور میوزیشن جو لنڈن کے ایک بہت بڑے اوپیرا میں کام کرتا اور پیانو وغیرہ بجاتا ہے اس کے دل میں اسلام کی رغبت پیدا ہوئی ۔اور مجھے وہاں کے مبلغین نے بتا یا کہ اس شخص کی اسلام کی طرف رغبت کی ایک عجیب وجہ ہے جو عام وجوہات سے بالکل اُلٹ ہے اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دماغوں میں تغیر پیدا کر رہا ہے ۔کوئی زمانہ ایسا تھا کہ اسلام کے راستہ میں سب سے بڑی روک تعدد ازواج کا مسٔلہ سمجھا جاتا تھا اور یورپ کے لوگ اصرار کرتے تھے کہ ایک سے زیادہ بیویاں کرنا سخت ظلم ہے مگر اب یہ حالت ہے کہ جب اس کے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی تو وہ پہلے بعض اور مسلمانوں کے پاس گیا اور اُس نے اُن سے پوچھا کہ اسلام کا تعدد ازواج کے متعلق کیا خیال ہے ۔انہوں نے کہا توبہ توبہ یہ بات تو دشمنوں کی طرف سے سخت بگاڑ کر پیش کی جاتی ہے اسلام میں کوئی ایسا حکم نہیں ۔یہ تو خاص خاص مجبوریوں اور شرطوں اور قیدوں کے ساتھ اجازت دی گئی ہے اُس نے بتا یا کہ انہوں نے جب مجھے یہ جواب دیا تو میں جھٹ کھڑا ہو گیا اور میں نے کہا کہ مجھے تو اسلام میں یہی ایک خوبی نظر آئی ہے اور تم کہتے ہو کہ اسکے ساتھ کئی قسم کی قیدیں اور شرطیں ہیں ۔میں تو وہاں جانا چاہتا ہوں جہاں مجھے سیدھی طرح بتا یا جائے کہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے ۔چنانچہ اس کے بعد وہ ہمارے پا س آیا اور اُ س نے پوچھا کہ اس بارہ میں اسلام کا کیا حکم ہے ؟ ہمارے مبلّغین نے بتایا کہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے مگر اُس نے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ تم انصاف سے کام لو اور ہر بیوی کا حق ادا کرو ۔وہ کہنے لگا یہ بات درست ہے اور میری عقل اسے تسلیم کرتی ہے ۔مَیں سمجھتا ہوں کہ یورپ نے اس تعلیم کو چھوڑ کر بہت کچھ کھویا ہے اور ہم نے اپنے اخلاق بگاڑ لئے ہیں۔اس لئے اب مَیں آپ کے پاس ہی آیا کرونگا ۔چنانچہ وہ خو د بھی مجھے ملا اور اپنے بیوی بچوں کو بھی ہمارے گھر لایا ۔اسی طرح ایک جرمن عورت جو مسلمان ہو چکی تھی میرے پا س آئی ۔اُس نے باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ جنرل نجیب نے مجھے سعودی عرب کے بادشاہ کے پاس بھیجا تھا اور اُس نے مجھ سے کہا تھا کہ میرے بیٹے کے ساتھ شادی کر لو ۔میں نے کہا ۔شکر کرو تم بچ گئیں کیونکہ اُن کی تو بہت سی بیویاں ہوتی ہیں ،وہ کہنے لگی ساری بیویاں نہیں ہوتیں ۔اصلی بیوی ایک ہی ہوتی ہے۔باقی سب داشتہ ہوتی ہیں ۔پھر کہنے لگی جب اسلام نے مسلمانوں کو ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کی اجازت دی ہے اور مَیں بھی مسلمان ہو گئی ہوں تو مجھے ایک سے زیادہ بیویوں پرکیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔پھر وہ کہنے لگی میری کئی دفعہ پادریوں سے گفتگو ہوئی ہے ایک دفعہ ایک پادری نے تّعدد ازواج کے خلاف تقریر کی تو میں نے کہا ۔تم بڑے بیوقوف ہو ۔عورت تو مَیں ہوں سوکن مجھ پر آنی ہے یا تم پر آنی ہے ۔مجھے تو سوکن آنے پر کوئی اعتراض نہیں اور تم خواہ مخواہ چڑتے ہو ۔میں نے اسلام کے اس حکم کو غنیمت سمجھتی ہوں کیونکہ اسلام نے گو مرد کو ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دی ہے مگر ساتھ ہی اُس نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں ایک جیسا کھانا کھلائو ۔ایک جیسے کپڑے دو اور ایک جیسا مکان دو ۔جب یہ چیز موجود ہے تو عورتوں کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔ہم کورٹ شپ کے بعد شاری کرتے ہیں مگر دو سال تک کورٹ شپ کرنے کے باوجود پھر بھی لڑائی ہو جاتی ہے ۔اگر تّعدد ِ ازواج کی صورت میں میرا خاوند مجھ سے لڑیگا تو اتنا تو ہوگا کہ ایک مکا ن میرا ہوگا اور اُس کے ساتھ ہی دوسرا مکان میری سوکن کا ہوگا اور اس کے ساتھ تیسرا مکان میری تیسری سوکن کا ہوگا ۔میں شام کے وقت خاوند کا بازو پکڑونگی اور اُسے دوسرے گھر میں دھکیل دونگی اور کہونگی کہ سار ا دن میں نے تیرا منحوس مُنہ دیکھا ہے اب دوسری بیوی تیرا مُنہ دیکھے ۔اگر یہ ہوتا کہ کورٹ شپ کہ وجہ سے ہماری کبھی لڑائی ہی نہ ہوتی تو پھر تو کوئی بات بھی تھی لیکن جب ہماری بھی لڑائیاں ہو تی ہیں تو پھر اسلام کی اس اجازت سے اتنا تو فائد ہ ہو سکتا ہے کہ جب خاوند کی عورت سے لڑائی ہو تو وہ اُس کا بازو پکڑ کر اُسے دوسری بیوی کے گھر میں دھکیل دے اور خود اُس کا غصّے والا چہر ہ سارا دن نہ دیکھتی رہے ۔
میں نے یہی واقعہ اُس میوزیشن کو سنا یا تو وہ کہنے لگا آپ وہاں کی بات کرتے ہیں میں لنڈن میں دس ہزار عورت ایسی دکھا سکتا ہوں جو ا س بات کے لئے تیار ہے کہ مرد اگر انصاف سے کام لیں تو بیشک وہ کئی شادیاں کر لیں ۔مگر مشکل یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اخلاق اتنے بگڑ چکے ہیں کہ اچھے خاوند میّسر نہیں آتے ۔اب دیکھو یہ کتنا بڑا تغّیر ہے جو ان میں پیدا ہو رہا ہے ۔اسی طرح کئی لوگ مجھے ملے جنھوں نے کہا کہ ہم نے بیس بیس تیس تیس سال سے شراب نہیں پی کیونکہ ہم اسے بُرا سمجھتے ہیں ۔اسی طرح پہلے پردہ پر اعتراض کیا جا تا تھا مگر اب خود یورپ میں ایسے لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو پردہ کی ضرورت کو تسلیم کر تے ہیں ۔بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ جب میں یورپ گیا تو وہی میوزیشن جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اُس نے مجھ سے کہا کہ میں نے آپ کا دیباچہ ٔ تفسیر القرآن پڑھا ہے جس سے میرے دل میں ایک شبہ پیدا ہو ا ہے۔میں نے کہا فرمائیے کیا شبہ پیدا ہوا ہے ۔کہنے لگا اس کتاب میں آپ نے لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ ایک دفعہ مسجد میں عبادت کیلئے بیٹھے تھے کہ آپ کی ایک بیوی آپ سے ملنے کیلئے آگئیں چونکہ واپسی کے وقت رات ہوگئی تھی اس لئے آپ اپنی بیوی کو گھر پہنچانے کیلئے ساتھ چل پڑے ۔راستہ میں آپ کو ایک آدمی ملا اُسے دیکھ کر آپ کو شبہ ہوا کہ کہیں اسے ٹھوکر نہ لگ جائے اور یہ خیال نہ کرے کہ مَیں کسی اور کو ساتھ لئے جا رہا ہوں ۔چنانچہ آپ نے اپنی بیوی کے مُنہ پر سے نقاب اٹھا دی اور اُسے کہا کہ دیکھ لو یہ میری بیوی ہے ( مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۱۵۶، صفحہ ۲۸۵و بخاری ابواب الاعتکاف) وہ کہنے لگا جب میں نے یہ واقعہ پڑھا تو میرے دل میں اعتراض پیدا ہوا کہ پرد ہ تو اسلام کے نہایت اعلیٰ درجہ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے ۔اور یہ پاکیزگی کی جان ہے ۔اگر کوئی بد بخت شخص ایسا تھا جس کے دل میں رسول کریم ﷺ کی پچاس ساٹھ سالہ زندگی کو دیکھ کر بھی شبہ پیدا ہوا تو وہ بیشک جہنم میں جاتا ۔اس کی کیا حیثیت تھی کہ محض اس کا ایمان بچانے کیلئے اپنی ایک بیوی کے مُنہ پر سے پردہ اٹھا دیا جاتا ۔جس شخص نے اتنی مدت دراز تک رسول کریم ﷺ کی خدمات کو دیکھا آپ کی قربانیوں کو دیکھا ۔آپ کے ایمان کو دیکھا آپ کے اخلاص کو دیکھا آپ کی محبت الٰہی کو دیکھا اور پھر بھی اس کے دل میں شبہ پیدا ۂوا ۔وہ بدبخت اگر مرتا تھا تو بے شک مرتا اس کے لئے کیا ضرورت تھی کہ آپ اپنی کسی بیوی کے مُنہ پر سے نقاب اُٹھا دیتے ۔مَیں نے اُسے کہا آخر آپ کو یہی اعتراض ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے ایک چھوٹی چیز کیلئے بڑی چیز کو کیوں قربان کر دیا ۔بیشک اُس کا ایمان بھی ایک قیمتی چیز تھی مگر بہرحال وہ ایک کمزور انسان کا ایمان تھا کیونکہ اُس نے محمد رسول اللہ ﷺ کی پاکیزگی پر شک کیا اُس شخص کے ایمان کے بچانے کیلئے اپنی ایک بیوی کا پردہ اُٹھا دینا ایک بڑی چیز کو چھوٹی چیز کیلئے قربان کر دینا ہے ۔کہنے لگا ہاں میرے دل میں یہی شبہ پیدا ہوا ہے ۔مَیں نے کہا تو پھر اس کے معنے یہ ہیں کہ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ چھوٹی چیز کو بڑی چیز کیلئے قربان کر دینا چاہئیے ۔مگر اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر اس مخصوص واقعہ کو دیکھا جائے تو اس میں اُس شخص کا ایمان بچا نا بڑا کام تھا اور بیوی کے مونہہ سے نقاب اُلٹ دینا چھوٹی بات تھی ۔کہنے لگا کس طرح ؟ میں نے کہا یہ تو تم جانتے ہو کہ پردہ کا حکم پہلی شریعتوں میں نہیں تھا ۔اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ پردہ کا حکم رسول کریم ﷺ کی زندگی کے آخری سالوں میں نازل ہوا ہے ۔تیرہ سال تک رسول کریم ﷺ مکّہ میں رہے اور پردہ کا حکم نازل نہ ہواپھر مدینہ تشریف لائے تو وہاں بھی چار پانچ سال تک پردہ کا حکم نہیں اُترا ۔گویا رسول کریم ﷺ کی دعوٰئے نبوت کے بعد تیٔیس سالہ زندگی گذری ہے اُس میں سے سترہ اٹھارہ سال تک آپکی بیویوں نے پردہ نہیں کیا ۔اور جب پردہ کاحکم مدینہ آنے کے بھی چار پانچ سال بعد نازل ہوا ہے تو تمہیں یہ ماننا پڑیگا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ہر بیوی کو قریباً ہر صحابی نے دیکھا ہوا تھا ۔اب بتائو جس بیوی کو وہ سو دفعہ پہلے دیکھ چکا تھا اگر ایک موقعہ پر اُس کا ایمان بچانے کیلئے آپ نے اپنی اُس بیوی کا نقاب اٹھا دیا تو اس میں کیا حرج ہوا ۔وہ آپ کی بیویوں کو جوانی کی حالت میں دیکھ چکا تھا ۔ اور اب تو وہ بڑی عمر کی ہو چکی تھیں اس عمر میں اگر رسول کریم ﷺ نے اپنی کسی بیوی کے مونہہ سے نقاب اُلٹ دیا تو چاہے وہ کتنا ہی کمزور ایمان والا شخص ہو اس کے ایمان کو بچانے کیلئے آپ کا تھوڑی دیر کے لئے نقاب اُلٹ دینا بالکل بے حقیقت بات تھی کیونکہ اُس بیوی کو اُس نے جوانی کی حالت میں بھی دیکھا ہوا تھا اور اب وہ بڑی عمر کی ہو چکی تھیں ۔جوانی میں سو دفعہ دیکھنے والے شخص کے سامنے اگر آپ نے بڑی عمر میں اپنی ایک بیوی کے مونہہ سے اُس کا ایمان بچانے کیلئے تھوڑی دیر کیلئے پردہ اٹھا دیا تو آپ نے بڑی چیز کو چھوٹی چیز پر قربان نہیں کیا بلکہ چھوٹی چیز کوبڑی چیز کیلئے قربان کیا ۔اس جواب سے وہ خوش ہو گیا اور کہنے لگا اب میری سمجھ میں یہ بات آگئی ہے ۔
اب غور کرو یہ کتنا بڑا تغیر ہے کہ یا تو یہ کہا جاتا تھا کہ چونکہ اسلام پردہ کا حکم دیتا ہے اس لئے جھوٹا ہے ۔اور یا یہ کہا جاتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺنے رات کے وقت ایک شخص کا ایمان بچانے کیلئے اپنی بیوی کے مونہہ پر سے ایک منٹ کیلئے بھی نقاب کیوں اُتارا؟ ڈسمنڈشا انگلستان کے بہترین مصنفوں میں سے ہے کم ازکم وہ خود اپنے آ پ کو ایچ ۔جی ویلز سے بھی بڑا سمجھتا ہے ۔وہ مجھے ملا تو کہنے لگا کہ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ امن پھیلانے والا جو نبی آیا اُس کو لڑائی کرنے والا نبی کہا جاتا ہے اور پادری اُس پر اعتراض کرتے ہیں ۔پھر وہ کہنے لگا شاید آپ مجھے پاگل قرار دیں گے کہ عیسائی ہو کر مَیں ایسی باتیں کرتا ہوں ۔یہ ٹھیک ہے کہ میں عیسائی ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ مسیح ناصری سے بڑے تھے اور محمد رسول اللہ ﷺ جو اعلیٰ تعلیم دنیا میں لائے وہ مسیح ناصری نہیں لائے۔آپ حیران ہو ں گے کہ میں عیسائی ہو کر ایسی بات کر رہا ہوں لیکن میں سچی بات کا انکار کیسے کر سکتا ہوں ۔پھر جب میں اُسے رخصت کر کے اپنے کمرے کی طرف آیا تو مجھے محسوس ہو اکہ کوئی شخص میرے پیچھے پیچھے آرہا ہے ۔میں نے مُڑ کر دیکھا تو ڈسمنڈ شا آرہا تھا ۔کہنے لگا میرے دل میں ایک سوال پیدا ہوا تھا میں نے چاہا کہ آپ سے پوچھ لوں ۔میں نے کہا کیا سوال ہے ۔کہنے لگا جب میں یہ تقریر کرتا ہوں کہ محمد رسول اللہ ﷺ سب سے بڑے نبی تھے تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ میری زبان سے خدا بول رہا ہے۔مگریہ عیسائی لوگ پھر بھی نہیں مانتے ۔میں نے کہا مسٹر ڈسمنڈشا! یہ لوگ صرف تمہاری آواز سُنتے ہیں ۔خداتعالیٰ کی آواز نہیں سُنتے ۔لیکن جب یہ لوگ بھی خدا تعالیٰ کی آواز سُننے لگ گئے اور خداتعالیٰ ان کے دلوں میں بھی بولا تو اِن پر بھی اثر ہو جائیگا ۔اور یہ بھی محمد رسول اللہ ﷺ کی عظمت کے قائل ہوجائیں گے اس پر اُس کی تسلی ہو گئی ۔
غرض اللہ تعالیٰ نے اِنَّکَ لَعَلیٰ ھُدًی مُّسْتَقِیْمٍ میں محمد رسول اللہ ﷺکی صداقت کا یہ ثبوت پیش کیا ہے کہ دنیا ہزار انکار کرے وہ زمانہ کی ٹھوکریں کھانے کے بعد آخراس تعلیم کی طرف آئیگی ۔جو تیری طرف سے پیش کی جارہی ہے کیونکہ سیدھے راستہ پر قائم ہے اور لوگ ضلالت اور گمراہی کی تاریکیوں میں بھٹک رہے ہیں ۔
وَاِنْ جٰدَلُوْکَ فَقُلِ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَمَا الِلظَّلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ ہ
ترجمہ () اور اگر وہ تجھ سے بحث کریں تو کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے ۔اللہ تمہارے اور میرے درمیان قیامت کے دن اُن اُمور میں فیصلہ کرے گا جن میں تم اختلاف رکھتے ہو ۔اے محمد رسول اللہ ! کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جو آسمان اور زمین میں ہے جانتا ہے ۔یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوا موجود ہے ۔اور اس طرح کسی قانون کو محفوظ کر دینا اللہ تعالیٰ کیلئے آسان ہے ۔اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا اُن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جن کیلئے اُ س نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور جن کے متعلق ان کو کسی قسم کا کوئی علم حاصل نہیں ۔اور ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ہوگا ۔۳۲؎
۳۲؎ حل لغات :
جَادَلُوْا ۔جَادَلَ سے جمع مذکر کا صیغہ ہے اور جَادَلَہ‘ کے معنے ہیں خَاصَمَہ‘ شَدیدًا ۔اُس کے ساتھ سختی سے لڑائی کی ( اقرب )پس جَادَلُوْکَ کے معنے ہوں گے ۔اگر تیرے مخالف تیرے ساتھ سختی سے لڑائی جھگڑا کریں ۔
یَسِیْر’‘ : اَلیَسِیْرُ کے معنے ہیں اَلْھَیَّنُ ۔آسان ۔اَلْقَلِیْلُ ۔تھوڑا ( اقرب)
تفسیر :
فرماتا ہے ۔اگر وہ کج بحثی سے کام لیں اور باوجو ددلائل بیان کر دینے کے اور سیدھا راستہ دکھادینے کے جھگڑیں ۔تو تُو انہیں کہہ دے کہ اگر دین کی تعلیم سے تم ہدایت نہیں پاتے تو انجام کا انتظار کرو ۔اور دیکھو کہ عالم الغیب خدا کس کی مدد کرتا ہے ۔پھر مشرکین کے خلاف تین دلائل دیتا ہے ۔اوّل یہ کہ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطَانًا۔وہ اللہ تعالیٰ کے سوا جن چیزوں کی پرستش کرتے ہیں اُن کی پرستش کے متعلق وہ سابق الہامی کتاب میں سے کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے محض اپنے باپ دادا کی اندھی تقلید میں اُنکی عبادت کرتے چلے جاتے ہیں ۔
دوم ۔دوسرے یہ کہ وَمَا لَیْسَ لَھُمْ بِہٖ عِلْم’‘ اُن معبودوں کے متعلق وہ اپنے ذاتی تجربہ اور مشاہدہ کی بناء پر بھی کوئی دلیل پیش کرنے سے عاجز ہیں ۔حالانکہ جب یہ معاملہ اُن کی اُخروی نجات کے ساتھ تعلق رکھتا تھاتو اُن کا فرض تھا کہ وہ محض دوسروں کی سُنی سُنائی باتوں کے پیچھے نہ چل پڑتے بلکہ اُن کے متعلق ذاتی تحقیق اور غورو فکر سے بھی کام لیتے ۔مگر انہوں نے سُنی سُنائی باتوں پر اکتفا کر لیا اور ذاتی بصیرت سے کام نہ لیا ۔
سوم ۔تیسرے یہ کہ وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍمشرکین کا جب بھی موحدین سے مقابلہ ہو جائے ۔مشرک لوگ الٰہی مدد سے محروم رہتے ہیں اور اس طرح ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ ایک غلط راستے پر جا رہے ہیں ۔
وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَعَدَھَا اللّٰہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَبِئسَ الْمَصِیْرُ ہ
ترجمہ() اور جب اُن کے سامنے ہماری کھلی کھلی آیات پڑھی جاتی ہیں تو تُو منکروں کے چہروں میں صاف صاف ناپسندیدگی کے آثار دیکھتا ہے ۔قریب ہوتا ہے کہ وہ اُن لوگوں پر حملہ کردیں جو اُن کو ہماری آیتیںپڑھ کر سُنا رہے ہوتے ہیں توکہہ دے کیا میں تم کو اس حالت سے بھی ایک بُری حالت کی خبردوں اور وہ جہنم میں پڑنا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اُسکا وعدہ منکروں سے کیا ہے اور وہ بُراٹھکا نہ ہے ۔ ۳۳؎
۳۳؎ حل لغات :
اَلْمُنْکَرُ کے معنے ہیں مَالَیْسَ فِیْہِ رَضَی اللّٰہِ مِنْ قَوْلٍ اَوْ فِعْلٍ۔یعنی ہر وہ بات یا فعل جس میں خداتعالیٰ کی رضا نہ ہو ۔اور اللہ تعالیٰ کو پسند نہ ہو اسے منکر کہتے ہیں ( اقرب) یَسْطُوْنَ ۔سَطَاَ سے مضارع جمع غائب کا صیغہ ہے اور سَطَاَ عَلَیْہِ ( یَسْطُوْ) کے معنے ہوتے ہیں صَالَ عَلَیْہِ وَوَثَبَ ۔اُس پر کود کر حملہ کیا ۔وَقِیْلَ قَھَرَہ‘ بِالْبَطْشِ اَوْ بَسَطَ عَلَیْہِ بِقَھْرِہٖ مِنْ فَوْقٍ ۔اور بعض علماء لغت کہتے ہیں کہ سَطَاَ کے معنوں کے اندر یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ کسی یہ سخت گرفت کرکے اُس کو دبانے کی کوشش کی یا اس پر دبائو ڈال کر اُس کو کمزور کر نیکی کوشش کی ۔پس یَسْطُوْنَ کے معنے ہونگے (۱) وہ حملہ کرتے ہیں (۲) یا وہ ہر قسم کا دبائو ڈال کر مومنوں کو تبلیغ سے روکنا چاہتے ہیں ۔اَلْمَصِیْرُ کے معنے ہیں ۔جانے کی جگہ ( اقرب)
تفسیر :
فرماتا ہے جو لوگ شرارتی ہوتے ہیں حق بات سُن کر اُن کو غصہ آجاتا ہے اور وہ مومنوں پر حملہ کرنے لگ جاتے ہین اور ہر قسم کا دبائو ڈال کر انہیں تبلیغ سے روکنا چاہتے ہیں ۔وہ یہ نہیں سمجھتے کہ حق بات کو ماننا خود ان کے فائدہ کا موجب ہے ۔اور اگر وہ اسے نہیں مانیں گے تو دُکھ پائیں گے ۔وہ صرف جوش میں فتنہ و فساد پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور مومنوں کو دکھ دینا شروع کر دیتے ہیں ۔چنانچہ دیکھ لو بانی سلسلہ احمدیہ نے جب یہ دعویٰ پیش کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام دوسرے تمام انبیاء کی طرح وفات پا چکے ہیں تو کس طرح سارے ہندوستان میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک ایک آگ لگ گئی اور مخالفت کا ایک طوفان اُمڈ آیا ۔علماء اپنے بستے کھول کر بیٹھ گئے اور لکھتے لکھتے اُن کی قلمیں گھس گئیں ۔اور تقریریں کرتے کرتے اُن کی زبانوں پر آبلے پڑ گئے ۔انہوں نے بانی سلسلہ احمدیہ کو کافر اور اکفر اور دجّا ل اور ضال اور مفصل کہنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور عرب تک کے علماء سے آپ پر کفر کا فتویٰ لگوایا۔مگر نتیجہ کیا ہوا ہر دن جو نیا چڑھا اُس میں اُن کے چند ماننے والے اگر احمدی نہیں ہوئے تو حیاتِ مسیح کا انکار ضرور کرنے لگ گئے اور آج یہ کیفیت ہے کہ نئے تعلیم یافتہ آدمیوں میں سے ایک بھی حیاتِ مسیح کا قائل نظر نہیں آئے گا بلکہ عام طور پر مسلمانوں سے اس مسٔلہ پر گفتگو کی جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس مسٔلہ میں رکھا ہی کیا ہے چلو اسے چھوڑو ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے دل اس مسٔلہ کی صداقت کو تسلیم کرنے لگ گئے ہیں ۔
اسی طرح جب بانی سلسلہ احمدیہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ملک میں اپنے انبیاء مبعوث فرمائے ہیں تو ساری دنیا میں ایک آگ لگ گئی اور لوگوں نے کہا ۔دیکھو یہ رام اور کرشن کو بھی نبی قراردے کر کافروں کو خدا کا رسول قرار دیتا ہے لیکن آج شدید ترین مخالف بھی اس مسٔلہ کی صحت کو تسلیم کر چکے ہیں ۔اور مخالف اخبارات میں اس بات پر کئی دفعہ مضامین شائع ہو تے رہتے ہیں کہ اسلام پہلے انبیاء کی صداقت کا بھی قائل ہے خواہ وہ یہودیوں کی طرف آئے ہوں یا ہندوؤں اور زرتشتیوں وغیرہ کی طرف آئے ہوں ۔اسی طرح بانی سلسلہ احمدیہ نے جب قرآن کریم کے کامل ہونیکا دعویٰ پیش کیا اور بتایا کہ قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں تو علماء کہلانے والے اتنے جوش میں آگئے کہ اُن کے مونہوں سے جھاگ اور اُنکی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگ گئے ۔مگر آج علماء یا اُن عوام سے جو اسلام سے دلچسپی رکھتے ہیں پوچھ کر دیکھ لو ۔وہ قرآن مجید کی تمام آیتوں سے استدلال کریں گے اور کسی آیت کے منسوخ ہونے کا نام بھی نہیں لیں گے ۔یہی کیفیت ہر زمانہ میں رہی ہے جب بھی خداتعالیٰ کا کوئی نبی دنیا میں آیا اور اس نے خداتعالیٰ کا پیغام پہنچایا ۔لوگوں نے اُس کی مخالفت شروع کر دی اور اُسے سخت سے سخت اذیتیں پہنچائیں ۔مگر آخر دنیا کو وہی تعلیم ماننی پڑی جو خداتعالیٰ کے انبیاء کی طرف سے پیش کی گئی تھی اور انہیں اپنی شکست تسلیم کرنی پڑی ۔مخالفین کے اس معاندانہ رویہ کا اللہ تعالیٰ اس آیت میں ذکر کرتے ہوئے بتا یا ہے کہ جب مخالفین کے سامنے ہماری کھلی کھلی آیات پڑھی جاتی ہیں تو تُو منکروں کے چہروں میں نا پسندیدگی کے آثار دیکھتا ہے اور قریب ہوتا ہے کہ وہ اُن لوگوں پر حملہ کر دیں جو انہیں ہماری آیات سُناتے ہیں ۔کیونکہ دلائل وبراہین اور عقل و نقل کے میدان میں اُن کا عجز ظاہر ہوتا ہے ۔و ہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان لوگوں پر دلیل کے ساتھ تو غالب نہیں آسکتے ۔ہمارے غلبہ کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم ڈنڈا اٹھا لیں ۔اور ان لوگوں کا سر پھوڑنا شروع کر دیں جو ہمیں اپنے عقائد سے منحرف کرنا چاہتے ہیں۔ مگر مومن اُن کے مظالم پر صبر سے کام لیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی یہی سُنت ہے کہ وہ اپنے بندوں کو پہلے ابتلائوں کے دریائوں میں سے گذارتا ہے اور پھر انہیں اپنے قرب سے نوازتا ہے ۔آج تک دُنیا میں کوئی نبی بھی ایسا نہیں آیا جس کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے سخت سے سخت ابتلائوں میں ڈال کر اس کا امتحان نہ لیا ہو ۔یا مصائب کی بھٹی میں ڈال کر اُسے صاف نہ کیا ہو ۔جب اللہ تعالیٰ کے بندوں نے اپنے خون سے یا اپنے مال اور اپنے وطن اور اپنے عزیز و اقراباء کی قربانی سے اپنے صدق پر مہر لگائی تب انہیں خداتعالیٰ کے حضور عزت بخشی گئی ۔اور وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوئے اور آخرت میں بھی انہیں بلند درجات عطا کئے گئے ۔پس مخالفین کی اذیتوں سے کبھی گھبرانا نہیں چاہئیے بلکہ صبر اور برداشت سے کام لیتے ہوئے دعائوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنی چاہئیے ۔تمام دل اللہ تعالیٰ کے قبضہ و تصرف میں ہیں اور وی جب چاہے اُن کو ہدایت دے سکتا ہے ۔تاریخوں میں لکھا ہے کہ غزوۂ حنین میں مکّہ کا ایک مخالف شخص جس کا نام شیبہ تھا مسلمانوں کی طر ف سے اس ارادہ کے ساتھ جنگ میں شامل ہو گیا کہ جب دونوں لشکر آپس میں ملیں گے تو میں موقعہ پا کر محمد رسول اللہ ﷺ کو قتل کر دونگا جب لڑائی تیز ہوئی اور دشمنوں کی تیر اندازی کی وجہ سے اسلام لشکر میں بھاگڑ مچ گئی اور ایک وقت ایسا آیا جب رسول کریم ﷺ کے گرد صرف چند صحابہ ؓ رہ گئے تو شیبہ نے تلوار کھینچی اور رسول کریم ﷺ کے قریب ہونا شروع کیا وہ خود کہتا ہے کہ جب میں رسول کریم ﷺ کی طرف بڑھا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے اور آپکے درمیان آگ کا ایک شعلہ بھڑک رہا ہے اور اگر میں اور قریب ہوا تو وہ شعلہ مجھے بھسم کر کے رکھ دیگا اتنے میں رسول کریم ﷺ نے مجھے دیکھ لیا اور فرمایا شیبہ اِدھر آئو ۔جب میں آپ کے قریب گیا تو آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینہ پر پھیرا اورفرمایا ۔اے خدا! شیبہ کو ہر قسم کے شیطانی خیالات سے نجات عطا فرما وہ کہتے ہیں رسول کریم ﷺ کا ہاتھ پھیرنا تھا کہ خدا کی قسم میرے دل سے آپ کی ساری دشمنی اور عداوت جاتی رہی اور میرا دل آپ کی محبت سے بھر گیا ۔پھر آپ نے فرمایا شیبہ اَب آگے بڑھو اور دشمن سے لڑو۔تب میں آگے بڑھا اور میں نے دشمن سے لڑنا شروع کر دیا میرے دل میں اُس وقت سوائے اس کے اور کوئی خواہش نہیں تھی کہ میں اپنی جان قربان کر کے محمد رسول اللہ ﷺ کو بچائوں اور خدا کی قسم اگر اُس وقت میراباپ بھی زندہ ہوتا اور وہ میرے سامنے آجاتا تو میں اس کا سر اتارنے سے بھی دریغ نہ کرتا ۔پس مخالفتوں پر صبر اور دُعائوں سے کام لینا چاہئیے ۔ اور مایوسی کو کبھی اپنے قریب بھی بھٹکنے نہیں دینا چاہئیے ۔رسول کریم ﷺ کو دیکھ لو باوجود اس کے کہ مکہ والوں نے آپ کا مقابلہ کیا اور آپ کی تعلیم پر ہنسی اُڑائی پھر بھی آپ مایوس نہیں ہوئے ۔بلکہ آپ نے تبلیغ کے کام کو برابر جاری رکھا ۔آپ کا طریق تھا کہ جہاں بھی آپکو کچھ آدمی اکٹھے بیٹھے نظر آتے آپ اُن کے پاس پہنچ جاتے اور فرماتے کہ اگر آپ لوگ اجازت دیں تو مَیں آپ کو کچھ خدا کی باتیں سُنا ئوں ۔چونکہ مکہ والوں نے لوگوں میں یہ مشہور کر رکھا تھا کہ یہ شخص نعوذ باللہ پاگل ہو گیا ہے اس لئے جب آپ اُن کے پاس جاتے تو وہ ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہوئے کہتے کہ یہ پاگل ہے اور آہستہ آہستہ وہاں سے کھِسک جاتے ۔کئی لوگ آپ کے سر پر مٹی ڈال دیتے ۔کئی آپ کا تمسخر اور استہزا ء سے پیش آتے ۔مگر آپ برابر رات اور دن اُن کو خداتعالیٰ کا پیغام پہنچانے میں مصروف رہے اور آخر اُنہی میں سے ایسے لوگ پیدا ہوگئے جنہوں نے اسلام کے لئے اپنی جانیں تک قربان کر دیں ۔پس استقلال کے ساتھ تبلیغ میں مشغول رہنا اور دعائوں کے ساتھ خداتعالیٰ کی مدد اور اُس کی نصرت کو کھینچنا یہی کامیابی کا ذریعہ ہوتا ہے ۔جب تک کسی قوم میں اس قسم کی دیوانگی پیدا نہ ہو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی ۔
یٰٓا َیُّھَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَل’‘ فَاسْتَمِعُوْا لَہ‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ ہ
ترجمہ () اے لوگو! ایک بات تمہیں بتائی جاتی ہے تم اُسے غور سے سُنو ۔تم جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکیں گے خواہ سب کے سب جمع ہو جائیں بلکہ اگر ایک مکھی اُن کے آگے سے کوئی چیز اُچک کر لے جائے تو وہ اُس چیز کو بھی چھڑا نہیں سکتے ۔یہ دعائیں مانگنے والا بھی اور جس سے دعائیں مانگی جاتی ہیں وہ بھی کتنے کمزور ہیں ۔۳۴؎
۳۴؎ حل لغات :
اَلذُّبَابُ کے معنے مکھی کے ہیں ۔یہ لفظ شہد کی مکھی اور بِھڑوں پر بھی بولا جاتا ہے ۔اسی طرح اس کے معنے ہیں۔اَلْبَعُوْضُ بِاَ نْوَاعِہٖ ۔یعنی ہر قسم کا مچھر
تفسیر :
اس جگہ اللہ تعالیٰ ایک نہایت زبردست دلیل شرک کے رد میں اور مشرکوں کی تباہی کی تائید میں پیش کرتا ہے۔فرماتا ہے کہ خدا کے سوا جو معبود ہیں انہوں نے تو کبھی ایک مکھی بھی پیدا نہیں کی بلکہ اگر سب کے سب معبود جمع ہو جائیں تب بھی وہ ایک مکھی تک پیدا نہیں کر سکتے ۔اور اگر مکھی اُن کے کھانے میں سے کچھ اُٹھا کر لے جائے تو وہ واپس بھی نہیں لے سکتے ۔پس عبادت کرنے والا اور معبود دونوں ہی کتنے کمزور ہیں ۔اس آیت کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کا یہ کہنا نہایت تعجب انگیز ہے کہ حضرت مسیح ؑ پرندے پیدا کیا کرتے تھے ۔قرآن کریم تو فرماتا ہے کہ سارے معبود مل کر ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے ۔اور ہمارے مفسر فرماتے ہیں کہ اکیلے مسیح ؑ نے بہت سے پرندے پیدا کئے تھے ۔بانی سلسلہ احمدیہ نے ایک دفعہ ایک مولوی صاحب سے پوچھا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ پرندے پیدا کیا کرتے تھے ،تو جو پرندے ہمیں دنیا میں نظر آتے ہیں اُن میں سے کچھ خداتعالیٰ کے پیدا کئے ہونگے اور کچھ مسیح ؑ کے ۔کیا آپ ان دونوں میں کوئی امتیازی بات بتا سکتے ہیں جس سے معلوم ہو سکے کہ کونسے خدا کے پیدا کردہ ہیں اور کون سے مسیح ؑ کے ۔اس پر وہ مولوی صاحب پنجابی میں بولے ’’ اے تے ہُن مشکل ہے ۔اوہ دونوں رَل مِل گئے نے ‘‘ یعنی یہ کام تو اب مشکل ہے ۔خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ پرندے اور مسیح ؑ کے پیدا کردہ پرندے آپس میں مِل جُل گئے ہیں ۔اور اب ان دونوں میں امتیاز مشکل ہے ۔
مَا قَدَرُو اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِيّ’‘ عَزِیْز’‘ ہ
ترجمہ() ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا صحیح اندازہ نہیں لگا یا ۔اللہ تعالیٰ تو یقینا بڑی طاقت والا اور بڑا غالب ہے ۔۳۵؎
۳۵ ؎ حل لغات :
قَدَرَ اللّٰہَ کے معنے ہیں عَظَّمَہ‘ ۔اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کی ( اقرب )
تفسیر :
فرماتا ہے ۔جو لوگ اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کر تے ہیں انہوں نے خدائی صفات کا کبھی پورا اندازہ نہیں کیا ۔اور یہی وجہ اُن کے ٹھوکر کھانے کی ہے چنانچہ دیکھ لو جو لوگ اللہ تعالیٰ کی توحید کے قائل نہیں یا وہ لوگ جو بعض اور ذرائع کو بیچ میں لانا چاہتے ہیں اُنکے اس عقیدہ کو نبیاد ہی اس امر پر ہے کہ ان کا دماغ یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا کہ ایک ایسی ہستی بھی ہے جو سب دنیا کو دیکھ رہی ہے اور سب لوگوں کی آوازوں کو سُن رہی ہے ۔وہ خیال کرتے ہیں کہ بعض ایسے درمیانی واسطوں کی ضرورت ہے جن میں خدائی طاقتیں تقسیم ہوں اور جو اپنی اپنی جگہ اُن طاقتوں کو استعمال کر رہے ہوں اس دھوکا کی بڑی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے خداتعالیٰ کی طاقتوں کا اندازہ اپنی طاقتوں کے لحاظ سے کیا ۔اور خدائی طاقتوں کا انسانی طاقتوں پر قیاس کر لیا انہوں نے دیکھا کہ انسان جب ایک طرف نگا ہ کرتے ہیں تو دوسری طرف کی چیزیں انہیں نظر نہیں آتیں ۔پس انہوں نے خیال کر لیا کہ خدا تعالیٰ کی نظر بھی محدود ہے ۔پھرجب انسانوں نے دیکھا کہ ہم ہر جگہ کی آواز ایک وقت میں نہیں سُن سکتے تو خیال کر لیا کہ خداتعالیٰ بھی ہر جگہ کی آواز ایک وقت میں نہیں سن سکتا ۔غرض انسانی طاقتوں پر خدائی طاقتوں کا جب انہوں نے قیاس کیا تو انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ خداتعالیٰ کے بعض شریک مقرر کریں ۔اسی خیال کے نتیجے میں بعض فلسفیوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو کلی علم ہے ۔جزئی نہیں ۔یعنی اُسے یہ تو پتہ ہے کہ انسان روٹی کھایا کرتا ہے مگر اُسے یہ پتہ نہیں کہ زیداس وقت روٹی کھا رہا ہے ۔اُسے یہ تو علم ہے کہ انسانوں کے گھروں میں بچے پیدا ہوا کرتے ہیں مگر اُسے یہ علم نہیں کہ اس وقت زید یا بکر کے گھر میں بچہ پیدا ہوا ہے ۔اب اس خیال کی نبیاد اسی امر پر ہے کہ انسان اپنی محدود طاقتوںسے خدا تعالیٰ کی طاقتوں کا اندازہ لگا تا ہے ۔مگر آج دیکھو وہ کمزور انسان جو خداتعالیٰ کی طاقتوں کو گِرا رہے تھے انہیں خدا نے کہا کہ تم ہماری طاقتوں کا تو اندازہ ہی نہیں لگا سکتے آئو میں تمہاری اپنی طاقتوں کو اُبھارتا ہوں اورتمہیں بتا تا ہوں کہ تم اپنی آواز کو کہاں کہاں تک پہنچا سکتے ہو ۔اور تم کتنی دُور دُور کی آواز بخوبی سُن سکتے ہو ۔چنانچہ اُس نے وائر لیس ایجاد کروا کے بتا دیا کہ جب تمہاری جیسی ذلیل اور حقیر ہستی ساری دنیا کی آوازیں وائر لیس کے ذریعہ سُن سکتی اور ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچا سکتی ہے تو کیا وہ خدا جو تم کو پیدا کرنے والا ہے وہ تمہاری آواز یں نہیں سُن سکتا ؟آج جب انگلستان کا ایک ڈوم یا میراثی یا ایک گانے والی کنچنی ساری دُنیا میں اپنی آواز پہنچا رہی ہوتی ہے تو فضا کی ہر حرکت اور آواز کی ہر جنبش یورپ کے فلسفیوں پر قہقے لگا رہی ہوتی ہے اور کہتی ہے کمبختو ! اب بتا ئو کیا خدا تعالیٰ ساری دنیا کی آوازیں نہیں سُن سکتا ؟ اسی طرح اب بڑی بڑی دُور بینیں نکل چکی ہیں جن سے لاکھوں میل دور کے سیاروں کی حرکات کا بھی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے اور اب تو وائر لیس نے ترقی کرتے کرتے یہ صورت اختیار کر لی ہے کہ شکلیں بھی دُور دُور تک دکھا دی جاتی ہیں غرض وہ جو واہمہ پیدا ہو گیا تھا کہ خدا کس طرح ساری دنیا کو دیکھ سکتا ہے اور کس طرح ساری دنیا کی آوازیں سُن سکتا ہے اس ترقی نے اسے دُور کر دیا اور بتا دیا کہ جب معمولی انسان میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی قابلیت رکھی ہے کہ وہ اپنی آواز تمام دنیا کو سُنا سکتا ہے اور دنیا کے دوسرے کنارے کے آدمی کی بات کو با ٓسانی سُن سکتا ہے اور نہ صرف آواز سُن سکتا ہے بلکہ اُس کی شکل بھی دیکھ سکتا ہے تو کیا خدائے ذوالجلال جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے وہ ہر چیز کو نہیں دیکھ سکتا اور ہر شخص کی آواز کو نہیں سُن سکتا ؟ اور جب وہ ہر چیز کو دیکھتا اور ہر شخص کی آواز کو سُنتاہے تو اُس کیلئے کسی اور مدد گار خدا کی کیا ضرورت رہی ؟ وہ اکیلا ہی ساری دنیا پر حاوی ہے اور اکیلا ہی سب پر حکومت کر رہا ہے ۔
غرض مَاقَدَرُواللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی اس بنیادی غلطی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ انسانی طاقتوں پر قیاس کر کے خدائی طاقتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس طرح شرک جیسے گندے عقیدے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْع’‘ بَصِیْر’‘ ہ
ترجمہ () اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے اپنے رسول منتخب کرتا ہے اور اسی طرح انسانوں میں سے بھی اللہ تعالیٰ بہت دعائیں سُننے والا اور حالات کو بہت دیکھنے والا ہے ۔ ۳۶؎
۳۶؎ حل لغات :
یَصْطَفِیْ ۔ اِسْطَفٰی سے مضارع کا صیغہ ہے اور اِصْطَفَاہُ کے معنے ہیں اِخْتَارَہ‘ اُس کو چُن لیا ۔( اقرب) پس یَصْطَفِیْ کے معنے ہیں چنتا ہے اور چنتا رہے گا ۔
تفسیر :
فرماتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی ملائکہ کو اپنے پاک بندوں پر نازل کرتا رہے گا اور اسی طرح انسانوں میں سے بھی پاک لوگوں کو اپنا رسول بنا کر بھیجتا رہے گا کیونکہ وہ دعائیں سُنتا ہے اور انسانوں کے حالات کو دیکھتا ہے ۔جب کبھی کسی انسان کی روح آسمانی پانی کے لئے پکاریگی ۔اللہ تعالیٰ اُس پر آسمان سے پانی اتارے گا اور جب کبھی وہ دیکھے گا کہ اس کے بندے ہدایت سے دُور جارہے ہیں وہ اُن کی ہدایت کیلئے اپنے پاک بندوں کو مامور کرتا رہے گا ۔اس آیت سے پہلے رسول کریم ﷺ کے مخاطبین کا ذکر ہے ۔آپ سے پہلے لوگوں کا ذکر نہیں ۔اور چونکہ اس میں صاف طو ر پر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملائکہ میں سے اور انسانوں میں سے اپنے رسول چُنتا ہے ۔اور چنتا رہیگا جیسا کہ فعل مضارع سے ظاہر ہے جو اس جگہ استعمال کیا گیا ہے ۔اس لئے یہ آیت واضح طور پر امتِ محمدیہ میں اجرائے نبوت کے مسٔلہ پر روشنی ڈالتی ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُمتِ محمدیہ میں بھی بعض انسان خداتعالیٰ کی طرف سے رسالت کے مقام پر کھڑے کئے جاتے رہیں گے۔
یَعْلَمُ مَابَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ہ
ترجمہ () جو کچھ اُن کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ وہ پیچھے کر آئے ہیں اُسے بھی جانتا ہے اور سب معاملے اُسی کی طرف لوٹا ئے جاتے ہیں ۔ ۳۷؎
۳۷؎ تفسیر :
یعنی اللہ تعالیٰ انسان کے اعمال کو بھی جانتا ہے اور جو وہ نہیں کر سکا اُس کو بھی جانتا ہے اور سب امور اُسی کی طرف لوٹا ئے جاتے ہیں ۔پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ضرورت کے وقت ہدایت نہ دے کیونکہ اس صورت میں جب بندے اس کے پاس پیش ہونگے اور اُن سے ان کے کئے ہوئے کاموں اور نہ کئے ہوئے کاموں کے متعلق سوال کیا جائیگا تو وہ یہ کہنے کے حقدار ہونگے کہ حضور نے موقع پر ہماری طرف ہدایت تو بھیجی نہیں ہمارا کیا قصور ؟ یَعْلَمُ مَابَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کا اِعطاء صرف ماضی پر ہی نہیں بلکہ آئندہ کی قابلیتوں پر بھی ہوتا ہے ۔اسی لئے اس کا ذکر رسولوں کے انتخاب کے ساتھ ملاکر کیا گیا ہے ۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَاسْجُدُوْ وَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ہ
ترجمہ () اے مومنو! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور نیک کام کرو تاکہ تم اپنے مقصود کو پا لو ۔ ۳۸؎
۳۸؎ حل لغات :
اِرْکَعُوْا ۔امر مخاطب کا صیغہ ہے اور رَکَعَ الْمُصَلِّیْ رَکْعًا وَرُکُوْعًا کے معنے ہیں طَأ طَأَ رَأسَہ‘ ۔نمازی نے اپنا سر نیچے کیا اور جب رَکَعَ اِلَی اللّٰہِ کہیں تو معنے ہونگے اِطْمَاَنَّ اِلَیْہِ ۔اُس نے اللہ تعالٰی سے دل لگا کر تسلی پائی ۔نیز رَکَعَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں اِنْحَطَّتْ حَالَتُہ‘ وَافْتَقَرَ ۔اُس کی مالی حالت کمزور ہو گئی اور وہ محتاج ہو گیا ( یہ مجازی معنے ہیں ) اور رَکَعَ الْمُصَلِّیْ فِیْ الصَّلٰوۃ ِ رُکُوْعًا کے معنے ہیں ۔خَفَضَ رَأسَہ‘ بَعْدَ قَوْمَۃِ الْقِرْأۃِ حَتّٰی تَنَالَ رَاحَتَا ہُ رُکْبَتَیْہِ اَوْ حَتّٰی یَطْمَئِنَّ ظَھْرُہ‘ نمازی نے قرأت کے بعد گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کمر کو جھکا یا نیز لکھا ہے والرَّاکِعُ کُلُّ شَيْئٍ یَخْفِضُ رَأسَہ‘ ۔ہر وہ چیز جس کا سر نیچے کی طرف جھکا ہو ا ہو اُس کیلئے راکع کا لفظ استعمال کرتے ہیں ( اقرب) تاج العروس میں ہے ۔امام ثعلب کہتے ہیں اَلرُّکُوْعُ : اَلْخُضُوْعُ یعنی رکوع کے معنے عاجزی کرنے کے ہوتے ہیں ۔وَکَانَتِ الْعَرَبُ فِی الْجَاھَلِیَّۃِ تُسَمِّی الْحَنِیْفَ رَاکَعًا اِذَا لَمْ یَعْبُدِ الْاَوْثَانَ وَیَقُوْلُوْنَ رَکَعَ اِلَی اللّٰہِ ۔اور عرب لوگ قبل اسلام موحدین کو راکع کہتے تھے کیونکہ وہ بتوں کی پوجا نہ کرتے تھے اور اُن کیلئے راکع کا لفظ اس لئے استعمال کرتے تھے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کیطرف توجہ کی تھی اور اس کے سامنے عاجزی اختیار کی تھی۔الغرض رَکَعَ کے لفظ کے اندر عاجزی اور تذلل کے معنے پائے جاتے ہیں ۔پس رَاکِع’‘ کے معنے ہونگے ( ۱) عاجزی کرنیوالا ( ۲) اللہ تعالیٰ کی خالص پرستش کرنے والا ۔اور اِرْکَعُوْ ا کے معنے ہونگے ( ۱) تم عاجزی کر و( ۲) اللہ تعالیٰ کی خالص پرستش کرو ۔اور توحید پر پوری طرح قائم ہو جائو ۔اَسْجُدُوْا۔سَجَدَ کے معنے ہیں خَضَعَ وَاِنْحَنٰی اُس نے عاجزی اختیار کی اور اپنے عجز کا اظہار کر نے کیلئے جھُک گیا ۔اور سَجَدَ الْبَعِیْرُ کے معنے ہوتے ہیں خَفَضَ رَأسَہ‘ اونٹ نے اپنا سر نیچے کر لیا اور سَجَدَتِ السَّفِیْنَۃُ الرِّیَاحَ کے معنے ہوتے ہیں اَطَاعَتْھَا وَمَالَتْ بِمَیْلِھَا ۔کشتی نے ہوا کی پیروی کی اور اُسے جدھر ہوا لے گئی اُدھر چل پڑی ۔اسی طرح اہل عرب کہتے ہیں کہ فُلاَن’‘ سَاجِدُ الْمُنْخَرِ اور مراد یہ ہوتی ہے کہ ذَلِیْل’‘ خَاضِع’‘ ۔ فلاں شخص نہایت مطیع ہے اور عجز و انکسا ر کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہے ( اقرب) پس اُسْجُدُوْا کے معنے یہ ہونگے کہ تم اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کرو ۔
تفسیر :
ان آیات میں مومنوں کو ان فرائض کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جو الٰہی جماعتوں کو کامیاب بنانے میں ممد ہوتے ہیں ۔اور جن کے بغیر غلبہ کا حصول ناممکن ہوتا ہے ۔یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ دنیوی جماعتوں کا طریق کار بالکل علیٰحدہ ہوتا ہے اور اُن پر دینی جماعتوں کا قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔دنیوی جماعتوں کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ سچ سے کام لیں۔وہ جھوٹ ، فریب اور دغا بازی سے کام لیتی ہیں اور اس طرح ہر ممکن ذریعہ سے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔مگر یہ ہتھیار جو عام طور پر دنیا میں کامیابی کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں دین میں ان کو بالکل حرام قرار دیا گیا ہے ۔دنیوی امور میں لوگ جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جھوٹ کے بغیر گذارہ نہیں وہ فریب سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فریب کے بغیر گذارہ نہیں ۔وہ منافقت سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ منافقت کے بغیر گذارہ نہیں ۔جب ایک قوم دوسری قوم کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے ۔جب اس کی ساری قوتیں دوسری قوم پر حملہ کرنے کیلئے مجتمع ہو رہی ہوتی ہیں ۔جب اس کے سارے محکمے اپنے کیل کانٹے درست کر رہے ہوتے ہیں اُس وقت دنیا دار حکومتیں بڑے زور سے یہ اعلان کرتی سنائی دیتی ہیں کہ ہمارے تعلقات اس حکومت سے بڑے اچھے ہیں اور جب وہ جنگ کا فیصلہ کر چکی ہوتی ہیں ۔اُن کے مدبر بڑے زور شور سے یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم صلح کیلئے ہر ممکن تدابیر اختیار کر یں گے ۔مگر اُن کی غرض ان اعلانات سے یہ ہوتی ہے کہ اگر ہمارا دشمن بیوقوف بنایا جا سکے تو اُسے بیوقوف بنائیں ۔اس کے مقابلہ میں اُن کا دشمن بھی اسی طرح کر رہا ہوتا ہے جس طرح وہ کر رہے ہوتے ہیں ۔وہ بھی دھوکا اور فریب اور جھوٹ استعمال کر رہا ہوتا ہے ۔مگر دین کے ساتھ تعلق رکھنے والی جماعتوں کو اس قسم کا طریق اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔انہیں اگر کہا جاتا ہے تو یہ کہ تمہیں اچانک حملہ کرنے کی اجازت نہیں اور اگر تمہارا کسی قوم کے ساتھ معاہدہ ہے اور تم دیکھتے ہو کہ دوسرا فریق اس معاہد ہ کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو ایک لمبا عرصہ قبل یہ اعلان کر دو کہ ہمارا تمہارا معاہدہ ختم ہے اس کے بعد اگر تم چاہو تو دوسری قوم سے لڑ سکتے ہو ۔پس دینی قوموں کیلئے مشکلات بہت زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ جن تدابیر کو دنیا اختیار کر سکتی ہے اُن کو وہ تدابیر اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔اس لئے عقلی طور پر کوئی ایسا قائم مقام ہو نا چاہئیے جو جھوٹ اور فریب اور دغا کے مقابلہ میں نیکوں کا سہارا ہو ۔اس سہارے کا اللہ تعالیٰ نے اِن آیات میں ذکر کیا ہے ۔فرماتا ہے یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا۔اے مومنو! تم رکوع کرو ۔رکوع سے مراد اس جگہ نماز والا رکوع نہیں بلکہ رکوع کے معنے نماز کے علاوہ بھی ہوتے ہیں ۔اور وہ معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر کامل ایمان رکھتے ہوئے اُس کی طرف جھک جانا ۔اور ماسوی اللہ کا خیال اپنے دل سے بکلی نکال دینا گویا کامل توحید کے خیالات دل میں پیدا کر لینا اور ماسوی کی عبادت اُس پر انحصار اور توکل اور امید کا دل سے خیال نکال دینا ۔اس کا نام عربی زبان میں رکوع ہے ۔چنانچہ عربی زبان کا محاورہ ہے کہ فُلَان’‘ رَکَعَ اِلَی اللّٰہِ ۔فلاں شخص ہر ایک دنیوی چیز کا خیال دل سے نکال کر خداتعالیٰ کی طرف جھک گیا ۔پس اس جگہ رکوع سے مراد وہ رکوع نہیں جو نماز میں کیا جاتا ہے کیونکہ وہ رکوع ہم علٰیحدہ نہیں کرتے بلکہ نماز کا ایک حصہ ہوتا ہے ۔خالی رکوع اسلام میں کہیں ثابت نہیں اور خالی سجدہ اسلام میں شکریہ یا تلاوت قرآن کے سوا عبادت کے طور پر ثابت نہیں ۔بلکہ خالی سجدہ تو دُعا کے موقعہ پر کر بھی لیا جاتا ہے ۔خالی رکوع کا رسًما بھی اسلام میں کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔پس رکوع سے مراد یہاں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھک جانا نہیں بلکہ ماسوی اللہ کا خیال اپنے دل سے نکا ل کر کا مل توحید پر ایمان رکھتے ہوئے خداتعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کا نام رکوع رکھا گیا ہے ۔یہ گویا مومن کیلئے ان چیزوں کا قائم مقام ہو جاتا ہے جن کو چھوڑ نے کا اُسے حکم ہے ۔
رکوع کا لفظ اصل میں اسی لئے استعمال کیا گیا ہے کہ رکوع میں ایک چیز ٹیڑھی ہو جاتی ہے اور سہارا ہمیشہ ٹیڑھا ہو کر لیا جاتا ہے ۔جو شخص سیدھا کھڑا ہوگا وہ سہارا نہیں لے سکتا اور اگر وہ سہارا لینا چاہیگا تو اُسی وقت لے سکے گا جب وہ ٹیڑھا ہوگا ۔تو اَرْکَعُوْا کے معنے دراصل خداتعالیٰ پر سہارا لینا اور اُس کے اُوپر جھک جانا ہے۔جھوٹ فریب اور منافقت یہ دُنیا کے سہارے ہیں ۔خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو بڑے گندے سہارے ہیں ان کو چھوڑ و اور ان کے قریب بھی مت پھٹکو۔جب دنیا کے سہارے ایک انسان سے لے لئے جائیں تو لازمًا وہ کسی اور سہارے کا محتاج ہو گا ۔کیونکہ انسان سخت کمزور اور بے بس ہے ۔ایک کمزور انسان جو بیمار بھی ہو کرچز Crutchesپر چلتا ہے یا کھڑا ہوتا ہے تو دیوار کی ٹیک لگا لیتا ہے ۔یا دم لینے کیلئے کرسی پر جا بیٹھتا ہے یا اگر لیٹے لیٹے سر اٹھاتا ہے تو کہنی کا سہارا لے لیتا ہے ۔یا گائوتکیہ اپنے پیچھے رکھ لیتا ہے ۔تو کمزور ی اور بیماری کے وقت انسان کو دوسری چیزوں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے چونکہ انسان عالمِ روحانی میں سخت کمزور ہے اور ہزاروں خفیہ باتیں ایسی پید ا ہو جاتی ہیں جو اس کی ترقی کی راہ میں روک بن کر حائل ہو جاتی ہیں ۔ اس لئے اس عالم میں بھی وہ کسی نہ کسی سہارے کا محتاج ہوتا ہے ۔دنیا دار شخص ایسے موقعہ پر دغا ، فریب ، جھوٹ اور مکاری کا سہارا لیتا ہے مگر مومنوں کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان امور سے بچو ۔تم نہ فریب سے کام لو نہ جھوٹ سے کام لو ، نہ دھوکا سے کام لو اور نہ کسی ناجائز ہتھیار کو استعمال کرو ۔اب جبکہ ایک کمزور انسان کے تمام دنیوی سہارے شریعت نے لے لئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا کرے ۔سہارا تو ایک کمزور انسان کے لئے ضروری تھا اور اس سے سہارے کو لے لینا ایسا ہی ہے جیسے ایک لُنجے کی سوٹیاں لے لی جائیں یا بیمار کے نیچے سے گائوتکیہ نکال لیا جائے ۔یا ایک کمزور انسان جب کرسی پر بیٹھنے لگے تو اُس کے نیچے سے کرسی کھینچ لی جائے ۔ایسی حالت میں اُسے لازمًا کسی اور سہارے کی ضرورت پیش آئے گی اور وہ کہیگا میں کس پر سہارا لُوں میں تو گر جائونگا ۔اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس کا جواب دیا ہے ۔فرمایا اَرْکَعُوْا تم ہمارے اوپر سہارا لے لو ۔اور ہم پر جھک جائو ۔یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی انسان دوسرے کمزور انسان کی سونٹی تو لے لے مگر اپنا کندھا اُس کے سامنے پیش کر دے اور کہے کہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلو ۔اسی طرح جب ناجائز ہتھیاروں اور ناجائز سہاروں سے اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا تو فرمایا ۔چونکہ تمہیں کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت ہے ۔اس لئے ہم تمہیں کہتے ہیں تم ہم پر جھک جائو ۔اور ہمارا سہارا لے لو ۔تو ارْکَعُوْا کا لفظ توکل علی اللہ پر دلالت کرتا ہے اور اس میں یہ سبق سکھایا گیا ہے کہ مومن کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرنا چاہئیے اور سمجھ لینا چاہئیے کہ میرے کاموں میں جو نقائص ہیں خداتعالیٰ اُن کا خود ذمہ دار ہے ۔کیونکہ جب کامیابی کے حصول کی ناجائز دنیوی تدبیروں سے اُس نے منع کر دیا ہے تو اب وہ ہمارا خود ذمہ دار ہے۔اور وہ آپ ہمارے نقصوں اور ہماری خامیوں کو پورا کرے گا ۔
پھر فرماتا ہے ۔وَاسْجُدُوْا وَعْبُدُوْا رَبَّکُمْ یہاں وَاسْجُدُوْا میں جو سجدہ کا لفظ آیا ہے ۔اس سے مراد بھی نماز والا سجدہ نہیں اس لئے کہ آگے وَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ کے الفاظ آتے ہیں جس میں سجدہ بھی شامل ہے پس اس جگہ سجدہ سے مراد بھی وہ سجدہ نہیں جو ہم زمین پر کرتے ہیں بلکہ وَاسْجُدُوْا کے معنے ہیں ۔اے مومنو ! تم کامل فرمانبرداری سے کام لو اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پوری اتباع کرو اور جس طرح وہ حکم دیتا ہے اُسی طرح کرو ۔چاہے وہ حکم تمہاری سمجھ میں آئے یا نہ آئے ۔بسا اوقات انسان ایک چیز کے متعلق جانتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف پیش کی گئی ہے مگر اپنی نادانی سے سمجھتا ہے کہ اس میں میری تباہی اور بر بادی ہے لیکن جب وہ خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس چیز کو اختیار کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی خود حفاظت کرتا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اُس پر انعامات کا نزول شروع ہو جاتا ہے ۔حدیثوں میں اس کی ایک نہایت ہی لطیف مثال بیان کی گئی ہے کہ کس طرح و ہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے لئے تکلیفیں اُٹھاتے اور بظاہر اپنے آپکو ہلاکت کے گڑھوں میں گراتے چلے جاتے ہیں اور تباہی کے سامانوں میں اُن کے لئے برکت کے سامان پیدا کر دئیے جاتے ہیں ۔
حدیثوں میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے ایک بندے سے کہیگا کہ دوزخ میں کود جا ۔بندہ بے دھڑک دوزخ میں کو د جائیگا اور کہیگا جب مجھے میرے رب کا یہی حکم ہے کہ میں دوزخ میں کود جائوں تو مجھے دوزخ ہی منظور ہے ۔مگر جب وہ اُس میں کو دے گا تو دوزخ اُس کے لئے نہایت آرام دہ جنت بن جائیگا اور وہ آگ سے کھیلنے لگ جائیگا۔اللہ تعالیٰ اس پر کہے گا دیکھو میرا بندہ آگ سے کیسا خوش ہو رہا ہے ۔یہ مثال درحقیقت اسی بات کی ہے کہ وہ لوگ جو خداتعالیٰ کے دین کیلئے قربانی کر کے بظاہر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ اُنہی ہلاکت کے سامانوں میں اُن کیلئے ترقی کے سامان پید ا کر دیتا ہے ۔بظاہر دنیا سمجھتی ہے کہ وہ آگ میں کودے ہیں مگر جب وہ اس آگ میں کود جاتے ہیں تو وہی آگ اُن کیلئے جنت بن جاتی ہے ۔دیکھ لو جب رسول کریم ﷺ کی وفات ہوئی تو اُسوقت سارا عرب مرتد ہوگیا اور حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ جیسے بہادر بھی اس فتنہ کو دیکھ کر گھبرا گئے ۔وفات کے قریب رسول کریم ﷺ نے ایک لشکر رومی علاقہ پر حملہ کر نے کیلئے تیار کیا تھا اور اسامہ ؓ کو اُس کاافسر مقرر کیا تھا ۔مگر ابھی وہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات ہو گئی ۔آپ کی وفات پر جب قریباً سارا عرب مرتد ہوگیا تو صحابہ ؓ گھبراگئے اور انہوں نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہ ؓ کا لشکر بھی رومی علاقہ پر حملہ کرنے کیلئے بھیج دیا گیا تو پیچھے صرف بوڑھے مرد بچے اور عورتیں ر ہ جائیں گی اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں ہوگا ۔چنانچہ انہوں نے تجویز کی کہ اکابر صحابہ ؓ کا ایک وفد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جائے اور ان سے درخواست کرے کہ وہ اس لشکر کو بغاوت کے فرد ہونے تک روک لیں ۔چنانچہ حضرت عمر ؓ اور اکابر صحابہ ؓ مل کرایک وفد کی صورت میں حضرت ابوبکر ؓ کے پاس گئے اور اُن سے عرض کیا کہ کچھ عرصہ کیلئے اس لشکر کو روک لیا جائے جب بغاوت فرد ہو جائے تو پھر بے شک اسے بھیجدیا جائے ۔جب حضرت ابوبکر ؓ کے پاس یہ وفد پہنچا تو آپ نے نہایت غصہ سے اس وفد کو یہ جواب دیا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد ابو قحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو روانہ کرنیکا رسول کریم ﷺ نے حکم دیا تھا اُسے روک لے ( ابوقحافہ حضرت ابوبکر ؓ کے باپ کا ناتھا اور وہ مکہ کے بہت ہی معمولی آدمیوں میں سے سمجھے جاتے تھے )حضر ت ابو بکر ؓ کی عادت تھی کہ جب وہ اپنی تحقیر کرنا چاہتے تو اپنے باپ کا نام لیتے یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ میری کیا حیثیت ہے جو میں ایسا کرو ں ۔اس موقعہ پر بھی آپ نے اپنے باپ کا نام لے کر کہا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ابو قحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو رسول کریم ﷺ نے روانہ کرنے کیلئے تیار کیا تھا اُسے روک لے ۔پھر آپ نے فرمایا اگر سارا عرب باغی ہو گیا ہے تو بے شک ہو جائے خدا کی قسم اگر دشمن کی فوج مدینہ میں گھس آئے اور ہمارے سامنے مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں ۔تب بھی میں اس لشکر کو ضرور روانہ کرونگا جس کو رسول کریم ﷺ نے روانہ کرنے کیلئے تیار کیا تھا ۔اگر تم دشمن کی فوجوں سے ڈرتے ہو تو بے شک میرا ساتھ چھوڑ دو میں اکیلا تمام دشمنوں کا مقابلہ کرونگا ۔یہ جرأت اور دلیری حضرت ابوبکر ؓ میں کہا ں سے پیدا ہوئی ؟ یہ وہی ارْکَعُوْ ا وَاسْجُدُوْا والے حکم کی تعمیل کا نتیجہ تھا ۔ جس طر ح بجلی کے ساتھ معمولی تار بھی مل کاتی ہے تو اس تارمیں عظیم الشان طاقت پیدا ہو جاتی ہے ۔اسی طرح جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔بجلی سے علٰیحدہ کرلو تو تار کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔مگر اُسی تار میں جب بجلی کی رَو آئی ہوئی ہو ۔اور تار کے اوپر سے ربڑ اُترا ہوا ہو تو اگر ایک قوی سے قوی پہلوان بھی اُسے چھوئے گا تو مُردہ چوہے کی طرح گِر جائیگا اور اس کی طاقت اسے کوئی نفع نہیں پہنچا سکے گی ۔
غرض دنیوی عزتوں کے حصول کے لئے لوگ بڑی بڑی قربانیاں کر تے ہیں ۔اللہ تعالیٰ اس موقعہ پر اس امر کا ذکر کرتا اور فرماتا ہے ۔اے مومنو! جب تم ہمارے پاس آئے ہو تو تمہیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئیے کہ بغیر اِرْکَعُوْ وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ کے احکام پر عمل کرنے کے تمہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی ۔ہاں اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو ۔ہمارے احکام کی فرمانبرداری کا عہد کرو اور ہماری عبادت میں لگ جائو تو ہم تمہیں کامیاب کر دیں گے ۔پھر فرماتا ہے وَافْعَلُوْا الْخَیْرَ جب تم یہ باتیں کرلو ۔یعنی جب تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو جب تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر اٹھا لو ۔جب تم اُس کی شب وروز عبادت کرو تو پھر چو تھا فرض تمہا را یہ ہے کہ وَافْعَلُوْ الْخَیْرَ تم بنی نوع انسان کی بھلائی کی کوشش کرو تم یتیموں کی خبر گیری کرو ۔تم بیوائوں کی نگہداشت کرو ۔تم مساکین سے شفقت اور رأفت کے ساتھ پیش آئو تم ہمسائیوں سے نیک سلوک کرو ۔تم دین اسلام کو اُن لوگوں میں پھیلا ئو جو اسلامی تعلیم سے نا آشنا ہیں ۔غرض جس قدر اچھے کام ہیں وہ سب کرو لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ تاکہ تم کامیاب ہو جائو ۔ وَافْعَلُوْ الْخَیْرَ کو تو لوگ کسی حد تک مانتے ہیں مگر باقی جس قد ر احکام ہیں ان کو دنیا عمومًا اپنی تباہی کی علامت سمجھتی ہے ۔لوگ کہتے ہیں جو توکل کرے گا اُس کا بیڑہ غرق نہیں ہوگا تو اَور کس کا ہو گا؟ پھر وہ کہتے ہیں جو احکام مذہبی پر چلے گا اور دین کی ترقی کے لئے چندے دے گا ۔وہ غریب نہیں ہوگا تو اَور کون ہوگا ؟ اسی طرح وہ کہتے ہیں جو پانچ وقت نماز پڑھیگا وہ تین چار گھنٹے ضرور ضائع کر دے گا ۔اور جس نے اپنے اوقات کا اتنا بڑا حصہ اس طرح ہوگا ؟ غرض دنیا ان تمام باتوں کو تباہی کا موجب سمجھتی ہے قرآن کریم کہتا ہے کہ وہی تم کرو کیونکہ دنیوی ترقی اور دینی ترقی میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔اس کے ذرائع اور ہوتے ہیں اور اُس کے ذرائع اَور ہیں ۔
وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَنِعْمَ الْمَوْلیٰ وَنِعْمَ النَّصِیْرُ ہ
ترجمہ () اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ایسی کوشش کرو جو مکمل ہو کیونکہ اُسی نے تم کو بزرگی بخشی ہے ۔اور دین کی تعلیم میں تم پر کوئی تنگی کا پہلو اختیار نہیں کیا ۔اے مومنو اپنے باپ ابراہیم ؑ کے دین کو اختیار کرو کیونکہ اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔اس کتاب میں بھی اور اس سے پہلی کتب میں بھی تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم باقی دنیا پر گواہ رہو ۔پس نماز کو قائم کرو او ر زکوٰۃ دو اور اللہ تعالیٰ کو مضبوطی سے پکڑلو ۔وہ تمہارا آقا ہے ۔پس کیا ہی اچھا آقا ہے اور کیا ہی اچھا مدد گا ر ہے ۔۳۹؎
۳۹ ؎ حل لغات :
جَاھَدُوْ ا: جَاھَدَ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مُجَاھَدَۃً وَ جِھَادًا کے معنے ہیں بَذَلَ وُسْعَہ‘ ۔اللہ تعالیٰ کے راستہ میں اُس نے پوری کوشش صرف کی ۔اور جب جَاھَدَ الْعَدُوَّ کہیں تو معنے ہونگے قَاتَلَہ‘ دشمن سے لڑائی کی ( اقرب ) جَاھَدُوْا امر کا جمع کا صیغہ ہے ۔اس لئے اس کے معنے ہونگے اللہ کے دین کیلئے پوری کوشش صرف کرو ۔
مفردات میں ہے ۔اَلْجِھَادُ وَالْمُجَاھَدَۃُ اِسْتِفْرَاغُ الْوُسْعِ فِی ْ مُدَافِعَۃ ِ الْعَدُوِّ ۔یعنی دشمن کے مقابلہ کے لئے اپنی ساری کوشش صرف کرنے کا نام جہاد اور مجاہدہ ہے ۔وَالْجِھَادُ ثَلَاثَۃُ اَضْرُبٍ اور جہاد کا لفظ اسلامی نقطۂ نگاہ سے تین معانی کیلئے استعمال ہوتاہے ( ا) مُجَاھَدَۃُ الْعَدُ وِّ الظَّاھِرِ ظاہر دشمن کا مقابلہ ( ۲) مُجَاھَدَۃُ الشَّیْطَانِ ۔شیطان کا مقابلہ ( ۳) وَمُجَاھَدَۃُ النَّفْسِ ۔نفس کو بدی سے روکنے اور نیکی پر لگانے کے لئے نفس کا مقابلہ ۔
امام راغب ؒ لکھتے ہیں ۔وَتَدْخَلُ ثَلَاثَۃ’‘ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالَی وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ کہ آیت وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ میں مذکورہ بالا تینوں معانی مدنظر رکھے گئے ہیں ( مفردات )
اِجْتَبٰکُمْ : اِجْتَبَاہُ کے معنے ہیں اِخْتَارَہ‘ وَاصْطَفٰہُ ۔اُس کو چُن لیا ( اقرب) پس اِجْتَبٰکُمْ کے منعے ہونگے اُس نے تمہیں چن لیا ہے ۔حَرَج’‘ : مفردات میں ہے کہ قِیْلَ لِلضَّیْقٍ حَرَج’‘ وَلِلِاثْمِ حَرَج’‘ ۔یعنی تنگی کو بھی حرج کہتے ہیں اور گناہ کو بھی ۔
اِعْتَصِمُوْا : اِعْتَصَمَ بِہٖ کے معنے ہیں اَمْسَکَہ‘ بِیَدِہ ٖ ۔اس کو ہاتھ سے پکڑ لیا اور اِعْتَصَمَ بِا اللّٰہِ کے معنے ہیں ۔اِمْتَنَعَ بِلُطْفِہٖ مِنَ الْمَعْصِیَۃِ ۔اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کے کرم سے معصیت سے پنا ہ میں آگیا ۔اور جب اِعْتَصَمَ فُلَان’‘ مِنَ الشَّرِّ وَالْمَکْرُوْہِ کہیں تو معنے ہوں گے اِلْتَجَأ وَامْتَنَعَ ۔اُس نے معصیت سے بچنے کیلئے پناہ چاہی ( اقرب) پس اِعْتَصِمُوْا کے معنے ہونگے گناہ سے بچنے اور مصائب سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہو ۔
تفسیر :
فرماتا ہے ۔صرف مُنہ کے ایمان پر کفایت نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں پوری طرح عملًا کوشش کرتے رہو۔کیونکہ اُس نے تم اس وقت دین کے معاملہ میں باقی قوموں میں سے چُن لیا ہے اور دین بھی تم کو وہ دیا ہے جس میں کوئی تنگی نہیں بلکہ وہ صراط مستقیم کے پانے میں مدد گار ہے کوئی ناقابلِ برداشت بوجھ نہیں۔مفسرین نے وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الَّدِیْنِ مِنْ حَرَجٍ پر بحث کی ہے کہ اس سے مراد کیا ہے کہ اُس نے دین کے بارے میں تم پر کوئی تنگی نازل نہیں کی اور انہوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد قصرِ صلٰوۃ ہے یعنی اسلام اجازت دیتا ہے کہ سفر میں انسان نماز قصر کر لے بعض کہتے ہیں کہ اس سے کثرت ازدواج اور مسافر کے لئے روزہ کی رخصت کی طرف اشارہ ہے ۔بعض کہتے ہیں اس میں بیمار کیلئے بیٹھ کر نماز پڑھنے اور ناقابل پر جہاد فرض نہ ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔یہ سب باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہو سکتی ہیں ۔لیکن یادرکھنا چاہئیے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے مِنْ حَرَجٍ فرمایا ہے یعنی اُس نے کسی قسم کی کوئی تنگی نہیں رکھی ۔پس اس میں کسی ایک قسم کی تنگیوں کی طرف اشارہ کیا گیا بلکہ ساری قسم کی تنگیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔اور اصل مضمون جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت اس لئے نازل نہیں ہوئی کہ وہ انسان پر بوجھ ڈالے بلکہ شریعت لوگوں کے بوجھوں کو ہلکا کرنے کیلئے نازل ہوئی ہے عیسائیوں نے غلطی سے یہ کہہ دیا کہ شریعت *** ہے ۔حالانکہ شریعت تو ایک ہدایت نامہ کے طور پر ہوتی ہے اور نبی ہادی اور راہنما ہوتا ہے ۔اب کوئی احمق ہی ہوگا جو کسی ہدایت نامہ کو *** قرار دے یا طب کی کتابوں میں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ فلاں چیز زہر ہے اور اگر فلاں زہر کوئی شخص کھا لے تو اُس کا یہ یہ تریا ق ہے ۔اب کون شخص ہے جو ایسی کتابوں کو *** قرار دے سکے ۔ایسی کتابیں ہمیشہ سکھ اور آرام کا موجب ہوا کرتی ہیں نہ کہ تکلیف کا ۔اسی طرح شریعت میں روحانی اور جسمانی آفات سے بچنے کے طریق بتائے جاتے ہیں اور جو مصائب آچکے ہوں اُن کو دُور کرنے کی تدابیر سمجھائی جاتی ہیں ۔چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَیَھْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَیَتُوْبَ عَلَیْکُمْ وَاللّٰہُ عَلِیْم’‘ حَکِیْم’‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًا ( النساء ع ۵) یعنی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ تمہارے لئے تمام مسائل کو خوب کھو کھو ل بیان کر دے اور تمہیں بتادے کہ تم فلاں کام کرو گے تو فائدہ اٹھائو گے اور فلاں کرو گے تو نقصان اٹھائو گے ۔پھر فرماتا ہے تم سے پہلے بھی کچھ قومیں گذری ہیں اُن میں سے بعض نے اپنے اعمال کی وجہ سے سُکھ پایا تھا اور بعض نے دُکھ ۔خدا چاہتا ہے کہ اُن کی باتیں بھی تمہیں کھو ل کھول کر سُنا دے اور ان لوگوں کا راستہ بھی بتا دے جو ہلاکتوں سے بچ گئے تھے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن کے حالات کو اچھی طرح جاننے والا اور ہر کام کی حکمت کو سمجھنے والا ہے ۔اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم پر شریعت کے ذریعہ اپنی رحمت کو کامل کرے مگر وہ لوگ جو اپنی خواہشاہت کی پیروی کرنیوالے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم ایک ہی طرف سارے کے سارے جھک جائو ۔یعنی اعتدال اور میانہ روی کو ترک کر دو اور ایک ہی پہلو کو اختیار کرلو ۔پھر فرما تا ہے ۔یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْکُمْ وَخُلِقُ الْاِنْسَانَ ضَعِیْفًا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ تمہارے بوجھوں کو ہلکا کر دے کیونکہ انسان فطرتی طور پر سخت کمزور پیدا کیا گیا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ اگر اسے کوئی ہدایت نامہ نہ دیا گیا تو وہ سخت نقصان اٹھائیگا ۔پس شریعت کی غرض انسان کے بوجھوں کو کم کرنا اور اُسے ہر قسم کے خطرات اور مصائب سے بچانا ہے۔ اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ میں بیان فرمائی ہے کہ یہ دین جو تمہارے لئے نازل کیا گیا ہے اس میں کوئی بھی حکم ایسا نہیں جو تمہیں کسی مشکل میں مبتلا کر دے ۔چھوٹے سے چھوٹے حکم سے لیکر بڑے سے بڑے حکم تک کو دیکھ لو۔ہر حکم انسان کیلئے برکت اور رحمت کا باعث ہے ۔
پھر فرماتا ہے ۔مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ یہ تمہارے دادا ابراہیم ؑ والادین ہی ہے کوئی نیا دین نہیں کہ اس کا اختیار کرنا تم پر دو بھر ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا ۔اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ سے پہلے اور اس کتاب میں بھی تمہارا نام مسلم رکھا ہے ۔لَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ تا کہ محمد رسول اللہ ﷺ اپنے عمل سے تم پر گواہی دیں کہ وہ موعود ابراہیم ؑ اور موعود انبیاء سابقین ہیں ۔وَتَکُوْنُوْا شُھَدَٓائَ عَلیَ النَّاسَ اور تم بھی دوسری قوموں کے لئے ہمیشہ اس بات کے گواہ بنتے چلے جائو کہ تم ہی اس نئے نام کے مصداق ہو۔جس کی صُحفِ سابقہ میں خبر دی جا چکی ہے ۔
اس آیت میں ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ کے الفاظ میں جس پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔وہ یسعیاہ نبی کی کتاب میں ان الفاظ میں پائی جاتی ہے کہ ’’ تو ایک نئے نام سے کہلایا جائیگا جو خداوند کا مُنہ تجھے رکھ دیگا ۔‘‘
( یسعیاہ باب ۶۲ آیت ۲)
اسی طرح انہوں نے فرمایا تھا ’’ تم اپنا نام اپنے پیچھے چھوڑو گے جو میرے برگزیدوں پر *** کا باعث ہوگا کیونکہ خداوند یہوداہ تم کو قتل کر ے گا اور اپنے بندوں کو دوسرے نام سے بُلائیگا ۔‘‘ ( یسعیاہ باب ۶۵ آیت ۱۵)
یسعیاہ نبی کی اس پیشگوئی کو بائیبل نویسوں نے کلیسیا پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔حالانکہ مسیحیوں کو کوئی نام خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں ملا ۔اسی طرح مختلف مسیحی فرقوں نے جو اپنے اپنے نام رکھے ہوئے ہیں وہ بھی اُن کے اپنے تجویز کردہ ہیں ۔خداتعالیٰ نے اُن کے یہ نام نہیں رکھے ۔ساری دنیا میں صرف ایک ہی قوم ہے جس کو خداتعالیٰ کی طرف سے نام ملا اور وہ مسلمان ہیں ۔ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ میں اسی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔اور فِيْ ھٰذَا میں حضرت ابراہیم ؑ کی اس قرآنی دعا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے ان الفاظ میں کی کہ رَبَّنَا وَاجْعَلَنَا الْمُسْلِمِیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃُ مُّسْلِمَۃً لَّکَ ( بقرہ ع ۱۵) یعنی اے ہمارے رب مجھ ابراہیم ؑ کو اور میرے بیٹے اسمٰعیل ؑ کو اپنے حضور میں مسلم قرار دے ۔اسی طرح ہماری اولاد میں سے بھی ایک بڑی جماعت پیدا کر جو تیرے حضور میں مسلم کہلائے ۔چنانچہ محمد رسول اللہ ﷺ نے ان پیشگوئیوں کے مطابق دنیا میں اعلان فرما دیا کہ خداتعالیٰ نے میری امت کا نام مسلم اور میرے مذہب کا نام اسلام رکھا ہے ۔یہ نام اپنے اندر ایسی گہری حکمت اور فلسفہ رکھتا ہے کہ اگر غور سے کام لیا جائے تو اس نام میں ہی اسلام کی غرض وغایت پوری وضاحت سے بیان کر دی گئی ہے ۔عربی زبان کی خصوصیات میں سے یہ ایک عجیب خصوصیت ہے کہ اس میں صرف الفاظ کے معنے نہیں ہوتے بلکہ حروف کے بھی معنے ہوتے ہیں ۔اسی طرح اس زبان میں جو لفظ کسی خاص شے کیلئے وضع کیا گیا ہو وہ صرف اس چیز کیلئے بطور علامت نہیں ہوتا بلکہ وہ نام کسی خاص مناسبت کی وجہ سے رکھا جاتا ہے اور وہ نام ہی بتا دیتا ہے کہ اُس چیز میں وہ کونسی خصوصیت ہے جسکی وجہ سے اُس کا فلاں نام رکھا گیا ہے ۔مثلاً اردو میں ایک لمبی چیز کو لمبی کہیں گے ۔ماں کو ماں کہیں گے ۔باپ کو باپ کہیں گے مگر ان الفاظ سے یہ پتہ نہیں لگے گا کہ ان میں وہ کیا امتیازی بات ہے جس کی وجہ سے انہیں اس نام سے مخصوص کیا گیا ہے ۔اور اگر ہم ان لفظوں کی بجائے اور لفظ رکھ دیں تب بھی ہمارے مطلب اور مدعا میں کوئی نقص واقع نہیں ہوگا ۔مثلاً اگر چھوٹی چیز کو لمبی کہنے لگیں اور لمبی کو چھوٹی ۔اور یہی چیز رائج ہو جائے تو اس سے اردو زبان میں کوئی نقص واقع نہیں ہوگا ۔لیکن عربی زبان کا یہ حال نہیں ۔اس میں اگر طویل کو قیصر کہنے لگیں تو یہ کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا کیونکہ طَ وَ لَ جن معنوں پر دلالت کرتے ہیں قَ صَ رَ ان معنوں پر دلالت نہیں کرتے ۔غرض دوسری زبانوں میں تو چیزوں کے نام صرف علامت کے طور پر ہیں ۔اگر انکو بدل کر اَور لفظ بھی رکھ دئیے جائیں تو کوئی حرج واقع نہیں ہوتا لیکن عربی زبان میں ہر ایک نام نہ صرف علامت کے طور پر ہوتا ہے بلکہ اس چیز کے کسی خاص امتیاز پر بھی دلالت کرتا ہے اور اس وجہ سے ایک لفظ کی بجائے ہم دوسرا لفظ نہیں رکھ سکتے۔خد اتعالیٰ نے اسلام کیلئے بھی ایسا ہی نام چُنا ہے جو اپنے اندر بڑی بھاری خوبیاں اور حکمتیں لئے ہوئے ہے۔چنانچہ سَ لَام مَیم جو اسلام کے اصلی حروف یا روٹ ہیں عربی زبان میں جہاں بھی اکٹھے ہونگے وہاں ان کے معنوں میں حفاظت کے معنے ضرور پائے جائیں گے ۔اور پھر یہ حروف جس شکل میں بھی بدلتے چلے جائیں اُن سب صورتوں میں حفاظت کے معنے بد ستور پائے جائینگے ۔مثلاً اسلام ہے اس کے معنے فرمانبرداری کے ہیں اور ان معنوں میں حفاظت لازمی طور پر پائی جاتی ہے ۔کیونکہ جب کوئی شخص کسی بڑے آدمی کی فرمانبرداری کرتا ہے اور اس کی بات مان لیتا ہے تو طبعی طور پر وہ اُن تکالیف سے محفوظ ہو جاتا ہے جو اس بڑے آدمی کی طرف سے پہنچ سکتی ہیں ۔اور پھر اُسی کے مال و جان کی حفاظت کی جاتی ہے جو مطیع و منقاد ہو ۔چنانچہ جو لوگ باغی ہو تے ہیں وہ گورنمنٹ کی حفاظت میں نہیں ہوتے ۔بلکہ گذشتہ زمانہ میں تو ایسے لوگ آئوٹ آف لاز کہلاتے تھے ۔اور اُن کو اگر کوئی قتل بھی کر دیتا تھا تب بھی گورنمنٹ کوئی گرفت نہیں کرتی تھی پھر سَلْم’‘ ہے ۔جس کے معنے آفات اور مصائب سے بچنے کے ہیں ۔اسی طرح سَلَمَ الْجِلْدَ کے معنے ہیں سلم سے چمڑے کی دباغت کر دی ۔اور دباغت بھی چمڑے کو گلنے سے بچانے کیلئے کرتے ہیں ۔پس اس میں بھی حفاظت کے معنے شامل ہیں ۔اسی طرح کہتے ہیں سَالَمَہ‘ جس کے معنے ہوتے ہیں اس سے مصالحت کی اور صلح کرنے میں بھی حفاظت مدنظر ہوتی ہے ۔اسی طرح کہتے ہیں تَسَلَّمَ الشَّیْئَ فلاں چیز کو اُس نے پکڑ لیا اور اُس پر قبضہ کر لیا اور جب کوئی چیز قبضہ میں آجاتی ہے تو وہ بھی حفاظت میں ہو جاتی ہے ۔اسی طرح اِسْتَلَمَ الزَّرْعُ کا محاورہ ہے جس کے معنے ہیں ۔کھیتی نے استیلام کیا ۔یعنی کھیتی میں دانہ پڑ گیا ۔اس میں بھی حفاظت کے معنے ہیں کیونکہ جب تک کھیتی میں دانہ نہ پڑے اُس وقت تک کسان اُس پر مطمٔن نہیں ہوتا ۔اور جب دانہ پڑ جائے تو پھر ایک حد تک وہ اُسے محفوظ خیال کرتا ہے ۔پھر سَلَام’‘ خدا کا نام ہے جو ہر قسم کے نقص اور عیب سے پاک ہے۔پھر اشتقاق کے لحاظ سے آگے چلیں تو اشقاق کبیر میں سَلْم کا لفظ سَمَلْ بن جائیگا جس کے معنے صلح کرانے اور حوض سے گند نکال کر صاف کرنے کے ہیں ۔لَمْس’‘ چھُونے کو کہتے ہیں ۔اس میں بھی حفاظت کے معنے شامل ہیں کیونکہ وہ تمام باتیں جن کو انسان محفوظ کرتا ہے اپنے حواس سے ہی کرتا ہے جن میں سے ایک لمس بھی ہے ۔پھر مَسَلَ الْمَائُ کے معنے ہوتے ہیں پانی بہ پڑا ۔جب پانی بہ کر کھیتی میں پہنچتا ہے تو کھیتی کی حفاظت کرتا ہے اور اُسے خشک ہونے سے بچاتا ہے ۔اسی طرح لَسْم’‘ ہے ۔اس کے معنے چُپ رہنے کے ہیں اور یہ ضر ب المثل مشہور ہے کہ ’’ نِکلی ہونٹوں چڑھی کوٹھوں ۔‘‘ حفاظت اور امن جو خاموشی میں نصیب ہوتا ہے اُس کو ہر ایک جانتا ہے ۔مَلْس’‘ مداہنت کو کہتے ہیں اور مداہنت کی غرض ہمیشہ یہی ہوتی ہے کہ کسی شخص کے شر سے چکنی چپڑی باتیں کرکے انسان محفوظ ہو جائے ۔غرض سَ لَام مَیم یہ تینوں حروف آگے پیچھے ہو کر جس طرح بھی آئیں عربی زبان میں ان کے معنے حفاظت کے ہی ہوتے ہیں ۔پس اسلام کے معنے یہ ہوئے کہ ایسے افعال بجا لانا جن سے انسان ہلاکت سے محفوظ ہو جائے ۔گویا اس نام میں ہی اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کی غرض بتا دی ہے جو یہ ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے غضب سے محفوظ ہوجائیں اور آپس کے لڑائی جھگڑوں سے نجات پا جائیں ۔یعنی ایک طرف تو ان کا اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق قائم ہو جائے اور دوسری طرف وہ نبی نوع انسان سے ایسا اچھا سلوک رکھیں کہ اُن میں باہم محبت اور یگانگت پیدا ہو جائے اور فتنہ و فساد دنیا سے مٹ جائے ۔اور ایک سچا مذہب انہی دو اغراض کا حامل ہوتا ہے ۔یعنی ایک طرف تو وہ تعلق باللہ کے پہلو کو مضبوط کرتا ہے اور دوسری طرف وہ شفقت علیٰ خلق اللہ کی طرف بنی نوع انسان کو توجہ دلاتا ہے ۔اور جب اس کی تعلیم کے نتیجہ میں لوگوں کا خدا تعالیٰ سے بھی تعلق ہو جائے اور بنی نوع انسان سے بھی وہ شفقت کرنے لگیں تو نہ خداتعالیٰ کی طرف سے انہیں کسی ناراضگی کا ڈر ہو سکتا ہے اور نہ بنی نوع انسان کی طرف سے انہیں کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔اور اس طرح وہ روحانی اور جسمانی دونوں رنگ میں محفوظ ہو جاتے ہیں ۔غرض اس نام میں ہی اللہ تعالیٰ نے مذہب کی ساری حقیقت بیان کر دی ہے ۔اور بتا یا ہے کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس میں خداتعالیٰ کے حقوق بھی کامل طور پر ادا کئے گئے ہیں اور بنی نوع انسان کے حقوق کا بھی اس میں پورا لحاظ رکھا گیا ہے ۔
ہر انسان کا پہلا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہوتا ہے ۔پس وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بن جاتا ہے وہ مسلم ہوتا ہے کیونکہ وہ خداتعالیٰ کے احکام کے آگے اپنے آپ کو کلیۃً ڈال دیتا ہے اور یہی اسلام کی توضیح او ر اس کی صحیح تشریح ہے دوسرا تعلق انسان کا اپنی ذات اور بنی نوع انسان سے ہوتا ہے ۔پس جو شخص اپنی ذات کو فتنوں میں پڑنے سے بچا لیتا ہے۔شرارتوں میںپڑنے سے بچا لیتا ہے ۔بد دیانتوں ،خیانتوں اور ظلموں میں پڑنے سے بچا لیتا ہے ۔جھوٹ ، فریب۔دغا ۔بغض اور کینہ سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے ۔وہ بھی مسلم ہے کیونکہ اُس نے اپنی جان کو سلامتی عطا کی ۔اسی طرح جو شخص اپنی قوم کے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ بھی مسلم ہے ۔جو شخص اپنے ہمسائیوں اور رشتہ داروں کو امن دیتا اور فساد اور خونریزی اُن کیلئے پیدا نہیں کرتا وہ بھی مسلم ہے ۔مگر جو شخص اس کے خلاف عمل کرتا ہے وہ غیر مسلم ہے چاہے وہ رات دن اپنے آپ کو مسلم کہتا رہے کیونکہ نام کے ساتھ کوئی چیز بدل نہیں جاتی ۔ہم دیکھتے ہیں بچے بعض دفعہ ایسی حالت میں جبکہ اُن کے ہاتھ میں کوئی چیز نہیں ہوتی کھیلتے ہوئے دوسرے بچے کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں لو میں تمہیں آم دیتا ہوں ۔تم کھا لو یا پیسہ دیتا ہوں تم لے لو ۔حالانکہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا ۔اب بچوں کا ایسا فعل ایک مذاق کے طور پر تو کام آسکتا ہے ۔یہ فائدہ تو ہو سکتا ہے کہ ماں با پ یا بھائی وغیرہ ہنس پڑیں ۔یا جس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ایسا کیا جاتا ہے وہ ہنس پڑے اور سمجھے کہ مجھ سے مذاق کیا گیا ہے لیکن اس سے کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہو سکتا ۔خیالی طور پر تم کسی کو دنیا کی بادشاہت بھی بخش دو تو اُس کے حالات میں کوئی تغّیر نہیں آئے گا ۔لیکن حقیقی طور پر اگر تم کسی کو ایک پیسہ بھی دے دو تو وہ اُس سے فائدہ اُٹھالے گا۔یہی حال ایمان کا ہے ۔اگر کوئی شخص صرف اسلام کے نام سے کام لے تو وہ دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتا ۔لیکن اگر وہ اسلام کے مفہوم کے مطابق تھوڑا سا بھی عمل کر ے تو بہت کچھ فائدہ حاصل کر سکتا اور دوسروں کو بھی حقیقی فائدہ پہنچا سکتا ہے ۔
سورۃ مومنون مکیۃ
وَھِیَ مَعَ الْبَسْمَلَۃِ مِائَۃ’‘۔۔۔۔۔۔اٰیَۃً وَّسِتَّۃُ رُکُوْعَاتٍ ہ
ترجمہ() اور بسم اللہ سمیت اس کی ایک سو انیس آیات اور چھ رکوع ہیں۔ ۱ ؎
۱؎ قرطبی کا قول ہے کہ یہ ساری سورۃ مکی ہے اور اس میں کسی شخص نے اختلاف نہیں کیا (تفسیر قرطبی) اس کی آیتیں بصریوں کے نزدیک 119اور کوفیوں کے نزدیک 118ہیں(ہمارے نزدیک بھی اس سورۃ کی آیتیں 119ہیںلیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بسم اللہ کو بھی ہر سورۃ کا حصہ سمجھتے ہیں۔دوسرے مفسرین بسم اللہ کو سورۃ کے اندر رکھنا تو ضروری سمجھتے ہیں لیکن اس کو سورۃ کا حصہ نہیں سمجھتے۔ہمارے نزدیک اوپر کی دونوں وجوہ کی موجودگی میںاس کو سورۃ کا حصہ نہ سمجھنا مضحکہ خیز ہے ۔پس بسم اللہ کی بعد کی آیتوں کے متعلق تو ہمیں کوفیوں سے اتفاق ہے کہ 118ہیں لیکن بسم اللہ کو ملا کر 119آیتیں ہیں ۔
اس اختلاف کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک کوئی آیت کم یا زیادہ ہے بلکہ صرف اتنا مطلب ہے کہ ایک فریق نے ایک آیت کو دو آیتیں قرار دیا ہے اور دوسرے فریق نے اُن آیات کو ایک آیت قرار دیا ہے ۔بصریوں کے نزدیک ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی وَاَخَاہُ ھَارُوْنَ بِاٰیٰتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ (آیت۴۶)پوری آیت ہے اور کوفیوں کے نزدیک یہ آیت پوری نہیں بلکہ اگلی آیت کا حصہ ہے چونکہ انہوں نے اسے اگلی آیت کا حصہ قرار دیا ہے اس لئے انہوں نے ایک آیت کم شمار کی ہے ۔مسیح پادری چونکہ ان باتوں سے واقف نہیں۔ان میں سے بعض نے ایسے حوالہ جا ت سے یہ نتیجہ نکالہ ہے کہ قراان کریم کی حفاظت مشتبہ ہے ۔کیونکہ بعض لوگ اس آیتیں زیادہ بتاتیں ہیں اور بعض کم بتاتے ہیں حالانکہ جیسا کہ اوپر کے حوالہ سے ثابت ہے یہ کمی بیشی حقیقی نہیں بعض آیتوں کی تعیین کی وجہ سے کمی بیشی ہو گئی ہے ۔بعض لوگوں نے مضمون کے لحاظ سے ایک عبارت کو پوری آیت قرار دے دیا ہے اور بعض نے اس کو آدھی آیت قرار دے کر دوسی کا حصّہ سمجھ لیا ہے۔اس وجہ سے لازماًسورۃ کی آیتوں کے شمار میں فرق پڑ گیا ہے ۔ورنہ مضمون سارے کا سارا ایک ہے۔ہر لفظ دونوں کے نزدیک مسلّم ہے۔ایک ھرف کی بھی کمی بیشی سارے قرآن میں نہیں مگر اس جہالت کو کیا کیا جائے کہ بغیر تحقیق کے بعض لوگ رائے زنی شروع کر دیتے ہیں۔
زمانہ سورۃ یہ سورۃ اپنے مضمون کے لحاظ سے ہجرت سے پہلے کے آخری دور کی ہے ۔چنانچہ علاہ جلال الدین ؔسیوطی ؒاس کو مکّی سورتوں میں سب سے آخری سورۃ کہتے ہیں ۔بعض لوگ اس کو مدنی سورۃ بھی قرار دیتے ہیں ۔لیکن اُن کو رائے جمہور علمائکے نزدیک کچھ وقعت نہیں رکھتی ۔
ریونڈ وہیری اس کو چھ اور سات سال بعد نبوت کے زمانہ کی قرار دیا ہے ۔لیکن زیادہ
درست یہی ہے کہ یہ سورۃ ہجرت کے قریب زمانہ میں مگر اس سے پہلے نازل ہوئی خواہ یہ آخری سورۃ نہ ہو جیسا کہ علامّہ جلال الدین سیوطیؒ نے کہا ہے۔
اس سورۃ میں اس بات پر خاص زور دیا گیا ہے کہ مومن کامیاب ہونے والے ہیں اور اُن کی کامیابی کا زمانہ قریب آگیا ہے ۔دوسرے اس میں زکوٰۃ پر بھی خاص طور پر زور ہے۔یہ تین مضمون ایسے ہیں جو مدنی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔پس ان کے پورا ہونے کا زمانہ قریب آگیا تھا۔وہیری کی رائے کہ چھٹے یا ساتویں سال بعد نبوت میں یہ نازل ہوئی ہمارے لئے بہت ہی مفید ہے کیونکہ اس رائے کو مان لینے سے پیشگوئی کی قدر اور بھی بڑھ جاتی ہے مگر اسلامی روایات اور سورۃ کے مضمون کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ سورۃ ہجرت سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے نازل ہوئی تھی لیکن ہم وہیری کی تصدیق کرنے کی جرأت نہیں کرتے کہ یہ چھٹے یا ساتویں سال بعد نبوت نازل ہوئی تھی ۔
ترتیب مضامین اس سورۃ کا قریبی تعلق پہلی سورۃ سے یہ ہے کہ سورۃ حج کے آخرمیں فرمایا تھا کہ اے مومنو! خدا تعالیٰ کی طرف جھکو اور اس کی اطاعت کرو تو تم کامیاب ہو گئے ۔اسی طرح جہاد بالسیف کے وقت میں جہاد بالسیف کرو اور جہاد بالدعوۃ کے موقعہ پر جہاد بالدعوۃ کرو۔اور یہ متبادل حکم کہ کبھی جہاد بالسیف اور کبھی جہاد بالدعوۃ ہم نے اس لئے دیا ہے کہ دین کے بارہ میں ہم نے کوئی تنگی نہیں رکھی یعنی نہ غیر مومنوں پر جبر جائز رکھا ہے اور نہ مومنوں کو اُن کی ضمیر کے خلاف کوئی حکم دیا ہے۔پھر بتایا گیا تھا کہ جہاد فی الدین کے نتیجہ میں تم کو نمازیں پڑھنی چاہئیں ۔زکوٰتیں دینی چاہئیںاور خداتعالیٰ کا دامن اس زور سے تھام لینا چاہئیے کہ وہ یارِ یگانہ تم سے کبھی جدا نہ ہو۔اگر تم ایسا کرو گے تو لازمًا وہ تمہارا مددگار ہوگااور تمہارے کام پورے کریگا۔ان آیات میں مشروط طور پر بتایا گیا تھا کہ اگر تم ایسا کرو گے تو کامیاب ہو جائو گے اور خداتعالیٰ کی مدد حاصل کروگے ۔سورۃ المومنون میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں میں ایسی جماعت پیدا ہوگی اور وہ جماعت ضرور کامیاب ہو جائیگی۔گویاجو بات پہلے فرضی طور پر تسلیم کی گئی تھی اب اُس کے واقعہ ہوجانے کادعویٰ کیاہے۔یہ سورۃ درحقیقت گریز ہے پہلی سورتوں کے مضمون سے ۔پہلی سورتوں میں مسیحیت کی تعلیم اور اُس کی غلطیوں اور اس کی اصلاح کا ذکر تھا ۔اس سورۃ میں بھی مسیحیت کی تعلیم کا ہی رد ہے لیکن ساتھ ہی اس امر کی طرف بھی زوردار اشارہ کیا گیا ہے کہ مسیحیت کی جگہ اب ا سلام نے لے لی ہے ۔اور اس کی غلطیوں اور کمزوریوں کی اصلاح کرکے اب اسلام انسانوں کو کامیابی کی منزلیں طے کرائے گا جبکہ مسیحیت جاوۂ توحید سے ہٹ جانے کی وجہ سے اب وہ آسمانی ثمرات نہیں کھلا سکے گی جو اس کے ذریعے سے انسان پہلے زمانہ میں کھایا کرتا تھاکیونکہ اللہ تعالیٰ انسانوں سے اُس ایمان کے مطابق سلوک کرتا ہے جو ان کے دل میں ہوتا ہے یا جس پر اُن کا عمل ہو ۔نہ اس کے مطابق جس کا وہ زبانی دعویٰ کرتے ہوں۔
خلاصہ مضمون اس سورۃ میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم پر ایمان لانے والے لوگوں کی کامیابی کا وقت قریب آگیا ہے۔
(آیت ۱،۲)
ان سچے مومنوں کی علامتیں یہ ہونگی کہ
(۱) وہ خداتعالیٰ کی عبادت ظاہر داری سے نہیں کریں گے۔
(۲) وہ ایسے تمام کاموں سے بچیں گے جن سے اُن کی ذات یا قوم یا ملک کو کوئی فائدہ نہ پہنچتا ہو۔
(۳) وہ اپنے ملک کی ترقی کیلئے ہر قسم کی قربانیاں کرنے کیلئے تیار رہیں گے ۔
(۴) وہ اپنے ان تمام راستوں کو بند کریں گے جن کے ذریعہ سے خرابیاں انسانی قلب میں داخل ہوتی ہیں ۔خصوصًا وہ اپنی عصمت کی حفاظت کریں گے ۔سوائے آزاد بیویوں یا مملوکہ بیویوں کے ۔ایسی صورت میں اُن پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔
(۵) جو ذمہ داریاں اُن کے سپرد کی جائیں گی اُن کو وہ پورا کریں گے اور جو معاہدے وہ دوسری قوموں سے کریں گے اُن کو وہ توڑیں گے نہیں ۔
(۶) وہ اجتماعی عبادتوں کی خاص طور پر حفاظت کریں گے یعنی ملت یا قومیت کاجذبہ اُبھاریں گے اور انفرادیت کو ملت کے تابع کر دیں گے ۔ایسے لوگ اُن انعامات کے وارث ہونگے جن کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اور وہ اسی دنیا میں وہ جنتیں پائیں گے جن کی مومنوں کو خبر دی گئی ہے ۔اور ہمیشہ ہمیش کیلئے خداتعالیٰ کے انعاموں کے وارث ہونگے ۔
یہ روحانی تخلیق ہے جو بالکل جسمانی تخلیق کے متوازی ہے ۔انسان کی جسمانی تخلیق بھی اسی طرح ہوئی ہے ۔انسان کو ہم نے مٹی سے نکلے ہوئے ایک خلاصہ سے پیدا کیا ہے (یعنی اُن خوراکوں سے جو زمین سے پیدا ہوتی ہیں)پھر ہم نے اس کو نطفہ کی شکل میں تبدیل کر دیا۔اور وہ نطفہ ایک ایسی جگہ پر ٹکاجہاں اُس کیلئے نشوونما کا موقع تھا۔پھر ہم نے اُس نطفہ کو ایک جمے ہوئے خون کی شکل میں بدل دیا ۔پھر اُس جمے ہوئے خون سے ہم نے گوشت کی بوٹی تیا ر کی ۔پھر ہم نے اس بوٹی کے ساتھ ہڈیاں بنائیں ۔پھر اُن ہڈیوں پر ہم نے گوشت چڑھایا۔اسکے بعد وہ پیدائش ایک نئی چیز بن گئی ۔یعنی انسان کی شکل اختیار کر گئی ۔
(آیت ۳ تا۱۵)
پھر فرمایا ہے کہ جس طرح تم جسمانی پیدائش کے بعد مر جاتے ہو اور پھر قیامت کے دن تم کو اُٹھایا جائیگا اسی طرح روحانی پیدائش میں بھی تم پر یہ بات آتی رہتی ہے کہ قومیں پیدا ہوتی ہیں اور مر جاتی ہیں ۔اور پھر اُن کی جگہ دوسری قومیں کھڑی ہو جاتی ہیں ۔
( آیت ۱۶۔۱۷)
پھر فرمایا ہے کہ ہم نے تمہاری جسمانی اور روحانی ترقیات کو سات حصوں میں تقسیم کیا ہے( چنانچہ پہلی آیات میں جسمانی پیدائش کو بھی سات حصوں میں تقسیم کیا ہے اور روحانی پیدائش کو بھی سات حصوں میں تقسیم کیا ہے ) اورہم مخلوق سے غافل نہیں ہیں ۔
( آیت ۱۸)
اور ہم نے آسمان سے اندازے کے مطابق پانی اتارا ہے ،پھر ہم اس کو زمین میں قائم رکھتے ہیں ۔(یعنی جسمانی پانی بھی اندازے کے مطابق اترتا ہے ) اور ہم اس کے ضائع کر دینے پر قادر ہیں یعنی محض کسی تعلیم کا خدائی ہونا اس بات کا ثبوت نہیں ہوتا کہ وہ کبھی خراب نہیں ہوگی ۔
( آیت ۱۹)
اور ہم نے تمہارے لئے باغات بنائے ہیں ۔کھجور کے بھی اور انگوروں کے بھی ۔اور اُن میں تمہارے لئے بہت سے پھل پیدا کئے ہیں جن کو تم کھاتے ہو اورذیتون کا وہ درخت بھی ہم نے بنایا ہے جو طورِ سینا سے نکلتا ہے ۔جس میں سے تیل بھی پیدا ہوتا ہے اور کھانے والوں کیلئے سامان بھی تیار ہوتے ہیں ( اس کا ذکر سورۂ نور کی آیت نمبر۳۶ میں کیا گیا ہے ) اور ہم نے تمہارے لئے چارپائے بنائے ہیں وہ بھی تمہارے لئے ایک نشان ہیں ۔اُن کے پیٹوں میں سے نکلی ہوئی چیز یعنی دودھ کو تم پیتے ہو۔اس کے علاوہ بھی تمہارے لئے ان میں بہت سے منافع ہیں اور تم اُن کا گوشت بھی کھاتے ہو ۔اور تم اُن جانوروں پر بھی کشتیوں پر بھی سواریاں کرتے ہو۔یعنی اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسانی زندگی کیلئے بہت سی آرام اور ترقی دینے والی اشیاء پیدا کی ہیں اسی طرح اُس نے روحانی زندگی کیلئے بھی مختلف قسم کی چیزیں پیدا کی ہیں ۔جو شخص جسمانی راحت دینے والی چیزوں کو اختیار کرتاہے اور روحانی راحت دینے والی چیزوں کو اختیار نہیں کرتا اور اُن کو *** سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے وہ عقلمند نہیں بیوقوف ہے ۔
( آیت ۲۰ تا ۲۳)
اس کے آگے حضرت نوحؑ کی مثال بیان فرماتاہے کہ وہ بھی اپنے زمانہ میں فلاح کا رستہ دکھانے کیلئے آئے تھے اور انہوں نے بھی یہی تعلیم دی تھی کہ خدا ایک ہے دو نہیں ہیں ۔لیکن اُن کی قوم نے انکارکیا اورمحض اس لئے انکار کیا کہ وہ ایک انسان ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں (لیکن پہلوں نے تو اس لئے نبیوں کا انکار کیا کہ کیوں ایک انسان اُن میں نازل ہوا۔اور مسیح ؑ کے بعد لوگوں نے اس لئے ایک نبی کا انکار کیا کہ خدا کا بیٹا اُن میں آچکا ہے اس لئے انہیں کسی انسان کی ضرورت نہیں ہے ۔حالانکہ ماننے کے قابل وہی بات ہے جو خدا کی طرف سے آئے خواہ وہ خدا کے لقب سے آئے یا خدا کے بیٹے کے لقب سے آئے یا نبی کے لقب سے آئے ۔بھیڑیں تو اپنے گڈریے کی آواز کو پہچانتی ہیں خواہ وہ گڈریا مشرق سے بولے یا مغرب سے بولے ۔شمال سے بولے یا جنوب سے بولے ہمارا گڈریا ہمارا خدا ہے وہ جس وجود میں بھی ہم کو آواز دے ہمارا فرض ہے کہ ہم اُس کی سنیں )فرمایا ہے ۔مخالف کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ ہمارے اندر ملائکہ نازل کر دیتا ۔یعنی ہم انسان کی بات سُننے کیلئے تیار نہیں ۔انسان سے اوپر کوئی اور وجود ہونا چاہئیے ( اگر مسیحیوں کا دعویٰ سچاہے تو پھر ان لوگوں کا اعتراض کیوں جھوٹا ہے ) ہم نے تو اس قسم کا دعویٰ اپنے پہلوں سے کبھی سُنا نہیں تھا ۔(مسیح ؑ سے پہلے لوگوں نے کہا کہ ہم نے اس قسم کا دعویٰ پہلے کبھی نہیں سُنا کہ کوئی انسان دوسرے انسانوں سے بڑا بننا چاہے۔اور مسیح کے وقت لوگوں نے کہا کہ ہم نے کسی انسان سے نہیں سُنا کہ وہ خدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرے۔اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں نے کہا کہ ہم نے کسی سے نہیں سُنا کہ بنی اسرائیل سے باہر بھی کوئی نبی آسکتا ہے۔افسوس ہمیشہ ہی انسان عندِلنگ تلاش کرتا رہا اوراُس نے کبھی بھی خدا کی آواز پر لبیک کہنے کی کوشش نہیں کی )اس شخص کو تو کوئی جنون معلوم ہوتا ہے ۔کچھ دن ٹھہرو نتیجہ نکل آئیگا۔تب نوحؑ نے اپنے خدا سے مدد مانگی اور خدا نے اُسے کہا کہ تو ہمارے حکم اور ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی تیار کر(یعنی ایک کامل تعلیم جو اس زمانہ کے لوگوں کیلئے نجات کا موجب ہو )پھر جب مخالفت بڑھتی جائے اور عذاب کا وقت آجائے تو ہر قسم کے لوگوں کو اس کشتی کے ذریعہ سے تو پناہ دے اور اپنے اہل کو بھی اُس کے ذریعہ سے بچا۔سوائے اس کے جس کیلئے خدا کی طرف سے عذاب کا حکم ہو چکا ہو ۔جب تو اُس کشتی میں سوار ہو جائے تو دعا کیجیو کہ خدایا ! تیرا شکر ہے کہ تو نے ہم کو ظالموں سے نجات دی اب تو ہمیں کسی اچھی جگہ پر اتار۔جہاں ان ظالموں کے ظلم سے ہم محفوظ رہیں ۔اگر لوگ غور کریں تو نوحؑ کی زندگی میں ایک بڑا نشان ہے ۔
(آیت ۲۴ تا ۳۱)
اس کے بعد نسلِ انسانی چلتی چلی گئی ۔کچھ زمانہ تک تو لوگ ہدایت پر قائم رہے پھر بگڑ گئے اور پھر ہم نے اُن میں سے ہی ایک رسول اُن میں بھجوایا ( رسول کا اسی قوم میں سے آنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ کسی غیر جنس میں سے ہو جیسا کہ مسیحیت کا دعویٰ ہے تو وہ ہمارے لئے نمونہ نہیں بن سکتا ۔ایک انسان شیر والے کام نہیں کر سکتا اور ایک شیر انسان والے کام نہیں کرسکتا ۔انسان کا بچہ خدا کے بچہ کی نقل نہیں کرسکتا۔اور خدا کا بچہ کہلانے والا یعنی مسیح ؑ یا عزیز انسان کے بچہ کی مشکلات کو نہیں سمجھ سکتا)اُس رسول نے انکو حکم دیا کہ ایک خدا کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو(نوحؑ کے بعد آنیواے رسولوں نے بھی صرف ایک خدا کی خبر دی دو کی نہیں ) اس کی قوم کے سرداروں نے جو کہ مابعد الموت زندگی کے منکر تھے اور دنیوی اموال پرخوش تھے اپنی قوم سے اس لے بارہ میں کہا ارے لوگو! یہ تو تمہارے جسیا ایک انسان ہے جو کچھ تم کھاتے ہو وہی کچھ یہ کھاتا ہے اور جو کچھ تم پیتے ہو دہی کچھ یہ پیتا ہے ۔اگر تم ایسے آدمی کی اطاعت کرو گے تو نقصان اٹھائو گے ۔یہ تو کہتا ہے کہ تم مر کر پھر جی اٹھو گے۔ہم تو اسی دنیا میں مرینگے اور جئیں گے ۔مرنے کے بعد کوئی اور زندگی ہم کو نہیں ملے گی۔یہ شخص جھوٹا ہے (یہی وہ خرابی ہے جو ہمیشہ ہی دنیا کے لوگوں کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی سے پھرا دیتی ہے )تب نبی نے دُعا کی کہ اے میرے رب! انہوں نے تو میرا انکار کر دیا ہے اب تو ہی میری مدد کر۔پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جلد ہی اپنے کئے پر شرمندہ ہونگے اور ان کو عذاب نے پکڑ لیا اور وہ تباہ ہوگئے ۔
(آیت ۳۲ تا ۴۲)
اس کے بعد پھر کچھ لوگ گندے ۔اور ہم نے پے در پے اُن کے اندر رسول بھیجنے شروع کرد ئیے مگر جس قوم کے پاس بھی رسول آیا اُس نے انکار کیا اور ہم نے بھی قوم کے بعد قوم کو ہلاک کرنا شروع کر دیا ۔
( آیت ۴۳ تا ۴۵)
ان سب واقعات کے بعد موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون آئے اُن کے ساتھ بھی ہمارے نشان اور دلائل تھے لیکن فرعون اور اس کے ساتھیوں نے تکبر سے کا م لیا اور پہلے لوگوں کی طرح یہی کہا کہ کیا ہم ان دو آدمیوں کو مان لیں جو ہمارے جیسے ہیں حالانکہ ان کی قوم ہماری غلام ہے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی ہلاک ہوگئے اور موسیٰ کو ہم نے ایک تفصیلی شریعت دی تاکہ لوگ اُس سے صحیح راستہ دیکھیں اور پھر ہم نے مریم کے بیٹے اور اُس کی ماں کو ایک نشان بنا کر بھیجا ۔اور اُن دونوں کو ہم نے ایک ایسی بلند جگہ پر پناہ دی جو رہنے کیلئے بھی بڑی اچھی تھی اور اُس میں پانی بہتے تھے (یعنی کشمیر کا علاقہ )۔
(آیت ۴۶ تا ۵۱)
اے رسولو! تم حلال میں سے طیب چیزیں کھائو اور مناسب حال عمل کرو اور میرا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ خداتمہارے اعمال سے واقف ہے ۔دیکھو یہ سارے نبی ایک ہی شکل کے ہیں ۔سب کے حالات ملتے جلتے ہیں اور ان کے دعوے بھی ملتے جلتے ہیں پھر تم کیوں خدا کے بارہ میں اختلاف کرتے ہو۔
( آیت ۵۲، ۵۳)
لیکن انسانوں کی یہ حالت ہے کہ جب کبھی بھی اُن کے پاس نبی آئے انہوں نے بعد میں اُن کی تعلیم کو کوئی اور شکل دے دی۔اور نئے نئے مذہب بن گئے۔حالانکہ ابتداء ً سب تعلیمیں ایک سی تھیں۔اب تو انکو اُنکی غفلت میں چھوڑ دے۔کیونکہ تجھے اُن پر جبر کا کوئی اختیار نہیں ۔اُن کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے وہ سمجھتے ہیں کہ انکو جو مال اور اولاد ملی ہے وہ اُن کی عزت اور انکے درجے کی وجہ سے ملی ہے حالانکہ وہ جانتے نہیں کہ یہی چیزیں انکو تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں ۔
( آیت ۵۴ تا ۵۷)
مومن تو اپنے رب کے خوف سے ہیمشہ لرزاں اور اُس کے نشانوں پر ایمان لانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں ۔اور خدا کا کسی کو شریک نہیں بناتے اور ہر قسم کی نیکی کرکے بھی اپنے آپ کو قصور وار ہی سمجھتے ہیں اور خداتعالیٰ کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ قرار دیتے ہیں ۔اور وہ نیکی میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں اور دوڑ کر نیکیوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہم اتنی ہی کسی انسان سے امید کرتے ہیں جتنی کہ اُس میں طاقت ہوتی ہے ۔اور جب ہم فیصلہ کریں گے تو ایسے امتیازی طریقوں کے ساتھ فیصلہ کریں گے کہ جتنا جتنا کوئی شخص حقدار ہوگا اُتنا اُس کو حق مل جائیگا اور کوئی وجہ جو کسی کے غیر مجرم بنانے کی ہو نظر انداز نہیں کی جائیگی ۔
( آیت ۵۸ تا ۶۳)
لیکن ان لوگوں کے دل تو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور وہ کبھی بھی کوشش نہیں کرتے کہ نیکی کریں یا نیکی میںآگے بڑھیں ۔یہاں تک کہ جب اُن کے دولتمندوں پر عذاب کی گرفت آجاتی ہے تو پھر وہ گریہ وزاری کرنے لگ جاتے ہیں ۔اُس دن ہم اُن سے کہتے ہیں آج گریہ وزاری کا کیا فائدہ ہے ۔آج ہم تمہاری مدد کس طرح کر سکتے ہیں ۔تمہارے سامنے ہماری تعلیم سُنائی جاتی تھی لیکن تم ایڑیوں کے بل پھر جاتے تھے اور اس پر کبھی غور نہیں کرتے تھے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے ۔اور راتوں کو بیٹھ بیٹھ کر ہماری تعلیم کو بُرا بھلا کہا کرتے تھے ۔
( آیت ۶۴ تا ۶۸)
کیا انہوں نے کبھی ہماری باتوں پر غور نہ کیا یا انہوں نے یہ نہ سوچا جو کچھ ان سے کہا گیا ہے وہی ان کے باپ دادوں سے بھی کہا گیا تھا ۔کیا انہوں نے یہ نہ سوچا کہ جو شخص ان سے مخاطب ہو رہا ہے اس کی تعلیم میں ان کی ترقی کا راز مضمر ہے ۔مگر باوجود اسکے وہ انکار کر رہے ہیں ۔وہ کہتے ہیں اسے جنون ہے لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ اس مجنون کی باتیں وہ ہیں جو نظر آتی ہیں کہ آخر ہو کر رہیں گی اور اصل بات تو یہ ہے کہ ان میں سے اکثر وہ ہیں جو اس نتیجہ سے ڈرتے ہیں جس نتیجہ کی طرف یہ شخص توجہ دلارہا ہے ۔اگر حقیقت ان لوگوں کی خواہشات کے مطابق ہو جاتی تو زمین اور آسمان میں فساد پیدا ہو جاتا اور انسان تباہ ہو جاتے ۔
( آیت ۶۹ تا ۷۲)
ان سے کچھ مانگتاتو نہیں تیری مدد تو خدا کرتا ہے ۔تُو تو ان کو صرف سیدھا راستہ دیکھاتا ہے اور یہ لوگ سیدھے رستہ پر چلنے سے کتراتے ہیں ۔ہم تو ان کو بخش ہی دیتے لیکن ہم بخشیں تو یہ شرارتوں میں اور بھی بڑھ جاتے ہیں اگر عذاب کے وقت یہ توجہ کریں تو پھر بھی ہم کچھ رحم کردیں ۔مگر یہ تو عام عذاب کے وقت بھی اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے۔اور جب آخری عذاب آجاتا ہے تو پھر بالکل ہی نا امید ہو کر ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔
( آیت ۷۳ تا ۷۸)
پھر فرماتا ہے ذرا سوچو تو سہی تمہاری یہ شنوائیاں ، تمہاری بینایاں اور تمہارے دل تمہارے کس کام کے بدلہ میں تمہیں ملے ہو ئے ہیں ۔کیا کبھی اس کا بھی شکر کیا ہے؟ یہ رات اور دن کی تبدیلیاں اور یہ موت اور حیات تمہارے لئے کیسے فوائد رکھتے ہیں ؟ کیا تم سمجھتے نہیں ۔بس ایک ہی رٹ لگی رہتی ہے کہ مر کر زندہ کس طرح ہو نگے ۔یہی بات ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں مگر کبھی ثبوت نہیں ملا ۔
( آیت ۷۹ تا ۸۴)
تو ان سے کہہ کہ آخر یہ سب کچھ کس کا ہے ؟ خدا کا ۔کیا پھر بھی نصیحت نہیں آتی پھر تو پوچھ کہ آسمانوں اور عرش عظیم کا رب کون ہے ۔یہ لوگ یہی جواب دیں گے کہ اللّٰہ۔مگر پھر بھی نہیں سمجھتے اور یہ تمام مخلوق کی بادشاہت اور دعائوں کا سننا کس کے اختیا رمیں ہے ؟ اللہ کے ۔ پھر بھی تم غور نہیں کرتے ۔
( آیت ۸۵ تا ۹۱)
یاد رکھو! خدا کا کوئی پیدا نہیں ۔اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔اگر ایسا ہوتا تو ضرور ایک دوسرے کے خلاف بغاوت ہو جاتی ۔وہ غیر اور شہادت کو جانتا ہے ( حالانکہ مسیح ؑ غیب کے جاننے سے منکر ہے ۔مرقس باب ۱۳ آیت ۳۲ ، ۳۳) پس وہ تمہارے شرکوں سے بالا ہے ۔
( آیت ۹۲ ، ۹۳)
تو کہہ دے کہ اگر میری زندگی میں میری قوم پر عذاب آئے تو اے خدا تو مجھے ان سے علیحدہ رکھیو۔پھر فرماتا ہے ہم اس بات پر قادر ہیں کہ تیری آنکھوں کے سامنے ان پر عذاب لے آئیں لیکن تو خود یہی طریق اختیار کر کہ بری باتو ں کا جواب اچھی باتوںسے دے اور اگر ان کی گالیوں سے کبھی غصہ آجائے تو ہم سے دعا مانگا کر کہ الہٰی شیطان کے وسوسوں سے مجھے محفوظ رکھ بلکہ ایسے مواقعہ سے ہی مجھے محفوظ رکھ کہ شریر لوگ میرے سامنے ایسی باتیں کریں جو ناقابل برداشت ہوں ۔
( آیت ۹۴ تا ۹۹)
یہ لوگ تو اسی طرح شرارتیں کرتے چلے جائیں گے جہاں تک کہ موت آجائے گی اور اس وقت کہیں گے کہ خدایا اب تو ہم کو واپس کر تاکہ ہم نیک عمل کریں ۔مگر ایسا نہیں ہو سکے گا ۔اور جب ان کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو اس وقت سب رشتے ٹوٹ جائیں گے اور صرف وہی لوگ کامیاب ہونگے جنھوں نے دنیا میں کچھ کام کیا ہوگا۔جنھوں نے دنیا میں کوئی اچھا کام نہیں کیا ہو گا وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔آگ ان کے مونہوں کو جلا کر سیاہ کر دے گی اور ان کو کہا جائے گا کہ تم ہمارے نشانوں کا انکار کیا کرتے تھے ۔
( آیت ۱۰۰ تا ۱۰۶)
اس پر وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہماری بد قسمتی سے ایسا ہوا ۔ہم گمراہ تھے خدایا تو پھر ہم کو لوٹادے۔پھر ہم ایسا نہیں کریں گے ۔فرمائے گا ۔اب ان باتوں سے کیا فائدہ ۔میرے بندے صرف اتناہی کہتے تھے نہ کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے ۔تو ہمیں معاف کردے ۔تو بڑا رحم کرنے والا ہے ۔تمہاری جائیدادیں تو نہ چھینتے تھے مگر تم ان سے مزاق کرتے تھے ۔اتنا مزاق کہ دنیا میں کوئی اور چیز تمھیں یاد ہی نہ رہی تھی ۔اب میں ان کی اس مظلومیت کا بدلہ لوں گا۔
( آٰیت ۱۰۷ تا ۱۱۲)
پھر خدا ظالموں سے پوچھے گا تم کتنی مدت دنیا میں رہے ؟ وہ کہیں گے کچھ نہیں ۔کوئی ایک دن یا دن کا کچھ تھوڑا سا حصہ
( آرام کی زندگی تکلیف کے وقت بالکل حقیر نظر آنے لگ جاتی ہے ) اللہ تعالیٰ فرمائے گا ٹھیک ہے تم تھوڑا ہی رہے مگر کاش !کہ تمہیں پہلے اس کا علم ہوتا کہ یہ زندگی جس کو تم لمبا سمجھ رہے ہو تھوڑی ہے۔
( آیت ۱۱۳ تا ۱۱۵)
اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ کیا تم یہ سمجھتے تھے کہ ہم نے تم کو بغیر کسی غرض کے پیدا کیا ہے اور تم ہمارے سامنے جواب دہ نہیں ہو گے ۔اللہ تعالیٰ بڑی شان والا ہے وہ سچا ہے اور حقیقی بادشاہ ہے ۔اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔وہ ایک بزرگ عرش کا مالک ہے جو شخص بے دلیل اس کے سوا کوئی معبود ٹھہراتا ہے اس کو خدا کے سامنے حساب دینا پڑے گا اوروہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا ۔تو ان لوگوں سے منہ پھیر لے اور اپنے خدا سے بخشش مانگ اور اسکا رحم طلب کر ۔
( آیت ۱۱۶ تا ۱۱۹)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جو بے حدکرم کرنیوالا اور بار بار رحم کرنیوالا پڑھتا ہوں
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِيْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ۔۔۔۔۔۔۔۔ھُمْ فِیْھَاخٰلِدُوْنَ ہ
ترجمہ() کامل مومن اپنی مراد کو پہنچ گئے ۔و ہ مومن جو اپنی نمازوں میں عاجزانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں اور جو زکوٰۃ باقاعدہ دیتے ہیں اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔سوائے اپنی بیویوں کے یا جن کے مالک اُن کے دائیں ہاتھ ہوئے ہیں ۔پس ایسے لوگوں کو کسی قسم کی ملامت نہیں کی جائیگی ۔اور جو اس کے سوا کسی اور بات کی خواہش کریں تو وہ لوگ زیادتی کرنے والے ہونگے ۔اور وہ لوگ (یعنی کامل مومن) جو اپنی امانتوں اور اپنے عہدوں کا خیال رکھتے ہیں اور جو لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں ۔یہی لوگ اصل وارث ہیں ۔جو فردوس کے وارث ہونگے ۔وہ اس میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے۔ ۲؎
۲؎ حل لغات
اَفْلَحَ ۔اَفْلَحَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں فَاذَ وَظَفِرَ بِِمَاطَلَبَ انسان اپنے ارادے میں کامیاب ہو گیا۔اور اُس نے اپنے مقصد کو پالیا۔اوراَفْلَحَ زَیْد’‘ کے معنے ہیں نَجَحَ فِیْ سَعْیِہٖ وَاَصَابَ فَیْ عَمَلِہٖ۔زید نے اپنی کوشش کے پھل کو پالیا اور اُس کی محنت بار آور ہوئی ( اقرب)
اَلْفَلَاحُ : اَلظَّفَرُ وَ اِدْرَاکُ بُغْیَۃٍ ۔یعنی فلاح کے معنے کسی کام میں کامیابی اور مقصود کو پالینے کے ہیں ( مفردات ) پس اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ کے معنے ہیں کہ کامل مومن اپنی مراد کو پہنچ گئے اور انہوں نے اپنے مقصد کو حاصل کر لیا۔
اَللَّغْوَ : لغو کے معنے ہیں مَالَا یُعْتَدَّبِہٖ مِنْ کَلَامٍ وَغَیْرِہٖ ۔ہر ایسا کلام یا فعل جو کسی توجہ کے قابل نہ ہو ( اقرب) وَقَدْیُسَیّٰ کُلُّ کَلَامٍ قَبِیْحٍ لَغْوًا۔ اسی طرح ہر بُری اور ناپسندیدہ بات کو بھی لغو کہتے ہیں ( مفردات)
اَلْخَاشِعُوْنَ : خَاشِعُوْنَ خَاشِع’‘ کی جمع ہے جو خَشَعَ سے اسم فاعل ہے اور خَشَعَ کے معنے ہیں ذَلَّ وَتَطَاُ مَنَ ۔فرمانبردار ہوگیا اور عاجزی کا اظہار کیا۔اور خَشَعَ بِبَصَرِہٖ کے معنے ہیں غَضَّہ‘ آنکھ نیچے کر لی۔نہایۃ میں لکھا ہے کہ اَلْخَشُوْعُ فِی الصَّوْتِ وَالْبَصَرِ کَالخُضُوْعِ فِی الْبَدَنِ جس طرح بدن کا تعجز اور اُس کی کمزوری ظاہر کرنے کیلئے خضوع کا لفظ بولا جاتا ہے اسی طرح آواز کے کمزور ہونے اور آنکھ کے عجز کو ظاہر کرنے کیلئے خشوع کا لفظ استعمال ہوتا ہے ( اقرب)
مفردات میں ہے۔اَلْخُشُوْعُ : الضَّرَاعَۃُ ۔خشوع کے معنے عاجزی کرنے کے ہوتے ہیں اور خشوع کا استعمال بالعموم اس عاجزی پر ہوتا ہے جو اعضاء سے ظاہر ہوتی ہے اور تضرع کا لفظ دل میں عاجزی پیدا ہو جانے کے متعلق بولا جاتا ہے ( مفردات ) پس خٰشِعُوْنَ کے معنے ہونگے ۔عاجزی اور فروتنی اختیار کرنے والے۔
الزَّکوٰۃ : زَکَا (یَزْکُوْا) تَزْکِیَۃً کا اسم ہے اور زَکَی الشَّیْئُ کے معنے ہیں نَمَا کوئی چیز زیادہ اور بکثرت ہوگئی ۔کہتے ہیں زَکَا الرَّجُلُ : صَلَحَ وَ تَنَعَّمَ وَکَانَ فَیْ خَصْبٍ ۔کوئی شخص عمدہ حالت میں ہوگیا ( کیونکہ زَکَتِ الْاَرْضُ اُس وقت بولتے ہیں جبکہ وہ سرسبز ہو جائے ) اور جب زَکَّاہُ اللّٰہُ کہیں تو اس کے معنے ہونگے اَنْمَاہُ ۔اللہ تعالیٰ نے اسکو پروان چڑھایا۔طَھَّرَہ‘اُسے پاکیزہ کیا ۔۔زَکّٰی فُلَان’‘ مَالَہ‘ کے معنے ہوتے ہیں اَدَّی عَنْہُ زَکوٰۃً ۔اُس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی۔اور جب زَکّٰی نَفْسَہ‘ کہیں تو معنے ہونگے کہ مَدَعھَا اپنے نفس کو اُس نے تعریف کے قابل بنایا ۔پس زکوٰۃ کے معنے ہیں (۱) صَفْوَۃُ الشَّیْئِ ۔اعلی درجہ کی چیز (۲) طَاعَۃُ اللّٰہِ اللہ کی اطاعت(۳) مَا اَخْرَجْتَہ‘ مِنْ مَالِکَ لِتُطَھِّرُبِہٖ۔مال کا وہ حصہ جو بطور زکوٰۃنکالا جاتا ہے تاکہ باقی مال پاک ہو جائے ۔اور صدقہ کا نام اس لئے زکوٰۃ رکھا گیا ہے کہ زکوٰۃ مال میں برکت ڈالتی اور اُسے بڑھاتی ہے اور انسان کو آفات سے بچاتی ہے ۔(اقرب)
اَلْفِرْدُوْسَ: فردوس کے معنے ہیں اَلْجَنَّۃُ الَّتِیْ تُنْبِتُ ضُرُوْبًا مِنْ النَّبْتِ۔ وہ باغ کو کئی قسم کی نباتات اُگاتا ہے ۔اَلْبُسْتَانُ یَجْمَعُ کُلُّ مَایَجْمَعُ فِی البَسَاتِیْن۔وہ باغ جس میں تمام وہ اشیاء ہوں جو باغوں میں ہو سکتی ہیں۔( اقرب)
تفسیر :
ان آیات میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ جن مسلمانوں میں یہ اوصاف پائے جائیں گے کہ وہ خداتعالیٰ کی عبادت ظاہر داری سے نہیں کریں گے بلکہ دلی خشوع اور انتہائی عجزو انکسار اور پوری فروتنی کے ساتھ اُس کی یاد میں مشغول رہیں گے اور ایسے تما م کاموں سے بچیں گے جن سے اُن کی ذات یا قوم یا ملک کو کوئی فائدہ نہ پہنچتا ہو۔اور اپنے ملک کی ترقی کیلئے ہر قسم کی قربانیاں کرنے کیلئے تیار رہیں گے اور اپنے اُن تمام راستوں کو بند کر یں گے جن کے ذریعہ سے خرابیاں انسانی قلب میں داخل ہو تی ہیں ۔بالخصوص وہ اپنی عصمت کی حفاظت کریں گے ۔اور سوائے جائز ذرائع کے اور کسی طرح اپنی عفت پر حرف نہیں آنے دیں گے اور جو اُن ذمہ داریوں کو پورا کریں گے جو اُن کے سپر د کی جائیں گی ۔اُن کو توڑیں گے نہیںاور جو انفرادیت کو ملت کے تابع کردیں گے اور قومیت کا جذبہ اُبھاریں گے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی تائید اُن کو حاصل ہوگی۔یہ ایک زبردست صداقت ہے جس سے شیعیت کارّد ہوتا ہے۔کیونکہ شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نعوذ باللہ صرف اڑھائی مومن تھے۔ایک حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔ایک اُن کا غلام اور آدھے مومن سلمان فارسی ؓ تھے لیکن اوّل تو یہ بات اس لحاظ سے غلط ہے کہ ہر مذہب کی خوبی اس کے ثمرات سے ہی پہچانی جاتی ہے۔حضرت مسیح علیہ السلام اسی اصل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ ہر ایک اچھا درخت اچھا پھل لاتا ہے ۔اور بُرا درخت بُرا پھل لاتا ہے ۔اچھا درخت بُرا پھل نہیں لا سکتا ۔نہ بُرا درخت اچھا پھل لا سکتا ہے۔جودرخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے ۔پس اُن کے پھلوں سے تم انہیں پہچان لوگے۔‘‘
(متی باب ۷آیت ۱۷ تا ۱۹)
اب اگر ایک شخص دنیا کی اصلاح اور اس کے درست کرنے کیلئے مامور ہو نے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس کی سب کوششیں اکارت چلی جاتی ہیں اور وہ ایک ایسی جماعت چھوڑ جاتا ہے جو بے دین اور منافق اور خدا سے دور ہو ۔اور جس میں صرف اڑھائی مومن پائے جاتے ہوں تو یقینًا اس کا دعویٰ سچا نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ ایک کام کیلئے بھیجے اور پھر وہ اس کام میں ناکام ہو جائے۔اُس کی کامیابی اُسی صورت میں سمجھی جا سکتی ہے جب اس کی تربیت یافتہ اور اس کی صحبت سے مستفیض ہونے والی جماعت کا بیشتر حصہ اُس کے اثر سے متاثر ہو۔اور اس کی تعلیم کا حامل اور اُس پر پوری طرح عامل ہو۔ورنہ اُس کی آمد بالکل فضول اور اُس کی بعثت بالکل عبث ہو جاتی ہے ۔اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ کوئی نیک اور پاک جماعت تدریجی مراحل طے کئے بغیر اچانک شرارت اور فتنہ کا مجسم نمونہ بن جائے ۔پس جو مذہب یہ بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ اور اُن کے بعد خدمتِ اسلام کرنے والے لوگ درحقیقت منافقوں کی ایک جماعت تھے اور اسلام صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دم تک تھا یا آپ کے بعد آپ کے چند رشتہ داروں کے دلوں میں اس کاا ثر محدود ہو کر رہ گیا وہ یا تو قانونِ قدرت اور انبیاء کی شان سے بالکل نا واقف ہے یا پھر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا درپردہ مخالف ہے کہ آپ کو ناکام ثابت کرنا چاہتا ہے ۔اور اسلام کو ایک بے ثمر درخت اور اس کی تعلیم کو ایک بے اثر بنا کر دشمنوں کو خوش کرنا اور اسلام کی وقعت کو گرانا چاہتا ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بڑے گناہوں میں سے ایک یہ بھی گناہ ہے کہ انسان اپنے ماں باپ کو گالی دے۔لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! کیا کوئی ایسا بدبخت بھی ہو سکتا ہے جو اپنے ماں باپ کو گالیاں دے۔آپ نے فرمایا ہاں جب وہ کسی کے ماں باپ کو گالیاں دیتا ہے اور دوسرا اُس کے جواب میں اُسکے ماں باپ کو گالیاں دیتا ہے تو درحقیقت یہی شخص اپنے ماں باپ کو گالیاں دلوانے والا ہوتا ہے۔اسی طرح جن لوگوں کو کوئی قوم اپنے روحانی ہادیوں میں سے سمجھتی ہو ۔اُن کی عزت وہ اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ کرتی ہے ۔پس اُن کی نسبت اگر کوئی قوم یہ الفاظ استعمال کرتی ہے کہ وہ منافق اور بے ایمان تھے تو درحقیقت وہ اپنے بزرگوں کو گالیاں دیتی ہے اور یہ ایک خطرناک جرم ہے ۔جس سے افتراق اور اختلاف کی خلیج وسیع ہو جاتی ہے۔پس اوّل تو یہ کہناکہ رسول کریم ﷺ پر ایمان لانے والوں میں سے صرف اڑھائی مومن تھے باقی تمام لوگ نعوذ باللہ منافق اور بے ایمان تھے خود رسول کریم ﷺ کی قوتِ قدسیہ اور آپ کے اعلیٰ درجہ کے روحانی کمالات پر اعتراض کرنا ہے ۔
رسول کریمﷺ تو اپنے آپ کو انبیاء کا سردار قرار دیتے ہیں اور قرآن کریم سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے ۔لیکن ایسا کہنے والے تو حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسٰی علیہما اسلام سے بھی آپ کو ادنیٰ قرار دیتے ہیں۔کیونکہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حواریوں کی خداتعالیٰ قرآن کریم میں تعریف کرتا ہے ( سورۂ صف ۲ع)اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ اُن کی قوم کے گو سارے نوجوان ایمان نہیں لائے تھے ۔مگر کچھ لوگ ایمان لے آئے تھے (یونس ۹ع) اور کچھ لوگوں سے مراد اڑھائی مومن نہیں ہو سکتے۔دوسرے قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ فرما کر اللہ تعالیٰ نے
شیعیت کے اس حملہ کا بھی رد کر دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ اُنکا یہ نظریہ محض غلط اور بے بنیاد ہے ۔مومنون کا لفظ جو اس جگہ استعمال کیا گیا ہے جمع سالم ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ ایسے مومن بہر حال تین یا تین سے زیادہ ہونے چاہئیں۔اور اگر ان سات اقسام کو جو اگلی آیات میں بیان ہوئی ہیں مدنظر رکھا جائے توایسے مومن کم سے کم اکیس ضرور ہونے چاہئیں حالانکہ شیعہ صرف اڑھائی آدمیوں کو مومن قرار دیتے ہیں دوسرے اس آیت سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ جو سچے مومن ہیں وہ کامیاب ہو نگے۔اور واقعات سے ظاہر ہے کہ کامیاب ابوبکرؓ ہوئے۔عمرؓہوئے۔عثمانؓ ہوئے ۔حضرت علی ؓ تو ساری عمر ان لوگوں کے وظیفہ خوار رہے۔اور جب اُن کو حکومت ملی تو خود اپنے آدمیوں نے اُن کی مخالفت کی اور اپنے آدمیوں کے ہاتھ سے ہی مارے گئے۔پس معلوم ہوا کہ اہل السنت و الجماعت کے افراد جو تمام صحابہؓ کو مومن قرار دیتے ہیں وہی حق پر ہیں نہ کہ وہ جن کی نگاہ میں رسول کریم ﷺ کو صرف اڑھائی مومن نصیب ہوئے ۔صحابہؓ کا مقام تو ایسا بلند تھا کہ خود قرآن کریم اُنکی تعریف کرتا ہے ۔اور فرماتا ہے انہوں نے اپنی نیکی اور تقویٰ اور اخلاص میں وہ مقام حاصل کر لیا تھا کہ خدا اُن سے راضی ہوگیاتھا۔چنانچہ فرماتا ہے۔
وَالسَّابِقُوْنَ الْاَدَّلُوْنَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔ (توبہ ۱۳ع)
یعنی جولوگ مہاجرین اور انصار میں سے نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں۔اور وہ لوگ بھی جو کامل اطاعت دکھاتے ہوئے اُن کے پیچھے چلے ۔اللہ تعالیٰ اُن سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے ۔اُس نے اُن کیلئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ اُن میں
ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔لیکن شیعہ عقیدہ کے مطابق تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نعوذباللہ ایسا بھولا بھالا اور سادہ ہے کہ وہ منافقوں کے دھوکے میں بھی آجاتا ہے۔اور اُن سے بھی راضی ہو جاتا ہے ۔اب بتائو جن مہاجرین اور انصار سے خدا راضی ہو گیا اور جن کو اُس نے اپنی جنت میں داخل کر لیا اور انہیں ہمیشہ کیلئے اپنی خوشنودی کا سرٹیفیکیٹ عطاکر دیا اُن کو منافق قرار دینا کیا خود اپنے نفاق اور کمیٔ ایمان کی علامت نہیں؟
پھر صحابہؓ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہ‘ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ (احزاب ۳ع) یعنی ان میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ انہوں نے اسلام لاتے وقت جو وعدے کئے تھے اُن کو مکمل طورپر انہوں نے پورا کرکے دکھا دیا ہے۔اور کفار سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ہیں۔اور بعض انتظار کر رہے ہیں اور ایسے لوگ جو رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے اور کفار سے لڑتے ہوئے مارے گئے ۔درجنوں سے زیادہ ہیں مگر شیعہ ایسے حساب دان ہیں کہ اُن کے نزدیک جو درجنوں کی جماعت ہے اُسے اڑھائی آدمی کہنا چاہئیے۔
پھر شیعہ کہتے ہیں کہ خلافت کا اصل حق تو حضرت علی ؓ کا تھا اور انہی کے متعلق رسول کریم ﷺ نے وصیت بھی فرمائی تھی مگر ابو بکر ؓ اور عمر ؓ جن کو خلافت کی خواہش تھی انہوں نے حضرت علیؓ کا حق غصب کر لیا اور خود خلیفہ بن گئے ۔یہ عقیدہ بھی اوّل تو اس لحاظ سے غلط ہے کہ حضرت علیؓ جیسے بہادر اور شجاع انسان کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ ایک امر کو حق سمجھتے ہوئے اور رسول کریم ﷺ کی وصیت کا حامل ہوتے ہوئے اس کے خلاف
عمل کرنے والوں کے مقابلہ میں خاموش رہے۔اور رسول کریم ﷺکی وصیت کو انہوں نے پسِ پشت ڈال دیا۔اور عالم ِ اسلام کو تباہی کے گڑھے میں گرتے دیکھ کر بھی کوئی قدم اٹھانا مناسب نہ سمجھا بالکل عقل کے خلاف ہے۔پھر تاریخی طور پر یہ امر ثابت ہے کہ حضرت علی ؓ نے حضرت ابو بکرؓ کی بھی بیعت کی تھی اور پھر حضرت عمرؓ کی بھی بیعت کی تھی اور ان دونوں خلفاء کے ساتھ مل کر وہ کام کرتے رہے بلکہ حضرت عمر ؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں بعض سفروںکے پیش آنے پر حضرت علیؓ کو اپنی جگہ مدینہ کا امیر بھی مقرر فرمایا۔چنانچہ طبریؔ میں لکھا ہے کہ واقعۂ جسر کے موقعہ پر جبکہ مسلمانوں کا ایرانی فوجوں کے مقابلہ میں ایک قسم کی زک اُٹھانی پڑی تھی حضرت عمرؓ نے لوگوں کے مشورہ سے ارادہ کیاکہ آپ خود اسلامی فوج کے ساتھ ایران کی سرحد پر تشریف لے جائیں اور آپ نے اپنے پیچھے حضرت علیؓ کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا۔اسی طرح جب مسلمانوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا اور وہاں کے لوگوں نے اُس وقت تک ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا جب تک کہ خود حضرت عمرؓ وہاں تشریف نہ لائیں۔تو اُس وقت بھی حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ کو ہی اپنے بعد مدینہ کا گورنر مقرر کیا تھا۔حالانکہ آپ کو کئی ماہ کاسفردرپیش تھا۔اس روایت سے ثابت ہے کہ حضرت علیؓ اپنا عندیہ اتنا چھپاتے تھے کہ حضرت عمر ؓ اُن کو اپنے پیچھے گورنر مقرر کر دیتے تھے ۔اور اس بات سے ذرا بھی نہیں ڈرتے تھے کہ پیچھے یہ بغاوت کر دیں گے گویا حق چھپانے کی عادت حضرت علیؓ میں انتہا درجہ کی پائی جاتی تھی۔اگر یہی بات کسی شیعہ عالم کے متعلق کہی جاتے
تو غالبًا وہ گالیاں دینے لگ جائیگا۔لیکن ایسی گندی بات حضر ت علی ؓ کی طرف منسوب کرتے ہوئے اور ذرا نہیں شرماتے اور درحقیقت وہ اس طرح حضرت عمر ؓ اور حضرت ابو بکر ؓ کو گالیاں نہیں دیتے بلکہ خود حضرت علی ؓ کو گالیاں دیتے ہیں ۔بہرحال جو شخص ابوبکر ؓ اور عمرؓ کی غلامی کا جُؤا اپنی گردن پر رکھ لیتا ہے اور اُن کی بیعت میںشامل ہوجاتا ہے اور اُن کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے ۔اُس کی نسبت یہ کہنا کہ وہ دل میں خلافت کو اپنا حق سمجھتا تھا اور حق بھی لیاقت کی وجہ سے نہیں بلکہ منشائے شریعت کے مطابق ۔اس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنے بنتے ہیں کہ حضرت علیؓ نعوذ باللّٰہ ظاہرکچھ کرتے تھے اور دل میں کچھ رکھتے تھے اور یہ بات حضرت علیؓ کی نسبت امکانی طور پر بھی ذہن میں لانا گناہ ہے۔کجا یہ کہ اس کے وقوع پر یقین کیا جائے ۔پس اوّل تو حضرت علیؓ کا طریق عمل خود اس خیال کو باطل کر رہاہے ۔دوسرے قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ کی آیت بھی شیعوںکے اس خیال کی تردید کرتی ہے کیونکہ یہ آیت بتاتی ہے کہ جن مومنوں میں وہ صفات ہو نگی جن کا اللّٰہ تعالیٰ نے اگلی آیات میں ذکر فرمایا ہے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔کیونکہ اَفْلَحَ کے معنے اپنے مقصد اور مدعا کو حاصل کرلینے اور اس میں کامیاب ہو جانے کے ہوتے ہیں ۔پس اگر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کو شیعوں کے نظریہ کے مطابق خلافت کی خواہش تھی اور وہ خلیفہ بن بھی گئے تو صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ وہ کامل مومن تھے جن کو اللّٰہ تعالیٰ نے مذہبی اور سیاسی نظام کی باگ دوڑ دے دی اور انہیں دُنیا کا راہنما بنا دیا۔اور یا پھر یہ ماننا پڑیگا کہ رسول
کریم ﷺ کی وصیت کے باوجود حضرت علیؓ یہی چاہتے تھے کہ ابوبکر ؓ خلیفہ ہو جائیں ۔میں نہ بنوں سو خدا نے اُن کی اس خواہش کو پورا کر دیا اور حضرت ابوبکرؓ کامیاب ہو گئے ۔لیکن بعد میں حضرت علیؓ کے اتباع نے ہی اُن کو گالیاں دینی شروع کر دیں۔پس قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ کی آیت نے شیعوں کے ان دونوں خیالات کا ردّ کر دیا۔اس خیال کا بھی کہ رسول کریم ﷺ پر ایمان لانے والوں کی اکثریت نعوذ باللّٰہ منافق تھی اور صرف اڑہائی آدمی پکے مومن تھے اور اس خیال کا بھی کہ خلافت کے اصل مستحق حضرت علیؓ تھے ،حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ نے انکا حق غصب کر لیا تھا۔اس جگہ یہ بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ میں مومنوں کے متعلق فلاح کے لفظ کا استعمال بتا رہا ہے کہ مومن کا اصل مقام نجات حاصل کرنا نہیں بلکہ فلاح حاصل کرنا ہے نجات جس کے اصل معنے تکلیفوں اور دُکھوں سے بچ جانے کے ہیں بیشک ایک خوبی ہے مگر اس سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انسان اپنے مقصد کو حاصل کرلے۔اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی جرنیل کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ وہ دشمن ہے بچ کر نکل آیا۔بیشک بعض مواقع پر اُس کا دشمن سے بچ کرنکل آنا بھی قابلِ تعریف فعل ہوگا مگر حقیقی تعریف کا وہ تبھی مستحق ہوگا جب دشمن کو بھی گرفتار کرلے۔اسی طرح اسلام صرف یہ تعلیم نہیں دیتا کہ تم نجات حاصل کرو بلکہ وہ اس سے بھی بلند تر مقصد مومنوں کے سامنے رکھتا ہے اور کہتا ہے تم فلاح حاصل کرنے کی کوشش کرو۔کیونکہ جب انسان دشمن پر کامیابی حاصل کرلے گا تو یہ لازمی امر ہے کہ وہ اُس کے حملہ سے بھی بچ
جائیگا یا وہ شخص جسے بھوک نہیں بیشک وہ بھوک کی تکلیف سے بچا ہوا ہوگا مگر وہ جس نے جسم کو طاقت پہنچانے والا کھانا کھایا ہو ا ہو وہ بھوک سے بھی بچا ہوا ہوگا اور اُس کا جسم بھی تنومند ہوگا۔پس فلاح ایک ایسا مقام ہے جس میں نجات بھی شامل ہے اور فلاح یہ ہے کہ انسان اس مقصد کو حاصل کرلے جس کیلئے وہ پیدا کیا گیا ہے۔یہ ظاہر ہے کہ انسان اس غرض کیلئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ صفات الٰہیہ کا مظہر بن جائے اور خداتعالیٰ سے ملنے کی جو تڑپ انسانی فطرت میں رکھی گئی ہے اس کے مطابق وہ اپنے محبوبِ حقیقی کا قرب حاصل کرلے۔یہی وہ مقصد ہے جسے اللّٰہ تعالیٰ نے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ( سورۂ ذاریات ۳ع ) میں بیان فرمایا ہے ۔پس فلاح یہ ہے کہ انسانی پیدائش کا مقصد حاصل ہوجائے۔اور اللّٰہ تعالیٰ کی رضا انسان حاصل کرلے۔یہ مقام انسان کو کیسے حاصل ہو سکتا ہے اور اس کے کیا کیا ذرائع ہیں ۔ان امور کا تفصیلی ذکر اس جگہ کیا گیا ہے ۔چنانچہ اس سورۃ میں اللّٰہ تعالیٰ رُوحانی اور جسمانی پیدائشوں کو بالمقابل بیان کرکے پہلے رُوحانی پیدائش کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ مومن کامیاب ہوگئے جو اوّل اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں اورپھر اس سے ترقی کرکے وہ اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں کہ ہر قسم کی فضول اور بے فائدہ باتوں سے پرہیز کرنے لگ جاتے ہیں ۔یعنی وہ اُن تمام کاموں سے اجتناب اختیار کرتے ہیں جن کا کوئی عقلی فائدہ نظر نہ آتا ہو۔مثال کے طور پر شطرنج ہے تاش ہے یا اور اس قسم کی کئی کھیلیں ہیں جن سے وقت ضائع ہو تا ہے ۔اسلام ہرمومن کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ وہ اس قسم کی
دوسری کھیلوں میں حصّہ لے کر اپنے وقت کو ضائع نہ کرے ۔ہاں وہ ورزش سے نہیں روکتاکیونکہ یہ انسان کے اندر جرأت اور بہادری اور طاقت پیدا کرتی ہے ۔یا مثلاً مجالس میں بیٹھ کر گپیں ہانکنا ہے یہ بھی لغو ہے۔یامثلاً بیکار زندگی بسر کرنا ہے یہ بھی لغو ہے۔بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ سارا دن بیکار بیٹھے دوستوں کی مجلس میں گپّیں ہانکتے رہتے ہیں ۔اور اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے کہ وہ اپنے اوقات کا کس بے دردی کے ساتھ خون کررہے ہیں۔ایک شخص کا باپ مر جاتا ہے اور وہ اپنے پیچھے بہت بڑی جائیداد چھوڑ جاتا ہے ۔اب لڑکے کا کام صرف یہی رہ جاتا ہے کہ وہ سارا دن اپنے دوستوں کی مجلس میں بیٹھا رہتا ہے ۔ایک آتا اور کہتا ہے ۔نواب صاحب آپ ایسے ہیں یا لالہ صاحب آپ ایسے ہیں ۔یا پنڈت صاحب آپ ایسے ہیں یا شاہ صاحب آپ ایسے ہیں ۔اور پھر دوسرا رتعریف شروع کردیتا ہے ۔وہ خاموش ہو تا ہے تو تیسرا اُس کی تعریف شروع کر دیتا ہے ۔اسی طرح سارا دن یہی شغل جاری رہتا ہے کہ دوست آتے ہیں اور گپیں ہانکتے ہیں اور اس کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں ۔اس پر وہ بھی اُن کی خوب خاطر تواضع کرتا ہے۔اگر تھوڑی توفیق ہوئی تو پان الائچی سے تواضع کر دیتا ہے اور اگر زیادہ توفیق ہوئی تو صبح شام ان کو کھانا اپنے دستر خوان پر کھلاتا ہے۔مگر اس لئے نہیں کہ وہ غریب ہیں ۔اس لئے نہیں کہ وہ بھوکے ہیں ۔اس لئے نہیں کہ وہ ہمدردی کے قابل ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ اس کے پاس آکر بیٹھ جاتے ہیں ۔اور مجلس میں خوشی کے ساتھ دن گذر جاتا ہے۔اسلام اس قسم کے کاموں کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔وہ فرماتا ہے مسلمان ہمیشہ لغو کاموں سے بچتے
اور احتراز کرتے ہیں ۔وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے اور کوئی ایسا کام اُن کو نہیں کرنا چاہئیے جن کا کوئی عقلی فائدہ نہ ہو ۔اور جس سے زندگی بے کار ہو جاتی ہو۔وہ شخص جو اپنے ماں باپ کی کمائی کھاتا ہے اور خود کوئی کام نہیں کرتا۔آخر اُسے سوچنا چاہئیے کہ اس کی زندگی کا اُسے کیا فائدہ ہو سکتا ہے ۔یا اُس کی قوم کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے ۔یہ چیز تو ایسی ہے جس کا اُس کی ذات کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ۔اُس کی قوم کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ۔اور دنیا کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ۔یہ زندگی کو محض بے کاری اور عیاشی میں ضائع کرتا ہے۔اور اسلام اس قسم کی بیکار زندگی کی اجازت نہیں دیتا۔اگر ایک شخص کو اپنے ماں باپ کے مرنے کے بعد دس کروڑ روپیہ بھی جائیداد میں ملتا ہے تو قرآن کریم کا حکم یہی ہے کہ وہ اتنی بڑی جائیداد کا مالک ہونے کے باوجود اپنے وقت کو ضائع نہ کرے بلکہ اسے قوم اور مذہب کے فائدہ کیلئے خرچ کرے۔اگر اُسے اس قسم کی خدمات کی ضرورت نہیں جن کے نتیجہ میں اُسے روٹی میّسر آئے تو وہ ایسی خدمات سرانجام دے سکتا ہے جو آنریری رنگ رکھتی ہوں۔اس طرح وہ بغیر معاوضہ لئے اپنے ملک یا اپنی قوم یا اپنے مذہب کی خدمت کرکے اپنے وقت کو بھی ضائع ہونے سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور اپنے اوقات کا صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو نافع الناس وجود بھی بنا سکتا ہے۔
اس ضمن میں رسول کریم ﷺ نے یہ حکم دیا ہے کہ مرد زیور نہ پہنیں ۔وہ ریشم استعمال نہ کریں ۔اسی طرح سونے اور چاندی کے برتن استعمال کرنے سے رسول کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔عورتوں کیلئے زیور حرام نہیں ۔مگر اُن
کیلئے بھی عام حالات میں رسول کریم ﷺ نے زیورات کو ناپسند فرمایا ہے ۔گو اس وجہ سے کہ وہ مقامِ زینت ہیں زیورات کا استعمال اُن کیلئے جائز ہے مگر اسلام اس با ت کی اجازت نہیں دیتا کہ زیورات پر اس قدر خرچ کیا جائے کہ ملک کی اقتصادی حالت کو نقصان پہنچ جائے یا انہیں اس قدر زیورات بنواکر دئیے جائیں کہ اُن میں تفاخر کی رُوح پیدا ہو جائے یا اس کے نتیجہ میں لالچ اور حرص کا مادہ اُن میں بڑھ جائے۔اُن کیلئے زیورات کی اجازت ہے مگر ایک حد کے اندر۔لیکن مردوں کیلئے زیورات کا استعمال قطعی طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔اسی طرح وہ برتن جو سونے چاندی کے ہوں اُن کا استعمال بھی رسول کریم ﷺ نے ممنوع قرار دیا ہے۔
اس ضمن میں اشیاء بھی آجاتی ہیں جو عام طورپر محض زینت یا تفاخر کیلئے امراء اپنے مکانوں میں رکھتے ہیں ۔میں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنی کوٹھیوں کی زینت کیلئے ایسی ایسی چیزیں خرید لیتے ہیں جن کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوتا ۔مثلاً بعض لوگ چینی کے پُرانے برتن خرید کر اپنے مکانوں میں رکھ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے ایک بڑی قیمتی چیز خرید ی ہے۔ہورپین لوگوں میں خصوصیت کے ساتھ یہ نقص ہے کہ وہ پانچ پانچ دس دس ہزار روپیہ اس قسم کے برتن خرید نے پر صرف کر دیتے ہیں ۔اور کہتے ہیں یہ وہ برتن ہیں جو آج سے اتنے ہزار سال پہلے کے ہیں یا پُرانے قالین بڑی قیمت پر خرید کر اپنے مکانوں میں لٹکا لیتے ہیں ۔حالانکہ ویسے ہی قالین پچاس ساٹھ روپیہ میں آسانی سے مل جاتے ہیں لیکن محض اس لئے کہ وہ لوگوں کو یہ بتا سکیں کہ یہ قالین فلاں بادشاہ کا ہے۔یا
فلاں زمانہ کا ہے وہ بہت کچھ روپیہ اُس کے خریدنے پر برباد کردیتے ہیں ۔اسلام کے نزدیک یہ سب لغو چیزیں ہیں اور ان میں کوئی حقیقی فائدہ نہیں کیونکہ صرف دولت کے اظہار کیلئے لوگ ان چیزوں جو خریدتے اور اپنے روپیہ کو برباد کرتے ہیں ۔میں تو سمجھتا ہوں کہ یورپین لوگوں کو اگر آج پتہ لگے کہ کسریٰ کا قالین اُن کو مل رہا ہے تو شاید اس کیلئے وہ ایک کروڑ روپیہ بھی دیدیں لیکن مسلمانوں کے نزدیک اُس کی اتنی حیثیت تھی کہ ایک جنگ میں کسریٰ نے کہا کہ مسلمان افسر میرے پاس لائے جائیں میں اُن کے ساتھ خود بات چیت کرنا چاہتاہوں ۔اس پر صحابہؓ کا ایک وفد اُس کے پاس گیا ۔اور ان کے سردار اپنے بھدے جوتوں کے ساتھ قالین پر اپنا نیزہ مارتے ہوئے اُس کے پاس پہنچے۔بادشاہ اُن کی اس حرکت کو دیکھ کر حیران ہو گیااور کہنے لگا آپ لوگوں میں کوئی تمیز ہی نہیں ۔حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ بادشاہ ہو کر بھی قالین کی عزت کرتا تھا اورمسلمان غریب ہو کر بھی صرف خدا کی عزت کرتا ہے ۔اور کسریٰ کے پاس ہو نے کی وجہ سے قالین اُس کی نظروں میں کوئی عزت نہیں رکھتا تھاوہ صرف اُس چیز کی عزت کرتا تھا جس کی خدا عزت کرتا تھا۔غرض رسول کریم ﷺ نے ان ساری باتوں کو عملاً ناجائز قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ مومن کا یہ کام نہیں کہ ان لغو کاموں میں اپنے وقت کو ضائع کرے اور اس قسم کی بیکار چیزوں پر اپنے روپیہ کو برباد کرے۔
آجکل کے لحاظ سے سینما اور تھئیٹر وغیرہ بھی اس حکم کے نیچے آجائیں گے کیونکہ سینما اور تھیئٹروں وغیرہ پر بھی ملک کی دولت کا ایک بہت بڑا حصہ ضائع ہوتا ہے ۔یورپ کی آزاد حکومتیں جو اپنی اقتصادی ترقی کیلئے ہمیشہ کوشش کرتی رہتی ہیں ۔اُن کی تو یہ حالت ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سینما اور تھیئٹر بناتی ہیں تاکہ وہ لوگ جو سینمائوںکی کمی کی وجہ سے اس تعیش سے محروم ہیں وہ بھی اس میں حصہ لے سکیں اور ان کی دولت اور ان کا وقت بھی اس پر صرف ہو لیکن اسلام قطعی طور پر اُن تمام چیزوں کو جو بنی نوع انسان کیلئے مفید نہیں بند کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم ان کی اجازت نہیں دے سکتے۔اگر اسلام کے ان احکام پر پوری طرح عمل کیا جائے تو امراء کی ظاہری حالت بھی ایک حد تک مساوات کی طرف لوٹ آئے کیونکہ ناجائز کمائی کا ایک بڑا محرک ناجائز اور بے فائدہ اخراجات ہی ہوتے ہیں۔اس طرح ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ حقیقی مومن صرف لغو کاموں سے ہی نہیں بچتے بلکہ لغو خیالات سے بھی بچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کو لغو خیالات کی عادت ہوتی ہے اُنہی کے دلوں میں نماز پڑھتے وقت قسم قسم کے خیالات آتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے اُن کی توجہ میں انتشار پیدا ہو جاتا ہے ۔اگر وہ لغو خیالات اپنے دل و دماغ میں پیدا ہی نہ کریںاور اگر پیدا ہوں تو اُن کو روکنے کی کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس میں کامیاب نہ ہوں ۔لیکن دیکھا گیا ہے کہ کئی لوگ محض شیخ چلی جیسے خیالات کے چکر میں پھنسے رہتے ہیں حالانکہ ان کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا ۔ایسے خیالات جو محض ظنّی اور قیاسی ہوں اُن میں مشغول ہونے کیلئے اپنے نفس کو ہر گز اجازت نہیں دینی چاہئیے اس سے ایک اور نقص بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص بیکار خیالات میں اپنے دماغ کو لگا دیتا ہے تو پھر وہ معقول باتوں کی طرف توجہ کرنے کے قابل ہی نہیں رہتا ۔پس لغو خیالات اور لغو افکار سے اپنے دل و دماغ کو صاف کرکے انہیں اعلٰی اور مفید خیالات کی طرف متوجہ رکھنا چاہئیے تاکہ قوتِ فکر ترقی کرے اور دماغ جو اللّٰہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے وہ ماؤف نہ ہو۔
پھر بتایا کہ مومن اس سے بھی ترقی کرکے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیںکہ اپنے اموال غرباء کی ترقی کے لئے ہمیشہ خرچ کرتے رہتے ہیں ۔درحقیقت اسلام اس نظریہ کا حامل ہے کہ دنیا میں جسقدر چیزیں پائی جاتی ہیں وہ سب کی سب خداتعالیٰ نے بنی نوع انسان کے مشترکہ فائدہ کیلئے پیدا کی ہیں ۔کسی ایک فرد کے لئے مخصوص نہیں کی گئیں اور چونکہ ہر قسم کی دولت جو دنیا میں حاصل کی جاتی ہے دوسرے لوگوں کی مدد سے حاصل کی جاتی ہے اور مزدور کی مزدوری ادا کرنے کے بعد بھی دولت مند کے مال میں اُن کا حق باقی رہ جاتا ہے اس لئے اسلام نے زکوٰۃ کا حکم دیا ہے تاکہ انسانی اموال دوسروں کے حقوق کی ملونی سے پاک ہو جائیں ۔مثلاً ایک کان کا مالک اگر ان تمام مزدوروں کو جو کان میں کام کرتے ہیں اُن کی پوری مزدوری بھی ادا کر دے تب بھی وہ جو کچھ ادا کرے گا وہ اُن کی اُجرت ہوگی۔حالانکہ قرآنی تعلیم کے مطابق وہ لوگ بھی اُس کان میں حصّہ دار تھے ۔پس مزدوری ادا کرنے کے بعد بھی وہ حق ملکیت جو مزدوروں کو حاصل تھا ادا نہیں ہوتا ۔اُس کی ادائیگی کی ایک صورت یہ ہو سکتی تھی کہ اُن مزدوروں کو کچھ زائد رقم دے دی جاتی مگر اس طرح بھی اُن چند مزدوروں کا حق تو ادا ہو جاتا جو وہاں کام کر رہے ہیں لیکن باقی دنیا جو اس میں انہی کی طرح حصّہ دار تھی اپنا حق حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی ۔اس لئے اسلام نے یہ حکم دے دیا کہ ہر شخص لازماً اپنے اموال کا ایک حصّہ زکوٰۃ کے طور پر ادا کرے۔تاکہ حکومت اُسے تمام بنی نوع انسان کی ضروریات کیلئے مشترکہ طور پر خرچ کرے۔اسی طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر کان جو دریافت کی جائے اس کا 1/5حصہ حکومت کو ملے گا تاکہ اسے غرباء پرخرچ کیا جائے۔اس طرح بھی اسلام نے تمام بنی نوع انسان کا زمین میں جوحصہ ہے اُس کو محفوظ کر دیا ہے ۔اسی طرح ایک زمیندار جو زمین میں سے اپنی روزی پیدا کرتا ہے گو اپنی محنت کا پھل کھاتا ہے مگر درحقیقت وہ اُس زمین سے فائدہ اُٹھا تا ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لئے مشترکہ طورپر بنائی گئی تھی۔پس اُس کی آمد میں سے بھی ایک حصہ لازمی طورپر حکومت کو دلوایا جاتا ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کیلئے اُسے خرچ کیا جائے۔یہی حال تجارت کا ہے۔تجارت کرنے والا بظاہر اپنے مال سے تجارت کرتا ہے لیکن اُس کی تجارت ملکی امن کے بغیر کبھی نہیں چل سکتی اور امن کے قیام میں ملک کا ہر شخص حصہ دار ہوتا ہے ۔پس اس کا حق دلانے کیلئے تجارتی اموال پر بھی اسلام نے زکوٰۃ مقرر کردی تاکہ ان اموال میں جو دوسرے لوگوں کے حق شامل ہیں وہ ادا ہو جائیں اور حکومت ایسے تمام روپیہ کو بنی نوع انسان سے تعلق رکھنے والے مشترکہ امور کی تکمیل اور اُن کی سرانجام دہی کے لئے خرچ کرے۔
رسول کریم ﷺ کو غرباء کی تکالیف کا اتنا احساس رہتا تھا کہ احادیث میں آتا ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آتا تو رسول کریم ﷺ اتنی کثرت کے ساتھ غرباء میں صدقات تقسیم فرماتے کہ اُسے اگر ایک تیز ہوا سے مشابہت دی جائے تو یہ بھی ایک ناقص مشابہت ہوگی۔اسی طرح ایک دفعہ کچھ اموال آئے جن کو آپ نے غرباء میں تقسیم فرما دیا مگر ایک دینار کہیں غلطی سے رہ گیا اور وہ تقسیم نہ ہو سکارسول کریم ﷺ نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک آپ کو وہ دینار یاد آگیا ۔جب آپ نے نماز ختم کر لی تو بجائے اس کے کہ آپ بیٹھ کر صحابہؓ سے گفتگو فرماتے آپ جلدی جلدی اندر تشریف لے گئے ۔صحابہؓ کہتے ہیں کہ اس وقت رسول کریم ﷺ میں ایسا اضطراب پایا جاتا تھا کہ آپ ہماری گردنوں پر سے کودتے ہوئے اندر تشریف لے گئے ۔جب واپس آئے تو آپ نے فرمایا کہ اموال تقسیم کرتے کرتے ایک دینار کہیں گر گیا تھا۔مجھے نما ز پڑھاتے ہوئے وہ یاد آیا تو میرا دل اس خیال سے بے چین ہو گیا کہ اگر میری موت آگئی اور غرباء کا یہ مال میرے گھر میں ہی پڑا رہا تو میں خداتعالیٰ کو کیا جواب دونگا۔اس لئے میں فوراً اندر گیا اور اسے بھی تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔
(بخاری کتابا الکسوف باب من احب تعجیل الصدقۃ من یومہا)
اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آپ کے پاس صدقہ کی کچھ کھجوریں آئیں۔حضرت امام حسنؓ جو اسوقت چھوٹے بچے تھے اور اُن کی عمر اُس وقت دو اڑہائی سال کی تھی انہوں نے ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی۔رسول کریم ﷺ نے دیکھا تو آپ نے فوراً اُن کے منہ میں انگلی ڈال کر وہ کھجور نکال کر باہر پھینک دی اور فرمایا یہ ہمارا حق نہیں ۔یہ خدا کے غریب بندوں کا حق ہے ۔
ایک دفعہ آپ کو معلوم ہوا کہ آپ کے ایک صحابی حضرت سعدؓ جو مالدار تھے وہ بعض دوسرے لوگوں پر اپنی فضیلت ظاہر کر رہے ہیں ۔رسول کریم ﷺ نے یہ بات سُنی تو فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں یہ مال اپنے زور بازو سے ملا ہے؟تمہاری طاقت اور دولت کا اصل ذریعہ غرباء ہی ہیں۔ اس لئے فخر مت کرو اور غرباء کی تحقیر نہ کرو۔
غرض ھُمْ لِلزَّکوٰۃِ فَاعِلُوْنَ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ وہی لوگ کامیابی حاصل کیا کرتے ہیں جو غرباء کی ترقی کیلئے اپنے اموال خرچ کرتے رہتے ہیں اور اُن کے حقوق کو نظر انداز نہیں کرتے ۔یورپ میں تو مزدوروں نے کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں وہ اپنے حقوق کیلئے جدو جہد کرتے رہتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اوّل تو لوگ مزور کو اس کے حق سے کم دیتے ہیں ۔اور پھر جو کچھ دیتے ہیں وہ بھی وقت پر نہیں دیتے حالانکہ ہمارے مزدوروں کی کمیٹی آسمان پر بنی ہو ئی ہے اور وہ اُن کے حقوق کا تصفیہ کرتی ہے۔مگر اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رہا جس کی وجہ سے لوگ آسمانی کمیٹیوں کے فیصلہ کی تعمیل نہیں کرتے۔اگر خدا تعالیٰ چاہے تو احمدیت کے ذریعہ سے اس کی تعمیل ہونے لگ جائیگی مگر موجودہ زمانہ میں اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ نہ صرف مزدور طبقہ کی حق تلفی ہو رہی ہے بلکہ مالکوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ مالکوں کو مزدوروں سے ہی کام لینا پڑتا ہے اور جب ان کے حقوق ادا نہیں ہوتے تو وہ خوش دلی سے کام نہیں کرتے جس کا اثر اس کام پر بھی پڑتا ہے جو ان کے سپرد کیا جاتا ہے۔اور اس طرح مالک بھی مزدور کی حق تلفی کرکے اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔یورپ میں میں نے دیکھا ہے کہ کوئی شخص چلتا ہوا نظر نہیں آتا۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب لوگ دوڑ رہے ہیں1924ئ؁ میں جب میں یورپ گیا تو ایک دفعہ میں نے حافظ روشن علی صاحبؓ سے پوچھا کہ کیا آپ نے لنڈن میں کسی کو چلتے بھی دیکھا ہے۔انہوں نے کہا ہم نے تو کسی کو چلتے نہیں دیکھا جس کوبھی دیکھا ہے دوڑتے ہوئے دیکھا ہے ۔وہاں ہم نے ایک عمارت بنتی دیکھی تو حیرت آگئی کہ کس پھُرتی کے ساتھ مزدور وہاں کام کر رہے ہیں ۔ہمارا مزدور جب اینٹ اُٹھا نے لگتا ہے تو ہاتھوں میں اٹھا کر اور ایک آہ بھر کر ٹوکری میں ڈالتا ہے پھر دوسری اینٹ اٹھاتا اور یہ دکھانے کیلئے کہ وہ کام کر رہا ہے اس طرح پھونک مار مار کر اُس پر سے گرد ہٹاتا ہے کہ گویا اطلس یا کمخواب کا کوئی تھان اس کے سامنے پڑا ہوا ہے ۔کبھی وہ اس کے ایک طرف پھُونک ماریگا اور کبھی دوسری طرف اور بہانہ صرف یہ ہوگاکہ کچھ نہ کچھ دیر لگ جائے ۔پھر آرام سے اٹھتا ہے اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اُسے معمار کے پاس لے جاتا ہے اور جب اس انداز میں وہ دو تین ٹوکریاں اُٹھا لیتا ہے تو اس کے بعد بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے ۔میں حقہ کے دو گھونٹ تو پی لوں مگر انگلینڈ میں یہ بات نہیں۔وہاںہر شخص دوڑتا ہو انظر آتا ہے اور پھر جس عمارت کا میں نے ذکر کیا ہے وہ جس طرح منٹوں میںمَیں نے اُٹھتی دیکھی اُس طرح گھنٹوں میں بھی ہمارے ملک میں کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوتی۔مگر افسوس کہ اس دفعہ جو میں علاج کیلئے یورپ گیا اور انگلینڈ بھی گیا۔تو مجھے معلوم ہوا کہ انگلینڈ کے لوگوں میں سستی پیدا ہو چکی ہے اور وہ اُس چُستی سے کام نہیں کرتے جس چُستی سے وہ پہلے کیا کرتے تھے ہاں کہنے والے کہتے ہیں کہ امریکہ میں ابھی کچھ چستی موجود ہے ۔
پس غرباء کے حقوق نظر انداز کرنے کا نتیجہ دونوں کے حق میں بُرا نکل رہا ہے۔غرباء میں سستی اور نکمّے پن کی عادت پیدا ہو رہی ہے اور امراء اپنی تجارتوں اور صنعتوں اور کارخانوں اور زمینوں سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھانے سے محروم ہو رہے ہیں ۔پس قومی ترقی کا یہ ایک نہایت اہم اصل ہے کہ غرباء کے حقوق کا خیال رکھا جائے ۔اور امراء اُن کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے اپنے اموال کا ایک حصہ خرچ کرتے رہیں ۔اس طرح دنیوی طور پر بھی وہ ترقی کریں گے اور روحانی رنگ میں بھی اللہ تعالیٰ کی برکات اور اس کے انعامات حاصل کریں گے۔
پھر مومن اس سے بھی آگے ترقی کرتے ہیں اور اُس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ اپنے سب سوراخوں کی حفاظت کرتے ہیں یعنی کانوں ، آنکھوں ، منہ اور اپنی شرمگاہوں کی بھی ۔نہ غیبت سنتے ہیں نہ دوسروں کے اموال کو لالچ سے دیکھتے ہیں اور نہ بدکاری کرتے ہیں ۔ہاں اپنی بیویوں سے تعلق رکھنا جائز ہے ۔اسی طرح ایسی عورتوں سے جن کے اُنکے داہنے ہاتھ مالک ہوئے ۔ایسے لوگوں پر مذہبی لحاظ سے کوئی ملامت نہیں ۔
’’داہنے ہاتھ مالک ہوئے‘‘ کی تشریح کے بارہ میں یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ بعض لوگ تو اس میں نوکرانیوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں اور بعض اُن لونڈیوں کو بھی جو چھاپہ مار کر کسی کمزور قوم کے اندر سے زبردستی اغوا کر لی جاتی ہیں اور پھر فروخت کر دی جاتی ہیں اور بعض لوگ ان الفاظ کے یہ معنے لیتے ہیں کہ جو عورتیں جہاد میں حاصل ہوں وہ بغیر نکاح کے گھروں میں رکھنی جائز ہیں لیکن یہ سب معنے غلط ہیں ۔قرآن کریم میں اور احادیث میں نوکروں اور غلاموں کا الگ الگ ذکر ہے ۔اس لئے نوکر اس میں شامل نہیں۔اور غلاموں کے متعلق قرآن کریم صاف طورپر فرماتا ہے کہ مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ تَکُوْنَ لَہٓ‘ اَسْریٰ حَتّٰی یُثْخِنُ فِی الْاَرْضِ (انفال ۹ع) یعنی کسی نبی کیلئے جائز نہیں کہ وہ کسی پُر امن قوم میں سے مردجنگی قیدی یا عورت جنگی قیدی زبردستی پکڑ لائے جب تک کہ اُس کے اور اسکے دشمنوں کے درمیان خونریز جنگ نہ ہولے۔یعنی یونہی کسی قوم میں سے جو جنگ نہ کر رہی ہو قیدی پکڑنے جائز نہیں جیسا کہ سینکڑوں سال سے حجاز کے لوگ حبشہ سے غلام پکڑ لاتے ہیں یا جیسا کہ گذشتہ صدیوں میں عراق کے لوگ ایران سے یا روم سے یا یونان سے یا اٹلی کے جزیزوں سے غلام پکڑ کر لے آتے تھے۔ایسی غلامی اسلام میں جائز نہیں ۔صرف جنگی قیدی پکڑنے جائز ہیں اورجنگی قیدی پکڑنے ببھی صرف اس وقت جائز ہیں جبکہ دشمن سے باقاعدہ جنگ ہو جائے اور ایسے وقت میں بھی یہ حکم ہے کہ جنگی قیدی کا فدیہ لے کر اُسے چھوڑ دو۔اور اگر اُس کے پاس فدیہ نہ ہو یا اُس کی قوم اس کا فدیہ دینے کا تیار نہ ہو تو پھر حکومتِ اسلامیہ اُسے احسان کے طور پر چھوڑ دے۔(سورۂ محمد ۱ع) اور اگر احسان کے طور پر چھوڑنا اس کے لئے مشکل ہو تو زکوٰۃ کے روپیہ میں سے اُس کا فدیہ دے کر اُسے چھوڑ دے ( سورۂ توبہ ۸ ع)اور اگر اس میں بھی مشکل ہو تو قیدی کو مکاتبت کا اختیار دیا جائے ۔(سورۂ نُور ۴ ع)مکاتبت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ جنگی قیدی اپنے مالک سے یہ کہتا ہے کہ تم مجھے آزاد کر دو میں محنت اور کمائی کرکے اپنا فدیہ ادا کر دونگا۔اور اس وقت تک اپنی ذاتی تجارتوں وغیرہ میں آزاد سمجھا جاؤنگا۔صرف اسلامی ملک میں رہنے کا وہ پابند ہوتا ہے۔اب ظاہر ہے کہ اگر کوئی عورت اوپر کے تمام طریقوں کے باوجود آزاد ہونا نہ چاہے گی تو وہ عورت ایسی ہی ہوگی جو اپنے ملک میں جانا اپنے لئے خطرناک سمجھتی ہوگی اور مسلمان مرد کے پاس رہنے کا جو خطرہ تھا اس کے راستے کھلے ہونے کے باوجود اُن کو استعمال کر نا پسند نہ کرے گی۔اور جو عورت باوجود ہر قسم کی سہولت کے مسلمان گھرانے سے نکلنا پسند نہ کرے گی اس عورت سے جبراً شادی کر لینے کے سوامسلمان مرد کیلئے کوئی چارہ نہیں کیونکہ اگر وہ آزاد نہ ہوگی اور مسلمان مرد اس سے جبراً شادی نہ کرے گا تو وہ گھر میں اور علاقہ میں بدکاری پھیلائیگی اور اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔پس آزاد عورتوں اور جنگی عورتوں میں اتنا ہی فرق ہے کہ آزاد عورت کے لئے اپنی مرضی سے نکاح کرنا جائز ہوتا ہے اور وہ عورت جو جنگی قیدی ہو وہ یا تو ان طریقوں سے اپنے آپ کو آزاد کرا لیتی ہے جو اسلام نے اس کے لئے کھلے رکھے ہیں یا پھرجس گھر میں وہ ہوتی ہے اُس کا کوئی مرد اُس سے شادی کر لیتا ہے تاکہ بدکاری نہ پھیلے اور اگر اس کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے تو پھر وہ آزاد ہو جاتی ہے ۔پس داہنے ہاتھوں کی ملکیت کے الفاظ سے کوئی شخص دھوکہ نہ کھائے ۔ان الفاظ کے معنی غلامی کے نہیںکیونکہ غلامی اسلام میں جائز نہیں ۔قرآن کریم صاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ جبتک کسی قوم کے ساتھ بھاری جنگ نہ ہو اُس میں سے قیدی پکڑنے جائز نہیں اور پھر انہیں بھی مختلف طریقوں سے آزاد کرنے کا حکم ہے۔جو زیادہ تر اسلامی حکومت یا کفر کی حکومت یا قیدی کے رشتہ داروں یا خود قیدی کے اختیار میں ہیں۔اور اگر کسی قیدی عورت کے چھڑانے کیلئے نہ تو اسلامی حکومت کوشش کرتی ہے جو کہ غیر جانبدار ہے نہ کافر حکومت کوشش کرتی ہے جو کہ قیدی کی جانبدار ہے ۔نہ اس کے رشتہ دار کوشش کرتے ہیں جن کو سب سے زیادہ اُس کا درد ہے۔اور نہ وہ عورت خود کوشش کرتی ہے جس کو اپنی عزت کا خیال سب سے زیادہ ہو سکتا ہے اور پھر کوئی مسلمان اس عورت سے شادی کرلے۔تو اس کیلئے یہ راستہ کھلا رکھا جاتا ہے کہ اولاد ہوتے ہی وہ آزاد ہو جائیگی اور باوجود جنگی قیدی ہونے کے اسے بچنا ناجائز نہ ہوگا ۔اب بتاؤ ایسی عورت آزاد ہوئی یا قید۔پہلے تو اس کا قید کرنا کئی طرح ناجائز قرار دیا گیا ۔پھر اسکی آزادی کیلئے اس کی شادی سے پہلے کئی راستے کھولے گئے۔پھر شادی کے بعد اولاد ہونے پر اُس کو آزاد قرار دیا گیا اور ہمیشہ کیلئے یہ گارنٹی دی گئی کہ اُسے کسی صورت میں بھی فروخت نہیں کیا جا سکتا ۔(محلَّی ابن حزم جلد ۹ ص ۷۱۲ ) اب بتاؤ کہ کیا دنیا میں کسی آزاد عورت کو اس سے زیادہ حق ہوتے ہیں۔
پانچواں درجہ روحانی ترقی کا یہ بتایا کہ مومن اپنی امانتوں اور اپنے عہدوں کا خیال رکھتے ہیں۔یعنی جو امانت اس کے پاس رکھوائی جائے اس کی حفاظت کرتے ہیں اور جو عہد کرتے ہیں خواہ وہ کسی کافر یا دشمن سے ہی کیوں نہ ہو اُسے پورا کرتے ہیں ۔رسول کریم ﷺ امانت اور دیانت کے اصول پر اتنی سختی سے عمل کرتے تھے کہ تاریخوں میں لکھا ہے جن دنوں اسلامی افواج نے خیبر کا محاصرہ کیا ہوا تھا ایک یہودی رئیس کا گلہ بان جو اُس کی بکریاں چرایا کرتا تھا مسلمان ہو گیا۔اور اُس نے کہا رسول اللہ میں اب ان لوگوں میں تو نہیں جا سکتالیکن میرے پاس اپنے یہودی آقا کی جو بکریاں ہیں ان کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے !رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔بکریوں کا منہ یہودی قلعہ کی طرف کردواور اُن کو ادھر دھکیل دو۔اللہ تعالیٰ خود انہیں ان کے مالک کے پاس پہنچا دے گا۔چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا اور بکریاں قلعہ کے پاس چلی گئیں جہاں سے قلعہ والوں نے اُن کواندر داخل کر لیا( سیرۃ الحلبیہ جلد ۳ ص۴۵) اس واقعہ پر غور کرنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ امانت کی ادائیگی کا کتنا احساس رکھتے تھے اورکس طرح جنگ کے دوران میں بھی دشمن قوم کے اموال پر بے جا قبضہ کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔موجودہ زمانہ انتہائی ترقی یا فتہ دور کہلاتا ہے ۔مگر آجکل بھی کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ جنگ کے دوران میں دشمن اقوام کے جانور ہاتھ آگئے ہوں تو اُن کو دشمن کی فوج کی طرف واپس کر دیا گیا ہو۔لڑنے والوں کے اموال آجکل جنگ میں حلال سمجھے جاتے ہیں اور لُوٹ کھسوٹ ایک روزمرہ کا کھیل سمجھا جاتا ہے مگر باوجود اس کے وہ بکریاں ایک ایسے شخص کی تھیں جو اسلامی افواج کے مقابلہ میں بر سرِ پیکار تھا۔اور باوجود اس کے کہ ان بکریوں کے قلعہ میں واپس چلے جانے کا یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ مہینوں تک انہیں اپنی غذا کا سامان مہیا ہو جاتا اور لڑائی لمبی ہو جاتی ۔پھر بھی رسول کریم ﷺ نے یہ برداشت نہ کیا کہ امانت میں خیانت ہو بلکہ آپ نے فرمایا بکریوں کا منہ قلعہ کی طرف کر دو اور انہیں اس طرف ہانک دو تا کہ امانت میں خیانت واقع نہ ہو۔اس طرح رسول کریم ﷺ نے اُسے مسلمان ہوتے ہی پہلا سبق یہ دیا کہ جب کوئی امانت تمہارے پاس رکھ دی جائے تو تمہارا فرض ہے کہ انتہائی مشکلات میں بھی اُس کی حفاظت کرو اور جس کی چیز ہے اُسے وہیں پہنچاؤ۔صحابہؓ نے رسول کریم ﷺ سے یہ سبق سیکھا اور انہوں نے بھی اس پر ایسی سختی سے عمل کیا جس کی نظیر آج تہذیب و شائستگی کی دعویدار اقوام میں بھی کہیں نظر نہیں آسکتی۔یہ کتنا شاندار نمونہ ہے جو صحابہؓ نے دکھایا کہ حمص جو عیسائیوں کا ایک مرکزی شہر تھا اُس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا اور انہوں نے لاکھوں روپیہ عیسائیوں سے ٹیکس کے طور پر وصول کر لیالیکن جب انہیں جنگی مصلحتوں کے ماتحت اس شہر کو خالی کرنا پڑا تو انہوں نے وہاں کے ذمہ دار افراد کو بلایا اور اُن کو سارا روپیہ اُن کو واپس کردیا اور کہا ہم نے تم سے یہ ٹیکس اس لئے لیا تھا کہ ہم تمھارے جان و مال کی حفاظت کریں گے۔مگر اب چونکہ حالات مخدوش ہو رہے ہیں اور ہم اس شہر کو چھوڑ رہے ہیں اس لئے ہم دیانت و امانت کے اصول کے خلاف یہ بات سمجھتے ہیں کہ تمہارا روپیہ اپنے پاس رکھیں ۔چنانچہ لاکھوں روپیہ ان کو واپس کر دیا گیا۔تاریخ بتاتی ہے کہ اس واقعہ نے عیسائیوں کے قلوب پر ایسا گہرا اثر چھوڑا کہ جب مسلمانوں کا لشکر شہر سے نکلا تو وہ ساتھ ساتھ الوداع کہنے کیلئے چل پڑے۔اُن کی آنکھوں سے آنسو بہتے جاتے تھے اور وہ کہتے جاتے تھے کہ خدا تمہیں پھر دوبارہ واپس لائے کہ ہم نے تمہارے جیسے نیک حاکم آج تک نہیں دیکھے۔اسی طرح اسلام نے حکومت کو بھی امانت قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ جب یہ امانت تمہارے سپرد ہو تو تم اس میں کبھی خیانت نہ کرو اور ہمیشہ حکومت کی باگ دوڑ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دو جو حکومتی ذمہ داریوں کو پوری دیانت کے ساتھ ادا کرنے والے ہوں اور تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے اس حکم پر بھی انتہائی سختی کے ساتھ عمل کیا ہے۔
گبن یورپ کا ایک مشہور عیسائی مؤرخ ہے ۔اُس نے روم کے حالات کے متعلق ایک تاریخی کتاب لکھی ہے ۔وہ اس کتاب میں ملک شاہ کے متعلق جو الپ ارسلان کا بیٹا تھا بیان کرتا ہے کہ ابھی چھوٹی عمر کا تھا کہ اُس کا والد فوت ہوگیا ۔اُس کے مرنے کے بعد ملک شاہ کے ایک چچا ایک چچا زاد بھائی اور ایک سگے بھائی نے بالمقابل بادشاہت کا دعویٰ کر دیااور آپس میں خانہ جنگی شروع ہو گئی ۔نظام الدین طوسی ملک شاہ کے وزیر اعظم تھے اور چونکہ وہ شیعہ تھے انہوں نے ملک شاہ سے درخواست کی کہ آپ میرے ساتھ امام موسیٰ رضا کے مزار پر دُعا کیلئے تشریف لے چلیں تاکہ اللہ تعالیٰ نے اس جنگ میں آپ کو کامیاب فرمائے۔ملک شاہ چل پڑا اور اُس نے وہاں دُعا کی جب دعا سے فارغ ہوئے تو ملک شاہ نے نظام الملک طوسیٰ۱؎ سے پوچھا کہ بتائیے آپ نے کیا دعا کی ہے اُس نے کہا میں نے تو یہ دُعا کی ہے کہ خداتعالیٰ آپ کو فتح بخشے ۔ملک شاہ نے کہا لیکن میں نے تو یہ دُعا نہیں کی ۔میں نے تو یہ دعا کی ہے کہ اے میرے رب!اگر میرا بھائی مسلمانوں پر حکومت کرنے کا مجھ سے زیادہ اہل ہے تو تُو اُسے کامیابی بخش اور میری جان اور میرا تاج مجھ سے واپس لے لے۔اگر میں اس امانت کو زیادہ عمدگی سے ادا کرنے کے قابل ہوں تو پھر تُو مجھے کامیابی عطا فرما۔گبن ایک نہایت ہی متعصب عیسائی مؤرخ ہے مگر اس واقعہ کے سلسلہ میں وہ بے اختیار لکھتا ہے کہ اس مسلمان نوجوان شہزادہ کے اس قول سے زیادہ پاکیزہ اور وسیع نظر یہ تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنا نا ممکن ہے اور عیسائیت کے بوڑھے بوڑھے بادشاہ بھی ایسے اخلاق کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔یہ رُوح جو مسلمانوں کے اندر پیدا ہوئی اسی بات کا نتیجہ تھی کہ اسلام نے ان کے دماغوں میں بڑی سختی کے ساتھ یہ بات مرکوز کر دی تھی کہ حکومت بھی ایک امانت ہے اور تمہارا کام یہ ہے کہ تم کبھی کسی امانت میں خیانت نہ کرو۔
۱؎ ( ابن خلقان جلد پنجم ص۲۸۵)
پھر ایفائے عہد کا رسول کریم ﷺ کو اسقد ر خیال رہتا تھا کہ ابھی آپ نے دعوٰئے نبوت بھی نہیں فرمایا تھا کہ قبائلی لڑائیوں اور روزمرہ کے باہمی جھگڑوں اور فسادات کو دیکھ کر مکہ کے چند نوجوانوں نے ایک انجمن بنائی جس کی غرض یہ تھی کہ وہ مظلوموں کی مدد کیا کرے گی ۔رسول کریم ﷺ بھی اس مجلس میں شامل ہوئے اور سب نے مل کر یہ قسمیں کھائیں کہ جب تک سمندر میں پانی کا ایک قطرہ تک بھی موجود ہے وہ ہمیشہ مظلوموں کی مدد کریں گے اور اُن کے حق انکو ظالم سے دلوانے کی کوشش کریں گے ۔اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکیں گے تو اپنے پاس سے مظلوم کا حق ادا کریں گے ۔یہ انجمن جو مظلوموں کی دادرسی اور اُن کی اما نت کا بیڑہ لے کر اُٹھی تھی اُس نے کیا کام کیا اور کس طرح مظلوموں کی مدد کی ؟ اس بارہ میں تاریخی طورپر کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتیں مگر دعویٰ ٗ نبوت کے بعد جبکہ مکہ کے لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کے جان لیوا دشمن بن گئے ایک شخص جس نے ابوجہل سے کچھ روپیہ لینا تھا مگر وہ دیتا نہیں تھا رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور اُس نے عرض کیا کہ آپ حلف الفضول میں شامل رہ چکے ہیں اور آپ نے اس کی قسم کھائی تھی کہ ہمیشہ مظلوموں کی مدد فرمائیں گے میں آپ کو آپ کا عہد یاد دلاتے ہوئے درخواست کرتا ہوں کہ میرا کچھ روپیہ ابو جہل نے دینا ہے آپ اس کے پاس چلیں اور مجھے یہ روپیہ دلا دیں ۔جب اُس نے یہ بات کہی تو باوجود اس کے کہ مکہ میں کھلے بندوں پھرنا رسول کریم ﷺ کیلئے خطرہ کا موجب تھا اور پھر ابوجہل آپ کا شدید ترین دشمن تھا اور ہو سکتا تھا کہ وہ آپ کو کوئی نقصان پہنچائے۔آپ فوراً اُٹھے اور اُس کے ساتھ چل کر ابوجہل کے مکان پر جا پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا ۔ابو جہل دستک کی آواز سن کر باہر نکلا آپ نے فرمایااس شخص کا تم نے کچھ روپیہ لیا ہوا ہے وہ فوراً اسے ادا کر دو۔ابوجہل بلاچوں و چرا اندر گیا اور روپیہ لاکر اُس نے اُس شخص کے حوالے کر دیا۔ابوجہل کا محمد رسول اللہ ﷺ کے کہنے پر ایک شخص کو اس کا روپیہ دے دینا کوئی ایسی بات نہ تھی جو چُھپی رہتی۔جنگل کی آگ کی طرح یہ بات مکہ میں پھیل گئی اور لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ ابو الحکم ہمیں تو کہتا ہے محمد (ﷺ) کی بات نہ مانو۔اور خود اُس سے اتنا ڈر گیا کہ ایک منٹ کے اندر اندر روپیہ دینے کیلئے تیار ہو گیا۔جب اُس نے یہ باتیں سُنیں تو وہ کہنے لگا۔خدا کی قسم اگر تم میری جگہ ہوتے تو تم بھی وہی کام کرتے جو میں نے کیا ہے ۔کیونکہ جب محمد (ﷺ) آیا تو مجھے اُس کے دائیں اور بائیں دوست اونٹ کھڑے دکھائی دئیے ۔جن کو دیکھ کر میرا دل سخت خوف زدہ ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ اگر میں نے اُس کی بات نہ مانی تو یہ دونوں اونٹ مجھے چیر کر کھا جائیں گے۔اب یہ بات تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اُسے کوئی ایسا نظارہ نظر آیا تھا یا حق کا رعب اُس پرچھا گیا تھا مگر بہر حال جب رسول کریم ﷺ حلف الفضول کے معاہدہ کے احترام میں ایک مظلوم شخص کا حق دلانے کے لئے انتہائی خطرات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اُس کے پاس گئے تو سچائی کے رُعب نے اُس کی شرارت کی رُوح کو کچل دیا اور وہ مظلوم کا حق دینے کیلئے تیار ہو گیا۔
پھر رسول کریم ﷺ کو وفائے عہد کا اس قدر پاس تھا کہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جب یہ معاہدہ ہوا کہ مکہ کے لوگوں میں سے کوئی نوجوان مسلمان ہوا تو اسے اس کے رشتہ داروں کی طرف واپس کر دیا جائیگا لیکن جو مسلمان مکہ والوں کی طرف واپس جائیگا اُسے مکہ والے واپس کرنے پر مجبور نہیں ہونگے۔تو ابھی اس معاہدہ کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ سہیل جو مکہ والوں کی طرف سے معاہدہ کر رہاتھا اُس کا اپنا بیٹا رسیّوں سے جکڑا ہوا اور زخموں سے چور رسول کریم ﷺ کے سامنے آکر گِرا اور اُس نے کہا یا رسول اللہ ! میں دل سے مسلمان ہوں مگر میرا باپ اسلام کی وجہ سے مجھے تکلیفیں دے رہا ہے ۔آج میرا باپ یہاں آیا تو میں موقعہ پا کر نکل بھاگا اور یہاں آگیا۔رسول کریم ﷺ نے ابھی اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ اُس کا باپ کہنے لگا معاہدہ ہو چکا ہے ۔اب اسے میرے ساتھ جانا پڑیگا۔ابو جندل کی حالت اس وقت اتنی دردناک تھی کہ مسلمانوں کی آنکھوں سے خون کے آنسو بہتے تھے۔خود ابو جندل نے بھی رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا آپ مجھے پھر مکہ والوں کی طرف واپس کر دیں گے تاکہ یہ لوگ مجھے پہلے سے بھی زیادہ تکلیف دیں؟ مگر آپنے فرمایا !خدا کے رسول معاہدہ نہیں توڑا کرتے ۔تمہیں بہر حال واپس جانا پڑیگا۔تم صبر سے کام لو اور خداتعالیٰ پر توکل کرو ۔چنانچہ وہ مکہ میں واپس بھجوا دیا گیا۔پھرجب آپ مدینہ پہنچے تو مکہ کا ایک اور نوجوان ابو بصیر ؓ آپ کے پیچھے پیچھے دوڑتا ہوا مدینہ پہنچا مگر رسول کریم ﷺ نے اُسے بھی معاہدہ کے مطابق مکہ واپس جانے پر مجبور کیا۔اسی طرح وفائے عہد کا آپ کو اس قدر خیال تھا کہ ایک دفعہ ایک حکومت کا ایلچی رسول کریم ﷺ کے پاس کوئی پیغام لے کر آیا ۔اور آپ کی صحبت میں کچھ دن رہ کر اسلام کی سچائی کا قائل ہو گیا ۔اُس نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ میں اپنے اسلام کا اظہار کرنا چاہتا ہوں ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ مناسب نہیں ۔تم اپنی حکومت کی طرف سے ایک امتیازی عہد ہ پر مامور ہو ۔تم اسی حالت میں واپس جاؤ اور وہاں جاکر اگر تمہارے دل میں اسلام کی محبت پھر بھی قائم رہے تو دوبارہ آکر اسلام قبول کرو۔
( ابو داؤد باب الوفاء بالعہد)
پھر مسلمانوں کو بھی وفائے عہد کا اسقدر خیال رہتا تھا کہ ایک دفعہ کفار نے عین جنگ کے دوران میں دھوکا سے ایک حبشی مسلمان سے معاہدہ کر لیااور انہوں نے قلعہ کے دروازے کھول دئیے۔جب لشکر آگے بڑھا تاکہ قلعہ میں داخل ہوتو انہوں نے کہا ہمارا تو تم سے معاہدہ ہو چکا ہے۔کمانڈر نے کہا میرے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔انہوں نے کہا ہم نے ایک حبشی سے معاہدہ کر لیا تھا ۔اور اُس نے بعض شرائط پر ہمیں امن دیدیا تھا۔کمانڈر نے کہا اُسے معاہدہ کا کیا اختیار تھا ۔معاہدہ تو میرے ساتھ ہو نا تھا۔انہوں نے کہا ہم نہیں جانتے ہم آپ سے معاہد ہ کر چکے ہیں ۔جب یہ اختلاف بڑھاتو اسلامی فوج کے کمانڈر نے حضرت عمر ؓ کو یہ تمام واقعہ لکھ دیا۔اور دریافت کیا کہ اب کیا کیا جائے ۔حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے وفاء عہد کو بڑی عظمت و اہمیت دی ہے ۔سو تم اس عہد کو پورا کرو اور اُس وقت تک اس عہد پر قائم رہو جب تک کہ فریق ثانی خود اس عہد کی خلاف ورزی نہ کرے ۔
( طبری جلد ۵ ص ۲۵۶۸)
غرض اسلام امانت و دیانت اور معاہدات کی پابندی کو خاص اہمیت دیتا ہے ۔اور فرماتا ہے کہ وہی مومن کامیاب ہو سکتے ہیں جو امانت اور وفائے عہد میں بھی بہترین نمونہ پیش کرنے والے ہوں۔
پھر چھٹا درجہ یہ بتایا کہ وہ لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔یہاں نماز کا لفظ جمع کی صورت میں آیا ہے۔پس اس سے ایک تو اس طرف اشارہ ہے کہ وہ ہر قسم کی نمازیں یعنی فرائض اور نوافل اچھی طرح ادا کرتے ہیں اور دوسرے اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی قوم میں سے ہر ایک کی جسمانی عبادت کی حفاظت کرتے ہیں یعنی یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ اُن کی اولاد اُن کی بیویاں ، اُن کے رشتہ دار اور اُن کے ہمسایہ اور اُن کی سب قوم نماز کی پابند ہے یا نہیں کیونکہ جب تک سارے خاندان بلکہ ساری قوم کے اعمال درست نہ ہوں اُس وقت تک انسان کا اپنا عمل بھی خطرہ سے باہر نہیں رہ سکتا۔بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک شخص صبح اپنے بچے کو نماز کیلئے جگانے لگتا ہے تو اُس وقت فوراً جذباتِ محبت اُس کے سامنے آجاتے ہیں اور دل میں کہتا ہے ۔سخت سردی ہے میں اے کیوں جگاؤں۔اگر نماز کیلئے جگایا تو اسے سردی لگ جائے گی۔پھر وہ بیوی کو نماز کیلئے جگانے لگتا ہے تو اس وقت ببھی محبت کے جذبات اُس کے سامنے آجاتے ہیں اور وہ کہتا ہے ۔ساری رات یہ بچے کو اُٹھا کر پھرتی رہی ہے۔اب میں اسے جگاؤں گا تو اس کی نیند خراب ہو جائیگی۔بہتر ہے کہ یہ سوئی رہے۔نماز پہر پڑھ لے گی ۔غرض کبھی سخت سردی اور کبھی سخت گرمی کا عذر اس کے سامنے آجاتا ہے چھ مہینے اس کے سامنے یہ سوال رہتا ہے کہ سخت سردی ہے ان ایام میں بچہ کو نماز کیلئے کیوں جگاؤں اسے سردی لگ جائیگی اور چھ مہینے اُس کے سامنے یہ سوال رہتا ہے کہ نازک اور پُھول سا بچہ ہے نماز پڑھنے گیا تو اسے گرمی لگ جائیگی۔پھر کبھی بیوی کو جگاتے وقت یہ خیال آجاتا ہے کہ یہ ساری رات تو بچے کو اٹھائے پھرتی رہی ہے ۔اس لئے بہتر ہے کہ سوئی رہے ۔نماز پھر پڑھ لے گی ۔غرض قدم قدم پر جذبات اور احساسات اُس کے سامنے آجاتے ہیں ۔اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ اُنکی اصلاح ہوتی ہے اورنہ اس کی اپنی اصلاح مکمل ہوتی ہے ۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے۔
قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَ اَھْلِیْکُمْ نَارًا ۔یعنی اے میرے بندو نہ صرد اپنے آپ کو دوذخ کی آگ سے بچائو بلکہ اپنے اہل وعیال کو بھی آگ سے بچاؤ ۔تمہارا صرف اپنے آپ کو آگ سے بچا لینا کافی نہیں بلکہ دوسروں کو بچانا بھی ضروری ہے کیونکہ اگر دوسرا نہیں بچیگا تو وہ تمھیں بھی لے ڈوبے گا۔مگر یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ نماز کی پابندی کئی رنگ کی ہوتی ہے۔سب سے پہلا درجہ جس سے اترکر اور کوئی درجہ نہیں یہ ہے کہ انسان بالالتزام پانچوں وقت کی نمازیں پڑھے۔جو مسلمان پانچ وقت کی نمازیں پڑھتا ہے اور اُس میں کبھی ناغہ نہیںکرتاوہ ایمان کا سب سے چھوٹا درجہ حاصل کرتا ہے ۔دوسرا درجہ نماز کا یہ ہے کہ پانچوں نمازیں وقت پر ادا کی جائیں جب کوئی مسلمان پانچوں نمازیں وقت پر ادا کرتا ہے تو وہ ایمان کی دوسری سیڑھی پر قدم رکھ لیتا ہے۔پھر تیسرا درجہ یہ ہے کہ نماز با جماعت ادا کی جائے۔باجماعت نماز کی ادائیگی سے انسان نماز کے مطالب کو سمجھ کر ادا کرے۔جو شخص ترجمہ نہیںجانتا وہ ترجمہ سیکھ کر نماز پڑھے اور جو ترجمہ جانتا ہو وہ ٹھہر ٹھہر کر نماز کو کماحقہ‘ ادا کرے۔یہاں تک کہ وہ سمجھ لے کہ میں نے نماز کو کما حقہ‘ ادا کیا ہے۔پھر پانچواںدرجہ نماز کا یہ ہے کہ انسان نمازمیں پوری محویّت حاصل کرے اور جس طرح غوطہ زن سمندر میں غوطہ لگاتے ہیں ۔اسی طرح وہ بھی نماز کے اندر غوطہ مارے یہاں تک کہ وہ دو میں سے ایک مقام حاصل کر لے۔یا تو یہ کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہو اور یا یہ کہ وہ اس یقین کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو کہ خدا تعالیٰ سُسے دیکھ رہا ہے۔اس مؤخر الذکر حالت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی اندھا بچہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھا ہو۔اپنی ماں کی گود میں بیٹھے ہوئے اُس بیٹے کو بھی تسلّی ہوتی ہے جو بینا ہو اور اپنی ماں کو دیکھ رہا ہو مگر ماں کی گود میں بیٹھے ہوئے اُس بیٹے کو بھی تسلی ہوتی ہے جو نابینا ہو۔اس خیال سے کہ گو وہ اپنی نابینائی کی وجہ سے ماں کو نہیں دیکھ رہا مگر اُس کی ماں اُسے دیکھ رہی ہے۔رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ نماز پڑھتے وقت بندے کو ان دو میں سے ایک مقام ضرور حاصل ہونا چاہئیے۔یا تو یہ کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہو اور یا یہ کہ اس کا دل اس یقین سے لبریز ہو کہ خدا تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے ۔یہ ایمان کا پانچواں مقام ہے اوراس مقام پر بندے کے فرائض پورے ہو جاتے ہیں ۔مگر جس بامِ رفعت پر اُسے پہنچنا چاہئیے اس پر ابھی نہیں پہنچتا۔اس کے بعد چھٹا درجہ ایمان کا یہ ہے کہ نوافل پڑھے جائیں ۔یہ نوافل پڑھنے والا گویا خداتعالیٰ کے حضور یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں نے فرائض کو تو ادا کر دیا ہے مگر ان فرائض سے میری تسلی نہیں ہوئی اور وہ کہتا ہے ۔اے خدا میں یہ چاہتا ہوں کہ میں ان فرائض کے اوقات کے علاوہ بھی تیرے دربار میں حاضر ہوا کروں جیسے کئی لوگ جب کسی بزرگ کی ملاقات کیلئے جاتے ہیں تو وہ مقررہ وقت گذر جانے پر کہتے ہیں کہ دو منٹ اور دیجئیے۔اور وہ ان مزید دو منٹوں میں لذّت محسوس کرتے ہیں ۔اسی طرح ایک مومن جب فرائض کی ادائیگی کے بعد نوافل پڑھتا ہے تو وہ خداتعالیٰ سے کہتا ہے کہ اب میں اپنی طرف سے کچھ مزید وقت حاضر ہونا چاہتا ہوں۔
ساتواں درجہ ایمان کا یہ ہے کہ انسان نہ صرف پانچوں نمازیں اور نوافل ادا کرے بلکہ رات کو بھی تہجد کی نماز پڑھے۔یہ وہ سات درجات ہیں جن سے نماز مکمل ہوتی ہے ۔اور ان درجات کو حاصل کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ خداتعالیٰ رات کے وقت عرش سے اترتا ہے اور اُس کے فرشتے پکارتے ہیں کہ اے میرے بندو خدا تعالیٰ تمہیں ملنے کیلئے آیا ہے۔اُٹھو اور اس سے مل لو۔
پس ان سات درجوں کو پورا کرنا ہر شخص کے لئے ضروری ہے ۔ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کا پابند ہو۔ہر شخص کا فرحض ہے کہ وہ نمازوں کو وقت پر ادا کیا کرے۔ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز باجماعت ادا کیا کرے۔ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کو سوچ سمجھ کر اور ترجمہ سیکھ کر ادا کرے۔ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ علاوہ فرضی نمازوں کے رات اور دن کے اوقات میں نوافل بھی پڑھا کرے۔ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ نماز کے اندر محویّت پیدا کرے اور اتنی محویت پیدا کرے کہ رسول کریم ﷺ کے قول کے مطابق یا تو وہ خداتعالیٰ کو دیکھ رہا ہو۔یا وہ اپنے دل میں یہ یقین رکھتا ہو کہ خداتعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے ۔پھر ہر شخص کو چاہئیے کہ وہ فرائض اور نوافل اس التزام اور باقاعدگی سے ادا کرے کہ اُس کی راتیں بھی دن بن جائیں ۔اسی طرح تہجد کی مناجات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔جب تک کوئی شخص اپنی نمازوں کی اس رنگ میں حفاظت نہیں کرتا اُس وقت تک اُسکا یہ اُمید کرنا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرے گا ایک وہم سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔
پھر فرماتا ہے انسان کی روحانی ترقی کا ساتواں درجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو ایسی جنت کا وارث کر دیتا ہے جو سب جنتوںکا مجموعہ ہے یعنی فردوس ۔فردوس کے معنے عربی زبان میں ایسے باغ کے ہوتے ہیں جو ہر قسم کے باغوں کا مجموعہ ہو۔پس فردوس کا لفظ استعمال کرکے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جس طرح یہ لوگ سب اعلیٰ درجہ کے رُوحانی خواص اپنے اندر جمع رکھتے ہیں اسی طرح ان کو مقام بھی وہ ملے گا جو تمام خوبیوں کا جامع ہوگا۔اور ھُمْ فِیْھَا خَالِدُوْنَ کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ جس طرح یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی حفاظت کیا کرتے تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اس بات کی نگرانی رکھے گا کہ وہ ان انعامات کے ہمیشہ وارث رہیں اور کبھی ان پر تنزل کی گھڑی نہ آئے۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثُمَّ اِنَّاکُمْ یُوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ ہ
ترجمہ()اور ہم نے انسان کو گیلی مٹی کے خلاصہ سے بنایا ۔پھر اُس کو ایک ٹھہرنے والی جگہ میں نطفہ کے طورپر رکھا۔پھر نطفہ کو ترقی دے کر ایسی شکل دی کہ وہ چمٹنے والا وجود بن گیا ۔پھر اُس چمٹنے والے وجود کو ایک بوٹی بنا دیا پھر اُس بوٹی کو ہم نے ہڈیوں کی شکل میں تبدیل کر دیا۔پھر اُن ہڈیوں پر ہم نے گوشت چڑھایا۔پھر اس کوا یک اور شکل میں تبدیل کردیا پس بہت ہی برکت والا ہے وہ خدا جو سب سے اچھا پیدا کرنے والا ہے۔پھر تم لوگ اس کے بعد مرنے والے ہو۔پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جانے والے ہو۔ ۳؎
۳؎ حل لغات :
سُلَا لَۃُ ۔ اَلسُّلَا لَۃُ کے معنے ہیں مَااسْتُلَّ مِنَ الشَّيْ ئِ وَالْخُلَاصَۃُ لِاَ نَّھَا تُسَلَّ مِنَ الْکَدَرِ ۔ یعنی وہ چیز جو کسی دوسری چیز سے کھینچ کر نکال لی جائے۔یا کسی چیز کا جو ہر جو ہر قسم کی میل کچیل اور تلچھٹ سے پاک کرلیا جائے۔اسی طرح اَلسُّلَا لَۃُ کے ایک معنے اَلنَّسْلُ وَالْوَلَدُ کے بھی ہیں یعنی انسانی نسل اور اولاد (اقرب)
طِیْن : اَلطِّیْنُ : تُرَاب’‘ اَوْ رَمْل’‘ وَ کَلْس’‘ یُجْبَلُ بِالْمَائِ وَیُطْلٰی بِہٖ یعنی طین اُس مٹی یا ریت اور چونا کو کہتے ہیں جس میں پانی ملایا گیا ہو اور اس کے ساتھ لپائی کی جائے۔(اقرب)
عَلَقَۃً ۔علق کے معنے خون کے ہوتے ہیں ۔خصوصًا اُس خون کے جو گاڑھا اور جما ہوا ہو۔اور عَلَقَۃ’‘ کے معنے ہیں اَلْقِطْعَۃُ مِنَ الْعَلَقِ لِلدَّمِ ۔یعنی خون کا لوتھڑا (اقرب)
اَلْمُضْغَۃُ: کے معنے ہیں قَطْعَۃُ لَحْمٍ یعنی گوشت کی بوٹی ( اقرب)
تفسیر :
فرماتا ہے کہ جس طرح یہ سات رُوحانی پیدائش کے مدارج ہیں اسی طرح تمہاری جسمانی پیدائش کے بھی مختلف مدارج ہیں ۔سب سے پہلے ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کرتے ہیں یعنی اس غذا سے جو مٹی سے نکلتی ہے جیسے نباتات ، حیوانات اور جمادات وغیرہ یہی حال عالمِ روحانیات کا بھی ہے ۔یعنی جس طرح نطفہ ان غذاؤں کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے جو زمین سے حاصل ہوتی ہیں اسی طرح راحانیت کا بیج بھی اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتاجب تک انسان کے اندر خشوع و خضوع اور فروتنی کی حالت پیدا نہ ہو اور کِبر اور غرور کا مادہ اُس کے اندر سے نہ نکل جائے۔پھر جب انسان اس غذا کو کھاتا ہے جو مٹی میں سے نکلتی ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے نطفہ بنا کر ایک ٹھہرنے والی جگہ پر رکھ دیتا ہے جو جسمانی پیدائش کا دوسرا درجہ ہے ۔روحانی پیدائش میں اس کے مقابل پر وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ کو رکھا گیا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ جس طرح نطفہ کی حفاظت کیلئے مختلف قسم کی احتیاطوں کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ اُس کے ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔اسی طرح روحانیت کو بیج بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ انسان ہر قسم کے لغو کاموں سے بچے ورنہ انسان کی روحانی پیدائش تکمیل تک نہیں پہنچ سکتی۔پھر تیسرا درجہ بتایا کہ ہم نطفہ کو علقہ بنا دیتے ہیں یعنی وہ ایک جمے ہوئے لہو کی طرح ہو جاتا ہے۔رُوحانی درجات میں اس کے مقابل پر وَالَّذِیْنُ ھُمْ لِلذَّکوٰۃِ فَاعِلُوْنَ کو رکھا گیا ہے۔یعنی جس طرح نطفہ علقہ بن جاتا ہیاور رحم سے چمٹ جاتا ہے اسی طرح روحانی ترقی کرنے والا انسان ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ بنی نوع انسان کی ترقی کیلئے اپنے اموال خرچ کرنے لگ جاتا ہے ۔پھر چوتھا درجہ انسانی پیدائش کا یہ بیان فرمایا کہ جما ہوا لہو ایک بوٹی کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔یعنی خون کے لوتھڑے میں جو گندگی پائی جاتی ہے وہ اس سے بچ جاتا ہے اس کے مقابلہ میں وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِِمْ حَافِظُوْنَ کو رکھا گیا ہے ۔یعنی وہ اپنے تمام سوراخوں کی حفاظت کرنے لگ جاتا ہے اور اب اس کا وجود ایک مستقل وجود بن جاتا ہے جو گندگی سے اپنے آپ کو اپنے ارادہ سے محفوظ رکھتا ہے ۔پھر پانچواں درجہ یہ بتا یا کہ بوٹی کے بعد ہڈی جسم میں بننی شروع ہو جاتی ہے۔اس کے مقابلہ میں رُوحانی درجہ یہ بتایا کہ وہ امانتوں اور عہدوں کی پابندی کرتے ہیں یعنی اُن میں ایسی روحانی سختی پیدا ہو جاتی ہے کہ خواہ انکے پاس کوئی دشمن امانت رکھوائے یا کوئی مخالف قوم انکے ساتھ معاہدہ کرے وہ اس کی پابندی کرتے ہیں ۔کسی قسم کا لالچ یا کمزوری اُن میں پیدا نہیں ہوتی ۔گویا ہر شخص جانتاہے کہ وہ موقع پر پھر نہیں جائیں گے بلکہ بات کے پکے رہیں گے۔جسمانی پیدائش کا چھٹا درجہ یہ بتایا کہ ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا جاتا ہے۔اسکے مقابلہ میں روحانی درجہ یہ بیا ن کیا کہ وہ اپنی اور اپنی قوم کی نمازوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں ۔یعنی جس طرح چمڑے کے چڑھ جانے کے بعد بچہ بہت حد تک ضائع ہو جانے سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔اسی طرح وہ لوگ جو اپنی قوم میں خداتعالیٰ کی عبادت کو قائم رکھتے ہیں وہ نہ صرف ذاتی طور پر محفوظ ہو جاتے ہیں بلکہ قومی طور پر بھی محفوظ ہو جاتے ہیں ۔اور بوجہ قوم کے نیک ہو جانے کے وہ بیرونی اثرات سے بھی اُسی طرح محفوظ ہو جاتے ہیں جیسے چمڑے والا انسان بیرونی اثرات سے محفوظ ہوتا ہے۔
جسمانی پیدائش میں ساتواں درجہ یہ بیان فرمایا کہ جب ہڈیوں پرگوشت اور چمڑہ مڑھ دیا جاتا ہے تو ہم اُن کو ایک دوسری پیدا ئش دے دیتے ہیں ۔اور وہ پیدا ہو کر بشر بن جاتے ہیں ۔اس کے مقابلہ میں روحانی کمال کا یہ درجہ بیان فرمایا کہ وہ مر کر ایسے انعامات کے وارث ہوتے ہیں جو سب انعامات کا مجموعہ ہوتے ہیں یعنی جس طرح جسمانیات میں انسان تمام جانوروں کے کمالات کا مجموعہ ہے اسی طرح روحانی انسان مر کر تمام قسم کی نعمتوں کے مجموعہ کو حاصل کر لیتے ہیں ۔اور جس طرح مادی انسان اپنی اور اپنی قوم کی حفاظت پر قادر ہو جاتا ہے روحانی انسان کی روحانی حفاظت کا اللہ تعالیٰ خود ذمہ اٹھا لیتا ہے۔
جسمانی خلق کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ۔کیا ہی برکت والا ہے وہ خدا جو سب سے بہتر طور پر مخلوق پیدا کرنیوالا ہے ۔یہی آیت روحانی پیدائش کے ساتھ بھی لگتی ہے یعنی جب انسان روحانیت میں ترقی کرتے کرتے اس مقام کو حاصل کر لیتا ہے تو اسے ایک نئی روحانی پیدائش عطا کی جاتی ہے جو تمام انسانوں کو ایک اچنبھا نظر آتی ہے ۔اور اُسے دیکھ کر ہر شخص خداتعالیٰ کی حمد پر مجبور ہو جاتا ہے۔
ٍ اس آیت کے ساتھ ایک تاریخی واقعہ بھی وابستہ ہے جس کا یہاں بیان کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔رسول کریم ﷺ کا ایک کاتب وحی تھا جسکا نام عبداللہ بن ابی سرح تھا۔آپ پر جب کوئی وحی نازل ہوتی تو اُسے بلوا کر لکھوا دیتے۔ایک دن آپ یہی آیتیں اُسے لکھوا رہے تھے ۔جب آپ ثُمَّ اَنْشَاْ نٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ پر پہنچے تو اُس کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ۔ رسول اللّٰہ ﷺنے فرمایا کہ یہی وحی ہے اسکو لکھ لو۔اُس بدبخت کو یہ خیال نہ آیا کہ پچھلی آیتوں کے نتیجہ میں یہ آیت طبعی طور پر آپ ہی بن جاتی ہے۔اُس نے سمجھا کہ جس طرح میرے مُنہ سے یہ آیت نکلی اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو وحی قرار دے دیا ہے اسی طرح آپ نعوذباللہ خود سارا قرآن بنا رہے ہیں چنانچہ وہ مرتد ہوگیا۔اور مکہ چلا گیا ۔فتح مکہ کے موقعہ پر جن لوگوں کو قتل کرنیکا رسول کریم ﷺ نے حکم دیا تھا اُن میں ایک عبداللہ بن ابی سرح بھی تھا ۔مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے پناہ دے دی اور وہ آپ کے گھر میں تین دن چُھپا رہا۔ایک دن جب کہ رسول کریم ﷺ مکہ کے لوگوں سے بیعت لے رہے تھے حضرت عثمانؓ عبداللہ بن ابی سرح کو بھی آپ کی خدمت میں لے گئے اور اُس کی بیعت قبول کرنے کی درخواست کی ۔رسول کریم ﷺ نے پہلے توکچھ دیرتامل فرمایا مگر پھر آپ نے اُس کی بیعت لے لی۔اور اس طرح دوبارہ اُس نے اسلام قبول کر لیا۔ ( اصابہ جدل ۴ ص ۷۷)
اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ کے متعلق یہ امر بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس کے یہ معنے نہیں کہ خداتعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی خالق ہے۔بلکہ اس جگہ خالق کے معنے اندازہ کرنے والے کے ہیں ۔چنانچہ مفردات امام راغبؒ میں لکھا ہے ۔مَعْنَاہُ اَحْسَنُ الْمُقَدِّرِیْنَ اَوْ یَکُوْنُ عَلٰی تَقْدِیْرِ مَاکَانُوْا یَعْتَقِدُوْنَ وَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّ غَیْرَ اللّٰہِ یُبْدِعُ فَکَاَ نَّہُ قِیْلَ ۔۔۔۔۔۔عَلٰی مَا یَعْتَقِدُوْنَ یعنی اس جگہ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْن کے معنے اَحْسَنُ الْمُقَدِّ رِیْن کے ہیں اور مراد یہ ہے کہ وہ تمام اندازہ کرنے والوں میں سے بہتر اندازہ کرنے والا ہے اور یا پھر اس جگہ دوسروں کے اعتقادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے بات کہی گئی ہے کیونکہ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے لوگ بھی ایجادیں کر رہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیشک دنیا میں کئی موجد اور صناع پائے جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی ایجاد اور صنعت کا انکی ایجادوں اور صنعتوں سے مقابلہ تو کرو۔تمہیں ماننا پڑیگا کہ اُن کی ایجادات خدائی ایجادات کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتیں ۔اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے اللہ تعالیٰ سمیع اور بصیر ہے مگر پھر وہ انسان کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا بَصِیْرٍا ( سورۂ دہر ۱ع) یعنی ہم نے اسے سمیع اور بصیر بنا دیا۔اب اس کے یہ معنے نہیں کہ انسان خداتعالیٰ کی صفت سمیع اور بصیر میں شریک ہے بلکہ خداتعالیٰ نے جب اسے سننے اور دیکھنے کی قابلیت دی تو مجازی رنگ میں اُسے بھی سمیع اور بصیر کہہ دیا گیاپھر انسان کیلئے صرف سمیع اور بصیر کا لفظ آتا ہے مگر خداتعالیٰ کیلئے اَلسَّمِیْعُ اور اَلْبَصِیْرُ کا لفظ آتا ہے یعنی سُننے اور دیکھنے کے جتنے کمالات ہیں وہ سب اُس میں پائے جاتے ہیں ۔ورنہ انسان کی سماعت اور بصارت تو اتنی ناقص ہے کہوہ دور کی بات سُن ہی نہیں سکتا ۔اور نہ اپنی پیٹھ کے پیچھے پڑی ہوئی چیز کو دیکھ سکتا ہے ۔اسی طرح بیشک دُنیا میں اور بھی صناع اور موجد ہیں مگر اُن کی صنعتیں اور ایجادات بالکل بے حقیقت ہیں اور پھر جبکہ وہ خداتعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں سے ہی ایجادات کا سلسلہ قائم رکھے ہوئے ہیں تو اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ بہر حال خداتعالیٰ ہی ہوا۔کوئی انسان نہ ہو ا۔
آخر میں اس امر کا بیان کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات میں ثُمَّ اَنْشَاْ نٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ۔فرما کر اللّٰہ تعالیٰ نے جس روحانی مقام کا ذکر فرمایا ہے یہ وہ مقام ہے جو محنت اور قربانی اور جدوجہد اور متواتر عمل کے ساتھ وابستہ ہے اور جس کیلئے ایک لمبے عرصہ تک انسان کو اپنے نفس کی جلاء میں مشغول رہنا پڑتا ہے۔لیکن بعض تغیرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو انقلابی طورپر واقع ہوتے ہیں اور آنًا فانًا انسان کو زمین سے اٹھا کر عرش پر پہنچا دیتے ہیں ۔حضرت عمرؓ کے ایمان لانے کا واقعہ اس انقلاب کی ایک زندہ مثال ہے ۔حضرت عمرؓ کو اسلام سے شدید دشمنی تھی لیکن اُن میں روحانی قابلیت بھی موجود تھی یعنی باوجود آپ میں شدید غصّہ ہونے کے۔باوجود رسول کریم ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کو
تکا لیف پہنچانے کے اُن کے اندر جذبۂ رقت بھی موجود تھا۔چنانچہ جب حبشہ کی طرف پہلی ہجرت ہوئی تو مسلمانوں نے نماز فجر سے پہلے مکہ سے روانگی کی تیاری کی تاکہ مشرک انہیں روکیں نہیں ۔اور انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچائیں ۔مکہ میں یہ رواج تھا کہ رات کو بعض رؤساء شہر کا دورہ کیا کرتے تھے تاکہ چوری وغیرہ نہ ہو۔اسی دستور کے مطابق حضرت عمر ؓ بھی رات کو پھر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا ایک جگہ گھر کا سب سامان بندھا پڑا ہے ۔آپ آگے بڑھے ۔ایک صحابیہ ؓ سامان کے پاس کھڑی تھیں ۔اُس صحابیہؓ کے خاوند کے ساتھ شاید حضرت عمر ؓ کے تعلقات تھے ۔اس لئے آپ نے اُس صحابیہ ؓ کو مخاطب کر کے کہا۔بی بی یہ کیا بات ہے ۔مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم کسی لمبے سفر پر جاری ہو۔اُس صحابیہؓ کا خاوند وہاں نہیں تھا۔اگر وہ وہاں ہوتا تو ہو سکتا تھا کہ مشرکینِ مکہ کی عداوتوں اور دشمنیوں کی وجہ سے حضرت عمرؓ کی یہ بات سُن کر وہ کوئی بہانہ بنا دیتا۔لیکن عورت کو یہ حِس نہیں تھی ۔اُس صحابیہؓ نے کہا عمرؓ! ہم تو مکہ چھوڑ رہے ہیں انہوں نے کہا ۔تم مکہ چھوڑ رہی ہو۔صحابیہ ؓ نے کہا ہاں ہم مکہ چھور رہے ہیں ۔حضرت عمرؓ نے پوچھا تم کیوں مکہ چھوڑ رہے ہو۔صحابیہ ؓ نے جواب دیا۔عمرؓ ! ہم اس لئے مکہ چھوڑ رہے ہیں کہ تم اور تمہارے بھائی ہمارا یہاں رہنا پسند نہیں کرتے ۔اور ہمیں خدا ئے واحد کی عبادت کرنے میں یہاں آزادی میسر نہیں ۔ا س لئے ہم وطن چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں جارہے ہیں ۔اب باوجود اس کے کہ حضرت عمر ؓ اسلام کے شدید دشمن تھے۔باوجود اس کے کہ وہ خود مسلمانوں کو مارنے پر تیار رہتے تھے۔رات کے اندھیرے میں اُس صحابیہ ؓ سے یہ جواب سُن کر کہ ہم وطن چھوڑ رہے ہیں اس لئے کہ تم اور تمہارا بھائی ہمارا یہاں رہنا پسند نہیں کرتے اور ہمیں خدائے واحد کی عبادت آزادی سے نہیں کرنے دیتے ۔حضرت عمرؓ نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔اور اس صحابیہ ؓ کا نام لے کر کہا۔اچھا جائو خدا تمہارا حافظ ہو۔معلوم ہوتا ہے حضرت عمر ؓ پر رقت کا ایسا جذبہ آیا کہ آپ نے خیال کیا کہ اگر میں نے دوسری طرف منہ نہ کیا تو مجھے رونا آجائے گا۔اتنے میں اُس صحابیہ ؓ کے خاوند بھی آگئے۔وہ سمجھتے تھے کہ عمرؓ اسلام کے شدید دشمن ہیں ۔انہوں نے جب آپ کو وہاں کھڑا دیکھا تو خیال کیا یہ ہمارے سفر میں کوئی روک پیدا نہ کر دیں۔انہوں نے اپنی بیوی سے دریافت کیا کہ یہہ یہاں کیسے آگیا؟ اُس نے بتا یا کہ وہ اس اِس طرح آیا تھا۔اور اُ س نے سوال کیا تھا کہ تم کہاں جارہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی شرارت نہ کر دے ۔اُس صحابیہ ؓ نے کہا کہ اے میرے چچا کے بیٹے ( عرب عورتیں عام طورپر اپنے خاوندوں کو چچا کا بیٹا کہا کرتی تھیں )تم تو یہ کہتے ہو کہ وہ کہیں کوئی شرارت نہ کر دیمگر مجھے تو ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اُس نے کسی دن مسلمان ہو جانا ہے کیونکہ جب میں نے کہا عمرؓ! ہم اس لئے مکہ چھوڑ رہے ہیں کہ تم اور تمہارے بھائی ہمیں خدائے واحد کی عبادت آزادی سے نہیں کرنے دیتے تو اُس نے منہ پھیر لیا اور کہا۔اچھا جائو خداتمہارا حافظ ہو۔اُس کی آواز میں ارتعاش تھا اور میں سمجھتی ہوں کہ اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ضرور کسی دن مسلمان ہو جائیگا۔
دن اسی طرح گذرتے چلے گئے اور حضرت عمر ؓ اسلام کی برابر سختی سے مخالفت کرتے رہے۔ایک دن اُن کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ اس مذہب کے بانی کا ہی کام تمام کرد یا جائے۔اور اس خیال کے آتے ہی انہوں نے تلوار ہاتھ میں لی اور رسول کریم ﷺ کے قتل کیلئے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔راستہ میں کسی نے پوچھا ۔عمرؓ کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا محمد (ﷺ) کو مارنے کیلئے جا رہا ہوں۔اُس شخص نے ہنس کر کہا ۔اپنے گھر کی تو پہلے خبر لو۔تمہاری بہن اور بہنوئی تو اس پر ایمان لے آئے ہیں ۔حضرت عمر ؓ نے کہا یہ جھوٹ ہے ۔اُس شخص نے کہا تم خود جا کر دیکھ لو۔حضرت عمر ؓ وہاں گئے دروازہ بند تھا اور اندر ایک صحابی ؓ قرآن کریم پڑھا رہے تھے ۔آپنے دستک دی ۔اندر سے آپ کے بہنوئی کی آواز آئی ۔کون ہے؟ عمرؓ نے جواب دیا عمرؓ ۔انہوںنے جب دیکھا کہ حضرت عمر ؓ آئے ہیں اور وہ جانتے تھے کہ آپ اسلام کے شدید مخالف ہیں تو انہوں نے صحابی ؓ کو جو قرآن کریم پڑھا رہے تھے کہیں چھپا دیا ۔اسی طرح قرآن کریم کے اوراق بھی کسی کو نہ میں چھپا کر کھ دیئے اور پھر دروازہ کھولا۔حضرت عمرؓ چونکہ یہ سُن کر آئے تھے کہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں اس لئے انہوں نے آتے ہی دریافت کیا کہ دروازہ کھولنے میں دیر کیوں کی ہے ۔آپ کے بہنوئی نے جواب دیا ۔آخر دیر لگ ہی جاتی ہے۔حضرت عمرؓ نے کہا یہ بات نہیں کوئی خاص امر دروازہ کھولنے میں روک بنا ہے۔مجھے آواز آرہی تھی کہ تم اُس صابی کی باتیں سُن رہے تھے (مشرکین مکہ رسول کریم ﷺ کو صابی کہا کرتے تھے) انہوں نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن حضرت عمرؓ کو غصّہ آیا اور وہ اپنے بہنوئی کو مارنے کیلئے آگے بڑھے ۔آپ کی بہن اپنے خاوند کی محبت کی وجہ سے درمیان میں آگئیں ۔حضرت عمر ؓ چونکہ ہاتھ اُٹھا چکے تھے اور اُن کی بہن اچانک درمیان میں آگئیں وہ اپنا ہاتھ روک نہ سکے اور اُن کا ہاتھ زور سے اُن کی ناک پر لگااور اُس سے خون بہنے لگا ۔حضرت عمرؓ جذباتی آدمی تھے یہ دیکھ کر کہ انہوں نے عورت پر ہاتھ اُٹھایا ہے جو عرب کے طریق کے خلاف تھا ۔اور پھر بہن پر ہاتھ اٹھایا ہے ۔حضرت عمرؓ نے بات ٹلانے کیلئے کہا اچھا مجھے بتاؤ تم کیا پڑھ رہے تھے ؟بہن نے سمجھ لیا کہ عمرؓ کے اندر نرمی کے جذبات پیدا ہو گئے ہیںاُس نے کہا جاؤتمہارے جیسے انسان کے ہاتھ میں میں وہ پاک چیز دینے کیلئے تیار نہیں۔حضرت عمر ؓ نے کہا پھر میں کیا کروں ۔بہن نے کہا وہ سامنے پانی ہے نہا کر آؤ۔تب وہ چیز تمہارے ہاتھ میں دی جاسکتی ہے۔حضرت عمرؓ نہائے اور واپس آئے ۔بہن نے قرآن کریم کے اوراق جو وہ سُن رہے تھے آپ کے ہاتھ میں دئیے چونکہ حضرت عمرؓ کے اندر ایک تغّیر پیدا ہو چکا تھا اس لئے قرآنی آیات پڑھتے ہی اُن کے اندر رقت پیدا ہوئی اور جب وہ آیات ختم کر چکے تو بے اختیار انہوں نے کہا کہ اَشْھَدُ اَنْ لَٓا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً ارَّسُوْلُ اللّٰہِ یہ الفاظ سن کروہ صحابی ؓ بھی باہر نکل آئے جو حضرت عمرؓ سے ڈر کر چُھپ گئے تھے۔پھر حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ رسول کریم ﷺ آجکل کہاں مقیم ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ اُن دنوں مخالفت کی وجہ سے گھر بدلتے رہتے تھے۔انہوں نے بتا یا کہ آجکل آپ دارِ ارقم میں تشریف رکھتے ہیں ۔حضرت عمرؓ فوراً اسی حالت میں جب کہ ننگی تلوار انہوں نے لٹکائی ہوئی تھی اُس گھر کی طرف چل پڑے بہن کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ شاید وہ بُری نیت سے نہ جا رہے ہوں ۔انہوں نے آگے بڑھ کر کہا خڈا کی قسم ! میں تمہیں اُس وقت تک نہیں جانے دوں گی جب تک تم مجھے اطمینان نہ دلادو کہ تم کوئی شرارت نہیں کرو گے ۔حضرت عمرؓ نے کہا میں پکا وعدہ کرتاہوں کہ میںکوئی فساد نہیں کرونگا ۔حضرت عمرؓ وہاں پہنچے اور دستک دی رسول کریم ﷺ اور صحابہؓ اندر بیٹھے ہوئے تھے دینی درس ہو رہاتھا ۔کسی صحابیؓ نے پوچھا کون؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا ۔عمرؓ! صحابہؓ نے کہا یا رسول اللّٰہ ! دروازہ نہیں کھولنا چاہئیے۔ایسا نہ ہو کہ کوئی فساد کرے ۔حضرت حمزہؓ نئے نئے ایمان لائے ہوئے تھے وہ سپاہیانہ طرز کے آدمی تھے ۔انہوں نے کہا دروازہ کھول دو۔میں دیکھوں گا وہ کیاکرتا ہے۔چنانچہ ایک شخص نے دروازہ کھول دیا۔حضرت عمرؓ آگے بڑھے تو رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا۔عمرؓ! تم کب تک میری مخالفت میں بڑھتے چلے جاؤ گئے۔حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللّٰہ ! میں مخالفت کیلئے نہیں آیا میں تو آپ کا غلام بننے کیلئے آیا ہوں ۔وہ مربؓ جو ایک گھنٹہ پہلے اسلام کے شدید دشمن تھے اور رسول کریم ﷺ کو مارنے کیلئے گھر سے نکلے تھے ایک آن میں اعلٰی درجہ کے مومن بن گئے۔حضرت عمرؓ مکہ کے رئیسوں میں سے نہیں تھے لیکن بہادری کی وجہ سے نوجوانوں پر آپ کا اچھا اثر تھا۔جب آپ مسلمان ہوئے تو صحابہؓ نے جوش میں آکر نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے۔اس کے بعد نماز کا وقت آیا۔اور رسول کریم ﷺ نے نماز پڑھنی چاہی تو وہی عمرؓ جو دو گھنٹے قبل گھر سے اس لئے نکلا تھا کہ رسول کریم ﷺ کو مارے۔اُس نے دوبارہ تلوار نکال لی اور کہا۔یارسول اللّٰہ ! خداتعالیٰ کا رسول اور اُس کے ماننے والے تو چھپ کر نمازیں پڑھیں اور مشرکین مکہ باہر دندناتے پھریں یہ کس طرح ہوسکتا ہے ۔میں دیکھوں گا کہ ہمیں خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے سے کون روکتا ہے ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ جذبہ تو بہت اچھا ہے لیکن ابھی حالات ایسے ہیں کہ ہمارا باہر نکلنا مناسب نہیں ۔یہ ایک غیر معمولی انقلاب تھا جو حضرت عمرؓ کے اندر پیدا ہوا۔اور آنًا فانًا آپ شدید دشمن سے اعلٰی درجہ کے مومن بن گئے۔مگر ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جن کی حالت انقلاب کے ذریعہ دوسری حالت میں بدلتی ہے۔اور پھر انقلاب خود پیدا نہیں کیا جا تا بلکہ انقلاب باہر سے آیا کرتا ہے ۔اور جب آتا ہے تو لوگ حیران ہو جاتے ہیں ۔دوست دشمن بن جاتے ہیں اور دشمن دوست بن جاتے ہیں ۔لیکن استدراجہ تغّیر پیدا کیا جاتا ہے اور جو شخص استدراجی حالت پر ہو لیکن وہ انقلاب کی اُمید میں بیٹھا رہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ مجھے ایک رات میں چالیس ہزار عربی کا مادہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکھایا گیا ( انجام آتھم ص ۲۳۴)۱؎اب یہ وہ انقلاب تھا جو آپ کے اندر پیدا ہوا۔لیکن اگر اس انقلاب کو دیکھتے ہوئے لڑکے سکول میں پڑھنا چھوڑ دیں اور اس انتظار میں بیٹھ جائیں کہ فرشتہ آئیگا اور ساٹھ ہزار عربی کا مادہ انھیں سکھا دیگاتو انہیں کون عقلمند سمجھے گا؟ انقلاب پیدا نہیں کئے جاتے بلکہ انقلاب خود بخود پیدا ہوتے ہیں ۔لیکن ارتقاء اور انتقال عن الحال الی الحال آہستہ آہستہ اور محنت کے ساتھ ہوتا ہے ۔انقلاب لاکھوں دنوںمیں کسی ایک دن آتا ہے ۔باقی سارے دن انتقال کے ہوتے ہیں ۔اور انسان ایک حالت سے دوسری حالت میں بتدریج کوشش اور محنت اور قربانی کے ساتھ پہنچتا ہے۔یہ انتقال عن الحال الی الحال اور استدراجی تغّیر ہمیشہ نوافل اور ذکرِ الٰہی اور کوشش اور جدوجہد کے ساتھ ہوتا ہے ۔انسان جب اپنے نفس کا مطالعہ کرے تو وہ سوچے گا کہ اگر دوسرا شخص مجھے گالی دے تو میں اپنے نفس کو کس طرح روکوں گا۔وہ ظلم کرے تو میں اُس کے ظلم کو کیسے برداشت کرونگا۔وہ لغو گفتگو کرے تو میں اپنی زبان کو کس طرح بند رکھوں گا۔اور جب وہ سوچیگا تو آہستہ آہستہ اس کا نفس کامل بنتا چلا جائیگا۔۔اگر اُس میں انقلاب آتا تو پہلے ہی دن وہ
(۱؎ ’’ ایک رقات ‘‘ کیلئے دیکھئے روایت غلام نبی صاحب سیٹھی مندرجہ اکحکم ۲۱۔۲۸ اکتوبر ۱۹۳۵ئ؁)
تہجد اور دوسرے نوافل پڑھنے لگ جاتا۔وہ فوراً حرانخوری اور جھوٹ سے بچ جاتا ۔لیکن ایسا اس لئے نہیں ہوتا کہ اُس کا تغّیر استدراجی ہوتا ہے اور اسکی ترقی کوشش اور جدوجہد کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔مگر میں دیکھتا ہوں کہ عام طورپر اس کوشش اور جدوجہد کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی جس کی طرف اللّٰہ تعالیٰ نے ان آیات میں توجہ دلائی ہے اور انقلاب کے انتظار میں لوگ بیٹھے رہتے ہیں ۔حالانکہ اُن کے اندر جو بھی تغّیر پید اہوگا وہ استدراجی ہوگا اور اس کیلئے کوشش اور جدوجہد کی ضرورت ہوگی۔اس غرض کیلئے بنیادی طورپر اس امر کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خلوص کے ساتھ عبادت کی جائے اور اس پر دوام اختیار کیا جائے۔اگر انسان عبادت پر دوام اختیار کرے تو دوسری نیکیاں آپ ہی آپ صادر ہونے لگتی ہیں ۔مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ صرف فرض نمازیں پڑھی جائیں بلکہ جیسا کہ بتایا جاچکا ہے تہجد اور نوافل کی ادائیگی پر بھی زور دینا چاہئیے ۔اس طرح دیانت ، امانت وفائے عہد ، غرباء پروری اور عفت کا بھی خاص خیال رکھنا چاہئیے۔ان نیکیوں میں حصہ لینے سے انسان اتنا ترقی کر جاتا ہے کہ آخر اُسے ایک نئی روحانی پیدائش حاصل ہو جاتی ہے اور انسانیت اپنے معراجِ کمال کو پہنچ جاتی ہے۔
وَلَقَدْخَلَقْنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِیْنَ ہ
ترجمہ() اور ہم نے تمہارے اوپر(کے درجات کیلئے) سات (روحانی) راستے بنائے ہیں اور ہم (اپنی )
مخلوق سے غافل نہیں رہے۔ ۳؎
۳؎ حل لغات
طَرَآئِقَ : طَرِ یْقَۃ’‘ کی جمع ہے اور طَرِیْقَۃُ الرَّجُلِ کے معنے ہوتے ہیں مَذْھَبُہ‘ یعنی وہ راستہ جسے وہ اختیار کرتا ہے۔(اقرب)
تفسیر :
علامہ قرطبی ؒ لکھتے ہیں کہ یہاں سَبْعَ طَرَائِقَ سے سات آسمان مراد ہیں ۔اور اُن کو طَرَائِق اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے اوپر تہہ بہ تہہ واقع ہیں ۔چنانچہ عربی زبان میں جب طَارَقتُ الشَّيْئَ کہیں تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ صَلَبْتُ بَعْضَہ‘ فَوْقَ بَعْضٍ۔میں نے ایک چیز کے مختلف حصّوں کو ایک دوسرے کے اوپررکھ دیا۔وَالْعَرَبُ تُسَیِّ کُلَّ شَیْئٍ فَوْقَ شَیْئٍ طَرِیْقَۃ’‘ اور عرب لوگ ہر اُس چیز کو جو دوسری چیز پر رکھی ہوئی ہو طرِیْقَہ کہتے ہیں ( تفسیر قرطبی) علامہ ابو حیانؒ بھی اپنی تفسیر بحرِ محیط میں خلیل۔ فراد اور زجاج کے متعلق لکھتے ہیں کہ اُن کے نزدیک بھی آسمان کو طرائق اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے اوپر ہیں ۔چنانچہ جب طَارَقَ النَّعْلَ کہیں تو اُس کے معنے یہ ہوتے ہیںکہ جَعَلَہ‘ علٰی نَعْلٍ اُس نے ایک جُوتی کودوسری جوتی پر رکھ دیا۔اور طَارَقَ بَیْنَ ثَوْبَیْنِ کے یہ معنے ہوتے ہیںکہ لَیسَ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاٰخِر اُس نے ایک کپڑے پر دوسرا کپڑا پہن لیا (بحرِ محیط)
امام راغبؒ اپنی کتاب مفردات میں سورۂ جن کی آیت کُنَّاطَرَآئِقَ قِدَدًا کے متعلق لکھتے ہیں کہ
اِشَارَۃ’‘ اَلٰی اِخْتِلَافِھِمْ فِیْ دَرَجٰتِھِمْ یعنی اس میں ان کے درجات کے اختلاف کی طرف اشارہ ہے گویا طَرَائِق کے معنے انہوں نے درجات کے کئے ہیں۔اور سَبْعَ طَرَائِق’‘ کے متعلق لکھتے ہیں کہ اِطْبَاقُ السَّمَائِ یُقَالُ لَھَا طَرَائِق’‘ یعنی طرائق کے معنے آسمانوں کا اوپر نیچے ہو ناہے ۔
ان معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَٓکُمْ سَبْعَ طَرَآئِق’‘کے یہ معنے ہونگے کہ ہم نے تمہارے اوپر یکے بعد دیگر ے سات بلندیاں پیدا کی ہیں ۔یعنی جس طرح تمہاری جسمانی پیدائش کو ہم نے سات ترقیات کے ساتھ مکمل کیا ہے اسی طرح تمہاری روحانی پیدائش کو بھی ہم نے سات درجات میں تقسیم کیا ہوا ہے۔یہ سات درجات کو نسے ہیں ؟ اس کے متعلق جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ روحانیات میں انسان کا پہلا درجہ جمادات کے مشابہ ہوتا ہے۔یعنی جس طرح جمادات کے اندر کوئی حس نہیں ہوتی اسی طرح ایسے لوگوں میں بھی بھلی بُری بات پہچاننے کی کوئی حس نہیں ہوتی ۔نہ اُن کے سامنے کوئی بلند مقصد ہوتا ہے۔انہیں لاکھ وعظ کیا جائے اُن کے اندر نیکی اور خداتعالیٰ کی خشیٔت کا کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا۔ایسے لوگوں کی طرف قرآن کریم کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ثُمّ۔ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَھِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً (بقرہ ۹ ع)یعنی اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے اور وہ پتھروں کی طرح ہونگے بلکہ اپنی سختی میں پتھروں سے بھی آگے نکل گئے۔گویا بعض لوگوں کے دل خداتعالیٰ کی محبت سے ایسے سرد ہوتے ہیں کہ اُن میں خداتعالیٰ کی خشیٔت کا کوئی احساس ہی نظر نہیں آتا۔جب انہیں بھوک لگتی ہے کھالیتے ہیں ۔اور جب نیند آتی ہے تو سو رہتے ہیں ۔انہیں کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ خداتعالیٰ نے اُن پر کیا ذمہ داریاں رکھی ہوئی ہیں ۔بلکہ اگر انہیں کوئی توجہ بھی دلائی تو وہ بے کار ثابت ہوتی ہے ایسے لوگ روحانیات میں جمادات سے مشابہت رکھتے ہیں ۔
دوسرا درجہ جو اس سے اوپر ہے وہ نباتات کے مشابہ ہے یعنی جب انسان ترقی کی طرف اپنا قدم بڑھاتا ہے اور جمادی حالت کو ترک کر دیتا ہے تو اس کے اندر نباتات کے مشابہ ایک نشوونما کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے۔چنانچہ لمبے تجربات کے بعد یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ نباتات کے اندر بھی رُوح ہوتی ہے گو وہ حیوانی رُوح سے بہت کم درجہ کی ہوتی ہے اس کے ثبوت کیلئے چھُوئی موئی کی بوٹی کو جسے اُردو میں لاجونتی کہتے ہیں پیش کیا جا سکتا ہے ۔اُس کے پتوں کو جب ہاتھ لگایا جائے تو وہ فوراً سکڑ جاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نباتات میں بھی حِس ہوتی ہے ۔گو بعض میں زیادہ ہوتی ہے اور بعض میں کم مگر یہ حِس اتنی کمزور ہوتی ہے کہ کسی صدمہ سے بچنے کی طاقت اُن میں نہیں ہوتی جسے لاجونتی کے پتے ہاتھ لگانے سے سکڑ جاتے ہیں لیکن اُن میں یہ طاقت نہیں ہوتی کہ بھاگ کر اپنے آپکو بچا لیا کریں۔اسی طرح ایک انسان اس قسم کا ہوتا ہے کہ اس میں کسی قدر روحانی حِس تو پائی جاتی ہے لیکن وہ کسی بیرونی حملہ سے اپنے آپ کو بچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔چنانچہ قرآن کریم میں ایسے لوگوں کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ وَمَنْ تَدْعُوْ ھُمْ اِلَی الْھُدٰی ۔۔۔۔۔۔۔۔لَا یُبْصِرُوْنَ (اعراف ۲۴ع) یعنی یہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر تم انکو ہدایت کی طرف بلاؤ تو وہ سُن نہیں سکتے۔اور تُو اُن کو دیکھ کر سمجھتا ہے کہ گویا وہ تجھے دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ تجھے نہیں دیکھ رہے۔اس جگہ اُن کی طرف دیکھنے کو منسوب کرنا اور پھر یہ کہنا کہ وہ نہیں دیکھتے بتاتا ہے کہ یہاں اُن لوگوں کا ذکر کیا جا رہاہے جن میں ایک حد تک تو نیکی کا احساس پایا جاتا ہے مگر اُن پر کمزوری اس قدر غالب ہوتی ہے کہ وہ اپنی اس حس سے پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔اور دیکھنے کے باوجود وہ روحانی علوم سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہتے ہیں۔
تیسرا درجہ حیوانی زندگی سے مشابہ ہوتا ہے یعنی جس طرح حیوان کو اگر آواز سناؤ تو وہ سُن لے گا مگر مطلب نہیں سمجھے گا۔اور اگر اُسے دُکھ دینے لگو تو وہ بھاگ جائیگ۔مگر اپنے بچاؤ کیلئے ایسے ذرائع نہیں سوچ سکے گا جن کی وجہ سے وہ ہمیشہ کیلئے خطرات سے محفوظ ہو جائے ۔اسی طرح روحانی عالم میں بھی بعض لوگ حیوانات کے مشابہ ہوتے ہیں ۔چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ لَھُمْ قُلُوْب’‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ھُمُ الْغَافِلُوْنَ ہ (اعراف ۲۲ع) یعنی اُن کے دل تو ہیں مگر اُن کے ذریعہ سے وہ سمجھتے نہیں ۔اور اُن کی آنکھیں تو ہیں مگر اُن کے ذریعہ سے وہ دیکھتے نہیں ۔اور اُن کے کان تو ہیں مگر اُن کے ذریعہ سے وہ سنتے نہیں ۔یہ لوگ چارپایوں کی طرح ہیں ۔بلکہ اُن سے بھی بد تر ہیں۔اور اصل بات تو یہ ہے کہ یہ بالکل غافل ہیں ۔ان لوگوں کو بدتر اس لئے کہا کہ چارپایوں میں جو نقص ہے وہ تو طبعی ہے۔لیکن ان کے اندر اللّٰہ تعالیٰ نے ہر قسم کی قابلیتیں پیدا کی ہیں اور پھر بھی یہ چارپاؤںکے مشابہ بن گئی ہیں ۔ایسے لوگ حیوانات کی طرح خوف کے وقت تو اپنے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرتے ہیں یعنی خداتعالیٰ کی طرف جُھک جاتے ہیں لیکن ہمیشہ کیلئے اپنے آپ کو اُس کے عذاب سے محفوظ نہیں کر سکتے ۔بلکہ جب مصیبت ہٹ جاتی ہے تو پھر شرارتوں کی طرف عود کر آتے ہیں ۔
لیکن جب اس سے بھی زیادہ خداتعالیٰ کی محبت کا احساس پیدا ہو جائے تو چوتھا درجہ انسان کو یہ حاصل ہوتا ہے کہ اُسے تقویٰ اور روحانیت سے لگاؤ ہو جاتا ہے اور وہ سب کام عقل اور سمجھ سے کرنے لگتا ہے مگر کبھی کبھی اس پر شیطان بھی غالب آجاتا ہے ہاں بدی کا حملہ اس پر بہت کم کارگر ہوتا ہے ۔کیونکہ اُس میں بدی کو بدی سمجھنے کی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے اِس حالت کی طرف اللّٰہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ھُمْ مُّبْصِرُوْنَ ( اعراف ۲۴ ع)یعنی وہ لوگ جنہوں نے اُس وقت تقویٰ اختیار کیا جب شیطان کی طرف سے آنے والا کوئی خیال اُن کو محسوس ہوا اور وہ ہوشیار ہوگئے اور اُن کی آنکھیں کُھل گئیں وہ ہدایت پا جاتے ہیں ۔اس آیت سے ظاہر ہے کہ کبھی کبھی ایسے لوگوں کو شیطان اپنی طرف کھینچتا ہے ۔مگر وہ جھٹ ہوشیار ہو جاتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کو اپنی مدد کیلئے پکارتے ہیں۔اور شیطانی حملہ سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔
پھر انسان اس سے بھی ترقی کرتا اور پانچویں درجہ میں پہنچ کر مُلک بن جاتا ہے ۔یعنی اُس کی معرفتِ الٰہی ایسی ترقی کر جاتی ہے کہ خداتعالیٰ کے تمام احکام پر عمل اُس کی غذا بن جاتا ہے اور جس طرح ملائکہ یَفْعَلُوْنَ مَایُؤْ مَرُوْنَ کے مصداق ہوتے ہیں اسی طرح ایسا انسان بھی خداتعالیٰ کے سب حکموں کو پورا کرتا ہے اور اس پر کبھی غفلت کی نیند نہیں آتی ۔ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللّٰہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَالْمَلَا عِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔عُقْبَی الدَّارِ (رعد ۲ ع)یعنی ایسے لوگوں کے پاس ہر دروازہ سے فرشتے آئیں گے۔اور ان سے کہیں گے کہ تمہارے لئے سلامتی ہی سلامتی ہے کیونکہ تم خداتعالٰی کی راہ میں ثابت قدم رہے ہو ۔پس اب دیکھو کہ تمہارے لئے اس گھر کا کیا ہی اچھا انجام ہے ۔چونکہ یہ لوگ ملکوتی صفات رکھنے والے ہونگے اس لئے انکو دیکھتے ہی فرشتے اُن کی طرف دوڑ پڑیں گے اور انہیں اللّٰہ تعالٰی کے قرب اور اُس کے انعامات کے حصول کی خوشخبری دیں گے مگر یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ اس آیت کے یہ معنے نہیں کہ فرشتے اپنی کثرت کی وجہ سے ایک دروازے کی بجائے بہت سے دروازوں سے داخل ہو نگے بلکہ اس کے اصل معنے یہ ہیں کہ ہر دروازہ کا فرشتہ اُن کے پاس آئے گا اور انہیں مبارک باد دیگا کہ تم اس جدوجہد میں کامیاب ہو گئے جس میں میں اور تم دونوں مل کر شیطان کا مقابلہ کیا کرتے تھے ۔کیونکہ بدی انسانی قلب میں کئی راستوں سے داخل ہوتی ہے۔کبھی آنکھ کے ذریعہ بدی کی تحریک ہوتی ہے۔کبھی کانوں کے ذریعہ بدی کی تحریک ہوتی ہے اورکبھی چھُونے اور چکھنے کے ذریعہ بدی کی تحریک ہوتی ہے اور چونکہ ہر راستہ کی حفاظت کیلئے اللّٰہ تعالیٰ کے فرشتے مقرر ہیں ۔اس لئے جب انسان شیطان پر کامیابی حاصل کرلے گاتو ہردروازہ کا فرشتہ اُسے مبارکباد دینے کیلئے آئے گا۔
پھر انسان اس سے بھی آگے ترقی کرتا ہے اور چھٹا درجہ اُسے حاصل ہوتا ہے کہ اُس میں ایسا تقویٰ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کلی طور پر اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہ‘ ۔۔۔۔۔۔وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ( بقرۃ ۱۳ ع)یعنی جو لوگ اپنے آپ کو کلیۃً اللّٰہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں اور نیک اعمال بجا لائیں ۔اُن کیلئے اپنے رب کے حضور بہت بڑا اجر مقدر ہے۔اور وہ ہر قسم کے خوف اور حزن سے محفوظ رہیں گے۔ملکوتی مقام میں تو وہ سمجھتا تھا کہ میں بھی کچھ کر سکتا ہوں مجھے حکم دو تو میں دوڑ کر اُس کی تعمیل کروں گا۔مگر اس مقام پر پہنچ کر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں جس طرح آپ کی مرضی ہو اسی طرح مجھے چلا لیجئیے۔اس مقام پر پہنچ کر اس کے تمام کام خداتعالیٰ کے کام ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو خداتعالٰی کے ہاتھ میں ایک بے جان ہتھیار کی طرح دے دیتا ہے۔ایسے لوگوں کی نسبت ہی رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ بعض لوگ ترقی کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ خدا اُن کی آنکھیں اور کان اور ہاتھ پاؤں بن جاتا ہے ۔یعنی اُ ن کی تمام حرکات و سکنات اُس کی منشا کے مطابق ہوتی ہیں ۔اور وہ ہر ابتلاء اور ٹھوکر سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔
ساتواں مقام جس پر انسان ترقی کرکے پہنچتا ہے وہ وہی ہے جس کا ثُمَّ اَنْشَاْ نٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ میں ذکر کیا گیا ہے۔یعنی پھر اُسے ایک اور خلق میں بدل دیا جاتا ہے اور اس پر ایسا آسمانی رنگ چڑھ جاتا ہے کہ پہلے تو وہ خداتعالیٰ کے بلائے بولتا تھا مگر اَب اُس کو وہ مقام بخشا جاتا ہے کہ جو کچھ وہ کہتا ہے خداتعالیٰ بھی اُسی کے مطابق اپنے احکام جاری کر دیتا ہے گویا پہلے تو خدا اس کے ہاتھ پاؤں بناتھا مگر پھر وہ ترقی کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اُس کے اپنے ہاتھ پاؤں خداتعالٰی کے ہاتھ پاؤں اور اُس کی زبان خداتعالٰی کی زبان بن جاتی ہے۔اور وہ مَا یَنْطِقُ عَنِ الَْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْي’‘ یُّوْحٰی کا مصداق ہو جاتا ہے۔یہ انسانی کمال کا وہ آخری نقطہ ہے جس پر پہنچ کر خدائی صفات اُس کے آئینہ ٔ قلب میں منعکس ہونے لگتی ہیں ۔اور وہ اس کے جلال اور جمال کا مظہر ہو جاتا ہے۔اس سے دشمنی رکھنے والے خداتعالیٰ سے دشمنی رکھنے والے قرار پاتے ہیں ۔اور اُس سے محبت رکھنے والے خداتعالیٰ کی برکات اور اُس کے انعامات کے مورد بنتے ہیں ۔اسی مقام کی طرف بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے ایک جگہ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ۔
؎ اے آں کہ سوئے من بددیدی بصد تبر
از باغباں تبرس کہ من شاخِ مثمرم
یعنی اے وہ شخص جو میری طرف تبر اور کلہاڑے لے کر اس نیت سے دوڑا چلا آرہا ہے کہ تو میرے لگائے ہوئے باغ کو کاٹ دے تو باغبان سے ڈر کر میں وہ شاخ نہیں ہوں جو کاٹی جا سکے۔تیری تدابیر الٹ کر تجھ پر ہی پڑیں گی اور تیرا منصوبہ خود تجھے ہی تباہ کر دیگا۔کیونکہ میرے سر سے پاؤں تک میرا خدا مجھ میں نہاں ہے اور حملہ کر نیوالا مجھ پر حملہ نہیںکرتا ۔بلکہ خدا پر حملہ کرتا ہے اور کون ہے جو خدا پر اپنے حملہ میں کامیاب ہو سکے۔غرض یہ وہ سات مقامات ہیں جو روحانی ترقی کے حصول کیلئے اللّٰہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں اور جن کو درجہ بدرجہ طے کرتے ہوئے انسان اللّٰہ تعالیٰ کے قریب پہنچ جاتا ہے اور اس کی لازوال محبت کو حاصل کر لیتا ہے ۔
وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآ ئِ مَآا ئً۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَصِبْعٍ لِّلْاٰکِلِیْنَ ہ
ترجمہ() اور ہم نے آسمان سے ایک اندازہ کے مطابق پانی اُتارا ہے۔پھر اُس کو زمین میں ٹھہرا دیا۔اور ہم اُس کے فنا کرنے پر بھی قادر ہیں۔پھر ہم نے تمہارے لئے اُس سے باغات بنائے کھجور کے(بھی) اور انگوروں کے بھی اُن میں تمہارے لئے بہت سے پھل پیدا کئے گئے ہیں۔اور اُن سے تم کھاتے ہو۔اور ہم نے تمہارے لئے وہ درخت بھی پیدا کیا ہے جو طورِ سینا سے نکلتا ہے جو اپنے اندر تیل لیکراُگتا ہے اور کھانے والوں کیلئے سالن لے کر بھی ۔ ۴؎
۴؎ حل لغات
الدُّھْن : دُھْنُ السَمْسِمِ وَ غَیْرِہٖ زَیْتُہ‘ یعنی تلوں اور دوسرے بیجوں کے تیل کو عربی زبان میں دُھن کہتے ہیں ۔
الصِبْغ : مَایُصْطَبِغُ اے یُؤْ تَدَمُ بِہٖ مِنِ الْاِرَامِ ۔یعنی وہ سالن جسے کھانے کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔(اقرب)
تفسیر :
فرماتا ہے ۔ہم نے آسمان سے روحانی زندگی کا پانی ایک اندازہ کے مطابق اتارا ہے اور پھر اس کو زمین میں ٹھہرا دیا ہے۔لیکن اگر لوگوں نے اس آسمانی پانی کی قدر نہ کی تو ہم اس کو اس دنیا سے غائب کر دینے پر بھی قادر ہیں۔یہ وہی خبر ہے جس کی طرف قرآن کریم کے متعدد مقامات میں اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے آخری شرعی کلام کو آسمان سے نازل کرکے زمین میں قائم کرے گااور لوگوں کی مخالفت اُس کے راستہ میں روک نہیں بنے گی ۔لیکن پھر ایک عرصہ کے بعد جبکہ لوگوںمیں بگاڑ پیدا ہو جائیگایہ کلام آسمان پر پڑھناشروع ہو جائیگااور ایک ہزار سال میں یہ دُنیا سے اُٹھ جائیگا۔(سورۂ سجدہ ۱ع)رسول کر یم ﷺنے قیام شریعت کے زمانہ کو تین سوسال کا عرصہ قراردیا ہے۔جیسا کہ آپ ایک حدیث میں فرماتے ہیں کہ ۔
خَیْرُکُمْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَکُوْنَ بَعْدَھَمْ قَوْم’‘ یَشْھَدُوْنَ وَلَا یُسْتَشْھَدُوْنَ وَ یَخُوْنُوْنَ وَلَا یُؤْتَمَنُوْنَ وَ یَنْذُرُوْنَ وَلَا یَفُوْنَ وَ یَظْھَرُ فِیْھِمُ السّمنُ ( بخاری جلد ۴ کتاب الرقاق باب مایحذ ومن زھرۃ الدنیا والتنافس فیھا)یعنی سب سے بہتر میری صدی ہے پھر اس سے اُتر کر وہ لوگ ہونگے جو دوسری صدی میں ہونگے اور ان سے اُتر کر وہ لوگ ہونگے جو تیسری صدی میں ہونگے۔مگرا س کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوجائیں گے جو گواہی دیں گے تو لوگ کہیں گے کہ تمہاری گواہی کا ہم کیا اعتبار کریں تم تو جھوٹ بولتے ہو۔کوئی شخص اُن کے پاس امانت رکھنے کیلئے تیار نہیں ہوگا کیونکہ وہ سخت خائن اور بد دیانت ہونگے۔اسی طرح اُن کا حالل یہ ہوگا کہ وہ نذریں مانیں گے تو اُن کو پورا نہیں کریں گے۔اور کھا کھا کر خوب موٹے ہو جائیں گے یعنی دین کی محبت اور قربانی کا جذبہ اُن کے اندر نہیں ہوگا۔اسی طرح آپؐ نے فرمایا کہ اُس زمانہ میں مسلمانوں کی یہ حالت ہوگی کہ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اِسْمُہ‘ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ‘ (مشکوٰۃ کتاب العلم )اسلام کا صرف نام ہی رہ جائیگا۔اور قرآن کریم کی صرف تحریر رہ جائیگی ۔یعنی اسلام کا مغز لوگوں میں باقی نہیں رہیگا اور قرآن کریم کے مطالب کسی پر روشن نہیں ہونگے ۔اُن کی عبادتیں اخلاص سے خالی ہونگی اور اُنکے دماغ قرآنی معارف کو سمجھنے سے عاری ہو جائیں گے۔قرآن کریم اور رسول کریم ﷺ کی ان پیشگوئیوں کے مطابق ابتدائی تین صدیوں کے بعد اسلام پر زوال آنا شروع ہوا۔اور یہ زوال اتنا بڑھا کہ مسلمان اپنی طاقت کو بالکل کھو بیٹھے ۔کُجا تو وہ وقت تھا کہ یورپ ایک ایک مسلمان بادشاہ سے ڈرتا تھا اور کُجا یہ حالت ہے کہ اب یورپ اور امریکہ کا مقابلہ کرنے کی سکت سارے عالم اسلام میں بھی نہیں ہے۔پھر مسلمانوں کی عملی حالت خودبخود بتارہی ہے کہ وہ اسلام سے کس قدردُور جاچکے ہیں ۔انہوں نے اسلام کی تعلیم کے صریح خلاف عقائد اختیار کر رکھے ہیں اور اسلام کی اشاعت کا جذبہ اُنکے دلوں سے مفقود ہو چکا ہے۔نہ محبت الٰہیہ اُن میں پائی جاتی ہے اور نہ محبت ِ رسول کا کوئی نمونہ اُن کی عملی زندگی میں نظر آتا ہے۔مُونہہ سے بے شک وہ اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں مگر اُنکے اپنے دل بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اسلاف کی رُوح اُن میں باقی نہیں رہی۔خود علماء کہلانے والوں کی یہ حالت ہے کہ وہ فتنہ وفساد کو ہوا دینے کیلئے تو ہر وقت تیار رہتے ہیں لیکن وہ غرض جس کیلئے اسلام مبعوث ہوا تھا اس کی طرف انہیں کوئی توجہ نہیں۔نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ کی طرف اوّل تو اکثریت کی کوئی توجہ نہیں اور جو لوگ ان عبادات میں حصّہ لیتے ہیں وہ بھی رسمی رنگ میں حصّہ لیتے ہیں ۔ورنہ نہ نماز کی غرض و غایت اُن کو معلوم ہے نہ روزہ کا مقصد اُن کے سامنے ہوتا ہے۔پھر خدا جو سب سے بڑی دولت ہے اور جس کے کلام کے بغیر روحانیت کا پودہ کبھی پنپ نہیں سکتا اس کی محبت سے وہ ایسے بیگانہ ہو چکے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں اب خدا تعالیٰ کے کلام اور اُس کے الہام کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندوں کی اصلاح کیلئے پہلے تو اپنے مامورین کو مبعوث فرماتا رہا ہے مگر اب اُس نے اس چشمۂ فیض کو بھی بند کر دیا ہے اور امت محمدیہ سے اپنا چہرہ ہمیشہ کیلئے چھپا لیا ہے اور وحی اور الہام کا سلسلہ قیامت تک بند کر دیا ہے ۔اب خواہ کوئی لاکھ چلاّئے اللّٰہ تعالیٰ اُس کی روح کی تسکین کا کوئی سامان پیدا نہیں کرے گا۔اور اُسے ظلمات کی وادیوں میں بھٹکتا چھوڑ دیگا۔یہ وہ حالات ہیں جن سے موجودہ دور کا مسلمان گذر رہا ہے۔وہ مایوسی اور نکبت کا شکار ہو چکا ہے۔روح ِفاعلی اُس کے اندر سے مفقود ہو چکی ہے اورکُفر پر غالب آنے کے ولولے اُس کے قلب کے کسی گوشہ میں بھی نہیں پائے جاتے اور یقیناً اگر یہی حالات رہتے تو اسلام کی ہستی معرضِ خطر میں پڑجاتی۔اور ابلیس کا سر کبھی کچلا نہ جا سکتا۔لیکن وہ خدا جس نے اسلام کے ایک ہزار سالہ دور تنزل کی خبر دی تھی اُسی نے قرآن کریم میں محمد رسول اللّٰہ ﷺ کی ایک دوسری بروزی بعثت کی خبر دی تھی اورپھر اُس زمانہ کی علامات بیان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اُس زمانہ میں خدا ترس علماء جو دنیا کیلئے ہدایت اور راہنمائی کا موجب ہوا کرتے ہیں دنیا سے مفقود ہو جائیں گے اور اُن کی جگہ ایسے علماء لے لیں گے جو دین سے بے بہرہ ہونگے۔اُس زمانہ میں ایک نئی سواری ایجاد ہو گی جس کی وجہ سے اونٹ ترک کر دیئے جائیں گے۔اُس وقت کتابیں اور اخبار کثرت سے شائع ہونگے۔دریاؤں میں سے نہریں نکالی جائینگی پہاڑوں کو اُڑایا جائیگا۔سفر کا رواج زیادہ ہو جائیگا ستی وغیرہ کی قدیم رسوم قانوناً بند کر دی جائیں گی۔ایسی سواریاں ایجاد ہونگی جو اس سے پہلے دنیا میں موجود نہیں تھیں اور دو سمندروں کے درمیان کی ایک خشکی کو پھاڑ کر جس کے ایک طرف مونگا پایا جاتا ہے اور دوسری طرف موتی دونوں سمندروں کو ملا دیا جائیگا۔اور اُس میں کثرت سے جہاز چلیں گے جس میں سویز اور پانامہ کی نہروں کی طرف اشارہ تھا ۔چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ نے سورۂ رحمٰن میں اس کی خبر دیتے ہوئے فرمایا مَرَجَ الْبَحْرِیْنِ یَلْتَقِیٰنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رَبِّکُمَا تُکَذِّ بٰنِ (سورۂ رحمٰن ع ) یعنی اُس نے دوسمندروں کو اس طرح چلایا ہے کہ وہ ایک وقت آکر آپس میں مل جائیں گے لیکن سرِ دست اُن دونوں کے درمیان خشکی کا ایک پردہ حائل ہے جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے۔ان دونوں سمندروں میں سے موتی اور مونگا نکلتے ہیں ۔اب بتاؤ کہ تم اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کا انکار کرو گے چنانچہ ان دونوں نہروں نے بحیرۂ قلزم اور احمر کو ایک طرف اور بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کو دوسری طرف ملا دیااور اس طرح یہ قرآنی پیشگوئی پوری ہوئی ۔پھر رسول کریم ﷺ نے بھی امّت محمدیہ کو خوشخبری دی اور فرمایا کہ بے شک ایک زمانہ ایسا آئیگا جب کہ روحانی پانی آسمان کی طرف اُٹھ جائیگا ۔مگر پھر آسمان سے ہی ایمان کا خزانہ واپس لیکر ایک فارسی الاصل انسان دنیا میں مبعوث ہوگا۔جوصلیبی طاقتوں کو پاش پاش کر دیگا اور اسلام پر حملہ آور عاقبت نا اندیش لوگوں کو اپنے دلائل و براہین اور آسمانی حربوں اور معجزات و نشانات اور دُعاؤں کی مدد سے ایسا گھائل کریگا کہ وہ سر اُٹھانے کی بھی تاب نہیں رکھیں گے۔وہ اسلام کو پھر روئے زمین پر غالب کریگا کہ قرآن اور محمد رسول اللّٰہ ﷺ کا جھنڈا دنیا میں بلند کریگا۔اور ادیانِ باطلہ کو اسلام کے مقابلہ میں ایسی شکست دیگا کہ جس کی مثال دنیا میں نظر نہیں آئیگی۔پھر محمد رسول اللّٰہ ﷺ نے احیاء اسلام کیلئے صرف ایک موعود کے آنے کی ہی خبر نہیں دی بلکہ آپ نے وہ علامات بھی بتائیں جن سے اس کا پہچاننا مسلمانوں کیلئے آسان ہو جائے۔آپ نے بتایا کہ یہ موعود دو بیماریوں میں مبتلا ہوگا ایک دھڑ کے اوپر کے حصے سے تعلق رکھتی ہو گی اور ایک نچلے حصے سے اور یہ کہ اُس کا رنگ گندم گوں ہوگا۔سر کے بال سیدھے ہونگے۔کسانوں کے خاندان میں سے ہوگا۔اُس کے کلام میں لُکنت ہوگی۔وہ بات کرتے وقت ہاتھ کو اپنی ران پر ماریگااور کدعہ یعنی قادیان نامی گاؤں سے ظاہرہوگا۔اسی طرح آپ نے فرمایا کہ وہ مسیحیت اور مہدویت کی دونوں شاخوں کا جامع ہوگا۔اُس وقت عیسائیت کو دوسری اقوام پرغالبہ حاصل ہوگا اور اسلامی شریعت کی مقرر کردہ حدود کو ترک کر دیا جائیگا۔جُؤا کثرت سے پھیل جائیگا۔امراء اپنے مالوں کی زکوٰۃ نکالنے کو بوجھ تصور کریں گے۔اسلامی حکومتیں ضعف و انحطاط کا شکار ہو جائیں گی۔پھر فرمایا کہ اُس زمانہ میں عورتیں زیادہ ہو جائیں گی اور تجارتی کاروبار میں سے اشیاء فروخت کرنے کاکام عورتوں کے سپرد کر دیا جائیگا اورعورتوں کے لباس ایسے ہونگے کہ اُن کے جسم کا وہ حصّہ جسے پہلے لوگ بھی پردہ کے قابل سمجھتے تھے ننگا نظر آئیگا۔پھر یہیں تک بس نہیں بلکہ یہ بھی بتایا کہ آنے والا موعود مشرق سے ظاہر ہوگا۔اس کے زمانہ میں کئی قسم کی بیماریاں پھیلینگی اور سورج اور چاند دونوں تاریک ہوجائیں گے۔یعنی رمضان کے مہینہ میں سورج کو اُس کے گرہن کی تاریخوں میں سے دوسری کو اور چاند کو اُس کے گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی تاریخ کو گرہن لگے گا اور اس علامت پر اتنازور دیا گیا تھا کہ کہا گیا تھا کہ یہ علامت پہلے کسی مدعیٔ مہدویتکیلئے بطور نشان مقرر نہیں کی گئی (دارقطنی ص۱۸۸)ان تمام پیشگوئیوں پر اگر بحیثیت مجموعی نظر ڈالی جائے تو سوائے موجودہ زمانہ کے اور کسی زمانہ پر چسپاں نہیں ہوئیں۔اور سوائے بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے جنہوں نے مسیحیت اور مہدویت کا دعویٰ کیا اور جن کے زمانہ میں یہ تمام پیشگوئیاںپوری ہوئیں اور کوئی وجود ان پیشگوئیوں کا مورد نظر نہیں آتا ۔پس یہی وہ زمانہ ہے جس کی خبر قرآن کریم اوراحادیث اور انبیائے سابقین کے کلام میں پائی جاتی تھی۔اور بانیٔ سلسلہ احمدیہ ہی وہ موعود ہیں جن کی انتظار میں صدیوں سے لوگ چشم براہ تھے ۔آپ خود فرماتے ہیں
’’ وہ کام جس کیلئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اُسکی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے اُس کو دور کرکے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچّائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کرکے صلح کی بنیاد ڈالوں اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں اُن کو ظاہر کردوں اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دُعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے نہ محض قال سے اُنکی کیفیت بیان کردوں اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کے شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو نامود ہو چکی ہے اُس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودہ لگاؤں۔اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہوگا۔بلکہ اُس خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا مالک ہے۔‘‘
(لیکچر اسلام ص۳۴)
سو خدا نے وَاِنَّا عَلٰی ذَھَابٍ بَہٖ لَقَادِرُوْنَ میں صرف تنزلِ اسلام کی ہی خبر نہیں دی تھی بلکہ یہ بھی بتایا تھا کہ اس تاریکی کے زمانہ میں جبکہ روحانیت کے متلاشی اندھوں کی طرح مارے مارے پھر رہے ہونگے ۔اللّٰہ تعالیٰ مشرق کی سرزمین سے اپنا ایک مامور مبعوث فرمائیگا جس کی نورانی کرنوں سے وساوس اور شکوک کی تاریکیوں کو پھاڑ دیا جائیگا۔خشک زمین کو سیراب کیا جائیگا اور روحانیت اور تقویٰ کی روئیدگی کو نکالا جائیگا۔تاکہ وہ دنیا جو ایک خشک جنگل کی طرح ہوگئی تھی ایک شاداب کھیت کی طرح ہو جائے ۔اور لوگ زندگی اور خوشی کا سانس لینے لگیں اور تاکہ لوگ اُس حقیقی راحت کو پالیں جو خدا تعالٰی کی محبت اور اُس کی لقاکے بغیر کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔چنانچہ وہ زمانہ آگیا جس میں اسلام کے دوبارہ احیاء کی بنیاد رکھ دی گئی ہے ۔اُس کی رحمت کا دریا دِلوں کی خشک زمینوں کو سیراب کرنے کیلئے اپنے کناروں سے اچھل کر بہ پڑا ہے۔اب وہی لوگ کامیاب ہو سکتے ہیں جو اس آسمانی پانی سے فائدہ اٹھائیں اورابٰی اور استکبار سے کام نہ لیں۔
پھر فرماتا ہے جس طرح تازہ اُترنے والے مادی پانی سے کھجور اور انگور اور دوسرے پھل پیدا ہوتے ہیں اسی طرح تازہ اُترنے والے روحانی پانی سے بھی قسم قسم کے اعلٰی درجہ کے پھل پیدا ہوتے رہیں گے ۔ان پھلوں میں سے کچھ تو تم کھاتے ہو اور کچھ دوسرے کاموں میں استعمال کرتے ہو۔جیسے اس درخت کا پھل جو طورِ سینا سے نکلتا ہے اور جس میں تیل بھی پایا جاتا ہے ۔اور جو کھانے والوں کیلئے سالن کے کام بھی آتا ہے ۔یعنی زیتون
ان آیات میں اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اسلام کے دوبارہ احیاء کے سلسلہ میں بیان کیا جا رہا ہے۔اور بتایا گیا ہے کہ تم اسلام کو ایک بے ثمر باغ تصور مت کرو۔بلکہ یاد رکھو کہ یہ وہ باغ ہے جو ہر زمانہ میں اپنے تازہ پھل لوگوں کو کھلاتا رہے گا۔اور جب بھی اسلام میں کوئی خرابی واقعہ ہو گی اُس کو دور کرنے کیلئے محمد رسول اللّٰہ ﷺ کا کوئی غلام جو آپ کی ہی روحانیت کا پھل ہوگا۔اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے مبعوث ہوکر اُس خرابی کو دور کر دے گا۔چنانچہ موجودہ زمانہ میں جبکہ دُنیا معجزات و نشانات کا انکار کر رہی تھی بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے مخالفینِ اسلام کو چیلنج دیتے ہوئے فرمایا
؎ کرامت گرچہ بے نام و نشان است
بیابنگر ز غلمانِ محمّدؐ
یعنی اس زمانہ میں اگر تمہیں معجزات و نشانات کاکوئی نمونہ نظر نہیں آتا تو تم آؤ اور محمد رسول اللّٰہ ﷺ کے غلاموں سے ان کرامات کا مشاہدہ کر لو۔رسول کریمﷺ نے بھی اللّٰہ تعالیٰ کے اس انعام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا ( ابوداؤد جلد ۲ ص ۲۴۱)یعنی اللّٰہ تعالٰی میری امت میں ہر صدی کے سر پر ایسے مُصلحین کھڑا کرتا رہے گاجو اُن خرابیوں کو دُور کر دیا کریں گے جو مرور زمانہ کی وجہ سے اسلام میں داخل ہو نگی اور اس طرح اسلام کا پاک اور بے عیب چہرہ لوگوں کے سامنے بار بار آتا رہے گا۔اس جگہ زیتون کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ علاوہ اس کے کہ وہ ایک پھل کا کام دیتا ہے ۔اس کا تیل اچار میں بھی ڈالا جاتا ہے جو اس کو دیر تک قائم رکھتا ہے۔اس طرح تمثیلی زبان میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اسلام کے ذریعہ ہم نہ صرف اس کے تازہ پھل تمہیں کھلا ئیں گے بلکہ ہم تمہارے اندر اس تعلیم کو قائم کریں گے جو سڑے اور خراب ہونے سے محفوظ ہوگی۔چنانچہ دیکھ لو موسوی اور عیسوی تعلیمیں بے کار ہوکر رہ گئیں مگر محمد رسول اللّٰہ ﷺ جو تعلیم لائے وہ اب بھی قائم ہے اور قیامت تک قائم رہے گی اور کوئی شخص اس قرآن کا ایک شوشہ بدلنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا۔
وَ اِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَعَلَی الْفُلْکِ تُحْمَلُوْنَ ہ
ترجمہ() اور تمہارے لئے چارپایوں میں بڑی عبرت ہے۔ہم تم کو اس چیز سے جو اُن کے پیٹ میں ہوتی ہے پلاتے ہیں اور ان چارپایوں میں تمہارے لئے اور بھی بہت سے نفعے ہیں اور تم ان میں سے بعض کو کھاتے ہو۔اور ان پر اورکشتیوں پر اٹھائے جاتے ہو۔ ۵؎
تفسیر :
فرماتا ہے جس طرح تم دیکھتے ہو کہ مُردہ مٹی میں سے ہم گھاس نکالتے ہیں جسے جانورکھاتے ہیں اور پھر وہ اس کے پیٹ کے راستہ سے تمہارے لئے عمدہ غذا بن جاتا ہے ۔اسی طرح انسانی عقل بیشک طرح طرح کی تدبیریں نکالتی ہے۔لیکن ان تدبیروں کو اعلٰی درجہ کا مفید اور بے عیب بنانا خدا کا کام ہے۔جو خدا گھاس کو جانور کی مشین میں ڈال کر دودھ بنا کر نکا لتا ہے وہی خدا جب ایک کامل دماغ پر اپنا پرتو ڈالتا ہے اور اعلٰی الہام سے اُس کی مدد کرتا ہے تو اُس کے نتیجہ میں ایک ایسی اعلٰی درجہ کی تعلیم پیدا ہوتی ہے جو دودھ کی طرح رُوحانی انسان کی پرورش کرتی ہے۔اور گھاس کا فضلہ سب اُس میں سے نکل جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللّٰہ تعالٰی نے مادی اور رُوحانی عالم کو ایک دوسرے کے مشابہ بنایا ہے جس طرح مادی عالم میں ہمیں یہ قانون دکھائی دیتا ہے کہ زمین اپنی قوتوں کے نشوونما کیلئے آسمانی بارش کی محتاج ہوتی ہے اسی طرح عقل انسانی بھی وحی اور الہام کی بارش کی محتاج ہے ۔جس طرح جسمانیات میں ہمیں روزانہ یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ اگر ایک لمبے عرصہ تک بارش نازل نہ ہو تو کنوؤں کے پانی تک خشک ہو جاتے ہیں ۔درخت مُرجھا جاتے ہیں ۔سبزے گل سڑ جاتے ہیں اور باغات اپنے پھل سے محروم ہو جاتے ہیں ۔اسی طرح جب ایک لمبے عرصہ تک آسمانِ روحانی سے وحی و الہام کی بارش نازل نہیں ہوتی تو ارتقاء ِ دماغی بھی بند ہو جاتا ہے اور محض عقل بنی نوع انسان کی کوئی راہنمائی نہیں کر سکتی۔فلسفیوں کی گمراہی اس بات کا نتیجہ ہوتی ہے کہ وہ صرف عقل کو اپنا راہنما سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ہم اپنی بہبودی کیلئے خود قوانین تجویز کر سکتے ہیں ہمیں کسی مذہب یا الہام کی ضرورت نہیںحالانکہ اُن کے اس نظریہ کی خود نیچر تردید کر رہا ہے۔زمین اپنے اندر بڑی بھاری طاقتیں رکھتی ہے مگر وہ بارش کی محتاج ہے۔بارش نازل ہوتی ہے تو زمین کے سوتے بھی پُھوٹ پڑتے ہیں۔اُس کی سبزیاں اُگنے لگتی ہیں ۔اُس کے درخت لہلہانے لگتے ہیں ۔اُس کے پھول اپنی بھینی بھینی خوشبو سے دل ودماغ کو معطر کرنے لگتے ہیں ۔اُس کا سبزہ آمکھوں کو طراوت بخشنے لگتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہرچیز میں زندگی کے آثار پیدا ہو گئے ہیں ۔یہانتک کہ فضائے آسمانی میں اُڑنے والے پرندے بھی خوشی سے چہچہانے لگتے ہیں اور لوگ اطمینان اور خوشی کا سانس لینے لگتے ہیں ۔وہی لوگ جن کے دل قحط سالی کے خوف سے دھڑک رہے ہوتے ہیں اُن کے چہروںپر بشاشت آجاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے بارش نازل کرکے ہمیں تباہ ہونے سے بچا لیا۔جس طرح مادی عالم میں زمین آسمانی بارش کی محتاج ہے ۔اسی طرح انسانی عقل وحی و الہام کی محتاج ہے۔گویا جس طرح انسانی آنکھ سورج کی روشنی کے بغیر بے کار ہے۔اسی برح انسانی عقل اللّٰہ تعالیٰ کے کلام اور اُس کے الہام کے بغیر ایک بے کار چیز ہے۔اگر خداتعالیٰ کا ہاتھ اُس کی مدد کیلئے آسمان سے نہ اُترے تو وہ کبھی اپنی اُس پیاس کو نہیں بُجھا سکتا جو اُس کی فطرت کے اندر ودیعت کی گئی ہے اور جس کے لئے وہ چاروں طرف اپنے ہاتھ پاؤں مارتا دکھائی دے رہا ہے۔یورپ کو دیکھ لواُس نے مادی علوم میں کس قدر ترقی کر لی ہے۔سائینس اپنے معراجِ کمال کو پہنچ چکی ہے اور مذہب کی انسانی زندگی کیلئے ایک بے کار چیز سمجھا جانے لگا ہے۔مگر اُس کے ساتھ ہی ہمیں یہ نظارہ بھی نظر آتا ہے کہ ذرا کوئی شخص اُن سے کہدے کہ میں ہتھیلی دیکھ کر تمہیں غیب کی خبریں بتا سکتا ہوں تو بڑے بڑے لائق وکیل اور گریجوایٹ اور ڈاکٹر اور انجنئیر اُس کے سامنے بیٹھ جائیں گے اور کہیں گے ہمارا ہاتھ دیکھ کر ہمیں بتائو کہ ہمارا مستقبل کیسا ہے۔اور پھر وہ جو کچھ بتاتاہے۔اُسے پتھر کی لکیر سمجھ لیتے ہیں ۔اُن کی یہ کیفیت بتاتی ہے کہ فطرتی طور پر انسان کے اندر ایک پیاس رکھی گئی ہے اور وہ کائنات عالم کی حقیقت اور اُسکے راز معلوم کرنا چاہتا ہے۔بیشک انہوں نے سینکڑوں سالوں تک سمندروں پر حکمرانی کی۔انہوں نے ایک ایک چلّو پانی کو چھان مارا اور سب گہرائیوں کو دریافت کیا انہوں نے موتی نکالنے کیلئے سمندروں کی تہ میں غوطے لگائے اور فضائے آسمانی کی بلندیوں کے راز معلوم کرنے کیلئے آسمان کی طرف اپنے تیر پھینکے ۔اُن کے بیڑوں نے جزیروں کی تلاش میں زمین کا چپہ چپہ دیکھ مارا اور ملکوں پر قبضہ کر لیا۔مگر اُن کا غیب معلوم کرنے کیلئے اپنے ہاتھ دکھانا صاف بتا رہا ہے کہ یہ مادی علوم اُن کو مطمٔن کرنے سے قاصر رہے ہیں اور وہ مادراء الطبیعات علوم کے حصول کی ایک تڑپ اس لا مذہبیت میں بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ۔یہی تڑپ اور پیاس ہے جو انسان کو کبھی کسی راستہ پر لے جاتی ہے اور کبھی کسی راستہ پر ۔کوئی ستاروں کو دیکھ کر آئندہ کے حالات معلوم کرنا چاہتا ہے ۔کوئی پامسٹری کو علمِ غیب کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے۔کوئی تسبیح کے منکوں سے اپنی کامیابی یا ناکامی کی فال لیتا ہے ۔اگر طاق منکا آجائے تو کہتا ہے کامیابی یقینی ہے۔جُفت آجائیں تو سر نیچے ڈال لیں گے اور کہیں گے ناکامی یقینی ہے ۔عرب کے رہنے والے کبھی تیروں سے فال لیتے تھے اور کبھی پرندوں کی شکلوں اور اُن کی آوازوں سے مختلف قسم کے نتائج اخذ کرتے تھے اگر اُلّو اُن کی دیوار پر آبیٹھتا تو وہ سمجھتے کہ اب ہمارے لئے ویرانی اور بربادی مقدر ہے اور اگر کّوا آبیٹھتا تو سمجھتے کہ کوئی سفر پیش آنے والا ہے ۔غرض یہ خواہش کہ کائنات کے راز اور عالمِ بالا کے اسرار کس طرح منکشف ہوں ہر انسان کے اندر فطرتی طورپر پائی جاتی ہے اور یہ خواہش اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ہمارے ملک میں کئی لوگ ایسے دکھائی دیتے ہیں جو جنّات کو قابو کرنے کیلئے مختلف قسم کی چلّہ کشیاں کرتے رہتے ہیں ۔اگر انہیں معلوم ہو کہ کسی شخص کے قبضہ میں جِن ہیں تو وہ دور دراز کا سفر کر کے بھی اسکے پاس پہنچیں گے ۔اُس کی منتیں کریں گے اور اُس سے عاجز انہ التجائیں کریںگے کہ وہ انہیں بھی ایسا طریق بتا دے جس سے جنات قابو میں آجائیں اور وہ اُن کی مدد سے اپنی تمام مشکلات کو دور کر سکیں ۔کوئی اسم اعظم کی دریافت کے پیچھے لگا ہوا ہے اور کوئی عملِ حبّ اور عمل تسخیر کو دریافت کرنے کیلئے مارا مارا پھر رہا ہے ۔اگر مادی علوم ہی انسان کی پیاس بجھانے کیلئے کافی تھے تو کیا وجہ ہے کہ یورپ کا عقلمند بھی ان باتوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور ایشیا کا جاہل بھی ان علوم کے حاصل کرنیکا متمنّی ہے۔یہ نظارہ بتاتا ہے کہ ہر انسان کے اندر فطرتی طور پر ایک بالا طاقت کا احساس پایا جاتا ہے ۔بے شک مادیات کا بوجھ بعض دفعہ اس کی اس فطرتی طاقت کو دبا دیتا ہے مگر اس کی جدوجہد بتا رہی ہے کہ جب اس کا شعوری دماغ غافل ہوتا ہے تو اُس کا غیر شعوری دماغ اپنے کام میں مشغول ہوتا ہے۔اور وہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے کئی قسم کے راستے تلاش کرتا رہتا ہے۔چنانچہ دیکھ لو دہریہ خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار کرتا ہے مگر بسا اوقات جب کوئی اچانک مصیبت آتی ہے تو اُس کے مُنہ سے بھی اللہ تعالیٰ کا نام نکل جاتا ہے اور وہ اُسی کو اپنی مدد کیلئے پکارنے لگ جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی فطرت کو مسخ کردیا اور اُس پر کئی قسم کے پردے ڈال دیئے مگر جونہی وہ پردے ہٹے فطرت کا نُور پھر چمک اُٹھا ۔اور اُس نے خدا کو پکارنا شروع کر دیا۔
غرض ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی ملاقات کی ایک تڑپ رکھی ہے ۔مگر انسانی جدوجہد بتا رہی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا الہام ہوا اُس کی راہنمائی کیلئے نازل نہ ہوتا تو وہ اسی طرح بھول بھلیوں کے چکر میں پھنسا رہتا اور وہ خدا تعالیٰ کو کبھی نہ پا سکتا۔خدا تعالیٰ نے اُس پر یہ احسان کیا ہے کہ اُس نے اپنے نبیوں کی معرفت اُسے وہ راستہ دکھایا جس پر چل کر وہ آسانی سے خداتعالیٰ تک پہنچ سکتا اور ہر قسم کے مصائب سے امن حاصل کر سکتا ہے ۔
یہی مضمون ایک تمثیلی زبان میں اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بیان فرمایا ہے اور بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کیا تم دودھ کو نہیں دیکھتے وہ کتنا لذیذ اور تمہاری طاقتوں کے نشوونما کیلئے کتنی مفید چیز ہے لیکن یہ دودھ تم نہیں بناتے بلکہ خدا خود جانور کی مشین میں گھاس ڈالتا اور اُس سے دودھ پیدا کرتا ہے۔اسی طرح بے شک تمہارے اندر بھی عقل پائی جاتی ہے مگر وہ گھاس کی طرح ہے جب تک تمہاری عقل پر الہام کا پانی نازل نہ ہو اُس وقت تک وہ گھاس کی طرح ایک ذلیل چیز ہے ۔لیکن جب خداتعالیٰ اپنا الہام نازل کرتا ہے تو اُس سے دودھ کی طرح ایک قیمتی تعلیم دنیا کے سامنے آتی ہے جو بنی نوع انسان کے دماغی اور عقلی قویٰ کو نشوو نما دے کر انہیں ایسے بلند مقام پر پہنچا دیتی ہے کہ وہ خود وحی والہام کے مورد ہو جاتے ہیں ۔اور انسان اپنی پیاس میں تسکین اور اپنی رُوح میں ایک نئی چمک محسوس کرتا ہے ۔
اِلَّا بَشَر’‘ مِّثْلُکُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَتَرَبَّصُوْا بِہٖ حتّٰی حِیْنٍ ہ
ترجمہ() تمہارے جیسا ایک انسان ہے اور چاہتا ہے کہ تم پر فضیلت اختیار کرے۔اور اگر اللہ تعالیٰ پیغمبر بھیجنا چاہتا تو فرشتوں کو اتارتا۔ہم نے اپنے پہلے باپ دادوں میں تو کوئی اس قسم کا واقعہ ہوتا سُنا نہیں یہ تو فقط ایک انسان ہے جس کو جنون ہو گیا ہے پس اس کے انجام کا کچھ دیر انتظار کرو۔ ۶؎
۶؎ حل لغات :
الجِنَّۃُ :طَائِفَۃ’‘ مِنَ الْجِنِّ یعنی جنوں کا ایک گروہ ۔اِسْم’‘ مِنَ الْجُنُوْنِ ۔دیوانگی اور پاگل پن (اقرب)
تفسیر :
انبیاء اور خلفاء کے دشمن ہمیشہ حریت کے نام پر اُن کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ کیا اپنے جیسے انسان کو ہم اپنا حاکم تسلیم کر لیں ! اصل بات یہ ہے کہ یہ شخص ہم پر فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے۔یعنی ایسا خلیفہ جو ساری جماعت کی راہنمائی کرے اور جس کا حکم سب مانیں انسانیت اور حریت کے خلاف ہے۔چنانچہ دیکھ لو جب اللہ تعالیٰ نے نسلِ انسانی کو آدمؑ کی اطاعت اور اُس کی کامل فرمانبرداری کا حکم دیا تو اُس وقت بھی حریت کے نام پر ابلیس آدم کے مقابلہ میں کھڑا ہوگیا اور اُس نے کہا ۔اَنَا خَیْر’‘ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقًتَہ‘ مِنْ طِیْنٍ ( ص ۵ع)۔میں آدم کی اطاعت کس طرح کر سکتا ہو ں ۔میں تو اس سے بہت بہتر اور افضل ہوں ۔میرے اندر حریت اور آزادی کی آگ پائی جاتی ہے اور آدمؑ غلامانہ ذہنیت کا مالک ہے ۔وہ لوگ جو غلامی کو پسند کرتے ہیں اور اپنی حریت کی رُوح کو کچل دینا چاہتے ہیں وہ تو بیشک آدم ؑ کی اطاعت کرلیں مگر میں اس کی اطاعت کرنے کیلئے تیار نہیں ۔یہی دعویٰ جو آجکل انار کسٹ کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم دوسروں کی غلامی برداشت نہیں کر سکتے ہم بغاوت کریں گے اور اپنی آزادی کی رُوح کو برقرار رکھیں گے ۔چونکہ دنیا کا نظام اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک باہم مادۂ تعاون نہ پایا جائے اور اعلیٰ حکام کی اطاعت کو جؤا اپنی گردن پر نہ رکھا جائے اس لئے ایسے لوگ جو باغیانہ رُوح اپنے اندر رکھتے ہیں مذہبی نقطۂ نگاہ سے بھی قابلِ نفرت سمجھے جاتے ہیں۔اور دنیوی حکومتیں بھی ایسے لوگوں کو گرفتار کرکے انہیں مختلف قسم کی سزائیں دیتی ہیں ۔رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی اس قسم کی حریت کا نعرہ بلند کرنے والوں نے اسلام کی شدید مخالفت کی جن میں خود رسول کریم ﷺکے بعض اپنے رشتہ دار بھی شامل تھے چنانچہ ابولہب جو رسول کریم ﷺ کا ایک چچا تھا ۔اُس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ ۔یعنی آگ کے شعلوں کا باپ ہلاک ہو گیا ۔اس جگہ اُسے آگ کے شعلوں کا باپ اسی لئے قرار دیا گیا ہے کہ وہ ناری طبیعت رکھنے والے لوگوں کا سردار تھا اور وہ اور اُس کے ساتھی اسی لئے محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کیلئے تیار نہیں ہوتے تھے کہ آپ کو مانا تو انہیں اپنی سرداری چھوڑ کر محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی اختیار کرنی پڑے گی۔اور یہ چیز اُن کیلئے ناقابلِ برداشت تھی۔حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا ۔نوح علیہ السلام نے خداتعالیٰ کی توحید کی تعلیم پیش کی تو لوگوں نے اسکو ماننے سے انکار کر دیا اور انہوں نے دوسروں کو بھی یہ کہہ کر بہکانا شروع کر دیا کہ یہ تو تمہارے جیسا ایک انسان ہے اس کے اندر کونسی ایسی خصوصیت پائی جاتی ہے جس کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔اس نے جو یہ ساری قوم کے خلاف ایک نئی آواز بلند کرنی شروع کر دی ہے تو اس کا مقصد محض اتنا ہے کہ اس کے نتیجہ میں کچھ لوگ اس کے گرد جمع ہو جائیں اور اس کا جتھ مضبوط ہو جائے اور یہ ہم پر حکومت کرنے لگ جائے۔مگر ہم اس کو کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ہم مٹ جائیں گے مگر اپنی حریت اور آزادی میں کوئی فرق نہیں آنے دیں گے ۔پھر انہوں نے اس سے بھی آگے قدم بڑھایا اور کہا کہ اگر آسمان سے فرشتے ہم پرحاکم بنا کر بھیجے جاتے تو ہم مان بھی لیتے لیکن انسان نبی یا انسان خلیفہ کو ہم ماننے کے لئے تیار نہیں ۔کیونکہ اس کو ہم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔یہ ایک عجیب بات ہے کہ باوجود اس کے کہ شروع سے ہی خداتعالیٰ کے انبیاء خدائی توحید کاو عظ کرتے چلے آئے ہیں۔اُن کے دشمنوں کا ہمیشہ یہ اعتراض رہا ہے کہ ہدایت کیلئے انسان سے بالا کوئی وجود آنا چاہئیے لیکن باوجود اس اعتراض کے خدا ہمیشہ انسانوں کو ہی لوگوں کی ہدایت کیلئے بھیجتا رہا۔کیونکہ اگر رسول کسی غیر جنس میں سے ہو تو وہ بنی نوع انسان کیلئے نمونہ نہیں بن سکتا ۔جس طرح ایک انسان شیر کی نقل نہیں کر سکتا اور نہ شیر انسان کی نقل کر سکتا ہے ۔اور یا پھر وَلَوْ شَآ ئَ اللّٰہُ لَاَ نْزَلَ مَلٓئِکِۃً کے ایک یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ اس کے ساتھ فرشتے کیوں نہیں اُترے کہ اُن کودیکھ کر ہم سمجھ جاتے کہ یہ سچّا ہے اس میں اُن کی اس جہالت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انہوں نے پہلے لوگوں سے یہ سُن کر کہ نبیوں پر فرشتے اُترا کرتے تھییہ سمجھ لیا کہ وہ دوسروں کو بھی نظر آتے تھے۔چنانچہ انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دینا چاہتا تو جس طرح پہلے لوگوں کے ساتھ فرشتے آیا کرتے تھے اسی طرح اس کے ساتھ بھی فرشتے اُترتے ۔ایسا خاموشی سے آنے والا نبی تو ہم نے کبھی نہیں سُنا ۔مگر ان مخالفتوں کے باوجود ہمیشہ انبیاء کی تعلیم ہی کامیاب ہوتی رہی ہے ۔کیونکہ ماننے کے قابل وہی بات ہوتی ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے آئے اور وہ جس وجود میں بھی انسان کو آواز دے اُس کا فرض ہے کہ اُ سکی سُنے اور غلط حریت اور مادرپدر آزادی کو اپنے لئے *** کا طوق سمجھے۔
پھر فرمایا ہے کہ جب نوحؑ کے مخالفوں نے دیکھا کہ ہمارے ان حریت کے بلند بانگ و عادی کے باوجود کچھ نہ کچھ لوگ اس کی جماعت میں شامل ہوتے جا رہے ہیں تو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اِنْ ھُوَ اِلَّا رَجُل’‘ بِہٖ جِنَّۃ’‘ کہ اس آدمی کے ساتھ تو کوئی جنوں کا تعلق ہے مذہبی آدمی نہیں ۔اس کی کامیابی کو محض جنوں کی کامیابی کہنا چاہئیے ۔خدائی نصرت نہیں کہنا چاہئیے۔فَتَرَبَّصُوْا بِہٖ حَتّٰی حِیْنٍ ۔پس کچھ دن انتظار کرو اور دیکھو کہ اس کا کیا انجام ہوتا ہے ۔یہ بھی وہی ہتھیار ہے جو ہر زمانہ میں انبیاء کے مخالفین استعمال کرتے چلے آئے ہیں ۔یہاں تک کہ رسول کریم ﷺکو بھی مخالفین نے مجنون کہا۔اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ پر جن آتے تھے۔عیسائی پادری جب دیکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺکو مخالفین نے مجنون کہاتو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور کہتے ہیں کہ اگر آپ میں کوئی دماغی نقص نہیں تھا تو دشمن نے آپ کو مجنون کیوں کہا؟ وہ اس امر کو بھُول جاتے ہیںکہ خود مسیح ؑ جن کو وہ ابن اللہ قرار دیتے ہیں اُن کو بھی لوگوں نے دیوانہ اور مجنون قرار دیاتھا ۔چنانچہ انجیل میں لکھا ہے کہ
’’ ان باتوں کے سبب یہودیوں میں پھر اختلاف ہوا۔اُن میں بہتیرے تو کہنے لگے کہ اس میں بد رُوح ہے (یعنی اس پرجنّ آتے ہیں ) اور وہ دیوانہ ہے ۔تم اُس کی کیوں سنتے ہو۔‘‘ (یوحنا باب ۱۰ آیت ۱۹، ۲۰)
پھر پو لوس کو وہ رسول قرار دیتے ہیں اور عہد نامہ جدید بتاتا ہے کہ اُس کو بھی دیوانہ قرار دیا گیا۔چنانچہ لکھا ہے ۔
ـ’’ جب وہ اس طرح جو اب دہی کر رہا تھا تو فیتس نے بڑی آواز سے کہا ۔اے پولوس ! تو دیوانہ ہے ۔بہت علم نے تجھے دیوانہ کر دیا ہے ۔‘‘
(اعمال باب ۲۲ آیت ۲۴)
اب اگر لوگوںکے دیوانہ اور مجنون کہنے کی وجہ سے محمد رسول اللہ ﷺ میں کوئی دماغی نقص تسلیم کرنا جائز ہے تو عیسائی کیوں اپنے مسیح کو بھی مجنون نہیں کہتے اور کیوں پولوس کوبھی دیوانہ قرار نہیں دیتے ۔اور اگر مسیح لوگوں کے مجنون کہنے کی وجہ سے واقعہ میں کوئی دماغی نقص اپنے اندر رکھتا تھا تو وہ دنیا کا نجات دہندہ کس طرح ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا اگر انبیاء کو مجنون کہتی ہے تو صرف اس لئے کہ وہ ایسی تعلیم پیش کرتے ہیںجو زمانہ کی رَو کے بالکل خلاف ہوتی ہے اور جس کو انسانی عقل نہیں بنا سکتی ۔علماء اُس کو سُنتے ہیں تو مخالفت میں کھڑے ہو جاتے ہیں ۔امراء سُنتے ہیں تو طیش میں آجاتے ہیں ۔عوام سُنتے ہیں تو وہ بھڑک اُٹھتے ہیں ۔مگر چونکہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مؤید ہوتے ہیں اور اُن کی پُشت پر اللہ تعالیٰ کھڑا ہوتا ہے ۔وہ نہ مخالفت کی پروا ہ کرتے ہیں اور نہ دشمنوں کی ایذاء رسانیوں سے گھبراتے ہیں اور برابر اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں ۔لوگ حیرت اور استعجاب سے اُن کو دیکھتے ہیں ۔مگر بجائے یہ سمجھنے کے کہ زمین و آسمان کا خدا اُن کی پشت پر ہے وہ یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ یہ دیوانہ ہے۔یعنی جس طرح دیوانہ اپنا کام کئے جاتا ہے اور لوگوں کی ہنسی یا مخالفت کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اس طرح وہ بھی کسی مصیبت کی پرواہ نہیں کرتے اور خداتعالیٰ کی توحید کو پھیلاتے چلے جاتے ہیں ۔جب مکہ کے لوگوں نے دیکھا کہ ہم نے محمدرسول اللہ ﷺ کو توحید کے وعظ سے باز رکھنے کے لئے ہر قسم کی تدابیر اختیار کیں مگر یہ پھر بھی اپنے کام سے نہیں رُکا اور اُس نے بتوں کو بُرا بھلا کہنا نہیں چھوڑا تو انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ شخص تو مجنون ہے اللہ تعالیٰ اُن کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ ۔مَٓا اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بَمَجْنُوْنٍ (سورۂ قلم ۱ع )یعنی ہم دوات اور قلم کو اور اُن تمام تحریروں کو جو دوات اور قلم سے لکھی گئی ہیں اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ تُو اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہے یعنی قلم اور دوات سے جس قدر علوم احاطۂ تحریر ممیں آئے ہیں یا آئندہ زمانوں میں آئیں گے اگر ان سب کو جمع کر لیا جائے اور پھر اُن کا تیرے علوم کے ساتھ مقابلہ کیا جائے تو دنیا کو معلوم ہوگا کہ تُو ان سے بہت زیادہ علوم پھیلارہا ہے ۔پس اگر اور لوگ ادنیٰ اور معمولی علوم پھیلانے کی وجہ سے اعلیٰ درجہ کے موجد اور سائینس دان اور فلاسفر اور فقیہہ اور عالم کہلا سکتے ہیں تو تُو اُن سے ہزاروں گُنا زیادہ علوم پھیلانے کی وجہ سے مجنون کس طرح ہو گیا۔
غرض انبیاء کے مخالفین کا یہ ایک پرانا حربہ ہے جس سے وہ ہمیشہ کام لیتے رہے ہیں ۔یا یوں کہو کہ جس طرح ڈوبتا ہوا آدمی سہارے کیلئے تنکوں پر بھی ہاتھ ڈال دیتا ہے اسی طرح وہ بھی مجنون کہہ کر الٰہی سلسلوں کی ترقی کو روکنا چاہتے ہیں مگر آخر خدا کے رسول ہی کامیاب ہوتے ہیں اور مخالفین مجنون کہنے والے ناکامی اور نامرادی کا مُنہ دیکھتے ہیں ۔
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِيْ بِمَا کَذَّبُوْنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ وَّ اِنْ کُنَّا لَمُبْتَلِیْنَ ہ
ترجمہ() ( اس پر نوعؑ نے )کہا اے میرے رب !میری مدد کر کیونکہ یہ لوگ مجھے جھٹلاتے ہیں ۔پس ہم نے اُس کی طرف وحی کی کہ جس کشتی کا ہم نے حکم دیا ہے اُس کو ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق بنا۔پس جب ہمارا حکم آجائے اور زمین کا سوتا پھوٹ پڑے تو اُس کشتی میں ہر ایک جانور میں سے جس کا ہم حکم دیں ایک ایک جوڑا رکھ لے اور اپنے رشتہ داروں کو بھی اُن کے سوا جن کے خلاف ہمارا حکم پہلے اُتر چکا ہے سوار کردے۔اور جنہوں نے ظلم کیا ہے اُن کے متعلق مجھ سے کوئی بات نہ کر۔کیونکہ وہ تو ضرور غرق کئے جائیں گے۔پس جب تُو اور تیرے ساتھی کشتی میں اچھی طرح بیٹھ جائیں تو تم سے ہر ایک کہے کہ سب تعریف اللہ ہی کیلئے ہے جس نے ہمیں ظالموں کی قوم سے نجات دی ۔تو کشتی سے اُترتے وقت کہہ کہ اے میرے رب ! تُو مجھے اس کشتی سے ایسی حالت میں اُتار کہ مجھ پر کثرت سے برکتیں نازل ہو رہی ہوں اور مجھے اس دعا کی بھی کیا ضرورت ہے جبکہ تمام اتارنے والوں سے تیرا وجود بہتر ہے۔اس میں بہت سے نشان ہیں اور ہم یقینا بندوں کا امتحان لینے والے ہیں ۔ ۷؎
۷؎ حل لغات:
اَلتَّنُّوْرُ کے معنے ہیں ۔الکَا نُوْنَ یُخْبَرُ فِیْہِ ۔تنور جس میں روٹیاں پکاتے ہیں ۔کُلُّ مَنْجَرَ مَائٍ ۔ہر وہ جگہ جہاں سے پانی پھوٹ رہا ہو ۔یعنی چشمہ ۔مَحْفَلُ مَائِ الْوَادِیِ ۔پہاڑی وادی کا پانی جمع ہونے کی جگہ ۔(اقرب) نیز تنور کے ایک معنے وَجْہُ الْاَرْضِ یعنی سطح زمین کے بھی ہیں (تاج)
تفسیر :
جب حضرت نوح علیہ السلام کی مخالفت اپنی انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی طرف وحی کی کہ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنا۔اس جگہ جو بِاَعْیُنِنَا کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں لُغت کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہیں کہ میری حفاظت میں کشتی بنا ۔کیونکہ عَیْن’‘ کے معنے عربی زبان میں جہاں آنکھ کے ہیں وہاں اس کے ایک معنے حفاظت کے بھی ہیں ۔چنانچہ عربی زبان میں جب یہ کہا جائے کہ اَنْتَ عَلیٰ عَیْنٍ تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ تُو میری حفاظت میں ہے اور میں تیری عزت کرتا ہوں (اقرب) اسی طرح فُلَان’‘ بِعَیْنِیْ کے یہ معنے ہو تے ہیں کہ اَحْفَظُہ‘وَ اَرَاعِیْہِ کہ میں اُس کی حفاظت کرتا ہوں اور اُس کی رعایت ملحوظ رکھتا ہوں (اقرب) مفردات ِ امام راغب ؒ میں بھی لکھا ہے کہ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِحِفَاظَتِیْ یعنی تو میری حفاظت میں کشتی بنا اور اسی سے عربی زبان کا یہ محاورہ ہے کہ عَیْنُ اللّٰہِ عَلَیْکَ اور اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ تُو خداتعالیٰ کی حفاظت میں ہے (مفردات) پس اِصْنَعِ الْفُکَ بِاَعْیُنِنَا میں اس طرف اشارہ کیا کیا ہے۔کہ جب تم کشتی بنانے لگو گے تو کفار روکیں گے مگر ہم تمہاری حفاظت کریں گے اور تم کامیاب ہو جائو گے۔اور وَحْیِنَا سے اس طرف اشارہ کیا کہی اصل چیزوں کا تقویٰ ہے جو انسان کو عذاب الٰہی سے بچاتا ہے پس وہ روحانی کشتی بھی تیار کرو جو وحی الٰہی کی اتباع سے تیار ہوا کرتی ہے اور جس میں بیٹھنے والے خداتعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہا کرتے ہیں ۔
اس جگہ کشتی سے مراد ظاہری کشتی بھی ہو سکتی ہے مگر سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت ہے جس کے بننے میں کافر روک تھے ۔کیونکہ درحقیقت نبی کی جماعت ہی ہوتی ہے جس میں شامل ہو کر لوگ نجات پاتے ہیں ۔اور یہ جو فرمایا کہ جب ہمارا حکم آجائے اور تنور جوش میں آجائے تو اس کے متعلق مفسرین کہتے ہیں کہ یہ حضرت آدمؑ کا تنور تھا مگر یہ بات محض قصّوں کی محبت کا نتیجہ ہے ورنہ آدمؑ کا اس جگہ کوئی ذکر نہیں ۔تنور کے معنے عربی زبان میں ایک تو اُس چیز کے ہوتے ہیں جس میں روٹی لگائی جاتی ہے اور تنور کے معنے سطح زمین کے بھی ہوتے ہیں ۔چنانچہ تاج العروس میں لکھا ہے التَّنُّوْرُ : وَجْہُ الْاَرْضِ ۔تنور کے معنے سطح زمین کے بھی ہوا کرتے ہیں ۔اسی طرح تنور کے معنے چشمہ کے بھی ہوتے ہیں اور تنور اُس پہاڑی وادی کو بھی کہتے ہیں جہاں پانی جمع ہو جائے( اقرب) لیکن ابو حیان لکھتے ہیں کہ فَارَ التَّنُّوْرُ کا استعمال مجازی رنگ میں بھی ہوسکتا ہے جیسے رسول کریم ﷺ نے ایک موقعہ پر جب کہ جنگ خوب تیز ہوگئی فرمایا کہ حَمَی الْوَطِیْسُ تنور گرم ہوگیا ۔حالانکہ آپ کی مراد یہ تھی کہ جنگ خوب تیز ہوگئی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ فار اور حمی ایک ہی معنے رکھتے ہیں جیسے قرآن کریم میں بھی آتا ہے کہ سَمَعُوْا لَھَا شَھِیْقًا وَّ ھِیَ تَفُوْرُ (ملک ۱ع) یعنی کفار جب جہنم میں ڈالے جائینگے تو وہ اُس میں ایک بڑی چیخ سنیں گیں اور وہ بڑے جوش میں آرہی ہوگی ۔پس اُن کے نزدیک فَارَ التَّنُّوْرُ کے الفاظ مجازی رنگ میں استعمال ہوئے ہیں اور اُس کے معنے یہ ہیںکہ پانی چاروں طرف پھیل گیا ۔ان دونوں معنوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ جب ہمارے عذاب کا وقت آیا تو چشموں کی جگہ سے پانی پھوٹ پڑا۔یا سطح زمین پر پانی بہنے لگا اور چاروں طرف پانی ہی پانی ہوگیا۔یہ عذاب جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے صرف زمینی چشموں کے پھوٹنے کی وجہ سے نہیں آیا بلکہ پانی کا اصل سرچشمہ بادل تھے۔یعنی اُس وقت اتنے زور سے بارش ہوئی کہ اُس سے چاروں طرف پانی ہی پانی ہو گیا۔اور جس طرح کثرت بارش کی وجہ سے زمین کے سوتے بھی پھوٹ پڑتے ہیں اور دریاؤں کا پانی بھی اُچھل جاتا ہے اس طرح اس وقت زمین کے سوتے بھی جاری ہوگئے ۔اور آسمانی اور زمینی پانی نے مل کر اُن لوگوں کو تباہ کر دیا چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک اور مقام پر فرماتا ہے کہ فَفَتَحْنَٓا اَبْوَابَ السَّمَآئِ بِمَآ ئٍ مُّنْھَمِرٍ وَّ فَجَّرْنَاالْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآئُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْقُدِرَ (سورۂ قمر ۱ع) یعنی ہم نے بادل کے دروازے ایک جوش سے بہنے والے پانی کے ذریعہ کھول دیئے اور زمین میں بھی ہم نے چشمے پھوڑ دیئے ۔پس آسمان کا پانی زمین کے پانی کے ساتھ ایک ایسی بات کیلئے اکٹھا ہوگیا جسکا فیصلہ کیا جا چکا تھا ۔یعنی آسمانی پانی زمینی پانی سے مل کر دنیا کو تباہ کرنے لگا۔اسی طرح سورۂ ہود میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب عذاب کا وقت پورا ہوگیا اور جس تباہی کا فیصلہ کیا جا چکا تھا وہ آچکی تو ہم نے کہا کہ یٰٓاَرْضُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ( ہود ۴ ع)یعنی اس کے بعد زمین سے کہہ دیا گیا کہ اے زمین ! تُو اب اپنے پانی کو نگل جا اور آسمان سے بھی کہہ دیا گیا کہ اے آسمان ! اب تُو برسنے سے تھم جا اور پانی کو جذب کر دیا گیا اور یہ معاملہ ختم کر دیا گیا ۔اور وہ کشتی جو دی پہاڑ پر جا کر ٹھہر گئی اور کہہ دیا گیا کہ اے عذاب کے فرشتو! ظالم لوگوں کیلئے ہلاکت مقدر کر دو۔پس آیاتِ قرآنیہ سے یہ امر ثابت ہے کہ اس وقت آسمان سے بھی پانی برسا اور زمین کے سوتے بھی پھوٹ پڑے جس طرح کہ پہاڑی علاقوں میں جب شدید بارش ہوتی ہے تو اونچے پہاڑوں پر پڑی ہوئی برف کے گُھلنے کی وجہ سے چشموں کے پانیوں میں بھی زیادتی آجاتی ہے ۔اور قرآن کریم سے بھی اور تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام پہاڑی علاقہ میں رہتے تھے ۔اسی لئے جب حضرت نوحؑ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اے بیٹے !ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں کے ساتھ مت شامل ہو تو ان کے بیٹے نے جواب دیا ۔سَاٰوِیْٓ اِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآئِ(ہود ۴ ع) میں ابھی کسی پہاڑ پر جا ٹھہروں گا جو اس پانی سے مجھے بچا لیگا۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کسی پہاڑی وادی میں رہا کرتے تھے ۔اور ایسی جگہ پر پانی کا یکدم اونچا ہو جانا اور غیر معمولی طورپر بلند ہو جانا بالکل قرین قیاس ہے۔اُن کے بیٹے نے خیال کیا کہ میں آسانی سے تیر کر کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جائوں گا اور عذاب سے محفوظ ہو جا ئو نگا۔
غرض حضرت نوح علیہ السلام کو بتا یا گیا کہ جب آسمان سے شدید بارش شروع ہو جائے یہاں تک کہ زمین کے سوتے بھی پھوٹ پڑیں اورتمام زمین جھیل بن جائے تو اس کشتی میں ہر قسم کے جوڑے اور اپنے اہل کو داخل کر دیجئیو۔عربی زبان میں زوج کے معنے کُلُّ وَاحِدٍ مَعَہ‘ اٰخَرُ مِنْ جِنْسِہٖ کے ہوتے ہیں یعنی ہر وہ چیز جس کے ساتھ اُس کی جنس میں سے ایک اور وجود بھی ہو۔پس زوج کے معنے ساتھ کے جوڑے یعنی نر و مادہ کے ہوتے ہیں ۔نہ کہ دو،دو چیزوںکے ۔اسی وجہ سے اثنین کا لفظ لگا کر واضح کر دیا گیا ہے کہ زوجین سے مراددو ہم جنس افراد ہیں نہ کہ دو، دو جوڑے اور مراد یہ ہے کہ ہر قسم کے نر و مادہ اس ظاہر ی کشتی میں یا جماعت میں داخل کیجئیو۔اور اپنے اہل کو بھی داخل کیجئیوسوائے اُن کے جن کے خلاف خدا کا فیصلہ ہو چکا ہے ۔اس جگہ جو اللہ تعالیٰ نے مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ فرمایا ہے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ دنیا کے ہر جانور کے جوڑے لے لے۔ورنہ ماننا پڑیگا کہ اربوں ارب حشرات الارض اور کروڑوں کروڑ درندے پرندے اور جانورسب حضرت نوحؑ نے اپنی کشتی میں جمع کرلئے تھے۔اس صورت میں تو انہیں اتنی بڑی کشتی بنانی پڑی جو اُن کے ملک میں بھی سمانہ سکتی اور یہ عقل کے خلاف ہے ۔پس اس جگہ کُلّ کے معنے سب کچھ کے نہیں بلکہ ہرضروری چیز کے ہیں جیسے قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر ملکہ سبا کے متعلق آتا ہے کہ اُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ( نمل ۲ ع)اُسے ہر ایک چیز دی گئی تھی ۔اب ہر ایک چیز سے یہ مراد نہیں تھی کہ حضرت سلیمان ؑ اور ان کا لشکر بھی اُسے ملا ہوا تھا ۔اور ہندوستان اور چین اور امریکہ بھی اُسے ملے ہوئے تھے بلکہ مراد یہ تھی کہ ہرچیز جس کی اُسے ضرورت ہے اُسے ملی ہوئی ہے ۔اس جگہ بھی مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ سے یہی مراد ہے کہ ہر وہ جاندار جس کی تجھے ضرورت ہے اُسکے نر و مادہ ساتھ رکھ لے۔نہ یہ کہ ہاتھی اور شیر اور چیتے کو بھی رکھ لے۔اوراثْنَیْنِ کا لفظ تاکید کیلئے ہے کوئی نئے معنے نہیں دیتا ۔مطلب یہ ہوا کہ نر و مادہ جو مل کر دو بنتے ہیں اور جن سے آئندہ نسل چلتی ہے۔
اگر کشتی سے اس جگہ جماعت مراد لی جائے تو یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ ظاہر ی کشتی کی صور ت میں تو یہ معنے لئے جا سکتے ہیں کہ ہر قسم کے ضروری جانور نر و مادہ کی صورت میں اپنے پاس رکھ لے۔لیکن جماعت کی صورت میں کیا معنے ہونگے! سو یاد رکھنا چاہئیے کہ جماعت کی صورت میں اس سے مراد ہر قسم کے رُوحانی لوگ ہونگے ۔یعنی اپنی جماعت میں ہر قسم کے لوگوں کو داخل کرو۔غریب بھی اور امیر بھی اوردر میانہ درجہ کے بھی ۔اور اس کی پرواہ نہ کرو کہ لوگ ان کو ذلیل سمجھتے ہیں یا کیا سمجھتے ہیں ۔اگر کہا جائے کہ جماعت میں داخل کرنا تو حضرت نوحؑ کے اختیار میں نہیں تھا یہ تو لوگوں کے اپنے اختیار میں تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت نوح ؑ کوشش تو کر سکتے تھے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ صرف امراء کی طرف توجہ کرتے ہیں ۔بعض غرباء کی طرف توجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔بعض درمیانہ درجہ کے لوگوں کی طرف توجہ رکھتے ہیں ۔بعض علماء کی طرف متوجہ ہوتے ہیں بعض پیشہ وروں کی طرف میلان رکھتے ہیں ،بعض زمینداروں کی طرف توجہ کرتے ہیں اور بعض تاجروں کی طرف توجہ کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ؑ کوبتایا کہ اگر جماعت کو پھیلانا مقصود ہے تو ہر طبقہ اور ہر قسم کے ایسے لوگوں کی طرف توجہ کرو جو آپس میں تعاون کی رُوح رکھتے ہوں یعنی جوڑوں کی مانند ہوں ۔اور یہ جو زوجین فرمایا تو جماعت کی صورت میں اس کے معنے نر و مادہ کے نہیں ہونگے بلکہ مراد یہ ہوگی کہ ایسے لوگ جو ایک دوسرے سے اُنس اور محبت رکھتے ہوں اور تعاون کرنے والے ہوں ۔چنانچہ رسول کریم ﷺ نے بھی مدینہ جا کر ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصاری کو بھائی بھائی بنا دیا تھا ۔گویا وزوجین ہو گئے تھے ۔یہی نصیحت حضرت نوح علیہ السلام کو کی گئی ہے ۔اور کہا گیا ہے کہ اپنی جماعت میں اخوت پیدا کرو۔اور اپنے ماننے والوں کو جو ہر طبقہ کے لوگ ہوں آپس میں بھائی بھائی بنائو۔یا عورتوں کو بہنیں بنائو۔پھر اُن سب کو لے کر ایک جگہ رہو۔تاکہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو حاصل ہو اور خدا کا عذاب تمہارے دشمنوں پر نازل ہو ۔اگر تم دشمن کے ساتھ مل کر رہو گے تو تمہارے دشمن پر بھی خدا عذاب نہیں بھیجے گا ۔جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَھُمْ وَاَنْت۔۔۔۔۔۔۔۔وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ (انفال آیت ۳۴)
یعنی اللہ انہیں اس حالت میں کبھی عذاب نہیں دے سکتا جب تک تُو ان میں ہو ۔اور نہ اللہ تعالیٰ اُنکو ایسی حالت میں عذاب دے سکتا ہے جبکہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔اس آیت میں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنے اہل کوبھی کشتی میں بٹھا لے تو اس سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تعریف نکلتی ہے۔کیونکہ رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کا مثیل قرار دیا ہے اور آپ ؐ حضرت نوحؑ کے بھی مثیل تھے۔محمد رسول اللہ ﷺ نے اس پر اس طرح عمل کیا کہ ہجرت میں حضرت ابوبکر ؓ کو ساتھ رکھا جس کے معنے یہ ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ آپ کے اہل میں شامل تھے ۔پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ نعوذ باللہ منافق اور زیرِ عتاب تھے وہ غلط کہتے ہیں اور اگر ایسا ہوتا تو رسول کریم ﷺ اس آیت کے خلاف انکو ہجرت میں ساتھ کیوںرکھتے !
پھر فرمایا ہے ۔وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِنَّھُمْ مُّغْرَفُوْنَ۔ ظالموں کے متعلق مجھ سے کوئی بات نہ کر کیونکہ وہ ضرور غرق کئے جائیں گے۔اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جبکہ کفار کی تباہی کا آخری فیصلہ کر دیا جاتا ہے ۔اُس وقت اُن کیلئے دُعا کرنے کی بھی نبی کو اجازت نہیں ہوتی۔جیسا کہ قرآن کریم میں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی تباہی کے ذکر میں بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ خبر ملی کہ قومِ لوط کی تباہی کا فیصلہ کیا جا چکا ہے اور اُس کے ساتھ ہی انہیں حضرت اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ کی پیدائش کی بھی خوشخبری ملی تو یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ (ہود ۷ع)حضرت ابراہیم علیہ السلام قوم ِ لوط کے متعلق اللہ تعالیٰ سے جھگڑنے لگے ۔یعنی انہوں نے دُعا کرنی شروع کر دی کہ الٰہی اس قوم کو بچا لے ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں الہامًا فرما یا کہ یَٓا اِبْرَاھِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا اِنَّہ‘ قَدْ جَٓائَ اَمْرُ رَبَّکَ وَ اِنَّھُمْ اٰتِیْھِمْ عَذَاب’‘ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ ۔ یعنی اے ابراہیم !تُو اب اس سفارش سے رک جا ۔کیونکہ تیرے رب کا آخری حکم آچکا ہے اور ان کفار کی ایسی حالت ہے کہ ان پر نہ ٹلنے والاعذاب آکر رہے گا۔گویا ایک مقام ایسا آیا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دُعا کرنے سے بھی منع کر دیا گیا ۔اس آیت میں ظَلَمُوْا کا لفظ استعمال فر ما کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف بھی اشارہ فر مایا ہے کہ وہ بلا وجہ لوگوں کو عذاب سے ہلاک نہیں کیا کرتا بلکہ اُن کی ہلاکت اُن کے متواتر ظلموں کا نتیجہ ہوتی ہے ۔آج تک جسقدر قومیں دنیا میں ہلاک ہوئی ہیں محض اس لئے ہلاک ہوئی ہیں کہ وہ ظالم بن گئی تھیں ۔یعنی یا تو انہوں نے دینی احکام کو نظر انداز کر دیا یا دنیوی ترقی کے قوانین کو نظر انداز کر دیا تھا ۔دینی احکام کو نظر انداز کر دینے کے نتیجہ میں وہ شرعی عذاب کے مستحق ہوئے اور قوانین نیچر کے نظر انداز کر دینے کے نتیجہ میں وہ مختلف قسم کے طبعی عذابوں کا شکار ہوئے۔مگر اللہ تعالیٰ کے بے مثال رحم کا یہ ثبوت ہے کہ باوجود لوگوں کے ظالم ہو جانے کے آج تک کوئی قوم بھی اُس وقت تک ہلاک نہیں ہوئی جب تک خداتعالیٰ نے اپنے کسی رسول کے ذریعہ اُن پر حجت تمام نہ کر دی ہو۔اور انہیں انکی غلطیوں پر متنبہ نہ کرد یا ہو۔جس طرح نوح ؑ کی قوم کو رات اور دن نصیحت کی گئی مگر و ہ اپنی نافرمانیوں سے باز نہ آئے اور آخراُن کی صف لپیٹ دی گئی ۔
فَاِذَاسْتَوَیْتَ اَنْتَ وَمَنْ مَّعَک عَلَی الْفُلْکِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ نَجّٰنَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِیْنَ۔ فرماتا ہے تمہیں دشمنوں کے ظلموں سے بچا لینا میرا ایک بہت بڑا فضل ہے۔اس لئے جب کشتی مکمل ہوجائے اور تُو اس میں بیٹھ جائے یا تیری جماعت مکمل ہوجائے اور سب سعید روحیں اُس میں داخل ہو جائیں تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہو اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ تمہارا مشن پورا ہو گیا ۔
بائیبل بتاتی ہے کہ جب طوفان تھم گیا تو حضرت نوح علیہ السلام نے یہ معلوم کرنے کیلئے کہ زمین پر پانی کم ہوا ہے یا نہیں پہلے ایک کوّے کو اُڑایا ۔مگر چونکہ ابھی زمین پر پانی تھا ۔اس لئے وہ روزانہ کشتی میں واپس آتا رہا ۔چند دنوں کے بعد انہوں نے ایک کبوتری اُڑائی مگر اُسے زمین پر کوئی ایسی جگہ نہ ملی جہاں وہ تھوڑی دیر کیلئے بھی بیٹھ سکتی ۔اس لئے وہ بھی کشتی میں واپس آگئی ۔پھر سات دن اور انتظار کرنے کے بعد انہوں نے دوبارہ اس کبوتری کو اُڑا دیا۔اور جب وہ شام کو واپس آئی تو ’’ زیتون کی ایک تازہ پتی اُس کی چونچ میں تھی تب نوح ؑ نے معلوم کیا کہ پانی زمین پر سے کم ہوگیا ہے۔‘‘ ( پیدائش باب ۸ آیت ۱۱)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زیتون کی پتی کے ذریعہ حضرت نوح علیہ السلام کو یہ خوشخبری دی گئی تھی کہ تیرے دشمن ہمیشہ کیلئے مغلوب ہو گئے ہیں ۔جیسے سورۂ تین ؔ میں اللہ تعالیٰ نے زیتون کو محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت میں پیش کیا ہے اور بتا یا ہے کہ بیشک تم محمد رسول اللہ ﷺ کو اپنے وطن سے نکال دو مگر یاد رکھو تم نوحؑ کے دشمنوں کی طرح تباہ کئے جائو گے۔اور محمد رسول اللہ ﷺ کو زیتون کی پتی کے ذریعہ اُ س کی کامیابی اور فتوحات کی خوشخبری دی جائیگی ۔چنانچہ تعطیرا لانام میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص رؤیا میں زیتون کے پتے دیکھے تو اُ س کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ وہ عروۂ وثقٰی کو مضبوطی سے پکڑ لیگا ۔پس زیتون کے ذریعہ آپ کو اپنی کامیابی کی خوشخبری ملنا بتا تا تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے آپ کو ایک ایسی جماعت عطا کی جائیگی جو اپنے ایمان میں مضبوط اور قربانی اور اطاعت میں حدِ کمال کو پہنچی ہوئی ہوگی ۔اور کسی قوم کی تکلیف اُسے جادۂ حق سے منحرف نہیں کر سکے گی۔یہی خوشخبری حضرت نوحؑ کو زیتون کی پتی کے ذریعہ دی گئی ہے ۔اورانہیں کشتی سے اُترنے سے پہلے پہلے اپنی جماعت کی آئندہ ترقی اور اُس کے ایمان کی مضبوطی کی خبر دی گئی ۔اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ اُس خدا کا شکر ادا کر جس نے اپنے فضل سے تمہارے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچا یا۔
وَقُلْ رَّبِّ اَنْزِ لْنِیْ مُنْزَلًا مُّبَارَکًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ۔اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ وَّ اِنْ کُنَّا لَمُبْتَلِیْنَ۔اس جگہ اگر ظاہری کشتی مراد لی جائے تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ تُو دُعا کرتا جا کہ یہ کشتی اُس جگہ ٹھہرے جو ہمارے لئے مبار ک ہو ۔اور اگر جماعت مُراد ہو تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ تُو دعا کرتا رہ کہ اے اللہ ! میری جماعت اپنے مقصد کو پالے اور ایسی ترقی اس کو حاصل ہو جو اس کیلئے دینی اور دنیوی طورپر مبارک ہو ۔
قرآن کریم نے اُس مقام کا نام جہاں حضرت نوح ؑ کی کشتی ٹھہری تھی جُوؔدی بتا یا ہے (ہود ۴ ع) لیکن بائیبل اُس کا نام اراراط بتا تی ہے ۔چنانچہ پیدائش میں لکھا ہے ۔
’’ ساتویں مہینہ کی سترھویں تاریخ کو کشتی اراراط کے پہاڑوں پر ٹک گئی ۔‘‘
( پیدائش باب ۸ آیت ۴)
ان دونوں ناموں کو دیکھنے سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں الگ الگ نام ہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو اِن دونوں میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں ۔اصلی بات یہ ہے کہ جُود کے معنے عربی زبان میں رحمت اور احسان کے ہوتے ہیں ۔پس اس مقام کا نام اللہ تعالیٰ نے جُودیؔ رکھ کر اس طرف اشارہ کیا کہ وہ میری رحمت اور احسان کے ظہور کا مقام اور اس کی تجلی گاہ تھا۔اور یہی معنے ارا راطً کے بھی ہیں۔کیونکہ راط کے معنے ہوتے ہیں ۔اُس نے پناہ چاہی اور اراراط کے معنے ہوئے میں پناہ کی جگہ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں ۔گویا بائیبل اُسے پناہ کی جگہ قرار دیتی ہے اور قرآن اُسے خداتعالیٰ کی رحمت اور احسان کے ظہور کا مقام بتاتا ہے ۔جہاں حضرت نوح علیہ السلام کو پناہ ملی اور دشمنوں کے شر سے محفوظ ہوگئے ۔پس ان دونوں ناموں میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ وَ اِنْ کُنَّا لَمُبْتَلِیْنَ۔یعنی یہ واقعہ ایک قصہ اور کہانی کے طور پر بیان نہیں کیا گیا بلکہ اس میں بہت سے نشانات ہیں اور ہم یقینا اپنے بندوں کا خیر اور شر کے ساتھ امتحان لینے والے ہیں یعنی محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کی قوم کے ساتھ بھی ایسے ہی حالات پیش آنے والے ہیں ۔چنانچہ جس طرح نوح ؑ کو اپنے دشمنوں کی اذیت کے نتیجہ میں اپنا وطن چھوڑ نا پڑا اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ کو بھی مکہ والوں کی متواتر تکالیف اور ایذاء رسانیوں کے نتیجہ میں اپنا وطن چھوڑ نا پڑا۔جس طرح نوح ؑ کی کشتی کو جُودی پہاڑ پر جا کر ٹھہرگئی تھی جہاں نوح ؑ کو پناہ ملی اور خداتعالیٰ نے اُس کی ایمانی ترقی کی بشارت دی گئی اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ کو مدینہ میں اللہ تعالیٰ نے وہ انصار عطا فرمائے جو عروۃ الوثقٰی کو مضبوطی سے پکڑنے والے تھے اور جنہوں نے اپنی ایمانی قوت کے ایسے شاندار مظاہرے کئے جن کو دیکھ کر انسان کا دل لذّت اور سرور سے بھر جاتا ہے ۔مدینہ آنے کے بعد جب رسول کریم ﷺ کو یہ خبر ملی کہ شام سے کفار کا ایک تجارتی قافلہ ابو سفیان کی سرکردگی میں آرہا ہے اور وہ راستہ میں تمام عرب قبائل کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا تا آرہا ہے ۔تو آپ نے ضروری سمجھا کہ اُس کی شرارتوں کا سدِّ باب کیا جائے ۔چنانچہ آپ صحابہ ؓ کی ایک جماعت کو اپنے ساتھ لے کر مدینہ سے چل پڑے ۔چونکہ یہ ایک چھوٹا سا قافلہ تھا اس لئے مسلمانوں نے اس کو کوئی زیادہ اہمیت نہ دی اور انہوں نے سمجھا کہ تھوڑے سے آدمی بھی اگر چلے گئے تو اس قافلہ کا آسانی کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم ﷺ کو خبر دی گئی کہ اصل مقابلہ اس تجارتی قافلہ سے نہیں بلکہ کفار کے ایک بڑے لشکر سے مقدر ہے جو مکہ سے اس قافلہ کی مدد کے لئے آرہا ہے ۔مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس راز کے انکشاف کی ممانعت فرما دی ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ صحابہ ؓ کا امتحان لے اور اُن کے اعلیٰ درجہ کے ایمان اور اُن کی قربانیوں کے اَن مٹ نقوش کو صفحۂ عالم پر ثبت کر دے اور اُن کا اخلاص لوگوں کیلئے ایک زندہ نمونہ کا کام دے جو آنے والی نسلوں کی مُردہ عروق میں بھی زندگی کا خون دوڑا دے۔جب مدینہ سے کئی منزل دور آپ پہنچ گئے تو آپ نے صحابہ ؓ کو جمع کیا اور انہیں بتا یا کہ اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ تمہارا کفار مکّہ کے ایک بڑے لشکر سے مقابلہ ہو۔اب بتائو کہ تمہاری کیا رائے ہے ۔مہاجرین میں سے ایک ایک صحابی اٹھتا اور کہتا یا رسول اللہ مشورہ کا کیا سوال ہے۔آگے بڑھئیے اور دشمن کا مقابلہ کیجئیے ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ اور اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار ہیں ۔مگر جب بھی کوئی مہاجر بیٹھ جاتا ۔آپ فرماتے اے لوگو مجھے مشورہ دو ۔انصار جوا یک بڑی سمجھ دار اور قربانی کرنے والی قوم تھی اُ سکے افراد ابھی خاموش تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے یہ کہا کہ ہم لڑنے کیلئے تیار ہیں تو چونکہ کفار مکّہ ان مہاجرین کے رشتہ دار ہیں ۔اُن میں سے کوئی ان کا باپ ہے کوئی بیٹا ہے کوئی بھائی ہے ۔کوئی ماموں ہے کوئی چچا ہے ۔اس لئے ہمارا جوش ان پر گراں گذرے گا اور یہ سمجھیں گے کہ انہیں ہمارے رشتہ داروں کو مارنے میں بڑا مزہ آتا ہے ۔مگر جب رسول کریم ﷺ نے بار بار فرما یا کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا ۔یا رسول اللہ مشورہ تو آپ کو مل رہا ہے ۔مگر آپ جو بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں تو شاید آپ کی مراد ہم انصار سے ہے کہ اس بارہ میں ہماری کیا رائے ہے ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ٹھیک ہے ۔انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! جب ہم مکّہ مکرمہ میں گئے تھے اور ہمیں آپ کی بیعت کی سعادت حاصل ہوئی تھی تو اُس وقت ہم نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ مدینہ تشریف لے آئیں ۔آپ نے ہماری درخواست کو قبول فرمایا اور ہم نے یہ معاہدہ کیا کہ اگر مدینہ پر کسی دشمن نے حملہ کیا تو ہم اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کر کے آپکی حفاظت کریں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر مقابلہ ہوا تو پھر ہم پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔اب چونکہ مدینہ سے باہر مقابلہ ہو رہا ہے ۔اس لئے شاید آپ کا اشارہ اُس معاہدہ کی طرف ہے اور آپ ہم سے یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ اب اس معاہدہ کے مطابق ہماری کیا رائے ہے ؟ رسو ل کریم ﷺ نے فرمایا ۔تم درست سمجھتے ہو ۔میرا اشارہ اسی معاہدہ کا خیال جانے دیجئیے ۔جب ہم نے یہ معاہدہ کیا تھا اُس وقت ابھی ہم پر آپ کی پوری شا ن ظاہر نہیں ہوئی تھی مگر اب ہم نے دیکھ لیا ہے کہ آپ کی کیا شان ہے اور آپ کتنی بڑی عظمت اور جاہ وجلال کے نبی ہیں ۔اب کسی معاہدہ کا سوال نہیں ۔یا رسول اللہ ! چند منزل کے فاصلہ پر سمندر ہے آپ حکم دیں تو ہم اپنے گھوڑے اُس میں ڈالنے کیلئے تیار ہیں اور یا رسول اللہ ! اگر لڑائی ہوئی تو خدا کی قسم ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے ۔آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن اس وقت تک آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہو ا نہ گذرے۔یہ وہ اخلاص تھا جس کا نمونہ انصار نے دکھایا اور یہ وہ جذبۂ فدائیت تھا جس کا انہوں نے مظاہر ہ کیا۔اور پھر انہوں نے جس طرح بھیڑ اور بکریوں کی طرح اپنے سروں کو اسلام کی راہ میں کٹوایا اس کے نقوش تاریخ کے صفحات پر ہی نہیں دلوں کی گہرائیوں پر اس طرح ثبت ہیں کہ قیامت تک آنے والی نسلیں اُن کی شاندار قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتیں ۔اس واقعہ کو دیکھو اور پھر موسیٰ ؑ کے ساتھیوں کے جواب کے ساتھ اس کا مقابلہ کرو ۔تو تمہیں معلوم ہوگا کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی قوت ِقدسیہ سے کیسے شاندار پھل پیدا کئے تھے ۔موسیٰ ؑ نے جب اپنی قوم سے کہا کہ کنعان کی سرزمین پر حملہ کرنے کیلئے تیار ہو جائو تو انہوں نے کہا کہ اے موسیٰ ؑ ! تُو اور تیرا رب دونوں جائو تو انہوں نے کہا کہ اے موسیٰ ؑ!تُو اور تیرا رب دوجائو اور دشمنوں سے لڑتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں مگر انصار نے یہ نہیں کہا کہ ہم معاہدہ کے مطابق مدینہ میں بیٹھ کر آپ کی حفاظت کریں گے۔مدینہ سے باہر ہم آپ کی حفاظت کے پابند نہیں بلکہ انہوں نے قربانیوں کی آگ میں اپنے آپکو بلا دریغ جھونک دیا اور خون کے دریا میں تیر کر اپنے رب کے قُرب کو حاصل کر لیا۔یہ وہ زیتونی ورق تھے جو نوحؑ کی مماثلت میں محمد رسول اللہ ﷺ کو ملے اور جس کی اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ میں خبر دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ نوحؑ کا واقعہ ہم نے ایک افسانہ کے رنگ میں بیان نہیں کیا بلکہ اس میں اسلام اورمحمد رسول اللہ ﷺ کی ترقی کی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں اور اسلام کے روشن مستقبل کی جھلک اس آئینہ میں تمہارے سامنے پیش کی گئی ہے ۔
ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْ بَعْدِھِمْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّلِمِیْنَ ہ
ترجمہ()پھر ہم نے اُنکے بعد کئی قومیں پیدا کیں اور ہم نے اُن میں اُنہی میں سے رسول بھیجا(یہ پیغام دیتے ہوئے) کہ اللہ کی عبادت کرو۔اُس کے سوا تمہارا کوئی اور معبود نہیں ۔کیا تم اُس کے ذریعہ سے اپنے آپ کوہلا کت سے بچاتے نہیں ؟اور اس (نئے رسول) کی قوم میں سے جنہوں نے کفر کیا تھا اور بعد الموت (خدا سے ملنے ) کا انکار کیا تھا ۔اور جن کو ہم نے اس دنیا کی زندگی میں مالدار بنایا اُنکے سرداروں نے کہا یہ تو تمہارے جیسا ایک آدمی ہے ۔اُنہی (کھانوں ) میں سے کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو ۔اور انہی (پانیوں ) میں سے پیتا ہے جو تم پیتے ہو ۔اور اگر تم اپنے جیسے ایک آدمی کی بات مانو گے تو تم گھاٹا پانے والوں میں سے ہو جائو گے۔کیا وہ تم سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مر جائو گے اور مٹی ہو جائو گے اور ہڈیاں بن جائو گے تو تم (پھر زندہ کر کے ) نکالے جائو گے ۔جس بات کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عقل سے بہت دو رہے اور ماننے کی بات نہیں ۔زندگی تو صرف ہماری اس دنیا کی زندگی ہے ۔ہم کبھی مُردو حالت میں ہوتے ہیں اور کبھی زندہ حالت میں اور ہم کبھی مرنے کے بعد دوبارہ نہیں اُٹھائے جائیں گے یہ شخص تو صرف ایک اکیلا شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا افتراء کرتا ہے اور ہم اس کی باتوں کو کبھی نہیں مانیں گے ۔اس پر اُس نے کہا اے میرے رب !ان لوگوں نے مجھے جھٹلادیا ہے پس تو میری مدد کر (تب خداتعالیٰ ) نے فرمایا ۔یہ لوگ تھوڑے ہی عرصہ میں شرمندہ ہو جائیں گے اور اُن کو ایک عذاب نے پکڑ لیا جس کی پختہ خبر دی گئی تھی اور ہم نے اُن کو کوڑا کرکٹ بنا دیا اور فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ ظالموں کیلئے خدا کی *** مقدر کر دو۔ ۸؎
۸؎ حل لغات
اَلصَّیْحَۃُ : اَلصَّوْتُ الشَّدِیْدُ ۔ سخت آواز ۔اَلزَّجْرُ ۔ڈانٹ۔اَلْعَذَابُ ۔عذاب اَلْاِغَارَۃُ۔اچانک حملہ ( اقرب)
غُثَّائ’‘ : یہ لفظ غُثَائ’‘ اورغُثَّائ’‘ دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔اور اس کے معنے ردّی چیز کے ہوتے ہیں چنانچہ ہر قسم کی چیز جو ردّی ہو جائے اُس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ غُثَا ء ہوگئی ۔اور غُثَائ’‘ کے معنے جھاگ کے بھی ہوتے ہیں اور اس کے معنے ہلاک ہونے والی چیز کے بھی ہوتے ہیں ۔اور اُن پتّوں کو بھی کہتے ہیں جو گِر کر سڑ جاتے ہیں۔
تفسیر :
فرماتا ہے نوح ؑ پر ہم نے نبوت کا سلسلہ ختم نہیں کر دیا بلکہ نوح ؑ کے بعد اور رسول آئے ۔اور نوح ؑ کی قوم کے بعد اور قومیں آئیں اور وہ بھی نوح ؑ کی قوم کی طرح اعتراض کرتی چلی گئیں ۔جب خدا کے رسول نے انکو حکم دیا کہ ایک خدا کے سوا اور کسی کی پرستش نہ کرو تو اس کی قوم کے سرداروں نے جو کہ مابعد الموت زندگی کے منکر تھے اور دنیوی عزت اور مال و دولت کی وجہ سے تکبر میں مبتلاہو چکے تھے لوگوں سے کہنا شروع کر دیا کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ یہ تو تمہارے جیسا ایک انسان ہے جو کچھ تم کھاتے ہو وہی کچھ یہ کھا تا ہے اورجو کچھ تم پیتے ہو وہی کچھ یہ پیتا ہے ۔اگر تم ایسے آدمی کے پیچھے چلے تو یقینا نقصان اُٹھائو گے ۔یہ تو کہتا ہے کہ تم مر کر پھر زندہ کئے جائو گے حالانکہ یہ ایسی بات ہے جسے کوئی عقل تسلیم نہیں کر سکتی ۔ہم تو اسی دنیا میں جئیں گے اور مریں گے اور ہماری موت کے بعد کوئی اور زندگی ہم کو نہیں ملے گی ۔یہ شخص یقینا جھوٹا ہے اور ہم اس پر کبھی ایمان نہیں لا سکتے ۔تب خداتعالیٰ کے نبی نے دُعا کی کہ اے میرے رب! انہوں نے تو میرا انکار کر دیا ہے اب تُو ہی میری مدد فرما ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جلد ہی اپنے کئے پر نادم ہونگے۔چنانچہ انکو ایک عذاب نے آپکڑا اور وہ تباہ ہو گئے۔
ان آیات میںثُمَّ اَنْشَاْ نَا مِنْ بَعْدِ ھِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَ کے الفاظ میں قومِ عاد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن کی ہدایت کیلئے حضرت ہود علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے ۔کیونکہ ان قوموں کا ذکر قومِ نوحؑ کی ہلاکت کے بعد کیا گیاہے اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت ہود ؑ نے قومِ عاد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا وَاذْکُرُوْا اِذْجَعَلَکُمْ خُلَفَآ ئَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ ( اعراف ۹ ع) یعنی اس وقت کو یاد کرو جبکہ خدا نے تم کو نوحؑ کی قوم کے بعد اُس کا جانشین بنا دیا تھا ۔اور قوم عاد کے متعلق فرماتا ہے کہ وَاِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا (اعراف ۹ ع)یعنی عاد کی طرف ہم نے انکے بھائی ہود کو رسول بنا کر بھیجا تھا ۔پھر جس طرح ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ اُس رسول نے انہیں توحید کی طرف بلایا اور بتوں کی پرستش سے روکا اسی طرح سورۂ اعراف میں حضرت ہود ؑ کے متعلق بتا یا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے یہی کہا کہ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہ‘ یعنی اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو۔اس کے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں ۔پھر جس طرح اس قوم کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ اَتْرَفْنٰھُمْ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ہم نے انکو اس دنیا کی زندگی میں ہر قسم کی آسائش عطا کی تھی اسی طرح قومِ عاد کو حضرت ہود ؑ نیکی اور تقویٰ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ زَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْطَۃً۔ فَاذْکُرُوا اٰلَآ ئَ اللّٰہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔اُس نے تمہاری نسلوںکو زیادہ کیا اور تمہارے جسم کو بہت مضبوط بنایا ۔پس اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جائو۔
پھر جس طرح یہاں یہ کہا گیا ہے کہ انہو ں نے یہ اعتراض کیا کہ وَلَئِنْ اَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلُکُمْ اِنَّکُمْ اِذًا لَخٰسِرُوْنَ کہ اگر تم اپنے جیسے ایک آدمی کی بات مانو گے تو گھاٹا پانے والوں میں سے ہو جائو گے اسی طرح سورۂ اعراف میں قوم عاد کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حضرت ہود ؑ نے اُن سے کہا اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَٓا ئَ کُمْ ذِکْر’‘ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْکُمْ لِیُنْذِرَکُمْ کہ کیا تم اس بات پر تعجب کرتے ہو کہ تم میں سے ہی ایک شخص پر تمہارے رب کی طرف سے ہدایت نازل ہوئی ہے تاکہ وہ تمہیں آنے والے عذاب سے ہو شیا ر کرے
غرض قرآن کریم کا یہ بتانا کہ قوم نوحؑ کی ہلاکت کے بعد عاد کو ہم نے اس کا جانشین بنایا تھا اور پھر انہی اعتراضات کا ذکر جو عاد نے کئے بتاتا ہے کہ اس جگہ قَرْنًا اٰخَرِین میں عاد ہی کا ذکر کیا گیا ہے ۔مَاھٰذَا اِلَّا بَشَر’‘ مِّثْلُکُمْ یَاْ کُلُ مِمَّا تَاْکُلُوْنَ مِنْہُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ سے معلو م ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر اُن کے مخالفین کی طرف سے جو اعتراضات ہوتے رہے ہیں اُن میں سے ایک بڑا اعتراض اُن کا ہمیشہ یہ رہا ہے کہ بشر رسول کی بات ماننے کیلئے ہم تیار نہیں ۔ہماری ہدایت کیلئے بشر سے بالا کوئی اور وجود آنا چاہئیے۔اُنکا یہ اعتراض کئی وجود کی بنا پر ہوتا ہے بعض لوگ یہ اعتراض اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ضد اور تعصب کا شکار ہو تے ہیں اور اُن کے قلب کے مخفی گوشوں میں کِبر پایا جاتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آخر اس کو ہم پر کیا فضیلت حاصل ہے کہ اسے کلام الٰہی کا حامل بنا دیا گیا ہے ہم بھی انسان ہیں اور یہ بھی انسان ہے ۔اگر ہماری ترقی کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی کلام ہی نازل ہونا تھا تو وہ ہم پر ہوتا اس پر کیوں نازل ہوا ہے ؟اور اس کا کیا حق ہے کہ ہمارے جیسا ایک انسان ہوتے ہوئے ہم پر اپنی بڑائی کا اظہار کرے اور ہمیں اپنے پیچھے چلانا چاہے۔ایسے لوگ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ کلام ِ الٰہی نازل ہو سکتا ہے مگر وہ انبیاء کو ایک گھٹیا وجود قرار دیتے ہیں اور اپنی دنیوی قابلیتوں یا ما ل و دولت یا ظاہری علم کی وجہ سے اپنے آپ کو اُن سے بالا سمجھتے ہیں اس لئے وہ اُن کا پیغام سُننے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ان کی بات نہیں مان سکتے۔
پھر بعض لوگ یہ اعتراض اس بنا پر کیا کرتے ہیں کہ اُن کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دماغی اور عقلی قویٰ کے لحاظ سے ایسا مکمل بنا دیا ہے کہ اب اسے اپنی ہدایت کیلئے کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں ۔اُن کے نزدیک ایک انسان اپنی طاقتوں سے کام لے کر اپنی نجات کی راہ اپنے لئے خود تجویز کر سکتا ہے ۔اُسے یہ ضرورت نہیں کہ وہ اپنے جیسے آدمی کے سامنے سر جھکا دے اور اس کی ہر بات پر آمنا وصّدقنا کہنا شروع کر دے ۔گو یا اُن کے نزدیک ایک اپنے جیسے آدمی کی بات مان لینا اُن اعلیٰ درجہ کی طاقتوں کی توہین ہے جو قدرت کی طرف سے ہر انسان کو ودیعت کی گئی ہیں ۔
ان کے علاوہ ایک تیسری قسم کے بھی لوگ ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ نبوت و رسالت کیلئے جن طاقتوں کی ضرورت ہے وہ کسی بشر میں نہیں پائی جاتیں ۔اگر کوئی ایسا وجود ہو جو مافوق الانسانیت طاقتیں رکھتا ہو تو بے شک ہم اُس کو ماننے کیلئے تیار ہیں ۔لیکن اپنے جیسے ایک وجود کو جو ہماری طرح کھاتا پیتا اور ہماری طرح حوائجِ بشریہ کا محتاج ہے ہم ماننے کیلئے تیار نہیں ہو سکتے۔ ایسے لوگ کلامِ الٰہی کے نزول کے منکر نہیں ہوتے مگر وہ کسی ایسے وجود کے منتظر ہوتے ہیں جو مافوق الانسانیت طاقتیں رکھتا ہو۔اس لئے وہ نبیوں کا انکار کر دیتے ہیں ۔
غرض یہ اعتراض مختلف وجوہ کی بنا پر ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ بشر کو ہی رسول بنا کر بھیجتا رہا کیونکہ ہر انسان ایک نمونہ کا محتاج ہے ۔اگر انبیاء مافوق الانسانیت طاقتیں اپنے اندر رکھیں تو وہ بنی نو ع انسان کیلئے نمونہ نہیں ہو سکتے ۔وہ بڑی آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ تم تو اس لئے ان احکام کو بجا لا رہے ہو کہ تم اپنے اندر غیر معمولی طاقتیں رکھتے ہو ۔اگر ہمارے جیسی طاقتیں تم میں بھی ہو تیں تو پھر ہم دیکھتے کہ تم کس طرح ان احکام پر عمل کرتے ہو پس اس اعتراض کو دُور کرنے اور بنی نوع انسان کے سامنے ایک نمونہ پیش کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ ہمیشہ بشر رسول ہی بھیجا کرتا ہے تاکہ قیامت کے دن وہ کوئی عذر نہ کر سکیں اور اللہ تعالیٰ اُن پر حجّت تما م کرے اور کہے کہ جب یہ لوگ جو تمہارے جیسے انسان تھے انہوں نے میرے احکام پر عمل کیا اور میری ہدایات کی پیروی کی تو تم کیونکر کہہ سکتے ہو کہ ہمارے لئے ان احکام پر عمل کرنا ناممکن تھا۔تمہارا یہ عذر محض بے بنیاد ہے اور تم اس بات کے مستحق ہو کہ تمہیں سزا دی جائے۔پس بنی نوع انسان کیلئے ہمیشہ بشر رسول کا آنا ہی ضروری ہوتا ہے مگر افسوس کہ انسان ہمیشہ عذر لنگ تلاش کرتا ہے اور حیلوں بہانوں سے خداتعالیٰ کے احکام کو توڑتا رہتا ہے ۔
اِنْ ھِیَ اِلَّا حَیَا تُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ منکرین انبیاء کے انکار کی دوسری وجہ یہ ہو تی ہے کہ وہ لوگ بعث بعد الموت کے منکر ہوتے ہیں اور اس وجہ سے ان کے اندر اپنے اعمال کے اچھا یابُرا ہونے کے متعلق کبھی صحیح احساس پیدا نہیں ہوتا۔وہ جس ڈگر پر چل رہے ہوتے ہیں اُس پر آنکھیں بند کرکے چلتے چلے جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ہمارا کام اتناہی ہے کہ ہم کھائیں پئیں اور اس چند روزہ زندگی کو عیش و آرام میں گذار دیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے انبیاء اُن کے پاس خداتعالیٰ کا پیغام لے کر آتے ہیں تو وہ چونکہ اُن کے عقائد اور اعمال میں ایک عظیم الشان تغّیر پیدا کرنا چاہتے ہیں اس لئے اُنکو ایک دھکا لگتا ہے اور وہ یہ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ تم ہمیں خداتعالیٰ کے عذاب سے کیا ڈراتے ہو ۔ ہمارا تو یہ عقیدہ ہی نہیں کہ ہم مر کر پھر زندہ ہونگے ۔اس لئے ہمیںکسی جواب دہی کا کیا خطرہ ہو سکتا ہے ۔ہم جو بھی عمل کریں گے اپنی اس چند روزہ حیات کیلئے کریں گے اور ہم اپنے نفع و نقصان کو سمجھنے کی خوب اہلیت رکھتے ہیں ۔اس لئے تم ہمیں آخرت کے عذاب سے مت ڈرائو۔
حقیقت یہ ہے کہ بعث بعد الموت پر ایمان ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کا خوف اور اُس کی محبت پیدا کرتی ہے اور اس کے اعمال کی اصلاح کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔اگر آئندہ زندگی پر ایمان نہ رہے تو نہ صرف تمام کا رخانۂ عالم کو ایک عبث اور لغو چیز تسلیم کرنا پڑتا ہے بلکہ نیکی اور تقویٰ میں ترقی بھی ایک بیکار عمل قرار پاتا ہے ۔مگر یہ خیال کہ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند اور ستاروں اور سیّاروں اور آسمان اور زمین کے درمیان کی ہزارہا چیزیں پیدا کرکے اور اُن میں اپنی قدرت کے ہزارہا راز ودیعت کر کے ایک ایسے انسان کو پیدا کیا جس نے چند سالہ زندگی بسر کرکے ہمیشہ کیلئے فنا ہو جانا ہے اور اُس کی زندگی کا کوئی اہم مقصد نہیں ایک ایسا خیال ہے جسے کوئی عقل تسلیم نہیں کر سکتی ۔انسان کیلئے اس قدر وسیع کائنات کا پیدا کرنا اور اُس پر عقل کے ذریعہ انسان کو حکومت بخشنا بتا تا ہے کہ اُس کیلئے اس محدود زندگی کے علاوہ کوئی اور مقصد بھی مقرر کیا گیا ہے ۔اور اسلام کہتا ہے کہ وہ مقصد یہی ہے کہ اُسے ایک دائمی حیات کیلئے پیدا کیا گیا ہے ۔اور دائمی روحانی ترقیات کا راستہ اُس کیلئے کھولا گیا ہے ۔پس موت کے صرف اتنے معنے ہیں کہ انسانی رُوح جسم سے جدا ہو گئی ورنہ رُوح پر کوئی فنا نہیں او ر وہ ہمیشہ زندہ رہتی اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے غیر متناہی مراتب حاصل کر تی رہتی ہے ۔
بہر حال انبیاء کے انکار کی ایک بڑی وجہ بعث بعد الموت کا انکار بھی ہوتا ہے جس کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مخالفین نے ہمارے نبی کا انکار کیا ۔اور اُس کی باتوں پر ہنسی اڑائی تو وہ ہمارے حضور جھکا اور اس نے دُعا سے ہماری مدد چاہی تب ہم نے اُسے الہام کیا کہ یہ لوگ تھوڑے عرصہ میں ہی ہمارے عذاب سے ہلاک ہو نے والے ہیں۔چنانچہ ایک دن عذاب آگیا اور ہم نے انکو کوڑا کرکٹ بنا کر رکھ دیا قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پر بتا یا ہے کہ
اَمَّا عَاد’‘ فَاُھْلِکُوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃٍ ( الحاق 1ع)
یعنی عاد ایک ایسے عذاب سے ہلاک کئے گئے تھے جو ایک سخت تیز اور تند ہوا کی صورت میں آیا تھا ۔خداتعالیٰ نے اُس ہوا کو متواتر سات راتیں اور آٹھ دن اُنکی تباہی کیلئے مقرر کر چھوڑا تھا ۔سو اُس کا نتیجہ تمہیں معلوم ہے کہ وہ قوم بالکل گِر گئی گویا وہ کھجور کے ایک کھوکھلے درخت کی جڑیں ہیں جن کوتیز آندھی نے گِرا کر رکھ دیا ہے ۔
فَجَعَلْنٰھُمْ غُثاَ ئً کی صداقت کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو گا کہ بعض یوروپین محققین عاد کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتے حالانکہ یونان میں جو جغرافئیے لکھے گئے ہیں اُن میں ایک قبیلے کا نام عاد بھی موجود ہے (العرب قبل الاسلام) جس سے قرآنی بیان کی صداقت واضح ہوتی ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب نے اُن کو کوڑا کرکٹ بنا کر رکھ دیا تھا اس لئے بعض یوروپین محققین کو عاد کا وجود تسلیم کرنے میں ہی مشکل پیش آگئی ۔
ثُمَّ اَنْشَاْنَا مِنْ بَعْدِھِمْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ لَعَلَّھُمْ یَھْتَدُوْنَ ہ
ترجمہ()پھر اُن کے بعد ہم نے کئی اور قومیں پیدا کیں ۔کوئی قوم اپنی مدت سے آگے نہیں گذرتی اور نہ ہی اس سے پیچھے رہ (کر بچ)سکتی ہے ۔پھر ہم نے اپنے رسول متواتر بھیجے ۔جب کبھی کسی قوم کے پا س اُس کا رسول آتا تھا وہ اُسکو جھٹلاتے تھے ۔پس ہم اُن میں سے بعض کو بعض کے پیچھے پیچھے بھیجتے چلے جاتے تھے (یعنی ہلاک کرتے جاتے تھے ) اور ہم نے اُن سب کو گذشتہ افسانے کر کے رکھ دیا (یعنی دنیا میں انکا نام ونشان باقی نہ رہا)اور انکے متعلق فرشتوں کو حکم دیا کہ جو لوگ ایمان نہیں لائے اُن کیلئے خدا کی *** مقدر کرد و۔پھر اُس کے بعد ہم نے موسیٰ ؑ اور اس کے بھائی ہارون کو اپنے نشان اور کُھلا کُھلا غلبہ دے کر فرعون اور اُس کے سرداروں کی طرف بھیجا ۔پس انہوں نے تکبر کیا اور وہ سرکش لوگوں میں سے بن گئے ۔پھر انہوں نے کہا کیا ہم اپنے جیسے دو انسانوں پر ایمان لے آئیں حالانکہ ان دونوں کی قوم ہماری غلامی کر رہی ہے ۔پس انہوں نے اُن دونوں (یعنی موسیٰ ؑ اور ہارون) کو جھٹلادیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی ہلاک ہو نیوالے لوگوں میں سے بن گئے ۔اور ہم نے موسیٰ ؑ کو وہ کتاب دی جس کو سب جانتے ہیں تاکہ وہ اور اسکی قوم ہدایت پائیں ۔ ۹؎
۹؎ تفسیر :
فرماتا ہے عاد کے بعد پھر کچھ اور لوگ گذرے تھے جیسا کہ ثمود کی قوم جسے قرآن کریم نے عاد کا جانشین قرار دیا ہے (اعراف ۹ ع) اور ہم نے ان کے اندر پے در پے رسول بھیجنے شروع کر دئیے مگر جس قوم کے پاس بھی رسول آیا ۔اس نے انکار کیا اور ہم نے بھی قوم کے بعد قوم کو ہلاک کرنا شروع کر دیا ۔
اس آیت میں بائیبل سے ایک بہت بڑا اختلاف کیا گیا ہے ۔لیکن تاریخ شاہد ہے کہ قرآن کریم نے جوبات کہی ہے وہی ٹھیک ہے اور بائیبل کی غلط بائیبل میں لکھا ہے کہ نوح ؑ کے وقت میں جب عذاب آیا اور اس کے زمانہ کے لوگ تباہ ہوگئے تو اللہ تعالیٰ پچھتا یا اور اُس نے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ ایسا عذاب دنیا پر کبھی نہیں لائیگا ۔چنانچہ پیدائش باب ۸ آیت ۲۱ میں لکھا ہے کہ
ـ’’ خداوند نے اپنے دل میں کہا کہ انسان کے سبب سے میں پھر کبھی زمین پر *** نہیں بھیجو نگا کیونکہ انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے ۔‘‘
مگر پھر بائیبل ہی بتاتی ہے کہ
’’ خداوند نے اپنی طرف سے سدوم اور عمورہ گندھک اور آگ آسمان سے بر سائی اور اُس نے اُن شہروں کو اور اُس ساری ترائی کو او ر اُ ن شہروں کے سب رہنے والوں کو اور سب کچھ جو زمین سے اُگا تھا غارت گیا ۔‘‘
گویا وہ عہد جو بائیبل کی رو سے خداتعالیٰ نے کیا تھا ۔اُسے اُس نے خود ہی توڑ دیا اور سدوم کو آگ اور گندھک سے بر باد کر دیا۔اسی طرح بائیبل بتاتی ہے کہ موسیٰ ؑ کے زمانہ میں فرعون پر بھی مختلف عذاب آئے ۔ایک دفعہ ایسا عذاب آیا کہ دریا کی مچھلیاں مر گئیں اور دریا سے تعفّن اُٹھنے لگا اور مصری دریا کا پانی نہ پی سکے۔‘‘ ( خروج باب ۷ آیت ۲۰، ۲۱)
ایک دفعہ خداتعالیٰ نے عذاب کے طور پر ملک مصر میں اتنے مینڈک پیدا کر دئیے کہ بائیبل بتاتی ہے کہ اُن مینڈکوں نے ملک مصر کو ڈھانک لیا ۔
( خروج باب ۸آیت ا تا ۷)
ایک دفعہ عذاب کے طور پر اتنی جوئیں پید اہو گئیں کہ بائیبل کہتی ہے کہ ’’ تمام ملک مصر میں زمین کی ساری گرد جوئیں بن گئی۔‘‘
( خروج باب ۸ آیت ۱۶ تا ۱۸)
ایک دفعہ موسیٰ کی بد دعا سے ’’ سارے ملک مصر میں مچھروں کے غول کے غول بھر گئے اور اُن مچھروں کے غولوں کے سبب سے ملک کا ناس ہو گیا ۔‘‘ (خروج باب ۸ آیت ۲۴)
ایک دفعہ ایسی مری پڑی کہ مصریوں کے سب چوپائے مر گئے ۔ ( خروج باب ۹ آیت ۵،۶)
ایک دفعہ عذاب کے طور پر اللہ تعالیٰ نے مصریوں اور اُن کے جانورو ں کے جسموں پر پھوڑے اور پھپھولے پیدا کر دئیے ۔ (خروج باب ۹ آیت ۸ تا ۱۱ )
ایک دفعہ مصری قوم پر اولوں کا عذاب آیا اور یہ عذاب ایسا تھا کہ لکھا ہے ۔’’ اولوں کے ساتھ آگ ملی ہو ئی تھی اور وہ اولے ایسے بھاری تھے کہ جب سے مصری قوم آباد ہوئی ایسے اولے ملک میں کبھی نہیں پڑے تھے ۔‘‘ ( خروج باب ۹ آیت ۲۲ تا ۲۴)
ایک دفعہ عذاب کے طور پر اتنی ٹڈیاں پیدا کر دیں کہ لکھا ہے ۔’’ نہ تو ان سے پہلے ایسی ٹڈیاںکبھی آئیں نہ اُن کے بعد پھر آئیں گی ۔کیونکہ انہوں نے تمام روئے زمین کو ڈھانک لیا ۔ایسا کہ ملک میں اندھیرا ہو گیا اور انہوں نے اس ملک کی ایک ایک سبزی کو اور درختوں کے میووں کو جو اولوں سے بچ گئے تھے چٹ کر لیا۔‘‘ (خروج باب ۱۰ آیت ۱۲ تا ۱۶ )
لیکن بائیبل کے اس بیان کے مقابلہ میں جغرافیہ سے ثابت ہے کہ ٹڈی جن ملکوں میں خاص طور پر نشو و نما پاتی ہے اُن میں سے ایک مصر بھی ہے ۔
پھر ایک دفعہ عذاب کے طور پر مصر میں ایسی تاریکی چھائی کہ لکھا ہے ۔’’ تین دن تک سارے ملک مصر میں گہری تاریکی رہی ۔تین دن تک نہ تو کسی نے کسی کو دیکھا اور نہ کوئی اپنی جگہ سے ہلا۔‘‘ ( خروج باب ۱۰ آیت ۲۱ تا ۲۳ )
اسی طرح ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے ملک مصر کے تمام پلوٹھے بچوں کو مارڈالا ۔اور لوگوں کی چیخ و پکار سے کہرام مچ گیا۔بائیبل کہتی ہے کہ ۔’’ آدھی رات کو خداوند نے ملک مصر کے سب پلوٹھوں کو فرعون جو اپنے تخت پر بیٹھا تھا اُس کے پلوٹھے سے لیکر وہ قیدی جو قید خانہ میں تھا اس کے پلوٹھے تک بلکہ چوپائوں کے پلوٹھوں کو بھی ہلاک کر دیا۔اور فرعون اور اُس کے سب نوکر اور سب مصری رات ہی کو اُٹھ بیٹھے اور مصر میں بڑا کہرام مچ گیا کیونکہ ایک بھی ایسا گھر نہ تھا جس میں کوئی نہ مرا ہو۔‘‘
( خروج باب ۱۲ آیت ۲۹،۳۰)
اب اگر بائیبل کی یہ بات درست تھی کہ قوم نوحؑ کی ہلاکت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ آئندہ لوگوں کو کبھی اپنے عذاب سے ہلاک نہیں کریگا کیونکہ ’’ انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے ۔‘‘ تو سدوم کیوں تباہ ہوا ! اور اُس پر گندھک اور آگ کیوں بر سائی گئی ۔فرعونیوں پر جوؤں اور مینڈکوں اور مچھروں اور ٹڈیوں کا عذاب کیوں نازل کیا گیا ۔اُن پر اولے اور آگ کیوں بر سائی گئی ۔اُن کیلئے دریا کے پانی کو لہو میں کیوں تبدیل کیا گیا ۔اُن کے پلوٹھوں کو کیوں مارا گیا۔اُن کے جسموں پر پھوڑے اور پھپھولے کیوں پیدا کر دئیے گئے ۔انکو گہری تاریکی میں تین دن تک کیوں رکھا گیا ؟ کیا خداتعالیٰ نہیں جانتا تھا کہ انسان کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے اسے کچھ نہیں کہنا چاہئیے؟ پھر اگر خدتعالیٰ نے نوحؑ کے بعد کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرنا تھا تو خداتعالیٰ نے موسیٰ کی معرفت یہ کیوں کہا کہ
’’ خاوند تیرا خدا بھسم کر نیوالی آگ ہے۔‘‘ ( استثناء باب ۴ آیت ۲۴)
اگر اُس کی یہ بات درست تھی کہ ’’ انسان کے سبب سے میں پھر کبھی زمین پر *** نہیں بھیجونگا ۔‘‘ (پیدائش 8/12)تو اُس نے بنی اسرائیل سے یہ کیوں کہا کہ اگر تم میں سے کسی نے میرے احکام کو نہ مانا رتو شہر میں بھی تو *** ہوگا اور کھیت میں بھی *** ہوگا۔تیرا ٹوکرا اور تیری کھٹوتی (یعنی آٹا گوندھنے کا برتن) دونو ں *** ٹھہریں گے۔تیری اولاد اور تیری زمین کی پیداوار اور تیرے گائے بیل کی بڑھتی اور تیری بھیڑ بکریوں کے بچے *** ہونگے۔تو اندر آتے *** ٹھہریگا اور باہر جاتے بھی *** ٹھہریگا ۔خداوند اُ ن سب کا موں میں جن کو تو ہاتھ لگائے *** اور اضطراب اور پھٹکار کو تجھ پر نازل کرے گا۔جب تک تو ہلاک ہو کر جلد نیست و نابود نہ ہو جائے ۔‘‘ ( استثناء باب ۲۸ آیت ۱۶ تا ۲۰ )
غرض بائیبل نے جو کچھ کہا تھا وہ خود اس کی اپنی اندرونی شہادت سے باطل ثابت ہو تا ہے لیکن قرآن بتا تا ہے کہ نوح ؑ کے بعد متواتر رسول آئے اور اُ ن کے دشمن اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے ہلاک ہو تے رہے۔یہاں تک کہ آخر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے اور ان کے مخالف بھی تباہ ہو گئے ۔اور تاریخ بتاتی ہے کہ قرآن کریم کی بات ہی سچی ہے۔یعنی متواتر کئی قومیں حضرت نوح ؑ کے بعد اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ہلاک ہوتی رہیں ۔پس بائیبل کی یہ بات صریح غلط ہے کہ نوح ؑ کی قوم پر عذاب بھیجنے کے بعد خداتعالیٰ پچھتایا اور اُس نے عہد کیا کہ آئندہ وہ ایسا عذاب دنیا پر نازل نہیں کرے گا۔اگر وہ سچا عہد تھا تو پھر اُ س نے مختلف وقتوں میں کیوں عذاب نازل کئے اور کیوں بنی نوع انسان کو ہلاک کیا۔
وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ ۔۔۔۔۔۔۔رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَدَارٍ وَّ مَعِیْنٍ ہ
ترجمہ() اور ہم نے ابن مریم اور اُس کی ماں کو ایک نشان بنایا اور ہم نے اُن دونوں کو ایک اونچی جگہ پر پناہ دی جو ٹھہرنے کے قابل اور بہتے ہوئے پانیوں والی تھی۔ ۱۰؎
۱۰؎ حل لغات:
اٰوٰی: اٰوَیْتُہ‘ اَنْزَلْتُہ‘ ۔ یعنی اٰوَیْتُہ‘ کے معنے ہیں ۔میں نے اُسے اپنے پاس اتارا
وَمِنْہُ اَللّٰھُمَّ اٰدِ نِیْ اِلٰی ظِلِّ کَرَمِکَ وَعَفْوِکَ اور انہی معنوں میں یہ لفظ اس دعا میں بھی استعمال ہو اہے کہ اے اللہ ! مجھے اپنے کرم اور عفو کے سایہ میں جگہ دے۔(اقربـ) اٰوٰی مَنْزلہ‘ اَوْ اِلیٰ مَنْزلِہٖ کے معنے ہیں نَزَلَ بِہٖ لَیْلًا اَوْ نَھَارًا (اقرب) دن کو یا رات کو اپنے گھر میں آٹھہرا ۔یعنی بے اطمینانی کی جگہ سے آرام کی جگہ پر آگیا ۔
رَبْوَۃ : الربوۃ : الرابیۃ ۔یعنی ربوۃ کے معنے اونچے ٹیلے کے ہیں ۔(اقرب)
قَرَارٍ ۔ قَرَّ کا مصدر ہے اور قَرَّ فِی الْمَکَانِ قَرَارً کے معنے ہیں ثَبَتَ وَ سَکَنَ کسی جگہ پر ٹھہرا۔نیز قَرَار’‘ کے معنے ہیں مَا تُرَّفِیْہِ جس میں ٹھہرا جائے اَلْمُسْتَقَرُّ ۔جائے قرار (اقرب)
تفسیر :
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیٰسی علیہ السلام اور اُن کی والدہ حضرت مریم صدیقہ کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ جب حضرت عیٰسی علیہ السلام کو بہت تکلیفیں دی گئیں تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی مدد کی اور انہیں خداتعالیٰ کے زندہ اور طاقتور ہو نے کا ایک نشان بنا دیا ۔اور پھر اُن دونوں کو دشمنوں کے عذاب سے بچایا ۔اور ایک بلند زمین پر جو رہنے کے لحاظ سے بھی اچھی تھی اور جس میں پانی کے چشمے بھی جاری تھے اُنکو بسا دیا۔عربی زبان میں اٰوٰی کا لفظ ہمیشہ ایسی جگہ بولا جا تا ہے جہاں احسا ن کے طور پر کسی مصیبت اور دُکھ سے بچائے جانے کاذکر ہو جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی( سورۃ الضحٰی ۱ ع) کیا اُس نے تجھے یتیم پا کر اپنے زیر سایہ جگہ نہیں دی ۔تو ابھی رحم ِ مادر میں ہی تھا کہ تیرا والد فوت ہو گیا ۔اور تُو یتیمی کی حالت میں آگیا مگر اللہ تعالیٰ نے خود تیری پرورش کے سامان پیدا فرمائے اور تجھے اپنے سایۂ عاطفت میں پناہ دی ۔اسی طرح سورۂ انفال میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔وَاذْکُرُوْ ٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْل’‘ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخََطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰ لکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَکُمْ مِنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ( انفال ۲ع )یعنی تم اس وقت کو یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اور زمین میں کمزور سمجھے جاتے تھے اور تم ڈرتے تھے کہ لوگ تم کو اُچک کر نہ لے جائیں پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں پناہ دی اور اپنی تائید تمہارے شامل حال رکھی۔اور ہر قسم کی پاک چیزوں سے تمہیں رزق بخشا تاکہ تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔اس آیت میں بھی اٰوٰی کا لفظ ایسے موقعہ پر استعمال کیا گیا ہے جب کہ ایک بڑی مصیبت اور تکلیف کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مدینہ میں امن بخشا اور انہیں اپنی تائید سے نوازا ۔
اسی طرح قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ جب حضرت نوح ؑ نے طوفان کے وقت اپنے بیٹے سے کہا کہ یَا بُنَیَّ ارْکَبْ مَعَنَا اے بیٹے ہمارے ساتھ سوار ہو جا تو اُن کے بیٹے نے جواب دیا کہ سَاٰوِیْٓ اَلیٰ جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآئِ ( ہود ۴ ع)یعنی میں ابھی کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر پناہ لے لونگا ۔جو اس طوفان کی زد سے مجھے بچائے گا ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق بھی قرآن کریم میں آتا ہے کہ وَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اٰذٓی اِلَیْہِ اَخَاہُ قَالَ اِنِّیْٓ اَنَا اَخُوْکَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ( یوسف ۹ ع) یعنی جب حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی ان کے پاس آئے تو انہوں نے بن یامین ؔ کو اپنے پاس جگہ دی اور اُ س سے کہا کہ میں ہی تیرا گُمشدہ بھائی ہوں ۔پس جو کچھ یہ تجھ سے سلوک کرتے رہے ہیں اسکی وجہ سے اب تُو غمگین نہ ہو۔اس جگہ بھی اٰوٰی کا لفظ انہی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے کہ اُن کا بھائی حضرت یوسف ؑ کی گمشدگی اور پھر اپنے ہی بھائیوں کے ظلم و ستم کی وجہ سے نہایت تکلیف سے اپنے دن گذار رہا تھا حضرت یوسف علیہ السلام نے اُسے عزت کے ساتھ اپنے پا س جگہ دی اور پھر اُسے تسلی دی کہ میں ہی تیرا بھائی ہوں اور اس طرح اُس کی سب تکلیف دُور ہو گئی ۔اور اُسے امن اور سکون میّسر آگیا۔
نعتِ عرب کے لحاظ سے بھی جب اٰوٰی اِلٰی مَنْزَلِہٖ کہیں تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ بے اطمینان کی جگہ سے آرام کی جگہ پر آگیا ۔چنانچہ انہی معنوں میں اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دُعا کی جاتی ہے کہ اَللَّھُمَّ اٰوٰی اٰلٰی ظِلِّ کَرَمِکَ وَعَفْوِکَ ( اقرب) یعنی اے اللہ ! مجھے اپنے کرم اور عفو کے سایہ میں پناہ دے ۔پس اٰوَیْنٰھُمَا اِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ میں اٰوٰی کا لفظ استعمال فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اُس نے مسیح ؑ اور اُن کی والدہ کو ایک بڑی مصیبت سے نجات دیکر ایسی جگہ پناہ دی جو بلند اور اونچی زمین پر واقع تھی اور جہاں پانی کے چشمے جاری تھے ۔کیونکہ اٰوٰی کے معنے ہی یہی ہوتے ہیں کہ’’ مصیبت سے نجات دیکر پناہ دی ۔‘‘اب اگر تاریخی طور پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ واقعہ صلیب سے پہلے حضرت مسیح ؑ اور اُن کی والدہ پر کوئی ایسا زمانہ نہیں گذرا جس میں اُن کو کوئی بڑی مصیبت پہنچی ہو۔اور جس سے اُن کو پناہ دی جانی ضروری ہو۔صرف صلیب کا واقعہ ایسا تھا جس نے اُن کو اور اُن کی والدہ حضرت مریم صدیقہ کو سخت غم پہنچایا۔اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حضرت مسیح ؑ کو صلیب سے بچالیا تھا اس لئے ضروری تھا کہ اب وہ کسی اور ملک کو ہجرت کر جاتے ۔کیونکہ ملک شام قیصر روم کے ماتحت تھا اور وہ قیصر کے باغی قرار پا چکے تھے ۔اگر حضرت مسیح ؑ اس ملک میں رہتے تو دوبارہ گرفتار کر لئے جاتے ۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں ہجرت کا حکم دے دیا اور پھر اپنے فضل و احسان سے انہیں ایک ایسے بلند مقام پر جگہ دی جو اُن کے دشمنوں کی دست درازی سے محفوظ تھے ۔اور جہاں خوشگوار پانی کے چشمے بہتے تھے ۔یہ مقام جیسا کہ تاریخی شواہد سے ثابت ہے کشمیر کا علاقہ ہے جسے اعلیٰ درجہ کے چشموں اور سر سبز و شاداب مقامات اور نہایت عمدہ آب و ہوا کی وجہ سے لوگ جنّت نظیر قرار دیتے ہیں بلکہ خود کشمیر کا لفظ حضرت مسیح ؑ کے سفرِ کشمیر کی طرف صریح اشارہ کرتا ہے ۔کیونکہ کشمیری زبان میں کشمیر کو کشیر کہتے ہیں جو درحقیقت ایک عبرانی لفظ ہے جو کاف اور اشیر سے مرکب ہے کاف کے معنے مانند کے ہیں اور اشیر عبرانی زبان میں ملک شام کو کہتے ہیں ۔پس کشیر کے معنے تھے ’’ ملک شام کی مانند ۔‘‘ لیکن کثرت استعمال سے الف ساقط ہو گیا اور صرف کشیر رہ گیا ۔جسے بعد میں غیر قوموں کے لوگوں نے آہستہ آہستہ کشمیر بنا دیا۔مگر یہ عجیب بات ہے کہ کشمیری زبان میں اب تک کشمیر کو کشیر ہی کہا جاتا ہے اور اسی طرح لکھا جاتا ہے اور کشمیر کے رہنے والوں کو کشمیر ی لوگ کاشر کہتے ہیں اور پنجابی لوگ کشمیری کہتے ہیں ۔پھر صرف کشمیر کا لفظ ہی اس امر کا ثبوت نہیں کہ کسی زمانہ میں عبرانی قوم اس جگہ ضرور آباد رہ چکی ہے بلکہ تاریخی کتب سے صراحتہً ثابت ہے کہ آج سے دو ہزار سال پہلے ایک اسرائیلی نبی کشمیر میں آیا تھا جو بنی اسرائیل میں سے تھا اور شہزادہ نبی کہلاتا تھا اُس کی قبر محلہ خان یار میں ہے جو یوز آسف کی قبر کے نام سے مشہور ہے ۔یہ لفظ جیسا کہ بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتب میں لکھا ہے یسوع آصف کا بگڑا ہو ا ہے۔آصف عبرانی زبان میں اُس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی قوم کو تلاش کرنے والا ہو اور یوز کا لفظ یسوع سے بگڑا ہو اہے گویا مسیح ؑ کا یہ نام اس لئے رکھا گیا کہ وہ اسرائیل کے اُن دس قبائل کی تلاش اور اُن کو خداتعالیٰ کا پیغام پہنچانے کیلئے نکلے تھے جن کو بخت نصر غلام بنا کر لے آیا تھا ۔اور جسے اُس نے مشرق کے علاقوں یعنی افغانستان اور کشمیر میں لاکر بسا دیا تھا۔حضرت مسیح ؑ نے خود ایک موقعہ پر اپنے اس مشن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ
’’ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا ۔‘‘ ( متی باب ۱۵ آیت ۲۴)
اسی طرح یوحنّا میں حضرت مسیح ؑ کا یہ قول درج ہے کہ :
’’ میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں مجھے اُن کا بھی لانا ضروری ہے۔اور و ہ میری آواز سُنے گی ۔پھر ایک ہی گّلہ اور ایک ہی چرواہا ہوگا۔‘‘ ( یوحنا باب ۱۰ آیت ۱۶)
پھر حضرت مسیح ؑ نے اپنے حواریوں کو ایک دفعہ تبلیغی ہدایات دیتے ہوئے فرمایا
’’ غیر قوموں کی طرف نہ جانا۔اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا‘‘ ( متی باب ۱۰ آیت ۶)
ان حوالہ جات سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ جس طرح فلسطین کے یہود کو حضرت مسیح ؑ نے خداتعالیٰ کا پیغام پہنچایا اسی طرح اُن کا یہ بھی فرض تھا کہ وہ مشرقی ممالک کے یہود کو خداتعالیٰ کا پیغام پہنچاتے اور وہ اُن کی آواز پر لبیک کہتے ۔کیونکہ مسیح کے نزدیک فلسطین کی بھیڑوں نے تو اُسے کم مانا تھا لیکن دوسری بھیڑوں نے اُسکی آواز پر بہت جلد جمع ہو جانا تھا ۔ان پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کئے کہ فلسطین میں اُن کے خلاف مخالفت کی ایک عام رو چل پڑی ۔یہاں تک کہ حکومت کی طرف سے آپ پر بغاوت کا مقدمہ دائر کیا گیا اور اس کیلئے پھانسی کی سزا تجویز ہوئی مگر جس طرح اللہ تعالیٰ نے یونا نبی کو موت کے مونہہ سے بچالیا ۔اور چونکہ اس کے بعد وہ اپنے ملک میں نہیں رہ سکتے تھے کیونکہ حکومت کی طرف سے جسے پھانسی کا حکم مل چکا ہو وہ اگر بچ بھی رہے تو دوبارہ تختۂ دار پر لٹکایا جاتا ہے ۔اس لئے انہوں نے اس ملک کو چھوڑ دیا اور باوجود اس کے کہ فلسطین سے افغانستان اور کشمیر تک کا راستہ بڑا ہولناک تھا پھر بھی وہ ہجرت کرکے ان ممالک میں آئے اور جیسا کہ قرآن کریم بتاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اُن کیلئے کشمیر کو دارالہجرت بنایا جو ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ کا مصداق تھا ۔یعنی وہاں انہوں نے بغیر کسی مزاحمت کے امن و عافیت کے ساتھ رہائش اختیار کر لی ۔اور پھر یہ جگہ ایسی تھی جہاں نہ صرف صاف پانی کے چشمے تھے بلکہ یہ علاقہ اپنی ٹھنڈک اور سرسبزی و شادابی میں ملک شام کی مانند تھا جہاں پہنچ کر اُنکی تمام کلفتیں دور ہوگئیں اور وہ ایک سو بیس سال کی عمر تک خداتعالیٰ کا پیغام لوگوں کو پہنچاتے رہے اور آخر انہوں نے یہیں وفات پائی اور سری نگر کے محلہ خان یار میں دفن ہوئے جہاں آج تک اُن کی قبر پائی جاتی ہے ۔
یٰٓاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَھُمْ لَھَا سٰبِقُوْنَ ہ
ترجمہ() اور ہم نے کہا اے رسولو! پاک چیزوں میںسے کھائو اور مناسب حال عمل کرو ۔اور میں اُس کو جو تم کرتے ہو جانتا ہوں۔اور یہ تمہاری جماعت یعنی نبیوں کی ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس مجھے ہلاکت سے بچنے کیلئے اپنی ڈھال بنائو۔جس پر انہوں نے یعنی کفار نے شریعت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور جو ٹکڑا اپنے لئے اختیار کیا اُس پر فخر کرنے لگ گئے ۔پس تو ان کو ایک مدت تک اپنی غفلت میں پڑا رہنے دے ۔کیا وہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا اُن کو مال اور بیٹوں سے مدد دینا اُن کو نیکیوں میں جلد جلد بڑھاتا ہے ؟ ایسا نہیں بلکہ وہ حقیقت حال کو سمجھتے نہیں ۔وہ لوگ جو اپنے رب کے ڈر سے کانپتے ہیں اور وہ لوگ جو اپنے رب کی آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور جو اپنے رب کا شریک کسی کو نہیں بناتے ۔اور جو اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے مال کو آگے مستحقین کو دیتے رہتے ہیں اور اُنکے دل اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ انہیں ایک دن اپنے رب کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔یہی لوگ نیکیوں میں جلدی کرنے والے ہیں اور وہ اُن نیکیوں کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھتے جا رہے ہیں ۔ ۱۱؎
۱۱ ؎ حل لغات:
زُبُرًا : زُبُر’‘ ۔زُبْرَۃ’‘ کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں اَلْقِطْعَۃُ الضَّخِیْمَۃُ بڑا ٹکڑا ( اقرب)
غَمْرَۃ’‘ کے متعلق امام راغب اپنی کتاب مفردات میں لکھتے ہیں کہ جُعِلَ مَثَلًا لِلْجَھَالَۃِ الَّتِیْ تُخْمِرُ صَاحِبَھَا یعنی غمرۃ کا لفظ اس غفلت اور جہالت کے لئے استعمال ہوتا ہے جو انسان پر چھا جاتی ہے ( مفردات)
تفسیر :
اس آیت سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہئیے کہ اس میں صرف نبیوں کو مخاطب کیا گیا ہے کیونکہ قرآن کریم کا یہ قاعدہ ہے کہ اس میں بعض جگہ مخاطب تو نبیوں کو کیا جاتا ہے لیکن مُراد اُن کے سب متبع ہوتے ہیں ۔جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا ( بنی اسرائیل ۳ع) کہ اگر تیرے والدین میں سے کسی ایک پر یا ان دونوں پر تیری زندگی میں ہی بڑھاپا آجائے توتُو اُن کی کسی بات پر ناپسند یدگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اُف تک بھی نہ کہہ اور نہ انہیں سختی سے جھڑک بلکہ ہمیشہ اُن سے نرمی سے بات کیا کر ۔اب اس جگہ خطاب بظاہر محمد رسول اللہ ﷺ سے ہے لیکن مراد آپ کی اُمت کے افراد ہیں ۔کیونکہ آپ ؐ کے والد تو آپ کی پیدائش سے بھی پہلے اور آپ کی والدہ آپ کے بلوغ سے پہلے وفات پاچکی تھیں ۔اسی قاعدہ کے مطابق گو یہاں رسولوں کو مخاطب کیا گیا ہے لیکن مراد اُن رسولوں کے متبع ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا ہے کہ تم حلال اور طیب اشیاء کھائو۔کیونکہ اس کے نتیجہ میں تم کو نیک اعمال بجا لانے کی توفیق ملے گی ۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کی خوراک کا اس کے اخلاق پر نہایت گہرا اثر پڑتا ہے اور جس قسم کے اثرات کسی غذا میں پائے جائیں ویسے ہی جسمانی یا اخلاقی تغیرات پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں ۔چونکہ دنیا میں انسان کو اپنے تمام طبعی جذبات ابھارنے اور اُن کو ترقی دینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اُن کا برمحل استعمال کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکے اس لئے قرآن کریم نے اُن غذائوں کے استعمال سے منع فرمایا ہے جن کا کوئی جسمانی اخلاقی یا رُوحانی ضرر ظاہر ہو ۔مثلاً اللہ تعالیٰ نے مردار ۔خون اور سُور اور پھر حلال اشیا ء میں سے بھی طیبات کے استعمال پر زیادہ زور دیا ہے یعنی ایسی اشیاء پر جو انسان کی صحت اور اُس کی طبیت کے مطابق ہوں اور جن کے استعمال سے اُسے کوئی ضرر لاحق ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔اس سے ظاہر ہے کہ اسلام نے اخلاق پر خوراک کے اثر کو تسلیم کیا ہے اور اس کو خاص قیود اور شرائط سے وابستہ کرکے اخلاق کے حصول کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے ۔اسلام دنیا کے سامنے یہ اصل پیش کرتا ہے کہ انسانی رُوح جسمانی تغیرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی ۔پس وہ غذا پر بھی ایک حد تک پابندی عائد کرتا ہے تاکہ معدہ کے ذریعہ انسانی دل اور دماغ پر بد اثرات نہ پہنچیں اور اس کی رُوح مردہ ہو کر نہ رہ جائے ۔وہ کہتا ہے کہ اگر تم حلال کھائو گے بلکہ حلال میں سے بھی طیبات کا استعمال کرو گے تو اس کے نتیجہ میں لازمی طور پر تمہیں عمل صالح کی توفیق ملے گی ۔جس طرح آجکل کمیونسٹوں سے جہاں بھی کسی کو بات کرنے کا موقعہ ملے وہ کہتے ہیں کہ اس مسائل کو جانے دیجئیے سارا جھگڑا ہی پیٹ کا ہے۔اسی طرح قرآن کریم بھی کہتا ہے کہ تمہارا پیٹ ہی اصل چیز ہے مگر انہوں نے تو یہ کہا ہے کہ جس نے پیٹ کا مسٔلہ حل کر لیا وہ کامیاب ہو گیا ۔اور قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ جس نے اپنے پیٹ کو ہر قسم کی گندی چیزوں سے بچالیا وہ کامیاب ہو گیا جس نے حلال اور حرام میں ہمیشہ امتیاز کیا اور جس نے طیّبات کا استعمال ہمیشہ اپنا معمول رکھا وہی ہے جسے عمل صالح کی توفیق ملتی ہے یعنی نماز کی بھی اُسے ہی توفیق ملتی ہے جو حلال کھاتا ہے اور روزہ بھی اُسی کو نصیب ہوتا ہے جو حلال کھاتا ہے اور زکوٰۃ کی بھی اسی کو توفیق ملتی ہے جو حلال کھاتا ہے ، غرض کمیونزم تو یہ کہتی ہے جس نے پیٹ بھرا وہی ہمار ا لیڈر اور نجات دہندہ ہے اور قرآن کریم کہتا ہے کہ جس نے اپنے پیٹ میں حلال ڈالا وہی ہمارا بندہ ہے اوراسکے نتیجہ میں اس کیلئے نیکیوں کے راستے کھلتے ہیں ۔جب تک و ہ اس امر کی پرواہ نہیں کرتا کہ اُس کا رزق حلال ذرائع سے کمایا ہو ا ہے یا حرام ذرائع سے اس وقت تک نہ اُس کا لَٓا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنا اُسے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ اسلام کے کسی فرقہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرکے وہ خداتعالیٰ کو خوش کر سکتا ہے ۔خداتعالیٰ اُسی وقت خوش ہوگا جب وہ اپنے پیٹ میں حلا ل روزی ڈالے گا۔اگر وہ دھوکا بازی کے ساتھ روپیہ کماتا ہے اور حرام روٹی اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کا یہ سمجھنا کہ اسکے نتیجہ میں اُسے نیک اعمال کی بھی توفیق مل جائیگی ۔یعنی اُس کے بعد اگر وہ سنوار کر نماز پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے ۔اگر وہ احتیاط کے ساتھ روزہ رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے یہ نہیں کہ آپ ہی آپ اُس سے یہ اعمال صادر ہو نے شروع ہو جائیں گے ، آپ ہی آپ کوئی عمل ظاہر نہیں ہو سکتا صرف اُن کیلئے ایک رستہ کھل جاتا ہے ۔پس اس کے یہ معنے نہیں کہ اگر ایک ہندو حلال روزی کھائیگا تو وہ ذکرِ الٰہی کرنے لگ جائیگا ۔یا ایک سکھ حلا ل روزی کھائیگا تو وہ ذکرِ الٰہی کرنے لگ جائیگا ۔بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ ان نیکیوں کا راستہ اُس کیلئے کھل جائیگا اور اگر وہ نماز اور روزہ اور ذکر الٰہی کو اختیار کرنا چاہے گا تو ان نیکیوں کی اُسے توفیق مل جائیگی لیکن اس کے بغیر وہ عمل صالح کی اُمید رکھے تو اُس کی یہ اُمید پوری نہیں ہو سکتی ۔دنیا میں لوگ عام طور پر پوچھا کرتے ہیں کہ ہم خداتعالیٰ سے کس طرح محبت کریں ۔نیکیوں میں کس طرح ترقی کریں ۔گناہوں اور مختلف قسم کی بدیوں سے کس طرح بچیں ۔اپنے مقاصد میں کامیابی کس طرح حاصل کریں ۔اللہ تعالیٰ ان سب سوالات کا یہ جواب دیتا ہے کہ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالحًا ۔اگر تم یہ چاہتے ہو کہ عمل صالح تم سے صادر ہوں تو تم حلال اور طیب چیزیں استعمال کرو ۔اگر تم حرام خوری کرو گے تو تم میں دھوکا بھی ہوگا ۔فریب بھی ہوگا۔دغا بازی بھی ہوگی۔لالچ بھی ہوگا ۔معاملات میں خرابی بھی ہوگی ۔اس کے بعد یہ امید رکھنا کہ تم نیکیوں میں ترقی کرنے لگ جائو گے اور خداتعالیٰ کی محبت تمہارے دلوں میںپیدا ہو جائیگی محض ایک خام خیال ہے ۔تمہیں دو میں سے ایک چیز بہر حال چھوڑنی پڑے گی ۔یا تو اعمال صالحہ چھوڑنے پڑیں گے اور یا حرام خوری چھوڑنی پڑے گی ۔جو شخص ان دونو ں کو اکٹھا کرنا چاہیگا وہ ہمیشہ ناکام ہوگا ۔کامیاب وہی ہوگا جو حرام خوری چھوڑ دے اور حلال اور طیب رزق حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
پھر فرماتا ہے وَاِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ ۔یعنی دیکھو یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا رب ہوں ۔پس مجھے ہلاکت سے بچنے کیلئے اپنی ڈھال بنا لو۔اس جگہ اُمَّۃ’‘ سے مراد انبیاء کے ماننے والے نہیں بلکہ خود انبیاء مراد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اُمَّۃً وَّاحِدَۃً کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ تمام انبیاء کی تعلیموں پر غور کرکے دیکھ لو سب کے حالات آپس میں ملتے جلتے ہیں اور ان کے دعوے بھی ملتے جلتے ہیں جس طرح نوح ؑ نے توحید کا مسٔلہ پیش کیا تھا اسی طرح نوح ؑ کے بعد جس قدر نبی آئے انہوں نے بھی یہی تعلیم دی کہ خدا ایک ہے اس کے بعد پھر اور رسول آئے اور وہ بھی یہی تعلیم دیتے رہے ۔اور جو منکر تھے وہ ہلاک ہوتے رہے ۔پھر موسیٰ ؑ اور ہارون آئے اور انہوں نے بھی ایسی ہی تعلیم دی ۔پھر مریم کے بیٹے مسیح ؑ آئے اور اُن کو بھی خداتعالیٰ نے دنیا کیلئے ایک نشان قرار دیا اور دشمنوں سے بچا کر ایک محفوظ جگہ پہنچا دیا۔پس معلوم ہوا کہ تو حیدِ باری تعالیٰ مذہب کا اعلیٰ جزو ہے ۔اور سب نبی اس کی تعلیم دیتے رہے ہیں اور یہ تعلیم دینے والے لوگ ہمیشہ اپنے دشمنوں پر غالب رہے ہیں۔پھر مسیح ؑ کے بعد جو اُن کی اُمت نے یہ بیٹے کا مسٔلہ نکالا ہے یہ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے ؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس اختلاف کی وجہ بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَ ھُمْ بَیْنَھُمْ زُبُرًا۔یعنی اس اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب نبی وفات پاگئے اور اُن کی تعلیم پر ایک لمبا زمانہ گذر گیا تو اُن کے ماننے والوں نے ہی غفلت میں مبتلا ہو کر اُن کی تعلیم کو کوئی اور شکل دے دی ۔اور نئے نئے مذہب بن گئے۔اور چونکہ ہر ایک مذہب میں تھوڑی تھوڑی سچائیاں موجود ہیں اُن کے ماننے والے اُن سچائیوں کو پیش کرکے خوش ہیں کہ دیکھو ہم سچے ہیں ۔حالانکہ جب سچے مذہب کے انہوں نے ٹکڑے کئے تو ضرور تھا کہ اُن میں سچائی بھی ہو پس اُس سچائی کا وجود اُن کے سچا ہونے کی علامت نہیں ۔سچا وہ ہے جس کے پا س کامل تعلیم ہو ۔
پھر فرمایا اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّھُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّ بَنِیْنَ۔نُسَارِعُ لَھُمْ فِی الْخَیْرٰتِ بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ ۔یعنی یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کو جو مال ملا ہے اور انہیں اولاد دی گئی ہے وہ ان کی عزت اور وجاہت اور اُن کے درجہ کی بلندی کی وجہ سے ہے حالانکہ وہ جانتے نہیں کہ یہی چیزیں ان کو تباہی کی طرف لے جانے والی ہیں ۔پھر فرمایا ہے ان لوگوں کے مقابلہ میں مومنوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ اپنے رب کے خوف سے ہمیشہ لرزاں رہتے ہیں اور اُس کے نشانوں پر ایمان لاتے ہیں اور خداتعالیٰ کا کسی کو شریک قرار نہیں دیتے اور ہر قسم کی نیکی کر کے بھی اپنے آپ کو قصور وار ہی سمجھتے ہیں ۔اور خدا تعالیٰ کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ قرار دیتے ہیں ۔یعنی ہر قسم کی نیکیاں بجا لانے کے باوجود اُن میں کبر پیدا نہیں ہوتا بلکہ اور بھی انکسار پیدا ہو جاتا ہے اور اُٹھتے بیٹھتے خداتعالیٰ کا خوف اُن کے دلوں پر مستولی رہتا ہے ۔ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشار ہ فرمایا ہے کہ کفر اور اسلام کے مقابلہ میں اسی فریق کا انجام اچھا ہوگا جس میں یہ چار خوبیاں پائی جائیں گی ۔اوّل خشیت اللہ دوم ایمان با ٓیات اللہ ۔ سوم شرک سے اجتناب اور چہارم خدمتِ دین اور پھر یہ خوف کہ ہم نے کچھ نہیں کیا ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ کیا وَالَّذِیْنَ یُؤْ تُوْنَ مَآ اٰتَوْاوَّقُلُوْبُھُمْ وَجِلَۃ’‘ کا یہ مطلب ہے کہ انسان جو کچھ چاہے کرے مگر خداتعالیٰ سے ڈرتا رہے ۔آ پ نے فرمایا نہیں اس سے یہ مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ انسان نیکی کرے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا بھی رہے (فتح البیان ) اس کے بعد فرماتا ہے کہ یہی لوگ ہیں جو دوڑ کر نیکیوں میں حصّہ لیتے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔گویا مسابقت کی رُوح اُن میں پائی جاتی ہے ۔یہ ایک فطری جذبہ ہے جو ہر انسان کے اندر پایا جا تا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ترقی کے میدان میں دوسروں سے آگے نکل جائے۔طالب علم اسی جذبہ کے ماتحت محنت کرتے ہیں بچے اسی جذبہ کے ماتحت کھیلوں میں امتیازی مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔تاجر ۔صناع ۔زمیندار ۔ڈاکٹر ۔انجنئیر۔موجد اور سائنسدان اسی جذبہ کے ماتحت اپنی تجارت اور صنعت اور زراعت اور طب اور انجنٔیرنگ اور سائنس او ر ایجادات کے سلسلہ میں ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔قومیں اور حکومتیں بھی اسی جذبہ کے ماتحت اپنے اندر زیادہ سے زیادہ طاقت پیدا کر تیں اور دوسروں سے ایک بلند اور نمایاں مقام حاصل کرنا چاہتی ہیں بلکہ اور تو اور حیوانوں میں بھی یہ جذبہ پایا جاتا ہے اور وہ بھی مسابقت کی رُوح اپنے اندر رکھتے ہیں ۔اگر دو گھوڑے آگے پیچھے آرہے ہوں تو فوراً اگلا گھوڑا پچھلے گھوڑے کے پائوں کی آہٹ پا کر اپنے قدم تیز کر دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ دوسرا اُ س سے آگے نہ نکل جائے مگر اس کو دوڑتا دیکھ کر پچھلا گھوڑا بھی اپنے قدم تیز کر دیتا ہے ۔پھر بسا اوقات پچھلا گھوڑا آگے نکل جا تا ہے اور اگلا گھوڑا پیچھے رہ جاتا ہے ۔غرض یہ ایک طبعی اور فطری جذبہ ہے جو ہر انسان کے اندر پایا جا تا ہے ۔اسلام نے اسی طبعی جذبہ کی طرف مومنوں کو ان آیات میں توجہ دلائی ہے اور بتا یا ہے کہ تمہارا کام ہر میدان میں دوسروں سے آگے نکلنا ہے اگر تم معمار ہو تو تمہاری کوشش یہ ہونی چاہئیے کہ کسی قوم کا معمار تم سے آگے نہ بڑھے ۔اگر تم صناع ہو تو تمہاری کوشش یہ ہونی چاہئیے کہ کسی قوم کا صناع تم سے آگے نہ بڑھے ۔اگر تم موجد ہو تو تمہاری کوشش یہ ہونی چاہئیے کہ کسی قوم کا موجد تم سے آگے نہ نکل سکے ۔اگر تم ڈاکٹر یا طبیب ہوتو تمہاری کوشش یہ ہونی چاہئیے کہ کسی قوم کا ڈاکٹر اور طبیب تم سے اس فن میں آگے نہ نکلے۔اسی طرح تمہیں دیانت اور امانت میں اتنا اعلیٰ نمونہ پیش کرنا چاہئیے کہ کوئی قوم اس نیکی میں تمہارا مقابلہ نہ کر سکے ۔اگر تم ایسا کرو گے تو تم دنیا کے معّلم اور استاد بن جائو گے اور لوگ تمہارے پیچھے چلنے پر مجبور ہو نگے ۔
مجھے یاد ہے مسٹر سٹرک لینڈ کواپریٹو سوسائٹیز کے ایک انگریز رجسٹرار تھے ۔وہ ایک دفعہ شملہ میں مجھے ملے اور کہنے لگے کہ آپ کی جماعت میں جو چندہ وصول کرنے کا کام کرتے ہیں وہ کس طرح دیانت داری سے کا م کرتے ہیں میں تو جسے بھی مقرر کرتا ہوں وہ تھوڑے دنوں میں ہی خائن ثابت ہو جاتا ہے اور مجھے اُسے نکالنا پڑتا ہے ۔میں نے کہا ہمارے ہاں لوگ اس لئے بد دیانتی نہیں کرتے کہ اُن کا ایمان ہے کہ بد دیانتی انسان کے ایمان کو ضائع کر دیتی ہے ۔وہ اُس وقت انگلستان چھٹی پر جا رہے تھے ۔کہنے لگے اگر میں واپس آیا تو میں حکومت سے درخواست کرونگا کہ کواپریٹو سو سائٹیز کے انسپکٹر پہلے چھ ماہ کیلئے امامِ جماعت احمدیہ کے پاس بھیج دئیے جایا کریں تاکہ وہ اُن میں دیانت کی رُوح پیدا کریں ۔ہماری جماعت کی برتری کا یہ احساس اُس انگریز رجسٹرار کے دل میں اسی لئے پیدا ہوا کہ اسلامی تعلیم کے مطابق ہمارا ہر فرد نیکی میں دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش کرتاہے اور وہ چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص اُس سے آگے نہ نکل جائے ۔اگر یہ جذبۂ مسابقت قومی رنگ میں پیدا ہو جائے اور ہر فرد نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے تو دنیا کے تمام جھگڑے اور فسادات مٹ جائیں اور امن اور صلح کا دور دورہ ہو جائے ۔میں نے کئی دفعہ اپنی جماعت کے مخالفین کے سامنے یہ بات پیش کی ہے کہ گالیاں دینا اور بُرا بھلا کہنا کوئی خوبی کی بات نہیں اگر تم ہماری جماعت کا مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو اس طرح مقابلہ کرو کہ اگر ہم نے بیرونی ممالک میں سو جگہ اپنے تبلیغی مشن قائم کئے ہو ئے ہیں تو تم دو سو جگہ اسلام کے تبلیغی مشن قائم کر دو۔اگر ہم پانچ یا دس ہزار آدمی سالانہ غیر مذاہب میں سے اسلام میں شامل کر تے ہیں تو تم بیس ہزار آدمی سالانہ غیر مذاہب میں سے اسلام میں شامل کرو۔اگر ہمارے اندر دو ہزار واقفین زندگی پائے جاتے ہیں تو تم اپنے اندر چار ہزارواقفین ِ زندگی پیدا کرکے دکھا دو۔اور ہم سے بڑھ کر اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کا نام پھیلانے کی کوشش کرو۔مگر اس مقابلہ کی طرف کوئی نہیں آتا ۔گالیاں دیکر اور جھوٹے الزامات لگا کر وہ چاہتے ہیں کہ انہیں غلبہ حاصل ہو جائے مگر اسلام ایسے گندے مقابلوں کی اجازت نہیں دیتا ۔اسلام کہتا ہے کہ اگر تم نے مقابلہ ہی کرنا ہے تو نیکی اور تقویٰ میں کرو۔خداتعالیٰ کی محبت اور تعلق باللہ میں کرو۔اسلام کی اشاعت اور محمد رسول اللہ ﷺ کے نام کے پھیلانے میں کرو ۔دنیوی ترقی کی تدابیر میں کرو ۔اور گندے مقابلوں میں اپنی طاقتیں خرچ نہ کرو۔
وَلَانُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذٰلِکَ ھُمْ لَھَا عٰمِلُوْنَ ہ
ترجمہ() اور ہم کسی جان کے ذمہ کوئی کام نہیں لگاتے مگر اُس کی طاقت کے مطابق ۔اور ہمارے پاس ایک اعمالنامہ ہے جو سچی سچی بات کہتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جائیگا لیکن اُن کے دل تو اس تعلیم کے متعلق غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کے سوا اُن کے اور بھی بہت سے خراب اعمال ہیں جو وہ کر رہے ہیں ۔ ۱۲؎
۱۲؎ حل لغات:
اَلْحَقُّ: حَقَّ کا مصدر ہے اور حَقَّہ‘ حَقَّا کے معنے ہیں غَلَبَہ‘ عَلَی الْحَقِّ حق کی وجہ سے اُس پر غالب آیا ۔وَالْاَمْرَ اَثْبَتَہ‘ وَاَوْجَبَہ‘ کسی امر کو ثابت کیا اور واجب کیا ۔کَانَ عَلٰی یَقِیْنٍ مِّنْہُ کسی بات پر یقین سے قائم ہوا۔ وَالْحَقُّ ضِدُّ الْبَاطِلِ ۔اور حق کے معنے سچ کے بھی ہیں ۔نیز اس کے معنے اَلْاَمْرُ الْمَقْضِیُّ کے بھی ہیں یعنی فیصلہ شدہ بات ۔اس طرح اس کے معنے اَلْمَوْجُوْدُ الثَّابِتُ کے بھی ہیں ۔یعنی ایسی چیز جو مضبوط اور قائم رہنے والی ہو ۔اور اس کے معنے عدل ۔مال ۔ملکیت ۔یقین ۔موت اور دانائی کے بھی ہیں (۱قرب)
تفسیر :
فرماتا ہے ہم نے یہ تو کہا ہے کہ تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو لیکن ہم انسان سے اتنی ہی امید کرتے ہیں جتنی اُس میں طاقت ہو تی ہے ۔یہ نہیں کہ کسی سے اُس کی طاقت سے زیادہ کی امید کی جائے یا اس کام کے نہ کرنے پر جو اسی کی طاقت سے زیادہ ہو اُسے سزا دی جائے ۔اسلام لوگوں کی طبائع کے اختلاف اور اُن کی طاقتوں کی کمی بیشی کو ملحوظ رکھتا ہے۔مثلاً نماز کو ہی لے لو ۔یہ اسلام کے بنیادی مسائل میں شامل ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ تمام مسلمانوں کو پانچ وقت مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنی چاہئیے ۔لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ ساری زمین ہی خداتعالیٰ کی مسجد ہے ۔اگر کسی جگہ مسجد موجود نہیں تو تم نمازکو چھوڑ نہیں سکتے بلکہ جہاں بھی چاہو صاف ستھری زمین پر نماز پڑھ سکتے ہو پھر اگر تم بیمار یا مسافر ہو تو بغیر جماعت کے بھی نماز پڑھ سکتے ہو اسی طرح اسلام نے نماز کیلئے وضو کی شرط رکھی ہے مگر ساتھ ہی کہہ دیا ہے کہ اگر پانی نہ ملے یا پانی کا استعمال طبی نقطہ نگاہ سے انسان کیلئے مضر ہو تو وہ تیمم کر لے ۔کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو بیٹھ کر پڑھ لے ۔بیٹھنا بھی دو بھر ہو تو لیٹ کر پڑھ لے ۔لیٹ کر پڑھنا بھی تکلیف وہ ہو تو اشارہ سے پڑھ لے ۔یہی حال روزہ کا ہے ۔اسلام نے رمضان کے روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے مگر ساتھ ہی فرمایا ہے کہ اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو تو بیماری سے اچھا ہونے پر یا سفر سے واپس آنے پر روزہ رکھ لو ۔جہاد پر اسلام نے بڑا زور دیا ہے ۔مگر ساتھ ہی کہہ دیا ہے کہ وہ بیمار اور کمزور اور لولے لنگڑے جو جہاد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے لیکن اُن کے دل اس شوق میں تڑپ رہے ہوتے ہیں کہ کاش اُن میں بھی طاقت ہوتی اور وہ بھی جہاد میں شریک ہو تے اللہ تعالیٰ کی نگا ہ میں ویسے ہی جہاد میں شریک سمجھے جاتے ہیں جیسے وہ تندرست لوگ جو اپنی جانوں اور مالوں کو قربان کر رہے ہوتے ہیں ۔چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْ مِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ ( نساء ۱۳ ع)یعنی مومنوں میں سے جو لوگ خدمت دین نہیں کررہے وہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جو اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ خداتعالیٰ کے دین کی خدمت اور اُس کے کلمہ کے اعلاء میں مشغول رہتے ہیں ۔ہا ں جو لوگ خدمت دین سے اس لئے محروم رہتے ہیں کہ اُنکو کوئی تکلیف لاحق ہے تو اُن کے متعلق یہ حکم نہیں۔اللہ تعالیٰ اُن کی اس معذوری کو مدّنظر رکھے گا اور انہیں اپنے قرب اور ثواب سے محروم نہیں کرے گا۔
اسی حقیقت کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بھی بیان کیا ہے کہ وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذِ الْحَقُّ ( اعراف ۱ ع) یعنی قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزا دی جائیگی تو اُن تمام امور کو ملحوظ رکھا جا ئیگا جو انسان کی ترقی میں حائل رہے اور دیکھا جائیگا کہ کن امور کے بجا لانے میں یہ طبعی طور پر معذور تھا اور کن امور کو اس نے غفلت سے ترک کیا ۔غرض قرآن کریم کی یہ خوبی ہے کہ اُس میں فطرت ِ انسانی کے کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا گیا اور کوئی ایسی تعلیم نہیں دی گئی جس پر عمل کرنا طبائع پر گراں ہو بلکہ اُس میں ایسی سہولتیں موجود ہیں جن کی وجہ سے ہر فطرت اور طبیعت کا انسان اس کے احکام پر عمل کر سکتا ہے ۔جس طرح اس مادی عالم میں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی اشیاء پیدا کر دی ہیں اور کسی فطرت اور طبیعت کا انسان بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری سہولت کیلئے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کوئی چیزپیدا نہیں کی ۔اگر اس کے دانت سخت چیزوں کے چبانے کی طاقت رکھتے ہیں تو سخت چیزیں موجود ہیں اور اگر اُس کے دانت کمزور ہیں اور وہ نرم چیز وں کا محتاج ہے تو نر م نرم چیزوں کی بھی کمی نہیں ۔اسی طرح رُوحانی عالم میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ ہر قسم کے لوگوں کی ترقی کی تعلیم پیش کردی ہے اور ساتھ ہی ایسی سہولتیں بھی رکھی ہیں جن کی وجہ سے کوئی انسان دیانت داری کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس کیلئے اسلامی شریعت ناقابلِ عمل ہے ۔کٹھ حجتی اور بہانہ سازی ایک دوسری چیز ہے لیکن جہاں تک احکام ِ شریعت کا سوال ہے اُن میں ایسی لچک موجود ہے کہ ہر طبیعت کا انسان بڑی آسانی سے ان پر عمل کر سکتا ہے ۔
اس کے مقابلہ میں عیسائیت دنیا کے سامنے یہ تعلیم پیش کرتی ہے کہ
’’ مسیح جو ہمارے لئے *** بنا اُس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی *** سے چھڑایا‘‘
(گلتیوں باب ۳ آیت ۱۳)
گویا نعوذ باللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ خداتعالیٰ نے دنیا کے گلے میں *** کا ایک طوق ڈالا تھا جسے مسیح نے اُن کے گلے سے اُتار ڈالا ۔اور انہیں شریعت کے احکام پر عمل کرنے سے نجات دے دی ۔مگر یہ خداتعالیٰ کی قدوسیّت اور اُس کی سبوحیّت پر بد ترین قسم کا الزام ہے کہ اُس نے آنکھیں بند کر کے موسیٰ ؑ کے ذریعے ایسے احکام بھجوا دئیے جن پر لوگوں کیلئے عمل ناممکن تھا ۔اسلام اس گندے عقیدہ کو رد کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ شریعت میں ہمیشہ وہی احکام نازل کئے جاتے ہیں جن پر دنیا عمل کر سکتی ہے۔پس شریعت *** نہیں بلکہ شریعت سے انحراف ایک *** ہے جس سے انسان کو بچنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔
پھر فرمایا وَلَدَیْنَا کِتٰب’‘ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۔ مفسریں لکھتے ہیں کہ اس جگہ کتاب سے مراد وہ نامۂ اعمال ہے جو ملائکہ لکھتے رہتے ہیں اور چونکہ ملائکہ یہ کام اللہ تعالیٰ کے حکم سے کر رہے ہیںاس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو اپنی طرف منسوب کیا ہے بعض کہتے ہیں کہ اس کتاب سے لوحِ محفوظ مراد ہے اور بعض نے وَلَدَیْنَا کِتٰب’‘ سے قرآن کریم مراد لیا ہے ۔نامۂ اعمال کی صورت میں تو اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ قیامت کے دن ہم ایسے امتیازی طریقوں کے ساتھ فیصلہ کریں گے کہ جتنا جتنا کوئی شخص انعام کا حق دار ہوگا اتنا انعام اُس کو مل جائے گا۔اور کوئی وجہ جو کسی کے غیر مجرم بنانے کی ہو اُسے نظر انداز نہیں کیا جا ئیگا۔لیکن چونکہ اس سے پہلے اسلامی شریعت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس میں کوئی حکم ایسا نہیں جو ناقابل عمل ہو بلکہ ہر طبیعت اور فطرت کا انسان اس پر عمل کر سکتا ہے اس لئے وَلَدَیْنَا کِتٰب’‘ سے درحقیت قرآن کریم ہی مراد ہے اور اللہ تعالیٰ اس میں اسلامی شریعت کی بعض اور خصوصیات پر روشنی ڈالتا ہے ۔مفردات ِ امام راغب ؒ جو قرآنی لغت کی ایک مشہور کتاب ہے اُس میں حق کے معنوں پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کے ایک معنے اُس چیز کے بھی ہوتے ہیں جو حکمت کے مطابق ہو ۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ فِعْلُ اللّٰہِ تَعَالٰی کُلُّہ‘ حَقُّ یعنی اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت پر مبنی ہے ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سورج اور چاند کی پیدا ئش کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ مَاخَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالْحَقِّ (یونس ۱ ع) اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو حق و حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے ۔یعنی ان چیزوں کی پیدائش بلاوجہ نہیں کی گئی بلکہ ان میں بڑی بھاری حکمتیں رکھی گئی ہیں ۔
پھر وہ لکھتے ہیں کہ حق کا لفظ اکمال شریعت کے معنوں میں بھی استعمال ہو تا ہے ۔جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ‘ بِالْھُدٰی۔۔۔۔۔۔وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ( سورۂ صف ۱ ع)یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اس کو تمام دنیوی پر غالب کرے خواہ مشرک لوگ دین کے اس غلبہ کو کتنا ہی نا پسند کریں ۔اس جگہ اسلام کو دین الحق انہی معنوں میں قرار دیا گیا ہے کہ یہ دین باقی تما م ادیان پر اپنی کامل شریعت کے لحاظ سے غلبہ اور تفوق رکھتا ہے ۔ان معانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے وَلَدَیْنَا کِتٰب’‘ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ کے ایک معنے یہ ہونگے کہ ہمارے پاس وہ کتاب ہے جس کے تمام احکام حکمت پر مبنی ہیں اور دوسرے معنے یہ ہونگے کہ ہمارے پاس وہ کتاب ہے جو تما م شریعتوں پر اپنے کامل ہونے کے لحاظ سے افضلیت رکھتی ہے ۔اور یہ دونوں خوبیاں ایسی ہیں جو دنیا کی کسی اور کتاب میں نہیں پائی جاتیں ۔
جہاں تک حکمت اور فلسفہ کا سوال ہے اس آیت سے یہ نتیجہ مستنبط ہوتا ہے کہ اسلام کے سارے قانون کوئی نہ کوئی خوبی اپنے اندر رکھتے ہیں ۔وہ صرف حکم کے طورپر نہیں دئیے گئے بلکہ انسانی مقاصد اور ضروریات کو مدّنظر رکھتے ہوئے دئیے گئے ہیں۔دنیا میں بعض دفعہ ایک آقا اپنے نوکر کو حکم دے دیتا ہے کہ یوں کرو ۔مگر اس میں کوئی حکمت نہیں ہوتی یا سزا کے طورپر وہ بعض احکام دے دیتا ہے مگر ان کے پس پردہ بھی کوئی حکمت کام نہیں کر رہی ہوتی ۔مثلاً بعض لوگ جب کسی کو سزا دینا چاہئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جائو ۔اب دیوار کی طرف منہ کر انے میں کوئی حکمت نہیں ہوتی محض دوسرے کی تذلیل مدّنظر ہوتی ہے لیکن اسلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس میںجس قدراحکام دئیے گئے ہیں اُن میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہے کوئی نہ کوئی غرض ہے جس کو مدّنظر رکھتے ہوئے وہ احکام دئیے گئے ہیں ۔کوئی حکم نہیں دیا گیا مگر اسی صورت میں کہ اُس کا فائدہ بنی نوع انسان کو پہنچ سکتا تھا اور کسی بات سے نہیں روکا گیا مگر اُسی صورت میں کہ اُس کا نقصا ن بنی نوع انسان کو پہنچ سکتا تھا اور یہ اسلامی شریعت کی باقی تما م شریعتوں کے احکام کسی حکمت اور فلسفہ کے ماتحت نہیں ۔مگراسلام نے کوئی حکم بھی ایسا نہیں دیا جس میں کوئی حکمت اور غرض مدّنظر نہ ہو۔مثلاً نماز کو ہی لے لو ۔اللہ تعالیٰ نے اگر ایک طرف ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے تو اُسکے ساتھ ہی اُس نے نماز کا فائدہ بھی بیان کر دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ ( عنکبوت ۵ع )نماز انسان کو بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے ۔یعنی نماز میں ایسی تعلیمیں دی گئی ہیں اور ایسے اعلیٰ اور بلند مقاصد انسان کے سامنے رکھے گئے ہیں کہ اگر انسان صحیح طورپر نماز پڑھے تو یقینا وہ فحشاء اور منکر سے بچ جائے گا۔فَاحِشَۃ’‘ کے معنے ہوتے ہیں مَاشْتَدَّ تُبْحُہ‘ مِنَ الذُّنُوْبِ (اقرب)ہر وہ غلطی جو بہت ہی معبوب ہو اور جس کا عیب اتنا ظاہر ہو کہ لوگ اس کی طرف انگلیاں اٹھانے لگ جائیں اور کہنے لگیں کہ دیکھو یہ کتنی بری حرکت ہے اور مُنْکَر’‘ کے معنے ہوتے ہیں مَالَیْسَ فَیْہِ رِضَیَ اللّٰہِ مِنْ قَوْلٍ اَوْفِعْلٍ ( اقرب) ہر ایسا قول یا فعل جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہو ۔یہ نماز کا فائدہ ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا ۔اب اگر ہم اور احکام کو جانے دیں اور صرف اسی حکم پر غور کریں ۔تو اس حکم میں ہی ہمیں اسلام کی فضیلت نہایت نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے ۔اور ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ واقعہ میں اگر کوئی شخص سچے دل سے نمازیں پڑھے تو وہ فحشاء اور منکر سے بچ جائیگا۔ہر مسلمان دن رات میں پانچ نمازیں پڑھتا ہے اور ہر نماز میں کچھ فرض ہوتے ہیں کچھ سُنتیں ہوتی ہیں اور کچھ نوافل ہوتے ہیں ۔اور پھر تہجد اور اشراق وغیرہ کی بھی نمازیں ہیں ۔ان سب نمازوں میں وہ سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے اور نماز کی ہر رکعت میں اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کرتا ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔ یعنی اے خدا ! میر ی زندگی میں بعض کام بُرے ہونگے اور بعض اچھے ہونگے بعض ایسے ہونگے جو پسندیدہ ہونگے اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے مطابق ہونگے اور بعض ایسے ہونگے جو نا پسندیدہ ہونگے اور اخلاقی معیار سے گِرے ہوئے ہونگے ۔الٰہی میری دُعا تجھ سے یہ ہے کہ تُو ہمیشہ میرا قدم ایسے راستہ پر رکھئیو جو صراط مستقیم ہو جس پر چلنے کے نتیجہ میں کسی قسم کا ظلم نہ ہو ۔کسی قسم کی تعدی نہ ہو۔کسی قسم کی بے حیائی نہ ہو اور جس پر چل کر میں ہر قسم کے نقصانات سے محفوظ رہوں ۔اب جو شخص دن رات اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کرتا رہیگا اور دُعا بھی سچے دل سے کرے گا وہ برائیوں اور گناہوں میں ملوث ہی کس طرح ہو سکتا ہے ۔اگر اس کے سامنے شہوات کاسوال آئیگا تو فوراً اُس کے دل میں خیال پیدا ہو گا کہ میں سیدھے راستہ پر چلوں یعنی شہوات کو پورا کرنے کے جو حلال طریق اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں اُنکو اختیار کروں ۔ناجائز اور حرام راستہ اختیار نہ کروں ۔کھانے پینے کا سوال آئیگا تو فوراً اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم آجائیگا کہ کُلُوْا وَشْرَبُوْ وَلَا تُسْرِفُوْا ( اعراف ۳ ع)کھائو اور پئیو مگر اسراف سے کام نہ لو ۔معاملات کی طرف آئیگا تو فوراً اس کے سامنے یہ بات آجائیگی کہ میں نے دھوکا باز ی نہیں کرنی ۔دغا اور فریب سے کام نہیں لینا کیونکہ ایسا کرنا ظلم ہے ۔غرض جو شخص یہ سمجھ کر دُعا کر یگا کہ میں نماز پڑھ رہاہوں تمسخر نہیں کررہا ۔ہنسی نہیں کر رہا ۔دین سے تلّعب نہیں کر رہا وہ کھانے پینے کے معاملات میں دوستوں کے تعلقات میں ۔بیوی بچوں سے سلوک کرنے میں ۔شہریت کے حقوق اور فرائض ادا کرنے میں ۔غیر ممالک اور اقوام سے تعلقات رکھنے میں ہمیشہ یہ غور کرتا رہیگا کہ میں وہ راستہ اختیار کروں جو سیدھا ہے اور جس میں کسی قسم کی کجی نہیں پائی جاتی ۔آخر جو شخص خدا سے کچھ مانگے گا وہ خود اُس کے مطابق عمل کرنے کیلئے کیوں تیار نہیں ہو گا؟ کیا کوئی شخص کبھی یہ دُعا کیا کرتا ہے کہ یا اللہ مجھے ہیضہ ہو جائے ؟ وہ کیوں یہ دعا نہیں کرتا اس لئے کہ وہ ہیضہ کو بُرا سمجھتا ہے ۔اگر وہ اچھا سمجھتا تو اللہ تعالیٰ سے ضرور مانگتا ۔پس وہی چیز انسان اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے جسے وہ اہنے لئے اچھا سمجھتا ہے ۔اور جب وہ کسی چیز کو اچھا سمجھے گا تو لازمًا اُس کو حاصل کرنے کی کوشش بھی کریگا ۔پھر یہیں تک بس نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ الٰہی مجھے سیدھے راستے پر چلا بلکہ وہ ساتھ ہی یہ دُعا بھی کرتا ہے کہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔ الٰہی میر ی یہی خواہش نہیں کہ تُو مجھے سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔بلکہ میری یہ بھی خواہش ہے کہ تو مجھے اُن لوگوں کے راستہ پر چلا جو تیرے دربار میں خاص طور پر مقرب ہیں ۔میں عام لوگوں کے راستہ پر بھی نہیں چلنا چاہتا ۔میں درمیانی درجہ کے لوگوں کے راستہ پر نہیں چلنا چاہتا بلکہ میں اُن اعلٰی درجہ کے لوگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی خواہش رکھتا ہوں جنہوں نے تجھ سے انعامات حاصل کئے اور جو منعم علیہ گروہ میں شامل ہوئے ۔دوسری جگہ اللہ تعالیٰ منعم علیہ گروہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے ۔اُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْھِمْ مِنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَٓائِ وَالصَّالِحِیْنَ ( نساء ۹ ع)
یعنی منعم علیہ گروہ وہ ہے جس میں نبی صدیق شہید اور صالح شامل ہیں ۔پس یہی نہیں کہ ہر مومن نماز میں پانچ وقت اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کرتا ہے کہ یا اللہ مجھے بدی سے بچا ۔یہی نہیں کہ ہر مومن نماز میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہے کہ یا اللہ مجھے نیکی کی توفیق عطا فرما بلکہ ہر مومن نماز میں اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کرتا ہے کہ یا اللہ مجھے موسیٰ ؑ اور عیٰسی ؑ والی نیکی دے ۔یا اللہ مجھے اُسی طرح گناہ سے بچا جس طرح تُو نے نوحؑ اور یعقوب ؑ اور یوسف ؑ اور دوسرے انبیاء کو بچا یا ۔یہ کتنا بلند مقام ہے جس کو حاصل کرنے کی دُعا سکھائی گئی ہے اور کتنا جوش ہے جو اس میں پایا جاتا ہے ۔اگر کوئی شخص سچے دل سے نماز پڑھتا ہے تو لازمی طور پر وہ اس مقام کے حصول کیلئے کچھ تو جدوجہد کریگا ۔اور جب وہ جدو جہد کریگا تو لازمی طورپر وہ اُن دوسروں کی نسبت جن کے دلوں میں یہ جوش نہیں پایا جاتا بہتر حالت میں ہوگا۔اور اس دُعا کے نتیجہ میں وہ ہر قسم کی بدیوں سے بچ جائیگا ۔اور ہر قسم کی نیکیوں کو حاصل کر لے گا ۔پھر ہمیں کہا گیا ہے کہ ہم نماز میں اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کیا کریں کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ اے خدا ’’ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور اے خدا ہم تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں ۔‘‘ اسی طرح اگلی آیت میں یہ دُعا سکھائی گئی ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیْمَ ۔ اے خدا ہم کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما ۔اب نماز میں دُعا مانگنے والا شخص تو ایک ہوتا ہے مگر وہ بار بار ہم کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔وہ کہتا ہے اے خدا ’’ ہم تیری عبادت کرتے ہیں ہم تجھ سے مدد طلب کرتے ہیں ۔’ہم‘ تجھ سے دُعا کرتے ہیں کہ ’ہم ‘ کو سیدھے راستہ دکھا ۔ہمیں غور کر نا چاہئیے کہ اس سے کیا مراد ہے اور کیوں ہمیں بار بار ہم لفظ استعمال کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔اگر ہم سوچیں تو ہمیںتسلیم کرنا پڑیگا کہ یا تو اس سے ساری دنیا کے لوگ مراد ہیں یا سارے مسلمان مراد ہیں یا سارے شہر والے مراد ہیں یا سارے محلہ والے مراد ہیں یا اپنی حکومت کے سب افراد مراد ہیں ۔بہر حال جب ایک شخص نماز میں ہم کا لفظ استعمال کرے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ اپنی دعامیں اُن لوگوں کو بھی شریک کرتا ہے جو اس کے علاوہ ہیں ۔وہ نماز میں بڑے جوش اور درد سے یہ دُعا کر رہا ہوتا ہے کہ الٰہی ہماری مدد کر ۔الٰہی ہمیں سیدھا راستہ دکھا ۔الٰہی ہمیں بدیوں سے بچا ۔الٰہی ہمیں اعلیٰ درجہ کی نیکیوں کی توفیق عطا فرما اور اُس کے پاس کھڑا ہوا ایک دوسرا شخص یہ خیال کر رہا ہوتا ہے کہ نماز جلدی ختم ہو تو میں گھر جائوں ۔میں نے جانوروں کو چارہ ڈالنا ہے ۔یا میری بیوی بیمار ہے اُس کے لئے ڈاکٹر سے دوائی لانی ہے ۔وہ بظاہر نماز پڑھ رہا ہوتا ہے لیکن درحقیقت اس کی وجہ کسی اور طرف ہوتی ہے اگر اُس کے ساتھ کھڑا ہونے والا مومن بندہ اپنی دعا میں اُسے بھی شریک کر رہا ہوتا ہے جسے نماز کا کچھ بھی خیال نہیں ہوتا جسے نماز میں بھی خدا یاد نہیں آتا۔اور وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ یا اللہ تواسے بھی ہدایت دے یا اللہ تو اسکے سینہ کو بھی نیکی کیلئے کھو ل دے ۔پھر جب ہم نماز میں ’ہم ‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس میں ہمارے محلہ والے بھی شریک ہوتے ہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ محلہ والوں میں سے چند آدمی تو نماز کیلئے مسجد میں آجاتے ہیں لیکن باقی آدمی اپنے اپنے کاروبار میں مشغول رہتے ہیں اور پھر اُنکی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ بات بات پر جھوٹ بولتے ہیں کوئی شخص قسم کھا کر کہہ رہا ہو تا ہے کہ میں نے چار آنے کو یہ چیز لی تھی جو سوا چار آنے کو فروخت کر رہا ہوں اور صرف ایک پیسہ نفع لے رہا ہوں ۔حالانکہ اُس نے وہ چیز صرف ڈیڑھ آنہ میں لی ہوتی ہے اور اُس کا کہنا کہ میں نے چار آنہ کو یہ چیز لی تھی محض جھوٹ ہوتا ہے ۔کوئی شخص کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ بالکل خالص گھی ہے حالانکہ اُس گھی میں اُس نے خود چربی ملائی ہوتی ہے۔غرض اُس کے دل کے کسی گوشہ میں بھی خداتعالیٰ کی خشیت نہیں ہوتی مگر ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جاتے ہیں تو کہتے ہیں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ خدا یا ہمارے محلہ کے وہ آدمی جو غلطی سے نماز میں نہیں آئے اور جو جھوٹ بول بول کر اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں تو اُن کو بھی ہدایت دے اور انہیں سیدھے راستہ پر چلا۔اگر کوئی شخص اس طرح غور کرکے نماز پڑھے تو اس کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت کس قدر بڑھ جائیگی ۔اُنکی اصلاح کا جذبہ اُس کے دل میں کسقدر ترقی کر جائیگا اور وہ کس قدر تڑپ رکھے گا کہ سب لوگ راہ راست پر آجائیں اور ہر قسم کی بدیوں اور گناہوں سے محفوظ ہو جائیں پھر جو شخص اپنے ہمسایوں اپنے محلہ والوں اور اپنے شہر والوں کیلئے اس طرح دُعائیں کریگا ضروری ہے کہ اس کی یہ دعائیں کسی دن قبول ہو ں اور اُن کو ہدایت میسر آجائے ۔آخر ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ دعا کبھی قبول نہیں ہو سکتی اگر اس دعا نے قبول ہی نہیں ہونا تھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا ہمیں سکھائی کیوں ؟ اس کا سکھا نا بتا تا ہے کہ یہ دعا قبول ہونے والی ہے ۔اور جب یہ دعا قبول ہونے والی ہے تو ضروری ہے کہ اس دعا کے نتیجہ میں کسی دن دوسرے کو ہدایت میسر آجائے ۔کبھی کسی واعظ کا وعظ سن کر ہدایت حاصل ہو جاتی ہے ۔اور کبھی گھر میں کوئی مصیبت آتی ہے تو انسان اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جا تا ہے ۔بہر حال کسی نہ کسی ذریعہ سے جب بھی دوسرے شخص کو ہدایت میّسر آئیگی تو چونکہ یہ ہدایت اس دعا کے نتیجہ میں ہو گی اس لئے نماز صرف نماز پڑھنے والے کو ہی بدیوں سے روکنے والی نہیں ہوگی بلکہ دوسروں کو بھی بدی اور بے حیائی کے کاموں سے روکنے والی بن جائیگی ۔پھر اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ میں صلٰوۃ کے معنے جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ہیں وہاں اس کے ایک معنے دعا کے بھی ہیں اور اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ یہ نماز جو ہم نے تمہیں سکھائی ہے اپنے دونوں معنوں کے لحاظ سے فحشاء اور منکر سے بچاتی ہے ۔اگر عبادت مراد لو تو جب کوئی شخص اخلاص اور محبت سے خداتعالیٰ کی درگاہ میں بار بار جائیگا تو لازمی طور پر وہ کوشش کریگا کہ میں بُرائی اور بے حیائی کے کاموں سے الگ رہوں اور اس طرح نماز اُسے گناہوں سے محفوظ کرنے والی بن جائیگی۔اوراگر دعا مراد لو تب بھی نماز انسان کو فحشاء اور منکر سے بچانے والی ہے کیونکہ نماز میں بار بار یہ دعائیں آتی ہیں کہ الٰہی مجھ پر بھی رحم فرما۔میرے ہمسایہ پر بھی حرم فرما ۔میرے اہل ِ ملک پر بھی رحم فرما ۔میرے دوستوں اور عزیزوں پر بھی رحم فرما ۔اگر ساری عمر میں ایک دفعہ بھی یہ دعا قبول ہو جائے تو کم از کم اس کے ذریعہ ایک آدمی تو ضرور ہدایت پا جائیگا ۔اور اس طرح یہ نماز جہاں خود اُس کی ذات کیلئے ہدایت کا موجب ہو گی وہاں دوسرے لوگوں کیلئے بھی ہدایت کا موجب بن جائیگی ۔اور انہیں فحشاء اور منکر سے بچانے والی ہوگی ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر آج ساٹھ کروڑ مسلمان سچے دل سے نماز یں پڑھنے لگ جائیں ۔اور ایک شخص کی دعا سے ایک شخص کو ہی ہدایت میّسر آجائے ۔تب بھی ساٹھ کروڑ مسلمان اس دعا کی بر کت سے ایک ارب بیس کروڑ بن جاتے ہیں ۔اور اسلام کے غلبہ اور اُس کی شوکت میں کوئی کسر باقی نہیں رہتی ۔اس موقعہ پر بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم تو نمازوں میں دعائیں مانگتے ہیں مگر ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئیے کہ یہ دعا کا قصور نہیں ۔دعا مانگنے والے کا قصور ہے ۔وہ مانگ یہ رہے ہوتے ہیں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔مگران کے دلوں میں دعائوں کی قبولیت کا کوئی یقین نہیں ہوتا۔اور جب انہیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین ہی نہ ہو تو وہ انہیں دے کیوں ؟ جب آپ ہی وہ اللہ تعالیٰ پر بدظنی رکھتے ہوں اور جب آپ ہی وہ اُس کی طاقتوں کے منکر ہوں تو اللہ تعالیٰ اُن کی دعا کو قبول کیوں کرے؟ اس کے مقابلہ میں رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ نے بھی یہی کہا تھا کہ الٰہی ہمیں سیدھا راستہ دکھا ۔مگر اس کے نتیجہ میں سارا عرب مسلمان ہو گیا۔سارا شام مسلمان ہوگیا ۔سارا فلسطین مسلمان ہو گیا ۔سارا مصر مسلمان ہو گیا ۔ساراا یران مسلمان ہو گیا ۔آخر فلسطین اور شام اور مصرا ور ایرا ن اور عراق کے لوگوں کو اس زمانہ کے لوگوں سے کوئی علیحٰدہ دماغ تو نہیں ملا ہوا تھا جو بدیاں آج یورپ اور امریکہ میں پائی جاتی ہیں وہی اُن لوگوں میں پائی جاتی تھیں ۔پھر اُن لوگوں کو کیوں ہدایت ملی ؟ اسی لئے کہ اُس زمانہ میں مسلمان نمازیں پڑھتے تھے تو وہ یقین رکھتے تھے کہ خدا تعالیٰ ہماری دعائوں کو سُننے والا اور حقیقت یہ ہے کہ دل میں درد بھی اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان کو خداتعالیٰ کی ذات پر یقین کامل ہو ۔فرض کرو ایک شخص پر ڈاکو حملہ کرتا ہے اور وہ اُس سے ڈر کر بھاگتا ہے اور اپنی حفاظت اور بچائو کیلئے ایک مکان کے پاس پہنچ کر دستک ریتا اور زور زور سے مالک مکان کو آوازیں دیتا ہے توجس درد سے وہ اُس وقت یہ کہہ رہا ہوگا کہ خدا کے واسطے دروازہ کھولو وہ بالکل اور قسم کا ہوگا ۔لیکن اگر وہی شخص بھاگتے ہوئے ایک چٹان کی طرف چلا جاتا ہے اور یونہی اُ س ڈاکو کو ڈرانے کیلئے آوازیں دینا شروع کر دیتا ہے کہ دروازہ کھولو تو چونکہ وہ جانتا ہوگا کہ اس جگہ کوئی آدمی نہیں اس لئے باوجود اس کے کہ وہ کوشش کریگا کہ زور زور سے آوازیں دے اور ڈاکو پر اثر ڈالے کہ میں کسی آدمی کو اپنی مدد کیلئے بلا رہا ہوں پھر بھی اس کی آواز میں درد نہیں ہوگا کیونکہ وہ جانتا ہوگا کہ یہاں آدمی کوئی نہیں ۔میں محض ڈرانے کیلئے یہ شور مچا رہا ہوں ۔اسی طرح اگر کوئی شخص اس اخلاص سے نمازیں پڑھتا ہے کہ واقعہ میں خدا میری دُعائوں کو سن رہا ہے تو اُس کے اندر جو درد اور جوش پیدا ہو گا وہ اُس شخص کے اندر کہاں پیدا ہو سکتا ہے جو محض بناوٹ اور ریاء کے لئے نمازیں پڑھتا ہے اور دل میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اُس کی قدرتوں پر کوئی یقین نہیں رکھتا ۔اسی طرح روزہ ہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے روزے تم پر اس لئے فرض کئے ہیں کہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ تا کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو ۔روزہ کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ پانی ہمارے گھر میں موجو د ہوتا ہے ۔روٹی ہمارے گھر میں موجود ہوتی ہے مگر ہم محض خدا تعالیٰ کی رضا کیلئے اپنے گھر کے پانی اور اپنے گھر کی روٹی کو چھوڑ دیتے ہیں ۔اب جو شخص سچے دل سے روزہ رکھے گا اور خداتعالیٰ کی رضا کیلئے اپنی روٹی اور اپنے پانی کو بھی چھوڑ دیگا وہ دوسرے کی روٹی کیوں کھائے گا ۔جس شخص کے اندر اتنا اخلاص پیدا ہو جائے کہ وہ خداتعالیٰ کی رضا کیلئے اپنا مال بھی استعمال نہ کرے وہ کب یہ کوشش کر سکتا ہے کہ دوسروں کے اموال کو لوٹ لے ۔دوسروں کے مال کو لوٹنے کی وہی شخص کوشش کرتا ہے جو روزہ نہیں رکھتا یا روزہ تو رکھتا ہے مگر صرف رسمی طور پر رکھتا ہے ۔روزہ کی حقیقت اور اُس کی غرض کو مدنظر نہیں رکھتا ۔اور ایسا روزہ درحقیقت کوئی روزہ نہیں ۔خود رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ روزہ یہ نہیں کہ تم بھوکے اور پیاسے رہو اور عملی طور پر دنگا اور فساد کرتے رہو یا گالی گلوچ سے کام لیتے رہو ۔اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم روزہ نہیں رکھتے بلکہ محض بھوکے پیا سے رہتے ہو ۔
اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے کہ لوگ قربانیاں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ محض ان قربانیوں کی وجہ سے ہمارا خدا ہم سے راضی ہو جائیگا ۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَادِ مَآ ؤ ُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْویٰ مِنْکُمْ ( حج ۵ ع) قربانی کا گوشت ہمارے پاس نہیں آتا بلکہ قربانیوں کے ساتھ جس قدر تقویٰ تمہارے دل میں ہوتا ہے وہ ہمارے پاس آتا ہے ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ فَاِذَ وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوْالْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ (حج ۵ ع)یعنی جب قربانی کے جانوروں کے پہلو زمین پر لگ جائیں تو ان کا گوشت تم خود بھی کھائو اور اُنکو بھی کھلائو جو اپنی غربت سے پریشان ہیں ۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کا فلسفہ بیان کر دیا ہے اور بتا یا ہے کہ ہم نے تمہیں اس کا کیوں حکم دیا ہے ۔کئی لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ قربانی میں کیا رکھا ہے ۔سارا سال جب لوگ گوشت کھاتے رہتے ہیں تو ایک خاص دن جانوروں کو قربان کرنیکا حکم دینے کے معنے ہی کیا ہوئے؟ایسے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ قربانی کا حکم اللہ تعالیٰ نے غرباء کو مدنظر رکھتے ہو ئے دیا ہے۔جنہیں اور دنوں میں بہت کم گوشت کھانے کو میسر آتا ہے ۔امراء تو سال بھر گوشت کھاتے رہتے ہیں لیکن غرباء نے بعض دفعہ مہینوں گوشت کی شکل تک نہیں دیکھی ہوتی ۔ایسے لوگوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے حج کے موقعہ پر عقیقہ کے موقع پر اور شادی بیاہ کے موقعہ پر قربانی کر نیکا حکم دے دیا ۔احادیث میں ذکر آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک صحابیؓ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے شادی کر لی ہے آپ نے فرمایا تم نے کسی کنواری لڑکی سے شادی کی ہے یا بیوہ سے اُس نے کہا یا رسول اللہ ! میرے بھائی یتیم رہ گئے تھے میں نے اُن کی پرورش کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بیوہ سے شادی کی ہے تاکہ اُن کی بھی پرورش ہو جائے اور بیوہ سے شادی کر نیکا ثواب بھی مجھے مل جائے ۔آپ نے فرمایا تم نے بڑے ثواب کی بات کی ہے لیکن دیکھو اَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ اب ولیمہ کرو خواہ تمہیں ایک بکری ہی مل جائے۔یعنی اگر زیادہ جانور خریدنے کی تم میں استطاعت نہیں تو کم از کم ایک بکری ہی ذبح کر کے ولیمہ کر دو۔اسی طرح اسلام نے عقیقہ کے موقعہ پر جانوروں کی قربانی کا حکم دیا ہے بعض گناہ ایسے ہیں جن کا کفارہ اسلام نے یہی قرار دیا ہے کہ جانوروں کو قربان کیا جائے صدقۃ الفطر میں بھی یہی حکمت ہے کہ عید کے موقعہ پر غرباء اس روپیہ سے اپنے لئے گوشت وغیرہ خرید سکتے ہیں ۔اگر اسلام میں قربانیوں کے یہ احکام نہ ہوتے تو امراء آپ ہی گوشت کھاتے رہتے اور غرباء کا انہیں کبھی خیال بھی نہ آتا۔
غرض جس قدر احکام اسلام میں پائے جاتے ہیں ان سب میں حکمتیں ہیں اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ وَلَدَیْنَا کِتٰب’‘ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ ہمارا کوئی حکم ایسا نہیں جس میں کوئی حکمت اور فلسفہ نہ ہو اور جس کا کسی نہ کسی رنگ میں بنی نوع انسان کو کوئی نہ کوئی فائدہ نہ پہنچتا ہو ۔یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ لوگ تو قرآنی احکام پر عمل کریں اور انہیں نقصان ہو ۔ان احکام پر عمل کرنے کے نتیجہ میں ہمیشہ فائدہ ہی فائدہ انکو ہوگا اور برکت ہی برکت ان کو ملے گی ۔
دوسرے معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ یہ کتاب ایک کامل شریعت کی حامل ہے اور اس کی کوئی تعلیم ایسی نہیں جو مرورِ زمانہ سے باطل ہو سکے۔بلکہ ہر زمانہ میں اس کے پیش کر دہ نظریات دنیا پر غالب رہیں گے اور کبھی ایسا وقت نہیں آئیگا کہ دنیا کو اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو ۔چنانچہ لغتِ عرب میں حق کے ایک معنے اَلْمَوْجُوْدُ الثَّا بِتُ کے بھی لکھے ہیں یعنی ایسی چیز جو مضبوط اور قائم رہنے والی ہو ( اقرب) ۔اسی طرح اس کے ایک معنے اَلْاَمْرُ الْمَقْضِیُّ کے بھی ہیں یعنی قطعی اور فیصل شدہ امر۔اور فیصل شدہ بات وہی ہوتی ہے جس میں کوئی تبدیلی نا ممکن ہو اور قائم بھی اسی چیز کو رکھا جاتا ہے جو اپنی ذات میں مکمل ہو ۔پس وَلَدَیْنَا کِتٰب’‘ یَّنْطِقُ بِا لْحَقِّ میں قرآ ن کریم کی اکملیت کا دعویٰ کیا گیا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ یہ دنیا کیلئے آخری اور کامل ہدایت نامہ ہے ۔جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر اس دعویٰ کو ان الفاظ میں بیا ن کیا گیا ہے کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ رَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ( مائدہ ۱ ع) یعنی آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت کا تم پر اتمام کر دیا ہے اور تمہارے لئے اسلام کو ایک دین کے طور پر پسند کر لیا ہے ۔یہ آیت رسول کریم ﷺ پر حجۃ الوداع کے موقعہ پر نازل ہوئی تھی ۔یہ موقع وہ تھا جب مکہ فتح ہو چکا تھا اور رسول کریم ﷺ اور آپ کی جماعت کیلئے حج اور عمرہ کھل چکا تھا ۔آپ نے جو آخری حج فرمایا اور جس کے اسّی دن بعد آپ وفات پا گئے اسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔اس میں رسول کریم ﷺ نے بہت سی ایسی باتیں کہیں کہ صحابہ ؓ کہتے ہیںہم حیرا ن ہو تے تھے کہ رسول کریم ﷺ یہ باتیں کیوں فرما رہے ہیں ۔مگر جب آپ حجۃ الوداع کے صرف اسّی دن کے بعد وفات پاگئے تب ہمیں معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو وفات کی خبر مل چکی تھی اور آپ مسلمانوں کو اُس وقت آخری نصیحتیں کر رہے تھے ۔اُس وقت آپ نے فرمایا ۔اے مسلمانو! میں تمہیں نصیحت کرتا ہو ں کہ تم اپنی عورتو ں سے اچھا سلوک کیا کرو ۔اے مسلمانو ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنے غلامو ں اور نوکرو ں سے اچھا سلوک کیا کرو۔پھر آپ نے فرمایا آپس میں قوموں کا لڑنا بہت ہی بُرا اور نا پسندیدہ امر ہے۔میں چاہتا ہوں کہ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ کی حرمت کے متعلق بعض احکام دئیے تھے اسی طرح میں بھی تمہیں بعض احکام دوں ۔چنانچہ آپ نے فرمایا ۔میں اس امر کا اعلان کرتا ہوں کہ ہر مسلما ن کی جان اور مال اور عزت اسلامی شریعت لے لحاظ سے محفوظ ہے اس لئے کسی مسلمان کی جان اور مال اور عزت کو تمہارے ہاتھو ں سے نقصان نہیں پہنچنا چاہیئے ۔ چونکہ عربوں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر دیر تک لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں اس لئے آپ نے اُن کا بھی ذکر کیا اور فرمایا یہ لڑائیا ں کبھی تو ختم ہو نی چاہئیںورنہ قوم میں کبھی اعلیٰ اخلاق پیدا نہیں ہو سکتے چنانچہ آپ نے فرمایا ۔آج کے د ن میں اس مقام پر کھڑے ہو کر اُ ن تمام لڑائیوں کو ختم کرنے کا اعلان کرتا ہوں جو جاہلیت سے چلی آرہی ہیں ۔اُس کے ساتھ ہی آپ نے زمین پر اپنا پائو ں مارا اور فرمایا میں اُن تمام لڑائیو ں کو اپنے پائو ں کے نیچے مسلتا ہو ں ۔اب پرانی رنجشوں اور لڑائیو ںکی وجہ سے کسی سے بدلہ لینا ہر گز جائز نہیں ہوگا۔اسی مقام پر آپ نے یہ آیت بھی پڑھی اور فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ۔بعض صحابہ ؓ اور بہت سے مفسرین کا قول ہے کہ قرآ ن کریم کی یہ آخری آیت ہے جو رسول کریم ﷺ پر نازل ہوئی ۔اس کے بعد کوئی اور کلامِ الٰہی نازل نہیں ہوا ۔لیکن بعض نے اس سے اختلاف بھی کیا تھا ۔بہر حال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ نہایت ہی آخری آیتوں میں سے ایک آیت ہے ۔اگر یہ سب سے آخر میں نازل نہیں ہوئی تو آخرمیں نازل ہونے والی چند آیتوں میں سے ایک آیت ضرورہے ۔اس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شریعت کو مکمل کر دیا گیا ہے ۔اب کو ئی نیا حکم نازل نہیں ہو گا اور نہ کوئی ایسا حکم نازل ہو گا جو ان حکموں کو بدل سکے ۔اس سے معلوم ہوا کہ شریعت ِ اسلامی ہر لحاظ سے مکمل ہے اور اس کا قانون آخری قانون ہے ہندو ہمار ے اس دعویٰ کو مانیں یا نہ مانیں ایک مسلما ن کو بہرحال یہ ماننا پڑیگا کہ احکامِ شریعت کو
قرآ ن کریم میں مکمل کر دیا گیا ہے ۔اور دنیا کو جتنے قوانیں کی ضرورت تھی وہ سب اس میں بیا ن کردئیے گئے ہیں ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسے قوانین بن سکتے ہیں جو وقتی اور مقامی طور پر ضروری ہو۔ایسے قانون بھی بن سکتے ہیں جو عارضی مشکلات کو دور کرنیوالے ہوں ۔جیسے حکومتوں کی آپس میں لڑائیاں ہوں تو انہیں اپنے جھگڑوں کو نپٹانے کیلئے بعض قوانین بنانے پڑتے ہیں یہ شریعت کا کام نہیں کہ وہ یہ بتائے کہ اگر امریکہ اور سپین میں جھگڑا ہو تو اس جھگڑے کو اس طرح دُور کیا جائے ۔لیکن جہا ں تک اُن امور کا سوال ہے جن میں قرآن کریم دخل دیتا ہے اور جہاں تک اُن اُمور کا سوال ہے جن میں مذہب کو اس بات کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے کہ وہ ہدایت دے اُن تمام اُمور کو قرآ ن کریم میں بیان کردیا گیا ہے ۔کسی کو بالتفصیل اور کسی کو بالاجمال۔اور اس کا نتیجہ یہ بیان فرمایا ہے کہ میں نے اپنا انعام تم پر مکمل کر دیا ہے ۔
احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ دربار لگائے بیٹھے تھے اور عیسائی اور یہودی بھی وہاں موجود تھے کیونکہ وہ سب آپ کی رعایا بن چکے تھے کہ آپ نے اس آیت کا ذکر کیا ۔ایک یہودی یہ آیت سُن کر کہنے لگا کہ اگر ہم پر ایسی آیت نازل ہوتی تو ہم اسے اپنے لئے عید کا دن قرار دے لیتے۔حضرت عمر ؓ نے فرمایاتمہیں معلوم نہیں جب یہ آیت نازل ہوئی تھی تو وہ جمعہ کا دن تھا اور حجۃ الوداع کا موقعہ تھا ۔اور یہ دونوں ہمارے لئے عید کا دن تھے ۔تم تو کہتے ہو کہ ہم اس آیت کے نازل ہونے پر آپ عید مقرر کرتے۔مگر ہم نے یہ عید خود تجویز نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود ایک ایسے د ن اس آیت کو اتارا جس میں ہمارے لئے دو عیدیں جمع تھیں یعنی جمعہ کا د ن بھی تھا اور حج کا بھی موقعہ تھا ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت کے ساتھ یہ امر بیان فرمایا ہے کہ ہم نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے۔اب مسلمانوں کی کوئی ضرورت ایسی نہیں جس کو پورا کرنے کا سامان انہیں باہر سے لانا پڑے ۔سارے احکام قرآ کریم میں بیان کر دئیے گئے ہیں اور ساری برکت ان احکام پر عمل کرنے میں ہے کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں کو کوئی ضرورت ہو اور وہ انہیں باہر سے پُوری کرنی پڑے۔اسی مضمون کی مزید وضاحت سورۂ مائدہ کی ان آیات میں بھی کی گئی ہے کہ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لَایَھْدِی الْقَوْمَ الظَّلِمِیْنَ ۔ (سورۂ مائدہ ۷ ع)یعنی ہم نے تمہاری طرف ایک کامل کتاب نازل کی ہے اور اُس کے ساتھ ہر قسم کی ثابت شدہ حقیقتیں نہایت کھول کر بیان کر دی ہیں اور جو الہامی کتب اس سے پہلے نازل ہو چکی ہیں یہ کتاب اُن کی پیشگوئیوں کو پُورا کرنے والی اور اُنکی اعلیٰ تعلیموں کو محفوظ رکھنے والی ہے ۔پس جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اُتارا ہے اس کے مطابق تم لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرو ۔اور اگر دوسرے لوگ اپنے پاس سے کچھ سکیمیں بنا کر تمہارے پاس لائیں تو تم اُ ن کی باتوں کو مت سُنو ۔اور اُنکی سکیموں کو ہر گز اختیار نہ کروکیونکہ اگر تم دوسرے فلسفیوں کی باتیں مانو گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ خداتعالیٰ نے جو اعلیٰ درجہ کی تعلیم تمہیں دی ہے تمہیں اُسے چھوڑ نا پڑے گا آخر یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تم اس پر بھی عمل کرو اور اُن کی باتوں پر بھی عمل کرو۔بہرصورت ایک چیز پر ہی عمل ہو سکتا ہے اور جب تم اُن کے پیچھے چلو گے تو اللہ تعالیٰ کی تعلیم اور اُس کے احکام تمہیں چھوڑنے پڑیں گے اور ایک اعلیٰ چیز کی بجائے تمہیں ادنیٰ چیز اختیار کرنی پڑے گی ۔یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ اس جگہ مخاطب گو رسول کریم ﷺ کو کیا گیا ہے مگر مراد آپ کی اُمت ہے ۔کیونکہ رسول کریم ﷺ تو کسی دشمن کے اثر کو قبول نہیں کر سکتے تھے ۔پس آپ کو مخاطب کرکے جو کچھ کہا گیا ہے دراصل اُس میں آپ کی امت سے خطاب ہے اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو انتباہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ قرآ ن کریم کے مقابلہ میں دوسرے لوگوں کی کبھی اتباع نہ کرنا ۔ورنہ گمراہ ہو جائو گے پھر فرماتا ہے لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْھَا جًا۔تم میں سے ہر ایک کیلئے الہامی پانی تک پہنچنے کیلئے ایک چھوٹا بڑا راستہ بنایا ہو ا ہے ۔کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ ۔کوئی کہتا ہے میں اپنے باپ دادا کی باتیں مانوں گا ۔کوئی کہتا ہے میں فلسفیو ں کی باتیں مانوں گا کوئی کہتا ہے میں اقتصادیات کے ماہرین کی باتیں مانوں گا کوئی کہتا ہے میں فن قانون کے ماہر لوگو ں کی باتیں مانو ں گا ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے طریق کارا ور ان لوگوں کے طریق کار میں کوئی مشابہت نہیں ۔تم نے یہ کہنا ہے کہ ہم خدا کی باتیں مانیں گے اور انہوں نے یہ کہنا ہے کہ ہم کسی فلسفی یا اقتصادیات کے ماہر یا صناع یا قانون ساز کے پیچھے چلنے گے وہ اور لوگوں کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں اورتم اور ہستی کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہو ۔و ہ اقتصادیوں اور فلسفیوں او ر مقّننوں کے پیچھے جا رہے ہیں اور تم خدا کے پیچھے جا رہے ہو وَلَوْشَآ ئَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃ’‘ وَّلٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْمَآ اٰتٰکُمْ مگر یا د رکھو ۔یہ اختلاف جو دنیا میں پا یا جاتا ہے یہ قیامت تک رہیگا ۔تمہاری اُمت خداتعالیٰ کے پیچھے چلے گی اور دوسرے لوگ اپنے بنائے ہوئے قانونوں کے پیچھے چلیں گے اور کہیں گے کہ فلاں ماہر نفسیات یوں کہتا ہے اُن کے پیچھے چلنا چاہئیے ۔فلاں فلاں مقّنن یوں کہتا ہے اُ ن کے پیچھے چلنا چاہئیے ۔فرماتا ہے ہم اگر چاہتے تو دنیا کو مجبور کرکے ایک خیال پر لے آتے ہم میں طاقت تھی کہ ہم دنیا کے فلسفیوں ، موجدو ں یونیورسٹیوں کے پروفیسروں ۔مقّننوں اور بڑے بڑے سائینس دانوں کو مجبور کرتے کہ وہ اسلام کے پیچھے چل پڑیں مگر ہم نے ایسا نہیں کیا ۔اس لئے کہ مجبور کرنے سے انسان کسی انعام کا مستحق نہیں رہ سکتا ۔مثلاً بجلی کا انجن خواہ کتنی تیزی سے چل رہا ہو ہم کبھی اُسے یہ نہیں کہتے کہ چونکہ تم بڑی تیزی سے چل رہے ہو اس لئے ہم تمہیں فلاں انعام دیتے ہیں ۔اس لئے کہ بالادادہ کام نہیں کر رہا ہوتا ۔لیکن اگر ایک چھوٹا بچہ بھی سکول کی دوڑ میں آگے نکل جاتا ہے تو اُسے انعام ملتا ہے ۔اس لئے کہ چھوٹے بچے نے عقل اور قربانی سے کام لیا ۔وہ مجبور نہیں تھا کہ ضرور محنت کرتا وہ سستی کر سکتا تھا وہ غفلت کر سکتا تھا ۔لیکن اُس نے دوسروں سے اچھا نمونہ
دکھا یا۔وہ صبح کو اُٹھااُس نے دوڑنے کی مشن کی اپنی صحت کے معیار کو اونچا کیا ۔اور دوسروں سے آگے نکل گیا ۔پس اُس نے جو کچھ کیا اپنی مرضی سے کیا ۔اپنی خواہش اور اپنے ارادہ کے ماتحت کیا اس لئے اُسے انعام مل گیا پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ہم جبر کر سکتے تھے لیکن ہم نے کیوں جبر نہیں کیا ۔کیوں ہم نے دنیا کے فلسفیو ں اور اقتصادیات کے ماہروں اور سائینسدانوں اور مقّننوں کو زندہ رکھا اس لئے کہ لِیَبْلُوَ کُمْ فِيْ مَآ اٰتٰکُمْ ہم دنیا کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ کون خدا کو خوش کرتا ہے اور کو ن دنیا کے پیچھے چلتا ہے لیکن فرماتا ہے اب ہم تم کو یہ بتاتے ہیں کہ تمہارا دنیا سے ایک اور مقابلہ ہو گیا ہے ۔دنیا کا فلسفی اور اقتصادی ماہر بھی کچھ سکیمیں پیش کریگا اور قرآن کریم بھی کچھ سکیمیں پیش کرے گا اور وہ تمہارے لئے بڑی آزمائش کا وقت ہوگا کیونکہ ایک طرف خدا کی آواز ہوگی اور دوسری طرف دنیا کے فلسفیوں اور سائینسدانوں کی آواز ہوگی اُس وقت ایک صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ تم ہتھیار ڈال دو اور کہو کہ ہم ہارے اور تم جیتے اور دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ تم ضد کرکے بیٹھ رہو اور عملی رنگ میں تو کچھ نہ کرو مگر زبان سے یہ کہتے جائو کہ قرآن کریم کی سکیم اچھی ہے ۔اگر تم ایسا کرو گے اور زبا ن سے تو یہ کہو گے کہ قرآ ن کریم کی سکیم اچھی ہے مگر اُسے اچھا ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرو گے تو دنیا تمہاری بات نہیں مانے گی کیونکہ وہ تمہارے عمل کو دیکھے گی ۔جب تم خود قرآنی احکام پر عمل نہیں کروگے ۔جب تم خود اُس کی تعلیموں کے مطابق نہیں چلو گے تو محض زبان سے اُسے اچھا کہہ کر تم اُسے اور بھی بد نام کرو گے ۔اس لئے ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ فَاسْتَبِقُوالْخِیْرٰتِ اگر تم سچے مومن ہو ۔اگر تمہارے دل میں حقیقی ایمان موجود ہے ۔اگر تم واقعہ میں محمد رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھتے ہو تو جو بہتر سے بہتر احکام اور بہتر سے بہتر تعلیمیں ہم نے تمہارے سامنے پیش کی ہیں تم دوڑ کر اُن کو اختیار کرو اور اپنی عملی زندگی میں اُن کو شامل کرو ۔اگر تم ایسا کرو گے تو چونکہ اعلیٰ درجہ کی سکیمیں تمہارے پاس ہونگی اور اُن سکیموں پر تم عمل بھی کررہے ہو گے ۔اس لئے دنیا مجبور ہوگی کہ وہ تمہاری طرف آئے اور اپنی ناقص سکیموں اور ناقص قانونوں کو ترک کر دے ۔گویا دنیا پر اسلام کی صداقت اور اُسکی عظمت صرف اسی طریق سے واضح ہو سکتی ہے کہ تم اپنی ذات میں قرآنی احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔پھر فرماتا ہے کہ اِلیَ اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ۔جب تم اس دنیا میں خداتعالیٰ کے احکام کی برتری اور اُن کی عظمت کو روشن کردو گے تو چونکہ مڑکر تم نے ہماری طرف ہی آنا ہے اس لئے ہم تمہیں اگلے جہان میں اونچے مقامات عطا کریں گے کیونکہ تم نے دنیامیں ہماری بات کو اونچا کر نے کی کوشش کی ۔اس کے بعد فرماتا ہے وَاِنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَٓائَ ھُمْ ہم پھر دوبارہ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع کا دم بھرنے والو! تم لوگوں کے سامنے اُس قرآن کو پیش کرو جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اور دوسرے لوگ جو اپنی عقلوں سے سکیمیں بنا بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں ان کے پیچھے ہر گز نہ چلو۔وَاحْذَرْھُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکَ اور اس سے ڈرو کہ اگر تم نے قرآن کو نہ سمجھا اور اُس کی سکیموں پر عمل نہ کیا تو تم میں سے بھی کمزور ایمان والے لوگ اُن ناقص سکیموں کے پیچھے چل پڑیں گے جو دنیا کی طرف سے پیش کی جارہی ہیں اور قرآ ن کریم کو چھوڑ دیں گے ۔چنانچہ دیکھ لو یہ نتیجہ آج ظاہر ہو چکا ہے ۔اعلیٰ درجہ کی تعلیم مسلمانوں کے پاس موجود تھی مگر چونکہ انہوں نے اس پر عمل نہ کیا اس لئے خود مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ انہیں اپنی قومی ترقی کیلئے قرآن کریم کے علاوہ کسی اور سکیم کی بھی ضرورت ہے ۔اس کے بعد چونکہ یہ سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ وہ لوگ تو اپنی سکیموں کے متعلق بڑے بڑے جتھے اور پارٹیاں بنائیں گے۔کہیںایسا نہ ہو کہ ہم اُن کے مقابلہ میں فیل ہو جائیں ۔اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاِنْ تَوَلُّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّصِیْبَھُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِھِمْ وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ اگر تم اسلام کے احکام پر عمل کرو گے تو باوجود اس کے کہ وہ تم سے زیادہ طاقتور ہونگے اگر انہو ں نے اسلام کی تعلیموں کو اختیار نہ کیا تو خداتعالیٰ اُن کے گناہوں کی وجہ سے اُنکو کچل ڈالیگا وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ اور یہ مت دیکھا کرو کہ وہ اچھی سکیمیں بنا کر پیش کر رہے ہیں اگر تم غور سے کا م لو تو تم دیکھو گے کہ صرف اپنے جتھہ اور اپنی پارٹی کی مضبوطی اُن کے مدنظر ہے یہ نہیں کہ ساری دنیا کو فائدہ پہنچا نا اُن کا مقصد ہے پھر فر ما تا ہے ۔اَفَحُکْمَ الْجَاھَلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ ۔کیا وہ جاہلیت کے فیصلوں کو پسند کر تے ہیں ! اگر وہ جاہلیت کے فیصلوں کو ہی پسند کرتے ہیں تو بے شک کریں ایک سچا مومن بہرحال خداتعالیٰ کی بات ہی مانے گے ۔کسی اور کی بات ماننے کیلئے تیار نہیں ہوگا ۔پھر فرماتا ہے اے مومنو!تم سوچو تو سہی اگر واقعہ میں خداتعالیٰ نے یہ کتاب نازل کی ہے تو وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمِ یُّؤْقِنُوْنَ ۔خداتعالیٰ سے بہتر اور کون سکیمیں پیش کر سکتا ہے اور اُس کی تعلیم سے بہتر اور کس کی تعلیم ہو سکتی ہے ؟ یا تو تم یہ مانوکہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ۔محمد رسول اللہ ﷺ اُ سکے رسول نہیں ۔اور یہ کتاب خداتعالیٰ کی کتاب نہیں ۔اور اگر تم یہ باتیں ماننے کیلئے تیار نہیں ۔تم واقعہ میں اسے خداتعالیٰ کی کتاب سمجھتے ہو اور تم محمد رسول اللہ ْﷺ کو خداتعالیٰ کا سچّا رسول سمجھتے ہو تو یہ کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ رُوس کا لینن اور سٹالن تو زیادہ اچھا قانون بنائیں گے اور خدانہیں بنا ئے گا ۔امریکہ کی سٹیٹ تو زیادہ اچھا قانون بنا ئے گی اور خدا ویسا قانون نہیں بنائے گا ۔یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ ایک دھیلے سے زیادہ شکر آتی ہے اور اشرفی سے کم آتی ہے ۔بلکہ دھیلے اور اشرفی میں تھوڑی بہت نسبت بھی ہے ۔خدا اور بندے میں تو کوئی بھی نسبت نہیں ۔خداتعالیٰ عالم الغیب ہے وہ اپنے بندوں کے حالات کو خوب جانتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ ان کیلئے کونسی چیز مفید ہے اور کونسی مضر۔پس یہ ہو ہی کس طرح سکتا ہے کہ اس کا قانون ناقص ہو اور لوگوں کے قانون ہر قسم کے نقائص سے پاک ہوں ۔مگر فرماتا ہے لِقَوْمِ یُّوْقِنُوْنَ ۔یہ نکتہ صرف ان لوگوں کی سمجھ میں آسکتا ہے جو خداتعالیٰ کی باتوں پر یقین لانے کی کوشش کرتے ہوں اُن لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتا جو سُنتے ہی اُن کو رّد کر دیتے ہوں ۔پھر فرماتا ہے یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْالْیَھُوْدَ وَ النَّصَارٰٓی اَوْلِیَآئَ ۔اے مسلمانو ! جن دنوں اسلام پر یہ آفت آنے والی ہے اُ ن دنوں یہو د اور انصاریٰ کا غلبہ ہوگا اور انہی لوگو ں کی طرف سے اسلام کے مقابلہ میں نئی نئی سکیمیں پیش کی جائیں گی ۔اس لئے تم کبھی اُن کو اپنا دوست مت سمجھنا ۔کبھی یہ خیال نہ کرنا کہ وہ تمہاری خیر خواہی اور ترقی کیلئے یہ سکیمیں تمہارے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔چنانچہ دیکھ لو اس وقت یا یہود تھیوری دنیا میں کا م کر رہی ہے ، یا عیسائیت کی تھیوری دنیا میں چکر لگا رہی ہے ۔لینن جو کمیونزم کا بانی تھا یہود ی تھا اور سٹالن بھی یہودی تھا ۔اسی طرح فرائیڈ جس کے فلسفہ نے دنیا پر بہت بُرا اثر ڈالا ہے وہ بھی یہودی تھا ۔اس کے مقابلہ میں کچھ عیسائی ہیں جو اپنے اپنے فلسفے پیش کر رہے ہیں۔غرض اس وقت مغرب کی طرف سے جس قدر فلسفے آرہے ہیں وہ یا تو یہودیوں کے بنائے ہوئے ہیں یا عیسائیوں کے بنائے ہوئے ہیں ۔پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُو الْیَھُوْدَ والنَّصَارٰی اَوْلِیَٓائَ ۔اُس زمانہ کے یہود اور نصارٰی تمہارے سامنے بڑی بڑی خوبصورت سکیمیں بنا کر پیش کریں گے اور وہ تمہیں اپنے پیچھے چلانا چاہیں گے مگر ہم تمہیں یہی نصیحت کرتے ہیں کہ تم اُن کو کبھی اپنا دوست نہ سمجھنا بَعْضُھُمْ اَوْلِیَٓائَ بَعْضٍ اُن کی یہ سکیمیں محض اپنے مفاد کیلئے ہیں ۔ان سکیموں سے اُن کو تو کچھ نہ کچھ فائدے پہنچ جائیں گے مگر وہ تمہارے لئے کسی صورت میں بھی فائدہ بخش نہیں ہونگے وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ سمِنْکُمْ فَاِنَّہ‘ مِنْھُمْ اور یاد رکھو اگر تم میں سے کسی نے اُن کی دوستی اختیار کی تو خداتعالیٰ کے نزدیک وہ ہر گز مسلمان نہیں سمجھا جائیگا وہ یہودی ہو گا یا عیسائی ہوگا۔اِنَّ اللّٰہَ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ اور یقینا جو لوگ کسی مذہب کو قبول کرکے اُس سے غداری کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم ہیں اور تم یہ سمجھ لو کہ ظالم کو ہم کبھی چھوڑا نہیں کرتے بلکہ اُسے ضرور سزا دیتے ہیں ۔
یہ آیات بھی وَلَدَیْنَاکِتٰب’‘ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ کی تفسیر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ جب قرآن کریم میں سارے احکام موجود ہیں اور ہم نے کوئی ایسی بات نہیں چھوڑی جو تمہاری ترقی کیلئے ضروری تھی تو وجہ کیا ہے کہ تم قرآ ن اور اسلام کو چھوڑ کر اُن کے پیچھے دوڑتے ہو ۔اُن کی غرض محض اپنی قومو ں کو فائدہ پہنچانا ہے ۔چنانچہ یورپ کی ہزارو ں تھیوریاں ایسی ہیں کہ جب وہ پُرانی اور بوسیدہ ہو جاتی ہیں تو ہمارے سرمڑھ دی جاتی ہیں ۔آخریہ غور کرنے والی بات ہے کہ ایک بندوق ہمارے ملک کو زیادہ فائدہ پہنچاسکتی ہے یا ایک فلسفہ کا خیال ہمارے ملک کو زیادہ فائدہ پہنچا سکتا ہے ۔یہ ظاہر ہے کہ فلسفہ کا خیال ہمارے ملک کو زیادہ فائدہ پہنچا سکتا ہے مگر میرا تجربہ ہے کہ یورپ جب کسی فلسفہ کے خیال کو رّد کر دیتا ہے اور اُسے ناکارہ اور ناقابل عمل قرار د ے دیتا ہے تو بیس سال کے بعد ہمارے پروفیسر وہی فلسفہ کالجو ں میں پڑھانے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ جدید نظر یہ ہے جو یورپ کی طرف سے پیش کیا گیا ہے گویا اُن کی مثال بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی براہمن راجہ کے پاس گیا اور اُسے کہنے لگا کہ مجھے کچھ پُن دیجئیے۔ہندو مذہب میں یہ مسٔلہ پایا جاتا ہے کہ اگر کوئی براہمن مانگنے آئے تو اُسے ضرور کچھ دینا چاہئیے ورنہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو تاہے ۔راجہ بخیل تھا ۔اُس کا جی نہیں چاہتا تھا کہ کچھ دے مگر مذہبی حکم کی وجہ سے مجبور بھی تھا اس لئے وہ اپنے وزیر سے کہنے لگا ۔وزیر صاحب پچھلے سال جو ہماری گائے گم ہو گئی تھی وہ ان کو دے دیں ۔اُسکا بیٹا پا س ہی کھڑا تھا وہ اپنے باپ سے بھی زیادہ بخیل تھا اُسے خیال آیا کہ یہ براہمن ہے ممکن ہے لوگوں میں اعلان کرے تو اسے وہ گائے مل جائے اس لئے کہنے لگا آپ یہ گائے کیوں دیتے ہیں ۔پر ارسال جو ہماری گائے مر گئی تھی وہ دیدیں ۔یہی یورپ کا حال ہے ۔وہ ہر پرانی اور بوسیدہ اور سڑی گلی چیز ہماری طرف پھینک دیتا ہے اور کہتا ہے یعنی ہے تو پندرہ سال پہلے کی بندوق لے لو ۔بیس سال پہلے کے بنے ہوئے ٹینک لے لو ۔نئی بندقیں اور نئے ٹینک تو ہماری ضروریات کیلئے ہیں ۔اسی طرح بیس بیس سال کے پرانے ڈسٹرائر اور کُروزر دیتا ہے اور کہتا ہے ان کی مرمت کرالو۔اب بھلا یورپ سے ایٹم بم تو مانگ کر دیکھو وہ کبھی دینے کیلئے تیار نہیں ہوگا ۔لیکن جب اٹامک انرجی سے ہر ملک کا م لینے لگ گیا اور یہ چیز تمام دنیامیں پھیل گئی تو اُس وقت امریکہ بھی آفر کرے گا کہ ۲۵ ایٹم بم فلاں سال کے بنے ہوئے ہمارے پاس موجود ہیں اگر چاہو تو ہم سے خرید لو ہم دینے کیلئے تیار ہیں ۔جب یورپ کی یہ حالت ہے کہ وہ ہمیں اپنی نئی مادی چیزیں دینے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے تو ہمارے سمجھدار اور تعلیم یافتہ آدمی یہ خیال بھی کس طرح کرتے ہیں کہ وہ فلسفے جن سے قومیں بنتی ہیں ۔وہ فلسفے جن سے ملک ترقی کرتے ہیں ۔وہ فلسفے جن سے دنیا پر غلبہ حاصل ہوتا ہے ۔وہ فلسفے جن سے اقوام کو عظمت حاصل ہوتی ہے وہ یورپ ہمیں فوراً دینے کیلئے تیار ہو جاتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جب وہ کسی نظریہ سے اُکتا جاتے ہیں ۔جب وہ اُسے بے کار اور ناکارہ چیز قرار دینے لگتے ہیں تو اس وقت کہتے ہیں اب یہ نظریہ تم لے لو اور اپنے اندر رائج کر لو ۔یہی بات اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے اور مومنوں سے کہتا ہے تم یہ تو سوچو کہ کیا وہ تمہارے خیر خواہ ہیں ؟اوّل تو تمہیں غور کرنا چاہئیے کہ یہ خداتعالیٰ کا بنایا ہوا قانون ہے اور وہ انسانوں کے بنائے ہوئے قانون ہیں ۔اور خداتعالیٰ کا قانون اور انسان کا بنایا ہوا قانون برابر نہیں ہو سکتے ۔پھر یہ تمہارے دشمن ہیں ۔یہ لوگ اس بات کو برداشت ہی کب کر سکتے ہیں کہ تم ترقی کر جائو۔اور دنیا میں تمہیں اعلیٰ مقام حاصل ہو جائے۔مثلاًامریکہ اور روس کو لے لو ۔کیا امریکہ اور روس یہ پسند کریں گے کہ اُن کا ملک ترقی کرے یا یہ پسند کریں گے کہ اُن کا ملک پیچھے رہ جائے اور دوسرے ملک آگے نکل جائیں ۔اگر کسی وقت ہم بڑے صناع ہو جائیں تو کیا امریکہ کی چیزیں ہم اُسی طرح منگواتے رہیں گے جس طرح اب منگواتے ہیں ؟ اور جب نہیں منگوائیں گے تو کیا امریکہ یہ پسند کر سکتا ہے کہ دوسرے ملک اتنی ترقی کر جائیں کہ وہ اس سے چیزیں نہ منگوائیں ۔وہ تو ایسی ہی تدابیر اختیار کریگا جن سے اُسے ترقی ہو اور دوسرے ممالک اُس سے پیچھے رہیں ۔وہ جب تیسری منزل پر پہنچے گا تب وہ ہمیں دوسری منزل پر لے جائیگا ورنہ نہیں ۔اس وقت بظاہر ہم یہ سمجھ رہے ہو نگے کہ ہم نے بہت بڑی ترقی کی ہے مگر حقیقت یہ ہوگی کہ اُس نے دوسری منزل ہمارے سامنے اس لئے پیش کی ہوگی کہ وہ منزل اس کے کام کی نہیں رہی تھی اور وہ اُس سے آگے نکل چکا تھا ۔اسی طرح مذہبی لحاظ سے دیکھ لو تو یورپ عیسائیت کو پیش کر رہا ہے جو قرآن کریم کے نزول سے بھی چھ سوسال پہلے کی تعلیم تھی اور قرآن کریم کے آنے پر منسوخ ہو گئی ۔اور اس طرح ہمیں پیچھے کی طرف گھسیٹنا چاہتا ہے تاکہ ہم کسی کام کے نہ رہیں ۔مگر مسلمان ہے کہ اس کے فریب میں آجاتا ہے ۔وہ صرف اُس کی پتلون ، اُس کا کھانا اور اُسکی کوٹھی دیکھتا ہے اور اُس کے ہوائی جہاز دیکھتا ہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ وہ میرے دماغ کو اپنا غلام بنا رہا ہے ۔غرض وَلَدَیْنَاکِتٰب’‘ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی یہ دو عظیم الشان خوبیاں بیان کی ہیں ۔اوّل یہ کہ اُس کے تمام احکام حکمت پر مبنی ہیں اور دوم یہ کہ وہ اپنے قوانین کے لحاظ سے دنیا کیلئے کامل اور آخری ہدایت نامہ ہے ۔پس جب اُس میںتمام طبائع کا لحاظ رکھا گیا ہے اور تمام احکام حکمت کے ماتحت دئیے گئے ہیں اور شریعت کو ہر لحاظ سے مکمل کر دیا گیا ہے تو اب دنیا اپنی نجات کے لئے اور کس چیز کی محتاج ہے ۔اُس کی کامیابی اور نجات اسی میں ہے کہ وہ قرآن کریم کو حق سمجھتے ہوئے اس کی اتباع کرے اور سمجھے کہ جو کچھ اس کتاب میں لکھا گیا ہے وہی سچ ہے مگر فرماتا ہے بَلْ قُلُوْبُھُمْ فِيْ غَمْرَۃٍ مِّنْ ھٰذَا ۔باوجود اس کے کہ شریعت قابلِ عمل ہے اور اسے ہر لحاظ سے کامل کر دیا گیا ہے انبیاء کے منکر نیکی میں بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے اور وہ غفلت کے لحافوں میں ہی سوئے رہتے ہیں یہاں تک کہ اُن پر عذاب آجاتا ہے اور وہ تباہ ہو جاتے ہیں ۔اس میں بتا یا کہ اُن کا حق قبول نہ کرنا ایک تو اس وجہ سے ہے کہ وہ غفلت سے کام لے رہے ہیں اور کلام الٰہی کی طرف توجہ نہیں کرتے اور دوسرے اُن کی بد اعمالی اس میں روک بنی ہوئی ہے ۔اگر وہ غفلت کو ترک کر دیں اور بد اعمالی کی بجائے نیک اعمال اختیار کریں تو انہیں بھی ہدایت میسر آسکتی ہے ۔
ضمنی طور پر یہ آیت شیعوں کا بھی رّد کرتی ہے ۔شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت علی ؓ کا حق مارا گیا تھا ۔خلیفہ انہیں ہو نا چاہئیے تھا مگر حضرت ابوبکر ؓ نے اُن سے خلافت کا حق غصب کر لیا۔اللہ تعالیٰ ان آیات میں اُن کے اس خیال کی بھی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جس انعام کے دینے کا ہم فیصلہ کرتے ہیں وہ کبھی نہیں مارا جاتا کیونکہ قرآن کریم میں جو بات کہی جاتی ہے وہ ضرور پوری ہو کر رہتی ہے اگر قرآن کریم حضرت علی ؓ کی خلافت یا امامت کا فیصلہ کرتا تو کوئی طاقت اُن سے یہ انعام چھین نہیں سکتی تھی ۔ان معنوں کے لحاظ سے بَلْ قُلُوْبُھُمْ فِيْ غَمْرَۃٍ مِّنْ ھٰذَا وَلَھُمْ اَعْمَال’‘ مِّنْ دُوْنِ ذٰلِکَ ھُمْ لَھَا عٰمِلُوْنَ کا یہ مفہوم ہوگا کہ جو لوگ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم نے یہ حق مقرر کیا تھا اور دوسری طرف یہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے وہ حق چھین لیا وہ قرآنی علوم سے نا واقف ہیں اور چونکہ وہ جو کچھ عمل کر رہے ہیں وہ قرآن کریم کے مطابق نہیں اس لئے انکے دلوں میں وہ ایمان پیدا نہیں ہوتا جو قرآن کریم پر عمل کر نے والوں کے دلوں میں پیدا ہوا کرتا ہے ۔
حَتّٰیٓ اِذَآ اَخَذْنَا مُتْرَفِیْھِمْ بِالْعَذَابِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بِہٖ سٰمِرًا تَھْجُرُوْنَ ہ
ترجمہ() یہاں تک کہ جب ہم اُن میں سے آسودہ حال لوگوں کو عذاب میں گرفتار کر لیتے ہیں تو اچانک وہ فریادیں کرنے لگ جاتے ہیں ۔اُس وقت ہم اُن سے کہتے ہیں آج فریادیں نہ کرو ۔ہماری طرف سے تمہیں کوئی مدد نہ پہنچے گی ۔میری آیتیں تم کو پڑھ کر سُنائی جاتی تھیں مگر تم ان آیات یعنی مجموعہ قرآن سے بے پرواہی کا اظہار کرتے ہوئے اور بیہودہ باتیں کرتے ہوئے اور اس
سے رُوگردانی کرتے ہوئے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جایا کرتے تھے ۔ ۱۳؎
۱۳؎ حل لغات :
یَجْئَرُوْنَ : جَأ رَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور جَأ رَ اِلَی اللّٰہِ بِدُّعَائِ کے معنے ہیں صنّح وتضرع و استغاث۔اُس نے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے فریا د اور دُعا کی اور اُس سے مدد چاہی ۔اور جأر الداعی جائرًا کے معنے ہیں رفع صوتہ‘ بالدعا ء پکارنے والے نے اونچی آواز سے پکارا ۔پس یَجْئَرُوْنَ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ عاجزی کا اظہار کرتے اور فریاد کرتے ہیں ۔
سٰمِرًا : سَمَرَ فُلَان’‘ کے معنے ہوتے ہیں لَمْ ینم وتحدَّث لیلًا ۔یعنی وہ رات کو نہ سویا اور باتیں کرتا رہا ۔پس سٰمِرًا جو سَمَرَ کا اسم فاعل ہے۔اس کے معنے ہونگے رات کو باتیں کرنے والا ( اقرب)
تفسیر :
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتا یا ہے کہ خدائی منشا کو پورا کرنے والے لوگ بعض دفعہ دولتیں تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن اُن کی دولتیں انہیں خدائی عذاب سے نہیں بچا سکتیں ۔وہ اپنی دولت کے گھمنڈ میں ہی رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ خداتعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔مگر اُس دن ہم اُن سے کہتے ہیں کہ آج گِریہ و زاری کا کیا فائدہ ؟ آج ہم تمہاری مدد کس طرح کر سکتے ہیں ۔تمہارے سامنے ہماری تعلیم سُنائی جاتی تھی لیکن تم اس سے بے پرواہی کا اظہار کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے ایڑیوں کے بل پھر جاتے تھے او ر اُس پر کبھی غور نہیں کرتے تھے ۔اُس کا نتیجہ آج تم نے دیکھ لیا کہ تمہارا تکبر تمہیں لے ڈوبا اور تمہاری دولتیں تمہارے کسی کام نہ آئیں ۔یعنی خدائی عذاب پر چلانا کوئی فائدہ نہیں دیتا کیونکہ خداتعالیٰ کا عذاب حجت تما م ہونے کے بعد آتا ہے اور حجّت پوری ہونے کے بعد عذاب پر چلانا بے فائدہ ہوتا ہے ۔
اَفَلَمْ یَدَّبَّرُو الْقَوْلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَھُمْ عَنْ ذِکْرِ ھِمْ مُّعْرِضُوْنَ ہ
ترجمہ()کیا ان لوگوں نے اس قول یعنی قرآن پر غور نہیں کیا یا ان کو وہ عدہ ملا ہے جو ان کے پہلے باپ دادوں کو نہیں ملا تھا ۔اور کیا انہوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا جس کی وجہ سے وہ اُس کا انکار کر رہے ہیں کیا وہ کہتے ہیں کہ اس کو جنون ہے مگر ایسی بات نہیں بلکہ وہ ان کے پاس حق لیکر آیا ہے اور ان میں سے اکثر لوگ حق کو نا پسند کرتے ہیں ۔اور اگر حق ان کی خواہشات کی اتباع کرتا تو آسمان اور زمین اور جو ان کے اندر بستے ہیں تباہ ہو جاتے ۔حقیقت یہ ہے کہ ہم ان کے پاس اُنکی عزت کا سامان لیکر آئے ہیں اور وہ اپنی عزت کے سامان سے اعراض کر رہے ہیں ۔ ۱۴ ؎
۱۴ ؎ حل لغات :
ذِکْر’‘ : الذکر کے معنے ہیں اَلتَّلَفَّظ ُبِالشَّیْئِ وَاِحْضَارَہ‘ فِی الذِّ ھْنِ بِحَیْثُ لَا یَغِیْبُ عَنْہُا۔کسی چیز کا زبان سے ذکرکرکرنا اُسے ایسے طور پر ذہن میں مستحضر کرنا کہ وہ بھول نہ جائے ۔الصیتُ شہرت ۔ الثَّنَاء ُ : تعریف ۔ اَلشَّرَف ۔شرف ۔الصَّلٰوۃ ُ لِلّٰہِ تَعَالیٰ وَالدُّعَائَ ۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا اور اس کے معنے ایسی کتاب کے بھی ہیں جس میں دین کی تفصیل اور شریعت کے اصول ہوں۔اورایسے بہادر شخص کو بھی کہتے ہیں کہ جو کسی کا رعب نہ برداشت کر سکے ۔نیز موسلا دھار بارش اور پکی بات کو بھی الذکر کہتے ہیں ( اقرب)
تفسیر :
فر ماتا ہے کیا محمد رسول اللہ ﷺکے دشمنوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا کہ وہ اُس کا انکار کر رہے ہیں ۔یعنی یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ انہوں نے چالیس سال تک محمد رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ۔آپ کے اخلاق اور عادات کا انہوں نے مشاہدہ کیا اور انہوں نے اپنی علینی شہادات سے اس امر کو تسلیم کیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ نہایت راستباز انسان ہیں مگر جب اس راستباز انسان نے یہ کہا کہ میں خدا کی طرف سے تمہاری ہدایت کیلئے مبعوث کیا گیا ہوں تو اس کی مخالفت کیلئے کھڑے ہو گئے ۔اگر کوئی غیر شخص یہ بات کہتا تو وہ معذور سمجھا جا سکتا تھا اور اس کے متعلق خیال کیا جا سکتا تھا کہ چونکہ اُس نے محمد رسول ﷺ کو نہیں دیکھا اس لئے وہ آپ کی طرف یہ بات منسوب کر رہا ہے کہ آپ نے خداتعالیٰ پر افتراء کیا ہے لیکن مکّہ کے رہنے والے جن کے سامنے محمد رسول اللہ ﷺ کی ساری زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح تھی آپ کو کس طرح مفتری قرار دینے لگ گئے ۔محمدرسول اللہ ﷺ کی راستبازی کا تو مکّہ والوں پر اتنا اثر تھا کہ دعویٔ نبوت کے بعد جب ایک دفعہ کفار یہ مشورہ کرنے کیلئے جمع ہوئے کہ حج کے موقعہ پر باہر سے آنے والے لوگوں کو ہم اس شخص کے متعلق کیا کہیں تو ایک شخص نے کہہ دیا کہ اگر ہم سے کسی نے پوچھا تو ہم فوراً کہہ دیں گے کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے اس پر ایک شدید مخالف نضر بن الحارث جو ش سے کھڑا ہو گیا ۔اور اُس نے کہا تم یہ کیا کہہ رہے ہو ۔محمد رسول اللہ ﷺ تمہارے درمیان پیدا ہوا اور اُس نے تمہارے سامنے اپنے شباب کی منزلیں طے کیں ۔تم جانتے ہو کہ اُس کے اخلاق کتنے پاکیزہ تھے وہ تم سب سے زیادہ راستباز انسان تھا ۔امانت اور دیانت میں اس کا کوئی ہم پلہ نہیں تھا اور وہ اسی نیک نامی کی حالت میں اپنی زندگی کے دن گذارتا چلا گیا ۔مگر اب جبکہ اُس کی کنپٹیوں میں سفید با ل آرہے ہیں اور وہ شباب سے گذر کر کہولت کی عمر کو پہنچ چکا ہے ۔اور اُس نے اپنی تعلیم تمہارے سامنے پیش کی ہے تم یہ کہنے لگے ہو کہ وہ جھوٹا ہے ۔خدا کی قسم وہ ہر گز جھوٹا نہیں اگر تم نے احمقانہ بات کہی تو کوئی شخص اس کو تسلیم نہیں کرے گا ( شفاء قاضی عیاض ) ابوجہل محمدرسول اللہ ﷺ کا کتنا شدید دشمن تھا ۔مگر اُس نے بھی ایک موقعہ پر کہہ دیا کہ اے محمد رسول اللہ ﷺ ہم تجھ کو تو جھوٹا نہیں کہتے ۔ہم تو اُس تعلیم کی تکذیب کرتے ہیں جسے تو پیش کر رہا ہے (ترمذی کتاب التفسیر ) گویا ابو جہل جیسا معاند اور سیاہ باطن انسان کا دل بھی محمد رسول اللہ ﷺ کو جھوٹا کہنے کیلئے تیار نہیں تھا ۔گویا جھوٹا کہتے ہوئے اُس کی ضمیر بھی اُسے ملامت کرتی تھی اور اُس کا دل بھی دھڑکنے لگتا تھا کہ میں کیسی قبیح حرکت کر رہا ہوں مگر اُس نے بہانہ یہ بنایا کہ میں تو محمدرسول اللہ ﷺ کی تعلیم کو جھٹلارہاہوں ۔آپ کو تو جھوٹا نہیں کہہ رہا۔یہ ’’ عذر گناہ بدتر از گناہ ‘‘ والی بات ہے مگر بہر حال اس سے اُس اثر کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے جو شدید ترین معاندین کے دلوں پر بھی آپکی صداقت اور راستبازی کی وجہ سے قائم ہو چکا تھا ۔
امیہ ابن خلف بھی آپ کا ایک شدید معاند تھا مگر ایک موقعہ پر اُس کی زبان سے بھی یہ الفاظ نکل گئے کہ خدا کی قسم جب محمد رسول اللہ ﷺ بات کرتا ہے تو سچی ہی کرتا ہے جھوٹ نہیں بولتا ( بخاری باب علامات النبوۃ ) کہتے ہیں ’’ جادو وہ جو سر پر چڑھ کے بولے ‘‘ ۔ محمد رسول اللہ ﷺ کا یہ کتنا بڑا جادو ہے کہ آپ ؐ کے اپنے دشمنوں سے بھی اپنی صداقت اور راستبازی تسلیم کروالی ۔اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ ﷺ کی اسی پاک اور بے عیب زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ کیا انہوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا ؟ یعنی انہیں تو چاہئیے تھا کہ آپ کو فوراً پہچان لیتے اور آپ کی تکذیب کا راستہ اختیار نہ کرتے مگر دیکھتے ہوئے اُن کی آنکھوں پر پردے پڑ گئے اور واقف ہوتے ہوئے ناواقفوں کی سی باتیں کرنے لگے ۔پھر فرماتا ہے اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِہٖ جِنَّۃ’‘ بَلْ جَآ ئَ ھُمْ بِالْحَقِّ وَ اَکْثَرَھُمْ لِلْحَقِّ کَارِھُوْنَ ۔یعنی کیا وہ کہتے ہیں کہاس آدمی کے ساتھ جنوں کا تعلق ہے ؟ ان کی یہ بات بھی بالکل غلط ہے ۔اصل بات صرف یہ ہے کہ وہ اُ ن کے پاس ایک ایسی تعلیم لے کر آیا ہے جس پر عمل کرنا اُن کو دو بھر معلوم ہوتا ہے اور وہ اُسے ناپسند یدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔کیونکہ اس تعلیم کے غالب آنے سے اُن کی چودھرئیت جاتی ہے اور اُن کی سرداریاں ختم ہوتی ہیں اور وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ اُن کی چوہدریت ختم ہو ۔گویا مخالفین نے جب دیکھا کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو جھوٹا تو نہیں کہہ سکتے تو انہوں نے دوسرا پہلو بدلا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ جھوٹا تو نہیںہاں اس کا جنّات کے ساتھ تعلق ہے اور وہ اسے اس قسم کی باتیں سکھاتے رہتے ہیں ۔
عیسائی لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کیا تو ہّم والی باتیں ہیں لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ تو ہّم تو کفار کا ہے اور اُن کو عقلمند کون کہتا ہے ۔پھر خود انجیل میں حضرت مسیح ؑ کے متعلق اُن کے دشمنوں کا قول درج ہے کہ
’’ اس میں بدرُوح ہے اور وہ دیوانہ ہے ۔‘‘ (یوحنا باب ۱۰ آیت ۲۰)
اگر حضرت مسیح ؑ کے زمانہ میں بھی یہی بات کہی گئی اور اُس پر انہیں تعجب نہیں ہوا تو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اگر یہی بات کہی گئی تو اس پر تعجب کیوں ۔بہر حال اللہ تعالیٰ نے بَلْ جَآ ئَ ھُمْ بِالْحَقِّمیں اُن کے اس اعتراض کا جواب دیا ہے اور اَکْثَرُھُمْ لِلْحَقِّ کٰرِھُوْنَ میں اُن کے انکار کی وجہ بتائی ہے ۔اُن کے اعتراض کا تو یہ جواب دیا ہے کہ کیا کبھی جنّات سے تعلق رکھنے والوں نے بھی لوگوں کے سامنے ایسی تعلیم پیش کی ہے کہ جو اُن کی تمام اخلاقی روحانی اقتصادی اور سیاسی مشکلات کا حل ہو اور جس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں اُن کو اعلیٰ سے اعلیٰ ترقیات حاصل ہوں ۔اگر دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا تو محمدر سول اللہ ﷺ ایسی تعلیم کو پیش کرکے جنات سے تعلق رکھنے والا کس طرح ہوا۔اور اَکْثَرُھُمْ لِلْحَقِّ کٰرِھُوْنَ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اُ ن کے انکار کی یہ وجہ نہیں کہ محمد رسول اللہ میں کوئی عیب پاتے ہیں بلکہ انکار کی اصل وجہ ہے کہ حق پر عمل کرنا اُن کو ناپسند ہے ۔اگر وہ محمد رسول اللہ کو قبول کر لیں تو انہیں لوگوں سے ماریں کھانی پڑتی ہیں۔انہیں گندی سے گندی گالیاں سُننی پڑتی ہیں ۔انہیں مالی اور جانی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں ۔اُنہیں اپنا وطن چھوڑنا پڑتا ہے ۔انہیں اپنی سرداریوں کو ترک کرنا پڑتا ہے ۔اور یہ چیز ایسی ہے جسے وہ پسند نہیں کرتے ۔پس وہ مخالفت کیلئے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں ۔کبھی لوگوں سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے ۔اور کبھی یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کا جنّات کے ساتھ تعلق ہے اور چاہتے ہیں کہ سچائی دنیا میں ظاہر نہ ہو ۔حالانکہ اگر حق کو لوگوں کی خواہشات کا تابع کر دیا جائے تو آسمان اور زمین میں فساد پیدا ہو جائے یعنی تعلق باللہ بھی نہ رہے ۔اور تعلق بالعباد کے متعلق بھی لوگوںکو کہیں سے راہنمائی میّسر نہ آئے اور اس طرح ہر طرف ظلمت اور تاریکی ہی دکھائی دینے لگے ۔
اس کے بعد فرماتا ہے بَلْ اٰتَیْنٰھُمْ بِنوُکْرِھِمْ فَھُمْ عَنْ ذِکْرِھِمْ مُّعْرِضُوْنَ ۔حقیقت یہ ہے کہ ہم اُن کے پاس اُن کی عزت اور شرف کا سامان لے کر آئے ہیں مگر وہ اپنی عزت اورشرف کے سامانوں سے بھی اعراض کر رہے ہیں ۔یعنی قرآنی تعلیم کی اتباع میں اُن کی بزرگی اور شرف کے سامان مخفی تھے پس اُس کو چھوڑ کر وہ اس سے مُنہ نہیں موڑ رہے ۔بلکہ اپنی ترقی سے مُنہ موڑ رہے ہیں ۔اس آیت میں قرآن کریم کو ذکر قرار د ے کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ یہ کتاب نہ صرف ذاتی کمالات کے لحاظ سے ایک عظیم الشان شرف اور عظمت رکھتی ہے بلکہ جو لوگ سچے دل سے اس پر ایمان لائیں گے وہ بھی دنیا میں معزز اور مکّرم ہو جائیں گے چنانچہ دیکھ لو محمد رسول اللہ ﷺ ایک ایسی قوم کی طرف آئے تھے جو غیر متمدن اور تہذیب و شائستگی کے اصول سے بالکل بے گانہ تھی اور ہر قسم کی خرابیاں اُس میں پائی جاتی تھیں ۔وہ لوگ ڈاکہ ، چوری اور راہزنی میں مشہور تھے اور فسق و فجور اُن کی گھٹی میں رچا ہوا تھا ۔دوسرے کو قتل کردینا اُن کے نزدیک ایک معمولی بات تھی ۔مائوں سے شادی کرلیتے تھے ۔شراب کے نشہ میں ہر وقت چُور رہتے تھے ۔لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے ۔عورتوں کو حیوانوں سے بد تر سمجھتے تھے ۔معمولی معمولی باتوں پر آپس میں لڑائی شروع کر دیتے تھے جو بعض دفعہ سالہا سال تک جاری رہتی تھی ۔غرض نہ انہیں کوئی اخلاقی برتری حاصل تھی نہ تمدنی برتری حاصل تھی ۔نہ سیاسی برتری حاصل تھی ۔نہ مذہب سے انہیں کسی قسم کی دلچسپی تھی۔مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع اور قرآن کریم کی برکت سے وہ تھوڑے دنوں میں ہی دنیا کے معلم اور استاد بن گئے اور ایک نئی تہذیب اور تمدن کی انہوں نے بنیاد ڈال دی ۔قیصر و کسریٰ کی حکومتیں بھی اُن سے ٹکرائیں تو وہ پاش پاش ہو گئیں اور پھر وہ جس جگہ بھی گئے انہوں نے علوم کے دریا بہا دئیے ۔محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے عربوں کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ علم تاریخ کیا چیز ہے یا صرف اور نحو کونسے علوم ہیں یا فقہ اور اصول فقہ کس کو کہتے ہیں ۔یا علم معانی اور بیان کس چیز کا نام ہے ۔یا فن بلاغت کس کو کہتے ہیں ۔یا علم ِ اقتصادیات کو نسا علم ہے ۔یا علم کلام کیا چیز ہے ۔مگر قرآن کریم کے نزول کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہی خانہ بدوش اور اونٹوں کے چرواہوں کے ذریعہ دنیا میں ان تمام علوم کو پھیلا دیا ۔اسی طرح فنِ تعمیر۔قالین بانی اور عمارتوں پر رنگدار بیل بوٹے بنانے بھی مسلمانوں سے ہی یورپ نے سیکھے ۔بلکہ فنِ موسیقی جو آج تمام متمدن دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اُس کی ایجاد کا سہرا بھی مسلمانوں کے سر ہی ہے اور خود یورپین مصنّفین نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے ۔اسی طرح فلسفہ کو یورپ کی ایجاد سمجھا جاتا ہے لیکن ایک یورپین فلاسفر نے لکھا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے ۔فلسفہ میں بھی ہم نے مسلمانوں جو اس قدر شرف بخشا اور اس قدر بزرگی دی کہ وہ دنیا کے معّلم اور راہنما بن گئے ۔
حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں جب خسرو پروز کے پوتے یزد جرد کی تخت نشینی کے بعد عراق میں مسلمانوں کے خلاف وسیع پیمانہ پر جنگی تیاریاں شروع ہو گئیں تو حضرت عمرؓ نے اُن کے مقابلہ کے لئے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی سر کردگی میں ایک لشکر روانہ کیا ۔حضرت سعد ؓ نے جنگ کیلئے قادسیہ کا میدان منتخب کیا اور حضرت عمر ؓ کو اُس مقام کا نقشہ بھجوا دیا ۔حضرت عمر ؓ نے اس مقام کو بہت پسند کیا مگر ساتھ ہی لکھا کہ بیشتر اس کے کہ شاہِ ایران کے ساتھ جنگ کی جائے تمہارا فرض ہے کہ ایک نمائندہ وفد شاہِ ایران کے پاس بھیجو اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دو۔چنانچہ انہوں نے اس حکم کے ملنے پر ایک وفد یزد جرد کی ملاقات کیلئے بھجوا دیا۔جب یہ وفد شاہِ ایران کے دربار میں پہنچا تو شاہ ِایران نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے پوچھو کہ یہ کیوں آئے ہیں اور انہوں نے ہمارے ملک میں کیوں فساد بر پا کر رکھا ہے ۔جب اُس نے یہ سوال کیا تو وفد کے رئیس حضرت نعمان بن مقرنؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے رسول کریم ﷺ کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے بتا یا کہ آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اسلام کو پھیلائیں اور دُنیا کے تمام لوگوں کو دینِ حق میں شامل ہونے کی دعوت دیں ۔اس حکم کے مطابق ہم آپ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے ہیں اور آپ کو اسلام میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں ۔یزد جرد اس جواب سے بہت برہم ہوا اور کہنے لگا کہ تم ایک وحشی اور مُردار خوار قوم ہو ۔تمہیں اگر بھوک اور افلاس نے اس حملہ کیلئے مجبور کیا ہے تو میں تم سب کو اس قدر کھانے پینے کا سامان دینے کیلئے تیار ہوں کہ تم اطمینان کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر سکو اسی طرح تمہیں پہننے کیلئے لبا س بھی دونگا۔تم یہ چیزیں لو اور اپنے ملک کو واپس چلے جائو تم ہم سے جنگ کرکے اپنی جانوں کو کیوں ضائع کرنا چاہتے ہو۔جب وہ بات ختم کر چکا تو اسلامی وفد کی طرف سے حضرت مغیرہ بن زرارہ ؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا ۔آپ نے ہمارے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے یہ بالکل درست ہے ۔ہم واقعہ میں ایک وحشی اور مُردار خور قوم تھے ۔سانپ اور بچّھو اور ٹڈیاں اور چھپکلیاں تک کھا جاتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل کیا ۔اور اُس نے اپنا رسول ہماری ہدایت کیلئے بھیجا ۔ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے اُس کی باتوں پر عمل کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ہم میں ایک انقلاب پیدا ہو چکا ہے۔اوراب ہم میں وہ خرابیاںموجود نہیں جن کا آپ نے ذکر کیا ہے ۔اب ہم کسی لالچ میں آنے کیلئے تیار نہیں ۔ہماری آپ سے جنگ شروع ہو چکی ہے ۔اب اس کا فیصلہ میدانِ جنگ میں ہی ہو گا ۔دنیوی مال و متاع کا لالچ نہیں اپنے ارادہ سے باز نہیں رکھ سکتا۔یز د جرد نے یہ بات سُنی تو اُسے سخت غصّہ آیا اور اُس نے ایک نوکر سے کہا کہ جائو اور مٹی کا ایک بورا لے آئو ۔مٹی کا بورا آیا تو اس نے اسلامی وفد کے سردار کو آگے بلایا اور کہا چونکہ تم نے میری پیشکش کو ٹھکرا دیا ہے اس لئے اب اس مٹی کے بورے کے سوا تمہیں اور کچھ نہیں مل سکتا ۔وہ صحابی ؓ نہایت سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھے انہوں نے اپنا سر جھکا دیا اور مٹی کو بورا اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا پھر انہوں نے ایک چھلانگ لگائی اور تیزی کے ساتھ اس کے دربار سے نکل کھڑے ہوئے اور اپنے ساتھیوں کو بلند آواز سے کہا آج ایران کے بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے اپنے ملک کی زمین ہمارے حوالے کر دی ہے اور پھر گھوڑوں پر سوار ہو کر تیزی سے نکل گئے ۔بادشا ہ نے جب اُن کایہ نعرہ سُنا تو وہ کانپ اُٹھا اور اُس نے اپنے درباریوں سے کہا دوڑو اور مٹی کا بورا اُن سے واپس لے آئو ۔یہ تو بڑی بد شگونی ہوئی کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اپنے ملک کی مٹی اُن کے حوالے کر دی ہے مگر وہ اُس وقت تک گھوڑوں پر سوار ہو کر بہت دُور نکل چکے تھے۔لیکن آخر وہی ہو ا جو انہوں نے کہا تھا اور چند سال کے اندر اندر سارا ایران مسلمان کے ماتحت آگیا (محاضرات تاریخ الاصم الاسلامیہ جلد ۱ ص ۲۱۷ تا ۲۰۹ و ابن خلدون جلد ۲ ص ۹۲ ) یہ عظیم الشان تغیر مسلمانوں میں کیوں پیدا ہو ا؟ اسی لئے کہ قرآنی تعلیم نے اُنکے اخلاق اور اُن کی عادات میں ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا ۔اُنکی سفلی زندگی پر اُس نے ایک موت طاری کر دی تھی اور انہیں بلند کردار اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی سطح پرلا کر کھڑا کر دیا تھا ۔
حضرت عمر ؓ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک دفعہ حج کے لئے گئے تو راستہ میں ایک مقام پر کھڑے ہو گئے ۔اس وقت دھوپ چمک رہی تھی اور پسینہ بہ رہا تھا مگر آپ وہاں بڑی دیر تک کھڑے رہے ۔اس وقت کسی کو اتنی جرأت نہ ہوئی کہ وہ آگے بڑھ کر آپ سے کچھ عرض کر سکے مگر جب زیادہ دیر ہو گئی تو ایک صحابی ؓ جو حضرت عمر ؓ کے بڑے دوست تھے لوگوں نے اُن سے کہا کہ آپ حضرت عمر ؓ سے پوچھیں کہ آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں ۔انہوں نے جرأت کی اور آگے بڑھ کر حضرت عمر ؓ سے دریافت کیا کہ حضور یہاں کیوں کھڑے ہیں سخت گرمی کا وقت ہے اور لوگ تکلیف محسوس کر رہے ہیں حضرت عمر ؓ نے فرمایا ۔میں یہاں اس لئے کھڑا ہو ں کہ ایک دفعہ میں اونٹ چرانے کی وجہ سے تھک کر اس درخت کے نیچے تھوڑی دیر کیلئے لیٹ گیا تھا کہ اچانک میرا باپ آگیا اور اس نے مجھے مارا کہ کیا میں نے تجھے اس لئے بھیجا تھا کہ تُو جا کر سو رہے اور اونٹوں کا خیال چھوڑ دے ۔آج جب میں یہاں سے گذرا تو میرے دل میں خیال آیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو قبول کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے کتنا اعزاز بخشا کہ آج لاکھوں آدمی میرے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہانے کیلئے تیار ہیں حالانکہ میں وہی ہوں جو اکیلا اس جنگل میں اونٹ چرایا کرتا تھا اور جسے باپ نے اس لئے مارا کہ میں تھوڑی دیر کیلئے سو کیوں گیا تھا ۔
حضرت ابو بکر ؓ کو دیکھ لو آپ مکّہ کے ایک معمولی تاجر تھے اگر محمد رسول اللہ ﷺ نہ ہوتے اور مکّہ کی تاریخ لکھی جاتی تو مؤرخ صرف اتنا ذکر کرتا کہ ابو بکر ؓ عرب کا ایک شریف اور دیانت دار تاجر تھا ۔مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع سے ابو بکر ؓ کو وہ مقام ملا تو آج ساری دنیا اُن کا ادب اور احترام کے ساتھ نام لیتی ہے ۔جب رسول کریم ﷺ وفات پاگئے اور حضرت ابو بکر ؓ کو مسلمانوں نے اپنا خلیفہ اور بادشاہ بنا لیا تو مکّہ میں بھی یہ خبر جاپہنچی ۔ایک مجلس میں بہت سے لوگ بیٹھے تھے جن میں حضرت ابوبکر ؓ کے والد ابو قحافہ بھی موجود تھے ۔جب انہوں نے سُنا کہ ابو بکر ؓکے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کر لی ہے تو اُن کے لئے اس امر کو تسلیم کرنا نا ممکن ہو گیا ۔اور انہوں نے خبر دینے والے سے پوچھا کہ تم کس ابو بکر ؓ کاذکر کر رہے ہو ؟ اُس نے کہا وہی ابو بکر ؓ جو تمہارا بیٹا ہے انہوں نے عرب کے ایک ایک قبیلے کا نام لے کر کہنا شروع کر دیا کہ اُس نے بھی ابو بکر ؓ کی بیعت کر لی ہے ۔اور جب اُس نے کہا کہ سب نے متفقہ طور پر ابو بکر ؓ کو خلیفہ اور بادشا ہ بنا لیا ہے تو ابو قحافہ بے اختیار کہنے لگے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ‘ لَا شَرِیْکَ لَہ‘ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ‘ وَرَسُوْلُہ‘ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ رسول اللہ اُس کے سچے رسول ہیں ۔حالانکہ وہ دیر سے مسلمان تھے ۔انہوںنے جو یہ کلمہ پڑھا اور دوبارہ محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اقرار کیا تو اسی لئے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو اُن کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے سمجھا کہ یہ اسلام کی سچائی کا ایک زبر دست ثبوت ہے ۔ورنہ میرے بیٹے کی کیا حیثیت تھی کہ اُس کے ہاتھ پر سارا عرب متحد ہو جا تا۔
غرض اسلام نے اپنے ماننے والوں کو فرش ِ زمین سے اٹھایا اور انہیں ثریا تک جا پہنچایا ۔تاریخ اُن کے کارناموں سے بھری پڑی ہے ۔اور کوئی شخص جو دیدۂ بینا رکھتا ہو اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ قرآن کریم نے اپنے ماننے والوں کو ایک لازوال شہرت بخشی اور اُن کی عزت کو اُس نے چار چاند لگا دیئے ۔مگر وہ لوگ جنہوں نے قرآن کریم کو نہ مانا وہ اپنی پہلی عزتیں بھی کھو بیٹھے اور ذلّت کے ایسے گڑھوں میں گِرے کہ آج کوئی شخص اُن کا نام تک نہیں جانتا ۔اور جن کو جانتا بھی ہے اُن کو وہ عزّت سے یاد نہیں کرتا بلکہ ذلّت اور رسوائی سے یاد کرتا ہے ۔
اَمْ تَسْئَلُھُمْ خَرْجًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عَنِ الصِّرَاطِ لَنٰکِبُوْنَ ہ
ترجمہ() کیا تُو ان سے کوئی تاوان مانگتا ہے ؟ ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ تیرے رب کا دیا ہوا مال بہت اچھا ہے اور وہ رب بہتر ین رزق دینے والا ہے ۔اور تُو ان کو سیدھے راستے کی طرف بلاتا ہے ۔اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہ سچّے راستہ سے ہٹنے والے ہیں ۔ ۱۵؎
۱۵؎ حل لغات :
خَرْجًا : اَلْخَرجُ : اَلْخَرَاجُ یعنی خرج کے معنے لگان کے ہیں ۔(اقرب)
تفسیر :
فرماتا ہے تُو ان سے کچھ مانگتا تو نہیں کہ ان پر تیری تعلیم کا قبول کرنا گراں گذررہا ہے ۔اگر تُو ان سے اپنی ذات کیلئے کچھ مانگتا تو کوئی بات بھی تھی مگر تیرا بوجھ تو سارا تیرے رب نے اٹھایا ہوا ہے ۔اور اسی کا بوجھ اُٹھانا اور رزق دینا سب سے بہتر چیز ہے ۔پھر کیایہ اتنا بڑا نشان دیکھنے کے بعد بھی آنکھیں نہیں کھولتے اور تیری صداقت کو تسلیم نہیں کرتے ؟ یعنی ان کے راستہ میں سب سے بڑی روک یہ ہے کہ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ شاید محمدرسول اللہ ﷺ اپنی ذاتی وجاہت اور برتری کے حصول کیلئے بتوں کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں حالانکہ اگر وہ اپنی ذاتی برتری کیلئے جدوجہد کر رہے ہوتے تو مکّہ والوں سے کبھی تو کچھ مانگتے مگر محمدرسول اللہ ﷺ کی تو یہ کیفیت تھی کہ خود مکّہ والوں نے آپ کو پیغا م بھجوایا کہ اگر آپ کو حکومت اور سرداری کی خواہش ہے تو ہم سب آپ کو اپنا سردار ماننے کیلئے تیار ہیں ۔اگر دولت کی خواہش ہے تو ہم اپنی دولت جمع کرکے آپ کو دینے کیلئے تیار ہیں کہ سارے عرب میں آپ سے بڑھ کر کوئی دولت مند نہ ہو ۔اور اگر کسی حسین اور خوبصورت لڑکی سے شادی کرنے کی خواہش ہے تو ہم سب اعلیٰ اور معزز گھرانے کی حسین ترین لڑکی آپ کے عقد کیلئے پیش کرنے کو تیار ہیں اور اس کے بدلہ میں ہم آپ سے صرف اس بات کی خواہش کرتے ہیں کہ آپ ہمارے بتوں کو بُرا بھلا نہ کہیں ۔اسی طرح ایک مرتبہ رؤسائے قریش ابوطالب کے پاس آئے اور یہ درخواست کی کہ آپ اپنے بھتیجے کو ہمارے بتوں کو گالیاں دینے سے روک لیں ۔اور جب ابو طالب نے آنحضرت ﷺ سے اس کا ذکر کیا اور کہا کہ مجھ پر اور اپنی جان پر رحم کرو اور ظاہر کیا کہ مجھ میں ساری قوم کی مخالفت کی طاقت نہیں ہے تو آپ نے فرمایا۔اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند میرے بائیں بھی لاکر کھڑا کر دیں تب بھی میں اُس پیغام کو نہیں چھوڑ سکتا جس پیغام کا پہنچانا خدا نے میرے سُپرد کیا ہے (دیکھو مواہب اللدنیہ جلد ۱ ص ۴۸ و طبری جلد ۳ ص ۱۱۷۸ ،۱۱۷۹ اور سیرۃ ابن ہشام وغیرہ ) اس واقعہ سے مکّہ والے سمجھ سکتے تھے کہ محمد رسول اللہ ﷺ اُن سے اپنی ذات کیلئے کوئی مطالبہ نہیں کر رہے بلکہ جو کچھ کہہ رہے ہیں خود اُن کی اصلاح اور ترقی کیلئے کہہ رہے ہیں۔پھر اس کے علاوہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان نشان کو بھی دیکھ سکتے تھے کہ محمدؐر سول اللہ اکیلا اور بے یارو مدد گار تھا ۔کوئی اُس کا ساتھی نہیں تھا کوئی اس کا ہم نوا نہیں تھا کوئی اُسے دشمنوں کے حملوں سے بچانے والا نہیں تھا کوئی اُسے مالی مدد دینے والا نہیں تھا ۔مگر جونہی خداتعالیٰ کی آواز اُس کی زبان سے بلند ہوئی اُس آواز نے لوگوں کے قلوب میں ایک ارتعاش پیدا کرنا شروع کر دیا ۔سعید طبع لوگوں پر ملائکہ کا نزول شروع ہو گیا اور اُن کے دلوں میں اسلام کی رغبت اور محبت پیدا ہوئی یہاں تک کہ آپ پر ایما ن لانے والے جو پہلے انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے سینکڑوں سے ہزاروں اور پھر ہزاروں سے لاکھوں کی تعداد تک جا پہنچے اور اب اس زمانہ میں تو کروڑوں تک پہنچ گئے ہیں ۔ہر قسم کی مالی اور جانی قربانیاں کرنے والے نوجوان آپ کے گر دجمع ہو گئے ۔جہاندیدہ اور تجربہ کار بڈھے آپ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے ۔مالدار اور ذی وجاہت خاندانوں کے چشم و چراغ آپ پر اپنی جانیں قربان کرنے لگ گئے۔عوام جو ملک کی ریڑ ھ کی ہڈی کہلاتے ہیں وہ آپ کے دائیں اور بائیں پر وانوں کی طرح اپنی فدائیت اور جاں نثاری کے مظاہرے کرنے لگے ۔دولت آپکے قدموں پر نثار ہو نے لگی اور حکومت کی عنان آپ کے مقدس ہاتھوں میں آگئی ۔یہ سب کچھ خدائے قادر و برتر کا ایک زندہ نشان تھا جو اُس نے آپ کی صداقت کیلئے ظاہر کیا مگر بد قسمت لوگوں نے پھر بھی آپ کو شناخت نہ کیا۔وہ آنکھیں رکھتے ہوئے نابینا ہو گئے اور کان رکھتے ہوئے بہرے ہوگئے ۔اور دل رکھتے ہوئے عقل اور سمجھ سے بیگانہ ہو گئے۔پھر فرماتا ہے اگر یہ نشان بھی اُن کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی نہیں تھا تو وہ اتنا توسوچتے کہ اِنَّکَ لَتَدْعُوْھُمْ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ تُو انہیں صراط مستقیم کی طرف بلا رہا ہے ۔جس میں خود اُن کا اپنا فائدہ ۔مگر یہ لوگ اُس راستہ کو ترک کر کے ایک غلط راہ اپنے لئے اختیار کر رہے ہیں ۔جس کا نتیجہ بہر حال یہی ہوگا کہ وہ نقصان اٹھائیں گے اور اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو ہلاکت میں ڈالیں گے ۔کیونکہ سیدھے راستہ کو ترک کرکے کبھی کوئی قوم نجات حاصل نہیں کر سکتی ۔یہ آیت اسلام کی صداقت اور محمدرسول اللہ ﷺ کی راستبازی کا اتنا کھلا ثبوت ہے کہ اس پر جتنا بھی غور کیا جائے اتنی ہی اسلام کی صداقت اور اُسکی حقانیت واضح ہوتی ہے ۔اسلام تیرہ سو سال سے دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کر رہا ہے کہ صراطِ مستقیم وہی ہے جسکی طرف محمدرسول اللہ ﷺ لوگوں کو بُلا رہے ہیں اور یہ کہ دنیا جب بھی اس کے خلاف کسی اور راستہ پر چلے گی وہ تباہ و برباد ہوگی ۔اور واقعات شہادت دیتے ہیں کہ ہمیشہ یہی دعویٰ سچا ثابت ہو رہا ہے ۔چنانچہ دیکھ لو اس وقت تک یورپ کے مختلف نظریے اسلام سے ٹکرا چکے ہیں ۔جن میں سے بعض مذہبی ہیں اور بعض سیاسی اور اقتصادی ۔مگر ہر نظریہ میں یورپ نے بہت بُری طرح شکست کھائی ہے ۔اور آخروہ اُسی راستہ کی طرف آیا ہے جو اسلام نے پیش کیا تھا ۔
مذہبی نظریوں میں سے سب سے بڑا توحید کا عقیدہ ہے ۔جب عیسائیوں نے ترقی کی تو انہوں نے حضرت عیٰسی علیہ السلام کے متعلق جو اللہ تعالیٰ کے ایک بندے تھے اور ہر قسم کے بشری حوائج اپنے اندر رکھتے تھے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ نعوذباللہ خدا اور خداکے بیٹے تھے اور مسلمانوں سے اس عقیدہ میں انہوں نے لڑائی شروع کر دی ۔یورپ کا یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ مسلمانوں نے بھی بعض باتوں میں اُن کی ہمنوائی اختیار کر لی اور کہنے لگے کہ حضرت مسیح ؑ خدا تو نہیں تھے مگر کسی حد تک وہ علمِ غیب ضرور رکھتے تھے ۔وہ مُردوں کو بھی زندہ کر لیا کرتے تھے ۔کچھ جانور بھی وہ پیدا کر لیا کرتے تھے ۔اس طرح آہستہ آہستہ انہوں نے خداتعالیٰ کی کئی صفات حضرت مسیح ؑ کی طرف منسوب کر دیں اور وہ بھی عیسائیت کی تقویت کا موجب بن گئے ۔مگر یورپ اور اسلام کی اس ٹکر کا نتیجہ کیا ہوا؟ عیسائی اسلام سے ٹکرائے اور اسلئے ٹکرائے کہ وہ اسلام کو مسیحت کا شکار بنائیں ۔مگر اس ٹکرائو کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہی یورپ جو توحید پر حملہ کیا کرتا تھا ۔وہی یورپ جو تثلیث کا پر ستار تھا آج اپنے مُنّہ سے توحید کا اقرار اور تثلیث کا انکار کر رہا ہے ۔یہ الگ سوال ہے کہ قومی لحاظ سے یورپ کیا کہہ رہا ہے ۔یوں انفرادی رنگ میں اُن سے پوچھ کر دیکھو کہ کیا تم مسیح ؑ کو خدا مانتے ہو۔تو وہ صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو توحید کے قائل ہیں اور ہم اگر مسیح ؑ کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو صرف ان معنوں میں کہ وہ خداتعالیٰ کے مقّرب اور راستباز انسان تھے ۔غرض مغرب اس عقیدہ میں اسلام سے ٹکرایا مگر اسلام ہی غالب آیا اور مغرب اپنے نظریہ میں ناکام ہوا ۔یہ انہی لوگوں کا نظریہ تھا جنہوں نے تو پیں بنائیں ۔ریلیں ایجاد کیں ۔ہوائی جہاز بنائے اور دنیا پر اپنی عظمت کا سکّہ بٹھایا ۔لیکن اسلام سے ٹکرا کر اُن کیلئے اپنی شکست ماننے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا ۔پھر عملی نظریوں میں سے ایک طلاق کا مسٔلہ ہے جو اسلام نے پیش کیا ۔اور جس پر مغرب نے مدتوں ہنسی اڑائی۔بڑے بڑے مقنّن اور ماہر فنون جو یورپ میں چوٹی کے آدمی سمجھے جاتے ہیں اُن کی کتابوں میں طلاق پر ہنسی اڑائی گئی ہے اور کہاگیا ہے کہ یہ بڑی بے حیائی کی بات ہے کہ مردا پنی عورت کو چھوڑ دے اور پھر وہی عورت ایک دوسرے گھر میں جا کر اپنی زندگی بسر کر نے لگے ۔مگر اب پچھلے تیس سال سے یورپ کے ہر ملک میں طلاق کے قانون پاس ہونے لگے ہیں اور وہی مسٔلہ جس کی مخالفت کی جاتی تھی اُس کی تائید کی جا رہی ہے ۔پھر اسلام نے اگر طلاق کا مسٔلہ رکھا تھا تو اُس کے ساتھ کئی قسم کی شرطیں لگا دی تھیں جو عورت کے حقوق کی حفاظت کرتی تھیں ۔مگر یورپ کے بڑے بڑے فلسفیوں اور مقنّنوں نے اس پر ہنسی اڑائی اُنکی کتابوں کے ہزاروں صفحات ان اعتراضوں سے بھرے ہوئے ہیں کہ اس سے عورت اور مرد کی محبت کے حقوق کو تلف کر دیا گیا ہے۔انکے جذبات کو کچل دیا گیا ہے اور انکی زندگی کو تباہ کر دیا گیا ہے ۔مگر اب انہی ہنسی اڑانے والوں کی یہ حالت ہے کہ اُن کے ملکوں میں اس کثرت کے ساتھ طلاق کا رواج ہے کہ ٹائمز آف لنڈن میں مَیں نے ایک دفعہ خبر پڑھی کہ امریکہ کی فلاں عورت مری تو اس کے جنازہ میں گیارہ خاوند شریک ہوئے ۔میں اس خبر کو پڑھ کر حیران رہ گیا کہ گیارہ خاوندوں کے کیا معنے ہیں ۔نیچے تفصیل پڑھی تو لکھا تھا کہ اس عورت نے اٹھارہ خاوند کئے جن میں سے سترہ سے اس نے طلاق لے لی ۔اُن سترہ میں سے چھ مر گئے باقی گیارہ زندہ تھے جو اس احترام میں کہ کسی وقت یہ ہماری بیوی رہ چکی ہے اُس کے جنازہ میں شریک ہوئے ۔پھر علٰیحدگی کی جو وجوہ بیان کی گئی تھیں وہ اور بھی حیرت انگیز تھیں ۔ایک وجہ یہ لکھی گئی تھی کہ اُس کی عورت نے عدالت میں درخواست د ی کہ میرا خاوند گھر میں آتاہے تو مجھے چومتا نہیں۔اس پر مجسٹریٹ نے لکھا ۔اُف اتنا غضب یہ خاوند ہر گز عورت رکھنے کا مستحق نہیں ۔میں اس کی علٰیحدگی کے حق میں فیصلہ دیتا ہوں ۔ایک اور وجہ یہ لکھی تھی کہ عورت نے جج سے کہا میں نے ایک ناول لکھا ہے مگر میرا خاوند کہتا ہے یہ سخت بیہودہ ہے ۔اس پر مجسٹریٹ لکھتا ہے یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اب علٰیحدگی کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں ۔اسی طرح اور کئی وجوہ لکھی تھیں ۔اب انگلستان میںبھی آہستہ آہستہ طلاق کو نرم کیا جا رہا ہے ۔مگر نتیجہ یہ ہے کہ اب امریکہ چلاّ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں طلاق اتنی سستی ہو گئی ہے کہ گھر بر باد ہو گئے ہیں ۔خاوند دفتر سے چڑا ہوا آتا ہے اور وہ اپنی بیوی سے ذرا اونچا بولتا ہے تو بیوی اٹھتی ہے اور گھر سے باہر چلی جاتی ہے ۔پوچھو کہ کہاں جا رہی ہو تو کہتی ہے عدالت میں جارہی ہوں تاکہ خاوند سے علٰیحدگی کا فیصلہ کراؤں ۔غرض اس مسٔلہ میں بھی یورپ نے اسلام سے ٹکرا کر بہت بُری طرح شکست کھائی ۔اگریورپ کے فلاسفر بڑے بڑے اعلیٰ فلسفے بنا سکتے ہیں تو اُن کا یہ چھوٹا سا فلسفہ زیادہ اچھا ہو نا چاہئیے تھا ۔کیونکہ چھوٹی چیز زیادہ آسانی سے بن جاتی ہے اور بڑی چیز بنانی مشکل ہو تی ہے ۔مگر اس چھوٹے سے فلسفے میں بھی اسلام سے ٹکر اکر یورپ کی جو حالت ہوئی ہے وہ آج ساری دنیا پر ظاہر ہے ۔
پھر شرا ب کو لے لو ۔اسلام نے کہا ہے کہ شراب مت پیٔو ۔مگر ساتھ ہی اُس نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ شراب کلی طور پر خراب ہے شراب اور جوئے میں فوائد بھی ہیں مگر چونکہ ان کی مضر تیں زیادہ ہیں اور فوائد کم ہیں اس لئے ہم یہ چیزیں تمہارے لئے حرام قرار دیتے ہیں ۔اب ڈاکٹر بعض مریضوں کو شراب دیتے ہیں تو جن لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ اسلام نے شراب کے کچھ فوائد بھی تسلیم کئے ہیں وہ جھٹ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اسلام نے ایسی اچھی چیز کیوں حرام قرار دے دی ہم نے تو دیکھا ہے کہ فلاں کی نبضیں چھوٹ چکی تھیں مگر برانڈی دیتے ہی اُس کی مُردہ نبض میں حرکت ہو نے لگی اور اُس کے جسم میں جان پڑگئی ۔ایسے لوگوں کے سامنے ہم قرآن کھول کر رکھ دیتے ہیں کہ تم نے تو یہ شراب کا فائدہ آج معلوم کیا ہے مگر ہمارے قرآن نے آج سے تیرہ سو سال پہلے بتا دیا تھا کہ اس میں محض خرابی ہی خرابی نہیں بلکہ فوائد بھی ہیں مگر چونکہ اس کے نقصانات زیادہ ہیں اور چونکہ اس میں بڑا بھاری نقص یہ ہے کہ جب کو ئی شخص اسے پینا شروع کر تا ہے تو اُس کی اعلیٰ دماغی طاقتیں ناکارہ ہو نے لگتی ہیں اور پھر اُسے شراب کی ایسی عادت ہو جاتی ہے کہ وہ اُسے چھوڑ نہیں سکتا اس لئے اسلام نے اسے حرام قرار دے دیا۔یہ ہو سکتا ہے کہ سو میں سے ایک آدمی ایسا ہو جسے شراب پینے کے باوجود اس کی عادت نہ پڑے مگر سو میں سے نناوے یقینا اس کے عادی ہو جائیں گے ۔اور ایک کی خاطر نناوے کو قربان نہیں کیا جا سکتا ۔جب سو میں سے نناوے آدمی اس سے خراب ہو جاتے ہیں تو ضروری تھا کہ اس ایک کو نناوے پر قربان کیا جاتا نہ کہ نناوے کو ایک کیلئے قربان کیا جاتا آخر ہر زمانہ کا مقنّن یہ کس طرح ثابت کر سکتا ہے کہ فلاں شخص زیادہ مضبوط ہے اور فلاں شخص کم ۔فلاں شخص میں شراب کو بر داشت کرنے کی زیادہ طاقت ہے اور فلاں میں نہیں ۔ہر شخص کے متعلق نہ اس قسم کی تحقیق ہو سکتی ہے اور نہ ایسی تحقیق یقینی کہلا سکتی ہے ۔اس لئے اسلام نے ایک قانون مقرر کر دیا کہ شراب حرام ہے کیونکہ نناوے فیصد اس کا نتیجہ یہی پیدا ہو تا ہے کہ پینے والے کو شراب کی عادت پڑ جاتی ہے اور پھر وہ اُسے چھوڑ نہیں سکتا۔پس اس مسٔلہ میں بھی اسلام نے جو راہ اختیار کی وہی درست ہے نہ کہ وہ راہ جو یورپ نے اختیار کی ۔
پھر کثرت ازواج کا مسٔلہ ہے ۔قرآن نے اس مسٔلہ کو بیان کیا مگر مسلمانوں نے عیسائیوں اور یو رپین مصّنفین کے ڈر کے مارے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ تو عربوں کے زمانہ کی بات تھی ۔چونکہ عربوں کے رسم و رواج میں یہ بات شامل تھی اس لئے رسول کریم ﷺ نے بھی اُن کی دلداری کرتے ہوئے اس تعلیم کو جاری کر دیا ۔مَیں ایک دفعہ شملہ گیا ۔وہاں درد صاحب مرحوم جو میرے پرائیویٹ سیکرٹری تھے اُن کی طرف سے ایک دعوت ِ عصرانہ میری ملاقات کیلئے گورنمنٹ کے بڑے بڑے افسروں کو دی گئی ۔میں وہاں بیٹھا تھا کہ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے رئیس جنہیں سَر کا خطاب بھی ملا ہو اتھا مسٹر مترا کے ساتھ جو لاء ممبر تھے کمرہ میں داخل ہوئے تو میرے کانوں میں اُنکی یہ آواز پڑی کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو علم نہیں تھا کہ گائے کے سوال پر ہندوؤں میں اسقدر خفگی پیدا ہو گی ورنہ قرآن میں وہ اس کو ضرور حرام قرار دے دیتے ۔جب میرے کانوں میں یہ آواز پڑی تو طبعی طور پر میرے دل میں احساس پیدا ہوا کہ میں ان سے دریافت کروں کہ کیا بات ہو رہی تھی ۔چنانچہ جب وہ بیٹھ گئے تو میں نے مسٹر متّر ا سے کہا کہ ابھی میرے کانوں میں اس قسم کی آواز آئی تھی کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ دونوں کی آپس میں کیا گفتگو ہو رہی تھی ۔انہوں نے کہا ہاں صاحب ! انہوں نے تو کمال کر دیا ۔ان صاحب سے آج مجھے ایک ایسا نکتہ معلوم ہو ا جس سے اسلام کی عظمت میرے دل میں بہت ہی بڑھ گئی ہے اور میں اسلام کا بہت زیادہ قائل ہو گیا ہوں یہ صاحب مجھے بتا رہے تھے کہ اسلام غیر اقوام کی دالداری کا اسقدر خیال رکھتا ہے کہ محض یہودیوں کیلئے اُس نے سؤر کو حرام کر دیا ۔چونکہ یہودیوں کو سٔور سے نفرت تھی اس لئے محمد رسول اللہ ﷺ نے اُن کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے سٔور کو ممنوع قرار دے دیا ۔اگر محمد رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوتا کہ ہندوؤں کے دلوں میں گائے کی کیا عظمت ہے تو یقینا آپ قرآن میں گائے کھانے سے بھی مسلمانوں کو منع کر دیتے ۔کیونکہ اسلام نہایت ہی ملاطفت اور نرمی کی تعلیم دیتا ہے اور وہ دوسروں کے جذبات کا بہت خیال رکھتا ہے مجھے علم نہیں تھا کہ اسلام دوسر ی اقوام کا اسقدر خیال رکھتا ہے ۔ان صاحب سے آج پہلی دفعہ مجھے یہ بات معلوم ہو ئی ہے اور اس بات نے اسلام کی عظمت میرے دل میں بہت ہی بٹھا دی ہے ۔میں نے کہا مجھے افسوس ہے کہ میں اُ س عظمت کو جو آپ کے دل میں پیدا ہوئی ہے کچھ کم کرنے لگا ہوں ۔آپ ذرا اِن صاحب سے پوچھییٔ کہ قرآن محمد رسول اللہ ﷺ نے بتا یا ہے یا خدا نے بتا یا ہے ۔محمد رسول اللہ ﷺ کو تو علم نہیں تھا کہ ہندو اپنے دلوں میں گائے کی کس قدرعظمت رکھتے ہیں۔کیا خدا کو بھی اس بات کا پتہ نہیں تھا ! اس پر وہ مسلمان رئیس گھبرا کر کہنے لگا اوہو مجھ سے غلطی ہو گئی ہے ۔ممکن ہے میرے اس جواب سے مسٹر متّرا کے دل میں اسلام کی عزت کچھ کم ہو گئی ہو مگر یہ زیادہ خطرناک بات تھی کہ وہ قرآن کے متعلق یہ سمجھنے لگتے کہ یہ محمد رسول اللہ ﷺ کی بنائی ہوئی کتاب ہے اور جونیا نکتہ اُن کے ذہن میں آتا تھا وہ اس میں داخل کر دیتے تھے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے تمام احکام محض ہمارے فائدہ کیلئے دیئے ہیں ۔یہ بات بالکل غلط ہے کہ چونکہ محمد رسول اللہ ﷺ کو آئندہ کے حالات کا علم نہ تھا یا چونکہ عربوں میں فلاں فلاں بات پائی جاتی تھی اس لئے قرآن نے بھی ان کا ذکر کر دیا ۔کثرت ازواج کا ہی مسٔلہ لے لو ۔ہم یہ مان لیتے ہیں کہ ساری دنیا ایسا نہیں کر سکتی اس لئے کہ بعض ملک ایسے ہیں جن میں کچھ مرد زیادہ ہیں۔بعض ملک ایسے ہیں جن میں کچھ عورتیں زیادہ ہیں اور بعض ملک عورتوں اور مردو ں کی تعداد کے لحاظ سے مساوی ہیں ۔اب اگر عورتیں ایک دو فیصد ی بھی زیادہ ہوں تو بہر حال تھوڑے لوگ ہی ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتے ہیں ہر ایک نہیں کرسکتا ۔مگر سوال یہ ہے کہ آیا یہ حکم ہے یا ایک سے زیادہ شادیاں کرنیکی اجازت ہے ۔ قرآن اسے حکم قرار نہیں دیتا بلکہ اجازت قرار دیتا ہے ۔اور جب یہ اجازت ہے تو جو لوگ اس سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہو نگے وہی اس پر عمل کریں گے دوسرے نہیں ۔اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ایسے لوگ ایک دو فیصدی سے زیادہ نہیں ہو سکتے ۔مگر بعض دفعہ زمانہ میں مخصوص حالات کے ماتحت ایسے تغیرات بھی ہو سکتے ہیں کہ قومی ترقی کیلئے ایک سے زیادہ شادیاں کرنی ضروری ہو جائیں ۔
۴۶؁ء کے شروع میں جب بہار میں فسادات ہوئے اور مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تو وہاں سے مسلمان بھاگے اور اِدھر اُدھر چلے گئے ۔کوئی مدراس چلا گیا کوئی بمبٔی چلا گیا کوئی کلکتہ چلا گیا اور کوئی کسی اور جگہ چلا گیا ۔ہماری جماعت کا مرکز چونکہ قادیان تھا اس لئے جو لوگ ہماری جماعت سے تعلق رکھتے تھے اُن میں سے بعض قادیان آگئے ۔ایک دفعہ ان لوگوں میں سے ایک شخص مجھے ملنے آیا ۔اور اُس نے کہا میں بہار سے آیا ہوں وہاں مسلمانوں پر جو تباہی آئی ہے اور جس طرح ہزاروں ہزار مسلما ن وہاں سے بھاگ گئے ہیںوہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں ۔میں آپ کے پاس صرف اس لئے آیا ہوں کہ مسلمانوں کی اس بر بادی اورتباہی کو دیکھ کر میرے دل میں یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ اب مسلمان کیا کریں ؟ اور وہ کس طرح دوبارہ ہندو ستان میں ترقی کر سکتے ہیں ؟ میں نے کہا اس کا علاج تو موجود ہے مگر آپ لوگوں نے کرنا نہیں کہنے لگے۔کیوں نہ کریں گے ۔اتنی بڑی تباہی کے بعد بھی اگر ہم نے اپنی بقا کے لئے کوئی تدبیر نہ کی اور کب کریں گے میں نے کہا ۔اسلام نے اسی قسم کی ضرورت کیلئے کثرت ِازواج کی تعلیم دی تھی مگر مسلمانوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ تعلیم تو محض وقتی ضرورت کے ماتحت دی گئی تھی ۔عرب لوگ جاہل تھے اور اُن کو فوراً دبایا نہیں جا سکتا تھا چونکہ اُن میں کثرت ِ ازواج کا رواج تھا اس لئے اسلام نے بھی اُن کی دلداری کیلئے یہ تعلیم دے دی ورنہ اسلام کا منشایہ نہیں تھا کہ ایک سے زیادہ شادیاں کی جائیں اسلام درحقیقت ایک شادی کا ہی قائل ہے عرب کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو تعلیم اس نے دی تھی اسے سارے زمانوں پر چسپاں نہیں کیا جا سکتا ۔مَیں نے کہا آج مسلمانوں پر جو وبال آیا ہے یہ محض اسلامی احکام کی بے حرمتی کرنے کا نتیجہ ہے ۔قرآن کریم کے اور احکام جانے دو اس کے صرف دو مسٔلے ہی ایسے ہیں کہ اگر مسلمان صرف انہی پر عمل کرتے تو آج سارا ہندوستان مسلمانوں سے بھرا ہو اہوتا ۔اُن میں سے ایک تبلیغ ہے اور ایک کثرتِ ازواج اگر سارے مسلمان تبلیغ کرنے لگ جاتے تو آدھے ہندوستان کو مسلما بنا لیتے اور اگر تعداد ازواج پر عمل کرتے تو باقی آدھا ہندوستان بھی مسلمان ہو جاتا اور ہندو کہیں نظر بھی نہ آتا۔ مگر تم نے اس پر عمل نہ کیا اور یہ بحث کر نی شروع کر دی کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے یہ بات یونہی کہہ دی تھی اسی کا خمیازہ آج مسلمان بھگت رہے ہیں ۔پھر میں نے انہیں کہا کہ اگر آج بھی مسلمان اس پر عمل کریں تو میں ذمّہ لیتا ہوں کہ پچاس سال میں ایک ہندو بھی ہندوستا ن میں نظر نہیں آئیگا ۔آخر یہ واضح بات ہے کہ جب ہر شخص چار شادیاںکرنے کیلئے تیار ہو جائیگا تو شادی کیلئے اعلیٰ خاندان کی عورتیں میّسر نہیں آسکیں گی ۔لازمًا گونڈ بھیل گومل اور دوسری ادنیٰ اقوام کی طرف انہیں توجہ کرنی پڑے گی ۔اور انکی لڑکیو ں سے شادی کرنی پڑے گی ۔اس طرح دو چار سال میں ہی وہ سارے کے سارے خاندان ہی مسلمان ہو جائیں گے ۔پھر ہندو کے ہاں اگر ایک بچہ پیدا ہو گا تو مسلمان کے ہاں چار چار پیدا ہو نگے ۔ہندویوں بھی نسل کے لحاظ سے کمزور ہوتا ہے ۔اس لئے اس کے اگر دو بچے ہونگے تو تمہارے سولہ ہونگے نتیجہ یہ ہوگا کہ بیس پچیس سال میں صرف تم ہی تم ہوگے او ر تمہارا ہی ہندوستان میں زور ہوگا۔وہ کہنے لگا جو بچے پیدا ہو نگے وہ کھائیں گے کہاں سے ؟ میں نے کہا یہی تو اس میں نکتہ ہے جسے تم سمجھتے نہیں ۔جب کوئی قوم بھوکی ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جایا کرتی ہے ۔ایک زمانہ آئیگا جب انہیں کھانے کیلئے روٹی نہیں ملے گی ۔تن ڈھانکنے کیلئے کپڑا میسّر نہیں آئے گا ۔علاج کیلئے دوا نہیں ملے گی ۔رہنے کیلئے مکان نہیں ملے گا تب یک دم اُن میں جو ش پیدا ہو گا اور وہ کہیں گے اب ہم اس حالت میں زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے ہم مر جائیں گے یا دوسروں کو مار ڈالیں گے ۔اور جب وہ اٹھے تو یکدم سارے ملک پر قابض ہو جائیں گے ۔لوگ سمجھتے ہیں کہ بھوک ایک عذاب ہے حالانکہ بھوک خود ایک اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے۔جس قوم میں بھوک آجائیگی وہ زیادہ دیر تک غلام بنا کر نہیں رکھی جا سکے گی ۔وہ شیر بن جائیںگی۔اور اس کا ایک ایک فرد مرنے مارنے کیلئے تیار ہو جائیگا ۔اور جب وہ مرنے مارنے کیلئے تیار ہو گئے تو اُن کے مقابلہ میں کوئی اور قوم کہاں ٹھہر سکیں گی ۔پہلے ہی یہ ایک کے مقابلہ میں آٹھ ہونگے او ر پھر بھوکے شیر ہونگے ۔نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ لڑیں گے اور ملک پر قابض ہو جائیں گے ۔اسی وجہ سے ہندوستان میں آج کل ادنیٰ اقوام زیادہ طاقتور ہیں لیکن مسلمان ذلیل ہیں کیونکہ ہندو سمجھتا ہے کہ مسلمانوں پر بے شک ظلم کر لو وہ اپنے اموال کی وجہ سے کبھی بغاوت نہیں کر سکتے لیکن ادنیٰ اقوام پر ظلم نہ کر و کیونکہ وہ غربت کی وجہ سے بغاوت پر آمادہ ہو جائیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ تم جس کو عیب سمجھتے ہو وہ عیب نہیں بلکہ بہت بڑا انعام ہے اور یہی علاج ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے مقرر ہے ۔مگر میں نے پھر کہا کہ علاج تو میں نے بتا دیا ہے مگر تم نے میری بات ماننی نہیں ۔اس واقعہ پر چھ ماہ گذرے تھے کہ انڈیمان سے مجھے ایک خط ملا ۔خط لکھنے والا کوئی مدرس یا پروفیسر تھا ۔اُس نے سخت سُست کہنے کے بعد مجھے لکھا کہ آپ لوگ کچھ کرتے نہیں ۔اگر کثرتِ ازواج پر ہی مسلمان عمل کرتے تو آج اُن کی یہ حالت کیوں ہوتی ۔میں نے اُسے جواب میںلکھا کہ تم مجھے مت کو سو۔میں تو لوگوں سے کہتا رہتا ہوں ۔ملامت کرنی ہے تو اپنے لوگوں کو کرو جو اس پر عمل نہیں کرتے ۔اب دیکھو یہ کثرت ِ ازواج کا مسٔلہ ہے جو اسلام نے پیش کیا ۔یہ کتنا اہم مسٔلہ تھا ۔مگر مسلمانوں نے اس کو کس طرح فراموش کر دیا اور وہ بھی عیسائیوں اور ہندوؤں اور دوسرے مذاہب والوں سے ڈر کر حالانکہ قرآن کریم میں بار بار آتا تھا کہ عیسائی اور یہودی تمہارے دشمن ہیں ۔تم ان کی باتیں کبھی نہ ماننا۔آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک لچکدار قانون ہو اور ایک غیر لچکدار اور پھر ان قانونوں کو ماننے والی قومیں اکٹھی رہ سکیں ۔ایک عیسائی اپنی قوم کی حالت دیکھے گا تو فوراً کہیگا کہ اس کے لئے یوں قانون بنائو ۔مگر مسلمان کہیگا قانون ہم نے بنانا ہے یا خدا نے ۔قانون تو وہ بنا چکا ۔اب ہمارا اختیار نہیں کہ ہم اس کے مقابلہ میں کوئی اور قانون بنائیں ۔اس پر وہ کہیگا ۔تم پاگل ہو تم حالات کو نہیں سمجھتے ۔ایک پُرانے قانون کی رٹ لگا ئے چلے جارہے ہو ۔ا سطرح قدم قدم پر ہمارا اور اس کا اختلاف ہو جائیگا۔ہمارے نزدیک خداتعالیٰ کے قانون کی چھوڑنا بے وقوفی ہے اور اُس کے نزدیک خدا تعالیٰ کے قانون پر عمل کرنا بے وقوفی ہے۔ہمارے نزدیک خداتعالیٰ کا قانون آج سے تیرہ سو سال پہلے نازل ہو چکا تھا اب قیامت تک کوئی اور قانون نازل نہیں ہو سکتا مگر اُسکے نزدیک اب نئے قانون کی ضرورت ہے ۔نئے نظریات اور نئے مسلّمات کی اُس کو جستجو ہے ۔جب وہ ہم میں اس قدر اختلاف دیکھتا ہے تو وہ ہمارے نقطۂ نگاہ کا دشمن ہو جاتا ہے اور اُس کی یہ دشمنی ایک ایک قدم پر ظاہر ہو جاتی ہے ۔۲۴ ؁ء میں جب مَیں ولایت گیا تو سرَتھامس آرنلڈ جو علی گڑھ میں پروفیسر رہ چکا تھا اور اُس وقت وہ مشرقی افریقہ کا گورنر تھا اور وہیں سے آیا تھا ایک میٹنگ میں شامل ہو اجس میں مَیں بھی شریک تھا ۔اُس وقت بعض عورتوں نے مجھ سے مصافحہ کرنا چاہا تو میں نے انکار کر دیا اور کہا کہ اسلام میں عورتوں سے مصافحہ کرنا جائز نہیں ۔میری یہ بات اُس پر طبعًا گراں گذری ۔اور اُس نے بعد میں کہنا شروع کر دیا کہ میں اسلام کا بڑا ماہر ہوں ۔بہت بڑا مصّنف ہوں اسلام میں ایسی کہیں تعلیم نہیں ۔اس کے بعد کچھ طالب علم میرے پاس آئے اور انہوں نے ذکر کیا کہ پروفیسر آرنلڈ اس طرح ذکر کرتا تھا ۔کیا اسلام میں عورتوں سے مصافحہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ میں نے انہیں تفصیل سے اسلام کی تعلیم بتائی اور کہا کہ اسلام عورتوں سے مصافحہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔اس پر پروفیسر آرنلڈ کے دل میں میرے متعلق اس قدر بغض پیدا ہو گیا کہ جب کوئی میٹنگ ہوتی تو وہ میری موجودگی میں اُس میں شامل نہیں ہوتا تھا ۔ایک دفعہ وہ میٹنگ میں تو آیا مگر مجھ سے دُور دُور رہا ۔میں نے سیکرٹری سے ذکر کیا کہ پروفیسر آرنلڈ محض میری وجہ سے آگے نہیں آتا ۔اُس نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے میں ابھی اُسے بلواتا ہوں میں نے کہا ۔آ پ دیکھ لیں وہ میرے سامنے نہیں آئیگا چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔اُس نے آواز دی اور کہا پروفیسر آرنلڈ ادھر آئو ۔اس پر وہ آتو گیا مگر مجھے دیکھتے ہی ایک دوسرے راستہ سے نکل گیا ۔غرض اس قدر بُغض ان کے دلوں میں اسلامی تعلیم سے پایا جاتا ہے کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں ۔وہ کہتے ہیں ہم اپنی مرضی سے قانون بنانا چاہتے ہیں اور یہ ہر جگہ روڑا اٹکا دیتے ہیں۔اور کہتے ہیں اسلام یوں کہتا ہے پس مسلمانوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کی آپس میں کبھی دلی مودّت نہیں ہو سکتی ۔ہاں اگر کوئی مسلمان اسلام کو چھوڑ دے ۔محمد رسول اللہ ﷺ کا انکار کر دے اور کہے کہ نعوذباللہ خداتعالیٰ کو غلطی لگ گئی تھی اُس نے زمانہ کے حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے قانون نہیں بنایا تب بے شک اُس کی یورپ سے مودت ہو سکتی ہے ۔مگر جب تک وہ ایک خدا کو مانتا ہے جب تک وہ محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان رکھتا ہے جب تک وہ قرآن کو خداتعالیٰ کی کتاب سمجھتا ہے اُس وقت تک ایک مسلمان اور یورپ کی آپس میں دلی مؤدت نہیں ہو سکتی ایک دفعہ میں ہوائی جہازوں کے ایک بڑے افسر سے ملا بعض اور افسربھی اس وقت موجود تھے ۔اُس نے باتوں باتوں میں اسلام پر اعتراض کر دیا۔میں نے اُس کا جواب دیا اُس نے پھر اعتراض کرتا چلا گیا اور میں جواب دیتا گیا ۔میں جانتا تھا کہ باتوں باتوں میں مَیں اسے اس طرح پھنسائونگا کہ اس کے اعتراضات کا خداتعالیٰ سے ٹکرائو ہو جائے گا۔چنانچہ ایک مقام پر آکر وہ پھنس گیا ۔اور میں نے کہا فرمائیے آپ زیادہ عقلمند ہیں یا خدا زیادہ عقلمند ہے ! اُس میں کچھ توجوانی کی ترنگ تھی اور کچھ یوں بھی نو تعلیم یافتہ مسلمانوں میں اللہ تعالیٰ کا ادب کچھ کم ہو تا ہے ۔تھوڑی دیر وہ خاموش رہا ۔مگر پھر کہنے لگا میں سمجھتا ہوں کہ میں زیادہ عقلمند ہوں ۔اس پر اُس کے تمام ساتھی ہنس پڑے کہ بے وقوفی کی وجہ سے یہ پھنس تو گیا ہے مگر بے حیا بن کر اب یہ کہہ رہا ہے کہ میں خداتعالیٰ سے زیادہ عقلمند ہوں۔حقیقت یہ ہے کہ جب تک مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ یہ خداتعالیٰ کی کتاب ہے ۔جب تک وہ یہ سمجھتا ہے کہ خداتعالیٰ مجھ سے زیادہ عقلمند ہے لازمًا اُسے یورپ کا مقابلہ کرنا پڑے گا او اس مقابلہ میں آخر یہی ظاہر ہو گا کہ یورپ ہارا اور اسلام کا خدا جیتا ۔
شراب کے متعلق ہی دیکھ لو ۔کس طرح یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ اسلام انسان کی علّوِ حوصلگی کو نہیں سمجھتا وہ فطرت کے نازک جوہروں کو نہیں پہچانتا ۔وہ سمجھتا ہے کہ شراب صرف اسی طرح پی جاتی ہے کہ انسان بد مست ہو کر بکواس کرنے لگ جائے ۔و ہ ایشیائی لوگ تھے جو اس طرح شراب پیا کرتے تھے ۔ہمارے یورپ کے لوگ وحشی نہیں وہ صرف ایک یا دو پیگ پیتے ہیں جس سے اُن پر کوئی بد حواسی طاری نہیں ہوتی اور انکی عقل ٹھکانے رہتی ہے ۔مگرپھر وہی امریکہ جو اسلام پر اعتراض کیا کرتا تھا اُس نے قانون بنایا کہ شراب نوشی قطعًا ممنوع کی جاتی ہے ۔اگر شراب کے ایک یادو پیگ عقل کو تیز کرتے ہیں تو امریکہ جو سب سے زیادہ شراب پیا کرتا تھا اُس نے شراب کو ممنوع کرنے کی کیوں کوشش کی ؟ اور پھر ممنوع قرار دینے کے بعد اُسے جائز کیوں کر دیا ؟ یہ بھی ایک ثبوت ہے اس بات کا کہ اسلامی قوانین ہی تمام قوانین سے بہتر ہیں ۔امریکہ نے مجبور ہو کر شراب کو ممنوع قرار دیا ۔مگر پھر مجبور ہو کر اسی حرام چیز کو اُس نے حلال کر دیا۔اس کی یہ شکست بتا رہی ہے کہ قرآن جو کچھ کہتا ہے اس کے پیچھے خدائی طاقت ہو تی ہے مگر یورپ جو کچھ کہتا ہے اس کے پیچھے کو ئی خدائی طاقت نہیں ہوتی ۔اسلام نے کہا کہ شراب حرام ہے اور امریکہ نے بھی کہا کہ شراب حرام ہے مگر اسلام کی حرام کی ہوئی چیز آج تک حرام ہے اور امریکہ نے پندرہ سال کے بعد پھر اسی حرام چیز کو حلال کر دیا ۔یہ تفادت بتا رہا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو کتنی بڑی طاقت اور عظمت حاصل تھی ۔عرب کے لوگ شراب کے اسقدر عادی تھے کہ وہ اور وقتوں کے علاوہ تہجد کے وقت شراب پینا خاص طور پر فخر کا موجب خیال کیا کرتے تھے ۔اسلام نے اسی وجہ سے اس وقت مومنوں کے لئے تہجد کی نماز مقرر کر دی۔پھر رات کی شراب کے علاوہ اُن کے امراء صبح سے سوتے وقت تک پانچ دفعہ شراب پیا کرتے تھے ۔اسلام نے انہی اوقات کے مقابلہ میں مومنوں کے لئے پانچ نمازیں فرض کر دیں۔ان نمازوں میں اور بھی حکمتیں ہیں مگر ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انہی اوقات میں عرب کے لوگ شراب پیا کرتے تھے ۔ایک دن محمدرسول اللہ ﷺ اپنی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپ نے اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا ۔آج خدا نے کہاہے کہ شراب پینا حرام ہے ۔اُس وقت مدینہ کے ایک گھر میں کوئی تقریب تھی جس میں بہت سے لوگ مدعو تھے اور نہایت اعلیٰ درجہ کی شراب کے مٹکے انہوں نے منگوائے ہوئے تھے ۔شراب کا ایک مٹکا ختم ہو چکا تھا اور دوسرا دور شروع ہونے والا تھا کہ ایک ڈھنڈور ا پیٹنے والا مدینہ کی گلیوں میں سے گذرا اور اُس نے کہا اے لوگو! سُن لو محمد رسول اللہ ﷺ نے آج خدا کے حکم سے شراب حرام کر دی ہے ۔وہ لوگ جو شراب کا ایک مٹکا پی چکے تھے اُن کے متعلق ہر شخص آسانی سے یہ انداز ہ لگا سکتا ہے کہ وہ کتنے بد مست ہونگے۔کس طرح اُن کی عقل پر پردہ پڑ چکا ہو گا مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی حکومت کا یہ عالم تھا کہ جونہی اُن کے کانوں میں یہ آواز پڑی وہ چونک اُٹھے اور اُن میں سے ایک نے کہا ارے باہر سے آواز آرہی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے شراب حرام کر دی ہے۔دروازہ کھول کر پوچھو تو سہی کہ کیا بات ہے ۔دوسرے نے کہا جب محمد رسول اللہ ﷺ کا ایک حکم ہمارے کانوں میں پہنچ چکا ہے تو اب یہ کیاسوال ہے کہ میں دروازہ کھولوں اور اعلان کرنے والے سے پوچھوں کہ کیا بات ہے ۔میں پہلے شراب کا مٹکا توڑونگا اور پھر اس سے پوچھو ں گا کہ کیا بات ہے ! ادھر امریکہ جو عرب کو وحشی قرار دیتا ہے اور جس کے ڈر کے مارے بعض مسلمان بھی اپنی نادانی سے یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ عرب ایک غیر مہذب اور نا ترتیب یافتہ قوم تھی وہ دوسروں کی بات ماننے کیلئے آسانی سے تیار نہیں ہوتے تھے ۔محض ان کی خاطر محمد رسول اللہ ﷺ نے کثرتِ ازدواج کی تعلیم دے دی یا ایسے ہی اور احکام دے دئیے اُس ملک کی اکثریت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ شراب بُری چیز ہے ۔اس ملک کے سائنسدان یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ شراب بُری چیز ہے ۔اس ملک کے ڈاکٹر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ شراب بُری چیز ہے ۔اس ملک کی آئین ساز حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ شراب بُری چیز ہے اور وہ اس کے خلاف ملک میں قانون پاس کرتے ہیں مگر اس زمانہ کا وہ تعلیم یافتہ اور مہذب آدمی جو عرب کو جاہل قرار دیتا ہے جو محمدر سول اللہ ﷺ کی تعلیم پر اعتراض کیا کرتا ہے خود اتنا جاہل ہو جاتا ہے کہ وہ پھر بھی شراب نہیں چھوڑ سکتا بلکہ اس قانون کے بعد لوگ اتنی گندی شرابیں پینے لگ گئے کہ ملک میں ایک ہیجان بر پا ہو گیا ۔یہا ں تک واقعات ہوئے کہ لوگوں نے جوش میں آکر میتھیلیٹڈ سپرٹ پینی شروع کر دی اور اندھے ہوگئے ( میتھیلیٹڈ سپرٹ ایک قسم کی شراب ہے جس میں میتھل جو زہرہے ملایا جاتا ہے تاکہ لوگ اس کو پی نہ سکیں اور صرف چولہے میں جلانے کے کام آئے ) یہ وہ سمجھ دار لوگ ہیںجو موجود زمانہ میں اپنی تہذیب کا ڈھنڈ ورا پیٹتے پھرتے ہیں ۔اور وہ نعوذ باللہ ’’ جاہل اور بد تہذیب ‘‘ عرب تھے جن کی زبان سے بد مستی کی حالت میں بھی اگر کوئی فقرہ نکلا تو یہ کہ یہ کیا سوال ہے کہ میں دروازہ کھولوں او ر دریافت کروں کہ کیا بات ہے ۔کیا شراب کے مٹکے کی زیادہ قیمت ہے یا محمد رسول اللہ ﷺ کے حکم کی زیادہ قیمت ہے۔جب ایک آواز ہمارے کانوں میں پہنچ چکی ہے تو اب میں پہلے مٹکا توڑوں گا اور پھراس سے دریافت کرونگا کہ کیا بات ہے اگر بات غلط نکلی تو ہم اور شراب منگوالیں گے اور اگر ٹھیک نکلی تو ہم اس فخر سے اپنا سر اونچا کر سکیں گے کہ ہم نے محمد رسول اللہ ﷺ کے حکم کو سُنتے ہی اُس پر عمل کر لیا ۔
ُ پھر جٔوا ہے ۔دنیا نے اسلام کے اس حکم پر بھی کہ جٔوا مت کھیلو ہنسی اُڑائی۔انگریز ساری کی ساری جٔوا باز قوم تھی مگر آج کوئی ملک دکھائو جس میں جٔوئے کے متعلق قانون نہ بن رہے ہوں ۔وہ ابھی کھلے طور پر اسے چھوڑ نہیں سکے مگر اسلام کی بر تری اور اُس کی فضیلت کی یہ کتنی بّین دلیل ہے کہ اسلام نے آج سے تیرہ سو سال پہلے جو حکم دیا تھا مغرب رفتہ رفتہ بعض قیود اور شرائط عائد کرتے ہوئے اس کی طرف آرہا ہے ۔مگر کھلے طور پر جٔوئے کو ممنوع قرار دینے میں ابھی اُسے شرم آتی ہے ۔جیسے ذوق کہتا ہے
؎ بعد مدت کے گلے ملتے ہوئے آتی ہے شرم
اب مناسب ہے یہی کچھ تم بڑھو کچھ میں بڑھوں
اگر وہ یکدم جٔوا بند کردیں تو انہیں یہ ڈر محسوس ہو تا ہے کہ لوگ کہیں گے آخر تم اسی بات کی طرف آگئے جو اسلام نے پیش کی تھی اس لئے وہ مختلف قیود عائد کرتے چلے جا رہے ہیں ۔کہتے ہیں فلاں طرز کا جٔوا منع ہے ۔اس اسطرح کھیلنا منع ہے ۔اگر کھیلنا ہی ہو تو کسی فرم کی معرفت جٔوا کھیلا جائے اور اُس کا ریکارڈ رکھا جائے ۔غرض کئی قیود ہیں جو وہ عائد کررہے ہیں ۔گویا بات وہی آگئی جو اسلام نے کہی تھی کہ جٔوا مت کھیلو مگر کھلے بندوں ابھی اسے ماننے کی ہمت اُن میں نہیں ۔
پھر سزائے موت ہے ۔قرآن کریم نے بعض جرموں کے متعلق سزائے موت تجویز کی تو کہا گیا کہ یہ کتنے بڑے ظلم کی بات ہے کہ ایک انسان کی جان لے لی جائے ۔ہمارے مسیح نے تو یہ کہا ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دو۔چنانچہ یورپ کے بعض ملکوں نے سزائے موت کو منسوخ کر دیا ۔مگر پچیس تیس سال کے بعد انہوں نے پھر قانون بنائے کہ سزائے موت ضرور ہونی چاہئیے کیونکہ اس کے بغیر امن قائم نہیں رہتا ۔غرض بیسیوں چیزیں ہیں جو اسلام نے پیش کیں اور جن پر مغرب نے ہنسی اُڑائی مگر ایک ایک چیز سے ٹکرانے کے بعد آخر مغرب کو تسلیم کرنا پڑا کہ وہی راہ درست ہے جس پر اسلام دنیا کو چلانا چاہتا ہے اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ آج سے تیرہ سو سال پہلے کی کتاب جو ایک اُمتی نبی ؐ نے دنیا کے سامنے پیش کی تھی وہ اُسی خدا کا قانون ہے جو فطرت ِ انسانی کا خالق ہے ۔وہ جانتا تھا کہ جو مشین میں نے بنائی ہے وہ کس طرح چل سکتی ہے اور اُس کی درستی کیلئے کیا کیا چیزیں ضروری ہیں ۔مگر مصیبت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر خود کا مل ایمان نہیں ۔وہ یورپ کی ہر بات پر حیران ہو کر اُس کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ یورپ ناکام ہو ا تو اس کے بعد انہیں خیال پیدا ہوتا ہے کہ اصل تعلیم تو وہی ہے جو قرآن نے پیش کی مگر اتنے میں یور پ ایک اور بات نکال لیتا ہے اور مسلمان پھر اس کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں۔انکی مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ عرب میں ایک فاتر العقل لڑکا تھا جسے اُس کے ساتھی لڑکے ہمیشہ چھیڑتے اور دِق کرتے رہتے ۔جب وہ سخت تنگ آجاتا تو اُن سے پیچھا چھڑانے کیلئے کہتا ۔ارے تمہیں پتہ نہیں کہ فلا ں رئیس کے ہاں بہت بڑی دعوت ہے ۔اُس نے کئی اونٹ اور دُنبے ذبح کئے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلا رہا ہے ۔تمہارے ماں با پ اور بھائی بہنیں سب وہاں گئے ہوئے ہیں ۔تم اگر یہیں رہے تو گوشت وہ کھا جائیں گے اور تم محروم رہ جائو گے ۔لڑکے اُس کی بات سُن کر دھوکے میں آجاتے اور دعوت کھانے کیلئے اُس رئیس کے مکان کی طرف دوڑجاتے اور یہ اُن کی مار سے بچ جاتا۔مگر اُن کے جانے کے بعد اس کے دل میں خیال پیدا ہو تا کہ میں نے تو ان سے جھوٹ موٹ ایک بات کہی تھی شاید سچ مچ ہی وہاں کوئی دعوت ہو ۔او ر اگر ایسا ہو اتو یہ لڑکے تو گوشت کھا جائیں گے اور میں محروم رہ جائونگا ۔اس خیال کے آتے ہی وہ خود بھی اُس رئیس کے مکان کی طرف دوڑ پڑتا ۔یہ ابھی راستہ میں ہی ہوتا کہ آگے سے وہ لڑکے غصّہ میں بپھرے ہوئے آرہے ہوتے اور ادھر سے یہ صاحب ہانپتے کانپتے جاپہنچتے تو پکڑ کر خوب مارتے اور کہتے تم نے ہمیں بڑا دھوکا دیا ۔یہ مار کھانے کے بعد کہتا تم جو مجھے مارتے پیٹتے ہو اس لئے مجھے دھوکا کرنا پڑتا ہے۔اصل میں فلاںجگہ دعوت تھی مگر میں نے تمہیں بتا یا نہیں ۔اس پر انہوں نے پھر اُسے چھوڑ کر اُس طرف کو دوڑ پڑنا ۔مگر اُن کے جاتے ہی اس کے دل میں پھر خیال آجانا کہ اگر وہاں سچ مچ دعوت ہوئی تو میں محروم رہ جائوں گا اور یہ لڑکے دعوت اڑا جائیں گے۔چنانچہ اس کے بعد وہ خود بھی اسی طرف کو دوڑ پڑتا ۔یہ ابھی راستہ میں ہی ہوتا کہ لڑکے اس طرف سے بھی واپس آرہے ہوتے تھے اور وہ پھر اُسے پکڑ کر مارنا شروع کر دیتے وہ تو بیچارہ فاتر العقل تھا مگر مسلمان جو قرآن کو مانتے ہیں اُن کا یہ حال ہے کہ پہلے ایک بات میں یورپ کے پیچھے دوڑتے ہیں اور جب وہ ناکام ہو کر دوسری سکیم پیش کرتا ہے تو پھر اُس کے پیچھے دوڑنے لگ جاتے ہیں۔دوسری سکیم میں ناکام ہو کر وہ تیسری سکیم پیش کرتا ہے تو پھر اُس کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں ۔غرض یورپ آگے آگے ہے اور مسلمان پیچھے پیچھے ۔اب سٹالن اور رشیا کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ساری عزت اور ساری ترقی رشیا کے پیچھے چلنے میں ہے ۔اس قسم کی غلطیاں اور کمزوریاں اس لئے واقعہ ہوتی ہیں کہ قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کا سچّا کلام سمجھ کر نہیں مانا جاتا بلکہ صرف رسمی طور پر اُس پر ایمان رکھا جاتا ہے ۔حالانکہ مسلمان اگر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اُن کیلئے سوائے اس کے اور کوئی راہ نہیں کہ وہ حقیقی طور پر اس بات پر ایمان لائیں کہ ساری برکت قرآن کریم میں ہے اور ساری بر کت محمد رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں ہے اور اگر ہم ذرا بھی اس سے ادھر اُدھر ہوئے تو ہمیں بھی نقصان پہنچے گا اور ہماری آئندہ نسلیں بھی تباہ ہو نگی کیونکہ صراط مستقیم پر چلے بغیر کوئی انسان اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتا ۔
وَلَوْرَحِمْنٰھُمْ وَکَشَفْنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِذَا ھُمْ فِیْہِ مُبْلِسُوْنَ ہ
ترجمہ(۷۸)
اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو ضرر انکوپہنچ رہا ہے اُسے دُور کردیں تو وہ اپنی سرکشی میں اور بھی بڑھ جائیں ۔اور ہم نے ان کو سخت عذاب میں جکڑ رکھا ہے پھر بھی وہ اپنے رب کے سامنے عاجزانہ طور پر نہیں جھکے اور نہ اسکے سامنے گریہ و زاری کی ۔یہاں تک کہ جب ہم اُن پر ایک سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں گے تو وہ مایوس ہو کر بیٹھ جائیں گے۔ ۱۶؎
۱۶؎ حل لغات :
مُبْلِسُوْنَ : اَبْلَسَ سے ہے اوراَبْلَسَ کے معنے ہیں قَلَّ خَیْرُہ‘ ۔اُس سے بھلائی کی توقع کم ہوگئی ۔اِنْکَسَرَ وَحَزَنَ ۔شکستہ خاطر اور غمگین ہو گیا اور جب اَبْلَسَ مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ کہیں تو اس کے معنے ہونگے یَئِسَ ۔وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو گیا ۔اور اَبْلَسَ فِیْ اَمْرِہٖ کے معنے ہیں تَحَیَّرَ ۔وہ اپنے معاملہ کے بارے میں حیرت میں پڑگیا ۔اَبْلَسَ فُلَان’‘ کے ایک معنے سَکَتَ غَمًّا کے بھی ہیں یعنی غم و اندوہ کی وجہ سے خاموش ہو گیا ۔(اقرب)
تفسیر :
فرماتا ہے ۔ہم تو اپنی صفات کے مطابق چاہتے ہیں کہ ان پر رحم کریں اور ان کی مصیبتوں کو دُور کریں ۔لیکن ہمیں نظر آرہا ہے کہ اگر ہم ایسا کریں گے تو وہ شرارتوں میں اور بھی بڑھ جائیں گے اور ہمارا یہ دعویٰ بے ثبوت نہیں۔اس قوم پر پہلے بھی عذاب آچکے ہیں مگر پھر بھی وہ اپنے رب کے حضور نہیں جھکی اور اُس نے کوئی عاجزی نہیں دکھائی ۔ہاں جب ہمارا آخری سخت عذاب آجائیگا تو اُس وقت وہ مایوس ضرور ہو جائیں گے ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتا یا ہے کہ ہم جب بھی کسی قوم پرعذاب نازل کرتے ہیں ہماری اصل غرض اس عذاب سے یہ ہوتی ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں اور اپنی بد اعمالیوں سے باز آجائیں مگرلوگوں کی یہ کتنی بڑی بد قسمتی ہے کہ وہ عذاب کے آنے پر بھی اپنی اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور اپنے دلوںمیں خداتعالیٰ کی خشیت پیدا نہیں کرتے حالانکہ اگر وہ ذرا بھی خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں تو اللہ تعالیٰ اُن سے عذاب کو دُور کر لے ۔یونس ؑ کی قوم کا واقعہ ہمارے سامنے ہے ۔بائیبل میں لکھا ہے کہ جب حضرت یونس ؑ نے اعلان کیا کہ چالیس دن کے اندر اندر نینوہ تباہ ہوجائیگا تو نینوہ کے باشندوں نے خدا پر ایمان لا کر روزہ کی منادی کی اور ادنیٰ و اعلیٰ سب نے ٹاٹ اوڑھا اوریہ خبر نینوہ کے بادشاہ کو پہنچی اور وہ اپنے تخت پر سے اُٹھا اور بادشاہی لباس کو اتار ڈالا اور ٹاٹ اوڑھ کر راکھ پر بیٹھ گیا اور بادشاہ اور اُس کے ارکان ِدولت کے فرمان سے نینوہ میں یہ اعلان کیا گیا اور اس بات کی منادی ہوئی کہ کوئی انسان یا حیوان اور انسان ٹاٹ سے ملبس ہوں اور خدا کے حضور گریہ و زاری کریں بلکہ ہر شخص اپنی بُری روش اور اپنے ہاتھ کے ظلم سے باز آئے شاید خدا رحم کرے اوراپنا ارادہ بدلے اوراپنے قہر ِ شدید سے باز آئے اور ہم ہلاک نہ ہوں ۔جب خدا نے اُن کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی اپنی بُری روش سے باز آئے تو وہ اس عذاب سے جو اُس نے اُن پر نازل کر نے کو کہا تھا باز آیا اور اُسے نازل نہ کیا۔
( یوناہ باب ۳ آیت ۵ تا ۱۰)
قرآن کریم خو د اس واقعہ کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ فَلَوْلَا کَانَتْ قَرْیَۃ’‘ ۔۔۔۔۔۔۔وَمَتَّعْنٰھُمْ اِلیٰ حِیْنٍ
(یونس ع ۱۰ )
یعنی یونس ؑ کی قوم کے سوا کیوں کوئی اور بستی بھی ایسی نہ ہوئی جو سب کی سب ایمان لاتی اور اس کا ایمان لانا اُسے نفع دیتا۔چنانچہ دیکھ لو ۔یونس ؑ کی قوم کے لوگ جب ایمان لائے تو ہم نے اُن پرسے اس دنیا کا رسوا کن عذاب دور کر دیا اور انہیں ایک وقت تک ہر طرح کا سامان اور رزق عطا فرمایا۔اس سے ظاہر ہے کہ بندے اگر توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سچّے دل سے رجوع کریں اور بد اعمالیوں سے باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے عذاب کو دورکر دیا کرتا ہے خواہ اُس عذاب کی اُس نے پیشگوئی ہی کیوں نہ کی ہوئی ہو ۔کیونکہ انذاری پیشگوئیوں سے بڑی غرض یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کو اصلاح کا موقعہ دیا جائے ۔چنانچہ دیکھ لو فتح مکہ کے وقت جب محمد رسول اللہ ﷺ کی ساری قوم نے آپ کی غلامی کی قبول کر لیا تو باوجود اس کے کہ وہ شدید جرائم کی مرتکب رہ چکی تھی اور اگر اُسے سزا دی جاتی تو قانونی رنگ میں بالکل جائز ہوتی اللہ تعالیٰ نے اسے جسمانی سزا سے بھی بچا لیا اور روحانی لحاظ سے بھی اُسے بڑی ترقیات عطا فرمائیں ۔مگر فرماتا ہے ان لوگوں کی یہ حالت نہیں وَلَقَدْ اَخَذْنَاھُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوْا لِرَبِّھِمْ وَ مَا یَتَضَرَّعُوْنَ ہم نے ان کو سخت عذاب میں جکڑا مگر پھر بھی یہ اپنے رب کے حضور عاجزانہ رنگ میں نہ جھکے ۔اور اُس سے اپنے گناہوں کی معافی انہوں نے طلب نہ کی ۔آخر اس کا یہی نتیجہ ہو گا کہ یہ ایک دن آخری عذاب میں مبتلا ہو جا ئیں گے اور اُس وقت اپنی نجات کی کوئی راہ نہیںپائیں گے اور دنیوی سہاروں کو ٹوٹتا دیکھ کر بالکل مایوس اور نا امید ہو جائیں گے اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ قرآن کریم نے صرف یہی نہیں بتا یا کہ مجر م قوم اس کے عذاب کا شکار ہوا کرتی ہے بلکہ اُس نے اس مضمون کو بھی بیان کیا ہے کہ وہ سزا دیتے وقت کن امور کو ملحوظ رکھا کرتا ہے تاکہ اُس کی سزا کو ظلم قرار نہ دیا جا سکے ۔چنانچہ قرآن کریم کے مطالعہ سے پہلی بات تو یہ معلو م ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر فعل کے تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا کرتا ہے چنانچہ فرماتا ہے ۔وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذِ الْحَقُّ ُّ ( اعراف ع ۱)اس دن تمام اعمال کا وزن کرنا ایک ثابت شدہ حقیقت ہے ۔انسانوں کی تو یہ کیفیت ہوتی ہے کہ اگر وہ کسی شخص سے اڑتی ہوئی خبر بھی سُن لیں کہ فلاں شخص نے چوری کی ہے تو اسے فوراً چو ر سمجھنے لگ جاتے ہیں اور تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے مگر اللہ تعالیٰ سزا دیتے وقت یہ بھی ملحوظ رکھتا ہے کہ اُس نے یہ فعل کن حالات میں کیا ہے اور کتنی سزا کا مستحق ہے۔
دوسری بات اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جس کا جرم ہو صرف اسی کو پکڑا جاتا ہے ۔یہ نہیں ہوتا کہ دوسروں کے جرائم کے بدلہ میں ایک غیر مجرم کو سزا دے دی جائے ۔بلکہ جس کا قصور ہو صرف اسی کو سزا دی جاتی ہے ۔چنانچہ وہ فرماتا ہے وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃ’‘ وِزْرَ اُخْرٰی ( انعام ع ۲۰) کوئی بوجھ اٹھانیوالی ہستی کسی دوسری ہستی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی ۔یعنی وہ شخص جو خود ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہو وہ کسی دوسرے کی کوئی مدد نہیں کر سکتا ۔پس سزا صرف مجرم کو دی جاتی ہے یہ نہیں ہوتا کہ اُس کا بوجھ کسی دوسرے پر ڈال دیا جائے ۔یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے اس آیت میںبھی بیان فرما یا ہے ۔لَاتَجْزِیْ نَفْس’‘ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا ( بقرۃ ۶ع)یعنی کوئی شخص کسی دوسر ے شخص کا سزا میں قائم مقام نہیں بن سکے گا ۔
تیسری بات اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جتناکسی کا جرم ہو اتنی ہی اسے سزا دی جاتی ہے ۔یہ نہیں ہوتا کہ جرم تو تھوڑا ہو اور سزا زیادہ ہو ۔چنانچہ وہ فرماتا ہے جَزٰٓ ؤ ُا سَیِّئَۃٍسَیِّئَۃٍمِّثْلُھَا ( شورٰی ۴ ع)یعنی بدی کی سزا اتنی ہی دی جاتی ہے جتنا کہ جرم ہو اور دونوں کے تناسب کو ملحوظ رکھا جاتا ہے ۔
چوتھی بات اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ سزا دینے سے پہلے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اُس نے نیک کام کون کون سے کئے ہیں ۔اور اگر کسی کے نیک اعمال زیادہ ہوں تو سزا معاف کر دی جاتی ہے چنانچہ وہ فرماتا ہے فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنَہ‘ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ( اعراف ۱ ع )جن کے وزن بھاری ہونگے یعنی جن کے اعمال نیک اُن کے اعمالِ بد سے بڑھ کر ہونگے اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عفو کی چادرمیں لے لیگا اور اُ ن کے گناہوں سے درگذر فرمائیگا ۔
پانچویں بات اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ سزا کا فیصلہ کرتے وقت کوئی سفارش قبول نہیں کی جاتی چنانچہ وہ فرماتا ہے وَلَایُقْبَلُ مِنْھَا شَفَاعَۃ’‘ ( بقرۃ ۶ ع ) کوئی شفاعت اور سفارش کسی جان کی طرف سے قبول نہیں کی جاتی ۔
چھٹی بات اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ سزاد یتے وقت اُس کے رحم کا پہلو ہمیشہ غالب ہو تا ہے اور وہ کبھی کسی مجرم کو انتہائی سزا نہیں دیتا بلکہ جب بھی سزا دیتا ہے اس کے جرم سے کم دیتا ہے ۔چنانچہ فرماتا ہے رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ئُ( اعراف ۱۹ ع)یعنی میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے ۔اور ہر چیز میں اس کی طرف سے آنے والی سزا اور عذاب بھی شامل ہے ۔اس تفصیل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سزاد ینے میں کتنا دھیما ہے ۔اور وہ اپنے بندوں سے کتنی شفقت اور رحمت کا معاملہ کرتا ہے ۔مگر افسوس ہے کہ لوگ پھر بھی اُس کی رحمت سے فائدہ نہیں اٹھاتے وہ اُن کی طرف اپنی محبت کا ہاتھ بڑھاتا ہے۔مگر نادان انسان اُس کے ہاتھ کو ٹھکرا دیتا اور آخر اپنی ہی بد اعمالیوں کے چکر میں پھنس کر عذاب کا شکار ہو جاتا ہے ۔
وَھُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَ لَکُمُ السَّمْعَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قُلْ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ ہ
ترجمہ() اور وہ خدا ہی ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل پیدا کیا ہے ۔لیکن تم بالکل شکر نہیں کرتے ۔اور وہی ہے جس نے زمین میں تم کو پھیلا دیا ہے اور تم اُسی کی طرف پھر اکٹھے کئے جائو گے ۔اور وہی ہے جو تمہیں زندہ کرتا ہے اور جو تمہیں مارے گا اور رات اور دن کا آگے پیچھے آنا اُسی کے اختیار میں ہے ۔کیا تم عقل نہیں کرتے ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ وہی بات کہتے ہیں جو اُن سے پہلوں نے کہی تھی انہوں نے کہا تھا کہ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیاں بن جائیں گے تو ہم پھر اُٹھائے جائیں گے ۔اس سے پہلے اسی بات کا وعدہ ہم سے اور ہمارے باپ دادوں سے کیا گیا تھا مگر ایسا نہیں ہوا ۔یہ تو صرف پہلوں کی کہانیاں ہیں تو کہہ دے کہ اگر تم جانتے ہو تو بتائو تو سہی کہ یہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے کس کا ہے ؟یقینا وہ اس کے جواب میں کہیں گے اللہ کا۔اس پر تو کہدے کیا تم سمجھ سے کام نہیں لیتے۔ ۱۷ ؎
۱۷ ؎ حل لغات :
اَسَاطِیْر سَطَرَ سے بنا ہے اور سَطَرَ الْکَاتِبُ کے معنے ہیں کَتَبَ اُس نے لکھا ۔اور سَطَرَ الرَّجُلَ کے معنے ہیںصَرَعَہ‘ اُسکو کُشتی میں گِرا لیا ۔اور سَطَرَہ‘ بِا السَّیْفِ کے معنے ہیں قَطَعَہ‘ بَہٖ اُسکو تلوار سے کاٹ ڈالا ۔اور اِسطَار اُسطَار ۔اُسطُور اور اَساطِیر کے معنے لکھی ہوئی چیز کے ہیںاور ایسی باتوں کو بھی اَسَاطِیر کہتے ہیں جن میں کوئی نظام نہ ہو ۔اور قصّے اور کہانیوں کو بھی اَسَاطِیر کہتے ہیں۔(اقرب)
تفسیر :
فرماتا ہے ۔ذرا سوچو تو سہی کہ تمہاری یہ شنوائیاں تمہاری بینائیاںاور تمہارے دل تمہارے کس کام کے بدلہ میں تمہیں ملے ہوئے ہیں۔ان چیزوں کے تم خالق نہیںبلکہ خدا ہی ہے جس نے تمہیں کان اورآنکھیں اور دل بخشے ہیں اور تمہاری پیدا ئش کی ابتداء بھی اُسی نے کی ہے اور تمہاری اُخروی پیدائش بھی وہی کرے گا ۔اور تمہاری زندگی اور موت او ررات اور دن کا آگے پیچھے آنابھی اُسی کے قبضے میں ہے کیونکہ تمام نظام شمسی انسان کے اختیار سے باہرہے ۔اور رات اور دن اس سے پیدا ہوتے ہیں۔اسجگہ کانوں اور آنکھوں کی پیدا ئش کی طرف توجہ دلا کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جب خدا نے تمہیں کان اور آنکھیں عطا فرمائی ہیں اور جس نے اس چند روزہ حیات میں تمہیںسُننے اور دیکھنے کی قابلیت عطا فرمائی ہے کیا وہ تمہارے روحانی کانوں کی سماعت اور روحانی آنکھوں کی بصارت کیلئے کوئی سامان پیدا نہ کرتا ۔اسی طرح جب اُس نے تمہیںوہ دل بخشے ہیں جن پر تمہاری اس مادی زندگی کا انحصار ہے تو خداتعالیٰ یہ کب بر داشت کر سکتاتھا کہ وہ تمہاری روحانی زندگی کا کوئی سامان پیدا نہ کرتا اور تمہیں کانوں اور آنکھوں اور دل کے بغیر رکھتا۔اسی طرح زندگی اور موت بھی اُسی کی طرف سے آرہی ہے ۔وہی پیداکرتا اوروہی مارتا ہے ۔یہی کیفیت روحانی عالم میں بھی دکھائی دیتی ہے ۔وہ انبیاء کے ذریعہ مُردہ اور گِری ہوئی اقوام کو زندہ کر دیتا ہے ۔اور اُن کا مقابلہ کرنے والی اقوام کو بامِ عروج سے اٹھاکر قصرِ مذلّت میں گِرا دیتا ہے۔یہی سبق رات اوردن کے آگے پیچھے آنے میں بھی مخفی ہے یا راتاور دن کا ظلمت اور بیاض میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اُس میں بھی سوچنے والوں کیلئے بڑی بھاری نشانات ہیں۔کئی بیماریاںایسی ہیںجو اندھیرے میں بڑھ جاتی ہیںاور کئی حوادث ہیںجو رات کی تاریکی کیوجہ سے پیش آتے ہیں ۔دنیا میں جتنی چوری اور ڈاکہ کی وارداتیں ہوتی ہیںاُن میںسے اکثر وارداتیں رات کی تاریکی میں ہی ہوتی ہیں ۔اسی طرح سانپ اور بچھو اور دوسرے حشرات الارض بھی رات کو ہی باہر نکلتے ہیں ۔پھر تاریکی ایسی بلا ہے کہ نہ اس میں خوبصورت کی خوبصورتی کا پتہ لگتا ہے اور نہ بد صورت کی بد صورتی کا ۔سیاہ اور سفید اور سُرخ اور زرد سب برابر ہوتے ہیں ۔لیکن جب دن پڑھتا ہے تو بد صورت کی بد صورتی اور خوبصورت کی خوبصورتی نظر آنے لگتی ہے ۔حشرات الارض اپنے اپنے بِلوں میں گھس جاتے ہیں ۔چو ر چوری کرنے سے ڈرتا ہے اور ڈاکو ڈاکہ ڈالنے سے گریز کرتا ہے ۔پھر کئی بیماریاں ہیں جن کا علاج سورج کی شعاعوں سے ہی ہوجاتا ہے اور مختلف امراض کے جراثیم سورج کی تپش سے فنا ہو جاتے ہیں ۔غرض رات اور دن کا اختلاف بھی ایک عقلمند انسان کو اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ جس طرح مادی عالم پر ایک تاریکی کا دور آتا ہے اور ایک روشنی کا ۔اسی طرح روحانی عالم میں بھی بعض دفعہ الٰہی نور لوگوں کی نگاہ سے مخفی ہو جاتا ہے اور کئی قسم کی بُرائیا ں لوگوں میں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں ۔مگر جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی مامور کے ذریعہ ہدایت کی روشنی پھیلاتا ہے تو رات سے تعلق رکھنے والی تمام بلائیں اور آفات دُور ہو نے لگتی ہیں اور ایک نئی زندگی بنی نوع انسان کو حاصل ہوتی ہے ۔پس جس طرح نیچر میں رات اور دن کا اختلاف پایا جاتا ہے اسی طرح لوگوں کو سمجھنا چاہئیے کہ روحانی عالم میں بھی رات اور دن کی گھڑیاں آنی ضروری ہیں ۔مگر مخالف بس ایک ہی رٹ لگائے چلے جاتے ہیں کہ کیا مرنے کے بعد مٹی ہو کر ہم پھر زندہ ہوجائیں گے ؟ یعنی کفار جب دلائل سے عاجز آجاتے ہیں تو یہ کہنا شروع کر دیتے ہیںکہ اس زندگی کا تو مقصد ہی کوئی نہیں پھر ان جھگڑوں میں پڑنے کا کیا فائدہ ؟ یہ تو پہلوں کی باتیں ہیں جو ہمارے کانوں میں دیر سے پڑتی چلی آرہی ہیں مگر قیامت ہے کہ وہ آتی ہی نہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بہت لمبے عرصہ سے چلی آرہی ہے اور ہمیشہ قربِ قیامت کا لوگوں کو خیال رہا ہے ۔چنانچہ انبیاء کے مخالفین یہی اعتراض کرتے ہیں کہ آج تک تو ہم قیامت کا شور سُنتے رہے ہیں مگر وقت کے بعد وقت گذر رہاہے اور قیامت ابھی تک نہیں آئی ۔جس سے معلو م ہوتا ہے کہ یہ خیال ہی غلط ہے۔حالانکہ یہ اُن لوگوں کا تو ہم ہے کیونکہ قیامت کسی خاص دن کا نام نہیں اور نہ وہ اس دنیامیں آئے گی بلکہ مرنے کے بعد کی جو زندگی ہے اور جس میں مجموعی طور پر تمام مُردہ روحوں کو جزا سزا دی جائے گی اس کا نام قیامت ہے اور وہ اس دنیا کے لوگوں کو نہ نظر آتی ہے اور نہ آئے گی ۔پس اُن کا یہ کہنا بیوقوفی کی بات ہے کہ اب تک تو قیامت آئی نہیں ؟ ہاں یہ ممکن ہے کہ کسی دن اس دنیا کا نظام ختم کرکے پھر نئے سرے سے شروع کر دیا جائے ۔لیکن مذہبی کتابوں میں قیامت اس کا نام نہیں ۔قیامت اُسی کا نام ہے جسے ہم نے اوپر بیان کیا ہے ۔اور اس کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے کہ کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا ذَانٍ وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبَّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ( رحمن ۲ع )بہر حال اللہ تعالیٰ مخالفین کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ دنیا میں جو کوئی بھی بستا ہے کیا اُس کی موت و حیات اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں نہیں ۔وہی باپ کے صُلب میں بچہ کا نطفہ پید اکرتا ہے اور وہی ماں کے رحم میں اُس کی پرورش کا سامان کرتا ہے اور وہی اُس کے پیدا ہونے کے بعد اُس کی غذا کا سامان مہیا کرتا ہے اب بتائو کہ جس خدا نے یہ سب کچھ پید ا کیا ہے کیا وہ دوبارہ جسم کے کسی باریک حصّہ سے انسان کو پیدا نہیں کر سکتا ۔
احادیث میں آتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی پیدائش عجب الذنب سے ہوگی ۔یعنی پیٹھ کے نیچے کی جو ہڈی ہے جس کے متعلق سائینسدان کہتے ہیں کہ یہ بندر کی دُم کی علامت ہے اس کے ایک ذرہ سے انسان کی پیدا ئش ہوئی ۔اگر نطفہ کے خوردبینی ذرۂ حیات سے انسان پیدا ہو سکتا ہے تو عجب الذنب کے کسی حصہ سے جس کو خداتعالیٰ باقی رکھے انسان دوبارہ کیوں پیدا نہیں ہو سکتا۔آخر وہ کیڑے بھی تو ہیں جو زمین کی تہوں میں اور پتھروں کے نیچے پیدا ہو جاتے ہیں ۔اگر انسان کی پہلی پیدائش رحم مادر میں ہوئی تھی تو اُس کی دوسری پیدائش کسی اور جگہ کیوں نہیں ہو سکتی ؟ یہ محض خداتعالیٰ کی طاقتوں کا اپنی طاقتوں پر قیاس کر لینے کا نتیجہ ہے ورنہ جو خدا یک دفعہ پیدا کر سکتا ہے اُس کیلئے دوبارہ پیدا کرنا ایک ایسا امر ہے جس کو کوئی انسان بھی بعید از عقل تصّور نہیں کر سکتا ۔
پھرقُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھَآ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے کفار کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کیا دین کی بنیاد صرف اگلے جہان پر ہی ہے کہ تم اس کا ذکر کرتے ہو ۔کیا اس دنیا میں تم کو خدا سے واسطہ نہیں پڑنا ۔پھر اُس کے احکام سے اس قدر دُوری اور غفلت تمہارے اندر کیوں پائی جاتی ہے ۔
قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ فَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ہ
ترجمہ()پھر تو اُن سے کہہ کہ ساتوں آسمان اور عرشِ عظیم کا رب کون ہے ؟ وہ فوراً کہیں گے یہ سب اللہ کے ہیں تو کہدے کیا پھر تم اُس خدا کے ذریعہ سے تباہی سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے نیز تو کہدے کہ کس کے قبضہ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے ہاں اُس کے عذاب کے خلاف کوئی دوسرا پناہ نہیں دے سکتا اگر تم جانتے ہو تو اسکو سمجھ سکتے ہو۔وہ اوپر کا سوال سن کر فوراً کہیں گے ۔اللہ کے قبضہ میں اس پر تو کہہ دے کہ پھر تمہیں دھوکا دیکر کدھر لے جایا جا رہا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ہم اُن کے پاس حق لائے ہیں اور وہ یقینا جھوٹے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور اُ س کے ساتھ کوئی معبود نہیں اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود اپنی پیدا کی ہوئی اشیاء کو الگ کرکے لے جاتا ۔اور ان معبودوں میں سے بعض بعض پر ہلّہ بول دیتے ۔اللہ تعالیٰ پاک ہے اس سے جو یہ باتیں کرتے ہیں ۔وہ غیب کا بھی علم رکھتا ہے اور حاضر کا بھی علم رکھتا ہے ۔پس جن کو وہ اُس کا شریک بناتے ہیں اُن سے وہ بہت اونچا ہے۔ ۱۸ ؎
تفسیر :
فرماتا ہے ۔تم ان لوگوں سے پوچھو کہ ساتوں آسمانوں اور عرشِ عظیم کا رب کون ہے ۔اس کے جواب میں یہ لوگ یہی کہیں گے کہ اللہ ہے ۔پس جب سب بلندیاں اللہ تعالیٰ نے ہی بنائی ہیں تو اعلیٰ روحانی تعلیم بھی اسی کی طر ف سے آسکتی ہے اور وہی عرشِ عظیم کا مالک ہے۔یعنی روحانی بادشاہت اُسی کے قبضہ میں ہے ۔رُوحانی علوم کیلئے انسانی دماغ کی طرف توجہ کرنا اور فلاسفروں کی طرف جانا بیوقوفی کی بات ہے ۔یہ علوم اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آسکتے ہیں ۔پھر فرماتا ہے تم ان لوگوں سے پوچھو کہ تمام عالم کی بادشاہت کس کے ہاتھ میں نظر آتی ہے اور وہ کون ہے کہ جب دوسروں کی سزا سے کوئی بھاگ کر اُس کے پاس آتا ہے تو وہ اُسے پناہ دیتا ہے ۔لیکن جب وہ کسی کو سزا دے تو اُس کی سزا سے کوئی بچا نیوالا نہیں ہوتا ۔وہ یہی جواب دینگے کہ اللہ جب وہ یہ جواب دیں تو تُو انہیں کہہ کہ پھر تمہاری عقل کیوں ماری گئی ہے اور تم فریب دے کر کدھر لے جائے جا رہے ہو۔یعنی جب ہدایت کے اتنے دروازے تمہارے لئے کھلے ہیں تو پھر شیطان تم کوکس دروازہ سے دھوکا دے دیتا ہے کہ تم اس بات کے جاننے کے باوجود شر ک کررہے ہو۔قرآن تو سچائی یعنی توحید کی تعلیم دیتا ہے مگر وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں یعنی مشرکانہ باتیں کرتے ہیں ۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے کبھی کوئی بیٹا تجویز نہیں کیا اور کبھی بھی اُس کے ساتھ کوئی اور معبود نہیں ہوا ۔اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود اپنی مخلوق اپنے ساتھ لے جاتا اور پنی بڑائی دوسرے پر ثابت کرنے کی کوشش کرتا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا ۔دنیا میں ایک ہی قانون جاری رہا ہے ۔پس جو کچھ یہ مشرک کہتے ہیں خدا تعالیٰ اس سے پاک ہے ۔ وہ غائب اور حاضر کو جانتا ہے اور خواہ ظاہری تغّیرات ہوں یا باطنی سب پر ایک قسم کا قانون جاری ہونا بتایا ہے کہ مشرک جھوٹے ہیں ۔اگر ایک سے زیادہ خدا ہوتے تو دو صورتوں میں سے ایک صورت ضروری تھی ۔یا تو وہ کسی ایک خدا کی اطاعت کرتے اور اس کے احکام میں کوئی دخل نہ دیتے مگر اس صورت میں دوسرے خدائوں کا ہونا یا نہ ہونا بالکل برابر ہوتا اور یہ اعتراض واقعہ ہوتا کہ جب ایک خدا سب کام کر رہا ہے تو باقی خدائوں کی کیا ضرورت ہے ؟ اور یا پھر دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ ایک کے علاوہ جس قدر خدا ہوتے وہ اپنا الگ الگ نظام جاری کرتے ۔مگر اس صورت میں یہ ضروری تھا کہ نظامِ عالم میں اختلاف نظر آتا لیکن چونکہ دنیا میں جو نیچر کا قانون ہمیں دکھائی دیتا ہے وہ لاکھوں بلکہ کروڑوں سال سے ایک ہی شکل میں چلا آرہا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔اس لئے معلوم ہوا کہ اس کا رخانۂ عالم میں صرف ایک خدا کا وجود ہی کا م کررہا ہے۔کو ئی دوسرا اُس کے ساتھ شریک نہیں ۔
اس جگہ عالم الغیب و الشہادۃ کہہ کر مسیح کی خدائی کو بھی رّد کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ خدا کیلئے عالم الغیب ہونا ضروری
ہے ۔مگر مسیح تو خود کہتا ہے کہ ’’ اُس دن یا اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا ۔نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر باپ ۔ ‘‘ ( مرقس باب ۱۳ آیت ۳۲)
پس جبکہ وہ علمِ غیب ہی نہیں رکھتا تو اُسے خدا قرار دینا کس طرح درست ہو سکتا ہے ۔
قُلْ رَّبِّ اِمَّا تُرِ یَنِّیْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تَجْعَلْنِیْ فِیْ الْقَوْمِ الظَّلِمِیْنَ ہ
ترجمہ() تو کہہ دے اے میرے رب ! اگر تو میری زندگی میں وہ کچھ دکھا دے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے تو اے میرے رب ! تو مجھے ظالم قوم میں سے نہ بنائیو ۔یعنی ان کے عذاب میں شریک نہ کیجئیو ۔ ۱۹ ؎
تفسیر :
قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں بعض جگہ جمع کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے مگر مراد ایک شخص ہوتا ہے۔جیسے قرآن کریم میں بہت جگہ ایک رسول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رُسُل کا لفظ بولا گیا ہے کیونکہ ہر رسول پہلے رسولوں کے مشابہ ہوتا ہے ۔اسی طرح بعض جگہ ایک شخص کاذکر ہوتا ہے اور مراد قوم ہوتی ہے ۔جیسا کہ اس جگہ گو لفظ مفرد ہیں مگر مراد قوم ہے کیونکہ کفار پر عذاب رسول کریم ﷺ کی مخالفت کی وجہ سے آنا تھا اور جب اُس عذاب کا اصل باعث رسول کریم ﷺ کی مخالفت ہی تھی تو پھر آپکو اس دُعا کے سکھانے کا کچھ مطلب ہی نہیں رہتا ۔کہ اے خدا ! ان کفار پر جب موعود ہ عذاب آئے تو مجھے اُس میں شریک نہ کیجئیو۔درحقیقت اس جگہ ہر قرآن کا پڑھنے والا مخاطب ہے اور اس کو سکھایا گیا ہے کہ (۱) تُو ہمیشہ یہ دعا کرتا رہ کہ کفا ر پر جب عذاب آئے تو میں انکے عذاب میں شریک نہ ہوں ۔کیونکہ میں تو محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آیا ہوں ۔مجھے کسی کمزوری کی وجہ سے کفار کے ساتھ شریک کرکے دشمن کو ہنسی کا موقعہ نہ دیجئیو۔یا (۲) اے میرے خدا جب عذاب آئے اور کفار تباہ ہوجائیں اور مسلمانوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور آجائے تو میں تجھ سے دُعا کرتا ہوں کہ تُو مجھے اُس وقت بھی انصاف پر قائم رکھیئو اور مجھے ظالم نہ بننے دیجیئو ۔اس لحاظ سے یہ اُن کے ظلم میں اشتراک سے بچنے کی دُعا ہے ۔اور مراد یہ ہے کہ اے خدا ! جب ان پر تیرا عذاب آئے اور ان کی حکومت ٹوٹ کر مسلمانوں کو مل جائے تو ایسا نہ ہو کہ ہم لوگ نشۂ حکومت میں انصاف کو بھول کر ظلم کرنے لگیں اور تیری ناراضگی مول لے لیں ۔
وَ اِنَّا عَلیٰٓ اَنْ نُّرِیَکَ مَا نَعِدُھُمْ لَقٰدِرُوْنَ ہ
ترجمہ () اور ہم اس بات پر قادر ہیں کہ جو ان سے وعدہ کرتے ہیں تجھے دکھا دیں ۔ ۲۰؎
۲۰؎ تفسیر :
یعنی ہم اس بات پر قادر ہیں کہ تیری آنکھوں کے سامنے ان پر عذاب لے آئیں اور تیری زندگی میں ہی تیرے دشمنوں کو تباہ کر دیں جیسا کہ عملاً ہوا کہ مکہ آپ کی زندگی میں فتح ہوگیا اور کفار کی طاقت تباہ ہوگئی ۔اور حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں آگئی ۔اور پھرحضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے دور میں تو اس حکومت نے اور بھی ترقی کی ۔اور قیصرو کسریٰ کی حکومتوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
اِدْ فَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ ہ
ترجمہ () تو اُن کی بری باتوں کو ایسی جوابی باتوں سے دور کر جو نہایت خوبصورت ہوں ۔ہم ان کی باتوں کو خوب جانتے ہیں ۔ ۲۱؎
۲۱؎ تفسیر :
اس جگہ یہ سکھایا گیا ہے کہ دشمن اگر چہ ظالم ہے مگر تو پھر بھی اس کے مقابلہ میں احسان اور عفو سے کام لیجئیو۔کیونکہ برائی کے بدلہ میں نیکی کرنا اور اولوالعزم انبیاء کا کام ہے ۔اور تیرے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ دشمن نے تو ظلم بھی کر لیا اور پھر میرے عفو سے سزا سے بھی بچ گیا ۔ایسا نہ ہو کہ وہ پھر کوئی شرارت کرے کیونکہ میں اس کی ہر تدبیر کو جانتا ہوں اور کوئی چیز بھی میری جزا سزا سے باہر نہیں رہ سکتی ۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ا سکی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اِدْ فَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ۔۔۔۔۔کَاَنَّہ‘ وَلِیّ’‘ حَمِیْم’‘ ( حٰمٓ السجدہ ۵۰ ع)یعنی تُو دشمن کی برائی کا جواب نہایت نیک سلوک سے دے کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ شخص جس سے تیری عداوت ہے وہ تیرے اس حسنِ سلوک کو دیکھ کر شرمندہ ہوگا اور وہ تیرا گرم جوش دوست بن جائیگا ۔گویا بتا یا کہ سزا آخر اس لئے دی جاتی ہے کہ انسان دوسروں کے ضرر سے بچ جائے اور اُسے اپنی اصلاح کا خیال آئے ۔لیکن دوسرے کے ضرر سے بچنے کا صرف یہی طریق نہیں کہ اُس کو سزا دی جائے بلکہ اگر عفو سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہو تو بہتر یہی ہے کہ اس کو معاف کر دو۔اور اس بات سے مت گھبرائو کہ اس کا کوئی خراب نتیجہ نکلے گا ۔کیونکہ دوسرا شخص اس سلوک سے متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہ سکتا اُسکی آنکھیں نیچی ہو جائیں گی اور وہ تمہاری دوستی اور محبت کا دم بھرنے لگے گا ۔
وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُبِکَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَاَعُوْذُبِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ ہ
ترجمہ () اور تو کہہ دے اے میرے رب ! میں سرکش لوگوں کی شرارتوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔اور اے میرے رب میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے بھی کہ وہ میرے سامنے آجائیں ۔ ۲۲؎
۲۲؎ حل لغات :
مھَمَزٰت ۔ اَلْھمَزُ : اَلْعَصْرُ ۔ ھمز کے معنے نچوڑنے کے ہیں ( مفردات ) چنانچہ ھَمَزَ رَأ سَہٰ کے معنے ہوتے ہیں عَصَرَہ‘ اُس کے سر کو سختی کے ساتھ دبایا ( اقرب ) اور ھَمَزَ الشَّیْطٰنَ الْاِنْسَانَ کے معنے ہوتے ہیں ھَمَسَ فِیْ قَلْبِہٖ وَسْوَ اسًا ۔اس کے دل میں وسوسہ ڈالا (اقرب)
تفسیر :
اس جگہ ھَمَزٰتِ الشَّیَا طِیْن میں کسی شیطانی وسوسہ کا ذکر نہیں بلکہ یہاں ان دشمنوں کو شیاطین کہا گیا ہے جو اسلام کے مخالف تھے اور جو رسول کریم ﷺ کو مختلف قسم کی تکا لیف پہنچاتے رہتے تھے چنانچہ ھَمْز کے ایک معنے نچوڑنے یعنی تکلیف دینے کے بھی ہوتے ہیں ۔اور ھَمَزْتُ الشَّیْئَ فِیْ کَفِّیْ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ میں نے فلاں چیز کو اپنے ہاتھ میں دبا کر نچوڑ ڈالا ( مفردات امام راغب ؒ )پس رَبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ھَمَزٰتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَعُوْذُبِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے خدا مجھے شیطان کے چپلوں کے اُن حملوں سے بچائیو جو مجھے کچل ڈالنے کیلئے اُس کی طرف سے ہو رہے ہیں بلکہ میں تجھ سے دُعا کرتا ہوں کہ مجھ پر غالب آنا تو الگ رہا وہ میرے قریب بھی نہ پھٹک سکیں یعنی وہ مجھے کسی قسم کی تکلیف نہ دے سکیں ۔چنانچہ اس سے اگلی آیت حَتّٰٓی اِذَ جَآ ئَ اَحَدَھُمُ الْمِوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجَعُوْنِ ۔لَعَلِّیْ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْھَا تَرَکْتُ بھی انہی معنوں پر دلالت کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ اس جگہ کسی شیطانی وسوسہ کا ذکر نہیں بلکہ اُن انسان شیاطین کا ذکر ہے جو رسول کریم ﷺ کو تکالیف پہنچاتے تھے ورنہ اگلی پچھلی عبادت سب بے جوڑ ہو جاتی ہے ۔
حَتّٰٓی اِذَ جَآ ئَ اَحَدَھُمُ الْمِوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجَعُوْنِ۔۔۔۔۔۔۔۔بَرْزَخ’‘ اِلیٰ یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ہ
ترجمہ ()اور اُس وقت جب اُن میں سے کسی کی موت آجائے گی وہ کہے گا اے میرے رب ! مجھے واپس لوٹا دے مجھے واپس لوٹا دے تاکہ میں اس جگہ جس کو میں چھوڑ کر آگیا ہوں یعنی دنیا میں مناسب حال عمل کروں ہر گز ایسا نہیں ہوگا ۔یہ صرف ایک منہ کی بات ہے جسے وہ کہہ رہے ہیں اور ان کے پیچھے ایک پردہ ہے اُس دن تک کہ وہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے پس وہ دنیا کی طرف زندہ کرکے کبھی لوٹائے نہیں جائیں گے ۔ ۲۳ ؎
۲۳ ؎ تفسیر :
ان آیات میں بتا یا گیا ہے کہ جب مشرک کی تباہی کا وقت آتا ہے تو اُس وقت وہ اپنے بتوں کو بالکل بھول جاتا ہے اور خداتعالیٰ کو مخاطب کر کے عجز اور انکسار کے ساتھ اُس سے دعائیںکر نے لگ جاتا ہے ۔یہ ایک نہایت ہی لطیف آیت ہے جس میں مختصر الفاظ میں وسیع معنوں کو ادا کیا گیا ہے ۔اس میں کافر کے منہ سے ایک تورب کا لفظ کہلایا گیا ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اُس وقت وہ خداتعالیٰ کی توحید کا کھلے بندوں اقرار کریگا ۔اور دوسری طرف اِرْجِعُوْنِ کہہ کر جو جمع کا صیغہ ہے اور جس کے معنے یہ ہیں کہ مجھے لوٹا دیں خدا تعالیٰ کی عظمت اور تمام کمالات کی جامع ہونے کا اُس کے مونہہ سے اقرار کروایا گیا ہے ۔
پھر ارْجِعُوْنِ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے کفار کی حیرت اور اُن کی گھبراہٹ کو بھی ظاہر کر دیا ہے کیونکہ جمع کا لفظ استعمال کرکے اس میں یہ بتا یا گیا ہے کہ کافر اس وقت گھبرا کر کہیگا اے میرے خدا مجھے لوٹا دے اے میرے خدا مجھے لوٹا دے ، اے میرے خدا مجھے لوٹا دے ۔گو یا اِرْجِعُوْنِ دراصل اَرْجِعْنِیْ اَرْجِعْنِیْ اَرْجِعْنِیْ کاقائم مقام ہے کیونکہ عربی زبان میں جمع کا صیغہ جب مفرد کیلئے استعمال کیا جائے تو بعض دفعہ تکرار کے معنے دیتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے ایک ہی لفظ میں کفار کی حیرت کا بھی ذکر کر دیا اور حالتِ گھبراہٹ میںاُن کا اپنی درخواست کو بار بار اور جلدی جلدی پیش کرنا بھی بیان کر دیا ۔
پھر لَعَلِّیْ اَعْمَلُ صَالحًا کے الفاظ میں اور بھی عظمت الہٰی کا ذکر کیا گیا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ اُس وقت کافر پر اپنی بے حقیقی اور خداتعالیٰ کی قدرت کا کامل انکشاف ہو جائیگا ۔اور وہ باوجود اپنے خیال میں سچی توبہ کرنے کے یہی کہے گا کہ اے خدا ! آج میرا غرور ٹوٹ گیا ۔میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اگر تو مجھے لوٹا دے تو میں ضرور نیک کا م کرونگا ۔میں صرف امید ظاہر کر سکتا ہوں کیونکہ اپنے نفس کی بے حقیقتی مجھ پر کھل چکی ہے ۔
کَلَّا اِنَّمَا کَلِمَۃ’‘ ھُوَ قَآ ئِلُھَا میں بتا یا کہ ہر کافر حسرت اور ندامت کا مجسمہ بن کر قیامت کے دن یہ بات ضرور کہے گا مگر اُس کا یہ قول بالکل بے نتیجہ رہیگا ۔اور اسکی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی ۔لیکن اس کے علاوہ اس کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ مَا ھِیَ اِلَّا کَلِمَۃ یَقُوْلُھَا الْکاَفِرُ وَلٰکِنْ لَا یُسْتَحَابَ دُعَائو ہ‘ یعنی کافر صرف منہ سے ایک بات کہہ رہا ہے جو کبھی پوری نہیں ہو گی کیونکہ اُس کے اور دنیا کے درمیان قیامت تک کیلئے ایک پردہ حائل کر دیا گیا ہے ۔پس اُس کے لئے دنیا میں لوٹ کر واپس جانا بالکل نا ممکن ہے ۔
فَاِذَا نُفِخُ فِی الصُّوْرِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَجُوْھَھُمُ النَّارُ وَ ھُمْ فِیْھَا کَلِحُوْنَ ہ
ترجمہ () پھر جب بگل میں پھونک مار ی جائے گی تو اُس دن اُن کے درمیان کوئی قرابتیں باقی نہیں رہیں گی اور نہ وہ ایک دوسرے کا حال پوچھیں گے ۔پس جن کے وزن بھاری ہو جائیں گے و ہ لوگ بامراد ہوں گے اور جن کے وزن ہلکے ہوجائیں گے وہ لوگ گھاٹے میں پڑیں گے اور اپنی جانوں کو تباہ کر دیں گے اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے ۔آگ اُن کے مونہوں کو جھلسے گی اور وہ اُس میں
رو سیاہ ہو جائیں گے ۔ ۲۴ ؎
۲۴؎ تفسیر :
فرماتا ہے ۔ جب صُور پھونکا جائیگا تو اُس دن کوئی رشتہ دار یاں باقی نہیں رہیں گی اور نہ ایک دوسرے سے کوئی سوال کرے گا۔اس جگہ صُور کے ایک معنے تو اَلْقَرْنُ یعنی بگل کے ہیں جو فوج کو جمع کرنے کیلئے بجایا جاتا ہے ۔اور جس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسا دن ہوگا جب تمام کفار کو جواب دہی کیلئے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کیا جائیگا ۔لیکن چونکہ صُوْرَۃ’‘ کی جمع بھی صُور آتی ہے اس لئے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے آیت کے یہ معنے ہونگے کہ جب انسانی صورتوں میں رُوح پُھونکی جائیگی اور وہ زندہ ہو کر کھڑے ہو جائیں گے ۔اس سے ظاہر ہے کہ اگلے جہان میںکوئی نہ کوئی جسم انسان کو ضرور ملیگا ۔خواہ وہ یہ مادی جسم نہ ہو جو انسان کو اس دنیا میں ملا ہو اہے ۔فَلَٓا اَنْسَابَ بَیْنَھُمْ یَوْمَئِذٍ میں یہ بتایا کہ اُس دن کسی دوسرے کی مدد کام نہیں دیگی بلکہ انسان کے اپنے ہی اعمال اُس کے کام آئیں گے ۔اگر نیک اعمال زیادہ ہوئے تو انسان نجات پا جائیگا اور اگر نیک اعمال کم ہوئے تو وہ گھاٹے میں
پڑے گا ۔
وَلَا یَتَسَآء َ لُوْنَ میں یہ بتایا کہ اُس دن ایک دوسرے کے متعلق لوگوں کو کوئی تجسس نہیں ہوگا بلکہ ہر شخص کو اپنی اپنی پڑی ہو گی اور کسی دوسرے کی طرف اُسے کوئی توجہ نہیں ہو گی ۔
تَلْفَحُ وَجُوْھَھُمُ النَّارُ وَ ھُمْ فِیْھَا کَلِحُوْنَ میں یہ بتا یا کہ کفار کے سردار بھی عذاب میں مبتلا ہو نگے وَجْہ‘ کے ایک معنے سردار کے بھی ہوتے ہیں اور وہ اس عذاب پر دانت پیسیں گے ۔یعنی اپنی کوتاہی پر حسرت اور افسوس کریں گے مگر اُس وقت اُن کا افسوس کرنا اُن کو کوئی فائدہ نہیں دیگا ۔
اَلَمْ تَکُنْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اَنَّھُمْ ھُمُ الْفَآ ئِزُوْنَ ہ
ترجمہ()اور کہا جائیگا کیا تمہارے سامنے میری آیتیں نہیں پڑھی جاتی ہیں ؟ اور تم ان کا انکار نہیں کرتے تھے ؟ وہ کہیں گے ۔اے ہمارے رب ! ہماری بد قسمتی ہم پر غالب آگئی اور ہم ایک گمراہ جماعت تھے ۔اے ہمارے رب ! ہمیں اس دوزخ سے نکا ل ۔اگر ہم ان گناہوں کی طرف پھر لوٹیں تو ہم ظالم ہونگے ۔خدا فر مائیگا دور ہو جائو اور دوزخ میں چلے جائو اور مجھ سے کلام مت کرو ۔بات یہ ہے کہ میرے بندوں میں سے ایک گروہ ایسا تھا جو کہتا تھا کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے ہیں سو تو ہم کو بخش دے اور ہم پر رحم کر ۔اور تُو سب رحم کرنے والوں میں سے اچھا ہے ۔مگر تم نے اُن کو ہنسی مذاق کا مورد بنا لیا یہاں تک کہ انہوں نے تمہاری دلچسپی کا سامان بن کر تم کو میری یاد بھُلا دی ۔اور تم اُن سے ہمیشہ ہنسی کرتے رہے ۔اُن کے صبر کرنے کی وجہ سے میں آج اُن کو مناسب حال
بدلہ دوں گا ۔یقینا وہ کامیاب ہوں گے۔ ۲۵ ؎
۲۵؎ تفسیر :
فرماتا ہے ۔ہم نے بغیر حجت پورا کئے تو تم پر عذاب نازل نہیں کیا ۔مگر تم لوگ تو حجت پورا پہونے پر بھی انکار کرتے رہے ۔جب کافر یہ بات سُنیں گے تو کہیں گے ۔اے خدا ! بدبختی نے ہم کو گھیر لیا اور ہم گمراہ ہو گئے ۔تو ایک دفعہ اس موجودہ حالت سے ہم کو نکال دے اگر ہم نے پھر وہی پہلے سے کا م کئے تو بے شک ہمارے ظالم ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوگا ۔پھر جو چاہیں سزا دے لیں ۔اس پر اللہ تعالیٰ فرمائیگا کہ میرے سامنے سے دُور ہو جائو اور دوزخ میں داخل ہو جائو ۔اور مجھ سے کلام مت کرو ۔اور وہ وقت تھا کہ میرے مومن بندے جب یہ کہا کرتے کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے ہیں ۔پس ہم کو معاف کردے اور ہم پر رحم کر اور تُو سب رحم کرنے والوں میں سے اچھا ہے تو تم اُن کی نیکی کے باوجود اُن سے ہنسی مذاق کرتے تھے ۔اوراس میں تم کو اتنا لطف آتا تھا کہ تمہیں خدائی گرفت کا بھی کچھ خیال نہ رہا ۔اور تم ان بے کسوں پر خوب قہقہے لگاتے تھے ۔آج میں نے اُن کے صبر کی جزا ان کو دے دی ہے۔یعنی ان کو غلبہ بخش دیا ہے اور انہوں نے اپنے مقصد کو پا لیا ہے ۔
یہ عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ میں جن سے خفا ہوتا ہوں اُن سے کلام نہیں کرتا بلکہ اُنکواپنے ساتھ بولنے کی اجازت بھی نہیں دیتا ۔مگر مسلمانوں پر بد قسمتی کا وہ زمانہ آیا کہ انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ چونکہ امت مسلمہ سب اُمتوں سے افضل ہے اس لئے اب اس کے کسی فرد کے ساتھ خداتعالیٰ کلام نہیں کرے گا ۔انَّا اللّٰہ وانَّا الیہ راجعون
قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِلَّا قَلِیْلًالَّوْْ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ہ
ترجمہ() پھر وہ یعنی خدا فرمائیگا کتنے سال تم زمین میں رہے ہو ! وہ کہیں گے ہم ایک ہی دن یا دن کا کچھ حصہ زمین میں رہے ہیں ۔تو گننے والوں سے پوچھ لے ۔اس پر خدا تعالیٰ فرمائیگا ۔اگر تم سمجھ سے کا م لو تو تم بہت تھوڑا عرصہ رہے ہو ۔۲۶؎
۲۶؎ حل لغات :
یَوْم’‘ ۔اس کے معنے مطلق وقت کے ہوتے ہیں ۔جیسا کہ شاعر کہتا ہے
ع یَوْمَا ہ‘ یَوْمُ نَدًی وَیَوْمُ طَعَانٍ یعنی میرے ممدوح پر دو ہی قسم کے وقت آتے ہیں یا تو وہ سخاوت میں مشغول ہوتا ہے یا دشمنوں کے قتل کرنے میں اور اس کے معنے اَلدَّھْرُ یعنی زمانہ کے بھی ہیں ( السان العرب )
تفسیر :
فرماتا ہے ۔اُس وقت خداتعالیٰ کفار سے کہے گا کہ بھلا بتائو تو سہی کہ تم دنیا میں کتنے سال رہے ؟ وہ کہیں گے کہ کچھ نہیں کوئی ایک دن یا دن کا کچھ تھوڑا سا حصہ ۔یہ فقرہ ناواقفیت کے اظہار کے لئے بولا جاتا ہے چنانچہ اسی آیت کے آخر میں کہا گیا ہے کہ فَسْئَلِ العَآدِّیْنَ ۔تُو گننے والوں سے پُوچھ لے اور اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ اگر تم کو حقیقی علم ہو تو تم بہت تھوڑا عرصہ دنیا میں رہے ہو۔ان الفاظ کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ کفار اپنی زندگی ہنسی کھیل میں گذار دیتے ہیں اور ہنسی کھیل میں گذرا ہوا وقت بہت تھوڑا معلوم ہوتا ہے ۔اسی وجہ سے آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۔فَتَعَالَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ لَٓا اِلَہَ اِلَّا ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ ۔یعنی اے لوگو ! کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تم کو بغیر کسی غرض کے پیدا کیا ہے کہ تم نے اپنی عمریں ضائع کرنی شروع کر دیں ۔اور یہ خیال کرتے رہے کہ تم لوٹ کر ہمارے پاس نہیں آئو گے تاکہ اپنی زندگی کی روشن اور تاریک گھڑیوں کا ہمیں حساب دو ۔حالانکہ اگر تمہارا خیال ٹھیک ہوتا تو خداتعالیٰ کی توحید اور خداتعالیٰ کی بادشاہت ثابت نہ ہوتی ۔خداتعالیٰ کی توحید اور خداتعالیٰ کی بادشاہت تبھی ثابت ہو سکتی ہے جبکہ دنیا ایک مقصد کیلئے پیدا کی گئی ہو۔اور اگر کوئی شخص اُس مقصد کو پورا نہ کرے اور ہنسی کھیل میں اپنے دن گذار دے تُو اُس سے جواب طلبی کی جائے ۔
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًاوَّ اَنَّکُمْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ ہ
ترجمہ ()کیا تم یہ سمجھا کرتے تھے کہ ہم نے تم کو بغیر کسی مقصد کے پیدا کیا ہے ؟ا ور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جائو گے ۔پس اللہ بڑی شان والا ۔بادشاہ اور قائم رہنے والا اور قائم رکھنے والا ۔اُس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔وہ عرش کریم کا رب ہے ۔۲۷؎
۲۷؎ تفسیر :
اس آیت میں بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم اپنی پیدائش کے مقصد پر غور کرو ۔اور سوچو کہ کیا ہم نے دنیا کو بلا وجہ پیدا کیا ہے ۔یا کیا یہ ایک کھیل اور تماشہ ہے جو تمہیں دکھائی دے رہا ہے کیاتم یہ سمجھتے ہو کہ جس طرح بچے کھلونے بناتے اور پھر اُسے توڑ پھوڑ دیتے ہیں اسی طرح ہم بھی کھیل کے طور پر تمہیں پیدا کرتے اور پھر ہلاک کر دیتے ہیں اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جائو گے ؟ فرماتا ہے یہ بالکل احمقانہ خیال ہے ۔اسے ہماری طرف منسوب کرنا بھی ہماری ہتک ہے کیونکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو تم نے بچہ بنا دیا حالانکہ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بہت بلند ہے وہ کامل الصفات خدا ہے اُس کے متعلق یہ تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بچوں کی طرح کھیل رہا ہے ۔اور دنیا کو پیدا کرتا اور اُسے تباہ کرتا رہتا ہے ۔نہ اس کا کوئی مقصد ہے نہ مدعا ۔جیسے بچے ریت کے میدانوں میں جاتے ہیں تو اوپر کی خشک ریت ہٹا کر نیچے سے گیلی ریت نکال لیتے ہیں اور اُس میں پائوں یا ہاتھ رکھ کر اوپر سے تھپکتے جا تے ہیں اور اس طرح ریت کے مکان بنا لیتے ہیں ۔مگر گھر آتے وقت لات مار کر انہیں گِرا دیتے ہیں ۔فرماتا ہے۔کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے بھی دنیا کو بچوں کے کھیل کی طرح پیدا کیا ہے ۔یعنی ہم انسان کو پیدا کرتے اور کچھ عرصہ کے بعد اُسے مار دیتے ہیں ۔گویا بچے کی کھیل تو گھنٹہ دو گھنٹے کی ہوتی ہے مگر خداتعالیٰ کی کھیل چند سالوں کی ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تَعَالَی اللّٰہُ۔تم تو ایک عقلمند انسان کی طرف بھی ایسی بات منسوب نہیں کرتے ۔وہ اگر کھیلے بھی تو اس کے کھیلنے کا وقت کام کے وقت کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہوتا اور پھر بڑی عمر کا آدمی جب کوئی مکان بناتا ہے تو اُسے توڑنا نہیں ۔سوائے اس کے کہ اُس میں کوئی نقص ہو یا اُس سے بہتر عمارت بنانے کا اُسے خیال ہو۔مگر خداتعالیٰ کے کام میں تو کوئی نقص بھی نہیں ہوتا ۔پھر وہ جو تمام عقلوں کا پیدا کرنے والا او ر علّو شان رکھنے والا ہے اس کے متعلق تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ وہ کھیل رہا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کئی ایسے فلسفی موجود ہیں جن کا یہ خیال ہے کہ یہ دنیا خداتعالیٰ کی ایک کھیل ہے ۔خداتعالیٰ تنہائی سے گھبرایا تو اُس نے کہا آئو کوئی شغل جاری کریں اور اُس نے انسان کو پیدا کر دیا ۔کوئی انسان مرتا ہے تو وہ ہنستا ہے جس طرح بچہ کھلونے کو توڑ کر ہنس دیتا ہے ۔اُس کے ماں باپ اس پر باراض ہو رہے ہوتے ہیں اور وہ قہقہہ لگا رہا ہوتا ہے ۔اسی طرح جب کوئی انسان مرتا ہے تو لوگ تو رو رہے ہوتے ہیں مگر خدا نعوذ باللہ ہنستا ہے کہ کیا خوب گلا گھونٹا گیا ۔اسی طرح جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں دردزِہ کی شدت سے کراہ رہی ہوتی ہے اور خداتعالیٰ نعوذباللہ ہنس رہا ہوتا ہے ۔پھر کئی لوگ ایسے ہیں جو گو منہ سے تو یہ نہ کہتے ہوں لیکن اُن کے اعمال کے پس پشت یہ خیال ضرور موجود ہوتا ہے وہ سوچتے ہیں کہ ہم دنیا میں کیوں آئے ؟ اور پھر خیال کر لیتے ہیں کہ یونہی آگئے ہیں ۔جو لوگ اپنی زندگیوں کا کوئی روحانی مقصد نہیں سمجھتے اُن پر اگر جرح کرکے دیکھو تو اُن کا یہی عقیدہ نکلے گا کہ خداتعالیٰ نعوذ باللہ کھیل رہا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَعَالَی اللہ ۔اللہ تعالیٰ بہت بلند شان والا ہے ۔اُس نے دنیا کو کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ خداتعالیٰ کی چار صفات تھیں جنھوں نے دنیا کی پیدائش کا تقاضا کیا وہ صفات اپنا ظہور چاہتی تھیں اور اُن صفات کے ظہور کیلئے ہی اُس نے دنیا کو پیدا کیا ۔وہ چار صفات کیا ہیں ۔ اَلْمَلِکُ ۔ اَلْحَقُّ۔لَٓا اِلَہَ اِلَّا ھُوَ ۔اور رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْم ۔فرماتا ہے ۔اللہ تعالیٰ مالک ہے اُس کی ملکیت چاہتی تھی کہ وہ ظاہر ہو ۔وہ الحق ہے اُسکا حق ہونا چاہتا تھا کہ وہ ظاہر ہو ۔وہ لَا اِلَہَ اِلَّاھُوَ کا مصداق ہے اُس کی توحید چاہتی تھی کہ وہ ظاہر ہو ۔اور وہ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْم ہے اُس کا رب العرش الکریم ہونا چاہتا تھا کہ وہ ظاہر ہو ۔یہ چار صفات چونکہ اپنا ظہور چاہتی تھیں ۔اس لئے اُس نے دنیا کو پیدا کر دیا ،ان چاروں صفات پر غور کرکے دیکھو تو درحقیقت یہ وہی صفات ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں ۔وہاں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ۔الرَّحْمٰن ۔اَلرَّحِیْم مَالِکِ یَوْمِ الدِّ یْن۔یعنی اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے رحمن ہے رحیم ہے اور مالک یوم الدین ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ سورۂ فاتحہ میں ترتیب بدل دی گئی ہے۔اس آیت میں جو صفت پہلے بیان کی گئی تھی سورۂ فاتحہ میں اُسے آخر میں رکھ دیا ہے اور پھر اسی ترتیب سے تمام صفات کو درجہ بدرجہ بیان کیا ہے۔چنانچہ دیکھ لو اس آیت میں جو اَلْمَلِکُ آیا ہے یہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔الحق صفتِ رحیمیت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ لَا اِلَہَ اِلَّا ھُوَصفت رحمانیت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ربُّ الْعرش الکریم صفت رب العالمین کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔گویا اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًاوَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ میں تو چار صفات بطور منبع کے بیان کی گئی ہیں ۔یعنی وہ صفات جنہوں نے دنیا کی پیدائش کا تقاضا کیا ۔لیکن ان کے نتیجہ میں جب انسان کو پیدا کیا گیا تو بندوں کے تعلق کے لحاظ سے وہی چار صفات ایک دوسرے رنگ میں ظاہر ہو گئیں ۔گویا تختِ شاہی کے مالک بلند شان والے مہربان رب کی طرف سے جب دنیا پیدا ہوئی تو وہ دنیا کے لحاظ سے رب العالمین بن گیا ۔پھر توحید کامل نے جب اپنا جلوہ دکھانا چاہا تو وہ انسانوں کیلئے رحمانیت کی صفت میں ظاہر ہوئی اور دنیا کی ہر ضرورت کو اس نے پورا کرکے بتا دیا کہ سوائے اس کے اور کوئی خدانہیں ۔پھر الحق کی صفت نے جب ظہور چاہا ۔جو سچ وعدے کرنے والی اور دنیا کو قائم رکھنے والی ہے تو اُس نے رحیمیت کی شکل میں اپنا جلوہ دکھایا ۔پھر ملکیت نے چاہا کہ وہ کوئی قانون جاری کرے اور جب اُس نے قوانین جاری کئے تو اُس نے کہا ۔اب میں ہر ایک سے حساب لونگا کہ اُس نے قانون کی کس حد تک پیروی کی ہے ۔اور وہ مالک یوم الدین کی صورت میں ظاہر ہوا۔پس یہ چار صفات کیلئے بطور منبع ہیں ۔مگر سورۂ فاتحہ میں جو ترتیب رکھی گئی ہے وہ اس سورۃ کے لحاظ سے موزوں تھی اور جو اس جگہ ترتیب رکھی گئی ہے یہ پیدائش ِ عالم کے لحاظ سے موزوں ہے ۔یعنی مالک نے جب اپنی جلوہ گری کی تو مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفت انسانوں کیلئے ظاہر ہوئی کیونکہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کے معنے ہیں جزا سزا کے دن کا مالک اور جزا سزا اُس وقت تک مترتّب نہیں ہو سکتی جب تک مِلِک کی طرف سے پہلے کوئی قانون نہ ہو ۔پس مالک یوم الدین نتیجہ ہے ملکیت کا ۔اسی طرح توحید نے جب اپنا ظہور چاہا تو اسکی رحمانیت کی صفت ظاہر ہوئی ۔کیونکہ رحمن کے معنے یہ ہیں کہ وہ ہر مخلوق کی جائز ضرورت کو پورا کرتا ہے خواہ اُس نے کوئی کام کیا ہو یا نہ کیا ہو ۔اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب ایک ہی خدا ہو ۔اگر پانی کسی خدانے دینا ہے اور روٹی کسی نے تو توحید کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن جب ہم اپنی ہر ضرورت خداتعالیٰ سے پوری ہوتی دیکھیں تو پھر ہماری عقل کہتی ہے کہ اُس کے سوا کسی اور خدا کی ضرورت نہیں ۔پس رحمانیت کی صفت توحیدِ الہٰی کی ایک زبر دست دلیل ہے کیونکہ بغیر کسی وقفہ اور رخنہ کے سب مخلوق کی ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کامل توحید اُنہی قوموں میں پائی جاتی ہے جو خداتعالیٰ کی رحمانیت کی قائل ہیں ۔ہندو اور مسیحی مشرک قومیں ہیں اور یہ دونوں رحمانیت کی قائل نہیں ۔ایک نے رحمانیت کا انکار کرکے تناسخ کا مسٔلہ نکال لیا اور دوسری نے کفارہ کا مسٔلہ ایجاد کر لیا ۔پھر خداتعالیٰ کی صفت الحق نے جب اپنا ظہو ر چاہا تو اُس نے رحیمیت کے ذریعہ سے سچائی کے دلداروں کو ہمیشہ کی زندگی بخشی ۔کیونکہ رحیم کے معنے ہیں اچھے کاموں کا اعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ دینے والی ہستی جو کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتی اور یہی الحق کی صفت کا تقاضا ہے ۔الحق چاہتا ہے کہ اُس کا کوئی وعدہ غلط نہ جائے اور جو جو اُس نے لوگوں سے انعامات کے وعدے کئے ہیں وہ اُن کو ضرور مل جائیں ۔پھر الحق کے معنے قائم رہنے اور قائم رکھنے کے بھی ہوتے ہیں ۔اور رحیم کی صفت میں جو بار بار بدلہ دینے کے معنے پائے جاتے ہیں وہ بھی اس صفت سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ الحق نہ صرف خود قائم رہتا ہے بلکہ دوسروں کوبھی قائم رکھتا اور ان کے انعامات کو بھی قائم رکھتا ہے ۔حق درحقیقت مصدر ہے اور مصدر مبالغہ کے معنوں کے ساتھ اسم فاعل کے معنے بھی دے دیتا ہے۔جیسے اَلْعَدْلُ نہایت انصاف کرنیوالے کو کہتے ہیں ۔پس الحق کے معنے قائم رہنے والے ۔قائم رکھنے والے اور سچے وعدے کرنے والے کے ہونگے ۔اور چونکہ رحیم کے معنے بھی کسی کے نیک کام کو ضائع نہ کرنے والے اور متواتر انعامات دینے والے کے ہیں اس لئے اس صفت کا تعلق الحق سے ہی ہے ۔پھر رب العرش الکریم نے چاہا کہ کوئی ایسی مخلوق ہو جس کی وہ ربوبیت کرے ۔پس اُس نے دنیا پیدا کی اور اس کیلئے وہ رب العالمین ہو کر ظاہر ہوا ۔رب العرش الکریم میں بتا یا گیا تھا کہ وہ تمام صفاتِ حسنہ کا مرکز اور حکومت کا مالک ہے اور اُس کا عرش کریم ہے اور کریم اُسے کہتے ہیں جس میں اعزاز اور احسان پایا جا تا ہو۔اور یہی رب العالمین میں بیان کیا گیا ہے ۔غرض رب العالمین کی صفت تابع ہے رب العرش الکریم کی صفت کے اور مالک یوم الدین کی صفت تابع ہے اُسکے ملک ہو نیکی صفت کے اوررحیم کی صفت تابع ہے الحق کی صفت کے اور الرحمن کی صفت تابع ہے لَا اِلَہَ اِلَّا ھُوَ کی صفت کے ۔گویا یہ چاروں صفات جو سورۂ فاتحہ میں بیان کی گئی ہیں وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے فَتَعَالَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ لَا اِلَہَ اِلَّا ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْم میں بیان کی ہیں ۔اور اس طرح بنی نوع انسان کو اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ہم نے دنیا کو کھیل کے طورپر نہیں بتا یا بلکہ اس لئے بنایا ہے کہ ہم الملک ہیں ۔ہم الحق ہیں ۔ہم لَا اِلَہَ اِلَّا ھُو َ ہیں ۔ہم رب العرش الکریم ہیں ۔یہ چار صفات ہیں جنہوں نے تقاضا کیا کہ ہم اپنے آپ کو ظاہر کریں ۔پس ہم نے اپنے آپ کو ظاہر کر دیا ۔چنانچہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ چاروں صفات تنزلی طور پر ہر انسان کے اندر پائی جاتی ہیں ۔اس کے اندر خداتعالیٰ نے مَلِک والی صفت بھی رکھی ہے جس کے نتیجہ میں وہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کا مظہر بنتا ہے اور اس صفت کا تنا غلبہ ہے کہ دنیامیں ناقابل سے ناقابل انسان کو بھی مجازی طورپر بادشاہ بننے کی خواہش ہوتی ہے اور وہ اپنا مشورہ دینے کیلئے بے تاب رہتا ہے ۔پھر بادشاہت ایک نظام چاہتی ہے اور انسان بھی ملک ہو کر قانون بناتا اور مالک یوم الدین ہو کر قاضی بنتا اور لوگوں کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ کرتا ہے ۔پھر ملکیت نظام کامل پر بھی دلالت کرتی ہے ۔کیونکہ بادشاہ کا یہ کام ہو تا ہے کہ وہ نظام کو قائم رکھے اور ایک کو دوسرے پر ظلم نہ کرنے دے۔اور چونکہ خداتعالیٰ الملک تھا اُس کی ملکیت نے تقاضا کیا کہ بنی نوع انسان میں بھی نظام جاری ہو ۔اسی لئے اُس نے انسان کو مدنی الطبع بنایا اور اُس میں مل جُل کر رہنے کی طرف رغبت پیدا کی ۔اور بیوی بچے رشتہ دار اور دوست وغیرہ اُس کے ساتھ لگادیئے گئے ۔بیشک وہ جانوروں کے ساتھ بھی ہیں مگر اس طرح نہیں جس طرح انسان کے ساتھ ہیں ۔مثلاً اُن میں تربیت اولاد کا طریق نہیں ۔بچہ جب دانہ کھانے لگے تو وہ اُسے مارکر باہر نکال دیتے ہیں ۔یہ کبھی نہیں ہوگا کہ بچے کو بوڑھا ہونے تک وہ اپنے ساتھ لئے پھریں ۔لیکن انسانوں میں یہ بات نظر آتی ہے کہ بچے کے بوڑھا ہونے تک بھی اگر ماں باپ زندہ ہوں تو اس کا فکر رکھتے ہیں۔پھر جانوروں میں برادری سسٹم کوئی نہیں ۔لیکن اگر بعض کے تعاون کو جیسا کہ چیونٹیوں میں ہوتا ہے برادری کا طریق بھی سمجھ لیا جائے تو خاندانوں کا سسٹم اُن میں قطعًا نہیں ۔اور وارث ہونا اور قرابت کی وجہ سے دوسرے کا ذمہ دار قرار پانا یہ باتیں تو اُن میں کُلی طور پر مفقود ہیں ۔غرض ملکیت چونکہ نظام ِ کامل پر دلالت کرتی تھی اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ دنیامیں بھی نظامِ کامل جلدی کیا جائے ۔اور اسی لئے اس نے انسان کو مدنی الطبع بنایا ۔پھر صفت الحق جس کے تابع رحیمیت کی صفت ہے اخلاق ِ فاضلہ اور عمل کی درستی پر دلالت کرتی ہے ۔رحیمیت کے معنے ہیں اچھے کام کا بہتر سے بہتر بدلہ دینا اور یہ چیز اخلاق سے تعلق رکھتی ہے ۔اچھے کام ہوں تو بدلہ دیا جا سکتا ہے ۔ورنہ نہیں ۔چنانچہ جس طرح ملکیت کے نظام کو قبول کرنے کیلئے اُس نے انسان کے اندر قابلیت رکھی تھی اور اُسے مدنی الطبع بنایا تھا اسی طرح الحق کے مقابلہ میں اخلاق فاضلہ انسان لو عطاکئے گئے ۔مذہب ہویا نہ ہو۔تعلیم ہو یا نہ ہو ۔خلافِ اخلاق بات دیکھ کر ہر شخص کو چہرہ فوراً سُرخ ہو جائیگا اور پتہ لگ جائے گا کہ اُس کی فطرت بو ل رہی ہے ۔جھوٹ بولنے یا چوری کرنے کی کسی کو عادت پڑ جائے تو اور بات ہے ورنہ پہلا جھوٹ بولتے ہوئے اُس کا رنگ ضرور فق ہوگا اور پہلی چوری کرتے ہوئے اُس کا ہاتھ ضرور کانپے گا کیونکہ اخلاق فاضلہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں داخل کئے ہیں ۔اور جب اللہ تعالیٰ رحیم تھا کہ دنیا میں اچھے کام بھی ہوں تاکہ اُن کا بدلہ دیا جا سکتا ۔پھر الحق میں چونکہ سچا وعدہ کرنے والے کے معنے بھی پائے جاتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان میں الحق کی صفت بھی رکھی ۔چنانچہ انسان ہی وہ وجو دہے جو سچائی کو اُس کی انتہائی حد تک پہنچا دیتا ہے اور سچائی کے قیام کے لئے اتنی عظیم الشان قربانی کرتا ہے کہ جس کی مثال کسی اور مخلوق میں نہیں مل سکتی ۔امتِ محمدیہ میں ایسے کئی اولیا ء ہوئے ہیں جنہوں نے سچائی کیلئے بڑی بڑی تکالیف اٹھائی ہیں ۔یہا ں تک کہ انہو ں نے اس راہ میں مرنا قبول کر لیا مگر سچا ئی کو ترک نہیں کیا ۔خود ہماری جماعت میں شہدائے کابل کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے پتھر کھا کھا کر مرجانا قبول کر لیا مگر اس بات کو ایک لمحہ کیلئے برداشت نہ کیا کہ جوسچائی انہوں نے اختیار کی تھی اُس کو لوگوں کے کہنے سے ترک کر دیں ۔ہمارے سردار اور آقا حضرت محمد مصطفٰے ﷺ کو ہی دیکھ لو ۔مکی زندگی میں ابو طالب جو آپ کے چچا تھے آپ کی بڑی حفاظت کرتے تھے ۔اور چونکہ وہ اپنی قوم کے سردار تھے اس لئے قریش مکہ رسول کریم ﷺ کو اس طرح دق نہ کر سکتے تھے جس طرح وہ آپ کے صحابہ ؓ کودق کیا کرتے تھے ۔مگر جب رسول کریم ﷺ کے وعظ و نصیحت کو سُن سُن کر انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام بڑھتا چلا جاتا ہے اور اگر اسے جلدی روکا نہ گیا تو اُس کا مٹانا اُن کیلئے سخت مشکل ہو جائیگا تو وہ ایک وفد کی صورت میں ابو طالب کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ آپ کے بھتیجے نے ہمیں سخت دق کر رکھا ہے وہ ہمارے بتوں کو گالیاں دیتا او ر ایک خدا کاو عظ کرتا رہتا ہے ۔آپ اسے سمجھائیں کہ وہ ایسا نہ کرے اور اگر وہ نہ رُکے تو آپ اس سے الگ ہو جائیں اور ہم پر اس کا معاملہ چھوڑ دیں ہم خود اس سے نپٹ لیں گے اور اگر آپ اُن سے الگ ہو نے کیلئے بھی تیار نہ ہوں تو مجبوراً ہمیں آپ کی سرداری کو بھی جواب دینا پڑے گا ۔اور پھر اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا ۔ابو طالب اپنے قبیلہ کے سردار تھے اور جن قوموں میں قبائلی زندگی ہوتی ہے وہ اپنی سرداری کی بڑی قیمت سمجھتی ہیں۔ابو طالب نے جب یہ بات سُنی تو گھبراگئے اور انہوں نے رسول کریم ﷺ کو بُلا کر کہا ۔اے میرے بھتیجے ! اب قوم سخت مشتعل ہو گئی ہے اور قریب ہے کہ تجھے ہلا ک کردیں اور ساتھ ہی مجھے بھی ۔میں نے ہمیشہ تیری حفاظت کرنے کی کوشش کی ہے مگر آج میری قوم کے افراد نے مجھے صاف طو ر پر کہہ دیا ہے کہ یا تو اپنے بھتیجے سے الگ ہو جائیں اور اگر آپ الگ ہونے کیلئے تیار نہ ہوں تو ہم آپ کی سرداری کو بھی جواب دے دیں گے ۔ابو طالب کیلئے یہ ایک ایسا امتحان تھا کہ باتیں کرتے کرتے انہیں رقت آگئی اور اُن کی تکلیف کو دیکھ کر رسول کریم ﷺ کی آنکھیں بھی ڈبڈبا گئیں ۔مگر آپ نے فرمایا ۔ اے چچا ! میں آپکے احسانات کو بھُول نہیں سکتا ۔میں جانتا ہوں کہ آپ نے میری خاطر بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں لیکن اے چچا ! مجھے خداتعالیٰ نے اسی کام کیلئے مبعوث کیا ہے ۔اگر آپ کو اپنی تکلیف کا احساس ہے تو اپنی پناہ واپس لے لیں ۔خدا نے مجھے سچائی دی ہے جسے میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا ۔اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لاکر رکھ دیں تب بھی میں اس تعلیم کو نہیں چھوڑ سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے ملی ہے یہ الفاظ کوئی معمولی الفاظ نہیں تھے ۔آج بھی یورپ کے معاند مؤرخین جب رسول کریم ﷺ کے واقعات لکھتے ہوئے اس مقام پر پہنچتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور وہ یہ لکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا کہ محمد رسول جھوٹ بولنے والے نہ تھے اور آپکو اس تعلیم کی سچائی پر پورا یقین تھا جو آپ ؐ لائے تھے ۔غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر سچائی کا وہ مادہ رکھا ہے کہ سچائی پر قائم ہوتے ہوئے انسان کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے ۔پھر الحق کے دوسرے معنے دنیا کو قائم رکھنے والے کے ہیں ۔اس کا بہترین نمونہ بھی انبیاء علیہم السلام کا وجود ہوتا ہے ۔جب خداتعالیٰ کا غضب دنیا کے گناہوں کی وجہ سے بھڑکنے والا ہوتا ہے تو اُس وقت خداتعالیٰ کا الحق ہونا فوراً اپنے نبی کی طرف نگا ہ دوڑاتا ہے اور کہتا ہے اس وجود کے ہوتے ہوئے میں دنیا کو کیونکر تباہ کردوں ۔پس اُس کا وجود اس دنیا کیلئے ایک حرز اور تعویذ ہوتا ہے اور اُس کی وجہ سے مخلوق بہت سے مصائب اور اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بننے سے محفوظ رہتی ہے ۔
پھر لَااِلَہَ اِلَّا ھُوَ جو رحمانیت کا منبع ہے اُس کیساتھ قربانی اور ایثار کا تعلق ہے ۔کیونکہ رحمانیت تقاضا کرتی ہے کہ بغیر کسی مزدوری اور محنت کے دوسرے پر احسان کیا جائے اور یہ چیز بھی انسان کی فطرت میں رکھی گئی ہے چنانچہ دیکھ لو قطع نظر اس خیال کے کہ بڑے ہو کر بچہ کسی کام بھی آئیگا یا نہیں ماں باپ اُسے پالتے اور اُس کو آرام و آسائش کا ہر طرح خیال رکھتے ہیں ۔وہ اپنے دن کا آرام اور راتوں کی نیند اُس کیلئے حرام کر دیتے ہیں اور ہر ممکن کوشش اُس کے بقاء اور تحفظ کیلئے کرتے ہیں ۔یہ صفت رحمانیت کا ہی پر تو ہے
جو انسان میں دکھائی دیتا ہے ۔
اسی طرح ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ جو شخص لَااِلَہَ اِلَّا ھُوَکا مقام دیکھ لیتا ہے وہ خود بھی توحید کے مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے۔توحید کے مقام پر کھڑا ہونے کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو جس طرح اپنی تو حید اور تفرید سے محبت ہے اسی طرح انسان سے بھی محبت ہو جاتی ہے اور وہ اُس کے مقابلہ میں ساری دنیا کی بھی پروا نہیں کرتا ۔یہی وہ مقام ہے جسے حدیث قدسی میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ لَوْلَا کَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ یعنی الے محمد ؐ رسول اللہ ! اگر تم نہ ہوتا تو میں زمین و آسمان کو بھی پیدا نہ کرتا ۔پھر یہ بھی توحید کا مقام تھا کہ رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے سیّد ولد آدم اور اوّلین و آخرین کا سردار بنایا اور فیصلہ فرما دیا کہ اب کوئی ماں ایسا بچہ نہیں جن سکتی جو آپ ؐ کے درجہ کی بلندی کو پہنچ سکے ۔پھر اس لحاظ سے بھی آپ ؐ نے اس قدر جدوجہد کی کہ دنیا ء مافیا آپ کی نظرو ں سے غائب ہوگئے اور خدا ہی خدا آپ کو نظر آنے لگا ۔اور پھر اس لحاظ سے بھی آپ توحید کے مقام پر تھے کہ توکل کا بلند ترین مقام آپ کو حاصل تھا اور آپ کی نظر خداتعالیٰ کے سوا اور کسی کی طرف اٹھتی ہی نہیں تھی ۔پھر رب العرش الکریم کے ماتحت صفت رب العالمین کا مادہ بھی خداتعالیٰ نے ہر انسان میں پیدا کیا ۔او ر اُسے اتنا وسیع کیا کہ ہرماں اور ہر باپ اپنے بچہ کی تربیت کر رہا ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ میں تو یہ صفت اس درجہ تک پائی جاتی تھی کہ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ کے احسان سے باہر رہ گئی ہو ۔یہ ظاہر ہے کہ ربوبیت عالمین میں تمام مخلوق شامل ہے ۔ یعنی انسان بھی اس میں شامل ہیں اور حیوان بھی اُس میں شامل ہیں ۔مرد بھی اس میں شامل ہیں اور کافر بھی اس میں شامل ہیں ۔یہاں تک کہ انبیاء اور ملائکہ بھی اس میں شامل ہیں ۔اب جب ہم رسول کریم ﷺ کی زندگی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلو م ہوتا ہے کہ آپ صفتِ رب العالمین کے ایسے کامل مظہر تھے کہ د نیا کی کوئی مخلوق آپ کے احسان سے باہر نہیں تھی ۔مخلوق میں سے اہم جنس حیوان ہیں جن کے متعلق رسول کریم ﷺ نے اپنی امت کو کئی قسم کے احکام دئیے ہیں ۔مثلاً آپ نے فرمایا کہ آزاد جانوروں کو باندھ کر مت رکھو اور اگر باندھ کر رکھتے ہو تو انکے کھانے پینے کا انتظام کرو ۔کسی جانور کو کسی دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرو تاکہ اُسے تکلیف نہ ہو ۔کسی جانور کو کُند چھری سے ذبخ نہ کرو ۔کسی جانور کو باندھ کر نشانہ نہ بنائو۔کسی جانور پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادو ۔کسی جانور کے مونہہ پر داغ نہ لگائو ۔اگر لگانا ہی ہو تو پیٹھ پر لگائو ۔اسی طرح فرمایا کہ جو پالتو جانور ہیں اُن کو دانے وغیرہ ڈال دینا بھی ثواب کا موجب ہے ۔چنانچہ آپ نے فرمایا کہ ایک شخص جو جانوروں کو دانے وغیرہ ڈالا کرتا تھا اللہ تعالیٰ کو اُس کی یہ نیکی ایسی پسند آئی کہ اُس نے اس نیکی کے عوض اُسے اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرما دی ۔عورتوں کے حقوق کا آپ نے اسقدر خیال رکھا کہ فرمایا وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ کہ جس طرح عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی بہت سے حقوق ہیں جو مردوں کو ادا کرنے چاہئیں ۔پھر ہر شعبہ زندگی میں عورت کی ترقی کے راستے آپ نے کھولے اُسے جائیداد کا مالک قرار دیا ۔اُس کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھا ۔اس کی تعلیم کی نگہداشت کی۔اُس کی تربیت کا حکم دیا اور پھر فیصلہ فرمادیا کہ جس طرح جنت میں مرد کیلئے ترقیات کے غیر متناہی مراتب ہیں اسی طرح عورتوں
کیلئے بھی ترقیات کے غیر متناہی دروازے کھلے ہیں ۔
پھر انسانوں میں قوموں مذہبوں اور حکومتوں کے تفاوت کی وجہ سے اختلاف ہوتا ہے اور اس اختلاف کے نتیجہ میں کئی دفعہ لڑائیاں ہو جاتی ہیں ۔مگر جہاں گھمسان کی لڑائی ہو رہی ہو تی ہے جہاں کوئی انسان کسی کی پروا نہیں کرتا وہاں محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ یہ آواز بلند ہوتی ہے کہ دیکھنا ان کفار میں سے کسی عورت کو نہ مارنا ۔کسی بچے کو نہ مارنا ۔کسی پنڈت یا پادری یا راہب کو قتل نہ کرنا ۔باغات نہ جلانا ۔معبد نہ گرانا ۔پھلدار درخت نہ کاٹنا ۔جھوٹ اور فریب سے کام نہ لینا ۔کسی ایسے شخص کو قتل نہ کرنا جس نے تمہارے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ہوں ۔زخمی کو نہ مارنا ۔کسی کو آگ سے عذاب نہ دینا ۔کفار کا مثلہ نہ کرنا ۔گویا تمثیلی زبان میں اگر ہم ان ہدایات کو بیان کریں تو اس کا نقشہ یوں کھینچا جا سکتا ہے کہ مسلمان ایک لمبے عرصہ تک کفار کے مظالم برداشت کرنے کے بعد جب تلواریں سونت سونت کر کفار پر حملہ آور ہوئے تو وہی محمد رسول اللہ ﷺ جو مسلمانوں کو کفار سے لڑا رہے تھے کیا دکھائی دیتا ہے کہ دشمنوں کے آگے بھی کھڑے ہیں اور مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ ان پر یہ سختی نہ کرو ۔وہ سختی نہ کرو ۔گویا محمد رسول اللہ ﷺ صرف مسلمانوں کے لشکر ہی کی کمان نہیں کر رہے تھے بلکہ آپ کفار کے لشکر کی بھی کمان کر رہے تھے ۔اور انہیں بھی مسلمانوں کے حملہ سے بچا رہے تھے ۔پس لڑائیوں میں بھی رسول کریم ﷺ کے صفت رب العالمین کے مظہر ہونے کا ثبوت نظر آرہا ہے ۔پھر غلاموں پر بھی آپ نے احسان کیا اور فرمایا کہ جو شخص کسی غلام کو مارتا ہے وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کا فدیہ یہ ہے کہ وہ اُسے آزاد کردے۔آپ نے فرمایا اپنے غلام سے وہ کام نہ لو جو وہ کر نہیں سکتا ۔اور اگر زیادہ کام ہو تو خود ساتھ لگ کر کا م کرائو ۔اور اگر تم اس کیلئے تیار نہیں تو تمہارا کوئی حق نہیں کہ اس سے کام لو ۔اسی طرح اگر غلام کیلئے تمہارے مونہہ سے کوئی گالی نکل جاتی ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اُسے فوراً آزاد کردو ۔غرض مزدور اور آقا کے لحاظ سے بھی آپ نے صفت رب العالمین کا مظہر بن کر دنیا کو دکھا دیا ۔آپ نے ایک طرف مزدور کو کہا کہ اے مزدور تو حلال کما اور محنت سے کام کر اور دوسری طرف آقا سے کہا کہ اے محنت لینے والے تو حد سے زیادہ اس سے کام نہ لے اور اس کا پسینہ خشک ہو نے سے پہلے اسکی مزدوری اُسے دے ۔اسی طرح تجارتوں کے متعلق اور لین دین کے معاملات کے متعلق بھی رسول کریم ﷺ نے احکام دئیے بلکہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے متعلق واضح ہدایات دے کر رسول کریم ﷺ نے بنی نوع انسان پر احسان نہ فرمایا ہو ۔کوئی کہہ سکتا ہے کہ موجودہ لوگوں پر تو رسول کریم ﷺ نے یہ احسانات کئے لیکن آپ نے پہلوںپر کیا احسان کیا ۔سو ایسے لوگوں کو میں بتا نا چاہتا ہوں کہ آپ کے احسانات نہ صرف موجودہ نسل اور آئندہ آنے والی نسلوں پر ہیں بلکہ اُن لوگوں پر بھی ہیں جو آپ سے پہلے گذر چلے ۔آپ جس زمانہ میں مبعوث ہوئے اُس وقت تمام انبیاء پر مختلف قسم کے الزامات لگائے جاتے تھے ۔اور عجیب بات یہ ہے کہ ہر نبی پر اُسی قوم نے الزام لگائے جو اُس نبی کو ماننے والی تھی۔حضرت عیسی علیہ السلام پر بھی الزام لگا۔حضرت دائود علیہ السلام پر بھی الزام لگا ۔حضرت سلیمان علیہ السلام پر بھی الزام لگا ۔بلکہ عیسائیوں نے تو حضرت عیسی علیہ السلام کو مستثنٰی کرتے ہوئے کہہ دیا کہ سب نبی نعوذ باللہ چو ر اور بٹمار تھے مگر حضرت عیسی علیہ السلام کی نیکی بھی اُن کی نگا ہ کیا تھی انہوں نے منہ سے تو کہہ دیا کہ حضرت عیسٰی بے گناہ تھے ۔مگر تفصیلات میں وہ اُن پر الزام لگانے سے بھی باز نہیں آئے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ وہ کسی کا گدھا بے پوچھے لے گئے اور اُس پر سواری کرتے پھرے ۔لوگوں کو گالیاں دیتے تھے۔اور انہیں حرامکار اور بدکار کہتے تھے ۔وہ لوگوں کے گناہ اٹھا کر صلیب پر لٹک گئے اور اس طرح نعوذ باللہ *** بنے اور تین دن دوزخ میں رہے ۔وہ لوگوں کے سؤروں کے گلّے بغیر اُن کے مالکوں کو کوئی قیمت دینے کے تباہ کر دیا کرتے تھے ۔یہ سب باتیں مسیحی کتاب میں لکھی ہیں ۔پھر ہندوؤں کو لے لو۔وہ حضرت کرشن اور حضرت رامچندر کو اپنا اوقار مانتے ہیں ۔مگر رامچندر جی کا سیتا سے جو سلوک بیان کرتے ہیں وہ اگر ایک طرف رکھ لیا جائے اور دوسری طرف ان کی بزرگی اور نیکی دیکھی جائے تو یہ تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے اتنا بڑا ظلم کیاہو ۔پھر حضرت کرشن کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مکھن چرا چرا کر لیجایا کرتے تھے حالانکہ وہ خداتعالیٰ کے نبی تھے ۔غرض تمام انبیاء پر بیسیوں الزامات لگائے جاتے تھے ۔یہ صرف محمد رسول اللہ ﷺ کی ہی ذات ہے جس نے تمام انبیاء پر سے ان اعتراضات کو دُور کیا اور بتا یا کہ یہ لوگ نیک پاک اور راستباز تھے ا ن پر الزام نہیں لگانا چاہیے ۔پس رسول کریم ﷺ نے نہ صرف موجودہ اور آئندہ نسلوں پر احسان کیا بلکہ پہلے لوگوں پر بھی احسان کیا جو وفات پا چکے تھے اور ان کی قوموں پر بھی احسان کیا ۔جب ایک یہودی کو بتادیا جائے کہ تمہارے بزرگ تمام نقائص سے پاک تھے تو اُس کی گذشتہ تاریخ کتنی صاف ہو جاتی ہے اور وہ کیسی خوشی کے ساتھ ان بزرگوں کے نمونہ پر چلنے کی کوشش کرے گا ۔یہی حال عیسائیوںکا ہے اور یہی حال دوسری قوموں کا ہے ۔پس رسول کریم ﷺ نے نہ صرف اپنی قوم ہی کی ترقی کے راستے کھولے بلکہ دوسری قوموں کی روایات کو بھی صاف کیا اور اُن کے سامنے بھی اُن کے بزرگوں کے اعلیٰ نمونے پیش کئے جن کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے وہ عظیم الشان ترقی کر سکتے ہیں ۔پھر آپ نے ملائکہ پر بھی احسان کیا ۔طرح طرح کے الزام تھے جو اُن پر لگائے جاتے تھے ۔مگر اسلام نے آکر بتا یا کہ ملائکہ گناہ گار نہیں بلکہ اُن کے اندر خداتعالیٰ نے انکار کا مادہ ہی نہیں رکھا ۔انہیں جو بھی حکم ملے اُس کی وہ اطاعت کرتے ہیں پس اُن پر کسی قسم کا الزام لگانا اور یہ کہنا کہ انہوں نے بھی فلاں گناہ کیا تھا سخت ظلم ہے ۔پھر رسول کریم ﷺ نے دنیا کے ہر گناہگار پر احسان کیا اور اُس کے دل کو خوشی سے لبریز کر دیا ۔رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے ساری دنیا یہ کہا کرتی تھی کہ گناہگار ہمیشہ دوزخ میں گرائے جا ئیں گے اور جو شخص ایک دفعہ جہنم میں چلا گیا وہ وہاں سے نہیں نکل سکے گا ۔گویا دنیا گناہگاروں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کرتی تھی اور توبہ کا دروازہ اس پر بند کرتی تھی مگر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ۔انسان کتناہی گناہگار ہو جائے اللہ تعالیٰ اُسے معاف کرنے کیلئے تیار ہے ۔بے شک گناہگاروں کے گناہ بڑے ہوں مگر خداتعالیٰ کا رحم اُس سے بھی بڑا ہے ۔پس تم اس بات سے مت گھبرائو کہ تم گناہوں میں ملوث ہو تم توبہ کرو تو خدا آج بھی تمہیں معاف کرنے کیلئے تیار ہے ۔کتنی امید ہے جو گناہگار وں کے دلوں میں رسول کریم ﷺ نے پیدا کر دی۔کتنی امنگ ہے جو آپ نے انکے قلوب میں موجزن کر دی ۔غرض رب العالمین کی صفت اعلیٰ درجہ کے کمال کے ساتھ محمد رسول اللہ ﷺ میں ظاہر ہوئی اور آپ سے اُتر کر امتِ محمدیہ کے اور بہت سے اولیا اور صلحاء میں ظاہر ہوئی اور ظاہر ہوتی رہتی ہے ۔
غرض یہ چاروں صفات جو اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہیں انہی کے ماتحت دنیا میں امن قائم رہ سکتا ہے ۔اگر قانون نہ ہو اور پھر اس قانون کا نفاذ نہ ہو تو ہر گز امن قائم نہیں ہو سکتا ۔اسی طرح اگر صحیح رنگ میں تربیت نہ ہو اور اہلی اور عائلی زندگی درست نہ ہو تب بھی امن مفقود ہو تا ہے ۔امن کے قیام کا صرف یہی ذریعہ ہے کہ انسان اس حقیقت کو سمجھ لے کہ وہ دنیا میں کیوں پیدا کیا گیا ہے۔اور یہ حقیقت اُس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک محمد رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی تعلیم انسان کے سامنے پیش نہ کی جائے۔جب تک اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نظارے اُس کے سامنے نہ رکھ دئے جائیں ۔جب تک ہم اُسے یہ یقین نہ دلادیں کہ یہی دنیوی زندگی کا اصل مقصود نہیں بلکہ اصل زندگی وہ ہے جب وہ مرنے کے بعد اپنے رب کے سامنے پیش کیا جائے گا ۔تو خدا اُسے کہیگا کہ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ۔کہ اے میرے بندے میں نے تجھے بے انتہا انعامات دینے ہیں ۔میں نے تیری روح ہمیشہ قائم رکھنی ہے ۔بیشک تیری دنیوی زندگی ہزاروں مایوسیوں ہزاروں ناکامیوں اور ہزاروں بیماریوں کی آماجگاہ تھی لیکن یاد رکھ کہ وہی تیری زندگی نہیں تھی بلکہ اصل زندگی وہ ہے جو اب تجھے دیتا ہوں اور جو ہر قسم کی تکلیفوں اور ہر قسم کی ذلّتوںاور ہر قسم کے تنزل سے محفوظ ہے ۔آ اور میری جنت میں داخل ہو جا۔جب یہ خیال کسی کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے ۔جب وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی عبث نہیں بلکہ یہ ایک اور عظیم الشان زندگی کا پیش خیمہ ہے اور اصل زندگی وہی ہے جو میری موت کے بعد شروع ہو گی تو اس وقت وہ اپنے دل میں حقیقی اطمینان اور حقیقی امن محسوس کرتا ہے اور اس وقت وہ صرف اپنی پیدائش پر ہی خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی موت پر بھی خوش ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ موت اس لئے نہیں کہ مجھے تباہ کرے بلکہ اس لئے ہے کہ وہ مجھے چھوٹی جگہ سے اُٹھا کر ایک بلند مقام پر پہنچا دے ۔کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کوئی شخص تحصیلدار سے ای ۔اے ۔سی ہو گیا ہو یا ڈپٹی کمشنر ہو گیا ہو اور وہ بجائے خوش ہونے کے رونے لگ گیا ہو ۔اسی طرح مومن اپنی موت پر روتا نہیں بلکہ خوش ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مجھے انعامات ملنے کا وقت آگیا ۔لیکن جو شخص روتا ہے وہ اس لئے روتا ہے کہ اس نے زندگہ محض دنیوی حیات کو سمجھ رکھا تھا اور اس نے دیکھا کہ اس زندگی کا بیشتر حصہ ناکامی اور بد مزگی میں گذر گیا اور اُسے کچھ بھی لطف نہ آیا ۔مگر جو شخص جانتا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی ایک امتحان کا کمرہ ہے وہ اس کمرے سے نکلتے وقت خوشی محسوس کرتا ہے ،جس طرح وہ لڑکا جو اچھے پرچے کرکے آتا ہے خوش ہوتا ہے اسی طرح مومن جب دنیا کے امتحان کے کمرہ سے اچھے پرچے کر کے نکلتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے ایک رحیم ہستی میرے سامنے ہے جس نے مجھ سے بے انتہا انعامات کا وعدہ کیا ہوا ہے ۔اب میں اُس کے پاس جائوں گا اور اُس سے انعام لوں گا ۔جیسے یونیورسٹی کی ڈگریاں لینے کیلئے جب طالب علم جاتے ہیں تو وہ بھڑکیلے لباس اور گائون وغیرہ پہن کر جاتے ہیں ۔اسی طرح وہ مومن جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اُس کے عظیم الشان فضلوں پر ایمان رکھتا ہے جب مرنے لگتا ہے تو اس کا دل خوشی سے اچھل رہا ہوتا ہے ۔اور وہ کہتا ہے میں اپنے رب کے پاس ڈگری لینے چلا ہوں میں اپنے رب سے انعام لینے چلا ہوں ۔جب تک یہ امید انسان کے دل میں پیدا نہیں ہوتی اُس وقت تک
اُسے حقیقی راحت میّسر نہیں آسکتی ۔
غرض انسا ن میں اللہ تعالیٰ نے عظیم الشان طاقتیں رکھی ہیں اور اُس کا یہ فرض مقرر کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو صفاتِ الٰہیہ کا مظہر بنانے کی کوشش کرے اور یہی وہ چیز ہے جس کو قائم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو بھیجتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان کے ذریعہ دنیا میں ایک ایسی روحانی حکومت قائم کرے جس کے افراد اُنہی صفات کے مظہر ہوں جو اُس کے اندر پائی جاتی ہیں ۔پس جب تک کوئی شخص ان تمام ذمہ داریوں کو سمجھ کر مذہب قبول نہیں کرتا اس وقت تک اس کا مذہب میں شامل ہونا یا نہ ہونا برابر ہوتا ہے ۔وہ مسلمان ہوتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ مسلمان ہونے کیلئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ لَٓا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد’‘ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھ لیا جائے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ لَٓا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد’‘ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی تفسیر سارا قرآن ہے اور اس سارے قرآن پر عمل کئے بغیر وہ حقیقی معنوں میں مسلمان نہیں ہو سکتا ۔جس طرح انسان کسی ایک عضو کا نام نہیں بلکہ انسان مجموعہ ہے ناک کان آنکھوں منہ گردن سر سینہ ہاتھ اور پائوں وغیرہ کا اور ان میں سے کوئی چیز بھی علٰیحدہ نہیں ہوسکتی ۔نہ سر الگ ہو سکتا ہے ۔نہ دھڑالگ ہو سکتا ہے ۔نہ ہاتھ اور پائوں الگ ہو سکتے ہیں ۔اسی طرح لَٓا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد’‘ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ایک مفرد شے نہیں بلکہ وہ چار اعضاء روحانی کے مجموعہ کا نام ہے ۔وہ الملک اور الحق اور لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ اور رب العرش الکریم کے بروز کا نام ہے ۔پس انسان صحیح معنوں میں اسی وقت لَٓا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہنے والا سمجھا جاسکتا ہے جب وہ رب العالمین ۔الرحمن ۔ الرحیم اور مالک یوم الدین کی صفات کا مظہر ہو ۔اگر کوئی شخص ان صفات کو اپنے اندر پیدا نہیں کرتا تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی ایسی چیز کو آدمی سمجھتا رہے جس کا نہ دل ہو ، نہ دماغ ہو ، نہ ہاتھ ہوں ، نہ پائوں ہوں ۔کامیابی حاصل کرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیںجو اپنے آپ کو صفاتِ الٰہیہ کا مظہر بنا کر اپنے اندر تغیر پیدا کرتے ہیں اور اس طرح اُس مقصد کو حاصل کر لیتے ہیں جس کیلئے ان کی پیدائش معرضِ وجود میں آئی تھی ۔
وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ ہ
ترجمہ() اور جو کوئی اللہ کے سوا کسی اور معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل نہیں ۔تو اُس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ کافر کبھی کامیاب نہیں ہوتے اور توکہہ دے ۔اے میرے رب ! معاف کراور رحم کر اور تو سب سے اچھا رحم
کرنے والا ہے ۔ ۲۸؎
۲۸؎ تفسیر :
فرماتا ہے ۔جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو اپنا معبود سمجھ کر اپنی مدد کے لئے پکارتا ہے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اس کو اپنے رب کے سامنے حساب دینا پڑے گا اور ایسے کافر لوگ کبھی اپنی مراد نہیں پائیں گے ۔یعنی وہ کبھی بھی مسلمانوں پر غالب نہیں آئیں گے بلکہ مسلمان ہی اُن پر غالب رہیں گے ۔مگر اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے تُو اپنے رب سے بخشش اور رحم مانگتا رہا کر اور یہ کہتا رہا کر کہ الٰہی تو ہی سب سے اچھا رحم کرنے والا ہے ۔یعنی اسلام کی اشاعت کے لئے سب سے کار گر حربہ یہی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اُس سے دعائیںکرتے رہو کہ وہ تمہاری کمزوریوں کو دور فرمائے ۔تمہیں اپنے رحم اور کرم سے حصہ دے اور تمہیں ایسا روحانی غلبہ عطا کرے کہ تم لوگوں کے خیالات اور اُن کے افکار اور ان کے رجحانات میں ایک نیک تغّیر پیدا کر سکو اور انہیں توحید کی طرف کھینچ کر ایک نئے تمدن کی بنیاد رکھ سکو۔تاکہ اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کا اظہار ہو اور خداتعالیٰ کی بادشاہت جس طرح آسمان پر ہے زمین پر بھی قائم ہو ۔یہ وہ حربہ ہے جسے ہر شخص استعمال کرسکتا ہے ۔یہاں تک کہ چارپائیوں پر پڑے ہوئے کمزور اور بیمار جن میں چلنے کی تاب نہیں ۔وہ بھی اپنے رب کا دروازہ کھٹکھٹا کر اس کی نصرت کو کھینچ سکتے ہیں ۔قید وبند میں مبتلا انسان جو زندان کی چار دیواریوں میں مقید ہیں وہ بھی اس حربہ کو استعمال کر کے خدمتِ دین کا ثواب لے سکتے ہیں اور نادار اور غریب انسان جن کے دل اس حسرت سے بے تاب رہتے ہیں کہ کاش اُن کے پاس بھی روپیہ ہوتااور وہ بھی دین کی اشاعت میں مدد دے سکتے وہ بھی اس ذریعہ سے اسلام کی کامیابی کو قریب تر لا کر ثواب میں دوسروں کے شریک ہو سکتے ہیں ۔ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جھکے اور اس سے نہایت عجزو انکسار سے یہ دعا کرتا رہے کہ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ
خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ

سُوْرَۃُ النُّوْرِ مَدَنِیَّۃُ
وَھِیَ مَعَ الْبَسْمَلَۃِ خَمْس’‘ وَّ سِتُّوْنَ اٰیَۃً وَّتِسْعَۃُ رُکُوْعَاتٍ
ترجمہ () سورۃ نور ۔یہ سورۃ مدنی ہے اور بسم اللہ سمیت اسکی پینسٹھ (۶۵) آیتیں ہیں اور نو رکوع ہیں ۔ ۱؎
۱؎ سورۃ النور بغیر اختلاف کے مدنی ہے ۔نہ مسلمان اس بارہ میں اختلاف کرتے ہیں اور نہ عیسائی اس کے متعلق اختلاف کرتے ہیں ۔اور اس کی پینسٹھ آیتیں ہیں یعنی بسم اللہ کو شامل کرکے ۔بسم اللہ کو نکا ل کر چونسٹھ بنتی ہیں ۔
سورۃ النور کا پہلی سورۃ سے تعلق
اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے قریبی تعلق یہ ہے کہ سورۂ مومنون کے آخر میں یہ بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ پیدا ہونگے جو روحانیت میں ترقی کر کے خداتعالیٰ کی مدد حاصل کر سکیں گے ۔اب اس سورۃ میں وہ طریق بتائے گئے ہیں جن پر چل کر خداتعالیٰ کی مدد حاصل کی جاتی ہے۔اور بتایا ہے کہ عبادت اور تقویٰ کی راہوں کے علاوہ خداتعالیٰ کی نصرت حاصل کرنے کے ذریعہ قوم کی اخلاقی حالت کی درستی اور عائلی اور قومی تنظیم بھی ہوتے ہیں ۔چنانچہ اس سورۃ کو اخلاقی حالت کی درستی کی تدابیر سے ہی شروع کیا گیا ہے اور مرد و عورت کے تعلقات کی درستی اور اصلاح کی طرف توجہ دلائی گئی ہے گو یا بتا یا ہے کہ اسلام کے مخالفوں کی نہ صرف مذہبی حالت گِر گئی ہے بلکہ اخلاقی حالت بھی گِر گئی ہے ۔اس لئے وہ کامیاب نہیں ہو سکتے (خصوصاً مسیحی) لیکن مسلمانوں کی یہ دونوں حالتیں درست ہو جائیں گی اس لئے وہ کامیاب ہو جائیں گے۔درحقیقت اس مضمون کا بیج سورۂ مومنون میں موجود تھا ۔چنانچہ سورۂ مومنون میں کامیاب ہو نیوالے مومنوں کیلئے جو امور بیان کئے گئے تھے اُن میں سے ایک لِفُرُوْجِھِمْ حَافِظُوْنَ بھی تھا پس یوں کہنا چاہئیے کہ کامیاب ہونے والے مومنوں کے مضمو ن کو اس سورۃ میں زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ضمنی طور پر ان دونوں سورتوں کے مضمون سے یہ امر بھی نکلتا ہے کہ لوگوں میں جو یہ خیال پایا جاتا ہے کہ کسی سچے مذہب کو محض مان لینے سے کامیابی ہو سکتی ہے ۔یا یہ کہ اس طرح وہ کامیابی ہمیشہ کیلئے قائم بھی رکھی جا سکتی ہے یہ غلط ہے ۔کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ عقیدہ کے ساتھ ذہن افکار اور اخلاق کی اصلاح بھی کی جائے اور افراد اور قوم کے تعلقات کی بنیاد بھی صلاحیت اور رُشد پر رکھی جائے ۔اور قومی تنظیم کو خاص اہمیت دی جائے اور افراد کے حقوق پر قوم کے حقوق کو مقدم کیا جائے ۔
زمانۂ سورۃ :
یہ تو ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ سورۃ مدنی ہے ۔اب اس کی معّین تاریخ کا سوال رہ جاتا ہے ۔سو یاد رکھنا چاہئیے کہ اس سورۃ میں جو حضرت عائشہ ؓ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے یہ ۵؁ ہجری کا ہے ۔بنو مصطلق کی جنگ سے واپسی کے وقت یہ واقعہ پیش آیا تھا اور بنو مصطلق کی جنگ شعبان
۵ ؁ ہجری میں ہوئی تھی ۔پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ سورۃ پانچویں سال ہجری کے آخری مہینوں میں اُتری ہے ۔
خلاصہ سورۃ :
اس سورۃ میں خاص احکام بیا ن کئے گئے ہیں ۔اور ایسے امور بیان کئے گئے ہیں جن سے قوم ترقی کر سکتی ہے (آیت ۱،۲)بدکاری قومی نظام کو توڑ دیتی ہے اور اُسکی شہرت قومی اخلاق کو بگاڑ دیتی ہے ۔ان دونوں باتوں سے بچنا چاہئیے ۔(آیت ۷ تا ۱۱)
پھر فرماتاہے اگر میاں بیوی میں بدظنی پیدا ہو تو چونکہ اُس کا اثر خاندانی تعلقات پر پڑتا ہے اس لئے اس کا قانون دوسروں سے مختلف ہونا چاہئیے اور وہ یہ ہے کہ بجائے غیر گواہوں کے ذاتی قسموں کے ذریعہ سے اُ ن کا تصفیہ کروایا جائے ۔(آیت ۷ تا ۱۱)
پھر فرمایا کہ بعض دفعہ خرابی کے انفرادی واقعات قوم کیلئے مفید ہو جاتے ہیں ۔کیونکہ قوم اُن کی وجہ سے بیدار ہو جاتی ہے پس ایسی باتوں سے چڑنا نہیں چاہئیے بلکہ ان سے فائدہ اٹھانا چاہئیے اور ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئیے کہ وہی بات کہی جائے جو قانونی گواہی کی حد تک دلیل رکھتی ہو ۔ورنہ وہ بات زبان پر نہ لائی جائے ۔کیونکہ اگر محض بد ظّنی یا محض کمزور گواہوں پر ایک دوسرے کے خلاف الزام لگائے جائیں تو قوم میں گناہ بہت بڑھ جاتا ہے اور نوجوانوں میں یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ ہماری قوم میں یہ بدی کثرت سے پائی جاتی ہے اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں ۔(آیت ۱۲ تا ۲۱)
پھر فرماتا ہے کہ اے مومنو ! اخلاق کی حفاظت بڑی ضروری چیز ہے ایسے تمام کام جو معیار ِ اخلاق کو قوم میں کمزور کر دینے والے ہوں شیطانی کام ہیں ۔اور قومی اخلاق کو قائم رکھنے کیلئے بڑی بیداری کی ضرورت ہے اگر انسان اس بیداری کو کھو بیٹھے تو قوم کے اخلاق گِر جاتے ہیں ۔لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ اگر قوم میں سے بعض دفعہ غلطی کر بیٹھیں تو محض اس لئے کہ وہ فعل اگر بڑھ جائے تو قوم کی تباہی کا موجب ہو جاتا ہے اُن کو پیسنے اور کچلنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئیے بلکہ اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ قوم میں سے بعض کے اخلاق کمزور بھی ہو تے ہیں۔ایسے لوگوں کی اصلاح بہت عفو سے کرنی چاہئیے ۔(آیت ۲۲، ۲۳ )
لیکن وہ لوگ جو کہ اصرار کے ساتھ قوم میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور بد گوئی کے عادی ہو اُنکو یقینا اس دنیا میں بھی سزا ملنی چاہئیے اور آخرت میں بھی سزا ملے گی ۔اللہ تعالیٰ انکی بدیوں کو ظاہر کرکے اُن کو ذلیل کرے گا اور جس سزا کے وہ مستحق ہیں اس مین انہیں مبتلا کریگا ۔جب ایک شخص کا ظاہر نیک نظر آتا ہو تواُس کے متعلق بد باتیں قبول ہی نہیں کرنی چاہئیں ۔جس طرح کہ بد آدمی کے متعلق نیک بات سُن کرانسان کو تعجب ہو تا ہے اور اُسکو ماننے پر آمادہ نہیں ہوتا ۔( آیت ۲۴ تا ۲۷ )
پھر فرماتا ہے کہ انفرادی اخلاق پر اعتراضات بعض بے اختیاطیوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور سب سے بڑی بے احتیاطی مرد اور عورت کا آزادانہ اختلاط ہے ۔پس تم کو چاہئیے کہ ان چیزوں سے بچنے کیلئے ایک دوسرے کے گھر آزادانہ نہ گھس جا یا کرو بلکہ پہلے اجازت لیا کرو ۔اور گھر والوں پر سلام کیا کرو ۔پھر اگر تمہیں تمہارے سلام کا جواب نہ ملے تو جب تک تمہیں اجازت نہ ملے اُس گھر میں داخل نہ ہو اور اگر گھر میں بعض افراد ہوں اور وہ تمہیں کہیں کہ چلے جائو اس وقت ہم نہیں مل سکتے تو پھر ملاقات پر اصرار نہ کرو۔ہاں ایسے گھرجن میں تمہارا اسباب پڑا ہوا ہے اور اُن میں کوئی رہتا نہیں اُن میں تم بلا اجازت جا سکتے ہو ۔اور اگر مرد او رعورت کا آمنا سامنا ہو جائے تو انکو چاہئیے کہ ایک دوسرے کو آنکھیں کھول کر نہ دیکھا کریں اور اُن تمام راستوں کی حفاظت کریں جن سے بدی انسانی قلب میں داخل ہوتی ہے ۔یہی حکم عورتوں کیلئے بھی ہے جس طرح مردوں کیلئے ہے ۔اور عورتوں کو چاہئیے کہ وہ بھی ایسے راستوں کو بند کریں جن کے ذریعہ سے بدی انسان کے اندر داخل ہوتی ہے اور اپنے جسم کے ایسے حصّے جن کو خداتعالیٰ نے خوبصورت بنایا ہے غیر محرموں پر ظاہر نہ کریں ۔سوائے اس کے کہ کوئی حصّہ آپ ہی آپ ظاہر ہو جائے ( جیسے قداور جسم کی بناوٹ وغیرہ ) اور چاہئیے کہ وہ اپنی اوڑھنیوں کو اپنے منہ کے اوپر سے کھینچ کر سینوں تک لے آئیں ( یعنی لمبا گھونگھٹ نکالیں ) اور اپنی زینت سوائے اپنے قریبی رشتہ داروں کے یا ایسے متعلقین کے جن کی فہرست دی گئی ہے اور کسی کو نہ دکھائیں ۔
( آیت ۲۸ تا ۳۲)
اسی طرح چاہئیے کہ قومی اخلاق کی درستی کیلئے بیوائیں قوم میں نہ رہنے دی جائیں بلکہ اُن کی شادی کر دی جائے ۔اسی طرح غلاموں اور لونڈیوں کی بھی شادی کی جائے ۔اور شادی میں مالی کمزوری کو مدنظر نہ رکھا جائے ۔اور جو شادی کر ہی نہ سکیں وہ اپنے اخلاق کی درستی کا خاص طور پر خیال رکھا کریں ۔
دوسرا طریقہ نیکی کے قائم رکھنے کا یہ ہے کہ جنگی قیدیوں کو آزاد کیا جائے ۔پس اگر کوئی جنگی قیدی فوراً اپنی آزادی کی قیمت دینے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کے ساتھ یہ معاہدہ کیا جائے کہ وہ قسط وار اپنا جرمانہ ادا کردے گا بلکہ حکومت کو اور دوسرے مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ خود اس کی طرف سے اس کی آزادی کی رقم ادا کردیں ۔اسی طرح جو عورتیں جنگی قیدی ہوں اور تمہارے قبضہ میں ہوں اُن پر بھی ایسے احکام جاری نہ کرو کہ وہ بدکاری پر مجبور ہو جائیں ۔اگر تم ایسے حالات میں ان کو رکھو گے تو پھر تم ذمہ دار ہو گے وہ نہیں ۔ا ن باتوں میں تمہارے لئے اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی گئی ہے اور تم سے پہلے جو لوگ گذرے ہیں اُن سے بڑھ کر روحانی مرتبے دینے والی یہ تعلیم ہے ۔(آیت ۳۳ تا ۳۵)
زمین اور آسمان کی روشنی سب خدا سے ہی آتی ہے پھر اُس روشنی کی حقیقت بیان کی گئی ہے اور بتا یا گیا ہے کہ یہ خدائی نور مسلمانوں میں ظاہر ہونے والا ہے اور ان کو عزت بخشنے والا ہے ۔(آیت ۳۶ تا ۳۹ )
پھر بتا یا کہ جو لوگ اسلام کو نہیں مانیں گے چونکہ اُن کے اخلاق کی بنیاد یا تو ایک غیر مصفٰی شریعت پر ہوگی یا صرف انسانی ذہنوں پر ہوگی (جیسے مسیحیوں کی ) اس لئے اُن کی تدبیریں کبھی کامیاب نہیں ہونگی اور اُن کی کوششیں رائیگا چلی جائیں گی اور اصلاح قومی کے کام کو وہ بڑا مشکل پائیں گے ۔کیونکہ اصلاح بغیر خدائی ہدایت کے نہیں ہو سکتی یعنی بغیر شریعت کے ۔ ( آیت ۴۰ ۔ ۴۱)
پھر فرماتا ہے کہ کیا انسانوں کو یہ نظر نہیں آتا کہ تمام کائنات میں خداتعالیٰ کے قانون سے برکت ہی برکت نظر آرہی ہے ۔اور تمام قانونِ قدرت خداتعالیٰ کی ایک بہت بڑی رحمت نظر آرہا ہے پھر یہ کیونکر سمجھتے ہیں کہ اُسی خدا کا بنایا ہوا قانونِ شریعت ایک *** ہے ۔انسان اگر اپنے لئے صحیح رستہ تلاش کر سکتا ہے تو خدا اُس کیلئے صحیح رستہ کیوں تلاش نہیں کر سکتا ۔( آیت ۴۲ تا ۴۷ )
مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ محض منہ کے ایمان سے کچھ نہیں بنتا بلکہ کوشش یہ ہونی چاہئیے کہ احکامِ الٰہیہ پر عمل کیا جائے ۔یہ نہ ہو کہ جب فائدہ دیکھا عمل کر لیا اور جب فائدہ نہ ہوا تو چھوڑ دیا ۔( آیت ۴۸ تا ۵۵)
ہم مسلمانوں سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے بتائے ہوئے طریق پر چلیں گے تو ہم انہیں دین و دنیا میں بادشاہ بنا دیں گے ۔(یعنی اپنے اپنے وقت پر مناسب حال دینی و دنیوی لیڈری یا دونوں نعمتیں ایک ہی وقت میں اُن کو ملیں گی ۔)اور اُن کی کے دین کو دنیامیں پھیلا دیں گے اور اُن کے ذریعہ توحید کو دنیا میں قائم کردیں گے ۔لیکن انکو بھی چاہئیے کہ وہ خداتعالیٰ کی عبادت کو قائم کریں ۔اپنے مالوں سے غریبوں کی مدد کریں اور محمد رسول اللہ ﷺ کے احکام کی اطاعت کریں اور یہ کبھی خیال نہ کریں کہ اُن کے دشمن بوجہ اپنی طاقت اور کثرت کے اُن پر فاتح ہو جائیں گے وہ کبھی فاتح نہیں ہو ں گے ۔(آیت ۵۶ تا ۵۸ )
اے مومنو ! ہم پھر تم کو نصیحت کرتے ہیں کہ اپنی عائلی اور قومی زندگی کو درست کر و ۔اور آزادانہ خلا ملا نہ کیا کرو ۔صبح کے ہونے سے پہلے اور دوپہر کو اور رات گئے وہ خادم جو جنگی قیدی ہیں اور نابالغ بچے بھی اُن کمروں میں نہ جایا کریں جن میں میاں بیوی رہتے ہیں ۔ہاں ان وقتوں کے علاوہ جو لوگ گھر کا حصہ ہیں وہ آجا سکتے ہیں ۔اس میں تمہاری اخلاقی بہتری ہے ۔اور جب بچے جوان ہوجائیں تو اُن پر بھی نوجوانوں والے احکام کا اطلاق ہونا چاہئیے ۔اسلامی پردہ اُن عورتوں کیلئے ہے جو جوان اور شادی کے قابل ہیں ۔بوڑھی عورتیں اگر چاہیں تو اس پردہ کو ترک کر سکتی ہیں ۔مگر وہ بھی زینت کرکے باہر نہ نکلیں ۔(آیت ۵۹ تا ۶۱)
جو لوگ جسمانی طورپر معذور ہیں جو قریبی رشتہ دار ہیں اگر ایک دوسرے کے گھر سے بن بُلائے کھانا کھا لیں تو ہر ھ نہیں ۔مگر دوسرے لوگوں کو چاہئیے کہ دعوت کے بغیر ایک دوسرے کے گھر کھانے کے وقت نہ جایا کریں ۔(آیت ۶۳)
عائلی نظام کے بعد یاد رکھو کہ قومی نظام بھی نہایت اہم شے ہے بلکہ عائلی اور انفرادی نظام سے بالا ہے ۔اس لئے چاہئیے کہ جب کوئی قومی مجلس ہو تو بلا اجازت افسر وہاں سے کوئی نہ جائے ( جیساکہ بعض پارلیمنٹوں نے آجکل قانون بنا رکھا ہے ) جو لوگ اجازت سے جائیں اور قانون شکن نہ ہوں ایسوں کو ضرورت کے وقت اجازت دے دینی چاہئیے (آیت ۶۳)
اے مومنو! دنیوی نظام سے بھی اہم تر دینی نظام ہے ۔اس لئے رسول کی آواز کو دوسروں کی آوازوں کی طرح مت سمجھو ۔جو لوگ رسول کی مجلس سے بغیر اجازت چلے جاتے ہیں وہ خدا کے نافر مان ہیں اُن کو عذاب سے ڈرنا چاہئیے ( آیت ۶۴ )
پھر فرماتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے وہ خداہی کا ہے اور وہ تمہارے معیارِ اخلاق کو خوب جانتا ہے ۔پس اس کے بتائے ہوئے طریق پر چلو تا کہ اس کی مخلوق تمہارا ساتھ دے اور خداتعالیٰ کی مدد بھی تم کو حاصل ہو ۔( آیت ۶۵)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہ
ترجمہ() میں اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنیوالا اور با ر بار رحم کرنیوالا ہے پڑھتا ہوں
سُوْرَۃ’‘ اَنْزَلْنٰھَا وَفَرَضْنٰھَا ۔۔۔۔۔۔۔بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ہ
ترجمہ () یہ ایک ایسی سورۃ ہے جو ہم نے اتاری ہے اور جس پر عمل کرنا ہم نے فرض کیا ہے اور اسمیں ہم نے اپنے روشن احکام بیا ن کئے ہیں تا کہ تم نصیحت حاصل کرو ۔ ۲ ؎
۲؎ تفسیر :
سورۃ نور کو جو امتیازی خصوصیات حاصل ہیں اُن کی وجہ سے اس کی ابتداء ہی سُوْرَۃ’‘ سے کی گئی ہے ۔حالانکہ سورۃ فاتحہ سے لے کر قرآن کریم کے آخر تک ایک سو چودہ (۱۱۴) سورتیں ہیں مگر سورۃ نور کے سوا اَور کوئی سورۃ ایسی نہیں جس کے ابتداء میں ہی سُوْرَۃ’‘ کا لفظ رکھ کر اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی گئی ہو۔ درحقیقت اس میں حکمت یہ ہے کہ عربی زبان میں سُوْرَۃ’‘ کا لفظ کئی معانی پر مشتمل ہوتا ہے اور وہ سارے کے سارے اس سورۃ پر نہایت عمدگی سے چسپاں ہو جاتے ہیں ۔چنانچہ لغت عرب کے لحاظ سے سورۃ کے ایک معنے درجہ کے ہوتے ہیں۔دوسرے معنے بزرگی اور شرف کے ہوتے ہیں ۔تیسرے معنے نشان اور علامت کے ہوتے ہیں ۔چوتھے معنے ایسی عمارت کے ہوتے ہیں جو بلندی میں آسمان سے باتیں کر رہی ہو ۔اور خوبصورت بھی ہو ۔پانچویں معنے ایسی چیز کے ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں مکمل ہو ( اقرب) اور چھٹے معنے کسی چیز کے حصہ اور جزو کے ہوتے ہیں ( تفسیر قرطبی )ـ ۔ان معانی کے اعتبار سے اس جگہ سُوْرَۃ’‘ کا لفظ استعمال فرما کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ سورۃ قرآن کریم کا ایک اہم حصہ ہے جس میں انسان کی تمدنی ، اخلاقی اور روحانی ترقی کے متعلق ایک جامع اور مکمل تعلیم دی گئی ہے ۔یہ ایک بلند اور نہایت درجہ خوبصورت روحانی تعلیم پر مشتمل ہے جس پر عمل کرنے سے انسان خداتعالیٰ کے حضور اعلیٰ روحانی مراتب حاصل کر لیتا ہے اور دنیا میں بھی شرف اور بزرگی کا حامل بنتا ہے ۔اسی طرح اس کے احکام پر عمل کرنیوالے کو دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں ایک خاص امتیاز حاصل ہو جاتا ہے اور وہ اخلاق اور روحانیت کی ایک بلند سطح پر کھڑا ہو جاتا ہے ۔پھر اس سورۃ کی اہمیت پر اللہ تعالیٰ نے اور زیادہ زور دیا اور فرمایا اَنْزَلْنٰھَا وَفَرَضْنٰھَا۔ یعنی ہم نے ہی اس کو نازل کیا ہے اور ہم نے اس پر عمل کرنا لوگوں کیلئے فرض قرار دیا ہے ۔قرآن کریم میں عام طور پر مختلف آیات اور سور کے متعلق یہ تو آتا ہے کہ ہم نے انکو نازل کیا ہے مگر اس کے ساتھ ان الفاظ کی زیادتی نہیں کی جاتی کہ ہم نے ان پر عمل کرنا لوگوں پر فرض قرار دیا ہے مگر یہاں َفَرَضْنٰھَا کے الفاظ خاص طور پر بڑھائے گئے ہیں اور چونکہ قرآن کریم سارے کا سارا فرض ہے جیسا کہ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْ فَرضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَدَآدُّکَ اِلیٰ مَعَادٍ ( قصص ۹ع ) یعنی وہ خدا جس نے تجھ پر قرآن فرض کیا ہے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ وہ تجھے اس مقام کی طرف ضرور لوٹاکرلے آئیگا جس کی طرف لوگ بار بار لوٹ کر آتے ہیں یعنی مکّہ مکرمہ۔اسلئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں اَنْزَلْنٰھَا کے بعد َفَرَضْنٰھَا کے الفاظ کیوں بڑھائے گئے ہیں ۔سو یاد ر کھنا چاہئیے کہ اس جگہ فرض کے معنے احکام کو واجب کرنیکے نہیں بلکہ تاکید کرنے کے ہیں ۔چنانچہ گذشتہ مفسرین میں سے بھی بعض نے اس کے معنے اَلْزَمْنٰکُمُ الْعَمَلَ بِھَا کیلئے ہیں ( تفسیر فتح البیان ) یعنی ہم نے اس پر عمل کرنا تمہارے لئے لازم کر دیا ہے ۔پس سُوْرَۃ’‘ اَنْزَلْنٰھَا وَفَرَضْنٰھَا کہہ کر اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ ایک نہایت ہی اہمیت رکھنے والی سورۃ ہے ۔اس میں ایک اعلیٰ درجہ کا اخلاق اور روحانی ضابطۂ حیات بنی نوع انسان کے سامنے پیش کیا گیا ہے جس پر عمل کرنے والا دنیا میں بھی عزت پاتا ہے اور خداتعالیٰ کے حضور بھی اُسے ایک بلند روحانی مقام حاصل ہو جاتا ہے۔اور پھر اس سورۃ کو ہم نے اس تاکید کے ساتھ اتارا ہے کہ اس کی تعلیم پر تم ہمیشہ عمل کرو اور اسے کبھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دو کیونکہ اس میں سارے کے سارے احکام ایسے ہیں جو بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کیساتھ تعلق رکھنے والے ہیں اور جن میں سے کسی ایک کوبھی نظر انداز کرنا اپنی ہلاکت اور بر بادی کو مول لینا ہے ۔پس اس کی اہمیت اور عظمت کبھی بھی فراموش نہیں کرنی چاہئیے ۔
اَلزَّا نِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عَذَا بَھُمَا طَآئِفَۃ’‘ مِّنَ الْمُؤْ مِنِیْنَ ہ
ترجمہ() زانیہ عورت اور زانی مرد ( اگر ان پر الزام ثابت ہو جائے ) تو ان میں سے ہرا یک کو سو کوڑے لگائو اور اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہو تو اللہ کے حکم کے بجالانے میں ان دونوں قسم کے مجرموں کے متعلق تمہیں رحم نہ آئے اور چاہئیے کہ ان دونوں کی سزا کو مومنوں کی ایک جماعت مشاہدہ کرے ۔ ۳؎
۳؎ حل لغات :
اِجْلِدُوْا :جَلَدَہ‘ بِا لسِّیَاطِ کے معنے ہوتے ہیں ۔ضَرَبَہ‘ بِھَا وَاَصَابَ جَلْدَہ‘ اُس نے اُسے کوڑے سے مارا اَور کوڑے کے نشان اس کے چمڑے پر پڑگئے ( اقرب ) پس اِجْلِدُوْ ا کے معنے ہونگے تم کوڑے سے مارو ۔رَاْفَۃُ : اَلرَّحْمَۃُ رأفت کے معنے رحمت کے ہوتے ہیں
( مفردات)۔
تفسیر :
سورۂ نور کی ابتداء بعض ایسے احکام سے کی گئی ہے جن کو نظر انداز کرنا انسانی تمدن میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا کر دیتا ہے ۔چنانچہ نسل انسانی کے بقاء اور اس کی حفاظت کے قوانین سے اس سورۃ کو شروع کیا گیا ہے تاکہ جسمانی اور اخلاقی حفاظت کے قواعد کو مدنظر نہ رکھنے سے انسانی جسم تباہ اور قوتیں برباد ہو جاتی ہیں ۔اسی طرح روحانی تعلقات میں غلطی کرنے سے بھی بڑے بھاری نقصانات پیدا ہوتے ہیں اور روحانی کوششوں کے نتائج مخلوط ہو جاتے ہیں ۔جسمانی تعلقات میں دیکھو بظاہر جس طرح جائز تعلق رکھنے والے مردو عورت ملتے ہیں اور بچہ پیدا ہو جاتا ہے ۔اسی طرح ناجائز تعلق رکھنے والے بھی ملتے ہیں اور ان کے تعلق سے بھی بچہ پیدا ہو جاتا ہے ۔لیکن پہلا تعلق جہاں انسانی تمدن کو ترقی دینے والا ہے وہاں ناجائز تعلق کے نتیجہ میں انسانی تمدن کے سر پر کلہاڑا رکھ دیا جاتا ہے اور آئندہ نسلیں ایسی مشکوک ہو جاتی ہیں کہ اُن کا امتیاز کرنا ہی ناممکن ہو جا تا ہے ۔اسی طرح روحانی تعلق پیدا کرنے میں جب لوگ احتیاط سے کام نہیں لیتے اور غلط طریق اختیار کر لیتے ہیں یعنی جس سے روحانی تعلق پیدا کرنا چاہئیے اُس سے نہیں کرتے بلکہ جس سے نہیں کرنا چاہئیے اُس سے کر لیتے ہیں تو اُس سے بھی بڑے خوفناک نتائج نکلتے ہیں مگر بہت لوگ ہیں جو اس بات کو نہیں سمجھتے حالانکہ اَرواح کا بھی آپس میں تعلق ہوتا ہے ۔اور جب تک اُن کا تعلق جائز اور صحیح طور پر نہ ہو خراب نتیجہ نکلتا ہے اور خواہ کتنی کوشش کی جائے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ۔دیکھ لو ایک طالب علم ایک استاد سے کچھ نہیں سیکھ سکتا لیکن دوسرے اُستاد سے بہت کچھ سیکھ لیتا ہے ۔ایک افسر کے ماتحت ایک شخص اچھی طرح کا م نہیں کرتا لیکن دوسرے افسر کے ماتحت وہی شخص خوب عمدگی سے کام کرتا ہے ۔ایک تاجر کو اگر دوسرے تاجر سے ملا دیا جائے تو اُن کا ملنا نقصان کا موجب ہوتا ہے لیکن ایک اور کے ساتھ ملنے سے اُس کی تجارت خوب ترقی کر جاتی ہے ۔
پس اَرواح کا بھی آپس میں تعلق ہوتا ہے مگر یہ تعلق خدا ہی پیدا کرتا ہے ۔جو دو طرح ہوتا ہے یا تو اس طرح کہ ایسی روح کے متعلق دنیا میں خداتعالیٰ کی طرف سے اعلان کر دیا جاتا ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے روحانی فائدہ اُٹھائیں گے اور یا ایسا ہوتا ہے کہ اعلان تو نہیں ہوتا ہاں انسان اپنی کوشش اور سعی سے اس کو دریافت کر لیتا ہے ۔پہلی شق میں مامورین اور اُن کے خلفا ء شامل ہیں اور دوسری شق میں غیر مامور اور اُن کے خلفا ء داخل ہیں ۔جب اُن سے تعلق ہو تب روحانی طور پر نیک نتائج نکلتے ہیں ورنہ نہیں ۔پہلی قسم کی ارواح کے متعلق تو چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اعلا ن ہو جاتا ہے اس لئے اُن کی تلاش میں کوئی دقت پیش نہیں آتی لیکن دوسری قسم کی ارواح کے متعلق عقل اور فراست سے جستجو کرنا ضروری ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص ان کیلئے کامل جستجو نہیں کرتا اور اُن سے تعلق نہیں رکھتا تو دوسرے لوگوں سے خواہ وہ بیس بیس سال بھی تعلق رکھے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۔
پس روحانی تعلقات کی طرف توجہ دلانے کیلئے اس سورۃ کو مرد و عورت کے تعلقات سے شروع کیا گیا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زانیہ عورت اور زانی مرد میں سے ہر ایک کو سَو سَو کوڑے لگائو ۔اور اس حکم الٰہی کو سرانجام دینے کے سلسلہ میں تمہارے دل میں کوئی نرمی پیدا نہ ہوبلکہ سزا دیتے وقت کچھ اور مومنوں کو بھی بُلالیا کرو ۔
قرآ ن کریم کی اس آیت سے بالہدایت ثابت ہوا کہ زانی مرد اور زانیہ عورت کی سزا ایک سو کوڑے ہیں ۔اور سورۂ نساء رکوع ۴ میں آتا ہے کہ یہ سزا اُن عورتوں اور مردوں کیلئے ہے جو آزاد ہوں۔جو عورتیں آزاد نہ ہوں اُنکی سزا بد کاری کی صورت میں نصف ہے یعنی پچا س کوڑے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ ( نساء ۴ع ) یعنی جب وہ عورتیں جو آزاد نہ ہو ں دوسروں کے نکاح میں آجائیں تو اگر وہ کسی قسم کی بے حیائی کی مرتکب ہوں تو اُن کی سزا آزاد عورتوں کی نسبت نصف ہوگی۔اس آیت سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ مقررہ سزا ایسی ہے جو نصف ہو سکتی ہے ۔اور سو کوڑوں کی نصف سزا پچاس کوڑے بن جاتی ہے۔لیکن بعض لوگ اس آیت کے متعلق یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ سزا بعد میں رسول کریم ﷺ نے رجم کی شکل میں بد ل دی تھی ۔یعنی آپ نے یہ حکم دیا تھا کہ بجائے اس کے کہ کوڑے مارے جائیں رجم کرنا چاہئیے ۔لیکن ظاہر ہے کہ اگر یہ معنے کئے جائیں تو نہ صرف محولہ بالا آیت نور ہی منسوخ ہو جاتی ہے بلکہ سورۂ نساء کی آیت بھی بالکل بے معنی ہو جاتی ہے کیونکہ اس میں صاف بتا یا گیا ہے کہ لونڈی کی سزا آدھی ہے اور رجم کا آدھا قیاس میں بھی نہیں آسکتا ۔پس اس آیت کی صریح اور واضح مفہوم کے ہوتے ہوئے اور سورۃ النساء کی آیت کی تصدیق کی موجودگی میں یہ بات بغیر کسی شک اور شبہ کے کہی جا سکتی ہے کہ قرآن کریم میں زنا کی سزا آزاد عورت اور مرد کیلئے سو کوڑے ہیں اور لونڈی یا قیدی کیلئے پچا س کوڑے ہیں ۔
اب رہا یہ سوال کہ رجم کا دستور مسلمانوں میں کس طرح پڑا ؟ سو اس بارہ میں یاد رکھنا چاہئیے کہ احادیث سے یہ امر ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے بد کار عورت اور مرد کے متعلق رجم کا حکم دیا ۔پس اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمانوں میں کبھی نہ کبھی اور کسی نہ کسی صورت میں رجم کا حکم یقینا تھا ۔سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ آیا رجم نے کوڑے مارنے کے حکم کو منسوخ کیا تو کوڑے مارنے کے حکم نے رجم کے حکم کو منسوخ کیا۔یایہ دونو ں حکم ایک وقت میں موجود تھے اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ اس حکم کے متعلق ناسخ اور منسوخ کا قاعدہ استعمال ہو اہے تو ہمارے اپنے عقیدہ کے رُو سے تو معاملہ بالکل صاف ہو جاتا ہے کیونکہ ہمار اعقیدہ یہ ہے کہ کوئی منسوخ حکم قرآن کریم میں موجود نہیں ۔قرآن کریم میں جتنے احکام موجود ہیں وہ سب غیر منسوخ ہیں ۔اس عقیدہ کے رُو سے ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اگر رجم کا کوئی حکم تھا تو اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے تھا اور اس آیت نے اُسے منسوخ کر دیا لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی اور حکم بعد میں نازل ہو ا اور اُس نے اس حکم کو منسوخ کر دیا۔اور اگر کوئی حدیث اس کے خلاف ہے تو وہ مردو د ہے کیونکہ وہ قرآن شریف کو رد کرتی ہے ۔نیز اگر یہ آیت منسوخ ہو گئی ہوتی تو پھر یہ قرآن سے نکال دی جاتی ۔یہ جو بعض فقہاء نے مسٔلہ بنایا ہو اہے کہ بعض آیتیں ایسی ہیں کہ تلاوتًا قائم ہیں اور حکماً منسوخ ہیں یہ نہایت ہی خلاف عقل۔خلافِ دلیل اور خلافِ آداب قرآنی ہے ۔ہم اس مسٔلہ کو ہر گز تسلیم نہیں کرتے ۔ہمارے نزدیک اگر منسوخ آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں تو پھر سارے قرآن کا اعتبار اُٹھ جاتا ہے ۔اس صورت میں ہمارے پاس کیا دلیل رہ جاتی ہے کہ ہم فلاں آیت پر عمل کریں اور فلاں پر نہ کریں ۔قرآن کریم کی سب سے بڑی عظمت تو یہی ہے کہ وہ ایک یقینی بنیاد پر قائم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ یقینی ہے ۔اگر اس کے احکام کو بلکہ اس کی آیات کے قابلِ عمل ہو نے کو ہم علماء اور فقہاء کے قیاس کے ساتھ وابستہ کرد یں تو پھر تو وہ ایسا ہی مشکوک اور مبہم ہو جاتا ہے جیسا کہ علماء کے قیاس ہو تے ہیں ۔اگر یہ بات ہو تو ہمارا حق ہے کہ جس طرح ہم علماء کے قیاسات کو دلیل کے ساتھ رد کر سکتے ہیں قرآن کریم کی آیتوں کو بھی ہم دلیل کے ساتھ رد کردیں ۔اور یہ ایک نہایت ہی گمراہ کن اور غیر اسلامی عقیدہ ہو گا ۔پس صرف یہ صورت رہ جاتی ہے کہ ہم کہیں کہ رجم کا کوئی حکم پہلے موجود تھا ۔جسے قرآن کریم کی اس آیت نے منسوخ کر دیا ۔اگر یہ بات مانی جائے تو سارا مسٔلہ ہی صاف ہو جاتا ہے اور شکل یہ بنتی ہے کہ یہود میں رجم کا حکم موجود تھا ( دیکھو یوحنا باب ۸ آیت ۵ وحزتی ایل باب ۱۶ آیت ۴۰ واحبار باب ۲۰ آیت ۱۰ واستثناء باب ۲۲ آیت ۲۲) رسول کریم ﷺنے اس حکم کے ماتحت مسلمانوں میں بھی یہی طریق جاری کیا کیونکہ اُس وقت تک قرآن کریم نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا ۔جب قرآن کریم نے فیصلہ کر دیا تو پہلا طریق منسوخ ہو گیا جو قرآنی حکم نہیں تھا بلکہ اتباع یہود میں ایک اسلامی دستور قائم ہوا تھا ۔مگر اس عقیدہ کے ماننے کیلئے ضروری ہے کہ تاریخی طور پر یہ ثابت کیا جائے کہ رجم پر مسلمانوں کا عمل سو کوڑے مارنے کے عمل سے پہلے تھا لیکن تاریخ سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی ۔بلکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رجم کرنے کا طریق مسلمانوں میں بعد میں بھی جاری رہا اور حضرت عمرؓ کے متعلق تو یہاں تک بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ قرآن کریم میں رجم کی ایک آیت تھی جو کہ بعد میں غائب ہو گئی ۔اور وہ اس کے الفاظ یہ بتا تے ہیں کہ اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا فَارْجُمُوْھُمَا اَلْبَتَّۃَ ( کشف الغمۃ جلد ۲ ص۱۱۱) ایک بڑی عمر والا مرد یا ایک بڑی عمر والی عورت جب زنا کریں تو اُنکو پتھر مار کر کلّی طور پر قتل کر دو ۔
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ لَقَدْ نَزَ لَتْ اٰیَۃُ الرَّجْمِ وَالرَّضَاعَۃِ فَکَانَتَا فِیْ صَحِیْفَۃٍ تَحْتَ سَرِیْرِیْ فَلَمَّا مَاتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَشَا غَلْنَا بِمَوْتِہٖ فَدَخَلَ دَاجِن’‘ فَاَکَلَھَا ( محلّٰی ابن حزم جلد ۱۱ ص ۲۳۶)یعنی رجم اور رضاعت کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو ا تھا ۔اور وہ ایک کاغذ پر لکھا ہوا تھا اور میرے تکیہ کے نیچے پڑا تھا ۔جب رسول کریم ﷺ فوت ہوئے تو ہم آپ کے کفن دفن میں مشغول ہو گئے ۔اتنے میں ایک بکری آئی اور وہ اُس کا غذ کو کھا گئی ۔
ان روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک کوئی آیت اُتری تھی جس میں زانی کو رجم کرنے حکم تھا ۔حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکم آپ کے تکیہ کے نیچے رکھا ہو اتھا اور ایک بکری اُ س کو کھا گئی ۔اور حضرت عمر ؓ اس کے متعلق خاموش ہیں ۔اگر اُن سے کوئی روایت ثابت ہے تو صرف یہ کہ کَانَ عُمَرُ رَضِیِ اللّٰہ عَنْہُ یَقُوْلُ اِیَّاکُمْ اَنْ تَھْلِکُوْا فَیَقُوْلَ قَائِل’‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی لَکَتَبْتُھَا ( کشف الغمہ جلد ۲ ص ۱۱۱)وَفِیْ رَوَایَۃٍ لَکَتَبْتُھَا عَلٰی حَاشِیَۃِ الْمُصْحَفِ (فتح القدیر شرح ہدایۃ جلد ۴ ص ۱۲۱) یعنی حضرت عمر ؓ کہا کرتے تھے کہ ایسا نہ ہو تم لوگوں کے مرنے کے بعد کوئی شخص یہ کہنے لگ جائے کہ ہم کو تو خدا کی کتاب میں رجم کا مسٔلہ نہیں ملتا کیونکہ رسول کریم ﷺ نے بھی رجم کیا ہے اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا ہے ۔اور مجھے خدا کی قسم اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ کوئی شخص یہ اعتراض کر دیگا کہ عمر ؓ نے خدا کی کتاب میں اپنے پاس سے زیادتی کر دی ہے تو میں یہ حکم بھی لکھ دیتا ۔اور ایک روایت میں آتا ہے کہ میں یہ حکم قرآن کریم کے حاشیہ پر لکھ دیتا ۔چونکہ یہ ایک عقلی اور نقلی مسٔلہ اصول ہے کہ کسی روایت کی زیادتی اس کے معنوں کی اصل تشریح ہو تی ہے اس لئے ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ درحقیقت یہی زیادہ معتبر قو ل ہے کہ حضرت عمر ؓ نے یہ خیال ظاہر کیا کہ میں قرآن کے حاشیے پر یہ عبارت لکھ دیتا ۔اور قرآن کے حاشیہ پر اگر کوئی چیز لکھی ہو ئی ہو تو وہ قرآن نہیں بن جاتی پس حضرت عمر ؓ جو اس روایت کے مطابق اس کو حکم الٰہی سمجھتے تھے وہ بھی یہ جرأت نہیں کر سکے کہ اس کو قرآن کریم میں داخل کردیں ۔حالانکہ اُس وقت قرآنی وحی کے بہت سے کاتب موجود تھے اور وہ اُن سے پوچھ سکتے تھے لیکن اُن سے نہ پوچھنا بھی بتا تا ہے کہ حضرت عمر ؓ کو یقین تھا کہ میرا یہ خیال صرف ایک وہم ہے۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی جو آیتیں اُترتی تھیں رسول کریم ﷺ کا تب وحی کو بلوا کر وہ آیت اس جگہ پر لکھوا دیتے تھے جہاں اس آیت کا لکھوا یا جانا ضروری ہوتا تھا ۔اگر یہ قرآن کی آیت ہوتی اور واقعہ میں یہ خدائی حکم ہوتا تو رسول کریم ﷺ اسے کیوں نہ لکھواتے ۔رسول کریم ﷺ کے کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ سے یہی روایت تفصیل کے ساتھ مذکور ہے اور اس سے صاف ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اس حکم کو جس شکل میں بھی تھا قرآن کریم کا حکم قرار نہیں دیا ۔اُن کی روایت یہ ہے کہ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ اِذَا زَنَی الشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ فَارْجِمُوْھُمَا الْبَتَّۃَ ( محلّٰی ابن حزم جلد ۱۱ ص ۲۳۵) یعنی میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سُنا کہ جب کوئی بڑی عمر کا مرد یا بڑی عمر کی عورت زنا کریں تو ان کو رجم کر کے مار دو ۔ان الفاظ سے ثابت ہے کہ حضرت زید بن ثابت ؓ نے اسکو کبھی وحیٔ قرآنی قرار نہیں دیا ۔بلکہ رسول کریم ﷺ کا قول قرار دیا ہے ۔ممکن ہے حضرت عمر نے بھی یہی سُنا ہو لیکن انہوں نے بجائے قول کے اس کو وحی سمجھ لیا ہو اور حضرت عمر ؓ ایسی غلطیاں جلد بازی میں کر لیا کرتے تھے چنانچہ وہ خود روایت کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ نماز میں ہشام بن حکیم ؓ کو سورۂ فرقان پڑھتے سُنا مگر وہ اس سورۃ کو اُس طرح نہیں پڑھ رہے تھے جس طرح میں نے رسول کریم ﷺ کو پڑھتے سُنا تھا ۔اس پر مجھے سخت غصہ آیا اور قریب تھا کہ میں نماز میں ہی اُن پر حملہ کر دیتا۔مگر میں نے صبر کیا ۔جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے اُن کی چادر پکڑ لی اور اُن سے کہا کہ اس سورۃ کو اس طرح پڑھنا آپ کو کس نے سکھا یا ہے ۔انہوں نے کہا رسول کریم ﷺ نے ۔میں نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو ۔چلو میں رسول کریم ﷺ کے سامنے تمہارا معاملہ پیش کر تا ہوں ۔اصل سورۃ اور طرح ہے اور تم اور طرح پڑھ رہے ہو ۔چنانچہ وہ انہیں کھینچ کر رسول کریم ﷺ کے پاس گئے ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہشام تم کس طرح پڑھ رہے تھے ۔انہوں نے پڑھ کر سُنایا تو فرمایا ٹھیک ہے ۔پھر آپ ؐ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ تم پڑھو ۔انہوں نے یہ سورۃ اس طرح پڑھی جس طرح رسول کریم ﷺ نے انہیں سکھلائی تھی آپ ؐ نے فرمایا یہ بھی ٹھیک ہے ۔پھر آپ نے فرمایا ۔قرآن کریم سات قرأتوں میں نازل کیا گیا ہے ۔اس لئے تم ان معمولی معمولی باتوں پر آپس میں لڑا نہ کرو ۔جس طرح کسی کی زبان پر کوئی لفظ چڑھے اُسی طرح پڑھ لیا کرے ۔معلوم ہوتا ہے جس طرح حضرت عمر ؓ سے اس جگہ غلطی ہوئی ۔اسی طرح زنا کی سزا کے معاملہ میں بھی حضرت عمر ؓ سے غلطی ہوگئی ۔اور انہوں نے رسول کریم ﷺ کے ایک قول کو وحی سمجھ لیا ۔ورنہ فی الواقعہ اگریہ قرآنی آیت ہوتی تو رسول کریم ﷺ حضرت زید بن ثابت ؓ کو حکم دیتے جیسا کہ آپ اور آیتوں کے متعلق حکم دیا کرتے تھے کہ یہ قرآن کی وحی ہے اسے قرآن کریم میں فلاں مقام پر درج کرو۔لیکن حضرت زید بن ثابت ؓ نے اس کو قرآن کریم میں درج نہیں کیا جس کا نسخہ حضرت ابو بکر ؓ کے زمانہ میں تیار ہوگیا تھا یعنی حضرت عمر ؓ کے خلیفہ ہونے سے پہلے۔پس صاف ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ کو غلطی لگی تھی ۔اور انہوں نے ایک قول کو وحی سمجھ لیا تھا ۔بہر حال اس روایت سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے کبھی کوئی ایسا فقرہ تو کہا ہے مگر یہ نہیں کہا کہ یہ قرآن کریم کی آیت ہے ۔بالکل ممکن ہے کہ آپ نے اس قسم کی خواہش کا اظہا ر کیا ہو کہ اگر ایسے حالات میں یہ فعل ہو تو میرا دل چاہتا ہے کہ ایسے آدمی کو بائیبل کے احکام کے مطابق رجم کر دیا جائے ۔اسی طرح شعبہؓ کی روایت ہے کہ قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ اَتَیْتُ رَسُوْلَ اللَّہِ ﷺ فَقُلْتُ اکْتُبْنِیْہمَاقَالَ شُعْبَۃ کَاَنَّہ‘ ذَکَرَ ذٰلَکَ فَقَالَ عُمَرُ اَلَا تَرٰی اَنَّ الشَّیْخَ اِذَا لَمْ یُحْصِنْ جُلِدَ وَاَنَّ الشَّابَّ اِذَا زَنٰی وَقَدْ اَحْصَنَ رُجِمَ ( محلّٰی ابن حزم جلد ۱۱ ص۲۳۵ ) یعنی شعبہ ؓ کہتے ہیں ایک دفعہ حضرت عمر ؓ نے بیان کیا کہ جب رجم کا حکم نازل ہوا تو میں رسول کریم ﷺ کے پاس گیا اور آپ ؐ کو کہا کہ مجھے یہ حکم لکھ دیجئیے لیکن رسول کریم ﷺ نے آپ کے اس سوال کو پسند نہیں فرمایا ۔اور آپ کو یہ حکم لکھ کر نہیں دیا ۔اس پر حضرت عمر ؓ نے کہا یا رسول اللہ ! کیا آپ کا یہ خیال نہیں کہ جب شیخ یعنی بڑی عمر کا آدمی جو شادی شدہ نہ ہو زنا کرے تو اس کو کوڑے لگا ئے جائیں اور جب جوان زنا کرے اور وہ شادی ہو تو اُسے رجم کیا جائے ۔اس روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عمر ؓ کے نزدیک ایسی کوئی آیت اُتری تھی اور اسی بنا پر انہوں نے رسول کریم ﷺ سے درخواست کی کہ وہ یہ آیت آپ کو لکھ دیں مگر آپ ؐ نے اس کو پسند نہیں کیا اور انکار کیا ۔اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ رسول کریم ﷺ کا کوئی قول تھا آیت نہیں تھی ۔ورنہ کیا یہ ممکن تھا کہ رسول کریم ﷺ وحیٔ قرآنی کو چھپا تے ۔قرآن تو کہتا ہے کہ یَآاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ‘ ( مائدہ ع ۱۰ ) یعنی اے ہمارے رسول ! تیرے رب کی طرف سے جو کلام تجھ پر اتارا گیا ہے تُو اسے لوگوں تک پہنچا۔اور اگرتو نے ایسا نہ کیا تو گویا تُو نے اس کا پیغام بالکل نہ پہنچایا ۔مگر اس کے باوجود آپ خود بھی یہ حکم لوگوں تک نہیں پہنچاتے بلکہ حضرت عمر ؓ کے پوچھنے پر بھی اُن کی بات کو نا پسند کرتے ہیں اور یہ حکم لکھ کر نہیں دیتے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسول کریم ﷺ کا ایک قول تھا ۔اور حدیثوں سے ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ قرآن کریم تو تعہد کے ساتھ لکھواتے تھے لیکن حدیث کے لکھنے سے منع فرمایا کرتے تھے ۔( مسند احمد بن حنبل جلد ۵ ص ۱۸۲ ) اسی طرح حضرت ابو سعید ؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں ہدایت دی تھی کہ سوائے قرآن کریم کے ہم کوئی اور بات نہ لکھا کریں تا ایسا نہ ہو کہ قرآنی آیات کے متعلق لوگوں کو شبہ پڑجائے ( مسند احمدبن حنبل جلد ۳ ص ۱۲ ) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ و کے متعلق بھی احادیث سے ثابت ہے کہ چونکہ انہیں لکھنا آتا تھا اس لئے وہ رسول کریم ﷺ کی احادیث لکھا کرتے تھے ۔مگر بعد میں رسول کریم ﷺ نے انہیں حدیثیں لکھنا منع فرما دیا۔پس حضرت عمر ؓ کا اس کو آیت سمجھنا مگر رسول کریم ﷺ کا اس کو لکھ کر دینے سے انکار کرنا بلکہ اس کو ناپسند کرنا بتاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ اس کو آیت نہیں قرار دیتے تھے بلکہ محض اپنا خیال سمجھتے تھے ۔اور عام باتوں کے لکھنے سے چونکہ آپ منع فرماتے تھے اس لئے آپ نے کچھ لکھ کر نہیں دیا ۔ایسا معلوم ہو تا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے تورات میں سے رجم کا حکم دیکھا ہو گا ۔جسے انہوں نے رسول کریم ﷺ کے سامنے بھی پیش کر دیا ۔کیونکہ احادیث سے ثابت ہے کہ آپ تورات پڑھاکرتے تھے ۔چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ حضرت عمر ؓ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس تورات کا ایک نسخہ لے کر آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! یہ تورات ہے ۔آپ ؐ اُنکی بات سن کر خاموش ہو گئے ۔مگر حضرت عمر ؓ نے تورات کھول کر اُسے پڑھنا شروع کر دیا ۔اس پر رسول کریم ﷺ کے چہرہ پر ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوئے ۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ بات دیکھی تو وہ حضرت عمر ؓ پر ناراض ہو ئے اور انہوں نے کہا ۔کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ رسول کریم ﷺ اسے بُرا منا رہے ہیں۔اُن کی بات سُن کر حضرت عمر ؓ کو بھی توجہ پیدا ہوئی اور انہوں نے رسول کریم ﷺ کے چہرہ کو دیکھا اور جب انہیں بھی آپ کے چہرہ پر ناراضگی کے آثار دکھائی دیئے تو انہوں نے معذرت کی اور رسول کریم ﷺ سے معافی طلب کی ( مشکٰوۃ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنتہ)
پھر یہ امر بھی روایتوں سے ثابت ہے کہ یہودیوں کے ہاں جب تورات کا درس ہو اکرتا تھا تو حضرت عمر ؓ اس میں اکثر شریک ہوا کرتے تھے اور یہودی کہا کرتے تھے کہ تمہارے ہم مذہبوں میں سے ہم تم کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں کیونکہ تم ہمارے پاس آتے جاتے ہو ( کنز العمال بروایت بیہقی جلد اوّل ص ۲۳۳)معلوم ہوتا ہے حضرت عمر ؓ نے تورات سے ہی رجم کا حکم دیکھا تھا جسے انہوں نے رسول کریم ﷺ کے سامنے بھی پیش کر دیا ۔
پھر اس حدیث کا آخری ٹکڑا بھی بتا تا ہے کہ خود حضرت عمر ؓ کو بھی شبہ تھا کہ یہ آیت ہے یا نہیں کیونکہ خود حضرت عمر ؓ رسول کریم ﷺ سے عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ ! کیا آپ کا یہ خیال نہیں کہ بڑی عمر کا آدمی جو شادی شدہ نہ ہو اگر بد کاری کرے تو اس کو کوڑے لگائے جائیں اور جوان اگر شادی شدہ ہو اور وہ بدکاری کرے تو اس کو رجم کیا جائے۔اب یہ خیال اس خیالی آیت کے بالکل خلاف ہے جو اوپربیان ہو ئی ہے۔ا س خیالی آیت کے معنے یہ ہیں کہ جب کوئی بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت زنا کرے (قطع نظر اس کے کہ وہ شادی شدہ ہوں یا نہ ہوں ) تو اُن کو رجم کردو۔اگر واقعہ میں حضرت عمر ؓ بھی اسکو قرآنی آیت سمجھتے تو وہ اس کے خلاف اظہار رائے کیوں کرتے ۔اور رسول کریم ﷺ سے اس کی تصدیق کیوں چاہتے جب اُنکی مزعومہ قرآنی آیت میں بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کا ذکر تھا تو انہوں نے یہ کیوں کہا کہ بڑی عمر کا آدمی جو شادی شدہ نہ ہو اگر بدکاری کرے تو اس کو کوڑے لگائے جائیں اور جوان شادی شدہ اگر بدکاری کرے تو اس کو رجم کیا جائے ۔یہ بات بتاتی ہے کہ خود حضرت عمر ؓ کو بھی یہ شبہ تھا کہ یہ قرآنی آیت ہے یا نہیں ۔
پرانے علماء میں سے بھی ایک حصّہ ایسا ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ جَلْدُ مِائَۃٍ ہی اصل حکم ہے رجم قرآن کریم سے ثابت نہیں۔چنانچہ امام ابن حزم سورۂ نساء کی آیت پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ اِنَّ اْلِا حْصَانَ اِسْم’‘ یَقَعُ عَلَی الْحُرَّۃِالْمُطْلَقَۃِ فقط۔فَاکَانَ ھٰذَا کَمَا قَالُوْا فَالنَّفْیُ وَاجِب’‘ عَلَی الْاِحمَائِ الْمُحْصَنَاتِ مِنْ ھٰذَا الْاٰیَۃِ لِاَنَّ مَعْنَی الْاٰیَۃِ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَاعَلَی الْحَرَائِرِ مِنَ الْعَذَابِ وَعَلَی الْحَرَائِرِ ھُنَا مِنَ الْعَذَابِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَمَعَہ‘ نَفْیُ سَنَۃٍ اَوْ رَجْم’‘ ۔وَالرَّجْمُ لَا یَنْتَصِفُ اَصْلاً لَاَنَّہ‘مَوْت’‘ وَ الْمُوْتُ لَا نِصْفَ لَہ‘ اَصْلاً ۔وَکَذٰلِکَ الرَّجْمُ لِاَنَّہ‘ قَدْیَمُوْتُ الْمَرْجُوْمُ مِنْ رِمْیَۃٍ وَاحِدَۃٍ وَقَدْ لَایَمُوْتُ مِنْ اَلْفِ رِمْیَۃٍ وَمَا کَانَ ھٰکَذَا فَلَا یُمْکِنُ ضَبْطُ نَفْسِہٖ اَبَدًا وَاِذَا لَا یُمْکِنُ ھٰذَا فَقَدْ اَمِنَّا اَنْ یُّکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا وَلِقَوْلِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشَیْئٍ فَاْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ اَوْکَمَا قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَسَقَطَ الرَّجْمُ وَبَقِیَ الْجَلْدُ وَنَفْیِ سَنَۃٍ وَکِلَاھُمَا لَہ‘ نِصْف’‘ فَعَلَی الْاَمَۃِنِصْفُ مَاعَلَی الْحُرَّۃِ مِنْھَا ( محلّٰی ابن حزم جلد ۱۱ ص ۲۳۷،۲۳۸)یعنی احصان کا لفظ خالص آزاد عورت پر بولا جاتا ہے ۔پس اگر لونڈیوں کی سزا آزاد عورتوں کی سزا سے نصف ہے تو لونڈیوں پر بھی جلاوطنی واجب ہوگی ۔کیونکہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آزاد عورتوں کو جو عذاب دیا جائیگا اس سے نصف لونڈیوں کو دیا جا ئیگا ۔اور آزاد عورتوں کیلئے جو عذاب بیان کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کو سوکوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے ۔یا بقول بعض کے رجم کیا جائے اور رجم کسی صورت میں بھی آدھا نہیں ہو سکتا کیونکہ رجم درحقیقت موت کے ہم معنی ہے اور موت کو کسی صورت میں بھی آدھا نہیں کیا جا سکتا ۔اسی طرح رجم کو بھی کسی صورت میں آدھا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جس پر پتھر مارے جاتے ہیں کبھی تو وہ ایک پتھر سے ہی مر جاتا ہے اور کبھی ہزار پتھر سے بھی نہیں مرتا ۔پس جو چیز اپنے اختیار میں نہیں اس پر عمل کس طرح کیا جائے ۔ہم کو کسی صورت سے یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ شخص کتنے پتھروں سے مرے گا کہ اُس سے آدھے ہم ا سکو مار لیں اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا( بقرۃ ع۴۰ ) وہ کوئی ایسا حکم نہیں دیتا جو انسان کی طاقت میں نہ ہو ۔اسی طرح رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جب میں تم کو کسی بات کا حکم دوں تو اس حکم پر اس حد تک عمل کرو جتنی تمہیں طاقت ہو یا اسی سے ملتے جلتے الفاظ میں آپ نے ارشاد فرمایا ۔پس ان الفاظ سے رجم کا حکم ساقط ہو گیا اور کروڑوں والا حکم اور ایک سال کی جلاوطنی کا حکم باقی رہا ۔کیونکہ یہ دونوں حکم ایسے ہیں جن کا نصف ہو سکتا ہے لیکن رجم نصف نہیں ہو سکتا ۔
اسی طرح امت محمد یہ میں سے معتزلین اور خوارج کا یہ عقیدہ ہے کہ رجم قرآن سے ثابت نہیں ۔اسلامی حکم یہی ہے کہ سوکوڑے لگائے جائیں ۔چنانچہ لکھا ہے کہ اَمَّا الرَّجْمُ فَھُوَ مَجْمَع’‘ عَلَیْہِ وَحُکِیَ فِی الْبَحْرِ عَنِ الْخَوَارِجِ اَنَّہ‘ غَیْرُ وَاجِبِ وَکَذٰلِکَ حَکَاہُ عَنْھُمْ اَیْضًا ابْنُ الالْعَرَبِیُّ وَحَکَاہُ اَیْضًا عَنْ بَعْضِ الْمَعْتَزِ لَۃِ کَالنَّظَامِ وَاَصْحَابِہٖ وَلَا مُسْنَدَ لَھُمْ اِلَّا اَنَّہ‘ لَمْ یُذْکَرْ فِی الْقُرْاٰنِ ( نیل الاوطاء جلد ۷ ص ۹۱)یعنی نیل الاوطاء والا کہتا ہے کہ رجم پر سب مسلمان متفق ہیں لیکن کتاب بحر میں خوارج سے روایت کی گئی ہے کہ رجم ہر گز اسلام میں واجب نہیں اور حضرت محی الدین صاحب ابن عربی ؒ جو صوفیا کے سردار ہیں انہوں نے بھی خوارج کا یہی مذہب بیان کیا ہے اور ابن العربیؒ نے نظام اور اُن کے ساتھیوں کا مذہب بھی یہ بیان کیا ہے (جو معتزلی تھے ) کہ رجم اسلام سے ثابت نہیں لیکن ان لوگوں کے پاس سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں کہ قرآن میں اس کا ذکر نہیں ۔
روح المعانی میں لکھا ہے ۔وَیُعْلَمُ مِنْ قَوْلِہِ الْمَذْکُوْرِ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْھَہ‘ اَ نَّہ‘قَائِل’‘ بِعَدْمِ نَسْخِ عَمُوْمِ الْاٰیَۃِ فَیَکُوْنُ رَاَٗ یْتُہ‘ اَنَّ الرَّجْمَ حُکْم’‘ زَائِد’‘ فِیْ حَقِّ الْمُحْصِنِ ثَبَتَ بِالسُّنَّۃِ وَبِذٰلِکَ قَالَ اَھْلُ الظَّاھِرِ وَھُوَرَوَایَۃ’‘ عَنْ اَحْمَدَ وَاسْتَدْلُّوْا عَلیٰ ذٰلِکَ بِمَا رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ مِنْ قَوْلِہٖ ﷺ اَلثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَرَمْی’‘ بِالْحِجَارَۃً وَفِیْ رَوَایَۃِ غَیْرِہٖ وَرَجْم’‘ بِالْحِجَارَۃِ وَعِنْدَ الْحَنْفِیَّۃِ لَا یُجْمَعُ بَیْنَ الرَّجْمِ وَالْجَلْدِ فِی الْمُحْصِنِ وَھُوَ قَوْلُ مَالِکِ وَالشَّافِعِیِّ( روح المعانی جلد ۱۸ ص ۷۱)یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہ‘ کے قول سے یہ ثابت ہے کہ وہ یہ مانتے ہیں کہ قرآن کریم کی سورۃ نور والی آیت جس میں کوڑوں کا ذکر ہے منسوخ نہیں ۔پس معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی ؓ کے نزدیک رجم کا حکم ایک زائد حکم تھا جو سنت سے ثابت ہے وہ حکم قرآن کو منسوخ کرنے والا نہیں ۔اور اہل ظاہر یعنی ابو دائود جو فقہاء خمسہ میں سے ایک بڑے رکن ہیں اور امام احمد بن حنبل ؒ زیاد ہ تر اُن کے حکم کو ترجیح دیتے ہیں وہ اور ان سے تعلق رکھنے والے بھی اس مذہب کے قائل ہیں اور امام احمد بن حنبل ؒ سے بھی یہی روایت کی گئی ہے ۔اور یہ لوگ ابو دائود کی اس روایت سے سند پکڑتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ۔ اَلثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَرَمْی’‘ بِالْحِجَارَۃً۔یعنی شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت کو سو کوڑے لگائے جائیں اور پتھر مارے جائیں ۔
اس روایت سے حضرت علی ؓ کے متعلق بھی یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اُن کے نزدیک کوڑے مارنے کا حکم قائم ہے اور یہ آیت منسوخ نہیں ۔چنانچہ حضرت علی ؓ کے متعلق بخاری میں ایک روایت آتی ہے کہ ایک عورت شرحۃ الھمدانیہ کو آپ نے کوڑے بھی لگوائے اور رجم بھی کیا اور پھر فرمایا ۔جَلَدْتُھَا بِکِتٰبٍ اللّٰہِ وَرَجَمْتُھَا بِسُنَّۃِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ( بخاری ) یعنی میں نے کوڑے تو خدا کے حکم کے مطابق لگائے ہیں۔اور رجم رسول کریم ﷺ کی سنت کے مطابق کیا ہے ۔اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس آیت کو منسوخ نہیں قرار دیتے تھے ۔حضرت عبادۃ ابن الصامت ؓ کی روایت ہے کہ کنواری سے زنا سرزد ہو جائے تو اس کی سزا میں ایک سال کی جلاوطنی بھی زائد کر دی گئی تھی اور بیاہی ہوئی عورت سے زنا سرزد ہو جائے تو کوڑوں کے علاوہ اس کیلئے رجم کا بھی اضافہ کر دیا گیا تھا ( مسلم ) اس سے بھی حضرت علی ؓ والے خیال کی تصدیق ہو تی ہے کہ قرآنی آیت منسوخ نہیںبلکہ قرآنی حکم کے ساتھ ایک چیز کا اپنی طرف سے اضافہ کیا گیا تھا پس یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قرآنی حکم یہی ہے کہ اگر کسی عورت یا مرد سے زنا صادر ہو جائے تو اس کو سو کوڑے لگائے جائیں ۔لیکن رسول کریم ﷺ نے بائیبل کی تعلیم کے مطابق اپنے استدلال سے یہودی مذہب کی سزا کو پہلے جاری کیا اس کے بعد چونکہ قرآنی حکم نازل ہو گیا اس لئے رسول کریم ﷺ کے حکم کو ہم محض عارضی حکم کہیں گے مستقل حکم نہیں کہیں گے کیونکہ مستقل حکم آپ کا وہی ہوتا ہے جس کے متعلق قرآنی حکم موجود نہ ہو ۔اس کا ثبوت اس طرح بھی ملتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے شروع میں قبلہ بھی یہودیوں کے طریق کے مطابق بیت المقدس کو ہی رکھا تھا ۔لیکن جب قرآن کریم میں یہ حکم نازل ہو اکہ خانہ کعبہ کی طرف منہ کیا جائے تو رسول کریم ﷺ نے بیت اللہ کی طرف منہ کر لیا ۔چنانچہ دوسرے پارہ کے شروع میں اس کا ذکر آتا ہے ۔اسی طرح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ بعض دفعہ رسول کریم ﷺ قوم کی اصلاح کیلئے ایک حکم فرما دیا کرتے تھے لیکن وہ دائمی حکم نہیں ہوتا تھا ۔مثلاً بخاری میں ہی آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک دفعہ وفد عبدالقیس آیا اور اُس نے کہا یا رسول اللہ ہمیں کوئی خاص ہدایت دیجئیے ۔آپ نے فرمایا فلاں فلاں چارقسم کے برتن استعمال نہ کئے جائیں ( بخاری کتاب الایمان باب اداء لخمس من الایمان ) لیکن قریباً سب مسلمان آج اُن برتنوں کو استعمال کرتے ہیں اور سب فقہاء کہتے ہیں کہ یہ برتن جائز ہیں اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اُن لوگوں میں رواج تھا کہ اس قسم کے برتنوں میں وہ شراب بناتے تھے ۔رسول کریم ﷺ نے اُن کی اس عادت کو چھڑانے کیلئے حکم دیدیا کہ یہ برتن استعمال نہ کیا کرو۔ان برتنوں کے استعمال نہ کرنے کی وجہ سے شراب بنانے کی عادت اُن میں سے جاتی رہی اور بعدمیں تمام مسلمانوں کے اتفاق کے مطابق یہ حکم غیر ضروری ہو گیا ۔اور اس قسم کے برتنوں کا استعمال سب مسلمانوں کیلئے جائز ہو گیا ۔
حدیثوں سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ کا حکم محض یہودی احکام کی اتباع میں دیا تھا ۔چنانچہ ایک روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَوَّلُ مَنْ اَحْیَا اَمَرَکَ اِذَ اَمَاتُوْہُ فَاَمَرَ بِہٖ فَرُجِمَ ( مسلم جلد ۲ کتاب الحدور) یعنی جب رسول کریم ﷺ کے سامنے ایک دفعہ یہود نے یہ اقرار کیا کہ اصل میں تو ہمارے ہاں رجم کا ہی حکم ہے مگر بڑے لوگوں کو خوش کرنے کیلئے ہم نے رجم کا طریق ترک کر دیا ہے تو آپ نے وہ بات فر مائی جو ہم نے اوپر درج کی ہے اور جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے اللہ ! میں اس زمانہ میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے اس حکم کو جو تونے یہودیوں کو دیا تھا زندہ کردیا ہے حالانکہ خود یہودی جن کو یہ حکم دیا گیا تھا انہوں نے اس حکم کو ترک کر دیا ہے ۔اس کے بعد آپ نے اُس ملزم کو جو آپ کے سامنے لایا گیا تھا رجم کی سزا دی ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے رجم کی سزا محض بائیبل کی اتباع میں دی تھی ۔چنانچہ احادیث میں بیان شدہ ایک اور واقعہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے ۔حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور اُس نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے زنا کیا ہے ۔رسول کریم ﷺ نے اُس کی یہ بات سنکر غصّہ سے اُسکی طرف سے منہ پھیر لیا ۔مگر وہ بار بار چکر کاٹ کر رسول کریم ﷺ سے یہی کہتا رہا کہ یا رسول اللہ میں نے زنا کیا ہے ۔جب وہ چار دفعہ اقرار کر چکا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کیا تُو پاگل ہے ! اُس نے کہا یا رسول اللہ ! نہیں ۔آپ نے فرمایا کہ اچھا اسے سنگسار کر دیا جائے ۔صحابہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم اسے باہر لے گئے لیکن جب ہم نے اُسے پتھر مارنے شروع کئے تو وہ بھاگا ۔ہم اُس کے پیچھے پیچھے دوڑے اور اُسے پکڑکر مارڈالا ۔جب رسول کریم ﷺ کو یہ بات پہنچی تو آپ نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اُس کا بھاگنا ہی اپنے اقرار سے رجوع کرنا تھا ۔پھر تم نے اُسے کیوں نہ چھوڑ دیا ۔یہ حدیث بھی بتاتی ہے کہ رجم کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھا ۔ورنہ یہ کس طرح ہو سکتاتھا کہ خداتعالیٰ تو یہ کہتا کہ رجم کرو ۔اور رسول کریم ﷺ اس کے اُلٹ اپنے صحابہ ؓ سے یہ فرماتے کہ جب وہ بھاگا تھا تو تم نے اُسے چھوڑ کیوں نہ دیا ۔اگر رجم کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا تو رسول کریم ﷺ یہ کس طرح کہہ سکتے تھے کہ تم نے اُسے مارا کیوں ؟
اس جگہ ایک لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ مفسرین حضرت ایوب ؑ کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ جب وہ شدید بیمار ہو گئے تو شیطان نے اُن کی بیوی کو ورغلایا اور اُسے ایک بکری کا بچہ دے کر کہا کہ اگر ایوبؑ میرے نام پر اسکو ذبح کردیں تو یہ اچھے ہو جائیں گے ۔بیوی نے حضرت ایوبؑ سے اس کا ذکر کیا ۔تو انہوں نے اُسے ڈانٹا اور کہا کہ یہ تو خدا کا دشمن ہے تم اس کے فریب میں کیوں آئیں ؟ اور پھر قسم کھائی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے شفادی تو میں اپنی بیوی کو اس غلطی پر اُسے سو کوڑوں کی سزا دونگا ۔مگر جب اچھے ہو گئے تو حضرت ایوب ؑ نے اپنی قسم کو اس طرح پورا کیا کہ سو تیلیاں اکٹھی کر کے اُن کو مار دیں ( تفسیر خازن) اگر یہ روایتیں درست ہیں تو پھر ززانی اور زانیہ کو بھی حضرت ایوبؑ کی طرح ایک جھاڑو اٹھا کر مار دینا چاہئیے جس میں سو تیلیاں ہوں اور سمجھ لینا چاہئیے کہ سزا پوری ہو گئی ۔اور جب سو کوڑے بھی نہ رہے بلکہ ایک جھاڑو مار دینا بھی جائز ہو گیا تو رجم کہاں باقی رہا ۔بے شک ہم مفسرین کی ان روایات سے متفق نہیں لیکن جو علماء اس قسم کی روایات کو تسلیم کرتے ہیں ان پر واقعہ ٔ ایوبؑ بھی ایک حجت ہے کیونکہ جب وہاں وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت ایوبؑ نے سو کوڑوں کی بجائے سو تیلیاں مار کر قسم پوری کر لی تو پھر یہاں بھی رجم پر کیوں زور دیتے ہیں ۔یہاں بھی انہیں چاہئیے کہ سو تیلیاں والا جھاڑو اٹھا کر زانیہ اور زانی کو ایک دفعہ مار دیں اور سمجھ لیں کہ سزا پوری ہو گئی ۔بہر حال رسول کریم ﷺ کا بعض لوگوں کو رجم کرنا محض یہودی تعلیم کی اتباع میں تھا ۔لیکن اس کے بعد جب قرآن کریم میں واضح حکم آگیا تو پہلا حکم بھی بدل گیا اور وہی حکم آج بھی موجود ہے جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے یعنی اگر کسی کی نسبت زنا کا جرم ان شرائط کے ساتھ ثابت ہو جائے جو قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں تو اسے سو کوڑے لگائے جائیں ۔کوڑوں کی تشریح قرآن کریم بے بیان نہیں فرمائی لیکن قرآنی الفاظ سے یہ ثابت ہے کہ کوڑا ایسی طرز پر مارا جانا چاہئیے کہ جسم کو اس کی ضرب محسوس ہو ۔کیونکہ جَلْدَہ‘ بِالسِّیَاطِ کے معنے ہوتے ہیں ضَرَبَہ‘ بِھَا وَاَصَابَ جِلْدَہ‘ ( اقرب) یعنی کوڑے سے اس طرز پر مارا کہ جلد تک اُس کا اثر پہنچا ۔پس کسی چیز سے جس کی ضرب اتنی ہو کہ جسم محسوس کرے سزا دینا اور لوگوں کے سامنے سزا دینا اس حکم سے ثابت ہوتا ہے ۔خواہ وہ کوڑا چمڑے کا نہ ہو بلکہ کپڑے کا ہو ۔یہ ضروری نہیں کہ وہ کوڑا ہی ہو جیسا کہ آجکل عدالتیں استعمال کرتی ہیں اور جس کی ضرب اگر سو کی حد تک پہنچے تو انسان غالباً مر جائے ۔ایسے ہی کوڑے مارے جا سکتے ہیں اورا تنی ہی شدت سے مارے جا سکتے ہیں جس سے انسان پر موت وارد ہو نیکا کوئی امکان نہ ہو ۔یعنی نہ تو کوڑا ایسا ہو نا چاہئیے جس سے ہڈی ٹوٹ جائے کیونکہ حل لغات میں بتا یا جا چکا ہے کہ جَلْدَہ‘ بِا لسِّیَاطِ کے معنوں میں یہ بات داخل ہے کہ صرف جلد کو تکلیف پہنچے ہڈی کے ٹوٹنے یا اس کو نقصان پہنچنے کا کوئی ڈر نہ ہو ۔اورنہ ایسا ہونا چاہئیے کہ اس کی ضرب سے انسان پر موت وارد ہو نے کا کوئی امکان ہو ۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں صرف زانی اور زانیہ کا لفظ نہیں رکھا بلکہ الزانیہ و الزانی کے الفاظ رکھے ہیں یعنی الف لام کی زیادتی کی گئی ہے اور الف لام کی زیادتی ہمیشہ معنوں میں تخصیص پیدا کردیا کرتی ہے ۔پس اس جگہ الزانیۃ والزانی سے صرف ایسا ہی شخص مراد ہو سکتا ہے جو یاتو زنا کا عادی ہو یا علی الاعلان ایسا فعل کرتا ہو ۔اور اتنا نڈر اور بیباک ہو گیا ہو کہ وہ اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہ کرتا ہو کہ کوئی اُسے دیکھ رہا ہے یا نہیں یا اُس سے شہوت کا مادہ تو نہ ہو اور پھر بھی وہ زناکرتا ہو جیسے بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت ۔ان معنوں کے لحاظ سے اس حدیث کی بھی ایک رنگ میں تصدیق ہو جاتی ہے جس میں یہ ذکر آتا ہے کہ اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا فَارْجُمُوْھُمَا اَلْبَیَّۃَ ایک بڑی عمر والا مرد یا ایک بڑی عمر والی عورت اگر زنا کریں تو ان کو پتھر مار مار کر مار دو ۔گویا اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ کے معنے اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ کے ہی ہیں ۔معلوم ہوتا ہے رسول کریم ﷺ نے انہی خیالات کا اظہار فرمایا تھا ۔مگر حضر ت عمر ؓ نے اس کو غلطی سے قرآنی آیت سمجھ لیا ۔لیکن بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کیلئے بھی قرآن کریم نے فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ کا ہی حکم دیا ہے رجم کا نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر ؓ نے کہاکہ یا رسول اللہ یہ بات مجھے لکھ دیجئیے تو رسول کریم ﷺ نے حضرت عمر ؓ کی اس بات کو ناپسند فرمایا ۔کیونکہ یہ قرآنی حکم کے خلاف تھی ۔پس اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ سے کامل زانی مراد ہے جو یا زنا کا عادی ہو یا اتنا نڈر ہوگیا ہو کہ وہ کھلے بندوں اس فعل کا ارتکاب کرتا ہو ۔یا محصن یعنی شادی شدہ ہو یا بڈھا ہو اور پھر بھی وہ زنا کرتا ہو ۔ایسے تمام لوگوں کے متعلق قرآن کریم یہی کہتا ہے کہ اُن کا جرم ثابت ہونے پر انہیں سو کوڑے لگائو ۔
وَلَاتَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَأفَۃ’‘ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ ۔یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے دو قسم کی سزائیں آتی ہیں ۔ایک تو وہ سزائیں ہوتی ہیں جو قوانین نیچر کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ایک ایسی سزائیں ہوتی ہیںجو قوانین شریعت کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے انسان کو برداشت کرنی پڑتی ہیں ۔جو سزائیں قوانین نیچر کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہوتی ہیں ان میں رجم کرنا اور ہمدردی سے پیش آنا جائز ہوتا ہے ۔لیکن وہ سزائیں جو قوانین شریعت کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے دی جائیں اُن میں رجم کرنا جائز نہیں ہوتا کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا اُسی صورت میں آتی ہے جبکہ بندہ اس کا مستحق ہو جاتا ہے ۔اور ایسی حالت میں رحم کرنے یعنی مجرم کو اس سزا سے بچانے کا یہ مفہوم ہو گا کہ انسان خداتعالیٰ کے فیصلہ کو جھٹلانے کی کوشش کرے ۔
یہاں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں اُس سزا پر جو فی دین اللہ ہو ۔یعنی دین کے حکم کو پورا کرنے کیلئے دی جائے رحم نہیں آنا چاہئیے۔پس اس سے وہ سزا نکل گئی جو قوانین نیچر کی خلاف ورزی کی وجہ سے ملتی ہے مثلاً اگر کسی کا گِر کر دانت ٹوٹ جائے تو اس پر رحم کرنا جائز ہے یا کوئی بیمار ہو تو اُس پر بھی رحم کرنا جائز ہے ۔اسی طرح جو لوگ ڈوب جاتے ہیں یا زلازل وغیر ہ سے تباہ ہو جاتے ہیں اُن کے متعلق بھی رحم کے جذبات کا اظہار کرنا یا اُن کی پسماندگان کی مالی امداد کرنا اور اُن سے محبت اور ہمدردی سے پیش آنا جائز ہے ۔کیونکہ ان حوادث میں ہزاروں ایسے لوگ بھی تباہ ہو جاتے ہیں جن کی تباہی کسی مامور کے انکار کا نتیجہ نہیں ہوتی ۔پس اس قسم کے حوادث میں بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا نہایت ضروری ہوتا ہے مگر جسے دینی احکام اور قانونِ شریعت کی خلاف ورزی کرنے پر سزا ملے اس پر رحم نہیں کیا جا سکتا ۔یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ جس کے متعلق شرعی قانون کے ماتحت زنا کا الزام ثابت ہوجائے اُس کو قرآنی کوڑے نہ لگائے جائیں ۔ہاں اگر یہ خواہش کی جائے کہ کاش یہ ایسا نہ کرتا تو یہ جائز ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ اس آیت میں قرآن کریم نے اپنے عام دستور کے خلاف عورت کا ذکر پہلے کیا ہے اور مرد کا بعد ۔یعنی یہ کہا ہے کہ زانیہ عورت اور زانی مرد کو سو سو کوڑے لگائے جائیں ۔اس میں ایک نکتہ ہے جو فراموش نہیں کرنا چاہئیے اور وہ یہ کہ یہ فعل پیشہ کے طور پر عورتوں میں ہی پایا جا تا ہے ۔مردوں میں نہیں پایا جاتا ۔مگر اس کایہ مطلب نہیں جیسا کہ بعض لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں کہ اس سے مردوں میں عورتوں کی نسبت زیادہ نیکی اور تقویٰ کا ثبوت ملتا ہے ۔بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد اس کو اختیار ہی نہیں کر سکتے ۔صرف عورتیں ہی مالی فائدہ کیلئے اس پیشہ کو اختیار کرتی ہیں ۔اسی لئے ان کا ذکر پہلے کیا گیا ہے ۔اور مردوں کا اُن کے بعد ۔دوسرے اس معاملہ میں عورت میں فطرۃً حیاء کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے بلکہ عورتوں میں ہی نہیں ہر نرو مادہ میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ اُن میں سے جو چیز یں اثر قبول کرتی ہیں اُن میں حیاء زیادہ ہوتی ہے بہ نسبت اُن کے جو دوسروں پر اثر ڈالتی ہیں ۔اثر لینے والی چیز پیچھے کو ہٹتی ہے اور اثر ڈالنے والی اُسکی طرف بڑھتی ہے اور یہ بات انسانوں اور حیوانوں میں ہی نہیں بلکہ درختوں میں بھی جو نر و مادہ کی خاصیت رکھتے ہیں پائی جاتی ہے کہ جو پودہ نر کا قائم مقام ہوتا ہے اُس میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ اُس پودے کی طرف جھکتا ہے جو مادہ کا قائم مقام ہوتا ہے ۔اس علم کی تحقیق موجودہ زمانہ میں کی گئی ہے ۔مگر اسلام نے اس کو پہلے سے ہی بیان کر دیا ہے ۔پس عورت میں چونکہ حیاء کو ترک کر دیتی ہے تو وہ زیادہ نفرین کی مستحق ہوتی ہے ۔اسی لئے اس جگہ عورت کو ذکر پہلے کیا گیا ہے اور مرد کا بعد میں ۔
اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ ہ
ترجمہ() اور ایک زانی زانیہ یا مشرکہ کے سوا کسی سے ہم صحبت نہیں ہوتا ۔اور نہ زانیہ زانی یا مشرک کے سوا کسی سے ہم صحبت ہوتی ہے ۔اور مومنوں پر یہ بات حرام کی گئی ۔ ۴ ؎
۴؎ حل لغات :
لَاَیَنْکِحُ ۔لسان العرب میں لکھا ہے کہ علامہ ازہری جو لغت کے امام ہیں لکھتے ہیں ۔اَصْلُ النِّکَاحِ فِیْ کَلَامِ الْعَرَابِ اَلْوَطْئُ کہ نکاح کے اصل معنے لغت عرب میں عورت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے ہیں ۔پس اَلزَّانِیْ لَایَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً کے معنے ہونگے کہ کوئی زانی تعلقات قائم نہیں کرتا مگر زانیہ سے ہی ۔
تفسیر :
بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ زانی کا زا نیہ یا مشرکہ کے ساتھ ہی نکاح جائز ہے ۔شریف مومنہ کے ساتھ جائز نہیں ۔لیکن یہ معنے تواتر اور عقل کے بالکل خلاف ہیں ۔کیونکہ کسی کو زانی یا زانیہ کا علم کس طرح ہو سکتا ہے ۔اگر زانی یا زانیہ پہلے سے شادی شدہ ہونگے توروایت کے مطابق تو ان کو سنگسار کیا جا چکا ہوگا ۔پس اس روایت کے مطابق تو اس آیت کے یہ معنے بنیں گے کہ سنگسار شدہ عورت صرف سنگسار شدہ مرد کے ساتھ شادی کر سکتی ہے جو نہایت احمقانہ خیال ہے ۔اور مومنوں پر یہ بات حرام کر دی گئی ہے کہ وہ کسی سنگسار شد ہ عورت سے شادی کریں ۔ایک معمولی سے معمولی عقل کا آدمی بھی اس کو بالکل بے ہودہ حکم قرار دیگا ۔یہ ساری غلطی درحقیقت نَکَحَ کے معنے نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ۔نکاح کے دو معنے ہوتے ہیں ۔ایک معنے شریعت کے قانون کے مطابق اعلان ازدواج کے ہیں وہ معنے اس جگہ مراد نہیں ۔کیونکہ ان معنوں کی رُو سے یہ آیت بالکل لغو ہو جاتی ہے دوسرے معنے نکاح کے مرد عورت کے باہمی اجتماع کے ہیں اور یہی معنے اس جگہ لگتے ہیں ۔یہ معنے اس آیت پر چسپاں کر کے دیکھو تو یہ آیت بڑے اعلیٰ درجہ کے معنوں پر مشتمل نظر آئے گی ۔
فرماتا ہے کہ زنا کرنے والا مرد جب بھی صحبت کرتا ہے زنا کرنے والی عورت سے کرتا ہے ۔اور یہ ایک حقیقت ہے کہ زنا کرنے والا مرد تب ہی زنا کرنے والا کہلا سکتا ہے جبکہ اس سے صحبت کرنے والی عورت بھی زانیہ ہو ۔اگر وہ پاک دامن ہے تو مرد اُس کا خاوند کہلائیگا زنا کرنیوالا زنہیں کہلا ئیگا ۔اسی طرح ہر زنا کرنے والی عورت تب ہی زنا کرنے والی کہلا سکتی ہے جبکہ وہ کسی غیر محرم سے صحبت کر رہی ہو ۔اور یہ سیدھی بات ہے کہ جو عورت کسی غیر محرم مرد سے صحبت کریگی وہ زانیہ ہی کہلائے گی ۔ورنہ اگر وہ پاک دامن ہوگی تو جب بھی وہ مجامعت کریگی اپنے خاوند سے کریگی ۔
غرض اس آیت میں یہ بتا یا گیا ہے کہ زانیہ یا زانی کا نام اس وقت ملتا ہے جبکہ بالمقابل شخص کو بھی یہی نام حاصل ہو ۔ورنہ مومن آدمی جب بھی مجامعت کرے گا۔اُس کا بالمقابل فرد اس کی بیوی ہوگی ۔پس مومن مرد یا مومن عورت کیلئے زانیہ کا لفظ استعمال ہی نہیں ہو سکتا اور چونکہ ہم نے اس جگہ نکاح کے معنے صحبت کے کئے ہیں اس لئے وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کے لازماً یہ معنے ہونگے کہ مومنوں کیلئے زانی کا لفظ استعمال کرنا حرام ہے ۔یہ معنے نہیں ہونگے کہ وہ زنا نہیں کرتے کیونکہ زنا تو کوئی مومن کرتا ہی نہیں ۔
پھر اس آیت میں ایک سوال کا بھی جواب دیا گیا ہے ۔چونکہ پچھلی آیت میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں کو کوڑے مارے جائیں ۔اس لئے کوئی شخص کہہ سکتا تھا کہ کیوں صرف مرد کو ہی نہ مارا جائے عورت تو اثر قبول کرنے والی ہے ۔جب اثر ڈالنے والا اسکی طرف جھکے گا تو وہ مجبوراً اثر قبول کرے گی ۔اس لئے فرمایا کہ یہ فعل دونوں کی رضا مندی سے ہوتا ہے ۔زانی مرد زانیہ عورت کے ساتھ اُس کی مرضی کے بغیر تعلق پیدا نہیں کر سکتا ۔اور زانیہ عورت زانی مرد کے ساتھ اُس کی مرضی کے بغیر تعلق پیدا نہیں کر سکتی ۔اور مومنوں کیلئے یہ بات قطعاً حرام ہے ۔اس وجہ سے زانی مرد اور زانیہ عورت دونوں کیلئے شریعت نے سز ا تجویز کی ہے ۔
وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ ہ
ترجمہ() اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر الزام لگاتے ہیں پھر چار گواہ مہیا نہیں کر تے تو ان کی سزا یہ ہے کہ اُن کو اَسّی کوڑے لگائواور اُن کی گواہی کبھی قبول نہ کرو ۔اور وہ لوگ اپنے اس فعل کی وجہ سے شریعت اسلامی کی اطاعت سے خارج ہیں ۔ ۵ ؎
۵؎ حل لغات :
یَرْمُوْنَ رَمَاہُ یَرْمِیْہِ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور رَمَا فُلَا نًا بِکَذَا کے معنے ہوتے ہیں عَابَہ‘ وَقَذَفَہ‘ وَاتَّھَمَہ‘ ( اقرب)یعنی اس پر الزام اور اتہام لگایا ۔پس یَرمُوْنَ کے معنے ہو نگے وہ الزام لگاتے ہیں ۔
تفسیر :
اس آیت میں الزام زنا کی شہادت کا طریق بیان کیا گیا ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ دوسرے پر زنا کا الزام لگانے والا چار گواہ لائے جو اس الزام زنا کی تصدیق کرتے ہوں۔مگر رسو ل کریم ﷺ اور صحابہ ؓ کے اقوال سے ثابت ہے کہ اگر گواہ مختلف جگہوں کے متعلق شہادت دے رہے ہوں تو وہ شہادت ہر گز تسلیم نہیں کی جائیگی ۔اور چاہے وہ چار گواہ ہوں پھر بھی وہ ایک ہی گواہی سمجھی جائیگی ۔یہ ضروری ہے کہ ایک ہی واقعہ اور ایک ہی جگہ کے متعلق الزام لگانے والے کے علاوہ چار عینی شاہد ہوں اور دوسرے اُن کی گواہی اتنی مکمل ہو کہ وہ اس فعل کی تکمیل کی شہادت دیں ۔فقہاء نے لکھا ہے کہ وہ چار وں گواہ یہ گواہی دیں کہ انہوں نے مرد عورت کو اس طرح اکٹھے دیکھا ہے جس طرح سرمہ دانی میں سلائی پڑی ہوئی ہوتی ہے ۔
فقہاء کے نزدیک مجرم پر حدّزنا تین طرح لگتی ہے ۔اوّل ۔قاضی کے علم سے ۔دوم اقرار سے ۔ سوم چارگواہوں کی شہادت سے۔مگر قاضی کے علم سے حد لگا نا میرے نزدیک قرآن کریم کی رو سے غلط ہے کیونکہ قاضی بہر حال ایک شاہد بنتا ہے ۔لیکن قرآن کریم کی رو سے پانچ شاہد ہونے چاہئیں ۔ایک الزام لگانے والا اور چار مزید گواہ بلکہ میرے نزدیک اگر قاضی کو کوئی ایسا علم ہو تو اُسے وہ مقدمہ سُننا ہی نہیں چاہئیے ۔بلکہ اس مقدمہ کو کسی دوسرے قاضی کے پاس بھیج دینا چاہئیے اور خود بطور گواہ پیش ہونا چاہئیے ۔قاضی صرف امور سیاسیہ میں اپنے علم کو کا میں لا سکتا ہے حدودِ شرعیہ میں نہیں ۔کیونکہ حدودِ شرعیہ کی سزا خود خداتعالیٰ نے مقرر کی ہوئی ہے ۔اسی طرح گواہی کا طریق بھی اس کا مقرر کردہ ہے ۔
اقرار کے متعلق بھی یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ اقرار وہ ہے کو بغیر جبر اور تشدد کے ہو ۔ورنہ پولیس کئی دفعہ مارپیٹ کر بھی اقرار کر وا لیتی ہے ۔حالانکہ وہ اقرار صرف جبر کا نتیجہ ہوتا ہے ۔پھر یہ اقرار ایک دفعہ کافی نہیں بلکہ چار دفعہ بغیر پولیس کے قاضی کے سامنے اقرار ہونا چاہئیے۔اور اقرار بھی قسمیہ ہونا چاہئیے ۔تب اس کو حد لگے گی ۔لیکن اگر ایسا شخص چار دفعہ اقرار کرنے کے باوجود بعد میں انکار کر دے تو اسکو حد زنا نہیں لگے گی ۔ہاں اگر اُس نے کسی عورت کا نام لیا تو حدِقذف اس کو لگے گی ۔کیونکہ اُس نے ایک عورت پر زنا کا الزام لگایا ۔قذف کے متعلق فقہاء میں یہ بحث ہے کہ وہ کس طرح ہوتا ہے ۔اگر صریح ہو تو اس پر حد ہے اور اگر کنایۃً ہو جیسے یہ کہدے کہ اے فاسقہ یا اے مؤا جرہ یا اے انبۃا لحرام تو اُسے قذف نہیں سمجھا جائے گا ۔جب تک اُس کے ساتھ نیت نہ ہو بلکہ عام طور پر یہ گالی سمجھی جائیگی ۔اور اگر تعریضاً ہو جیسے کوئی کہے کہ میں تو زانی نہیں اور وہ اشارۃً یہ کہنا چاہتا ہو کہ تو زانی ہے یا کسی کو مخاطب کرتے ہو ئے کہہ دے کہ اے ابن حلال اور اس کا مقصد یہ ہو کہ مخاطب ابن حلال نہیں تو امام شافعی ؒ اور امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک تو تعریض قذف نہیں لیکن امام مالک ؒ کے نزدیک قذف ہے اور امام احمد ؒ کے نزدیک غصہ کی حالت میں ایسا کہا گیا ہو ہو تو قذف ہے ورنہ نہیں ۔لیکن میرے نزدیک جو کلام بھی کسی ایسے رنگ میں ثابت ہو جائے کہ اُس کے سُننے والوں پر کسی الزام کا اثر ڈالنا مقصود ہو تو وہ قذف ہے اور اسی طرح قابلِ سزا ہے ، جس طرح آزاد آدمی اگر قذف کرے تو اس کیلئے اَسّی کوڑے سزا مقرر ہے ۔اگر غلام قذف کرے تو اس کیلئے چالیس کوڑوں کی سزا مقرر ہے ۔لیکن اس کا فیصلہ قاضی کرے گا پبلک کا کام نہیں کہ اس کا فیصلہ کرے۔اگر غیر شادی شدہ عورت یا غیر شادی شدہ مرد پر کوئی قذف کرے تو قرآن کی رُو سے اس پر کوئی حد نہیں ہاں قانون یا قاضی مناسب حال سزا اس کے لئے تجویز کریگا ۔گویا ایسے مقدمہ کا فیصلہ صرف اس بنا پر ہوگا کہ قاضی اسکو مجرم قرار دے دے۔اس کے بعد حکومت اس سے مجرموں والا سلوک کرے گی ورنہ نہیں ۔گویا اسلام نے دونوں کو پابند کردیا ۔قاضی کو طریق شہادت سے پابند کر دیا اور حکومت کو قاضی کے فیصلہ سے پابند کر دیا ۔
اور اگر کوئی شخص کسی غیر محصنہ پر جس کو پہلے کبھی سزا مل چکی ہو الزام لگائے تو اس کو تعزیر کی سزا ملے گی ۔کیونکہ پھر عزت کا سوال نہیں بلکہ فتنہ ڈالنے کا سوال ہو گا ۔لیکن اگر الزام کسی ایسے شخص پر لگا یا جائے جو مشہور بد نام اور آوارہ ہو اور قاضی بھی اُسے بد نام اور آوارہ قرار دیدے تو پھر الزام لگانے والے کو صرف فتنہ پیدا کرنے کی سزا دی جائیگی ۔
یہ بھی فقہاء نے بحث کی ہے کہ گو یہاں محصنات کا لفظ استعمال کیا گیا ہے محصنین کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا مگر اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ جبکہ مردوں کے ذکر میں عورتیں شامل سمجھی جاتی ہیں تو عورتوں کے ذکر میں مرد کیوں نہ شامل سمجھے جائیں گے۔پس وہ اس آیت کو مردوں اور عورتوں دونوں کیلئے سمجھتے ہیں ۔پھر فقہاء نے یہ بھی کہا ہے کہ اس جگہ محصنات کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے اور محصنین کا نہیں کیا گیا تو اس سے اسطرف اشارہ کیا گیا ہے کہ گو مرد بھی اس حکم میں شامل ہیں مگر عورتوں کی عزت کو بچا نا سو سائٹی کا پہلا فرض ہے۔کیونکہ جھوٹے الزاموں سے عورت کی عزت کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور مرد کی عزت کو کم ۔اگر چار گواہ نہ ہوں تو خواہ وہ تین ہوں اُن پر حد لگے گی ۔اور اگر چارہ گواہ تو ہوں لیکن فاسق ہوں ۔تب بھی بعض فقہا ء کے نزدیک گواہوں پر حد لگے گی لیکن میرے نزدیک حد نہیں لگے گی کیونکہ فاسق قرار دینے کا فیصلہ قاضی کے اختیار میں تھا اور گواہ کو اس کا کوئی علم نہیں ہو سکتا تھا کہ مجھے فاسق قرار دیا جائیگا یا نہیں ۔ہاں قاضی کو تعزیر کا اختیار ہوگا یعنی حالات کے مطابق سزا دینے کا تاکہ آئندہ احتیاط رہے اور جس پر الزام لگا یا گیا ہو اُس کی برأت کی جائیگی ۔قرآن کریم کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ قاذف کے علاوہ چار گواہ ہونگے یعنی کل پانچ نہ کہ قاذف سمیت چار ۔
بعض لوگوں نے اس بارہ میں اختلاف کیا ہے کہ شہادت ایک مقام پر ہوگی یا مختلف مقامات پر۔ لیکن میرے نزدیک یہ بحث فضول ہے ۔قاضی جس طرح چاہے گواہی لے لے لیکن یہ ضروری ہے کہ گو مقام ِ شہادت مختلف ہوں مگر جس واقعہ کی شہادت ہو وہ ایک ہی ہوتا کہ وہ اختیار جو غلطی سے بچنے کیلئے کی گئی تھی ضائع نہ ہو جائے اور منصوبہ بازی کا ازالہ ہو جائے ۔یہ حکم اس زمانہ میں خوب یاد رکھنے کے قابل ہے کیونکہ جس قدر بے حرمتی اور ہتک اس زمانہ میں اس کی ہو رہی ہے اور کسی حکم کی نہیں ہو رہی ۔بلادلیل اور بلا وجہ اور بلا کسی ثبوت کے محض کھیل اور تماشہ کے طورپر دوسروں پر الزام لگائے جاتے ہیں اور قطعًا اس بات کی پر واہ نہیں کی جاتی کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہے ۔اور خداتعالیٰ نے اس کی کس قدر سزا مقرر کی ہوئی ہے ۔ایسا الزام لگانے والے کیلئے خداتعالیٰ نے اَسّی کوڑے سزا رکھی ہے جو زنا کی سزا کے قریب قریب ہے ۔یعنی اس کیلئے سو کوڑے کی سزا ہے ۔لیکن الزام لگانے والے کیلئے اَسّی کوڑے کھا لینے کے بعد بھی یہ سزا ہے کہ کبھی اس کی گواہی قبول نہ کرو۔پھر اسی پر بس نہیں بلکہ سزا اور زیادہ آگے بڑھتی ہے اور خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا انسان خداتعالیٰ کے حضور فاسق ہے ۔اور جسے خداتعالیٰ فاسق قرار دیدے اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مومن اور متقی ہے یونہی خدا نے اس کا نام فاسق رکھد یا ہے بلکہ اس میں یہ اشارہ مخفی ہے کہ الزام لگانے والا خود اُسی بدی میں مبتلا ہوجائیگا ۔کیونکہ خداتعالیٰ بلاوجہ کسی کا نام نہیں رکھتا بلکہ جب بھی کسی کا کوئی نام رکھتا ہے اُس کے مطابق اس میں صفات بھی پیدا کر دیتا ہے ۔خدا تعالیٰ جس کو دلیر کہتا ہے وہ دلیر ہو کر رہتا ہے ۔اور خداتعالیٰ جس کو متقی کہتا ہے وہ متقی ہو کر رہتا ہے ۔اسی طرح خدا تعالیٰ جس کو فاسق کہتا ہے ۔و ہ فاسق بن کر رہتا ہے اور دنیا دیکھتی ہے کہ جو الزام اس نے دوسرے پر لگایا تھا اس کا وہ خود مصداق بن گیا ہے ۔
بعض لوگ یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ چونکہ یہاں یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ آیا ہے اس لئے جو واقع میں پاک دامن عورتیں ہوں اُن پر اتہام لگانے والے کیلئے سزا رکھی گئی ہے دوسروں کیلئے نہیں ۔حالانکہ اگر یہ درست ہو تو اس کا پتہ کون لگا سکے گا کہ جس پر الزام لگایا گیا ہے وہ فی الواقعہ پاک دامن ہے یا نہیں ۔ایک خبیث اور بے باک آدمی بڑی دلیری کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ جس عورت پر میں نے الزام لگا یا ہے ۔پہلے اس کی پاکدامنی تو ثابت کرو ۔پھر مجھے سزا دو۔اور اس طرح ہر عورت کی عزت خطرہ میں پڑسکتی ہے ۔پس اس کے یہ معنے نہیںکہ جب تک عورت کا پاک دامن ہونا ثابت نہ کیا جائے الزام لگانیوالے کو کوئی سزا نہیں مل سکتی بلکہ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ کے یہ معنے ہیں کہ ایسی عورتیں جن پر بد کاری کا الزام لگا یا گیا ہو ۔اگر وہ الزام شہادت سے ثابت نہیں ہوتا تو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ یقینی طور پر پا کدامن ہیں اور الزام لگانے والا کذاب اور جھوٹا ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ اسے سزا دی جائے ۔کیونکہ قاعدہ ہے کہ بارِ ثبوت مدعی پر ہوتا ہے اور رسول کریم ﷺ نے بھی یہی فرمایا ہے چونکہ الزام لگانیوالا مدعی ہوتا ہے اس لئے ثبوت لانا بھی الزام لگانے والے کا ہی کام ہے ۔عورت کا یہ کام نہیں کہ وہ اپنی پاکدامنی کا ثبوت پیش کرے ۔اگر یہ معنی نہ کئے جائیں تو جو شخص الزام لگانیوالا ہو وہ کہہ سکتا ہے کہ اگر چہ میں اتہام کا ثبوت نہیں لا سکا مگر ہے وہ درست ۔ورنہ تم ثابت کرو کہ جس پر میں نے الزام لگا یا ہے وہ محصنات میں سے ہے ۔بہر حال اتہام لگانے والا اگر شریعت کی بیان کردہ شرائط کے مطابق چار گواہ نہیں لائیگا تو وہ مجرم ہوگا اور اگر لے آئیگا تو جس پر اتہام لگا یا گیا ہو وہ مجرم ہو گا ۔چونکہ بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہو سکتاہے کہ کیونکہ قرآن کریم نے چار گواہوں کی شرط لگا ئی ہے اور کیوں دوسرے الزامات کی طرح صرف دو گواہوں پر کفایت نہیں کی اس لئے یہ بتا نا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دو کی بجائے چار گواہوں کی شرط لگانا بتا یا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قسم کے واقعات میں کثرت سے جھوٹ بو لا جاتا ہے پس اس وجہ سے زیادہ گواہوں کی شرط لگا دی گئی ہے اور پھر ایک ہی واقعہ کے متعلق چار کی شرط اس لئے لگائی کہ ایک وقت میں پانچ آدمیوں کا اکٹھا ہونا یعنی الزام لگانے والے اور چار گواہوں کا ۔یہ ایک ایسا امر ہے کہ اس کا جھوٹ آسانی سے کھولا جا سکتا ہے اور جرح میں ایسے لوگ اپنے قدم پر نہیں ٹھہر سکتے ۔کیونکہ پانچ آدمیوں کا ایک جگہ پر موجود ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جس کا اخفاء مشکل ہو تا ہے اور پانچ آدمی مل کر یہ جھوٹ بہت کم بنا سکتے ہیں کیونکہ اُن میں سے بعض کی نسبت یہ ثابت کرنا آسان ہوتا ہے کہ یہ تو اُس وقت فلا ں جگہ پر بیٹھا تھا ۔پس چونکہ زنا ایک ایسا فعل ہے جس کے لئے بیرونی دلائل نہیں ہوتے جس طرح چوری میں پہلے کسی کے گھر سے مال کا نکلنا ضروری ہے پھرکسی شخص کے پاس ا س کا موجود ہونا ضروری ہے یا قتل میں کسی کا جان سے مارا جانا ضروری ہے ۔پھر دوسرے شخص کا اُس جگہ موجود ہونا ضروری ہے اور ایسے شواہد کسی شخص کے متعلق جمع کر دینے اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتے ہیں ۔لیکن زنا کیلئے اس کی بیرونی علامات موجود نہیں ہوتیں اس لئے اس پر الزام لگانا آسان ہوتا ہے اس وجہ سے شریعت نے چوری اور قتل کیلئے تو دو گواہوں کی گواہی کو تسلیم کیا ۔لیکن بدکاری کے الزام کے متعلق چار گواہوں کی شرط لگائی اور الزام لگانے والوں سے ہمدردی کو بھی سخت جرم قراردیا اور الزام سنتے ہی اسکو جھوٹا قرار دینے کی نصیحت کی ۔
دوسر ی صورت انسان کے مجرم ہونے کی یہ ہے کہ وہ خواہ اقرار کرے ۔مگر حدیثوں سے پتہ لگتا ہے کہ وہ بھی قاضی کے سامنے اپنے متعلق چار دفعہ گواہی دیگا کہ میں نے ایسا فعل کیا ہے۔ مگر ایسی صورت میں بھی شریعت صرف اسی کو مجرم قرار دیگی عورت کو مجرم قرار نہیں دیگی۔بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ دوسرے کی نسبت الزام لگانا اور بات ہے اور اپنی نسبت الزام لگانا اور کہنا کہ میں نے ایسا فعل کیا ہے یا کسی عورت کا یہ کہنا کہ میرے ساتھ کسی دوسرے نے ایسا فعل کیا ہے بالکل اور بات ہے ۔یہ دونوں امور یکساں حیثیت رکھنے والے نہیں سمجھے جا سکتے بلکہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اپنی طرف اس الزام کی نسبت دینا کہنے والے کے تقویٰ اور اُس کی نیکی کا ثبوت ہوتا ہے ۔حالانکہ اپنی نسبت الزام لگانا تو الزام لگانے والے کی وقاحت اور بے شرمی پر دلالت کرتا ہے نہ کہ اس کے تقویٰ اور پاکیزگی پر ۔کیا یو سف علیہ السلام پر عزیز مصر کی بیوی نے اپنی ذات کے متعلق الزام نہیں لگا یا تھا ۔پھر کیا اس سے زلیخا کے تقویٰ کا ثبوت ملتا ہے یا اس کی چالبازی اور مکاری کا ثبوت ملتا ہے ۔پھر اسی طرح ایک واقعہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی ہوا ۔ایک شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! میں نے زنا کیا ہے اس پر آپ نے اس کو بلا کر اس کی پیٹھ پر ہاتھ نہیں پھیرا کہ شاباش تم نے کیسا اچھا فعل کیا ہے کہ اپنے جرم کا اقرار کیا ہے بلکہ آپ نے غصہ سے اُس کی طرف سے منہ پھیر لیا ۔اُس شخص نے دوسری طرف سے جا کر پھر یہی کہا کہ یا رسول اللہ ! میں نے زنا کیا ہے ۔لیکن پھر بھی آپ نے غصہ سے منہ پھیر لیا ۔پھر اس نے تیسری جانب سے جا کر کہا کہ یا رسول اللہ ! میں نے زنا کیا ہے مگر آ پ نے پھر بھی اس کی طرف سے منہ پھیر لیا ۔جب چوتھی دفعہ اُس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں نے زنا کیا ہے تو آپ نے فرمایا کیا تو دیوانہ ہے ۔یعنی کسی طرح ممکن ہے کہ ایک انسان اپنی ہوش میں ایسی بات کہے جو تو کہہ رہا ہے ۔اُس نے کہا یا رسول اللہ ! میں دیوانہ نہیں ہو ں ۔تب آپ نے فرمایا چونکہ اس نے چار دفعہ اپنے جرم کا اقرار کیا ہے اس لئے اب اسے سزا دیدو۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کہ رسول کریم ﷺ نے اُس کے اس اقدام کی تعریف نہیں کی بلکہ اسے دیوانگی کا فعل قرار دیا ہے ۔اور دیوانگی کا شبہ تبھی ہو سکتا ہے جبکہ یہ سمجھا جائے کہ ایک انسان ہوش و حواس میں اپنے اوپر الزام نہیں لگا سکتا ۔ورنہ اگر یہ امکان نہ ہوتا تو آپ اُسے دیوانہ کیوں قرار دیتے ۔لیکن تعجب ہے کہ اس زمانہ میں بعض لوگ اس کو فرزانگی کا فعل قرار دیتے ہیں ۔حالانکہ رسول کریم ﷺ نے اس قسم کے اقرار کو دیوانگی اور بے حیائی قرار دیا ہے ۔بہر حال اس صورت میں بھی صرف اقرار کرنے والے کوہی مجرم قرار دیا جائے گا ۔عورت کو مجرم قرار نہیں دیا جائیگا ۔عورت سے اگر ا س کا نام معلوم ہو تو بغیر قسم کے صرف اتنا سوال کیا جا ئیگا کہ آیا یہ درست کہتا ہے یا غلط اور اگر وہ کہہ دے کہ غلط کہتا ہے تو عورت کو چھوڑ دیا جائیگا ۔یہ کتنی بڑی خوبی ہے جو اسلام کے اس حکم سے ظاہر ہے ۔ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جو خود کوئی عزت نہیں رکھتا دوسروں کی عزت بر باد کرنے کیلئے جھوٹا الزام لگا دے اور کہے کہ میں نے فلاں سے ایسا فعل کیا ہے ۔اُس کی اپنی عزت تو ہوتی نہیں کہ اس کی اسے پرواہ ہو لیکن دوسروں کو بد نام کر سکتا ہے اگر اس کی اجازت دی جاتی تو کئی شریر النفس لوگ روزانہ اُٹھ کر دوسروں پر الزام لگا دیتے اور جب انہیں ملامت کی جاتی تو کہہ دیتے کہ ملامت اور غصہ کی بات نہیں میں تو خود اپنے آپ کو بھی ملزم قرار دے رہا ہوں ۔پھر میری بات ماننے میں آپ کو کیا عذر ہے ۔اگر کسی شریف انسان سے ایک بد معاشی جا کر کہہ دے کہ اُس کی بیوی سے اُس نے زنا کیا ہے تو وہ آدمی اس پر ناراض ہوگا یا اُس کی نیکی اور تقویٰ کی تعریف کرنے لگ جائے گا ۔اور اپنی بیوی کو بھی اس گناہ میں ملوث قرار دے گا ۔اس راستہ کو کھو ل کر دیکھو تو دنیا میں کسی شخص کی عزت محفوظ نہیں رہ سکتی کیونکہ دنیا میں ایسے ہزاروں بے حیاء مل سکتے ہیں جو کسی بُغض یا غصہ کی وجہ سے یا دوسروں کے کہے کہلائے صرف ایک شغل کے طور پر اپنے ساتھ دوسرے مردوں یا عورتوں کے ملوث ہونے کا اقرار کرنے کیلئے تیار ہو جائیں گے ۔چنانچہ عرب میں تشبیب کا ایک عام رواج تھا یعنی وہ اپنی بے حیائی میں کسی عورت پر الزام لگادیتے کہ میرا اس کے ساتھ ناجائز تعلق ہے اور ان کی غرض یہ نہیں ہوتی تھی کہ وہ اپنا تقویٰ ظاہر کریں بلکہ اس سے اُن کی غرض یہ ہوتی تھی کہ دوسری عورت کو بد نام کریں ۔رسول کریم ﷺ نے تشبیب کرنے والے کو واجب القتل قرار دیا ہے۔پس یہ طریق عقل کے بالکل خلاف ہے اور اس کی اجازت دینے سے فتنہ کا بڑا بھاری دروازہ کھل جاتا ہے۔اسی لئے ہماری شریعت نے ایک فریق کے اقرار سے دوسرے فریق کو مجرم قرار نہیں دیا ۔چنانچہ اس بارہ میں رسول کریم ﷺ کا ایک فیصلہ بھی احادیث سے ثابت ہے ۔
حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے پاس ا یک شخص نے آکر بیان کیا کہ فلاں شخص کا بیٹا میرے بھائی کا ہے کیونکہ میرے بھائی نے کہا تھا کہ وہ لڑکا اصل میں میرا ہے ۔رسول کریم ﷺ نے یہ سُن کر اس کی تعریف نہیں فرمائی یا یہ نہیں فرمایا کہ آئو ہم دوسرے فریق کو قسم دیں بلکہ فرمایا اَلْوَلَدُ لِلْفَرَاشِ وَلَلْعَاھِرِ الْحَجَرُ ۔یعنی بیٹا تو اسی کو ملے گا جس کی بیوی کہلاتی ہے لیکن جو شخص کہتا ہے میں نے زنا کیا ہے اُس کی سزا سنگساری ہے ۔جیسا کہ ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں کہ یہودی کتب میں یہی لکھا تھا ۔
اس واقعہ پر غور کر کے دیکھ لو ۔رسول کریم ﷺ نے اس قرارِ جرم کرنے والے کی تعریف نہیں فرمائی بلکہ اس کی مذمت کی اور فرمایا کہ اس کے اقرار کا اثر خود اُسی پر پڑے گا نہ کہ دوسرے پر ۔پس کسی کا اپنے جرم کو ظاہر کرنا یا اس کا اقرار کر لینا یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ بڑا نیک ہے کیونکہ شریعت تو گناہ کو ظاہر کرنے سے روکتی ہے ۔جب تک قاضی کے سامنے شہادت کے موقعہ پر اس کا بیان کرنا ازروئے شریعت ضروری نہ ہو ۔پس جو شخص بلاوجہ اپنی طرف بد کاریاں اور عیوب منسوب کرتا ہے اس کو تو شریعت شاہدِ عادل قرار نہیں دیتی کُجا یہ کہ اس کے اقرار کو کوئی اہمیت دی جائے ۔یا اسے اُس کے تقویٰ کا ثبوت سمجھا جائے ۔لیکن اگر کوئی شخص اقرار کرنے کی بجائے کسی دوسرے پر اتہام لگائے تو جس پر اتہام لگایا جائیگا اس سے پوچھا بھی نہیں جائے گا اور نہ اُس سے قسم یا مباہلہ کا مطالبہ کرنا جائز ہو گا ۔کیونکہ حدود میں قسم یا مباہلہ کرنا شریعت کی ہتک کرنا ہے۔اور یہی پرانے فقہاء کا مذہب ہے ۔چنانچہ امام محمد ؐ جو امام ابو حنیفہ ؒ کے بعد اُن کے قائم مقام ہوئے ۔اور جن کے متعلق علماء کایہ خیال ہے کہ امام یوسف ؒ جو حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے اوّل شاگر دتھے ۔اُن کا قول بھی فقہ میں اتنا قابلِ اعتماد نہیں جتنا امام محمدؐ کا ۔وہ اپنی کتبا المبسوط میں لکھتے ہیں ۔وَالْحُدُوْدَ لَا تَقَامُ بِالاَیْمَانِ ( المبسوط جلد ۹ ص ۵۰۲) یعنی جن امور میں حد مقرر ہے اُن میں قسموں کی ذریعہ حد قائم نہیں کی جا سکتی ۔ایسے امور کا فیصلہ بہر حال گواہوں کی گواہی پر منحصر ہوگا ۔پھر اگر کوئی الزام لگانے والا تین گواہ بھی لے آئے تو ان گواہوں کو بھی اور اتہام لگانے والے کو بھی اَسّی اَسّی کوڑوں کی سزا دی جائیگی کیونکہ انہوں نے ایک ایسی بات کہی جس کا اُن کے پاس کو شرعی ثبوت نہیں تھا ۔تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ پر جو بصرہ کے گورنر تھے بد کاری کا الزام لگا یا گیا ۔حضرت عمر ؓ نے گواہی لی تو ایک شخص نے گواہی میں خفیف سی کمزوری دکھائی اور کہا کہ میں نے زنا ایسی صورت میں نہیں دیکھا کہ مرد کا آلہ تنا سل عورت کی شرم گاہ کے اندر داخل ہو۔اس پر دوسرے تینوں گواہوں کو قذف کی حد لگائی گئی (طبری جلد ۵ ص ۲۵۲۹ تا ۲۵۳۳)اور کسی نے نہ کہا کہ تین گواہ تو موجو د ہیں ۔چوتھے نے صرف کسی قدر کمزور شہادت دی ہے ۔اس لئے کم از کم الزام لگانے والوں کو کوڑے ہی نہ لگا ئیں اور ملزم کو قسم دیکر پوچھ لیں کہ یہ بات سچ ہے یا نہیں ۔مگر اُس کو قسم تک نہ دی گئی ۔اور الزام لگانے والوں کو کوڑوں کی سزا کے علاوہ شہادت سے بھی محروم کر دیا گیا اور حضرت عمر ؓ نے اعلان فرمایا کہ ان لوگوں کی شہادت آئندہ کسی معاملہ میں قبول نہیں کی جائے گی ۔چنانچہ اُن کی شہادت پھر کبھی قبول نہیں کی جاتی تھی ۔
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ ہ
ترجمہ() سوائے اُن کے جو بعد میں تو بہ کر لیں اور اصلاح کرلیں ۔سو ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ یقینا بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنیوالاہے ۔ ۶؎
۶؎ تفسیر :
فرماتا ہے اس سزا کے بعد جو لوگ تو بہ کرلیں اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں انہیں سمجھ لینا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ یقینا بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے ۔بعض فقہاء کہتے ہیں کہ توبہ کرنے پر اللہ تعالیٰ اُن کو فاسقوں میں سے نکال دے گا ۔اور بعض کہتے ہیں کہ ساری سزا ہی معاف کر دی جائے گی اور بعض کہتے ہیں کہ صرف شہادت قبول نہ کرنے اور فاسق ہو جانے کی جو سزا تھی اس سے انہیں بچا لیا جا ئے گا ۔یعنی اگر قاضی فیصلہ کر دے کہ فلاں شخص اپنی غلطی پر سچے طور پر نادم ہے اور آئندہ کیلئے اس نے اپنی اصلاح کر لی ہے تو اجازت ہے کہ اس کی شہادت قبول کر لی جائے ۔اور خداتعالیٰ بھی اُسے فاسق ہونے سے بچالے گا۔
میرے نزدیک یہی بات درست ہے کہ بدنی سزا سے تو اُسے نہیں بچایا جائے گا ۔البتہ دوسری سزائیں اُس کی اصلاح ثابت ہونے پر معاف ہو سکتی ہیں ۔اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض گناہوں کی سزا دی جانی ضروری ہوتی ہے ۔کیونکہ تمدن کے قیام کیلئے سزا بھی ایک ضروری چیز ہے ۔لیکن اگر بندہ اس سزا کو بر داشت کر لے اور اپنے فعل پر نادم ہو تو اللہ تعالیٰ اس مقررہ سزا سے جو قیامت کے دن ملنے والی ہوتی ہے اسے محفوظ کر دیتا ہے اور اُسکی توبہ کو قبول فرما لیتا ہے لیکن اس دنیا کی سزا کو معاف نہیں کرتا ۔کیونکہ وہ بندوں کے اختیار میں ہے ۔
وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَھُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَلَوْ لَافَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ‘ وَ اَنَّ اللّٰہَ تَوَّاب’‘ حَکِیْم’‘ ہ
ترجمہ() اور جولوگ اپنی بیویوں پر الزام لگاتے ہیں اور اُن کے پاس سوائے اپنے وجود کے اور کوئی گواہ نہیں ہوتا تو اُن میں سے ہر شخص کو ایسی گواہی دینی چاہئیے جو اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر چار گواہیوں پر مشتمل ہو اور ہر گواہی میں وہ یہ کہے کہ وہ راستبازوں میں سے ہے ۔اور پانچویں گواہی میں کہے کہ اُس پر خدا کی *** ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو ۔اور وہ مظلوم بیوی جس پر اُس کا خاوند الزام لگائے اپنے نفس پر چار ایسی گواہیوں کے ذریعہ سے جو قسم کھا کر دی گئی ہوں عذاب کو دور کرے یہ کہتے ہوئے کہ وہ یعنی خاوند جھوٹا ہے ۔اور پانچویں قسم اس طرح کھائے کہ اللہ کا غضب اُس یعنی عورت پر نازل ہو اگر وہ یعنی اس کا الزام لگانیوالا خاوند سچا ہے ۔اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی اور یہ نہ ہوتا کہ اللہ بڑا فضل کرنیوالا اور بڑی حکمتوں والا ہے تو تم لوگ تباہی میں پڑ جاتے ۔۷؎
۷؎ حل لغات :
یَدْرَؤ۔دَرَأ سے مضارع کا صیغہ ہے اور دَرَأ کے معنی ہوتے ہیںدَفَعَہ‘ اس کو دُور کیا (اقرب) پس یَدْرَؤ کے معنے ہونگے وہ دور کرے گا ۔
تفسیر :
فرماتا ہے وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر بد کاری کا الزام لگاتے ہیں اور کوئی بیرونی گواہ نہیں رکھتے صرف ان کا نفس ہی گواہ ہوتا ہے اُن میں سے ہر شخص چار دفعہ حلفیہ گواہی دے کہ واقعی میں نے اپنی عورت کو بدکاری کرتے دیکھا ہے اور میں سچا ہوں اور پانچویں دفعہ یہ کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مجھ پر *** ہو ۔جب خاوند اس طرح قسم کھا چکے تو عورت بھی چار دفعہ قسم کھا کر کہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے اور پانچویں بار یہ کہے کہ اگر یہ سچا ہے تو مجھ پر خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہو ۔جب دونوں طرف سے قسمیں کھا لی جائیں توپھر ان دونوں کو جُدا کر دیا جائیگا۔یعنی خلع کا حکم دے دیا جائیگا لیکن اگر خاوند بیوی پر قذف تو کرے مگر نہ گواہ لائے نہ لعان کرے ۔تو خاوند پر حدلگے گی (یعنی اُسے اَسّی کوڑے لگیں گے ) ہا ں اگر وہ لعان کرے تو پھر وہ حد سے آزاد ہو جائیگا یعنی کوڑے کھانے سے بچ جائیگا ۔لیکن اگر بیوی بھی لعان کردے تو پھر بیوی پر زنا کا الزام ثابت نہیں ہوگا اور دونوں طرف کا معاملہ برابر سمجھا جا ئے گا یہ لعان کسی مخفی مقام پر نہیں ہوتا بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ ایسا شخص اوّل لوگوں کے مجمع میں قسم کھائے دوم کسی مقدس مقام پر قسم کھائے ۔سو م جب وہ *** کرنے لگے تو اس کو کہا جائے کہ دیکھو خوب سو چ سمجھ لو۔خدا کی *** جس شخص پر نازل ہوتی ہے اسے تباہ کی دیتی ہے ۔
پھر فرماتا ہے وَلَوْ لَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ‘ و َ اَنَّ اللّٰہَ تَوَّاب’‘ حَکِیْم’‘ ۔اگر اللہ تعالیٰ کا فضل تم پر نہ ہوتا اور اُس کی رحمت تمہاری دست گیری نہ کرتی اور وہ اس قسم کے حکموں سے تمہاری عزت نہ بچا تا تو تم تباہ ہو جاتے ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآ ئُ وْبِا لْاِفْکِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَالَّذِیْ تَوَ لّٰی کِبْرَہ‘ مِنْھُمْ لَہ‘ عَذَاب’‘ عَظِیْم’‘ ہ
ترجمہ() یقیناوہ لوگ جنہوں نے ایک بڑا اتہام باندھا تھا تمہیں میں سے ایک گروہ ہے ۔تم اس (فعل کو اپنے لئے بُرا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لئے بہت اچھا تھا کیونکہ اسکی وجہ سے ایک پُر حکمت تعلیم تم کو مل گئی) اُن میں سے ہر شخص کو اس نے جتنا گناہ کیا تھا اس کی سزا مل جائیگی اور جو شخص اس گناہ کے بڑے حصّہ کا ذمہ دار تھا اس کو بہت بڑا عذاب ملے گا ۔ ۸؎
۸؎ حل لغات :
اَلْاِفْکُ : اْلکِذْبُ یعنی افک کے معنے جھوٹ کے ہیں (اقرب)
عُصْبَۃ’‘ : جماعت کو کہتے ہیں لیکن بعض کے نزدیک تین سے دس افراد تک کی جماعت کو عُصبہ کہتے ہیں اور بعض صرف دس افراد کی جماعت کو عصبہ کہتے ہیں ۔بعض دس سے پندرہ افراد تک کی جماعت کو عصبہ کہتے ہیں ۔اور بعض کہتے ہیں کہ دس سے لے کر چالیس تک کی جماعت کو عُصبہ کہا جاتا ہے ( اقرب و فتح البیان )
تفسیر :
اس آیت میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا غزوۂ بنو مصطلق میں پیچھے رہ گئی تھیں ۔اور قافلہ چلا آیاتھا ۔اور منافقوں نے آپ پر ایک نہایت ہی گندہ اور ناپاک الزام لگا دیا تھا ۔
یہ واقعہ یوں ہے کہ رسول کریم ﷺ کی عادت تھی کہ جب آپ تشریف لے جاتے تو بالعموم امہات المومنین میں سے کسی کو ساتھ لے جاتے اُن کیلئے باری مقرر نہ تھی بلکہ آپ قرعہ ڈالتے اور جن کا نام نکلتا انہیں آپ اپنے ساتھ لے جاتے ۔غزوۂ بنو مصطلق پر جاتے وقت حضرت عائشہ ؓ کا نام نکلا اور انہیں آپ اپنے ساتھ لے گئے ۔جب واپس آئے تو مدینہ کے قریب ایک جگہ ڈیرہ لگایا گیا ۔حضرت عائشہ ؓ کورات کے وقت قضائے حاجت کی ضرورت پیش آئی اور آپ لشکر سے باہر تشریف لے گئیں ۔جب واپس آئیں تو معلوم ہوا کہ اُن کا ہار کہیں اُس جگہ گِر گیا ہے ۔چنانچہ آپ ہار کی تلاش کرنے کیلئے دوبارہ باہر تشریف لے گئیں ۔اتنے میں قافلہ کے چلنے کا وقت آگیا ۔اور چونکہ ان دنوں آپ بہت دبلی پتلی تھیں ۔قافلہ کے منتظم نے اُن کو ہودج اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا اور سمجھا کہ اندر ہی ہونگی ۔جب واپس آئیں تو قافلہ روانہ ہو چکا تھا ۔انہیں سخت پریشانی ہوئی ۔مگر پھر یہ خیال کرکے کہ جب لوگوں کو اُن کے پیچھے رہ جانے کا علم ہو گا تو وہ ضرور واپس آئیں گے آپ وہیں بیٹھ گئیں ۔مگر تھوڑی دیر کے بعد ہی آپ کو نیند آگئی اور آپ وہیں زمین پر سو گئیں ۔جب صبح ہوئی تو ایک صحابی ؓ جن کا نام صفوان بن معطل ؓ تھا اور جنہیں رسول کریم ﷺ نے اس لئے پیچھے چھوڑ دیا تھا کہ دن چڑھے دیکھ لینا کہ کوئی چیز رہ تو نہیں گئی وہ ادھر اُدھر گرے پڑے سامان کی تلاش میں وہاں سے گذرے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک عورت لیٹی ہوئی ہے ۔پاس آئے تو معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں ۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں سور ہی تھی کہ میرے کان میں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کی آواز آئی ۔ اُس وقت پردہ کا حکم نازل ہو چکا تھا ۔مگر چونکہ جنگل میں بے خبر سوئی پڑی تھیں منہ کھلا تھا اور پردہ سے پہلے اس صحابی نے آپ کو دیکھا ہو ا تھا ۔پہچان لیا اور زور سے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس آواز سے میری آنکھ کھل گئی ۔اس کے بعد حضرت صفوان ؓ نے چپکے سے قریب آکر اپنا اونٹ بٹھا دیا ۔اور حضرت عائشہ ؓ اُس پر سوار ہو گئیں ۔اور وہ صحابی ؓ اونٹ کی مہار پکڑ کر مدینہ کو چل پڑے جب مدینہ پہنچے تو عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے ساتھیوں نے مشہور کر دیا کہ حضرت عائشہ نعوذ باللہ جان بوجھ کر پیچھے رہی ہیں اور اُن کا صفوان ؓ سے تعلق تھا ۔اور یہ شور اتنا بڑھا کہ بعض صحابہ ؓ بھی نادانی سے اُن کے ساتھ مل گئے ۔جن میں سے ایک حسان بن ثابت ہیں اور دوسرے مسطح بن اثاثہ ۔اسی طرح ایک صحابیہ حمنہ بنت حجش بھی تھیں جو رسول کریم ﷺ کی سالی تھیں ۔حضرت عائشہ ؓ کو چونکہ اس حادثہ سے سخت صدمہ ہوا تھا اور وہ چھوٹی عمر میں ایک ایسے جنگل میں تن تنہا رہ گئی تھیں جہاں ہُو کا عالم تھا اس لئے وہ مدینہ پہنچ کر اس صدمہ سے بیمار ہو گئیں ۔ادھر ان کے متعلق منافقین میں کھچڑی پکتی رہی۔آخر رسول کریم ﷺ کو بھی یہ باتیں پہنچ گئیں مگر آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیماری دیکھ کر اُن سے دریافت نہیں فرما سکتے تھے۔ادھر دن بدن باتیں زیادہ بڑھتی جاتی تھیں ۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں یہ دیکھ کر حیران ہوتی کہ رسول کریم ﷺ گھر میں تشریف لاتے تو آپ کا چہرہ اُترا ہوا ہوتا اور مجھ سے کوئی بات نہ کرتے ۔دوسروں سے حال پوچھتے اور چلے جاتے ۔اسی دوران میں آپ رسول کریم ﷺ سے اجازت لے کر اپنے والدین کے ہاں تشریف لے گئیں ۔ایک دفعہ قضائے حاجت کیلئے ایک اور عورت کے ساتھ جو اُن کی رشتہ دار تھیں با ہر گئیں ( اُس وقت تک پاخانے ابھی تک گھروں میں نہیں بنے تھے ) جوعورت اُن کے ساتھ تھی اُس نے اپنے بیٹے مسطح کا نام لے کر کہا کہ اُس کا بُرا ہو ۔حضرت عائشہ ؓ نے کہا ۔ایسا کیوں کہتی ہو ۔اُس نے کہا ایسا کیوںنہ کہوں آپ کو نہیں پتہ ۔وہ تو اِس اِس قسم کی باتیں کرتا ہے معلوم ہوتا ہے وہ عورت کوئی موقعہ نکالنا چاہتی تھی کہ بات کہے۔جب حضرت عائشہ ؓ نے اس یہ بات سُنی تو انہیں سخت صدمہ ہو ا۔وہ جوں توں کرکے گھرتو پہنچیں مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیمار ی کا پھر زور ہو گیا ۔انہوں نے کہا کہ لوگوں میں اس اِ س طرح بات مشہور ہو رہی ہے ۔اس پر اُنکی والدہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا ۔کیا ہوا جہاں سو کنیں ہوتی ہیں وہاں اس قسم کی باتیں ہوا ہی کرتی ہیں ۔تجھے اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئیے ۔لیکن حضرت عائشہ ؓ کو اس قدر صدمہ ہوا کہ رونے لگ گئیں اور صبح تک اُن کی آنکھ نہ لگی ۔دن چڑھا تو پھر رونے لگ گئیں اور دوپہر تک یہی حالت رہی ۔رسول کریم ﷺ تشریف لائے اور حال پوچھ کر باہر چلے گئے ۔باہر جا کر آپ نے حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ اور اسامہ بن زید ؓ کو بلا کر مشورہ لیا کہ کیا کرنا چاہئیے ۔حضرت عمر ؓ اور اسامہ بن زید ؓ دونوں نے کہا یہ منافقوں کی پھیلائی ہوئی بات ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں ۔لیکن حضرت علی ؓ کی طبیعت تیز تھی انہوں نے کہا بات کوئی ہو یا نہ ہو آپ کو ایسی عورت سے جس پر اتہام لگ چکا ہے تعلق رکھنے کی کیا ضرورت ہے ۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آپ اُن کی لونڈی سے پوچھ لیں ۔اگر کوئی بات ہوئی تو بتا دے گی ۔رسول کریم ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی لونڈی بریرہ سے پوچھا کہ کیا تجھے عائشہ ؓ کا کوئی عیب معلوم ہے ۔اُس نے کہا میں نے عائشہ ؓ کا سوائے اس کے اور کوئی عیب نہیں دیکھا کہ کم سنی کی وجہ سے وہ سو جاتی ہیں اور بکری آکر آٹا کھا جاتی ہے ۔پھر رسول کریم ﷺ باہر تشریف لے گئے اور صحابہ ؓ کو جمع کیا اور فرمایا ۔کوئی ہے جو مجھے اس شخص سے بچائے جس نے مجھے دُکھ دیا ۔اس سے آپ کی مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول سے تھی ۔حضرت سعد بن معاذ ؓ جو اوس قبیلہ کے سردار تھے کھڑے ہوئے ۔اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ اگر وہ شخص ہم میں سے ہے تو ہم ا سکو مارنے کیلئے تیار ہیں ۔اور اگر وہ خزرج میں سے ہے تب بھی اس کو مارنے کیلئے تیار ہیں ۔شیطان جو فتنہ ڈالوانے کیلئے موقعہ کی تلاش میں رہتا ہے ۔اس موقعہ پر بھی نہ چونکا ۔خزرج کو یہ خیال نہ آیا کہ رسول کریم ﷺ کو اس بات سے کتنا صدمہ پہنچا ہے ۔انہوں نے اس کو قومیت کا سوال بنا لیا چنانچہ سعد بن عبادہ ؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے سعد بن معاذ ؓ سے کہا کہ تم ہمارے آدمی کو نہیں مار سکتے اور نہ تمہاری طاقت ہے کہ ایسا کر سکو ۔اس مقابلہ میں دوسرے صحابی اٹھے اور انہوں نے کہا ہم اُسے مار ڈالیں گے اور دیکھیں گے کہ کون اسے بچاتا ہے اب بجائے اس کے کہ یہ مقابلہ باتوں تک ہی رہتا اوس اور خزرج نے میانوں سے تلواریں نکالنی شروع کر دیں اور رسو ل کریم ﷺ نے بڑی مشکل سے اُن کو ٹھنڈا کیا ۔اوس کہتے تھے کہ جس شخص نے رسول کریم ﷺ کو دُکھ دیا ہے اُس کو ہم مار ڈالیں گے اور خزرج کہتے تھے کہ تم یہ بات اخلاص سے نہیں کہتے۔چونکہ تم جانتے ہو کہ وہ ہم میں سے ہے اس لئے یہ بات کہتے ہو ۔ان دونوں کو رسول کریم ﷺ سے محبت تھی ۔مگر شیطان نے اُن میں فتنہ پیدا کر دیا ۔اُس وقت کی حالت کے متعلق ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ کیسی دردناک ہو گی ۔ادھر رسول کریم ﷺ کو اتنی ایذاء پہنچ رہی تھی اور ادھر مسلمانوں میں تلوار چلنے تک نو بت پہنچ گئی ۔
رسول کریم ﷺ اُن کو ٹھنڈا کرکے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ حضرت عائشہ ؓ رورہی ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو بات لوگوں میں مشہور ہو رہی ہے تم نے سُنی ہے ۔انہوں نے کہا ہاں سُنی ہے ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا دیکھو انسان سے گناہ ہو جاتا ہے ۔اگر تم سے غلطی ہو گئی ہو تو توبہ کرلو ۔اور اگر نہیں ہوئی تو خدا تمہاری برأت کر دے گا ۔حضرت عائشہ ؓ نے اپنے باپ حضرت ابوبکر ؓ کی طرف دیکھا اور کہا کہ آپ اس کا جواب دیں ۔انہوں نے کہا مجھے تو اس کا کوئی جواب نہیں آتا ۔پھر انہوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ اس کا جواب دیں ۔انہوں نے کہا کہ میں کوئی جواب نہیں دے سکتی ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ جواب سن کر مجھ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ میرے آنسو جو بہ رہے تھے یکدم تھم گئے اور میں نے بڑے جوش سے کہا کہ وہ بات جو مشہور ہو رہی ہے اس کے متعلق اگر میں یہ کہتی ہوں کہ غلط ہے تو آپ مانیں گے نہیں ۔اور اگر کہتی ہوں کہ سچ ہے تو یہ جھوٹ ہے اس لئے میں اور تو کچھ نہیں کہتی وہی کہتی ہوں جو حضرت یوسف ؑ کے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا تھا کہ فَصَبْر’‘ جَمِیْل’‘ وَ اللّٰہُ الْمُسْتَعَانَ ۔ یہ کہہ کر میں وہاں سے اٹھی اور اپنے بستر پر آگئی ۔اتنے میں رسول کریم ﷺ پر وحی کی حالت طاری ہوئی اور آپ پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ اِنَّ الَّذِیْنَ جَآئُ وْبِالْاِفْکِ عُصْبَۃ’‘ مِّنْکُمْ لَا تَحْسَبُوْ ہُ شَرًا لَّکُمْ بَلْ ھُوَ خَیْر’‘ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِیئٍ مِّنْھُمْ مَّااکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہ‘ مِنْھُمْ لَہ‘ عَذَاب’‘ عَظِیْم’‘ ۔یعنی وہ لوگ جنہوں نے ایک خطرناک جھوٹ بولا ہے وہ تمہی میں سے ایک گروہ ہے ۔مگر تم اُس کت اس الزام کو اپنے لئے کسی خرابی کا موجب نہ سمجھو بلکہ خیر کا موجب سمجھو کیونکہ اس الزام کی وجہ سے جھوٹا الزام لگانے والوں کی سزائوں کا جلدی ذکر ہو گیا اور تمہیں ایک پُر حکمت تعلیم مل گئی ۔اور یقینا اُن میں سے ہر شخص اپنے اپنے گناہ کے مطابق سزا پائیگا اور جو شخص اس گناہ کے بڑے حصّے کا ذمہ دار ہے اُس کو بہت بڑا عذاب ملے گا ۔جب رسول کریم ﷺ پر یہ وحی نازل ہوئی تو آپ کا چہرہ روشن ہو گیا اور آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا اے عائشہ ؓ خدا نے تمہیں اس الزام سے بری قرار دے دیا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ نے یہ بات سُنی تو انہوں نے کہا ۔عائشہ ؓ رسول کریم ﷺ کا شکریہ ادا کرو ۔انہوں نے کہا میں تو اسی خدا کا شکر ادا کروں گی جس نے مجھے اس الزام سے بری قرار دیا ہے ۔( سیرۃ الحلبیہ جلد ۲ ص ۳۰۸ تا ۳۱۴ )
لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤ مِنُوْنَ وَالْمُؤمِنٰتُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَاُولٰٓئِکَ عِنْدَ اللّٰہِ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَ ہ
ترجمہ () جب تم نے یہ بات سُنی تھی تو کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنی قوم کے متعلق نیک گمان کیا اور یہ کہہ دیا کہ یہ تو ایک بہت بڑا جھوٹ ہے ؟ اور کیونہ نہ وہ لوگ ( جنہوں نے یہ جھوٹ پھیلا یا تھا ) اس پر چار گواہ لائے ؟ پس جب کہ وہ گواہ نہیں لائے تو اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق وہ جھوٹے ہیں ۔ ۹؎
۹؎ تفسیر :
فرماتا ہے کہ خدائی حکم تو احسان کے طور پر نازل ہوگیا ۔مگر تمہارا اپنا قومی فرض تھا کہ جب تم نے اس قسم کی بے بنیاد بات سُنی تھی تو تم فوراً کہہ دیتے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایسی نہیں ہو سکتیں ۔یہ محض جھوٹ ہے اگر الزام لگا نے والے سچے تھے تو وہ چار گواہ کیوں نہ لائے۔حضرت عائشہ ؓ تو غلطی سے پیچھے رہ گئی تھیں اور صفوان ؓ کو جنگی انتظام کے ماتحت پیچھے چھوڑا گیا تھا ۔پھر بغیر کسی گواہ کی موجودگی کے ایسا اتہام لگانا سوائے جھوٹوں اور کذابوں کے اور کس کا کام ہو سکتا ہے ۔پس آئندہ کیلئے یہ قانون یاد رکھو کہ جو لوگ چار گواہ نہیں لائیں گے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت جھوٹے سمجھے جائیں گے۔اگر کوئی شخص کسی کو ایسا فعل کرتے دیکھتا ہے مگر گواہ نہیں رکھتا تو خواہ وہ اپنے آپ کو کتنا بھی سچا قرار دے اور بیت اللہ میں کھڑے ہو کر قسم کھائے تب بھی خداتعالیٰ کے حکم اور اُس کے قانون کے مطابق وہ چار گواہ نہ لا سکنے کی وجہ سے جھوٹا اور کذاب ہی ہوگا ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی کا حق نہیں کہ ایسے شخص کی نسبت جو گواہ نہیں لا سکتا کہے کہ ممکن ہے وہ سچا ہی ہو ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ہم اس کو جھوٹا قرار دیتے ہیںاور جب خدا اسے جھوٹا قرار دیتا ہے تو کسی اور کا کیا حق ہے کہ اُسے سچا قرار دے ۔
اس آیت سے اصولی طور پر یہ امر مستنبط ہوتا ہے کہ اگر کسی کے متعلق کوئی بُری بات سُنی جائے تو مومن کا پہلا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ نیک ظنی کو کبھی ترک نہ کرے۔کیونکہ اگر وہ بُرائی بعد میں دوسرے میں ثابت بھی ہو جائے ۔تب بھی اُسے نیک ظنی کا ثواب مل جائیگا ۔اور اگر ثابت نہ ہو تو انسان بدظنی کرکے دوہرا مجرم قرار پائیگا ایک تو اس لحاظ سے کہ اس نے بدظنی کی اور دوسرے اس لحاظ سے کہ ایک بے گناہ پر الزام لگاکر اُس نے شریعت کی بے حرمتی کی ۔شریعت کہتی ہے کہ جس شخص کے متعلق کوئی بُری بات تمہارے پاس بیان کی جائے تم ہمیشہ اس کے متعلق حسنِ ظن رکھو اور بری بات کہنے والے کو جھوٹا سمجھو کیونکہ اس نے دوسرے کی عزت پر حملہ کیا ہے ۔اگر زید تمہارے پاس ایک شخص کی بُرائی بیان کرتا ہے اور تم زید کی بات سُن کر اس پر فوراً یقین کر لیتے ہو اور جس کے متعلق کوئی بات کہی گئی ہو اس کو مجرم سمجھنے لگ جاتے ہو تو تم بدظنی کا ارتکاب کرتے ہو ۔اور اگر وہ عیب ایسا ہے جس کے لئے شریعت نے گواہی کا کوئی خاص طریق مقرر کیا ہو اہے تو نہ صرف عیب لگانے والا شریعت کا مجرم بنتا ہے بلکہ جو اس کی ہاں میں ہاں ملاتا اور اُس کی تائید کرتا ہے وہ بھی مجرم ہے ۔ایسے مواقع پر شریعت کی یہی ہدایت ہے کہ جسکا جرم بیان کیا جاتا ہے اسے بری سمجھوائو جو کسی کا عیب بیان کرتا ہے اس کا جرم چونکہ ثابت ہے اُسے کبھی سچا قرار نہ دو ۔
وَ لَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہ‘ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَاللّٰہُ عَلِیْم’‘ حَکِیْم’‘ ہ
ترجمہ() اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت تم پر دنیا اور آخرت میں نہ ہوتے تو تم کو اس کام کی وجہ سے جس میں تم پڑگئے تھے بہت بڑا عذاب پہنچتا۔اس وجہ سے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی زبان سے اس جھوٹ کو سیکھنے لگ گئے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہنے لگ گئے جس کا تم کو کوئی علم نہیں تھا ( خدا تم پر ناراض ہوا ) اور تم اس بات کو معمولی سمجھتے تھے حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی تھی ۔اور کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اس بات کو سُنا تھا تو فوراً کہہ دیا کہ یہ ہمارا کام نہیں کہ ہم اس بات کو آگے دوہرائیں ۔اے خدا تو پاک ہے یہ بہت بڑا بہتان ہے ۔اللہ تعالیٰ تم کو اس قسم کی بات کے دوبارہ کرنے سے ہمیشہ کیلئے روکتا ہے اگر تم مومن ہو ۔اور اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنے احکام بیان کرتا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ بہت جاننے والا حکمت والا ہے ۔ ۱۰ ؎
۱۰ ؎ حل لغات :
اَفَضْتُمْ ۔ اَفَاضَ سے جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور اَفَا ضَ الْقَوْمُ فِی الْحَدِیْثِ کے معنے ہوتے ہیں لوگ باتوں میں لگ گئے ( اقرب) پس اَفَضْتُمْ فِیْہِ کے معنے ہونگے جس کے بارہ میں تم باتوں میں لگ گئے تھے ۔
تَلَقَّوْنَہ‘ ۔تَلَقّٰی سے جمع مخاطب کا صیغہ ہے ۔اور تَلَقّٰی الشَّیْ ئَ مِنْہُ کے معنے ہوتے ہیں تَلَقَّنَہ‘ اُس سے کسی بات کو سیکھا اور قبول کیا ( اقرب )پس تَلَقَّوْنَہ‘ کے معنے ہونگے تم اس کو سیکھتے تھے ۔
ھَیِّن’‘ : کہتے ہیں ھَانَ الْاَمْرُ عَلیٰ فُلَانٍ اور معنے ہوتے ہیں کہ سَھُدَ یعنی یہ بات فلاں پر آسان ہوگئی ( اقرب)پس ھَیِّن’‘ کے معنی ہونگے معمولی اور آسان بات۔
تفسیر :
فرماتا ہے کہ اس طرح اُن لوگوں پر الزام لگانا جو قوم کیلئے اپنی جانیں دینے کیلئے نکلتے ہیں نہایت خطرناک گناہ ہے ۔اور اگر اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں مسلمانوں کو بچانا نہ چاہتا تو اس گناہ کے بدلہ میں تمہیں بڑی سخت سزا ملتی ۔جبکہ تم دوسروں سے ایک بات سُن کر اپنی زبانوں سے دہراتے چلے جاتے تھے ۔اور ایسی باتوں کا چرچا کرتے تھے جن کا تمہیں کوئی علم نہیں تھا ۔او رقومی خادموں کے متعلق ایسی باتیں کہنا آسان سمجھتے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت بڑا جرم تھا ۔
اور کیوں ایسا نہ ہوا کہ جس وقت یہ بہتان تم نے سُنا تھا تو تم نے فوراً کہد یا ہوتا کہ ہمیں زیبا نہیں کہ ہم ایسی بات منہ سے نکالیں۔جس نے یہ بات بیان کی ہے وہ گواہ لائے اور اس الزام کو ثابت کرے ۔ہمارا اس سے کیا تعلق ہے کہ ہم سُنیں اور دوسروں کو سُنائیں۔یہ ایک بہت بڑا بہتا ن ہے جو دوسرے پر لگا یا جارہا ہے ۔اللہ تعالیٰ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو ایسی بات پھر کبھی منہ سے نہ نکالنا ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَاِنَّ اللّٰہَ رَئُ وْف’‘ رَّحِیْم’‘ ہ
ترجمہ() یقینا جو لوگ چاہتے ہیں کہ مومنوں میں بدی پھیل جائے اُن کیلئے بڑا دردناک عذاب ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم تم پر نہ ہوتا اور اگر اللہ تعالیٰ بہت مہربان اور با ر بار رحم کرنیوالا نہ ہوتا تو تم دکھ میں پڑ جاتے ۔ ۱۱؎
۱۱ ؎ حل لغات :
تَشِیْعَ : شَاعَ الْخَبَرُ ( یَشِیْعُ) کے معنے ہوتے ہیں ذَاعَ وَفَشَا ۔خبر پھیل گئی ( اقرب) پس اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃَ کے معنے ہوں گے کہ بدی پھیل گئی ۔
اَلْفَاحِشَۃَ : اَلزِّنٰی فاحشہ کے معنے ہوتے ہیں زنا مَا یَشْتَدُّ قُبْحُہ‘ مِنَ الذُّنُوْبِ ۔وہ گناہ جس کی برائی بہت سخت ہو ۔وَقِیْلَ کُلُّ مَانَھَی اللّٰہُ عَنْہ‘ اور بعض کے نزدیک فاحشہ کے معنے ہر اس امر کے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ( اقرب)
تفسیر :
فرماتا ہے ۔ایسی باتیں کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ فحش پر دلیر ہو جاتے ہیں ۔کیونکہ جب نوجوان سنتے ہیں کہ ہمارے بڑے بھی ایسے کام کر لیتے ہیں تو وہ بھی ایسے کام کرنے لگ جاتے ہیں ۔پس اس جر م پر جو سخت سز ا تجویز کی گئی ہے تو وہ صرف فرد کی عزت کی حفاظت کیلئے نہیں بلکہ قوم کی عزت اور اس کے اخلاق کی حفاظت کیلئے ہے ۔اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اس قسم کی باتیں کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق ہو جاتا ہے مگر بہت ہیں جو ایسی باتیں سنتے ہیں اور سنتے ہی نہیں آگے پہنچاتے ہیں ۔اور جب پوچھا جائے تو کہہ دیتے ہیں کہ یونہی بات منہ سے نکل گئی تھی حالانکہ اللہ تعالیٰ واضح طور پر فرماتا ہے کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بنا دیتی ہے ۔پس اس بہت بڑے گناہ سے بچو اور کوشش کرو کہ کبھی تمہارے منہ سے کسی کے متعلق ایسی بات نہ نکلے ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے علم النفس کا ایک ایسا نکتہ بیان کیا ہے جو قرآن کریم کے کلام الہٰی ہونے کا ایک زبر دست ثبوت ہے۔کیونکہ علم النفس کی تحقیق پہلے زمانہ میں نہیں ہوئی تھی یہ تحقیق انیسویں صدی میں شروع ہوئی اور اب بیسویں صدی میں اس نے ایک علم کی صورت اختیار کی ہے ۔وہ مسٔلہ جو قرآن کریم نے ان آیات میں بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ بری باتوں کا مجالس میں تذکرہ نہیں کرنا چاہئیے ورنہ وہی برائیاں لوگوں میں کثرت کے ساتھ پھیل جائیں گی ۔بے شک دنیا میں لوگ کثرت سے ڈاکہ اور چوری وغیرہ برے افعال سے نفرت کرتے ہیں لیکن باوجود اس کے میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان کا ذکر لوگوں میں کثرت سے ہونے لگے تو تھوڑے ہی دنوں میں تم دیکھو گے کہ ڈاکہ کی وارداتیں زیادہ ہونے لگی ہیں ۔جیسے گجرات ، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ وغیرہ اضلاع میں کئی بڑے بڑے شریف نمازی اور تہجد گذار کہلانے والے دوسرے کی بھینس کھول کر گھر لے آئیں گے ۔اور اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں کریں گے کہ انہوں نے کوئی برا کام کیا ہے ۔میرے ایک دفعہ گھوڑے چوری ہو گئے تو ایک احمدی نے جو پہلے چوروں کے ساتھ مل کر چوریاں کیا کرتے تھے مجھے کہلا بھیجا کہ آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم سارے علاقہ کو سیدھا کر دیتے ہیں ۔میں نے پیغامبر کو جواب دیا کہ اُن سے کہہ دینا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں توبہ کی توفیق عطا فرمائی ہے ۔اب یہی بہتر ہے کہ آپ اپنی توبہ پر قائم رہیں اور اس کو توڑنے کی کوشش نہ کریں ۔اللہ تعالیٰ مجھے اور گھوڑے دے دیگا ۔
غرض بعض علاقوں میں جانوروں کی چوری کی اتنی کثرت ہے کہ اسے اعلیٰ درجہ کا بہادری کا فن سمجھا جاتا ہے مثلاً گجرات کے علاقہ میں ہی بعض اقوام میں پہلے یہ رواج ہوا کرتا تھا گو غالباً اب نہیں کہ بیٹے کو پگڑی نہیں پہناتے تھے جب تک وہ ایک چوری کی بھینس اپنی بہن کو لا کر نہ دیتا تھا ۔لڑکا جب جوان ہوجاتا اور پگڑی اس کے سر پر نہ ہوتی تو اپنے رشتہ دار اسے طعنے دیتے اور کہتے بے حیا اتنا بڑا ہو گیا ہے مگر اب تک اس سے اتنا بھی نہیں ہو سکا کہ ایک بھینس چُرا کر اپنی بھین کو لا دیاور اپنے سر پر پگڑی بند ھوائے ۔ا س طرح ہر نوجوان کو چوری پر مجبور کیا جاتا اور وہ بڑا ہو کر جانوروں کا چور بنتا ۔ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست جواَب مخلص احمدی ہیں جب شروع شروع میں آئے تو اُن کا ایک لڑکا اُن کے ساتھ تھا جس کے سر پر پگڑی نہیں تھی حضرت ام المومنین ؓ نے گھر میں اُنکی اہلیہ سے دریافت کیا کہ اس بچے کے سر پر پگڑی کیوں نہیں ۔تو اُس نے بتا یا کہ جب یہ کسی کی بھینس چُرا کر اپنی بہن کو لادیگا تب اس کے سر پر پگڑی باندھی جائیگی ۔کیونکہ یہ ہمارے علاقہ کا دستور ہے ۔گو وہ دوست ہمیشہ یہ واقعہ سُنکر شرمندہ ہوا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بات نہیں تھی ۔میرے گھر والوں نے صرف ہنسی سے ایسا ذکر کیا تھا ۔مگر بہر حال اُنکے علاقہ میں یہ رواج تو تھا ۔تبھی اُن کی اہلیہ نے اس کا ذکر کیا یہی بات ایک دفعہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے سُنی تو اس کا اُن پر اتنا اثر ہوا کہ ایک دفعہ جبکہ مجلس میں بعض اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔بر سبیل تذکرہ وہ کہنے لگے کہ گجرات کا ہر شخص چور ہوتا ہے۔میرے ذہن میں اس وقت یہ واقعہ نہیں تھا میں نے کہا یہ صحیح نہیں ہر علاقہ میں نیک لوگ بھی ہوتے ہیں ۔کہنے لگے نہیں گجرات کا ہر شخص چور ہوتا ہے ۔میں نے کہا میر صاحب آپ کی یہ بات درست نہیں ۔ہماری جماعت میں بھی اس علاقہ کے لوگ شامل ہیں اور وہ بڑے نیک ہیں وہ میری اس بات پر بھی کہنے لگے ۔خواہ کچھ ہو چور ضرور ہونگے ۔میرا ذہن اس وقت تک بھی اس قصہ کی طرف نہیں اور میں نے چند دوستوں کے نام لئے کہ دیکھیں فلا ں دوست کیسے نیک ہیں ۔فلاں دوست کیسے نیک ہیں ۔وہ کہنے لگے اگر وہ گجرات کے ہیں تو ضرور چو ر ہونگے ۔اس دوران میں چونکہ ایک مذاق کی صورت پیدا ہو گئی تھی ۔اس لئے میں نے نام لے کر کہا کہ حافظ روشن علی ؓ صاحب بھی گجرات کے علاقہ کے ہیں۔کیا وہ بھی چور ہیں ۔میرے اس جواب پر میر صاحب کہنے لگے ۔حافظ روشن علی صاحب گجرات کے ہیں ؟ میں نے کہا ہاں ! اس پر وہ پہلے تو وہ بھی چو ر ہونگے ۔آخر میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ اتنے وثوق سے یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہاں تود ستورہے کہ بچہ کے سرپر اُس وقت تک پگڑی نہیں باندھتے جب تک وہ ایک بھینس چُرا کر اپنی بہن کو نہ دے۔
اب یہ رسم جو ان علاقوں میں ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ ان اضلاع میں چونکہ ہر وقت جانوروں کی چوری کا ذکر ہوتا رہتا ہے اس لئے سارے علاقہ میں چوری کا رواج ہوگیا ۔یو ں اگر وہ سُنیں کہ کسی نے دوسرے کا روپیہ اُٹھا لیا ہے تو وہ بھی برا مناتے ہیں لیکن جانوروں کی چوری کے ذکر پر اُن کے دلوں میں کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اس کا ذکر اُن میں عام ہے ۔اور جس بدی کا ذکر عام ہو جائے وہ قوم کے افراد میں پھیل جاتی ہے ۔اسی طرح پٹھانوں میں قتل کا رواج ہے اور وہ اسے کوئی عیب نہیں سمجھتے کیونکہ ہر وقت ان میں قتل کا چرچا رہتا ہے۔مشہور ہے کہ کسی پٹھان کا لڑکا ایک ہندو سے پڑھتا تھا ۔ایک دن اُستاد کسی بات پر نارا ض ہوا تو لڑکے نے تلوار اُٹھالی اور چاہا کہ اُسے قتل کر دے ۔وہ ہندو آگے آگے بھاگا اور لڑکا پیچھے پیچھے ۔وہ بھاگتا جارہا تھا کہ راستہ میں اس لڑکے کا باپ مل گیا ۔اُس نے یہ سمجھتے ہوئے کہ باپ اسے روک لیگا کہاخاں صاحب دیکھئیے آپ کا لڑکا مجھے قتل کرنا چاہتا ہے ۔اسے روکئے ۔اب خاں صاحب بجائے اس کے کہ اپنے لڑکے کو روکتے۔اس ہندو کو گالی دے کر کہنے لگے ۔اوبنیئے ۔کیا کر رہا ہے ۔میرے بیٹے کا یہ پہلا وار ہے خالی نہ جائے ۔غرض جب اشاعتِ فحش ہو اور بدی کا ذکر عام طور پر لوگوں کی زبان پر ہو ۔تو وہ بدی قوم میں پھیل جاتی ہے ۔اسی لئے ہماری شریعت نے عیوب کا عام تذکرہ ممنوع قرار دیا ہے۔اور فرمایا ہے کہ جو اولی الامر ہیں اُن تک بات پہنچا دو اور خود خاموش رہو ۔اگر ایسا نہ کیا جائے اور ہر شخص کو یہ اجازت ہو کہ وہ دوسرے کا جو عیب بھی سُنے اُسے بیان کرتا پھرے ۔تو اُس کے نتیجہ میں قلوب میں سے بدی کا احساس مٹ جاتا ہے اور بُرائی پر دلیری پیدا ہو جاتی ہے ۔پس اسلام نے بدی کی اس جڑ کو مٹایا ۔اور حکم دیا کہ تمہیں جب کوئی برائی معلوم ہو تو اولی الامر کے پاس معاملہ پہنچا ؤ جو سزا دینے کا بھی اختیار رکھتے ہیں ۔اور تربیت نفوس اور اصلاح ِ قلب کیلئے اور تدابیر بھی اختیار کر سکتے ہیں ۔اس طرح بدی کی تشہیر نہیں ہو گی ۔قوم کو کیر یکٹر محفوظ رہے گا اور لوگوں کی اصلاح بھی ہو جائیگی پس یاد رکھو کہ نیکی کی تشہیر اور بدی کا اخفاء یہ کوئی معمولی بات نہیں ۔بلکہ قومیں اس سے بنتی اور قومیں اس کی خلاف ورزی سے بگڑتی ہیں ۔جتنا تم اس بات کا زیادہ ذکر کرو گے کہ فلاں اتنی قربانی کرتا ہے ۔فلاں اس طرح نمازیں پڑھتا ہے ۔فلاں اس اہتمام سے روزے رکھتا ہے اتنا ہی لوگوں کے دلوں میں دین کیلئے قربانی کرنے اور نمازیں پڑھنے اور روزے رکھنے کی خواہش پیدا ہو گی اور جتنی تم اس بات کو شہرت دو گے کہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں وہ خیانت کرتے ہیں ۔وہ چوری کرتے ہیں ۔وہ ظلم کرتے ہیں اتناہی لوگوں کے دلوں میں اُن بدیوں کی طرف رغبت پیدا ہوگی اسی لئے قرآن کریم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ جب تم کسی کی نیکی دیکھو تو اُسے خوب پھیلائو اور جب کسی کی بدی دیکھو اس پر پر دہ ڈالو ۔ایک بلی بھی جب پاخانہ کرتی ہے تو اُس پر مٹی ڈال دیتی ہے ۔پھر انسان کیلئے کس قدر ضروری ہے کہ وہ بدی کی تشہیر نہ کرے بلکہ اُس پر پردہ ڈالے اور اس کے ذکر سے اپنے آپ کو روکے ۔اگر اس ذکر سے اپنے آپ کو نہیں روکا جائیگا تو متعدی امراض کی طرح وہ بدی قوم کے دوسرے افراد میں بھی سرأت کر جائے گی ۔اور خود اس کا خاندان تو لازماً اس میں مبتلا ہو جا ئیگا ۔کیونکہ انسان کا قاعدہ ہے کہ جو چیز کثرت سے اُس کے سامنے آئے وہ اس کی نظر میں حقیر ہو جاتی ہے اور جس بات کے متعلق یہ عام چرچا ہو کہ لوگ کثرت سے کرتے ہیں وہ بالکل معمولی سمجھی جاتی ہے ۔ا س اصول کے ماتحت جو بات لوگوں میں عام طورپر پھیلائی جائے اس کا لوگوں پر یہ اثرپڑتا ہے کہ معمولی بات ہے۔اور جب اس قسم کے الزام کثرت سے لگائے جائیں اور لوگ اُن کے پھیلانے میں کسی کی عزت کی پرواہ نہ کریں تو لازماً وہ ان باتوں کو معمولی سمجھیں گے اور جب معمولی سمجھیں گے تو اُن کا ارتکاب بھی اُن کیلئے معمولی بات ہو گی ۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے اور اس قسم کی افواہوں کو نہیں روکو گے تو تمہاری قوم ان کو معمولی سمجھنے لگے گی ۔اور جب معمولی سمجھے گی تو اس کا ارتکاب بھی کثرت سے کرے گی ۔اس لئے ایسی باتوں کو پھیلنے ہی نہ دو ۔اسی نکتہ کی طرف رسول کریم ﷺ نے بھی ان الفاظ میں توجہ دلائی ہے کہ مَنْ قَالَ ھَلَکَ الْقَوْمُ فَھُوَ اَھْلَکَھُمْ۔یعنی جس شخص نے یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ ہماری قوم تباہ ہو گئی وہ اپنی قوم کو تباہ کرنے والا ہے ۔
بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ دھوکا کھایا ہے کہ کسی شخص کے یہ کہنے سے کہ قوم ہلاک ہوگئی ۔ساری کی ساری قوم کس طرح ہلاک ہو سکتی ہے اور چونکہ یہ بات اُن کی سمجھ میں نہیں آئی اس لئے وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں اَھْلَکَھُمْْ ْ کا لفظ نہیں بلکہ اَھْلَکُھُمْ کا لفظ ہے یعنی وہ شخص سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے۔حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے قومی نفسیات کو سمجھا ہی نہیں ۔یہ کہہ دینا کہ جو شخص کہتا ہے قوم ہلاک ہوگئی وہ سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے ۔اول تو بعض حالتوں میں درست ہی نہیں اور پھر یہ صحیح بھی نہیں کہ ان الفاظ کی وجہ سے وہ سب سے زیادہ ہلاک ہونے بن جاتا ہے ۔درحقیقت ان لوگوں نے اس بات کو نہیں سمجھا کہ جب کسی قوم میں مایوسی پیدا کر دی جائے تو وہ بڑے بڑے کام کرنے سے ہمیشہ کیلئے محروم ہو جاتی ہے ۔کبھی کسی قوم کا دانا اور سمجھدار لیڈر ایسا نہیں ہو سکتا جو اُس کو مایوس کر دے اور آئندہ ترقیات کے متعلق اس کے دل میں نا امیدی پیدا کر دے ۔کیونکہ جب کسی قوم کو مایوس کر دیا جائے تو وہ تباہ ہونی شروع ہو جاتی ہے ۔چنانچہ دیکھ لو مسلمانوں میں جب یہ خیال پیدا ہوا کہ قرآن کریم کی تفاسیر جو لوگ پہلے لکھ چکے ہیں اُن سے زیادہ اب کچھ نہیں لکھا جا سکتا تو مسلمانوں میں اُسی وقت تنزل پیدا ہونا شروع ہو گیا۔اُنکی معرفت جاتی رہی اور وہ آسمانی علوم سے اس قدر محروم ہو گئے کہ اس زمانہ میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے قرآن کریم کے نئے نئے معارف بیان کرنے شروع کر دئیے اور پھر ہمارے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے عجیب و غریب اسرار کھولے تو مسلمانوں نے کہنا شروع کرد یا کہ یہ تفسیر بالرائے ہے ۔گویا انہیں معرفت کی باتوں سے اتنی دوری ہوگئی کہ اسلام کی باتیں انہیں کفر کی باتیں دکھائی دینے لگیں ۔اور قرآن کریم کی باتیں انہیں بے دینی کی باتیں نظر آنے لگیں ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ جب قوم سے کہہ دیا گیا کہ آئندہ لوگوں کو کوئی ذہنی ارتقاء حاصل نہیں ہو سکتا ۔آئندہ کوئی شخص ایسا پیدا نہیں ہو سکتا جوقرآن کریم کو پہلوں سے زیادہ سمجھ سکے تو دوسرے الفاظ میں انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہماری قوم ہلاک ہوگئی ۔اب اس میں کوئی زندہ وجو د باقی نہیں رہا ۔اور جب انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہماری قوم میں کوئی زندہ وجود باقی نہیں رہا ۔ہماری قوم میں کوئی ایسا شخص نہیں رہا جو یہ کہہ سکے کہ میں نے قرآن سے فلا ں نئی بات نکالی ہے ۔تو نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے قرآن پر تدبر کرنا ترک کر دیا ۔انہوں نے حدیثوں پر غور کرنا چھوڑ دیا ۔او ر انہوں نے کہا کہ جب ہمیں کوئی نئی بات نہ قرآن سے حاصل ہو سکتی ہے اور نہ حدیث سے مل سکتی ہے تو ہمیں قرآن اور حدیث پر غور کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔پُرانی تفسیر یں ہی ہمارے لئے کافی ہیں ۔یہ ایک لازمی نتیجہ تھا اس خیال کا کہ قرآن کریم سے اب کوئی نیا نکتہ نہیں نکل سکتا ۔بلکہ رازی اور ابن حیان اور دوسرے مفسرین نے جو کچھ لکھا ہے وہی ہمارے لئے کافی ہے ۔پھر یہ عذاب اتنا بڑھا کہ آج سے پچیس تیس سال پہلے بڑے بڑے مولوی ایسے تھے جو قرآن کریم کا صحیح ترجمہ تک نہیں جانتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے لئے قرآن کریم کا ترجمہ جاننا ضروری نہیں اتنا ہی کافی ہے کہ اگر موقعہ ملے تو کوئی پرانی تفسیر دیکھ لی جائے ۔یہ ہلاکت محض اس وجہ سے ہوئی کہ قوم کو مایوس کر دیاگیا ۔اسے کہہ دیا گیا کہ قرآن کریم کے معارف تک اس کی رسائی نہیں ہو سکتی ۔اسی طرح جب مسلمانوں کو کہہ دیا گیا کہ خدا بولتا نہیں ۔وہ کسی سے محبت نہیں کرتا ۔وہ کسی سے پیار نہیں کرتا ۔وہ کسی کی التجاء اور دعا کا جواب نہیں دیتا تو لوگوں کے دلوں سے خداتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور اس سے ملنے کی خواہش بھی مٹنی شروع ہو گئی آخر یہ خواہش کہ خدا مجھ سے ملے ۔وہ میرے ساتھ باتیں کرے وہ مجھے اپنا پیار ا بنا لے ۔وہ میر ا ہو جائے اور میں اس کا ہو جائوں انسان تبھی کرے گا جب اُسے یہ خیال ہوگا کہ ایسا ہو سکتا ہے لیکن جب اُس کا یہ خیال ہوکہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا تو وہ اس غرض کیلئے کوشش ہی کیوں کریگا۔جب مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کر دیا گیا کہ ہم خدا کے نہیں ہو سکتے اور خدا ہمارا نہیں ہو سکتا ۔جب قوم کے لیڈروں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ھَلَکَ الْقَوْمُ ہماری قوم ہلاک ہوگئی ۔ہماری قوم میں وہ استعداد ہی نہیں رہی کہ جس سے کام لے کر وہ خدا سے محبت کر سکے ۔اس کے فضل کو اپنی طرف کھینچ سکے ۔اس کی وحی اور الہام کی مورد بن سکے تو نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اس طرف سے اپنی توجہ ہی ہٹالی اور خداتعالیٰ کے دروازہ کو بند سمجھ کر اسے کھٹکھٹا نا ترک کر دیا ۔اگر کسی مکان کا دروازہ بند ہو ۔باہر کی طرف اس پر قفل لگا ہو ا ہو تو کون بے وقوف ہے جو اس دروازہ پر بیٹھ کر مالک مکان کو آوازیں دینی شروع کر دیگا اگر کسی کے مکان کے دروازہ کے متعلق یہ اعلان کر دیا جائے کہ اُسے قطعی طور پر بند کر دیا گیا ہے اور پھر اس دروزاہ کو کوئی شخص کھٹکھٹا نا شروع کر دے ۔تو سب لوگ اسے احمق اور پاگل سمجھیں گے کیونکہ وہ ایسا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہوگا جو بند ہو چکا ہے اور جس کے کھلنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے ۔اس کے مقابلہ میں اگر کسی عمارت کا دروازہ تو بند ہو لیکن کھڑکی کھلی ہو تو سب لوگ اس کھڑکی کی طرف جائیں گے دروازہ کی طرف نہیں جائیں گے ۔وہ کھڑکی کی طرف اس لئے جائیں گے کہ کھڑکی کھلی ہوگی اور دروازہ کی طرف اس لئے نہیں جائیں گے کہ دروازہ بند ہو گا ۔اسی طرح جب خداتعالیٰ کی محبت کا دروازہ بند کر دیا گیا ۔جب مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کر دیا گیا کہ اس دروازے سے تمہیں کوئی آواز نہیں آسکتی خواہ تم کس قدر چلا ئو خواہ تم کس قدر آہ وزاری سے کا م لو تو نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے خداتعالیٰ کا دروازہ چھوڑ دیا ۔اور پیروں اور فقیروں کے پیچھے چل پڑے ۔کیونکہ گو وہ چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں تھیں مگر وہ چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں انہیں کھلی نظر آئیں او بڑا دروازہ انہوں نے مقفّل پایا ۔پس وہ خدا کے دروازہ کو چھوڑ کر پیروں فقیروں کے پیچھے چل پڑے انہوں نے کہا کہ یہ ہیں تو کھڑکیاں مگر کھلی کھڑکیاں ہیں ۔پس آئو ہم ان کھڑکیوں سے اند ر کی طرف جھانکیں ۔مگر جانتے ہوا س کا کیا نتیجہ ہوا ؟ یہی ہوا کہ خدا کی محبت اور خدا کا پیا ر مسلمانوں کے دلوں سے جاتا رہا ۔روحانیت کا اُ ن میں فقدان ہو گیا ۔وہ اس کے قرب سے ہمیشہ کیلئے محروم ہوگئے اور خداتعالیٰ کا تازہ بتازہ کلام سُننے سے اُن کے کان ہمیشہ کیلئے نا آشناہو گئے ۔اسی طرح اسلامی تمدن اور سیاست میں بھی خطرناک نقص پیدا ہو گیا کیونکہ کہہ دیا گیا کہ صحابہ ؓ کے زمانہ میں تمدن کو کوئی شکل نہیں دی جا سکتی ۔حالانکہ تمدن کی شکل ہز زمانہ کے لحاظ سے بدلتی چلی جاتی ہے ۔کسی زمانہ میں اس کی کوئی شکل موزوں ہوتی ہے اور کسی زمانہ میں اُس کی کوئی شکل موزوں ہوتی ہے ۔سچا مذہب وہی ہوتا ہے جو اپنے اندر لچک رکھتا ہے ۔اسی لئے وہ مذاہب جو دنیا میں ایک لمبے عرصہ کیلئے آتے ہیں اُن کی تعلیم کے اندر ایک قسم کی لچک پائی جاتی ہے جو مختلف زمانوں اور مختلف حالات کے مطابق تغیر پذیر ہو تی چلی جاتی ہے ۔رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اسلامی تمدن نے جو شکل اختیا ر کی وہ اور ہے ۔بے شک اس تمدن کے اصول ایک ہی رہیں گے مگر اس کی شکل زمانہ کے حالات کے لحاظ سے بدلتی چلی جائیگی اعتراض تب ہو جب اصول میں تبدیلی ہو لیکن جیسا کہ میں نے بتایاہے اصول ہمیشہ ایک ہی رہیں گے ۔صرف اس تمدن کی شکل میں زمانہ کے حالات کے لحاظ سے تبدیلی ہو تی چلی جائیگی ۔اور شکل میں یہ تبدیلی بالکل جائز ہو گی ۔مگر چونکہ کہہ دیا گیا کہ اسلامی تمدن اتنہا تک پہنچ چکا ہے اور یہ کہ اس قانون میں کوئی لچک نہیں اگر لوگ پُرانے زمانہ کے تمدن کی نقل کریں تو بے شک کریں لیکن اس کے خلاف کوئی اور شکل تجویز نہیں کر سکتے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے تمدن کے متعلق غور و فکر کرنا چھوڑ دیا اور وہ اس چھوٹے سے تالاب کی صورت میں بد ل گیا جس کا پانی نہیں بہتا جس میں بُو تو پیدا ہو جاتی ہے ۔مگر خوشنمائی اور دلکشی باقی نہیں رہتی ۔
پس یہ جو رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ مَنَ قَالَ ھَلَکَ الْقَوْمُ فَھُوَ اَھْلَکَھُمْ یہ درحقیقت آپ نے ایک بہت بڑا نفسیاتی نکتہ بیان فرمایا تھا ۔اگر قوم کے لیڈر اس حدیث کو ہی یاد رکھتے اگر وہ اپنی قوم کو مایوس نہ کرتے ۔اگر وہ اپنی جہالت سے اُن کو یہ نہ کہتے کہ تمہارے لئے اب ترقی کا کوئی امکان نہیں ۔تو مسلمان روحانی میدان میں بھی آگے رہتے ۔اقتصادی میدان میں بھی آگے رہتے ۔عملی میدان میں بھی آگے رہتے اور سائنٹفک میدان میں بھی آگے رہتے ۔مگر ہمارے ہاں تو یہاں تک مصیبت بڑھی کہ مذہب تو الگ رہا مسلمانوں نے دنیوی علوم بھی پہلے لوگوں پر ختم کر دئیے ۔بو علی سینا کے متعلق کہہ دیا کہ اُس نے طب میں جو کچھ لکھ دیا ہے اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں لکھا جا سکتا ۔منطق کے متعلق کہہ دیا کہ اس بارہ میں فلاں منطقی جو کچھ لکھ گیا ہے اُس کے بعد منطق کے علم میں کوئی زیادتی نہیں کی جا سکتی ۔اسی طرح ایک ایک کرکے سارے علوم کے متعلق یہ فیصلہ کر دیا گیا کہ اُن کے متعلق پہلے لوگ جو کچھ لکھ چکے ہیں ۔اُن سے زیادہ اب کوئی شخص نہیں لکھ سکتا ۔گویا انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ھَلَکَ الْقَوْمُ جو کچھ پہلوں کو مل گیا وہ اب دوسروں کو نہیں مل سکتا ،اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان بالکل تباہ ہو گئے ۔نہ مسلمانوں میں خداپرست رہے ۔نہ مسلمانوں میں فقیہہ رہے ۔نہ مسلمانوں میں قاضی رہے نہ مسلمانوں میں عارف رہے نہ مسلمانوں میں محدث رہے کیونکہ جو چیز بھی تھی اُسے گذشتہ لوگوں پر ختم کر دیا گیا اور قوم کو مایوس کر دیا گیا ۔
غرض اس آیت میں خداتعالیٰ نے قوم کی اصلاح کا یہ ایک لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ جس فعل کو روکنا چاہو تم اُس کی تشہیر کو روکو اور قوم کو مایوسی کا شکار نہ ہو نے دو ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے کہ قرآن کریم کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہر بدی کی جڑ کو پکڑ تا ہے اور اُسے اکھیڑتا ہے ۔اسی کے مطابق قرآن کریم بتا تا ہے کہ جس بدی کو تم روکنا چاہو اُس کے اتہام کو روکو ۔اور اسی کا الٹ یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جس نیکی کو قائم کرنا چاہو اُس کی عظمت اور اہمیت پھیلائو مثلاً نماز ہے ۔اس کے متعلق کہا جائے کہ ایسے اہم فریضہ کو کون چھوڑ دسکتا ہے؟یا چوری ہے اس کے متعلق کہا جائے کہ کیا اتنا بڑا گناہ کوئی کر سکتا ہے ؟ اس قسم کی باتیں جس شخص کے کان میں بھی پڑیں گی وہ ان کو بہت اہم سمجھے گا اور ان کے متعلق احتیاط سے کام لے گا ۔تم اپنے اندر اس کے مطابق تغیر کر کے دیکھ لو۔تین چار سال میں ہی تمہیں اپنے اندر بہت بڑا فرق نظر آئیگا ۔اور تمہیں محسوس ہوگا کہ افرادِ جماعت میں پہلے سے زیادہ بیداری پائی جاتی ہے پہلے سے زیادہ اُن میں نیکیوں کو اختیار کرنے اور بدیوں سے بچنے کا جذبہ پا یا جا تا ہے اور پہلے سے زیادہ اُنکے اخلاص اور ایمان میں ترقی ہو گئی ہے ۔جماعتی چندوں کو ہی دیکھ لو ۔اگر عام طور پر یہ ذکر ہو کہ لوگ چند ہ نہیں دیتے تو یہ معمولی بات سمجھی جا ئیگی لیکن اگر یہ کہا جائے کہ کوئی شاذ ہی ہوگا جو چند ہ نہ دیتا ہو تو ہر ایک کو اس کی اہمیت کا احساس ہوگا اور وہ چندہ میں کمزوری نہیں دکھا ئیگا ۔اسی طرح یہ گُر سب نقائص اور کمزوریوں پر حاوی ہے ۔اور تمام خرابیوں کی اس کے ذریعہ اصلاح ہو سکتی ہے ۔تم جس فعل کو روکنا چاہو اس کے اتہام کو روکو اور اس کے اُلٹ جس نیکی کو قائم کرنا چاہو ۔اُس کو پھیلائو اور اُسے اہمیت دو۔لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھو کہ فرائض کی ادائیگی پر کسی کو کوئی خاص عظمت نہ دو۔مثلاً کوئی شخص حج کرکے آتا ہے تو یہ نہ کہو کہ یہ بڑا نیک اور پار سا ہے کیونکہ حج کرنا تو اس کا فرض تھا جسے اُس نے ادا کیا ۔اسی طرح نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ہے ۔ان کو ادا کرنے کی وجہ سے کسی کی تعریف نہ کرو کیونکہ اگر اُنکی وجہ سے کسی کی تعریف کی جائیگی کہ وہ بڑا نیک اور پار سا ہے تو جو انکو ادا نہیں کرتا وہ کہیگا کہ اچھا میں ایسا نیک اور پارسا نہ سہی معمولی مسلمان تو ہوں لیکن جب اُن کا ادا کرنا ہر ایک مومن کا فرض بتا یا جائیگا تو اسے معلوم ہو گا کہ ان کو اد اکئے بغیر تو میں معمولی مسلمان بھی نہیں بن سکتا ۔پس اس بات کو یاد رکھو اور جو نواہی ہیں اُن کے اتہام کو برا سمجھو اور انہیں کبھی اپنی قوم میں پھیلنے نہ دو ۔اگر تم ایسا کرو گے تو تھوڑے ہی عرصہ میں تمہارے اندر ایک عظیم الشان تغیر پیدا ہو جائے گا ۔اور تم قومی اصلاح کے کام میں کامیاب ہو جائو گے ۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشِّیْطٰنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَاللّٰہُ سَمِیْع’‘ عَلِیْم’‘ ہ
ترجمہ () اے مومنو! شیطان کے قدموں پر مت چلو اور جو کوئی شیطان کے قدموں پر چلتا ہے وہ جان لے کہ شیطان بدیوں اور نا پسندیدہ باتوںکا حکم دیتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم تم پر نہ ہوتا تو کبھی بھی تم میں سے کوئی پاک باز نہ ہوتا ۔لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے پاکباز بنا دیتا ہے ۔اور اللہ بہت دعائیں سننے والا بہت جاننے والا ہے ۔ ۱۲؎
۱۲؎ حل لغات :
اَلْفَحْشَآئَ : اَلْفُحْشُ وَالْفَحْشَآئُ وَالْفَاحِشَۃُ مَا اَعْظَمَ قُبْحُہ‘مِنَ الْاَفْعَالِ وَالْاَقْوَالِ یعنی فحش ، فحشاء اور فاحشہ ہر ایسے فعل اور قول کو کہتے ہیں جس کی برائی نہایت واضح اور نمایاں ہو ۔(مفردات)
اَلْمُنْکَرُ : مَالَیْسَ فِیْہِ رِضَی اللّٰہِ مِنْ قَوْلٍ اَوْفِعْلٍ ۔ہر وہ بات یا فعل جس میں اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی نہ ہو منکر کہلاتی ہے ۔( اقرب)
زَکٰی : زَکَا الرَّجُلُ کے معنے ہیں صَلَحَ وَ تَنَحَّمَ۔ اچھا ہو گیا اور عمدہ حالت میں آگیا ( اقرب)
تفسیر :
خُطْوَۃ’‘ کے معنے قدم کے ہوتے ہیں لیکن جب یہ لفظ جمع کی صورت میں استعمال ہو تو اسکے معنے مفسرین کے نزدیک مسلک اور مذہب اور اثر کے بھی ہوتے ہیں ( فتح البیان ) پس لَا تَتَّبِعُوْ خُطُوٰتِ الشِّیْطٰنِ فرما کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اے مومنو! شیطانی طریق اور شیطانی مذہب اور شیطانی اثر کو اختیار نہ کرو ۔اور اس امر کو یاد رکھو کہ جو شخص شیطانی طریق اور مسلک کو قبول کرتا ہے وہ لازماً بدی اور ناپسندیدہ باتوں کے پیچھے پڑجاتا ہے ۔کیونکہ شیطان ہمیشہ بدی اور ناپسندیدہ باتوں کی ہی تحریک کیا کرتا ہے ۔لیکن یہ بھی یادرکھو کہ کامل پاکیزگی بغیر اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے حاصل نہیں ہوتی ۔پس اس کا طریق یہ ہے کہ خداتعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو اور اپنے حالات کو زیادہ سے زیادہ پاکیزہ لوگوں کی طرح بنائو ۔تاکہ وہ یہ دیکھ کر کہ تم پاکیزہ بننے کی کوشش کر رہے ہو تم کو پاکیزہ بنا دے ۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان ہمیشہ انسان کے پیچھے پڑا رہتا ہے ۔حتّٰی کہ جب انسان خداتعالیٰ پر ایمان لے آتا ہے تب بھی وہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور اُسے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور کئی لوگ اس کے دھوکے میں آکر ایمان لانے کے بعد بھی اس کی باتوں کو ماننے لگ جاتے ہیں اور مرتد اور فاسق ہو جاتے ہیں اور یہ خطرہ اس قدر عظیم ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو کوئی شخص بھی اس خطرہ سے محفوظ نہیں رہ سکتا ۔مگر اس فضل کو جذب کرنیکا طریق یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفت سَمِیْع’‘ سے فائدہ اٹھائے اور اس کے دروازہ کو کھٹکھٹائے ۔اگر وہ اس کے دروازہ کو کھٹکھٹائے گا اور اُس سے دعائیں کرنا اپنا معمول بنا لیگا تو اللہ تعالیٰ جو علیم ہے اور اپنے بندوں کے حالات اور اُن کی کمزوریوں کو خوب جانتا ہے اس کے دل میں ایسی ایمانی قوت پیدا کر دیگا جس کے نتیجہ میں وہ شیطانی حملوں سے محفوظ ہو جائیگا اور اسے طہارت اور پاکیزگی میسر آجائیگی ۔
کہا جاتا ہے کہ ایک بزرگ تھے جن کے پاس اُن کا ایک شاگرد کافی عرصہ رہا اور تعلیم حاصل کرتا رہا ۔جب وہ تعلیم سے فارغ ہو کر اپنے گھر جانے لگا تو اُس بزرگ نے اُس سے دریافت کیا کہ میاں تم اپنے گھر جا رہے ہو کیا تمہارے ملک میں شیطان بھی ہوتا ہے ؟ وہ یہ سوال سن کر حیران رہ گیا ۔اور اُس نے کہا شیطان بھلا کہاں نہیں ہوتا ہر ملک میں شیطان ہوتا ہے اور جہاں میں جا رہا ہوں وہاں بھی شیطان موجودہے۔آپ نے فرمایا اچھا اگر وہاں شیطان ہے تو پھر جو کچھ تم نے میرے پاس رہ کر علم حاصل کیا ہے جب اس پر عمل کرنے لگو گے تو لازماً شیطان تمہارے رستہ میں روک بن کر حائل ہوگا ۔ایسی حالت میں تم کیا کرو گے ! وہ کہنے لگا میں شیطان کا مقابلہ کرونگا ۔وہ بزرگ کہنے لگے بہت اچھا ۔تم نے شیطان کا مقابلہ کیا اور وہ تمہارے دفاع کی تاب نہ لاکر بھاگ گیا ۔لیکن جب پھر تم عمل کی طرف متوجہ ہونے لگے اور خداتعالیٰ کے قرب کے حصول کے رستوں پر تم نے چلنا شروع کیا اور پھر شیطان پیچھے سے آگیا اور اُس نے تمہیں پکڑ لیا اور تمہیں آگے بڑھنے سے اُس نے روک لیا تو پھر تم کیا کرو گے ؟ وہ کہنے لگا میں پھر شیطان کا مقابلہ کرونگا ۔اور اُس سے پیچھا چھڑا کر اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کی جدوجہد میں مشغول ہو جائونگا ۔انہوں نے کہا بہت اچھا میں نے مان لیا کہ تمہارے مقابلہ کے نتیجہ میں شیطان اس دفعہ بھاگ گیا اور تم جیت گئے لیکن جب پھر تم اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچنے کیلئے جدوجہد کرنے لگے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوئے اور خداتعالیٰ کے قرب کے حصول کے ذرائع اختیار کرنے لگے اورتم نے شیطان کی طرف سے پیٹھ پھیر کر اللہ تعالیٰ کی طرف رُخ کیا ۔تو پھر شیطان آگیا اور اُس نے تمہیں پکڑ لیا تو پھر کیا گرو گے ؟ شاگرد حیران رہ گیا اور وہ کہنے لگا مجھے تو پتہ نہیں لگتا آپ ہی فرمائیں کے مجھے ایسی حالت میں کیا کرنا چاہئیے ؟ وہ فرمانے لگے ۔اچھا یہ بتائو کہ اگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے جائو جس نے اپنے مکان کی حفاظت کیلئے ایک بڑا سا مضبوط کُتّا رکھا ہوا ہو ۔اور جب تم اپنے دوست کے مکان میں داخل ہونے لگو تو وہ کتا آئے اور تمہاری ایڑی پکڑ لے تو اُس وقت کیا کرو گے ۔شاگرد کہنے لگا میں کُتّے کا مقابلہ کرونگا اور اُسے مار دونگا۔اگر میرے پاس سوٹی ہوگی تو میں اسے سوٹی سے ماروں گا اور اگر پتھر قریب ہو گا تو اُسے پتھر سے مار ونگا ۔انہوں نے کہا مان لیا کہ تم نے کُتے کو سوٹی ماری یا پتھر مارا او ر وہ بھاگ گیا لیکن جب پھر تم نے مکان میں داخل ہونے کی کوشش کی اور کُتے کی طرف سے پیٹھ پھیری تو وہ پھر آگیا اور اُس نے تمہاری ایڑی پکڑ لی تو اُس وقت کیا کرو گے ؟ وہ کہنے لگا میں اُسے پھر ماروں گا اور اُسے ہٹا کر مکان کے اندر داخل ہو نے کی کوشش کرونگا ۔انہوں نے فرمایا ۔اچھا فرض کرو دوسری دفعہ بھی کُتا بھاگ گیا لیکن جب پھر تم دوست سے ملنے کیلئے مکان کے اندر داخل ہونے لگے تو وہ پھر تمہیں پکڑ لے تو آخر تم کیا کرو گے ؟ وہ کہنے لگا میں پھر اُسے مارونگا اور اُسے ہٹانے کی پوری کوشش کرونگا ۔وہ بزرگ فرمانے لگے ۔اگر یہ جنگ اسی طرح جاری رہی کہ جب تم مکان کے اندر داخل ہونا چاہو تو کُتّا تمہاری ایڑی پکڑ نے لگے اور جب تم اُسے مارو تو وہ بھاگ جائے لیکن جب پھر مکان کے اندر داخل ہونے لگو تو وہ پھر آکر پکڑ لے تو تم اپنے دوست سے مل کس طرح سکو گے ؟اور اُس سے ملاقات کرنے کا جو مقصد تم لئے ہوئے ہو گے وہ کس طرح پورا ہوگا ؟ شاگرد کہنے لگا جب میں یہ دیکھوں گا کہ یہ جنگ کس طرح ختم ہونے میں نہیں آتی اور کُتّا بار بار مجھے پکڑ لیتا ہے تو میں اپنے دوست کو آواز دونگا کہ میاں تمہارا کُتّا مجھے نہیں چھوڑتا اسے آکر ہٹا ئو ۔وہ بزرگ فرمانے لگے بس یہی نسخہ شیطان کے مقابلہ میں بھی استعمال کرنا ۔شیطان اللہ میاں کا کُتّا ہے اور جب یہ انسان پر بار بار حملہ آور ہو اور اللہ تعالیٰ کے قریب نہ ہونے دے تو اُس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو پکارو او راُسے آواز دو کہ اللہ میاں !میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں مگر آپ کا یہ کُتّا مجھے آنے نہیں دیتا ۔اسے روکئے تاکہ میںآپ کے پاس پہنچ جائوں ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ اُسے روک لیگا اور تم شیطان کے حملہ سے محفوظ ہو جائو گے ۔
غرض طہارت کا مل جس کے بعد کوئی ارتداد اور فسق نہیں ہوتا محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ حاصل ہوتی ہے جسے انسانی دعائیں اپنی طرف کھینچتی رہتی ہیں ۔پھر اس آیت میں بدی کو روکنے کے متعلق اللہ تعالیٰ ایک اور لطیف نکتہ بیان فرماتا ہے پہلے تو یہ بتایا تھا کہ ایک دوسرے کے متعلق بے بنیاد باتوں کا اپنی مجالس میں تذکرہ کرتے رہنا قوم کے اخلاقی معیار کو تباہ کر دیتا ہے ۔اب مومنوں کو ایک اور بات کی طرف توجہ دلاتا ہے اور فرماتا ہے ۔اے مومنو ! تم شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو ۔اس لئے کہ جو شخص شیطان کے قدموں کے پیچھے چلے گا۔وہ بدی اور بدکاری میں مبتلا ہو جائیگا کیونکہ شیطان فحشاء اور منکر کا حکم دیتا ہے ۔اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر برائی جو دنیا میں پھیلتی ہے اُس کی ابتداء بھیانک نہیں ہوتی ۔شیطان کا یہ طریق نہیں کہ کوئی خطرناک بات کرنے کیلئے ابتدا ء میں ہی انسان کو تحریک کرے کیونکہ انسان کی فطرت میں حیاء و شرم کا مادہ رکھا گیا ہے ۔اس لئے جس کا م کو انسان صریح طور پر برا سمجھے اُس کو فوری طور پر کرنے کیلئے وہ تیار نہیں ہوتا ۔مثلاً شیطان اگر کسی کو سیدھا ہلاکت کی طرف لے جانا چاہے تو وہ نہیں جائیگا ۔ہاں چکر دے کر لے جائے تو چلا جائیگا ۔پس شیطان پہلے ہی کسی بڑی بدی کی تحریک نہیں کرتا ۔بلکہ پہلے چھوٹی برائی کی جو بظاہر برائی نہ معلوم ہوتی ہو تحریک کرتا ہے ۔پھر اُس سے آگے چلاتا ہے ۔پھر اس سے آگے حتٰی کہ خطرناک برائی تک لے جاتا ہے ۔گویا شیطان پہلے ہی گڑھے کے سرے پر لے جاکر انسان کو نہیں کہتا کہ اس میں کود پڑو بلکہ پہلے گھر سے دور لے جاتا ہے ۔جس طرح ڈاکو گھر کے پاس حملہ نہیں کرتے یا جو لوگ بچوں کو قتل کرتے ہیں وہ گھر کے پاس نہیں کرتے بلکہ اُن کو دھوکہ اور فریب سے دُور لے جاتے ہیں ۔کہتے ہیں آئو تمہیں مٹھائی کھلائیں اور جب شہر یا گائوں سے باہر لے جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اب کوئی دیکھنے والا نہیں تو گلا گھونٹ کر مار دیتے ہیں یہی طریق شیطان کا ہوتا ہے ۔وہ پہلے انسان کو اُس قلعہ سے نکالتا ہے جہاں خدا نے انسان کو محفوظ کیا ہو اہوتا ہے ۔یعنی فطرت صحیحہ کے قلعہ سے انسان اُس سے باہر چلا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کوئی حرج نہیں مگر ہوتے ہوتے وہ اتنا دور چلا جاتا ہے کہ پھر اُس کا واپس لوٹنا مشکل ہو جاتا ہے اور شیطان کے پنجہ میں گرفتار ہو کر تباہ ہو جاتا ہے ۔جھوٹے الزامات کے ذکر کے ساتھ یہ نصیحت فرما کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم یہ نہ کہنا کہ یہ معمولی بات ہے کیا ہوا گر کسی پر تم نے زنا کا الزام لگا دیا ۔یا یہ کہ ہم نے تو نہیں لگا یا کسی نے ہم کو بات سنائی اور ہم نے آگے سُنا دی ۔شیطان کا یہی طریق ہے وہ پہلے اپنے پیچھے چلاتا ہے اور آہستہ آہستہ روحانیت اور شریعت کے قلعہ سے دور لے جاتا ہے اور جب انسان دور چلا جاتا ہے تو اُس کو مار ڈالتا ہے ۔پس شیطان پہلے تو یہی کریگا کہ تحریک کریگا کہ دوسرے کی کہی ہوئی بات بیان کردو تمہارا اس میں کیا حرج ہے ۔لیکن جب تم ایسا کر لوگے تو پھر خود تمہارے منہ سے ایسی بات نکلوائیگا ۔اور جب یہ بھی کر لو گے تو پھر اس فعل کا تم سے ارتکاب کروائیگا ۔پس تم پہلے ہی اس کے پیچھے نہ چلو اور پہلے قدم پر ہی اس کی بات کو رد کر دو تا کہ تم تباہی سے محفوظ رہو ۔
پھر فرماتا ہے ۔وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہ‘ مَازَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا ۔وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآئُ ۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں سے جس کو چاہتا ہے پاک کرتا ہے۔"جس کو چاہتا ہے ـ"سے یہ مراد نہیں کہ اندھا دھند کرتا ہے بلکہ یہ کہ جو خدا کا پسندیدہ ہو جاتا ہے اور اس کے احکام پر عمل کرتا ہے اُسے خداتعالیٰ اپنا محبوب بنا لیتا ہے اور پاک کر دیتا ہے ۔وَاللّٰہُ سَمِیْع’‘ عَلِیْم’‘ اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے یعنی جب کوئی اس کو پکارتا ہے تو سنتا ہے ۔جس طرح اگر کوئی رستہ بھول جائے اور کسی کو آواز دے تو اگر وہ سُننے کی طاقت رکھتا ہوگا تو جواب دے گا ۔اسی طرح جو لوگ سیدھے راستہ سے بھٹک جاتے ہیں وہ جب دعا کرتے ہیں اور خداتعالیٰ کو پکارتے ہیں تو خداتعالیٰ ان کی پکار کو سنتا ہے کیونکہ وہ سُننے والا ہے ۔پھر جب خدا آواز دیتا اور انسان اُس کی طرف چلتا ہے تو خداتعالیٰ کی صفت علیم اُس کی راہ نمائی کرتی ہے اور اس طرح وہ اس کے قریب تک پہنچ جاتا ہے ۔
وَلَا یَاْ تَلِ اُولُو الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَاللّٰہُ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ ہ
ترجمہ () اور تم میں سے دین و دنیا میں فضیلت رکھنے والے اور کشائش رکھنے والے لوگ قسم نہ کھائیں کہ اپنے رشتہ داروں اور مسکینوں اور اللہ کے راستہ میں ہجرت کرنے والوں کی مدد نہ کریں گے ۔اور چاہئیے کہ وہ عفو سے کام لیں اور درگذر سے کام لیں ۔کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرے اور اللہ بہت معاف کرنیوالا اور بار بار رحم کرنیوالا ہے ۔ ۱۳ ؎
۱۳ ؎ حل لغات :
لَا یَاْتَلِ اِئتَلٰی کے معنے ہیں حَلَفَ قسم کھائی ( اقرب) پس لَا یَاْ تَلِ کے معنے ہونگے چاہئیے کہ قسم نہ کھائیں ۔
تفسیر :
فرماتا ہے ۔پاکیزہ بننے کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ تم میں سے جن کو توفیق ہو وہ کبھی قسم نہ کھائیں کہ اپنے رشتہ داروں اور مسکینوں اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ہجرت کرنے والوں پر آئندہ خرچ نہیں کر یں گے یعنی بعض دفعہ رشتہ داروں سے بھی کوئی جھگڑا ہو جاتا ہے اور مسکینوں اور مہاجروں سے بھی ہوتا ہے ۔مگر مال داروں کو نہیںچاہئیے کہ اس ناراضگی پر وہ قسم کھا لیں کہ اُن پر ہم کبھی خرچ نہیں کریں گے ۔بلکہ چاہئیے کہ وہ غصہ کی حالت میں درگذر کریں اور معاف کریں کیونکہ اگر تم معاف کرو گے تو تمہیں اُمید ہوگی کہ خداتعالیٰ بھی تمہیں معاف کرے گا ۔
بعض حدیثوں میں آتا ہے کہ حضر ت عائشہ ؓ پر جو افتراء کیا گیا تھا اُس کے پھیلانے میں مسطح کا بھی دخل تھا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا بھانجہ اور رسول کریم ﷺ کا صحابی ؓ تھا ۔اُس کی ماں نہایت نیک عورت تھی اُسی نے ایک موقعہ پر حضرت عائشہ ؓ کے سامنے مسطح کو گالی دی تھی جس پر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ وہ تو بدری صحابی ہے اُس کو گالی کیوں دیتی ہو ۔مسطح کی ماں نے کہا جانے دو ۔وہ ایسی ایسی باتیں کرتا پھرتا ہے اور اس طرح بہتان کا واقعہ حضرت عائشہ ؓ کے کان میں پڑگیا ۔حضرت ابو بکر ؓ نے جب یہ بات سُنی کو تو قسم کھا لی کہ آئندہ میں مسطح کے خاندان کی مدد نہیں کرونگا ۔حالانکہ وہ پہلے اُن کی بہت مدد کیا کرتے تھے ۔مفسرین کہتے ہیں کہ اسی واقعہ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ۔لیکن اس آیت کا کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ نکالنے کی ضرورت نہیں ۔اس آیت میں ایک عام سبق دیا گیا ہے کہ رشتہ داروں مسکینوں اور مہاجروں کی مدد کرنے کا جو قرآن کریم میں حکم ہے ۔وہ اُس وقت تک کیلئے نہیں ہے جب تک کہ تم اُن سے خوش ہو ۔بلکہ اگر وہ کوئی ایسی حرکت کر بیٹھیں جو تمہیں بری لگے تو بھی اُن پر خرچ نہ کرنے کی قسم نہ کھا لیا کرو ۔یعنی غصہ کے دنو ں میں اگر کچھ دن کمی آجائے تو اور بات ہے مگر ہمیشہ کیلئے خرچ نہ کرنے کی قسم کھانا ناجائز امر ہے اس کی بجائے عفو اور درگذر اچھا ہے ۔
مگر یہ آیت بتا رہی ہے کہ اس جگہ اپنے مال کے خرچ کرنے کا ذکر ہے ۔پبلک یا خداتعالیٰ کے مال کے خرچ کر نیکا ذکر نہیں۔اگر پبلک یا خداتعالیٰ کے مال کے خرچ کرنے کا سوال ہو تو پھر پبلک کی مصلحت کے تقاضا کو مقدم کرنا پڑے گا یا خداتعالیٰ کے حکم کو مقدم کرنا پڑے گا۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا فرما کر مومنوں کو یہ عام ہدایت دی ہے کہ انہیں دوسروں کی خطائوں کو معاف کرنا اور ان کے قصوروں سے درگذر کرنا چاہئیے ۔مگر معاف کرنیکا مسٔلہ بہت پیچیدہ ہے ۔بعض لوگ نادانی سے ایک طرف نکل گئے ہیں اور بعض دوسری طرف۔وہ لوگ جن کا کوئی قصور کرتا ہے وہ تو کہتے ہیں کہ مجرم کو ضرور سزا دینی چاہئیے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو ۔اور جو قصور کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب خدامعاف کرتا ہے تو بندے کو بھی معاف کرنا چاہئیے مگر یہ سب خود غرضی کے فتوے ہیں ۔جو شخص کہتا ہے کہ خدامعاف کرتا ہے تو بندے کو بھی معاف کرنا چاہئیے وہ اس قسم کی بات اسی وقت کہتا ہے جب وہ خود مجرم ہوتا ہے ۔مگر مجرم نہ ہوتا تو ہم اس کی بات مان لیتے لیکن جب اُس کا کوئی قصور کرتا ہے تب وہ یہ بات نہیں کہتا ۔اسی طرح جو شخص اس بات پر زور دیتا ہے کہ معاف نہیں کرنا چاہئیے بلکہ سزا دینی چاہئیے وہ بھی اُسی وقت یہ بات کہتا ہے جب کوئی دوسرا شخص اس کا قصور کرتا ہے لیکن جب وہ خود کسی کا قصور کرتا ہے تب یہ بات اس کے منہ سے نہیں نکلتی ۔اُس وقت وہ یہی کہتا ہے کہ خدا جو معاف کرتا ہے توبندہ کیوں معاف نہ کرے ۔پس یہ دونوں فتوے خود غرضی پر مشتمل ہیں ۔اصل فتویٰ وہی ہو سکتا ہے جس میں کوئی اپنی غرض شامل نہ ہو ۔اور وہ وہی ہے جو قرآن کریم نے دیا ہے کہ جب کسی شخص سے کوئی جرم سرزد ہو تو تم یہ دیکھو کہ سزا دینے میں اُس کی اصلاح ہو سکتی ہے یا معاف کرنے سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہے ۔اگر تمہیں سزا دینے میں مجرم کی اصلاح دکھائی دیتی ہو تو اُسے سزا دو۔اگر معاف کرنے سے اُس کے اخلاق درست ہو سکتے ہوں تو اُسے معاف کر دو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍسَیِّئَۃ’‘ مِّثْلُھَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَ جْرُہ‘ عَلَی اللّٰہِ اِنَّہ‘ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ ( الشورٰی ع ۴)بدی کا بدلہ اتنا ہی ہے جتنا کسی کا جرم ہو لیکن اگر کوئی شخص دوسرے کو معاف کر دے اور اصلاح کو مدنظر رکھے یعنی اس معافی کے نتیجہ میں فساد پیدا نہ ہو بلکہ دوسرے کی اصلاح ہو تو ایسے شخص کا نیک اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔یعنی اگر کوئی شخص جرم سے زیادہ سزا دے دیتا ہے یا باوجود اس کے کہ عقلی طور پر وہ سمجھتا ہے کہ اگر مجرم کو سزا دی گئی تو اُس کے اخلاق اور بھی بگڑ جائیں گے اور وہ نیکی سے اور بھی دور چلا جائیگا ۔لیکن پھر بھی وہ اس کو دُکھ دینے کیلئے سزا دے دے ۔یا اگر ذاتی طور پر وہ سمجھتا ہے کہ اس شخص کو معاف کرنا اسے گناہ پر اور بھی دلیر بنا دے گا مگر اس کے باوجود وہ اسے معاف کردے تو ایسے تمام لوگ خداتعالیٰ کی نگا ہ میں ظالم ہونگے اور وہ اپنے اس فعل کے متعلق اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہونگے ۔یہ تعلیم ہے جو اسلام نے جرائم کے سلسلہ میں پیش کی ہے ۔اب غور کر کے دیکھ لو کہ یہ تعلیم کس قدر امن پیدا کرنے والی اور ہر قسم کے فسادات اور جھگڑوں کو دنیا سے مٹانے والی ہے ۔عیسائیت نے دنیا کے سامنے یہ تعلیم پیش کی تھی کہ
ـ’’شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے
داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دے ‘‘
( متی باب ۱۵ آیت ۳۹ )
مگر آج ساری عیسائی دنیا میں پھر کر دیکھ لو تمہیں ایک شخص بھی اس تعلیم پر عمل کرتا دکھائی نہیں دے گا ۔اور اگر کوئی عمل بھی کرے تو یہ تعلیم دنیا میں امن قائم کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی ۔فتنہ وفساد کو مٹانے والی اور ہر قسم کے جھگڑوں اور مناقشات کا سد باب کرنے والی وہی تعلیم ہے جو قرآن کریم نے دی اور جس کے ذریعہ مجرم کی اصلاح کو ضروری قرار دیا گیا ہے ۔خواہ یہ اصلاح سزا کی صورت میں ہو یا عفو اور درگذر کی صورت میں۔اسی مضمون کو قرآن کریم کی اس آیت میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ وَالْکَظِمِیْنَ الْغَیْظَ والْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبَّ الْمُحْسِنِیْنَ ۔( اٰل عمران ع ۱۴) یعنی مومن وہ ہیں جو اپنے غصہ کو دبائے اور لوگوں کی غلطیوں سے درگذر کرتے ہیں او رپھر اُن پر احسان بھی کرتے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ احسان کرنیوالوں سے بڑی محبت رکھتا ہے ۔محسن کے معنے عربی زبان میں ایسے شخص کے ہوتے ہیں جو شریعت کے تمام احکام کی پابندی کرنے والا ہو ۔پس وَاللّٰہُ یُحِبَّ الْمُحْسِنِیْنَ فرما کراللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرماتا ہے کہ مومن اسی وقت کظم غیظ کرتا اور مجرم کو معاف کرتا ہے جب عَفٰی وَ اَصْلَحَ کا حکم پورا ہوتا ہے یعنی اس کے نتیجہ میں دوسرے کی اصلاح ہوتی ہو۔اگر وہ معاف تو کرد تیا ہے مگر یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی معافی کیا نتیجہ پیدا کر ے گی تو وہ محسن نہیں کہلا سکتا کیونکہ اُس نے شریعت کے اُن قواعد کو ملحوظ نہیں رکھا جو اُس نے سزا اور عفو کے سلسلہ میں دئیے تھے ۔اس بارہ میں حضرت امام حسنؓ کا بھی ایک نہایت لطیف واقعہ کتابوں میں درج ہے کہا جاتا ہے کہ اُن کے ایک غلام سے ایک دفعہ کوئی اعلیٰ درجہ کا برتن گر کر ٹوٹ گیا جس پر حضرت امام حسن ؓ کے چہر ہ پر غصہ اور ناراضگی کے آثار ظاہر ہوئے ۔ا س غلام نے فوراً یہی آیت پڑھ دی اور کہا حضور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالْکَظِمِیْنَ الْغَیْظ مومن اپنے غصہ کو دبا لیتے ہیں ۔آپ نے فرمایا بہت اچھا میں نے اپنے غصہ کو دور کر دیا۔اس پر اُس نے آیت کا اگلا ٹکڑا پڑھ دیا کہ والْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ یعنی مومن صرف غصہ کو دباتے ہی نہیں بلکہ معاف بھی کر تے ہیں ۔آپ نے فرمایا جائو میں نے تمہیں معاف کر دیا ۔وہ کہنے لگا حضور آگے یہ بھی لکھا ہے کہ وَاللّٰہُ یُحِبَّ الْمُحْسِنِیْنَ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔آپ نے فرمایا اچھا میں نے تمہیں آزاد کر دیا ۔
پس ہر جگہ یہ کہنا کہ سزا دو ۔نادانی ہے جس طرح ہر جگہ یہ کہنا کہ معاف کر دو ۔یہ بھی نادانی ہے ۔شریعت نے بتا دیا ہے کہ جہاں سزا دینے کا فائدہ ہو ۔وہاں سزادو۔اور جہاں معاف کرنے سے فائدہ ہو وہاں معاف کرو۔مثلاً فوج لڑ رہی ہو تو اُس وقت کوتاہی کرنے والوں کو اگر معاف کر دیا جائے تو دوسروں کو بھی سستی کی جرأت پیدا ہو تی ہے اور اس طرح ساری فوج تباہ ہو جاتی ہے ۔لیکن اگر کوئی ایسا فعل ہو جس کا اثر صرف ایک شخص کی ذات تک محدود ہو اور اس کے معاف کرنے سے اس کی اصلاح کی امید ہو تو اُسے معاف کر دیا جائیگا ۔
ایک ناول نویس نے جس کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تاریخی واقعات کو اپنا تا ہے فرانس کا ایک قصہ بیان کیا ہے کہ فرانس کے بوربن خاندان کو جب ملک سے نکالا گیا تو وہ انگلستان چلاگیا اور لنڈن جا کر بادشاہ نے کوشش کی کہ کسی طرح ملک میں بغاوت پھیلائی جائے ۔اُس وقت فرانس میں جمہوریت نہیں تھی ۔طوائف الملوکی پائی جاتی تھی غالباً اُس وقت تک نپولین بر سرِ اقتدار نہیں آیا تھا یا اُس کے قریب زمانہ کا یہ واقعہ ہے ۔بادشاہ نے لنڈن سے ایک جہاز میں بعض آدمی فرانس بھیجے تا کہ وہ فرانس جا کر بغاوت پھیلائیں ۔جہاز کے نچلے حصہ میں ہتھیار بھی رکھے ہوئے تھے اور توپیں زنجیر کے ساتھ بندھی ہوئی تھیں ۔ایک شخص صفائی کے لئے وہاں گیا تو اُس سے ایک زنجیر کھل گئی اور توپ جہاز کے اندر لڑھکنے لگی اور خطرہ پید ا ہو گیا کہ کہیں جہاز ٹوٹ نہ جائے ۔سارے لوگ جہاز کو بچانے کیلئے بھاگے۔بادشاہ کا نمائندہ بھی وہاں موجود تھا ۔یہ حالت دیکھ کر اس شخص نے جس سے کنڈا کھلا تھا چھلانگ لگا دی اور اپنی جان کو انتہائی خطرہ میں ڈال کر کنڈا لگا نے میں کامیاب ہو گیا ۔اس پر بادشاہ کے نمائندہ نے سب لوگوں کو اکٹھا کیا اور کہا اس شخص نے بہت بڑی بہادری کا کام کیا ہے اور ایک تمغہ جو فرانس مین سب سے زیادہ عزت کا موجب سمجھا جاتا تھا لے کر کہا ۔میں بادشاہ کی طرف سے یہ تمغہ اس کی بہادری کے صِلہ میں اس کے سینہ پر لگا تا ہوں ۔اس کے بعد اُس نے کمانڈر کو حکم دیا کہ اسے لے جائو اور گو لی مار دو ۔اتفاقًا جہاں اُتر نا تھا وہاں سمندر میں سخت طوفان آیا ہوا تھا اور خطر ہ تھا کہ کہیں جہاز غرق نہ ہو جائے ۔اُس وقت جہاز کے کمانڈر نے کہا کہ اس وقت مجھے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو یقینی موت کو قبول کرلے۔چنانچہ ایک ملاح آگے آیا اُس نے اسے حکم دیا کہ اس شخص کو جو بادشاہ کا نمائندہ ہے کشتی میں بٹھا کر ساحل فرانس تک پہنچا دو ۔طوفان زوروں پر تھا لیکن وہ ملاح کا میابی کے ساتھ ساحلِ فرانس پر پہنچ گیا وہا ں پہنچ کر ملاح نے اپنا پستول نکا ل لیا اور کہا کہ میں نے اپنی جان کو صرف اس لئے خطرہ میں ڈالا تھا کہ تم سے اپنے بھائی کا بدلہ لوں ۔اُس نے کہاتم نے حقیقت پر غور نہیں کیا ۔تمہارے بھائی نے ایک نیک کام کیا تھا اور ایک بُرا کا م کیا تھا میں نے اس کے اچھے کام کا اچھا بدلہ دیا اور فرانس کا سب سے بڑا تمغہ اُس کے سینہ پر لگایا اور اُس کے بُرے کام کے بدلہ میں اُسے گولی مار دینے کا حکم دیا ۔تم جانتے ہو کہ میں بادشاہ کے مفاد کی خاطر یہاں آیا ہوں اور اپنے مقصد میں کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ میں ہر طرح کی احتیاط سے کام لوں اور اس کے رستہ میں حائل ہونے والی کسی چیز کی پرواہ نہ کروں ۔اُس نے ایک برا کام کیا تھا اور میری بادشاہ سے وفاداری کا تقاضا یہی تھا کہ میں اُسے ہلاک کر دوں ۔ا سپر ملاح نے ہتھیار پھینک دیا اور کہا میں سمجھ گیا ہوں کہ میرا بھائی قصور وار تھا اور اپنے جرم کے بدلہ میں موت کی سزا کا ہی مستحق تھا ۔
تو ایسے جرائم جن کا اثر دور تک پہنچتا ہو ۔اُن کی سزا دینا ضروری ہوتا ہے تاکہ دوسرے لوگ غافل نہ ہوں ۔لیکن بعض دفعہ عفو بھی ضروری ہوتا ہے ۔دیکھو یہاں تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ معاف کر دو ۔اور صرف معاف ہی نہ کرو بلکہ فائدہ بھی پہنچائو مگر اسی سورۃ کے شروع میں فرماتا ہے کہ زانی کو سزا دو او ر سز ا دیتے وقت تمہارے دل میں اس کے متعلق رحم کا کوئی جذبہ پیدا نہ ہو ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نہ ہر جگہ عفو کی تعلیم دیتا ہے اور نہ ہر مقام پر سز ا دینے کی تلقین کرتا ہے بلکہ وہ موقعہ اور محل کے مطابق سزا اور عفو کے احکام جاری کرتا ہے تاکہ لوگوں کے اندر نہ تو جرائم پر دلیری پیدا ہو اور نہ عفو اور درگذر سے اگر کسی کی اصلاح ممکن ہو تو اس کا موقع ضائع ہو ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَلَھُمْ عَذَاب’‘ عَظِیْم’‘ ہ
ترجمہ () وہ لوگ کو کہ پاکدامن عورتوں پر الزام لگاتے ہیں جو شریروں کی شرارت سے غافل ہیں اور ایماندار ہیں اُن پر دنیا اور آخرت میں *** کی جائیگی اور اُن کیلئے بڑا عذاب ہو گا ۔ ۱۴ ؎
۱۴ ؎ حل لغات :
لُعِنُوا: لَعْنَہ‘ لَعَنًا کے معنے ہوتے ہیں طَرْدَہ‘ اُس کو دھتکار ا ۔وَاَبْعَدَہ‘ مِنَ الْخَیْرِ اور اُس کو بھلائی سے دور کیا ۔وَاَخْزَاہُ اور اسکو ذلیل کیا۔وَسَبَّہ‘ اور اُس کو گالی دی اسی طرح اسکے ایک معنے عذاب کے بھی ہیں ۔( اقرب)
تفسیر :
یعنی شریف اور بے گناہ عورتوں پر الزام لگانیوالوں کی اصل سزا خداتعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور وہ سزا یہ ہوتی ہے کہ اُن پر دنیا اور آخرت میں *** کی جاتی ہے ۔*** کے معنے عربی زبان کے لحاظ سے دوری کے ہوتے ہیں ۔پس بدکاری کا الزام لگانے والوں کو *** قرار دینے سے یہ مراد ہے کہ ایسے لوگوں سے دنیا میں بھی شریف آدمی تعلق رکھنا پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ سوسائٹی کو خراب کرنے والے ہیں اگر ہم نے ان سے تعلق رکھا تو یہ لوگ ہمارے خاندانوں کو بدنام کر دیں گے اور اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن ان کو کوئی انعام نہیں دیگا بلکہ انہیں سزا کا مستحق قرار دیگا ۔
یَوْمَ تَشْھَدُ عَلَیْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ وَاَیْدِیْھِمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ ہ
ترجمہ() اُس دن جبکہ اُن کی زبانیں بھی اور انکے ہاتھ بھی اور اُنکے پائوں بھی اعمال کے متعلق جو وہ کرتے تھے ان کے خلاف گواہی دیں گے اُس دن اللہ تعالیٰ اُن کو اُن کا صحیح بدلہ دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی صدقِ مجسم ہے ایسا صدق جو اپنے آپکو آپ ظاہر کر دیتا ہے ۔۱۵ ؎
۱۵؎ تفسیر :
فرماتا ہے اُس دن کو یاد کرو جبکہ اُن کی زبانیں اور اُن کے ہاتھ اور اُن کے پائوں اُن کے خلاف گواہی دیں گے اور اللہ تعالیٰ اُن کے اعمال کے مطابق اُن کو جزا دے گا اور اللہ تعالیٰ کی بات ہی آخر پوری ہو کر رہا کرتی ہے ۔
اس آیت سے ظاہر ہے کہ جو شخص انسانوں پر الزام لگاتا ہے وہ آخر اللہ تعالیٰ پر بھی الزام لگانا شروع کر دیتا ہے ۔کیونکہ اس میں الزام لگانے کی عادت بڑھتی چلی جاتی ہے ۔فرماتا ہے ایسے لوگ جو انسانوں پر الزام لگاتے ہیں کسی دن خداتعالیٰ پر بھی الزام لگانا شروع کر دیں گے اور قیامت کے دن اُن کے اعضاء اُن کے خلاف گواہی دیں گے اور بتائیں گے کہ دنیا میں یہ لوگ خداتعالیٰ کے متعلق کیا کیا بد ظنیاں کرتے رہے ہیں اور انسانوں کے متعلق کیا کیا بد ظنیاں کرتے رہے ہیں ۔گویا اس دن مجرموں پر اُن کے اعمال کی حقیقت ظاہر کر نیکے لئے الٰہی ریکارڈنگ مشین کی سوئی اُن کی زبان پر رکھدئی جائیگی اور زبان بولنا شروع کر دے گی کہ حضور فلاں دن اس نے خدا کو گالی دی ۔فلاں دن اس نے نبیوں کو گالی دی ۔فلاں دن اس نے اپنے ہمسائے کو گالی دی ۔فلاں دن اس نے اپنی بیوی کو گالی دی ۔فلاں دن اس نے حرام کا مال چکھا۔اور فلاں دن اس نے یہ یہ الزام لگایا ۔غرض یہ سارے کا سارا ریکارڈ زبان بیان کرنا شروع کر دیگی ۔پھر ہاتھوں پر سوئی رکھی جائیگی تو ہاتھ بولنا شروع کر دیں گے کہ فلاں دن اس نے فلاں کو مارا اور فلاں دن اس نے ان کا یوں مال اٹھایا ۔پھر پائوں بیان کرنا شروع کر دیں گے کہ فلاں رات کو فلاں کے گھر سیندھ لگانے کیلئے یا فلاں کا مال اٹھانے کے لئے یااس کو قتل کرنے کیلئے یا اور کوئی نقصان پہنچانے کیلئے یہ شخص گیا۔غرض کانوں آنکھوں اور چمڑوں کے علاوہ زبانیں بھی اور ہاتھ اور پائوں بھی اپنے اپنے حصّہ کے ریکارڈ سُنائیں گے ۔اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہتے ہیں ۔ـ’’ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ‘‘ ۔جب اپنے ہاتھ گواہی دے رہے ہوں کہ ہم نے یہ یہ کچھ کیا تھا ۔اپنی زبان گواہی دے رہی ہو کہ میں نے یہ کچھ کیا تھا تو اب وہ فرشتوں کو کس طرح کہہ سکیں گے کہ یہ جھوٹ بو ل رہے ہیں ۔
ممکن ہے کوئی شخص کہہ دے کہ یہاں دماغ کا کیوں ذکر نہیں کیا گیا ۔حالانکہ تمام گناہوں کی ابتداء دماغ سے ہی ہوتی ہے اور ہاتھ پائوں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اور پھر بسا اوقات دماغی گناہ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے کرنے کا ہاتھ پائوں کو موقعہ نہیں ملتا اس کے متعلق ۔یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ اسلامی شریعت میں یہ قانون ہے کہ جو چیز دماغ میں آتی ہے لیکن اُس پر عمل نہیں کیا جاتا ۔وہ بدی شمار نہیں کی جاتی بلکہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی بدی کا خیال کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تو اُس کے نامۂ اعمال میں وہ ایک نیکی کی صورت میں لکھی جاتی ہے ۔پس دماغ کو اس لئے شامل نہیں کیا گیا کہ اگر تو ہاتھ دماغ کے مطابق عمل کر چکے ہیں تو ہاتھ کی بات بیان ہو چکی اور اگر زبان دماغ کے مطابق عمل کرچکی ہے تو زبان کی بات بیان ہو چکی ۔اگر دماغ نے یہ کہا تھا کہ چوری کرو تو پیروں نے بتا دیا کہ وہ فلاں گھر میں چوری کرنے کیلئے گئے تھے ۔لیکن اگر دماغ میں ایک بات آئی اور ہاتھ پائوں سے اُس نے عمل نہیں کروایا ۔تو پھر اسلامی اصول کے ماتحت اُس کے نام ایک نیکی لکھی جائے گی ۔کیونکہ ہاتھ پیر جو دماغ کے تابع تھے اُن کا دماغ کے حکم پر عمل نہ کرنا بتاتا ہے کہ دماغ نے اپنی رائے بدل لی تھی ۔پس رائے بدلنے کی وجہ سے وہ نیکی کا مرتکب ہو گا بدی کا نہیں اور چونکہ وہ نیکی لکھی گئی اس لئے اس کو شر مندگی دلانے والی باتوں میں اُسے بیان نہیں کیا گیا کیونکہ ایک طرف خدا کا اُس کو نیکی قرار دینا اور دوسری طرف اس کو باعث فضیحت بنانا یہ خدا کے انصاف کے خلاف تھا ۔اگر تو وہ اس کو بدی قرار دیتا تو پھر بے شک اس کا فضیحت کی جگہ پر ذکر کر سکتا تھا ۔لیکن اُس نے تو خود فیصلہ کر دیا کہ ایسا بُرا خیال بھی نیکی تصور کیا جائیگا جس پر عمل نہ کیا گیا ہو ۔اور جب وہ نیکی تصور ہوگی تو اُسے فضیحت کا ذریعہ کس طرح بنایا جا سکتا تھا ؟
اس آیت پر عمومًا یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ہاتھ پائوں کس طرح گواہی دیں گے ؟ اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ ہر چیز کی زبان الگ الگ ہوتی ہے جس سے اُسکی حالت ظاہر ہوتی ہے ۔دیکھو ہاتھ کی زبان کا تو سب لوگ مشاہدہ کرتے ہی رہتے ہیں ۔طبیب آتا ہے اور نبض دیکھ کر بتا دیتا ہے کہ یہ یہ تکلیف ہے ۔مگر اس کے علاوہ اب نئی تحقیق سے یہ امر ثابت ہو چکا ہے کہ جس عضو کی کوئی حرکت ہو اس پر اس کا ایک نشان پڑجاتا ہے اسی طرح ہر حرکت کا ایک نشان جَو پر بھی پڑتا ہے جو محفوظ رہتا ہے ۔بے تار برقی کی ایجاد اسی اصول پر ہے کہ ایک جگہ کی حرکت کا جَوّ پر جو اثر پڑتا ہے دوسری جگہ آلہ کے ذریعہ اسے معلوم کر لیا جاتا ہے ۔پس اس آیت کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ ان عضاء کی جو حرکات ہیں اُن کے اثرات اُن پر پڑتے ہیں لیکن دنیا میں انسانی نظر ایسی تیز نہیں ہوتی کہ ان اثرات کو دیکھ سکے مگر قیامت کے دن انسانی نظر بہت تیز کر دی جائیگی جو ان نشانات کو بھی دیکھ لیگی ۔اور یہ ان اعضاء کی شہادت ہوگی جو اُن کے خلاف ہوگی ۔ہاں جو لوگ تو بہ کرکے وفات پاتے ہیں اُن کے اعضاء پر جو اثرات ہو نگے وہ مٹا دئیے جائیں گے کیونکہ تو بہ کرنے والوں کے گناہ اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے ۔
اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لَھُمْ مَّغْفِرَۃ’‘ وَّ رِزْق’‘ کَرِیْم’‘ ہ
ترجمہ () خبیث باتیں خبیث مردوں کیلئے ہیں اور خبیث مرد خبیث باتو ں کیلئے ہیں اور پاک باتیں پاک مردوں کیلئے ہیں اور پاک مرد پاک باتوں کیلئے ہیں ۔یہ سب لوگ ان باتوں سے جو دشمن کہتے ہیں پاک ہیں ۔اُن کیلئے بخشش اور معزز رزق مقدر ہے ۔ ۱۶؎
۱۶ ؎ تفسیر :
بعض لوگ اس آیت کے یہ معنے کرتے ہیں کہ خبیث عورتیں خبیث مردوں کیلئے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کیلئے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کیلئے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کیلئے ہیں ۔لیکن یہ معنے واقعات کے بھی خلاف ہیں اور عقل کے بھی خلاف ہیں۔قرآن کریم نے حضرت لوطؑ اور حضرت نوح ؑ علیہم السلام کی بیویوں کو مجرم قرار دیا ہے ۔تو کیا حضرت لوطؑ اور حضرت نوح ؑ کو بھی مجرم قرار دیا جا ئیگا ؟ اصل بات یہ ہے کہ پہلی آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ بری باتیں برے مردوں کیلئے ہیں اور برے مرد بری باتوں کیلئے ہیں ۔اور پاک باتیں پاک مردوں کیلئے ہیں اور پاک مرد پاک باتوں کیلئے ہیں چنانچہ آیت کا آخری حصہ ان معنوں کی تائید کرتا ہے جس میں فرماتا ہے کہ پاک مرد اور پاک عورتیں اُن الزاموں سے جو اُن پر لگائے جاتے ہیں پاک ہیں ۔اسی طرح ضمنی طور پر اس آیت سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ والی آیت بھی مرد و عورت دونوں کیلئے ہے کیونکہ مضمون کے خاتمہ پر جو نتیجہ نکالا گیا ہے اُس میں اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل کیا ہے ۔
یہ آیت درحقیقت ایک عام قانون پر مشتمل ہے اور اس میں بتلایا گیا ہے کہ الزام قبول کرنے سے پہلے ملزم کی عام حیثیت کو دیکھ لو۔اگر وہ عام طور پر نیک سمجھا جاتا ہے تو بادی النظر میں الزام کو فوراً جھوٹا قرار دے دو اسی طرح یہ بھی دیکھ لو کہ الزام لگانے والے کن اخلاق کے آدمی ہیں ۔اور آیا وہ گواہِ عادل ہیں یا نہیں ۔اگر وہ راستباز نہ ہوں یا اُن کی دماغی کیفیت قابل تسلی نہ ہوتو ان کی گواہی کو کسی صورت میں بھی قابلِ قبول نہیں سمجھا جا ئیگا۔
تاریخ قضاء میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے امام ابن تیمیہ ؒ کے خلاف ایک دعویٰ کیا ۔قاضی نے آپ کے خلاف سمن جاری کر دیا۔اتفاقاً آپ اُسے ملنے چلے گئے ۔قاضی نے اُن سے ذکر کیا کہ ایسا ایسا دعویٰ آپ کے خلاف ہوا ہے اور میں نے سمن جاری کر دیا ہے ۔امام ابنِ تیمیہ ؒ نے کہا کہ آپ قرآن وحدیث کے حکم کے خلاف کیا ہے ۔آپ کو سمن جاری کرنے سے پہلے معاملہ کی تحقیق کرنی چاہئیے تھی کیونکہ میری شہرت اس الزام کے خلاف ہے ۔پس چاہئیے تھا کہ آپ مدعی سے ثبوت طلب کرتے اور اگر کوئی معقول ثبوت اس کے پاس ہوتا تو پھر بے شک مجھے اپنی برأت پیش کرنے کے لئے بلاتے ۔قاضی نے انکی اس دلیل کو قبول کر لیا اور انکے سمن کو منسوخ کر دیا ۔
یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَدْخُلُوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْم’‘ ہ
ترجمہ ()اے مومنو ! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں نہ داخل ہو ا کرو جب تک کہ اجازت نہ لے لو ۔اور داخل ہونے سے پہلے اُن گھروں میں بسنے والوں کو سلام کرو ۔یہ تمہارے لئے اچھا ہوگا اور اس فعل کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم نیک باتوں کو ہمیشہ یاد رکھو گے ۔اور اگر تم اُن گھروں میں کسی کو نہ پائو تب بھی اُن میں داخل نہ ہو جب تک کہ تمہیں گھر والوں کی طرف سے اجازت نہ مل گئی ہو ۔اور اگر کوئی گھر میں ہو اور تم سے کہا جائے کہ اس وقت چلے جائو تو تم چلے آئو یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ ہو گا اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے ۔ ۱۷ ؎
۱۷ ؎ حل لغات :
تَسْتَاْ نِسُوْا ۔اٰنَسْتُ مِنْہُ کَذَا کے معنے ہوتے ہیں عَلِمْتُ میں نے معلوم کیا اور جب اِسْتَاْنَسْتُ کہیں تو اس کے معنے ہوں گے اِسْتَعْلَمْتُ۔ میں نے یہ کوشش کی کہ کسی بات کے متعلق علم حاصل کروں ۔زجاج جو لغت کے امام ہیں ۔و ہ کہتے ہیں کہ آیت لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًاغَیْرَ بُیُوْ تِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا میں تَسْتَاْنِسُوْا کے معنے ہیں تَسْتَاْذِنُوْا یعنی تم کسی کے گھر میں داخل نہ ہو جب تک کہ تم اجازت حاصل نہ کرلو۔وَلِذٰلِکَ جَآ ئَ فِی التَّفْسِیْرِ تَسْتَاْنِسُوْا فَتَعْلَمُوْا اَیُرِیْدُ اَھْلُھَا اَنْ تَدْخَلُوْا اَمْ لَا ۔اسی واسطے تَسْتَاْ نِسُوْا کی تشریح میں یہ آیا ہے کہ اصل معنے اس کے یہ ہیں کہ تم معلوم کرو کہ کیا گھر والے یہ چاہتے ہیں کہ تم اندر آئو یا نہیں ۔(لسان العرب)
تفسیر :
قرآن کریم کا طریق ہے کہ وہ اصلاح خلق کیلئے ایسی ہدایات دیتا ہے جو بدی کی جڑ کو کاٹنے والی ہوتی ہیں ۔چونکہ بعض لوگ بدظنی کی طرف بہت جلد مائل ہو جاتے ہیں اس لئے اُس نے حکم دے دیا کہ اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں بغیر اجازت اور بغیر گھرو الوں کو سلام کرنے کے داخل نہ ہوا کرو ۔تاکہ کوئی شخص تم پر چوری یا بدکاری کی بدظنی نہ کرے ۔اگر تم اجازت لے لو گے یا سلام کہہ لو گے تو پھر ہر ایک شخص کو پتہ لگ جائیگا کہ گھر کے تمام مردوں اور عورتوں کو تمہارے اندر داخل ہو نے کا علم ہے اور اس صورت میں نہ تم پر کوئی چوری کا الزام لگا سکے گا اور نہ بدکاری کا ۔اور اگر یہ سوال ہو کہ گھر میں کوئی ہو ہی نہ ۔تو پھر کیا کیا جائے تو اس کاجواب یہ دیا کہ اس صورت میں گھر میں داخل ہی نہ ہو۔جب تک کہ تمہیں اجازت نہ دی جائے یعنی اُس وقت تک انتظار کرو جب تک کہ خاندان کے مردوزن واپس نہ آجائیں تاکہ تم پر چوری کا الزام نہ لگ سکے اور گھر کے افراد کے واپس آنے کے بعد اگر اجازت مل گئی تو تم بدکاری کے الزام سے بھی محفوظ ہو جائے گے۔پھر سوال ہو سکتا تھا کہ اگر گھر کے افراد تو موجود ہوں مگر وہ اجازت نہ دیں تو پھر کیا کریں ۔اس کا جواب یہ دیا کہ گھرو الے اپنے گھر کے مالک ہیں اگر وہ اجازت نہ دیںتو اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائو۔
انگریز اپنی زبان کے اس محاورہ پر بڑا فخر کیا کرتے ہیں کہ ـ’’ انگریز کا گھر اس کا قلعہ ہوتا ہے ۔‘‘ یعنی اس میں کوئی شخص بلا اجازت داخل نہیں ہو سکتا ۔لیکن ان میں تو یہ بات آج آئی ہے ۔اور قرآن نے اس وقت یہ قانون بنایا جب انگریز ابھی ننگے پھرا کرتے تھے اور بندروں سے زیادہ اُ ن کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔
یہ آیات جو تمدنی زندگی سے تعلق رکھنے والے بعض نہایت ہی لطیف احکام پر مشتمل ہیں ۔ان میں اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت دی ہے کہ کسی دوسرے کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت حاصل کر لیا کرو ۔استیناس کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے۔اس بات کا علم حاصل کرنے کی کوشش کے ہیں کہ آیا گھر والے ملاقات کرنا پسند کرتے ہیں یا نہیں کرتے ( بحرِ محیط ) اسی طرح اس کے ایک معنے اجازت حاصل کرنے کے بھی ہیں ۔چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ سے یہی معنے مروی ہیں اور انہوں نے تَسْتَاْنِسُوْا کے معنے تَسْتَاْ ذِنُوْا یعنی اجازت مانگنے کے ہی کئے ہیں ۔(بحر محیط ) اگر اس قرآنی ہدایت پر عمل کیا جائے تو دنیا کے بہت سے فسادات اور جھگڑے مٹ جائیں ،بعض لوگ بڑی سادگی سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ یونہی ہماری نظر پڑگئی تھی اور اس بنا پر وہ دوسرے پر اتہام لگا دیتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اس حکم کے ذریعہ اس قسم کی خرابیوں کو بھی دور کر دیا ۔اگر کوئی شخص کہے گا کہ جھانک کر دیکھنے سے میں نے فلاں کو اس حالت میں دیکھا تھا ۔ تو قاضی کہیگا کہ تو جھانکا کیوں تھا ؟ تیری گواہی قابلِ قبول نہیں کیونکہ تو نے خود شریعت کے حکم کو توڑا ہے ۔دوسرے اس ہدایت پر عمل کرنے سے خود انسان بہت سے ایسے مواقع سے بچ جاتا ہے جن کی وجہ سے وہ اتہام کا نشانہ بن سکتا ہے ۔تیسرے آپس کے تعلقات میں بھی کشیدگی پیدا نہیں ہوتی ۔اگر دوسروں کے گھروں میں آنے جانے کیلئے اجازت کی شرط نہ ہو تو ایسی صورت میں جبکہ میاں بیوی بے تکلفی کی حالت میں بیٹھے ہوں اُن کی شرمندگی اٹھانی پڑے گی ۔پھر اگر اجازت لینا ضروری نہ ہوتا تو چوریوں کی وارداتیں بھی بڑھ جاتیں ۔ایک شخص چوری کی نیت سے اندر داخل ہو جاتا اور جب پکڑا جاتا تو کہتا میں تو ملنے آیا تھا ۔غرض ان احکام میں بیسیوں فوائد مخفی ہیں مگر آجکل جہاں دوسروں کے گھروں میں داخل ہو نے سے پہلے لوگ عموماً اجازت لے لینے کے عادی ہیں وہاں استیناس کرتے وقت السلام علیکم کہنے کا بہت کم رواج ہے ۔وہ صرف زور زور سے دستک دینا او ر شور مچانا شروع کر دیتے ہیں یا باہر کھڑے کھڑے بلند آواز سے گھر والے کا نام لے کر بلانا شروع کر دیتے ہیں ۔حالانکہ استیناس کے ساتھ سلام کہنا بھی ضروری ہوتا ہے۔چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ اپنے گھر تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص آیا اور اُس نے کہا ۔یا رسول اللہ ! میں اندر آجائو ں ۔رسول کریم ﷺ نے اپنے ایک خادم کو بُلایا اور اُسے فرمایا کہ جائو اور اسے اجازت حاصل کرنے کا طریق بتائو ۔جویہ ہے کہ پہلے السلام علیکم کہے ۔اور پھر دریافت کرے کہ کیا مجھے اندر آنے کی اجازت ہے ( فتح البیان) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے سلام کہنا چاہئیے اور پھر اجازت لینی چاہئیے ۔اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ اگر ایک دفعہ جواب نہ ملے تو وقفہ دقفہ کے بعد تین دفعہ السلام علیکم کہنا چاہئیے ۔لیکن بعض لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے اجازت لینی چاہئیے اور پھر سلام کہنا چاہئیے کیونکہ قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں کہ تَسْتَاْ نِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَھْلِھَا یعنی استیناس کا پہلے ذکر آتا ہے اور سلام کا بعد میں مگر ان کا یہ استدلال درست نہیں بیشک اس جگہ استیناس کا پہلے ذکر آتا ہے ۔مگر استیناس کے معنے استعلام اور استکشاف کے ہیں ۔یعنی اس بات کا علم حاصل کرنیکی کوشش کے ہیں کہ آیا گھر والے ملاقات کرنا پسند کرتے ہیں یا نہیں کرتے ۔گویا اس کے معنے اپنا تعارف کروانے کے ہیں اور یہ اُسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ پہلے گھروالوں کی توجہ کواپنی طرف پھیر لی جائے ۔اب سوال یہ ہے کہ گھروالوں کی توجہ کو کس طرح پھیرا جائے سو اس کیلئے ایک طریق تو رسول کریم ﷺ نے بیان فرما دیا کہ پہلے السلام علیکم کہو اور پھر اندر آنیکی اجازت حاصل کرو ۔اور ایک عام طریق جو لوگوں کا اپنا ایجاد کردہ ہے وہ یہ ہے کہ وہ دروازہ کو زور زور سے کھٹکھٹانا یا زنجیر ہلانا شروع کر دیتے ہیں مگر السلام علیکم نہیں کہتے چونکہ رسول کریم ﷺ نے سلام کہنا ضروری قرار دیا ہے اس لئے خواہ دستک دی جائے یا زنجیر ہلائی جائے تب بھی اس حکم کے ماتحت ضروری ہو گا کہ دستک کے ساتھ السلام علیکم کہا جائے لیکن جہاں امراء کو ٹھیوں کے اندر رہتے ہوں وہاں اُن کی ملاقات کیلئے اگر تعارفی کارڈ اندر بھجوا دیا جائے یا رقعہ لکھ کر کسی خادم کے ذریعہ اپنے آنے کی اطلاع دیدی جائے تو یہ طریق بھی استیناس میں ہی شامل ہوگا کیونکہ اس ذریعہ سے وہ اپنا تعارف کروا دیتا ہے ۔اس کے بعد جب انسان اندر داخل ہو تو پھر تَسْتَاْ نِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَھْلِھَا کے ماتحت اس کا فرض ہوگا کہ وہ دوبارہ سلام کرے ۔گویا ایک سلام تو استیناس کے وقت ہوگا اور ایک سلام اس وقت ہوگا جب وہ ملاقات کیلئے اندر داخل ہوگا ۔استیناس کی شرط علاوہ اور حکمتوں کے اس لئے بھی رکھی گئی ہے کہ بعض دفعہ ایسا آدمی ملاقات کیلئے آجاتا ہے جس سے ملنا ضروری نہیں ہوتا ۔پس جب وہ استیناس کے ذریعہ گھروالوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیگا تو گھر والے دیکھ لیں گے کہ وہ کون ہے اور آیا اُس سے ملنا ضروری ہے یا غیر ضروری ہے ۔اگر ضروری ہوگا تو وہ بلالیں گے اور اگر ضروری نہیں ہو گا تو اُسے جواب دے دیں گے ۔
ٍ پھر فرماتا ہے فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْافِیْھَآ اَحَدً فَلَا قَدْ خُلُوْھَا حَتّٰی یُؤ ذَنَ لَکُمْ اگرگھر میں کوئی شخص موجود نہ ہو اور وہ کہیں باہر گئے ہوئے ہوں تو تم ان کی واپسی کا انتظار کرو اور اُن کی اجازت کے بغیر مکان میں مت داخل ہو۔وَاِنْ قِیْلَ لَکُمْ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ھُوَ اَزْکیٰ لَکُمْ اور اگرتم کو کہہ دیا جائے کہ جائو ہم مل نہیں سکتے ۔ہمیں اس وقت فرصت نہیں تو پھر تمہارا فرض ہے کہ واپس چلے جائو ۔یہ نہیں کہ دھرنا مار کر بیٹھ جائو کہ ہمیں ضرور آنے کی اجازت دی جائے ۔صحابہ ؓ میں احکام شریعت کو پورا کرنے کی اسقدر تڑپ پائی جاتی تھی کہ ایک صحابی ؓ کہتے ہیں ۔مجھے سالہا سال یہ خواہش رہی کہ میں کسی کے ہاں جائوں اوروہ مجھے کہے کہ واپس چلے جائو تاکہ ھُوَ اَزْکیٰ لَکُم کے ماتحت میں ثواب حاصل کر سکوں مگر مجھے کبھی ایسا موقعہ نہیں ملا ( فتح البیان جلد ۶ ) اس سے صحابہ ؓ کی اُس محبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو انہیں ایک دوسرے کے ساتھ تھی ۔ایک شخص سالہا سال اس موقعہ کی تلاش میں رہتا ہے کہ مجھے کبھی یہ سُننے کا موقعہ ملے کہ واپس چلے جائو مگر ایک صحابی ؓ بھی یہ جواب نہیں دیتا ۔اور دوسری طرف اس صحابی ؓ میں بھی کس قدر اخلاص تھا کہ سالہا سال اُس نے ایسا موقعہ تلاش کرنے میں لگا دئیے ۔
لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاح’‘ اَنْ تَدْخُلُوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تُبْدُوْنَ وَمَا تَکْتُمُوْنَ ہ
ترجمہ() تمہارے لئے اُن گھروں میں داخل ہونا گناہ کا موجب نہیں جن میں کوئی رہتا نہیں اور تمہارا سامان اُس میں پڑا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ اُسے بھی جانتا ہے جسے تم ظاہر کرتے ہو اور اُسے بھی جسے تم چھپاتے ہو۔ ۱۸ ؎
۱۸؎ تفسیر :
اس آیت میں ایک نئی حالت کا ذکر کیا کہ اگر کوئی گھر ہو تو کسی غیر کا لیکن اس میں کوئی خاندان رہتا نہ ہو بلکہ تم نے اپنا زائد سامان رکھنے کیلئے اُسے کرایہ پر لیا ہوا ہو یا مانگا ہوا ہو ۔تو اُس کے متعلق یہ قانون ہے کہ اُس میں بغیر اجازت کے داخل ہونا تمہارے لئے جائز ہے کیونکہ اگر وہ مکان تم نے کرایہ پر لیا ہوا ہے تو عملاً وہ تمہارا ہی ہے اور اگر مانگا ہوا ہے تو پھر بھی مالک کی اجازت سے وہ مکان تمہارا ہی سمجھا جائیگا۔
وَاللہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَکْتُمُوْنَ میں پہلے حکم کے نتیجہ میں جو وساوس پیدا ہو سکتے تھے اُن کا رد کیا ہے اور بتایا ہے کہ اگر تمہارے دل میں یہ خیال گذرے کہ ایسی قیدوں سے تو تمدن خراب ہو جائیگا ۔تو تمہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ یہ وساوس درست نہیں ۔یہ قیدیں تمہاری بھلائی کیلئے ہیں تم کو تکلیف میں ڈالنے کیلئے نہیں ۔صرف اس لئے ہیں کہ تم ہوشیار ہو جائو اور پہلے سے احتیاطیں اختیار کرلو تاکہ نقصان اٹھانے سے محفوظ ہو جائو ۔
قُلْ لِّلْمُؤ مِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اَیُّہَ الْمُؤ مِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ہ
ترجمہ () تو مومنوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔یہ اُن کے لئے بہت پاکیزگی کا موجب ہوگا ۔جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُس سے اچھی طرح خبردار ہے اور مومن عورتوں سے کہدے کہ وہ بھی اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے جو آپ ہی آپ بے اختیار ظاہر ہوتی ہو۔اور اپنی اوڑھنیوں کو اپنے سینہ پر سے گذار کر اسکو ڈھانک کر پہنا کریں ۔اور اپنی زینتوں کو صرف اپنے خاوندوں یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی (ہم کفو) عورتوں یا جن کے مالک اُن کے داہنے ہاتھ ہوئے ہیںان کے سوا کسی پر ظاہر نہ کیا کریں ۔یا ایسے ماتحت مردوں پر جو ابھی جوان نہیں ہو ئے ۔یا ایسے بچوں پر جن کو ابھی عورتوں کے خاص تعلقات کا علم حاصل نہیں ہوا ۔اور اپنے پائوں ( زور سے زمین پر ) اس لئے نہ مارا کریں کہ وہ چیز ظاہر ہو جائے جس کو وہ اپنی زینتسے چھپا رہی ہیں اور اے مومنو ! سب کے سب اللہ کی طرف رجوع کرو ۔تا کہ تم کامیاب ہو جائو ۔۱۹؎
۱۹؎ حل لغات :
یَغُضُّوْا : غَضَّ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور غَضَّ بَصَرَہ‘ کے معنے ہیں مَنَعَہ‘ مِمَّا لَا یَحِلُّ لَہ‘ رُوْیَتَہ‘ یعنی اپنی آنکھ کو اس چیز سے روکاجس کا دیکھنا اس کیلئے ممنوع تھا ۔( اقرب)
خُمُر: خِمَار کی جمع ہے اور اَلْخِمَارُ کے معنے ہیں ھُوَ مَا تُغَطِّیْ بِہِ الْمَرْأۃُ رَاْمَھَا ۔وہ کپڑا جس سے عورت اپنا سر ڈھانپتی ہے ۔( اقرب)
جُیُوْ بِھِنَّ مَا لْجُیُوْبُ : اَلْجَیْبُ کی جمع ہے او ر اَلْجَیْبُ کے معنے ہیں اَلْقَلْبُ وَالصَّدْرُ ۔سینہ ( اقرب)
اَلْاِرْبَۃُ : اَلْحَا جَۃُ یعنی اربۃ کے معنے عربی زبان میں حاجت کے ہوتے ہیں ۔(اقرب )پس غَیْرُ اُولِی الْاِرْبَۃِ کے معنے ہونگے جن کو کوئی حاجت اور ضرورت نہ ہو ۔
تفسیر :
یہاں بدی سے بچنے کا ایک اور طریق بتا یا ۔اور وہ یہ کہ مومن مرد اور مومن عورتیں اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں ۔کیونکہ اس سے بدی کا امکان بہت کم ہو جائیگا اور برائی پھیلنے کا راستہ مسدور ہو جائے گا ۔گویا باوجود پردہ کے حکم کے جو الٰہی آیات میں بیان کیا گیا ہے ۔پھر بھی بعض مواقع ایسے نکل سکتے ہیں جبکہ مرد و عورت اکٹھے ہوں ایسی صورت میں یہ حکم دیا کہ مرد و عورت دونوں اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں تا کہ شیطان اُن پر حملہ آور نہ ہو اور ان کے دلوں کی پاکیزگی قائم رہے ۔
یہ ایک عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے تو صرف یہ کہا ہے کہ
’’ جس کسی نے بری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کر چکا ۔‘‘
( متی باب ۵ آیت ۲۸)
لیکن اسلام یہ کہتا ہے کہ تو کسی غیر عورت کے چہرہ پر نگاہ نہ ڈال ۔نہ اچھی نظر سے اور نہ بری نظر سے کیونکہ اگر تو نے دیکھا تو ہو سکتا ہے کہ شیطان تجھے ورغلائے اور تیرے دل میں بدی کا بیج بو دے ۔پھر اسلام اگر ایک طرف مردوں کو غضِ بصر کی ہدایت دیتا ہے تو ساتھ ہی عورتوں کو بھی اسکی تاکید کرتا ہے ۔مگر عیسائیت صرف مردوں کو اس تعلیم کا پابند قرار دیتی ہے اور وہ بھی اس شکل میں کہ وہ غیر محرم عورت کو تو کھلے بندوں دیکھنے کی اجازت دیتی ہے مگر اتنی احتیاط رکھنے کی ہدایت دیتی ہے کہ بری نگاہ سے نہ دیکھو ۔مگر یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ
؎ درمیانِ تعرِ دریا تختہ بندم کروۂ
بازمی گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش
دریا کے وسط میں قید کر دینا او ر پھر کہنا کہ دیکھنا تمہارے کپڑے گیلے نہ ہوں عقل کے بالکل خلاف ہے ۔اسی طرح یہ کہنا کہ عورتوں کو تو دیکھو مگر بری نیت سے نہ دیکھو ایسی بات ہے جو کسی صورت میں بھی قابلِ عمل نہیں کہلا سکتی ۔کیونکہ بدی کی جڑ مرد و عورت کا آزادانہ اختلاط ہی ہے ۔اگر اس جڑ کو قائم رکھا جائے تو بدی کے رُکنے کا کوئی احتمال ہی نہیں ہو سکتا ۔پس عیسائیت ایک ایسی تعلیم پیش کرتی ہے جو ناقابلِ عمل ہے مگر اسلام کہتا ہے کہ مردوں کو چاہئیے کہ وہ غیر محرم عورتوں کو نہ دیکھیں اور عورتوں کو چاہئیے کہ وہ غیر محرم مردوں کو نہ دیکھیں اور اس طرح اپنے ایمان اور تقویٰ کی حفاظت کریں ۔
مگر بعض لوگوں نے جو حقیقت پر غور کرنے کے عادی نہیں غلطی سے اس حکم سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ غیر محرم عورت کے کسی حصہ پر بھی نظر ڈالنا اسلامی احکام کی رُو سے جائز نہیں ۔حالانکہ یہ درست نہیں اگر شریعت اسلامیہ کا یہی منشا ہوتا کہ عورت کے جسم کے کسی حصہ پر بھی نظر نہ ڈالی جائے تو عورتوں کو چار دیواری سے باہر قدم رکھنے کی اجازت ہی نہ ہوتی اور مکان بھی بند دریچوں کے بنائے جاتے ۔جس قسم کے ظالم بادشاہ پرانے زمانہ میں قید خانے بنایا کرتے تھے حالانکہ عورت بھی اسی قسم کی انسان ہے جس قسم کا کہ مرد ہے اور اُس کی طبعی ضروریات بھی مرد ہی کی طرح ہیں اور خدا تعالیٰ کا طبعی قانون بھی دونوں پر یکساں اثر کر رہا ہے ۔اور وہ قانون صحت کی درستی اور جسم کی مضبوطی کیلئے اس امر کا مقضی ہے کہ انسان کھلی ہو ا میں پھرے اور محدود دائرہ میں بند ہونے کا خیال اس کے اعصاب میں کمزوری پیدا نہ کرے اور جبکہ شریعت عورت کو باہر پھرنے کی اجازت دیتی ہے تو لازماً جب وہ باہر نکلے گی اس کی نظر مردوں کے جسم کے بہت سے حصوں پر اُسی طرح پڑے گی جس طرح عورت کے بعض حصوں پر مرد کی پڑتی ہے ۔خواہ وہ کپڑوں کے نیچے چھپے ہوئے ہوں ۔اور یہ چیز ممنوع نہیں اصل چیز جو پردہ کی جان ہے اور جس کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے وہ دونوں کی نظر کو ملنے سے بچاتا ہے اور جسم کا وہ حصہ جس پر نگاہ ڈالتے ہوئے آنکھیں ملنے سے رہ ہی نہیں سکتیں ۔یا اس امر کی احتیاط نہایت مشکل ہو جاتی ہے وہ چہرہ ہی ہے ۔بقیہ جسم کو جبکہ وہ مناسب کپڑوں سے ڈھکا ہوا ہو نہ چھپانے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ اُسے چھپایا جا سکتا ہے جب تک کہ عورتیں بازاروں اور گلیوں میں پھرنا نہ چھوڑ دیں ۔یا قناتیں تان کر وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر نہ کریں۔اوریہ ناممکن امر ہے ۔امراء کی عورتیں تو پھر بھی اپنے مکانوں کی وسیع چاردیواری میں پھر سکتی ہیں مگر غرباء اور اوسط طبقہ کی عورتیں کس طرح گذارہ کریں ۔مگر امراء کی عورتوں کو بھی سیل ملاقات کیلئے ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف جانا پڑتا ہے اور ان کی نظر میں لازماً گلیوں اور سڑکوں پر پھرنے والے اور بر آمدوں اورا سٹیشنوں اور گاڑیوں پر بیٹھنے والے لوگوں کے بعض حصہ جسم پر پڑیگی اور مردوں کی نظر ان کے جسم کے بعض حصوں پر پڑیگی سو ائے اس صورت کے کہ گھر سے نکلتے ہی عورتوں اور مردوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی جائیں تاکہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ ہی نہ سکیں ۔مگر کوئی عقلمند اس کو جائز قرار نہیں دے سکتا ۔پس غضِ بصر کے حکم کا یہ منشا ء نہیں کہ عورت کیلئے مرد کے جسم کے کسی حصہ پر بھی نظر ڈالنا منع ہے یا مرد عورت کے جسم کے کسی حصہ پر بھی نظر نہیں ڈال سکتا بلکہ صرف دونوں کی نگاہوں کو آپس میں ملنے سے بچانا ہے ورنہ جو عورت بھی باہر نکلے گی اُس کے پائوں او ر اُس کی چال اور اس کا قد اور اس کے ہاتھوں کی حرکت اور ایسی ہی اور کئی چیزیں مردوں کو نظر آئیں گی ۔اسی طرح مرد کے جسم کے کئی حصے عورتوں کو نظر آئیں گی اور یہ چیز ایسی ہے جس پر شریعت نے کوئی پابندی عائد نہیں کی ۔لیکن عورت کا بلا حجاب مرد کے سامنے آنا اور اس کے ساتھ بے تکلف ہونا چونکہ انسان کے حیوانی تقاضوں کو جوش دلاتا اور اسے جذبات کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے ۔اس لئے شریعت نے اس پر پابندی عائد کر دی ہے اور عورت کو پردہ کا حکم دید یا ہے ۔
اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ قرآن کریم کا یہ طریق نہیں ہے کہ وہ عورتوں کو الگ مخاطب کر کے انکو وہی حکم دے جو مردوں کو دیا گیا ہو بلکہ جو حکم مردوں کیلئے ہو اُس میں عورتیں بھی شامل ہو تی ہیں مگر یہاں پہلے مومن مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اور اس طرح اپنے فروج کی حفاظت کریں ۔اور پھر قُلْ لِّلْمُؤ مِنٰتِ کہہ کر مومن عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے فروج کی حفاظت کریں ۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس معاملہ میں پیشہ کے طور پر عورتوں میں ہی یہ برائی پائی جاتی ہے اس لئے ضروری تھا کہ عورتوں کو الگ بھی مخاطب کیا جا تا اور اُن کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا جاتا ۔لیکن اس کے علاوہ علم النفس کے ماتحت مرد و عورت کے باہمی تعلقات کی ابتداء ہمیشہ دونوں کی نظریں ملنے سے ہوتی ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ جب کسی پر نظر پڑتی ہے تو خواہ دوسرے کی نظر نیچی ہی ہو تب بھی اس پر اثر پڑ جاتا ہے ۔اس لئے یہ حکم تبھی مفید ہو سکتا تھا جبکہ دونوں کو دیا جاتا اور دونوں کو اس امر کا پابند کر دیا جاتا کہ وہ ایک دوسرے کی طرف نہ دیکھیں ۔نہ مرد عورتوں کی طرف دیکھیں اور نہ عورتیں مردوں کی طرف دیکھیں ۔
وَلَایُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا ۔پھر فرماتا ہے ۔اچھے اچھے کپڑے اور زیور پہن کر لوگوں کو دکھاتی نہ پھرو۔ہاں جو چیز خود بخود ظاہر ہو جائے ۔اس کے ظاہر ہونے میں تم پر کوئی گناہ نہیں ۔مَا ظَھَرَ مِنْھَا کے متعلق مفسرین میں اختلاف پیدا ہوا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے۔بعض نے کہا ہے کہ اس سے کپڑے مراد ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایسے زیورات مراد ہیں جو عورتوں کے ہاتھوں اور پائوں میں ہوتے ہیں۔جیسے انگوٹھی اور کڑے اور پازیب وغیرہ ۔بعض نے کہا ہے کہ کہنیوں تک ہاتھ مراد ہیں ۔بعض نے کہا ہے کہ اوپر کا برقعہ یا چادر مراد ہے۔بعض نے اس کے ہاتھوں کی مہندی مراد لی ہے لیکن قرآن کریم نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو ۔یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ جو چیز خود بخود ظاہر ہو شریعت نے صرف اس کو جائز رکھا ہے ۔یہ نہیں کہ جس مقام کو کوئی عورت آپ ظاہر کرنا چاہے اس کا ظاہر کرنا اس کے لئے جائز ہو۔میرے نزدیک آپ ہی آپ ظاہر ہونے والی موٹی چیز یں دو ہیں یعنی قد اور جسم کی حرکات اور چال لیکن عقلاً یہ بات ظاہر ہے کہ عورت کے کام کے لحاظ سے یا مجبوری کے لحاظ سے جو چیز آپ ہی آپ ظاہر ہو وہ پردے میں داخل نہیں ۔چنانچہ اسی اجازت کے ماتحت طبیب عورتوں کی نبض دیکھتا ہے کیونکہ بیماری مجبور کرتی ہے کہ اس چیز کو ظاہر کر دیا جائے ۔اگر منہ پر کوئی جلدی بیماری ہو تو طبیب مونہہ بھی دیکھے گا ۔اگر اندرونی بیماری ہو تو زبان دیکھے گا ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک جنگ میں ہم پانی لاتی تھیں اور ہماری پنڈلیاں ننگی ہو جاتی تھیں ۔اُس وقت پنڈلیوں کا ننگا ہو نا قرآن کریم کے خلاف نہ تھا بلکہ اس قرآنی حکم کے مطابق تھا۔جنگی ضرورت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ عورتیں کا م کرتیں اور دوڑنے کی وجہ سے پنڈلیاں خود بخود ننگی ہو جاتی تھیں کیونکہ اس وقت پاجامے کا نہیں بلکہ تہ بند کا رواج تھا ۔اسی اصل کے ماتحت اگر کسی گھرانے کے مشاغل ایسے ہوں کہ عورتوں کو باہر کھیتوں میں یا میدانوں میں کام کرنا پڑے تو اُن کیلئے آنکھوں سے لیکر ناک تک کا حصہ کھلا رکھنا جائز ہو گا ۔اور پردہ ٹوٹا ہوا نہیں سمجھا جائیگا کیونکہ بغیر اس کے کھولنے کے وہ کام نہیں کر سکتیں ۔اور جو حصہ ضروریات زندگی کیلئے اور ضروریاتِ معیشت کیلئے کھولنا پڑتا ہے اس کا کھولنا پر دے کے حکم میں ہی شامل ہے ۔اسی طرح جن عورتوں کو پانی میں کام کرنا پڑتا ہو اُن کیلئے یہ بھی جائز ہوگا کہ وہ پاجامہ اڑس لیں اور اُن کی پنڈلی ننگی ہو جائے لیکن جس عورت کے کام اسے مجبور نہیں کرتے کہ وہ کھلے میدانوں میں نکل کر کام کرے اس پر اجازت کا اطلاق نہ ہوگا۔غرض اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا کے ماتحت کسی مجبوری کی وجہ سے جتنا حصہ ننگا کرنا پڑے ننگا کیا جا سکتا ہے ۔مثلاً ایک زمیندار عورت مونہہ پر نقاب ڈال کر گوڈی وغیرہ یا زمینداری سے تعلق رکھنے والے دوسرے کام نہیں کر سکتی اس کے لئے جائز ہوگا کہ ہاتھ اور آنکھوں سے لیکر ناک تک کا حصہ ننگا رکھے تاکہ کام کر سکے لیکن جن عورتوں کو اس قسم کے کام نہ کرنے پڑتے ہوں بلکہ انہوں نے صرف سیر وغیرہ کیلئے باہر نکلنا ہو ۔اُن کیلئے یہی حکم ہے کہ وہ اپنے منہ کو ڈھانکیں ۔غرض اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا کے یہ معنے ہیں کہ وہ حصہ جو آپ ہی آپ ظاہر ہو اور جسے کسی مجبوری کی وجہ سے چھپا یا نہ جاسکے خواہ یہ مجبوری بناوٹ کے لحاظ سے ہو ۔جیسے قد کہ یہ بھی ایک زینت ہے مگر اس کو چھپانا ناممکن ہے اس لئے اس کو ظاہر کرنے سے شریعت نہیں روکتی ۔یا بیماری کے لحاظ سے ہو کہ کوئی حصہ جسم علاج کیلئے ڈاکٹر کو دکھانا پڑے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ السلام تو یہا ں تک فرمایا کرتے تھے کہ ہو سکتا ہے ڈاکٹر کسی عورت کے متعلق تجویز کرے کہ وہ مونہہ نہ ڈھانپے اگر ڈھانپے گی تو اس کی صحت خراب ہو جائیگی اور اِدھر اُدھر چلنے پھرنے کیلئے کہے تو ایسی صورت میں اگر وہ عورت منہ ننگا کرکے چلتی ہے تو بھی جائز ہے بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور کوئی اچھی دایہ میسر نہ ہواور ڈاکٹر یہ کہے کہ اگر یہ کسی قابل ڈاکٹر سے اپنا بچہ نہیں جنوائیگی تو اس کی جان خطرہ میں ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ کسی مرد سے بچہ جنوائے تو یہ بھی جائز ہوگا ۔بلکہ اگر کوئی عورت مرد ڈاکٹر سے بچہ نہ جنوائے اور مر جائے تو خداتعالیٰ کے حضور وہ ایسی ہی گنہگار سمجھی جائیگی جیسے اُس نے خود کشی کی ہے ۔پھر یہ مجبوری کا م کے لحاظ سے بھی ہو سکتی ہے جیسے زمیندار گھرانوں کی عورتوں کی میں نے مثال دی ہے کہ اُن کے گذارے ہی نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ کاروبار میں اپنے مردوں کی امداد نہ کریں ۔یہ تمام چیزیں اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا میں ہی شامل ہیں ۔
پھر فرماتا ہے ۔وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِ ھُنَّ عَلٰی جُیُوْ بِہِنَّ اور چاہئیے کہ وہ اپنی اوڑھنیوں کو کھینچ کر اپنے گر یبانوں تک لے آئیں ۔خمار کسی چادر یا وہ پٹے کا نام نہیں ہے بلکہ اُس رومال کا نام ہے جو کام کرتے وقت عورتیں اپنے سر پر باندھ لیا کرتی ہیں ۔اور حبیب عربی زبان میں قمیض کے چاک کو کہتے ہیں ۔جیسے ہمارے ہاں گریبان کہتے ہیں ۔یہ گریبان مختلف طریق سے بنا یا جاتا ہے ۔بعض لوگوں میں پیچھے کی طرف ہوتا ہے بعض میں دائیں کندھے کی طرف ہوتا ہے ۔بعض میں بائیں کندھے کی طرف ہوتا ہے ۔بعض میں اگلی طرف ہوتا ہے ۔بعض میں دائیں بائیں دونوں طرف ہوتا ہے ۔عربوں میں چاک کا رواج سامنے یعنی سینہ کی طرف تھا ۔اور عرب کی عورتوں میں رواج تھا کہ وہ پیٹھ اور کندھے پر کپڑا ڈال لیتیں اور سینہ ننگا رکھتیں جس طرح آجکل یوروپین عورتیں کرتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِ ھُنَّ عَلٰی جُیُوْ بِہِنَّ چاہئیے کہ وہ اپنے خُمر کو جیوب پر ڈال لیں ۔اور چونکہ اُن کے جیوب اگلی طرف ہوتے تھے اس لئے اس کے معنے یہ ہوئے کہ سر پر سے کپڑے کو کھینچ کر نیچے جیوب تک لے آئیں ۔یعنی گھونگھٹ نکال لیں یہ معنے نہیں کہ دو پٹے کی آنچل کو اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں ۔کیونکہ خمار کی آنچل نہیں ہوتی وہ چھوٹا ہوتا ہے ۔اس کے معنے یہی ہیں کہ سر سے رومال کو اتنا نیچا کرو کہ وہ سینہ تک آجائے اور سامنے سے آنے والے آدمی کو منہ نہ نظر آئے ۔یہ ہدایت بتارہی ہے کہ عورت کو مونہہ پر دہ میں شامل ہے مگر بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ عورت کیلئے منہ کا پردہ نہیں حالانکہ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ان آیات کے کیا معنے سمجھے اور پھر صحابہ ؓ اور صحابیات ؓ نے اس پر کس طرح عمل کیا ؟ اس غرض کیلئے جب احادیث او ر اسلامی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت منہ پردہ میں شامل تھا ۔چنانچہ لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک رشتہ کے سلسلہ میں ایک صحابیہ ؓ اُمِّ سلیم ؓ کو بھیجا تھا کہ وہ جا کر دیکھ آئے کہ لڑکی کیسی ہے ۔
( مسند احمد بن حنبل جلد ۳ ص ۲۳۱)
اگر اُس وقت چہرہ کو چھپا یا نہ جاتا تھا تو ایک عورت کو بھیج کر لڑکی کا رنگ وغیرہ معلوم کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک نوجوان نے اپنے رشتہ کیلئے ایک جگہ پسند کی اور اُس نے لڑکی کے باپ سے درخواست کی کہ مجھے اور تو سب باتیں پسند ہیں ۔میں صرف اتنا چاہتا ہوںکہ آپ مجھے ایک دفعہ لڑکی دیکھنے کی اجازت دیدیں تاکہ میرے دل کو اطمینان ہو جائے ۔چونکہ اس وقت پردہ کا حکم نازل ہو چکا تھا ۔اس لئے لڑکی کے باپ نے اس کو اپنی ہتک سمجھا ۔اور خفا ہو گیا ۔وہ نوجوان رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ا اور اُ س نے یہ تمام واقعہ بیان کیا رسول کریم ﷺ نے فرمایا بیشک پردہ کا حکم نازل ہو چکا ہے مگر یہ غیر عورت کیلئے ہے جس لڑکی سے انسان شادی کرنا چاہے اور لڑکی کے ماں باپ بھی رشتہ دینے پر آمادہ ہو جائیں تو اُسے شادی سے پہلے اگر لڑکا دیکھنا چاہے تو ایک دفعہ دیکھ سکتا ہے۔تم جائو اور لڑکی کے باپ کو میری یہ بات بتا دو ۔وہ گیا اور اُس نے رسول کریم ﷺ کا یہ پیغام اُسے پہنچا دیا ۔مگر معلوم ہوتا ہے اُس کا ایمان ابھی پختہ نہیں تھا۔اُس نے پھر بھی یہی جواب دیا کہ میں ایسا بے غیرت نہیں کہ تمہیں اپنی لڑکی دکھا دوں ۔لڑکی اندر بیٹھی ہوئی یہ تمام باتیں سن رہی تھی جب اُس نے رسول کریم ﷺ کی بات سن کر بھی اپنی لڑکی کی شکل دکھانے سے انکار کر دیا ۔تو وہ لڑکی فوراً اپنا منہ ننگا کر کے باہر آگئی اور اُس نے کہا جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مونہہ دیکھ لو تو میرے باپ کا کیا حق ہے کہ وہ اس کے خلاف چلے میں اب تمہارے سامنے کھڑی ہوں تم بے شک مجھے دیکھ لو ۔
( ابن ماجہ کتاب النکاح و مسند احمد بن حنبل جلد ۴ ص ۲۴۴)
اگر وہ لڑکی کھلے منہ پھر اکرتی تو اُس نوجوان کو لڑکی کے باپ سے یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ مجھے اپنی لڑکی دکھا دیں ۔اور پھر رسول کریم ﷺ سے اس بارہ میں اجازت حاصل کرنے کا کیا مطلب تھا ؟ اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ ایک دفعہ اپنی ایک بیوی کے ساتھ جن کا نام صفیہ ؓ تھا شام کے وقت گلی میں سے گذر رہے تھے کہ آپ ؐ نے دیکھا کہ ایک آدمی سامنے سے آرہا ہے ۔آپ ؐ کو کسی وجہ سے شبہ ہوا کہ اس کے دل میں شاید یہ خیال پیدا ہو کہ میرے ساتھ کوئی اورعورت ہے ، چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اپنی بیوی کے منہ پر سے نقاب اُلٹ دیا اور فرمایا کہ دیکھ لو یہ صفیہ ؓ ہے ( بخاری ابواب الاعتکاف و مسند احمد بن حنبل جلد ۳ ص ۱۵۶، ۲۸۵) اگر مونہہ کھلا رکھنے کا حکم ہوتا تو اس قسم کے خطرہ کا کوئی احتمال ہی نہیں ہو سکتا تھا ۔اسی طرح حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ جنگ جمل میں فوج کو لڑا رہی تھیں اور اُنکی ہودج کی رسیوں کو کاٹ کر گِرا دیا گیا ۔تو ایک خبیث الطبع خارجی نے اُن کے ہودج کا پردہ اُٹھا کر کہا کہ اوہو ! یہ تو سُرخ و سفید رنگ کی عورت ہے ۔اگر رسول کریم ﷺ کی بیویوں میں منہ کھلا رکھنے کا طریق رائج ہو تا تو جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہودج میں بیٹھی فوج کو لڑا رہی تھیں تو اس وقت وہ انہیں دیکھ چکا ہوتا اور اس کیلئے کوئی تعجب کی بات نہ ہوتی ۔وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اسلام میں منہ چھپانے کا حکم نہیں اُن سے ہم پوچھتے ہیں کہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ زینت چھپائو ۔اور سب سے زیادہ زینت کی چیز چہرہ ہی ہے ۔اگر چہرہ چھپانے کا حکم نہیں تو پھر زینت کیا چیز ہے ۔جس کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے ۔بیشک ہم اس حدتک قائل ہیں کہ چہرہ کو اس طرح چھپایا جائے کہ اس کا صحت پر کوئی برا اثر نہ پڑے۔مثلاًباریک کپڑا ڈال لیا جائے یا عرب عورتوں کی طرز کا نقاب بنا لیا جائے جس میں آنکھیں اور ناک کا نتھنا آزاد رہتا ہے ۔مگر چہرہ کو پردہ سے باہر نہیں رکھا جا سکتا ۔
پھر فرماتا ہے وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا لِبُعُوْ لَتِھِنَّ اَوْ اٰبَآ ئِھِنَّ الخ اس قسم کی زینت سوائے اپنے خاندوں یا باپ دادوں کے یا اپنے خاوندوں کے باپ دادوں کے یا اپنے بیٹوں پوتوں کے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں پوتوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پوتوں کے یا اپنی بہنوں کے بیٹوں پوتوں کے یا اپنے طور طریق والی عورتوں کے یا جو اُن کے غلام ہیں اور کسی پر ظاہر نہ کریں ۔یا سوائے ایسے نوکروں کے جو شہوت کی عمر سے باہر ہیں یعنی بہت بوڑھے ہیں یا سوائے ایسے بچوں کے جن میں ابھی احساسِ شہوت پیدا نہیں ہوا ۔
اَوْ نِسَآ ئِھِنَّ سے پتہ لگتا ہے کہ بعض عورتوں سے بھی پردہ کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ہر ملک میں یہ رواج ہے اور ہمارے ملک میں بھی تھا گو اب کم ہو گیا ہے کہ بد چلن لوگوں نے آوارہ عورتیں رکھی ہوئی ہوتی ہیں جو گھروں میں جاتی ہیں ۔اس قسم کی عورتوں کو روکنے کیلئے شریعت نے یہ حکم دیا ہے کہ ہر عورت کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہئیے بلکہ وہی عورتیں آئیں جن کے متعلق اس قسم کا کوئی خطرہ نہ ہو ۔اور اُن کے حالات سے پوری واقفیت ہو ۔اگر کوئی شخص تاریخ کا مطالعہ کرے تو اُسے معلوم ہو گا کہ سپین اور ہندوستان میں عورتوں کی وجہ سے ہی تباہی آئی ہے ۔سپین کے عیسائیوں نے جب مسلمانوں میں اپنی عورتیں پھیلائیں اور اُن سے طرح طرح کے گندے کام لئے اور انہیں اپنے مذہب کے پھیلانے کا ایک ذریعہ بنایا اور بہت سی مسلمان عورتوں کے خیالات کو بد ل دیا تو اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ مسلمانوں کی نسلوں میں عیسائیت کے خلاف کوئی جوش نہ رہا اور وہ اُن سے اس قدر مل جل گئے کہ عیسائیوں کو اُن پر اقتدار حاصل ہو گیا ۔دوسری طرف عیسائیوں نے اپنی عورتوں کے ذریعے مسلمانوں میں عیاشی اور آرام طلبی کی عادت ڈال دی جس سے اُن میں نہ غیرت اسلامی رہی اور نہ لڑنے کی طاقت رہی ۔آخر یہاں تک نو بت پہنچی کہ عیسائیوں نے مسلمانوں کے ملک پر قبضہ جمانا شروع کیا اور وہ بڑھتے بڑھتے غرناطہ کی دیواروں تک آپہنچے مگر مسلمان پھر بھی بیدار نہ ہوئے اور وہ اپنے عیش میں ا س طرح مست رہے کہ گویا شہر کے باہر فوج نہیں بلکہ برات پڑی ہے ۔آخر انہوں نے اپنا وطن ترک کرنے کی ٹھانی اور افریقہ جانا چاہا مگر عیسائی انہیں کب واپس جانے دیتے تھے۔انہوں نے وہ جہاز ڈبو دئیے جن میں خود عیسائی بادشاہ کی اجازت سے مسلمانوں نے اسلامی لٹریچر کی کتابیں بھری تھیں اور اس طرح سپین سے اسلام او ر مسلمانوں کا نام تک مٹا دیا ۔اسی طرح ہندوستان میں بھی عیسائی مسوں نے مسلمانوں کے گھر وں میں جا جا کر کئی عورتوں کو عیسائی بنا لیا تھا لیکن افسوس ہے کہ مسلمان اب بھی ایسے پادریوں کے سکولوں میں اپنی لڑکیاں داخل کرتے ہیں جہاں پڑھانے والی عیسائی عورتیں ہوتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لڑکیاں خود مذہب سے بیزار ہو جاتی ہیںا ور اسلام پر ہنسی اُڑاتی ہیں ۔اِلَّا ماشاء اللہ
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عورتوں کے متعلق بھی پہلے تحقیق کر لیا کرو کہ اُن کا چال چلن کیسا ہے ۔اور جب تمہیں اطمینان ہو جائے تو پھر انہیں گھر میں آنے کی اجازت دو ۔اور یہی نِسَآ ئِ ھِنَّ سے مراد ہے یعنی وہ عورتیں جو تمہارے گھروں میں آئیں ایسی دیکھی بھالی ہوں کہ گویا تمہاری اپنی ہی عزیز ہیں ۔
پھر فرماتا ہے ۔اَوْمَا مَلَکَتْ اَیْمَا نُھُنَّ ۔عورتوں کیلئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ اپنی لونڈیوں کے سامنے اظہارِ زینت کر لیا کریں ۔کیونکہ لونڈیاں بھی گھر کے افراد کی طرح ہی سمجھی جاتی ہیں لیکن اس کے یہ معنے نہیں جیسا کہ بعض مفسرین نے غلطی سے سمجھا ہے کہ عورتوں کو اپنے غلاموں کے سامنے آنے میں کوئی عرج نہیں کیونکہ غلام صرف ایسی صور ت میں پکڑنے جائز ہوتے ہیں جب دشمن قوم سے خونریر جنگ ہو اور جنگ بھی سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ مذہبی بنیادوں پر لڑی گئی ہو ۔اور جب ایسی دشمن قوم کے بر سرِ جنگ افراد کو سزا کے طور پر پکڑا گیا ہو تو یہ سوال ہی کس طرح پیدا ہو سکتا ہے کہ اُن سے اپنی عورتوں کا پردہ ہٹا یا جائے یا نہ ہٹایا جائے ۔جب شریعت اپنی قوم کے شریف مردوں سے بھی عورتوں کو پردہ کرنیکا حکم دیتی ہے تو ایک دشمن قوم کے افراد سے پردہ اُتارنے کا خیال کسی ایسے شخص کے دماغ میں ہی آسکتا ہے جو عقل اور فہم سے عاری جو چکا ہو ۔پس اس جگہ غلاموں کا کوئی ذکر نہیں بلکہ صرف لونڈیوں کا ذکر ہے اور وہ بھی ایسی لونڈیوں کا جن پر انہیں پوری طرح اعتماد ہو ۔جس طرح نِسَآ ئِ ھِنَّ میں ہر قسم کی آوارہ گر د اور اخلاق باختہ عورتیں شامل نہیں بلکہ صرف ایسی ہی عورتیں شامل ہیں جو ہر طرح اعتماد کے قابل ہوں۔ اور جن کی شرافت او ر وفاداری بالکل بے داغ ہو ۔
غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّ جَالِ ۔بعض نے اس آیت کے معنوں میں مخنث کو بھی شامل کیا ہے ۔مگر رسول کریم ﷺ نے مخنث سے پردہ کا حکم دیا ہے ۔چنانچہ آپ نے ایک دفعہ اپنی بیویوں سے فرمایا کہ اگر مخنث آئے تو اُس سے بھی پردہ کرو ۔اسی طرح آپ نے فرمایا کہ یہ باہر جا کر دوسرے مردوں سے باتیں کرتے ہیں اور اس طرح اشاعت فحش کا موجب ہوتے ہیں ۔
( ابو دائود کتاب اللباس و ابن ماجہ کتاب النکاح و مسند احمد بن حنبل جلد ۶ ص ۲۹۰)
اس سے معلوم ہو اکہ یہاںغَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّ جَالِ سے مخنث مراد نہیں بلکہ ایسے ملازم مراد ہیں جو بوڑھے ہوں اور احساسِ شہوت سے اسقدر عاری ہو چکے ہوں کہ انہیں بدی کا کوئی خیال بھی نہ آسکے ۔مخنث چونکہ جوان بھی ہو سکتے ہیں اور بوجہ ایک عارضی ذریعہ سے نامرد بنا دینے کے اُن کی شہوت اور اُن کا غصہ تیز ہو جاتا ہے اس لئے اُن کو اس میں شامل نہیں کیا جا سکتا ۔علاوہ ازیں چونکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ انسانی شکل کو بگاڑنا شیطان کا کام ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ شیطان نے کہا وَلَاٰ مُرَنَّھُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہُ۔
( نساء ع ۱۸) یعنی میرے کہنے پر لوگ خداتعالیٰ کی بنائی ہوئی صورتوں میں بھی تبدیلی کر دیا کر یں گے ۔اس لئے مخنث بنانا اسلام میں جائز ہی نہیں ہو سکتا ۔اور جو چیز جائز ہی نہ ہو اس کیلئے احکام کس طرح بتا ئے جا سکتے ہیں ۔پس یا تو ان الفاظ سے بوڑھے نوکر مراد ہیں یا پاگل اور نیم عقل رشتہ دار جو احساسِ شہوت سے عاری ہوں یا ایسے بچے جن میں ابھی احساسِ شہوت پید انہ ہو ا ہو ۔اور مردو عورت کے تعلقات سے ناواقف ہوں۔
وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَایُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنََّّ۔فرماتا ہے زیورات چاہے پوشیدہ ہوں عورتوں کو چاہئیے کہ وہ اس طرح پیر نہ مارا کریں کہ اُنکی چھنکار لوگوں کو سُنائی دے اور انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مالدار عورتیں ہیں اور اُن سے تعلق پیدا کرنا ان کیلئے مفید ہو گا ۔اس سے یہ بھی معلوم کہ ناچ وغیرہ کی شریعت نے ناجائز رکھا ہے کیونکہ اس سے بے حیائی پیدا ہوتی ہے ۔یہ احکام ایسے باحکمت ہیں کہ اگر کوئی شخص تعصب کے بغیر ان پر غور کرے تو ان احکام کی خوبی کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ ان سے بہت سی بدیوں کا قلع قمع کر دیا گیا ہے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض علاقوں میں پردہ کے متعلق ایسے تشدد سے کام لیا جاتا تھا کہ وہ ڈولیوں کو بھی پردوں میں سے گذارتے تھے ۔چنانچہ میں نے خود دیکھا کہ عورتوں کو ڈولی میں لاتے اور پھر ڈولی کے اردگرد پردہ تان کر انہیں گاڑی میں سوار کراتے ۔اور بعض قوموں میں اس سے بھی بڑھ کر یہ پردہ ہوتا تھا کہ وہ کہتے تھے عورت ڈولی میں آئے تو پھر اس کا جنازہ ہی گھر سے نکلے ۔مگر یہ لوگوں کے خود ساختہ پردے ہیں جو صریح ظلم ہیں اور اُن کا اثر عورتوں کی صحت اور اُن کے اخلاق اور ان کے علم اور اُن کے دین پر بہت ہی گندا پڑا ہے ۔
قرآن اور حدیث سے اس قسم کے کسی پردے کا پتہ نہیں چلتا بلکہ قرآن کریم سے صریح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو با ہر نکلنے کی اجازت ہے ۔اگر انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہ ہوتی تو غضِ بصر کے حکم کی بھی ضرورت نہ ہوتی ۔پھر تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں خود آپ ؐ کی بیویاں اور آپ ؐ کی بیٹیاں باہر نکلتی تھیں اُن کا جنگوں پر جانا ۔کھیتوں وغیرہ پر کام کرنے کیلئے جانا حاجاتِ بشریہ پورا کرنے کیلئے جانا ۔علم سیکھنے اور سکھانے کیلئے جانا یہ نہایت ہی کثرت کے ساتھ ثابت ہے اور چھوٹی سے چھوٹی تاریخ سے بھی اس کے ثبوت مل سکتے ہیں پس اسلام ہر گز یہ حکم نہیں دیتا کہ عورتیں گھروں میں بند ہو کر بیٹھ جائیں ۔اور نہ ابتدائے اسلام میں مسلمان عورتیں ایسا کرتی تھیں ۔بلکہ وہ رسول کریم ﷺ کا وعظ سننے آتی تھیں ۔جنگوں میں شامل ہوتی تھیں ۔زخمیوں کی مرہم پٹیاں کرتی تھیں ۔سواری کرتی تھیں ۔مردوں سے علوم سیکھتی اور سکھاتی تھیں ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق تو یہاں تک ثابت ہے کہ آپ مردوں کو رسول کریم ﷺ کی حدیثیں سنایا کرتی تھیں ۔بلکہ خود لڑائی کی بھی ایک دفعہ آپ نے کمان کی ۔غرض ان کو پوری عملی آزادی حاصل تھی صرف اس امر کا اُنکو حکم تھا کہ اپنے سر گردن اور منہ کے وہ حصے جو سر اور گردن کے ساتھ وابستہ ہیں اُن کو ڈھانپے رکھیں تاکہ وہ راستے جو گناہ پیدا کرتے ہیں بند رہیں ۔اور اگر اس سے زیادہ احتیاط کر سکیںتو نقاب اوڑھ لیں لیکن یہ کہ گھروں میں بند رہیں اور تمام علمی اور تربیتی کاموں سے الگ رہیں ۔یہ نہ اسلام کی تعلیم ہے اور نہ اس پر پہلے کبھی عمل ہو اہے ۔احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کا یہ طریق تھا کہ آپ امن کے زمانہ میں صحابہ اکرام ؓ سے ہمیشہ دوستانہ مقابلہ کروایا کرتے تھے ۔جن میں تیر انداز ی اور دوسرے فنون حرب اور قوت و طاقت کے مظاہر ے ہوتے تھے ۔ایک دفعہ اسی قسم کے کھیل آپ نے مسجد میں بھی کرائے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اگر دیکھنا چاہو تو میرے پیچھے کھڑے ہو کر کندھوں کے اوپر سے دیکھ لو ۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے پیچھے کھڑی ہو گئیں اور انہوں نے تمام جنگی کرتب دیکھے ۔( بخاری کتاب العیدین )اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام عورت کو فنون ِ حرب سے واقف رکھنا بھی ضروری قرار دیتا ہے تاکہ وقت پر وہ اپنی اور اپنے ملک کی حفاظت کر سکے ۔اگر اس کا دل تلوار کی چمک سے کانپ جاتا ہے یا بندوق اور توپ کی آواز سن کر اُس کا خون خشک ہو جاتا ہے تو وہ اپنے بچوں کو خوشی سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت نہیں دے سکتی اور نہ دلیری سے خود ملک کے دفاع میں حصہ لے سکتی ہے ۔ہندوستان میں مغلیہ حکومت کی تباہی صرف عورت کی بزدلی اور مرد کی بے جا محبت کی وجہ سے ہوئی ۔غدر کے زمانہ میں انگریزوں کے ہمدردوں نے جب دیکھا کہ مغلیہ افواج نے ایک ایسے مقام پر توپیں رکھ دی ہیں جہاں سے انگریز ی فوجوں پر زد پڑتی ہے تو انہوں نے زینت محل کو جو بادشاہ کی چہیتی بیوی تھی مگر در پردہ انگریز وں سے ساز باز رکھتی تھی اور چاہتی تھی کہ میرا بیٹا تخت نشین ہو جائے کہلا بھیجا کہ اگر کچھ فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہو تو یہاں سے تو پیں اٹھوا دو ۔چنانچہ زینت محل نے بیماری کا بہانہ بنا کر بادشا ہ سے کہا کہ میرا تو دل گھٹتا ہے اور میں بیہوش ہو جائوں گی اس لئے یا تو یہاں سے توپیں اٹھوا دو ۔یا پہلے مجھے مار دو۔بادشاہ نے اس کے کہنے پر وہاں سے تو پیں ہٹا دیں مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے حکومت نکل گئی اور شاہی خاندان او ر دلی کی حکومت کا تختہ اُلٹ گیا ۔اب اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو بادشاہ پر زینت محل کے اس بہانہ کاا سی وجہ سے اثر ہوا کہ وہ جانتا تھا کہ یہ تو پوں کی آوازیں سُننے کی عادی نہیں اگر اس کے سامنے پہلے بھی توپیں چلتی رہتیں اور وہ فنونِ جنگ کو دیکھنے کی عادی ہوتی تو وہ یہ بہانہ نہیں بنا سکتی تھی ۔بادشاہ کہہ سکتا تھا کہ جب پہلے بھی تم ان کی آوازیں سنتی رہی تو آج کس طرح بے ہوش ہو سکتی ہو ۔اسی طرح اگر بادشاہ خود فنونِ جنگ کا ماہر ہوتا اور اُس کی عمر اس قسم کے کاموں میں بسر ہوئی ہوتی اور وہ جنگ اور اس کے نتائج سے آگاہ ہوتا تو وہ ایک عورت کی بات کو کیوں مانتا ۔مگر خود جنگی فنون سے ناواقف ہو نے اور پھر عورتوں کو فنونِ حرب سے الگ رکھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ زینت محل نے بادشاہ کو دھوکا دے دیا ۔لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوئی جنگی منظر دیکھ کر یہ ہر گز نہیں کہہ سکتی تھیں کہ میرا دل گھٹتا ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے انہیں جنگی فنون دکھائے اور پھر جنگ میں ہمیشہ کسی نہ کسی بیوی کو بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے تاکہ ان کے اندر بھی جرأت اور بہادری پیدا ہو ۔
پس اسلامی تعلیم کے ماتحت پردے کے قواعد کو مدّنظر رکھتے ہوئے عورت ہر قسم کے کاموں میں مردوں کے شریک حال ہو سکتی ہے۔وہ مردوں سے پڑھ سکتی ہے اُن کا لیکچر سن سکتی ہے اور اگر کسی جلسہ میں کوئی ایسی تقریر کر نی پڑے جو مرد نہیں کر سکتا تو عورت تقریر بھی کر سکتی ہے ۔مجالسِ وعظ اور لیکچروں میں مردوں سے الگ ہو کر بیٹھ سکتی ہے ۔ضرورت کے موقعہ پر اپنی رائے بیان کر سکتی ہے اور بحث کر سکتی ہے کیونکہ ایسے امور جن میں عورتوں کا دخل ہو اُن امور میں عورتوں کا مشورہ لینا ضروری ہوتا ہے ۔اسی طرح عورت ضرورت کے ماتحت مرد کے ساتھ مل کر بھی بیٹھ سکتی ہے جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے ایک سفر میں ایک نوجوان لڑکی کو جو پید ل جارہی تھی اونٹ پر اپنے پیچھے بٹھا لیا ۔( مسند احمد بن حنبل جلد ۶ ص ۳۸۰) ہمارے ملکی رواج کے مطابق تو اگر کوئی شخص ایسا کرے تو شاید ساری قوم اس کا بائیکاٹ کر دے لیکن شریعت کے احکام آج سے تیرہ سو سال پہلے مل چکے ہیں ۔ان میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا ۔آنحضرت ﷺ کے اس عمل کو دیکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ اگر عورتوں کی گاڑیوں میں کبھی کوئی خطرہ ہو تو مردوں کا فرض ہے کہ عورتوں کو اپنے پاس مردانہ گاڑیوں میں بٹھالیں ۔یا عورت اکیلی خود مردانہ گاڑی میں جا بیٹھے جہاں وہ شریف مردوں کی موجود گی میں اپنی عزت کو یہ نسبت اکیلے کمرہ میں بیٹھنے کے زیادہ محفوظ سمجھتی ہو ۔اسی طرح اگر کوئی خطرہ نہ ہو تو عورتیں خود سودا خرید نے کیلئے بازاروں میں بھی جاسکتی ہیں ۔عرب میں میں نے دیکھا ہے کہ وہاں عورتیں خود بازاروں میں جاتیں اور چیزیں خرید تی تھیں ۔بلکہ وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ ہماری خریدی ہوئی چیزیں عورتوں کو پسند بھی نہیں آتیں ۔وہ کہتی ہیں کہ مرد کیا جانیں کہ کپڑا کیسا ہونا چاہئیے ۔یا اور چیزوں کے متعلق انہیں کیا واقفیت ہو سکتی ہے ہم خود جا کر خریدیں گی ۔جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ عورت کھلے منہ پھرے اور مردوں سے احتلاط کرے ہاں اگر وہ گھونگھٹ نکال لے اور آنکھوں سے راستہ وغیرہ دیکھے تو یہ جائز ہے لیکن منہ سے کپڑا اُٹھا دینا یا مکسڈ پارٹیوں میں جانا جبکہ ادھر بھی مرد بیٹھے ہوں اور اُدھر بھی مرد بیٹھے ہوں اور اُن کا مردوں سے بے تکلفی کے ساتھ غیر ضروری باتیں کرنا یہ ناجائز ہے ۔اسی طرح عورت کا مردوں کو شعر گا گا کر سنا نا بھی ناجائز ہے کیونکہ یہ ایک لغو فعل ہے ۔پھر فطرتِ انسانی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتی کہ مرد جو مضبوط ہے اُسے تو صحت کے درست رکھنے کیلئے باہر کی آب و ہوا کی ضرورت ہو اور عورت جو فطرتًا کمزور صحت لیکر آئی ہے اُسے کھلی ہوا سے محروم کر دیا جائے ۔حدیثوں سے تو یہاں تک ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ایک دفعہ لوگوں کے سامنے مقابلۃً دوڑے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آگے بڑھ گئیں ۔مگر دوسرے موقعہ پر پھر دوڑے تو رسول کریم ﷺ آگے نکل گئے ۔پس وہ پردہ جس میں عورت کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ ڈولی کے بغیر گھر سے باہر قدم بھی نہ رکھے نہایت ظالمانہ اور خلافِ اسلام پردہ تھا ۔اس کے مقابلہ میں ایک اور پردہ ہمارے ملک میں یہ ہے کہ عورتیں برقعہ پہن کر باہر نکلتی ہیں اور ایک گھر سے دوسرے گھر تک چلی جاتی ہیں لیکن اس سے زیادہ ان کوباہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔یہ پردہ گو اوپر کے پردہ کے برابر قابلِ اعتراض نہیں لیکن اس سے بھی عورتوں کے ذہنی ارتقاء اور اُن کی صحت کی ترقی میں ایسی مدد نہیں ملتی کہ اُسے قومی ترقی کیلئے کافی سمجھا جائے ۔دوسرے ہمارا پرانا برقعہ یا تو عورت کی صحت کو بر باد کرنے والا ہے یا پردے کے نام سے بے پردگی کا موجب ہوتا ہے ۔اس برقعہ میں اوپر سے لے کر نیچے تک ایک گنبد سا بنا ہوا چلاجاتا ہے اور عورت کے ہاتھ بھی اندر بند ہوتے ہیں اگر وہ بچے کو اٹھائے تو سر سے پائوں تک اس کا اگلا حصہ سارے کا سارا ننگا ہوجا تا ہے اور ایک ایسا حقارت پیدا کرنے والا نظارہ ہوتا ہے کہ ایسے پردے سے طبیعت خود بخود نفرت کرتی ہے ۔اس سے بہت زیادہ بہتر وہ چادر کا طریق تھا جو برقعہ کی ایجاد سے پہلے تھا۔اور جس میں عورت اپنا کام بھی کر سکتی تھی اور اپنے آپ کو لپیٹ بھی سکتی تھی ۔میرے نزدیک نیا برقعہ جسے ٹرکی برقعہ کہتے ہیں پردے کے لحاظ سے تمام برقعوں سے بہتر ہے بشرطیکہ وہ جسم کے اوپر لپٹا ہوا نہ ہو بلکہ جیسا کہ ہماری جماعت کی عورتوں میں رواج ہے سیدھا کوٹ ہو جو کندھوں سے پائوں تک آتا ہو ۔ایسا کوٹ نہ ہو جو جسم کے اعضاء کو الگ الگ کر کے دکھا تا ہو ۔اگر اس قسم کا کپڑا جائز ہوتا تو جسم کے کپڑے ہی کافی تھے اُن کے اوپر کسی اور کھلے کپڑے کے لینے کا قرآن مجید حکم نہ دیتا ۔ اس برقعہ میں یہ بھی فائدہ ہے کہ چونکہ ہاتھ کھلے ہوتے ہیں عورت سب قسم کے کام جیسے ڈاکٹر اپریشن کے وقت ایک کھلا کوٹ پہن لیتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی میرے نزدیک یہ بھی ظلم کیا جاتا ہے کہ جھوٹی عمر میں ہی لڑکیوں کو برقعہ اوڑھا دیا جا تا ہے اس سے اُن کی صحت پر بھی برا اثر پڑتا ہے اور اُن کا قد بھی اچھی طرح نہیں بڑھ سکتا ۔جب لڑکی میں نسائیت پیدا ہونے لگے اسوقت اُسے پردہ کرانا چاہئیے اس سے پہلے نہیں ۔باقی رہا یہ سوال کہ عورت کو کیوں پردہ کے لئے کہا گیا ہے مرد کو کیوں نہیں کہا گیا ۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ پردہ مرد او ر عورت دونوں کیلئے برابر ہے ۔اگر عورت کو چادر اوڑھ کر باہر نکلنے کا حکم دیا گیا ہے تو اس کی یہ وجہ نہیں کہ پردہ کا حکم صرف اُسی کیلئے ہے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مرد کا دائرہ عمل گھر سے باہر ہے اور عورت کا اصل دائرہ ٔ عمل گھر کی چار دیواری ہے ۔پس جب عورت مرد کے اصل دائرہ عمل میں جاتی ہے وہ چادر اوڑھ لیتی ہے اور مرد چونکہ اپنے اصل دائرہ عمل میں ہوتا ہے وہ کھلا پھرتا ہے ۔اگر اس کو اپنے دائرہ عمل میں چادر اوڑھنے کا حکم دیا جاتا تو چونکہ اس کا وہاں ہر وقت کام ہوتا ہے اُس کیلئے کام کرنا مشکل ہو جاتا ۔جس طرح اگر عورت کو اُس کے دائرہ عمل یعنی گھر کی چاردیواری میں چادر اوڑھ کر کام کرنیکا حکم دیا جائے تو وہ گھبرا جائیاور کام نہ کر سکے ۔اس فرق کے مقابلہ میں مرد کو یہ حکم ہے کہ وہ عورت کے دائرہ عمل میں بالکل ہی نہ جائے اور اس کو آزاد ی سے اپنا کام کرنے دے ۔اور اگر کسی کے گھر جائے تو پہلے اجازت لے لے۔لیکن عورت کو باہر نکلنے پر مردوں سے اجازت لینے کا حکم نہیں کیونکہ مرد کے دائرہ عمل میں عورت کے بھی حقوق ہیں اور وہ سڑکوں اور بازاروں سے بے تعلق نہیں ۔لیکن عورت کے دائرہ عمل سے عام مرد کے حقوق وابستہ نہیں ۔پس عورت کیلئے اجازت لینے کی ضرورت نہیں رکھی بلکہ صرف اوٹ کر لینا اور اوڑھنی سے پردہ کر لینا کافی رکھا اور عورت کے دائرہ عمل میں مرد کے بلا اجازت داخلہ کو روک دیا ۔پس پرد ہ میں ہتک یا غیر ہتک کا کوئی سوال نہیں بلکہ یہ مرد او ر عورت کے دائرہ عمل کی الگ الگ تقسیم ہے اور اس کی مخالفت صرف عادات اور رسوم کی وجہ سے ہے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پردہ کی وجہ سے عورتیں ترقی نہیں کر سکتیں ان کی صحت خراب رہتی ہے ۔مگر یہ بالکل غلط ہے ۔وہ عورتیں جو بالکل بے پردپھرتیں ہیں وہ کیا کر رہی ہیں جو پردہ کرنے والی نہیں کر سکتیں ۔جس وقت عورتیں اسلام کے احکام کے مطابق پردہ کرتی تھیں اُس وقت ان کی صحتیں بھی اچھی تھیں ۔اور وہ جنگوں میں بھی شامل ہوتی تھیں ۔اور دشمن کو مارتی بھی تھیں مگر اب بے نقاب پھرنے والی عورتیں کچھ بھی نہیں کر رہیں ۔دراصل صحت امید اور اُمنگ سے قائم رہتی ہے جب کسی میں اُمنگ ہی نہ ہو تو چاہے اُسے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا کر دو وہ نیچے ہی گریگا اور اگر امنگ اور امید ہو تو خواہ لحاف اُڑھا دوپھر بھی وہ بلند ہوتا چلا جائیگا ۔چنانچہ میری کوشش ہمیشہ یہی رہی ہے کہ عورتوں کا پردہ شریعت کے مطابق ہو اور میرے زمانۂ خلافت میں قادیان میں بھی اور ربوہ میں بھی تعلیم یافتہ عورتوں کی تعداد ہمیشہ غیر تعلیم یافتہ عورتوں سے زیادہ رہی ہے لیکن تعلیم یافتہ مردوں کی تعداد غیر تعلیم یافتہ مردوں کے برابر کبھی نہیں ہو سکی ۔اسی طرح لجنہ کا کام وہ بڑی خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہی ہیں ۔مختلف گھروں میں جاتی ہیں چندہ وصول کر تی ہیں ۔دوسرے لوگوں میں جوش پیدا کرتی ہیں ۔بلکہ بعض دفعہ دوسرے شہروں میں بھی جاتی ہیں پس یہ بالکل غلط ہے کہ پردہ عورتوں کی ترقی میں حائل ہے ۔عورتیں پردہ میں رہتے ہوئے بھی ہر قسم کی ترقی سکتی ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتیں تعلیم یافتہ ہوں اور وہ خود شرعی پردہ پر عمل کریں اور دوسری عورتوں کو بھی بتائیں کہ پردہ کی پابندی کرتے ہوئے ہر قسم کی ترقی کی جاسکتی ہے۔صرف مردوں کے کہنے کا زیادہ اثر نہیں ہوتا کیونکہ عورتیں کہہ دیتی ہیں کہ تم تو باہر پھرتے ہو تمہیں کیا معلوم ہے کہ پردہ کی کیا تکا لیف ہیں ۔
وَ اَنْکِحُو ا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَاللّٰہُ وَاسِع’‘ عَلِیْم’‘ ہ
ترجمہ ()اور اپنے میں سے جو بیوائیں ہیں اور جو اپنے غلاموں یا لونڈیوں میں سے نیک ہوں اُن کی شادیاں کر دیا کرو ۔اگر وہ غریب ہیں تو اللہ
اپنے فضل سے انکو غنی بنا دیگا ۔اور اللہ تعالیٰ بہت وسعت رکھنے والا اور بہت جاننے والا ہے ۔ ۲۰ ؎
۲۰؎ حل لغات :
اَلْاَیَامٰی اَیَّم’‘کی جمع ہے ۔اور اَیَّمْ اس عورت کو کہتے ہیں جس کا کوئی خاوند نہ ہو ۔اسی طرح اس مرد کو بھی اَیَّمْ کہتے ہیں جسکی کوئی بیوی نہ ہو ۔(مفردات )
تفسیر :
اس آیت میں حکم دیا کہ بدی کو دور کرنے کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ بیوائوں کی شاد ی کرو۔اسی طرح جو غلام بیویاں رکھنے کے قابل ہوں اُن کی بھی شادیاں کرو تاکہ بے شادی غلام گھروں میں آکر خرابی نہ کریں اسی طرح اپنی لونڈیوں کی بھی شادی کرو۔اور اگر تمہارے غلاموں میں سے بعض غریب ہوں تو اُن کا نکاح کرنے سے ڈرو نہیں کیونکہ اگر وہ نیک بنیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں غنی بنا دیگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس رزق بھی ہے اور وہ اپنے بندوں کے حالات کو بھی جانتا ہے ۔
افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں جہاں اور بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں وہاں ایک یہ خرابی بھی پائی جاتی ہے کہ لوگ بیوائوں کی شادی کرنا بڑا بھاری گناہ سمجھتے ہیں ۔اور اگر بعض لوگ گناہ نہیں سمجھتے تو کم ازکم اسے اپنی غیرت اور حمیت کے منافی ضرور سمجھتے ہیں گویا اُن کے نزدیک عورت ایک جانور سے بھی بدتر ہے کہ جانور تو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں جا سکتا ہے مگر عورت ایک خاوند سے جدا ہو کر دوسرے کے پاس نہیں جاسکتی ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کہیں بیوہ کی شادہ ہو تو تمام گھر ماتم کدہ بن جاتا ہے اور اس کے خاندان کے ساتھ اظہار ِ ہمدردی کیا جاتا ہے اور اُن کو بڑا مظلوم سمجھا جاتا ہے ۔وہ مرد کو تو اس بات کا حقدار سمجھتے ہیں کہ اپنی بیوی کے فوت ہونے پر دوسری شادی کر لے مگر عورت کو یہ حق دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے کہ وہ اپنے خاوند کے فوت ہونے پر دوسرا شوہر کر لے ۔حالانکہ قرآن کریم صاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ ھُوَالَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّ احِدَۃٍ وَّ جَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا ( اعراف ع ۲۴)یعنی وہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ہے اور اُسی کی قسم سے اُس کا جوڑا بنایا گویا جیسے احساسات اور جذبات مردوں میں پائے جاتے ہیں ۔ویسے ہی جذبات اور احساسات عورتوں میں بھی پائے جاتے ہیں ۔اگر مرد اپنی بیوی کے فوت ہونے پر چاہتا ہے کہ وہ دوسری شادی کرے تو بیوہ کی شادی میں روک بننا بتا تا ہے کہ وہ عورت کو اپنے جیسا انسان نہیں سمجھتے اور اس کے جذبات اور احساسات کو کچلنا چاہتے ہیں ۔پس بیوگان کی شادی بڑی بھاری اہمیت رکھنے والی چیز ہے ۔اور قرآن کریم نے اس کو اُن احکام میں شامل کیا ہے جن سے اخلاقی برائیوں کا انسداد ہوتا ہے ۔اس لئے اس سے غفلت درحقیقت قومی اخلاق کو بگاڑ نا اور بدی کو فروغ دینا ہے ۔
دوسری چیز جس کی طرف اس آیت میں توجہ دلائی گئی ہے ۔وہ غلاموں کی شادی کا مسٔلہ ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے غلام شادی کے قابل ہوں اور جوان ہوں تو تم ان کی شادی کردو۔کیونکہ نہ معلوم وہ کب آزاد ہوں اور کب انہیں ازدواجی زندگی بسر کرنے کا موقعہ ملے ۔یہ اسلام کے اس حسنِ سلوک کا ایک واضح اور نمایاں ثبوت ہے جو اس نے غلاموں کے ساتھ کیاہے ۔نادان مخالف اعتراض کرتا ہے کہ اسلام نے غلامی کو روا رکھا ہے ۔حالانکہ دنیا میں اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے غلامی کو صفحۂ ارض سے مٹانے میں ایک ایسا قابلِ فخر کر دار ادا کیا ہے جس کی نظیر دنیا کا کوئی اور مذہب پیش نہیں کر سکتا ۔رومن ، یونانی ، مصری اور ایرانی تاریخ پڑھ کر دیکھ لو ۔ان میں سے ہر ملک کی ترقی کی بنیاد غلامی پر رکھی ہوئی نظر آئیگی ۔یہ غلام دو طرح بنائے جاتے تھے ۔ایک طریق تو یہ تھا کہ جن سے جنگ ہوا کرتی تھی ہمسایہ قومیں اُن کے افراد کو جہاں وہ اِکّا دُکّا نظر آئیں پکڑ کر لے جاتے اور انہیں غلام بنا لیتے تھے ۔چنانچہ رومی لوگ ایرانیوں کو پکڑ کر لے جاتے اور ایرانیوں کو موقعہ ملتا تو وہ رومیوں کو پکڑ کر لے جاتے اور سمجھتے کہ اس طرح ہم نے دوسرے ملک کو سیاسی لحاظ سے نقصان پہنچا دیا ہے ۔دوسرا طریق یہ تھا کہ لوگ غیر مہذب ہمسایہ اقوام کی عورتیں اور اُن کے بچے پکڑ کر لے جاتے اور انہیں اپنی غلامی میں رکھتے ۔اوّل الذکر طریق جب موقعہ ملے اور ثانی الذکر طریق بطور دستور اُن میں جاری تھا ۔بلکہ یہ طریق اٹھارویں صدی تک دنیا میں رائج رہا ہے ۔چنانچہ مغربی افریقہ سے لاکھوں غلام یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں لیجائے گئے جو اب تک وہاں موجود ہیں ۔گو اب وہ آزاد ہو چکے ہیں مگر دو تین کروڑ باشندے اب بھی امریکہ میں ایسے موجو د ہیں جو مغربی افریقہ سے بطور غلام وہاں پہنچا ئے گئے تھے ۔
متمدن اقوام کی غرض اس سے یہ ہوتی تھی کہ وہ اپنے ملک کی دولت کو بڑھائیں ۔چنانچہ ان غلاموں سے کئی قسم کے کام لئے جاتے تھے کہیں اُن کو کارخانوں میں لگا دیا جاتا تھا کہیں جہازوں کا کام اُن کے سپرد کر دیا جاتا تھا کہیں جنگل کاٹنے کا کام انکے سپر د کر دیا جاتا تھا۔اسی طرح محنت و مشقت کے سب کا م جو قومی ترقی کیلئے ضرور ی ہوتے تھے ۔وہ ان غلاموں سے لئے جاتے تھے مثلاً سستی چیزیں پیدا کرنا اور زیادہ نفع کمانا مقصود ہوتا تو ان غلاموں کو زمینوں کی آبپاشی اور فصلوں کی کاشت اور نگرانی پر مقرر کر دیا جاتا ۔اسی طرح ملک کے غیر آباد علاقے بھی غلاموں کے ذریعہ ہی آباد کئے جاتے تھے ۔چنانچہ روس میں سائیبیریا کی آبادی غلاموں یا سیاسی قیدیوں ہی کی رہنِ منت تھی ۔اسی طرح امریکہ کی آبادی غلاموں یا سیاسی قیدیوں کی ہی رہینِ منت تھی ۔و ہ اپنے علاقوں کو کبھی خود آباد نہیں کر سکتے تھے ۔لاکھوں لاکھ غلام وہ مغربی افریقہ سے لائے اور وہ امریکہ کے بے آباد علاقوں کو آباد کر گئے ۔آج امریکہ اپنی دولت پر نازاں ہے اپنی تجارت اور اپنی صنعت پر نازاں ہے ۔مگر امریکہ کی یہ دولت اور امریکہ کی آبادی رہینِ منت ہے اُن حبشی غلاموں کی جن کو وہ مغربی افریقہ سے پکڑ کر لائے ۔اسی طرح یونان اور روما کی تاریخ بتاتی ہے کہ اُن کی آبادی بھی غلاموں کی خدمات کی رہینِ منت ہے ۔مصر کی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ اُسکی آبادی غلاموں کی خدمات کی وجہ سے ہوئی ۔فرانس اور سپین کی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ اُن کی ترقی اُن خدمات کی رہینِ منت تھی جو آج سے دو تین سو سال پہلے اُن ممالک میں غلاموں نے سرانجام دیں اور جنہوں نے اُن کی اقتصادی حالت کی ترقی دے کر کہیں سے کہیں پہنچا دیا ۔غرض اس طریق سے ایک طرف تو بنی نوع انسان کے ایک حصہ کو مساوات سے محروم رکھا جاتا تھا اور دوسری طرف ملک کی دولت کو بڑھایا جاتا تھا ۔قرآن کریم نے ان دونوں طریقوں کو قطعاً ممنوع قرار دے دیا اور فرمایا
مَاکَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَاللّٰہُ عَزِیْز’‘ حَکِیْم’‘ ( انفال ع ۹)یعنی ہم نے کسی نبی کیلئے نہ پہلے یہ جائز رکھا تھا اور نہ تمہارے لئے یہ جائز ہے کہ بغیر اس کے کہ کسی حکومت سے باقاعدہ لڑائی ہو اُن افراد کو غلام بنا لیا جائے ۔اگر کسی حکومت نے جنگ ہو اور جنگ بھی سیاسی نہیں بلکہ مذہبی ہو تو عین میدان جنگ میں قیدی پکڑے جا سکتے ہیں ۔لیکن تمہیں یہ حق نہیں کہ بغیر کسی مذہبی جنگ کے دوسری اقوام کے افراد کو قیدی بنائو ۔یا میدان ِ جنگ میں تو نہ پکڑولیکن بعدمیںاُن کو گرفتار کرکے قیدی بنا لو ۔قیدی بنانا صرف اس صورت میں جائز ہے جب کسی قوم سے باقاعدہ جنگ ہو اور عین میدانِ جنگ میں دشمن قوم کے افراد کو بطور جنگی قیدی گرفتار کر لیا جائے ۔گویا وہ قوم جس کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں ہوا اُس کے افراد کو پکڑنا جائز نہیں ہے اسی طرح وہ قوم جس سے جنگ ہو اس کے افراد کو بھی میدانِ جنگ کے علاوہ کسی اور جگہ سے بعد میں پکڑنا جائز نہیں ہے صرف لڑائی کے دوران میں لڑنے والے سپاہیوں کو یا اُن کو جو لڑنے والے سپاہیوں کی مدد کر رہے ہوں پکڑ لیا جائے تو یہ جائز ہوگا کیونکہ اگر اُن کو چھوڑ دیا جائے تو وہ بعد میں دوسرے لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔لیکن ان کے بارہ میں بھی اللہ تعالیٰ یہ ہدایت دیتا ہے کہ اِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآئً ( محمد ع ۱)یعنی بعد میں یا تو اُن کو احسان کے طور پر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر چھوڑ دو ۔پس یہ صورت تو اسلام میں جائز ہی نہیں کہ باوجود اس کے کہ کوئی شخص اپنا فدیہ پیش کرتا ہو پھر بھی اسکو غلام رکھا جائے اُسے بہر صورت یا تو احسان کے طور پر رہا کرنا پڑیگا یا فدیہ لیکر چھوڑنا پڑ ے گا ۔مگر یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ موجودہ زمانہ میںیہ قاعدہ ہے کہ تاوانِ جنگ لڑنے والی قوم سے لیا جاتا ہے لیکن اسلام نے یہ طریق رکھا ہے کہ خود جنگی قیدی یا اُس کا رشتہ دار اس کا فدیہ ادا کرے ۔بظاہر یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے زمانہ تک تنخواہ دار فوجیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ دونوں طرف سے رضا کار لڑنے کیلئے آتے تھے ۔پس چونکہ وہ لڑائی رضاکاروں کی لڑائی ہوتی تھی اس لئے فدیہ بھی رضا کاروں پر رکھا گیا ۔اب چونکہ جنگ قومی ہوتی ہے اس لئے فدیہ قوم پر رکھا گیا ہے ۔
پس یہ بالکل جھوٹ ہے کہ اسلام نے غلامی کو قائم کیا ہے ۔درحقیقت اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے غلامی کو دنیا سے مٹا یا لیکن اگر بفرض محال تسلیم بھی کر لو کہ اسلام نے غلامی کو جائز قرار دیا ہے تو بتائو کہ کیا آجکل کا انٹرنیشنل قانون جنگی قیدیوں کے ساتھ اس سے زیادہ حسنِ سلوک سکھاتا ہے ۔آجکل تو اُنکی پہلی بیویوں کو بھی اُن کے پاس نہیں آنے دیتے کجایہ کہ خود اُن کی شادی کا انتظار کریں ۔مگر اسلام کہتا ہے کہ جو کچھ خود کھائو وہی ان کو کھلائو ۔جو کچھ خود پہنو وہی ان کو پہنائو ۔اور پھر ان میں سے جوشادی کے قابل ہوں ان کی شادی کر دو تاکہ انہیں بھی سکونِ قلب حاصل ہو اور قوم میں بھی فواحش کا دروازہ بند رہے ۔
اس آیت میں اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ کہہ کراس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ محض غربت کے ڈر کی وجہ سے اُن کی شادی کرنے میں نہ ہچکچائو کیونکہ فضل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔اور وہ اس بات پر قادر ہے کہ اُن کے حالات کو بدل دے اور انہیں کشائشِ رزق سے حصہ دے دے ۔یہ آیت گو جنگی قیدیوں کے احکام کے ضمن میں بیان کی گئی ہے مگر اصولی رنگ میں اپنے اندر یہ بڑی بھاری ہدایت رکھتی ہے کہ شادی بیاہ کے معاملات میں روپیہ اور مال و دولت کی بجائے نیکی اور تقویٰ پر اپنے تعلقات کی بنیاد رکھنی چاہئیے اور ہمیشہ ایسے لڑکوں اور لڑکیوں کی تلاش کرنی چاہئیے جو اپنے اندر نیکی اور تقویٰ اور شرافت رکھتے ہوں ۔صرف مال اور جائیدار پر نظر نہیں رکھنی چاہئیے ۔
اس آیت پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ کئی لوگ شادیاں کرتے ہیں مگر ساری عمر انہیں کوئی دولت حاصل نہیں ہوتی ۔اور غربت میں ہی اُن کی زندگی کٹ جاتی ہے ۔پھر یہ خدائی وعدہ کیسا ہوا جس کے خلاف ہمیں دنیا میں کئی شواہد نظر آتے ہیں ۔اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہاں غناء سے مراد صرف مال کی کثرت ہی نہیں بلکہ اس سے دل کا آرام اور چین بھی مراد ہے ۔اور اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ اگر نیک اور ہمدرد بیوی میسر آجائے تو انسان کو ایسا اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے کہ خواہ اُسے فاقہ کرنا پڑے پھر بھی وہ آرام اور راحت سے کلیۃً بے گانہ نہیں ہوتا ۔وہ تکلیف کی گھڑیوں میں بھی ایک راحت کا سامان پاتا ہے جس سے اس کی اپنی ذہنی کوفت اور پریشانی کے دور ہونے میں بڑی بھاری مدد ملتی ہے ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ یہاں اُن لوگوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ پر کامل توکل رکھتے ہیں اور اس کے وعدوں پر انہیں ایسا یقین ہوتا ہے کہ وہ اس بات کو تو تسلیم کر سکتے ہیں کہ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکل آئے مگر وہ اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ خداتعالیٰ ایک بات کہے اور وہ پوری نہ ہو ۔ایسے لوگ خداتعالیٰ کے کنارِ عاطفت میں ہوتے ہیں اور خواہ اُن پر مصائب کی کتنی آندھیاں چلیں اُن کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آتی اور وہ آگ میں پڑ کر بھی سلامتی کے ساتھ باہر نکل آتے ہیں اور نہ صرف روحانی نعماء سے متمتع ہوتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ دنیوی نعماء بھی اُن کے قدموں میں ڈال دیتا ہے اور اُن کی غربت اور افلاس اورتنگدستی کو دُور فرما دیتا ہے ۔
وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِکَا حًا حَتّٰی یُغْنِیَھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ہ
ترجمہ()اور چاہئیے کہ وہ لوگ جن کو نکاح کی توفیق نہیں پاکیزگی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اُنکو اپنے فضل سے غنی بنا دے ۔۲۱؎
۲۱؎ حل لغات :
وِلْیَسْتَعْفِف عربی زبان میں عِفَّۃ’‘ کے معنے ہوتے ہیں تَرْکُ الشَّھْوٰتِ یعنی شہوات کا چھوڑ دینا ( اقرب ) اور اِسْتِعْفَاف کے معنے ہیں عفت اختیار کرنا ( مفردات ) پس وِلْیَسْتَعْفِف کے معنے ہونگے چاہئیے کہ شہوت کو ترک کر کے پاکیزگی اختیار کریں ۔
تفسیر :
اب اس سوال کا جواب دیتا ہے کہ وہ لوگ جن کے لئے شادی کا انتظام نہ ہو سکتا ہو وہ کیا کریں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وِلْیَسْتَعْفِف الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِکَاحًا یعنی چاہئیے کہ وہ لوگ جن کا نکاح کا موقع میسر نہیں اپنی طاقتوں کو دبا دیں یعنی ایسی اختیاطوں سے جو شہوات کو کم کرتی ہیں اپنے جوشوں کو کم کریں مگر زنا نہ کریں اور نہ یہ کریں کہ اپنی اُن طاقتوں کو بالکل ضائع کر دیں جن کے ذریعہ سے بقائے نسل کا تقاضا پورا ہوتا ہے کیونکہ اس صورت میں وہ اپنی فطرت کو مسخ کر دیں گے اور اللہ تعالیٰ اس بات کو نا پسند کرتا ہے کہ فطرتی تقاضوں کو کچل دیا جائے ۔
اس آیت کے متعلق مفسرین کو بہت مشکل پیش آئی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ پہلی آیت میں تو یہ بتا یا تھا کہ نکاح کرنے سے فقر غناء سے بدل جائیگا مگر اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اگر ہوتا تو یہ حکم دیا جاتا کہ ضرور نکاح کر لو۔مگر یہاں یہ کہا گیا ہے کہ اُس وقت تک انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں غنی کر دے ۔پس مفسرین اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ نکاح لازماً انسان کو غنی نہیں بناتا ورنہ یہ آیت بے معنے ہو جاتی ہے ۔لیکن میرے نزدیک اُن کا یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ غنی بنانا تو ایک الٰہی وعد ہ ہے ممکن ہے کہ باوجود اس وعدہ کے کہ اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِھِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ایک شخص اپنی لڑکی یا ایک مالک اپنی لونڈی اس غلام کو دینے کے لئے تیار نہ ہو جو غریب ہو ۔ایسی صورت میں بہر حال وہ شخص بغیر بیوی کے رہیگا ۔سو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو نصیحت کی کہ اگر کسی طرح بیوی نہ ملے تو صبر کرو اور پاکدامنی اختیار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں غنی کر دے یعنی تمہارے رشتہ کا انتظام ہو جائے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ مفسرین کو یہ مشکل زیادہ تر اس لئے پیش آئی ہے کہ انہوں نے لَا یَجِدُوْنَ نِکَا حًا حَتّٰی یُغْنِیَھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ کے معنے صحیح طور پر نہیں سمجھے ۔اس آیت کے یہ معنے کرنا کہ جب تک مال حاصل نہ ہوجائے اس وقت تک نکاح نہیں کرنا چاہئیے درست نہیں ۔کیونکہ اس آیت میں اُس شخص کا ذکر نہیں جو غریب ہو اور نکاح نہ کرے بلکہ اس شخص کا ذکر ہے جو غریب ہو اور جسے غربت کی وجہ سے کوئی دوسرا شخص رشتہ دینے کیلئے تیار نہ ہو پہلے تویہ بتا یا تھا کہ اگر کسی غریب کا نکاح ہوتا ہو اور وہ اپنی غربت کی وجہ سے نکاح نہ کرے تو یہ درست نہیں وہ نکاح کرلے ۔اللہ تعالیٰ اُسے غنی کر دیگا اور یہاں یہ بتایا ہے کہ اگر کسی کو غربت کی وجہ سے رشتہ نہ ملے تو اس وقت تک وہ عفت سے کام لے جب تک کہ خدااس کیلئے رشتہ کا انتظام نہ کر دے۔پس یہ دو الگ الگ حکم ہیں پہلی آیت کے تو یہ معنے ہیں کہ جو شخص خداتعالیٰ پر کامل توکل کرکے شادی کرتا ہے خدا اُسے کشائش دے دیتا ہے اور وہ مشکلات میں گرفتا ر نہیں ہوتا اور دوسری آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جن لوگوں کو غربت کی وجہ سے رشتہ ملنے میں دقتیں ہوں وہ ایسی احتیاطوں سے کام لیں جو شہوات کو کم کرنے والی ہوں اور پاکیزہ زندگی بسر کریں اور اُسوقت تک انتظار کریں جب تک کہ خداتعالیٰ اُن کیلئے شادی کا رستہ نہ کھول دے ۔
وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَّ اٰتُوْ ھُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْٓ اٰتٰکُمْ ہ
ترجمہ ()اور تمہارے غلاموں میں سے جو لوگ مکاتبت کا مطالبہ کریں اگر تم اُن میں بھلائی دیکھو تو اُن سے مکاتبت کر لو ۔اور اگر اُن کے پاس پورا مال نہ ہو تو جو اللہ نے تم کو مال دیا ہے اس میں سے کچھ مال دے کر اُن کی آزادی ممکن بنا دو ۔ ۲۲؎
۲۲؎ حل لغات :
اَلْکِتٰبُ : مفردات میں سے ہے کہ اَلْکِتَابَۃُ الْعَبْدِ ابتسیاعُ نَفْسِہٖ مِنْ سَیِّدِہٖ بِمَا یُؤَ دِّیْہِ مِنْ کَسْبِہٖ ۔یعنی جب غلام کیلئے کتابت کا لفظ بولا جائے تو اُس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ اُس نے اپنے آقا کے ساتھ ایسا معاہدہ کر لیا ہے کہ وہ کچھ رقم اپنی کمائی سے بالا قساط اداکرتا رہیگا ۔حتّٰی کہ مقررہ رقم ادا کرکے آزاد ہو جائیگا ۔( مفردات )
تفسیر :
چونکہ پچھلی آیات میں جنگی قیدیوں کا نکاح کرنے کے متعلق خداتعالیٰ نے اپنے احکام بیان فرمائے تھے اس لئے اب یہ بتاتا ہے کہ ہمارے ان احکام سے یہ نہ سمجھنا کہ ہم غلامی کو پسند کرتے اور اس کو دنیا میں قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔یہ احکام انسانی مجبوری کی وجہ سے دئیے گئے ہیں ورنہ ہمارا اصل منشاء یہی ہے کہ غلاموں کو آزاد کیا جائے خواہ احسان کے طور پر انہیں آزاد کر دیا جائے اور خواہ فدیہ لیکر ۔چنانچہ فرمایا۔وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ فَکَا تِبُوْھُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًا ۔یعنی وہ لوگ جو تمہارے غلام مردوں یا عورتوں میں سے مکاتبت چاہتے ہیں اگر تم اُن میں قابلیت دیکھو تو ان کو مشروط آزادی دے دو ۔’’ اگر اُ ن میں قابلیت دیکھو ‘‘ کے یہ معنے نہیں کہ مالک خود فیصلہ کرے کہ غلام میں آزادی کی قابلیت ہے یا نہیں بلکہ غلام اس کا فیصلہ قاضی سے کروائیگا ۔اگر قاضی کہے گا کہ یہ مرد یا عورت اس قابل ہیں کہ مشروط آزادی حاصل کرکے اپنا گذارہ چلا سکیں گے تو وہ حکم دے دیگا کہ ان سے مکاتبت کر لی جائے ۔ورنہ اس سے روک دیگا تاکہ وہ تباہ نہ ہو جائیں ۔پھر مزید سہولت اس طرح پیدا کی کہ حکم دیدیا کہ تمہیں خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کے جو پہلے طریقے بتائے جا چکے ہیں اُن میں یہ زیادتی کی جاتی ہے کہ اپنے مالوں کا کچھ حصہ مشروط آزادی حاصل کرنے والے غلاموں کو کامل آزادی دلانے میں بھی خرچ کرو۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے غلام کیلئے دو ہی صورتیں رکھی ہیں ۔جن کا ذکر اُس نے سورۂ محمد میں ان الفاظ میں فرمایا ہے کہ اِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآئً ( سورۃمحمدؐ ع ۱)یعنی مذہبی جنگ میں جب کوئی شخص قید ہو کر تمہارے پاس آئے تو یا تو اس کو بطور احسان چھوڑ دو اور یا پھر فدیہ لے کر چھوڑ دو ۔یہ صورت تمہارے لئے کسی طرح بھی جائز نہیں کہ باوجود اس کے کہ کوئی شخص اپنا فدیہ پیش کرتا ہو پھر بھی اس کو غلام رکھا جائے ۔مگر چونکہ ممکن تھا کہ ایک شخص غریب ہو اور وہ خود فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو گورنمنٹ ظالم ہو اور اُسے رہا کرانے کا کوئی احساس نہ ہو ۔اس کے رشتہ دار لاپرواہ یا بدمعاش ہوں اور وہ چاہتے ہوں کہ وہ قید ی ہی رہے تاکہ وہ اُس کی جائیدار پر قبضہ کئے رکھیں اور دوسری طرف مالک کی یہ حالت ہو کہ وہ بغیر فدیہ لینے کے اُسے آزاد کرنے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ جو رقم اُس نے جنگ میں خرچ کی تھی اُس نے اُس کی مالی حالت کو خراب کر دیا ہو ۔تو ایسی صورت کیلئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا غلام بنایا ہے اور تمہیں اُن پر قبضہ و تصرف حاصل ہے اگر وہ تم سے کہیں کہ صاحب ہمیں چھڑانے والا کوئی نہیں اور نہ ہمارے پاس دولت ہے کہ ہم فدیہ دے کر رہا ہو سکیں ہم غریب اور نادار ہیں ۔ہم آپ سے یہ شرط کر لیتے ہیں کہ آ پ کی رقم دو سال یا تین سال یا چار سالمیں ادا کر دینگے اور اسقدر ماہوار یا سالانہ قسط آپ کو ادا کیا کریں گے آپ ہمیں آزاد کر دیں تو نَکَاتِبُوْھُمْ اِنْ عَلِیْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًاتم اس بات پر مجبور ہو کہ اُنکو آزاد کر دو۔اور اُن کے فدیہ کی رقم کی قسطیں مقرر کر لو ۔بشرطیکہ تمہیں معلوم ہو کہ وہ روپیہ ادا کر نے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔بلکہ تمہیں چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جو کچھ دیا ہے اُس میں سے ان کی مدد کرو یعنی انہیں کچھ سرمایہ بھی دے دو تاکہ اس کے ذریعہ سے وہ روپیہ کما کر اپنا فدیہ ادا کر سکیں ۔جب قسطیں مقرر ہو جائیں تو اس وقت سے وہ اپنے اعمال میں ویسا ہی آزاد ہو گا جیسے کوئی دوسرا آزاد شخص اور وہ اپنے مال کا مالک سمجھا جائیگا مگر جیسا کہ بتایا جا چکا ہے پہلے زمانوں میں چونکہ جنگ انفرادی ہوا کرتی تھی اس لئے افراد سے تاوانِ جنگ وصول کیا جاتا تھا ۔مگر اس زمانہ میں قومی جنگیں ہوتی ہیں اس لئے اب یہ طریق ہوگا کہ قوم تاوانِ جنگ ادا کرے ۔پہلے چونکہ باقاعدہ فوجیں نہیں ہوا کرتی تھیں اور قوم کے افراد پر جنگی اخراجات کی ذمہ داری فرداً پڑتی تھی اس لئے اُس وقت قیدی رکھنے کا بہترین طریق یہی تھا کہ اُن کو افراد میں تقسیم کر دیا جاتا تاکہ وہ اُن سے اپنے اپنے اخراجات جنگ وصول کریں ۔مگر جب حکومت کی باقاعدہ فوج ہو اور افراد پر جنگی اخراجات کا بار فردًا فردًا نہ پڑتا ہو تو اُس وقت جنگی قیدی تقسیم نہیں ہونگے بلکہ حکومت کی تحویل میں رہیں گے اور جب دوسری قوم تاوانِ جنگ ادا کر دیگی تو پھر اُن سے کوئی خدمت نہیں لی جائے گی اور انہیں رہا کر دیا جائیگا ۔
بہر حال اسلامی تعلیم کے ۔ماتحت غلام دنیوی جنگوں میں نہیں بنائے جاتے بلکہ صرف انہی جنگوں میں بنائے جاتے ہیں جو مذہبی ہوں ۔مگر ان غلاموں کے متعلق بھی حکم دیا کہ اوّل تو احسان کرکے انہیں چھوڑ دو اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو فدیہ لے کر رہا کر دو ۔یہ ضروری نہیں کہ وہ خود فدیہ دے اُس کے رشتہ دار بھی دے سکتے ہیں ۔حکومت بھی دے سکتی ہے اور اگر گورنمنٹ لا پرواہ ہو رشتہ دار ظالم ہوں اور وہ خود غریب ہو تو وہ کہہ سکتا ہے کہ میرے ساتھ طے کر لو کہ مجھ پر کیا تاوانِ جنگ عاید ہوتا ہے اور پھر کہدے کہ مجھے اس تاوان کی ادائیگی کیلئے اتنی مہلت دے دو میں اس عرصہ میں اسقدر ماہوار روپیہ ادا کر کے تاوانِ جنگ دے دونگا ۔اس معاہدہ کے معًا بعد وہ آزاد ہو جائیگا اور مالک کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ وہ کتابت میں کسی قسم کی روک پیدا کرے ۔کتابت کا روکنا صرف اُسی صورت میں جائز ہے جبکہ خیر نہ ہو یعنی جنگ کا خطرہ ہو یا یہ کہ وہ پاگل اور کم عقل ہو ۔خود کمانہ سکتا ہو اور خطرہ ہو کہ وہ بجائے فائدہ کے نقصان اٹھائیگا اور کتابت کی صورت میں اسلام اُسے سرمایہ مہیا کر دینے کا بھی حکم دیتا ہے خواہ وہ سرمایہ مالک دے یا حکومت ۔
ممکن ہے یہاں کوئی شخص کہہ دے کہ اگر پاگل یا کم عقل والے کی مکاتبت کو روکنا جائز ہے تو پھر تو لوگ اچھے بھلے سمجھدار لوگوں کو بے عقل قرار دے کر اپنا غلام بنائے رکھیں گے۔آزاد تو وہ پھر بھی نہ ہوئے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی صورت میں وہ گورنمنٹ کے پاس درخواست کر سکتا ہے کہ میں صاحبِ عقل ہوں کما سکتا ہوں مگر میرا مالک مجھے جان بوجھ کر غلام بنائے ہوئے ہے اور قاضی فیصلہ کرکے اُسے آزادی کا حق دلا دے گا ۔غرض کوئی صورت بھی ایسی نہیں جس میں غلاموں کی آزادی کو مدنظر نہ رکھا گیا ہو اوّل مالک کو کہا کہ وہ احسان کر کے چھوڑ دے ۔دوم اگر مالک ایسا نہ کر سکے تو غلام کو اختیار دیا کہ وہ تاوانِ جنگ ادا کرکے آزاد ی حاصل کر لے اور اگر فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو مکاتبت کر لے اور کہہ دے کہ میں اتنی قسطوں میں روپیہ دے دوں گا ۔مجھے دو یا تین سال کی مہلت دے دو ۔ایسا معاہدہ کرتے ہی وہ آزاد سمجھا جائیگا ۔اگر ان ساری سہولتوں کے باوجود کوئی شخص یہ کہے کہ میںآزاد ہونا نہیں چاہتا تو ماننا پڑے گا کہ اُسے اپنی غلامی آزادی سے اچھی معلوم ہوتی ہے ۔اور حقیقت میں یہی ہے کہ صحابہ اکرام ؓ کے پاس جو غلام تھے وہ انہیں رسول کریم ؓ کے احکام کے ماتحت اس عمدگی اور آرام کے ساتھ رکھتے تھے کہ انہیں آزادی سے غلامی بہتر معلوم ہوتی تھی ۔
اس جگہ اللہ تعالیٰ نے وَاٰتُوْ ھُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْٓ اٰتٰکُمْ کہہ کر بنی نوع انسان کو اس لطیف نکتہ کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ وہ اموال جو تمہارے قبضہ میں ہیں درحقیقت ایک امانت کے طور پر تمہارے پاس ہیں ورنہ اس مال میں دوسروں کا بھی حق شامل ہے اور تمہارا فرض ہے کہ اُن کے حقوق ادا کرو۔تمہیں یہی خوشی اپنا سب سے بڑا انعام سمجھنا چاہئیے کہ تمہارے کئی بھائی جو تمہاری طرح اس مال کے حصہ دار ہیں تمہارے ذریعہ سے پرورش پا رہے ہیں اور خداتعالیٰ نے تم کو اس درجہ پر پہنچایا ہے کہ اُس کی مخلوق کی ربوبیت میں تم بھی حصہ لو ۔
وَلَا تُکْرِھُوْا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَآئِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مِنْ قَبْلِکُمْ وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ ہ
ترجمہ () اور تم اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ نیک رہنا چاہتی ہوں تاکہ تم اُن کے ذریعہ سے دنیوی زندگی کا سامان جمع کرو اور جو کوئی اُن کو مجبور کرے ۔تو اللہ تعالیٰ اُن عورتوں کی مجبوری کے بعد بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے وہ ان پر گرفت نہیں کریگا اور ہم نے تم پر کھلے کھلے نشانات اتار ے ہیں ۔اور جو لوگ تم سے پہلے گذر چکے ہیں اُن کے حالات بھی بیان کئے ہیں اور متقیوں کیلئے نصیحت کی باتیں بھی بیان کی ہیں ۔ ۲۳؎
۲۳؎ تفسیر :
پھر فرماتا ہے کہ اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو ۔چونکہ اس جگہ مکاتبت یعنی مشروط آزادی حاصل کرنے والے غلاموں کا ذکر ہے اس لئے اس جگہ وہی لونڈیاں مراد لی جائیں گی جو مشروط آزادی حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔اور اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسی لونڈیوں کو جو کہ مشروط آزادی حاصل کرنا چاہتی ہیں دنیا کے حصول کی غرض سے اُن کے اس اراد ہ میں روک ڈال کر بدکاری پر مجبور نہ کرو۔یعنی جو عورت مشروط آزادی حاصل کر کے جبری نکاح سے بچنا چاہتی ہے اور مکمل آزادی کے بعد اپنی مرضی کے خاوند سے نکاح کرنا چاہتی ہے اُس کو اس ارادہ سے باز رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ بدکاری پر مجبور کرنا ۔
وَمَنْ یَّکْرِ ھْھُّنَّ فَاِنَّ اللّٰہَ مِنْ بَعْدِ اِکْرَاھِھِنَّ غَفُوْر’‘ رَّحِیْم’‘ ۔اور جو شخص آزادی کی کوشش کرنے والی عورت کے راستہ میں روک ڈالتا ہے اور اس طرح اُسے جبری نکاح پر مجبور کرتا ہے اُس کی وجہ سے عورت پر کوئی گناہ نہیں ہوگا ۔مرد کو ہوگا کیونکہ عورت کے دل میں جو بے دفائی پیدا ہوگی وہ مر کے جبر کی وجہ سے ہوگی۔
اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہٖ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِیْم’‘ ہ
ترجمہ () اللہ آسمانوں اک بھی نور ہے اور زمین کا بھی ۔اُس کے نور کی کیفیت یہ ہے جیسے کہ ایک طاق ہو جس میں ایک دِیا پڑا ہو اور وہ دِیا ایک شیشے کے گلوب کے نیچے ہو اور وہ گلوب ایسا چمکدار ہو کہ گویا وی ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے اور وہ چراغ ایک ایسے برکت والے درخت کے تیل سے جلایا جارہا ہو کہ وہ درخت نہ مشرقی ہو نہ مغربی ۔قریب ہے کہ اُس کا تیل خواہ اُسے آگ نہ بھی چھوئی ہو بھڑک اُٹھے ۔یہ چراغ بہت سے نوروں کا مجموعہ معلوم ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے نور کیلئے جن کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ لوگوں کیلئے تمام ضروری باتیں بیان کرتا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کو خوب جانتا ہے ۔ ۲۴ ؎
۲۴؎ حل لغات :
مِشْکٰوۃُ : اَلْمِشْکٰوۃُ کے معنے ہیں کُلُّ کُوَّۃٍ غَیْرُ نَافِذَۃٍ ۔ہر وہ سوراخ جو دیوار میں کوئی چیز رکھنے کیلئے بنا یا جائے اور وہ دوسری طرف نہ کھلے ۔( اقرب)
اَلزُّ جَاجَۃُ : اَلْقِطْعَۃُ مِنَ الزُّجَاجِ ۔زجاجہ کے معنے ہیں شیشے کا ٹکڑا ۔( اقرب)
دُرِّ يّ’‘ اور اس کے معنے ہوتے ہیں اَیْ ثَاقِب’‘ مُضِيّ’‘ یعنی چمکنے والا روشن ستارہ ( اقرب)
تفسیر :
اس آیت میں بتا یا گیا ہے کہ آسمانی نور بھی خدا کی طرف سے آتا ہے اور زمینی نور بھی یعنی شریعت حقہ بھی آسمان سے آتی ہے اور اُس کی زمین پر اشاعت بھی اس کے فضل سے ہوتی ہے ۔اُس کے نور کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ ایک طاق ہو جس میں ایک تیز روشنی والا چراغ رکھا ہوا ہو اور چراغ پر ایک چمنی یا گلوب ہو ۔اور وہ چمنی یا گلاب ایسے صاف شیشے کا ہو کہ گویا وہ ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے ۔انسانی تجربہ نے یہ بتایا ہے کہ لیمپ کی سب سے اچھی روشنی تبھی ہوتی ہے جب اس کے پیچھے کوئی ایسی روک ہو جو اُس کے نور کو چاروں طرف نہ پھیلنے دے بلکہ صرف آگے کی طرف پھینکے ۔جس کی طرف مشکٰوۃ کے لفظ سے اشارہ کیا گیا ہے ۔یہ نور خصوصًا اُس وقت پھیلتا ہے ۔جبکہ چراغ چمنی کے اندر ہو۔اورچمنی بہت صاف شیشے کی بنی ہوئی ہو ۔اور تیل بھی اعلیٰ درجہ کا ہو ۔اس کی طرف اشارہ کرنے کے لئے فرماتا ہے کہ الٰہی نور کا چراغ ایک ایسے تیل سے جلتا ہے جو زیتون کے مبارک درخت سے نکلتا ہے ۔مُبَارَک’‘ کا لفظ بِرْکُۃ’‘ سے نکلا ہے اور بِرْکَۃُ اُس نیچی جگہ کو کہتے ہیں جہاں بارش ہونے پر اردگرد کا تمام پانی بہ کر جمع ہو جائے ۔پس مُبَارَکَۃ’‘ کے یہ معنے ہیں کہ وہ ایسا شجرہ ہے جس میں ساری خوبیاں اور کمالات جع ہیں۔اور پھر اُسے زیتون قرار دے کر اس طرف اشارہ کیا کہ وہ کلام جو اب دنیا میں نازل کیا جا رہا ہے وہ نئے سے نئے علوم اور معارف کو دنیا میں قائم کر نے کا ایک ذریعہ ہوگا کیونکہ زیتون علاوہ اسکے کہ ایک پھل کا کام دیتا ہے اس کی لکڑی اور تیل جلانے کے کام آتا ہے اور اس کے پتوں اور چھال سے بُننے کا کام لیا جاتا ہے ۔اسی طرح اس کا روغن کثرت کے ساتھ مختلف مواقع پر استعمال کیا جاتا ہے اور آچار میں بھی ڈالا جاتا ہے جو اس کو دیر تک قائم رکھتا ہے ۔اس طرح تمثیلی زبان میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ موسوی او ر عیسوی تعلیمیں تو سڑ جانے والی اور عملی لحاظ سے ایک دن ناکارہ ہو نے والی تھیں مگر اسلام کے ذریعہ بنی نوع انسان کو وہ تعلیم دی جائیگی جو نہ صرف سڑنے اور خراب ہونے سے محفوظ ہوگی بلکہ انسانی ذہنوں میں وہ ایسا نو ر پیدا کرے گی کہ اس کے ذریعہ سے نئے سے نئے علوم اور نئے سے نئے معارف اُنکو حاصل ہو تے رہیں گے ۔
نور کے متعلق عا م طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ تو اُس مادی چیز کا نام ہے جو بعض مادی چیز وں کے رگڑ کھانے سے پیدا ہو تا ہے ۔پھر خداتعالیٰ نور کیونکر ہوا ؟ نحویوں نے تو اسے اس طرح حل کیا ہے کہ انہوں نے نو ر سے پہلے ایک مخدوف نکالا ہے اور کہا ہے کہ اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کے معنے ہیںاللّٰہُ صَاحِبُ نُوْرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ( املاء مامن بہ الرحمن ) یعنی آسمانوں اور زمین کے سب نور خداتعالیٰ کے قبضہ و تصرف میں ہیں اور جب سب نور اس کے قبضہ میں ہیں تو جو انسان بھی ترقی کرنا چاہتا ہے اُس کیلئے ضروری ہے کہ وہ خداتعالیٰ سے تعلق رکھے ۔
معانی والے کہتے ہیں کہ اس جگہ نور کا لفظ مجاز اور استعارہ کے طور پر استعمال ہوا ہے اور مراد یہ ہے کہ جس طرح نور کے ذریعہ انسان کو بری اور بھلی چیزوں میں امتیاز کرنے کا موقعہ ملتا ہے ۔اسی طرح نیکی اور بدی میں امتیاز خدا تعالیٰ کی ہدایت سے ہی میسر آتا ہے کیونکہ تمام آسمانی اور زمینی انوار کا منبع خداتعالیٰ ہی ہے ۔
ٍ لغت والے کہتے ہیں کہ یہ ایک محاورہ ہے چنانچہ جس چیز پر کسی کا دارومدار ہو اُسے نور کہتے ہیں ۔مثلاً نُوْرُ الْبَلَدِ اس آدمی کو کہتے ہیں جس پر کسی شہر کے لوگوں کا انحصار ہو اور نُوْرُ اْلصَّبَائِل اس شخص کو کہتے ہیں جو قبائل کیلئے باعث ِ فخر ہو چونکہ خداتعالیٰ کے فضل کے بغیر انسان کو کسی کام میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی ۔اس لئے اسے آسمانوں اور زمین کو نور کہا گیا ہے ۔
یہ سب باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں لیکن میرے نزدیک یہاں اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کہہ کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ زمین و آسمان میں تم جس چیز کو بھی روشن کرنا چاہو خداتعالیٰ کا نور اُس میں داخل کر دو۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ چیز روشن ہو جائیگی اگر وہ نور مکان میں نازل ہوگا تو وہ مکان روشن ہو جائیگا ۔اور اگر دل پر نازل ہو گا تو دل روشن ہو جائیگا ۔یہی نور جب بیت اللہ پر نازل ہوا تو وہ دنیا کی ہدایت کا مرکز بن گیا ۔پھر یہی نور مسجد نبوی ؐ پر نازل ہوا تو تمام مساجد کیلئے وہ ایک نمونہ قرار پاگئی حالانکہ بظاہر اینٹوں اور گارے کی ایک عمارت سے زیادہ اُس کی کیا حیثیت تھی۔پھر یہی نور جب رسول کریم ﷺ کے قلبِ مطہر پر نازل ہو ا تو آپ عالمِ روحانی کے آفتاب بن گئے ۔اسی طرح قرآن کیا ہے وہی حروف ہیں جن کو عربی زبان میں روزانہ استعمال کیا جاتا ہے ۔وہی کاغذہوتا ہے جس پر تمام اخبارات اور کتابیں چھپتی ہیں ۔وہی سیاہی ہوتی ہے جس سے گندے اور فحش اشعار بھی لکھے جاتے ہیں مگر اسی سیاہی سے لکھا ہوا اور اسی کاغذ پر چھپا ہوا جب قرآن آتا ہے تو وہ دنیا کی ہدایت کا موجب بن جاتا ہے ۔یہ وہی خصوصیت ہے جسے اللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں بیان کیا گیاہے ۔چونکہ خدا اس میں آگیا اس لئے وہ دنیا کی ہدایت کا ذریعہ بن گیا ۔لیکن جہاں یہ نور نہ ہو وہاں ظلمت اور سیاہی کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔پھر اللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کہہ کر اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ روشنی کبھی مقید نہیں رہتی ۔وہ ضرور باہر نکلتی اور پھیلتی ہے ۔سیاہی اور ظلمت کا دائرہ بیشک محدود ہوتا ہے مگر روشنی ہمیشہ پھیلنے کی کوشش کرتی ہے ۔چنانچہ دیکھ لو وہ کرم شب چراغ جو رات کے وقت چمکتا ہے کتنا چھوٹا سا ہوتا ہے مگر کس طرح دور سے اس کی روشنی رات کے وقت نظر آتی ہے ۔مسافر جب گائوں کے قریب آتا ہے تو کس طرح اُسے جھاڑیوں میں چمکتا ہوا دیکھ کر کہہ اٹھتا ہے کہ وہ گائوں آگیا ۔اسی طرح جس شخص کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت کی چنگاری سُلگ اُٹھے اگر وہ اس کرم شب چراغ کے برابر بھی ہو تب بھی وہ دوسروں کو روشنی پہنچا ئیگا ۔یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی خدا کا ہو جائے اور اپنے دائرہ استعداد کے مطابق سورج یا چاند یا ستارہ نہ بنے جو شخص اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق پید اکر لیتا ہے وہ اس کے نُور کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور پھر دوسروں کو بھی اپنے انوار سے منور کر دیتا ہے ۔بانی سلسلہ احمدیہ اسی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ
’’ میرے لئے یہ کافی تھا کہ وہ میرے پر خوش ہو مجھے اس بات کی ہر گز تمنا نہ تھی (کہ میں مسیح موعود کہلائوں یا مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں بہتر ٹھہرائوں ) میں پوشیدگی کے حجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے ۔اُس نے گوشۂ تنہائی سے مجھے جبرًا نکالا ۔میں نے چاہا کہ میں پوشید ہ رہوں اور پوشیدہ مروں ۔مگر اُس نے کہا کہ میں تجھے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ شہرت دونگا ۔‘‘ ( حقیقۃ الوحی ص۱۴۸،۱۴۹)
غرض نور کا یہ خلاصہ ہے کہ وہ ظاہر ہو ۔وہ کبھی چھپ کر نہیں رہ سکتا ۔پس جب کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے اندر پیدا کرلے تو نہ صرف اُس میں بلکہ اُس کے ملنے والوں میں بھی ایک پاک تبدیلی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے ۔یہ تو ہو سکتا ہے کہ کئی لوگوں کے اندر وہ تبدیلی نا مکمل ہو مگر پھر بھی نور ضرور ظاہر ہو کر رہتا ہے ۔جس طرح کا لے کپڑے کی اوٹ میں بھی اگر بتی جلائی جائے تب بھی کچھ نہ کچھ روشنی ضرور نکلتی ہے ۔اسی طرح ممکن ہے کہ کسی کے دل میں محبت الٰہی کی ایک ہلکی سی چنگاری تو مخفی ہو مگر گناہوں کی سیاہ چادر اُس پر پڑی ہوئی ہو ۔لیکن یہ سیاہی اس کے نور کو صرف کم کر سکتی ہے مٹا نہیں سکتی ۔اور جب بھی اس کی سیاہ چادر ہٹے گی الٰہی نور نہایت شان سے اس میں سے ظاہر ہوناشروع ہو جائیگا ۔پھر اللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کہہ کراسلام نے دنیا کے سامنے یہ اصل بھی پیش کیا ہے کہ تمدن کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے نور یعنی اس کے الہام پر ہونی چاہئیے ۔اور تمدنی قوانین صرف اُس ذات کی طرف سے ہونے چاہئیں جس کی نہ کسی سے رشتہ داری ہے اور نہ دوستی ۔عورتوں سے پوچھو تو وہ کہتی ہیں کہ مردوں کے ہاتھ میں چونکہ قانون بنانا ہے اس لئے وہ جس طرح چاہتے ہیں بنا لیتے ہیں ۔اسی طرح پہلے زمانہ میں ہندوستانی کہا کرتے تھے کہ ملکی قوانین چونکہ انگریزوں نے اپنی قوم کو فائدہ پہنچانے کیلئے بنائے ہوئے ہیں اس لئے ہم سول نافرمانی کرتے ہیں۔غرض کوئی قوم دوسری قوم کے بنائے ہوئے قوانین پر مطمٔن نہیں ہو سکتی مگر خداتعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے متعلق کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ اس نے کسی قوم کی رعایت کی ہے ۔خداتعالیٰ کو اس سے کوئی غر ض نہیں کہ لنکا شائر کا کپڑا فروخت ہو یا نہ ہو اور ہندوستان کی روئی بکے یا نہ بکے اس کے نزدیک سب یکساں ہیں ۔پس صحیح قانون اُسی کی طرف سے جاری ہو سکتا ہے ۔اور اسی کی طرف اللّٰہُُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں اشارہ کیا گیا ہے یعنی آسمانوں اور زمینوں کا نور خدا ہی ہے اور سب چیزیں اسی سے طاقت پاتی ہیں ۔وہ جس قانون کو جاری کرتا ہے وہ ایسے سرچشمہ سے نکلتا ہے جو لَاشَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرَبِیَّۃٍ کا مصداق ہو تا ہے۔اُس میں نہ مشرقیوں کی رعایت مدنظر ہوتی ہے اور نہ مغربیوں کی نہ عورتوں کی رعایت ہوتی ہے نہ مردوں کی ۔نہ کمزوروں کے حقوق کو تلف کیا جاتا ہے نہ طاقتوروں کی رعایت مدنظر رکھی جاتی ہے ۔اور حقیقت یہی ہے کہ دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ تمدن کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسلیم نہ کی جائے ۔مزدور اور سرمایہ دار کے جھگڑے صرف اسی لئے پید اہوئے کہ دنیا نے کہا ہم خود تمدنی قوانین بنائیں گے بلکہ وہ اسلام پر اعتراض کرتے رہے کہ اس نے تمدنی امور میں کیوں دخل دیا ہے۔لیکن اب وہ لوگ بھی دھکے کھا کھا کر وہیں آرہے ہیں جہاں اسلام لانا چاہتا ہے اور تعلقات مابین خواہ میاں بیوی کے ہوں یا ماں باپ کے ۔بھائی بھائی کے ہوں یا بہن بھائی کے ۔رعایا اور راعی کے ہوں یا مختلف حکومتوں کے سب میں دنیا اسلام کی طرف آرہی ہے ۔پس اللّٰہُُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاح’‘ ۔اس نور کی مثال ایک طاقچے کی سی ہے جس میں ایک تیز روشی والا چراغ رکھا ہوا ہو ۔مشکوۃ اس طاقچے کو کہتے ہیں جو دیوا رمیں بنا ہوا ہو اور جسکے دوسری طرف سوراخ نہ ہو ۔دیوار میں دو طرح کے طاقچے بنائے جاتے ہیں ایک کھڑکی کی طرح ہوتا ہے یعنی اُس کے آر پار سوراخ ہوتا ہے کیونکہ روشن دان سے یہ غرض ہوتی ہے کہ ہوا اور روشنی کی آمد و رفت رہے۔مگر پرانے زمانے میں مساجد میں خصوصًا اس قسم کے طاقچے بنائے جایا کرتے تھے جن میں چراغ یا قرآن شریف رکھے جاتے تھے اور جن کے دوسری طرف سوراخ نہیں ہوتا تھا اور مشکوٰۃ ایسے ہی طاقچے کو کہتے ہیں جس کے دوسری طرف سوراخ نہ ہو ۔اللہ تعالیٰ ان آیات میں اپنے نور کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اُس نور کی مثال ایک طاقچے کی سی ہے جس میں ایک بتی رکھی ہوئی ہو۔اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ ۔اور وہ بتی ایک چمنی یا گلوب میں ہو ۔اَلزَّجَاجَۃُ کَاَنَّھَا کَوْکَب’‘ دُرِّيّ’‘ ۔اور وہ چمنی یا گلوب ایسے اعلیٰ درجہ کے شیشہ کا بنا ہوا ہو اور ایسا روشن ہو کہ گویا وہ ایک ستارہ ہے جو چمک رہا ہے ۔اس جگہ اللہ تعالیٰ کے نور کو تین چیزوں میں محصور قرار دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کمالِ نور ہمیشہ تین ذرائع سے ہوتا ہے ۔ایک مشکٰوۃ سے ۔ایک مصباح سے اور ایک زجاجہ سے ۔
یہ ایک عجیب بات ہے کہ باوجود یہ کہ قرآن کریم ایسے زمانہ میں نازل ہوا جبکہ سائنس ابھی کمال کو نہیں پہنچی تھی اور ایسے ملک میں نازل ہوا جہاں کے لوگ تہذیب و تمدن سے بھی آشنا سمجھے جاتے تھے اور ایسے انسان پر نازل ہو اجو اُمّی تھا ۔پھر بھی روشنی کے کمال کو جس عجیب طرز سے ان آیات میں بیان کیا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بیسویں صدی کا سائنس دان روشنی کی حقیقت بیان کر رہا ہے ۔مشکٰوۃ جس طرح اس طاقچے کو کہتے ہیں جو دیوا ر میں بنایا جاتا ہے اور جس کے دوسری طرف سوراخ نہیں ہوتا اسی طرح مصباح اُس شعلہ کو کہتے ہیں جو بتی میں سے نکلتا ہے یا بلب کی وہ تاریں سمجھ لو جن سے بجلی کی روشنی پیدا ہوتی ہے بشرطیکہ وہ روشن ہوں ۔مصباح کے معنے دراصل صبح کردینے والا آلہ کے ہیں اور اس لحاظ سے ہر وہ چیز جس سے بہت تیز روشنی ہوتی ہو اُسے مصباح کہا جاتا ہے اور چونکہ وہ بتی کا گُل ہی ہوتا ہے جو روشن ہوتا ہے یا بجلی کی وہ تاریں ہوتی ہیں جو بلب کے اندر ہوتی ہیں اور چمکتی ہیں اس لئے عربی زبان میں انہیں مصباح کہتے ہیں ۔گویا وہ شعلہ جو آگ لگنے کے بعد بتی میں سے نکلتا ہے یا بجلی کی وہ تار جہاں بجلی پہنچتی ہے تو وہ یکدم روشن ہو جاتا ہے ۔وہ مصباح کہلاتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُس کے نور کی مثال ایک طاقچہ کی سی ہے جس میں ایک بتی جل رہی ہو اور پھر وہ بتی ایک زجاجہ میں ہو ۔
ہر شخص جانتا ہے کہ ہری کین روشن کرنے کیلئے جب کوئی شخص دیا سلائی جلاتا اور بتی کو لگاتا ہے تو اس وقت بتی کی روشنی کی کیا حالت ہوتی ہے ایک زرد سا شعلہ بتی میں سے نکل رہا ہوتاہے اور اُسکا دھواں اُٹھ اُٹھ کر کمرہ میں پھیل رہا ہوتا ہے ۔نازک مزاج اشخاص کے دماغ میں وہ دھوآں چڑھتا ہے تو انہیں چھینکیں آنی شروع ہو جاتی ہیں ۔بعض کو نزلہ ہو جاتا ہے لیکن جونہی بتی میں سے دھوآں نکلتا اور کمرے میں پھیلنے لگتاہے انسان جلدی سے چمنی پر ہاتھ مارتا اور ہر ی کین کا ہینڈل دباکر اُسے بتی پر چڑھا دیتا ہے ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسی وقت دھوآں جاتا رہتا ہے اور اس شعلہ کا رنگ ہی بدل جاتا ہے اور پہلی روشنی سے بعض دفعہ بیس گُنے بعض دفعہ تیس گنے بعض دفعہ پچاس گنے بعض دفعہ سو گنے اور بعض دفعہ دو سو یا ہزار گنے تیز روشنی پیدا ہو جاتی ہے ۔اور تمام کمرہ روشن ہو جاتا ہے ۔پھر زائد بات اس چمنی یا گلوب کی وجہ سے یہ پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ بتی بجھتی نہیں ۔تیز بارشوں کے ایّام میں رات کے وقت لوگ ہری کین لے کر باہر چلے جاتے ہیں ۔آندھی آرہی ہوتی ہے طوفان اُٹھ رہا ہوتا ہے ۔چھتیں ہل رہی ہوتی ہیں ۔عمارتیں کانپ رہی ہوتی ہیں ۔پیر لڑکھڑا رہے ہوتے ہیں مگر وہ روشنی جو انسان ہاتھ میں اُٹھائے ہوئے ہوتا ہے نہیں بجھتی کیونکہ اس کی چمنی اس کے ماحول کو محفوظ کر دیتی ہے اور نہ صرف اس کی روشنی کو کئی گنا زیاد ہ کر دیتی ہے بلکہ اُسے بجھنے سے بھی محفوظ کر دیتی ہے۔مگر بعض لمپ ہر ی کین سے بھی زیادہ طاقتور ہوتے ہیں ۔اور جو بڑے بڑے لمپ کمروں کو روشن کرنے کیلئے جلائے جاتے ہیں ان کو دیکھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ان کی روشنی تیز کرنے کیلئے ان کے پیچھے ایک اس قسم کی چیز لگا دی جاتی ہے جو روشنی کو آگے کی طرف پھینکتی ہے۔پرانے زمانوں میں لوگ اس غرض کیلئے لمپ کو طاقچہ میں رکھ دیا کرتے تھے اور اس زمانہ میں اس کی ایک مثال ٹارچ ہے ۔ٹارچ پیچھے سے لمبی چلی آتی ہے اور اس کے آگے اس پر ایک نسبتًا بڑا خول چڑھا دیتے ہیں جو بلب کے تین طرف دائرہ کی شکل میں پھیلا ہوا ہوتا ہے جس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ روشنی کو آگے کی طرف پھیلا دے اگر اس خول کو اتار لیا جائے تو ٹارچ کی روشنی دس پندرہ گز تک رہ جاتی ہے ۔لیکن اس خول کے ساتھ وہی روشنی بعض دفعہ پانچ سو گز بعض دفعہ ہزار گز اور بعض دفعہ دو ، دو ہزار گز تک پھیل جاتی ہے ۔یہ روشنی کو دُور پھینکنے والا جو خول ہوتا ہے اُسے انگریزی میں ری فلیکٹر کی وجہ سے اس سے بھی زیادہ دور تک روشنی پہنچا دیتے ہیں اس طرح روشنی مکمل ہو جاتی ہے اور لوگ اس سے پوری طرح فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
غرض یہ تین چیزیں ہیں جن سے نور مکمل ہو تا ہے اُن میں سے ایک تو شعلہ ہے جو اصل آگ ہے ۔اور جس کے بغیر کوئی نور ہو ہی نہیں سکتا ۔روحانی دنیا میں وہ شعلہ اللہ تعالیٰ کا نور ہے اور چمنی جس سے وہ نور روشن ہوتا ہے وہ خداتعالیٰ کے انبیاء ہیں ۔یوں تو دنیا کے ہر ذرہ سے خداتعالیٰ کا نور ظاہر ہے مگر وہ نور لوگوں کو نظر نہیں آتا ۔ہاں جب اللہ تعالیٰ کا نبی آتا ہے ۔اور اُسے اپنے ہاتھوں میں لے کر دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تب ہر شخص کو وہ نور نظر آنے لگ جاتا ہے ۔بالکل اسی طرح جس طر ح بتی جلائی جائے تو ہوا کا ذرا سا جھونکا بھی اُسے بجھا دیتا ہے۔مگر جونہی اس پر شیشہ رکھ دیا جاتا ہے سب اندھیرا دُور ہو جاتا ہے تاریکی مٹ جاتی ہے اور وہی نور آنکھوں کے کام آنے لگ جاتا ہے ۔اس کایہ مطلب نہیں کہ اصل چیز تو وہ نور ہی ہے جو بتی میں سے نکل رہا ہوتا ہے ۔مگر چونکہ وہ نور دھوئیں کی شکل میں ضائع ہو رہا ہوتا ہے اس لئے لوگ اس سے اس وقت تک فائدہ نہیں اٹھا سکتے جب تک اس پر شیشہ نہیں چڑھایا جاتا ۔ہاں جب شیشہ چڑ ھ جاتا ہے تو وہی نور جو پہلے ضائع ہو رہا ہوتا ہے ضائع ہونے سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔پھر چمنی سے مل کر پہلے نور سے بیس گنے سو گنے دوسو گنے ہزار گنے بلکہ دوہزار گنے زیادہ تیز ہو جاتا ہے ۔یہ شیشے اور گلوب دراصل انبیاء کے وجود ہوتے ہیں جو خداتعالیٰ کے اس نور کو جو قدرت میںہر جگہ پایا جاتا ہے لیتے ہیں اور اپنے گلوب اور چمنی کے نیچے رکھ کر اُس کا ہر حصہ انسانوں کے استعمال کے قابل بنا دیتے ہیں ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا اس نور کو دیکھنے لگ جاتی ہے ۔اس کی آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں اور وہ اس سے فائدہ حاصل کرنے لگ جاتی ہے ۔اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بعض اور مقامات پر بھی بیان فرمایا ہے ۔چنانچہ سورۃ طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں فرماتا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نور کو آگ کی شکل میں دیکھا اور فرمایا اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا میں نے ایک آگ دیکھی ہے اس فقر ہ سے صاف ظاہر ہے کہ دوسرے لوگ اس آگ کو نہیں دیکھ رہے تھے ۔پس اٰنَسْتُ نَارًا میں یہ بتا یا گیا ہے کہ نبی کے وجود میں ظاہر ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا ظہور اس دنیا میں بطور نار کے ہوتا ہے ۔یعنی کوئی تیز نظر والا ہی اُسے دیکھ سکتا ہے لیکن جب وہ نبی کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے تو پھر وہ نور ہو جاتا ہے ۔یعنی لیمپ کی طرح اس کی روشنی بہت تیز ہو جاتی ہے ۔پھر نبوت میں یہ نور آکر مکمل تو ہو جاتا ہے لیکن اس کا زمانہ پھر بھی محدور ہو تا ہے کیونکہ نبی ہی موت سے محفوظ نہیں ہوتے ۔پس اس روشنی کو دُور تک پہنچانے کیلئے اور زیادہ دیر تک قائم رکھنے کیلئے ضروری تھا کہ کوئی اور تدبیر کی جاتی سو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ایک ری فلیکٹر بتایا ۔جس کا نام خلافت ہے جس طرح طاقچہ تین طرف سے روشنی کو روک کر صرف اس جہت میں ڈالتا ہے جدھر اس کی ضرورت ہوتی ہے ۔اسی طرح خلفاء نبی کی قوتِ قدسیہ کو جو اس کی جماعت میں ظاہر ہو رہی ہوتی ہے ضائع ہونے سے بچا کر ایک خاص پروگرام کے ماتحت استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں جماعت کی طاقتیں پراگندہ نہیں ہوتیں اور تھوڑی سی طاقت سے بہت سے کام نکل آتے ہیں کیونکہ طاقت کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہوتا۔اگر خلافت نہ ہوتی تو بعض کاموں پر تو زیادہ طاقت خرچ ہو جاتی اور بعض کام توجہ کے بغیر رہ جاتے اور تفرقہ اور شقاق کی وجہ سے کسی نظام کے ماتحت جماعت کا روپیہ اوراس کا علم اور اس کا وقت خرچ نہ ہوتا۔غرض خلافت کے ذریعہ سے الٰہی نور کو جو نبوت کے ذریعہ سے مکمل ہوتا ہے ممتد اور لمبا کر دیا جاتا ہے ۔چنانچہ دیکھ لو الٰہی نور رسول کریم ﷺ کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہوگیا بلکہ حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کے طاقچہ کے ذریعہ اس کی مدت کو سوا دو سال اور بڑھا دیا گیا ۔پھر حضرت ابوبکر ؓ کی وفات کے بعد وہی نور خلافتِ عمر ؓ کے طاق کے اندر رکھ دیا گیا اور ساڑھے دس سال کی مدت کو اور بڑھا دیا گیا ۔پھر حضرت عمر ؓ کی وفات کے بعد وہی نور عثمانی طاقچہ میں رکھ دیا گیا اور بارہ سال اس کی مدت کو اور بڑھا دیا گیا ۔پھر حضرت عثمان ؓ کی وفات کے بعد وہی نور علوی طاقچہ میں رکھ دیا گیا اور چار سال نو ماہ اُس نور کو اور لمبا کر دیا گیا ۔گویا تیس سال الٰہی نور خلافت کے ذریعہ لمبا ہو گیا ۔پھر ناقص خلافتوں کے ذریعہ سے تو یہی نور چار سو سال تک سپین اور بغداد میں ظاہر ہوتا رہا ۔غرض جس طرح ٹارچوں کے اندر ری فلیکٹر ہوتا ہے اور اسکے ذریعہ بلب کی روشنی دُور دُور تک پھیل جاتی ہے یا چھوٹے چھوٹے ری فلیکٹر بعض دفعہ تھوڑا سا خم دیکر بنائے جاتے ہیں جیسے دیوار گیروں کے پیچھے ایک ٹین لگا ہوا ہوتا ہے جو دیوار گیر کا ری فلیکٹر کہلاتا ہے اور گو اس کے ذریعہ روشنی اتنی تیز نہیں ہوتی جتنی ٹارچ کے ری فلیکٹر کے ذریعہ تیز ہوتی ہے مگر پھر بھی دیوار گیر کی روشنی اس ری فلیکٹر کی وجہ سے پہلے سے بہت بڑھ جاتی ہے ۔اسی طرح خلافت وہ ری فلیکٹر ہے جو نبوت اور الوہیت کے نور کو لمبا کر دیتا ہے اور اسے دُور تک پھیلا دیتا ہے ۔پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خلافت نبوت اور الوہیت کاذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہمارے نور کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بتی کا شعلہ وہ ایک نور ہے جو دنیا کے ہر ذرہ سے ظاہر ہو رہا ہے ۔مگر جب تک وہ نبوت کے شیشہ میں نہ آئے لوگ اُس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے ۔جیسے نیچر پر غور کرکے اللہ تعالیٰ کی ہستی معلوم کرنیکا شوق رکھنے والے ہمیشہ ٹھو کریں کھاتے اور نقصان اٹھاتے ہیں ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ ( اٰل عمران ع ۲۰) بالکل درست ہے اور زمین اور آسمان میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی آیات پائی جاتی ہیں مگر یہی خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یورپ کے فلاسفروں کو دہریہ بنا رہی ہے ۔گویا خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں اللہ تعالیٰ کا جو نور ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بتی کا شعلہ ۔یہ شعلہ جب نکلتا ہے تو اس کے ساتھ دھوآں بھی اٹھتا ہے جو بعض دفعہ نزلہ پیدا کردیتا ہے اور آنکھوں کو بھی خراب کرتا ہے ۔وہ دھوآں تب ہی دُور ہوتا ہے جب اُس پر نبوت کی چمنی یا گلوب رکھ کر اُسے روشنی کی صورت میں تبدیل کر دیا جائے اگر اس کے بغیر کوئی اس شعلہ سے نور کاکام لینا چاہے تو اُسے کچھ نور ملے گا اور کچھ دھوآں ملیگا جو اسکی آنکھوں اور ناک کو تکلیف دے گا ۔چنانچہ اسی وجہ سے جو شخص نیچر پر غور کرکے خداتعالیٰ کو پانا چاہتا ہے وہ کئی دفعہ ٹھوکریں کھاتا ہے اور بعض دفعہ تو خداتعالیٰ کو پانے کی بجائے دہریہ ہو جاتا ہے ۔مگر جو شخص خداتعالیٰ کے وجود کو نبوت کی چمنی کی مدد سے دیکھنا چاہتا ہے اس کی آنکھیں اور اس کا ناک دھوئیں کے ضرر سے بالکل محفوظ رہتے ہیں۔اور وہ ایک نہایت لطیف اور خوش کن روشنی پاتا ہے جو سب کثافتوں سے پاک ہوتی ہے ۔بانی سلسلہ احمدیہ نے اس حقیقت کی طرف اپنے اس شعر میں اشارہ فرمایا ہے ۔
؎ فلسفی کز عقل مے جوئد ترا دیوانہ است
دُور تراست ازخرد ہا آں رہِ پنہانِ تو
ٍ غرض کائنات ِعالم پر غور کرکے خداتعالیٰ کا وجود پانے والوں کیلئے خداتعالیٰ نے کچھ ابتلاء رکھے ہیں کچھ شکوک رکھے ہیں کچھ شبہات رکھے ہیں تا وہ مجبور ہو کر نبوت کی چمنی اُس نور پر رکھیں چنانچہ جب بھی الٰہی نور پر نبوت کی چمنی رکھی جاتی ہے ۔اُس نور کی حالت یکدم بدل جاتی ہے اور یا تو وہ بو دینے والا دھوآں نظر آرہا ہوتا ہے اور یا یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نور ہی نور ہے او ر اس میں دھوئیں کا نشان تک نہیں ۔پھر جب اس روشنی کو اٹھا کر ہم طاقچہ میں رکھ دیتے ہیں تو پہلے سے بہت زیادہ دُور اس کی روشنی پھیل جاتی ہے ۔
غرض اس آیت میں الوہیت ۔نبوت اور خلافت کا جوڑ بتا یا گیا ہے ۔اگر کوئی کہے کہ آخر خلافت بھی تو ختم ہو جاتی ہے ۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ خلافت ختم ہونا یا نہ ہونا انسانوں کے اختیار میں ہے اگر وہ پاک رہیں اور خلافت کی بے قدری نہ کریں تو یہ طاقچہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال تک قائم رہ کر اُن کی طاقت کو بڑھانیکا موجب ہو سکتا ہے اور اگر وہ خود ہی اس انعام کو رد کردیں تو اس کا علاج کسی شخص کے پاس نہیں ۔
اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ والی آیت کا مضمون مختصرًا بتانے کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ کس طرح یہ تمام سورۃ اسی ایک مضمون کے گرد چکر لگا رہی ہے ۔اس سورۃ کو اللہ تعالیٰ نے بدکاری اوربدکاری کے الزامات لگانیوالوں کے ذکر سے شروع کیا ہے اور اس کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جوا لزام لگا تھا اس کا ذکر کیا ہے ۔پھر اور بہت سی باتیں اسی کے ساتھ تعلق رکھنے والی بیان فرماتا ہے اور مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ انہیں ایسے مواقع پر کن کن باتوں پر عمل کرنا چاہئیے پھر وہ ذرائع بیان کرتا ہے جن پر عمل کرنے سے بدکاری دنیا سے مٹ سکتی ہے ۔یہ تمام مضامین اللہ تعالیٰ نے پہلے دوسرے اور تیسرے رکوع میں بیان فرمائے ہیں ۔کسی جگہ الزام لگانے والوں کے متعلق سزا کا ذکر ہے ۔کسی جگہ الزامات کی تحقیق کے طریق کا ذکر ہے ۔کسی جگہ شرعی ثبوت لانے کا ذکر ہے کسی جگہ ایسے الزامات لگنے کی وجوہ کا ذکر ہے ۔کسی جگہ ان دروازوں کا ذکر ہے جن سے گناہ پیدا ہوتا ہے ۔غرض تمام آیتوں میں ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے مگر اس کے معًا بعد فرماتا ہے اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ۔اب انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اسکا پہلے رکوعوں سے کیا تعلق ہے ؟ ایک ایسا مفسر جو یہ خیال کرتا ہے کہ قرآ ن کریم میں کوئی ترتیب نہیں وہ نعوذ باللہ ایک بے ربط کلام ہے ۔اس کی آیتیں اسی طرح متفرق مضامین پر مشتمل ہیں جس طرح دانے زمین پر گرائے جائیں تو کوئی کسی جگہ جاپڑتا ہے اور کوئی کسی جگہ وہ تو کہہ دیگا کہ اس میں کیا حرج ہے ۔پہلے وہ مضمون بیان کیا گیا تھا اور اب یہ مضمون شروع کر دیا گیا ہے ۔مگر وہ شخص جو حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کی تعلیم سے واقف ہے جو جانتا ہے کہ قرآن کریم کا ہر لفظ ایک ترتیب رکھتا ہے ۔وہ یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ پہلے تو بدکاری کے الزامات اور اُن کو دور کرنے کا ذکر تھا اور اس کے معًا بعد یہ ذکر شروع کر دیا گیا ہے کہ اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔ان دونوں کا آپس میں جوڑ کیا ہو ا۔پھر انسان اور زیادہ حیران ہو جاتا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ پانچویں رکوع میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اور اس سے دو رکوع بعد یعنی ساتویں رکوع میں اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر شروع کر دیا ہے کہ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ مِنْکُمْ وَعَمِلُو الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِیْ الْاَرْضِ کَمَا اصْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ یعنی اللہ تعالیٰ تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ بجا لائے یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ انہیں زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا ۔گویا پہلے تو زنا کے الزامات کا ذکر کیا ۔پھر حضرت عائشہ ؓ کا واقعہ بیان کیا ۔پھر اُن الزامات کے الزالہ کے طریقوں کا ذکر کیا پھر اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کا مضمون بیان کیا اور پھر کہہ دیا کہ میرا یہ وعدہ ہے کہ جو مومن ہو نگے انہیں میں اس اُمت میں اسی طرح خلیفہ بنائوں گا جس طرح پہلے لوگو ں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے دین کو دنیا میں قائم کرونگا اور اُن کے خوف کو امن سے بد ل دونگا ۔وہ میری عبادت کرینگے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔اور جوان خلفاء کا منکر ہو گا وہ فاسق ہوگا ۔پس لازمًا یہ سوال ہر شخص کے دل میں پید ا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ پہلے زنا کے الزامات کا ذکر ہے پھر اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کا ذکر کیا اور پھر خلافت کا ذکر کر دیا ۔ان تینوں باتوں کا آپس میں جوڑ ہونا چاہئیے ورنہ یہ سمجھا جائیگا کہ قرآن کریم نعوذ با اللہ بے جوڑ باتوں کا مجموعہ ہے ۔اور اس کے مضامین میں ایک عالم اور حکیم ہستی والا ربط اور رشتہ نہیں ہے ۔ا س جگہ ضمنی طور پر یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ جہاں دوسروں پر الزام لگانے والوں کا ذکر ہے وہاں الزام لگانے والوں کے متعلق فرمایا ہے کہ وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْ تُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ فَاجْلِدُوْ ھُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃ’‘ وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَۃً اَبَدًا وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ کہ وہ لوگ جو بے گناہ عورتوں پر الزام لگاتے ہیں اور پھر ایک موقعہ کے چار گواہ نہیں لاتے تم اُن کو اسّی کوڑے مارو ۔اور تم ان کی موت تک اُن کو جھوٹا سمجھو اور اُن کی شہادت کو کبھی قبول نہ کرو۔ وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْن اور یہی وہ لوگ ہیں جوخدا تعالیٰ کے نزدیک فاسق ہیں۔پھر اسی سورۃ میں جہاں خلفاء کا ذکر کیا وہاں بھی یہی الفاظ رکھے اور فرمایا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَذٰلِکَ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْن کہ جو شخص خلفاء کا ا نکار کرے وہ فاسق ہے ۔اب جو الفاظ زنا کا الزام لگانے والوں کے متعلق خداتعالیٰ نے رکھے تھے اور جو نام اُن کا تجویز کیا تھا وہی نام خدا تعالیٰ نے خلافت کے منکرین کا رکھا اور قریبًا اسی قسم کے الفاظ اس جگہ استعمال کئے وہاں یہ بھی فرمایا تھا کہ جو لوگ بدکاری کا الزام لگاتے اور پھر چارگواہ ایک موقعہ کے نہیں لاتے انہیں اسّی کوڑے مارو۔انہیں ساری عمر جھوٹا سمجھو اور سمجھ لو کہ یہ لوگ فاسق ہیں ۔اور یہاں بھی یہ فرمایا کہ جو شخص خلفاء کا انکار کرتا ہے سمجھ لو کہ وہ فاسق ہے ۔غرض جو شخص قرآن کریم کو ایک حکیم ہستی کی کتاب سمجھتا ہے اور اس کے اعلیٰ درجہ کے باربط اور ہم رشتہ مضمونوں کے کمالات دیکھنے کا اُسے موقعہ ملا ہے اُس کے دل میں لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تینوں باتوں کا آپس میں جوڑ کیا ہے۔اس شکل کو حل کرنے کیلئے اگر اس مضمون پر غور کیا جائے جو میں نے اوپر بتا یا ہے اور جو یہ ہے کہ اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں الوہیت ،نبوت اور خلافت کے تعلق پر روشنی ڈالی گئی ہے تو آخری دو مضمونوں کا تعلق پہلے مضامین سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کیونکہ اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں خلافت کا اصولی ذکر تھا اور بتایا گیا تھا کہ خلافت کا وجود بھی نبوت کی طرح ضرور ی ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے جلال الٰہی کے ظہور کے زمانہ کو ممتد کیا جاتا ہے اور الٰہی نور کو ایک لمبے عرصہ تک دنیا کے فائدہ کیلئے محفوظ کر دیا جاتا ہے ۔اس مضمون کے معلوم ہونے پر طبعًا قرآن کریم پڑھنے والوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ خدا کرے ایسی نعمت ہم کو بھی ملے سو وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ کی آیات میں اس خواہش کو پورا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمادیا اور بتادیا کہ یہ نعمت تم کو بھی اُسی طرح ملے گی جس طرح پہلے انبیاء کی جماعتوں کو ملی تھی ۔غرض ان بیان کردہ معنوں کی رُو سے اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کی آیت اور اس کی متعلقہ آیتوں کا وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ مِنْکُمْ وَعَمِلُو الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِیْ الْاَرْضِ کَمَا اصْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کی آیت اور انکی متعلقہ آیتوں سے ایک ایسا لطیف اور طبعی جوڑ قائم ہو جاتا ہے جو دل کو لذت اور سرور سے بھر دیتا ہے اور ایمان کی زیادتی کا موجب ہوتا ہے لیکن یہ سوال پھر بھی قائم رہتا ہے کہ اس مضمون کا پہلی آیتوں سے کیا تعلق ہوا ۔یعنی سورۃ نور کے پانچویں رکوع کا اس کے نویں رکوع تک تو خلافت سے جوڑ ہوا ۔لیکن جو پہلے چار رکوع ہیں جن میں بدکاری اور بدکاری کے الزامات کا ذکر آتا ہے اُن کا اس سے کیا تعلق ہے جب تک یہ جوڑ بھی نہ ملے اس وقت تک قرآن کریم کی ترتیب پورے طور پر ثابت نہیں ہو سکتی ۔
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ پہلے چار رکوعوں کا باقی پانچ رکوعوں سے جن میں خلافت کا ذکر آتا ہے کیا تعلق ہے ۔یہ بات ظاہر ہے کہ پہلے چار رکوعوں میں بدکاری کے الزامات کا ذکر اصل مقصود ہے اور اُن میں خصوصًا اس الزام کو رد کرنا مقصود ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی دشمنی تھی۔ایک گھر میں بیٹھی ہوئی عورت سے جس کا نہ سیاسیات سے کوئی تعلق ہو نہ قضاء سے ۔نہ عہدوں سے نہ اموال کی تقسیم سے نہ لڑائیوں سے ۔نہ مخالفت اقوام پر چڑھائیوں سے نہ حکومت سے نہ اقتصادیات سے اُس سے کسی نے کیا بغض رکھنا ہے ۔پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے براہ راست بُغض کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی ۔اس الزام کے بارہ میں دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔یا تو یہ کہ نعوذ باللہ یہ الزام سچا ہو جس کو کوئی مومن ایک لمحہ کیلئے بھی تسلیم نہیں کر سکتا ۔خصوصًا اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ نے عرش پر سے اس گندے خیال کو رد کیا ہے او ر دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ پر الزام بعض دوسرے وجودوں کا نقصان پہنچانے کیلئے لگا یا گیا ہو ۔اب ہمیں غور کرنا چاہئیے کہ وہ کون کون لوگ تھے جن کو بدنام منافقوں کیلئے یا اُن کے سرداروں کیلئے فائدہ بخش ہو سکتا تھا اور کن کن لوگوں سے اس ذریعہ سے منافق اپنی دشمنی نکال سکتے تھے ۔ایک ادنیٰ تدبیر سے بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ پر الزام لگا کر دو شخصوں سے دشمنی نکالی جا سکتی تھی ۔ایک رسول کریم ﷺ سے او ر ایک حضرت ابوبکر ؓ سے ۔کیونکہ ایک کی وہ بیوی تھیں اور ایک کی بیٹی تھیں ۔یہ دونوں وجود ایسے تھے کہ ان کی بدنامی سیاسی لحاظ سے یا دشمنیوں کے لحاظ سے بعض لوگوں کیلئے فائدہ بخش ہو سکتی تھی یا بعض لوگوں کی اغراض اُن کو بدنام کرنے کے ساتھ وابستہ تھیں ۔ورنہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بدنامی سے کسی شخص کو کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی تھی ۔زیادہ سے زیادہ آپ سے سوتوں کا تعلق ہو سکتا تھا اور یہ خیال ہو سکتا تھا کہ شائد حضرت عائشہ ؓ کی سوتوں نے حضرت عائشہ ؓ کو رسول کریم ﷺ کی نظروں سے گرانے اور اپنی نیک نامی چاہنے کیلئے اس معاملہ میں کوئی حصہ لیا ہو۔مگر تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی سوتوں نے اس معاملہ مین کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ حضرت عائشہ ؓ کا اپنا بیان ہے کہ رسول کریم ﷺ کی بیویوں میں سے جس بیوی کو میں اپنا رقیب اور مد مقابل خیال کیا کرتی تھی وی حضرت زینب بنت حجش ؓ تھیں ۔ان کے علاوہ اور کسی بیوی کو میں اپنا رقیب خیال نہیں کرتی تھی مگر حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں زینب ؓ کے اس احسان کو کبھی بھول نہیں سکتی کہ جب مجھ پر الزام لگا یا گیا تو سب سے زیادہ زور سے اگر کوئی اس الزام کی تردید کیا کرتی تھیں تو وہ حضرت زینب ؓ ہی تھیں ۔( سیرۃ الحلبیہ جلد۲ ص۳۱۰، ۳۱۶) پس حضرت عائشہ ؓ سے اگر کسی کو دشمنی ہو سکتی تھی تو ان کی سوتوں کو ہی ہو سکتی تھی اور وہ اگر چاہتیں تو اس میں حصہ لے سکتی تھیں تا حضرت عائشہ ؓ رسول کریم ﷺ کی نظروں سے گِر جائیں اور اُن کی عزت بڑھ جائے ۔مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں دیا اور اگر کسی سے پوچھا گیا تو اس نے حضرت عائشہ ؓ کی تعریف ہی کی ۔غرض مردوں کی عورتوں سے دشمنی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی ۔پس آپ پر الزام یا تو رسول کریم ﷺ کو جو مقام حاصل تھا وہ تو الزام لگانے والے کسی طرح چھین نہیں سکتے تھے ۔انہیں جس بات کا خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد بھی وہ اپنی اغراض کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائیں ۔وہ دیکھ رہے تھے کہ آپ کے بعد خلیفہ ہونے کا اگر کوئی شخص اہل ہے تو وہ ابو بکر ؓ ہی ہے ۔پس اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے انہوں نے حضرت عائشہ ؓ پر الزام لگا دیاتا حضرت عائشہ ؓ رسول کریم ﷺ کی نگاہ میں گِر جائیں اور اُن کے گِرجانے کی وجہ سے حضرت ابو بکر ؓ کو مسلمانوں میں جو مقام حاصل ہے وہ بھی جاتا رہے اور مسلمان آپ سے بدظن ہو کر اس عقیدت کو ترک کردیں جو انہیں آپ سے تھی ۔اور اس طرح رسو ل کریم ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ کے خلیفہ ہونے کا دروازہ بالکل بند ہوجائے ۔یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے حضرت عائشہ ؓ پر الزام لگنے کے واقعہ کے بعد خلافت کا بھی ذکر کیا ۔حدیثوں میں صریح طور پر ذکر آتا ہے کہ صحابہ ؓ آپس میں باتیں کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد اگر کسی کا مقام ہے تو وہ ابو بکر ؓ کا ہی مقام ہے ۔حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ سے کہا ۔اے عائشہ ؓ ! میں چاہتا تھا کہ ابوبکر ؓ کو اپنے بعد نامزد کر دوں مگر میں جانتا ہوں کہ اللہ اور مومن اسکے سوا اور کسی پر راضی نہیں ہونگے اس لئے میں کچھ نہیں کہتا ۔غرض صحابہ ؓ یہ یقینی طور پر سمجھتے تھے کہ رسول کریم ﷺ کے بعد اُن میں اگر کسی کا درجہ ہے تو ابوبکر ؓ کا ہے اور وہی آپ کا خلیفہ بننے کے اہل ہیں ۔مکی زندگی تو ایسی تھی کہ اس میں حکومت اور اس کے نظام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔لیکن مدینہ میں آنحضرت ﷺ کے تشریف لانے کے بعد حکومت قائم ہوگئی اور طبعًا منافقوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہونے لگا کہ آپ کے بعد کوئی خلیفہ ہوکر نظامِ اسلامی لمبا نہ ہو جائے اور ہم ہمیشہ کیلئے تباہ نہ ہو جائیں۔کیونکہ آپ کے مدینہ میں تشریف لانے کی وجہ سے اُن کی کئی اُمیدیں باطل ہوگئی تھیں ۔تاریخوں سے ثابت ہے کہ مدینہ میں عربوں کے دوقبیلے اوس اور خزرج تھے اور یہ ہمیشہ آپس میں لڑتے رہتے تھے اور قتل و خون ریزی کا بازار گرم رہتا تھا ۔جب انہوں نے دیکھا کہ اس لڑائی کے نتیجہ میں ہمارے قبائل کا رعب مٹتا چلا جاتا ہے تو انہوں نے آ پس میں صلح کی تجویز کی ۔اور قرار دیا کہ ہم ایک دوسرے سے اتحاد کرلیں اور کسی ایک شخص کو اپنا بادشاہ بنا لیں چنانچہ اوس اور خزرج نے آپس میں صلح کر لی اور فیصلہ ہوا کہ عبداللہ بن ابی ابن سلول کو مدینہ کا بادشاہ بنا دیا جائے ۔اس فیصلہ کے بعد انہوں نے تیاری بھی شروع کر دی اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کیلئے تاج بننے کا حکم دیدیا گیا۔اتنے میں مدینہ کے کچھ حاجی مکہ سے واپس آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ آخری زمانہ کا نبی مکہ میں ظاہر ہو گیا ہے اور ہم اُس کی بیعت کر آئے ہیں ۔اس پر رسول کریم ﷺ کے دعویٰ کے متعلق چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں اور چند دنوں کے بعد اور لوگوں نے بھی مکہ جاکر رسول کریم ﷺ کی بیعت کر لی ۔اور پھر انہوں نے رسول کریم ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ہماری تربیت اور تبلیغ کیلئے کوئی معلم ہمارے ساتھ بھیجیں ۔چنانچہ رسول کریم ﷺ نے ایک صحابی ؓ کو مبلغ بنا کر بھیجا اور مدینہ کے بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہو گئے۔انہی دنوں چونکہ مکہ میں رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ کو بہت تکالیف پہنچائی جارہی تھیں اس لئے اہل مدینہ نے آپ سے درخواست کی کہ آپ مدینہ تشریف لے آئیں ۔چنانچہ رسول کریم ﷺ صحابہ ؓ سمیت مدینہ ہجرت کرکے آگئے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کیلئے جو تاج تیار کروایا جا رہا تھا وہ دھرے کا دھرا رہ گیا ۔کیونکہ جب انہیں دونوں جہانوں کا بادشاہ مل گیا تو انہیں کسی اور بادشاہ کی کیا ضرورت تھی۔عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ دیکھا کہ اس کی بادشاہت کے تمام امکانات جاتے رہے ہیں تو اسے سخت غصہ آیا اور گووہ بظاہر مسلمانوں میں مل گیا مگر ہمیشہ اسلام میں رخنے ڈالتا رہتا تھا ۔اور چونکہ اب وہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا اس لئے اس کے دل میں اگر کوئی خواہش پیدا ہو سکتی تھی تو یہی کہ محمد رسو ل اللہ ﷺ فوت ہو ں تو میں مدینہ کا بادشاہ بنوں لیکن خداتعالیٰ نے اس کے اس ارادہ میں بھی اسے زک دی کیونکہ اس کا اپنا بیٹا بہت مخلص تھا ۔جس کے معنے یہ تھے کہ اگر وہ بادشاہ ہو بھی جاتا تو اس کے بعد حکومت پھر اسلام کے پاس آجاتی اس کے علاوہ خداتعالیٰ نے اُسے اس رنگ میں بھی زک دی کہ مسلمانوں میں جونہی ایک نیا نظام قائم ہوا انہوں نے رسول کریم ﷺ سے مختلف سوالات کرنے شروع کر دئے کہ اسلامی حکومت کا کیا طریق ہے ۔آپ کے بعد اسلام کا کیا بنے گا اور اس بارہ میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئیے ۔عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ حالت دیکھی تو اُسے خوف پید ا ہونے لگا کہ اب اسلام کی حکومت ایسے رنگ میں قائم ہوگی کہ اُس میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور وہ ان حالات کو روکنا چاہتا تھا ۔چنانچہ اس کے لئے جب اس نے غور کیا تو اُسے نظر آیا کہ اگر اسلامی حکومت کو اسلامی اصول پر کوئی شخص قائم کر سکتا ہے تو وہ ابو بکر ؓ ہے اور رسول کریم ﷺ کے بعد مسلمانوں کی نظریں انہی کی طرف اٹھتی ہیں ۔اور وہ اُسے تمام لوگوں سے معزز سمجھتے ہیں ۔ پس اُس نے اپنی خیر اسی میں دیکھی کہ انکو بدنام کرد یا جائے ۔اور لوگوں کی نظروں سے گِرا دیا جائے بلکہ خود رسول کریم ﷺ کی نگاہ سے بھی آپکو گرا دیا جائے اور اس بدنیتی کے پورا کرنے کا موقع اُسے حضرت عائشہ ؓ کے ایک جنگ میں پیچھے رہ جانے کے واقعہ سے مل گیا اور اس خبیث نے آپ پر ایک نہایت گندا الزام لگا دیا جو قرآن کریم میں تو اشارۃً بیان کیا گیا ہے لیکن حدیثوں میں اس کی تفصیل آتی ہے ۔عبداللہ بن ابی ابن سلول کی اس سے غرض یہ تھی کہ اس طرح حضرت ابوبکر ؓ ان لوگوں کی نظروں میں بھی ذلیل ہو جائیں گے اور آپ کے تعلقات رسول کریم ﷺ سے بھی خراب ہو جائینگے اور اس نظام کے قائم ہونے میں رخنہ پڑجائیگا جس کا قائم ہونا اُسے یقینی نظر آتا تھا اور جس کے قائم ہونے سے اسکی اُمیدیں برباد ہو جاتی تھیں ۔رسول کریم ﷺ کے بعد حکومت کے خواب صرف عبداللہ بن ابی ابن سلول ہی نہیں دیکھ رہا تھا بلکہ بعض اور لوگ بھی اس مرض میں مبتلا تھے ۔چنانچہ مسیلمہ کذاب کی نسبت بھی حدیثوں میں آتا ہے کہ وہ رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور اُس نے عرض کیا کہ میرے ساتھ ایک لاکھ سپاہی ہے ۔میں چاہتا ہوں کہ اپنی جماعت کے ساتھ آپ کی بیعت کر لوں ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا اسلام میں چھوٹے اور بڑے کی کوئی تمیز نہیں ۔اگر تم پر حق کھل گیا ہے تو تم بیعت کر لو۔وہ کہنے لگا میں بیعت کرنے کیلئے تو تیار ہوں مگر میری ایک شرط ہے ۔آپ نے فرمایا وہ کیا ؟ وہ کہنے لگا میری شرط یہ ہے کہ آپ تو عرب کے بادشاہ بن ہی گئے ہیں لیکن چونکہ میری قوم عرب کی سب سے زیادہ زبردست قوم ہے اس لئے میں اس شرط پر آپ کی بیعت کرتا ہوں کہ آپ کے بعد میں عرب کا بادشاہ ہوں گا ۔رسول کریم ﷺ کے ہاتھ میں اُس وقت کھجور کی ایک شاخ تھی ۔آپ نے مسیلمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم تو یہ کہتے ہو کہ محمد رسول اللہ اگر اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ مقرر کردیں تو میں ان کی بیعت کرنے کیلئے تیار ہوں لیکن میں توخدا کے حکم کے خلاف یہ کھجور کی شاخ بھی تم کو دینے کیلئے تیار نہیں ہوں ۔اس پر وہ ناراض ہو کر چلا گیا ۔اور اپنی تمام قوم سمیت مخالفت پر آمادہ ہو گیا ۔
تومسیلمہ کذاب نے بھی رسول کریم ﷺ کے بعد بادشاہت ملنے کی آرزو کی تھی ۔یہی حال عبداللہ بن ابی ابن سلول کا تھا ۔چونکہ منافق اپنی موت کو ہمیشہ دُور سمجھتا ہے اور وہ دوسروں کی موت کے متعلق اندازے لگاتا رہتا ہے ۔اس لئے عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی اپنی موت کو دُور سمجھتا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ہی وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے گا ۔وہ یہ قیاس آرائیاں کرتا رہتا تھا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہوں تو میں عرب کا بادشاہ بنوں ۔لیکن اب اُس نے دیکھا کہ ابوبکر ؓ کی نیکی اور تقویٰ اور بڑائی مسلمانوں میں تسلیم کی جاتی ہے ۔جب رسول کریم ﷺ نماز پڑھانے تشریف نہیں لاتے تو ابوبکر ؓ آپ کی جگہ نماز پڑھاتے ہیں ۔رسول کریم ﷺ سے کوئی فتویٰ پوچھتے ہیں یہ دیکھ کر عبداللہ بن ابی ابن سلول کو جو آئندہ کی بادشاہت ملنے کی اُمیدیں لگائے بیٹھا تھا سخت فکر لگا ۔اور اُس نے چاہا کہ اس کا ازالہ کرے۔چنانچہ اسی امر کا ازالہ کرنے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شہرت اور آپ کی عظمت کو مسلمانوں کی نگاہوں سے گرانے کیلئے اُس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا دیا تا حضرت عائشہ ؓ پر الزام لگنے کی وجہ سے رسول کریم ﷺ کو حضرت عائشہ ؓ سے نفرت پیدا ہواور حضرت عائشہ ؓ سے رسول کریم ﷺ کی نفرت کا یہ نتیجہ نکلے کہ حضرت ابو بکر ؓ کو رسول کریم ﷺ اور مسلمانوں کی نگاہوں میں جو اعزاز حاصل ہے وہ کم ہو جائے اور اُن کے آئندہ خلیفہ بننے کا کوئی امکان نہ رہے چنانچہ اسی امر کااللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ جَآئُ وْبِالْاِفْکِ عُصْبَۃُ مِّنْکُمْ کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اتہام لگایا ہے وہ تم لوگوں میں سے ہی مسلمان کہلانے والا ایک جتھا ہے ۔مگرفرماتا ہے لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ھُوَ خَیْر’‘ لَّکُمْ تم پر خیال مت کرو کہ یہ الزام کوئی برا نتیجہ پیدا کرے گا بلکہ یہ الزام بھی تمہاری بہتری اور ترقی کا موجب ہوجائیگا چنانچہ لو اب ہم خلافت کے متعلق اصول بھی بیان کر دیتے ہیں اور تم کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ یہ منافق زورمار کر دیکھ لیں یہ ناکام رہیں گے ۔اور ہم خلافت کو قائم کرکے چھوڑیں گے کیونکہ خلافت نبوت کا ایک جزو ہے اور الٰہی نور کے محفوظ رکھنے کا ایک ذریعہ ہے ۔پھر فرماتا ہے لِکُلِّ امْرِی ئٍ مِّنْھُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ ۔ان الزام لگانے والوں میں سے جیسی جیسی کسی نے کمائی کی ہے ویسا ہی عذاب اُسے مل جائیگا۔چنانچہ جو لوگ الزام لگانے کی سازش میں شریک تھے انہیں اسّی اسّی کوڑے لگائے گئے ۔پھر فرمایا وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہ‘ مِنْھُمْ لَہ‘ عَذَاب’‘ عَظِیْم’‘ ۔مگر ان میں سے ایک شخص جو سب سے بڑا شرارتی ہے اور جو اس تمام فتنہ کا بانی ہے یعنی عبداللہ بن ابی ابن سلول اُسے نہ صرف ہم کوڑے لگوائیں گے بلکہ خود بھی عذاب دیں گے ۔چنانچہ اس وعید کے مطابق اُسے کوڑوں کی سزا بھی دی گئی ( سیرۃ الحلبیہ جلد ۲ ص۳۱۸) اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اُسے عذاب مل گیا ۔اور وہ رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ہی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ہلا ک ہوگیا اور حضرت ابوبکر ؓ آپ کے بعد خلیفہ ہوگئے اس طرح یہ عذاب اُسے اس رنگ میں بھی ملا کہ غزوہ بنو مطلق میں ایک معمولی سی بات پر جب انصار اور مہاجرین کا آپس میں جھگڑا ہو گیا تو عبداللہ بن ابی ابن سلول جو ہمیشہ ایسے موقعوں کی تاک میں رہتا تھا ۔اُس نے انصار کو بھڑکا تے ہوئے کہا کہ اے انصار ! یہ تمہاری اپنی ہی غلطیوں کا نتیجہ ہے ۔تم نے مہاجرین کوپناہ دی اور اب وہ تمہارے سر چڑھ گئے ہیں ۔تم مجھے مدینہ پہنچنے دو ۔وہاںکا سب سے زیادہ معزز شخص یعنی وہ خود مدینہ کے سب سے زیادہ ذلیل آدمی یعنی ( نعوذ باللہ محمد رسول اللہ ﷺ کو وہاں سے نکال دیگا ۔عبداللہ بن ابی ابن سلول کا بیٹا ایک نہایت ہی مخلص نوجوان تھا ۔اُس نے یہ الفاظ سُنے تو وہ بے تاب ہوگیا اور وہ بھاگتے ہوئے رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! میرے باپ نے ایسی ایسی بات کہی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان الفاظ کی سزا موت کے سوا او ر کوئی نہیں ہو سکتی ۔میں صرف اتنی درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ میرے باپ کے قتل کا حکم دیں تو یہ حکم کسی اور کو نہ دیں بلکہ خود مجھے دیں تا ایسا نہ ہو کہ کوئی اور شخص اُسے قتل کر دے تو بعد میں کسی وقت اُسے دیکھ کر مجھے جوش آجائے اور میں اُس پر حملہ کر بیٹھوں ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہم اُسے کوئی سزا نہیں دینا چاہتے ہم تمہارے باپ سے نرمی اور احسان کا ہی معاملہ کریں گے ۔اب گو رسول کریم ﷺ نے اُسے کوئی سزا نہ دی مگر اس کے بیٹے کا دل اس غم سے کباب ہو رہا تھا کہ میرے باپ نے محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق ایسے گندے اور ناپاک الفاظ کیوں استعمال کئے ۔اور اُس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے باپ سے اس کا انتقام لیگا۔چنانچہ جب اسلامی لشکر مدینہ کے قریب پہنچا تو اس کا بیٹا جلد ی سے آگے بڑھا اور مدینہ کے دروازہ پر تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑا ہو گیا اور اپنے باپ سے کہنے لگا کہ خدا کی قسم ! میں تمہیں اس وقت تک شہر میں داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک تم اس بات کا اقرار نہ کرو کہ محمد رسول اللہ ﷺ مدینہ کے سب سے زیادہ معزز شخص ہیں اور میں مدینہ کا ذلیل ترین انسان ہوں ۔اور اگر تُونے اس بات کا اقرار نہ کیا تو میں اسی تلوار سے تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دونگا۔عبداللہ بن ابی ابن سلول نے اپنے بیٹے کی زبان سے یہ بات سُنی تو وہ گھبرا گیا اور اُس نے مدینہ کے دروازہ میں کھڑے ہو کر کہا کہ اے لوگو! سُن لو میں اس امر کا اقرار کرتا ہوں کہ میں مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل انسان ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ مدینہ کے سب سے زیادہ معزز انسان ہیں ۔جب اُس نے یہ بات کہی تب اس کے بیٹے نے اُسکا راستہ چھوڑا اور اُسے شہر میں داخل ہونے دیا۔غرض یہ بھی ایک عذاب تھا جو خداتعالیٰ نے خود اس کے بیٹے کے ذریعہ اُسے دیا ۔
اس الزام کا ذکر کرنے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کی اس شرارت کو بیان کرنے کے بعد کہ اُس نے خلافت میں رخنہ اندازی کرنے کیلئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا یا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاح’‘ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ اَلزُّ جَاجَۃُ کَاَ نَّھَا کَوْکَب’‘ دُرِّيّ’‘ ۔اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے مگر اس کے نور کو مکمل کرنیکا ذریعہ نبوت ہے اور اُس کے بعد اس کو دنیا میں پھیلانے اور اُسے زیادہ سے زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو وہ خلافت ہی ہے ۔گویا نبوت ایک چمنی ہے جو اس کو آندھیوں سے محفوظ رکھتی ہے اور خلافت ایک ری فلیکٹر ہے جو اس کے نور کو دُور تک پھیلاتا ہے ۔پس ان منافقوں کی تدبیروں کی وجہ سے ہم اس عظیم الشان ذریعہ کو تباہ نہیں ہونے دیں گے بلکہ اپنے نور کو دیر تک دنیا میں قائم رکھنے کیلئے اس سامان کا مہیا کریں گے ۔
اس بات کا مزید ثبوت کہ اس آیت میں جس نو ر کا ذکر ہے وہ نور خلافت ہی ہے اس سے اگلی آیتوں میں ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ اس سوال کا جواب دیتا ہے کہ یہ نور کہاں ہے ۔فرماتا ہے فِيْ بُیُوْتٍ یہ نور خلافت چند گھروں میں پایا جاتا ہے ۔نورِ نبوت تو صرف ایک گھر میں تھا مگر نورِ خلافت ایک گھر میں نہیں بلکہ فِيْ بُیُوْتٍ چند گھروں میں ہے ۔پھر فرماتا ہے اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ ۔وہ گھر ابھی چھوٹے سمجھے جاتے ہیں مگر خداتعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ ان گھروں کو اونچا کرے کیونکہ نبوت کے بعد خلافت اس خاندان کو بھی اونچا کر دیتی ہے جس میں سے کوئی شخص منصب خلافت حاصل کرتا ہے ۔اس آیت نے بتا دیا کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کا مقصدنور خلافت کو بیان کرنا ہے اور یہ بتانا مدنظر ہے کہ نورِ خلافت نورِ نبوت اور نورِ الوہیت کے ساتھ کلی طور پر وابستہ ہے اور اس کو مٹانا دوسرے دونوں نوروں کو مٹانا ہے پس ہم اسے مٹنے نہیں دیں گے اور اس نور کو ہم کئی گھروں کے ذریعہ سے ظاہر کریں گے تا نور ِ نبوت کا زمانہ اور اس کے ذریعہ سے نورِ الٰہیہ کے ظہور کا زمانہ لمبا ہو جائے ۔چنانچہ خلافت پہلے حضرت ابوبکر ؓ کے پاس گئی پھر حضرت عمر ؓ کے پاس گئی پھر حضرت عثمان ؓ کے پاس گئی پھر حضرت علی ؓ کے پا س گئی ۔کیونکہ خدا نے یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ ان بیوت کو اونچا کرے ۔تُرْفَعَ کے لفظ نے یہ بھی بتادیا کہ الزام لگانے والوں کی اصل غرض یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو نیچا کریں اور انہیں لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کریں مگر خداتعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ ان کو اونچا کرے ۔اور جب خدا انہیں عزت دینا چاہتا ہے تو پھر کسی کے الزام لگانے سے کیا بنتا ہے ۔اب دیکھو سورۂ نور کے شروع سے لے کر اس کے آخر تک کس طرح ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے ۔پہلے اس الزام کا ذکر کیا جو حضرت عائشہ ؓ پر لگا یا گیا تھا اور چونکہ حضرت عائشہ ؓ پر الزام لگانے کی اصل غرض یہ تھی کہ حضرت ابوبکر ؓ کو رسو ا کیا جائے اور رسول کریم ﷺ سے اُن کے جو تعلقات ہیں اُن میں بگاڑ پیدا کیا جائے اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی نگا ہ میں ان کی عزت کم ہو جائے اور رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد وہ خلیفہ نہ ہو سکیں کیونکہ عبداللہ بن ابی ابن سلول یہ بھانپ گیا تھا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد مسلمانوں کی نگاہ اگر کسی پر اٹھتی ہے تو وہ ابوبکر ؓ ہی ہے اور اگر ابوبکر ؓ کے ذریعہ سے خلافت قائم ہوگئی تو عبداللہ بن ابی ابن سلول کی بادشاہی کے خواب کبھی پورے نہیں ہونگے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس الزام کے معًا بعد خلافت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ خلافت بادشاہت نہیں وہ تو نورِ الٰہی کے قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے اس لئے اسکا قیام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے ۔اس کا ضائع ہونا نورِ نبوت اور نورِ الوہیت کا ضائع ہونا ہے ۔پس وہ اس نور کو ضرور قائم کرے گا اور جسے چاہے گا خلیفہ بنائے گا بلکہ وہ وعدہ کرتا ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک نہیں بلکہ متعدد لوگوں کو خلافت پر قائم کرکے اس نور کے زمانہ کو لمبا کر دے گا تم اگر الزام لگانا چاہتے ہو تو بے شک لگائو ۔نہ تم خلافت کو مٹا سکتے ہو نہ ابوبکر ؓ کو خلافت سے محروم کر سکتے ہو کیونکہ خلافت ایک نور ہے جو نور اللہ کے ظہور کا ایک ذریعہ ہے اس کو انسان اپنی تدبیروں سے کہاں مٹا سکتا ہے ۔
دیکھو اس تشریح کے ساتھ سورۂ نور کی تمام آیتوں کا آپس میں کس طرح ربط قائم ہو جاتا ہے اور کس طرح پہلے چار رکوعوں کے مضمون کا اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اور اس کے بعدکی آیتوں کے ساتھ ربط قائم ہو جاتا ہے اور ساری سورۃ کے مطالب آئینہ کی طرح سامنے آجاتے ہیں ۔پس خلافت ایک الٰہی انعام ہے کوئی نہیں جو اس میں روک بن سکے ۔وہ خداتعالیٰ کے نور کے قیام کا ایک ذریعہ ہے جو اس کو مٹانا چاہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نور کو مٹانا چاہتا ہے ۔ہاں وہ ایک وعدہ ہے جو پورا تو ضرور کیا جاتا ہے لیکن اس کے زمانہ کی لمبائی مومنوں کے اخلاص کے ساتھ وابستہ ہے ۔پھر فرماتا ہے ۔لَا شَرْقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرْبِیَّۃٍ ۔وہ نہ شرقی ہے نہ غربی ۔شرقی درخت اس کو کہتے ہیں جس پر سورج صرف مشرق کی طرف سے پڑتا ہو اور مغرب کی طرف سے کسی دیوار یا درختوں کی اوٹ کی وجہ سے نہ پڑتا ہو ۔اور غربی اس کو کہتے ہیں جس پر سورج صرف مغرب کی طرف سے پڑتا ہو مشرق کی طرف سے نہ پڑتا ہو ۔اس میں ایک بات تو یہ بتائی کہ اسلامی شریعت ایک عالمگیر تعلیم کی حامل ہے ۔وہ نہ مشرقی لوگوں سے مخصوص ہے اور نہ مغربی لوگوں سے بلکہ ہر قوم اور ہر زمانہ کیلئے ہے اور تمام بنی نوع انسان کیلئے اس میں ترقیات کے دروازے کھلے ہیں ۔پس دنیا اسی صورت میں امن سے رہ سکتی ہے جب وہ قرآنی تعلیم پر عمل کرے ۔دوسرے اس میں اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ انتخابِ خلافت میں مشرق و مغرب کا خیال نہیں رکھنا چاہئیے ۔بلکہ مسلمانوں میں سے جو شخص لائق ہو اس کو خلیفہ بنانا چاہئیے ۔یُکَادُ زَیْتُھَا یُضِیْٓ ئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَصْہُ نَار’‘ ۔پھر اس کا تیل ایسا بھڑکنے والا ہے کہ آگ کے بغیر بھی بھڑک سکتا ہے ۔مگر اس کو آگ دکھا دی جائے تو نُوْر’‘ عَلیٰ نُوْرٍ ہو جاتا ہے یعنی وہ تعلیم ایسی کامل ہے کہ فطرتِ صحیحہ اسکو قبول کر نے کے لئے خود ہی اس کی طرف دوڑتی ہے لیکن اگر خداتعالیٰ کا کوئی ہادی بھی ظاہر ہو جائے اور الہام الٰہی کی آگ بھی اُسے چھو جائے تو پھر تو فطرتِ صحیحہ اس شریعت کے ساتھ مل کر اور نبی کی صحبت کی گرمی پا کر دنیا کو روشن کر دیتی ہے ۔مگر فرماتا ہے یہ نور انسانی محنت سے نہیں ملتا بلکہ خداتعالیٰ کے فضل سے ملتا ہے اور وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے فائدہ کے لئے ہمیشہ اپنے دین کی تفاصیل بیان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک بات کو خوب جانتا ہے ۔
فِيْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہ‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآ ئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ہ
ترجمہ()یہ دئے ایسے گھروں میں ہیں جن کے اونچا کئے جانے کا خدانے حکم دیدیا ہے ۔اور اُن میں خداکا نام لیا جاتا ہے ۔اور اُن میں اس کی تسبیح کی جاتی ہے دن کے وقتوں میں بھی اور شام کے وقتوں میں بھی ۔یہ ذکر کرنیوالے کچھ مرد ہیں جن کو اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے سے اور زکوٰۃکے دینے سے نہ تجارت اور نہ سود ا بیچنا غافل کرتا ہے ۔وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اُلٹ جائیں گے اور آنکھیں پلٹ جائیں گی ۔نتیجہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اُن کو ان کے اعمال کی بہتر سے بہتر جزا دے گا ۔اور انکو اپنے فضل سے مال اور اولاد میں بڑھا دیگا ۔اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے ۔ ۲۵ ؎
۲۵؎ حل لغات :
اَلْغُدُوُّ : اَلْغُدْوَۃُ کی جمع ہے اور اَلْغُدْوَۃُ کے معنے ہیں اَلْبُکْرَۃُ۔ صبح اس طرح الغدو مصدر بھی ہے جس کے معنے صبح کرنے کے ہیں۔(اقرب)
اَلْاٰصَال : اَلْاَصِیْلُ کی جمع ہے اور اَلْاَصِیْلُ کے معنے ہیں ۔وَقْت’‘ مَابَعْدِ الْعَصْرِ اِلَی الْمَغْرِبِ وہ وقت جو عصر سے لیکر مغرب تک ہوتا ہے ۔( اقرب)
تفسیر :
فرماتاہے ۔یہ نور اس وقت ایسے گھروں میں ہے (یعنی مسلمانوں کے گھروں میں )جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ انکو بلند کیا جائے ۔بلند کرنے کے یہ معنے نہیں کہ اُن کو اُٹھا کر ہو ا میں معلق کر دیا جائے گا بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ ان کے درجات کو بلند کیا جائیگا اور انہیں غیر معمولی عزت اور لازوال شہرت عطا کی جائیگی ۔مگر تعجب ہے کہ جب رفع کا لفظ حضرت مسیح ناصری ؑ کے متعلق آجائے تو اس کے یہ معنے کر لئے جاتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے انہیں زندہ بجسدِ عنصری آسمان پر اُٹھا لیا ۔حالانکہ یہاں رسول کریم ﷺ کے صحابہ ؓ کے گھروں کے متعلق وہی لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر کوئی شخص نہیں کہتا کہ اُن کے گھروں کو اُٹھا کر آسمان پر لے جایا گیا تھا یا انہیں ہوا میں معلق کر دیا گیا تھا ۔ہر شخص مانتا ہے کہ یہاں درجات کی بلندی مراد ہے ۔اسی طرح حضرت مسیح ؑ کے متعلق بھی یہی معنی لئے جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عزت دی اور اُس *** موت سے انہیں بچا لیا جس کا یہود انہیں شکار بنانا چاہتے تھے ۔
یُسَبِّحُ لَہُ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ۔اس جگہ غدو سے مراد وقت الغدویعنی صبح کرنے کا وقت ہے ۔اور چونکہ صبح کی نماز ایک ہی ہوتی ہے۔اس لئے یہاں وقت الغدو کے معنے ہی چسپاں ہوتے ہیں ۔اس کے مقابلہ میں آصال کا لفظ رکھا گیا ہے ۔کیونکہ شام کی کئی نمازیں ہوتی ہیں ۔ظہر بھی زوال کے بعد پڑھی جاتی ہے اور عصر ،مغرب اور عشاء کی نمازیں بھی شام ہی کے قریب ہوتی ہیں ۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے شام کیلئے آصال کا لفظ رکھا۔
رِجَال’‘ لَّاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃ’‘ وَلَا بَیْع’‘ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃ وَاِیْتَآئِ الذَّکٰوۃِ میں بتا یا کہ ان لوگوں کے ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کے یہ معنے نہیں کہ وہ نداعت نہیں کرتے یا کوئی اور دنیوی کام نہیں کرتے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ تجارتیں تو کرتے ہیں مگر اُن کے دل خداتعالیٰ کے ذکر میں میں مشغول ہوتے ہیں اور اُن کے کان خدا تعالیٰ کی آواز سُننے کے منتظر ہوتے ہیں ۔جونہی اُن کے کانوں میں مؤذن کی آواز آتی ہے وہ اپنی تجارت کو چھوڑ کر اپنی زراعت کو چھوڑ کر اور اپنی صنعت و حرفت کو چھوڑ کر دوڑتے ہوئے مسجد میں حاضر ہو جاتے ہیں ۔اسی طرح جب رات آتی ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ اس خیال سے کہ دن کو ہم نے ہل چلانا ہے یا کوئی اور مشقت کا کام کرنا ہے سوئے ہی رہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے نہ اٹھیں ۔بلکہ جب تہجد کا وقت آتا ہے تو وہ فوراً بستر سے الگ ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے عبادت کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں اس مٰن کوئی شبہ نہیں کہ دین کیلئے ان لوگوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے آپ کو کلیۃً خدمت کیلئے وقف کر دیں مگر وہ شخص بھی ایک رنگ میں واقفِ زندگی ہے جس کے تمام اوقات اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت گذرتے ہیں اور وہ ہر آن اور ہر گھڑی خداتعالیٰ کے حکم پر لبیک کہنے کیلئے تیار رہتا ہے اگر وہ تجارت کرتا ہے تو اس لئے کہ خدانے کہا ہے تجارت کرو ۔اگر وہ زراعت کرتا ہے تو اس لئے کہ خدا نے کہا ہے زراعت کرو۔اگر وہ کسی اور پیشہ کی طرف توجہ کرتا ہے تو اس لئے کہ خدانے کہا ہے کہ تم پیشوں کی طرف متوجہ ہو ۔پس اس کی تجارت اُس کی زراعت اور اُس کی صنعت لَاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃ’‘ وَّ لَا بَیْع’‘ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ کی مصداق ہوتی ہے جو خداتعالیٰ کے ذکر سے اُسے غافل نہیں کرتی۔یہ نہیں کہ خداتعالیٰ کی طرف سے آواز آئے اور وہ کہنے لگ جائے کہ میں کیا کروں میری تجارت کو نقصان پہنچائے گا ۔میری زراعت میں حرج واقع ہو گا بلکہ اُسے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے کے سوا اور کچھ سوجھتا ہی نہیں ۔وہ جانتا ہی نہیں کہ میں تاجر ہوں وہ جانتا ہی نہیں کہ میں زمیندار ہوں ۔وہ جانتا ہی نہیں کہ میں صناع ہوں بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ میں ساری عمر ہی خداتعالیٰ کے سپاہیوں میں شامل رہا ہوں اور اسکی تنخواہ کھاتا رہا ہوں اور اب وقت آگیا ہے کہ میں حاضر ہو جائوں ۔اور اپنی جان اس کی راہ میں قربان کردوں پس باوجود تجارت کرنے کے وہ واقفِ زندگی ہے ۔باوجود زراعت کرنے کے وہ واقف زندگی ہے اور باوجود کوئی اور پیشہ اختیار کرنے کے وہ واقف زندگی ہے ۔مگر جو شخص ایسا نہیں کرتا جس کے کانوں میں خداتعالیٰ کی یا اُس کے مقرر کردہ کسی نائب کی آواز آتی ہے اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے دل میں بشاشت محسوس کرے اور کہے کہ وہ وقت آگیا ہے جس کا میں منتظر تھا وہ اپنے دل میں قبض محسوس کرتا ہے اور قربانی کرنے سے ہچکچاتا ہے اور اسے اپنے لئے ایک تکلیف اور دُکھ سمجھتا ہے تو ایسا انسان درحقیقت خداتعالیٰ کی فوج میں شامل نہیں ۔اس حقیقت کو انسان پر ظاہر کرنے کیلئے خداتعالیٰ نے پانچ نمازیں مقرر کی ہیں ۔ہر روز پانچ وقت خداتعالیٰ تمہارا امتحان لیتا اور پانچ وقت تمہارے ایمان کی حقیقت تم پر آشکار کرتا ہے ۔پانچ وقت جب مکبر کھڑا ہوتا اور کہتا ہے حَيِّ عَلَی الصَّلٰوۃ ۔حَيِّ عَلَی الصَّلٰوۃ ۔اے لوگو آئو نماز کی طرف ۔اے لوگو آئو نماز کی طرف ۔تو اگر تمہارے ہاتھوں پر اُس وقت لرزہ طاری ہو جاتا ہے ۔تمہارے جسم میں کپکپی پیدا ہو جاتی ہے اور تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم صناع ہو ۔تمہیںبھول جاتا ہے کہ تم ملازم ہو ۔تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم نجار ہو ۔تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم معما ر ہو ۔تمہیں بھول جاتا ہے کہ تم لوہار ہو ۔تمہیں صرف ایک ہی بات یاد رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ تم خدا کے سپاہی ہو تب اور صرف تب تم اپنے دعویٰ ایمان میں سچے سمجھے جا سکتے ہو ۔لیکن اگر تمہارے اندر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی اور خداتعالیٰ کی آواز تو تمہیں یہ کہتی ہے کہ حَيِّ عَلَی الصَّلٰوۃ اے میرے بندو میری عبادت کیلئے آئو او ر تمہارا نفس تمہیں کہہ رہا ہوتا ہے کہ دو گاہک او ر دیکھ لوں اور چند پیسے کمالو ں ۔اور بعض دفعہ تو یہ بھی کہنے لگ جاتا ہے کہ مسجد میں جاکر نماز کیا پڑھنی ہے اسی جگہ پڑھ لیں گے ۔بلکہ کئی دفعہ واقعہ میں تم مسجد میں نہیں آتے اور گھر پر یاد وکان پر ہی نماز پڑھ لیتے ہو تو تم سمجھ لو کہ پانچ وقت خدانے تمہارا امتحان لیا اور پانچوں وقت تم فیل ہوگئے ۔
صحابہ ؓ کرام ذکر الٰہی میں ترقی کرنے کی اتنی کوشش کیا کرتے تھے کہ اُن کی یہ جدوجہد وارفتگی کی حد تک پہنچی ہوئی تھی۔احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ غرباء رسول کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیںاسی طرح امراء نمازیں پڑھتے ہیں جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں اسی طرح امراء روزے رکھتے ہیں ۔جس طرح ہم حج کرتے ہیں اسی طرح امراء حج کرتے ہیں مگر یا رسول اللہ ہم زکٰوۃ اور صدقہ و خیرات اور چندے وغیرہ نہیں دے سکتے ۔اس وجہ سے وہ نیکی کے میدان میں ہم سے آگے بڑھے ہوئے ہیں ۔کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ امراء ہم سے آگے نہ بڑھ سکیں ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا بہت اچھا میں تمہیں ایک ایسی ترکیب بتا تا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تم پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہو سکتے ہو انہوں نے عرض کیا کہ وہ کیا ہے ۔آپ نے فرمایا وہ ترکیب یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے بعد ۳۳ دفعہ سبحان اللہ ۳۳ دفعہ الحمد اللہ ۳۴ دفعہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو۔وہ وہاں سے بڑے خوش خوش اُٹھے اور انہوں نے سمجھا کہ ہم نے میدان مار لیا ۔مگر کچھ دنوں کے بعد پھر وہی وفد رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ا اور اُس نے عرض کیا کہ ہم پر بڑا ظلم ہوا ہے۔آپ نے فرمایا کس طرح ؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ نے جو بات ہمیں اُس روز بتائی تھی وہ کسی طرح امیروں کو بھی پہنچ گئی ہے اور اب انہوں نے بھی یہ ذکر شروع کر دیا ہے ۔اب ہم کیا کریں ۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگرنیکی حاصل کرنے کا اُن کے دلوں میں اس قدر جوش پایا جاتا ہے تو میں انہیں کس طرح روک سکتا ہوں ۔یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ اس آیت میں تجارت اور بیع دونوں کا الگ الگ ذکر کیا گیا ہے ۔حالانکہ کوئی تجارت بغیر بیع کے نہیں ہو سکتی ۔درحقیقت اُس میں حکمت یہ ہے کہ بعض کاموں میں دونوں جہت یعنی خرید و فروخت سے انسان نفع کما تا ہے اور بعض کام ایسے ہوتے ہیں جن میں انسان کوئی چیز خرید تا نہیں صرف فروخت کرتا ہے ۔پس وہ چیز جس میں انسان خرید و فروخت سے نفع کماتا ہے اُسے تو تجارت کہا گیا ہے ۔اور جس میں انسان کوئی چیز خریدتا نہیں صرف فرخت کرتا ہے ۔اُسے بیع قرار دیا گیا ہے ۔جیسے زمیندار یا صناع ہے کہ جو چیز وہ فروخت کرتا ہے وہ اُس کی اپنی پیداوار ہوتی ہے ۔پس اُس کا کام درحقیقت فروخت کا ہے خرید کا نہیں ۔اس لئے اس کا تجارت سے الگ ذکر کیا گیا ہے۔گویا بتایا کہ ہر قسم کی تجارت خواہ وہ ملکی ہو یا اور آمدو برآمد سے تعلق رکھنے والی ہو۔اسی طرح زمیندار ہ درصنعت و حرفت کے کارخانے نہ انہیں نمازوں کی ادائیگی سے غافل کرتے ہیں اور نہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے اُن کی توجہ پھراتے ہیں وہ دنیا میں روہ کر تجارت بھی کرتے ہیں زراعت بھی کرتے ہیں ۔ملازمت بھی کرتے ہیں ۔مگر پھر وہ آسمان پر بھی ہوتے ہیں کیونکہ ان کا دل خدا تعالیٰ کی طرف لگا ہوا ہوتا ہے اور وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن اُن کے دل اور اُن کی آنکھیں پھری ہوئی ہونگی اور وہ گھبرائے ہوئے اِدھر اُدھر دوڑ رہے ہونگے ۔نادان انسان جب اُن کے پاس مال دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ شائد اُن کے دل میں مال کی بڑی محبت ہے مگر اُن کے آسمانی ہونے کی یہ دلیل ہوتی ہے کہ جب بھی انہیں خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی آواز آتی ہے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور اس طرح اپنے عمل سے ثابت کر دیتے ہیں کہ ان کا اصل مقصود خداتعالیٰ کی ذات ہے اور اُن کی دنیا دین کے راستہ میں روک نہیں بلکہ وہ دنیا ااس لئے کماتے ہیں تاکہ وہ دین کی زیادہ دل جمی اور اطمینان کے ساتھ خدمت کر سکیں ۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ دنیا میں مختلف مذہبی جماعتیں اپنی ترقی کی نسبت تین قسم کے خیالات رکھتی ہیں ۔(۱) بعض جماعتوں کا یہ خیال ہے کہ مذہب نام اس بات کا ہے کہ دنیا کو چھوڑ دیا جائے اور کلی طور پر تمام افراد اپنے تمام اوقات دینی کاموں میں مشغول رکھیں ۔ایسی جماعتیں یا تو دنیا میں صرف تصوف کا ایک سلسلہ ہو کر رہ گئی ہیں اور یا پھر وہ اپنی بات پر عمل نہیں کر سکیں۔بہت سے سادھو او ر فقیر دنیا میں ایسے نظر آتے ہیں جو اس قسم کی تعلیم دیتے ہیں کہ دنیا کمانی نہیں چاہئیے ۔کارخانوں کو جاری نہیں کرنا چاہئیے ۔تجارتوں میں مشغول نہیں ہونا چاہئیے۔زمیندارہ کام کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئیے ۔بلکہ ان تمام کاموں کو چھوڑ کر صرف خدا کی یاد اور اُس کی محبت میں اپنی عمر گذار دینی چاہئیے۔مگر ایسی جماعتیں ہزاروں اور لاکھوں سے آگے کبھی نہیں بڑھیں کیونکہ وہ فطرت ِ انسانی کے خلاف تعلیم دیتی ہیں ۔اور اگر کوئی جماعت باوجود اس تعلیم کے بڑھتی ہے تو وہ اس تعلیم کو پس ِ پشت پھینک کر بڑھتی ہے ۔اس پر عمل کرکے نہیں بڑھی ۔مثلًا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایک شخص سے کہا کہ تُو اپنا تمام مال و اسباب بیچ کر غریبوں کو دے دے ( متی باب ۱۹ آیت ۲۱) یا کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے حواریوں سے یہ بات کہی کہ ’’ اونٹ کا سوئی کے ناکہ میں سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو۔‘‘ ( متی باب ۱۹ آیت ۲۴) اسی طرح انہوں نے ایک موقعہ پر اپنے حواریوں کو یہ تعلیم دی کہ ’’ اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں ۔بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں ۔‘‘ ( متی باب ۶ آیت ۱۹،۲۰)
یہ تعلیم ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام نے دی اور جس کا موجودہ اناجیل میں ذکر آتا ہے۔اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ بیشک عیسائی بڑھے اور انہوں نے دنیامیں خوب ترقی کی لیکن کیا عیسائیوں کی ترقی اس تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں ہوئی یا اس تعلیم کو رد کر نے اور اس کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دینے کے نتیجہ میں ہوئی ۔ہر شخص جوذرا بھی عقل و فہم سے کام لے سمجھ سکتا ہے کہ عیسائیوں کی ترقی اس تعلیم کا نتیجہ نہیں بلکہ اس تعلیم سے مونہہ پھیر لینے کا نتیجہ ہے ۔بیشک دنیا میں سب سے زیادہ مال آج عیسائیوں کے پاس ہے دنیا میںسب سے زیادہ کارخانے آج عیسائیوں کے قبضہ میں ہیں ۔دنیا کی تجارتوں کا اکثر حصہ یورپین اقوام کے ہاتھ میں ہے ۔اسی طرح زراعت پر اُن کا قبضہ ہے ۔مختلف پیشوں اور فنون پر ان کا تسلط ہے اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ عیسائیت نے ترقی کی مگر حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف جو تعلیم منسوب کی جاتی تھی اُسے توڑ کر اور اُس کی خلاف ورزی کرکے انہوں نے ترقی کی ہے ۔اُس تعلیم پر عمل کرکے ترقی نہیں کی ۔(۲) پھر بعض قومیں ایسی ہیں جو کہتی ہیں کہ مذہب کو دولت کمانے کے ذرائع سے کوئی واسطہ نہیں ۔دین اور مذہب عقیدہ سے تعلق رکھنے والی چیز ہے ۔مذہب کا ا س بات سے کیا تعلق ہے کہ ہم کیا کماتے ہیں کس طرح کماتے ہیں اور کن ذرائع سے کماتے ہیں ۔ایسی جماعتوں نے بیشک دنیا میں ترقی کی مگرا ن کا مذہب ایک مرجھائی ہوئی جھاڑی کی طرح رہ گیا ۔وہ جماعتیں بے شک دنیا میں بڑھیں اور انہوں نے خوب ترقی کی ۔مگر اس نظریہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف دنیا ہی دنیا اُن کے پاس رہ گئی ۔دین اور مذہب کے ساتھ اُن کا کوئی تعلق نہ رہا ۔
(۳)ان دونوں اصولوں کے خلاف اسلام نے ایک اور تعلیم بنی نوع انسان کے سامنے پیش کی ہے اور وہ یہ کہ اسلام کہتا ہے ہم دنیا کمانے سے تمہیں منع نہیں کرتے بلکہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جس میں مال کا نام فضل اللہ رکھا گیا ہے ( سورۃ جمعہ ع ۲)اور بتا یا گیا ہے کہ مال و دولت کا میسر آنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل اور اس کے انعامات میں سے ایک بہت بڑا انعام ہے ۔اگر اسلام تجارت اور صنعت و حرفت سے منع کرتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ اسلام اس امر کو روا رکھتا ہے کہ دنیا کا ایک حصہ تو اسلام میں داخل ہو لیکن دوسرا حصہ بے شک داخل نہ ہو ۔مثلاً جہازرانی کی تجارت کا ایک اہم ترین شعبہ ہے ۔اگر جہاز بنانے اور جہاز چلانے اسلام کے نزدیک منع ہوتے تو پھر دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہوتی ۔یا توسفر منقطع ہو جاتے اور دنیا کی تہذیباور ان کے تمدن پر ایک کاری ضرب پڑتی ۔اور یا پھر اس بات کو تسلیم کرنا پڑتا کہ جو لوگ جہاز بناتے اور جہاز چلاتے ہیں وہ بیشک مسلمان نہ ہو ں ۔ہندویا عیسائی یا سکھ ہی رہیں کیونکہ اگر وہ اسلام میں داخل ہوئے تو انہیں اس کام سے دست بردار ہونا پڑے گا ۔مگر یہ بات بھی عقل کے خلاف ہے اور دیدہ و دانستہ دنیا کے ایک طبقہ کو اسلام سے محروم رکھنا ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا ۔یا مثلاً کان کنی ایک ایسی چیز ہے جس سے حکومت کو بہت بڑی طاقت حاصل ہوتی ہے ۔اگرا سلام روپیہ کمانے سے بنی نوع انسان کو منع کرتا تو وہ یہ حکم دے دیتا کہ تم نے کان کنی نہیں کرنی کیونکہ اگر کان کنی کرو گے تو تمہیں روپیہ حاصل ہوگا اور یا پھر یہ کہا جاتا کہ دنیا میں جس قدر کانوں کے مالک ہیں وہ بے شک مسلمان نہ ہوں اور یا پھر یہ حکم دیا جاتا کہ کانوں کو کھودنا ہی بند کر دیا جائے تا کہ دین کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔یا مثلاً غیر ملکوں سے مال کا لانا ہے ۔یہ ایک بڑی فائدہ بخش تجارت ہے اور کروڑوں روپیہ اس تجارت کے ذریعہ کما یا جا سکتا ہے مگر یہ کام بڑے بڑے تاجر ہی کر سکتے ہیں ۔دس بیس چالیس یا پچاس ہزار روپیہ سرمایہ بھی اگر کسی شخص کے پاس ہو تو وہ یہ کام نہیں کرسکتا اور نہ اتنے معمولی سرمایہ سے وہ انگلستا ن سے یا امریکہ سے یا فرانس سے یا چین سے یا جاپان سے بڑی مقدار میں مال منگوا سکتا ہے ۔کیونکہ غیر ملکوں سے تمام مال جہازوں کے ذریعہ سے آتا ہے اور کوئی معمولی تاجر اس قسم کی تجارت میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا ۔لازماً ایسے ہی تاجر انگلستان سے مال منگوائیں گے یا امریکہ سے مال منگوائینگے یا فرانس اور جاپان وغیرہ سے مال منگوائیں گے یا جرمنی سے مال منگوائیں گے جن کے پاس دس بیس چالیس پچاس لاکھ روپیہ ہوگا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایسے ہی تاجر اس میں حصہ لے سکتے ہیں جن کے پاس کروڑ کروڑ روپیہ ہو ۔پس اگر اسلام روپیہ کمانے کی اجازت نہ دیتا تو دو ہی صورتیں ہو سکتی تھیں ۔یا تو یہ اعلان کر دیا جاتا کہ اس قسم کی تجارت کرنے والے بیشک مسلمان نہ ہوں وہ تجارتیں کرتے رہیںمگر اسلام قبول نہ کریں کیونکہ اسلام اس قسم کی تجارتوں سے منع کرتا ہے اور یاپھر یہ کہہ دیا جاتا کہ لوگ مسلمان بیشک ہو جائیں مگر اپنی تجارتیں بند کردیں ۔آئندہ وہ کوئی مال ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں لے جا سکتے کیونکہ ہمارے مذہب میں یہ بات ناجائز ہے۔لیکن یہ دونوں باتیں عقل کے خلاف ہیں ۔نہ تجارتوں کو بند کیا جا سکتا ہے اور نہ ان تجارتوں میں حصہ لینے والوں کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بیشک ہندو یا سکھ یا عیسائی ہی رہیں اسلام میں داخل نہ ہوں ۔بہر حال دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت کو اختیار کئے بغیر ہمارے لئے کوئی چارہ نہیں ہو گا ۔اگر کارخانوں کا کوئی مالک ہمارے پاس مسلمان ہونے کیلئے آتا ہے تو یا تو اُسے یہ کہنا پڑے گا کہ چونکہ کارخانے کو بند کرنا دنیا کی مشکلات کو بڑھا دیتا ہے اس لئے بیشک تم مسلمان نہ بنو ۔ہندو یا سکھ یا عیسائی ہی رہو ۔یا موٹر کے کارخانے کی مثال لے لو ۔ایک ایک موٹر چار چار دس دس بیس بیس ہزار روپیہ میں آتا ہے اور موٹر کا کارخانہ وہی شخص کھول سکتا ہے جس کے پاس دس بیس کروڑ روپیہ موجود ہو ۔اگر اسلام دنیا کمانے کی اجازت نہ دیتا اور موٹروں کے کارخانہ کا کوئی مالک ہمارے پاس اسلام قبول کرنے کیلئے آتا تو یا تو ہم اُسے یہ کہتے کہ تم مسلمان نہ بنو کیونکہ اگر تم مسلمان بنے تو دنیا کو نقصان پہنچے گا اور تمہیں اپنا کارخانہ بند کر دینا پڑے گا ۔اور یا پھر ہم اُسے یہ کہتے کہ تم آئندہ موٹریں بنانی چھوڑ دو اور کارخانہ بند کردو ۔مگر یہ دونوں صورتیں ایسی ہیں جو ناجائز ہیں ۔نہ اسلام ایک کو جائز قرار دیتا ہے نہ دوسری صورت کو درست تسلیم کرتا ہے۔ان مشکلات کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ہمیں تسلیم کرنا پڑیگا کہ صنعت و حرفت اور تجارت کو روکا نہیں جا سکتا اور دوسری طرف قبول اسلام میں بھی کسی قسم کی دیوار حائل نہیں کی جاسکتی ۔اس لئے ضروری ہے کہ ان دونوں حالتوں کے درمیان کوئی راستہ تلاش کیا جائے جس سے یہ دونوں مشکلات دُور ہو جائیں ۔نہ دنیا کے تمدن اور اُس کی تہذیب کو نقصان پہنچے اور نہ اسلام میں داخل ہونے سے کسی شخص کو روکا جا سکے ۔اسلام نے اسی نظریہ کے ماتحت بعض قواعد تجویز کئے ہیں اور بتایا ہے کہ ہم لوگوں کو دنیا کمانے سے منع نہیں کرتے ۔وہ بے شک تجارت کریں وہ بیشک صنعت وحرفت اختیار کریں مگر اُن کیلئے ضروری ہے کہ وہ بعض قواعد کی پابندی اپنے اوپر لازم کر لیں تاکہ دین کو بھی کوئی نقصان نہ ہو ۔اور دنیا کی مشکلات میں بھی کوئی اضافہ نہ ہو ۔وہ ہدایتیں جو اسلام دنیا کمانے کے متعلق دیتا ہے یا مال و دولت اپنے پاس رکھنے والوں کے متعلق دیتاہے اُن میں سے بعض تجارت اور صنعت کے ساتھ خاص طور پر تعلق رکھتی ہیں ۔اور بعض ایسی ہیں جو ہر ایسے شخص کے متعلق ہیں جس کے پاس کسی قسم کا بھی مال ہو خواہ اُس نے کسی اور ذریعہ سے کیوں نہ کمایا ہو ۔چنانچہ اس بارہ میں پہلا قاعدہ قرآن کریم میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر مسلمان رہتے ہوئے لوگ مال کمانا چاہیں تو اُنکی حالت لَاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃ’‘ وَّ لَا بَیْع’‘ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ کی مصداق ہونی چاہئیے ۔یعنی وہ بیشک تجارت کریں وہ بیشک بیع کریں مگر یہ چیزیں دین کے راستہ میں روک نہیں ہونی چاہئیں ۔اگر ایک شخص صنعت و حرفت کے ذریعہ مال کمانا چاہتا ہے تو اسلام کہتا ہے بیشک تم مال کمائو اور بیشک صنعت و حرفت اختیار کرو ۔مگر دیکھو اس کے ساتھ ہی تمہیں پانچوں وقت نماز کیلئے مسجد میں آنا پڑیگا یا اگر ایک شخص تجارت کرنا چاہے تو اسلام کہیگا بیشک تجارت کرو مگر تمہیں پانچو ں وقت روزانہ اپنی دوکان بند کرکے مسجد میں آنا پڑ ے گا۔اسی طرح اگر تجارت اور صنعت و حرفت کرتے ہوئے روزوں کے ایام آجاتے ہیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم روزے رکھو ۔یہ نہ کہو کہ تجارت یا صنعت و حرفت میں مشغول رہنے کی وجہ سے روزے رکھنے ہمارے لئے مشکل ہیں ۔اگر یہ چیزیں نماز کے راستہ میں روک بنتی ہیں اگر یہ چیزیں روزوں کے راستہ میںروک بنتی ہیں اگر یہ چیزیں دوسرے دین کے کاموں میں روک بنتی ہیں تو اُس وقت تمہارا فرض ہے کہ ان کاموں کو چھوڑ دو ۔اور اپنے دین کو خراب ہونے سے محفوظ رکھو ۔لیکن اگر یہ چیزیںدین کے راستہ میں روک نہیں تو پھر بیشک دنیا کمائو ۔اسلام تمہیں اس سے منع نہیں کرتا ۔
اسی طرح ذکر الٰہی ہے ۔اسلام کہتا ہے کہ پانچ نمازوں کے علاوہ اپنے اوقات میں سے کچھ وقت نکال کر علیٰحدگی میں خداتعالیٰ کو یاد کیا کرو۔اُس کی حمد کرو اُس کی تسبیح کرو۔اُسکی بڑائی بیان کرو۔اس کی صفات پر غور کرو ۔اپنے نفس کو احکام الٰہی کے تابع کرنے کی کوشش کرو۔اور اپنے قلب کو ہر قسم کی کدورتوں اور میل کچیل سے صاف کرکے ایک ایسا مصفیٰ اور روشن آئینہ بنائو جس میں خداتعالیٰ کا چہرہ منعکس ہو جائے اور خداتعالیٰ کی صفات کا ظہور تمہارے ذریعہ سے ہونے لگے اور اگر تم ایسا کرتے ہو تو بیشک تم اچھے لوہار بنو تاجر بنو اچھے صناع بنو اچھے کارخانہ دار بنو اور خوب مال کمائو ہماری طرف سے اس میں کسی قسم کی روک نہیں کیونکہ تمہارے یہ کام ہمارے دین اور ہمارے ذکر میں حائل نہیںہیں ۔پس پہلی شرط جس کو اسلام پیش کرتا ہے وہ وہی ہے جس کا اس آیت میں ذکر آتا ہے کہ رَجَال’‘ لَاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃ’‘ وَّ لَا بَیْع’‘ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ۔مومن بے شک تجارت بھی کرتے ہیں۔خریدو فروخت بھی کرتے ہیں صنعت و حرفت بھی کرتے ہیں مگر اصل کو ہمیشہ مدنظر رکھتے ہیں کہ یہ چیزیں خداتعالیٰ کے ذکر اوراس کے دین کی مدد میں روک بن کر حائل نہ ہو جائیں ۔پس ایک مومن اور غیر مومن میںیہ فرق ہے کہ مومن بھی تجارت کرتا ہے اور غیر مومن بھی تجارت کرتا ہے مومن بھی صنعت وحرفت اختیار کرتا ہے اور غیرمومن بھی صنعت و حرفت اختیار کرتا ہے مگر غیرمومن جب ان کاموں میں مشغول ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی توجہ بالکل ہٹ جاتی ہے لیکن جب ایک مومن یہ کام اختیار کرتا ہے تو یہ چیزیں خداتعالیٰ کے ذکر میں روک نہیں بنتیں ان مشاغل کے باوجود اس کی ذکر الٰہی کی عادت پھر بھی قائم رہتی ہے۔نمازیں پھربھی باقاعدگی سے ادا کرتاہے زکوٰۃ پھربھی بالشرع ادا کرتاہے ۔روزے پھربھی پوری احتیاط سے رکھتا ہے ۔حج پھربھی استطاعت پر کرتا ہے گویا اس کے دنیوی مشاغل دین کی خدمت کے راستہ میں روک نہیں بنتے ۔ اور چونکہ دین کا پہلو مضبوط رہتا ہے ۔اس لئے اسلام کہتا ہے کہ ہمیں تمہارے دنیا کمانے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر مثلاً تبلیغ کا وقت آجائے اور یہ فیصلہ کیا جائے کہ جماعت کا ہر فرد تبلیغ کیلئے وقت دے اور اُس وقت کوئی شخص کہے کہ میں تبلیغ کیلئے کس طرح وقت دے سکتا ہوں ۔میں اگر وقت دوں تومیری دوکان کا نقصان ہوتا ہے تو اسلام کہیگا یہ تجارت تمہارے لئے جائز نہیں ۔یا اگر کوئی کارخانہ دار کہے کہ میں کس طرح تبلیغ کیلئے باہر جا سکتا ہوں ۔میں اگر باہر جائوں تو کارخانے کا تمام کام درہم برہم ہوجائیگا تو اسلام کہے گا ایسا کارخانہ تمہارے لئے جائز نہیں ۔پس مومن وہی ہیں جولَاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃ’‘ وَّ لَا بَیْع’‘ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ۔کے مصداق ہوتے ہیں یعنی تجارت اور بیع اُنکو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے نہیں روکتی بلکہ جب بھی خداتعالیٰ کی طرف سے آواز بلند ہوتی ہے ایک مومن تاجر ۔ایک مومن کا رخانہ دار ایک مومن صناع اپنی تجارت اور اپنے کارخانہ اور اپنی صنعت کو چھوڑ کر اس آواز کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو پورا کرنے کیلئے کھڑا ہو جاتا ہے ۔
دوسری شرط اسلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْ نَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ( التوبہ ع ۵) یعنی وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں اُسے خرچ نہیں کرتے ایسے لوگوں کو تو درد ناک عذاب کی خبر دیدے ۔اس آیت سے ظاہر ہے کہ جو شخص روپیہ کماتا اور اُسے غلق میں بند کر دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کی راہ میں اسے خرچ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا ۔ایسا شخص اسلامی نقطہ نگاہ سے مومن نہیں کہلا سکتا ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مومن بھی اپنی تجارتوں کو بڑھاتا ہے اور اگر وہ اپنی تجارت کو ترقی نہیں دیگا تو اس کے پاس روپیہ کہاں سے آئے گا۔روپیہ کمانے کیلئے ضروری ہے کہ تجارت اور صنعت کو فروغ دیا جائے لیکن اگر کسی تجارت یا صنعت کا یہ نتیجہ نکلے کہ انسان روپیہ جمع کرنا شروع کر دے اور نجل کا مرض اس میں اس قدر ترقی کر جائے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا اُس پر گراں گذرنے لگے تو اسلامی تعلیم کے لحاظ سے وہ تجارت اور صنعت بالکل ناجائز ہوگی ۔وہی تجارت اور وہی صنعت جائز ہے جس کے نتیجہ میں بے کار روپیہ جمع نہ کیا جائے ۔ہاں وہ روپیہ جس کا رکھنا کسی خاص غرض کیلئے ضروری ہو مثلاً کام کے نقصان کو پورا کرنے کیلئے یا مکان وغیرہ بنانے کیلئے یا روزانہ ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے یا بچوں کی شادی بیاہ کیلئے ۔ایسا روپیہ ہر شخص اپنے پاس رکھ سکتا ہے ۔یا مثلاً ایک شخص جس نے کارخانہ کھولا ہوا ہو اُسے کارخانہ کیلئے کبھی لوہا خریدنا پڑتا ہے کبھی آٹے یا سوجی کیلئے گیہوں خریدنا پڑتا ہے ۔یا اگر بوٹ کا کارخانہ اس نے جاری کیا ہوا ہے تو اُسے مشینیں خریدنی پڑتی ہیں کیل خریدنے پڑتے ہیں ۔چمڑا خریدنا پڑتا ہے ۔اور پھر بعض دفعہ کارخانوں میں کام کرتے کرتے مشینوں کے پرزے ٹوٹ جاتے ہیں ۔بعض دفعہ کوئی مشین ہی ناکارہ ہو جاتی ہے ۔اور اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ اور مشین یا مشین کے اور پرزے خریدے جائیں ۔ان تما م کاموں کیلئے جب تک روپیہ پاس نہ ہو کوئی کارخانہ اور اپنے کارخانے کو چلا نہیں سکتا ۔اسلام کے نزدیک اس قسم کے کاموں کو چلانے کیلئے جتنے روپے کی ضرورت ہو وہ انسان اپنے پاس رکھ سکتا ہے ۔یا مثلاًایک شخص مکان بنانے کیلئے روپیہ جمع کرنا شروع کر دیتا ہے جس کیلئے اُس کی روزانہ آمدنی کافی نہیں ہو سکتی تو یہ اسلام کے خلاف نہیں ہوگا ۔اور نہ یہ اس رنگ میں روپیہ کا جمع کرنا کہلا ئیگا جس رنگ میں روپیہ کا جمع کرنا اسلام نے ناجائز قرار دیا ہے ۔یہ صرف بعد میں آنے والے ضروری اخراجات کو مہیا کرنے کی ایک جائز صورت ہوگی یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لو کہ بعد میں اُس نے جو کچھ خرچ کرنا ہے اس کیلئے یہ اسکی تیاری ہوگی ۔پس چونکہ یہ روپیہ محض جمع رکھنے کیلئے نہیں بلکہ کسی دوسرے وقت خرچ کرنے کیلئے ہے اس لئے اس قسم کی ضروریا ت کیلئے روپیہ پس انداز کرنااسلام کی رُو سے بالکل ہے ۔ہاں جن لوگوں کے پاس ضرورت سے زائد روپیہ ہوتا ہے اور وہ اس روپیہ کو بند کرکے رکھ دیتے ہیں اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ۔اسلام کے نزدیک اگر ایک شخص دس لاکھ روپیہ سے ایک کارخانہ جاری کر دیتا ہے تو یہ بالکل جائز ہے لیکن اگر کوئی شخص دس ہزار روپیہ غلق میں بند کرکے رکھ دیتا ہے تو یہ ناجائز ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص دس لاکھ روپیہ کسی کارخانے پر لگاتا ہے تو اسے کئی ہزار روپیہ مشینوں کے خریدنے پر صرف کرنا پڑتا ہے پھر ان مشینوں سے کام لینے والے مستریوں کی اُسے ضرورت ہوتی ہے ۔فٹروں کی اُسے ضرورت ہوتی ہے ۔مزدوروں کی اُسے ضرورت ہوتی ہے اور اس طرح سینکڑوں لوگوں کیلئے روزگار کی صورت پیدا ہو جاتی ہے ۔اسی طرح جب کوئی کارخانہ جاری کیا جاتا ہے تو اس میں کچھ لوگوں کو افسر مقرر کرنا پڑتا ہے کچھ ماتحت ہوتے ہیں ۔کچھ قلی ہوتے ہیں ۔کچھ نگران ہوتے ہیں اس طرح دو دو سو چار چار سو پانچ پانچ سو بلکہ ہزار ہزار آدمیوں کیلئے روزگار کی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور بڑے بڑے کارخانوں میں تو بعض دفعہ بیس بیس ہزار آدمی ایک وقت میں کام کر رہے ہوتے ہیں اس طرح اس کا روپیہ بند نہیں رہتا بلکہ بنی نوع انسان کے کام آتا رہتا ہے یا اگر کوئی شخص اپنے روپیہ سے تجارت کرتا ہے تب بھی وہ لوگوں کے کام آتا ہے لیکن اگر کوئی شخص دس ہزار روپیہ بند کرکے رکھ دیتا ہے تو چونکہ لوگ اس روپیہ سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے اس لئے اسلام کے نزدیک اس قسم کا روپیہ جمع رکھنا ناجائز ہے ۔
تیسری چیز جس پر خصوصیات سے اسلام نے زور دیا ہے اور جس کی طرف قرآن کریم میں بارہا توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ روپیہ بیشک کمائو مگر جو کچھ کمائو اس پر زکوٰۃ ادا کرو۔اسلام نے بیشک روپیہ کو بند رکھنا ناجائز قرار دیا ہے مگر روپیہ کمانا منع نہیں کیا۔پس فرماتا ہے اگر تم روپیہ کماتے ہو اور کچھ روپیہ اپنی ضروریات کیلئے عارضی طور پر جمع کر لیتے ہو جس پر ایک سال گذرجاتا ہے تو اس پر زکوٰۃ ادا کرو ۔اگر کوئی شخص باقاعدگی سے زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ دنیا کو دین کی خاطر کماتا ہے لیکن اگر کوئی شخص زکوٰۃ نہیں دیتا تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ دنیا محض دنیا کی خاطر کما رہا ہے ۔خداتعالیٰ کی رضا حاصل کر نیکا شوق اس کے دل میں نہیں ۔اگر واقعہ میں اس کے دل میں خداتعالیٰ کے قرب اور اس کی محبت کو جذب کر نیکااحساس ہوتا اگر دنیا کو وہ دین کی خاطر کما رہا ہوتا تو اس کا فرض تھا کہ وہ اپنے مال میں سے خداتعالیٰ کا حق ادا کرتا اور پوری دیانت داری کے ساتھ ادا کرتا لیکن جب وہ زکوٰۃادا نہیں کرتا تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ شیطان کا تابع ہے خداتعالیٰ کے احکام کا تابع نہیں ۔ زکوٰۃ کے معاملہ میں میں دیکھتا ہوں کہ تاجروں میں بہت بڑی کوتا ہی پائی جاتی ہے ۔پُرانے زمانہ میں تو غیر احمدی تاجروں نے بالکل اندھیر مچارکھا تھا ۔حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سُنایا کرتے تھے کہ بھیرہ میں ایک بہت بڑا مسلمان تاجر تھا جو ہر سال باقاعدگی سے زکوٰۃ دیا کرتا تھا ۔مگر اُس کے زکوٰۃ دینے کا طریق یہ تھا کہ وہ زکوٰۃ کا تمام روپیہ ایک گھڑے میں بند کر دیتا۔فرض کرو اس کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہوتا جس میں سے اڑہائی ہزار روپیہ زکوٰۃ دنیا اُس پر فرض ہوتا تو وہ اڑہائی ہزار روپیہ ایک گھڑے میں ڈال دیتا اور اُن روپوئوں کے اوپر دو چار سیر گیہوں ڈال کر کسی ملاں کو بلاتا اور اس کی خوب پر تکلف دعوت کرتا۔جب وہ کھانے سے فارغ ہو جاتا تو اُسے کہتا مولوی صاحب اس گھڑے میں جو کچھ ہے وہ میں آپ کی ملک کرتا ہوں ۔لوگوں کو بھی اُس کے اس طریق کا علم تھا اور وہ جانتے تھے کہ گھڑے میں اُس نے زکوٰۃ کا روپیہ رکھا ہوا ہے جو اڑہائی تین ہزار روپیہ ہے مگر اُسے کچھ کہہ نہیں سکتے تھے ۔تھوڑی دیر کے بعد وہ خود ہی کہتا کہ آپ اس گھڑے کو اُٹھا کر کہاں لے جائینگے اسے میرے پاس ہی بیچ ڈالئے ۔بتائیے آپ اس گھڑے کی کیا قیمت لیں گے ۔ملّاں ڈرتے ڈرتے کہ نہ معلوم کس حد تک سودا ہو پانچ دس یا پندرہ روپے بتا دیتا اور وہ جھٹ اتنے روپے نکال کر اس کے سامنے رکھ دیتا اور کہتا کہ مولوی صاحب جو کچھ اس میں ہے وہ آپ نے پندرہ روپے میں مجھے دیدیا ہے یہ کہہ کر وہ گھڑا اٹھا کر اندر رکھ لیتا اور سمجھ لیتا کہ اس کی طرف سے زکوٰۃ ادا ہوگئی ہے ۔تو دنیا میں اس قسم کی دھوکا بازی کرنے والے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو خداتعالیٰ کے احکام سے تمسخر کرتے ہیں اور پھر یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر خداتعالیٰ کی طرف سے جو فرض عائد ہوتا ہے اس کو انہوں نے ادا کردیا ہے ۔ہماری جماعت میں خداتعالیٰ کے فضل سے اس قسم کے لوگ تو نہیں مگر ابھی ہماری جماعت میں لوگ پوری احتیاط سے زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ۔بالخصوص تاجروں میں زکوٰۃ کے معاملہ میں بہت بڑی کوتاہی پائی جاتی ہے ۔حالانکہ زکوٰۃ کے متعلق اسلامی شریعت میں اتنے شدید احکام پائے جاتے ہیں کہ صحابہ ؓ کا فیصلہ یہ ہے کہ جو شخص زکوٰۃ ادا نہ کرے وہ مسلمان ہی نہیں رہتا اور اس وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ تم جو کچھ مال کماتے ہو اُس میں دوسرے لوگوں کا بھی حصہ ہے کیونکہ مال جن چیزوں سے کمایا جاتا ہے وہ ساری کی ساری ایسی ہیں جو کسی خاص شخص کی مِلک نہیں ۔بلکہ ساری دنیا اُن پر حق رکھتی ہے ۔مثلاً تجارت کو لے لو ۔تجارت لوہے کی ہوتی ہے یا لکڑی ہوتی ہے یا اور بعض چیزوں کی ہوتی ہے ۔مگر کیا لوہا اور لکڑی تاجر آپ بناتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے کوئلہ بنایا ہے سارے انسانوں کیلئے ۔اللہ تعالیٰ نے مٹی کا تیل بنایا ہے سارے انسانوں کیلئے ۔اللہ تعالیٰ نے گندم بنائی ہے سارے انسانوں کیلئے ۔مگر جب ایک شخص ان چیزوں سے خاص طور پر نفع کماتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب تمہارا فرض ہے کہ تم مالک کو اس کا ٹیکس ادا کرو۔کیونکہ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی ساری دنیا مالک ہے ۔پس جس طرح مزارع اپنے مالک کو ٹیکس ادا کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو حکم دیتا ہے کہ وہ بھی ٹیکس ادا کرے ۔وہ فرماتا ہے چونکہ تم کسان بنے اور تم نے اس زمین میں زراعت کی جو ساری دنیا کی ہے اس لئے اب تمہارا فرض ہے کہ تم مالک کو اس کا حق دو ۔چنانچہ اڑہائی فیصدی ٹیکس اُس سے وصول کیا جاتا ہے اور پھر جو نظام مقرر ہوتا ہے وہ اس ٹیکس کو غرباء کی مدد کیلئے خرچ کرتا ہے لیکن اگر کوئی شخص خداتعالیٰ کا مقرر کردہ ٹیکس ادا نہیں کرتا یا ادا تو کرتا ہے مگر پورے طور پرا دا نہیں کرتا کسی قدر حصہ اپنے پاس رکھ لیتا ہے تو اسلامی نقطۂ نگاہ سے وہ ایک چور کی حیثیت رکھتا ہے ۔بظاہر ایک شخص کپڑے کا تاجر ہوگا لیکن درحقیقت وہ چور ہوگا۔کیونکہ کپڑا آخر کن چیزوں سے تیار ہوتا ہے ۔کپڑا تیار ہوتا ہے روئی سے اور روئی تیار ہوتی ہے زمین سے اور زمین کسی خاص شخص کیلئے نہیں بنائی گئی بلکہ اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کیلئے بنائی ہے ۔پس جب زمین ساری دنیا کیلئے بنائی ہے اور اُسی زمین سے روئی کی فصل تیار کرکے ایک شخص کپڑے کی تجارت کرتا ہے تو اُس کا فرض ہے کہ وہ اس ٹیکس کو ادا کرے جو اس پر عائد ہوتا ہے کیونکہ اُس نے اس چیز سے فائدہ اٹھایا جس میں ساری دنیا کا حصہ تھا اسی طرح زمینوں پر زکوٰۃ کا حکم ہے کیونکہ زمین کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ ساری دنیا کی ہے ۔اگر بعض وجوہ سے کوئی ٹکڑا کسی شخص کے قبضہ میں چلا گیا ہے تو بہر حال اُسے غریبوں کو اُن کا حق دینا پڑے گا اور وہ یہ کہہ کر اس ٹیکس سے نہیںبچ سکتا کہ جب میں نے اپنی ذاتی کوشش سے یہ روپیہ کمایا ہے تو میں غریبوں کو اپنے مال کا ایک حصہ کیوں دوں اس لئے کہ اُس نے ذاتی محنت سے روپیہ کمایا ۔مگر بہر حال اُس نے روپیہ ایک ایسی چیز سے کمایا ہے جو ساری دنیا کیلئے مشترک تھی اور جس میں غرباء کا حق بھی رکھا گیا تھا ۔پس اسلام کی ہدایت کے مطابق اس شخص سے زکوٰۃلی جائیگی اور غرباء پر خرچ کی جائیگی ۔اگر کوئی شخص زکوٰۃ نہیں دیتا تو وہ یقینا چور ہے خواہ وہ یہ کہے کہ میں نے رات اور دن محنت کرکے کپڑے کی تجارت سے روپیہ کمایا ہے خواہ وہ یہ کہے کہ میں نے رات اور دن محنت کر کے لوہے کے کارخانے سے روپیہ کمایا ہے۔خواہ وہ یہ کہے کہ میں نے رات اور دن محنت کرکے مٹی کے تیل کی تجارت یہ روپیہ کمایا ہے۔خواہ کسی چیز کی تجارت سے اُس نے روپیہ کمایا ہو اس میں ساری دنیا کا حصہ ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ اُس حصہ کو اد اکرے ۔اور اگر وہ بغیر اس ٹیکس کو ادا کرنے کے روپیہ اپنے گھر میں لے جاتا ہے تو اسلام اُسے قطعاً مومن کہنے کیلئے تیار نہیں ۔ہاں ایک بات یاد رکھنی چاہئیے اور وہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں چونکہ ٹیکس دوہرا ہوگیا ہے یعنی گورنمنٹ بھی ٹیکس لیتی ہے اور اسلام بھی ایک ٹیکس لیتا ہے ۔اس لئے جس چیز پر گورنمنٹ کی طرف سے ٹیکس عائد ہوتا ہے اگر اس کے ٹیکس کی رقم زکوٰۃ کے برابر یا زکوٰۃ سے زیادہ ہو تو پھر زکوٰۃدینا واجب نہیں ہوگا ۔مگر اُس کے ساتھ ہی یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ گورنمنٹ جمع شدہ مال پر ٹیکس نہیں لیتی بلکہ آمد پر ٹیکس وصول کرتی ہے لیکن اسلام اُس مال سے زکوٰۃ وصول کرتا ہے جو انسان کے پاس جمع ہو ۔اور جس پر ایک سال گذر گیا ہو۔فرض کرو ایک شخص دس ہزار روپیہ سالانہ کماتا ہے اور گورنمنٹ اُس سے ٹیکس لے لیتی ہے اور وہ ٹیکس زکوٰۃ سے زیادہ ہے تو ہم کہیں گے کہ اب ایسے شخص پر زکوٰۃ واجب نہیں ۔جیسے زمیندار سے بھی گورنمنٹ عالیہ وصول کر لیتی ہے تو اس کے بعد اگر وہ مالیہ زکوٰۃ کے برابر یا اس سے زیادہ ہوتا ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں رہتی ۔لیکن اگر کوئی زمیندار معاملہ ادا کرنے کے بعد اپنے اخراجات میں کفایت سے کام لینا شروع کر دیتا ہے اور اس طرح وہ کچھ روپیہ پس انداز کر لیتا ہے جس پر ایک سال گذر جاتا ہے تواس روپیہ پر زکوٰۃ کا حکم عائد ہو جائیگا ۔فرض کرو اُس نے کفایت کرتے کرتے پانچ ہزار روپیہ جمع کر لیا ہے اور اس پانچ ہزار روپیہ پرایک سال گذر گیا ہے تو اسلام کی طرف سے اس پر زکوٰۃ کا ٹیکس لگ جائے گا ۔پس جمع شدہ مال پر جب سال گذر جائے اور وہ مال زکوٰۃ کے نصاب کے اندر ہو توشریعت کی طرف سے زکوٰۃ کا حکم انسان پر عائد ہو جاتا ہے خواہ وہ زمیندار کا مال ہو یا تاجر کا ہو یا کسی اور کاہو۔ہاں اس مال پرجس میں سے گورنمنٹ نے زکوٰۃ کے برابر یا اس سے زائد ٹیکس لے لیا ہو زکوٰۃ واجب نہیں ۔مگر کچھ نہ کچھ رقم ثواب میں شمولیت کیلئے اسے طوعی طور پر پھر بھی دینی چاہئیے ہاں اگر انکم ٹیکس یا مالیہ کم ہو اور زکوٰۃ یا عُشر اس پر زیادہ عائد ہوتا ہو تو پھر جتنی کمی رہ جائیگی اُس کو پورا کرنا اُس کا فرض ہوگا۔فرض کرو زکوٰۃ کے بیس روپے کسی شخص کے ذمے تھے گورنمنٹ نے ٹیکس کے ذریعے پندرہ روپے وصول کر لئے تو باقی پانچ روپے اسلام کا قائم کردہ نظام اُس سے ضرور وصول کرے گا لیکن اگر گورنمنٹ نے اس سے ٹیکس اکیس روپے لے لئے ہیں تو پھر زکوٰۃ اس پر واجب نہیں ہوگی ۔زکوٰۃ کا حکم ایسے شخص پر اُس صورت میں عائد ہوگا جب وہ اپنی آمد کو جمع رکھے اور پھر اس جمع شدہ مال پر بشرطیکہ وہ نصاب کے مطابق ہو ایک سال گذر جائے ۔
چوتھے زکوٰۃ کے علاوہ اسلام یہ بھی حکم دیتا ہے کہ سّراء اور ضّراء دونوںحالتوں میں انفاق فی سبیل اللہ سے کام لیا جائے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَرَّٓائِ وَالضَّرَّٓائِ ( اٰلعمران ع ۱۴) مومن کشائش کی حالت میں بھی غرباء اور مساکین کی امداد کیلئے اپنے اموال خرچ کرتے ہیں اور تنگی کی حالت میں بھی خرچ کرتے ہیں ۔یہ الفاظ بتاتے ہیںکہ اس جگہ اُس خرچ کا ذکر ہے جو زکوٰۃ کے علاوہ ہے کیونکہ ااس میں کہا گیا ہے کہ مومن تنگی کی حالت میں بھی خرچ کرتے ہیں حالانکہ تنگدست پر زکوٰۃ فرض نہیں ۔پس اس جگہ طوعی صدقہ مراد ہے زکوٰۃ مراد نہیں ۔
اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں ہر انسان پر خواہ وہ کس قدر مالدار ہو بعض تنگی کی حالتیں آتی ہیں اور بعض کشائش کی حالتیں آتی ہیں۔اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ مومن کو چاہئیے کہ وہ ان دونوں حالتوں میں خداتعالیٰ کے راستہ میں اپنے اموال خرچ کرتارہے مگر ضراء کے یہ معنے نہیں کہ انسان کے پاس کچھ نہ ہو تب بھی وہ خرچ کرے بلکہ ضّراء کے لفظ کا استعمال اس غرض کیلئے کیا گیا ہے کہ بڑے بڑے تاجروں پر بھی بعض دفعہ تنگی کے اوقات آجاتے ہیں ۔دس بیس لاکھ کا کارخانہ ہوتا ہے مگر کسی وجہ سے مال کا فروخت ہونا رُک جاتا ہے ۔اُس وقت لوگ کہتے ہیں ہم پر بڑی مصیبت آگئی ہے ۔اب ہم کیا کریں پہلی سی حالت ہماری نہیں رہی ہم بڑی تنگی میں مبتلا ہو گئے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب ایسی حالتیںآئیںاُس وقت بھی تمہارا فرض ہے کہ تم اپنا مال خرچ کروکیونکہ اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ دس لاکھ روپیہ کے مالک کارخانہ دار کا کام خراب ہو گیا ہے تب بھی چار پانچ لاکھ روپیہ اس کے گھر میں ضرور موجود ہوگا ۔پس اُسے سمجھ لینا چاہئیے کہ اگر دین کیلئے وہ شخص قربانی کر رہا ہے جس کی آمد پانچ دس یا پندرہ بیس روپے ہے تواس کیلئے دین کی خاطر قربانی کرنے میں کونسی مشکل درپیش ہے جبکہ اس کے قبضہ میںدیوالیہ ہونے کے باوجود چار پانچ لاکھ روپیہ کا مال ہے پس اس آیت کے صرف یہ معنے نہیں کہ مومن غربت اور امارت دونوں حالتوں میں خرچ کرتے ہیں بلکہ یہ مطلب بھی ہے کہ امیر پر بھی بعض دفعہ تنگی کی گھڑیاں آجاتی ہیں۔پس ان تنگی کی گھڑیوں کے متعلق اسلام یہ حکم دیتاہے کہ تم اُس حالت میں بھی غرباء و مساکین پرا پنا روپیہ خرچ کیا کرو۔اور یہ نہ کہا کرو کہ ہم کس طرح خرچ کریں ہماری آجکل بِکری کم ہے جب وہ شخص جس کے پاس تمہارے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں دین کی خاطر قربانی کرتا رہتا ہے تو تمہارے پاس تو پھر بھی لاکھ دو لاکھ یا چار لاکھ روپے موجود ہیں تمہارے لئے ہچکچاہٹ کی کوئی وجہ نہیں ۔
اس بارہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر بھی توجہ دلائی ہے فرماتا ہے ۔وَفِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقّ’‘ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ ( الذاریات ۱ع۱۸)یعنی مومنوں کے اموال میں اُنکا بھی حق ہے جو سوال کرتے ہیں اور اُن کا بھی حق ہے جو سوال نہیں کرتے ۔سوال نہ کرنا کئی طرح سے ہوتا ہے مثلاً ایک شخص گونگا ہوتا ہے اور وہ بول ہی نہیں سکتا ۔یاجانور ہیں کہ جب وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہوں تو دوسرے سے کوئی سوال نہیں کر سکتے ۔دنیا میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی جانور بوڑھا ہو کر ناکارہ ہو جاتا ہے تو لوگ اُسے مار کر اپنے گھر سے نکال دیتے ہیں ۔اور کوئی اس کا پر سانِ حال نہیں رہتا ایسے جانوروں کو پالنا ملک کا کام ہوتا ہے یا پھر حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ مالک کو مجبور کرے کہ وہ اُس جانور کواپنے گھر میں رکھے ۔یہ کوئی انصاف نہیں کہ جب تک کسی جانور سے کمائی کی جاسکتی ہو اُس وقت تک تو اُسے کھلایا پلایا جائے اور جب وہ بوڑھا ہو کر کام کے قابل نہ رہے تو اُسے مار کر اپنے گھر سے نکال دیا جائے ۔گائے اور بیل تو ایسے جانور ہیں جن کے بوڑھا یا ناکارہ ہونے پر لوگ اُن کو ذبح کر لیتے ہیں مگر گھوڑا اور گدھا وغیرہ ایسے جانور ہیں جن کو ذبح نہیں کیا جا سکتا ۔پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَفِیْ اَمْوَالِھِمْ حَق’‘ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ لوگوں کے اموال میں اُن کا بھی حق ہے جو مانگ سکتے ہیں اور اُن کا بھی حق ہے جو محروم ہیں اور بولنے کی طاقت اپنے اندر نہیں رکھتے ۔اس حکم کے ماتحت بے زبان جانوروں کی غذا کا خیال رکھنا اُنکی طاقت کے مطابق اُن سے کام لینا اور جن جانوروں سے کوئی کام نہ لیا جائے انکو بھی کھانا دینا پرندوں وغیرہ کو دانہ ڈالنا ۔بے زبان جانوروں کی سردی گرمی اور اُن کے شہوانی جذبات اور اُن کے بچوں کا خیال رکھنا بھی مومن کے فرائض میں شامل ہے ۔
پانچویں ہدایت جو اسلام نے اس سلسلہ میں وہی ہے اور تمام لوگوں سے تعلق رکھتی ہے ۔اُن لوگوں سے بھی جو تجارت اور صنعت و حرفت کرنے والے ہیں اور اُن سے بھی جن کے پاس کسی اور ذریعہ سے مال آتا ہے وہ یہ ہے کہ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ( المائدہ ۱ ع۵) یعنی جو شخص بھی کوئی کام کرتا ہو اُسکے لئے ضروری ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کے ساتھ ایک دوسرے کی مدد کرے پس وہی تجارت اور وہی صنعت اسلامی نقطۂ نگاہ سے صحیح ہو سکتی ہے جو بِر اور تقویٰ پر دوسروں سے تعاون کرتی ہو ۔تاجر اور صناع یہ دو گروہ ایسے ہیں کہ اُن کا تعاون بہت وسیع ہو سکتا ہے ۔مثلاً صناع اگر ایسی صورت میں اپنی صنعت و حرفت کو فروغ دیں کہ اُنکی صنعت سے مذہب کو شوکت حاصل ہونے لگ جائے۔دین کی شہرت پھیلنے لگ جائے اور سلسلہ کی مضبوطی پہلے سے بڑھ جائے تو یقینا اُن کی صنعت دین کا ایک حصہ سمجھی جائیگی ۔یا اگر کوئی شخص دو کام کر سکتا ہو ۔اور اُن دونوں میں سے ایک کام ایسا ہو جس سے دین کی مدد ہوتی ہو اور دوسرا کام ایسا ہو جس سے دین کی مدد نہ ہوتی ہو تو اسے بہر حال وہ کام کرنا چاہئیے جس سے دین کی مدد ہوتی ہوخواہ اس میں تھوڑے بہت نفع کا فرق ہی کیوں نہ ہو۔اگر ایسا شخص وہ کام اختیار کرتا ہے جس سے دین کی مدد ہوتی ہو تو وہ یقینا ثواب کا مستحق ہوگا اور اُس کا دنیا کمانا محض دنیا نہیں بلکہ دین کا ایک حصہ ہو گا ۔اسی طرح تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی میں جہاں یہ بات داخل ہے کہ ایسی تجارتیں اور ایسی صنعتیں اختیار کی جائیں جو دین کی تقویت کا موجب ہوں وہاں آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کرنیکا بھی اس آیت میں حکم پایا جاتا ہے ۔آخر ایک شخص کی تجارت کیوں چل نکلتی ہے اور دوسرے شخص کی تجارت کیوں رہ جاتی ہے ۔اسی لئے کہ ایک شخص کو تجارت میں کامیابی حاصل کرنے کے گُر معلوم ہوتے ہیں اور دوسرا شخص تجارت کے اصول سے ناواقف ہوتا ہے ایک شخص جانتا ہے کہ سودا کہاں سے سستا ملتا ہے ۔سودا کس طرح فروخت کرنا چاہئیے ۔کس منڈی میں بیچنے سے زیادہ نفع حاصل ہوتا ہے اور کس منڈی میں بیچنے سے کم نفع حاصل ہوتا ہے ۔مگر دوسرا شخص ان باتوں کو نہیں جانتا ۔پس اگر تاجر اپنی تجارت کے ساتھ ساتھ کسی اور آدمی کو بھی تجارت کا کام سکھا دیں اور اُسے بھی تجارت کے رازوں سے واقف کر دیں تو یہ بھی ایک قومی تعاون ہوگا اور اس کے نتیجہ میں بھی وہ بہت بڑے ثواب کے مستحق ہونگے ۔اس طرح اگر کسی شخص کو کوئی پیشہ یا ہنر آتا ہے تو اُسے چاہئیے کہ اس پیشہ یا ہنر کو اپنے پاس ہی نہ رکھے بلکہ کسی دوسرے کو بھی سکھا دے ۔پرانے زمانہ میں لوگوں کو یہ عادت تھی کہ وہ بعض ہنر مخفی رکھتے تھے ۔جس کانتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہنر اُن کے ساتھ ہی چلے گئے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک نائی تھا جسے زخموں کو اچھا کرنے کا ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا نسخہ معلوم تھا دُور دُور سے لوگ اس کے پاس علاج کیلئے آتے ۔اور فائدہ اٹھاتے ۔مگر وہ اتنا بخیل تھا کہ اپنے بیٹے کو بھی مرہم کا نسخہ نہ بتا تا اور کہتا کہ یہ اتنا بڑا ہنر ہے کہ اس کے جاننے والے دو آدمی ایک وقت میں نہیں ہو سکتے ۔بیٹے نے بہتیری منتیں کیں اور کہا کہ مجھے یہ نسخہ آپ بتا دیں مگر وہ یہی جواب دیتا کہ مرتے وقت تمہیں بتائوں گا ۔اس سے پہلے نہیں بتا سکتا ۔بیٹا کہتا کہ موت کا کوئی پتہ نہیں وہ کس وقت آجائے ۔آپ مجھے ابھی یہ نسخہ بتادیں مگر باپ آمادہ نہ ہوا ۔آخر ایک دفعہ وہ بیمار ہوا اور سخت نازک حالت ہوگئی ۔بیٹا کہنے لگا باپ مجھے اب تو نسخہ بتا دیں مگر وہ جواب دیتا کہ میں مرتا نہیں اچھا ہو جائوں گا ۔پھر اور حالت خراب ہوئی ۔تو بیٹے نے پھر منتیں کیں مگر اُس نے پھر یہی جواب دیا کہ کیا تُو سمجھتا ہے میں مرنے لگا ہوں میں تو ابھی نہیں مرتا ۔غرض اسی طرح وہ جواب دیتا رہا یہاں تک کہ مر گیا ۔اور اُس کا بیٹا جاہل کا جاہل ہی رہا یہ چیز ایسی ہے جسے اسلام جائز قرار نہیں دیتا ۔اسلام کہتا ہے کہ تم علم کو صرف اپنی ذات تک محدود نہ رکھو بلکہ اُسے وسیع کرو اور دوسرے لوگوں میں بھی پھیلائو ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض علم اور بعض پیشے ایسے ہیں جن میں ایک حد تک اور ایک وقت تک اخفاء جائز ہوتا ہے مگر ہمیشہ کیلئے اخفاء جائز نہیں ہوتا ۔یورپ میں ادویہّ کوپیٹنٹ کرانے کا ایک نہایت ہی مفید طریق جاری ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اتحاد کرے تو چالیس سال تک وہ اس سے فائدہ اٹھانے کا حق رکھتا ہے اس دوران میں ہم کسی کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اس کی نقل کرے ۔لیکن چالیس سال کے بعد اجازت ہونی چاہئیے کہ سب لوگ اُس سے فائدہ اٹھائیں۔یہ ایک بہت ہی اچھا طریق ہے جو یورپ والواں نے ایجاد کیا ہے کہ کچھ وقت موجد کو دے دیتے ہیں کہ وہ اُس میں اپنی ایجاد سے فائدہ اٹھائے اور پھر ساری دنیا میں اسکو پھیلا دیتے ہیں تاکہ اور لوگ بھی اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو اٹھالیں ۔اسی طرح صناع اور تاجر اگر اپنی صنعت اور تجارت کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی یہ پیشے سکھا دیں یا ان پیشوں کے سیکھنے میں اُن کی مدد کریں تاکہ دوسرے شہروں یا دوسرے ملکوں میں بھی صنعت و حرفت اور تجارت کو فروغ حاصل ہو تو یہ بھی ایک رنگ کی زکوٰۃ ہوگی ۔جو اُن کی تجارت اور صنعت کو پاک کرنیکا ذریعہ بن جائیگی ۔غرض تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی میں تجارتی کمیٹیاں اور صناعوں کی کمیٹیاں بھی شامل ہیں اور اُن کا فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مال فروخت کرنے میں مدد دیں اور ایک دوسرے کی تجارتوں کے فروغ میں مدد دیں ۔مسلمان عمومًا تجارت میں اس لئے نقصان اٹھاتے ہیں کہ اُن کی تجارتوں کو نہ دوسرے تجار سے مدد ملتی ہے اور نہ گاہکوں سے اسکے بالمقابل ہندو تاجروں کو دونوں طرف سے مدد ملتی ہے اور وہ کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
چھٹا اصل جو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے اور جس کو مدنظر رکھنا ہر وقت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ حَیْتُ مَاکُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہ’‘(بقرہ ۱۷ ع )یعنی جس کام میں بھی تم لگے ہوئے ہو تمہارے سامنے صرف ایک ہی مقصد رہنا چاہئیے اور وہ یہ کہ دین کے غلبہ اور ترقی کیلئے تم نے کوشش کرنی ہے ۔پس اگر کوئی شخص تجارت کرتا ہے یا صنعت و حرفت اختیار کرتا ہے تو اُسے ہر وقت یہ اصول اپنے سامنے رکھنا چاہئیے اس اصول کے ماتحت اگر کوئی شخص اپنی تجارت یا اپنی صنعت کو اسلام کی شوکت اور اس کے غلبہ کا ذریعہ بناتا ہے تو وہ دنیا نہیں کماتا بلکہ دین کماتا ہے خواہ وہ اپنی تجارت اور صنعت کے ذریعہ لاکھوں روپے ہی کیوں نہ کما رہا ہو ۔
ساتواںحکم قرآن کریم یہ دیتا ہے کہ ماپ تول اور وزن درست ہونا چاہئیے ۔تاجروں میں بالعموم یہ خرابی پائی جاتی ہے کہ جائز طور پر مال کمانے کے علاوہ وہ ماپ اور تول میں ضرور کچھ نہ کچھ کمی کر دیتے ہیں ۔پہلے تو وہ صرف ڈنڈی مارا کرتے تھے مگر اب کئی قسم کے بٹے بنائے گئے ہیں ۔پہلے بھی جب اسلام میں تجارت کا زور تھا لوگوں میں یہ نقص پیدا ہو گیا تھا چنانچہ پرانی کتب میں بھی ذکر آتا ہے کہ اُس زمانہ میں تین قسم کے بٹے ہوا کرتے تھے ۔ایک لینے کیلئے ایک دینے کیلئے اور ایک افسروں کو دکھانے کیلئے ۔پس پہلے بھی یہ نقص تھا مگر اس زمانہ میں اس نقص نے بہت بڑی وسعت اختیار کر لی ہے ۔اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ مومن کو چاہئیے کہ وہ تول اور ماپ میں کسی قسم کی کمی نہ کرے ۔جب کوئی چیز لے تو تول کر لے اور جب کوئی چیز دے تو تول کردے ۔کسی قسم کی دھوکا بازی اور فریب اسلام میں جائز نہیں اور اگر کوئی تاجر یا صناع ایسا کام کرتا ہے تو اس کا کام محض دنیا داری ہے اور وہ خداتعالیٰ کی خوشنودی کا موجب نہیں بلکہ اس کی ناراضگی کو بھڑ کانے کا موجب ہے ۔جب وہ اس قسم کے دھوکا کے بعد کوئی مال کما کر اپنے گھر میں لاتا ہے تو وہ حرام مال ہوتا ہے اور وہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے چوری اور ڈاکہ سے حاصل کیا ہو ا مال۔چاہے اُس نے اپنی دوکان پر بیٹھ کر ہی وہ کیوں نہ کمایا ہو ۔
آٹھواں حکم اسلام نے یہ دیا ہے کہ دھوکہ اور فریب اور ملاوٹ جائز نہیں ۔بے شک تم تجارت کرو ۔مگر تجارت میں یہ دھوکہ نہیں ہونا چاہئیے ۔یہ نقص بھی ایسا ہے جس کا ازالہ نہایت ضروری ہے ۔ہمارے ملک میں تو یہ مرض اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ کوئی چیز دھوکہاور ملاوٹ سے نہیں بچی ۔گھی فروخت کریں گے تو اس میں چربی یا تیل وغیرہ ملا کر تیل بیچیں گے تو وہ خالص نہیں ہوگا بلکہ اُس میں بعض اور تیلوں کی ملاوٹ ہوگی ۔یہی باقی چیزوں کا حال ہے ۔سب میں دھوکا اور فریب سے کام لیا جاتا ہے اور خالص چیز خریداروں کو مہیا نہیں کی جاتی ۔یہ نقائص بھی صرف اسی زمانہ میں نہیں بلکہ گذشتہ زمانہ میں بھی یہ نقص پائے جاتے تھے اور انہی کو دُور کرنے کیلئے اسلامی حکومت کی طرف سے محتسب مقرر ہوتے تھے۔پس یہ بھی ایک بہت بڑا نقص ہے جس کو دور کرنا چاہئیے ۔
نواں حکم اسلام نے یہ دیا ہے کہ تم جو مال بنائو یا دوسروں سے خریدو اُسے روک کر نہ رکھ لیا کرو کہ جب مال مہنگا ہوگا اُس وقت ہم فروخت کرینگے ۔اگر کوئی تاجر مال کو اس لئے روک کر رکھ لیتا ہے کہ جب مال مہنگا ہو گا اس وقت وہ اُسے فروخت کرکے زیادہ نفع کمائیگا تو اسلام کی رُو سے وہ ایک ناجائز فعل کا ارتکاب کرتا ہے ۔حدیثوں میں صاف طور پر ذکر آتا ہے کہ اگر کوئی شخص غلہ خرید کر اس لیے روک لیتا ہے کہ جب غلہ مہنگا ہوگا تو اس وقت میں اُسے فروخت کرونگا۔تو وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے مگر بعض لوگوں نے غلطی سے اس حدیث سے یہ سمجھا ہے کہ یہ حکم صرف غلہ کے متعلق ہے اور چیزوں کے متعلق نہیں حالانکہ تفقہ کے معنے ہی یہی ہوتے ہیں کہ جو حکم کسی خاص موقعہ پر دیا جائے اس کے متعلق دیکھا جائے کہ اس حکم کی غرض کیا تھی ۔اور پھر جہاں جہاں وہ غرض پائی جائے اس حکم کو چسپاں کر دیا جائے ۔پس گو احتکار کا حکم غلہ کے متعلق ہے اور رسول کریم ﷺ نے صرف غلہ کے تاجروں کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ اگر وہ غلہ کو اس ارادہ اور نیت سے روک لیتے ہیں کہ جب غلہ مہنگا ہو گا تب فروخت کرینگے تو وہ ناجائز فعل کا ارتکاب کرتے ہیں لیکن اس سے عام استدلال بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس حکم کی اصل غرض یہ ہے کہ لوگ کسی چیز کو روک کر نہ رکھیں تاکہ لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو ۔پس جس طرح غلہ روک کر ایک شخص احتکار کرتا اور شریعت کے نزدیک مجرم قرار پاتا ہے ۔اسی طرح اگر کوئی کپڑے کا تاجر کپڑے کو روک لے اور لوگوں میں فروخت نہ کرے تو وہ بھی ایسا ہی سمجھا جائیگا ۔یااگر کوئی لکڑی کو روک لیتا ہے یا لوہے کو روک لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جب یہ چیزیں مہنگی ہو نگی تب میں ان کو فروخت کرو نگا تو وہ یقینا اسلام کے خلاف چلتا ہے ۔پس شریعت اسلامی کی رُو سے کوئی ایسی تجارت اور صنعت جائز نہیں جس میں احتکار سے کام لیا گیا ہو یعنی یہ مدنظر رکھا گیا ہو کہ جب چیزیں مہنگی ہوں گی تب ان چیزوں کو ہم فروخت کریں گے ۔اس سے پہلے ہم فروخت نہیں کریں گے ۔آج کل تاجروں میں خصوصیت سے احتکار پایا جا تا ہے۔اُن کے پاس کپڑا موجود ہوتا ہے مگر وہ انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کپڑا نہیں ۔جس سے اُن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جب کپڑا اور زیادہ مہنگا ہوا تب ہم فروخت کریں گے ۔اسی طرح لکڑی موجود ہوتی ہے مگر جب کوئی لکڑی کا خریدار آتا ہے تو اُس کے سامنے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی لکڑی نہیں ۔کوئلہ موجود ہوتا ہے مگر جب کوئی کوئلہ مانگنے کیلئے آتا ہے تو انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی کوئلہ نہیں ۔شریعت کی رُو سے یہ بالکل ناجائز ہے ۔اور ہر شخص جو احتکار کے نتیجہ میں روپیہ کماتا ہے اُسے اچھی طرح یاد رکھنا چاہئیے کہ وہ حرام خوری کا ارتکاب کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر بھڑکاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے دنیا کمانے کے جو جائز ذرائع رکھے ہوئے ہیںصرف ان ذرائع سے کام لینا چاہئیے ۔ناجائز اور گندے اور ناپاک ذرائع جن کا اسلام دشمن ہے جن سے اس نے بڑی شدت کے ساتھ منع کیا ہے اُن کو اختیار کرنا دین کی ہتک کرنا اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں موردِ غضب بننا ہے ۔
دسواں حکم اسلام نے یہ دیا ہے کہ تم مزدور کو اُس کا پورا حق دو ۔اور پھر وہ حق اپنے وقت پر ادا کرو ۔گویا مزدور کے متعلق اسلام دو حکم دیتا ہے ۔اوّل یہ کہ اس کی تنخواہ کام کے مطابق مقرر کرو۔دوسرے یہ نہ کرو کہ وقت پر اُس کی مزدوری ادا کرنے میں لیت و لعل سے کام لینے لگ جائو ۔میں نے دیکھا ہے بالعموم لوگ اس حکم کی پرواہ نہیں کرتے ۔وہ مزدور سے پورا کام لیتے ہیں لیکن جب اُن کی تنخواہ یا اُجرت کی ادائیگی کا وقت آتا ہے تو اُس میں تساہل سے کام لینے لگ جاتے ہیں ۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اُن کے دروازہ پر با ر بار آتا اور اپنی تنخواہ کا مطالبہ کرتا ہے ۔اس پر بھی وہ اسے اس کا حق دار نہیں کرتے ۔بلکہ کہتے ہیں آج نہیں کل آنا۔کل آتا ہے تو کہتے ہیںپر سوں آنا ۔اس طرح بار بار اُسے اپنے پاس آنے پر مجبور کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد بھی کسی دن اُسے ایک روپیہ دے دیتے ہیں کسی دن دو روپے دے دیتے ہیں کسی دن چار روپے دے دیتے ہیں گویا اُسے خراب کر کرکے اسکی مزدوری دیتے ہیں جس کا م نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مزدوری سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۔اگر اُسے اکٹھی اجرت مل جاتی تو وہ اپنی ضروریات اکٹھی خرید لیتا اور اِس طرح اُسے فائدہ رہتا ۔لیکن چونکہ اُسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اُجرت دی جاتی ہے۔اس لئے اُسے تکلیف اُٹھانی پڑتی ہیاور پھر اکٹھی اُجرت ملنے سے جو فائدہ اُسے پہنچ سکتا تھا وہ بھی نہیں پہنچا ۔پس اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ مزدور کے ساتھ اس قسم کا سلوک نہ کیا جائے ۔اُسے اُس کا حق پورا ادا کرو۔اور پھر عین وقت پر ادا کر و۔یہ نہ ہو کہ وہ اپنے حق کیلئے تمہارے دروازے کھٹکھٹاتا رہے اور تم اُسے بار بار ٹالتے رہو۔
گیارھواں حکم اسلام یہ دیتا ہے کہ بیشک تم مال کمائو لیکن دیکھو اس کے نتیجہ میں تمہارے اندر کِبر پیدا نہ ہو ۔تمہاری دولت امیر اور غریب میں فرق پیدا کر نیکا موجب نہ بن جائے ۔اگر کوئی دولت امیر اور غریب میں اتنا بُعد پیدا کردیتی ہے کہ امیر اپنے غریب بھائی کے ساتھ کھانا نہیں کھا سکتا ۔اگر وہ ملنے کیلئے آتا ہے تو امیر آدمی تکبر سے پیٹھ موڑ لیتا ہے ۔یا غصہ اور جوش کی حالت میں اُس سے کہتا ہے تم جانتے نہیں میں کون ہوں تو یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ وہ شخص دولت کمانے کے بعد انسان نہیں رہا بلکہ حیوان بن گیا ہے اور دولت صرف انسان کیلئے جائز ہے حیوان کیلئے نہیں ۔لیکن اگر کسی شخص کے پاس دولت تو آجاتی ہے مگر اس کے باوجود اس میں اور دوسرے غریب بھائیوں میں مغائرت کی کوئی دیوار حائل نہیں ہوتی وہ اپنے آپ کو کوئی علیٰحدہ جنس سمجھنے نہیں لگتا ۔وہ دوسروں کو تحقیر اور تذلیل کی نگاہ سے نہیں دیکھتا وہ اُن کے ساتھ محبت سے بات چیت کرتا ہے اُن کے دُکھ سکھ میںشریک ہوتا ہے ۔اپنے آپ کو کوئی الگ قسم کا آدمی اور غریبوں کو کوئی الگ قسم کے آدمی نہیں سمجھتا تو ایسے شخص کیلئے دولت کمانابالکل جائز ہے ۔
بارھواں اسلام یہ دیتا ہے کہ مالدارشخص کوچاہئیے کہ وہ اپنی موت کے وقت رشتہ داروں کو یہ وصیت کر جائے کہ وہ اس کے مالکاکچھ حصہ خداتعالیٰ کی راہ میں اُسکے غریب بندوں کے فائدہ اور ترقی کیلئے خرچ کردیںچنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںفرماتاہے۔کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَ کُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَالوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَلْاَقْدَ بِیْنَ بَالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ ۶ع آیت ۲۲) یعنی اگرکوئی شخص مرنے لگے اورمال و دولت اُس کے پاس ہو تو وہ کچھ روپیہ غرباء کی بہبودی اور دین کی خدمت کیلئے وقف کردے۔اور اس کی اپنے رشتہ داروں کو تاکید کر جائے اورگو اس آیت کے ایک دوسرے معنے بھی ہیں کہ رشتہ داروں کو وصیت کرجائے کہ شریعت کے مطابق اسکی جائیداد تقسیم ہو لیکن اس آیت کے ایک یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ جب کسی شخص کے پاس ضرورت سے زیادہ مال ہو تووہ موت کے وقت ایک حصہ کی غرباء کیلئے وصیت کرجائے اور جہاں کسی آیت کے دو معنے ہو سکتے ہوں وہاں دونوںلئے جائیںگے ۔یہ نہیں ہوگا کہ ایک معنے ترک کر دئیے جائیںاور دوسرے معنے لئے جائیں۔
یہ بارہ موٹے موٹے احکام ہیں جو قرآن کریم اور احادیث سے معلوم ہوتے ہیں۔اگرکوئی تاجر اور صناع ان اصول کو مدنظررکھتا ہے توگووہ بظاہرکپڑا یا لوہا یا تیل یاکوئی اورچیز فروخت کر رہاہوتا ہے مگروہ ایسا ہی سمجھتا جاتا ہے جیسے وہ دین کا کام کررہاہے اوروہ پیسے لے کراپنے گھر واپس نہیںلوٹتابلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اوراس کی محبت کا تحفہ لیکر اپنے گھروں میںآتاہے۔
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَعْمَالَھُمْ کَسَرَابٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ہ
ترجمہ () اوروہ لوگ جنہوں نے کفرکیا اُنکے اعمال سراب کی طرح ہیں جوایک وسیع میدان میںنظر آتی ہے جس کو پیا سا پانی سمجھتا ہے یہاں تک کہ جب وہ اُس کے پاس آجاتا ہے تو وہ اُسے کچھ بھی نہیں پاتا ۔اوراللہ تعالیٰ کو اُسکے پاس دیکھ لیتا ہے ۔تب اللہ تعالیٰ اُسے اُسکا پورا پورا حساب چکا دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب چکا نیوالوں میں سے ہے ۔۲۶ ؎
۲۶؎ حل لغات :
سَرَابٍ : مَاتَرَاہُ نِصْفَ النَّھَارِ مَنِ اشْتِدَادِ الْحَرِّ کَالْمَآ ئِ یَلْصِقُ بِالْاَرْضِ۔ دوپہر کو شدت گرمی سے جو میدان میں زمین یوں معلوم ہوتی ہے جیسے پانی ہے اُسے سراب کہتے ہیں ۔اور سراب اس کو بھی کہتے ہیںجسکی کوئی حقیقت نہ ہو ( اقرب )
قِیْعَۃ’‘ : قَاع’‘ کی جمع ہے اور قَاع’‘ کے معنے ہوتے ہیںاَرْض’‘ سَھْلَۃ’‘ مُطْمَئِنَّۃ’‘ قَدِ انْفَرَجَتْ عَنَھَا الْجِبَالُ وَالاٰکَامُ ۔ وہ ہموار زمین جس میںپہاڑ اور ٹیلیے وغیرہ نہ ہو ں ( اقرب)
تفسیر :
فرماتا ہے مومنوں کے مقابلہ میںکافروں کے اعمال سراب کی طرح ہیں جس کو بعض دفعہ انسان پانی سمجھ لیتا ہے لیکن جب وہ اس کے پاس آتاہے تو وہاں کچھ بھی نہیں دیکھتا بلکہ اللہ تعالیٰ کو اس کے پاس کھڑاپاتا ہے اور وہ اس کا حساب پائی پائی چکا دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ جلد جلد حساب چکانے والا ہے ۔
سراب ریت کے اُس وسیع میدان کو کہتے ہیںجس پرسورجکی جب تیز شعاعیں پڑتی ہیںتو ایسی حرکت پیداہوتی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دریا ٹھاٹھیں مار رہا ہے ۔عرب اور افریقہ کے ریتلے میدانوںمیںکئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جب لوگوںکے پاس پانی نہ رہا تو وہ سراب کودیکھ کر اُدھر چل پڑے مگر جتناچلتے گئے وہ انہیںآگے ہی آگے نظرآتا گیا اور اس طرح وہ صحراء میںکئی میل دُور نکل گئے اور آخر تڑپ تڑپ کر مر گئے۔فرماتا ہے وہ لوگ جواللہ تعالیٰ کے نور کاانکار کرتے ہیںاُنکی مثال بالکل سراب کی طرح ہوتی ہے یعنی جس مذہب میںوہ شامل ہوتے ہیںاس کے مطابق وہ عمل کرتے ہیںاور خیال کرتے ہیںکہ اسطرح انہیں روحانیت حاصل ہو جائیگی مگر درحقیقت وہ ایک سراب ہوتا ہے جس میںروحانیت کا کوئی پانی نہیں ہوتا وہ ایک غلط اُمیدکے ساتھ اس راستہ پر بڑھتے چلے جاتے ہیںمگر انکاہر قدم انہیں روحانی پانی سے اور زیادہ دُور کرتاچلا جاتا ہے ۔یہاںتک کہ اُن پر روحانی موت وارد ہو جاتی ہے اوروہ خدائی فیوض سے ہمیشہ کیلئے محروم ہو جاتے ہیں۔گویا مومنوں کے متعلق تو یہ بتایا تھاکہ وہ الٰہی نور کواپنے اندر جذب کرکے خود بھی نور بن جاتے ہیں۔مگر کافر کے متعلق بتا یاکہ وہ ایسے صحرائوںمیںبھٹکتا پھرتا ہے جن سے اُسے کوئی فائدہ حاصل نہیںہوتا ۔وہ اپنے دل میںتوفائدہ کی امید رکھتا ہے مگر انجام اس کا یہ ہوتا ہے کہ وہ خدا تک نہیں پہنچ سکتا ۔پھر سراب کی مثال دیکر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ مومن جب اسلامی احکام پر عمل کرتاہے تو وہ صرف خیالی طور پر یہ نہیں سمجھتاکہ وہ پانی کی طرف جار ہا ہے بلکہ اُسے نظر آرہا ہوتا ہے کہ وہ پانی پی رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فیوض اور اس کی برکات سے متمتع ہو رہاہے لیکن وہ لوگ جو جھوٹے مذہب کے پیرو ہوتے ہیں اُن میں سے اگر کسی سے پوچھا جائے کہ تمہیں کچھ ملا بھی ہے تو وہ یہی کہتا ہے کہ ملا تو کچھ نہیں ممکن ہے اگلے جہان میں کچھ مل جائے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کے سوا جس قدر مذاہب پائے جاتے ہیں اُن پر چلنے والے یہی کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد پتہ لگے گا کہ ہمیںکیا ملتا ہے لیکن سچے مذہب کا پیرو اس دنیا میں بتا دیتا ہیکہ مجھے یہ کچھ ملا ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْن ( حٰمٓ السجدہ۴ع )یعنی وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ مضبوطی کے ساتھ اس عقیدہ پرقائم ہو گئے اور حوادث کی آندھیاں اُنکے پائے استقلال میں کوئی جُنبش پیدا نہ کرسکیں ایسے لوگوں پراللہ تعالیٰ کے ملائکہ نازل ہوتے ہیںاور وہ انہیں تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیںکہ تم ڈرو نہیں اور نہ کسی پچھلی کوتا ہی پر افسوس کرو بلکہ اُن اعلیٰ درجہ کی کامیابیوں پر خوش ہو جائو جو عنقریب تمہیں ملنے والی ہیں اور جن کاخداتعالیٰ کی طرف سے تم سے وعدہ کیاگیاتھا ۔ہم اس دنیا میںبھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی تمہارے دوست رہیں گے اور اُس جنت میں تمہیںوہی کچھ ملے گا جو تمہارے دلوں کی خواہش اور آرزوکے مطابق ہوگا بلکہ جو کچھ تم مانگوگے وہی کچھ تم کو مل جائیگا ۔
 
Top