تفسیر کبیر ۔ تفسیر القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد رض ۔جلد 7۔ یونی کوڈ
سورۃ الشعرآء مکیۃ
سورۃ شعراء یہ سورۃ مکی ہے ۔
وھی مع البسملۃ مائتان وثمان وعشرون ایۃً واحد عشر رکوعاً
اور بسم اللہ سمیت اس کی دو سو اٹھائیس (۲۲۸) آیتیں ہیں۔ اور گیارہ رکوع ہیں ۱؎
۱؎ زمانہء نزول ۔:سورئہ شعراء اکثر مفسرین کے نزدیک مکی ہے مگر مقاتل کہتے ہیں کہ اس میں کچھ آیتیں مدنی بھی ہیں ۔جیسا کہ اس آیت میں شعراء کا ذکر ہے (آیت ۲۲۵) اسی طرح وہ آیت میں ذکر ہے کہ کیا ا ن کے لئے یہ نشان کم ہے کہ علماء بنی اسرائیل بھی اس قرآن کو پہنچانتے ہیں یعنی سمجھتے ہیں کہ یہ قرآن انبیا ء بنی اسرائیل کی پیشگوئیوں کے مطابق ہے (آیت ۱۹۸)
ابن عباسؓ اور قتادہؓ کا قول ہے کہ اس میں سے صرف چار آیتیں مدنی ہیں باقی سب سورۃ مکی ہے اور وہ چار آیتیں وہ ہیں جو والشعرآء یتبعھم الغاون سے آخر تک چلتی ہیں ۔(آیت ۲۲۵تا ۲۲۸)لیکن اس قسم کی موشگافی کی وجہ یا تو یہ ہو ا کرتی ہے کہ بعض مضامین کو مفسرین مدینہ یا مکہ کے مناسب حال سمجھ لیتے ہیں یا کسی ایسے واقعہ کو جو ان آیات سے مناسبت رکھتا ہے اپنے قیاس کا موجب بنا لیتے ہیں ۔ورنہ بلا کسی خاص دلیل یا تاریخی گواہی کے یہ تفریق پیدا کرنا درست نہیں۔ مثلاً مقاتل نے اولم یکن لھم ایۃً ان یعلمہٗ علمٰٓوابنی اسرآئیل(آیت ۱۹۸)کو صرف اس لئے مدنی قرار دے دیا ہے کہ اس میں علماء بنی اسرائیل کو ذکر ہے حالانکہ سورئہ مریم قطعی اور یقینی طور پر مکی ہے اور وہ ساری کی ساری عیسائیت اور یہودیت کے ذکرسے پُر ہے ۔اسی طرح سورئہ طٰہٰ قطعی اور یقینی طور پر مکی ہے مگر وہ بھی بنی اسرائیل کے ذکر سے پُر ہے ۔اور ابن عباس ؓاور ان کے دو شاگردوںنے آخری آیتوں کو صرف اس لئے مدنی قرار دے دیا ہے کہ ان میں شعراء کا ذکر ہے ۔اور شعر پر زور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ء مدنی میں دیا گیا تھا ۔اس لئے پہلے مسلمانوں میں شاعر نہ تھے اور ان آیات میں یہ ذکر ہے کہ شاعر محض تُک بند ہوتے ہیں سوائے نیک شاعروں کے ۔گر یہ استدلال درست نہیں کیونکہ بغیر کسی واقعہ کے بھی تو اصول بیان کئے جاتے ہیں ۔اگر اسی طرح دلائل قائم کئے جائیں تو شاید ارسطو ؔکی کتب اور سقراطؔکی کتب سے اس کے عجیب و غریب سوانح زندگی تیا ر کرلئے جائیں ۔آخر انسان واقعات سے جُدا ہو کر بھی تو سوچتا ہے پھر اس کے لئے یہ کیا مشکل ہے کہ وہ یہ سمجھ لے کہ اگر قرآن خدا کا کلام نہیں تو بھی اس میں جاری واقعات سے الگ ہو کر بھی کوئی مضمون آسکتا ہے ۔سب سے زیادہ تعجب کی یہ بات ہے کہ یہ غلطی ابتدا میں خود مسلمانوں کو لگی ہے پھر مسیحیوں نے اُسے اُچھالا ہے ۔ مگر جس نے بھی غور کیا ہے باوجود دشمن کے اس استدلال کی غلطی کو سمجھ گیا ہے ۔چنانچہ ریورنڈ وہیریؔ نے اپنی تفسیر میں اس قسم کے استدلال کو غلط قرار دیا ہے اور اس سورۃ کو یقینی طور پر مکی قرار دیا ہے پس اس قسم کے اجتہاد قطعاً درست نہیں ہو سکتا خواہ مسلمان ایسا کریں یا عیسائی کریں ۔سورتوں کا زمانہ ہم صرف تاریخی شواہد سے متعین کرسکتے ہیں ۔اور وہ بھی محض اس حد تک کہ فلاں سورۃ یا اس کا معتدبہ حصہ فلاں زمانہ میں اترا ہے ۔اس سے زیادہ باتیں جو قیاس سے معلوم کی جائیں ہمیں غلطی کی طرف لے جاسکتی ہیں ۔لیکن ان سے فائدہ کوئی نہیں ہو سکتا ۔
ترتیب سُور:سورۃ الفرقان کے آخر میں بتایا گیا تھا کہ یہ خیا ل مت کرو کہ اللہ تعالیٰ اس نظام کو تباہ کردے گا جو اس وقت دیر سے قائم شدہ مذہبوں کے ذریعہ سے دنیا میں جار ی ہے بلکہ یہ سوچو کہ اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو اپنی آواز پر لبیک کہنے اور اپنے اخلاق کو ظاہر کرنے کے لئے پیدا کیا تھا اگر وہ اس غرض کو پورا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ کوایسے انسان یا اس نظام کے قائم رکھنے کی ضرورت کیا ہے ۔ اور اُسے اس کے تباہ کرنے کا غم کیوں ہو ،اب اس سورۃ میں یہ بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی محبت اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کی وجہ سے اس پیش نظر خطرہ سے گھبراتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بجائے تباہی کے اگر انسان کو بچا لیا جائے تو اچھا ہے ۔یہ بے شک ان کی محبت کا ثبوت ہے لیکن خدا تعالیٰ کی سکیم کے مطابق نہیں ۔کیونکہ خدائی سکیم یہ ہے کہ انسان کو علم وعرفان دے کر اس امر کا موقع دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی اور اپنی کوشش سے خداتعالیٰ کے قرب کا راستہ تلاش کرے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کے طبعی نتائج بھگتے ۔اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا توا نسان ایک مشین تو بن جاتا لیکن خدا تعالیٰ کی شکل پر بنایا ہوا وجود نہ ہوتا۔ پس باوجود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمدردی اور محبت اور شدید خواہش کے انسان کو خدائی سکیم کے مطابق چلنا ہوگا ۔اس کے بغیر وہ حقیقی نجات نہیں پاسکتا ۔
اس سورۃ سے مسیحیوں اور یہودیوں سے خطاب جو سورئہ یونس سے شروع تھا اُس کا رُخ بدل کر پھر مسلمانوں کی طرف کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے مقطعات میں تبدیلی کی گئی ہے ۔
اس سورۃ کا نام شعرآء اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس سورۃ کا مضمون بتاتا ہے کہ انسانی ترقی قول اور عمل میں یک رنگی سے ہی حاصل ہوتی ہے اور وہ لوگ جو کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں شعراء کی طرح وہ کامیاب نہیں ہوتے ۔گویا بتایا کہ اس زمانہ میں صرف مسلمان ہی ایسے ہونگے جن کا قول و فعل یکساں ہوگا ۔اس لئے وہی جیتیں گے ۔دوسرے لوگ مثالی طور پر شعراء کی طرح ہیں ۔یعنی دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن عمل کم ہے اس وجہ سے مسلمانوں کے مقابل پر نہیں جیت سکتے ۔
سورۃ شعرآء کے مضامین کا خلاصہ
اس سورت کے شروع میں بتایاگیاہے کہ اس سورۃ اوراس کی تابع سورتوں میں اللہ تعالی کی ا ن تین صفات کی تشریح کی گئی ہے ۔(۱) لطیف (۲)سمیع(۳)مجید۔ یعنی اللہ تعالی کے مخفی سے مخفی رازوں سے واقف ہونے ،دعائوں کے سننے اوراس کے مجید ہونے پر یعنی ان قوانین پر جن سے اس کی اعلیٰ شان ظاہر ہوتی ہے ظلم اورجبرثابت نہیں ہوتا اِس سورۃ میں روشنی ڈالی گئی ہے اوراس کے دلائل دئیے گئے ہیں(آیت ۱و۲)
یہ کتاب اپنے دعاوی کے دلائل خود دیتی ہے ۔کسی اَورکی مدد اوروکالت کی محتاج نہیں ہے(آیت ۳)
پچھلی سورتو ںمیں جوکفارکی تباہی کی خبردی گئی تھی اورکہاگیاتھا کہ خداان پر رحم نہیں کرے گا ۔اس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکفار کی خیر خواہی کی وجہ سے سخت تکلیف پہنچی ہے مگریہ غم بیکار ہے ۔کیونکہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ جبراً مومن بناسکتا ہے اوراس کاکوئی فائدہ نہیں ہے(آیت ۴ و۵)
ذاتی طور پر جو لوگ حقا ئق کے ماننے سے دور ہوچکے ہیں اورہرسچائی پر ہنسی اُڑاتے ہیں ۔(آیت ۶و۷)
دنیامیں اللہ تعالیٰ نے ہرضرورت کے سامان پیدا کئے ہیں اورقسم قسم کے جوڑے بنا ئے ہیں پھر کیو ں خدائی سلسلہ میں بھی جوڑے نہ ہوں ۔یعنی مثیل موسیؑ اورمثیلِ عیسیٰؑ پیدانہ ہوں ۔اگرایسا ہوتو قابل اعتراض امرنہیںبلکہ خداتعالی کی طاقت اوراُس کی رحمت ہی کا ثبوت ملتا ہے(آیت ۸تا ۱۰)
کیا یہ لوگ موسیٰ کو نہیں دیکھتے کہ خدانے اُسے فرعون کی طرف بھیجا ۔اوراُس نے جانے سے پہلے بھی اپنے مُلکیوں کی سنگدلی سے خوف کیااورچاہاکہ عذر سن کر اُسے معا ف کیاجا ئے اورہارون کو مقرر کردیاجائے ۔لیکن خداتعالیٰ نے اُس کا عذر نہ سنا کیونکہ وہی سب سے بہتر وجود اس کام کے لئے تھا ہاں ہارون کو اس کے اساتھ ملادیا ۔اورفرمایا کہ جا کر فرعون کو ہماراپیغام سنادو۔ہم تمہارے ساتھ ہوں گے اور اس سے کہہ دوکہ وہ بنی اسرائیل کو ملک سے نکلنے دے ۔(آیت ۱۱تا۱۸)
فرعون نے اس پر سابق احسان جتائے اوراس کی زند گی پر کچھ اعتراضات کئے ۔اوراُسے احسان فراموش قرار دیا ۔موسیٰؑ نے ا ِس کے جوا ب دیئے اورکہا کہ ا گر مَیں ایسا ہو تاتوخدا مجھے اپنی رسالت کے لئے کیوں چن لیتا ۔(آیت ۱۹تا۲۲)
اورپھر کہا کہ تیرے احسان مجھ پر اس جرم کے مقا بل کیا ہیں کہ تُو نے میری ساری قوم کو غلام بنارکھا ہے (آیت ۲۳)
فرعون نے شرمندہ ہوکربات بدلی اورخدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق سوال شروع کردیئے ۔حضرت موسیٰؑ نے جواب دیئے ۔آخر تنگ آکر اُس نے دھمکی دی کہ میرے سواکو ئی اورمعبودمانا توقید کردوں گا ۔موسیٰؑ نے کہا ۔خداکے شواہد تود یکھ ۔اُس نے کہا ۔اگرکچھ شواہد ہیں تولا۔اِ س پرموسیٰؑ نے اپناعصاپھینکا جوفرعون کو ایک اژدہا نظر آیا ۔اورموسیٰؑ نے اپناہاتھ بغل سے نکالا تو و ہ چمک رہاتھا ۔فرعو نے اِن امورکو سحر قرار دیا ۔اورقوم کو بھڑکایا کہ یہ سیا سی فضیلت چاہتا ہے ۔انہوں نے ساحروں سے مقابلہ کروانے کامشورہ دیا ۔سا حر بلوائے گئے تو وہ مغلوب ہوئے اورموسیٰؑ پر ایما ن لے آئے۔ (آیت ۲۴تا ۵۲)
اِ س پر ہم نے موسیٰ کو اپنی قوم ا س ملک سے نکال لے جانے کے کاحکم دیا ۔(آیت ۵۳)
فرعون نے قوم کو غیرت دلائی ۔پیچھا کیا لیکن برباد ہوااورجونعمتیں اُسے حاصل تھیں ویسی ہی نعمتیں موسیٰؑ کو عطاکرنے کی خدانے تدبیر کی (چنانچہ شام کاعلاقہ مصر سے بالکل مشابہ کہاجاسکتاہے بلکہ وہ علاقہ مصرسے بھی بہترہے)(آیت ۵۴تا ۶۰)
فرعون اپنے لشکروں سمیت آگے بڑھا توموسیٰؑ کی قوم ڈری ۔مگر موسیٰ نے تسلی دی ۔پھر اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر موسیٰ کو سمندر میں سے خشک نکال کر لے گیا اورفرعون کو غرق کردیا ۔(آیت ۶۱ تا ۶۹)
پھر ابراہیم کو دیکھ۔ا س نے اپنی قوم کو توجہ دلائی کہ خداتعالیٰ سنتا ہے اورتمہارے بت سنتے نہیں اوربے طاقت ہیں۔انہوں نے جوان دیا کہ کچھ ہو ہم اپنے با پ دادا کے مذہب کو چھو ڑنہیں سکتے۔ابراہیمؑ نے کہا و ہ سب حق کے خلاف تھے لیکن مَیں تو اُسی خداکومانتا ہوں جو فعّال ہے اوردنیا کے کاموں میں اس کا دخل جاری ہے۔اُس کی طرف سے ہدایت بھی آتی رہتی ہے ۔جسمانی رزق بھی آتا رہتا ہے ۔شفابھی آتی رہتی ہے۔موت کے بعد حیات بھی آتی رہتی ہے اورمرنے کے بعد بھی اُسی پرامیدیں ہیں (آیت ۷۰تا۹۰)
اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت چلی ہوئی ہے کہ وہ نیکوں کی مدد کرتا ہے اوربدوں کوسزادیتا ہے ۔مجر م لو گ پہلے تو اکڑتے ہیں ۔لیکن پھر منت و سماجت پر اُتر آتے ہیں ۔یہ سب باتیں خدا تعالیٰ کے باد شاہ رحمن ہو نے پر دلالت کرتی ہیں (آیت ۹۱تا ۱۰۵)
پھر نوحؑ کو دیکھو ۔اُس نے بھی خداتعالیٰ کی طر ف سے مبعوث ہونے کادعویٰ کیا ۔نیکی کی تعلیم دی ۔اوربغیر کو ئی بدلہ لئے خدمت کرنی چاہی ۔لیکن لوگوں نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ اس کے ماننے والے ادنیٰ درجہ کے لوگ ہیں یہ کیونکر جیت سکتے ہیں ۔مگرنوح نے کہا کہ ادنیٰ اوراعلیٰ کا معیار اعمال صالحہ پر ہے ۔نہ کہ قوم اورحکومت پر (آیت ۱۰۶ تا۱۱۶)
مخالفوں نے بجائے جواب کے دھمکیاں دینی شروع کردیں ۔اِ س پرانہوںنے خداسے فیصلہ چاہا ۔اورمخالفوں کے دنیوی سامان سب دھرے کے دھرے رہ گئے ۔اوروہی ہواجو خدانے چاہاتھا (آیت ۱۱۷تا۱۲۳)
پھر عادؔ کے رسول ہودؔآئے ۔اُن سے بھی اِسی طرح ہوا۔انہوں نے بھی قوم کو توجہ دلائی کہ ظاہری شان وشوکت سے قوم زندہ نہیں رہتی باطنی اخلاق سے زندہ رہتی ہے ۔اوروہ تم میں مفقود ہیں۔انہوں نے کہا یہ باتیں پہلے بھی لوگ کہتے رہے ہیں ۔مگر کسی کا کچھ نہیں بگڑا۔ مگرآخر وہ بھی پکڑے گئے ۔(آیت ۱۲۴تا۱۴۱)
پھر ثمودکی قو م کی طرف صالح آئے ۔انہوں نے بھی بے بدلہ خدمت کا اعلان کیا اوربتایاکہ ظاہر ی شان شوکت روحانی طاقت کے بغیر تباہی کی طرف لے جاتی ہے ۔مگرقوم نے انکارکیا کہ اپنے جیسے آدمی کی اطاعت کیوں کریں۔آخر وہ پکڑے گئے ۔(آیت ۱۴۲ تا ۱۶۰)
اِسی طرح لوطؑ آئے اوران کی قوم کی ساتھ بھی اِسی طرح کامعاملہ گذرا۔وہ اخلاقی بدیوں کاشکار تھے۔(آیت ۱۶۱تا ۱۷۶)
پھر اصحاب الایکہ کا زمانہ آیا ۔ا ن کی نبی شعیبؑ کے ساتھ بھی ایساہی معاملہ ہوا۔اوران کے مخالف پکڑے گئے وہ تجارتی بددیانتی کا شکا ر تھے ۔(آیت ۱۷۷تا۱۹۲)
یہ قرآن بھی خدائی کلام ہے اوراپنی دلیلیں خود دیتاہے۔پہلے نبیوں نے اس کی پیشگوئیاں کی ہیں اوربنی اسرائیل کے علما ء بھی اپنی کتب کے ذریعہ سے اس کی صداقت جانتے ہیں ۔پھر وہ اپنی پہلی مخاطب قوم کی زبان میں آیا ہے ۔اگر غیر زبا ن ہوتی تووہ اُسے سمجھ نہ سکتے مگر اب غور نہ کرنے کی کیا وجہ ہے ۔وجہ وہی ہے جو پہلے نبیوں کے نہ ماننے کی تھی ۔یہ عذا ب کے منتظر ہیں مگر جب وہ آیا تواُنہیں کیا فائدہ ہوگا ؟ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ میں سچے ہیں توان کو سمجھ لینا چاہیئے کہ ان کا آنا اصلاح نہ کرنے والوں کے لئے عذا ب کااعلان ہے ۔(آیت ۱۹۳تا ۲۱۰)
لو گ ا س کی تعلیم کو دیکھیں کہ کیا اس میں شیطا ن کی تائید ہے ؟ اگر نہیں توشیطان نے خداکی تائید کیوں کرنی تھی اوروہ اعلیٰ پُرمعارف کلام کس طرح کرسکتا تھا اِس میں تونبیوں والی باتیں ہیں اورنبیوں والی باتوں کو شیطان سن ہی نہیں سکتا ۔پس اے ہمارے رسولؐ! خدائے واحد کی تبلیغ کرتاچلا جا۔اورسب سے پہلے اپنی قوم کو تبلیغ کر۔اورجو ایمان لائیں ان کی تربیت کر اورجونافرمانی کریں اُن سے برأت ظاہر کراورعزیز و رحیم خداپر توکل کر ۔وہ تجھے دیکھتا ہے اورتجھ کو طاقتور بنانے والا ہے ۔عنقریب مسلمانوں کا بکھرے ہوئے ہونا دورہوجائے گا ۔اوروہ ایسی جگہ پر جائیں گے جہاں اُنہیں اکٹھارہنے کاموقعہ ملے گا ۔اوروہ خدائے واحد کی عبادت آزادی سے کریں گے ۔کیونکہ وہ فریادیں سننے والا ہے ۔
شیطان توان لوگوںپر اُترتے ہیں جوجھوٹے اورگنہگار ہو ں۔وہ آسمانی باتیں سننے کے لئے کان رکھتے ہیں اوران میں سے اکثر جھوٹے ہیں ۔اورشعراء کی پیروی آوار ہ گرد لوگ کرتے ہیں ۔جنہیں صرف زبان کا چسکہ ہوتا ہے ۔عمل نہ اُستاد کریں نہ شاگرد۔ لیکن مومن توعبادت گذار اورسچ کے مبلّغ ہوتے ہیں ۔وہ اسچ کی وجہ سے تکلیفیں بھگتتے ہیں اورمجبورہوکر جواباً ہاتھ اُٹھاتے ہیں۔لیکن ان ں کے سچاہونے کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ کمزور ہوتے ہوئے وہ اپنے دشمنوں پر غالب آجاتے ہیں ۔(آیت ۲۱۱تا۲۲۸)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(میں)اللہ (تعالیٰ) کانام لے کر جو بے حدکرم کرنے والا (اور)بار بار رحم کر نے والا ہے (پڑھتا ہو ں)
طٰسٓمٓ٭ تلک آیات الکتٰب المبین ٭
طاہرؔ(اور)سمیعؔ (اور)مجید (خدا اِس سورۃ کا نازل کرنے والا ہے) یہ آیتیں اس کتا ب کی ہیں جو (اپنے مضامین کو )کھول کر بیان
لعلک باخع نفسک الا یکونوامومنین ٭
کرتی ہے۔ شاید تُو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے گا کہ وہ کیوں نہیں مومن ہوتے ۲؎
۲؎ حل لغات ۔مُبِیْنٌ اَبَانَ سے اسم فاعل کاصیغہ ہے اوراَبَانَ لازم اورمتعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ۔یعنی کبھی اِس کے معنے ظاہر ہونے کے ہوتے ہیں ۔چنانچہ اقرب الموارد میں لکھا ہے ۔اَبَانَ الشَّیْئُ اِتَّضَحَ یعنی اَبَانَ الشَّیْئُ کے معنے ہوتے ہیں فلاں چیز ظاہر ہوگئی اوراَبَانَ فُلانٌ الشَّیْئَ کے معنے ہوتے ہیں اَوْضَحَہٗ کسی بات کو خوب واضح اورنمایاں کیا
بَاخِعٌ:بَخَعَ سے اسم فاعل کاصیغہ ہے ۔اوربَخَعَ الشَّاۃَ کے معنے ہیں بَلَغَ بِذَبْحِھَا الْقَضَا۔بکری کی گردن پر چھری چلاتے اوراُسے ذبح کرتے ہوئے کوئی شخص اس کی گردن کے آخری حصہ تک اپنی چُھری لے گیا (اقرب) نیز اَلْبَخَعُ بَخَعَ کامصد رہے ۔اوراس کے معنے ہیں قَتْلُ النَّفْسِ غَمًّا اپنے نفس کو غم کی وجہ سے ہلاک کردینا ۔
تفسیر ۔طٰسٓمٓ جو حروف مقطعات میں سے ہیں اِن میں سے ط لطیف کا سؔسمیع کا اورمؔ مجید کاقائم مقام ہے ۔گویا اس سورۃ اوراس کی تابع سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے محسنِ عظیم ہونے اُس کے مخفی سے مخفی رازوں سے واقف ہونے۔اپنے بندوں کی دعائیں سننے اوراس کے مجید ہونے پر یعنی ان قوانین پر جن سے اُس کی اعلیٰ اوربلند شان ظاہر ہوتی ہے ظلم اورجبر ثابت نہیں ہوتا روشنی ڈالی گئی ہے۔اوراس کے دلائل دیئے گئے ہیں ۔ ۱؎
اسلام کو دوسرے مذاہب پر جو امتیاز ی خصوصیات حاصل ہیں ان میں سے ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسلام نے صفات الٰہیہ کا ایک ایسامکمل نقشہ پیش کیا ہے جوپہلی الہامی کتب میں سے کسی کتا ب میں بھی نہیں پایاجاتا ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک
۱؎ ۔مقطّعات کی تفصیلی بحث کے لئے دیکھیں تفسیر کبیر جلد ۳صفحہ ۷تا ۱۲۔
خداتعالیٰ کی ہستی کو پیش کرنے کاسوال ہے دنیا کی ہرالہامی کتا ب نے اُس کے وجود کو پیش کیا ہے اوراس پر ایمان لانے کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے ۔کیونکہ مذہب کانقطئہ مرکزی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اوراگر کوئی مذہب اللہ تعالیٰ کو ہی پیش نہ کرے تو اُس کاوجود اورعدم برابر ہوجاتاہے۔مگریہ کہ خداتعالیٰ اپنی ذات میں کیا صفات رکھتا ہے یااپنے بندوں سے وہ کس رنگ میں تعلقات رکھتا اوران سے سلوک کرتاہے۔اِن امور پران کتب میں کوئی تفصیلی روشنی نہیں ڈالی گئی ۔صرف یہ کہہ دینا کہ ہماراخدامحبت ہے یاہماراخدابڑادیالو اورکرپالو ہے اُس کی صفاتِ حسنہ کا کوئی حقیقی اورصحیح نقشہ نہیں کہلاسکتا ۔بلکہ اس قسم کی صفات کو خداتعالیٰ کی طرف منسوب کرنا دنیوی خیالات اوررجحانات کابھی نتیجہ کہلاسکتاہے۔مثلاً جب دیکھا کہ لو گ رحم کرنا پسند کرتے ہیں توکہدیا کہ خداتعالیٰ بھی بڑارحم کرنے والا ہے یاجب دیکھا کہ لوگ حسنِ سلوک کو بڑااچھا وصف سمجھتے ہیں توخداتعالیٰ کے متعلق بھی کہدیا کہ وہ بڑاکرپالو ہے ۔پس محض چند صفات کے ذکر سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ پہلے مذاہب نے اس مسئلہ پر کوئی تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔پھر اگر بعض صفات کا ان کتب میں ذکر موجو د بھی ہے تو ان صفات کی تشریح ان میں موجود نہیں اور نہ ہی صفات الٰہیہ کا باہمی تعلق واضح کیا گیا ہے ۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے رئویا میں دیکھا کہ ایک جرمن نو مسلم نے مجھ سے کوئی سوال کیا ہے جس کے جوا ب میں نے اللہ تعالیٰ کی بعض صفات پیش کی ہیں جن میں سے ایک ربّ بھی ہے ۔اس پر اُس جرمن نو مسلم نے کہا کہ ان صفات کا ذکر تو بائیبل میں بھی آتا ہے ۔اس فقرہ کے دونوں معنے ہوسکتے ہیں ۔یہ بھی کہ چونکہ بائیبل میں بھی بعض صفات کا ذکر ہے اس لئے یہ دلائل عیسائیوں پر بھی اثر کرسکتے ہیں اور یہ معنے بھی ہوسکتے تھے کہ گویا قرآن کریم بائیبل کی نقل کرتا ہے ۔میں نے ان دونوں معنوں کا خیال کر کے دل میں سوچا کہ یہ نو مسلم ہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے دل میں یہ خیال آیا ہو کہ قرآن کریم کی بہت سی تعلیم با ئیبل سے ملتی جلتی ہے پھر اس کی فضیلت کیا ہوئی ؟اس خیال کے پیدا ہونے پر میںنے بڑے جوش سے ان کے سامنے تقریر شروع کی کہ بائیبل میں جو یہ صفات آئی ہیں ان سے قرآنی صفات کو امتیا ز حاصل ہے ۔بائیبل میں محض رسمی ناموں کے طور پر وہ صفات بیان کی گئی ہیں اور قرآن کریم نے ان صفات کی باریکیوں کو بیان کیا ہے اور ان مضامین میں وسعت پید اکی ہے اور ان کے راز بیان کئے ہیں ۔چنانچہ میں نے کہا ۔دیکھو ربّ کا لفظ ہے بائیبل نے بھی خدا تعالیٰ کو پیدا کرنے والا یا پالنے والا کہا ہے یا زمین و آسمان کا خالق کہا ہے ۔لیکن قرآن کریم یہ نہیں کہتا بلکہ قرآن کریم سورئہ فاتحہ میں خداتعالیٰ کو ربُّ الْعَالَمِیْنَ کے طور پر پیش کرتاہے اور لفظ ربّ او لفظ عالمین دونوں اپنے اندر امتیازی شان رکھتے ہیں ۔ربّ صرف اسی مضمون پر دلالت نہیں کرتا کہ وہ پیدا کرنے والا ہے اور پالنے والا ہے بلکہ اس امر پر بھی دلالت کرتا ہے کہ وہ نہایت ہی مناسب طور پر انسان کی باریک اور باریک قوتوں اور طاقتوںکو درجہ بدرجہ اور مناسبِ حال ترقی دیتا چلا جاتا ہے ۔اور عالمین کا لفظ محض زمین اور آسمان پر دلالت نہیں کرتا بلکہ زمین و آسمان کے علاوہ مختلف اصناف کی مختلف کیفیتوں پر بھی دلالت کرتا ہے اور یہ مضمون پہلی کتب میں بالکل بیان نہیں ہوا ۔مثلاً عالمین میں جہاں یہ مراد ہے کہ اس جہان کا بھی ربّ اگلے جہان کا بھی ربّ ہے ۔آسمانو ں کا بھی ربّ ہے اور زمینوں کا بھی ربّ ہے ۔وہاں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ عالمِ اجساؔم اور عالمِ ارواح ؔاور عالمِ نساؔء اور عالمِ رجاؔل اور پھر عالمِ ؔفکر اور عالمِ شعورؔ اور عالمِ تصور ؔاور عالمِ تقدیر ؔاور عالمِ عقل ان سب کا بھی وہ ربّ ہے یعنی وہ صرف روٹی ہی نہیں مہیا کرتا ۔وہ صرف انہی چیزوں کو مہیا نہیں کرتا جو جسموں کو پالنے والی ہیں بلکہ وہ ارواح کے بھی پالنے کا سامان کرتاہے اورپھر مختلف تقاضے جو انسان کی فطرت میں پائے جاتے ہیں ان میں سے ہرا یک کی نشوونما کے لئے اس نے قرآن کریم میں تعلیم دی ہے ۔چنانچہ اس قسم کے مضمون پر میں تفصیلی لیکچر ان کے سامنے دے رہا ہوں اور خود مجھے بھی نہایت لذت اور سرور حاصل ہورہا ہے اور میں محسو س کرتا ہوں کہ ایک نیا مضمون اور ایک نئی کیفیت میرے اندر پید اہو رہی ہے ۔یہی لیکچر دیتے دیتے میری آنکھ کھل گئی ۔
غرض اول تو ان کتب میں صفات الٰہیہ پر نہایت اجمالی رنگ میں روشنی ڈالی گئی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی حقیقی شان جلوہ گر نہیں ہوتی ۔ اور پھر جن صفات کا ذکر کیاگیا ہے ان کی بھی تشریح نہیں کی گئی اور نہ ہی صفات الٰہیہ کے باہمی ربط اور تعلق کو واضح کیا گیا ہے لیکن اسلام نے اس بارہ میں ایک جامع تعلیم بنی نوع انسان کے سامنے پیش کی ہے اوربتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے اندر دو قسم کی جلوہ گری رکھتی ہیں ۔اس کا ایک جلوہ تو صفات ؔتنزیہی کے رنگ میں ظاہر ہوتا ہے جو اس کو ان تمام قسم کی کثافتوں سے جو مادیّات میں پائی جاتی اور مخلوقات میں دکھائی دیتی ہیں منزّہ اور پا ک ٹھہراتا ہے ۔اور ایک جلوہ صفاتِ تشبیہی کے رنگ میں ظاہر ہوتا ہے یعنی ایسی صفات کی شکل میں جو مخلوق کی صفات کے مشابہ نظر آتی ہیں چنانچہ وہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو تمام کائنات کا نقطئہ مرکزی ہے وہ اَحَدٌ یعنی اپنی ذات میںاکیلا اور منفرد ہے ۔وہ الصَّمَدُ یعنی ایسی ہستی ہے جس کے سب محتاج ہیں مگر وہ کسی کا محتاج نہیں۔وہ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ ہے ۔یعنی نہ تو اس سے آگے پیداہوتی ہے اورنہ وہ خود کسی کااولاد میں سے ہے ۔و ہ لم یکن لہ کفواً احد ہے ۔ یعنی نہ توکوئی متوازی طاقت ا سکے ساتھ موجود ہے اورنہ اس کے بالمقابل کوئی اورطاقت موجود ہے ۔اول و آخر ہے ۔یعنی تمام اشیاء کی علّت العلل ہے ۔اورسب کی سب مخلوق اسی کی طرف لوٹتی ہے ۔وہ قدیر ہے یعنی ہراس بات پر قادر ہے جس کاوہ ارادہ کرتا ہے۔وہ اَلْحَیُّ ہے یعنی ہمیشہ زندہ رہنے والااوعردوسروں کوزندہ رکھنے والا ہے۔وہ اَلْقَیُّوْمُ ہے یعنی اپنی ذا ت میں قائم اورسب کوقائم رکھنے والا ہے ۔و ہ رَبُّ الْعَالَمِیْن ہے یعنی سب جہانوںکوپیداکرنے والا اوران کو پالنے والاہے۔وہ اَلرَّحْمٰنُ ہے یعنی بنی نوع انسان کو جس قدر ضروریات پیش آنے والی تھیں ان تمام ضرورتوںکو اس نے انسان کی پیدائش سے پہلے ہی محض اپنے فضل سے اورانعام کے طور پرمہیاکردیاہے ۔وہ اَلرَّحِیْمُ ہے یعنی تمام محنتوں اورکوششوں کے اعلیٰ نتائج پیداکرنے والا ہے ۔ وہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہے ۔یعنی ان نتائج کے علاوہ جو اس کی طرف سے طبعی قانون کے ماتحت نکلتے رہتے ہیں اُس نے ہر کام کی ایک انتہامقرر کی ہے ۔جہاں پہنچ کر اس کاآخری فیصلہ صادر ہوجاتاہے اورنیک انسان اپنے کاموںکا اچھا بدلہ اوربُراانسان اپنی برائیو ں کی سزاپالیتاہے ۔مگر یہ بدلے اورجزائیں اللہ تعالیٰ کی مالکیّت کے ماتحت ہوتی ہیں ۔یعنی وہ صرف سزا ہی نہیں دیتا بلکہ اگر چاہتا ہے تواپنے بندوں کو معاف بھی کردیتا ہے ۔وہ عَلِیْمٌ ہے۔یعنی ایک ایک ذرّہ کا اس کو علم ہے ۔بلکہ انسانی فطرت کے مخفی اسرار تک سے آگاہ ہے۔وہ سَمِیْعٌ ہے ۔یعنی لوگوں کی دعائوں اوران کی التجائوں کو سننے والا ہے ۔وہ قھّار ہے یعنی ہرایک چیز اس کے قبضئہ قدرت میں ہے ۔وہ جبّار ہے یعنی ہرفساد کی اصلاح کرتا ہے ۔وہ وھاب ہے یعنی ابندوں کو اپنے انعامات سے وافرحصہ دیتا ہے ۔وہ غَفُوْر ہے یعنی لوگوں کی خطائوں سے چشم پوشی کرتاہے ۔وہ مُھَیْمِن ہے یعنی ہرایک چیز کامحافظ اورنگران ہے ۔ وہ اَلسَّلام ہے یعنی لوگوںو کوسلامتی دینے والا ہے۔وہ اَلقَابِض ہے یعنی ہرایک چیز کو حد کے اندر رکھنے والا ہے۔وہ اَلبَاسِط ہے یعنی کشائش اورفراخی پیداکرنے والاہے ۔و ہ اَلرَّافِع ہے یعنی پستی سے بلندی تک پہنچانے والا ہے ۔ وہ اَلْحَفِیْظ ہے یعنی مخلوق کی حفاظت کرنے والاہے ۔وہ اَلمُتَکَلِّم ہے یعنی لوگوں سے کلام کرنے والا اوران پر اپنے الہامات نازل کرنے والاہے ۔
غرض اسلام ایک کامل الصفات خدادنیا کے سامنے پیش کرتاہے۔وہ عیسائیت کی طرح صرف یہ کہہ کر خاموش نہیں ہوجاتا کہ خدامحبت ہے ۔نہ تورات کی طرح صرف چندصفات بیان کرنے پر اکتفاکرتا ہے بلکہ اس نے ان تما م صفات کا تفصیلاً ذکر کیاہے جن کاانسانی پیدائش کے ساتھ تعلق ہے ۔گویاسب آسمانی ڈیپارٹمنٹس کو اس نے ننگا کرکے دکھادیاہے جو اُس کے مِنَ السَّمَاء ہونے کاثبوت ہے ۔
پھر اسلام نے صرف صفات الٰہیہ کا ایک جامع نقشہ پیش کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ا س نے بنی نوع انسان کو یہ بھی بتایا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرناچاہتے ہو تواس کا طریق یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے یعنی اس کی صفات کی نقل کرنے کی کوشش کرو ۔وہ فرماتا ہے ۔ولقد خلقنٰکم ثم صَوَّرنٰکم ثم قلنا للملٰٓئِکۃِ اسجد والِاٰدم فسجدوااِلَّآ اِبلیس(اعراف ع ۲)یعنی ہم نے تمہیں پیداکیا پھر تمہیں صورت بخشی اورپھر ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کی اطاعت کرو۔اِ س پر فرشتوں نے تو آدم کی اطاعت کی مگر ابلیس نے نہ کی ۔اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کی دوپیدائشیں ہیں۔ایک بشری اورایک روحانی ۔بشری پیدائش کے متعلق تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ولقد خلقنٰکم ہم نے تم کو پیداکیا۔یعنی تمہیں ایک ذی حیات وجود بنایا ۔ثُمَّ صَوَّرنٰکم پھر ہم نے تمہاری ایک روحانی شکل بنائی جس کے ذریعہ سے تم دوسری مخلوق سے ممتاز طور پر پہچانے جاتے ہو ۔اسی کی طرف بائیبل میں بھی ان الفاظ میں اشارہ کیاگیاہے کہ
’’ خدانے انسان کو اپنی صورت پر پیداکیا ۔‘‘(پیداائش باب ۱آیت ۲۷)
لیکن بائیبل نے جوالفاظ استعمال کیئے ہیں ان سے خداتعالیٰ کے جسمانی ہونے کادھوکا لگتاہے ۔لیکن قرآن کریم نے جوالفاظ استعمال کئے ہیں ان سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاں صورت سے روحانی شکل مراد ہے جسمانی نہیں ۔کیونکہ جسمانی پیدائش کا اس سے پہلے ذکر کیاجاچکا ہے ۔پس صَوَّرنٰکم کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے تمہارے اندر صفات الٰہیہ کاحامل بننے کی قابلیت پیداکی یعنی پہلے توہم نے انسان کی جسمانی خلق کی ۔اس کے ناک ،کان ،ہاتھ اورپائوں وغیرہ بنائے اورپھر ہم نے اس کے دماغ کی ایسی تربیت کی کہ وہ صفات الٰہیہ کو اپنے اندر جذب کرنے کے قابل ہوگیا اوراس کے اندر ان کے اظہار کی اہلیّت پیداہوگئی ۔اس کے ابعد ہم نے ملائکہ سے کہا کہ اب تم اس انسان کو سجدہ کرو۔چونکہ قرآن کریم میں اس بات پر بڑازور دیاگیا ہے کہ سجدہ خداتعالیٰ کے سواکسی اَورکے لئے جائز نہیں اس لئے اس سجدہ سے مجازی سجدہ ہی مراد ہے ۔اوراس کے معنی اطاعت اورفرمانبردار ی کے ہیں۔مگر مجازی سجدہ بھی تو مجازی خداکے سامنے ہی ہوسکتا ہے۔اسی لئے فرمایاکہ ثم صوَّرنٰکم ثم قلنا للملئِکۃِ اسجدوالِاٰدم کہ پہلے توہم نے تمہار ے اندر خدائی صفات پیداکیں اورجب تم خدائی صفات کو جذب کرنے اوران کا اظہا کرنے کے قابل ہوگئے توپھر ہم نے ملائکہ سے کہا کہ سجدئہ حقیقی توبہرحال میرے سواکسی اَورکے سامنے ناجائز ہے لیکن ہم تم کو ایک مجازی سجدہ کاحکم دینے لگے ہیںاوراس مجازی سجدہ کے لئے ایک مجازی خداکی ضرورت تھی ۔سووہ مجازی خدا وہ انسان ہے جس کے اند رالٰہی صفات پائی جائیں ۔
لیکن اگر اُسْجُدُوْا سے ہرانسان کے آگے سجدہ کرنا مراد لیاجائے تواس کے معنے یہ بنیں گے کہ وہ چوری کرے توتم بھی چوری میں اس کی مدد کرو۔و ہ ڈاکہ مارے توتم بھی ڈاکہ مارو۔وہ قتل کرے توتم بھی قتل کرو ۔حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔سجدہ بہرحال اسی آد م کے سامنے ہوسکتاہے جوکبھی چوری نہیں کرسکتا ۔کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا ۔کبھی فریب نہیں کرسکتا ۔کبھی شرک نہیں کرسکتا ۔کبھی بددیانتی نہیں کرسکتا ۔کبھی ظلم نہیں کرسکتا ۔اورکبھی کسی خرابی میں مبتلانہیں ہوسکتا اورچونکہ وہ خود ان صفات کاحامل ہوگا جوملائکہ کی صفات سے بڑی ہیں اس لئے اگر ایسے آدم کی اطاعت کی جائے تویہ بالکل درست ہوگا ۔جوشخص خدائی صفات کامظہر ہوگا ملائکہ کی کیاطاقت ہے کہ وہ اس کے خلاف چلیں ۔اس کے متعلق تو ان کا فرض ہوگا کہ وہ اس کے ساتھ چلیں۔پس ہرشخص کے اند ر خداتعالیٰ نے کہ طاقت پیداکی ہے کہ وہ صفاتِ الٰہیہ کا مظہر بن سکے ۔اوراگر وہ اپنے اندر صفات ِ الٰہیہ پیداکرلے توپھر ملائکہ کو حکم دیاجاتاہے کہ وہ اس کی مدد کریں ۔اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اشارہ فرمایاہے کہ جب خداتعالیٰ چاہتاہے کہ اس کے کسی بندے کی مقبولیت دنیا میں پھیلے تووہ ملائکہ کو حکم دیتا ہے اوروہ اس کی مقبولیت دنیا میں پھیلانا شروع کردیتے ہیں ۔(کنز العمال جلد ۶صفحہ ۲۴) پس ہرانسان کے اندر یہ قابلیت ہے کہ وہ صفات الٰہیہ کو اپنے اندر پیداکرلے۔اورجب وہ صفات الٰہیہ اپنے اند ر پیداکرلیتاہے توفرشتوںکو خداتعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیاجاتاہے کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلیں کیونکہ وہ ایک خدانما وجود بن جاتا ہے اوراس کاخداتعالیٰ کے ساتھ اتصال ہوجاتا ہے ۔دنیامیں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہرچیز دوسری چیز کے مشابہ بن کر ہی اُس سے پیوست ہوسکتی ہے ورنہ نہیں۔مثلاً لکڑی کے ساتھ ہم لوہے اورچمڑے کوتو پیوست کرسکتے ہیں کیونکہ ان دونوں میں ٹھو س ہونے کی مشابہت پائی جاتی ہے مگر لکڑی کے ساتھ ہم ہوایا پانی کو پیوست نہیں کرسکتے کیونکہ ان میں مشابہت نہیں پائی جاتی ۔اسی طرح جوچیزیں روحانی ہوتی ہیں ان میں بھی مشارکت کاپایاجاناضروری ہوتاہے ۔پس خداسے ملنے کیح لئے ضروری ہے کہ بندے اورخدامیں روحانی مشارکت ہو اوروہ مشارکت یہی ہے کہ انسان اپنے اندر الٰہی صفات پیداکرے۔جب کوئی شخص اپنے اندر الٰہی صفات پیداکرلیتاہے تو و ہ اپنے اند رالوہیت کارنگ پیداکرلیتاہے اورجب اس کے اندر الوہیت کارنگ آجائے تواس کاخداتعالیٰ سے اتصال اسی طرح ممکن ہوجاتاہے جیسے لکڑی کالوہے سے ۔اورگووہ خدانہیں بن جاتامگرخدانماضرور ہوجاتاہے۔جیسے لکڑی لوہانہیں بن سکتی یالوہالکڑی نہیں بن سکتامگر وہ آپس میں جڑنے کے قابل ہوجاتے ہیں ۔پس خداتعالیٰ سے اتصال اوراس کے قرب کے لئے ضروری ہوتاہے کہ انسان اپنے اندر صفات الٰہیہ پیداکر ے اوراس کی محبت کو اپنے اندر جذب کرے۔پھر جس طرح مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے اسی طرح محبت الٰہی اسے خداتعالیٰ کی طرف کھینچنے لگ جاتی ہے ۔
یہ تعلیم جو اسلام نے دنیاک ے سامنے پیش کی ہے اتنی اہم ہے کہ اگر اس کے مطابق ہرانسان اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی صفات کا مظہر بنانے کی کوشش کرے تویقیناً اس دنیا کانقشہ پلٹ جائے اورہرانسان نیکی کے ایسے بلند مقام پر کھڑاہوجائے کہ جس سے اسکاقد م کبھی منحرف نہ کیاجاسکے ۔یہی حقیقت ایک دفعہ مجھے رؤیا میں بھی بتائی گئی تھی۔مَیں نے ایک دفعہ دیکھا کہ مَیں تقریر کررہاہوں اورمیرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے ۔میں تقریر کرتے ہوئے لوگوں سے کہتاہوں کہ دیکھو انسان کادل خداتعالیٰ نے ایک آئینہ کی مانند بنایاہے ۔جس طرح انسان آئینہ میں اپنا حسن دیکھتا ہے اسی طرح خداتعالیٰ بھی اپنا حسن انسان کے آئینہء قلب میں دیکھناچاہتاہے ۔ پس اگر انسان کا دل خداتعالیٰ کی صفات کو اعلیٰ طور پر ظاہر کرنے والاہو توخداتعالیٰ بھی اس د ل کی قدر کرتا اور اُسے ایک قیمتی متاع قرار دیتاہے ۔لیکن اگر انسان کا دل میلا اورداغدار ہو ۔اوراس میں سے خداتعالیٰ کا چہر ہ نظر نہ آئے یانظرتو آتا ہو لیکن غلط طور پر آتا ہو توخداتعالیٰ بھی ایسے دل کو پرے پھینک دیتا ہے ۔اورجب مَیں نے یہ الفاظ کہے تووہ آئینہ جو میرے ہاتھ میں تھا اُسے مَیں نے زورسے زمین پر دے مارااورکہا کہ ایسے دل کو خداتعالیٰ بھی اُٹھا کر اسی طرح دے مارتاہے اوروہ چُور چُور ہوجاتاہے۔
اِس رؤیا میںیہی نکتہ بتایاگیاہے کہ انسان کو خداتعالیٰ نے اس لئے پیداکیا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کانور ظاہر کرے ۔اور اس کے ذریعہ خداتعالیٰ کی صفات کاظہور ہو۔پس ضروری ہے کہ ہر انسان اپنے دائرہ میں ربّ بھی ہو رحمن بھی ہو رحیم بھی ہو ۔مالک یوم الدین بھی ہو ۔جبار بھی ہو ۔ستّار بھی ہو ۔غفّار بھی ہو ۔علیم ھبی ہو ۔شکور بھی ہو ۔حمید بھی ہو۔مجید بھی ہو ۔ودودبھی ہو۔غرض خداتعالیٰ کی ساری صفات کو وہ ظارہ کرنے والاہو جن کے متعلق مشہوترتویہ ہے کہ وہ ننانوے ہیں مگر ہیں وہ اِس سے بھی زیادہ ۔اگر وہ ایساکرتا ہے تووہ اپنے مقصد حیات کو پوراکرلیتاہے اوراگر اس کے آئینہء قلب میں خدائی صفات کا انعکاس نہیں ہوتا تووہ ایک ٹوٹاہوابرتن ہے جوکسی کام نہیں آتا یاایک میلا اورداغدار شیشہ ہے جس سے خداتعالیٰ کا چہر ہ نظر نہیں آسکتا۔اورجس طرح کو ئی انسان میلا اورداغدار شیشہ اپنے پاس نہیں رکھتا اسی طرح خداتعالیٰ بھی ایساآئینہ اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتا جس کی غرض تویہ تھی کہ وہ خدانمائی کاآلہ بنے مگر میلاہونے کی وجہ سے وہ خدائی حسن کو ظاہر نہیں کرسکتا ۔
غرض اسلام صفات الٰہیہ پر خصوصیت سے زوردیتااوربنی نوع اسنان کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ تمہار اتمام حسن اس امر پر منحصر ہے کہ تم صفات الٰہیہ کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگین کرنے کی کوشش کرو۔اوراس امر کو اچھی طرح یاد رکھو کہ جتنا جتنا کوئی شخص خداتعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیداکرتاچلاجائے گا اُتنا ہی وہ اعلیٰ اخلاق کاحامل ہوگا اوراُسی نسبت سے اُسے اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوگا ۔گویااسلام نیکی اوربدی کی تعریف ایک جدید زاویہء نگاہ سے پیش کرتا ہے اوراعلیٰ اخلاق کی بنیاد صفات الٰہیہ کے انعکاس پر رکھتا ہے ۔یہ نظریہ جو اسلام نے پیش کیاہے اتنا اہم ہے کہ اگرغور سے کام لیاجائے تواس نے مذہبی دنیا میں ایک انقلاب پیداکردیاہے اوراس نے نیکی اوربدی کی تعریف ہی بدل دی ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو گہرے غور و فکر کے عاد ی نہیں صرف اتنا ہی دیکھا کرتے ہیں کہ چونکہ فلاں کام کرنے کوہماراجی چاہتا ہے اس لئے ہم وہ کام کریں گے یافلاں کام کرنے کو چونکہ ہما راجی نہیں چاہتا اس لئے ہم و ہ کام نہیں کریں گے ۔ایسے لوگوںکے نزدیک اچھے کام کی تعریف صرف یہی ہوتی ہے کہ جس کے کرنے پر ان کا جی چاہے اوربُرے کام کی تعریف یہ ہوتی ہے کہ جس کے کرنے کو ان کاجی نہ چاہے ۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تعریف بالکل غلط ہے کیونکہ ہزاروں انسان ایسے ہوتے ہیں جن کا جی کسی کام کے کرنے کو آج توچاہتا ہے مگر کل نہیں چاہتا ۔یاآج توایک شخص چاہنے والی بات کو نہیں چاہتا مگر کل وہ اُسے چاہنے لگتاہے ۔اوراگر اس سے کو ئی شخص سوال کرے کہ تمہارااُس وقت چاہنے اوراب نہ چاہنے یااُس وقت نہ چاہنے اوراب چاہنے کی کیاوجہ ہے تو وہ کہدیتاہے کہ اُس وقت میرے حالات اَورتھے اوراب اَورہیں۔یابسااوقات و ہ کہدیتاہے کہ جب میں نہیں چاہتا تھا تواُس وقت میں غلطی کررہاتھا اوراب جبکہ چاہنے لگاہوں تودرست کررہاہوں ۔ مگر اس کی یکہ بات بھی قطعی نہیں کہلاسکتی ۔کیونکہ عین ممکن ہے کہ کل وہ پھر اپنی چاہی ہوئی چیز سے نفرت کرنے لگ جائے پھر اگر کسی شخص کاکسی کام کو چاہنا ہی نیکی ہوسکتی ہے توفرض کرو زید چاہتا ہے کہ بکر کے باپ کو قتل کردے اوروہ اُسے قتل کردیتاہے توکیابکر اس لئے خاموش رہے گا کہ وہ اِس کام کو چاہتا تھا ؟ یاکسی شخص کاملازم کام میں سستی کرتاہے توکیا اس کاآقا ملاز م کے یہ کہنے پر کہ اس کام کا تعلق میری مرضی کے ساتھ ہے خاموش ہوجائے گا ؟اگر کسی شخص کاکسی کام کوچاہنا ہی نیکی ہوسکتاہے توبکر کااپنے باپ کے قاتل کے خلاف مقدمہ دائر کرنا بے انصافی ہوگا ۔اِ سیطرح آقاکااپنے ملازم کو اس کی سستی پرسزادینا ظلم ہوگا۔کیونکہ زید چاہتا تھا کہ بکر کے باپ کو قتل کردے اورملازم چاہتاتھا کہ وہ کام میں سستی کرے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہی شخص جوخود نیکی اوربدی کے متعلق ایک فارمولاتجویز کرتا ہے اورکہتا ہے کہ جس چیز کو انسان کا دل چاہے وہ نیکی ہے ۔اورجس کو نہ چاہے وہ بدی ۔اُسی شخص کے باپ کو جب کو ئی شخص قتل کردیتا ہے تووہ سخت غصہ میں آجاتاہے اورکہتاہے کہ میں اس سے بدلہ لے کررہوں گا ۔حالانکہ چاہیئے تھا کہ جب اس کے باپ کاقاتل اُسی کے مجوزہ فارمولاپرعمل کررہاتھا تووہ خوش ہوتا کہ اُس نے نیکی کی ہے ۔اِسی طرح ملازم کے سستی کرنے پر اوریہ کہہ دینے پر کہ میراجی چاہتا تھا کہ مَیں سستی کروں وہ خاموش ہوجاتا بلکہ خوش ہوتا کہ وہ نیکی کے راستہ پر گامز ن ہے ۔مگر ایساکبھی نہیں ہوتا۔پس نیکی اوربدی کی یہ تعریف درست نہیں ۔
پھر بعض لوگوں نے اس تعریف سے ذرااَورترقی کی ہے اورکہا ہے کہ جس کام کو سوسائٹی چاہتی ہے و ہ نیکی ہے اورجس کام کو سوسائٹی نہیں چاہتی و ہ بد ہے ۔مگر اس تعریف پر بھی یہ سوال پیداہوتا ہے کہ ہندوسوسائٹی چاہتی ہے کہ گائے نہ کھائی جائے ۔اورمسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ گائے کھائی جائے ۔یاسکھ سوسائٹی چاہتی ہے کہ جھٹکاکھایاجائے اورمسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ جھٹکانہ کھایاجائے ۔اِسی طرح یورپین سوسائٹی چاہتی ہے کہ شراب پی جائے ۔لیکن مسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ شراب نہ پی جائے ۔ اب جبکہ ہندوسوسائٹی یہ چاہتی ہے کہ گائے نہ کھائی جائے کیونکہ ایساکرنا سخت گناہ ہے اورمسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ گائے کھائی جائے کیونکہ اُس کاکھانا ہمارے مذہب میں جائز ہے ۔سِکھ سوسائٹی چاہتی ہے کہ جھٹکاکھایاجائے لیکن مسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ جھٹکانہ کھایاجائے کیونکہ جھٹکاکھاناحرام ہے ۔یورپین سوسائٹی چاہتی ہے کہ شراب پی جائے ۔لیکن مسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ شراب بالکل نہ پی جائے کیونکہ اس کاپینا حرام ہے ۔توہم کونسی سوسائٹی کی خواہش کے مطابق فیصلہ کریں گے آیا ہم مسلمان سوسائٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریں گے یاسِکھ سوسائٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریں گے یا ہندوسوسائٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریں گے یایورپین سوسائٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریں گے ۔اگر ہم ہندوسوسائٹی کے چاہنے کے امطابق فیصلہ کرتے ہیں کہ گائے کاکھانا سخت جرم ہے تومسلمان کہے گا گائے کھانا جائز ہے ۔اگر ہم سکھ سوسائٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریںکہ جھٹکاکھاناچاہیئے توایک مسلمان کہے گا جھٹکا کھانا حرام ہے ۔اگر ہم یورپین سوسائیٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریں گے کہ شراب پینی چاہیئے تومسلمان کہے گا شراب پینا حرام ہے ۔غرض ہمیں کوئی سوسائٹی بھی ایسی نظر نہیں آتی جس کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کردیاجائے تواس پر باقی تمام سوسائٹیاں متفق ہوجائیں ۔ہزاروں ہزار نیکی اورعیب کی باتیں ایسی ہیں جن میں لوگوں کے اندر شدید اختلاف پایا جاتا ہے ۔ایک سوسائٹی ایک کام کو بہت بڑی نیکی قرار دیتی ہے تودوسری سوسائٹی اس کو بہت بڑاجرم قرار دیتی ہے یاایک سوسائٹی ایک کام کو سخت گناہ سمجھتی ہے تودوسری سوسائٹی اسی کام کو عین ثواب سمجھتی ہے ۔یورپین لوگ شراب کو بہت اچھا سمجھتے ہیں لیکن مسلمان شراب پینا سخت گناہ سمجھتے ہیں ۔آیا ہم شراب پینے کو یورپ کے معیار کے مطابق نیکی قرار دیں یااسلام کے معیار کے مطابق بدی قراردیں ۔ایک یورپین کسی مسلمان کو شراب کاگلاس پیش کرتا ہے اورمسلمان اس کے پینے سے انکار کرتا ہے توکیا ہم یورپ کے معیار کے مطابق مسلمان کے شراب پینے سے انکارکو بدتہذیبی قراردیں گے یااسلام کے معیار کے مطابق نیکی قرار دیں گے ۔آخر کیا وجہ ہے کہ ہم مسلمان سوسائٹی کی بات مانیں اورعیسائی سوسائٹی کی بات کو ردّ کردیں ۔یاعیسائی سوسائٹی کی بات مانیں اورمسلمان سوسائٹی کی بات ردّکردیں ۔
پھر بعض لوگوں نے اورایک قدم اٹھایاہے۔وہ کہتے ہیں نیکی وہ ہے جسے دنیا کے اکثر لوگ اچھا کہیں اوربدی وہ ہے جسے دنیا کے اکثر لوگ براکہیں۔مگریہ تعریف بھی کوئی معین تعریف نہیں کہلاسکتی ۔کیونکہ دنیا کی اکثریت کو اسی صورت میں نیکی اوربدی کی شناخت کاصحیح معیار قرا دیا جاسکتا ہے جب خود اکثریت ہمیشہ ایک بات پر قائم رہے ۔لیکن ہمیں توہرزمانہ اورہرملک بلکہ قوم کی اکثریت کے خیالات ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ایسی صورت میں دنیا کی اکثریت کو نیکی اوربدی کی شناخت کامعیار کس طرح قرار دیاجاسکتا ہے ۔پھر اگر اس تعریف کو درست سمجھاجائے تواس کے معنے یہ ہوں گے کہ اگر اکثریت کہتی ہوکہ خداکوئی نہیں تو اُس وقت خداتعالیٰ کاانکار کرنا نیکی ہوگا ۔اوراگر اکثریت کہتی ہوکہ خداہے توخداکوماننا نیکی ہوگا ۔لیکن دوسرے وقت وہی اکثریت ہستئی باری تعالیٰ کی قائل ہوجائے وتوپھر خداتعالیٰ پر ایمان لانا نیکی قرار پائے گا اوراس کاانکار کرنا بدی قرار پائے گا ۔گویا اکثریت کے عقائد بدلنے کے ساتھ نیکی اوربدی کی تعیین بھی مختلف ہوتی چلی جائے گی پس نیکی اوربدی کی یہ تعریف بھی کو ئی معین تعریف نہیں کہلاسکتی ۔
پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ نیکی و ہ عمل ہے جس سے سب سے زیادہ خوشی حاصل ہو۔اوربدی وہ عمل ہے جو اُنہی حالات میں اُتنی خوشی پیدانہ کرے ۔مگریہ تعریف بھی صحیح نہیں کیونکہ اِس کے معنے یہ ہیں کہ اگرایک شخص کو ڈاکہ مارکر سب سے زیادہ خوشی حاصل ہوتی ہو۔تواس کے لئے ڈاکہ مارناہی سب سے بڑی نیکی ہوگا حالانکہ اِسے کوئی بھی درست تسلیم نہیں کرتا ۔
پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ نیکی وہ ہوتی ہے جس کادنیاکے سب سے زیادہ لوگوںکو فائدہ پہنچے۔لیکن اس تعریف کو صحیح سمجھاجائے توماننا پڑے گا کہ اگر فرانس بلجیم پر حملہ کرکے اُسے لوٹ لے توجائز ہوگا کیونکہ فرانس کے باشندے بلجیم کے باشندوں سے بہت زیاد ہ ہیں بیشک بلجیم کے تھوڑے سے لوگوںکو نقصان پہنچے گا لیکن چونکہ فرانس کے بہت زیادہ لوگوںو کوفائدہ پہنچتاہے اس لئے ان کا بلجیم پر حملہ کرکے وہاں کے مال و متاع کو لوٹ کر لے جانا نیکی ہو گا ۔اسی طرح جو قوم بھی اکثریت میں ہو ۔اس تعریف کے ماتحت اس کے لئے جائز ہوگا کہ و ہ اقلیت کو لوٹ لے اورکہے کہ یہ نیکی ہے ۔اورجب کوئی سوال کرے کہ یہ نیکی کس طرح ہوئی تو وہ کہدے کہ دیکھ لوکتابوں میں اسی طرح لکھا ہے کہ نیکی وہی ہے جس کادنیا کے زیادہ لوگوںکو فائدہ پہنچے ۔اس کے مقابلہ میںاگر اقلیت رکھنے والی قومیں اکثریت پر حملہ کریں اوران کے مال و اسباب لوٹناچاہیں توان کا یہ فعل بدی کہلائے گا ۔کیونکہ اس طرح تھوڑوں کو فائدہ پہنچتا ہے اوربہتوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
پھر بعضوں نے کہا ہے کہ جس چیز کازیادہ سے زیادہ اورلمبے عرصہ تک فائد ہ پہنچے وہ نیکی ہے ۔مگراس تعریف کے ماننے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ اگر کوئی قوم سوسال تک لوٹ مار کرتی ہے تووہ کم نیکی کرتی ہے اوراگر وہ دوسوسال تک لوٹ مارکرتی تو یہ زیادہ نیکی ہوتی۔
پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ نیکی وہ ہے جس سے اپنی ذات کو زیادہ نفع پہنچے اوربدی و ہ ہے جس سے اپنی ذات کو نقصان پہنچے ۔مگر اس پر بھی ایہ اعتراض پڑتا ہے کہ اگر جھوٹ بولنے سے کسی کی ذات کو زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہو تواس تعریف کے ماتحت جھوٹ بولنا بھی اُس کے لئے نیکی ہوگا ۔حالانکہ اسے کوئی بھی درست نہیں سمجھتا ۔
پھر بعض لوگوں نے کہا ہے کہ نیکی اوربدی کی فطرت پر بنیاد رکھنی چاہیئے ۔یعنی جس چیز کو فطرت نیک کہے وہ نیکی ہے اورجس چیز کو فطرت بد کہے وہ بدی ہے۔یہ تعریف ایک حد تک کو درست ہے ۔مگرکلّی طور پر نہیں ۔میں نے بار ہا ایک مثال بیان کی ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تے کہ ایک چور کو میں نے سمجھانا شروع کیا کہ چوری بہت بُرا فعل ہے ۔تمہیں محنت کرکے حلا ل کی کمائی کھانی چاہیئے ۔اُس نے کہا ۔مولوی صاحب ہم چوری کے لئے بڑی محنت کرتے ہیں اورہمیں فلاں فلاں دشواریوں اوردِقّتوں کاسامنا ہوتا ہے ۔اس لئے یہ فعل ہمارے لئے بالکل جائز ہے ۔آخر جب چور کو کہاگیا کہ اگر تم کچھ چُرایا ہواسونا سُنار کے پاس لے جائو اوراس کے پاس رکھ کر ۔دوچار دنوں کے بعد اس سے واپس مانگو اوروہ دینے سے انکار کرے تو پھر کیا ہو ؟ اس پر وہ چو ر کہنے لگا کہ کیاایسا بھی کوئی خبیث ہوسکتا ہے جودوسرے کامال کھاجائے ۔پس بے شک انسانی فطرت بعض باتوں کے متعلق بولتی توہے مگر محدود حد تک ۔کیونکہ انسانی فطرت بسااوقات بُرے ماحول کے نتیجے میں مسخ بھی ہوجاتی ہے ۔
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ پھر نیکی کس چیز کانام ہے اوربدی کس چیز کانام ہے ۔کیانیکی وہ ہوگی جس کومذہب نیکی قراردیتا ہے اوربدی وہ ہوگی جس کو مذہب بدی قرار دیتا ہے ۔لیکن اگر یہ درست ہوتوسوال پیداہوتا ہے کہ کونسے مذہب کی نیکی نیکی کہلائے گی اورکونسے مذہب کی بدی بدی کہلائے گی ۔اوریہ سوال ایساہے کہ اسکاحل کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ دنیا میں کئی مذاہب پائے جاتے ہیں۔اوران کی تجویز کردہ نیکیوں اوربدیوں میں آپس میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے ۔ایک مذہب ایک کام کو نیکی قرا دیتا ہے تودوسرامذہب اُسی کام کو بدی قرا ردیتا ہے ۔اسلئے اس تعریف سے بھی ہمیں نیکی اوربدی کاحقیقی علم حاصل نہیں ہوسکتا ۔پھر سوال یہ ہے کہ اگر کوئی چیز بغیر کسی حکمت کے صرف شریعت کے روکنے کی وجہ سے گناہ ہوتی ہے توشریعت کا یہ فعل لغو قرا رپاتا ہے۔اوراگر بُرائی کی وجہ سے بُری ہوتی ہے تو پھر یہ دلیل نہ ہوئی کہ جو بُری شے ہو اُس سے شریعت روکتی ہے اورپھر اس حکم یانہی کو اُس حکمت کی طرف منسوب کرنا پڑے گا۔صرف یہ کہدینا کافی نہیں ہوگا کہ جس سے شریعت روکے وہ برائی ہے ۔اورجس کاحکم دے وہ نیکی ہے ۔
اسلام ان تمام نظریات کے خلاف دنیا کو بتاتا ہے کہ خداتعالیٰ کی اصفات کی موافقت اختیار کرنانیکی ہے اوراس کی صفات کے خلاف کا م کرنا بُرائی ہے ۔چنانچہ وہ اس بارہ میں مومنوں کو ہدایت دیتے ہوئے فرماتاہے کہ صِبْغَۃَ اللہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَۃً(بقرہ ع ۱۶)یعنی اے مومنو !تم اللہ تعلایٰ کا رنگ اختیار کرو۔اوراللہ تعالیٰ سے بہتراَورکون ہے جس کارنگ اختیارکیا جاسکے یعنی طرح خداربُّ العالمین ہے ۔و ہ الرَّحمٰن اورالرَّحِیْم ہے ۔وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہے اسی طرح تم بھی کوشش کرو کہ تم اُس کی ربوبیتِ عالمین کے مظہر بن جائو ۔تم اس کی رحمانیت کے مظہر بن جائو ۔اُس کی رحیمیّت کے مظہر بن جائو ۔اس کی مَالِکِیَّتِ یَومِ الدِّیْن کے مظہر بن جائو ۔اسی طرح کوشش کروکہ تم بھی ایک سَتَّار بن جائو۔ایک قسم کے غَفَّار بن جائو۔ایک قسم کے قَھَّار بن جائو ۔ایک قسم کے حمید بن جائو ۔ایک قسم کے مجید بن جائو ۔ایک قسم کے شکور بن جائو۔ ایک قسم کے ودود بن جائو ۔تاکہ تمہیں اللہ تعالیٰ سے ایک قسم کی مشارکت حاصل ہوجائے اور تم صفات الٰہیہ کے مظہر بن کر اخلاق کااعلیٰ مقام حاصل کرلو ۔
پس اسلام کے نزدیک حقیقی خو بی وہ ہے جوحسنِ ازلی کے نقشہ میں ہو اورگناہ یاعیب ہر اس فعل کانام ہے جوصفات الٰہیہ کے منافی ہو ۔ اورچونکہ انسان کو خداتعالیٰ کی صفات کامظہر بننے کی طاقت دی گئی ہے ۔یادوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو ۔کہ خداتعالی ااصل ہے اورانسان اسکی تصویر ہے ۔اس لئے تصویر کا حسن اسی میں ہے کہ وہ اصل کے مطابق ہو ۔اورا سکا عیب یہ ہے کہ وہ اصل کے خلاف ہو پس انسان جو عمل بھی ایساکرتا ہے جواسے خداتعالیٰ کی صفات کے موافق بناتا ہے وہ نیکی ہے اورجو عمل اسے خداتعالی کی صفات سے دور لے جاتا ہے وہ بدی ہے ۔گویانیکی کی حقیقی تعریف اسلام نے یہ پیش کلی ہے نیکی اس عمل یاخیال کانام ہے ۔جوخداتعالی سے جو ایک کامل اوربے عیب ذات ہے مشابہت پیداکرتا ہو ۔اوربدی اُس فعل یاخیال کا نام ہے جو اس کامل اوربے عیب ذات کی پسندیدگی یافعل کے خلاف ہو ۔
بیشک ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ مَیں خداتعالیٰ کو ہی نہیں مانتا ۔اس صورت میں ہمارا فرض ہوگا کہ ہم اس کو خداتعالیٰ کی ہستی کے متعلق دلائل دیں ۔لیکن خداتعالیٰ کی ہستی ثابت کردینے کے بعد اخلاقِ صحیحہ کی پہچان کا صحیح معیار یہی ہوگا ۔کہ جو کام الٰہی صفات کے مطابق ہو و ہ اچھا ہے اورجو کام الٰہی صفات کے خلاف ہو و ہ بُرا ہے ۔کیونکہ وہی ایک ایسی ہستی ہے جو ہرعیب سے پاک ہے اورہرقسم کی اعلیٰ صفات رکھنے والی ہے ۔اس تعریف کی تعیین کے بعد ہمارے لئے اخلاق فاضلہ اوراخلاق سیّئہ کی پہچان کچھ بھی مشکل نہیں رہتی کیونکہ جب ایک ماڈل مل جائے تو خیالی تصویر کی ضرورت نہیں رہتی ۔ہم اس بات کو روز روشن کی طرح ثابت کرسکتے ہیں ۔کہ اپنے اندر ہرقسم کی اعلیٰ صفات رکھنے والی ایک ایسی ہستی موجود ہے جس کے نمونہ پر چل کر انسانی فعل درست ہوسکتے ہیں اوروہ ہستی اتنی حسین ہے کہ اس کی نقل کرکے انسانی افعال بھی حسین ہوسکتے ہیں ۔پس اگر خداتعالیٰ کی کو ئی ہستی ہے اورضروررہے اوروہ اپنے اندر تمام قسم کی صفات حسنہ رکھتی ہے ۔توجوبھی اس ہستی کے افعال کی نقل کرے گا اپنے اندر اخلاق فاضلہ پیداکر نے کے قابل ہوجائے گا ۔
پس اخلاق فاضلہ وہ ہیں جو خداتعالیٰ کی صفات اوراس کے افعال کی نقل کر کے حاصل کئے جائیں اوراخلاق سیّئہ وہ ہیں جو اسے خداتعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے سے دور لے جائیں ۔کیونکہ اس اصل منبع اور مبدء خدا ہے اور انسان درحقیقت اس کی ایک تصویر ہے پس جتنا زیادہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی صفات کی نقل کرے گا اتنا ہی زیادہ اس کے اندر اخلاقِ فاضلہ آتے چلے جائیں گے اور جتنا زیادہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی صفات سے دور رہے گا اُتنا ہی زیادہ اخلاقِ فاضلہ سے دور ہوتا چلا جائے گا یہی حقیقت ہے جس کی بنا ء پر اسلامؔ نے صفات الٰہیہ پر خاص طور پر زور دیا ہے اور باربار اُن کا ذکر فرمایا ہے تاکہ اگر ایک طرف یہ صفات اُس کے وجود کا ثبوت ہوںتو دوسری طرف انسان اُن کا مظہر بن کر ایک خدانما وجودبن جائے ۔جس کے اندر حُسن ہی حُسن ہو اور کوئی عیب اور نقض اس میں دیکھائی نہ دے ۔
سورۃ الشعراء کی ابتدا ء بھی اللہ تعالیٰ کی تین صفات کے ذکر سے کی گئی ہے جن میں پہلی صفت جس کی طرف اِس سورۃ میں توجہ دلائی گئی ہے صفتِ لطیف ؔ ہے ۔
لطیفؔ کے معنوں پر بحث کرتے ہوئے لُغت میں لکھا ہے کہ اس کے معنے ہیں اَلْبَرُّ بِعِبَادِہٖ وَالْمُحْسِنُ اَلیٰ خَلْقِہٖ بِاِیْصَاَلِ الْمَنَافِعِ اِلَیْھِمْ بِرِفْقٍ وَلُطْفٍ اَوِالعَالِمُ بِخَفَایَاالْاُمُورِ ودقَائِقِھَا(اقرب الموارد)یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے جب لطیف کالفظ استعمال ہوتواس کے دومعنے ہوتے ہیں ۔اول یہ کہ وہ لوگوں کی خبر گیری کرنے والااورمحبت اوراحسان کے ساتھ ان کا نفع پہنچانے والاہے اوردوسرے یہ کہ وہ اپنی مخلوق کی مخفی سے مخفی باتوں کو جاننے والا اوران کی تمام حاجات اورضروریات کاعلم رکھنے والا ہے ۔ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر نظام عالم پر نگاہ دوڑائی جائے توہمیں یہ دونوں باتیں اپنے پورے کمال کے ساتھ دنیا میںدکھائی دیتی ہیں ۔اوراس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ واقعہ میں ایک لطیف ہستی ہے جس نے اپنی مخلوق کو فائدہ پہنچانے اوراس کی زند گی برقرار رکھنے کے لئے اِ س قسم کی نعمتوں سے اسے نوازاہے ۔اوراس کی بقاء کے لئے اتنے بڑے سامان پیداکئے ہیں کہ کو ئی شخص اگر ساری عمر بھی ان نعمتوں کاشکر اداکرتارہے تب بھی وہ پور ی طرح شکر ادانہیں کرسکتا ۔چنانچہ دیکھ لو اللہ تعالیٰ کا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ آسمان پر لاکھو ں میل دور سور ج اورچا نداورستارے اس کے بندوں کے لئے رات دن اپنے کام میں مشغو ل ہیں ۔اورزمین الگ اپنے کام میں مصروف ہے ۔انسان تھوڑا سابیج ڈال کر اپنے گھر چلاآتاہے مگر تھوڑے ہی عر صہ میں اس چند سیر بیج کے بد لے ہزاروں من غلہ وہ اپنے گھر لے جاتا ہے ۔وہ اپنے گھر میں آرام سے سورہاہوتا ہے اورزمین اس کے کام میں مصروف ہوتی ہے اورا س کے لئے غلہ اُگارہی ہوتی ہے ۔سبزی اُگارہی ہوتی ہے اورانواع و اقسام کے پھل اورپھو ل پیداکررہی ہوتی ہے ۔یہ سویا ہوااُٹھ کر آتا ہے اوراپنی ضرورت کے مطابق اُگااُگایا اورپکا پکایا پھل لے کر چلا جاتا ہے ۔اسی طرح انسانی جسم پر نگاہ ڈالو ۔کا ن ایک چھوٹی سی چیز ہے مگر یہ بھی خداکی عطا ہے ۔ہواکی لہریں جن کے ذریعہ سے ان میں آواز پہنچتی ہے وہ بھی خداکی پیداکی ہوئی ہیں ۔گلے کے پردے جن سے آوا ز نکلتی ہے وہ بھی خداکے پیداکئے ہو ئے ہیں ۔ایک اچھا گویّا انہی پردوں کے ذریعہ سے گاتاہے جو خدانے دیئے ہیں مگر لو گ کہتے ہیں فلاں گویّا کتنا اچھا گاتا ہے ۔یہ لو گ کہتے ہیں فلاں شخص کا حافظہ کتنا تیز ہے ۔مگر اس کے حافظہ والی جگہ یعنی دماغ بھی خدانے بنایاہے ۔دماغ کے اند رجو سیلز ہوتے ہیں و ہ بھی خدا نے بنا ئے ہیں ۔اسی طرح انسان نما ز پڑھتا ہے توزبان جس سے وہ الفاظ اداکر تا ہے خداتعالیٰ کی پداکردہ ہوتی ہے۔جس مقام پر وہ ان الفاظ کو محفوظ رکھتا ہے یعنی دماغ وہ بھی خدانے بنایا ہے ۔وہ رکوع کرتاہے یا سجدہ کرتا ہے یاقیام کرتاہے توا سکے لئے وہ جتنی قوتوں سے کام لیتا ہے وہ سب کی سب خداتعالیٰ کی پیداکردہ ہوتی ہیں ۔انسان کا ان کی پیدائش میں کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔اسی طرح اگر وہ زکوٰۃ دیتاہے توزکوۃ کاروپیہ خداتعالیٰ کادیا ہواہوتا ہے ۔جن طاقتوں سے اس نے روپیہ کمایا تھا وہ بھی خداتعالی کی دی ہوئی تھیں۔جس ہاتھ سے ا س نے زکوۃ دی و ہ بھی خداکادیاہواتھا۔پھر انسان روزہ رکھتا ہے اس میں بھ اس کاکیا ہے اگر خدانے اس کے اند راتنی طاقت نہ رکھی ہو تی کہ وہ دس بار ہ یا پندر ہ گھنٹے بھوکا رہ سکے تووہ کس طرح روزہ رکھ سکتا تھا ۔پس اگر وہ روز ہ رکھتا ہے تووہ بھی خداتعالیٰ کی دی ہوئی قوتوں کے نتیجہ میں ہی رکھتا ہے ۔اپنے زوراور بل پر نہیں رکھتا ۔یامثلاً ایک لوہار اپنے پیشہ سے شہرت حاصل کرتا ہے تووہ اپنے پیشہ میں جس قد رچیز یں استعمال کرتا ہے سب خداتعالیٰ ہی کی عطا ہوتی ہیں ۔لوہے کو خدانے پہلے پیداکیا ہواہے ۔کوئلہ اس نے پہلے سے پیدا کررکھا ہے ۔آگ جس پر وہ لو ہے کو گر م کرتاہے خداتعالیٰ کی پیدا کردہ ہے ۔اعصاب جن سے وہ کام لیتا ہے خداتعالیٰ کے عطاکردہ ہیں ۔غرض جتنی چیز وں سے وہ کام لیتا ہے سب خداکی پیدا کی ہوئی ہوتی ہیں ۔اس کااپنا صرف اراد ہ ہی ہوتا ہے اَورکچھ نہیں ہوتا ۔ لیکن اتنے بڑے انعامات کے باوجود کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ انسان اللہ تعالی کی نعمتوں سے اپنی آنکھیں بند کرلیتاہے ۔ اوراس وقت و ہ ایسا ناشکر ا بن جاتا ہے کہ اسے کو ئی بھی نعمت دکھائی نہیں دیتی ۔کوئی بھی فضل نظر نہیں آتا۔کسی رحمت سے بھی اس کے قلب میں اللہ تعالیٰ کی محبت کاجذبہ پیدانہیں ہوتا ۔
ہم نے بڑے بڑے مالداروں کو دیکھا ہے ۔وہ موٹروں میں پھرتے ہیں ۔دس دس کھانے ان کے دسترخوانوں پر موجو د ہوتے ہیں ۔ مگر جب کھانے کے لئے بیٹھتے ہیں توکہتے ہیں ۔یہ بھی خراب ہے وہ بھی خراب ہے کھانے کاکو ئی مزہ ہی نہیں آتا ۔اس کے مقابلہ میں غریب آدمی کو دیکھو کہ و ہ روٹی کا سوکھا ٹکڑا کس مزے سے کھاتا ہے اورکس طرح وہی ٹکڑا اسے دنیا کی تمام نعمتوں سے زیادہ لذیز معلوم ہوتاہے ۔مجھے یا د ہے ۔میری دوتین سال کی عمر تھی کہ میری آنکھیں دُکھنے آگئیں ۔ڈاکٹروں نے ایسی حالت میں مجھے روٹی کھلانی منع کردی ۔ایک دن صبح کے وقت مجھے آنکھوں میں سخت تکلیف محسوس ہوئی کیونکہ صبح کے وقت رات بھر آنکھ بند رہنے کی وجہ سے پانی اند ربھر جاتا ہے اورآنکھوں میں درد ہوتاہے ۔اوراس کی وجہ سے لازمی طور پر بچہ رونے لگ جاتا ہے ۔بہرحال آنکھیں دُکھنے کی وجہ سے مجھے تکلیف ہوئی اورمیں نے روناشروع کردیا۔ہمارے گھر کی ایک خادمہ نے یہ دیکھ کر مجھے اُٹھالیا اورپچکارنا شروع کردیا ۔اس وقت وہ روٹی کاایک باسی ٹکڑا ہاتھ میں پکڑے ہوئے بڑے مزے سے کھاتی جاتی تھی ۔اورساتھ ساتھ مجھے پچکارتی جاتی تھی ۔مجھے ساری عمر میں کبھی کسی کھانے کا اتنا مزہ نہیں آیا جتنا مجھے اس باسی ٹکڑہ کی خوشبوکا محسوس ہوا۔کیونکہ وہ اپنے دل کے اطمینا ن کیوجہ سے اس باسی ٹکڑہ میں بھی اتنا لطف محسوس کررہی تھی کہ اس نے وہ لطف اورو ہ لذت کااحساس میرے اند ر بھی پیداکردیا ۔حالانکہ وہ بغیر کسی سالن کے اوربغیرکسی ایسی چیز کے کھارہی تھی جو اس ٹکڑے کو نرم کردے ۔مگر جس مزے سے وہ کھارہی تھی اورجس طرح وہ مچاکے ماررہی تھی ۔و ہ مچاکے محسوس کراتے تھے کہ اس کے نزدیک دنیا کاسب سے بڑاکھانا وہی ہے۔لطیفہ یہ ہے کہ ایک تین چار سال کے بعد ایک دفعہ اماں جانؓ نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاراکس چیز کو دل چاہتا ہے تومیری طبیعت پر اس کااتنا اثر تھاکہ میں نے کہا ۔میر اجی چاہتا ہے کہ میں باسی روٹی کھائوں۔توجب انسان قناعت سے کام لے اور شکر گذاری کے جذبات کے ساتھ ہر چیز کو دیکھے تواسے معمولی سے معمولی چیز بھی دنیا کی اعلیٰ ترین نعمت دکھائی دینے لگتی ہے۔
حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سنایا کرتے تھے کہ ایک بڑھیا تھی جو بڑی نیک اورعبادت گذار تھی ۔میں نے ایک دفعہ اس سے کہا کہ مائی مجھے کو ئی خدمت بتائو ۔میں چاہتا ہوں کہ اگر تمہاری کوئی خواہش ہو تو اس کو پوراکرکے ثواب حاصل کروں۔وہ کہنے لگی ۔اللہ کادیاسب کچھ ہے۔مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔میں نے پھر اصرار کیا اورکہا کہ کچھ توبتائو۔میری بڑی خواہش ہے کہ میں تمہاری خدمت کروں۔وہ کہنے لگی ۔نور الدینؓ! مجھے اَور کیا چاہیئے۔کھانے کے لئے روٹی اوراوڑھنے کے لئے لحاف کی ضرورت ہو تی ہے اللہ تعالیٰ مجھے دوروٹیاں بجھوادیتاہے ۔ایک میں کھالیتی ہو ںاورایک میرابیٹاکھالیتاہے ۔اورایک لحاف ہمارے پاس موجود ہے جس میں ہم دونوں ماں بیٹاسورہتے ہیں ۔میں ایک پہلو پر سوئے ہو ئے تھک جاتی ہوں تو کہتی ہوں ۔بیٹا!اپنا پہلو بد ل لے اورمیں دوسرے پہلوپر لیٹ جاتی ہوں ۔اس کاایک پہلو تھک جاتاہے توو ہ مجھے کہتاہے اورمیں اپنا پہلو بدل لیتی ہوں ۔بس بڑے مزے سیی عمر گذر رہی ہے۔اَور کسی چیز کی کیا ضرورت ہے۔میں نے پھر اصرار کیا ۔توکہنے لگی اچھا ۔اگر تم بہت اصرار کرتے ہو توپھر مجھے ایک موٹے حرفوںوالا قرآن لادو ۔میر ی نظر اب کمزورہوگئی ہے اورباریک حرف نظر نہیں آتے ۔موٹے حرفوں والا قرآ ن مل جائے تومیں آسانی سے قرآن پڑھ سکوں گی ۔اب ایک طرف اس بڑھیا کی حالت کو دیکھو اوردوسری طرف اس امر کو سوچو۔کہ اب اگر کوئی چار سوروپیہ ماہوار کماتاہے تووہ بھی بے چین ہے ۔پانچسو روپیہ ماہوار کما تا ہے تو و ہ بھی بے چین ہے ۔دوہزار روپیہ ماہوار کماتاہے تووہ بھی بے چین ہے ۔حالانکہ مال حاصل کرنا اصل مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود راحت اورچین ہوتاہے ۔اوراگر یہی حاصل نہ ہوتو روپیہ لے کرکسی نے کیا کرنا ہے لیکن اگر انسان اپنے دل میں شکر گذاری کا جذبہ پیداکر ے تواسے عالم کاذرہ ذرہ اپنا محسن دکھا ئی دیتا ہے ۔ اورچونکہ عالم کا ہرذرہ خداتعالیٰ کے احسان کے نیچے ہے اس لئے اسے خداہی اپنا محسن حقیقی نظر آتا ہے ۔
حضرت مرزامظہر جان جانا ن ؒ دلی کے ایک بہت بڑے بزرگ گذرے ہیں ۔ان کے متعلق لکھا ہے کہ انہیں لڈّو بہت پسند تھے ۔ دِلّی میں بالا ئی کے لڈو بنتے ہیںجو بہت لذیز ہو تے ہیں ۔ایک دفعہ وہ اپنی مجلس میں بیٹھے ہو ئے تھے کہ کو ئی شخص بالا ئی کے دولڈو ان کے پا س ہدیۃً لایا ۔ان کے ایک شاگر د غلام علی شاہ بھی ا س وقت پا س ہی بیٹھے ہو ئے تھے انہوں نے وہ دونوں لڈو ان کو دے دیئے۔بالائی کے لڈو بہت چھو ٹے چھو ٹے ہوتے ہیں ۔انہوں نے ایک دفعہ ہی وہ دونوں لڈو اُٹھا ئے اورمونہہ میں ڈا ل لئے۔ جب وہ کھا چکے تو حضر ت مرزا مظہر جان جانانؒ نے ان کی طرف دیکھا اورفرمایا۔میاں غلام علی !معلوم ہوتا ہے تم کو لڈو کھانے نہیں آتے ۔و ہ اس وقت تو خاموش ہو گئے مگر کچھ دنوں کے بعد ا ن سے کہنے لگے ۔حضور مجھے لڈوکھانے سکھا دیجئے ۔حضرت مرزامظہر جان جانانؒ نے کہا کہ اگر اب کسی دن لڈو آئیں تومجھے بتایا ۔میں تمہیں لڈوکھانا سکھادوں گا۔کچھ دنوں کے بعد پھر کو ئی شخص ان کے پاس بالائی کے لڈو لایا۔میاں غلام علی صاحب کہنے لگے ۔حضور!آپ نے میرے ساتھ وعدہ فرمایا ہواہے کہ میں تمہیں لڈو کھانا سکھادوں گا ۔آ ج اتفاقاً پھر لڈو آگئے ہیں ۔آپ مجھے بتائیں کہ لڈو کس طرح کھائے جاتے ہیں ۔انہوں نے اپنا رومال نکالا ۔اوراس پر وہ لڈو رکھ کر ایک لڈو سے ذرہ ساٹکڑہ توڑکر اپنے منہ میں ڈالااورسبحان اللہ !سبحان اللہ کہنے لگ گئے ۔پھر فرمانے لگے ۔واہ مظہر جان جاناںؒتجھ پر تیرے رب کاکتنا بڑافضل ہے ۔یہ کہکر پھر سبحان اللہ !سبحان اللہ کہنے لگ گئے اوراپنے شاگرد کو مخاطب کر کے فرمایا۔میاں غلام علی! یہ لڈو کن کن چیزوں سے بنتاہے ۔انہوں نے چیزوں کے نام گنانے شروع کردیئے کہ اس میں کچھ بالائی ہے کچھ میٹھاہے ۔کچھ میدہ ہے ۔یہ سن کر انہوں نے پھر سبحان اللہ !سبحان اللہ کہنا شروع کردیا اورفرمایا۔میاں غلام علی! تمہیں پتا ہے یہ میٹھا جو اس لڈو میں پڑا ہے کس طرح بنا۔انہوں نے بتایا کہ زمیندار نے پہلے گنا بویا۔پھر بیلنے میں اس کو بیلا ۔پھر رس تیار ہو ئی اوراس سے شکر بنائی گئی ۔حضرت مظہر جان جانانؒ فرمانے لگے ۔دیکھو وہ زمیندار جس نے شکر کو بویاتھاو ہ کس طرح اپنے بیوی بچوں کو چھو ڑکر راتوںکو اُٹھ اٹھ کر اپنے کھیتو ں میں گیا اس نے ہل چلایا ۔کھیتوںکو پانی دیا اورایک لمبے عرصہ تک محنت و مشقت برداشت کرتارہا۔صرف ا سلئے کہ مظہر جان جانانؒ ایک لڈو کھالے۔یہ کہہ کر وہ پھر اللہ تعالی کی تسبیح و تحمیدمیں مشغول ہوگئے ۔اورتھو ڑی دیر بعد فرمانے لگے ۔چھ ماہ زمیندار اپنے کھیت کو پانی دیتا رہا۔پھر کس محنت سے اس نے نیشکر کو بیلا ۔اس سے رس نکالی اورپھر آگ جلا کر کتنی دفعہ وہ اس دنیا کے دوزخ میں گیا ۔محض اس لئے کہ مظہر جان جانانؒ ایک لڈو کھالے ۔اس کے بعد انہوں نے اسی طرح میدہ اوربالائی کے متعلق تفاصیل بیان کرنی شروع کردیں ۔کہ کس طرح ہزاروںآدمی دن رات ان کاموں میں مشغول رہے ۔انہوں نے اپنی صحت کی پرواہ نہ کی۔انہوں نے اپنے آرام کو نہ دیکھا انہوں نے اپنی آسائش کو نظر انداز کردیا ۔اوریہ سارے کام خداتعالیٰ نے ان سے محض اس لئے کرائے کہ مظہر جان جانان ایک لڈو کھالے ۔یہ کہہ کر ان پر پھر ربودگی کی کیفیت طاری ہوگئی اوروہ سبحان اللہ ! سبحان اللہ کہنے لگ گئے ۔اتنے میں عصر کاوقت آگیا اوروہ اٹھ کر نماز کے لئے چلے گئے ۔اورلڈو اسی طرح پڑارہا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی ہم نے دیکھا ہے ۔آپ کا یہ طریق تھا کہ جب آپ روٹی کھاتے توروٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا توڑکر اپنے منہ میں ڈال لیتے اوراس وقت تک کہ دانت اسکو چباسکیں اچھی طرح چباتے رہتے ۔آپ کی عادت بڑالقمہ لینے کی نہیں تھی بلکہ آپ ہمیشہ چھوٹا لقمہ لیتے اورجہاں ا س لقمہ کو دیر تک چباتے رہتے وہاں روٹی کاایک اَور ٹکڑا لے کر اپنے ہاتھ میں ملتے جاتے اورساتھ ہی سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے جاتے ۔کچھ دیر کے بعد اس میں سے کوئی ٹکڑہ سالن لگا کر منہ میں ڈال لیتے اورروٹی کے باقی ٹکڑے دسترخوان پر پڑے رہتے دیکھنے والے بعض دفعہ کہا کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام روٹی کے ٹکڑوں میں سے حلال اورحرام ذرّے الگ الگ کرتے ہیں اورچونکہ روٹی کے بہت سے ٹکڑے آپ کے دسترخوان پر جمع ہوجاتے تھے اس لئے جب آپ کھانے سے فارغ ہوجاتے تولو گ تبرّک کے طور پر ان ٹکڑوں کو آپس میں تقسیم کرلیاکرتے تھے۔
تواللہ تعالیٰ کی رحمتیں اوربرکتیں اتنی وسیع ہیںکہ اگر انسان غور کرے اورسوچے تواسے معلوم ہو کہ ہرقدم جو انسان اٹھا تاہے ۔ہرلمحہ جو انسانی زندگی پر گذرتاہے۔ہرساعت جو اس پر آتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں اوراس کی بے انتہاء برکات کو اپنے ساتھ لے کر آتی ہے اورپھر اگر انسان اورزیادہ غور کرے تواسے معلوم ہوکہ ساراجہان اس کی خدمت میں لگا ہواہے ۔اوردن رات اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے وہ حصہ پارہا ہے ۔ہرہاتھ جو وہ لمباکرتاہے ۔ہرآنکھ جو وہ جھپکتا ہے ۔ہرآوازجو وہ سنتاہے ۔ہر تھوک جو وہ نگلتاہے اللہ تعالیٰ کے فضل اوراس کے احسان کا ہی نتیجہ ہے ۔ورنہ خودانسان میں یہ کہاں طاقت تھی کہ وہ ایساکرسکتا ۔اگرڈاکٹر ہائیڈروکلورک ایسڈ پلا پلا کرانسان کی قوت ہضم کو درست کرتے تو وہ چند دنوں کے اند ر اند رمرجاتا ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کے اند ر ایسی مشین لگادی ہے کہ جونہی کو ئی غذااستعمال میں آتی ہے و ہ مختلف قسم کی تبدیلیوں کے بعد اسے انسانی خو ن میں شامل کردیتی ہے ۔اورپھر خو ن اس غذا کو لے کر فوراً دل میں پہنچتا ہے جہاں اس کی صفائی کے لئے اسے پھیپھڑوں میں سے گذاراجاتاہے ۔پھر صاف شدہ خون د ل کے بائیں حصہ میں آ نے کے بعد ایک بڑی رگ کے ذریعہ دل سے باہر نکلتاہے جو آگے چل کر دوحصوں میں منقسم ہوجاتی ہے ۔ ایک حصہ سرکی طر ف خو ن لے جاتاہے اوردوسرا حصہ دل کے مقام کے نچلے حصہ کی طرف خو ن لے جاتاہے۔اوراس طرح ہرعضو اپنی اپنی ضرورت کے مطابق غذا حاصل کرلیتاہے ۔مثلاً دماغ کے وہ اعلیٰ حصے جو عقل اورشعور کے مرکزہیںوہ اس سے اپنی غذالے لیتے ہیں اورجسم کے مختلف اعضاء کو حرکت میں لانے والے مراکز اپنی غذالے لیتے ہیں ۔اسی طرح آنکھ،کان ،ناک ،زبان اوردوسرے اعضاء اپنی غذالے لیتے ہیں ۔غرض ایک عظیم الشان نظام ہے جو زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کے اند رجاری کیاہواہے ۔
لوگ کارخانے دیکھتے ہیں توتعجب کرتے ہیں ۔چکیّوںکو دیکھتے ہیں توحیران ہوجاتے ہیں ۔کہ یہ کس طرح آٹاپیس رہی ہیں۔مگرانہیں کبھی احساس نہیں ہوتا کہ ان تمام مشینوں سے ایک بڑی مشین اللہ تعالیٰ نے خود انسانی جسم کے اندر پیداکررکھی ہے ۔جو پیس بھی رہی ہے ۔جوصاف بھی کررہی ہے۔جوطاقت بھی پہنچا رہی ہے ۔جس طرح بعض مشینیں ایسی ہوتی ہیں جومیدہ الگ نکالتی جاتی ہیں اورسبوس الگ نکالتی جاتی ہیں اسی طرح انسانی جسم میں اللہ تعالیٰ نے جو مشین بنارکھی ہے ان میں سے کوئی خون صالح پیداکرتی ہے ۔ کو ئی عقل کو طاقت دیتی ہے ۔کوئی سمع کو طاقت دیتی ہے ۔کوئی بصر کو طاقت دیتی ہے ۔کوئی قوت گویائی کو طاقت دیتی ہے ۔غرض ایک نظام ہے جو انسان کے اندر د ن رات کام کررہاہے ۔اوربیسیوں چیزیں ہیں جو اس سے پیداہوتی ہیں ۔ان میں سے کو ئی انسانی حِس کو طاقت دیتی ہے۔کوئی قوت شامہ کو طاقت دیتی ہے۔کوئی اعصاب کو طاقت دیتی ہے ۔اسی طرح انسانی جسم میں مختلف قسم کے ڈیپارٹمنٹ بنے ہوئے ہیں ۔اتنے بڑے ڈیپارٹمنٹ دنیوی گورنمنٹوں میں بھی نہیں ہوتے جتنے انسانی دماغ میں اللہ تعالیٰ نے بنائے ہوئے ہیں ۔مگرانسان کو احساس بھی نہیں ہوتاکہ مجھ پراللہ تعالیٰ کے کیاکیا احسانات ہورہے ہیں ۔وہ اندھے کی طرح گذ ر جاتاہے اوراس کادل اللہ تعالیٰ کی محبت سے ہمیشہ خالی رہتاہے ۔لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ آپ کھاناکھاتے تو بسم اللہ پڑھتے۔کھاناکھاچکتے تواللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ۔اسی طرح کپڑے پہنتے توخداتعالیٰ کی حمد کرتے حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے ہی کیاتھے بہت معمولی اورسادہ کپڑے ہواکرتے تھے۔آجکل ململیں اورلٹھے اورکئی قسم کے ارام دہ کپڑے لوگ پہنتے ہیں ۔اوران کے دلوں میں خداتعالیٰ کے شکر کاکوئی جذبہ پیدانہیں ہوتا۔وہ مومن کہلاتے ہیں وہ خدااوراس کے رسول ؐکوماننے والے کہلاتے ہیں مگرانہیں کبھی خیال نہیں آیا کہ خداکاوہ رسول جس کے متعلق یہ کہاگیاتھا کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ ۱؎ اسے اپنے پہننے کے لئے جو کپڑے نصیب ہوئے ان سے ہزاروں گنازیادہ اعلیٰ اورزیادہ آرام دہ کپڑے آج ہرادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کو نصیب ہیں ۔مگرحالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اوراس کے شکر کے جواعلیٰ ترین جذبات معمولی کپڑے پہن کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں پیداہوتے تھے وہ آج ہمارے دلوں میں پیدانہیں ہوتے ۔یہ تمنااورخواہش پیدانہی ہوتی کہ کاش یہ نعمتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتیں کیونکہ ان نعمتوں کے اصل مستحق آپؐ ہی تھے ۔
حضر ت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اورکہنے لگا ۔میں سیّد ہوں ۔میری بیٹی کی شادی ہے ۔آپ اس موقعہ پر میری کچھ مدد کریں ۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ یو ں تو بڑے مخیّر تھے مگرطبیعت کا رجحا ن ہے جو بعض دفعہ کسی خاص پہلو کی طرف ہوجاتا ہے ۔آپ نے فرمایا۔میں تمہاری بیٹی کی شادی کے لئے وہ ساراسامان تمہیں دینے کے لئے تیار ہوں جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہؓ کو دیاتھا ۔وہ یہ سنتے ہی بے اختیار کہنے لگا ۔آپ میری ناک کاٹناچاہتے ہیں ۔حضر ت خلیفہ او ل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تمہاری ناک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناک سے بڑی ہے ۔تمہاری عزت تو سیّد ہونے میں ہے ۔پھر اگر اس قدر جہیز دینے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک نہیں ہوئی تو تمہاری کس طرح ہوسکتی ہے ۔
تو حقیقت یہ ہے کہ آج ایک ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان بھی دنیوی نعمتوں کے لحاظ سے اس سے زیادہ نعمتیں رکھتا ہے جتنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پائیں مگرا سکا دل محبت کے جذبات سے خالی ہوتاہے ۔وہ ہزاورں گنازیادہ نعمتیں دیکھ کر بھی اپنے رب کا شکریہ ادانہیں کرتا ۔لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں خداتعالیٰ کے شکر کے جذبات اس قسم کے پائے جاتے تھے کہ آسمان سیی جب بارش برستی تووہ زمیندار جس کی کھیتیاں اس بارش سے تیار ہوتیں خاموشی کے ساتھ گذر جاتا ۔اسے پانی جمع کرتے ہوئے کبھی خیال بھی نہ آتا کہ یہ کہاں سے آگیاہے ۔وہ شہر جن میں کنوئیں نہیں ہوتے اورجہاں کے رہنے والے بارش پر تالابو ں میں پانی جمع کرلیتے ہیں تاکہ سال بھر ان کی ضروریات پوری ہوتی رہیں وہ بھی اپنے لئے اوراپنے جانوروں کے لئے پانی جمع کرتے مگران کے دلوں میں بھی یہ احساس پیدانہ ہوتاکہ ان کے رب نے ان پر یہ کتنا بڑا احسان کیاہے کہ وہ سورج کی شعاعوں کے ذریعے سمندروں کا پانی بخارات کی صورت میں تبدیل کرتا اورپھر ہوائوں کے ذریعے ان کے ملک میں لاکر برسادیتاہے ۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن کے نہ تالاب تھے نہ کھیتیاں تھیں نہ جانور تھے بارش آتی توآپؐ کمرہ سے نکل کر باہر صحن میں آجاتے ۔اپنی زبان باہر نکال
۱؎ فوائد المجموعہ مصنفہ علامہ شوکانی ص ۱۱۶ و موضوعات کبیر ص ۷۰۔
لیتے اورجب اس پر پانی کا قطرہ گرتا توآپؐفرماتے ۔یہ میرے رب کاتاز ہ احسان ہے ۔یہ محبت اورپیار کاکیسا دلفریب رنگ ہے ۔ لوگ پلائو اورزردہ کھا کربھی خداتعالیٰ کی محبت کاجوش اپنے دلوں میں نہیں پاتے اواس کے فضلوں کے شکر گذار نہیں ہوتے ۔لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تعالیٰ سے محبت اس پایہ کی تھی کہ آپؐ اپنی زبان باہر نکال کر اس پر بارش کا قطرہ لیتے اوراخداتعالیٰ کی اس تازہ نعمت کاشکر اداکرتے۔اسی وجہ سے قرآن کریم میں بار بار اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر اداکرو۔ اوراس کے احسانات کوہمیشہ یا د رکھو ۔جب انسان ہر چیز کو خداتعالیٰ کا نعام سمجھتا اوراس کی نعمتوں کی قدر کرتاہے تواسے ایک ایسی سیڑھی مل جاتی ہے جو اسے خداتعالیٰ تک پہنچا دیتی ہے۔نہ شیطان اس کی راہ میں روک بنتا ہے اورنہ اس کا نفس اسے نیچے گراسکتا ہے ۔وہ اس سیڑھی پر چڑھتے ہوئے سیدھا خداتعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے ۔کیونکہ اس کے دل میں خداتعالیٰ کے احسانات کو دیکھ دیکھ کر شکر کامادہ پیداہوجاتاہے جواسے اوپر ہی اوپر لے جاتا ہے نیچے گرنے سے اسے کلی طورپر محفوظ کردیتا ہے ۔
لطیف کے دوسرے معنے جیساکہ اوپر بتایاجاچکا ہے اَلْعَالِمُ بِخَفایَا الاُمُورِ وَدَقَائِقِھَا کے ہیں ۔یعنی ایسی ہستی جو تمام امور کے مخفی درمخفی پہلوئوں کو جاننے والی اورکائنات عالم کے تمام اسرار اورغوامض کاعلم رکھنے والی ہے ۔ان معنوں کے لحاظ سے اس میں یہ اشار ہ کیا گیاہے کہ انسان کی نگاہ اپنے تمام علوم اورایجادات کے باوجود صرف ظاہر تک محدود رہتی ہے ۔ا ن امور کے پس پشت جو اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان غیب کام کررہاہوتاہے اورجو باریک د رباریک حکمتیں ان میں مخفی ہوتی ہیں ان سے وہ آگاہ نہیں ہوتا اوراگر کائنات عالم کے رموز اوراسرار اس پر منکشف ہوتے ہیں تواسی وقت جب اللہ تعالیٰ اپنی صفتِ لطیف کے ماتحت اسے اپنے حقائق سے آشناکرتااوراخفاء کے پردوں کو اس کی آنکھوں سے دور کرتاہے ۔اسی کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ تولوگوں سے یہ کہدے کہ وَلَوْ کُنْتُ اَعلمُ الغیبَ لَامْتَکْثَرْتُ مِنَ الخَیرِ ۔وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْٓئُ(اعراف آیت ۱۸۹)یعنی اگر میں غیب کا واقف ہوتاتوبھلائیوں میں سے اکثر اپنے لئے جمع کرلیتااورمجھے کبھی کو ئی تکلیف نہ پہنچتی ۔درحقیت اگر غور سے کام لیا جائے تواللہ تعالیٰ نے علم غیب کو اپنے ہاتھ میں رکھ کر انسان کے لئے دوبرکتیں پیداکردی ہیں ۔ایک برکت تو پر دئہ غیب کی وجہ سے اسے حاصل ہوتی ہے اوترایک برکت کشف غیب کی وجہ سے اسے حاصل ہوتی ہے ۔پردئہ غیب کی وجہ سے جو برکت اسے حاصل ہے وہ تو اس سے ظاہر ہے کہ انسان کی ساری زندگی جدوجہدسے تعلق رکھتی ہے اورجدوجہد کی ساری بنیاد ہی غیب پرہے ۔اگر غیب کا پردئہ حائل نہ ہو تو سعی و عمل کاساراسلسلہ ختم ہوجائے ۔مثلا بچوں کو ان کے والدین سکول میں پڑھنے کے لئے بھیجتے ہیں ۔اوروہ بھی اگر محنتی اورذہین ہو ںتووہ سمجھتے ہیں کہ ہم اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے دنیا میں عزت حاصل کرلیں گے ۔لیکن کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ جب ان کا امتحان قریب آتا ہے توان میں سے بعض لڑکے بیماریوں یااچانک حادثات کی وجہ سے وفات پاجاتے ہیں ۔اب اگر خداتعالیٰ نے علم غیب اپنے ہاتھ میں نہ رکھا ہوتا اورایک طالب علم کو یہ یقینی طور پر معلوم ہوتا کہ میں نے پندرہ سال کی عمر کو پہنچ کر مرجانا ہے ۔تووہ اسی وقت سے مغموم رہنا شروع کردیتا ۔اوراس کے والدین بھی رونے پیٹنے لگ جاتے اوروہ اپنی عمر کو بالکل ضائع کردیتا ۔لیکن پردئہ غیب کے حائل ہونے کی وجہ سے وہ برابر محنت کرتا چلا جاتاہے ۔ اورگوبعد میں آکر وہ فوت ہو جاتاہے مگر جس طرح ایک ٹوٹنے والے ستارے کی روشنی سے بھی کئی بھولے بھٹکے مسافر راہ پالیتے ا ورکئی گڑھوں میں گرتے ہوئے سنبھل جاتے ہیں ۔اسی طرح وہ دوسرے لڑکوں کے لئے ایسی روشنی چھو ڑجاتاہے جو ان کی ترقی کاموجب بن جاتی ہے ۔کیونکہ کئی لڑکے ایسے تھے جن کے سامنے اگراس کاوجود نہ ہوتا۔تووہ کبھی محنت نہ کرتے ۔انہوں نے اگر محنت کی تواسی لئے کی کہ اس لڑکے کی محنت اورذہانت کودیکھ کران کے دلوں میں بھی رشک پیداہوا۔اورانہوں نے بھی تعلیم میں دلچسپی لینی شروع کردی اوررفتہ رفتہ وہ ترقی کرگئے ۔
اسی طرح انسان اپنے دوستوں اوررشتہ داروں میں پھر تاہے ۔جن میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی دوستی خود غرضانہ ہوتی ہے ۔یاو ہ اپنے دل میں اس کے خلاف کئی قسم کے منصوبے سوچتے رہتے ہیں ۔یا اس کے رشتہ دار بظاہر اس سے محبت کرتے ہیں ۔ لیکن وہ اپنے دلوں میں اس کے بد خواہ ہوتے ہیں ۔اگر پردئہ غیب حائل نہ ہوتا اورانسان کو پتہ لگ جاتا کہ میرافلاںدوست اپنے دل میں میرے متعلق اس قسم کے خیالات رکھتاہے یامیرافلاں رشتہ دارمیرابدخواہ ہے توایک قیامت برپاہوجاتی ۔جس گھر میں دیکھو لڑائی ہورہی ہوتی ۔ایک کہہ رہاہوتا کہ تم نے میرے خلاف فلاں فلاں بات کیوں سوچی تھی۔اوردوسراکہہ رہاہوتاکہ تمہارے دل میں میرے خلاف اس قسم کے خیالات کیوں آرہے تھے ۔بیوی خاوند یس ناراض ہوتی اورخاوند بیوی سے ناراض ہوتا۔اورامن اورسکون دنیا سے اٹھ جاتا۔پس پردئہ غیب جو اللہ تعالیٰ نے حائل کررکھا ہے یہ اس کی ایک بڑی رحمت ہے ۔
پھر اگر پردئہ غیب نہ ہوتا تولڑائیوں میں تمام دنیا تباہ ہو کررہ جاتی ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔اَلْحَربُ خُدْعَۃٌ ۱ ؎ ۔یعنی لڑائی لڑنے کاساراکمال اس میں ہے کہ سب باتیں پردئہ اخفاء میں رہیں اورلڑنے والے اپنی سیاست اورتدبیر پر اعتماد کریں۔لیکن اگر پردئہ غیب نہ ہوتا اورجنگوں میں ایک طرف والوں کو پتہ لگ جاتا کہ ہمارادشمن اس وقت فلاں جگہ پر ہے تووہ اپنی توپوں کا منہ عین اسی طرف کردیتے جدھر دشمن ہوتا۔اسی طرح دوسری طرف سے بھی توپوں کے گولے عین اسی جگہ آکر گرتے۔جہاں دشمن موجود ہوتا اوراس طرح کوئی متنفس بھی نہ بچ سکتا۔اب توایساہوتاہے کہ اگر ایک لاکھ فوج میدان میں جاتی ہے تواس میں سے چند ہزار مرجاتے ہیں اورباقی فوج صحیح وسلامت رہتی ہے۔ لیکن اگر پردئہ غیب نہ ہوتا اورفریقین کو ایک دوسرے کے حالات کاعلم ہوجاتا ۔تونشانہ عین دشمن پر بیٹھتا اورکو ئی شخص بھی محفوظ نہ ر ہ سکتا۔اسی طرح سائنس کی ترقی اورعلوم جدیدہ کے انکشاف کی بنیاد بھی غیب پر ہی ہے ۔اگر ہرچیز ظاہر ہوتی تو سعی و عمل اورایجادات کاتمام سلسلہ ختم ہوجاتا اورانسان ایک ناکارہ وجو د بن کر رہ جاتا ۔غرض دنیاکے تمام کاروبار غیب پر چل رہے ہیں اگر غیب نہ رہے تودنیا کاتمام کارخانہ بھی ختم ہوجائے ۔اسی طرح روحانی عالم میں جزاء و سزا کی بنیاد بھی پردئہ غیب پر رکھی گئی ہے۔اگرپردئہ غیب ہٹادیاجائے تونہ نیکی قابل جزا سمجھی جائے اورنہ بدی سے اجتناب قابل ثواب سمجھا جائے ۔
ہم ایک دفعہ لکھنؤ گئے ۔وہاں ایک سرحدی مولوی عبدالکریم تھا ۔جو ہماری جماعت کاشدید مخالف تھا ۔اس نے ہمار ے آنے کے ابعد ایک تقریر کی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے ایک واقعہ کو اس نے نہایت تحقیر کے طور پر بیان کیا ۔وہ واقعہ یہ تھا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام دِلّی گئے وہاں ہمار ے ایک رشتہ دار کے ماموں مرزاحیرت دہلوی تھے۔انہیں ایک دن
۱؎ ۔ترمذی ابواب الجہاد ۔
شرارت سوجھی اوروہ جعلی انسپکٹر پولیس بن کر آگئے ۔اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ڈرانے کے لئے کہنے لگے کہ میں انسپکٹر پولیس ہو ںاورمجھے حکومت کی طرف سے اس لئے بھیجا گیاہے کہ میں آپ کو نوٹس دوں کہ آپ یہاں سے فوراً چلے جائیں ۔ورنہ آپ کو سخت نقصان ہو گا۔حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تواس کی طرف توجہ نہ کی۔مگر جب بعض دوستوں نے تحقیق کرنی چاہی کہ یہ کو ن شخص ہے توو ہ وہاں سے بھاگ گئے۔اس واقعہ کو مولوی عبدالکریم سرحدی نے اس رنگ میں بیان کیا کہ دیکھو وہ خداکانبی بنا پھر تا ہے مگروہ دلّی گیا تومرزاحیرت انسپکٹر پولیس بن کر اس کے پاس چلا گیا ۔وہ کوٹھے پر بیٹھا ہواتھا ۔(حالانکہ یہ بات بالکل جھو ٹ تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نیچے دکان میں بیٹھے ہوئے تھے )جب اس نے سنا کہ انسپکٹرپولیس آیا ہے تووہ ایساگھبرایاکہ سیڑھیوں سے اترتے وقت اس کاپیر پھسلااوروہ مونہہ کے بل زمین پر آگرا۔لوگوں نے یہ تقریر سن کر بڑے قہقہے لگا ئے اورہنستے رہے۔لیکن اسی رات مولوی عبدالکریم کو خداتعالیٰ نے پکڑ لیا ۔وہ اپنے مکان کی چھت پر سویاہواتھا ۔کہ رات کو وہ کسی کام کے لئے اٹھا اورچونکہ اس کی چھت کی کوئی منڈیر نہیں تھی اورنیندسے اس کی آنکھیں بند ہورہی تھیں ااس کاایک پائوں چھت سے باہر جاپڑا اور وہ دھڑم سے نیچے آگرا۔اورگرتے ہی مرگیا۔اب دیکھو اگر اس کو غیب کاپردہ نہ ہونے کی وجہ سے پتہ ہوتا کہ مجھے گستاخی کی یہ سزاملے گی تووہ کبھی گستاخی نہ کرتا بلکہ آپ پر ایمان لے آتا گوایسایمان اس کے کسی کام نہ آتا۔کیونکہ جب غیب ہی نہ رہا توایمان کاکیافائد ہ۔ایمان تو وہی کارآمد ہوسکتاہے جوغیب کی حالت میں ہو ۔ثواب یا عذاب سامنے نظر آنے پر توہر کوئی ایما ن لاسکتا ہے ۔ حضرت ابو بکر ؓ جب ایمان لائے تو یہ سمجھ کرایمان لائے تھے کہ مجھے دین کے راستہ میں قربانیاں کرنی پڑیں گی اوراپنی جان دینی پڑے گی اوراگر پرد ئہ غیب نہ ہوتا ۔اورانکوپہلے سے معلوم ہوتاکہ ان کے لئے انعامات مقد رہیں اوروہ ان انعامات کی لالچ میں ایمان لے آتے توان کاایمان کہاں رہتا ۔اسی طرح حضرت عمرؓ جب یمان لائے تو ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ خلیفہ بنیں گے ۔بلکہ وہ تواس ارادہ سے نکلے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردوں گا ۔مگر جب اپنی بہن سے انہوں نے قرآن کریم کے چند اوراق لے کر پڑھے توان پر حق کھل گیا ۔اوروہ ایمان لے آئے اوران حالات می ایمان لائے کہ وہ جانتے تھے کہ مجھے مسلمان ہوکراب اپنی جان قربان کرنی پڑے گی ۔
اسی طرح حضرت عثمانؓ ایک خاموش طبع انسان تھے مگر ان کی قربانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی عزت بخشی کہ صلح حدیبیہ کے وقت تمام صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ یارسول اللہ!اگر ہم میں سے کو ئی شخص مکہ میں جانے کے وقابل ہے تووہ عثمانؓ ہی ہیں۔چنانچہ حضرت عثمانؓ مکہ گئے اورچونکہ ان کی رشتہ داری مکہ میں بہت زیادہ تھی ۔رؤساء نے ان سے کہا کہ آپ کعبہ کا طواف کرلیں مگر حضرت عثمانؓ نے انکار کردیا۔اورکہا کہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم طواف نہیں کریں گے میں بھی نہیں کروں گا ۔حضرت عثمانؓ کو مکہ والوں سے بات چیت کرتے ہوئے دیر ہوگئی اوراندھیراہونے لگا ۔تومسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمانؓ کو شہید کردیاگیاہے ۔اسی لیء وہ ابھی تک واپس نہیں لوٹے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی ۔تو آپؐ نے تمام صحابہؓ کو جمع کیا اوران سب سے بیعت لی وہ ایک ہی بیعت تھی جو آپ نے موت کے نام پر لی۔اس بیعت کے موقعہ پر آپؐ نے صحابہ سے یہ اقرار لیا کہ ہم دشمن کے مقابلہ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے چاہے ہم سب کے سب مارے جائیں۔ جب صحابہؓ بیعت کرچکے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا۔اس وقت عثمانؓ یہاں نہیں ہے ۔اورممکن ہے وہ ماراگیاہو۔لیکن چونکہ اس کے زندہ ہونے کابھی امکان ہے اس لئے (آپ نے اپنادوسرا ہاتھ اپنے ہاتھ پر رکھتے ہوئے فرمایا)میں عثمانؓ کی جگہ اپنا ہاتھ بیعت کے لئے رکھتا ہوں ۔ ۱؎ اب دیکھو عثمانؓ کے لئے یہ کتنا بڑااعزاز تھا ۔اس کے مقابلہ میں اگران کی ہزار سالہ زندگی بھی قربان ہوجاتی تو ہیچ تھی ۔لیکن اگر حضر ت عثمان کو پتہ ہوتا کہ مجھے یہ اعزاز ملنے والاہے اورمیرے لئے فلاں فلاں انعامات مقدر ہیں اوروہ محض ان انعامات کا لالچ کرتے ہوئے ایمان لے آتے تو ان کے ایمان کی کیا حقیقت رہ جاتی ۔
اسی طرح حضرت علیؓ جب ایمان لائے تووہ ابھی بچے ہی تھے اوروہ یہ سمجھ کرایمان لایء تھے کہ مجھے اسلام کے لئے ہرقسم کے مصائب برداشت کرنے پڑیں گے یہاں تک کہ اگر جان قربان کرنے کاوقت آیا تو مجھے اپنی جان بھی خداتعالیٰ کی راہ میں پیش کرنی پڑے گی ۔حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رسالت کے ابتدائی ایام میں ایک دعوت کی جس میں بنو عبدالمطلب کو بلایا۔تاکہ ان تک پیغام حق پہنچایاجائے ۔چنانچہ آپؐ کے بہت سے رشتہ دار اس دعوت میں شریک ہوئے ۔جب سب لو گ کھاناکھاچکے تو آپؐ نے کھڑے ہوکر تقریر کرنا چاہی۔مگر ابو لہب نے ا ن سب لو گوںکو منتشر کردیا اوروہ آپ کی بات سنے بغیر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔آپؐ بہت حیران ہوئے کہ یہ اچھے لوگ ہیں جو دعوت کھاکر بھی بات نہیں سنتے ۔مگر آپؐ مایوس نہیں ہوئے بلکہ آپؐ نے حضرت علی سے فرمایاکہ دوبارہ ان کی دعوت کی جائے ۔چنانچہ دوبارہ ان سب کو کھانے پر مدعوکیا گیا ۔جب وہ سیر ہو کر کھا چکے تو آپ کھڑے ہوئے اورفرمایاکہ دیکو اللہ تعالیٰ کایہ تم پر کتنا بڑااحسان ہے کہ اس نے اپنا نبی تمہارے اند ربھیجا ہے ۔ میں تمہیں خداکی طرف بلاتاہوں۔اگر تم میری بات مانوگے تو تم دینی اوردنیوی نعماء کے وارث قرار پائو گے ۔کیاتم میں سے کوئی ہے جو اس کام میں میرامددگار بنے ؟یہ سن کر ساری مجلس پر سناٹے کی سی حالت طاری ہوگئی مگر یکلخت ایک کونے سے ایک نوعمر بچہ اُٹھااوراس نے کہا کہ گومیں ایک کمزورترین فرد ہوں اورعمر میں سب سے چھوٹاہوں مگر میں آپ کاساتھ دوں گا ۔یہ بچے حضرت علیؓ تھے جنہوں نے اس وقت اسلام کی تائید کااعلان کیا ۲؎۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے احضرت علیؓ کو یہ عظیم الشان قر بانی کرنے کی توفیق عطافرمائی کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے لئے رات کے وقت اپنے گھر سے نکلنا چاہا۔توآپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم میرے بستر پر لیٹ جائو تاکہ کفار اگر جھانک کردیکھیں توانہیں یہ دکھائی دیتا رہے کہ کو ئی شخص بستر پر سورہاہے اوروہ تعاقب کے لئے ادھر ادھر نہ نکل کھڑے ہوں۔اس وقت حضرت علیؓ نے یہ نہیں کہا کہ یارسول اللہ۔مکان کے اردگرد تو قریش کے چنیدہ نوجوان ہاتھ میں تلواریں لئے کھڑے ہیںاگرصبح کو انہیں معلوم ہواکہ آپ کہیں باہر تشریف لے جاچکے ہیں تو وہ مجھ پر حملہ کرکے مجھے قتل کردیں گے ۔بلکہ و ہ بڑ ے اطمینان کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر لیٹ گئے اورآپؐ نے اپنی چادر ان پر ڈال دی ۔جب صبح ہوئی اورقریش نے دیکھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حضرت علیؓ آپ کے بستر سے اٹھے ہیں
۱؎۔تاریخ الخیس جلد ۲ص ۲۲و سیرۃ ابن ہشام جلد سوم ص ۱۵۸
۲؎ ۔ السیرۃ الحلبیہ جلد اول ص ۳۰۴۔
تووہ اپنی ناکامی پر دانت پیس کر رہ گئے ۔اور انہوں نے حضرت علی ؓ کو پکڑ کر مارا پیٹا ۔مگر اس سے کیا بن سکتا تھا ۔خُدائی نوشتے پورے ہوچکے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلامتی کے ساتھ مکہ سے باہر جاچکے تھے ۔اُس وقت حضرت علیؓ کو کیا معلوم تھا کہ مجھے اس ایمان کے بدلے میں کیا ملنے والا ہے ۔ہاں اللہ تعا لیٰ جانتا تھا کہ اس قربانی کے بدلہ میں صرف حضرت علیؓ ہی عزت نہیں پائیں گے بلکہ حضرت علی کی اولاد بھی عزت پائے گی ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ پر پہلا فضل تو یہ کیا کہ اُن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا شرف بخشا اور دوسرا فضل اللہ تعالیٰ نے اُن پر یہ کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اُ ن کے لئے اتنی محبت پیدا کی کہ آپؐ نے بارہا اُن کی تعریف فرمائی ۔ جب حضرت علیؓ بڑی عمر کو پہنچے ہوں گے تو اُن کواللہ تعالیٰ کے یہ فضل دیکھ کر کتنا فخر محسوس ہوتا ہوگا ۔اور اُن کی کتنی راحت ہوتی ہوگی ۔پھر ایک دفعہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی جنگ کے لئے باہر تشریف لے گئے ۔تو آپؐ نے حضرت علیؓ کو مدینہ میں رہنے کا حکم دیا۔ حضرت علیؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔اور انہوں نے کہا ۔یا رسول اللہ !کیا آپؐ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ چلے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ۔اَلَا تَرْضیٰ اَنْ تَکُوْنَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْ سیٰ(ترمذی جلد۲ابواب لمناقب)یعنی اے علی ؓ !کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارونؑ کو موسیٰؑ سے تھی ۔ یعنی ہارون ؑ کو بھی تو موسیٰؑ اپنے پیچھے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ پھر کیا ہارون کی عزت کم ہوگئی تھی۔اب دیکھو یہ اعزاز جو حضرت علیؓ کو حاصل ہوا ۔اس کے مقابلہ میں اُن کی قربانیاں کیا چیز تھیں۔ اسی طرح اس امت کے اکثر اولیاء ؔ اور صوفیا ء حضرت علیؓ کی اولاد میں سے ہی تھے ۔ اور پھر ان کے ذریعے خدا تعالیٰ نے ایسے ایسے معجزات ظاہر کئے کہ ان کو دیکھ کر حیرت آتی ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے ایک دفعہ سُنا ہوا ہے ۔کہ ہارون اؔلرشید نے امام موسیٰؔ رضاؒ کو کسی وجہ سے قید کردیا ۔ اور اُن کے ہاتھو ں اور پائوں میں رسیّاں باندھ دی گئیں ۔ اُس زمانہ میں سپرنگ دار گدیلے تو نہ تھے ۔عام روٹی کے گدیلے ہوتے تھے ۔ ہارون ؔ الرشید اپنے محل میں آرام دہ گدیلوں پر سویا ہوا تھا کہ اُس نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں ۔اور آپؐ کے چہرہ پر غضب کے آثار ہیں ۔آپؐ نے فرمایا۔ ہارون ؔالرشید! تم ہم سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو ۔مگر تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم تو آرام دہ گدیلوں پر گہری نیند سور ہے ہو ۔اور ہمارا بچہ شدّت گرما میں ہاتھ پائوں بندھے ہوئے قید خانہ کے اندر پڑا ہے یہ نظارہ دیکھ کر ہارونؔ الرشید بیتاب ہو کر اُٹھ بیٹھا ۔اور ایک کمانڈر کو ساتھ لے کر اُسی جیل خانہ میں گیا اور اپنے ہاتھ سے اُن کے ہاتھوں اور پائوں کی رسیا ں کھولیں۔ انہوں نے ہارونؔ الرشید سے کہا ۔ آپ تو اتنے مخالف تھے اب کیا بات ہوئی کہ خود چل کر یہاں آگئے ۔ہارونؔ الرشید نے اپنا خواب سنایا اور کہا میں آپ سے معافی چاہتا ہوں ۔میں اصل حقیقت کو نہ جانتا تھا ۔ اب دیکھ اس زمانہ میں کتنا بڑا فاصلہ تھا۔ ہم نے کئی بادشاہوں کی اولادوں کو دیکھا ہے کہ وہ دربدر دھّکے کھاتی پھرتی ہیں میں خود دلّی میں ایک سقّہ دیکھا جو شاہانِ مغلیہ کی اولاد میں سے تھا۔ وہ لوگوں کو پانی پلاتا پھرتا تھا مگر خود اُس میں اتنی حیا ضرور تھی کہ مانگتا کچھ نہ تھا ۔دوری طرف حضرت علی ؓ کی اولاد کو دیکھو کہ اتنی پُشتیں گذرنے کے بعد بھی خدا تعالیٰ ایک بادشاہ کو رئویا میں ڈراتا ہے ۔اور اُن سے حُسن سلوک کرنے کی تاکید کرتا ہے ۔اگر حضرت علیؓ کو اس اعزاز کا پتہ ہوتا اور اُن کی غیب کا علم حاصل ہوتا اور وہ محض اس عزت افزائی کے لئے اسلام قبول کرتے تو ان کا ایمان صرف سودا اور دوکانداری رہ جاتا۔کسی انعام کا موجب نہ بنتا۔
اِسی طرح حضرت خدیجہؓ جب ایمان لائیں تو اُن کو کیا معلوم تھا کہ اس ایمان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اُن کو کیاکچھ برکات مقدّر کر رکھتی ہیں۔ بیشک انہوں نے اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے اپنا تمام مال قربان کردیا۔ یہاں تک کہ وہ مکہ کی متمول ترین عورت ہوتے ہوئے غربت اور تنگدستی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبورہوگئیں۔ اور پھر شعیب ابی ؔ طالب میں متواتر تین سال تک انہوںنے ایسی ایسی تکالیف برداشت کیںکہ اُنہی کے نتیجہ میں آپ وہاں سے نکلتے ہی انتقال فرماگئیںمگر اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کو ایسا نوازا کہ آج تک عالمِ اسلام اُن کا نام عزت اور ادب کے ساتھ لے رہا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ان کی ایسی محبت ڈالی کہ جنگ بدر میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کے داماد ابو العاصؔ جو ابھی تک اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے قید ہوکر آئے تو آپ ؐ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ نے جو ابھی مکہ میں ہی تھیںاُن کے فدیہ کے طور پر اپنے گلے کا ہار اتارکر بھیج دیا ۔یہ وہ ہار تھا جو حضرت خدیجہؓ نے اپنی بیٹی کو جہیز میں دیا تھا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو آپ ؐ کو حضرت خدیجہؓ یا دآگئیں۔اور آپؐ کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے ۔پھر آپؐ نے صحابہ سے فرمایا۔ اگر تم چاہو تو خدیجہؓ کی یہ یادگار اُن کی بیٹی کے پاس محفوظ رہے ۔
اِسی طرح حضرت خدیجہؓ کی وفات کے کئی سال بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنے گھر میں تشریف رکھتے تھے ۔کہ حضرت خدیجہؓ کی بہن ہالہؓ آپؐ سے ملنے کے لئے آئیں اور دروازے پرکھڑے ہوکر انہوں نے کہا۔کیا میں اندر آسکتی ہوں ۔ہالہؓ کی آواز چونکہ اپنی بہن خدیجہؓ سے بہت کچھ ملتی جلتی تھی ۔اس لئے اس آواز کے کان میں پڑتے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں حضرت خدیجہ ؓ کی یاد تازہ ہوگئی ۔آپؐ بے تاب ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا۔آہ میرے خدا!یہ تو خدیجہؓ کی آواز معلوم ہوتی ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اُن پر ایسا احسان کیا کہ ابراہیم ؓ کے سوا جو حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے پید اہوئے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی تمام اولاد حضرت خدیجہؓ سے ہی پیدا ہوئی ۔چنانچہ حضرت خدیجہ ؓ کے بطن سے آپ کے تین لڑکے اورچار لڑکیاں پیداہوئیں ۔ لڑکے توسب کے سب بچپن میں ہی وفات پاگئے۔مگرحضرت زینبؓ حضرت رقیّہؓ،حضرت ام کلثومؓ اورحضرت فاطمہؓ چاروں لڑکیاں زندہ رہیں۔اوراسلام میں داخل ہوئیں ۔حضرت امام حسنؓ اور امام حسین ؓ حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے بطن سے ہی پیداہوئے تھے جوحضرت خدیجہؓ کی صاحبزادی تھیں۔اورانہی کی اولاد آج سادات کہلاتی ہے۔غرض اللہ تعالیٰ نے انہیں اوران کی تمام نسل کو اپنے غیر معمولی انعامات سے نوازا۔لیکن اگر حضرت خدیجہؓ کومعلوم ہوتا کہ انہیں ایک دن یہ اعزاز حاصل ہونے والا ہے کہ تمام عالمِ اسلام انہیں اُم المومنین کہے گا اورقیامت تک ان کی نسل کو معز ز اورمکرّم قرار دیاجائے گا اوروہ اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں بلکہ محض اس عزت اورمقام کے حصول کے لئے ایمان لاتیں توان کاایمان لاناان کے کس کام آتا ۔
اسی طرح ابوجہل جو سمجھتا تھا کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے ساتھیوںکو مارڈالوں گا اوراسلام کو مٹادوں گا ۔اگر اس کو یہ علم ہوتا کہ اس کی مخالفانہ کوششوں کے باوجود اسلام دنیا میں پھیل جائے گا اوردنیا میں اس کانام *** کے ساتھ لیا جائے گا بلکہ خود اس کابیٹا اسلام میں داخل ہوجائے گا اوروہ اسلام کے لئے دشمنوں سے لڑتا ہواماراجائے گا تووہ کبھی اسلام کے خلاف اپنی آواز بلند نہ کرتا۔غرض اگرپردئہ غیب حائل نہ ہوتا تونہ اابوبکر ؓ ابو بکر ؓ ہوسکتا۔نہ اوبو جہل ابو جہل بن سکتا۔لیکن جہاںد ینی اوردنیوی کاروبار پردئہ غیب کی وجہ سے چل رہاہے وہاں مومنوںکے ایمان کی ترقی انکشافِ غیب سے تعلق رکھتی ہے ۔جب انبیا ء دنیا میں آتے اورلوگوں کو غیب کی خبریں سناتے ہیں اورپھر مخالف حالات میں ان کی بتائی ہوئی باتیں پوری ہوجاتی ہیں تودلوں میںایک نیا ایمان پیداہوجاتاہے اورخداتعالیٰ کی ہستی اس طرح عریاں ہوکر لوگوں کے سامنے آجاتی ہے کہ اس کے وجود کاکوئی دیانتدار انسان انکار نہیں کرسکتا ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ کپور تھلہ کے احمدیوں اورغیر احمدیوں کا وہاں کی ایک مسجد کے متعلق مقدمہ ہوگیا ۔ جس جج کے پاس یہ مقدمہ تھا اس نے مخالفانہ رویہ اختیارکرنا شروع کردیا ۔اس پر کپور تھلہ کی جماعت نے گھبراکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کودعاکے لئے خط لکھا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے جواب میں انہیں تحریرفرمایا کہ اگر میں سچا ہوں تومسجد تم کو مل جائے گی۔مگر دوسری طرف جج نے اپنی مخالفت بدستور جاری رکھی اورآخر اس نے احمدیوں کے خلاف فیصلہ لکھ دیا ۔ مگر دوسرے دن جب وہ فیصلہ سنانے کے لئے عدالت میں جانے کی تیاری کرنے لگا توا س نوکر سے کہا ۔مجھے بوٹ پہنادو ۔نوکر نے ایک بوٹ پہنایا اوردوسر اابھی پہنا ہی رہاتھا ۔کہ کھٹ کی آواز آئی ۔اس نے اوپر دیکھا ۔توجج کا ہارٹ فیل ہوچکا تھا ۔اس کے مرنے کے بعد دوسرے جج کو مقرر کیاگیا۔اوراس نے پہلے فیصلہ کو بدل کر ہماری جماعت کے حق میں فیصلہ کردیا ۔جودوستوں کے لئے ایک بہت بڑانشان ثابت ہوا۔اوران کے ایمان آسمان تک جاپہنچے۔غرض اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے انبیاء کے ذریعہ متواترغیب کی خبریں دیتا ہے ۔جن کے پوراہونے پر مومنوں کے ایمان اَور بھی ترقی کرجاتے ہیں۔یہ غیب کی خبروں کا ہی نتیجہ تھا کہ جو لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ان کے دل اس قدر مضبوط ہوگئے کہ اورلو گ توموت کو دیکھ کر روتے ہیں ۔مگر صحابہؓ میں سے کسی کو جب خداتعالیٰ کی راہ میں جان دینے کاموقعہ ملتا تووہ خوشی سے اچھل پڑتا۔اورکہتا فُزْتُ وَربِّ الْکَعْبَۃِ۔ربِ کعبہ کی قسم! میں کامیا ب ہو گیا ۔آخریہ روح ان کے اند رکہا ں سے آگئی تھی ۔یہ وہی روح تھی جو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کی خبریں بتابتا کر مومنوں کے اند ر بھر دی تھی ۔اگر ان پر انکشافِ غیب نہ ہوتاتووہ ا س اعلیٰ مقام پر کبھی کھڑ ے نہ ہوسکتے جس پر مسلمان پہنچے۔پس یہ دونوں چیزیں اپنی اپنی جگہ بنی نوع انسان کے لئے منفعت بخش ہیں۔غیب بھی اپنی جگہ فائدہ مندہے اورانکشافِ غیب بھی اپنی جگہ نفع رساں ہے۔ساری لذتیں غیب کے ساتھ ہیں اورساری روحانیت کشفِ غیب کے ساتھ وابستہ ہے
خداتعالیٰ کی دوسری صفت جس کی طرف ان مقطّعات میں توجہ دلائی گئی ہے وہ ا س کی صفت سمیع ہے ۔اَلسَّمِیْعُ کے معنے ہیں کہ وہ لوگوں کی دعائیں سنتا اورانہیں نرالے طور پر قبول کرتاہے اوریہ کہ اس کے سوانہ زندہ آدمی دوسروں کی دعائیں سن سکتے ہیںاور نہ مردہ۔ صرف خداہی ہے جو لوگوں کی دعائیں سنتا اوران کو قبول فرماتا ہے ۔چنانچہ دیکھ لو ۔کوئی یورپ میں دعامانگ رہاہوتاہے ۔کوئی ایشیا میں دعا مانگ رہاہوتاہے ۔کوئی چین میں مانگ رہاہوتاہے ۔کوئی جاپان میں مانگ رہاہوتاہے ۔کوئی روس میں مانگ رہاہوتا ہے۔کوئی مصر ۔شام اورفلسطین میں مانگ رہاہوتاہے ۔مگر خداان سب کی دعائیں سن رہاہوتا ہے ۔پس اس صفت کے ذریعے بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تمہاراخداوہ ہے جو تمہاری دعائوں کو سننے والااورتمہار ی تمام ضروریات اورحاجات میں کام آنے والاہے تمہیں جب بھی کوئی مشکل پیش آئے ۔تمہارافرض ہے کہ تم خداتعالیٰ کے حضور جھکو ۔اوراس سے دعاکرو۔اس کے لئے کسی مال کی ضرور ت نہیں۔کسی ہنر کی ضرورت نہیں۔کسی طاقت اورقوت کی ضرورت نہیں۔اگر کسی کے دونوں ہاتھ شل ہوچکے ہوں یاکوئی شخص اتنا نحیف اورکمزور ہوچکا ہوکہ وہ چارپائی سے اٹھ کر نماز کی حرکات بھی ادانہ کرسکے۔تب بھی و ہ دعاکرسکتا ہے۔ کیونکہ دعاان چیز وںکی محتا ج نہیں ۔وہ بیشک لیٹا رہے اوراللہ تعالیٰ سے دعاکرتاچلا جائے ۔بلکہ اگر اس کی زبان پر فالج گراہواہے اوروہ دعا کے لئے اپنی زبان بھی نہیں ہلا سکتا ۔توو ہ دماغ میں ہی دعائیہ فقرات کو دوہراتا ہے اوراگر اس کادماغ بھی کام کرنے سے رہ جائے توپھر اس کا زمانہ عمل ختم ہوجاتاہے۔لیکن جب تک ایک انسان دنیا میں رہتا ہے اورانسانیت کی حدود سے وہ ادھر ادھر نہیں ہوتا اس وقت تک ایک معذور سے معذور انسان بھی اس میں حصہ لے سکتاہے یہاں تک کہ وہ گونگا جس کی زبا ن نہیں وہ بہرہ جس کے کان نہیں ۔وہ مفلوج جس کے جسم کی حِس ماری گئی ہو ۔اوروہ گوشت کا لو تھڑہ بن کر چارپائی پر پڑاہواہووہ بھی اسی جو ش و خروش سے اپنے رب سے دعاکرسکتاہے جس طرح ایک تندرست اورطاقتور انسان ۔
غرض دعاایک ایسی چیز ہے جس نے دنیا کے تمام چھوٹوں اوربڑوں اورامیروں اورغریبوں کو ایک سطح پر لاکر کھڑا کردیاہے ۔اوردعاہی وہ ہتھیا رہے جس کے متعلق خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایاہے کہ اَمَنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَادَعَاہُ(نمل آیت ۶۳) وہ کو نسی ہستی ہے جو بندہ کی دعائے مضطر سن کر بیتا ب ہو جاتی اور دوڑ کر اس کے پاس آجاتی ہے ۔فرمایا ۔وہ میں ہوں۔پس یہ عمل سب اعمال سے زیادہ طاقتو ر ہے بیشک نماز بھی ایک ضروری چیز ہے۔روزہ بھی ایک ضروری چیز ہے۔زکوٰۃ بھی ایک ضروری چیز ہے ۔حج بھی ایک ضروری چیز ہے ۔جہاد بھی ایک ضروری چیز ہے ۔مگر دعاوہ عمل ہے جس کے متعلق خداتعالیٰ نے کہا ہے کہ اگر کوئی مجھے سچے دل سے پکا رے تومیں ضرور اس کے پاس پہنچ جاتاہوں ۔چنانچہ وہ فرماتا ہے ۔وَاِذَاسَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔یعنی جب کبھی میر ے بندے انسانی خدائوں سے ناامید ہوکر پوچھیں کہ ہماراآسمانی خداکہاں ہے۔ہم پر تو فرعون نے اورنمرود نے اورشدّاد نے اتنا تصرّف کرلیا ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کہاں جائیں اورکس طرح ان کے مصائب اورآفات سے رہائی حاصل کریں توتُوانہیں کہہ دے کہ تمہیں میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں ۔اِنِّیْ قَرِیْبٌ میں خود تمہارے قریب آیاہواہوں۔اگرتمہاراباپ تمہارے کام آسکتا ۔یاتمہاراچچا تمہاری مدد کرسکتا ۔یاتمہارااَورکوئی رشتہ دار تمہارے قریب ہوتا توتمہیں دوڑ کر اس کے پاس جانا پڑتا ۔مگر اب تمہیں کہیں جانے کی ضرور ت نہیں ۔میں خود تمہارے قریب آیا ہواہوں ۔پس تمہاری فریاد سنی جانے میں کوئی وقت نہیں لگ سکتا ۔دنیا میں توتمہیں مدد حاصل کرنے کے لئے اپنے دوستوں اوررشتہ داروں کے پاس جانا پڑتا ہے ۔ مگر میں توآپ دوڑ کر تمہارے قریب آچکا ہوں پھر تمہیں کیا مشکل پیش آسکتی ہے ۔
یہ پیغام جو اسلام نے دنیا کے ہرفرد کو دیاہے اتنا اہم اوراس قدر عظیم الشان انقلاب پیداکرنے والا ہے کہ اس کی موجودگی میں دنیا کا کوئی دکھ انسان کو پریشان نہیں کرسکتا ۔دشمن خواہ آسمان سے بھی اونچے چلے جائیں اگر کو ئی شخص سچے دل سے اپنے رب کو پکا رے تواللہ تعالیٰ آسمان سے اپنا ہاتھ بڑھا کر ان کی گر دنیں مروڑ سکتا ہے۔بیشک وہ چھا ن چھان کر پانی پئیں ۔بیشک و ہ رات اوردن پرہیز کرتے رہیں اگر خداتعالیٰ ان کی ہلاکت کافیصلہ فرمادے تووہ ہیضہ یا طاعون یا انفلوئنزاکے کیڑوں کو بھی حکم دے سکتا ہے کہ تم اتنی تعداد میں فلاں شخص کے اندر داخل ہوجائو۔کہ دنیا کی کو ئی دوائی اس پر اثر نہ کرسکے اوروہ تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوجائے اورمیرامومن بندہ خوش ہوجائے کہ میں نے اس کی مدد کی ہے۔ ایک بزرگ کاواقعہ لکھا ہیح کہ ان کے محلہ میں شاہی دربار کے بعض آدمی رات کو گانے بجانے کا شغل رکھتے تھے ۔انہوں نے کئی دفعہ سمجھا یا کہ لوگوں کی نیندیں اورنمازیں خراب ہوتی ہیں تم اس شغل کو ترک کردو ۔مگر وہ نہ مانے ۔جب انہوں نے بار بار کہا تو اس خیال کے ماتحت کہ کہیں یہ محلہ والوں سے مل کر ہمیں روکنے کاتہیہ نہ کرلیں۔انہوں نے شاہی پہرہ داروں کا انتظام کرلیا ۔جب اس بزرگ کو اطلاع ملی تو انہوں نے کہا اچھا اِنہوں نے اپنی حفاظت کے لئے فوج بلالی ہے توہم بھی رات کے تیروں ان کامقابلہ کریں گے ۔معلوم ہوتاہے ان لوگوںکے دلوں میں ابھی کچھ نیکی باقی تھی ۔جونہی ان لوگوں کے کان میں یہ آواز پڑی کہ ہم رات کے تیروں سے مقابلہ کریں گے ۔وہ دوڑتے ہوئے اس بزرگ کے پاس آئے اورکہنے لگے ۔ان تیروں کے مقابلہ کی ہم میں طاقت نہیں۔ ہم اپنے شغل سے باز آئے ۔پس دعاایک یساہتھیا رہے کہ اگر کوئی شخص کامل یقین اورپختہ ایمان کے ساتھ اس سے کام لے توبظاہر ناممکن نظر آنے والی باتیں بھی اس کے لئے ممکن ہوجاتی ہیں ۔
مجھے یادہے ایک دفعہ میں دریا پر گیا ۔بھائی عبدالرحیم صاحب جو بچپن میں میرے استاد رہے ہیں اورکچھ اَو ردوست میرے ساتھ کشتی میں سوارتھے۔جب ہم کشتی میں بیٹھے ہو ئے دریا کی سیر کررہے تھے تومیرے لڑکے ناصر احمد نے اپنے بچپن کے لحاظ سے کہا کہ ابا جان!اگر اس وقت ہمارے پاس مچھلی بھی ہوتی توبڑامزہ آتا ۔میں نے کہا ۔لوگ کہتے ہیں کہ پانیوں میں خواجہ خضر کی حکومت ہے ۔اگر خواجہ خضر کو ئی مچھلی ہماری طرف پھینک دیں توتمہاری یہ خواہش پوری ہوسکتی ہے ۔جب میں نے یہ فقرہ کہا تو بھائی عبدالرحیم صاحب جھنجھلا کرکہنے لگے کہ آپ کیسی باتیں کرتے ہیں اس بچے کی عقل ماری جا ئے گی میں نے کہا ۔ہمارے خدامیں توسب طاقتیں ہیں وہ چاہے تو ابھی مچھلی بھجوادے ۔میں نے یہ فقرہ ابھی ختم ہی کیا تھا کہ یکدم پانی کی ایک لہر اٹھی اورایک بڑی سی مچھلی کود کر ہماری کشتی میں آگری ۔میں نے کہا دیکھ لیجئے خداتعالیٰ نے اپنی قدرت نمائی کردی ۔اورہمارے دل میں جو خواہش پیداہوئی تھی و ہ اس نے پوری کردی ۔خواجہ خضر بے شک وفات پاچکے ہوں مگرہماراخداجو ہماراخالق اورمالک ہے اور سَمِیْعُ الدُّعَا ہے و ہ توزندہ ہے اوروہ ہمارے جذبات کو جانتا ہے اس نے اس خواہش کودیکھا اورمیر ی بات کو پوراکردیا ۔
اسی طرح ایک دفعہ بڑی تپش کے بعد بارش آئی جس کمرہ میں میں رہتاتھا ۔اس کی کھڑکی میں نے کھولی اوربارش کا نظارہ دیکھنے لگا ۔ چونکہ بڑی دیر کے بعد بارش آئی تھی ۔اس لئے مجھے اس بارش کا بڑا مزہ آیا ۔مگر اس روز مجھے پیچش کی شکایت تھی۔میں بھی بارش کانظارہ دیکھ ہی رہاتھا کہ مجھے اجابت محسوس ہوئی ۔جب میں جانے لگا تو بیساختہ میرے منہ سے نکلا کہ خدایا!توایسا فضل فرماکہ خواہ درمیانی عرصہ میں یہ بارش بند ہوجائے جب میں واپس آجائوں توپھر بار ش شروع ہوجائے ۔چنانچہ ایساہی ہوا۔جو نہی میں گیا ۔بارش بند ہوگئی ۔اورجب میں کمر ہ میں واپس آیا اورمیں نے دوبارہ کھڑکی کھولی تو یکدم بارش شروع ہوگئی جو آدھ گھنٹہ یاپون گھنٹہ تک جاری رہی۔اب دیکھو بار ش میرے اختیار میں نہیں تھی مگر خداتعالی نے ایسا فضل کیاکہ ادھر میں کمرہ میں پہنچا اوراُدھر بارش شروع ہوگئی۔ اسی طرح حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک جماعت نے بڑے اصرارسے مجھے اپنے پاس بلایا ۔جب میں واپس آرہاتھا تو چلتے چلتے کسی آئندہ خرچ کے خیال سے میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالاتو ایک روپیہ کم تھا۔اس وقت میں نے اللہ تعالیٰ سے دعاکی ۔کہ اللہ میاں مجھے ایک روپیہ بھیجیں۔ابھی میرے دل سے یہ دعانکل ہی رہی تھی کہ قریب کے گائوں سے ایک آدمی ہماری طرف آتا دکھائی دیا۔جماعت کے دوست جلدی سے حفاظت کے لئے میرے اردگرد جمع ہوگئے ۔میں نے کہا کیا ہوا۔کہنے لگے یہ ہمارے سلسلہ کا شدید دشمن ہے اوراحمدیوں پر اکثر حملے کرتا رہتاہے ۔ہم آپ کے گرد اس لئے کھڑے ہوگئے ہیں کہ وہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے ۔جب ہم اس گائوں کے قریب پہنچے تو وہ دوڑتا ہواآیا اورمیرے ساتھیوں کو دھکا دے کرآگے بڑھا اورپھر اس نے ادب کے ساتھ میری طرف ہاتھ بڑھایااورایک روپیہ میرے ہاتھ پر رکھ کرچلا گیا ۔میں نے کہا ۔آپ لو گ کہتے تھے یہ مارنے آیاہے اوراس نے توایک روپیہ نذرانہ کے طور پر دے دیا ہے۔پھر میں نے انہیں بتایا کہ ابھی میرے دل میں خیال آیا تھا کہ خدامجھے ایک روپیہ بھیجے ۔سوخدانے اس شخص کو بھیجدیااور اس نے مجھے ایک روپیہ نذرانہ کے طور پر دے دیا۔غرض انسان کو اگر خداتعالیٰ پر کامل یقین ہو تو وہ اس کے لئے بڑے بڑے نشانا ت ظاہر کردیتا ہے ۔
حدیثوں میں آتا ہے کہ سابقہ امتوں مکیں سے ایک امت کے تین آدمی ایک دفعہ ایک طوفان میں پھنس گئے اورو ہ اس طوفان سے پناہ لینے کے لئے ایک پہاڑ کی غار میں چھپ گئے ۔اتفاقاً زور کی جو آندھی آئی توپتھر کی ایک بڑی بھاری سِل لڑھک کر اس غار کے منہ کے آگے آگئی اورنکلنے کاراستہ بند ہوگیا۔وہ ایک چھوٹی مصیبت سے بچنے کے لئے پہاڑ کی غار میں گئے مگر اس سے بڑی مصیبت میں پھنس گئے ۔اس جنگل جبکہ وہ ایک پہاڑ کی غار میں محبوس تھے کو ئی آدمی ایسانہ تھا جو انہیں اس مصیبت سے نجا ت دلاتا ۔وہ سخت گھبرائے اورجب انہیں اپنی نجات کی کوئی صورت دکھائی نہ دی ۔توایک شخص کو دعاکی تحریک ہوئی اوراس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آئو ہم نے اپنی عمر میں جو وسب سے زیادہ نیک کاکام کیا ہے اس کاواسطہ دے کر خداتعالیٰ سے کہیں کہ وہ اس پتھر کو ہٹا دے ۔تب ان میں سے ایک نے کہا کہ اے خدا!تجھے معلوم ہے کہ ایک مزدورمیرے پاس آیا ااس نے میری مزدوری کی اورپھر پیشتر اس کے کہ وہ مجھ سے اجر ت لیتا چلا گیا ۔میں نے اس کی اجرت کے پیسوں سے تجارت شروع کی اورا سمیں سے نفع اٹھاتے ہوئے ایک بکر ی خریدی اس بکری سے اور بکریاں پیداہوئیں یہاںتک کہ سینکڑوں بکریوںاوربھیڑوں کا گلہ میرے پاس ہوگیا ۔وہ کئی سال کے بعد میرے پاس آیااورکہنے لگا میری اٹھنی رہتی ہے وہ مجھے دی جائے ۔میں اسے اپنے ساتھ لے گیا ۔اورسینکڑوں بکریوںاوربھیڑوں کا گلّہ اسے دکھا کرکہا یہ تیری امانت ہے اسے لے جا ۔وہ کہنے لگا ۔مجھ سے کیوں مذاق کرتے ہو ۔میری صرف اٹھنی رہتی تھی وہ مجھے دیدو۔میں نے اسے کہا ۔اس اٹھنی سے ہی میں نے تجارت شروع کی تھی اوراب اس قدر بھیڑیں اوربکریاں ہوگئی ہیں ۔وہ کہنے لگا ۔ پھر تو یہ میری نہ ہوئیں ۔تمہاری ہوئیں ۔میں نے اسے کہا ۔نہیں میں نے اپنے لئے نہیں بلکہ تمہارے لئے تجارت کی تھی ۔تب وہ نہایت ہی حیران ہو ا۔مگر میرے مجبور کرنے پر وہ بھیڑوں اوربکریوں کے گلّوں کو ہانک کر اپنے گھر لے گیا ۔اے خدااگر میں نے یہ کام تیری رضااور خوشنودی کے لئے کیاتھا توتُو مجھ پر رحم فرما اوریہ پتھر راستہ سے ہٹا دے ۔اس دعاکے نتیجہ میں زورسے آندھی کا ایک طوفان اٹھا اور اورو ہ پتھر ذراسالڑھک گیا ۔مگر ابھی ان کے نکلنے کا راستہ نہ بنا ۔ تب دوسرے نے کہا ۔اے خدا توجانتا ہے کہ مجھے ایک لڑکی سے جو میری رشتہ دار تھی بڑی محبت تھی مگر وہ کسی طرح میرے قابو میں نہیں آتی تھی ۔ایک دفعہ ملک میں شدید قحط پڑا ۔اوروہ او راس کے رشتہ بھوکے مرنے لگے۔آخر مجبور ہوکر وہ لڑکی میرے پاس مدد کے لئے آئی ۔میں نے اسے کہا کہ میں تمہاری مدد کے لئے تو تیارہوں مگر پہلے تم میرے ساتھ ہمبستری کر و۔ وہ مجبوراً اس کام کے لئے رضامند ہوگئی ۔ جب میں اس کے قریب گیا ۔تو اس لڑکی نے کہا ۔میں تمہیں خداکاواسطہ دے کر کہتی ہوں کہ تو مجھے گناہ میں مبتلا مت کر ۔یہ سنتے ہی میں الگ ہوگیا ۔اورمیں نے کہا ۔ اب تو نے ایک بڑی ذات کا مجھے واسطہ دیا ہے میں اسی کی رضا کے لئے اس کام کو ترک کرتاہوں۔چنانچہ لڑکی اُٹھی اور اپنے گھر چلی گئی اور میں نے روپیہ بھی اسے دے دیا ۔اے خدا!اگر میں نے یہ کام محض تیری رضااور خو شنودی کے لئے کیا تھا تو تُو اس پتھر کو ہما رے راستہ سے ہٹا دے ۔تب پھر زور سے ایک طوفان اٹھا اورپتھر تھوڑاسا اورسرک گیا ۔مگر راستہ پھر بھی نہ بنا کیونکہ چٹان بہت بڑی تھی اور ابھی وہ اتنی نہیں لڑھکی تھی کہ ان کے نکلنے کا راستہ بن جاتا ۔تب تیسرا شخص خداتعالیٰ کے حضورجھکا اوراس نے کہا اے خداتجھے معلوم ہے کہ میں بکریاںچرایا کرتاہوں ۔ایک دن مجھے بکریاں چراتے چراتے دیر ہوگئی اورمیں جلدی گھر نہ پہنچ سکا۔میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے او ربچے چھوٹے چھوٹے ۔جب میں گھر پہنچا تو میرے ماں باپ سوچکے تھے او ربیوی بچے جاگ رہے تھے اور بھو ک کی وجہ سے میراانتظار کرہے تھے۔جب میں پہنچا تو انہوں نے کہالائوہمیں دودھ پلائو ۔تاکہ ہم دودھ پی کر سوجائیں ۔مگر میں نے کہا جب تک میرے ماں باپ دودھ نہ پی لیں ۔کسی اورکودودھ نہیں دے سکتا ۔چنانچہ میں نے دودھ کا پیالہ بھر او راپنے والدین کی پائنیتی کے پاس کھڑاہوگیا ۔میری بیوی زاری کرتی رہی اورمیرے بچے چیختے رہے ۔مگر میں نے ان کی چیخ و پکا رکی کویء پرواہ نہ کی۔ اور دودھ کا پیالہ اپنے ہاتھ میں لئے برابر کھڑا رہا۔یہاں تک کہ صبح ہوگئی اس وقت میرے والدین اٹھے تومیں نے انہیں دودھ پلا یا اور پھر اپنی بیوی اور بچوں کودودھ پلایا ۔اے خدا اگر میرایہ کام محض تیری رضا اورخوشنودی کے لئے تھا اور دنیا کی کوئی غرض اس میں نہ تھی توتومجھ پر رحم فرمااوراس پتھر کو راستہ سے ہٹادے ۔تب پھر زورکاطوفان اٹھااورپتھر لڑھک کر نیچے گر گیا ۔اوروہ تینوں شخص غار سے باہر نکل آئے ۔(ریاض الصالحین ابواب الاخلاص والنیۃ )
غر ض دعاایک بہت بڑا ہتھیا رہے جوہرمصیبت میں انسان کے کام آتا اور اسے ہرقسم کی مشکلا ت سے رہائی عطاکرتا ہے ۔اتنے بڑے ہتھیار کے ہوتے ہوئے بڑاہی نادان وہ شخص ہے جو مصیبت کے آنے پر کسی اورکی طرف بھاگے اور اس سے مدد مانگے ۔ سچا مومن وہی ہے جو اپنی ہرضرورت خداتعالیٰ سے مانگے ۔یہاں تک کہ اسے اگر اپنی جوتی کے لئے تسمہ کی بھی ضرورت ہو تو وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی سے مانگے ۔اوراس امر پر کامل یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ اس کی ہرضرورت کو پوراکرنے پر قادر ہے اوروہ اسے اپنے دروازے سے کبھی خائب و خاسر واپس نہیں لوٹائے گا ۔جب مومن کے اند ریہ کیفیت پیداہوجائے تووہ سب دنیا کو بھول جاتاہے اور صرف اللہ تعالی کو ہی اپنا حقیقی کار ساز سمجھتاہے ۔میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے کہ ہماری جماعت کے ایک دوست مولوی امام الدین صاحب جو گولیکی ضلع گجرات کے رہنے والے اورقاضی اکمل صاحب کے والد تھے اوراب فوت ہوچکے ہیں وہ صوفی منش آدمی تھے۔ اورمجھے ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ وہ روحانی مقام احمدیت میں نصیب نہیں ہوسکاجس کے متعلق ہم سب کچھ سنا کرتے تھے میں نے ایک دفعہ ان سے پوچھا کہ وہ کیا مقام تھا جس کا آپ ذکر سنا کرتے تھے ۔کہنے لگے ہمارے پیر صاحب کہا کرتے تھے کہ جو شخص ہماری صحبت میں چند دن رہے اسے ہم عرش پر سجد ہ کراسکتے ہیں اور وہ خداتعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے ۔ میں احمدیت کو اپنی پہلی حالت سے بالا تو تسلیم کرتا ہوں مگر وہ نظارہ مجھے احمدیت میں نظر نہیں آتا ۔میں نے ان کو ایک لطیفہ سنایاکہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ ایک صوفی طرز کے پیر نے جب سنا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرلی ہے تواس نے اپنے ایک مریدکے ذریعہ مجھے کہلا بھیجا کہ مرزاصاحب کو مان کر اوران کی بیعت کرکے کیا حاصل ہوسکتا ہے۔اگر آپ میری بیعت کرلیں تو مجھے اتنا کمال حاصل ہے کہ میں آپ کا پہلا سجدہ کی عرش پر کروادوں ۔جب اس کے مرید نے مجھے صوفی کا یہ پیغام سنایا تومیں نے کہلا بھیجا کہ مجھے عرش پر سجدہ کرنے سے جوتیاں نہ پڑیں گی ۔خداتعالیٰ کہے گا میں نے زمین پر سجدہ کرنے کاحکم دے رکھا ہے اور تو آسمان پر سجدہ کرنے آگیاہے ۔اس پر مولوی امام الدین صاحب مرحوم کہنے لگے یہ تو ٹھیک ہے مگرا س سے میری تسلی نہیں ہوئی ۔غرض و ہ جب بھی مجھ سے ملتے اسی قسم کی بات کرتے اورمیں کسی نہ کسی رنگ میں ان کو جواب دیاکرتا مگر ان کے دل کی خلش دور نہ ہوتی ۔آخر ایک دن میں نے ان سے کہا مولوی صاحب کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جس شخص کو خداتعالیٰ نظر آجائے اوراسے اتنے کمالات حاصل ہوجائیں کہ وہ خداتعالیٰ کے عرش پر سجدہ کرنے لگ جائے ۔توایسے آدمی کی کیا حالت ہوتی ہے ایسے آدمی کاکفیل خود خداتعالیٰ ہو جاتاہے اوراسے بندوں کی کوئی احتیاج نہیں رہتی بلکہ وہ جوکچھ مانگتا ہے خداتعالیٰ ہی سے مانگتا ہے اورچاہے بندے اس کی مدد کریں لیکن اس کی حالت یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِنَ السَّمَائِ کی سی ہوتی ہے ۔ اورجولوگ اس کی مدد کرتے ہیں وہ خود محتاج ہوتے ہیں ۔اسی بات کے کہ اس کی مددکریں وہ اس بات کامحتاج نہیں ہوتا کہ کوئی اس کی مدد کرے۔ایسے شخص کو کچھ دینے والا سمجھ رہاہوتاہے کہ میں اس کی مدد کررہاہوں ۔مگرلینے والا سمجھ رہاہوتا ہے کہ میں اسے سے لے کر اس پر احسان کررہاہوں ۔کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دینے والا زید ہو یا بکر ۔اسے خداتعالیٰ نے ہی میری ضرورتوںکو پوراکرنے کے لئے بھیجا ہے۔میں کسی زید کا بکر کا ہرگز محتا ج نہیں ۔ایسے شخص کو چاہے کسی ذریعہ سے کوئی چیز پہنچے وہ سمجھتا یہی ہے کہ یہ خدانے مجھے بھیجی ہے ۔اب آپ بتائیں کہ کیا آپ کے پیر صاحب کو بھی یہ مقام حاصل تھا ۔کہ اللہ تعالیٰ ان کی تمام ضروریات کو پوراکرتاہو؟جب میں نے ان سے یہ سوال کیا تو وہ خاموش ہوگئے اورکہنے لگے کہ میں اب سمجھ گیاہوں ۔ہمارے پیرصاحب جو کہتے ہیں کہ ہم یو ں نظارے دکھاتے ہیں اورعرش پر سجد ہ کرادیتے ہیں ۔جب کبھی فصل وغیرہ کا موقعہ آتاتوزمینداروں کے پاس چلے جاتے ان سے کہتے کہ ہمارابھی خیال رکھنا ۔اب میں اس بات کو اچھی طرح سمجھ گیا ہوں کہ اگر فی الواقعہ ان کا خداتعالیٰ کے ساتھ سچاتعلق ہوتا توکسی بندے سے کیوں کہتے کہ میرابھی خیال رکھنا ۔غرض خداتعالیٰ کو اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھ لینے والے کے سامنے صرف خداتعالیٰ کی ہی ذات رہتی ہے اوروہ اسی سے اپنی ہرضرورت طلب کرتااوراسی کو حقیقی کارساز سمجھتاہے ۔مگرجہاں ایک مومن کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ خداتعالیٰ سے ہمیشہ دعائیں مانگتا رہے وہاں اس کے لئے یہ بھی ضروری ہوتاہے کہ وہ لالچ اورحرص کے جذبات سے کلیۃً بالا رہے اورکبھی خداتعالیٰ کا شکوہ اپنی زبان پر نہ لائے ۔اللہ تعالیٰ مومنوںکو اس بارہ نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ لَاتَمُدَنَّ عَیْنیِْکَ اِلیٰ مَامَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًامِّنْھُمْ زَھْرَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَالِفَفْتِنَھُمْ فِیْہِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ
وَّاَبْقٰی(سورئہ طٰہٰ آیت ۱۳۲)یعنی تم اپنی گردن لمبی کرکرکے یہ نہ دیکھا کروکہ فلاں کو جوکچھ ملا ہے وہ مجھے کیوں نہیں ملا ۔تمہیں کیا پتہ کہ اس چیز کاملنا تمہارے لئے فائدہ بخش تھا یانہیں ۔اگر وہی کچھ تمہیں مل جات توممکن تھا کہ تم تکلیف میں پڑ جاتے ۔بیشک اگر کسی کے پاس د س ارب روپیہ بھی موجود ہو تووہ یہ دعاکرسکتا ہے کہ خدایاتو میں تیرے مزید فضلوں کا محتاج ہو ںلیکن اگر کسی کے پاس دس روپے ہوں اور وہ ہروقت کُڑھتارہے اور ایک بے چینی اضطراب اس میں پایاجائے اوروہ کہے کہ فلاں کے پاس تو سوروپیہ ہے اورمیرے پاس صرف دس روپے ہیں اوروہ خداتعالیٰ کا شکوہ کرتا پھرے تویہ درست نہیں ہوگا۔پس بے شک اللہ تعالیٰ کے فضلوں اوراس کے انعاموں کو طلب کرو۔مگر ہمیشہ یہ عادت ڈالو کہ خداتعالیٰ نے تمہیں جس مقام پر رکھا ہے اس مقام کے متعلق تمہارے دل میں کبھی خفگی پیدانہ ہو ۔اورتم یہ نہ سمجھو کہ خداتعالیٰ نے تمہیں گرایاہواہے اورتمہاراغیرتم سے اچھا ہے ۔مثنوی رومی والوں نے ایک حکایت لکھی ہے ۔وہ لکھتے ہیں ۔ایک سپیراتھا جس نے ایک سانپ پکڑا جو کسی اورسپیرے کے پاس نہیں تھا ۔وہ سانپ اس نے نہایت سنبھال کر رکھا ہواتھا اس کے دوست آشنا آتے تووہ بڑے شوق سے وہ سانپ ان کو دکھا تا ۔ایک دن جووہ صبح کو اٹھا تواس نے دیکھا کہ گھڑے میں سے سانپ نکل گیا ہے ۔اتفاقاًاس کا ڈھکنا کھلا رہ گیااورسانپ نکل گیا ۔اب اسے بڑی گھبراہٹ ہوئی اوراس نے خداتعالیٰ کے حضور رونا اورچلانا شروع کردیا ۔کہ خدایامیراسانپ مجھے مل جائے ۔خدایا میراسانپ مجھے مل جائے ۔گھنٹہ دوگھنٹہ دعاکرنے کے بعد وہ گھڑ ے کامنہ کھول کر دیکھتاکہ سانپ اس میں واپس آگیاہے کہ نہیں ۔مگر سانپ کہاں آتا ۔وہ پھر دعامیں مشغول ہوجاتا اسی طرح وہ ساراد ن اورساری رات دعاکرتارہا۔جب صبح ہوئی توایک شخص آیا اوراس نے اسے آکر کہا کہ فلاں گھر میں چلئے وہاں ایک نئی قسم کے سانپ نے ایک شخص کوکاٹا ہے اوروہ مرگیا ہے ۔سب سپیرے وہاں ہیں سانپ پکڑاہواہے اورآپ کو بھی بلایا گیاہے تاکہ آپ اس سانپ کو دیکھ لیں ۔جب وہ گیا اوراس نے سانپ دیکھا تووہ وہی تھا جواس کے گھر سے بھاگاتھا اورجس کے لئے چوبیس گھنٹے سے دعاکررہاتھا ۔معلوم ہوتا ہے اس کے اندر کوئی نیکی تھی جو اللہ تعالیٰ کو پسند آگئی ۔سانپ اس کے گھر سے بھا گا اوردوسرے گھر میں چلا گیا ۔دوسرا شخص یہ سمجھ کر کہ یہ نئی قسم کاسانپ ہے اسے پکڑنے لگا توسانپ نے اسے ڈسا اور وہ مر گیا جب اس نے یہ نظارہ دیکھا تو وہ پھر اللہ تعالیٰ کے حضورسجدہ میں گر گیااورکہنے لگا خدایا میں توسمجھتاتھاکہ تونے میری دعانہیں سنی ۔مگر درحقیقت تونے میری دعاسن لی تھی اوراس کانہ ملنا ہی میرے لئے مفید اوربابر کت تھا ۔توہزاروں دفعہ انسان ایسی خواہشیں کرتاہے جو مضر ہوتی ہیں ۔اولادیں ہی بعض دفعہ ایسی گندی نکلتی ہیں کہ وہ انسان کے لئے بدنامی کاباعث بن جاتی ہیں اوروہ ان کو دیکھ دیکھ کر روتا ہے۔ آخر اتنا توسوچوکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب شادی ہوئی تو وہ بھی یہ دعاکرتے ہوں گے کہ اللہ میاں ہمیں اپنے فضل سے بیٹا دے ۔مگر ظاہر ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ بھی ایک غریب گھرانے سے تھیں اورآپ کے والد بھی کوئی مالدارآدمی نہ تھے۔ ان کی شادی بہت معمولی سرمایہ سے ہوئی ہوگی ۔اورصرف چند آدمی ہوں گے جو اس شادی میں شریک ہوئے ہوں گے لیکن اس کے مقابلہ میں ابو جہل کے باپ کی جب شادی ہوئی ہوگی توکس دھوم دھڑکے سے ہوئی ہوگی اورکس طرح سات سات آٹھ آٹھ دن تک اونٹ ذبح کرکرکے مکہ والوں کی ضیافتیں کی گئی ہوں گی ۔لیکن اس دھوم دھڑکے کی شادی سے ابو جہل پیدا ہوااوراس چپ چپاتے کی شادی سے محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیداہوئے ۔بظاہر ابوجہل کے باپ کی شادی پردنیا کہتی ہو گی کہ کیا برکت والا گھر ہے ۔او رمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ کی شادی پر دنیا کو رحم آتا ہوگا اوروہ کہتے ہوں گے کہ کیسا غریب گھرانہ ہے ۔ مگر اس وقت کسی کے واہمہ اورگمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ جسے یہ برکت والا گھر سمجھا جاتاہے وہ عرب کو تباہ کرکے رکھ د ے گا اورجس کو قابل رحم سمجھاجاتاہے ان کی شادی کے نتیجہ میں وہ وجود پیدا ہونے والا ہے جو نہ اصرف عرب کو تباہی سے بچانے والاہو گا بلکہ وہ ساری دنیا کے لئے رحمت اوربرکت کا موجب ہوگا ۔
غرض کوئی انسان نہیں جانتا کہ وہ جو کچھ اپنے لئے مانگ رہاہے وہ اس کے لئے مفید بھی ہوگا یانہیں۔اس بات کاعلم صرف خداتعالیٰ کو ہی ہوتا ہے اورجب انسان اس قدر محدود علم رکھنے والا ہے تووہ خداتعالیٰ کے کسی سلوک کو یااس کی عطاکردہ نعمت کو براکیوں سمجھے ۔بیشک وہ حضرت موسیٰؑ کی طرح یہ بھی کہے کہ الٰہی تیری طرف سے جوبھی خیر نازل ہو اس کا میں محتاج ہوں ۔اگروہ دس کروڑ دے توتم کہو کہ الٰہی میں دس ارب کامحتاج ہوں لیکن یہ نہ کہو کہ مجھ پر کتنی سختی ہوئی ہے کتنا ظلم ہواہے کتنی تکلیف میں میں مبتلاہو ں۔کیونکہ اس طرح خداتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری ہوتی ہے جوجائز نہیں۔
تیسری صفت جس کی طرف ان مقطّعات میں توجہ دلائی گئی ہے وہ مجید کی صفت ہے ۔مجید کے معنے یہ ہیں کہ خداتعالی بڑی بزرگی اورشان رکھنے والاہے ۔قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پراللہ تعالیٰ کی اس صفت کی طرف ان الفاظ میں بھی اشار ہ فرمایا ہے کہ کُلَّ یَوْمٍ ھُوَفِیْ شَانٍ(الرحمن ع ۲)یعنی تمہاراخداوہ ہے جو ہروقت ایک نئی شان میں جلوہ گرہوتاہے اورہمیشہ اپنے ایسے نشانات ظاہرکرتا ہے جن سے ا س کی اعلیٰ و ارفع شان دنیا پر ظاہر ہوتی ہے حقیقت یہ ہے کہ دیکھی ہوئی چیز کو دوبارہ دیکھنا انسان کو کوئی خاص لطف نہیں دیتا ۔انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے جدت کامادہ رکھا ہواہے اوروہ چاہتا ہے کہ نئے نئے جلوے اس کے سامنے ظاہر ہوں ۔جب ریل گاڑی جاری ہو ئی توشروع شروع میں لوگ اسے عجوبہ سمجھتے ہوئے اس پر پھولوں کے ہار ڈالتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کا جوش ختم ہو گیا ۔پھر ہوائی جہاز اوردوسری سواریاں نکلیں۔توان کی طرف متوجہ ہوگئے۔غرض فطرت انسانی کو ہمیشہ نئی چیزوں سے لطف آتاہے اوروہ نئی نئی چیزوں سے تسلی پاتی ہے ۔کیونکہ جب وہ کوئی نئی چیز دیکھتا ہے توایک نئی امید اس کے اند ر پیداہوجاتی ہے ۔اوروہ سمجھتا ہے کہ شاید کوئی نیا جلو ہ مجھے نظر آنے لگا ہے۔ اسی فطرت کے تقاضہ کو پوراکرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے موسم بدلتے ہیں اورنئے نئے پھل پیداہوتے ہیں ۔اورانسان بیھ اکبھی اپنے لباس میں تغیر کرتاہے کبھی مکا ن میں اورکبھی نئے نئے کھانے تیار کرتاہے کیونکہ نئی چیز سے انسانی فطرت تسکین پاتی اورایک لطیف حظ محسوس کرتی ہے ۔اسی فطری تقاضا کے مطابق مجھے قرآن پڑھ کر بھی بڑامزہ آتا ہے ۔لیکن جب رات کو خداتعالیٰ میرے کان میں کویء بات کہتاہے توکچھ نہ پوچھو کہ اس کا کیا مزہ ہوتا ہے۔کیونکہ وہ ایک نئی چیز ہوتی ہے جو دل کو لذت او رسرور سے بھر دیتی ہے ۔غرض اسلام بتا تا ہے کہ تمہاراخدامجید ہے اوروہ ہمیشہ اپنی ایسی قدرتیں ظاہرکرتا ہے جن سے اس کی اعلیٰ خان اورمجد کااظہار ہوتاہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دیکھ لو کسرہ نے یہودیوں کی انگیخت پر گورنریمن کو آرڈ ربھجوایا۔کہ عرب میں جو ایک نیا مدعی نبوت پیداہواہے اسے گرفتار کرکے میرے پاس بھجوادیاجائے ۔گورنر یمن نے آپ کی گرفتاری کے لئے اپنے سپاہی بھجوادیئے اورانہیں کہا کہ میری طرف انہیں پیغام دیدیا جائے کہ مجھے تومعلوم نہیں کہ آپ کاکیا قصور ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ آپ آجائیں ۔ورنہ ممکن ہے کہ کسرہ کی فوجیں عرب پر دھاوابول دیں اورساراملک ایک مصیبت میں گرفتارہوجائے۔جب وہ پیغامبر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورانہوں نے آپ کواپنے ساتھ چلنے کو کہا توآپ نے فرمایا ٹھہرومیں تمہیں پھر جواب دوں گا ۔چنانچہ وہ دودن ٹھہرے اورپھر حاضر ہوئے ۔آپ نے فرمایاایک دن اورٹھہر جائو ۔تیسرے دن جب وہ آپ سے ملے تو آپ نے فرمایا۔جائو اپنے گورنرسے کہہ دوآج رات میرے خدانے تمہارے خداوند کو مار ڈالا ہے ۔وہ سخت حیران ہوئے کہ آپ نے یہ کیا بات کہی ہے اورانہوں نے پھر آ پ سے ساتھ چلنے کی درخواست کی ۔مگر آپ نے فرمایا میں نے تمیں جواب دیدیا ہے ۔جائو اوراپنے گورنرسے یہ بات کہہ دو ۔چنانچہ انہوں نے واپس جاکر گورنرسے یہی بات کہہ دی ۔گورنر یمن نے یہ بات سنی تو وہ کہنے لگا کہ یاتویہ شخص پاگل ہے اوریا پھر خداکاسچا نبی ہے ۔ہم چند دن انتظارکرتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ اس کی یہ بات سچی ثابت ہوتی ہے یانہیں۔چنانچہ تھوڑے ہی دنوں کے بعد یمن کی بندر گاہ پر ایک جہاز لنگر انداز ہوا۔ اوراس میں سے ایک سفیر اُترا ۔جو گورنر یمن کے نام ایک سربمہر لفافہ لایا۔گورنر یمن نے لفافہ دیکھا تو اس پر ایک نئے بادشا ہ کی مہر تھی ۔اس نے وہ مہر دیکھتے ہی اپنے درباریوںسے کہا کہ عرب کے نبی کی بات سچ معلوم ہوتی ہے ۔پھر اس نے خط کھولا تو وہ کسریٰ کے بیٹے شیرویہ کا تھا اوراس کا مضمون یہ اتھا کہ ہماراباپ سخت ظالم تھا اوراس نے تمام ملک میں تباہی مچا رکھی تھی میں نے اسے فلاں رات قتل کردیا ہے اوراب میں اس کی جگہ تخت حکومت پر بیٹھا ہوں۔تمہارافرض ہے کہ تم اپنی مملکت کے تمام لوگوں سے میری اطاعت کا اقرار لو اورمجھے یہ بھی معلوم ہواہے کہ اس نے جوسفاکیاں کی تھیںان میں سے ایک یہ بھی سفاکی تھی کہ اس نے عرب کے ایک مدعی نبوت کے متعلق لکھا تھا کہ اسے گرفتار کرکے میرے پا س بھجوادیاجائے ۔ہم اس حکم کو بھی منسوخ کرتے ہیں ۔(طبری جلد ۳ص ۱۵۸۳و ۱۵۸۴)۔اب دیکھو کسریٰ نے چاہاکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتارکرکے آپ کو سزادے اوراس طرح دنیا میں آپ کو ذلیل کرے مگرمجید خدانے آپ کی بزرگی اورعظمت کو اوربھی دوبالا کردیا اورکسریٰ کو اس کے اپنے بیٹے کے ہاتھو ں قتل کروادیا۔
اسی طرح حضرت نظام الدین صاحب اولیاءؒجودِلّی کے ایک بہت بڑے بزرگ گذرے ہیں ۔ان کے زمانہ کا بھی ایک بادشاہ غیاث الدین تغلق ان کامخالف ہوگیا ۔وہ اس وقت بنگال کی طرف کسی جنگ پر جارہاتھا ۔اس نے کہا جب میں واپس آئوں گا تو انہیں سزادوں گا ۔ان کے مریدوں نے یہ بات سنی توبڑے گھبرائے اورانہوں نے شاہ صاحب سے آکر کہا کہ حضورجو لوگ شاہی دربار میں رسوح رکھتے ہیں اگر ان کی ذریعہ بادشاہ کے پاس سفارش ہوجائے تو بہتر ہوگا ۔آپ نے فرمایا۔ہنوز دِلّی دوراست ۔ابھی تواس نے لڑائی کے لئے جانا ہے اورپھر دشمن سے جنگ کرنی ہے ابھی سے فکر کی کیا ضرورت ہے ۔اس وقت تووہ دلی میں موجود ہے اورلڑائی کے لئے گیا بھی نہیں۔پھر آٹھ دس دن اَورگذرگئے ۔تومرید پھر گھبرائے ہوئے آپ کے پاس آئے ۔اورکہا ۔حضور اب تو آٹھ دس دن گذر چکے ہیں اوربادشاہ لڑائی کے لئے جاچکا ہے ۔اب توکو ئی علاج سوچنا چاہیئے ۔مگر آپ نے پھر وہی جواب دیا کہ ہنوز دلی دوراست۔آخر جس جنگ پر وہ گیا تھا اس کے متعلق خبر آگئی کہ اس میںبادشاہ کو فتح حاصل ہوگئی ہے اورو ہ واپس آرہاہے ۔ مرید پھر گھبرائے ہوئے آپ کے پاس پہنچے اوربادشاہ کی واپسی کی خبر دی ۔مگر آپ نے پھر یہی جواب دیاکہ ہنوز دلی دور است ۔ابھی تو وہ دوچار سومیل کے فاصلہ پر ہے ۔ابھی کسی فکر کیاضرورت ہے ۔جب وہ آٹھ دس منزل کے فاصلہ پر پہنچ گیا تووہ پھر آئے اورانہوں نے کہا کہ اب تو و ہ بہت قریب آگیا ہے ۔آپ نے فرمایا ۔ہنوز دلی دور است۔جب و ہ اورزیادہ قریب آگیا اوردوتین منزل تک پہنچ گیا توپھر آ پ کے مرید سخت گھبراہٹ کی حالت میں آپ کے پاس پہنچے مگر اپ نے پھر یہی جواب دیا کہ ہنوز دلی دو ر است ۔آخر ایک دن پتہ چلا کہ بادشاہ کی فوجیں فصیل کے باہر ٹھہر گئی ہیں ۔ان کے مرید یہ خبر سن کر پھر آپ کے پاس آئے اورکہا ۔حضور اب تو وہ دلی کی فصیلوں تک آپہنچا ہے ۔آپ نے فرمایا ۔ہنوز دلی دور است ۔ابھی تو وہ فصیل کے باہر ہے ۔اندرتوداخل نہیں ہواکہ ہمیں گھبراہٹ ہو۔اسی رات ولی عہد نے فتح کی خوشی میں ایک بہت بڑی دعوت کی اورشاہانہ جشن منایا ہزاروں لو گ اس دعوت اوررقص و سرود کی محفل میں شریک ہوئے ۔ولی عہد نے اس دعو ت کا انتظام ایک بہت بڑے محل کی چھت پر کیا تھا ۔چونکہ چھت پر بہت زیادہ لوگ اکٹھے ہو گئے تھے اس لئے اچانک چھت نیچے آگری ۔اورباد شاہ اوراس کے رفقاء سب د ب کر ہلا ک ہوگئے ۔ صبح بادشاہ کی موت کی خبر آئی ۔توانہوں نے کہا ۔کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ ہنوز دلی دور است۔ ۱؎
غرض ہمار اخدا بڑی بزر گ شان والا ہے اورجو بھی اس کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرتا ہے و ہ اپنی اپنی رووحانیت اور درجہ کے مطابق بزرگی حاصل کرلیتا ہے ۔اورجس اطرح خداتعالیٰ کی شان اورعظمت پر حملہ کرنے والاسزاپاتا ہے اسی طرح و ہ لو گ جو خداتعالیٰ کے مقربین پر حملہ کرتے ہیں وہ بھی اپنے کئے کی سزاپائے بغیر نہیں رہتے ۔
دنیا میں ہزارہا انبیاء گذرے ہیں جن میں سے اکثر کے نام بھی ہمیں معلوم نہیں۔ان کے جسم ہزاروں من مٹی کے نیچے مدفون ہیں اوران کی اپنی قائم کردہ جماعتیں بھی دنیا میں موجود نہیں ۔مگرچونکہ وہ ایک خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے کھڑے ہوئے تھے اس لئے خدانے انہیں ایسی بزرگی عطا فرمائی کہ آج بھی اگر کوئی ان کی ہتک کرتاہے توخداآسمان سے ان کی مدد کے لئے دوڑاچلا آتا ہے اوران کی عزت او ر شہرت پر لگایا جا نے والاہرداغ مٹاکر رکھ دیتا ہے۔
غرض طٰسٓمٓ میں اللہ تعالی کی تین صفات لطیف ،سمیع اورمجید کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اوربتایا گیا ہے کہ اس سورۃ میں خداتعالیٰ کے عالم اسرار ہونے اس کے محسن عظیم ہونے اوراس کے سمیع الدُّعاہونے اوراس کے صاحب عظمت و جبروت ہونے پر روشنی ڈالی
۱؎ ۔’’مشاہیر اسلام ‘‘شائع کردہ ادارہ صو فی ص ۱۵،۱۶ و تذکرۃ الاولیا ء حصہ دوم مصنفہ رئیس احمد جعفری ص ۳۴۲۔
گئی ہے اوران صفات کو واقعات کے رنگ میں ثابت کیاگیا ہے۔چنانچہ اس کے ثبوت میں پہلی بات ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ تِلْکَ اٰیَاتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْن یہ آیات ایک ایسی کتاب کی ہیں جو ہرایک حقیقت کو خو ب کھول کر بیان کرنے والی ہے اوریہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کتاب کو نازل کرنے والاخداانسان کی تمام ضروریات کو جانتااوراس کی فطرت کے مخفی اسرار تک سے آگاہ ہے ۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اس میں مبین کالفظ رسول کریم صلکی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی استعمال ہواہے ۱؎۔نور کے متعلق بھی استعما ل ہواہے ۲؎۔فضل کے متعلق بھی استعمال ہواہے ۳؎۔حق کے متعلق بھی استعمال ہواہے ۴؎۔اسی طرح اورکئی چیز وں کے متعلق بھی استعمال ہواہے ۔مگرکسی الہامی صحیفہ کے متعلق سوائے قرآن کریم کے مبین کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔حضر ت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کے متعلق صرف ایک د فعہ یہ مضمون بیان ہواہے مگر وہاں مستبین کالفظ استعمال کیاگیاہے نہ کہ مبین کا ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَاٰتَیْنَھُمَا الْکِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَ( اَلصّٰفّٰت ع ۴)ہم نے موسیٰؑ اورہارونؑ دونوں کو ایک کامل کتاب دی جس می تمام احکام بیان کئے گئے تھے ۔اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ قرآن کریم دونوںمضمونوں میں فرق کرتاہے ۔قرآن کریم میں یہ لفظ اس کی نسبت بارہ دفعہ استعمال ہواہے ۔دس دفعہ کتا ب کے ساتھ اوردودفعہ قرآن کے لفظ کے ساتھ۔پس ایک جگہ مستبین اوردوسری جگہ مبین کالفظ استعمال کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ ایک جگہ وضاحت اوردوسری جگہ وضاحت اور ایضاح کی طرف اشارہ کرنامقصودہے۔کیونکہ اِستبان کے معنے واضح ہوجانے کے ہیں اوراَبَانَ کے معنے واضح ہونے کے بھی ہیں اورواضح کردینے کے بھی ہیں۔پس قرآن کریم کے متعلق مبین کالفظ استعمال فرماکر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ قرآن کریم کودوسری کتب پر یہ ایک زائد فضیلت حاصل ہے ۔کہ وہ نہ صرف خو د اپنے مطالب کے لحاظ سے واضح ہے اورایسی صداقتیں بیان کرتاہے جوایک ثابت شدہ حقیقت ہوتی ہیں بلکہ وہ موضح بھی ہے یعنی وہ دوسری الہامی کتب کی صداقتوں کو بھی
واضح کرتاہے ۔اوریہ ایک ایسی فضیلت قرآن کریم کو حاصل ہے جس میں اس کے ساتھ اورکوئی کتاب شامل نہیں باقی جس قدر الہامی کتب ہیں ان کا صرف اس قد رکام تھا کہ وہ اپنے مطالب کو واضح کردیتیں اوراپنے مدعاکوظاہر کردیتیں۔کیونکہ وہ صرف ایک ایک قوم کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی تھیںان کواس سے کوئی تعلق نہیں تھا کہ باقی کتب جھو ٹی ثابت ہوتی ہیں یا سچی۔باقی انبیاء جھوٹے ثابت ہوتے ہیں یا سچے ۔باقی قومیں خداتعالیٰ کے نور کی وارث ثابت ہوتی ہیں یامحروم ثابت ہوتی ہیں۔وہ صرف اپنے ذکر کولے لیتی تھیں یااپنے حلقہ اوردائرہ تک محدود رہتی تھیں لیکن قرآن کریم چونکہ سب اقوام کو ایک نقطئہ مرکزی پر جمع کرنے کے لئے آیا ہے وہ نہ صرف بنی نوع انسان سے تعلق رکھنے والے تمام احکام کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرتاہے اوران کے ہر گوشہ کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ وہ پہلی کتابو ںکی حقیقت کو بھی ظاہرکرتاہے اورپہلے نبیوں پر عائد شدہ الزاموںکو دور کرتاہے اورپہلی کتب کی کوتاہیوں کو دلائل کے ذریعہ اعتراضات سے پاک کرتاہے ۔مثلاً انسانی فطرت کے ارتقاء کی طرف اشارہ کرکے یالوگوں کی دست اندازی کی طر ف اشارہ کرکے یالوگوںکے استنباط کو غلط بتاکر ۔غرض وہ پہلے نبیوں پہلی کتب اورپہلی اقوام کی خوبیوں کو بھی واضح کرتاہے اوران پر عائد
۱؎ ۔زخر ف آیت ۳۰ و دُخان آیت ۱۴ ۲؎ ۔نساء آیت ۱۷۵ ۳؎ نمل آیت ۱۷ ۔ ۴؎ ۔نو رآیت ۲۶
ہونے والے اعتراضات کو بھی ردّ کرتاہے اس طرح و ہ گویامستبین کے مقام سے نکل کر مبین کے مقام تک پہنچ جا تاہے ۔اس کی مثال کے طور پر دیکھ لو بنی اسرائیل جب مصر سے نکل کرکنعان کی طر ف آئے توبائیبل بتاتی ہے کہ بنی اسرائیل کے بیس سال سے زائد عمرکے لڑنے کے قابل مردوں کی تعداد بارھویں قبیلہ کو چھو ڑکر جن کی گنتی نہیں کی گئی تھی چھ لاکھ تین ہزار پانچ سو پچا س تھی ۱؎۔اگر بارھویں قبیلہ کا بھی اندازہ کرلیا جائے توہم کہہ سکتے ہیں کہ فوجی خدمات سرانجا م دینے کے قابل مرد ساڑھے چھ لاکھ تھے۔اگرعورتوں بچوں اور بوڑھو ںکی تعداد معلوم کرنے کے لئے ہم اس تعداد کو دس گناکرلیں کیونکہ عام طورپر چھ سے دس فیصدی تک ملک کی آبادی جنگی خدمت کے قابل سمجھی جاتی ہے تویہ تعداد ساٹھ لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔مگرعقل اس امر کو تسلیم نہیں کرسکتی کہ بنی اسرائیل ساٹھ لاکھ ہوں۔کیونکہ اول تواتنے آدمی مصر سے اتنے قلیل عرصہ میں نکل ہی نہیں سکتے تھے جتنے قلیل عر صہ میں وہ نکلے دوسرے یرونؔپارکی بستی جس میں وہ آکر بسے ہیں اس قدر آبادی کی متحمل ہی نہیں ہوسکتی تھی ۔اب بھی فلسطین کی آبادی پندرہ لاکھ ہے ۔حالانکہ اب یہودیوں نے امریکہ کی مدد سے اسے آباد کیاہے ۔پس اس ملک میں جو پہلے سے آباد تھا ۔ ساٹھ لاکھ آدمیوں کاآکر بس جانا بالکل خلاف عقل بات ہے۔ پس بائیبل بنی اسرائیل کی جو تعداد بناتی ہے ۔وہ عقلی لحاظ سے کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں سمجھی جاسکتی مگر قرآن کریم نے آکر بتایاکہ یہ با ت غلط ہے ۔وہ لو گ صرف چند ہزار تھے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَ رَ الْمَوْتِ۔(بقرہ آیت ۲۴۴)یعنی کیا تجھے ان لوگوں کاحال معلوم نہیں جواپنے گھروں سے موت کے ڈ رسے نکلے جبکہ وہ چند ہزار تھے ۔پس بائیبل نے تویہ بتایا کہ بنی اسرائیل لاکھوں کی تعداد میں مصر سے نکلے تھے ۔لیکن قرآن کریم نے اس غلطی کی اصلاح کی اوربتایاکہ وہ لاکھوں نہیں بلکہ ہزاروں تھے۔
اسی طرح حضرت سلیمانؑ خداتعالیٰ کے ایک مقدس نبی تھے مگر بائیبل نے ان پر شرک کا الزام لگادیااورکہا کہ
’’جب سلیمان بُڈھا ہوگیا تواس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کرلیا اوراس کا دل خداوند اپنے خداکے
ساتھ کامل نہ رہا ‘‘ (نمبر ۱ صلاطین باب ۱۱آیت ۴و ۵)
پھر لکھا ہے :۔
’’ خداوند سلیمان سے ناراض ہوا کیونکہ اُس کا دل خداوند اسرائیل کے خدا سے پھر گیا تھا ۔‘‘
پھر یہ شرک سلیمانؑ نے ایسی حالت میں کیا جبکہ خدا تعالیٰ نے دوباردکھائی دے کر اُس کو اس بات کا حکم کیا تھا کہ وہ غیر معبودوں کی پیروی نہ کرے ۔پر اُس نے وہ بات نہ مانی جس کا حکم خداوند نے دیا تھا۔‘‘(۱۔سلاطین باب۱۱ آیت ۹,۱۰)
گویا سلیمانؑ نعوذ باللہ اتنا خطرناک کافر تھا کہ دودفعہ خدا اُس پر ظاہر ہوا اور دودفعہ اُس نے ظاہر ہو کر کہا ۔کہ دیکھنا غیر معبودوں کی پرستش نہ کرنا ۔مگر پھر بھی وہ اپنی بیویوں کے حسن کو دیکھ کر ایسا فریفتہ ہوا کہ اس نے غیر معبودوں کے لئے مندر بنائے اور انکے آگے سجدہ کرنے لگ گیا مگر قرآن کریم نے آکر بتایا کہ وماکفر سلیمان ولکن الشاطین کفروا( بقرہ آیت ۱۰۳)سلیمان نے کفر کی کوئی بات نہیںکی بلکہ اس پر الزام لگانے والے اوراسے کافر اور مشرک قرار دینے والے خود کافر اور بے
۱؎۔گنتی باب ۲ آیت ۳۲
ایمان تھے چنانچہ تاریخی شہادتیں بھی یہی بتاتی ہیں کہ جو قرآن نے بات کہی ہے وہی ٹھیک ہے اور بائبل کی بات غلط ہے ۔چنانچہ انسائیکلو پیڈیا ببلیکامیں لکھا ہے ۔
یہ بات صحیح ہے کہ حضرت سلیمان ؑ کی بہت سی بیویاں تھیں کچھ اسرائیلی اور کچھ غیر اسرائیلی ۔لیکن نہ تو انہوں نے ان سب کے لئے قربان گاہیں بنائی تھیں اور نہ انہوں نے اپنی بیویوں کے دیوتائوں کی عبادت کو کبھی خداتعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ملایاتھا ۔آپ خداتعالیٰ کی وحدانیت کے انکار کاکبھی تصور بھی نہیں کرسکتے تھے
گویا تاریخ نے تسلیم کرلیا کہ بے شک حضرت سلیمان علیہ السلام کی کئی بیویاںتھیں کچھ یہودی اور کچھ غیر یہودی مگر یہ غلط ہے کہ انہوں نے بت خانے بنائے اور پھر یہ بھی جھوٹ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی بت سو سجدہ کیاہو ۔اب دیکھو بائبل توکہتی ہے کہ انہوں نے بتوں کو سجدے کئے اور قرآن کہتاہے کہ نہیں کئے اور آج کایہودی محقق اور آج کا عیسائی محقق بھی کہتاہے کہ بائبل جھوٹ کہتی ہے سچی بات وہی ہے جو قرآن کہہ رہاہے ۔
پھر بائبل میں حضرت ہارون علیہ السلام کے متعلق کہا گیا ہے کہ انہوں نے بنی اسرائیل کو بچھڑابنا کردیا اور انہیں شرک کی راہ پر چلایا ۔چنانچہ بائبل میںلکھا ہے ۔
’’اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسی نے پہاڑ سے اترنے میں دیر لگائی تووہ ہارون کے پاس جمع ہوکراس سے کہنے لگے کہ اٹھ ہمارے لئے دیوتا بنادے ۔جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس مرد موسیٰ کو جوہم کوملک مصر سے نکال لایاکیاہوگیا ہارون نے ان سے کہا ۔تمہاری بیویوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں ان کو اتار کرمیرے پاس لے آئو ۔چنانچہ سب لوگ ان کے کانوں سے سونے کی بالیاں اتار اتار کران کو ہارون کے پاس لے آئے اور اس نے ان کو ان کے ہاتھوں سے لے کر ایک ڈھالا ہوا بچھڑا بنایا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی۔ تب وہ کہنے لگے اے اسرائیل یہی تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال لایا‘‘(خروج باب ۳۲آیت ۱تا۴)
مگر قرآن نے آکر بتایاکہ یہ بالکل غلط بات ہے۔حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنی قوم کو شرک سے بڑی سختی کے ساتھ روکاتھا اور کہاتھا کہ یاقوم انّما فتنتم بہ وانّ ربّکم الرّحمٰن فاتّبعونی واطیعواامری(طٰہٰ آیت۹۱) یعنی اے میری قوم اس بچھڑے کے ذریعہ تمہاراایمان خراب کردیا گیاہے اور تمہارا رب تو رحمان ہے اور یہ ایک ذلیل اور بیجان بچھڑا ہے ۔پس تم میری فرمانبرداری کرو ۔اور میرے پیچھے چلوسامری کے پیچھے نہ چلوجس نے تمہیںاس شرک کی طرف مائل کیا ہے ۔غرض بائبل نے خداتعالیٰ کے ایک مقدس نبی ہارون ؑ کو داغدار قرار دیا ہے مگر قرآن کریم جو مبین کے مقام پر ہے اس نے آکر بتایا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے خداتعالیٰ کافرستادہ ہارون ؑ اپنی قوم کو ہمیشہ توحید کا ہی وعظ کرتا رہا ۔ یہ قوم کی بدبختی تھی کہ وہ سامری کے پیچھے چل پڑی اور اُس نے ایک بچھڑے کی پرستش شروع کردی ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام پربھی یہودیوں اور عیسائیوں نے بعض خطرناک الزامات لگائے تھے جن کی قرآن کریم نے بڑے زور سے تردید کی اور بتایا کہ وہ تمام ازامات دشمنوں کا افتراء ہیں ۔مثلاً یہود کہتے تھے کہ آپ کی پیدائش نعوذ باللہ بدکاری کے نتیجہ میں ہوئی تھی۔ یعنی یوسفؔ کے نطفہ سے بغیر شادی کے آپ پیدا ہوئے( انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا جلد۵ صفحہ ۱۰۲زیر لفظ celsus اسی طرح بعض یہودی یہ الزام لگاتے تھے کہ آپ نعوذ باللہ ایک رومی سپاہی سپنیتھراؔ کے بیٹے تھے جن کا حضرت مریم صدیقہ سے ناجائز تعلق تھا ( جیوش انسائیکلو پیڈیا جلد ۷صفحہ ۱۷۰ کالم اول) مگر قرآن کریم نے حضرت مریم ؓ کو اس الزام سے پاک ٹھہرایا اور یہ اعلان فرمایا کہ ذالَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْھَا بِنْ رُّوْ حِنَا رَجَعَلْنَا ھَا وَابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ (انبیاء آیت ۹۲)یعنی مریم صدیقہؓ نے جو حضرت میسحؑ کی والدہ مطہّرہ تھیں اپنے تمام سوراخوں کو گناہ سے محفوظ رکھا تھا۔ اور اُن کو جو حمل ہوا وہ ناجائز نہیں تھا بلکہ ایک پاک روح تھی جو اُن کے اندرہم نے داخل کی اور ہم نے اُس کو اوراُس کے بیٹے عیسیٰؑ کو تمام دُنیا کے لئے ایک نشان بنا دیا ۔
اِسی طرح عیسائی آپ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ نعوذ باللہ صلیب پر لٹک کر *** موت مرے ۔چنانچہ عہدنامہ جدید میں پولوسؔ کہتا ہے :۔
’’مسیح جو ہمارے لئے *** بنا اُس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی *** سے چھڑایا کیونکہ لکھا ہے جو کوئی لکڑی پر لٹکایاگیا وہ *** ہے۔‘‘(گلتیوں باب ۲آیت ۱۳)
گویا عیسائیوں نے خدا تعالیٰ کے ایک مقرب کو اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ملعون قرار دے دیا ۔مگر قرآن کریم نے اس الزام کو ردّ کیا اور خود حضرت مسیح کی زبان سے ان الفاظ میں تردید کی کہ وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ دُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا (مریم آیت ۳۴)یعنی جو لوگ مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ میری پیدائش حرامکار ی کے نتیجہ میں تھی وہ غلط کہتے ہیں ۔کیونکہ میری پیدائش پر خداتعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہوئی تھی اورجو لوگ یہ کہیں گے کہ میں *** موت مراوہ بھی غلط کہیں گے ۔کیونکہ میری موت بھی خداتعالیٰ کی حفاظت میں ہوگی اورلعنت کی موت سے میں بچایاجائوں گا ۔اورجو لوگ یہ کہیں گے کہ میں دوسروں کے گناہ اُٹھا کر تین دن جہنم میں پڑارہا۔وہ بھی غلط کہیں گے کیونکہ میری دوبارہ حیات بھی خداتعالیٰ کی سلامتی سے شروع ہوگی ۔
غرض قرآن کریم ان تمام اعتراضات کو ردّکرتاہے جو بائیبل میں لوگوں کی دست اندازی کی وجہ سے شامل ہوچکے تھے۔ اوراپنے فرستادوں کوایک بے عیب شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتاہے ۔اسی قسم کے الزامات ہندوئوں نے بھی اپنے بعض رشیوں اوراوتاروں پر لگائے ہیں۔مثلاً حضرت کرشن کے متعلق لکھا ہے کہ ان کی والد ہ نے انہیں کہا کہ
’’بیٹا !نولاکھ گائیں میرے یہاں دودھ دینے والی ہیں جتنا دودھ مکھن چاہیئے کھایااورلٹایا کرو۔دوسروں کے گھر ماکھن کھانے اورچُرانے مت جایاکرو۔‘‘ (شریمد بھاگوت پُران اسکندھ نمبر۱۰ نمبر۸؍۱۰)
گویا حضرت کرشن نعوذ باللہ مکھن چُراچُراکر کھا یا کرتے تھے حالانکہ ان کے اپنے گھر میں نولاکھ گائے تھی۔
اسی طرح لکھا ہے کہ وہ غیرعورتوں کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول رہاکرتے تھے اورایک عورت کاخاص طور پر نام لے کر لکھا ہے کہ حضرت کرشن نے رات کے وقت اسے جگاکرکہا کہ
’’اے سندری!نیند کو چھوڑ کر مجھ کو شرنگار دان (یعنی دادِ عیش)دے ۔‘‘ (برہم دی درت پران کرشن جنم کھنڈ نمبر ۴ ادھیائے نمبر ۷۲)
مگرقرآن کریم نے حضر ت کرشن اوراسی طرح اَورکئی انبیاء کاجن کے نام تک صفحہ ء تاریخ میںمحفوظ نہیں اجمالی طورپر ذکر کرکے فرمادیا کہ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہُ(انعام ع ۱۰)یعنی یہ سارے کے سارے وہ لو گ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ۔یعنی یہ سب کے سب منعم علیہ گروہ میں شامل تھے اورخداتعالیٰ کے فضلوں اوراس کی تائیدات کے مورد تھے ۔پس اب تمہاراکام یہی ہے کہ تم انہی لوگوں کے راستہ پرچلو اوانہی کی تقلید کرو۔اس سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم تمام انبیاء کو معصوم قرار دیتا اورہرالزام کورد کرتاہے جوان پر لگایا گیا۔خواہ وہ الزام منافقوں کی طرف سے لگایاگیاہو یا مخالفوں کی طرف سے ۔وہ ان کے حسین چہر ہ پر سے ہرقسم کی گردوغبارکو دور کرتا اوران کی نورانیت کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرتاہے اوریہ قرآن کریم کااتنا بڑا احسان ہے کہ جس کی نظیر دنیا کی اَورکوئی کتاب پیش نہیں کرسکتی ۔
پھر رقرآن کریم نے اپنے مبین ہونے کے مقام کو اس طرح بھی ظا ہرکیا کہ اس نے دنیاکے ہرنبی کی عزت کوقائم کیا اوران کی صداقت پر ایمان لانا ضروری قراردیا۔اس میںکوئی شبہ نہیں کہ دنیا کے جس ملک کے حالات سے بھی واقفیت حاصل کی جائے اس کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ کسی نہ کسی بزرگ کو ماننے والے ہیں ۔مگروہ ساری بزرگی صر ف اپنے اپنے بزرگوں تک محدود سمجھتے ہیں ۔ہندوستان کے لوگ اگر حضرت کرشن اورحضرت رامچندر جی کو خداتعالیٰ کا اوتار مانتے ہیں توساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے سوااَورکسی ملک میں کوئی اوتار نہیں ہوا۔ اسی طرح عیسائی اوریہودی بھی یہی کہتے ہیں کہ صرف ہمارے بزرگ سچے تھے باقی سب جھوٹے ہیں ۔لیکن قرآن کریم نے بتایاکہ اِنْ مِنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَانَذِیْرٌ(سورئہ فاطر آیت ۲۵)دنیا کی کو ئی قوم ایسی نہیں جس میں خداتعالیٰ کا کوئی مصلح اورہادی مبعوث نہ ہواہو۔چنانچہ جب ہم مختل اقوام پر نظر دوڑاتے ہیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ و ہ سب کی سب اس بات کی قائل ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کاکوئی نہ کوئی مصلح آیاتھا ۔ہم ہندوئوں پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں ان میں حضرت کرشن اورحضرت رامچندر جی کاوجود دکھائی دیتاہے ۔ہم عیسائیوں پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہم ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وجود نظرآتا ہے ۔ہم یہودیوں پر نگاہ دوڑاتے ہیں توہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام اوردوسرے کئی انبیاء نظر آتے ہیں ۔غرض دنیا کا کوئی خطہ ایسانہیں جس میں کوئی نبی نہ آیا ہو ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ جیسے عرب کاخداہے ویسے ہی وہ ہندوستان اورچین اورشام اورمصر اورایران وغیرہ کابھی خداہے۔اس نے ساری دنیاکے لئے سورج اورچاند اورستارے سب ایک جیسے بنائے ہیں ۔ایک ہی زمین سب کے لئے بنائی ہے۔پھر جب اس نے سب لوگوں کی جسمانی ضرورتوں کو پوراکیاہے توروحانی ضرورتوںکو وہ کس طرح نظر انداز کرسکتا تھا جبکہ روح کی حفاظت جسم سے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ جسم فانی ہے اورروح غیر فانی ۔چنانچہ ایک مسلمان جب اس آیت کو پڑھتاہے تواس کے دل میں تصدیق کی خواہش پیداہوتی ہے۔وہ ہندوئوں کے پاس جاتا ہے اورڈرتے ڈرتے ان سے پوچھتا ہے کہ آپ کی قوم میں بھی کو ئی نبی آیا تھا ۔وہ کہتے ہیں ہاں حضر ت کرشن اورحضرت رامچند رجی اللہ تعالی کا کلام لے کر آئے تھے وہ اپنے وقت کے اوتار تھے۔یہ سن کر اس کا چہرہ بشاشت سے کھل جاتاہے اوروہ کہتا ہے الحمد للہ!یہ بات سچی ثابت ہوگئی کہ ہرقوم میں نبی آئے ہیں۔پھر وہ چین میں جاتا ہے ۔اوروہاں کے لوگوں سے پوچھتاہے کہ آپ کی قوم میں بھی کو یء نبی آیاہے تووہ کنفیوشس کا نام لیتے ہیں ۔اس پر اس کادل اَور بھی زیادہ مسرور ہوجا تاہے کہ الحمد للہ چین میں بھی اللہ تعالیٰ کانبی آیا ہے ۔پھر وہ ایران میں جاتاہے اوروہاں کے لوگوں سے پوچھتا ہے کہ آپ کے پاس بھی کوئی نبی آیا ہے تووہ حضرت زرتشت کانام لیتے ہیں ۔یہ سن کر وہ خوشی سے اپنے جامہ میں پھولانہیں سماتا۔اورکہتاہے کہ اب تو یہ با ت اوربھی پختہ ہوگئی۔پھر وہ یونان میں جاتاہے اوروہاں کے لوگوں سے دریافت کرتاہے کہ تمہارے پاس بھی کو ئی اللہ کا پیغام لے کر آیا ہے ۔تووہ کہتے ہیں ۔ہاں ہمارے ملک میں سقراط اس بات کا دعویدار تھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ہمکلام ہوتاہے ۔اس پر وہ اورزیادہ مسرو ر ہوتاہے اورکہتاہے الحمدللہ میراقرآن یہاں بھی سچاثابت ہوا۔غرض و ہ جس ملک میں بھی جاستاہے اس کی گردن فخر سے اونچی ہوجاتی ہے۔اوراس کادل اس لذت اورسرورسے بھرجاتاہے کہ میری کتاب میں جوکچھ کہاگیاتھا وہ حرف بحر ف درست ثابت ہوا۔لیکن ایک عیسائی ایک ہندواورایک یہودی جس ملک میں بھی جاتاہے۔ ا س کامنہ غم سے کالاہوجاتاہے۔وہ مڈل ایسٹ میں جاتاہے اورسنتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے نبی ہیں تواس کا د ل جل جاتاہے ۔برمامیں جاتا ہے اورسنتا ہے کہ بدھا نبی ہے تووہ رونے لگ جاتاہے ۔ہندوستان میں سنتا ہے کہ کرشن نبی ہے تواس پر جنون سوارہوجاتاہے۔یونان میں جاتاہے اوراسے پتہ لگتاہے کہ اس ملک میں سقراط گذراہے تووہ چیخیں مارنے لگ جاتاہے ۔غرض وہ جس ملک میں بھی جاتاہے اس پر مصیبت آجاتی ہے۔ مگرایک مسلمان جس ملک میں بھی جاتاہے اسے خوشی پر خوشی نصیب ہوتی ہے اورہرملک میں یہ تعلیم اس کی سربلندی اورسُرخروئی کاموجب ہوتی ہے ۔غرض یہ ایک چھوٹی سی آیت ہے ۔لیکن اس چھوٹی سی آیت کو ہی لے کر ساری دنیا میں پھر جائو۔کسی بزرگ کی بڑائی سن کر تمہارے دل میں انقباض پیدانہیں ہوگا اورتمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ قرآن کریم نے یہ تعلیم پیش کرکے باقی تمام الہامی کتب پر اپنی فضیلت کو ثابت کردیاہے ۔پھر خود انسانی وجود جو اللہ تعالیٰ کی وحی کی مہبط اوراس کے انوار وبرکات کامورد تھا اس کے متعلق بھی بعض مذاہب نے یہ غلط نظریہ پیش کیا کہ وہ طبعاً میلان گناہ رکھتاہے۔اوراس کی وجہ اللہ تعالیٰ کی وہ نافرمانی ہے جو آدم اورحوّانے کی جس کی بنا پر وہ فطرتی طورپر گناہگارپیداہوا۔اسی طرح بعض دوسرے مذاہب نے یہ کہناشروع کردیا کہ انسان اپنی تمام کوششوں کے باوجود کبھی پاک نہیں ہوسکتا۔اوراس کی روح کو بار بار مختلف قسم کی جُونوں کے چکر میں ڈالاجا تاہے ۔اول الذکر نظریہ ہمیں عیسائیت کی طرف سے اورثانی الذکر ہندومذہب کی طر ف سے پیش کیا گیا ۔اوردونوں نے انسانی فطرت کو گندہ اورناپاک قرار دیا ۔اوراس کااتنا پروپیگنڈاکیا گیاکہ وہ انسان جو اس لئے پیداکیا گیا تھاکہ اسے اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل ہو اوراپنے اندر اعلیٰ اخلاق اورروحانیت پیداکرکے اللہ تعالیٰ کے کلام اورا سکے الہام کا مورد ہو اس کادل مایوسی کا شکار ہوگیا اوراس نے سمجھا کہ جب میرے لئے ترقی کے تمام راستے بند ہیں اورجب مجھے فطری طورپرگندہ اورناپاک ٹھہرایاگیاہے توپاکیزگی اورتقدس کاتصورمیرے لئے ناممکن ہے ۔کیونکہ انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جو بات متواتر اس کے کان میں ڈالی جائے آہستہ آہستہ وہ اس پر اثر کرناشروع کردیتی ہے ۔اگرکسی کو متواتر کہاجائے کہ تم بہت بیوقوف اورجاہل ہو تووہ رفتہ رفتہ اپنی عقل کو کھو بیٹھتاہے ۔اگرکسی کو کہا جائے کہ وہ چو ر کابیٹاہے توآہستہ آہستہ یہ خیال اس کے دل پر ایساراسخ ہوجائیگا کہ جب کبھی اس کے دل میں لالچ پیداہوگااورکسی کامال ہتھیانے کاارادہ کرے گا تووہ اپنے ارادہ کو روک نہیں سکے گابلکہ کہے گاکہ دنیا توپہلے ہی مجھے چورکابیٹا کہہ رہی ہے اوریہی جذبات نسلاً میرے اند پائے جاتے ہیں ۔اب میںان سے کس طرح رک سکتاہوں ۔اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے امورکوسختی سے ناپسند فرمایااورانہیں قومی ہلاکت اوربربادی کا اصل باعث قراردیاہے ۔کیونکہ انسانی ذہنیت اس قسم کی ہے کہ جب اس پر کوئی اثر ڈالا جائے اوراس کے خیالات کسی خاص طرف مائل کئے جائیں توآہستہ آہستہ وہ ان اثرات کو قبول کرلیتاہے ۔سائیکالوجی یاعلم النفس کی ابتداء درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن کریم کے ذریعہ ہی ہوئی ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اِذاقال الرّجلُ ھَلَکَ النَّاسُ فھو اَھْلَکَھُمْ ۱؎۔یعنی جب کوئی شخص یہ کہتا پھرتاہے کہ قوم برباد ہوگئی قوم برباد ہوگئی تودرحقیقت اس کی بربادی کا موجب وہی بنتاہے ۔کیونکہ جب متواترکسی قوم کے کا ن میں یہ ڈالاجائے گا کہ وہ ہلاک ہوچکی ہے تولوگوں میں قوت مقادمت باقی نہیں رہیگی ۔ اوراس کاتنزل شروع ہوجائے گا۔عیسائیت نے دنیا کو یہ تعلیم دی کہ آدمؑ نے گناہ کیا جو ورثہ میں اس کی اولاد کو بھی ملا ۔اب دنیا اگر گناہ سے بچنابھی چاہے تونہیں بچ سکتی ۔اس عقیدے کے ہوتے ہوئے ایک عیسائی کے لئے یہ کتنا مشکل ہے کہ وہ گناہ کا خیال آنے پر اس کامقابلہ کرے وہ تو کہے گاکہ میں گناہ کامقابلہ کیاکروں۔میں تواس سے بچ ہی نہیںسکتا اورجب وہ گناہ کا مقابلہ کرنے سے گریز کرے گا تولازماً گناہ میں مبتلاہوجائے گا ۔مگرقرآن کریم نے بتایاکہ انسان کو فطرت صحیحہ عطاکی گئی ہے ۔اورخواہ وہ کیسی ہی حالت میں ہو اگر وہ کوشش کرے تو وہ ترقی کر کے اللہ تعالی کاقرب حاصل کرسکتاہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے مَاخَلَقْتُ الجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ( سورہ ذاریات آیت ۵۷)یعنی میں نے جنوں اورانسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیداکیاہے ۔اس جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایاکہ میں نے آد م کو اس لئے پیداکیا تھا کہ وہ میری عبادت کرے بلکہ فرماتاہے مَاخَلَقْتُ الجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِچاہے فرمانبرداری کی طبیعت رکھنے والے انسان ہوںچاہے ناری فطرت رکھنے والے وجود ہوں دونوں کو میں نے عبادت اوراپنے قرب کے لیء پیداکیاہے ۔انس ان لوگوںکو کہتے ہیں جواپنے اندر فرمانبرداری اوراطاعت کاماد ہ رکھتے ہیں ۔اورجنّ ان لو گوں کو کہتے ہیں جن پر پر دہ پڑاہو اہوتاہے ۔یعنی جن کی فطرت صحیحہ پر پردہ پڑ جاتاہے ۔ اوروہ اللہ تعالیٰ سے دور ہوجاتے ہیں ۔قرآن کریم سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ جنّی طبیعت والے نار سے پیداکئے گئے ہیں ۔
۱؎۔مسلم جلد ۲کتاب البر والصلۃ والآداب باب النھی عن قول ھَلَکَ النَّاسُ۔
گویاناری طبیعت والا انسان جوگناہ کی طرف مائل ہوتاہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اسے بھی میں نے عبادت کے لئے پیداکیاہے کیونکہ اس کی ناری طبیعت طبیعتِ ثانیہ ہوتی ہے طبیعت اولیٰ نہیں ہوتی ۔درحقیقت طبیعتیں دوقسم کی ہوتی ہیں ایک طبیعت اولیٰ جو فطرت میں رکھ دی گئی ہے اورایک طبیعت ِ ثانیہ جو ماحول کے اثرات کے ماتحت پیداہوتی ہے اورطبیعت اولیٰ پر غالب آجاتی ہے ۔ اسی لئے اس قسم کی طبیعت رکھنے والے کو جنّ کہتے ہیں ۔جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس کی اصل فطرت پر پردہ پڑاہواہے اورجب ہم اسے جنّ کہتے ہیں توہمارے مدنظر یہ مفہوم ہوتاہے کہ اس کی فطرت اولیٰ نظرنہیں آتی ۔اورچونکہ اس کی فطرت اولیٰ نظر نہیں آتی اس لئے وہ جنّ کہلاتاہے ۔پس فرماتاہے۔وہ لوگ جو خداتعالیٰ سے محجو ب ہوتے ہیں اورجنّات میں شامل ہوتے ہیں اوروہ لو گ جو اپنی طبیعت میں نیکی رکھتے ہیں دونوںکو ہم نے اپنی عبادت کے لئے پیداکیاہے۔جب لوگ ایک لمبے عرصہ تک نیکی کو قائم رکھتے اوراللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں تووہ انس کہلاتے ہیں اورجب وہ نبی کی تعلیم سے غافل ہوجاتے ہیں تووہ جنّ ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کی فطرت صحیحہ ایسی مخفی ہوجاتی ہے کہ وہ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ ہماری جماعت کاقیام کیوں ہواتھا ۔اورہمارے نظام کی غرض کیاتھی یا نبی نے ہمیں کیا تعلیم دی تھی۔پس اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ خواہ وہ جنّات ہوں یاانسان یعنی خواہ ایسے لوگ ہوں جن کے دلوں میں محبتِ الہٰی کی چنگاری سُلگ رہی ہواورخواہ ایسے لوگ ہوں جن کی فطرت صحیحہ پر پردہ پڑاہواہوفطرت ثانیہ غالب آچکی ہو اورسمجھاجاتاہوکہ ان کی طبیعت ثانیہ ہی اصل فطرت ہے دونوں کو ہم نے عبادت کے لئے پیداکیا ہے ۔بعض لوگ کہاکرتے ہیں کہ فلاں شخص کو ہم کیا سمجھائیں ا س میں تونیکی کامادہ ہے ہی نہیں۔بعض لوگ کہاکرتے ہیں کہ فلاں شخص بڑامتعصب ہے وہ ہدایت پا ہی نہیں سکتا۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔تم ایسامت کہو۔اس کی طبیعت اولیٰ نیکی کی طرف مائل ہے ۔یہ تمہاری غلطی ہے کہ تم اس کی طبیعت ثانیہ کو دیکھتے ہواورایک نتیجہ اخذ کرلیتے ہو ۔ہم نے توسب کو اپنی عبادت کے لئے پیداکیاہے ۔ اگر کسی کی فطرت صحیحہ پرپردہ پڑاہواہے تویہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص نیل کے مٹکے میں پڑے تووہ نیلا ہوجاتاہے مگر اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ آدمی نہیں رہا۔یابعض لوگ ریچھ کی کھال پہن لیتے ہیں اوردیکھنے والے ڈرنے اوربھاگنے لگ جاتے ہیں ۔ حالانکہ وہ انسان ہوتے ہیں۔اسی طرح بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی فطرتیں ماحول کی خرابی کی وجہ سے مسخ ہوجاتی ہیں اوران کی ظاہری شکل جنّات والی ہوجاتی ہے ۔چنانچہ وہ لوگ بھی جو غیر مرئی جنات کے قائل ہیں اورہم پر یہ اعتراض کیاکرتے ہیں کہ یہ لو گ جنّوں کے قائل نہیں وہ بھی بعض دفعہ ایسے انسانوںکو جن کی فطرت پرپردہ پڑچکاہوتاہے جنّ کہنے لگ جاتے ہیں ۔چنانچہ وہ شخص جس کے اخلا ق بگڑے ہوئے ہوں اسے دیکھتے ہیں توکہتے ہیں یہ بھیڑیاہے جس سے ان کایہ مطلب نہیں ہوتا۔کہ وہ حقیقی معنوں میں بھیڑیاہے بلکہ یہ مطلب ہوتاہے کہ اس پر بھیڑیے والی خصلت غالب آگئی ہے ۔اسی طرح کسی کے متعلق کہتے ہیں یہ توسانپ ہے ۔ یعنی سانپ کی طرح لوگوںکو ڈستا پھرتاہے ۔یابچھو ہے یعنی بچھو کی طرح لوگوںکو ڈنگ مارتا ہے ۔توبعض دفعہ فطرت ثانیہ فطرت اولیٰ پر غالب اجاتی ہے کہ یہ پہچاننا بھی مشکل ہوجاتاہے کہ ا س شخص کی انسانیت کہاں ہے ۔لیکن جب اس کی فطرت صحیحہ بول اٹھتی ہے تب پتہ لگتاہے کہ اس کے اندرنیکی پائی جاتی ہے ۔دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کتنے کتنے شدید دشمن تھے ۔مگرپھر ان پر کیسی تبدیلی پیداہوئی ۔نہ صرف ان کی اصلاح ہوئی بلکہ وہ روحانیت کے ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچ گئے کہ ان کا پہچاننابھی مشکل ہوگیا۔حضرت عمرؓ جو اسلام اورمسلمانوںکے خلاف لٹھ لئے پھرتے تھے جب انہیں اسلام لانانصیب ہواتوان میں ایسی تبدیلی پیداہوئی کہ دنیاکے فائدہ کے لئے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے لگے ۔اوردن رات اسلام کی خدمت میں مصروف ہوگئے ۔یہی حال عکر مہؓ کا تھا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا ۔توعکرمہؓ اس بغض کی وجہ سے جواسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تھامکہ چھو ڑ کرچلاگیا اوراس نے کہا ۔میں اس ملک میں بھی نہیں رہ سکتا جس میں ایساشخص موجود ہو۔اس کے مظالم کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کردیاتھا کہ اسے معافی نہیں دی جاسکتی وہ جہاں مل جائے اسے قتل کردیاجائے ۔آخر اس کی بیوی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی ۔اوراس نے کہا ۔یارسول اللہ!آپ بڑے رحیم و کریم ہیں ۔آپ نے کتنے ہی لوگوںکومعاف کردیا ہے اگر عکرمہؓ کو بھی آپ معاف فرمادیں تواس میں آپ کاکیاحرج ہے ۔پھر اس نے کہا ۔یارسول اللہ ! کیا یہ بہتر ہے کہ عکرمہؓ کسی غیر ملک میں ذلیل ہوکر رہے یایہ بہتر ہے کہ وہ آپ کے ملک میں آپ کی رعایابن کر رہے اورآپ کاعفو اس کے سرکو نیچا رکھے۔آپ کو اسکی یہ بات پسند آئی۔اورآپؐ نے فرمایا۔ہم نے عکرمہؓ کو معاف کردیا۔یہ سن کر اس کی بیوی اسی وقت اٹھی اوراپنے خاوند کی تلاش میں چل پڑی ۔وہ اس وقت حبشہ جانے کے لئے کشتی میں بیٹھ چکا تھا ۔اس کی بیوی اس کے پاس گئی اوراس نے کہا ۔تم کہاں جارہے ہو۔واپس میرے ساتھ چلو۔میں نے تمہارے متعلق محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کی تھی اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں معاف فرمادیاہے ۔عکرمہؓ یہ سن کر حیران ہوا۔اوراس نے کہا ۔مجھے کس طرح معافی مل سکتی ہے میں نے توبڑے بڑے سخت مظالم کئے ہوئے ہیں۔اس نے کہا ۔تمہیں ان کے وسعت حوصلہ کاکیاعلم؟ میں تمہیں یقین دلاتی ہوں کہ میں تمہارے لئے معافی کی منظور ی لے چکی ہوں ۔تم واپس میرے ساتھ چلو ۔عکرمہؓ کشتی سے اترے اورواپس آگئے ۔ واپسی پر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورانہوں نے عرض کیاکہ یارسول اللہ! میری بیوی میرے پاس آئی تھی اوراس نے کہا تھاکہ میںنے تمہارے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی لے لی ہے۔ کیایہ سچ ہے ؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ہاں!بالکل سچ ہے ۔ہم نے تمہیں معاف کردیاہے ۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہم نے تمہیں سچے دل سے معاف کردیا ہے تواس نے عر ض کیاکہ کیا میں کافر ہونے کی حالت میں مکہ میں رہ سکتاہوں۔آپؐ نے فرمایا۔ہاں تم رہ سکتے ہو۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اوراس کے باپ ابوجہل کے متواتراورشدید ترین مظالم کے باوجود اسے معاف فرمادیا اورمعافی بھی اس رنگ میں دی کہ خواہ وہ اسلام نہ لائے اسے مکہ میں آزادنہ رنگ میں رہنے کی اجازت ہوگی تواس کی طبیعت پر اس کا اتنا اثر ہواکہ اس نے کہا ۔یارسول اللہ! میں آپ پر ایمان لاتاہوں کیونکہ میں سمجھتاہوں کہ اس قسم کی معافی سوائے خداکے راستباز انسان کے اَورکوئی نہیں دے سکتا۔پھریاتو اسکے دل میں اتنا بغض تھا کہ وہ ا س ملک میں بھی رہنانہیں چاہتاتھا جس میں رسول کریم صلی اللہ تھے اوریاپھر اس کے دل میں اتنا تغیر پیداہواکہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عکرمہؓ ہم نے تمہیں معاف ہی نہیں کیا بلکہ ہم تمہیں انعام بھی دینا چاہتے ہیں مانگوجوکچھ مانگنا چاہتے ہو ۔تووہ عکرمہؓ جو اتنا دنیادار تھا اس کے اندر فوراً ہی اتنی تبدیلی پیداہوگئی کہ اس نے کہا کہ یارسول اللہ! میں سوائے اس کے اَورکچھ نہیں مانگتا کہ آپ میرے لئے دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ میرے پچھلے تمام گناہ معاف فرمادے ۔اب کُجایہ کہ وہ مکہ سے بھاگ جاتاہے اورکجایہ کہ مسلمان ہوتاہے اوریکدم اس میں ایسی تبدیلی پیداہوتی ہے کہ وہ سب مخالفانہ خیالات کو بھول جاتاہے ۔پھر یہی عکرمہؓ تھا کہ یاتورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینے کے لئے لڑائیاں کیاکرتاتھا اوریا پھر اسلام میں اس کی فدائیت یہاں تک پہنچ گئی کہ غزوئہ یرموک میں جب بہت سے صحابہؓ مارے گئے توعکرمہؓ اورچنداورنوجوانوں نے مل کر حضرت ابوعبیدہؓسے جوکمانڈرانچیف تھے کہاکہ ہم سے صحابہؓ کی موت نہیں دیکھی جاسکتی ۔اگریہ لوگ مارے گئے تواسلام کی اشاعت کون کرے گا ۔آپ ہمیں اجاز ت دیں کہ ہم چند نوجوان اپنی جانوں کو قربان کرکے عیسائی کمانڈرپرحملہ کرکے اسے ماردیں اورلڑائی ختم ہوجائے ۔ابوعبیدہؓ نے کہا کہ یہ تو بڑا مشکل ہے ۔دس لاکھ لشکر کے مقابلہ میں میں تمہیں کس طرح بھیج سکتاہوں ۔اس میں توتمہاری یقینی ہلاکت ہے ۔مگر آخر دوسرے لوگوں نے کہا کہ جب یہ لوگ قربانی کرناچاہتے ہیں توانہیں قربانی کی اجازت دیدیں۔اورچونکہ ا س جنگ میں بہت سے صحابہؓ مارے جاچکے تھے ابوعبیدہؓ نے آخر اجازت دیدی۔ چنانچہ عکرمہؓ اورچنددوسرے نوجوانوں نے ملکر قلبِ لشکر پر حملہ کیااوروہاں تک پہنچ گئے جہاں ان کا کمانڈرماہان تھا ۔ و ہ اسقدر گھبرایاکہ تخت سے اتر کا بھاگ پڑا ۔اوراس کے بھاگتے ہی فوج میں بھاگڑ مچ گئی اورلڑائی کاپانسہ پلٹ گیا۔مگر اس جدوجہد میں وہ قریباً سب کے سب شہید ہوگئے ۔اسی جنگ کاواقعہ ہے کہ عکرمہؓ زخموں کی شدت اورپیاس کی و جہ سے تڑپ رہے تھے کہ ان کے پاس سے ایک سپاہی گذراجس کے پاس پانی کی چھاگل تھی ۔ اس نے جب انہیں تڑپتے دیکھا تووہ قریب آیا ۔اوراس نے پوچھا کیا آپ کو پیا س لگی ہے ۔انہوں نے کہا۔ہاں ۔اس نے اپنی چھاگل ان کے منہ کے قریب کی تاکہ آپ پانی پی لیں ۔مگرابھی عکر مہؓ نے چھاگل کومنہ نہیں لگایاتھا کہ ان کی نظر فضل بن عباسؓ پرپڑی جوان کے قریب ہی پیاس سے تڑپ رہے تھے انہوں نے کہا ۔فضل مجھ سے زیادہ پیاسامعلوم ہوتاہے تم اسے پانی پلائو۔وہ فضل کے پاس پہنچا توانہوں نے اپنے قریب ایک اورمسلما ن کو تڑپتے دیکھا انہوں نے کہا وہ مجھ سے زیادہ پیاسامعلوم ہوتاہے تم پہلے اسے پانی پلائو ۔توتیسرے کے پاس پہنچا تواس نے چوتھے کی طرف اشارہ کردیا۔ اورچوتھے کے پاس پہنچا تواس نے پانچویں کی طرف اشارہ کردیا ۔تاریخ بتاتی ہے کہ وہ سات آدمی تھے اورساتوں ہی تڑپ رہے تھے مگر ہر ایک نے یہی کہا کہ مجھے پانی نہ پلائو بلکہ میرے ساتھ کو پلائو۔جب وہ آخری آدمی کے پاس پہنچا تووہ مرچکا تھا ۔ اورجب وہ واپس مڑاتواس نے دیکھا کہ باقی چھ بھی فوت ہوچکے تھے۔ اب دیکھو یہ کتنی بڑی قربانی ہے جوعکرمہؓ نے کی۔حالانکہ وہ اسلام کے شدید ترین دشمن تھے۔ پس یہ کہدینا کہ فلاںکو ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی بہت بڑی غلطی ہے۔اللہ تعالیٰ جب ہدایت دیناچاہتاہے توآناًفاناً دے دیتاہے ۔یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایاہے کہ مَاخَلَقْتُ الجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ( سورہ ذاریات آیت ۵۷)اللہ تعالیٰ نے ہرایک کو ہدایت اورپنے قرب کے لئے پیداکیا ہے۔پس بڑاہی مایوس وہ انسان ہے جواللہ تعالیٰ کی اس رحمت کی ناقدری کرے اورسمجھے کہ انسان کو پیدائشی طورپر گنہگار پیداکیا گیاہے ا سلئے و ہ پاکیزگی اورتقدس اختیار ہی نہیں کرسکتا۔
اسلام بتاتاہے کہ یہ نظریہ قطعی طورپرغلط ہے انسان فطرتی طورپر پاکیزہ قویٰ لے کر آیا ہے ۔اوراللہ تعالیٰ نے ہرایک کو اپنے قرب کے لئے پیداکیا ہے اسی طرح وہ ایک دوسرے مقام پر فرماتاہے ۔وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا۔فَاَلَھَمَھَافُجُوْرَھَاوَتَقْوٰھَا۔قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا۔وَقَدْخَابَ مَنْ دَسّٰھَا۔(الشمس آیت ۸تا ۱۱)یعنی ہم انسانی نفس کو اس امر پر شہادت کے طورپر پیش کرتے ہیں کہ اسے ہم نے سب عیوب سے منزّہ پیداکیاہے اوراس کی فطرت میں نیکی اوربدی کی شناخت کی قوت رکھی ہے ۔چنانچہ جوشخص اپنی روح کو بیرونی ملونیوں سے پاک رکھتا ہے وہ کامیاب ہوجاتاہے اورجو شخص اس جبلّی پاکیزگی کو خراب کردیتاہے وہ ناکام ہوجاتاہے۔
غرض اسلام انسان کواس مایوسی کاشکار نہیں ہونے دیتا جس کاشکار اسے دوسرے مذاہب بناتے ہیں بلکہ وہ اس کی روح میں بلند پروازی کی طاقت پیداکرتااوراسے فرش سے اٹھا کر عرش تک لے جاتاہے ۔
پھر قرآن کریم اس لحاظ سے بھی کتاب مبین ہے کہ اس نے ہزاروں ایسی صداقتیں بیان فرمائی ہیں جن کا پہلی الہامی کتب میں کہیں ذکر تک نہیں۔مثلاً قرآن کریم جو موسیٰؑ اورفرعون کے قریباً بائیس سوسال کے بعد نازل ہواہے اس میں یہ لکھا ہے کہ فرعونیوں کے سمندر میں غرق ہونے کے وقت فرعون توبے شک ڈوب گیا تھا۔مگراس کی لاش محفوظ کرلی گئی تھی ۔تاکہ وہ آئندہ آنے والے لوگوں کے لئے عبرت اورنصیحت کا موجب بنے (یونس آیت ۹۳)چنانچہ اب جوپرانی ممیاں نکلی ہیں توان میں فرعونِ موسیٰؑ کی ممی بھی نکلی ہے۔جومصر کے عجائب خانہ میں محفوظ ہے جسے میں نے بھی اپنی آنکھوںسے دیکھا ہے۔اب دیکھویہ قرآن کریم کے کتاب مبین ہونے پر کتنی زبردست شہادت ہے کہ بائیبل جو اس زمانہ کی کتاب ہے جس زمانہ میں فرعون ڈوباتھا۔اس میں توکہیں یہ ذکرنہیں کہ فرعون کی لاش محفوظ کرلی گئی تھی ۔مگر قرآن کریم نے بائیس سوسال بعد نازل ہوکر اس سچائی کو بیان کردیا اورپھر اس سچائی کے بیان کرنے کے چودہ سوسال بعد زمین میں سے فرعون موسیٰؑ کی ممی نکل آئی۔اوراس طرح ثابت ہوگیاکہ قرآن حقیقتاً ا س خدائے بلندو برتر کاکلام ہے جوتمام اسرار کوجاننے والااورتمام غیبوں سے آگاہ ہے ۔
پھر قرآن کریم اس لحاظ سے بھی کتاب مبین ہے کہ وہ اپنے دعاوی کے ثبوت کے لئے بیرونی دلائل کامحتاج نہیں بلکہ وہ خود ہی اپنے دعاوی کے دلائل بھی مہیا کرتاہے برخلاف دوسری الہامی کتابوں کے کہ وہ دعویٰ تو کرتی ہیں مگران کے دلائل نہیں دیتیں۔چنانچہ تورات کو شروع سے لے کر آخر تک پڑھ جائو ۔انجیل کو پڑھ جائو ۔ویدکو پڑھ جائو۔بس یہ معلوم ہوگاکہ فرض کرلیاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب دنیا مانتی ہے اوراس کی ذات میں شک کی گنجائش نہیں۔اس کی صفات کے متعلق اس قدر قلیل روشنی ڈالی گئی ہے کہ انسانی نفس اس سے قطعاً تسلی نہیں پاسکتا ۔زیادہ سے زیادہ اگر کچھ بیان ہواہے تومعجزات پر انحصار کرلیا گیاہے اوراس طرح اس اصل الاصول کو جس پر مذہب کی بنیا د ہے بالکل مہمل چھوڑ دیاگیاہے ۔ا س کے مقابل پرقرآن کریم کودیکھو ۔وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کے وجود کو پیش کرتاہے بلکہ اس کا ثبوت بھی دیتاہے اورنہ صرف اس کاثبوت دیتاہے ۔بلکہ اس کی سب صفات کاثبوت دیتاہے اوراس طرح وہ ایک نیا اصل دنیا کے سامنے پیش کرتاہے جویہ ہے کہ صفات الٰہیہ بندہ کے تعلق رکھنے والی ہیں ان کا الگ ثبو ت بھی ضروری ہے۔ورنہ خداتعالی کاوجود تو ثابت ہو گا۔مگر اس کی صفات کاوجود ثابت نہیں ہوگا۔اس بارہ میں مثال کے طورپر یہ آیت لے لو اللہ تعالیٰ فرماتاہے لَاتُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَھوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۔(انعام آیت ۱۰۴)یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے کہ انسانی نظریں اس تک نہیں پہنچ سکتیں ہا ں وہ خود اس کی نظروں تک پہنچتا اوراپنی طاقت اورقوت کے اظہار سے اوراپنی صفات کے جلوہ سے اپنا وجود ظاہر کرتاہے اوروہ بڑالطیف اورخبیر ہے ۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایاہے کہ اس کانظر نہ آنا اسکے وجود کے منافی نہیں کیونکہ یہ اس کی صفات میں سے ہے کہ وہ نظر نہیں آتا۔لیکن وہ خود اپنے نشانات کے ذریعہ سے اپنے آپ کوظاہر کرتاہے اوربندوں کی نگہداشت رکھتاہے اوران کی تمام جسمانی اورروحانی ضرورتوںکو پوراکرتاہے اوریہ اس امر کا ثبوت ہوتا ہے کہ و ہ ہے لیکن لطیف ۔گویااللہ تعالیٰ کی بعض صفات جوڑے کی حیثیت رکھتی ہیں اوروہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس کے وجو دکو ظاہرکرتی ہیں۔مثلاً خبرداررہنا اورادنیٰ سے ادنیٰ تغیرکو بھی غائب نہ ہونے دینا ۔یہ کام ایک لطیف ہستی کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔یعنی ایسی ہستی کے بغیر جو موجودات کے ہرذرہ سے ایک کامل اتصال رکھتی ہو۔پس خبیر کی صفت لطیف کے لئے بمنزلہ جوڑے کے ہے کہ اس کے ذریعہ سے اس کابھی ظہور ہوتاہے یاان دونوں کاآپس میں روح اورجسم کا تعلق ہے کہ ایک نہ ہوتودوسری صفت بھی ثابت نہیں ہوتی اوردوسری نہ ہوتو پہلی صفت بھی ثابت نہیں ہوتی ۔اگر خبیر کی صفت وَھُوَ یُدْرِکُ الاَبْصَارَ سے ثابت نہ ہوتی تو لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ بھی ثابت نہ ہوتا بلکہ عدم ثابت ہوتا۔اس کے مقابلہ میں اگر لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ثابت نہ ہوتا یعنی اس کالطیف ہونا توخبیر کی صفت بھی نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ جو وجود کامل اتصال نہیں رکھتا و ہ خبیر بھی نہیں ہوسکتا۔غرض قرآن کریم اس لحاظ سے بھی مبین ہے کہ اسنے صرف دعویٰ کرنے پرہی اکتفانہیں کیا بلکہ وہ جوکچھ کہتاہے اس کے دلائل بھی دیتاہے ۔تاکہ بنی نوع انسان ان احکام پر عمل صرف ایک چٹّی اوربوجھ سمجھ کرنہ کریں بلکہ اس بشاشت اوریقین کے ساتھ کریں کہ انہیں جوکچھ کہاگیاہے ان کے اپنے فائدہ اورترقی کے لئے کہاگیاہے ۔
پھرقرآ ن کریم اس لحاظ سے بھی مبین ہے کہ وہ تمام امور جو احکام یااخلاق یااعتقادات وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں ان سب کو اس کتا ب میں پوری تفصیل کے ساتھ بیان کردیاگیاہے ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کے قرب اوراس کی محبت کے حصول کے لئے جسقدر امور کی ضرورت ہے ان سب کواس کتاب میں واضح کردیاگیاہے ۔گویا قرآن کریم ایک جامع کتاب ہے جسمیں توحید ،نبوت، دعا،قضاوقدر،بعث بعد الموت اورمعا دوغیرہ کے متعلق پوری تفصیل موجود ہے جبکہ دوسری کتب نے ان امورضروریہ سے قریباً خاموشی اختیارکررکھی ہے اوراگر ان میں کچھ ہے توا سقدر ناکافی ہے کہ گویاکچھ نہیں کہا۔اسی طرح نبی اوراس کے فرائض اورنبوت اوراس کی حقیقت کے متعلق بائیبل اوروید اورــژند وغیرہ کتب بالکل خامو ش ہیں ۔قرآن کریم نے وجودِ باری تعالیٰ کے ثبوت اوراس کی صفات پر بھی بحث کی ہے ۔ان روحانی امور کوبھی بیان کیا ہے جوانسان کی روحانی طاقتوں کی تکمیل اورامداد کے لئے ضروری ہیں۔ اسی طرح اس نے انسانی زندگی کے قال پر بھی روشنی ڈالی ہے اوراس کے ثبوت پیش کئے ہیں اورپھر اس نے ان تمام امو رمیں نہ صرف علمی طورپر ایک نئی روشنی بخشی ہے بلکہ عملاً بھی اس نے ایسے انسان پیداکئے ہیں جنہوں نے قرآن کریم پر عمل کرکے اللہ تعالیٰ کاوصال حاصل کرلیا اوران کی روحانی طاقتیں اپنی تکمیل کو پہنچ گئیں ۔غرض قرآن کریم تمام سابق کتبِ الہٰیہ پر اپنے مبین ہونے کے لحاظ سے بھی ایسی نمایاں فوقیت رکھتاہے کہ جس پہلو سے بھی دیکھیں قرآنی حسن انسانی آنکھوں کو خیرہ کئے بغیر نہیں رہتا ۔
پھرقرآن کریم کو دوسری الہا می کتب پر صرف انہی امور میں فضیلت حاصل نہیں جواس میں دوسری کتابوں سے زائد پائے جاتے ہیں یاجن میں اس نے دوسرے مذاہب کی خامیوںاوران کی کوتاہیوں کی اصلاح کی ہے بلکہ جن احکام میں اس کی پہلی کتب سے مشابہت دکھائی دیتی ہے ان میں بھی قرآن کریم نے ان سے بہتر اورجامع تعلیم دنیا کیسامنے پیش کی ہے مثلاً اگر ان کتابوں میں کھاناکھانے کاکوئی طریق بیان کیا گیاہے تواس کابھی قرآن کریم نے ان سے اچھا طریق پیش کیاہے اوراگر ان میں کپڑا پہننے کاکوئی طریق بتایا گیاہے ۔توقرآن کریم نے ان سے بھی بہتر اوراعلیٰ طریق کپڑے پہننے کادنیا کے سامنے پیش کیاہے ۔غررض کوئی معمولی سے معمولی بات بھی ایسی نہیں جس میں قرآن کریم نے ان کتابوں سے زیادہ جامعیت اورتفصیل کے ساتھ اپنی تعلیم پیش نہ کی ہو اورجس میں اس نے اپنے مبین ہونے کے مقام کو ظاہرنہ کیاہو۔مثال کے طور پر میں اس وقت امن عالم کامسئلہ لے لیتاہوں ۔ امن ایک ایسی چیز ہے جس کے لئے دنیا ہمیشہ سے کوشش کرتی چلی آئی ہے چنانچہ یا تودنیا بیرونی امن کے لئے جدوجہد کرتی ہے اویاجب بیرونی امن کے لئے جدوجہد نہیں کررہی ہوتی یا اس میں کامیاب ہوچکی ہوتی ہے تواندرونی امن کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔ چنانچہ بڑے بڑے دولتمند اورعالم و فاضل جب آپس میں ملتے ہیں توان کی گفتگو کا موضوع اکثر یہی ہوتاہے کہ اَورتوہمیں سب کچھ میسر ہے مگر دل کاامن نصیب نہیں۔پس امن صرف بیرونی ہی نیں ہوتا بلکہ دل کابھی ہوتاہے۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک دل کا امن نصیب نہ ہو اس وقت تک ظاہر ی امن بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ آجکل دنیا کے تمام لو گ امن کے خواہشمند ہیں ۔لیکن امن ان کو میسر نہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں اتنی مختلف الانواع مخلوق ہے کہ جب تک کسی ایک قاعدہ کے ماتحت امن کا حصول نہ ہو ۔اس وقت تک سب لو گ مطمئن نہیں ہوسکتے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں انسانوں میں ہزاروں اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ایک دوسرے کے مفاد مختلف ہوتے ہیں ۔ایک دوسرے کے جذبات مختلف ہوتے ہیں۔ایک دوسرے کی خواہشات مختلف ہوتی ہیں اورایک دوسرے کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں ۔ان متضاد خواہشو ں اورمتضاد ضرورتوں کے ہوتے ہوئے دنیا میں امن کس طرح پیدا ہوسکتاہے ۔اسلام بتاتاہے کہ ایسے متضاد اورمخالف خیالات کی موجود گی میں تبھی امن قائم ہوسکتاہے جب ساری دنیا ایک ایسی ہستی کی تابع ہو ۔جو امن دینے کاارادہ رکھتی ہو ۔اگریہ بات نہ ہوتو کبھی امن میسر نہیں آسکتا۔ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ ایک گھر میں ماں باپ ذراادھر ادھر ہوتے ہیں تو تھوڑی ہی دیر میں بچے لہولہان ہوجاتے ہیں ۔کسی کے گلے پر زخم ہوتاہے کسی کے بال نوچے ہوئے ہوتے ہیں کسی کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔ کسی کی آنکھ سوجی ہوئی ہوتی ہے۔مگرجب ماں باپ آتے ہیں توا ن کے سامنے ایسی نرم شکلیں بناکر بیٹھ جاتے ہیں کہ گویا وہ لڑائی جھگڑے کوجانتے ہی نہیں۔اس لیء کہ ماں باپ کی نیت یہ ہوتی ہے کہ ان کے بچے امن سے رہیں۔پس درحقیقت امن اسی وقت حاصل ہوسکتاہے ۔جب دنیا پر ایک ایسی بالا ہستی ہو جوامن کی متمنی ہواورجودوسروںکوامن دیناچاہتی ہو ۔اورایسے قوانین نافذکرناچاہتی ہو جوامن دینے والے ہوں۔اوروہی شخص حقیقی امن دینے والاقرار پاسکتاہے جواس ہستی کی طرف لوگوں کوبلائے ۔ یہ امن دینے والی ہستی کی طرف توجہ دلانے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اورآپ ہی وہ انسان ہیں جن کے ذریعہ دنیا کو یہ معلوم ہواکہ خداتعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام امن دینے والابھی ہے۔چنانچہ سورئہ حشر میں اللہ تعالیٰ کے جونام گنائے گئے ہیں ان میںسے ایک نام یہ بھی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے اَلْمَلِکُ الْقُدُوْسُ السَّلَامُ(سورئہ حشر آیت ۲۴) اے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )تُولوگوں کوتوجہ دلااس خداکی طرف جو بادشاہ ہے پاک ہے اوراَلسَّلَام یعنی دنیا کوامن دینے والا اورتمام سلامتیوں کا سرچشمہ ہے۔یعنی جس طرح ماں باپ یہ کبھی برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کے بچے لڑیں جھگڑیں یافساد کریں ۔بلکہ وہ امن شکن کو سزادیتے اورامن قائم رکھنے والے بچے سے پیارکرتے ہیں اسی طرح تمہارے اوپر بھی ایک خداہے و ہ دیکھ رہاہے کہ تمہارے مفاد مختلف ہیں ۔تمہارے ارادے مختلف ہیں ۔تمہاری ضرورتیں مختلف ہیں ۔تمہاری خواہشیں مختلف ہیں ۔اور تم بعض دفعہ جذبات میں بے قابو ہوکر امن شکن حالات پرتیار ہوجاتے ہو ۔مگریاد رکھو خدایسی باتوںکو پسند نہیں کرتا ۔وہ سلام ہے۔جب تک کوئی سلامتی اختیار نہ کرے اس وقت تک و ہ اس کامحبوب نہیں ہوسکتا۔
ہرشخص سمجھ سکتاہے کہ خالی امن کی خواہش امن پیدانہیں کردیاکرتی ۔کیونکہ بالعموم امن کی خواہش اپنے لئے ہوتی ہے دوسروں کے لئے نہیں ہوتی۔چنانچہ جب لوگ کہتے ہیں۔دولت بڑی اچھی چیز ہے توا سکے یہ معنے نہیں ہوتے کہ دشمن کی دولت بھی اچھی چیز ہے بلکہ مطلب یہ ہوتاہے کہ میرے لئے صحت بڑی اچھی چیز ہے ورنہ دشمن کے متعلق توانسان یہی چاہتاہے کہ وہ نادار اورکمزور ہو ۔اسی طرح جب لو گ عزت و رتبہ کے متمنی ہوتے ہیں توہرشخص کے لئے نہیں بلکہ محض اپنے لئے ۔پس جب دنیاکایہ حال ہے توخالی امن کی خواہش بھی فساد کاموجب ہوسکتی ہے کیونکہ جولوگ بھی امن کے متمنی ہیں وہ ا س رنگ میں امن کے متمنی ہیں کہ صرف انہیں اوران کی قوم کو امن حاصل رہے۔ورنہ دشمن کے لئے وہ یہی چاہتے ہیں کہ اس کے امن کو مٹادیں ۔اب اگر اسی اصل کو رائج کردیاجائے تودنیا میں جوبھی امن قائم ہوگا وہ چند لوگوںکا امن ہوگا۔ساری دنیاکانہیں ہوگا۔اورجو ساری دنیا کاامن نہ ہو وہ حقیقی امن نہیں کہلاسکتا۔حقیقی امن تبھی پیداہوسکتاہے جب انسان کو یہ معلوم ہوکہ میرے اوپر ایک بالا ہستی ہے جومیرے لئے ہی امن نہیں چاہتی بلکہ سارے ملکو ں کے لئے امن چاہتی ہے اوراگر میں صرف اپنے لئے یاصرف اپنی قوم کے لئے یاصرف اپنے ملک کے لئے امن کامتمنی ہوں تواس صورت میں مجھے اس کی مدد اس کی نصرت اوراس کی خوشنودی کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔جب یہ عقیدہ دنیا میں رائج ہوجائے تبھی امن قائم ہوسکتاہے ورنہ نہیں۔پس اَلْمَلِکُ الْقُدُوْسُ السَّلَامُکہہ کر قرآن کریم نے انسانی ارادوں کو پاک و صاف کردیا۔اوریہ تسلیم شدہ بات ہے کہ جب تک ارادے درست نہ ہوں اس وقت تک کام بھی درست نہیں ہوسکتا۔دنیا میں اس وقت جتنے فساد اورلڑائیاں ہیں سب اسی وجہ سے ہیں کہ انسانوں کے ارادے صاف نہیں۔وہ منہ سے جوباتیں کرتے ہیں ان کے مطابق ان کی خواہش نہیں اوران کی خواہشا ت کے مطابق ان کے اقوال اورافعال نہیں۔ آج سب دنیا کہتی ہے کہ لڑائی بُری چیز ہے لیکن اس کامطلب صرف یہ ہوتاہے کہ اگر ہمارے خلاف کوئی لڑے تویہ بُری بات ہے لیکن اگر ان کی طرف وسے جنگ کی ابتداہو تو یہ کوئی بری بات نہیں سمجھی جاتی ۔اوریہ نقص اسی وجہ سے ہے کہ لوگوں کی نظر ایک ایسی ہستی پر نہیں جو سلام ہے ۔وہ سمجھتے ہیں جہاں تک ہمارافائدہ ہے ہم ان باتوں پر عمل کریں گیت مگر جب ہمارے مفاد کے خلاف کوئی بات آئے گی تواسے رد کردیں گے ۔مگر قرآن کریم میں جوخداتعالیٰ کے نام بتائے گئے ہیں ان سے معلوم ہوتاہے کہ وہ سب کا خداہے کسی ایک کانہیں۔اوریہی عقیدہ حقیقی امن کی طرف دنیا کولاسکتاہے کہ دنیا کاایک خداہے جویہ چاہتاہے کہ سب لوگ امن سے رہیں ۔جب ہمارایہ عقیدہ ہوگا تواس وقت ہماری خواہشات خود غرضی پر مبنی نہیں ہوں گی ۔بلکہ دنیا کو عام فائدہ پہنچانے والی ہوں گی اس وقت ہم یہ نہیں دیکھیں گے کہ فلاں بات کا ہمیں فائدہ پہنچتاہے یانقصان بلکہ ہم یہ دیکھیں گے کہ سار ی دنیا پر اس کاکیا اثر ہے۔ یوں تودنیا ہمیشہ اپنے فائدہ کے لئے دوسروں کے امن کو برباد کرتی رہتی ہے ۔لیکن اس عقیدہ کے ماتحت ایساکرنے کی جرأت اس میں نہیں ہوگی کیونکہ وہ سمجھے گی کہ اگر میں نے ایساکیا تو ایک بالا ہستی مجھے کچل کر رکھ دے گی ۔جیسے ایک بچہ دوسرے کاکھلونا چھین لیتاہے تووہ اپنے لئے امن حاصل کرلیتاہے لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرے کاامن بھی چھیناجاتاہے ۔اورایک توخوش ہورہاہوتاہے اوردوسرارورہاہوتاہے ۔ ایسی حالت میں کیا تم سمجھتے ہو کہ ماں باپ یا استاد اگر وہاں موجود ہوں تو وہ اس کھیل کو جاری رہنے دیںگے ؟وہ کبھی اس کو برداشت نہیں کریں گے ۔بلکہ جس بچہ نے کھلوناچھین اہوگا اس کاکھلونا لے کر اس کے اصل مالک کو دے دیں گے ۔اورجب و ہ ایساکرتے ہیں تب بچہ سمجھتا ہے کہ وہ امن جودوسرے کے امن کو برباد کرکے حاصل کیاجاتاہے وہ کبھی قائم رہنے والانہیں ہوتا۔حقیقی امن وہی ہوتاہے جوایسی صورت میں حاصل ہو جب کہ کسی کے حق کو تلف نہ کیا گیاہو ۔
غرض حقیقی امن اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک ایک بالاہستی تسلیم نہ کی جائے اوریہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ امن دینے والاہے صرف اسلام نے ہی پیش کیاہے اوراس نے کہا ہے کہ اَلْمَلِکُ الْقُدُوْسُ السَّلَامُ۔
اس کے بعد وہ پیغام ہے جو اس ہستی کی طرف سے آتاہے ۔کیونکہ جب ایک امن قائم رکھنے کی خواہشمند ہستی کاپتہ مل گیا ۔توانسان کے دل میں یہ معلوم کرنے کی بھی خواہش پیداہوجاتی ہے کہ آیا اس نے امن قائم کرنے کاکوئی سامان بھی کیاہے یانہیں۔کیونکہ اگر اس نے امن قائم کرنے کا کوئی سامان نہیںکیا تویہ لازمی بات ہے کہ اگر ہم خود امن قائم کرنے کی کوشش کریں گے تواس بات کا امکان ہوسکتاہے کہ بجائے امن کے فساد پیداکردیں ۔پس محض امن قائم کرنے کی خواہش انسان کو صحیح راستہ پر قائم نہیں کرسکتی جب تک ایک بالاہستی کی ایسی ہدایات بھی معلوم نہ ہوں جوامن قائم کرنے میں ممد اورمعاون ہوں ۔کیونکہ اگر انسان کو اپنے بالا افسر کی خواہشات کا صحیح علم نہ ہو توانسان باوجود اس آرزو کے کہ و ہ اس کے احکام کی اطاعت کرے اسے پوری طرح خوش نہیں رکھ سکتا۔ پس اگر ہمیں اپنے بالا افسر کی خواہش تومعلوم ہولیکن اس خواہش کو پوراکرنے کاطریق معلوم نہ ہو ۔تب بھی ہماراامن قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ ممکن ہے ہم کوئی اورطریق اختیار کریں اوراس کا منشاء کو ئی اورطریق اختیار کرناہو۔پس ہمارے امن کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ و ہ بالاہستی ہمیں کوئی ایساذریعہ بھی بتائے جو امن قائم کرنے والاہو۔سوا س غرض کے لئے جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں اوریہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا اس نے کوئی ایساذریعہ بتایاہے یانہیں توسورئہ بقرہ میں اس کا جواب نظر آتاہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے :۔وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا(بقر ہ آیت ۱۲۶)یعنی یہ جو آسمان پر سلام خداکی خواہش ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو اس کے لئے ضروری تھا کہ ہم ایک مرکز قائم کرتے جودنیا کوامن دینے والاہوتا۔سوہم نے بیت اللہ کومدرسہ بنایا۔یہاں چاروں طرف سے جولوگ جمع ہوں گے اورامن کاسبق سیکھیں گے ۔پس ہمارے خدانے صرف خواہش ہی نہیں کی ۔ صرف یہ نہیں کہا کہ تم امن قائم کروورنہ میں تم کو سزادوں گا ۔بلکہ اس دنیا میں اس نے امن کاایک مرکز بھی قائم کردیا اوروہ خانہ کعبہ ہے ۔فرماتاہے ۔یہاں لوگ آئیں گے اورا س مدرسہ سے لوگ امن کاسبق سیکھیں گے ۔
پھریہ کہ اس مدرسہ کی تعلیم کیا ہوگی ۔اس کے لئے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خداسے خبر پاکر اعلان فرمادیا کہ قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلَامِ ( مائدہ آیت ۱۶۔۱۷) یعنی اے لوگو!تم تاریکی میں پڑے ہوئے تھے ۔تم کو یہ پتہ نہیں تھاکہ تم اپنے خداکی مرضی کو کس طرح پوراکرسکتے ہو۔اس لئے دنیا میں ہم نے تمہارے لئے ایک مدرسہ بنادیاہے ۔مگرخالی مدرسہ کام نہیں دیتا جب تک کتابیں نہ ہوں۔پس فرمایا قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ۔خداکی طرف سے تمہارے پاس ایک نور آیا ہے جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اوراس کے ساتھ ایک کتاب مبین ہے۔ایسی کتاب جو ہرقسم کے مسائل کو بیان کرنے والی ہے ۔پس خداتعالیٰ نے اسلام کے لئے امن کا مدرسہ بھی قائم کردیا ۔امن کاکورس بھی مقرر کردیا اورمدرسِ امن بھی بھیج دیا۔مدرّسِ امن محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ااورامن کاکورس وہ کتاب ہے جو یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلَامِ کی مصداق ہے ۔جوشخص خداکی رضاحاصل کرناچاہتاہے ۔ اسے چاہیئے کہ اس کتاب کو پڑھے ا سمیں جس قدر سبق ہیں و ہ سُبُلَ السَّلَامِ یعنی سلامتی کے راستے ہیں۔اورکوئی ایک حکم بھی ایسانہیں جس پر عمل کرکے انسانی امن برباد ہوسکے ۔
ایک بالاہستی کاوجودہی ہمارے ارادوں کو درست کرتاہے ۔مدرسہ کاقیام ہماری عملی مشکلات کو حل کرنے میں مدد دیتاہے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس کتا ب کی عملی تفسیر ہے ۔جیسا کہ آپ فرماتے ہیں ک میرے ذریعہ خداتعالیٰ نے وہ کتاب بھیج دی ہے جس میں وہ تمام تفصیلات موجود ہیں جن سے امن حاصل ہوسکتاہے ۔
اب یہ سوال رہ جاتاہے کہ یہ امن جو اسلام قائم کرناچاہتاہے کس کے لئے ہے؟اللہ تعالیٰ اس کاجواب دیتے ہوئے فرماتاہے ۔قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسلامٌ عَلیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰے وہ بندے جو خداتعالیٰ کے پسندیدہ ہوجائیں اوراپنے آپ کو اس کی راہ میں فداکردیں ان کے لئے بھی امن پیداہوجائے گا اوروہ بھی باامن زندگی بسر کرنے لگ جائیں گے ۔یہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایاکہ تما م لو گ جوآپ کی اتباع کرنے والے اورآپ ک مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے ولاے ہیں ان کے لئے کامل امن ہے اوروہ اپنی زندگی کے کسی حصہ میں بھی بدامنی نہیں دیکھ سکتے ۔
پھر سوال پیداہوتاتھا کہ جب خدا سلام ہے تواس کی طرف سے امن ساروں کے لئے آناچاہیئے ۔نہ کہ بعض کے لئے۔کیونکہ اگر خالی اپنوں کے لئے امن ہوتو یہ کو ئی کامل امن نہیں کہلاسکتا ۔اس کابھی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں جواب دیتاہے ۔فرماتاہے ۔ وَقِیْلِہٖ یٰرَبِّ اِنَّ ھٰؤُ لَٓائِ قَوْمٌ لَّایُؤْمِنُوْنَ۔فَاصْفَحْ عَنْھُمْ وَقُلْ سَلَامٌ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(زخرف آیت ۸۹۔۹۰)یعنی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی تعلیم لے کرآئے ہیں جوساروں کے لئے ہی امن کاموجب ہے اورہرشخص کے لئے وہ رحمت کا خزانہ اپنے اندر پوشیدہ رکھتی ہے ۔مگرافسوس کہ لوگ اس کو نہیںسمجھتے ۔بلکہ و ہ اس تعلیم کے خلاف لڑائیاں اورفساد کرتے ہیں جوان کے لئے نوید اورخوشخبری ہے یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی یہ کہناپڑاکہ خدایامیں اپنی قوم کی طرف امن کا پیغام لے کرآیا تھا مگر اِنَّ ھٰؤُ لَٓائِ قَوْمٌ لَّایُؤْمِنُوْنَ یہ قوم جس کے لئے میں امن کاپیغام لایاتھا یہ تومجھے بھی امن نہیں دے رہی اٰمَنَ کے معنے ایمان لانے کے بھی ہوتے ہیں اور اٰمَنَ کے معنے امن دینے کے بھی ہوتے ہیں (اقرب)وَقِیْلِہٖ یٰرَبِّ اِنَّ ھٰؤُ لَٓائِ قَوْمٌ لَّایُؤْمِنُوْنَمیں اسی امر کا ذکر ہے کہ ہمارانبی ہم سے پکار پکارکرکہتاہے کہ خدایا باوجود یکہ میں اپنی قوم کے لئے امن کاپیغام لایاتھا وہ اس کی قد رکرنے کی بجائے میری مخالفت پر کمر بستہ ہو گئی ہے یہاں تک کہ ان لوگوں نے میرے امن کو بالکل برباد کردیا۔مگرفرمایا۔فَاصْفَحْ عَنْھُمْ۔ہم نے اپنے نبی سے یہ کہا ہے کہ ابی ان لوگوںکوتیری تعلیم کی عظمت معلوم نہیں اس لئے وہ غصہ میں آجاتے ہیں اورتیری مخالفت پر کمر بستہ رہتے ہیں توان سے درگذر کر۔کیونکہ ہم نے تجھے امن کے قیام کے لئے بھیجا ہے وَقُلْ سَلَامٌ۔اورجب تجھ پریہ لوگ حملہ کریں اورتجھے ستائیں توتویہی کہتا رہ کہ میں تو تمہارے لئے سلامتی لایاہوں فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ عنقریب دنیا کومعلوم ہوجائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے لئے امن لایاتھا۔لڑائی نہیں لایاتھا ۔گویا وہ امن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے وہ صرف مومنوں کے لئے ہی امن نہ رہا۔ بلکہ سب کے لئے امن ہوگیا ۔
پھر صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی نہیں بلکہ تمام مومنوںکو مخاطب کرکے اللہ اتعالیٰ فرماتاہے کہ وَاِذَاخَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْاسَلَامًا( سورہ فرقان آیت ۶۴)وہ جاہل جو اسلام کی غرض و غایت کونہیں سمجھتے جب مسلمانوں سے لڑناشروع کردیتے ہیں ۔ تومومن کہتے ہیں کہ ہم توتمہاری سلامتی چاہتے ہیں چاہے تم ہمارابُراہی کیوں نہ چاہو ۔جب دشمن کہتاہے کہ تم کیسے گندے عقائد دنیا میں رائج کررہے ہو۔تووہ کہتے ہیں یہ گندے عقائد اوربیہودہ باتیں نہیں ۔بلکہ سلامتی کی باتیں ہیں۔گویارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی سلامتی صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہی نہیں بلکہ مومنوں کے لئے بھی ہے ۔اورصرف مومنوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے ہے ۔
پھر سوال پیداہوتاہے کہ یہ سلامتی عارضی ہے یامستقل۔کیونکہ یہ توہم نے ماناکہ السَّلام خداسے امن لاکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دیا ۔مگر بعض امن عارضی بھی ہوتے ہیں جن کے نیچے بڑی بڑی خرابیاں پوشیدہ ہوتی ہیں جیسے بخار کامریض جب ٹھنڈاپانی پیتاہے تواسے بڑاآرام محسوس ہوتاہے ۔مگردومنٹ کے بعدیکدم اس کابخار تیز ہوجاتاہے ۔اورکہتاہے ’’آگ لگ گئی ‘‘پھر برف پیتاہے ۔اورسمجھتاہے کہ آرام آگیا مگریکدم اسے بے چینی شروع ہوجاتی ہے ۔پس سوال ہوسکتاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوامن دے رہے ہیں یہ عارضی ہے یا مستقل؟اس کاجواب دیتے ہوئے فرماتاہے :۔وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓااِلیٰ دَارِ السَّلَامِ(یونس آیت ۲۶)کہ دنیا فسادوں کی طرف لے جاتی ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو تعلیم دی گئی ہے وہ موجودہ زمانہ ہی کے لئے نہیں ۔بلکہ وہ ایک ایساامن ہے جو مرنے کے بعد بھی چلتاچلاجاتاہے اورجواس دنیا کے بعد ایک ایسے گھر میں انسان کو پناہ دیتاہے جہاں سلامتی ہی سلامتی ہے گویایہ زنجیر ایک مکمل زنجیر ہے ۔اس کے ماضی میں ایک سلام ہستی کھڑی ہے اس کے حال میں امن ہے کیونکہ ایک مدرسئہ امن جاری ہوگیاہے اورایک مدرّسِ امن خداتعالیٰ نے بھیج کر امن کاکورس بھی مقررکردیا۔اورعملی طور پر ایک ایسی جماعت تیار کردی جو وَاِذَاخَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْاسَلَامًاکی مصداق ہے ۔پس اس کے ماضی میں بھی امن ہے اوراس کے حاضر میں بھی امن ہے۔پھر اس کے مستقبل میں بھی امن ہے۔کیونکہ وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓااِلیٰ دَارِ السَّلَامِ مرنے کے بعدوہ انسان کو ایک ایسے جہان میں لے جائے گا ۔جہاں سلامتی ہی سلامتی ہوگی۔پس یہ ساری زنجیر مکمل ہوگئی اورکوئی جزو تشنئہ تکمیل نہ رہا۔
اس کے بعدقیام امن کے ذرائع کاسوال آتا ہے۔سواس کے متعلق بھی قرآن کریم روشنی ڈالتااور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ اعلان فرماتاہے کہ وَکَیْفَ اَخَافُ مَآاَشْرَکْتُمْ وَلَاتَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ بِاللہِ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًا۔ فَاَ یَّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ۔اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔(انعام آیت ۸۲) یعنی میرے دل کاامن ان بتوں کودیکھ کر کس طر ح برباد ہوجائے جن کو تم خدائے واحدکا شریک قراردے رہے ہو۔ وَلَاتَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ بِاللہِ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًا حالانکہ تم اپنے دلوں میں جھوٹے طورپر مطمئن ہو۔خطرہ تمہارے ارد گرد ہے۔پس اگر تم عدمِ علم اورجہالت کے باوجود مطمئن ہو اورتمہاراعدم علم تم کوامن دے سکتاہے توتم کس طرح سمجھ سکتے ہو کہ میرا کامل علم مجھے امن نہیں بخش سکتا ۔فَاَ یَّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْن تم بتائوان دونوں میں سے کس کو امن حاصل ہوگا؟اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْن۔اگر تم حماقت کی باتیں نہ کرو اورعقل و خرد سے کام لو تو تم سمجھ سکتے ہوکہ کو ن مامون ہے اورکون غیر مامون ۔
اس جگہ امن کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ نے دوعظیم الشان گُر بیان فرمائے ہیں ۔اول یہ کہ توحید کامل کے قیام کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ جب تک توحید قائم نہ ہوگی اس وقت تک لڑائیاں جاری رہیں گی ۔شرک کاصرف اتنا ہی مفہوم نہیں کہ کوئی ایک کی بجائے تین خدائوں کا قائل ہو ۔بلکہ جب باریک در باریک رنگ میں شرک شروع ہوتاہے توکئی قسم کا شرک نظر آ نے لگ جاتاہے ۔ اس کے علاوہ جب مختلف مذاہب کی تعلیمیں مختلف ہیں ان کے خیالات مختلف ہیں تو اس احالت میں امن اس وقت تک قائم ہی نہیں ہوسکتا جب تک لوگوں کے اند رحقیقی مواخات پیدانہ ہو اورحقیقی مواخات ایک خداکے بغیر نہیں ہوسکتی ۔دنیا میں اس بات پر تو لڑائیاں ہوجاتی ہیں کہ ایک کہتا ہے میرادادافلاں عظمت کا مالک تھا اوردوسراکہتاہے میراداداایساتھا ۔مگر کبھی تم نے بھائیوںکو اس بات پر لڑتے نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک دوسرے کو کہے میں شریف النسب ہوں اورتم نہیں ۔اسی طرح جب دنیا میں توحید کامل ہوگی ۔تبھی اس قسم کی لڑائیاںبند ہوں گی پس اخوت و مساوات کاجوسبق توحید سے حاصل ہوتاہے اَورکسی طرح سے حاصل نہیں ہوسکتا۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم ک متعلق دشمن بھی اقرار کرتاہے کہ اخوت کا جو سبق آپ نے دیا اورکسی نے نہیں دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوت کاسبق الگ کرکے نہیں دیابلکہ آپ نے اصل میں توحید کاسبق دیاجس کالازمی نتیجہ یہ ہواکہ مسلمانوں می اخوت پیداہوگئی ۔مثلاً جب مَیں نماز میں کہوں الحمد للہ رب العالمین سب تعریف اسی اللہ کی ہے جوعیسائیوں کا بھی رب ہے ۔ہندوئوں کا بھی رب ہے یہودیوںکا بھی رب ہے ۔تومیرے دل میں ان قوموں کی نفرت کس طرح ہوسکتی ہے ۔جبکہ میں رب العالمین کے لفظ کے نیچے تمام قوموں اورتمام نسلوں کو لے آتاہوں ۔میں جب نماز میں الحمد للہ رب العالمین کہتاہوں تو تودوسرے الفاظ میں یہ کہتا ہوں کہ الحمد للہ رَبِّ الْمَذاھِبِ کُلِّھَا۔یعنی میں ا س خدا کی تعریف کرتاہوں جو تمام مذاہب کارب ہے ۔اسی طرح جب میں الحمد للہ رب العالمین کہتا ہوں تو ا سکے معنے یہ بھی ہوتے ہیں کہ الحمد للہ رب الاقوام کلھا یعنی میں اس خداکی تعریف کرتاہوں جوتمام اقوام کا رب ہے اسی طرح جب مَیں الحمد للہ رب العالمین کہتاہوں تواس کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ الحمد للہ ربِّ الْبِلادِ کُلِّھَایعنی میں اس خداکی تعریف کرتاہوں جو تمام ملکوں کارب ہے ۔اورجب کہ میں تمام اقوام ۔تما م ملکوںاورتمام
لوگوں میں حسن تسلیم کروںگا تویہ ممکن ہی نہیں کہ میں ان سے عداوت رکھ سکوں۔پس الحمد للہ رب العالمین میں بتادیاگیاہے کہ اگر حقیقی توحید قائم ہواوررب العالمین کی حمد سے انسان کی زبان تر ہو تویہ ممکن ہی نہیں کہ کسی قوم کا کینہ انسان کے دل میں رہے اورا یک طر ف تووہ ان کی بربادی کی خواہش رکھے اوردوسری طرف ان کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد اورتعریف بھی کرے ۔
دوسرانکتہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ نازل فرمایاہے کہ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ علیکم سُلْطٰنًا یعنی دنیا میں امن تبھی برباد ہوتاہے ۔جب انسان فطرتی مذہب کو چھو ڑکررسم و رواج کے پیچھے چل پڑتاہے ۔اگرانسان طبعی اورفطرتی باتوں پر قائم رہے توکبھی لڑائیاں اورجھگڑے نہ ہوں۔یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔اسلام دین فطرت ہے اورحقیقت یہی ہے کہ جو دین فطرت ہو گا ۔وہی دنیا میں امن قائم کرسکے گا اوروہی مذہب امن پھیلاسکے گا جس کاایک ٹکڑا انسان کے دماغ میں ہو۔آخر یہ ہوکس طرح سکتاہے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو ا س تعلیم کی طرف بلائے جس کاجواب ہماری فطرت میں نہیں اورجس کی قبولیت کا مادہ پہلے سے خدانے ہمارے دماغ اورہمارے ذہن میں نہیں رکھا ۔پس فرمایامَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ علیکم سُلْطٰنًا تم کہہ دو کہ تم ان تعلیمو ں کے پیچھے چل رہے ہو جو فطرت کے خلاف ہیں اور میں تم کو ان باتوں کی طرف بلاتاہوں جو تمہاری فطرت میں داخل ہیں ۔اب جو ںجوں انسان اپنی فطرت کو پڑھنے کی کوشش کرے گااس کادل پکار اُٹھے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں جو کتا ب ہے و ہ بالکل سچی ہے۔ کیونکہ ا س کادوسرانسخہ میرے ذہن میں بھی ہے ۔اس طرح آہستہ آہستہ دنیا ایک مرکز پر آجائے گی اورایک ہی خیال پر متحد ہوجائے گی جس کے نتیجہ می امن قائم ہوجائے گا ۔
اب ایک اورسوال باقی ر ہ جاتاہے اوروہ یہ کہ بے شک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدرّسِ امن ہیں۔بے شک آپؐ نے امن کا مدرسہ دنیا میں جاری کردیا بے شک امن کا کورس خدانے مقرر کردیا ۔بیشک اسلام نے تعلیم وہ دی ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے اورجسے دیکھ کر انسانی فطرت پکار اٹھتی ہے کہ واقعہ میں یہ صحیح تعلیم ہے ۔مگر کیا لڑائی بالکل ہی بُری چیز ہے؟ قرآن کریم اس کابھی جواب دیتا اورفرماتا ہے کہ امن کے قیام کے لئے بعض دفعہ جنگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔چنانچہ فرماتاہے۔وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْفَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ(بقرہ آیت ۲۵۲)کہ بیشک امن ایک قیمتی چیز ہے ۔بے شک ا س کی تعلیم خدانے انسانی دماغ میں رکھی ہے ۔مگرکبھی انسان کا دماغ فطرت سے اتنا بعید ہوجاتاہے کہ اورانسانی عقیدے فطرت سے اتنے پر ے ہٹ جاتے ہیں ۔کہ وہ امن سے بالکل دورجاپڑتے ہیں ۔اورنہ صرف امن سے دورجا پڑتے ہیں بلکہ حرّیتِ ضمیر کوبھی باطل کرناچاہتے ہیں۔فرماتاہے ایسی حالت میں امن کے قیام اوراس کو وسعت دینے کے لئے ضروری ہوتاہے کہ جو شرارتی ہیں ان کامقابلہ کیاجائے پس وہ جنگ امن ہٹانے کے لئے نہیں بلکہ امن قائم کرنے کے لئے ہوگی ۔جیسے اگر انسان کے جسم کا کوئی عضو سڑ گل جائے تو فیس خرچ کرکے بھی انسان ڈاکٹرسے کہتاہے کہ اس عضو کو کاٹ دو ۔اسی طرح کبھی ایسے گروہ دنیا میں پیداہوجاتے ہیں جو سرطان اورکینسر کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔اورضروری ہوتاہے کہ ان کا اپریشن کیا جائے تاو ہ باقی حصہ قوم کو بھی گند ہ اورناپاک نہ کردیں ۔پس فرمایا وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْض۔اگر بعض کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بعض کی شرارتوںکو دور نہ کرتا تو لَفَسَدَتِ الارضُ۔ بجائے امن قائم ہونے فساد بڑھ جاتا۔جس طرح سپاہیوں کو بعض دفعہ لاٹھی چارج کا حکم دیاجاتاہے ۔اسی طرح فرمایا ۔بعض دفعہ ہم بھی اپنے بندوںکو اجازت دیتے اورانہیں کہتے ہیں جائو اورلاٹھی چار ج کرو اس لئے کہ لَفَسَدَتِ الارضُ اگر لاٹھی چارج نہ کیاجاتا۔توساری دنیا کاامن برباد ہوجاتا ۔وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْفَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ لیکن اللہ تعالیٰ صرف ایک قوم کو ہی امن نہیں دیناچاہتا بلکہ وہ ساری دنیا کو باامن دیکھنے کاخواہشمند ہے ۔اورچونکہ ان لوگوں سے دنیا کاامن برباد ہوتاہے اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان کا مقابلہ کیا جائے ۔تاساری دنیا میں امن قائم ہو۔بیشک اس کے نتیجہ میں خود ان لوگوںکا امن مٹ جائے گا ۔مگر دنیا میں ہمیشہ مواز نہ کیا جاتاہے ۔جب ایک بڑافائدہ چھوٹے فائدہ سے ٹکراجائے تو اس وقت بڑے فائدے کولے لیاجاتا اورچھو ٹے فائدہ کو قربان کردیاجاتاہے ۔اسی طرح کثیر حصہء دنیا کے امن کی خاطر ایک قلیل گروہ سے جنگ کی جاتی ہے اوراس وقت تک اسے نہیں چھوڑاجاتا جب تک وہ خلاف امن حرکات سے باز نہ آجائے ۔
یہ ایک مختصر ساڈھا نچہ اس تعلیم کاہے جو اسلا م نے قیام امن کے سلسلہ میں دی ۔اس سے ہرشخص اندازہ لگاسکتاہے کہ اسلام نے کس جامعیت اورتفصیل کے ساتھ اس مسئلہ کو بیان کیاہے جبکہ باقی مذاہب اس مسئلہ پر بالکل خاموش ہیں اورانہوں نے نسل انسانی کی کوئی راہنمائی نہیں کی ۔صرف یہ کہہ دینا کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے توتم اپنادوسراگال بھی اس کی طرف پھیر دو۔ اگر کو ئی شخص تم سے قمیص مانگے تواسے چوغہ بی اتار دو۔اگر کوئی شخص تمہیں ایک کوس بیگار میں لے جاناچاہے توتم دوکوس چلے جائو ۔ (متی باب ۵آیت ۳۹تا ۴۲)بین الاقوامی مشکلات کاکوئی حل نہیں کہلا سکتا ۔اورنہ عیسائیت اوریہودیت صرف اس تعلیم پر عمل کرکے کبھی دنیا میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے ۔بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ اس تعلیم پر عمل امن نہیں بلکہ بد امنی پیداکرنے کاموجب ہے۔اگرکوئی شخص ایک کوس پر اپنے گھر کاسامان لے جاناچاہتاہے ۔اورایک مزدورکو وہ زبردستی پکڑ لیتاہے تومسیحیت کہتی ہے کہ اے مزدور پکڑاجااورمقابلہ نہ کر ۔مگرجب اسکاگھر آجا ئے تووہاں ٹھہر نہیں بلکہ ایک کوس اورآگے چلا جا۔اب بتائو اس تعلیم پر عمل کرکے کس کو امن ملا ۔دوسرے شخص کو خود اسباب اٹھاکرواپس لاناپڑے گا اورمزدورکو ایک کوس زائد بوجھ اٹھا ناپڑے گا ۔گویا دونوںکو بدامنی ملی ۔امن نہ ملا ۔
امن صرف اسی تعلیم پر عمل کرکے قائم ہوسکتاہے جو اسلام نے پیش کی ہے ۔کیونکہ اسلام ایک ایسی کتاب مبین پیش کرتاہے جواپنے تمام احکام پر بالتفصیل روشنی ڈالنے والی ہے اورجس کامقابلہ نہ تورات کرسکتی ہے ن انجیل کرسکتی ہے ۔نہ ژند واوستاکرسکتے ہیں اورنہ دنیا کی کو ئی اورکتاب یاصحیفہ کرسکتاہے ۔
کتاب مبین کے ذکر میں اس امر کابیان کردینا بھی ضروری معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین کی شناخت کاانحصار صرف ظاہری دلائل اوربراہین پرہی نہیں رکھا بلکہ اس نے کتاب مبین کی سچائی کے لئے ایک اَورکتاب بھی تیار کی ہوئی ہے جسے قرآنی اصطلاح میں کِتاَبٌ مَّکْنُوْن(سورئہ واقعہ آیت ۷۹)کہاجاتاہے ۔کتاب مکنون کی مثال اس پانی کی سی ہے جوزمین کے اند رمخفی ہوتاہے اورکتاب مبین کی مثال نہروں اوردریائوں اورچشموں کے پانی کی سی ہے جو ظاہر ہوتاہے ۔جس طرح نہروں اوردریائو ں اوربادلوں کے پانی کی وجہ سے کنوئوں کا پانی بھی چڑھ آتاہے ۔اسی طرح کتا ب مین کی آمدپر کتاب مکنون بھی اپنے خزانے اگلنے لگتی ہے ۔اورجب کتاب مبین کاپانی برسنا بند ہوجائے توکتاب مکنون بھی مخفی ترہوجاتی ہے ۔کتاب مکنون سے مراد فطرت صحیحہ اورضمیر ہے اورکتاب مبین خداتعالیٰ کاتازہ الہام ہے ۔اورکتاب مبین کی سچائی کاثبوت یہ ہوتاہے کہ وہ کتاب مکنون کے مطابق ہو گویا اصل میں یہ دونوں ٹکڑے ایک ہی کل کے ہیں جسے کتاب مطلق کہنا چاہیئے اورجب کتاب مکنون اورکتاب مبین کااتحاد ہوجائے توسمجھ لینا چاہیئے کہ وہ کتاب مبین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔گویاکہ اللہ تعالیٰ نے آئندہ لوگوںکو دھوکے سے بچانے کے لئے اپنی کتاب کا ایک ٹکڑا ان کے دلوں اوردماغوں میں بھی رکھ دیاہے۔تاکہ جو کتاب اس کے مطابق ہو وہ اس کی سمجھی جائے اورجو اس کے مطابق نہ ہو وہ جھوٹی قرار پائے ۔اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ۱۹۲۴ء میں مَیں جب ولایت سے واپس آرہاتھاتوجہاز کا ایک انجینئر مجھے علیحدگی میں لے گیا ۔اورکہنے لگاآپ کے ولایت جانے کے لئے تبلیغ توایک بہانہ ہے آپ کسی اَوراہم کام کو سرانجام دینے کے لئے گئے ہوں گے ۔میںنے کہا ۔ہم تو صرف تبلیغ کے لیء ہی گئے تھے اس کے علاوہ اورکوئی کام ہمارے مدنظر نہ تھا ۔مگر چونکہ اس کے دل میں یہی جم چکاتھا کہ کسی اورکام کے لئے گئے تھے اورتبلیغ کو آڑ بنالیاتھا وہ کہنے لگا کہ آپ توانگریزوں کے خلاف کسی قسم کی کوشش کرنے گئے ہوں گے اورآپ کا یہ ظاہرکرنا کہ ہم تبلیغ کے لئے گئے تھے ایک بہانہ ہے ۔میں نے پھر اسے وہی جواب دیاکہ تبلیغ کے سواہمار اکو ئی اورمدعانہ تھا ۔مگر وہ اپنی دھن میں یہی کہتا رہا کہ تبلیغ تو صرف بہانہ ہے ۔اس کے بعد وہ کہنے لگا ۔میں اپنی خدمات آپ کے پیش کرتاہوں ۔آپ میرے سپر دکوئی کام کریں ۔اوراگرآپ نے اپنے نمائندوںکو کسی قسم کی مخفی ہدایات پہنچانی ہوں تومیں اس کا م کوبخوبی سرانجام دے سکوں گا اوربڑی حفاظت سے ان تک پہنچا دیاکروں گا ۔اس کے بعداس نے مزید اعتبار جمانے کے لئے ایک وزیٹنگ کارڈ VISITING CARD نکالااوراس کے دوٹکڑے پھاڑ کرکہا ۔جب آپ مجھے اس قسم کی ہدایات پرمشتمل خط بھیجیں تووزیٹنگ کارڈ کا نصف حصہ اس کے ساتھ مجھے بھیج دیں اوردوسرانصف حصہ اپنے اس نمائندہ کو جس کو وہ خط پہنچاناہوبھیجدیاکریں وہ نمائندہ جب وہ نصف وزیٹنگ کار ڈ دکھا کر مجھ سے آپ کے مخفی خط کا مطالبہ کرے گا تومیں اس کے نصف وزیٹنگ کارڈ کو اپنے والے نصف کے ساتھ ملاکر دیکھ لوں گا ۔اوراگر وہ دونوں ٹکڑے آپس میں مل گئے تومیں سمجھ جائو ں گا کہ یہ خط اسی کو دینا ہے۔پھر اس نے مثال دی کہ فرض کرو میں اپ کا خط لے کر وینس میں پہنچا اوروہاں دیکھا کہ ایک ہندوستانی شخص میرے انتظار میں کھڑا ہے وہ جب اپنی جیب سے وہ نصف کارڈ نکال کر مجھے دکھائے گا تومیں اپنے وزیٹنگ کارڈ سے ملا کردیکھو ں گا۔اگر مل گیاتو آپ کا خط اس کو پہنچا دوں گا ۔یہ مثال تو اس انجینئر نے اپنی اس غلط فہمی کی بناپر دی تھی کہ ہم انگریزوں کے خلاف کسی قسم کی سازش کرنے گئے تھے ۔لیکن اتنی بات بالکل درست ہے کہ جب کسی کارڈ کے دوحصے آپس میں فٹ آجائیں تواس کارڈ کے صحیح ہونے میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین کا ایک حصہ انسان کے ضمیر میں رکھ دیاہے اورجب وہ دونوں آپس میں مل جاتے ہیں توکتاب مبین کی صداقت بالکل واضح ہوجاتی ہے ۔مگرجس طرح بارش نہ ہونے پر کنوئوں کے پانی بھی سوکھنے لگتے ہیں۔اسی طرح کتاب مکنون اس وقت تک کام دیتی ہے جب تک کتاب مبین کاپانی برستارہے ۔جب فترۃ کازمانہ آجائے توکتاب مکنون بھی مخفی ترہوجاتی ہے ۔گویادونوں کی مثال دودوستوں اورمحبّوں کی سی ہے کہ جب ایک قریب آتاہے تو دوسرابھی قریب آجاتاہے اورجب ایک دور چلاجاتاہے تودوسرابھی دورچلاجاتاہے۔جب کتاب مکنون کسی شخص کی اپنی جِلاکی وجہ سے نمایاں ہونے لگتی ہے اوراس کامالک اپنی ذکاوت کی وجہ سے اس کے مطابق اعمال کرکے اسے اورزیادہ مصفّٰی کر دیتاہے تو معاً کتاب مبین یعنی الہام الٰہی اس پر نازل ہونے لگتاہے ۔اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ کیاگیاہے کہ یَکَادُ زَیْتُھَایُضِیْیٓئُ وَلَوْلَمْ تَمْسَسْہُ نارٌ( النور آیت ۳۶)یعنی فطرت مبارکہ محمدیہ ایسی مصفّٰی اورپاکیز ہ تھی کہ قریب تھاکہ خود بخود بغیر آگ کے جل اٹھتی یعنی بغیر اس کے کہ آسمانی آگ اس کو چھوتی وہ آپ ہی آپ دقائق اورمعرفت کو پالیتی ۔کیونکہ سنت اللہ یہی ہے کہ جب اس اندرونی تیل میں التہاب پیداہونے لگے توآسمانی آگ کووہ خود بخود جذب کرلیتاہے ۔غرض ان دونوں کتابوں کا عجیب جوڑ ہے کہ ایک کے قریب ہونے سے دوسری بھی قریب ہوجاتی ہے ۔فطرت صحیح ہوتی ہے تووہ الہام کو کھینچ لیتی ہے اورالہام کی روشنی کسی کو نصیب ہوجائے ۔تواس کی فطرت کے صحیح جذبات ابھر آتے ہیں ۔اوردونوں میں لازم و ملزوم والی لذت پیداہوجاتی ہے ۔اسی طرح جب کتاب مکنون مٹ جائے توکتاب مبین بھی نصیب نہی ہوتی اورجب کتاب مبین سے انسان محروم ہوجائے توکتا ب مکنون بھی مٹ جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایمان کامل کبھی خالی فطرت کے غورسے حاصل نہیں ہوسکتا۔کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ فطرت کامل ہوتو الہام کامل اس سے جداہی نہیں رہ سکتا۔وہ فوراً اس پر اسی طرح آگرتاہے جس طرح وائرلیس کے صحیح آلہ پر خود بخود خبر گرنے لگتی ہے یاجوازبِ بجلی پر بجلی۔
غرض الہام اورفطر ت صحیحہ ایک جوہرکے دوٹکڑے ہیں اوران کو الگ الگ سمجھنا سخت نادانی اوربے وقوفی ہے ۔فطرت صحیحہ اورجذبات متناسب کے نتیجہ میں ہی عشق الٰہی کی آگ بھڑکاکرتی ہے جوکلام کوکھینچ لیتی ہے اوروصال کو آسان کردیتی ہے ۔پس صحیح اورآسمانی کلام وہی ہوسکتاہے جس کو فطرت صحیحہ اورجذبات سے کامل اتصال ہو اوربجائے جذبات کومارنے کے وہ ان کو صحیح طورپرابھارے اورفطرت صحیحہ اس کی تصدیق کرے کہ ہاں یہ کلام میرے جسم کادوسراٹکڑہ ہے اورفوراًاس کی طرف لپک پڑے۔اس کے مقابلہ میں جو کلام فطرت صحیحہ کو مارنے کی کوشش کرتاہے و ہ یقیناً کتاب مکنون کے مخالف چلتاہے اورخواہ منہ اس کی کس قدر ہی تصدیق کریں دل اس پر مطمئن نہیں ہوسکتے اوروہ ضرور اپنے مقصد کے پوراکرنے میں ناکام رہتاہے ۔کیونکہ وہ نصف دھڑ کی طرح ہے یامجرّد نرہے کہ جو بغیر مادہ کے بچہ نہیں دے سکتا۔غرض قرآن کریم کویہ ایک بہت بڑی فضیلت حااصل ہے کہ وہ کتاب مبین بھی ہے اورفطرت صحیحہ انسانیہ میں بھی یہ کتاب موجود ہے ۔یعنی اس کاکوئی حکم انسانی فطرت کے مغائر نہیں ۔لیکن چونکہ بغیر آسمانی مدد کے فطرت صحیحہ کے باریک خزائن کا بھی اظہار نہی ہوسکتا اس لئے اللہ تعالی کتاب مبین اتارتاہے تاکہ اس کے ذریعہ سے کتاب مکنون کاظہور ہو۔اورکتاب مکنون کے ذریعہ سے کتاب مبین کی لوگوںکو شناخت ہو ۔اسی حقیقت کو صلحاء نے اس طرح بیان فرمایاہے کہ مَن عَرَفَ نَفسہٗ فقد عَرَفَ رَبَّہٗ یعنی دقائق فطرت کو سمجھنے سے ہی انسان کو خداملتاہ ۔مگریہ فقرہ ناقص ہے اورشعرکاصرف ایک مصرعہ ہے حق وہی ہے جو قرآن کریم نے بتایاہے کہ عرفانِ نفس سے خداملتاہے لیکن خداتعالیٰ کے کلام کے بغیر عرفان نفس بھی حاصل نہیں ہوتا۔گویاانسان اپنی حقیقت کو سمجھنے کے لئے بھی کتاب مبین کامحتاج ہے اوریہ دونوں چیز یں ایک دوسرے سے وابستہ اورپیوستہ ہیں۔
پھر فرماتاہے لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ اَلَّایَکُوْنُوْامُؤْمِنِیْنَ اے محمدؐ رسول اللہ!یہ عظیم الشان کلام جو ہم نے تجھ پر نازل کیاہے اسے لوگوں تک پہنچانے اورانہی اس لازوال دولت سے متمتع کرنے کے لئے تیرے دل میں بنی نوع انسان کی ہدایت کی اتنی شدید تڑپ پائی جاتی ہے کہ شاید تواپنی جان کو اسی غم میں ہلاک کرلے گا کہ کیوں یہ لوگ اس کتاب مبین پر ایما ن نہیں لاتے جوان کی دنیوی اوراُخروی بہبود کے لئے نازل کی گئی ہے اورجس میں ان کی تمام روحانی اورجسمانی ترقیات کے راز مضمر ہیں ۔ بَخَعَ کے معنے ہوتے ہیں ۔اس طرح چھری پھیر ی کہ گردن کے پچھلے حصہ تک پہنچ گئی ۔گویاذبح کرنے میں مبالغہ اورسختی سے کام لیا ۔ان معنوں کومد نظر رکھتے ہوئے ا س آیت میں یہ اشارہ کیاگیاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نوع انسان سے اتنی شدید محبت تھی کہ وہ ان کے غم میں اپنے آپ کو ہلاک کررہے تھے ۔اوران کے ہدایت نہ پانے کو اس طرح محسوس کررہے تے جس طرح جوش سے بھراہواانسان آگے سے چھری پھیرنا شروع کرتاہے توگردن کے پچھلے حصہ تک کا ٹ جاتاہے۔دنیا میں اب تک ہزاروں انبیاء گذرے ہیں ۔مگر نبی نوع انسان کی محبت کایہ مقام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوااورکسی کو نصیب نہیں ہوا۔حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جہاں ایک طرف عقل و خرد کی بہترین مثال ہے وہاں اس کے ذریعہ جذبات کابھی نہایت پاکیز ہ طورپر ظہور ہواہے اوریہ جذباتی تمثال حقیقتاً اس نہایت لطیف شعر کا مصداق ہے کہ ؎
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدئہ عالم دوامِ ما
دنیا میں خالی عقل نے کبھی زندگی نہیں پائی ۔زندگی ہمیشہ عشق نے پائی ہے ۔جذبات نے پائی ہے ۔دنیا میں بڑے بڑے فلاسفر اورعاشق گذرے ہیں لیکن جو حکومت عشاق نے لوگوں کے دلوں پر کی وہ فلاسفروں کو حاصل نہیںہوئی۔انبیاء میں حقیقی عشق کی جومثالیں ہیں انہیں نظر اندا زکردو اورمجاز ی عشق ہی کو لے لو ۔کتنے آدمی ہیں جو ارسطویاافلاطون کی باتوںکو جانتے ہیں یاان کانام بھی جانتے ہیں۔مگر کتنے ہیں جومجنوں اورلیلیٰ کو جانتے ہیں اورکتنے ہیں جوان کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔کوئی شہر یا قصبہ ایسانہ ہوگا جہاں شاعرنہ ہوں اوریہ شاعرکون ہیں ۔لیلیٰ اورمجنوں کے شاگرد ۔اوران میں سے ان شاعروں کو الگ کرکے جن کو خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں علیحدہ کردیاہے اورجودین کی خدمت یاخداتعالیٰ کویاد کرنے کے لئے شعرلکھتے ہیں۔باقی تما م وہی ہیں جو لیلیٰ مجنوی کی نقل کرناچاہتے ہیں۔اگرچہ وہ لیلیٰ اورمجنوں نہیں ہوتے لیکن تم جس وقت ان کا کلام سنو گے توایسامعلوم ہوگا گویاانہوں نے کبھی کھاناہی نہیں کھایا۔کبھی تکیہ سے سر نہیں اٹھایا کہ ساری رات ان کی آنکھیں نہ کھلی رہی ہوں اوران کی آنکھیں کبھی خشک نہیں ہوئیں۔جگر اوردل ان کے جسم میں ہے ہی نہیں۔مدتیں ہوئیں کچھ خون بن کر اورکچھ پانی بن کر بہہ چکا ہے اوروہ جیتا جاگتا وجود جوتمہارے سامنے بیٹھاہوگاکئی دفعہ مرااور دفن ہوچکا اوراس کے معشوق نے آکر اس کی قبر کو ٹھکرادیا۔جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ لیلیٰ اورمجنوں کو بھی عشق میں پیچھے چھوڑناچاہتا ہے۔توجتنے دلوں پر عشق نے قبضہ کیاہے عقل نے نہیں کیا ۔مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف عقل کے میدان میں ہی اپنی برتری ثابت نہیں کی بلکہ جذبات کے میدان میں بھی و ہ سب عاشقوں سے آگے بڑ ھ گیاحتیّٰ کہ کوئی بھی عاشق عشق میں اس کامقابلہ نہیں کرسکتا۔خداتعالیٰ کے عشق کو جانے دو کیونکہ وہ تمام لوگوںکی رسائی سے بالاہوتاہے ۔ انسانی عشق کو لے لو ۔مجنوں کیا تھا ایک عورت کاعاشق تھا اس کاعشق باغرض تھا وہ اس سے متمتّع ہوناچاہتا تھا ۔اس کے حسن سے فائدہ اٹھاناچاہتاتھا مگراس کے مقابلہ میں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعشق جو دنیا سے تھا وہ کسی فائدہ کی غرض سے نہ تھا ۔تمتّع کے خیال سے نہ تھا اورپھر وہ ایک دوسے نہیں۔ بلکہ سب سے تھا اوربدصورتوں سے اَوربھی زیادہ تھا ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ اَلَّایَکُوْنُوْامُؤْمِنِیْن۔اے محمدؐ!(صلی اللہ علیہ وسلم)شاید تواپنی جان کو ہلاک کردے گا ان خوبصورتوں کے لئے نہیں جنہوں نے ابو بکرؓ اورعمرؓ کی طرح ایمان لاکر اپنے چہروںکو منورکرلیاتھا بلکہ ان بدصورت اوربھونڈی شکل کے لوگوں کے لئے جنہیں دیکھ کر گھِن آتی تھی ۔جنہیں دیکھ کر روحانی شخص کو متلی ہونے لگتی تھی جیسے عتبہ اورشیبہ اورابوجہل وغیرہ توان کے عشق میں مراجاتاتھا کہ کیوں ان کو فائدہ نہیں پہنچاسکتا۔مجنوں کاعشق ا سکے مقابلہ میں کیاہے ۔اس نے اس سے محبت کی جس ک شکل اسے پسندتھی۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعشق ان لوگوں سے بھی تھا جن کی روحانی شکل آپ کوناپسند تھی ۔پھر اس عشق کا کسی ایک سے نہیں ساری دنیا سے وابستہ تھا ۔صرف اس زمانہ کے لوگوں سے ہی نہیں بلکہ آئندہ زمانوں سے بھی جیسا کہ فرمایا ۔وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّایَلْحَقُوْبِھِمْ (جمعہ آیت ۴)یعنی محمد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)صرف اپنے زمانہ کے لوگوں کو ہی فائدہ پہنچانانہیں چاہتابلکہ ان لوگوں کے لئے بھی جو ابھی پیدانہیں ہوئے اپنے دامن فیض کو ممتد کرناچاہتاہے ۔پس غور کررو جذباتی دنیا میں اس کاوجود کتنا عظیم الشان ہے ۔ا س کے عشق کی انتہا ہی نہیں۔وہ اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت سلگاتاہے ۔پھراس سے آسمانوں کی طرف پرواز کرتاہے اوراس کی روح خداکے آستانہ پر گرجاتی ہے اوراس کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت سے چنگاری لیتی ہے گویامحدود محبت غیر محدود محبت کو کھینچتی ہے اورپھر دنیا میں اتی ہے اوربعینہٖ اسی طرح جس طرح مشرق سے نکل کر آفتاب کی شعاعیں روئے زمین پرپھیلنی شروع ہوجاتی ہیں اس کی محبت بھی پھیلتی ہے ۔مشرق و مغرب۔گورے و کالے ۔خوبصورت اوربدصورت سب کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے ۔پھر وہ مکان کی حدبندیوںکو توڑتی ہوئی نکل جاتی ہے اورصدیوں کے بعد صدیاں گذر تی ہیں مگر وہ محبت ختم نہیں ہوتی اورنہ ہوگی ۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کی صف لپیٹ دے ۔اوربنی نوع انسان کو دنیا سے اٹھالے ۔
یوں توہرنیک بندے پر محبت کے ایام کبھی کبھی آتے ہیں ۔حضرت نظام الدینؒصاحب اولیاء کے متعلق ذکر آتا ہے کہ ایک دفعہ اپنے شاگردوں کے ساتھ جارہے تھے کہ راستہ میں ایک خوبصورت لڑکا گذرا۔آپ نے آگے بڑھ کر اس کامنہ چوم لیا ۔اس پر شاگردوں نے بھی ایساہی کرنا شروع کردیا کہ شاید اس میں جلوئہ الٰہی ہو ۔ایک شاگرد جو آپ کے خاص منظور نظر تھے انہوںنے ایسانہ کیا ۔ باقیوں نے ا س پر چہ مگوئیاں شروع کردیں ۔آگے چلے توایک بھٹیاری بھٹی میں آگ جلارہی تھی اورپتوں کی آگ کے شعلے نکل رہے تھے جوایک خوبصورت نظارہ پیش کررہے تھے۔آپ کھڑے ہوکر اسے دیکھتے رہے پھرجھکے اورشعلے کو بوسہ دیا۔اس وقت ا س شاگرد نے بھی شعلہ کو چوما۔جس نے لڑکے کو نہیں چوماتھا۔لیکن باقی شاگرد کھڑ ے رہے او رکسی کو جرأت نہ ہوئی۔اس پر انہوں نے کہا کہ تم لوگوں نے خوبصورت بچے کو چوما تھا کیونکہ چھوٹابچہ سب کوپیارالگتاہے ۔حالانکہ خواجہ صاحبؒ کواس میں خداکاجلوہ نظر آیاتھا ۔اس لئے انہوں نے اسے چوما تھا ۔لیکن مجھے چونکہ نظر نہ آیا ۔اس لئے میں نے نہ چوما۔اب اس آگ میں مجھے خداکا جلوہ نظر آیا اورمیں نے اسے چوم لیا اوریہاں آپ کی اتباع کی۔لیکن وہاں میری آنکھیں نہ کھلیں اس لئے نہ کی۔لیکن تم نے ہواوہوس کے ماتحت بچے کو چوماتھاتووقتی طورپر ہر بزرگ پرایساوقت آتاہے کہ بنی نوع انسان کی محبت سے وہ لبریز ہوجاتاہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وقتی نہ تھی اورآپ کی روح اورجسم کا ایک حصہ تھی جس کا پتہ اس سے لگتاہے کہ جب آپ کی وفات کاوقت آیا توآپ کی زبان پر یہ الفا ظ تھے ۔کہ لَعَنَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارَیٰ اِتَّخَذُوْاقُبُوْرَاَنْبِیَائِ ھُمْ مَسَاجِدَ(مسلم جلد اول کتاب المساجد ومواضع الصلوٰۃ)یعنی خدایہود اورنصاریٰ پرلعنت کرے کہ انہوں نے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا ۔گویاآپ کے دل میں تڑپ تھی کہ یہود اورنصاریٰ کیو ں اپنے لئے جہنم خرید رہے ہیں اورپھر اپنے ماننے والوں کو تنبیہ کی کہ وہ ایسانہ کریں ۔گویاسکرات موت کے وقت بھی آپؐ کے اند رمسلمانوںاورکفار دونوں کی محبت کاجلوہ تھا ۔ایک طرف یہود اورنصاریٰ کو شرک سے بچانے کا درد تھا ۔دوسر ی طرف یہ درد تھا کہ یہی غلطی میرے ماننے والے بھی نہ کریں ۔غرض آپ کی ساری زندگی یہ ثابت کرتی ہے کہ آپ بنی نوع انسان کے ہر طبقہ کے لئے ہمدردی رکھتے تھے ۔
احادیث میں آتاہے کہ پہلے زمانوں میں خداتعالیٰ کادین قبول کرنے والوں کے سروں پر آرے رکھ کر انہیں چیر دیاجاتاتھا اوروہ اُف تک نہیں کرتے تھے ۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک سال نہیں دوسال نہیں تین سال نہیں دس سال نہیں متواتر وفات تک آرے چلتے رہے اورآپ نے اس قد ردکھ اٹھائے کہ زمین و آسمان کے خداکو یہ کہنا پڑاکہ توتواس غم میں اپنے آپ کو ہلاک کررہاہے کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے ۔عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح نے ایک دفعہ صلیب پر چڑھ کر سب گنہگاروں کا کفار ہ اداکردیاتھا ۔مگر مسیح کوتوساری زندگی میں وہی ایک واقعہ پیش آیا ۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کے ہرلمحہ میں لوگوں کے لئے صلیب پر چڑھے اورآپ نے ان کے لئے ہزاروں نہیں لاکھوں موتیں قبول کیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ الفاظ جو اس جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں نہ نوحؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں ۔نہ ابراہیمؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں ۔نہ موسیٰؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں ۔نہ دائودؑ اورسلیمانؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں ۔نہ عیسیٰؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں ۔صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ا ستعمال کئے گئے ہیں۔کیونکہ دنیا کی اصلاح اوران کی ہدایت کاجوغم آپ کوتھا وہ دنیا میں اَورکسی نبی کو نہیں تھا ۔چنانچہ جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات کو دیکھتے ہیں توہمیں یہ دعویٰ ایک حقیقت بن کر نظر آتاہے اورہمیں قدم قدم پر ایسے واقعات دکھائی دیتے ہیں جوآپ کی اس عظیم الشان محبت اورشفقت کاثبو ت ہیںجو آپ کوبنی نوع انسان سے تھی ۔چنانچہ آپ کو خدائے واحد کاپیغام پہنچانے کے لئے سالہاسال تک ایسی تکالیف میں سے گذرناپڑا کہ جن کی کوئی حد ہی نہیں۔ایک دفعہ خانہ کعبہ میں کفار نے آپ کے گلے میں پٹکا ڈال کر اتنا گھونٹا کہ آپ کی آنکھیں سرخ ہوکر باہرنکل پڑیں۔حضرت ابو بکرؓ نے سناتو وہ دوڑے ہوئے آئے اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس تکلیف کی حالت میں دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اورآپ نے ان کفار کو ہٹاتے ہوئے کہا خداکاخوف کرو۔کیاتم ایک شخص پر اس لئے ظلم کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ خدامیرارب ہے ۔ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ایک چٹان پر بیٹھے کچھ گہری فکر میںتھے کہ اچانک ابو جہل آنکلا۔ اوراس نے آتے ہی آپؐ کو تھپڑ مارا اورپھر گندی سے گندی گالیاں آپ کو دینی شروع کردیں ۔آپؐ نے تھپڑ بھی کھالیا اورگالیاں بھی سنتے رہے مگر آپ نے زبان سے ایک لفظ تک نہیں کہا ۔جب وہ گالیاں دے کر چلا گیا توآپ خاموشی سے اٹھے اوراپنے گھر تشریف لے گئے ۔حضرت حمزہؓ کی ایک لونڈی اپنے گھر میں سے دروازہ میں کھڑی یہ سارانظارہ دیکھ رہی تھی ۔حمزہؓ اس وقت اسلام نہیں لائے تھے وہ سپاہی آدمی تھے اورسارادن شکار میں لگے رہتے تھے اورشام کے وقت اپنے گھر آتے تھے اس روز بھی وہ شام کے وقت سینہ تان کر بڑے زورزورسے پیر مارتے اورہاتھ میں تیر کما ن پکڑے اوپچی بنے ہوئے گھر میں داخل ہوئے ۔وہ لونڈی گھر کی پرانی خادمہ تھی اورپرانے نوکر بھی رشتہ داروں کی طرح ہوتے ہیں۔صبح سے وہ اپنا غصہ دبائے بیٹھی تھی جب اس نے حمزہؓ کودیکھا توبڑے جوش سے کہنے لگی ۔تمہیں شرم نہیں آتی تیر کمان لئے جانو رمارتے پھرتے ہو ۔تمہیں پتہ ہے کہ صبح تمہارے بھتیجے کے ساتھ کیاہوا؟حمزہؓ نے کہا ۔کیاہوا؟اس نے کہا ۔میں درواز ہ میں کھڑی تھی ۔تمہارابھتیجاسامنے پتھر پر آرام سے بیٹھاتھا اورکچھ سوچ رہاتھا کہ اتنے میں ابو جہل آیا اوراس نے پہلے تو اس کو تھپڑ مارا۔اورپھر بے تحاشہ گالیاں دینی شروع کردیں ۔پھر اس نے اپنے زنانہ انداز میں کہا ۔اس نے ابو جہل کو کچھ بھی تونہیں کہاتھا ۔کوئی بات اس نے نہیں کی تھی جس کی وجہ سے ابوجہل کو غصہ آتا۔مگر پھر بھی وہ گالیاں دیتاگیا اوردیتاگیا۔اورتمہارابھتیجاچپ کرکے سامنے کی طرف دیکھتارہا۔اوراس نے ان کاکوئی جواب نہ دیا۔ایک عورت اورپھر خادمہ کی زبان سے یہ بات سن کر حمزہؓ کی غیرت جوش میں آئی اورخانہ کعبہ کی طرف چل پڑے۔رؤساء مکہ کاطریق تھا کہ شام کے وقت وہ خانہ کعبہ میں بیٹھ کر اپنی بڑائیاں بیان کرتے اورلوگ ان کی تعریف کرتے ۔تمام رؤساء بیٹھے ہوئے تھے اورابوجہل بھی ان میں موجود تھا کہ حمزہؓ گئے اورانہوں نے وہی کمان جو ان کے ہاتھ میں تھی ۔ابوجہل کے منہ پر ماری اورکہا میں نے سناہے تم نے محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)کامارابھی ہے اورگالیاںبھی دی ہیں اورمیں نے سناہے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے کوئی لفظ تم کونہیں کہاتھا جس کے بدلہ میں تم گالیاں دیتے ۔پھر حمزہؓ نے کہا تم بہادر بنے پھر تے ہو ۔اورجو چپ کرجاتاہے اس پر ظلم اورتعدّی کرتے ہو ۔ اب میں نے سارے مکہ کے سامنے تمہیں ماراہے اگر تم میں ہمت ہے تومجھے مار کردیکھو ۔مکہ کے نوجوان حمزہؓ کو پکڑنے کے لئے اٹھے ۔مگرابو جہل پر ان کاایسارعب طاری ہواکہ اس نے کہاجانے دو۔صبح مجھ سے ہی کچھ زیادتی ہوگئی تھی۔(السیرۃ الحلبیہ جلداول ص ۲۱۵)ایک دفعہ آپ خانہ کعبہ میںنماز پڑھ رہے تھے ۔جب آپ سجدہ میں گئے توبعض شریروں نے آپؐ کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھری لاکر رکھ دی اورچونکہ وہ بڑی بھاری تھی آپ سجدہ سے سر نہ اٹھا سکے ۔حضرت فاطمہ ؓ کو اس بات کاعلم ہواتووہ روتی ہوئی آئیں۔اورانہوں نے آپؐ کی پیٹھ پرسے اوجھری ہٹائی(بخاری ابواب الوضوء باب اذالقیٰ علی ظہر المصلّی قذراوجیفۃ لم تفسد علیہ صلوٰتہٗ) ایک دفعہ آپؐ بازار سے گذر رہے تھے کہ مکہ کے اوباشوں کی ایک جماعت آپؐ کے گرد ہوگئی اوررستہ بھر آپ کی گردن پر یہ کہکر تھپڑ مارتی چلی گئی ۔کہ لوگو! یہ وہ شخص ہے جو کہتاہے کہ میں نبی ہوں ۔
آپؐ کے گھر میں ارد گرد کے گھروں سے متواتر پتھر پھینکے جاتے تھے ۔باورچی خانہ میں گندی چیزیں پھینکی جاتی تھیں ۔جن میں بکریوں اوراونٹوں کی انتڑیاں بھی شامل ہوتی تھیں۔جب آپ نماز پڑھتے توآپ کے اوپر گردوغبار ڈالی جاتی ۔حتیّٰ کہ مجبور ہوکر آپ کو چٹان میں سے نکلے ہو ئے ایک پتھر کے نیچے چھپ کر نماز پڑھنی پڑتی ۔مگر اس کے باوجود آپ خدائے واحدکانام بلند کرتے چلے گئے اوران لوگوں کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرتے رہے۔
جب مکہ والوں نے دیکھا کہ ہمارے یہ مظالم بھی اس شخص کے پائے استقلال میں کوئی جنبش پیدا نہیں کرسکے تو انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے تمام ساتھیوں کا کلّی طورپر مقاطعہ کردیا۔اور انہیں شعیب ابی طالب میں محصور کردیا۔اور فیصلہ کیا کہ کوئی شخص ان کے پاس سودا فروخت نہ کرے اور نہ ان سے لین دین کرے اور برابر تین سال تک انہوں نے آپ کا مقاطعہ جاری رکھا ۔ ان ایا م میںصحابہؓ کو ایسی تکلیف سے اپنے دن بسر کرنے پڑے کہ بعض دفعہ وہ درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے اور بعض دفعہ انہیں کھجور کی گھٹلیاں کھانی پڑیںاور یہ سلسلہ صرف چند دن یا چند ہفتے یا چند مہینے جاری نہ رہا بلکہ تین سال تک جاری رہا ۔ تین سال کے بعد مکہ کے چند شرفاء کے دل میں اس ظلم کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی اور انہوں نے اس معاہدہ کو توڑ کر محصورین کو باہر نکا ل لیا۔ مگر ان تین سالہ لمبے مظالم کا یہ نتیجہ نکلا کہ تھوڑے دنوں بعد ہی آپ کی وفاشعار بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا کیونکہ اس لمبے مقاطعہ نے ان کی صحت پر بُرا اثر ڈالاتھا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جس مقدس خاتون کے بیسیوں غلام تھے اور جو مکہ کے مالدار اشخاص میں سے تھیں جو بیسیوں گھرانوں کو کھانا کھلا کر خود کھانا کھایا کرتی تھیں ۔بڑھاپے میں جب انہیں کئی کئی فاقے کرنے پڑے اور اگر کچھ کھانے کو ملا بھی تو درختوں کے پتے یا کھجور کی گھٹلیاں تو اس وقت ان کی صحت پر کیا اثر پڑا ہوگا ۔چنانچہ اس تکلیف کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا اورپھر چند دن اور گذرے کہ حضرت ابو طالب ؓ بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے مگر اتنے لمبے ظلم کے باوجود آپؐ نے شعیب ابی طالب سے اپنا قدم باہر رکھتے ہی فیصلہ کیا کہ اگر مکہ کے لوگ خدا تعالیٰ کی آواز سننے کے لئے تیار نہیں تو مکہ سے باہر رہنے والوںکو مجھے خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانا چاہیئے شاید ان میں کوئی سعید روح ہو جو اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہے اور اُسے قبول کر کے اس کی برکات کا وارث ہو۔ چنانچہ آپ طائف تشریف لے گئے جو مکہ سے تقریباً ساٹھ میل فاصلہ پر ایک مشہور شہر ہے اور لوگوں کو خدائے واحد کی طرف بلایا ۔مگر بجائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو سنتے ار اُسے قبول کرتے انہوںنے لڑکوںکو اکسایا اور انہوں نے پتھروں سے اپنی جھولیاں بھر لیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھرائو شروع کردیا ۔آپؐ کے پائوں پتھروں کی بوچھاڑ سے لہولہان ہوگئے اور حضرت زیدؓ بھی جو آپ کے ساتھ تھے آپؐ کو بچاتے ہوئے سخت زخمی ہوئے ۔مگروہ برابر کئی میل تک آپ کو پتھر مارتے چلے گئے ۔ آپ واپس بھاگتے ہوئے کسی جگہ دم لینے کے لئے ٹھہرے تو جسمِ اطہر سے خون پونچھتے اور ساتھ ہی فرماتے ۔ اے میرے ربـ! یہ لوگ نہیں جانتے کہ میں کون ہوں تُو انہیں معاف فرما ۔ راستہ میں مکہ کے ایک سردار کا باغ تھا ۔آپ وہاں ذرا سستانے کے لئے ٹھہر گئے ۔اُس نے جب آپؐ کے کپڑوں کو خون سے لت پت دیکھا تو اُس کے دل میں درد پیدا ہوااور اُس نے اپنے ایک غلام کو بلایا اور اُسے انگو رکے چند خوشے دیئے اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت زیدؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ دو آدمی جو درخت کے نیچے بیٹھے ہیں ۔اُن کے پاس جائو۔اورا نہیں یہ انگور کھلائو ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت زخموں سے چُور چُور تھے اور بہت دیر تک دشمن کے آگے بھاگے آئے تھے ۔لیکن اِدھر یہ غلام آپ کے پاس پہنچا اوراُدھر آپ نے اس غلام کو مخا طب کرتے ہو ئے فرمایا۔تم کہاں کے رہنے والے ہو ۔اس نے جواب دیا ۔میں نینواؔ کارہنے والاہوں۔آپ نے فرمایا۔اچھا !تم میرے بھائی یونس کے وطن کے ہو۔آپؐ کایہ فقرہ سن کر اس غلا م کے کان کھڑے ہوگئے کہ یہ عر ب کا باشند ہ ہونے کے باوجود نینواکے رہنے والے یونس کو اپنا بھائی تصور کرتاہے ۔اس نے آ پ سے پوچھا آپ کاکیاحال ہے اورلوگوں نے آپ سے ایساسلوک کیوں کیا ہے؟آپ نے فرمایا۔تم تو یونسؑ کے ملک کے ہو تم جانتے ہوکہ خداتعالیٰ کی طرف سے جو مصلح دنیا میں آتے ہیں ان سے ایسا ہی سلوک کیاجا تاہے۔میں نے ان لوگوںکاکچھ نہیں بگاڑا۔می نے صرف اتنا کہا تھاکہ تم ایک خداکی طرف آئو اوربتوں کی پرستش نہ کرو۔اورمیں تمہیں بھی یہی بات کہتاہوں کہ تم خداتعالیٰ کی باتوں پر عمل کرو۔و ہ غلام عیسائی تھا ۔اسے آپ کی ا باتیں سن کر یقین ہو گیا کہ یہ شخص خداتعالیٰ کی طرف سے ہے ۔چنانچہ جس طرح انجیل میں حضرت مسیحؑ کے متعلق آتاہے کہ ایک عورت آپ کے پاس آئی اوراس نے آنسوئوںسے آپ کے پائو ں دھوئے اوربالوں سے آپ کے پائوں کی مٹی کو صاف کیا (لوقا باب ۷ آیت ۳۸)اسی طرح وہ غلام بھی آپ کے قدموں میں گرگیا اورا س نے اپنے ہاتھوں سے آپ کے پائوں کی مٹی اورخو ن صاف کرنا شروع کردیا ۔اورمحبت سے آپ کے ہاتھو ںکو بوسہ دیا ۔جب وہ واپس گیا تو با غ کے مالک نے اسے ڈانٹا کہ تم نے یہ کیا کیا ۔مگر اس کا دل کھل چکا تھا ۔اور وہ آپؐ پر ایمان لاچکا تھا ۔اوراب کوئی مخالف اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی سے علیحدہ نہیں کرسکتی تھی۔
بنی نو ع انسان کے لئے یہ کیسی عظیم الشان تڑپ ہے جو آپ کے سینہ و دل میں پائی جاتی تھی۔ہم دیکھتے ہیں کہ حضر ت مسیح علیہ السلام کے پاس ایک عورت آئی اوراس نے کہا ۔اے استاد !مجھے بھی وہ تعلیم سناجو تو اپنی قوم کو دیتا ہے ۔مگرانہوں نے کہا ۔میرے پاس تیرے لئے کچھ نہیں۔یہ تعلیم صرف بنی اسرائیل کے لئے ہے جو میرے بیٹے ہیں ۔اوربیٹوں کی روٹی میں کتوں کے آگے کیسے پھینک سکتاہوں (متی باب ۱۵آیت ۲۶)مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا جو آپ کی قوم کانہ تھا۔ایسے وقت میں آیا جب آپ زخموں سے چو رچُورتھے اورخون سے لت پت دور تک دشمن کے آگے آگے بھاگے چلے آئے تے۔اورایک ایسی جگہ پر آیا جو آپ کے دشمن کی تھی ۔اورذراسی تبلیغ کرنے سے بھی بڑی آفت آسکتی تھی ۔وہ آتاہے او رخو د بھی نہیں کہتاکہ مجھے تبلیغ کرو۔مگر اسے دیکھتے ہی آپ تبلیغ کرنا شروع کردیتے ہیں ۔کیونکہ آپؐ کے لئے عر ب اورغیر عرب برابر تھے ۔آپؐ کے دکھ اورآپؐ کی تکالیف صرف عرب قوم کے لئے ہی نہیں تھیں۔بلکہ کالے گورے ۔عربی ،مصری ،ہندوستانی سب کے لئے تھیں اورآپ اپنی ایک ایک حر کت میں اس بات کا احساس رکھتے تھے کہ لو گوں کو ہدایت میسرآجائے اوروہ خدائے واحد کے آستانہ کی طرف لوٹ آئیں ۔آپ کایہ سفر جو آپ کی قربانی اورایثار کاایک زندہ نمونہ ہے سرولیم میو رکو بھی متاثر کئے بغیرنہ رہ سکا۔اوراسے اپنی کتاب ’’لائف آف محمدؐ۔‘‘ میں یہ الفاظ لکھنے پر مجبو رہونا پڑا کہ ’’ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے طائف کے سفر میں ایک شاندار شجاعانہ رنگ پایا جاتاہے ۔اکیلا آدمی جس کی اپنی قوم نے اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا اوراسے دھتکار دیا خداکے نام پر بہاد ری کے ساتھ نینواؔ کے یوناہ نبی کی طرح ایک بت پر ست شہر کو توبہ کی اورخدائی مشن کی دعوت دینے کے لئے نکلا ۔یہ امر اس کے اس ایمان پر کہ وہ اپنے آپ کو کلّی طورپر خداکی طرف سے سمجھتاتھا ایک بہت بڑی روشنی ڈالتاہے ۔‘‘
سفر طائف سے واپسی پر مکہ والوں نے پھر ایذادہی اوراستہزاء کے د روازے کھول دیئے ۔مگرآپ محبت اورپیار سے مکہ والوںکو بت پرستی کے خلاف وعظ کرتے رہے ۔لوگ بھاگتے تو آپؐ ان کے پیچھے جاتے۔و ہ منہ پھیرتے تو آپ پھر بھی باتیں سناتے ۔آخر ان کے متواتر مظالم کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا وطن ،و ہ وطن جس میں تیرہ سال تک آپ تبلیغ ہدایت کرتے رہے تھے۔اورجس کے رہنے والوں کو آپ نے سب سے پہلے خطاب کیاتھا رات کے وقت چھوڑنا پڑا اورچھپتے چھپاتے آپ مدینہ پہنچے مگر دشمن نے وہاں بھی آ پ کاپیچھا نہ چھوڑا اورمتواتر مدینہ پر حملے ہوتے رہے۔ایک سوبیس کے قریب وہ لڑائیاںہیںجو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہؓ کو لڑنی پڑیںاوران میں سینکڑو ں صحابہؓ اورآپ کے عزیزترین رشتہ دار مارے گئے۔مگرآپؐ نے خدائے واحد کانام بلند کرنے کے سلسلہ میں کبھی کسی مصیبت کوایک پرکاہ کے برابر بھی نہیں سمجھا ۔آپ صبح بھی اورشام بھی اوردن کے اوقات میں بھی اوررات کی تاریکیوں میں بھی اللہ تعالیٰ کاپیغام لوگوں کو پہنچانے کے لئے چلے گئے اوراس بار ہ میں نہ آپ نے جانی قربانی سے دریغ کیا۔نہ مالی قربانی سے دریغ کیا اورنہ عزیزوںاوررشتہ داروں کی قربانی سے دریغ کیا ۔آپ کی دوبیٹیاں ابولہب کے دوبیٹوں سے بیاہی ہوئی تھیں اس نے دھمکی دی کہ اگر آپ توحید کی تعلیم کو ترک نہیں کریں گے تومیں اپنے بیٹوں سے کہکر آپؐ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دلوادوں گا ۔مگر آپ نے پروا نہ کی اوراس بدبخت نے اپنے بیٹوں سے کہکر آپ کی دونوں بیٹیوںکو طلاق دلوادی ۔پھر ہر خطرے کے مقام پر دشمن کا اولین نشانہ صرف آپ کا وجود ہوتاتھا ۔مگر جب بھی کو ئی موقعہ آیا اپ نے اس بہادری سے اس خطرے کی آگ میں اپنے آپ کو پھینکا کہ یوں معلوم ہوتاتھاکہ آپؐ اپنی جان کی کوئی حقیقت ہی نہیں سمجھتے تھے ۔غزوئہ اُحد کے موقعہ پر ایک پتھر آپ کے خود پرآلگا اوراس کے کیل آپ کے سر میں گھس گئے اورآپؐ بے ہوش ہوکر ان صحابہؓ کی لاشوں پر جاپڑے جو آپؐ کے ارد گر د لڑتے ہوئے شہید ہوچکے تھے اوراس کے بعد کچھ اورصحابہؓ کی لاشیں آپ کے جسم اطہر پر جاگریں اورلوگوں نے یہ سمجھا کہ آپ مارے جاچکے ہیں ۔مگرجب آپؐ کو گڑھے سے نکالاگیا۔اورآپ کو ہوش آیاتوآپ نے یہ خیال ہی نہ کیاکہ دشمن نے مجھے زخمی کیاہے ۔میرے دانت توڑدیئے ہیں اورمیرے عزیزوں اوررشتہ داروں اوردوستوںکوشہید کردیاہے بلکہ آپ نے ہوش میں آپ نے ہوش میں آتے ہی دعاکی کہ:۔رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَایَعْلَمُونَ۔ اے میرے رب!یہ لو گ میرے مقام کو شناخت نہیں کرسکے اس لئے توان کو بخش دے اوران کے گناہوںکومعاف فرمادے ۔اسی طرح جب طائف میں آپ کو پتھروں سے لہولہان کیاگیا اورآپ وہاں سے دوڑتے چلے آرہے تھے تواحادیث میں لکھا ہے کہ یکدم آپ پر کشفی حالت طاری ہوئی اورپہاڑوں کافرشتہ آپ کی خدمت میں حاضرہوا۔اوراس نے کہاکہ اگر آپ چاہیں توطائف والوںپر ابھی ان کے پہلو کے دونوں پہاڑ اُلٹادیئے جائیں۔ مگرآپ نے فرمایا۔ایسانہ کرنا۔ان لوگوں نے جوکچھ کیا ہے جہالت اورلاعلمی کی وجہ سے کیاہے ۔مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کی نسل میں سے وہ لو گ پیداکرے گا جو اسلام کے لئے خدمت گذار ہوں گے۔(بخاری کتاب بد الخلق)چنانچہ واقعات بتاتے ہیں ۔کہ باوجود اس کے کہ دشمنوں نے آپ کو مجنون بھی کہا ۔کاہن بھی کہا ۔ساحر بھی کہا کذاب بھی کہا اورہر رنگ میں انہوں نے آپ کے مشن کو مٹاناچاہا۔مگرآخر انہی میں سے ایسی سعید روحیں نکل آئیں جنہوں نے دلیری سے صداقت کو قبول کرلیا اوراپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر وہ دیوانہ وار اسلام کی اشاعت کے لئے نکل کھڑے ہوئے اورتھوڑے عرصہ میں ہی انہوں نے چہار دانگِ عالم کو اسلامی نو رسے منورکردیا۔
غرض لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ اَلَّایَکُوْنُوْامُؤْمِنِیْن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بے مثال شفقت اورمحبت کاذکر کیا گیاہے جوآپ کو بنی نوع انسان سے تھی اوربتایا گیاہے کہ آپ ان کی ہدایت کے لئے رات اوردن اس قدر جہاد فرماتے اوراتنی دعائیں کرتے تھے کہ قریب تھا کہ آپ اس غم سے اپنے آپ کو ہلاک کرلیتے آپ کو نہ اپنے کھانے کی پرواہ تھی نہ پینے کی پرواہ تھی۔نہ نیند اورآرام کی پرواہ تھی ۔آپ لوگوں کوہلاکت کے گڑھوں سے بچانے اوانہیں نجات اورسلامتی کا راہ دکھانے کے لئے راتوںکو اٹھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضورگریہ وزاری کرتے اوراتنی اتنی دیر کھڑے رہتے کہ آپ کے پائوں متورم ہوجاتے ۔گویاجس طرح جوش کی حالت میں بعض دفعہ انسان بکرے پرچھری چلاتے ہوئے اورچھری کو گردن کے آخر ی حصہ تک پہنچا دیتاہے اورقریب ہوتاہے کہ اگرذراسابھی زوراورلگ جائے ۔تواس کی گردن کٹ کر پرے جاپڑے۔اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جان کو ہلاک کرنے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھی تھی ۔اوراگرآپ کی جان بچی تواس کے یہ معنے نہیں کہ آپ نے کوئی کمی کی تھی بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی غیر معمولی حفاظت فرمائی ورنہ آپؐ نے اپنی جان کو ہلاک کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی تھی ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ امتیازی خصوصیت جواللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے اس میں مومنوں کے لئے بھی بڑابھاری سبق ہے اورانہیں توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر تم ترقی کرناچاہتے ہو تواپنی قربانیوںکواس حد تک پہنچائو کہ دشمن کی نظر میں تووہ صریح خود کشی ہو ۔مگر تم جانتے ہو کہ و ہ خود کشی نہیں بلکہ اسی میں تمہاری ابدی حیات کاراز مضمر ہے ۔قرآن کریم میں جنگ اُحد کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اس وقت منافق کہتے تھے کہ اگر ہمیں علم ہوتاکہ لڑائی ہوگی توہم ضرور ساتھ دیتے (آل عمران آیت ۱۶۸) اس کے یہ معنے نہیں کہ انہیں علم نہیں تھا کہ لڑ ائی ہو گی بلکہ بات یہ ہے کہ انہوں نے مشورہ دیاتھاکہ لڑائی کے لئے مدینہ سے باہر نہ نکلیں ۔اوراس پر دوروز بحث ہوتی رہی ۔پس منافق باہر نکل کر لڑنے کو خود کشی قراردیتے تھے اورجب وہ یہ کہتے تھے کہ اگر ہمیں لڑائی کاعلم ہوتاتوہم ضرور جاتے تواس کامطلب یہ ہوتاکہ ہم تواسے لڑائی نہیں بلکہ خود کشی سمجھتے تھے ۔ا سلئے شامل نہ ہوئے۔تواللہ تعالیٰ اپنی مومن جماعت کے سپر د ہمیشہ ایسے کام کرتاہے جنہیں لو گ خودکشی سمجھتے ہیں ۔ان جماعتوںسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں اپنے اموال اپنے اوقات اور اپنی عزت و آبروغرض سب کچھ قربان کردینے کا مطالبہ کیاجاتاہے یہاں تک کہ لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ پاگل ہیں جواتنی بڑی قربانیاں کررہے ہیں اورمنافق بھی کہتے ہیں کہ یہ بیوقوف لوگ ہیں جو ہمیں بھی بیوقوف بناناچاہتے ہیں اورکہتے ہیں کہ تم بھی اسی طرح قربانی کروجس طرح ہم کررہے ہیں۔غرض منافق بھی اورمخالف بھی سب اسے ہلاکت سمجھتے ہیں مگر مومن جانتے ہیں کہ یہ ہلاکت نہیں بلکہ زندگی کو قائم رکھنے کاذریعہ ہے ۔پس لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ اَلَّایَکُوْنُوْامُؤْمِنِیْنمیں صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بے مثال خصوصیت اورآپ کی شفقت علیٰ خلق اللہ کاایک بے نظیر نمونہ ہی پیش نہیں کیاگیا بلکہ مومنوںکویہ نصیحت بھی کی گئی ہے کہ اگر تم خداتعالیٰ کا قرب حاصل کرناچاہتے ہو تو اپنی قربانیوںکو اس حد تک پہنچا دو کہ دوست اوردشمن کی نگاہ میں تمہاری گردن کٹنے کے قریب پہنچ جائے اورہرشخص یہ سمجھے کہ تم موت کے منہ میں جارہے ہو ۔یہی وہ مقام ہے جو روحانی جماعتوںکوحاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے کیونکہ اس کے بغیر انہیں ابدی حیات حاصل نہیں ہوسکتی ۔
ان نشا ننزل علیھم من السماء ایۃ فظلت اعناقھم لھا
اگر ہم چاہیں توآسمان سے ان پرایک ایسانشان اتاردیں کہ اس کے سامنے ان کی گردنیں جھکی کی جھکی رہ جائیں ۔
خٰضعین٭ ومایاتیھم من ذکر من الرحمن محدث الاکانوا
اوررحمن کی طرف سے کبھی کسی کو نیا ذکر نہیں آتا کہ جس سے لو گ
عنہ معرضین٭فقد کذبوافسیاتیھم انبٰئوا ماکانو بہ یستھزء و ن٭
اعراض نہ کرتے ہوں۔سو(چونکہ)انہوں نے (خداتعالیٰ کی آیتوںکو)جھٹلایاہے اس کے نتیجہ میں ان کے استہزاء کی حقیقت ضرور ان پر کھل جائے گی ۔ ۳ ؎
۳؎ حل لغات۔ اَعْنَاقٌ: عُنُقٌ اور عُنْقٌ کی جمع ہے اور اَلْعُنُقُ کے معنے گردن کے ہیں ۔اسی طرح اس کے معنے ہیں اَلرَّئُ وْسَآئُ سردارانِ قوم اَلْجَمَاعَۃُ مِنَ النَّاسِ لوگوں کی جماعت (اقرب)
خَاضِعِیْنَ:خَاضِعٌ کی جمع ہے جو خَضَعَ سے اسم فاعل ہے اورخَضَعَ لَہٗ کے معنے ہیں اِنْقَادَ مطیع ہوگیا۔پس خَاضِعٌ کے معنے ہوں گے جھکنے والا مطیع ہونے والا۔(اقرب)
مُحْدَثٍ کے معنے ہیں نَقِیْضُ الْقَدِیْمِ یعنی نیا(اقرب)
تفسیر :۔ فرماتاہے ۔اگرہم چاہیں توآسمان سے ہم ان پر ایساعذاب نازل کریں کہ جس کی وجہ سے مجبورہوکر ان کی گردنیں جھک جائیں ۔اوریہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے لگ جائیں ۔لیکن اگرہم ایساکریں توان کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتاکیونکہ ایمان اسی حالت میں انسان کے لئے فائدہ بخش ثابت ہوسکتاہے جب خیر اورشر دونوں مخفی ہوں ۔جو چیز کھلے طورپر نظر آرہی ہو اس پر ایمان لانے سے کوئی انعام میسر نہیں آیاکرتا۔جیسے سورج ایک خیر رکھنے والی چیز ہے اوراس کاوجود قطعی طور پر ظاہر ہے ۔لیکن سورج کے وجود کو تسلیم کرلینا انسان کوکسی انعام کامستحق نہیں ٹھہراسکتا۔اوراگر کوئی کہے کہ جب تمہیں محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )پر ایمان لانے سے انعا م ملے گا توہمیں سورج پر ایمان لانے سے کیوں انعام نہیں مل سکتا۔توہم اسے یہی کہیں گے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا علم چونکہ جستجو اورجدوجہد اورقربانی کے نتیجہ میں ہوتاہے ۔اس لئے آپ پرایمان لانا انسان کو اللہ تعالیٰ کے روحانی انعامات کامستحق بنادیتاہے مگر سورج پر ایمان لانے ک لئے چونکہ کسی جدوجہد جستجواورقربانی کی ضرورت نہیں ہوتی اورا سکی حقیقت کلی طورپر ظاہر ہوتی ہے اس لئے اس پر ایمان لانے سے کوئی انعام نہیں مل سکتااوراگر اس جواب پر بھی کو ئی شخص ایہ اعتراض کرے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں توآ پ کے ماننے والوںکو قربانیاں کرنی پڑیں جس کی وجہ سے وہ انعام کے مستحق ہوئے مگر آپؐ کے بعد والوںکوتوکوئی قربانی نہیں کرنی پڑتی اورپھر انہیں انعام کامستحق کیوں قراردیاجاتاہے تواس کاجواب یہ ہے کہ بے شک نسلی مسلمانوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لئے کوئی قربانی نہیں کرنی پڑتی مگرانہیں اپنے ایمان کوقائم رکھنے کے لئے ہروقت قربانی سے کام لینا پڑتا ہے ۔کیونکہ اسلام کے اہرحکم کے بارہ میں ان کے دلوں میں یہ سوال پیداہوتاہے کہ ہم اس پر عمل کیوں کریں اوراس کیوں کے جواب کے لئے انہیں نماز اورروزہ اورحج اورزکوٰۃ کے تمام پہلوئوں پر غور کرناپڑتاہے اورپھر ان احکام پر عمل کرنے کے لئے انہیں ہروقت قربانی اورجدوجہد کے دور میں سے گذرنا پڑتاہے ۔پس قربانیوں سے کوئی بھی مسلمان مستثنٰی نہیں ۔صحابہؓ نے ایمان لانے ک لئے قربانیاں کی تھیں اوربعد میں ایمان لانے والے مسلمانوںکو اپنے ایمان کو قائم رکھنے کے لئے قربانیاں کرنی پڑتی ہیںپس چونکہ روحانی انعامات کاحصول قربانیوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ۔اس لئے اللہ تعالیٰ کبھی ایسے نشانات ظاہر نہیں کرتا جو اتنے کھلے اورواضح ہوں کہ شدید سے شدید معاند بھی ان کو دیکھ رکر سر جھکادیں اورایمان لانے کے لئے دوڑ پڑیں اوران کے لئے انکارکرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ۔کیونکہ اگرایساہوتو پھر ان کاایمان لانا ایک قسم کے جبر کا نتیجہ ہوگا اوراللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتاکہ لو گ کسی جبر کے نتیجہ میں ایمان قبول کریں اوراس طرح اپنے انعامات کو باطل کردیں۔مگر افسوس کہ ا تنی واضح آیت کی موجودگی میں بھی مسلمانوں نے جبر اورقدرؔ کے مسئلہ پر بحثیں شروع کردیں اوریہ نظر یہ قائم کرلیا کہ اللہ تعالیٰ بھی بعض باتوں میں جبرسے کام لیتا ہے ۔چنانچہ آج جب بھی کسی مسلمان سے پوچھا جائے کہ تمہاری مشکلات کاکیا باعث ہے تو وہ ایک سرد آہ کھینچ کرکہہ دے گاکہ ’’ہماری قسمت ‘‘وہ یہ نہیں کہے گاکہ چونکہ ہمارے اند ر بعض کمزوریاں پائی جاتی ہیں اورہم نے قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا اورخداتعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنا اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ہدایات پر چلنا چھوڑ دیاہے اس لئے ہم پر مصائب آرہے ہیں بلکہ وہ یہ کہہ کر کہ ’’ہماری قسمت‘‘اس کی ساری ذمہ داری خداتعالیٰ پر ڈال دے گا ۔حالانکہ یہ آیت بتاتی ہے کہ اگراللہ تعالیٰ نے جبر ہی کرناہوتا تووہ نیک اورہدایت پر جبر کرتااور ایسے نشانات نازل کرتا جن سے بڑے بڑے کفار کی گردنیں جھک جاتیں اوروہ ایمان لانے پر مجبور ہوجاتے۔مگر اللہ تعالیٰ ایسانہیں کرتا۔وہ نشانات تونازل کرتاہے مگران میں ایک قسم کااخفاء بھی رکھتاہے تاکہ جو لوگ ایمان لائیں وہ اپنی اپنی کوشش اورجدوجہد کے مطابق اللہ تعالیٰ سے اجر پائیں۔افسوس ہے کہ مسلمانوں میں نشانات الٰہیہ کے متعلق ایسی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں کہ ایک دفعہ قادیان میں غیر احمدی مولویوں نے جلسہ کیا ۔اس جلسہ میں ایک غیر احمدی مولوی صاحب نے بڑ ے جوش کے ساتھ تقریر کی اورکہا ۔مرزاصاحب نبی بنے پھر تے ہیں۔مرزاصاحب کے معجزے بھی کوئی معجزے ہیں ۔معجزہ تویہ ہوتاہے کہ سید عبدالقاد رصاحب جیلانی ؒکے پاس کو ئی شخص مرغ پکا کر لایا ۔آپ نے کھاکر اس سے کہا ۔تم نے مجھ پراحسان کیاہے مگر ہم بھی تمہیں احسان کا بدلہ دینا چاہتے ہیں اوریہ کہہ کر انہوں نے مرغ کی ہڈیاں لیں اورہاتھ می پکڑ کرانہیں زور سے دبایا تووہی مرغ کُڑکُڑکُڑکُڑ کرکے اپنی اصلی حالت پر آگیا۔اس قسم کے قصے مسلمانوں میں اس لئے آئے کہ انہوںنے معجزات کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کی سنت کو نظر انداز کردیا ۔اوریہ نہ سمجھا کہ اگر ایسے معجزات ظاہر ہو ں توپھر کو ن شخص ہے جوکسی نبی کانکار کرسکتاہے اوراگرایسے معجزات کے ظہو ر کے بعد کوئی شخص ایمان لاتاہے توکون کہہ سکتاہے کہ اس نے ایمان لاکرکوئی قربانی کی ہے اوروہ کسی انعام کامستحق ہے ۔پس اس آیت میں یہ بتایاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی ایسے نشانات نازل نہیں کرتا جوایسے کھلے اورواضح ہوں کہ انہیں دیکھ کرکفار کی گردنیں بھی جھک جائیں اوروہ ایمان لے آئیں ۔کیونکہ اگر ایساہوتو یہ ایک قسم کا جبر ہوگیا اوراللہ تعالیٰ قبول ہدایت کے بارہ میں کسی قسم کا جبر روانہیں رکھتا ۔
پھرفرماتاہے ۔وَمَایَاْتِیْھِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّاکَانُوْاعَنْہُ مُعْرِضِیْنَ جب بھی رحمن خداکی طرف سے کوئی نیا پیغام آتاہے لوگوں نے ہمیشہ اس کاانکارکیاہے ۔پھر یہ لوگ کس طرح اس پیغام کو قبول کرسکتے ہیں ۔اس جگہ خدائی پیغام کو ان معنوں میں نیا نہیں کہا گیاکہ ہرنبی کو ئی نئی شریعت لاتاہے بلکہ ان معنوں میں اسے نیاقرار دیاگیاہے کہ وہ پیغام دنیا کی نگاہوں سے مخفی ہوتاہے ۔دنیا اس کو بھول چکی ہوتی ہے اوروہ اس سے ایسی غافل اوربیگانہ ہوتی ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ اس کی اپنی کھوئی ہوئی چیز ہوتی ہے پھر بھی وہ اسے ایک نئی چیز سمجھنے لگتی ہے اوراس سے ڈر کر دو ربھاگنے لگتی ہے ۔انہی معنوں میںاللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر پہلی کتب الہامیہ کو بھی حدیث قرار دیاہے اورقرآن کریم کی فضیلت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ اَللّٰہُ نَزّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ (نور آیت ۲۴)یعنی اللہ تعالیٰ نے بڑی شان اورطاقت اورقوت کے ساتھ اس کتاب کو اتار اہے جو احسن الحدیث ہے یعنی ساری الہامی کتابوں سے افضل ہے ۔پس ہرنبی جو اس دنیا میں ظاہر ہوا۔وہ دنیا کے لئے ایک نیا پیغام لایا بعض انبیاء توان معنوں میں نیا پیغا م لائے کہ وہ ایک ہدایت جدیدہ لے کر آئے اورکثیر انبیاء ان معنوں میں نیا پیغام لائے کہ انہوں نے وہ پرانی شراب جس کا سرچشمہ الٰہی نور تھا نئے برتنوں میں لوگوں کے سامنے پیش کی ۔مگر کبھی ایسانہی ہواکہ خداتعالیٰ کا کوئی پیغامبر آیا ہو اوردنیا نے اس کے پیغام سے اعراض نہ کیا ہو ۔یااسے مختلف قسم کے مصائب اورآلام کانشانہ نہ بنایاہو۔اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیاکو ایسے رنگ میں چلایاہے کہ عام طورپر یہ اس کے عام قواعد کے ماتحت کا م کرتی رہتی ہے ۔اوربظاہر خداکاہاتھ اس کے کاموں میں نظر نہیں آتا ۔جب سے یہ کائنات پیداہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے زمین کوایک چکر دے دیاہے اوریہ زمین سورج کے گرد اورچاند زمین کے گرد چکر کھارہاہے ۔اورپھر ساری کائنات شمسی مل کر ایک غیر معلوم جہت کی طر ف چلی جارہی ہے ۔بظاہر دیکھنے والایہ خیال کرتاہے کہ یہ اتفاقی حادثہ ہے اوراس دنیا کوپیداکرنے والااورچلانے والاکوئی نہیں ۔کیونکہ ایک قانون ہے جوچل رہاہے ۔مثلاً ایک ایساشخص جس نے گھڑی نہیں دیکھی اگر وہ ایسے گھر میں آجائے ۔جہاں کوئی آدمی موجود نہ ہو اورہفتہ بھر کی کنجی سے چلنے والی گھڑی چل رہی ہو تو وہ گھڑی کو دیکھ کر یہی سمجھے گاکہ یہ آپ ہی آپ چل رہی ہے۔اسے چلانے والا کوئی نہیں۔جب تک وہ وقت نہ آجا ئے کہ جب گھڑی کو کنجی دی جاتی ہے یاجب تک وہ وقت نہ آجائے کہ جب وہ گھڑی کھڑی ہوجائے ۔درمیانی عرصہ سے وہ یہ اندازہ نہیں لگاسکتا کہ کسی اَورنے اس کو کنجی دی ہے ۔اوروہ چل رہی ہے۔اسی طرح دنیا کوچلانے والے نے لاکھوں کروڑوں سال پہلے اس کو کنجی د ے دی۔اوریہ چل رہی ہے ۔جس طرح گھڑی کو دیکھ کرانسان یہ سمجھتاہے کہ وہ آپ ہی آپ چل رہی ہے سوائے اس کے کہ وہ واقف ہو۔اسی طرح دنیا کو دیکھ کر ایک ناواقف انسان یہ سمجھتاہے کہ یہ آپ ہی چل رہی ہے۔لیکن اس قانون کے علاوہ کبھی کبھی خداتعالیٰ اپنی خدائی ثابت کرنے کے لء بعض خاص باتیں بھی ظاہر کیا کرتاہے جن سے پتہ لگ جاتاہے کہ اس دنیا کاایک خالق اورمالک ہے ۔جیسے گھڑی چل رہی ہوتوایک ناواقف آدمی تویہ سمجھے گا کہ یہ آپ ہی چل رہی ہے کسی اَورکا اس پرتصر ف نہیں ۔لیکن مالک آتاہے ۔اسے چابی دیتاہے اورپھر اسے رکھ دیتاہے ۔توا سکو دیکھ کر وہ سمجھ لیتاہے کہ یہ گھڑی کسی اَورکے ذریعہ چل رہی ہے ۔اسی طرح خداتعالیٰ کبھی کبھی اپنی خاص صفات کے ذریعہ اپنی وجود کو ظاہر کرتاہے ۔اوراس کی صفات کا یہ ظہور اس کے رسولوں اورمصلحین کے ذریعہ سے ہوتاہے ۔لیکن یہ صاف بات ہے کہ جب خدااس دنیا میں دخل دے گا ۔تواس کی کوئی وجہ ہوگی اوروہ وجہ یہی ہوتی ہے کہ لوگ خداتعالیٰ سے دور چلے جاتے ہیں۔وہ اس کو بھلابیٹھتے ہیں۔اوراس کے احکام پر ہنسی اڑاتے ہیں اس وقت خداتعالیٰ ان کو یاددلانے کے لئے اپناکوئی ماموراور مرسل بھیجتاہے ۔ جب وہ مامو را ورمرسل دنیا میں آتاہے تووہ زمانہ وہی ہوتاہے ۔جب لو گ خداتعالیٰ کو بھول چکے ہوتے ہیں ۔اورجوشخص کسی چیز کو بھول چکاہو اس کو اس کی طر ف توجہ دلاناکوئی آسان کام نہیں ہوتا۔کیونکہ اس نے بھول کر کوئی اورراستہ اختیار کیاہواہوتاہے اوریہ آنے والا اس کے روز مرہ اورمعمول کے راستہ سے ہٹاکر اسے دوسری طرف لے جاناچاہتاہے ۔اورجوشخص کسی چیز کاعادی ہوچکاہو اس سے ہٹانے والادوست نہیں بلکہ دشمن سمجھاجاتاہے ۔ مثلاہمارے ملک میں بعض عادتیں راسخ ہوچکی ہیں ۔ہندوستان کی عورتیں پان کھاتی ہیں۔اب پان کازندگی کے کسی شعبہ سے تعلق نہیں ۔پان کے ذریعہ علم حاصل نہیں ہوتا۔پان کے ذریعہ روپیہ حاصل نہیں ہوتا ۔لیکن باوجود اس کے اگرکوئی کہے کہ پان چھوڑ دو تو وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گی اوراصرار کریں گی کہ ہم پان کو نہیں چھو ڑسکتیں۔بلکہ پان توالگ رہاچھوٹی سے چھوٹی رسم کوبھی اگر چھڑانے کی کو شش کی جائے تو لوگ مخالفت کرتے ہیں ۔مثلاًگائوں کی عورتیں اپنے سرکو گھی لگاتی ہیں شہر کی عورتیں سرمیں تیل لگاتی ہیں ۔یورپ کی عورتیں تیل بھی پسند نہیں کرتیں وہ ایک قسم کالوشن استعمال کرتی ہیں ۔اب سرکو گھی لگانا زندگی کاکوئی جزو نہیں۔اگرزندگی کاجزو ہوتاتو تیل سے کس طرح گذارہ ہوجاتا۔اگر تیل زندگی کاجزوہوتاتو خالی لوشن سے کس طرح گذارہ ہوجاتا۔ دنیاکے ایک حصے کا تیل چھوڑ دینا اوردوسرے حصے کا گھی چھوڑ دینااوراتیسرے حصے کا تیل اورگھی دونوںکو چھوڑدینا بتاتاہے کہ ان چیزوںکوانسان چھوڑ سکتاہے ۔لیکن باوجود غیر ضروری چیزیں ہونے کے اگر تم گائوں کی عورتوں سے گھی چھڑواناچاہوتوتمہیں سالہاسال لگ جائیں گے ۔وہ کہیں گی کہ اگر ہم گھی لگاناچھوڑ دیں توہمی سردردہوجاتاہے ۔زکام ہوجاتاہے اوروہ تمہاری مخالفت کریں گی اورسمجھیں گی کہ تم ان کے راستہ میں روک بن رہے ہو ۔غرض چھوٹی سے چھوٹی عادت کاچھڑانابھی آسان کام نہیں ہوتا۔ لیکن خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والا مصلح توساری دنیا کو پلٹ دینے کے لئے آتاہے ۔وہ ان کے طورطریق سے انہیں باز رکھنے کی کوشش کرتاہے ۔پھراس کی مخالفت کس طرح نہ ہو۔چنانچہ جب بھی کوئی مصلح آتاہے لوگ اس کی باتوں پر ہنسی اڑاتے ہیں ۔مذاق کرتے ہیں۔ اسے مارتے پیٹتے ہیں۔اس کے ساتھیوںکو مارتے پیٹتے ہیں ۔اوریہ چیز برابراورمتواترچلتی چلی جاتی ہے ۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تومکہ والے اس وقت کئی کئی معبود مانتے تھے ۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہناشروع کیا کہ اللہ ایک ہے توقرآن کریم میں لکھا ہے کہ مکہ والوںکویہ عجیب بات معلوم ہوئی اورانہوں نے اس پر ہنسی اڑانی شروع کردی ۔و ہ ایک دوسرے سے ملتے توکہتے ۔بتائو لات خداہے یانہیں ۔وہ کہتا۔کیوں نہیں۔ پھروہ کہتا۔اچھا مناۃ خداہے یانہیں ۔وہ کہتا ۔یقیناً ہے ۔پھر وہ کہتا ۔اچھا عزّیٰ خداہے یانہیں۔ وہ کہتا ۔ضررور ہے ۔اس پر وہ ایک عجیب انداز میں قہقہہ مار کر کہتاکہ تم نے سنا یہ شخص کیا کہتاہے ۔ اس نے اتنے خدائوں کوایک خدابنادیاہے ۔وہ یہ خیال کرتے تھے کہ جس طرح عورتیں چٹنی بناتی ہیں ۔توکچھ نمک لیتی ہیں ۔کچھ مرچیں لیتی ہیں۔کچھ پودینہ لیتی ہیں اوران سب کوپیس کر چٹنی بناتی ہیں ۔اسی طرح محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لات مناۃ،عزّیٰ وغیرہ کو کوٹ پیس کر ایک خدابنادیاہے ۔قرآن کریم میں لکھا ہے کہ وہ تعجب سے یہ کہاکرتے تھے کہ اَجَعَلَ الْاٰلِھَۃَ اِلٰھًا وَّاحِدً(ص آیت ۶)یعنی ہمارے بہت سے جوخداتھے ان کوتوڑ مروڑ کر اس نے ایک خدابنادیاہے ۔یہ خیال کہ یہ خداہیںہی نہیں ان کے ذہن میں آہی نہیں سکتاتھا ۔جب ان کے سامنے کوئی شخص کہتاکہ ایک خداہے تو وہ سمجھتے تھے کہ ایک خداکے معنے یہ ہیں کہ اس نے سارے خدائوں کو کوٹ کرایک چٹنی سی بنادی ہے اورجب وہ اس بات کو پیش کرتے توسارے لوگ ہنس پڑتے اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پاگل سمجھتے ۔لیکن اب اگر یہی بات کسی مسلمان کے سامنے بیان کروتووہ بھی ہنس پڑے گا ۔………………کیونکہ اب اسے ایک خداپر یقین پیداہوچکا ہے ۔اوراس کایہ خیال پختہ ہوگیاہے ۔تو جس جس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے انبیاء کی طرف سے کوئی بات پیش کی جاتی ہے چونکہ لوگ اس کے عادی نہیں ہوتے اس لئے وہ اس کی مخالفت کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔حضرت آدم علیہ السلام آئے توآپ کے خلاف دھوکا اورفریب سے کام لیاگیا۔اورآخر آپ کوانہوں نے اس مقام سے نکلنے پرمجبور کردیا جوان کا مولد و مسکن تھااورجس میں و ہ خداتعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کئے گئے تھے ۔حضرت نوح علیہ السلام آئے توانہیں بھی مختلف رنگ میں اذیتیں پہنچائی گئیں ۔اورانہیں بھی اپنے ملک سے ہجرت کرنی پڑی ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے ۔تواپ کوآگ میں ڈالا گیا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے توآپ کو اورآپ کے ساتھیوں کوایک لمبے عرصہ تک فرعون کے مظالم کاتختئہ مشق بننا پڑا۔ اورجیساکہ حدیثوں سے معلوم ہوتاہے ۔ بنی اسرائیل میں سے بعض کے سروں پر آرے رکھ کر ان کوچیر دیاگیا ۔حضرت مسیح علیہ السلام آئے تودشمنوں نے آپ کوصلیب پر لٹکا دیااورآپ کے خلفاء اور حواریوں میں سے بھی بعض کوقتل کیااوربعض کو صلیب پر لٹکایا۔پھررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کازمانہ آیاتو ا آپ کو بھی شدید سے شدید مشکلا ت اکاسامنا کرناپڑا۔کئی صحابہؓ قتل کئے گئے ۔بعض کامثلہ کیاگیا بعض کو اس طرح شہید کیا گیاکہ دواونٹو ںسے ان کی دوٹانگیں باندھ کر ان اونٹوںکو مختلف جہات میں دوڑایا گیا۔اوراس طرح ان کو چیر کر دوٹکڑے کردیاگیا۔بعض صحابہؓ کوتپتی ریت پر لٹایاگیا۔بعض کو سخت پتھروں والی زمین پر گھسیٹاگیا ۔بعض کے سینوں پر جوتیوں سمیت ناچاگیا۔عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے ما رمار کر ان کوماراگیا۔غرض وہ تمام قسم کی مصیبتیں اوراذیتیں جو مختلف انبیاء کے زمانہ میں ان کے دشمنوں نے ان کو دیں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمع ہوگئیں ۔اورآپ کے پیغام کو قبول کرنے سے اعراض اختیار کرلیاگیا۔یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت پر بھی ہوا۔اورآپ کو ہررنگ میں کچلنے اورنابود کرنے کی کوشش کی گئی ۔کیونکہ آپ دنیاکی طرف جو پیغام لائے وہ ان کے فرسودہ خیالات کے منافی تھا۔اوران کے اند رایک نیا تغیر پیداکرنے والاتھا۔بانی سلسلہ احمدیہ نے جب دعویٰ کیا تواس وقت لوگوں میں یہ احساس تھا کہ مسیح ناصریؑ دوبارہ دنیامی آئیں گے اوروہ غیر مسلموں کے سب اموال لوٹ کر مسلمانوںکے حوالے کردیں گے ۔لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آتے ہی اعلان فرمادیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں ۔اب بظاہر یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ہرشخص جو دنیا میں پیداہوتاہے وہ ایک دن مرتاہے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اسی طرح آئے اورفوت ہو گئے ۔لیکن مسلمانوں نے اپنے دلوں میں مسیحؑ کی آمد ثانی کے متعلق جو تصورات قائم کررکھے تھے ان کو اس تعلیم سے شدید صدمہ پہنچا ۔اورانہوں نے کہا۔اس کامطلب یہ ہواکہ عیسائیوں کوکوئی نہیں مارے گا۔اس کامطلب یہ ہواکہ ہندوئوں کو کوئی نہیں مارے گا ۔اس کامطلب یہ ہواکہ سکھوںکوکوئی نہیں مارے گا۔اس کامطلب یہ ہواکہ مسلمان ویسے ہی کمزوررہیں گے جیسے پہلے تھے ۔سوائے اس کے کہ وہ اپنے زورسے آگے نکلنے کی کوشش کریں ۔اس کامطلب یہ ہواکہ یورپ اورامریکہ کی دولت مسلمانوںمیں تقسیم نہیں ہوگی ۔غرض اس تعلیم سے حضرت مسیحؑ پرموت ہی نہیں آئی بلکہ خود مسلمان بھی زندہ درگورہوگئے ۔وہ لو گ جو پہلے گھرو ں میں بیٹھے دولتوں کے منتظر تھے سمجھتے تھے کہ امریکہ کے پریزیڈنت کاسارامال فلاں کو مل جائے گا اورراک فیلر کامال فلاںکو مل جائے گا ان کی توساری امیدیں ختم ہوگئیں اوروہ گویا جیتے جی مرگئے ۔اب بظاہر یہ ایک چھوٹی سے چیز نظرآتی ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے قوم کے خیالات کواتنادھکادیاکہ جس کاصدمہ مسلمانوں سے برداشت نہ ہوسکااوروہ مخالفت کے لئے کھڑے ہوگئے ۔پہلے جب مسلمانوں سے کہاجاتاتھایہ کام کروتووہ کہتے تھے ہم نے کام کرکے کیاکرناہے۔مسیح آئے گاتووہ کافروں کے مال لوٹ کر ہمارے گھروں میں ڈال دے گا ۔حضر ت مرزاصاحبؑ کے آنے سے ان کی سب امیدوں پر پانی پھر گیاکیونکہ حضرت مرزاصاحب نے آکر ان سے یہ کہاکہ جوکچھ کرناہے تم نے کرناہے ۔تم نے ہی لڑناہے۔تم نے ہی مرناہے ارتم نے ہی اپنی ترقی کے لئے آپ جدوجہدکرنی ہے ۔گویاجوچیز انہیں بیٹھے بٹھائے حاصل ہونے کی توقع تھی اس کے متعلق انہیں محنت اورقربانی اورجدوجہد کاراستہ دکھایاگیا اورانہیں بتایاگیاکہ تم غلط خیالات میں مبتلاہوکراپنی قیمتی زندگی کو ضائع کررہے ہو۔اس پر ان کا غصہ میں مبتلا ہونااوران کاحضرت مرزاصاحبؑ کی مخالفت کے لئے کھڑاہوجاناایک طبعی بات تھی ۔یہ ایسی ہی بات تھی جیسے کوئی شخص کسی دوسرے کو کہدے کہ آج تمہارے گھر کے تما م افراد کاکھانا ہمارے ہاں ہے لیکن جب کھانے کا وقت آئے تواسے پتہ لگے کہ اسے دھوکادیاگیاہے کھانا وغیرہ کسی نے تیار نہیں کیا اب ایسے موقعہ پروہ غصہ میں نہ آئے تو کیاکرے کیونکہ اسے بھوک لگی ہوئی ہوگی۔بچے رورہے ہوں گے اورادھر یہ حالت ہوگی کہ ابھی گھرمیں آٹاگوندھاجارہاہوگا۔آگ جلائی جارہی ہوگی۔اورسب کہہ رہے ہوں گے کہ یہ کیا مصیبت آگئی ۔اب کھانا کب تیار ہوگا ۔اورکب کھائیں گے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے سے درحقیقت ایساہی ہوا۔مسلمانوں کوکہاگیاتھا کہ تمہاری خداتعالیٰ کی طرف سے دعوت ہے ۔تمہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔آسمان سے مسیح آئے گا اوروہ دنیا کی دولتیں لوٹ کر تمہارے گھروں میں بھر دے گا اوروہ آرام اوراطمینان کے ساتھے بیٹھے تھے ۔سمجھتے تھے کہ نہ ہمیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت ہے ۔نہ روپیہ کمانے کی ضرورت ہے نہ کسی جدوجہداورقربانی کی ضرورت ہے ۔مسیح آئے گا اورہم اس کے آتے ہی بامِ عروج پر جاپہنچیں گے ۔ا س عقیدہ کے نتیجہ میں جب وہ علم سے محروم ہوگئے ۔ترقیات سے محروم ہوگئے ۔عزت سے محروم ہوگئے ۔شہرت سے محروم ہوگئے ۔پستی اورذلت اورنکبت ان پرپوری طرح چھا گئی توحضرت مرزاصاحب ؑ نے آکر کہاکہ جو کچھ بنے گا اپنے کام سے بنے گا ۔کسی دوسرے پرامید رکھنا بالکل غلط ہے ۔تم کوایک وقت کی روٹی نہ ملنے سے جتناصدمہ پہنچتاہے اس سے کتنا زیادہ صدمہ ان لوگوںوکوہواہوگا۔تم تصور توکروکہ اگرکوئی تم سے مذاق کرے کہ رات کوتمہاراہمارے ہاں کھاناہوگا اورعین وقت پر جب تمہارے بچے بھوک سے بلبلارہے ہو ں ۔تمہیں معلوم ہوکہ تمہارے ساتھ مذاق کیاگیاہے اوراس وقت تمہیں کھاناپکانے کی فکر ہو توجتناغصہ تمہارے دل می اس وقت پیداہوسکتاہے اس سے لاکھوں گنازیادہ غصہ مسلمانوںکو پیداہواکیونکہ ان کا اوران کی نسلوں کا انحصارہی اس لوٹ پر تھا جومسیح نے کرنی تھی ۔پھر ایک چیز نہیںبیسیوں چیزیں ہیں جومسلمانوں میں جھگڑے کاباعث بنی ہوئی تھیں۔ کہیں رفع یدین پر جھگڑاتھا ۔کہیں آمین بالجہر کہنے پر جھگڑاتھا۔کہیں تشہد میں انگلی اٹھانے یانہ اٹھانے پرجھگڑاتھا ۔کہیں نماز میں ہاتھ سینے پر باندھنے یاناف کے نیچے باندھنے پر جھگڑاتھا۔حضرت مرزاصاحبؑ نے ان تما م جھگڑوں کو ختم کردیا اورکہاکہ ان باتوں پر لڑنا جھگڑنا فضول ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ن کبھی قوم کو جوش دلانے کے لئے آمین اونچی بھی کہی ہے اورکبھی نیچی بھی کہی ہے ۔کبھی فوجی روح قائم کرنے کے لئے آپ نے سینہ پر ہاتھ باندھے اورکبھی انکسار اورتذلل کی حالت میں آپؐ نے ناف کے نیچے بھی باندھ لئے ۔کبھی تشہد کے وقت آپ نے ا نگلی اٹھائی اورکبھی نہیں اٹھائی ۔تشہد میں انگلی اٹھانے کے یہ معنے ہیں کہ انسان اپنے ہاتھ سے بھی اس بات کا اقرا رکرتاہے کہ خداایک ہے ۔مگریہ دونوں طرح جائز ہے ۔خواہ کوئی انگلی اٹھائے یا نہ اٹھائے اس کی نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض عربوں کو دیکھ کرکہ ابھی ان میں پوری طرح توحید نہیں آئی تشہد میں انگلی اٹھانے کاحکم دیا۔مگر بعض دفعہ آپ نے انگلی نہیں بھی اٹھائی ۔جوشخص توحید کے عقیدہ پر پختگی کے ساتھ قائم ہوگیاہے اگر وہ انگلی نہ اٹھائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔مگراس مسئلہ پر اتنا زوردیاگیا کہ بعض لوگوں کو محض ا س وجہ سے انگلیاں توڑ دی گئیں کہ انہوں نے تشہد میں انگلی کیوں اٹھائی ہے ۔پھر قرآن کے متعلق مسلمانوں میں یہ غلط خیال قائم تھاکہ اس کی کئی آیا ت منسوخ ہیں ۔لیکن حضرت مرزاصاحبؑ نے آکر کہہ دیاکہ قرآن کریم کی ایک آیت بھی منسوخ نہیں ۔بسم اللہ سے لے کر والناس کے س تک ایک ایک حرف اورایک ایک زبراورایک ایک زیر قابل عمل ہے ۔اب بجائے اس کے کہ مسلمان شکرگذار ہوتے کہ آپؑ نے ایک اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہمارے سامنے پیش کی ہے جوقرآنی حسن کو نمایاں کرنے والی ہے۔چونکہ یہ تعلیم ان کے خیالات کے خلاف تھی انہوں نے آ پ کی مخالفت شروع کردی اورعلماء نے ہندوستان کے ایک سرے سے لیکر اس کے دوسرے سرے تک آپؑ کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپاکردیا اورآپ کو کافر اورمرتداورزندیق اورواجب القتل قراردیاگیا۔
غرض تاریخ کا ہر دور وَمَایَاْتِیْھِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّاکَانُوْاعَنْہُ مُعْرِضِیْنَ کی سچائی پرشہادت دے رہاہے۔جب کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی پیغامبر قوم کی زندگی کا پیغام لے کر آیا ہمیشہ اس پر ہنسی اڑائی گئی ۔اسے تباہ کرنے کی کوشش کی گئی اوراس کے پیغام سے اعراض کیاگیا۔اس جگہ بھی اللہ تعالیٰ اسی اعراض کا ذکرکرتے ہوئے فرماتاہے فَقَدْکَذَّبُوْا فَسَیَاْتِیْھِمْ اَنْبٰٓؤُامَاکَانُوْابِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ چونکہ یہ لوگ صداقت کو جھٹلاچکے ہیں اس لئے اب عنقریب ان کے پا س ان امور کے متعلق جب پر یہ ہنسی اڑایاکرتے تھے ہماری عظیم الشان خبریں پوری ہوکر آجائیں گی ۔اورانہیں معلوم ہوجائے گا کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاانکار کیسی خطرناک چیزہے ۔اس جگہ سزائوں کوخبریں اس لئے کہاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ فرقان کے آخر میں کفار کو تنبیہ کی تھی کہ اگر تم خداتعالیٰ کے حضور دعااورگریہ و زاری سے کام نہیں لوگے توخداتعالیٰ تمہاری کوئی پرواہ نہیں کرے گا جس کے معنے یہ تھے کہ اگر وہ توبہ نہیں کریں گے توان پرعذاب نازل ہوگا اوروہ تباہ کردیئے جائیں گے ۔پس چونکہ سورئہ فرقان کے آخر میں انہیں عذاب کی خبر دی گئی تھی جس پر کفار نے ہنسی اڑائی اورانہوںنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام سے اعراض کیا۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے بتایاکہ جن امور پر یہ لوگ ہنسی اڑاتے رہے ہیں ان کے متعلق اب ہماری خبریں ان کے سامنے پوری ہوکر آجائیں گی ۔اورانہیں معلوم ہوجائے گا کہ ہمارے رسول نے جوکچھ کہاتھا ۔سچ کہا تھا ۔ نَبَأٌ کے متعلق علامہ ابوالبقاء نے اپنی کتاب کلیات میں لکھاہے کہ یہ لفظ قرآن کریم میں ہمیشہ ایسے امور کے متعلق استعمال ہوتاہے جو بہت بڑی عظمت اور شان رکھنے والے ہوں ۔اورچونکہ اسلام کے غلبہ سے بڑی اورعظیم الشان خبراورکوئی نہیں ہوسکتی ۔اسلئے اس جگہ انباء میں انہی خبروں کی طرف اشارہ کیاگیاہے جو کفرکی تباہی اوراسلام کے غلبہ کے متعلق قرآن کریم میں دی گئی تھیں۔اورجن پر کفار نے اپنی طاقت اورقوت کے گھمنڈ میں ہنسی اڑائی ۔مگرتھوڑے دنوں کے بعد ہی انہوں نے دیکھا کہ وہی غلام جن کو وہ گلیوں میں گھسیٹاکرتے تھے اورجن کے سینوں پر بڑے بڑے پتھر رکھ کر انہیں لات اور مناۃ کی پرستش کرنے پرمجبور کیاجاتاتھاگھوڑے دوڑاتے اورفتح و ظفر کاپرچم لہراتے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے ۔اورمکہ کے بڑے بڑے صنادید کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہ رہا۔کہ وہ اپنے گھروں میں چھپ کربیٹھ رہیں یامکہ کوچھوڑ کربھاگ جائیں ۔غرض وہ خبریں جو ان کی تباہی کے متعلق دی گئی تھیں پوری ہوئیں۔ اوراسلام عرب کے کونہ کونہ میں پھیل گیا۔اوراب خداکے فضل سے وہ دنیا کے کونہ کونہ میں پھیل چکا ہے ۔اورابھی آئندہ زمانہ میںاوربھی پھیلے گا ۔
اولم یرواالی الارض کم انبتنا فیھا من کل زوج کریم٭
کیاوہ زمین کو نہیں دیکھتے کہ ہم نے اس میں قسم قسم کے عمدہ جوڑے بنائے ہیں
ان فی ذٰلک لآیۃ۔ وماکان اکثرھم مومنین٭ وان ربک لھوالعزیز الرحیم٭
اس میں ایک بڑانشان ہے مگر ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے ۔ اورتیرارب ہی یقیناً غالب(اور)بار بار رحم کرنے والاہے ۔۴؎
۴؎ حل لغات:۔ زَوْج ٌکے معنے ہیں کُلُّ واحِدٍ مَعَہٗ اٰخَرُ مِنْ جِنْسِہٖ۔ہروہ چیز جس کے ساتھ اس کی جنس میں سے ایک اَور وجود بھی ہو ۔اَلصِّنْفُ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ۔ہرچیز کی ایک ایک قسم (اقرب)
تفسیر۔ فرماتاہے ۔کیاانہوں نے کبھی غور نہیں کیا ۔کہ زمین میں ہم نے کس طرح قسم قسم کی اعلیٰ ترکاریاں اورپھل وغیرہ پیداکئے ہیں اگر وہ اس پر غور کرتے توان کومعلوم ہوجاتاکہ دین کے معاملہ بھی خداایساہی کرے گا۔اوراعلیٰ روحانی نعمتیں بھیجے گا جوروح کی غذابنیں گی ۔اوراعلیٰ قسم کے انسان پیداکرے گا جوایکد وسرے کے ہمدرد اورخیرخواہ ہوںگے۔اورگویہ لوگ ابھی خداتعالیٰ کی آواز پر لبیک نہیں کہہ رہے مگر تیرارب بڑاغالب اوررحم کرنے والاہے وہ ضرور ایسی تدبیرکر یگاجس سے دنیا پر اس کی بادشاہت قائم ہوجائے گی ۔اوراس کے رحم کالمباسلسلہ انسانوں کے لئے جاری ہوجائے گا۔
مِنْ کُلِّ زَوْجٍ کَرِیْمٍ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ تمام نباتات نر ومادہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ یعنی ان میں کچھ نر پودے ہوتے ہیں اور کچھ مادہ ۔ اور جب وہ دونوں آپس میں ملتے ہیں تب فصل پیدا ہوتی ہے اسی لئے ماہرین زراعت کہا کرتے ہیں کہ باغوں میں شہد کی مکھّیاں رکھنی چاہئیں کیونکہ وہ نر درخت پر بیٹھ کر اُس سے زکا نطفہ لیتی ہیں ۔اور مادہ درخت پر جا کر رکھ دیتی ہیں جس کی وجہ سے اُسے خوب پھل آتا ہے ۔عرب لوگ کھجو رک متعلق اس حقیقت کو جانتے تھے اوروہ نراورماد ہ درختوں کو آپس میں ملایاکرتے تھے۔مگررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسکاعلم نہیں تھا۔ایک دفعہ آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھجور کے نردرختوںکو مادہ کھجوروں سے ملارہے ہیں۔آ پ نے فرمایاکیاکرتے ہو۔انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم تونرکومادہ پرڈالتے ہیں تاکہ فصل اچھی ہو ۔آپ نے فرمایا۔اس کاکیافائدہ جو پھل پیداہوناہے وہ توہوناہی ہے ۔ انہوں نے یہ سن کر چھوڑ دیامگرنتیجہ یہ ہواکہ ان کی فصل ماری گئی ۔وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حاضر ہوئے اورانہوں نے عرض کیا ۔یارسول اللہ!ہماری توفصل اچھی نہیں ہوئی۔ آپؐ نے فرمایا۔کیوں۔انہوںنے کہا۔آپؐ نے جوفرمایاتھا کہ نرکامادینہ کھجور پرنہ ڈالو ۔آپؐ نے فرمایا۔میں توتمہاری طرح کاایک انسان ہو ں یہ علم توتم جانتے ہو۔مجھے معلوم نہیں۔اس لئے تم وہی کچھ کروجسے علمی لحاظ سے تم صحیح سمجھتے ہو۔(مسلم جلد۲۔ کتاب الفضائل) غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارہ میں ذاتی طورپر کوئی علم نہیں تھا۔مگراللہ تعالیٰ نے بتایاکہ اتمام نباتات آپس میں جوڑہ جوڑہ ہیں ۔بلکہ سورئہ ذاریات میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ(ذاریا ت ع۳) یعنی نرومادہ صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ ہرچیز میں ہیں ۔جمادات میں بھی ہیں۔ نباتات میں بھی ہیں ۔حیوانات میں بھی ہیں۔اوراب توبعض سائنسدان اس تحقیق میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ دھاتوں میں بھی نرومادہ کے قائل ہوگئے ہیں ۔ایک سائنسدان کی کتاب میں میں نے پڑھاکہ ٹین بھی دوقسم کے ہوتے ہیں ۔ایک ٹین نرہوتاہے اورایک مادہ ہوتاہے اوروہ بھی ایک دوسرے کے اثر کو قبول کرکے ایک نئی شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔مگرخداتعالیٰ اس سے بھی اوپر جاتاہے اورفرماتاہے کہ ہم نے ہرچیز کاجوڑا بنایاہے اورچیز کے لفظ میں نباتات بھی آجاتی ہے ۔حیوانات بھی آجاتے ہیں ۔جمادات بھی آجاتے ہیں ۔بلکہ اس سے بڑھ کر ذرّات عالم اورمجموعئہ ذرات عالم بھی آجاتے ہیں اورجب خداتعالی نے یہ کہاکہ ہم نے ہرچیز کو جوڑابنایاہے تواس کے معنے یہ ہوئے کہ خداتعالیٰ کے سواباقی ہرچیز کاجوڑاہے اورکوئی چیز اپنے جوڑے کے بغیر صحیح نتیجہ پیدانہیں کرسکتی ۔جس طرح مادی دنیامیں اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کاجوڑابنایاہے ۔اسی طرح روحانی دنیامیں انسانی روح خداتعالیٰ کے فضل اوراس اکی رحمت کا جوڑاہے اورجب تک الٰہی فضل انسانی روح سے آکر نہ ملے اس وقت تک روحانی نسل کاسلسلہ قائم نہیں ہوسکتا۔مجھے یادہے۔میں ابھی بچہ ہی تھا کہ میں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ میں امرتسر میں ہوں وہاں ملکہ کاایک بت تھا جوسنگ مرمرکا بناہواتھااوراس کے ارد گرد ایک چبوترہ تھا اوروہ بھی سنگ مر مرکابناہواتھا ۔اورچبوترے پر چڑھنے کے لئے سنگ مرمرکی ہی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔میں نے رؤیامیں دیکھاکہ ان سیڑھیوں پرتین چار سال کا ایک بچہ کھڑاہے جو نہایت حسین اورصاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس ہے اورآسمان کی طرف دیکھ رہاہے ۔رؤیامیں میں سمجھتاہوں کہ یہ مسیحؑ ہے۔تھوڑی دیر کے بعد آسمان پھٹااوراس میں سے ایک چیز زمین کی طرف اڑتی ہوئی نظر آئی ۔وہ خوبصورت رنگو ں والے لباس میں لپٹی ہوئی تھی ۔اوراس کے پَر تھے جن سے وہ اڑتی ہوئی آرہی تھی ۔میں رؤیا میں سمجھتاہوں کہ یہ حضرت مریمؑ ہیں نیچے آکر جسے مرغی اپنے پَر پھیلا کر بچوںکو اپنے پَروں کے نیچے لے لیتی ہے ۔اسی طرح اس نے بچہ پراپنے پَر رکھ دیئے ۔اورجب اس نے ایساکیا تومیری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے:۔
LOVE CREATES LOVE
یعنی محبت محبت پیداکرتی ہے ۔جب میری آنکھ کھلی تومیں نے سمجھا کہ مریم جو رؤیامیں مجھے بطور ماں دکھائی گئی ہے اس سے مراد خداتعالیٰ کی محبت ہے اوربچہ جو مسیح کی شکل میں دکھایاگیا و ہ روح کی خداتعالی کی طرف انابت اور جھکنے کاتمثّل تھا ۔جب انسانی روح خداتعالیٰ کی طرف جھکتی ہے وتاس ے نتیجہ میں ایک روحانی وجودپیداہوتاہے جوخداتعالیٰ کوایساہی پیاراہوتاہے جیسے ماں کو اسکابچہ ۔ کیونکہ خداتعالیٰ جسم کے ساتھ پیار نہیں کرتا ۔و ہ وجود جس کے ساتھ خداتعالیٰ پیار کرتاہے ۔و ہ خداتعالیٰ کی رحمت کے ساتھ مل کر پیداہوتاہے ۔اوراس کے لئے خدا بمنزلہ ماں بن جاتاہے ۔
یہی سبق اللہ تعالیٰ نے کفار کو دیاہے ۔اورفرمایاہے کہ کیا وہ زمین کی طرف نہیں دیکھتے کہ ہم نے اس میں کیسے کیسے خوبصورت جوڑے پیداکردیئے ہیں پھر کیا وہ اس نظار ہ کو دیکھتے ہوئے نہیں سمجھ سکتے کہ جس طر ح مادی دنیا میں ہم نے ہرچیز کاجوڑابنایاہے اسی طرح ان کی روح بھی اپنی طاقتوں کے اظہار کے لئے ایک جوڑے کی محتاج ہے اوریہ جوڑاخداتعالیٰ کی رحمت سے مل کر مکمل ہوتاہے ۔پس اگروہ اپنی روحانی نسل کو جاری کرناچاہتے ہیں توانہیں اس خدائی رحمت کے ہاتھ کو تھام لیناچاہیئے جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں اس کی طرف سے بلندہواہے ورنہ جس طرح ایک بانجھ عورت اولاد سے محروم رہتی ہے۔ اسی طرح وہ ان روحانی نعماء سے محروم رہیں گے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ لٹائے جارہے ہیں ۔
واذنادیٰ ربک موسیٰ ان ائت القوم الظالمین ٭
اور(یادکر)جب تیرے رب نے موسیٰ کو پکاراتھا (اورکہاتھا) کہ ظالم قوم یعنی فرعون کی قوم کے پاس جا۔
قوم فرعون ط الایتقون٭ قال رب انی اخاف ان یکذبون
(اوران سے کہہ کہ) کیا وہ تقویٰ نہیں کرتے؟ اس نے (جواب میں )کہا ۔اے میرے رب میں ڈرتاہوں کہ وہ میری تکذیب نہ
ویضیق صدری ولا ینطلق لسانی فارسل الی ھٰرون ٭
کریں ۔اورمیراسینہ تنگی محسوس کرتاہے اورمیری زبان (اچھی طرح) چلتی نہیں پس (میرے ساتھ)ہارونؑ کو بھی مبعوث کر۔
ولھم علی ذنب فاخاف ان یقتلون٭
اور(یہ بات بھی ہے کہ)ان (لوگوں)کامیرے خلاف ایک الزام بھی ہے اورمیں ڈرتاہوں کہ وہ مجھے قتل نہ کردیں ۔
قال کلا ج فاذھباباٰیٰتنا ان معکم مستمعون٭
فرمایا۔ہرگز نہیں ۔پس (ہماراحکم سن کر )تم دونوں ہماری آیتیں لیکر (چلے )جائو۔ہم (تمہارے اورتمہارے ساتھیوں کے ) ساتھ ہوں گے اور(تمہاری دعائوں کو )سنتے رہیں گے ۔
فاتیافرعون فقولاانا رسول رب العالمین٭ان ارسل معنا بنی اسرائیل٭
پس فرعون کے پاس جائو اوراسے کہو کہ ہم رب العالمین(خدا)کے بھیجے ہوئے ہیں۔(اس حکم کے ساتھ )کہ ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے ۔۵؎
۵؎ حل لغات :ذَنْبٌ:یُسْتَعْمَلُ فِیْ کُلِّ فِعْلٍ یَسْتَوْخَمُ عُقَبَاہُ (مفردات ) یعنی ہر وہ فعل جس کانتیجہ خراب ہو ذنب کہلاتاہے ۔
تفسیر ۔فرماتاہے ۔اس وقت کو یاد کروجب تمہارے رب نے موسیٰؑ کو پکارا اوراسے کہاکہ تُو ظالم قوم یعنی فرعونیوں کی قوم کے پاس جااورسے کہہ کہ کیا وہ تقویٰ اختیار نہیں کریں گے ؟ اس پر موسیٰ نے کہا ۔اے میرے رب! میرے جانے کاکیا فائدہ وہ تومجھے جھٹلادیں گے۔علاوہ ازیں میراسینہ ان کے آنے والے سلوک کا تصورکرکے تنگی محسوس کرتاہے اورمیری زبان اس ڈر سے بند ہوتی چلی جاتی ہے کہ وہ انکار سے کام لیں گے ۔پس تو اپنا پیغام ہارون کی طرف بھیج۔نیز وہ مجھ پر گناہ کا الزام بھی عائد کرتے ہیں ۔سومیں ڈرتاہوںکہ کہیں وہ میری بات سنے بغیر ہی مجھے قتل نہ کردیں ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ان کی مجال نہیں کہ وہ ایسا کرسکیں ۔لیکن چونکہ تونے ایک خواہش کااظہار کیا ہے ہم ہارون کو بھی مبعوث کرتے ہیں ۔سوتم دونوں ہمارے نشان لے کر جائو ۔بڑانشان تویہی ہے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اورتمہاری دعائیں سنتے رہیں گے اورفرعون اوراس کے ساتھ تمہار اکچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے ۔سوتم دونوں فرعون کے پا س جائو اور اسے کہو کہ ہم رب العالمین خداکی طرف سے تمہاری طرف رسول بن کر آئے ہیں تم ہمارے پیغام کو قبول کرو۔اوربنی اسرائیل کو غلامی سے نجا ت دے کر ہمارے ساتھ روانہ کردو۔یہ واقعہ بیان فرماکر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جس خدانے فرعون کی قوم کے لئے ہدایت کاسامان مہیا کیاتھا ۔و ہ مکہ والوں کے لئے کیوں ہدایت کاساامان مہیا نہ کرتا۔ فرعون کی قوم کے لئے تو کسی پہلے نبی کی دعاموجود نہیں تھی لیکن مکہ والوں کے لئے تو ابراہیم کی یہ دعاموجود تھی ۔ کہ رَبَّنَاوَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًامِّنْھُمْ یَتْلُوْ ا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ(بقرہ آیت ۱۳)یعنی اے ہمارے رب! توان لوگوں میںاپنا ایک رسول مبعوث فرما جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے انہیں کتاب اوراحکمت سکھائے اوران کا تزکیہء نفوس کرے ۔توبڑاغالب اورحکمت والا ہے ۔پس اگر بغیر کسی دعاکے اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں کی ہدایت کے لئے موسیٰ کومبعوث فرمادیاتواتنی بڑی دعاکی موجودگی میں جبکہ اللہ تعالیٰ کا بھی یہ وعدہ تھا کہ وہ اپنے انعامات کی بارش نسل اسمٰعیل پر برسائے گا اوراسے بھی ایک بڑی قوم بنائے گا ۔(پیدائش باب ۱۷ آیت ۲۰ تا۲۲)کیوں ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ اپنابرگزیدہ کھڑانہ کرتا پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاآنا لوگوں کے لئے کسی حیرت کاموجب نہیں بنناچاہیئے ۔حیرت تب ہوتی جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کا کوئی سامان پیدانہ ہوتا اورابراہیمی دعارائیگاں چلی جاتی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کا ذکر فرماکر یہود کوبھی اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تم موسیٰ کی کتاب پر ایما ن رکھتے ہو۔تمہیں معلوم ہے کہ تورات میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ
’’ میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ ساایک نبی برپاکروں گا اورجوکچھ میں انہیں فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا ۔ اورایساہوگاکہ جوکوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرانام لے کے کہے گا نہ سنے گا تومیں اس کاحساب اس سے لوںگا۔‘‘
(استثناء باب۱۸ آیت ۱۵تا ۲۰)
کیااس پیشگوئی کے مطابق یہ ضروری نہیں تھا کہ موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی اسمٰعیل میں سے ایک ایسانبی آتا جوموسیٰ کامثیل ہوتا۔یعنی جس طرح وہ صاحب شریعت نبی تھا اس طرح آنے والا رسول بھی صاحب شریعت ہوتا۔
پھر تورات میں یہ بھی کہاگیاتھا کہ وہ جب بھی خداکاکلام سنائے گاتوکہے گاکہ میں خداکانام لے کر تمہیں یہ کلام سناتاہوں چنانچہ قرآن کریم کی کوئی سورۃ نہیں جو اللہ تعالیٰ کے نام کے بغیر شروع ہوتی ہو ۔ہرسورۃ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا ہواہوتاہے جوہریہودی اورعیسائی کو اس امر کی طرف توجہ دلاتاہے کہ تم کیوں س نبی کو نہیں مانتے جوموسیٰ کی پیشگوئی کے مطابق جب خداتعالیٰ کا کلام سناتاہے تواس سے پہلے یہ الفاظ بھی کہہ دیتاہے کہ میں اللہ کانام لے کر یہ کلام سناتاہوں اورپھر بھی اس کو کوئی سزانہیں ملتی ۔
غرض موسیٰ کاذکر مکہ والوں کو دعائے ابراہیمی کی طرف اوریہودیوںاورعیسائیوں کو تورات کی پیشگوئی کی طرف توجہ دلانے کے لئے کیاگیاہے اور کہا گیاہے کہ وہ اس دعااورپیشگوئی کی عظمت کو سمجھیں اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاانکار کر کے اللہ تعالیٰ کے غضب کااسی طرح نشانہ بنیں جس طرح فرعون موسیٰ کاانکار کرکے نشانہ بنا ۔
اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ ۔قَوْمَ فِرْعَوْنَ میں یہ بتایاگیاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب فرعون کی طرف بھجوایاگیا تو آپ کا بڑاکام یہی تھاکہ بنی اسرائیل کو اسکی غلامی سے نجات دلائیں ۔اورفرعون کو سمجھائیں کہ وہ اس الٰہی منشاء میں روک نہ بنے۔ اور بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ جانے کی اجازت دے دے۔ چنانچہ جب بنی اسرائیل مصر سے چلے گئے توپھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مصریوںسے کوئی واسطہ نہ رہا بلکہ ان کی تمام ترتوجہ بنی اسرائیل کی طرف ہی مبذول رہی جن کی ہدایت اورترقی کے لئے وہ مبعوث کئے گئے تھے ۔مگرچونکہ بنی اسرائیل اہل مصر سے مل جل کررہتے تھے اوربنی اسرائیل کو الگ مخاطب کرنے اوران کے اند رایک نئی مذہبی روح پیداکرنے کی ا س وقت کو ئی صورت نہیں تھی اس لئے ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے فرعون اوراس کی قوم کو بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت میں شریک کرلیا۔اورآپ نے فرعون اوراس کی قوم کو بڑی بھار ی تبلیغ کی اورمتواتر کئی نشانات کے ذریعہ ان پر حجت تمام کی ۔مگر بنی اسرائیل کے مصر سے چلے جانے کے ابعد آپ کامصریوں سے کوئی واسطہ نہ رہا۔کیونکہ آپ اصولی طور پر صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے ہی مبعوث ہوئے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت کی اورآپ مدینہ تشریف لے گئے تومکہ والوں سے آپ کاتعلق منقطع نہیں ہوابلکہ آپ برابران کی ہدایت کے لئے کوشش فرماتے رہے۔ جوآپ کے درجہ اورمقام کی بلندی کا ایک بہت بڑاثبوت ہے ۔
اَلَایَتَّقُوْنَ میں بتایا گیاہے کہ انبیاء کی بعثت کی اہم غرض تقویٰ کاقیام ہوتی ہے۔مگربالعموم لوگ غلطی سے نیکی اورتقویٰ کو ایک ہی چیز سمجھ لیتے ہیں حالانکہ نیکی تووہ نیک کام ہوتاہے جوہم کرچکے ہیںیاکررہے ہیں ۔اورتقویٰ یہ ہے کہ انسان ایسے مقام پر کھڑاہوجائے کہ اس کے دل میں آئندہ جوجذبات بھی پیداہو ں وہ نیک اورپاک ہوں ۔کیونکہ جذبات کا اصل مقام دل ہے گو ان کا ظہور دما غ کے اعصاب کے ذریعہ سے ہوتاہے ۔
سائنسدان اس امر پر بحثیں کرتے چلے آئے ہیں کہ انسانی روح کا منبع دماغ ہے دل نہیں اوریہی وجہ ہے کہ وہ روح کی حقیقت کو نہیں پاسکے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ انسانی روح کاجیساکہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیموں اوررؤیاو کشوف سے پتہ چلتاہے دل سے تعلق ہے ہاں دما غ چونکہ مغبت اعصاب ہے اس لئے قلبی علوم کو محسوس کرنا اوردل کے علوم مخفیّہ سے مستفیض ہونا اس کاکام ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حیا ۃ کامقام دل کو قرار دیاہے دماغ کو نہیں ۔اورروح کا سب سے گہراتعلق اس عضو سے ہوسکتاہے جوانسانی جسم میں سب سے اہم حیثیت رکھتاہو اورجس کاکام سب سے نمایاںہو۔اوروہ اہم کام دل کاہی ہے ۔دماغ کانہیں ۔دل کی ایک سیکنڈ کی حرکت بندہونے سے کلّی طورپر انسان پرموت وارد ہوجاتی ہے ۔لیکن دماغ میں اگر فتور پیداہوجائے توگواس وجہ سے کہ دما غ کاکام علوم قلیبہ کو مسحوس کرناہے علوم پردہ میں آجاتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ انسان ن پر موت بھی وا رد ہوجائے ۔غرض دماغ خادم ہے اوردل وہ اصل مرکز ہے جہاں اللہ تعالیٰ اپنے انوار نازل کرتاہے ۔لیکن خواہ فلسفیوں کے تتّبع میں کوئی شخص تدبراورتفکر اوراخلاق فاضلہ کاتمام مدار دماغ پررکھے یایہ کہے کہ انسانی عقل اورمعرفت کاسرچشمہ دل ہے ۔اوردماغ کو علوم اورمعارف سے کچھ تعلق نہیں پھر خواہ وہ دل اوردماغ کی بجائے جذبات اورافکار اکالفظ استعمال کرے ۔بہرحال کوئی بھی صورت ہو انسان کے لئے دوچیزوں کی صفاائی نہایت ضروری ہے ،ان میں سے ایک فکر ہے اوردوسری جذبات لطیفہ ہیں۔افکارکی صفائی جسے عربی میں تنویرکہتے ہیں دماغ کی صفائی سے حااصل ہوتی ہے ۔تنویر اس بات کو کہتے ہیں کہ انسان کے اندرایسانورپیداہوجائے جس کی وجہ سے ہمیشہ صحیح خیالات پیداہوتے رہیں ۔جس طرح ایک تندرستی تویہ ہوتی ہے کہ انسان کہے میں اس وقت تندرست ہوں ۔اورایک تندرستی یہ ہوتی ہے کہ انسان آئندہ بھی تندرست رہے ۔اسی طرح تنویر فکر کی وہ درستی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ جو خیالات بھی پیداہوں درست ہی ہوں ۔ اورتنویر کے جومعنے دماغ کی نسبت سے ہیں وہی تقویٰ کے معنے دل کی نسبت سے ہیں ۔یعنی جس طرح فعلاً صحیح خیال کاپیداہونا تنویر نہیں بلکہ ایسے ملکہ کاپیداہوجاناکہ ہمیشہ صحیح خیالات ہی پیداہوتے رہیں تنویر ہے ۔اسی طرح تقویٰ صرف ایک یاچند نیکیوں کانام نہیں بلکہ انسان کاایسے مقام پر کھڑاہوجاناتقویٰ کہلاتاہے کہ اس کے اند رجوجذبات بھی پیداہوں وہ ہمیشہ نیک اورپاک ہوں ۔اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میراشیطان مسلمان ہوگیاہے ۔یعنی میرے دل میں جوخیال بھی پیداہوتاہے نیک ہی ہوتاہے برانہیں ہوتا ۔غرض افکار کے لئے تنویر اورجذبات کے لئے تقویٰ کا لفظ استعمال کیاجاتاہے اورانسان بدی کے حملہ سے اسی وقت محفوظ ہوتاہے جب کسی انسان کو تنویر افکار بھی حاصل ہواورتقویٰ قلب بھی حاصل ہو۔ پس اَلَا یَتَّقُوْنَ میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام قومِ فرعون کی طرف تقوی اللہ کا پیغام لے کر گئے تھے ۔اور آپ کی بعثت کا بڑا مقصد یہ تھا کہ آپ اپنی دعائوں اور تبلیغ اور نصائح کے نتیجہ میں ان کی ایسی اصلاح کردیں کہ نہ صرف ان کے افکار اور ان کے جذبات میں دوستی پید اہوجائے بلکہ ان کے اندر ایسا ملکہ پید ا ہوجائے کہ آئندہ جب بھی ان کے دماغ میں کوئی خیا ل پید ا ہووہ صحیح ہو۔اور جب بھی ان کے دلوں میں کوئی جذبات پید ا ہوں وہ پاکیزہ ہوں ۔یہی چیز ہے جس پر تمام انبیاء زور دیتے چلے آئے ہیں۔ اور اسلام نے بھی اس کی طرف باربار توجہ دلائی ہے ۔کیونکہ روحانی علوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دل پر نازل ہوتے ہیں۔اگر کسی شخص کا دل پاک نہ ہو تو وہ الٰہی فیضان سے محروم رہتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف جانے کا حکم دیا توانہوںنے عرض کیا کہ رَبِّ اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِ۔ اے میرے رب! میں ڈرتا ہوں کہ وہ میری تکذیب نہ کریں۔اس کے یہ معنے نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس سنت قدیم کا علم نہیں تھا کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور مبعوث ہوتاہے تو دنیا ا س کا انکار کیا کرتی ہے بلکہ ان کا خوف اس وجہ سے تھا کہ وہ جانتے تھے کہ تمام قومیں اپنے اپنے زمانہ میں انبیاء کا انکار کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوچکی ہیں ۔پس ان کے دل میں ڈر پیدا ہوا کہ اگر ان لوگوں نے بھی انکار کیا تو یہ بھی خدائی گرفت میں آجائیں گے ۔اور یہ چیز ایسی ہے جو انبیا ء کے لئے سخت دکھ کا موجب ہوتی ہے پس انہوں نے فرعون کی طاقت اورا س کے مظالم پر نظر دوڑاتے ہوئے اس امکانی خطرہ کا اظہار کیا کہ وہ اپنے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے تکذیب پر کمر بستہ ہو جائیگا اوراپنے اس تلخ انجام کو اپنے قریب کردے گا جو ہمیشہ سے منکرین انبیاء کا ہوتا چلاآیا ہے ۔ چنانچہ آیت کا اگلا ٹکڑا ان معنوں کی تائید کرتاہے ۔ وہ فرماتے ہیں وَیَضِیْقُ صَدْرِیْ۔ اے میرے رب! میرا سینہ تنگی محسوس کرتاہے ۔ یعنی ان کے ہدایت کو ردّکردینے کے خیال سے میری یکہ کیفیت ہے کہ میراسینہ تنگ ہورہاہے اورمیرادم گھٹ رہاہے ۔ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس محبت کی طرف اشار ہ فرمایاہے جوانہیں اپنی قوم سے تھی اوربتایاہے کہ ان کاسینہ اپنی قوم کے کفراورفسق کاتصور کرکے تنگی محسوس کرتاتھا اوروہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی قوم الٰہی پیغام کا انکار کرکے اس عذاب کی مستحق ہو ۔ مگر اس بارہ میں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایک بہت بڑی فضیلت حاصل ہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تویہ کہاہے کہ رَبِّ اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِ۔۔اے میرے رب !میں ڈرتاہوں کہ وہ کہیں میری تکذیب نہ کردیں ۔مگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے قَدْنَعَلَمُ اِنَّہٗ لَیْحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّھُمْ لَایُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ(انعام ع ۴) یعنی ہم جانتے ہیں کہ جوکچھ یہ مخالف لوگ کہتے ہیں ۔اس سے تجھے بڑاسخت غم پہنچتاہے کیونکہ یہ تجھ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات کاانکار کرتے ہیں ۔اس آیت میں بتایاگیاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کویہ فکر نہیں تھا کہ قوم ان کی تکذیب کررہی ہے بلکہ آپ اگر غمزدہ تھے تواس لئے کہ قوم خداتعالیٰ کی آیات کاانکار کررہی ہے ۔گویا آپ کاغم اپنی ذات کے لئے نہیں تھا ۔بلکہ آپ کاغم محض ا سوجہ سے تھا کہ قوم خداتعالیٰ کو ردّکررہی ہے اورہرشخص سمجھ سکتاہے کہ ان دونوں نظریوں میں کتنا بڑافرق ہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تویہ ڈر تھاکہ قوم میری تکذیت کرے گی اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا غم تھا کہ قوم خداکاانکار کررہی ہے ۔
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تواپنی قوم سے صرف اتنی محبت تھی کہ اپنی قوم کے کفر کودیکھ کر ان کاسینہ تنگی محسوس کرتاتھا مگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی قوم کے کفرکا اتنا درد تھاکہ اصدمہ کے مارے آپ کی جان نکلی جارہی تھی ۔جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ لَعَلَّکَ باخعٌ نفسک اَلاَّیکونوامومنین یعنی ان لوگوںکے ایمان لانے اورکافررہنے کا ہمارے رسول کو اس قدر صدمہ ہے کہ گویا اس کی گردن پر تلوار رکھ کرکسی نے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک اسے کاٹ دیاہے ۔جب لوگوں کے ایمان لانے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسقدر افسوس تھا توان کاکفرکی حالت میں مرجانا آپ پر کس قد رگراں گذرتاہوگا؟ جوشخص صرف اس بات سے ہی صدمہ محسوس کرتاہو کہ ایک شخص خداتعالیٰ پر ایمان نہی لایا اس کے دل پر اس وقت کیا گذرتی ہوگی جب اسے یہ معلو م ہوتاہوگاکہ اب کفر پر اس کاخاتمہ بھی ہوگیاہے ۔
یہ ایک عجیب بات ہے کہ دنیامیں ہمیشہ بڑی چیزوں پر چھوٹی چیزوں کو قربان کیاجاتاہے مگراللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کمزورانسانیت پراپنے پیداکئے ہوئے قیمتی سے قیمتی جوہروں کو قربان کیا۔آدم اپنے زمانہ کا سب سے قیمتی جوہر تھا ۔مگراللہ تعالیٰ نے ان کمزورلوگوں کے لئے جنہوں نے شیطان کا ساتھ دیا آدم کی سی قیمتی جان کو قربان کرادیا۔حضر ت نوح علیہ السلام اپنے زمانہ میں سب سے قیمتی وجود تھے۔ مگراللہ تعالیٰ نے ان ازلی شقیوں اوران بدبخت وجودوں کے لئے جو ہدایت سے محرومی اختیار کرچکے تھے حضرت نوح علیہ السلام کی جان کو قربان کرادیا ۔حضر ت ابراہیم علیہ السلام اپنے زمانہ کے سب سے قیمتی وجود تھے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جان کو کمزور اورناقص انسانوں کے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کرب وبلامیں مبتلاکیا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام پنے زمانہ کے قیمتی سے قیمتی وجود تھے مگر وہ بنی اسرائیل جو خداکے لئے صرف اس قربانی کے مالک تھے کہ انہوںنے کہہ دیا فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنّاَ ھٰھُنَاقَاعِدُوْنَ(مائدہ آیت ۲۵) اے موسیٰ تواورتیرارب دونوں جائو اور ان سے جنگ کرو۔ہم توبہرحال اسی جگہ بیٹھے رہیں گے۔اس بزدل اورنشانات سے آنکھیں بندکرلینے والی قوم کے لئے خداتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سی قیمتی جان کو قربان کرادیا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے زمانہ کے قیمتی ترین وجودوں می سے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے جن کے متعلق حضرت مسیح علیہ السلام خود کہتے ہیں کہ وہ سانپ اورسانپوں کے بچے ہیں (متی باب ۲۳آیت ۲۳)ان کی زندگی کو بھینٹ چڑھادیا۔پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ پاک اوراعلیٰ وجود اس دنیا میں کون آیا کہ جسکے متعلق ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایاکہ لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ (فوائدالمجموعہ مصنفہ علامہ شوکافی ص ۱۱۶)اے محمد !(صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر تجھے پیدانہ کرنا ہوتاتومیں زمین وآسمان کو بھی پیدانہ کرتا مگر وہ وجود جس کی خاطربنی نوع انسان پیداکئے گئے ۔ابوجہل ،عتبہ اورشیبہ کی ہدایت اوربھلائی کے لئے اس کو ایک ایسی صلیب پر لٹکادیا جولوگوں کو تو نظرنہیں آئی مگرخداتعالیٰ جس کی نظر میں ہر عیب بھی ظاہر ہے وہ اس صلیب کے متعلق فرماتاہے لَعَلَّکَ باخعٌ نفسک اَلاَّیکونوامومنین اے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )شایدکہ غم کی چھری تجھ کو ذبح کرتے کرتے تیری گردن کے آخری تسموںکوبھی کاٹ دے گی اس وجہ سے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے ۔
غرض جہاں تک قربانی اورمحبت کاسوال ہے دنیا کے ہرنبی نے اپنی قوم کے لئے قربانیاں کیں۔اورہرنبی اپنی قوم کے کفر اورنفاق کو دیکھ دیکھ کر پریشان حال رہا ۔مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورپہلے انبیاء میں یہ فرق ہے کہ پہلے انبیاء کے سینے میں تواپنی قوم کا کفردیکھ کرصرف تنگی محسوس ہوتی تھی مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کاکفردیکھ کر ایساغم ہوتاتھا کہ قریب تھا کہ آپ اس غم کی وجہ سے اپنے آپ کو ہلا ک کرلیتے ۔
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تویہ کہاکہ رَبِّ اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِ۔ مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم ملاکہ جااوردنیا کو خداتعالیٰ کا پیغام پہنچا توآپ نے فوراً اپنی بیوی کو خبر دی اورپھر بعد میں اپنی ساری قوم کو خبر دی اوریہ نہیں کہا کہ قوم میری تکذیب کرے گی بلکہ آپ نے دلیری سے خداتعالیٰ کے حکم پر لبیک کہااورکسی ڈراورخوف کا اظہار نہیں کیا ۔یہ امربتاتاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ بہت بلند تھا ۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک اوربات کی اورفرمایا لَایَنْطَلِقُ لِسَانِ اے میرے رب ! میری تو زبان ہی نہیں چلتی ۔مگرخداتعالیٰ کی شان دیکھو کہ وہی موسیٰ جنہیں یہ خوف تھاکہ میں فرعون کے دربا رمیں کس طرح بات کرسکوں گا اورجنہوں نے حضرت ہارو ن علیہ السلام کی یہ خوبی بیان کی تھی کہ ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّی لِسَانًا (قصص آیت ۳۵) وہ بات کرنے میں مجھ سے بہت زیادہ فصیح ہیں جب فرعون کے سامنے جاتے ہیں توحضرت ہارون کو ایک فقرہ بھی بولنے نہیں دیتے ۔اورخود ہی اس کے اتمام سوالات کے جواب دیتے چلے جاتے ہیں ۔ اَفْصَحُ مِنِّی لِسَانًا کے الفاظ بتارہے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام یقینا فصیح البیان تھے اوران کی زبان میں جیساکہ پرانے مفسرین خیال کرتے ہیں کوئی خلقی نقص نہیں تھا صرف اتنی بات ضرور ہے کہ وہ اپنے آپ کو فصاحت بیان میں حضرت ہارون علیہ السلام سے کم درجہ پر سمجھتے تھے ۔مگرجب اللہ تعالیٰ نے رسالت کا کام آپ کے سپر د کیا اورفرعون ک دربار میں آپ تشریف لے گئے ۔تووہاںآ پ کی فصاحت اورآ پ کے دلائل کی مضبوطی کی ایسی دھاک بیٹھی کہ فرعون جھنجلااٹھا اوراس نے سمجھا کہ اب مقابلہ کے لئے کوئی اجتماعی پروگرام مرتب کرنا چاہیئے ورنہ یہ لوگوں کو برگشتہ کردے گا ۔
ہم نے اپنی جماعت میں بھی دیکھا ہے کہ جب کو ئی شخص ا س اخلاص کے ساتھ احمدی ہوتاہے توباوجود اس کے کہ وہ ان پڑھ اورجاہل ہوتاہے احمدی ہوتے ہی اس کی زبان اس طرح کھل جاتی ہے کہ ابڑے بڑے مولوی اس کے ساتھ بات کرنے سے گھبرانے اورکترانے لگ جاتے ہیں ۔اس کی عقل پہلے سے تیز ہوجاتی ہے اوراس کی بحث کرنے کی قابلیت غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہے جس سے صاف پتہ لگتاہے کہ ان کا علم اپنانہیں بلکہ خداتعالیٰ کا عطاکیاہواہوتاہے جو ہرموقعہ پر ان کی تائید کرتا اورانہیںوقت پرایسی ایسی باتیں سمجھادیتاہے کہ حیرت آتی ہے ۔قادیان میں ایک شخص ’’پیرا‘‘ہواکرتاتھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خادم تھا وہ اتنی موٹی عقل کاآدمی تھا کہ سمجھ ہی نہیں سکتاتھاکہ احمدیت کیاہے ۔لیکن اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے ساتھ ایک ذاتی لگائو تھا ۔کہیں اس کو گنٹھیا کی بیماری ہوگئی ۔و ہ پہاڑی آدمی تھا اس کے رشتہ داروں کو بعض لوگوں نے کہا کہ یہاں ا س کاعلاج نہیں ہوسکے گا اسے کہیں میدانوں میں لے جائو ۔چنانچہ وہ اسے گورداسپورلے آئے ۔مگرچونکہ وہ سب غریب آدمی تھے اورایسے لوگوںکو روٹی بھی کھلانی پڑتی ہے اوردوائی بھی دینی پڑتی ہے اس لئے کوئی شخص علاج کرنے کے لئے تیارنہی ہوتاتھا۔آخر کسی نے ان کو بتایاکہ قادیان میں ایک مرزاصاحب ہیں جو بڑے خداپرست ہیں ۔وہ معالج اورحکیم بھی ہیں انکے پاس لے جائو وہ اس کی خبر گیری بھی کریں گے اوردوابھی دیں گے ۔چنانچہ اسکے رشتے دار اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپاس لے آئے اوراسے وہاں چھوڑ کر کھسک گئے ۔ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا علاج کیا اورآہستہ آہستہ اسے آرام آناشروع ہوگیا ۔جب اس کے رشتہ داروں کو معلوم ہواکہ اب وہ اچھا ہوگیاہے اورکام کاج کرسکتاہے۔ تودوسری سردیوں میں پھر اس کے رشتہ دار آئے اورانہوں نے کوشش کی کہ وہ ان کے ساتھ چل پڑے ۔مگرمعلوم ہوتاہے کہ اسکے قلب میں نیکی تھی ۔جب انہوں نے اسے کہا کہ ہم تجھے لینے کے لئے آئے ہیں توکہنے لگا۔تم بے شک میرے رشتہ دارہو مگر تم مجھے چھوڑ کرچلے گئے تھے ۔اس لئے اب توجس نے میراعلاج کیا اورجس کی وجہ سے میں اچھا ہوا۔میرارشتہ دار وہی ہے میں اسے چھوڑ کرنہیں جاسکتا۔وہ ڈیوڑھی پر پڑارہتاتھا اورجومہمان آتاتھا اس کی خدمت کرتاتھا۔اسی طرح گھرکامعمولی کام کاج بھی کردیاکرتاتھا ۔اس کی عقل کایہ حال تھاکہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اسے بڑامجبور کیاکرتے تھے کہ وہ نماز پڑھے مگر وہ یہی جواب دیتاتھاکہ مجھے نماز نہیں آتی ۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو بڑاجوش تھا کہ یہ حضرت مسیح موعودؑ کے دروازے پر بیٹھارہتاہے اورنمازیں نہیں پڑھتا لوگ اسے دیکھیںگے تو اعتراض کریں گے اسلئے آپ اسے بار بار نماز پڑھنے کی نصیحت کرتے تھے مگر وہ جواب دیتا مجھے نماز یاد ہی نہیں ہوتی ۔آخر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے تنگ آکر اسے فرمایا کہ نماز نہیں آتی توسبحان اللہ سبحان اللہ ہی کہہ لیا کرو۔چنانچہ اسکے بعد وہ کبھی ساتویں آٹھویں دن نماز میں شامل ہوجاتاتھا ۔اورسبحان اللہ سبحان اللہ کہتا رہتاتھا۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے ایک دن اس خیال سے کہ شاید انعام کے لالچ سے اسے نماز پڑھنے کی عادت ہوجائے ۔اسے فرمایا ۔پیرے اگرتم ایک دن پانچوں نمازیں وقت پر پڑھو اورایک نماز کابھی ناغہ نہ کرو۔تومیں تمہیں دوروپے انعام دوں گا دوروپے اس زمانہ میں اسکے لئے بڑابھاری انعام تھا ۔وہ کہنے لگا۔آج ضرور میں پانچوں نمازیں پڑھوں گا ۔شاید عشاء کاوقت تھا جب اس نے نماز شروع کی صبح ہوئی توپھر بھی اس نے ہمت کرکے نماز پڑ ھ لی ۔ظہر اورعصرمیں بھی کسی نہ کسی طرح شامل ہوگیا ۔ صرف مغرب کی نماز رہتی تھی ۔ان دنوں چونکہ مہمان تھوڑے ہواکرتے تھے اس لئے ان کا کھاناہمارے گھر تیارہواکرتاتھا ۔اورمغرب کے وقت ان کاکھاناگھرسے جایاکرتاتھا ۔اتفاق ایساہواکہ اس دن مغرب کی نماز نسبتاً دیر سے ہوئی ۔اورکھانالے جانے کا وقت ہوگیا۔جوعورت اند رسے کھانا لایاکرتی تھی اس نے پیرے کو آواز دی کہ پیرے کھاناتیارہے۔مہمانوںکے لئے لے جائو ۔ مگرپیرامسجد میں تھا ۔اوراس وقت نماز ہورہی تھی۔لیکن بلانے والی عورت کو اس کاعلم نہ تھا ۔اس نے دوچار آوازیں دیں مگرپیراوہاں ہوتا تو جواب دیتا ۔آخراس نے زورسے آواز دی کہ پیریاکھانالے جانہیں تومیں تیری شکایت کروں گی ۔یہ آواز چونکہ اس نے زور سے دی تھی ۔اس لئے پیرے نے بھی سن لی ۔جس پر اس نے نماز میں ہی جواب دیاکہ ’’ ٹھہرجا:التحیات پڑھ لواںتے آنداں۔‘‘یعنی ٹھہرجائو۔ابھی تشہّد پڑھ کرآتاہوں ۔گویا عین آخری تشہد میں و ہ بول پڑا اوراس طرح اس نے اپنے دوروپے کھودیئے۔تووہ بہت ہی موٹی عقل کا آدمی تھا ۔اتنی موٹی عقل کہ وہ اپنی بیوقوفی کیوجہ سے مہمانوں کو خوش کرنے کے لئے دال میں مٹی کاتیل ڈال کر کھالیا کرتاتھا اورجب لوگ کہتے کہ تم مٹی کا تیل کیوں ڈالتے ہو ۔توکہتا۔اس میں کیاحرج ہے ۔سرسوں کاتیل نہ ڈالاتو مٹی کا تیل ڈال لیا ۔اس وقت قادیان میں نہ تا رگھر تھا ۔اورنہ ریل آیاکرتی تھی۔اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کبھی تاردینے کی ضرورت پیش آتی یاکوئی ریلوے پارسل منگوانا ہوتا توآپ بٹالے کسی آدمی کو بھجوادیاکرتے تھے اورکبھی کبھی پیرے کو بھی اس غرض کے لئے بھیج دیتے تھے ۔ان دنوں مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی جو سلسلہ احمدیہ کے اشد ترین مخالفوں میں سے تھے اسٹیشن پرجایاکرتے تھے اورجب کسی نوواردمسلمان کو اترتے دیکھتے تواسے پوچھتے کہ وہ کہاں جاناچاہتاہے اورجب کسی کے متعلق معلوم ہوتا کہ وہ قادیان جاناچاہتاہے تواسے ورغلانے کی کوشش کرتے اورکہتے کہ یہیں سے واپس چلے جائو ۔قادیان میں جاکر تمہاراایمان خراب ہوجائے گا ۔ایک دن انہیں اورکوئی شکار نہ ملاتو انہوں نے پیرے کو ہی پکڑ لیا ۔وہ اس دن کوئی تاردینے یا کوئی بلٹی لینے کے لئے بٹالے گیاہواتھا ۔مولوی محمد حسین صاحب اسے کہنے لگے۔پیرے تیراتوایمان خراب ہوگیاہے ۔مرزاصاحب کافر اوردجال ہیں تواپنی عاقبت ان کے پیچھے لگ کر کیوں خراب کرتاہے ۔پیراان کی باتیں سنتا رہا ۔جب وہ اپنا جوش نکال چکے توانہوں نے اپنی باتوں کی پیرے سے بھی تصدیق کروانی چاہی اورانہوں نے اس سے پوچھا کہ بتائو میری باتیں کیسی ہیں ۔پیراکہنے لگا ۔مولوی صاحب ۔ میں توان پڑ ھ اورجاہل ہوں ۔مجھے نہ کوئی علم ہے اورنہ میں مسئلے سمجھ سکتاہوں ۔لیکن ایک بات ہے جو میں بھی سمجھ سکتاہوں اوروہ یہ کہ میں سالہاسال سے بلٹیاں لینے اورتار دینے کے لئے یہاں آتاہوں اورمیں دیکھتاہوں کہ آپ ہمیشہ اسٹیشن پرآکر لوگوں کو قادیان جانے سے منع کرتے ہیں۔آپ کی اب تک شایداس کوشش میں کتنی ہی جوتیاں گھِس گئی ہوں گی ۔مگرپھر بھی آپ کی کوئی نہیں سنتا ۔ اورمرزاصاحب قادیان میں بیٹھے ہیں پھر بھی لوگ ان کی طرف کھچے چلے جاتے ہیں۔آخر کوئی بات توہے جس کی وجہ سے یہ فررق ہے ۔اب دیکھو یہ کیسالطیف اورصحیح جواب ہے۔ وہ فی الحقیقت دینی مسائل کونہیں سمجھ سکتا تھا اوروہ نہیں جانتا تھا کہ دلائل کیا ہوتے ہیں ۔مگر فطرت کے لگائو اورمحبت کی وجہ سے اس نے فوراً سمجھ لیاکہ یہ شخص بہر حال جھوٹ بول رہاہے ۔تواللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بعض دفعہ ایسی باتیں سمجھا دیتاہے کہ انسان کی عقل دنگ ہوجاتی ہے کیونکہ اس کے پاس سارے سامان ہیں ۔اورجس چیز کی کمی ہووہ اس کے پاس موجود ہوتی ہے ۔عقل کی کمی ہوتووہ اس کے پاس موجود ہے جرأت کی کمی ہوتووہ اس کے پاس موجود ہے سخاوت کی کمی ہوتووہ اس کے پاس موجود ہے۔صحت کی کمی ہوتووہ اس کے پاس موجود ہے ۔مال کی کمی ہوتو وہ اس کے پا س موجود ہے۔غرض ہرچیز کے خزانے اس کے پا س موجود ہیں ۔اوروہ اپنے بندوں کو ان خزانوں میں سے ایسے رنگ میں حصہ دیتاہے کہ انسان حیران ہوجاتے ہیں ۔
حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ آتھم کے مباحثہ میں ہم نے جونظار ہ دیکھا اس سے پہلے توہماری عقلیں دنگ ہوگئیں اورپھر ہمارے ایمان آسمان پر پہنچ گئے ۔فرماتے تھے کہ جب عیسائی مباحثہ سے تنگ آگئے اورانہوں نے دیکھا کہ ہماراکوئی دائو نہیں چلاتوچند مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملاکرانہوں نے ہنسی اڑانے کے لئے یہ شرارت کی کہ کچھ اندھے کچھ بہرے کچھ لولے اورکچھ لنگڑے بلائے اورانہیں مباحثہ سے پہلے ایک طرف چھپا کر بٹھا لیا ۔جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے توجھٹ انہوں نے ان اندھوں بہروں اورلولوںلنگڑوںکونکال کر آ پ کے سامنے پیش کردیا ۔اورکہا زبانی باتوں سے جھگڑے طے نہیں ہوتے آپ کہتے ہیں میں مسیح ناصر ی کامثیل ہوں اورمسیح ناصری اندھوں کو آنکھیں دیاکرتے تے بہروں کو کان بخشاکرتے تھے اورلولوں لنگڑوں کے ہاتھ پائوں درست کردیاکرتے تھے ۔ہم نے آپ کو تکلیف سے بچانے کے لئے چند اندھے بہرے اورلولے لنگڑے اکٹھے کردیئے ہیں ۔اگر آپ فی الواقعہ مثیل مسیح ہیں تو ان کو اچھا کرکے دکھادیجئے ۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ہم لوگوںکے دل ان کی اس بات کو سن کر بیٹھ گئے اورگوہم سمجھتے تھے کہ یہ بات یوںہی ہے مگر اس خیال سے گھبراگئے کہ آج لوگوں کو ہنسی اورٹھٹھے کاموقعہ مل جائے گا ۔مگر جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرہ کو دیکھا توآپ کے چہرہ پر ناپسندیدگی اورگھبراہٹ کے کوئی آثار نہ تھے ۔جب وہ بات ختم کرچکے تو آپ نے فرمایا دیکھئے پاد ری صاحب میں جس مسیح کے مثیل ہونے کادعویٰ کرتاہوں اسلامی تعلیم کے مطابق وہ اس قسم کی اندھوںک بہروں اورلولوں لنگڑوںکواچھا نہیں کیاکرتاتھا مگرآپ کایہ عقیدہ ہے کہ مسیح جسمانی اندھوں جسمانی بہروں جسمانی لولوں جسمانی لنگڑوں کو اچھاکیاکرتاتھا اورآپ کی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر تم میں ایک رائی برابر بھی ایمان ہو اورتم کسی پہاڑ سے کہو کہ یہاں سے وہاں چلا جائے تووہ چلاجائے گا ۱؎۔اوراگر تم بیماروں پر ہاتھ رکھو گے توو ہ اچھے ہوجائیں گے ۲؎۔پس یہ سوال مجھ سے نہیں ہوسکتا میں تووہ معجزے دکھا سکتاہوں جو میرے آقاحضرت محمد مصطفیٰ صلی
۱؎ ۔متی باب ۱۷ آت ۲۱ و لوقا باب ۱۷ آیت ۶
۲؎ ۔مرقس باب ۱۶ آیت ۱۷ ،۱۸
اللہ علیہ وسلم نے دکھائے آپ ان معجزوں کامطالبہ کریں تومیں دکھانے کے لئے تیار ہوں ۔باقی رہے اس قسم کے معجزے سو آپ کی کتاب نے بتادیاہے کہ ہر وہ عیسائی جس کے اند رایک رائی کے برابر بھی ایمان ہو ویسے ہی معجزے دکھاسکتاہے جیسے حضرت مسیح ناصری نے دکھائے ۔سوآپ نے بڑی اچھی بات کی جو ہمیں تکلیف سے بچا لیااوران اندھوں بہروں لولوں اورلنگڑوں کو اکٹھاکرلیا اب یہ اندھے بہرے لولے اورلنگڑے موجود ہیں اگرآپ میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان موجود ہے توان کو اچھاکرکے دکھادیجئے آپ فرماتے تھے اس جواب سے پادریوں کو ایسی حیرت ہوئی کہ بڑے بڑے پادری ان لولے لنگڑوں کو کھینچ کھینچ کرالگ کرنے لگ گئے ۔تواللہ تعالیٰ اپنے مقربین کو ہرموقعہ پر عز ت بخشتا ہے ۔اوران کوایسے ایسے جواب سمجھاتاہے جن کے نتیجہ میں دشمن بالکل ہکا بکارہ جاتاہے ۔
قادیان میں ایک دفعہ پادری زویمر آیا جودنیا کامشہورترین پادری اورامریکہ کارہنے والاتھا ۔وہ وہاںکے ایک بہت بڑے تبلیغی رسالہ کا ایڈیٹربھی تھا ۔اوریوں بھی ساری دنیاکی عیسائی تبلیغی سوسائیٹیوں میں ایک نمایاں مقام رکھتاتھا ۔اس نے قادیان کابھی ذکر سناہواتھا ۔جب وہ ہندوستان میں آیا تواورمقامات کودیکھنے کے بعد وہ قادیان آیا اس کے ساتھ ایک اورپادری گارڈن نامی بھی تھا۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اس وقت زندہ تھے ۔انہوںنے اسے قادیان کے تمام مقامات دکھائے ۔مگرپادری آخر پادری ہوتاہے نیش زنی سے باز نہیں رہ سکتا۔ان دنوں قادیان میں ابھی ٹائون کمیٹی نہیں بنی تھی ۔اورگلیوں میں بہت گند پڑارہتاتھا۔پادری زویمر باتوں باتوں میں ہنس کرکہنے لگا ہم نے قادیان بھی دیکھ لیا اورنئے مسیح کے گائوں کی صفائی بھی دیکھ لی ۔ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسے ہنس کرکہنے لگے ۔پادری صاحب ابھی پہلے مسیح کی ہی ہندوستان پر حکومت ہے اوریہ اس کی صفائی کانمونہ ہے ۔نئے مسیح کی حکومت ابھی قائم نہیں ہوئی ۔اس پر وہ بہت ہی شرمندہ اورذلیل ہوگیا ۔پھر اس نے مجھے کہلا بھیجا کہ ۔میںآپ سے ملناچاہتاہوں میری طبیعت کچھ خراب تھی۔ میں نے جواب دیاکہ پادری صاحب بتائیں کہ وہ مجھے کیوں ملناچاہتے ہیں ۔انہوں نے کہا چند باتیں پوچھنا چاہتاہوں ۔مگرپہلے نہیں بتاسکتا۔خیر میں نے ان کو بلالیا ۔وہ بھی آگئے اورپادری گارڈن صاحب بھی آگئے ۔ ایک دودوست اوربھی موجودتھے۔ پادری زویمر صاحب کہنے لگے میں ایک دوسوال کرناچاہتاہوں ۔میں نے کہافرمائیے ۔ کہنے لگے اسلام کاعقیدہ تناسخ کے متعلق کیاہے ؟ آیاوہ اس مسئلہ کومانتاہے یاانکار کرتاہے ۔جونہی اس نے یہ سوال کیامعاً اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈال دیاکہ اس کا اس سوال سے منشاء یہ ہے کہ تم جومسیح موعود مسیح ناصری کابروز اوران کا مثیل کہتے ہو۔توآیا اس سے یہ مطلب ہے کہ مسیح ناصر ی کی روح ان میں آگئی ہے ۔اگر یہی مطلب ہے تو یہ تناسخ ہوا۔اورتناسخ کاعقید ہ قرآن کریم کے خلاف ہے چنانچہ میں نے انہیں ہنس کر کہا ۔پادر ی صاحب آپ کوغلطی لگ گئی ہے ہم یہ نہیں سمجھتے کہ مرزاصاحب میں مسیح ناصری کی روح آگئی ہے بلکہ ہم ان معنوں میں آپ کو مسیح ناصری کامثیل کہتے ہیں کہ آپ مسیح ناصری کے اخلاق اورروحانیت کے رنگ میں رنگین ہوکر آئے ہیں ۔میں نے جب یہ جواب دیا تواس کارنگ فق ہوگیااورکہنے لگاکہ آپ کو کس نے بتایا کہ میں نے یہ سوال کرناتھا ۔میں نے کہا آپ یہ بتائی کہ آیا آپ کااس سوال سے یہی منشاء تھا یا نہیں؟ کہنے لگا۔ہاں میرامنشاء تویہی دریافت کرناتھا ۔میں حیران تھا کہ جب قرآن تناسخ کے خلاف ہے تواحمدی مرزاصاحب کو مسیح موعود کس طرح کہہ سکتے ہیں ۔پھر میں نے کہا اچھا آپ دوسراسوال پیش کریں ۔کہنے لگا۔میرادوسراسوال یہ ہے کہ نبی کی بعثت کیسے مقام پر ہونی چاہیئے یعنی اس کو اپنا کام سرانجا م دینے کے لئے کس قسم کامقام چاہیئے ۔جونہی اس نے یہ دوسراسوال کیا ۔معاً دوبارہ خدانے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس سوال سے اس کامنشاء یہ ہے کہ قادیان ایک چھوٹاساگائوں ہے یہ دنیاکامرکز کیسے بن سکتاہے ۔اوراس چھوٹے سے مقام سے ساری دنیا میں تبلیغ کس طرح کی جاسکتی ہے ۔اگر حضرت مرزاصاحب کی بعثت کامقصدساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ پہنچانا ہے توآپ کو ایسی جگہ بھیجنا چاہیئے تھا جہاں ساری دنیامیں آواز پہنچ سکتی ہو ۔نہ یہ کہ قادیان جو ایک چھوٹاساگائوں ہے اس میں آپ کو بھیج دیاجاتا۔غرض اللہ تعالیٰ انے اس کے سوال کے معاً بعد یہ بات میرے دل میں ڈال دی اورمیں نے پھر اسے مسکراکر کہا۔پادری صاحب ناصرہ یا ناصرہ سے بڑاکوئی شہر ہو وہاں نبی آسکتاہے ۔حضرت مسیح ناصری جس گائوں میں ظاہرہوتے تھے اس کانام ناصر ہ تھا اورناصر ہ کی آبادی بمشکل دس بارہ گھروں پر مشتمل تھی۔ میرے اس جواب پر پھراس کارنگ فق ہوگیا ۔اوروہ حیران ہواکہ میں نے اس کی اسی بات کا جواب دیدیا جو درحقیقت اس کے سوال کے پس پردہ تھی ۔اس ک بعد اس نے تیسراسوال کیا جو اس وقت مجھے یاد نہیں رہا۔بہرحال اس نے تین سوال کئے اورتینوں سوالات کے متعلق قبل از وقت اللہ تعالیٰ نے القاء کرکے مجھے بتادیاکہ اس کا ان سوالات سے اصل منشاء کیاہے اورباوجود اس کے کہ وہ چکر دے کر پہلے اورسوال کرتاتھا پھر بھی اللہ تعالیٰ اس کااصل منشاء مجھ پرظاہر کردیتا ۔اوروہ بالکل لاجواب ہوگیا تواللہ تعالیٰ قلوب پر عجیب رنگ میں تصرف کرتا اوراس تصرف کے ماتحت اپنے بندوں کی مدد کیا کرتاہے ۔اوریہ تصرف صرف خداتعالیٰ کے اختیار میں ہوتاہے بندوں کلے اختیارمیں نہیں ہوتا۔ایک دفعہ ایک کج بحث ملا مجھے مسجد میں ملا ۔اورکہنے لگامجھے مرزاصاحب کی صداقت کا ثبوت دیجئے۔ میں نے کہا قرآن موجود ہے ساراقرآن مرزاصاحب کی صداقت کاثبوت ہے ۔کہنے لگا کونسی آیت ۔میں نے کہا قرآ ن کی ہر آیت مرزاصاحب کی صداقت کاثبوت ہے ۔اب یہ توصحیح ہے کہ قرآن کی ہرآیت ہی کسی نہ کسی رنگ میں نبی پر چسپاں ہوسکتی ہے ۔مگر بعض آیات ایسی ہیں کہ ان کاسمجھا نا اوریہ بتاناکہ کس رنگ میں اس سے نبی کی صداقت کاثبوت نکلتاہے بہت مشکل ہوتاہے ۔فرض کرو کسی آیت میں لڑائی کاواقعہ بیا ن ہو توگواب اس سے بھی نبی کی صداقت ثابت کی جاسکتی ہے مگروہ ایسارنگ ہوتاہے جوعام طبائع کی سمجھ سے بالاہوتاہے۔مگر مجھے اس وقت یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ تصرف فرماکر اس کی زبان سے وہی آیت نکلوائے گا جس سے نہایت وضاحت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہوجائے گی۔ خیر وہ اصرا رکرتارہا کہ آپ کوئی آیت بتائیں ۔مگر میں یہ کہوں کہ آپ کوئی آیت پڑھ دیں ۔اسی سے میں حضرت مرزاصاحبؑ کی صداقت ثابت کردوں گا ۔آخر اس نے یہ آیت پڑھی کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَاھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ(بقرہ آیت ۹)میں نے سمجھ لیاکہ یہ اللہ تعالیٰ کاہی تصرف ہے کہ اس نے اس کی زبان سے یہ آیت نکلوائی ہے چنانچہ میں نے اس سے کہا ۔یہ آیت کن لوگوں کے متعلق ہے۔ مسلمانوں کے متعلق ہے یاغیر مسلمانوں کے متعلق ۔اس کا اصل سوال یہ تھا کہ جب مسلمان نمازیں پڑھتے ہیں اورروزے رکھتے ہیں حج کرتے ہیں اورخدااوراس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں توان کے لئے کسی نبی کی کیا ضرورت ہے ۔جب اس نے یہ آیت پڑھی تومیں نے اس سے پوچھا کہ یہ آیت کن لوگوں کے متعلق ہے ۔اس نے کہا ۔مسلمانوں کے متعلق ۔میں نے کہاتوپھریہ آیت بتاتی ہے کہ مسلمانوں میں سے بھی بعض لوگ خراب ہوجاتے ہیں ۔وہ منہ سے توکہتے ہیں ہم مومن ہیں مگر درحقیقت وہ مومن نہیں ہوتے ۔اورقرآن یہ بتاتاہے کہ خالی اپنے آپ کو مومن کہہ دینا کافی نہیں جب تک انسان اپنے عمل سے بھی ایمان کاثبوت نہ دے ۔اب آپ ہی بتائیں کہ جب مسلمان بھی بگڑ سکتے ہیں توکیا خداتعالیٰ ان کی اصلاح کے لئے کسی نبی کو بھیجے گایانہیں بھیجے گا؟دلوں کوتسلی دینا تو خداکاکام ہے مگر اس کی زبان بندہوگئی اوروہ اس بات کاکوئی جواب نہ دے سکااوراس بات کامیرے دل میں پہلے ہی یقین تھا کہ جو آیت اس کے منہ سے نکلے گی وہ وہی ہوگی جس سے اس کی زبان بند ہوجائے گی توعلم بھی خداکے اختیار میں ہے ۔جرأت بھی خداکے اختیار میں ہے ۔عزت بھی خداکے اختیار میں ہے اورطاقت بھی خداکے اختیا رمیں ہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ خیال کیا کہ میں فرعون کے دربار میں کہاں بول سکوں گا ۔مگر جب وقت آیاتواللہ تعالیٰ نے آپ کی ایسی تائید فرمائی کہ فرعون دنگ رہ گیا اوراسے دلائل کے میدان میں موسیٰ علیہ السلام کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دینے پڑے ۔
اس موقعہ پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ جوفرمایاکہ فَاَرْسَلْ اِلیٰ ھَارونَ تُواپنا پیغام ہارون کی طرف بھیج۔اس سے یہ مراد نہیںکہ تومجھے مبعوث نہ کر بلکہ جیساکہ سورئہ طٰہٰ سے معلوم ہوتاہے ۔انہوں نے یہ دعاکی تھی کہ وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًامِّنْ اَھْلِیْ ھَارونَ اَخِیْ اشْدُدْبِہٖ اَزْرِیْ وَاَشْرِکْہُ فِیْٓ اَمْرِیْ (طٰہٰ آیت ۳۰تا۳۳)یعنی اے میرے خدا! میرے اہل میں سے ہاورن کو جو میرابھائی ہے میرانائب تجویز کراوراس کے ذریعہ سے میری طاقت کو مضبوط فرما اوراسے میرے کام میں شریک کر ۔پس اَرْسِلْ اِلیٰ ھَارونَ کے یہ معنے ہیں کہ میرے علاوہ اس کی طرف بھی کلام بھیج اوراسے بھی میرے ساتھ مبعوث فرما۔اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی مقدس انسان کو نبوت کا مقام عطاکیاجاتاہے تووہ انکسار کی وجہ سے گھبراتاہے اورخیال کرتاہے کہ ایسانہ ہومیں اس عظیم الشان ذمہ واری کو پوری طرح ادانہ کرسکوں ۔اوراس میں میری طرف سے کوئی خامی اورنقص رہ جائے ۔یہی طریق تما م انبیاء کاہے اوراسی طریق سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی کام لیااورکہدیاکہ ہارونؔ کو بھی میرے ساتھ شامل کردیجئے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی احادیث سے ثابت ہے کہ آپؐ نے ابتداء میں انکسار سے کام لیا اور جب فرشتے نے کہا اِقْرَئْ یعنی پڑھ۔توآپؐ نے یہی فرمایا کہ مَااَنَا بِقَارِیئِ۔ میں توپڑھے لکھے آدمیوں میں سے نہیں ہوں۔اس وجہ سے میں نے کیاکام کرناہے ۔اوراسی بناء پر ابتدائی ایام میں آپ کو شدید گھبراہٹ رہی ۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی متواتر تائیدات نے آپ کوایسے مقام پر کھڑاکردیا کہ آپؐ نے سمجھ لیا اب میرافرض ہے کہ میں آگے کی طرف بڑھتاچلاجائوںاورکسی مشکل کی پرواہ نہ کروں مگرآپ کاعرفان چونکہ موسوی عرفان سے بہت زیادہ تھا اس لئے آپ نے یہ نہیںکہاکہ مجھے کوئی مددگار دیاجائے ۔بلکہ آپؐ کے لئے ہی ا س بوجھ کواٹھانے کے لئے تیار ہوگئے ۔حالانکہ آپ کے سپر دجوکام تھا وہ موسیٰ کے کام سے بہت بڑاتھا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک ایسی قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے جومتمدن تھی اورمتمدن لوگوں کودینی علوم سکھانا۔ان میں نظام قائم کرنا اوران کے اند رجماعتی روح پیداکرنا نسبتاً آسان ہوتاہے مگررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی قوم کی طرف آئے تھے جوتمدن اورتہذیب سے بالکل ناآشنا تھی۔ یہاں تک کہ اطاعت جو دنیامیں مہذب قومو ں کاشعارسمجھا جاتاہے وہ ان کے نزدیک سخت ذلت کی بات تھی چنانچہ عرب کی ادب کی کتب میں لکھا ہے کہ عرب میں ایک بادشاہ عمروابن ہند تھا ۔اس نے ایک علاقہ پر جو شام اورعراق کی طر ف تھا اپنی حکومت قائم کی ۔اورعرب کے لحاظ سے اس قدر شوکت حاصل کرلی کہ اسے یہ خیال پیداہواکہ ساراعرب میری بات مانتاہے ۔ ایک دن درباریوں سے ا س نے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ کیاعرب میں کوئی ایساشخص ہے جو میری بات ماننے سے انکار کرسکے ۔ و ہ اس بات کوخوب سمجھتا تھا کہ عرب کے لوگ اطاعت کرنانہیں جانتے ۔مگراس نے خیال کیاکہ مجھے ایسارعب حاصل ہوگیاہے کہ اب عرب کاکوئی شخص کم از کم میری بات ماننے سے انکار نہیں کرسکتا ۔انہوں نے کہا ۔ایک شخص عمر و ابن کلثوم ہے ۔جو اپنے قبیلے کاسردار ہے ۔ہمارے خیا ل میں وہ ایساشخص ہے جو آپ کی اطاعت نہیں کرے گا ۔اس نے کہا ۔بہت اچھا میں اس کی تصدیق کرنے کے لئے اسے بلواتاہوں ۔چنانچہ بادشاہ نے عمر وابن کلثوم کو دعوت دی اوراسے خط لکھاکہ آپ یہا ں تشریف لائیں آپ سے ملنے کو جی چاہتاہے ۔چنانچہ وہ اپنے قبیلہ کے کچھ لوگوںکو لے کر آگیا ۔جیسے عرب کادستورتھا بادشاہ اس وقت کسی جگہ خیموں میں ٹھہراہواتھا۔ وہیں اس نے آکر اپنے خیمے لگادیئے ۔اس نے عمروابن کلثوم کو یہ بھی لکھا تھا کہ اپنی والدہ اوردوسرے عزیزوں کو بھی لیتے آنا ۔چنانچہ وہ اس کے مطابق اپنی والدہ کوبھی لے آیا ۔ عمروابن ہندنے اپنی والدہ سے کہا کہ کام کرتے کرتے عمر و ابن کلثوم کی ماں سے کوئی چھوٹاساکام لے کردیکھنا تاپتہ لگ سکے کہ ان لوگوں کی کیاحالت ہے ۔چنانچہ جب وہ کھاناکھانے بیٹھے تو عرب کے دستورکے مطابق گووہ بادشاہ کہلاتاتھا مگر اس کی ماں خود کھانا تقسیم کرنے بیٹھ گئی ۔اپنے بیٹے کے لئے بھی اورعمروابن کلثوم کے لئے بھی ۔ گویاعمروابن ہندکی والدہ اس وقت عملاً عمروابن کلثوم اوراوراس کے دوسرے عزیزوں کاکام کررہی تھی پس ایسے وقت میں عمرو ابن کلثوم کی ماںکا کسی کام میں ہاتھ بٹانا ہرگز اس کی ہتک کاموجب نہیں ہوسکتاتھا کیونکہ جب بادشاہ کی ماں خود ایک کام کررہی تھی تواس کام میں عمر و ابن کلثوم کی ماں کا ہاتھ بٹاناکوئی ایسی بات نہیں تھی جو اس کی شان اورعزت کے منافی ہوتی ۔مگرواقعہ کیاہوتاہے ۔کھاناتقسیم کرتے وقت ایک تھال کچھ فاصلے پر پڑاتھا۔عمرو ابن ہند کی والدہ کھاناتقسیم کرتے کرتے اسے کہنے لگی ۔بی بی ذراوہ تھال توسِرکاکر ادھرکردینا ۔اسے بھی یہ جرأت نہیں ہوئی کہ اس سے زیادہ اسے کوئی کام کرنے کے لئے کہے ۔مگرتاریخوں میں لکھاہے کہ جونہی اس نے عمرو ابن کلثوم کی والدہ سے یہ بات کہی ۔وہ کھڑی ہوگئی اوراس نے زورسے پکار ناشروع کردیا کہ ’’ او ابن کلثوم ! تیری ماںکی ہتک ہوگئی ہے ‘‘ عمروابن کلثوم اس وقت بادشاہ کے ساتھ کھاناکھارہاتھا اورشاہی اعزاز کی وجہ سے وہ اپنے ہتھیار خیمہ میں ہی چھوڑ آیاتھا ۔مگرجونہی اس نے اپنی ماں کی اس آوازکوسنا۔اس نے اپنی ماں سے جاکر یہ نہیں پوچھا کہ تمہاری کیا ہتک ہوئی ہے ۔ گھبراکر کھڑاہوگیا اورادھر اُدھر دیکھنے لگ گیا ۔خیمہ میں بادشاہ کی تلوار لٹک رہی تھی ۔ا س نے اُچک کر تلوار کو میان سے نکالااور بادشاہ کو قتل کردیا۔پھر باہر نکل کراس نے اپنے قبیلہ والوں سے کہا ۔بادشاہ کا سب مال و متاع لوٹ لو ۔چنانچہ اس کا سب مال و متاع لوٹ کر وہ اپنے وطن کی طرف واپس چلا گیا۔
ایسی اُجڈاوروحشی قوم کی طر ف جو بالکل بے راہ رَو تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمائے گئے۔ اورپھر موسیٰ کی طرح آپ کادائرہ ہدایت صرف بنی اسرائیل تک محدود نہیں رکھاگیا بلکہ آپ کے سپرد تمام دنیا کو دین واحد پرجمع کرنے اورانہیں خداتعالیٰ کے آستانہ پر لاڈالنے کاکام کیاگیا ۔مگراتناعظیم الشان کام سپرد ہونے کے باوجود آپ نے یہ نہیں کہا کہ اے اللہ! میرے رشتہ داروں یا دوستوں میں سے کوئی ساتھی میرے ساتھ کردے ۔بلکہ آپ حکم ملتے ہی کھڑے ہوگئے اورکہا کہ بہت اچھااورکام شروع کردیا ۔گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو اپنی انفرادیت پر پورابھروسہ نہ کرتے ہوئے ساتھی کا مطالبہ کیا ۔اوراگرچہ ایک ساتھی مل جانے سے اجتماعیت نہیں ہوجاتی لیکن تاہم اتنی ڈھارس ضرور ہوجاتی ہے کہ میں اکیلا نہیں بلکہ میرے ساتھ ایک اورساتھی بھی ہے۔ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انفرادیت کے کمال کا مظاہرہ کیا اور اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی کہ دنیا آپؐ سے کیا سلوک کرتی ہے ۔ بہرحال موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارونؑ کو اپنامددگار مقررکرنے کی درخواست کی جواللہ تعالیٰ نے قبول فرمالی ۔مگر وہی موسیٰؑ جنہوں نے خداتعالیٰ کے سامنے یہ عذر کیاتھاکہ میری توزبان نہیں چلتی جب فروعون کے دربارمیں گئے ۔تواللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی قو ت بیانیہ عطافرمائی کہ آپ خود ہی فرعون کے تمام سوالات کے جواب دیتے چلے گئے اورحضرت ہارون علیہ السلام کو بولنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔یہ بالکل ایسی ہی بات ہے ۔جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جب انصا راورمہاجرین میں خلافت کے متعلق اختلاف پیداہوا۔اورحضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمر ؓ وغیر ہ ثقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے توحضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس موقعہ پر تقریرکرنے کے لئے اپنے ذہن میں ایک بہت بڑامضمون تیار کیا ہواتھا ۔اورمیراارادہ تھاکہ میں جاتے ہی ایسی تقریر کروں گا کہ تمام انصار میرے دلائل کے قائل ہوجائیں گے اوروہ اس بات پر مجبور ہوجائیں گے کہ انصار کی بجائے مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کریں۔ مگرجب ہم وہاں پہنچے تو حضرت ابو بکرؓ نے تقریر شروع کردی ۔میں نے اپنے دل میں کہا کہ انہوںنے بھلا کیابیان کرناہے مگرخداکی قسم جتنی باتیںمیں نے سوچی ہوئی تھیں وہ سب انہوں نے بیان کردیں بلکہ ان کے علاوہ انہوں نے اپنے پاس سے بھی بہت سے دلائل دیئے ۔تب میں نے سمجھا کہ امیں ابوبکر ؓ کامقابلہ نہیں کرسکتا۔اسی طرح حضر ت موسیٰ علیہ السلام یہ سمجھتے تھے کہ مجھ سے فرعون کے دربارمیں کہاں بولاجائے گا ۔مگرجب وہاں پہنچے تواللہ تعالیٰ نے آپ کی ایسی تائید فرمائی کہ حضرت ہارون علیہ السلام کو ایک لفظ تک بولنا نہ پڑا اوراس طرح خداتعالیٰ نے اپنے انتخاب کی عظمت کو ظاہر کردیا۔اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک اورعذر کیا اورکہا۔کہ وَلَھُمْ عَلَیَّ ذَنْبٌ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ وہ لوگ مجھ پر ایک گناہ کاالزام لگاتے ہیں ۔سومیں ڈرتاہوں کہ وہ کہیں مجھے قتل ہی نہ کردیں ۔اس کے یہ معنے نہیں کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام خداتعالیٰ کی راہ میں اپنی جان دینے سے ڈرتے تھے بلکہ انہیں اس بات کا خوف تھاکہ کہیں ایسانہ ہو کہ فرعون مجھے جاتے ہی گرفتار کرلے اوراس وجہ سے کہ میرے ہاتھ سے ایک قطبی ماراجاچکاہے میرے قتل کے احکام صادر کردے اورخداتعالیٰ کا پیغام اسے نہ پہنچ سکے۔ گویاانہیں اپنی موت کا غم نہیں تھا بلکہ انہیں اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں انہیں اپنے فرائض کی بجاآوری سے پہلے ہی قتل نہ کردیاجائے اوراس طرح اس مشن کو نقصان نہ پہنچے جو خداتعالیٰ نے ان کے سپرد کیا تھا ۔ورنہ انبیاء خداتعالیٰ کی راہ میں اپنی جان دینے سے نہیں ڈرتے۔ بیشک جہاں تک نبیوں کاوجود ان کی امت کے مقابلہ میں ہوتاہے وہ بہت بڑی حیثیت رکھتے ہیں ۔اتنی بڑی حیثیت کہ اگر ساری دنیا کی جانیں بھی ایک نبی کی جان بچانے کے لئے قربان کرنی پڑیں تووہ قربان کی جاسکتی ہیں ۔مگرجہاںتک صداقت کاسوال ہے نبی بھی اسی طرح صداقت کا خادم ہوتاہے جس طرح اس کاعام پیرو صداقت کاخادم ہوتاہے اگر کسی سلسلہء روحانیہ کے پہلے اورآخری نبی کے علاوہ کہ جن پر سلسلہ کا انحصارہوتاہے کوئی اورنبی ماراجاتاہے یاجلاوطن کردیاجاتاہے لیکن اس کی پیش کردہ صداقت دنیاسے نہیں مٹتی تواس کاماراجانایا وطن سے بے وطن ہوجانا ہرگزقا بل اعتراض نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ نبی کے مقابلہ میں صداقت حاکم ہوتی ہے او رنبی خادم۔ جس طرح نبی کے مقابلہ میں امت خادم ہوتی ہے اورنبی حاکم ۔جس طرح نبی کے مقابلہ میں اگر ساری دنیا بھی تباہ کردی جائے تو کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔اسی طرح اگر خداتعالیٰ کا پیغام دنیا تک پہنچ جائے توپھر بے شک نبی شہید ہوجائے ۔اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔کیونکہ وہ اس غرض کے لئے آیاتھا کہ صداقت دنیا میں پھیلائے ۔پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس خدشہ کا اظہار اپنی موت کے خوف سے نہیں کیا بلکہ اس لئے کیا کہ کہیں صداقت دنیاسے مٹ نہ جائے ۔اورخداتعالیٰ کاپیغام پہنچانے سے پہلے ہی وہ اس کے ظلم واستبداد کا شکار نہ ہوجائیں ۔
وَلَھُمْ عَلَیَّ ذَنْبٌ کے الفاظ بتارہے ہیں کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام سے جویہ فعل سرزد ہواتھا محض ایک اتفاقی حادثہ تھا ۔جو خداتعالیٰ کی نگاہ میں آپ کومجرم بنانے والانہیں تھا۔کیونکہ ذَنْبٌ ہر ایسے فعل کو کہتے ہیں جس کانتیجہ خراب نکلے خواہ شرعی نقطہ نگاہ سے وہ انسان کو مجرم بنانے والانہ ہو (مفردا ت) مگراس سے بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقام کا فرق ظاہرہوجاتاہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ان کی بعثت سے پہلے ایک الزام لگایاگیاخواہ وہ جھوٹاہی تھا ۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی بعثت سے پہلے بھی تمام لوگ امین اورصدوق کہتے اورآپ کی نیکی اورانصاف اوردیانتداری کے قائل تھے ۔ بہرحال یہ حادثہ چونکہ ایسا تھا جس میں فرعونی قوم کا ایک آدمی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے ماراگیاتھااورفرعون کے وزراء نے اپ کے قتل کو قتلِ عمد کا مرتکب قرار دے کرچاہاتھاکہ آپ کو قتل کردیاجائے جس کے نتیجہ میں آ پ کومصر سے بھا گ کر مدین میں پناہ گزین رہنا پڑا اس لئے آپ نے اس فعل کو ذنب قرار دیا ۔اوراس خدشہ کااظہار فرمایاکہ ایسانہ ہو کہ وہ میرے اس فعل کی بناپر مجھے جاتے ہی گرفتارکرلیں اورمجھے قتل کردیں۔یہ واقعہ قرآن کریم میں اس طرح بیان کیاگیاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ رات کے وقت شہر میں پھر رہے تھے کہ انہوںنے دوآدمیوںکو آپس میں لڑتے اوردست وگریبان ہوتے دیکھا ۔ان میں سے ایک ان کی قوم کا فرد تھا اورایک ان کی دشمن یعنی فرعونی قوم کافردتھا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر ان کی قوم کے آدمی نے انہیں آواز دی اوراپنی مدد کے لئے بلایا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام آگے بڑھے اورانہوںنے مخالف شخص کو ایک مکّامارا۔مکّایاتواسے زیادہ زور سے ماراگیایااس شخص کا دل اورجگرکمزورتھااورمکا اس کے دل اورجگرپر لگا۔بہرحال اس کانتیجہ یہ ہواکہ وہ گرگیا اوراس کی جان نکل گئی دوسرے دن و ہ صبح کے وقت پھر شہر کی گشت کے لئے نکلے ۔تواچانک کیادیکھتے ہیں کہ وہی شخص جو کل ان سے مدد مانگ رہاتھا آج پھر کسی اورسے لڑ رہاہے اورموسیٰؑ کو اپنی مددکے لئے بلارہاہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب دیکھا کہ کل بھی یہی شخص لڑرہاتھا اورآج بھی یہی لڑرہاہے توسمجھا کہ یہ کوئی جوشیلا آد می معلوم ہوتاہے ورنہ کیاوجہ ہے کہ ہرشخص اسی کو مارنے کے لئے اٹھ کھڑاہو۔چنانچہ آپ نے اسے کہا کہ دوسرے شخص کاقصورتوہوگا ۔مگرتم بھی بہت جوشیلے معلوم ہوتے ہو۔اس کے بعد انہوں نے چاہاکہ آگے بڑھ کر دوسرے شخص کامقابلہ کریں ۔مگراس نے سمجھا کہ چونکہ ابھی انہوں نے مجھے ڈانٹاہے اسلئے شاید یہ مجھے ہی مارنے کے لئے آگے بڑھے ہیں ۔چنانچہ اس نے بے سوچے سمجھے چلّاچلّاکر کہنا شروع کردیاکہ اے موسی! کیا تویہ چاہتاہے کہ جس طرح کل تونے ایک شخص کوماراتھا اسی طرح مجھے بھی مار دے ۔اس کے اس شورسے ارد گردکے لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ کل جو آدمی ماراگیاہے و ہ موسیٰؑ نے ہی ماراتھا ۔اورچونکہ مقتول فرعونی قوم کاآدمی تھا ۔اس لئے یہ خبر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اورتمام قوم میں ایک جوش پیداہوگیا ۔یہاں تک کہ یہ خبر ذمہ دار افسروں تک پہنچ گئی اورانہوں نے متفقہ طورپر فیصلہ کیاکہ موسیٰؑ کو قتل کردیاجائے ۔اس پر انہی سرداران قوم میں سے ایک شخص جودرپردہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مخلصانہ تعلقات رکھتاتھا دوڑاہواآیااوراس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ سرداران قوم تیرے قتل کامشورہ کررہے ہیں اس لئے میر ی نصیحت یہ ہے کہ فوراً اس شہر سے نکل جائو ۔چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام شہر سے نکلے اورکئی منزلیں طے کرنے کے بعد مدین میں جانکلے ۔پس وَلَھُمْ عَلَیَّ ذَنْب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا اوراس خدشہ کااظہار کیاکہ وہ لو گ اس واقعہ کی بناپر مجھے قتل نہ کردیں ۔اس سے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ظاہرہے کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تواللہ تعالیٰ سے اپنی حفاظت کا وعدہ لیا ۔لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کچھ بولے کھڑے ہوگئے اورآپؐ نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کسی قسم کی تکلیف کی پرواہ نہ کی ۔بہرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اس خدشہ کااظہار کیا تواللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ایساہرگز نہیں ہوسکتا۔تم دونوں ہمارے نشانات کے ساتھ فرعون کے پاس جائو اوریاد رکھو کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اورہمیشہ تمہاری دعائوں کو سنتے رہیں گے ۔جب بھی تمہیں کوئی مشکل پیش آئے تم میرے حضورجھکواوردعائیںکرو۔میں اسی وقت تمہاری مدد کے لئے دوڑاچلاآئوں گا تمہاراکام یہ ہے کہ تم فرعون کے پاس جائو اوراس سے کہوکہ ہم رب العالمین خداکے رسول ہیں ۔اورہم اس لئے آئے ہیں کہ توبنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزادکرکے ہمارے ساتھ روانہ کر دے ۔
اِنَّارَسُولُ رَبِّ العَالَمِیْنَ پر بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہاں موسیٰؑ اورہارونؑ کاذکر ہے مگرآگے یہ فرمایاگیاہے کہ ہم دونوں رب العالمین کی طرف سے رسول ہیں ۔حالانکہ دوآدمیوں کے لئے رَسُوْلاَنِ کا لفظ استعمال کیاجاتاہے رسول کالفظ استعمال نہیں کیاجاتا ۔ا س کاجواب یہ ہے کہ عرب لوگ کبھی کبھی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ھٰذَانِ رَسُوْلِیْ وَوَکِیْلِیْ وَھٰؤُلَائِ رَسُولِیْ وَوَکِیْلِیْ یعنی یہ دویاسب سے سب میرے رسول اوروکیل ہیں (فتح البیان جلد ۸ ص ۶)اسی طرح قرآن کریم میں بھی دوسری جگہ یہ محاور ہ استعمال کیا گیاہے چنانچہ حضر ت ابراہیم علیہ السلام بتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں فَاِنَّھُمْ عَدُوٌّ لِّیْٓ اِلَّا رَبَّ العٰلَمِیْنَ(شعراء ع ۵)یعنی یہ سب کے سب رب العالمین کے سوامیرے دشمن ہیں حالانکہ عام عربی قواعد کے لحاظ سے یہ کہنا چاہیئے تھا کہ یہ سب میرے اعداء ہیں مگراللہ تعالیٰ نے یہاں اَعْدَائَ کالفظ نہیں بلکہ عَدُوٌّ کالفظ رکھا ہے جومفرد ہے۔ پس اس آیت پر نہ عربی زبان کے لحاظ سے کوئی اعتراض ہوسکتاہے اورنہ محاورئہ قرآن کے لحاظ سے کوئی اعتراض ہوسکتاہے ۔
اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ میں اَنْ تفسیری بھی ہوسکتاہے اور اَنْ مصدری بھی ہوسکتاہے ۔مصدری ہونے کی صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ نَحْنُ مُرْسَلُوْنَ لِنُرْسِلَ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ ہم خداتعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کو ساتھ لے جانے کے لئے رسول بناکربھیجے گئے ہیں ۔اس موقعہ پر قرآن کریم اوربائیبل کے ایک اختلاف کا ذکردینابھی ضروری معلوم ہوتاہے ۔بائیبل میں لکھا ہے۔کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہا کہ
’’تُو اسرائیلی بزرگوں کو ساتھ لے کر مصر کے بادشاہ کے پاس جانا اوراس سے کہنا کہ خداوند عبرانیوں کے خداکی ہم سے ملاقات ہوئی اب تُو ہم کو تین دن کی منزل تک بیابان میں جانے دے تاکہ ہم خداوند اپنے خداکے لئے قربانی کریں ۔‘‘(خروج باب ۳ آیت ۱۸)
گویا نعوذ باللہ خداتعالیٰ نے ایک رنگ میں حضرت موسیٰؑ اورہارونؑ کو دھوکا کی تعلیم دی ۔اورکہا کہ فرعون کو اگر صاف طور پر کہہ دیاگیا کہ ہم بنی اسرائیل کو اس ملک سے نکال کر لے جاناچاہتے ہیں تووہ اس کی جازت نہیں دے گا۔اس دھوکا اورفریب سے اس سے اجازت حاصل کی جائے کہ ہم اپنے خداکے لئے قربانی کرناچاہتے ہیں اس لئے ہمیں مصر سے نکلنے کی اجازت دی جائے ۔جب وہ اس کی اجازت دیدے تو اس بہانہ سے تمام بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے کر مصر سے نکل جانا۔لیکن قرآن کریم کہتاہے کہ یہ بات غلط ہے۔ ہم نے موسیٰؑ اورہاورنؑ کو صاف طور پرکہہ دیاتھا کہ فرعون سے جاتے ہی مطالبہ کردینا کہ ْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْل بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دیاجائے کیونکہ اب ان پرمظالم کی انتہاہوچکی ہے ۔کسی دھوکا اورفریب کی ہم نے انہیں تعلیم نہیں دی تھی ۔
ْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْل کے الفاظ یہ بھی بتاتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک مختص القوم نبی تھے جو صرف بنی اسرائیل کو غلامی کی ان زنجیروں سے آزادکرانے کے لئے آئے تھے جن میں سینکڑوں سال سے جکڑے چلے آتے تھے۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کہ فضیلت عطافرمائی کہ آپ کسی ایک قوم کی طرف نہیں بلکہ تمام دنیا کی طرف رسول بناکر بھیجے گئے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًاوَّنَذِیْرًا(سبا آیت ۲۹) یعنی اے محمدؐ رسول اللہ ! ہم نے تجھے تمام بنی نوع انسان کے لئے بشیر اورنذیر بناکربھیجاہے ۔اورمیں عربی اورغیر عربی یامشرقی اورمغربی کا کو ئی امتیاز نہیں ۔دنیا کے ہرشخص کا خواہ وہ کسی ملک کارہنے والاہو اورخواہ وہ کوئی زبان بولنے والا ہو ۔ فرض ہے کہ وہ تیرے پیغام کو قبول کرے اورتیری ہدایات کے تابع چلے ۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے ملک میں پیداہوئے تھے جو تمام دنیا سے منقطع تھا ۔ وہ ملک تمدن کے لحاظ سے بھی کمزور تھا ۔علمی لحاظ سے بھی کمزور تھااورسیاسی لحاظ سے بھی کمزور تھا ۔ اس کمزور ترین ملک میں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کمزورترین انسان تھے ۔لیکن خداتعالیٰ نے آپ سے کہا کہ ہم نے تجھے تمام دنیاکی طرف رسول بنا کر مبعوث کیا ہے۔
اگرہم اس فقرہ کی صحیح ترجمانی کریں توا سکے معنے یہ ہوں گے کہ خداتعالیٰ نے محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ۔اے میرے رسول! توکہدے کہ میں کینیڈا کی ہدایت کے لئے آیا ہوں جس کو تم جانتے بھی نہیں ۔میں یونائیٹڈ اسٹیٹس امریکہ کی ہدایت کے لئے بھیجاگیاہوں جو ابھی آباد بھی نہیں ہوئیں۔ مجھے خداتعالیٰ نے برازیل،کیوبا،بولیویا، چلّی،کولمبیااورمیکسیکو کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایاہے جنہیں ابھی کوئی جانتابھی نہیں اوربالکل ویران پڑے ہیں اورکسی آئندہ زمانہ میں آباد ہوںگے ۔میں جاپا ن اورفلپائن کی اصلاح کے لئے بھیجا گیاہوں جن کو کوئی نہیںجانتا بلکہ میں ان ملکوںکی ہدایت کے لئے بھی مامو رکیاگیاہوں جوابھی دریافت بھی نہیں ہوئے ۔غرض اس آیت کو پھیلاکر دیکھا جائے توانسان محو حیرت ہوجاتاہے ۔آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس دعویٰ کو پوراکرنے کے کونسے سامان تھے ۔آپ کے پاس کونسے ہوائی جہاز تھے ک جن کے ذریعہ سے آپ امریکہ جاتے ۔کینیڈا جاتے ۔برازیل، کولمبیا اوربولیویاجاتے ۔پھر آپ کے پاس وہ کون سے ذرائع تھے کہ جن سے آپ اپنی تعلیم کو اپنی وفات کے بعد بھی ممتد کئے جاتے جب تک وہ ملک دریافت نہ ہوتے آپ وہاں جاہی کیسے سکتے تھے ۔لوگ بات کرتے ہیں توان کے بیٹے بھول جاتے ہیں اوراگر بیٹے یاد رکھتے ہیں تو پوتے بھول جاتے ہیں ۔اگر پوتے یاد رکھتے ہیں تو پڑپوتے بھول جاتے ہیں ۔مگر یہ ملک تو اس وقت دریافت بھی نہیں ہوئے تھے۔آپؐ کی وفات کے نوسوسال بعد امریکہ دریافت ہوا۔لیکن فرض کرو۔اس وقت امریکہ دریافت بھی ہواہوتا توآپ کے پاس کونسی گارنٹی تھی کہ آپ کا دعویٰ پوراہوجائے گا۔ہمیں تویہی نظر آتاہے کہ لوگ اپنے بچے قربان کرتے ہیں اپنے بھائی قربان کرتے ہیں اپنا عیش اورآرام قربان کرتے ہیں ۔بعض ناجائز باتوں کے لئے قربانیاں کرتے ہیں ۔بعض جائز اوراچھی باتوں کے لئے قربانیاں کرتے ہیں لیکن ان کے نتائج بہت محدود ہوتے ہیں اوران محدود نتائج کا بھی کوئی ذمہ وار نہیں ہوتا۔ مگر محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاجس طرح دعویٰ تمام دنیاسے نرالاتھا ۔اسی طرح آپؐ کا بدلہ بھی نرالاتھاچنانچہ باوجود اس کے کہ آپؐ کے پاس کوئی ایسے سامان نہیں تھے جن سے آپ اپنا پیغام دنیاکے تمام ممالک تک پہنچا سکتے ۔پھر بھی خداتعالیٰ نے آپ کو ابیض و اسود اوراحمر و اصفر سب میں قبولیت بخشی اورآپ کادین مختلف قوموں اورملکوں میں پھیلنا شروع ہوا۔یہاں تک کہ وہ دنیا کے کناروں تک پھیل گیا ۔چنانچہ آج چین میں کروڑوں مسلمان ہیں ۔انڈونیشیا میں نوے فیصدی مسلمان ہیں ۔انڈین یونین میں پچیس تیس فیصدی مسلمان ہیں ۔پھر افغانستا ،ایران ،برما ،شام ،فلسطین ،ایبے سینا ،وسطی افریقہ،شمالی و جنوبی افریقہ ،مغربی و مشرقی افریقہ ،امریکہ ،ایشیا اوریورپ کے بہت سے علاقوں میں لاکھوں کروڑوں مسلمان پائے جاتے ہیں ۔غر ض محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ نمایا ں امتیاز حاصل ہے کہ آپ تمام دنیاکی طر ف مبعوث کئے گئے جبکہ موسیٰؑ صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث کئے گئے ۔
چونکہ بنی اسرائیل کی غلامی کااصل باعث فرعون کا پنجہء استبداد تھا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرعون او راس کی قوم کی طرف موسیٰ کو بھجوایا اوراسے توجہ دلائی کہ بنی اسرائیل کو مظلومیت کی پکار ہمارے عرش تک پہنچ چکی ہے اب تمہارے لئے سوائے اس کے اورکوئی راستہ نہیں کہ تم اپنے فولادی پنجہ کی گرفت کو ڈھیلا کردو اوربنی اسرائیل کو آزاد کردو ورنہ خداتعالیٰ کے فرشتے آسمان سے تلواریں لے کراتریں گے اوروہ تمہیں اس جرم کی عبرتناک سزادیں گے ۔
قال الم نربک فینا ولیداولبثت فینامن عمرک سنین٭
اس (فرعون ) نے کہا (اے موسیٰ)کیاہم نے تجھ کو اس وقت نہیں پالا جبکہ توابھی بچہ تھا ۔اورتونے ہم میں اپنی عمرکے بہت سے سال
وفعلت فعلتک التی فعلت وانت من الکٰفرین٭
گذارے ہیں ۔اورتونے وہ کام بھی کیاہے جو تو کرچکا ہے ۔اورتُو(ہمارے احسانوں کا)ناشکر گذار ہے۔
قال فعلتھا اذاوانامن الضالین٭
(موسیٰ نے )کہا وہ کام(جس کا تونے اشارہ کیاہے)میں نے اس وقت کیاتھا جبکہ میں اپنی قوم کی محبت میں سرشار تھا
ففررت منکم لما خفتکم فوھب لی ربی حکما وجعلنی من المرسلین٭
پس جب مجھے تم سے ڈر محسوس ہواتومیں تم سے بھاگ کر چلاگیا۔اس پرمیرے رب نے مجھے حکم (یعنی عہدئہ نبوت)عطافرمایا اورمجھے رسولوں میں سے (ایک رسول )بنادیا ۔
وتلک نعمۃ تمنھا علی ان عبدت بنی اسرائیل٭
اوریہ(بچپن میں مجھے پالنے کی )نعمت جسکا تم احسان جتاتے ہو کیایہ اس بات کے مقابل میں پیش کیاجاتی ہے کہ تم نے بنی اسرائیل کی ساری قوم کو غلام بنا چھوڑاہے ۔۶؎
۶؎ تفسیر۔فرماتاہے ۔جب فرعون نے موسیٰؑ اور ہارونؑ کا یہ پیغام سُنا۔ تونہایت ڈھٹائی سے کہنے لگا۔ اے موسیٰؑ! وہ دن بھول گئے جب ہم تجھے پالا کرتے تھے۔ اور جب کہ تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہم میں گذارے ۔ اب تجھے بھی باتیں کرنی آگئی ہیں اور توجو ہمارے ٹکڑوں پر پلا ہے۔ اب ہمیں ہی نصیحت کرنے کے لئے آگیا ہے ۔یہ الفاظ اس نے موسیٰؑ کی تحقیر کے لئے اسی طرح کہے جس طرح فقیہیوں اورفریسیوں نے جب مسیحؑ کو کوچوں اور بازاروں میں تبلیغ کرتے اور خدائے واحد کا نام بلند کرتے دیکھا تو انہوںنے کہا:۔
’’ کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں۔اور اُس کی ماں کانام مریم اور اس کے بھائی یعقوب اور یوسف اور شعون اور یہودہ نہیں۔ اور کیا اس کی سب بہنیں ہمارے ہاں نہیں۔پھر یہ سب کچھ اس میں کہاں سے آیا ۔اور انہوں نے اس کے سبب سے ٹھوکر کھائی ۔‘‘
(متی باب ۱۳آیت ۵۵,۵۶)
جس طرح فریسیوں کے لئے یہ بات حیرت کا موجب تھی کہ یہ شخص جو ایک بڑھئی کا بیٹا ہے اور جس کی تمام بہنیں ہمارے ہاں بیاہی ہوئی ہیں ہمیں وعظ اور نصیحت کرنے کے لئے آگیا ہے۔ اسی طرح فرعون کے لئے بھی یہ بات حیرت کا موجب ہوئی کہ موسیٰ جسے اس کی ماں نے ہم سے ڈرتے ہوئے سمندر کی طوفانی موجوں میں پھینک دیا تھا اورجسے بچا کر ہم نے اپنے گھروں میں رکھا اور اس کی پرورش کی وہی ہمارے ٹکڑے کھانے کے بعد آج نعوذ باللہ ایسا طوطا چشم نکلا ہے کہ میری طاقت اور عظمت کا اس نے ذرا بھی پاس نہیں کیا اورا س نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ میں اس کی غلامی اختیار کروں ۔فرعون اس وقت موسیٰؑ کی ابتدائی حالت اور اپنے موجودہ عروج کو دیکھ رہاتھا ۔ مگر وہ اس بات کو بھول گیا کہ بعض دفعہ ایک چھوٹا سا بیج بویا جاتا ہے کہ دنیا حیران ہوجاتی ہے ۔اور بعض دفعہ ایک چیز ابتداء میں نہایت اہم نظر آتی ہے لیکن اس کا انجام اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ انسان حیران ہوجاتا ہے کہ ایک چھوٹی سی بات کو اتنی اہمیت اورعظمت کیوں دے دی گئی تھی ۔مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوجہل قریباً ہم عمر تھے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ایسی حالت میںہوئی کہ آپؐ کے والد آپ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہوچکے تھے ۔اگر وہ زندہ بھی ہوتے تو پھر بھی وہ کوئی مالدار آدمی نہیںتھے ۔آپؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب بھی امیر لوگوں میں سے نہ تھے اور گو آپ آسودہ حال ضرور تھے لیکن چونکہ آپ ایک سخی آدمی تھے ۔اس لئے آخری عمر میں آپ کی دولت بہت کم ہوگئی تھی ۔ پس اول تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان کوئی امیر خاندان نہ تھا دوسرے آپ خصوصیت سے غریبانہ حالت میں پیدا ہوئے ۔ آپ ؐ کے والد آپؐ کی پید ائش سے پہلے ہی فوت ہوچکے تھے۔پس آپ کی پیدائش پر آپ کی والدہ نے کیا خوشی کی ہوگی ۔ آپ کی والدہ کے پاس کچھ تھا ہی نہیں ۔لوگ تو دنیا کو دیکھتے ہیں ۔مال اور دولت کو دیکھتے ہیں ۔جہاں روپیہ ہوتا ہے وہاں جمع ہوجاتے ہیں مگر آپ کی والدہ کے پا س روپیہ نہیں تھا۔ شاید آپ کے قریبی رشتہ دار مبارکباد دینے کے لئے آگئے ہوں۔مگر دوسرے لوگوں نے آپ کی پیدائش کوکوئی اہمیت نہیں دی ۔لیکن ابو جہل کاباپ مالدا رتھا ۔جب و ہ پیداہواہوگا اس کے ماں باپ نے کتنی خوشیاں منائی ہوں گی ۔ابوجہل کانام ابوالحکم تھا یعنی حکمتوں کاباپ۔عقلمند دانا اورمدبّر ۔لیکن بعد میں اس نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید مخالفت کی اورحماقت کا اظہار کیا تو مسلمانوں نے اس کانام ابوجہل رکھ دیا۔ابوجہل کے ماں باپ چونکہ مالدارتھے ۔اس لئے جب وہ پیداہواہوگا ۔توہرشخص جس کی ضروریات ان سے وابستہ ہوں گی ان کے گھر پہنچا ہوگا اوراس کی پیدائش پر مبارکباد دی ہوگی اورکہا ہوگا ہماراملک کتنا ہی خوش قسمت ہے کہ جس میں اس جیسابچہ پیداہوا۔اس کے چہر ہ سے ہی معلوم ہوتاہے کہ اس کے اقبال کا ستارہ کتنا بلند ہے۔غرض ا سکی تعریف میں لوگوں نے ہزاروں مبالغے کئے ہوں گے معلوم نہیں ا سکی پیدائش پر کتنے اونٹ ذبح کرکے دعوتیں کی گئی ہوں گی ۔خوشی میں دفیں بجائی گئی ہوں گی ۔عورتوں نے گیت گائے ہو ںگے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر آپ کے گھر کے پاس سے گذرنے والے یہ خیال کرتے ہوں گے کہ ایک غریب کے ہاں بچہ پیداہواہے جو خود بخود ختم ہوجائے گا۔لیکن ابو جہل کی پیدائش پر اس کے گھر کے پاس سے گذرنے والے یہ سمجھتے ہوں گے کہ آج ایک رئیس پیداہواہے ۔نہ معلوم بڑا ہوکر یہ کیا کچھ کرے گا۔غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتداء بظاہر ایک اد نیٰ رنگ میں ہوئی لیکن انتہاکیا ہوئی ؟ وہی بچہ جس کو دائیاں لینے کے لئے تیار نہیں تھیں ۔جس کی پیدائش پر مکہ والوں نے کوئی نوٹس نہیں لیاتھا جب فوت ہواتوعرب کی تاریخ میں ہی نہیں ساری دنیا کی تاریخ میں ایک غیر معمولی حیثیت رکھتا تھا ۔گویاآپ پر یہ الٰہی نوشتہ اپنی پوری شان کے ساتھ صادق آیا کہ
’’ وہ پتھر جسے معماروں نے ناپسند کیا وہ کونے کاسراہوا۔‘‘ (مرقس باب۱۲ آیت ۱۰و لوقاباب ۲۰آت ۱۷)
سارے عرب قبائل آپ کے زیر سایہ تھے جو آپ سے پہلے کسی بادشاہ کے مطیع نہیں ہوئے تھے۔ پھر بادشاہوں کو جوظاہری عظمت حاصل ہوتی ہیح اس کی وجہ سے ڈر کے مارے لوگ ان کی بڑائیاں بیا نکرتے ہیں لیکن دل میں انہیں ہزاروں ہزار گالیاں دیتے ہیں ۔ بادشاہ جب مرجاتے ہیں توبے شک ان کوموت سے ملک کوصدمہ بھی ہوتاہے لیکن لوگ یہی کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ اگر مر گیاہے تو کو ئی دوسر اشخص بادشاہ بن جائے گا اوروہ وہی کام شروع کردے گا جو پہلا بادشاہ کرتاتھا ۔انگریزی میں ایک مثل ہے :۔
KING NEVER DIES یعنی بادشاہ کبھی نہیں مرتے ۔ایک بادشاہ مرجاتاہے تودوسراکھڑاہوجاتاہے اورپہلے بادشاہ اوردوسرے بادشاہ میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوتا۔اگر قوم بیدار ہوتی ہے تودوسرے بادشاہ کے وقت میں بھی وہ ترقی کرتی چلی جاتی ہے ۔لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ نہیں کہاجاسکتا ۔آپ کی وفات کو تمام عر ب نے جو اس وقت آپ کی خوبیوں ،اہمیت اورعظمت کا قائل ہوچکا تھا ایک انسان کی موت خیال نہیں کیا ۔ملک کی موت خیال نہیں کیا ۔بلکہ دنیا کی موت خیال کیا ۔ چنانچہ حسان بن ثابتؓ نے آپ کی وفات پر جو شعر کہے وہ یہ ہیں کہ ؎
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرُ
مَنْ شَائَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اَحَاذِرُ
یعنی اے محمد رسو ل اللہ!آپ تو میری آنکھوں کی پتلی تھے آپ کی وفات نہیں ہوئی بلکہ میری آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں ۔اب کوئی شخص مرتاپھر مجھے اس سے کیا ۔میں تو آپ ؐکے متعلق ہی ڈرتاتھا ۔یہ وہ جذبہء عقیدت تھا جو آپ کے متعلق صحابہؓ میں پایا جاتاتھا ۔حسان بن ثابت ؓ نے ایک شاعرانہ کلام ہی نہیں کہا بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ تمام عرب نے حسان بن ثابتؓ کے ان شعروں کو اپنے ہی جذبات ا اظہار خیال کیا ۔گویا عرب کی آواز حسان بن ثابتؓ کی زبان پر جاری ہوگئی ۔تاریخ کہتی ہے کہ ہفتوں تک مدینہ مکہ اوردوسرے مسلمان شہروں والے اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے بازاروں میں چلتے ہوئے اوراپنے کاروبار کرتے ہوئے یہی شعر پڑھتے تھے کہ
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرُ
مَنْ شَائَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اَحَاذِرُ
لیکن ابو جہل جس کی پیدائش پر ہفتوں اونٹ ذبح کرکے لوگوں میں گوشت تقسیم کیاگیا تھا جس کی پیدائش پر دفوں کی آواز سے مکہ کی فضاگونج اٹھی تھی ۔بد رکی لڑائی میں جب ماراجاتاہے تو پندرہ پندرہ سال کے دوانصار ی چھوکرے تھے جنہوں نے اسے زخمی کیا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جب جنگ کے بعد لو گ واپس جارہے تھے ۔تومیں میدان میں زخمیوں کو دیکھنے کے لئے چلا گیا ۔آپ بھی مکہ کے ہی تھے اس لئے ابوجہل آپ کو اچھی طرح جانتاتھا ۔آپ فرماتے ہیں کہ میں میدان جنگ میں پھر ہی رہاتھا کہ کیا دیکھتاہوں کہ ابو جہل زخمی پڑاکراہ رہاہے ۔جب میںاس کے پاس پہنچا تواس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں اب بچتانظر نہیں آتا تکلیف زیادہ بڑھ گئی ہے ۔تم بھی مکہ والے ہو میں یہ خواہش کرتاہوں کہ تم مجھے مار دوتامیری تکلیف دور ہوجائے لیکن تم جانتے ہوکہ میں عرب کا سردار ہوں اورعرب میں یہ رواج ہے کہ سرداروں کی گردنیں لمبی کرکے کاٹی جاتی ہیں اوریہ مقتو ل کی سرداری کی علامت ہوتی ہے ۔میری یہ خواہش ہے کہ تم میری گردن لمبی کرکے کاٹنا ۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کی گردن ٹھوڑ ی سے کا ٹ دی اورکہا کہ تیری یہ آخری حسرت بھی پوری نہیں کی جائے گی۔ اب انجام کے لحاظ سے دیکھوتوابوجہل کی موت کتنی ذلت کی موت تھی ۔جس کی گر دن اپنی زندگی میں ہمیشہ اونچی رہاکرتی تھی ۔وفات کے وقت اس کی گردن ٹھوڑی سے کاٹی گئی اوراس کی یہ آخری حسر ت بھی پوری نہیں ہوئی ۔پھرچونکہ کفار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستہ میں گڑھے کھوداکرتے تھے اورمسلمانوںکو پتھروں پر گھسیٹتے تھے اورآپؐ کی یہ پیشگوئی تھی کہ ایک دن ان کفارکو بھی بالوں سے پکڑ پکڑ کرگھسیٹاجائے گااس لئے بد ر کی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو حکم دیاکہ کفار کی لاشوں کو ایک اندھے کنوئیں میں گردیاجائے ۔آپؐ کے اس حکم کے مطابق صحابہؓ نے کفار کی لاشوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر ایک اندھے کنوئیں میں پھینک دیا ۔غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورابوجہل دونوں کو پیدائش اوروفات کو دیکھاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ پیدائش کے وقت جو ناقابل التفات نظر آتاتھا وفات کے وقت وہ سید عرب بنا ۔لیکن جو سید عرب نظر آتاتھا وفات کے وقت وہ نہایت ہی ذلیل وجو د ثابت ہوا۔غرض بعض دفعہ ایک چیز کی ابتداء اورہوتی ہے اورانتہا اور۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی جب پیداہوئے توآپ کے ماں باپ نے آپ کی پیدائش پر خوشی کی ہوگی۔مگر جب آپ کی عمر بڑی ہوگئی اورآپ کے اندر دنیا سے بے رغبتی پیداہوگئی توآپ کے والدآپ کی اس حالت کو دیکھ کرآہیں بھراکرتے تھے کہ ہمارایہ بیٹاکسی کام کے قابل نہیں ۔مجھے ایک سکھ نے بتایاکہ ہم دوبھائی تھے ہمارے والد صاحب بڑے مرزاصاحب (یعنی مرزاغلام مرتضیٰ صاحب) کے پاس آیاکرتے تھے ۔اورہم بھی بسااوقات ان کے ساتھ آجایاکرتے تھے ایک دفعہ مرزاصاحب نے ہمارے والد صاحب سے کہا کہ تمہارے لڑکے غلام احمد (علیہ الصلوٰۃ والسلام )کے پاس آتے جاتے ہیں تم ان سے کہوکہ جا کرسمجھائیں ۔ہم دونوں جب آپ کے پا س جانے کے لئے تیار ہوگئے تومرزاصاحب نے کہا کہ غلام احمد (علیہ السلام )کو باہر جاکرکہنا کہ تمہارے والد صاحب کو اس خیال سے بہت دکھ ہوتاہے کہ اس کاچھوٹالڑکا اپنے بڑے بھائی کی روٹیوں پر پلے گا ۔اسے کہوکہ میری زندگی میں ہی کوئی کام کرے ۔میں کوشش کررہاہوں کہ اسے کوئی اچھی نوکری مل جائے میں مرگیا توپھر سارے ذرائع بند ہوجائیں گے۔ اس سکھ نے بتایا کہ ہم مرزاغلام احمد صاحب (علیہ الصلوٰۃ والسلام ) کے پا س گئے اورکہا کہ آپ کے والد صاحب آپ کابہت خیال رکھتے ہیں ۔انہیں یہ دیکھ کر کہ آپ کچھ کام نہیں کرتے بہت دکھ ہوتاہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ اگر میں مرگیا توغلام احمد کاکیا بنے گا ۔ آپ اپنے والد صاحب کی بات کیوں نہیں مان لیتے ۔ آپ کے والد صاحب اس وقت کپو رتھلہ میں کوشش کررہے تھے اورکپور تھلہ کی ریاست نے آپ کو ریاست کاافسر تعلیم مقررکرنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔وہ سکھ کہنے لگا کہ جب ہم نے یہ بات کہی کہ آپ اپنے والد صاحب کی بات کیوں نہیں مان لیتے آپ کچھ کام کرلیں توآپ نے فرمایا والد صاحب تویونہی غم کرتے رہتے ہیں انہیں میر ے مستقبل کاکیوں فکر ہے میں نے جس کی نوکری کرنی تھی کرلی ہے۔ ہم واپس آگئے اور مرزاغلام مرتضیٰ صاحب سے آکر ساری بات کہہ دی ۔مرزاصاحب نے فرمایاکہ اگر اس نے یہ بات کہی ہے توٹھیک کہا ہے وہ جھوٹ نہیں بولاکرتا۔
یہ آپؑ کی ابتداء تھی اورابھی توانتہانہیں ہوئی لیکن جوعارضی انتہانظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی وفات کے وقت ہزاروں ہزار آدمی آپ پر قربان ہونے والا موجود تھا ۔آپ خو دفرماتے ہیں ؎
لُفَاظَاتُ المَوائِدِ کَانَ اُکُلِیْ
وَصِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامُ الْاَھَالِیْ
ایک وہ زمانہ تھا جب بچے ہوئے ٹکڑے مجھے دیئے جاتے تھے اورآج میرایہ حال ہے کہ میں سینکڑوں خاندانوںکوپال رہاہوں۔ آپ کی ابتداء کتنی چھوٹی تھی مگرآپ کی انتہا ایسی ہوئی کہ علاوہ ان لوگوں کے جو خدمت کرتے تے لنگر میں روزانہ دواڑھائی سوآدمی کھاناکھایاکرتے تھے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ اپنے والد کی جائیداد میں اپنے بھائی کے برابر کے شریک تھے۔لیکن زمینداروں میں یہ عام دستور ہے کہ جو کام کرے وہ توجائیداد میں شریک سمجھاجاتاہے اورجوکام نہیں کرتا وہ جائیداد میں شریک نہیں سمجھاجاتااوریہ دستورابھی تک چلاآتاہے ۔لوگ عموماً کہہ دیتے ہیں کہ جو کام نہیں کرتا اس کاجائیداد میں کیا حصہ ہوسکتاہے ۔آپ کے پاس جب کوئی ملاقاتی آتااورآپ اپنی بھاوجہ کو کھانے کے لئے کہلا بھیجتے تووہ آگے سے کہہ دیتیں کہ وہ یونہی کھاپی رہاہے ۔کام کاج توکرتانہیں ۔ اس پر آپ اپنا کھانااس مہمان کو کھلادیتے اورخود فاقہ کرلیتے یا چنے چباکر گذارہ کرلیتے ۔خداکی قدرت ہے کہ وہی بھاوجہ جو اس وقت آپ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں بعد میں میرے ہاتھ پر احمدیت میں داخل ہوئیں ۔غر ض اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کوئی کام شروع کیاجاتاہے تو اس کی ابتداء بڑی نظر نہیں آیاکرتی لیکن ا سکی انتہاپر دنیا حیران ہوجاتی ہے۔
فرعون نے بھی موسیٰؑ کو ان کی ابتدائی کس مپرسی کا حوالہ دیا اورکہاکہ تم مجھے کیانصیحت کرسکتے ہو ۔تمہاری توخود ہمارے خاندان نے پرورش کی ہے ۔حالانکہ دنیا میں کبھی کسی چیز کی ابتداء کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس کی انتہاپر نظر ڈالی جاتی ہے ۔بڑ کے بیج کو دیکھ کر اگرکوئی شخص اسے بے حقیقت خیال کرتاہے تووہ نادان ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کروہ نادان ہے جو اپنی آنکھوں سے بڑ کے درخت کا اس قدر پھیلائو دیکھے کہ سینکڑوں آدمی اس کے سایہ تلے آرام کررہے ہوںاورپھر بھی وہ اس کے سایہ میں بیٹھنے سے انکار کردے محض اس لئے کہ اس کا بیج کسی زمانہ میں ایساحقیر تھا کہ ہواکاایک معمولی جھونکا بھی اسے پرے پھینک دیتاہے۔بہرحال فرعون نے ایسی ہی حماقت کی اورموسیٰؑ کو اس بات کاطعنہ دیاکہ تُو ہمارے گھروں میں پلتارہاہے ۔وہ اس بات کو بھول گیاکہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ سنت چلی آرہی ہے کہ وہ اپنے نبیوں کو دشمنوں کے زیرسایہ ہی ترقی عطاکیاکرتاہے ۔حضرت مسیح ناصریؑ نے روماکی حکومت کے سایہ تلے پرورش پائی اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن میں ثقیف قوم میں پرورش پائی جس نے ابرہہ کو خانہ کعبہ گرانے کے لئے راہنمادیئے تھے۔گویا وہی قوم جس نے خانہ کعبہ کوگرانے کے لئے اپنی خدمات پیش کی تھیں اللہ تعالیٰ نے اسی قوم کے زیر سایہ اس مقدس انسان کو جگہ دی جودعائے ابراہیمی کا مصداق اورخانہ کعبہ کا مقصودتھا۔ اسی طرح خدانے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو حبشہ کی عیسائی حکومت کے سایہ تلے پناہ دی حالانکہ اسی حکومت کے ایک گورنر ابرہہ نے بیت اللہ پرحملہ کیاتھا۔ موجودہ زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے پھر اسی تدبیر سے کام لیااورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انگریزوں کے زیر سایہ رکھاحالانکہ آپ عیسائیت کی بیخکنی کے لئے مبعوث فرمائے گئے تھے ۔نادان لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں ۔مگروہ نہیں دیکھتے کہ کیا خدانے موسیٰؑ کو فرعون کے زیر سایہ نہیں رکھا ۔کیاخدانے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو ایک عیسائی حکومت کے زیرسایہ نہیں رکھا ۔کیاخود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ثقیف قوم کے زیرسایہ نہیں رکھا ۔پھراگران کاوہاں پرورش پانا قابل اعتراض امر نہیں توحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاانگریزوں کے زیر سایہ ترقی کرنا کس طرح قابل اعتراض ہوگیا۔ یہ تواللہ تعالیٰ کانشان ہے کہ وہ اپنے انبیاء کو خود ان کے دشمنوں کے زیرسایہ رکھ کر ترقی عطافرماتاہے اوراس طرح دنیا پرثابت کردیتاہے کہ اس کے ارادوں کوکوئی شخص روک نہیں سکتا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ پر ہی غو ر کرکے دیکھ لو کجا یہ کہ فرعون نے حکم دے دیاتھا کہ بنی اسرائیل کاکوئی بچہ زندہ نہ رہے اورکجایہ کہ تصرف الٰہی کے ماتحت اس نے خو د اپنے گھرمیںحضر ت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش کی ۔گویاوہی جس کی خاطر بچے مارے جاتے تھے اس کی چھاتیوں پر چڑھ کرموسیٰ بڑھا اورپھولااورپھلا اورآخراسی موسیٰ کی مخالفت نے فرعون کو تباہ و برباد کردیا کیونکہ حضرت موسیٰ کی والدہ نے خداتعالیٰ کی بات پر اعتبار کرکے اپنے بچے کو دریامیں ڈال دیاتھا ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والد ہ نے کئی قسم کی احتیاطوں کے ساتھ ان کو دریا میں ڈالا مگر کون ہے جو اس سے سوگنازیادہ احتیاط کرکے بھی اپنے بچہ کو دریامیں پھینکنے کے لئے تیار ہوسکتاہے ۔انہوں نے خداکاحکم پوراکرنے کے لئے اس موت کو قبول کرلیا ۔ جس کانتیجہ یہ ہواکہ خدانے موسیٰ کو ہمیشہ کے لئے زندہ کردیا اوروہ جس کے متعلق خطرہ تھاکہ دریا کی لہروں میں کہیں غرق نہ ہوجائے خدااسے بچاکر فرعون کے گھر میں ہی لے گیا۔اوراس کی روٹیا ںکھاکھاکر اوراس کے گھر کادودھ پی پی کراوراسی کے کندھوں پرچڑھ چڑھ کراس نے تربیت حاصل کی ۔اورآخرایک دن وہ تمام بنی اسرائیل کو فرعون کے پنجہ سے بچاکرلے آیا ۔اورفرعون اپنے لائولشکر سمیت غرق ہوگیا۔اسی پرورش کا اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طعنہ دیااورپھر کہا کہ وَفَعَلْتَ فَعْلَتَکَ الَّتِیْ فَعَلْتَ وَاَنْتَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ۔اس دوران میں تجھ سے وہ فعل بھی سرزد ہواجس کا تجھے خوب علم ہے یعنی قبطی قوم کا ایک آدمی تیرے ہاتھ سے ماراگیااورتویقیناناشکروں میں سے ہے ۔
اس جگہ اَنْتَ مِنَ الَکَافِرِینَ سے مراد یہ نہیں ہے کہ توکافروں میں سے ہے ۔بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ توسخت ناشکرانکلاکہ تونے ایک محسن قوم کاآدمی مارڈالا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ پہلے تمام حالات پرغورکرواورپھر الزام لگا ئو بے شک یہ فعل مجھ سے سرزد ہواہے مگر فَعَلْتُھَااِذًّاوَاَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَ مجھ سے یہ فعل ایسی حالت میں سرزد ہواتھا جبکہ میں اپنی قوم کی محبت میں سرشارتھا یعنی جب میں نے دیکھا کہ ایک دشمن قوم کا فرد میری قوم کے ایک آدمی کو بلاوجہ ماررہاہے تومجھے اپنی مظلوم قوم کے ایک فرد کی حمایت میں جوش آگیا اورمیں نے ظالم کامقابلہ کیاجس کے نتیجہ میں وہ نادانستہ طورپر ہلاک ہوگیا ۔
یہ واقعہ جس کی طر ف فرعون نے اشار ہ کیا وہی ہے جس کااوپر ذکر کیاجاچکا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک رات ایک قبطی کو دیکھا کہ وہ ایک اسرائیلی سے لڑرہاہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس سے گذرے تواسرائیلی نے حضرت موسیٰ کو دیکھ کرانہیں اپنی مدد کے لئے پکارا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی سمجھا کہ اگر میں نے اسرائیلی کی مدد نہ کی تووہ ماراجائے گا چنانچہ انہوں نے آگے بڑھ کر قبطی کو ایک گھونسامارا۔اب یاتوجوش کی حالت میں وہ گھونسازیادہ زور سے مار بیٹھے یااس کادل کمزور تھا گھونساکہ لگتے ہی وہ مرگیا۔اس واقعہ کافرعون انہیں طعنہ دیتاہے اورکہتاہے کہ ہم نے توتجھے بچوں کی طرح پالااورتونے ہمارے ہی آدلی کو ماردیا ۔اورناشکری کا نمونہ دکھایا ۔حضر ت موسیٰ علیہ السلام اسے جواب دیتے ہیں کہ پہلے سب حالات پر غور کر و اورپھر الزام لگائو ۔یہ تودرست ہے کہ میرے ہاتھ سے ایک آدمی ماراگیا لیکن سوال یہ نہیں کہ آدمی ماراگیایانہیں ۔سوال یہ ہے کہ آیامیرااسے مارنے کا ارادہ تھایانہیں ۔اگرحالات سے یہ ظاہرہوتاہے کہ یہ واقعہ ایساتھا جس میں فوری مدد کی ضرورت تھی ۔توایسی حالت میں اگرمیں نے اپنی قوم کے ایک مظلوم فرد کی مدد کی توگو اتفاقی طورپر ایک آدمی مربھی گیا۔لیکن پھر بھی میں قصوروار کس طرح ہوا۔میراقصور توتب ہوتا جب میں جانتے بوجھتے ہوئے محض قتل کرنے کی نیت سے اسپر حملہ کرتا ۔مگر جبکہ میراارادہ اسے قتل کرنے کا تھا ہی نہیں تواگر نادانستہ طور پر ایک آدمی مرگیا تویہ بات مجھے مجرم بنانے والی کس طرح ہوگئی ۔مگر بہرحال چونکہ میں نے ایک مظلوم قوم کے فرد کی حمایت کی تھی ۔اورحاکم قوم کاایک فردماراگیا تھااس لئے مجھے ڈرپیداہواکہ میرے معاملہ میں انصاف سے کام نہیں لیاجائے گااورمجھے سزادینے کی کوشش کی جائے گی ۔چنانچہ میں تمہارے ملک کوچھوڑ کرمار گیا مگر میرے رب نے جو میرے دلی خیالات کوجانتاتھا ۔مجھے بر ی قرار دیا اورمجھے شریعت عطافرمائی اورمجھے اپنارسول بناکرکھڑاکردیا ۔باقی رہاوہ احسان جو توجتارہاہے کہ ہم نے تجھے پالا ۔سوکیا یہ احسان اس جرم کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت رکھتاہے کہ تم نے اپنے باپ رعمیس ثانی کے زمانہ سے سارے بنی اسرائیل کو اپنی غلامی میں جکڑ رکھا ہے اورتم انہیں بے کار میں پکڑ کر ان سے بڑے بڑے مشقت طلب کام لیتے ہو ۔ اوران پرایسے ایسے مظالم ڈھاتے ہو جونہایت شرمناک ہیں اگر اتنے لمبے عرصہ تک ایک قوم کے مردوںاورعورتوںاور بچوںسے ظالمانہ خدمت لینے کے بعد ایک قوم کا ایک بچہ تم نے پال دیا توکیا غضب کیا ۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت موسیٓ علیہ السلام کو جس فرعون پالا تھا اُس کا نا م رعمیسؔ تھا ۔ مگر دعوی نبوت کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جس فرعون کے پا س جانا پڑا وہ اُس کا بیٹا منفتاحؔ تھا۔ چونکہ وہ بچپن سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے گھروں میں پرورش پاتے دیکھتا رہا تھا اور جانتا تھا کہ اس کے باپ نے کس محبت کیساتھ موسیٰ کی پرورش کی اس لئے اس نے اپنے باپ کے اس سلوک کا ذکر کرتے ہوئے کہااَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْدًا کیا ہم نے تجھے اپنے گھروں میں نہیں پالا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے جواب میں اُسی رعمیس ؔ کے مظالم کا ذکر شروع کردیا جو وہ اپنی زندگی میں بنی اسرائیل پر ڈھاتا رہا ۔یہاں تک کہ اس نے حکم دے دیا تھا کہ بنی اسرائیل کے ہاں جو بھی لڑکا پیدا ہو اُسے مار ڈالا جائے ۔ اور لڑکیوں کو زندہ رکھا جائے ۔رعمیس ؔ کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا منفتاحؔ تخت نشین ہوا اور اُس نے بھی اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بنی اسرائیل پر عرصہ حیات تنگ کردیا ۔ آخر جب ان کی دردناک چیخ وپکا رنے عرشِ الٰہی کو ہلادیا تو اس نے ان اسیروں کی رستگاری کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ فرعون کے پاس جائیں اور انہیں کہیں کہ وہ بنی اسرائیل کو آزاد کردے ۔ مگر بجائے اس کے کہ فرعون اس ظلم سے باز آتا اور بنی اسرائیل کی غلامی کی زنجیروں کو کاٹ دیتا اُس نے موسیؑـٰ پر طعنہ زنی شروع کردی کہ تُو تو ہمارے ٹکڑوں پر پلتا رہا ہے ۔اور اب تو ہی ہمیں وعظ و نصیحت کرنے کے لئے آگیا ہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہ سب کچھ درست ہے ۔ مگر کیا یہ اس ظلم کے جواز کی کوئی دلیل ہے جو بنی اسرائیل پر کیا جارہا ہے اگر مجھے پالا تو کیا اس کے نتیجہ میں تمہارے لئے یہ جائز ہوگیا کہ تم ساری قوم کو اپنی غلامی میں جکڑے رکھو ۔ اور خدا تعالیٰ کے ان بندوں کو جو تمہاری طرح اس دنیا میں آئے ذلّت اور بیچارگی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرو۔
قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ٭
اس پر فرعون نے (شرمندہ ہوکراور بات پھیرنے کے لئے ) کہا۔ یہ رب العالمین کون ہے؟(جس کی طرف سے آنا تم بیان کرتے ہو۔)
قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا۔ اِنْ کُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ٭
(موسیٰؑ نے ) کہا آسمان اور زمین اور جوکچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان کا ربّ ۔اگر تم میں یقین کرنے کی خواہش ہے ۔
قَالَ لِمَنْ حَوْلَہٓٗ اَلَا تَسْتَمِعُونَ٭
اس پر اس (فرعون) نے اپنے اردگرد کے لوگوں سے کہا۔ تم سُنتے نہیں (کہ موسیٰؑ کیا کہتاہے) (موسیٰؑ نے اپنے پہلے بیان کی تشریح کرتے ہوئے )جواب دیا۔
قَالَ رَبُّکُمْ وَرَبُّ اٰبَآ ئِکُمُ الْاَوَّلِیْنَ٭
وہی جو تمہارا بھی رب ہے ،اور تمہارے پہلے باپ دادوں کا بھی رب تھا ۔
قَالَ اِنَّ رَسُوْ لَکُمُ الَّذِیْٓ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ٭
(اس پر فرعون) بولا۔(اے لوگو!) تمہارا وہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ضرور پاگل ہے ۷؎
۷؎ تفسیر:۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون کویہ جواب دیا تو اس نے کھسیانے ہو کر کلام کا موضوع ہی بدل دیا۔اور کہنے لگا۔ اچھا ان باتوں کو جا نے دو ۔تم یہ بتائو کہ تم جو کہہ رہے ہو کہ میں رب العالمین خدا کی طرف سے رسول بن کر آیا ہوں تو یہ رب العالمین خدا کون ہے ؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ۔رب العالمین وہ خدا ہے جو آسمان اور زمین اور جوکچھ ان دونوں کے درمیان ہے اُن کا ربّ ہے اگر تم یقین لانے والوں میں سے بنو۔ تو یہ دلیل تمہارے لئے بڑی کافی ہے ۔فرعون اپنے گردو بیش کے لوگوں سے کہنے لگا ۔سُنتے ہو یہ کیسی بیو قوفی کی باتیں کرتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ۔اگر آسمان اورزمین کے بنانے والے کو تم نہیں سمجھ سکتے تو پھر یہی دلیل سمجھ لو کہ تمہاری اور تمہارے گذشتہ باپ دادوں کی بھی تو کسی نے پرورش کی تھی ۔وہ رب العالمین خدا ہے ۔ فرعون اس دلیل کی طاقت سے جھنجھلا اٹھا اور گالیوں پر اُتر آیا ۔ اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا ۔ یہ شخص جو تمہاری طرف رسول ہو کر آنے کا دعویٰ کرتا ہے یقینا پاگل ہے۔ اس کا مطلب جیسا کہ سورئہ نازعات سے ظاہر ہے یہ تھا کہ اے فرعونیو ! تمہارا رب تو میں ہوں۔ یہ موسیٰؑ رب العالمین کہاں سے لے آیا ہے اور چونکہ میں اس کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرچکا ہوں اور اس کے باوجود یہ اپنے عقیدے پر قائم رہا ہے اس لئے معلوم ہوتاہے کہ اس کے دماغ میں کچھ نقص ہے جو اپنے دعویٰ پر اس قدر اصرار کررہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آج تک دنیامیں خدا تعالیٰ کا کوئی بھی نبی نہیں آیا جسے اس کے مخالفوں نے پاگل نہ کہاہوکیونکہ جس طرح مجنون انسان اپنی انتہائی طاقت استعمال کردیتا ہے اور اُسے اپنے انجام کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اسی طرح اللہ تعالیٰ کے انبیاء بھی ہر قسم کے ڈر اور خوف اور لالچ سے بے نیاز ہوکر اس طاقت کو پہنچاننا شروع کردیتے ہیں جو خدا تعالیٰ ان کے سپرد کی ہوتی ہے اور انہیں اپنے انجام کا کوئی خوف نہیں ہوتا ۔نادان انسان جو ان کی پشت پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ دیکھنے سے قاصر ہوتا ہے وہ انہیں جب اپنے مقصد کیلئے ایسے جوش سے کام کرتا دیکھتا ہے جو بظاہر عقل کے خلاف ہوتا ہے تو انہیں پاگل کہنا شروع کردیتا ہے ۔
علم النفس کے ماہرین نے بھی جنون کی مختلف کیفیات پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب جنون پیدا ہوتا ہے تو انسان اپنے گردو بیش کے تمام حالات کو بھلا دیتا ہے اور اپنے کام کے متعلق اس میں اس قدر انہماک پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ کسی دوسری چیز کی پرواہ ہی نہیں کرتا ۔مجھے یاد ہے حضرت خلیفئہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک عورت جو اُستانی تھی پاگل ہوگئی ۔درمیان میںکبھی کبھی اس کی حالت درست بھی ہوجایاکرتی تھی ۔ایک دفعہ عورتوں میں درس ہورہاتھا اور وہ بھی درس میں شامل تھی کہ یکدم اس عورت کو جنون کا دورہ ہوا اور کھڑکی میں سے کود کر نیچے گرنے لگی ۔ حضرت خلیفئہ اول رضی اللہ عنہ نے اُٹھ کر اسے پکڑ لیا ۔یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے دوچار ماہ بعد کا واقعہ ہے جبکہ ابھی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ گھوڑے سے نہیں گرے تھے ۔ اور آپ میں اتنی طاقت تھی کہ بعض دفعہ آپ اپنا ہاتھ بڑھا کر فرمایا کرتے تھے کہ کوئی اسے ٹیڑھا کرکے دکھادے ۔آپ نے اٹھ کر اس عورت کوپکڑ لیا ۔ لیکن باوجود سارا زور لگانے کے وہ دُبلی پتلی عورت آپ کے ہاتھو ں سے نکلی جاتی تھی۔ اس پر آپ نے عورتوں کو آواز دی کہ یہ تو گرنے لگی ہے میری مدد کیلئے آئو۔ پھرپانچ سات عورتوں نے آپ کے ساتھ مل کر اسے باندھا حالانکہ عقل اور ہوش کے زمانہ میں اس کو سترہ اٹھارہ سال کا بچہ بھی پکڑ سکتا تھا۔ اس وجہ یہی ہے کہ عقلمند انسان سمجھتاہے کہ اگر ایک خاص حد سے زیادہ اُس نے اپنی طاقتوں کو استعمال کیا تو اُسے نقصان پہنچے گا لیکن پاگل کا دماغ اُسے حد سے زیادہ طاقت خرچ کرنے سے نہیں روکتا ۔یہی وجہ ہے کہ پاگلوں میں بہت زیادہ طاقت آجاتی ہے اور ایک ایک پاگل کو آٹھ آٹھ دس دس آدمی مل کر پکڑتے ہیں ۔تب وہ قابو میں رہتاہے پس چونکہ پاگلوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ بسااوقات ایسے جوش سے کام کرتے ہیں جو عقل کے خلاف ہوتا ہے ۔ اس لئے جب لوگ اللہ تعالیٰ کے نبیوںکو دیکھتے ہیں کہ وہ زمانہ کی رو کے بالکل خلاف آواز اٹھا رہے ہیںاور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے انہیں کسی قسم کی ہلاکت اور اور تباہی کی پرواہ نہیں تو وہ کہتے ہیںیہ لوگ پاگل ہیں اگر عقلمند ہوتے تو رائے عامہ کے خلاف اپنی آواز کیوںبلند کرتے ۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے اور آپؐ نے مکہ والوں کے سامنے یہ بات پیش کی کہ ایک خدا کی پرستش کرو تو عرب کے لوگ جولاتؔ اور مناۃؔ اور عزّیٰؔ کے پرستا رتھے ان کے لئے یہ بات حیرت کا موجب ہوئی اور انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ شخص تو پاگل ہے جواتنے خدائوں کو ایک خدا قراردے رہاہے ۔خدا تو کئی ہیں مگر یہ شخص کہتا ہے کہ صرف ایک ہی خدا ہے ۔پس ان کی نگاہ میں آپ کی یہ بات نعوذباللہ ایک پاگلانہ بڑ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا اس لئے بھی پاگل کہتی کہ آپؐ فرماتے تھے ۔ شراب نہ پیو۔جُوا نہ کھیلو ۔اوردوسروں کے مال نہ لوٹو۔ عرب کے لوگ کہتے تھے ۔ یہ کیسا آدمی ہے جو شراب سے منع کرتا ہے جو زندگی کا سرور ہے اورجُوآ کھیلنے اور مال لوٹنے سے منع کرتا ہے جو ایک فائدہ مند کام ہے ۔اس کی یہ باتیں تو پاگلوں والی باتیں ہیں۔ اسی طرح وہ کہا کرتے کہ محمد رسول اللہ کو کیا ہوگیا ہے کہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ تم اپنی زندگیوں کو بنی نوع انسان کی خدمت میں لگا دو ۔اپنے مالوںکو خدا کی راہ میں خرچ کروتو تمہیں ثواب ملے گا ۔ یہ تو پاگلوں والی بات ہے۔
حضرت شعیبؑ جب لوگوں سے کہتے کہ تم دوسروں کا مال نہ لوٹو۔ اپنے مال کو ناجائز کاموں میں صرف نہ کرو ۔ تو آپ کی باتوں سے آپ کی قوم حیران ہوتی تھی اور کہتی تھی کہ شعیب پاگل ہوگیا ہے ۔ اور دیوانوں کی سی باتیں کرتا ہے ۔
اس زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لوگوں نے پاگل کہا۔جب آپ نے وفات مسیح کا مسئلہ دنیا کے سامنے پیش کیا تو مسلمان سمجھ ہی نہ سکے کہ جب ۱۳۰۰سال سے یہ مسئلہ امت محمدیہ کے اکابر پیش کرتے چلے آرہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں تو وہ فوت کس طرح ہوگئے ۔ لوگوں اس مسئلہ کے متعلق جس قدر یقین اور وثوق تھا وہ اس واقعہ سے اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے کہ پنجاب کے ایک مشہور طبیب جن کی طبی عظمت کے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ جسے طبیب بھی قائل تھے۔اورجن کانام حکیم اللہ دین تھا اوربھیرہ کے رہنے والے تھے ایک دفعہ ان کے پاس مولوی فضل دین صاحب بھیروی جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے گہرے دوست اورنہایت مخلص احمد ی تھے گئے ۔اورانہیںکچھ تبلیغ کی ۔وہ باتیں سن کرکہنے لگے۔میاں تم مجھے تبلیغ کرتے ہو تم بھلاجانتے ہی کیا ہو اورمجھے تم نے کیا سمجھاناہے مرزاصاحب کے متعلق توجومجھے عقیدت ہے اس کادسواں بلکہ بیسواں حصہ بھی تمہیں ان سے عقید ت نہیں ہوگی ۔مولوی فضل دین صاحب یہ سن کر بہت خو ش ہوئے اورانہوں نے سمجھا کہ شاید یہ دل میں احمدی ہیں۔اس لئے انہوں نے کہا ۔ا س بات کو سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ آپ کو حضرت مرزاصاحب سے عقیدت ہے اورمیں خوش ہوں گااگر آپ کے خیالات سلسلہ کے متعلق کچھ اَوربھی سنوں ۔وہ کہنے لگے۔ آجکل کے جاہل نوجوان بات کی تہ تک نہیں پہنچتے اوریونہی تبلیغ کرنے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں ۔اب تم آگئے ہو مجھے وفات مسیح کامسئلہ سمجھانے۔حالانکہ تمہیں معلوم ہی کیا ہے کہ مرزاصاحب کی اس مسئلہ کو پیش کرنے میں کیا حکمت ہے؟ وہ کہنے لگے ۔آپ ہی فرمائیے۔انہوں نے کہا سنو!اصل بات یہ ہے کہ مرزاصاحب نے براہین احمدیہ کتاب لکھی ۔تیرہ سوسال میں بھلا کوئی مسلمان کابچہ تھا جس نے ایسی کتا ب لکھی ہو ۔ مرزاصاحب نے ا س میں ایسے ایسے علوم بھر دیئے کہ کسی مسلمان کی کوئی کتا ب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی وہ اسلام کے لئے ایک دیوار تھی جس نے اسے دوسرے مذاہب کے حملوں سے بچالیا ۔لیکن مولوی ایسے احمق اوربے وقوف نکلے کہ بجائے اس کے کہ وہ آپ کا شکریہ اداکرتے اورزانوئے ادب تہ کرکے آپ سے کہتے کہ آئندہ ہم آپ کے بتائے ہوئے دلائل ہی استعمال کیا کریں گے انہوں نے اُلٹا آپ پر کفر کافتویٰ لگادیا اوراسلام کی اتنی عظیم الشان خدمت دیکھنے کے باوجود جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تیرہ سوسال میں اَور کسی نے نہ کی آپ کے خلاف کفر کے فتوے دینے لگے اور اپنی علمیّت جتانے لگ گئے ۔اورسمجھنے لگے کہ ہم بڑے آدمی ہیں ۔اس پر مرزاصاحب کو غصہ آنا چاہیئے تھا اورآیا ۔چنانچہ انہوں نے مولویوں سے کہا ۔اچھاتم تم بڑے عالم بنے پھر تے ہو اگر تمہیں اپنی علمیت پر ایساہی گھمنڈ ہے تودیکھ لو کہ حیات مسیح کاعقیدہ قرآن کریم سے اتنا ثابت ہے کہ اس کے خلاف حضرت مسیح کی وفات ثابت کرنا ناممکن نظر آتاہے ۔لیکن میں قرآن ہی سے حضرت مسیح کی وفات ثابت کرکے دکھاتاہوں۔اگر تم میں ہمت ہے تو اس کاردّکرو۔چنانچہ انہوں نے مولویوںکوان کی بیوقوفی جتانے کے لئے وفات مسیح کامسئلہ پیش کردیا اورقرآن سے اس کے متعلق ثبوت دینے لگ گئے ۔اب مولوی چاہے سارازور لگالیں ۔چاہے ان کی زبانیں گھِس جائیں اورقلمیں ٹوٹ جائیں۔سارے ہندوستان کے مولو ی مل کربھی مرزاصاحب کے دلائل کامقابلہ نہیں کرسکتے ۔مرزاصاحب نے انہیں ایساپکڑاہے کہ ان میں سر اٹھانے کی تاب نہیں رہی ۔اب اس کا ایک ہی علاج ہے اوروہ یہ کہ سارے مولوی مل کر ایک وفد کی صورت میں حضرت مرزاصاحب کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ ہم سے آپ پر کفرکا فتویٰ لگانے میں بے ادبی ہوگئی ہے ۔ہمیں معاف کیاجائے ۔پھر دیکھ لیں مرزاصاحب قرآن ہی سے حیات مسیح ثابت کرکے دکھاتے ہیں یانہیں؟
اس سے انداز ہ لگایا جاسکتاہے کہ اس وقت حیات مسیح کاعقیدہ کتنا یقینی سجھاجاتاتھا ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتبار اوراعتماد رکھتے ہوئے آ پ کو اسلام کا سب سے بڑاخادم سمجھتے ہوئے پھر بھی ان کا ذہن اس طرف نہیں جاتاتھاکہ حضرت مسیح فوت ہوگئے ہیںبلکہ وہ کہتے تھے کہ یہ محض مولویوں کو شرمندہ کرنے کیلئے کہتے ہیںورنہ حیاتِ مسیح کا مسئلہ تو ایک ثابت شدہ حقیقت ہے ۔ جب آپ پر اعتماد رکھنے اور آپ کواسلام کا سب سے بڑاخادم سمجھنے والوں کی یہ کیفیت تھی تو دوسرے لوگ جو آپ کو اسلام کا دشمن قرار دیتے تھے وہ اس مسئلہ کی وجہ سے اگر آپ کو پاگل نہ کہتے تو کیا کہتے ۔ اسی طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا کے سامنے یہ نظریہ پیش کیا کہ اب جہاد کی شکل بدل گئی ہے اب لٹریچر اور تبلیغ کے ذریعہ اسلام پھیلانے کا زمانہ ہے تو مسلمان حیران ہوئے کہ کیا اس طرح اسلام دنیا پر غالب آسکتا ہے ۔اُن کے نزدیک تو ترقی کا صرف یہی ایک ذریعہ تھا کہ غیر مسلموں کو قتل کردیا جائے ۔پس جب انہوں نے سُنا کہ ایک شخص یہ کہہ رہا ہے کہ اسلامؔ کی ترقی غیر مسلموں کو قتل کرنے سے نہیں بلکہ اپنی جانوں کو اسلام کی راہ میں قربان کرنے سے وابستہ ہے تو انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ مرزا صاحب پاگل ہیں جو ایسے خلاف عقل مسائل دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں یہی حربہ فرعون نے بھی استعمال کیا ۔اور جب اس نے دیکھا کہ وہ دلائل کے میدان میں پورا نہیں اتر رہا تو اُس نے کہا یہ تو پاگل ہے جو ایسی احمقانہ باتیں کررہا ہے۔
قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَیْنَھُمَا۔اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ٭
(موسیٰ نے سمجھ لیا کہ وہ بات ٹلانہ چاہتاہے اور)کہا(رب العالمین )وہی ہے جو مشرق کا بھی رب ہے اور مغرب کا بھی (رب ہے) اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ،(ان کا بھی رب ہے ) بشرطیکہ تم عقل سے کام لو۔
قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِلٰھاً غَیْرِیْ لَاَ جْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ٭
(اس پر فرعون نے طیش میں آکر )کہااگر میرے سوا تو نے کوئی اور معبود بنایا تو میں تجھے قید کردوں گا ۔
قَالَ اَوَلَوْ جِئْتُکَ بِشَیْئٍ مُّبِیْنٍ٭
اُس (یعنی موسیٰ )نے کہا۔کیا اُس صور ت میں بھی کہ میں کوئی (حقیقتِ حال کو ) کھول دینے والی چیز تیرے پاس لے آئو (یعنی معجزہ)
قَالَ فَاْتِ بِہٖٓ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ٭
اس پر اُس (یعنی فرعون )نے کہا۔ اگر تو سچا ہے تو لے بھی آ۔
فَاَ لْقٰی عَصَاہُ فَاِذَاھِیَ ثُعبَانٌ مُّبِیْنٌ٭
پس اُس (یعنی موسیٰ) نے اپنا عصازمین پر دھر دیا تو اچانک (اہلِ فرعون نے دیکھاکہ ) وہ ایک صاف صا ف نظر آنے والا اژدہاہے
وَّ نَذَعَ یَدَہٗ فَاِذَاھِیَ بَیْضَآئُ لِلنّٰظِرِیْنَ٭
اور اُس نے اپنا ہاتھ (اپنی بغل سے ) نکالا تو سب دیکھنے والوں نے اچانک دیکھا کہ وہ بالکل سفید ہے ۸؎
۸؎ لغات:۔ثُعْبَانٌ: حِذْبٌ مِّنَ الْحَیَّاتِ طِوَالٌ ۔یعنی ثُعْبَانٌ سانپوں کی اقسام میں سے ایک قسم کا سانپ ہوتا ہے جو خاصا لمبا ہوتا ہے (اقرب)
نَذَعَ: نَذَعَ یَدَہٗ کے معنے ہیں اَجْرَجَھَا مِنْ جَیْبِہٖ ہاتھ کو اپنے گریبان سے نکالا (اقرب)
تفسیر :۔ فرعون نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مجنون کہا تو آپ سمجھ گئے کہ اب یہ مجھے اصل موضوع سے دوسری طرف پھیرنا چاہتاہے اور اس کی خواہش ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی ربوبیّت عالمین پر جو گفتگو شروع ہے وہ ذاتیا ت میں الجھ کر رہ جائے اور میں اس مضمون کو ترک کرکے اس امر پر بحث شروع کردوں کہ مجھے مجنون کیوں کہاگیا ہے ۔میرے اندر تو کوئی جنون والی بات نہیں پائی جاتی ۔ پس آپ نے مناسب سمجھا کہ اُس کی اس گالی کا اُسے کوئی جواب نہ دیںاور اصل موضوع کو جاری رکھیں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ۔رب العالمین خدا وہ ہے جو مشرق کا بھی رب ہے اور مغرب کا بھی رب ہے اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان کا بھی رب ہے۔یعنی تُو تو صرف مصریوں کا رب ہونے کا دعویدار ہے حالانکہ کہ مصر کی دنیا کے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا ہے ۔مشرق ومغرب میں سینکڑوں ملک مصر سے کئی کئی گُنا بڑے موجود ہے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ فرعون مصر والوں کو پال رہا ہے تو وہ لوگ جو مشرق اور مغرب اور ان کے درمیان رہتے ہیں ان کو کون پالتا ہے باہر حال جو ساری دنیا کو پالتا ہے وہی رب العالمین ہے ۔ فرعون رب العالمین نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ وہ خدا اپنے آپ کو مصریوں اور قبطیوں کاخدا کہتا ہے ۔اس پر فرعون کے غصہ کا پارہ بہت ہی چڑھ گیا اور موسیٰ سے کہنے لگا کہ یا تو سیدھی طرح مجھے خدا قرار دو ورنہ میں تجھے قید کردوں گا۔ اور پھر تجھے پتا لگے گا کہ تیری اس گستاخی کی کیا سزا ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰ کی شان دیکھو کہ وہی جو موسیٰؑ کو آہنی سلاخوں کے پیچھے قید کرنا چاہتاتھا خدا تعالیٰ نے اسے بحیرئہ قلزم کی طوفانی موجوں میں ایسا قید کیا کہ وہ اپنے تمام لائو لشکر اور مددگاروں کے باوجود اس قید سے رہا نہ ہوسکا ۔ جب اُس نے قید کرنے کی دھمکی دی ۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ کیا اگر میں کوئی ایسی دلیل لائوں جو میری بات کو بالکل واضح کردے تو کیا تو پھر بھی تم قید کرو گے ؟فرعون نے اپنے دل میں سوچا کہ چلو اس وقت تو بحث سے جان چھوٹی آئندہ دیکھا جائے گا اور کہنے لگا کہ اگر تم سچے ہو تو ایسی دلیل پیش کرو۔ اس پر موسیٰؑ نے اپنے سونٹا زمین پر ڈال دیا تو لوگوں کو اچانک یہ نظر آنے لگا کہ وہ ایک اژدھا ہے جو صاف صاف نظر آرہا ہے ۔اس کے بعد موسیٰؑ نے اپنے پہلو سے اپنا ہاتھ نکالا۔ تو وہ دیکھنے والوں کو چمکتا ہوا نظر آنے لگا۔
اس جگہ یاد رکھنا چاہئیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سونٹے کا سانپ بن جانا اور آپ کے ہاتھ کا لوگوں کو چمکتا ہوا نظر آنا درحقیقت ایک کشفی نظارہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو بھی دیکھا دیا ۔اور رئویا کشوف کے متعلق یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے جس کی انبیاء اور اولیاء کی تاریخ میں کثر ت سے مثالیں پائی جاتی ہیں کہ بعض دفعہ کشفی نظارے ایسے وسیع کردیئے جاتے ہیں کہ وہ دوسروں کوبھی نظر آنے لگ جاتے ہیں ۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زما نہ میں انشقاقِ قمر کو جو معجزہ ظاہر ہو اوہ بھی ایک کشفی نظارہ تھا جو وسیع کردیا گیا ۔اور نہ صرف مکہ کے کچھ لوگوں کو نظرآیا ۱؎ ۔بلکہ جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے ہندوستان کے ایک راجہ کو بھی
۱؎ ۔بخاری جلد۲۔کتاب التفسیر باب قولہ دانشق القمر ۔
نظر آگیا اور وہ مسلمان ہوگیا (تاریخ فرشتہ اُردوجلد ۲صفحہ ۴۹۱مقالہ ۱۱)
مفسرین نے چونکہ اس حقیقت کو نہیں سمجھا اس لئے ان کا ذہن اس طرف چلا گیا کہ چاند واقعہ میں جسمانی طور پر پھٹ کردو ٹکڑے ہوگیا تھا حالانکہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سونٹا تھا تو سونٹا ہی مگر فرعون اور اس کے درباریوں کو وہ ایک اژدہا کی شکل دکھایا گیا ۔اس طرح چاند تو اپنی جگہ پر ہی رہا تھا مگر کشف میں یہ دیکھایا گیا کہ وہ پھٹ گیا ہے ۔ اور جس طرح ہر خواب اور کشف تعبیر طلب ہوتا ہے اسی طرح اس کشف کی بھی یہ تعبیر تھی کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو تغیر رونماہونے والاہے اُس کا وقت اب آچکا ہے اور کفا رکی حکومت عرب سے مٹ جائے گی ۔ چنانچہ اس کیطرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُوَانْشَقَّ الْقَمَرُ(سورئہ قمر آیت ۲)یعنی عرب کی تباہی قریب آگئی ہے اور اُس کا ثبوت یہ ہے کہ چاند پھٹ گیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ساعت کے قریب آنے اور چاند کے پھٹنے میںتعلق تھا ۔مگر ظاہر طور پر چاند کے پھٹنے کا ساعت سے کیا تعلق ہوسکتا ہے ۔اگر ساعت سے ان کا تعلق ہوتا تو تیرہ سو سال کا عرصہ گذرچکا ہے اور قیامت ابھی تک آئی نہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ ساعت قریب آگئی ہے اورا سکی علامت یہ ہے کہ چاند پھٹ گیا ہے پس معلوم ہوا کہ شقؔ کے جو معنے عام طور پرکئے جاتے ہیںوہ بھی غلط ہے اور جو ساعت کے معنے لئے جاتے ہیں وہ بھی درست نہیں۔دراصل قرآن کریم میں انبیاء کی بعثت اوران کی ترقی اور غلبہ کے زمانہ کو ساعت کہاجاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو ساعت آنی تھی اور آپ کے ذریعہ جو تغیر رونما ہونا تھا اس کا وقت اب آگیا ہے اورا س کی علامت یہ ہے کہ چاند پھٹ گیا ہے ۔یہ علامت اس لئے بتائی گئی کہ عربوں میں قمر سے مراد عرب کی حکومت ہوا کرتی تھی ۔چنانچہ حضرت صفیہؓ جو ایک یہودی سردار کی بیٹی تھیں اور بعد میں رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات میں داخل ہوئیں۔انہوں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ ان کی گو د میںچاند آگرا ہے ۔وہ کہتی ہیں جب میں نے اپنے باپ کو یہ خواب سُنائی تو اُس نے میرے منہ پر زور سے تھپڑ مارا اور کہا کہ کیا تو عرب کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے ۱؎۔اس لئے پتہ لگتا ہے کہ عرب کے لوگ قمر سے مراد عرب کی حکومت لیتے تھے ۔
پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کشفی طور پر یہ نظارہ دیکھا یا کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا ہے ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کفارِ عرب کی تباہی کا وقت آ پہنچا ہے چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ؐکے صحابہ پر ایک لمبے عرصے سے مظالم ڈھائے جا رہے تھے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی کہ اب اسلام کی ترقی کا زمانہ آگیا ہے ۔اور یہ نظارہ نہ صرف آپ کو دیکھایا گیا بلکہ کفار کو بھی اس نظارہ میں شامل کرلیاگیا ۔تاکہ وہ بھی اس بات کو سمجھ لیں کہ اب کفر کے مٹنے کے دن آگئے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ میں خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب ’’سُرمہ چشم آریہ‘‘ میں اس معجزہ پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے رئویا کشوف کے دائرہ کی اس وسعت کو تسلیم کیا ہے اور تحریر فرمایا ہے کہ
’’یہ بھی ممکن ہے کہ نبی کی قوت قدسیہ کے اثر سے دیکھنے والوں کی کشفی آنکھیں عطا کی گئی ہوں ۔اور جو انشقاق قرب قیامت میں پیش
۱؎ ۔اصابہ
آنے والا ہے اُس کی صورت ان کی آنکھوں کے سامنے لائی گئی ہو۔کیونکہ یہ بات محقق ہے کہ مقربین کی کشفی قوتیں اپنی شدت حد کی وجہ سے دوسروں پر بھی اثر ڈال دیتی ہیں ۔ اس کے نمونے اربات مکاشفات کے قصوں میں بہت پائے جاتے ہیں بعض اکابر نے اپنے وجود کو ایک وقت اورایک آن میں مختلف ملکوں اور مکانوں میں دکھلادیا ہے۔ باذن اللہ تعالیٰ‘‘ (سُرمہ چشم آریہ صفحہ۲۲۹,۲۳۰) اسی طرح فرماتے ہیں کہ :۔
’’صاحب کشف پر ایسے ایسے اسرار ظاہر ہوتے ہیں کہ ان کی کُنہہ کو سمجھنے میں بکلی عقل عاجز رہ جاتی ہے ۔بعض اوقات صاحبِ کشف صدہا کوسوں کے فاصلہ باوجود حائل ہونے بیشمار حجابوں کے ایک چیز کو صاف صاف دیکھ لیتاہے۔ بلکہ بعض اوقات عین بیداری میں باذنہٖ تعالیٰ اس کی آواز بھی سُن لیتا ہے اور اس سے زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات وہ شخص بھی اس کی آواز سُن لیتا ہے جس کی صورت اس پر منکشف ہوتی ہے ۔بعض اوقات صاحب کشف اپنے عالم کشف میں جو بیداری سے نہایت مشابہ ہے ارواح گذشتہ سے ملاقات کرتا ہے اور عام طور پر ہر یک نیک بخت روح یابدبخت روح کے ساتھ کشفِ قبور کے طور پر ہو سکتی ہے ۔ چنانچہ خود اس میں مولّف رسالہ ہذا صاحبِ تجربہ ہے اور یہ امر ہندوئوں کے مسئلہ تناسخ کی بیخ کنی کرنے والا ہے اور سب سے تعجب کا یہ مقام ہے کہ بعض اوقات صاحبِ کشف اپنی توجہ اور قوت تاثر سے ایک دوسرے شخص پر باوجود صدہا کوسوں کے فاصلہ کے باذنہٖ تعالیٰ عالم بیدار ی میں ظاہر ہوجاتا ہے حالانکہ اس کا وجود عنصری اپنے مقام سے جنبش نہیں کرتا ۔اور عقل کے زور سے ایک چیز کا دوجگہ ہونا محال ہے ۔سودہ محال اس عالمِ ثالث میںممکن الوقوع ہوجاتا ہے۔‘‘ (حاشیہ سُرمہ چشم آریہ صفحہ ۱۳۰)
اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض اور بھی اسیے کشوف ہوئے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے دوسروں کوبھی شریک کرلیا ۔ مثلاً
حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک اجنبی شخص جس پر سفر کے کوئی آثار معلوم نہیں ہوتے تھے آیا۔اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گیا ۔اور پھر اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ ایمانؔ کی کیا تعریف ہے؟اسلامؔ کے کون کون سے ارکان ہیں ؟ احسان ؔکس مقام کا نام ہے؟ قیامتؔ کی کیا نشانیاں ہیں ؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ہر سوال کا جواب دیتے رہے۔ جب وہ چلا گیا تو آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ یہ جبریلؔ تھا جو تمہیں دینی مسائل سکھانے کیلئے آیا تھا ۔(ترمذی جلد۲۔ابواب الایمان )اب یہ بھی ایک کشف تھا جس کے دائرہکو اتنا وسیع کردیا گیا کہ صحابہؓ نے بھی جبریل ؔ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرتے دیکھ لیا۔
اِسی طرح جنگِ بدر کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تائید کیلئے جو ملائکہ نازل فرمائے ۔وہ کشفی حالت میں جہاں بعض صحابہؓ کو دکھائی دیئے وہاں کفار نے بھی اُن کو دیکھا اور پھر انہوں نے اپنی مجالس میں بھی اس کا حیرت کیساتھ ذکر کیا ۔
(تفسیر ابن جریر جلد۴صفحہ ۴۸وتفسیر فتح البیان جلد۲ صفحہ ۱۰۳)
اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بچپن میں اپنی دائی حلیمہ کے ہاں پرورش پا رہے تھے تو روایات میں ذکر آتا ہے کہ آپ کا ایک رضائی بھائی ایک دن دوڑتا ہوا اپنے والدین کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ ہمارے بھائی (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) پر کسی نے حملہ کردیا ہے ۔حلیمہ جلدی سے باہر گئیں تو انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے ہیں ۔حلیمہ نے دریافت کیا کہ کیا ہوا تھا ؟آپؐ نے فرمایا ۔ابھی تین آدمی آئے تھے ۔جنہوں نے میرا سینہ چیرا اور میرے دل کودھوکر اندر رکھ دیا اور پھر چلے گئے اب یہ بھی ایک کشفی نظارہ تھا ۔جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ۔ اور حلیمہ کے بیٹے نے بھی اس نظارے کو دیکھ لیا ورنہ خدا تعالیٰ کے ملائکہ کسی کے دل کی صفائی کے لئے ظاہری چیرپھاڑ کے محتاج نہیں ہوتے ۔اسی طرح حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات مدینہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں سورہے تھے ۔ جب آپؐ تہجد کے لئے اٹھے اور وضو فرمانے لگے تو مجھے آواز آئی کہ آپؐ فرمارہے ہیںلَبَّیْکَ۔لَبَّیْکَ۔ لَبَّیْکَ۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا ۔ نُصِرْتَ۔نُصِرْتَ۔ نُصِرْتَ۔وہ کہتی ہیں۔جب آپ میرے پاس تشریف لائے تو میںنے کہا۔ یا رسول اللہ !کیا کوئی آدمی آیا تھا اور آپ اس سے بات کررہے تھے؟آپ نے فرمایا۔ہاں میرے سامنے کشفی طور پر خزاعہؔ کا ایک وفد پیش ہوا اور میں نے دیکھا کہ وہ شور مچاتے چلے آرہے ہیں کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس کے خدا کی قسم دے کر کہتے ہیں کہ تیرے ساتھ اور تیرے باپ دادوں کے ساتھ ہم نے معاہدے کئے تھے اور ہم تیری مدد کرتے چلے آئے ہیں ۔ مگر قریش نے ہمارے ساتھ بد عہدی کی۔ اور رات کے وقت ہم پر حملہ کرکے جبکہ ہم میں سے کوئی سجدہ میںتھا اور کوئی رکوع میں ہم کو قتل کردیا ۔ اب ہم تیری مد د حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں جب کشفی طور پر مجھے وہ وفد نظر آیا تو میں نے لَبَّیْکَ۔لَبَّیْکَ۔لَبَّیْکَ۔ میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں ۔ میں تمہاری مدد کیلئے حاضر ہوں میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں ۔ پھر میں نے کہا۔ نُصِرْتَ۔نُصِرْتَ۔نُصِرْتَ۔ تجھے مدد دی جائے گی ۔تجھے مدد دی جائے گی ۔تجھے مدد دی جائے گی ؟ا ب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کشفی نظارہ دیکھ رہے ہیں اور کشفی حالت میں ہی آپ
لبّیک ۔لبّیک ۔لبّیک کہتے ہیں ۔ اورپھر تین دفعہ نُصِرْتَ ۔نُصِرْت۔نُصِرْت کہتے ہیں ۔اور یہ آواز حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بھی سن لیتی ہیں ۔ اور وہ آپ سے دریافت فرماتی ہیں کہ کیا کوئی آدمی تھا جس آپ باتیں کررہے تھے ۔اور آپؐ فرماتے ہیں ۔یہ ایک کشفی نظارہ تھا ۔یہ واقعہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ کشفی حالت میں بعض دفعہ دوسرے لوگ بھی شریک کرلئے جاتے ہیں ۔ اب گو حضرت میمونہ ؓ نے وہ وفد نہیں دیکھا ۔مگر انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ جواب سن لیا جو آپؐ نے کشفی حالت میں خزاعہؔ کے وفد کو دیا تھا ۔ اورپھر چند دن بعد ایسا ہی وقوع پذیر ہوگیا ۔
پھر یہ واقعات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نہیں ہوئے بلکہ بعد میں بھی اللہ تعالیٰ ایسے نشانات ظاہر کرتا رہاہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ خطبہ پڑھا رہے تھے کہ خطبہ پڑھاتے پڑھاتے آپ نے بلند آواز میں فرمایا۔ یا ساریۃ الجبلَ۔ اے ساریہ پہاڑ کے دامن میں پناہ لو۔ اور یہ فقرہ آپ نے دو تین مرتبہ دہرایا وہ لوگ جو خطبہ سن رہے تھے ۔ سخت حیران ہوئے کہ حضرت عمرؓ نے یہ کیا کہہ دیا ہے کہ عمرؓ پاگل ہوگیا ہے کہ اُس نے خطبہ پڑھتے پڑھتے یہ بے جوڑ بات کہہ دی کہ یا ساریۃ الجبل اے ساریہ تو پہاڑ کے دامن میں چلا جا۔جب لوگو ں میں یہ چہ میگوئیا ں ہونی شروع ہوئیں تو حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ لوگ آپ کے متعلق مختلف قسم کی باتیں کررہے ہیں اور وہ حیران ہیں کہ آپ نے آج خطبہ میں یہ کیا کہہ دیا کہ یا ساریۃ الجبل ۔ آپ نے فرمایا ۔ میں خطبہ پڑھ رہا تھا کہ کہ اچانک مجھ پر کشفی حالت طاری ہوئی اور عراق کی سرزمین میرے سامنے آگئی اور میںنے دیکھا کہ ساریہ جو اسلامی جرنیل ہے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشمن فوج سے برسرِ پیکار ہے مگر دشمن فوج کا پلّہ بھاری ہے اور قریب ہے کہ اسلامی فوج شکست کھاجائے ۔ میں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو چونکہ اُس وقت میدانِ جنگ کا سب نقشہ میری آنکھوں کے سامنے تھا ۔ میں بلند آواز سے ساریہ ؔسے کہا کہ اے ساریہ! پہاڑ کی طرف ہوجائو تاکہ تم دشمن کے حملہ سے بچ سکو ۔چند دن کے بعد میدانِ جنگ سے حضرت عمر ؓ کوساریہؔکا خطبہ پہنچا۔تواس میں لکھا تھا کہ جمعہ کے دن صبح کی نماز کے وقت ہماری دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی ۔اور ہم اُن سے لڑتے چلے گئے یہاں تک کہ جمعہ کی نماز کا وقت آگیا ۔ اُس وقت اچانک ہمارے کانوں میں آپ کی آواز آئی کہ یاساریۃ الجبل یاساریۃ الجبل اور ہم فوراًمیدان چھوڑ کر پہاڑ کی طرف آگئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح دی اور دشمن شکست کھاگیا (تاریخ الجمیس جلد ۲ صفحہ ۲۷۰،۲۷۱)
اب دیکھو اسلامی افواج مدینہ سے سینکڑوں میل دور ہیں ۔اور حضرت عمرؓ مدینہ میں بیٹھے ہیں۔ مگر جب آپ پر کشفی حالت طاری ہوئی تو نہ صرف آپ کی آواز کو اُن لوگوں نے سنا جو اُس وقت خطبہ میں شریک تھے بلکہ سینکڑوں میل دور عراق کی سرزمین میں ساریہ ؔ اور اُس کے سپاہیوں نے بھی سن لی اور انہوںنے فوراً اس کی تعمیل کی جس کے نتیجہ میں اسلامی فوج تباہی سے بچ گئی اور دشمن شکست رکھا گیا۔ یہ مثال اس حقیقت کو نہایت وضاحت سے ثابت کرتی ہے کہ بعض دفعہ کشوف کے دائرہ کو ایسا وسیع کردیا جاتا ہے کہ سینکڑوں میل دور رہنے والے بھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں ۔
اسی طرح امت محمدیہ میں جو اولیاء گذرے ہیں ان میں سے ایک بزرگ کے متعلق لکھا کہ وہ ہر روز تہجد کے وقت اللہ تعالیٰ سے
دعائیں کیا کرتے تھے ایک رات جب کہ وہ دعا مانگ رہے تھے ان کا ایک مرید بھی ان کے پا س آ کر بیٹھ گیا ۔دعا کرنے کے بعد ان کو ایک الہام ہوا جو اس مرید نے بھی سن لیا مگر ادب کی وجہ سے وہ خاموش رہا دوسرے دن وہ پھر تہجد کے لئے اٹھے اور انہوں نے دعائیں کیں تو پھر ان پر وہی الہام نازل ہوا جو پہلے دن نازل ہوا تھا اور یہ الہام بھی ان کے مرید نے سن لیا مگر پھر بھی وہ خاموش رہا تیسرے دن وہ دعا کے لئے اٹھے اور نماز سے فارغ ہوئے تو پھر انہیں وہی الہام ہو ا جو ان کے مرید نے بھی سن لیا اور وہ کہنے لگا حضور میں برابرتین دن سے یہ دیکھ رہا ہوں کہ ہر روز آپ پر یہ الہام نازل ہوتاہے کہ میں تمہاری دعا قبول نہیںکروں گا مگر آپ برابر دعاکئے جاتے ہیں آپ کو تو چاہئیے کہ اب دعائیں کرنا چھوڑ دیں جب خدا تعالیٰ قبول کرنا نہیں چاہتا تو اتنا زور دینے کا کیا فائدہ ؟ انہوں نے کہا تو تو صرف تین دن یہ الہام سن کر گھبرا گیا ہے مجھے تو تیس سال سے برابر یہ الہام ہورہا ہے مگر میں اللہ تعالیٰ سے مایو س نہیں ہو ا کیوں کہ بندے کا کام دعا مانگتے چلے جانا ہے مایوس ہونا مومن کاکام نہیںلکھا ہے کہ دوسرے ہی دن اللہ تعالیٰ نے ان پر الہام نازل کیا کہ تم نے تیس سال کے عرصہ میںجس قدر بھی دعائیں کی تھیں وہ سب میں نے قبو ل کرلی ہیں انہو ں نے اپنے اس مرید کو بلایا اور کہا ۔دیکھو اگر میں تمہاری بات مان کر دعائیں کرنا ترک کردیتا تو میں اللہ تعالیٰ سے کتنے بڑے فضلوں سے محروم ہو جاتا۔اوراس وقت محروم ہوتا جب کہ میںکامیابی کے دروازے پر پہنچ چکا تھا۔ اب دیکھو ایک بزرگ کو الہام ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کے دائرہ کو اتنا وسیع کردیتا ہے کہ ان کا ایک مرید بھی الہام کی آواز سن لیتا ہے اور برابر تین دن تک سنتا رہتا ہے ۔
موجودہ زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سرخی کے چھینٹوں والا کشف دیکھایا گیا ۔تو سرخی کے چھینٹے نہ صرف آپ کی قمیض پر پائے گئے بلکہ ایک قطرہ میاں عبداللہ صاحب سنوریؓکی ٹوپی پر بھی آگرا۔اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس نشان میں ان کو بھی شریک کرلیا۔ اسی طرح ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میںمجھے بتایا گیا کہ آج رات حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ الہام نازل ہوا ہے کہ اِنَّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔صبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اشاعت کیلئے اپنے الہامات لکھ کر دیئے تواتفاقاً آپ کو یہ الہام لکھنا یاد نہ رہا ۔میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے کہا کہ مجھے تو آج رات ایک فرشتہ نے بتایا تھا کہ آپ کو یہ الہام ہوا ہے کہ اِنَّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃ مگر آپ نے جو الہامات لکھے ہیں ان میں اس کا کہیں ذکر نہیں ۔آپ نے فرمایا ۔ٹھیک ہے مجھے یہ الہام ہو اتھا۔ مگر لکھنا یاد نہیں رہا پھر آپ اندر سے اپنے الہامات کی کاپی اٹھا لائے اور مجھے فرمایا کہ دیکھو اس میں میں نے یہ الہام درج کیا ہوا ہے ۔اس کے بعد آپ نے اس الہام کو بھی اخبار میں شائع کرو ا دیا ۔اب دیکھو ادھر ایک الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوتا ہے اور اُدھر اللہ تعالیٰ مجھے بھی بتا دیتا ہے کہ ان الفاظ میں آپ پر الہام نازل ہوا ہے اور صبح معلوم ہوتا ہے کہ بات بالکل درست تھی ۔
غرض رئویا و کشوف میں بعض دفعہ ساتھ رہنے والے بھی شریک کرلیئے جاتے ہیں ۔اور یہ چیز ایسی قطعی اور یقینی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ملکہ وکٹوریہ کو تبلیغ اسلام کرتے ہوئے لکھا کہ
’’ اگر کوئی طالب حق نیت کی صفائی سے ایک مدت تک میرے پاس رہے اوروہ حضرت مسیح ؑ کو کشفی حالت میں دیکھنا چاہے تو میری توجہ اور دعا کی برکت سے وہ ان کو دیکھ سکتا ہے ۔ان سے باتیں بھی کرسکتا ہے اور ان کی نسبت اُن سے گواہی بھی لے سکتا ہے ۔کیونکہ میں وہ شخص ہوں جس کی روح میں بروز کے طور پر یسوع مسیح کی روح سکونت رکھتی ہے ۔‘‘ (تحفہ قیصر یہ صفحہ ۲۱)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سونٹے کا سانپ بن کر نظر آنا بھی ایسے ہی کشوف میں سے تھا جس کا دائرہ وسیع کردیا گیا اور فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰؑ کا عصا ایک بہت بڑے اژدہا کی صورت میں دیکھا جسے دیکھ کر وہ ڈرے اور ان کے دلوں پر لرزہ طاری ہو گیا۔یہ نظارہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک غریب شخص جس کا ابو جہل کے ذمہ کچھ قرض تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ابو جہل نے میر ا اتنا روپیہ دینا ہے مگر باربار تقاضوں کے باوجود وہ میرا روپیہ مجھے نہیں دیتا ۔آپؐ اس بارہ میں میری مدد کریں ۔اور مجھے اس سے روپیہ دلوادیں۔ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے پہلے ایک ایسی مجلس میں شریک رہ چکے تھے جس کا ہر ممبر یہ حلف اٹھاتا تھا کہ میں مظلوموں کی مدد کروں گا ۔اور حقدار کو اس کا حق دلانے کی کوشش کروں گا ۔اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوراً اس کے ساتھ ابو جہل کے مکان کی طرف چل پڑے حالانکہ اس زمانہ میں مکہ میں آپ ؐ کی شدید مخالفت تھی اور گلی کوچوں میں آپؐ کا اکیلے پھرنا خطرہ سے خالی نہیں تھا مگر آپ ؐ اپنی جان کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ چل پڑے اور ابوجہل کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ وہ باہر آیا ۔ تو آپ نے فرمایا ۔ تم نے اس شخص کا کوئی روپیہ دینا ہے ۔اس نے کہا ۔ہاں !آپؐ نے فرمایا ۔پھر اِسے لادو ۔ وہ چپکے سے اندر گیا اور اس نے روپیہ لاکر دے دیا ۔ جب یہ خبر مکہ کے لوگوں نے سُنی تو انہوں نے ابوجہل کو طعنے دینے شروع کردیئے کہ تم ہمیں تو کہتے ہو کہ محمد رسول اللہ کی کوئی بات نہ مانوں مگر خود اتنا ڈرگئے کہ اس کے کہنے پر تم چپکے سے اند رگئے اور روپیہ لاکر اس کے حوالے کردیا ۔وہ کہنے لگا ۔ تمہیں کیا معلوم کہ میرے پاس کیا واقعہ ہوا جب میں نے دروازہ کھولا اور مجھے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )نظر آئے ۔تو میں نے دیکھا کہ آپ کے دائیں اور بائیں دو مست اونٹ کھڑے ہیں اور وہ ایسے جوش میں ہیں کہ میں نے سمجھا اگر اس وقت میں نے زرابھی انکار کیا تو یہ دونوں اونٹ نوچ کر کھا جائیں گے ۔چنانچہ میں نے اپنی سلامتی اسی میں دیکھی کہ فوراًروپیہ لاکر پیش کردوں ۔یہ بھی ایک کشفی نظارہ تھا جو ابوجہل کو دیکھائی دیا ۔ ورنہ ظاہر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں کوئی دیوانے اونٹ نہیں تھے ۔
اِسی طرح ایک دفعہ ایک ہندوجو لاہور کے کسی دفتر میں اکائونٹنٹ تھا اور علمِ توجہ کا بڑا ماہر تھا کسی برات کے ساتھ اس نیت اور ارادہ سے قادیان آیا کہ میںمرزا صاحب پر مسمریزم کروں گا ۔ تو وہ مجلس میں بیٹھے ناچنے لگ جائیں گے ۔اور لوگوں میں ان کی بڑی سُبکی ہوگی ۔ یہ واقعہ اس ہندو نے خود لاہور کے ایک احمدی دوست میاں عبدالعزیز صاحب مغل کو سنایا تھا جس کی تقریب اس طرح پیدا ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میاں عبد العزیز صاحب کو اپنی ایک کتاب دی اور فر مایا کہ یہ فلاں ہندو کو دے دینا۔ انہوں نے اُسے کتاب پہنچا کر پوچھا کہ حضرت صاحب نے آپ کو یہ کتا ب کیوں بجھوائی ہے اور آپ کا ان کے ساتھ کیا تعلق ہے ۔ اس پر اس ہندو نے یہ سارا واقعہ سنایا اور کہاکہ مجھے مسمریزم کے علم میں اتنی مہارت حاصل ہے کہ اگر میں تانگہ میں بیٹھے ہوئے کسی شخص پر توجہ ڈالوں تو وہ فوراًتانگے کے پیچھے پیچھے بھاگا آئے گا ۔ حالانکہ نہ وہ میر ا واقف ہوگا اور نہ میں اسے جانتا ہوں گا ۔ پھر اس نے کہا۔ میں
آریوں ہندوئوں سے حضرت مرزا صاحب کے خلاف بہت سی باتیں سُنی ہوئی تھیں جن کی بناء پر میں نے ارادہ کیا کہ میں مرزا صاحب پر مسمریزم کے ذریعہ اثر ڈالوں گا۔ اور اُن کے مریدوں کے سامنے ان کی سُبکی کروں گا۔ چنانچہ میں ایک شادی کے سلسلہ میں قادیان گیا اور مرزا صاحب کی مجلس میں بھی چلا گیا مرزا صاحب اُس وقت کچھ وعظ و نصیحت کی باتیں کررہے تھے ۔ میں نے دروازے میں بیٹھ کر اُن پر توجہ ڈالنی شروع کی ۔مگر اُن پر کچھ بھی اثر نہ ہوا ۔ میں نے سمجھا کہ اِن کی قوتِ ارادی زیادہ قوی ہے ۔ چنانچہ میں نے پہلے سے زیادہ توجہ ڈالنی شروع کی ۔ مگر پھر بھی ان پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اور وہ اُسی طرح باتوں میں مشغول رہے ۔تب میں نے سمجھا کہ ان کی قوتِ ارادی بہت زیادہ مضبوط ہے اور میں نے اپنی ساری توجہ اُن پر صرف کردی ۔ میں ابھی توجہ کرہی رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ میرے سامنے کچھ فاصہ پر ایک شیر بیٹھا ہے میں اُسے دیکھ کر کانپ گیا ۔ لیکن میں نے اپنے دل کو ملامت کی کہ تو کیسے وہم میں مبتلا ہوگیا ہے۔ یہاں بھلا شیر کا کیا کام ہے اور میں نے پھر توجہ کرنا شروع کردی ۔ اس پر میں نے دیکھا کہ وہ شیر میرے قریب آگیا ہے اُسے دیکھ کر میرا جسم پھر کانپ اٹھا ۔مگر میں نے اپنے آپ کو سنبھالااور پھر توجہ ڈالنا شروع کردی جب میں اپنا پورا زور لگا دیا تو اچانک میں نے کیا دیکھا کہ وہی شیر کود کر مجھ پر حملہ آور ہوا ہے اور ڈر کے مارے زور سے میری چیخ نکل گئی اور میں جلد ی سے اپنی جوتی لے کر نیچے بھاگا ۔ میری آواز سن کر حضرت مرزا صاحب نے اپنے مریدوں سے کہا کہ دیکھنا یہ کون شخص بھاگا ہے اور اسے کیا ہوا ہے ۔چنانچہ ایک شخص میرے پاس آیا اور اُس نے مسجد کے ساتھ والے چوک میں مجھے آپکڑا میں چونکہ اس وقت سخت حواس باختہ تھا ۔ اِس لئے میں نے اس سے کہا کہ تم مجھے جانے دو ۔ میرے حواس اس وقت درست نہیں ہیں۔ چنانچہ مجھے چھوڑ دیا گیا ۔ بعد میں اس نے یہ تمام واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا اور کہا کہ مجھ سے گستاخی ہوگئی ہے ۔ میں آپ کے مرتبہ کو پہچان نہ سکا ۔ آپ بڑے خدا رسیدہ اور بزرگ انسان ہیں ۔آپ میری اس غلطی کو معاف فرماویں ۔ میاں عبدالعزیز صاحب مغل فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اس ہندو سے پوچھا کہ تم نے یہ کیوں نہ سمجھا کہ مرزا صاحب مسمریزم جانتے ہیں اور اس علم میں وہ تم سے بڑھ کرہیں ۔وہ کہنے لگا ۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ مسمریزم کے لئے توجہ کا ہونا ضروری ہے اور یہ عمل کامل سکون اور خاموشی چاہتا ہے مگر مرزا صاحب تو اس وقت باتوں میں مشغول تھے اس لئے میں نے سمجھ لیا کہ اس کی قوتِ ارادی زمینی نہیں بلکہ آسمانی ہے اور وہ خدارسیدہ انسان ہیں ۔ چنانچہ یہ ہندو جب تک زندہ رہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بڑا معتقد رہا اور ہمیشہ آپ سے خط و کتا بت رکھتا تھا ۔
اسی طرح ۱۸۹۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب عبداللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی فرمائی کہ وہ پندوہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اُس کو سخت ذلّت پہنچے گی ۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے ۔تو عبداللہ آتھم کے دل پر اس پیشگوئی کی ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ اُسے قسم قسم کے خوفناک نظارے نظر آنے شروع ہوگئے ۔ایک دفعہ امرتسر میں اسے ایک خطرناک سانپ سکھائی دیا۔ جس کی اس کے دل پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ وہ بیوی بچوں کو چھوڑ کر لدھیانہ اپنے داماد کے پاس بھاگ گیا ۔مگر وہاں پہنچ کر بھی اسے سکون نہ ملا ۔ بلکہ اُس نے دیکھا کہ بعض آدمی جنہوںنے اپنے ہاتھوں میں نیزے پکڑے ہوئے ہیں اُس کو قتل کرنے کے لئے مستعد کھڑے ہیں اور کوٹھی کے احاطہ کے اندر آپہنچے ہیں ۔ اس پر وہ پھر گھبرایا اور دوڑ کر اپنے دوسرے داماد کے پاس فیروز پور چلا گیا ۔مگر وہاں بھی اُسے ایسے ہی حملہ آور دکھائی دیئے جو بندوقوں اور تلواروں سے مسلح تھے غرض پندرہ ماہ اس نے سخت بے چینی اور
اضطراب میں بسر کئے اور گھبرا کر ادھر اُدھر دوڑتا رہا ۔ یہ نظارے جو آتھم کو دکھائے گئے درحقیقت کشفی رنگ ہی رکھتے تھے ۔ ورنہ اگر کوئی جسمانی سانپ ہوتا تو عبداللہ آتھم اُسے آسانی کے ساتھ مار سکتا تھا ۔اِسی طرح اگر انسان حملہ آور ہوتے تو وہ آسانی سے گرفتار کئے جاسکتے تھے ۔ مگر یہ چیز تو ایسی تھی جو صرف آتھم کودکھائی دی ۔ اور اُس نے خود ان واقعات کو بیان کیا۔
غرض جس طرح ابوجہل کودومست اونٹ دکھائی دیئے اور لاہور کے ہندو دوست کوایک شیر حملہ کرتاہوادکھائی دیا۔اور عبداللہ آتھم کوسانپ اور تلواروںاور نیزوں سے مسلّح افراد دکھائی دئیے ۔اسی طرح فرعون مصر کوموسٰی کا عصا ایک اثردہا کی صورت میں نظرآیا جسے دیکھ کر وہ کانپ گیااور گو اس نے اسے ایک جسمانی سانپ ہی سمجھا مگر درحقیقت اس کی تعبیر یہ تھی کہ موسیٰ کی جماعت ایک دن فرعون اور اس کے تمام لائو لشکر کو اثردہا بن کر کھا جائیگی اور وہی بنی اسرائیل جن کو وہ موسیٰ کے ساتھ بھیجنے کے لئے تیار نہیں ایک دن اس کی تباہی اور بربادی کاباعث بن جائیں گے اور موسٰیؑ کوغلبہ حاصل ہوجائے گا ۔تعطیرالانام میں لکھاہے کہ من رأی انّہ ملک ثعبانا فانّہ یصیب سلطانا عظیمایعنی اگر کوئی شخص یہ دیکھے کہ کوئی بڑااژدہا اس کے قبضے میں آگیاہے تواس کی تعبیر یہ ہوگی کہ اسے بہت بڑاغلبہ حاصل ہوگا ۔پس یہ کشف موسٰیؑ او ر اس کی جماعت کے غلبہ اورفرعون اور اس کی قوم کی تباہی کی خبر اپنے اندر رکھتاتھا ۔اسی طرح اس کشف میں فرعون کو اس طرف بھی توجہ دلائی گئی تھی کہ بنی اسرائیل کاموسٰیؑ کے ہاتھ میں رہنا ضروری ہے ورنہ اگر یہ تمہارے پاس رہی توتمہارے اخلاق و اطوار ہی ان پر اثر انداز ہوں گے مگر پھر یہ انسان نہیں رہیںگے بلکہ سانپ بن جائیں گے ۔اور جس طرح سانپ سفلی زمیں کی مٹی کھاتاہے ۔اسی طرح وہ بھی زمین کے کیڑے بن جائیں گے ایک مضبوط اور مستعد جماعت کی شکل اختیار نہیں کرسکیں گے ۔مگر فرعون نے اس کشفی نظارہ کی حقیقت کو نہ سمجھا اور یہ خیال کرلیاکہ موسٰیؑ کوئی بڑا جادوگر ہے ۔جس نے اپنے جادو کے زور سے سونٹے کو سانپ کی شکل میں تبدیل کردیاہے ۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عصائے موسٰیؑ کے سانپ بن جانے کے متعلق قرآن کریم نے تین الفاظ استعمال کئے ہیں ۔اوّل ثعبان ۔دوم حیّۃ ۔سوم جانّ۔ثعبان کالفظ تو سورۃ اعراف ع ۱۳اورسورۃ شعراء کی زیر تفسیرآیت میں استعمال ہواہے ۔حیّۃکالفظ سورۃ طٰہٰ کے پہلے رکوع میں استعمال ہواہے ۔اور جانّ کالفظ سورۃ نمل ع۱ ور سورئہ قصص ع۴ میں استعمال ہواہے ۔دشمنان اسلام اپنی نادانی سے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک ہی امر کے متعلق قرآن کریم نے اتنے مختلف الفاظ کیوں استعمال کئے ہیں ۔اس سے تو معلوم ہوا کہ قرآن کریم میں اختلاف پایاجاتاہے ۔مگریہ اعتراض قلّتِ تدبر کانتیجہ ہے ۔اگر وہ غور کرتے توانہیں اس میں کوئی اختلاف نظر نہ آتا ۔حقیقت یہ ہے کہ فرعون کے دربار میں جب حضرت موسٰیؑ نے اپناعصاپھینکااور وہ اژدہا بن کر نظرآنے لگا ۔تو اس واقعہ کے متعلق قرآن کریم نے ہرمقام پرصرف ثعبان کالفظ استعمال کیاہے کوئی اور لفظ استعمال نہیں کیا۔پس اس بارہ میںاختلاف کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
باقی رہا حیّۃ اور جانّ کے الفاظ کا استعمال سویہ ددونوں الفا ظ اس موقعہ پراستعمال کئے گئے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی علیہ السلام کواپنے کلام سے نوازا اورانہیں فرعون کی طرف جانے کی ہدایت فرمائی ۔اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اے موسیٰ ؑ اپنا سونٹاپھینک ۔انہوں نے سونٹا پھینکاتو قرآن کریم میںلکھا ہے کہ فاذاہی حیّۃ تسعیٰ (طٰہٰ ع ۱)موسیٰ نے کیادیکھا کہ وہ ایک
سانپ ہے جو دوڑرہا ہے حیّۃ کالفظ چھوٹے اور بڑے دونوں قسم کے سانپوں کے لئے استعمال ہوتاہے ۔لیکن سورۃ نمل اور سور ۃ قصص میں یہی مضمون ان الفاظ میں بیان کیاگیاہے کہ فلمّا راٰھا تھزّکانّھاجانّ ولّیٰ مدبراً ولم یعقّب (نمل ع ۱)جب موسٰی علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ لاٹھی ہل رہی ہے گویاکہ وہ ایک چھوٹا سانپ ہے تو وہ پیٹھ پھیر کربھاگا اور اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔سورئہ قصص رکوع۴میں بھی یہی لفظ استعمال کئے گئے ہیں پس اعتراض ہوسکتاہے تو اس پر کہ ایک ہی واقعہ کے متعلق ایک جگہ حیّۃ اور دوسری جگہ جانّ کالفظ کیوںاستعمال کیاگیاہے۔ثُعْبَانٌ کا لفظ جیسا کہ بتایا جاچکا ہے الگ موقعہ پر استعمال ہوا ہے اس لئے ثُعْبَانٌ کے بارہ میں کوئی سوال پیدا نہیں ہوسکتا ۔ سوال صرف یہ ہوسکتا ہے کہ حَیَّۃٌ کو دوسرے مقام پر جَآنٌ کیوں کہا گیا ہے سو یا د رکھنا چاہیئے کہ سورئہ نمل اور قصص دونوں مقامات پر قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ وہ جَآنٌ تھا بلکہ یہ کہا ہے کہ تَھْتَذُّ کَاَنَّھَا جَآنٌ وہ اس طرح ہلتا تھا جس طرح چھوٹا سانپ ہلتا تھا ۔ گویا تھا وہ بڑ اسانپ ہی مگر وہ ہلتا اس طرح تیزی سے تھا جیسے چھوٹا سانپ ہلا کرتا ہے۔ پس قرآن کریم نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں اُن کا آپس میںکوئی تضاد نہیں۔ جہاں قرآن کریم نے جانّؔ کا لفظ استعمال کیا ہے وہا ں اس سانپ کی صرف تیزی کا ذکر ہے اور یہ بتا نا مقصود ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سونٹا پھینکا تو وہ چھوٹے سانپ کی طرح تیزی سے دوڑنے لگ پڑا وہاں اس کی شکل کا کوئی ذکر نہیں کہ وہ چھوٹا تھا یا بڑا بلکہ یہ بتانا مدّنظر ہے کہ چھوٹے سانپ کی طرح اُس میںتیزی پائی جاتی تھی۔ لیکن جہاں ثُعْبَانٌ کا لفظ آیا ہے وہ آیات دیکھی جائیں تو صرف معلوم ہوگا کہ وہ واقعہ فرعون کے سامنے ہوا ہے اور فرعون کو چونکہ ڈرانا مقصود تھا ۔ اِس لئے اُسے ثُعْبَانٌ کی شکل میں سونٹا دکھائی دیا ۔پس قرآنی آیات میںجو تضادسمجھا جاتا ہے۔ وہ حقیقتاً کوئی تضاد نہیں محض قلّتِ تدبّر یا لغتِ عرب سے ناواقفیت کی وجہ سے ایسے سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔
دوسراؔ نشان جو اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر ظاہر کیا وہ یہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہلو سے اپنا ہاتھ نکالا تو وہ انہیں بالکل سفید اور چمکتا ہوا دکھائی دیا۔ یہ بھی ایک کشفی نظارہ تھا جو فرعونیوں کو دکھایا گیا ۔ اور جس میں ایک تو اس طرف اشارہ تھا کہ اے فرعونیو! تم مسمریزم جانتے ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ سفید رنگ نیکی اور پاکیزگی اور طہارتِ قلب کی علامت ہوا کرتا ہے پس موسیٰؑ کے ہاتھ کا سفید نظر آنا بتا رہا ہے کہ یہ شخص پاک اور بے عیب ہے اور یہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس میں کسی جھوٹ اور افتراء کی آمیزش نہیں ۔ اگر اس کا ہاتھ سیاہ دکھائی دیتا تو یہ اُس کی سیاہی قلب اور باطنی تاریکی کا ثبوت ہوتا ۔ مگر تم دیکھ رہے ہو کہ اس کا ہاتھ سورج کی طرح روشن ہے اور اس کی شعاعیں تمہاری آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہیں۔ پس تم اپنے علم کی بناء پر بھی سمجھ سکتے ہو کہ یہ شخص پاکباز ہے اور تمہارا فرض ہے کہ یہ جو کچھ کہے تو اسے تسلیم کرو۔
اسی طرح موسیٰ کا روشن ہاتھ اس تغیر کا بھی حامل تھا کہ اس شخص کے ہاتھ پر بڑے بھاری تغیرات مقدر ہیں مگر وہ تغیرات کسی ظلم اور تشدّد کے نتیجہ میں نہیں ہونگے ۔ نہ مکر اور فریب اور جھوٹ اور جعلسازی اُن میں کام کررہی ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اُس کی معجزانہ نصرت اس کا باعث ہوگی جس کو موسیٰؑ کی دعائیں جذب کریں گی اور وہ روحانی سلسلہ جس کی اس کے ہاتھ سے بنیاد رکھی جارہی ہے ایک دن دنیا کو اپنے انوار سے روشن کردے گا ۔ گویا جس طرح سورج اور چاند کے طلوع سے تاریکی غائب ہوجاتی ہے
اسی طرح موسیٰؑ کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ کے جو نشانات ظاہر ہوں گے ۔اُن سے وہ ظلمت اور تاریکی دُور ہوجائے گی جو لوگوں کے قلوب کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور شیطان کی جگہ رحمن کی حکومت قائم ہوجائے گی ۔
پھرموسیٰؑ کے اس کشف میں آپ ؑ کی قوم کی پاکیزگی اور طہارت کی طرف بھی اشارہ کیاگیا تھا کیونکہ ہاتھ کی تعبیر میں جہاں بھائی بیٹے اور رشتہ دار وغیرہ مراد ہوتے ہیں وہاں یَدْ سے قوم بھی مراد ہوتی ہے کیونکہ قوم کے افراد بھی ایک دوسرے کی تقویت اور سہارے کا موجب ہوتے ہیں اور مشکالات میں وہ دوسروں کے کام آتے ہیں ۔پس کشفی طور پر آپ کے ہاتھ کا روشن اور بے عیب دکھایا جانا اس تعبیر کا بھی حامل تھا کہ آج تو بنی اسرائیل میں کئی قسم کے عیوب دکھائی دے رہے ہیں لیکن جب یہ قوم میرے ہاتھ پر جمع ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس کے اندر ایسا نور پیدا کردے گا کہ یہ بھولے بھٹکوں کی رہنما بن جائے گی اور اخلاق اور روحانیت میں اعلیٰ درجہ کا کمال حاصل کرے گی ۔
یہ خیال کہ کسی انسان کے جسم سے ایسی شعاعیں کس طرح نکل سکتی ہیں جو دوسروں کو بھی نظر آجائیں صرف اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اس نشان کو ظاہر پر محمول کرلیتے ہیں۔ اگر وہ سمجھتے کہ یہ ایک کشفی واقعہ ہے تو اس قسم کے وساوس بھی ان کے دل میں پیدا نہ ہوتے موسیٰؑ کا زمانہ تو بہت دور کی بات ہے ہم تو دیکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض ایسے نشانات دکھائے ہیں جن میں کشفی نگاہ رکھنے والوں نے اللہ تعالیٰ کے انوار کو ظاہری شکل میں بھی متمثل دیکھا اور اُس کے روحانی کیف سے لذت اندوزہوئے ۔ چنانچہ ۱۹۰۴ء میں جب حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ السلام لاہور تشریف لے گئے تو وہاں ایک جلسہ میں آپؑ نے تقریر فرمائی ۔ایک غیر احمدی دوست شیخ رحمت اللہ صاحب وکیل بھی اُس تقریر میں موجو د تھے ۔ وہ کہتے ہیں ۔ دورانِ تقریر میں مَیں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سرسے نُور کا ایک ستون نکل کر آسمان کی طرف جارہا تھا۔ اُس وقت میرے ساتھ ایک اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔میں نے انہیں کہا ۔دیکھو وہ کیا چیز ہے۔ انہوں نے دیکھا۔ تو فوراً کہا کہ یہ تو نور کا ستون ہے جو حضرت مرزا صاحب کے سر سے نکل کر آسمان تک پہنچا ہوا ہے ۔اس نظارہ کا شیخ رحمت اللہ صاحب پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے اسی دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کی بیعت کرلی ۔ (الفضل ۱۵؍ستمبر ۱۹۴۴ ء)
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت چھ ماہ متواتر روزے رکھے تو آپ نے اُن روزوں کے روحانی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا :۔
’’ اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے ۔چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس اُمت میں گذر چکے ہیں اُن سے ملاقات ہوئی ۔ اور علاوہ اس کے انوارِ روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبز وسُرخ ایسے دلکش اور دستان طور پر نظر آتے تھے جن کا بیان کرنا بالکل طاقتِ تحریر سے باہر ہے ۔وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سُرخ تھے ۔اُن کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ اُن کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتاتھا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی ۔ جیسا کہ اُن کو دیکھ کر دل اور رُوح کو لذّت آتی تھی ۔ میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خد ااور بندہ کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے ۔
یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا۔ اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہوگئی ۔ یہ روحانی امور ہیںکہ دنیا اُن کو نہیں پہنچان سکتی ۔ کیونکہ وہ دنیا کی آنکھوں سے بہت دور ہیں۔ لیکن دنیا میںایسے بھی ہیں جن کو اِن امور سے خبر ملتی ہے ۔‘‘ (کتاب البریّہ حاشیہ صفحہ ۱۲۴،۱۲۷)
اسی طرح ایک دفعہ آپؑ نے فرمایا کہ:۔
’’میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اورپھر وہاں جاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں جذب ہوجاتے ہیں۔ اور وہاں سے نکل کر ان کی لانتہاء نالیاں ہوتی ہیں اور بقدر حصّہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں‘‘۔ (الحکم مؤرخہ ۲۸؍ فروری ۱۹۰۳ ء صفحہ۷)
اسی طرح ایک دفعہ آپؑ کو رؤیا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی ۔ اور آپؑ نے دیکھا کہ جیسے آفتاب کی کرنیں چھوڑتیں ہیں ۔ اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک سورج کی طرح چمک رہی ہے ۔ (تذکرہ صفحہ۴)
جلسہ اعظم مذاہب لاہور میں ابھی آپؑ کا مضمون نہیں پڑھا گیا تھا کہ آپؑ نے رؤیا میں دیکھا کہ ’’میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس ہاتھ کے چھونے سے اس محل میں سے ایک نورِ ساطعہ نکلا جو اردگرد پھیل گیا ۔اور میرے ہاتھ پر بھی اس کی روشنی پڑی ۔‘‘ (تذکرہ صفحہ ۲۹۵)
غرض اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو اصلاحِ خلق کے لئے مبعوث فرماتا ہے وہ انہیں اپنے انوار اور تجلیات کا جلوہ گاہ بناتا ہے اور یہ نور بعض دفعہ ظاہر ی طور پر متمثل ہوکر دوسرے لوگوں کو بھی نظر آجاتا ہے تاکہ سید الفطرت انسان ان فائدہ اٹھائیں اور وہ اپنے قلوب میں تغیر پیدا کریں ۔
خو د مجھے بھی اللہ تعالیٰ کا نور بعض دفعہ متمثل طور پردکھا ئی دیا ہے چنانچہ ۱۹۱۰ء یا ۱۹۱۱ء کا واقعہ ہے کہ مجھے بخار ہوگیا اور ساتھ ہی مجھے اپنی ران میں شدید درد ہونے لگا ۔کیونکہ اُن دنوں طاعون سے بعض اموات ہورہی تھیں مجھے وہم ہوا کہ کہیں یہ طاعون ہی نہ ہو ۔ چنانچہ میں انہیں اپنے کمرے کا دروازہ بند کرلیا اور سوچنے لگا کہ یہ کیا ہونے لگا ہے ۔ اسی اثنا میںجب کہ میری آنکھیں کھولی تھیں میں درودیوار کو دیکھ رہا تھا اور مجھے اپنے کمرہ کی تمام چیزیں نظر آرہی تھیں ۔ میں نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک سفید اور نہایت چمکتا ہوا نور ہے جو میرے کمرے کے نیچے سے نکل رہا ہے اور آسمان کی طرف چھت پھاڑ کر جا رہا ہے ۔نہ اس کی کوئی ابتداء معلوم ہوتی ہے اورنہ انتہا۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ اس نور میں ایک ہاتھ نکلا ہے جس میں ایک سفید چینی کا پیالہ ہے ۔اس ہاتھ نے وہ پیا لہ مجھے پکڑ دیا اور میں نے وہ دودھ پی لیا۔ جب میں وہ دودھ چکا تو میں نے دیکھا کہ نہ تو کوئی درد ہے اور نہ بخار بلکہ میں اچھا بھلا ہوں ۔ اور مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے۔
اسی طرح بعض دفعہ دوسروں کے جسم سے ایسی شعاعیں نکلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جس نے اُن کے اندرونی خیالات بے نقاب ہو جاتے ہیںاور پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ سچے مومن ہیں یا نہیں۔ میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ ایک شخص میرے ساتھ بات کرتا ہے اور میر ی روح اس کی روح سے ٹکرا کر معلوم کرلیتی ہے کہ یہ منافق کی روح ہے ۔ اسی طرح کئی ایسے ہوتے ہیں جو ظاہر میں بڑے اخلاص کا
اظہار کرتے ہیں ۔ہاتھ چومتے ہیں۔ مگر اُن کے ہاتھ چومنے پر مجھے ایسا معلوم ہوتاہے کہ گویا انہوں نے ہاتھ کو نجاست لگا دی ہے اور ان کی باتیں ایسی معلوم ہوتی ہیں کہ گویا وہ گالیاں دے رہے ہیں۔ کیونکہ قلوب کے اسرار بعض دفعہ توا للہ تعالیٰ اس طرح ظاہر کردیتا ہے کہ خود انسان کے منہ سے ایسی باتیں نکل جاتی ہیںجو اس کی قلبی کیفیت کا آئینہ دار ہوتی ہیں اور کبھی اس کے اندر سے باریک شعاعیں نکل کردوسروں کے قلوب پر پڑتی ہیں ۔ اور وہ چیز جسے وہ مخفی سمجھ رہا ہوتا ہے دوسرے پر ظاہر ہوجاتی ہیں ۔ کیونکہ خدا کے بندے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کی نظر باوجود انسانی ہونے کے لوگوں کے دلوں تک پہنچ جاتی ہے اور وہ چیز جو دنیا کے لئے پوشیدہ ہوتی ہے ان کے لئے ظاہر ہوجاتی ہے مگر چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ستّاری کی چادر اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے وہ ان کے عیب کو چھپا لیتے ہیں۔ وہ ایسا اس لئے نہیں کرتے کہ اُن کے دل کا خیال اُن پر ظاہر نہیں ہوتا بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ خدا نہیں چاہتا کہ اُس کی ستّاری کی چادر کو اُٹھا دیا جائے ۔
مجھے یاد ہے قادیان میں ایک دفعہ ایک بہائی عورت آئی اور مختلف مسائل پر مجھ سے گفتگو کرتی رہی ۔مگر اس پرکوئی اثرنہیں ہوتاتھا ۔ایک دن اس سے باتیں کرتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے جسم سے کوئی چیز نکل کراس کے ساتھ ٹکراجاتی ہے لیکن آگے نہیں گذرتی۔آخر میں نے دعاکی تومیں نے دیکھا کہ وہ چیز جوا س کے ساتھ ٹکراتی تھی آگے نکلنے لگی ہے ۔اس کانتیجہ یہ ہوا کہ یاتو وہ بڑے جوش سے باتیں کررہی تھی اور یایکدم گبھرا گئی اور اس نے بحث بند کردی او ر کہنے لگی کہ میرا بچہ بیمار ہے اس لئے میںجاتی ہوں حالانکہ وہ اچھّا بھلاتھا۔
غرض انبیاء اور اولیاء کے جسم سے مختلف قسم کی شعائیں نکلتی رہتی ہیںجو ان کے روحانی درجہ اور مقام کے مطابق مختلف رنگ کی ہوتی ہیں مگر یہ شعائیں مادی آنکھ سے دکھائی نہیںدیتیں بلکہ ان کے دیکھنے کے لئے کشفی نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے جوا للہ تعالیٰ کے فضل سے میسر آسکتی ہے ۔یہی نور تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے نکلا۔اور الٰہی تصرف کے ماتحت فرعون او راس کے درباریوں نے بھی دیکھ لیا۔مگر چونکہ وہ روحانی علوم سے بے بہرہ تھے انہوں نے اتنے بڑے نشان کو دیکھ کر بھی موسیٰ علیہ السلام کی عظمت اور اس کے تقدس کو نہ پہچانا اور یہ خیال کرلیا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے جادو کے زور سے ایسا کرلیاہے بہرحال موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پرخداتعالیٰ نے اپنے جلا ل او رجمال کااظہار کیااور سانپ کی شکل میں اسے انذاری اور یدبیضاء کی شکل میں تبشیری نشان دکھایا۔مگر بائبل نے عصا کاسانپ بن جاناتوتسلیم کیاہے اگرچہ وہ ا س نشان کوموسیٰ علیہ السلام کیطرف نہیںبلکہ ہارون ؑ کی طر ف منسوب کرتی ہے مگرموسیٰ علیہ السلام کے دربار میں یدبیضاء والے معجزے کے دکھائے جانے کا اس نے ذکرتک نہیںکیا اور یہ اس کی ایک بہت بڑی فروگذاشت تھی جس کا قرآن کریم نے ازالہ کیا۔بلکہ خو د بائبل کی ایک اندرونی شہادت سے بھی ثابت ہے کہ فرعون کے دربار میں یدبیضاء والا نشان بھی ضرور دکھایا گیا تھا ۔اور وہ شہادت یہ ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کو خداتعالیٰ نے فرعون کی طرف جانے کاحکم دیا تو اس وقت بائبل بھی تسلیم کرتی ہے کہ
’’ خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے ۔ اُ س نے کہا ۔ لاٹھی ! پھر اُس نے کہا کہ اِسے زمین پر ڈال دے اُس نے اسے زمین پر ڈالا تو وہ سانپ بن گئی اور موسیٰؑ اُس کے سامنے سے بھاگا۔‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۲,۳)
اِسی طرح لکھا کہ
’’پھر خداوند نے اُسے یہ بھی کہا کہ تو اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر ڈھانک لے۔ اُس نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر اُسے ڈھانک لیا اور جب اُس نے اسے نکال کردیکھا ۔ تو اُس کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا۔ (خروج باب۴آیت ۶)
اس حوالہ میں اوّل تو حضرت موسیٰ کے ہاتھ کی سفیدی کوڑھ کی طرف منسوب کی گئی ہے جو ایک نہایت ہی شرمناک بات ہے موسیٰؑ خدا تعالیٰ کا ایک مقدس نبی تھا ۔اور وہ مقام جہاں اس موسیٰؑ خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہوا تو تجلیاتِ الٰہیہ کا مرکز تھا۔ ایسے مقدس مقا م پرموسیٰؑ جیسے مقدس نبی سے خدا تعالیٰ کا ہمکلام ہونا تو ایک بہت بڑا انعام تھا اور وہ الٰہی برکات اور اس کے فیوض کا وقت تھا ۔ ایسے بابرکت وقت میں خدا تعالیٰ کا یہ عذاب کیسے نازل ہوسکتا تھا کہ موسیٰ کے ہاتھ کو کوڑھ ہوجاتا۔یقینا موسیٰؑ کے ہاتھ کو کوڑھ نہیںہوا۔ بلکہ کسی بدبخت یہودی کادل روحانی کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہوا اور اس نے یہ عیب حضرت موسی علیہ السلام کی طرف منسوب کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس کا ذکر کرتے ہوئے مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ (طٰہٰ ع ۱)کے الفاظ بیان فرمائے ہیں کہ ہاتھ کی سفیدی کسی بیماری کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایک نشان کے طور پر عطا کی گئی تھی۔
بہرحال ان دونوں معجزات کا ذکر کرنے کے بعد بائیبل میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :۔
’’ اوریوں ہوگا کہ اگر وہ تیرا یقین نہ کریں اور پہلے معجزہ ( یعنی لاٹھی کے سانپ بن جانے )کے معجزہ کو بھی نہ مانے تو وہ دوسرے معجزہ (یعنی ہاتھ کی سفید ی اور چمک )کے سبب سے یقین کریں گے ۔‘‘ (خروج باب۴ آیت ۸)
اب اگر لاٹھی کو سانپ کی شکل میں دیکھ کر فرعون ایمان لے آتا تو ہم تسلیم کرسکتے تھے کہ اسے دوسرا معجزہ دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن جب وہ ایمان ہی نہ لایا تو بائیبل کے خود اپنے بیان ضروری تھا کہ موسیٰؑ اُسے یدِ بیضاء والا معجزہ بھی دیکھاتے ۔ اور اگر وہ پھر بھی ایمان نہ لاتا تو اور معجزات دکھاتے جن کا بائیبل میں بھی ذکر آتا ہے اور قرآن کریم نے بھی ان کو بیا ن کیا ہے ۔پس بائیبل کا ایک طرف یہ کہنا کہ اگر فرعو ن پہلے معجزہ کو دیکھ کر ایمان نہ لایا تو پھر دوسرا معجزہ اُسے دکھایا جائے بتا تا ہے کہ فرعون کے سامنے یہ دونوں معجزے دکھائے گئے تھے ۔ مگر بائیبل چونکہ انسانی دست برُد کاشکار رہی ہے اس لئے اس نے اس معجزہ کا ذکر تو کردیا اور دوسرے معجزہ کے دکھائے جانے کا کوئی ذکر نہ کیا۔ لیکن خود اس کی اندرونی شہادت بتا رہی ہے کہ فرعون کے دربار میں یہ دونوں معجزات دکھانے کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا تھا ۔پس صحیح بات وہی ہے جو قرآن کریم نے کہی ہے اور بائیبل نے جو کچھ کہا ہے وہ خو د بائیبل کی اپنی شہادت سے ہی غلط ثابت ہوتا ہے ۔ باقی رہا بائیبل کا یہ کہنا کہ فرعون کے دربار میں موسیٰؑ نے نہیں بلکہ ہارونؑ نے عٰصا پھینکا تھا
(خروج باب۷ آیت ۱۰)
یہ بھی بائیبل کی غلط بیانی ہے کیونکہ خود بائیبل خروج باب ۴ میں تسلیم کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہارونؑ سے نہیں بلکہ موسیٰؑ نے کہاتھا کہ
’’یہ تیرے ہاتھ میں کیاہے ۔ اُس نے کہا لاٹھی !پھر اُ س نے کہا اِسے زمین پر ڈال دے ۔ اُس نے اُسے زمین پر ڈالا اور وہ سانب بن گئی ۔اور موسیٰ اس کے سامنے سے بھاگا۔ تب خداوند نے موسیٰ سے کہا ہاتھ بڑھاکر اس کی دم پکڑ لے۔ اُس نے ہاتھ بڑھایا اور اُسے پکڑ لیا۔وہ اس کے ہاتھ میں لاٹھی بن گیا۔‘‘ (خروج باب۴ آیت ۲,۴)
پھر یہ بات بھی خداتعالیٰ نے موسیٰ سے ہی کہی تھی کہ اگر وہ پہلے معجزہ کو نہ مانیں تو ’’وہ دوسرے معجزہ کے سبب سے یقین کریں گے ۔‘‘
(خروج باب ۴ آیت ۹)
پس جب کہ تمام گفتگو موسیٰؑ سے ہی ہوتی رہی اور موسیٰؑ کی لاٹھی ہی سانپ بنی اور موسیٰؑ کو ہی یہ کہاگیا کہاگر فرعون اور اس کے درباری پہلے معجزہ کو دیکھ کر ایمان نہ لائے تو دوسرے معجزہ کو دیکھ کر ایمان لے آئیںگے تویہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ فرعون کے دربار میں موسیٰؑ کی بجائے ہارون اپنا عصا پھینک دیتے ۔ پس یہ بات بھی بائیبل کیااندرونی شہادت سے باطل قرار پاتی ہے اور صحیح بات وہی ثابت ہوتی ہے جو قرآ ن کریم نے کہی۔
بہر حال یہ دو بڑے بھاری نشانات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ کے ہاتھ پر ظاہر کئے ۔ مگر اس امر کو تسلیم کرنے کے باوجود کہ حقیقتاً یہ ایک بہت بڑا نشان تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سونٹا پھینکا اور وہ سانپ بن گیا یا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سونٹا مارا اور چٹان سے پانی بہہ نکلا پھر بھی اس صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موسیٰ کے عصا کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوعصا عطا فرمایا وہ اتنا عظیم الشان ہے کہ موسیٰؑ کے عصا سے بحیرہ قلزم کا پھٹنا یا اُ ن کے عصا سے پتھر کی چٹانوں سے پانی بہہ نکلنا یا خود اُن کے عصا کا سانپ بن کر لوگوں کو دکھائی دینا اس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ موسیٰؑ کاعصا بیشک بڑے بھاری نشانات کا حامل تھا مگر آج دنیا میں کہیں موسوی عصاکا نشان نہیں۔وہ عصا موسیٰؑ کے ہاتھ میں رہا اور موسیٰؑ کی وفات کے ساتھ ہی اس کی نشان نمائی کامعجزہ ختم ہوگیا مگر محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ عصا عطافرمایا جس پر انسانوں کی موت اور زمانہ کی گردشیں کوئی اثر نہیںکرسکتیں۔ جسے دنیا کی بڑی سے بڑی حکومتیں بھی توڑنے کی طاقت نہیں رکھتیں۔ اس عصاکو نہ کوئی زمینی کیڑا کھانے کی طاقت رکھتاہے اور نہ کوئی آسمانی صاعقہ اسے صفحہ ہستی سے معدوم کرسکتاہے ۔وہ عصاجو آج بھی کفر کے سر کو پاش پاش کررہاہے اور قیامت تک شیطان کے پھیلائے ہوئے جالوں اور اس کی رسیو ںکو نگلتا چلاجائے گا۔قرآن کریم ہے جومحمد رسو ل اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کوعطاکیاگیا۔اور مسلمانوں سے کہاگیاکہ جاہدھم بہ جھاداً کبیراً(فرقان آیت۵۳)اے مسلمانوتم قرآن کریم کو اپنے ہاتھ میںلو اور ا س کے ذریعہ کفّار سے جہاد کبیر کرو۔گویاقرآن کریم ایک کتاب ہی نہیں بلکہ وہ ایک کامیاب ہتھیار بھی ہے جس سے کفر و شیطنت کی پھیلائی ہوئی ظلمتوں کامقابلہ کیاجاسکتاہے اور بہ کہہ کربتایاکہ یہ قرآن بنی نوع انسان کامقصد بھی ہے اور ایصال مقصد کاذریعہ بھی ہے ۔یعنی روحانی دلائل و براہین کے لئے یہ کسی دوسرے کی وکالت کا محتاج نہیں بلکہ خود بھی اپنے دعاوی کے دلائل بھی دیتاہے اور اس طر ح بنی نوع انسان کے عقلی اور فکری معیار کو بھی بلند کرتاچلاجاتاہے ۔غرض قرآن وہ عظمت و شوکت اپنے اند ر رکھتاہے کہ اس کے ذریعہ تو پ و تفنگ کے بغیر بھی دنیاکو فتح کیاجاسکتا ہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اب دوسرے مسلمانوں میں بھی بیداری اور قربانی کی روح پیدا ہو رہی ہے لیکن قربانی کی وہ روح انہیں توپ وتفنگ کی طر ف لے جاتی ہے ۔بے شک موجودہ دور کا مسلمان آج سے سو یاپچاس سال قبل کے مسلمانوں کی نسبت زیادہ بیدار ہے لیکن وہ توپوں اور تلواروں کی طرف بھاگ رہاہے ۔وہ حسرت سے ایٹم بم بنانے والوں کی طر ف دیکھ رہاہے اور اس امید میں ہے کہ وہ اسے بھی صدقہ کے طور
پر کچھ ہتھیار دے دیں لکین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ تمہاری توپ قرآن ہے ۔تمہاری رائفل قرآن ہے ۔تمہاری بندوق قرآن ہے تمہاراپستول قرآن ہے قرآن وہ ہتھیار ہے جس سے تم نے دنیا کاسر کچلنا ہے پس تم فتح کے لئے اس امر کے محتاج نہیںہو کہ انگلستان تمہیںتوپیں دے ۔تم فتح کے لئے اس امر کے محتاج نہیں ہوکہ امریکہ تم پر مہربان ہو اور ایک دو ایٹم بم دے دے ۔یا فرانس اورجرمن تمہیں کیمیاوی چیزیں پیدا کر کے دے بلکہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم قرآن کریم لو اور دنیا کو فتح کرلو ۔
قرآن وہ کتاب ہے جو انسان کے دل میں خداتعالیٰ کی خشیت پیدا کر کے اس کو خدا کی طرف لے جاتی ہے اور انسان کی جتنی طبعی اورروحانی ضرورتیں ہیں ان سب کو پوراکرتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔وَلَقَد صَرَّفنَا لِلنَّاسِ فِی ھٰذَا القُراٰنِ مِنْ کلِّ مَثَلٍ (بنی اسرائیل ۔۹)ہم نے اس قرآن میں پھیر پھیر کراور چکر دے دے کر اور نئے نئے اسلوب سے اور نئی نئی طرز سے تمام قسم کی فطرتوں کے لئے مضامین بیان کردیئے ہیں۔
دنیامیں دو ہی چیزیں ہوتی ہیں جو کسی تعلیم کی برتری کو ثابت کرتی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر قسم کے مضامین اس میں بیان ہوں۔ اوردوسرےؔ یہ کہ مختلف طبقات میں سے ہر طبقہ کیلئے اس میں مضامین بیان ہوں اور یہ دونوں خصوصیتں قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں گویا کوئی انسان نہیں رہا جو قرآن نے بیان نہ کی ہو۔ جب ہر بات اس بیان کردی گئی ہے اور ہر قسم کے لوگوں کی فطرت کو ملحوظ رکھ کر اس میں تعلیم نازل کردی گئی ہے۔توپھر بنی نوع انسان کو اپنے خدا کی محبت او را س کا پیا رکیوں حاصل نہ ہو ۔بیشک پرانے زمانہ میں موسیٰؑ اور عیسیٰؑ اوردوسرے نبیوں کو خدا ملا اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔لیکن ہمارا دل اس سے تسلی نہیں پاتا ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی خدا کی محبت حاصل ہو ۔اور زندہ کتا ب وہی کہلا سکتی ہے جوزندہ خدا سے ہمار ا تعلق پیدا کردے ۔ اگر وہ ہمیں خدا سے نہیں ملاتی تو اس کتا ب کا وجود اور عدم ہمارے لئے برابر ہوجاتا ہے اور قرآن کہتا ہے کہ ہم نے ہر انسان کی روحانی ضرورتوںکے پوراکرنے کے سامان اس کتاب میں رکھ دیئے ہیں پس جو بھی سچے دل سے اس پر عمل کرے گا وہ اپنے خدا کو پالے گا ۔اسی طرح فرماتا ہے وَاُوْحِیْ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُ نْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ۔(انعام آیت ۲۰)اے محمد رسول اللہ تو لوگوںسے کہہ دے کہ یہ قرآن میری طرف اس لئے وحی کیا گیا ہے کہ میں اس کے ذریعے سے تمہیں بھی فائدہ پہنچائو اور وہ تمام لوگ جن کے کانوں تک اس کی آواز پہنچے ان کو بھی فائدہ پہنچائو ں۔ ایک طرف قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا کہ اس میں ہر قسم کے مضامین بیان کئے گئے ہیں اور ہر قسم کے لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور دوسری طرف اس نے یہ کہا ہے کہ جس کے ہاتھ میں بھی یہ قرآ ن ہے اس کو فائدہ پہنچے گا کیونکہ یہ اسی لئے نازل کیا گیا ہے کہ وہ سب لوگ جن کے کانوں تک اس کی آواز پہنچے اُن کو فائدہ پہنچائے ۔
پس قرآن کریم ایک بہت بڑا ہتھیار ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطاکیاگیا ۔موسیٰؑ کا عصاتو صرف تھوڑی دیر کیلئے فرعونیوں کو سانپ کی شکل میں نظر آیا تھا جسے کچھ دیر کے لئے ان کے جسموںپر لرزہ بھی طاری ہوا مگر قرآن وہ کتاب ہے جو آج تک انزار کا کام کررہی اور پھر اس کا انداز کسی ایک قوم یا ایک ملک سے مخصوص نہیں بلکہ دنیا کی تمام اقوام اور دنیا کے تمام ممالک اس کے دائرہ انزارمیں شامل ہیں اور پھر اس کے انزار کی وسعت زمانوں کی قیود سے بھی بالا ہے۔ قیاموں تک کوئی زمانہ ایسا نہیں آسکتا جس میں
قرآن دشمنانِ اسلام کے لئے ایک نذیر مبین کا کا م نہ کررہا ہویا اس کے انزاری نشانات ان کی شان و شوکت کو مٹا کر اسلام کو غلبہ دینے کی طاقت نہ رکھتے ہوں۔ پھر موسیٰؑ کا عصا صرف موسیٰؑ کے ہاتھ میں ہی نشان دکھا سکتا تھا مگر قرآن جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ایک زندہ کتاب تھی اسی طرح آج سچے اورمخلص مومن کیلئے بھی وہ ایک زندہ کتاب ہے ۔ اور جس طرح وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حقائق و معارف کی کان میں سے لاتعداد ہیرے اور جواہر پیش کرتی تھی اسی طرح وہ امت محمدیہ کے ہر مخلص فرد کو اس کے ایمان اور اخلاص کے مطابق اپنے معارف سے حصہ دیتی او راپنے علوم سے بہرہ ورکرتی ہے ۔ کیونکہ اس کا نزول اس ہستی کی طرف سے ہے جسے غیب کا علم ہے اور جو انسان کے خیالات اور جذبات اور افکار کو جانتی ہے ۔دنیا میں کوئی انسان خواہ اس کا تجربہ کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو تمام افراد کے تما م افکار تمام جذبات اور تمام خیالات کا واقف نہیں ہوسکتا تمام انسانوں کا جذبات افکار اور ان کے خیالات کو وہی ذات سمجھ سکتی ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے اور وہ قرآن کریم میںبولتی ہے اور ہر شخص اپنی ضرورت کی چیز اس میں سے لے جاتا ہے ۔دنیا میں کسی کو کھدر کی ضرورت ہوتی ہے کسی کو لٹھے کی ضرورت ہوتی ہے۔زربفت وکمخواب کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کسی کو سرد یا گرم سوٹ یا رشمی کپڑوں کی مختلف اقسام کی ضرورت ہوتی ہے۔جب کوئی شخص اپنی اپنی ضرورت کے مطابق کپڑے خرید کر دکان سے باہر نکلتا ہے تو اس کی گھٹڑی میںسے ہر قسم کے کپڑے نہیں مل سکتے ہرقسم کے کپڑے صرف دکان سے ہی مل سکتے ہیںجوشہر یا گائوںکے لوگوںکی ضروریات کے لئے قائم ہوتی ہے۔ ایک عالم کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسا ایک کپڑا خریدنے والا ۔ ایک بہت بڑے عالم کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے بہت بڑا امیر جو اپنے خاندان کی ضرورت کے مطابق دکان سے مختلف قسم کے کپڑے ایک بڑی مقدار میں خریدتا ہے ۔تم اس امیر کی شخص کی گھٹڑی میں کپڑے کی میں کپڑے کی بہت سی اقسام دیکھو گے تم اس میں لٹھّے کے تھان دیکھو گے ۔ تم زربفت و کمخواب دیکھو گے ۔ تم کوٹوں کے کپڑے دیکھو گے ۔ لیکن پھر بھی کپڑے کی بیسیوں اقسام ایسی رہ جائیں گی جو تمہیں اس گھٹڑی میں نظر نہیں آئیں گی حالانکہ وہ ہزاروں روپے کا کپڑا خرید کر لایا ہوگا ۔ اسی طرح جو شخص قرآن کریم کا مطالعہ کرتا ہے۔ اس کا علم خواہ کتنا تھوڑا ہو وہ اگر قرآن کریم کیساتھ موانست رکھتا ہے تو اس کا دماغ اپنی ضرورت کے مطابق قرآ ن کریم سے چیزیں لے لیتا ہے ۔ کیونکہ قرآن کریم کی مثال دنیاکی سی ہے جس کے جنگلوں میں تم جاتے ہو اور اپنی ضرورت کے مطابق کوئی نہ کوئی درخت کاٹ لاتے ہو۔ لیکن اس کے اندر پائی جانے والی دھاتوں کی اصلیت تمہیں معلوم نہیں ہوتی۔ اسی طرح قرآنی علوم کو سمجھنے والے افراد قرآن کے سمجھنے میں دوسروں کے ممد تو ہوسکتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم کے قائم مقام نہیں ہو سکتے۔قرآن کریم کا قائم مقام قرآن کریم ہی ہے۔بڑے بڑے مفسر بلکہ ایک نبی بھی اس کا مؤید ۔معین اور ناصر تو ہو اس کا قائم مقام نہیں۔ حتی کہ وہ وجود جو خود قرآن تھا یعنی محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ بھی اس کا قائم مقام نہیں ہوسکتا ۔ وہ زمین میں یورینیم پائی جاتی ہے جس سے ایٹم بنتا ہے وہ ساری چیزوں کو نہیںجانتی ۔ وہ ماں بھی بچے کو پوری طرح نہیں جانتی جس نے نو ماہ تک بچے کو پیٹ میں رکھا ۔قرآن قرآ ن ہی ہے۔ اور انسان انسان ہی ہے ۔ہر موقعہ۔ ہر ضرورت ،ہر جذبہ اور ہر فکر کی تبدیلی پر قرآن اپنے پڑھنے والے کے لئے ایک نیا روپ بدلتا ہے ۔وہ ہر متلاشی کے لئے نیا روپ بدلتا ہے۔ وہ ہر شخص کے لئے نیا دروازہ کھولتا ہے جو اسے حاصل کرنا چاہتاہے۔ پس قرآن کریم کے ساتھ محبت اورپیار کرو اور اس پر غور اور فکر کی عادت ڈالو۔ اس کے بغیر نہ خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوسکتی
ہے اورنہ صحیح اسلامی روح پیدا ہوسکتی ہے ۔ بانی سلسلہ احمدیہؑ نے قرآن کریم کی اسی فضیلت کا اپنے ایک شعر میں اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ ؎
پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰؑ کا عصا ہے فرقاں
پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا
یعنی پہلے ہم نے یہ سمجھا کہ جس طرح موسیٰؑ کا عصا ساحروں کے سانپ نگل گیا تھا ۔اسی طرح قرآن کریم بھی اپنے دلائل براہین اور معجزات ونشانات کے ذریعہ سے دشمنانِ اسلام کے پھیلائے ہوئے جالوں کو تارتار کر دیتا ہے اور اس لحاظ سے موسیٰؑ کے عصا کیساتھ مشابہت ہے لیکن جب ہم زیادہ غور کیا اور قرآن کریم کے مطالب پر گہری نگاہ ڈالی تو ہمیں نظر آیا کہ قرآن کریم موسیٰؑ کے عصا سے لاکھوں گُنا بڑھ کر ہے کیونکہ موسیٰؑ کے عصا سے تو صرف ساحروں کا بھانڈا پھوٹا اور اُن کے سانپ فنا ہوئے مگر قرآن کریم نہ صرف دشمنانِ اسلام کی سرکوبی کے لئے ہروقت ایک چوکس اور ہوشیار جرنیل کی طرح اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے بلکہ اُس کا ایک ایک لفظ مُردوں کو زندہ کرنے والا اور اُن کے اندر زندگی کی تازہ روح پھونکنے والا ہے گویا موسوی عصا نے صرف اتنا کام کیا کہ دشمن کا سرپاش پاش کردیا۔ اوراُسے روحانی لحاظ سے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا قرآن صرف دشمنوں کو ہلاک ہی نہیںکرتا بلکہ اُن کو ازسر نو زندہ کرکے خدا تعالیٰ کا مقرب بھی بنا دیتا ہے ۔اور وہ صرف دفع شر کی ہی خاصیت اپنے اندر نہیں رکھتا بلکہ ایصالِ خیر کا پہلو بھی اس میں بدرجہ کمال پایا جاتا ہے اور وہ مُردوں کو زندہ کرنے کی اپنے اندر طاقت رکھتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اسی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَجِیْبُوْالِلّٰہِ وَلِرَّسْوِلِ اِذَا دعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ(انفال آیت ۲۵)یعنی اے مومنو! جب خدا اور اس کا رسول تمہیں زندہ کرنے کے لئے آواز دے تو تم اُس کی آواز پر فوراًلبیک کہا کرو۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ قرآن کریم مُردوں کو زندہ کرنے کے لئے آیا ہے بے شک اُس کی تعلیم پر عمل کرکے اندھے آنکھیں پا سکتے ہیں۔ بہرے شنوا ہوسکتے ہیں۔ لنگڑے لولے چل پھر سکتے ہیں۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر قرآن کریم میںیہ خوبی ہے کہ اس کی تعلیم پر عمل کر کے مُردے بھی زندہ ہوسکتے ہیں اور اُن میں بھی ایک نئی روحانی حیات پیدا ہوجات ہے ۔یہی روح تھی جس نے عرب کی سرزمین میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔ اور وہ لوگ جو اصنام واجماد کے آگے سربسجود رہا کرتے تھے اور ہرقسم کے فواحش کے ارتکاب میں ایک لذت اور سرور محسوس کیا کرتے تھے خدائے واحد کے ایسے پرستار ہوئے کہ انہوں نے بھیڑ بکریوں کی طرح اُس کی راہ میں اپنے سر کٹوادیئے اور خداتعالیٰ کے قرب میں بڑھتے چلے گئے ۔پس موسیٰؑ کا عصا اس عظیم الشان انعام کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا۔ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوعطا کیا گیا ۔ اورجو آج بھی دشمنانِ دین کیلئے ایک برہانِ قاطع کی حیثیت رکھتا ہے۔
دوسراؔ نشان جو فرعون کے دربا ر میں دکھایا گیا وہ یہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہاتھ انہیں بالکل نورانی اور سفید دکھائی دیا یہ نشان بھی بے شک بہت بڑا ہے جو حضرت موسیٰؑ کے تقدس اور ان کے اعلیٰ شان کو ظاہر کرتا ہے ۔اوران برکات پر روشنی ڈالتا ہے جن کا ان کے ہاتھ پر ظہور مقدر تھا ۔مگر اللہ تعالیٰ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پہلو میں بھی ایک نمایا ں فضیلت عطا فرمائی ۔ چنانچہ موسیٰؑ کا تو صرف ہاتھ سفید دکھائی دیا مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سرتاپا ایک نورِ مجسم قرار دیا ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا کہ :۔یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآ ئَ کُمْ بُرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَٓا اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْناً(نسآء آیت ۱۷۵)
یعنی اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک کھلی دلیل آ چکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایک نہایت روشن نور نازل کیا ہے۔ اسی طرح فرمایا کہ قَدْ جَآعَ کُمْ مِّنْ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ۔(مائدہ آیت ۱۶)تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور اور روشن کتا ب آچکی ہے ۔پس موسیٰؑ کے تو صرف ایک ہاتھ سے نورانی شعاعیں نکلتی دکھائی دی تھیں مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سرتاپانور کا ایک پیکر بنایا۔ اور یہ فرق اس لئے تھا کہ موسیٰؑ نے صرف بنی اسرائیل کی اصلاح کا کام سرانجام دینا تھا مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا تھا۔ اس لئے موسیٰؑ کا تو صرف ایک ہاتھ نور کی شکل میں دکھائی دیا۔ مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ نے سر سے پیر تک نور ہی نور قرار دے دیا ۔
پھر موسیٰؑ کا ہاتھ بیشک نورانی دکھائی دیا مگر بہرحال وہ موسیٰؑ کاہی ہاتھ تھا مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو خدا تعالیٰ نے اپنا ہاتھ قرار دیا اور فرمایا کہ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُدْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ(فتح آیت ۱۱)یعنی وہ لوگ جو تیر ی بیعت کرتے ہیں وہ تیری بیعت نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کرتے ہیں اوران کے ہاتھ پر تیرا ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کاہاتھ ہوتاہے ۔بظاہر انہیں وہ ہاتھ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دکھائی دیتا ہے مگر حقیقتاً وہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوتاہے اسی طرح غزوہ بدر میںجب آپ ؐ نے کفار کی طرف کنکروں کی مُٹھی پھینکی اور اس کے ساتھ ایک طوفانِ باد اٹھا جس نے کفا ر کی آنکھوں کو آندھا کردیا ۔ تو اس واقعہ کاذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمَی۔ (انفال آیت ۱۸)اے محمدرسول اللہ !جب تو نے کفار کی طرف کنکر پھینکے تھے تو تونے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکے تھے ۔ پس موسیٰؑ کا ہاتھ خواہ کس قدر نورانی نظر آیا ۔بہرحال وہ موسیٰؑ کا ہی ہاتھ تھا مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو خدا تعالیٰ نے اپنا ہاتھ قرار دے دیا ۔
پھر اگر ہاتھ کی سفید ی سے یہ اشارہ سمجھا جائے کہ اللہ تعالیٰ ان کی قوم کو روحانی لحاط سے بڑی پاکیزگی عطافرمائے گا ۔اور وہ دین کے لئے بڑی قربانیاں کرنے والے ہوں گے تو اس پہلو کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام پرنمایاں فضیلت عطافرمائی ہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اُسے کنعان کا ملک بنا دیا جائے گا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو ساتھ لے کرمصر سے چل پڑے اور جب وہ ملک سامنے آگیا تو آپ نے اپنی قوم سے کہا کہ جائو اورلڑائی کرکے اس ملک پر قبضہ کرلو ۔حضرت موسیٰؑ کی قوم نے غلطی سے یہ خیال کرلیا کہ خدا تعالیٰ نے یہ ملک ہمیں دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے ۔اس لئے وہ خود ہی اس وعدہ کو پورا کرے گا اور یہ ملک ہمارے قبضہ میں دے دے گا ۔ اگر ہم نے ہی اس ملک کو فتح کرنا تھا تو پھر وعدے کا کیا فائدہ۔چنانچہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیا کہ فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ(مائدہ آیت ۲۵) کہ اے موسیٰؑ! تو اور تیرا رب دونوں جائو او ردشمنوں سے لڑو ۔ ہم تو یہیں بیٹھیں گے جب تم ملک فتح کرکے ہمیں دے دو گے تو ہم اس میں داخل ہوجائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ کو اس قوم کی یہ بات سخت ناگوار گذری اور اس نے کہا کہ اب چالیس سال تک تم اس ملک میں داخل نہیں ہوسکتے چالیس سال تک تم جنگلوں میں بھٹکتے پھرو۔پھر اللہ تعالیٰ تمہاری نئی نسل کو اس امر کی توفیق دے گا کہ وہ اپنی جانیں قربان کرکے اس ملک میں داخل ہوں۔ اور خد اتعالیٰ کے انعامات کے مورد ہوں۔ غرض موسیٰؑ کو وہ قوم ملی جس نے خدا تعالیٰ کا اتنا بڑا نشان دیکھنے کے باوجود کہ اسے فرعون کی غلامی سے آزادی ملی اسے اور اس کی آئندہ نسلوں کو فرعونیوں کے لئے اینٹیں بنانے اور لکڑیاں کاٹنے اور ہر ذلیل سے ذلیل کام کرنے سے نجات ملی پھر بھی موسیٰؑ کا حکم ماننے سے انکار کردیا ۔اور جب انہیں کہا گیا کہ اٹھو اور اس عظیم الشان ملک پر قبضہ کرلو جس پر عاد قوم حکمران ہے تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہم سے یہ کام نہیں ہوسکتا ۔ تو اور تیرا رب دونوں جائو اور دشمنوں سے لڑتے پھرو۔جب دشمن مرگیا اور ہمیں اطمینان ہوگیا کہ اب ہماری جانوں کو کوئی خطرہ پیش نہیں آئے گا تو ہم اس ملک کی حکومت سنبھال لیں گے لیکن محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ صحابہؓ عطا فرمائے جنہوںنے موسیٰؑ کے ساتھیوں کی طرح کسی ایک مقام پر بھی یہ نہیںکہا کہ ہم اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ وہ آپؐ کے دائیں بھی لڑے اور بائیں بھی لڑے ۔ اور آگے بھی لڑے اور پیچھے بھی لڑے ۔ اور انہوں نے ہر نازک سے نازک مقام پر اپنی فدائیت اور جان نثاری کو ثابت کردیا ۔تاریخوں میں لکھا ہے کہ ہجرت مدینہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ ابو سفیان ایک تجارتی قافلہ کیساتھ شام کی طرف سے آرہا ہے اور راستہ میں تمام قبائل کو مسلمانوں کے خلاف اکساتا چلا آتاہے ۔اور قافلہ کا راستہ بھی مدینہ کے پاس سے گذرتا تھا اور گو ایسا قریب تو نہیں تھا مگر مکہ کی نسبت مدینہ سے زیادہ قریب تھا ۔تمام قبائل جو مدینہ کے گرد رہتے تھے وہ شام سے آنے والے قافلہ سے ملتے اور تجارتی چیزوں کا آپس میں تبادلہ کرتے تھے ۔اس لئے شام سے جو قافلہ آتا اس کے مدینہ کے تمام قبائل سے ہوجاتے تھے اور چونکہ اس قافلہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو اکساتے اور اشتعال دلاتے تھے اس لئے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم ہوا کہ ابو سفیان قافلہ کو لے مدینہ کے پاس گذررہا ہے اوریہ بھی معلوم ہواکہ مکہ والے بھی اس خیال سے کہ قافلہ پر مدینہ والے حملہ نہ کریں کچھ لشکر لے کرنکلے ہیں تو آپ نے اپنے دوستوں سے مشورہ لیا کہ اگر ہم مدینہ میں بیٹھے رہے تو دشمن دلیر ہوجائے گا۔ ہمیں آگے چلنا چاہیئے تاکہ دشمن یہ نہ سمجھے کہ ہم اس سے ڈرتے ہیں۔ چنانچہ آپ صحابہؓ کی ایک جماعت کو لے مدینہ سے باہر تشریف لے گئے اور بدر کے مقام پر پہنچے ۔ الٰہی اشارات سے آپ کو معلوم ہوچکاتھا کہ مکہ سے ایک لشکر آرہا ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ ہوگا ۔ لیکن آپ کو یہ اجازت نہیںتھی کہ آپ اس خبر کو ظاہر کریں ۔ نتیجہ یہ نکلا مدینہ سے بہت کم لوگ آپ کے ساتھ گئے ۔کیونکہ وہ اسے لڑائی نہیںسمجھتے تھے بلکہ صرف جرأت کے اظہار کا ایک موقعہ سمجھتے تھے ۔ بدر کے مقام کے قریب جا کر آپ نے مناسب سمجھا کہ اب یہ بات ظاہر کردی جائے چنانچہ آپ نے لوگوں کو جمع کیا ۔اور فرمایا ۔ اے لوگو!مجھے خدانے کہا ہے کہ دشمن کا لشکر قریب آگیا ہے اور بجائے اس کے کہ قافلہ سے لڑائی ہو شاید اسے سے لڑائی ہوجائے ۔ تمہاری اس بارہ میں کیا رائے ہے؟مہاجرین یکے بعد دیگرے کھڑے ہونے شروع ہوئے اور انہوں نے کہا ۔ یارسول اللہ !ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن انصار خاموش رہے ۔ وہ اس لئے خاموش رہے کہ جو فوج آرہی تھی اس میں مہاجرین کے بھائی بہنوئی ۔سالے ۔چچے اور تائے وغیرہ اور اسی طرح اور قریبی رشتہ دار تھے ۔ انہوں نے خیال کیا کہ اگر ہم نے کہا ۔ ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں تو مہاجرین سمجھیں گے کہ ہمیں ان کے رشتہ داروں سے لڑنے کا شوق ہے پس ان کی دلجوئی اور مہمانوں کی عزت کی وجہ سے سب انصار خاموش رہے ۔ مہاجرین یکے بعد دیگرے اٹھتے اور اٹھ اٹھ کر قربانی کی رغبت ایثار اور فدائیت کے جوش کا اظہار کرتے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر صحابی کی تقریر کے بعد فرماتے ۔ کہ اے لوگو!مجھے مشورہ دو۔ جب آپ نے متواتر یہ بات دہرائی تو ایک انصاری اٹھے اور انہوں نے کہا۔ یارسول اللہ !آپ کو مشورہ تو دیا جارہاہے ۔ لیکن باوجود مشورہ پیش کئے جانے کے آپ یہی فرماتے ہیں کہ اے لوگو مشورہ دو۔ شاید آپ کی مراد لوگوں سے ہم انصار ہیں کہ ہم بھی مشورہ دیں ۔ورنہ مشورہ تو آپ کو مل ہی رہا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ٹھیک ہے ۔میری یہی مراد تھی اس صحابی نے کہا۔ یارسول اللہ ! ہم نے آپ سے مکہ میں ایک معائدہ کیا تھا اور اقرار کیا تھا کہ اگر دشمن مدینہ پر حملہ آور ہواتو ہم ہر طرح اس کا مقابلہ کریں گے لیکن مدینہ سے باہر اگر لڑائی ہوئی تو ہم اس معائدہ کے پابند نہیں ہوںگے ۔ کیونکہ ہمارے اند راتنی طاقت نہیںکہ سارے عرب سے لڑ سکیں۔ شاید آپ جو باربار ہم مشورہ چاہتے ہیںتو آپ کا اشارہ اس معاہد ہ کی طرف ہے ۔ آپ نے فرمایا ۔ٹھیک ہے اس انصاری نے یہ بات سن کر بڑے جوش سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ!جب آپ سے ہم نے مکہ میں وہ معاہد ہ کیا تھااس وقت تک آپ کا مقام ہم پر پوری طرح روشن نہیں ہوا تھا ۔ صرف ایک محدود روشنی ہمیں ملی تھی اور ہم شرطیں باندھنے میںکوئی حرج نہیں سمجھتے تھے لیکن یارسول اللہ ! اس کے بعد حقیقت اسلام ہم پر پوری طرح کھل چکی ہے اور آپ کی صداقت کو ہم نے پوری طرح پرکھ لیا ہے ۔ اس صداقت کے روشن ہوجانے اور پرکھنے کے بعد کیا اب بھی کوئی شرط باقی رہ سکتی ہے۔اب تو شرطوں کا سوال ہی نہیں یا رسول اللہ ! اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ تم اپنے گھوڑوں اور سواریوں کو سمندر میںڈال دو تو ہم بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سمندر میں اپنے ڈال دیں گے اور یارسول اللہ! اگر یہاں جنگ ہوئی تو دشمن گو طاقت ور ہے اور تعدا د میںبھی بہت زیادہ ہے۔مگر ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے۔ آگے بھی لڑیں گے پیچھے بھی لڑیں گے ۔ خدا کی قسم ! دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے ۔یہ وہ نمونہ ہے جو صحابہؓ نے دکھایا اور پھر منہ کی باتوں تک ہی انہوں نے اپنے جذبہ اخلاص کو محدود نہیںرکھا بلکہ عملی رنگ میں بھی وہ رات اور دن اسلام کے لئے قربانیاں کرتے رہے اور انہوں نے ایسی جانثاری کا نمونہ دکھایا کہ سر ولیم میور ؔ ’’لائف آف محمد ‘‘میں غزوئہ احزاب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس جنگ میں کفارکا اتنا بڑا لشکر جمع ہوا تھا کہ اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کا شکست کھا جانا بالکل یقینی امر تھا ۔ مگر اتنے بڑے لشکر کے باوجود کفار کوجو کامیابی حاصل نہ ہوئی تو اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ کفارسے ایک سیاسی غلطی ہوئی۔ اور وہ یہ کہ جب وہ خندق پار کر کے آگے آ جاتے تو وہ اپنی بیوقوفی سے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کیطرف بڑھنا شروع کردیتے تھے مگر محمد رسول اللہ کے صحابہؓ آپ پر اتنے فدا تھے کہ جب وہ دیکھتے کہ ان لوگوں کا منشاء یہ ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کریںتو مرد عورتیں اور بچے پاگلوں کی طرح دشمن کے لشکر کے سامنے آجاتے تھے اور وہ شکست کھانے پر مجبور ہوجاتا تھا اگر وہ یہ بیوقوفی نہ کرتے کہ محمدرسول اللہ کے خیمہ کی طرف رجوع کرتے تو ممکن ہے کہ انکو احزاب میں فتح ہوجاتی۔ غرض صحابہ نے اپنے عشق کا جو نمونہ دکھایا موسیٰؑ کی جماعت کا نمونہ اس کے مقابلہ میں کوئی
حقیقت ہی نہیںرکھتا ۔ پس محمد رسول اللہ کا ید بیضاء موسیٰؑ کے ید بیضاء سے افضل ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عصا قرآنی موسیٰؑ کے عصا پر ہر لحاظ سے فضیلت رکھتا ہے۔
قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَہٓٗ اِ نَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ٭
اِس پر فرعون نے اپنے اردگرد کے سرداروں سے کہا یہ یہ تو کوئی بڑا واقف کار جادوگر ہے
یُّرِیْدُ اَنَ یُّخْرِجَکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ بِسِحْرِہٖ ۔ فَمَا ذَا تَامُرُوْنَ٭
یہ چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے ذریعہ سے تم کو تمہارے ملک سے نکال دے۔پس بتاؤ تم کیا مشورہ دیتے ہو۔
قَالُوْٓا اَرْجِہْ وَاَخَاہُ وَابْعَثْ فِی الْمَدَٓائِنِ حٰشِرِیْنَ٭
انہوں نے کہا۔ اس کو اور اس کے بھا ئی کو (کچھ دن) ڈھیل دے۔اور مختلف شہروں کی طرف آدمی بھجوا جو (قابل آدمیوں کو) جمع کرسکیں۔
یَاْتُوْکَ بِکُلِّ سَحَّارٍ عَلِیْمٍ٭
(اور)ہر بڑے جادو گر اور بڑے جاننے والے کو تیرے پاس لے آئیں۔
فَجُمِعَ السَّحَرَۃُ لِمِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ٭
اس پر سب جادوگر ایک معلوم دن پر جمع کئے گئے۔
وَّ قِیْلَ لِلنَّاسِ ھَلْ اَنْتُمْ مُّجْتَمِعُوْنَ٭
اور لوگوں سے کہاگیا۔ کیا تم سب (ایک مقصد پر) اکٹھے ہونے کے لئے تیا رہو(کہ نہیں)۔
لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَۃَ اِنْ کَانُوْ اھُمُ الْغٰلِبِیْنَ٭
تاکہ اگر جادو گر غالب ہوجائیں تو ہم اُن کے کہنے پر چلیں۔ ۹؎
۹؎حل لغات:۔اَرْجِہْ :اَرْجَہَ الْاَمْرَکے معنی ہیں اَخَّرَہٗ عَنْ وَقْتِہٖ کسی معاملہ کو اس کے وقت سے پیچھے ہٹادیا (اقرب )اَرْجِہْ امر کاصیغہ ہے اس لئے اس کے معنی ہوں گے ۔پیچھے ہٹادے ۔یعنی ڈھیل دے دے ۔
میقا ت :مطلق وقت کوبھی کہتے ہیں ۔اور اس وقت کو بھی کہتے ہیں جو کسی چیز کے لئے مقرر کیاجائے نیز اس کے معنی ہیں الموعود الّذی جعل لہ وقت وہ وعدہ جس کے لئے کوئی وقت مقرر کیاجائے ۔وَقَدْ یُسْتَعَارُ لِلْمَوْضِعِ ِالَّذِیْ جُعِلَ
وَقْتًالِلشَّی ئِّاور کبھی اس جگہ کو بھی میقات کہہ دیتے ہیں جو کسی کام کے سر انجام دینے کے لئے مقرر کی جائے (اقرب)
تفسیر:۔جب فرعون نے موسوی عصا اور ید بیضاء کا نشان دیکھا توچونکہ وہ دینی علوم سے بے بہرہ تھا اُس نے یہ نہ سمجھا کہ یہ ایک کشف ہے جس میں اردگردکے لوگوں کو بھی شامل کرلیا گیا ہے بلکہ سمجھا کہ شاید یہ کوئی جادو گر ہے جو اپنے فن میں بڑا مشّاق ہے اور چونکہ جادو گر روحانی آدمی نہیں ہوتا اس لئے خیال کرلیا کہ ضرور اس جادوگر کے پیچھے کوئی غرض ہوگی اور وہ غرض اُس نے یہ نکالی کہ یہ ہم کو اپنے ملک سے نکالنا چاہتا ہے اس بیوقوف نے یہ نہ سوچا کہ تھوڑی ہی دیر پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام اُس سے کہہ چکے تھے کہ میں تیرے پا س اس لئے آیا ہوں کہ تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے تو جو شخص بنی اسرائیل کو مصر سے نکالنے کی خواہش کرتا ہے وہ قبطیوں کو جو اس کی مخالف قوم تھے مصر سے نکالنے کا کس طرح ارادہ کرسکتا ہے ؟ یہ دونو ں باتیں تو متضاد ہیں۔اگر بنی اسرائیل نکل جاتے تو قبطیوں کے پائوں اور بھی مضبوط ہوجاتے ۔بنی اسرائیل کی نکالنے کی خواہش سے قبطیوں کے نکالنے کا ذکر کہاں سے نکلا؟ مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس کے درباریوں کے ہوش کچھ ٹھکانے تھے انہوں نے سمجھ لیا کہ بادشاہ بے تُکی باتیں کررہاہے موسیٰؑ کی باتوں سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو نکالنا چاہتا ہے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ قبطیوں یعنی قوم فرعون کو نکالنا چاہتا ہے اس لئے انہوں نے کہا اس کو اور اس کے بھائی کو ابھی ڈھیل دیجیئے ۔اور اردگرد آدمی بھیجیئے کہ وہ تمام تمام بڑے بڑے ساحروں کو جمع کرلیں۔ اگر یہ واقعہ میں ساحر ہے نبی نہیں تو یہ اُن سے ہار جائے گا ۔ اور اس کا دعویٰ باطل ثابت ہوجائے گا چنانچہ لوگوں کو اعلان کر کے جمع کیا گیا او ر انہیںکہہ دیا گیا کہ اگر ساحر غالب رہے تو ہم اُن کے پیچھے چل پڑیں گے ۔ یہ فقرہ بتارہا ہے کہ کفار کی ذہنیت کیسی پست ہوتی ہے ۔ چونکہ ان کے دل خدا تعالیٰ کی خشیت سے بالکل خالی ہوتے ہیںاس لئے وہ نبی کو ماننے کیلئے تو کسی صور ت میں بھی تیا ر نہیں ہوتے ۔ لیکن ان کا مخالف تھوڑی سی بھی کامیابی حاصل کرلے تواُس کے پیچھے چلنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں قومِ فرعون کی ایسی افسوسناک ذہنیت کا قرآن کریم نے ایک اور مقام پر ان الفاظ میں ذکر فرمایاہے کہ وَلَقَدْ اَرسَلْنَامُوْسیٰ بِاٰیٰتِنَا وَسُلطٰنٍ مُّبِیْنٍ اِلیٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَاْ ئِہٖ فَاتَّبَعُوْٓ ااَمْرَ فِرْعَوْنَ ۔وَمَآ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ۔(ھودع۹)یعنی ہم نے موسیٰؑ کو ہر قسم کے نشانات اور روشن دلائل دے کر فرعون اور اس کی قوم کے بڑے بڑے عمائد کی طرف بھیجا لیکن بجائے اس کے کہ موسیٰؑ کی پیروی کرتے انہوں نے فرعون کی پیروی کی ۔حالانکہ فرعون کی جو تعلیم تھی وہ صحیح راستہ دکھانے والی نہ تھی ۔لیکن پھر بھی جو گمراہی کیطرف لے جانے والا تھا اس کی بات تو انہوں نے مان لی او ر جو ہدایت کی طرف لے جانے والا تھا اس کی بات نہ مانی ۔
بدقسمتی سے یہی طریق ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔ جب رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوئے تو آپ نے جو تعلیم دی وہ بنی نوع انسان کو فلاح اور کامیابی کے مقام تک پہنچانے والی تھی مگر آپ کے بطن کے لوگوں نے ا س کا انکار کردیا اور پہلے تو ابوجہل کے پیچھے چلے جو فرعون کا ایک روحانی قائم مقام تھا اور اس کی ہر گندی اور فساد پھیلانے والی تعلیم کو انہوں نے قبول کرلیا اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم کو رد کردیا آپؐ کے بعد بھی یہی ہوا ۔ حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ ہوئے تو صحابہؓ آپ پر ایمان لے آئے مگر سارے عرب نے بغاوت کردی اور انہوں نے وہی طریق اختیا رکیا جو ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے اختیار کیا تھا اور اس وقت کے فراعنہ کے پیچھے چل پڑے ۔اس وقت کے فرعون مسلمہ کذاب ۔ اور اسودؔعنسی اور سجاح ؔوغیرہ تھے جنہوں نے جھوٹے طورپر نبوت کا دعویٰ کردیا
اور لوگ ان کے متّبع ہوگئے ۔ مگر جو رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا جانشین تھا اور لوگوں کے اندر اسلامی روح پیدا کرنے والا تھا اس کو چھوڑ دیا۔ پھر آپؐ کے بعد حضرت عمرؓ کو خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ۔ تب بھی یہی ہوا۔ حضرت عمر ؓ اپنی وفات کے قریب حج کیلئے گئے تو بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ عمرؓ مر جائیں گے تو ہم فلاں کو خلیفہ بنائیں گے ۔ اور کسی کی بیعت نہیں کریں گے ۔پھر اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے ماتحت حضرت عثمان ؓ خلیفہ ہوئے تو ان کے زمانہ میں بھی عبداللہ بن صباح جیسے لوگوں نے فتنا کھڑا کردیا۔ یہ شخص بھی مصری تھا جیسا کہ فرعون مصری تھا اور لوگوں نے اس کی بات ماننا شروع کردی ۔ ان کے بعد حضرت علیؓ خلیفہ ہوئے ۔ تب بھی لوگوں نے یہی طریق اختیار کیا پہلے تو حضرت علیؓ کو خلیفہ بننے پر مجبور کیا اور پھر ایک چھوٹا سا عذر کرکے کہ معاویہؓ سے صلح کیوں کی انہیں لوگوں نے جنہوں نے آپ کو خلافت کیلئے کھڑا کیا تھا بغاو ت کردی اور خوارج کے نام سے الگ ہوگئے ۔اورانہوں نے دو صدیوں تک اسلام میں وہ تہلکہ مچایاکہ لوگوں کاا من بالکل برباد ہوگیا ۔اسی طرح رسول کریم ﷺ کی بعثت پر ایک لمبا عرصہ گذرگیا اور امت محمدیہ میں مختلف اولیاء پیداہوئے ۔تب بھی یہی ہوا کہ لوگوں نے ان کی نہ سنی بلکہ ان کے دشمنوں کی سنی جو اپنے وقت کے فرعون تھے اور ان کے پیچھے چل پڑے ۔چنانچہ حضرت معین الدین چشتی ؒ ۔حضرت قطب الدین صاحب بختیار کاکی ۔حضرت نظام الدین صاحب اولیاء اور حضرت خواجہ فریدالدین صاحب گنج شکر وغیرہ کی بھی مخالفت ہوئی ۔حضرت سید احمد صاحب سرہندی آئے تو لوگوں نے جہانگیر کے کان بھرنے شروع کردیئے کہ یہ شخص حکومت کاباغی ہے اسے جلدی سنبھالیں ورنہ سخت فتنہ پیداہوجائے گا۔چنانچہ جہانگیر نے انہیں گوالیار کے قلعہ میں قید کردیا ۔مگر پھر بعض لوگوں نے انہیں سمجھایاکہ یہ بزرگ انسان ہے اسے رہاکردو۔چنانچہ اس نے دانائی سے کام لے کرا نہیںرہاکردیا ۔
غرض جب سے اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور خلفاء کاسلسلہ جاری ہے صداقت کی ہمیشہ مخالفت ہوتی چلی آئی ہے ۔یہی مخالفت کا جذبہ فرعون اور اس کی قوم کے اکابر کے دل و دماغ پربھی حاوی تھا ۔چنانچہ انہوں نے لوگوں کو جمع کیا ۔مگر انہیں یہ کہنے کی توفیق نہ ملی کہ اگر اس مقابلہ کے نتیجہ میں موسیٰ ؑغالب آگیا تو ہم موسیٰؑ کے پیچھے چل پڑیںگے اور اس کی بات مان لیں گے ۔بلکہ انہوں نے اگر لوگوں کے کان میں کوئی بات ڈالی تو صرف یہی کہ اگر جادوگر غالب آگئے تو ہم ان کے پیچھے چل پڑیںگے ۔حالانکہ مقابلہ میں اس بات کابھی امکان تھا کہ موسیٰؑ جیت جاتے اور جادوگر ہار جاتے مگر باوجود اس کے کہ دونوں پہلو ان کے سامنے موجود تھے اور وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اگرجادوگر غالب آگئے تو ہم جادوگروں کی بات مان لیںگے اور اگرموسیٰؑ غالب آیاتو ہم موسیٰؑ کی بات مان لیں گے ۔انہوں نے صرف اتناکہاکہ اگر جادوگر غالب آئے تو ہم ان کے پیچھے چل پڑیں گے اور اس طرح انہوں نے اپنے دلوں کے بغض اورعنادکا اظہار کردیا ۔اور بتادیاکہ انہیں صداقت سے کوئی غرض نہیں۔وہ صرف فرعون کی خوشنودی حاصل کرناچاہتے ہیںاور اسی غرض کیلئے وہ اس مقابلہ کاانتظار کررہے ہیں۔
حضر ت موسیٰؑ جیسے عظیم الشان نبی کے مقابلہ میں ان کاساحروں کو بلانایہ بھی بتاتاہے کہ انبیاء کی ابتدائی حالت کتنی کمزور ہوتی ہے حضرت موسیٰؑ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اور آپ فرعون کو تبلیغ کرنے کے لئے گئے تھے مگر وہ انہیں اتناحقیر سمجھتاتھا کہ ان کے مقابلہ کے لئے اس نے مداریوں کو بلاکرکھڑاکردیا۔مگر کجا وہ حالت اورکجا یہ کہ آج حضرت موسیٰؑ کی امت کو دنیامیں اتنی طاقت حاصل ہے کہ بڑی بڑی سلطنتیں اس کی ناراضگی سے ڈرتی ہیں ۔آج امریکہ جیسی طاقت ان کی پیٹھ پر ہے اور فلسطین میں ان کی حکومت ہے لیکن اس وقت اتنی کمزوری کی حالت تھی کہ فرعون مداریوں کوبلاکر آپ کے مقابلہ پرکھڑاکردیتاہے ۔آج اگر ہندویا عیسائی کسی مسلمان عالم کے مقابل پر بھی مداری کھڑاکردیں تو تمام لوگ شور مچانا شروع کردیں گے کہ ان کی ہتک کی گئی ہے ۔لیکن حضرت موسیٰؑ اس خیال سے کہ شاید اللہ تعالیٰ ان کو اسی راہ سے ہدایت دے دے مقابلہ سے انکار نہ کیا ۔اور مداریوں کے مقابلہ میں بھی کھڑے ہونے کے لئے تیار ہوگئے ۔لیکن اب اگر وہی فرعو ن دوبارہ زندہ کیاجائے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ حضرت موسیٰؑ کے مقابلہ میں اپنے آپ کو ایک بندر سے بھی زیاد ہ ذلیل سمجھے اور یہ دیکھ کرحیران ہوکہ اس کی نسل کاتو دنیامیں کہیں نشان بھی نظر نہیں آتا اور حضرت موسیٰؑ کی قوم فلسطین پر حکومت کررہی ہے ۔
فلمّا جاء السِحرۃ قالوا لفرعون ا ئنّ لنا لاجراً ان کنّا نحن الغٰلبین قال نعم وانّکم اذالّمن المقرّبین
پس جب جادو گر آگئے تو انہوں نے فرعون سے کہاکہ اگر ہم غالب ہوئے تو کیا ہمیں کوئی انعام بھی ملے گا (فرعون نے) کہا۔ہاں :بلکہ اس صورت میں تم دربار میں مقربین میںجگہ پائو گے ۔۱۰؎
۱۰؎تفسیر:۔جب جادوگرآ گئے تو انہوں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم غالب آئے تو کیا ہمیں کوئی انعام بھی ملے گا ؟اس آیت سے نبی اور غیر نبی کی طبیعت کا فرق معلوم ہوجاتا ہے ۔حضرت موسیٰؑ کی باتیں جو اوپرگذر چکی ہیں ان سے صاف معلوم ہوتاہے کہ وہ اپنا اور ساری دنیا کو پالنے والا صرف خداتعالیٰ کوقرار دیتے تھے کسی بندے پر اپنی نگاہ نہیں رکھتے تھے ۔لیکن جو مداری فرعون نے ان کے مقابلہ کے لئے جمع کئے تھے ان کی نظریں اتنی نیچی اور ان کے حوصلے اتنے پست تھے کہ بادشاہ کے دربار میںآتے ہی بول پڑے کہ حضور اگر ہم جیت گئے تو کیا کوئی انعام بھی ملے گا یا نہیں ۔یہی مضمون سورۃ اعراف میں بھی بیان کیاگیا ہے لیکن وہاں طر ز کلام بدل دی گئی ہے ۔وہاں یہ الفا ظ آتے ہیں کہ اِنَّ لَنَا لَاَجْراًاِنْ کُنَّانَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ (اعراف رکوع ۱۴) اگر ہم غالب آئے تو ہم کو ضرور اجر ملے گا۔مگر یہاں یہ کہاگیا ہے کہ اگر ہم غالب آئے تو کیا ہمیں کوئی انعام بھی ملے گا یانہیں۔گویابظاہر دونوں میں اختلاف دکھائی دیتاہے لیکن اگر غور کیاجائے تو ان دونوں آیتو ں میںکوئی حقیقی اختلاف نہیں ۔بے شک یہاں سوالیہ فقرہ استعمال کیاگیاہے ۔ مگر اس سوالیہ فقرہ کے یہ معنی نہیں کہ ان کو اجر ملنے کے متعلق کوئی شبہ تھا بلکہ بعض دفعہ سوالیہ فقرہ رتوقع کے لئے بھی استعمال ہوتاہے ۔ یعنی مطلب تو یہ ہوتاہے کہ ضرور ملے گا مگر کہنے والاکہتا یہ ہے کہ کیاکچھ ملے گابھی ؟پس سورۃ اعرا ف اور سورۃ شوراء کی آیتوں میں کوئی تضاد نہیں ۔مداریوں کے انعام کی خواہش ظاہر کرنے پر فرعون نے کہا۔ہاں ہاں انعام تو ملے گااور اس کے علاوہ تم میرے مقرب بھی ہوجائو گے ۔
قَا لَ لَھُمْ مُّوْ سیٰٓ اَلْقُوْا مَآ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ٭
اس پر موسیٰؑ نے اُن سے کہا جو تدبیر تم نے کرنی ہے کرلو۔
فَاَ لْقَوْا حِبَالَھُمْ وَعِصِیَّھُمْ وَقَالُوْا بِعِزَّۃِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ٭
اس پر انہوں نے اپنی رسیّاں اور اپنے سونٹے (میدان میں نکال کر) رکھ دیئے اور کہا۔ فرعون کے اقبال کی قسم ہم ضرور غالب آئیں گے ۔ ۱۱؎
۱۱؎ تفسیر:۔ جب فرعون اور آنے والے ساحروں میں بات چیت ہوچکی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم نے جو کچھ میرے مقابلہ میں پھینکنا ہے پھینکو۔
اس جگہ بھی سورئہ اعراف سے ایک اختلاف دکھائی دیتا ہے جس کاذکر کر دینا ضروری معلوم ہوتاہے ۔ اور وہ یہ کہ سورئہ اعراف میں یہ لکھا ہے کہ مداریوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَاِ مّآ اَنْ تَکُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ(اعراف ع ۱۴) یعنی پہلے آپ پھینکیں گے یا ہم پھینکیں۔ حضر ت موسیٰ علیہ السلام نے کہا پہلے تم پھینکو۔لیکن اس آیت میں مداریوں کے سوال کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ صر ف حضرت موسیٰؑ کا قول درج ہے کہ تم نے جو کچھ پھینکنا ہے پھینک لو۔ لیکن یہ بھی کوئی اختلاف نہیں بلکہ اس موقعہ کے مناسب یہی کلام تھا ۔ درحقیقت سورئہ اعراف میں مداریوں کا یہ یقین ظاہر کیا گیا ہے کہ ہم کو ضرور اجر ملے گا ۔ اس یقین کے مطابق انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ پہلے آپ پھینکیں گے یا پہلے ہم پھینکیں ۔ لیکن سورئہ شعراء میں وہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن میں توقع کا پہلو غالب ہے یقین کا پہلو اتنا نمایاں نہیںاس لئے اللہ تعالیٰ نے کلام کی مناسبت کے لحاظ سے مداریوں کاسوال حذف کردیا اور صرف حضرت موسیٰؑ کا قول نقل کردیا ۔ کہ میری نسبت پھر دیکھا جائے گا پہلے تم اپنی امید پوری کرلو ۔اور جو کچھ پھینکنا ہے پھینک لو ۔ چنانچہ مداریوں نے اپنی رسیّاں اور سونٹے پھینک دیئے اور فرعون کو خوش کرنے کے لئے کہا کہ فرعون کے اقبال سے ہم ہی غالب رہیں گے ۔ یہ الفاظ جو مداریوں کی زبان سے قرآن کریم میں استعمال کئے گئے ہیں قرآن کریم کی سچائی اور اس کے منجانب اللہ ہونے پر زبردست شاہد ہیں۔ عیسائی پادری ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی کتاب ہے۔ ہم تو ان کے اس اعتراض کو غلط سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں ۔ کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے جو گذشتہ اور موجودہ اور آئیندہ آنے والے زمانوں کے تمام حالات کو خوب جانتا ہے لیکن اگر دشمن کے قول کے مطابق قرآن کریم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی کلام قرار دیاجائے تب بھی ماننا پڑے گا کہ آپ کا ادبی کمال انتہا کو پہنچا ہواتھا اور آپ کے معلومات کی وسعت کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیںتھا کیونکہ قرآن کریم کہتاہے کہ جب فرعون نے مصر کے جادوگروں کو موسیٰؑ کے مقابلہ کیلئے بلایا تو اُس وقت انہوں نے کرتب دکھاتے وقت یہ الفاظ کہے کہ بِعِزَّۃِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغَا لِبُوْنَ۔ فرعون کے اقبال کی قسم ہم ضرور غالب آئیں گے ۔ اور یہ فقرات ایسے ہیں جو عربوں کے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی نہیں آسکتے تھے ۔ کیونکہ عرب میں کوئی مداری نہیں تھے جس سے
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فقرہ سن کر سمجھ لیتے کہ مداری کرتب دکھاتے وقت ہمیشہ اس قسم کے الفاظ کہا کرتے ہیں۔پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ قرآن کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہواہے انہیں سوچنا چاہئیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک اسیے ملک میں پیدا ہوئے تھے جہاں مداریوں اور ہتھکنڈے کرنے والوں کا نام ونشان تک نہ تھا ۔پھر یہ فقرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے بتایا ۔میں نے عرب کی تاریخ کا بڑا گہرامطالعہ کیا ہے ۔ اس کی تاریخ سے یہی پتا چلتا ہے کہ عرب لوگ شعروشاعری کے بڑے دلدادہ تھے اور گلہ بانی کرنا ان کا پیشہ تھا لیکن مداریوں اور ہتھکنڈے کرنے والوں کا ان کی تاریخ میں کہیں ذکر نہیں آتا ۔ وہ مصر اور ہندوستان وغیرہ میں پائے جاتے تھے مگر ان ممالک میںرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی گئے ہی نہیں۔پھر آپ کو یہ کس طرح معلوم ہوگیا کہ مداری جب کھیل دکھاتے ہیں تو وہ یہ فقرہ کہتے ہیں۔ میں نے خود بعض مداریوں کو دیکھا ہے کہ جب وہ کھیل شروع کرتے ہیں تو دیکھنے والوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیںکہ آپ کے اقبال سے ایسا ہوجائے گا ۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے مداریوں نے کہا بِعِزَّۃِ فِرْعَوْنَ۔فرعون کے اقبال کی قسم ۔لیکن عرب کی تاریخ میں کوئی محاورہ میں نے آج تک ایسا نہیں دیکھا۔جس میں یہ کہا گیا ہو کہ ہم یہ کلام فلاں کے اقبال سے شروع کرتے ہیں۔پس یہ فقرہ صاف بتاتا ہے کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے ۔لیکن اگر یہ فقرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے نہیں بتایا بلکہ نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنا لیا تھا تب بھی یہ آپؐ کا اتنا بڑا کمال ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی ۔ کیونکہ یہ بعینہٖ اسی رنگ کا فقرہ ہے جو مداری اب بھی کہتے ہیں ۔مگر یہ کتنی ہنسی کی بات ہے کہ ایک طرف تو وہ خدا تعالیٰ کے نبی پر غالب آنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم یقینا غالب آ جائیں گے اور دوسری طرف جس کی خاطر تماشا دکھا رہے ہیں اُس کی تعریف کرتے چلے جاتے ہیں کہ آپ کے اقبال سے ایسا ہو جائے گا تاکہ کچھ زیادہ پیسے مل جائیں۔
اِنَّہٗ لَکَبِیْرُ کُمُ الَّذِیْ عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ۔ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ۔ لَاُ قَطِّعَنَّ اَیْدِیَکُمْ وَاَرْفُلَکُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّلَاُ صَلِّبَنَّکُمْ اَجْمَعِیْنَ٭
یہ (شخص )یقینا تمہار اکوئی سردار ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے ۔ پس عنقریب تم (اپنا انجام) معلوم کرلو گے میں تمہارے ہاتھو ں اور پیروں کو (اپنی) خلاف ورزی کی وجہ سے کا ٹ دوں گا اور تم سب کو صلیب پر لٹکا دوں گا ۔
قَالُوْا لَا ضَیْرَ اِنَّآ اِلیٰ رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ٭
انہوں نے کہا (اس میں) کوئی حرج نہیں۔ آخر کار ہم اپنے ربّ کی طرف ہی لوٹ کر جانے والے ہیں۔
اِنَّانَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَ خَطٰیٰنَآ اَنْ کُنَّآ اَوَّلَ الْمُؤ مِنِیْنَ٭
ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا ربّ ہمارے گناہ اس وجہ سے معاف کردے گا کہ ہم سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے بن گئے ۔۱۲؎
۱۲؎ حل لغات:۔ تَلْقَفُ۔ لَقِفَ سے مضارع واحد مؤنث غالب کا صیغہ ہے اور لَقِفَ الشَّیئَ کے معنے ہوتے ہیں تَنَاوَلَہٗ بِسُرْ عَۃٍ اس کو جلدی سے پکڑ لیا(اقرب) پس تَلْقَفُ کے معنے ہونگے جو کام جادوگر کر رہے تھے اُس کی جلدی جلدی ملیامیٹ کرنے لگا۔
خِلَافٍ: خِلَافٌ کے معنے مخالفت کے بھی ہیں ۔ او ر اس کے معنے یہ بھی ہیں کہ دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ اور دایاں پاؤں (اقرب) ضَیْرَ: اَلضَّیْرُ کے معنے اَلْمُضَرَّۃُ کے ہیں یعنی نقصان (مفردات )
تفسیر :۔جب مداریوں نے اپنی رسیّاں اور سونٹے پھینک دیئے تو موسیٰؑ نے بھی اپنا عصا اُٹھا کر دے مارا۔اور چونکہ ان رسیّوں اور سونٹوں میں انہوں نے پارہ بھر رکھا تھا جس سے وہ ہلتی تھیں۔اس لئے جب موسیٰؑ کاسونٹا اُن کو زور سے لگا تو اُن میں سوراخ ہوگئے اور ان کا سارا فریب کھل گیا۔گویا تمثیلی زبان میں موسیٰؑ کا سونٹا اُن کے فریب کو کھا گیا ۔ جس پر مداری جو اپنی حقیقت کو خوب جانتے تھے ۔ سجدے میں گر گئے اور چلا اٹھے کہ ہم رب العالمین خدا پر جو موسیٰؑ اور ہارونٰؑ کا خدا ہے ایمان لاتے ہیں ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ موسیٰؑ نبی ہے اور ہم محض مداری ہیں ۔
اس جگہ اُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سَاجِدِیْنَ کے الفاظ فرما کر اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جادوگروں کی یہ شکست ایسی نمایاں تھی کہ انہیں یوں محسوس ہوا کہ گویا کسی خفیہ طاقت نے ان کے پاؤں تلے سے زمین نکال لی ہے اور وہ خدا کے سامنے سجدہ میں گرا دیئے گئے اور انہوں نے بلند آواز سے اس عمل کا اقرار کیا کہ ہم خدائے واحد پر ایمان لاتے ہیں اور موسیٰؑ اور ہارونٰؑ کی اتباع کرتے ہیں۔
اس پر فرعون غصہ میں آگیا اور اس نے کہاکیا تم میری اجازت سے پہلے اس پر ایمان لے آئے ہو ۔ معلوم ہوتا ہے یہ تمہار ا سردار ہے جس نے تم کو مداریوں کا فن سکھایا ہے ۔ پس تم جلدی ہی اپنے اس فعل کا نتیجہ دیکھ لو گے ۔گویا اتنی جلد ی وہ بھول گیا کہ ابھی تو میں ان کے خدا کے ایک نبی کے مقابلہ میں کھڑا کررہاتھا اور ان کو مقرب بنانے کی پیش کش کررہا تھا اور ابھی ان کو اتنا ذلیل قرار دے رہا ہوں کہ جو چاہوں انکو سزاد ے لوں۔ چنانچہ بولا کہ چونکہ تم میرے مخالف چل پڑے ہو۔اس لئے جرم کی وجہ سے میں تمہارے ہاتھ اور پیر کاٹ دوں گا اور پھر تم سب کو صلیب پر لٹکا دوں گا ۔ تاکہ دوسروں کا عبرت حاصل ہو۔مگر وہ پیسے لے کر تماشا دیکھا نے والے مداری اب مومن بن چکے تھے ۔وہ فرعون جیسے لوگوں کی دھمکیوں سے کب مرعوب ہوسکتے تھے انہوں نے جھٹ کہا ۔ اس میںکوئی حرج نہیں ہم نے ایک دن اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہی ہے اگر تمہارے ہاتھ سے مارے گئے تو کون سی بڑی بات ہے اگرتم نے ہم کو مارا تو ہمارا فائدہ ہی ہے۔ دین کی خاطر دکھ اٹھانے کی وجہ سے ہمارا رب ہمارے گناہ معاف کردے گا کیونکہ ہم ایسے برے ماحول میں سب سے پہلے خدا تعالیٰ کے نبی پر ایمان لائے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک کسی انسان کو خدا نظرنہیں آتا دنیاکی مصیبتیں اسے پہاڑ اور اس کے ابتلاء اسے بے کنار سمند ر نظر آتے ہیں ۔ مگر جب خدا نظرآجاتاہے تو اس کی نگاہ میں ساری چیزیں ہیش ہوجاتی ہیں ۔ تب ایک ہی چیز اس کے سامنے ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا قول پوراہو اور خدا کے قول کے مقابلہ میں نہ حکومتیں کوئی حقیقت رکھتی ہیں اورنہ بادشاہتیں کوئی حقیقت رکھتی ہیںاور نہ جائیدادیں کوئی حقیقت رکھتی ہیں۔ وہ ہنستا ہوا جاتا اوراپنی قربانی پیش کرتے خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہوجاتاہے ۔ ہماری جماعت کے صاحبزادہ عبداللطیف صاحب ؓ ہمارے جیسے ہی ایک انسان تھے ۔ مگر جب بادشاہ نے
ان کو بلا کر کہا کہ دیکھیں مولوی صاحب میرے دل میں آپ کا بڑا ادب ہے اور میں آپ کو رہا کرنا چاہتا ہوں لیکن اگر یوں ہی چھوڑ دوںتو مولوی میرے مخالف ہوجائیں گے۔ آپ صرف اتنا کریں کہ جب آپ سے پوچھا جائے کہ کیا آپ قادیانی ہیں تو آپ خواہ دل میں کچھ عقائد رکھیں زبان سے کہہ دیں کہ میں قادیانی نہیںہوں اس طرح میں آپ کو آسانی سے چھوڑ سکوں گا۔حضرت صاحبزادہ عبداللطیف ؓ صاحب نے کہا ۔ بادشاہ تمیں جان کی قیمت معلوم ہوتی ہو گی ۔ مجھے تو اس کی کوئی قیمت معلوم نہیںہوتی اور میں تو ایک قربانی پیش کرنے کے لئے ہی تمہارے پاس آیا ہوں ۔ مجھے تو پہلے ہی کہا گیا تھا کہ میں احمدیت کا اظہار نہ کروں مگر میں انکار کردیا ۔ دراصل وہ گورنر جس کے سامنے وہ پہلی دفعہ پیش ہوئے ۔ وہ بھی ان کے شاگردوں میں سے تھا ۔جب آپ اس سے ملے تو اس نے بھی کہا۔ کہ آپ یہاں سے بھاگ جائیں ۔ورنہ آپ کی جان خطرے میں پڑجائے گی ۔ صاحبزادہ صاحبؓ نے کہا ۔تمہاری ہتھکڑیاں کہاں ہیں لائو اور میرے ہاتھو ں میں پہنائو۔ مجھے تو آج رات خدا نے بتا یا ہے کہ مجھے سونے کے کنگن ڈالے جائیں گے ۔ پس میں اپنی موت سے نہیں ڈرتا ۔ میں تو قوم کی نجات کے لئے اپنی جان پیش کرنا چاہتاہوں ۔پھر جب انہیں پتھرائوکیا گیا ۔تو اس وقت بھی ان کے دل میں اپنی قوم کا کوئی کینہ اور بغض نہیں تھا۔ بلکہ سنگسارکرنے سے پہلے جب انہیں گاڑنے لگے ۔اور گاڑتے اس لئے ہیں کہ پتھر و ں کے ڈر سے انسان بھاگ نہ جائے تو صاحبزادہ صاحب ؓنے کہا کہ میں بھاگتا تو نہیں ۔ مجھے گاڑنے کی کیا ضرورت ہے ۔پھر جب اُن پر پتھر پڑنے لگے تو دیکھنے والوں کی گواہی ہے کہ صاحبزادہ صاحبؓ بلند آوازسے یہ دعا کرتے جاتے تھے کہ اے میرے رب!میری قوم پر رحم کر۔کیونکہ وہ جہالت سے ایسا کررہی ہے ۔یہ وہ شاندار نمونے ہیں جو قوموں کو زندہ کیا کرتے ہیں۔ بیشک اُن میں کچھ کمزور بھی ہوتے ہیں مگر نوجوان جب اس قسم کے نمونہ کو دیکھتے ہیں تو ان کے دلوں میں جوش پیدا ہو جاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کیسا اچھا انجام تھا آؤ ہم بھی ایسی ہی قربانی کریں اور وہ بھی آگ اور خون کے دریا میں چھلانگیں لگا دیتے ہیں ۔ یہی حکمت ہے جس کی بناء پر انجیل میں روحانی بادشاہت کو انگور کے باغ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ ۱؎
کیونکہ انگور کی بیل ہی ایک ایسی بیل ہوتی ہے جس کو سرسبز شاداب کرنے کے لئے خون کی کھاد ڈالی جاتی ہے پس اس مثال میں اس طرف اشارہ تھا کہ خدا تعالیٰ کے دین کو تازہ کرنے کے لئے ہمیشہ انسانی قربانیوں کی ضرورت ہوگی اور انسانوں کے خون اس باغ کی جڑوں میں گرا کر اسے پھر زندہ اور سرسبز شاداب کیا جائے گا ۔چنانچہ روحانی سلسلوں کی ایک لمبی تاریخ اس صداقت کو واضح کرتی ہے۔ آج تک کوئی نبی بھی ایسا نہیں گزرا جس کی جماعت شدید ترین مصائب میں سے نہ گزری ہو۔ ان کو گرفتار کیا گیا ۔ اُن کو قتل کیا گیا ۔ اُن کو پھانسی پر لٹکایا گیا اُن کو تلواروں سے شہید کیا گیا ۔ مگر ان تمام تکالیف کے باوجود صداقت دنیا پر ہمیشہ غالب آئی ۔حضرت داؤدؑ کے بعد بخت نصر نے بیت المقدس کی ساری عمارتیں تہہ و بالا کردی تھیں اور مسجد اقصیٰ کا نشان تک بھی اُس نے نہ چھوڑا تھا ۔ مگر ان تمام باتوں سے کیا ہوا ۔ بات تو وہ تھی جو موسیٰؑ لایا ۔ مگر موسیٰؑ کی لائی ہوئی بات آ ج تک دنیا نہیں مٹا سکی ۔ ان کی عزت آج بھی دنیا میں قائم ہے اور آج بھی ان کے ناموں پر اپنی جانیں قربان کرنے والے لوگ دنیا میں موجود ہیں ۔ آج ایک زندہ اور باجبروت اور قاہر اور خبر دار اور منتظم بادشاہ کو گالی دے کر ایک انسان سزا سے بچ سکتا ہے ۔ اس کی گرفت سے بھاگ سکتا ہے لیکن یہ لوگ جو
۱؎ ۔لوقاباب ۲۰آیت ۹تا۱۸
انسانوں جیسے انسان تھے اوّل تو فقیری میں انہوں نے عمر گزاردی اور اگر بعض بادشاہ بھی ہوئے تو اُن کی بادشاہتیں اپنی دنیوی عظمت کے لحاظ سے بہت سے دنیوی بادشاہوں سے کم تھیں ۔ لیکن آج جب کہ وہ منوں مٹی کے نیچے دفن ہیں اور بعض کی نسلوں کا بھی کوئی پتہ نہیں چلتا۔ اور بعض کی اُمتیں بھی مٹ چکی ہیں کوئی زبردست سے زبردست بادشاہ بھی بے ادبی سے اُ ن کا نام لے تو وہ ذلّت و رسوائی سے بچ نہیں سکتا کیونکہ انہوں نے خداتعالیٰ کی محبت کی چھُری کو خوشی سے اپنی گردنوں پر پھروالیا اور وہ خدا کے برے قرار پائے گویا جس طرح ایک بکری کا گوشت اُس کے ذبح ہوجانے کے بعد انسان کی غذا بن کر انسان ہوجاتا ہے اسی طرح جو لوگ خدا کے برے بن کر قربان ہوجاتے ہیں ۔اور ابدی بادشاہت اُن کو عطا کی جاتی ہے ۔ موسیٰؑ پر ایمان لانے والے ساحروں نے بھی قربانی کا یہی شاندار نمونہ دکھایا ۔اور انہوں نے فرعون سے کہہ دیا کہ ہمارے دل اب نُور ایمان سے منور ہو چکے ہیں اب تیری کوئی بھی تکلیف ہمیں جادئہ حق سے منحرف نہیں کرسکتی ۔ یہی ایمان ہے جو انسان کی نجات کا باعث بنتا ہے اوریہی قربانی کی رُوح ہے جو قوموں کو دنیا پر غالب کیا کرتی ہے ۔
وَاَوْحَیْنَآ اِلیٰ مُوْسیٰٓ اَنْ اَسْرِبِعِبَادِیْٓ اِنَّکُمْ مُّتَّبَعُوْنَ٭
اور ہم نے موسیٰؑ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے جا۔تمہارا پیچھا کیا جائے گا ۔
فَاَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِی الْمَدَٓائِنِ حٰشِرِیْنَ٭
اس پر فرعون نے شہروں کی طرف جمع کرنے والے آدمی بھجوائے ۔
اِنَّ ھٰٓؤُ لَآ ئِ لَشِرْذَمَۃٌ قَلِیْلُوْنَ٭
(یہ کہتے ہوئے کہ ) یہ لوگ (یعنی بنی اسرائیل ) تو ایک تھوڑی سی جماعت ہیں۔
وَاِنَّھُمْ لَنَا لَغَآئِظُوْنَ٭
باوجود اس کے وہ ہم کو غصہ دلا رہے ہیں۔
وَاِنَّا لَجَمِیْعٌ حٰذِرُوْنَ٭
اور ہم ایک (بڑی) جماعت ہیں جو محتاط ہیں (پس ہمیں ان کا مقابلہ کرنا چاہئیے )۔۱۳؎
۱۳؎ حل لغات:۔ اَسْرِ:اَسْرٰی سے امر کا صیغہ ہے۔ اور اَسْرٰی سے باب افعال کا ماضی کا صیغہ ہے ۔ سَرَی الرَّجُلُ کے معنے ہوتے ہیں سَارَ عَامَّۃَ اللَّیْلِ۔ یعنی وہ رات کے اکثر حصہ میں چلتا رہا۔ اور اَسْرٰی کے معنے سَرَی کی طرح ہی ہیں ۔ لیکن بعض ائمہ لُغت نے کہاہے کہ اَسْرٰیلِاَوَّلِ اللَّیْلِ وَسَرَی لِاٰخَرِ اللَّیْلِ ۔رات کے ابتدائی حصہ میں چلنے کے لئے اَسْرٰی کا فعل استعمال کیا جاتا ہے اور رات کے آخری حصہ میں چلنے کے لئے سَرَی کا (اقرب) پس اَسْرِ بِعِبَادِیْ کے
معنے ہونگے (۱) رات کے وقت میرے بندوں کو لے کر چل۔(۲) یا رات کے ابتدائی حصہ میں لے کر چل۔
شِرْ ذَمَۃٌ : اَلشِّرْذَمَۃُ: اَلْجَمَاعَۃُ الْقَلِیْلَۃُ مِنَ النَّاسِ۔ لوگوں کی تھوڑی سی جماعت (اقرب)
حٰذِرُوْنَ: حَاذِرٌ سے جمع کا صیغہ ہے اور حَاذِرٌ کے معنے ہوتے ہیں اَلْمُتَاٰھِّبُ۔ اَلْمُسَتَعِدُّ چوکس اور تیا ر۔(اقرب)
تفسیر:۔ اِس آیت میں اَسْرِ کا لفظ آتا ہے جو سَرٰی سے نکلا ہے اور سَرَی الرَّجُلُ کے معنے ہوتے ہیں سَارَ عَامَّۃَ اللَّیْلِ فلاں شخص رات کا اکثر حصہ چلتا رہا۔ اور جب اَسْرَی الرَّجُلُ اِسْرَائً کہیں تو اس کے معنے بھی سَرٰی کی طرح ہی رات کو چلنے کے ہوتے ہیں ۔لیکن بعض لغویوں نے کہا ہے کہ اَسْرٰی کے معنے ہوتے ہیں رات کے پہلے حصہ میں چلا ۔ اور سَرٰی کے معنے ہوتے ہیں رات کے پچھلے حصہ میں چلا ۔
اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اب فرعون کافی ڈرگیا ہے ۔ اُس سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ۔ اب خدا کا نام لے کر رات کے وقت اپنی قوم کو نکال کر لے جاؤ ۔ہاں ہوشیار رہنا کیونکہ فرعون اور اس کے ساتھی تمہارا پیچھا کریں گے ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ فرعون نے سب شہروں میں ڈھنڈورچی بھیج دیئے اور یہ اعلان کرا دیا کہ بنی اسرائیل ایک چھوٹی سی جماعت ہے جو ہمیں غصہ دلا رہی ہے حالانکہ ہم سب ایک بڑی جماعت ہیں جو ہرقسم کا سازو سامان بھی اپنے پاس رکھتے ہیں ۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم اکثریت میں ہوتے ہوئے اقلیت سے ڈر جائیں اور اُسے کچلنے کے لئے تیار نہ ہوجائیں ۔
یہی وہ عیب ہے جو ہر نبی کے زمانہ میں اُس کے دشمنوں میں دکھائی دیتا ہے کہ وہ اکثریت کے گھمنڈ میں بجائے دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنے کے یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ اگر تم نے ہماری بات نہ مانی تو ہم تمہیں ڈنڈے سے سیدھا کریں گے ۔ مثل مشہورہے کہ کوئی بھیڑیا ندی کے کنارے پانی پی رہاتھا کہ ایک بکری کا بچہ آیا اور اُس نے بھی پانی پینا شروع کردیا ۔ بکری کا بچہ دیکھ کر بھیڑیے کے منہ میں پانی بھر آیا اور اُس نے چاہا کہ اُسے کھالے ۔انسانوں اور حیوانوں کے حالات ایک سے نہیں ہوتے ۔ انسان دلیل دیتا ہے ۔لیکن ایک حیوان دلیل نہیں دیتا ۔ مثال میں چونکہ دلیل دی گئی ہے اِس لئے یہاں بھیڑیے سے مراد وہ آدمی ہے جو بھیڑے کے سے خصائل رکھتا ہو اور بکری کے بچہ سے مراد وہ آدمی ہے جو اس کے خصائل رکھتا ہو بہرحال بھیڑیے کویہ لالچ پیدا ہوا ۔ کہ کسی نہ کسی طرح بکری کے بچہ کو کھالے ۔ چنانچہ وہ بکری کے بچہ کو دیکھ کر کہنے لگا ۔ تجھے شرم نہیں آتی کہ تو میرا پانی گدلا کررہا ہے بکری کے بچہ نے کہا ۔ سرکار یہ کون سی بات ہے آپ نے سوچا نہیں کہ آپ اوپر ہیں اور میں نیچے ہوں۔ آپ کا پیا ہوا پانی میری طرف آرہا ہے نہ کہ میرا پیا ہوا پانی آپ کی طرف جارہا ہے ۔ بھڑیے نے آگے بڑھ کر بکری کے بچہ کو تھپّڑ مارا اور اُسے ماردیا اورکہا نالائق آگے سے جواب دیتا ہے ۔ یہی حالت حق کے مخالفوں کی ہوتی ہے ۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ سچائی کیا چیز ہے ۔وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اکثریت ہماری طرف ہے اور ہم اکثر یت کے بل بوتے پر جو کچھ چاہیں کرسکتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ صاحب قادیان آئے اور ایک بڑے جلسہ میں نعرہ ہائے تکبیر میں انہوں نے کہا ۔ میں ایک نکتہ بیان کرتا ہوں ۔ مرزا صاحب اور میرے درمیان آسان طریقِ فیصلہ یہ ہے کہ مرزا صاحب میرے ساتھ کلکتہ تک ٹرین میں چلیں ۔کلکتہ تک بیسیوں اسٹیشن ہیں ۔ہم دیکھیں گے کہ راستہ میں انہیں پتھر پڑتے ہیں یا مجھے اورپھول مجھ پر برسائے جاتے ہیں یا ان پر ۔ کلکتہ تک جاتے ہوئے اس بات کا فیصلہ
ہوجائے گا کہ مسلمان کس کی تائید میں ہیں ۔جماعت کے دوست گبھرائے ہوئے میرے پاس آئے ۔اور انہوں نے کہا ۔ لوگوں پر بہت برا اثر ہوا ہے اور وہ اِس وقت سخت جوش میں ہیں ۔ شام کو میری تقریر تھی ۔میں نے کہا۔ مولوی ثناء اللہ صاحب نے خود فیصلہ کردیا ہے کہ سچا کون ہے ۔ صرف فرق یہ ہے کہ انہوں نے نتیجہ ازخود نکال لیا ہے ورنہ اگر نتیجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے نکلا ہوا ہے توپھر ہمارے لئے اچھا ہے ۔ میں نے کہا۔ مولوی ثناء اللہ صاحب نے کہا ہے کہ مرزا محمود احمد میرے ساتھ کلکتہ تک چلیں ہم دیکھیں گے کہ راستہ میں پھول کس پر برستے ہیں اور پتھر کس پر پھینکے جاتے ہیں اور اس سے مولوی صاحب نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جس پر پھُول پڑیں گے وہ سچا ہوگا ۔ حالانکہ نتیجہ نکالنا ان کا کام نہیں تھا ہم سے پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوجہل گزرچکے ہیں۔ مولوی صاحب خود بتادیں کہ مکہ میں پتھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑا کرتے تھے یا ابو جہل کو ۔ اور پھول ابوجہل کو پڑ اکرتے تھے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ۔اور اگر پتھررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑا کرتے تھے اور پھول ابوجہل پر برسائے جاتے تھے تو نتیجہ ظاہر ہے کہ جس پر پتھر پڑیں گے وہ سچا ہوگا اور جس پر پھول برسائے جائیں گے وہ جھوٹا ہوگا ۔
غرض کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو دین سے بے بہرہ ہوتے ہیں اور اس وجہ سے وہ ہر قسم کے مظالم پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں ۔ لیکن جس طرح کثرت دماغ میں غرور پیدا کر کے عقل ماردیتی ہے اسی طرح عشق بھی ایک عاشقِ صاد ق کے اندر کبریائی پیدا کردیتا ہے ۔مگر وہ کبریائی کے نشہ میں آکر مارتا نہیں بلکہ مرتا ہے ۔ چنانچہ دیکھ لو کثر ت والوں نے ہمیشہ تھوڑی تعداد والوں کو اپنے غرور میں آکر مارا ہے لیکن عاشقوںنے ہمیشہ اپنے معشوقوں کے لئے جانیں دی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسی حقیقت کی طرف اپنے شعر میں اشارہ فرماتے ہیں کہ ؎
درکوئے تو اگر سرِ عُشاق رازنند
اوّل کسے کہ لافِ تعشق زند منم
یعنی اگر تیرے کوچہ میں جانے والوں کے متعلق یہ حکم ہوجائے کہ ہر شخص جو عاشقی کا دعویٰ کرے گا اُسے قتل کردیا جائے گا تو گو عشق کا دل کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور کوئی شخص دعویٰ کرے یا نہ کرے عاشق عاشق ہی ہوتا ہے ۔لیکن اگر یہ اعلان ہوجائے کہ جو بھی عشق کا دعویٰ کرے گا اس کا سر قلم کردیا جائے گا تو سب سے پہلا شخص جو دعویٰ کرے گا اور کہے گاکہ میں عاشق ہوں وہ میں ہوں گا ۔
حقیقت یہ ہے کہ عاشق اور مسلمان تو متضاد چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی چیز کے یہ دو نام ہیں مگر عاشق سے میری مراد ہوس پرست عاشق نہیں بلکہ ایک سچا اور کامل مسلمان مراد ہے ۔ وہ مصائب کو صرف برداشت ہی نہیں کرتا بلکہ اگر اس پر مصائب نہ آئیںتو وہ اپنے اندر ایک بے کلی سی محسوس کرتا ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں میرا محبوب مجھ سے خفا تو نہیں ہوگیا ۔ مصائب سے بھاگنا ایک منافق کا کام ہے اور مصائب کو برداشت کرنا صرف مسلمان کا خاصہ نہیں بلکہ ایک کافر بھی اس میں شریک ہوسکتا ہے ۔لیکن سچا مسلمان وہ ہے جو نہ صرف مصائب کو برداشت کرتا ہے بلکہ مشکلات کے دور کو اپنی روحانی ترقی کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے۔ اور اگر اس دور میں التواء واقعہ ہو جائے۔تووہ گھبراتا ہے کہ کہیں میرے ایمان میں تو کوئی نقص نہیں آگیا کہ میرا رب میرے ایمان کو دنیا پر ظاہر کرنے کی کوئی تدبیر نہیں کررہا ۔
پس بیشک اکثریت اپنی طاقت کے گھمنڈ میں مومنوں پر ظلم کرتی رہی وہ اسے برداشت کرتے چلے جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ مجرموں کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔ اور اکثریت کے بل بوتے پر ظلم کرنے والے اپنے جرائم کی پاداش میں کیفر کردار کو پہنچ جاتے ہیں چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ فتح کرکے آئے تو آپؐ نے اُن کفار سے جو رات دن آپؐ پر اور آپؐ کے صحابہ ؓ پر شدید ترین مظالم کرتے رہتے تھے پوچھا کہ اے مکہ والوں !بتاؤ میں اب تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں؟آپ کا مطلب یہی تھا کہ تم جو ننانوے فیصدی ہونے کے گھمنڈ میں یہ کہا کرتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا حیثیت ہے ۔ اس کی کیا طاقت ہے کہ وہ ہمارے مقابلہ میں بول سکے ۔اب اُس کے سامنے تم اکثریت کے دعوے دار پیش ہو رہے ہو۔ مگر اس دن وہ ایسے سٹپٹائے کہ انہوں نے کہا ۔ ہم آپؐسے اُسی سلوک کی امید رکھتے ہیں جو یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا ۔ چنانچہ آپؐ نے اُ ن سب کو معاف فرمادیا ۔ یہی اکثریت کا گھمنڈ فرعون کے دماغ میں بھی جاگزین تھا ۔ بلکہ اگر غور سے کام لیا جائے تو جب سے دنیا کا آغاز ہوا ہے ہمیشہ دوقسم کی حکومتیں پائی جاتی رہی ہیں۔ ایک عقل اورسمجھ سے کام لینے والی اور دوسری زور اور طاقت سے کام لینے والی ۔ ہر زمانہ کے محاورے الگ الگ ہوتے ہیں ۔ آج کل جو حکومت عقل اور سمجھ سے کام لے اس کو جمہوریت کہتے ہیں۔ اورجو حکومت زور اور تشدد اور طاقت سے کام لے اس کو ڈکٹیٹر شپ کہتے ہیں ۔یا بعض دفعہ ہٹلر ازم بھی کہ دیتے ہیں۔ مگر نام خواہ کچھ ہی ہو جب سے دنیا بنی ہے یہ دونوں طاقتیں کام کررہی ہیں حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے یہ کام شروع ہوا اور اب تک جاری ہے ۔قرآ ن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے ۔ ایک کی اللہ تعالیٰ نے قربانی قبول کرلی اور دوسرے کی رد کردی۔ ایک کے پیچھے اخلاص اور تقویٰ تھا اس لئے اس کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قربانی کے پیچھے چونکہ اخلاص اور تقویٰ نہیں تھا اس لئے وہ رد ہوئی ۔ اب دانائی تو یہ تھی کہ دوسرا شخص جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی تھی وہ اپنے اند رتقویٰ ۔عجز اور انکسار پید اکرتا اور سمجھتا کہ اس کی قربانی خدا تعالیٰ نے رد کی ہے اس کے بھائی کی وجہ سے رد نہیں ہوئی مگر وہ لیٹھ لے کر اپنے بھائی کے پاس پہنچا اور اسے کہا کہ میں تجھے قتل کردوں گا۔مگر اس کے بھائی نے دلیل والا طریق اختیار کیا اور کہا کہ قربانی قبول کرنا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اگر تجھے اس بات پر غصہ آیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تیری قربانی قبول کیوں نہیں کی تو اس میں میرا کیا قصور ہے ۔ میں تو اپنے آپ کو ایک عاجز بندہ سمجھتا ہوں ۔ یہ فطرت پرانے زمانے کی تھی اس وقت نہ ڈکٹیٹرشپ کے الفاظ تھے نہ جمہوریت کے مگر وہ رو ح موجو دتھی جس سے یہ دونوں چیز یں پید ہوتی ہیں ۔ یہ روح جب سے حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں یا دنیا پید اہوئی ہے متوازی چلی آرہی ہے۔ دنیا میں ایک طبقہ ایسا چلا آیا ہے جو ہمیشہ حق و انصاف کا قائل ہوتا ہے اور دوسرا اپنے زور اور طاقت پر فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بہرحال ہم نے اپنے مرضی پوری کرنی ہے ۔اگر لوگ ہماری مرضی کے مطابق نہیں چلیںگے تو ہم حکومت جتھہ اور طاقت سے دوسروں کو سیدھا کردیں گے اور اپنی مرضی چلائیں گے ۔ انبیاء کی جماعتیں چونکہ ابتداء میں چھوٹی ہوتی ہیں اور بعض دفعہ تو ان کی تعداداتنی قلیل ہوتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بعض انبیاء کو صر ف ایک ایک شخص نے مانا ۔اس لئے ہر شخص ان پر مذاق اڑاتا ہے اور ان کے دعووںکو مجنونانہ بڑسے زیادہ حقیقت نہیں دیتا ۔ فرعون نے بھی اسی گھمنڈ میں شہر شہر اپنے ڈھنڈورچی بھیجے اور ان سے کہا کہ لوگوں کو یہ کہہ کر اشتعال دلائو کہ بنی اسرائیل جو ایک حقیر سی جماعت ہیں ہمیں اشتعال دلا رہے ہیں حالانکہ ہم ایک بڑی زبردست اکثریت اور پھر بڑے محتاط اور دور اندیش اور ہر قسم کے سازو سامان اور اسلحہ سے لیس ہیں۔ ہمار افرض ہے کہ ہم اُن لوگوں کو سختی سے کچل دیں اوران پر ترقی کے تمام دروازے بند کردیں۔
فَاَخْرَجْنٰھُمْ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ٭وَّکُنُوْذٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمِ٭
تب ہم نے اُن (یعنی فرعون اوراُس کی جماعت )کو باغوں اور چشموں اور خزانوں اور عزت والے ملک سے نکال دیا (یعنی محروم کردیا)
کَذٰلِکَ۔ وَاَوْرَثْنٰھَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ٭
ایسا ہی ہوا ۔ اور ہم نے اُن (چیزوں)کا وارث بنی اسرائیل کو کردیا۔
فَاَتْبَعُوْھُمْ مُّشْرِقِیْنَ٭
پھر صبح کے وقت وہ (یعنی فرعون اور اُس کی قوم کے لوگ بنی اسرائیل کو روکنے کیلئے )اُن کے پیچھے چل پڑے ۔
فَلَمَّا تَرَآئَ الْجَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسیٰٓ اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ٭
پھر جب دونوں گروہ ایک دوسرے کے سامنے ہوئے تو موسیٰؑ کے ساتھیوں نے کہا ۔ہم تو پکڑے گئے ۔
قَالَ کَلَّا ۔اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ٭
(موسیٰؑ نے ) جواب دیا ۔ ہرگز ایسا نہیں ہوگا ۔ میرا رب میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے کامیابی کا راستہ دکھا ئے گا ۱۴؎
۱۴؎ حل لغات:۔کُنُوْذٌ: کَنْذٌ کی جمع ہے اور اَلْکَنْذُ کے معنے ہیں وہ مال جو کسی جگہ میں محفوظ ہو۔ اِسی طرح اس کے معنے ہیں الذَّھَبُ سونا ۔اَلْفِضَّۃُ ۔چاندی۔مَایُحْرَذُفِیْہِ الْمَالُ کَالْمَخْذَنِ وَالصَّنْدُوْقِ۔ وہ صندوق یا الماری جس میں مال محفوظ کیا جائے اُس کو بھی کَنْذ کہتے ہیں (اقرب)
مُشْرِقِیْنَ: مُشْرِقٌ سے جمع کا صیغہ ہے جو اَشْرَقٌ سے اسم فاعل ہے اور اَشْرَقَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں دَخَلَ فِیْ شُرُوْقِ الشَّمْسِ۔ کسی جگہ اُس وقت داخل ہوا جب کہ سورج نکل رہاتھا (اقرب)پس مُشْرِقٌ کے معنے ہیں کسی جگہ صبح کے وقت داخل ہونے والا۔
تفسیر :۔ فرعون کو چونکہ اپنی کثر تِ تعداد اور طاقت پر غرور تھا اور وہ بنی اسرائیل کو بالکل حقیر سمجھتا تھا ۔ اسی لئے جب موسیٰؑ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر نکلے تو فرعون کو بھی پتا لگ گیا ۔ اور وہ لاؤ لشکر جمع کرکے موسیٰؑ کے پیچھے چلا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اس نے ایسا کیا تو ہم نے بھی فرعون اور اس کی جماعت کو باغوں اور چشموں اورخزانوں اور عزت والے ملک میں سے نکال دیا اور ہم نے بنی اسرائیل کو ان چیزوں کا وارث کردیا ۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ وہ خود وہاں سے نکلے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ہم نے اُن کو نکالا۔حالانکہ بظاہر واقعہ یہ تھا کہ وہ خود وہاں سے نکلے تھے ۔ درحقیقت اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ وہ موسیٰؑ کے آنے اور اُ ن کے نکلنے کی وجہ سے باہر نکلا تھا اور موسیٰؑ کو بھیجنا اور بنی اسرائیل کو نکالنے کا حکم دینا خدا تعالیٰ کا کام تھا اسی لئے بالواسطہ طور پر خدا تعالیٰ ہی فرعون اور اس لشکر کو نکالنے کا موجب بنا اور خدا تعالیٰ نے اس فعل کو اپنی طرف منسوب کی اور بتایا کہ گو وہ خود نکلا تھا مگر چونکہ یہ تحریک ہماری طرف سے تھی اور ہم نے ہی موسیٰؑ کو بنی اسرائیل کے نکالنے کا حکم دیا تھا اسی لئے ہم ہی فرعون اور اس کے لشکر کو نکالنے والے بن گئے ۔ اور آخر ان نعمتوں کا ہم نے بنی اسرائیل کو وارث بنادیا ۔
اَوْرَثْنٰھَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ سے یہ مراد نہیں کہ انہی باغوںاور انہی چشموں اور انہی خزانوں کا وارث بنادیا ۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ انہیں اسی قسم کے باغوں اور چشموں اور خزانوں کا فلسطین میں وارث بنادیا ۔ یہ ایک غلط خیال ہے جو بعض لوگوں میں پایا جاتا ہے کہ بنی اسرائیل کو مصر پر غلبہ حاصل ہوگیا تھا ۔ اس خیال کی نہ قرآن ِ کریم سے تصدیق ہوتی ہے اور نہ بائیبل سے ۔ قرآنِ کریم اور بائیبل دونوں سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل مصر سے نکلنے کے بعد اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ تک بیابانوں میں پھرتے رہے اور آخر چالیس سال کے بعد انہیںکنعان پر قبضہ ملا ۔پس اَوْرَثْنَھَاسے ملک مصر مراد نہیں بلکہ وہ جگہ مراد ہے جہاں انہیں سب چیزیں میسر آگئیں ۔یعنی فلسطین کا ملک۔ جو اپنے باغات اور چشموں میں مصر کے بالکل مشابہ ہے ۔
فَاَتْبَعُوْھُمْ مُّشْرِقِیْنَ سے ظاہر ہے کہ سورج نکلتے وقت فرعون کا لشکر اُن کے پیچھے چلا تھا۔کیونکہ فرعون نے بھی اپنا لشکر جمع کرنا تھا ۔ اور موسیٰؑ پہلے تیار تھے ۔پس موسیٰؑ پہلے نکل گئے اور فرعون پیچھے نکلا مگر جاتے جاتے جب لشکر فرعون اور موسیٰؑ کے ساتھیوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰؑ کے ساتھی جو صدیوں سے فرعون کے غلام چلے آرہے تھے ڈر گئے اور شور مچانے لگے کہ اے موسیٰؑ! ہم تو مارے گئے اور پکڑے گئے ۔ اس پر موسیٰؑ نے کہا کہ ایسا گمان مت کرو ۔ اُس لشکر کے ساتھ فرعون ہے اور میرے لشکر کے ساتھ خدا ہے اور خدا تعالیٰ یقینا ہمیں پار لے جائے گا ۔خدا تعالیٰ پر توکل کا یہ ایک نہایت ہی شاندار نمونہ ہے جو حضرت موسیٰؑ نے دکھایا مگر اس صداقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انتہائی خطرات میں چاروں طرف سے گھیرے ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ پر جس کامل یقین اور ایمان کا مظاہرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیںدکھائی دیتا ہے وہ اس واقعہ سے کہیں شاندار اور ایمان افزا ہے ۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت ؔ کا حکم ملا تو آپؐ حضرت ابوبکر ؓ کو اپنے ساتھ لے کر جبلِ ثور ؔ طرف تشریف لے گئے جو مکہ سے کوئی چھ سات میل کے فاصلہ پر ہے اور اس پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار میں چھپ کر بیٹھ گئے ۔ صبح جب کفار نے دیکھا کہ آپؐ اپنے گھر میں موجود نہیں اور ہر قسم کے پہرہ کے باوجود محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامیابی کے ساتھ نکل گئے ہیں تو فوراًآپ کی تلاش میں نکل کھڑ ے ہوئے اور انہوں نے مکہ کے چند بہترین کھوجی جو پاؤں کے نشانات پہچاننے میں بڑی بھاری دسترست رکھتے تھے اپنے ساتھ لئے جو انہیں جبلِ ثور تک لے آئے اور انہوں نے کہا کہ بس محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ہیں تو یہیں ہیں ۔ اس سے آگے اور کہیں نشان نہیں ملتا اُس وقت یہ کیفیت تھی کہ دشمن غار کے عین سر پر کھڑا تھا ۔اور غار کا منہ تنگ نہیں تھا ۔جس کے اند ر جھانکنا مشکل ہومگر وہ ایک فراخ منہ کی کھلی غار ہے جس کے اندر جھانک کر بڑی آسانی سے معلوم کیا جاسکتا تھا کہ کوئی شخص اندر بیٹھا ہے یا نہیں مگر ایسی حالت میں بھی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی خوف طاری نہیں ہوتا بلکہ آپؐ کی قوتِ قدسیہ کی برکت سے
حضرت ابو بکر ؓ کا دل بھی مضبوط رہتا ہے اور وہ موسیٰؑ کے ساتھیوں کی طرح یہ نہیں کہتے کہ ہم پکڑے گئے بلکہ انہوں نے اگر کچھ کہا تھا تو یہ کہ رسول اللہ دشمن اتنا قریب پہنچ چکا ہے کہ وہ اگر ذرا بھی نظر نیچی کرے تو ہمیں دیکھ سکتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اُسْکُتْ یَا اَبَا بَکُرٍ اِثْنَانِ اَللّٰہُ ثَالِثُھُمَا ابو بکر ؓ خاموش رہو ہم اِس وقت دو نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ایک تیسرا خدا بھی ہے پھر وہ کیونکر ہمیں دیکھ سکتے ہیں ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ باوجود اس کے کہ دشمن غار کے سر تک پہنچ چکا تھا پھر بھی اُسے یہ توفیق نہ ملی کہ وہ آگے بڑھ کر جھانک سکتا اور وہ وہیں سے بڑبڑاتے واہی تباہی باتیں کرتے ہوئے واپس چلا گیا ۔ غرض اس واقعہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ موسیٰؑ کے ساتھیوں نے گبھرا کر یہ کہا کہ اے موسیٰؑ! ہم پکڑے گئے ۔گویا انہوں نے اپنے ساتھ موسیٰؑ کو بھی لپیٹ لیا ۔ اور خیال کیا کہ اب ہم سب فرعون کی گرفت میں آنے والے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے توکّل نے آپؐ کے ساتھی پر بھی ایسا اثر ڈالا کہ اس کی زبان سے بھی یہ الفاظ نہ نکلے کہ ہم پکڑے گئے بلکہ اُس نے کہا تو صرف یہ کہ دشمن اتنا قریب آچکا ہے کہ اگروہ ہمیں دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتاہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واہمہ کو بھی برداشت نہ کیا اور فرمایا کہ ایسا خیال بھی مت کرو ہم اس وقت دو نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ایک اور بھی ہستی ہے اور وہ ہمار اخدا ہے ۔
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر سے نکلے تو وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے جسے بائیبل نے اپنی شاعرانہ زبان میں لاکھوں بنا دیا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ایک آدمی تھا۔ اور گو وہ ایک آدمی بھی اپنے ایمان کے لحاظ سے سوالاکھ پربھاری تھا مگر بہر حال وہ فردِ واحد ہی تھا کوئی بڑی بھاری جمعیت اُس کے ساتھ نہیں تھی ۔ پھر موسیٰؑ اور اُس کے ساتھیوں کے سامنے بھاگنے کے لئے ایک کھُلا راستہ تھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ایک آدمی تھا اور باوجود اس کے کہ دشمن سے بھاگنے کا آپؐ کے سامنے کوئی راستہ نہیں تھا اور پھر آپؐ بالکل نہتے تھے آپؐ نے اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھا اور فرمایا ۔ ابو بکر ؓ ! غم مت کرو۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (توبہ آیت ۴۰)یقینا ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے۔
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو صرف یہ کہا کہ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔ میرا رب میرے ساتھ ہے ۔ وہ یقینا مجھے کامیابی کا راستہ دکھائے گا ۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فرماکر حضرت ابو بکر ؓ کو بھی اپنے وجود میں مدغم کرلیا اور فرمایا کہ جس طرح مجھے خدا کی معیت حاصل ہے اِسی طرح تمہیں بھی خدا کی معیت حاصل ہے ۔ اس لئے گھبراہٹ اور تشویش کی ضرورت نہیں ۔ پھر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ فرعون نے جب موسیٰؑ کا تعاقب کیا تو اُس نے موسیٰؑ اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ لیا ۔ لیکن جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں مکّہ والے نکلے تو خد انے اُن کی آنکھوں کو اندھا کردیا اور نہ صرف وہ رسول کریم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ نے میں کامیاب نہ ہوسکے ۔ بلکہ انہیں اپنی آنکھو ں سے یعنی دیکھنے کی خدا تعالیٰ نے ان کو طاقت نہ دی ۔ اور اس طرح کلّی طور پر خدا تعالیٰ نے اُن کو خائب و خاسر کیا۔ اور اگر کسی شخص نے آپ ؐ کو دیکھ بھی لیا جیسا کہ سراقہؔ نے آپؐ کو مدینہ جاتے وقت دیکھ لیا تھا تو خدا نے اُسے اُس وقت تک واپس نہیں آنے دیا جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپؐ کی صداقت کا نشان اُس نے نہیں دیکھ لیا ۔ گویا دشمن صرف ایک مقام پر آپؐ کو دیکھنے میں کامیاب ہوا مگر اُس مقام پر بھی وہ دشمن کی کامیابی نہیں تھی بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی تھی کیونکہ دشمن نے آپؐ کو گھائل نہیں کیا بلکہ آپؐ نے دشمن کو گھائل کیا اور
پیشتر اس کے کہ وہ واپس لوٹتا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپؐ کی عظمت کا قائل ہوچکا تھا گو اسلام میں وہ فتح مکّہ کے موقعہ پر داخل ہوا۔ (اصابہ جلد ۳ صفحہ ۱۳۵)
فَاَوْحَیْنَآ اِلیٰ مُوْسیٰٓ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْبَحْرَ۔ فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ٭
تب ہم نے موسیٰؑ کی طرف وحی کی کہ اپنے سونٹے کو سمندر پر مار۔ جس پر (سمندر) پھٹ گیا ۔اور اُس کا ہر ٹکڑا ایک بڑے ٹیلے کی طرح نظر آنے لگا ۔
وَاَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰ خَرِیْنَ٭
اور اُس وقت ہم دوسرے گروہ (یعنی فرعون کے گروہ ) کو قریب لے آئے ۔
وَاَنْجَیْنَا مُوْسیٰ وَمَنْ مَّعَہٓٗ اَجْمَعِیْنَ٭
اور موسیٰؑ اور اُس کے ساتھیوں کو نجات دی ۔
ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ٭
اور دوسرے گروہ کو ہم نے غرق کردیا۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً۔ وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّوْمِنِیْنَ٭
اس(واقعہ) میں ایک بڑا نشان ہے ۔لیکن اِن (منکروں ) میں سے اکثر مانتے نہیں ۔
وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیْمُ٭
اور تیرا رب یقینا غالب (اور ) بارباررحم کرنے والا ہے ۔ ۱۵؎
۱۵؎ حل لغات :۔ اِنْفَلَقَ۔ اِنْفَلَقَ کے معنے ہیں اِنْشَقَّ ۔پھٹ گیا (اقرب)
فِرْقٌ: اَلْفِرْقُ کے معنے ہیں اَلطَّائِفَۃُ مِنَ الشَّیْئِ الْمُتَفَرِّ قِ۔ یعنی فِرْقٌ متفرق چیز کے ایک حصہ کو کہتے ہیں(اقرب)
اَلطَّوْدُ: اَلْجَبَلُ الْعَظِیْمُ۔ یعنی طود عربی میں بڑے پہاڑ کو کہتے ہیں۔ نیز اس کے معنے ہیں اَلْمُشْرِفُ مِنَ الرَّمَلِ ۔ریت کا ٹیلہ ۔ اَلَْضْبَۃُ چھوٹی سی پہاڑی جو زمین پر پھیلی ہوئی ہو(اقرب)
اَزْلَفَنَا : اَزْلَفْنَا سے جمع متکلم کا صیضہ ہے اور اَزْلَفَہٗ کے معنے ہیں قرَّبَہٗ ۔اُ س کو قریب کیا جَمَعَہٗ : اُس کو جمع کیا (اقرب) پس اَزْلَفْنَا کے معنے ہونگے ہم نے قریب کیا یا جمع کیا ۔
تفسیر:۔فرماتاہے ہم نے موسیٰؑ کو وحی کی کہ اپناسونٹا سمندرپرمار۔جب اس نے سونٹا ماراتوسمندرپھٹ گیا۔اور ہرٹکڑا یعنی سمندر کی طرف کا پانی بھی اور خشکی کی طرف کاپانی بھی جو جھیلوں کی شکل میں تھاایک اونچے ٹیلے کے طور پر نظر آنے لگ گیا۔اس وقت ہم نے لشکر ِ فرعون کو قریب کردیا۔تب موسیٰؑ اور اس کے ساتھی تو سمندر او رجھیلوں کے درمیان ریت پر سے آرام کے ساتھ گذر گئے مگر فرعون کے لشکر میں گبھراہٹ پیداہوئی اور ان کی گاڑیوں کے پہیے ریت میں پھنسنے لگ گئے نتیجہ یہ ہوا کہ گاڑیاں نکالتے ہوئے مدّ کا وقت آگیا اور وہ سب کے سب غرق ہوگئے ۔
بائبل میں اس معجزہ کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے ’’پھر موسیٰؑ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایااور خداوند نے رات بھر تندپوربی آندھی چلاکر اور سمندر کو پیچھے ہٹاکراسے خشک زمین بنادیااو رپانی دو حصے ہوگیااور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے اور ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ پانی دیوار کی طرح تھا۔اور مصریوں نے تعاقب کیااور فرعون کے سب گھوڑے اور رتھ اور سوار ان کے پیچھے پیچھے سمندر کے بیچ میں چلے گئے ۔اور رات کے پچھلے پہر خداوند نے آگ اور بادل کے ستون میں مصریوں کے لشکر پر نظرکی اور ان کے لشکر کو گبھرادیااور ا س نے ان کے رتھو ں کے پہیوں کو نکال ڈالا ۔سو ان کاچلانامشکل ہوگیا۔تب مصری کہنے لگے آئو ہم اسرائیلیوں کے سامنے سے بھاگیں کیونکہ خداوند اُن کی طرف سے مصریوں کے ساتھ جنگ کرتاہے ۔اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا تاکہ پانی مصریوں اور اُن کے رتھوں اور سواروں پر پھر بہنے لگے ۔ اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور صبح ہوتے ہوتے سمندر پھر اپنی اصلی قوت میں آگیا اور مصری اُلٹے بھاگنے لگے اور خداوند نے سمندر کے بیچ ہی میں مصریوں کو تہہ و بالا کردیا اور پانی پلٹ کر آیا اور اُس نے رتھوں اور سواروں اور فرعون کے سارے لشکر کو جو اسرائیلیوں کا پیچھا کرتا ہوا سمندر میں گیا تھا غرق کردیا اور ایک بھی اُن میں سے باقی نہ چھوڑا ۔ پر بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میںسے خشک زمین پر چل کر نکل گئے اور پانی ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ دیوار کی طرح رہا۔ سو خداوند نے اس دن اسرائیلیوں کو مصریوں کے ہاتھ سے اِس طرح بچایا اور اسرائیلیوں نے مصریوں کو سمند ر کے کنارے مرے ہوئے پڑے دیکھا اور اسرائیلیوں نے وہ بڑی قدرت جو خداوند نے مصریوں پر ظاہر کی دیکھی اور وہ لوگ خداوند سے ڈرے اور خداوند پر اور اُس کے بندے موسیٰ پر ایمان لائے ۔‘‘
(خروج باب ۴ آیت ۲۱ تا ۳۱)
پرانے مفسرین نے اس موقع پر بعض عجیب و غریب قصے بیان کئے ہیں۔ چنانچہ وہ فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِوْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ نے جب سونٹا مارا تو سمندر بارہ جگہ سے پھٹ گیا ۔ تاکہ بنی اسرائیل کے بارہ قبائل اس میں سے علیحدہ علیحدہ گزرجائیں ۔ (تفسیر فتح البیان جلد۷ صفحہ ۱۷)پھر بعض نے اور زیادہ مبالغہ سے کام لیا ہے ۔اور لکھا ہے چونکہ ہر فریق کے درمیان پانی کی ایک دیوار حائل تھی اور بنی اسرائیل ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے اس لئے انہوں نے کہا کہ جب تک ہم ایک دوسرے کو نہیں دیکھیں گے اُس وقت تک ہم ایک قدم بھی آگے نہیں چلیں گے ۔ اس پر موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ۔ اور انہیں حکم ملا کہ پانی کی جو دیواریں کھڑی ہیں ان میں اپنا سونٹا داخل کرو۔ چنانچہ انہوں نے اسی طرح کیا ۔اور تمام دیواروں میں چوڑے چوڑے سوراخ ہوگئے اور وہ سب کے سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگ گئے بلکہ ایک دوسرے کی باتیں بھی سننے
لگے اور ہنسی خوشی سمندر میں سے گزرگئے (کشاف جلد اول صفحہ ۲۱۵زیر آیات وَاِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ)
مفسرین نے یہ قصہ اپنی عجوبہ پسند طبیعت کی تسکین کے لئے تو بیان کردیا مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ حضرت موسیٰؑ کا سونٹا کس قدر لمبا تھا کہ وہ بارہ راستے جن پر سے یہود نے گزرنا تھا ان کی دیواروں میں اس سونٹے نے اپنے ایک ہی وار سے سوراخ کردیئے ۔ اور پھر انہوں نے اس سوال پر بھی کوئی روشنی نہیں ڈالی کہ جن بنی اسرائیل میں باہم اِس قدر محبت پائی جاتی تھی کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھے بغیر سمندر میںسے گزرنے کے لئے بھی تیار نہیں تھے وہ ایک ہی راستہ سے کیوں نہ گزرگئے ۔ اور اُن کے لئے الگ الگ راستے کیوں تجویز کئے گئے ۔ایک طرف اُن کا ایسے پُر خطر وقت میں بھی جب کہ فرعون کے تعاقب میں تھا الگ الگ راستوں سے جانا اور دوسری طرف اُن میں اس قدر محبت کا پایا جانا کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھے بغیر ایک قدم بھی اٹھانا گوارہ نہ کریں بالکل متضاد بیانات ہیں جو اس قصہ کے بنانے والے کے افتراء کو ظاہر کررہے ہیں ۔حقیقت صرف اتنی ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ایسے وقت میں سمندر کے سامنے پہنچایا جبکہ جزر کا وقت تھا ۔چنانچہ اِدھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سمندر پر سونٹا مار ا اُدھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت پانی گھٹنا شروع ہوگیا لیکن جب فرعون کا لشکر پہنچا تو اُس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام سمندر کے اس خشک ٹکڑے کا اکثر حصّہ طے کرچکے تھے۔ فرعون نے اُن کو پار ہوتے دیکھ کر جلدی سے اپنی رتھیںسمندر میں ڈال دیں۔ مگر سمندر کی ریت اُس کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی اُس کی رتھوں کے پہیئے ریت میں پھنسنے لگے ۔جن کو نکالتے نکالتے اِس قدر دیر ہوگئی کہ مدّ کا وقت آگیا ۔ اور فرعون اپنے تمام لشکر کے ساتھ وہیں غرق ہوگیا ۔ فَانْفَلَقَ کا لفظ بھی اِسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ کیونکہ اِنْفَلَقَ کے معنے جُدا ہوجانے کے ہیںاور سمندر کے جدا ہونے کا یہی مفہوم ہے کہ وہ کنارہ سے ہٹ گیا تھا اور اُس کی وجہ سے جو خشکی نکل آئی تھی اس میں سے بنی اسرائیل گزرگئے ۔اُس وقت بنی اسرائیل کے ایک طرف سمندر تھا اور دوسری طرف وہ چھوٹی چھوٹی جھیلیں تھیں جو سمندر کے کنارے واقعہ تھیں اور وہ درمیان میں سے گزرنے والوں کو ریت کے اونچے ٹیلے کی طرح اُٹھی ہوئی نظر آتی تھیں۔اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان معجزہ ا ذکر کرتے ہوئے فرماتاہے اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ۔ وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّوْمِنِیْنَ وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّ حِیْمُ۔اس واقعہ میں خدا تعالیٰ کی طاقت اور اس کی عظمت کا ایک بہت بڑا نشان مخفی ہے مگر افسوس ہے کہ اتنے بڑے نشانات کو دیکھنے کے باوجود لوگوں کی آنکھیں بند رہتی ہیںاور وہ خدا تعالیٰ کے انبیاء پر ایمان لا کر اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ جب بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی نبی آتا ہے اکثریت اس کا انکار کردیتی ہے اوربہت تھوڑے لوگ اس پر ایمان لانے کی سعادت حاصل کرتے ہیںحالانکہ چاہیئے یہ تھا کہ اتنے بڑے نشانات کے بعد اکثریت ہمیشہ خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتی اور صرف شاذو نادر کے طور پر ہی چند ایسے لوگ رہ جاتے جو اس کی آواز پر لبیک نہ کہتے مگر یہ کتنے تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ اتنے بڑے نشانات بھی لوگوں کی آنکھیں کھولنے کا موجب نہیںبنتے اور وہ مخالفت اور انکار پر ہی کمر بستہ رہتے ہیں۔ مگر اُن کے انکار کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کہ اِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ تیرا رب بڑاغالب اور باربار رحم کرنے والاہے ۔یعنی وہ اپنے نبیوں کو غالب کرکے اپنے عزیز ہونے کا ثبوت دیتاہے اور لوگوں کے استہزاء اور انکار کے باوجود دنیا میں نئی خرابیاں پیدا ہونے پر پھر اپنے رسول بھیج کر اپنے رحیم ہونے کا ثبوت دیتا ہے ۔عربی زبان کے قواعد کے مطابق رحیم کے وزن پر جو الفاظ آتے ہیں اُن
کے معانی میں لمبائی اور تواتر پایا جاتا ہے ۔پس صفت رحیم کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے اپنی اسی سنّت کا ذکر فرمایا ہے جو ہمیشہ سے چلی آرہی ہے کہ جب بھی دنیا میں خرابی پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کے لئے اپنا کوئی مامور مبعوث فرما دیتا ہے جو پھر بھُولے بھٹکے بندوں کا خداتعالیٰ سے تعلق قائم کردیتا ہے چنانچہ دیکھ لو آج تک دنیا میں کوئی نبی بھی ایسا نہیں آیا جو اپنے رشتوں پر غالب نہ آیا ہو ۔ اور کبھی ایسا نہیں ہو اکہ دنیا میں خرابی پیدا ہوئی ہو اور خداتعالیٰ نے اُس کی اصلاح کا سامان نہ کیا ہو ۔آدمؑ آیا تو لوگوںنے اُس کی مخالفت کی۔ مگر آدمؑ کی مخالفت کی وجہ سے خداتعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ اب میں اپنا کوئی نبی نہیں بھیجوں گا بلکہ اُس نے نوح ؑ کی بھی لوگوں نے شدید مخالفت کی۔مگرا س مخالفت کو دیکھتے ہوئے جب پھر اُس کے بندے گمراہ ہوئے تو خدا تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو لوگوں کی ہدایت کیلئے کھڑا کردیا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھی شدید مخالفت ہوئی ۔ یہاں تک کہ لوگوں نے آپ کو آگ میں ڈال دیا مگراتنی مخالفت کے باوجود خدا تعالیٰ جو رحیم تھا اُس نے پھر موسیٰؑ کو لوگوں کی ہدایت کیلئے کھڑا کردیا اور پھر اُن کی اُمت میں سینکڑوں انبیاء مبعوث کئے جن میں سے بعض قتل بھی کئے گئے ۔ مگر لوگوں کی اتنی عداوت کے باوجود جب پھر تمام دنیا میں گمراہی پھیل گئی تو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمادیا۔
غرض اللہ تعالیٰ کے عزیز اور رحیم ہونے کا ہمیں ہر زمانہ میں ثبوت ملتا ہے ۔ ہر زمانہ میں خدا اور اس کا رسول غالب رہے ۔ جیسا کہ وہ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ کَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ(مجادلہ آیت ۲۲)یعنی خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کررکھا ہے کہ میں اور میرے رسول ہمیشہ غالب رہیںگے ۔ اور پھر ہر زمانہ میں اس کے رحیم ہونے کا بھی ثبوت ملتا رہا یعنی باوجود اس کے کہ لوگوں نے اس کے پیاروں کی شدید مخالفت کی پھر بھی وہ باربار لوگوں کی ہدایت کا سامان کرتا رہا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان فرما کر اللہ تعالیٰ نے اپنے عزیزؔاور رحیم ؔ ہونے کی صفات کا اس لئے ذکر کیا ہے کہ اس واقعہ نے ایک طرف تو خداتعالیٰ کے عزیز ہونے کو ظاہر کردیا اور باوجود اس کے کہ موسیٰؑ کی فرعون کے لائو لشکر کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں تھی پھر بھی موسیٰؑ غالب آیا اور فرعون تباہ ہوگیا اور دوسری طرف اس واقعہ نے خداتعالیٰ کے رحیم ہونے کو بھی ثابت کردیا۔ کیونکہ باوجود اس کے کہ موسیٰؑ کی اتنی شدید مخالفت ہوئی پھر بھی خداتعالیٰ نے اپنے رسولوں کا سلسلہ منقطع نہ کیا ۔بلکہ جب پھر اس کے بندے روحانی بھوک اور افلاس کا شکار ہوئے تو اُس نے اُن کی اصلاح کیلئے اپنے رسولوں کو کھڑا کردیا ۔
وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ اِبْرٰھِیْمَ٭
اور ان کو ابراہیمؑ کا واقعہ پڑھ کرسُنا۔
اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَاتَعْبُدُوْنَ٭
جب کہ اُس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟
قَالُوْ انَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَھَا عَاکِفِیْنَ٭
انہوں نے کہا ہم بتوں کی پرستش کرتے ہیں۔اور اُن کے آگے بیٹھے رہتے ہیں۔
قَالَ ھَلْ یَسْمَعُوْنَکُمْ اِذْ تَدْعُوْنَ٭
اِس پر اُس (یعنی ابراہیم ؑ) نے کہا کہ کیا جب تم ان کو بلاتے ہوتو وہ تمہاری (اس )پکار کو سُنتے ہیں؟
اَوْیَنْفَعُوْنَکُمْ اَوْیَضُرُّوْنَ٭
یا تمہیں کوئی نفع پہنچاتے یا ضرر دیتے ہیں ؟
قَالُوْابَلْ وَجَدْنَآ اٰبَآئَ کَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ٭
انہوں نے کہا۔ ایسا تو نہیں لیکن تم نے اپنے بڑوں کو ایسا ہی کرتے دیکھتے آئے ہیں۔۱۶؎
۱۶؎ حل لغات:۔اَصْنَامٌ: صَنَمٌ کی جمع ہے ۔ اور صَنَمٌ کے معنے ہیں صُوْرَۃٌ اَوْتِمْثَالُ اِنْسَانٍ اَوْحَیَوَانٍ یُتَّخَذُ لِلْعِبَادَۃِ۔انسان یا حیوان کا وہ مجسمہ جو عبادت کیلئے بنایا جاتا ہے ۔اَوْکُلُّ مَاعُبِدَمِنْ دُوْنِ اللّٰہِ۔یا اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی عبادت کی جائے اس کو بھی صنم کہتے ہیں (اقرب)
مفردات میں ہے ۔ بَلْ کُلُّ مَا یَشْغُلُ عَنِ اللّٰہِ تَعَالیٰ یُقَالُ لَہٗ صَنَمٌ۔ ہر وہ بات جو اللہ تعالیٰ کی عباد ت کرنے اور اس کے احکام کی تعمیل میں روک بنے وہ صنم کہلاتاہے۔
عَاکِفِیْنَ: عَکَفَ سے اسم فاعل مذکر کاصیغہ عَاکِفٌ آتا ہے ۔ اور عَاکِفُوْنَ اورعَاکِفِیْنَ سے اسم جمع کا صیغہ ہے ۔ عَکَفَ کے معنے ہیں ۔ کسی کی عظمتِ شان کی وجہ سے اُس کیطرف متوجہ ہونا اور ا س کیساتھ رہنا (مفردات) پس عَاکِفٌ کے معنے ہونگے ۔ کسی کی عظمتِ شان کی وجہ سے اُس کے پاس بیٹھنے والا اور اُس کے پاس رہنے والا۔
تفسیر :۔فرماتا ہے ۔اب تو خدا تعالیٰ کے عزیزؔ اور رحیمؔ ہونے کے ثبوت میں ان کو ابراہیمؑ کا واقعہ سُناجس نے اپنی قوم کو توحید کی تعلیم دی اور بتوں کی پرستش سے اُسے روکا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک بُت پرست بلکہ بُت ساز گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور چلڈیا کے ایک شہر اُورکدیم کے رہنے والے تھے ۔ ان کے خاندان کے لوگوں کو گزارہ ہی بتوں کے چڑھا دوں اور بت فروشی پر تھا ۔ والد بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے ۔ اور چچا کی آغوش میں انہوں نے پرورش پائی تھی جس نے اُن کے ہوش سنبھالتے ہی اپنے بیٹوں کے ساتھ آپ کو بھی بت فروشی کے کام پرلگا دیا حقیقت سے نا آشنا چچا کو یہ معلوم نہ تھ اکہ جس دل کو خالق کون و مکاں چُن چکا ہے اُس میں بتوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوسکتی ۔ پہلے ہی دن ایک امیر گاہک جو اپنی عمر کی انتہائی منزلیں طے کر رہاتھا اور تھا بھی مالدار بت خریدنے کیلئے آیا ۔
بت فروش چچا کے بیٹے خوش ہوئے کہ آج اچھی قیمت پر سودا ہوگا ۔ بوڑھے امیر نے ایک اچھا سا بت چُنا اور قیمت دینے ہی لگا تھا کہ اُس بچہ کی توجہ اس گاہک کی طرف ہوئی ۔ اور اُس نے سوال کیا۔ یہاں بوڑھے ۔ تم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہو۔ تم اِس چیز کو کیا کرو گے ؟ اُس نے جواب دیا کہ گھر لے جائوں گا اور ایک صاف اورمطہر جگہ میں رکھ کر اُس کی عبادت کروں گا ۔ یہ سعید بچہ اس خیال پر
اپنے جذبات کو نہ روک سکا۔ اور پوچھا ۔تمہاری عمر کیا ہوگی ۔ اُس نے اپنی عمر بتائی اوراس بچہ نے نہایت حقارت آمیز ہنسی ہنس کر کہا کہ تم اتنے بڑے ہو اور یہ بت تو ابھی چند دن ہوئے میرے چچا نے بنوایا ہے کیا تمہیں اس کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے شرم نہ آئے گی ۔ نہ معلوم اس بوڑھے کے دل پر توحید کی کوئی چنگاری گری یا نہ گری لیکن اُس وقت اُس بت کا خریدنا اُس کیلئے مشکل ہوگیا۔ اور وہ بت وہیں پھینک کر واپس چلا گیا ۔ اس طرح ایک اچھے گاہک کو ہاتھ سے جاتادیکھ کر بھائی سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے اپنے باپ تارہؔ کو اطلاع دی جس نے اس بچہ کی خو ب خبر لی ۔ یہ پہلی تکلیف تھی جواس پاکباز ہستی نے توحید کے لئے اٹھائی لیکن باوجود چھوٹی عمر اور کم سنی کے زمانہ کے یہ سزا جوشِ توحید کو سرد کرنے کی بجائے اُسے اور بھی بھڑکانے کا موجب ہوئی ۔ سزا نے فکر کا دروازہ کھولا اورفکر نے عرفان کی کھڑکیاں کھول دیں۔ یہاں تک کہ بچپن کی طبعی سعادت جوانی کاپختہ عقیدہ بن گئی ۔اور آخر اللہ تعالیٰ نے نور ذہنی نورپر گرکر الہام کی روشنی پیدا کرنے کاموجب ہوگیا ۔ اور خداتعالیٰ ے آپ کو دنیا کی اصلاح کے لئے نبوت کے مقام پر سرفراز فرمادیا ۔
چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تمام خاندان کا گزارہ ہی بتوں کی فروخت پرتھا اور تارہؔ خود بت پرست تھا جیسا کہ بائیبل کی کتاب یشوعؔ باب ۲۴آیت ۲سے ثابت ہوتا ہے اس لئے اُن کے چچا اور چچازاد بھائیوں نے ان کو مشورہ دیا کہ ہم پروہت ہیں اور ہمارا گزارہ ہی اس پر ہے ۔ اگر تم نے بتوں کی پرستش نہ کی تو ہمارا رزق بند ہوجائے گا ۔ مگر آپ نے نہایت دلیری سے جواب دیا کہ جن بتوں کو انسان اپنے ہاتھ سے گھڑتاہے ان کو میں ہرگز سجدہ نہیں کرسکتا۔اس جواب کی اہمیت کااندازہ ہرشخص نہیں کرسکتاصرف وہی کرسکتاہے جسے قربانی کرنے کاموقع ملاہو ۔آج جب کہ منظم حکومتیں دنیامیں موجود ہیں اس پرامن زمانہ میں بھی میں نے دیکھاہے کہ بعض لوگوں پر جب صداقت کھل جاتی ہے تووہ مجھے لکھتے ہیںکہ اگر ہم احمدی ہوجائیںتو ہمارے گذارہ کی کیاصورت ہوگی ؟ہمارے ساتھ ہمدردی کی کیاصورت ہوگی ؟ آج جب احمدیت کو قبول کرنے میں کوئی خاص تکالیف نہیں ہیں سوائے معمولی تکالیف کے ۔اچھے اچھے تعلیم یافتہ بڑی عمر کے اور بیوی بچوں والے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہمدردی کی کیاصورت ہوگی گذارہ کاکیاانتظام ہوگا؟لیکن حضرت ابراہیم ؑ جو یتیم ہونے کی وجہ سے پہلے ہی شکستہ دل تھے اورجن کاپہلے ہی کوئی ٹھکانہ نہ تھااپنے چچاکے ہاں اوراس کی مہربانی سے پرورش پارہے تھے وہ اپنے دل سے یہ سوال نہیں کرتے کہ اب گذارہ کی کیاصورت ہوگی ؟بلکہ بلا سوچے بہادرانہ طو ر پر یہ جواب دیتے ہیں کہ جن بتوں کوانسان خود گھڑتے ہیں ان کومیں سجدہ نہیں کرسکتا۔بعینہ اسی قسم کاواقعہ رسول کریم ﷺ کوبھی پیش آیا۔جب ایک لمبے عرصہ تک آپؐ نے شرک کے خلاف تعلیم دی اور ایک لمبی کوشش کے بعد اہل مکہ آپؐ کو اور آپ کے صحابہ ؓ کو دوبارہ اپنے دین میں شامل کرلینے سے مایوس ہوگئے تو مکہ کے رئوساء آپ ؐ کے چچا ابوطالب کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کی خاطر ہم اب تک آپ کے بھتیجے سے نرمی کرتے رہے ہیں مگر ہمارے سایہ کے نیچے رہتے ہوئے اس نوجوان نے ہمارے معبودوں کو بہت بری طرح ذلیل کیاہے ہم اس پر سختی کرسکتے تھے مگر ہمیں آپ کا لحاظ تھا۔اس لئے ہم نے اس سے وہ سلوک نہ کیاجس کا وہ مستحق تھا ۔مگراب یہ بات ہمارے لئے ناقابل برداشت ہوگئی ہے اور ہم یہ آخری پیغام لے کرآپ کے پاس آئے ہیں کہ آپ اسے سمجھائیں ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ اپنی تعلیم پیش نہ کرے بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے معبودوں پر سختی سے حملہ نہ
کرے اور تبلیغ میں نرمی کاپہلورکھے اور اگروہ آپ کے کہنے سے اتنابھی کرنے کے لئے تیارنہ ہو تو آپ اس سے قطع تعلق کرلیں اور ہم پر اس کامعاملہ چھوڑدیں ۔اور اگر آپ اس کے لئے بھی تیار نہیںہیںتو گو ہمارے دلوں میں آپ کابہت ادب ہے اور آپ کے خاندان کوفضیلت حاصل ہے لیکن اب معاملہ اس حد تک پہنچ گیاہے کہ ہم صبرنہیں کرسکتے اور آپ سے بھی ہمیں مجبوراً قطع تعلّق کرنا پڑے گا ۔ابوطالب مومن نہ تھے اور ایمان کے بعد جو بہادری انسانی قلب میں پیداہوجاتی ہے اس سے محروم تھے۔وہ رئیس تھے اور ان کے نزدیک سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ریاست سے ہاتھ دھوبیٹھنے کاخطرہ ان کے سامنے تھا ۔سارامکّہ ان کو سلام کرتاتھامگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کاساتھ نہ چھوڑنے کایہ نتیجہ ہوسکتاتھا۔کہ کوئی ان کو منہ بھی نہ لگاتا ۔اوریہ کوئی معمولی بات نہ تھی ۔اس قسم کی عزتوں کے لئے لوگ بڑی بڑی قربانیاں بھی کردیتے ہیں او ر ایک ایک سلام کے لئے مراکرتے ہیں۔حضرت خلیفہ اوّل ؓ سنایاکرتے تھے کہ جب تعلیم سے فارغ ہوکرنئے نئے بھیرہ میںآئے تو بعض مولویوں نے شورمچانا شروع کردیاکہ یہ وہابی ہیں اور بعض نے آپ کے خلاف کفر کے فتوے کی تحریک شروع کردی ۔اس وقت اس علاقہ میںایک معزز پیر صاحب تھے جن کا بھیرہ اور اس کے نواح میں بہت اثر تھا۔فتوٰی کفر شائع کرنے والے ان کے پاس بھی گئے کہ دستخط کردیں ۔باقی مولویوں سے تو خلیفہ اوّل ؓ کے دوست نہ ڈرتے تھے مگران پیر صاحب متعلق انہیں ضرور خیال تھا کہ اگر یہ بھی مولویوں کے ساتھ مل گئے تو فساد بڑھ جائیگا اس لئے آپ کے دوستوں میں سے ایک زیرک دوست پیر صاحب کے پا س پہنچے اورکہا۔سناہے مولوی لوگ آ پ سے فتوٰی لینے آئے تھے ۔پیرصاحب نے کہاکہ ہاں آئے تھے او ر جوباتیں وہ کہتے تھے ٹھیک ہیں ااورمیراارادہ ہے کہ فتوٰی دے دوں ۔اس پر اس دوست نے کہاکہ آ پ تو پیر ہیں اور سب نے آ پکو سلام کرناہے ۔نورالدین خواہ کچھ ہو ۔آپ کوسلام تو ضرور کرتاہے اور اگر آپ نے فتوٰی دے دیاتو وہ اور ان کے دوست آئندہ آپ کو سلام نہیں کریں گے ۔اس پرپیر صاحب گھبراگئے اورکہنے لگے ۔بھلا ہم پیروں کافتووں سے کیاتعلق ۔آپ مولوی صاحب سے کہہ دیں کہ سلام نہ چھوڑیں۔اس دوست نے آ کرحضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سے کہاکہ میں اس طرح کرآیاہوں اور اب پیرصاحب چاہیں گے کہ آپ ان کوسلام کریں۔آپ نے فرمایاہماراکیاحرج ہے کردیںگے ۔چنانچہ وہ دوست پھر پیرصاحب کے پاس گئے ۔اور پیرصاحب سے کہاکہ مولوی صاحب کہتے ہیںکہ پیرصاحب بڑے آدمی ہیں ہم ان کو سلام کیوں نہ کریں گے ۔اس پرپیرصاحب بہت خو ش ہوئے اور کہنے لگے کہ اچھاہم فلاں روز اس طرف سے گذریںگے ۔مولوں صاحب سے کہنا کہ ضرورسلام کریں۔چنانچہ پیرصاحب مولوی صاحب ؓ کے مطب کے سامنے سے گذر ے اور حضرت مولوی صاحب ؓ نے اپنے دوستوں سمیت باہرنکل کران کوسلام کیا۔پیرصاحب نے گھوڑا کھڑاکرلیااور حضرت مولوی صاحب سے باتیں کرنے لگے کہ دیکھوہمارے پاس مولوی لوگ فتوٰی کے لئے آئے تھے مگر ہم نے انکار کردیاکہ ہم کو ان باتوں سے کیاتعلق ہے ۔ہمیں سب نے سلام کرناہوا۔یہ واقعہ شہر میں پھیل گیااور پیرصاحب کے مرید اس تحریک سے الگ ہوگئے او رمخالفت کازور ٹوٹ گیا۔غرض ابوطالب کے لئے یہ بڑاامتحان تھا۔وہ سارے شہر میں مکرّم سمجھے جاتے تھے اور ایسامعلوم ہوتاتھا کہ اب ان کی عزّت جاتی رہے گی ۔انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو بلوایااور کہاکہ اے میرے بھتیجے میں سمجھتاہوں کہ توجو کچھ کرتاہے سچ سمجھ کرکرتاہے اور میں نے بھی ہمیشہ تیری مدد کی ہے اور تجھے دشمنوں سے بچایاہے مگراب میری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے کہاہے کہ یاتو اپنے
بھتیجے سے کہو کہ تبلیغ میں نرمی کرے اوریاپھر اس سے قطع تعلق کرلواور اگرمیںایسانہ کروں توقوم میرے ساتھ قطع تعلقی کرلے گی اور تُو جانتاہے کہ قوم کامقابل مشکل ہوتاہے ۔اب تو بتاتیری کیارائے ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے جس وقت یہ بات سنی ۔آپ ؐ کی آنکھوں میںآنسو بھرآئے اورآپ ؐ نے فرمایا۔اے میرے چچا۔میرے دل میں آپ کابڑاادب ہے ۔مگرسچائی کے مقابلہ میں میں آپ کی بات ماننے کے لئے تیارنہیں ہوں ۔اگردشمن میرے دائیں طرف سورج اور بائیں طرف چاند لاکرکھڑاکردیںتب بھی میں تبلیغ میں نرمی نہیںکروں گا۔اور توحیدکی اشاعت سے بازنہیںرہوں گا۔میںآپ کے لئے ہرقربانی کرنے کو تیارہوں لیکن یہ بات آپ کی نہیںمان سکتا۔آپ مجھے میرے حال پر چھوڑدیں اور اپنی قوم سے صلح کرلیں۔میرے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے ۔اس پرباوجود اس کے کہ ابوطالب کے لئے قوم کاچھوڑنا مشکل تھا اس دلیرانہ جواب کوسن کران پرایسااثر ہواکہ انہوں نے کہا کہ اگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو بیشک چھوڑ دے میںتجھے نہیں چھوڑوں گا۔ابوطالب کے اس جواب کی اہمیت کا پورا اندازہ وہ لوگ نہیں لگاسکتے جو تاریخ سے ناوقف ہونے کی وجہ سے ایک اور واقعہ کونہیںجانتے جس سے ابوطالب کی قلبی کیفیت کاپتہ چلتاہے اور یہ معلوم ہوتاہے کہ انہیںاپنی قوم سے کتنی محبت تھی ۔جب ان کی وفات کاوقت قریب آیاتوچونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو ان سے بہت ہی محبت تھی ۔ان کی قربانیوںاور حسن سلوک کی وجہ سے آپ ؐ کو اس بات سے سخت دکھ ہوا کہ آپ مسلمان ہوئے بغیر مررہے ہیں ۔آپ کبھی ان کے دائیں جاتے اور کبھی بائیںاورکہتے کہ اے چچا اب موت کاوقت قریب ہے لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَدّرَسُوْلُ اللّٰہِ کہہ دیجیے مگر ابوطالب خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا ۔آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے بہت اصرار کیا۔آپ ؐ پر رقّت طاری تھی ۔ اورآپ ؐ باربار کہتے تھے کہ اے چچا ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیں تاکہ میں خداکے حضور کہہ سکوں کہ آپ نے اسلام قبول کرلیاتھالیکن ابوطالب نے آپ یہی جواب دیاکہ میںاپنی قوم کے دین کو نہیں چھوڑسکتا۔گویاان کواپنی قوم سے اتنی محبت تھی کہ وہ اس کے بغیرجنت میںبھی جانانہ چاہتے تھے ۔مگر اپنی قوم سے اس قد ر محبت رکھنے والے شخص پررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے بہادرانہ جواب کایہ اثر ہوا کہ اس نے کہہ دیاکہ اچھااگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو چھوڑدے میںتم کونہیںچھوڑوںگا۔ابو طالب کے اس جواب کی اہمیت کا پورا اندازہ وہ لوگ نہیں لگا سکتے جو تاریخ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ایک اور واقعہ کو نہیں جانتے جس ابو طالب کی قلبی کیفیت کا پتا چلتا ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنی قوم سے کتنی محبت تھی۔ جب اُن کی وفات کا وقت قریب آیا تو چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمکو ان سے بہت ہی محبت تھی۔ ان کی قربانیوں اور حسنِ سلوک کی وجہ سے آپؐ کو اس بات سے سخت دُکھ ہواکہ آپ مسلمان ہوئے بغیر مر رہے ہیں ۔ آپ کبھی ان کے دائیں جاتے اور کبھی بائیں اور کہتے کہ اے چچا! اب موت کا وقت قریب ہے لَا اِلٰہَ اَلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہہ دیجیئے ۔مگر ابو طالب خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا ۔آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت اصرار کیا ۔آپؐ پر رقت طاری تھی۔اورآپؐ باربار کہتے تھے کہ اے چچا ! ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیں تاکہ میں خدا کے حضور کہہ سکوں کہ آپ نے اسلام قبول کرلیا تھا لیکن ابو طالب نے آخر میں یہی جواب دیا کہ میں اپنی قوم کے دین کو نہیں چھوڑسکتا ۔ گویا ان کو اپنی قوم سے اتنی محبت تھی کہ وہ اس کے بغیر جنت میں بھی جانا نہ چاہتے تھے ۔ مگر اپنی قوم سے اس قدر شدید محبت رکھنے والے شخص پر رسول کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے بہادرانہ جو اب کا یہ اثر ہوا کہ اُس نے کہہ دیا کہ اچھا اگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو چھوڑے میں تم کو نہیں چھوڑوں گا ۔
جو زیفس ؔ مشہور یہودی مؤرخ پُرانی کتب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حالات کو ذکر کرتے ہوئے لکھتاہے کہ ابراہیم ؑ پہلے آدمی تھے جنہوں نے دلیری سے خدا کے خالق ہونے اور ایک ہونے کا اعلان کیا ۔ اور کہا کہ سب ستارے خدا کے قبضہ میں ہیںاور اُسی کے حکم کے ماتحت حرکت کرتے ہیں۔ چونکہ اُن کی قوم ستارہ پرست تھی اُن کی ستارہ پرستی کی مخالفت نے چلڈ نیز کا غصہ بھڑکادیا اور اُن کو اپنا ملک چھوڑ کرکنعان جانا پڑا ۔کہتے ہیں کہ جب آپ چودہ برس کے تھے تو ستاروں اور بتوں کی پرستش سے بچنے کے لئے آپ نے اپنے باپ کو چھوڑدیا اور خدا سے دُعا کی کہ وہ اُن کو انسانوں کی غلطیوں سے بچائے ۔ یہ بھی لکھا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے زراعت کے بعد عمدہ طریق ایجاد کئے اور انہوں نے اپنے باپ تارہؔ کو توحید کی تعلیم دی مگر وہ لوگوں سے ڈرتا تھا اور اُس نے ان کو خاموش رہنے کو کہا۔ جب حضرت ابراہیم ؑ کے بھائی بھی اُن کے مخالف ہوگئے تو انہوںنے بت خانہ کو آگ لگا دی اور اُن کے بچانے کی کوشش میں اُن کا بھائی ہاران جل مرا(اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لکڑی کے بت تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے تلوار سے اُن کو کاٹ دیا تھا) لکھا ہے کہ نئے سال کے چاند کو ایک دفعہ دیکھ رہے تھے تاکہ آئندہ سال کی فراخی کو معلو کریں کہ ان کو الہام ہوا کہ خدا کی مرضی کے مقابلہ میں ستاروں کااثر کیا حقیقت رکھتا ہے ۔ آخر بہت دُعاؤں کے بعد آپ نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا ۔ تاکہ اعلیٰ صداقتوں کو دنیا میں قائم کریں ۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تین سال کی عمر میں ان کو سچا علم ملا ۔ بعض میں دس اور بعض میں چالیس لکھا ہے ۔ فلسطینی ربّیوں کے لٹریچر میں آپ کے متعلق بہت سی تفاصیل دی گئی ہیں اور آپ کے زمانہ کے بادشاہ کا نام نمرودؔ بتایاگیا ہے اور چاند ستاروں کا واقعہ یوں لکھا ہے کہ تارہؔ نے نمرود ؔ سے ڈر کر جو اُن کے بیٹے کو مارنا چاہتا تھا (کیونکہ نجومیوں نے اُسے بتایا تھا کہ ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو تیری حکومت کو تباہ کردے گا ) تین سال تک حضرت ابراہیم ؑ کوچھپائے رکھا۔ جب وہ بھورے سے باہر نکلے تو سورج کو دیکھ کر انہوں نے خدا سمجھا ۔ جب سورج ڈوبا تو چاند کو خدا اور ستاروں کو اس کا نوکر سمجھا ۔ جب صبح ہوئی تو دونوں سے انکار کرکے کہا کہ خدا کوئی ااور ہو گا ۔ اس پر ابراہم ؑ نے باپ سے پوچھا ۔ آسمان و زمین کس نے پید ا کئے ۔ اُس نے جواب میں کہا کہ یہ بت جو سامنے ہے یہ ہمار ا خدا ہے ۔ ابراہم ؑ نے کہا کہ میں اسے نذر چڑھائوں گا۔ اور عمدہ کھانا پکواکر اس کو دیا اُس نے نہ کھایا تو اور اچھا کھانا پکوا کر سامنے رکھا جب پھر بھی اس نے نہ کھا یا اور نہ کوئی جواب دیا تو آگ سے اس کو اور دوسرے بتوں کو جلا دیا جب تارہؔ واپس آیا تو اُس نے پوچھا ۔ ان کو کس نے جلایا ہے ۔ انہوں نے کہا۔ بڑا چھوٹوں پر ناراض ہوگیا ۔اور غصہ میں اُس نے ان کو جلا دیا ۔ باپ نے کہا۔ بیوقوف جو نہ سُنے اور نہ دیکھے نہ چل سکے ۔ وہ یہ کام کس طرح کر سکتا تھا ۔ انہوں نے کہا ۔ پھر تم زندہ خدا کو چھوڑ کر اِن کے پیچھے کیوں چل پڑے ہو ۔ ایک دن ایک عورت کھانے کی کوئی چیز نذر لائی ۔ ابراہیم ؑ نے کہا ۔ اِن کے منہ ہیں یہ بولتے نہیں۔ آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ۔کان ہیں مگر سنتے نہیں ۔ہاتھ ہیں مگر پکڑ نہیں سکتے ۔ اِن کے بنانے والوں اور ان پر اعتبار کرنے والوں کا بھی یہی حال ہو۔ یہ کہہ کرآپ نے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ اور پھر انہیں جلا دیا ۔ اِس پر آپ نمرودؔ کے سامنے پیش کئے گئے ۔ اُس نے انکو کہا کہ کیا تو نہیں جانتا کہ میں خدا اور دنیا کا حاکم ہوں۔ آپ نے جواب دیا۔ اگر تو خدا اور دنیا کا حاکم ہے توکیوں سورج کو مغرب سے نکال کر مشرق کی
طرح نہیں چڑھاتا ۔ اگر تو خدا اور دنیا کا حاکم ہے تو بتا میرے دل میں اس وقت کیا ہے اور میرا آئندہ کیا حال ہوگا؟ نمرودؔ کی زبان بند ہوگئی اور وہ حیران رہ گیا ۔ اور ابراہیم ؑ نے اپنی بات کو جاری رکھا اور کہا کہ تُو کونسؔ کا بیٹا ہے اور اُسی کی طرح ایک فانی وجود ہے تواپنے باپ کو موت سے نہیں بچا سکا۔ اور نہ تُو خود اس سے بچ سکتا ہے ۔ یہ بھی لکھا ہے کہ نمرودؔ نے کہا۔ آگ کو پوچ ۔ ابراہیم ؑ نے کہا۔ پانی کو کیوں نہیں وہ تو اُسے بجھا دیتا ہے۔ اُس نے کہا۔ بہتر اُسی کو سہی ۔ انہوں نے کہا۔ بادلوں کو کیوں نہیں جو پانی سے پُر ہوتے ہیں۔ اُس نے کہا۔ اُنہی کو سہی۔ انہوں نے کہا۔ ہوا ان کو بھی اڑا دیتی ہے اُس نے کہا اُس کوپوچ۔ انہوں نے کہا۔ انسان اس کے صدمہ سے بھی بچ جاتا ہے اور مکانوں کے پیچھے چھپ جاتا ہے ۔ اس نے کہا پھر میں انسانوں کا بادشاہ ہوں ۔ مجھے پوچ۔ انہوں نے کہا۔ اگر تو خدا ہے تو پھر سورج کو مغرب کی طرف سے نکال کردکھا۔ اس پر نمرود ؔ نے ابراہیم ؑ کے جلانے کا حکم دے دیا۔ ایک لکڑیوں کا انبار پانچ گز مربع جمع کیا گیا اور اُس کو آگ لگائی گئی اور ابراہیم ؑ کو اُ س میں ڈالا گیا ۔ اِسی کی طرف پیدائش باب۱۵ آیت ۷ میں اشارہ ہے ۔ بعض نسخوں میں اس جگہ لکھا ہے کہ ’’ تجھے کدیوں کی آگ سے نکال لایا ۔‘‘ (جیؤش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ ابراہام)
چیلڈنیز میں سورج کی پرستش خاص طور پر کی جاتی تھی (نیلسن انسائیکلو پیڈیا ) چیلڈ نیز کا خدا MENODACK نامی تھا جو سورج کی شعاع یادن کی روشنی سمجھا جاتاتھا ۔ اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ بنی نوع انسان کی نفع پہنچاتا ہے ۔ اس کا نام بعل یعنی آقا بھی تھا ۔ اِس کے علاوہ اُن کو ایک بت شمسؔ تھا یعنی سورج دیوتا۔ ایک سینؔ تھا یعنی چاند دیوتا ۔ ایک نیبوؔ یعنی نبی دیوتا یا معلم تھا ۔
(نیلسنز انسائیکلوپیڈیا بیلبونیا کے ماتحت)
اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے انہی واقعات کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ اگر موسیٰؑ اور فرعون کے واقعات سے بھی یہ لوگ کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے تو پھر تو ان کے سامنے ابراہیم کے واقعات بیان کر کیونکہ ابراہیم ؑ وہ نبی ہے جس کی عزت مکہ والوں کے قلوب میں جاگزیں ہے ۔ اور خصوصیت کیساتھ ان کے سامنے وہ واقعہ بیان کرجبکہ اُس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کس چیز کی عباد ت کرتے ہو؟ چونکہ ان کی قوم نے سورج اور چاند اور ستاروں کے نام پر کئی قسم کے بت بنائے ہوئے تھے اس لئے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ سوال کیا تو انہوں نے کہاکہ ہم تو بت پوجتے ہیں ۔ اور سارا دن اُن کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا ۔ اچھا جب تم ان کو پکارتے ہوتو کیا اُن کیطرف سے کوئی جواب بھی ملتا ہے جس سے پتہ لگے کہ انہوں نے تمہاری دعائیں سُن لی ہیں یا نفع اور ضرر کی شکل میں کوئی نتیجہ بھی نکلتا ہے ؟ یعنی اگر وہ واقعہ میں اپنے اندر خدائی طاقتیں رکھتے ہیںتو جس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کی دعائیں سنتا ہے اسی طرح ان بتوں کوبھی تمہاری دعائیں سننی چاہئیں ۔ اور جس طرح خدا اپنے بندوں کو ہر قسم کی تکالیف سے بچاتا اور اُن کیلئے رحمت اور برکت کے سامان پیدا کرتا ہے اسی طرح ان بتوںکے اندر بھی یہ طاقت ہونی چاہئیے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو فائدہ پہنچائیں اور جو لوگ ان کا انکار کریں انہیں تباہ کردیں۔ مگر کیا یہ بت ایسا کرسکتے ہیں؟ کیا یہ تمہاری باتوں کا جواب دیتے ہیں ؟ ان میں طاقت ہے کہ وہ تمہاری کسی تکلیف کو دور کرسکیں یا تمہیں کوئی نفع پہنچا سکیں۔ اگر ان میں کوئی بات بھی نہیں پائی جاتی تو پھر تم ایسے بتوںکی پرستش کر رہے ہو جونہ سنتے ہیں نہ بولتے ہیں اور نہ نفع اور ضرر کی اپنے اندر کوئی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ دلیل ایسی زبردست ہے کہ ایک صحابیؓ کہتے ہیں۔ مجھے اسلام قبول کرنے کی تحریک صرف اس لئے ہوئی کہ میں ایک دفعہ سفر پر گیا تو عرب کے دستور کے مطابق میں نے پتھر کا ایک چھوٹا سا بت اپنے ساتھ رکھ لیا تاکہ وہ ضرورت کے وقت کام آئے ۔ ایک دفعہ جب کہ میں ایک جنگل میں سے گزر رہاتھا مجھے کوئی ضروری کام پیش آ گیا۔میں نے اپنا اسباب وہیں رکھا اور بت کو پاس بٹھا کر کہا کہ حضور میں تھوڑی دیر کے لئے باہر جارہا ہوں آپ مہربانی فرما کر میرے سامان کی حفاظت کریں ۔ جب میں واپس آیا تو ایک گیدڑ ٹانگ اٹھا کر اُس بت پر پیشاب کررہا تھا یہ دیکھ کر میرے دل میں ایک آگ لگ گئی اور میں نے کہا کہ جو بت گیدڑ کے پیشاب سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکا اُس نے میرے اسباب کی کیا حفاظت کرنی ہے چنانچہ میں نے اُس بت کو وہیں پھینکا اور واپس آکر مسلمان ہوگیا ۔
اِسی طرح ایک اور صحابیؓ کہتے ہیں کہ مجھے توحید کی اس طرح سمجھ آئی کہ میں ایک دفعہ سفر پر گیا تو میںنے اپنے ساتھ آٹے ایک بت بنا کر رکھ لیا ۔ اتفاق ایسا ہوا کہ راستہ میں ہمارا آٹا ختم ہوگیا اور بھوک نے ہمیں بے قرار کردیا ۔ہم نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح کوئی اور چیز مل جائے تو ہم گذارہ کرسکیںمگر ہمیںکوئی چیز نہ ملی جب بھوک نے ہمیں بہت تنگ کیاتو ہم نے اسی بت کو کوٹ کاٹ کر آٹا گوندھ لیااور روٹی پکاکرکھاگئے ۔جب ہم خوب سیر ہوچکے تو مجھے اپنے آپ پر ہنسی آئی کہ میں کیسا احمق ہوں کہ جس وجود کو میں کوٹ کاٹ کر ہضم بھی کرگیااس کومیںاپناخدا اور حاجت روا سمجھتارہاہوں ۔چنانچہ اس کاردّعمل یہ ہوا کہ سفر سے واپس آتے ہی میںمسلمان ہوگیا۔حضرت ابراہیم ؑ نے بتوں کے اسی عجز اور بے چارگی کی طرف توجہ دلائی اور ان سے پوچھا کہ بتائو۔کیایہ تمہیںکوئی نفع دیتے ہیں یاتمہارے دشمنوں کوضرر پہنچاسکتے ہیں؟حضرت ابراہیم ؑ کی قوم نے شرمندہ ہوکرکہاکہ نتیجہ توکچھ نہیںنکلتا۔لیکن ہم نے اپنے باپ دادوں کودیکھاہے کہ وہ ایساہی کرتے تھے۔اس لئے ہم نے بھی بتوں کی پرستش شروع کردی ۔ان کایہ جواب بالکل ایساہی تھاجیسے حضرت خلیفہ اوّل ؓ ایک لطیفہ سنایاکرتے تھے کہ ایک بادشاہ کے دربارمیںصفائی کے لئے ایک خاکروبہ اور ایک خاکروب آیاکرتاتھا۔اس خاکروب اور خاکروبہ نے سؤر پال رکھے تھے ۔اتفاقاً سؤر کاایک بچہ مرگیا۔پالے ہوئے جانور سے بھی انسان کومحبت ہوجاتی ہے چاہے وہ سؤر ہی ہویاکوئی اور جانور۔انکے لئے سؤر کابچہ ایسا ہی تھاجیسے ہمارے لئے گھوڑا یاکوئی اور جانور۔دربارکی صفائی کرتے ہوئے خاکروبہ کواس سؤر کے بچے کاخیال آگیا اور وہ دربار کی ایک دیوار کے ساتھ اپناسر رکھ کررونے لگ گئی ۔اتنے میںدربار کاایک چپڑاسی آیااور اس نے خاکروبہ کو روتے دیکھ کریہ خیال کیاکہ خدانخواستہ اندر کوئی حادثہ ہوگیاہے ۔ مجھے پتہ نہیں لگا ۔اگر کسی نے مجھے دیکھ لیاکہ میں رو نہیں رہا تو مجھ پر بے وفائی کا شبہ کرلیا جائے گا اس لئے وہ بھی رونے لگ گیا ۔ پھر ایک چوبدار آیا۔ اُس نے جو دیکھا کہ یہ دونوں رو رہے ہیں تو سمجھا کہ ضرور کوئی واقعہ ہوا ہے جس کا مجھے پتانہیں لگا ۔ اگر کوئی شخص آگیا اور اس نے دیکھ لیا کہ میں رو نہیں رہا تو وہ خیال کرے گا کہ مجھے بادشاہ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ خیال کرکے وہ بھی مصنوعی طور پر رونے لگ گیا پھر کلرک آئے انہوں نے بھی ان لوگوں کو دیکھ کر رونا شروع کردیا ۔پھر چھوٹے افسر آئے ۔ درباری آئے ۔ وزراء آئے ۔ انہوں نے خیال کیا کہ ہمارا تو خیال تھا کہ ہم ہر وقت خبر رکھیں لیکن ہمیں اس حادثہ کو کوئی علم نہیں ہوا۔ ضرور کوئی بات ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ رو رہے ہیں۔ اگر ہم نہ روئے تو ہم پر بے وفائی کا شبہ کر لیاجائے گا ۔ یہ خیال کرکے وہ بھی رونے لگ پڑے ۔ اور بڑے آدمیوں نے کرسیوں پر بیٹھے ہوئے آنکھوں پر رومال رکھ کر رونا شروع کردیا ۔اتنے میں ایک بڑا وزیر آیا وہ کچھ عقلمند تھا وہ رویا نہیں۔ اُس نے پاس والے وزیر سے دریافت کیا کہ کیا بات ہوئی ہے ۔ اُس نے کہا مجھے تو معلوم نہیں میرے پاس والے وزیر رو رہے تھے اس لئے میں بھی رونے لگ گیا ۔ اُس نے کہا۔ اُس سے پوچھو کیا بات ہے ۔جب اُس سے پوچھا گیا ۔ تو اُس نے کہا۔ مجھے تو علم نہیں۔ میرے ساتھ والا وزیر رو رہا تھا آخر بات خاکروبہ تک پہنچی۔ اس سے دریافت کیا گیا تو اُس نے بتایا کہ میر اسؤر کا بچہ مرگیا تھا۔ مجھے وہ یاد آگیا تو میں نے رونا شروع کردیا ۔ جس طرح ایک خاکروبہ کو دیکھ کر سارا دربار رونے لگ گیا تھا حالانکہ بات کچھ بھی نہیں تھی اِسی طرح انہوں نے کہا کہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو دیکھا تھا کہ وہ اِن بتوں کی پرستش کرتے ہیں ۔ جب ہم نے دیکھا کہ وہ اِن بتوں کے آگے ہاتھ جوڑتے اور سجدے کرتے ہیں تو ہم بھی ہاتھ جوڑنے اور سجدہ کرنے لگ گئے ۔
قَالَ اَفَرَئَ یْتُمْ مَّاکُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ٭
اُس نے کہا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ جن کی تم عبادت کرتے چلے آئے ہو ۔
اَنْتُمْ وَاٰبَآئوُکُمُ الْاَقْدَمُوْنَ٭
تم بھی اور تمہارے پُرانے باپ دادے بھی۔
فَاِنَّھُمْ عَدُوٌّ لِّیْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ٭
وہ سب کے سب ربّ العالمین کے سوا میر ی تباہی چاہتے ہیں۔
الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَھُوَ یَھْدِیْنِ٭
جس (ربّ العالمین) نے مجھے پید اکیا ہے اور (اس کے نتیجہ میں) وہ مجھے ہدایت بھی دیگا۔
وَالَّذِیْ ھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ٭
اور جس کی صفت یہ ہے کہ وہی مجھے کھانا کھلاتا اور وہی مجھے پانی پلاتا ہے ۔
وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ٭
اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ شفا دیتا ہے۔
وَالَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِ٭
اور جو مجھے مارے گا اورپھر زندہ کرے گا ۔
وَالَّذِیْٓ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَلِیْ خَطِیْٓتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ٭
اور وہ ایسا ہے کہ میں اُمید کرتا ہوں کہ وہ میرے گناہ جزا سزا کے وقت مجھے معاف کردے گا ۔۱۷؎
۱۷؎ حل لغات:۔اَلدِّیْنُ کے معنے ہیں اَلْجَزَائُ وَالْمُکَافَأَ ۃُ ۔بدلہ ۔ اَلْحِسَابُ۔محاسبہ ۔اَلْقَضَائُ۔ فیصلہ (اقرب)
تفسیر:۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں جو اب دیا کہ تم مجھے اِن معبودوں کی حالت تو بتائوجن کی تم پرستش کرتے چلے آئے ہو۔ یعنی تم بھی اور تمہارے پہلے باپ دادا بھی ۔ تمہارے یہ سب معبود میرے دشمن ہیں سوائے ربّ العالمین خدا کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے ۔ اگر یہ بُت اپنے اندر کوئی طاقت رکھتے ۔تو کیا یہ سب مل کرمجھ اکیلے پر غالب نہ آجاتے اور مجھے تباہ برباد نہ کردیتے ؟ اس جگہ عَدُوٌّ مفرد استعمال ہوا ہے جو ھُمْ کی خبر کے طور پر آیا ہے ۔ حالانکہ چاہیئے تھا کہ اَعَدَاوٌّ کا لفظ استعمال کیا جاتا جو جمع ہے ۔سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ عرئی زبان کا محاورہ ہے کہ کبھی مبتداء کوجمع اور خبر کو مفرد لے آتے ہیں۔ چنانچہ اس سورۃ کے شروع میں ہی آتا ہے کہ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلٌ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔یعنی اے موسیٰؑ اور ہارونؑ !فرعون سے کہنا کہ ہم دونوں اپنے ربّ کے رسول ہیں حالانکہ موسیٰؑ اور ہارون ؑدو نبی تھے ۔ اور بظاہر اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّکَ کی بجائے اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّکَ کہنا چاہیئے تھا ۔ مگر وہاں رَسُوْلَا رَبِّکَ کی بجائے اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّکَ اِسی لئے کہا گیا ہے کہ عربی زبان میں یہ طریقِ کلام رائج ہے ۔ چنانچہ عربی میں کہتے ہیں۔ ھٰذَانِ رَسُوْلِیْ وَوَکِیْلِیْ وَھٰؤُلَآئِ رَسُوْلِیْ وَوَکِیْلِیْ (فتح البیان جلد ۷صفحہ ۶)یعنی یہ دونوں میرے رسول اور وکیل ہیںاور یہ سب میرے رسول اور وکیل ہیں حالانکہ ھٰذَانِ کے بعد رَسُوْلَا لِیُ آنا چاہیئے تھا یعنی یہ دونوں میرے رسول ہیں اور ھٰؤُلَآئِ کے بعد رُسُلِیْ آنا چاہیئے تھا ۔ کہ یہ سب میرے رسول ہیں۔ مگر تثنیہ کی خبر میں بھی واحد کا صیغہ استعمال کیا گیا ۔ پس یہ ایک مروّجہ عربی کا طریق ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا ۔
فَاِنَّھُمْ عَدُوٌّ لِّیْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ کے متعلق بعض لوگ سوال کیا کرتے ہیں کہ یہاں پتھر کے بے جان بُتوں کو دشمن کہاگیا ہے ۔ مفسرین نے اس سوال کایہ جواب دیا ہے کہ یہاں قلب نسبت سے کام لیا گیا ہے ۔ یعنی جس طرح ہماری زبان میں یہ کہا جاتا ہے کہ پرنالہ چلتا ہے بلکہ پانی چلتا ہے اسی طرح یہاں کہا تویہ گیا ہے کہ وہ میرے دشمن ہیں لیکن مراد یہ ہے کہ میں اِن کا دشمن ہوں ۔ چنانچہ فرّاءؔ نے یہی معنے کئے ہیں اور ان الفاظ کو مقلوب قرار دیا ہے ۔لیکن میرے نزدیک اس جگہ مخالفوں کے عقیدہ پر تعریض کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ تم تو سمجھتے ہو کہ وہ معبود ہیں مگر میں ان کی عبادت نہیں کرتا اِس لئے لازماً وہ میرے دشمن ہوں گے سوائے ربّ العالمین خدا کے جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔ پس اب ہم دیکھ لیں گے کہ ربّ العالمین خدا میری مدد کرکے مجھے بچاتا ہے یا تمہارے معبود میری دشمنی کرکے مجھے ہلاک کرتے ہیں۔ اگر ان بتوں میں بھی کوئی طاقت ہے تو چاہیئے کہ یہ مجھے ہلاک کردیں ۔لیکن وہ ایسا کبھی نہیںکرسکتے ۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ بالکل بے بس ہیں اور ان میں کوئی طاقت نہیں ۔ چنانچہ نتیجہ نے بتادیا کہ ربّ العالمین خد انے ابراہیم ؑ کو بچا لیا اور اُس کی قوم کے معبود اُس کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکے ۔ اِسی طرح اس پیشگوئی کا یہ نتیجہ نکلا کہ یہودی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ماننے والے تھے وہ کامیاب ہوگئے اور اُن کے دشمن تباہ ہوگئے ۔
پھر ربّ العاؔلمین کے الفاظ استعمال فرما کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ میں جس خدا پر ایمان رکھتا ہوں وہ ایک زندہ اور طاقتور خدا ہے مگر تمہارے معبودوں میں تو جان ہی نہیں انہوںنے کسی کی مدد کیا کرنی ہے؟ بے شک ربّ العالمین کے معنوں میں یہ بھی داخل ہے کہ ہمارا خدا انسانوںکا بھی خدا ہے اور جانوروں کا بھی خدا ہے او رکیڑوں مکوڑوں کابھی خدا ہے اسی طرح وہ عربوں کا بھی خدا ہے اور ایرانیوں کا بھی خدا ہے اور ہندوستانیوں کا بھی خدا ہے ۔ لیکن ربّ العالمین میں جن جہانوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ زمانہ کے لحاظ سے بھی ہوسکتے ہیں۔ پس اس کے ایک معنے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ میںجس خدا کو پیش کرتا ہوں وہ ایک زندہ خدا ہے ۔ وہ آدم ؑ کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خداتھا ۔ وہ نوح ؑ کے زمانہ کے لوگوں کابھی خدا تھا اوروہ میرے زمانہ کے لوگوں کا بھی خداہے اور بعد میں آنے والوں کا بھی خدا ہوگا ۔ اور جو خدا آدم علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا تھا اور نوح علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کابھی خدا تھا اورہمارے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا ہے اور بعد میں آنے والے لوگوں کا بھی خدا ہوگا۔صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک زندہ خدا ہے اگر وہ زندہ خدا نہ ہوتا تو ہرزمانہ کے لوگوں کا کس طرح خدا ہوسکتا ۔ پس رب العالمین کہہ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ میرا خدا ایک زندہ خدا ہے جس سے ہر زمانہ کے لوگ ویسا ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیںجیسے پہلے لوگ فائدہ اٹھاتے رہے ہیں مگر تمہارے بت نہ پہلے لوگوں کو فائدہ پہنچا سکے اور نہ تمہیں کوئی فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ تم اپنے سارے معبودوں کو میری تباہی کیلئے اکٹھا کرلو اور ان کے آگے رو رو کر دعائیں کرو ۔ پھر دیکھو کہ میرا رب العالمین خدا جیتتا ہے یا تمہارے بت فتح حاصل کرتے ہیں ۔گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتایا کہ جس طرح ایک چھوٹا بچہ جب اکیلا گلی میں سے گزر رہا ہوتا ہے اور گلی کے اوباش اور شریر لڑکے اُس کو دق کرنے کیلئے اُس پر حملہ کرتے ہیں تواُن کی آواز سن کر اُس لڑکے کی ماں بیتاب ہوکر اپنے گھر سے باہر نکل آتی ہے اسی طرح میرا رب العالمین خدا میرے ساتھ ہے۔ تم میری کتنی بھی مخالفت کرو اور مجھے کچلنے کیلئے خواہ انتہائی طاقت صرف کردو یہ کبھی نہیںہوسکتا کہ میرا خدا مجھے چھوڑ دے اور تمہارے بت خدائے واحد پر غالب آجائیں ۔ دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ ۔ دنیا کے بڑے سے بڑے مدبّر۔ دنیا کے بڑے سے بڑے لیڈر انسانی امداد پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ اُن کی تکلیفوںکے وقت کچھ انسان آگے آتے ہیں جو بعض دفعہ کامیاب ہوتے ہیںاور بعض دفعہ ناکام ۔ مگر جب کسی مومن کو تکلیف دی جاتی ہے تو خدائے واحد خود آسمان سے اتر آتا ہے اور وہ لڑنے والوں کے سامنے سینہ سپر ہوجاتاہے ۔ اور یہ ایک بہترین انعام ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کو حاصل ہوا۔ یہی انعام ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی جماعت کو حاصل ہوا ۔ یہی انعام ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی جماعت کو حاصل ہوا ۔ اور یہی انعام ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی جماعت کو حاصل ہوا کہ ایک زندہ خدا اور طاقتور خدا ان کے ساتھ تھا ۔ اور جب بھی دشمن حملہ آور ہوتا تھا خدا آسمان سے اتر کر اُن کیساتھ کھڑا ہوجاتا اور وہ ان کے لئے بڑے بڑے نشانات ظاہر کرتا تھا اور اس کایہ پیار اتنی قیمتی چیز تھا کہ اگر جائز ہوتا تو انسان تمنا کرتا کہ لوگ میری اور بھی دشمنی کریں تاکہ میرے خدا کی محبت میرے لئے اور زیادہ جوش مارے مگراسلام نے ایسی خواہش سے منع کردیا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لَا تَتَمَنُّوْالِقَآئَ الْعَدُوِّ (بخاری کتاب التمنی)اے مومنو! تم کبھی دشمن کے حملہ کی تمنا نہ کرو۔آخر ہمیں سوچنا چاہیئے کہ اس فقرہ کے معنے کیا ہیں؟ کون ہے جو دشمن کے حملہ کی تمنا کیا کرتا
ہے ۔ظاہر ہے کہ جہاں تک لڑائی کا تعلق ہے ۔ جہاں تک مرنے کا تعلق ہے جہاں تک تکالیف کا تعلق ہے کوئی شخص بھی دشمن کے حملہ کی تمنا نہیں کر سکتا ۔ مگر مسلمان ایسی حالت میں تھے کہ ان کے دل اسی نکتہ کے ماتحت جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے بعض دفعہ خواہش کرسکتے تھے کہ کاش ہمار ا دشمن ہم پر حملہ کرے تاکہ ہمارا خدا ہماری مدد کیلئے ہمارے پاس آجائے ۔ پس صر ف یہی وجہ تھی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے مسلمانو! جب دشمن تم پر حملہ کرتا ہے تو خدا تمہارے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے اوریہ بات تمہیں اتنی لذیز معلوم ہوتی ہے اور تمہیں اس پر اتنا مزا آتا ہے کہ جب دشمن حملہ چھوڑ دیتا ہے تو تم کہتے ہو۔ کاش ہمار ا دشمن ہم پر پھر حملہ کرے ۔ تاہمارا خدا پھر ہمارے پاس آجائے ۔ مگر یہ خواہش جہاں تک عشق کا سوال ہے وہاں تک تو درست ہے لیکن الٰہی حکمتوں اور منشاء کے خلاف ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے ادب کے لحاظ سے ایسی خواہشات مت کیاکروہاں جب دشمن تم پر خود بخود حملہ کردے گا اور تمہارا خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہوگا تو یہ ممکن ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ تمہیں چھوڑ دے کیونکہ خدا تعالیٰ کی یہ دائمی سنت ہے کہ وہ اپنے رسولوں کی بھی مدد کرتاہے اور ان لوگوں کی تائید کیلئے بھی اپنے نشانات دکھاتا ہے جو اُن رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔ پس فَاِ نَّھُمْ عَدُوٌّلِّیْ اِلَّا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی اسی سنتِ قدیم کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ تمہارے یہ سب بت جن کے سامنے تم اپنی ناکیں رگڑتے ہو میرے دشمن ہیں اگر ان میں کوئی طاقت ہے تومیرے رب العالمین خدا کے مقابلہ میں جو ایک زندہ اور طاقتور خدا ہے مجھے نقصا ن پہنچا کردکھائیں۔ یقینا تمہارے بت ناکام رہیں گے اور میرا رب العالمین خدا ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا ۔اسی طرح رب العالمین کے الفاظ میں یہ پیشگوئی بھی مخفی تھی کہ یہ دین آخر ایک عالمگیر صور ت اختیار کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف ایسا نبی مبعوث ہوگا جو ساری دنیا کی طرف ہوگااورجس کی فیض رسانی کے دائرہ سے کوئی متنفس بھی باہر نہیں رہے گا ۔
پھر فرماتے ہیں ۔ الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَھُوَ یَھْدِیْنِ رب العالمین خداوہ ہے جس نے مجھے پید کیا ہے اور اُس کے نتیجہ میں لازماً وہ تمام خطرات اور حوادث سے بچاتے ہوئے مجھے منزل مقصود پر پہنچائے گا ۔ اور مجھے اپنے مقصد میں کامیاب کرے گا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ مجھے پیدا کرے اور ایک مقصدِ عظیم کیلئے کھڑا کرے اور پھر اپنی محبت کا ہاتھ پیچھے ہٹا لے اورمجھے حوادث کا شکار ہونے دے ۔ اس کی صفت خلق اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ کامیابی بھی اسی کی طرف سے آئے کیونکہ جوہستی اپنے معرضِ وجود میں آنے کیلئے دوسرے کی محتاج ہے وہ ترقی کے وسائل اور ذرائع بھی خود بخود مہیا نہیں کرسکتی بلکہ اس کے لئے بھی وہ اپنے خالق کی ہی محتاج ہوگی ۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے ۔ جیسے میں اگر کوئی مکان بنائوں تو جب تک میں اس میں دروازے نہ لگائوں ۔جب تک میں اس میں کھڑکیاں نہ رکھوں ۔ جب تک میں اس میں طاقچے اورر روشندان نہ بنائوں اُس وقت تک اس مکان میں نہ دروازہ لگ سکتا ہے نہ کھڑکی لگ سکتی ہے نہ طاقچہ اور روشندان بن سکتا ہے ۔کیونکہ وہ میرا مکان ہے اور میں نے ہی اُسے بنایا ہے ۔ اسی طرح جب انسان کو رب العالمین خدا نے پیدا کیا ہے تو رب العالمین خدا ہی جب تک اس کی مادی اور روحانی ترقی کے سامان مہیا نہ کرے اُس وقت تک وہ جسمانی اور روحانی طور پر کیسے ترقی کرسکتا ہے ۔ ان الفاظ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جہاں اپنی قوم کو اپنے غلبہ اور ترقی کی خبر دی ہے اور اپنے اس یقین محکم کا اظہار کیا ہے کہ میرا خدا مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا ۔ بیشک میرا چچا مجھے چھوڑ دے میرے بھائی
مجھے چھوڑ دیں میرے دوست مجھ سے الگ ہوجائیں میری قوم مجھ سے کنار ہ کرلے پھر بھی رب العالمین خدا جس کے کنارہِ عاطفت میں میںنے اپنی زندگی بسر کی ہے اور جس کی گود میں میں نے پرورش پائی ہے مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا ۔ اور ہمیشہ مجھے عزت اور کامیابی اور غلبہ بخشے گا ۔ہاں آپ نے اپنی قوم کو اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہیں اپنی پیدائش کے مقصد پر غور کرنا چاہیئے اور اپنی زندگی کو رائیگاں نہیںکھونا چاہیئے ۔ آخر اتنی بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ اُسے کسی اور ہستی نے پیدا کیا ہے مگر بہت کم لوگ ہیں جو اس بات پر غور کرتے ہیں کہ انہیں کیوں پیدا کیا گیا ہے ۔ وہ دنیا کی رعنائیوں اور دلچسپیوں میں کچھ ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ اُن کے دلوں میںاور اورسوالات پیدا ہوتے رہتے ہیںمگر اُن کے دلوں میں اگر سوال پیدا نہیں ہوتا تو صرف یہی کہ وہ کیوں پید اکئے گئے ہیں۔ہم نے دیکھا ہے بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ ایسے جنگلوں میں جہاں کوئی آبادی نہیں ہوتی اور ایسے پہاڑوں میں جہاں انسان کا پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے اور شاذو ونادر ہی کوئی انسان وہاں پہنچ سکتا ہے نہایت دلکش اور خوبصورت پھول کیوں پیدا کئے گئے ہیں۔ پھر ہزاروں قسم کے کیڑے برسات کے موسم میں نکلتے ہیں اُن کے پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اِسی طرح سمندروںمیں جھینگر اور دوسرے بعض بدشکل سمندری جانور پیدا کرنے سے کیا فائدہ ہے ۔ پھر قسم قسم کی جڑی بوٹیوں کو اتنی کثرت سے کیوں اگایا گیا ہے ۔ اور زمین پر رینگنے والے کیڑے سانپ اور کنکھجورا وغیرہ کیوں پیدا کئے گئے ہیں۔ غرض سمندر اور زمین پر اور ہوا میں ہزار ہا ایسی چیزیں ہیں جن کے متعلق انسان سوال کرتا ہے کہ وہ کیوں پیداکی گئی ہیں۔ دشوار گزار پہاڑوں میں جہاں انسا ن بڑی مشکل سے پہنچتا ہے بعض اوقات نہایت خوبصورت پھولوں کا نظارہ انسان دیکھتا ہے تو اس کے دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے مقام پر اس قسم کے ہزاروں سوالات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیںاور ہرشخص اپنی اپنی عقل کے مطابق ان سوالات کے جواب دینے کی کوشش کرتا ہے ۔ مثلاً کہتا ہے کہ زہریلے کیڑوں یعنی سانپ وغیرہ کے زہروںسے اب بہت سی دوائیں تیا رہورہی ہیں جو نہایت سریع الاثر ثابت ہوئی ہیں۔ یا یہ کہ دشوار گزار مقامات پریہ خوش کن نظارے اس لئے بنائے گئے ہیں کہ جو لوگ تکلیف ۔مشقت اور محنت برداشت کرسکیںوہی ان نظاروں کو دیکھیں۔ان سوالات اور جوابات سے پتہ لگتا ہے کہ انسان ا س بات کو تسلیم کرتا ہے کہ دُنیا میں ہر چیز کے پیداہونے کی کوئی وجہ اور غرض ہونی چاہیئے مگر انسان کوکبھی یہ بھی خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کیوں پید اکیا ہے۔اور میرے پیدا کرنے کی غرض وغایت کیا ہے۔ وہ اور چیزوں کے پیدا کرنے کی غرض وغایت معلوم کرنے کا بہت شوق رکھتا ہے لیکن اس کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ میں کیوں پید اکیا گیا اور میں اس غرض کو پورا بھی کررہا ہوں یا نہیں۔ اور اگر میں پیدا نہ کیا جاتااور اگر میرا وجود نہ ہوتا تو دنیا کو کیا نقصا ن ہوتا۔ دنیا میں اکثر لوگ ایسے ہیں جن کی زندگی ہوئی نہ ہوئی برا بر ہوتی ہے کیونکہ انہیں نہ اپنی زندگی کی غرض و غایت کا علم ہوتا ہے اور نہ وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر تمام لوگ اس سوال پر غور کریں تو اُن میں سستی اور غفلت اور کام کو ادھورا چھوڑنے کی عادت نہ رہے اور وہ ہر قسم کی قربانیوں سے کام لے کر اپنی روحانی ترقی کیلئے کوشش کریں۔ آخر غور کرو ۔ دنیا میں کتنے لوگ ہٹلرؔ۔ نپولینؔاور تیمورؔ بن سکتے ہیں نہ ساری دنیا ہٹلر ؔبن سکتی ہے اور نہ ساری دنیا نپولین ؔبن سکتی ہے اور نہ ساری دنیا تیمورؔ بن سکتی ہے۔ کیونکہ دنیوی ترقی کا میدا ن بہت تنگ ہے ۔ لیکن ایک مید ان ایسابھی ہے جہاں ہر انسان اپنے آپ کو نمایاں کرسکتاہے اور جتنا جی چاہے ترقی کر سکتا ہے اور کسی کو نقصان پہنچائے بغیر اورکسی کا راستہ روکے بغیر ترقی کرسکتا ہے اور وہ خدا رسیدہ بنے کا میدان ہے ۔ اس میںکسی کے بڑھنے سے کسی دوسرے کا نقصان نہیں اور پھر ہر پیشہ اور ہر درجہ کا انسان خدا رسیدہ بن سکتا ہے ۔ ایک بادشاہ اور اس کا بیٹا بھی خدا رسیدہ انسان بن سکتا ہے اور ایک فقیر بے نوا بھی خدا رسیدہ انسان بن سکتا ہے اور ایک نائی اور دھوبی بھی خدا رسیدہ انسان بن سکتا ہے ۔لوگ کہتے ہیں کہ ایک اقلیم میں دو بادشاہ نہیں ہوسکتے ۔ مگر اولیاء اللہ کا مقام وہ ہے کہ اقلیم تو کیا بلکہ ایک گھر میںبلکہ ایک گھر تو کیا ایک کمرہ میں بھی دس اولیاء اللہ رہ سکتے ہیں۔ اور اس میں کسی کا نقصان نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے راستے اتنے وسیع ہیں ان میں کبھی تنگی پیدا نہیں ہوسکتی ۔ جس طرح سمندر میں سے چڑیا چونچ بھر کر پانی لے جائے تو اس ے سمند ر کے پانی میںکوئی کمی نہیں آتی اس طرح اللہ تعالیٰ سے تعلق کا حال ہے یہ اتنا وسیع خزانہ ہے کہ جس میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کی اتنی محبت حاصل ہوئی کہ جس کی مثال باقی انبیا ء میں نہیں ملتی مگر اس کے باوجود خدا تعالیٰ کے پاس ابو بکر ؓاور عمرؓ اور عثمانؓا ور علیؓ اور طلحہؓ اور زبیرؓ کو دینے کے لئے بھی محبت موجود تھی اور تمام صحابہؓ نے بھی اپنے اپنے ظرف کے مطابق اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کی۔پس ہمیشہ اس بات پر غور کرتے رہنا چاہئیے کہ ہماری پیدائش کی غرض کیا ہے ۔ پیدائش کی اصلی غرض جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا پیار ا بن جائے ۔جب وہ یہ مقام حاصل کرلیتا ہے تو دنیا بے شک مٹ جائے خدا تعالیٰ کے رجسٹر سے اس کا نام کبھی نہیں مٹ سکتا ۔ وہ گڈری میں پڑا ہوا بھی خدا تعالیٰ کا مقرب بن سکتا ہے اور اتنا بڑا بن سکتا ہے کہ دنیاکی بڑائیا ں اس کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہوجائیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کو اسی بنیادی نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے اور انہیں نصیحت کی ہے کہ تم اپنی پیدائش کے مقصد پر غورکرو اوراللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت کا جو سامان کیا ہے اس سے فائدہ اٹھائو ورنہ تمہاری زندگی بیکار چلی جائے گی اور تم اپنے ہاتھوںاپنی قبر کھود نے والے قرار پائو گے ۔
پھر فرماتے ہیں وَالَّذِیْ ھو یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِرب العالمین خدا ہی ہے جو مجھے کھانا کھلاتا اور پانی پلاتا ہے ورنہ نہ گندم میری پیدا کی ہوئی ہے ۔ نہ پانی میرا بنایا ہوا ہے ۔نہ نمک میرا بنایا ہوا ہے ۔نہ مرچ میری پیدا کی ہوئی ہے ۔ نہ گوشت میرا پیدا کیا ہوا ہے۔ نہ ترکاریاں میں نے پیدا کی ہیں۔ یہ سب چیزیں میرے باپ دادا کی پیدائش سے بھی پہلے کی ہیں۔ بڑے سے بڑے خاندان کا ذکر بھی سو پشتوں سے آگے نہیں جاتا ۔لیکن گندم ۔ پانی ۔ترکاری ۔گوشت ۔نمک ۔مرچ اور مونگ وغیرہ ہزاروں پشتوں سے بھی پہلے کی ہیں۔پھر یہ انسان کی کس طرح ہوگئیں ہم اگر کھاتے ہیں تو اس کے لئے خدا نے ہمیں ان چیزوں کے کھانے کی اجازت دی ہے ۔ ورنہ ہم میں یہ طاقت نہیں تھی کہ یہ چیزیں خود مہیا کرسکتے ۔ اسی طرح جب ہم پانی پیتے ہیں اور اس بات پر غور کرتے ہیںکہ یہ پانی ہمیں کس طرح ملا تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ پانی خدا تعالیٰ نے ہی زمین کی تہوں میں رکھا ہوا ہے ۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بار بار فرماتا ہے کہ اگر ہم اس پانی کو کھینچ لیں تو تم پانی کہاں سے لائو ۔اور یہ بالکل سچی بات ہے ہم میں کوئی طاقت نہیں کہ ہم پانی مہیا کر سکیں۔ یہ سب خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے یہ تمام ضروری اشیا ء ہمیں مہیا کردی ہیں ۔اگر تھوڑی دیر ہی ہمیں پانی نہ ملے تو ہمیں سخت دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔چنانچہ جن علاقوں میں پانی کی کمی ہے وہاں لوگ ایسی ایسی چیزیں پیتے ہیں جن کو ہمارے علاقے میں پانی نہیں کہہ سکتے ۔ مثلاً سندھ اور بلوچستا ن کے بعض علاقے ایسے ہیں۔ جہاں لوگ کیچڑ پیتے ہیں ۔لیکن ہمارے ملک والے ایسا
نہیں کرسکتے ۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں کوئی مشکل پیش آجائے ۔تووہ بھی اس قسم کا پانی پی لیں۔ ورنہ عام حالات میں ہمارے ہاں اسے پانی نہیں سمجھاجاتا ۔ غرض کھانے اور پینے کی کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مہیا نہ کی ہو۔ لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کا وجود مخفی ہے اور وہ پس پردہِ احسان کرتا ہے اس لئے باوجود اس کے کہ اُس کے احسانات بہت زیادہ ہیں لوگ انہیں محسوس نہیں کرتے۔ ماں اپنی چھاتیوں سے دودھ پلاتی ہے ۔اور بچہ اپنی عقل کے مطابق سمجھتا ہے کہ ماں اس پر احسان کرتی ہے اور اپنا خون اُسے چوساتی ہے حالانکہ یہ قربانی کا جذبہ ماں نے خود پیدا نہیں کیا ۔ یہ جذبہ اس کی پیدائش سے بھی پہلے اُس کے اندر رکھا گیا تھا ۔ چنانچہ دیکھ لو چھوٹی چھوٹی لڑکیاں گُڑیاں بناتی ہیں اوران سے کھیلتی ہیں۔ یہ وہی بچہ پالنے کا جذبہ ہوتا ہے جوان کے اندر پایا جاتا ہے۔ ان کے اندر یہ حِس خدا تعالیٰ نے ہی پیدا کی ہے خواہ وہ عقل کے ماتحت ایسا کرتی ہیں یا بے عقلی کے ماتحت ایسا کرتی ہیں۔ بہرحال عورت کے اندر خدا تعالیٰ نے اولاد سے محبت کرنے کا مادہ رکھا ہے۔ اوریہ وہ چیز ہے جو ماں نے خود اپنے اندر پیدا نہیں کی بلکہ اس کی پیدائش سے بھی پہلے اُس کے اندر رکھ دی گئی ہے ۔ اور جب یہ مادہ ماں کی پیدائش سے پہلے کا اس کے اندر پایا جاتا ہے تو پھر یہ اس کا پیدا کیا ہوا نہ ہوا۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ مادہ ماں کا پیدا کیا ہوا نہیں توآخر یہ مادہ ماں کے اندر کس نے پیدا کا ہے۔ بہرحال وہ کوئی اور ہستی ہے۔ اور ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ہستی جس نے سب مخلوقات کو پیدا کیا ہے اسی نے یہ مادہ ماں کے اندر رکھا ہے۔ مگرہم دیکھتے ہیں کہ بچہ ماں سے محبت کرتا ہے خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کرتا اس لئے کہ خدا تعالیٰ اسے نظر نہیں آتا۔ جب اس کی ماں اپنی ماں کے پیٹ میں تھی اور خداتعالیٰ کے فرشتے اس کے دل میں اولاد کی خواہش اور محبت پیدا کررہے تھے تو اس نے اس نظارہ کو دیکھا نہیںتھا ۔ اس نے صر ف اتنا ہی دیکھا کہ ماں اسے اپنی چھاتیوں سے دودھ پلا رہی ہے خواہ وہ فاقہ ہی کررہی ہو اور بھوک کی وجہ سے نڈھال ہورہی ہو۔وہ سوکھ کر کانٹا ہوگئی ہو۔ اُس کا گوشت کھل گیا ہواور ہڈیاں نکل آئی ہوں۔ لیکن ادھر بچہ رؤیا اُدھرماں نے اپنے سوکھے ہوئے پستان اس کے منہ میں دے دیئے ۔خواہ پستانوں میں دودھ کا کوئی قطرہ ہو یا نہ ہو۔ ما ں کے اندر یہ جذبہ کس ہستی نے پید ا کیاہے وہ بچہ کو نظر نہیں آتی ۔ اس لئے وہ اس سے محبت نہیں کرتا۔ماں اپنی چھاتیوں سے دودھ پلاتی ہوئی اسے نظر آتی ہے اس لئے وہ اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے ۔انسان کھانا کھاتا ہے جس شخص نے اسے گندم دی اور اس نے اس سے روٹی بنائی وہ اس کا شکریہ اد اکرتاہے یا جس کی نوکری کر کے اس نے پیسے کمائے اور ان سے اس نے گندم خریدی وہ اس کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ جس ماں اور بیوی نے اسے روٹی پکا کر کھلائی وہ ان کا شکریہ اد اکرتاہے ۔ لیکن جس نے گندم بنائی ۔ جس نے نمک بنایا جس نے پانی بنایا وہ اس کا شکریہ ادا نہیں کرتا اس لئے کہ گندم مہیا کرنے والا یا ملازمت دینے والا اسے نظر آتا تھا ۔ ماں اسے نظر آتی تھی کہ وہ گرمی کے دنوں میں آگ کے آگے بیٹھی روٹی پکا رہی ہے یا سردی میں جب وہ لحاف سے باہر نہیں نکلتا وہ صحن میں بیٹھی اس کے لئے ناشتہ تیا رکر رہی ہے چونکہ وہ اسے نظر آتی ہے اس لئے اس کے اندر احساسِ شکریہ پیدا ہوجاتا ہے ۔لیکن چونکہ اسے اس احسان کا اصلی بانی نظر نہیںآتا اس لئے اسے یہ خیال نہیں آتا کہ دراصل یہ احسان کسی اور ذات نے کیا ہے ۔
ہمارے ملک میں لطیفہ مشہور ہے ۔ واللہ اعلم وہ سچاہے یا عام حالات میں وہ خود بنا لیا گیا ہے ۔جب ہمارے ملک پر انگریز حاکم تھے ۔ لوگوں میں انہیں خوش کرنے کیلئے ڈالیاں پیش کرنے کا رواج تھا ۔ بعد میں اگرچہ یہ قانون بنا دیا گیا تھا کہ افسروں کو ڈالیاں پیش نہ کی جائیں حکام اور روسائے شہر کو جب موقعہ ملتا اوروہ انگریز افسروں کو ملنے کے لئے جاتے تو ان میں سے بعض ہوشیار لوگ ڈالیاں بھی لے جاتے تھے ۔کہتے ہیں کہ ایک انگریز افسر کو ایک ای۔اے۔سی اور ایک تحصیلدار ملنے کے لئے گئے ای۔اے۔سی ڈالی بھی ساتھ لے گیا ۔ یہ تو سارے جانتے ہیں کہ ای ۔اے۔سی بڑا ہوتا ہے اور تحصیلدار چھوٹا ہوتاہے ۔ کئی علاقوں کا چارج ہی ای۔اے۔سی کے پاس ہوتا ہے ۔اور تحصیلدار اس کے ماتحت ہوتاہے ۔پس جب وہ دونوں ملاقات کے لئے گئے تو اتفاقاً انگریز افسر کے پاس ملاقات کا وقت تھوڑا تھا اس لئے بجائے اس کے کہ وہ دونوں کو الگ الگ بلاتا ۔ اس نے کہلا بھیجا کہ دونوں آجائو۔ جب ای۔اے ۔سی ڈالی کو اٹھانے لگا تو تحصیلدار نے آگے بڑھ کر ڈالی اٹھا لی۔ اور کہا حضور ہمارے ہوتے ہوئے آپ یہ تکلیف کیوں کریں۔ چنانچہ تحصیلدار نے ڈالی اٹھائی اور بڑے آرام سے اندر جاکر انگریز افسر کے سامنے رکھ دی اور یہ نہ کہا کہ یہ ڈالی ای۔اے ۔سی نے پیش کی ہے ۔ وہ انگریز افسر اسی اثر کے ماتحت کہ ڈالی تحصیلدار نے پیش کی ہے ای ۔اے۔سی کیطرف پیٹھ کر کے اور تحصیلدار کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا اور اس سے حالات پوچھنے لگا ۔ای ۔اے ۔سی دل ہی دل میں کُڑھ رہا تھا ۔لیکن وہ کیا کرسکتا تھا ۔ برابر دو گھنٹے تک انگریز افسر تحصیلدار سے باتیں کرتا رہا ۔اور اس نے ای ۔اے۔سی کو پوچھا تک نہیں۔ ملاقات سے فارغ ہوکر جب باہر آئے تو ای۔اے ۔سی نے غصہ نکالنا شروع کیا کہ تم نے کیوں یہ حرکت کی۔ تحصیلدار نے کہا ۔حضور یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ آپ میرے سامنے بوجھ اٹھاتے ۔ اب ڈالی تو ای۔اے ۔سی لایا تھا ۔ لیکن چونکہ وہ ڈالی تحصیلدا رنے انگریز افسر کے آگے رکھی تھی اس لئے وہ اس پر مہربان ہوگیا ۔ یہی حال انسان کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ڈالی آتی ہے ۔لیکن ماں باپ ۔بیوی بچہ۔ بہن یا بھائی وہ ڈالی اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ اصل ڈالی پیش کرنے والے یہی ہیں حالانکہ ان کے پیچھے خداتعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے ۔
اسلام ؔ نے انسان کو یہ یاد دلانے کے لئے کہ حقیقی محسن خدا تعالیٰ ہی ہے یہ ترکیب رکھ دی کہ جب تم کھانا کھائو ۔یا پانی پیؤ ۔ تو اس کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیا کرو۔ اور کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کے یہ معنے ہیں کہ یہ کھانا تمہارے سامنے رکھا تو تمہارے ماںنے ہے لیکن بھیجا خدا تعالیٰ نے ہے ۔یا کھانا تمہارے سامنے رکھا تو بیوی نے ہے مگر بھیجا خدا نے ہے یا کھانا تمہارے سامنے رکھا تو بھائی نے ہے لیکن بھیجا خدا تعالیٰ نے ہے ۔اور جب انسان کو پتہ لگ جاتا ہے اور باربار مضمون اس کے سامنے دہرایا جاتا ہے کہ درحقیقت یہ تمام نعمتیں عطا کرنے والا خدا تعالیٰ ہی ہے ۔وہی ہمیں کھانا دیتا ہے وہی ہمیں پانی دیتا ہے ۔ وہی ہمیں پہننے کو کپڑے مہیا کرتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کی طرف دل مائل ہوجاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوجاتی ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ میں یہی نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اصل احسان خدا تعالیٰ کا ہے ۔ جس نے ہمیں کھانے پینے کو دیا ۔ اور جب وہی محسنِ حقیقی ہے ۔تو انسان کی یہ کتنی بڑی نادانی ہے کہ وہ محسنِ حقیقی کو تو چھوڑ دیتا ہے اور ان لوگوں کے آگے جھکنا شروع کردیتا ہے جن کو اس نے صرف ایک درمیانی واسطہ بنایا ہے ۔ گویا وہ شاخ پر تو ہاتھ مارتا ہے او رتنے کو نظر انداز کر دیتا ہے ایسا انسان یقینا اپنی روحانی ترقی کا راستہ اپنے ہاتھ سے بند کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنتا ہے ۔
پھر فرماتے ہیں وَاِذَ امَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو خدا تعالیٰ مجھے شفا بخشتا ہے آپ نے اس جگہ مَرِضْتُ میں مرض کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اورشفا کو خدا تعالیٰ کی طرف ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جتنی چیزیں پیدا کی ہیں وہ سب کی سب انسان کے فائدہ کیلئے پیدا کی ہیں۔ جب انسان ان کو غلط استعمال کرتا ہے تو اس وقت وہ بیمار ہوجاتا ہے یا نقصان اٹھاتا ہے اورجب انسان پھر اس کا کسی رنگ میں ازالہ کردیتا ہے اور علاج کرتا ہے تو شفا پاتا ہے ۔ اس لئے مرض تو انسان کی طرف منسوب ہوتی ہے اور شفا خدا تعالیٰ کی طرف ۔دنیا میں جتنی مصیبتیں اور بلائیں انسان پر وارد ہوتی ہیں ان پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ساری کی ساری خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے غلط استعمال کی وجہ سے آتی ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا صحیح استعمال کیا جائے تو انسان ان مصائب اور بلائوں سے بچ سکتا ہے ۔ مثلاً بیماری ہے۔ یہ کیوں پیدا ہوتی ہے؟ یہ اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ لوگ ایسی چیزیں کھاتے ہیں جن سے ان کے اعضائے انہضام بگڑتے ہیں یا وہ ایسی چیزیں کھاتے ہیں جو اپنے وجود میں تو نقصان دہ نہیں ہوتیں۔ مگر اعتدال سے زیادہ استعمال کرلینے کی وجہ سے یا غلط استعمال کرنے کی وجہ سے وہ بیمار ہوجاتے ہیں۔ مثلاً خربوزہ ہے ۔ جہاں تک خربوزے کا سوال ہے یہ اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے ۔ لیکن اسی نعمت کو اگر اعتدال سے زیادہ استعمال کیا جائے تو مصیبت بن جاتی ہے اور بیماری پیدا ہوتی ہے ۔ یا آم ہے۔ یہ بھی خدا تعالیٰ کی نعمت ہے۔ لیکن حد سے زیادہ کھا لینے سے نقصان ہوتا ہے ۔ غرض اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی نعمتیں ہیں ان کو ایک حد کے اندر استعمال کیا جائے تو فائدہ مند ہیں اورجب حد سے تجواز کیا جائے تو بیماری پیدا ہوجاتی ہے ۔مثلاً بینگن اور کریلے گرم ہوتے ہیں ۔ اگر یہ حد کے اندر کھائے جائیں تو نعمت ہیں لیکن حد سے زیادہ کھائے جائیں تو بینگن سے بواسیر اور کریلوں سے پیچش وغیرہ ہوجاتی ہے ۔اسی طرح گنا ہے ۔اگر اس کا استعمال حد کے اندر کیا جائے تو نہایت فائدہ مند ہے ۔لیکن اگر زیادہ استعمال کیا جائے تو پیشاب کی بعض امراض لاحق ہوجاتی ہیں۔ اب جہاں تک گنے کا سوال ہے وہ بیماری پیدا نہیں کرتا ۔بیماری پیدا کرنے والی چیز گنے کا حد سے زیادہ استعمال ہے ۔ورنہ شوگر انسانی جسم کیلئے نہایت ضروری چیزہے ۔ گلوکوز کو دیکھ لو یہ شوگر ہی ہے ۔ لیکن ڈاکٹر جب مریضوں کو گلوکوز کاانجیکشن کرتے ہیں تو ان کی چھُوٹی ہوئی نبضیں بھی چل پڑتی ہے۔ پہلے زمانہ میں لوگ ناواقفیت سے ذیابیطس کا علاج کرتے ہوئے شکر کو بالکل ختم کردیتے تھے حالانکہ ان کا باقی رہناضروری ہوتا تھا ۔ نتیجہ یہ ہوتاتھا کہ کئی لوگ جن کی شوگر بالکل ختم کردی جاتی تھی ان کاہارٹ فیل ہوجاتاتھا ۔آج کل بھی انسولین کا ٹیکہ کرتے وقت ڈاکٹروں کو یہ ہدایت ہوتی ہے کہ اگر مریض کے قلب پر اس کا اثر ہو تو فوراً اسے گلوکوز کا ٹیکہ کردو۔اور جب ایسا کیا جاتا ہے تو مریض سنبھل جاتا ہے ۔ پس جتنی بیماریاں انسان کے اندر پیدا ہوتی ہیں وہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے غلط استعمال کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔ اگر ان نعمتوں کا صحیح استعمال کیا جائے تو کبھی بیماری پید انہ ہو ۔ خدا تعالیٰ نے انسان کے فائدہ کے لئے لوہا پید اکیا ہے ۔جب تک اس کا صحیح استعمال کیا جائے یہ نہایت فائدہ مندچیز ہے اور ہر قسم کی مشینریاں اس سے تیا رہوتی ہیں جو انسان کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔لیکن جب ا س کا غلط استعمال کیا جائے تو یہی چیز نقصان دہ ہوجاتی ہے۔ مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے کہ ہمارے مکانوں کی تعمیر کیلئے سیالکوٹ سے ترکھان آئے ہوئے تھے ۔ میں ان کو کام کرتے دیکھتا ۔ اور جب وہ تیشہ چلاتے تو میرے دل میں بھی شوق پیدا ہوتا کہ میں اس کو چلاکر دیکھوں۔ وہ تو روزی کمانے کے لئے کام کرتے تھے مگر میں سمجھتا تھا کہ ان کو اس فعل میں مزا آتا ہے اور میں اپنے دل میںکہتا تھا کہ میں کیوں نہ یہ مزا اٹھائوں۔ میں نے بہت دفعہ کوشش کی کہ تیشہ چلاکر دیکھو ں لیکن وہ مجھے ہاتھ نہ لگانے دیتے تھے اور کہتے تھے ۔ زخمی ہو جائو گے ۔ مگر میں ان کے منع کرنے سے سمجھتا تھا کہ وہ مجھے اس مزے سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ آخر ایک دن میر ا دائو چل گیا وہ نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں گئے ہوئے تھے اور ان کے ہتھیار وہیں پڑے تھے ۔میں نے تیشہ اٹھایا اور چلانا شروع کردیا ۔ مگر پہلی ہی چوٹ لگائی تھی کہ تیشہ میرے ہاتھ پر آلگا اور میں زخمی ہوگیا ۔چنانچہ اس زخم کا نشان ابتک موجو د ہے ۔ اب دیکھو خدا تعالیٰ نے اس لئے نہیں بنایا تھا کہ انسان زخمی ہو مگر اس کے غلط استعمال نے میرے ہاتھ کو زخمی کردیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جتنی چیزیں پیدا کیں ہیں وہ سب کی سب انسان کے فائدہ کے لئے ہیں ۔ لیکن ان کے غلط استعمال سے اسے نقصان ہوتا ہے ۔ مثلاًلڑائی میں دوسرے پر تلوار یا خنجر سے حملہ کیا جاتا ہے جس سے وہ ہلاک ہوجاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے لوہا اس لئے بنایا تھا کہ دوسرے کے سر پر مارا جائے ۔ اگر اسی لوہے کو بجائے انسانوں پر استعمال کرنے کے اس سے چاقو اور چھریاں بنائی جائیں اور ان سے ترکاریاں وغیرہ کاٹنے کا کام لیا جائے یا اس کی کلہاڑیاں بنائی جائیں جن سے درخت کاٹے جائیں یا اس سے ہل چلانے والے اوزار بنائے جائیں اور اس کی مشینریاں تیار کی جائیں تو یہ ایک نہایت ہی مفید چیز ہے۔ لیکن اگر اسی لوہے کو دوسرے کے سر پر مارا جائے تو اس کا سر پھٹ جائے گا ۔ پس دنیا میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس کا اچھا استعمال کیا جائے تو وہ نقصان پہنچائے ۔ نقصان پہنچانے والی چیز ان نعمتوں کا برا استعمال ہوتا ہے اور نہ کہ خود وہ نعمتیں ۔ مثلاً سانپ اور بچھو کا زہر نہایت خطرناک چیز ہے ۔ مگر ہومیو پیتھک والوں نے کئی قسم کے امراض کے علاج میں اسے استعمال کرنا شروع کردیا ہے اور اسے نہایت مفید پایا جاتا ہے ۔ جن مریضوں کے ناخن پھٹ جاتے ہیںان کو سانپ کا زہر ہومیو پیتھک دوا کی صور ت میں دے دو تو فوراً آرام آجائے گا ۔ اسی طرح سنکھیا ہے ۔اس کے کھانے سے لوگ مرتے بھی ہیں لیکن دیکھنا تو یہ چاہیئے کہ اس کے کھانے سے کتنے لوگ مرتے ہیں اور کتنے زندہ ہوتے ہیں ۔ اگر اندازہ لگایا جائے تو سال میں ہزار دو ہزار آدمی سنکھیا کھانے سے مرتے ہیں۔لیکن جو لوگ اس سے شفا پاتے ہیں ان کی تعداد لاکھوں تک ہے ۔ پرانے ملیریا کے مریض پر جب کوئی دوا اثر نہیں کرتی تو سنکھیا کی قلیل مقدار سے ٹھیک ہوجاتا ہے ۔اس کے علاوہ اور بھی کئی قسم کے امراض کیلئے یہ مفید ہے ۔ اسی طرح کچلہ ہے ۔ یہ بھی زہر ہے اسکے کھانے سے کئی لوگ مرجاتے ہیں ۔ لیکن لاکھوںلاکھ انسان اس سے بچتے بھی ہیں۔ اسی طرح بہت بڑی تباہی والی چیز افیون ہے ۔لیکن اس کی تباہی کے مقابلہ میں اس کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اطباء کا قول ہے کہ طب کی آدھی دوائیں ایسی ہیں جن میں افیون استعمال ہوتی ہے اور اس کا اتنافائدہ ہے کہ اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ جب انسان کو بیچینی اور بے کلی ہوتی ہے ۔ جب انسان کی نیند اڑ جاتی ہے ۔ جب انسان درد سے نڈھال ہوکر خودکشی کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو اس کو مارفیاکا ٹیکہ لگاتے ہیں ۔جس سے اسے فوراً آرام ہوجاتا ہے پس دنیا میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اپنی ذات میں نقصان دینے والی ہو ۔ نقصان دینے والی چیز صر ف غلط استعمال ہے جو انسان کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مرض کو اپنی طرف اور شفا کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے مگر ہمارے ملک میں ایک مسلمان خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے جب کسی کام میں ناکام ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے۔ میں نے تو پورا زور لگا دیا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے ناکام کردیا ۔ گویا وہ خوبی کو اپنی طرف اور برائی کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے ۔ یہ خدا تعالیٰ کی بڑی بھاری ہتک ہے جو ہمارے ملک میں کی جاتی ہے حالانکہ سچے مومن کا یہ طریق ہوتا ہے کہ جب اس کے کام کا اچھا نتیجہ نکل آتا ہے تو وہ کہتا ہے الحمداللّٰہ خدا تعالیٰ نے مجھے کامیاب کردیا ۔ او راگر خراب نتیجہ نکلتا ہے تو وہ انا اللّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھتا ہے۔ اور کہتا ہے میں اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ناکام رہا ہوں ۔ ورنہ خدا تعالیٰ نے تو میرے لئے برکت اور حمت کے ہی سامان کئے تھے ۔اور خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت اسی کو ملتی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح پورا عیب اپنی طرف اور خوبی خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کہتا ہے۔ میرے اس بندہ نے چونکہ عیب اپنی طرف اور خوبی میری طرف منسوب کی ہے۔ اس لئے اب میرا فرض ہے کہ میں اسے پوری طرح کامیاب کروں تاکہ تمام خوبیاں میری طرف ہی منسوب ہوں۔ لیکن جب وہ ایسا نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ کو تمام خرابیوںکا ذمہ وار قرار دیتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس کی مدد سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔
پھر فرماتے ہیں وَالَّذِی ْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحِیْیْنِ میرا خدا وہ ہے جو مجھے مارے گا اور پھر مجھے زندہ کریگا۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات مُحْیِ اورمُھِیْت کا ذکر کیا گیا ہے ۔یعنی وہ زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے ۔اس کے زندہ کرنے کا ثبوت تو وہ ہزاروں لاکھوں بچے ہیں جو روزانہ دنیا میں پید اہوتے ہیں ۔ اور ایسے حالات میں پیدا ہوتے ہیں جو انسان کے اختیار سے باہر ہوتے ہیں اور ایسے حالات میں سے گزر کر بڑھتے ہیں کہ اگر کسی بالا ہستی کاتصرف نہ ہو تو ان کے بڑھنے کی کوئی صور ت ہی نہیں ہوسکتی ۔ایک جانور کا بچہ صر ف چند دن میں ہی اپنی ضرورتوںکوخود بخود پورا کرنے کے قابل ہوجاتا ہے چڑیوںکے بچے ایک یا ڈیڑھ ہفتہ میں اڑنے لگ جاتے ہیں۔مرغیوں کے بچے تین چار ہفتہ میں اپنی ضرورتوں کو پور اکرنے لگ جاتے ہیں۔ چوپائوں کے بچے پیدا ہوتے ہی تھوڑی دیر میں اچھلنے کودنے لگ جاتے ہیں مگرانسان کا بچہ چھ سا ت مہینے بلکہ بعض دفعہ تو نو نو ماہ تک گودی میں اٹھائے رکھنے کے قابل ہوتا ہے ۔ اور بعض اوقات تو سات آٹھ بلکہ نو مہینہ تک وہ گھٹنوں کے بل چلنے کے بھی قابل نہیں ہوتا ۔ پھر اس کی غذا جس سے وہ پرورش پاسکتا ہے اُس کی ما ں کی چھاتیوں میں ہوتی ہے۔کہیں دو تین سال میں جاکر وہ دانت نکالتا ہے ۔بیشک ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو چھ یا سات مہینے میں ہی اپنے دانت نکال لیتے ہیں یا نکالنے شروع کردیتے ہیں مگر بالعموم ایسے دانت جن سے بچہ کسی قدر غذا حاصل کرسکتا ہے وہ ڈیڑھ دو بلکہ اڑھائی سال کے بعد مکمل ہوتے ہیں اتنے لمبے عرصہ تک اپنی جان کو جو کھوں میں ڈال کر ایک عورت جو اپنے بچہ کی خدمت کرتی ہے یہ بغیر اس کے کبھی ممکن ہی نہیں تھا جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی دل میں پرورش کا خیال اور بچہ کی محبت پیدا نہ کردی جاتی ۔ یہ مت خیال کرو کہ صرف ماں ہونا ہی اس محبت کا موجب ہوسکتا ہے۔کیونکہ ماں کے جذبات اس کے اپنے اختیار کی چیز نہیں اور اختیار چیز ہی کسی انسان کی طرف منسوب کی جاتی ہے جو چیز کسی انسان کے اختیار کی نہیں وہ اُس کی طرف منسوب کس طرح کی جاسکتی ہے وہ تو لازماً کسی اور ہستی کی طرف منسوب کرنی پڑے گی ۔ اور وہ ہستی اللہ تعالیٰ کی ہے جس نے ماں کے دل میں اپنے بچوں کی محبت پیدا کی اور اسے پیدائش اور پرورش کی تکالیف برداشت کرنے کی طاقت دی چنانچہ سالہا سال تک وہ اپنے بچوں کو پالتی رہتی ہے پہلے نو ماہ تو وہ اپنے بچے کو پیٹ میں اٹھاتی ہے ۔ پھر دو سال تک اسے گود میں اٹھاتی ہے ۔گویا اوسطاً اڑھائی سال تک ماں اپنے بچہ کی ہورہتی ہے تب کہیں وہ پرورش پاتا ہے ۔ مگر اس کے بعد وہ فارغ نہیں ہو جاتی اور اس طرح اپنی زندگی کا بہترین حصہ عورت اپنے بچوں کی پرورش میں لگا دیتی ہے۔ پس یہ جذبہ محبت جو ہر عورت کے دل میں
اپنے بچوں کے متعلق پایا جاتاہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ ورنہ اتنی محنت کی برداشت انسانی عقل کے ماتحت نہیں ہوسکتی تھی ۔ اگر خدا تعالیٰ یہ جذبات ماں کے دل میں پید انہ کرتا تو آہستہ آہستہ فلسفہ ار عقل کے ماتحت یا تو انسان اولاد پیدا کرنا ہی بند کردیتے اور یاپھر ان کی پرورش کی طرف سے اپنی توجہ کلیتہً ہٹالیتے ۔
پھر خدا تعالیٰ کے مُمِیْت ہونے کا نظارہ بھی روزانہ نظر آتا ہے ۔ بڑے بڑے شہروں میں سینکڑوں آدمی روزانہ مرتے ہیں۔ چنانچہ کسی سڑک پر چلے جائو۔ تمہیں جنازے گزرتے دکھائی دیںگے ۔ چھوٹے قصبات میںبھی پانچویں دسویں کوئی نہ کوئی موت ہوتی رہتی ہے چھوٹے گائوں میں بھی سال میں دوتین موتیں ہوجاتی ہیں ۔پس موت کا یہ نظارہ بھی ہمیں کثرت سے دنیا میں نظر آتا ہے ۔غرض خدا تعالیٰ کی یہ دونوںصفات کہ وہ محیؔ بھی ہے اور ممیت ؔ بھی ہے اس رنگ میں لوگوں کے سامنے آتی رہتی ہیں کہ کوئی ان کا انکار نہیںکر سکتا ۔ حیات انسان کے لئے خوشی کا موجب ہوتی ہے اور موت لوگوں کے لئے رنج کا موجب ہوتی ہے ۔ دشمن کی بھی لاش پڑی ہوئی ہو تو سوائے کسی شقی القلب انسان کے دوسرے انسانوں کے دلوں میں رحم کا مادہ پیدا ہوجاتاہے ۔ بیس بیس تیس تیس سال کی دشمنیاں اس وقت دلوں سے نکل جاتی ہیں اور دشمن کی لاش دیکھ کر انسان کے دل میں سے اس وقت دعا ہی نکلتی ہے ۔ یا اس کے رشتہ داروں اور عزیزوں کیلئے دل میں رحم اورہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہر انسان جانتا ہے کہ جودن اس پر آیا ہے وہ مجھ پر بھی آنے والا ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو عالم الغیب ہے یہ دونوں مواقع نہ کلی طور پر خوشی کا موجب ہوتے ہیں اور نہ کلی طور پر غم کا موجب ہوتے ہیں ۔جب کوئی بچہ کسی کے گھر میں پیدا ہوتا ہے تو اس کے ماں باپ اور عزیز سمجھتے ہیں کہ ایک نیا چاند دنیا میں نکلا ہے ایک رحمت کا نیا دروازہ ہمارے لئے کھلا ہے حالانکہ بسااوقات پیدا ہونے والی روح دنیا کے لئے کئی قسم کے مصائب اور دکھوں کا موجب ہوتی ہے۔ اس کے رشتہ دار تو اس کی پیدائش پر تو خوش ہورہے ہوتے ہیں لیکن آسمان پر خدا کے فرشتے اس کی پیدائش سے غمگین ہو رہے ہوتے ہیں ۔
غرض پیدائش دنیا کے نزدیک ایک ہی نکتہ رکھتی ہے یعنی خوشی کا۔ کسی کی پیدائش پر تھوڑے لوگ خوش ہوتے ہیں اور کسی کی پیدائش پر زیادہ ۔ لیکن آسمان کے فرشتے کسی کی پیدائش پر اگر ان کیلئے رونا ممکن ہوتو آنسو بہاتے یا دوسرے الفاظ میں اپنے رنج کا اظہار کرتے ہیں ۔ اورکسی کی پیدائش پر خواہ دنیا کے لوگ خوشی نہ منائیںفرشتے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہی حال موت کا ہے۔ موت کے وقت بھی دنیا کے ہر انسان کے رشتہ دار اور دوست تھوڑے ہوں یا بہت رنج محسوس کرتے ہیں۔ ایک ڈاکو مرتا ہے تو اس کے بیوی بچے خوش نہیں ہوتے کہ ہماراباپ ڈاکو تھا ۔ قاتل تھا ۔ فتنہ وفساد پھیلاتا تھا۔ اچھا ہوا کہ وہ مرگیا بلکہ ان کی اسی طرح چیخیں نکل جاتی ہیں جس طرح بڑے بڑے محسن اور نیک باپ کے بچوں کی اس کی وفات پر نکل جاتی ہیں اور وہ دنیا کیلئے اس کی موت کو ایسا ہی خطرناک سمجھتے ہیں جیسے کسی بڑے بڑے مصلح کی وفات کو بلکہ شائد اس سے زیادہ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات ہوئی تو چونکہ ان کے دورِ حکومت میں امن قائم ہوا تھا ۔ اور وہ طوائف الملوکی جو پہلے پھیلی ہوئی تھی جاتی رہی تھی اس لئے سکھوں کے علاوہ جو ان کے ہم مذہب اور ہم قوم تھے ہندو او رمسلمان بھی عام طور پر یہ سمجھتے تھے کہ اب ان کی وفات کے بعد پھر فتنے پیدا ہونے شروع ہوجائیںگے ۔اس لئے لوگوں میں ایک کہرام مچا ہو اتھا اور ہر شخص کے آنسو رواں
تھے ۔جن کے زیادہ گہرے تعلق تھے وہ چیخیں مار رہے تھے ۔ فرماتے تھے کہ کوئی چوہڑا لاہور کے قریب سے گزرا اور اس نے کسی سے پوچھا کہ آج لاہور والوں کو کیا ہوگیا ہے کہ جس کو دیکھو رو رہا ہے ۔جس کو دیکھو رو رہا ہے اس نے کہا۔ تمہیں پتہ نہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ فوت ہوگئے ہیں۔ وہ بڑی حیرت کا اظہار کرکے کہنے لگا۔ اچھا! رنجیت سنگھ مرگیا ہے اور اس پر لوگ رورہے ہیں ۔پھر کہنے لگا ۔ ’’ باپو ہوراں جیہے مرگئے تے رنجیت سنگھ بچار اکس شماروچ‘‘۔یعنی جب میرے باپ جیسا آدمی مرگیا تو رنجیت سنگھ بھلاکس شمار میں تھا ۔ اب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ذریعہ بے شک امن قائم ہوا تھا ۔مگر چونکہ اس چوہڑے کا جو تعلق اپنے باپ سے تھا وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ سے نہیں تھا ۔ اور سیاسی فوائد کو وہ سمجھنے کے قابل نہیں تھا اس لئے اس کے نزدیک سب سے بڑی رنج کی بات اپنے باپ کی تھی ۔ اسی طرح کئی بادشاہ بڑے ظالم ہوئے ہیں ۔ مثلاً ہلاکو خاں بڑا ظام مشہور ہے ۔ مگر جب ہلاکو مرا ہوگا تو کیا تم سمجھتے ہو کہ اس کی بیوی اور بچوں کو دوسروں کی بیویوں او بچوں سے کم صدمہ ہوا ہوگا ۔یقیناانہیں ہلاکو خاں کی وفات پر ویسا ہی صدمہ ہوا ہوگا ۔جیسے نوشیروان عادل کی وفات پر اس کے بیوی بچوں کو ہوا تھا ۔حالانکہ نوشیرواں عدل کی وجہ سے مشہور ہے اور ہلاکو خاں ظلم کی وجہ سے مگر دونوں کے بیوی بچوں کو یکساں صدمہ ہوا ہوگا ۔ بلکہ ممکن ہے ہلاکو خاں کی بیوی بچوں کو احساسات کے زیادہ تیز ہونے کی وجہ سے نوشیرواں کے بیوی بچوں سے بھی زیادہ صدمہ ہوا ہو۔ مگر آسمان پر یہ بات نہیں جس طرح پیدائش پر سارے بندے خوش ہوتے ہیں اور کسی کی پیدائش پر تھوڑے لوگ خوش ہوتے ہیںاور کسی کی پیدائش پر زیادہ لوگ خوش ہوتے ہیںمگر آسمان پریہ بات نہیں ۔وہاںکسی کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کیاجاتا ہے اور کسی کی پیدائش پر رنج کا اظہار کیاجاتا ہے ۔ اسی طرح موت کا حال ہے ۔ موت پر سب لوگ رنج کا اظہار کرتے ہیں گو کسی کی موت پر تھوڑے لوگ رنج کا اظہار کرتے ہیں اور کسی کی موت پر زیادہ لوگ رنج کا اظہار کرتے ہیں مگر آسمان پر یہ بات نہیں۔ وہاں کسی کی موت پر رنج کا اظہارکیا جاتا اورکسی کی موت پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ پھر یہ جذبہ بھی اموات کے لحاظ سے نسبتی طورپر تقسیم ہوجاتا ہے اور فرشتوںکا رنج اور ان کی خوشی بعض دفعہ مرکب ہوجاتی ہے ۔ یعنی فرشتے صر ف رنج یا صرف خوشی کا اظہار نہیں کرتے بلکہ ان کی خوشی اور رنج ملا جلا ہوتاہے ۔ مثلاً جب کوئی بدقسمت او گنہگار شخص مرتا ہے یا ایسا ظالم انسان مرتا ہے جس نے دنیا کے امن کو برباد کیا ہواہوتاہے تو خداتعالیٰ کے ملائکہ خوش بھی ہوتے ہیں کہ بندوں کو اس ظالم انسان سے نجات ملی۔ اور وہ رنج بھی کرتے ہیں کہ اپنے مولا کو راضی کرنے کے سے پہلے وہ شخص مرگیا ۔اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کے بزرگ اور نیک لوگ فوت ہوتے ہیں اور دنیا میںان کی وفات کی وجہ سے کہرام مچا ہو ا ہوتاہے تو خداتعالیٰ کے فرشتے ان کی صحبت کے خیال سے خوشی منارہے ہوتے ہیں۔ موت کیا ہے؟موت اس طرح دنیا سے اگلے جہان میں جانے کا ایک دروازہ ہے ۔ جس طرح کوئی مصلح یا محسن انسان کسی شہر میں داخل ہوتاہے تووہاں کے رہنے والے خوشی محسوس کرتے ہیں ۔اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور چنیدہ لوگ جو اپنی نیک اور تقویٰ اورمقامِ قرب میں ملائکہ سے بڑھ کر بلکہ ملائکہ کو سبق دینے والے ہوتے ہیں (جیساکہ حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ سے ظاہر ہے) وفات پاجاتے ہیں تودنیا کے لوگ تو ان کی وفات پر رنج کا اظہار کرتے ہیں اور اس بات پرغمگین ہوتے ہیں کہ وہ اپنا دور ختم کرکے اگلے جہان چلے گئے ۔ مگر فرشتے اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ اب وہ ہمارے ملک میں آگئے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جب مدینہ میںکہرام پڑا ہواتھا ۔ جنت کے لوگوں میںکتنی خوشی منائی جارہی ہوگی ۔
لوگ خدا اور اس کے فرشتوں کی زبان سے سنتے ہونگے کہ خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ دنیا میں پیدا ہوچکا ہے اور وہ بہت بلند روحانی مقامات رکھتا ہے ۔ ان باتوں کو سن سن کر جنتیوں کے دلوں میں کتنی خوشی پیدا ہوتی ہوگی اور وہ کس طرح اس بات کے تصور سے خوش ہوتے ہونگے کہ کبھی یہ مبارک انسان ہم میں بھی آئے گا۔ پس جب فرشتوں نے آپ کی روح قبض کی ہوگی اور جب جنتیوں کو پتہ لگا ہو گا کہ اب ان کی سالہا سال کی امیدیں برآنے لگی ہیں تو انہوں نے کیسی خوشی ظاہر کی ہوگی ۔ مگر بہرحال یہ آسمانی بات ہے زمین پریہی ہوتا ہے کہ موت پر رنج کا اظہار کیا جاتاہے جس طرح خدا تعالیٰ کی یہ دو صفات ہمیں دنیا میں کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ اسی طرح کئی انسان ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کے لئے ولادت کا موجب بنتے ہیں یا اس کی حیا ت کا موجب ہوتے رہتے ہیں مثلاً ماں باپ ہی ہیں وہ نئی نسلیں دنیامیں لاتے ہیں ۔ڈاکٹراور اطباء ہیں وہ مریضوں کا علاج کرتے ہیں ۔ اسی طرح قومی خدمات کرنے والے لوگ ہیں ۔جو ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچاتے ہیں۔ کہیں آگ لگ جائے تو بجھاتے ہیں ۔ اسی طرح اور کئی واقعات اور حادثات جو رونما ہوتے رہتے ہیںان میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔ یہ لوگ خدا کی صفت محیؔ کے مورد ہوتے ہیں ۔ اوراس کا ایک نمونہ ہوتے ہیں ۔ لیکن کئی لوگ دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ تباہیاں اور بربادیاں اور ہلاکتیں لاتے رہیں ۔ کہیں ان کی وجہ سے قتل ہورہے ہوتے ہیں ۔ کہیں فساد ہورہے ہوتے ہیں۔ کہیں غارتگری کے واقعات رونما ہورہے ہوتے ہیں۔ کہیں فساد ہورہے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ خدا کی صفت ممیت ؔ کو ظاہر کرنے والے ہوتے ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ کی ہر صفت کی نقل کرنے والا انسان ضروری نہیں کہ خدا تعالیٰ کا مقبول ہو۔ خدا بیشک مُمِیْت ؔ ہے مگر یہ نہیںہوسکتا کہ ایک قاتل کسی کو بلاوجہ قتل کردے تووہ یہ کہے کہ میں نے چونکہ فلاں شخص کو قتل کرکے خدا تعالیٰ کی صفت ممیت ؔ کا اپنے آپ کو مظہر ثابت کیا ہے اس لئے میں بڑا مقرب ہوں ۔ اگر وہ ایسا کہے گا تو اس کا دعویٰ بالکل غلط ہوگا کیونکہ بندے کو جن حالات میں ممیت ؔ بننے کا حق حاصل ہے ان حالات میں اگر وہ ممیت ؔ بنتاہے تب تو وہ بے شک خدا تعالیٰ کا مقرب بن سکتا ہے ۔ لیکن اگر ان حالات میں ممیتؔ نہیں بنتا تووہ مقرب نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح ولادت خدا تعالیٰ کی احیاء کی صفت ہے مگر ناجائز ولادت کا موجب خداتعالیٰ کی صفتِ محیؔ سے نسبت دیکر اپنے آپ کو خداتعالیٰ کا مقرب نہیں کہہ سکتا ۔ صرف وہی شخص خدا تعالیٰ کی صفت محیؔ یا ممیت ؔ کو پوراکرنے والا قرار پاسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بتا ئے ہوئے قوانین کے ماتحت ان صفات کا مظہر بنتاہے ۔اگر وہ خد تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے ماتحت محی بنتاہے تو بے شک وہ خدا تعالیٰ کا اس صفت میں وہ مظہر بن سکتاہے ۔ اسی طرح اگر وہ خدا تعالیٰ کی صفت ممیت کا مظہر اس رنگ میں بنتاہے جو اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قواعد کے مطابق ہو ۔ تو خدا تعالیٰ کا مقرب ہوسکتا ہے ورنہ نہیں۔ چنانچہ دیکھ لو جس وقت جہاد ہوتاہے ۔دونوں فریق ایک ساکام کررہے ہوتے ہیں ۔ وہ بھی تلوار چلا رہا ہوتا ہے اور یہ بھی تلوار چلا رہا ہوتا ہے ۔ کافر مومن کومارتا ہے اور مومن کافر کو مارتاہے ۔ پس بظاہر ان دونوں کا فعل یکساں ہوتاہے مگر جب کافر کی تلوار سے ایک مومن گرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا عرش کانپ جاتاہے اور فرشتے اس کافر پر لعنتیں ڈالتیں ہیں ۔ لیکن جب کسی مومن کی تلوار سے ایک کافر گرتاہے تو فرشتے خوش ہوتے ہیں اور مومن پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل کرتے ہیں۔ حالانکہ فعل ایک ہوتا ہے مقام ایک ہوتاہے اور ذریعہ قتل ایک ہوتاہے ۔ مگر ایک کے فعل پر تو برکتیں اور حمتیں نازل ہوتی ہیں اور
دوسرے کے فعل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنتیں اور ملامتیں نازل ہوتی ہیں ۔ پس اپنی ذلت میں ممیت ؔ ہونا یا محیؔ ہونا کوئی اچھی یا بری بات نہیں ۔اگر محیؔ ہونا خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت ہوتو اچھا ہوتاہے۔ اگر ممیت ؔ ہونا خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت ہوتواچھا ہوتاہے لیکن اگرممیت ؔ یامحیؔ ہونا خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے خلاف ہو تو یہی بات بری بن جاتی ہے ۔
پس اسلام یہ سکھاتا ہے اپنے کاموںکو ہمیشہ خداتعالیٰ کی رضا کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو۔ اور اس بات سے عبرت حاصل کروکہ دنیا میں لوگ محیؔ ہوکر بھی ظالم ہوتے ہیں اوروہ ممیت ہوکر بھی ظالم ہوتے ہیں ۔کئی ایسے ہیں جو احیاء ؔ کے سامان کررہے ہیں مگر پھر بھی وہ ظالم ہیں اور کئی ایسے ہیں جو امانت کے سامان کررہے ہیں مگر پھر بھی وہ ظالم ہیں ۔ لیکن مومن کی یہ حالت نہیں ہوتی وہ محی بنتا ہے تب بھی اس پر رحم کیاجاتا ہے اور ممیت بنتاہے تب بھی اس پررحم کیا جاتاہے ۔وہ قتل کرتا ہے تب بھی اسے ثواب ملتاہے اور پیدائش کا موجب بنتا ہے تب بھی اسے ثواب حاصل ہوتاہے ۔ پس ایسے انسان بننے کی کوشش کرو تاکہ تم سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جس کے نتیجہ میں تمہیں خداتعالیٰ کی رضا حاصل نہ ہو۔
ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں ایٹم بم کی ایجاد کی وجہ سے بڑی بڑی حکومتیںپریشان ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ اس کا کوئی توڑ پیدا ہو تاکہ دنیا اس کے تباہ کن نتائج سے محفوظ ہوسکے ۔ لیکن دوسری طرف اگر ہم غور کریں تو ہمیں نظرآتاہے کہ خدا تعالیٰ بھی ہمیشہ ایٹم بم گراتا رہتاہے او رہرسال دنیامیں پچاس ساٹھ لاکھ انسان مرجاتے ہیں ۔بلکہ جب کبھی وبائیں پڑتی ہیں توا س سے بھی زیادہ انسان مرجاتے ہیں ۔اورکروڑ ڈیڑھ کروڑ تک تعداد جاپہنچتی ہے مگر ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیںکہ خداتعالیٰ کے اس فعل سے دنیامیں کبھی گھبراہٹ پیدانہیںہوئی ۔اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ خداتعالیٰ جہاں اپنے ایٹم بم (یعنی طبعی موت)سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کومارتاہے وہاں اتنی ہی تعداد کو پیدا بھی کردیتاہے ۔اور اس کے پاس اگر مارنے کی طاقت ہے تو زندہ کرنے کی طاقت بھی موجود ہے ۔یہی وجہ ہے کہ باوجو دلاکھوں اور کروڑوں انسانوں کے سالانہ مرنے کے لوگوں میںگھبراہٹ کے آثار پیدانہیںہوتے ۔وہ جانتے ہیںکہ ہمارا خدا مُحْییٖ بھی ہے اور ممیت بھی ہے ۔وہ مارنابھی جانتاہے او ر پیدا کرنابھی جاتناہے ۔مگر ا ب ایٹم بم یااسی قسم کی اور ایجادات کے ذریعہ موت ایسے لوگوں کے قبضہ میںآئی ہے جو صرف مارناہی جانتے ہیں جلانانہیں جانتے ۔اسی لئے لوگ ایسی چیزوں سے گھبرا اٹھتے ہیں ۔ورنہ دنیامیں لو گ یوں بھی تو مرتے رہتے ہیں لیکن کسی کو گھبراہٹ نہیںہوتی ۔کسی عزیز رشتہ دار کے مرنے پر اس کے لواحقین دوچار روزتک رو دھوکرچپ ہوجاتے ہیں اور تھوڑا عرصہ ہی گذرتاہے کہ اسی گھر میں جہاں سے تھوڑا عرصہ پہلے ماتم اور چیخ و پکار کی آوازیں آتی تھیں ڈھول اور باجے بج رہے ہوتے ہیں او ر کسی خوشی کی تقریب کاانتظام ہورہاہوتاہے ۔غرض عزیز سے عزیز وجود کے مرنے پربھی اس کے متعلقین میںجو گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے وہ عارضی ہوتی ہے جو تھوڑے دنوں تک بالکل مفقود ہوجاتی ہے ۔مگر دیکھ لو ایٹم بم سے دنیا کتنی گھبرائی ہوئی ہے اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اس کے ساتھ موت تو واقع ہوسکتی ہے مگر پیدائش کا کوئی انتظام نہیں۔ اگر اس کیساتھ پیدائش کا بھی انتظام ہوتا تو اتنی گھبراہٹ کبھی نہ ہوسکتی ۔ ہندوئوں میں ایک فرقہ ہے جس میں شامل ہونے والے لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ برہماؔ جی پیدا کرتے ہیں شوجی ؔ مارتے ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ ہندوستان میں برہماجیؔ کے مندر نہیں ہیں اور شوجیؔ کے بہت سے مندر ہیں۔ برہماجیؔ کا سارے ہندوستان میں صرف ایک مندر ہے ۔ کہتے ہیں اس فرقہ سے
تعلق رکھنے والے ایک راجہ کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی ۔ اس راجہ نے اپنے وزراء سے مشورہ کیا کہ میرے ہاں اولاد نہیں ہوتی کیا کرنا چاہیئے ۔ وزراء نے مشورہ دیا کہ آپ برہماجیؔ کی پرستش کریں لڑکا پیدا ہوگا ۔ راجہ نے پرستش شروع کردی اور ساتھ ہی نذر نیاز بھی مانی اور کہا اے برہما! اگر میرے گھر میں بیٹا ہوا تو میں اپنے راج میں سب لوگوں سے صرف تیری ہی پرستش کروائوں گا اور شوجیؔ کی پرستش چھڑادوںگا ۔ تھوڑے عرصہ کے بعد اس کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا ۔ اور اس نے شوجی ؔ کی پرستش سے تمام رعایا کو منع کردیا اور برہما ؔ جی کی پرستش شروع کرادی۔کوئی عقلمند راجہ اسے آکر ملا اور اس نے کہا تمہارا جتنا کام برہماؔ جی کے ساتھ تھا وہ تو پورا ہوگیا اوربیٹا پیدا ہوگیا ۔ اس لئے بہتر ہے کہ اب شوجیؔ مہاراج کی پرستش کی جائے تاکہ وہ غصہ میں آکر لڑکے کی جان نہ نکال لے ۔ راجہ نے اس بات کو سمجھ لیا اور کہا اچھا آئندہ شوجیؔ کی پرستش کی جایا کرے تاکہ میرا لڑکا زندہ رہے ۔چنانچہ شوجیؔ کی پوجا شروع ہوگئی اور برہماؔ جی کو بھلا دیا گیا ۔ لڑکا جب بڑا ہوا تو اس نے کسی کی زبانی یہ سارا واقعہ سنا کہ مجھے برہماجیؔ مہاراج نے پیدا کیا تھا اور اب میرے والدین نے برہماجیؔ کو چھوڑ کر شوجیؔ کی پوجا شروع کردی ہے۔ اس لڑکے کے اندر اخلاقی جرأت تھی ۔ اس نے سوچا کہ احسان کرنے والے کے احسان کی قدر ہونی چاہیئے تھی ۔ اس لئے اس نے فیصلہ کیا کہ میں تو برہماجیؔ کی ہی پوجا کروںگا ۔ جب راجہ نے اپنے بیٹے کا یہ رویہ دیکھا تو اس کو فکر ہوا کہ اگر میرے لڑکے نے برہما جی کی پوجا کی شوجی ناراض ہوجائیں گے اور اس کی جان نکال لیں گے ۔ چنانچہ راجہ نے اپنے بیٹے کو ڈانٹا کہ برہماجیؔ کی پوجا چھوڑ دو۔ لڑکے نے کہا۔ میں برہماجیؔ کا احسان فراموش نہیں ہوسکتا ۔ کچھ مدت باپ بیٹے کا اسی طرح جھگڑا چلتا رہا ۔ جب کسی کے دل میں ضد پیدا ہوجاتی ہے تو وہ روکنے سے اور بھی بڑھتی ہے ۔ بیٹے کے دل میں بھی ضد بڑھتی گئی اور باپ کے دل میں بھی بڑھتی گئی ۔ آخر باپ نے ناراض ہوکر کہا۔ اے شوجی! اس کی جان نکال لے ۔ شوجیؔ نے لڑکے کی جان نکال لی۔ اس پر برہماجیؔ شوجی ؔ پر سخت ناراض ہوئے اور کہا اس کی جان کیوں نکالی گئی ہے ۔انہوں نے پھر اس کو زندہ کردیا مگر شوجی نے دوبارہ اس کی جان نکال لی اور برہماجی نے پھر اس کو زندہ کردیا۔اس طرح دیوتائوں میںلڑائی شروع ہوگئی ۔یہ تو ہندئوں کاعقیدہ ہے ۔مگر درحقیقت با ت یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے اندر دو طاقتیں ہیں ۔ایک طاقت مارتی ہے اور دوسری پیداکرتی ہے ۔اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کومارنے کی طاقت تو دے دی ہے مگر پیداکرنے کی طاقت نہیں دی ۔یہی وجہ ہے کہ دنیاگھبرااٹھی ہے اورجن ممالک کے پاس ایٹم بم نہیںہیںوہ ہروقت سہمے ہوئے اور خوفزدہ رہتے ہیںاور دنیاکے کونے کونے سے آوازیںآتی رہتی ہیںکہ ایٹم بم کولڑائی میںاستعمال نہ کیاجائے مگر میںسمجھتاہوں کہ ایٹم بم دنیاکو توجہ دلاتاہے کہ انسانوںکے ہاتھ میںآئی ہوئی طاقت کس قدر تباہ کن اور ہلاکت خیز ثابت ہوتی ہے اور انسان اس طاقت کو کس طرح بے موقع او ر بے محل استعمال کرکے ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کوتباہ و برباد کردیتاہے اور پھر اسی پر بس نہیں کرتا بلکہ وہ یہ بھی کوشش کرتاہے کہ کسی طرح اس کواور بھی زیادہ مہلک بنائوں تاکہ وہ پہلے سے بھی بڑھ کر تباہی مچاسکے اور زیادہ سے زیادہ انسانوں کو تھوڑ ے سے تھوڑے وقت میںموت کے گھاٹ اتاراجاسکے ۔حالانکہ یہی چیز اگر جائزطریق سے برمحل اور باموقعہ استعمال کی جائے تو بنی نوع انسا ن کے لئے حددرجہ مفید ہوسکتی ہے ۔بہرحال اس گھبراہٹ کاعلاج صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اس خداکی طرف رجوع کیاجائے جومارنابھی جانتاہے اورجِلانابھی جانتاہے ۔اس کے پاس یہ دونوں طاقتیں موجود ہیں ۔چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہی فرمایاہے کہ ہمار ا خدامحیی بھی ہے اور ممیت بھی ہے ۔پس اسی کے ساتھ تعلق رکھناچاہیے جولاکھوں کومارتاہے مگر کسی کے دل میںگھبراہٹ پیدانہیںہوتی ۔کسی گھر میںایک آدمی مرجاتاہے تو اس کے لواحقین دوچار دن تک اس پر رو دھو کرخاموش ہوجاتے ہیں ۔مگر تھوڑے دن نہیں گذرتے کہ اسی گھر میںکوئی بچہ پیداہوتاہے تو مبارک مبارک کے الفاظ کہے جارہے ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ خداکے اختیا ر میں ہے ۔اس لئے ہمیں بھی خداتعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہیے ۔اور اسی پر بھروسہ رکھناچاہیے ۔انسان کی طاقتیں صرف سطحی ہوتی ہیں ۔جب تک خداتعالیٰ کامنشاء اس دنیاکوقائم رکھنے کاہے ۔اس وقت تک ایٹم بم کچھ نہیںکرسکتا۔بلکہ خداان سب مارنے والوں کوبھی مارسکتاہے اور ایسے سامان بھی پیداکرسکتاہے جن سے یہ ایٹم بم سب بے کار ہوکررہ جائیں ۔پس انسان کو ان تمام باتوں سے بے نیاز ہوکرروحانیت کی طرف متوجہ ہوناچاہیے اورصرف خداتعالیٰ کی پرستش کرنی چاہیے ۔جوممیت تو ہے مگر ساتھ محیی بھی ہے یعنی گووہ مارتابھی ہے مگر پھر وہ زندہ بھی کرے گا۔اوراس طرح موت کے بعد بھی اس کی طر ف سے خیر ہی خیر آئے گی ۔موت کا ایک عارضی زمانہ ہوگااور آخر میں انسان کے لئے صرف حیات ہی حیات رہ جائے گی ۔
پھرفرماتے ہیں وَالَّذِیْ اَطْمَعُ اَنْ یَغْفِرَلِیْ خَطِیْئَتِی یَوْمَ الدِّیْنِ میرا رب وہ ہے جس کے متعلق مجھے امید ہے کہ وہ نتائج کے ظہور کے وقت میری کمزوریوں پرپردہ ڈالتے ہوئے اپنافضل میرے شامل ِ حال رکھیگا اور مجھے کامیابی اور کامرانی عطافرمائے گا۔
اس آیت میں جوغفر کالفظ ااستعمال کیاگیاہے اس کے معنی صرف گناہوں کی معافی کے نہیں بلکہ کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے بھی ہیں۔چنانچہ عربی زبان میں جب غَفَرَ الشَّیْئَ غَفْراًکہیںتو اس کے معنی ہوتے ہیں۔سَتَرَہکسی چیز کو ڈھانپ دیا ۔اور جب غَفَرَ الْمَتَاعَ فِیْ الْوِعَائِ کہاجائے تو اسکے معنی ہوتے ہیںاَدْخَلَہ وسَتَرَہسامان کو کسی ٹرنک یاتھیلے میں بندکرکے محفوظ کردیا۔اور جب کسی کے متعلق غَفَرَاللّٰہُ ذَنْبَہ کے الفاظ استعمال کئے جائیںتوا س کے معنی ہوتے ہیںغَطّٰی عَلَیْہِ وَعَفَاعَنْہ ۔خداتعالیٰ نے اس کے قصو ر کوڈھانپ دیااور اس کی کمزوریوں پر پردہ ڈال دیا(اقرب )اسی طرح خطیئۃ کالفظ اثمٌ کے مقابلہ میںاپنے اندر عمومیت رکھتاہے یعنی اثمٌ کالفظ توصرف ایسے قصور کے لئے استعمال کرلیاجاتاہے جن میںارادہ کاکوئی دخل نہیں ہوتا۔اسی طرح یومٌ کالفظ صرف دن کے معنوںمیںاستعمال نہیں ہوتا بلکہ وقت اور زمانہ کے معنوں میںبھی استعمال ہوتاہے ۔چنانچہ قرآ ن کریم میں بعض جگہ یومٌ کالفظ ایک ہزار سال ۱؎ کے لئے ااور بعض جگہ پچاس ہزار سال ۲؎ کے لئے استعمال کیاگیاہے محاورئہ عرب میںبھی یوم زمانہ اور وقت کے معنوں میںاستعمال ہوتاہے چنانچہ ایک شاعر کہتاہے ؎
یَوْمَاہ یَوْمُ ندیً وَ یَوْمُ طَعَان ٖ(لسان العرب و تاج العروس)
یعنی اس شخص کے دو ہی یوم ہیں ۔ایک سخاوت کرنے کایوم اور ایک نیزہ مارنے کایوم ۔اس جگہ یوم وقت کے معنوں میںاستعمال کیاگیاہے اور شاعر اپنے ممدوح کی تعریف کرتے ہوئے کہتاہے کہ اس کی زندگی کے کام صرف دو حصوں میں تقسیم ہیں۔اس کاکچھ وقت تو سخاو ت کے کاموں میں خرچ ہوتاہے اور کچھ وقت لڑائی میںبسر ہوتاہے ۔اسی طرح ایک حدیث میں آتاہے کہ تِلْکَ
۱؎ سورۃ السجدہ ع ۱۔ ۲؎ سورۃ المعارج ع ۱
اَیَّامُ الْھَرَجِیہ فتنہ کے ایام ہیں اور مراد یہ ہے کہ یہ فتنہ کے اوقات ہیں۔اس جگہ بھی یوم وقت اور زمانہ کے معنوں میں استعمال ہواہے ۔باقی رہادین کالفظ سو اس کے بھی عربی زبان میں کئی معانی ہیں ۔دین کالفظ اطاعت کے معنوں میںبھی استعمال ہوتاہے ۔ جزاء اور مطابق عمل نتیجہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتاہے ۔قضا اورفیصلہ کے معنوں میںبھی استعمال ہوتاہے ۔ملّت کے معنوں میںبھی استعما ل ہوتاہے ۔حساب کے معنوں میںبھی استعما ل ہوتاہے ۔غلبہ اور تفوق کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے ۔حکومت اور بادشاہت کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے ۔تدبیرکے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے ۔طریق عبادتکے معنوں میں بھی استعمال ہوتاہے ۔پرہیزگاری کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے ۔حال کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے ۔بلند شان کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے ۔سیرۃ کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے ۔پس یوم الدّین کے معنی صرف قیامت کے نہیں کہ اس دعاکو آخری جزاء سزا کے دن کے لئے مخصوص سمجھاجائے بلکہ جیسا کہ اوپربتایاجاچکاہے دین کے ایک معنے جزاء اور مطابق عمل نتیجہ کے بھی ہوتے ہیں ۔پس حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے رب پر امید ہے کہ جب میرے اعمال کانتیجہ نکلے گاتو وہ میری کمزوریوں پرپردہ ڈالتے ہوئے اپنی رحمت میرے شامل حال رکھیگا۔اورمجھے اپنے مقصدمیں کامیابی عطافرمائے گا۔
وہ لوگ جو روحانیت سے بے بہرہ ہوتے ہیں یہ خیال کرلیتے ہیں انسان اسی صور ت میں مغفرت کا طلب گا رہوتاہے جب کہ وہ گناہ آلود زندگی بسر کررہا ہو۔مگر یہ خیال ان کی عربی زبان سے کلی ناواقفیت اور روحانی کوچہ سے قطعی طور پر نا آشنا ہونے کا ثبوت ہے حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان اس بات کا محتاج ہے کہ خدا اسے اپنے نور سے حصہ عطا فرمائے ۔ اسے اپنی طاقت سے طاقت بچشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے جس طرح انسانی آنکھ سورج کی روشنی کے بغیر بیکار ہے اور انسانی کان ہوا کے توسط کے بغیر دوسرے کی آواز سننے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اسی طرح ہر انسان خواہ وہ خداتعالیٰ کا نبی اور رسول کیوں نہ ہو خدائی طاقت اور اس کی مدد کا محتاج ہوتا
ہے ۔اسی لئے اسلام نے سکھایا ہے کہ ہر انسان پانچ وقت نماز کی ہر رکعت میں خدا تعالیٰ سے یہ کہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ یعنی اے خدا !ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں مگر یہ کام ایسا ہے جس میںصرف ہماری کوشش اور ارادہ ہمیں کامیاب نہیں کرسکتا بلکہ اس میں کامیابی صر ف اسی صور ت میں ممکن ہے جب ہماری کوشش کے ساتھ تیری مد د بھی شامل ہوجائے ۔ جب یہ دونوں چیزیں مل جائیں گی ۔تب کوئی نتیجہ پیدا ہوگا ورنہ محض ہماری کوشش کوئی نتیجہ پیدا نہیںکرسکتی ۔ انہی منصوبوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں اپنی طاقت کے مطابق تو خدا تعالیٰ کی توحید پھیلانے کے لئے رات اور دن جدوجہد کررہاہوںمگر میری یہ جدوجہد اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نصرت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی اس لئے میں اسی سے مدد کا طلب گارہوں ۔ اورمیں امید رکھتا ہوں کہ جب ان کوششوں کے نتائج کا ظہور ہوگا تو اس وقت اللہ تعالیٰ میری حقیر کوششو ں میں برکت پیدا فرمائے گا اور اگر کوئی خامی بشریت کی وجہ سے میرے کاموں میںرہ بھی گئی تو اس کمی کو اللہ تعالیٰ کا فضل پورا فرما دے گا اور مجھے اپنے مقصد میں کامیابی عطا فرمائے گا ۔
پھر جیساکہ اوپر بتایا جاچکا ہے دین کے ایک معنے غلبہ کے بھی ہوتے ہیں ۔اس لحاظ سے وَالَّذِیْٓ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَلِیْ خَطِٓیْئَتِیْ یَوْمَ الدِّٓیْنِ کے یہ معنے ہوں گے کہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ روحانیہ کی ترقی کے زمانہ میں بھی جس کی
ترویج میرے ہاتھ سے ہو رہی ہے میر ی بشری کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے سامان پیدا فرمائے گا کہ جن کے نتیجہ میںتبلیغ اور تربیت کا سلسلہ جاری رہے گا اور اس کے دین کی کشتی ہر قسم کے حوادث کے تھپیڑوں سے بچتی ہوئی ساحلِ مراد پر کامیابی سے پہنچ جائے گی ۔
حقیقت یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کا غلبہ جہاں اپنے اندر بڑی بھاری بشارت رکھتاہے ۔ وہاں یہ غلبہ اپنے اندر ایک اندازکا پہلو بھی لئے ہوئے ہوتاہے کیونکہ اس وقت ہزاروں ہزار لوگ سلسلہ روحانی میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ اور چونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے دین کیلئے کسی قسم کی تکلیف برداشت نہیں کی ہوتی اور پھر وہ مذہبی تعلیم سے بھی بہت حد تک ناواقف ہوتے ہیں اس لئے ان کے اندر کئی قسم کے بگاڑ پید اجاتے ہیں ۔ وہ منہ سے تو بے شک ہر قسم کے عقائد کا اظہار کرتے ہیں مگر ان کا عمل اپنے دعویٰ کے مطابق نہیں ہوتا اوروہ دین میں داخل ہوتے ہوئے بھی دین کی عائد کردہ پابندیوں سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں ۔ اور اس طرح قومی تنزل کا بیج پرورش پانے لگتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنی معرفت کی آنکھ سے اس بیج کو دیکھا اور انہوں نے اس کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنی شروع کردیں اورساتھ ہی اس امید کا بھی اظہار کیا کہ میرا رب میراساتھ دیگا ۔ اور وہ میر ی اس بشری کمزوری کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ کوئی ایک انسان ہزاروں لوگوں کی تربیت نہیں کرسکتا اپنے فضل سے خود ہی ایسے سامان پیدا فرمادے گا کہ جن کے نتیجہ میں آنے والوں کی تربیت ہوتی رہے اور وہ اخلاص اور فدائیت کی روح کیساتھ اس کے دین کے جھنڈے کو ہمیشہ بلند رکھیں۔
رَبِّ ھَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِاالصّٰلِحِیْنَ٭
اے میرے رب! مجھے صحیح تعلیم عطا کر ۔اور نیکوں میں شامل کر۔
وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ٭
اور بعد میں آنے والے لوگوں میں ایک ہمیشہ قائم رہنے والی تعریف مجھے بخش۔
وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ النَّعِیْمِ٭
اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا ۔
وَاغْفِرْلِاَبِیْٓ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَ٭
اورمیرے باپ کو معاف کردے وہ بھٹک جانے والوں میںسے تھا ۔
وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ٭
اورجس دن لوگ زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے مجھے اس دن رسو انہ کیجیئو۔
یَوْمَ لَایَنُفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ٭
جس دن کہ نہ مال نفع دے گا نہ بیٹے (نفع دیں گے )۔
اِلَّامَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ٭
اللہ (تعالیٰ) کے پاس ایک تندرست دل لے کرآئے گا ۔ ۱۸؎
۱۸؎ حل لغات:۔ اَلْحُکْمُ: اَلْحُکْمُ بِاشَّیْئِ کے معنے ہیں اَنْ تَقْضِیَ بِاَنَّہٗ کَذَا اَوْلَیْسَ بِکَذَا سَوَائً اَلْزَمْتَ ذٰلِکَ غَیْرَکَ اَوْلَمْ تُلْزِمْہُ یعنی کسی امر کے متعلق یہ فیصلہ کرنا کہ اس کی صحیح صور ت کیا ہے ۔خواہ وہ بات دوسروں پر واجب کی جائے ۔وَالْحُکْمُ اَعَمُّ مِنَ اَحِکْمَۃِ فَکُلُّ حِکْمَۃٍ حُکْمٌ۔یعنی عربی زبان میں دو لفظ استعمال ہوتے ہیںایک حُکْم ہے اور دوسرا اَلْحِکْمَۃُ ہے اور حُکْمُ کالفظ عام ہے اس لئے اس کے ماتحت حکمت کے سارے معنے آجاتے ہیں (مفردات)
اَلْحِکْمَۃُکے معنے ہیں اِصَابَۃُ الْحَقِّ بِالْعِلْمِ وَ الْعَقْلِ یعنی درست بات کوعلم اور عقل سے معلوم کرلینااو ر پالینا(مفردات)
اقرب الموارد میںہے ۔اَلْحِکْمَۃُ۔اَلْعَدْلُ وَ الْعِلْمُ وَالْحِلْمُ وَالنَّبُوَّۃُ ۔یعنی حکمت کے معنے انصاف ۔علم ۔بردباری اور نبوت کے ہیں ۔اسی طرح اس کے معنے ہیں مَایَمْنَعُ مِنَ الْجُھْلِ ہر وہ بات جوجہالت سے روکے ۔وَقِیْلَ کُلُّ کَلاَمٍ مُوَافِقِ الْحَقِّ ہر وہ بات جو حق کے مطابق ہو اس کوبھی حکمت کہتے ہیں۔وَقِیْلَ وَضْعُ الشَّیْئِ فِیْ مَوْضِعِہِ وَصَوَابُ الْاَمَرِوَسِدَادُہُ ۔اوربعض ماہرین لغت کہتے ہیںکہ کسی چیزکابرمحل استعمال حکمت کہلاتاہے ۔(اقرب)
لِسَانَ صِدْقٍ:مفردات میں ہے کہ یُعَبَّرُعَنْ کُلٍّ فَاضِل ظَاھِراً وَبَاطِناً بِالصِّدْقِ ہروہ امرجوظاہری اور باطنی لحاظ سے اعلیٰ درجہ کاہواس کے ساتھ صدق کالفظ استعمال کیاجاتاہے ۔اور یہ جو حضرت ابراہیم ؑ کی دعاآتی ہے کہ وَاجْعَلْ لِّی لِسَانَ صِدْقاس سے یہ مراد ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ ایسابنائے کہ آنے والی نسلیں جوہمارا ذکرخیر کریں تو وہ درست ہو اور خلاف واقعہ نہ ہو (مفرادات)اقرب الموارد میں ہے کہ لِسَانَ الصِّدْقِ اچھے ذکر کو کہتے ہیں ۔
سَلِیْم: اَلسَّلاَمَۃُ کے معنی ہیں اَلتَعرِّیْ مِنَ الا ٰفَاتِ الظَّاھِرَۃِ وَالْبَاطِنَۃِ ۔ظاہری اور باطنی ہرقسم کی خرابیوں سے پاک ہونا(مفردات)پس قلب ٍسلیم کے معنی ہونگے ۔ایسا دل جو ہرقسم کی خرابیوں سے پاک ہو۔
تفسیر:۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چونکہ اللہ تعالیٰ پر ایک بڑی امید کااظہار کیاتھا ۔اس لئے آپ نے سمجھا کہ اب میرا فرض ہے کہ میں خود بھی اس کے آستانہ پر جھک جائوں اور اس سے دعا کروں کہ وہ میری اس خواہش کی تکمیل کے سامان پیدافرمائے اور مجھے ایسی توفیق بخشے کہ میں اس کے پیغام کو احسن طریق پر لوگوں کو پہنچاتا چلا جائوں ۔چنانچہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعافرمائی کہ اے میرے رب !مجھے حکم عطافرمااور مجھے نیک اور پاک لوگوں میں شامل کردے ۔حالانکہ یہ بالکل غلط ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ ہر ملک اور ہر علاقہ میں اللہ تعالیٰ مجدّد پیدا کرتا ہے مگر لوگ قومی یا ملکی لحاظ سے اپنی قوم اور اپنے ملک کے مجدّد کو ہی ساری دنیا کا مجدّد سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ جب اسلام ساری دنیا کے لئے ہے تو ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں اور مختلف ملکو ں میں مختلف مجدّدین کھڑے ہوں ۔ حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی ؓ بھی بیشک مجدّد تھے ۔ مگر وہ ساری دنیا کے لئے نہیں تھے ۔بلکہ صرف ہندوستان کے مجدّد تھے ۔اگر کہا جائے کہ وہ ساری دنیا کے مجدّد تھے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے عرب کو کیا ہدایت دی انہوں نے مصر کو کیا ہدایت دی ۔ ان ملکوں کی ہدایت کیلئے انہوں نے کوئی کام نہیں کیا لیکن اگر ان ممالک کی تاریخ دیکھی جائے تو ان میں بھی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو صاحبِ وحی اور صاحبِ الہام تھے اور جنہوں نے اپنے ملک کی راہنمائی کا فرض سرانجام دیا پس وہ بھی اپنی اپنی جگہ مجدّد تھے اور یہ بھی اپنی جگہ مجدّد تھے ۔ فرض صرف یہ ہے کہ کوئی بڑا مجدّد ہوتا ہے اور کوئی چھوٹا۔ ہندوستا ن میں آنے والے مجدّدین کی اہمیت اس لئے ہے کہ وہ اس ملک میں آئے جہاں مسیح موعود نے آنا تھا ۔اور اس طرح ان کا وجود حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے بطور ارہاص تھا ۔ ورنہ ہمار ا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ صرف یہی مجدد ہیں باقی دنیا مجدّدین سے خالی رہی ہے ہر شخص جو الہام کے ساتھ تجدیدِ دین کا کام کرتا ہے وہ روحانی مجدّد ہے ۔ ہرشخص جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے تجدید کا کوئی کام کرتا ہے وہ مجدّد ہے۔ چاہے وہ روحانی مجدّد نہ ہو ۔جیسے میں نے کئی دفعہ مثال دی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا کہ اورنگ زیبؒ بھی مجدّد تھا ۔حالانکہ کو خود الہام کا دعویٰ نہیں تھا ۔تو نبی کے فیوضِ روحانی کا زمانہ نبی کی زندگی میں ہی شامل ہوتا ہے اور اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو فترت کا زمانہ بہت قلیل رہ جاتاہے ۔ گو بعض ممالک ایسے بھی ہیں جن پر فترت کا زمانہ کسی قدر لمبا نظر آتا ہے مگر ان ممالک کے ارد گرد بھی روحانی فیوض کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر جاری تھا ۔ جیسے عرب کا ملک ہے ۔ اس پر فترت کا ایک لمبا دور آیا۔ گو بعض لوگ کہتے ہیں۔ اس عرصہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے بعض انبیاء ان میں مبعوث ہوئے ۔چنانچہ سنان بن خالد کے متعلق کہا جاتاہے کہ وہ بھی نبی تھے اور اگر اس کو تسلیم کیا جائے تو اس طرح عرب پر بھی زمانہ فترت زیادہ عرصہ تک نہیں رہتا ۔ لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ ملک عرب پر فترت کا دور لمبے عرصہ تک رہا تو بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ اہلِ عرب کے دائیں اور بائیں ایسے لوگ مبعوث ہوتے رہے تھے جو خدا تعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلاتے اور نشانات کے ذریعہ اس کی ہستی کا ثبوت پیش کرتے ۔آخر یہ کوئی ضروری نہیں تھا کہ اہلِ عرب پر کسی ایسے نبی کے ذریعہ ہی اتمام حجت کی جاتی جو ان میں سے ہوتا ۔ جب دائود ؑ کے ذریعہ خدا ان پر ظاہر ہورہاتھا جب سلیمانؑ کے ذریعہ خدا ان پر ظاہر ہورہاتھا ۔جب عیسیٰ ؑ کے ذریعہ خدا ان پر ظاہر ہورہاتھاجب یحییٰ ؑ کے ذریعہ خدا ان پر ظاہر ہورہا تھا ۔جب ذوالقرنین کے ذریعہ جس سے مراد خورسؔ شاہ ایران ہے ان پر خدا ظاہر ہورہا تھا اوریہ وہ لوگ تھے جنہوں نے الہام کا دعویٰ کیا ۔اور یہ وہ لوگ تھے جو اہلِ عرب کے دائیں بائیں مبعوث ہوئے تو اس کے بعد اگر عرب میں کچھ وقفہ بھی ہوا تب بھی وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہمیں پتہ نہیں شرک بری چیزہے ۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا عقیدہ باربار ان انبیا ء کے ذریعہ پیش کیا جا چکا تھا ۔ اوریہ انبیا ء وہ تھے جو اہلِ عرب کے دائیں بائیں مبعوث ہوئے اور جن کے حالات اور جن کی تعلیم سے وہ لوگ بے خبر نہیں ہوسکتے تھے ۔ اگر اس طرح ہم دیکھیں تو فترت کازمانہ بہت ہی قلیل رہ جاتا ہے جب خدا کا نور کہیں نظر نہ آتا ہو ۔اہلِ عرب پر بیشک فترت کا کچھ لمبا زمانہ نظر آتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی برکت کی وجہ سے اوردوسری طرف اہل عرب پر اس رحم کی وجہ سے کہ انہوں نے فترت کا ایک لمبا دور برداشت کیا تھا اپنے خاتم النبیین کو عربوں میں مبعوث فرما دیا اور اس طرح اس کمی کا ازالہ ہوگیا ۔ بہرحال لوگوں کے خلافِ توحید اعمال اس وجہ سے معاف نہیںہوسکتے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی نبی ان پر حجت قائم کرنے کے لئے مبعوث نہیں ہوا ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اس عذر کو ہمیشہ توڑتا رہتاہے اور وہ انبیا ء کے ذریعہ لوگوں پر حجت قائم کردیتا ہے خواہ یہ حجت انبیا ء کی جسمانی زندگی میں ہو خواہ ان کی فیضانی زندگی میں ہو۔ لیکن وہ لوگ جو نہ تو انبیا ء کی جسمانی زندگی کے زمانہ میں موجود ہوتے ہیں اور نہ ان کی فیضانی زندگی میں موجو د ہوتے ہیں ان کا معاملہ ایک جداگانہ نوعیت کا حامل ہوتا ہے ۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایسے لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دوبارہ اپنا رسول بھیجے گا۔اور پھر ان کی اطاعت کرنے والوں یا اس کا انکار کرنے والوں کو اپنے اپنے عمل کے مطابق جزاد ی جائے گی ۱؎ ۔ اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ نبی کے زمانہ میں احکامِ الٰہی کی جو اہمیت ہوتی ہے وہ فترت کے زمانہ میں نہیں ہوتی ۔ جب کسی نبی کی فیضانی زندگی بھی ختم ہو چکی ہو یا اس فیضانی زندگی میں کوئی وقفہ پڑ چکا ہو جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ فیضانی موجودتھی مگر چونکہ کوئی ایسا بندہ موجو دنہیں تھا جو بنی نوع انسان پر آپؐ کی روحانیت کا پر تو ڈالتا اور آپؐ کا نور اپنے آئینہ قلب میں جذب کر کے اس کی شعاعوں سے دوسروں کو منور کرتا اس لئے امت محمدیہ پر بھی فترت کا زمانہ آگیا ۔ مگر وہ فترت کا زمانہ بہت ہی تھوڑا تھا۔ آخر حضرت سید احمد صاحب شہید بریلویؓ کے وفات پاتے ہی انکے تمام شاگرد تو اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوگئے تھے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ ان کی وفات کے ساتھ ہی فتر ت کا زمانہ شروع ہوگیا تھا ۔آپ کی شہادت ۶؍مئی ۱۸۳۱ء کو ہوئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ۱۸۶۴ء کے قریب الہامات شروع ہوگئے تھے اور ۱۸۷۲ء میں آپ نے اسلام کی صداقت کے متعلق مضامین وغیرہ لکھنے شروع کردیئے تھے ۔گویا ابھی ایک انسانی عمر بھی نہیں گزری تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور شخص کو لوگوں کی اصلاح کے لئے کھڑا کردیا یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ نبی ہونے کا ایک نہایت ہی واضح اور کھلا ثبوت ہے اور بتاتا ہے کہ اسلام میں فترت کا زمانہ نہایت قلیل ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو صرف نام کے طورپر ہوتا ہے ورنہ ادھر ایک زمانہ ختم ہوتا ہے اور اُدھر تھوڑے سے وقفہ کے بعد ایک اور دور شروع ہوجاتا ہے اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان دنیا میں ہمیشہ جاری رہتا ہے لیکن جن انبیا ء کی فیضانی زندگی ختم ہوجائے اور ان کے بعد بھی فترت کا دور لمبا ہوجائے ۔اس دور میں جو لوگ پیدا ہوتے ہیں ان کے متعلق شرعی احکام بالکل اور رنگ اختیا ر کرلیتے ہیں اور ان کے لئے مغفرت کی دعا بالکل جائز ہوتی ہے ۔
زیر تفسیر آیت میں جو مثال دی گئی ہے وہ ایک ایسے شخص کی ہے جو نبوت کے زمانہ میں تھا یعنی وہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کا چچا تھا اور اس زمانہ میں موجود تھا ۔جب حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے توحید کی تعلیم لوگوں کے سامنے پیش کی ۔پس ایسا انسان جس کے سامنے ایک نبی اپنی تعلیم پیش کرتا ہے اور وہ پھر بھی شرک پر اصرار کرتا ہے بلکہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کو بھی توحید سے پھرانے کی کو شش کرتا ہے اس کے متعلق یقینا اور احکام ہونگے ۔اور زمانہ فترت سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر اور احکام نافذ ہونگے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے اپنے چچا کے متعلق تو مغفرت کی دعا کی واپس لے لی اور اس سے اپنی بیزاری کا اظہار کردیا مگر اپنے
۱؎ تفسیر رُوح المعانی جلد ۴صفحہ ۴۹۶۔
والدین کے متعلق انہوں نے بڑھاپے میں بھی دعا کی کیونکہ وہ زمانہ فترت میں انتقال کر چکے تھے ۔اور ان کے متعلق احکام ایک جداگانہ نوعیت کے حامل تھے۔اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے گذشتہ زمانہ میں جو مسلمان حیاتِ مسیح کے قائل رہے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ان کو بزرگ اور صالح قرار دیا ہے لیکن موجودہ زمانہ میں اس عقیدہ کو آپؑ نے عیسائیت کی مضبوطی کا موجب قرار دیا ہے ۔کیونکہ پہلے لوگوں کو علم نہیں تھاکہ یہ عقیدہ اسلام کے لئے کیسا خطرناک ہے مگر اب یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو چکی ہے ۔ پس چونکہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے والدین زمانہ فترت میں انتقال کر چکے تھے آپ نے ان کی مغفرت کی دعا کی ۔اور چونکہ ان کا چچا توحید کی تعلیم سننے کے باوجود اپنے شرک پر مصر رہا آپ نے اس سے اپنی بیزاری کا اظہار کردیا ۔
حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے اَب کا نام قرآن کریم میں اٰزَر بتایا گیا ہے (سورہ انعام ع ۵)لیکن بائیبل کہتی ہے کہ اس کا نام تارا تھا (پیدائش باب ۱۱آیت ۲۷)عیسائی مستشرقین جو بائیبل کی ہر بات کو وحئی آسمانی سے کم نہیں سمجھتے بالعموم اعتراض کیا کرتے ہیں کہ قرآن کریم نے حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے باپ کا نام آزر قرار دے کر غلطی کی ہے ۔حالانکہ بائیبل نہ تو کوئی تاریخ کی کتاب ہے اور نہ ہی ہم پر حجّت ہے ۔اس کے اپنے بیانات اسقدر متضاد اور ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں کہ قرآن کریم کے مقابلہ میں اسے کسی طرح درست نہیں مانا جاسکتا۔بائیبل میں حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے باپ کا جو نام لکھا ہے وہ لکھنے والے ان کے وقت میں موجود نہ تھے بلکہ سوادو سال بعد میں پیدا ہوئے ۔پھر ان کی بات تاریخی لحاظ سے کیونکر صحیح مانی جاسکتی ہے۔ اور بائیبل کے بیانات کی جو حالت ہے وہ اس ایک مثال سے ہی ظاہرہے کہ بائیبل میں لکھا ہے۔حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھ جو لوگ مصر سے نکلے تھے ان کی تعداد چھ لاکھ سے اوپر تھی(گنتی باب ۱آیت ۴۶) اور وہ یہ لوگ تھے جو لڑائی کے قابل تھے ۔اس لحاظ سے گویا کُل مرد عورتیں اور بچے چوبیس پچیس ۲۵لاکھ ہو گئے۔مگر یہ بالکل ناممکن ہے کہ سوادو سو سال میں بنی اسرائیل کی تعداد اسقدر بڑھ جائے ۔زیادہ سے زیادہ چار ہزار تک بڑھ سکتی ہے بشرطیکہ ان میں کوئی عورت بانجھ نہ ہو اور کوئی مرد نامرد نہ ہو۔گویا اگر نسل کی انتہائی ترقی مدّنظر رکھی جائے جو دنیا میں کسی قوم کو نہیں ہوئی ۔اور یہ تسلیم کر لیں کہ ہر چالیس سال میں ان کی تعداد دگنی ہوجاتی تھی تو حضرت موسٰی علیہ السلام کے زمانہ میں ان کی تعداد چار ہزار ہونی چاہیئے ۔مگربائیبل کہتی ہے کہ ان میں چھ لاکھ سے اوپر جوان لڑنے والے تھے ۔گویا اس وقت بنی اسرائیل کی تعدادچوبیس پچیس لاکھ کے قریب تھی۔یہ بات حضرت موسٰی علیہ السلام کے زمانہ کی بیان کی جارہی ہے۔مگر قرآن کریم دو ہزار سال کے بعد حضرت موسٰی علیہ السلام کے زمانہ کی یہ بات ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ ’’وَھُمْ اُلُوْفُ‘‘۔(بقرۃع ۳۲)وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔اور یہ وہی تعداد ہے جو بنی اسرائیل کی زیادہ سے زیادہ نسل بڑ ھنے کے متعلق اندازہ لگا کر میں نے پیش کی ہے ۔ پس جس کتاب کی یہ حالت ہواُسے تاریخی کتاب کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے ۔وہ تاریخ نہیں بلکہ قصوں اور کہانیوں کی کتاب ہے ۔اگر ہم اس کا احترام کرتے ہیں تو اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ حضرت موسٰی علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ورنہ اس میں اتنا بگاڑ پیدا ہو چکا ہے کہ اباس کی کسی بات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا پھر تورات کہتی ہے کہ حضرت ہارونؑ نے شرک کیا ۔اور اپنے ہاتھ سے پرستش کے لئے بچھڑا بنایا ۔مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ حضرت کہ حضرت ہارونؑ نے شرک نہیں کیا بلکہ انہوں نے دوسروں کو روکنے کی کوشش کی اور یہی بات ایک نبی کی شایان شان ہے ۔
غرض جبکہ بائیبل کی کئی باتیں تاریخ لحاظ سے غلط ہیں تو یہ کس طرح کہاجاسکتاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا بائیبل نے جو نام بتایا ہے وہ غلط ہے ۔ اگر بائیبل کا بیان کلی طور پر درست ہوتا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام تاراؔ ہی ہوتا تو طالمود ؔ میں ا س کے باپ کا نام زارا کیوں لکھا جاتا ۔ اور جوزیفس ؔ جو مشہور یہودی مؤرخ ہے وہ اس کا نام آتھر یعنی آذر کیوں بتاتا (ترجمۃ القرآن از سیلؔ صفحہ ۹۵)یہ اختلاف جو خود یہودیوں کے اندر پایا جاتا ہے ۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے باپ کے نام کے متعلق اختلاف تھا ۔ اور چونکہ قرآن کریم کا نزول اسی لئے ہوا کہ وہ پہلی الہامی کتا ب کے پیدا کردہ اختلافات کو دور کرے اس لئے اس نے اس اختلاف کودور کردیا اور بتادیا کہ اس کا نام آذر ہی تھا۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ تارا سے ہی قرآن کریم نے آذر بنا لیاہو ۔کیونکہ تؔ زؔ سے بدل جاتی ہے ۔ اور قلب کے ذریعہ الف پہلے آجاتاہے معلوم ہوتا ہے عربوں کی زبان پر تارا کا لفظ نہیں چڑھنا تھا ۔انہوں نے تارا کو زارا بنا لیا اور پھر زارا سے آذر بن گیا ۔ چونکہ قرآن کریم عموماً معرّب نام استعمال کرتا ہے ۔جیسے ابراہامؔ کو ابراہیم۔ اور یسوعؔ کو عیسیٰ اور یوحنا ؔ کو یحییٰ اور حنوک ؔ کو ادریس کہا گیا ہے ۔ اسی طرح تاراکو زارا کہہ دیا گیا ہے ۔پس یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ ہم تو یہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ اس جگہ اَب سے ان کا حقیقی باپ مراد ہے ۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اس جگہ اَب کا لفظ چچا کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے اسی لئے دوسرے مقام پر جب انہو ں نے اپنے والدین کے لئے دعا کی تو وہاں اَب کی بجائے والد کا لفظ استعمال کیا ۔پس جبکہ ہم آذر ان کے چچا کا نام سمجھتے ہیں تو بائیبل میں اگر ان کے باپ کا نام تارا آگیا ہے تواس سے قرآن کریم پر کیا اعتراض پڑ سکتا ہے ۔اگر بائیبل ان کے چچا کانام تارا بتا تی تب تو یہ اعتراض ہوسکتا تھا ۔ لیکن بائیبل تو ان کے حقیقی باپ کا نام تاراؔ بتا تی ہے اور قرآن کریم ان کے چچا کانام آذر ؔ بتاتا ہے ان دونوںکا آپس میں کوئی تعلق ہی نہیں کہ ایک نام کو دیکھ کر دوسرے نام پر اعتراض کردیا جائے ۔ اس کی مزید تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ بائیبل حضرت سارا کو جوحضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی تھیں تارہؔ کی بیٹی قرار دیتی ہے ۔ (پیدائش باب ۲۰آیت ۱۲)اگر تارہ کو انکا حقیقی با پ سمجھا جائے تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں ۔کہ آپ نے اپنی سگی بہن سے شادی کی حالانکہ بہن سے شادی کرنا ناجائز تھا ۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دراصل وہ باپ نہیں بلکہ چچا تھا ۔ مگر چونکہ ان کی پرورش اپنے چچا کے گھر میں ہی ہوئی تھی اس لئے لوگوں کو غلطی لگ گئی اور انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تاراؔ کی طرف منسوب کرنا شروع کردیا ۔ اورپھر مؤرخین نے بھی اسے آپ کا باپ قرار دے دیا ۔ اس مقام پر بھی طالمودؔ نے بائیبل کی اصلاح کی ہے اور بتایا ہے کہ حضرت ساراؔ ان کے بھائی کی بیٹی تھیں۔ انکی حقیقی بہن نہیں تھیں پھر طالمود ؔ میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بتوں کے خلاف آواز بلند کی تو آذر نے تنگ آکر بادشاہ کے پا س اُ ن کی شکایت کی اور انہیں سزا دلوانے کی کوشش کی ۔ اس فعل کی بھی عقلی لحاظ سے ایک باپ سے توقع نہیں کی جاسکتی ۔ پس یہ تما م قرائین اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اس جگہ اَب سے ان کاچچا ہی مراد ہے اور بائیبل سے نام کا اختلاف کوئی قابلِ اعتراض امر نہیں۔
پھر فرماتے ہیں وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ ۔ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ ۔ اِلَّا مَنْ َتَیْ اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔ یعنی اے میرے رب! مجھے اس دن کی رسوائی سے محفوظ رکھیؤ جس دن تمام لوگ اپنے اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے اٹھائے جائیں گے اور جس دن نہ انسان کو اس کا مال نفع دے گا اور نہ اس کے بیٹے اس کے کسی کام آئیں گے ہاں وہی شخص فائدہ میں رہے گا جو اللہ تعالیٰ کے پاس ایک پاک اور بے عیب اور مطمئن دل لے کر حاضر ہوگا ۔یہ ظاہر ہے کہ دل تبھی مطمئن ہوتا ہے جب انسان کو یقین ہو کہ اس نے اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کر لیا ہے اور اسے اپنے انجام کے متعلق کوئی اضطراب لاحق نہ ہو مگر یہ یقین اللہ تعالیٰ کے تعلق کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا پس قلبِ سلیم در حقیقت اُسی شخص کو میسر آتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کر لیتاہے ورنہ ظاہری مال ودولت کسی انسان کو مطمئن نہیں کرسکتی ۔یورپین قوموں کو دیکھ لو۔مال ودولت کے لحاظ سے دنیا کی کوئی قوم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔مگر ہر قسم کی طاقت اور جتھے اور مال کے باوجود ان کے اندر ایک احساس کمتری پیدا ہورہا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی چیز ایسی ہے جو ان کے پاس نہیں بلکہ ایشیائیوں کے پاس ہے ۔یہ احساس کمتری ابھی ان میں اتنا نمایاں نہیں کہ بڑوں اور چھوٹوں سب لوگوں میں پایا جائے لیکن تاہم ان کے اندر ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا ہے جو سمجھتا ہے کہ ان کے پاس دولت بھی ہے مال بھی ہے لیکن انہیں دل کا چین نصیب نہیں ۔وہ لوگ شرابیں پیتے ہیں ۔سینما دیکھتے ہیں ۔ناچ اور گانوں میں دن رات کا ایک بڑ احصّہ بسر کرتے ہیں ۔لیکن جب نشہ اتر جاتا ہے اور وہ چارپائی پر جا کر لیٹتے ہیں تو انہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر کوئی خلا پایا جاتا ہے۔اور وہ خلا سوائے تعلق باللہ اور دین کے اور کوئی چیز پُر نہیں کر سکتی ۔دنیا کی ہر نعمت کو حاصل لینے کے بعد ان کے اندر یہ بے چینی ہوتی ہے کہ کوئی چیز ایسی ہے جو انہیں حاصل نہیں اور وہ انہیں حاصل ہونی چاہیئے۔دراصل خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کا وصال ایک ایسی نعمت ہے کہ جب وہ کسی شخص کو میسر آجاتی ہے تو دنیا کے سارے غم مٹ جاتے ہیں اور اسے کوئی حسر ت باقی نہیں رہتی ۔عارضی غم بے شک آتے ہیں ۔مثلاً اگر کسی شخص کو کانٹا چبھ جائے تو اس کے نتیجے میں اسے درد تو ہوتا ہے لیکن اسے کوئی شخص بیماری نہیں کہہ سکتا ۔اسی طرح عارضی تکلیفیں اور غم تو ایسے انسان پر بھی آتے ہیں ۔لیکن یہ غم ان کے راستہ میں روک نہیں بنتے اور اپنے اپنے درجہ کے مطابق انہیں اطمینان اور سکون حاصل رہتا ہے ۔اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسانی جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جب وہ ٹھیک ہو جاتا ہے تو سارا انسانی جسم ٹھیک ہوتا ہے اور جب وہ خراب ہوجاتا ہے تو سارا انسانی جسم خراب ہوجاتاے ۔پھر فرمایا اَلآوَھِیَ الْقَلْبُ ۔سنو وہ گوشت کا لوتھڑا دل ہے۔
بعض لوگوں نے خصوصاً اس زمانہ کے سائینسدانوں اور تشریح الابدان والوں نے کہا ہے کہ وہ چیز جو انسانی اعمال،افعال اور ارادوں اور خواہشات کو مضبوط کرتی ہے اور انہیں ایک نظام کے نیچے لاتی ہے وہ دل نہیں بلکہ دماغ ہے ۔اور سائنس والوں سے ڈرکر بعض مسلمان علماء نے بھی قرآن کریم کی بعض آیات کی ایسی تفسیر شروع کردی ہے جس سے یہ نکلتا ہے کہ قلب سے مراد قلبِ انسانی نہیں بلکہ اس سے مراد محض وہ مقام ہے جو انسانی جسم پر حکومت کرتا ہے چاہے وہ دماغ ہی ہو۔ لیکن میرے نزدیک یہ توجیہہ محض ہی ڈر کی وجہ سے کی گئی ہے ۔ورنہ جہاں تک قرآن کریم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے میرے نزدیک قلب سے مراد وہی چیز ہے جو سینہ میں ہوتی ہے اور اس چیز کو دماغ قراردینا محض دھینگا مُشتی ہے ۔ بہرحال اس حدیث سے ظاہر ہے کہ انسانی اعمال کی صفائی دل کی صفائی کے ساتھ وابستہ ہے ۔تم اپنے ہاتھو ں کی صفائی کرکے پاک نہیں ہوسکتے ۔ تم اپنے منہ کی صفائی کرکے پاک نہیں ہوسکتے ۔ کیونکہ پاکیزگی کا منبع دل ہے ۔ لیکن اگر تم اپنے دل کی صفائی کرلو تو اللہ تعالیٰ کے حضور تم ایک معمئن دل لے حاضر ہو گے ۔ ہمار اخالق اور مالک جس نے مخلوق کو پاکیزگی کے حصول کیلئے پیدا کیا ہے اسکے نزدیک سب سے مقدم دلوں کی پاکیزگی ہے ۔ کیونکہ تقویٰ کا درخت صرف اسی زمین پر پرورش پاسکتا ہے جو پاک اور صاف ہو۔ ناپاک دل اس کی صفات کا جلوہ گاہ نہیں ہوسکتا اور نہ پاک ہاتھ اس کے عرش کے پائے کو چھُو سکتے ہیں۔
وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ٭
او جس دن جنت متقیوں کے قریب کردی جائے گی ۔
وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغٰوِیِنَ٭
اور گمراہوں کیلئے دوذخ پر سے پردے اٹھا دیئے جائیں گے ۔
وَقِیْلَ لَھُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ٭
اور کہاجائے گا کہ کہاں ہیں جن کی تم اللہ کے سواکے عبادت کرتے تھے ۔
مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ۔ ھَلْ یَنْصُرُوْنَکُمْ اَوْیْنْتَصِرُوْنَ٭
کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں ؟یا تمہارا بدلہ لے سکتے ہیں ؟
فَکُبْکِبُوْا فِیْھَا ھُمْ وَالْغَاوٗنَ٭وَجُنُوْدُ اِبْلِیْسَ اَجْمَعُوْنَ٭
پس اس وقت وہ (جھوٹے معبود اور کافر) اور گمراہ اور کے لشکر سارے کے سارے اس (دوذخ) میں اوندھے منہ گرادیئے جائیں گے ۔
قَالُوْا وَھُمْ فِیْھَا یَخْتَصِمُوْنَ٭
وہ آپس میں جب کہ وہ اُس (یعنی جہنم) میں جھگڑ رہے ہوں گے کہیں گے۔
تَااللّٰہِ اِنْ کُنَّا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ٭
خدا کی قسم ہم کھلی کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے ۔
اِذْ نُسَوِّ یْکُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ٭
جب کہ ہم تم کو فرب العالمین خدا کے برابر درجہ دیتے تھے ۔
وَمَآ اَضَلَّنَآ اِلَّا الْمُجْرِمُوْنَ٭
اور ہم کو تو مجرموں نے ہی راستہ بھٹکا دیا تھا ۔
فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ ٭
پس (آج) شفاعت کرنے والوں میںسے کوئی ہماری شفاعت نہیں کرتا ۔
وَلَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ٭
اور نہ ہمارا کوئی غمخوار دوست ہے ۔
فَلَوْ اَنَّ کَرَّۃً فَنَکُوْنَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ ٭
پس اگر ہمیں لوٹنے کی طاقت ہوتی تو ہم (لوٹ کر) ضرور مومنوں میں (شامل)ہوجاتے ۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ۔ وَ مَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّوْمِنِیْنَ٭
اس (واقعہ ) میں ایک بہت بڑا نشان ہے لیکن ان (کافروں )میں اکثر ایمان نہیں لاتے ۔
وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ٭
اور تیرا رب یقینا غالب (اور )باربار رحم کرنے والا ہے ۔۱۹؎
۱۹؎ حل لغات :۔اُزْلِفَتْ: اَزْلَفَ سے مؤنث کا فعل مجہول کا صیغہ ہے اور اَزْلَفَ کے معنے ہیں قَرَّبَہٗ ۔ اس کے قریب کیا (اقرب) پس اُزْلِفَتِ لْجَنَّۃُ کے معنے ہونگے ۔ جنت قریب کردی جائے گی ۔
بُرِّ زَتُ: بَرَّزَ سے مؤنث کا فعل مجہول کا صیغہ ہے اور بَرَّزہٗ کے معنے ہیں اَظْہَرَہٗ وَبَیَّنَہٗ کسی چیز کو ظاہر اورواضح کردیا (اقرب) پس بُرِّزَتْ کے معنے ہونگے ظاہر کر دی جائے گی ۔
اَلْجَحِیْمُ: اَلنَّارُ الشَّدِیِدَۃُ التَّاَجُّجِ۔ یعنی جحیم کے معنے سخت بھڑکنے والی آگ کے ہیں ۔ نیز اس کے معنے ہیں ۔ کُلُّ نَارٍ عَظِیْمَۃٍ فِیْ مَھْوَاۃٍ فَھِیَ جَحِیْمٌ یعنی ہر وہ بڑی آگ جو گڑھے میں ہو۔ اَلْمَکَانُ الشَّدِیْدُ الْحَرِّ۔ سخت گری والی جگہ ۔اِسْمٌ مِنْ اَسْمَآئِ جَھَنَّمَ ۔جہنم کے ناموں میںسے ایک نام جحیم بھی ہے (اقرب)
کُبْکِبُوْا: کَبْکَبُ سے جمع مذکر کا مجہول کا صیغہ ہے اور کَبْکَبَہٗ کے معنے ہیں قَلَّبَہٗ وَصَرَعَہٗ ۔ اس کو پچھا ڑدیا اور شکست دے دی ۔ اور جب کَبْکَبَ الشَّیْئَ کہیں تو معنے ہونگے رَمَاہُ فِیْ الْھُوَّۃِ۔ اس کو گڑھے میں پھینک دیا ۔(اقرب) پس کُبْکِبُوْا کے معنے ہونگے ۔(۱)ان پچھاڑ دیا جائے گا ۔(۲)ان کو گڑھے میں پھینک دیا جائے گا ۔اَلْغَاوٗنَ: اَلْغَاوِیْ کی جمع ہے جو غَوَیٰ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ اور غَوَی الرَّجُلُ کے معنے ہیں ۔ گمراہ ہوگیا خَابَ۔ ناکا م ہوگیا ۔اِنْھَمَکَ فِی الْجَھْلِ۔ جہالت میں لگ گیا ۔ ھَلَکَ ۔ہلاک ہوگیا ۔ پس اَلْغَاوِیْ کے معنے ہونگے گمراہ ہونے والا۔ ناکام ہونے والا۔ جہالت کے کاموں میں مشغول ہونے والا ۔ ہلاک ہونے والا ۔
جُنُوْرٌ: جُنْدٌ کی جمع ہے اور اَلْمُنْدُ کے معنے ہیں اَلْعَسْکَرُ۔ لشکر ۔اَلْاَعْوَانُ ۔مددگار (اقرب)
نُسَوِّیْکُمْ : سَوَّی سے فعل مضارع کا جمع متکلم کا صیغہ ہے اورسَوَّاہُ بِہٖ کے معنے ہیں عَدَّلَ ۔کسی کو کسی کے برابر قرار دیا (اقرب) پس اِذْ نُسَوِّیْکُمْ کے معنے ہوں گے جب ہم تم کو برابر قراردیتے تھے ۔
حَمِیْمٍ:اَلْقَرِیْبُ الَّذِیْ تَھْتَمُّ بِاَمْرِہٖ ۔ وہ قریبی جس کے کاموں کی سرانجام وہی کی فکر رہتی ہو۔ اَلصَّدِیْقُ دوست (اقرب)
کَرَّۃٌ: کَرَّ سے مصدر ہے ۔ اور کَرَّ کے معنے ہیں رَجَعَ۔ لوٹا (اقرب) پس کَرَّۃٌ کے معنے ہیں ایک دفعہ لوٹنا ۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ اس دن جنت متقیوں کے قریب کردی جائے گی ۔ یعنی متقی جوں جوں نیک کام کرتا چلاجاتا ہے نیکی اس پر آسان ہوتی چلی جاتی ہے ۔میں نے بالعموم دیکھا ہے کہ جب کسی کو نیکی کی لذّت حاصل ہوجائے تو اس کے بعد وہ بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھتا ہے اور ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری نیکی اس کے لئے آسان سے آسان تر ہوجاتی ہے ۔
پارٹیشن سے پہلے میں ایک دفعہ دہلی گیا ۔ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اس وقت تک ابھی وزیر نہیں بنے تھے ۔ویسے وہ حکومت کی طرف سے ایک خاص مقدمہ کی پیروی کیلئے مقرر تھے ۔ اُن دنوں ہندوستان کی حکومت نے انگلستان سے مالیات کے ایک ماہر کو منگوایا تھا تاکہ بعض اہم باتوں میں اس کا مشورہ لیا جاسکے ۔ چوہدری صاحب نے اسے مجھ سے ملانے کے لئے دعوت دی ۔ اس نے اور چیزوں کے علاوہ گلاب جامن یا رس گلے بھی رکھ دیئے ۔اس شخص کے لئے یہ بالکل ایک نئی چیز تھی وہ انہیں دیکھ کر گھبراگیا ۔ مگر چوہدری صاحب نے کہا۔ اس کھاکر دیکھو ۔ چنانچہ اس نے ایک گلاب جامن یا رس گلا ٹھا کر کھایا ۔چوہدری صاحب نے پھر ایک گلاب جامن یا رس گلا اسے دیا ۔ اس نے پھر گریز کیا تو چوہدری صاحب نے ا س سے کہا کہ تم نے پہلا گلاب جامن یا رس گلا تو عجوبہ کے طور پر کھایا تھا ۔ اب دوسرا گلاب جامن یا رس گلا اس کے مزے کی وجہ سے کھائو ۔ میں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ آپ نے یہ کیا بات کہی ہے ۔ انہوں نے بتا یا کہ انگریزی میں یہ محاورہ ہے کہ پہلی چیز عجوبہ کے طور پر ہوتی ہے اور دوسری چیز اس کے مزے کی وجہ سے استعمال کی جاتی ہے ۔ یہ تو ایک دنیوی ضرب المثل ہے لیکن میں نے روحانیت میں بھی دیکھا ہے کہ پہلے چسکہ لگانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پھر خود بخود عادت پڑجاتی ہے ۔ ٹنکچرز جو الکوحل سے تیا ر ہوتی ہیں بچے اور جوان ا ن کے پینے سے گھبراتے ہیں لیکن یورپ میں لوگ شراب تک مزے لے لے کر پیتے ہیں۔ اور روکنے کے باوجود اسے نہیں چھوڑتے ۔ امریکہ میں جب شراب نوشی کے انسداد کے لئے قانون وضع کیا گیا تو ہزار ہا موتیں وہاں صرف اس وجہ سے واقع ہوئیں کہ لوگ شراب پینے کے شوق میں سپرٹ پی لیتے ۔ سالہاسال ایسا ہوتا رہا کہ چونکہ لوگوں کو پینے کیلئے شراب نہیں ملتی تھی اس لئے سپرٹ پی لیتے تھے اور سپرٹ میں چونکہ زہریلی چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے اس لئے کئی اندھے ہوجاتے اور کئی مرجاتے ۔ مگر پھر بھی وہ اپنی خواہش کو نہ روک سکتے ۔ پس ہر چیز کے دومزے ہوتے ہیں ایک توا س کا ذاتی مزاہوتا ہے اور دوسرا مزا عادت کے نتیجہ میں ہوتاہے ۔ ہمارے ملک میں لوگ پان میں زردہ کا استعمال کرتے ہیں ۔ لیکن جس نے پہلے زردہ استعمال نہ کیا ہو اگر زردہ کھا لے تو اس کے سر میں چکر آنے لگتاہے مجھے یاد ہے ایک دفعہ نقرس کی تکلیف ہوئی ۔ ایک دوست جو ہندوستا ن کے تھے انہوں نے کہا ۔ آپ پان میں زردہ ڈال کر کھائیں ۔ درد ہٹ جائے گی ۔ میںنے کہا ۔ میں نے تو زردہ کبھی نہیں کھایا ۔ اس لئے اگر میں نے زردہ کھایا تو سرمیں چکر آجائے گا ۔ انہوں نے کہا نہیں آپ استعمال تو کریں ۔ چنانچہ انہوں نے پان میں زردہ ڈال کر مجھے دیا اورمیںنے کھا لیا ۔اس سے درد میں واقعہ میں کچھ کمی ہوگئی چند گھنٹوں کے بعد انہوں نے پھر مجھے پان میں زردہ ڈال کے دیا ۔ غرض دو دن ہم سفر میںرہے اور دونوں دن برابر وہ مجھے پان میں زردہ ڈال کردیتے رہے ۔ دودن کے بعد میں نے دیکھا کہ درد کی تکلیف کم ہونے لگی ہے تب میں نے اس اسے چھوڑ دیا کہ کہیں اسکی عادت ہی نہ پڑجائے غرض بڑی تکلیف دہ اور بد مزہ چیزیں بھی اگر علاج کے طورپر استعمال کی جائیں توا ن کی عادت پڑ جاتی ہے اور اچھی معلوم ہونے لگتی ہیں ۔ اور جب ادنیٰ چیزوں کی عادت پڑ جاتی ہے تو دین کی قربانی کی عاد ت کیوں نہیں پڑ سکتی ۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان کو ایک دفعہ قربانی کیلئے آگے لایا جائے اسکے بعد خود بخود اس کے اندر ذوق پیدا ہوجاتا ہے ۔اور اسے دین کے کاموں میں ایسی لذت آنے لگتی ہے کہ ان کو ایک لمحہ کے لئے بھی چھوڑنا اس کے لئے ناقابل ِبرداشت ہو جاتا ہے ۔اسی طرح ایک انسان کو روٹی نہیں ملتی تو وہ چلاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتا ہے کہ اے خدایا مجھے روٹی دے ۔اسی طرح اگر اسے اشاعت ِدین کی توفیق ملتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کا ممنون ہوتا ہے اور اس کا شکر ادا کرتا ہے ۔اور اگر کسی وقت اسے دین کی خدمت کی توفیق نہیں ملتی تو وہ خدا تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتاہے کہ وہ اپنی کمزوری کو دور کرے اور اس کے اندر دینی خدمات بجا لانے کی زیادہ سے زیادہ طاقت پیدا کرے۔اس طرح قدم بقدم نیکی اس پر آسان ہوتی جاتی ہے اور جنت اس کے قریب ہوتی چلی جاتی ہے لیکن سچائی سے منحرف لوگوں کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ ان کے لئے دینی قربانیاں جوایک مومن کے لئے بالکل آسان ہوتی ہیںآگ کے شعلوں کا سا رنگ اختیار کر لیتی ہیں ۔اور وہ ان سے دور بھاگتے ہیں اور اپنے آپ کو ان سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔گویا مومن اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے قربانیوں کی آگ میں اپنے آپ کو جھونک دیتے ہیں ۔اور وہ آگ ان کے لئے گلزار بن جاتی ہے لیکن ایک منافق اور ایک گمراہ انسان کو وہی آگ جہنم کا ایندھن بنا دیتی ہے ۔کیونکہ اس وقت اس کی بے ایمانی پر جو پڑدہ پڑاہوتا ہے وہ اُٹھ جاتا ہے۔
اسی طرح اُزْلِفَتِ الْجَنَّتُ لِلْمُتَّقِیْنَ میں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ آخری زمانہ میں جنت متقیوں کے قریب کردی جائے گی۔یعنی اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کردے گا ۔کہ مذہبی باتیں لوگوں کی سمجھ میں آنے لگ جائینگی اور سائنس جو مذہب کی مخالفت کررہی ہوگی اس کی مخالفت آپ ہی آپ ختم ہوجائے گی اس طرح متقی لوگوں کے لئے جنت کا حصول آسان ہوجائے گا ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں یہ پیشگوئی پوری ہورہی ہے اور احرارِ یورپ میں سے کچھ تو آہستہ آہستہ اپنے بلند بانگ دعا وی کو چھوڑ رہے ہیں ۔اور کچھ ان باتوں کو جو اس سے قبل انہیں غیر قدرتی نظر آتی تھیں قانون ِقدرت میں شامل کرکے مذہب کی طرف آرہے ہیں گویا دَنَافَتَدَلّٰی کی سی کیفیت پیدا ہورہی ہے ۔یعنی سائینس دان اوپر کی طرف چڑھ رہا ہے ۔اور علماء نے جو مبالغہ کا رنگ مذہب پر چڑھا دیا تھا وہ اتارا جارہا ہے ۔اور اس ح دنیاخدائی باتوں کی تصدیق کے لئے تیار ہورہی ہے اور جنت ان کے قریب جارہی ہے ۔مگر ایسے زمانہ میں بھی جولوگ خدائی ہدایت کو قبول کرنے سے اعراض کرتے ہیں انہیں اعمال کی جواب دہی کے لئے خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا ۔تب ان سے کہا جائے گا کہ اَیْنَمَاکُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ھَلْ یَنْصُرُوْنَکُم اَوْنَنْتَصِرُوْنَ وہ تمہارے معبود کہاں ہیں جن کے آستانہ پر تم سر جھکاتے تھے اور جنہیں اپنا خدا سمجھا کرتے تھے ۔آج بتائوکہ کیا وہ تمہاری کچھ بھی مدد کر سکتے ہیں یا تمہارا بدلہ لینے کی کوئی طاقت رکھتے ہیں ۔جب وہ اپنی آنکھوں سے اس انجام کو دیکھ لیںگے تو وہ بھی اور ان کے معبود بھی اور تمام ابلیسی لشکر بھی دوذخ میں اوندھے منہ گرا دیئے جائیں گے ۔ اور ان کی تمام عزتیں خاک میں مل جائیں گی ۔تب وہ آپس میں جھگڑنا شروع کردیں گے اور وہ لوگ جو دنیا میں اپنے لیڈروں کی اندھی تقلید کرتے رہے اور خدا تعالیٰ کی آواز پر انہو ں نے کان نہ دھرا۔ وہ ان سے کہیں گے کہ خدا کی قسم ہم تو بڑی غلطی میں مبتلا رہے ۔ جب کہ ہم تمہیں رب العالمین کے برابر درجہ دیتے رہے اورہم نے تمہاری باتوں پر کان دھرا مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے جو منادی آیا۔ اس کی آواز کو ہم نے نہ سنا مگر پھر وہ اپنے دلوں کو تسلی دینے کے لئے کہیں گے ۔ اس میں ہمار ا کیا قصور ہے ۔وَمَا اَضَلَّنَآ اِلَّا الْمُجْرِمُوْنَ ہمیں تو ان مجرموں نے ہی صحیح راستہ سے بھٹکایا ہے ۔ اگر یہ لوگ ہماری راہ میں روک بن کر کھڑے نہ ہوجاتے تو آج یہ ہمار ا حشر کیوں ہوتا ۔ یہ توہم سے کہا کرتے تھے کہ ہم تمہارے سب بوجھ اٹھائیں گے اور تمہیں جنت میں پہنچا دیں گے آج یہ حالت ہے کہ فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ وَلَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ۔نہ آج شفاعت کرنے والوں میں سے کوئی ہماری شفاعت کرتا ہے اور نہ کوئی دوست اور غمخوار ہمیں اس مصیبت سے چھڑاتاہے۔
حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ہماری ایک بہن تھی جو کسی پیر کی مرید تھی۔وہ ایک دفعہ قادیان مجھے ملنے کے لئے آئی ۔تو میں نے کہا بہن تم احمدی کیوں نہیں ہوتیں۔ وہ کہنے لگی مجھے احمدی بننے کی کیا ضرورت ہے ۔میں نے فلاں پیر صاحب کی بیعت کرلی ہے اور انہوں نے مجھے کہہ دیا ہے کہ اب تمہیں کسی نیکی کی ضرورت نہیں جو جی میں آئے کرو ۔ تمہارے سب گناہ ہم نے اٹھا لئے ۔ میں نے کہا۔ اب جب پیر صاحب نے ملو گی تو ان سے پوچھنا کہ قیامت کے دن جب ایک ایک شخص کو گناہوں کی وجہ سے جوتیا ں پڑنی ہیں تو کبھی آپ نے یہ بھی سوچاکہ آپ جنہوں نے اپنے سب مریدوں کے گناہ اٹھا لئے ہیں آپ کو کتنی جوتیا ں پڑیں گی ۔ اچھا میں یہ بات ان سے ضرور دریافت کروں گی ۔ چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد جب وہ دوبارہ آپ سے ملنے کے لئے آئی تو آپ نے پوچھا۔کہ بہن پیر صاحب سے وہ بات پوچھی تھی ۔وہ کہنے لگی ۔ ہاں میں نے پوچھی تھی مگر وہ تو انہوں نے فوراً حل کردی ۔ میں کہا کس طرح ؟ کہنے لگی ۔جب میں نے یہ سوال کیا تو پیر صاحب کہنے لگے ۔ دیکھو جب فرشتے تم سے پوچھیںکہ تم نے فلاں فلاں گناہ کیوں کئے توکہہ دینا کہ مجھے اس کا کچھ پتہ نہیں۔ یہ پیر صاحب کھڑے ہیں ان سے پوچھو ۔ اس پر وہ تمہیں چھوڑ دیں گے ۔ تم اطمینان سے جنت میں چلی جانا ۔ میں نے کہا۔ پیر صاحب! پھر آپ کا کیا بنیگا کہنے لگے ۔جب وہ مجھ سے پوچھیں گے تو میں اپنی لال لال آنکھیں نکال کر کہوں گا کہ بلا میں ہمارے نانا امام حسین ؓنے جو قربانی کی تھی کیا وہ کافی نہیں تھی کہ آج پھر ہمیں تنگ کیا جاتا ہے اور کہاجاتا ہے کہ بتائو تم نے کیا کیا ؟اس پر فرشتے شرمندہ ہوکر ایک طرف ہوجائیں گے اورہم ڈگر ڈگر کرتے ہوئے جنت میں چلے جائیں گے ۔
اس طرح دنیا میں روزانہ ہمیں یہ نظارہ نظرآتا ہے کہ لوگ اپنے دوستوں کی خاطر جھوٹ بولنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ وہ ان کیلئے ہر قسم کے دھوکا اور فریب اور جعلسازی سے کام لینے کے لئے تیا رہوجاتے ہیں اور خدا اور اس کے رسول کے احکام کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں ۔ مگر قیامت کے دن نہ کسی کی دوستی کام آئے گی اور نہ اپنے سروں پر گناہوںکا بوجھ اٹھا لینے کا وعدہ کرنے والے کسی کو جہنم سے بچا سکیں گے بلکہ انہیں حسرت اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ اگر ہم یہ طاقت ہوتی کہ ہم دوبارہ دنیا میں لوٹ کر جاسکتے تو ہم تلافی مافات کرنے کیلئے تیارہیں مگر اسوقت ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکے گی ۔ کیونکہ اس وقت عمل کا دروازہ بند ہوچکا ہوگا ۔ فرماتا ہے ۔ ابراہیمؑ کے اس واقعہ میں بھی ایک بہت بڑا نشان مخفی ہے کہ کس طرح ابراہیمؑ نے انتہائی کمزوری اور ضعف کی حالت میں بتوں کے خلاف آواز بلند کی ۔ کس طرح اس کی قوم نے مخالفت کی اور آخر اسے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا۔ مگر آخر ابراہیم ؑ ہی فاتح ہوا۔ اور بت اس کی قوم کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے ۔مگر اتنا بڑا نشان دیکھنے کے باوجود ابراہیم علیہ السلام کی قوم میں سے اکثر لوگ دینوی لذات میں ہی منہمک رہے۔ اور انہیں آپ پر ایمان لانے کی سعادت حاصل نہ ہوئی ۔لیکن فرماتا ہے۔ اِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمْ۔ تیرا رب یقینا بڑا غالب اور باربار رحم کرنے والا ہے۔ یعنی بے شک ابراہیم علیہ السلام کی قوم کی اکثریت اس پر ایمان نہیں لائی مگر تیرا رب بڑا غالب اور مہربان ہے وہ ایک دن تیری قوم کی اکثریت کو تجھ پر ایمان لانے کی سعادت عطا فرمادے گا ۔اور انہیں ایک لمبے عرصہ تک اپنے انعامات سے متمتع فرماتا چلا جائے گا ۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد ایسا ہی ہوا ۔ آپؐ کی ساری قوم آپ پر ایما ن لے آئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس ایمان کی برکت سے انہیں سینکڑوں سال تک اپنے انعامات سے نوازا ۔اور انہیں ایک لمبا دور حکومت عطا فرمایا ۔
کَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ الْمُرْسَلِیْنَ٭
نوح ؑ کی قوم نے (اپنے)رسولوں کا انکار کیا ۔
اِذْ قَالَ لَھُمْ اَخُوْھُمْ نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ٭
جب کہ ان سے انکے بھائی نوحؑ نے کہا ۔ کیا تم تقویٰ نہیںکرتے ؟
اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ٭
میں تمہاری طرف ایک امانت دار پیغامبر ہوکر آیا ہوں ۔
فَاتَّقُوْ االلّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ٭
پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔
وَمَا ٓ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۔ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ٭
اور میں اس (خدمت کے سلسلہ) میں کوئی اجر نہیں مانگتا ۔میرا بدلہ تو رب العالمین (خدا)کے ذمہ ہے ۔
فَاتَّقُوْ االلّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ٭
پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میر اطاعت کرو۔۲۰؎
۲۰؎ تفسیر:۔فرماتا ہے ۔ نوحؑ کی قوم نے بھی نوحؑ کی جو کہ اس وقت سب رسولوں کا قائم مقام تھا تکذیب کی ۔نوحؑ نے ان کو سمجھا یا مگر وہ نہ مانے اور یہ بھی بتایا کہ آخر میرے سمجھانے کی غرض کیا ہے۔ میں تم سے کچھ مانگتا تو نہیں۔میری امید اور میرا توکل تو صرف رب العالمین خدا پر ہے ۔ پس اللہ کا تقویٰ اختیا ر کرو اور میری اطاعت کرو۔
اَطِیْعُوْنَ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی اطاعت اور شریعت پر عمل جُدا جُدا چیزیں ہیں ۔ اہلِ قرآن کہا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف قرآن کی اطاعت کا حکم ہے ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم نہیں۔ مگر حضرت نوح علیہ السلام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ادنیٰ نبی تھے کہتے ہیں۔ وَاَطِیْعُوْنِ تم میری ذات کی اطاعت بھی کرو ۔ تب تمہارا تقویٰ مکمل ہوگا ۔ کیونکہ خدائی تعلق کا پہلا زینہ خدا تعالیٰ کے نبیوں سے تعلق پیدا کرنا ہوتا ہے جس طرح تمہارے لئے یہ ناممکن ہے کہ تم چھلانگ لگا کر چھت پر چڑھ سکو۔ اسی طرح تمہارے لئے یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف راہنمائی کرنے والے وجودوںکو چھوڑ کر تم خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرسکو مگر جس طرح کبھی کبھا ر ایسا بھی ہوتاہے کہ چھت پر بیٹھا ہوا انسان جب دیکھتا ہے کہ کسی پر شیر یا ڈاکو نے حملہ کردیا ہے تو وہ رسی گرا کر اس کو اوپر کھینچ لیتا ہے ۔اسی طرح کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ۔کہ خداتعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ کوئی شخص اس سے ملنے کی سچی تڑپ رکھتا ہے لیکن وہ ایسے ماحول میں ہے کہ اسے انبیاء کی راہنمائی میسر نہیں آسکتی تو وہ خود اس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ۔ مگر ایسا بہت شاذ ہوتا ہے اور شاذ پرکسی قانون کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی ۔ عام قانون یہی ہے کہ جو لوگ خدا نما لوگ ہوتے ہیں انہی کے ذریعہ انسان کو روحانی ترقی ملتی ہے اور اس ترقی کے حصول کا ایک ہی ذریعہ ہے انسان دینوی محبتوںکو سرد کرکے ان کی محبت کو اپنے اوپر غالب کرلے ۔ جب وہ انکی محبت کو غالب کرلیتا ہے تو انکی اطاعت کرنا اور ان کا نمونہ اختیارکرنا اس کیلئے آسان ہوجاتا ہے ۔ اس وقت وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی غیر ہے جس کی میں اقتداء کررہا ہوں ۔ بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ میر اباپ ہے اور اس کا خون میری رگوں میں دوڑ رہا ہے ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اسی نکتہ کی طرف اپنی قوم کو توجہ دلائی کہ اگر تم نجات حاصل کرنا چاہتے ہوتو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیارکرو۔ اور میری اطاعت کا جؤااپنی گردنوں پر رکھو کیونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے تمہاری ہدایت کیلئے مبعوث فرمایا ہے ۔
قَالُوْآ اَنُوْمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الْاَرْذَلُوْنَ٭
انہوں (یعنی کافروں) نے کہا کہ کیا ہم تجھ پر ایمان لائیں حالانکہ نہایت حقیر لوگ تیرے متبع ہوئے ہیں۔
قَالَ وَمَا عِلْمِیْ بِمَا کَانُوْایَعْمَلُوْنَ٭
اُ س نے کہا مجھے کہاں سے علم آیا ہے کہ ان کے اندر ونی اعمال کیسے ہیں۔
اِنْ حِسَابُھُمْ اِلَّا عَلٰی رَبِّیْ لَوْ تَشْعُرُوْنَ٭
ان کا حساب کرنا تو میرے رب کے ذمہ ہے ۔
وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الْمُوْمِنِیْنَ٭
اگر تم سمجھو ۔اور جو شخص مومن ہوکر میرے پاس آتا ہے میرا کام نہیں کہ میں اسے دھتکاروں ۔
اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ٭
میں تو صرف ایک کھلا کھلا ہوشیا ر کرنیوالا انسان ہوں۔ ۲۱؎
۲۱؎ تفسیر:۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء پر ہمیشہ یہ اعتراض ہوتا چلا آیا ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ہوا کہ اس کے ماننے والے تو ادنیٰ لوگ ہیں ہم اس کی بات کس طرح مان لیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کیا ہی اچھا جواب دیا کہ ہدایت کے قابل سمجھا تو ہدایت دے دی ۔ پس جب اس کے نزدیک ان کے عمل اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے سے ہیں تو میں ان کو کس طرح دھتکار سکتا ہوں ۔آخر ان کا حساب خداتعالیٰ ذمہ ہے ۔میرے ذمہ تونہیں ۔کاش تم عقل سے کام لو ۔اور جس کو خدا تعالیٰ مومن بنا دے ۔اس کی تحقیر نہ کرو ۔اور اگر تم تحقیر کروبھی تو میں بہر حال اسے دھتکار نہیں سکتا کیونکہ اس کو خدا نے میرے حوالہ کیا ہے ۔میرا کام تو یہ ہے کہ میں لوگوں کو بری باتوں سے روکوں ۔اس کے بعد جب خداتعالیٰ کسی کو ہدایت دے دے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ بری باتوں سے رک گیا ہے اور نہایت عزت والا انسان بن گیا ہے ۔اس کے بعد وہی معززہے تم لوگ معزز نہیں ۔اسلامی تاریخ میں اس کے متعلق ایک بڑا اچھا واقعہ آتا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ حج کے لئے تشریف لے گئے تو حج کے عید کے دن لوگ آپ کو ملنے کے لئے آئے ۔شروع میں مکہ کے رؤساء اور رئیسوں کے بیٹے آئے ۔اس کے بعد کچھ غلام آ ئے جو ابتدائے زمانہ میںاسلام لائے تھے۔اُن کے آنے پر حضرت عمر نے رؤساء کو پرے سرکنے کے لئے کہا اور اپنے پاس غلاموں کو بٹھا لیا ۔اس کے بعد کچھ اور نو مسلم غلام آئے۔حضرت ر نے ان کو پھر اپنے پاس بٹھا لیا ۔اور رؤساء کو پَرے سرکنے کا اشارہ کیا ۔اسی طرح متواتر ہوتا رہا۔آخر شر مندہ ہو کر رؤساء کے لڑکے اُٹھ کھڑے اور باہر جاکر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ دیکھ لیا آج تمہاری کتنی بے عزتی ہوئی ہے ۔اس پر ان میں ایک ہوشیار لڑکا بولا کہ اس میں قصور کس کا ہے ۔یہ غلام جن کو تم ذلیل سمجھتے ہو سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھے۔اور انہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی ترقی کے لئے خرچ کی دیں جبکہ تمہارے باپ دادا اسلامؔاور محمدؔرسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی دشمنی کررہے تھے۔اب اسلام کی حکومت آئی ہے تو عزت انہی کو ملے گی ۔ہم کو نہیں ملے ۔باقی ساتھیوں نے کہا ۔تو پھر اس کا علاج کیا ہے ۔اس ذہین لڑکے نے کہا ۔چلو اس کا علاج حضرت عمر ؓسے ہی پوچھیں چنانچہ وہ پھرجمع ہو کر حضرت عمرؓکے پاس گئے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھ کر بات سمجھ لی۔اور کہا۔اے نوجوانو۔مجھے معلوم ہے کہ تمہاری مکّہ میں کیا حیثیت ہے ۔مگر میں مجبور تھا۔یہ لوگ جن کو میں نے آگے بٹھایا ۔محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم بھی ان کو آگے بٹھایا کرتے تھے ۔اب میں ان کے درجہ میں فرق کس طرح کرسکتا تھا ۔ان نوجوانوں نے کہا ۔پھر اس کا کوئی علاج بھی ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ان کے خاندانوں کی عزت کو جانتے تھے اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے اپنا ہاتھ شمال کی طرف اونچا کردیا۔جس کا مطلب یہ تھا کہ اب شام میں عیسائیوں سے جنگ ہورہی ہے۔وہاں چلے جاؤاور اپنے باپ دادا کے گناہوں کا کفارہ اداکرو۔چنانچہ وہ نوجوان خاموشی سے اُٹھ کر چلے گئے اور اسی وقت اونٹوں یا گھوڑوں پر سوار ہوکر شام چلے گئے اور اسلامی لشکر میں مل گئے اور وہیں کفار سے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے ان میں سے کوئی بھی لوٹ کر نہ آیا۔
سو عزت وہی ہوتی ہے جو خدا دے مال و دولت سے عزت نہیں ملتی ۔کافروں کا نبیوں پر ایمان لانے والوں کو اس لئے ذلیل سمجھنا کہ وہ غریب ہیں اوں درجہ کی حماقت ہے جو نبی پر پہلے ایمان لاتے ہیں وہی سب سے زیادہ معزز ہوتے ہیں۔رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ابو بکرؓ۔علیؓ۔زیدؓایمان لائے ۔مکہ کے صنادید کی موجودگی میں ابوبکر ؓ کو مسلمانوں نے خلیفہ تسلیم کیا ۔جن پر ان کے باپ نے بھی تعجب کیا ۔مگر ابوجہلؔ۔عتبہؔ۔اور شیبہؔکی عزت توابو بکرؓاورعلیؓکی جوتیوں کے برابرا بھی نہیں ۔یہی بات حضرت نوح ؑنے اپنے مخالفین کے سامنے پیش کی اور کہا کہ وَمَا عِلْمِیْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔بیشک یہ تمہیں حقیر نظر آتے ہیں ۔ مگر مجھے کیا معلوم کہ ان کی وہ کونسی چُھپی نیکیاں تھیں جن کی وجہ سے خداتعالیٰ نے ان کو یہ شرف بخشا کہ انہوں نے اپنے زمانہ کے نبی کو قبول کرلیا۔ اور تمہاری وہ کون سی بداعمالیاں تھیں جو تمہارے راہ میں حائل ہوگئیں اورجنہوں نے تم سے نورِ بصیرت چھین لیا اور تم اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے سے محروم رہ گئے ۔ اور جب انکی نیکیوں کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ نے ان پر اتنا بڑا انعام نازل کیا ہے کہ انہیں ایک نبی کو ماننے کی سعادت حاصل ہوگئی ہے تو یہ لوگ ذلیل کس طرح ہوئے ۔ ذلیل تو وہ لوگ ہیں جن کی بداعمالیوں نے انہیں اللہ تعالیٰ کے مامور کی شناخت سے محروم کردیا ۔ پھر فرمایا اِنْ حِسَابُھُمْ اِلَّا عَلٰی رَبِّیْ لَوْ تَشْعُرُوْنَ۔ بیشک یہ آج غریب اور کنگال ہیں ۔ کوئی مال اور جائداد ان کے پاس نہیں مگر اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو کبھی ضائع نہیں کرے گا اور وہ ایک دن انہیںبہت بڑی ترقی عطا کرے گا۔ کاش تم شعور سے کام لیتے ۔ اور اس قسم کے بیہودہ عذرات سے کام لے کے خدائی ہدایت کو ٹھکرانے کے لئے تیا ر نہ ہوجاتے ۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اس مضمون کو مختلف مقامات میں مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے ۔ کسی جگہ تو فرمتا ہے کہ ہمارے مخالف شعور سے کام نہیں لیتے اور کسی جگہ فرماتا ہے کہ ہمارے مخالف علم سے کام نہیں لیتے ۔ شعور اس حِس کو کہتے ہیں جو انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور علم اس حِسّ کو کہتے ہیں جو باہر سے آتی ہے ۔ خواہ سن کر یا دیکھ کر یا چھو کر یا چکھ کر ۔ مثلاً ہم چلے جارہے ہوتے ہیں کہ ہمیں ایک جنگل نظر آتا ہے جسے دیکھ کر ہمارا علم بڑھتا ہے ۔ یہ علم باہر سے پیدا ہوتا ہے اندر سے نہیں ۔ یا کسی شخص کو کوئی چیز چکھ کر جس ذائقہ کا پتہ لگتا ہے وہ علم کہلاتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میںبعض دفعہ ہم بیٹھے بیٹھے محسوس کرتے ہیں کہ ہماری کیا ضرورتیں ہیں ۔ ہماری قوم کی کیا ضرورتیں ہیں۔ ہمارے بچوں کی کیا ضرورتیں ہیں۔ ہمارے خاندان کی کیا ضرورتیں ہیں۔ یہ چیز جب قدرتی طور پر آپ ہی آپ پید ا ہو تو اسے شعور کہتے ہیں ۔ گویا انسان جب ان جبلی طاقتوںکو جو اللہ تعالیٰ نے خو د اس کے اندر پیدا کی ہیں محسوس کرکے اپنے لئے ایک نیک راہ تجویز کرتا ہے ۔ تو اسے شعور کہتے ہیں اور جب محنت کرکے انسان جب یہ سوچتا ہے کہ فلاں چیز میرے لئے فائدہ مند ہے یا نہیںتو اس کام کا نام فکر ؔ ہوتاہے ۔ قرآن کریم نے اس کی طرف بھی بار بار توجہ دلائی ہے کیوں کہ یہ قوت بیرونی علم سے نتائج اخذ کرنے میں مدد دیتی ہے اسی کے ایک پہلو کا نام عقل بھی ہے۔ عقل اس قوت کو کہتے ہیں جو انسان کو علم ؔ ۔فکرؔ اور شعورؔ کے مطابق کا م کرنے کی توفیق بخشتی ہے ۔ عقل ؔ کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ انسان سوچتا اور فیصلہ کرتا ہے کہ یہ چیز میرے لئے مضر ہے یا مفید ۔ جب وہ فیصلہ کرے کہ فلاں چیز میرے لئے مضر ہے اور جب یہ حِسّ اسے بری چیز سے روک دے تو اسے عقل کہتے ہیں یعنی بدی کی طرف لیجانے والی چیز سے روکنے والی عقل ہے ۔اسی کی طرف قرآن کریم نے تفقّہ ؔ کے لفظ سے بھی توجہ دلائی ہے ۔ تفقّہؔ کے معنے ہوتے ہیں ۔ کسی چیز کی باریکی کو پا لینا ۔ فرماتا ہے تمہارے سامنے کئے چیزیںآتی ہیں ۔مگر تمہیں یہ نظر نہیں آتا کہ ان سے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یوں دیکھنے میں ایک مرغا ۔ ایک کتا اور ایک بلی انسان کے شریک ہیں پھر تمہارے دیکھنے اور انکے دیکھنے میں کیا فرق ہے ۔ وہ فرق یہی ہے کہ تم ایک چیز کو دیکھ کر نتیجہ نکال لیتے ہو ۔ لیکن مرغا اور بلی اور کتا اسے دیکھ کر کوئی نتیجہ نہیں نکال سکتا۔ بلی اور کتا اگر ایک درخت دیکھتے ہیں تو انہیں اتنا ہی نظر آتا ہے کہ ایک لمبا سا ڈنڈا کھڑا ہے ۔ لیکن انسان صرف یہی فیصلہ نہیں کرتا کہ یہ ایک درخت ہے بلکہ یہ بھی فیصلہ کرتاہے کہ اسے پھل کیا لگتا ہے ۔ کس موسم میں لگتا ہے اور کس موسم میں نہیں لگتا ۔وہ پھل غذا کے کام آتا ہے یا دوا کے کام آتا ہے یا اس درخت سے محض سائے کا کام لیا جاسکتا ہے۔لیکن بکری ان باتوں کو نہیں جانتی ۔گیدڑ اتنا ہی جانتا ہے کتّا اتنا ہی جانتا ہے کہ دھوپ لگے تو تو درخت کے سائے میں بیٹھ جاؤ لیکن انسان کسی درخت کو دیکھ کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کی لکڑی مضبوط ہے اور وہ اسے کاٹ کر دروازے بنا لیتا ہے ۔کسی کے متعلق سمجھتا ہے کہ یہ لکڑی بوجھ زیادہ اُٹھا سکتی ہے اور اس کے وہ شہتیر اور بالے بنا لیتا ہے ۔کسی کے متعلق سمجھتا ہے کہ اس کی لکڑی پانی کو زیادہ برداشت کرنے والی ہے اور وہ اس لکڑی کو ایسے مقامات پر استعمال کرتا ہے جہاں بارشیں زیادہ ہوں ۔کسی کے متعلق سمجھتا ہے کہ یہ محض جلانے کے کام آسکتی ہے چنانچہ وہ اس کا ایندھن بنا لیتا ہے یا اسے کوئلہ کے لئے استعمال کرتا ہے ۔غرض لکڑی وہی ہے ۔جانور بھی اس کو دیکھتا ہے اور انسان بھی اس کو دیکھتا ہے ۔انسان اس کے کئی کئی استعمال نکال لیتا ہے لیکن جانور آدمؑ کے وقت سے صرف سایہ کے نیچے بیٹھنا جانتاہے اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا ہے۔
پھر قرآن کریم نے ایک اور طرح بھی اس طرف توجہ دلائی ہے اور اس کا نام استنباط رکھا ہے ۔استنباط کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ مختلف واقعات کو لے کر انسان ان سے ایک نتیجہ نکالتاہے ۔گویا وہ اپنی قوتِ فکر سے ایک نئی چیز اُگاتا ہے ۔ایک شخص کو زیدؔنظر آتا ہے بکرؔ نظر آتا ہے عمر ؔنظر آتا ہے اور پھر وہ دیکھتا ہے کہ یہ سارے ایک پارٹی کے ہیں اور مختلف راستوں اور مختلف مقامات سے ایک جگہ جمع ہوئے ہیں۔تو وہ ان کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکال لیتا ہے کہ انہوں نے ضرور کوئی سکیم بنائی تھی جس کے ماتحت اکٹھے ہوئے ہیں ۔لیکن بکری اور کتا وغیرہ یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے وہ یہی دیکھیں گے کہ زیدؔآتا سے یا بکرؔ اور عمر ؔاور خالد ؔ آیا ہے ۔لیکن انسان یہ دیکھ کر ایک پار ٹی کے آدمی مختلف راستوں سے ایک مقام پر اکٹھے ہوئے سمجھ جاتا ہے کہ انہوں نے پہلے سے کوئی فیصلہ کیا ہؤا تھا۔یادشمن کاروئی کرتاہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ مجھے کس طرح اسے زک دینی چاہئیے ۔
غرض قرآن کریم نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ تم شعور سے کام لو ۔تم علم سے کام لو۔تم عقل سے کام لو۔تم تفقّہ سے کام لو۔تم استنباط کی قوت سے کام لو اور وہ بار بار دشمنوں کو توجہ دلاتا ہے کہ تمہیں کیا ہوا کہ تم شعور سے کام نہیں لیتے ۔تم علم سے کام نہیں لیتے ۔تم فکر سے کام نہیں لیتے ۔تم عقل سے کام نہیںلیتے ۔تم تفقّہ سے کام نہیں لیتے ۔تم استنباط سے کام نہیں لیتے۔چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دشمنوں میں یہی فرق بتایا ہے ۔فرماتاہے۔قُلْ ھٰذِہِ سَبِیْلِیْٓ اَْعُوْ ٓ ااِلَی اللہ ِعَلٰی بَصِیْرَۃٍاَنَا وَ مَنِ ا تَّبَعَنِْی (سورۃ یوسف آیت ۱۰۹)اے محمدرسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم تو اپنے مخالفوں سے کہہ دے کہ تمہارے اور میرے درمیان ایک ہی فرق ہے تم بھی ایک ہی عقیدہ پر ایمان رکھتے ہو اور میں بھی ایک ہی عقیدہ پر ایمان رکھتا ہوں۔کوئی کہہ سکتا ہے کہ جس طرح محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا ایک عقید ہ ہے اسی طرح ہمارا ایک عقیدہ ہے اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ السلام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے آپ کو سچّا کہیں تو ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے۔ہم کیوںیہ سمجھیں کہ جو جو بات محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں وہ ٹھیک ہے اور جو ان کے دشمن کہتے ہیں وہ غلط ہے۔بہر حال مکہ کا ایک آدمی کہہ سکتا تھا آپ جو کہتے ہیں کہ ہماری بات مانی جائے ۔اس کی وجہ کیا ہے اور کیوں ہم آپ کی باتوںکو تسلیم کریں ۔اس کے کئی جواب ہوسکتے تھے جن میں سے ایک جواب قرآن کریم نے دیا ہے کہ عَلٰی بَصِیْرَۃٍاَنَا وَ مَنِ ا تَّبَعَنِْی ۔تو مکہ والوں سے کہہ دے کہ تمہارے جھوٹے ہونے اور میرے سچے ہونے کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ میں اور میرے ساتھی ہر بات کو دلیل سے مانتے ہیں اور تم بے دلیل مانتے ہو۔تمہارا بلا دلیل ماننا بتاتا ہے کہ تم نے سوچا نہیں اور میرا بادلیل ماننا بتاتا ہے کہ میں نے سوچ کر مانا ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جو سوچ کر مانے گا وہ زیادہ حق پر ہوگا بہ نسبت اس شخص کے جو بلا سوچے سمجھے کسی بات کو تسلیم کرلیتا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ بلا سوچے سمجھے کسی حق بات کو ہی کیوں نہ مان لے۔کیونکہ کہ خواہ وہ حق پر ہو اللہ تعالیٰ اس سے یہ کہے گا کہ تمہیں کیونک پتہ لگا تھا کہ یہ سچ ہے تم نے تو بلا سوچے سمجھے ہی یہ بات مانی تھی ۔لیکن فرض کرو ۔ایک شخص غور کرکے ایک نتیجہ پر پہنچا ہو تو خواہ وہ غلط ہی ہو ۔لیکن چونکہ اس نے صحیح جدو جہد سے کام لیا ہو گا اللہ تعالیٰ کے حضور وہ ثواب کا مستحق ہوگا ۔کیونکہ اپنی طرف سے اس نے صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک شخص جو سوچ کر کوئی فیصلہ کرتا ہے تو خواہ وہ غلط ہی فیصلہ ہی دے تب بھی وہ ثواب کا مستحق ہوگا۔بیشک فیصلہ غلط ہو گا۔ لیکن اس نے سوچ کر اپنی طرف سے پورا زور لگانے کے بعد دیا ہوگا۔اس لئے خواہ وہ فیصلہ کرنے میں غلطی کرجائے۔ اللہ تعالیٰ اس کے متعلق یہی کہے گا کہ اس نے اپنا فرض کو ادا کردیا۔اس لئے وہ انعام کا مستحق ہو گا سزا کا نہیں۔اسی طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص جس پر حجّت تمام نہیں ہوتی وہ دوزخ میں نہیں ڈالاجائے گا ۔کیونکہ اس کے لئے موقع ہی نہیں تھا کہ وہ سوچتا اور غور کرتا۔اسی طرح آپ نے فرمایا کہ دیوانہ شخص دوزخ میں نہیں ڈالا جائے گا کیونکہ وہ معذور تھا اور سوچ نہیں سکتا تھا۔ اسی طرح آپ نے فرمایا کہ بچے جو چھوٹی عمر میں مرجائیں گے یا بڈھا جس کی عقل ماری گئی یا پہاڑوں پر رہنے والا شخص جس تک میری آواز نہیں پہنچی وہ دوزخ میں نہیں ڈالے جائیں گیااس لئے کہ ان کے لئے سوچنے کاموقعہ ہی نہیں تھا ۔پس سزا کا مستحق بھی وہی ہوتا ہے جسے سوچنے کا موقع ملے جو سوچ سمجھ کر کسی سچائی کو قبول کرے ۔رسمی اور آبائی مذ ہب یا رسمی اور آبائی طریقہ خداتعالیٰ کو خوش کر نے کا نہیں ہوسکتا چنانچہ ظاہری طور پر بھی ہمیں یہی قانون نظر آتا ہے۔رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو ۔آپ نے اپنی قو م کو یہی نصیحت کی کہ ہر بات پر غور کرنے کی عادت ڈالو۔اور صحابہ ؓکو بھی آپ یہی نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ سوچو اورسمجھو اور پھر کسی بات کو مانو ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علمی طور پر صحابہؓ کو اتنی فضیلت حاصل ہوگئی اُن کا ان ْپڑھ بھی لوگوں کے سامنے اس طرح دلائل دیتا کہ مخالفوں کے لئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا تھا کہ وہ ڈنڈے کے زور سے اپنی بات منوانے کی کوشش کریںکیونکہ وہ جانتے تھے کہ دلائل کے میدان میں ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔مثلاً شرک کی تعلیم ہے ۔ایک مکہ کا رہنے والا مشرک شرک کی یہ دلیل دیتا تھا کہ میرے ماں باپ نے ایسا کیا ہے ۔کیا وہ جھوٹے تھے۔کیا ان میں عقل نہیں تھی ۔کیا ان میں تمیز نہیں تھی ۔سیدھی بات یہ ہے کہ جب وہ کہیں گے کہ یہ لوگ ہمارے ماں باپ کو جاہل بتاتے ہیں تو نوجوانو ںکو جوش آجائے گااور وہ کہیں گے۔اچھایہ ہمارے ماں باپ کو جھوٹا کہتے ہیں اس طرح وہ مقابلہ کے لئے کھڑے ہو جائیں گے لیکن رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ دلیل دی جاتی تھی کہ تم غور کرکے دیکھ لو۔بتوںمیں کوئی بھی طاقت اور قوت ہے جب ان میں کوئی بھی طاقت نہیں توان کی پرستش کس لئے کی جاتی ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ مکھّی بھی اگر کھانا اُٹھاکر لے جائے تو یہ بُت اس سے چھین نہیں سکتے جب یہ اس قدر کمزور اوربے بس ہیں تو انہیں خدائی کا مقام دینا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔اب یہ ظاہر ہے کہ جو شخص دلیل سے کسی بات کو تسلیم کرے گا اس کا مقابلہ وہ شخص نہیں کرسکتا جو بلادلیل اور بلا سوچے سمجھے ماننے کا عادی ہو بے دلیل ماننے والا بہر حال کسی نہ کسی جگہ جا کر رہ جاتا ہے اسی لئے قرآن کریم میں بار بار آتا ہے کہ تفقّہ ؔسے کام لو عقلؔسے کام لو ۔فکرؔ سے کام لو۔شعورؔسے کام لو۔رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم بھی جب کسی پر خوش ہوتے تو اس کے لئے یہی دعا فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس کو سوچنے کی عادت ڈالے ۔حضرت ابنِ عباسؓکہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے اندر تشریف لے گئے ۔میں لوٹا بھر باہر کھڑا رہا ۔جب آپ اندر سے نکلے ۔تو میں نے آگے بڑھ کر پانی پیش کیا اور وضو کرایا ۔رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم میرے اس فعل سے بہت خوش ہوئے اور آپؐنے فرمایا اَلَّھُمَّ فَقِّھْہُ فِیْ ا لدِّیْنِ۔اے لوگو!تو اسے دین کو سوچنے اور مسائل میں غور کرنے کی توفیق بخش۔اور یہی اصل کام ہو تا ہے کہ انسان سوچے اور پھر کسی نتیجہ پر پہنچے ۔یونہی کسی بات کے پیچھے چل پڑنا اور غورو فکر سے کام نہ لیناانسان کو اس کے اعلیٰ مقام سے گرادیتا ہے ۔اسلام کی اسی تعلیم کا نتیجہ یہ تھا کہ مسلمان جہاں بھی جاتے لوگ حیران رہ جاتے کہ ان لوگوں کا بچہ بچہ علوم جانتا ہے اور بڑی بادلائل گفتگو کرتا ہے۔ اورپھر یہ سوچنے کا ہی نتیجہ تھا کہ ان کے ایمانوں میں تزلزل واقع نہیں ہوتا تھا ۔ کیونکہ وہ جو کچھ مانتے تھے ۔ سمجھ کر مانتے تھے سوچ کرمانتے تھے اور ساری تشریحات کو مدِ نظر رکھ کر مانتے تھے اور پھر یہی وجہ تھی کہ مسلمان جان دیتا تھا تو لوگ حیران رہ جاتے تھے کہ یہ کس دلیری اور جرأت کے ساتھ اپنی جان دے رہے ہیں ۔ ایک صحابیؓ کہتے ہیں کہ میرے ایمان لانے کی وجہ ہی یہی تھی کہ میں نے ایک مسلمان کو اس جرأت کے ساتھ جان دیتے دیکھا کہ میں حیران رہ گیا ۔واقعہ یہ ہوا کہ دشمنوں نے مسلمانوں کی ایک جماعت دھوکا سے گھیر لی ۔ اورپھر مزید دھوکا انہوں نے یہ دیا کہ انہوں نے ان گھیرے ہوئے مسلمانوں سے یہ کہا کہ اگر تم پہاڑی سے نیچے اتر آئو تو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے ۔جب وہ نیچے آئے تو انہوں نے حملہ کرکے اکثر کو شہید کردیا ۔ وہ شخص جس واقعہ کو دیکھنے کے بعد ایمان لایا وہ کہتاہے کہ میں کسی اور قبیلہ کا تھا ۔ لیکن ہم سمجھتے تھے کہ یہ مسلمان لوگ بے دین ہیںاورعربوں کے خلاف جذبات رکھتے ہیں ۔ اور چونکہ ہمارے کانوں میں یہ باربار باتیں ڈالی جاتی تھیں کہ مسلمان عربوں کے دشمن ہیں ۔ اس لئے میں بھی ان لوگوں کیساتھ آکر شامل ہوگیا۔اور مسلمانوں کا میں مقابلہ کیا اس وقت میں نے دیکھا کہ ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے ایک مسلمان کے سینہ میں نیزہ مارا۔ جوں ہی وہ نیزہ اس کے سینے سے پار گیا بے اختیار ا س کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ خدائے کعبہ کی قسم! آج میں نے اپنا مقصد پالیا ۔او ر یہ کہتے ہوئے وہ گرا او رشہید ہوگیا۔ میں نے یہ الفاظ سنے ۔ تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی ۔ میں نے اپنے دل میں کہا۔ یہ کیابات ہے ۔ کیا یہ شخص پاگل تھا کہ دشمن اسے نیزہ مارتا ہے ۔ اور نیزہ بھی ایسی حالت میں مارتا ہے جب یہ اپنے وطن سے سو ڈیڑھ سو میل کے فاصلہ پر ہے ۔ اس وقت بجائے اس کے کہ یہ کہے ہائے اماں ! بجائے اس کے کہ یہ کہے ہائے ابا! بجائے اس کے کہ یہ کہے ہائے میری بیوی! وہ کہتا ہے تویہ کہ خدائے کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ یہ کامیاب کہاں ہوا؟ یہ تو مرگیا تھا پھر اس نے یہ الفاظ کیوں کہے ۔ معلوم ہوتا ہے یہ شخص پاگل تھا ۔ یہ نہیں جانتا تھا کہ کامیابی کیا چیز ہے اور ناکامی کیا چیز؟ چنانچہ میں لڑائی کے بعد میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ کیا یہ کوئی پاگل تھا کہ جب اس پر حملہ کیا گیابجائے اس کے کہ یہ کسی تکلیف کا اظہار کرتا اس نے کہا تو یہ کہ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا ۔وہ کہنے لگا۔مسلمان ایسے ہی ہوتے ہیں۔ وہ مرنے میں کامیابی سمجھتے ہیں ۔ جب اس نے یہ بات کہی تو میرے دل پر اس کا گہرا اثر ہو ا اور میں نے کہا ۔ تب ضرور کوئی بات ہے ورنہ اس طرح جان دینے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوسکتا ۔ چنانچہ ایک میں چوری چھپے مدینہ گیا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں ۔تو میرا دل کھل گیا اور میں نے سمجھا کہ اصل میں یہی سچائی ہے۔ تب میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ مسلمان کیوں جان دیتا ہے۔ مسلمان اس لئے جان دیتا ہے کہ اسے روشنی نظرآجاتی ہے ۔ اور جسے روشنی نظر آجائے اس کا مقابلہ وہ شخص کہاں کرسکتا ہے جسے تاریکی ہی تاریکی دکھائی دے ۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کریم نے باربار مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ تم سوچو اور سمجھو ۔ درحقیقت بغیر اس کے ہمیں کسی دوسری قوم پر فضیلت حاصل نہیں ہوسکتی اگر ہم خالی کہیں کہ تم قرآن مانو۔ اور مسلمان بنوتو ہندو کہیں گے ہندو بنو اور وید پڑھو۔ سکھ کہیں گے سکھ بنو اور گرنتھ پڑھو ۔ عیسائی کہیں گے عیسائی بنو اور انجیل پڑھو ۔ پھر ہم اور ان میں کیا فرق رہا۔ صرف ایک ہی فرق ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ ہم سوچ کر مانیں اور سمجھ کر مانیں جب ہم ہر بات کو سوچ اور سمجھ کرمانیں ۔ جب ہم ہر بات کو سوچ کر اور سمجھ کر ماننے کے عادی ہوجائیں گے تو سچی کتاب والا اپنی کتاب پر زیادہ سے زیاد ہ مضبوط ہوتا چلا جائے گااور غلط تعلیم والا زیادہ سے زیادہ اپنی مذہبی تعلیم سے متنفر ہوتا چلا جائے گا ۔ مثلاً ہم قرآن کریم پر غور کریں گے اور اس کی تعلیموں کو سوچیں گے کہ زیادہ سے زیادہ اس میں سے دلائل نکلتے چلے آئیں گے اور ہمار ا ایمان زیادہ سے زیادہ مضبوط ہوتا چلا جائے گا ۔ لیکن ایک عیسائی عیسائیت پر جتنا بھی غور کرے گا اس کا ایمان کمزور ہوتا چلا جائے گا ۔ ایک یہودی جتنا جتناتورات پر غو ر کرے گا کیونکہ وہ محرف و مبدل ہو چکی ہے اس لئے اتنا ہی اس سے بدظن ہوتا چلا جائے گا ۔اسی طرح جتنا جتنا کوئی ویدوں پر غور کرے گا اتنا ہی وہ ویدوں سے بدظن ہوتا چلا جائے گا ۔ گویا غوراور فکر کا یہ نتیجہ ہوگا کہ مسلمان اپنے ایمان میں مضبوط ہوتا چلا جائے گا اورہندو اور عیسائی اور موسائی اپنے ایمان میں متزلزل اور کمزور ہوتے چلے جائیں گے ۔ پس سوچنا اور سمجھنا مذہب کو مضبوط کرتا اور ایمان کو تقویت دیتا ہے ۔ دنیوی لحاظ سے بھی غور کرکے دیکھ لو ابتدائے اسلا م میں مسلمانوں نے سوچا اور علوم پر غور کیا تو وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔ آخر مسلمانوں سے پہلے عربی زبان موجود تھی ۔ بلکہ عربوں کی یہ مادری زبان تھی مسلمانوں سے پہلے تاریخ موجود تھی لیکن باوجود اس کے انہوں نے اسلام سے پہلے کوئی بھی حرکت نہیں کی ۔ لیکن اسلام کے بعد ان میں ایسی تبدیلی پیدا ہوگئی کہ انہوں نے عربی مدوّن کی ۔لغتیں لکھیں۔ زبان عربی کے اصول اور قوائد وضع کئے ۔ صرف و ناحو کے اصول تجویز کئے ۔ فقہ کے اصو ل تجویز کئے ۔تاریخ کے اصول مدوّن کئے ۔ یہ فرق آخر کیوں ہوا؟ اسی لئے کہ مسلمانوں کو تعلیم دی گئی تھی کہ ہربات پر سوچو اور غور کرو۔ جب انہوں نے سوچا تو ہر میدان میں آگے نکل گئے ۔ اور ان میں بڑے بڑے نحوی ۔ بڑے بڑے صرفی ۔بڑے بڑے قاضی۔ بڑے بڑے مؤرخ اور بڑے بڑے جرنیل نظر آنے لگے ۔ لیکن جب مسلمانوں نے سوچنا ترک کردیا اور یورپ نے سوچنا شروع کیا ۔ تو مسلمان گر گئے اور یورپ کے لوگ کہیں سے کہیں نکل گئے ۔
مسلمان جب ایک زندہ قوم تھے۔ وہ ہر چیز میں غور وفکر کرنے کے عادی تھے ۔ اور اس چیز نے ان کے دماغوں کو ایسا روشن کردیا تھا کہ وہ بڑے بڑے جھگڑے نہایت خوش اسلوبی سے طے کرلیا کرتے تھے ۔یورپ میں بچوں کو جوریڈرز پڑھائی جاتی ہیں ان میں ابن ابی لیلیٰ کا ایک واقعہ آتاہے ۔ یہ حضرت عمر ؓ کے زمانے کے ایک مسلمان جج تھے ۔ انہوں نے قضا میں جس طرح ترقی کی اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ ان کے پاس دوشخص لڑتے ہوئے آئے ۔ ان میں سے ایک تیلی تھا ۔ا ور دوسر ا قصائی ۔ جھگڑا یہ تھا کہ کچھ روپوں کے متعلق ان میں سے ایک کہتا تھا کہ یہ میرے روپے ہیں ۔ اور دوسرا کہتا تھا کہ یہ میرے روپے ہیں ۔ آخر انہوں نے اس کے فیصلہ کی ایک راہ نکالی ۔ غور کرو وہ کتنی باریک بات تھی جو انہوں نے سوچی ۔ انہوں نے سوچا کہ ان میں سے ایک قصائی ہے اور ایک تیلی۔ ان دونوں کے پاس کہیں سے اکٹھی دولت نہیں آسکتی ۔یہی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے روپیہ روپیہ لے جمع کیا ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ روپے کس کے ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے پانی منگوایا اور اسے گرم کروایا۔پھر وہ روپے اس پانی میں ڈال دیئے ۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ پانی پر کیا چیز آتی ہے۔ اگر تیل آیا تو روپے تیلی کے ہوں گے اگر چربی آ گئی تو روپے قصاب کے ہوں گے ۔چنانچہ جو نشان آیا ۔اس کے مطابق انہوں نے فیصلہ کردیا ۔ یہ سوچنے کا نتیجہ تھا کہ ان کے دماغ نے فوراً ایک راہ نکال لی اور اس کے مطابق انہوں نے اس جھگڑے کا فیصلہ کردیا ۔ اس قسم کے ان کے اور بھی بہت سے فیصلے مشہور ہیں اور وہ آج تک یورپ کی ریڈرز میں بچوںکو پڑھائے جاتے ہیں ۔اور انہیں سگیسش قاضی یعنی عقلمند قاضی کہا جاتا ہے ۔ کیوں وہ بہت جلد فیصلہ کردیتے تھے او ر فیصلہ نہایت صائب ہوتا تھا۔ مگر اس کیوجہ کیا تھی؟ وجہ یہی تھی کہ انہیں سوچنے اور غور کرنے کی عادت تھی ۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں کوفہ کے لوگ باربار شرارتیں کرتے تھے اور جو بھی گورنر مقرر ہوکر آتا اس کی شکایتیں کرنی شروع کردیتے اور آخر اسے بدلوا دیتے حضرت عمرؓ سے ایک دفعہ بعض لوگوں نے کہا کہ آپ کوفہ کے گورنر کو باربار کیوں بدلتے ہیں ۔ ان لوگوں کی تو عادت ہی یہی ہے کہ جو شخص بھی ان کا گورنر بن کرجائے اس کی شکایتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جب تک یہ لوگ گورنر بدلنے کیلئے کہتے چلے جائیں گے میں بھی بدلتا چلا جائوں گا تاکہ ان کا کوئی عذر باقی نہ رہے ۔ آخر جب انکی شکایتیں بہت بڑھ گئیں تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اب کی دفعہ میں ایک ایسا آدمی بھیجوں گا جس کے متعلق مجال نہیں کہ کوفہ والے اُف بھی کرسکیں۔چنانچہ انہوں نے ابن ؔ ابی لیلیٰ کو وہاں کا گورنر مقرر کر کے بھیجا ۔اس وقت ان کی عمر ۱۹سال کی تھی۔ کوفہ والوں کو جب پتہ لگا کہ اب ایک ایسا نوجوان ہمارا گورنر بنکرآیا ہے جس کی عمر صرف۱۹سال ہے تو وہ بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے سوچا کہ اب ہم اس کا خوب مذاق اڑائیں گے اور اسے اچھی طرح شرمندہ اور ذلیل کریں گے ۔جب ان کے آنے کی وہاں اطلاع پہنچی تو انہوں نے بڑے بڑے آدمیوں کو اکٹھا کیا اور تجویز یہ کی کہ بوڑھو ں اور بڑی عمر والوں کا ایک وفد بنایا جائے ۔ جو شہر سے باہر نکل کر گورنر کا استقبال کرے۔ اس وفد کے ساتھ عام لوگوں کا ایک بھاری ہجوم ہو۔ تمام شہر میں جلوس نکالا جائے اور جب گورنر صاحب تشریف لائیں تو تمسخر کے طور پر ان سے پوچھا جائے کہ جناب کی عمر کیا ہے ؟ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ بڑے بڑے بڈھے اور آزمودہ کار اورشہر کے رئیس ایک وفد کی صورت میں جمع ہوئے ۔ ان کے ساتھ شہر کے ہزاروں آدمی ایک جلو س کی صور ت میں باہر نکلے تاکہ وہ ابن ؔ ابی لیلیٰ کا استقبال کریں ۔ جب وہ قریب پہنچے تو ا یک بہت بڈھا آدمی جس کو انہوں نے سکھایا ہوا تھا آگے بڑھا اور اس نے کہا۔حضور آپ کی عمر کیا ہے ؟ان کا کیا تھاکہ وہ جواب میں کہیں گے کہ ۱۹سال اور اس پر سب لوگ ہنس پڑیں گے ۔ کہ ۱۹سال کا نوجوان کوفہ جیسے شہر میں گورنر بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ مگر ان کو سوچنے کی عادت تھی او ر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو غور کرنے کا ایسا عادی بنا دیا تھا کہ کہ ان کی نگاہ حقیقت تک فوراً پہنچ جاتی تھی ۔ جب انہوں نے کہا۔ حضور آپ کی عمر ؟ تو وہ فوراً تاڑ گئے کہ ان کی غرض سوال کرنا نہیں بلکہ تمسخر اور استہزاء کرنا ہے چنانچہ انہوں نے جواب میں یہ نہیں کہا کہ میری عمر ۱۹سال ہے ۔بلکہ کہا۔ جناب والا!جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ ؔبن زیدؓ کو شام کی فوج کا افسر بناکر بھیجا تھا ۔ جس میں ابوبکرؓاور عمرؓجیسے انسان بھی شامل تھے تو جو عمر اس وقت اسامہ کی تھی اس سے ایک سال میں بڑ اہوں ۔ جب اسامہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کی فوج کا افسر بنا کر بھیجا ہے اس وقت ان کی عمر ۱۸سال کی تھی ۔ یہ جواب سن کرانہوں نے فیصلہ کرلیا ۔ کہ جب تک یہ شخص یہاں رہے اس وقت تک کوئی شرارت نہیں کرنی ۔چنانچہ انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک قضاکی۔مگر پھر کسی نے انکے تبادلہ کی درخواست نہیں کی ۔ توانسان کو ہمیشہ سوچنے اور صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اپنے مقام سے گر جاتا ہے ۔اب کُجا تو یہ حالت تھی کہ مسلمان ہر علم میں ترقی کررہے تھے اور کُجا یہ حالت ہے کہ جب انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ جو ہوناتھا وہ ہوچکا اب علوم میں ترقی نہیں ہوسکتی تو وہ گر گئے ۔اورایسے گرے کہ اب دنیا کی علمی دوڑ میں غیر مذاہب کے لوگ تو آگے ہیں اور مسلمان پیچھے ہیں ۔ اس کے مقابل میں یورپ نے کہا کہ اگر پہلوں نے ترقی کی تھی تو ہم کیوں نہیں ترقی کرسکتے ۔ہم بھی سوچیں گے اور غورکریں گے اور اس طمع اپنی ترقی کے لے نئے سے نئے راستے نکالیں گے چنانچہ انکے سوچنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے کئی قسم کی ایجادیں کرلیں۔ مثلاً وہ ریل جس میں تمام دنیا سفر کرتی ہے ۔ یہ کس چیز کا نتیجہ ہے۔ یہ سوچنے اور غورکرنے کا ہی نتیجہ ہے ریل کے موجد نے لکھا کہ ہنڈیا کو جب چولہے پر چڑھا یا جاتا ہے تو اس کاڈھکنا سٹیم کے زور سے اُچھلتا ہے اس پر غور کرکے اس کا دماغ اس طرف چلا گیا کہ سٹیم میں بہت بڑی طاقت ہے ۔ اگر سٹیم کو بند رکھا جائے اور ہنڈیا کے نیچے پہیئے لگا دیئے جائیں تو وہ دوڑنے لگ جائے گی ۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا ۔ہنڈیا کے نیچے پہیئے لگائے سٹیم کو بند کیا اور دوڑنے لگ گئی ۔اسی پر قیا س کرکے اس نے ریل تیا رکرلی۔ اب کون یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے ہنڈیا میں سے کبھی سٹیم نکلتے نہیں دیکھی گھروں میں روزانہ عورتیں کھانا پکاتی ہیں اور مرد روزانہ دیکھتے ہیں کہ سٹیم کے زور سے ہنڈیا کا ڈھکنا اچھل رہا ہے۔ مگر ان کا ذہن کبھی اس طر ف مائل نہیں ہوتا کہ وہ اس پر غور کریں اور سوچیں کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے ۔ ریل کے موجد نے اسے دیکھا اور اس نے سوچ کر اس نے ایک ایسی چیز بنا لی جس سے آج ساری دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے ۔اسی طرح اور کئی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جن سے کچھ کا کچھ نتیجہ نکل جاتا ہے کولمبسؔ کو دیکھو ۔ اس نے مسلمانوں سے یہ سنا ہوا تھا کہ زمین گول ہے ۔ حالانکہ علمِ ہیئت کی ترقی اس وقت اتنی نہیں ہوئی تھی۔دراصل مسلمانوں نے چاند گرھن پر غور کرکے یہ نتیجہ نکال لیا تھا کہ زمین چپٹی نہیں بلکہ گول ہے ۔کیونکہ چاند گرہن کے وقت اس پر ایک گو ل نشان ہوتا ہے ۔ اس نشان سے مسلمانوں نے یہ نتیجہ اخذکیا کہ زمین گول ہے ۔ جب کولمبسؔ نے یہ سُنا کہ مسلمانوں کے علماء کا یہ خیال ہے کہ زمین گول ہے توا س نے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر زمین گول ہے تو میں سپین سے چلو ں گا اور ہندوستا ن پہنچ جائوں گا ۔چنانچہ اس نے پہلے بادشاہ اور پھر ملکہ کو تحریک کی کہ وہ اس کی امداد کریں ۔ اور آخر وہ ہندوستان تو نہ پہنچا لیکن ہندوستان سے ایک زیادہ طاقتور ملک امریکہ اُسے مل گیا ۔ یہ نتیجہ کس بات کا تھا ؟اس بات کا کہ مسلمانوں کو سوچنے اورغور کرنے کی عادت تھی ۔ انہوں نے پہلے سوچا کہ چاند گرہن کیوں لگتا ہے اور پھر انہوں نے سوچا کہ یہ نتیجہ نکالا کہ چاند گرہن اس لئے لگتاہے کہ سورج اور چاند کے درمیان زمین آجاتی ہے ۔پھر انہوں نے سوچا کہ گرہن کے وقت چاند پر گول نشان کیوں ہوتاہے ؟اس کا جواب اس کے دماغ نے یہ دیا کہ یہ گول نشان زمین کا ہے ۔ اور یہ گول نشان ثابت کرتاہے کہ زمین چپٹی نہیں بلکہ گول ہے اور جب مسلمان علماء نے کہا کہ زمین گول ہے۔تو یہ کولمبسؔ نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ جب میں سپین سے چلوںگا تو ساری دنیا کے گر دچکر لگالوں گا ۔ چنانچہ گول چیز کے گرد چکر لگایا جاسکتا ہے ۔چپٹی ہوتو کنارہ پر آکر قدم رک جاتاہے ۔ غرض چھوٹی چھوٹی چیزو ں پر غور کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک نیا ملک دریافت ہوگیا۔ اتنا بڑ املک کہ آج ساری دنیا امن کیلئے اس کی طرف دیکھ رہی ہے آج ساری دنیا یہ سمجھتی ہے کہ ہماری حفاظت کا ذریعہ ہی یہی ہے کہ یونئیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی مدد ہمارے ساتھ ہو۔ یہ عظیم الشان نتیجہ آخر کس طرح نکلا؟ اسی طرح کہ پہلے مسلمانوں نے چاند گرہن پر غور کیا پھر چاند گرہن سے یہ نتیجہ نکالا کہ زمین گول ہے اور کولمبسؔ نے زمین کے گول ہونے سے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر وہ گول ہے تو میں ساری دنیا کے گرد چکر لگا لوں گا ۔ چنانچہ وہ چلا اور اس نے ایک نئی زمین دریافت کرلی جو اب اتنا بڑ املک بن گیا ہے کہ ساری دنیا کی راہنمائی کررہا ہے اگر مسلمان چاند کودیکھتے رہتے جس طرح پہلے دیکھا کرتے تھے ۔ اگر مسلمان اس بات پر غور نہ کرتے کہ اس پر گرہن کے وقت گول دائرہ کیوں بن جاتا ہے ۔اگر کولمبسؔ یہ نہ سوچتا کہ زمین کے گول ہونے سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ ساری دنیا کا چکر لگایا جاسکتا ہے تو نہ امریکہ دریافت ہوتا ۔ نہ موٹرکاریں ہوتیں نہ ہوائی جہاز نکلتے نہ بجلی ایجاد ہوتی نہ اتنی عظیم الشان طاقت دنیا پر رونما ہوتی کہ جس کے پیچھے آج انگریز اور فرانس بھی چلنے پر مجبورہیں۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں جتنی ایجادات ہیں وہ ساری کی ساری بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں پر غور کرنے کا نتیجہ ہیں۔ ایڈیسنؔ جس نے فونو گراف اوربجلی وغیرہ کئی چیزیں ایجاد کی ہیں میں نے اس کی سوانح عمری پڑھی ہے ۔ وہ لکھتا ہے کہ میں نے جس قدر ایجاد یں کی ہیں یہ سب کی سب بعض چھوٹے چھوٹے مسائل پر غور کرنے کا نتیجہ ہیں ۔ پس سوچنا اور غور کرنا قومی ترقی کیلئے ایک نہایت ہی ضروری چیز ہے ۔جو تو میں بلا سوچے سمجھے صرف نعرے لگانا جانتی ہیں وہ کوئی کام نہیں کرسکتیں ۔ وہ نعروں سے اس وقت کی فضا کو مشوّش کرسکتی ہیں ۔ وہ نعروں سے کمزور بچوں کو ڈرا سکتی ہیں۔ وہ نعروں سے کمزور عورتوں کے دلو ں کو دہلا سکتی ہیں۔لیکن اگر وہ کوئی حقیقی کام کرسکتی ہیں تو صرف سوچ بچار سے اور صحیح نتائج کو اخذ کر کے ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو شعور کی طرف توجہ دلائی ۔ اور فرمایا کہ کاش اس قسم کے لغو اعتراضات کرنے کی بجائے تم حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور وہ مخفی حِسّ جو انسان کوا س کے اندرونی قویٰ کا علم دیتی ہے اس جس کے نتیجہ میں فطرتِ صحیحہ بید ا ہوتی ہے اس سے کام لیتے ہوئے تم دوسروں پر اعتراض کرنے کی بجائے اپنے نفس پرغور کرتے کہ اس میں کیا کیا خامیاں ہیں اور بُرے بھلے کی تمیز کرنے کی طاقت پیدا کرتے ۔
قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ یٰنُوْحُ لَنَکُوْ نَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِیْنَ٭
انہوں (یعنی کافروں) نے کہا۔ اے نوحؑ ! اگر تو باز نہ آیا تو تُو سنگساروں میںشامل ہوجائے گا (یعنی ہم تجھے سنگسار کردیںگے )۔
قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ کَذَّبُوْنِ٭
اس پر اُ س (یعنی نوحؑ ) نے کہا ۔اے میرے رب! میری قوم نے مجھے جھٹلادیا ہے ۔
فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَھُمْ فَتْحًا وَّنَجِّنِیْ وَمَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ٭
پس تو میرے اور ان کے درمیان ایک قطعی فیصلہ کر اور مجھے اور میرے ساتھی مومنوں کو (دشمن کے ) شر سے بچالے۔
فَاَ نْجَیْنٰہُ وَمَنْ مَّعَہٗ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ٭
پس ہم نے اس کو اور جو اس کیساتھ ایمان لائے تھے ایک بھری ہوئی کشتی کے ذریعہ (شر سے)بچالیا۔
ثُمَّ اَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبٰقِیْنَ٭
پھر اس کے بعد جو باقی لوگ تھے ان کو غرق کردیا ۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ۔ وَمَا کَانَ اَکْثَرَھُمْ مُّوْمِنِیْنَ٭
اس پر ایک بہت بڑا نشان تھا مگر ان (یعنی کافروں) میں سے اکثر ایمان لانے پر آمادہ نہیں تھے۔
وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ٭
اورتیر ا رب ہی غالب (اور) باربار رحم کرنے والا ہے ۔ ۲۲؎
۲۲؎ حل لغات :۔ اَلْمَرْجُوْمِیْنَ ۔ اَلْمَرْجُوْمُ سے جمع کا صیغہ ہے ۔ اور رَجَمَ سے اسم مفعول ہے ۔ اور رَجَمَہٗ کے معنے ہیں۔ رَمَا ہُ بِالْحِجَارَۃِ۔ اس کو پتھر مارے۔ قَتَلَہٗ ۔اس کو قتل کیا۔ قَذَفَہٗ ۔اس پر الزام لگایا۔لَعَنَہٗ ۔ اُس پر *** کی۔ شَتَمَہٗ ۔ اس کو گالی دی ۔ھَجْرَہٗ۔ اُس کو جدا کردیا طَرَدَہٗ ۔ اس کو دھتکاردیا (اقرب)
اَلْمَشْحُوْنَ: شَحَنَ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ اور شَحَنَ السَّفِیْنَۃَ کے معنے ہیں مَلَأَ ھَا کشتی کو بھردیا (اقرب) پس اَلْمَشْحُوْنُ کے معنے ہونگے ۔ بھری ہوئی ۔
تفسیر:۔ حضرت نوح علیہ السلام کے مخالفین نے جب دیکھا کہ وہ دلائل سے نوحؑ کو مغلوب نہیں کرسکتے تو انہوں نے کہا کہ اب تو ہمارے پاس ایک ہی علاج ہے ۔ اگر تم اپنی ان باتوں سے باز نہ آئے تو ہم تجھے پتھر مار مار کر ہلاک کردیں گے ۔ آخر حضرت نوح علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حضور جُھکے اور انہوں نے کہا کہ اے میرے رب ! میری قوم نے تو مجھے جھٹلا دیا ہے ۔اب تو ہی میرے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما۔ اور مجھے اور میرے ساتھیوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھ ۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کو سُنا اور اس نے کہا بھری ہوئی کشتی کے ذریعہ انہیں اپنے دشمنوں کے شر سے بچا لیا ۔اور جو باقی لوگ رہ گئے ۔ ان کو طوفان میں غرق کردیا۔ اس واقعہ میں بھی خداتعالیٰ کی عظمت اور اس کی طاقت کا بڑ ابھاری نشان ہے ۔ مگر پھر بھی ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہ لائے ۔ لیکن ان کے ایمان نہ لانے کے باوجود تیرے رب کا عزیز اور رحیم ہونا ثابت ہوگیا ۔ نوحؑ نے اپنے دشمنوں پر غالب آگیا ۔ اور نوحؑ کے حقیر سمجھے جانے والے ساتھی دنیا کے سردار بن گئے ۔
اس جگہ نوحؑ کی کشتی کے متعلق اَلجمَشْحُوْن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنے بھری ہوئی کشتی کے ہیں مگر ظاہر ہے کہ اگر کشتی پہلے ہی بھری ہوئی ہوتو اورلوگ اس میںسوار نہیں ہوسکتے ۔پھر بھری ہوئی کشتی میں نوحؑ کے ساتھی کس طرح بیٹھ سکتے تھے ؟درحقیقت عربی زبان میں بعض دفعہ کسی چیز کو اس پر بعد میں وارد ہونے والی ہو۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فَلَہٗ سَلْبُہٗ یعنی جو شخص جہاد میں کسی مقتول کو قتل کردے اس کا مال و اسباب قتل کرنے والے کوہی ملے گا ۔ اس حدیث میںآپ نے دوسرے کے متعلق قَتِل کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ حالانکہ وہ بھی زندہ ہوتا ہے ۔ اسی طرح چونکہ وہ کشتی حضرت نوحؑ اور ان کی جماعت کے افراد سے بھرجانے والی تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے کہہ دیاکہ ہم نے انہیں ایک بھری ہوئی کشتی کے ذریعہ نجات دی ۔
کَذَّبَتْ عَادُ الْمُرْسَلِیْنَ٭
(اسی طرح)عادؔ نے بھی رسولوں کا انکار کیا ۔
اِذْ قَالَ لَھُمْ اَخُوْھُمْ ھُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ٭
جب کہ ان سے ان کے بھائی ہود ؑ نے کہا ۔ کیا تم تقویٰ نہیں کرتے ۔
اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ٭
میں تمہاری طرف ایک امانت دار پیغامبر ہوکر آیا ہوں۔
فَاتَّقُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ٭
پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میر ی اطاعت کرو۔
وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۔اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا علٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ٭
اور میں تم سے اس (خدمت) پر کوئی بدلہ نہیں مانگتا میرا بدلہ صرف رب العالمین خد اکے ذمہ ہے (جس نے مجھے بھیجاہے)۔ ۲۳؎
۲۳؎ تفسیر:۔ان آیات میں حضرت ہودؑ کو پھرتمام رسولوں کا قائم مقام بتایا گیا ۔ اور رسول کی جگہ مرسلینؔ کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا کیونکہ ایک رسول کا انکار درحقیقت تمام رسولوں کا انکار ہوتاہے ۔ فرماتا ہے۔جس طرح نوحؑ کو اس کی قوم نے جھٹلایا تھا۔ اسی طرح ہود ؑکوبھی اس کی قوم عاد نے جھٹلایا۔ حالانکہ اس زمانہ میں بھی ہم نے یہی حکم دیا تھا ۔ کہ علاوہ کلامِ الٰہی کی اطاعت کے خود ہودؑ کی اطاعت بھی ضرور ی ہے جس کی طرف اَطِیْعُونِ میں اشارہ کیا گیا ہے ۔
اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْعٍ اٰیَۃً تَعْبَثُوْنَ٭
کیاتم ہر ٹیلہ پر فضول کام کرتے ہوئے عمارت بناتے ہو۔
وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوْنَ٭
اور تم بڑے بڑے محل بنات ہو تاکہ تم ہمیشہ قائم رہو۔
وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ٭
اورجب تم کسی کو پکڑے ہو تو ظالموں کی طرح پکڑتے ہو۔
فَاتَّقُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ٭
پس(اللہ تعالیٰ) کا تقویٰ اختیار کرو اور میر ی اطاعت کرو۔
وَاتَّقُواالَّذِیْٓ اَمَدَّکُمْ بِمَاتَعْلَمُوْنَ٭
پھر میں کہتا ہوں کہ اس (ذات) کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہاری ان چیزوں سے مدد کی ہے جن کو تم جانتے ہو۔
اَمَدَّکُمْ بِاَنْعَامٍ وَّبَنِیْنَ٭
اس نے تمہاری مدد کی ہے چارپائے اوربیٹے ۔
وَجَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ٭
اور باغ اور چشمے دے کر ۔
اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ٭
میں تم پر ایک بڑے دن کا عذاب نازل ہونے سے ڈرتا ہوں۔۲۴؎
۲۴؎ حل لغات:۔ رِیْعٌ : اَلرِّیعُ کے معنے ہیں اَلتِّلُّ الْعَالِیْ ۔ اونچا ٹیلہ۔ اَلطّرِیْقُ الْمُنْعَرِجُ فِی الْجَبَلِ۔ پہاڑ میں چڑھائی کا وہ راستہ جو چکر کھا کر جاتاہو۔ اَلْجَبَلُ الْمُوْتَفِعُ ۔ بلند پہاڑ ۔ وَقِیْلَ مَسِیْلُ الْوَادِیْ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ مُرْتَفِعٍ۔ اور بعض ائمہ لُغت کہتے ہیں کہ ریع ہر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں اونچی جگہ سے پانی آئے اور بہہ جائے (اقرب)
تَعْبَثُوْنَ:عَبَثَ سے فعل مضارع مخاطب جمع کا صیغہ ہے ۔ اور اَلْعَبَثُ (جو عَبَثَ کا مصدر ہے ) کے معنے ہیں۔ اِرْتِکَابُ اَمْرٍ غَیْرُ مَعْلُوْمِ الْفَائِدَۃِ اَوْلَیْسَ فِیْہِ غَرْضٌ صَحِیْحٌ لِفَاعِلِہٖ ۔ کسی ایسی بات کا کرنا جس کا کوئی فائدہ نظر نہ آتا ہو۔ یا ایسا کام کرنا جس کے کرنے والے کی غرض صحیح نہ ہو(اقرب) پس تَعْبَثُوْنَ کے معنے ہونگے تم بے فائدہ کام کرتے ہو۔
مَصَانِعَ کے معنے ہیں ۔ اَلْقُریٰ وَالْمَبَانِی مِنَ الْقُصُوْرِ وَالْحَصُوْنِ۔ بستیاں اور بڑی بڑی عمارات (اقرب)
بَطَشْتُمْ: بَطَشَ سے جمع مذکر مخاطب کا صیغہ ہے ۔اور بَطَشَ کے معنے ہیں اَخَذَہٗ بِالْعَنْفِ۔ سختی سے پکڑا۔ وَتَنَاوَلَہٗ بِشِدَّ ۃٍ عِنْدَالصَّوْلَۃِ۔ حملہ کے وقت سختی سے پکڑا۔ (اقرب) پس بَطَشْتُمْ کے معنے ہونگے تم سختی سے پکڑتے ہو۔
جَبَّارِیْنَ: جَبَّارٌ کی جمع ہے اور جَبَّارٌ کے معنے ہیں۔ کُلُّ عَاتٍ مُتَمَدِّدٍ ۔متکبر اور سرکش شخص ۔ (اقرب)
تفسیر:۔قوم عاد جس کی طرف حضرت ہود علیہ السلام مبعوث ہوئے فنِ تعمیر میں خا ص شغف رکھتی تھی کیوں کہ اس کی تہذیب کی بنیا د علم ہندسہ ۔کمیسٹری ہیئت پرتھی ۔ اس تہذیب کے بانیوں کاخیال تھاکہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مادی عالم میں سورج اور چاند اور ستارے بنائے ہیں اسی طرح انسانی ترقی کے لئے اس نظام کی نقل کرنا ضروری ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ نظامِ شمسی پر غور کرکے اور اسکے راز معلوم کرکے ان کی اتباع کرے ۔ جس طرح آرینؔ ۔ رومنؔ اور ایرانی ثقافت نے متمدن دنیا پر ایک گہرااثر ڈالا۔ اور سابق نظاموںکی جگہ ایک نیا نظام قائم کردیا ۔ اسی طرح بابلی تحریک جس کے بانی قوم عادسے تعلق رکھنے والے تھے اس نے بھی دنیا کے کلچر اور تہذیب پر نہایت گہرااثر ڈالا ۔ اور گو اس تحریک کے بانی کچھ عرصہ بعد سیاسی طور پر اپنی حکومت کو کھو بیٹھے اوراس کی جگہ دوسری اقوام نے لے لی۔مگر ان کو شکست دینے والے ان کے فلسفہ سے آزاد نہ ہوسکے ۔ یہ تحریک چونکہ انتہائی قدیم تحریک ہے اس لئے موجودہ زمانہ میں اس کے آثار بہت کم ملتے ہیں۔ لیکن جتنے آثار بھی ملتے ہیں وہ قرآنی بیانات کی صداقت اور اس کی عظمت کو روشن کردیتے ہیں۔
اس تہذیب کی بنیاد قوم عادکے ہاتھوں رکھی گئی تھی اور اس کو اپنے زمانہ میں اتنی طاقت حاصل تھی کہ ان کے بعد عرب میں کسی اور قوم کو اس قسم کی طاقت حاصل نہیں ہوئی ۔ اس تہذیب بابلی کی علمبردار دو قومیں ہوئیں ہیں ۔ ایک وہ جسے عادِ اولیٰ کہتے ہیں ۔ اور جو تہذیب بابلی کے بانی تھے اور دوسرے ثمود ؔ جو بعد میں اس تہذیب کے حامل بنے اور جو اسی عاد ؔ کی ایک دوسری شاخ تھے ۔ان آیت میںا نہی پہلے عاد یعنی بانیان تہذیب بابلی کا ہی ذکر کیا گیا ہے ۔ اور فرماتا ہے ۔ ہودؑ نے اپنے زمانہ کی مشہور ترین طاقت یعنی قوم عاد سے مخاطب ہوکر کہا ۔ کہ تم لوگ ہر پہاڑی پر شاندار عمارتیں بناتے ہو ۔ اور بڑی بڑی فیکٹریاں اور کمیسٹری کے مرکز تیار کرتے ہواور خیال کرتے ہو کہ تم ہمیشہ قائم رہو گے۔ جیسے یورپ اور روس کے لوگ آج کل یہ خیال کرتے ہیں کہ انکی تہذیب ہمیشہ قائم رہے گی ۔ اس جگہ جو مصانع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے مراد بڑی بڑی فیکٹریاں اور کیمیکل ورکس ہی ہیں۔
پھر فرمایا وَاِذَ بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ تمہارے اند راتنی طاقت پائی جاتی ہے۔کہ جب تم کسی ملک پر غلبہ پاتے ہو تو تم اس کی تہذیب کو بالکل تباہ کردیتے ہو۔ اس کی جگہ اپنی تہذیب اور اپناتمدن قائم کرتے دیتے ہو۔جَبَّارٌ کے معنے ہیں دوسرے کو نیچا کرکے اپنے آپ کواونچا کرنیوالا ۔ پس اس آیت کا مطالب یہ ہے کہ تم دوسری اقوام کے تمدن اور تہذیب کوتباہ کرکے اپنے تمدن اور تہذیب کو دنیا میں قائم کرتے ہو۔اسی طرح وَاِذَ بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ سے استنباط بھی ہوسکتا ہے کہ آلات جنگ کی بعض حیرت انگیز ایجادات انہی کے زمانہ میں ہوئی ہیں۔ چنانچہ جس رنگ میں انہوں نے پہاڑوں میں عمارتیں بنائی ہیں ان کو دیکھ کر بعض مؤرخین نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اس قوم نے بارود اور ڈائنا میٹ ایجاد کرلیا تھا ۔ ان معنوں کی روسے اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ تم ایسے ایسے سامان جنگ ایجاد کرتے ہو جو نہایت ہی مہلک ہیں اور تم ان کے ذریعہ باقی اقوام کو تباہ کرکے اپنی تہذیب اور اپنا تمدن قائم کردیتے ہو غرض بابلی تحریک میں عمارتوں کی تعمیر اور آلات جنگ کی ایجاد اوررصد گاہوں کے بنانے پر زیادہ زور تھا ۔ چنانچہ بابل کی حکومت کا جو بیان تورات میں آتا ہے اس سے بھی قرآنی بیان کی ہی تصدیق ہوتی ہے ۔ بائیبل میں آتا ہے ۔
’’اور انہوں نے کہا۔ آئو ہم اپنے واسطے ایک شہر بنا دیں اور ایک برج جس کی چوٹی آسمان تک پہنچے ۔ اور یہاں اپنا نام کریں ۔ ایسا نہ ہو کہ تمام روئے زمین پر پریشان ہوجائیں ۔ اور خداوند اس شہر اور برج کو جسے بنی آدم بناتے تھے دیکھنے اترا اور خدا وند نے کہا ۔ دیکھ لوگ ایک ہیں اور ا ن سب کی ایک ہی بولی ہے ۔ اب وَے یہ کرنے لگے سو وے جس کام کاارادہ رکھیں گے اس سے نہ رُک سکیں گے آئو ہم اتریں اور انکی بولی میں اختلاف ڈالیں تاکہ وے ایک دوسرے کی بات نہ سمجھیں ۔ ‘‘(پیدائش باب ۱۱آیت ۴تا۷)
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ یہودی تاریخ کے مطابق بھی ان لوگوں کا بڑا کمال بلند و بالا عمارات بنانا تھا ۔ کیونکہ تورات کے اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ دنیا میں زبانوںکے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ کسی وقت بابل ؔکے لوگوں نے ایک بلند عمارت بنانی شرو ع کی تاکہ وہ ان کے لئے ایک نشان قرار پائے اور اس کی وجہ سے وہ پراگندگی سے بچ جائیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کی پراگندگی چاہتاتھا اس لئے اس نے ان کوا س ارادہ سے بعض رکھنے کیلئے ان کی زبانوں میں اختلاف ڈال دیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس قوم میں سے اتحاد مٹ گیا ۔ اور ان کی طاقت ٹوٹ گئی اور وہ اس عمار ت کے بنانے میں ناکام رہے ۔
جو وجہ اس حوالہ میں بتائی گئی ہے وہ تو محض ایک کہانی ہے لیکن اس سے یہ تاریخی شہادت ضرور معلوم ہوجاتی ہے کہ اہلِ بابل اونچی عمارتیں بنانے میں یدِطولیٰ رکھتے تھے ۔ اور ایسی بلند عمارتیں بناتے تھے جن کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔چنانچہ عرب نے اب بھی بعض نہایت پرانی عمارتیں ملتی ہیں جو بہت بڑی بڑی ہیں ۔ بلکہ سفرِ یورپ کے دوران میں عدن سے چند میل کے فاصلہ پر میںنے خود بعض بڑی بڑی اونچی عمارتیں دیکھی ہیںجو اونچے ٹیلوں پر بنی ہوئی تھیں اوران میں حوض وغیرہ بھی تھے ۔ اور لوگ یہی کہتے تھے کہ یہ عاد کی بنائی ہوئی عمارتیں ہیں ۔
یورپ کے لوگ ایک زمانہ میں عاد کے وجود سے ہی انکار کیا کرتے تھے ۔ اور کہا کرتے تھے کہ عادؔ نام کی کوئی قوم نہیں گزری مگر قریباً نصف صدی سے جب سے کہ عادؔ کے آثار ملے ہیں۔ وہ بھی ماننے لگ گئے ہیں کہ عاد ؔ نام کی ایک قوم ہوئی ہے ۔بلکہ مشہور عیسائی مؤرخ جرجی ؔ زیدان نے ’’العرب قبل الاسلام ‘‘ میںلکھا ہے کہ عاد کے متعلق مؤرخوں کی سینکڑوں صفوں کی کتابیں اس سے زیادہ معلومات بیان نہیںکرسکیں جتنے معلومات قرآن کریم نے اپنے چند الفاظ میں بیان کردیئے ہیں۔ قرآن کریم بتا تا ہے کہ یہ قوم حضرت نوحؑ کی قوم کے معاً بعد گزری ہے ۔ چنانچہ فرماتا ہے وَاذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآئَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ(اعراف ع۹)یعنی یاد کرو جب خدا نے تم کو نوح ؑ کی قوم کے بعد اس کا جانشین بنایا ۔ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا جن کی پیشگوئیوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر دی گئی تھی ۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا جن سے موسوی سلسلہ کی ابتداء ہوئی ۔ پھر حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر کیا۔ کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نوحؑ کی شریعت کے پیرو تھے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنَّ مِنْ شِعَتِہٖ لَاِبْرَاھِیْمَ ( صآ فات ع ۳)یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نوحؑ کی جماعت میں سے ہی تھے ۔پس ابراہیم ؑ کے ذکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کے سلسلہ کے بانی حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر فرمادیا۔ اور نوح ؑ کے ذکر کے معاً بعد ہودؑ کا ذکر فرمایا جو قوم عاد ؔ کی طرف مبعوث ہوئے تھے ۔ کیونکہ عاد ہی نے نوح ؑ کی قوم کی جگہ لی تھی ۔
حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو توجہ دلائی کہ تم بڑے بڑے ٹیلوں پر اونچی عمارتیں کھڑکرتے ہو اوراپنی تہذیب اور تمدن کے قیام کے لئے دوسری اقوام کو ظالمانہ طور پر کچل دیتے ہو۔ مگر یہ سب باتیں عبث ہیںکیونکہ ان ظاہری نشانوں کے باوجود تمہارے نشان مٹ جائیں گے اور قائم صر ف تقویٰ رہے گا۔ تم بڑی بڑی فیکٹریاں اور صنعت گاہیں بناتے ہو اور سمجھتے ہو کہ تمہاری قوم ان کے ذریعہ سے زندہ رہے گی اور اپنی مالی ترقی کے گھمنڈ میں غریبوں پر ظلم کرتے ہو۔ مگر یہ جھوٹی عزت تمہارے کسی کام نہیں آئیگی ۔ فَاتَقُو ا اللہَ وَاَطِیْعُوْنِ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ کا تقوی ٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔
وَاتَّقُو االَّذِیْٓ اَمَدَّکُمْ بِمَا تَعْلَمُوْنَ اَمَدَّکُمْ بِاَنْعَامٍ وَّ بَنِیْنَ ۔ وَجَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ اِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ۔ فرمایا آخر یہ علم جس تم دنیا میں ترقی کر رہے ہو خدا تعالیٰ کے ہی دیئے ہوئے ہیں اور وہ سامان جن سے تم کام لیتے ہو وہ بھی خداتعالیٰ ہی کے دیئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح جانور بھی اور اولاد بھی اور باغات بھی۔ اور چشمے بھی سب اسی کی عطا ہیں ۔اگر تم اس کی طرف توجہ نہ کرو گے تو کسی دن یہ سب کچھ چھینا جائیگا ۔
قَالُوْ ا سَوَآئٌ عَلَیْنَآ اَوَعَظْتَ اَمَ لَمْ تَکُنْ مِّنَ الْوٰعِظِیْنَ ٭
انہوں نے کہا تیرا وعظ کرنا یا نہ کرنا ہمارے لئے برابر ہے (کیونکہ جو باتیں ہم کرتے ہیں) ۔
اِنْ ھٰذَآ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِیْنَ ٭
وہ تو پہلے زمانہ کے لوگوں سے رائج ہیں ۔
وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ٭
اور ہم پر (کبھی) عذاب نہیں آئے گا ۔
فَکَذَّ بُوْہُ فَاَھْلَکْنٰھُمْ ۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً۔ وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّوْمِنِیْنَ٭
پس ان کافروں نے انکو جھٹلادیا اور ہم نے انکو ہلاک کردیا ۔ اس واقعہ میں ایک بہت بڑا نشان ہے لیکن ان میں اکثر مومنوں میں سے نہ بنے ۔
وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ٭
اور تیر ارب یقینا غالب(اور) باربار رحم کرنے والا ہے ۔۲۵؎
۲۵؎ تفسیر:۔حضرت ہود علیہ السلام نے جب انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے کہا ۔ میاں ایسی نصیحتیں کرو یا نہ کرو ہم نے ماننا تو ہے ہی نہیں۔پہلے زمانوں سے ایسے لوگ ہوتے چلے آئے ہیں جو کہتے تو رہے ہیں کہ زیادہ دولتیں نہ کمائو اور دولتوں کا گھمنڈ نہ کرو۔ مگر پھر بھی یہ دنیا کام کرتی ہی چلی آئی ہے ۔ ہم کو کارخانے بنانے اور دولتیں کمانے پر کوئی عذاب نہیں ہوگا۔اس لئے خواہ تم ہمیں تبلیغ کرو یا نہ کرو ہمارے لئے یہ برابر ہے اور ہم کبھی تمہاری بات نہیں مان سکتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی انسان سرکشی اور تمرد میں بڑھ جائے تو اسے نیکی کی طرف توجہ دلانا بڑ ا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے ۔لیکن اس مشکل کو تسلیم کرنے کے باوجود قرآن کریم نے مسلمانوں کو یہی ہدایت دی ہے کہ فَذَکِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّکْرٰی (سورئہ اعلیٰ ع ۱)تمہار اکام یہی ہے کہ تم نصیحت کرتے چلے آئو۔ کیونکہ نصیحت کرنا بہرحال دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے ۔ پس خواہ کوئی کتنا ہی مخالف ہو۔ اس کے متعلق کبھی مایوسی کا اظہار نہیں کرتا چاہیئے ۔دل خدا تعالیٰ کے قبضہ و اختیار میں ہیں۔ تمہار ا کام یہ ہے کہ تم باربار خدا اور اسکے رسول ؐ کی باتیں لوگوں کے کانوں میں ڈالتے رہو۔ ایک دن یقینا ایسا آجائے گا کہ ان کے دل کے زنگ دور ہوجائیں گے ۔ اور وہ ہدایت کو خوشی سے قبول کر لیںگے۔
اولیاء کی کتب میں لکھا ہے کہ ایک شخص مسلمانوں کو سخت دکھ دیا کرتا تھا ۔ اور باوجود سمجھانے کے باز نہیں آتا تھا ۔ آخر کئی لوگوں نے تنگ آکر اس محلہ کو ہی چھوڑ دیا جس میں وہ رہتا تھا ۔ ایک دفعہ ایک بزرگ حج کر رہے تھے کہ انہوں نے اسی شخص کو کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا ۔ انہوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ تُو کہاں؟ تیرا کام تو سارادن گانا بجانا اور شرابیں پینا تھا تو کعبہ کا طواف کرنے کے لئے کس طرح آگیا ۔وہ کہنے لگا ۔ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے ۔ آپ لوگ مجھے قرآن بھی سناتے اور حدیثیں بھی بتاتے مگر میرے دل پر ذرا بھی اثر نہ ہوتا ۔ ایک دن مجلس لگی ہوئی تھی۔ دوست احباب بیٹھے ہوئے تھے شراب کی صراحیا ں قرینے سے رکھی ہوئی تھیں کہ یکدم مجھے گلی میں سے گزررہا تھا اور قرآن کریم کی یہ آیت بڑی خوش الحانی سے پڑھتا جار ہا تھا کہ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓااَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ۔کیا مومنوں پرا بھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھرجائیں ۔یہ آیت جونہی میرے کان میں پڑی مجھے یوں معلوم ہو ا کہ یہ آیت ابھی آسمان سے میرے لئے اُتری ہے ۔ میرے آنسو جاری ہوگئے ۔ میں نے مجلس برخواست کردی ۔ گانے بجانے کے آلات توڑ دیئے توبہ کی اور حج کیلئے چل پڑا ۔ تم نے سار ا قرآن مجھے سنادیامگر مجھ پر اثر نہ ہوا لیکن وقت ہوتا ہے۔ ایک آیت نے میر کایاپلٹ دی اور اب میں توبہ کرکے حج کرنے آیا ہوں۔تو قلوب بعض دفعہ ایسے رنگ میں بدلتے ہیں کہ حیرت آجاتی ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک عورت نے دوسری عورت کو مار ااور اس کا دانت توڑ دیا ۔ اسلامی شریعت کی رو سے ضروری تھا کہ اُس عورت کا بھی قصاص کے طورپر دانت توڑا جاتا ۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا۔ وہ عورت جس نے دانت توڑا تھا اس کیطرف سے حضرت ابوہریرہؓ بطور وکیل پیش ہوئے ۔ اور انہوں نے کہا کہ بیشک قصاص کے طور پر اس کا بھی دانت توڑا جانا چاہیئے مگر میں معافی کی دوخواست کرتا ہوں اگر دوسر ا فریق معاف کردے تو یہ اس کا احسان ہوگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دوسری عورت کے رشتہ داروں سے کہا کہ بیشک شریعت نے تمہیں قصاص کا حق دیا ہے ۔ لیکن اگر تم معاف کردو تو اچھا ہے ۔مگر دوسرے فریق پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ لوگ یہی کہتے چلے گئے کہ دانت کے بدلے جب تک دانت نہ توڑا جائے گا ہم نہیں ٹلیں گے ۔ آخر حضرت ابو ہریرہؓ کو جوش آگیا ۔اور انہوں نے کہا۔ خدا کی قسم میری رشتہ دار عورت کا دانت نہیں توڑا جائے گا یہ الفاظ انہوں نے ایسے جوش سے کہے کہ وہ لوگ جو اس بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش بھی نہیں مان رہے تھے ۔ڈرگئے اور انہوں نے کہا۔ یا رسول اللہ !ہم نے معاف کیا۔اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کے جسم غبار آلود ہوتے ہیں مگر جب وہ کسی معاملہ میں خد اتعالیٰ کی قسم کھالیں تو خداتعالیٰ ان کے متعلق اپنی غیرت دکھلاتا اور اس با ت کو پورا کردیتا ہے جس کے لئے وہ قسم کھاتے ہیں۔ تو دیکھو جب حضر ت ابوہریرہ ؓ نے خدا کی قسم کھاکر یہ کہا کہ میری اس رشتہ دار عورت کا دانت نہیں توڑا جائے گا تو وہ لوگ جو اس بارہ میں خود حضرت ابو ہریرہؓ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش بھی ماننے کیلئے تیار نہیںتھے یکدم انکی طبیعت بدل گئی ۔اور انہوں نے اپناحق چھوڑ دیا ۔ پس مومنوں کو اس بات کی اہمیت سمجھنی چاہیئے کہ انہیں ہمیشہ ایک دوسرے کو سمجھاتا رہنا چاہیئے اور یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ دوسرے کی اصلاح نہیںہوسکتی ۔ اور اگر بالفرض دوسرے کی اصلاح نہ بھی ہو تو کم سے کم جو شخص دوسرے کو سمجھائے گا اس کی اپنی اصلاح تو ہوجائے گی ۔ بہرحال دوسرے کو سمجھانا فائدہ کے بغیر نہیںہوتا۔ پس وعظ و نصیحت کا سلسلہ اپنے اندر بھی جاری کرنا چاہیئے اور غیروں میں بھی جاری کرنا چاہیئے ۔ جہاں دوست ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھیں ان کافرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہیں کہ سچ بولو۔ معاملات میں صفائی رکھو ۔ گالی گلوچ سے کام نہ لو ۔جھگڑا نہ کرو۔ محبت اور پیار سے رہو۔ جب اس قسم کے وعظ و نصیحت کاسلسلہ بند ہوجائے تو نئی پود کئی قسم کی غلطیوں میں مبتلا ہوجاتی ہے پرانے لوگ تو شیطان سے بہت ہی لڑائیاں لڑچکے ہوتے ہیں۔ اور ان کے اندر نیکی اور تقویٰ پیدا ہوچکا ہوتا ہے ۔ مگر نئی پود نے وہ لڑائی نہیں کی ہوتی اس لئے شیطان ان کے اندر آسانی سے داخل ہوجاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے آدمؑ اور شیطان کاقصہ اسی لئے بیان کیا ہے کہ ذرا سی غفلت بھی بہت بڑے نقصان کا موجب ہوجاتی ہے ۔اگر آدمؑ جو شیطان کے ساتھ دیر سے جنگ کرتا چلا آرہاتھا ۔ دھوکا کھا سکتا ہے تو جن سے شیطان کی ابھی جنگ ہی نہیں ہوئی وہ تو اس کے فریب میں بہت جلد آسکتے ہیں۔ آدمؑ اسی لئے شیطان کے دھوکا میں آیا کہ شیطان مذہب کا لبادہ اوڑھ کر آدمؑ کے سامنے آیا اورحضرت آدمؑ نے سمجھا کہ اب اس کی اصلاح ہو چکی ہے ۔چنانچہ انہوںنے اس کیساتھ صلح کرلی ۔ اور نتیجہ خراب نکلا ۔ مگر جس شخص نے شیطان سے ابھی لڑائی شروع ہی نہیں کی۔ اس کے سامنے اگر شیطان بزرگ بن کر آ جائے تووہ جلدی دھوکا کھا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اس قصہ کے بیان کرنے سے یہی منشاء ہے کہ جب آدمؑ شیطان کو دیکھ کر دھوکا کھا گیا تو وہ لوگ جو ابھی شیطان کے ہتھکنڈوں سے واقف ہی نہیںوہ اس کی طرف سے کیسے مطمئن ہوسکتے ہیں۔ پس موجودہ اور آئندہ نسلوںکو شیطان کے حملوں سے بچانے کیلئے اسلام یہ نصیحت کرتاہے کہ تم اپنے اندر بھی وعظ و نصیحت کا سلسلہ جاری رکھو اور بیرونی دنیا کو بھی ہمیشہ خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے رہو تاکہ شیطان ذریّتِ آدمؑ کو گمراہ کرنے سے ہمیشہ کیلئے مایوس ہوجائے ۔ بہرحال عاد کی قوم نے ہودؑ کی نصیحتوں پر کوئی کان نہ دھرا اور اس کو جھٹلادیا۔ جس کا نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا ۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً۔ وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّوْمِنِیْنَ وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۔ فرماتا ہے انہوں نے تو بڑے بڑے مکانات بنا کر اپنا نشان قائم کیا تھا مگر ہم نے ان کی بستیاں مٹا کر ایک نشان قائم کردیا ۔ لیکن اس نشان کا ہود کی قوم کوکیا فائدہ پہنچا۔ وہ تباہ ہوگئی اور بعد میں آنے والوں کیلئے ایک عبرت کانشان قائم کرگئی ۔
کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَ٭
ثمود نے بھی رسولوں کو جھٹلایا تھا ۔
اِذْ قَالَ لَھُمْ اَخُوْھُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ٭
جب کہ انہیں ان کے بھائی صالح ؑ نے کہا تھا کہ کیاتم تقویٰ نہیں کرتے ؟
اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ٭
میں تمہاری طرف ایک امانت دار پیغامبر بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
فَاتَّقُوْ االلّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ٭
پس اللہ (تعالیٰ) کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔
وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۔ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ٭
اور میں اس کام پر تم سے کوئی اُجرت طلب نہیں کرتا میری اُجرت تو رب العالمین کے ذمہ ہے (جس نے مجھے بھیجاہے)
اَتُتْرَکُوْنَ فِیْ مَا ھٰھُنَآ اٰمِنِیْنَ٭
کیا(تم خیال کرتے ہوکہ) جو کچھ اس (دنیا) میں ہے تمہیں اسی میں ان کے ساتھ (زندگی بسر کرتے ہوئے ) چھوڑ دیا جائے گا ۔
فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ٭
یعنی باغات اور چشموں میں ۔
وَّ زُرُوْعٍ وَّ نَخْلٍ طَلْعُھَا ھَضِیْمٌ٭
اور لہلہاتے کھیتوں میں اور کھجوروںمیں جن کے پھل بوجھ کی وجہ سے ٹوٹے جارہے ہوں۔
وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِھِیْنَ٭
اور تم لوگ پہاڑ کھودکھود کر (اپنی بڑائی پر) اِتراتے ہوئے گھر بناتے ہو۔
فَاتَّقُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ٭
پس اللہ کا تقویٰ اختیارکرو اور میری اطاعت کرو۔
وَلَا تُطِیْعُوْٓ ااَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ٭
اور حد سے بڑھ جانے والے لوگوں کی باتوں کو مت مانو۔
الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ٭
وہ لوگ جو ملک میں فساد کرتے ہیںاور اصلاح نہیں کرتے۔۲۶؎
۲۶؎ حل لغات:۔طَلْعٌ: طَلْعٌ مِّنَ النَّخْلِ کے معنے ہیں شَیْئٌ یَخْرُجُ کَاَ نَّہٗ نَعْلَانِ مُطْبَقَانِ۔ کھجور کا خوشہ جس کے اندر پھل پیدا ہوتا ہے (اقرب)
ھَضِیْمٌ: دَاخِلٌ بَعْضُھَا فِیْ بَعْضٍ کَاَنَّمَا شُدِخَ۔ وہ خوشہ جس کا ایک حصہ دوسرے کے اندر داخل ہو(اقرب)
تَنْحِتُوْنَ: نَحَتَ سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور نَحَتَ الْحَجْرَ کے معنے ہیں سَوَّاہُ وَاَصْلَحَہٗ پتھر کو گھڑ کر ٹھیک کیا۔ اور نَحَتَ الْجَبَلَ کے معنے ہیں حَضَرَہٗ۔ پہاڑ کو کھودا (اقرب)پس تَنْحِتُوْنَ کے معنے ہوں گے ۔تم کھودتے ہو۔
فَارِھِیْنَ: فَارِہٌ سے جمع کا صیغہ ہے اور اَلْفَارِہُ کے معنے ہیں اَلْحَاذِقُ بِالشَّیْئِ۔ کسی کام کا ماہر (اقرب)
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔عاد ؔکے بعد ثمود کی قوم آئی اور ان میں صالح ؑ نبی آیا ۔ اس نے بھی اپنی قوم کو تقویٰ کی نصیحت کی۔اور بتایاکہ میں تم سے اس تعلیم کے بدلہ میں کچھ مانگتا نہیں۔ میری مزدوری میرا خدا دے گا ۔ تم جن مادی ترقیات پر خوش ہو وہ قائم نہیں رہیں گی۔ نہ یہ باغات رہیں گے ۔نہ چشمے۔ نہ کھیتیاں ۔ نہ کھجوریں جن کے خوشے ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔ تم لوگ بڑے فخر سے پہاڑ کھود کھودکر مکان بناتے ہو مگر عزت حاصل کرنے کا یہ طریق نہیں۔ عزت حاصل کرنے کا طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرواور جو لوگ حد سے نکل جانے والے ہیں اُن کی فرمانبرداری مت کرو۔ اسیطرح وہ لوگ جو زمین میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے ان کے پیچھے مت رہو۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم ثمود عاد کی قائم مقام تھی ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلُکُمْ خُلَفَآئَ مِنْ بَعْدِ عَاد ٍ(اعراف ع۱۰)یعنی اس وقت کو یادکرو جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں عاد کے بعد انکا قائم مقام بنایا ۔ فتوح اؔلشام کا مصنف ابواسمٰعیل لکھتا ہے کہ ثمود کی قوم بصریٰ سے لے کر جو شام کا ایک شہر ہے عدن تک پھیلی ہوئی تھی اور وہیں ان کی حکومت تھی۔ یونانی تاریخوںمیںبھی ثمود کا ذکر آتا ہے اور انہوں نے اس کا ذکر مسیحؑ کے زمانہ کے قریب کیا ہے اور حجرؔ کو اس کا مرکزی مقام بنایا ہے جو اس حکومت کا دارالحکومت معلوم ہوتا ہے۔ یہ مقام مدینہ منّورہ اور تبوک کے درمیان تھا ۔ اور اس علاقہ میں اس قوم کا بڑا زور تھا ۔
اَتُتْرَکُوْنَ فِیْ مَاھٰھُنَآ اٰمِنِیْنَ ۔فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ۔وَّزُرُوْعٍ وَّ نَخْلٍ طَلْعُھَا ھَضِیْمٌ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم ثمود کا ملک چشموں والا اور باغات والا تھا ۔ وہاں کھجوریں بھی اچھی قسم کی ہوتی تھیں اور زراعت بھی خوب ترقی پرتھی ۔ اسی طرح وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِھِیْنَ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کو سنگ تراشی میں کمال حاصل تھا ۔ چنانچہ پرانے آثار سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ شہروں کے شہر پہاڑوں کی کھوہ میں بناتے چلے گئے تھے ۔حتّٰی کہ بعض جگہ انہوں نے پتھر کاٹ کاٹ کر عجیب و غریب محل بنا لئے تھے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اس کے سوا اُن کے اور کسی قسم کے مکان نہیں ہوتے تھے بلکہ اس سے ان کی خاص عمارتوں کی طرف اشارہ ہے جس سے ان کے تمدن کی ترقی ظاہر ہوتی ہے ۔ اسی طرح پہاڑ کھود کھود کر اپنی رہائش کے لئے مکانات اور شہر بنانے میں اس طرف بھی اشارہ معلوم ہوتا ہے ک یہ قوم سال کا کچھ حصہ پہاڑوں پر سیرو تفریح کے لئے بسر کرتی تھی مگر اس کے باوجود کسی کو ان کے ملک پرحملہ کرنے کی جرأت نہیںہوتی تھی ۔ اس قوم نے بھی حضرت صالحؑ کا انکار کیا اور ان کی باتوں پر کان نہ دھرا ۔ چنانچہ حضرت صالحؑ کے سمجھانے پر اس قوم نے جو جواب دیا اس کا قرآن کریم اگلی آیات میں ذکر فرماتا ہے ۔
قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ٭
اس پر وہ (لو گ جو کافر تھے )بولے۔ تجھ کو صرف کھانا دیا جاتا ہے ۔
مَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۔ فَاْتِ بِاٰیَۃٍ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ٭
تُو ہماری طرح کا ایک آدمی ہے ۔پس اگر تو سچاہے توکوئی نشان ظاہر کر۔
قَالَ ھٰذِہٖ نَاقَۃٌ لَّھَا شِرْبٌ وَّلَکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْ مٍ٭
اُس نے کہا۔ یہ ایک اونٹنی ہے ایک دن اس کے لئے گھاٹ پر پانی پینا مقرر ہے اور ایک دن تمہارے لئے گھاٹ سے پانی لینا مقرر ہے ۔
وَلَا تَمَسُّوْھَا بِسُوْٓئٍ فَیَاْخُذُکُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَظِیْمٍ٭
اور تم اس (اونٹنی) کو کوئی نقصان نہ پہنچانا ورنہ ایک بڑے دن کا عذاب تم کو پکڑ لے گا۔
فَعَقَرُوْ ھَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِیْنَ٭
(یہ سن کربھی ) انہوں نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور (پھر) شرمند ہوگئے ۔
فَاَخَذَھُمُ الْعَذَابُ۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً۔ وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّوْمِنِیْنَ٭
تب ان کو (موعود) عذاب نے آپکڑا ۔ اس میں یقینا ایک بہت بڑا نشان تھا ۔ لیکن ان میں سے اکثر مومنوں میں شریک نہ ہوئے ۔
وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ٭
اور تیرا رب یقینا غالب (اور) باربار رحم کرنے والاہے ۔۲۷؎
۲۷؎ حل لغات:۔ عَقَرُوْھَا:عَقَرَہٗ کے معنے ہیں جَرَحَہٗ ۔ اُس کو زخمی کردیا۔ نَحَرَہٗ اس کو زبح کیا۔اور جب اونٹ کے متعلق یہ لفظ استعمال کریں اور کہیں کہ عَقَرَالْاِبِلَ تو معنے ہوں گے قَطَعَ قَوَ اِلٰمَھَا بِالسَّیْفِ اس کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں (اقرب) پس عَقَرُوْھَا کے معنے ہوں گے انہوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں۔
تفسیر:۔حضرت صالح علیہ السلام نے جب انہیں نصیحت کی تو انہوں نے جواب میں کہا کہ اے صالحؑ !ہمیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تجھے کھانا دیا جارہا ہے۔یعنی ہمیں تباہ کرنے کے لئے کوئی غیر حکومت تجھے رشوت دے رہی ہے۔ ہر نبی کے وقت میں ایسا ہی ہوا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی مخالف کہتے تھے کہ بعض اور لوگ اس کی مدد کررہے ہیں۔ اور بانی سلسلہ احمدیہ کے وقت میں بھی لوگ یہ کہتے تھے کہ انگریز ان کو روپیہ دے کر مسلمانوں کے خلا ف کھڑ اکررہے ہیں۔
مَآاَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۔آخر تجھے کیا لال لگے ہوئے ہیں تو ہمارے جیسا ایک آدمی ہی ہے نا ۔ اگر ایسا نہیں اورتو واقعہ میں اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو جو نشان تیرے پاس ہے وہ لے آ۔ حضرت صالح علیہ السلام نے جواب میںکہا کہ لو یہ میری اونٹنی ہے۔ چشمہ پر تم اکھٹے ہوتے ہوتو فساد ہوتا ہے۔ اب تمہارے امتحان کیلئے یہ نشان مقرر کیا جاتاہے کہ ایک دن یہ پانی پیئے گی اور ایک دن تم پانی پی لینا یعنی اپنے جانوروں کو پانی پلانا اور اپنے لئے بھی پانی لے لینا اور اس کو کوئی تکلیف نہ دینا اگر تم اس کے خلاف عمل کرو گے تو تم کو ایک بڑے دن کا عذاب پکڑے گا ۔ انہوں نے اس اونٹنی کے پائوں کاٹ دیئے ۔مگر بعد میں شرمندہ ہوگئے ۔
لوگ ان آیات سے اونٹنی خصوصیات نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ بلکہ بعض مفسرین نے تو عجیب وغریب قصے بھی بیان کردئے ہیں ۔وہ کہتے ہیں لوگ حضرت صالح علیہ السلام کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم تو تب مانیں گے جب فلاں پہاڑ سے اونٹنی پید اکر دو۔انہوں نے دعا کی تو پہاڑ میں سے اونٹنی نکل آئی اور پھر اسی وقت اس اونٹنی نے اپنے جیسا ایک بچہ بھی جن دیا۔( تفسیر جلالین جلد ۲ صفحہ ۱۶۴ ودرمنثورجلد ۳صفحہ ۹۸)مگریہ سب لغو باتیں ہیں جن کا قرآن کریم سے کوئی تعلق نہیں ۔قرآن کریم اس اونٹنی کی پیدائش کو نشان قرار نہیں دیتا بلکہ اس کی آزادی کو نشان قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر کفار نے اس اونٹنی کو دکھ پہنچایا تووہ عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ مگر اس لئے نہیں کہ وہ اونٹنی اپنی ذات میں کوئی اہمیت رکھتی تھی بلکہ اس لئے کہ حضرت صالحؑ اس اونٹنی پر چڑھ کر سارے ملک میں تبلیغ کیا کرتے تھے ۔ اُس زمانہ میں موٹر نہیں تھے نہ ریل اور ہوائی جہاز وغیرہ ایجاد ہوئے تھے ۔ سفر کا ذریعہ صر ف اونٹنی تھی جس پر سوا ر ہوکر حضرت صالح ؑ خدا تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے تھے ۔چونکہ مخالف ان کی اس تبلیغی تگ ودو کو پسند نہیں کرتے تھے اس لئے لازماً وہ آپ کے تبلیغی سفروں میں روک ڈالتے ہوں گے اور آپ کو ادھر اُدھر ہونے نہیں دیتے ہوں گے ۔جب ان کی شوخیاں اور شرارتیں حد سے گزر گئیں تو اللہ تعالیٰ نے اس اونٹنی کو ان کے لئے ایک نشان قرار دے دیا اور فرمایا کہ تم صالحؑ کی اونٹنی کو اِدھر اُدھر پھرنے دواور اس کی تبلیغی مساعی میں روک مت بنو۔ ورنہ خدا تعالیٰ کے عذاب کا مورد بن جائو گے انہوں نے اس انداز کو بھی ایک مجنونانہ بڑ خیال کیا اور تمرّد اور سرکشی سے کام لیتے ہوئے اس اونٹنی کے پائوں کاٹ دیئے ۔ جس کے معنے یہ تھے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو چیلنج کیا اور کہا کہ ہم اپنے ملک میں تیرے نام کو بلند کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ جب انہوں نے خدا تعالیٰ کے لئے اپنے ملک کے دوروازے بند کردیئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس ملک کے دروازے ان کے لئے بند کردیئے ۔اور اس نے انہیں اپنی قہری تلوار کا نشانہ بنا دیا ۔بیشک کو عذاب کو دیکھ کر آخر میں وہ شرمند بھی ہوئے ۔مگر اس وقت شرمندگی کا کیا فائدہ تھا ۔ فرماتا ہے اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ۔وَمَا کَانَ اَکْثَرَھُمْ مُّوْمِنِیْنَ اس واقعہ میں بھی ایک بڑا بھاری نشان ہے جو آئندہ آنے والی نسلوںکو یہ سبق دیتا ہے کہ الٰہی جماعتوں کے تبلیغی راستہ میں روڑے اٹکانا اور خدا تعالیٰ کے نام بلند کرنے کی اجازت نہ دینا قوموں کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مستحق بنا دیتا ہے۔ مگریہ چیز تو بعد میںآنے والے لوگوں کے لئے صرف درس عبرت کا کام دے رہی ہے ۔ خود اس قوم کی اکثریت ایمان سے محروم رہی مگر یہ قوم بھی اپنی ہلاکت اوربربادی سے خداتعالیٰ کے عزیز اور رحیم ہونے کو ثابت کرگئی ۔ اُس نے چاہا تھا کہ صالحؑ مغلوب ہوکر مگر خدا اور اس کا رسول ہی غالب آئے ۔ اورپھر اس نے چاہا تھا کہ صالحؑ کی تبلیغی مساعی رنگ نہ لائیں اور خدا اور اس کے رسول کا نام دنیا میں نہ پھیلے مگر خدا تعالیٰ کی رحیمیت نے حضرت صالحؑ کی تبلیغی کوششوں میں برکت ڈالی اور ان کے انفاسِ قدسیہ سے ایک ایسی جماعت تیا رہوگئی جس نے خدا تعالیٰ کے نور کی قندیلیں اپنے سینوں میں روشن کیں اور بھولی بھٹکی دنیا کے لئے ہادی اور راہنما بن گئی۔
کَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ الْمُرْسَلِیْنَ٭
لوط ؑ کی قوم نے رسولوں کا انکار کیا ۔
اِذْ قَالَ لَھُمْ اَخُوْھُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ٭
جب کہ ان کے بھا ئی لوط نے کہا کہ کیا تم تقویٰ اختیار نہیں کرتے؟
اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ٭
میں تمہاری طرف ایک امانت دار پیغامبر بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
فَاتَّقُوْ االلّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ٭
پس اللہ (تعالی)کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔
وَمَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۔ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ٭
اور میں اس (کام) کے بدلہ میں تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا ۔میر ابدلہ تو صر ف ربّ العالمین کے ذمہ ہے ۔
اَتَاْ تُوْنَ الذُّکْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَ٭
کیا تمام مخلوقات میں سے تم نے نروںکو اپنے لئے چُنا ہے ۔
وَتَذَرُوْنَ مَاخَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ ۔ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ٭
اورتم ان کو چھوڑتے ہو جن کو تمہارے ربّ نے تمہاری بیویوں کی حیثیت سے پید ا کیا ہے (صرف یہی تمہیں کہ تم ایسا فعل کرتے ہو)۔ بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ )تم (انسانی فطرت کے ) تقاضوں کو ہرطرح توڑنے والی قوم ہو۔۲۸؎
۲۸؎ تفسیر:۔فرماتا ہے۔ لوطؑ کی قوم نے بھی رسولوں کا انکار کیا ۔ اس جگہ بھی لوطؑ کیلئے مرسلین کا لفظ استعمال کیا گیاہے۔جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ لوطؑ اپنے زمانہ میں باقی نبیوںکی طرح سب رسولوں کا قائم مقام تھا اور اس کا انکار درحقیقت سب نبیوںکا انکار تھا لوطؑ نے بھی اپنی قوم سے کہا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک رسول امین کی حیثیت میں تمہاری طرف آیا ہوں۔ تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری سنو تاکہ تم نجات پائو۔ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ۔میر ااجر صرف رب العالمین خد ا کے ذمہ ہے۔میں تو اس لئے آیا ہوںتاکہ تم کو برائیوں سے بچنے کی نصیحت کروں۔ اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی طرف توجہ دلائوں۔ تم میں یہ ایک بڑی خرابی پائی جاتی ہے کہ تم مردوں سے جنسی تعلقات قائم کرتے ہواور اللہ تعالیٰ نے تسکین جذبات اور باہمی عودّت و الفت کے قیام کے لئے جو مرد و عورت کے تعلقات کا سلسلہ قائم کیا ہے اس کو پسِ پُشت ڈال رہے ہو۔ یہ چیز بتا رہی ہے کہ تم انسانی فطرت کے تقاضوں کو توڑنے والی قوم ہو۔
قَالُوْالَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ یٰلُوْطُ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِیْنَ٭
انہوں نے کہا۔ اے لوطؑ! اگر تو باز نہ آیا تو تُو ملک بدر کئے جانے والوں میں شامل ہوجائے گا ۔
قَالَ اِنِّیْ لِعَمَلِکُمْ مِّنَ الْقَالِیْنَ ٭
اُس (یعنی لوط ؑ ) نے کہا (بہرحال) میں تمہارے عمل کو نفرت سے دیکھتا ہوں۔
رَبِّ نَجِّنِیْ وَاَھْلِیْ مِمَّا یَعْمَلُوْنَ٭
اے میرے ربّ! مجھے اور میرے اہل کو ان کے اعمال سے نجات دے ۔۲۹؎
۲۹؎ حل لغات:۔ قَالِیْنَ:قَلٰی سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے اور قَلٰی فُلَانًا کے معنے ہیں اَبْدَنَہٗ وَکَرِھَہٗ غَایَہَ الْکَرَاھَۃِ فَتَرَکَہٗ۔ کسی کو ناپسند کیا اور ناپسندیدگی کے بناپر چھوڑ دیا (اقرب)
تفسیر۔انہوں نے لوطؑ کی نصیحتوں سے تنگ آکر اسے دھمکی دی کہ اگر تو باز نہ آیا تو ہم تجھے اپنے ملک سے نکال دیں گے ۔ لوطؑ نے کہا! بے شک نکال دو۔ میں تمہارے اعمال کو بڑی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ خدایا مجھ کو اور میرے خاندان کو ان کے برے اعما ل سے بچا ئیو۔
اس آیت میں ایک تو یہ سبق دیا گیا ہے کہ عذاب ظاہری سے نجات مانگنی اتنی اہم نہیں جتنی کہ عملِ بد سے نجات مانگنی اہم ہے ۔ اور دوسرا سبق یہ دیا گیا ہے کہ نفرت ہمیشہ برے اعمال سے رکھنی چاہیئے نہ کہ گمراہ اور خطاکار انسان کو بھی قابلِ نفرت سمجھنا چاہیئے ۔ اصلاح اخلاق کے سلسلہ میں یہ ایک نہایت ہی اہم نکتہ ہے جس پر اسلا م نے خصوصیت سے زور دیا ہے اور بد اور بدی میں فرق کیا ہے ۔وہ یہ تو کہتا ہے کہ برائی کو دور کرو مگر وہ یہ نہیں کہتا کہ برائی کو دور کرنے کے ساتھ ہی بد کو مٹا ڈالو۔ بلکہ وہ ان دونوں میں ایک حد قائم کرتا اور اس کو ملحوظ رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٓیٰ اَلَّا تلعْدِلُوْا۔ اِعّدِلُوْ اھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی(مائدہ ع ۲)کسی قوم کی دشمنی تمہاری آنکھوں پر ایسا پردہ نہ ڈال دے کہ تم اس کے متعلق نہ انصافی اور ظلم پر اُتر آئو۔ تمہارا کا م یہ ہے کہ تم اس کے متعلق بھی عدل و انصاف کی حدود کا خیال رکھو ورنہ تقویٰ کے مقام سے تم اپنے آپ کو گرانے والے ہوگے ۔ گویا اسلام دشمن کی قابلِ نفرت حرکات سے تو بیزاری کی تعلیم دیتا ہے مگر دشمن کی دشمنی رکھنے سے منع کرتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے لَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْ کُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِ کُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَلَا تُقْسِطُوْٓ ا اِلَیْھِمْ(ممتحنہ ع ۲) وہ لوگ جو تمہارے دین کے مخالف توہیں مگر تمہیں اپنے مظالم کا تختہ مشق بنا کر نہیں جبراً اپنے دین سے منحرف کرنے کی کوشش نہیںکرتے ۔نہ تمہیں اپنے وطن سے بے وطن کرتے ہیں ان کیساتھ نیکی اور حسنِ سلوک کرنے اور ان کے معاملات میں عدل وانصاف سے کام لینے سے اللہ تعالیٰ تمہیں ہرگز نہیں روکتا تمہارا کام یہ ہے کہ تم ان سے نیکی کرو۔اور ان کے معاملات میں بھی انصاف کا پورا پورا خیال رکھو ۔غرض اسلام بنی نو ع انسان کو نصیحت کرتا ہے کہ اگر کسی فر د یا قوم کو تم تقویٰ و طہارت کے خلاف عمل کرتا دیکھو تو اس کے فعل سے تو نفرت کرو مگر اس فرد یا قوم کی خیر خواہی کا جذبہ اپنے دل سے کبھی ہٹنے نہ دو۔ کیونکہ اگر یہ جذبہ مٹ گیا تو تم ان کی اصلاح سے بھی غافل ہوجائو گے ۔حضرت لوط علیہ السلام نے بھی اسی اخلاقی کمال کا مظاہرہ کیا اور فرمایا کہ میں تمہاری اصلاح کے لئے تورات دن کوشش کررہا ہوں لیکن تمہارے گندے افعال سے مجھے شدید نفرت ہے ۔ اس قدر نفرت کہ میں اللہ تعالیٰ سے بھی دعا کرتارہتا ہوں کہ وہ مجھے اورمیرے تمام جسمانی اور روحانی اہل کو بھی ان برائیوں سے محفوظ رکھے مگر تعجب
ہے کہ وہی لوطؑ جن کے اخلاقی کمال کی قرآن کریم نے اس قدر تعریف کی ہے اور جن کے متعلق اس نے دوسری جگہ یہ خبر دی ہے کہ اَدْخَلْنٰہُ فِی رَحْمَتِنَا (انبیاء ع ۵)ہم نے اُسے اپنے سایہ رحمت میں جگہ دی ۔ اس پر بائیبل یہ نہایت ہی گندہ اور ناپاک الزام لگاتی ہے کہ اس نے اپنی لڑکیوں سے سے بدکاری کی ۔اور پھر ان لڑکیوں سے ناجائز بچے پید اہوئے (پیدائش باب ۱۹ آیت ۳۰تا ۳۷)مگر پھر بائیبل جو ایک طرف تو حضرت لوط ؑ اور ان کی پاک دامن بیٹیوں پر بدکاری کا الزام لگاتی اور ان کے بطن سے ناجائز بچوں کی ولادت کا اشتہار دیتی ہے دوسری طرف یہ بھی لکھتی ہے کہ اس حسکاری کے نتیجہ میں ایک بیٹا موآبؔ پیدا ہوا جو موآبیوں کا باپ بنا ۔اور دوسرابیٹا بن عمیؔ پیدا ہوا جو بنی عمون کا باپ بنا۔ گویا ایک طرف تو وہ حضرت لوطؑ اور ان کی بیٹیوں پر الزام لگاتی ہے اوردوسری طرف یہ کہتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان بچوں پرایسا فضل کیا کہ وہ بڑے بڑے خاندانوںکے بانی قرار پائے اور خداتعالیٰ نے ان سے ایک لمبا سلسلہ نسل جاری کر دیا ۔ اگر حضرت لوط ؑ ایسے ہی اخلاق کے حامل ہوتے جس قسم کے اخلاق بائیبل ان کی طرف منسو ب کرتی ہے تو کیا اللہ تعالیٰ ان کی نسل کو ایسی ہی برکت دیتا جیسی بائیبل کے بیان کے مطابق انہیں دی گئی ۔پس بائیبل کا اپنا بیان جو خداتعالیٰ کی ایک فعلی شہادت پر مشتمل ہے اس کے بیان کردہ الزام کو جھوٹا قرار دے رہا ہے ۔اور پھر قرآن کریم جو ایک کتاب مبین کی شکل میں نازل ہواتھا اُس نے کھلے لفظوں میں بتادیا کہ لوطؑ ہمارے مقربین میں سے تھا اور وہ ان تمام گندے اور ناجائز افعال سے منّزہ تھا جن میں اس کی قوم گرفتا رتھی ۔بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے بھی دعائیں کرتا رہتا تھا کہ وہ اس کی مدد کرے۔ اور اسے اور اس کے اہل کو ان برائیوں سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔
فَنَجَّیْنٰہُ وَاَھْلَہٓٗ اَجْمَعِیْنَ٭
پس ہم نے اس کو ۔ اور اس کے اہل کو سب ہی کو نجات دی ۔
اِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغٰبِرِیْنَ٭
سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہنے والوں میں شامل ہوگئی۔
ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِیْنَ٭
پھر(لوطؑ کو نجات دینے کے بعد) سب دوسروںکو ہم نے ہلاک کردیا۔
وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ مَّطَرًا۔فَسَآئَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ٭
اور ہم نے ان پر (پتھر وں کی) بارش برسائی ۔ اور جن کو (خدا کی طرف سے) ہوشیا رکردیا جاتا ہے (لیکن پھر بھی باز نہیں آتے )ان پر برسائی جانے والی بارش بہت بری ہوتی ہے ۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً۔ وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّوْمِنِیْنَ٭
اس واقعہ میں یقینا ایک بڑ انشان تھا لیکن ان (کفار) میں سے اکثر پھر بھی مومن نہ بنے ۔
وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ٭
تیرا ربّ یقینا وہ ہے جو غالب(اور) باربار رحم کرنے والاہے ۔۳۰؎
۳۹؎ حل لغات :۔ھَجُوْزًا : اَلْعَجُوْزُ اَلْمَرْأَۃُ الْمُسِنَّۃُ لِعِجْزِھَا عَنْ اَکْثِرَ الْاُمُوْرِ۔بڑھیا عورت۔ ار بڑھیا عورت کو عجوز کا نام دینے میںیہ حکمت ہے کہ اکثر امور سر انجام دینے سے وہ عاجز ہوتی ہے (اقرب)
غَابِرِیْنَ: غَبَرَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور غَبَرَ کے معنے ہیں۔ مَکَثَ وَبَقِیَ ۔ ٹھہر گیا اور وہ پڑا (اقرب) نیز اَلْغِیْرُ کے معنے ہیں اَلْحِقْدُ۔ کینہ (اقرب)پس غَبِرْ کے معنے ہوں گے ۔ پیچھے رہنے والا اور کینہ رکھنے والا۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا کو سن کر اس کو اور اس کے تمام خاندان کو تو بچا لیا مگر اس کی بڑھیا بیوی عذاب کا شکار ہوگئی۔ کیونکہ وہ غابرین میں سے تھی۔ لُغت میں غِیْر کے ایک معنے اَلْحِقْدُ یعنی کینہ کے بھی لکھے ہیں (اقرب) پس غَابِرِیْن کا لفظ استعمال فرما کر اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ حضرت لوطؑ کی بیوی ان لوگوں میں سے تھی جو حضرت لوط ؑ کی تعلیم سے کینہ اور بُغض رکھتے تھے۔اور آپ کی مخالفت کے درپے رہتے تھے اس لئے جب عذاب آیا تو وہ بھی اُنہی لوگوں کے ساتھ شامل کر دی گئی ۔ بائیبل نے اس مقام پر یہ بیان کیا ہے کہ حضرت لوطؑ کی بیوی بھی بچائے جانے والے لوگوں میں شامل تھی بلکہ لکھا ہے کہ فرشتوں نے اس کا اور اس کی جورو کا اور اس کی دونوں بیٹیوں کا ہاتھ پکڑ ا کیونکہ خداوند کی مہربانی اس پر ہوئی اور اسے نکال کر شہر سے باہر پہنچا دیا ۔(پیدائش باب ۱۹ آیت ۱۶) مگر پھر بائیبل ہی بیان کرتی ہے کہ جاتی دفعہ اس نے پیچھے پھر کے دیکھا اور وہ نمک کا کھمبا بن گئی ۔ (پیدائش باب ۱۹ آیت ۲۶) اوّل تو جیتے جاگتے انسان کا محض پیچھے مڑ کر دیکھنے کی وجہ سے نمک کا کھمبا بن جانا ایک ایسا امر ہے جو بائیبل کے معتقدین کے نزدیک توممکن ہے قابلِ تسلیم ہو۔ مگر کوئی اور شخص اس خوش اعتقادی کا قائل نہیں ہوسکتا۔دوسرے جب اللہ تاعلیٰ کا منشاء یہی تھاکہ ان کی بیوی عذاب سے محفوظ رہے تو اسے نمک کا کھمبا کیوں بنا دیا گیا اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اس عورت نے دس بیس قدم کے بعد پھر تباہ ہونا ہے تو اسے پکڑ کر باہر نکالنے کے کیا معنی تھے؟بائیبل کے یہ متضاد بیانات بتا رہے ہیں کہ انسانی دست بُرد نے اس کی روایات کو انتہائی مخدوش بنا دیاہے۔سچی بات یہی ہے جو قرآن کریم بیان کی کہ حضرت لوطؑ کی بیوی آپ کے مخالف گروہ سے تعلق رکھتی تھی اسی لئے جب عذاب آیا تو وہ بھی اس کی لپیٹ میں آگئی ۔چنانچہ فرماتا ہے ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی (پتھروں کا ذکر سورئہ حجر ع ۵میں کیا گیا ہے)یعنی ایک سخت زلزلہ آیا جس سے ان کی زمین جو پتھریلی تھی پہلے نیچے سے اٹھ کر اوپر آئی اور پھر اوپر سے نیچے گری ۔اور بجائے پانی کے اوپر سے پتھر برسے جس سے وہ تباہ ہوگئے ۔شدید زلزلوں میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ ان سے زمین کے ٹکڑے اڑ کر پھروہیں آکر گرنے لگتے ہیں ۔ فرماتاہے ۔ یہ بھی ایک نشان تھا مگر بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے ۔ وہ قوم تو پھر بھی ایمان نہ لاسکی ۔
بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لوطؑ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھائی حارانؔ کے بیٹے تھے اور اُدرؔ سے جو عراق کا ایک قصبہ تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہی ہجرت کرکے فلسطین کی طر ف چلے آئے تھے ۔اورپھر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے الگ ہو
کر سدومؔ نامی ایک بستی میں رہنے لگے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کاذکر کرکے مکہ والوں کو توجہ دلائی کہ اگر تم اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو لوطؑ کے دشمنوں جیسا سلوک تم سے بھی کیا جائے گا۔ چنانچہ جس طرح لوطؑ کی قوم پر پتھر برسے اسی طرح بدرؔ کی جنگ میں ان پر پتھر پڑے یعنی ایک نشان کے طور آندھی چلی جس کے نتیجہ میں کنکر اُڑاُڑ کر کفار کی آنکھوں میں گھس گئے اور وہ مقابلہ کی طاقت کھو بیٹھے ۔جس کے نتیجہ میں ان کے بڑے بڑے صنادید بدرؔ کے میدان میں ہی ہلاک ہوگئے ۔اور قریش کی عظمت اور ان کے دبدبہ کا خاتمہ ہوگیا پھر معنوی طور پر بھی ان سے یہی سلوک ہوا ۔ چنانچہ جس طرح سدوم کی بستی کے اوپر کے حصہ کو نیچے کردیا۔ اسی طرح کفارِ مکہ کی عزتیں خاک میں مل گئیں۔ ان کے بڑے بڑے خاندان تباہ ہوگئے اوروہی بچے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش میں پناہ گزیں ہوئے ۔
کَذَّبَ اَصْحٰبُ لْئَیْکَۃِ الْمُرْسَلِیْنَ٭
بَن کے رہنے والوں نے بھی رسولوںکا انکار کیا تھا ۔
اِذْ قَالَ لَھُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ٭
جب کہ ان سے شعیبؑ نے کہا کہ کیا تم تقویٰ نہیں کرتے ۔
اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ٭
میں تمہاری طرف ایک امانت دار پیغامبر کی حیثیت سے آیا ہوں ۔
فَاتَّقُو االلّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ٭
پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔
وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۔ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ٭
او رمیں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ۔ میرا بدلہ صرف رب العالمین (خدا) کے ذمہ ہے ۔۳۱؎
۳۱؎ تفسیر:۔قومِ لوطؑ کے ذکر کے بعد اب اللہ تعالی ٰ اصحاب الائیکہ کا ذکر فرماتا ہے اور بتاتا ہے کہ اصحاب الایکہ نے بھی رسولوں کا انکار کیا تھا ۔ اَیکہ کے معنے ایسے درخت کے ہوتے ہیں جس کی ٹہنیاں بہت پھیلی ہوئی ہوں یا اس جنگلی کے ہوتے ہیں جس میں کثر سے بیریاں اور پیلو کے درخت آگے ہوئے ہوں۔ اور اَیْکٌ اس کی جمع ہے ۔ اسی طرح عربی زبان کا ایک یہ بھی محاورہ ہے کہ فُلَانٌ فَرْعٌ مِنْ اَیْکَۃِ الْمَججدِ کہ فلاں شخص ایکۃ المجد کی ایک شاخ ہے ۔ یعنی اَیْکٌ اعلیٰ خاندان کے لوگوں کو بھی کہتے ہیں۔ پس اصحاب الایکہ کے ایک معنے یہ بھی ہوسکتے ہیںکہ اس میں کسی ایسے علاقہ کا ذکر ہے جس جگہ کے لوگ اپنے آپ کو بڑ اخاندانی سمجھتے تھے اور چونکہ اگلی آیت یعنی اِذْ قَالَ لَھُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ میں حضرت شعیبؑ کا ذکر ہے اور حضرت
شعیبؑ مدین کے رہنے والے تھے جو عربوں کا ایک شہر ہے اور عرب اپنے آپ کو عرانیوں سے زیادہ اچھی نسل کا سمجھتے تھے ۔ اس لئے اس آیت کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ شعیبؑ کی قوم نے جو اپنے آپ کوبڑے خاندان میں سے سمجھتی تھی اپنے رسولوں کا انکارکیا ۔ اسی طرح اس کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ شعیبؑ کی قوم نے جو ایک گھنے جنگل کی مالک تھی اپنے رسولوں کا انکار کیا ۔ دوسری جگہ قرآن کریم نے حضرت شعیبؑ کومدینؔکا رسول قراردیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَاِلیٰ مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا (ھود ع ۸)ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیبؑ کو رسول بناکر بھیجا تھا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینؔ کے باشندے ہی اصحاب الایکہ کہلاتے تھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعہ میں مدینؔ کے پاس کوئی ایسا جنگل تھا جس میں بیری اور پیلو کے درخت بکثر ت پائے جاتے ہوں ۔سواس بارہ میں ایک یونانی جغرافیہ نویس کے حوالہ سے مسٹربرینؔ نے اپنی کتاب ’’گولڈمائنز آف مدین‘‘ میں لکھا ہے کہ خلیج عقبہ کے پیچھے نباتات اور اشجار کے سوا کچھ نہیں ہوتا جو انسانی قدوقامت کے برابرا ہوتے ہیں اور جن کی وجہ سے ہرنوں کے گلّے ۔جنگلی اونٹ اور بارہ سنگھے وہاں کثرت سے رہتے ہیں اسی طرح مویشی اور بھیڑوں کے گلّے بھی (ارض القرآن) اس تاریخی شہادت سے ظاہر ہے کہ مدینؔ کے پاس جو خلیج عقبہ کے سر پر واقع تھا ایک بڑا جنگل تھا جس میں قدِ آدم درخت تھے ۔ اور پیلو اور جنگلی بیر قدآدم ہی ہوتے ہیں ۔ وہاں جنگلی اونٹ رہتے تھے یہ بھی پیلو اور بیر کے درختوں کی موجودگی کی ثبوت ہے کیونکہ اونٹ اسی قسم کے درختوں پر گزارہ کرتے ہیں۔ مویشیوں اور بھیڑوں کے گلّوں کا ذکر بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ مدینؔ کی قوم اسی جنگل میں اپنے جانور چرایا کرتی تھی ۔ یہ قوم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے مدینؔ کی اولاد تھی جو ان کی بیوی قتورہؔ کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے (پیدائش باب ۲۵آیت ۱تا ۴)اور انہی کے نام پر مدین ؔ کہلائے اور پھر اسی نام پرانہوں نے ایک شہر بھی بسایا۔
قرآن کریم نے مدین قوم اور مدین ؔ شہر دونوں کا ذکر کیا ہے ۔ چنانچہ قوم کے معنوں میں تو فرماتا ہے وَاِلیٰ مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا (ہودع ۸)یعنی مدین قوم کی طرف ہم نے انہی کے بھائی شعیبؑ کو مبعوث کیا ۔ اور شہر کے معنوں میں سورئہ توبہ میں ذکر کیا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَاَصْحٰبِ مَدْیَنَ ولالْمُوْتَفِکٰتِ(توبہ ع ۹) یعنی کیا ان کو مدین شہر کے رہنے والوں اور ان بستیوں کی تباہی کی خبر نہیں پہنچی جو عذاب سے اُلٹا دی گئی تھی یعنی قوم لوطؑ کی بستیاں ۔ حضرت شعیب ؑ نے بھی اس قوم سے یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔ میں تمہاری طرف خداتعالیٰ کے ایک رسول کی حیثیت سے آیا ہوں اور اپنے کام کے بدلہ میں تم سے کچھ مانگتا نہیں میر ا بدلہ ربّ العالمین خدا مجھے دے گا ۔
اس آیت میں اور پہلی کئی آیتوں میں گزرچکا ہے کہ جب ہر پہلے رسول نے کیا کہ میری اطاعت کرو توساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ۔ جس سے الٰہی حکومت اور دنیوی حکومت میں فرق معلوم ہوتا ہے ۔ لوگ اطاعت کرو ا کے اجر لیا کرتے ہیں مگر ان آیات میں یہ مذکور ہے کہ میری اطاعت کرو۔ میں اس اطاعت کی وجہ سے تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ۔ پس معلوم ہوا کہ آسمان کی طرف سے جس اطاعت کا حکم آتا ہے وہ جبری اطاعت نہیں ہوتی بلکہ اطاعت کروانے والا درحقیقت بندوں کا خادم ہوتا ہے مگر چونکہ خادم ہمیشہ اجرت لیا کرتے ہیں اس لئے ہر رسول کے منہ سے یہ کہلوایا گیا کہ میرے اطاعت ایسے رنگ میں ہوگی کہ میں تمہاری خدمت تو کروں گا لیکن تم سے کوئی اجر نہیں لوںگا۔ گو بظاہر تم تو میرے مطیع نظرآئو گے لیکن حقیقتاً میں تمہارا خادم ہوںگا۔ وہ تمہاری
اطاعت بھی نرالی ہوگی اور میری خدمت بھی نرالی ہوگی ۔ تم بظاہر اطاعت کرتے ہوئے مجھ سے خدمت کروا ئو گے ۔ اورمیں انتہادرجہ کی خدمت کرتے ہوئے بھی تم سے کوئی اجرت نہیں لوں گا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی بلند مقام عطا فرمایا۔اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی القُرْبیٰ(پ ۲۵ الشوریٰ ع ۳)یعنی اے محمدؐ رسول اللہ ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس محبت اور پیار کے جو اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے کی جاتی ہے۔ مسلمانوں میں سے بعض لوگ غلطی سے اس آیت کے یہ معنی کرتے ہیں کہ تم پر جومیرے احسانات ہیں ا ن کے بدلہ میں مَیں ذاتی طورپر تم سے کسی چیز کا خواہش مند نہیں ہاں میں تم سے صرف اتنی خواہش کرتاہوں کہ میرے رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا۔ مگر یہ معنے درست نہیں ۔ کیونکہ اس صور ت میں آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ میں تم سے اور کوئی اجر نہیں مانگتا ہاںیہ ضرور مانگتا ہوں کہ میرے رشتہ داروں کا خیال رکھنا حالانکہ قرآن کریم کی دوسری آیا ت میں وضاحتًا کہاگیا ہے کہ میں تم سے کوئی ایسا اجر نہیںمانگتا جس کا دنیا کیساتھ کوئی تعلق ہو۔ صرف یہ چاہتاہوں کہ خداتعالیٰ پر ایمان لائو ۔ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تو اللہ تعالیٰ سورئہ سباع۱۲میں یہاں تک فرماتا ہے کہ قُلْ مَا سَاَلْتُکُمْ مِّنْ اَجْرِ فَھُوَ لَکُمْ ۔یعنی اگر تمہارے خیال میں مَیں نے کوئی اجر تم سے مانگا ہے تووہ ہرگز نہ دینا اسے اپنے ہی گھر رکھو۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کہنا کہ مجھ پر ایمان لائوا ورمیرے احکام کی اطاعت کرو یہ کوئی ایسی بات نہیںجس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ذاتی فائدہ ہو۔ ایمان اور اطاعت وتو بہرحا ل لوگوں کی اپنے فائدہ کی چیز ہے ۔ پس اس جگہ جو اجر کا لفظ آیا ہے اور جس کے طلب کرنے کی نفی کی گئی ہے اس سے مراد ایسا ہی اجر ہوسکتا ہے جس کا جسمانی طورپر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یا آپ کے خاندان کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔ اورجہاں تک ایسے اجر اکا تعلق ہے جس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی طور پر فائدہ پہنچ سکتا۔ اس کی نفی دوسری آیت میں جو اسی مفہوم میں آئی ہے موجو د ہے ۔
پس جب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری جگہ بغیر کسی استثنیٰ کے کہہ دیا ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور ساتھ ہی دوسرے انبیاء نے بھی یہی کہا ہے کہ ہم کوئی اجر نہیں مانگتے تو اب اس آیت میں اِلَّا المَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ کے کوئی ایسے معنے کئے جائیں۔جن کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے تعلق ہو تو یہ اوّل تو دوسری آیت کیخلاف ہوگا ۔ دوسرے اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انبیاء سابقین پر فضیلت ثابت ہونے کی بجائے نقص ثابت ہوگا ۔ کیونکہ یہی آیت اللہ تعالیٰ پہلے انبیاء کے منہ سے بھی نکلواتا ہے ۔ مگر وہاں یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے بغیر کسی اجر کی امید کے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بنی نوع انسان کی خدمت کی ۔ ان سے کسی معاوضہ کا تقاضا نہیں کیا ۔ نہ اپنے لئے ۔ نہ اپنے رشتہ داروں کے لئے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ ؐ نے نعوذ باللہ گو یہ تو کہا کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا مگر پہلے انبیاء کے طریق کے خلاف اتنا ضرور کہا کہ میرے رشتہ داروں کا خیال رکھنا اور ان سے محبت کیاکرنا ۔ پس یہ بات ایسی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص کرنے والی اور آپؐ کے درجہ کو گھٹانے والی ہے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اِلَّا استثنیٰ ہے اور استثنیٰ جو نفی کے بعد آئے اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ پہلے جملہ میں جس چیز کی نفی کی گئی تھی اس کے حکم سے بعد میںآنے والی شئے باہر ہے ۔مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ میرے پاس پانچ پانچ
نوٹوں کے سو ا اور کوئی نوٹ نہیں۔ تو اس کے یہ معنی ہوںگے کہ اس نے جو نوٹوں کی نفی کی تھی اس میں سے پانچ پانچ روپے کے نوٹوں پر وہ نفی اثر اندا ز نہیں ۔ ان معنوں کی رُو سے اگراَلْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ کے معنے رشتہ داروں کی محبت کے کئے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنے کا اجر چاہتا ہوں اور اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ کی سخت تنقیص ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ (۱)اگر مَوَدَّۃٌ کے معنے جسمانی رنگ میں نیک سلوک کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اے لوگو! میں تم سے جسمانی طورپر نیک سلوک کی امید نہیں رکھتا مگر میرے رشتہ داروں سے جسمانی طور پر نیک سلوک کرتے رہنا اور(۲)اگر مودۃؔکے معنے روحانی تعلق کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اے لوگو ! میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ مجھ سے روحانی تعلق رکھو صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرے رشتہ داروں سے روحانی تعلق رکھنا ۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں معنے غلط ہیں جسمانی سلوک کے معنے کرکے یہ مراد لینا کہ میرے رشتہ داروں سے جسمانی طورپر نیک سلوک کرناتوا سلئے غلط ہے کہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سوال کی نسبت ہوتی ہے اوردوسرے انبیاء سے بھی آپؐ کا درجہ گرجاتاہے۔ اور روحانی تعلق کے معنے کرنے سے تو یہ معنے بالکل کفر کے ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوجاتا ہے کہ مجھ سے روحانی تعلق نہ رکھو حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روحانی تعلق پیدا کرکے ہی ایمان حاصل ہوتا ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر فرماتاہے کہ جب تک یہ لوگ اپنی بیویوںاور اپنے بچوںا ور اپنے بھائیوں اور اپنے عزیزوں سے زیادہ تجھ سے پیا رنہیں کرتے اس وقت تک یہ مومن نہیں کہلا سکتے ۱؎ ۔پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ مجھ سے مؤدّت کرنی ضروری ہے اور ایسی ضروری ہے کہ تمہیں میری خاطر اگر اپنے ماں باپ کو چھوڑنا پڑے ۔ اپنے بیویوںکو چھوڑنا پڑے ۔ اپنے بچوں کو چھوڑنا پڑے اپنے بھائیوں کو چھوڑنا پڑے ۔ اپنے دوستوں کو چھوڑنا پڑے تو ان سب کو چھوڑ دو۔ پس اس محبت کانہ صرف وجود ثابت ہے بلکہ قرآنِ کریم کی دوسری آیات سے اس قسم کی مؤدّت کا حکم ثابت ہے ۔ اور بتایا گیا ہے کہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی محبت نہیں رکھو گے جو دوسری تمام محبتوں پر غالب ہو تو اس وقت تم ایمان دار نہیں کہلاسکتے۔ پس یہ دونوں معنے باطل ہیں۔
اب ایک ہی صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ کے الفاظ کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی چسپاں کیا جائے اور اس آیت کے معنے یہ کئے جائیں کہ میں تم سے کوئی دنیوی اجر نہیںمانگتا ہاں تم ایک مطالبہ ضرور کرتا ہوں۔اور وہ یہ کہ تم میرے ساتھ روحانی تعلق پید اکرو اور اس تعلق میںایسے اعلیٰ درجہ کے ثابت قدم نکلوکہ اس کی نظیر کسی دنیوی رشتے میں نہ مل سکے اور یہ معنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے بالکل شایاں ہیں ۔ پس قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرً اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ کے یہ معنے ہوئے کہ میں تم سے ایسے ہی تعلقاتِ محبت کا تقاضا کرتاہوں جیسے اعلیٰ درجہ کے قریب سے قریب رشتہ داروں کا آپس میں ہوتاہے ۔گویا وہ مودّت جو قریبی رشتہ داروں میں ہوتی ہے میں تم سے ایسی مودّت کا اپنے متعلق تقاضا کرتا ہوں۔یہ وہی مضمون ہے جسے دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اِنَ اللہَ یَاْمُرُ بِا لْعَدْلِ وَ الْا ِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبیٰ( نحل آیت ۹۱) فرماتا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں عدل اور احسان اور ایتاء ذی القربیٰ کا حکم دیتا ہے ۔ ایتاء ذی القربیٰ
۱؎ سورئہ توبہ آیت ۲۴۔
سے اس جگہ یہی مراد ہے کہ تمہارا نیکیوں کی طرف ایسا طبعی میلان ہو جائے کہ تمہیں نیکی کا کام کرتے وقت یہ خیال ہی پیدا نہ ہو کہ تمہیں اس کے بدلہ میں کچھ ملے گا یانہیں۔گویا تمہیں وہ مقام حاصل ہوجائے جو تمام دنیوی خیالات اور نتائج اور ثمرات کو نظر انداز کردینے والا ہو۔پس اِلاَّ الْمَوَدَۃَ فِیْ الْقُرْبیٰ کے معنے یہ ہوئے کہ میں تم سے وہ محبت چاہتا ہوں جو ایک ماں اور بچہ کے درمیان ہوتی ہے ۔ ماں اپنے بچہ سے حسن سلوک کرتے وقت یہ خیال نہیں کرتی کہ اس کے بدلہ میں مجھے کچھ ملے گا یا نہیں بلکہ وہ ایک فطری لگاؤ کے ماتحت اس سے پیار اور محبت رکھتی ہے۔ یہی حال بچے کا ہوتا ہے۔ماں کی محبت اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کی ہوئی ہوتی ہیاور وہ اس سے ایک والہانہ تعلق رکھتا ہے یہی امر اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ تم مجھ سے ایسی ہی محبت کرو جیسے ایک بچہ اپنی ماں سے کرتا ہے۔بلکہ دوسری آیت میں مومنوں سے اس سے بڑھ کر کر مطالبہ کیا گیا ہے۔اور فرمایا گیا ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے انبیاء سے اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ محبت ہونی چاہئیے ۔پس یہ کم سے کم مطالبہ ہے جو مومنوں سے کیا گیا ہے۔اور اگر اس حد تک کسی شخص کے دل میں محبت نہ پائی جائے تو اسے سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ اپنے دعوٰیٔ ایمان میں جھوٹا ہوتا ہے ۔ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرً اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ کے اصل معنے یہ ہیں کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ۔ہاں تمہاری اصلاح اور ترقی کے لئے یہ چاہتاہوں کہ تمہیں میرے ساتھ ویسی ہی محبت ہو جیسے ذی القربیٰ میں ہوتی ہے ۔یعنی تمہیں یہ احساس ہی نہ رہے کہ اس کے بدلہ میں ملے گا کیا ؟بدلے اور اجر کا خیال تمہارے دل سے بالکل مٹ جائے ۔
مفسُرین نے اس جگہ قربیٰ کے معنے یہ کئے ہیں کہ وہ رستہ جس سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو تا ہے اِلَّا الْمَوَدَّۃفِی الْقُرْبیٰ کی تشریح انہوں نے یہ کی ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ہے صرف یہ چاہتا ہوں کہ تمہارے اندر خدا تعا لیٰ کے قرب کی محبت پیدا ہوجائے ۔مگر اس میں مشکل یہ ہے کہ قربیٰ کے معنے لغت میں قرابت ِرحمی کے ہی ہوتے ہیں۔قُرب کے معنے نہیں ہوتے ۔لُغت والے اَلْقُرْبَۃُ ۔اَلْقُرْبُ اوراَلْقُرْبیٰ میں فرق کرتے ہیں ۔گویا یہ لفظ ت ؔ کے ساتھ ی ؔ اور بغیرت اور ی ؔ کے آتا ہے قرب کے معنے قُرِبِ مکانی کے ہوتے ہیں ۔ لیکن جب قُرِبِ مکانی نہ ہو بلکہ درجہ کا قُرب مراد ہو بلکہ رحمی تعلقات کے لحاظ سے کسی کا قُرب مراد ہو تو اس کے لئے قُرْبیٰ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ اَقْرَبَ الموارد میںلکھا ہے قِیْلَ الْقُرْبُ فِی الْمَکَانِ وَالْقُربیٰ فِی الرِّحْمِ وَالْقُرْبٰۃُ فِی الْمَنْزِلَۃِ ۔ پس چونکہ اس لغت اس میں فرق کرتی ہے اس لئے ہمیں قربیٰ کے وہی معنے کرنے پڑیں گے جو لغت کے مطابق ہوں ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی کوئی اعتراض پیدا کرنے کا موجب نہ ہو اور وہ معنے یہی ہیں کہ میں تم سے ایسی محبت کا تقاضا کرتا ہوں ۔جو ذی الْقُربیٰ سے کی جاتی ہے۔جو تعلق ماں کا اپنے بچے سے ہوتا ہے یا بچے کا اپنی ماں سے ہوتا ہے یاباپ کا اپنے بیٹے سے ہوتا ہے یا بیٹے کا اپنے باپ سے ہوتا ہے تم وہی تعلق میرے ساتھ پیدا کرو ۔ اس تعلق میں کوئی مادی خواہش نہیں ہوتی بلکہ فطری لگائو کے ساتھ ایک دوسرے سے محبت کی جاتی ہے ۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چونکہ میں معلم ہوں اور میرا کام یہ ہے کہ میں تمہیں دینی تعلیم سکھائوں اس لئے ضروری ہے کہ تمہارے اندر طبعی طور پر یہ احساس پایا جائے کہ تمہیں میرے پیچھے چلنا چاہیئے ۔ پس تم ایسی محبت کرو جیسا بچہ اپنی ماں سے کرتا ہے تاکہ تمہیں میرے سو چ سوچ کر میرے احکام کی اطاعت نہ کرنی پڑے بلکہ آپ ہی آپ میرے احکام کے پیچھے چل پڑو ۔گویا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جیسے بیٹا اپنے ماں یا بیٹا اپنے باپ سے کرتاہے اور یہاں تک وہ اپنے ماں باپ کی نقل کرتاہے کہ اگر ہم غور کریں تو انسانی خود وخالاور حرکات میں بھی بیٹیو ں مائوں باپوں اور لڑکیوں سے اتنی مشابہت پائی جاتی ہے کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے ۔ بعض دفعہ باپ کو اپنا ہاتھ کسی خاص طرز پر ہلانے کی عادت ہوتی ہے تو بیٹا بھی اسی طرز پر اپنا ہاتھ ہلانے لگ جاتا ہے یا ماں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی آنکھ کو کسی خاص طریق پر حرکت دے اس کی بیٹی بھی اسی طریق پر اپنی آنکھ کو حرکت دینے لگ جاتی ہے ۔ یا اگر کسی شخص کو خاص طورپر لوچ اور لچک کے ساتھ بات کرنے کی عادت ہوتو بچے بھی اسی طرح لوچ اور لچک کے ساتھ بات کرتے ہیں اگر باپ کے اندر لکنت پائی جاتی ہو تو عام پر دیکھا جاتا ہے کہ بچوں میں بھی لکنت پیدا ہوجاتی ہے تو بچو ں میں ایسا مادہ پایا جاتا ہے کہ جس طرح وہ اپنے ماں باپ کو کام کرنے دیکھتے ہیں اسی طرح خود کام کرنے لگ جاتے ہیں اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُربیٰ میں اس امر کی طر ف اشارہ ہے کہ تم میرے ساتھ صرف ذہنی تعلق نہ رکھو صرف جذباتی تعلق نہ رکھو بلکہ ایسا تعلق رکھو جیسا کہ بچے کا اپنے ماں اور باپ سے ہوتا ہے جس طرح کہ وہ اپنے ماں باپ کی خود بخود نقل کرنے لگ جاتاہے اسی طرح اگر تم مجھ سے فائدہ اٹھانا چاہو تو میرے ساتھ صرف فکری تعلق نہ رکھو بلکہ ایسا تعلق رکھو کہ تم اپنے افکار اور اپنے خیالات اور اپنے اعمال میں خود بخود میری نقل کرنے لگ جائو جیسا بچہ اپنے ماں یا باپ کی نقل کرنے لگ جاتاہے ۔یہ چیز ایسی ہے جو واقعہ میں قابلِ تسلیم ہے کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی شخص فائدہ اٹھائے گا جو ہر کام میں طبعی طورپر آپ کی نقل کرے گا ۔ اگر یہ مادہ اسکے اندر نہیں ہوگا تو وہ آپؐ سے فائدہ کیا اٹھائے گا ۔
ان معنوں سے آپ کے انبیائے سابقین پر فضیلت بھی ثابت ہوجاتی ہے اوروہ اعتراض بھی واقعہ نہیں ہوتا جو بعض لوگوں کے معنے تسلیم کرنے سے آپؐ پر عائد ہوتا ہے اس آیت کے غلطی سے جو معنے کئے جاتے ہیں وہ دوسرے نبیوں کے مقابلہ میں آپ کی تنقیص کرنے والے ہیں کیونکہ باقی نبی اپنی امتوں سے یہی کہتے رہے کہ ہم تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے مگر ان کے نزدیک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر یہ کہہ دیا کہ تم مجھے بیشک کوئی اجر نہ دو مگر دیکھنا میرے بچوںاور میرے رشتہ داروں کا خیال رکھ لینا ۔ لیکن یہ معنے جو میں نے کئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہی زیادہ مکمل ہے کیونکہ پہلے انبیاء نے صرف یہی کہا کہ ہم تم سے کوئی اجرنہیں مانگتے ۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ میں تم سے ایک اجر مانگتاہوں ۔ مگر وہ اجر بھی ایسا ہے جس کا تمہاری ذات کو ہی فائدہ پہنچ سکتاہے اور وہ یہ کہ تم مجھ سے ایسا تعلق رکھوجیسے بچہ اپنی ماں سے رکھتاہے تاکہ تم رات اور دن میرے اعمال کی نقل کرتے رہو جو کچھ میں کہوں اسکی تم نقل کرو۔اورجو کچھ میں کروں اس کی تم نقل کرو جس طرح ماں باپ ہندوستانی لباس پہنتے ہیں تو بچہ بھی ہندوستانی لباس پہننے لگ جاتاہے۔ ماں باپ جو زبان بولتے ہیں وہی زبان بچہ بھی بولنے لگ جاتاہے اسی طرح تم میری طرف دیکھو اور میری کامل طور پر اتباع کرو۔ تاکہ جو تعلیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہای ہدایت کے لئے مجھے ملی ہے وہ تمہاری رگ رگ اور ریشہ ریشہ میں سرایت کرجائے ۔ یہ معنے ایسے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے انبیا ء کی فضیلت اور برتری ثابت کرنے والے ہیں۔ پہلے انبیاء نے اِلَّا الجمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ نہیںکہا۔ اس لحاظ سے ان کی تعلیم یقینا اس درجہ کی نہیں تھی جس درجہ کی تعلیم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی یہ معنے جو میں نے اس آیت کے کئے ہیں ا ن کی تصدیق اسی آیت کا اگلاحصہ بھی کردیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔ وَمَنْ یَّقْتَرِنج حَسَنَۃُ نَّزِدْلَہٗ فِیْھَا حُسْنًا۔جو شخص نیکی کی کوئی کام کرتا ہے ہم اس کی نیکی کو اس لئے اور زیادہ حسین بنا دیتے ہیں ۔اب اگر اس آیت کے معنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں سے تعلقات ِمحبت رکھنا ہوتا تو مَنْ یَّقْتَرِنْ حَسَنَۃٌ نَّزِدْلَہٗ فِیْھَا حُسْنًا کے ذکر کا موقع ہی کیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ جو شخص نیکیوں میںحصہ لیتا ہے ہم اس کے حسن کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں ۔اب اس آیت کا اس سے کیا تعلق ہوسکتا ہے کہ میرے رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا لیکن میں نے جو معنے کئے ہیں ان کے لحاظ سے یہ آیت بالکل صاف ہے ۔میں نے یہ معنے کئے کہ تمہارا میرے ساتھ بچوں والا تعلق ہونا چاہیئے ۔ جس طرح بچہ بغیر فکر اور بغیر دلیل کے اپنے ماں باپ کی نقل کرتا ہے ۔ اسی طرح تمہارافرض ہے کہ تم میری نقل کرو۔ اس پر سوال پیدا ہوتا تھا کہ بچہ تو عقل کے بغیر نقل کرتاہے پس اگر ہم بھی بچوں کی طرح آپ کی نقل کرتے ہیں اور خود غور اور فکر سے کام نہیں لیتے تو یہ ایک ادنیٰ مقام ہے ۔ انسان کو تو جو بات ماننی چاہیئے وہ علیٰ وجہ البصیرت ماننی چاہیئے نہ کہ اندھا دھند ۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ پہلا درجہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا یہی ہوگا کہ تم ان کی ویسی ہی نقل کرو جیسے بچہ ماں باپ کی نقل کرتاہے مگر مَنْ یَّقْتَرِفْ حَسَنَۃً نَّزِدْلَہٗ فِیْھَا حُسْنًا جو شخص آ پ کی نقل کرے گا ۔ اعمال میں آپ کی نقل کرے گا جذبات میں آپ کی نقل کرے گا او اس طرح نیکیاں اپنے اندر پیدا کرتاچلا جائے گا تو گویہ اوپر کے مقام کی نسبت سے ایک ادنیٰ مقام ہوگا ۔ مگر جوں جوں اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ یقین پیدا ہوتا چلا جائے گا کہ آپؐ خداتعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اور وہ آپ کی کامل متابعت کرتارہے گا تو نَزِدْلَہٗ فِیْھَا حُسْنًا ہم اسے رفتہ رفتہ ایک ایسے مقام پر پہنچا دیں گے کہ اسے اعمال کے متعلق ایک کامل بصیرت حاصل ہوجائے گی ۔ گویا ہم اسے پہلے درجہ پر ہی نہیں رہنے دیں گے بلکہ براہ راست اس کے دل پر نُورِ نبوت نازل کرکے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت اورآپ ؐ کی کامل فرمانبرداری کے طفیل اسے بصیرت بھی عطا کردیں گے ۔
پس نَزِدجلَہٗ فِیْھَا حُسْنًا جو اس آیت کا اگلا حصہ ہے یہ بھی بتا رہا ہے کہ اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ سے مراد دنیوی سلو ک نہیں ورنہ نَزِدْلَہٗ فِیْھَا حُسْنًا کے کوئی معنے ہی نہیںبنتے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں پہلے انبیاء بھی اپنی اپنی جگہوں پر لوگوں سے یہی کہتے ہوںگے کہ ہم تمہارے باپ ہیں۔ جیساکہ قرآن کریم سے پتہ لگتاہے ہے کہ ہر نبی مومنوں کا باپ ہوتا ہے اور وہ ان کو اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوں گے کہ جیسے بچے اپنے ماں باپ کی اطاعت کرتے ہیں اسی طرح تمہارا فرض ہے کہ ہماری اطاعت کرو۔ لیکن جب انہوں نے یہ کہا کہ ہم تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے توا س وقت انہوں نے اس کے ساتھ یہ دوسرا فقرہ نہیں کہا جو قلوب میں ایک گدگدی پیدا کردیتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی شخص سے کوئی بڑا کام لینا چاہتاہے توا س کیلئے سامان میں پیدا کردیتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے جو کام لیا وہ کسی اور نبی سے نہیں لیا۔ اسی لئے آپؐ پر جو کلام نازل ہوا وہ بھی ایسا مکمل ہے کہ اس کی آیات کو پڑھتے ہوئے یو ں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز ہمارے دل کو پکڑ رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ یہ بھی لے لواور وہ بھی لے لو۔
اَوْفُواالْکَیْلَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ٭
(اے لوگو!)پیمانہ پورا (بھر کر)دیا کرو ۔اور (دوسروںکو) نقصان پہنچانے والے مت بنو۔
وَزِنُوْ ابِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ٭
اور سیدھی ڈنڈی سے تولا کرو۔
وَلَا تَبْخِسُواالنَّاسَ اَشْیَآ ئَ ھُمْ تَعْثَوْ افِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ٭
اور لوگوںکو ان کی چیزیں (ان کے حق سے) کم نہ دیا کرو۔ اور ملک میں ہرگز فساد نہ کرو۔۳۲؎
۳۲؎ حل لغات:۔اَلْقِسْطَاسَ:اَلْمِیْزَانُ یعنی قسطاس کے معنے ترازو کے ہیں۔ وَاَقْوَمُ الَمِیْزَنِ۔اور خاص طور پر اُس ترازو کے جو بالکل صحیح تول دیتاہو (اقرب)
تفسیر۔حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم دوسروں کو پیمانہ پورا بھر کردیا کرو۔ اور لوگوں کو نقصان پہنچانے والے مت بنو۔ اور ترازوکی ڈنڈی بھی سیدھی رکھا کرو۔ اور انہیں جائز حق سے کم مت دیا کرو۔ اور ملک میں فتنہ وفساد سے کلی طور پر مجتنب رہو۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم میں شرک کے علاوہ تجارتی بددیانتی کا بھی بڑا زور تھا ۔ چونکہ ان لوگوں کا گزارہ زیادہ ترتجارت پرتھا اس لئے وہ دھوکا اور فریب سے کام لینے لگ گئے ۔ وہ اوّل تو وزن میں کمی کردیتے تھے ۔ جس کیلئے ممکن ہے انہوں نے مختلف قسم کے باٹ رکھے ہوئے ہوں ۔اشیاء لیتے وقت اور قسم کے بٹے استعمال کرتے ہوں اور دیتے وقت اور قسم کے بٹوں سے وزن کرتے ہوں۔ پھر وہ ڈنڈی مارنے میں بھی مہارت رکھتے تھے ۔ اور ماپ اور تول دونوں میں لوگوں کو لٹنے کی کوشش کرتے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں تجارتی بددیانتی سے بازرکھنے کی کوشش کی ۔ مگر وہ لوگ جنہیں حرام مال کھانے کی چاٹ لگ گئی تھی اس سے کب باز آنے والے تھے انہوں نے اور بھی اپنے ہاتھ رنگنے شروع کردیئے اور آخر وہ وقت آیا جب اُن کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور آسمان سے عذاب کے فرشتے ان کی تباہی کے لئے نازل ہوگئے ۔
افسوس ہے کہ یہ مرض اس زمانہ میں بھی بڑے زوروں پر ہے اور دیانت ہمارے ملک سے اس حد تک اٹھ چکی ہے کہ ہرشخص چاہتا ہیکہ وہ دوسرے کو جس حد تک ممکن ہولوٹے اور نقصان پہنچائے ۔ گاہک چاہتے ہیں کہ دوکاندار کم قیمت وصول کریں۔ اور دوکاندار اس کا علاج یہ سوچتے ہیں کہ وہ ناقص اور گندی چیزیں کم قیمت پر گاہکوں کو دے دیتے ہیں میں تو سودا لینے نہیں جاتالیکن چونکہ سودے ہمارے گھروں میںآتے رہتے ہیں اس لئے میں کہہ سکتا ہوں کہ سودوں میں بالعموم دیانت سے کام نہیں لیاجاتا ۔آٹے میں مٹی ملی ہوئی ہوتی ہے اور کھانڈ اور شکر میں بھی بہت کچھ میل اور گند ہوتاہے یہ دوچیزیں ایسی ہیں جو فوراً نظرآجاتی ہیں چنانچہ کھانڈ کے ہرچمچہ میں انسان اگر آنکھیں کھول کر دیکھے تو اسے بہت سی مٹی ملی ہوئی دکھائی دیگی ۔ جس صاف معلوم ہوتا ہے کہ وزن زیا دہ کرنے کے لئے مٹی ملائی جاتی ہے۔ اسی طرح آٹے میں ریت اور مٹی ہوتی ہے ۔ دانت کے نیچے آٹے کو ذرا چبا کر دیکھو تو فوراً اس سے کِرکِر کی آواز آنے لگے لگی ۔ عام طور پر ہمارے ملک میں لوگ اپنی صحت کا خیال نہیںرکھتے حالانکہ اگر وہ لقمہ لقمہ چبا کر کھانے کی عادت
رکھتے توا نہیں معلوم ہوجاتا کہ وہ آٹا نہیں کھا رہے بلکہ گند کھا رہے ہیں ۔نوّے فی صدی آٹا ایسا ہوتا ہے جس میں کِر کِر ہوتی ہے۔ذرا اسے دانتوں کے نیچے دباؤتو کِر کِر کی آواز آنے لگ جائے گی اور یہ صحت لئے سخت مضر ہوتا ہے ۔پھر یہ دھوکہ بازی بھی ہے کہ دوکاندار قیمت خالص آٹا کی وصول کرتے ہیں اور آٹا وہ دیتے ہیں جس میں ریت اور مٹی ملی ہوئی ہوتی ہے ۔بد دیانتی صرف اس چیز کا نام نہیں کہ تم کسی کا ناحق روپیہ لے لیتے ہو بلکہ بددیانتی اس بات کا بھی نام ہے کہ تم کسی کی کوڑی اُٹھالیتے ہو ۔اسی طرح بددیانتی صرف اس کا نام نہیں کہ تم ۹۵فی صدی آٹا اور ۵فیصدی مٹی ملا کر دو بلکہ اگر تم ۹۸فیصدی آٹااور ۲فیصدی مٹی ملاتے ہو ۔یا ننانوے فیصدی آٹا اور ۱فیصدی مضی ملاتے ہو یا ساڑھے ننانوے فیصدی آٹااورنصف فیصدی مٹی ملاتے ہو بلکہ اگر تم ۹۹۹ حصّہ آٹا اور ۱۰۰۰/۱ حصہ مٹی ملاتے ہو تو وہ بھی ویسی ہی بددیانتی اور گندی عادت ہے جیسے۵فیصدی مٹی ملانا ۔نیکی اور بدی دل سے تعلق رکھتی ہے ۔جس طرح اگر کوئی شخص خداتعالیٰ کی راہ میں اخلاص سے ایک پیسہ دیتا ہے اور وہ یہ امید رکھتا ہے کہ اس کا ایک پیسہ امیر آدمی کے ایک لاکھ روپیہ سے کم نہ سمجھا جائے اور وہ اخلاص سے ایک پیسہ دے کر سمجھتا ہے کہ اس نے ایک لاکھ روپیہ دینے والے جیسی قربانی کی تھی تو اسی طرح اگر کوئی شخص ۵ فیصدی ٹھگی کرتا ہے تو وہ بھی ٹھگ ہے اور جو ۱۰۰۰/۱ حصہ کی ٹھگی کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی ٹھگ ہے ۔جس طرح نیکی کی جزا نیت پر ہے اور اسی طتح بدی کی سزا بھی نیت پر ہے ۔جس طرح اللہ تعالیٰ یہ نہیںدیکھتا کہ اس کی راہ میں ایک غریب نے اخلاص سے ایک پیسہ دیا اور دوسرے امیر نے ایک لاکھ روپیہ دیا ۔بلکہ وہ اخلاص دیکھتا ہے اور اس کے مطابق جزا دیتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ ایک نے ۵ فی صدی ٹھگی کی ہے اور دوسرے نے آدھ فی صدی بلکہ وہ کہے گا کہ دونوں نے ٹھگی کی ہے۔۵ فیصدی ٹھگی کرنے والے نے بھی ٹھگی کی ہے اور ۱۰۰۰/۱حصہ ٹھگی کرنے والے نے بھی ٹھگی کی ہے تقدس اور نجات کا دل سے تعلق ہوتا ہے اور جس طرح زیادہ نیکی بھی نیکی اور تھوڑی نیکی بھی سمجھی جاتی ہے اسی طرح زیادہ بدی بھی بدی اور تھوڑی بدی بھی بدی سمجھی جاتی ہے ۔ممکن ہے کسی جگہ دوکاندار خود اس قسم کی حرکات نہ کرتے ہوں اور ماہر سے بے احتیاطی سے اس قسم کا ناقص مال لے آتے ہوں۔ لیکن اس صورت میں بھی وہ برے نہیں ہوسکتے کیونکہ اگر کوئی شخص جاتا ہے اور خراس والے سے گندہ آٹا لے آتا ہے تو یہ اسی کا قصور ہے اگر گندہ آٹا تھا تو وہ کیوں لایا ۔ اُسے چاہیئے تھا کہ وہ نہ لاتا۔ اور اگر وہ ناقص مال سمجھ کر سستا لے آیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ بلا واسطہ فائدہ اٹھاتا ہے ۔ مثلاً دوسری جگہ سے اچھا آٹا خریدتا تو اس کے ایک سو ایک روپے خرچ ہوتے ۔ لیکن جس خراس والے سے اس نے خریدا اُسے سو روپے دینے پڑے تواس صور ت میں بھی یہ ٹھگ ہے کیونکہ یہ دوسرے کی ٹھگی میں شریک ہوتا ہے ۔ پس اگر اس قسم کی ٹھگی یہ خود نہیں کرتا بلکہ باہر سے ناقص سودا لاتا اور بیچتا ہے تب بھی وہ ویسا ہی ٹھگ ہے جیسے اپنے ہاتھ سے آٹے میں مٹی ملانے والا۔ ولایت میں کئی چور ایسے ہیں جو یتیم بچوں کی پرورش کرتے اورپھر ان کے ذریعہ چوریاں کرواتے ہیں ۔ اب کیا تم سمجھتے ہو وہ یتیم بچوں کے ذریعہ چوریاں کروانے کی وجہ سے کم چورہیں۔ اگر خود چوری کرتے تو زیادہ چور ثابت ہوتے ۔ وہ ویسے ہی چور ہیں جیسے اپنے ہاتھ سے چوریاں کرنے والے۔ اسی طرح جب تم خراس سے ناقص آٹا لاتے ہو اور یہ سمجھتے ہو کہ یہ خراب ہے تو تم ویسے ہی مجرم ہو جیسے اپنے ہاتھ سے آٹے میں مٹی یا ریت ملانے والا۔ پھر کئی لوگ بظاہر دیانت دار بھی ہوتے ہیں اور وہ مٹی نہیں ملاتے لیکن جب گیہوںکو صاف کرنے کے لئے زمین پر پھیلاتے ہیں تو اسے سمیٹتے وقت جب جھاڑو دیں گے تو پائو یا سیر کے قریب
اس میں مٹی بھی ملا دیں گے اور اپنی طرف سے یہ سمجھیں گے کہ ہم تو بڑے دیانت دار ہیں حالانکہ وہ دیانت دار نہیں ہوتے ۔ اسی طر ح بعض غلّہ فروش کمپنیوں کے ایجنٹ غلّہ خریدتے ہیں ۔ تو اس میں باریک غبار ملادیتے ہیں ۔چونکہ لاکھوں کا غلّہ ہوتاہے اس لئے ان کی یہ چا لاکی چھپی رہتی ہے اور ہر ایک کو اس کا پتہ نہیں لگتا ۔بعض لوگ غلّے کو پانی کا چھینٹادے دیتے ہیں ۔ تاکہ بوجھل ہو جائے ۔ اسی طرح اگر کسی کو کچھ خریدنا ہوتا ہے تو کہتا ہے میں نے اتنا مال لیا مگر تم کچھ بھی رعایت نہیں کرتے اور اگر بیچنا ہوتا ہے تو کہتاہے کہ کیا تم ہمارا گھر ہی لوٹ کر لے جائو گے ۔اسی طرح بمبئی کے بعض تجار کی نسبت تو عجیب روایات سنی جاتی ہیں ۔کہتے ہیں بعض تاجروں کے تین قسم کے باٹ ہوتے ہیں (۱)پورے وزن کے (۲)بھاری(۳)ہلکے۔ اور ان کے انہوں نے عجیب عجیب نام رکھے ہوئے ہیں۔کسی کا نام سبحان اللہؔ رکھا ہوتا ہے۔ کسی کانام استغفراللہ ؔ اور کسی کانام لاحول ولا قوۃ ۔اور جس قسم کا کوئی آدمی دیکھتے ہیں اُسی طرز کا اس سے سلوک کرتے ہیں ۔اگر ہوشیا ر آدمی ہوتو اصل بٹہ نوکر کو لانے کاحکم دیا۔ اور وہ لفظ بول دیا جس سے اصل بٹو ں کی طرف اشارہ ہوتاہے ۔ کوئی سادہ لوح آیا تو چھوٹے بٹے منگوالئے ۔ اسی طرح دھوکا باز عطاروں کا طریق ہے کہ علاقہ میں کوئی وباء ہوجائے تو حکیم لکھنا شروع کردیتے ہیں کہ مریض کو عرق مکو اور عرق گائو زبان پلائو توایک دیانت دار عطار تو بعض دفعہ کہہ دے گا کہ میرے پاس عرق مکو اور عرق گائو زبا ن تیار نہیں۔ لیکن بددیانت عطار کہے گا ۔ میرے پاس دونوں چیزیں موجود ہیں۔ و ہ پانی لے گا بوتل میں بھر دے گا اور کہے گا یہ عرق مکو ہے ۔ یہ عرق کا سنی ہے ۔ یہ عرق گلا ب ہے ۔ تم جو عرق بھی مانگو گے وہ اس کے پاس موجو د ہو گا ۔
ہماری تاریخ طبّ کی کتابوں میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک عبّاسی بادشاہ نے کہا ۔اب طبّ بڑی ترقی کررہی ہے ۔اس پر کسی نے کہا ۔طبّ ترقی کیسے کرسکتی ہے ۔جب تک دوائیں بیچنے والوں میں دیانت پیدا نہ ہو ۔ طبیب چاہے کوئی نسخہ لکھے اس سے کیا فائدہ ہوگا ۔بادشاہ نے کہا ۔بغداد میں پانچ چھ سو دوکانیں ہیں ۔تم تجربہ کرلو ۔اس پر انہوں نے کسی دوائی کا مصنوعی نام رکھ لیا اور کہا ۔یہ دوا منگوا دو ۔وہ دواآنی شروع ہوئی ۔کسی دوا فروش نے ملٹھی ؔبھیج دی اور کہدیا یہی وہ دوا ہے ۔کسی نے عنابؔبھیجدئے اور کہدیا یہی وہ دوا ہے۔ غرض سب دوکانداوں نے یہی طریق اختیار کیا ۔صرف ایک دوکاندار ایسا نکلا جس نے کہا کہ میرے پاس یہ دوا نہیں ۔میں نے یہ نام پہلے کبھی نہیں سنا ۔بادشاہ نے دریافت کیا کہ کس دوکاندا ر نے سچ بولا ہے ۔تو طبیبوں نے کہا ۔سب جھوٹ بولتے ہیں ۔سچا وہی ہے جو کہتا ہے کہ میں نے یہ نام پہلے کبھی نہیں سنا ۔کیونکہ ہم نے مصنوعی نام رکھ کر یہ تجربہ کیا تھا۔اس تجربہ کی وجہ سے مسلمان بادشاہوں نے دوا سازی کا بھی امتحان رکھا تھا اور دوائوں کی پہچان کے لئے سکول بنائے گئے تھے اور جو شخص وہ مخصوص امتحان پاس کر لیتا تھا صرف اس کو دوائی بیچنے کی اجازت دی جاتی تھی۔عام لوگوں کو دوا فروشی کی اجازت نہیں تھی۔
کشمیر میں مَیں نے دیکھا ہے وہاں لوگ مشک کا نافہ لاتے ہیں ۔اور کہتے ہیں کہ اس کے اندرا یک تولہ مشک ہے ۔اور اس کی اصل قیمت بتیس روپے ہے مگر چونکہ ہمیں روپے کی ضرورت ہے اس لئے ہم آپ کو چوبیس پچیس روپے میں نافہ دے دیں گے۔پھر وہی نافہ جس کی جس کی وہ پچیس روپے قیمت بتاتے ہیں بعض دفعہ آٹھ آنہ میں بھی دے دیتے ہیں ۔اور جب تم آٹھ آنہ کا نافہ لے کر یہ سمجھتے ہو کہ دنیا کے سب سے بڑے ماہر تم ہو کیونکہ تم نے ایک شخص سے مشک کانافہ آٹھ آنہ میں لے لیا تو اس وقت بھی تم دھوکہ خوردہ ہوتے ہو۔کیونکہ جب اسے کھول کر دیکھا جاتا ہیتو اس میں سے کبوتر کے جمے ہوئے خون کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا اور تمہیں معلوم
ہوجاتا ہے کہ بڑے ماہر تم نہیں بلکہ بڑا ٹھگ وہی تھا جو تمہیں لوٹ کر لے گیا۔وہ نوفہ کے باہر تھوڑی سی مشک مل دیتے ہیں اوراندر کبوتر کا خون بھر دیتے ہیں ۔کبوتر کے خون کی بعض دوائیوں کے ملانے سے بالکل مشک کی سی شکل ہوجاتی ہے اور ناواقف آدمی سمجھتا ہے کہ آج میں نے بڑا سستا سودا کیا ہے۔میں نے آٹھ آنہ میں مشک کا نافہ خرید لیا ہے ۔حالانکہ اس میں کبوتر کا خون ہوتا ہے اور کبوتر کے خون کی قیمت ایک روپیہ بھی نہیں ہوتی۔
اسی طرح ایک دفعہ میں کشمیر گیا ۔وہاں ایک قسم کی قالین بنتی ہے جو اونی کپڑے کاٹ کاٹ کر اور پھر ان کو سِی کر بناتے ہیں۔اور اس کو گابھاؔ کہتے ہیں ۔ہمیں وہ دیکھ کر پسند آیا۔ چنانچہ میں نے بھی چاہا کہ یہاںسے دوچار خرید کر لے جائیں ۔ اپنے گھروں میں تحفہ دیں گے ۔ ایک شخص اسلام آباد میں اس کا م کے لئے اچھا مشہور تھا ۔ میں نے اس کو جا کر کہا ۔ کہ میں یہ قالین پنجاب میں تحفہ لے جانا چاہتاہوں تم مجھے اچھے سے قالین بنا دو۔ اُس نے کہا۔ اچھا کچھ پیشگی دے دیں۔ چنانچہ ہم نے کچھ رقم اس کو پیشگی دے دی اور ہم آگے پہاڑ پر سیر کے لئے چلے گئے ۔ میں نے اُسے یہ بھی کہا کہ دیکھنا میں جو اس کی لمبائی چوڑائی بتائوں گا وہ ٹھیک ہو۔ کیونکہ میں کمروں کے لحاظ سے لے رہا ہوں۔ اُس نے کہا ۔بالکل ٹھیک ہوں گے ۔جب وہ آئے تو مجھے دیکھتے ہی پتہ لگ گیا کہ وہ ٹھیک نہیں ہیںاور پھر جو ماپ کر دیکھا تو ایک بالشت چوڑائی میں کمی تھی ۔میں نے اس کو کہا کہ یہ تم نے بڑی دھوکا بازی کی ہے کہ اس کو چھوٹا بنادیا ہے۔اس پر اس نے شور مچانا شروع کردیا کہ ’’میںمسلمان ہوں‘‘ ’’میں مسلمان ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔ مسلمان تو تم ہوئے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ساتھ تمہارا وعدہ تھا یا نہیں کہ اتنے لمبے چوڑے قالین بنائوں گا۔ اور پھر دوچار آدمیوں کے سامنے یہ بات ہوئی تھی ۔ میں نے ان آدمیوں سے کہا کہ بتائو تمہارے سامنے اس نے یہ وعدہ کیا تھا یا نہیں۔ انہوں نے کہا ۔تمہارے سامنے وعدہ کیا تھا ۔اس پر میں نے اسے کہا کہ دیکھو تم نے وعدہ کیا تھا ۔ وہ اپنے کشمیری طریق پر کہنے لگا ۔ ’’جی میں مسلمان ہوندی۔ میں مسلمان ہوندی‘‘ ۔میری عمر اس وقت کوئی اُنیس بیس سال کی تھی ۔مجھے اس پر غصہ چڑھے کہ یہ اپنا ٹھگی کی ہے جانے دو۔یہ کیوں کہتاہے کہ میرے مسلمان ہونے کے لحا ظ سے میرا حق تھا کہ میں ٹھگی کرتا۔ غرض میں اصرار کروں کہ اسے پورا کرو۔ اور وہ یہی کہتا جائے کہ میں مسلمان ہو۔ میں مسلمان ہوں ۔ گویا اسلام اتنا گر گیا ہے کہ اب یہ سمجھاجا تاہے کہ مسلمان اگر ٹھگی کرے تو یہ بھی اس کا ایک قسم کا جائز حق ہے ۔
میں جب پہلی دفعہ کشمیر گیا تومجھے معلوم ہوا کہ کشمیر کے تاجروں کی صرف چاندی کے کام کیایک کروڑ روپیہ کی تجارت یورپ والوں سے تھی۔ایک کروڑ روپیہ کی تجار ت کے یہ معنے ہیں کہ بیس پچیس لاکھ روپیہ انہیں بطور منافع حاصل ہوتا تھا اور کام کی مزدوری الگ تھی لیکن مجھے بتایا گیا کہ اب یہ تجارت سولہ لاکھ روپیہ تک رہ گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ کے لوگ کہتے ہیں۔ یہاں کے مال کا کوئی معیارنہیں۔ کبھی کوئی چیز بھیج دیتے ہیں اور کبھی کوئی ۔کبھی تو نہایت اعلیٰ مال روانہ کردیںگے اور کبھی اس میں کھوٹ ملادیں گے۔حالانکہ اگر وہ دیانت داری سے کام کرتے تو وہ ایک کروڑکی تجارت آج تین چار کروڑ روپیہ پہنچی ہوئی ہوتی ۔ پہلے زمانہ میں
تجارتیں بہت کم تھیں۔ تجارت میں زیادتی اسی زمانہ میں ہوئی ہے۔ پھر اگر اس زمانہ میں جب کہ تجارت کا رواج بہت کم تھا ان کی ایک کروڑ روپیہ کی تجارت ہوسکتی تھی تو لازماً اب وہ تجارت تین چار کروڑ روپیہ کی ہوجاتی ۔ مگر بجائے اس کے کہ ان کی تجارت تین چار کروڑ روپیہ تک ترقی کرتی اور کروڑ ڈیڑھ کروڑ روپیہ انہیں نفع حاصل ہوتا۔ پہلی تجارت بھی گر گئی اور وہ ایک کروڑ سے اُتر کر سوالاکھ روپیہ تک آگئی ۔اگر وہ تھوڑے سے نفع کی خاطر بددیانتی کرکے اپنے کام کو نقصان نہ پہنچاتے تونتیجہ یہ ہوتا کہ ان کی یہ تجارت خوب چلتی مگر چونکہ انہوں نے بددیانتی کی اس لئے تجارت میں نفع ہوگیا انگریزوںکے کئی لوگ دشمن ہیں ۔مگر دشمن بھی اقرار کرتے ہیں کہ تجارت کے معاملہ میں انگریزوں پر زیادہ اعتبار کیا جاسکتا ہے ۔ انگریزوں سے اتر کر امریکہ اور جرمن کے لوگ ہیں اور ان سے اتر کر اور ممالک کے لوگ ہیں ۔ مگر ایشیا تجارت میں اتنی خطرناک طورپر بدنام ہے کہ کوئی قوم اس پر اعتبار نہیں کرتی ۔ حالانکہ قوم ترقی ہمیشہ امانت اور دیانت داری کی شہرت کے ساتھ ہوتی ہے ۔اگر تمام مسلمان تاجر دیانتدار ہوں تو لوگ سودوکانوںکو چھوڑ کر ان کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ ان سے سودا اچھا ملتا ہے ۔لیکن اگر کوئی مسلمان دوکاندار بھی ایک من آٹے میں سیر بھی مٹی ملادیتا ہے تو اس کے اندر وہ کون سے چیز ہوگی جس کی وجہ سے لوگ اس کی طرف توجہ کریں گے ۔پس ہر شخص کو اس بات کا فیصلہ کرنا لینا چاہیئے کہ میں نے بددیانتی کو مٹانا ہے ۔ اگر اس کا باپ دوکاندار ہے تو وہ اپنے باپ سے کہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوںگا ۔ اگر اس کے دوست اور رشتہ دار دوکاندار ہیں تو وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے کہہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوںگا ۔اگر اس کی بیوی دوکان کرتی ہے تو وہ اپنی بیوی سے کہہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیںکرنے دوںگا ۔اور اگرتم باز نہ آئے اور اصلاح نہ کی تو میں تمہارے خلاف کھڑا ہوجائوں گا ۔ اگر ہر شخص اس بات کا تہیہ کر لے کہ میں نے بددیانتیوں کا مقابلہ کرنا ہے تو ایک گھنٹہ کے اندر اندر اس عیب کی اصلاح ہو سکتی ہے ۔ اگر تمہار ا بھائی تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتا ہے ۔ اگر تمہارا باپ تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتا ہے اگر تمہاری ماں تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتی ہے اگر تمہاری بیوی تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتی ہے تو یہ بددیانتی اس وقت تک پنپ سکتی ہے ۔ جب تک ان کو یقین ہے کہ تم ان کی محبت کی خاطر ان کی بالا افسروں کے پاس رپورٹ نہیں کروگے ۔ لیکن جب ان کو معلوم ہوجائے گا کہ تم ان کی محبت کی پرواہ نہیں کرو گے اور تم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر وہ بددیانتی سے بازنہ آئے تو تم انکی رپورٹ کرو گے تو کیا یہ ہوسکتا ہے کہ وہ دوسرے منٹ میں بددیا نتی کریں۔ باپ کہے گا بیٹا پچھلا قصور جانے دو آئندہ میں کبھی بددیانتی نہیںکروں گا ۔ بھائی کہے گا پچھلا قصور معاف کرو آج سے میں باز آیا بیوی کہے گی ۔ اب یہ قصور معاف کردو آئندہ میںایسی حرکت نہیں کروں گی ۔ پس قوم کی اصلاح باپ کے ہاتھ میں ہے ۔ باپ کی اصلاح بیٹے کے ہاتھ میں ہے ۔بھائی کی اصلاح بھائی کے ہاتھ میں ہے ۔ بیوی کی اصلاح خاوند کے ہاتھ میں ہے ۔اور ماں کی اصلاح بیٹیوںکے ہاتھ میں ہے ۔اگر تم اس طریق کو استعمال کرو تو چند دن نہیں بلکہ ایک گھنٹہ کے اندر اندر ساری قوم کی اصلاح ہوسکتی ہے ۔لیکن اگر تمہارا دوست دیکھتا ہے کہ وہ بددیانتی کرے گا۔ تو تم اس پر پردہ ڈالوگے اور جھوٹ بولو گے توتم اس کو بھی تباہ کرتے ہواور آپ بھی تباہ ہوتے ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی جماعت روپے سے زندہ نہیں رہ سکتی بلکہ ایمان سے زندہ رہتی ہے اگر روپیہ ہی اصل چیز ہو تو یہودیوں ،عیسائیوں ،پارسیوں اور ہندوئوں کے پاس مسلمانوں سے بہت زیادہ روپیہ ہے ۔پھر خداتعالیٰ نے انکا ساتھ کیوں چھوڑ دیا ۔ اس
لئے کہ ایما ن کا روپے سے کو ئی تعلق نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بھی روپیہ دیتا ہے مگر وہ روپیہ یا تو انعام کے طور پر ہوتاہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُس کے ذریعہ غرباء کی امداد کی جائے ۔ اور یا پھر آزمائش کے طورپر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اس روپیہ کا کیسے استعمال کرتے ہیں۔ اگر تو یہ روپیہ کے آنے سے انسان کا ایمان سلامت ہے تو وہ روپیہ اس کے لئے خیر اور برکت کا موجب ہوتاہے تو وہ روپیہ اس کے لئے خیر اور برکت کا موجب ہوتاہے لیکن اگر وہ روپیہ انسان کے ایمان کو باطل کردیتا ہے اوروہ بے ایمانوں جیسی چالاکیاں کرنے لگ جاتا ہے اور چوروں اور ٹھگوں کی طرح لوگوں کو لوٹتا ہے ۔مثلاً بلیک مارکیٹ شروع کردیتے ہیں ۔مقررہ نرخ پر چیز فروخت نہیں کرتا بلکہ چیز کی موجودگی سے ہی انکار دیتا ہے لیکن اگر اسے کوئی چوری چُھپے حسب منشاء دام دے دے تو وہ فوراًاُسے مہیا کردیتاہے تو وہ روپیہ اس کے لئے عذاب کا باعث بن جاتاہے ۔اس قسم کے ناجائز منافع خوروں کی ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے جیسے کہتے ہیںکہ کسی حریص آدمی کے پاس ایک مرغی تھی جو روزانہ سونے کا ایک انڈیا دیا کرتی تھی۔ اس کے دل میں لالچ پیدا ہوا کہ اگر میں اسے زیادہ کھلائوں تو شاید یہ دو انڈے دینے لگ جائے ۔چنانچہ اس نے مرغی کو پکڑکر اس کا منہ کھول کر روزانہ اسے زیادہ سے زیادہ دانے کھلانے شروع کردیئے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ مرغی بیمار ہو کرمرگئی ۔ اوروہ ایک انڈے بھی محروم ہوگیا۔ اس قسم کے ناجائز منافع خور بھی روپیہ جمع کرتے جاتے ہیں مگر ایک دن آتا ہے جب کسی نہ کسی رنگ میں انہیں اپنی اس بددیانتی خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ۔ فوری نقصان تو اس رنگ میں پہنچ جاتا ہے کہ جب وہ کسی شخص کو ایک سیر چیز دینے کی بجائے پندرہ چھٹانک دیتے ہیں اور وہ گھر جا کر اس کا وزن کرتا ہے تو اسے پتہ لگتا ہے کہ دوکاندار نے اسے چھٹانک چیز کم دی ہے تو وہ آئندہ کے لئے اس سے سودا لینا بند کردیتا ہے ۔ اس طرح بظاہر تو اسے ایک چھٹانک کا نفع ہو اتھا لیکن اسے نقصان ہزار چھٹانک کا ہوگیا ۔ کیونکہ وہ آئندہ کیلئے اس کی دوکان پر نہیں آئے گا ۔ اور کسی دوسرے سے سودا خریدنا شروع کردے گا ۔
یہ خیال کہ صرف بے ایمانی سے ہی روپیہ کمایا جاسکتا ہے اوَل درجہ کا احمقانہ خیال ہے ۔ صحابہؓ دیکھ لو وہ ہرامر میں دیانت کو ملحوظ رکھتے تھے۔ مگر اس زمانہ میں حضرت عبدا الرحمن بن عوفؓ کی وفا ت کے بعد ان کا بچا کھچا روپیہ دوکروڑ نکلا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ دین کے لئے بہت قربانی کرنے والے تھے لیکن اس کے باوجو د ان کے پاس دوکروڑ روپیہ بچ گیا تھا ۔ جو آج کل کے دو ارب کے برابر ہے ۔ اسی طرح تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص گھوڑے کو فروخت کرنے کے لئے بازار میں لایا اوراس نے کہا اس کی پانچ سو درم قیمت ہے ۔ایک صحابی ؓ نے اس گھوڑے کو دیکھا اور اسے پسند کیا اور کہا میں یہ گھوڑا لیتا ہوں ۔ مگر اس کی قیمت میں پانچ سو درم نہیں بلکہ دو ہزار دوہم دوں گا ۔ کیونکہ یہ گھوڑا نہایت اعلیٰ قسم کا ہے اور اس کی قیمت اتنی تھوڑی نہیں جتنی تم بتاتے ہو۔ اس پر گھوڑ ا بیچنے والا اصرار کرنے لگا کہ میں پانچ سو درہم لوں گا اور گھوڑا خریدنے والا اصرار کرنے لگا کہ میں دوہزار درہم دوںگا ۔ایک کہتا کہ تجھے گھوڑے کی پہنچان نہیں یہ گھوڑا زیادہ قیمت کا ہے اور دوسرا کہتا کہ میں صدقہ لینا نہیں چاہتا ۔ میں اپنے گھوڑے کو جانتا ہوں ۔ اس کی قیمت پانچ سو درہم ہی ہے ۔
اس واقعہ پر غور کرو اور دیکھو کہ اس نے کتنا اُلٹ نظارہ دنیا میں نظر آتا ہے ۔ وہاں تو یہ تھا کہ چیز خریدنے والا قیمت بڑھاتا تھا اور چیز بیچنے والا قیمت گراتا تھا ۔ اوریہاں یہ حال ہے کہ دودو آنے کی چیز بعض دفعہ دس دس روپے میں فروخت کی جاتی ہے ۔ ضرور ت اس
امر کی ہے کہ خریدار بھی دوکانداروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں اور دوکاندار بھی گاہکوں کو فریب سے گندی چیزیں نہ دیں۔ اور نہ ماپ او رتول میں انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔
حضرت شعیب علیہ السلام اپنی قوم کو تجارتی دیانت اختیار کرنیکی نصیحت کرنیکے بعد ایک اور نصیحت یہ فرمائی کہ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ :تم زمین میں فسا د نہ کرو۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس قوم میں قتل و غارت اور ڈاکہ زنی کی وارداتیں بھی کثرت سے ہوتی رہتی تھیں۔ چونکہ یہ علاقہ عرب اور شام اور مصر کے راستوں پر تھا اور شام اور مصر کو جانے والے قافلے انکے پاس سے گزراکرتے تھے معلوم ہوتا ہے یہ لوگ مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور بعض کو قتل بھی کردیا کرتے تھے ۔ اِس قیاس کو مزید تقویت اس امر سے بھی حاصل ہوتی ہے کہ یہ لوگ اصحاب الایکہ تھے۔ یعنی ان کے قبضہ میں ایک بہت بڑا جنگل تھا جس میں بیریاں اور پیلو کے درخت بڑی کثرت کیساتھ تھے اور ایسے جنگل میں ڈاکہ ڈالنا زیادہ آسان ہوتا ہے ۔ کیونکہ درختوں کے پیچھے انسان آسانی سے چھپ جاتا ہے ۔ پس حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں نصیحت کی کہ تم تجارتی معاملات میں بھی دیانت اختیار کرو او چوری،ڈاکہ زنی اور قتل وغارت کو بھی ترک کردو۔
وَاتَّقُو االَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالْجِبِلَّۃَ الْاَوَّلِیْنَ٭
اور جس نے تم کو اور تم سے پہلی مخلوق کو پیدا کیا ہے اس کا تقویٰ اختیار کرو۔۳۳؎
۳۳؎ حل لغات :۔ جِبِلَّۃٌ: مفرداتِ امام راغب میں ہے۔جَبِلَّا کَثِیْرٌا ای جَمَاعَۃً یعنی جَبِلَّا کے معنے جماعت کے ہیں (مفردات) پس اَلْجِبِلَّۃَ الْاَوَّلِیْنَ کے معنے ہوں گے پہلی جماعتیں۔
تفسیر:۔پھر فرمایا تم اس خدا سے ڈرو جس نے تم کو بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پہلی قوموں اور جماعتوں کو بھی پیدا کیا ہے یعنی آج تو تم اپنے ان افعال پر نازاں ہو۔ لیکن کیا تم نہیں دیکھتے کہ انہی ناپسندیدہ حرکات کی وجہ سے تم سے پہلے بھی کئی قومیں ہلاک ہوچکی ہیں۔ پھر کیوں تم ان کی ہلاکت اور بربادی سے سبق حاصل نہیں کرتے اور کیوں ان کے زوال کے اسباب پر غور کرکے اپنے اندر تغیّر پیدا کرنیکی کوشش نہیں کرتے ۔
حقیقت یہ ہے کہ قومیں دنیا میں بنتی بھی ہیں اور بگڑتی بھی ہیں ۔اورجب سے دنیا چلی آرہی ہے اُسی وقت سے یہ سلسلہ بھی چلا آرہا ہے ۔ ہزاروں قوموں کی تباہی اور ہزاروں قوموںکی ترقی پر تاریخ کے اوراق شاہد ہیں مگر تاریخ کے تمام واقعات بحیثیت مجموعی انسانی زندگی کے واقعات کا سوواں حصہ بھی نہیں ہیں۔ وہ زمانہ جو تاریخی کہلاتا ہے اس سے بھی مدتوں بیشتر انسان دنیا میں موجود تھا ۔ اورپھر جو زمانہ تاریخی کہلاتا ہے اس کا بھی اکثر حصہ ایسا ہے جس کی تاریخ محفوظ ہے ۔ مگر وہ زمانے جن کی تاریخ محفوظ ہے اور وہ زمانے جن کی تاریخ محفوظ نہیں ان دونوں قسم کے زمانوں میں ہزاروں قومیں بگڑتی اور بنتی چلی گئیں ۔ ہزاروں قوموں نے پہلے بامِ رفعت تک رسائی حاصل کی اور پھر زوال پذیر ہوگئیں اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکا رنہیںکیا جاسکتا ۔ یا یوں کہنا چاہیئے جس طرح انسانی پیدائش کا انکار نہیںکیا جاسکتا اور جس طرح انسانی موت کا انکار نہیں کیا جاسکتا اسی طرح قوموں کی پیدائش اور ان کی موت کا بھی انکار
نہیں کیاجاسکتا ۔ مگر جس طرح بنی نوع انسان ہر روز موت کا مشاہدہ کرنے کے باوجود موت بھلادیتے ہیں ۔ اسی طرح قومیں بھی دوسری قوموں کے تنزل کو دیکھنے کے باوجود اس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتیں ۔
قرآن کریم نے اس مسئلہ پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔اور سورئہ فاتحہ سے لے کر سورئہ الناس تک سارا قرآن کریم ا ن بیانات اسے بھر اپڑا ہے کہ قومی ترقی کے کیا گُر ہیں۔ بیشک اور بھی بہت سے مضامین قرآن کریم میںبیان کئے گئے ہیں ۔اس کے اندر عقلی مضامین بھی بیان کئے گئے ہیں اور علمی بھی ۔ روحانی مضامین بھی بیان کئے گئے ہیںاور جسمانی بھی ۔ اقتصادی مضامین بھی بیان کئے گئے ہیں اور سیاسی بھی ۔ غرض سینکڑوں اور ہزاروں مضامین اس کے اندر بیان ہوئے ہیں لیکن سورئہ فاتحہ کی ابتداء ہی ایسے رنگ میں کی گئی ہے کہ اس میں قومی ترقی اور تنزل سے تعلق رکھنے والے تمام اصول بیان کردیئے گئے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے چھوٹے چھوٹے چشموں سے دریا پھوٹتے ہیں تو ایک کوتاہ اندیش انسان چشمہ میں سے نکلتے ہوئے دریا کو دیکھ کر یہ سمجھنے لگ جاتاہے کہ یہ چھوٹاسا نالہ چند گز یا چند فرلانگ تک جاکر ختم ہوجائیگا یا خشک ہوجائے گا کیونکہ اس کی آنکھ صرف چشمہ میں سے پھوٹتے ہوئے دریا کے اس پاٹ پر ہی ہوتی ہے جس پر سے وہ اگر چھلانگ مار کر اس کے پار جانا چاہے تو بڑی آسانی کے ساتھ جاسکتا ہے ۔ لیکن جب وہ اس چھوٹی سی نالی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے تو وہ یہ دیکھ کرحیران ہوجاتا ہے کہ اب یہ نالی نالے کی صورت اختیار کررہی ہے ۔ تھوڑی دور اور آگے جاکر وہ اور بھی متعجب ہوتا ہے کہ وہ نالہ ایک نہر کی شکل اختیار کررہاہے ۔ اور جب کچھ اورفاصلہ طے کرتا ہے تو یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہتی کہ وہی چھوٹی سی نالی جو چشمے میں سے دھیمے دھیمے پھوٹ رہی تھی اور جس پر سے چھلانگ لگا کر اس پار ہوجانا ذرا بھی مشکل نہ تھا وہ یہاں پہنچ کر بہت بڑ ااور عظیم الشان دریا بن گیا ہے۔ دریائے جہلم جو پنجاب میں پہنچ کر ایک بہت بڑے دریا کی شکل اختیار کر لیتا ہے اپنے دہانہ پر اتنا تنگ ہے کہ چند فٹ سے زیادہ نہیں ۔ اس جگہ کھڑے ہوکر کوئی شخص یہ باور نہیں کرسکتا کہ یہ چشمے میں سے بہنے والا چھوٹا سا نالہ پنجاب کی لاکھوںایکڑ زمین کو سیراب کریگا اور لوگ میلوں میل کشتیوں میں بیٹھ کر اپنی مسافتوںکو طے کریں گے ۔اسی طرح سورئہ فاتحہ کی شروع ہونے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے چشمہ میں سے نکلتے ہوئے نالہ کی لیکن آخر یہ پہنچ کر اس کی مثال بہت بڑے دریا کی سی ہوجاتی ہے ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ میں جس مضمون کو چشمے سے نکلتے ہوئے ایک چھوٹے سے نالے کی طرح بیان کیا گیا ہے ۔ اُسے غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ تک پہنچ کر ایک عظیم الشان دریا کی طرح واضح کردیا گیا ہے ۔ کوئی شخص اگر روحانی نابینا ہوتو الگ بات ہے ورنہ ہر شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ترقی اور تنزل کی تمام منزلیں اس چھوٹی سی سورۃ کے اندر واضح طورپر بیان کی گئی ہیں۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ میں تو ترقی کا مضمون بیان ہوا ہے کہ اے اللہ ہمیں وہ راستہ دکھاجس پر چلنے والے انعام حاصل کرسکتے ہیں۔ اور ہمیں ان قوموں میںشامل فرما جن قوموں نے ترقی کی تھی ۔ مگر آگے چل کر غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ میں بتادیا کہ ہر وہ قوم جس نے ترقی کی وہ آخر کار گر پڑی مگر یہ دعا سکھا کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں تنزل اور پستی سے بچنے کاایک گُر بھی بتا دیا ہے ۔ مستقبل کے متعلق تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے اور کیا ہوگا ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دعا سکھا کر اس امر کی طرف ہماری راہنمائی فرمائی گئی ہے کہ اگر مسلمان توجہ سمجھ اور عقل کو کام میںلائیں تو وہ تنزل سے بچ سکتے ہیں۔ پچھلے دورمیں تو مسلمان اس کی طرف سے توجہ ہٹا لینے کی وجہ سے نہ بچ سکے ۔ لیکن اسلام کیلے ایک نشاۃ ثانیہ کی بھی خبر دی گئی
تھی۔ اور وہ زمانہ مسیح موعودؑ کی بعثت سے شروع ہونا تھا ۔ پس یہ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کی دعا جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہے مسلمان قوم اس پر عمل کرکے دوسری تمام اقوام سے لمبی عمر پاسکتی ہے۔ اور ضلالت سے بچ سکتی ہے۔ یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جو دعا اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بندوں کو سکھاتاہے اس پر اگر عمل کیا جائے تو وہ ہرگز ضائع نہیں جاتی کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک وعدہ مضمر ہوتا ہے کہ اگر تم مجھ سے مانگو گے تومیں تمہیں دے دوںگا ۔ اور یہ خداتعالیٰ کی شان سے بالکل بعید ہے کہ وہ خود اپنے بندوں کو ایک دعاسکھائے اور جب بندے اس دعا پر عمل کریں تو وہ انہیں دے ۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو ایک بہت بڑی چیز ہے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض انسانوں کے وعدے بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں ۔کوئی بادشاہ کوئی ڈپٹی کمشنر کوئی گورنر یا کوئی اور ایسا ہی بڑا حاکم اگر کسی شخص کے ساتھ وعدہ کرے تو وہ شخص اپنے دل میں بڑا خوش ہوتا ہے اور سمجھتاہے کہ یہ لوگ پیشتر اس کے کہ اپنے وعدہ کا ایفاء کریں مربھی سکتے ہیںاور یہ بھی امکان ہوتا ہے کہ وہ کہہ دیں کہ اب ہم اس وعدہ کو پورا نہیں کرسکتے ۔ یاممکن ہے کہ وہ وعدہ کرتے وقت تو بااختیار ہوں لیکن وعدے کے ایفاء کے وقت ان سے تمام اختیارات چھِن چکے ہوں ۔ یا کسی اور محکمہ میں تبدیل ہوگئے ہوں ۔ مگر وہ خدا جو ازلی ابدی ہے وہ نہ بدلتاہے اور نہ مرتاہے اورنہ ہی اس پر کوئی ایسا وقت آسکتا ہے کہ اس سے اختیارات چھِن جائیں اس لئے ہمیں ایسے شخص سے ہزاروں گُنے زیادہ پُر امید ہونا چاہیئے ۔ اور ہمیں اس با ت پر ذرا بھی شک نہیں لانا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کا ایفاء کرے گا ۔ جب خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے تو اس کے اندریہ وعدہ موجود ہے کہ وہ تنزل جو قوموں پر انکے عروج کے بعد آتا ہے مسلمانوں کے اس دعا مانگنے کی وجہ سے پیچھے ڈال دیا جائے گا ۔ اور ان کے عروج کے زمانہ کو لمبا کردیا جائے گا ۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ تھے ۔ جو وَلَا الضَّآلِّیْن کی مدّ اور شدّ سے ایک عجیب استدلال کیا کرتے تھے ۔ وہ بزرگ کہتے تھے کہ وَلَا الضَّآلِّیْن میں جو شدّکے بعد مدّ آئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوںکا زمانہ بہت لمبا ہوگا مگر اس سے بھی بڑا نکتہ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ میں یہ موجود ہے کہ اگرا للہ تعالیٰ نے اس دعا کو پورا ہی نہیں کرنا تھا تو اس دعا پر زور ہی کیوں دیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کا اس دعا کو ہم سے باربار منگوانا بتاتا ہے کہ وہ اسے ضرور پورا کرے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کا گروہ نہ آنا تھا تو یہ دعا مسلمانوں کوسکھائی ہی کیوں گئی تھی ۔ اسی طرح میں کہتاہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بچانا نہ تھا تو غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ والی دعا کیوں سکھائی ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ والی دعا سکھا کر بتا دیا کہ وہ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کا ایک گروہ پیدا کرنا چاہتاہے اسی طرح غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ والی دعا سکھا کر اس نے بتادیا ہے کہ اگر مسلمان اس پر عامل رہے تو ان کو مغضوب اور ضالین میں شامل ہونے سے بھی بچایا جائے گا اگر ضآلین کی مدّ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عیسائیوںکو عروج کالمبا زمانہ نصیب ہوگا تو غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ سے بدرجہ اتم یہ استنباط ہوتاہے کہ مسلمانوں کو عیسائیوں سے بھی لمبا زمانہ دیا جائے گا اور ضآلین سے بھی بچایا جائے گا ۔ حدیثوں سے بیشک یہ معلوم ہوتاہے کہ قیامت کے نزدیک دنیا ہی اشرا ر ہی رہ جائیں گے مگر قرب قیامت کی تعیین کوئی شخص نہیں کرسکتا۔ او رخدا تعالیٰ ہی بہترجانتاہے کہ وہ کب آئے گا ۔ کیونکہ قرآن کریم میں ایک ایک دن کو ایک ہزار اور پچاس ہزار سال کا بتایا گیاہے ۔ اس طرح اگر دنیا کی عمر سات ہزار سال کاشمار کیا جائے تو دنیا کی عمر ستر لاکھ سال بنتی ہے ۔ اور
اگر ایک دن پچاس ہزار سال کا شمار کیا جائے تو یہ عمر ۲۵کروڑ سال بنتی ہے ۔اور خدا کے دن تو اس سے بڑے ہوسکتے ہیںاس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ دنیا کی عمر کتنی ہے ۔ ہم یہ تو مان لیتے ہیں کہ یہ آخری زمانہ ہے مگر اس کی حد بندی کس طرح کی جائے اس کا علم تو صر ف خدا تعالیٰ کو ہی ہے لوگوں کی بحثیں محض فلسفیانہ ہیں ۔ اور فلسفیانہ بحثیں ہمیشہ عبث اور لاحاصل ہوتی ہیں۔ درحقیقت یہ سب باتیں جو آخری زمانہ کے متعلق بیان ہوئی ہیں استعارات سے پُر ہیں جن کی تفصیلا ت ہمیں خداتعالیٰ پر چھوڑ دینی چا ہئیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ سورئہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تم قومی لحاظ سے خواہ کتنی ہی ترقی کرجائو تمہیں ہمیشہ یہ امر مدّ نظر رکھنا چاہئیے کہ اگر تمہارا قدم ذرا بھی پھسلا تویا تو تم مغضوب ؔعلیہم میں شامل ہوجائو گے اور یاپھر ضآلین میں تمہارا شمار ہوجائے گا ۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے اور ہمیشہ اس سے دعائیں کرتے رہو گے کہ وہ وہ تمہارا قدم صراط مستقیم پر قائم رکھے تو اس کا فضل تمہارے شامل حال ہوگا اور ہو تمہیں تنزل اور انحطاط کا شکار ہونے سے محفوظ رکھے گا ۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے اسی نکتہ کی طرف اپنی قوم کو اسی نکتہ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ تم سے پہلے بھی کئی قومیں گزری ہیں جنہیں اپنے اپنے زمانہ میں بڑی بڑی طاقت حاصل تھی مگر جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو وہ تباہ و برباد کر دی گئیں ۔ پھر تم کیوں اپنی چند روزہ زندگی میں تقوی اللہ سے کام نہیںلیتے اور مادّی لذات کے حصول کیلئے ناجائز ذرائع اور تدابیر اختیا ر کرتے ہو ۔
قَالُوْٓا اِنَْمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ٭
(اس پراسکی قوم نے )کہا ۔تُو تو ایسا (شخص) ہے جسے غذادی جاتی ہے ۔
وَمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَاِنْ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ٭
اور تُو صرف ہماری طرح کا ایک انسان ہے اور ہم یقینا تجھے کاذب سمجھتے ہیں۔
فَاَ سْقِطْ عَلَیْنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآئِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ٭
پس اگر تو سچا ہے تو ہم پر کوئی بادل کا ٹکڑ ا گرا۔
قَالَ رَبِّیْٓ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ٭
(اس پر شعیبؑ نے )کہا۔ میرا ربّ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے ۔
فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَھُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ۔ اِنَّہٗ کَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ٭
(مگر اس کے سمجھانے کے باوجود) انہوں نے اس کو جھٹلایا ۔ پس ان کو سایہ کے دن والے عذاب نے آپکڑ ا (یعنی گھنے اور دیر پا بادلوںکے عذاب نے) وہ یقینا ایک بڑے بھاری دن کا عذاب تھا ۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ۔ وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّومِنِیْنَ٭
اس واقعہ میں ایک بڑا نشان تھا اور (اسے دیکھ کر بھی ) ان کافروں میں سے اکثر مومنوں میں شامل نہ ہوئے ۔
وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ٭
اور تیرا رب یقینا غالب(اور) باربار رحم کرنے والا ہے ۔۳۴؎
۳۴؎ حل لغات:۔اَلْمُسَحَّرِین:سَحَّرَ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے اور سَحَّرَ ہٰ کے معنے ہیں اَعْطَاہ‘ اَلسَّحُوْرَ۔ اس کو غذادی (اقرب)۔مفردات ؔمیں ہے سَمُّوْا اَلْغِذَائَ سِحْرًا مِنْ حَیْثُ اِنَّہُ یَدِقُّ وَ یَلْطَفُ تَاْثِیْرُہ‘۔یعنی غذاکو عربی زبان میں سِحْر اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی تاثیر جسم میں بہت باریک اور لطیف ہوتی ہے۔پس مُسَحَّرِیْن کے معنے ہوں گے جن کو غذادی جائے۔
کِسَفاً:۔کِسْفَۃ’‘کی جمع ہے اور اَلْکِسْفَۃُ معنے ہیں اَلْقِطْعَۃُمِنَ الشَّیْ ئِ کسی چیز کا ٹکڑا ہے (اقرب)اَلظُّلَّۃُ :۔اَوَّلُ سَحَابَۃٍ تُظِلُّ ۔بادلوں میں سے پہلا بادل جو زمین پر سایہ ڈالتا ہے ۔(اقرب) عَذَّابَ یَوْمِ الظُّلَۃِ ۔سَحَابَۃٍ اَظَلَّتْھُمْ فَلَجَائُ وْا اِلیٰ ظِلِّھَا فَا طْبَقَتْ عَلیْھِمْ وَ اَ ھْلَکَتْھُمْ۔ شعیبؑ کی قوم پر بادل آئے اور وہ قوم تو ان کو اچھا سمجھتی رہی۔لیکن ان بادلوں نے ان کو برباد کردیا۔ اس کو قرآن مجید نے عَذَ ابَ یَوْمِ الظُّلَۃِ سے تعبیر کیاہے (اقرب)
تفسیر:۔حضرت شعیب علیہ السلام کی نصائح پر ان کی قوم نے جوجواب دیا وہ یہ تھا کہ تم نے جو ہم سے ٹکّر لی ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی اور تمہیںاُکسارہا ہے اور تمہیں مالی مدد دے رہا ہے تاکہ تم ہمارے خلاف ایسی باتیں کرو اور ہماری طاقت کو کمزور کردو۔
سَحَّرَ کے معنے عربی زبان میں کھانا دیئے جانے کے ہوتے ہیں۔مگر استعارۃً انہوں نے یہ الفاظ مدد دیئے جانے معنوں میں استعمال کئے ہیں۔اور مطلب یہ ہے کہ ہم چونکہ تجارتی قوم ہیںجو لوگ تجارت میں ہم سے بڑھ نہیں سکتے انہوں نے تجھ کو رشوت دی ہے کہ تو ہمیں ان طریقوں سے روک دے جن سے ہماری تجارت ترقی کررہی ہے۔پھر انہوں نے کہا کہ مَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۔آخر تو ہمارے جیسا آدمی ہے اور کیا ہے وَاِنْ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکَاذِبِیْنَ اور ہم تو تجھے یقینا جھوٹا سمجھتے ہیں فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآ ئِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ۔ اگر تو سچا ہے تو آسمان سے ہم پر بادل کا کوئی ٹکڑا گرادے ۔یعنی اتنی شدید بارش ہو کہ بجائے اس کے کہ ہماری کھیتیوں اور باغات کا پھل بڑے سارا ملک تباہ ہوجائے۔ہم تو تیری سچائی کا ف یہی ایک میعا رسمجھتے ہیں۔حضرت شعیبؑ نے ان سے کہا۔میرا رب تمہا رے اعمال کو خوب جانتا ہے اور وہ جس قسم کا سلوک چاہے گا تم سے کرے گا ۔مگر پھر بھی وہ اس کو جھٹلاتے ہی رہے ۔آخر ان کو انہی کے میعار کے مطابق ایک سائے والے دن کے عذاب نے پکڑ لیا ۔ یعنی بادوباراں کا ایسا شدید طوفان آیا کہ جس نے ملک کو تباہ کردیا وہ عذاب ایک ہولناک دن کا عذاب تھااور اس نے بعد میں اس
ملک کو آنے والی نسلوں کے لئے ہمیشہ کے لئے ایک نشان بنادیا ۔
یہ امر یاد رکھنا چا ہئیے کہ قرآن کریم نے اس عذاب کے متعلق ایک اور جگہ صَیْحَہ اور دوسری جگہ رَجْفَہ کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔ چنانچہ سورئہ ہود میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَمَّا جَآئَ اَمْرُنَانَجَّیْنَا شُعَیْباً وَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْامَعَہُ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا وَاَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاالصَّیْحَۃُ ْفَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ(ہود ع۸)یعنی جب ہمارا عذاب آگیا ۔تو ہم نے شعیب ؑ اور اس پر ایمان لانے والوں کو اپنے فضل سے بچا لیا اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کا شیوہ اختیار کیا تھا انہیں عذاب نے پکڑ لیا اور وہ اپنے گھروں میں زمین سے چمٹے ہوئے تباہ ہوگئے۔
اسی طرح سورئہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَتْھُمْ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ(عنکبوت ع۴) یعنی انہوں نے شعیب ؑکو جھٹلادیا جس نے نتیجہ میںایک ہلا دینے والے عذاب نے ان کو پکڑ لیا اور اپنے گھروں میں زمین سے چمٹے کے چمٹے رہ گئے۔
ان دونوں مقامات پر یہ امر بیان نہیں کیا گیا کہ آیا یہ عذاب ان پر زلزلہ کی شکل میں آیا یا کسی اور شکل میں ۔مگر سورئہ شعراء میں اللہ تعالیٰ نے اس عذاب کے متعلق وضاحت فرمادی کہ یہ عذاب ایک ہولناک بارش کی صور ت میں آیا تھا ۔جس کے نتیجہ میں وہ اپنے گھروں سے چمٹے کے چمٹے رہ گئے۔باقی رہا صَیْحَۃ یا رَجْفَۃ کے الفاظ کا استعمال ۔ سو صَیْحَۃ کے معنے مطلق عذاب کے بھی ہیں اور صَیْحَۃ کے معنے ایس تباہی کے بھی ہیں جو اچانک آجائے ۔ اور رَجْفَۃکے لفظ میں اس ہلا دینے والے منظر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو انہیں اپنی بد اعمالی کی وجہ سے دیکھنا پڑا اور جس نے ان کی بنیادوںکو ہلا ڈالا ۔ چنانچہ رَجَفَ الْاِنْسَانُ کے معنے ہوتے ہیں لَمْ یَسْتَقِرَّ لِخَوْفٍ عُرِضَ لَہٗ کہ کسی خوف کی وجہ سے اس کا قرار چھینا گیا ۔ اور ایک جگہ آرام سے بیٹھنا اس کے لئے ناممکن ہوگیا اور رَجَفَ الرَّعْدُ کے معنے ہوتے ہیں تَرَدَّدَتْ ھَدْھَدَتُہٗ فِی السَّحَابِ بادلوں میں بڑے زورسے اس کی گڑ گڑاہٹ کی آوازیں پیدا ہوئیں پس یہ الفاظ بھی اس تباہ کن بارش کی طرف اشارہ کررہے ہیں جس نے اچانک ان کے قرار کو چھین لیا ۔ اور انہیں ایک ایسے عذاب میں مبتلا کردیا جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں تھی ۔ ہر شخص اپنے اپنے مکان میں محصور رہا ۔ یہاںتک کہ ان کے مکانوںکی دیواریں چھتوں سمیت ان پر آگریں اور وہ زمین کے ساتھ چمٹے کے چمٹے رہ گئے ۔
فرماتا ہے ۔ شعیب ؑ کی قوم کی اکثریت بھی ایمان سے محروم رہی اور بہت تھوڑے لوگ اپنے زمانہ کے نبی پر ایمان لائے ۔ مگر اے محمدؐ رسول اللہ ! اِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ تجھے کسی گھبراہٹ کی ضرورت نہیں کیونکہ تیرا رب جس نے تجھے نہایت ادنیٰ حالت سے ترقی دیتے دیتے اس عظیم الشان مقام تک پہنچایا ہے وہ بڑا غالب اور باربار رحم کرنے والا ہے ۔ بیشک موسیٰؑ اور ابراہیم ؑ اور نوحؑ اور ہودؑ اور صالح ؑ اور لوطؑ اور شعیب ؑ پر ان کی قوم کی اکثریت ایمان نہیں لائی۔ مگر جس طرح تیری شان ان تمام نبیوں سے نرالی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کا سلوک بھی تیرے ساتھ ان تمام نبیوں سے نرالاہے وہ کبھی ایسا نہیں کرے گا کہ تیری قوم کی اکثریت ایمان سے محروم رہے۔ بلکہ ان کی شدید ترین مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ ان کی اکثریت کو اپنے دامنِ رحمت میں جگہ دے گا اور انہیں تجھ پر ایمان لانے کی سعادت سے بہرہ ور فرمائے گا۔ یہی حکمت ہے جس کی بناء پر باربار اس آیت کو دہرایا گیا ہے رَبَّکَ کہہ
کر اللہ تعالیٰ نے خصوصیت سے اپنی اس غیر معمولی ربوبیت کی طر ف اشارہ فرمایا ہے جو اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ۔ اور اس طرح بتایا کہ جس خدا نے بچپن سے تجھے اپنے کنارہ عاطفت میں رکھا اور تجھے قدم بقدم ترقی دیتے دیتے اس عالی شان مقام تک پہنچایا وہ اب تجھے کس طرح چھوڑ سکتا ہے ۔ وہ یقینا تبلیغ ہدایت کے معاملہ میں بھی تجھ سے ممتاز سلوک کرے گا ۔ اورتیری فضیلت کو باقی تمام انبیاء پر ثابت کردے گا ۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تعالیٰ نے جس غیر معمولی رنگ میں ربوبیت فرمائی اور جس طرح نہایت ادنیٰ حالت سے ترقی دیتے دیتے آپؐ کو بلندیوں کے انتہا تک پہنچایا اس کی نظیر دنیا کے کسی اور نبی کی زندگی میں نظر نہیں آتی ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں ہی یتیم رہ گئے تھے ۔ آپ ؐ کے والد محترم آپ ؐ کی پیدائش سے بھی پہلے اور آپؐ کی والدہ ماجدہ آپؐ کی پیدائش کے چند سال بعد ہی وفات پاگئی تھیں۔ اس کے بعد کچھ عرصہ آپ ؐ کو آپؐ کے دادا حضر ت عبدالمطلب نے اپنے پاس رکھا مگر جب وہ بھی وفات پاگئے تو آپ اپنے چچا ابوطالب کی کفالت میں آگئے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے بڑی محبت اور پیار کے ساتھ آپؐ کی پرورش کی اور ہر نازک سے نازک موقعہ پر انہوں نے آپ کا ساتھ دیا ۔ مگر آپؐ کی زندگی کا ایک واقعہ ایسا ہے جو ہمیشہ ہی میرے قلب کو دمضطرب کردیا کرتا ہے ۔ تاریخوں میں لکھا ہے کہ آپؐ کے چچا کے گھر میں جب کھانا تقسیم ہوتا تھا تو آپؐ کبھی بڑھ کر مانگا نہیں کرتے تھے باقی بچے لڑ جھگڑ کر مانگتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف خاموش کھڑے رہتے اور جب آپؐکی چچی آپؐ کو کچھ دیتی تو آپؐ لے لیتے ۔ خو د مانگ کر نہیں لیتے تھے ۔ بالعموم اس واقعہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقار اور آپ کی متانت کے ثبوت میں پیش کیا جاتا ہے مگرمیں تو جب بھی اس واقعہ کو پڑھتا ہوں میری طبیعت رقّت کے جذبات کے انتہائی مقام پر پہنچ جاتی ہے ۔وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ نہیں تھا بلکہ بچپن کا زمانہ تھا اورآپؐ زیادہ سے زیادہ اس وقت آٹھ نو سال کی عمر کے تھے ۔ اور آٹھ نو سالہ بچے کے متعلق یہ ثابت کرنا کوئی ضروری نہیں ہوتا کہ وہ بڑا باوقار تھا خواہ آئندہ چل کر وہ نبی ہی بننے والا کیوں نہ ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں اَلصَّبِیُّ صَبِیٌّ وَلَو کَانَ نَبِیًا کہ بچہ بچہ ہی ہے خواہ آئندہ زمانہ میں وہ نبی بننے والا ہو ۔ میری طبیعت تو یہ واقعہ پڑھ کر اس خیال سے بے تاب ہوجاتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بچپن کی عمر میں بوجہ اپنی ذہانت اور سمجھ کے( بعض بچے جو ذہین نہیں ہوتے وہ چچی اور ماںکا فرق کوئی زیادہ نہیں سمجھتے اوروہ اسی طرح چچی سے بھی لڑ جھگڑ کر چیزیں مانگ لیتے ہیں جس طرح ماں سے مانگی جاتی ہیں مگر یہ محبت کا نتیجہ نہیںہوتا بلکہ ان کی عقل کی کمی کا نتیجہ ہوتا ہے ) یہ محسوس کرتے ہیں کہ میں اس گھر سے بطور حق کے کچھ نہیں مانگ سکتا۔ مجھ پر تو میرے چچا اور چچی کا یہ احسان ہے کہ انہوں نے محبت اور پیا ر سے مجھے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ پس کبھی بھی اس واقعہ کو پڑھتے ہوئے میں بغیر اس کے کہ رقّت مجھ پر غلبہ نہ پالے آگے نہیں گزر سکتا۔ اور میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب میں کیا جذبات پیدا ہوتے ہوں گے ۔بعض دفعہ آپؐ کے چچا بھی موجو دہوتے اور چچا کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت تھی وہ ایسی تھی کہ باپ کی طرح ہی تھی ۔اسی وجہ سے بعض دفعہ ابو طالب جب گھر میں آتے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عام بچوں سے الگ ایک طرف کھڑے دیکھتے اور یہ بھی دیکھتے کہ باقی بچے شور کر رہے ہیں اور لڑ جھگڑ کر چیزیں لے رہے ہیں مثلاً مٹھائی تقسیم ہورہی ہے تو ایک کہتا ہے کہ ۔میں مٹھائی کی ایک ڈلی نہیں
دو ڈلیاں لوں گا ۔دوسرا کہتا ہے ۔ اماں مجھے تو تُو نے کچھ بھی نہیں دیا ۔ اسی طرح ہر بچہ اپنا اپنا حق جتا کر چیز کا مطالبہ کر رہا ہے اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کونہ میں خاموش بیٹھے ہوئے ہیں تو ابوطالب ان کو بازوسے پکڑ لیتے اورکہتے میرے بچے تو یہاں کیوں خاموش بیٹھا ہے پھر وہ آپ لا کر اپنی بیوی کے پاس کھڑا کردیتے اور کہتے تو بھی اپنی چچی سے چمٹ جا اور اس سے مانگ ۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ چمٹتے اور نہ کچھ مانگتے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت دراصل انہی جذبات کا نتیجہ تھی کہ آپؐ سمجھتے تھے ۔میرااس گھر پر کوئی حق نہیں۔ اور جو کچھ مجھے ملتا ہے بطور احسان ملتا ہے ۔ مجھ پر یہ نکتہ اس وقت کھلا جب میری بیوی سارہ بیگم فوت ہوئیں اس وقت اخبار میں میں نے جو اشتہار شائع کروایا تھا اس میں بھی ایک واقعہ کا ذکر کردیا تھا ۔ سارہ بیگم کی بچی کی جوتی ایک دفعہ پھٹ گئی ۔جس گھر میں مَیں نے اسے رکھا تھا انہوں نے نوکر کوکہا کہ بازار سے جا کر اس بچی کے لئے بوٹ لے آئو۔ چا ر پانچ سال ا سکی عمرتھی وہ بوٹ لایا میں اس وقت صحن میں ایک طرف کھڑا تھا ۔ میں نے دیکھا کہ اس نے بوٹو ں کے جوڑے اپنی گودی میں لے لئے اور خوشی سے کودی اور کہا۔ آمیرے بوٹ آگئے ۔ میرے بوٹ آگئے ۔ مگر پھر میں نے دیکھا کہ یکدم اس کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ اس نے زمین پر بوٹ رکھ دیئے اور حیران ہو کر کھڑی ہوگئی ۔ اور بے اختیار اس کی زبان سے نکلا ۔ ہائے اللہ ! اب میں یہ بوٹ دکھائوں کسے ۔ تب میرے لئے یہ امر حل ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا علیحدہ بیٹھنا بھی اس قسم کا تھا یہ بچی ۲۹ ء میں پیدا ہوئی اور ۳۳ ء کا یہ واقعہ ہے ایک چار سال کے بچے کے منہ سے یہ فقرہ مجھے عجیب قسم کا معلوم ہوا کہ حیران ہوکر اس نے بوٹ زمین پر رکھدیئے اور کہا۔ ہائے اللہ !اب میں بوٹ دکھائوں کسے ۔ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علیحدہ بیٹھنا تھا ۔ وہ بھی اسی رنگ کا تھا ۔ اب یہ جذبات خواہ کتنے ہی بے چین کرنے والے ہوں اگر کوئی شخص اپنی زندگی کو خداتعالیٰ کے لئے خرچ کردیتا ہے تو پھر یہی غم کے جذبات جو دراصل کمزوری کے جذبات ہیں اسے کہیں کا کہیں پہنچا ؒدیتے ہیں۔چنانچہ ایک طرف اس بچے کو دیکھو جو صحن کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا ہے سارے بچے اس کے پاس سے کودتے ہوئے گزرجاتے ہیں اور اپنی والدہ کے پاس پہنچ کر کوئی اس کے کندے پر چڑھ جاتا ہے کوئی اس کے دامن سے لپٹ جاتاہے ۔ کوئی کہتا ہے اماں! میں فلاں چیز ایک نہیں دو لوں گا ۔ غرض کوئی کچھ کہہ رہا ہے اور کوئی کچھ ۔ مگر وہ ایک گوشہ میں خاموش بیٹھا ہے سارے کا خیال اس کے دل میں نہیں آتا ۔ اس کے دل میں آدھے کا خیال بھی نہیں آتا ۔اس کے دل میں چوتھے حصے کو خیال بھی نہیں آتا ۔ اس کے دل میں یہ خیال بھی نہیں آتا کہ وہ بیسویں حصہ کا حقدار ہے ۔ بلکہ اس کے دل میں یہ خیال بھی نہیں آتا کہ میری چچی کچھ مجھے دیتے ہی یا نہیں۔ باقی تمام بچے چمٹ چمٹ کر مانگتے ہیں اصرار کر کے مانگتے ہیں مگر وہ ایک گوشہ میں کھڑے یہ خیال کرتا ہے کہ دنیا میں میراحصہ ہے ہی نہیں۔ میں اگر مانگوں تو کیوں مانگوں۔ اور اگر مانگوں تو کس سے مانگوں ۔ لیکن خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی بسر کرنے کے بعد وہی بے کس اوریتیم جب فوت ہوتا ہے تو دنیا میں اس کے سوا کسی اور کا حصہ باقی نہیں رہتا ۔ ساری ہی دنیا اس کی ہوجاتی ہے ۔اور دنیا ہی نہیں خالق کون ومکاں بھی کہتاہے کہ لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ اے محمدؐ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی زمانہ تھا کہ تو یہ سمجھا کرتا تھا کہ مٹھائی کی ایک ڈلی۔ روٹی کے ایک ٹکڑے اور گوشت کی ایک بوٹی میں بھی تیرا حصہ نہیں اور تو گوشہ تنہائی میں بیٹھا یہ خیال کیا کرتا تھا کہ جن پر میر ا حق تھا وہ دنیا میں نہیں رہے۔ مگر اے محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم تجھے پتہ بھی ہے کہ تیری پیدائش سے بھی پہلے جب کہ ابھی کائناتِ عالم وجود میں نہیں آئی
تھی۔ہم نے اسے پیدا ہی تیری خاطر کیا تھا اور ہم نے اسی وقت سے یہ فیصلہ کیا ہواتھا کہ یہ تمام زمین و آسمان تیری خاطر بنائوں گا ۔ اگر تو نہ ہوتا تو میں زمین و آسمان کو بھی پیدا نہ کرتا ۔ گویا حدیث صوفیاء کی احادیث میں سے ہے ان احادیث میں نے جن کو محدثین صحیح قرار دیتے ہیں مگر حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام نے ثابت کردیا کہ یہ سچی حدیث ہے ۔کیونکہ آپ کا بھی الہام ہے کہ لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ (تذکرہ صفحہ ۶۰۴وصفحہ ۶۴۹)اب مقابلہ کرو اس کیفیت کا اس یتیم کا جو گوشہ تنہائی میں بیٹھا ہوا اپنے آپ کو کامل لاوارث سمجھتا تھا ۔ جو مکہ کے ایک چھوٹے سے غریب گھر میں پیدا ہو ا۔ جوروٹی کے ایک ٹکڑے اور گوشت کی ایک بوٹی پر پر بھی اپنا حق نہیں سمجھتا تھا ۔وہی ایک دن مکہ میں داخل ہوتا ہے اور مکہ کے تمام بڑے بڑے سردارمجرموں کی طرح اس کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور وہ پوچھتا ہے ۔ بتائو اب تم سے کیا سلوک کیا جائے ۔ گویا وہ جن کے گھر کی ایک دھجی پر بھی وہ اپنا تصرف نہیں سمجھتا تھا ان کے جسم کا تسمہ تسمہ اس کے قبضہ میں تھا اور وہ تمام سردار گردن ڈالے ہوئے اس کے سامنے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے آپ ہم سے وہی سلوک کریں جو یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کیا ۔ چنانچہ وہ یتیم جس سے دنیا نے حسنِ سلوک نہیں کیا تھا جسے دنیا نے غیر حقدار اورلاوارث قراردیا تھا ۔ جب خدا نے ان کو طاقت دی تو اُس نے اُن سے یہ سلوک کیا کہ کہا لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ جائو تم پر کوئی گرفت نہیں ۔
غرض یہ وہ شخص تھا جو اپنی ذات سے ستاون اٹھاون سال پہلے اپنے گھر کے صحن میں اس لئے خاموش کھڑا رہتا اور گھر کی مالکہ سے دوسرے بچوں کی طرح نہ چمٹتا وہ سمجھتا تھا کہ میرا اس گھر میں کوئی حق نہیں۔ مگر پھر اس حالت میں اتنا عظیم الشان تغیر آگیا کہ یا تو آپ ایک یتیم اور بے کس تھے اور یا پھر تمام دنیا کا سہار ا آپؐ ہی بن گئے اور تمام دنیا کی ماں آپؐ ہی بن گئے ۔ وہی یتیم بچہ جو کسی وقت بے باپ اور بے ماں کے تھا ۔ ایک وقت اس پر آیا جب وہ ساری دنیا کا باپ اور ساری دنیا کی ماں بن گیا ۔ بلکہ وہی باپ نہیں بنا اس کی بیویاں بھی مومنوں کی مائیں بن گئیں۔ گویا ابوت صرف آپؐ تک محدود نہ رہی بلکہ آپؐ سے تعلق رکھنے والوں کی عظمت بھی آپؐ ہی کے ذریعہ قائم ہوئی ۔
غرض اِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیٌزُ الرَّحِیْمُ میں اللہ تعالیٰ نے ان عظیم الشان احسانات کا ذکر فرمایا ہے جو اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرمائے اور بتایا اب ہے کہ جس خدا نے تجھے اتنی عظیم الشان ترقی بخشی وہ اب بھی تجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا بلکہ تیری ساری مرادیں تجھے دے گا ۔ اور تجھے ساری دنیا پر غلبہ اور فتح عطا کریگا۔ اور یہ غلبہ صرف ایک زمانہ تک محدود نہیں ہوگا ۔ بلکہ جس طرح خدا تعالیٰ بارباررحم کرنے والاہے اسی طرح وہ بار بار تجھے غالب کرے گا ۔ گویا ہر تاریکی کا دور جب بھی دور ہوگا دنیا دیکھے گی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آفتاب حقانیت اپنی پوری شان کے ساتھ چمک رہا ہے ۔
وَاِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ٭
اور یقینا یہ (قرآن) ربّ العالمین خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے ۔
نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ ٭
اس کو لے کر ایک امانت دار کلام بردار فرشتہ (جبریل ؑ)تیرے دل پر اترا ہے ۔
عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ٭
تاکہ تو ہوشیا ر کرنے والی جماعت میں شمار ہوجائے ۔
بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ٭
(اس وک جبریل ؑ نے خد اکے حکم سے ) کھول کر بیان کرنے والی عربی زبان میں اتار اہے ۔
وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ٭
اور یقینا اس کا ذکر پہلی کتابوں میں بھی موجو د تھا ۔
اَوْلَمْ یَکُنْ لَّھُمْ اٰیَۃً اَنْ یَّعْلَمَہٗ عُلَمٰٓوُا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ٭
کیا ان کے لئے یہ نشان کم ہے کہ اس (قرآن ) کو علمائے بنی اسرائیل بھی پہنچانتے ہیں (یعنی سمجھتے ہیں کہ یہ قرآن انبیائے بنی اسرائیل کی پیشگوئیوں کے مطابق ہے )۔۳۵؎
۳۵؎ حل لغات:۔زُبُرٌ: زُبُوْرٌ کی جمع ہے اور اَلزُّبُوْرٌ کے معنے ہیں اَلْکِتٰبُ ۔کتاب (اقرب)
تفسیر:۔حضرت موسیٰؑ حضرت ابراہیمؑ حضرت نوحؑ اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کا ذکر کرنے کے بعد جو بعض مخصوص اقوام کی ہدایت کیلئے مبعوث ہوئے تھے اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کلام جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ناز ل کیا گیا ہے یہ سب دنیا کو مخاطب کرکے ناز ل کیا گیا ہے ۔جب کہ پہلے کلام صرف بعض خاص خاص قوموں کو ہدایت کیلئے نازل ہوئے تھے اور جب کہ وہ کلام صرف اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا ثبوت تھے ۔ یہ کلام ربوبیت عالمین کا ثبوت ہے اور اس کلام کو رُوح الامین لے کر نازل ہوا ہے ۔ کیونکہ پہلے نبیوں کے کلام میں کئی قسم کی خرابیاں واقع ہوگئی تھیںاور بندوں نے اس کی حفاظت میں کوتاہی کی تھی۔ پس خدا تعالیٰ نے اس روح کے ذریعہ سے جو امین ہے محفوظ طور پر یہ کلام آپ پر نازل کیا۔ او رچونکہ کلام الٰہی کے پہنچانے کیلئے اس کا سمجھنا بھی ضروری تھا تاکہ لوگوں تک اس کے پہنچانے میں کسی قسم کی خرابی واقع نہ ہو اس لئے وہ کلام تیرے دل پر نازل کیا گیا ہے اور یقینا یہ کلام پہلی کتب میں بھی مذکور ہے ۔ اس طرح بھی کہ ا سکے اصول ان میںپائے جاتے ہیں اور اس طرح بھی کہ ان کتابوں میں اس کی پیشگوئی موجودہے۔
قرآن کریم کو دوسری الہامی کتب پر جو فضیلتیں حاصل ہوئیں ہیں ان میں سے ایک بہت بڑی فضیلت یہ بھی ہے ۔کہ قرآن کریم سے پہلے ربّ العالمین کا خیال دنیا میں معین صورت میں موجود نہیں تھا ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک ہستی کو سب دنیا کاخالق ومالک مانتے تھے مگر چونکہ ان کی تعلیم قومی تھی اور مشرکین خاص طور پر اپنے اپنے خدا الگ پیش کرتے تھے اس لئے انسانی ذہن محدود خیالات کا مرجع رہتا تھا ۔ اسی وجہ سے فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(شعراء ع ۲) اے موسیٰؑ یہ رب العالمین کو ن ہے جس کی طرف سے مبعوث کئے جانے کاتم دعویٰ کرتے ہو۔ اور پھر ڈوبتے وقت بھی اس نے کہا میں ربّ بنی اسرائیل پر ایمان لاتا ہوں (یونس ع ۹)لیکن قرآن کریم نے اس خیال کو ایک معین صور ت میں پیش کیا او ر اس طرح اتحادِ بین الاقوام کی ایسی داغ بیل ڈال دی جو پہلی تعلیموں کے لحاظ سے ناممکن تھی ۔بائیبل پڑھ کر دیکھ لو۔ اس میں یہی دکھائی دے گا کہ ’’ خداوند نبی اسرائیل کا خدا مبارک ہے جس نے تجھے بھیجا ہے ‘‘( ۱؎سموئیل باب ۲۵آیت ۳۲) ’’ خداوند اسرائیل کا خدا ابدالآباد مبارک ہو‘‘۔ ( ۱؎تواریخ باب ۱۶آیت ۳۴) ’’ خداوند اسرائیل کا خدا جو اکیلا ہے عجائیب کام کرتا ہے ۔ ‘‘( زبورباب ۷۲آیت ۱۸) لیکن قرآن کریم نے اس نقطہ نگاہ کو بالکل بدل دیا ۔ اس نے خدا تعالیٰ کو رب العالمین کی شکل میں پیش کیا اور بتایا کہ وہ صرف افراد اور قوموں کا ہی خدا نہیں بلکہ سب مخلوق کا خدا ہے اس کی ابتداء ہی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ سے ہوئی ہے ۔ یعنی خدا تعالیٰ جو سب جہانوں کا رب ہے اس کی برکات کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں بلکہ جس طرح روحانی طور پر بھی اس نے اپنے فیض سے کسی کو محروم نہیںکیا۔ کفار کو اس خیال پر اس قدر حیرت ہوئی کہ وہ بے اختیار کہہ اٹھے کہ اَجَعَلَ الْاٰ لِھَمَّ اِلٰھًا وَّاحِدً (ص ع۱) یعنی اس نے تو کئی خدائوں کوکوٹ کا ٹ کر ایک خدا بنا دیاہے ۔ اس کے خیال میں یہ امر آہی نہیں سکتا تھا کہ اصل میں ایک ہی خدا ہے او رباقی سب مصنوعی خدا ہیں کیونکہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں سے یہی الفاظ سنتے تھے کہ ’’ہمار ا خدا اور تمہار ا خدا اور‘‘ گو توحید ان کے سامنے پیش کی جاتی تھی ۔مگر وہ توحید کا یہ مطلب نہیں لیتے تھے کہ سب کا خدا ایک ہے ۔ بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ خد اایک ہے مگر وہ بنی اسرائیل یا مسیحیوں کا خدا ہے اور اگر وہ سچا ہے تو پھر ہم بغیر خدا کے ہیں ۔ مگر اسلام نے بتایا کہ وہ مومن وکافر سب کا خدا ہے اورپھر وہ ایک ہی خدا ہے ۔ یہ بیان اس صفائی کے ساتھ دنیا کے لئے بالکل نرالہ تھا ۔ مگر یہ نرالہ پیغام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کو دیا گیا اور پھر نرالے طور پر آپ کو ساری دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا جب کہ پہلے انبیاء صرف ایک ایک قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور اس طرح آپ کے ذریعہ ربُّ الْعٰلَمِیْنَ کا تصور دنای میں قائم کیا گیا حالانکہ آپؐ ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے تھے جس کے باقی دنیا سے کوئی تعلقات نہیں تھے ۔ عرب باقی ساری دنیا سے کٹا ہوا ملک تھا اور عرب کی دنیا صرف عرب تک ہی محدود تھی ۔اوراگر وہ دوسری قوموںکے متعلق کوئی خیال رکھتے بھی تھے تو صرف مفافرت کا خیال تھا ۔ عربوں میں تکبر اتنا زیادہ پایا جاتا تھا کہ کہ وہ سمجھتے تھے کہ ان سے بڑا کوئی ہے ہی نہیں۔ صرف رومن اور ایرانی حکومتوں کی سیاسی برتری کو وہ تسلیم کرتے تھے گویا سیاسی نقطہ نگاہ سے تو وہ عرب کو ادنیٰ سمجھتے تھے لیکن قومی نقطہ نگاہ سے وہ باقی تمام دنیا کو ذلیل خیال کرتے تھے اور قومیت کا خیال آتے ہی وہ عرب کو باقی تمام قوموں سے بالا سمجھنے لگتے تھے ۔ ہاں جب سیاست کا سوال آتا تو وہ رومن اور ایرانیوںکو درباروں میں جا کر رومی اور ایرانی بادشاہوں کو حضور کہنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے کیونکہ جب وہ ان کے درباروں میں جاتے تھے تو کچھ لینے کے لئے جاتے تھے ۔ غرض نہ وہ جغرافیائی حیثیت سے ایک دنیا کے قائل تھے اور نہ قوم لحاظ سے ایک دنیا کے قائل تھے ۔ پھر جو لوگ رومن اور ایرانی درباروں میں جاتے بھی تھے ان کی تعداد بہت تھوڑی ہوتی تھی بالعموم ان میں وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنے گھروں کے ارد گرد سو سو میل سے باہر قدم نہیں رکھا تھا ۔اس کے مقابلہ میں بنی اسرائیل ایک ترقی یافتہ قوم تھی ۔وہ مصر میں رہتے تھے اور ایک ایسی قوم کے اقتدار میں رہتے تھے جس کی اپنی حکومت تھی ۔ پھر مصر ان دنوںسے زیادہ متمدن ملک تھا ۔ مصر کے جہاز یورپ افریقہ اور ہندوستان وغیرہ دوسرے ممالک میں بھی جاتے تھے اور اس کی بیرونی ممالک سے تجارت تھی جس کے نتیجہ میں وہ ان ممالک سے سیاسی اور تمدنی تعلقات رکھتا تھا ۔ غرض مصر میں رہنے والی قوم باقی دنیا کے حالات سے غافل نہیں رہ سکتی تھی۔ مصری قوم اس زمانہ میں ویسی ہی متمدن تھی جیسے آج کل انگلستان کی حکومت ہے ۔انگلستان سیاسی اور تمدنی طورپر اتنی ترقی کرچکا ہے کہ اس میں رہنے والا دنیا کے حالات سے غافل نہیں رہ سکتا ۔ افغانستان میں رہنے والا غافل رہ سکتا ہے کیونکہ تمدنی اور سیاسی ترقی میں ابھی بہت پیچھے ہے۔ یہی حالت عرب کے مصر کے مقابلہ میں تھی ۔لیکن مصر میں رہتے ہوئے ،مصری اقتدار کے ماتحت رہتے ہوئے اور مصری تہذیب کیساتھ تعلق رکھتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسرائیل کا خدا پیش کیا ۔ جیسا کہ بتایا جاچکا ہے تورات میں باربار یہی ذکر آتا ہے ۔ کہ بنی اسرائیل کا خدا یوں کہتا ہے ۔بنی اسرائیل کا خدا یوں کہتا ہے پھر حضرت مسیح علیہ السلام جن کے زمانہ میں تمدن بہت پھیل چکا تھا اوریورپ اور ایشیاء آپس میں مخلوط ہوچکے تھے ۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ میں بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو اکٹھا کرنے کے لئے آیا ہوں۔ گویا دنیا میں اتحاد ہوجانے کے باوجود حضرت مسیح علیہ السلام قومی نظریہ سے اوپر نہیں جاسکے حضرت مسیح علیہ السلام بھی یہ خیال نہیں کرتے تھے کہ بنی اسرائیل کے سوا باقی لوگ خدا تعالیٰ کی مخلوق نہیں۔ وہ بھی خیال نہیں کرتے تھے کہ بنی اسرائیل کے علاوہ باقی مخلو ق بھی خدا تعالیٰ کی مخلوق ہے اور خدا بنی اسرائیل کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بھی خدا ہے مگر باوجود اس ک موسوی نظریہ کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی یہی نظریہ پیش کیا کہ خدا تعالیٰ بنی اسرائیل کا باپ ہے اور باقی لوگ ا س کے سوتیلے بیٹے ہیں اس کے مقابل پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے جو تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے بہت پیچھے تھااور باقی دنیا سے بالکل کٹا ہوا تھا ۔مگر پھر بھی آپ نے دنیا کے سامنے پہلی دفعہ یہ نظریہ پیش کیا کہ تمام قومیں خدا تعالیٰ کی مخلو ق ہیںاور خدا تعالیٰ تمام قوموں کا خداہے۔ آپؐ نے فرمایا ۔ بیشک عرب قوم میری مخاطب ہے اور میں اسی میں پید ا ہوا ہوں مگر میں صرف اسی قوم کی بہبودی اور ہدایت کیلئے مبعوث نہیں ہو ا۔ بلکہ بُعِثْتُ اِلَی الْاَسْوَدِ وَالْاَبْیَضِ وَالْاَحْمَرِ وَالْاَصَغَرِ میں سیاہ اور سفید اور سرخ اور زرد سب قوموں کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں ۔کوئی چینی ہو یا افریقی ،انگریز ہو یا امریکن ہندوستانی ہو یا جاپانی ان ساروںکے لئے مجھے مبعوث کیا گیا ہے ۔ اور میری زندگی ان تمام قوموں کی فلاح و بہبود کیلئے وقف ہے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ رہے مگر بنی اسرائیل کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ رہے مگر اپنی قوم کیلئے ۔ حضرت نوح علیہ السلام زندہ رہے مگر عراقیوں کے لئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام زندہ رہے مگر فلسطینیوں کے لئے ۔ حضرت کرشن اور حضرت رامچندر علیہما السلام زندہ رہے ۔ مگر ہندوستانیوں کیلئے ۔ انہوں نے تکالیف بھی اٹھائیں اور مصائب بھی برداشت کئے مگر صرف بنی اسرائیل کیلئے یا صرف فلسطینیوں کے لئے یا صرف عراقیوں کے لئے یا صرف ہندوستانیوں کیلئے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ کے حکم سے فرماتے ہیں کہ اِنَّ صَلَّاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَا تِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یعنی میںاگر تکالیف اوردکھ اٹھاتا ہوں تو صرف ایک قوم کیلئے نہیں بیشک میں عر ب قوم میں پیدا ہوا ہوں اور وہ میر ی پہلی مخاطب ہے لیکن میرے دکھ اور میرے مصائب ساری دنیا کیلئے ہیں ۔کیونکہ میں نے اپنی ساری زندگی خدا تعالیٰ کے لئے وقف کی ہوئی ہے اور ایسے خداتعالیٰ کے لئے وقف کی ہوئی ہے جو ربّ العالمین یعنی سب جہانوں کی ربوبیّت کرنے والا ہے۔ میں صرف عرب قوم کا لیڈرنہیں ہوں ۔میں تو خدا تعالیٰ کا جو رب العالمین ہے بندہہوں اور اس کی خاطر میں نے اپنی ساری زندگی وقف کی ہوئی ہے۔وہ اگر ربّ العٰلمین ہے اگر وہ سب جہانوں کی ربوبیّت کرتا ہے تو اس کا خادم ہونے کی حیثیت سے میری تکالیف اور دکھ کسی خاص قوم کے ساتھ کیوں مخصوص ہوں۔میں نے خدا تعالیٰ کو ربّ العالمین سمجھ کر مانا ہے ۔ربِّ عرب یا ربِّ بنی اسرائیل سمجھ کر نہیں مانا ۔اور جب میں نے اسے ربّ العٰلَمِیْن سمجھ کر مانا ہے تو اس کی جتنی بھی مخلوق ہے سب کی خاطر مجھے اپنے اوپر تکالیف وارد کرنی چاہئیں۔اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں کثرت سے اس قسم کے احکام پائے جاتے ہیں کہ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ۔اور نہ عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت ہے ۔مگر مضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جب ایک غیر قوم کی عورت نے آکر کہا کہ اے استاد تو مجھے بھی اس سچائی سے حصّہ دے جو تونے بنی اسرائیل کے سامنے پیش کرتا ہے تواس عورت کی خاطردکھ اور تکالیف اٹھانا تو الگ رہا ۔حضرت مسیح موعود علںہ السلام نے کہا ۔بیٹوں کی روٹی میں کُتّوں کے آگے کیسے پھینک دوں۔گویا ان کی نگاہ میں بنی اسرائیل تو خدا کے بیٹے تھے اور غیر قومیں کتّوں کی مانند تھیں۔اس کے مقابلہ میں اسلام کے ابتدائی زمانہ میں ۔ایسے ابتدائی زمانہ میں جبکہ ابھی تعلیم ابھی مکمل نہیںہوئی تھی۔جبکہ قرآن کریم کا ایک پارہ بھی پورا نازل نہیں ہؤا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہدایت اور راستی کے متلاشی آتے ہیں۔ان میں سے کوئی یونانی ہوتا ہے جیسے سہیلؓ ۔کوئی حبشہ کا ہوتا ہے جیسے بلالؓ۔کوئی ایران کا ہوتا ہے جیسے حضرت سلمانؓ۔یہ لوگ آتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی یہ خواہش پیش کرتے ہیںکہ ہمیں بھی اپنی تعلیم سنائیے ۔ان کے سوال کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیںفر ماتے کہ کوئی شخص اپنے بیٹوں کی روٹی کُتّوں کے آگے نہیں پھینک سکتا ۔بلکہ آپؐ سمجھتے ہیں کہ جس طرح عرب قوم ہے ویسے ہی یہ لوگ بھی ہیں۔آپ فوراً انہیں تعلیم دینا شروع کر دیتے ہیں ۔بلکہ دینی تعلیم دینا تو الگ رہا یہاں تک ثابت ہے کہ دو بھائی تھے جو عربی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے تھے یا بہت کم علم رکھتے تھے۔وہ صرف بائیبل نہیں جانتے تھے اور لوہا کوٹا کرتے تھے۔آپؐان دونوں بھائیوں کو اشاروں کے ساتھ تبلیغ کیا کرتے تھے۔جب آپؐ وہاں سے گذرتے تو ان کے پاس کھڑے ہوجاتے ہیں۔وہ دونوں یونانی تھے اور آپ کی باتیں نہیں سمجھ سکتے تھے۔لیکن آپؐ محبت کی وجہ سے وہاں کھڑے ہوجاتے اور ان کی باتیں سنتے۔پھر آپؐ انہیں تبلیغ کرنے لگ جاتے۔زبان تو وہ سمجھ نہیں سکتے تھے آپؐاشاروں سے انہیں تبلیغ کرتے۔مثلاً اللّٰہ کا لفظ کہہ کر آسمان کی طرف اشارہ کردیا۔آہستہ آہستہ ان دونوں کو آپؐ سے اُنس ہوتا گیا۔اور بالآخر وہ دونوں ایمان لے آئے اسی طرح بلالؓحبشی تھے ۔ اور حبشی غلام بنائے جاتے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں میں سے نہیں تھے جن کے نزدیک کوئی غیر قوم مقہوروذلیل ہو بلکہ آپؐ کے نزدیک سب قومیں یکساں طورپر خدا تعالیٰ کی مخلوق تھیں آپؐ کو یونانیوں اور حبشیوں سے بھی ویسا ہی پیار تھا جیسے عربوں سے ۔ یہی محبت تھی جس نے ان غیر قوموں کے دلوں میں بھی آپ کا وہ عشق پیدا کردیا جس کو عرب کے بھی بہت سے لوگ نہیں سمجھ سکتے تھے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے ۔پھر عرب قوم میں پیدا ہوئے اور عر بوں میں سے بھی قریش قبیلہ میں پیدا ہوئے جو دوسری عرب قوموں کو بھی حقیر اور ذلیل سمجھتا تھا۔ آپؐ کو حبشیوں سے کیا جوڑ تھا ۔ اگر آپؐ سے کسی قوم یا قبیلہ کو محبت ہونی چاہئیے تھی تووہ بنو ہاشم کو ہونی چاہئیے تھی ۔ آپؐ سے کسی کومحبت ہونی چاہئیے تھی تو قریش کو ہونی چاہئیے تھی یا پھر عرب کے لوگوں کو ہونی چاہئیے تھی غیر قوموں کے دلوں میں جن کی حکومت کو آپؐ کے لشکر وں نے تباہ کردیا تھا جن کی قومی برتری کو اسلامی سلطنت نے بے کار کرکے رکھ دیا تھا محبت ہوہی کیسے سکتی ہے ۔انہیں تو آپؐ سے دشمنی ہونی چاہئیے تھی۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے عشق کا یہ حال تھا کہ آپؐ کی وفات کے کئی سال بعدایک دن کچھ لوگ دمشق میں اکٹھے ہوئے اور انہوں نے باتوں باتوں میں کہا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بلال ؓ اذان دیا کرتے تھے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم پھر ان کی اذان سنیں۔ چنانچہ انہوں نے بلال ؓ سے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ سے شام چلے گئے تھے اور پھر شام سے دمشق جا پہنچے تھے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا ۔ لیکن انہوں نے انکار کردیا اور کہا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں نے اذان دینا چھوڑ دیاہے ۔ کیونکہ جب میں بھی اذان دینے کا ارادہ کرتا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ مبارک میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور یہ بات میری برداشت سے باہر ہوجاتی ہے ۔ حضرت عمرؓ بھی ان دنوں دمشق آئے ہوئے تھے ۔لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ آپ بلالؓ سے کہیں کہ اذان دیں۔ ہم میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوںنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور ہمارے کان ترس رہے ہیں کہ پھر بلالؓ کی اذان سنیں۔ اور ہم میں وہ بھی ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہیں دیکھا صرف باتیں سنی ہیںوہ بھی خواہش رکھتے ہیں کہ اس شخص کی اذان سن لیں جس کی اذان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سنا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے بلالؓ کو بلایا اور فرمایا لوگوں کی خواہش ہے تو میں اذان دیتا ہوں ۔ لیکن میراد ل برداشت نہیں کرسکتا ۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے بلند آواز سے اُسی رنگ میں اذان دی جس رنگ میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اذان دیا کرتے تھے ۔ بلالؓ کی آواز جونہی فضا میں گونجی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک کو یاد کرکے آپؐ کے صحابہؓ جو عرب کے باشندے تھے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور بعض کی چیخیں بھی نکل گئیں ۔لیکن حضرت بلالؓ جو حبشی تھے جن سے عربوں نے خدمتیں لیں۔جنہیں عربوں سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا اور نہ بھائی چارے کا تعلق تھا وہ اذان ختم کرتے ہی بے ہوش ہوگئے اور چند منٹ بعد ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ۔ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعویٰ پر غیر قوموں کی گواہی تھی کہ میرے نزدیک عرب اور غیر عرب کوئی فرق نہیں ۔ یہ گواہی تھی غیرقوموں کی جنہوں نے آپؐ کی محبت بھری آواز کو سنا اور اس کا اثر جو انہوں نے دیکھا اس نے انہیں اس یقین سے بھردیا کہ ان کی اپنی قوم ان سے وہ محبت نہیں کرسکتی تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کی۔
پھر لوگ مرتے ہیں تو اپنی تکالیف اور دکھ کی وجہ سے انہیں دوسروں کا خیال تک نہیں آتا۔ کیونکہ وفات کے وقت غیر معمولی تکلیف ہوتی ہے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے جس شخص کو وفات کے وقت زیادہ تکلیف ہوتی تھی ۔ میں خیال کرتی تھی کہ وہ گنہگار ہے ۔ مگر جب میں نے آپؐ کی وفات دیکھی تو سمجھا کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ آپؐ کی نزع کی حالت نہایت تکلیف دہ تھی ۔ وفات کے وقت مرنے والوں کو عموماً یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ اپنا کام اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو سنبھال جائیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور بیماری کی وجہ سے جب ایسی حالت کو پہنچے تو آپ ؐ کے لئے چلنا بھی مشکل ہوگیا ۔ تو ایک دن آپ سہار ا لے کر مسجد میں آئے اور صحابہؓ کو اکٹھا کیا اور فرمایا ۔ ہر ایک انسان آخری وقت میں کوئی نہ کوئی نصیحت کرتاہے ۔ میں بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ یہ غلام تمہاری طرح خدا تعالیٰ کے بندے ہیں اور تمہارے بھائی ہیں اور انکے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کرنا اور جو شخص یہ برداشت نہ کرسکتا ہوکہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرے اسے چاہئیے کہ انہیں آزاد کردے لیکن جو شخص ان سے کام لینا چاہتا ہو وہ جو کچھ خود کھائے وہی انہیں کھلائے جو خود پہنے وہی انہیں پہننے کو دے ۔ جس حالت میں وہ خود رہے اسی حالت میں انہیں بھی رکھے ۔اور اگرتم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں کرسکتا تو اسے ان سے خدمت لینے کا کوئی حق نہیں پھر فرمایا۔اے میرے صحابہؓ !عورت پر بہت بڑا ظلم ہوتا رہا ہے ۔میں تمہیں نصیحت کرتاہوں کہ تم عورتوں کے ساتھ نیک سلوک کرواور ان کے حقوق ادا کرو ۔ہمیں انبیا ء سابقین کے متعلق یہ معلوم نہیں کہ وہ کیسے فوت ہوئے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق پتہ لگتا ہے کہ جب آپ کو صلیب پر لٹکایا گیا تواگرچہ وہ ان کی وفات کا وقت نہیں تھا تاہم آپ نے آنکھیں کھول لیںاور حضرت مریم کو رنجیدہ دیکھ کر آپ نے سمجھ لیا کہ وہ اپنے بیٹے کے مصلوب ہوجانے کے بعد اپنے کسی ولی اور نگران کی عدم موجودگی پر افسوس کررہی ہیں۔ آپ نے انے حواری تھومسؔ سے کہا۔ گو جذبات کی وجہ سے آپ اپنا فقرہ مکمل نہ کرسکے کہ اے تھومسؔ یہ ہے تمہاری ماں اور اے عورت یہ ہے تمہارا بیٹا ۔ جس کے یہ معنے تھے کہ میں تھومسؔپر اعتبار کرتاہوں اور اسے تمہارا بیٹا بناتا ہوں۔ اور اے تھومس ؔ میں تم پر اعتبار کرتاہوں اور اسے تمہاری ماں بناتا ہوں۔ یہ بڑا نیک جذبہ ہے جو حضرت مسیحؑ کے دل میں پیدا ہوا۔ مگر اس شخص کی محبت کتنی بالا ہے جو وفات کے وقت اپنے اغراء اور اقرباء کو بھول جائے اور غریب اور مظلوم کی ہمدردی میں اپنے آخری لمحات گزاردے ۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے وقت اگر کسی کا خیال کیا تو وہ صرف مظلوموں ،مقہوروں متروکوں اور ان بے بس اور بے کس لوگوں کا تھا جن کی پرورش کرنے والا کوئی نہیں تھا ۔
پھر عین وفات کا وقت آتا ہے تو آپ کی زبان پر یہ کلمہ جاری ہوتا ہے کہ خدا یہود اور نصاریٰ پر *** کرے جنہوں نے اپنے بزرگوں کی قبروں کو عبادت گاہیں بنالیا ہے یہود اور نصاریٰ بھی موحّد تھے مگر ان میں جو قبروں کو سجدہ کرتے تھے ۔ انہیں آپؐ نے حقارت سے دیکھا اور ان سے اظہارِ نفرت فرمایا ۔ اس فقرے کے معنے درحقیقت یہ تھے کہ اے مسلمانو! تم کسی کو رَبّ العٰلمین نہ بنانا۔ ربّ العٰلمین صرف خدائے واحد ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے ۔ پھرجب موت کا وقت اور قریب آتا ہے تو اس وقت آپ کی زبا ن پر جو الفاظ جاری ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اَللَّھُمَّ الرَّ فِیْقَ الْاَ عْلٰی اَللَّھُمَّ الرَّ فِیْقَ الْاَعْلٰی بے شک آپؐ نے یہاں رفیق کا لفظ استعمال فرمایا ہے مگر اَلْاَعْلٰی کا لفظ ربّ العٰلمین کی طرف ہی اشارہ کرتا ہے ۔ گویا رفیق کہہ کر آپ نے اپنے تعلق بِاللہ کی طرف اشارہ کیا ۔ اور اَلْاَعْلٰی کہہ کر اس کے رَبُّ العٰلَمِیْن ہونے کی طرف اشارہ کیا ۔
غرض رب العلمین کا صحیح معنوں میں تصور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہی دنیا میں قائم ہوا۔ چنانچہ اسی امر کی طرف زیرِ تفسیر آیت میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ اور بتایا گیا ہے کہ پہلے تمام انبیاء صرف اپنی اپنی قوم کی ہدایت کیلئے آئے تھے اور ان پر جو کلام نازل ہوئے وہ بھی مختص القوم اور مختص الزمان تھے مگر اب یہ کلام رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ خد ا کی طرف سے دنیا کی تمام قوموں ،دنیا کے تمام ملکوں اور قیامت تک آنے والے تمام زمانوں کیلئے نازل کیا گیاہے اور پھر اس کلام کو ایک بڑی خصوصیت یہ حاصل ہے کہ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنَ ۔عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ۔روح الامین اس کلام کو لے کر تیرے دل پر نازل ہوا ہے تاکہ تو لوگوں کو ہوشیار اور بیدا ر کرنے والے لوگوں میں شامل ہوجائے ۔ عیسائی اس بات کو ہمیشہ بڑے فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ مسیح پر روح القدس نازل ہوا تھا ۔ حالانکہ قرآن کریم نہ صرف یہ نازل ہوا تھا بلکہ وہ اس سے بڑھ کر یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر روح الامین نازل ہوتا ہے روح القد س کے نازل ہونے کا وہ ان الفاظ میں ذکر فرماتا ہے کہ قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھُدً ی وَّبُشْریٰ لِلْمُسْلِمِیْنَ۔ (نحل ع ۱۴) یعنی اے محمد رسول اللہ تُو لوگوں سے کہہ دے کہ ا س کلام کو روح القدس نے تیرے رب کی طرف سے حق و حکمت کے ساتھ اتارا ہے ۔ تاکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں انہیں وہ ایمان پر ثبات بخشے ۔ اسی طرح یہ کلام اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار بندوں کے لئے مزید ہدایت اور انہیں بشارت دینے کے لئے اس نے نازل کیا ہے ۔ پس یہ بالکل غلط ہے کہ روح القدس کا نزول صرف حضرت مسیحؑ کے ساتھ مخصوص تھا قرآن کریم کو بھی روح القدس ہی لے کر نازل ہوا ہے ۔ اور پہلے نبیوں پر بھی روح القدس ہی نازل ہوتارہا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر قرآن کریم یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ ہر پاک اور امعصوم ہے اور اس لحاظ سے جو فرشتہ بھی کلام لے کر نازل ہو وہ روح القدس ہی کہلاتاہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ملائکہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ فَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُوْمَرُوْنَ (تحریم ع۱)یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں جس بات کا بھی حکم دیا جائے اس کی نافرمانی کرنے کی ان میں طاقت ہی نہیںہوتی بلکہ جو کچھ انہیں کہا جائے وہی کچھ وہ عمل کرتے ہیں۔پس روح القد س کا مفہوم درحقیقت فرشتہ کے لفظ میں ہی شامل ہے۔ لیکن قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مزید امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ آپؐ پر روح الامین نازل ہوا۔ یعنی وہ فرشتہ نازل ہوا جس کے ذمہ یہ بھی فرض تھا کہ وہ قرآن کریم کو صحیح وسالم صورت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائے گویا قرآن کریم کے دونوں حصوں کی حفاظت کا انتظام کر دیا گیا۔ ایک طرف تو اس کے نزول میں کسی غلطی یا نسیان کا امکان باقی نہ رہا ۔ کیونکہ روح الامین اسے لے کر نازل ہوا اور دوسری طرف نزول کے بعد مستقل طور پر اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ (الحجر ع ۱)یعنی ہم نے ہی اس ذکر کو اتار ا ہے اور ہم یقینا اس کی حفاظت کریں گے ۔ گویا قرآن کریم کے متعلق دونوں زمانوں میں حفاظت کا انتظام کرلیا گیا ۔ لیکن انجیل کے دونوں زمانوں کے متعلق کوئی وعدہ نہیں ۔ نہ تو انجیل میں کوئی ایسی آیت ہے جس میں ذکر ہوکہ جب انجیل کی وحی آئی تو رستہ میں اس کی حفاظت کا انتظام کیا گیا۔ یا جب تک وہ حضرت مسیحؑ کے دماغ میں رہی اور دنیا میں نہیں پھیلی اس وقت تک اس کی حفاظت کی گئی اور نہ کوئی ایسی آیت ہے جس میں یہ ذکر ہو کہ جب مسیحؑ نے وہ وحی لکھوا دی یا سنا دی تو اس کے بعد قیامت تک خدا تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لے لی۔ پس انجیل کی حفاظت کا ثبوت خود انجیل سے کوئی نہیں ملتا ۔ لیکن قرآن کریم کی مکمل حفاظت کا ثبوت خود قرآن کریم سے ہی ملتا ہے ۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قطبِ مطہّر پر وحی الٰہی پر نازل ہونے تک بلکہ جب تک وہ وحی دنیا میں شائع نہیں ہوئی اس وقت تک اس کی حفاظت کا ثبوت اس آیت سے ملتا ہے ۔ اور دنیا میں شائع ہوجانے کے بعد اسکی حفاظت کا ثبوت اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ سے ملتا ہے ۔ گویا خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی الٰہی کے نازل ہونے وقت سے لے کر قیامت تک قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ موجود ہے جس کے مشابہ وعدہ بھی انجیل میں کوئی موجود نہیں ۔
غرض روح الامین میں یہ بتا یا گیا ہے کہ اس کلام کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر انتظام کیا گیا ہے تاکہ پہلی کتب کی طرح اس میں کوئی بگاڑ پید انہ ہو ۔ ورنہ ہر فرشتہ اپنی ذات میں امین ہی ہوتا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب کسی صفت کا خاص طورپر ذکر کیا جائے تو اس سے مراد اس کے خاص ظہور کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے مثلاً جہاں روح القد س کا لفظ استعمال کیا جائے وہں اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہوگا کہ یہ کلام اپنے اندر قدوسیت کی صفت رکھتا ہے اور یہ صفت سب نبیوں کے الہام میں مشترک طورپر پائی جاتی ہے ۔لیکن امینؔ کی صفت سے جبریل صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ صرف آپؐ کے کلام کی حفاظت کی گئی جب کہ پہلی الہامی کتب انسانی دست بُرد کاشکار ہوچکی ہیں۔
اس کے بعد فرمایا ہے کہ روح الامین نے یہ کلام تیرے دل پر نازل کیا ہے یعنی روح الامین کا فرض حفاظت اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ وحی تیرے دل پر نازل نہ ہوجائے تاکہ اس کے نتیجہ میں تو لوگوں تک اس وحی کو عمدگی سے پہنچا دے ۔ اس جگہ وحی الٰہی کو قلب پر نازل کرنے کے یہ معنے ہیں کہ جس طرح کلامِ الٰہی لفظوں میں نازل ہوتا ہے اسی طرح نبی کے دل کو بھی ساتھ ساتھ تقویت دی جاتی ہے ۔ گویا اللہ تعالیٰ کا کلام جس شخص پر نازل ہوتا ہے اسے ایک قلبی پاکیزگی اور استقامت بھی عطا کی جاتی ہے تاکہ وہ اسے دنیا میں قائم کرنے میں کامیاب ہوسکے ۔ پس قلب پر نازل ہونے کے یہ معنے ہیںکہ وہ صرف پیغامبر ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ کلام اس کے دل کے اندر جذب ہوجاتا ہے اوروہ اسکا جزو ہوجاتا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ شرعی اور غیر شرعی یا ظلّی وحی میں ایک فرق ہوتا ہے او ر وہ فرق یہ ہے کہ ہر شرعی وحی نبی کے قلب پر بھی نازل ہوتی ہے ۔چونکہ اس وحی کی متعلق یہ حکم ہوتا ہے کہ اس پر اَنَا اَوَّلُ الْمُوْمِنِیْنَ کہو۔ اس لئے یہ قلب پر نازل ہوتی ہے اور جوں جوں نازل ہوتی ہے وہ ایمان کو مضبوط کرتی چلی جاتی ہے ۔ بعض لوگوں نے اس آیت نے ایک غلطی کھائی ہے ۔ خصوصاً بہائیوں کو اس سے غلطی لگی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جو خیال بھی دل میں آجائے وہ وحی ہوتا ہے حالانکہ قرآن کریم اور احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ وحی زبان پر بھی نازل ہوتی ہے ۔مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَجْعَلَ بِہِ کہ تو زبان کو جلدی جلدی حرکت نہ دیا کر۔اس کے معنے یہ ہیں کہ وحی زبان پر بھی نازل ہوتی ہے ۔اصل میں یہ دوہری وحی ہوتی ہے ۔یہ وحی زبان پر بھی نازل ہوتی ہے اور دل پر بھی اس کا نزول ہوتا ہے۔لیکن دوسروں کوجووحی ہوتی ہے وہ بروزی اورظلی طورپر ہوتی ہے اوراس قسم کی وحی ہرقلب پر نازل نہیں ہوتی ۔وہ بعض دفعہ کان پر نازل ہوتی ہے ۔مثلاً انسان ایک کلام سنتاہے ۔اورکہتاہے مجھے یہ الہام ہواہے ۔یااس کی زبان پر کوئی الفاظ جاری ہوجاتے ہیں اوروہ کہتاہے مجھے الہام ہواہے یافلاں کلام میری زبان پر جاری ہواہے ۔مگرتشریعی انبیاء کی جووحی ہوتی ہے یابعض بروزی اورظلی انبیاء کی وحی بھی صرف کان اورزبان پر ہی نازل نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک ہی وقت میں کان یازبان اوراس کے ساتھ قلب پر بھی نازل ہوتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ تین جگہ نازل ہوتی ہے ۔ایک تووہ زبان یاکان پر نازل ہوتی ہے ۔دوسرے قلب پر نازل ہوتی ہے اورتیسرے دما غ پرنازل ہوتی ہے جیسے قرآن کریم میں آتاہے کہ یہ وحی کتاب مکنون ہے یعنی یہ وحی ایک طرف تو اس قرآ ن میں نازل کی گئی ہے ۔اوردوسری طرف اسے انسانی فطرت کے اندررکھ دیاگیاہے پس تشریعی نبیاء کی وحی زبان یاکان پر نازل ہونے کے علاوہ قلب پر بھی نازل ہوتی ہے اور میخ کی طرح دل میں گڑ جاتی ہے ۔یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الَاَمِیْنُ عَلیٰ قَلْبِکَ یعنی چونکہ یہ وحی تیرے قلب پر نازل ہوتی ہے اس لئے تیرے اند اس وحی کے متعلق غیرمعمولی استقامت پائی جاتی ہے ۔اور تُو کہتاہے کہ اگرتم سورج کو میرے دائیںاورچاند کو میرے بائیں لاکر بھی رکھ دو۔اورپھر مجھ سے کہوکہ میں خدائے واحد کی توحید کی اشاعت کرنے سے رک جائو ں تومیں ایسانہیں کروں گا ۔کیونکہ خداتعالیٰ کی وحی میرے دل پر نازل ہوتی ہے ۔اگر وہ میرے قلنب پر نازل نہ ہوتی تومیں تمہاری باتوں کو بھی سنتا لیکن ا ب یہ سوال ہی باقی نہیں رہا کہ میں تمہاری بات سنوں ۔کیونکہ خداتعالیٰ نے میرے دل پر اپنی وحی نازل کی ہے اورمیرے دل میں آہنی میخ کی طرح توحید کاعقیدہ راسخ کردیاہے ۔
بہرحال جیساکہ میں نے بتایاہے بعض لوگوں نے اس آیت سے دھوکہ کھایاہے اوروہ یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ جو خیال بھی دل میں پیداہو وہ وحی ہوتاہے ۔حالانکہ وحی زبان اوترکان پر بھی نازل ہوتی ہے اوراس کے ساتھ ہی اس کا زبان اورکان پر بھی نزول ہوتاہے تاکہ اس کی تائید ہوجائے ۔لیکن بہاء اللہ ایک طرف تو اقرارکرتے تھے کہ مجھے لفظی وحی نہیںہوتی اوردوسری طرف ان کے دل میں جوخیالات بھی پیداہوں ان کو وہ الہام قرار دیتے تھے ۔یہی کیفیت گاندھی جی کی تھی۔وہ بھی بعض دفعہ اپنے خیالات کانام الہام رکھ لیاکرتے تھے۔ لیکن اس جگہ جس وحی کاذکر ہے اس میں مقررہ الفاظ ہوتے ہیں جوتکرار کے ساتھ دہرائے جاتے ہیں اورزبان یاکان کے علاوہ انسانی قلب پر بھی جاری ہوتے ہیں اوران میں اس قدر تکرار ہوتاہے کہ بعض دفعہ آدھ آدھ گھنٹہ تک ایک ایک فقرہ کو دہرایاجاتاہے ۔
پھر اگر قرآن کریم میں صرف یہی آیت ہوتی کہ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الَاَمِیْنُ عَلیٰ قَلْبِکَ توہمیں دھوکہ لگ سکتا تھا کہ شاید اس میں دل کے خیالات کو ہی وحی قراردیاگیاہے لیکن اس کے علاوہ بعض اورآیات بھی قرآن کریم میں آتی ہیں جن سے صراحتاً معلوم ہوتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اورآپؐ کے کان پر بھی وحی نازل ہوتی تھی اوروہ وحی معیّن الفاظ میں ہوتی تھی ۔مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔لَاتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ۔ اِنَّ علینا جَمْعَہٗ وقراٰنَہٗ ،فَاِذَا قَرْاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ(القیامۃ ع۱) یعنی اے محمدؐرسول اللہ ! تُو اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت نہ دیاکر ۔اس قرآن کو جمع کر نا بھی ہمارے ذمہ ہے اوراس کا دنیا کو سنانا بھی ہماراکام ہے ۔پس جب ہم اسے پڑھ لیا کریں تواس کے بعد تُو بھی اسے پڑھ لیاکر۔یہ آیت بتاتی ہے کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی الٰہی بڑی سرعت سے نازل ہوتی تھی اس لئے آپ جلدی جلدی اس کلام کو اپنی زبانس ے دہرانے لگتے تھے تاکہ ان الفاظ پر قابو پاسکیں اوروہ آپ کے دما غ میں پوری طرح محفوظ رہیں ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کوتسلی دی کہ ایساکرنے کی ضرورت نہیں آپ پر جو کلام نازل کیا جارہاہے ۔یہ شریعتِ الٰہیہ کاحامل ہے اورشرعی الہام بھولانہیں کرتا۔کیونکہ اگر وہ بھول جائے تو وحی متلوّ ہی ادھو ری رہ جائے ۔ہاں ہم یہ کلام پڑذ لیا کریں تواس کے بعد توبھی اسے پڑھ لیا کر ۔یہ آیت اس امر پر نصّ صریح ہے کہ قرآن کریم صر ف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مطہّر پر ہی نازل نہیں ہوتاتھا بلکہ وہ التزاماً آپ کو پڑھایابھی جاتاتھا اورپڑھایااسی صورت میں جاسکتاہے جب کہ وہ آپ پر معین الفاظ میں نازل ہوتا۔
اسی طرح قرآن کریم اصطراحاً اس کلام کو کلام اللہ قرار دیتاہے جس سے نہ صرف اس وسوسہ کو دور کیاگیا ہے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو خیالات پیداہوتے تھے انہی کو آپ وحی الٰہی قرار دیتے تھے ۔بلکہ کلام اللہ کہہ کر اس بات کی طرف بھی اشار ہ کیاگیاہے کہ اس کتاب میں شروع سے لے کر آخر تک جو کچھ لکھا ہے یہ سب کا سب اللہ تعالیٰ کاکلام ہے ۔اس میں کسی کے دل کے خیالا ت کا تو کیا ذکر ہے کوئی ایک لفظ بھی ایسانہیں جو کسی نسان کا بنایا ہواہو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلَامَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْ مَنَہٗ (توبہ ع۱)یعنی اگر ان مشرکوں میں سے جو تجھ سے برسرِ جنگ ہیں کوئی شخص پناہ مانگے ۔تواسے پناہ دے تاکہ وہ اس کتاب کو سن سکے جو تجھ پر نازل ہوئی ہے اورجو ساری کی ساری کلام اللہ ہے ۔پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سن لے اورچاہے کہ اپنی قوم کے لوگوں کے پاس واپس چلا جائے توچاہیئے کہ اسے پو ری حفاظت کے ساتھ اس علاقہ میں پہنچا دیاجائے جواس کے امن کامقام ہے ۔اسی طرح قرآن کریم میں فرماناکہ اِقرابِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خلق ۔خلق الانسان من علق۔(سورۃ العلق ع۱)یعنی اے محمد رسول اللہ! تواپنے رب کانام لے کر پڑھ جس نے سب اشیاء کو پیداکیاہے ۔تُواپنے اس رب کانام لے کر پڑھ جس نے انسان کو خون کے ایک لوتھڑے سے پیداکیاہے ۔یہ بھی بتاتاہے کہ قرآنی آیات معین الفاظ میں آپؐ پر نازل ہوتی تھیں جن کی آپ پو ری طرح تلاوت فرماسکتے تھے ۔پھر قرآن کریم کابار بار یہ فرماناکہ قل ھو اللہ احد یا قل یٰاَیُّھا الکافرون یاقل اعوذ برب الفلق یا قل اعوذ برب الناس یہ سب آیات وحیٔ الفاظ پر دلالت کرتی ہیں ۔اسی طرح حدیث میں آتاہے ۔کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔بعض اوقات مجھ پر وحی صلصلۃ الجوس کی طرح آتی ہے اورصلصلۃ الجوس یعنی گھنٹی کی آواز کو کان کے ذریعہ سناجاتاہے ۔اسی طرح آپ فرماتے ہیں وَاَحْیَانًایَتَمَثَّلُ لِیَ الْمَلَکُ رَجُلًافَیُکَلِّمُنِیْ فَاَعِی مایقُوْلُ (بخاری باب کیف کان بدء الوحی)یعنی کبھی اللہ تعالیٰ کافرشتہ آدمی کی شکل میں متمثّل ہوکر میرے پاس آجاتاہے اوروہ مجھ سے کلام کرتاہے جسے میں اپنے دما غ میں محفوظ رکھ لیتاہوں۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ وحی زبان اورکان اورآنکھوں پر بھی نازل ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی اس کا دل پر بھی نزول ہوتاہے ۔جس کی وجہ سے وہ شخص جس پر وحی نازل ہوتی ہے سب سے بڑامومن ہو جاتاہے کیونکہ اس کے کانوں اورزبان کے ساتھ اس کے دل پر بھی وحی کا نزول ہوتاہے ۔اورچونکہ سارے عقائد اورخیالات دل سے ہی پیداہوتے ہیں اس لئے اگر دل پر وحی نازل ہوگئی تو یہ ساری چیز یں آپ ہی آپ درست ہوجاتی ہیں ۔غرض وحی کے کئی مراتب ہوتے ہیں ۔انبیائے تشریعی کی وحی اَوردرجہ کی ہوتی ہے اورانبیائے بروزی اورظلّی کی وحی اَور درجہ کی ہوتی ہے انبیائے بروزی اورظلّی وحی کو بھی بھول سکتے ہیں ۔انبیائے تشریعی شرعی وحی کو نہیں بھولتے ۔کیونکہ اگرشریعت ہی بھول جائے توا ن کی امت تباہ ہوجائے ۔اسی طرح انبیائے بروزی اورظلّی کی ایسی وحی بھی جو کسی پہلی وحی کی تفصیل بیان کرنے یا کسی خاص نکتئہ معرفت کے بیان کرنے کے لئے آتی ہے وہ بھی نہیں بھولتی کیونکہ اس کے لئے بھی وحی قانون جاری ہے جوشرعی وحی کے لیء ہے اوراس کی بھی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے ۔اس میں کو ئی شبہ نہیں کہ عام وحی کی بھی ایک قسم کی حفاظت ہوتی ہے ۔کیونکہ اگر وہ اخبار غیبیہ جن پر خداتعالیٰ اپنے کسی بندہ کو اطلاع دیتاہے ساری کی ساری بھول جائیں تووہ لوگوںکو سنائی کیسے جاسکیں ۔لیکن بہرحال اسے وہ مقام حاصل نہیں ہوتاجو تشریعی وحی کو حاصل ہوتاہے کہ اس کے ایک ایک لفظ اوراورایک ایک شعشہ کی حفاظت ہوتی ہے ۔
پھر فرماتاہے بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ۔اسے خداتعالیٰ نے ایک ایسی زبان میں نازل کیا ہے جو اپنے مطالب کو خوب کھول کر بیان کرنے والی ہے ۔درحقیقت کسی کلام کی حفاظت کا ایک یہ بھی پہلوہوتاہے کہ جوکلام نازل ہو اس کو سمجھنے والے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہوں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اس نے قرآن کریم کو حفاظت کے اس پہلو سے بھی نوازاہے اوراسے ایک ایسی زبان میں نازل کیا ہے جو اپنے مضمون کا آپ واضح کرتی ہے اورپھر وہ ہرقسم کے دلائل بھی اپنے اند ررکھتی ہے ۔
مفرداتؔ راغب جو قرآنی لغت کی مشہور کتا ب ہے اس میں اَلْعَرَبِیّْ کے معنے اَلْمُفْصِحُ کے لکھے ہیں یعنی اپنے مدعاکو خوب صفائی اورصفائی کے ساتھ بیان کرنے والا اوراَلْاِعْرَابُ کے معنے کھولنے اورواضح کرنے کے لکھے ہیں ۔پس بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ میں تو یہ بتایاکہ اللہ تعالیٰ نے اپناآخری شرعی کلام اس زبان میں نازل فرمایاہے جومطالب کے اظہار کے لئے اپنے اندر پوراسامان رکھتی ہے اورہرمسئلہ پوری وضاحت اورتفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہے او ر مُبین میں یہ بتایاکہ وہ صرف اپنے مقاصد کے اظہار پر ہی قدرت نہیں رکھتی بلکہ اپنے ساتھ دلائل اوربراہین کابھی ذخیرہ رکھتی ہے ۔گویا قرآن کریم کا صرف عربی زبان میں ہونا معجزہ نہیں بلکہ قرآن کا عربی مبین ہونے میں معجزہ ہے ۔یعنی اس کی ایسی زبان ہے کہ اس کے اندر دلائل بھی بیان کئے گئے ہیں اوربتایاگیاہے کہ ہم کیوں حکم دیتے ہیں ۔خداتعالیٰ کوکیوں منواتے ہیں فرشتوںکو کیوں منواتے ہیں ۔رسولوں کو کیوں منواتے ہیں ۔ جھوٹ سے کیوں منع کرتے ہیں ۔سچ کی کیوں تائید کرتے ہیں ظلم سے کیوںروکتے ہیں ۔انصاف کی کیوں تائید کرتے ہیں ۔غرض یہ عَرَبِیٌّ مُّبِیْن میں ہے اوراپنے احکام کی دلیلیں بھی دیتاہے ۔جھوٹاآدمی بات تو کہدے گا مگر اس کی دلیل کہاں سے لائے گا ۔ مگریہ کلام تو ایسی زبان میں نازل ہواہے جوعر بی ہی نہیں بلکہ مبین بھی ہے ۔یعنی جوبات بھی کہتی ہے اس کو کھول کر رکھ دیتی ہے اوراس کی معقولیت کے ساتھ دلائل بھی دیتی ہے ۔
پھر فرمایا وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِالْاَوَّلِیْنَ۔قرآن کریم کو ایک اور فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ اس کا ذکر پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی موجودہے ۔اوران میں صراحتاً اس کے نزول کی خبر دی گئی ہے ۔بلکہ یہ بھی بتایاگیاہے کہ وہ کلام دنیا کوایک عربی نبی کی زبان سے سنایاجائے گا ۔چنانچہ مثال کے طور پر اس کے ثبوت میں یسعیاہ نبی کی ایک پیشگوئی کاذکر کیاجاتاہے ۔وہ اپنی کتاب کے اٹھائیسویں باب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
’’ وہ کس کو دانش سکھائے گا ۔کس کو وعظ کرکے سمجھائے گا ۔ان کو جن کا دودھ چھڑایاگیا جوچھاتیوں سے جداکئے گئے کیونکہ حکم پر حکم۔ حکم پر حکم ۔قانون پر قانون ۔قانون پر قانون ہوتاجاتا۔تھوڑایہاں تھوڑا۔ہاں وہ وحشی کے سے ہونٹوں اوراجنبی زبان سے اس گروہ کے ساتھ باتیں کرے گا کہ اس نے ان سے کہا کہ یہ وہ آرام گاہ ہے ۔تم ان کو جو تھکے ہوئے ہیں آرام دیجیئو۔اوریہ چین کی حالت ہے ۔ پر وَے شنوانہ ہوئے ۔سوخداکاکلام ان سے یہ ہو گاحکم پر حکم۔ قانون پر قانون ۔قانون پر قانون ۔تھوڑایہاں تھوڑاوہاں ۔تاکہ وَے چلے جاویں اورپچھاڑی گریں اورشکست کھا ئیں اوردام میں پھنسیں اورگرفتار وہویں۔‘‘
(یسعیاہ باب ۲۸ آیت ۹تا ۱۳)
یسعیاہ نبی نے اس کلام میں یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک زمانہ میں اللہ تعالیٰ پھر لوگوں کی روحانی تشنگی اوربھوک کودور کرنے کے لئے آسمان سے اپنادودھ نازل فرمائے گا ۔مگر یہ دودھ اس قوم کو پلایاجائے گا جس کے افراد ایک لمبے عرصہ سے چھاتیوں سے جدارہ چکے ہوں گے ۔یعنی جن پر فترت کا ایک لمبا زمانہ آچکا ہوگا۔اوراس کلام کی ایک خصوصیت یہ ہوگی کہ وہ یکدم نازل نہیں ہوگا اورنہ کسی ایک شہر اورمقام میں نازل ہوگا۔بلکہ قانون پر قانون اورحکم پر حکم مختلف مقامات میں نازل ہوگااورایک لمبے زمانہ میں اس الٰہی قانون کی تکمیل ہوگی ۔
پھر اس کلام کاایک اَوروصف یہ ہوگا کہ وہ ایک اجنبی یعنی غیر زبان میں نازل ہوگا۔اورآنے والا مقدس رسول وحشی کے سے ہونٹوں کے ساتھ کلام کرے گا ۔یہ وحشی کا لفظ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عربی نبی ہونے کی طرف اشارہ کررہاہے کیونکہ بائیبل کی اصطلاح میں عربوں کے لئے وحشی کالفظ استعمال ہوتاہے۔اسی بناء پر پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۲ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بھی ’’وحشی ‘‘قرار دیاگیاہے۔درحقیقت یہ لفظ اس تعصّب کے اظہار کے لئے بنواسرائیل نے اختیار کیاتھا جوان کے دلوں میں بنو اسماعیل کے متعلق پایاجاتاہے۔اگر وہ تعصب کا شکار نہ ہوتے توآسانی سے وہ عرب کالفاظ استعمال کرسکتے تھے ۔مگر انہوں نے اس لفظ کو اختیار کرنے کی بجائے پہلے اس کا ترجمہ کیا اورپھر ترجمہ کے لئے بھی وحشی کالفظ اختیار کرلیا ۔اس لفظ کا انتخاب اس بناء پر کیا گیا کہ عربی زبان میں ع ر ب کے معنے اپنے مافی الضمیرکوپوری عمدگی کے ساتھ بیان کرنے کے ہوتے ہیں اورعربوں کانام عرب بھی اسی لئے رکھاگیاتھا کہ وہ ادب کے دلدادہ اورنہایت فصیح و بلیغ کلام کرنے کے عادی تھے ۔مگرچونکہ وہ جنگلوں میں رہتے تھے اورخیموں میں ان کی زندگی کٹتی تھی ان کے مخالف انہیں خیموں اورجنگلوں میں رہنے والا کہنے کی بجائے وحشی کہنے لگ گئے ۔اوربائیبل نے بھی یہی طریق اختیارکیا۔اسی وجہ سے یسعیاہ نبی کی پیشگوئی میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ ’’وحشی کے سے ہونٹوںسے کلام کرے گا ‘‘ یعنی وہ عرب میں مبعوث ہو گا ۔اورعربی میںاس پر کلام الٰہی نازل ہوگا ۔چنانچہ اسی امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے پہلے بِلِسَانٍ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٍ کے الفاظ لئے گئے ہیں اورپھر کہا گیاہے کہ تمہیں اس کلام کے قبول کرنے میں کسی قسم کے تردّد اورہچکچاہٹ سے کام نہیں لینا چاہیئے کیونکہ تمہارے اپنے نبیوں کی کتابوں میں اس کے متعلق پیشگوئیاں موجود ہیں ۔ ۱؎
پھر فرمایا ۔اَوَلَمْ یَکُنْ لَّھُمْ اٰیَۃً اَنْ یَّعْلَمَہُ عُلَمٰٓؤُا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ۔کیا ان کے لئے یہ نشان کم ہے کہ اس قرآن کو علمائے بنی اسرائیل بھی پہچانتے ہیں ۔یعنی بنی اسرائیل کے انبیاء نے جب اس قرآن کی خبر دی ہے ۔اوروہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدتوں پہلے گذر چکے تھے اوران کی بتائی ہوئی خبریں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن کریم پر پوری اتر آئی ہیں توکیا قرآن کریم کے ما ننے کے لئے یہ نشان کافی نہیں ۔
اس آیت سے ایک اورمسئلہ پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔اوروہ یہ کہ اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ یعنی قرآن کریم کاپہلی کتابوں میں بھی ذکر ہے ۔اورکتابیں ہمیشہ نبیوں پر ہی نازل ہواکرتی ہیں ۔اس آیت میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ کیا ان لوگوں کے لئے یہ نشان کافی نہیں کہ بنی اسرائیل کے علماء اس کوجانتے ہیں ۔پس سیاقِ کلام کو مدنظر رکھتے ہوئے
۱؎۔اس بار ہ میں تفصیلات کے شائق تفسیر کبیر جلد اول ص ۳۷۰تا۳۹۰ملاحظہ فرمائیں جہاں بائیبل کی ان پیشگوئیوں کاتفصیلی ذکرموجود ہے ۔
صاف ظاہر ہے کہ اس جگہ علماء سے وہی لوگ مراد ہیں ۔جن پر زُبر نازل ہوئیں اورچونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ عُلَمَائُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَآئِ بَنِیْ ٓ اِسْرَآئِ یْلَ (مکتوب امام ربانی دفتر اول حصہ چہارم ص ۳۳مکتوب نمبر ۲۳۴)اس لئے ہم اس آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کامل یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلام کاصرف یہی مفہوم ہے کہ اَنْبِیَآئُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَآئِ بَنِیْ ٓ اِسْرَآئِ یْل یعنی جس قسم کے نبی بنی اسرائیل میں گذرے ہیں ویسے ہی نبی میری امت میں بھی آئیں گے ۔اس کے یہ معنے نہیں کہ صاحب شریعت نبی میری امت میں آسکتے ہیں ۔کیونکہ مشابہت کبھی تمام اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے اورکبھی چند اجزاء پر ۔چونکہ قرآن کریم کے بعد کسی نئی شریعت کا آنا توناممکن ہے ۔پس ایسے ہی انبیاء آسکتے ہیں جوبغیر شریعت کے ہوں اورحدیث بتاتی ہے کہ اس قسم کے انبیاء کا آنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم فرمایاہے ۔
ان آیات پر غور کرکے ہر شخص اندازہ لگاسکتاہے کہ اس جگہ قرآن کریم کی صداقت اوراس کی عظمت اوراس کی ضرور ت پر کیساکامل اورلطیف مضمون بیان کیاگیا ہے ۔ان آیات میں بتایاگیا ہے کہ (۱)یہ وہ کتاب ہے جو خدانے اتاری ہے۔(۲)یہ وہ کتا ب ہے جو جبریل لایاہے ۔(۳)یہ وہ کتاب ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے پاک اورمقدس انسان کے دل پر اتاری گئی ہے ۔(۴) یہ وہ کتاب ہے جس کی غرض گمراہوں کو ہوشیا رکرنا اوران کو آئندہ زندگی میں پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کرنا ہے (۵)یہ وہ کتاب ہے جس کا ذریعئہ بیان عربی مبین ہے ۔(۶)یہ وہ کتاب ہے جس کی خبر پہلی کتب میں بھی موجود ہے ۔یایہ کہ اصولی تعلیم میں
اس کی پہلی کتب کے ساتھ مشابہت ہے اس لئے اس کاانکار درحقیقت تمام مذاہب اور رسولوں کا انکارہے۔اوراس پر ایما ن لانا انسان کو مجموعی طورپر ان تمام برکات اورانوارسے مستفیض کرتا ہے جن انوار اوربرکات سے انفرادی طور پر پہلے صرف ایک ایک قوم مستفید ہواکرتی تھی بلکہ ذوق ایمان رکھنے والے کے لئے تو صرف یہی ایک نشان کافی ہے کہ انبیاء بنی اسرائیل بھی اپنی پیشگوئیوں میں ذکر کرتے رہے ہیں ۔پھر اگر اتنے بڑے شواہد کی موجود گی میں بھی کوئی شخص اس کا انکار کرسکتاہے توسوائے اس کے کیاکہاجاسکتاہے کہ اس کی آنکھیں روحانی بینائی سے محروم ہوچکی ہیں ۔
ولو نزلنہ علی بعض الاعجمین٭فقراہ علیھم ماکانوبہ
اوراگر ہم اس کو عجمیوں میں سے کسی پر اتارتے ۔اوروہ اسکو اِن (کفار )کے سامنے پڑھ کر سناتا تو وہ کبھی بھی اس پر
مومنین٭ کذٰلک سلکنٰہ فی قلوب المجرمین٭
ایمان نہ لاتے ۔ اسی طرح ہم نے مجرموں کے دلو ں میں یہ (بات)داخل کرچھوڑی ہے ۔
لامومنون بہ حتی یرواالعذاب الالیم٭فیاتیھم بغتۃوھم لایشعرون٭
(پس )وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ پس وہ (عذاب)ان کی لاعلمی میں ان کے پاس اچانک آجائے گا ۔
فیقولوا ھل نحن منظرون ٭افبعذابنا یستعجلون٭
تب وہ کہیں گے کیا ہمیں ڈھیل مل سکے گی ۔ سو(بتائو کہ)کیایہی لو گ ہمارے عذاب کو جلدی مانگاکرتے تھے ۔
افرء یت ان متعنھم سنین٭ ثم جاء ھم ماکانوایوعدون٭
پس کیا تجھے یقین نہیں ہے کہ اگر ہم ان کو سالوں تک فائدہ پہنچاتے جاتے ۔ پھر ان کے پاس وہ (عذاب)آجاتا جس کاان سے وعدہ کیاجاتا ہے۔
مااغنی عنھم ماکانوا یمتعون٭ومااھلکنا من قریۃال الھامنذرون٭ذکریٰ وما کنا ظلمین٭
توجو کچھ بھی ان کو دیاگیاہے وہ ان سے اس (عذاب)کوٹلانہیں سکتاتھا۔ اورہم نے کسی بستی کو بغیر اس کے کہ اس کی طرف نبی بھیجے ہوں ہلاک نہیں کیا ۔یہ اس لئے کیا گیا کہ ان کو نصیحت پہنچ جائے ۔اورہم ظالم نہیں۔ ۳۶؎
۳۶؎ :۔حل لغات ۔اَلْاَعْجَمِیْنَ: اَلْاَعْجَمُ کی جمع ہے ۔اوراَلْاَعْجَمُ کیح معنے ہیں مَنْ لَا یُفْصِحُ وَلَایُبَیِّنُ کَلَامَہٗ وَاِنْ کانَ مِنَ الْعَرَبِ۔وہ شخص جو اپنے مافی الضمیر کو عربی زبان میں پوری طرح کھول کر ادانہیں کرسکتا خواہ وہ شخص عرب کے علاقہ کاہو اورعربی جانتاہو۔اسی طرح اَلْاَعْجَمُ کے معنے ہیں مَنْ لَیْسَ بَعَرَبِیٍّ وَاِنْ اَنْصَحَ بِالْعَجَمِیَّۃِ۔ وہ شخص جو عرب کے علاقہ کانہ ہو اورخواہ وہ اپنی زبان خوب فصاحت سے بولتاہو لیکن اس کو بھی عجم ہی کہیں گے (اقرب)
سَلَکْنٰہُ:سَلَکَ سے جمع متکلم کاصیغہ ہے اور سَلَکَ الشَّیئَ فِی الشَّیئِ کے معنے ہیں اَدْخَلَہٗ فِیہِ۔کسی چیز کو کسی چیز میں داخل کیا ۔کَمَا تُسْلَکُ الیَدُ فِی الْحَبِیْبِ وَالْخَیْطُ فِیْ الْاِبْرَۃِ۔جیسے ہاتھ جیب میں داخل کیاجاتاہے یادھاگہ سوئی میں ۔(اقرب)پس سَلَکْنٰہُ کے معنے ہوں گے ہم نے اس کو داخل کیا ۔
مُنْظَرُوْنَ :مُنْظَرٌ کی جمع ہے جو اَنْظَرَ سے اس مفعول کا صیغہ ہے ۔اور اَنْظَرَہٗ کے معنے ہیں اَمْھَلَہٗ اس کو مہلت دی (اقرب)پس مُنْظَرُوْنَ کے معنے ہوں گے مہلت دیئے ہوئے ۔
تفسیر :۔اب فرماتا ہے کہ اگر ہم اس کلام کوکسی عجمی پر نازل کرتے اوروہ انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتاتویہ لو گ اس پر کبھی ایمان نہ لاتے ۔
لغت عرب کے لحاظ سے اَعْجَم اس شخص کو کہتے ہیں جس کاکلام فصیح نہ ہو اوراپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح واضح نہ کرسکے ۔خواہ وہ شخص عرب ہی کیوں نہ ہو اوراعجم کا لفظ ایسے شخص کے لئے بھی استعمال کیاجاتاہے جوعربی نہ ہو ۔خواہ عجمی زبان میں وہ بڑا فصیح ہو (اقرب) اس میں بتایاکہ اگر کلام کاحامل کو ئی غیر عربی شخص ہوتاتو یہ لوگ کہہ سکتے تھے کہ یہ ایک غیر قوم کا آدمی ہے ہم اس کے حالات سے واقف نہیں ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ہم کو دھوکادے رہاہے یا نہیں دے رہا۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اپنی قوم کے آدمی ہیں اوریہ لو گ آپؐ کے حالات کو خوب جانتے ہیں ۔پھر یہ کیونکر فیصلہ نہیں کرسکتے کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا۔جس نے ساری عمر انسانوں پر جھوٹ نہیں بولاوہ خداپر کس طرح جھوٹ بول سکتاہے۔اسی لئے ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ اعلان فرمایاکہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًامِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(یونس ع ۲)یعنی اے لوگو ! میں اپنی زندگی کا ایک بیشترحصہ تم میں گذار چکاہوں کیااس کو دیکھتے ہوئے تم پھر بھی عقل سے کام نہیں لیتے اوریہ نہیں سمجھ سکتے کہ جس شخص کی راستبازی اوردیانت کے تم آج تک قائل رہے ہو وہ اب صداقت کے خلاف اتنا بڑا قدم کیسے اٹھاسکتاہے کہ خداتعالیٰ پر افتراکرنے لگ جائے ۔
زیر تفسیر آیت میں بھی اسی نکتہ کی طرف کفار کو توجہ دلائی گئی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود عربوںمیں سے ہیں اورہیں بھی مکہ کے رہنے والے ۔اگر انہوںنے کسی غیر ملک میں زندگی بسر کی ہوتی تو تم کہہ سکتے تھے کہ گویہ شخص ہماری قوم کاہے مگررہاباہر ہے ۔ اس لئے ہم اس کے حالات کو نہیں جانتے ۔اوریقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص سچاہے یاجھوٹا۔لیکن اب توتمہارے لئے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ۔کیونکہ ایک تومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود تمہاری قوم میں سے آئے ہیں اوردوسرے انہوںنے اپنے بچپن اور جوانی کی عمر تم میں گذاری ہے اورتم لوگ ان کے اخلاق سے اچھی طرح واقف ہو ۔اورتم خود اس بات کے گواہ ہو کہ اس نے صداقت کے خلاف کبھی کو ئی قدم نہیں اٹھایا۔بلکہ اس کی صداقت اوردیانت کایہ عالم ہے کہ تم لوگ اسے اپنی قوم کا سب سے بڑاراستباز اوردیانتدار انسان قراردیتے رہے ہو ۔ایسے حالات میں تم اس کو کس طرح جھوٹا قرار دے سکتے ہو ۔جبکہ اس کی صداقت کے خارجی ثبو ت بھی موجود ہیں اورپرانے انبیاء کی پیشگوئیاں بھی اس پر صادق آرہی ہیں۔مگرچونکہ ان تمام شواہدکو نظرانداز کرتے ہوئے اہل عرب نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاناتھا اس لیء فرمایا۔کَذٰلِکَ سَلَکْنٰہُ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ۔لَایُؤْمِنُوْنَ بِہٖ حَتّٰی یَرَوُاالْعَذَابَ الْاَلِیْمَ۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کا انکار بتارہاہے یہ صرف پہلی امتوںکے نقش قد م پر چل رہے ہیں ۔پہلی اُمتوں نے بھی موسیٰؑ اورابراہیمؑ اورنوحؑ اورہودؑ اورصالحؑ اورلوطؑ اورشعیبؑ کے نشانات دیکھنے کے باوجود اپنے نبیوںکاانکار کیاتھا۔اسی طرح یہ لوگ کررہے ہیں ۔اوراس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ خدائی عذاب کو نہیں دیکھ لیں گے ۔پھر بتایاکہ وہ عذاب توآکر رہے گا مگر فَیَاْ تِیَھُمْ بَغْتَۃً وَّھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ وہ اچانک آئے گاجیسا کہ قدیم سے اللہ تعالیٰ کی سنت چلی آرہی ہے اوراسی طرح پوشیدہ بڑھتے ہوئے آئے گا کہ ان کو پتہ نہیں لگے گا ۔ چنانچہ دیکھ لو فتح مکہ کا واقعہ ایسا اچانک ہواکہ ابو سفیان جیسا جہاندیدہ سردار بھی حیران رہ گیا اور جب ا س نے مکہ کے اردگرد رات کی تاریکی میں دس ہزار سپاہیوں کے خیموں کے سامنے بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے دیکھے توگھبراکر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگاکہ یہ کیاہے کیا آسمان سے اچانک کو ئی لشکر اترآیاہے۔ کیونکہ عرب کی کسی قوم کااتنا بڑالشکر نہیں ہوسکتا۔اس کے ساتھیوں نے مختلف قبائل کے نام لینے شروع کردیئے کہ شاید فلاں ہومگر ابوسفیان ان کی بات کو رد کرتاچلا گیا اور کہنے لگا نہیں نہیں عرب کی کسی قوم کا اتنا بڑالشکر نہیں ۔ ابھی وہ یہ باتیں ہی کررہے تھے کہ اسلامی گار د جو پہرہ پر مقرر تھی پہنچ گئی اورانہوں نے ابوسفیان اوراس کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا ۔ پھر دیکھو کس طرح قرآنی پیشگوئی کے مطابق اس عذاب کو دیکھ کر وہ لوگ ایمان لے آئے جبکہ پہلے نبیوںکی قوموں میں سے اکثر ان پرا یمان نہیں لائے اوراس طرح خداتعالیٰ نے اپنے عزیز اورحیم ہونے کا ثبوت دیدیا ۔
پھر فرماتاہے ۔فَیَقُوْلُوْاھَلْ نَحْنُ مُنْظَرُوْنَ۔اَفَبِعَذَابِنَایَسْتَعْجِلُوْنَ۔اَفَرَئَ یْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰھُمْ سِنِیْنَ ۔ثُمَّ جَآئَ ھُمْ مَاکانوایُوْعَدُوْنَ۔مَااَغْنٰی عَنْھُمْ مَّاکانوایُمَتَّعُوْنَ۔یہ لوگ اپنی مجالس میں عذاب آنے میں دیر لگنے کی وجہ سے کہتے ہیں کہ شاید ہماراحال پہلی امتوں جیسانہیںہوگا ۔شاید ہم کو ڈھیل دی جائے گی اورعذاب جلدی نہیں آ ئے گا ۔فرمایا۔ اس کے معنے تویہ ہیں کہ یہ لوگ اپنی ہنسی اورتمسخر سے ہمارے غضب کو بھڑکاناچاہتے ہیں اورعذاب بہت جلدی لاناچاہتے ہیں ۔لیکن یہ اتنا توسوچیں کہ اگر ہم کچھ مد ت تک ان پر عذاب نہ بھی لائیں اوراس کے بعد ان پر عذاب آجائے توعذاب کے وقفہ کادرمیانی عرصہ انکو کیافائدہ پہنچا سکتاہے۔فائدہ توانہیں ہدایت سے ہی پہنچ سکتاہے مگر وہ ہدایت اختیار کرنے کی طرف توجہ نہیں کررہے۔
پھر فرماتاہے ۔وَمَآاَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ اِلَّالَھَامُنْذِرُوْنَ۔ذِکْریٰ وَمَاکُنَّا ظٰلِمِینَ۔ان لوگوںکو اتنا توسوچنا چاہئے کہ کیا کبھی ایساہواکہ ہم نے کسی بستی کو بغیر اتمام حجت کے ہلاک کردیاہو۔ہرقوم پر جب بھی عذاب آیاتاریخی شہاد ت موجود ہے کہ اس سے پہلے ایک نبی آیا جس کی بڑی غرض یہی تھی کہ انہیں سمجھائے اوربدیوں سے باز رہنے کی نصیحت کرے ۔اگر بغیر اس انذار کے ہم ان لوگوں پر عذاب نازل کردیتے ۔توہم لوگوں کی نگاہ میں ظالم ٹھہرتے مگرہم ایسے نہیں ہیں۔اورہم بغیر ہوشیار کرنے کے کسی قوم کو اپنے عذاب سے ہلاک نہیں کیاکرتے ۔پس ان لوگوںکو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جب ان کی طرف ایک ہوشیا رکرنے والا شخص آگیاہے تواس کے انکار پر عذاب بھی ضرو ر آئے گا کیونکہ جس طرح ڈرانے والے کے بغیر عذاب نہیں آتا اسی طرح ڈرانے والے کے بعد اس کے انکار پر ضرورعذاب آتاہے کیونکہ اگر اس وقت عذاب نہ آئے توڈرانے والا جھوٹاقرا رپاتاہے ۔
ذِکْرٰی کہہ کر بتایاکہ ڈرانے والے کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ لو گ نصیحت حاصل کریں ۔یہ غرض نہیں ہوتی کہ لوگ تباہ ہوجائیں اسی لئے ڈرانے والے کے بعد بھی عذاب میں ڈھیل دی جاتی ہے ۔تاکہ جو لو گ ایمان لاسکتے ہوں وہ ایمان لے آئیں ۔اگر کسی نبی کی بعثت کے معاً بعد عذاب آجائے تونصیحت حاصل کرنے کاکوئی موقع نہیں رہتا۔
وما تنزلت بہ الشیٰطین٭ وما ینبغی لھم وما یستطیعون
اورشیطان اس (قرآن )کولے کرنہیں اُترے ۔ اورنہ یہ کام ان کے مطابق حال تھا اورنہ وہ اس کی طاقت رکھتے تھے ۔
انھم عن السمع لمعزولون٭فلا تدمع مع اللہ الھاً اخر فتکون من المعذبین٭
وہ یقینا(کلام الٰہی کے )سننے سے دور رکھے گئے ہیں ۔ پس تُو اللہ(تعالیٰ)کے ساتھ کسی اَورکو معبود نہ پکار ۔ورنہ تُومبتلائے عذاب لوگوں میں سے ہوجائے گا ۔۳۷؎
۳۷؎ تفسیر :۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے ایک اعتراض کی تردید فرمائی ہے ۔ان کا اعتراض یہ تھا کہ اس شخص کے ساتھ شیطان کا تعلق ہے اوراس کی طرف سے اس پر کلام نازل ہوتاہے ۔چنانچہ گوقرآن کریم نے ان کے اس اعتراض کو الفاظ کی شکل میں نقل نہیں کیا۔لیکن اس اعتراض کی طرف قرآن کریم کے مختلف مقامات میں اشارات ضرو ر پائے جاتے ہیں ۔مثلا ً اللہ تعالیٰ سورئہ تکویر میں فرماتاہے وَمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ(تکویر ع۱)یعنی اس رسول پر نازل ہونے والا کلام کسی دھتکارے ہوئے شیطان کا قول نہیں ہے ۔اسی طرح زیر تفسیر آیات میںاللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وما تنزلت بہ الشیٰطین۔شیطانوںنے اس کلام کونہیں اُتارا۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ کفار کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اس پر شیطان نازل ہوتاہے ۔افسوس ہے کہ بعض مسلمان مفسرین نے اس قول کو اَوربھی پکّاکردیا اورکفار کے ہاتھوں میں انہوں نے ایک خطر ناک ہتھیار دیدیا اوروہ اس طرح کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کفار مکہ کے سردار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورانہوں نے کہا کہ آپؐ کے ماننے والے تو ادنیٰ لوگ ہیں ۔اگرآپؐ دین میں کچھ نرمی کردیں توہم لوگ بھی آپ کے پاس آکر بیٹھا کریں ۔اس طرح دوسرے لوگ بھی آ پ کے پاس آنے لگیں گے ۔اتنے میں آپ نماز پڑھنے لگے جب آپ نے یہ آیت پڑھی کہ اَفَرَئَ یْتُمُ الاَّتَ وَ الُعُزّٰی وَمنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی کہ تم بھی ذرالات او رعزّٰی کاحال سنائو اورتیسرے مناۃ کابھی جو ان کے علاوہ ہے ۔توشیطان نے آپ کی زبان پر یہ کلمات جاری کردیئے کہ تِلکَ الْغَرَنِیْقُ الْعُلیٰ وَاِنَّ شَفَاعْتُھُنَّ لَتُرْتَجٰی۔یعنی یہ لمبی گردنیں رکھنے والے بت بڑی اعلیٰ شان کے مالک ہیں اور ان کی شفاعت کی یقینی طورپرامید کی جاسکتی ہے۔ کفار نے یہ بات سنی تووہ بڑے خوش ہوئے ۔چنانچہ جب آپؐ نے سورۃ ختم کی اورسجدہ کیا توسب کفار نے بھی آ پ کے ساتھ سجدہ کردیا ۔کیونکہ انہوںنے سمجھا کہ آپؐ نے دین میں نرمی کردی ہے ۔اس روایت کو اتنے طریقوں سے بیان کیاگیاہے کہ ابن حجر ؒ جیسے آدمی بھی کہتے ہیں کہ اس کی تاویل کی ضرورت ہے ۔میں اس وقت اس کی تاویل میں نہیں پڑتاکیونکہ اس پر تفصیلی بحث سورئہ حج میں گذر چکی ہے ۔میں صرف یہ بتاناچاہتاہوں کہ کیا واقعہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایساہوا۔مجھے قاضی عیاض کایہ قول بے انتہا پسند ہے کہ بعض محدثین کی قلم سے شیطان نے یہ حدیث لکھوادی ہے ۔گویا اگر شیطان کا تسلط تسلیم ہی کرناہے تو کیوںنہ اس کا تسلط محدثین پر تسلیم کرلیاجائے ۔ یہ توقاضی عیاض کا جواب ہے ۔قرآنی جواب یہ ہے کہ تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی وَاِنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرْتَجیٰ کافقرہ جہاں جہاں بیان کیاجاتاہے ۔اس کے معاً بعد یہ آیت آتی ہے کہ اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہٗ الْاُنْثٰی تِلْکَ اِذًاقِسْمَۃٌ ضِیْزٰی۔اِنْ ھِیَ اِلَّا اَسْمَآئٌ سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاؤُکُمْ مَّا اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطَانٍ(سورئہ نجم ع ۱)یعنی کیاتمہیں تو اپنے لئے بیٹے پسند ہیں اورخداتعالیٰ کے لئے تم لڑکیاں تجویز کررہے ہو۔یہ تقسیم تو نہایت ہی ناقص اورظالمانہ تقسیم ہے ۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف چند نام ہیں جو تم نے اورتمہارے باپ دادوں نے رکھ لئے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ نے ان بتوں کی تائید کے لئے کوئی دلیل نازل نیں کی ۔اب بتائو کہ کیا اس فرضی کلام کے بعد جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیاجاتاہے کوئی شخص ان آیتوں کو سن کر یہ خیال بھی کرسکتاتھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عقائد میں نرمی اختیار کرلی ہے اوراس پر کوئی بیوقوف سے بیوقو ف مشرک بھی سجدہ کرسکتاتھا۔پس یہ آیات ہی بتارہی ہیں کہ ان میں وہ فقرے داخل ہی نہیں ہوسکتے تھے جو بتوں کی تعریف میں بیان کئے جاتے ہیں ۔آخر کفار تو عربی جانتے تھے۔کیاوہ اتنابھی نہیں سمجھ سکتے تھے کہ اس سورۃ کے تولفظ لفظ میں شرک کی مذمت کی گئی ہے پھر یہ کس طرح کہاجاسکتاہے کہ آپؐ نے اپنے دینی عقائد میں نرمی اختیار کرلی ہے۔
یہی مضمون زیر تفسیر آیت میں بیان کیاگیاہے ۔اوراللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ کفار کا یہ الزام کہ اس شخص پر شیطان کلام نازل کرتاہے درست نہیں کیونکہ (الف)اس شخص کا پنا چال چلن ایسااعلیٰ اورپاکیزہ ہے کہ ایسے آدمیوں کا شیطان سے کوئی تعلق ہو ہی نہیں سکتا۔( ب) پھر جو تعلیم اس پر نازل ہوئی ہے وہ ایسی مطہر اورپاک ہے کہ ناپاک شیطان اس تعلیم کو اتار ہی نہیں سکتا ۔آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ شیطان خو د اپنے خلاف تعلیم اتار دے ۔پھر جبکہ اس کلام میں شیطان کے خلاف تعلیم موجود ہے ۔تویہ کلام اس کی طرف سے کیسے نازل ہوسکتاہے ۔(ج) اس کتاب میں آسمانی علوم ہیں اوراس می ںشیطانی کلام کا اس قد ر ردّ ہے کہ اگر شیطان یا اس کے ساتھی اس میں کچھ ملانا بھی چاہیں تونہیں ملاسکتے کیونکہ کہیں کوئی عبارت کھپ ہی نہیں سکتی اورپھر وہ آسمانی علوم کے بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتے کیونکہ اِنَّھُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ خداتعالیٰ نے انہیں آسمان کی باتیں سننے سے محروم کیا ہواہے گویا آسمان پر جاکر باتیں سننا تو الگ رہا وہاں تک کسی کے جانے کی طاقت بھی قرآن کریم نے تسلیم نہیں کی مگر عجیب بات یہ ہے کہ بعض مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ شیطان آسمان پر جاتاہے اوروہ ملاء اعلیٰ اورجبریلؑ اورعرش کلی باتوں کو سن کر زمین پر آجاتاہے اورپھر وہ اپنے چیلے چانٹوں کو وہ باتیں بتاتا پھر تاہے ۔حالانکہ خداتعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ شیطان آسمانی کلام سننے کی طاقت ہی نہیں رکھتا ۔خداتو خداہے۔ اس دنیا کے معمولی معمولی بادشاہوں کے پاس پھٹکنے کی بھی لوگوں میں طاقت نہیں ہوتی اوروہ ان کے قریب جانے سے لرزتے اورگھبراتے ہیں ۔پھر یہ کس طرح ہوسکتاہے کہ زمین و آسمان کے خداکے راز شیطان اُچک کر لے آئے۔ اور وہ انہیں بگاڑ کر دنیا میں پھیلا نا شروع کردے ۔غرض قرآن کریم کفار کے اس الزام کی تردید کرتاہے اوربتاتاہے کہ شیاطین نے اس کلام کو نازل نہیں کیا اوریہ کام نہ ان کے مناسب حال تھا اورنہ وہ اس کی طاقت رکھتے تھے ۔یعنی قرآن کریم میں تو وہ نصیحتیں ہیں جو شیطانی تعلیموں کے بالکل خلاف ہیں ۔پھر یہ کسطرح تسلیم کیاجاسکتاہے کہ شیطان نے خود اپنے خلاف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تعلیم نازل کردی ۔یہ دلیل حضرت مسیحؑ نے بھی اپنی انجیل میں استعمال کی ہے ۔چنانچہ لکھا ہے کہ :۔
’’ پھر وہ ایک گونگی بدروح کو نکال رہاتھا ۔اورجب وہ بدروح نکل گئی توایساہواکہ گونگابولا اورلوگوں نے تعجب کیا ۔لیکن ان میں سے بعض نے کہا ۔یہ توبدروحوں کے سردار بعلز بول کی مددسے بدروحوں کو نکالتاہے ۔بعض اورلوگ آزمائش کے لئے اس سے آسمانی نشان طلب کرنے لگے ۔مگر اس نے ان کے خیالات کو جان کر ان سے کہا جس سلطنت میں پھو ٹ پڑے وہ ویران ہوجاتی ہے اورجس گھر میں پھوٹ پڑے وہ برباد ہوجاتاہے اوراگر شیطان بھی اپنا مخالف ہوجائے تو اس کی سلطنت کس طرح قائم رہے گی کیونکہ تم میری بابت کہتے ہو کہ یہ بدروحوں کو بعلز بول کی مدد سے نکالتاہے ۔‘‘
(لوقا باب ۱۱آیت ۱۴تا۱۸)
اسی طرح متی میں لکھاہے کہ حضرت مسیحؑ نے ان سے کہا :۔
’’ اگرشیطان نے ہی شیطان کو نکالا تووہ آپ اپنا مخالف ہوگیا ۔پھر اس کی بادشاہی کس طرح قائم رہے گی ۔‘‘
(متی باب ۱۲ آیت ۲۶)
قرآن کریم بھی یہی دلیل مخالفوںکے سامنے بیان کرتاہے ۔اورانہیں توجہ دلاتاہے کہ اگرتمہارایہ اعتراض صحیح ہو کہ شیطان نے یہ کلام نازل کیا ہے تواس کے معنے یہ ہوں گے کہ شیطان نے اپنا بیڑہ آپ غرق کرلیا ۔کیونکہ اس کتاب کے لفظ لفظ میں شیطان کو دھتکاراگیاہے اوراس کی ایک ایک تعلیم میں اس پر پھٹکار ڈالی گئی ہے ۔اب یہ کس طرح تسلیم کیاجاسکتاہے کہ شیطان نے خود اپنے خلاف اتنا بڑامواد فراہم کردیا ۔یہ تو عقل کے بالکل خلاف ہے ۔
اسی طرح وَمَا یَسْتَطِیْعُوْنَ میں جو دلیل استعمال کی گئی ہے کہ اس قرآن میں توغیب کی خبریں ہیں اورغیب کی خبریں بیان کرنا شیطان کے اقتدار سے باہر ہے ۔اسے بھی انجیل میں استعمال کیاگیاہے اورحضرت مسیحؑ نے واضح کیا ہے کہ علم غیب صرف خداتعالی کو حاصل ہے اورشیاطین تو الگ رہے فرشتے بھی اس رازوں سے آگاہ نہیں۔چنانچہ ایک دفعہ حضرت مسیحؑ نے جب اپنی آمد ثانی کی علامات بتائیں تواس کے ساتھ ہی آ پ نے اس امر کی بھی وضاحت فرمادی کہ گومیری یہ باتیں کبھی نہیں ٹلیں گی ۔
’’لیکن اس دن اوراس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا ۔نہ آسمان کے فرشتے ۔نہ بیٹا۔ مگر صرف باپ۔جیسانوح کے دنوں میں ہواویساہی ابن آدم کے آنے کے وقت ہوگا ۔کیونکہ جس طرح طوفان کے پہلے سے دنوں میں لوگ کھاتے پیتے اوربیاہ شادی کرتے تھے اس دن تک کہ نوح کی کشتی میں داخل ہوا۔اورجب تک طوفان آکر ان سب کو بہا نہ لے گیا ان کو خبر نہ ہوئی اسی طرح ابن آدم کاآناہوگا ۔‘‘
(لوقاباب ۲۴آیت ۳۶تا۴۰)
غرض محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اور بے عیب زندگی اورآپ کی تعلیم کا پاک اورمطہرہونااورپھر قرآن کریم میں آسمانی علوم اور غیب کی خبروں کا بکثرت اظہار اور شیاطین کا آسمانی علوم کے بیان کرنے کی طاقت ہی نہ رکھنا بتارہاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو یہ الزام لگایاجارہاہے کہ آپ کے ساتھ شیاطین کاتعلق ہے اورا س نے آپ پر یہ کلام نازل کردیاہے سراسرغلط اعتراض ہے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاشیطان سے نہیں بلکہ خداسے تعلق ہے اوراسی نے آپ پر یہ کلام نازل فرمایا ہے۔
پھر فرماتاہے فَلَا تَدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتَکُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِیْنَ۔اے مسلمان!تُوخداکے سواکسی معبود سے دعانہ کر۔ کیونکہ فطرت صحیحہ کے راز صرف خداسے مل سکتے ہیں ۔اورکوئی غیر اللہ اس میں تیری مدد نہیں کرسکتا۔اگرتوفطرت صحیحہ کے راز معلوم کرنے کے لئے غیر اللہ کی طرف جائے گا تو فَتَکُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِیْناس کی طرف سے جوتعلیم تجھے ملے گی ۔اس کے نتیجہ میں تو دکھ ہی دکھ اٹھائے گا کوئی سکھ تجھے نصیب نہ ہوگا۔
وانذر عشیرتک الاقربین٭واخفض جناحک لمن اتبعک من المومنین٭
اورتُو (سب سے پہلے)اپنے سب سے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا۔اورجوتیرے پاس مومن ہوکر آئیں ان کے لئے محبت کے بازو جھکادے
فان عصوک فقل انی بری ء مما تعملون٭
پھر اگر و ہ تیری نافرمانی کربیٹھیں توکہدے کہ میں تمہارے عمل سے بیزارہوں
وتوکل علی العزیز الرحیم٭ الذی یرئک حین تقوم٭
اورغالب (اور) بار بار کرم کرنے والی ہستی پرتوکل کر ۔جو تجھے اس وقت بھی دیکھتاہے جب تو اکیلا نماز کے لئے کھڑاہوتاہے ۔
وتقلبک فی السجدین ٭انہ ھو السمیع العلیم٭
اوراس وقت بھی جبکہ تُو (نماز باجماعت کے لئے )سجدہ کرنے والی جماعت میں اِدھر اُدھر پھر رہاہوتاہے ۔ یقیناً وہ (خداہی) بہت سننے والا (اور)بہت جاننے والا ہے ۳۸؎
۳۸؎ حل لغات :۔ عَشِیْرَۃٌ: اَلْعَشِیْرُ الْقَبِیْلَۃُ وَالْقَرِیْبُ وَالصَّدِیْقُ وَزَوْجُ المَرْأَۃِ وَالمُعَاشِرُ۔یعنی عَشِیْرَۃٌ کے معنے قبیلہ کے بھی ہوتے ہیں ۔دوست کے بھی ہوتے ہیں ۔خاوند کے بھی ہوتے ہیں اورہمسائے کے بھی ہوتے ہیں (اقرب)
اَخْفِضْ:خَفَضَ یَخْفِضُ سے امر کاصیغہ ہے اور خَفَضَ کے معنے ہیں ۔نیچا کیا ۔اوروَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُوْمِنِیْنَ کے معنے ہیں تَوَاضِعْ لَھُمْ۔کہ مومنوں کے ساتھ خاکساری کے ساتھ پیش آ۔اوران سے ملتارہ تاکہ ان کی تربیت ہوتی رہے (اقرب)
تَقَلُّبَکَ: تَقَلُّبٌ تَقَلَّبَ کامصدر ہے ۔اورتَقَلَّبَ عَلیٰ فِرَاشِہٖ کے معنے ہیں تَحَوَّلَ مِنْ جَانِبٍ اِلیٰ جانِبٍ۔وہ اپنے بستر میں ایک طرف سے دوسری طرف ہوتارہا نیز جب یہ فقرہ کہیں کہ ھُوَ یَتَقَلَّبُ فِیْ اَعْمَالِ السُّ لْطَّنِ تومعنے ہوتے ہیںیَتَنَقَّلُ مِنْ عَمَلٍ اِلیٰ عَمَلٍ۔یعنی وہ بادشاہ کے مختلف کاموں میں ادھر سے ادھر جاتاہے(اقرب)
اَلتَّقَلُّبُ:اَلتَّصَرُّفُ یعنی تَقَلّبٌ کے معنے ادھر سے ادھر آنے جانے کے ہیں (اقرب)
تفسیر :۔ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے اَنْذِرج عَشِیْرَتَکَ الاَقْرَبِیْنَ۔یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تُو دنیا کو ڈرا اوراسے بیدار اورہوشیار کر مگر پہلے اپنے رشتہ داروں اورقریبیوں کو ڈرا کیونکہ ان کا تجھ پر دوہراحق ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ رشتہ داریاں دنیا میں بڑابھاری اثر رکھتی ہیں ۔اورتاریخ میں اس کے اثرات کی بعض حرت انگیز مثالیں ہمیں نظر آتی ہیں ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت جب تبلیغ شروع کی اورکفار نے انتہائی طور پر ہررنگ میں اپنا اثر استعمال کرلیا اورکسی طرح بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم اورحق کے اعلان کو نہ چھوڑا ۔تومکہ کے لوگ ابوطالب کے پاس آئے اورانہیں کہا کہ آپ اپنے بھتیجے کو سمجھا لیجئے ورنہ ہم مجبور ہوجائیں گے کہ اس کے ساتھ آپ کا بھی بائیکاٹ کردیں۔حضرت ابوطالب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبلایااوران سے کہا کہ اے میرے بھتیجے میں نے آج تک تیراساتھ دیاہے مگرآج میری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں ۔اورانہوں نے کہا ہے کہ ابو طالب ہم تیرابہت لحاظ کرتے رہے ہیں مگرآج ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اگرتومحمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کو نہیں چھوڑے گا اوراس کی حمایت بدستور کرتاچلاجائے گا توہم تیری سرداری سے بھی انکار کردیں گے ۔ابوطالب ایک غریب آدمی تھے ۔مگروہ ساراوقت اپنی قوم کی خدمت میں لگاتے تھے اس لئے ان کی ساری جائیداد ہی قوم کی محبت تھی ۔دنیاکے کچھ لوگ کمانے میں لگے ہوئے ہوتے ہیں ۔اورکچھ قوم کی خدمت میں لگے ہوئے ہوتے ہیں ۔کمانے والے اپنا بدلہ روپیہ کی صورت میں لے لیتے ہیں ۔مگرخدمت کرنے والے اپنابدلہ قوم کی محبت کی صورت میں لیتے ہیں ۔ابو طالب چونکہ دن رات اپنی قوم کی خدمت میں مصروف رہتے تھے ۔اس لئے ان کی ساری کمائی ہی یہی تھی کہ وہ قوم کی خدمت کرتے تھے اورقوم انہیں سلام کرتی تھی اس لئے جب قوم کی طرف سے انہیں یہ نوٹس ملا توانہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایااورکہا ۔ اے میرے بیٹے میری قوم آج کہہ رہی ہے کہ اگر تُو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کونہیں چھوڑ سکتاتوپھر ہم بھی تجھ کو چھوڑ دیں گے ۔اس وقت یہ خیال کرکے کہ ساری عمر میں نے اپنی قوم کی خدمت میں لگادی تھی مگر آج بڑھاپے میں آکر وہی قوم مجھے چھوڑنے کے لئے تیار ہوگئی ہے حضرت ابو طالب پر رقت طاری ہوئی اوران کی آنکھو ں میں آنسوآگئے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ دیکھ کرکہ میرے چچا باوجود اس کے کہ مسلمان نہیں ہمیشہ میری خدمت کرتے رہے ہیں اورہمیشہ انہوں نے میری تائید کی ہے اوراب میری خدمت اورتائید کی وجہ سے ان کی ایک ہی قیمتی دولت جو ان کے پاس تھی یعنی قوم میں عزت وہ کھوئی جانے لگی ہے رقت طاری ہوگئی ۔ آپ کی آنکھوںمیں آنسو آگئے اور آپ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اے چچا جو پیغام میں لایاہوں و ہ خدانے میرے سپرد کیا ہے ۔ یہ کبھی نہی ہوسکتا کہ کسی کے کہنے پر میں اسے چھوڑ دوں ۔اے میرے چچا ! میں جانتاہوں کہ خداایک ہے لیکن میں اپنی قوم کی خاطر یہ نہیں کہہ سکتا کہ خدایک نہیں ۔اگرمیری قوم سورج کو میرے دائیں اورچاند کو میرے بائیں بھی لاکر کھڑا کردے اوراتنا بڑانشان دکھائے جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی اورپھر کہے کہ اب بھی یہ مان جائو کہ دنیا کاپیداکرنے والا خداایک نہیں تب بھی میں ایسانہیں کرسکتا ۔اے میرے چچا ! میں آپ سے بھی یہ امید نہیں کرتا کہ آپ میری خاطر اتنی بڑی قربانی کریں ۔آپ نے جوخدمت کی ہے ۔میں اس کاممنون ہوں۔لیکن آئندہ کے لئے میں یہ بوجھ آپ پر ڈالنا نہیں چاہتا۔آپ بیشک میراساتھ چھوڑ دیں اوراپنی قوم سے کہہ دیں کہ میں نے اپنے بھتیجے کو چھوڑ دیا ہے اوراب میں تمہارے ساتھ ہوں ۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اوریقین کے ساتھ یہ حیرت انگیز محبت ایک طرف تھی اوردوسری طرف وہ محبت کھڑی دیکھ رہی تھی جو ابو طالب کو اپنے بھتیجے کے ساتھ تھی ۔ابوطالب اس وقت ان دومحبتوں کے درمیان آگئے ۔یوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابو طالب کے بھتیجے تھے مگرابو طالب نے اپنے بیٹوں سے بڑھ کر آپ سے محبت کی اوراپنے بیٹوں سے زیادہ آپ کی خبر گیری کی ۔ پس ایک طرف و ہ محبت کھڑی تھی جو ابو طالب کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی اور دوسری طرف بھتیجے کایہ یقین اورایمان تھا کہ میں نے جس صداقت کو قبول کیاہے میں اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ۔ان کی ایک آنکھ کے سامنے بیک وقت یہ دومحبتیں آکر کھڑی ہوگئیں اوردوسری آنکھ کے سامنے ان کے باپ عبدالمطلب کی روح آکر کھڑی ہوگئی جنہوں نے مرتے وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاہاتھ ابوطالب کے ہاتھ میں یہ کہتے ہوئے دیاتھا کہ ابوطالب اس کاباپ فوت ہوگیاہے اس کی ماں بھی فوت ہوگئی ہے ۔میں نے اس کو اپنے بچوں سے زیادہ عزیز سمجھ کر پالا ہے ۔اب میں مرنے لگاہوں اورمجھ کو تجھ پر یہ اعتبار ہے کہ تواس کام میں سستی اور کوتاہی نہیں کرے گا ۔میں اپنی سب سے زیادہ قیمتی امانت تیرے سپرد کرتاہوں ۔غرض باپ کی روح ایک طرف کھڑی تھی اورصداقت کے فدائی اورسچائی پر جان دینے والے بھتیجے کی روح دوسری طرف کھڑی تھی مگر باوجود اسلام نہ لانے کے ابوطالب ان دومحبتوں کا مقابلہ نہ کرسکے اورانہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیا کہ اے میرے بیٹے !جائو! اورجس چیز کو سچا سمجھتے ہو پھیلائو ۔قوم کا مذہب تومیں نہیں چھوڑ سکتا ۔لیکن تیری خاطر اگر قوم مجھے چھوڑ دے تومیں تیرے لئے یہ قربانی بھی کروں گا ۔اورہمیشہ تیراساتھ دوں گا ۔تب قوم نے یہ فیصلہ کیا کہ بنو ہاشم کا مقاطعہ کیا جائے اس اعلان پر بنو ہاشم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ایک وادی میں جوابو طالب کی ملکیت میں تھی چلے گئے ۔ وادی سے مراد کوئی سرسبز وشاداب علاقہ یا وسیع زمین کا ٹکڑ ا نہیں بلکہ مکہ میں بے پانی اوربے سبزیاں کی وادیاں ہوا کرتی ہیں گویا بے آب وگیاہ زمین کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان میں کوئی کوئی جھاڑی بھی پائی جاتی ہے جس میں اونٹ وغیرہ چر لیتے ہیں اس لئے انہیں وادی کہہ دیا جاتا ہے ۔ مکہ کے پاس ایک ایسی ہی وادی ابوطالب کی تھی ۔ ابو طالب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اور ان چند مسلمانوں کو لے کر جو اس وقت مکہ میں تھے اس وادی میں چلے گئے جب وہ اس وادی میں گئے تو وہ ہاشمی دشمن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مونہہ پر بعض دفعہ گالیاں دیا کرتے تھے وہ ہاشمی دشمن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکنے میں خوشی محسوس کیا کرتے تھے ۔وہ ہاشمی دشمن جو ابو جہل کو اُکسا اُکسا کر رسول کریم صلی ا للہ علیہ وسلم کو تکالیف پہنچایا کرتے تھے وہ بھی قومی عصبیت اور رشتہ داری کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر اس وادی میں محصور ہوگئے ۔ اور ان سب نے کہا کہ ہم اپنے رشتہ داروں کو نہیں چھوڑ سکتے ۔ ۱؎
تو رشتہ داری بڑا بھاری اثر رکھتی ہے ۔ اور خونی تعلق کبھی کبھی ایسی قربانیاں بھی کروا لیتا ہے جو دوسرے حالات میں ناممکن نظر آتی ہیں۔
۱؎ السیرۃ الجلیہ جلد اول صفحہ ۳۷۵
اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتاہے ۔ اَنْذِرْ عَشِیْرَنَکَ الْاَقْرَبِیْنَ۔ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا کے کونے کونے کے لوگوں کو ڈرا۔لیکن پہلے اپنے عزیزوں کو ڈرا ۔ اس لئے کہ ان کا تجھ پر دوہر احق ہے ۔ ایک حق تو یہ ہے کہ تیرے رشتہ دار ہیں اور ان کے باپ دادوں نے تیرے ساتھ کبھی حسن سلوک کیا تھا ۔ انگریزی میں بھی مثل مشہور ہے کہ CHARITY BEGINS AT HOME یعنی صدقہ و خیرات پہلے گھر سے شروع ہوتا ہے ۔اسی طرح وعظ و نصیحت کا سلسلہ بھی ہمیشہ گھر سے ہی شروع ہونا چاہئیے ۔چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی اس طرح تعمیل کی کہ آپؐ مکہ کے دستور کے مطابق کوہِ صفا پر کھڑے ہوگئے اور آپ نے مختلف قبائل کو نام لے لے کر بلانا شروع کیا ۔ پہلے آپؐ نے آلِ ؔغالب کوبلایا اور وہ مسجد حرام سے نکل کر کوہِ صفا کے دامن میں آگئے ۔ اس وقت ابو لہب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آلِ ؔغالب تو آگئے ہیں آپ نے جو کچھ کہنا ہے کہہ دیں مگرآپ نے ابولہب کی بات کی طرف کوئی توجہ نہ کی اور لوئی قبیلہ کے افراد کو آپ نے آوا ز دی ۔ وہ پہنچ گئے تو ابولہب نے پھر کہا کہ اب تو لوئی قبیلہ بھی آگیا ہے اب تو آپ بتائیں کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی اس کی بات کو درخورِاعتناد نہ سمجھا اور آلِ مرّہ کو آواز دی ۔ چنانچہ وہ بھی آگئے ۔ پھر آپؐ نے آلِ کلاب اور آلِ قصّی کو بلایا ۔ یہاں تک کہ سب لوگ جمع ہوگئے اور جولوگ خود نہ آسکے انہوں نے اپنا ایلچی بھیج دیا تاکہ وہ معلوم کر کے انہیں اطلاع دے کہ آج انہیں کس غرض کے لئے جمع کیا گیا ہے ۔ جب مکہ کے تمام قبائل قریش سمیت جمع ہوگئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خطاب شروع کیا اور فرمایا۔ دیکھو اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت بڑا لشکر جمع ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیاتم میری اس بات کو مانوگے یا نہیں۔ انہوں نے کہا۔ کیوں نہیں ہم آپ کی بات ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے ہمیشہ آپ کو رستباز پایا ہے مکہ کے حالات سے باخبر لوگ جانتے ہیں کہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطالبہ درحقیقت ایسا ہی تھا جیسے کسی ناممکن چیز کوممکن تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جائے کیونکہ مکہ کے لوگوں کے جانوروادی میں چراکرتے تھے اور وہ ایسا علاقہ ہے کہ اس میں کسی لشکر کا چھپ رہنا ناممکنات میں سے ہے ۔مگر ان لوگوں پر آپ کی راستبازی کا اس قدر اثر تھا کہ انہوں نے کہا۔ خواہ ہماری آنکھیں اس بات کو تسلیم نہ کریں ہم آپ کی بات کو ضرور مانیں گے کیونکہ آپ کی راستبازی ہمارے نزدیک مسلّم ہے ۔ جب انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یک زبان ہوکر اپنے اس یقین اور اعتماد کا کا اظہار کیا ۔ تو آپ نے فرمایا لو سُنو! میں تمہیں ایک اہم خبر سنانا ہوں ۔ اور وہ خبر یہ ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ۔ پس میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم اگر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہنا چاہتے ہو تو میر ی اتباع کرو۔ آپ کا یہ کہنا تھا کہ ابولہب جوش سے کہنے لگا کہ تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْاَیَّامِ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا ۔ یعنی نعوذ باللہ تجھ پر ہلاکت ہو۔ اتنی سی بات کے لئے تُو نے ہمیں اکٹھا کیا تھا ۔اور اسی طرح دوسرے لوگ ہنسی مذاق کرتے اور تمسخر اڑاتے ہوئے منتشر ہوگئے ۱ ؎ ۔مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کی مخالفت اور تمسخر اور استہزاء کے باوجود اشاعت توحید کے کام کو جاری رکھا اور متواتر لوگوںکو پیغامِ حق پہنچاتے رہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں میں سے ایسے لوگ پید اکر دیئے جنہوں نے
۱؎ بخاری کتا ب التفسیر زیرِ آیت و انذرعشیر تک الاقربین وتفسیر رازی زیرِآیت تبّت یداابی لھب وتبّ۔وتفسیر رُوح المعانی زیرِ آیت سورۃلھب۔
اسلام کی اشاعت کے لئے اپنی جانیں تک قربان کردیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان پر کچھ نہ کچھ بیداری کے اوقات بھی آتے ہیں ۔ اور جب کسی پر بیداری کی گھڑی آتی ہے اور اس کے دل کی کھڑکی کھلتی ہے تو وہ سچائی کو قبول کرلیتا ہے ۔ آخر وہ لوگ بھی تھے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلے دن ایمان لائے ۔ جیسے حضرت ابو بکرؓ۔ حضرت خدیجہؓ۔ حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ ۔ اور وہ لوگ بھی تھے جو آپ پر کئی سال بعد ایمان لائے جیسے حضرت خالدبن ولیدؓ ۔ حضرت عمر وبن العاصؓ وغیرہ بیشک خالد بن ولیدؓ میں پہلے سال بھی عقل موجو دتھی۔ لیکن فر ق یہ تھا کہ پہلے سا ل ان کے دل کی کھڑکی نہیں کھلی تھی ۔حضرت عمرو بن العاصؓ میں بھی عقل موجود تھی جو انہیں پہلے مسلمان بنا سکتی تھی لیکن ان کے دل کی بھی کھڑکی نہیں کھلی تھی ۔ حضرت ابو بکرؓؓ۔ حضرت خدیجہؓ۔حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ کی کھڑکیا ں کھلی تھیں۔اس لئے وہ پہلے دن ہی ایمان لے آئے ۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوا ہوں تو ان سب نے آمناد صدّقنا کہا۔ لیکن لوگوں کی کھڑکیاں ایک سال بعد کھلیں ،کچھ لوگوں کی کھڑکیاں چار سال بعد کھلیں ،اور بعض لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب ایمان لائے ۔ پس کھڑکی کھلنے کی بات ہے ورنہ صداقت کبھی اثر کئے بغیر نہیں رہتی ۔
میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوستوں میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے رشتہ دار وں کو تبلیغ نہیں کرتے اور ان پر اتنا دبائو نہیں ڈالتے جتنا ڈالنا چاہئیے ۔ میں نے ایک دفعہ اس پر خاص طور پر زور دیا اور بعض احمدیوں نے ایسا کیا تو اس کا نمایاں اثر ہوا ۔ چنانچہ ایک احمدی دوست نے بتایا کہ میں ایک دن اپنے ایک رشتہ دار کے گھر میں بیٹھ گیا اور اسے کہہ دیا کہ یا تو تم مجھے اپنا ہم خیال بنا لو اور یا تم احمدی بن جائو۔نتیجہ یہ ہواکہ میرے دلائل چونکہ معقول تھے و ہ اس پر اثر کر گئے اوروہ احمدی ہوگیا ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہمیں سمجھا دے کہ ہم غلطی پر ہیں توہمیں اس کی بات ماننے میں کوئی حرج نہیں لیکن افسوس تویہ ہے کہ جماعت کے دوست دلیری سے کام نہیں لیتے ۔آخر یہ صاف بات ہے کہ جس کی دلیل پختہ ہوگی وہ یقینادوسرے شخص کو اپنی طرف مائل کرلے گا ۔ پس ارگرلوگ اپنے اپنے رشتہ داروں کے پاس جائیں تویقینا لاکھوں لاکھ لوگ احمدیت کی طرف مائل ہوجائیں گے آگے پھر ان کے رشتہ دارہو ںگے جنہیں وہ تبلیغ کریں گے اوراس طرح یہ سلسلہ اتنا غیر معمولی وسیع ہوسکتاہے کہ ہمارے احساس اوراندازہ سے بھی بالا ہوسکتاہے۔آخر غور کرو کہ کیا صحابہؓ نے تبلیغ کی تھی یا نہیں۔مگرکیا صحابہؓ کے پاس پریس ہواکرتے تھے ۔کیااُن کے ہاں کتابیں چھپا کرتی تھیں ۔کیا و ہ تنخواہ دار مبلغ رکھا کرتے تھے ۔کیاان کے ہاںجلسے ہواکرتے تھے ؟ ان میں سے کچھ بھی نہیں تھا ۔صرف یہی ہوتاتھا کہ بھا ئی اپنی بہن کو ملنے گیا ۔تووہ پوچھتی کہ بھائی تم نے اپنے باپ داد کے مذہب کو چھوڑکوکیوں چھوڑ دیا ہے وہ جواب دیتاکہ میں تواپنے باپ دادا کی عزت کرتاہوں ۔لیکن بتوں کو خداکاشریک بنالینا بڑی بھاری غلطی ہے ۔بُت ہمیں کیا دے سکتے ہیں ۔دینے والاتو صرف خداہے۔ اس طرح وہ تو حید کا سبق سکھاتا اورپھر اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو دوسراشخص بھی مان لیتا۔نہ کو ئی تقریریں کرتا اتھا نہ لٹریچر شائع کرتا تھا نہ جلسے منعقد کرتاتھاخود بخود رشتہ داروں سے میل جو ل اورملاقات کے ذریعہ ہی سلسلہ وسیع ہوتا چلاجاتا۔مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں سے بعض نے اپن رشتہ داروں کوتبلیغ کرناچھوڑ دی ہے اوراپنے تعلقات ایسے محدود کرلئے ہیں گویا وہ اپنے رشتہ داروں سے بالکل کٹ چکے ہیں ۔حالانکہ مذہباً اوراخلاقاً اورشرعاً ان کا فرض تھا کہ وہ بار بار اپنے رشتہ داروں سے ملتے اوران کی غلط فہمیاں دور کرنیکی کوشش کرتے مگر ادھر وہ احمدی ہوتے ہیں اوراُدھر اپنے رشتہ داروں سے بچنا شروع کردیتے ہیں ۔ تم اپنے آپ کو اتنا کمزور کیوں سمجھتے ہوں ۔تمہارے پاس ایمان ہے۔ تمہارے پاس زندہ صداقت ہے تمہارے پاس تازہ معجزات اورنشانات ہیں ۔تمہارے پاس خدائی تائید کے نشانات ہیں ۔تمہارے اندر تواتنی دلیری ہونی چاہیئے کہ اگر تمہاراکو ئی ایساچچاہے جس سے تم دس سال سے نہیں ملے ۔تواحمدی ہونے کے فوراً بعد اس کے پاس جائو اس سے اپنے تعلقات بڑھائو اوراُسے اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کرو ۔اگر تم اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کرنا شروع کردو تومیں سمجھتاہوں کہ پچاس لاکھ احمدیوں کا رشتہ داراس ملک میں موجودہوگا ۔پس تمہیں غیروں کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں تم اپنے پچا س لاکھ رشتہ داروں کے پا س جائواورحق ان پر واضح کردو۔یہی کام اتنا بڑاہے کہ ایک لمبے عرصہ تک تمیں اس کام سے فرصت نہیں مل سکتی ۔اور جب تم ان پچاس لاکھ کو احمدی بنالو گے توان پچا س لاکھ سے دوکروڑ اوررشتہ دار نکل آئیں گے جن کو سمجھانے کیلئے پھر تمہیں ایک لمبی جدوجہد کی ضرورت ہوگی ۔پس تم تبلیغ کو وہ طریق اختیار کرو وجو قرآن کریم نے اس آیت میں بتایا ہے ۔جب تم اپنے رشتہ داروں سے ملو گے اوران کی غلط فہمیاں دورکرنے کی کوشش کرو گے توتم دیکھو گے کہ ان میں سے ہزاروں ہزار سعید روحیں احمدیت کو قبول کرنے کے لئے دوڑتی چلی آئیں گی اوراگر احمدیت قبول نہیں کریں گی توکم از کم سلسلہ پر اعتراض کی آئندہ انہیں جرأت نہیں ہوگی ۔
میں نے کئی دفعہ سنایاہے کہ جب میں حج کے لئے گیا تو میں مصر کے راستہ گیاتھا ۔اصل میں میری سکیم یہ تھی کہ میں مصر میں عربی تعلیم حاصل کروں گا اوراگلے سال حج کروں گا مگر اتفاقاً قاہرہ جانے سے پہلے میں پورٹ سعید میں ٹھہر گیا ۔اسی رات میں نے رؤیا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رتشریف لائے ہیں اورفرماتے ہیں کہ اگر تم نے حج کرنا ہے تو سب سے پہلے جہاز میں چلے جائو چنانچہ میں نے اسی وقت پتہ لیا اور تین چا ر دن کے بعد جو جہاز جانے والا تھا اس میں حج کے لئے سوار ہوگیا ۔خدا تعالیٰ کی قدرت ہیح کہ اس کے بعد ایسے حالات پیداہوگئے کہ مصر کے لو گ ایک دوسال تک حج کے لئے نہ جا سکے ۔ اس سفر میں میرے ساتھ دومسلمان اورایک ہندوبیرسٹر بھی تھے ۔ان کو کسی طرح پتہ لگ گیا کہ میں احمدی ہوں ۔چنانچہ انہوں نے میرے ساتھ بحث شروع کردی ۔مگر میں نے انہیں یہ پتہ نہ لگنے دیا کہ میں بانئے سلسلہ احمدیہ کالڑکاہوں ۔آخر بڑھتے بڑھتے انہوں نے نہایت ناشائستہ اعتراضات شروع کردیئے ۔میں پھر بھی دلیل کے ساتھ ان کے اعتراضات کو ردّ کرتارہا۔گیارہ دن میں ہم پورٹ سعید پہنچے ۔ہم نے اپنا بھاری سامان پورٹ سعید میں رکھوادیا جب میں گودام سے اپنا ٹرنک نکلواکر باہر نکلا ۔تواتفاقاً میرے ٹرنک پر کسی نے مرزابشیر الدین محمود احمد SON OF THE FOUNDER OF THE AHMADIYYA MOVEMENT َلکھا ہو اتھا ۔میں جہاز کی سیڑھیوں سے اُتر رہاتھا کہ میں نے دیکھا کہ وہ تینوں سرپٹ دوڑے میری طرف چلے آرہے ہیں۔میں نے کہا کیا بات ہے کہنے لگے ۔ معاف کیجئے ہم نے بڑی بیوقوفی کی ۔میں نے کہا کیا ہوا۔کہنے لگے ہم آپ سے بڑی گستاخی سے باتیں کرتے رہے ۔اگر ہمیں پتہ لگ جاتا کہ آپ بانی سلسلہ احمدیہ کے فرزند ہیں توہم اپنے خیالات کے اظہار میں یہ ناشائستہ طریق کبھی اختیار نہ کرتے ۔ میں نے کہا آپ جسمانی تعلق کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں اورمیرے نزدیک روحانی تعلق زیادہ اہم ہوتاہے ۔بہرحال میں نے اس کا اظہار اسلئے نہیں ہونے دیاکہ میں چاہتا تھا کہ آپ کے دل میں جو اعتراضات ہیں وہ سامنے آجائیں ۔توجب مذہبی بات چیت کی جائے دوسراشخص بعض دفعہ غصہ بھی نکال لیتا ہے ۔برابھلابھی کہہ لیتا ہے ۔لیکن اگر دل میں خشیت پیداہوجائے توپھر وہ معذرت بھی کرنے لگتاہے ۔ہم نے کئی ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جوسلسلہ کو شدید گالیاں دیاکرتے تھے ۔مگر پھر وہ اخلاص کے ساتھ اس جماعت میں شامل ہوئے اورانہوں نے اپنے تعلقات کو آخر تک بڑی وفاداری سے نبھایا۔تاریخوں میں آتاہے حضر ت عمر و بن العاصؓ جب وفات پانے لگے تو انتہائی کرب کی حالت میں رونے لگے ۔ان کے لڑکے نے انہیں کہا کہ آپ کیوں گھبراتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسلام کی خدمت کی توفیق بخشی ہے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بہتر جزادے گا ۔انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ مجھ پر دوزمانے گذرے ہیں ۔ایک زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے خاندان کا اتنا بغض میرے دل میں پایاجاتاتھا کہ میں نے انتہائی نفرت کی وجہ سے کبھی آنکھ اٹھا کرآپؐ کی شکل نہیں دیکھی۔پھر خدانے مجھے ہدایت دی اورمیرے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی محبت پیداہوگئی کہ فرطِ محبت او رعشق کی وجہ سے مجھے کبھی جرأت نہیں ہوئی کہ میںآنکھ اٹھا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ سکوں ۔چنانچہ اب اگر کوئی مجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاحلیہ پوچھے تو میں بتانہیں سکتا ۔لیکن آپؐ کی وفات کے بعد ہم سے کئی غلطیاں ہوئیں۔میں ڈرتاہوں کہ ان غلطیوںکا خداتعالیٰ کو کیاجوا ب دوں گا ؟ تودیکھو ایک ایساشخص جس کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا بغض تھاکہ وہ آنکھ اٹھاکربھی رسول ریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھتاتھا ایک دن اس کے دل میں اتنا عشق پیداہوگیاکہ پھر اس عشق کی وجہ سے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھ سکا۔سرسری طورپر توانہوںنے آپ کو دیکھا ہوگا۔لیکن پوری شکل دیکھنے کی انہیں ہمت نہیں پڑی ۔پس لوگوں کی ہدایت سے مایو س مت ہو ۔او راس غر ض کے لئے سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں کے پاس جائو ۔تمہارے اپنے بھائی بہنیں سالے خسر اوردوسرے رشتہ دارموجود ہیں ۔تم ان کے پاس جائو اوران سے اپنے تعلقات کو وسیع کرو۔پھر تم دیکھو گے کہ کس طرح خداتعالیٰ تمہاری تبلیغ میں برکت پیداکردیتاہے۔
مجھے یاد ہے ۔میں چھوٹاتھا اوراپنے ایک رشتہ کی نانی کے ہاں دِلّی میں ٹھہراہواتھا کہ ان کے ایک بھائی حیدرآباد دکن سے ان کے ملنے کے لئے آئے ۔انہوں نے ایک دن مجھے بلایا اورکہا ۔میاں تمہارا اوردوسرے مسلمانوں کا آپس میں کس بات پر اختلاف ہے۔میں اس وقت زیادہ علمی باتیں تو جانتانہیں تھا۔میں نے کہا۔ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اوردوسرے مسلمان کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں۔کہنے لگے ۔تم کس طرح کہتے ہو عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں۔میں نے اس پر قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی یَاعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓااِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔میں نے کہا دیکھئے اس میں صاف لکھا ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھ وفات دوں گا اورپھر تجھے اپنی طرف اٹھا ئوں گا ۔پس وفات پہلے ہے اوررفع بعد میں ۔اس پر باوجود اس کے کہ وہ ستر سال کے بڈھے تھے ۔کہنے لگے تمہاری باتیں تو سب معقول ہیں ۔پھر مولوی کیوں مخالفت کرتے ہیں ۔ہماری نانی بڑی متعصّب تھیں وہ غصہ سے کہنے لگیں کہ آگے ہی لڑکے کا دماغ خراب ہے اوراب تم اس کو اَور خراب کررہے ہو ۔اب دیکھو وہ حیدرآباد دکن سے اپنی بہن کو ملنے آئے تھے اورمیں ایک چھوٹابچہ تھا ۔مگر محض اس وجہ سے کہ میں ان کی بہن کا نواسہ بلکہ پڑنواسہ تھا انہوں نے مجھ سے بات پوچھ لی ۔اگرایک چھوٹے بچے سے بات پوچھی جاسکتی ہے تواپنے جوان اوربالغ داما د سے اپنے خسر سے ،اپنی ساس سے ،اپنے چچا اورماموں سے کیوں دریافت نہیں کیاجاسکتا۔اورجب و ہ تم سے کوئی بات دریافت کریں گے توان کی مثال اس شخص کی سی ہوجائے گی جوکمبل کو تو چھوڑناچاہتاہے مگر کمبل اسے نہیں چوڑتاتھا ۔
کہتے ہیں ۔کسی نہرکے کنارے دوشخص جارہے تھے سردی کاموسم تھا کہ ایک شخص نے نہر میں کمبل تیرتے دیکھا ۔وہ دراصل ریچھ تھا مگر اس نے غلطی سے اسے کمبل سمجھ لیا اس نے اپنے ساتھی سے کہاکہ میں نہر سے کمبل نکال لوں تم ذراٹھہرو۔جب وہ نہر میں کودا اوراس نے کمبل پکڑناچاہا۔توآپس کی رسہ کشی سے ریچھ کے ہاتھ پائو ں جو سردی کی وجہ سے سکڑے ہوئے تھے کھل گئے او راس نے آدمی کو پکڑ لیا ۔اب باہر والے نے آوازیں دینی شروع کیں کہ جلدی باہر نکلو سفر خراب ہورہاہے۔اگرکمبل ہاتھ نہیں آتا تواسے چھوڑ دو۔ اورباہر آجائو ۔وہ کہنے لگا کہ میں تو کمبل کو چھوڑنے کے لئے تیا ر ہو ںمگرکمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔اسی طرح پہلے وہ تم سے پوچھیں گے کہ بتائیے ۔آپ کے کیا اعتقادات ہیں مگر اس کے بعد تمہارے لئے تبلیغ کا ایسارستہ کھل جائے گا کہ جس پر نہ شرعی طورپر کوئی اعتراض ہوگا اورنہ قانونی طورپر کوئی اعتراض ہوسکتاہے کہ ان کی بات نہ سنو ۔اگر کوئی کہے بھی توماں کہے گی یہ میرابچہ ہے میں اس سے ایک بات پوچھ رہی ہو ںتم بیچ میں دخل دینے والے کون ہوتے ہو ۔خسر کہے گا یہ میراداما د ہے میں نے اس سے ایک بات پوچھی ہے تم مجھے روکنے والے کون ہو ۔اورچونکہ حق تمہارے ساتھ ہے اس لئے آخری نتیجہ یہی ہوگاکہ اللہ تعالیٰ ایک دن اس کا دل بھی کھول دے گا ۔اوراسے کھینچ کر صداقت کی طرف لے آئے گا۔
یہ امر یاد رکھو کہ تبلیغ کوئی وقتی چیز نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ہے ۔خداتعالیٰ قرآن کریم میں حضرت مسیح علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتاہے کہ تمہارے ماننے والے نہ ماننے والوں پر قیامت تک غالب رہیں گے اب اس کے صاف یہ معنے ہیں کہ ہمیشہ ایسے آدمی موجود رہیں گے جو حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان نہیں لائیں گے اورجب حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لانا قرآن کریم نے بھی ضروری قراردیاہے توجولوگ مسیحؑ کو نہیں مانیں گے وہ قرآن کریم کو بھی نہیں مانیں گے ۔پس لازماً قیامت تک کچھ ایسے لوگ موجودرہیں گے جواسلام میں داخل نہیں ہوں گے توان کو منوانے کے لئے تبلیغ کی بھی ضرورت رہے گی ۔ہمارے ملک میں لڑکیاں ایک کھیل کھیلتی ہیں ۔اب تو وہ کھیل کھیلتے میں نے لڑکیوں کو نہیں دیکھا لیکن پہلے اس کھیل کا رواج زیادہ تھا ۔وہ کھیل اس طرح ہوتی ہے کہ پانچ چھ لڑکیاں ایک طرف کھڑی ہوجاتی ہیں اورپانچ چھ لڑکیاں دوسری طرف کھڑی ہوجاتی ہیں ۔ایک طرف کی لڑکیاں دوسری طرف کی لڑکیوں کے پاس آتی ہیں تووہ غالباً ان سے رشتہ مانگتی ہیں یاکوئی اورچیز مانگتی ہیں ۔بہرحال وہ سائل بن کرآتی ہیں اوراپناسوال پیش کرتی ہیں تودوسری طرف کی لڑکیاں کہتی ہیں ہم نے نہیں دینا۔اورجب و ہ کہتی ہیں نہیں دینا توکھیل شروع ہوجاتاہے ۔ ایک طرف کی لڑکیاں کہتی ہیں ’’نہیّوں دینا ‘‘اوردوسری طرف کی لڑکیاں کہتی ہیں ۔’’لَے کے رہنا ‘‘اوردیر تک یہ مشغلہ جاری رہتاہے دونوں فریق اپنی ضد پر مُصر رہتے ہیں ۔اسی طرح قرآن کریم کہتاہے کہ قیامت تک کچھ لوگ ایسے موجود رہیں گے جو کہیں گے ہم نے نہیں ماننا۔پس تمہارابھی یہی کام ہے کہ تم کہو ہم نے منواکر چھوڑناہے ۔تمہارا ایمان اورجذبہ بہرحال چھوٹی بچیوں سے زیادہ ہوناچاہئیے ۔تمہاری غیرت ان سے زیادہ ہونی چاہیئے ۔اگران میں سے ایک فریق کہتاہے کہ ہم نے نہیں دیناتو دوسری لڑکیاں کہتی ہیں کہ ہم نے لے کر جاناہے۔اسی طرح تمہارابھی یہی کام ہیح کہ اگرکچھ لوگ ایسے ہوں جو کہیں ہم نے نہیں ماننا توتم کہو ہم نے منواکر ہی چھوڑناہے اوراپنے اس عزم کو کبھی ترک نہیں کرنا۔
میں نے دیکھا ہے لو گ عام طور پر یہ عذر کیا کرتے ہیں کہ ہمارے بھائی یابھتیجے یا دوسرے رشتہ دار ہماری بات نہیں سنتے یاہماری تبلیغ کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ آخروہ بھی توکسی کے بھائی تھے ۔وہ بھی توکسی کے بھتیجے تھے ۔وہ بھی توکسی کے بھانجے تھے۔وہ بھی توکسی کے داماد یاخاوند تھے ۔پھر اگرخداتعالیٰ نے انہیں ہدایت دیدی توان کے رشتہ داروں کو کیوں ہدایت نہیں مل سکتی ۔اصل بات یہ ہے کہ جماعت کے دوست اپنے رشتہ داروں اورقریبی دوستوںکو صحیح طورپر تبلیغ ہی نہیں کرتے ۔ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ان پر اثر نہ ہو ۔آخر ہررشتہ دار کااپنے رشتہ دار پر اورہردوست کااپنے دوست پر اورہربھائی کا اپنے بھائی پر حق ہوتاہے ۔ دنیا میں کوئی بیوی ایسی نہیں ہوسکتی جویہ کہے کہ میراخاوند جہنم میں چلاجائے مجھے اس کی پرواہ نہیں اورنہ کوئی خاوند ایساہوسکتاہے جوکہے کہ خواہ میری بیوی جہنم میں چلی جائے مجھے اس کی پرواہ نہیں۔پس خاوند کا اپنی بیوی کو یابیوی کا اپنے خاوند کو حق بات پہنچانادراصل تبلیغ نہیں بلکہ اپنے فرض کو اداکرنا ہے ۔اسی طرح بھائی کا اپنے بھائی کو حق پہنچانا تبلیغ کرنا نہیں کہلاسکتا بلکہ بھائی کا اپنے بھائی کوحق پہنچانا فرض ہے ۔اسی طرح دوست کا اپنے دوست کو حق پہنچانا تبلیغ نہیں بلکہ اس کا فرض ہے اوراگر و ہ اپنے اس فرض کو ادانہیں کرتا تووہ دوست نہیں بلکہ دشمن سمجھاجائے گا ۔اوراس کادوست بھی اسے اپناخیر خواہ نہیں بلکہ بدخواہ قرارد ے گا کہ اس نے اسے سچائی سے محروم رکھا ۔اگر اس رنگ میں ہررشتہ دار اپنے رشتہ دار کو اورہردوست اپنے دوست کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے حق پہنچائے توتھوڑے عرصہ میں ہی لاکھوں افراد تک صداقت پہنچ سکتی ہے ۔
پھر فرماتاہے وَاخْفِضْ جُنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جولوگ تیری بات مان لیا کریں ان کے ساتھ ہمیشہ نیک برتائو کر تاکہ تیرے حسن سلوک کی وجہ سے وہ اوربھی زیادہ اسلام کے گرویدہ ہوجائیں اوران کی تربیت کا ہمیشہ خیال رکھ تاکہ ان کی طاقت سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھایاجاسکے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دریانکلتے اوربہتے چلے جاتے ہیں لیکن نااہل قومیں ان سے فائدہ اٹھانے کی بجائے صرف اتنا نقصان اٹھاتی ہیں کہ دریا کی طغیانیوں سے ان کے دیہات غرق ہوجاتے یاان کی زمینیں بیکار اوربنجرہوجاتی ہیں یازیادہ سے زیادہ وہ لوگ اتنا فائدہ اٹھالیتے ہیں کہ دریائوں سے مچھلیاں پکڑ لیتے ہیں ۔لیکن جو عقل مند اورذہین قومیں ہوتی ہیں وہ ان سے نہریں نکالتی اوربنجر زمینوں کو آباد کرتی ہیں اوراس طرح اربوں ارب روپیہ کماتی ہیں ۔اسی طرح اگر افراد کی صحیح تربیت کی جائے اوران کے اند رجذبئہ قربانی پیداکیاجائے توان کی طاقت سے اتنا فائدہ اٹھایاجاسکتاہے کہ قوم ترقی کے میدان می کہیں کی کہیں نکل جاتی ہے۔درحقیقت پرانی نسل کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کسی چشمہ یا دریاکامنبع۔ لیکن نئی نسل کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ایک نالہ او راس سے ا گلی نسل کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ایک چھوٹا دریا اورپھر اس سے اگلی نسل کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ایک بڑا دریا ۔اورپھر اس سے اگلی نسل کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ایک بڑاسمندر ۔چشمہ سے پانی پینے کے لئے ہمیں خود چشمہ پرجاناپڑتاہے ۔لیکن نالہ جو ش و خروش سے گھروںکے پا س سے گذرتا ہے ۔اس کے پا س جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔پھر جب وہ ایک چھوٹا دریابن جاتاہے توصرف یہی نہیں کہ وہ گھروں کے پاس بہتاہے بلکہ اورزیادہ پھیل کر وہ گھروں کے قریب آجاتاہے ۔پھر جب وہ چھو ٹادریا وسیع ہوتاہے تواوربی زیاد ہ گھروں کے پاس سے گذرتاہے اوراس کے زمین میں جذب ہونے یا ریت میں غائب ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں رہتا۔وہ پہاڑیوں او رٹیلوں پر سے کودتے اورریتوں پر سے بہتے ہوئے سمندرکی طرف بہتاچلاجاتاہے اورجب وہ دریا سمندر بن جاتاہے۔ توساری زمینوں کے کنارے اس سے ملنے لگ جاتے ہیں اورکوئی حصہ زمین بھی ایسانہیں رہتاجو اس سے متصل نہ ہو۔اسی طرح جب جماعت کے افراد کی صحیح تربیت کی جایء اوراگلی نسلوں میں قربانی اورایثار اورفدائیت کازیادہ سے زیادہ جذبہ پیداکیاجائے تووہ دنیا میں امن کے قیام کا ایک بہت بڑاذریعہ ثابت ہوتے ہیں ۔دنیا کا ایٹم بم جو یورینیم دھات سے بننے والی ایک چیز ہے دنیا کی تباہی اوربربادی کاایک مہلک ہتھیا رہے لیکن افراد جماعت کی طاقت کو صحیح استعمال کرنا اور آئندہ نسل کے اندرجذبئہ قربانی پیداکرنا اوراس کی صحیح تربیت کرنا قوموںکو زندہ رکھنے کا ایک حتمی اوریقینی ذریعہ ہوتاہے۔ کیونکہ اس طرح ہرفرد کے دل میں یہ احساس قائم رہتاہے کہ دنیا کو فتح کرنے اوراسلام کو دوسرے ادیان پرغالب کرنے کے لئے میری ذاتی جدوجہد کی بھی ضرورت ہے ۔ یہی نکتہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی بیان فرمایاہے ۔اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایاہے کہ تیرے دوطریق ہونے چاہئیں ۔ ایک مخالفین کے ساتھ اورایک موافقین کے ساتھ ۔مخالفین کیح ساتھ توتیرایہ طریق ہوناچاہیئے کہ تُوان کو ڈراجن میں تیرے رشتہ دار بھی شامل ہیں اورجو ایسے راستہ پر چل رہے ہیں ۔جوان کے لئے نقصان دہ ہے ۔لیکن اس کے علاوہ تیرادوسراکام یہ بھی ہے کہ تُو مومنوں کی تربیت کرے کیونکہ اب دنیا کی نجات انہی لوگوں کی صحیح تربیت پر منحصر ہے ۔ان میں سے کئی ایسے ہیں جوتیرے رشتہ دار نہیں مگر وہ تیراحکم مانتے اور تیری اطاعت کرتے ہیں ۔پس تُو لوگوںکوبتادے کہ تیرے رشتہ داروں میں سے جو کوئی تیرے خلاف چلے گا اور تیری باتیں نہیں مانے گا وہ سزاپائے گا اورجو تیرارشتہ دارتونہ ہوگا مگر تیری باتوں پر ایمان لے آئے گا وہ انعام پائے گا ۔ یعنی تیرامنکر اگر قریبی بھی ہو گا توسزاپائے گا اورتیرامتبع اگر بعیدی بھی ہوگا توانعام پائے گا ۔ایسے ایمان لانے والوں کے لئے خواہ وہ قریبی ہوں یا بعیدی تُو اپنا بازوجھکادے۔گویا ایک طرف توتُوقریبی کو ڈراتارہ کہ اگر وہ ایمان نہ لائے توسزاملے گی اوردوسری طرف وہ بعیدی جو تیرے رشتہ دار تو نہیں مگرتجھ پر ایمان لے آئے ہیں جن میں سے بعض روم کے ہیں ۔بعض ایران کے ہیں ۔بعض حبشہ کے ہیں ۔بعض شام کے ہیں اوربعض قبائلِ عرب میں سے ہیں ان کی طرف تیری بہتر سے بہترتوجہ ہونی چاہیئے ۔کیونکہ تیرے اصل رشتہ دار اب وہی ہیں ۔جولوگ تیرے قریبی رشتہ دار تو ہیں مگر تجھ پر ایمان نہیں لائے و ہ ایمان نہ لانے کی وجہ سے تیرے رشتہ داروں میں سے نکل گئے ہیں اوراب تیرے اصل رشتہ دار وہی ہیں جو تجھ پر ایمان لائے ہیں اورتیری ہر بات کو مانتے اور تیری پیروی کرتے ہیں ۔
آگے فرماتاہے۔فَاِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّاتَعمَلُوْنَ۔یہاں عَصَوْکَ کے یہ معنے نہیں کہ اِنْ عَصَوْکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔بلکہ یہ عَصَوْکَ مخالفین کے لئے آیاہے۔قرآن کریم کایہ عام قاعدہ ہے کہ جب ایک ہی آیت میں دو باتوں کا ذکر ہو تو ان میں سے ایک فقرہ الگ گروہ کے لئے ہوتاہے اوردوسرافقرہ الگ گروہ کے لئے ۔یہاں جو عَصَوْکَ کا لفظ ہے اس کے معنے ہیں اِنْ عَصَوْکَ عَشِیْرَتُکَ یعنی تیرے رشتہ دار اگر باوجودڈ رانے کے بھی نہ مانیں اوراپنے پہلے راستہ پر ہی گامزن رہیں توتُو ان کو کہہ دے اِنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّاتَعمَلُوْنَ کہ جو کچھ تم کررہے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں ۔یعنی پھر تُو ان سے قطع تعلق کرلے اورکہدے کہ میں تمہارے اعمال سے بیزار ہوں ۔تم اس گھمنڈ میں نہ رہنا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار اور قریبی ہیں ۔اس لئے اگر ہم نے اس کی بات نہ مانی تب بھی ہم نجات پاجائیں گے ۔بے شک تم میرے رشتہ دار ہو ۔مگر نجات رشتہ دار ی اورقرابت پر موقو ف نہیں ہے ۔نجات کا راستہ صرف یہی ہے کہ تم میر ی پیروی کرو۔ورنہ تم باوجود میرے ساتھ رشتہ داری او رقرابت رکھنے کے سزاپائو گے ۔یہ ایک نہایت اعلی درجہ کا طریقہ ء تبلیغ ہے ۔جو قرآن کریم نے بتایاہے۔اگر مسلمان اس پر عمل کر تے تو بڑی کامیابی کامنہ دیکھتے ۔جہاں جہاں اسلام پھیلے وہاں نئے ماننے والوں کو یہ سمجھاناچایئے کہ فوراً اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی طرف جائو اور تبلیغ کے علاوہ ان سے نیک سلوک بھی کرو۔اوراگر وہ تمہاری بات نہ سنیں تو ان سے ایک حد تک الگ ہو جائو تاکہ ان کے اند رندامت پیداہواورتم بھی ا ن کے بد اثر سے بچ جائو ۔جیسا کہ حضرت مسیحؑ نے بھی اپنے حواریوںکو نصیحت کی کہ
’’ اگر کو ئی تم کو قبول نہ کرے ۔اورتمہاری باتیں نہ سنے تو اس گھر یا اس شہر سے باہر نکلتے وقت اپنے پائوں کی گرد جھاڑ دینا ۔‘‘
(متی باب ۱۰آیت ۱۴)
اس کے بعد دوسرے گروہ یعنی مومنین کے متعلق فرمایا وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔یعنی اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) تُواپنے بازو ان مومنوںپر جھکا دے جوتیری اتباع کرتے ہیں ۔بازو جھکانا عرب میں ایک محاورہ ہے جو جانوروں کی مناسبت سے لایا گیاہے ۔یہ دیکھا گیا ہے کہ جب تک جانوروں کے بچے کمزور ہوتے ہیں ۔اوراُڑنے کے قابل نہیں ہوتے یا اچھی طرح چل پھر نہیں سکتے جانوران پر اپنے پر پھیلائے رکھتے ہیں تاکہ بچوں کو چیل وغیرہ نہ لے جائے ۔انسان تو اپنے بچوں کو کپڑے پہنادیتے ہیں ۔مگرجانوروں کے پاس کپڑانہی ہوتا اس لئے وہ بچوں کو اپنے پروں کے نیچے چھپائے رکھتے ہیں ۔ مرغیوں کو دیکھو ۔اگر بچوں والی مرغی کسی جگہ بیٹھی ہو اوراسے کوئی اٹھادے تواس کے پروں کے نیچے سے آٹھ دس بچے نکل کر دوڑ پڑتے ہیں۔پس وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ کے یہ معنے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تجھے چاہیئے کہ تواپنی تمام ترتوجہ مومنوں کی طرف رکھ اوران کی اعلیٰ سے اعلیٰ تربیت کرنے کی کوشش کر ۔اب ظاہر ہے ںکہ یہ تربیت کاکام اورمومنین کو اعلیٰ مدارج تک لے جانے کاکام اس قسم کا تھا کہ اس میں تکالیف او رمشکلات پیش آنے کااحتمال ہوسکتاتھا ۔اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔الّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ ۔وَتَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ۔ اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔انذار کاکام توصرف منہ سے ہوتاہے اورزبان سے ڈرادیناکافی ہوتاہے لیکن تربیت او راصلاح کاکام محنت طلب ہے اوریہ کام ایساہے جو کسی کے اپنے اختیار میں نہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک باپ چاہتاہے کہ میرابیٹاجج بن جائے مگر وہ چٹھی رسان بھی نہیں بن سکتا ۔یاایک باپ چاہتاہے کہ اس کا ابیٹاعالم دین بن جائے لیکن جب و ہ بڑاہوتاہے تو علم دین کی طرف اسے کوئی رغبت ہی نہیں ہوتی ۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ ایک عالم دین جو صرف و نحو کے متبحر عالم تھے اورسارے ہندوستان میں ان کی علمیّت کا شہرہ تھا ۔وہ بہت سادہ طبع تھے اوراگر انہیں کوئی ایساشخص دیکھتا جو ان کو پہلے سے نہ جانتا تووہ یہی سمجھتا کہ یہ گھاس کاٹ کر آئے ہیں ۔ان کانام مولوی خان ملک صاحب تھا ۔وہ کہیں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کے متعلق خبر سن کر قادیان آئے اورآپ کی باتیں سن کر ایمان لے آئے ۔واپسی پر جب وہ لاہورپہنچے تو انہوں نے ارادہ کیاکہ مولوی غلام احمد صاحب سے ملتے چلیں۔مولوی غلام احمد صاحب شاہی مسجد میں درس دیتے تھے اوروہ مولوی خان ملک صاحب کے شاگرد رہ چکے تھے ۔مولوی غلام احمد صاحب بھی بہت مشہور عالم تھے اورچونکہ لاہو رکے لوگ اچھے متموّل تھے اس لئے مولوی غلام احمد صاحب کی مالی حالت بہت اچھی تھی اورسینکڑوں طالبعلم ان کے پاس پڑھتے تھے۔ جب مولوی خان ملک صاحب شاہی مسجد میں پہنچے تووہاں کے طلباء کو تو اس بات کا علم نہ تھا کہ یہ کس پایہ کے آدمی ہیں انہوں نے ان کے معمولی لباس اورظاہری صورت سے یہ اندازہ لگایاکہ یہ کو ئی معمولی آدمی ہیں۔مولوی غلام احمد صاحب نے مولوی خان ملک صاحب سے پوچھا ۔فرمائیے۔کہاںسے تشریف لارہے ہیں ۔انہوں نے کہا ۔’’قادیان سے ۔‘‘انہوں نے حیران ہوکر پوچھا ۔‘‘قادیان سے ‘‘۔ انہوں نے کہا ۔ہاں قادیان سے ۔انہوں نے کہا ۔کیوں؟ کہنے لگے ۔مرزاصاحب کامرید ہونے کے لئے گیاتھا ۔انہوں نے کہا ۔آپ اتنے بڑے عالم ہیں آپ نے ان میں کیا خوبی دیکھی کہ ان کے مرید ہونے کے لئے چلے گئے ۔مولوی خان ملک صاحب نے پنجابی میں انہیں کہا کہ ’’ تُوں اپنا کم کر تینوں تے قَالَ یَقُوْلُ وی چنگی طرح نہیں آوندا۔‘‘یعنی تُواپنا کام کر تجھے تو ابھی قَالَ یَقُوْلُ بھی اچھی طرح نہیں آتا۔ چونکہ مولوی غلام احمد صاحب بھی بڑے مشہور عالم تھے اس لئے جب مولوی خان ملک صاحب نے یہ الفاظ کہے تو مولوی غلام احمد صاحب کے شاگردوں کو سخت غصہ آیا اورانہوں نے مولوی خان ملک صاحب سے مخاطب ہوکر کہا ۔بڈھے تُونے یہ کیا بات کہی ہے ۔ مولوی غلام احمد صاحب نے ان کو منع کیا اورکہا خاموش رہو کہ جو کچھ کہہ رہے ہیں بالکل ٹھیک ہے ۔غرض مولوی خان ملک صاحب مرحوم کو صرف و نحو پر اتنا عبور تھا اوروہ اپنے فن میں اتنے ماہر تھے کہ تمام ہندوستان میں ان کا شہرہ تھا اوران کی بعض تصانیف کے متعلق لو گ یہ سمجھتے تھے کہ ان کتب کا لکھنے والاچا رپانچ سوسال پہلے کاکوئی عالم ہے ۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ان کا ایک واقعہ سنایاکرتے تھے ۔ان کے بڑے لڑکے کانام عبداللہ تھا ۔انہوں نے ایک دفعہ عبداللہ کے متعلق حضرت خلیفہ اولؓ سے شکایت کی کہ میرایہ لڑکا علم کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتا آپ اس کو سمجھائیں کہ اگرآج اس نے تعلیم حاصل نہ کی تو یہ نقصان اٹھائے گا ۔حضرت خلیفئہ اول رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ میں نے عبداللہ کو بلوایااورکہا ۔تمہارے والد صاحب اپنے علمی پایہ کی وجہ سے سارے ہندوستان میں شہرت رکھتے ہیں تم کیوں نہیں پڑھتے ۔وہ کہنے لگا ۔میں پڑھتاتوہوں مگروہ مجھے پڑھاتے ہی نہیں۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔وہ تو میرے پاس شکایت لے کرآئے تھے کہ تم پڑھتے نہیں اورتم کہتے ہوکہ میں پڑھتاہوں اوروہ مجھے پڑھاتے نہیں۔وہ کہنے لگا ۔بات دراصل یہ ہے کہ وہ مجھے عربی پڑھنے کے لئے کہتے ہیں اورمیں عربی پڑھنا نہیں چاہتا بلکہ میں انگریزی پڑھناچاہتاہوں ۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔تم عربی کیوں پڑھنا نہیں چاہتے او رانگریزی کیوں پڑھناچاہتے ہو ۔و ہ کہنے لگا۔بات یہ ہے کہ جب نئی نئی ریل آئی تو میں اوروالد صاحب ایک سفر پر گئے ۔اورآپ تو کہتے ہیں وہ بڑے عالم ہیں مگران کو اتنابھی پتہ نہ تھا کہ گاڑی میں فرسٹ اورسیکنڈ کلاس بھی ہوتی ہے۔چنانچہ یہ اپنی گٹھڑی اٹھائے ہوئے فسٹ کلاس ڈبہ میں گھس گئے ۔وہاں کوئی اینگلو انڈین ٹکٹ کلکٹرکھڑاتھا اس نے انہیں کہا ۔ہٹ بابا تیرایہاں کیاکام ہے ۔جب اینگلوانڈین نے ان کو جھڑکا تویہ پلیٹ فارم پر ہی بھاگ کھڑے ہوئے ۔میں ان کے پیچھے دوڑا۔مگریہ اسٹیشن سے دورنکل گئے اورکوئی میل بھر تک بھاگتے چلے گئے ۔آخر میںنے انہیں جاکر پکڑا اور پوچھا ۔آپ بھاگتے کیوں ہیں ۔کہنے لگے ۔مجھ سے غلطی ہوگئی تھی اس لئے خطرہ تھاکہ سرکاری آدمی پکڑ کرنہ لیجائیں ۔اس دن سے میں نے اپنے دل میں یہ تہیہ کرلیا کہ چاہے کچھ ہوجائے میں نے عربی نہیں پڑھنی اور اگرپڑھنی ہے توانگریزی پڑھنی ہے۔کیونکہ عربی کے اتنے بڑے عالم ہونے کے باوجود جب اس قدر جہالت رہتی ہے کہ گاڑی کے فرسٹ اورتھرڈ کلا س کے ڈبوں کی شناخت بھی نہیں ہو سکتی تواس علم کا فائدہ ہی کیاہے اس لئے اگر یہ مجھے پڑھاناچاہتے ہیں توانگریزی پڑھائیں عربی تومیں کبھی بھی نہیں پڑھوں گا۔اب دیکھو اتنا اعلیٰ پایہ کے عالم و فاضل کا بیٹاباوجود باپ کی خواہش کے کہ وہ علم حاصل کرے دینی علم سے محروم رہ گیا ۔پس وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَک میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایاہے کہ تربیت اوراصلاح کاکام اتنا عظیم الشان ہے کہ یہ بہت زیادہ محنت چاہتاہے اوریہ کام ایساہے کہ جب تک تربیت اوراصلاح پانے والوں کے اندر جوش اوراخلاص اورفرمانبردار ی کامادہ موجود نہ ہو ۔اس کوسرانجام نہیں دیاجاسکتا۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاں مخالفین منکرین اورغیر متبعین کے متعلق فرمایاکہ فَاِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّاتَعمَلُوْن۔یعنی ان کو تو ڈرالیکن اگر وہ تیری بات نہ مانیں توتُوان سے کہدے کہ میں تمہارے اعمال کاذمہ وار نہیں ہوں وہاں مومنوں کے متعلق فرمایا وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔الّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ ۔وَتَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ۔ اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔درحقیقت اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوجومومنوں کی خبرگیری اورتربیت کاحکم دیاتھا وہ پورانہیں ہوسکتاتھا جب تک تین باتیں نہ ہوں ۔ایک تویہ کہ خداتعالیٰ کی تائید ہو دوسرے یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اند ران کی تربیت کاکامل جذبہ موجود ہو اورتیسرے یہ کہ جن کی آپؐ تربیت اور خبرگیری کرناچاہتے تھے ان کے اند ر ماننے کاجذبہ موجود ہو ۔ان تینوں چیزوں کے متعلق فرماتاہے (۱) وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمتُواللہ پرتوکل کرکے اس کام کو شروع کردے وہ تیری ضرو رمددکرے گا ۔یعنی میں تیری مدد کروں گا ۔(۲)الّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ اللہ تعالیٰ خوب جانتاہے کہ تیرے اندر کیاروح کام کررہی ہے ۔یعنی تُو اپنے اندر یہ جذبہ رکھتاہے کہ ان کی تربیت کرے ۔آگے فرماتاہے (۳)وَتَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ۔ پھر تیسری بات بھی تجھے حاصل ہے یعنی تُو ان لوگوں میں پھرتاہے جوہررنگ میں تیری اطاعت اورفرمانبرداری کاجذبہ اپنے اندر رکھتے ہیں ۔یہ تین مشکلات تھیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ان آیا ت میں ذکر کیا ہے ۔فرماتاہے یہ کام اللہ تعالیٰ کی تائید چاہتاہے ۔سومیں تیری مددکرنے کے لئے تیار ہوں۔یہ کام تیرے اندردوسروں کی تربیت اوراصلاح کرنے کا جذبہ چاہتاہے ۔سووہ تیرے اندرموجود ہے ۔یہ کام ان لوگوں کے اندر جن کی تو تربیت اورخبرگیری کرناچاہتاہے کامل اطاعت او رفرمانبرداری کی روح چاہتاہے سووہ ان کے اند رموجود ہے ۔ اس لئے تجھے اس کام میں کسی قسم کی تکلیف کاسامنانہیں ہوسکتا۔
بعض مفسرین نے غلطی سے وَتَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ۔ کے یہ معنے کئے ہیں کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایاگیاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تما م آباء مومن یعنی ساجد تھے ۔حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتاہے کہ ایک دفعہ آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا۔کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعاکی تھی کہ وہ مجھے اپنی والدہ کے لئے استغفار کی اجازت دیدے مگراللہ تعالیٰ نے مجھے اس کی اجازت نہیں دی (مسند احمد بن حنبلؒجلد۵ص ۳۵۵)اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ نظریہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام آباء مومن تھے درست نہیں۔حضرت عبدالمطلب کے متعلق بھی جہاں توحید کی باتوں کا ذکر آتاہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ وہ ایک دُبدبہ کی حالت میں تھے۔کبھی توحیدکی طرف مائل ہوجاتے تھے اورکبھی شرک کی طرف ۔ان کا چاہِ زمزم کی تلاش کے وقت یہ نذر ماننا کہ اگرخداانہیں دس بچے دے گا اوروہ ان کی آنکھوں کے سامنے جوان ہوں گے تووہ ان میں سے ایک کو قربان کردیں گے ۔اورپھر ہبل کے سامنے ان کا قرعہ اندازی کرنا بتارہاہے کہ توحید کاصحیح مقام انہوں نے نہیں سمجھا تھا ۔پس یہ کہنا کہ تَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَکے معنے یقینی اورحتمی طورپر یہی ہیں درست نہیں ۔اصل معنے یہ ہیںکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کی تعریف کرتاہے اورفرماتاہے کہ تمہارارات دن ایسے لوگوں میں گذرہورہاہے جواللہ تعالیٰ کے پرستار اوراس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔تقلّب کا لفظ ایساہی ہے جیسے دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآئِ یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ تیری نظر بار بار اس معاملہ میں آسمان کی طرف اٹھتی ہے ۔پس تَقَلُّبَ کے معنے کسی چیز کی طرف بار بار جانے کے ہوتے ہیں ۔اوریہ ایک حقیقت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تقلّب صحابہؓمیں ہی تھا ۔کبھی جنگی مشاورت ہورہی ہوتی تھی اورجرنیل آپؐ کے گرد جمع ہوتے تھے ۔کبھی قضاء کے معاملات کافیصلہ ہورہاہوتاتھا اورقاضی اورتفقہہ رکھنے والے صحابہؓ آپؐ کے گرد جمع ہوتے تھے کبھی تصوّف کے دریابہائے جاتے تھے اورصوفیاء کاگروہ آپ کے گرد جمع ہوتاتھا ۔کبھی صدقہ و خیرات کاذکر ہورہاہوتاتھا اورصدقہ و خیرات دینے والے آپ کے ارد گرد جمع ہوتے تھے ۔غرض اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اوراس کی اطاعت کانمونہ دکھانے والے ہرقسم کے لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے ۔جس قسم کے کام کی آپ کو ضرورت ہوتی تھی نہ صر ف اس کام کے ماہر آپ کے پاس موجو د تھے بلکہ اس کے ساتھ ہی وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اوردن رات اس کی پر ستش کرنے والے بھی تھے ۔اوررات دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے ہی لو گوں میں چکر لگارہتاتھا ۔ تَقَلُّبٌ بھی یہی ہوتاہے کہ اِدھر اُدھر چکر کاٹنا ۔اورآپ کا ادھر ادھر چکر کاٹنا صحابہ کی ذات کے لحاظ سے ہی تھا ۔پس تَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ کے معنے یہ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے اعلیٰ درجہ کے ساتھی ملے ہوئے تھے کہ آپ جس طرف بھی منہ کرتے ادھر ساجد ہی ساجد نظر آتے تھے ۔جرنیلوں کی طرف منہ کرتے توآپ کے پاس ساجد جرنیل تھے۔قاضیوں کی طر ف منہ کرتے توآپ کے پاس ساجد قاضی تھے ۔مدرسوں کی طرف منہ کرتے توآپ کے پاس ساجد مدرس تھے ۔صوفیاء کی طرف منہ کرتیح تو آپ کے پاس ساجد صوفیاء تھے۔اقتصاد اورتمدن کے ماہرین کی طرف منہ کرتے توآپ کے پاس ساجد ماہرین اقتصاد اورساجد ماہر ین تمدن تھے۔غرض جس طبقہ کی طرف بھی آپ منہ کرتے آپ کو ایسے لوگ مل جاتے جو اس کام کے ماہر بھی ہوتے اوراللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اورعبادت گذاربھی ہوتے ۔اسی احسان کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا ہے اورفرمایا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے گردو پیش سب موحد ہی موحد ہیںاورتُو رات دن ان موحدین میں پھر تاہے ۔یہ ہماراکتنا بڑااحسان ہے کہ مکہ جیسی شرک کی سرزمین میں ہم نے موحد ہی موحد پیداکردیئے ہیں اوران لوگوں کو توحید پرعامل کردیاہے ۔جو ایک نہیں دونہیں سینکڑوں بتوں کی پوجاکرتے تھے ۔تُو دائیں جاتاہے توتجھے موحد نظرآتے ہیں ۔توبائیں جاتاہے تو تجھے موحد نظر آتے ہیں ۔توادھر جاتاہے تو تجھے موحد ملتے ہیں اورتو اُدھر جاتاہے تو تجھے موحد ملتے ہیں ۔غرض توجہاں بھی جاتاہے تجھے موحد نظر آتے ہیں ۔اورمکہ جیسی بستی میں جہاں رات دن بتوں کی پر ستش ہوتی تھی ہم نے تیرے ساتھ موحدین پیداکردیئے ہیں ۔پس تَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ کاوہ مفہوم نہیں جومفسرین نے سمجھا ہے بلکہ ا س آیت میں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر کیاگیاہے جواس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا کہ اس نے آپ کے گرد ساجد ہی ساجد جمع کردیئے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض انبیاء کی بیویاں ان پر ایمان نہیں لائی تھیں۔بعض کی اولاد نے انکی نبوت کاانکار کردیاتھا۔اورگوبیویوں یا اولاد کے انکار سے نبی کی شا ن میں کوئی فرق نہیںآتالیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں تھیں توخداتعالیٰ کے دین پرفدا۔آپ کی اولاد تھی تووہ بھی دین پر قربان۔آپ کے ساتھی تھے تووہ اسلام کے سچے عاشق ۔یہاں تک کہ سب تعلق رکھنے والوںکو اللہ تعالیٰ نے ساجد بنادیا۔اوریہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی اورنبی کو نصیب نہیں ہوئی۔پس اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم توجہاںکہیں جاتاہے موحدین اورساجدین مں پھر تاہے تیرے گھر میں توحید۔تیرے دوستوں میں توحید ۔پھر تُو جدھر جاتاہے توحید کابیج بوتاجاتاہے اورتونے ہزاروں مشرکین کو ساجد بنادیاہے ۔
اس جگہ ضروری معلوم ہوتاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے ایک حوالہ پر بھی روشنی ڈالی جائے ۔جس کا اسی آیت کے ساتھ تعلق ہے۔حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب تریاق القلوب میں فرماتے ہیں :۔
’’ ایک اورجگہ قرآن شریف میں فرماتاہے وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔الّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ ۔وَتَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْن یعنی خداپر پر توکل کر جوغالب اور رحم کرنے والاہے ۔وہی خداجو تجھے دیکھتاہے ۔جب تو دعااو ردعوت کے لئے کھڑاہوتاہے ۔وہی خداجوتجھے اس وقت دیکھتاتھا کہ جب توتخم کے طور پر راستبازوں کی پشتوں میں چلاآتاتھا۔یہاں تک کہ اپنی بزرگ والدہ آمنہ کے پیٹ میں پڑا۔’’
(تریاق القلوب ص ۱۳۴ ایڈیشن سوم)
یہ حوالہ چونکہ بظاہر اوپر کی تشریح کے خلاف نظر آتاہے اس لئے یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ ساجد کے لفظی معنی ایسے فرمانبردارکے ہوتے ہیں جو ہربات کو تسلیم کرتاہو اوربغاوت اورنشوز کے آثار اس میں نہ پائے جاتے ہوں۔لیکن اگر ہم گہراغور کریں توساجد کالفظ دوجگہ استعمال ہوسکتاہے ایک مومن ساجد کے لئے اورایک سوسائٹی کے ساجد کے لئے ۔مومن ساجد وہ ہو گاجو خداتعالیٰ کی باتیں ماننے والا ہواو رخداتعالیٰ کے قوانین سے بغاوت کرنے والا نہ ہو ۔اورسوسائٹی کاساجد وہ ہوگاجوسوسائٹی کی باتیں ماننے والا ہو اور سوسائٹی کے قوانین سے بغاوت کرنے والانہ ہو۔اب ہم اس آیت کے معنوں کی طرف آتے ہیں ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے کئی بطن ہیں ۔ایک بطن توقرآن کریم کایہ ہے کہ کسی آیت کے معنے کرتے وقت اس کے سیاق و سباق کی تما م آیات کو دیکھاجاتاہے اوراس کے معنے سیاق و سباق کی آیات کومدنظر رکھ کرکئے جاتے ہیں ۔کیونکہ اگر سیاق وسباق کو مد نظر نہ رکھاجائے تو معنوں میں غلطی کا امکان ہوتاہے ۔پھر ایک بطن یہ ہے کہ معنے کرتے وقت اس کے کچھ آگے آنے والی آیتوں او رکچھ پیچھے آنے والی آیتوں کودیکھاجاتاہے اوران کے معنوں میں تطابق کا خیال رکھاجاتاہے ۔پھر ایک بطن یہ ہے کہ جس آیت کے معنے مطلوب ہوں اس ساری سورۃ کو دیکھا جاتاہے ۔پھر ایک بطن یہ ہے کہ کئی سورتوں کو ملا کر اس کے معنے اخذ کئے جاتے ہیں ۔پھر ایک بطن یہ ہے کہ سارے قرآن مجید کو پیش نظر رکھنا پڑتاہے ۔اسی طرح اوربھی بعض بطن ہیں ۔یہ علم اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے عطافرمایاہے ۔بعض دفعہ ایک مضمون کاتعلق ابتدائی سورتوں کے ساتھ ہوتاہے اوربعض دفعہ بعد والی سورتوں کے ساتھ۔ پھر ایک معنے کسی آیت کے منفردًاہوتے ہیں اورایک معنے دوسری آیتوں کے ساتھ ملا کرکئے جاتے ہیں ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیان فرمودہ معنوں کی اس جگہ کیا صورت ہے۔اس نقطئہ نگاہ سے اگر ہم غور کریں تو توہمیں معلوم ہوتاہے کہ آپ نے اس آیت کے معنے منفردًالئے ہیں ۔سیاق و سباق کو نہیں لیا ۔آپ نے جس مضمون میں اس آیت کو بیان فرمایاہے ۔وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مرسل اچھے اورشریف خاندانوں میں سے آتے ہیں اور ان کی قوم ایسی اعلیٰ ہوتی ہے کہ کوئی شخص اس سے کراہت نہی کرسکتا۔کیونکہ اگروہ ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں جس کو اس شہر یا علاقہ یاملک کے لوگ ذلیل اورحقیر سمجھتے ہوں توان کا مانناطبائع پر گراں گذرتاہے اوریہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت اورحکمت کے خلاف ہے کہ وہ حقیر قوموں میں سے نبیوں کو مبعوث کرکے لوگوںکو تکلیف مالاتطلق میں ڈال دے ۔پس چونکہ ایسے خاندان سے کسی نبی یا رسول کامبعوث ہونا جو رذیل سمجھاجاتاہو طبائع کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوتا ہے اوراس میں مشکلات پیش آتی ہیں ۔اس لئے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے نبیوں اورماموروں کو شریف اور وجیہہ خاندانوں میں سے مبعوث کرتاچلاآیاہے تاکہ لوگوں کے قلوب می ان کے خلا ف نفرت اورحقارت کے جذبات پیدانہ ہو ں۔پس آپ نے اس آیت کے جو معنے لئے ہیں وہ منفردًالئے ہیں سیاق سباق کے لحاظ سے نہیں لئے ۔آپ نے ان معنوں کو اس رنگ میں لیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباواجداد سوسائٹی کے ساجد تھے سوسائٹی سے بغاوت نہ کرتے تھے بلکہ اچھے شہری تھے اوروہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جن کو قوم حقیر،نافرمان یا غدارسمجھتی تھی۔بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم توفرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا ہرنبی ایساہی ہوتاہے ۔اس طرح یہ معنے صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی چسپاں نہیں ہوں گے بلکہ سب نبیوں پر ہوجائیں گے ۔ان معنوں کے لحاظ سے یہاں ساجد کے معنے خداتعالیٰ کو سجدہ کرنے والے کے نہیں ہوسکتے ۔کیونکہ یہ تو مسلمہ امر ہے کہ بعض انبیاء کے آباء و اجداد ساجداً للہ نہ تھے۔ اس لئے لازماً اس کے یہ معنے کرنے پڑیں گے کہ سوسائٹی کے ساجد اورسوسائٹی کے قوانین سے بغاوت نہ کرنے والے۔ ہرسوسائٹی کے اند ر شرافت کا ایک خاص معیار ہوتاہے ۔مثلاً شراب پینا ایک فعل ہے ۔اب فرض کرو ایک مسلمان بھی شراب پیتاہے اورایک انگریز بھی شراب پیتاہے۔توجب مسلمان شراب پئے گا تو اسے اس کی سوسائٹی غیر شریف قراردے گی اورجب انگریز شراب پئے گا اسے اس کی سوسائٹی شریف کہے گی ۔غرض فعل ایک ہی ہے مگر جب اسے دوالگ الگ سوسائٹیوں کے معیار وں پر رکھاجائے گاتو ایک سوسائٹی کے معیار کے مطابق وہ فعل گناہ بن جائے گااوراس کامرتکب سخت گناہگار قرار پائے گا اوردوسری سوسائٹی کے معیار کے مطابق وہ فعل عین شرافت سمجھاجائے گا اوراس کامرتکب سوسائٹی کا فرمانبردار قرارپائے گا ۔پس شرافت کامعیار ہرسوسائٹی کے اپنے اپنے قوانین کے مطابق ہوتاہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیںکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد عرب کی سوسائٹی کے مطابق شریف تھے۔لیکن اس میں بھی کویء شبہ نہیں کہ معیارِ اسلام کے مطابق ان میں نیکیاں نہیں پائی جاتی تھیں۔پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کے جومعنے لئے ہیں منفردًالئے ہیں ۔سیاق وسباق کے لحاظ سے نہیںلئے۔اورقرآن کریم کے ایک بطن کے لحاظ سے وہ بھی درست ہیں ۔اورچونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے سات بطن ہیں ۔اس لئے ایک ایک آیت کے کئی معنے کئے جاسکتے ہیں جو اپنے اپنے رنگ میں سب کے سب درست ہوں گے ۔ایک معنے منفرد آیت کے ہوتے ہیں ۔ایک معنے کئی آیتوں کے تسلسل کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔ایک معنے پوری سورۃ کے تسلسل کے لحاظ سے ہوتے ہیں ۔ایک معنے کئی سورتوں کے تسلسل کیح لحاظ سے ہوتے ہیں ۔اورایک معنے سارے قرآن کریم کے تسلسل کے لحاظ سے ہوتے ہیں اوروہ سارے معنے ہی صحیح ہوتے ہیں۔پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م نے اس آیت کے جو معنے کئے ہیں وہ انفرادی لحاظ سے کئے ہیں اورآپ نے یہ ثابت کیاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد سوسائٹی میں شریف اور معزز سمجھے جاتے تھے اورسوسائٹی کے قوانین کے پابند تھے۔ گویاعرب کی سوسائٹی کے لحاظ سے جن خاندانوںکو شرفاء کے خاندان قرار دیاجاتاتھا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاخاندان نہایت شریف تھا ۔چنانچہ اس فرق کو قرآن کریم نے بھی اتنا تسلیم کیاہے کہ اہل کتاب کے ہاتھ کا کھاناجائز قرار دیاہے اورمشرک کے ہاتھ کا کھاناناجائز قرار دیاہے ۔حالانکہ اہل کتاب شراب بھی پیتے ہیں اورسؤرکاگوشت بھی کھاتے ہیں اوران کے مقابلہ میں مشرکین میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جوسؤر نہی کھاتے (یہاں مشرک کے معنے یہ ہیں کہ وہ جو کسی کتا ب کو ماننے والانہ ہو ۔یہ نہیں کہ جو اہل کتاب ہو وہ شرک کرتاہی نہیں ۔ باریک معنوں کی روسے تواہل کتاب بھی مشرک ہوتے ہیں اوردہریہ بھی مشرک ہوتے ہیں ۔لیکن قرآن کریم کی اصطلاح میں مشرک کا اَورمفہوم ہے او رعرف عام میں مشرک کا اَور مفہوم ہے ۔قرآن کریم نے اہل کتاب ان کو قرار دیاہے جوکسی کتاسب کے قوانین کو مانتے ہیں چاہے وہ ان قوانین پرعامل نہ ہوں ۔ان کاقوانین کو تسلیم کرنا ہی ان کو اہل کتاب کانام دینے کے لئے کافی ہے۔ جیسے بہت سے مسلمان بھی قرآن کریم کے احکام پر نہیں چلتے مگروہ کہلاتے مسلمان ہی ہیں)بہرحال اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے کھانے کو اس لئے جائز قرار دیاہے کہ ان میں کسی کتاب کوماننے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ اخلاق ضرور ہوں گے اورہم ان پر یہ حسن ظنی کرسکتے ہیں کہ چونکہ اہل کتاب میں سے کسی بھی کتاب میں دھوکادیناجائز نہیںاس لئے یہ دھوکادیکر ہمیں کوئی ایسی چیز نہیں کھلادیں گے جوہمارے مذہب کی روسے ناجائزہو۔لیکن جو شخص خود کہتاہے کہ میں کسی قانون کاپابند نہیں توچاہے وہ شریف ہی کیوں نہ ہو ہم اس پر حسن ظنی نہیں کرسکتے ۔کیونکہ ہم یہ سمجھیں گے کہ چونکہ اس کے لئے کسی قانون کے پابند نہ ہونے کی وجہ سے دھوکایافریب کرنے میں کوئی روک نہیں ہے اس لئے ممکن ہے کہ یہ ہمارے ساتھ دھوکاکرجائے اورہمیں کوئی ایسی چیز کھلادے جو ہمارے مذہب میں ناجائزہو۔قرآن کریم نے جو اہل کتاب کاذبیحہ کھانے کی اجازت دی ہے وہ بھی اسی لئے ہے کہ و ہ ایک قانون کے پابند ہیں۔حالانکہ وہ سؤر کاگوشت بھی کھاتے ہیں ۔مگر مشرک کے ہاتھ کاکھانے کی صرف اس لئے اجازت نہیں دی کہ وہ کسی قانون کا پابند نہیں ۔اوراس کو دھوکایافریب دینے سے کوئی چیز روکنے والی نہیں ہے ۔ایک اہل کتاب چاہے دنیوی لحاظ سے بااخلاق نہ ہو اس کاکھاناکھانے کی اجازت ہے ۔اورمشرک چاہے دنیوی لحاظ سے بااخلاق ہو اس کاکھاناکھانے کی اجازت نہیں ۔کیونکہ اہل کتاب کسی نہ کسی قانون کے پابند ہیں ۔یہودی تورات کو مانتے ہیں ۔عیسائی انجیل کومانتے ہیں اورہندوویدوں کو مانتے ہیں اوران سب کاقانون ا س امر پر متفق ہے کہ کسی کے ساتھ دھوکاکرناجائز نہیں ہے ۔اسی لئے شریعت اسلامیہ نے اہل کتاب کو دوسروں سے زائد حقوق دیئے ہیں ۔پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد چونکہ اچھے شہری تھے اورسوسائٹی کے قانون کے پابند تھے اس لئے انہیں ساجد کہاگیا۔مگر وہ ساجدًاللہ نہیں تھے بلکہ ملکی قانون کے ساجد تھے ۔اورشریف خاندان رکھتے تھے ۔اورانبیاء ہمیشہ شریف اوراعلیٰ خاندانوں میں سے ہی آتے ہیں۔اگرکوئی نبی ادنیٰ اقوام میں سے آجائے (جو سنت اللہ کے خلاف ہے) تولوگ اس کو نہیں مان سکتے ۔وہ کہیں گے اس کاخاندان اچھا نہیں ہے۔یایہ غلام ہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہی دیکھ لو ۔آپ غلام نہ تھے مگر چونکہ عرصہ آپ نے فرعون مصر کے گھر سے روٹی کھائی تھی اس لئے فرعون نے کہدیا کہ یہ وہی ہے جس کو ہم نے روٹیاں کھلا کھلا کر پالا ہے ۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو ۔عیسائی آج تک آپ کے متعلق یہ طعنہ دیتے ہیں کہ آپ لونڈی کی نسل میں سے تھے۔ وہ لوگ حضر ت ہاجرہؓ کو لونڈی قرار دیتے ہیں۔حالانکہ تورات سے صاف معلوم ہوتاہے کہ حضرت ہاجرہؓ مصر کے بادشاہ کے رشتہ داروں میں سے تھیں۔اوراس بادشاہ نے انہیں اخلاص لکے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں تحفۃً پیش کیاتھا مگر عیسائیوں نے صرف اس لئے کہ حضرت ہاجر ہؓ تحفۃً دی گئی تھیں ان کو لونڈی قرار دے دیا ۔غرض دشمن توہمیشہ تعصب کی نگاہ سے دیکھنے کا عادی ہوتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مرسل اعلیٰ اورشریف خاندانوں میں سے آتے ہیں تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کومانتے ہوئے انقباض پیدانہ ہو ۔اسی لئے جب ہرقل قیصر روم نے ابوسفیان سے سوال کیا کہ یہ شخص (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)جو نبوت کادعویٰ کرتاہے ۔ا سکا خاندان کیسا ہے توابوسفیان نے یہی جواب دیا کہ وہ اچھے خاندان کا ہے اورمیرے رشتہ داروں میں سے ہے ۔پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس آیت کے معنے سیاق و سباق کے تسلسل میں بیان نہیں فرمائے ۔بلکہ صرف یہ ثابت کیا ہے کہ نبی اپنی قوم می شریف ہوتے ہیں ۔اورابتدائے آفرینش سے آج تک جتنے نبی آئے ہیں وہ سب کے سب معزز خاندانوں میں سے تھے۔اچھے شہریوں اور قانون وقت کے ساتھ چلنے والوں اورسوسائٹی کے مفید ترین لوگوں کی اولادوں میں سے تھے اس لئے لوگ ان کی تحقیر و تذلیل نہ کرسکتے تھے بلکہ ان کا پو راادب اور احترام کرتے تھے۔ غرض اس آیت کے ایک معنے تو وہ ہیں جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے منفردًاکئے ہیں اوردوسرے معنے وہ ہیں جومیں نے سیاق وسباق کے تسلسل کے لحاظ سے بیان کئے ہیں ۔لیکن اس آیت کے ایک تیسرے معنے ساری سورۃ کے تسلسل کے لحاظ سے بھی ہیں ۔
اس سورۃ(الشعراء)میں سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کاذکر آتاہے ۔پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کاذکر آتاہے ۔پھر حضرت نوح علیہ السلام کا ذکرآتاہے۔پھر حضرت صالح علیہ السلام کاذکر آتاہے ۔پھر حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر آتاہے اور پھر حضرت شعیب علیہ السلام کاذکر آتاہے ۔ان سب انبیاء کا ذکرکرنے کے بعد اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرماتاہے ۔ ان کے علاوہ بہت سے انبیاء ایسے بھی ہیں جن کے نام قرآن کریم میں نہیں آئے اوران کی تاریخ بھی محفوظ نہیں ۔قرآن کریم نے قاعدہ کلیہ کی طور پر بیان کردیاہے کہ تمام انبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبردیتے چلے آئے ہیں اورسب نے آپ کے متعلق پیشگوئیاں کیں۔مگران میں سے بعض کی پیشگوئیاں تو محفوظ ہیں اور اورباقی انبیاء کی پیشگوئیاں محفوظ نہیں ہیں جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئیاں موجود ہیں ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئیاں تورات میں موجود ہیں ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئیاں انجیل میں موجود ہیں ۔لیکن جن انبیاء کے نام قرآن کریم میں بیان نہیں ہوئے اورنہ ہی ان کی کوئی تاریخ موجود ہے ۔ان کی پیشگوئیاں بھی موجود نہیں ہیں ۔ان تمام انبیاء کاجن کے میں نے اوپر نام بتائے ہیں ذکرکرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔کیا اس پر شیطان اتر سکتاہے اگر شیطان اترتا توان کے پاس اس بات کاکوئی ثبوت بھی ہوناچاہئیے ۔آخر ان منکرین میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جوکسی نہ کسی نبی کو مانتے ہیں ۔ان میں عیسائی بھی ہیں یہودی بھی ہیں اورکچھ دوسرے لوگ بھی ہیں ۔ عیسائی حضرت عیسیٰؑ کومانتے ہیں ۔یہودی حضرت موسیٰؑ۔نوحؑ ابراہیمؑ اورلوطؑ کومانتے ہیں اور دوسرے کفار ہودؑ اورصالحؑ کومانتے ہیں ۔ان سارے گروہوں میں سے مکہ والوں کے جد امجد حضرت ابراہیمؑ کی پیشگوئیاں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق موجود تھیں۔عیسائیوں کے جدامجد موسیٰ کی پیشگوئیاں موجود تھیں۔غرض اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتاہے َتَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْن ۔تیری صداقت کاایک بہت بڑاثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء تیری خبر دیتے چلے آئے ہیں ۔ تَقَلُّبٌ کے معنے ہوتے ہیں چلنا پھرنا ۔یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تُو موسیٰؑ کے سامنے کشفی حالت میں موجود تھا ۔تُو ابراہیمؑ کے سامنے موجود تھا ۔تونوحؑ کے سامنے موجود تھا ۔توہودؑ کے سامنے موجود تھا ۔توصالحؑ کے سامنے موجود تھا۔فرماتاہے جب تو ان تمام انبیاء کے سامنے موجود تھا جن کو یہ لوگ اپنے بزرگ تسلیم کرتے ہیں تویہ کس طرح تیرانکار کرسکتے اورکہہ سکتے ہیں کہ توراستبازوں میں سے نہیں ہے۔ابراہیمؑ نے کشفی حالت میں تجھے دیکھا ۔اسی لئے اس نے تیری آمد کی خبردی ۔موسیٰؑ نے کشفی حالت میں تجھے دیکھا اسی لئے اس نے تیری آمد کی خبر دی اورعیسیٰؑ نے تجھے دیکھا ۔اسی لئے اس نے تیر ی خبر دی اوران تمام نبیوں نے بتایاکہ اس شان کاایک نبی پیداہونے والاہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔ان انکار کرنے والوں کے جتنے باپ دادے تھے۔وہ تیرے متعلق گواہیاں دے چکے ہیں کہ اس شان کا ایک نبی آئے گا اس کومان لینا ۔اب یہ کس طرح تیرانکار کرسکتے ہیں اوراپنے بزرگوں کی شہادت کو ردّ کرسکتے ہیں ۔غرض اس ساری سورۃ کے تسلسل کے لحاظ سے َتَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْن کے معنے ہیں ۔ َتَقَلَّبَکَ فِی الْاَنْبِیَائِ۔ یعنی ابراہیمؑ نے انگلی اٹھائی اورکہایہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم)راستباز ہے ۔نوح ؑ نے انگلی اٹھائی اورکہا ۔یہ راستباز ہے ۔موسیٰؑ نے انگلی اٹھائی اورکہا ۔یہ راستباز ہے ۔عیسیٰؑ نے انگلی اٹھائی اورکہا یہ راستباز ہے ۔ہودؑ،صالحؑ،لوطؑ اورشعیبؑ نے انگلیاں اٹھائیں اورکہا یہ راستباز ہے ۔فرماتاہے ان تما م انبیاء نے جن کو وتم اپنے بزرگ تسلیم کرتے ہو خبر دی تھی کہ یہ راستباز ہے ۔اب تم اس کا کس طرح انکار کرسکتے ہو؟
اس کے بعد فرماتاہے اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم ُ یقیناً وہ خداجس نے تجھے مبعوث کیاہے دعائوں کو قبول کرنے والا اوراپنے بندوں کے حالات کو جاننے والا ہے ۔اس سے بھی ظاہر ہے کہ پہلی آیت میں نمازوں اوردعائوں ہی کا ذکر ہے ۔نہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ دادوں کا۔تبھی وہ فرماتاہے کہ خداتعالیٰ دعائیں سننے والا اور جاننے والا ہے ۔یعنی تیری اور تیرے ساتھیوں کی دعائیں تعلیم اسلام کو مکمل سے مکمل ترکرتی چلی جاتی ہیں ۔اسی کی طرف دوسری جگہ قرآن کریم میں ان الفاظ میں اشارہ کیاگیاہے کہ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا (طٰہٰ ع۶) یعنی توہمیشہ اللہ سے یہ دعاکرتا رہ ۔کہ اے میرے رب !میرے علم کوبڑھا ۔چونکہ یہ قرآنی دعا ہے ۔ اس لئے صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی یہ دعانہیں مانگتے تھے بلکہ سارے مسلمانے مانگتے تھے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد تو اس دعاسے یہ ہوتی تھی کہ اے خدا!تومجھ پر قرآن کریم کو مکمل سے مکمل ترکرکے اتار اورصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی یہ مراد ہوتی تھی کہ اے خدا !ہمارے رسول کے ذریعہ سے ہمیں کامل سے کامل تر شریعت عطافرما۔
ھل انبئکم علی من تنزل الشیطین٭ تنزل علی کل
کیا میں تجھے بتائوں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں ؟ (شیطان)ہرجھوٹے گناہگار پر اترتے ہیں
افاک اثیم٭یلقون السمع واکثرھم کذبون٭
وہ اپنے کان (آسمان کی طرف )لگاتے ہیں اوران میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں ۳۹؎
۳۹؎ حل لغات :۔ اَفَّاکٍ کے معنے ہیں اَلَّذِیْ یَصُدُّ النَّاسَ عَنِ الْحَقِّ بِبَاطِلِہٖ۔وہ شخص جو لوگوںکو حق و صداقت کے قبول کرنے سے اپنے جھوٹ اور باطل طریقوں سے روکتاہے (اقرب)
تفسیر :۔پہلے تواللہ تعالیٰ نے یہ بتایاتھاکہ اس قرآن کو شیاطین نے نازل نہیں کیا اورنہ ان میں طاقت تھی کہ و ہ ایساکرسکتے ۔اب اس آیت میں اللہ تعالیٰ کفار کے اس اعتراض کے جواب میں یہ مضمون بیان فرماتاہے کہ شیاطین جن لوگوں پر نازل ہوتے ہیں ان کی اکیا علامات ہوتی ہیں ۔چنانچہ فرماتاہے تَنَزَّلُ عَلیٰ کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ۔شیطان ہرجھوٹے گناہگار پر اترتاہے۔یعنی شیطان کا تعلق تو اَفَّاک اور اَثِیْم کے کسی سے ہوہی نہیں سکتا ۔کیونکہ شیطان خود جھوٹ بولتاہے اوراس کانام شیطان ہی بتاتا ہے کہ وہ بڑاگناہگار ہوتاہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تونہ جھوٹا ہے اورنہ گناہگار پھر اس پر شیاطین کس طرح اترسکتے ہیں ۔بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تووہ ہیں جن کی صداقت اورراستبازی کے تم بھی قائل ہو ۔چنانچہ تاریخوں میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا توچونکہ امکہ عرب کے لوگوں کا مرکز تھا ۔اورلوگ وہاں حج کرنے کے لئے آیاکرتے تھے ۔اس لئے چند سرآبرودہ لو گوں نے جمع ہوکر تجویز کی کہ اس سا ل جب باہر سے لوگ حج کرنے کے لئے آئیں گے تواگرہم ان کو آپؐ کے متعلق مختلف باتیں بتائیں گے تووہ ہماری رائے کو غلط سمجھیں گے ۔چاہیئے کہ مل کر ایک فیصلہ کرلیا جائے اوروہی جواب انہیں دیاجائے ۔اس پر ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ ہم کہہ دیاکریں گے کہ وہ جھوٹا ہے ۔جب اس نے یہ بات کہی ۔تواسی وقت ایک شدید دشمن النضر بن الحارث جو ش سے کھڑاہوگیا اورکہنے لگا ۔تم یہ کیا بات کہہ رہے ہو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو توہم صادق اور امین کے طورپر پیش کیاکرتے تھے اس لئے اب اس کو جھوٹا کیسے کہیں گے ۔وہ لوگ تواس جواب سے ہمیں ملزم قرار دیں گے اور کہیں گے کہ تم غلط بیانی سے کام لے رہے ہو(شفاء قاضی عیاض)تواللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راستبازی کے تم بھی قائل ہو توپھر اسی منہ سے یہ کس طرح کہہ رہے ہوکہ اس پر شیطان کلام لے کر نازل ہوتاہے ۔شیطان تو جھوٹوںاور گنہگاروں پر نازل ہواکرتاہے اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامنہ جھوٹوں والانہیں بلکہ اس کا چالیس سالہ عمل اورکردار تمہارے سامنے ہے اوتتم سب جانتے ہوکہ یہ شخص تم سب میں سے زیاد ہ راستباز تھا۔پھر یہ کیسے تعجب کی بات ہے کہ تم شیطان کے نزول کے لئے اسی شخص کانام لے رہے ہو جو شیطان کاسب سے بڑادشمن ہے۔
پھر فرماتاہے یُلْقُوْنَ السَّمْعَ وَاَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْنَ۔وہ لوگ اپنے کان آسمان کی طرف لگائے رکھتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں ۔آسمان کی طرف اپنے کان لگائے رکھنے کے دومعنے ہیں ۔ایک معنے تویہ ہیں کہ وہ اس بات کی خواہش اورتمناکیاکرتے ہیں کہ ان پرالہام نازل ہو اورانہیں کچھ غیب کی خبریں معلوم ہوجائیں ۔اوروہ اپنی اس خواہش میں اس قدربڑھ جاتے ہیں کہ آخر انہیں شیطانی الہام ہونے لگ جاتے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ خود بھی ٹھوکر کھاتے ہیں اوردوسروں کے لئے بھی ٹھوکر کاموجب بنتے ہیں ۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تویہ حالت ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ خداتعالیٰ سے کہے کہ مجھ پر کلام نازل کر خداخود اس پر کلام نازل کرتاہے اوروہ نفسانی رنگ میں کبھی یہ خواہش نہیں کرتا کہ خدااس پر کلام نازل کرے تاکہ وہ دوسروں پر اپنی بڑائی ظاہر کرے۔ہاں جو کلام خود اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتاہے اس پر وہ اس کا شکر بجالاتاہے لیکن جو افّاک اوراثیم ہوتے ہیں ان کے دلوں میں ہروقت یہی خواہش موجز ن رہتی ہے کہ کسی طرح ان پر کلام نازل ہوجائے ۔وہ لو گ کہیں مسمریزم کرتے ہیں ۔کہیں ہیپناٹزم کاعمل کرتے ہیں اورکہیں وظیفے کرتے اورچلّے کاٹتے ہیں اوراس تمام جدوجہد سے ان کا مقصد صرف اتناہوتاہے کہ انہیں کچھ غیب کی خبریں معلوم ہوجائیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام بھی فرمایاکرتے تھے کہ تم کبھی یہ خواہش نہ کروکہ خداتعالیٰ کاکلام تم پر نازل ہو ۔ہاں اگرخداتعالیٰ کاکلام تم پر نازل ہوتاہے اورتم کو کوئی الہام ہوتاہے تویہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ۔تم اگراللہ تعالیٰ سے مانگناچاہتے ہو تواس کافضل مانگو۔ہاں اگر کسی خاص موقعہ پر انسان استخار ہ کرکے خداتعالیٰ سے ہدایت طلب کرے تواَوربات ہے ۔لیکن کلام الٰہی مانگنا اوراس کی خواہش کرنا تواس بات پردلالت کرتاہے کہ اس کے مدنظر صرف اپنی بڑائی کاخیال ہے خداتعالیٰ کے قرب کی اسے کوئی خواہش نہیں ۔اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلام نے الہامات کی خواہش رکھنے سے اپنی جماعت کوسختی سے منع فرمایاہے۔چنانچہ آپ اپنی جماعت کو اس بارہ میں ہدایت دیتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
’’ مکالمات الٰہیہ کی اپنے نفس سے خواہش نہیں ظاہرکرنی چاہیئے۔خواہش کرنے کے وقت شیطان کو موقعہ ملتاہے اور ہلاک کرناچاہتاہے ۔بلکہ اپنا مدّعااورمقصود ہمیشہ یہ ہوناچاہیئے کہ خداتعالیٰ کی مرضی کے موافق تزکیہ نفس حاصل ہو اور اس کی مرضی کے موافق تقویٰ حاصل ہو ۔اورکچھ ایسے اعمالِ حسنہ میسر آجاویں کہ وہ راضی ہوجائے ۔پس جس وقت وہ راضی ہوگا تب اس وقت ایسے شخص کواپنے مکالمات سے مشرف کرنا اگر اس کی حکمت اورمصلحت تقاضاکرے گی تووہ خود عطاکردے گا ۔اصل مقصود ا س کو ہرگز نہیں ٹھہراناچاہیئے کہ یہی ہلاکت کی جڑ ہے۔بلکہ اصل مقصود یہی ہوناچاہیئے کہ قرآن شریف کی تعلیم کے موافق احکام الٰہی پر پابندی نصیب ہو اورتزکیہ نفس حاصل ہو ۔اورخداتعالیٰ کی محبت اورعظمت دل می بیٹھ جائے اورگناہ سے نفرت ہو ۔‘‘
(الحکم ۲۴؍نومبر ۱۹۰۷ ء ص ۷)
اسی طرح فرماتے ہیں :۔
’’ وہ لو گ جو اپنے نفس میں پوری پاکیزگی نہیں رکھتے اورپھر خوابوں کی خواہش رکھتے ہیں اورالہامات کی طرف اپنا دل لتگاتے ہیں ان کو حدیث النفس اوراضغاث احلام کے سوائے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
(تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۰۶ء مندرجہ اخبار بد ۱۰؍جولائی ۱۹۰۷ء ص ۱۶)
اس کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت تھی کہ آپ پر کلام الٰہی نازل ہواتوآپ گھبراہٹ کی حالت میں اپنے گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہؓسے فرمایا کہ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلیٰ نَفْسِیْ مجھے اپنے نفس کے متعلق ڈرپیداہوگیاہے کہ نہ معلوم میں اس ذمہ واری کو ادابھی کرسکتاہوں یا نہیں ۔لیکن جوجھوٹے اورشیاطین کی پیروی کرنیوالے لوگ ہوتے ہیں ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ رمل اورنجوم کے ذریعہ اوراسی طرح اَور کئی قسم کے ذرائع سے غیب کی خبریں معلوم کرنے کی را ت دن کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ لو گ ان کی بزرگی تسلیم کریں اور انہی اپنا ملجاء و ماویٰ سمجھنے لگ جائیں ۔
یُلْقُوْنَ السَّمْعَ کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ شیطان کو شش توکرتے ہیں کہ خدائی باتوں کو سنیں ۔لیکن ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں وہ جھوٹ کو چھو ڑنہیں سکتے وہ خداکی سنی ہوئی باتوں میں جھوٹ ملادیتے ہیں ۔اوراس طرح ان کافریب کھل جاتاہے یعنی جب وہ مسلمانوں سے قرآن کریم سنتے ہیں تواس میں غلط باتیں ملا کر لوگوںمیں مشہور کردیتے ہیں اورکہنے لگ جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے قرآن میں یہ یہ باتیں بیان ہوئی ہیں ۔حالانکہ وہ بالکل جھوٹ ہوتاہے ۔
اس کایہ مطلب نہیں جیساکہ مفسرین نے لکھا ہے کہ شیاطین آسمان پر جاکر خداتعالیٰ کی وحی کومعلوم کرلیتے ہیں ۔کیونکہ قرآن کریم ک روسے ایسانہیں ہوسکتا۔جیسا کہ اسی رکوع میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ اِنَّھُمْ عَنِ السَّمْعَ لَمَعْزُوْلُوْنَ(آیت ۲۱۳)یعنی شیطان آسمانی باتوں کے سننے سے دوررکھے گئے ہیں ۔اسی طرح ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتاہے اَمْ لَھُمْ سُلَّمٌ یَّسْتَمِعُوْنَ فِیْہِ فَلْیَاْتِ مُسْتَمِعُھُمْ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ(طورع ۲)یعنی کیا ان کے پاس کوئی ایسی سیڑھی ہے جس کے ذریعہ وہ آسمان پر جاکر خداتعالیٰ کی باتیں سن سکتے ہیں ۔اگر ان میں کوئی اس امر کامدعی ہے کہ وہ آسمان پرگیاتھا۔اوراس نے خداتعالیٰ کی باتیں سنی تھیں تووہ اپنے دعوے کاثبوت پیش کرے ۔ان آیات سے ظاہر ہے کہ آسمان کی باتیں سننا توالگ رہا وہاں تک کسی کے جانے کی اہلیت بھی قرآن کریم نے تسلیم نہیں کی ۔اورجب یہ حقیقت ہے کہ تو یُلْقُوْنَ السَّمْع کے یہ معنے کرنے کس طرح جائز ہوسکتے ہیں کہ وہ آسمان کی باتیں سننے کیی لئے اپنے کان لگائے رکھتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اس جگہ آسمان کی باتیں سننے کے معنے یہ ہیں کہ وہ مومن انسانوں سے خداتعالی کی باتیں سنتے ہیں ۔لیکن ان میں جھو ٹ ملا کر قرآن کریم کو بدنام کرنے کے لئے لوگوں میں مشہور کردیتے ہیں اوراس طرح ان کا جھوٹ لوگوں پر واضح ہوجاتاہے ۔پس اس کے یہ معنے نہیں کہ شیطان آسمان پر جاکر ملاء اعلیٰ اورجبریلؑ اورعرش کی باتوں کوسن لیتاہے اورپھر وہ زمین پر آجاتاہے بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جولوگ شیطان کے مثیل ہوتے ہیں اورجنہوں نے ابلیسی جامہ زیبِ تن کیاہواہوتاہے ۔وہ آسمانی باتوںکو ایسے رنگ میں بگاڑ کر دنیاکے سامنے پیش کرتے ہیں کہ ایک فتنہ برپا ہوجاتاہے اورکئی لوگ ان کے فریب میں آجاتے ہیں ۔گویا براہ راست کلام الٰہی کے سننے سے تووہ محروم ہی ہوتے ہیں ۔آسمانی کتابوں سے وہ جوکچھ آسمانی باتیں حاصل کرتے یں ان میں بھی اپنی عادت کے مطابق اپنے پاس سے جھوٹ ملادیتے ہیں۔اوراس طرح لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
یہی حقیقت اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی بیان فرمائی ہے کہ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَالِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا زُخْرُفَ الْقَوْلِ غَرُوْرًا(انعام ع ۱۴) یعنی اے ہمارے رسول !جس طرح تیرے زمانہ میں ہورہاہے ۔اسی طرح ہم نے ہرنبی کے زمانہ میں انسان شیطانوں اورجن شیطانوں کو چھوڑ رکھاتھا او روہ ایک دوسرے کودھوکا دینے کے لئے جھوٹی باتیں سناتے تھے ۔یہ آیت بھی بتاتی ہے کہ انبیاء کے دشمن جوبڑے لوگوں میں سے بھی ہوتے ہیں ۔وہ ایک دوسرے کو غیب کی باتیں نہیں بتاتے بلکہ جھوٹی باتیں بتاتے ہیں ۔چنانچہ دیکھ لو مسلمان علماء نے قرآن کریم کی تفاسیرلکھی ہیں۔اوروہیریؔ اوربعض دوسرے مستشرقین نے بھی قرآن کریم کی تفاسیر لکھی ہیں ۔لیکن عیسائی پادریوں نے اپنی تفاسیر میں اسلام کو بدنام کرنے کی پوری کوشش کی ہے ۔پس آسمانی باتیں سنن کے لئے کان تومومن بھی رکھتے ہیں اورکافر بھی ۔مگرمومن تواس لئے کان رکھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کوسنیں اوراس پر عمل کریں ۔ اورکفار اس لئے رکھتے ہیں کہ وہ اس میں جھوٹ ملاکر لوگوںکو اورزیادہ گمراہ کریں اورانہیں خدااور اس کے رسول سے دوررکھنے کی کوشش کریں ۔پھر فرماتاہے ۔وَاَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْنَ۔ ان میں سے اکثرجھوٹے ہوتے ہیں ۔اب یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ اس آیت میں پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ تَنَزَّلُ عَلیٰ کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْم شیطان ہرجھوٹے گنہگار پرناز ل ہوتے ہیں اوریہاں فرماتاہے کہ َاَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْن۔ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں ۔جب اکثر جھوٹے ہوتے ہیں تومعلوم ہواکہ سارے کے سارے جھوٹے نہیں ہوتے حالانکہ کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْم کہہ کر ان میں سے ہرایک کو بلااستثناء جھوٹا کہاگیاتھا ۔سویاد رکھناچاہیئے کہ اَکْثَرُھُمْ کے الفاظ اَفَّاکٍ اَثِیْم کے متبعین کے لئے آئے ہیں یعنی اَفَّاکٍ اَثِیْم کے متبعین میں سے اکثرجھوٹے ہوتے ہیں ۔کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ افّاکٍ اثیم کے متبعین سارے کے سارے جھوٹے ہوں ۔ہوسکتاہے کہ ان میں سے بعض غلطی خوردہ ہوں اوروہ اپنے لیڈروں کو سچا سمجھ کر ان کے پیچھے چل رہے ہوں ۔پس چونکہ دنیا میں اس قسم کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جوجھوٹ کو سچ سمجھ کراختیار کرتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان کے تما م متبعین جھوٹے اورکذاب ہوتے ہیں ۔بلکہ فرمایا کہ َاَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْن ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں ۔ہاں ایک قلیل تعداد غلطی خوردہ لوگوں کی بھی ہوتی ہے ۔
والشعراء یتبعھم الغاون٭الم تر انھم فی کل واد یھیمون
اورشعراء کی جماعت ایسی ہوتی ہے کہ ان کے پیچھے چلنے والے گمراہ ہوتے ہیں ۔(اے مخاطب)کیا تیری سمجھ میں (اب تک)نہیں آیا کہ وہ (یعنی شعراء)توہروادی میں بے مقصود کے پھرتے ہیں۔
وانھم یقولون مالا یفعلون٭ الا الذین امنو ا
اوروہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو وہ کرتے نہیں ۔ سوائے (شاعروں میں سے )مومنوں
وعملواالصلحت وذکروااللہ کثیراوانتصروا من بعد ما
اورنیک عمل کرنے والوں کے اوران کے جو اللہ(تعالیٰ)کا (اپنے شعروں میں)کثرت سے ذکرکرتے ہیں اور(اگر ہجو کرتے ہیں تو ابتداء نہیں کرتے بلکہ)
ظلمو وسیعلم الذین ظلمواای منقلب ینقلبون٭
مظلوم ہونے کے بعد (جائز)بدلہ لیتے ہیں اوروہ لوگ جو ظالم ہیں ضرور جان لیں گے کہ کس مقام کی طرف ان کو لوٹ کر جاناہوگا ۴۰؎
۴۰؎ حل لغات:۔یَھِیْمُوْنَ:ھَامَ سے مضارع جمع مذکرغائب کاصیغہ ہے اورھَامَ عَلیٰ وَجْھِہٖ کے معنے ہیں ذَھَبَ مِنَ الْعِشْقِ اَوْ غَیْرِہٖ لَایَدْرِیْ اَیْنَ یَتَوَجَّہُ کہ اپنے عشق یا کسی اورمقصد کی خاطرادھر ادھر گھومتاپھرااور اس کومعلوم نہ ہواکہ وہ کدھر جارہاہے (اقرب) پس یَھِیْمُوْنَ کے معنے ہوں گے وہ سرگردان پھرتے ہیں۔
اِنْتَصِرُوْا:اِنْتَصَرَ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اوراِنْتَصَرَ مِنْہُ کے معنے ہیں اِنْتَقَمَ مِنْہُ اس سے بدلہ لیا ۔اورجب اِنْتَصَرَ عَلَیْہِ کہیں تو معنے ہوتے ہیں اِسْتَظْھَرَ ۔اس پر غالب آگیا ۔وَامْتَنَحَ مِنْ ظُلْمِہٖ۔اس کے ظلم سے محفوظ ہوگیا۔(اقرب)پس اِنْتَصَرُوْا کے معنے ہیں ۔وہ انتقام لیتے ہیں ۔
تفسیر:۔ کفار مکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو سن کر اپنے جن خیالات کااظہار کیاکرتے تھے قرآن کریم نے ان کا مختلف مقامات میں ذکر کیا ہے ۔اوربتایا ہے کہ وہ کبھی آپ کو مجنون کہنے لگ جاتے تھے۔کبھی کہتے تھے کہ اسے پریشان خوابیں آتی ہیں ۔جن کی وجہ سے یہ ایسا دعویٰ کربیٹھا ہے۔ کبھی کہتے یہ ساحر ہے ۔کبھی کہتے یہ خود تو نیک بخت ہے۔لیکن کسی اورنے اس پرجادو کردیاہے ۔گویا یہ ساحر نہیں بلکہ مسحو رہے ۔کبھی کہتے یہ کاہن ہے ۔ کبھی کہتے کہ اسے کو ئی اورشخص باتیں سکھا دیتاہے یہ کلام اس کااپنا نہیں ۔کبھی کہتے کہ اس کے ساتھ شیطان کا تعلق ہے کبھی کہتے یہ مفتری اورکذاب ہے اورکبھی کہتے کہ یہ شاعر ہے ۔چنانچہ سورئہ انبیاء میں اللہ تعالیٰ ان میں سے بعض اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتاہے ۔بَلْ قَالُوْا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَاہُ بَلْ ھُوَ شَاعِرٌ۔(انبیاء ع ۱) یعنی مخالف کہتے ہیں یہ کلام تو پریشان خوابیں ہیں بلکہ پریشان خوابیں بھی نہیں اس نے دیدہ دانستہ یہ باتیں اپنے پاس سے بنالی ہیں بلکہ اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ایک شاعرانہ مزاج رکھنے والا آدمی ہے جس کے دماغ میں طرح طرح کے خیالات اٹھتے رہتے ہیں اورجس طرح مشہور اورقادرالکلام شعراء کے اشعار میں بڑی بھاری فصاحت و بلاغت اوربلند پروازی پائی جاتی ہے ۔اسی طرح اس کاکلام بھی شاعرانہ فصاحت و بلاغت کاحامل ہے ۔پس درحقیقت یہ بھی ایک شاعر ہے کوئی روحانی آدمی نہیں ۔
اللہ تعالیٰ زیر تفسیر آیات میں کفار کے اس ادّعاکو بھی باطل ثابت کرتاہے ۔اورفرماتاہے کہ تمہارایہ خیال بھی کلّی طورپر غلط ہے اوراس کی دلیل یہ ہے کہ شعراء پر ایسے لوگ ہی گرویدہ ہوتے ہیں جن کا تقویٰ اورروحانیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔چونکہ شعراء اپنے شعروں میں عموماً عشق اور محبتِ نفسانیہ اورشہوانیہ کا ذکر کرتے ہیں ۔اس لئے ایسے ہی لوگ ان کے پیچھے چلتے ہیں جو خود بھی تقویٰ سے دور ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بعض آوارہ نوجوانوں کو ان کے سینکڑوں اشعار یاد ہوتے ہیں اوربعض شاعروں کی غزلیں رنڈیا ںگاتی ہیں کیونکہ ان میں خدااوراس کے رسول کا کہیں ذکر نہیں ہوتا بلکہ عموماً ان کے ذریعہ نوجوانوں کے شہوانی جذبات کو تحریک دی جاتی ہے اورواعظ اور ناصح پر پھبتیاں اڑائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے ایسے ہی لوگوں میں مقبولیت ہوتی ہے جن کاروحانیت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔مگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین توایسے ہیں جنہوں نے اپنی صداقت اوردیانت اور عفت اورپاکیزگی کا ایک بے مثال نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کررکھا ہے ۔ان کی راتیں قیام وسجود میں ۔اوران کے دن ذکر الٰہی اوراعلاء کلمئہ اسلام میں بسر ہوتے ہیں ۔پھر تم یہ کس طرح کہہ سکتے ہو کہ جس مقدس انسان کا دامن چھو کر ان کے اند ر ایسی پاکیزگی پیداہوئی ہے و ہ تمہارے بدعمل شاعروں کی طرح ایک ایساانسان ہے جو جذبات کو بھڑکا کر لوگوںکو اپنے ارد گرد جمع کررہاہے ۔اس کی جماعت کی پاکیزگی اوران کا تقویٰ و طہارت میں بے مثال نمونہ قائم کرنا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ تمہار ایہ ادّعا بالکل باطل ہے ۔اورتم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامقام سمجھنے میں سخت غلطی کھائی ہے ۔
پھر فرماتاہے اَلَمْ تَرَ اَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادِ یَّھِیْمُوْنَ۔کیاتم نہیں دیکھتے کہ شاعر مختلف طبائع کو خوش کرنے کے لئے کبھی اِدھر کی بات کردیتے ہیں کبھی اُدھر کی ۔ ان کے سامنے کوئی خاص مقصد اورمدّعانہیں ہوتا بلکہ جو چیز بھی ان کے ذہن می آجائے اسی کے متعلق وہ کچھ نہ کچھ کہنا شروع کردیتے ہیں ۔چنانچہ شاعروں کی کوئی غزل لے لو فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ کاتمہیں ان کی ہرغزل میںنظارہ نظر آجائے گا ۔ایک شعر میں تولکھا ہوگا ۔میں مر گیا ۔میرامعشوق مجھ سے بے وفائی کرتاہے ۔اورمیں اس کے ہجر میں اس کی بے التفاتی کی وجہ سے جاں بلب ہوں ۔مگرساتھ ہی اگلے شعر میں یہ لکھا ہوتاہے کہ مجھے اپنے معشوق کاوصال نصیب ہوا۔میں جی اٹھا اورمیں زندہ ہوگیا ۔ساری غزل کا ایک شعر بھی دوسرے شعر سے جوڑ نہیں رکھتا ۔ایک شعر میں وہ کچھ اَور بیان کررہے ہوتے ہیں اوردوسرے شعر میں وہ کہیں اَور نکل جاتے ہیں ۔ایک شعر میں تووہ کہتے ہیں۔میں محبوب سے ملنے کی تیار ی کررہاہوں ۔اوردوسرے شعر میں کہتے ہیں ہائے مراجارہاہوں ۔غرض ان کی غزلوں کا ہرشعر دوسرے سے متناقض ہوتاہے اوران کی باتوں کا کو ئی سرپیر ہی نہیں ہوتا۔کبھی ادھر کی کہتے ہیں کبھی اُدھر کی ۔کبھی ںکہتے ہیں میں اپنے محبوب کے عشق میں مرگیا حالانکہ وہ زندہ اپنے شعر سنارہے ہوتے ہیں ۔کبھی کہتے ہیں میں اپنے معشوق کے عشق میں سرگردان ہو ں۔حالانکہ وہ اچھے بھلے دنیا کے کام کررہے ہوتے ہیں ۔کبھی کہتے ہیں معشوق ہروقت ہمارے دل میں ہے اوریہ بالکل جھوٹ ہوتاہے ۔کبھی کہتے ہیں میں اپنے محبوب کے لئے خون کے آنسو پی رہاہوں ۔حالانکہ وہ آرام سے زندگی بسرکررہے ہوتے ہیں ۔نہ مر رہے ہوتے ہیں نہ خون کے آنسو پی رہے ہوتے ہیں۔ان کا مطلب صرف اتنا ہوتاہے کہ لوگوں کے جذبات کو ابھاراجائے چاہے وہ ابھارنا اچھے رنگ میں ہویابرے رنگ میں۔کبھی وہ خوشی کی باتیں کرتے ہیں اورکبھی غمی کی۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ یعنی وہ ہرجنگل میں اورہروادی میں سرگردان پھرتے ہیں ۔ ان کو کسی جگہ بھی جذبات کے ابھار نے کاسامان مل جائے چاہے کہیں سے ملے لے لیتے ہیں ۔وہ عاشقوںکوبھی خوش کرتے ہیں اورمعشوقوںکوبھی ۔وہ غریبوں کو بی خوش کرتے ہیں اورامیروں کو بھی ۔و ہ مظلوموں کوبھی خو ش کرتے ہیں اورظالموں کوبھی ۔وہ غالب کو بھی خو ش کرتے ہیں اورمغلوب کو بھی ۔ان کو توہرکسی کی خوشی مطلوب ہوتی ہے ان کو اپنے شعروں میں کتنا بھی جھوٹ بولنا پڑے ۔وہ چاہتے ہیں کہ کوئی غریب ہمارے شعر پڑھے یاامیر ۔ظالم پڑھے یامظلوم ۔عاشق پڑھے یا معشوق،غالب پڑھے یا مغلو ب سب کے سب خوش ہوجائیں چاہے ان کے اشعارحقیقت سے کتنے ہی دور ہوں۔پس شعراء کامقصد اورمدعایہی ہو تاہے کہ ہر خاص و عام ان سے خو ش ہو جائے اوران کے شعروںکی داد دے ۔چنانچہ کبھی وہ کسی امیر کی تعریف کرنے لگ جاتے ہیں اورمقصد یہ ہوتاہے کہ کچھ روپے مل جائیں یاکوئی وظیفہ مقرر ہوجائے ورنہ اس کی ذات سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔لطیفہ مشہور ہے کہ ایک شخص نے جو سخت بھوکاتھا ایک دفعہ چند لوگوںکو جو اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہیں جاتے دیکھا تواس نے خیال کیا کہ یہ غالباً دعوت پر جارہے ہیں میں بھی ان کے ساتھ شامل ہوجائوں ۔جب یہ کھاناکھانے لگیں گے تومیں بھی وہیں سے کھاناکھالوں گا ۔چنانچہ وہ ان کے ساتھ شامل ہوگیا ۔جاتے جاتے وہ بادشاہ کے دربار میں جاپہنچے اورانہوں نے اس کی تعریف میں قصائد پڑھنا شروع کردیئے ۔تب اسے پتہ لگاکہ یہ تو شاعر ہیں اوراپنے اپنے قصائد سنانے آئے ہیں ۔چنانچہ ہر شاعر نے اپنی اپنی بار ی باری پر کھڑے ہوکر قصیدہ سناناشروع کردیا ۔یہ اب سخت حیران ہواکہ میں کیا کروں۔شعر کہنے کی اس میں قابلیت نہیں تھی ۔مگر طبیعت لطیفہ سنج تھی ۔جب سب شاعر اپنے اپنے قصائد سناچکے اوربادشاہ سے انعام لے کر گھروں کوروانہ ہوگئے توبادشاہ اس سے مخاطب ہوااورکہنے لگا ۔اب آپ قصیدہ شروع کریں وہ کہنے لگا حضور میں شاعرنہیں ہوں ۔بادشاہ نے پوچھا آپ یہاں کیوں آئے ہیں ۔وہ کہنے لگا۔حضورمیں وہی ہوں جس کا قرآن کریم میں اس طرح ذکرآتاہے کہ وَالشُّعَرَآئُ یُتَّبِعُہُمُ الْغَاوْنَ۔شاعروں کے پیچھے غاوی آیاکرتے ہیں ۔وہ شاعر تھے اورمیں غاوی ہوں ۔بادشاہ کو اس کا یہ لطیفہ پسند آگیا اور اس نے حکم دیا کہ اسے بھی کچھ انعام دے دیاجائے ۔اب یہ ہے توایک لطیفہ لیکن اس میں کو ئی شبہ نہیں کہ شاعروں کے پیچھے چلنے والے عموماً گمراہ لوگ ہی ہوتے ہیں کیونکہ شاعر کبھی کچھ کہہ دیتے ہیں کبی کچھ ۔ان کا کوئی اصول نہیں ہوتا ۔کبھی ہزلیہ کلام سے لوگوںو کو ہنساتے ہیں ۔کبھی شہادتِ امام حسینؓ کا واقعہ لکھ کر لوگوں کورُلاتے ہیں ۔کبھی مدحیہ قصائد پڑھتے ہیں اورکبھی اس کی ہجو کرناشروع کردیتے ہیں ۔ غرض ہرجنگل می سرگردان پھرتے ہیں ۔کوئی ایک مقصد اورمدعالے کر کھڑے نہیں ہوتے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تودنیا میں توحیدپھیلا نے کے لئے آیا ہے اوریہی ایک مقصد ہے جو رات اور دن اس کے دماغ پر حاوی رہتاہے اوراسی کے لئے وہ تکلیفیں اٹھارہاہے ۔پھر تم یہ کس طرح کہہ سکتے ہوکہ یہ ایک شاعر ہے ۔اگر شاعر ہوتاتو اس کا بھی کوئی مقصد نہ ہوتا ۔جدھر لوگوں کی اکثریت ہوتی ادھر ہی چل پڑتا اوران کو خو ش کرنے کی کوشش کرتا ۔مگر اس نے توسب دنیا کو اپنا مخا لف بنالیاہے اورہر ایک کو توحید کی طرف لانے کی کوشش کررہا ہے پھر یہ شاعر کس طرح ہوا؟
پھر فرماتاہے وَاَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَالَایَفْعَلُوْنَ شاعر وں می ایک یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ ان کا قول اَو رہوتاہے اورفعل اَور۔ اوروہ جوکچھ منہ سے کہتے ہیں عملاً وہ ایسانہیں کرتے ۔یعنی اگر وہ اپنے اشعار میں لوگوںکو اخلاق حسنہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں توخود شرابیں پیتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتے ہیں توآپ نماز اور روزہ کے قریب بھی نہیں جاتے ۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاجوقول ہے وہی اس کا عمل ہے اورجو بات اس کے عمل میں ہے۔ وہی اس کی زبان پر ہے ۔پس تمہارایہ کہناکہ محمد رسول اللہ ؐ ایک شاعر ہے محض حقائق پر غور نہ کلرنے کا نتیجہ ہے ۔اگرتم غور کرو توتمہیں نظرآجائے گاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورشعراء کے کلام اوران کے کردا رمیں بُعد المشرقین پایا جاتاہے اوردونوں کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔
پھر فرماتاہے اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوااللّٰہَ کَثِیْرًاوَّنْتَصَرُوْامِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا۔ہاں ان شاعر وںکو ہم مستثنٰی کرتے ہیں جومومن ہیں اورمناسب حال عمل کرتے ہیں ۔وہ اگرشعر کہتے ہیں توان کاشعرحقیقت پرمبنی ہوتاہے اوروہ وہی شعر کہتے ہیں جو عملی زندگی میں ان کے اندرپایاجاتاہے ۔اس کی مثال کے طورپر ہم حضرت حسان بن ثابتؓ کے وہ اشعار پیش کرتے ہیں جو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پرکہے ۔جب انہیں معلوم ہواکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں توانہوں نے اپنے درد اورکرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرٗ
مَنْ شَآئَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ
یعنی اے محمد رسول اللہؐ! تُو تو میری آنکھوں کی پتلی تھا آج تیرے مرنے سے میری آنکھیں اندھی ہوگئیں ۔ا ب خواہ کو ئی مرے ۔میراباپ مرے ۔میری ماں مرے۔بیوی مرے ۔بھائی مرے۔بیٹامرے۔مجھے ان میں سے کسی کی موت کی پرواہ نہیں مَیں تو تیری موت سے ہی ڈراکرتاتھا ۔حضر ت حسان بن ثابتؓ جنہوں نے یہ شعرکہے ۔وہ خو د بھی نیک تھے اور ان کے یہ اشعار بھی حقیقت پر مبنی تھے ۔پس یقینا ایسے لوگ پہلے گروہ میں شامل نہیں۔
پھر فرمایا ۔ان کی عادت میں یہ بات داخل ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کثرت سے ذکرکرتے ہیں ۔اورغیر مومن شاعر وں کی طرح صرف منہ سے یہ نہیں کہتے رہتے کہ ہم اپنے محبوب کے لئے یہ قربانیاں کریں گے بلکہ جب دین کے بار ہ میں ان پر ظلم کیاجاتاہے تووہ عملاً اس کا بدلہ لیتے ہیں اورثابت کردیتے ہیں کہ جس فدائیت کا انہوںنے اپنے شعروں میں ذکر کیاتھا عملاً بھی وہ فدائیت ان کے اند ر پائی جاتی ہے۔مگراس کے ساتھ ہی ان کایہ رویہ نہیں ہوتاکہ وہ اپنے مخالف پر ظلم کریں بلکہ وہ ہمیشہ ظلم کے بعد بدلہ لیتے ہیں اورکسی دوسرے پر ظلم نہیں کرتے ۔
اس آیت میں بھی اورقرآن کریم کی متعدد دوسری آیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عمل صالح کو لازمی قرار دیا ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ منافق بھی زبان سے کہہ دیتاہے کہ میں یمان لایاہوں یامیں خداتعالیٰ اوراس کی شریعت کو مانتاہوں اورلوگ بھی اس کے اس ظاہری قول کے مطابق یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ وہ مومن ہے ۔حالانکہ نہ تو وہ خود اپنے دل میں اسلام کو مان رہاہوتاہے اورنہ ہی خداتعالیٰ اس کے اس ایمان کو تسلیم کرتاہے ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرماتاہے کہ بعض دفعہ لوگ تیرے پاس آتے ہیں اورقسمیں کھا کھا کرکہتے ہیں کہ تُو اللہ کارسول ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم بھی گواہی دیتے ہیںکہ تواللہ کارسول ہے ۔مگریہ لوگ جوکچھ کہتے ہیں صرف زبان سے ہی کہتے ہیںان کے دل میں ایمان نہیں ۔ اس کے مقابلہ میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے دل میں تویہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایمان کی حقیقت کو پوری طرح جانتے ہیں ۔مگر واقعہ یہ ہوتاہے کہ وہ کچھ بھی نہیں جاتے ۔اس کی مثال ایسی ہی ہے ۔جیسے بعض باتیں جواشاروں میں کہی جاتی ہیں ان کے متعلق بعض دفعہ دوسر اسمجھتاہے کہ می نے فلاں کے اشارے کو سمجھ لیاہے اوراشار ہ کرنے والا بھی یہی سمجھتاہے کہ دوسرے نے میرااشارہ سمجھ لیا ہے ۔ لیکن جب بات کھلتی ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے ایک دوسرے کے مطلب کو نہیں سمجھا تھا ۔لطیفہ مشہورہے کہ اکبربادشاہ کے دربا میں ایک دفعہ ایران کا کوئی صوفی آیا ۔اوراس نے کہا ۔آپ اپنے علماء کوبلائیں میں ان سے کچھ سوال کرناچاہتاہوں ۔اکبر نے علماء کو بلوایا۔جب وہ پہنچ گئے تواس صوفی نے اشارے کرنے شروع کردیئے ۔اکبرنے کہا یہ آپ کیاکررہے ہیں ۔کوئی بات کریں جس کی سمجھ بھی آسکے۔صوفی نے کہا باتیں تو جہلا ء بھی کرلیتے ہیں ۔علماء کاکام توصرف اشارے سمجھنا ہے۔اگریہ اشارے نہ سمجھ سکیں تو علماء کیسے ہوئے ۔آخر جب علماء ان اشاروں کو نہ سمجھ سکے توان کو مقابلہ سے عاجز سمجھا گیا ۔اورکہا گیا کہ یہ ہار گئے ہیں ۔اس پر ملّا ابوالحسن بن ابو محاسن جو ملّا پیادہ کلے نام سے مشہور ہے اٹھا ۔اوراس نے کہا ۔میں اس صوفی کے ساتھ مقابلہ کرتاہوں ۔بادشاہ نے ایرانی صوفی سے کہا ۔اب کوئی سوال کرو۔صوفی نے ہاتھ کی ایک انگلی دکھائی ملّاپیادہ نے اس کے جواب میں دوانگلیاں دکھادیں ۔صوفی نے ہاتھ کی انگلیاں کھول کر پنجہ دکھایا۔اس کے جواب میں ملا پیادہ نے مٹھی بند کرکے مکّا دکھا دیا۔اس کے بعد صوفی نے زمین پر ایک گول دائرہ بنایا۔ اورملّاپیادہ نے اس گول دائرہ کے درمیان ایک نقطہ لگادیا ۔اس پر وہ صوفی کہنے لگا ۔واقعی یہ شخص قابل ہے ۔اورمیں اس کے سامنے اب کوئی سوال نہی کرسکتا۔ لوگوں نے صوفی سے پوچھا ۔کہ تمہارا انگلی دکھانے سے کیا مطلب تھا ۔اس نے کہا میرایہ مطلب تھاکہ اللہ ایک ہے اورملّا پیادہ نے اس کا بالکل ٹھیک جواب دیا کہ اللہ توایک ہے مگر اس کے ساتھ اس کا رسول بھی ہے۔پھر میں نے پانچ انگلیا ں دکھائیں جس سے میرایہ مطلب تھا کہ پنج تن ہی ہیں جن پ اسلام کی بنیاد ہے۔اس کے جواب میں ملا پیادہ نے کہا کہ واقعی پنج تن ہیں لیکن حقیقت میں وہ ایک ہی ہیں اوراس کے مکا دکھانے کا یہی مطلب تھا ۔پھر میں نے زمین پر گول دائرہ بنادیا ۔جس کامطلب تھاکہ یہ زمین گول ہے ۔اس کے جواب میں ملا پیادہ نے اس کے درمیان میں دائرہ لگاکر یہ کہا کہ زمین تو گول ہے مگر وہ اپنے محور کے گرد گھومتی ہے ۔جب ملّا دوپیادہ سے پوچھا گیا کہ تم نے کیاسمجھا تھا ۔تواس نے کہا کہ جب صوفی نے ایک انگلی دکھائی تو میں یہ سمجھا کہ یہ کہتاہے کہ میں تیری ایک آنکھ پھوڑ دوں گا ۔اس پر میں نے اس کے جواب میں دوانگلیاں دکھا کرکہاکہ میں تیری دونوں آنکھیں پھوڑ دوں گا ۔پھر اس نے پنجہ دکھا یاتومیں نے سمجھاکہ یہ مجھے کہتاہے کہ میں تیرے منہ پر تھپڑ ماروں گا ۔میں نے اس کے جواب میں کہ میں تمہیں گھونسہ ماروں گا ۔پھر ا س نے زمین پر جب گول دائر ہ بنایا ۔تومیں نے سمجھا کہ یہ کہتاہے کہ انسان کے لئے روٹی ضروری چیز ہے ۔اس پر میں نے درمیان میں نقطہ لگاکرکہا کہ صرف روٹی سے کچھ نہیں بنتا ساتھ پیاز بھی ہونا چاہیئے ۔
اسی طرح ایک شخص زبان سے توکہہ دیتاہے کہ میں ایمان لایا اوروہی سمجھتابھی یہی ہے کہ میں ایمان کی حقیقت سے واقف ہوں مگروہ ایمان کی حقیقت کو نہیں سمجھ رہاہوتا۔پس ایک ایمان تواس قسم کاہوتاہے کہ ایک شخص منافقانہ طورپر صرف زبان سے کہتاہے میں ایمان لے آیا اوراس کے قول کے مطابق لوگ بھی سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ ایمان لے آیاہے مگرخداتعالیٰ اس کے ایمان کی حقیقت کو اچھی طرح جانتاہے اوروہ منافق بھی اپنے دل میں کہتاہے کہ میں تمسخر کررہاہوں ۔لیکن دوسراایمان اس قسم کاہوتاہے کہ ایک شخص سمجھتاہے کہ میں اچھی طرح ایمان کی حقیقت کو سمجھتاہوں مگردراصل وہ کچھ بھی نہیں سمجھاہوتا۔اس کے مقابلہ میں تیسری قسم کاایمان یہ ہے کہ ایک شخص فی الحقیقت ایمان کو سمجھ جاتاہے اورلوگ بھی کہتے ہیں یہ ایما ندار ہے اوراللہ تعالیٰ بھی کہتاہے کہ یہ ایماند ار ہے ۔اس کی مثال اس درخت کی سی ہوتی ہے جس کی جڑزمین کے اند ردو رتک چلی گئی ہو اورکسی قسم کی آندھیاں اس پر اثرانداز نہ ہوسکیں۔پہلی قسم کے ایمان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے کوئی چھوٹاساپودااکھیڑ کرہاتھ میں پکڑاہواہو۔اوراس کی جڑوں کا زمین کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو ۔اوردوسری قسم کے ایمان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک درخت بظاہر زمین میں لگاہواہو مگراس کی جڑیں بالکل زمین کی اوپروالی مٹی میں ہوں۔اوروہ کسّی کے ذراسے دھکے کے ساتھ ہی زمین پرآرہے اورتیسری قسم کے ایمان کی مثال ایسی ہے۔ جیسے ایک بڑاتناور درخت ہو۔اوراس کی جڑیں بھی پاتال تک چلی گئی ہوں ۔یہی اصل ایمان ہے جوانسان کی نجات کاموجب بنتاہے اوراس ایمان کے ساتھ عمل صالح کاہونابھی ضروری ہے ۔لیکن یہ امر یاد رکھناچاہیئے کہ ہمارے ہاں جن باتوں کو نیک عمل کہتے ہیں یاانگریزی میںجنہیں گڈایکشنز Good Actions کہتے ہیں قرآن کریم انہیں عمل صالح قرار نہیں دیتا۔سارے قرآن میں شاذونادر کے طور پر ہی کسی ایک مقام پر نیک عمل کے لئے خیر کالفظ استعمال ہواہو توہواہو ۔ورنہ قرآن کریم ہمیشہ عمل صالح کالفظ استعمال کرتاہے ۔اوراس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک نیکی وہی ہے جومطابق حالات ہو ۔اوراگرحالات کے مطابق کوئی عمل نہ ہو تووہ عمل صالح نہیں کہلائے گا۔مثلاً اگر لوگوںوسے دریافت کیاجائے کہ نیک عمل کون سے ہیں تووہ کہیں گے ۔نماز ،روز ہ، زکوٰۃ،حج اورجہاد وغیرہ ۔حالانکہ قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتاہے کہ بعض نمازیں بری ہوتی ہیں ۔اسی طرح روزے اوربعض صدقہ و خیرات انسان کوثواب پہنچانے کی بجائے اسے خداتعالیٰ کی ناراضگی کامورد بنادیتے ہیں۔پس معلوم ہواکہ خالی نماز نیک عمل نہیں ۔ اگرخالی نماز نیک عمل ہوتا تو وَیْلٌ لِّلْمُصَّلِّیْنَ کیوں آتا۔اورکیوں اللہ تعالیٰ فرماتاکہ بعض نمازیں پڑھنے والے جوریاء کے لئے پڑھتے ہیں جو اس لئے پڑھتے ہیں کہ لوگ کہیں یہ بڑے بزرگ ہیں ۔یہ بڑے زاہد اورعابد ہیں ۔ان پر ہمار ی *** ہوتی ہے ۔ اسی طرح بعض روزے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کاانسان کو مورد بنادیتے ہیں ۔مثلاً انسان عید کے دن روزہ رکھے توو ہ اسلامی نقطئہ نگاہ سے شیطان بن جائے گا ۔یاحج ہے ۔اگر انسان ایسی حالت میں کرے جب اس میں حج کی شرائط نہ پائی جاتی ہوں ۔یازکوٰۃایسی حالت میں دے جبکہ زکوٰۃ اس پر فرض نہ ہو تویہ اعمال صالح نہیں کہلاسکتے ۔عمل صالح وہی عمل ہے جو مطابق حالات او رموقع کے مناسب ہو ۔اسی لئے خداتعالیٰ نے بار بار قرآن کریم میں ایمان کے ساتھ عَمِلُواالصّٰلِحٰتِ کاذکرکیاہے ۔لوگ غلطی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ نماز نجات دلائے گی ۔یاروزہ نجات دلائے گا ۔یاحج نجات دلائے گا یا زکوٰۃ نجاتے دلائے گی ۔حالانکہ نماز و ہ نجات دلاسکتی ہے جونماز پڑھنے کے موقعہ پر پڑھی جائے۔ اگرکسی وقت کفار سے جہادہورہاہو۔لڑائی لڑی جارہی ہو ۔مسلمان مارے جارہے ہوں۔کفار بڑھتے چلے آرہے ہوں اورکوئی شخص مصلّٰی بچھا کر نماز پڑھنے لگ جائے ۔توہم کہیں گے اس کی نماز کوئی نماز نہیں۔ اس وقت جہاد کاکام کرنے کا وقت تھا ۔مصلّٰی پر بیٹھ کر تسبیح پھیرنے کاوقت نہیں تھا ۔اسی طرح اگر کوئی شخص نماز کے وقت نماز نہ پڑھے اورکہے میں جہاد کے لئے چلاجائو ں تو ہم کہیں گے وہ نماز سے بچنے کابہانہ کررہاہے غرض اپنی ذات میں نہ نماز نجات دلاسکتی ہے ۔نہ روزہ نہ زکوٰ ۃ نہ حج نہ جہاد ۔بلکہ جونیک کام بھی موقع اورمحل کے مطابق ہو وہی انسان کے کام آسکتاہے ۔
مومنوں کی دوسری خصوصیت اس آیت میں بتائی گئی ہے کہ وَذَکَرُوااللّٰہَ کَثِیْرًا ۔ وہ اللہ تعالیٰ کابڑ ی کثرت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں ۔چونکہ دنیا میں بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جوصرف اس وقت ذکر کی طرف توجہ قائم رکھ سکتی ہیں۔جب وہ اکیلے ذکر میں مشغول ہوں اوربعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جودوسروں کو ذکر کرتادیکھیں تب ان میں ذکر کرنے کاجوش پیداہوتاہے ۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے انفرادی اورجماعتی دونوں قسم کے ذکرنمازوں میں جمع کردیئے ہیں ۔چنانچہ ظہر اورعصر کی نمازیں اسی طرح پڑھی جاتی ہیں کہ ہرشخص اپنا اپنا ذکرکررہاہوتاہے ۔امام اپنے طور پر خاموشی سے ذکرکررہاہوتاہے اورمقتدی خاموشی سے اپنے طورپر ذکرکررہے ہوتے ہیں ۔لیکن مغر ب عشاء اورفجر کے وقت اللہ تعالیٰ نے یہ طریق مقررکردیا کہ جب امام سورۃ فاتحہ پڑھے تو تم بھی سورۃ فاتحہ پڑھو۔ مگر جب و ہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔غرض نماز میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایساطریق رکھاہے کہ بعض جگہ لوگوں کوکلیتًہ امام کے تابع کردیاہے۔امام کہتاہے اللہ اکبر تومقتدی بھی کہتاہے اللہ اکبر ۔امام رکوع میں جاتاہے ۔تومقتدی بھی رکوع میں چلاجاتاہے ۔امام سجدہ میں جاتاہے تومقتدی بھی سجدہ میں جھک جاتاہے ۔لیکن جوخاموشی کاحصہ ہوتاہے اس میں ہرشخص آزاد ہوتاہے ۔مقتدی کوئی دعامانگ رہاہوتاہے اورامام کوئی دعامانگ رہاہوتاہے ۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے دونوں طبائع کاعلاج کردیا۔ان کابھی جو دوسروں کوذکرمیں مشغول دیکھ کر ذکرکرنے کی عادی ہوتی ہیں اوران کابھی جنہیں اس وقت عبادت میں لذت آتی ہے جب و ہ علیحدہ ہوں ۔چنانچہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں مجلس میں دعاکرتے وقت رقّت آتی ہی نہیں اوربعض ایسے ہوتے ہیں کہ جونہی وہ کسی کی چیخ سنتے ہیں ۔ ان کی بھی چیخیں نکل جاتی ہیں پہلے انہیں جوش نہیں آتا۔لیکن دوسرے کی گریہ و زاری دیکھ کر انہیں بھی رونا آجاتاہے ۔ لیکن کامل مومن وہ ہوتاہے کہ جب وہ علیحدہ بیٹھتاہے تب بھی خداتعالیٰ کاذکر کرتاہے اور جب مجلس میں بیٹھتاہے تب بھی اس کا ذکر کرتاہے۔اسی وجہ سے اسلام نے انفرادی ذکر پر بڑازوردیاہے اوراجتماعوں کے مواقع پر بھی ذکر ِ الٰہی پر زوردیاہے ۔چنانچہ مسلمان جب حج کے لئے جاتے ہیں تو وہاں بھی ذکر الٰہی ہوتاہے ۔شادی اوربیاہ کے لئے جاتے ہیں تووہاں بھی ذکر الٰہی ہوتاہے۔ جنازہ کے لئے جاتے ہیں تووہاں بھی ذکر الٰہی ہوتاہے۔گویاہرقسم کے اجتماعوں کوبابرکت بنانے کانسخہ اسلام نے یہی بتایاہے کہ ذکرالٰہی پر زوردیاجائے ۔اس کے مقابلہ میں انفرادی ذکر کی اہمیت بھی اسلام نے با ر باربتائی ہے ۔یہاں تک کہ کھانا کھاتے وقت۔کھانے سے فارغ ہوتے وقت ،سوتے وقت جاگتے وقت ۔سفرپرجاتیوقت ۔سفرسے آتے وقت۔غم کے وقت خوشی کے وقت ۔ مسجد میں آتے وقت اورمسجد سے جاتے وقت ۔بلندی پرچڑھتے وقت اور بلندی سے اترتے وقت ۔اسی طرح آئینہ دیکھتے وقت ۔کپڑے بدلتے وقت۔ نیاچاند دیکھتے وقت ۔یہاں تک کہ بیوی کے پاس جاتے وقت بھی دعائوں اورذکر الٰہی کی تاکید کی ہے ۔اورپھر فرمایاہے کہ ہرکام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیاکرو۔ورنہ تمہاراکام بے برکت ہوجائے گا ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام نے یہ بھی کہا ہے کہ ہرنماز کے بعد تینتیس دفعہ سبحان اللہ تینتیس دفعہ الحمد للہ اورچونتیس دفعہ اللہ اکبر اکہہ لیا کرو۔مگراسلام نے یہ بھی کہاہے کہ مومن کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کاذکرکرتے ہیں اوروہ صرف تینتیس یاچونتیس دفعہ تسبیح و تحمید کرنے پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ بات بات پر وہ الحمد للہ سبحان اللہ یا اللہ اکبر کہتے رہتے ہیں ۔اوردرحقیقت اگرغورسے کام لیاجائے تویہ دونوں باتیں ہی ضروری تھیں ۔کیونکہ عشق میں انسان کی دونوں حالتیں ہوتی ہیں ۔عشق میں ایک حالت تووہ ہوتی ہے جب انسان اورکاموں سے فار غ ہوکر اپنے محبوب سے باتیں کرنے میں مشغول ہوجاتاہے ۔اورعشق کی دوسری حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ خواہ اَورکاموں میں مشغول رہے اس کادل اپنے محبوب کی طرف ہی رہتاہے ۔ پس عشق دونوں باتوں کا تقاضاکرتاہے ۔عشق یہ بھی چاہتاہے کہ عاشق اپنے معشوق کے لئے اورکاموں سے فار غ ہوجائے ۔ اورعشق یہ بھی چاہتاہے کہ عاشق اپنے معشوق کا ہروقت ذکرکرتارہے۔پس چونکہ یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں اس لئے اسلام نے بعض جگہ تسبیح و تحمید کی ایک معین مقدار مقررکردی اورپھر یہ بھی کہہ دیاکہ مومن صرف اس تعدا د پر انحصا رنہیں رکھتے بلکہ وہ اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اورہروقت ان کی زبانیں ذکر الٰہی سے تررہتی ہیں ۔اس طرح یہ دونوں چیزیں مل کر ایک مومن کے عشق کو مکمل کرتی ہیں ۔اگراسے یہی خیال آتارہے کہ میں فلاں وقت میں ذکر کروں گا آگے پیچھے نہیں کروں گا تواس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ اپنے اوقات کو کلی طورپر خداتعالیٰ کی یاد میں صرف کرنے کے لئے تیار نہیں ۔وہ اس بات کا منتظر رہتاہے کہ مقررہ وقت آئے تووہ ذکر کرے ۔حالانکہ مومن وہی ہے جو ہرحالت میں خداتعالیٰ کو یاد رکھتاہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کسی بزرگ کا یہ مقولہ سنایاکرتے تھے کہ ’’ دست درکار و دل بایار ‘‘یعنی انسان کے ہاتھ تو کامو میں مشغول ہونے چاہئیں لیکن اس کادل خداتعالیٰ کی طرف متوجہ ہوناچاہیئے ۔اسی طرح ایک بزرک کے متعلق مشہور ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ میں کتنی دفعہ اللہ تعالیٰ کا ذکرکیاکروں ۔توانہوں نے کہا کہ ’’ محبوب کانام لینا اورپھر گن گن کر ‘‘۔ تواصل ذکروہی ہے جو اَن گنت ہو۔مگرایک معین وقت مقرر کرنے میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ انسان اس وقت اپنے محبوب کے لئے اورکاموں سے بالکل الگ ہوجاتاہے ۔اورچونکہ یہ دونوں حالتیں ضروری ہیں اس لئے صحیح طریق یہی ہے کہ معین رنگ میں بھی ذکر الٰہی کیاجائے اورغیر معین طورپربھی اُٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کو یاد کیاجائے ۔اوراس کے فضلوں اوراحسانات کاباربار ذکرکیاجائے۔
تیسری خصوصیت اللہ تعالیٰ نے اس جگہ مومنوں کی یہ بتائی ہے کہ وَانْتَصَرُوْامِنْ بَعْدِ مَاظُلِمُوْا۔وہ خود توکسی پر ظلم نہیں کرتے لیکن اگر کوئی دوسراان پر ظلم کرے تو پھر وہ پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ دلیری سے ظالم کامقابلہ کرتے ہیں ۔چونکہ یہ سورۃ مکی ہے جب کہ ابھی جہاد کا حکم نازل نہیں ہواتھااس لئے درحقیقت اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ اس وقت تومسلمان دشمن کے ظلم و ستم سہہ رہے ہیں لیکن مت سمجھو کہ دشمن کے یہ مظالم رائیگاں جائیں گے ۔بلکہ ایک دن آئے گا کہ ہم انہی مظلوم اور بے کس بندوں کودشمن کے مقابلہ کی اجازت دیدیں گے ۔مگراس وقت بھی یہ اپنے دشمن پرکوئی ظلم نہیں کریں گے بلکہ صرف جائز حد تک اس کے مظالم کا انتقام لیں گے ۔اورپھر آخر میں سب سے بڑی دلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی اللہ تعالیٰ یہ دیتاہے کہ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۔ وہ لوگ جو ظلم کررہے ہیں عنقریب جان لیں گے کہ ان کا انجام کیساہے یعنی اللہ تعالیٰ کے نبیوں اورشیطان کے بندوں میں یہ فرق ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہرامر پر قادرہے اپنے بندوں کی مدد کرتاہے۔ لیکن شیطان ایسانہیں کرسکتا۔پس عنقریب خداتعالیٰ اپنی مدد کو ظاہر کردے گا اوراسلام کے ظالم معترض دیکھ لیں گے کہ ان کاآخری ٹھکانہ کہاں ہے اوراس طرح دنیا کو پتہ لگ جائے گاکہ آیا وہ شیطان کے پیچھے چل رہے تھے یامسلمان شیطان کے پیچھے چل رہے تھے ۔
سورۃ النمل
سورئہ نمل
مکیۃ وھی مع البسملۃ اربع وتسعون ایۃ وسبعۃ رکوعات
یہ سورۃ مکی ہے ۔اوربسم اللہ سمیت اس کی چورانوے(۹۴) آیتیں ہیں اور سات (۷) رکوع ہیں۔
وقت تنزیل :۔اس سورۃ کو ابن عباسؓ اورابن زبیر ؓ نے مکی قراردیاہے اورباقی مسلمان علماء بھی اسی کی تصدیق کرتے ہیں ۔وہیریؔ نے بھی اسے مکی ہی قرار دیاہے ۔
قریبی تعلق :۔اس سورۃ کاسورئہ الشعراء سے قریبی تعلق یہ ہے کہ سورئہ الشعراء کے آخر میں یہ بتایاگیاتھا کہ مومن غالب آئیں گے اورکفار خداتعالیٰ کی قدیم سنت کے مطابق تباہ ہوجائیں گے مگرچونکہ مضمون کفار کی تباہی کا تھاسورۃ کاباقی سارا زور اس قانون الٰہی کی تفصیل میں تھا کہ کفار ہمیشہ تباہ ہوتے چلے آئے ہیں اب کیوں نہ تباہ ہوں گے ۔سورئہ نمل میں اس مضمون کے دوسرے مخفی پہلو کو زیادہ واضح کیاگیاہے کہ مومن باوجود کمزور ہونے کے ترقی پاتے رہے ہیں ۔کفار کی تباہی کاذکر بے شک سورۃ کے آخر میں کیاگیاہے لیکن زیادہ زور اس سورۃ می اس اصول پر ہے کہ جو لوگ خداتعالیٰ کی آواز سن کر عقیدئہ ذہنی اورفکری اور اخلاق اور نظام الٰہی کو قبول کرتے رہے ہیں وہ ہمیشہ عزت پاتے رہے ہیں ۔
اسی سلسلہ میں یہ بھی بتایاگیاہے کہ مسلمانوں کی ترقی عارضی نہ ہوگی بلکہ ایک لمبے عرصہ تک وہ ترقی کرتے چلے جائیں گے اوربنی اسرائیل کی طرح صرف اپنے ہی ملک کے بادشاہ نہیں ہوں گے بلکہ غیر ملکوں کے بھی بادشاہ ہوںگے ۔
اس سورۃ کا سورئہ الشعراء سے دوسراتعلق یہ ہے کہ سورئہ الشعراء کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاتھا کہ لوگ اس نبی کو شاعرکہتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اس پر شیطان نازل ہوتاہے حالانکہ شیطان جھوٹ بولنے والے اورگنہگار پر نازل ہواکرتاہے ۔اورپھرشیطان کاطریق یہ ہے کہ وہ خدائی تعلیمات کو سن کر انہیں لوگوں کے سامنے اپنی طرف سے پیش کرتے ہیں ۔لیکن ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں ۔یعنی آسمانی تعلیموں میں جھوٹ ملادیتے ہیں ۔اس لئے وہ تعلیمات نتیجہ خیز نہیں ہوتیں اورشعراء جو کہ شیطانوں کی پیروی کرتے ہیں ان کے پیچھے صرف گمراہ لو گ چلتے ہیں کیونکہ وہ کسی مقصد کو لے کر کھڑے نہیں ہوتے صرف دلچسپ باتیں کرنے کاانہیں شوق ہوتاہے ۔کیاتُو دیکھتانہیں کہ و ہ ہروادی میں بہکتے پھرتے ہیں اورجوکچھ کہتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے ۔
اب اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اس سورۃ کی آتیں ایک ایسی کتاب کی آیتیں ہیں جو ہمیشہ پڑھی جائے گی اورجوتمام دینی امور کو خوب کھو ل کر اوربادلیل بیان کرتی ہے اورجومومنوں کو سچاراستہ دکھانے والی ہے اورجو اس پر عمل کرتے ہیں ان کو نیک انجام کی خبردیتی ہے۔اس لئے یہ شیطانی تعلیم نہیں ہوسکتی کیونکہ شیطان نہ سچاراستہ دکھاتاہے نہ اس کی تعلیم پ رچل کرکو ئی شخص خداکی رحمت اوربرکت حاصل کرتاہے ۔اسی طرح اس کتاب پر ایمان لانے والے وہ ہیں جو خداکی عبادت کرتے اورزکوٰۃ دیتے ہیں اوربعد میں آنے والے کلام پر یابعد میں آنے والی زندگی پر بھی یقین رکھتے ہیں ۔یعنی اول توشیطان کی نازل کردہ تعلیم میں جھوٹ ہوتاہے ہدایت نہیں ہوتی دوسرے اس تعلیم کے متبع ہدایت سے بہکے ہوئے ہوتے ہیں اورنیکوکار نہیں ہوتے ۔لیکن اس کتاب میں ہدایت ہے اورسچائیاں ہیں اوراس کے ماننے والے لوگ خداتعالیٰ کی بھی عبادت کرتے ہیں اوربندوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرتے ہیں اور ہمیشہ ہی خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والی باتوں کے مانن کے لئے تیار رہتے ہیں ۔سی طرح دوسری زندگی کااحساس بھی ہروقت ان کے دل میں رہتاہے ۔
پس نہ تومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر شیطان اُتر سکتے ہیں جوایسی کتاب لائے ہیں جوہدایت اوربشارت ہے اورنہ آپ کو شاعر کہاجاسکتاہے ۔کیونکہ آپ کے ماننے والے انسانوں کی ہمدردی اورخداتعالیٰ کی محبت کاایک اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہیں ۔اورشاعرنہ خود عمل کرتاہے اورنہ اس کے اتباع عمل کرتے ہیں ۔
خلاصئہ مضامین :۔اس سورۃ کے شروع میں طٰسٓ حروف مقطعات میں سے آئے ہیں ۔چونکہ یہی حروف مقطعات م کی زیادتی کے ساتھ سورئہ الشعراء سے پہلے بھی آئے ہیں اس لئے یہ سورۃ سورئہ الشعراء کے مضمون کے سلسلہ میں ہی ہے ۔
طٰسٓ میں ط لطیف کاقائم مقام ہے اورس سَمِیع کا ۔پھر فرماتاہے ۔تِلْکَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَکِتَابٍ مُّبِیْنٍ۔ اس سورۃ میں جوآیتیں بیان کی گئی ہیں وہ قرآن کاحصہ ہیں اورایک ایسی کتاب کی آیتیں ہیں جو اپنی دلیلیں خود بیان کرتی ہے اوریہ کتاب کامل ہدایت بھی ہے جیسا کہ ھُدًی کی تنوین سے جواس کو نکرہ بناتی ہے ظاہر ہے اورنکرہ عظمت کے لئے آتاکرتاہے ۔۱؎
پھر فرماتاہے کہ یہ کتاب مومنوں کے لئے بشارت کاموجب ہے ۔ایسے مومنوں کے لئے جو اپنی بدنی عبادتوں کو خداتعالیٰ کے حضور میں ہمیشہ پیش کرتے رہتے ہیں اوراکیلے ہی عبادت نہی کرتے بلکہ دوسرے بنی نوع انسانوں کو بھی عبادت کی طر ف راغب کرکے باجماعت نماز اداکرتے ہیں (جیساکہ یقیمون کے لفظ سے ظاہر ہے اوراقامت ہمیشہ نماز باجماعت میں ہی کہی جاتی ہے )اس طرح وہ مومن جن کے لئے قرآن بشارت ہے وہ ہیں جو اپنے اموال میں سے ایک حصہ ہمیشہ خداتعالیٰ کی راہ میں غریبوں اورناداروں پر خرچ کرنے کے لئے دیتے رہتے ہیں اوروہ یہ خرچ لوگوں کالیڈر بننے کے لئے نہیں کرتے بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ان سے راضی ہوجائے اورو ہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ان کو یقین ہوتاہے کہ خداتعالیٰ کی فرمانبرداری کے نتیجہ میں آخر ان کو روحانی اورجسمانی درجات ملیں گے ۔(آیت ۳و۴)
وہ لوگ جو انجام آخر پر خواہ وہ دنیوی ہو یا آخروی ایما ن نہیںلاتے ان کو اپنی سب کرتوتیں خوبصورت نظرآتی ہیں اوروہ بہکتے پھرتے ہیں ۔ ان کو بڑا عذاب ملے گا اوروہ آخر کار ناکام رہیں گے اور نقصان اٹھائیں گے (آیت ۵و۶)
تجھ پر جو یہ قرآن نازل ہواہے یہ بڑی حکمت والے اورعلم والے خداکی طرف سے ہے ۔اس لئے اس میں بڑی برکتیں ہیں اوربڑی حکمتیں ہیں اوربڑاعلم ہے (آیت ۷)
موسیٰ کاواقعہ ہم تجھے بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ اس نے اپنے گھروالوں سے کہا کہ میں نے دور کچھ آگ دیکھی ہے ۔میں وہاں جاکر یاتوکوئی معلومات اس ملک یااس راستہ کی لاتاہوں یاکوئی انگارہ لاتاہوں تاکہ تم آگ سینکو ۔(آیت ۸)
۱؎:کتاب العروس للسبکی شرح مختصر المعانی جزو اول ص ۳۴۹۔
جب موسیٰؑ اس آگ کے پاس آئے توانہیں پکار کرکہا گیا کہ ا س آگ میں جس کا جلوہ نظر آتاہے یعنی خداتعالیٰ کا وہ بڑی برکت والا ہے اوراس آگ کے ارد گرد کاعلاقہ بھی برکت والاہے ۔یعنی جو لو گ ااس کلام کو قبول کریں گے ان کو بھی بڑی برکت ملے گی ۔ وہ رب العالمین خداجس نے اپنا جلوہ اس آگ میں دکھایا ہے بڑا پاک ہے ۔(آیت ۹)
پھر کہا گیاکہ اے موسیٰؑ:بات یہ ہے کہ میں اللہ ہوں اوربڑاغالب او رحکمت والاہوں ۔یعنی جو نظارہ تم نے دیکھا ہے وہ خداکاجلال ہے اورتُو اپنا عصاپھینک دے۔ جب انہوں نے عصاپھینکا تو دیکھا کہ و ہ اس طرح ہلتاتھا جس طرح سانپ ہلتاہے ۔موسیٰؑ ڈرے اور پیٹھ پھر کربھاگے ۔اس پر ان کو الہام ہواکہ اے موسیٰؑ! ڈرنہیں ۔ڈرمیرے دشمنوں کے لئے ہے۔ ڈرمیرے رسولوں کے لئے نہیں ہاں اگر کوئی شخص غلطی سے ظلم کرے اورپھر اس کے بعد نیکی اختیار کرے تومیں معاف کرنیوالا اوررحم کرنے والاہوں (آیت نمبر ۱۰تا۱۲)
اوراپنے ہاتھ کوگریبان میں ڈال ۔جب تو اس کونکالے گاتو دیکھے گاوہ بالکل سفید ہے۔یعنی وہ چمکتاہوانظرآئے گا ۔مگرکسی قسم کاعیب اس میں نہیں ہوگا۔(آیت ۱۳)
یہ نشان جو ہم نے موسیٰؑ کو دیا یہ ان نو نشانوں میں سے ایک تھا جو فرعون اوراس کی قوم کی طرف بھیجے جانے والے تھے ۔کیونکہ وہ لوگ فرمانبرداری سے نکلے ہوئے تھے ۔لیکن ہوایہ کہ جب موسیٰؑ وہ نشان لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس آیا توباوجود اس کے کہ و ہ نشان بڑے واضح تھے اورحقیقت کو دکھانے والے تھے انہوں نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا ۔اورکہا یہ توکھلا کھلا فریب ہے ۔اوربڑی سختی سے ان نشانات کا انکار کیا ۔حالانکہ ان کے دلوں نے ان کو سچاسمجھ لیاتھا۔ان کایہ انکا ر ظلم اورتکبر کی وجہ سے تھا۔پھر دیکھ کہ ایسے فسادی لوگوںکاکیاانجام ہوا۔(آیت ۱۴و۱۵)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کاواقعہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت دائود ؑ اورسلیمانؑ کا ذکر کرتاہے اوران دونوں کاقول یہ بیان فرماتاہے کہ ہمیں بہت سے مومن بندوں پر خداتعالیٰ نے فضیلت بخشی ہے ۔یعنی خلافتِ روحانی اورجسمانی کے ذریعہ۔(آیت ۱۶)
اس کے بعد فرماتاہے کہ حضرت دائودؑ کی وفات پر سلیمانؑ تخت نشین ہوئے اورانہوں نے لوگوں سے کہا کہ مجھے بھی وہ بولی سکھائی گئی ہے جوبلندی کی طرف پرواز کرنے والے لوگوںیعنی اللہ تعالیٰ کے انبیاء کو سکھائی جاتی ہے ۔اورمجھے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے خداتعالیٰ ان کو مہیاکردیتاہے ۔اوریہ بات اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہی حاصل ہوتی ہے ۔(آیت ۱۷)
پھر فرماتاہے ۔ایک دفعہ سلیمانؑ کے سامنے جنوں اورنسانوں اورپرندوں میں سے ان کے لشکر حاضر کئے گئے اورانہیں ترتیب وار الگ الگ کھڑاکیاگیا ۔(یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ اس وقت کسی ملک پر چڑھائی کرنے کی تیاری کررہے تھے ( (آیت ۱۸)
آپ اپنے لشکروں کے ساتھ جارہے تھے کہ راستہ میں آپ نملہ قوم کی وادی میں سے گذرے۔(جو کو غلطی سے مفسرین نے چیونٹیوں کی وادی سمجھ لیاہے)آپ کو اورآپ کے لائو لشکرکودیکھ کر نملہ قوم کی ملکہ نے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے کہا کہ اے نملہ قوم کے لوگو اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو ۔تاکہ یہ خیال کرکے کہ تم سلیمانؑ کے لشکر کامقابلہ کرناچاہتے ہو سلیمانؑ اورا سکالشکر تمہیں پائو ں کے نیچے روند نہ ڈالے ۔حضرت سلیمانؑ نملہ قوم کی ملکہ کے اس اعلان پر ہنس پڑے اوراللہ تعالیٰ کا شکر بجالائے کہ اس نے دوردراز کے ملکوں میں بھی یہ بات پھیلادی ہے کہ سلیمانؑ ظالم نہیں اوروہ ادنیٰ قوموں کے ساتھ بھی انصاف کرتاہے (آیت ۱۹و ۲۰)
اس وقت حضرت سلیمانؑ نے اپنے لشکر کاجائزہ لیا تو ایک سردارِ لشکر جس کانام ھُدھُد تھا غائب پایا۔ایسے نازک موقعہ پر ایک فوجی افسر کے غائب ہونے سے آپ کو شدید تشویش ہوئی اورآپ نے کہا کہ میںیقیناً اسے سخت ترین سزادوں گا یا اسے قتل کردوں گا ۔ اوریاپھر اسے واضح دلیل کے ساتھ بتانا پڑے گاکہ وہ کیوں غائب رہا ۔(آیت ۲۱و۲۲)
تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ وہ سردار واپس آگیا اوراس نے بتایاکہ چونکہ آپ ملک سباء پر حملہ کرنے جارہے تھے ۔میں پہلے سے اس ملک کے حالات دریافت کرنے کے لئے وہاں چلاگیااوراب میں یہ رپورٹ لے کر آیاہوں کہ اس ملک کی حکمران ایک عورت ہے لیکن غضب کی حاکم ہے ۔ہرقسم کے سازوسامان اس کے پاس موجود ہیں اوراس کی بادشاہت بہت بڑی ہے لیکن روحانی لحاظ سے یہ خرابی بھی ہے کہ ملکہ اوراس کی قوم سورج کی پرستش کرتی ہے اورتوحید سے روگردان ہے ۔حضرت سلیمانؑ سمجھ گئے کہ وہ شرارتاً غائب نہیں ہواتھا اورانہوں نے کہا ۔بہت اچھا ہم وہاں جاکے دیکھیں گے کہ تُو سچ بول رہاہے یاجھوٹ ۔مگرپہلے میرایہ خط لے جا اوراسے ملکہ اوراس کے درباریوں کے سامنے رکھیو اورخود مؤدبانہ طورپر پیچھے ہٹ کر کھڑے ہوجائیو۔اوردیکھیئو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں (آیت ۲۳تا۲۹)
جب ہُدہُد نے و ہ خط پیش کیا ۔توملکہ نے اپنے درباریوں سے کہا کہ یہ بڑامعزز مکتوب ہے جوسلیمانؑ کی طرف سے آیاہے اوراس میں لکھا ہے کہ میرے خلاف سرکشتی مت کرواورفرمانبردار ہو کر میرے حضو رحاضرہوجائو۔(آیت ۳۰تا۳۲)
اس کے بعد ملکہ سبانے اپنی قوم کے سرداروں سے کہا کہ اس مشکل مسئلہ کے حل کے لئے مجھے مشورہ دو۔انہوں نے کہا ۔حضورہم توبڑے طاقتور ہیں اورآزمودہ کارجرنیل ہیں ۔مگرفیصلہ بہرحال آپ کے اختیار میں ہے ۔ملکہ سبانے کہا ۔بات دراصل یہ ہے کہ باشاد ہ جب اپنے زبردست لشکروں کے ساتھ کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تواس کو اجاڑ کر رکھ دیاکرتے ہیں اوروہاں کے معزز شہریوں کو ذلیل جانوروں کی طرح بنادیتے ہیں ۔اس لئے میں نے تویہ تجویز سوچی ہے کہ میں حضرت سلیمانؑ کو ایک تحفہ بھیجتی ہوں اوردیکھتی ہوں کہ میرے آدمی کیاجواب لاتے ہیں ۔(آیت ۳۳تا۳۵)
حضرت سلیمانؑ کو جب و ہ تحفہ پیش کیاگیا ۔توانہوں نے کہا خدانے مجھے اس سے بہتر چیزیں دے رکھی ہیں ۔یہ تحفہ جو مجھے رشوت کے طورپر پیش کیاگیاہے مجھے اپنے عزائم سے باز نہیں رکھ سکتا۔اے ہُدہُدان کی طرف واپس لوٹ جااورانہیں بتادے کہ اب میں ایک ایسالشکر لے کر ان پر چڑھائی کروں گا جس کے مقابلہ کی ان میں طاقت نہیں ہوگی ۔
پھر حضرت سلیمان ؑ نے اپنے سردارانِ لشکر سے کہا کہ پیشتر اس کے کہ یہ لوگ میری اطاعت کا دم بھرتے ہوئے میرے پاس آئیں ۔ تم میں سے کون ملکہ کا تخت میرے پاس لائے گا ۔ایک سردار بولاکہ آپ کے چڑھانی کرنے سے بھی پہلے میں وہ تخت لے آئوں گا اوراس قیمتی دولت کے لانے میں کسی قسم کی خیانت مجھ سے سرزد نہیں ہوگی لیکن ایک اورشخص جس کو دینی علم حاصل تھا اس نے کہا کہ یہ توپھر بھی دیر میں لائے گا میں آپ کی آنکھ جھپکنے سے بھی پہلے وہ تخت لے آئوں گا ۔یعنی ایک نیا اوراعلیٰ درجہ کاتخت بنواکر آپ کے دربار میں فوراًحاضرکردوں گا ۔جب حضرت سلیمانؑ نے دیکھا کہ ایک اعلیٰ درجہ کا تخت بن کرآگیاہے تووہ اللہ کاشکر بجالائے ۔ مگرانہوں نے کہا ۔میں چاہتاہوں کہ تم ایساتخت بناکر لائو جسے دیکھ کر ملکہ کو اپنا تخت حقیر نظر آنے لگے ۔میں دیکھناچاہتاہوں کہ کیا اس بات کو دیکھ کروہ اپنے گھمنڈ پر ہی قائم رہتی ہے یا میری برتری اورفوقیت کو تسلیم کرتی ہے ۔چنانچہ ایساہی کیاگیا آخر ملکہ آئی تواس سے پوچھا گیا کہ بتائو تمہاراتخت بھی ایساہی ہے ۔اس پر بجائے پوری طرح تسلیم کرنے کے وہ کہنے لگی کہ یہ ویساہی معلوم ہوتاہے (آیت نمبر ۳۶تا۴۳)
تب حضرت سلیمانؑ نے اس پر شرک کی برائی واضح کی اورعملی رنگ میں اس پر توحید کی حقیقت آشکار کرنے کے لئے ایک محل بنوایا جس میں شیشہ کے ٹکڑے لگائے گئے تھے ۔ان کے نیچے پانی بہہ رہاتھا ۔ملکہ سبااس محل میں داخل ہوئی تواس نے سمجھا کہ سچ مچ پانی بہہ رہاہے اورگھبراکر اس نے اپنے کپڑے اڑس لئے ۔حضرت سلیمان ؑ نے کہا۔بی بی تجھے غلطی لگی ہے ۔یہ پانی نہیں بلکہ شیشہ میں سے پانی نظرآرہاہے ۔اس دلیل سے وہ سمجھ گئی کہ توحید ہی سچی ہے اوروہ شرک چھوڑ کر حضرت سلیمان علیہ السلام پر ایمان لے آئی ۔(آیت ۴۴و۴۵)
حضرت سلیمانؑ کے واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ ثمود کا ذکر فرماتاہے ۔کیونکہ ثمود کی قوم کا بہت ساعلاقہ حضرت سلیمانؑ کے ماتحت آگیاتھا ۔ اوربتاتاہے کہ ان کے نبی نے بھی ان کو توحید کی تعلیم دی مگر وہ لوگ دوگروہوں میں منقسم ہوگئے ۔بعض نے مان لیا اور بعض نے انکا کردیا۔حضرت صالحؑ کے سمجھانے پر انہوں نے کہا کہ اے صالحؑ!ہم تو تجھے سبز قدما سمجھتے ہیں ۔انہوں نے کہا ۔مجھے بھی تمہاری خیر نظر نہیں آتی کیونکہ تم ایک ایسی قوم ہو جوسچے دین کو چھو ڑ بیٹھی ہو۔ثمود کی قوم میں نو بڑے بڑے عمائد تھے جنہوں نے آپس میں مل کر قسمیں کھائیں اورایک دوسرے کو اکسایاکہ رات کے وقت صالحؑ اوراس کے اہل و عیال پر چھاپہ مارواوراسے قتل کردو ۔اورجب کو ئی پوچھے تو صاف انکار کردو اورکہدوکہ ہم نے تو اس کی ہلاکت کا واقعہ دیکھا ہی نہیں ۔مگر آخر اللہ تعالیٰ کی تدبیر ہی غالب آئی ۔چنانچہ دیکھ لو کہ ان کے گھر تمہارے سامنے اجڑے پڑے ہیں ۔اورخالی اورویران ہیں ۔(آیت ۴۶تا۵۴)
اس کے بعد لوطؑ کاواقعہ بیان فرماتاہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو جنسی بے اعتدالیوں سے روکا ۔مگرقوم نے مخالفت کی ۔آخر زلزلہ سے ان کے شہر کو الٹا دیاگیا اوروہ قوم تباہ کردی گئی ۔(آیت ۵۵تا۵۹)
ان انبیاء کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اب بتائوکہ کیا اللہ اچھا ہے جواپنے بندوںکو بچاتارہتاہے یا معبودانِ باطلہ اچھے ہیں جن کے ماننے والے کبھی کامیاب نہیں ہوئے ۔(آیت ۶۰)
پھر فرماتاہے ۔تم اتناتوسوچوکہ زمین و آسمان کاخدا جو بادلوں سے پانی اتار کر قسم قسم کے باغ اُگاتاہے و ہ بہتر ہے یا وہ معبودانِ باطلہ بہتر ہیں جوان باغوں اورپانیوں کے محتاج ہیں ۔اسی طرح غو رکروکہ وہ کون ہے جس نے زمین کو ٹھہرنے کے قابل بنایاہے ۔اوراس کے اند ردریاچلائے ہیں اورپھر اس نے میٹھے اورنمکین پانی میں ایک روک بنادی ہے ۔کیا ایسے مدبّر خداکاکوئی اورشریک پیش کیاجاسکتاہے ۔پھر یہ بھی تودیکھو کہ مصیبت زدہ لوگوں کی دعائوں کو کون قبول کرتاہے اورکون ان کی دعائوں کو قبول کرکے انہیں دنیا کابادشاہ بنادیتاہے ۔کیاایسے خداکاکوئی اَورہمسر ہوسکتاہے ۔مگرافسوس ہے کہ لوگ پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔(آیت ۶۱ تا۶۳)
پھر فرماتاہے کہ خشکیوں اورسمندر کے اندھیروں میں تمہیںکون راستہ دکھاتاہے ۔اسی طرح بادلوں سے پہلے بھیگی ہو ئی ہوائیں کون چلاتاہے ۔کیااللہ تعالیٰ کے سواکوئی اَورمعبود ہے جوایساکررہاہے ۔اسی طرح وہ جو پہلی دفعہ پیداکرتاہے اورپھر پیدائش کے سلسلہ کو جاری رکھتاہے اورجو آسمان اورزمین سے تمہیں رزق دیتاہے کیا ا س قادر مطلق خداکے سوا اَورکوئی بھی معبود ہے ۔زمین و آسمان کے غیب اللہ تعالیٰ کے سوااَورکوئی نہیں جانتا۔مگرتمہارے معبود تو وہ ہیں جواتنابھی نہیں بتاسکتے کہ ان کا مشرکانہ دین دنیا میں کب قائم ہوگا؟ (آیت ۶۴تا۶۷)
فرماتاہے کفار بس اسی الجھن میں پڑے رہتے ہیں کہ جب ہم اورہمارے باپ دادامرکرمٹی ہوجائیں گے توپھر ہم زندہ کس طرح ہوں گے ۔یہ باتیں پہلے بھی کہی جاتی رہی ہیں اوردرحقیقت انہی کی نقل میں اب بھی وہی باتیں دہرائی جارہی ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اگر یہ کہانیاں ہی تھی توپھر پہلے منکرین نے اپنے اپنے زمانہ میں سزائیں کیوںپائیں ۔اوراگر وہ سزاپاتے رہے ہیں تواے محمدؐرسول اللہ تیرے مخالفین بھی ان باتوں پرالٰہی گرفت سے بچ نہیں سکتے ۔ایسی صورت میں تجھے ان کی تباہی پر غم نہیں کھاناچاہیئے ۔کیونکہ وہ بہرحال آنے والی ہے ۔اسی طرح ان کی مخالفانہ تدبیروں سے ہراساں نہیں ہوناچاہیئے ۔کیونکہ ان کی تمام تدبیریں ناکام رہیں گی ۔یہ لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب کب آئے گا؟ فرماتاہے کچھ توجلدی آنے مقدر ہیں اورکچھ دیر میں آئیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑافضل کرنے والاہے وہ ان کے مخفی ارادوں اور ظاہری افعال کوخوب جانتاہے ۔لیکن اپنے فضل کی وجہ سے ان کو ڈھیل دے رہاہے ۔(آیت ۶۸تا۷۵)
فرماتاہے ۔ آسمان اورزمین میں جتنے مخفی امور ہیں وہ سب خداتعالیٰ کے علم میں ہیں۔چنانچہ اس کے ثبوت میں قرآن کریم کو دیکھ لو کہ وہ سچی بات بیان کردیتاہے جبکہ بائیبل اوردوسری الہامی کتب میں مرورِ زمانہ کی وجہ سے کئی قسم کی غلط باتیں پائی جاتی ہیں ۔یہ قرآن مومنوں کے لئے ہدایت اوررحمت کا پیغام ہے اوروہ اس کے ذریعہ صرف بنی اسرائیل کا صداقت سے منحرف ہوناہی ظاہر نہی کرے گا بلکہ و ہ اسرائیلی قوموں کے درمیان فیصلہ بھی کرے گا اورسچوں کو غالب اورجھوٹوں کو مغلوب کردے گا۔(آیت ۷۶تا۷۹)
فرماتاہے ۔تیراکام یہ ہے کہ تُواللہ تعالیٰ پر توکل کر۔بیشک تیراکام لوگوں کو حق پہنچاناہے مگر پھر بھی جو مردہ د ل لو گ ہیں ان کو نہیں منوایاجاسکتا۔اسی طرح بہراجب پیٹھ پھیر لیتاہے ۔تواشارہ دیکھنے سے بھی محروم ہوجاتاہے ۔ اوراس کی ہدایت کا کوئی ذریعہ نہی رہتا۔ یہی حال اس اندھے کا ہوتاہے جوبیناکے پیچھے چلنے کے لئے تیار نہ ہو ۔صرف اسی کو سچائی سمجھائی جاسکتی ہے جو خداتعالیٰ کے نشانوں پر ایمان لاتاہو۔(آیت ۸۰تا۸۲)
فرماتاہے جب ان کی تباہی کاوقت آئے گا تواللہ تعالیٰ زمین میں سے ایک کیڑانکالے گاجو ان کو کاٹے گا ۔اوردنیا پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ سزاان کو اس وجہ سے ملی ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی باتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔(آیت ۸۳)
پھر فرماتاہے ۔تم اس دن کو یاد کرو جبکہ ہم ہر اس قو م میں سے جو ہمارے نشانات کاانکار کررہی ہوگی ایک بڑی جماعت کھڑی کریں گے ۔اورپھر ان جماعتوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کردیاجائیگا ۔یعنی دنیا میں مختلف ایسوسی ایشنز بن جائیں گی ۔اورسب قوموں میں سے ایک ایک گروہ بے دینی کی خاص طور پر تعلیم دینے لگ جائے گا ۔اوریہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزاکافتویٰ جاری نہ ہوجائے ۔تب ان کی زبانیں بند ہوجائیں گی۔(آیت ۸۴تا۸۶)
فرماتاہے ۔کیاانہوں نے اتنابھی نہیں سوچا کہ ہم ان پر رات یعنی نبوت کے بعد کازمانہ اس لئے لائے تھے کہ یہ ترقی کی نئی قابلیتیں اپنے اند ر پیداکرلیں۔ لیکن یہ لوگ تو اَوربھی سست ہوگئے۔ اورانہوں نے دن یعنی نبوت کے زمانہ سے بھی فائدہ نہ اٹھایا۔(آیت ۸۷)
ایک دن آئے گاکہ صور پھونکاجائے گا ۔یعنی تمام قوموںکو ایک دوسرے کے مقابل پر کھڑاکردیاجائے گا اورآسمان اورزمین میں جوکوئی ہیں و ہ سب ڈر جائیں گے مگرباوجود اس کے کہ یہ تباہی عام ہوگی پھر بھی خداتعالیٰ کے حضور دعا کاراستہ کھلا رہے گا ۔(آیت ۸۸)
فرماتاہے ۔تُو پہاڑوں کو دیکھتاہے توسمجھتاہے کہ و ہ کھڑے ہیں ۔حالانکہ و ہ اس طرح چل رہے ہیں جس طرح بادل ۔یعنی زمین چلتی ہے تووہ بھی اس کے ساتھ اسی طرح چلتے ہیں ۔یہ اللہ تعالیٰ کی صنعت ہے جس نے ہرچیز کو نہایت مضبوط بنایاہے اوروہ تمہارے اعمال کو خوب جانتاہے ۔(آیت ۸۹)
جوشخص کوئی نیکی بجالائے گا ۔اسے اپنے عمل سے بہتربدلہ ملے گا ۔لیکن بدی کرنے والے کوآگ میں اوندھے منہ گرادیاجائے گا۔ مگر بدی کی سزابہرحال عمل کے مطابق ہوگی زیادہ نہیں ۔(آیت ۹۰و۹۱)
فرماتا ہے اے محمد ؐ رسول اللہ ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ مجھے خدا نے یہ حکم دیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی عبادت کروں ۔ یعنی اس جلوہ کے پیچھے چلوں جو مکہ میں ابراہیم ؑکے ذریعے ظاہر ہوا تھا اور عملاً فرمانبرداری کا نمونہ بن کر دکھائوں اور قرآن سب کو پڑھ کر سنائوں ۔ میں کسی پرزبردستی نہیں کروں گا بلکہ میرا کام صرف لوگوں کو پیغام حق پہنچانا ہے ۔ آگے ماننا یا نہ ماننا ان کا کام ہے ۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا تعالیٰ خاموش بیٹھا رہے گا ۔ وہ آسمان سے اترے گا اور ایسے نشان دکھائے گا جو تمہارے سامنے خداتعالیٰ کے وجود کو لاکر کھڑا کردیں گے ۔(آیت ۹۲تا ۹۴)
بسم اللہ الرحمن الرحیم ٭
(میں) اللہ (تعالیٰ) کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور) باربار رحم کرنے والاہے(پڑھتا ہوں)
طٰسٓ تلک اٰیٰت القراٰن وکتاب مبین٭
طاہرؔ (اور) سمیع ؔ(یعنی پاک اور دعائوں کا سننے والا خدا اس سور کا تارنے والاہے) اس آیتیں قرآن اور مدقل کتاب کا حصہ ہیں۔
ھدی وبشری للمومنین ٭
(جو ) مومنوں کے لئے ہدایت اور بشارت (کاموجب) ہیں۔
الذین یقیمون الصلوٰۃ ویؤتون الزکوۃ وھم بالاخرۃ ھم یوقنون٭
(ایسے مومن)جونماز باجماعت ادا کرتے ہیں۔ اور زکوۃ ادا کرتے رہتے ہیں۔ اور آخروی زندگی پر (یا بعد میں آنے والی موعود باتوں پر) یقین رکھتے ہیں۔۱؎
۱؎ تفسیر:۔ اس سورۃ سے پہلے بھی حروف مقطعات طٰسٓ آئے ہیں جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں طؔ اللطیف کا قائم مقام ہے اور سؔ سمیع کا۔
پہلی سورۃ اور اس سورۃ میں یہ فرق ہے کہ پہلی سورۃ کے آخر میں میمؔ بھی آتا ہے جو مجید کا قائم مقام تھا ۔ مگراس سورۃ میں اسے اڑا دیا گیا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں خدا تعالیٰ کی مجد اور بزرگی پر زیادہ زور دیا گیا تھا ۔ اور اس سورۃ میں مضمون تو مشترک ہے لیکن خدا تعالیٰ کے مجید ہونے پر اس میں اتنا زور نہیں دیا گیا جتنا پچھلی سورۃ میں دیا گیا تھا اوراس کی ظاہری دلیل یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر زیادہ کیا گیا تھا اور خدا تعالیٰ کی مجد اورا س کی بزرگی زیادہ تر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ظاہر ہوئی ہے اوراس سورۃ میں موسیٰؑ اور دائودؑ اور سلیمانؑ کا ذکر کیا گیا ہے جن کے وجود سے اللہ تعالیٰ کے واقفِ اسرار روحانیہ ہونے کا ثبوت تو ضرور ملتا ہے ۔ اسی طرح اس کے سمیع ہونے کا بھی ثبوت ملتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے مجید ہونے کا ثبوت جتنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کی زندگی سے ملتا ہے اتنا ثبوت حضرت موسیٰؑ حضرت دائودؑ اور حضرت سلیمانؑ یا ان کے ساتھیوں کی زندگی سے نہیں ملتا ۔
تِلْکَ اٰیَاتُ الْقُرْاٰنِ وَکِتَابٍ مُّبِیْنٍ۔ فرماتا ہے اس سورۃ کی آیتیں قرآن کریم کی آیتیں ہیں اور ایک ایسی کتا ب کی آیتیں ہیں جو اپنے مضمون کو کھول کر بیان کرتی ہیں ۔ اور مومنوں کے لئے ہدایت اور بشارت کا موجب ہے ۔ مگر ان مومنوں کے لئے نہیں جو صرف منہ سے اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ان کیلئے جو نماز یں قائم کرتے ہیں اور زکوتیں دیتے ہیں اور آخرت پر ایمان اور یقین رکھتے ہیں ۔
اس آیت میں تِلْکَ اٰیَاتُ الْقُرْاٰن فرماکر قرآن کریم کی ایک ایسی فضیلت کا ذکر کیاگیاہے جس سے با قی الہامی کتب کلیۃً محروم ہیں ۔دنیا میںکوئی ایسی الہامی کتاب نہیں جواس کثرت کے ساتھ پڑھی جاتی ہو جس کثرت کے ساتھ دنیا میں قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے ۔اوریہی وہ فضیلت ہے جو تِلْکَ اٰیَاتُ الْقُرْاٰن میں بیان کی گئی ہے ۔اوربتایاگیاہے کہ یہ قرآن کی آیات ہیں یعنی اس کتاب کی آیات ہیں جس کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قرآن ہے یعنی وہ تلاوت میں اس قدرآتاہے کہ دنیا کی کوئی اَور کتاب اس کامقابلہ نہیں کرسکتی ۔
درحقیقت جو کتاب دنیا کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والی ہو ضروری تھا کہ وہ قرآن ہویعنی کثرت کے ساتھ پڑھی جانے والی ہو ۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ تورات او رانجیل کے تراجم کے باوجود و ہ اس قدر نہیں پڑھی جاتیں جس قدر کہ قرآن پڑھاجاتاہے حالانکہ وہ عربی زبان میں ہے اورلوگ بھی اسے عربی زبان میں ہی پڑھتے ہیں ۔مخالفین کایہ کہناکہ چونکہ ایسے ذرائع اختیار کئے گئے ہیں جن کی وجہ سے لوگ اسے پڑھتے ہیں جیساکہ نمازوں وغیرہ میں پڑھنا اوراس وجہ سے اس کا پڑھا جاناایک طبعی امر ہے ۔
اس کاجواب یہ ہے کہ یہ پھر بھی طبعی امر نہیں کیونکہ اول جس کتاب کو نماز میں پڑھنے کاحکم ہو ضروری نہیں کہ لوگ کثرت سے اس پر ایمان لے آئیں ۔آخر کثرت نسبت سے ہوتی ہے ۔دوسری کتب کے مقابل میں کثرت تلاوت اس کی تبھی ہوسکتی تھی جبکہ اس کے ماننے والوں کی تعداد بھی بہت ہو ۔ورنہ اس کی کثرت سے تلاوت کس طرح ہوسکتی تھی ۔اورلوگوں سے منوالینا توطبعی امر نہیں ہے ۔ سکھ لوگ گرنتھ پڑھتے ہیں مگر اس کے باوجو د وہ قرآن نہیں ۔ چونکہ ماننے والے نہایت محدود ہیں۔اورکثر ت سے پڑھنے والوں کاوجود یقیناً پیشگوئی کے ماتحت آسکتاہے ۔
دوم۔اگر ماننے والے بھی کثرت سے ہوں تب بھی ضروری نہیں کہ لوگ حکم کوماننے والے ہوں۔مگرہم دیکھتے ہیں کہ باوجود غیر زبان ہونے کے لوگ کثرت سے اس کی تلاوت کرتے ہیں ۔جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ طبعی امر نہیں ہے۔
سوم۔پھر سوال یہ ہے کہ جبکہ الہامی کتب خداتعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں اورخداتعالیٰ عالم الغیب ہے۔ یہ تدابیر جن سے قرآن پڑھاجاتاہے اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہوسکتی تھیں۔پھر کیوں نہ ا س نے دوسری کتب کے متعلق بھی وہ تدابیر اختیار کرلیں ۔یا اب کیوں وہ لوگ یہ تدابیر اختیار نہیں کرلیتے ۔صاف معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتاتھا کہ یہی ایک کتاب قرآن بنے ۔اورجب کتب کے نازل کرنے والے خدانے صرف ایک کتاب کو ہی قرآن بننے کے لئے چنا ہے تویقیناً وہ افضل ہے ۔
چہارم۔یہ کہاجاتاہے کہ قرآن کریم کی عبارت اس قسم کی ہے کہ وہ بہ نسبت دوسری کتب کے جلد یاد ہوسکتی ہے ۔اس لئے لو گ اسے زیادہ حفظ کرتے ہیں ۔مگر سوال یہ ہے کہ کیوں نہ دوسری کتب نے بھی ا یسا ہی کرلیا اورپھر کیا اس قسم کی عبارت بنانا کوئی آسان بات ہے ۔
غرض قرآن کریم کا قرآن ہونا ایک بہت بڑی فضیلت ہے جس میں دوسری کتب شامل نہیں ۔مجھے خیال آیا کرتاہے کہ بعض آریہ مباحثوں میں قرآن کریم کی آیات پڑھ کر فخر کیا کرتے ہیں کہ دیکھو ہم تمہاری کتاب پڑھ لیتے ہیں مگر تم ہماری کتاب نہیں پڑھ سکتے ۔ حالانکہ حقیقت میں ان کا یہ دعویٰ قرآن کریم کی تائید ہوتاہے۔کیونکہ اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ قرآن اپنے دعویٰ کے مطابق قرآن ہے اوردشمن بھی اسی کی زبان میں اسے سیکھ سکتے ہیں اورویدوںکو خود اس کے ماننے والے بھی نہیں پڑھ سکتے ۔پس جونام اس کا غیر معمولی حالات میں قرآن رکھاگیاتھا وہ سچا ثابت ہوا۔اوردشمن نے خود اپنے فعل سے اس کی صداقت پر مہر لگادی ۔پس یہ ہم پر ہنسی نہیں بلکہ ہماری الہامی کتاب کی تصدیق ہے ۔
یہ ایک عجیب امر ہکے کہ سورئہ حجر میں تو الٓرٰ تِلکَ اٰیَاتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ فرمایاہے اور اس سورۃ میں طٰسٓ ۔تِلکَ اٰیَاتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنفرمایاہے۔ گویا ایک جگہ کتاب کو پہلے رکھاہے اورقرآن کوبعدمیں اورمبین کی صفت قرآن کے ساتھ لگائی ہے اوردوسری جگہ قرآن کو پہلے رکھا ہے اور کتاب کو بعد میں اورمبین کی صفت کتاب کے ساتھ لگائی ہے ۔یہ فرق کیوں ہے ؟
اس کے متعلق یہ امر یادرکھنا چاہیئے کہ سورۃ حجر کی اس آیت کے بعد کہ تِلکَ اٰیَاتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنکفار کا ذکر ہے اورفرمایاہے رُبَمَایَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَوْ کَانُوْامُسْلِمِیْنَ اور سورۃ نمل کی آیت کے بعد مومنوں کا ذکر ہے اورفرمایا ہے کہ ھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْن َ اوریہ بات واضح ہے کہ کفار قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرتے ۔انکاعلم زیادہ تر مسلمانوں سے سن کر ہوتاہے اورسننے پر لفظ قرآن دلالت کرتاہے ۔پس ان کے لئے قرآن مبین ہوتاہے ۔اورمومن اپنے مولیٰ کے کلام کو پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں اوران کا پڑھنا ان کے سننے سے زیادہ ہوتاہے ۔مثلاً دن میں اگر وہ ایک پارہ کی تلاوت کرتے ہیں توشاید ایک ربع سنتے ہیں ۔پس ان کا علم زیادہ ترصفت کتاب سے آتاہے ۔اس وجہ سے ان کے لئے صفت کتاب زیادہ مبین ہوتی ہے ۔پس اول الذکر مقام پر قرآن کے ساتھ مبین کو لگایا اورثانی الذکر مقام پر کتاب کے ساتھ ۔اوریہ جوآگے پیچھے ان لفظوںکو کیاگیاہے اس میں یہ حکمت کہے کہ کافر کاپہلا تعلق قرآن سے ہوتاہے ۔یعنی پہلے وہ الفاظ سنتاہے ۔پھر اس کا د ل صاف ہوتو وہ اسے اپنے اوپر واجب کرلیتاہے ۔اورمومن اسے پہلے واجب سمجھے ہوئے ہوتاہے پھر اس کے بعد وہ اس کی قرأت کی طرف توجہ کرتاہے ۔پس جس چیز کو جس سے زیاد ہ قرب تھا اس کے قریب اس لفظ کو رکھ دیاگیاہے ۔
پھر میرے نزدیک سورئہ حجر میں کتاب کالفظ پہلے اور قرآن کالفظ بعد میں اورسورئہ نمل میں قرآن کا لفظ پہلے اورکتاب کا لفظ بعد میں اس لئے بھی رکھاگیاہے کہ سورئہ حجر میں کتاب کی صفت سے زیادہ اس کے قرآن ہونے کی صفت پر زور دیاگیاہے ۔اورچونکہ کسی چیز کادرجہ اورمقام بیان کرتے وقت چھو ٹی چیز کو پہلے بیان کیاجاتاہے اوربڑی کو بعد میں ۔اس لئے سورئہ حجر میں کتاب کو پہلے اورقرآن کو بعد میں بیان کیا گیاہے ۔لیکن اس سورۃ میں چونکہ قرآن کریم کی زبانی تلاوت سے زیادہ اس کی تحریر کے اثر کونمایاں کرناتھا ۔اس لئے اس میں قرآن کالفظ پہلے رکھاگیا اورکتاب کابعد میں ۔گویا قرآن اورکتاب یہ دونام نہیں بلکہ دوصفات ہیں جوقرآن کریم کی بیان کی گیء ہیں اوربتایاگیاہے کہ یہ کتاب بھی ہے اورقرآن بھی ۔کتابٌ میں ا سکے تحریر میں آنے کی طرف اشارہ کیاگیاہے اورقراٰن میں اس کے بکثرت پڑھے جانے کی خبر دی گئی ہے ۔اوریہ دونوں صفات یکجائی طورپر قرآن کریم میں ہی پائی جاتی ہیں۔یعنی یہ کتاب تحریر میں بھی موجود ہے اوراس کثر ت سے اس کی تلاو ت بھی کی جاتی ہے کہ دنیا میں او رکوئی کتاب نہیں جس کی اس کثرت سے تلاوت کی جاتی ہو۔بیشک تورات اورانجیل بھی پڑھی جاتی ہیں مگر اول تووہ اس کثرت کے ساتھ نہیں پڑھی جاتیں جس کثرت کے ساتھ قرآن کریم پڑھاجاتاہے ۔پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایسے عشاق عطافرمائے ہیں جو اس کے ایک ایک لفظ کو حفظ کرتے اوررات دن خود بھی پڑھتے اور دوسروں کو بھی سناستے رہتے ہیں ۔لیکن تورات او رانجیل کادنیا میں کوئی حافظ نہیں ۔ویدوں کا ایک ایک لفظ یاد رکھنے والا دنیا میں کوئی فرد نہیں ۔یہی حال ژند اوراوستاؔ کاہے ۔صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس کتابی صورت میں بھی پڑھاجاتاہے اورحفظ بھی کیا جاتاہے ۔اورپھر نمازوں میں بھی پڑھاجاتاہے ۔پس چونکہ اس سورۃ میں قرآن کریم کی زبانی تلاوت سے زیادہ اس کی تحریر کے اثر کو زیادہ نمایاں کرناتھا۔اس لئے اس سورۃ میں قرآن کالفظ پہلے اور کتاب کالفظ بعد میں رکھاگیا
پھرایک اَور حکمت بھی ان الفاظ کے آگے پیچھے کرنے میں ہے ۔اوروہ یہ کہ سورئہ حجرمیں ان انبیا ء کاذکر تھا جن میں کتابت کا رواج کم تھا اورعلوم کو زبانی یاد رکھاجاتاتھا ۔جیسے حضرت آدمؑ۔حضرت ابراہیمؑ۔حضرت لوطؑ ۔حضرت شعیبؑ اورحضرت صالحؑ وغیرہ ۔ان سب کے زمانوں میںتحریر کارواج کم تھا ۔اورچونکہ سورئہ حجر میں انہی انبیاء کی قوموں سے خطاب کیاگیاہے جن میں تحریر کارواج کم تھا اورجنہوں نے حفظ کے ذریعہ سے قرآنی علوم سے فائدہ اٹھاناتھا ۔ اس لئے اُس سورۃ میں قرآن کے ساتھ مبین کا لفظ رکھا اوربتایاکہ ان اقوام میں اس کلام کی صفت قرآن لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچائے گی ۔لیکن کتاب کی صفت بھی ساتھ ہی بیان کردی تاکہ قرآن کریم کی مکمل حفاظت کااظہا رہو ۔لیکن اس سورۃ میں کتاب کے ساتھ مبین کالفظ لگایاگیاہے ۔کیونکہ اس سورۃ میں حضرت موسیٰؑ اورحضرت دائودؑ او رحضرت سلیمان علیہم السلام کے واقعات پر زوردیاگیاہے جو بنی اسرائیل میں سے تھے او رجن میں کتابت کا رواج زیاد ہ اوربانی یاد رکھنے کارواج کم تھا ۔ان انبیاء کی اقوام نے چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے کلام کی صفتِ کتاب سے بہ نسبت صفت قرآن کے زیادہ فائدہ اٹھاناتھا اس لئے اس کی مناسبت سے اس جگہ قرآن کے لفظ پر کم اورکتاب پر زیادہ زوردیا۔ مگر دونوں صفات کااکٹھا ذکرکرکے اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی کہ قرآن کریم حفظ بھی کیاجائے گا ۔اورلکھا بھی جائے گا ۔ لیکن وہ قومیں جو تحریر سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی ہیں وہ اسے کتاب سے پڑھ کرزیادہ فائدہ اٹھائیں گی اوراس سورۃ میں وہی قومیں مخاطب کی گئی ہیں ۔گویاوہ قومیں جو حافظہ سے زیادہ کام لیتی ہیں ان کے لئے تویہ قرآن مبین ہوگا ۔اورجوقومیں تحریر سے زیادہ فائدہ اٹھاتی ہیں ان کے لئے یہ کتاب مبین ہوگا۔
قرآن کریم پر نظر ڈالنے سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس میں قرآن مبین کالفظ صرف دودفعہ اورکتاب مبین کالفظ بارہ دفعہ استعمال ہواہے ۔جس میں اس امر کی طرف اشارہ کیاگیا ہے کہ قرآن کریم کاکتاب ہونے کے لحاظ سے حلقہ زیادہ وسیع ہوگااور اکثر لوگ اس کے کتاب ہونے سے ہی فائدہ اٹھائیں گے گوایک طبقہ ایسابی ہوگاجو حفظ کے ذریعہ سے اس کی برکات سے بہرہ اندوز ہوگا ۔اوراس طرح مسلمانوں کوتوجہ دلائی گئی ہے کہ وہ تعلیم کارواج زیادہ کریں تاکہ مسلمان قرآنی برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہوسکیں۔
پھر تِلکَ اٰیَاتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْن میں قرآن کریم کی دوسری فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک کتاب ہے یعنی وہ لکھی ہوئی اورمحفوظ ہے جبکہ باقی الہامی کتب اب صرف نام کی کتاب رہ گئی ہیں حقیقتاً وہ اب کتاب نہی رہیں اوران کے الفاظ اوران کی عبارتیں ہی بتارہی ہیں کہ ان کی حقیقت بدل گئی ہے ۔نیز کتاب وجوب پر دلالت کرتی ہے ۔اورصرف قرآن کریم ہی ا ب ایک ایسی کتاسب ہے جس پر عمل کیاجاتاہے ۔چنانچہ آج بھی اس کے ہرحکم پر لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ عمل کرتے ہیں ۔مگر تورات،انجیل ،وید اورژند پر بہت کم عمل ہوتاہے ۔پس قرآن کریم ہی ایک کتاب ہے کیابلحاظ اس کے کہ وہ ساتھ کے ساتھ لکھی جاتی رہی اوراب تک بغیر کسی زیر اورابر کے فرق کے وہ وہی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی اورکیا بلحاظ اس کے کہ یہی وہ کتاب ہے جس پر دنیا میں عمل کیاجاتاہے باقی مذاہب والے بیشک اپنی الہامی کتب کو شائع کرتے اوران کے متعلق اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ۔بلکہ ان کی تعلیموں سے اختلاف رکھنے والوں کو بُرابھلابھی کہتے ہیں مگر جب عمل کاسوال آتاہے تووہ ان کتابوںو کو بالائے طاق رکھنے پر مجبورہوجاتے ہیں اوریہ دونوں حقائق ظاہر وباہرہیں۔
نولڈ کے جرمن کا مشہور مستشرق لکھتاہے کہ
’’ ممکن ہے تحریر کی کوئی معمولی غلطیاں ہوں توہوں ۔لیکن جوقرآن عثمانؓ نے دنیا کے سامنے پیش کیاتھااس کامضمون وہی ہے جومحمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے پیش کیاتھا۔گواس کی ترتیب عجیب ہے ۔یورپین علماء کی یہ کوششیں کہ وہ ثابت کریں کہ قرآن میں بعد کے زمانہ میں بھی کوئی تبدیلی ہوئی ہے بالکل ناکام ثابت ہوئی ہیں ۔‘‘
(انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا زیر لفظ قرآن)
اسی طرح سرولیم مو راپنی کتاب ’’ لائف آف محمد ‘‘ میں لکھتاہے کہ
’’اس زمانہ میں جو قرآن موجود ہے اس کے متعلق ہم ویسے ہی یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اصلی صورت میں محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)کابنایاہواکلام ہے جس یقین سے کہ مسلمان کہتے ہیں کہ وہ خداکا غیر مبدل کلام ہے ۔‘‘
اس کے مقابل پر تورات اوراناجیل کے متعلق خود بڑے بڑے پادری تسلیم کرتے ہیں کہ وہ محرف و مبدل ہوچکی ہیں۔پس دنیائے مذاہب کی تمام الہامی کتب میں سے صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جسے صحیح معنوں می کتاب کہاجاسکتاہے اورجس کاایک ایک لفظ اورایک ایک حرف ا سی شکل میں محفوظ ہے جس شکل میں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔
پھر عمل کو لو ۔توعیسائی کہنے کوتوکہتے ہیں کہ مسیحؑ نے یہ کتنی اچھی تعلیم دی ہے کہ
’’ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جوتیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرابھی اس کی طرف پھیر دے ۔‘‘
(متی باب ۵آیت ۳۹)
مگرآج اس تعلیم پر کہیں بھی عمل نہیں ہورہا ۔اگرعمل ہورہاہے توصرف قرآنی تعلیم پر جس نے کہا ہے کہ تم مجرم کوپکڑواور اسے سزادو۔ لیکن اگر تمہیں دکھائی دے کہ سزاسے وہ اَوربھی بگڑ جائے گا اواگراسے معاف کردیاجائے تواس کے دل میں ندامت پیداہوگی اوروہ اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرے گا توتمہارافرض ہے کہ تم اسے معاف کردو ۔کیونکہ تمہاراکام دوسروں کی اصلاح کرناہے ۔ناواجب سزایاناواجب عفوسے کام لینا تمہارے لئے جائز نہیں ۔غرض عمل کے لحاظ سے بھی صرف قرآن کریم ہی کتاب کہلانے کی مستحق ہے جبکہ باقی کتابیں عمل کے میدان میں بالکل بیکار ثابت ہوچکی ہیں ۔پھر قرآن کریم اس لحاظ سے بھی کتاب ہے کہ اس پر عمل کرکے انسان اللہ تعالیٰ کا مقرب بن سکتاہے۔
کتاب کے معنوں پر بحث کرتے ہوئے ماہرین لغت نے لکھا ہے کہ الکتابُ ما یُکْتَبُ فیہ سُمِّیَ بہٖ لجمعہٖ ابوابہٗ وَ فُصُوْلَہٗ وَمَسَائِلَہٗ یعنی کتاب اس چیز کوکہاجاتاہے جس میں کچھ لکھا گیاہو اوراسے کتاب اسے لئے کہاجاتاہے کہ اس میں مختلف فصلوں اورابواب او رمسائل کو جمع کردیاجاتاہے ۔اسی طرح کتاب کے معنے خط کے بھی ہیں اورکتاب کے معنے فرض کے بھی ہیں ۔حکم کے بھی ہیں اورقضاو قدر کے بھی ہیں ۔اسی طرح کَتَبَ السَّقَاء کے معنے ہوتے ہیں خَرَزَۃٗ بِسِیْرِیْن مشکیزہ کو چمڑے کے تسمہ کے ساتھ سی دیا اورکَتَبَ النَّاقَۃَ کے معنے ہوتے ہیں اونٹنی کو دوسرے بچے کے ساتھ عادی بنانے کی کوشش کی ۔اوراس کے نتھنوںکو سی دیا تاکہ وہ بُو یعنی بھُس بھری کھال کی بُو نہ سونگھے (اقرب)
ان معانی سے معلوم ہوسکتاہے کہ کتاب ا صل میں جمع کرنے کے معنی رکھتی ہے ۔کتاب کو بھی کتاب اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں مختلف مضامین جمع ہوتے ہیں ۔اورخط کو بھی اس لئے کتاب کہتے ہیں کہ وہ دودوستوں کو جمع کردیتاہے ۔اورفرض اورحکم کو بھی اسی لئے کتاب کہتے ہیں کہ فرض اورحکم کوپوراکرکے انسان اپنے مطلوب سے مل جاتاہے ۔اورقضاوقدر کو بھی اسی لئے کتاب کہتے ہیں کہ انسان اس سے کہیں بھاگ نہیں سکتا اوروہ اسے پاکررہتاہے۔
اسی طرح خداتعالیٰ کی وحی کوبھی اسی لئے کتاب کہتے کہ وہ اللہ تعالیٰ اوربندے کو جمع کرنے والی اوران کے درمیان ایک واسطہ ہوتی ہے اوران کے درمیان ایک تقریب پیداکردیتی ہے ۔پس جو کتاب بندہ اورخداتعالیٰ کا تعلق پیداکردیتی ہے وہ توفی الواقعہ کتاب کہلانے کی مستحق ہے ۔لیکن جو کتاب انسان کا خداتعالیٰ سے تعلق پیدانہیں کرتی وہ حقیقی معنوں می کتاب نہیں کہلا سکتی ۔اوریہ خصوصیت صرف قرآن کریم کو یہ حاصل ہے کہ وہ خدااور بندے کے درمیان اتصال پیداکردیتاہے اوراس پر عمل کرنے سے انسان خداتعالیٰ کامقرب ہوجاتاہے ۔قرآن کریم نے اس خصوصیت پر اتنا زوردیاہے کہ وہ فرماتاہے ہم نے انسان کی فطرت میں ہی تعلق باللہ کا مادہ رکھ دیا ہے ۔چنانچہ وہ فرماتاہے ۔خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔اس نے انسان کے اندر تعلق باللہ کامادہ رکھاہے ۔ بیشک اس آیت کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ اس نے انسان کو ایسی حالت سے پیداکیاہے جبکہ وہ رحم سے چمٹاہواتھا ۔لیکن اس آیت کے ایک تحت السطح معنے بھی ہیں اوروہ یہ ہیں کہ عربی محاورہ میں خلِقَ مِنْ شَیْئٍ کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اس کی فطرت میں یہ چیز رکھی گئی ہے مثلاً وَبَدَاَ خَلْقَ الاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے انسان کو مٹی سے پیداکیا ہے ۔لیکن جب خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ آجائے تواس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ ہم نے انسان کو جلدی سے پیداکیاہے ۔کیونکہ جلدی کو ئی مادہ نہیں کہ اسے گھولاا ور انسان پیداکردیا۔بلکہ ا سکے یہ معنے ہوں گے کہ انسان کی فطرت میںعجلت رکھی گئی ہے ۔پس جہاں علق کے ایک معنے یہ ہیں کہ ہم نے انسان کو اس حالت سے پیداکیا ہے کہ وہ رحم سے چمٹاہواتھا وہاں اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ ہم نے انسان کی فطرت میں محبت اورملاقہ کا مادہ رکھا ہے اوراس کی فطرت میں یہ بات مرکوز کردی گئی ہے کہ وہ کسی کا ہورہے ۔حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پنجابی کاایک مصرع سنایاکرتے تھے ۔جس کامفہوم یہ تھا کہ یاتوتُوکسی کاہوجایا کوئی تیراہوجائے ۔پس خَلَقَ الاِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ ہم نے انسانی فطرت میں محبت اور علاقہ کا مادہ رکھا ہے ۔یعنی ہم نے اسے ایسی حالت پر پیداکیا ہے کہ و ہ سوائے اس کے چین پاہی نہیں سکتاکہ وہ کسی کاہورہے ۔بیشک جب تک اسے اصل چیز نہیں ملتی اس وقت تک وہ کبھی بیوی کا ہورہتاہے کبھی بہن بھائی کا ہورہتاہے ۔کبھی ماں باپ کا ہورہتاہے۔کبھی دوستوں کا ہورہتاہے اوراس طرح وہ درمیان میں بھولتاپھرتاہے ۔مگرجب خداتعالیٰ کے ملنے کاراستہ اس پر کھل جاتاہے توپھر وہ خداتعالیٰ کا ہی ہوجاتاہے ۔ حدیثوں میں آتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بد ر کے موقعہ پر دیکھا کہ ایک عورت کا بچہ گم ہوگیاہے اوروہ میدان جنگ میں اپنے بچے کو تلاش کرنے کے لئے ماری ماری پھررہی ہے ۔اسے جہاںکو ئی بچہ ملتا اسے پیار کرتی اورگلے لگاتی ،۔لیکن جب وہ دیکھتی کہ و ہ اس کا اپنا بچہ نہیں تواسے چھوڑ دیتی اورآگے چلی جاتی یہاں تک کہ اسے اپنا بچہ مل گیا ۔ اس نے اسے پیار کیااورگلے لگایا ۔اورایک جگہ آرام سے بیٹھ گئی ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ نظارہ دیکھ رہے تھے ۔آپؐ نے صحابہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا۔تم نے اس عورت کو دیکھا ۔جس طرح یہ اپنے بچہ کے لئے بیتاب رہی اورجب اسے اپنا بچہ مل گیا توسکون اوراطمینان کے ساتھ بیٹھ گئی ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنے بھولے بھٹکے بندہ کے لئے ہروقت بے تاب رہتاہے ۔لیکن جب ا س کابند ہ صحیح رنگ میں توبہ کرکے اسے مل جاتاہے تووہ ایساہی سکون محسوس کرتاہے جس طرح ا س ماں نے محسوس کیا ہے ۔پس قرآن کریم دعویٰ کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرانسان کے اندر تعلق اورمحبت پیداکرنے کامادہ رکھ دیاہے اورپھر وہ اس کے حصول کے ذرائع پربھی روشنی ڈالتاہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ چیز جو سچے مذہب کودوسرے مذاہب یاعقائد پرفوقیت بخشتی ہے وہ تعلق باللہ ہی ہے ۔ایک انسان سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر محنتی ہوسکتاہے ۔وہ سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر اچھا تاجر بن سکتاہے وہ سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر اچھا صنّاع بن سکتاہے اوروہ سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر صدقہ و خیراب بھی کرسکتاہے ۔مگردنیا کاکوئی انسان سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر خدارسیدہ نہی ہوسکتا۔یہی وہ چیز ہے جو سچے مذہب پر چلنے والے اورنہ چلنے والے میں مابہ الامتیاز ہے اورجس سے معلوم ہوجاتاہے کہ کوئی شخص سچے مذہب پر چلتاہے یا نہیں ۔یہ ظاہر ہے کہ خدارسید ہ وہی ہوسکتاہے جو اس راستے پر چلتاہے جو خداتک پہنچتاہے ۔جو شخص خداتک جانیوالے راستہ پر نہیں چلتا وہ خداتک کس طرح پہنچ سکے گا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خداکوئی مادے چیز نہیں اورنہ ہی اس کا کوئی خاص مکان ہے مگرساری روحانی اورمعنوی چیزوں کے لئے رستے ہوتے ہیں ۔مثال کے طورپرپڑھنا یا علم حاصل کرنامادی چیز نہیں ۔زبان جاننا مادی چیز نہیں۔اسی طرح جغرافیہ تاریخ اورحساب کاعلم حاصل کرنا مادی نہیں مگران سب کے حصول کے لئے کچھ راستے مقررہوتے ہیں جب تک زبان دانی کے لئے زبان نہ سیکھی جائے ۔جب تک علم حساب کے لئے حساب کی کتابیں نہ پڑھی جائیں جب تک جغرافیہ کے علم کے لئے جغرافیہ کی کتابیں نہ پڑھی جائیں اورجب تک تاریخ دانی کے لئے تاریخ کی کتابیں نہ پڑھی جائیں تب تک انسان زبان تک حساب تک ،جغرافیہ تک اورتاریخ تک نہیں پہنچ سکتا ۔اسی طرح گوخداکوئی مادی چیز نہیں مگراس تک پہنچنے کے لئے ایک راستہ مقررہے ۔چنانچہ اسلام اس بارہ می اعلان کرتے ہوئے فرماتاہے ۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ یعنی اے محمد ؐ رسول اللہ!توتمام بنی نوع انسان کو یہ بشارت دیدے کہ اگرتم اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کرناچاہتے ہو تومیری اتباع کرو ۔اس کانتیجہ یہ ہوگاکہ تمہاراخداتم سے محبت کرنے لگ جائے گا ۔اورتم اس کے محبوب اورپیار ے بن جائو گے ۔یہ کتنی بڑی بشارت ہے جودنیا کو دی گئی ہے اورکتنا امید افزاپیغام ہے جومردہ قلوب میں بھی حیاتِ نو پیداکردیتاہے ۔آج ساری دنیامیں کوئی شخص ایسانہیں جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اس نے تورات یا انجیل یاوید یاژند اوراوستاپرعمل کرکے خداتعالیٰ کاقرب حاصل کرلیا ہے اورخدااس سے ہمکلام ہوتا اوراس پر اپنے غیب کے اسراء ظاہرکرتاہے ۔لیکن مسلمانوں میں ہر زمانہ میں ایسے پاکباز لوگ گذرے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا اور اس کے انوار اوربرکات سے حصہ لیا ۔بلکہ و ہ دائمی طور پر مسلمانوں سے کہ وعدہ کرتاہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْ ارَبُّنَااللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْاتَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلَٓائِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْابِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔نَحْنُ اَوْلِیَآؤُکُمْ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِیْ الْاٰخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ( حٰم السجدہ ع۴)یعنی وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارارب ہے اورپھر وہ استقلال کے ساتھ اس عقیدہ پر قائم ہوگئے وہ اللہ تعالیٰ کے کلام اورا س کے الہام سے نوازے جایئں گے اورخداتعالیٰ کے فرشتے ان پر یہ کہتے ہوئے اتریں گے کہ ڈرونہیں اورنہ کسی پچھلی کوتاہی کے بدنتائج کا خوف کرو۔بلکہ اس جنت کے ملنے سے خوش ہوجائو جس کا تم سے وعدہ کیاگیاتھا ۔ہم اس دنیا میں بھی تمہارے دوست ہیں اورآخرت میں بھی تمہارے دوست رہیں گے ۔اوراس جنت میں جو تمہاراجی چاہے گا وہ تم کو ملے گا اورجو کچھ تم مانگو گے وہ بھی تم کو دیاجائے گا ۔اس سے ظاہر ہے کہ اسلام ہر مومن کے لئے قرب الٰہی کے دروازہ کو کھلا تسلیم کرتاہے اوروہ بنی نوع انسان کو یقین دلاتاہے کہ اگر وہ سچے دل سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریںگے تو خداتعالیٰ انہیں یقیناًاپنا محبوب بنالے گا ۔اورانہیں اپنے کلام اور الہام سے نوازے گااور مشکلات میں ان کی مدد کرے گا اورانہیں غیر معمولی کامیابیوں اوربرکتوں سے حصہ بخشے گا مگر دنیا کی اَورکوئی الہامی کتاب ایسی نہیں جو اپنے متبعین کو ان برکات کا کروڑواں حصہ بھی دے سکتی ہو ۔پس صحیح معنوں میں صرف قرآن کریم ہی کتاب کہلانے کامستحق ہے ۔جبکہ دوسری الہامی کتب نام کے لحاظ سے توکتب کہلاتی ہیں ۔مگر حقیقت کے لحاظ سے وہ کتاب نہیں بلکہ وہ خدااور بندوں کا باہمی تعلق پیداکرنے سے قاصر ہیں۔
پھرقرآن کریم صرف کتاب ہی نہیں بلکہ وہ کتاب مبین بھی ہے۔یعنی وہ نہ صرف انسان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیداکردیتاہے بلکہ تقرب الی اللہ کے لئے جس قدر امو ر کی ضرورت ہے ان سب کو اس نے پوری تفصیل سے بیان کردیاہے گویا احکام یا اخلاق فاضلہ یا اعتقادات صحیحہ سے تعلق رکھنے والی کوئی بات ایسی نہیں جو قرآن کریم نے بیان نہ کی ہو ۔
اصل بات یہ ہے کہ جو چیز درون پردہ ہو ۔جب تک وہ آپ ہمیں آواز نہ دے اورآپ ہماری راہنمائی نہ کرے ہمیں باہر سے اس کے متعلق کچھ علم نہیں ہوسکتا۔فرض کرو ۔ ایک مکان کادروازہ اند رسے بند ہے اورہمیں معلوم نہیں کہ اس کے اندرکون ہے ۔توہمیں اندر کاحال کس طرح معلوم ہوسکتاہے اگر ہم محض اپنے قیاس سے ا س کے متعلق کوئی فیصلہ کریں گے تووہ ویسی ہی بات ہوگی جیسے مشہور ہے کہ کسی شہر میں چار اندھے رہاکرتے تھے ۔اتفاقاً ایک دن اس شہر میں ہاتھی آگیا۔اورسینکڑوں آدمی اس کے دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوگئے ۔ان اندھوں نے شہر والوں سے کہا کہ ہمیں بھی وہاں لے چلو ساراشہر دیکھ آیا ہے ۔اگرہم نہ گئے تولوگ کیا کہیں گے ۔چنانچہ کوئی شخص انہیں سہاراد ے کر وہاں لے گیا ۔اب و ہ دیکھ تونہیںسکتے تھے انہوں نے کہا چلو ہم ٹٹول کر ہی معلوم کرلیتے ہیں کہ ہاتھی کیساہوتاہے ۔چنانچہ ایک نے ہاتھ ماراتووہ س کی دم پر پڑا ۔دوسرے نے ہاتھ ماراتوکان پر پڑا ۔تیسرے نے ہاتھ ماراتوسونڈ پر پڑا ۔چوتھے نے ہاتھ ماراتو پیٹ پر پڑا ۔اس کے بعد وہ واپس آگئے۔اورپھر انہوں نے بیٹھ کر آپس میں ہاتھی کے متعلق باتیں شروع کردیں ۔ایک نے کہا ہاتھی بس ایک لمبی سی چیز ہوتی ہے ۔جس کے آگے تھوڑے سے بال ہوتے ہیں ۔دوسرے نے کہا کہ تم بالکل جھوٹ بولتے ہو ۔ہاتھی توایساہوتاہے جیسے چھا ج ہوتاہے ۔تیسرے نے کہا تم نے ہاتھی دیکھا ہی نہیں وہ تو ڈھول کی طرح ہوتاہے ۔ چوتھے نے کہا کہ سب غلط کہتے ہو ۔وہ توایک موٹی سی لچکدار چیز ہوتی ہے اورکچھ بھی نہیں ہوتا (اس کاہاتھ سونڈ پر پڑاتھا )یہ اختلاف اسی لئے ہوا کہ انہوں نے بے دیکھے محض قیاس سے ایک چیز کا اندازہ لگایا تھا ۔اسی طرح جو چیز درون پردہ ہو اس کا پتہ باہرسے نہیں لگ سکتا اوراگرکوئی پتہ لگانے کی کو شش کرے گاتو وہ اندھوں کی طرح غلط نتیجہ پر ہی پہنچے گا۔یہی حال خداتعالیٰ کی معرفت اوراس کی دینی تعلیموں کا ہے ۔یہ علم صر ف خدا تعالیٰ کی کتاب سے ہی حاصل ہوسکتاہے ۔اورجوشخص اسے باہرسے سیکھنے یا سمجھنے کی کوشش کرتاہے وہ ان اندھوں کی طرح ہوتاہے جن میں سے کسی نے سونڈ پر ہاتھ مار کر سمجھ لیا تھا کہ میں نے ہاتھی دیکھ لیا ہے ۔کسی نے دُ م پر ہاتھ مارکر سمجھ لیا تھا کہ میں نے ہاتھی دیکھ لیاہے ۔کسی نے پیٹ پر ہاتھ مار کر سمجھ لیا تھا کہ میں نے ہاتھی دیکھ لیاتھا اورکسی نے کان پر ہاتھ مارکر سمجھ لیا تھا کہ میں نے ہاتھی دیکھ لیا ہے ۔
اس زمانہ میں بعض بیوقو ف سائینسدان کہتے ہیں کہ ہم عقل سے خداکو معلوم کرسکتے ہیں ۔جیسے بعض بے وقوف علما ء کہتے ہیں کہ مذہب کا عقل سے کیا تعلق ہے ۔یہ دونوں بیوقو ف ہیں ۔خداکو ہم عقل سے دریافت نہی کرسکتے اورمذہب کو بغیر عقل کے ہم سمجھ نہیں سکتے ۔جس طرح دنیا کی تمام معقول باتوںکو سمجھنے کے لئے عقل کی ضرورت ہے اسی طرح مذہب کے سمجھنے کے لئے بھی عقل استعمال کی جاتی ہے ۔جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے کہ قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ (یوسف آیت ۱۰۹) یعنی اے محمدؐ رسول اللہ! تولوگوں سے کہہ دے کہ میراطریق یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتاہوں ۔اورمیں اور میرے متبع سب بصیرت پر قائم ہیں ۔یعنی ہر بات کو ہم دلیل اورعقل کے ساتھ مانتے ہیں یونہی نہیں مانتے ۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ کوئی انسان محض عقل سے خداکو پاسکتاہے ۔خداکو پانے کے لئے مذہب ہمارا راہنما ہے اورمذہب کے سمجھنے کے لئے عقل کاپا سبان ضروری ہے اورعقل کو صحیح راستہ دکھانے کے لئے نبی کاوجود ضروری ہے اورخالی عقل سے جن لوگوں نے مذہب کو پانے کی کوشش کی ہے انہوں نے ہمیشہ ٹھوکر کھائی ہے ۔پنجا بی میں ایک ضرب المثل ہے ۔’’گھروں میں آیاں تے سنیہے تودینداہاں‘‘۔ یعنی گھرسے تومیں آیاہوں اورپیغام تم دے رہے ہو ۔بالکل یہی بات خداتعالیٰ کے متعلق کہی جاسکتی ہے ۔جب کو ئی شخص خداسے ملنا چاہے تولازماً خداہی اسے بتاسکتاہے کہ تم اس اس طرح مجھے مل سکتے ہو ۔وہ خو د بخو د اس تک نہیں پہنچ سکتا ۔پس و ہ سائنسدان پاگل ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خداکو اپنی عقل کے زور سے پاسکتے ہیں ۔خداکو خداکے ذریعہ ہی پایاجاسکتاہے اورخداکی راہنمائی حاصل کرنے کا سب سے بڑااورکامیاب ذریعہ یہی ہے کہ انسان خداکے کلام پر غور کرے اسے سمجھے اوراس پر عمل کرنے کی کو شش کرے ۔
پھر فرماتاہے ۔ھُدًی وَّ بُشْرٰی لِلْمُؤمِنِیْنَ یہ قرآن مومنوں کے لئے بہت بڑی ہدایت او ربشارت کا موجب ہے ۔اس جگہ ھدًی کی تنوین تعظیم کے لئے استعمال کی گئی ہے اور بتایاگیاہے کہ یہ ہدایت بہت بڑی شان رکھتی ہے ۔یعنی ہدایت کاکوئی درجہ اورمقام ایسانہیں جس کی طرف قرآن کریم بنی نوع انسا ن کی راہنمائی نہ کرتاہو۔یوں تواپنے زمانہ میں تورات بھی دنیا کی ہدایت کا موجب تھی اورژندواوستابھی دنیا کی ہدایت کاموجب تھی مگرکامل ہدایت جس نے انسان کو نقطئہ کمال تک پہنچا دیا اورجس کے بعد قیامت تک کے لئے کسی اورہدایت اورراہنمائی کی ضرورت نہیں ۔وہ صرف قرآن کریم ہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر ہدایت کے مختلف مدارج کاذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اَلَّذِیْنَ اھْتَدَوْازَادَھُمْ ھُدًی(محمدؐ ع ۲)یعنی جولوگ ہدایت کے راستہ پرچل پڑتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت پر ہدایت دیتاچلا جاتاہے ۔کیونکہ جس طرح خداتعالیٰ غیرمحدود ہے اسی طرح اس کے قرب کی راہیں بھی لامتناہی ہیں ۔مگرقرآن کریم کاکمال یہ ہے کہ وہ ہر مرحلہ پرانسان کی راہنمائی کرتاہے اوراللہ تعالیٰ کے قرب کے راستہ میں کوئی مقام بھی ایسانہیں آتا جب انسان اپنے آپ کو قرآنی راہنمائی سے مستغنی سمجھ سکے ۔و ہ شروع سے لے کر آخر تک قرآنی ہدایت کا محتاج رہتاہے ۔اورقرآن بھی اسے قدم قد م پر اپنے انوار اور برکات سے حصہ دیتاچلاجاتاہے ۔یہاں تک کہ وہ خداتعالیٰ کے پاس پہنچ جاتاہے ۔
پھر فرمایاکہ یہ مومنوں کے لئے بشارت کابھی موجب ہے یعنی یہی نہیں کہ قرآن انسان کے سامنے اللہ تعالیٰ کے قرب کے غیر متناہی دروازے کھولتاہے بلکہ وہ اس کی تائید میں اپنے نشانات بھی ظاہرکرتاہے اوراپنی بشارتوں سے بھی اسے حصہ دیتاہے اگر مومن کی تائید میں الٰہی نشانات ظاہر نہ ہوں تو چونکہ ہدایت ایک روحانی چیز ہے اوراللہ تعالیٰ کاقرب دوسروں کو مادی آنکھوںسے نظر نہیں آسکتا۔اس لئے لو گ ا س شبہ میں مبتلارہ سکتے تھے کہ معلوم نہیں یہ سچ بھی کہہ رہاہے یانہیں ۔اس شبہ کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ اپنی تائیدات مومنوں کے شامل حال رکھتاہے اوراپنے نشانات ان کی ایمانی تقویت کے لئے اوران کے دشمنوں پر حجت تمام کرنے کے لئے نازل کرتارہتاہے جواس بات کا ثبوت ہوتے ہیں کہ یہ لوگ حقیقۃً ہدایت یافتہ ہیں اورانہوں نے اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرلیا ہے ۔ایک جھوٹا اور مفتری انسان توکہہ سکتاہے کہ مجھے خداتعالیٰ کا قرب حاصل ہے مگر وہ خداتعالیٰ کے نشانات اپنی تائید میں نازل نہیں کرسکتا۔لیکن اگر کسی کے ساتھ خداتعالیٰ کی نصرت اوراس کی تائید کی فعلی شہادت ہو ۔اس پر اللہ تعالی کے الہامات نازل ہوتے ہوں۔اس کی دعائیں غیرمعمولی طور پر قبولیت کا شر ف حاصل کرتی ہوں ۔اس کے دشمنوںکو ناکام رکھاجاتاہو۔اوراسے اپنے مقاصد میں کامیابی پر کامیابی حاصل ہوتی ہو تویہ ثبوت ہوتاہے کہ اس بات کا کہ وہ اپنے اس دعویٰ میں بھی سچا ہے کہ اسے خداتعالیٰ کا قرب حاصل ہے اورقرآن کریم بتاتاہے کہ اس کے احکام پر عمل کرنے والوں کو یہ دونوں باتیں حاصل ہوتی ہیں ۔و ہ اس مستقل ہدایت نامہ پر عمل کرتے کرتے خداتعالیٰ کے قرب میں بھی بڑھ جاتے ہیں ۔اورپھر خداتعالیٰ بھی ان کی تائید کیح لئے آسمان سے اترآتاہے اوروہ انہیں مشکلات کے ہجوم میں بشارات سے حصہ دیتا او رانہیں اپنے دشمنوں پر غلبہ عطافرماتاہے اورجس مقصدکولے کر وہ کھڑ ے ہوتے ہیں اس میں انہیں کامیابی عطاکرتاہے ۔
پھر فرماتاہے ۔یہ قرآن ہدایت او ربشارت کا تو موجب ہے مگر ان کے لئے نہیں جو اپنے منہ سے توایمان کا اظہار کرتے ہیں لیکن عمل دیکھو تونہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں نہ زکوٰۃ دیتے ہیں اورنہ آخر ت پر یقین رکھتے ہیں ۔ایسے لوگوں کے لئے نہ قرآن ہدایت کا موجب بنتاہے اورنہ الٰہی تائیدات او راس کی برکات ان کے شامل حال ہوتی ہیں ۔قرآن کریم کی کامل ہدایت اوراس کی بشارت کے شیریں ثمرات سے صرف وہی لوگ متمتع ہوتے ہیں جو باجماعت نمازیں اداکرتے ہیں ۔ہمیشہ زکوٰۃ دیتے ہیں اورآخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ مذہب کا اہم ترین حصہ جو اس کے لئے دل اور دماغ کی حیثیت رکھتاہے ۔عبادت الٰہی ہی ہے ۔اگرعبادت الٰہی کو ترک کردیاجائے تومذہب صرف رسم و رواج کانام بن کر رہ جائے گا ۔اورخداتعالیٰ سے تعلق کادعویٰ محض ایک ڈھکونسلہ ہوگا ۔اس لئے اس جگہ مومنوں کی پہلی صفت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ َ وہ نمازوںکو قائم کرتے ہیں یعنی خود بھی باجماعت نماز اداکرتے ہیں جس کی طرف یقیمون کالفظ اشارہ کرتاہے اوردوسروںکو بھی نمازوں کی ادائیگی کی تلقین کرتے رہتے ہیں ۔گویابحیثیت جماعت وہ نمازوں کی ادائیگی کاہمیشہ التزام رکھتے ہیں ۔اگریہاں صرف انفرادی نمازوںکا ذکر ہوتاتو یُصَلُّوْنَ کہنا کافی تھا ۔مگراللہ تعالیٰ نے یصلّون کا لفظ استعمال نہیں فرمایابلکہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ۔اسی طرح قرآن کریم کے اَورمقامات میں بھی اَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ یا اَقَامُواالصَّلٰوۃَ کے الفاظ ہی استعمال ہوئے ہیں اوراقامت ہمیشہ باجماعت نماز میں ہی ہوتی ہے ۔پس مومنوں کی ایک بڑی علامت اس آیت میں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ باجماعت نمازیں اداکرتے ہیں اورنہ صرف خود نمازوں کی پابندی کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی نمازوں کی ادائیگی کی تلقین کرتے رہتے ہیں ۔ہم نے دیکھا ہے بعض لوگ خود تو نماز کے بڑے پابند ہوتے ہیں مگراپنے بیوی بچوں کے متعلق کوئی پرواہ نہیں کرتے ۔ حالانکہ اگران کے دل میں سچا اخلاص ہوتویہ ہوہی نہیں سکتاکہ کسی بچے کا یا بیوی کا یابہن بھائی کاچھوڑناانسان گوارہ کرسکے ۔
ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست تھے جواب فوت ہوچکے ہیں ۔ان کے لڑکے نے ایک دفعہ مجھے لکھا کہ میرے والد صاحب میرے نام الفضل جاری نہیں کرواتے ۔میں نے انہیں لکھا کہ آپ کیوں اس کے نام الفضل جاری نہیں کراتے توانہوں نے جوابدیا کہ میں چاہتاہوں کہ مذہب کے معاملہ میں اسے آزادی حاصل رہے اوروہ آزادانہ طورپر اس پر غور کرسکے ۔میں نے انہیں لکھا کہ الفضل پڑھنے سے توآپ سمجھتے ہیں اس پر اثر پڑے گا اورمذہبی آزادی نہیں رہے گی ۔لیکن کیا اسکا بھی آپ نے کوئی انتظام کرلیا ہے کہ اس کے پروفیسر اس پر اثر نہ ڈالیں ۔اس کی کتابیں اس پر اثر نہ ڈالیں ۔اس کے دوست اس پر اثر نہ ڈالیں ۔اورجب یہ سارے کے سار ے اثر ڈال رہے ہیں توکیا آپ چاہتے ہیں کہ اسے زہر توکھانے دیں اورتریاق سے بچایاجائے۔ غر ض اقامت صلوٰۃ ایک نہایت ہی ضروری چیز ہے ۔اوراس میں خود نماز پڑھنا ۔دوسروں کو پڑھوانااوراخلاص اور جوش کے ساتھ پڑھنا ۔باوضو ہوکر ٹھہر ٹھہر کر باجماعت اورپوری شرائط کے ساتھ نماز پڑھنا شامل ہے ۔احادیث میں آتاہے کہ نماز خدااوربندے کے درمیان ملاقات کا ایک ذریعہ ہوتی ہے ۔گویا اس کے ذریعہ الوہیت کا وہ رنگ جونبی کے واسطہ سے اللہ تعالیٰ پیداکرناچاہتاہے مومنوں پر چڑھ جاتاہے ۔اوروہ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہوجاتے ہیں ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز باجماعت کا اس قدر احترام فرماتے تھے کہ ایک دفعہ آپ کے پاس ایک نابینا آیا ۔اوراس نے عرض کیا یارسول اللہؐ!میرامکان مسجد سے بہت دور ہے اورچونکہ مجھے مسجد پہنچنے میں سخت دقّت پیش آتی ہے اس لئے اگر آپ اجازت دیں تومیں اپنے گھر میں ہی نماز اداکر لیا کرو ں (اس وقت مدینہ میں کچے مکانات ہوتے تھے اورجب بارش کے دنوں میں بانی گلیوں میں بہتاتھاتوچونکہ پانی دیواروں کی بنیادوں کے ساتھ ٹکراکر گذرتاتھا اوردیواریں پانی سے ٹوٹ جاتی تھیں اس لئے پانی کی زد سے دیواروں کو بچانے کے لئے لوگوں نے گلی میں دیواروں کی بنیادوں کے ساتھ ساتھ جلے ہوئے پتھر جن کو پنجابی زبان میں کھنگر کہتے ہیں رکھے ہوتے تھے ۔گلیوں میں کھنگر رکھنے کا رواج ہمارے ملک میں بھی ہے اورچونکہ ایک نابینا کے لئے سڑک کے بیچ میں چلنا مشکل ہوتاہے اس لئے وہ ہمیشہ دیواروں کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اوردیوار کے ساتھ ہاتھ مارتے جاتے ہیں ۔اگر وہ ایسی دیوار کے ساتھ چلیں جس کے ساتھ کھنگر رکھے ہوئے ہوںتوان کے گرکرزخمی ہونے کاخطرہ ہوتاہے )جب اس نابینا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ چونکہ دیواروں کے ساتھ پتھر رکھے ہوتے ہیں اورگلی کے بیچ میں مَیں چل نہیں سکتا اوراگر دیوار کے ساتھ چل کر مسجد میں آئوں توگر کرزخمی ہونے کا خطرہ ہے اس لئے مجھے اجازت ہوتو میں گھر پر نماز اداکرلیاکروں ۔تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔بہت اچھا ۔اگرتمہیں مسجد میں آتے ہوئے مشکل پیش آتی ہے توتم اپنے گھر میں ہی نماز اداکرلیا کرو ۔ یہ سن کر وہ نابینا گھر کی طرف چل پڑا ۔مگرابھی وہ تھوڑی دورہی گیا تھا کہ آپ نے صحابہؓ سے فرمایا ۔اس کو واپس بلائو ۔وہ جب واپس آیاتوآپ نے اس سے دریافت فرمایاکہ کیا تمہارے گھر میں اذان کی آواز پہنچ جاتی ہے ۔اس نے عرض کیا ۔ہاں یارسول اللہ!اذان کی آواز توپہنچ جاتی ہے ۔آپ نے فرمایا۔ اگراذان کی آواز تمہارے گھر میں پہنچ جاتی ہے توچاہے تمہیں مسجد میں آتے وقت ٹھوکریں لگیں اورتم زخمی ہوجائو۔مسجد میں ضرور آیاکرو ۔اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا ۔میراجی چاہتاہے کہ جب عشاء یا فجر کی نماز ہو تو میں اپنی جگہ کسی اَورکو کھڑاکردوں اور کچھ لوگوںکو ساتھ لے کر ان کے سروں پر لکڑیوں کے گٹھے رکھ کر سارے شہرکا چکر لگائوں اورجولوگ گھروں میں بیٹھے ہوئے ہوں ان کے گھروں کو آگ لگادوں ۔اب دیکھو گوآپ نے عملا ً ایساکیاتونہیں ۔ مگراس سے اتنا تو ظاہر ہے کہ آپ کے دل میں نماز باجماعت کی کس قدراہمیت تھی ۔آپ نے اس مثال کے ذریعہ لوگوںکو سمجھا یا کہ جولوگ باجماعت نماز ادانہیں کرتے وہ اپنے آپ کودوزخ کا ایندھن بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔بیشک دنیا میں نیکی کے اَور بھی بہت سے کام ہیں ۔لیکن نماز کو خداتعالیٰ نے سب سے مقدّم قرار دیا ہے اورسوائے اس کے کہ کوئی معذوری ہو یاکوئی ہنگامی کام پڑ جائے نمازوں کے اوقات میں مسجد میں آنا نہایت ضروری ہے ۔ہنگامی کاموں سے مراد یہ ہے کہ مثلاً کسی جگہ آگ لگ گئی ہو تواس وقت آگ بجھا نا ضروری ہوگا۔نماز بعد میں اداکرلی جائے گی ۔لیکن اس قسم کے استثنائی حالات کے بغیر جوشخص نماز باجماعت کی ادائیگی میں کوتاہی کرتاہے وہ ایک بہت بڑے جرم کا مرتکب ہوتاہے ۔
دوسری چیز جس کی طرف ان آذیا ت میں توجہ دلائی گئی ہے و ہ زکوٰۃ ہے ۔زکوٰۃ کی ضرورت اوراس کی اہمیت درحقیقت غربت کے سوال سے پیداہوتی ہے ۔اورغربت ایک ایسی چیز ہے جوکبھی بھی بنی نوع انسان سے جدانہیں ہوئی ۔عام طور پر لوگ خیال کرلیتے ہیں کہ جب دنیا کی آبادی بڑھ جاتی ہے توایک حصہ غریب ہوجاتاہے ۔حالانکہ یہ بات درست نہیں ۔آبادی کی کمی کی صورت میں بھی ہمیں غربت ویسی ہی نظرآتی ہے جیسے اس کی کثرت کی صورت میں ۔چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں باوجود اس کے کہ اس وقت صرف چند ہی افراد تھے قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ ان میں سے بھی بعض پر غربت کا زمانہ آیا تھا کیونکہ فرماتاہے کہ اگر تُواس جنت میں رہے گا توتُو پیاسانہیں رہے گا ۔تیرے ساتھی بھوکے نہیں رہیں گے ۔اورتیرے ساتھی ننگے نہیں رہیں گے ۔اس وسیع دنیا میں جہاں ہردولت اورہرخزانہ خالی پڑاتھا اورکسی کاکوئی مالک نہیں تھا کسی مخصوص قانون میں رہ کر روزی ملنے کاسوال ہی کہاں پیداہوسکتاتھا ۔ساری دنیا کاسونا ان کے قبضہ میں تھا۔ساری دنیا کالوہا ان کے قبضہ میں تھا ۔ساری دنیا کے پھل،پھول اوراعلیٰ درجہ کی زمینیں ان کے قبضہ میں تھیں ۔پھر یہ سوال کیونکر پیداہواکہ اگر تُوایک خاص قانون کے ماتحت رہے گا تو بھوک اور ننگ سے بچ جائے گا ۔اس سے معلوم ہواکہ باوجودساری دولتوں کے پھر بھی اس بات کا امکان تھا کہ بعض لوگ بھوکے رہیں ۔بعض پیاسے رہیں اور بعض ننگے رہیں ۔اوریہ صحیح بات ہے ۔درحقیقت دنیا میں دولت دوقسم کی ہوتی ہے ایک بالقوۃ اورایک بالفعل۔پھر بالفعل بھی دوقسم کی ہوتی ہے ۔ایک بالفل دولت ایسی ہوتی ہے جوسکہ کی صورت میں ہویاان چیزوں کی صورت میں جن سے ودسری اشیاء خریدی جاسکتی ہیں۔اورایک بالفعل دولت اجناس کی صورت میں ہوتی ہے جن کو استعمال کیاجاتاہے ۔پھر اجناس کی بھی دوقسمیں ہیں۔ایک وہ جو بغیر کسی اَورتیاری کے انسان کے استعمال میں آجاتی ہیں اورایک وہ جن کی تیاری کے لئے کوشش اورسعی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جہاں تک بالقوۃ دولت یعنی وجود دولت کاسوال ہے انگریزوں نے اسکانام ویلتھ رکھا ہے اواس سے مراد کسی ملک کے وہ سامان دولت ہوتے ہیں جو اس میں قدرتی طورپرپائے جاتے ہیں ۔مثلاً اگرکسی ملک میں سونے کی کانیں ہیں یاچاندی کی کانیں ہیں تواس کے معنے یہ ہیں کہ اس کے پاس ویلتھ ہے ۔مگراس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ اس کے پاس روپیہ ہے ۔اگروہ چاندی اس تک نہیں پہنچ سکی یالوگوں کے پاس زرخیز زمینوں میںگند م اورروئی بونے کے ساما ن نہیں توپھر بھی وہ لوگ بھوکے اورپیاسے اورننگے رہیں گے پس ایک دولت تواس قسم کی ہوتی ہے جوبالقو ۃ ہوتی ہے ۔اگراس ملک کے لوگوں میں صنعت و حرفت نہیں یاانہیں زمینداری کاعلم نہیں توباوجود اس کے کہ وہ کانوں پر بیٹھے ہوں گے اورکروڑوں کروڑ روپیہ کاسونا ان میں موجود ہوگا ۔وہ زرخیز زمینوں پر بیٹھے ہوں گے ۔ایسی زمینوں پر کہ اگر اس میں ایک دانہ بھی ڈال دیاجائے توسینکڑوں دانے پیداہوں ۔لیکن پھر بھی وہ فاقے مررہے ہوں گے گویا ان کے پاس دولت تو ہوگی لیکن ساکن دولت ہوگی ۔لیکن اگر دنیا میں کوئی ایسانظام قائم ہوجاتاہے جولوگوںکو مختلف قسم کے فنون سکھاتاہے خواہ الہام کے ذریعہ سے یاالقائے الٰہی کے ذریعہ سے ۔اوروہ کہتاہے کہ آئوہم تمہیں زمینداری کاطریق بتاتے ہیں کپڑابننے کے طریق سکھاتے ہیں یااسی قسم کے اورفنون سکھاتے ہیں جن سے تم اپنی تمدنی حالت کو سدھار سکوتویقیناً اس کے ذریعہ لوگوں کی بھو ک او را ن کی پیاس دورہوجائے گی ۔جیسے اسلام کی روایتوں میں خواہ وہ کتنی ہی کمزورکیوں نہ ہو ں یہ آتاہے کہ حضرت آدمؑ نے لوگوں کوزراعت سکھائی ۔اورحضرت شیثؑ نے ان کو کپڑابنناسکھایا ۔اب چاہے انہیںآدم نے سکھایاہو یا شیثؑ نے یاکسی اَور نے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابتدائی زمانہ میں اس قسم کے امور میں الہام الٰہی مدد کرتاتھا ۔جیسے قرآن کریم میں صاف طورپر یہ ذکر آتاہے کہ زبان ابتداء میں الہاماً سکھائی گئی تھی ۔چنانچہ فرماتاہے۔عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا۔اس سے قیاس کرکے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جس طرح ابتدائی زمانہ میں الہام کے ذریعہ زبان سکھایاجانا ضروری تھا ۔اسی طرح الہام کے ذریعہ انہیں فنون سکھائے جانے بھی ضروری تھے ۔ورنہ اس کے بغیرانسان مدتوں تک تکلیف اٹھاتاچلاجاتا۔ پس اگرکوئی نبی آجائے اوروہ یہ کہے کہ تم زمین میں ہل چلائو اورکھیتی باڑی کرو۔ اسی طرح وہ مختلف قسم کے درخت اورباغات لگانے کی تعلیم دے تویقیناً اس کے نتیجہ میں اس کے ماننے والوںکو روٹی ملنے لگ جائے گی اوروہ لوگ جو نبی کے تابع نہیں ہوں گے اگر وہ زبان سیکھنے سے انکارکردیں گے توگونگے رہیں گے ۔اوراگرکھیتی باڑی نہیں کریں گے یاکپڑا بننانہیں سیکھیں گے یاکنوئیں نہیں کھودیں گے توبھوکے اورپیاسے اورننگے رہیں گے ۔ یہ فنون ابتدائی دور میں خواہ کیسی ہی ابتدائی شکل میں ہوں ۔خواہ کھال سے وہ اپنا ننگ ڈھانکتے ہوں یاپھلوں پران کا گذارہ ہوتاہواس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو لوگ اس نظام کے ماتحت آجائیں گے و ہ بھوک اورپیاس اور ننگ سے بچ جائیں گے ۔لیکن باوجود اس کے پھر بھی ایک طبقہ ایسا رہ جاتاہے جو غریب ہو ۔کیونکہ حوادث آتے ہیں اورانسان کو بے دست و پابنادیتے ہیں ۔فرض کرو۔دنیا کے پردہ پر ایک ہی انسان ہے کشمیر بھی ا س کے قبضہ میں ہے ۔ہزارہ بھی اس کے قبضہ می ہے ۔کابل کی وادیاں بھی اس کے قبضہ میں ہیں اوراس طرح دنیا کے سارے انگور ساری ناشپاتیاں،سارے سیب اورسارے آم اس کے قبضہ میں ہیں ۔ لیکن اس کے ہاتھ بھی کٹے ہوئے ہیں اورپیر بھی کٹے ہوئے ہیں تووہ اس ساری دولت سے فائدہ نہیں اٹھاسکے گا ۔اورپھر بھی بھوکا اور پیاسارہے گا ۔پس ابتدائی زمانہ میں باوجودکہ دولت موجود تھی دنیا اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتی تھی کیونکہ اسے فنون نہیں آتے تھے جب آدمؑ کے ذریعہ دنیا نے فنون سیکھے اوران کی بھوک اور پیاس اور لباس کی دقّت دور ہوئی توپھر بھی ایک طبقہ ایسا رہ گیا جو ان چیز وں سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھاسکتاتھا ۔جیسے لولے۔لنگڑے اور اپاہج وغیرہ ۔اب چاہے ساری دنیا میں صرف پندرہ آدمی ہوں اوردولولے ہوں پھر بھی دولولے اپنی بھوک اور پیاس کیسے دور کرسکتے ہیں جب تک ان پندرہ میں کوئی نظام موجود نہ ہو اوروہ ان لولوں لنگڑوں کی بھوک اور پیاس دور کرنے کاذمہ وار نہ ہو ۔آدمؑ کی نبوت کی بنیاد اصل میں ان بتدائی تعلیموں پر ہی تھی جن سے انسان بنا ۔آپ نے بنی نوع انسان کو زبان سکھائی ۔مختلف قسم کے فنون کی تعلیم دی ۔تمدن کے اصول بتائے ۔انہیں بتایاکہ آپس میں مل کررہناچاہیئے اوراگرکوئی غریب یالولا لنگڑا ہوتواس کی مدد کرنی چاہیئے ۔جب اس قسم کی سوسائٹی قائم ہوجائے گی ۔توہم کہہ سکیں گے کہ یہ سوسائٹی نہ بھوکی رہے گی نہ ننگی اورنہ پیاسی ۔اگرکوئی لولالنگڑاہوگاتودوسرے لوگ اس کی مدد کریں گے ۔اوراگرلوگ بھوکے ہوں گے تو و ہ زراعت او رباغبانی اورکان کنی کے ذریعہ اپنی اس تکلیف کودورکرسکیں گے اوراس طرح دنیا کو روپیہ بھی مل جائے گا ۔ اوران کی تکالیف بھی دور ہوجائیں گی ۔پس غربت کامسئلہ اس زمانہ کی پیداوار نہیں بلکہ جب سے انسان اس دنیا میں پیداہواہے اس وقت سے یہ سوال زیر بحث چلاآیاہے ۔جب ساری دنیا کے مالک صرف دوچار گھرانے تھے تب بھی غربت موجود تھی اور تب بھی ایک قانون کی ضرورت تھی اسی لئے حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ بنی نوع انسان کو یہ پیغام دیاگیا کہ اگرتم ان قواعد کی پابند ی کرو گے توبھوکے اور پیاسے نہیں رہو گے ۔جس کے معنے یہ ہیں کہ آدمؑ کے زمانہ میں بھی جب صرف چند آدمی تھے ممکن تھا کہ لوگ بھوکے رہیں ۔ممکن تھا کہ وہ پیاسے رہیں اورممکن تھا کہ وہ ننگے پھریں ۔پھرلوگ بڑھنے شروع ہوئے ۔پندرہ سے بیس اوربیس سے سوسوسے ہزار ۔ہز ار سے دس ہزار اوردس ہزار سے لاکھ تک تعداد جاپہنچی اوربڑھتے بڑھتے اب تو دواڑہائی ارب تک آباد ی پہنچ چکی ہے ۔مگرجیسا کہ میں نے بتایا ہے پندر ہ آدمیوںکی صورت میں بھی دنیا بھوکی اورننگی رہ سکتی تھی ۔سو آدمیوں کی صور ت میں بھی دنیا بھوکی اور ننگی رہ سکتی تھی ۔ہزا ر او ر لاکھ آدمیوں کی صورت میں بھی دنیا بھوکی اورننگی رہ سکتی تھی ۔بھوک اور ننگ کی بنیاد ویلتھ پر نہیں ہوتی یہ ایک غلط خیال ہے جو لوگوں میں پیداہوگیاہے کہ غر بت آبادی کی کثرت کی وجہ سے پیداہوتی ہے ۔اصل وجہ یہ ہے کہ غربت اورامارت کادارو مدار اس امر پر ہیح کہ قانون قدرت نے زمین میں جو خزانے مخفی رکھے ہیں انسان ان کو کس حد تک استعمال کرتاہے اورکس حد تک ان کے استعمال کرنے کی عقل اور سمجھ رکھتاہے ۔مثلاً اگرسونا ہواورغلہ نہ ہوتو محض سونے سے لوگوں کی بھوک دور نہی ہوسکے گی یااگر غلہ بھی آجا ئے مگرروٹی پکانی نہیں آتی توپھر بھی انسان بھوکا رہے گا ۔ایسی صورت میں ضروری ہوگا کہ کچھ مددگار ہوں کچھ لوگ کمانے والے ہوں اورکچھ لوگ پکانے والے ہوں ۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مردا ور عورت کا سلسلہ قائم کیا ہے ۔غرض کئی قدم ہوتے ہیں جب تک وہ سارے کے سارے مہیانہ ہوں انسان بھوک اور ننگ سے نہیں بچ سکتا ۔یہ دو رابتدائے عالم سے چلتا آیا ہے ایک زمانہ ایساتھا ۔جب بنی نوع انسان کے پاس ذرائع آمد زیادہ ہوتے تھے اورکم حصہ مجبوریوں میں مبتلا ہوتاتھا ۔مثلاً اگر ہاتھ پائوں کٹے ہوئے لوگوں کو دیکھا جائے یاان لوگوں کی تعداد معلوم کی جائے جو بڑھا پے اور بیمار یوں کی وجہ سے کسی کام کے قابل نہیں رہتے توہ کتنے ہوں گے ۔میں سمجھتاہوں کہ وہ ایک دوفیصدی سے زیادہ نہیں ہوں گے ۔لیکن کام نہ ملنے کی وجہ سے ہزار میں سے نوسوبھی بیکارہوسکتے ہیں ۔جب کسی ملک کی آبادی بڑھ جاتی ہے ۔لیکن ذرائع آمد ترقی نہیں کرتے تودس میں سے بعض دفعہ نو بیکار پھرتے ہیں ۔مگر اس لئے نہیں کہ وہ معذو رہوتے ہیں بلکہ اس لئے کہ انہیں کام نہیں ملتا۔پس جب دنیاکی آباد ی بڑھ گئی۔ تویہ سوال نہ رہا کہ زمین میں سے دولت کس طرح نکالی جائے بلکہ اس سوال کی صورت بالکل بد ل گئی ۔کیونکہ بعض لوگ ایسے تھے کہ باوجود اپناسار ازور صرف کرنے کے کام سے محروم رہتے تھے ۔ایسی حالت میں اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ نئے کام نکالے جائیں۔ غرض یہ دور اسی طرح چلتے چلے آئے ہیں اوردنیا نے فقر و فاقہ کی تکالیف دورکرنے کے لئے مختلف قسم کی تدابیر اختیار کیں ۔چنانچہ کبھی ایسا دو ر آیا کہ لوگوں نے یہ فیصلہ کردیا کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو زندہ رہنے کے قابل ہوتے ہیں اور کچھ لو گ ایسے ہوتے ہیں جو زندہ رہنے کے قابل نہیں ہوتے ۔جیسے ہندوستا ن می شودروں کی کثرت تھی مگر برہمنوں اورکھشتریوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ان لوگوں کا کوئی حق نہیں کہ دنیا میں زندہ رہیں ۔یہ اگر مرتے ہیں تو بیشک مریں۔چنانچہ انہوں نے لوٹ ما رشروع کردی اورشودروں کا کوئی حق متمدن زندگی میں تسلیم نہ کیاگیا۔پھر بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اس مصیبت کا علاج صدقہ و خیرات ہے ۔جن کے پاس زیادہ مال ہو انہیں چاہیئے کہ و ہ غر باء کی مدد کردیا کریں۔
غرض مختلف تدابیر اپنے اپنے رنگ میں اختیار کی گئیں ۔مگر کوئی بھی تدبیر ایسی کامل نہیں تھی جس سے اس مصیبت کو کلیۃً دورکیا جاسکتا ۔ اسلام ہی تھا جس نے اس سوال کا صحیح معنوں میں حل کیا ۔اوراس نے فیصلہ کیا کہ اس قسم کا صدقہ کوئی چیز نہیں ایک معین اور منظم صورت میں غر با ء کی بہبودی کاانتظام ہوناچاہیئے چنانچہ اس کے لئے اس نے زکوٰۃ اور عُشر کا طریق جاری کیا۔جس میںامر اء سے باقاعدہ ایک نظام کے ماتحت روپیہ لیا جاتااورغرباء کی ضروریا ت پر صرف کیاجاتا۔پھر اس نے خبر گیری کے طریق بھی معین کردیئے یو تو پہلے بھی حکومتیں ٹیکس لیا کرتی تھیں ۔مگر ان کا خرچ معین نہیں تھا ۔اسلام نے
اول آمد پر ایک مقرر حصہ اداکرنا واجب کردیا راوراس امر کافیصلہ کیا کہ امر اء سے بہر حال اتنا روپیہ لے لیاجائے ۔دوسری طرف اس نے خرچ بھی معیّن کردیا اوراس طرح غرباء کے گذراہ کی صورت پیداکردی ۔آمد اور خرچ سے تعلق رکھنے والے یہ دو نقطے ایسے ہیں جو اسلام سے پہلے اَورکسی قوم میں نہیں پائے جاتے تھے زکوۃ یہودیوں میں بھی ہے مگر ناقص صورت میں ۔۱؎
لیکن ا سلام نے اس قانون کو مدون کرکے ایک ایسا عظیم الشان نظام قائم فرمایا جو ہمارے لئے ہرتاریکی کی گھڑی میں شمع ہدایت کا کام دیتاہے ۔مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اس نظام کی پوری اہمیت نہ سمجھی اورلدھیا نے کے بڈھے دریا کی طرح یہ نظام بھی ریت میں غائب ہوگیا۔اورمسلمان اس سے کلیۃً غافل ہوگئے ۔حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آکر پہلاکام ہی یہ کیا تھا کہ جائیدادوالوں کو بے جائیداد والوں کا بھائی بنادیا ۔انصارؓ جائیدادوں کے مالک تھے اور مہاجرؓ بے جائیداد تھے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارؓ اورمہاجرینؓ دونوں میں مواخات قائم فرمادی ۔اورایک ایک جائیدا دوالے کو ایک ایک بے جائیداد والے سے ملادیا اوراس میں بعض لوگو ںنے اتنا غلّو کیا کہ دولت تو الگ رہی بعض کی اگر دوبیویا ں تھیں توانہوں نے اپنے اپنے مہاجر بھائیوںکی خدمت میں یہ پیشکش کی کہ وہ ان کی خاطر اپنی ایک بیوی کو طلاق دینے کے لئے تیار ہیں ۔وہ ان سے بے شک شادی کرلیں۔یہ مساوات کی پہلی مثال تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں جاتے ہی قائم فرمائی ۔کیونکہ حکومت کی بنیاد دراصل مدینہ میں ہی پڑی تھی۔اس زمانہ میں زیادہ دولتیں نہ تھیں یہی صورت تھی کہ امیر اورغریب کو اس طرح ملا دیاجائے کہ ہرشخص کو
۱؎ ۔دیکھو خروج باب ۲۳ آیت ۱۰و۱۱۔
کھانے کے لئے کوئی چیز مل سکے۔پھر ایک جنگ کے موقعہ پر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریق کو استعمال فرمایا۔گواس کی شکل بدل دی ۔ایک جنگ کے موقعہ پر آپ کو معلوم ہواکہ بعض لوگوں کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہیں رہی یااگر ہے توبہت ہی کم اوربعض کے پاس کافی چیز یں ہیں۔تویہ صورت حالات دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس جس کے پاس جوکوئی چیز ہے وہ لے آئے اورایک جگہ جمع کردی جائے ۔چنانچہ سب چیزیں لائی گئیں اورآپ نے راشن مقرر کردیا ۔گویایہاں بھی وہی طریق آگیا کہ سب کو کھانا ملناچاہیئے ۔جب تک ممکن تھا سب لوگ الگ الگ کھاتے رہے مگر جب یہ امر ناممکن ہوگیا اورخطرہ پیداہوگیا کہ بعض لوگ بھوکے رہنے لگ جائیں گے تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب تمہیں علیحدہ کھانے کی اجازت نہیں اب سب کوایک جگہ سے برابر کھاناملے گا ۔صحابہؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر ہم نے سختی سے عمل کیا کہ اگر ہمارے پاس ایک کھجور بھی ہوتی توہم اس کا کھانا سخت بددیانتی سمجھتے تھے اوراس وقت تک چین نہیں لیتے تھے جب تک کہ اس کو سٹور میں داخل نہیں کردیتے تھے ۔یہ دوسرانمونہ تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا۔پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دولت بھی آئی اورخزانوں کے منہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھو ل دیئے ۔مگراللہ تعالیٰ چاہتاتھا کہ اس بار ہ میں تفصیلی نظام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جاری ہو تالوگ یہ نہ کہدیں کہ یہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی ۔کوئی اَورشخص اسے جاری نہیں کرسکتا۔چنانچہ ادھر اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ سے ایک نمونہ قائم کردیا اوراُدھر مدینہ پہنچتے ہی انصارؓ نے اپنی دولتیں مہاجرین کے سامنے پیش کردیں ۔مہاجرین نے کہا ہم یہ زمینیں مفت میں لینے کے لئے تیار نہیں ہم ان زمینوں پر بطور مزارع کام کریں گے
اورتمہاراحصہ تمہیں دیں گے ۔لیکن یہ مہاجرین کی طرف سے اپنی ایک خواہش کا اظہار تھا ۔انصارؓ نے اپنی جائیدادوں کے دینے میںکوئی پس و پیش نہیں کیا ۔یہ ایسی ہی بات ہے ۔جیسے گورنمنٹ راشن دے توکوئی شخص نہ لے ۔اس سے گورنمنٹ زیر الزام نہیں آئے گی ۔یہی کہاجائے گا کہ گورنمنٹ نے توراشن مقرر کردیا تھا ۔اب دوسرے شخص کی مرضی تھی کہ و ہ چاہے لیتایا نہ لیتا ۔اسی طرح انصار ؓ نے سب کچھ دیدیا تھا ۔یہ الگ بات ہے کہ مہاجرینؓ نے نہ لیا ۔غرض عملی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام اپنی زندگی میں ہی شروع فرمادیا تھا ۔یہاں تک کہ جب بحرین کا بادشاہ مسلمان ہو اتوآپ نے اسے ہدایت فرمائی کہ تمہارے ملک میں جن لوگوں کے پاس گذارہ کے لئے کوئی زمین نہیںہے تم ان میں سے ہرشخص کو چار درہم او رلباس گذارہ کے لئے دو تاکہ وہ بھوکے اورننگے نہ رہیں۔۱؎ ۔اس کے بعد مسلمانوں کے پاس دولتیں آنی شروع ہوگئیں ۔چونکہ مسلمان کم تھے اوردولت زیادہ تھی اس لئے کسی نئے قانون کے استعمال کی اس وقت ضرورت محسوس نہ ہوئی ۔کیونکہ جو غرض تھی و ہ پوری ہورہی تھی ۔اصول یہ ہے کہ جب خطرہ ہو تب قانون جاری کیا جائے ۔اورجب نہ ہواس وقت اجازت ہے کہ حکومت اس قانون کو جاری کرے یا نہ کرے ۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اورمسلمان دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلنا شرو ع ہوئے تو اس وقت غیر قومیں بھی اسلام میں شامل ہوگئیں عرب لوگ توایک جتھہ اورایک قوم کی شکل میںتھے اوروہ آپس میں مساوات بھی قائم رکھتے تھے جب اسلام مختلف گوشوں می پہنچا اور مختلف قومیں اسلام میں داخل ہونی شروع ہوئیں توان کے لئے روٹی کاانتظام بڑا مشکل ہوگیا ۔آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کی مرد م شماری کرائی اورراشننگ سسٹم قائم کردیا ۔جوبنو امیہ کے عہد تک جاری رہا ۔یورپین مؤرخ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سب سے پہلی مردم شماری حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کرائی تھی۔اوروہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے یہ سب سے پہلی مردم شماری رعایا سے دولت چھیننے کے لئے نہیں بلکہ ان کی غذا کا انتظام کرنے کے لئے جاری کی تھی ۔اَورحکومتیں تواس لئے مردم شماری کراتی ہیں کہ لوگ قربانی کے بکرے بنیں اورفوجی خدمات بجالائیں۔مگر حضرت عمرؓ نے اس لئے مرد م شماری نہیں کرائی کہ لوگ قربانی کے بکرے بنیں بلکہ اس لئے کرائی کہ ان کے پیٹ میں روٹی ڈالی جائے ۔چنانچہ مردم شماری کے بعد تمام لوگوںکو ایک مقررہ نظام کے ماتحت غذاملتی اور جو باقی ضروریات رہ جاتیں ان کے لئے انہیں ماہوارکچھ رقم دے دی جاتی اوراس بار ہ میں اتنی احتیاط سے کام لیاجاتا کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب شام فتح ہوااوروہاں سے زیتون کا تیل آیا توآپ نے ایک دفعہ لوگوں سے کہا کہ زیتوں کے استعمال سے میرا پیٹ پھو ل جاتاہے ۔تم مجھے اجازت دو تومیں بیت المال سے اتنی ہی قیمت کاگھی لے لیا کروں۲؎۔غرض یہ پہلا قدم تھا جو اسلام می لوگوں کی ضروریات کو پوراکرنے کے لئے اٹھا یاگیا ۔اورظاہر ہے کہ اگر یہ نظام قائم ہوجائے تواس کے بعد کسی اَورنظام کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ سارے ملک کی ضروریات کی ذمہ دار حکومت ہوگی ۔ان کاکھانا ۔ان کا پینا ۔ان کا پہنناان کی تعلیم ان کی بیماریوں کا علاج اوران کی رہائش کے لئے مکانات کی تعمیر یہ سب کاسب اسلامی حکومت کے ذمہ ہوگا ۔اوراگر یہ ضروریات پوری ہوتی رہیں۔توکسی بیمہ وغیرہ کی ضرورت نہیں رہتی ۔مگربدقسمتی سے بعد میں آنے والوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ
۱؎ ۔السیرۃ النبویہ برحاشیہ السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ص ۶۹
۲؎ ۔سیرۃ ابن عمر الخطاب لابن الجوزی ص ۹۳
یہ بادشاہ کی مرضی پر منحصر ہے ۔وہ چاہے توکچھ دے دے اورچاہے تو نہ دے ۔اورچونکہ اسلامی تعلیم ابھی پورے طورپر راسخ نہیںہوئی تھی وہ لوگ پھر قیصرو کسریٰ کے طریق کی طرف مائل ہوگئے ۔یہ خداتعالیٰ کافضل ہے کہ وہ بڈھا دریاجو ریت میں غائب ہوچکاتھا ۔اسے اللہ تعالیٰ نے پھر ازسرنو میرے دل میں جاری کیا ۔میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے قرآن کریم کی یہ تعلیم لوگوں کے سامنے رکھی ۔مسلمان مجھ سے کثرت کے ساتھ پوچھا کرتے ہیں ۔کالجوں کے پروفیسر اور طلباء بھی یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ اگراسلامی تعلیم یہی تھی تو پھر یہ غائب کیوں ہوگئی ؟ اورمیں ہمیشہ انہیں کہاکرتاہوں کہ اس تعلیم کا غائب ہوناہی بتاتاہے کہ یہ الٰہی تعلیم تھی ۔اگریہ انسانی تعلیم ہوتی تو لوگوں کے دلوں میں ضرور قائم رہتی ۔کیونکہ انسانی تعلیم کو قبول کرنے کے لئے لوگوں کے دماغ تیار ہوچکے ہوتے ہیں اورماحول مناسب ہوتاہے ۔پس اس کا غائب ہونا ہی بتارہاہے کہ یہ تعلیم خداکی طرف سے آئی تھی ۔وہ ایک دفعہ لہر کی صورت میں اٹھی اورپھر اس میں انحطاط واقع ہوگیا ۔اب مقد ریہ ہے کہ پھر دوبارہ اس کی لہر بلند ہو اور اس کی دوسری لہر پہلی سے زیادہ اونچی ہو ۔قانون قدرت پر غورکرکے دیکھ لو۔اس می یہی نظار ہ نظر آئے گا۔بچپن میں جب ابھی میں نے پہاڑنہیں دیکھاتھا میں یہ خیا ل کیاکرتاتھا کہ پہاڑ مینار کی طرح ہوتاہوگا اوررسہ پکڑ کر اوپر چڑھنا پڑتاہوگا مگرجب میں پہلی دفعہ شملہ گیا تو میں نے دیکھا کہ پہلے ایک ٹیلہ آتا ہے اس کے بعد دوسراٹیلہ آتا ہے ۔پھر تیسراٹیلہ آتا ہے ۔اورہرٹیلہ پہلے ٹیلے سے زیادہ بلندہوتاہے ۔مگرہرٹیلے کے بعد ایک انحطاط بھی ہوتاہے ۔جب انسان پہلے ٹیلے پر قدم رکھتاہے تواس کے بعد اسے یہ محسوس ہوتاہے کہ میں اب نیچے جارہاہوں ۔مگر درحقیقت وہ پہلی سطح سے اونچا ہورہاہوتاہے ۔پھر دوسرے ٹیلے کے بعد جب نیچے اترتاہے ۔توپھر اس کے دل میں یہ خیا ل پیداہوتاہے کہ اب میں نچلی طرف جارہاہوں مگرحقیقت میں اس کا قدم اونچا اٹھ رہاہوتاہے ۔اسی طرح قدم بقدم ارتفاع اورانحطاط کے دوروں میں سے گذرتے ہوئے وہ بہت بلند پہاڑپر چڑھ جاتاہے۔ جس طرح قانون قدرت میں ہمیں یہ نظارہ نظر آتاہے ۔اسی طرح انسانی دماغوں کا ارتقاء بھی ہے ۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ا سوقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست فیوض حاصل کرنے کے نتیجہ میں یہ تعلیم لوگوں نے اپنا لی ۔مگر چونکہ دماغی ارتقاء بھی لہروں کی صورت میں چلتاہے اس لئے پہلی لہر کے بعد ا س میں ایک انحطاط کی صورت واقع ہوگئی ۔اب دوسری لہر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ بلند ہوئی ہے ۔ اوریہ لہر قانون قدرت کے مطابق پہلی لہر سے زیادہ بلندہوگی ۔مگر بہرحال ہرلہر کے بعد ایک انحطاط بھی آتاہے اورلوگ اصل تعلیم کو بھول جاتے ہیں ۔جب تک یہ چیز قائم ہے اس وقت تک کسی انشورنس وغیرہ کی ضرورت نہیں رہتی ۔انشورنس کی غرض آخر کیا ہوتی ہے۔ یہی کہ اگرہم مرجائیں توہمارے بیوی بچوں کو روٹی ملتی رہے ۔کپڑا ملتارہے ۔سامانِ خوردونوش اورمکان ملتارہے۔جب حکومت ان تمام چیز وںکی ذمہ وار ہوگی توانشورنس کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔کیونکہ ساروں کامکان بھی مل رہاہوگا۔غذابھی مل رہی ہوگی ۔کپڑابھی مل رہاہوگا۔ان کی تعلیم کابھی انتظام ہورہاہوگا ۔اوران کی بیماریوں کا علاج بھی ہورہاہوگا ۔یہی وہ قومی اخراجات ہیں جن کی ادائیگی کے لئے اسلام نے زکوٰۃ اور صدقہ و خیرات کا وسیع نظام جاری فرمایا ہے ۔اورمومنوں کی علامت ہی اس نے یہ بتائی ہے کہ وہ زکوٰۃ اداکرتے ہیں ۔اوراس طرح مخلوق کی خدمت کرکے خالق کی محبت کوحاصل کرتے ہیں۔دنیا میں بہترین ذریعہ کسی کی محبت حاصل کرنے کا یہی ہوتاہے کہ اس کے کسی عزیز سے محبت کی جائے ریلوے سفرمیں روزانہ یہ نظارہ نظر آتاہے کہ پاس بیٹھے ہوئے دوست کے بچہ کو ذراپچکار دیں یااسے کھانے کے لئے کوئی چیز دیدیں توتھوڑی دیر کے بعد ہی اس کاباپ اس سے محبت کی باتیں کرنے لگ جاتاہے کہ گویا وہ اس کا بہت پرانا دوست ہے ۔یہی طریق روحانی دنیا میں بھی جاری ہیح ۔جب انسان بنی نوع انسان کی بھوک اور ان کے افلاس کودورکرنے کے لئے اپناروپیہ خرچ کرتاہے توخداتعالیٰ کہتا ہے کہ چونکہ یہ میرے پیاروں کی خدمت کرتاہے اس لئے اسے بھی اپنے پیا روں میں داخل کرلیا جائے ۔حدیثوں میں آتاہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعض لوگوں سے کہے گا کہ دیکھو می بیمار تھا مگر تم لوگ میری عیادت کے لئے نہ آئے ۔میں بھوکاتھا ۔مگرتم نے مجھے کھانا نہ کھلا یا ۔میں ننگا تھا ۔تم نے مجھے کپڑ انہ دیا ۔اس پر وہ بندے کہیں گے کہ اے ہمارے رب!توکس طرح بیمار ہوسکتاتھا یاتوکس طرح بھوکااورننگاہو سکتاتھا تُوتو ان نقائص سے منزہ ہے ۔ا س پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جب میرے بندوں میں سے بعض لوگ بیمار تھے یا بعض لوگ بھوکے اورننگے تھے اورتم نے ان کی تیمار داری نہ کی۔نہ انہیں روٹی کھلائی اورنہ ان کا ننگ ڈھانکنے کے لئے انہیں کپڑادای توتم نے انہیں ان چیزوں سے محروم نہیں کیا بلکہ مجھے محروم کیا ۔پس زکوٰۃ اسلام کا ایک اہم ترین رکن ہے جس کو نظر انداز کرنا انسان کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کامورد بنادیتاہے ۔کیونکہ ایساانسان غرباء کے حقوق کو نظر انداز کرنے والاہوتاہے ۔
پھر فرماتاہے مومنوں کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ۔وہ آخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں۔یعنی وہ قربانیاں کرتے اورکرتے چلے جاتے ہیں ۔اوراس امر کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ ان قربانیوں کا پھل انہیں زندگی میں بھی ملتاہے یا نہیں ملتا ۔کیونکہ وہ آنے والی زندگی پر یقین رکھتے ہیں اوریہ یقین ان کے اندر اتنی جرأت پیداکردیتاہے کہ وہ قربانیوں کی آگ میں اپنے آپ کو بلادریغ جھونک دیتے ہیں ۔
دنیا میں بھی جب ایک سپاہی لڑائی میں جاتاہے توآخر کون سے فائدہ کے لئے جاتاہے ۔ہر شخص سمجھتاہے کہ میں ماراجائوں گا اوربسااوقات وہ ماراجاتاہے مگرفائدہ اس کی قوم اٹھاتی ہے۔اسی طرح جب ماں اپنے بچے کو اپنا خو ن چوسارہی ہوتی ہے تواسے کیا فائدہ حاصل ہورہاہوتاہے ۔دودھ کاایک ایک گھونٹ ماں ک خون سے بنتاہے ۔اس لئے ایک ایک گھونٹ جو بچے کے گلے سے اترتاہے وہ درحقیقت ماں کا خون ہوتاہے جسے وہ چوستاہے ۔اگرتمہاری ماں تمہارے منہ میں اپنا دودھ نہ ڈالتی ۔اگرتمہاری ماں بھی یہی کہتی کہ میں اپنا خون کیوں چوسنے دوں توتم زندہ نہیں رہ سکتے تھے ۔تمہاری ماں نے تمہی اپنا خون دیا اس لئے کہ تم زندہ رہو۔اب تمہاراکام یہ ہے کہ تم اپنا خو ن گرائو تاکہ تمہاری اولاد اورتمہاری قوم اورتمہاراملک زندہ رہے ۔
بدر کی جنگ میں جو صحابیؓ شہید ہوئے تھے ان صحابیوںؓ نے دنیا کاکون ساسکھ دیکھا تھا ۔انہوں نے اپنے ماں باپ کو چھوڑا اوراپنے رشتہ داروںکوچھوڑااپنے ساتھیوںکو چھوڑا اورپھر تیرہ برس تک کفار کے سخت ترین مظالم کا نشانہ بننے کے بعد ایک دُکھتے ہوئے دل کے ساتھ،ایک رِستے ہوئے زخم کے ساتھ انہوں نے مکہ کو بھی چھوڑدیا اس امید کے ساتھ کہ انہیں پھر مکہ کی زیارت نصیب ہوگی ۔ مگرابھی ہجرت پر ڈیڑھ سال بھی نہیں گذراتھاکہ وہ اپنے وطن سے دور۔پرانے وطن سے بہت دور اورنئے وطن سے بھی میلوں دور ایک تپتے ہوئے ریت کے جنگل میں کفار کی تلوار سے کٹ کٹ کر تڑپنے لگ گئے ۔ان کے سر ایک طر ف تھے اوردھڑ دوسر ی طرف ۔ اگریہ لو گ بھی یہی کہتے کہ ہم نے قربانی کرکے کیا لینا ہے ۔پھل تودوسروں نے کھانا ہے تواسلام کو وہ شان و شوکت جو بعد میں اسے حاصل ہوئی کہاں حاصل ہوسکتی تھی ۔
اسی طرح جنگ اُحدکا ایک واقعہ ہے ۔جنگ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی ابن کعبؓ کو فرمایا کہ جائو اورزخمیوں کو دیکھو ۔و ہ دیکھتے ہوئے حضرت سعد بن ربیعؓ کے پاس پہنچے جو سخت زخمی تھے اور آخری سانس لے رہے تھے ۔انہوں نے ان سے کہا کہ اپنے متعلّقین اور اعزّاء کو اگر کوئی پیغام دینا ہوتو مجھے دیدیں۔حضرت سعدؓ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں منتظر ہی تھاکہ کو ئی مسلمان ادھر آئے توپیغام دوں۔تم میرے ہاتھ میں ہاتھ دیکر وعدہ کروکہ میراپیغام ضرور پہنچادو گے ۔اوراس کے بعد انہوں نے جو پیغام دیا و ہ یہ تھاکہ میرے بھائی مسلمانوںکو میراسلام پہنچا دینا اورمیری قوم اورمیرے رشتہ داروں سے کہنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پا س خداتعالیٰ کی ایک بہترین امانت ہیں ۔اورہم اپنی جانوں سے اس امانت کی حفاظت کرتے رہے ہیں ۔اب ہم جاتے ہیں اور اس امانت کی حفاظت تمہارے سپر د کرتے ہیں ۔ایسا نہ ہو کہ تم اس کی حفاظت میں کمزوری دکھائو۔دیکھو ایسے وقت میں جب انسان سمجھتاہوکہ میں مررہاہوں ۔کیسے کیسے خیالات اس کے دل میں آتے ہیں ۔ وہ سوچتاہے میری بیوی کاکیاحال ہوگا۔میرے بچوں کو کون پوچھے گا۔مگراس صحابیؓ نے کوئی ایسا پیغام نہ دیا ۔صرف یہی کہا ۔کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے اس دنیا سے جاتے ہیں تم بھی اسی راستہ سے ہمارے پیچھے آجائو۔ان لوگوں کے اند ریہی ایمان کی قوت تھی جس سے انہوں نے دنیا کو تہ و بالاکردیا اورقیصروکسریٰ کی سلطنتوں کے تختے الٹ دیئے ۔قیصر روم حیران تھا کہ یہ کو ن لوگ ہیں ۔کسریٰ نے اپنے سپہ سالار کو لکھا کہ اگر تم ان عربوں کو بھی شکست نہیں دے سکتے توپھر واپس آجائو اورگھر میں چوڑیاں پہن کر بیٹھو ۔یہ گوہیں کھانے والے لوگ ہیں ان کوبھی تم نہیں روک سکتے۔ اس نے جواب دیا کہ یہ توآدمی معلوم ہی نہی ہوتے ۔یہ توکوئی بلا ہیں ۔یہ تلواروں اورنیزوں کے اوپر سے کودتے ہوئے آتے ہیں۔
یہ جرأت مردوں پر ہی موقو ف نہیں ۔مجھے تو ایک ماں کی قربانی پر حیرت آتی ہے۔حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں جب عراق میں قادسیہ کے مقام پر جنگ جاری تھی ۔توکسریٰ میدان جنگ میں ہاتھی لایا ۔اونٹ ہاتھی سے ڈرتاہے اس لئے وہ انہیں دیکھ کر بھاگتے تھے اور اس طرح مسلمانوں کو بہت نقصان ہوااوربہت سے مسلمان مارے گئے ۔آخر ایک دن مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ ہو آج ہم میدان سے ہٹیں گے نہیں۔جب تک دشمن کو شکست نہ دے لیں ۔ایک عورت حضرت خنساء اپنے چا ربیٹوںکولے کر میدان جنگ میںآئیں اوران کو مخاطب کرکے کہنے لگیں کہ پیارے بیٹو!تمہارے باپ نے اپنی زندگی میں ساری جائداد تباہ کردی تھی ۔اورمجھے مجبور کیا کہ میں اپنے بھائی سے کہو ں کہ وہ مجھے حصہ دے ۔چنانچہ میں اس کے پاس گئی ۔اس نے میرابڑا اعزاز کیا ۔بڑی دعوت کی اورپھر اپنی جائداد میں سے آدھی مجھے بانٹ دی ۔میں و ہ لے کرچلی گئی ۔توتمہارے باپ سے میں نے کہا ۔کہ اب تو آرام سے گذارہ کرو۔ مگر اس نے پھر اسے بھی برباد کردیا ۔اورپھر مجبور کرکے میرے بھائی کے پاس مجھے بھیجا ۔پھر میں اس کے پاس گئی ۔اس نے پھر میرابڑااعزازواحترام کیا ۔اورپھر بقیہ میں سے مجھے آدھی جائداد بانٹ دی مگر وہ بھی تمہارے باپ نے برباد کردی اور پھر مجھے مجبور کیا کہ اپنے بھائی سے جاکر حصہ لوں ۔چنانچہ میں پھر بھائی کے پاس گئی اوراس نے پھر بقیہ جائداد بانٹ دی مگر وہ بھی تمہارے باپ نے برباد کردی اورجب تمہاراباپ مراتواس نے کوئی جائیداد نہ چھوڑی ۔میں اس وقت جوان تھی ۔تمہارے باپ کی کوئی جائیداد نہ تھی۔پھر اپنی زندگی میں اس نے میرے ساتھ کو ئی حسن سلوک بھی نہ کیا تھا ۔اوراگر عرب کے رسم و رواج کے مطابق میں بدکارہوجاتی توکوئی اعتراض کی بات نہ تھی ۔مگر میں نے اپنی تمام عمر نیکی سے گذاری اب کل فیصلہ کن جنگ ہونے والی ہے ۔ میرے تم پر بہت سے حقوق ہیں ۔کل کفر او ر اسلام میں مقابلہ ہوگا اگرتم فتح حاصل کئے بغیر واپس آئے ۔تومیں خداتعالیٰ کے حضورکہوں گی کہ میں ان کو اپناکوئی بھی حق نہیں بخشتی ۔اس طر ح اس نے اپنے چاروں بیٹوںکو جنگ میں تیار کرکے بھیج دیا ۔اورپھر گھبراکر خود جنگل میں چلی گئی اوروہاں تنہائی میں سجدہ میں گرکر اورروروکر اللہ تعالی سے دعائیں مانگنے لگی ۔اوردعایہ کی کہ اے میرے خدا میں نے اپنے چاروں بیٹوں کو دین کی خاطر مرنے کے لئے بھیج دیاہے لیکن تجھ میںیہ طاقت ہے کہ ان کو زندہ واپس لے آئے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ مسلمانوں کو فتح بھی ہوگئی اوراس کے چاروں بیٹے بھی زندہ واپس آگئے ۔یہ جرأت او ر بہادری ایمان بالآخرۃ ہی کا نتیجہ تھی ۔یہ لوگ سمجھتے تے کہ دنیا کی نجات اسلام سے وابستہ ہے اورہم خواہ مارے بھی جائیں تب بھی پرواہ نہیں کیونکہ دنیا بچ جائے گی ۔اوراسلام کو غلبہ حاصل ہوجائے گا بیشک ایک کہنے والا کہہ سکتاہے کہ آج تواسلام کو کہیں غلبہ حاصل نہیں۔مگراس تنزل کے زمانہ میں بھی ان لوگوں کی قربانیوں نے ہی مسلمانوں کویہ عظمت دی ہوئی ہے کہ اسلام کانام بوجہ اس کثرت کے جو مسلمانوں کوحاصل ہے دنیا کے تمام لوگ ادب سے لینے پر مجبور ہیں ۔یہ رُعب مسلمانوں کو کہاں سے حاصل ہوا؟ انہی لوگوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں حاصل ہواہے جوبسااوقات فاقہ سے رات کوسوئے اور بسااوقات فاقہ سے ہی صبح کو اٹھے بسااوقات اگران کی پگڑی پھٹی ہوئی ہوتی تھی توانہیں پہننے کے لئے دوسری پگڑی نہیں ملتی تھی ۔جوتی پھٹی ہوئی ہوتی تھی توانہیں پہننے کے لئے دوسر ی جوتی نہیں ملتی تھی ۔یہ وہی رُعب ہے جو تمہارے باپ دادا کی قربانی کے نتیجہ میں تمہیں حاصل ہوا۔کہتے ہیں نام بڑاہوتاہے کام بڑانہیں ہوتا ۔اب کام عام طور پر مسلمانوں کے چھوٹے ہیں ۔لیکن انہیں نام ایسا حاصل ہوگیاہے کہ سب لوگ ان سے ڈرتے ہیں ۔
حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایاکرتے تھے کہ رستم کے گھر میں ایک د فعہ چو ر آگیا ۔رستم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے نکلا اوردونوں میں کُشتی شروع ہوگئی چور کو یہ پتہ نہیں تھا کہ جس شخص کاوہ مقابلہ کررہاہے وہی رستم ہے ۔وہ یہ سمجھ رہاتھا کہ یہ کوئی رستم کا نوکر ہے ۔آخر مقابلہ کرتے کرتے چور غالب آگیا اوروہ سینہ پر چڑھ کر رستم کی گردن کاٹنے لگا ۔اتنے میں رستم نے یکدم شور مچادیا کہ ’’ آگیا رستم۔آگیا رستم ‘‘اورچو ریہ سنتے ہی اس کے سینہ پرسے اتر کربھاگ گیا ۔حالانکہ اس نے رستم کو گرایاہواتھا ۔مگرچونکہ رستم کے نام کو ایک خاص رعب حاصل ہوچکا تھا اس لئے اس نے رستم کوتوگرالیا ۔مگررستم کے نام کا مقابلہ نہ کرسکا اوربھاگ گیا۔ توجولو گ قربانیاں کرنے والے ہوتے ہیں وہ دنیا میں اپنا نام چھوڑ جاتے ہیں ۔وہ مرجاتے ہیں مگر ان کانام ان کی اولادوں کی حفاظت کرتاچلاجاتاہے اورپھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگلے جہان میں جوانہیں لازوال بدلہ ملے گا اس کاتوتصوربھی نہیں کیاجاسکتا ۔پس بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایاہے کہ مومنوں کایہ خاصہ ہے کہ وہ قربانیوں کے میدان میں بڑھتے چلے جاتے ہیں کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل یقین ہوتاہے اوروہ سمجھتے ہیں کہ ہماری یہ قربانیاں ہماری قوم کو بھی عزت دیں گی اور خود ہمارے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی رضاکاموجب ہوں گی ۔گویا وہ وسیع نتائج جو آئندہ نکلنے والے ہوتے ہیں ان پر انہیں پورایقین ہوتاہے ۔ اوروہ اس مقصد کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ۔
ان الذین لایومنون بالاخرۃ زینا لھم اعمالھم فھم یعمھون
وہ لوگ جو اُخروی زندگی پر ایمان نہیں لاتے ۔ ہم نے ان کے اعمال کو ان کے لئے خوبصورت کرکے دکھا یا ہے پس وہ بہکے بہکے
اولئک الذین لھم سوء العذاب وھم فی الاخرۃ ھم الاخسرون٭
پھرتے ہیں ۔ ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا اور وہ اخروی زندگی میں سب سے زیادہ گھاٹاپانے والے ہوں گے ۔۲؎
۲؎ حل لغات :۔یَعْمَھُوْنَ:عَمَہَ سے نکلاہے اور عَمَہَ یَعْمَہٗ عَمَھًا وَعَمُوْھِیَۃً وَعَمْھَانًا کے معنے ہوتے ہیں تَرَدَّدَفِی الضَّلَالِ وَتَحَیَّرَ فِیْ مُنَازَعَۃٍاَوْ طَرِیْقٍ۔گمراہی میں بھٹکا پھر ا اورکسی جھگڑے میں یاراستہ میں حیران ہوگیا ۔یعنی پوری طرح سمجھ نہ سکا کہ اپنے حق میں کیا دلیل دے اورکس راستہ کو اختیار کرے۔
علامہ زمخشری اپنی کتا ب ’’ کشاف ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عَمَہَ کا لفظ بھی عَمٰی کی طرح ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ یاء کے ساتھ جو عَمٰی ہے وہ آنکھوں ک بینائی کے فقدان اورعقل کی بینائی کے فقدان میں مشترک طورپر استعمال ہوتاہے وَالْعَمَہَ خَاصٌ بِالْبَصِیْرَۃِ اور عَمِہَ جو ھ کے ساتھ ہوتاہے وہ عقل کی بینائی کے ساتھ مخصوص ہے ۔گویا اہل عرب یہ کبھی نہیں کہتے کہ فلاں شخص اَعْمَہُ الْعَیْنِ ہے(اقرب)مزید تفصیل کے لئے دیکھیں تفسیر کبیر جلد سوم ص ۳۷
تفسیر :۔فرماتاہے ۔وہ لوگ جو اُخروی زندگی پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے اعمال ان کو خوبصورت کرکے دکھائے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے بر ے اعمال کو بھی اچھا سمجھ رہے ہیں اور گمراہی میں بہکتے پھرتے ہیں ۔
اس آیت میںاللہ تعالیٰ نے کفار کی بدعملی اور ان کے انکار کی بنیادی وجہ آخرت کا انکار قرار دیا ہے اوربتایاہے کہ چونکہ یہ لوگ کسی جزاسزاکے قائل نہیں اس لئے انہیں اپنے اعمال کے متعلق کبی فکرپیدانہیں ہوااورنہ صداقت پر غور کرنے اور اپنے اعمال و کردار کا جائزہ لینے کا انہیں کبھی احساس ہوتاہے ۔اگر انہیں یقین ہوتاک ہمیں ایک دن اپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضرہوناپڑے گااورہمارے ناپسندیدہ اعمال ہمیں گرفت میں لے آئیں گے توان کا رویہ بالکل اَورہوتااوران کے اند رمتانت اور سنجیدگی کے جذبات نمایاںہوتے ۔مگر اب چونکہ گرفت کا احساس ان کے اند رنہیں پایاجاتا اسلئے ان کے دل ایسے غبی ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے ناد رافعال میں بھی ایک لذت اور سرور محسوس کرتے ہیں ۔اورانکو قابل نفرت چیز قرار دینے کی بجائے قابل تعریف سمجھنے لگ گئے ہیں ۔آخر دنیا میں کیوں کوئی شخص کسی سانپ کے سوراخ میں اپنا ہاتھ نہیں ڈالتا۔کیوں وہ جلتی ہوئی آگ میں نہیں کود جاتا ۔کیوں وہ شیروں کی کچھار میں اپنے آپ کو نہیں پھینک دیتا ۔کیوں وہ زہر کاجام اپنے ہونٹوں سے نہیں لگاتا ۔اسی لئیی کہ وہ سمجھتاہے کہ اگرمیں نے سانپ کے سوراخ میں اپنا ہاتھ ڈالاتومیری موت یقینی ہے ۔اگر میں جلتی ہوئی آگ میں کوداتومیراجھلس جانایقینی ہے ۔اگر میں نے اپنے آپ کو شیروں کی کچھا رمیں ڈال دیاتو میری ہلاکت یقینی ہے اگر میں نے زہر کا پیالہ اپنے منہ سے لگایا تومیرامرجانا یقینی ہے ۔پھر اگر ایسا ہی ایما ن کسی شپص کا آخرت پر بھی ہوتووہ کب کسی گناہ کا دلیری کے ساتھ ارتکاب کرسکتاہے ۔ گناہوں پر دلیری اورنبیوں کے انکار کی بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ آخرت کا یقین دل میں نہیں ہوتا ۔انسان بڑی دلیری سے کہہ دیتاہے کہ
’’ ایہہ جہان مٹھا اگلا کِن ڈٹھا ‘‘
یعنی اس جہان کے تومزے ہمیں لوٹنے دو ۔اگلا جہان کس نے دیکھا ہے ۔کہ ایک ان دیکھے دن کے لئے ابھی سے ہم ان لذائذ کوترک کردیں۔غرض اعمال کی خوبی یابرائی صرف جزاسزا کے عقیدہ سے تعلق رکھتی ہے ۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس جگہ فرمایا ہے کہ جو لوگ آخرت کونہیں مانتے وہ اپنے برے اعمال کو بھی اچھا سمجھتے ہیں یعنی نیکی اور بدی میں وہ اصولاً کوئی فرق نہیں کرسکتے کیونکہ جب نتیجہ کوئی نہیں۔نہ اچھے کام کاکوئی انعام ہے اور نہ برے کام کی کوئی سزاہے تو پھر کسی فعل کا اچھا اور کسی کابراہوناکیا معنے رکھتاہے ۔
یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ تمام اعمال نیت کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں ۔یوں توکافر بھی بعض اعمال ایسے کرتاہے جومومنوں کے اعمال ک مشابہ ہوتے ہیں لیکن چونکہ اس کے ساتھ نیت نیک نہیں ہوتی اورنہ خداتعالیٰ کی رضامندی مطلوب ہوتی ہے اسلئے اس کاعمل اسے کسی انعام کا مستحق نہیں بناتا۔لیکن مومن کے عمل کا شاندار نتیجہ نکلتاہے کیونکہ مومن کے عمل کے ساتھ نیت نیک بھی شامل ہوتی ہے اورخداتعالیٰ کی رضاکی جستجو بھی اس کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے ۔
زَیَّنَالَھُمْ اَعْمَالَھُمْ۔پر بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب ان ک برے اعمال خداتعالیٰ ہی ان کو خوبصورت کرکے دکھاتاہے تو پھر ان کا کیا قصور ہوا۔سواس بارہ میں یاد رکھنا چاہیئے کہ درحقیقت یہ خداتعالیٰ کی ایک سنت ہے او راس میں انسانی ترقی کے بہت سے راز مضمر ہیں ۔کہ جب کو ئی شخص کچھ مدت کو ئی کام کرتارہتاہے تواس کوا س کام سے ایک مناسبت پیداہوجاتی ہے اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگ جاتاہے ۔اوریہاںاسی قانون قدت کی طرف اشارہ ہے نہ کہ کسی خاص تقدیر کی طرف۔اوریہ بتایاگیا ہے کہ چونکہ انہوں نے سچے راستہ کو چھوڑ کر غلط راستہ اختیار کرلیاتھا اورانسانی فطرتگ میں یہ بات داخل ہے کہ جب وہ کوئی کام ایک لمبے عرصہ تک کرتاچلاجاتاہے تو اس کام کی محبت اس کے دل میں پیداہوجاتی ہے اوروہ اسے اچھا سمجھنے لگ جاتاہے ۔اس لئے انہیں بھی اب اپنی بد عملی خوبصورت دکھائی دینے لگتی ہے ۔اورچونکہ فطرت انسانی کا خداتعالیٰ ہی خالق ہے اس لئے زَیَّنَالَھُمْ اَعْمَالَھُم فرماکر اسے خداتعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیاہے ۔ورنہ اس کے یہ معنے نہیں کہ خداتعالیٰ انہیں برے اعمال اچھے کرکے دکھاتاہے ۔ بلکہ وہ خود فطرت کی اعلیٰ درجہ کی خوبی کا غلط رنگ میں استعمال کرکے برے اعمال کوبھی اچھے سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے آگ خداتعالیٰ نے اس لئے بنائی ہے کہ اس سے کھان تیار کیا جائے یاسردی سے بچائو کاسامان مہیا کیا جائے ۔اگر کوئی شخص آگ میں گرکر اپنے آپ کو جلا لے تویہ اس کا اپنا قصور ہوگا آگ کو پیداکرنے والے کاکوئی قصورنہیں ہوگا۔اسی طرح خداتعالیٰ نے انسانی ترقی کے لیئے یہ قانون بنایاہے کہ جوشخص کسی کام کاعادی ہوجاتاہے رفتہ رفتہ اسے اچھا سمجھنے لگ جاتاہے اوراس سے اسے ایک طبعی موانست پیداہوجاتی ہے ۔لیکن اگر کچھ لوگ اس قانون کو اس رنگ میں استعمال کریں کہ وہ برائیوں کا ارتکاب شروع کردیں اوراس قانون کے نتیجہ میں انہیں اپنی ہی برائیاں حسین نظر آنے لگیں توا سمیں خود ان کا اپنا ہی قصور ہوگا صانع فطرت پر اس سے کو ئی اعتراض پیدانہیں ہوگا ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاہے کہ جب کوئی شخص نیک عمل کرتاہے توخداتعالیٰ کے ملائکہ اس کے قلب پر ایک سفید نقطہ لگادیتے ہیں ۔دوسرانیک عمل بجالاتاہے تودوسراسفید نقطہ لگادیتے ہیں یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے اس کاتمام دل نو رانی ہوجاتاہے اورہرقسم کی بدی اس میں سے دو رہوجاتی ہے ۔اس کے بالمقابل جب کوئی شخص بدی کرتاہے توفرشتے اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگادیتے ہیں اورجب و ہ دوسری بدی کرتاہے تودوسراسیاہ نقطہ لگادیتے ہیں اورپھر اگروہ بدیوں میں بڑھتاجائے توان نقطوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کاتمام دل تاریک ہوجاتاہے اوراس کی نیکیوں کا خرمن جل کرراکھ ہوجاتاہے۔یہ حدیث بھی اسی قانون فطرت کی تشریح ہے کہ جب کو ئی شخص نیکیوں پر دوام اختیار کرتاہے تو نیکی اس کے جسم کا ایک حصہ بن جاتی ہے ۔اورجب بدیوں پر دوام اختیار کرتاہے توبدیاں اس کے جسم کا ایک حصہ بن جاتی ہیں ۔اورجوچیز انسان کے جسم کا ایک حصہ بن جائے وہ اسے اچھی ہی دکھائی دیتی ہے بری نظر نہیں آتی ۔اگر اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان پر رحم کرتے ہوئے انسانی فطرت میں یہ بات نہ رکھ دیتاتونیکی اختیار کرنایاکسی کام میں دوام اختیار کرنا اس کے لئے بڑا مشکل ہوتا۔ مگرا س قانون کی وجہ سے نیکیوں می ترقی کرنے کاسفر بڑاآسان ہوگیاہے ۔اورہرعمل اس سے اگلے عمل کو آسان تربنادیتاہے ۔آخر ایک ماہر فن کی تعریف کیوں کی جاتی ہے اسی لئے کہ مسلسل ایک کام کرنے کی وجہ سے وہ اپنے اند ر ایک ایسی قابلیت پیداکرلیتاہے کہ اس فن سے اسے ایک مناسبت پیداہوجاتی ہے اوروہ اس میں دوسروں سے آگے نکل جاتاہے ۔اگراللہ تعالیٰ انسانی فطرت میں یہ ملکہ نہ رکھ دیتا کہ مسلسل کام کے نتیجہ میں اسے اپنے کام سے ایک مناسبت پیداہوجاتی ہے توکوئی شخص بھی اپنے فن میں ترقی نہ کرسکتا۔ یہی قانون نیکی اوربدی کے میدان میں بھی جاری ہے ۔ایک نیک انسان پہلے اپنے نفس پر بوجھ محسوس کرتے ہوئے کسی نیکی کیطرف اپنا قدم بڑھاتاہے ۔مگررفتہ رفتہ وہی نیکی اس کے رگ و ریشہ یں اس طرح سرایت کرجاتی ہے کہ اس کاترک کرنا اس کے لئے ناممکنات میں سے ہوجاتاہے ۔اسی طرح جب کوئی شخص بدی میں اپنے آپ کو ملوث کرنا شروع کردیتاہے توخواہ پہلی بدی اس کے دل میں اضطراب پیداکردے مگر رفتہ رفتہ وہی بدی اس کی غذابن جاتی ہے جس کو چھوڑنا اس کے لئے بڑادوبھر ہوجاتاہے ۔
غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی قانون کی طرف اشارہ فرمایاہے اوربتایاہے کہ چونکہ ان لوگوں نے آخرت کا انکار کردیا ہے ۔جس کی وجہ سے انہیں کسی گرفت ک اخوف نہیں رہا ۔اس لئے ان کے دلوں میں گناہوں پر دلیری پیداہوگئی ہے اورپھر متواترگناہوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر ایسازنگ لگ گیا ہے کہ وہ اپنے برے افعال کو بھی اچھاسمجھنے لگ گئے ہیں ۔اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے پاس ایک دفعہ ایک چو ر علاج کرانے کے لئے آیا۔توآپ نے اسے وعظ و نصیحت کرنی شرو ع کی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہاتھ پائوں اس لئے نہیں دیئے کہ تم ان سے حرام روزی کھایاکرو۔بلکہ اس لئے دیئے ہیں کہ تم ان کے ذریعہ سے حلال روزی کما کر کھا ئو ۔تم چوری کرنا چھو ڑکیوں نہیں دیتے ۔اورکیوں حلال روزی نہیں کماتے ۔جب آپ نے اسے یہ وعظ و نصیحت کی تواس کی آنکھیں غصے کی وجہ سے سرخ ہوگئیں ۔اورکہنے لگا ۔اچھامولوی صاحب اگر یہ حلال کی روزی نہیں توپھر اَورکونسی حلال کی روزی ہے ۔آپ لوگ میٹھی نیند سورہے ہوتے ہیں اورہم مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں ۔اگر کسی کوہمارے متعلق علم ہوجائے تووہ ہمیں گولی مارکر مار دے ۔ہم اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈا ل کرچوری کرتے ہیں ۔پھراس سے بڑھ کر اورکونسی حلال روزی ہوسکتی ہے ؟۔حضر ت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ اسے چوری کی عادت پڑ چکی ہے اور یہ اکام کرتے کرتے اس کی فطرت اتنی مسخ ہوچکی ہے کہ اب یہ کام اس کی نگاہ میں برانہیں رہا ۔اس لئے اب بحث کے رنگ میں سمجھانے سے کوئی فائدہ اسے نہیں ہوسکتا۔چنانچہ آپ فرماتے تھے کہ میں نے بات کو ٹلادیا ۔اورادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں تاکہ یہ بات اس کے ذہن سے نکل جائے ۔جب کچھ دیر گذر گئی تومیں نے س سے پوچھا کہ تم چوری کس طرح کرتے ہو؟اس نے کہا کہ اکیلا آدمی چوری نہیں کرسکتا بلکہ ہم پا نچ سات آدمی مل کرچوری کرتے ہیں ۔ان میں سے ایک آدمی گھر کا راز دار ہوتاہے اوروہ عام طور پر سقّہ یا چوہڑہ وغیرہ ہوتاہے کیونکہ راز دار کے بغیر چوری نہیں ہوسکتی ۔وہی کمروں او ردروازوں کے متعلق بتاتا ہے اوروہی اس بات کے متعلق اطلاع دیتاہے کہ نقدی اورزیورات کہاں ہیں ۔اس کے بعد ایک ایسے آدمی کی ضرورت ہوتی ہے جسے سیندھ لگانی آتی ہواوروہ ایسے طور پر اوزاروںکواستعمال کرے کہ سیندھ لگانے کی آواز پیدانہ ہواوراس کی آوازسے گھر والے بیدارنہ ہوجائیں ۔پھر ایک تیسراآدمی ہوناچاہیئے جو تالے وغیرہ کھولنے میں مشاق ہو۔جب دوسراآدمی سیندھ لگالیتاہے تو وہ ایک طرف ہوجاتاہے اورپھر اس تیسرے آدمی کاکام شروع ہوجاتاہے اوروہ صندوقوں کے تالے کھولتاجاتاہے اورپھرایک چوتھا آدمی ایساہوناچاہیئے جو کہ ایسے طورپر چلنے میں مہارت رکھتاہوکہ اس کے پائوں ک آہٹ محسوس نہ ہو۔تیسراآدمی تالے کھول کراورسامان نکال کر چوتھے آدمی کو دیتاجاتا ہے ۔اوروہ باہروالوںکو پکڑاتا جاتاہے ۔پھر ایک پانچویں آدمی کی یہ ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ گلی کے سرے پر کھڑارہے اوراگرکسی شخص کو آتا جاتادیکھے توسیٹی بجادے یا کوئی اوراشارہ کردے تاکہ سب ہوشیار ہوجائیں ۔پھر چھٹا شخص ایساہوناچاہیئے جو سفید کپڑے پہنے ہوئے ہو او رکسی کو اس کے چلنے پھرنے پر شک نہ گذرے ۔کیونکہ ہم تو ننگ دھڑنگ ہوتے ہیں اورہمیں کوئی دیکھ لے تو یقیناً ہم پر چور ہونے کا شبہ کرے لیکن یہ آدمی ایسے کپڑوں میں پھر تاہے کہ کسی کو اس پر شک نہیں گذرسکتا۔ہم نقدی اورزیورات وغیرہ س کے سپرد کردیتے ہیں ۔وہ نہایت اطمینان سے مال لے کر چلاجاتاہے ۔اورساتویں شخص کو جو سنار ہوتاہے دیدیتاہے ۔جو سونے کو اورہیرے اورجواہرا ت کو لاکھ سے جداکرتاہے اور اسے پگھلا کرایک نئی شکل دیدیتاہے ۔اوراس سونے کو آگے بیچتاہے اورپھر ہم سب آپس میں برابر تقسیم کرلیتے ہیں ۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے اسے کہا کہ اگر تمہاری اتنی محنت کے بعد وہ سنا ر تمہاراسوناکھاجائے توپھر تم کیاکرو ۔اس پر بے اختیار اس چور کے منہ سے نکلا کہ کیا وہ اتنا حرام خور ہو گا کہ دوسرے کا مال کھا جائے گا ۔میں نے کہا ۔بس اب تم سمجھ گئے ہو ۔معلوم ہواکہ دوسروں کامال کھانا حرام ہے اورتمہاری فطرت بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے مگر چوری کی عادت نے تمہاری فطرت کو ایسا مسخ کردیا ہے کہ تم اس کام کو بھی حلال کی کمائی سمجھنے لگ گئے ہو ۔مگرجہاں اللہ تعالیٰ کا یہ قانونو ہے کہ جو شخص ایک لمبے عر صہ تک کسی فعل کا ارتکاب کرتارہتاہے وہ رفتہ رفتہ اسے خوبصورت نظر آنے لگتاہے وہاںاس کا ایک یہ بھی قانون ہے کہ کسی برے کام کا اچھا نتیجہ نہیں نکل سکتا ۔چنانچہ فرماتاہے کہ اباوجود اس کے کہ انہیں اپنے برے اعمال میں لذت آرہی ہے اوروہ انہیں اچھا سمجھ رہے ہیں پھر بھی یہ ان کے اعمال بدنتائج سے محفوظ نہی ں رہ سکتے بلکہ انہیں دنیا میں بھی اپنے برے اعمال کی وجہ سے رسواہونا پڑے گا ۔او راُخر وی زندگی میں بھی وہ سب سے زیادہ نقصان اٹھانیوالے ہوں گے ۔
وانک لتلقی القرآن من لدن حکیم علیم٭
اورتجھ کو یقیناً قرآن اس (ہستی) کی طرف سے مل رہاہے جو بہت حکمت والی (اور )بہت جاننے والی ہے۔ ۳؎
۳؎ حل لغات :۔تَلَقّٰی کے معنے براہ راست منہ درمنہ کلام سننے کے ہوتے ہیں ۔چنانچہ لغت میں لکھا ہے ۔تَلَقّٰی الشَّیْئَ اَخَذَہٗ مِنْ فِیْکَ مُشَافَھَۃٌ (اقرب)یعنی تَلَقّٰی الشَّیْئَ کے معنے براہ راست دوسرے کے منہ سے کلام سننے کے ہوتے ہیں۔
تفسیر :۔اب فرماتاہے۔منکر بیشک انکار کرتے چلے جائیں ۔گالیاںد ینے والے گالیاںد یتے چلے جائیں اوربرابھلاکہنے والے برابھلاکہتے رہیں۔خدائے حکیم و علیم نے اپنی سکیم دنیا میں نافذ کردی ہے اوراب دنیا کی کوئی طاقت اسے پوراہونے سے روک نہیں سکتی ۔اب حاسدوں کے لئے حسد کے انگاروں پر لٹنے کے سواکوئی چار ہ نہیں ۔و ہ اپنے مونہہ کی پھونکوں سے نہ خداتعالیٰ کے اس روشن کردہ چرا غ کوبجھا سکتے ہیں اورنہ تیروسنان سے اسلام کی ترقی اوراس کی عظمت کو روک سکتے ہیں ۔کیونکہ یہ وہ تعلیم ہے جو حکیم و علیم خداتجھے بالمشافہ سکھا رہاہے ۔اوریہ ناممکن ہے کہ ایک حکیم ہستی جو ساتھ ہی علیم بھی ہے اس کی تعلیم کو دنیا قبول نہ کرے یااس کی تعلیم کو مٹانے پر وہ قدرت پاسکے ۔اس جگہ بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیداہوتاہے کہ پچھلی سورۃ میں تویہ فرمایاتھا کہ روح الامین تجھ پر کلام اتار تاہے او ریہاں یہ فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ تجھ پر براہ راست کلام ناز ل کرتاہے ۔ان دونوں میں اختلاف کیوں ہے؟ سویاد رکھنا چاہیئے کہ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ روح الامین سے مرادیہ ہے کہ جس صورت میں خداتعالیٰ نے فرشتے کو کلام دیا تھا اسی صورت میں اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا اور نسیان یاغلطی کااس میں کوئی امکان باقی نہ رہا ۔اورجو کلام نسیان او ر غلطی سے پاک ہو اورلفظاً لفظاً او رحرفاً حرفاً اورحرکۃً حرکۃً اس شخص کو پہنچ جائے جس کو کلام بھیجا گیاتھا تووہ ایساہی ہوتاہے جیسا کہ بالمشافہہ بات کرنا ۔کیونکہ بالمشافہہ بات کرنے میں یہی مدنظر ہوتاہے کہ کوئی غلطی نہ رہ جائے یاپیغامبر کچھ بھول نہ جائے ۔ جب پیغامبر کے متعلق بھی یہ احتیا ط کرلی گئی کہ نہ وہ کچھ بھولے نہ غلطی کرے نہ اس کا سنایاہواکلام مخاطب کو بھولے اور نہ وہ اس میں کو ئی غلطی کرے تودونوں کلاموںکو ایک سادرجہ حاصل ہوگیا۔پس اِنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلِیمٍ والی آیت سورئہ شعراء کی اس آیت کے خلاف نہیں کہ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنِ عَلیٰ قَلْبِکَ بلکہ وہ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے ۔
اس آیت میں درحقیقت عیسائیوں کے اس اعتراض کاجواب دیاگیاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تو خداتعالیٰ بالمشافہ کلام کرتاتھامگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جبریل نازل ہوتاتھا ۔اس جگہ بتایاگیاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خداتعالیٰ بالمشافہ گفتگو کرتاتھا ۔روح الامین کے واسطہ بننے کاذکر بطور تمثیل کے کیاگیاہے ۔ورنہ آپؐ سے بالمشافہ کلام ہونے مڑیں کوئی شبہ نہیں ۔
اذ قال موسی لاھلہ انی انست نارا ساتیکم منھا بخر
(یادکرو)جب موسیٰؑ نے ااپنے اہل سے کہا کہ میں نے ایک آگ دیکھی ہے ۔میں یقینا ً تمہارے پاس ا س(آگ )سے کوئی
اواتیکم بشھاب قبس لعلکم تصطلون٭
(عظیم الشان)خبرلائوں گا ۔یاتمہارے پاس ایک چمکتاہواانگارہ لائوں گا ۔تاکہ تم آگ سینکو۔ ۴؎
۴؎ حل لغات :۔اٰنَسْتُ:اٰنَسَ سے واحد متکلم کاصیغہ ہے اوراٰنَسَ الشَّیْئَ کے معنے ہیں اَبْصَرَہ ٗ۔اس کودیکھا ۔اٰنَسَ الصَّوْتَ:سَمِعَہٗ وَاَحَسَّ بِہٖ۔ اگر اٰنَسَ الصَّوْت کافقرہ کہیں تو اس کے معنے ہوں گے آواز کوسنا او رمحسوس کیا (اقرب)پس اٰنَسْتُ کے معنے ہوں گے ۔ میں نے دیکھا ۔
شِھَابٌ: اَلشِّھَابُ کے معنے ہیں شُعْلَۃٌ مِّنْ نَارٍ سَاطِعَۃٍ۔آگ کا شعلہ جو اوپر کو اٹھ رہا ہو۔ کُلُّ مُضِیْئٍ مُّتَوَلِّدٍ مِّنْ نَارٍ ۔آگ سے پیداہونے والی روشنی (اقرب)
قَبَسٍ:اَلْقَبَسُ کے معنے ہیں شُعْلَۃُ نَارٍ تُؤْخَذُ مِنْ مُّعْظَمِ النَّارِ۔ آگ کاشعلہ جو بڑی آگ سے لیاجائے (اقرب)
تَصْطَلُوْنَ:اِصْطَلٰی سے فعل مضارع جمع مذکر مخاطب کا صیغہ ہے اوراِصْطَلیٰ بِالنَّارِ اِصْطِلَائً کے معنے ہیں اِسْتَدْفَأَ بِھَا آگ تاپی اور اس سے گرمی حاصل کی ۔(اقرب)
تفسیر :۔ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے لطیف اور سمیع ہونے کی دلیل کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ پیش کیا گیا ہے ۔چنانچہ فرماتاہے کہ یاد کرو جب موسیٰ علیہ السلام نے مدین سے مصر آتے وقت ایک آگ دیکھی اور اپنے رشتہ داروں سے کہا ۔کہ میں اس آگ اکی طرف جاتاہوں ۔اوریاتومیں اس آگ کے پا س سے کو ئی خبر لائوں گا ۔یاتمہارے لئے کو ئی ایساانگارہ لائوں گاجس سے تم آگ سینک سکو ۔
قبس کا لفظ اس جگہ شھاب کا بدل ہے یعنی شھابسے میری مراد قبس ہے ۔اورچونکہ یہاں ناراً کالفظ استعمال کیاگیاہے ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک روحانی نظارہ تھا جسمانی نظارہ نہیں تھا۔مادی آنکھ سے دیکھنے والا کبھی یہ نہیں کہاکرتا کہ میں نے ’’ ایک آگ‘‘ دیکھی ہے ۔بلکہ وہ یہ کہا کرتاہے کہ میں نے آگ دیکھی ہے ۔اسی طر ح مادی آگ صرف ایک شخص کو نظر نہیں آتی بلکہ سب لوگوں کو نظر آتی ہے۔مگریہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں کہ وہ مجھے نظر آتی ہے ۔جس میں یہ اشا ر ہ پا یا جاتاہے کہ وہ آگ آپ کے باقی ساتھیوں کو نظر نہیں آئی تھی۔
پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں نے کشفی طور پر ایک آگ کا نظارہ دیکھا ہے او رمیں سمجھتاہوں کہ اس نظارہ کے دکھانے سے خداتعالیٰ کامنشاء یہ ہے کہ میں اس آگ تک جائوں ۔سومیں اس آگ تک جائوں گا ۔اورچونکہ وہ آگ ایک کشفی نظارہ تھا ۔اورکشفی طورپر آگ دیکھنے سے مراد ہدایت ہوتی ہے اورہدایت یادیکھنے والے کے لئے مخصوص ہوتی ہے یاساری قوم کے لئے عام ہوتی ہے اورابھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ پتہ نہیں تھا کہ جو انکشاف مجھ پر ہونے والا ہے وہ میرے لئے مخصوص ہے یا میرے خاندان اورقوم کے لئے عام ہے اس لئے انہوں نے اپنے اہل سے کہا ۔کہ اگر وہ ہدایت صرف میرے لئے مخصوص ہوئی تومیں ا س کی خبر تمہیں آرکرسنائوں گا ۔اوراگر وہ ہدایت ایسی ہوئی کہ مجھے دوسروں تک بھی پہنچانے کاحکم ہواتو میں اس میں سے کوئی انگارہ تمہارے سینکنے کے لئے بھی لے آئوں گا ۔یعنی کچھ تعلیم اس میں سے تم کو بھی سنائوں گا تاکہ تم اس سے روحانی سردی دور کرو ۔
اس جگہ جو قبس وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں یہ بھی حقیقی آگ پردلالت نہیں کرتے ۔کیونکہ جب کسی چیز کو کسی اور چیز سے تشبیہہ دی جاتی ہے تو اس کی صفات کو بھی اس کی نسبت استعمال کیاجاتاہے ۔جیسے کسی کو شیر کہیں تویہ نہیں کہیں گے کہ وہ شیر کی طرف تقریر کرتاہے ۔بلکہ یہ کہیں گے کہ وہ شیر کی طرح چنگھاڑتاہے ۔پس چونکہ اس جگہ جلوئہ الٰہی کانام آگ رکھاگیاتھا اس لئے آگے اس کے آثار وغیرہ کا نام بھی انگارہ رکھاگیا۔پس اس جگہ آگ او رانگارے سے مراد و ہ نور الٰہی ہے جو انہوں نے دیکھاتھا ۔اور چونکہ اب تک حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کامل وحی نہیں ہوئی تھی وہ یہ نہیں سمجھ سکتے تھے کہ آیا جو نور ان کی طر ف آیا ہے صرف ان کی ذات کے لئے ہے یاباقی خاندا ن اورقوم کے لئے بھی ہے ۔یعنی یہ جلوہ جو دکھائی دیا ہے یہ جلوئہ نبوت ہے یاجلوئہ ولایت ۔اس لئے انہوں نے کہا کہ آگ کے پاس جا کر یا تو میں کوئی خبر لائوں گا یعنی تم کو یہ بتائوں گا ک خداتعالیٰ نے مجھ پر یہ فضل نازل فرمایاہے ۔اوراگر وہ نور خاندان اورقوم کے لئے ہوایعنی جلوہ جلوئہ ولائت نہ ہوا بلکہ جلوئہ نبوت ہوااورمجھے حکم ہواکہ دوسروں کو بھی تعلیم دو تومیں ایسی تعلیمات لائوں گا جن سے خاندا ن اور قوم فائدہ اٹھائے اوران سے گرمی حاصل کرے۔
فلما جاء ھا نودی ان بورک من فی النا ر ومن حولھا سبحان اللہ رب العالمین٭
پھر جب و ہ اس (یعنی آگ ) کے پا س آئے توانکو آواز دی گئی کہ جو کوئی آگ میں ہے اورجو اس کے گر د ہے اس کو برکت دی گئی ہے ۔ اوراللہ رب العالمین پاک ہے ۔ ۵؎
۵؎ تفسیر :۔اپنے رشتہ داروں کو ہوشیار کرکے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اس جگہ پہنچے جہاں ان کو و ہ نظارہ دکھایاگیاتھاتوان کو الہام ہواکہ بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَھَا یعنی جو شخص اس آگ میں ہے اسے بھی برکت دی گئی ہے اورجو اس کے ماحول میں ہے اسے بھی برکت دی گئی ہے ۔
بعض مفسرین نے اس کے یہ معنے کئے یں کہ اس آگ میں اللہ تعالیٰ کا وجود تھا ۔اورتورات نے بھی یہی نظریہ پیش کیا ہے ۔چنانچہ خروج باب۳ میں لکھا ہے :۔
’’ خداوند کا فرشتہ ایک بوٹے میں سے آگ کے شعلہ میں اس پر ظاہر ہوا۔اس نے نگاہ کی توکیادیکھتاہے کہ ایک بوٹا آگ میں روشن ہے اوروہ جل نہی رہا۔تب موسیٰ نے کہا کہ میں اب نزدیک جائو ں اوراس بڑے منظر کو دیکھو ں کہ یہ بوٹا کیوں نہیں جل جاتا۔جب خداوند نے دیکھا کہ وہ دیکھنے کو نزدیک آیا توخدانے اس بوٹے کے اند ر سے پکاراا ور کہا کہ اے موسیٰ! اے موسیٰ! وہ بولا۔میں یہاں ہوں ۔تب اس نے کہا ۔یہاں نزدیک مت آ۔اپنے پائوں سے جوتااتار۔ کیونکہ یہ جگہ جہاں توکھڑا ہے مقدس زمین ہے۔‘‘
(خروج باب۳ آیت ۲تا ۵)
مگرقرآن اس نظر یہ کو تسلیم نہیں کرتا ۔کیونکہ وہ فرماتاہے کہ موسیٰ پر ہم نے یہ الہا م نازل کیا کہ بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَھَا کہ وہ جو اس آگ می ہے اسے بھی برکت دی گئی ہے اور اس کے ماحول کو بھی برکت دی گئی ہے ۔حالانکہ خداتعالیٰ دوسروں کو برکت دیتاہے ۔اسے کوئی اَور برکت نہیں دیتا۔گویا وہ تبارک تو کہلاسکتاہے مگر بُوْرِکَ نہیں کہلاسکتا۔پس یہ معنے کہ مَنْ فِی النَّار سے خداتعالیٰ مراد ہے کسی صورت میں بھی درست نہیں ہوسکتے ۔
پھر بعض لوگوں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے بُوْرِکَ لفظ بولناجائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو برکت نہیں دی جاتی بلکہ وہ خود برکت دیتاہے فِیْ کے معنے پیچھے کے کئے ہیں اورمراد یہ لی ہے کہ وہ شخص جو اس آگ کے پیچھے آرہاہے یااس کی تلاش میں ہے اسے برکت دی گئی ہے ۔مگر یہ معنے محاورہ کے خلاف ہیں ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فِیْ کے معنے پیچھے کے بھی آتے ہیں ۔مگر یہ معنے ایسے موقعہ پر استعمال کئے جاتے ہیں جبکہ فِیْ کے بعد کسی روحانی یامعنوی چیز کا ذکر ہو ۔ایسے موقعہ پر استعمال نہیں کئے جاتے جبکہ اس کے بعد اشیاء یا اشخاص کا ذکرکیاگیاہو ۔اورچونکہ مفسرین اس آگ کو جسمانی قرار دیتے ہیں اورجسمانی چیز کے لئے جب فِیْ کا لفظ استعمال کیاجائے توا سکے معنے پیچھے کے نہیں ہوتے ۔اس لئے یہ معنے بھی درست نہیں سمجھے جاسکتے ۔
پھر بعض لوگوں نے فِیْ کے معنے قرب کے کئے ہیں اورفِیْ النَّارِکے معنے آگ کے قریب ہونے کے کئے ہیں ۱؎۔اوروَمَنْ حَوْلَھَا کو اس کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے حالانکہ وَمَنْ حَوْلَھَاکے الفاظ ہی ان معنوں کو ردّ کررہے ہیں ۔کیونکہ خود وَمَنْ حَوْلَھَاکے معنے بھی قریب کے ہیں اور دوالفاظ سے ایک ہی مفہوم کواداکرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی ۔پس یہ معنے بھی درست
۱؎ ۔حاشیہ تفسیر قرطبی جلد ۱۳ص ۱۵۸
نہیں ۔
پھر بعض لوگوں نے کہا ہے کہ گو مَنْ کالفظ عام طور پر ذی عقل وجودوں کی طرف اشارہ کرتاہے مگر اس جگہ مَنْ سے مرادلایعقل اشیاء ہیں ۲؎۔اورمراد یہ ہے کہ وہ لکڑیا ںجو اس آگ میں ہیں ۔اوراس ک اردگرد کی جگہ بھی الٰہی تجلّی کی وجہ سے بابرکت ہوگئی ہے ۔مگر میرے نزدیک یہ سب معانی غلط ہیں ۔اورصرف نار سے دھوکا کھا کر کئے گئے ہیں ۔چونکہ انہوں نے نار کو جسمانی نا ر سمجھا اس لئے وہ ان مشکلات میں گرفتارہوگئے۔لیکن جیسا کہ میں ثابت کرچکا ہوں نَارًا کے لفظ سے ثابت ہے کہ یہ نظارہ مادی آگ کا نہیں تھا بلکہ روحانی نا ر کاتھا ۔اورجب اس آگ کو روحانی آگ قرار دے دیاجائے اورآگ سے مراد محبت الٰہی کی آگ سمجھ لیاجائے تواس آیت کا مفہوم سمجھنے میں کوئی دقّت باقی نہیں رہتی ۔کشف یا خواب میں آگ دیکھنے سے مراد ہمیشہ محبت الٰہی کا جذبہ ہوتاہے۔پس بُوْرِکَ کے لفظ سے نہ خداتعالیٰ مراد ہے نہ ہوسکتاہے کیونکہ وہ مجسم نہیں اورنہ اس کوکوئی برکت دیتاہے ۔ اورنہ بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِسے مراد موسیٰؑ ہیں ۔بلکہ اس آیت میں ایک عام قانون الٰہی بیان کیاگیاہے کہ ہروہ شخص جو محبت الٰہی اکی آگ میں جل رہاہواس کو بر کت دی جاتی ہے ۔اسی طرح نہ تو فِیْ کے معنوں کا جھگڑارہتاہے نہ مَنْ کے معنوں کا ۔نہ بُوْرِکَ کی ترکیب کا اورآیت بالکل حل ہوجاتی ہے ۔اوروَمَنْ حَوْلَھَا کے معنے بھی ظاہر ہوجاتے ہیں ۔یعنی جو شخص محبت الٰہی کی آگ میں پڑاہواہو نہ صرف اس کو برکت دی جاتی ہے بلکہ اس کے ہم صحبت بھی برکت پاتے ہیں ۔محبت کو دنیا کی تمام زبانوں میںآگ سے تشبیہ دی جاتی ہے اوررؤیا و کشوف میں بھی اگر کوئی شخص اپنے آپ کو آگ میں جلتاہوادیکھے تواس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ وہ عشق الٰہی کے مقام کو حاصل کرے گا ۔پس بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَھَا کا یہی مطلب ہے کہ جو شخص اس آگ میں پڑے گا و ہ برکت پاجائے گا
اورجواس کے اندرنہیں پڑے گا ۔بلکہ اس کے قریب آکر کھڑا ہوگاگویا اس سے کم حصہ لے گا وہ بھی برکت دیاجائے گا ۔اگر مَنْ فِیْ النَّارِ سے مراد موسیٰؑ ہوتے توپھر سوال پیداہوتاتھا کہ مَنْ حَوْلَھَا سے کیا مراد ہے ۔اس وقت سوائے حضرت موسیٰؑ کے آگ کے پاس اورکون تھا جس کے لئے مَنْ حَوْلَھَا فرمایاگیا۔پس اس جگہ کسی خاص شخص کی طرف اشارہ نہیں کیاگیا۔بلکہ یہ قانون بتایاگیاہے کہ جو اس آگ میں پڑے گا و ہ بھی برکت دیاجائے گا اورجو اس کے پاس آکر اس کی گرمی حاصل کرے گا وہ بھی برکت دیاجائے گا اورماضی کا لفظ مضار ع کے معنوں میں استعمال کیاگیا ہے یعنی برکت دیا جائے گا ۔
پرانے زمانہ میں دِلّی می ایک بزرگ تھے ان کے پا س ایک دفعہ ان کاایک مرید آیا ۔اوراس نے کہا کہ ہماراجو یہ خیال ہے کہ حضرت کرشن اور حضرت رام چندر جی ہندوستان کے نبی تھے یہ درست معلوم نہیں ہوتا ۔کیونکہ میں نے خواب می دیکھا ہے کہ ایک آگ جل رہی ہے اورحضرت کرشن جو تو اس کے اندر ہیں اورحضرت رامچندر جی اس کے کنارہ پر کھڑے ہیں ۔وہ بزرگ کہنے لگے تم نے اس خواب کی تعبیر غلط سمجھی ہے۔آگ کے معنے محبت الٰہی کی آگ کے ہیں اوراللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ بتایاہے کہ کرشن جی خداتعالیٰ کی محبت میں بہت بڑھے ہوئے تھے ۔اوررامچند ر جی ان سے کم درجہ رکھتے تھے۔اسی لئے حضر ت کرشن جی توآگ کے اندرجلتے ہوئے دکھائی دیئے ۔اوررامچندر جی آگ کے کنار ہ پر کھڑے ہوئے نظر آئے ۔
۲؎ ۔تفسیر بحر محیط جلد۷ ص ۵۶
آگے فرماتاہے وسُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔رب العالمین خداتمام عیبوں سے پاک ہے ۔یعنی جنہوں نے یہ کہاہے کہ آگ میں خداتعالیٰ تھا جیسا کہ بائیبل والوں نے وہ سب غلطی کرتے ہیں ۔خداتعالیٰ ہرقسم کے تجسّم سے پا ک اور منزہ ہے ۔اسی طرح سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن کہہ کر اس اامر کی طرف بھی اشار ہ فرمایاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو برکت دیتاہے اس کے ذریعہ دنیا میں اس کی سبّوحیّت کا اظہار ہوتاہے اورہرقسم کے عیوب جو خداتعالیٰ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں ان کا ازالہ کردیاجاتاہے اورخداتعالیٰ کا حسین چہرہ دنیا کو ایک بار پھر اپنی پوری شان کے ساتھ نظر آنے لگ جاتاہے۔
یموسی انہ انااللہ العزیز الحکیم٭والق عصاک فلما
اے موسیٰؑ!بات یہ ہے کہ میں اللہ ہوں جو غالب (اور)حکمت والاہوں۔اورتُولاٹھی پھینک۔اورجب اس نے
راھا تھتز کانھا جان ولی مدبراولم یعقب ۔
اس (یعنی لاٹھی)کودیکھا کہ وہ ہل رہی ہے گویا کہ وہ ایک چھوٹاسانپ ہے توو ہ پیٹھ پھیر کر بھاگا اورپیچھے مڑ کر نہ دیکھا (تب ہم نے
یموسی لاتخف، انی لا یخاف لدی المرسلون٭الامن
کہا )اے موسیٰ! ڈر نہیں ۔میں وہ ہوں کہ رسو ل میرے حضور ڈرانہیں کرتے ۔مگر جس نے
ظلم ثم بدل حسنا بعدسوء فانی غفور رحیم٭
ظلم کیا ۔لیکن پھر اس ظلم کو چھو ڑ کر نیکی اختیار کی ۔میں (اس کے لئے)بڑابخشنے والا (اور)بار با ررحم کرنے والاہوں۔۶؎
۶؎ حل لغات :۔تَھْتَزُّ:اِھْتَزَّ سے فعل مضارع واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے اوراِھْتَزَّتِ الْاِبِلُ کے معنے ہیں تَحَرَّکَتْ فِیْ سَیْرِھَا لِحُدَآئِ الْحَادِیْ حُدی خواں کے حدی کرنے پر اونٹ تیز چلے ۔اورجب اِھْتَزَّ الْمَآئُ فِیْ جَرَیَانِہٖ کہیں تومعنے ہوں گے تَطَلَّقَ ۔پانی تیزی سے بہا اوراِھْتَزَّ الْکَوْکَبُ فِیْ انْقِضَاضِہٖ کے معنے ہیں اَسْرَعَ ۔ستارہ جلدی سے ٹوٹا(اقرب )پس تَھْتَزُّ کے معنے ہوں گے ۔جلدی چلتاہے ۔
اَلْجَآنُّ: کے معنے ہیں حَیَّاۃٌ بَیْضَآئُ کَحْلَائُ الْعَیْنِ لَا تُؤْذِیْ۔ سفید رنگ سرمگیں آنکھوں والاباریک سانپ جوکاٹتانہیں (اقرب)
تفسیر :۔فرماتاہے۔ ہم نے اس وقت موسیٰؑ سے کہا کہ اے موسیٰؑ! میں اللہ ہوں جو بڑاغالب اور حکمت والا ہوں ۔اس سے بھی یہ مراد نہیں کہ آگ کے اند رخداتعالیٰ تھا جس نے کہا کہ میں اللہ غالب اور حکمت والاہوں ۔کیونکہ قرآن کریم کے کسی لفظ سے یہ ظاہر نہیں ہوتاکہ آگ کے اندر سے آواز آ ئی تھی ۔قرآن کریم صرف یہ بتاتاہے کہ ایسی آواز آئی تھی خواہ وہ کہیں سے آئی ہو ۔
درحقیقت یہ آیت بُوْرِکَ مَنْ فِیْ النَّارِ وَمَنْ حَوْلَھَا کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ محبت الٰہی کی آگ میں جلنے والا انسان بڑی برکت پاتاہے اوریہ امر اس بات سے ظاہر ہے کہ میں اللہ غالب اورحکمت والاہوں یعنی جو میری محبت میں جلے گا وہ غالب ہوگا اورڈنڈے کے زور سے غالب نہیں ہوگا بلکہ اس کوبڑی حکمتیں عطاکی جائیں گی اوروہ دلائل اور براہین کے ساتھ غالب آئے گا ۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوردوسرے انبیاء دلائل کے ساتھ دنیا پر غالب آئے ۔
پھر فرماتاہے ہم نے موسیٰؑ کو الہام کیا کہ اپنا سونٹا پھینک دے ۔جب اس نے اپنا سونٹا پھینک دیا تواس نے دیکھا کہ وہ تیزی کے ساتھ ہل رہاہے جیسا کہ چھوٹا سانپ ہلتاہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اس نظارہ کو دیکھ کر دوڑ پڑے اور پیچھے کی طرف انہوں نے مڑ کر بھی نہ دیکھا ۔
جیسا کہ سورئہ الشعراء کی تفسیر میں بتایاجاچکا ہے یہ بھی ایک کشفی نظارہ تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا ۔اورعصاسے مراد ان کی جماعت تھی ۔چنانچہ عربی زبان میں کہتے ہیں شَقَّ الْعَصَا اورمراد یہ ہوتی ہے کہ اس نے جماعت کی وحدت کو توڑ دیا ۔اسی طرح اس نظارہ کے دکھانے سے اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ جب تک تُو اپنی جماعت کو اپنے ہاتھ میں رکھے گا اوراسکی نگرانی کرتارہے گا ۔وہ ایک عصاکی شکل میں کارآمد وجود رہے گی ۔لیکن جب وہ تیری کامل متابعت کو ترک کرکے تیرے روحانی وجود سے الگ ہوجائے گی تووہ ایک سانپ کی شکل اختیار کرلے گی۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کشفی حالت میں اپنا عصاپھینک دیاتوان کو اپنی قوم کا وہ حال نظر آگیا جو ان کی غیر حاضری میں ہونیوالاتھا ۔جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ نظارہ دیکھا تووہ پیٹھ پھیر کر دوڑ پڑے اس پر ان کو الہام ہواکہ یَا مُوْسیٰ لَاتَخَفْ اِنِّیْ لَایَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ۔ اے موسیٰ!ڈرنے کی کونسی بات ہے ۔ رسول جب ہماری خدمت میںحاضر ہوتے ہیں توانعام لینے کے لئے حاضر ہوتے ہیں ۔سزاپانے کے لئے حاضر نہیں ہوتے ۔ پس یہ نظارہ تجھے ڈرانے کے لئے نہیں بلکہ تجھے حقیقت حال سے آگاہ کرنے اور قوم کی نگرانی کی طرف توجہ دلانے ک لئے دکھایاگیاہے
اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّ لَ حُسْنًابَعْدَ سُوْٓئٍ فَاِنِّیْ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ۔ اس آیت کے متعلق بعض لوگوں نے یہ شبہ ظاہر کیاہے کہ اس سے توپتہ لگتاہے کہ رسولوں میں سے بعض ظالم بھی ہوتے ہیں ۔مگران کا یہ اعتراض نحوسے ناواقفیت کی وجہ سے ہے ۔اِلَّا کبھی استثناء متصل کے لئے آتاہے اورکبھی استثناء منقطع کے لئے ۔یعنی اِلَّا کے بعد بعض دفعہ نئے گروہ کا ذکر شروع ہوجاتاہے اورپہلا ذکرختم ہوجاتاہے ۔اس جگہ بھی اِلَّا استثناء منقطع کے طور پر استعمال ہواہے اوراس کے معنے یہ ہیں کہ انبیاء کے علاو ہ دوسرے لوگوں میں سے جوشخص ظلم سے کام لے اورپھر ظلم کے بعد نیکی اختیار کرے توو ہ ڈرتاہے کہ معلوم نہیں میری توبہ قبول بھی ہوئی ہے یانہیں ۔ مگرحقیقت یہ ہے کہ میں بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والاہوں ۔اس لئے انبیاء تو الگ رہے ۔ایسے شخص کے لئے بھی ڈرنے کی کوئی حقیقی وجہ نہیں۔
وادخل ید ک فی جیبک تخرج بیضاء من غیر سوء
اورتُو اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال ۔ و ہ بغیر کسی بیماری کے سفید نکلے گا۔
فی تسع ایت الی فرعون وقومہ انھم کانو قوما فسقین٭
یہ ان نو نشانوں میں سے ہے جو فرعون اوراس کی قوم کی طرف بھیجے جانے والے ہیں وہ اطاعت سے نکل جانے والی قوم ہے ۔
فلما جاء تھم ایتنا مبصرۃ قالو اھذاسحر مبین٭
پس جب ان کے پاس ہمارے نشانات جو آنکھیں کھول دینے والے تھے آئے توانہوں نے کہا ۔یہ توایک کھلا کھلا جادوہے۔
وجحدوابھا واتیقنتھا انفسھم ظلما وعلوا فانظر کیف کان عاقبۃ المفسدین٭
اورانہوں نے اصرار سے ظلم اور تکبر کرتے ہوئے ان نشانوں کا انکار کیا حالانکہ ان کے دل ان پر یقین لاچکے تھے ۔پس دیکھ کہ فساد کرنے والوں کاانجام کیساہواکرتاہے ۔ ۷؎
۷؎ حل لغات :۔اِسْتَیْقَنَتْ: اِسْتَیْقَنَ سے مؤنت کا صیغہ ہے اور اِسْتَیْقَنَ کے معنے تَیَقَّنَ کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں تَیَقَّنَ الْاَمْرَ عَلِمَہٗ وَتَحَقَّقَہٗ یعنی کسی بات کو یقینی طورپر جان لیا ۔(اقرب)
تفسیر :۔پھر فرمایاکہ اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال ۔جب تواسے نکالے گاتووہ سفید ہوگا۔مگر کسی بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ کی نشان نمائی کی وجہ سے وہ نورانی اورسفید ہوگا۔
مِنْ غَیْرَ سُوْٓئٍ کے الفاظ بائیبل کے اس نارواالزام کو ردّ کررہے ہیں جو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ان الفاظ میں لگایا کہ
’’ اس نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر اسے ڈھانک لیا ۔اورجب اس نے اسے نکال کر دیکھا توا س کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا ۔‘‘
(خروج باب ۴ آیت ۶و۷)
گوبائیبل نویسوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ کی سفیدی کو کوڑ ھ کی طرف منسوب کردیاتھا مگر قرآن کریم جو حضرت موسیٰؑ کے دوہزارسال کے بعد آیااو ر جس کی مخالفت میں یہودیوں اورعیسائیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔وہ حضرت موسیٰؑ کو جویہودیوں اورعیسائیوں کا نبی تھا اس الزام سے پاک ٹھہراتاہے جو خود موسیٰؑ کے متبعین نے ان پر لگادیاتھا ۔اوران کے ہاتھ کی سفیدی کو کوڑھ نہیں بلکہ خداتعالیٰ کا ایک عظیم الشان نشان قراردیتاہے ۔
وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتایاکہ چونکہ جو کلام تجھ پر نازل ہواہے وہ تیری قوم کے لئے ہے اس لئے تُوجا ارواپنی قوم کو اپنے ساتھ چمٹالے ۔یعنی ان کواپنے ظل عاطفت میں لے لے ۔اوران کی نیک تربیت کر ۔ اس تربیت کے نتیجہ میں اس قوم میں سے نہایت اعلیٰ درجہ کے لوگ پیداہوں گے ۔جن میں کوئی عیب نہیں ہوگا ۔ وہ دل کے صاف اور خداتعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ اور اس کے مقبول ہو ں گے ۔اوردنیا کو اپنے نو ر سے منور کرنے والے ہو ں گے ۔لیکن جب وہ تجھ سے جداہوگئے ۔یعنی تیری روحانی تعلیم کو انہوں نے پس پشت پھینک دیاتووہ زمین کی طرف جھک جائیں گے اورجس طر ح سانپ سفلی زمین کی مٹی کھاتاہے اسی طرح وہ بھی دنیا ک کیڑے بن جائیں گے ۔چنانچہ دیکھ لو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی جو پتھروں کاکام کرنے والے تھے ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو فتح کو قریب لانے والی ہو ۔مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تربیت کے نتیجہ میں انہیں ایسی ہمت او رطاقت بخشی کہ انہوں نے عمالقہ کی قوم پر فتح حاصل کی اور کنعان پر خدانے انہیں حکمرانی عطافرمادی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا عمالقہ کی قوم پر فتح حاصل کرلینا ایساہی تھا جیسے چوہا بلی کو مارے ۔عمالقہ قوم کی شام او ر کنعان پر حکومت تھی ۔اورو ہ بڑی بھاری شوکت اورعظمت رکھتی تھی اورحضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی اینٹیں پاٹھنے والے غلامی کی زندگی بسرکرنے والے اور سیاست سے کلی طور پر نابلد تھے ۔مگراللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھاکہ وہ اس جاہل اور ناواقف اورغلامی کی زندگی بسرکرنے والی قوم کوعمالقہ کی زمین کاوارث کرے گا اور یہ سینکڑوں سال تک غلام رہنے والی قوم جس نے کبھی تلوار نہیں چلائی تھی اورہمیشہ غلامی کی زنجیروں میں مقید رہی تھی عمالقہ کی قوم پر جو تلوار کی دھنی تھی اورہرقسم کے سازوسامان اس کے پاس موجود تھے غالب آجائے گی ۔چنانچہ ایساہی ہوا۔اورخداتعالیٰ نے انہیں غلبہ عطافرمادیا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب انہوں نے اپنی نادانی سے جہ کہہ دیا کہ اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلًآاِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ۔یعنی تُواور تیراخدادونوں دشمنوں سے لڑتے پھرو۔ہم تو یہیں بیٹھے ہیں ۔مگر آخر حضرت موسی ٰ علیہ السلام کی دعائوں اور تربیت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اندرایساتغیر پیداکیا کہ انہوں نے اپنے آپ کو بلادریغ قربانیوں کی آگ میں جھونک دیااور آخر کنعان کے دروازے ان کے لئے کھل گئے ۔اورغلام کہلانیوالے دنیا ک بادشاہ بن گئے ۔ پھر نہ صرف خداتعالیٰ نے انہیں دنیوی حکومت عطافرمائی بلکہ حضرت موسیٰؑ کی تعلیم پر چل کر ان میں بڑے بڑے ربّانی اوراحباء بلکہ خداتعالیٰ کے نبی تک پیداہوئے جوچودہ سوسال تک دنیا کے لئے شمع ہدایت کاکام دیتے رہے ۔یہ تمام پاکبازوں کا گروہ وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآئَ کی صداقت کاایک عملی ثبوت تھا ۔اورپھر یہ تمام مقدسین مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ کے مطابق معصوم او ربے عیب تھے۔بائیبل نویسوں نے اپنی نادانی سے خداتعالیٰ کے ان انبیاء کو جو بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوتے رہے قسم قسم کے نارواالزام لگائے ہیں۔کسی کے متعلق کہا ہے کہ اس کا دل غیر معبودوں کی طرف پھر گیا ۔کسی کے متعلق کہا ہے کہ اس نے دوسرے کی بیوی اُڑالی اوراس کے خاوند کو مروادیا ۔کسی کے متعلق کہا ہے کہ اس نے جھوٹ بولا۔مگرقرآن کریم ان تمام اتہامات سے ان کو پاک ٹھہراتاہے اور بتاتاہے کہ ہم نے موسیٰؑ کو پہلے سے یہ خبر دی تھی کہ تیری تربیت کے نتیجہ میں ایسے لوگ پیداہوں گے جو نورانیت کا مجسمہ ہوں گے اور ان میں کوئی ایساعیب نہیں ہوگا جو ان کی معصومیت کا داغ دا رکرنیوالاہو ۔
فرماتاہے یہ دونوں نشان ان نونشانوں میں سے ہیں جو فرعون او راس کی قوم کے لئے دکھائے جانے والے ہیں ۔کیونکہ وہ اطاعت سے نکلنے والی قوم ہے ۔
ان نونشانات میںسے عصا اورید بیضا ء کے معجزات کا توا س جگہ ذکر ہے اور دومعجزات کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے کہ وَلَقَدْ اَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ(اعراف ع۱۶)یعنی ہم نے آل فرعون کو قحط اور بچوں کی ہلاکت کے عذاب میں گرفتار کیا ۔تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔باقی پانچ نشانات کا اس آیت میں ذکر آتاہے ۔فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ ۔فَاسْتَکْبَرُوْاوَکَانُوْاقَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ (اعراف ع ۱۶) یعنی ہم نے آل فرعون پر کئی قسم کے عذاب بھیجے جن میں طوفان ،ٹڈیاں،جوؤں،مینڈکوں اورخون کاعذاب شامل تھا ۔
بائیبل کی کتاب ’’خروج‘‘ کے مختلف ابواب میں ان عذابوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں ۔طوفان کا عذاب تو وہی تھا جو بحیرئہ احمر میں ظاہر ہوا۔جب فرعون اور اس کا لشکر اس میں غرق کردیئے گئے لیکن اس کے علاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں پر ٹڈیوں کا عذاب بھی نازل کیا ۔یعنی اتنے ٹڈی دَل آئے کہ ملک کی تمام فصلیں تباہ ہو گئیں اور لوگ بھوکے مرنے لگے ۔ جوؤںکا عذاب بھی نازل کیا ۔یعنی اتنی شدید سردی پڑی کہ لوگوں کے لئے غسل کرنا مشکل ہوگیا ۔اوران کے بال جوؤں سے بھر گئے ۔ مینڈکوںکا عذاب بھی نازل کیا ۔یعنی اتنی کثرت سے بارشیں ہوئیں کہ جگہ جگہ مینڈک پیداہوگئے ۔خون کا عذاب بھی نازل کیا ۔ جس سے یہ مراد ہوسکتی ہے کہ ان کا خون خرا ب ہوگیا اورانہیں کثرت کے ساتھ پھو ڑے وغیرہ نکلنے لگ گئے یاان میں نکسیر کا مرض پھوٹ پڑا ۔یابواسیر دموی کے مرض نے آگھیرا۔یا ان میں وہ طاعون پھیل گئی جس میں مریض کے ناک ،مونہہ او رمقعد سے خون جاری ہوجااتاہے ۔اورکبھی جلد کے نیچے جریان خو ن ہوکر تمام جسم پ رسیاہ داغ پڑ جاتے ہیں ۔اورستر اسی فیصدی مریض ہلاک ہوجاتے ہیں ۔غرض پے درپے ان کے انتباہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے عذاب نازل ہوتے رہے ۔مگرفرماتاہے باوجوداس کے کہ فرعون کی قوم نے وہ نشانات دیکھے جوان کی آنکھیں کھولنے والے تھے پھر بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ توبڑی پُرفریب باتیں ہیں ۔یعن بظاہر تویہ معلوم ہوتاہے کہ یہ نشانات خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں مگر ااصل میں محض اتفاقات ہیں اورانہوں نے ان نشانات کا انکار کردیا ۔حالانکہ ان کے دل سمجھ چکے تھے کہ یہ محض اتفاقات نہیں بلکہ ان کی بداعمالی کی سزاکے طور پر یہ عذاب آرہے ہیں ۔ان کا یہ انکار محض ظلم اور تکبر کی وجہ سے تھا وہ نہیں چاہتے تھے کہ صداقت کا اپنی زبان سے اقرار کرکے اپنی بڑائی کو ضعف پہنچائیں ۔مگر دیکھ لو کہ پھر ان مفسد لوگوںکا انجام کیساخطرناک ہو ا۔جب فرعون اور اس کے ساتھ ہلاک ہوگئے توآج تیرے مخالفوں کا انجام کس طرح اچھا ہوسکتاہے جواسی رستہ پر چل رہے ہیں جس پر فرعون اوراس کے ساتھی چلے اور انہی کی طرح اللہ تعالیٰ کے نشانات کا انکار کرتے چلے جارہے ہیں۔
ولقد اتیان داود و سلیما ن علما۔وقالاالحمد للہ الذی
اورہم نے دائود اورسلیما ن کو علم عطاکیا ۔ اوردونوں نے کہا اللہ ہی سب تعریف کا مالک ہے جس نے
فضلنا علی کثیر من عبادہ المومنین٭
ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی ہے ۔
وورث سلیمٰن داؤد وقال یایھا الناس علمنا منطق الطیر
اورسلیمان اور دائود کا وارث بنا ۔ اوراس نے کہا اے لوگو ! ہمیں پرندوں کی زبان سکھائی گئی ہے
واوتینا من کل شیء ان ھذا لھو الفضل المبین٭
اورہرضروری چیز (یعنی تعلیم) ہم کو دی گئی ہے ۔یہ کھلا کھلا فضل ہے ۔۸؎
۸؎ حل لغات :۔مَنْطِقُ الطَّیْرِ:اَلْمَنْطِقُ اَلْکَلَامُ ۔یعنی منطق کے معنے کلام کے ہیں۔(اقرب)
تفسیر :۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ حضرت دائود ؑ اورحضرت سلیمانؑ کا ذکر فرماتاہے ۔حضرت دائود علیہ السلام کو چونکہ یہودیوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خاص بیٹا تسلیم کیاجاتاہے اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کا ذکر کیاگیاہے اوران دونوں کا یہ قول بیان کیاگیاہے کہ ہمیں خداتعالیٰ نے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت بخشی ہے یعنی خلافتِ روحانی اورخلافتِ جسمانی کے ذریعہ سے اس نے ہمیں مومنوں کا افسر بنایاہے ۔
اس کے بعد فرماتاہے کہ سلیمان ؑ دائودؑ کاوارث ہوا۔یعنی ان کے انتقال کے بعد ان کا جانشین ہوا۔اس سے ظاہر ہے کہ اگلی آیات میں جہاں جہاں نا کالفظ آیاہے اس سے مراد حضرت سلیمانؑ ہی ہیں اورنا کالفظ شاہی سطوت اورجبروت کے اظہار کے لئے ہے نہ یہ بتانے کے لئے کہ حضرت دائودُ اس میں شامل ہیں ۔کیونکہ آیت کے شروع میں یہی بتایاگیاہے کہ حضرت دائود علیہ السلام اس وقت فوت ہوچکے تھے ۔پس یہ جو کہاگیاہے کہ اے لوگو ! ہم کو منطق الطیر سکھائی گئی ہے ۔اس سے مراد صرف حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں نہ کہ حضرت دائودؑ۔کیونکہ حضرت دائودعلیہ السلام اس سے پہلے فوت ہوچکے تھے ۔
مفسرین نے منطق الطیر کی یہ معنے کئے ہیںکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو کبوتروں اورتیتروں اورچڑیوں اوربٹیروں وغیرہ کی زبان سکھائی گئی تھی اوروہ ان کی بولی کو اسی طرح سمجھ لیتے تھے جس طرح ایک انسان کی گفتگوکو دوسراانسان سمجھ لیتاہے۔چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک بلبل کودیکھا کہ ایک شاخ پر بیٹھی ہوئی اپنی دُم اورسرہلاکر کچھ بول رہی ہے۔اس کی آواز سن کر آپ نے اپنے اردگرد بیٹھنے والوں سے پوچھا کہ تم جانتے ہو یہ بلبل کیا کہہ رہی ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ خدااوراس کارسول ہی بہتر جانتے ہیں ہمی کیا علم ہے ۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا۔یہ کہہ رہی ہے کہ دنیا کے سرمیں خاک پڑے ۔میں نے توآج صرف آدھی کھجو رکھائی ہے ۔پھر فاختہ بولی ۔توآپ نے فرمایا۔یہ کہتی ہے کاش یہ سب مخلوق پیداہی نہ ہوتی۔
اسی طرح مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ فرمایاکرتے تھے کہ کبوترکہتاہے ۔مرنے کے واسطے اپنی اولاد یں پیداکرو۔اورویران ہونے ک لئے مکانات بنائو ۔اورموؔر کہتاہے کہ جوکچھ تُوکرے گا اس کابدلہ پائے گا۔اورہد ہد کہتاہے کہ جو دوسرے پر رحم کرے گا خدااس پر رحم کرے گا ۔اورابابیل کہتی ہے کہ نیک اعمال کو آگے بھیجو تاکہ تم انہیں خداکے پاس پائو اورکبوتر کہتاہے کہ سبحان ربی الاعلیٰ مِلْأُسَمَآئِہٖ وَ اَرْضِہٖ۔اورقطا ۃ کہتاہے کہ جو خاموشی اختیارکرے گاسلامت رہے گا ۔اورطوطاکہتاہے کہ افسوس اس پر جس کامقصود اورمطلوب دنیا ہے ۔اورمرغاکہتاہے کہ اے غافلو اللہ کو یاد کرو۔اورمینڈک کہتاہے سبحان ربیَ الْقُدُّوْس ۔اورچڑیاکہتی ہے اے گنہگارو استغفار کرو۔اورچیل کہتی ہے کہ کُلّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ یعنی خداکے سوا ہرچیز ہلاک ہونے والی ہے ۔غرض انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کی بولی کو خوب سمجھتے تھے گوانہوں نے پرندوں میں مینڈک وغیرہ کوبھی شامل کرلیا ہے ۔مگریہ محض استعارے اورمجاز کو نہ سمجھنے کانتیجہ ہے اورایسی ہی بات ہے جیسے قرآن کریم میں تواللہ تعالیٰ یہ فرماتاہے کہ کُلُوْاوَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمْ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ(بقرہ ع ۲۳) یعنی رمضان کے ایام میں سحری کاوقت اس وقت تک ہے جب تک کہ صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظرنہ آنے لگے ۔مگر پنجاب میں بہت سے زمینداررمضان می راتوں میں سفید اورسیا ہ تاگا اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اورچونکہ تاگااچھی روشنی میں ہی نظر آتاہے اس لئے و ہ اس وقت تک خوب کھاتے پیتے رہتے ہیں ۔جب تک انہیں سفید اورسیاہ تاگا الگ الگ نظر نہ آنے لگے۔اسی طرح تشبیہ اوراستعارہ کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں اگر خداتعالیٰ کے ہاتھ کاذکر آجائے توبعض لوگ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ خداکاہاتھ بھی نعوذ باللہ اسی طرح گوشت پوست کا ہے جس طرح ہماراہے ۔اوراگر انہیں کہاجائے ہاتھ سے مراد خداتعالیٰ کی طاقت ہے تووہ کہیںگے کہ تم تاویلیں کرتے ہو۔ جب خدانے ہاتھ کالفظ استعمال کیا ہے تو تمہاراکیا حق ہے کہ تم اس کی تاویل کرو۔یا خداتعالیٰ کے متعلق اِسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ کے الفاظ پڑھیں توجب تک وہ خداتعالیٰ کو ایک سنگ مرمر کے تخت پر بیٹھا ہو اتسلیم نہ کریں انہیں چین ہی نہ آئے گا ۔حالانکہ دنیا کی ہرزبان میں تشبیہہ اور استعارہ کا استعمال موجود ہے۔ہمارے ملک میں محاور ہ ہے کہ ’’ آنکھ بیٹھ گئی ‘‘ مگر کوئی نہیں کہتا کہ آنکھ کی ٹانگیں تھیں یاوہ بیٹھی ہے توکس پلنگ پر اوکرسی پر بیٹھی ہے ۔کیونکہ ہر شخص جانتاہے کہ آنکھ بیٹھنے کے یہ معنے ہیں کہ آنکھ ضائع ہوگئی ۔اورپھوٹ گئی ۔اسی طر ح اورکئی قسم کے استعارات ہماری زبان میں استعمال کئے جاتے ہیں اورکوئی ان پر اعتراض نہیں کرتا بلکہ ان استعارات کو زبان کی خوبی اور اس کاکمال سمجھاجاتاہے ۔
غرض جس طرح دنیا کی ہرزبان میں مجازاوراستعارات کا استعمال پایاجاتاہے اسی طرح الہامی کتابیں بھی ان استعارات کو استعمال کرتی ہیں ۔مگر وہ لو گ جو استعارہ اورمجاز کی حقیقت کو نہیں سمجھتے وہ انہیں ظاہرپر محمول کرلیتے ہیں اوراس طرح خو د بھی ٹھوکر کھاتے ہیں اوردوسروں کے لئے بھی ٹھوکر کا موجب بنتے ہیں ۔
یہی حال منطق الطیر کا ہے ۔مفسرین نے صرف طیر کے لفظ کودیکھ کر خیال کرلیا کہ حضر ت سلیمان علیہ السلام کو امتیازی طور پر اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت عطا فرمائی تھی کہ انہیں تیتروں اوربٹیروں کی بولی بھی سکھادی تھی مگرسوال یہ ہے کہ اس بولی کے سکھانے کا فائدہ کیاتھا ۔یاتویہ تسلیم کیا جائے کہ پرندے بھی بڑے بڑے علوم اورمعارف جانتے ہیں ۔اورچونکہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتاتھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ا س علم سے محروم رہیں اس لئے اس نے آپ کو ان کی زبان بھی سکھادی ۔مگر پرندے توایک جاہل سے جاہل او رغبی سے غبی انسان جتنی بھی عقل نہیں رکھتے پھر ان سے حضرت سلیمان علیہ السلام نے کیا علم سیکھناتھا ۔پھر ان کا دما غ واقعہ میں انتا اعلیٰ ہوتا کہ حضرت سلیمانؑ جیسے نبی کو بھی ان سے معارف اورعلوم حاصل کرنے کی ضرورت تھی توشریعت ان کو ذبح کرنے کی اجازت کیوں دیتی ۔اللہ تعالیٰ کا انسان کو ذبح کرنے کی اجاز ت نہ دینا اورجانوروں کی ذبح کرنے کی اجازت دینا صاف بتارہاہے کہ یہ امتیاز صرف دماغ کے فرق کی وجہ سے رکھاگیاہے ۔اوران کا دماغ عام انسانی دماغ سے بھی ادنیٰ ہے تو حضرت سلیمان علیہ السلام کو ان کی زبان کس حکمت کے ماتحت سکھائی گئی تھی ۔
پھر مفسرین صرف یہیں تک بس نہیں کرتے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو تمام پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی تھیں بلکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہُدہُد جو ایک پرندہ تھا و ہ اتنی عقل اورسمجھ رکھتاتھاکہ اس نے ملکہ سباکی باتیں سمجھیں۔اس کے درباریوں کی باتیں سمجھیں حضرت سلیمان علیہ السلام کی باتیں سمجھیں۔مگر ہُد ہُد کی باتیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے سوااَورکوئی نہیں سمجھ سکتاتھا ۔گویا ایک پرندہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے تمام درباری علماء اورفضلاء سے بھی بڑاتھا ۔کیونکہ وہ ان سب کی باتیں سمجھتاتھا لیکن اس کی بات کو کوئی نہیں سمجھتاتھا اوراگر کوئی سمجھتاتھا تووہ صرف حضرت سلیمانؑ تھے ۔گویا اگر ہدہد سے کسی کو برابری حاصل تھی توصرف حضرت سلیمان علیہ السلام کو تھی باقی جتنے امراء اور وزراء تھے و ہ سب اُس ’’کھٹ بڑھئی‘‘سے نیچے تھے۔یہ اتنا احمقانہ نقشہ ہے کہ ا س کو ایک معمولی عقل رکھنے والا شخص بھی تسلیم نہیں کرسکتا ۔اگر یہ بات مانی جائے توپھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ پرندے انسان سے افضل ہیں ۔اورپھر ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرناپڑے گا کہ پرندوں کو ذبح کرنا جائز نہیں ہاں انسان کو ذبح کرکے کھاناجائز ہے کیونکہ پرندے نعوذ باللہ انسان سے افضل ہیں ۔یہ تو ’’ اندھیر نگری چوپٹ راجہ ‘‘والی بات ہوگی جس کوکوئی بھی معقول انسان تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی ایک استعارہ اور مجاز ہے جس کو لوگوں نے نہ سمجھا اوروہ صحیح راستہ سے بھٹک کر دور از کار ابحثوں میں الجھ کر رہ گئے ۔ طیر عربی زبان میں اڑنے والی چیز کو کہتے ہیں ۔اوراستعارۃً اس سے وہ لوگ مراد ہوتے ہیں جوعالم روحانی کی فضائوں میں پرواز کرتے اورخداتعالیٰ کے برگزیدہ اوراس کے محبوب ہوتے ہیں۔بانئے سلسلہ احمدیہ کاایک الہام بھی ان معنوں پر روشنی ڈالتاہے ۔ آپ کو ایک دفعہ الہام ہواکہ :۔’’ہزاروں آدمی تیرے پروں کے نیچے ہیں ‘‘
(تذکرہ ص ۶۵۰)
اب ظاہر ہے کہ پَر ہمیشہ پرندوں کے ہی ہواکرتے ہیں اورپرندے کے پروں کے نیچے بیٹھنے والے بھی پرندے ہی ہوتے ہیں۔ گویا اس الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی پرندہ قراردیاگیا ۔اورپھر یہ بھی بتایاگیاکہ وہ لوگ جو آپ کی صحبت سے فیض حاصل کرنے والے ہیں ۔وہ بھی عالم روحانی کے پرندے ہیں ۔اس الہا م نے قرآن کریم کی اس آیت کی تشریح کردی اوربتادیا کہ طیر سے مراد جسمانی پرندے نہیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو خداتعالیٰ کی طرف پرواز کرنے والے ہیں ۔ان برگزیدہ لوگوںکو استعارۃً اس لئے بھی پرندہ کہا جاتاہے کہ پرندہ آسمان کی طرف اڑتاہے اور علوم سماوی آسمان سے نیچے کی طرف اترتے ہیں اوریہ ظاہر ہے کہ جب کوئی چیز اوپر سے نیچے کی طرف آرہی ہوگی تووہ سب سے پہلے اسی کو ملے گی جو اوپر پرواز کررہاہوگا ۔ پس عالم روحانی کی فضائوں میں پرواز کرنے والے کواس لئے بھی پرندہ کہاجاتاہے کہ آسمانی علوم اوراسرار غیبی جواللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے انہی لوگوںکو الہام یارؤیا وکشوف کے ذریعہ معلوم ہوتے ہیں جواوپر پرواز کررہے ہو ں۔اورانہی آسمانی طیور کو اللہ تعالیٰ سب سے پہلے اپنے فیو ض سے متمتع فرماتاہے ۔پھر وہ لوگ جو ان کی صحبت میں آکربیٹھتے ہیں و ہ بھی اپنے اپنے اخلاص اوردرجہ کے مطابق ان فیوض سے مستفیض ہوتے چلے جاتے ہیں ۔
غرض طیر کے اس مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے عُلِّمْنَامَنْطَقَ الطَّیْرِ کے یہ معنے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے لوگوں سے کہا کہ اے لوگو!مجھے بھی وہ بولی سکھائی گئی ہے جوبلندی کی طرف پرواز کرنے والے لوگوںکوسکھائی جاتی ہے یعنی نبیوں کے معارف اورحقائق اوریہ اس لئے کہاگیاہے کہ یہودیوں اورعیسائیوں کے نزدیک حضرت سلیمان علیہ السلام نبی نہیں تھے بلکہ صرف ایک بادشاہ تھے ۔چنانچہ بائیبل میں کہیں بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کونبی نہیں قرار دیاگیابلکہ ایک فلاسفر اور عالم قراردیاگیاہے ۔ چنانچہ نمبر۱ سلاطین باب ۴ میں لکھا ہے :۔
’’ اورخدانے سلیمان کوحکمت اور سمجھ بہت ہی زیاد ہ اور دل کی وسعت بھی عنایت کی جیسی سمندرکے کنارے کی ریت ہوتی ہے ۔ اورسلیمان کی حکمت سب اہل مشرق کی حکمت او رمصر کی ساری حکمت پر فوقیت رکھتی تھی ۔‘‘(آیت ۲۹و۳۰)
اسی طرح لکھاہے :۔
’’ اس نے تین ہزار مثلیں کہیں او راس کے ایک ہزار گیت تھے ۔اوراس نے درختوں کا یعنی لبنان کے دیودار سے لیکر زدفا تک کاجو وادیوں پراُگتاہے اورچوپائیوں اورپرندوں اوررینگنے والے جانداروں اورمچھلیوں کا بھی بیان کیا ۔اورسب قوموں میںسے زمین کے سب بادشاہوں کی طرف سے جنہوں نے اس کی حکمت کی شہرت سنی تھی لوگ سلیمان کی حکمت کو سننے آتے تھے۔‘‘(آیت ۳۲،۳۳)
غرض بائیبل حضر ت سلیمان علیہ السلام کو ایک حکیم اورفلاسفرتوقراردیتی ہے مگرنبی قرار نہیں دیتی ۔بلکہ اس سے بڑھ کر وہ حضرت سلیمان علیہ السلام پر یہ الزام لگاتی ہے کہ
’’ جب سلیمان بڈھاہوگیا تواس کی بیویو ں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کرلیا ۔اوراس کا دل خداوند اپنے خداکے ساتھ کامل نہ رہا ۔‘‘(نمبر۱ سلاطین باب ۱۱۔آیت ۴،۵)
پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں اورعیسائیوں کے اس خیال کی تردید کی ہے ۔اوربتایاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نبی تھے اورانہیں بی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہی علوم اورمعارف کئے گئے تھے جو اللہ تعالیٰ کے ان برگزیدہ بندوں کو عطاکئے جاتے ہیں جواس کی طرف پرواز کرتے اور اس کے قرب میں بہت بلند اور بالامقام رکھتے ہیں ۔
پھر فرماتے ہیں وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ہمیں ہر ضروری چیز عطاکی گئی ہے ۔اس جگہ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ کے معنے ہرچیز کے نہیں بلکہ ہرضروری چیز کے ہیں ۔چنانچہ حضر ت سلیمان علیہ السلام کے مدمقابل ملکہ سبا کے متعلق بھی اسی سور ۃ میں آتاہے کہ وَاُؤتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ(آیت ۲۴)حالانکہ وہ دنیا کے ایک نہایت مختصر علاقہ کی بادشاہ تھی ۔اگر َاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ کے معنے ہرچیز کے کئے جائیں توا س آیت کا یہ مفہوم قرار پاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملکہ سبا اور اس کاتخت بھی حاصل تھ ااورجب ہدہد نے ملکہ کا ذکر کیااورکہا کہ اسے ہرنعمت حاصل ہے تواس کے یہ معنے تھے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اوران کے لشکر بھی اس کو حاصل تھے حالانکہ یہ دونوں باتیں بالبداہت غلط ہیں ۔دراصل عربی زبان کے محاورہ کے مطابق یہ ضروری نہیں ہوتاکہ کُلّ کا لفظ تمام افراد جنس پر مشتمل ہو بلکہ بسااوقات یہ لفظ صرف ضرورت کے مطابق اشیاء پر بولاجاتاہے ۔مثلاً ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔ فَلَمَّا نَسُوْامَا ذُکِّرُوْابِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْئٍ(انعام ع ۵)یعنی جب پہلی قوموں کے افراد نے اس نصیحت کو بھلادیا جوانہیں کی گئی تھی توہم نے ان پر پہلے توہرقسم کی ترقیات کے دروازے کھول دیئے اورپھران پر عذاب نازل کردیا ۔ اس آیت میں بھی کلّ کے لفظ کے یہ معنے نہیں کہ ان کو دنیاک ی ہرنعمت ملی بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ اس زمانہ کی اوران کے ملک کی بڑی بڑی نعمتوں سے انہیں حصہ ملا ۔اسی طر ح اہل مکہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔اَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَّھُمْ حَرَمًااٰمِنًا یُّجْبٰیٓ اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْئٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا(قصص ع ۶)یعنی کیا اہل مکہ کو ہم نے ایک عزت والے اور محفوظ مقا م میں جگہ نہیں دی ۔ جس کی طرف ہمارے انعام کے طور پر ہرقسم کے میوے لائے جاتے ہیں ۔اس آیت میں کلّ سے مراد تمام دنیا کے میوے مراد نہیں بلکہ بہت سے میوے مراد ہیں جواہل مکہ کی صحت اوران کی لذت کے سامان پیداکرنے کے لئے ضروری تھے ۔اسی طرح شہد کی مکھی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ تُوتمام پھلوںکو کھا ۔حالانکہ شہد کی مکھی تمام پھلوںکونہیں کھاتی بلکہ بعض پھلوںکوکھاتی ہے ۔اسی طرح یہاں وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْء کے معنے ہرچیز کے نہیں بلکہ ہرمطابق ضرورت چیز کے ہیں اورمراد یہ ہے کہ جن جن چیزوں کی حضرت سلیمان علیہ السلام کو ضرورت ہوتی تھی خداتعالیٰ ان کومہیاکردیتاتھا اورجن جن چیزوں کی اپنے زمانہ میں ملکہ سباکو ضرورت ہوتی تھی وہ اس کومیسر آجاتی تھیں چنانچہ یہ دعویٰ کرکے حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کے کھلے فضل سے حاصل ہوتی ہے ۔بغیر اللہ تعالیٰ کے فضل کے انسانی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں۔
وحشر لسلیمٰن جنودہ من الجن والانس والطیر فھم یوزعون٭
اور(ایک دفعہ ) سلیمان ؑ کے سامنے جنوں اورانسانوں اورپرندوں میں سے اس کے لشکر ترتیب وار اکھٹے کئے گئے ۔پھر ان کو کوچ کا حکم ملا ۔۹؎
۹؎ حل لغات :۔یُوْزَعُوْنَ:اَوْزَعَ سے فعل مضارع مجہول جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے اوراَوْزَعَ وَزَعَ سے ہے اور وَزَعَہٗ کے معنے ہیں کَفَّہٗ ومَنَعَہٗ وَحَبَسَہٗ۔یعنی اس کوہٹایا۔روکایا روکے رکھا ۔اورجب وَزَعَ الْجَیْشَ کہیں تواس کے معنے ہوتے ہیں حَبَسَ اَوَّلَھُمْ عَلیٰ اٰخِرِھِمْ یعنی لشکر کواول سے لیکر آخر تک روکے رکھا اورجب کہیں کہ رَأَیْتُہٗ یَزَعُ الْجَیْشَ تومعنے ہوں گے یُرَقِّبُھُمْ وَیُسَوِّیْھِمْ وَیَصِفُّھُمْ لِلْحَرْبِ یعنی میں نے اسے دیکھا کہ وہ لشکر کو ترتیب دے رہاتھا اور انہیں ٹھیک کررہاتھا اورلڑائی کے صف بستہ کررہاتھا ۔(اقرب)پس یُوْزَعُوْنَ کے معے ہوں گے کہ (۱)لشکروں کوترتیب دی جاتی تھی (۲)لشکروںکاپوراپورا انتظام رکھاجاتاتھا ۔
تفسیر :۔فرماتاہے ۔ایک دفعہ سلیمانؑ کے سامنے جنوں اورانسانوں اورپرندوں میں سے اس کے لشکر حاضر کئے گئے اورانکو ترتیب وار الگ الگ کھڑا کیاگیا ۔یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اس وقت کسی ملک پر چڑھائی کرنے کے لئے تیار تھے اورانہوں نے اپنی تمام فوج اکٹھی کی تھی جن میں جنات کالشکر بھی تھا ۔انسانوں کالشکر بھی تھا اورپرندوںکا لشکر بھی تھا ۔
جنّات کا لفاظ سامنے آتے ہی مفسرین کاذہن پھر اس طرف منتقل ہوجاتاہے کہ یہ کوئی غیر مرئی مخلوق ہے جو حضرت سلیمانؑ کے قبضہ میں تھی ۔حالانکہ اگروہ قرآن کریم پر غورکرتے توانہیں اس قدر دور از کار تاویلات کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی ۔جنّات کی حقیقت پر غورکرنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھناچاہیئے کہ آیا قرآن کریم میں صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق ہی ذہ ذکرآتاہے کہ انکے پاس جنّ تھے یاکسی اورنبی کے متعلق بھی کہا گیاہے کہ اس کے پاس جنّ آئے۔اس غرض کے لئے جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیںسورۃ احقاف میں یہ آیات نظر آتی ہیں :۔وَاِذْصَرَفْنَآ اِلَیْکَ نَفَرًامِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ۔فَلَمَّاحَضَرُوْہُ قَالُوْٓااَنْصِتُوْا۔فَلَمَّاقُضِیَ وَلَّوْااِلیٰ قَوْمِھِمْ مُّنْذِرِیْنَ۔قَالُوْایٰقَوْمِنَآ اِنَّا سَمِعْنَا کِتَابٰااُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسیٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَھْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ وَاِلیٰ طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۔یٰقَوْمَنَآ اَجِیْبُوْادَاعِیَ اللّٰہِ وَاٰمِنُوابِہٖ یَغْفِرْلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَیُجِرْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۔(احقاف ع۴)فرماتاہے اس وقت کو بھی یاد کرو جبکہ ہم جنوں میں سے کچھ لوگوں کو تیری طرف لائے جوقرآن سننے کی خواہش رکھتے تھے ۔جب وہ تیری مجلس میں پہنچے توکہنے لگے ۔چپ کرو۔ تاکہ اس کی آواز ہمارے کانوں میں اچھی طرح پڑے ۔جب قرآن کریم کی تلاوت ختم ہوگئی تووہ اپنی قوم کی طرف واپس چلے گئے اور کہنے لگے ۔اے ہماری قوم ہم نے ایک کتاب کی تلاوت سنی ہے ۔جو موسیٰؑ کے بعد اتاری گئی ہے اورجوکتابیں اس سے پہلے اتری ہیں ان سب کی تصدیق کرتی ہے اورحق کی طرف بلاتی او رسیدھا راستہ دکھاتی ہے ۔اے قوم۔اللہ تعالیٰ کے منادی کی آواز کوسنواور اسے قبول کرو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بخش دے گا اورتمہیں دردناک عذاب سے بچائے گا ۔
پس اس سے معلو م ہوتاہے کہ یہ جنّ تورات پر۔حضرت موسیٰؑ پر اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پربھی ایمان لائے تھے ۔پس سلیمانؑ ہی ایک ایسے نبی نہیں جن پر جنّ ایمان لائے ۔بلکہ موسیٰؑ اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی قرآن کریم سے ثابت ہے کہ جنّات ان پر ایمان لائے ۔مگرافسوس ہے کہ مفسرین حضرت سلیمان ؑ کے جنوں کے متعلق توعجیب عجیب قصے سناتے ہیں ۔کہتے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام قالین پر بیٹھ جاتے او رچارجنّوں کو چا ر گوشے پکڑوادیتے اوروہ انہیں اُڑاکر آسمانوں کی سیرکراتے ۔ مگررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو جنّ ایمان لائے ان کے متعلق کسی ضعیف سے ضعیف روایت سے بھی یہ ثابت نہیں کرتے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی ایسی مدد کی ہو حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا کرسفرکرتے تھے ۔آپ کے صحابہؓ کو کئی دفعہ سواریاں نہ ملتیں اوروہ روتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اورکہتے کہ ہمارے لئے کسی سواری کاا نتظام فرمادیجئے توہم جا نے کے لئے حاضر ہیں ۔کئی دفعہ صحابہؓ نے ننگے پیر لمبے لمبے سفر کئے ہیں ۔مگریہ تمام دکھ اور تکلیفیں دیکھنے کے باوجود ان سنگدل جنّوں کا دل نہ پسیجا وہ حضرت سلیمانؑ کے وقت تولشکر کالشکر اٹھا کر دوسری جگہ پہنچا دیتے تھے اوریہاں ان سے اتنا بھی نہ ہواکہ دس بیس مہاجرین کوہی اٹھا کر میدان جنگ میں پہنچادیتے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جنّ غیر از انسان وجو د ہیںجورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ اورحضرت سلیمان علیہم السلام پر ایمان لائے ۔مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان معنوں کوقرآن کریم تسلیم کرتاہے ۔اگر یہ ایک استعارہ ہے تویقیناً قرآن کریم نے اس کو اپنی کسی دوسری آیت میں حل کیا ہوگا ۔اوراستعارہ تسلیم نہ کرنے کی صورت میں قرآن کریم کی دوآیتیں باہم ٹکراجائیں گی اور اس طرح قرآن کریم میں اختلاف پیداہوجائے گا ۔پس ہمیں دیکھناچاہیئے کہ اس کواستعارہ تسلیم نہ کرنے سے قرآن کریم میں اختلاف پیداہوتاہے یااستعارہ تسلیم کرکے اختلاف پیداہوتاہے ۔
استعارہ کے متعلق یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ جولوگ اسے استعارہ نہیں سمجھتے وہ کتہے ہیں کہ یہ ایساہی لفظ ہے جیسے شیطان کا لفظ آتاہے ۔ جس طرح شیطان سے مراد ایک ایسی مخلوق ہے جوانسانوں سے علیحدہ ہے۔اسی طرح جنّ بھی ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے الگ ہے حالانکہ وَاِذَاخَلَوْااِلیٰ شِیٰطِیْنِھِمْ میں مفسرین بالاتفاق کہتے ہیں کہ اس جگہ شیاطین سے مراد یہود اوران کے بڑے بڑے سردار ہیں ۔پس اگ رانسان شیطان بن سکتاہے توانسان جنّ کیوں نہیں بن سکتا ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔وَکَذَالِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلیٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا(انعام ع ۱۴) کہ ہم نے ہرنبی کے دشمن بنائے ہیں شیطان آدمیوں میںسے بھی اورجنّوں میں سے بھی جو لوگوں کومخالفت پراکساتے اور انہیں نبی ا راس کی جماعت کے خلاف برانگیختہ کرتے رہتے ہیں ۔یہاں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر بتادیا ہے کہ انسان بھی شیطان ہوتے ہیں ۔پس اگرشیاطین الانس ہوسکتے ہیں توجن الانس کیوں نہیں ہوسکتے۔ یعنی جس طرح انسانوں میں سے شیطان کہلانے والے پیداہوسکتے ہیں اسی طرح ان میں جنّ کہلانے والے بھی پیداہوسکتے ہیں ۔بہرحال قرآن کریم سے ہمیں پتہ لگ گیا کہ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے قبضہ میں ہی جنّ نہیں تھے بلکہ حضرت موسیٰؑ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جنّ ایمان لائے تھے ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کن کی طرف ہوئی تھی ۔اللہ تعالیٰ سورئہ نساء میں اس کے متعلق فرماتاہے وَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا (نساء ع ۱۱)ہم نے تجھے تمام آدمیوں کے لئے رسول بنا کربھیجا ہے ۔اب اللہ تعالیٰ ا س آیت میں صاف طور پر فرماتاہے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام آدمیوں کی طرف رسول بنا کربھیجا حالانکہ اگرآدمیوں کے علاوہ کوئی اورنرالی مخلوق جسے جنّ کہتے ہیں آپ پر ایمان لائی تھی تویہ کہنا چاہیئے تھا کہ وَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ وَالجِنِّ رَسُوْلاًمگر وہ یہ نہیں فرماتا بلکہ فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے آدمیوں کے لئے رسول بنا کربھیجا ۔توجب آدمیوں کی طرف ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعو ث کئے گئے تھے توصاف پتہ لگ گیا کہ جہاں یہ ذکر ہے کہ جنّ آپ پر ایمان لائے وہاں ان سے جنّ الانس ہی مراد ہیں نہ کہ کو ئی اورنرالی مخلوق جس کا نقشہ عام لوگوں کے دماغوں میں ہے ۔اسی طرح ایک حدیث میں جس کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ ہیں ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے ایسی پانچ خصوصیتیں عطاکی گئی ہیں جو پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ۔ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ کَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثَ اِلیٰ قَوْمِہٖ خَاصَّۃً کہ پہلے ہر نبی اپنی قوم کی طرف بھیجاجاتاتھا وَبُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ عَامَّۃً مگر میں روئے زمین کے تمام آدمیوں کی طرف بھیجاگیاہوں ۔یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قطعی طور پر بیان فرماتے ہیں کہ انبیائے سابقین میں سے ایک نبی بی ایسانہیں جواپنی قوم کے سواکسی اورقوم کی طرف مبعوث ہواہو۔لیکن مسلمان یہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جنّوں اورطیور اور چنونٹیوں کی طرف بھی بھیجے گئے تھے ۔اگر واقعہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام جنّوں اورطیور کی طرف مبعوث ہوئے تھے تووہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نعوذ بااللہ درجہ میں بڑھ گئے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم توصرف انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے ۔
پھر اگر یہ جنّ غیر ازا نسان ہیں تووہ اللہ تعالیٰ کے مخاطب کیونکر ہوگئے ۔اللہ تعالیٰ تو فرماتاہے وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا یَامَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِاسْتَکْبَرْتُمْ مِنَ الْاِنْسِ(انعام ع ۱۵) یعنی جب قیامت کے دن سب لوگ جمع ہوں گے توہم جنّوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہیں گے اے جنّوں کے گروہ!تم نے اکثر حصئہ انسان کو اپنے قابو میں کیا ہواتھا ہم توجنّوں کو تلاش کرتے کرتے تھک گئے مگر قرآن یہ کہتاہے کہ جنّوں نے اکثر وںکو قابو کیا ہواہے ۔حالانکہ ہم تلاش کرتے ہیں تووہ ملتے نہیں۔لوگ وظیفے پڑھتے ہیں چلّہ کشیاں کرتے ہیں اورجب ان کا دماغ خراب ہوجاتاہے اورخشکی سے کان بجنے لگتے ہیں تو کہتے ہیں جنّ آگیا ۔ حالانکہ اس وقت جنّ نہیں آتا بلکہ اس وقت وہ خود دنیا سے کھوئے جاتے اور پاگل ہوجاتے ہیں ۔ترو تازہ دماغ کے ہوتے ہوئے جنّ کبھی انسان کے پاس نہیں آتے۔
غرض جنّوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ قَدِاسْتَکْبَرْتُمْ مِنَ الْاِنْس تم نے انسانوں سے بہت سے فائدے اٹھائے ہیں ۔اوروہ جو انسان ہیں وہ بھی کہیں گے کہ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْض ٍ ہم میں سے بعض نے بعض سے بڑا فائدہ اٹھایا ہے ۔ اب اپنے اپنے محلہ اور گائوں می پھر کر لوگوں سے دریافت کرلو کہ کیا پچاس یا اکاون فیصدی لو گ جنّوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں ؟ سومیں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جو یہ کہتاہوکہ میں جنّوں سے فائدہ اٹھاتاہوں اورمیرے ان سے تعلقات ہیں ۔جس سے صاف ثابت ہوتاہے کہ جنّ سے مراد انسانوں کے علاوہ کوئی اورمخلوق نہیں بلکہ انسانوں میںسے ہی بعض جنّ مراد ہیں ۔اورانسانی جنّوں کی دوستیاں بڑی کثرت سے نظرآتی ہیں ۔
پھر اس سے بڑھ کر ایک اَور دلیل ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ ۔اے جنّوں اورانسانوںکے گروہ جو ہمارے سامنے کھڑے ہو ۔بتائو کیا تمہارے پاس ایسے رسول نہیں آئے جو تمہیں میںسے تھے ۔اب بتائو جب خداتعالیٰ کہتاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض جنّ بھی ایمان لائے او ردوسری طرف یہ فرماتاہے کہ ہمار ارسول بھی انہیں میں سے تھا توکیا اس سے صاف ثابت نہیں ہوتا کہ و ہ جنّ بھی انسان ہی تھے کوئی غیر از انسان وجود نہیں تھے ۔پھر یہیں تک بات ختم نہیں کی بلکہ فرمایا وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا۔ وہ تمہیں انذار بھی کرتے تھے اورقیامت کے دن سے ڈراتے تھے ۔ گویاحضرت موسیٰؑ اور حضرت سلیمانؑ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنوںکو ڈرایابھی کرتے تھے ۔اورانہی یوم آخرت اور اللہ تعالیٰ کا خو ف دلایاکرتے تھے جس سے صاف ثابت ہوتاہے کہ یہ جنّ جنّ الانس ہی تھے کوئی اَور مخلوق نہیںتھے ۔جس طرح شیاطین الانس ہوتے ہیں اسی طر ح جن الانس بھی ہوتے ہیں۔
اب ایک اور موٹی مثال سنو ۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے ۔اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًاوَّ مُبَشِّرًاوَّ نَذِیْرًالِّتُؤْمِنُوْابِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ(الفتح ع ۱)کہ ہم نے اس رسول کو اس لئے بھیجا ہے تاکہ تم ایمان لائو اوراس کی مدد کرو ۔اب جبکہ جنّ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پ رایمان لائے تھے توکیا کوئی ثابت کرسکتاہے کہ ان جنّوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی مدد کی ہو ۔ایک معمولی ملّاکے لئے تووہ انگوروں کے خوشے لاسکتے ہیں ۔مگررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وہ روٹی کا ٹکڑابھی نہ لائے اورآپ کو بسااوقات فاقے کرنا پڑے ایک دفعہ آپ کے چہرے پر ضعف کے آثار دیکھ کرصحابہؓ نے سمجھا کہ آپ کو بھوک لگی ہوئی ہے ۔چنانچہ ایک صحابیؓ نے بکری ذبح کی اورآپ کو اوربعض اَورصحابہؓ کوکھاناکھلایا۔مگرایسے مواقع میں سے ایک موقع پر بھی توجنوں نے مدد نہیںکی۔میں سمجھتاہوں وہ بڑے ہی بے شرم جنّ تھے کہ وہ آجکل کے ملنٹوں کو توسیب اورانگور کھلاتے ہیں مگر رسول کرٓیم صلی اللہ علیہ وسلم کو جن پر وہ ایمان لائے تھے انہوں نے کبھی ایک جَوکی روٹی بھی نہ دی ۔پھر وہ مومن کس طرح ہوگئے ۔وہ توپکے کافر تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال ہی بالکل غلط ہے کہ جنّ کو ئی ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے نرالی ہے ۔ وہ جنّ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے وہ بھی انسان ہی تھے اورجس طرح اَورلوگوں نے اپ کی مدد کی وہ بی مددکرتے رہے ۔اگرکوئی نرالی مخلوق مانی جائے توپھر اس سوال کاحل کرنا ان لوگوں کے ذمہ ہوگا جوجنّات کے قائل ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ انہوںنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی مدد نہ کی ۔حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاچکے تھے اور انہیں حکم دیا گیاتھاککہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کریں ۔
پھر اس سے بڑھ کر ایک اَوردلیل ہے اللہ تعالیٰ سورئہ احزاب میں بطورقاعد ہ کلیّہ کے فرماتاہے ۔اِنَاّ عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَاالْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًاجَھُوْلًا ۔(احزاب ع ۹)کہ ہم نے اپنی شریعت اورکلام کوآسمانوں کی مخلوق کے سامنے پیش کیا اورکہا کوئی ہے جو اس کو مانے اور اس پچر عمل کرے۔ اس پر تمام آسمانی مخلوق نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہم یہ بارِ امانت اٹھانے کے ہرگز قابل نہیں ۔پھر ہم نے زمینوں کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا اورکہا ۔لو یہ بوجھ اٹھاتے ہو ۔انہوں نے کہا ۔ہرگز نہیں ۔پہاڑوں پر پیش کیا توانہوں نے بھی انکارکیا حالانکہ لوگ عام طور پر کہاکرتے ہیں کہ جنّ پہاڑوں پر رہتے ہیں ۔ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا سارے ڈرگئے اور کسی نے بھی اس ذمہ واری کو اٹھانے کی جرأت نہ کی َفَحَمَلَھَاالْاِنْسَانُ صرف ایک انسان آگے بڑھا اوراس نے کہا ۔مجھے شریعت دیجیئے ۔میں اس پر عمل کرکے دکھائوں گا ۔فرماتاہے اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًاجَھُوْلًا ۔انسان نے اپنے نفس پر بڑاظلم کیا۔کیونکہ وہ ہمارے عشق میں سرشار تھا ۔اس نے یہ نہیں دیکھا کہ بوجھ کتنا بڑاہے۔بلکہ شوق سے اسے اٹھانے کے لئے آگے نکل آیا ۔اب دیکھو یہاں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتاہے کہ شریعت کو اٹھانے والا صرف انسان ہے ۔ اورکوئی شریعت کا مکلّف نہیں ۔ اب جبکہ انسان کو ہی خدانے شریعت دی توسوال یہ ہے کہ اگر جنّ غیر ازانسان ہیں تووہ کہاں سے نکل آئے اورانہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن پر ایمان کااظہار کیوں کیا ۔اگریہ تسلیم کیا جائے کہ و ہ غیر ازانسان تھے توخداتعالیٰ کا کلام باطل ٹھہرتاہے کیونکہ خداتعالیٰ یہ فرماتاہے کہ انسان کے سواسب مخلوق نے اس شریعت پر عمل کرنے سے انکارکردیا تھا ۔اورجبکہ قرآن سے ثابت ہے کہ جنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے توصاف معلوم ہوگیا کہ یہ جنّ انسان ہی تھے غیر از انسان نہیں تھے ۔ یہاں بھی جنّ سے مراد جنّ الانس ہی ہیں ۔ایسی مخلوق مراد نہیں جو انسانوں کے علاوہ ہو۔اورنہ میں ایسے جنّوں کاقائل ہوں جو انسانوں سے آکر چمٹ جاتے ہیں ۔مجھے یاد ہے ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ میری ہمشیرہ کے پاس جنّ آتے ہیں اوروہ آپ پر ایمان لانے کے لئے تیار ہیں ۔حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں خط لکھا کہ آپ ان جنّوں کویہ پیغام پہنچا دیں کہ ایک عورت کوکیوں ستاتے ہو ۔اگرستاناہی ہے تومولوی محمد حسین بٹالوی یا مولوی ثناء اللہ کوجاکرستائیں ۔ایک غریب عورت کو تنگ کرنے سے کیا فائد ہ؟ توایسے جنّ کوئی نہیں ہوتے جن کو عام لوگ مانتے ہیں ۔بیشک کئی ایسے لوگ بھی ہوں گے جوانگریزی تعلیم کے ماتحت پہلے ہی اس امر کے قائل ہوں ۔لیکن مومن کے سامنے اصل سوال یہ نہیں ہوتاکہ اس کی عقل کیاکہتی ہے بلکہ اصل سوال یہ ہوتاہے کہ قرآن کریم کیا کہتاہے ۔اگرقرآن کہتاہوکہ جنّ ہوتے ہیں توہم کہیں گے آمنّا وصدّقنا۔ اوراگر قرآن سے ثابت ہوکہ انسانوں کیی علاوہ جنّ کوئی مخلوق نہیں توپھر ہمیں بھی یہی بات ماننی پڑے گی ۔
اصل بات یہ ہے کہ بعض لوگ بڑے متکبر اورسرکش ہوتے ہیں جوکسی دوسرے کی اطاعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔مگرجب انبیاء کے سامنے آتے ہیں تو یکدم ان کی حالت بد ل جاتی ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوہی دیکھ لو ۔ابتدا ء میں وہ اسلام کی کوئی بات برداشت نہیں کرسکتے تھے اورایک دفعہ تو انہیں یہاں تک جوش آیا کہ تلوار سونت لی اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکل کھڑے ہوئے ۔مگرجب رسول کریم صلیاللہ علیہ ولسم کلے پاس پہنچے تو آپ کے رعب کی وجہ سے کانپنے لگ گئے ۔ توبعض طبائع ناری ہوتی ہیں ۔مگر جب نبیوں کے سامنے جاتی ہیں توٹھنڈی ہوکر رہ جاتی ہیں ۔ایسی طبائع رکھنے والے انسانوںکوعربی زبان میں جنّ کہتے ہیں ۔اسی طرح جنّوں سے وہ لوگ بھی مراد ہوتے ہیں جومحلّات میں رہتے ہیں اوران کے دروازہ پر آسانی سے لوگ نہیں پہنچ سکتے۔چنانچہ لغت میں لکھا ہے جِنُّ النَّاسُ مُعَظَّمُھُم ْ(اقرب)یعنی جنّ لفظ انسانوں میں سے بڑے آدمیوںکے لئے بولاجاتاہے کیونکہ ان کی حفاظت کے لئے بڑے بڑے مضبوط پہرہ دارمقرر ہوتے ہیں اورہرشخص آسانی سے ان تک نہیں پہنچ سکتا۔
پرانے زمانہ میں تما م بڑے بڑے بادشاہوں کا یہ دستورتھا کہ وہ خاص خاص مقاموں پر لڑ نے کے لئے اوراپنے باڈی گارڈز کے طور پر اعلیٰ قبیلوں کے آدمیوں کو بھرتی کیاکرتے تھے ۔چنانچہ جرمن کے بادشاہ وَل ہیلم نے بھی ایسا دستہ بھرتی کیاہواتھا ۔اورنپولین نے بھی ایسادستہ بھرتی کیاہواتھا اورہندوستان کے بادشاہ اکبر نے بھی باہرہ کے سیدوں میں سے ایسا دستہ بھرتی کیاہواتھا ۔چنانچہ جب اکبر نے چتوڑہ کے قلعہ پر حملہ کیااور وہ قلعہ جلد فتح نہ ہوسکا تواکبرنے ان رجمنٹوںکو جو باہرہ کے سیدوں می سے بھرتی ہوئی تھیں حکم دیا کہ وہ چتوڑ پر حملہ کریں اور وہ اس وقت تک کٹ کٹ کرمرتے چلے گئے جب تک کہ چتوڑ کے قلعہ کی دیواروں میں رخنہ پیدانہ ہوگیا ۔ چنگیز خاں نے بھی ایک خاص قبیلہ میں سے اپنی حفاظت کادستہ بھرتی کیاتھا۔جس کو بڑی عزت دی جاتی تھی ۔اوراس دستہ ک افسروں کو بادشاہ کے دربار میں خاص مقام پر بٹھایاجاتاتھا ۔نپولین کے محافظ دستہ کا ایک عجیب واقعہ مشہور ہے ۔کہ جب واٹرلُو کے میدان میں نپولین کی فوج کو شکست ہوئی تو اس کامحافظ دستہ میدان سے نہیں ہلا۔لارڈ ولنگٹن کی فوج گولے پر گولے برسارہی تھی اوروہ مرتے چلے جاتے تھے لیکن اپنی جگہ نہیں چھوڑتے تھے اس وقت نپولین کی فوج کا ایک جرنیل جوایک خاص کام پر بھیجا گیاتھا واپس آیااور اس نے جنرل نے کو جو اس خاص دستہ کاافسرتھا جاکرکہا کہ ہماراگولہ بارود ختم ہوچکا ہے اوردشمن بڑھتاچلا آرہاہے تم یہاں کیوں کھڑ ے ہو۔پیچھے ہٹو تاکہ کسی طر ح بادشاہ کی جان بچائی جاسکے اورپھر جمع ہوکر دشمن پر حملہ کریں اس پر جنرل نےؔ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا ۔اورنہایت سادگی سے کہا ۔’’مگرمیں کیاکروں مجھے نپولین نے پیچھے نہیں ہٹنانہیں سکھایا‘‘۔
اس جگہ پر جو جنّ کالفظ بولاگیاہے وہ ایسے ہی خاص دستوں کے لئے بولاگیاہے ۔کیونکہ ان دستوں میں معزز خاندانوں کے افراد بھرتی کئے جاتے تھے جوگھروں میں اورپہروں کے پیچھے رہنے کے عادی ہوتے تھے اورجنّ کہلانے کے مستحق تھے جس کے معنے پوشید ہوجود کے ہیں ۔یعنی وہ لو گ جوعام طورپر نظر نہیں آتے اورپوشیدہ رہتے تھے ۔چنانچہ لغت میں لکھا ہے کہ جنّ کے معنے ہرایسی چیز کے ہوتے ہیں جو حواس سے چھپی ہوئی ہو(اقرب)یعنی جن کی آوازیں سنائی نہ دیں ۔اورآنکھوں کو نظر نہ آئیں ۔گویادنیا سے الگ تھلگ رہنے والے لوگ یادوسرے لفظوں میںامراء جیساکہ لغت نے واضح معنے اس کے امراء بھی کردیئے ہیں ۔پس حضرت سلیمان علیہ السلام کالشکر تین قسم کے لوگوں پرمشتمل تھا (۱)امراء کا خاص حفاظتی دستہ ۔(۲)عوام الناس کی فوج۔(۳)روحانی لوگوں کادستہ۔حضرت سلیمان علیہ السلام ان کو الگ الگ کھڑاکیاکرتے تھے ۔جس طرح تیمور بھی اپنی فوج کے مختلف لوگوںوکوالگ کھڑاکیاکرتاتھا ۔مگروہ روحانی لوگوںیامولویوںکوفوج کے پیچھے کھڑاکیاکرتاتھا ۔اورکہتاتھاکہ یہ جنگ میں سب سے پہلے بھاگیں گے ۔اس لئے ان کو پیچھے کھڑاکرناچاہیئے ۔مگرہم نہیں کہہ سکتے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت میں بھی علماء کا یہی حال تھا ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں علماء کایہ حال نہیں تھا ۔چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ صحابہؓ میں سے زیادہ بہادر اوردلیر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اورپھر انہوںنے کہا کہ جنگ بد ر میں جب رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک علیحدہ چبوترہ بنایاگیا تواسوقت سوال پیداہواکہ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا کام کس کے سپرد کیاجائے ۔اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فوراً ننگی تلوار لے کرکھڑے ہوگئے اورانہوں نے اس انتہائی خطرہ کے موقعہ پر نہایت دلیری کے ساتھ آپ کی حفاظت کافرض سرانجام دیا (تاریخ الخلفاء سیوطی ص ۲۹) اسی طرح احادیث میں آتاہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا ۔اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بابُھَا۔ (الجامع الصغیر جلد اول ص۹۵)یعنی میں علم کاشہر ہوں اورعلیؓ اس کادروازہ ہیں ۔پس حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء میں سے قرار دیا ہے مگر خیبر کی جنگ میں سب سے نازک وقت میں اسلام کا جھنڈا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ ہی کے ہاتھ میں دیاتھا ۔ جس سے معلوم ہوتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت علماء بزدل نہیں تھے بلکہ سب سے زیاد ہ بہادر تھے ۔ہاں شاعر کمزور ہوتے تھے چنانچہ حسان بن ثابتؓ کے متعلق آتاہے کہ ان کادل بہت کمزور تھا ۔
حتی اذااتوعلی وادالنمل۔ قالت نملۃ یایھاالنمل ادخلوا
یہاں تک کہ جب وہ وادی نملہ میں پہنچے تونملہ قوم میں سے ایک شخص نے کہا اے نملہ قوم!چلے جائو
مسکنکم۔لایحطمنکم سلیمان وجنودہ وھم لایشعرون٭
اپنے اپنے گھروں میں ۔ایسانہ ہو کہ سلیما ن ا وراس کے لشکر (تمہارے حالات کو )نہ جانتے ہوئے تمہیں پیروں کے نیچے مسل دیں۔
فتبسھم ضاحکا من قولھا وقال رب اوزعنی ان اشکر
پس وہ (یعنی سلیمان ؑ) اس کی بات سن کر ہنس پڑا۔ اورکہا ۔اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ
نعمتک التی انعمت علی وعلی والدی وان اعمل صالحا
تیری نعمت کا جو تُونے مجھ پر اور میرے والدین پر کی ہے شکریہ اداکرسکوں ۔ اورایسا مناسب عمل کروں
ترضہ وادخلنی برحمتک فی عبادک الصلحین٭
جسے توپسند فرمائے ۔اوراے خداٖ اپنے رحم کے ساتھ تُو مجھے اپنے بزرگ بندوں میں داخل کر۔۱۰؎
۱۰؎ حل لغات :۔لَایَحْطِمَنَّکُمْ: حَطَمَ یَحْطِمُ سے مضارع منفی کاصیغہ ہے اور حَطَمَہٗ کے معنے ہیں کَسَرَہٗ کسی چیز کوتوڑدیا (اقرب)پس لَایَحْطِمَنَّکُمْ کے معنے ہیں ایسانہ ہوکہ وہ تم کو توڑ دیں ۔
اَوْزِعْنِیْ:اَوْزِعْنِیْ اَوْزَعَ سے امر کاصیغہ ہے اوراَوْزَعَ اللّٰہُ فُلَاناً کے معنے ہیں اَلْھَمَہُ الشُّکْرَ خدانے اسے شکر کی توفیق دی ۔(مفردات ) پس اَوْزِعْنِیْ کے معنے ہوں گے مجھے شکر کی توفیق عطاکر ۔
تفسیر :۔فرماتاہے ۔حضرت سلیمان علیہ السلام اپنا لشکر لے کر روانہ ہوئے توچلتے چلتے ان کاوادی نمل میں سے گذرہوا(جس کے ایک معنے چیونٹیوں کی وادی کے بھی ہیں)اس لشکر جرار کودیکھ کرایک نملہ نے کہا ۔اے بھائیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو ۔ ایسانہ ہوکہ سلیمانؑ کا لشکر تمہیں بے خبری میں اپنے پائوں تلے روند ڈالے ۔حضرت سلیمان علیہ السلام اس کایہ قول سن کر ہنس پڑے اورانہوںنے کہا ۔اے میرے خدا! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوںکا شکراداکرسکوں جو تونے مجھ پر اورمیرے ماں باپ پر کی ہیں اورمیں ایسے نیک او رمناسب حال اعمال بجالائوں جن سے توراضی ہوجائے اورتو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں شامل فرما۔
مفسرین نے جس طرح جنّوں اور پرندوں کے متعلق مبالغہ سے کام لیاہے ۔اسی طرح وادی النمل کے متعلق بھی بہت مبالغہ سے کام لیا ہے اورلکھا ہے کہ یہ ایک وادی تھی جس میں چیونٹیاں رہتی تھیں اورچونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کی زبان جانتے تھے اس لئے جب چیونٹی بولی تو حضرت سلیمان علیہ السلام فوراً سمجھ گئے کہ اس نے کیاکہاہے ۔نہ معلوم ہمارے مفسرین نے کس کتاب میں پڑھا ہے کہ چیونٹیاں بھی پرندوں کی ایک قسم ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے تویہ فرمایاتھا کہ ہم نے سلیمان کو منطق الطیر کاعلم دیاتھا مگرہمارے مفسرین نے ان کو چیونٹیوں کی بولی کاعلم بھی بخش دیا ۔وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں لمبے عرصہ تک بارشیں نہ ہوئیں تو آپ نے لوگوں سے فرمایاکہ چلو شہرسے باہ نکل کر استسقاء کی نماز پڑھیں۔جب آپ نماز پڑھنے جارہے تھے ۔تو آپ نے دیکھا کہ ایک چیونٹی اپنی اگلی ٹانگیں اٹھاکر اورآسمان کی طرف منہ کرکے خداتعالیٰ سے یہ دعامانگ رہی ہے کہ خدایا ہم بھی تیری مخلوق ہیں ہمیں بارش سے محروم نہ رکھ۔آپ نے یہ دعاسنتے ہی فرمایاکہ اب استسقاء کی نماز پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں واپس چلو ۔ اس چیونٹی کی دعاہی کافی ہے اوراسی کے نتیجہ میں بارش برس جائے گی ۔(تفسیر ابن کثیر برحاشیہ فتح البیان جلد ۷ص ۲۰۶)
پھر مفسرین نے اپنی تحقیق یہیں تک نہیں رہنے دی بلکہ انہوں نے چیونٹیوں کے قبیلوں کابی پتہ لگایاہے ۔وہ کہتے ہیں کہ جس طرح انسانوں میں مغل اورراجپوت او رپٹھان وغیرہ ہوتے ہیں اسی طرح چیونٹیوں میں بھی مختلف قومیں اورقبائل ہیں ۔چنانچہ یہ علم آپ لوگوںکے کام آئے گا کہ چیونٹیوں کے ایک قبیلہ کانام انہوں نے بنوشیصان بتایاہے اورلکھا ہے کہ اسی قبیلہ کی ایک چیونٹی نے یہ بات کہی تھی اورپھر انہوں نے بڑی تحقیق کے بعد اس کے نام کابھی پتہ لگانے کی کوشش کی ہے۔ گوافسوس ہے کہ کسی ایک نام پر ان کا اتفاق نہیں ہوسکا۔چنانچہ بعض نے اس کانام منذرہ بعض نے طافیہ یالافیہ اور بعض نے خرمّی بتایاہے اورپھر یہ بھی لکھا ہے کہ وہ چیونٹی ایک پائوں سے لنگڑی تھی ۔اسی طرح مفسرین نے اس کاقد بھی بتایاہے ۔چنانچہ بعض کہتے ہیں وہ مرغ کے برابرتھی ۔بعض کہتے ہیں بھیڑکے برابر تھی اوربعض کہتے ہیں وہ بھیڑیے کے برابر تھی ۔اسی طرح مفسرین نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ اس نملہ کے ساتھ چالیس چالیس ہزار چیونٹیاں بطورچوبداررہاکرتی تھیں۔(تفسیر ابن کثیر برحاشیہ فتح البیان جلد ۷ ص ۲۰۵وتفسیر حسینی)
حالانکہ پہلی بات جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اسجگہ نملہ سے مراد چیونٹی نہیں ہے کہ اوپر ذکرتویہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضر ت سلیمان علیہ السلام کومنطق الطیر سکھائی تھی ۔مگراس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چیونٹی بولی تو حضرت سلیمان علیہ السلام سمجھ گئے کہ اس نے کیا کہا ہے ۔ حالانکہ جب دعویٰ یہ تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو پرندوں کی بولی آتی تھی تودلیل میں کسی پرندے کی مثال پیش کرنی چاہیئے تھی ۔مگرمفسرین کہتے ہیںکہ چیونٹی بولی توحضرت سلیمان علیہ السلام کو فوراً سمجھ آگئی جو عُلِّمْنَامَنْطِقَ الطَّیْرِ کاثبوت ہے۔ حالانکہ چیونٹی پرندہ نہیں ۔پس نملہ سے مراد اگرچیونٹی لی جائے تویہ دلیل بالکل عقل میں نہیں آسکتی ۔قرآن جوکچھ کہتاہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو پرندوں کی بولی آتی تھی ۔اوروہ اس کو سمجھتے تھے مگر بولنے لگ جاتی ہے نملہ ۔اوروہ اس بات کوسمجھ جاتے ہیں ۔غرض پہلی بات جو اس ضمن میں قابل غور ہے و ہ یہ ہے کہ نملہ کیا چیز ہے ؟
دوسری چیز یہ قابل غور ہے کہ یہاں حطم کالفظ آتاہے اور حطم کے معنے توڑنے اورغصہ سے حملہ کرنے کے ہوتے ہیں ۔عام طور پر لوگ اس کاترجمہ یہ کردیتے ہیں کہ سلیمانؑ اوراس کالشکرتمہیں اپنے پیروں کے نیچے نہ کچل دیں ۔مگر یہ حطم کے درست معنیح نہیں ۔عربی میں حطم کے معنے توڑدینے اورغصہ میں حملہ کردینے کے ہیں ۔چنانچہ قرآن کریم میں دوزخ کی آگ کاایک نام حطمہ بھی رکھاگیاہے کیونکہ وہ جلادیتی ہے ۔یہ مطلب نہیں کہ آگ کے پیرہوں گے اوروہ لوگوںکواپنے پائوں کے نیچے مسل دے گی ۔پس لَایَحْطِمَنَّکُمْ کے معنے یہ ہوئے کہ ایسانہ ہوسلیمانؑ اوراس کالشکر تمہیں توڑدے یا غصہ سے حملہ کردے اورتباہ کردے ۔اب سوال یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ جو اتنے بڑے نبی تھے جن کے پاس جنّوں اورانسانوں اورپرندوں کے لشکر درلشکر تھے کیاان کا ساراغصہ چیونٹی پر نکلناتھا اورکیاان سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ چیونٹیوں پر حملہ کرنے لگ جائیں گے ۔میں بتاچکاہوں کہ لَایَحْطِمَنَّکُمْ کے معنے پیروں میں مسل دینے کے نہیں بلکہ طاقت کوتوڑدینے اورحملہ آور ہونے کے ہیں ۔اسی لئے عربی زبان میں قحط کو حاطوم کہتے ہیں ۔کیونکہ ا س سے ملک کی طاقت ٹوٹ جاتی ہے ۔اگریہ معنے کئے جائیں توپھر اس کا مطلب یہ ہوگاچیونٹیوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اپنے اپنے بلوں میں گھس جائوایسانہ ہوکہ سلیمان اوراس کالشکر کلہاڑیاں او رکدالیں لے کر آجائے اورہماری بلوںکو کھود کھودکر غلّہ کے دانے نکال لے اوراس طرح ہماری طاقت کو توڑ دے ۔مگرکیاکوئی عقلمند ان معنوںکو درست تسلیم کرسکتاہے ؟۔
تیسری دلیل جونہایت ہی بیّن اور واضح ہے وہ یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے جتنے صیغے استعمال کئے ہیں سب وہ ہیں جوذی العقول کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔مثلاً اُدْخُلُوْا کالفظ آتاہے ۔حالانکہ چیونٹیوں کے لحاظ سے اُدْخُلْنَ کالفظ آناچاہیئے تھا اسی طرح لَایَْطِمَنَّکُمْ میں کُمْ کالفظ آتاہے ۔حالانکہ کُنَّ کالفظ آناچاہیئے تھا ۔پس قرآن مجید کے الفاظ بتارہے ہیں کہ یہ کوئی انسان تھے جن کے لئے کُمْ اور اُدْخُلُوْا وغیرہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔پھر وَھُمْ لَایَشْعُرُوْنَ کہہ کربھی اس بات کو واضح کردیاگیاہے کہ وہ چیونٹیاں نہیں تھیں ۔کیونکہ لشکرتوالگ رہے چیونٹیاںتونبیوں کے پائوں کے نیچے بھی آجاتی ہیں ۔پس اگراس جگہ نملہ سے مرادچیونٹی لی جائے تویہ کہنا کہ سلیمانؑ اوراس کالشکر توکو بے جانے اپنے پائوں کے نیچے کچل نہ دے ایک بالکل بے معنے فقرہ بن جاتا ہے ۔کیا دنیا کی کسی بھی مذہبی کتاب میں لکھا ہے ۔خواہ اسلامی ہویاقبل ازاسلام کی کوئی اور کتاب کہ کوئی نبی سرجھکا کر زمین کی طرف دیکھتے ہوئے چلتاتھا کہ کہیں کوئی چیونٹی اس کے پیروں کے نیچے نہ آجائے ،۔
حقیقت یہ ہے کہ وادی النمل کوئی چیونٹیوں کی وادی نہیں تھی بلکہ ایک حقیقی وادی تھی جس میں انسان بستے تھے ۔چنانچہ تاج العروس جو لغت کی مشہور کتا ب ہے اس میں لکھا ہے کہ شام کے ملک جبرین اورعسقلان کے درمیان ایک علاقہ ہے جسے وادی النمل کہاجاتاہے اورعسقلان کے متعلق تقویم البلدان میں لکھا ہے کہ یہ ساحل سمندر کے بڑے بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہے جو غزہ سے سیناکے ملحق فلسطین کی ایک بندرگاہ ہے بارہ میل اوپر شمال کی طرف واقع ہے ۔اورجبرین شمال کی طرف ایک شہر ہے جو ولایت دمشق میں واقع ہے۔(تقویم البلدان ص ۲۳۸و معجم البلدان جلد۶ص۱۷۴)
پس وادی النمل ساحل سمندر پر یروشلم کے مقابل پر یااس کے قریب دمشق سے حجاز کی آتے ہوئے ایک وادی ہے جواندازًادمشق سے سومیل نیچے کی طر ف تھی ان علاقوںمیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت تک عرب اور مدین کے بہت سے قبائل بستے تھے (مقام کی وضاحت کے لئے دیکھو نقشئہ فلسطین و شام بعہد قدیم و عہد جدید نیلسنز انسائیکلوپیڈیا)
اب ر ہ گیا نملہ سوقاموس میں البرق کے ماتحت لکھا ہے ۔وَالابْرِقَۃُ مِنْ صَیَاہِ النَّمْلَۃ ِ(قاموس جلد ۳ص ۲۱۹)کہ نملہ قوم کے چشموں سے میں سے ایک چشمہ کانام ابرقہ تھا ۔غرض لغت اور جغرافیہ کی مدد سے ہمیں نملہ قوم بھی مل گئی اور وادی النمل کا بھی پتہ چل گیا اوریہ بھی معلوم ہوگیاکہ یہ علاقہ شام میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے علاقہ کے نزدیک تھا ۔اوریہ عجیب بات ہے کہ اس قسم کے نام پرانے زمانہ میں بڑے معقول تھے چنانچہ جنوبی امریکہ میں بعض قوموں کے نام بھیڑیا،سانپ، بچھواورکنکھجوراوغیرہ ہواکرتے تھے ۔بلکہ ہمارے ملک میں ہی ایک قوم کانام کاڈھا ہے ۔نورالدین کاڈھالاہور کے ایک مشہور شخص ہوئے ہیں ۔اسی طرح ایک قوم اکانام کیڑے ہے ۔ایک کانام مکوڑے ہے ۔کشمیر میں ایک قوم کانام ہاپت ہے جس کے معنے ریچھ کے ہیں۔اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام جب ملکہ سبا پر حملہ کرنے کے لئے اپنے ملک سے یمن کی طرف چلے توان کا گذر نملہ قوم کی وادی میں سے ہوا۔جس کو غلطی سے مفسرین نے چیونٹیوں کی وادی بنالیاہے ۔جب آپ وہاں پہنچے تو نملہ قوم کی ملکہ نے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے کہا کہ اے نملہ قوم کے لوگو !اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو ایسانہ ہوکہ یہ خیال کرکے کہ تم سلیمانؑ کے لشکر کامقابلہ کرناچاہتے ہو سلیمان اور اس کالشکر تمہیں پائوں کے نیچے روند ڈالیں۔ان الفاظ نے مفسرین کو اور بھی جرأت دلائی اورانہوں نے یقینی طورپر اسے ایک چیونٹی کاکلام قرار دیدیا۔حالانکہ جب کوئی حملہ آورکسی مقابل قوم کوسختی سے شکست دیتاہے تواس کے لئے محاور ہ میں روند ڈالنے کے الفاظ ہی استعمال کئے جاتے ہیں ۔پس اول تو محاورہ کے لحاظ سے یہ لفظ بالکل واضح تھا لیکن اگر وہ لغت کو دیکھتے وتوانہیں معلوم ہوجاتاکہ حَطَمَ کے معنے توڑ ڈالنے کے بھی ہیں (اقرب) اورمراد یہ ہے کہ ا س نملہ قو م کی ملکہ نے کہا کہ سلیمانؑ تم کو توڑ نہ ڈالے یعنی تمہاری قو ت اورشوکت کو کچل نہ دے ۔فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنْ قَوْلِھَا۔ اس پر سلیمانؑ اس نملہ کی بات سن کر ہنس پڑے ۔
یہاں مفسروں نے یہ عجیب بات نکالی ہے کہ سلیمانؑ جسے خدانے پرندوں کی بولی سکھائی تھی اورمفسروں نے چیونٹیوں کی ۔اس نے چیونٹیوں کے سردار کی بات فوراً سمجھ لی اور ہنس پڑا کہ دیکھو چیونٹیاں بھی مجھے کتنا انصاف پسند سمجھتی ہیں کہ بے سوچے سمجھے تومیراپیرچیونٹی پرپڑ سکتاہے ۔لیکن میں جان بوجھ کر کسی چیونٹی پر بھی پیرنہیں رکھوں گا ۔حالانکہ کوئی شریف آدمی بھی خواہ وہ غیر نبی ہو جان بوجھ کر چیونٹیوں کے اوپر پیر نہیں رکھاکرتا۔ہم نے توکئی شریف آدمیوںکودیکھا ہے کہ برسات کے موسم میں جب کیڑے زمین میںسے نکل آتے ہیں تووہ بچ بچ کرچلتے ہیں کہ کہیں زیاد ہ کیڑے ان کے پیر کے نیچے آکر نہ مارے جائیں ۔پس یہ بات توغلط ہے ۔اصل بات صرف اتنی تھی کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کومعلوم ہواکہ نملہ قوم کی ملکہ نے اپنی قوم کو کہہ دیاہے کہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ جائو ۔اورمخالف مظاہر ہ نہ کرو۔تاکہ اس مظاہر ہ سے بھڑک کر حضرت سلیمانؑ کالشکر ان پر حملہ نہ کردے ۔اوران کو پتہ بھی نہ لگے کہ سردارِ قوم نے اپنی قوم کو عجز وانکسار کاحکم دیا ہے ۔توآپ ہنس پڑے کہ خداتعالیٰ نے کس طرح دوردراز کے ملکوں تک بھی یہ بات پھیلادی ہے کہ سلیمانؑ ظالم نہیں اوروہ ادنیٰ اقوام کے ساتھ بھی انصاف کاسلوک کرتاہے ۔
نملہ قوم کی ملکہ کایہ اعلان کرنا کہ اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو اوردروازے بندکرلو ۔دراصل ا س جنگی دستور کے مطابق تھا کہ جب کو ئی لشکر کہیں سے گذرے اوروہاں کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں گھس جائیں اوردروازے بندکرلیں تواس کے معنے یہ ہوتے تھے کہ وہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں ۔چنانچہ فتح مکہ کے موقعہ پر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کرادیاتھا کہ جولوگ اپنے اپنے گھروں میں گھس جائیں گے اور دروازے بندکرلیں گے ۔توان سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی ۔یہی نملہ نے کہا ۔کہ اپنے اپنے گھروں میں گھس جائواوردروازے بند کرلو ۔حضرت سلیمانؑ سمجھ جائیں گے کہ یہ میرامقابلہ نہیں کرناچاہتے ۔اگرہم باہر رہیں گے توممکن ہے وہ حملہ کردیں ۔حضرت سلیمان علیہ السلام کو جب نملہ قوم کی ملکہ کا یہ اعلان پہنچا ۔تووہ ہنسے اور انہوں نے خداتعالیٰ کا شکر اداکیا کہ میری نیکی اورتقویٰ کی کتنی دوردور خبر پہنچی ہوئی ہے ۔یہ قوم بھی جو اتنی دوررہتی ہے سمجھتی ہے کہ سلیمانؑ ظالمانہ طور پر حملے نہیں کیاکرتا۔اگرہم اپنے دروازے بندکرلیں گے تویہ ہم پر حملہ نہیں کرے گا حالانکہ اس زمانہ کے جنگی دستور کے مطابق جو فاتح قوم ہوتی تھی وہ ملک کو لوٹ لیا کرتی تھی ۔چنانچہ انہوں نے خداتعالیٰ سے مخاطب ہوکر کہا کہ اے اللہ! یہ نیک شہرت تیرے فضل سے ہوئی ہے ۔پس تومجھے توفیق دے ک میں تیرے اس انعام کا شکریہ اداکروںجوتُونے مجھ پر اور میرے ما ں باپ پرنازل کیا ہے اورہمیشہ ایسے کام کروں جن سے توراضی ہو ۔یعنی جس طرح اب ایک نملہ نے تسلیم کیا ہے کہ سلیمانؑ اوراس کے ساتھی جانتے بوجھتے ہوئے ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے ۔اگران لوگوں کے ہاتھ سے کوئی نقصان پہنچا تووہ محض غفلت کا نتیجہ ہوگا ۔ورنہ ارادتاً وہ ظلم اور تعدّی نہیں کرسکتے ۔اسی طرح تومجھے ورمیرے لشکریوں کو توفیق عطافرماکہ وہ ہمیشہ اعلیٰ درجہ کے اخلاق سے آراستہ رہیں اورہمیشہ لوگ یہ تسلیم کرتے رہیں کہ ان لوگوں کے ہاتھوں سے دیدہ و دانستہ کوئی ظلم سرزد نہیںہوسکتا۔اورتُو اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرمادے ۔
وتفقدالطیر فقال مالی لا اری الھد ھد ام کان من الغائبین
اوراس نے سب پرندوں کی حاضری لی ۔پھر کہا ۔مجھے کیاہواہے ۔کہ میں ھد ھد کونہیں دیکھتا ۔یاوہ (جان بوجھ کر )غیر حاضر ہے ۔
لاعذبنہ عذاباشدیدااولااذبحنہ اولیاتینی بسلطن مبین٭
میں اس کویقیناسخت سزادوں گا ۔یااسے قتل کردوں گا ۔یاوہ میرے سامنے کوئی کھلی دلیل (اپنی غیر حاضری کی )پیش کریگا ۔۱۱؎
۱۱؎ تفسیر :۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے سارے لشکر کاجائز ہ لیا اورامراء لشکرکواپنے سامنے حاضری کاحکم دیا تواس وقت علماء میں سے ایک سردار کو جس کانام ہد ہد تھا انہوں نے غائب پایا اس نہایت اہی نازک موقعہ پر جبکہ آپ ایک ملک پر حملہ کرنے کے لئے جارہے تھے اپنے لشکر کے ایک سردار کو غائب دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام کاغصہ بھڑک اٹھا اور ان کا ذہن اس طرف منتقل ہوگیاکہ مبادا اس میں کوئی سازش کام کررہی ہو ۔چنانچہ انہوں نے کہا کہ کیا ہدہد پر میری نظر نہیں پڑی یا وہ کہیں بھاگ گیا ہے ۔ اب میں اسے یاتوکوئی شدید ترین سزادوں گا یااسے قتل کردوں گا اوریاپھر اسے میرے سامنے کوئی واضح ثبوت پیش کرنا پڑے گا کہ وہ کیوں غائب رہا۔
مفسرین خیال کرتے ہیں کہ سچ مچ کے پرندے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر میں شامل تھے اورلشکر کاایک سردار ہدہد پرندہ تھا ۔ جس کو چھوٹے اور بچے بھی غلیلوں سے مار لیتے ہیں ۔اس زبردست کو لے کر حضرت سلیمان علیہ السلام یمن کا ملک فتح کرنے کے لئے نکلے تھے ۔ہرعقلمند سمجھ سکتاہے کہ یہ قصہ ہدہد کوسردار ثابت نہیں کرتا بلکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو نعوذ باللہ بیوقوف ثابت کرتاہے ۔ حالانکہ خداتعالیٰ کے نبی بیوقوف نہیں ہواکرتے ۔یمن کا ملک فتح کرنے کے لئے کبوتر۔فاختہ۔چڑیاں ۔ہدہد۔بٹیر اور تلئیر لے کر نکلناکسی عقلمندکاکام نہیں ہوسکتا ۔ایسے لشکروں کو فتح کرنے کے لئے بادشاہ کی فوجوں کو نکلنے کی ضرورت نہیںہوتی ۔ایسے لشکروں کے آنے کی خبر سن کر توسارے شہر کی گلیوں میں سے بچے غلیلیں لے کر نکل پڑیں گے اورسارے شہر کے لئے عید کادن آجائے گا اورخوب پرندوں کاگوشت کھایاجائے گا ۔آخر یہ جنگ ہو نے لگی تھی یاچڑیماروں کامظاہرہ ہواتھا ۔
تفسیروں کے ان قصوں کو پڑھ کر خیا ل آتاہے کہ تیمور جو کچھ کرتاتھا ٹھیک ہی کرتاتھا ۔کیونکہ جو علماء جنگ کو ایسی حقیر کھیل سمجھتے تھے ان کو لشکرکے پیچھے ہی رکھنامناسب تھا۔پھر لطف یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ جن کے متعلق ابھی یہ کہاگیا ہے کہ وہ ایک چیونٹی کوبھی جانتے ہوئے اپنے پیروں کے نیچے نہیں کچلتے تھے ۔اب اتنے غصے میں آگئے کہ ہدہد جیسے جانور کے متعلق جوایک پِدّی کے برابر ہوتاہے اورکوئی عقل نہیں رکھتافرماتے ہیں کہ یاتووہ کوئی زبردست دلیل لائے ورنہ میں اس کوذبح کرڈالوں گا ۔انا اللہ ونا الیہ راجعون ۔ پرندوں سے وہ امید رکھنی جو بلند عقل کے مالک انسانوں سے رکھی جاتی ہے ایک نبی کاکام نہیں ہوسکتا ۔یہ حضرت سلیمان علیہ السلام ایساکرتے تھے ۔آخر قرآن ہمارے سامنے ہے کیاقرآن سے یہی پتہ لگتاہے کہ پرندے ایسے عقل کے مالک ہیں ۔اگر ان سے کوئی قصورسرزد ہو تو آدمی تلوار لے کرکھڑاہوجائے اوراسے کہے وجہ بیان کرو ورنہ ابھی تمہاراسرکاٹ دوں گا ۔یاکبھی تم نے دیکھا کہ تمہاراکوئی ہمسایہ ہدہدپکڑکر اسے سوٹیاں ماررہاہو اور کہہ رہاہو کہ میرے دانے تُو کیوں کھا گیا تھا اوراگر تم نے کسی کو ایساکرتے دیکھا توکیاتم اسے پاگل نہیں قرار دوگے ۔پھر وہ لوگ جوحضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف یہ امر منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے ہدہد کے متعلق یہ کہا وہ اپنے عمل سے یہی فتویٰ حضرت سلیمان علیہ السلام پربھی لگاتے ہیں بلکہ حضرت سلیمانؑ تویہاں تک کہتے ہیں کہ میں اسے سخت ترین سزادوں گا ۔اَوْلَیَاتِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ۔ورنہ وہ ایسی دلیل پیش کرے جونہایت ہی واضح او رمنطقی ہو ۔ گویا وہ ہدہد سقراط بقراط اورافلاطون کی طرح دلائل بھی جانتاتھا ۔اورحضرت سلیمانؑ اس سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اپنے دلائل پیش کرے گا ۔
(۲)پھرقرآن تو یہ کہتاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس جنّوں اورانسانوں اورطیورکے لشکرتھے مگرحضرت سلیمان ؑ کی نظر صرف ہدہد کی طرف جاتی ہے ۔اورفرماتے ہیں مَالِیَ لَآاَرَی الْھُدْھُدَ کیاہواکہ اس لشکر میں ہدہد کہیں نظر نہیں آتا۔دنیوی حکومتوں میں تو جس کا قد پانچ فٹ سے کم ہو ۔وہ فوج میں بھرتی کے قابل نہیں سمجھاجاتا۔مگرحضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ عجیب بھرتی شروع کردی تھی ک ہدہد بھی ان کے لشکر میں شامل تھا ۔پھر ہدہد کی کوئی فوج آپ کے پاس ہوتی ۔تب بھی کوئی بات تھی ۔ بتایایہ جاتاہے کہ ہدہد صرف ایک آپ کے پاس تھا ۔اس ایک ہدہدنے بھلا کیاکام کرناتھا ۔اورایک جانور ساتھ لے جانے سے کیا مطلب تھا۔
(۳)تیسری بات یہ ہے کہ قرآن یہ کہتاہے ۔کہ ہدہدنے یہ یہ کہا ۔اورمعجزہ یہ بیان کیاگیاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کی بولی سمجھتے تھے حالانکہ اصولی طور پر یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کامعجزہ بیان ہوناچاہئیے تھا ۔مگربیان ہدہد کامعجز ہ ہوتاہے جوسلیمان علیہ السلام کے معجزہ سے بھی بڑھ کرہے ۔
(۴)ایک اَور بات یہ بھی ہے کہ ہدہد ان جانوروں می ںسے نہیں جو تیزپرواز ہوں اوراس قد ردور کے سفر کرتے ہوں ۔یہ جہاں پیداہوتاہے وہیں مرتاہے ۔مگرقرآن یہ بتلاتاہے کہ ہدہد دمشق سے اُڑا اور آٹھ سومیل اڑتاچلاگیا۔یہاں تک کہ سباکے ملک تک پہنچا اوروہاں سے خبر بھی لے آیا ۔گویا وہ ہدہد آجکل کے ہوائی جہازوں سے بھی زیادہ تیز رفتارتھا ۔اورمعجزہ دکھانے والا ہدہدتھا نہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ۔حالانکہ بتانایہ مقصود تھا کہ حضرت سلیمان ؑ نے معجزہ دکھایا۔
(۵)اسی ہدہدکادوسرامعجزہ یہ ہے کہ وہ شرک اورتوحید کے باریک اسرار سے بھی واقف تھا ۔اورا سکو وہ و ہ مسئلے معلوم تھے جو آجکل کے مولویوں کو بھی معلوم نہیں ۔کتنی اعلیٰ توحیدوہ بیان کرتاہے کہتاہے ۔وَجَدْتُّھَا وَقَوْمَھَایَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَھُمْ لَایَھْتَدُوْنَ۔یعنی میں نے اسے اوراس کی قوم کو دیکھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بجائے سورج کوسجدہ کرتے ہیں ۔اورشیطان نے ان کے عمل انہیں خوبصورت کرکے دکھائے ہیں اورانہیں سچے راستہ پر چلنے سے روک دیا ہے ۔جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے ۔پھر اس کی غیرت دینی دیکھو آجکل کے مولویوں کے ہمسایہ میں بت پرستی ہورہی ہوتووہ اس کے روکنے کی کوشش نہیں کرتے مگرہدہد چاروں طرف اُڑتاپھرتاہے اورحضرت سلیمان علیہ السلام کوخبردیتاہے کہ فلاں جگہ شرک ہے ۔فلاں جگہ بت پرستی ہے ۔
(۶)پھر وہ سیاسیات سے بھی واقف تھا ۔کیونکہ وہ کہتاہے کہ اُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ۔یعنی ملکہ سبا کے پاس بادشاہت کی تمام صفات موجود ہیں ۔گویاوہ ا سکے تمام خزانے اور محکمے چیک کرکے آیا ۔اوراس نے رپورٹ کی کہ وہ تمام چیزیں جن کی حکومت کے لئے ضرورت ہے وہ اس کے پاس موجود ہیں ۔
(۷) پھر شیطان اور اس کی کاروائیوں سے بھی وہ خوب واقف ہے ۔کیونکہ وہ کہتاہے میں جانتاہوں انسان کا جب شیطان سے تعلق پیداہوجائے توبرے خیالات اس کے دل میں پیداہوتے ہیں ۔بلکہ وہ ان خیالات کے نتائج سے بھی واقف تھا ۔کیونکہ کہتاہے فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ ایسے خیالات کے نتیجہ میں انہیں اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستہ سے دور پھینک دیاہے ۔
یہ ہدہد کیا ہوا۔اچھاخاصہ عالم ٹھہرا۔ایساہدہد اگرآج مل جائے توسارے مولویوں کو نکال کر اسی کومفتی بنادینا چاہیئے ۔
(۸)ہاں ایک بات رہ گئی ۔اوروہ یہ کہ و ہ تختِ سلطنت کی حقیقت بھی خوب واقف تھا کیونکہ وہ کہتاہے کہ ملکہ سباکے پاس ایک عظیم الشان تخت ہے جوآپ کے پاس نہیں ۔گویا وہ لالچ بھی دلاتاہے اورکہتاہے اس پر حملہ کیجئے ۔
یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ یہ ہدہد کو ئی پرندہ نہیں تھا ۔کیونکہ قرآن میں صاف موجود ہے کہ وہ امانت جسے فرشتے بھی نہ اٹھاسکے ۔جسے آسمان اورزمین کی کوئی چیز اٹھانے کے لئے تیار نہ ہوئی ۔اسے انسان نے اٹھالیا۔وہی ہے جو ہماری شریعت کے رموز کوجانتاہے ۔ فرشتہ ایک ہی بات سمجھتاہے یعنی نیکی کی بات کو مگر انسان نیکی اور بدی دونوں پہلوئوں کو جانتا او رتمام حالات پر مکمل نگاہ رکھتا ہے۔ مفسر کہتے ہیں کہ ہدہد کوئی جانور تھا ۔حالانکہ حَمَلَھَا الْاِنْسَانُ والی آیت موجود ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کے سواکوئی اَورمخلوق اسرار شریعت کی حامل نہیں ۔پس جبکہ ہدہدبھی اسرار شریعت سے واقف تھا تولازماً وہ بھی انسان ہی تھا نہ کہ پرندہ۔
بعض لوگ سوال کیاکرتے ہیں کہ اگر یہ ہدہد آدمی ہی تھا تواس کے لئے ذبح کا لفظ کیوں استعمال کیاگیاہے ۔سویاد رکھناچاہیئے کہ عربی زبان میں ذبح کالفظ قتل کے معنوں میں بھی استعمال ہوتاہے(تاج العروس)جیسے قرآن کریم میں فرعون اور اس کے ساتھیوںکے متعلق ہی آتاہے کہ یُذَبِّحُ اَبْنَائَ ھُمْ (قصص آیت ۵) وہ بنی اسرائیل کے بیٹوں کوقتل کیاکرتاتھا ۔اگرذبح کے لفظ سے ہدہد کوپرندہ قراردینا درست ہوسکتاہے توکیا یُذَبِّحُ اَبْنَائَ ھُمْ کے یہ معنے ہیں کہ وہ سب پرندے تھے جن کو ذبح کیاجاتاتھا۔
پھر بعض دفعہ جب کسی مناسبت کی بنا ء پر کوئی نام رکھا جاتا ہے تو حسنِ کلام کے لئے الفاظ بھی اسی رنگ کے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ جیسے کسی کو شیر قرار دیا جائے تو کہا جائے گا کہ وہ شیر کی طرح دھاڑتا ہے یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ شیر کی طرح سریلی آواز سے گاتا ہے ۔ اسی طرح جب ہد ہد کا ذکر کیا گیا تو گووہ ایک سردار تھا مگر ہد ہد کی مناسبت سے اس کے لئے ذبح کا لفظ استعمال کردیا گیا جو حسنِ کلام کا ایک لطیف نمونہ ہے ۔
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ہد ہد کا نام کیوں رکھا گیا ۔ اور گو اس کا عقلی جواب میں قرآن کریم سے ہی دے چکا ہوں ۔ مگر اب بتاتا ہوں کہ ہد ہدسے مراد کیا ہے ۔ہُدہُد کا پتہ لینے کے لئے جب ہم بنی اسرائیل کی کتابیں دیکھتے ہیں اور اس امر پر غور کرتے ہیں کہ کیا ان میں کسی ہد ہد کا ذکر آتا ہے۔ تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں یہودیوں میں کثرت سے ھُدَدْ نام ہوا کرتا تھا ۔ جو عبرانی سے عربی میں بدل کر ہد ہد ہوگیا ۔ جیسے عبرانی میں ابراہامؔ کہا جاتا ہے مگر جب یہ لفظ عربی میں آیا تو ابراہیمؔ بن گیا ۔ اسی طرح عبرا نی میں یسوع کہا جاتا ہے اور عربی میں عیسیٰؔ کہتے ہیں اسی طرح عبرانی میں موشےؔ کہا جاتا ہے اور عربی میں یہی نام موسیٰ ہوگیا ہے ۔اب بھی کسی اہل عرب کو لکھنؤ کہنا پڑے تو وہ لکھنؤنہیں بلکہ لکھناؔہوء کہے گا ۔ اسی طرح عبرانی میں ھُدَدْ کہا جاتا تھا مگر چونکہ قرآن کریم عربی میں ہے اس لئے جب یہ نام اس میں آیا تو ھُدھُد ہوگیا ۔
تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ھُدَدْ کئی ادومی بادشاہوں کا نام تھا ۔ اور اس کے معنے بڑے شور کے ہوتے ہیں ۔ عربی زبان میں ھدّ کے ایک معنے اَلصَّوْتُ الْغَلِیْظُ۔ یعنی بڑی بلند آواز کے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اونچی آواز والے لڑکے کا نام ھُدَدْ یا ھُدْھُدْ رکھ دیتے تھے مگر یہ نام تیسرے ادومی بادشاہ کا نام بھی یہی تھا ۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایک لڑکے کا نام بھی ہُدہُد تھا (پیدائش باب ۲۵آیت ۱۴)
بائیبل کی کتاب نمبر ۱ سلاطین باب ۱۱آیت ۱۴ میں بھی ادوم کے خاندان کے ایک شہزادے کا ذکر آتا ہے جس کا نام ہددؔ تھا اور جو یو آب کے قتل عام سے ڈر کر مصر بھاگ گیا تھا ۔ جیوئش انسائیکلوپیڈیا میں لکھا ہے کہ پُرانے عہد نامہ میں جب یہ لفظ اکیلا آوے تو اس کے ساتھ کوئی صفاتی فعل یا لفظ نہ ہوتو اس کے معنے ادومی خاندان کے آدمی کے ہوتے ہیں۔
غرض ھُدْ ھُدْ عبرانی زبان کا لفظ ھُدَدْ ہے جو عربی زبان میں آکر ھُدْ ھُدْ ہوگیا ۔ چونکہ مفسرین کو یہ شوق ہوتا ہے کہ اپنی تفسیر کو دلچسپ بنائیں اس لئے وہ بعض دفعہ بے ہودہ قصے بھی اپنی تفسیروں میں درج کردیتے ہیں۔چنانچہ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ضبّ عربی میں گوہ کو کہتے ہیں ۔مگر ضبّ عرب کے ایک قبیلے کے سردار کا بھی نام تھا ۔اور یہ ایسا ہی نام ہے جیسا ہندوئوں میں طوطارام نام ہوتا ہے اور وہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا ۔ اوراس نے آپ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا ۔ اب وعظ کی کتابوں میں اس بات کو ایک قصہ کا رنگ دیتے ہوئے یوں بنان کیا گیا ہے ۔ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جارہے تھے کہ راستہ میں ایک سوراخ میں سے گوہ نکلی۔ اورا س نے قصیدہ پڑھنا شروع کردیا ۔ اب جن لوگوں نے یہ بنا لیا کہ ایک گوہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں قصیدہ پڑھا تھا ان کے لئے ہُدہُد کا پرندہ بنا لینا کون سا مشکل کام تھا۔چنانچہ مفسرین لکھتے ہیں کہ حضر ت سلیمان علیہ السلام کوہدہد کے غائب ہونے کا اس طرح پتہ چلا کہ ایک دفعہ چلتے چلتے وہ ایک ایسے میدان میں پہنچے جہاں پانی نہیں ملتاتھا ۔نماز کاوقت آیاتو حضرت سلیمان علیہ السلا م نے وضو کرناچاہامگرانہی پانی نہ ملا ۔انہوں نے کہا۔ہدہدکہاں ہے اسے کہو کہ پانی تلاش کرے ۔کیونکہ پہلے بھی جب لشکر کوپانی کی ضرورت ہوتی تھی توہدہدپا نی کی جگہ بتایا کرتاتھا ۔مگر اس روز اسے ڈھونڈا تووہ نہ ملا جس پر حضرت سلیمان علیہ السلام کو غصہ آگیا ۔اورانہوں نے کہا کہ ہدہد آیاتومیں اسے سخت سزادوں گا یااسے ذبح کردوں گا۔مگر بعض نے اس واقعہ سے اختلاف کیاہے ۔وہ کہتے ہیں ۔اصل واقعہ یہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرپرندوں کے جھنڈ ہمیشہ سایہ رکھتے تھے ۔ایک دن اچانک ایک سوراخ میں سے دھوپ آگئی ۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے نظر اٹھا کردیکھا توآپ کو پتہ لگ گیا کہ ہدہد کی جگہ خالی ہے ۔(تفسیر روح المعانی)
غرض مفسرین نے عجیب وغریب حکایات اپنی روایت میں لکھ دی ہیں حالانکہ حقیقت صرف اتنی ہے کہ قرآن کریم میں جو ہدہد کہا گیاہے یہ ھُدَدَ کامعرب ہے اوراس سے مراد ادومی خاندان کا کوئی شہزاد ہ ہے جوآپ کے فوجی سرداروں می سے ایک سردار تھا ۔یہ ادومی خاندا ن حضرت سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت میں بستاتھا اورحضرت سلیمان علیہ السلام کے خاندان کارقیب تھا ۔
اس قوم کے سردار کو جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے نہ پایا۔توسمجھا کہ یہ رقیب قبیلہ کاسردار ہے ممکن ہے کسی شرار ت کی نیت سے دشمن کے ملک میں چلا گیا ہو ۔اوراس پر ان کو غصہ آگیا ۔لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ہدہد عرب قبیلہ کاکوئی سردار ہو ۔کیونکہ بائیبل س معلوم ہوتاہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام بھی ہدہد تھا۔ اورتاریخی طور پر یہ امر ثابت ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت تک اس رستہ میںجو فلسطین سے یمن کی طرف آتاہے عرب قبیلے بستے تھے ۔(تقویم البلدان )اورچونک عربوں اور یہودیوں کی باہم سخت چپقلش تھی اورگووہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ماتحت آگئے تھے لیکن مخالفت اب تک باقی تھی ۔اس لئے جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے دیکھا کہ عر ب قوم کاایک سردار غائب ہے توان کے دل می شبہ پیداہوااوروہ ناراض ہوگئے۔اوریمن چونکہ عر ب کاایک حصہ ہے اس لئے یہی بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے ۔
فمکث غیر بعید فقال احطت بمالم تحط بہ وجئتک من
پس کچھ دیر و ہ ٹھہرا(اتنے میںہدہد حاضر ہوا)اوراس نے کہا میں نے اس چیز کاعلم حاصل کیاہے جو تجھے حاصل نہیں اورمیں سبا(کی
سبابنبا یقین٭انی وجدت امراۃ تملکھم واوتیت من کل
قو م کے علاقہ)سے تیرے پاس (آیاہوں )(اور)ایک یقینی خبر لایاہوں ۔(جویہ ہے کہ)میں نے (وہاں)ایک عورت کو دیکھا جو
شیئٍ ولھا عرش عظیم٭وجدتھا
ان (کی ساری قوم)پر حکومت کررہی ہے ۔اورہرنعمت اسے حاصل ہے۔اوراس کا ایک بڑاتخت ہے ۔اورمیں نے اس کو
وقومھا یسجدون للشمس من دون اللہ وزین لھم
اوراس کی قوم کو اللہ کے سوا سور ج کے آگے سجدہ کرتے دیکھا ۔
الشیطن اعمالھم فصدھم عن السبیل فھم لایھتدون٭
اورشیطان نے ان کے عمل ان کو خوبصورت کرکے دکھائے ہیں ۔اوران کو سچے راستہ سے روک دیاہے ۔جس کی وجہ سے وہ ہدایت
الایسجدوللہ الذی یخرج الخبء فی السموت والارض
نہیں پاتے ۔اورمُصّر ہیں کہ اللہ کوسجدہ نہ کریں جو کہ آسمانوں اور زمین کی ہر پوشیدہ تقدیر کو ظاہر کرتاہے
ویعلم ماتخفون وما تعلنون٭اللہ لاالہ الا ھو رب العر ش العظیم٭
اورجوکچھ تم چھپاتے ہو اورظاہرکرتے ہو ان تدبیروں کو بھی جانتا ہے ۔حالانکہ اللہ وہ ہے جس کے سواکوئی معبود نہیں (وہ )ایک بڑے تخت کامالک ہے ۱۲؎
۱۲؎ حل لغات :۔اَلْخَبْئُ کے معنے ہیں مَاخُبِئیَ وَغَابَ ۔یعنی وہ چیز جو چھپائی جائے اورغائب ہو ۔ اور خَبْ ئُ الْاَرْضِ کے معنے ہیں نَبَاتُھَا زمین کی انگوری ۔او رخَبْ ئُ السَّمَآئِ کے معنے ہیں مَطَرُھَا بارش (اقرب)
تفسیر :۔فرماتاہے ۔حضرت سلیمان علیہ السلام کووہاں پڑائو کئے ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ وہ سردار واپس آگیا ۔اوراس نے بتایاکہ چونکہ آپ ملک سباپر حملہ کرنے جارہے تھے اورسباکاعلاقہ میرے ملک کاایک حصہ ہے میں پہلے سے خبر لینے کے لئے وہاں چلا گیا ۔کیونکہ زبان اور قو م کے ایک ہونے کی وجہ سے میرے لئے وہاں کے حالات معلوم کرنا آسان تھا مجھے اس بات کا یقینی طورپر علم حاصل ہوچکا ہے ۔کہ اس وقت اس ملک میں ایک عورت حاکم ہے لیکن غضب کی حاکم ہے ہرقسم کے سازو سامان اس کے پاس موجود ہیں اورا سکی بادشاہت بہت بڑی ہے ۔
اُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ سے یہ مراد نہیں کہ ملکہ سباکو ہرنعمت میسر ہے ۔کیونکہ اگرسے ہرنعمت میسر ہوتی تو جب ااس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس تحفہ بھیجاتھاتوآپ اس وقت یہ نہ کہتے کہ میرے پاس تو اس سے بھی بڑھ کرچیزیں ہیں ۔میں ان تحفوں سے کیونکر متاثر ہوسکتاہوں۔پس حضرت سلیمان علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میرے پاس توملکہ سباسے بھی بڑھ کر مال و دولت اور سامان موجود ہے بتاتاہے کہ اُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ سے صرف یہ مراد ہے کہ ملکہ سباکو اپنی مملکت کے لحاظ سے جس قد چیزوں کی ضرورت ہوسکتی ہے وہ تما م چیزیں اسے میسر ہیں ۔اوروہ بڑی بیدار مغز حکمران ہے ۔شاید یہ کہہ کر اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ڈراناچاہاکہ کہیں وہ اس کے ملک کے ایک حصہ پر قبضہ نہ کرلیں ۔لیکن ساتھ ہی اس نے ایسی بات کہہ دی جس کی وجہ سے حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے ارادہ میں اور بھی پختہ ہوگئے ۔اوروہ یہ کہ میں نے ملکہ او راس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھو ڑکر سورج کی پرستش کرتے دیکھا ہے اورشیطان نے ان کو اپنے اعمال پر بڑانازاں کردیاہے اور توحید کے رستہ سے ہٹادیاہے اوروہ اس بات پر مصر ہیں کہ اس خداکو سجدہ نہ کریں جو آسمان اور زمین کے تمام چھپے رازوں کو ظاہر کرنے والا ہے او رجس نے سورج اورچاند کو محض ایک خاد م کی حیثیت دی ہے اورعلومِ ظاہری اور باطنی اپنے انبیاء کو بتادیئے ہیں ۔وہ اللہ جوکہ موحدوں کا خداہے اس کی بادشاہت اس ملکہ کی بادشاہت سے بہت بڑی ہے اور ضرور اس کی بادشاہت غالب آئے گی اس طرح اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو خوش کرنے کی کوشش کی اور بتایا کہ وہ بلاوجہ غیر حاضر نہیںرہا ۔بلکہ اس نے ملکی مفاد کے لئے یہ تحقیق کرنا ضروری سمجھا تھا ۔
قال سننظراصدقت ام کنت من الکذبین ٭اذھب بکتبی
(اس پر سلیمان نے )کہا ۔کہ ہم دیکھیں گے کہ تونے سچ بولا ہے یاتُو جھوٹوں میں سے ہے۔تومیرایہ خط لے جا
ھٰذا فالقہ الیھم ثم تول عنھم فانظر ماذایرجعون٭
اوراسے ان کے (یعنی سباکی قوم کے )سامنے پھینک دے ۔پھر (ادب سے )پیچھے ہٹ (کر کھڑاہو)جا اوردیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۱۳؎
۱۳؎ تفسیر :۔اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ بہت اچھا ہم نے جاناتوضرورہے ۔ہم وہاں جاکردیکھیں گے کہ تُو نے سچ بولاہے یاایک جھوٹی رپورٹ پیش کردی ہے ۔تُو میرایہ خط لے جا ۔اوران لوگوں کے سامنے جا کر انہیں یہ خط پیش کردے اور پھر ذراپیچھے ہٹ کر اد ب سے کھڑاہوجائیو ۔اوردیکھئیو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔
ذرادیکھو کہ حضرت سلیمان علیہ االسلام جیسا عقلمندنبی ایک پرندے کو کیانصیحت کرتاہے ۔کبوتروں کی گردن میںتولوگ خط باندھ ہی دیاکرتے تھے ۔مگرہدہد کو ڈاکیہ بنانے کالطیفہ ہمارے مفسرین کو کہی سوجھا ہے پھر ایک بے عقل جانورکو کیسے آداب سکھائے جاتے ہیں کہ براہ راست ملکہ کے ہاتھ میں خط نہ دیجئیو ۔کیونکہ یہ ایک بے ادبی سمجھی جاتی ہے ۔بلکہ ا س کے درباریوں کے سامنے خط رکھیئو۔ وہ خود اس کے آگے پیش کردیں گے ۔جیساکہ سلطانی آداب میں یہ بات شامل ہے پھر جلدی سے جواب نہ مانگیئو ۔گویا حضرت سلیمان علیہ السلام کو ہی پرندوں کی بولی نہیں آتی تھی بلکہ ملکہ سباکوبھی آتی تھی ۔اورمناسب انتظار کے بعد جب وہ جواب دیں تولے آئیو۔
قالت یایھا الملواانی القی الی کتاب کریم٭
(جب اس نے ایساکیا تو)وہ (ملکہ )بولی ۔اے میرے درباریو !میرے سامنے ایک معز ز خط رکھاگیاہے ۔(جسکا مضمون یہ ہے کہ)
انہ من سلیمٰن وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ٭
یہ (خط)سلیمان کی طرف سے ہے اوراس میں بتایاگیاہے کہ اللہ جو بے انتہاکرم کرنے والا اوربار بار رحم کرنے والاہے اس کے نام سے ہم شروع کرتے ہیں ۔
الا تعلو علی واتونی مسلمین٭
(اورکہتے ہیں)کہ ہم پر زیادتی نہ کرو۔اورہمارے حضور میں فرمانبردا ربن کر حاضر ہوجائو ۔۱۴؎
۱۴؎ حل لغات :۔ اَلْمَلَأُ کے معنے ہیں اَلْاَشْرَافُ ۔بڑے لوگ ۔صاحب مرتبہ وجاہت والے ۔قِیلَ سُمُّوْ بِذٰلِکَ لِمَلَأتِھِمْ بما یُلْتَمَسُ عِندھم مِنَ المعروف وجَوْدَۃِ الرَّأْیِ اَوْ لِاَنَّھُمْ یَمْلَاُوْنَ العُیُوْنَ اَبَّھَۃٌ وَالصُّدُّوْرَ ھَیْبَۃً۔ اورسراداروں کو مَلَاٌ اس لئے کہتے ہیں کہ جس امرکے متعلق ان سے مشورہ لیاجاتاہے ۔اس کے متعلق رائے دینے کے لئے ان کادماغ بھرپور ہوتاہے ۔نیز ان کو دیکھ کرلوگوں کی آنکھیں اوردل رعب سے بھر جاتے ہیں (اقرب الموارد)
تفسیر :۔جب ہدہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کاخط درباریوں کے آگے رکھ دیااورانہوں نے ملکہ کے آگے پیش کردیا۔توملکہ نے کہا ۔ایک بڑا معز ز خط میرے سامنے پیش کیاگیا ہے وہ سلیمانؑ کی طرف سے ہے اور اس کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی ہے اور اس کا مضمون یہ ہے کہ میرے خلاف سرکشی مت کرو۔ اورفرمانبردار ہوکر میرے حضورحاضرہوجائو۔
دیکھو یہ کتنا واضح اشار ہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام بلاوجہ اس ملک کی طرف نہیں گئے تھے بلکہ پہلے اس ملک کے لوگوں نے کوئی سرکشی کی تھی اس سر کشی کو دبانے کے لئے حضرت سلیمان علیہ السلام نے یمن کا رخ کیاتھا ۔اور اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ۔ کہ اگر تم فرمانبرداری اختیار کروگے تومیں تمہار اپہلا قصور معاف کردوں گا ۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے خط سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے الفاظ لکھے ہیں ۔ان کو دیکھ کر دشمنان اسلام کی طرف سے بالعموم یہ اعتراض کیاجاتاہے کہ قرآن کریم نے اپنی ہر سورۃ کے ابتداء میں جو بسم اللہ لکھی ہے وہ درحقیقت پرانی کتب کی ایک چوری ہے اورپہلے لوگ بھی اس کاعلم رکھتے تھے ۔چنانچہ راڈول لکھتاہے کہ یہ کلمہ یہودی الاصل ہے (وہیری ص۲۸۶ جلد اول)اوروہیری لکھتاہے کہ یہ امر یقینی ہے کہ یہ کلمہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے یہودیوں اور صابیوں سے مستعار لیا ہے ۔آخرالذکر ہمیشہ اپنی تحریروں سے پہلے یہ لکھاکرتے تھے ۔’’ بنامِ یزداں بخشائش گرداوار(وہیری ص ۲۸۹جلد اول) پادری سینٹ کلیئر ٹسڈل صاحب نے اپنی کتاب ’’ ینابیع الاسلام ‘‘ میں اس عبارت کو زرتشتیوں کی طر ف منسوب کیاہے اورلکھاہے کہ کتاب دساتیر میں ہرنبی کے صحیفہ سے پہلے یہ عبارت ہے ‘‘بنام ایزد بخشائش گرمہربان دادگر‘‘(اردو ترجمہ ینابیع الاسلام ص ۱۲۷)
یہ عجیب بات ہے کہ تین مسیحی مصنف اس آیت کومسروقہ ثابت کرنے کے لئے تین سرچشمے اس کے بیان کرتے ہیں ۔ایک یہودیوںکو اس کاسرچشمہ بتاتاہے ۔دوسراصابیوں کو ۔تیسرازردشتیوںکو ۔ان لوگوںکا اس آیت کو مسروقہ ثابت کرنے کے لئے اس قدر کوشش کرناخود اس امر کاثبوت ہے کہ ان کے نزدیک یہ آیت اپنے معنوں کے لحاظ سے ایک سمندرہے۔ ورنہ ان کا یہ لکھ دینا ہی کافی ہوتاکہ اس آیت کے مضمون میں کوئی خاص خوبی نہیں ۔پھرسوال یہ ہے کہ تینوں سرچشموں میں سے اصل سرچشمہ کون ساہے؟ تینوںقوموںکو ا س آیت کاموجد تو قرار نہیں دیاجاسکتا۔پس ضروری ہے کہ یہ مسیحی مصنف یا ان کے شاگرد یہ تصفیہ بھی کرلیں کہ آیا یہودیوں نے زردشتیوں نے یا صابیوں سے چرایا ہے یابرعکس معاملہ ہے ۔
یہ لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہودیوں میں اس کلمہ کے استعمال کا ایک بھی حوالہ نہیں دیاگیا۔اورنہ وہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں کہ جن میں یہودی اس مضمون کو بیان کیاکرتے تھے ۔بلکہ باوجود اس بات کے کہ مسیحیت یہودیت کی ایک شاخ ہے اوریہودی کتب گویامسیحیوں کی اپنی مذہبی کتب ہیں پھر بھی مسیحی مصنّف یہودی کتب کاحوالہ نہیںدے سکے اور نہ ا ن ک الفاظ نقل کرسکے البتہ زرتشتیوں او رصابیوں کی کتب کے حوالے انہوں نے نقل کردیئے ہیں۔جس سے یہ بات اَور بھی روشن ہوجاتی ہے کہ اس آیت کے حسن کو دیکھ کر وہ کچھ ایسے بدحواس ہوگئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اپنی مذہبی کتب میں اس کاوجود ثابت کرناچاہتے ہیں ۔
باقی رہے صابی اور زرتشتی سوصابیوں کی کتب تو محفوظ نہیں ۔ہاں زرتشتیوں کی کتب کے بعض حصے اس وقت بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان کتب کی نسبت خود زرتشتی لوگ کہتے ہیں کہ وہ اصل صورت میں محفوظ نہیں ہیں ۔پس کیاتعجب ہے کہ ان کے بعض حصے اسلام کے بعد ہی بنائے گئے ہوں ۔لیکن اگر ان کتب کو صحیح بھی تسلیم کرلیاجائے تب بھی قرآن کریم پر کوئی اعتراض نہیں پڑتا کیونکہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہی نہیں کہ یہ آیت پہلی دفعہ قرآن کریم میں نازل ہوئی ہے۔بلکہ وہ خود تسلیم کرتاہے کہ یہ آیت پہلے بھی دنیا میں موجود تھی ۔چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو خط ملکہ سبا کو لکھا ۔اس کے الفاظ بتاتے ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اَلَّاتَعْلُوْاعَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ۔پس اگریہ ثابت بھی ہوجائے کہ یہود یا زرتشریوں یاصابیوں یا کسی اَور قوم میں یہ آیت پہلے سے موجود تھی توبھی کوئی حر ج نہیں کیونکہ جب قرآن کریم خود تسلیم کرتاہے کہ یہ آیت حضرت سلیمان علیہ السلام کو معلوم تھی ۔توجو آیت حضرت سلیمان علیہ السلام کو معلوم تھی وہ یقیناً ان کے اتباع کوبی معلوم ہوگی اوربالکل ممکن ہے کہ دوسری قوموں کے نبیوں وک بھی معلوم ہو۔فرق صرف یہ ہے کہ قرآ ن کریم میں اس کامضمون عربی زبان میں نازل ہواہے ۔اورپہلی قوموں میں ان کی اپنی زبانوں میں ہوگا ۔مگربایں ہمہ قرآن کریم میں ہرسورۃ سے پہلے اس آیت کی موجود نقل نہیں کہلاسکتی ۔کیونکہ قرآن کریم میں اس آیت کاوجود ایک پیشگوئی کو پوراکرنے کے لئے ہے اورجوکلام کسی نئی غرض کے لئے دوہرایاجائے اورکسی خاص فائدہ کے لئے اختیار کیاجائے وہ نقل یا چوری ہرگز نہیں کہلاسکتا۔
یہ پیشگوئی خروج باب ۱۹،۲۰ اوراستثناء باب ۱۸ میں مذکور ہے ۔اوراس کاخلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ بنی اسرائیل کو پاک کرکے سینا کے نیچے لاکھڑاکر۔تاکہ وہ سنیں کہ میں تجھ سے کلام کرتاہوں ۔پہلے تووہ پہاڑ کے پاس کھڑے رہیں ۔لیکن جب قرنا کی آواز بہت بلند ہوتو قریب آجائیں ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام جب وہاں گئے اورخداتعالیٰ کاکلام نازل ہواتواس کے ساتھ ہی بجلی چمکی اور دھواں اٹھا اورگرج پیداہوئی ۔وہ لوگ ڈر کے دوجاکھڑے ہوئے ۔جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس گئے توانہوں نے کہا کہ تُو ہی ہم سے بو ل اور ہم سنیں ۔لیکن خداہم سے نہ بولے ۔کہیں ہم مرنہ جائیں ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں سے کہا کہ تم مت ڈرو۔اس لئے کہ خداآیا ہے تاکہ تمہاراامتحان لے اورتاکہ ا سکاجلال تمہارے سامنے ظاہر ہو ۔کہ تم گنا ہ نہ کرو۔مگر پھر بھی وہ لوگ دور ہی کھڑے رہے اورصرف حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی اللہ تعالیٰ کے پاس گئے (خروج باب ۲۰آیت ۱۹تا۲۱)
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداتعالیٰ سے جاکر عرض کیا کہ الٰہی میری قوم توتیرے پاس آنے سے ڈرتی ہے تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر یہ وحی نازل ہوئی کہ :۔
’’ خداوند تیراخداتیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپاکرے گا ۔تم اس کی طرف کان دھریو ۔اس سب کی مانند جو تُو نے خداوند اپنے خداسے حورب میں مجمع کے دن مانگا ۔اورکہا کہ ایسانہ ہوکہ میں خداوند اپنے خداکی آواز پھر سنوں اور ایسی شدت کی آگ میں پھر دیکھو تاکہ میں مرنہ جائو ۔اورخداوند نے مجھے کہا کہ انہوں نے جوکچھ کیاسواچھا کیا ۔میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپاکروں گا ۔اورجوکچھ میں اسے فرمائوں گا وہ سب اسے کہے گا ۔ اورایساہوگاکہ جو کوئی میری باتوںکو جنہیں وہ میرانام لے کے کہے گا نہ سنے گاتومیں اس کا حساب اس سے لوں گا ۔لیکن وہ نبی جوایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کامیں نے اسے حکم نہیں دیا اورمعبودوں کے نام سے کہے تووہ نبی قتل کیاجائے ۔‘‘
(استثناء باب ۱۸ آیت ۱۵تا۲۰)
اس پیشگوئی میں بتایاگیاتھاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک نبی ان کامثیل بن کرآئے گا ۔اوروہ جب بھی خداتعالیٰ کاکلام سنائے گاتوکہے گامیں خداکانام لے کریہ کلام سناتاہوں ۔اورخداکانام لے کر کاترجمہ عربی زبان میں بسم اللہ ہے ۔پس بسم اللہ میں اسم کا لفظ بڑھا کر اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔اوراس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا قرآن کریم کی ہرسورۃ کے شروع میں ہی ایک ثبوت پیش کردیاگیا ہے تایہودیوں اورعیسائیوں پر آپ کی سچائی کھل جائے ۔ اوران پر حجت پو ری ہوکہ وہ موعود جس کاان کی کتابوں میں ذکر ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ۔جو ہربات کو اللہ تعالیٰ کانام لے کر بیان کرتے ہیں ۔ پس ہرسورۃ سے پہلے بسم اللہ ہریہودی اور ہرعیسائی کوتوجہ دلاتی ہے کہ تم کیوں اس نبی کو نہیں مانتے جو موسیٰؑ کی پیشگوئی کے مطابق جب اللہ تعالیٰ کاکلام سناتاہے تواس سے پہلے یہ الفاظ بھی کہہ دیتاہے کہ میں اللہ کا نام لے کر یہ کلام سناتاہوں ۔بہرحال اس پیشگوئی میں بتایاگیا تھا کہ (۱)بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی اسمٰعیلؑ میں سے ایک نبی آئے گا ۔(۲)اس کو حضرت موسیٰؑ کی طرح شریعت دی جائے گی ۔(۳)وہ جو نیامضمون بھی خداکی طرف سے پاکر دنیا کے سامنے پیش کرے گا اس سے پہلے یہ کہہ لے گا کہ میں خداتعالیٰ کانام لے کر اس کلام کو شروع کرتاہوں ۔(۴)اگرکوئی جھوٹاشخص اس پیشگوئی کو اپنے اوپر چسپاں کرناچاہے گا تووہ ہلاک ہوجائے گا ۔(۵)اورجواس پیشگوئی کے مصداق کاانکار کرے گا۔وہ بھی ہلاک کیاجائے گا ۔
پس اس پیشگوئی کے مطابق ہرسورۃ سے پہلے بسم اللہ رکھ دی گئی ۔اوراس طرح یہود اور نصاریٰ کوتوجہ دلائی گئی کہ اگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰؑ اوروہ موعود نبی نہیں توانہیں سزاملے گی کیونکہ پیشگوئی کے مطابق اس پیشگوئی کاجھوٹامصداق سزاسے نہیں بچ سکتا۔ لیکن اگر وہ وہی موعود ہیں اوراس پیشگوئی کے مطابق خداکاکلام اس کانام لے کر بیان کرتے ہیں توپیشگوئی کے مطابق تم انکار کرکے سزاسے نہیں بچ سکتے ۔بلکہ خداتعالیٰ تم سے ضرور حساب لے گا ۔
غرض باوجود اس کی کہ بسم اللہ پہلے انبیاء کی امتوں میں بھی مروج تھی ۔قرآن کریم میں ا سکاوجود چوری نہیں کہلاسکتا۔کیونکہ (۱)قرآن کریم خودتسلیم کرتاہے کہ اس سے پہلے بسم اللہ تھی (۲)اس لئے کہ اس میں بسم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی کوپوراکرنے کے لئے آئی ہے ۔اگر اس کی ہرسورۃ بسم اللہ سے شروع نہ ہوتی توحضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی جھوٹی ہوجاتی ۔ مگرکیایہ امر دساتیر کے متعلق ثابت کیاجاسکتاہے کہ ان کے مصنف بنی اسرائیل میںسے تھے یاحضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح شریعت لائے تھے ۔یاان کی ہروحی سے پہلے بسم اللہ لکھاہواہوتاتھا ۔وہ تو ایک تاریخ کی کتاب ہے جس میں انبیاء کاحال ہے ۔اورحضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی کے یہ الفاظ تھے کہ ’’ ایسا ہوگا کہ جوکوئی میری باتوںکو جووہ میرانام لے کے کہے گا نہ سنے گا تومیں ا س کاحساب اس سے لوں گا ۔‘‘گویا ان الفاظ میں یہ شرط بتائی گئی ہے کہ وہ خداکی وحی ا س کانام لے کر بیان کرے گا پس بسم اللہ کاقرآن مجید کی ہرسورۃ سے پہلے آنا اس پیشگوئی کے مطابق ہے ۔اوراس پر چوری کاکوئی اعتراض خصوصاً ا ن اقوام کے منہ سے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروہیں بالکل زیب نہیں دیتا۔
قالت یایھا الملواافتونی فی امری ماکنت قاطعۃ امرا
پھر اس (ملکہ) نے کہا ۔اے سردارو! میرے معاملہ میں اپنی پختہ رائے دو۔کیونکہ میں کبھی بھی کوئی فیصلہ نہیں کرتی
حتی تشھدون٭قالو انحن اولواقوۃ واولوباس شدید
جب تک کہ تم میرے پاس حاضرہو(کر مشورہ نہ دے لو)۔انہوں(یعنی درباریوں)نے کہا ہم بڑی طاقت والے ہیں اوربڑے
والامر الیک فانظری ماذاتامرین٭
جنگجوہیںاور(آخری )معاملہ آپ کے ہاتھ میں ہے ۔پس غور کرلیں کہ آپ کیا حکم دیناچاہتی ہیں (ہم اس کی اتباع کریں گے )
قالت ان الملوک اذادخلوقریۃ افسدوھاوجعلوا
اس نے کہا کہ جب بادشاہ کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تواسے تباہ کردیتے ہیں اوراس کے باشندوں میں سے
اعزۃ اھلھا اذلۃ وکذٰلک یفعلون٭
معزز لوگوںکو ذلیل کردیاکرتے ہیں اوروہ اسی طرح کرتے چلے آئے ہیں ۔ ۱۵؎
۱۵؎ حل لغات :۔قَاطِعَۃٌ: قَطَعَ سے اسم فاعل واحد مؤنث کاصیغہ ہے اورقَطَعَ فُلَانٌ فِی الْقَوْلِ کے معنے ہیں جَزَمَ اس نے بات پختہ کرلی (اقرب) قَاطِعَۃکے معنے ہوں گے پختہ ۔فیصلہ کرنے والی ۔
تفسیر :۔فرماتاہے ۔یہ خط سن کر ملکہ سبانے کہا ۔اے میری قوم کے سردارو۔میری اس مشکل میں مجھے مشورہ دو۔جب تک تم میرے دربار میں حاضر ہوکر مشورہ نہ دو میں کوئی فیصلہ نہیں کیاکرتی ۔
اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس وقت بھی ڈیماکریسی قائم ہوگئی تھی اوربادشاہت کے حقوق محدود تھے ۔ان سور مائوں نے جنہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک لشکر کے سردار کو جوپِدّی جیساجانورتھا دیکھ لیا تھا کہا کہ حضور ہم تو بڑے طاقتو رہیں اورجنگ میں بڑے آزمودہ کار ہیں ۔ان پرندوں کے لشکر نے ہمار اکیابگاڑ لیناہے ۔دس منٹ میں ہمارے بچے ہی ان کو مارمار کرکھاجائیں گے ۔ مگر فیصلہ بہرحال آپ کے اختیار میں ہے جو آ پ حکم دیں گے کرلیںگے ۔اگرآپ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان چڑیوں کے پیچھے جرنیل گھوڑے دوڑاتے ہوئے دوڑ پڑیں توہم ایساہی کریں گے اور اگرآپ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان چڑیوںکو بھون بھون کر کھاجائو توہم ایساہی کریں گے ۔ملکہ سبانے کہا کہ جب بادشاہ کسی زبردست لشکر کے ساتھ ملک میں داخل ہوتے ہیں تو اس کواجاڑ دیاکرتے ہیں ۔ ااوراس کے باشندوں میں سے معزز لوگوںکوذلیل یعنی جانوروں کی طرح کردیاکرتے ہیں ۔وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ اورہمیشہ بادشاہ اسی طرح کرتے چلے آئے ہیں ۔چنانچہ دنیا کی تاریخ پر غورکرکے دیکھ لو ۔جب بھی کوئی قوم کسی ملک کو فتح کرتی ہے وہ اپنی فتح کے غرور میں مفتوح قوم پر بڑی بڑی سختیاں کرتی ہے اورپھر غرور کے علاوہ اس قوم کو یہ ڈر بھی ہوتاہے کہ اگر مفتوحین کوجلد کچلا نہ گیا۔ توممکن ہے یہ پھر بغاوت کردیں ۔گویا ان کے قلوب میں اطمینان نہیں ہوتا۔اورانہیں ہروقت بغاوت کاخطرہ رہتاہے ۔اسی لئے وہ حدسے زیادہ مظالم ڈھاتے اوربڑی بڑی سختیاں لوگوںپر کرتے ہیں ۔جیسے اٹلی نے جب ایبے سینیا پرقبضہ کیا تواس نے بڑے بڑے ظلم کئے ۔ عرب لو گ ان مظالم کو کثرت سے بیان کیا کرتے ہیں ۔ان کابیان ہے کہ اٹلی نے ایبے سینیا پر قبضہ کرنے کے بعد ہزاروں آدمی بلاوجہ مرواڈالے ۔اوربعض دفعہ لوگوںپر اپنی حکومت کارعب جمانے کے لئے گھروںکے دروازوں پر لوگوں کوپھانسی پر لٹکادیاجاتا۔حالانکہ ان کاکوئی قصور نہیں ہوتاتھا ۔غرض ہرقوم جس کلی بنیا د مذہب پر نہیں ملکوں کو فتح کرنے کے بعد اس قسم کے مظالم کیاکرتی ہے۔آخر دنیا میں ہزاروں سال کی تاریخ موجود ہے ۔تم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اتباع کو چھو ڑکر یاایک دواَور بادشاہوں کومستثنٰی کرکے بتائو تو سہی کہ کسی قوم نے کسی ملک پر غلبہ حاصل کیا ہو ۔اوراس نے وہاںظلم و ستم کا بازار گرم نہ کردیاہو ۔ تورات پڑھ کر دیکھ لو وہاں بھی یہی احکا م ہیں کہ
’’ جبکہ خداوند تیراخداانہیں تیرے حوالے کرے۔توتُوانہی ماریواور حرم کیجیئو۔نہ توان سے کوئی عہد کریو ۔اورنہ ان پر رحم کریو…… تم ان کے مذبحوںکو ڈھادو اور ان کے بتوں کوتوڑ دو۔ان کے گھنے باغوں کو کاٹ ڈالو او ران کی تراشی ہوئی مورتیں آگ میں جلادو ۔‘‘
(استثناء باب ۷ آیت ۲تا ۷)
اسی طرح لکھا ہے:۔
’’ جب خداوند تیراخدا اسے تیرے قبضہ میں کردے توتُو وہاں کے ہر ایک مرد کوتلوار کی دھار سے قتل کر …اورجو کچھ اس شہر میں ہو اس کا سارالوٹ اپنے لئے لے۔‘‘(استثناء باب ۲۰آیت ۱۳تا۱۶)
غرض جب کوئی قوم فاتح ہوتووہ یہی کچھ کیا کرتی ہے ۔انگریزوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا توانہوں نے بھی یہاں کے لوگو ں پر بڑی بڑی سختیاں کیں او رجب غصہ نکل گیا تب اعتدال پر آئے ۔ورنہ غدر کے ایام میں انگریزوں نے جو جو کاروائیاں کی ہیں ان کا ذکر سن کر انسان کانپ اٹھتاہے ۔اس وقت کے کئی چشمدید واقعات کاذکر میں نے بھی سناہے ۔ہمارے اپنے پڑناناکاحال ہماری نانی صاحبہ سنایاکرتی تھیں کہ غدر کے دنوں میں وہ سخت بیمار تھے ۔ایک دن اچانک انگریزی فوج کے کچھ سپاہی مکان کے اندر گھس آئے اوران میں سے ایک نے ان کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص کوبھی میں نے لڑتے دیکھا ہے ۔وہ بیچارے گھبراکر کھڑے ہوئے توان سپاہیوں نے وہیں گولیوں سے ان کو مار ڈالا ۔
ملکہ سباء اسی حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اِنَّ الَمَلُوْکَ اِذَادَخَلُوْاقَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْٓااَعِزَّۃَ اَھْلِھَااَذِلَّۃً۔ یعنی دستور اورقانون یہی ہے کہ جب کسی ملک میں نئے بادشاہ آتے ہیں تومعززلوگوںکو ذلیل کردیاکرتے ہیں ۔ یہ خدائی قانون ہے جو کبھی بدل نہی سکتا ۔سوائے اس کے کہ داخل ہونے والادنیوی اصطلاح میں مَلِک نہ ہو۔ جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاآپ کے خلفاء تھے ۔ وہ روحانی بادشاہ تھے دنیوی اصطلاح میں مَلک نہیں تھے۔ اسی طرح دوچار اورلوگ جنہیں بطور استثناء پیش کیا جاسکتاہے ۔ وہ گوبادشاہ کہلاتے ہوں مگر ان معنوں میں بادشاہ نہیں تھے جن معنوں میںدنیا دار باد شاہ ہوتے ہیں بلکہ درحقیقت وہ خداتعالیٰ کے نیک بندے ہوتے تھے ۔چنانچہ ساری یورپین تاریخ میں صرف ایک مثال ایسی نظرآتی ہے جس میں فاتح نے غیر قوموں کے مقابلہ میں نہیں بلکہ اپنی قوم کے ہی ایک حصہ کے مقابلہ میں عفواوردرگذر کا سلو ک کیا۔یہ مثال ابراھیم لنکن کی ہے ۔ جو امریکہ کا پریزیڈنٹ تھا ۔اس کے عہد حکومت میں ایک دفعہ یونائٹڈ سٹیٹس امریکہ کے ایک حصے نے دوسرے حصے کے خلاف بغاوت کردی ۔جب شمالی یونائٹڈسٹیٹس نے جنوبی یونائٹڈ سٹیٹس پر فتح پالی اور وہ ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہونے لگاتو جرنیلوںنے فتح کا مظاہر ہ کرنے کی بہت بڑی تیاری کی ہوئی تھی اوران کی تجویز تھی کہ بینڈ بجاتے ہوئے ہم شہر میں داخل ہوں گے ۔ مگر جب ابراھیم لنکن نے ان انتظامات کو دیکھا تو اس نے اپنے جرنیلوں کو ڈانٹ دیا اورکہا کہ کیا یہ خوشی کامقام ہے کہ امریکنوں نے امریکنوں کو قتل کیا ہے ۔لڑائی توہمیں مجبوراً کرنی پڑی تھی ورنہ اپنی قوم کا خون بہاناکوئی پسندیدہ بات نہیں ہوسکتی ۔پھر اس نے اپنے جرنیلوں سے کہا کہ تم پیچھے کھڑے رہو میں اکیلا شہر میں داخل ہوں گا ۔چنانچہ وہ اکیلا شہر میں داخل ہوااور باغی فوج کے افسر کے دفتر میں جاکر اس کے ڈیسک پر سر جھکا کر بیٹھ گیااورتھوڑی دیر پُر نم آنکھوں کیساتھ دعا میں مشغول ر ہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔یہ تما م یو رپین تاریخ میں صرف ایک مثال ہے ۔جہاں فاتح نے مفتوح کو ذلیل کرنے کی کو شش نہیں کی لیکن محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تواس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔آپؐ نے جب مکہ فتح کیا توباوجود اس کے کہ کفار مکہ نے سال ہا سال تک آپؐ کو اورآپ کے صحابہؓ کو سخت سے سخت تکالیف پہنچاتے رہے تھے آ پ نے ان سب سے کہہ دیا کہ لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ جائو میں تم پر کوئی گرفت نہیں کرتا۔پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو و درگذر یہیں تک محدود نہیں بلکہ آپؐ نے ایک دفعہ صحابہؓ سے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھ پر مصر کو فتح کرے گا ۔جب تم فاتحانہ حیثیت سے اس میں داخل ہوتواس وقت تم اس بات کو یاد رکھنا کہ تمہاری دادی ہاجرہؓ مصر کی تھی ۔اب کہاںحضرت ہاجرہؓ کازمانہ اور کہاں صحابہؓ کازمانہ مگراتنی دوری کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیس سوسال پہلے کی دادی ہاجرہ ؓ کا ذکرکرکے اپنے صحابہ ؓ کو نصیحت فرمائی کہ تم اس تعلق کی بناپر مصر کے لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا ۔اوران سے حسن سلوک کرنا ۔پس اس قسم کا نمونہ دکھانا انبیاء کاہی کام ہوتاہے ۔ورنہ عام دستور دنیا کے بادشاہوں کا یہی ہے کہ جب وہ کسی ملک میں فاتح بن کر داخل ہوتے ہیں توبڑے بڑے ظلم کرتے اور ہزاروں لوگوں کو بے دریغ قتل کردیتے ہیں ۔
پس ملکہ سبا کو جب حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط ملاتو اس نے اپنی سلطنت کے اکابر سے مشورہ لیا ۔ان سب نے کہا کہ ہم ملک کی خدمت کے لئے تیار ہیں اورلڑنے مرنے پر آمادہ ہیں۔آپ جو حکم دینا چاہتی ہیں ۔دیں ۔اس نے جواب دیا کہ ہماری موت سے ملک کو کیا فائدہ پہنچے گا۔دیکھنا صرف یہ نہیں کہ لوگ جنگ کے لئے آماد ہ ہیں یا نہیں بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری موت کو ئی فائدہ پہنچائے گی یانہیں۔اگر ہم زندہ رہیں اور سلیمانؑ کی بادشاہت تسلیم کرلیں تویہ زیادہ مفید ہوگا یایہ زیادہ مفید ہوگا کہ ہم لڑیں اور مرجائیں او ر سلیمان ہمارے ملک پر قابض ہوجائے ۔غرض حکومت کاکلّی تغیّر ہم پر اثر انداز ہوسکتاہے یااس کاجزوی تغیر ۔ایک تغیّرتویہ ہے کہ سلیمانؑ کو اس ملک کی عظمت اور بڑائی حاصل ہوجائے ۔بادشاہت ہمارے پاس ہی رہے ہم صرف اس کے باجگذار ہو جائیں ۔ اورایک تغیّر یہ ہے کہ ہم مارے جائیں اور ملک بھی سلیمانؑ کے قبضہ میں چلاجائے ۔ان تما م امور پر غور کرکے وہ جوکچھ کہتی ہے وہ یہ ہے کہ جب کسی ملک میں کوئی نئی بادشاہت آیا کرتی ہے تو َجَعَلُوْٓااَعِزَّۃَ اَھْلِھَااَذِلَّۃً وہ ا س ملک کے معززین کو ذلیل کردیاکرتی ہے ۔اس کے یہ معنے نہیں جیساکہ عام طورپر لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومتوں میںجب تغیرہوتونئی حکومت بڑوںکو چھوٹااو رچھوٹوںکوبڑاکردیتی ہے ۔یہاں یہ مضمون بیان نہیں ہوا۔کیونکہ اگر اس کے یہی معنے ہوں گے توگوبڑے چھوٹے ہوجائیں گے لیکن چھوٹوں کے بڑابن جانے سے پھر بھی اس ملک کو ہی فائدہ پہنچے گا اور اسے کوئی نقصان نہیں رہے گا ۔حالانکہ قرآن کریم کی آیت صرف نقصان اور تباہی کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔دراصل اس آیت میں غیر قوم کی حکومت کا ذکر ہے ۔اوربتایاگیاہے کہ جب اس قسم کی نئی بادشاہت کا قیام عمل میں آئے تووہ بڑوںکو ذلیل کردیتی ہے اورجو پہلے ہی ذلیل ہوں وہ اس حکومت میں اَور بھی زیادہ ذلیل اور بے حیثیت ہوجاتے ہیں ۔گویا خارجی قوم کی حکومت نئے حاکم مقررکرتی ۔نئے سردا ربناتی اور نیانظام قائم کرتی ہے ۔پھر وہ لوگ اپنا قانون جاری کرتے ۔اپنے افسروں اوراپنے حکّام کاتقرر کرتے اور اپنے ہی نظام کو رائج کرتے ہیں ۔جیسے انگریز یہاں آئے توانہوں نے انگریزوں کو افسر بنایا ۔مغل آئے توانہوں نے اپنے ساتھیوں کو ترقی دی ۔پٹھان آئے توانہوں نے اپنے ہم قوم افراد کو ذمہ واری کے عہدے دیئے ۔اسی طرح آرین لوگوں نے حکومت کی تو انہوں نے آریوں کوعرو ج پرپہنچایا اورگونڈ اور بھیل وغیرہ اقوام جو کسی زمانہ میں اعزّہ میں سے تھیں انہیں ذلیل کردیا ۔غرض ہرخارجی بادشاہت دنیا میں ایک نیا تغیر پیداکرتی اور پہلے نظام کو بدل کر ایک نیا نظام قائم کرتی ہے تاکہ وہ لوگ دوبارہ اقتدار حاصل کرکے بغاوت نہ کردیں ۔مجھے یا دہے ایک دفعہ دِلّی میں مجھے ایک شخص کے متعلق بتایاگیا کہ یہ مغلیہ خاندان میں سے ہے ۔اس کاکام صرف اتنا تھا کہ وہ حقہ اٹھائے پھرتاتھا اورچاندنی چوک میں او رلال قلعہ کے سامنے لوگوں کو حقہ پلاتاتھا ۔اورحقہ پینے والا اسے آنہ دوآنے دیدیتاتھا ۔وہ ہرشخص کے سامنے جاتا او رکہتاحقہ پی لیجئے ۔و ہ لو گ جو حقہ کے عادی ہوتے و ہ اس سے حقہ لے کر پی لیتے اور جاتے ہوئے آنہ دوآنے دے دیتے ۔اس نے عزت نفس کی وجہ سے بجائے ہاتھ پھیلانے کے یہ طریق اختیار کرلیاتھا ۔پس دنیا کے واقعات اس قانون کی تائید کرتے ہیں کہ جب بھی کسی ملک کی حکومت پر کوئی اورحکومت قبضہ کرتی ہے وہ ملک کے معزز لوگوں کو ذلیل کردیاکرتی ہے اورحکمران خاندان کو کلّی طورپر حکومت کے کاموں سے علیحدہ کرکے گوشئہ گمنامی میں پھینک دیتی ہے اور ایسے لوگوںکو حکومت کی باگ ڈور دیدی جاتی ہے جو پہلی حکومت سے بغض رکھتے ہوں تاکہ وہ ان لوگوں کو اُبھرنے کاموقعہ نہ دیں ۔انگریزوں کو ہی دیکھ لو ۔انہوں نے راجوں مہاراجوں کو اونچا کردیا اورمغلیہ شاہی خاندان کو اس طرح گرادیا کہ آج ان کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔
غرض ملکئہ سبابطورقانون یہ بات بیان کرتی ہے کہ بادشاہ جب کسی ملک می داخل ہوتے ہیں تووہ اس کو تباہ و برباد کردیتے ہیں اوروہاں کے معزز لوگوںکو ذلیل کردیاکرتے ہیں ۔
پھر َجَعَلُوْٓااَعِزَّۃَ اَھْلِھَااَذِلَّۃً میں اعزّہ کے صرف یہی معنی نہیں کہ جو لوگ واقعی معززہوتے ہیں ان کوذلیل کیاجاتاہے بلکہ اس کا ایک او رمطلب یہ بھی ہے کہ جولوگ غریبوں ،کمزوروں اورناتوانوں وک جوتیاں مارنے کی وجہ سے اپنے آپ کو معززسمجھتے ہیں ان کے اس فعل بد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی غیرت او راس کی محبت غرباء کے لئے جو ش میں آتی ہے اور وہ ان پر کسی ایسے بادشاہ کو مسلط کردیتاہے جوان کے خود ساختہ اعزاز کو مٹاکر انہیں ذلیل کردیتاہے ۔گویا جوقومیں جوتوں کے ساتھ دوسروںکو سیدھا کرناچاہتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کو مغلوب کردیتاہے اوردوسروں کو ان پر غلبہ دے دیتاہے ۔چنانچہ دیکھ لو حضرت سلیمان علیہ السلام کابیٹا جب آپ کی وفات کے بعد تخت نشین ہواتو اس نے رعایا کے ساتھ شریفانہ سلوک روانہ رکھا ۔جس کانتیجہ یہ ہواکہ بنی اسرائیل کے دس قبائل نے بغاوت کر دی اور سلیمانؑ کی وسیع سلطنت ایک ریاست کی شکل میں محدود ہوکررہ گئی۔ رعایاکے چند قبائل نے اس سے پیشتر بھی ایک دفعہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت میں منصوبہ کیاتھا کہ ہم حکومت کو موقعہ پاکر کمزورکردیں ۔اوربغاوت کردیں ۔مگرحضرت سلیمان علیہ السلام نے تائید الٰہی سے اس قسم کی بغاوتوںکو دبائے رکھا ۔جب حضرت سلیمان علیہ السلام کابیٹا تخت نشین ہواتوبارہ قبائل میں سے د س نے اکٹھے ہوکر مشورہ کیا کہ چلو بادشاہ کے پاس چل کر درخواست کریں کہ آئندہ ہم پرسختی نہ کی جائے انہوں نے سمجھا کہ ا سطرح اکٹھے ہوکرجانے سے بادشاہ مرعوب ہوجائے گا اور ہم اس سے بعض باتیں منوالیں گے اگر تووہ لوگ حضرت سلیمان علیہ السلام کی زندگی میں آپ کے پاس جاتے اور اپنی شکایات پیش کرتے توچاہے آپ ان کی کوئی بات مانتے یا نہ مانتے اتنا ضرور تھا کہ آپ ان قبائل کا اعزاز کرتے اورانہیں احسن طریق سے سمجھانے کی کوشش کرتے اور کہتے کہ ہم جوکچھ کررہے ہیں تمہارے فائدہ کے لئے کررہے ہیں ۔مگرآپ کی وفات کے بعد آپ کابیٹا چونکہ مؤید من اللہ نہیں تھا ۔اور اس کے اند رتقویٰ نہیں پایاجاتاتھا اس نے جب قبائل کے اس قسم کے مشور ہ کی خبر سنی تووہ آگ بگولہ ہوگیا اوراس نے امراء،وزراء اوردوسرے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ کیاکرناچاہیئے ۔وہ وزراء اور امرا ء بھی بادشاہ کے ہمخیال تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ ’’ گُربہ کُشتن روزِ اول ‘‘جب وہ قبائل آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کی خوب خبرلیں ۔چنانچہ جب وہ قبائل بادشاہ کے پاس آئے توانہوں نے کہا ۔بادشاہ سلامت !ہم نے آپ کے باپ داداکی بھی خدمت کی ہے اوراطاعت گذاررہے ہیں مگراس وقت بعض معاملات ایسے ہیں جن میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہم پرسختی کی جارہی ہے ۔ان میں نرمی ہونی چاہیئے ۔یہ سن کر بادشاہ بڑی شان سے بیٹھ گیا ۔اوراس نے بڑے جوش میں کہا تم نے اگر میرے باپ داداکی اطاعت اور فرمانبرداری کی تھی توکونسااحسان کیاتھا ۔انہوں نے تم سے جوتوں کے ساتھ اطاعت کروائی تھی ۔اسی طرح میں بھی تمہارے شوروشر سے ڈرنے والانہیں ۔بلکہ یاد رکھو میرے باپ دادانے توتم سے جوتوں سے اطاعت کروائی تھی اور میں ڈنڈے مارمار کر تم سے اطاعت کروائوں گا ۔اس لئے مطالبات کو ترک کردو ۔اگرتم میں سے کوئی ذرابھی بولاتو گُدّی سے اس کی زبان کھینچ لی جائے گی ۔وہ یہ سختی کا جواب سن کر سخت برہم ہوئے اورانہوں نے وہیں قصر شاہی کی ڈیوڑھی میں کھڑے ہوکر آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہمارے لئے سوائے اس کے اورکوئی چارہ نہیں کہ ہم بغاوت کردیں۔چنانچہ ان دس قبائل کے آدمیوں نے وہیں ڈیوڑھی میں کھڑے ہوکر اپنا ایک بادشاہ چن لیا اور سلیمانؑ کے بیٹے سے کہدیا کہ ہم تمہاری حکومت سے بغاوت کرتے ہیں ۔چنانچہ ان کی حکومت سینکڑوں سال تک چلتی رہی اور سلیمانؑ کے بیٹے کی حکومت صرف ایک ریاست بن کر رہ گئی ۔اسی طرح وہ لوگ جو ڈنڈے کے زور پر دوسروں پر حکومت کرتے ہیں اوراپنے آپ کو اعزّہ میں سے سمجھتے ہیں ان کی چیرہ دستیاں بھی جب حدسے تجاوز کرجاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اورملک میں ایسا انقلاب پیداہوجاتاہے کہ ملک میں بڑے بڑے معززسمجھے جانے والے ذلیل ہوجاتے ہیں اورانہیں اپنے نارواافعال کی سزابھگتنی پڑتی ہے ۔
پھر گو ملکہ سبا کایہ قول ایک سیاسی ذکر کے دوران بیان کیاگیاہے کہ اِنَّ الَمَلُوْکَ اِذَادَخَلُوْاقَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْٓااَعِزَّۃَ اَھْلِھَااَذِلَّۃً مگر اس میں اس روحانی قانون کی طرف بھی اشارہ کیاگیاہے جوانبیاء کی بعثت پردنیا میںجاری کیاجاتاہے ۔کیونکہ جس طرح دنیوی ملوک اپنے ساتھ ایک انقلاب لاتے ہیں اسی طرح انبیاء جومملکت روحانی کے بادشاہ ہوتے ہیں ان کی آمد کے ساتھ بھی َجَعَلُوْٓااَعِزَّۃَ اَھْلِھَااَذِلَّۃً کانقشہ انسانی آنکھوں کے سامنے آجاتاہے ۔اوران کے زمانہ میں کئی چھوٹے بڑے اور کئی بڑے چھوٹے کردیئے جاتے ہیں ۔کئی حقیر اور ذلیل سمجھی جانے والی قومیں خدا تعالیٰ کے مامور کو قبول کرکے عزت حاصل کرلیتی ہیں ۔اورکئی معززسمجھی جانے والی قومیں خداتعالیٰ کے مامورکو ردّ کرکے ذلیل ہوجاتی ہیں ۔بلکہ دنیا کا ایک لمباتجربہ ا س بات پر شاہد ہے کہ الٰہی صداقتیں ہمیشہ ایسے علاقوں میں ہی زیادہ کثرت اورزیادہ زور کے ساتھ پھیلتی ہیں جوباقی دنیا کی نگاہوں میں جاہل اور وحشی ہوتے ہیں ۔جب کبھی کسی تعلیم نے یکدم کسی قوم کو پکڑاہے تو و ہ قوم ہمیشہ ایسی ہی ہوتی رہی ہے جواپنے ظاہری علوم کے لحاظ سے دوسری قوموں سے ادنیٰ اورگری ہوئی سمجھی جاتی ہے ۔مگرپھر وہی قوم خداتعالیٰ کی آواز پرلبیک کہہ کر دنیا کی فاتح اور حکمران بن جاتی ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ کوئی خواہ کتنا ہی جاہل کیوں نہ ہوانسانی فطرت اپنے ذہن میں کچھ نہ کچھ نتائج نکالتی رہتی ہے بلکہ انسان توایک طرف رہا ہم جانوروں او ردرختوں میں بھی یہ بات دیکھتے ہیں ۔سائنس سے ثابت ہے کہ بعض جانور بعض درختوںپر رہنے کی وجہ سے خاص قسم کے رنگ پیداکرلیتے ہیں ۔تیتری کتنا چھوٹاساجانور ہے نہ اس میں گوشت ہوتاہے نہ ہڈی۔جب تتریاں پھولوںپر اُڑ رہی ہوتی ہیں تووہ کتنی خوبصورت معلوم ہوتی ہیں ۔کتنی حسین اور دلکش نظر آتی ہیں ۔مگراس سے کون انکا رکرسکتاہے کہ ان تتریوںکا رنگ زیادہ ترمرہون منت ہوتاہے ان پھولوں او رپتوںکا جن میں وہ رہتی ہیں ۔وہ مختلف قسم کے پھولوں اور مختلف قسم کے پتوں میں رہتی ہیں اورانہی پتوںاور انہی پھولوں کے رنگ کاانعکاس اپنے پَروں میں پیداکرلیتی ہیں ۔ چنانچہ اکثر تتریوں کے رنگ دوسرے جانور وں کے رنگ کے خلاف عارضی ہوتے ہیں ۔اگرایک طوطے کا سبز رنگ تم مٹاناچاہوتو تم نہیں مٹاسکتے ۔اگرایک فاختہ کابھورارنگ تم مٹاناچاہوتونہیں مٹاسکتے ۔لیکن تیتری کاپَر اپنے ہاتھ میں مسلوتو اس کارنگ فوراً تمہارے ہاتھ کولگ جائے گا ۔جس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس کارنگ درحقیقت ایک فوٹو او رانعکاس ہوتاہے ان شعاعوں کاجو ان پھولوں اور پتوں میں رہنے کی وجہ سے ا سکے پَروں پرپڑتی ہیں ۔جب یہ انعکاس ایک لمبے عرصہ تک چلتاچلاجاتاہے تواسی قسم کا ایک مستقل رنگ پیداہوجاتاہے ۔چنانچہ بالعموم ریت کے اندر رہنے والے جانور بھوسلارنگ اختیارکرلیتے ہیں ۔اورریت کے تودوںمیں ان کی شکل نظر نہیں آتی ۔ہرن سامنے بیٹھا ہواہوتاہے بلکہ گلّے کا گلّابعض دفعہ سامنے ہوتاہے مگرہرشخص ان کو پہچان نہیں سکتا۔ صرف ماہرشکاری ہی امتیاز کرسکتاہے ۔ورنہ عام انسان بسااوقات پاس سے گذر جاتاہے اوراسے معلوم تک نہیں ہوتاکہ سامنے ہربیٹھا ہے ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ریت می ایک لمباعرصہ رہنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ وہ ریت کا رنگ اختیار کرلیتاہے ۔یہی حال درختوںکاہوتاہے کہ درخت بھی اپنے ماحول کے مطابق رنگ اختیار کرتے ہیں اوریہی حال انسانوں کاہوتاہے ۔کہ وہ بھی اپنے اپنے ماحول کے مطابق رنگ اختیار کرتے ہیں ۔ہم ان کو وحشی کہہ دیں ۔ہم ان کو جاہل کہہ دیں ۔ہم ان کو تہذیب و تمدن سے کوسوں دور کہہ لیں ۔لیکن کیا ان کا دما غ اتنا بھی کام نہیں کررہاہوتا جتنا ایک طوطے یاایک تیتر یاایک ہرن کادماغ کام کررہاہوتاہے ۔اگرکچھ کہا جاسکتاہے تویہ کہ جس طرح طوطے اورہرن نے معین صورت میں اپنے تاثرات کو باہر نہیں نکالااسی طرح ایک جاہل اوروحشی نے بھی اپنے ماحول کے تاثرات کو باہر نہیں نکالا۔لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ وہ اپنے ماحول سے متاثر ہوتاہے اور اس کے مطابق ایک رنگ اپنے اند ر پیداکرتارہتاہے ۔تم اگر کسی وحشی سے پوچھو کہ کیا تم نے اپنی زندگی کے ماحول کے نتیجہ میں کوئی اثر قبول کیاہے یانہیں تووہ کہے گا ۔میں نے کوئی اثر قبول نہیں کیا ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے اثر قبول کیاہوتاہے ۔مگروہ اس سے ایساہی ناواقف ہوتاہے جیسے تیتری یہ نہیں جانتی کہ و ہ پھولوں کے رنگ کا اثر قبول کررہی ہے ۔ہرن یہ نہیں جانتاکہ و ہ ریت کی رنگت اپنے اندر پیداکررہاہے ۔ جس طرح شہد کی مکھی بغیراس بات کے جاننے کے کہ وہ کیاپیداکررہی ہے ۔اوراس کے کیاکیا فوائد ہیں ۔مختلف پھولوں پر بیٹھ کر شہد کے باریک ذرات اپنے منہ میںسے نکالتی رہتی ہے اوروہ نکالنے پر مجبور ہوتی ہے اسی طرح وہ قومیں جنہیں دنیا نے الگ پھینک رکھا ہے ۔اپنے ماحول کے اثرات سے متاثر ہورہی ہوتی ہیں گووہ خود بھی نہ سمجھ سکیں کہ ان کاماحول ان کوکسی خاص رنگ میں رنگین کررہاہے ۔مگربہرحال ان قوموں کے دلوں میں باریک طورپریہ حسّ پائی جاتی ہے کہ خدانے ہم کو دنیا سے فائدہ اٹھانے کے لئے پیداکیاتھا ۔باقی لوگ اپناحصہ لے چکے مگرہم نے اس دوڑ میں اپنا حصہ نہیں لیا ہمیں دنیا نے دھتکار رکھا ہے ہمیں اس نے فوائد سے محروم کردیا ہے ۔وہ اور اس کی نسلیں فائدہ اٹھارہی ہیں مگرہمیں فائدہا ٹھانے کاموقعہ نہیں دیاجاتا۔یہ وہ خیال ہوتاہے جو ان قوموں کے دلوں میں بغیر کسی خاص احساس کے یابغیر کسی معین صورت کے اندر ہی اند رپیداہوتارہتاہے ۔جب خداتعالیٰ کی طرف سے کسی نبی کے ذریعہ یہ آواز بلندہوتی ہے کہ میں دنیا کی گری ہوئی قوموں کوترقی کی بلندیوں پر پہنچانے کے لئے آیاہوں توان قوموں کے اند ر ایک خلش سی پیداہوجاتی ہے ایک بے چینی سے رونماہوجاتی ہے ۔ایک اضطراب ساان کی حرکات سے ظاہرہونے لگتاہے وہ کہتی ہیں ہماری امیدوں کے برآنے کاوقت آگیا ۔ہماری نحوستوں کے دور ہونے کازمانہ آگیا۔آئو ہم اس نبی کوقبول کرکے دنیا پرحکمرانی کریںاوراپنے کھوئے ہوئے حق کوحاصل کرنے کی جدوجہد کریں۔
وہ زمین جس می ایک لمبے عرصہ تک ہل چلایاجاتاہے ۔جومختلف قسم کی سبزیاں پیداکرتی ہے جومختلف قسم کے پھل اور پھول تیارکرتی ہے بیشک اس کی روئیدگی انسانی آنکھوںکو تراوت بخشتی ہے ۔اس کے پھل انسانی غذاکے کام آتے ہیں۔اس کے پتے جانوروں کی بھوک مٹانے کاکام دیتے ہیں مگراس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک لمبے استمال کی وجہ سے اپنی طاقت کو کھوبیٹھتی ہے ۔لیکن اس کے پاس کی پڑی ہوئی زمین جو ابھی استعمال میں نہیں آئی ہوتی وہ اس بات کی زیادہ اہل ہوتی ہے کہ اس میں بیج بویاجائے اوراس سے اعلیٰ درجہ کی پیداوار حاصل کی جائے ۔اچھا فلّاح ہمیشہ اس زمین کی طرف جاتاہے جوخالی پڑی ہو۔اس زمین کی طرف نہیں جاتا جسے ہزاروںسال سے بویاجارہاہو۔کیونکہ وہ جانتاہے اب مجھے اس استعمال شدہ زمین سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔مجھے اگر فائدہ ہوگاتو اس زمین سے جو بظاہر بنجر ہے ۔جوبظاہر ویران ہے ۔جوبظاہر غیرآباد ہے ۔بیشک اس پر محنت زیادہ ہوگی ۔مگراس کی فصل دوسری زمینوں سے زیادہ بہترہوگی ۔نادان لوگ گائوں کی مہنگی زمین خریدتے ہیں۔لیکن ہوشیار زمیندار مربعوں والی زمین خریدتاہے نتیجہ یہ ہوتاہے کہ گائوں کی زمینوں کے مالک بعض دفعہ ڈیڑھ ڈیڑھ دودوسو ایکڑ زمین اپنے پاس رکھتے ہیں مگران کی تہ بند پھٹی ہوئی ہوتی ہے ۔ان کے جسم پر پوری چادر بھی نہیں ہوتی ۔لیکن ایک دوسرا شخص عمدہ لباس پہنے ہوئے ہوتاہے ۔اچھاکھاتاپیتاہے اورکہا جاتاہے کہ یہ بڑے زمیندار ہیں مگرا س کے پاس صرف ایک مربع زمین ہوتی ہے ۔حالانکہ ایک مربع کے معنے ہیں صرف ۲۵ ایکڑ ۔ لیکن باوجود ااس کے اس کے پاس صرف ۲۵ایکڑ زمین ہوتی ہے اوردوسرے کے پاس چھ گنازیادہ ہوتی ہے ۔وہ غربت میں اپنی زندگی بسرکرتاہے اورایک مربع رکھنے والاکشائش کی حالت می اپنی زندگی بسرکرتاہے ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک شخص نے عقلمندی سے وہ زمین اختیار کی جس نے اپنی طاقت خرچ نہیں کی تھی اوردوسرے نے اپنے او راپنے خاندان کے لئے اس زمین کوترجیح دی جواپنی طاقتوںکو کھوچکی تھی ۔نتیجہ یہ ہواکہ زیادہ روپیہ خرچ کرنے کے باوجود وہ گھاٹے میں رہااورتھوڑاخرچ کرنے والا فائدہ میں رہا ۔ بیشک شہری لحاظ سے وہ زمین بھی مفید ہوتی ہے ۔اورمکانوں کے لئے گراں قیمت پر فروخت ہوجاتی ہے ۔مگرجہاں تک فصل کاسوال ہے خالی پڑی ہوئی زمین زیادہ مفید ہوتی ہے ۔اورزمیندارہ اصول بھی یہی ہے کہ جب کسی زمین سے زیادہ فائدہ اٹھاناہوتاہے تو اس کو کچھ عرصہ کے لئے خالی چھوڑ دیاجاتاہے ۔
عرب میں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہم جانتے ہیں کہ یہ محض خداتعالیٰ کا فضل تھا اورپیشگوئیوں کے مطابق عر ب میں ہی آپ کا مبعوث ہونا ضروری تھا ۔مگر سوال یہ ہے کہ خدابھی اپنے سارے کام حکمت کے ماتحت کرتاہے ۔اسی لئے اس کاایک نام حکیم ہے ۔یونہی بلا سوچے یا بغیر کسی حکمت کے وہ کوئی کام نہیں کرتا اورجبکہ اس کاہرکام حکمت کے ماتحت ہوتا ہے توہمیں تسلیم کرناپڑتاہے کہ اس کارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوعرب میں مبعوث کرنا کسی بہت بڑی حکمت کے ماتحت تھا ۔اوروہ حکمت یہی تھی کہ عر ب وہ ملک تھا جسے ہزار ہاسال سے دنیا میں کوئی عزت کامقام حاصل نہیں ہواتھا ۔بے شک عر بوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی۔آپ کی تکفیرو تکذیب کی ۔آپ کو برابھلاکہا ۔آپ کو مٹانے کے لئے انہوں نے ہرممکن ذریعہ اختیار کیا ۔مگراس کے باوجود جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز عرب میں گونجتی تھی ۔کہ اے عربو! میں تمہیں دنیا کابادشاہ بنانے کے لئے آیا ہوںتوان کا دل جلدی حرکت کرنے لگ جاتاتھا وہ کہتے تھے ۔یہ کیسی آواز ہے جوہمارے کانوں میںآرہی ہے پھر وہ کچھ اورسوچتے اورکہتے یہ تو وہی آواز ہے جس کے لئے ہم اپنے باپ داداکے زمانہ سے ترستے چلے آرہے تھے۔چنانچہ جب انہیںاپنی مخالفت بھولی عداوت ان کے دلوں سے دورہوئی۔اس آواز نے ان کے دلوں میں ہیجان پیداکردیا ۔اوروہ دیوانہ وار لبیک یارسول اللہ لبیک یارسول اللہ کہتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑ پڑے ۔کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا کہ ہماری ترقی کازمانہ آگیا ۔ان کے دبے ہوئے جذبات اُبھر آئے ۔ان کی دیرینہ خواہشات جوش میں آگئیں اور ہرروک کو توڑ کر وہ اس آواز دینے والے انسان کے اردگرد جمع ہوگئے ۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آواز پر یوں معلوم ہوتاہے کہ عرب کاخشک صحراسمندر بن گیا۔اس کی لہریں اٹھ اٹھ کر ہمسایہ ممالک اور پھر ان کے ساتھ والے ممالک تک پہنچیں اوران سب کوانہوں نے اپنے زیر نگیں کرلیا۔یہ دبی ہوئی حس ہی تھی کہ ہمیں دنیا میں ترقی کرنے کاموقعہ نہیں ملا ۔جس نے عربوں میں ایک دیوانگی پیداکردی۔ جنوں کی سی کیفیت ان میں رونماہوگئی ۔ انہوں نے کہا یہ کیاہواکہ دنیا ترقی میں اپنا حصہ لے چکی مگرہم اس سے محروم رہ گئے ۔تب و ہ اپنے اونٹوں کی مہاریں پکڑے نکلے اور اس جوش اور دیوانگی کے ساتھ نکلے کہ قیصر و کسریٰ کی حکومتیں پاش پاش ہوگئیں اور وہ دنیا کے کناروں تک اپنی حکومت پھیلانے میں کامیاب ہوگئے ۔یہ سامان تھا جو خدانے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی اورعظمت کے لئے کیا کہ آپؐ کو اس ملک میں خداتعالیٰ نے بھیجا جس ملک میں رہنے والوں کے جذبات سینکڑوں سال سے دبے چلے آرہے تھے۔ اوروہ سمجھتے تھے کہ ااور لوگ توحصہ لے چکے مگر ہم اب تک محروم ہیں ۔گویا ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے کہتے ہی کہ کوئی اندھا اورسوجاکھا کھاناکھانے بیٹھے ۔اندھے نے سمجھا کہ سوجاکھا زیادہ کھاناکھارہاہوگا ۔کیونکہ اسکی آنکھیں ہیں اورمیں اندھاہونے کی وجہ سے اس کے مقابلہ میں کم کھارہاہوں ۔یہ خیال آنے پراس نے پہلے توجلدی جلدی کھانا شروع کردیا ۔پھر اس خیال کے آنے پر کہ میری یہ حرکت سوجاکھے نے بھانپ لی ہوگی اوروہ بھی ضرور جلدی جلدی کھانے لگ گیا ہو گا اس نے دونوں ہاتھوں سے کھاناشروع کردیا ۔پھر جو خیال آیا توایک ہاتھ سے وہ چاول منہ میں ڈالتا اور دوسرے ہاتھ سے جھولی میں ڈالتا ۔اس پر پھر اسے خیال آیاکہ اب ضرور سوجاکھا بھی ایساہی کررہاہوگا ۔چنانچہ اب کی دفعہ اس نے تھالی اٹھالی اور کہنے لگا ۔اب میراہی حصہ رہ گیا ہے ۔تم اپنا حصہ کھا چکے ۔اوراس سوجاکھے کی یہ حالت تھی کہ اس نے ایک لقمہ بھی نہیں کھایاتھا ۔وہ اندھے کی حرکات کودیکھ دیکھ کر ہی ہنستاجارہاتھا کہ یہ کیا کررہاہے ۔عر بوں نے بھی ایسا ہی کیا ۔ انہوں نے دنیا کی بادشاہت کی پلیٹ اٹھا کر اپنے سامنے رکھ لی اور کہا کہ تم اپنا حصہ لے چکے یہ ہما راحق ہے ۔غرض یہ الٰہی سامان تھا ۔ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخداتعالیٰ نے اس قوم میں مبعوث کیا جو ایک لمبے عرصہ سے ترقی سے محروم چلی آئی تھی اورجس کے جذبات گودبے ہوئے تھے مگروہ ایک آواز کے منتظر تھے۔اس آواز کے جو انہیں دنیا کا فاتح او رحکمران بنادے ۔ان کے دل یہ دیکھ کر کہ اورلوگ تواپناحصہ لیتے جاتے ہیں اورہمیں کوئی پوچھتابھی نہیں غصہ سے بے تاب ہورہے تھے اورتم جانتے ہوکہ انسان کا ایک ایک سال کا دباہواغصہ باہرنکلے توو ہ دوسرے کو کچل ڈالتاہے ۔پھر کیا حال ہوگا اس قوم کا جس نے صدیوں سے اپنے غصہ کو دلو ں میں دبارکھاہو۔
حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک قصہ سنایاکرتے تھے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ایک دفعہ اپنے باورچی کو محض ا س جرم میں کہ کھانے میں اس نے کچھ نمک زیادہ ڈال دیاتھا ایک سوکوڑے لگانے کی سزادی ۔عزیزالدین ایک مسلمان ان کے وزیرتھے ۔ وہ بڑے نرم دل تھے ۔کہنے لگے ۔یہ بادشاہ کی شان سے بعید ہے کہ کھانے میں ذراسانمک زیادہ ہوجائے تووہ اس پر چڑ کر ایک سوکوڑے لگانے کاحکم دے دے ۔مہاراجہ کہنے لگا ۔وزیر صاحب! آپ یہ خیال نہ کریں کہ میں اسے نمک کی زیادتی پر یہ سزاد ے رہاہوں ۔ اس نے میراایک سوبکراکھایاہواہے او رایک ایک بکرے پر ایک ایک دُرّے کی سزامیں اسے دے رہاہوں۔کھانے میں نمک کی زیادتی محض ایک بہانہ ہے ۔اس ذریعہ سے تومجھے اس کو گذشتہ قصوروں کی سزادینے کا موقع مل گیا ہے ۔
غرض ایک ایک دودوسال کے جذبات اگردبے ہوئے ہوں توانسان پاگل ہوجاتاہے۔ پھر کیا حال ہوگا ان قوموں کاجنہوں نے سالہاسال سے اپنے جذبات کو دبایاہواتھا ۔جوسمجھتی تھیں کہ دنیا اپنا حصہ لے چکی مگرہماراحصہ اس نے ہمیں نہیں دیا ۔یہ دبے ہوئے جذبات قوموںکو کہیں کا کہیں پہنچا دیتے ہیں ۔بے شک یہ جذبات خود ان کی نظر وں میں بھی معیّن نہیں ہوتے جیسے تیتری نہیں جانتی کہ وہ پھولوں کا رنگ اختیار کررہی ہے فاختہ نہیں جانتی کہ وہ بھورارنگ پیداکررہی ہے طوطانہیں جانتاکہ وہ سبز رنگ پیداکررہاہے ۔ ہرن نہیں جانتاکہ وہ بھوسلا رنگ پیداکررہاہے ۔لیکن اس سے انکا رنہیں کیاجاسکتا کہ ایک مخفی اثر اپنے ماحول کا ہرچیز پر پڑتاہے ۔ اسی طرح انسان اس رنگ میں رنگین ہوتاجاتاہے جواس کاماحول اس کلے لئے پیداکرتاہے ۔اگرہرن کی زبان ہوتی اورکوئی شخص اس سے پوچھتاکہ کیاتم کوئی رنگ پیداکررہے ہو تو وہ نہیں بتاسکتاتھاکہ میں بھوسلا رنگ پیداکررہاہوں ۔لیکن اس کی یہ خواہش کہ میں صحرا کی ریت میں چھپ جائوں خود بخود اس کے اند رایک رنگ پیداکردیتی ہے جسے وہ خود بھی نہیں سمجھ سکتا ۔سرخ پھولوں میں رہنے والی تیتری اگر اس کی زبان ہوتی یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ میں سرخ رنگ پیداکررہی ہوں ۔مگراس کی یہ خواہش کہ میں سرخ پھولوںمیں چھپ جائوں خود بخود اس کے پروں میں سرخ رنگ پیداکردیتی ہے ۔ایک سبز رنگ کاطوطا اگر اس کی زبان ہوتی نہیں بتاسکتاتھا کہ میں سبز رنگ پیداکررہاہوں ۔لیکن اس کی یہ خواہش کہ میں سبز رنگ کے پتوں میں چھپارہوں خود بخود اس کے جسم پر سبز رنگ پیداکردیتی ہے ۔اسی طرح وہ جاہل اور وحشی اقوام جو متمدن دنیا سے علیحدہ ہیں جوحکومت سے محروم ہیں جو دنیا سے فائدہ نہیں اٹھارہیں گو اپنی زبان سے نہ کہہ سکیں کہ وہ اس ماحول سے اثر قبول کررہی ہیں مگر ان کی دبی ہوئی خواہشات ان کے جسم پر ایک رنگ پیداکرتی چلی جاتی ہیں ۔وہ دیکھتی ہیں کہ ہماری نسل کے بعد نسل پیداہوئی مگر دنیا نے ہماراحق ہم کون نہ دیا ۔ہماراحق اس نے چھین لیا ۔ہماری دولت اس نے چھین لی ۔ہماری تعلیم اس نے چھین لی ۔اب ہماراکام یہ ہے کہ ہم دنیا پر چھائیں اور اس سے اپنا حق واپس لیں۔ یہ وہ تاثر ہے جواس ماحول کے نتیجہ میں پیداہوتاہے اوریہی وہ تاثر ہے جواقوام کو فاتح بناتاہے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک ایسی قوم میں آئے جومہذب سمجھی جاتی تھی جوتعلیم یافتہ تھی جودنیا کی ترقی کی دوڑ میں اپنا حصہ لے چکی تھی ۔نتیجہ یہ ہواکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورآپ کے حواریوں کو تین سوسال تک تگ و دَو کرنی پڑی ۔لین حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک ایسی قوم میں آئے جو مظلوم تھی جوترقی سے محروم تھی جودیکھتی تھی کہ اَورقومیں توآگے نکل گئیں مگرہم پیچھے رہ گئے ۔نتیجہ یہ ہواکہ موسیٰؑ کی آواز پر وہ یکدم آپ کے گرد جمع ہوگئے ۔کیونکہ ان کی فطرتیں پکار رہی تھیں کہ ہماری ترقی کاوقت اٰگیا ۔جب ان کی فطرت کی آواز خدائی آواز کے ساتھ مل گئی تو انہوں نے دنیاکو روند ڈالا اوراپنا حق لوگوں سے حاصل کرلیا ۔
یہی قانون اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے اوربتایاہے کہ رواحانی دنیا میں جب بھی انبیاء کے ذریعہ ایک انقلاب پیداکیاجاتاہے تواس وقت بھی جَعَلُوْااَعِزَّۃَ اَھْلِھَآ اَذِلَّۃً کانظارہ نظر آتاہے ۔یعنی کئے بڑے بڑے معزز اور عقلمند کہلانے والے ذلیل ہوجاتے ہیں اور کئی چھوٹے اور حقیر نظرآنے والے افراد یاحقیر اور ذلیل سمجھی جانے والی اقوام بڑی بڑی عزتیں حاصل کرلیتی ہیں ۔ابوجہل اپنی قوم میں کتنا عقلمند اورمعززسمجھاجاتاتھالوگوں نے اس کانام ہی ابو الحکم یعنی دانائی کاباپ رکھاہواتھا ۔ مگرجب اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی تووہ اتنا ذلیل ہوگیا کہ لوگوں نے اسے ابوجہل یعنی جہالت کا باپ کہناشروع کردیا ۔اوراس کے مقابلہ میں حضرت علی ؓ کو دیکھ لو وہ صرف گیارہ سال کے تھے جب وہ دین کی تائید کیح لئے کھڑے ہوئے ۔مگرپھر خداتعالیٰ نے ان کو اتنی عزت دی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ خلیفہ بنے اورپھر ان کی نسل کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایسانیک بنایا کہ بارہ نسلوں تک برابر ان میں بارہ امام پیداہوئے ۔لیکن وہ لوگ جواس وقت اپنے آپ کو مکہ کے رؤساء میں سے سمجھتے تھے اوربڑی بڑی عزتوں کے مالک تھے آج ان کاکوئی نام بھی نہیںلیتا اورنہ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے ۔
پس جس طرح دنیوی بادشاہتوں کے متعلق یہ قانون ہے کہ اِنَّ الَمَلُوْکَ اِذَادَخَلُوْاقَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْٓااَعِزَّۃَ اَھْلِھَااَذِلَّۃً اسی طرح دنیا میں بھی یہ قانون جاری ہے اورانبیاء کی بعثت پربھی کئی بڑے سمجھے جانے والے چھوٹے کردیئے جاتے ہیں اورکئی چھوٹے سمجھے جانے والے بڑی بڑی عزتوں کے مالک بن جاتے ہیں ۔
وانی مرسلۃ الیھم بھدیۃ فنظرۃ بم یرجع المرسلون٭
اور(میں نے فیصلہ کیا ہے کہ)میں ان کی طرف ایک تحفہ بھیجوں گی ۔پھر دیکھوں گی کہ میرے ایلچی کیا جواب لیکر واپس آتے ہیں۔
فلما جاء سلیمان قال اتمدونن بمال فما
پھر جب وہ تحفہ سلیمانؑ کے سامنے رکھاگیا تواس نے کہا ۔کیا تم مال کے ذریعہ میری مدد کرنا چاہتے ہو ۔(اگر یہ بات ہے تویادرکھو کہ)
اتٰن اللہ خیر مما اتکم بل انتم بھدیتکم تفرحون٭
اللہ نے جوکچھ مجھے دیا ہے وہ اس سے بہت بہتر ہے جوتم کودیاہے اور(معلوم ہوتاہے کہ )تم اپنے تحفہ پر بڑے نازاں ہو ۔
ارجع الیھم فلنا تینھم بجنود لاقبل لھم بھا ولنخرجنھم منھا اذلۃ و ھم صغرون٭
اے ہد ہد )تو ان کی طرف لوٹ جا اور(ان سے کہہ دے کہ)میں ایک بڑے لشکر کے ساتھ ان کے پاس آئوں گا ۔ایسا لشکر ان کے مقابلہ کی ان کو طاقت نہ ہوگی اور میں ان کو اس (ملک سے ) (مفتوح ہونے کے بعد) ایسی حالت میں نکال دوں گا کہ وہ بادشاہت (کی عزت ) کھو چکے ہونگے ۔۱۶؎
۱۶؎ حل لغات:۔ اَلْقِیَلُ: اَلطَّاقَۃُ طاقت ۔ یُقَالُ مَالِیْ بِہٖ قِیَلٌ۔ محاورہ میں کہا جاتا ہے مجھے اس کی کوئی طاقت نہیں۔(اقرب)
صـغِرُوْنَ: صَاغِر سے جمع کا صیغہ ہے اور اَلصَّاغِرُ کے معنے ہیں اَلْمُھَانُ وَالرَّاضِیْ بِا لذُلِّ وَالضَّیْمِ یعنی رسوا شدہ ۔ وہ شخص جو ذلت اور ظلم پر رضا مند ہو جائے گویا یہ لفظ صَغَار سے ہے جس کے معنے ذلت اور ظلم کے ہیں (اقرب)
تفسیر:۔ جب درباری اپنا مشورہ پیش کرچکے تو ملکہ سبا نے کہا کہ تمام حالات پر غور کرنے کے بعد میں نے یہ سوچا ہے کہ میں انہیں ایک تحفہ بھیجتی ہوں پھر دیکھتی ہوں میرے بھیجے ہوئے آدمی کیا جواب لاتے ہیں ۔ پھر اس نے ایک تحفہ ہد ہد کے سپرد کیا ۔ یہ چڑیا اپنی چونچ میں جو معزز تحفہ لے گئی ہوگی معزز قارئین خود ہی ا سکا اندازہ لگا سکتے ہیں۔حضرت سلیمان ؑ نے بھی اس تحفہ کو دیکھتے ہی کہا کہ کیا تم یعنی ملکہ کے ملک والے لوگ میری مال سے مدد کرنا چاہتے ہو۔
ہُدہُد کی چونچ میں ایک دھیلے کا سواں حصہ ہی آیا ہوگا ۔جب وہ تحفہ سلیمان کے آگے رکھا گیا ہوگا تو ان کو کس طرح فوری طورپر یقین آگیا ہوگا کہ ملکہ سبا کے پاس ہر قسم کا مال موجود ہے ۔ مگر خیر ہد ہد جو کچھ لایا ہوگا اس کو ہم خوب سمجھ سکتے ہیں ۔ چنانچہ اسے دیکھ کر حضرت سلیمان ؑ بولے کہ یہ کیا حقیر چیز تم میرے پاس لائے ہو ۔ خدا نے اس سے بہتر چیزیں مجھے دے رکھی ہیں ۔تمہارے جیسے ذلیل لوگ ہی اس ہد یہ پر خوش ہوسکتے ہیں جس کو ہُدہُد اٹھالایا ہے ۔
پھر فرمایا ۔ اے ہُد ہُد ! ا ن کی طرف لوٹ جا ۔ میں اب ایسا لشکر لے کر ان پر چڑھائی کروں گا جس کے مقا بلہ کی طاقت ان میں نہیں ہوگی ۔کیونکہ اس لشکر میں ہُدہُد بھی ہونگے ۔چڑیاں بھی ہوں گی۔ پدیاں بھی ہوں گی اور بئے بھی ہوں گے اور میں ملک سبا کے لوگوں کو ملک سبا سے ذلیل کر کے نکال دوں گا ۔ اور وہ دیر تک ایسے زبردست لشکر کی ماتحتی میں رہیں گے ۔ (صاغر اسم فاعل ہے جو دوام پر دلالت کرتا ہے )
حضرت سلیمان علیہ السلام کا اس ہدیہ پر ناراض ہونا درحقیقت اس لئے تھا کہ کہ وہ زیادہ زبردست بادشاہوں کا مونہہ رشوت سے بند کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔جب بلقیس کے تحائف حضرت سلیمان علیہ السلام کو پہنچے توا نہوں نے سمجھا کہ اس نے مجھے بھی ایسا ہی بداخلاق اور رشوت خور سمجھا ہے ۔ اس کے اس فعل پر ناپسندیدگی کا اظہار کی ا۔ یہ رشوت کی پیش کش ایسی ہی تھی جیسے مسلمانوں نے جب ایران پر حملہ کیا تو بادشاہ نے اپنے درباریوں سے کہا۔ کہ میں یقین نہیں کرسکتا کہ عرب کے رہنے والے میرے ملک پر حملہ آور ہوئے ہوں ۔ وہ تو نہایت ذلیل لوگ ہیں ۔انہیں میرے ملک پر حملہ آور ہونے کی کیسے جرأت ہوسکتی ہے ۔تم ان کے جرنیل کو پیغام دو ۔ کہ مجھ سے آکر ملے۔ چنانچہ اس کا پیغامبر اسلامی جرنیل کے پا س پہنچا ۔ انہوں نے اپنے ایک صحابی افسر کو ایک دستہ کے ہمراہ بادشاہ ایران کے پاس بھیج دیا ۔صحابہؓ کے ہاتھ میں بڑے بڑے نیزے تھے اور دربار میں لاکھوں روپے کی قالینیں بچھی ہوئی تھیں۔ صحابہ ان قالینوں پر اپنے نیزے مارتے ہوئے گزرگئے ۔ بادشاہ کو سخت غصہ آیا کہ لاکھوں روپے کے قالین ہیں لیکن یہ لوگ ان پر نیزے مارتے ہوئے آرہے ہیں ۔ جب وہ صحابیؓ قریب پہنچ گئے تو بادشاہ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگوں کو مجھ پر حملہ آور ہونے کی کس طرح جرأت ہوئی تم لوگ تو اس قدر ذلیل تھے کہ تم گوہ کا گوشت کھایا کرتے تھے اور اپنی مائوں سے نکاح کرلیا کرتے تھے ۔ میں تمہارا لحاظ کرتے ہوئے تمہارے ہر سپاہی کو ایک ایک اشرفی اور ہر افسر کو دودو اشرفی دوں گا ۔ تم واپس چلے جائو۔ اور حملہ کا ارادہ ترک کردو۔ اس صحابیؓ نے جواب دیا ۔ بادشاہ ! تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہماری یہی حالت تھی ۔ ہم گوہیں کھاتے تھے اور مائوں سے نکاح کر لیا کرتے تھے ۔لیکن اب وہ ہماری حالت نہیں رہی ۔اب خدا تعالیٰ نے ہم میں اپنا ایک رسول مبعوث کیاہے جس نے ہمارا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے اور اس نے ہمیں حلال اور حرام کی تمیز سکھا دی ہے ۔ اب وہ زمانہ چلا گیا جب لوگ ہمیں رشوت دے کر اپنی بات منوا لیتے تھے ۔ اب جب تک ہم تمہارا ملک فتح نہ کریں گے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔بادشاہ نے کہا ۔ میں تمہیں اس گستاخی کی سزا دوںگا ۔ چنانچہ اس نے اپنے ایک سپاہی کو بلایا اوراسے حکم دیا کہ ایک بورا مٹی سے بھر کر لائو۔ جب وہ مٹی کا بورا لے آیا تو اس نے مسلمان افسر سے کہا ۔آگے آئو۔و ہ آگے آگئے ،اس نے کہا ۔نیچے جھکو ۔اس پر وہ نیچے جھک گئے ۔اس نے مٹی کا بوراان کی پیٹھ پر رکھ دیا اورکہنے لگا ۔جائو میں اس بورے سے زیاد ہ تمہیں کچھ دینے کے لئے تیار نہیں۔میں نے تمہیں اشرفیاں پیش کی تھیں۔لیکن تم نے انہی قبول نہ کیا ۔اب تمہیں اس مٹی کے بورے کے سوااورکچھ نہیں مل سکتا۔وہ صحابی ؓ بورااٹھا کر جلدی سے باہر نکل گئے اورگھوڑے پر سوار ہوکر انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا آجائو ۔بادشاہ ایران نے ایران کی زمین خود اپنے ہاتھ سے ہمارے سپرد کردی ہے ۔اس کے بعد انہوںنے گھوڑوں کو ایڑ لگائی اورلشکر کی طرف روانہ ہوگئے ۔مشرک تووہمی ہوتاہے ۔ایران کے بادشاہ نے جب یہ بات سنی تواس نے لوگوں سے کہا جلدی جائو اوعراس مسلمان افسر سے مٹی کابورا لے آئو ۔یہ تو بڑی بدشگونی ہوئی ۔کہ میں اپنے ملک کی مٹی اپنے ہاتھ سے دشمن کے حوالے کردی ۔لیکن وہ اس وقت تک بہت دورنکل چکے تھے ۔
ملکہ سبا نے بھی چاہاکہ کچھ ہدیئے اورتحائف بھجواکر حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس حملہ سے باز رکھنے کی کوشش کرو ں۔مگرانہوں نے ان تحائف کوردّ کردیا ۔کیونکہ وہ تحفہ نہیں تھے بلکہ ایک رشوت تھی ۔
قال یایھا الملواایکم یاتینی بعرشھا
(اس کے بعد )اس نے (اپنے درباریوں سے مخاطب ہوکر )کہا ۔اے درباریو !تم میں سے کون اس تخت کو میرے پاس لے آئیگا
قبل ان یاتونی مسلمین٭قال عفریت من الجن
پیشتراس کے کہ وہ (لوگ)فرمانبردار ہوکر میری خدمت میں حاضر ہوں ۔(پہاڑی قوموںمیں سے)ایک سرکش سردار نے کہا ۔
انا اٰتیک بہ قبل ان تقوم من مقامک ۔وانی علیہ لقوی
آپ کے (اس)مقام سے جانے سے پہلے میں وہ (عرش )لے آئوں گا ۔اورمیں اس بات پر بڑی قدرت رکھنے والا اور
امین٭قال الذی عندہ علم من الکتٰب انا اٰتیک بہ
امانت دار ہو۔(اس پر)اُس شخص نے جس کو (الٰہی) کتاب کاعلم حاصل تھا کہا کہ میں تیرے پاس اس( تخت )کو
قبل ان یرتد الیک طرفک۔فلما راہ مستقرا عندہ قال
تیرے آنکھ جھپکنے سے پہلے لے آئوں گا ۔پس جب اس نے (یعنی سلیمان ؑ نے)اس کو پاس رکھاہوادیکھا۔تواس نے کہا ۔
ھٰذا من فضل ربی۔لیبلونیٓ ء اشکر ام اکفر۔ومن شکر
یہ میرے رب کے فضل کی وجہ سے ہواہے ۔تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتاہوں یا ناشکری کرتاہوں ۔اورجوشکرکرے
فانما یشکر لنفسہ۔ومن کفر فان ربی غنی کریم٭
وہ اپنی جان کے فائدہ کے لئے ایساکرتاہے ا ورجوناشکری کرے تویقیناً میرارب بے نیاز (اور)بڑی سخاوت کرنے والاہے۔
قال نکھرولھا عرشھا ننظر اتھتدی ام تکون من الذین
(پھر)اس نے کہا کہ اس (یعنی ملکہ)کے لئے اس کاعرش حقیر کرکے دکھائو ۔ہم دیکھیں گے کہ کیا وہ ہدایت پاتی ہے یاان لوگوں میں
لایھتدون٭
سے بنتی ہے جو ہدایت نہیں پاتے ۔۱۷؎
۱۷؎ حل لغات :۔ اَلْعِفْرِیْتُ کے معنے ہیں اَلنَّافِذُ فِی الْاَمْرِ اَلْمُبَالِغُ فِیْہِ مَعَ دَھَائٍ ۔کسی کو کرگذرنے والا۔ اَلْخَبِیْثُ ۔ اَلْمُنْکَرُ ۔بُرااورناپسندیدہ (اقرب)
تفسیر :۔پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے سوچاکہ ہدہد کے اس لائے ہوئے تحفہ سے توکچھ نہیں بنتا۔کوئی اور چیز منگوائو۔ فرمایا۔ اے میرے سردارو پیشتراس کے کہ وہ لوگ میرے پاس فرمانبردار ہوکر آئیں ملکہ کاتخت کون میرے پاس لائے گا ۔وہ لوگ جو خاص باڈی گارڈ تھے ان کا ایک سردار بولاکہ آپ کے چڑھائی کرنے سے پہلے میں وہ تخت لے آئوے گا۔چونکہ وہ سردار لشکر تھا ۔اس کوپتہ تھا کہ اس لشکر کایہاں کتنے عر صہ تک پڑائو ہوگا۔اس لئے اس نے اندازہ کرلیا کہ اتنے دنوں میں ملکہ کومرعوب کرکے وہ تخت لایاجاسکتاہے اورساتھ ہی یہ دعویٰ کیا کہ میں ایک طاقتور سردار ہوں اوراس چھوٹے سے ملک کی فوج میرامقابلہ نہیں کرسکتی ۔اورمیں آپ کا مطیع بھی ہوں ۔اس مال کے لانے میں کسی قسم کی خیانت مجھ سے نہیں ہوگی ۔لیکن ایک اَورشخص جس کو دینی علم حاصل تھا اس نے کہا کہ آپ کے آنکھ جھپکنے سے بھی پہلے میں وہ تخت لے آئوں گا ۔
حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ طرف کے معنے خراج کے ہوتے ہیں ۔مگرمیری نظر سے اب تک یہ معنے نہیں گذرے۔اس لئے جب تک وہ معنے نہ ملیں میں تویہی کہوں گا کہ اس فقرہ کے وہی معنے ہیں جوعام بول چال میں ا ستعمال ہوتے ہیں ۔یعنی جلدی کے ۔چنانچہ جب کسی کام کے جلدی کرنے کاذکرکرناہوتویہی کہاکرتے ہیں کہ آنکھ جھپکنے سے پہلے یہ کام ہوجائے گا۔ پس جب ایک سردار نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ ملکہ سبا کاتخت اس کی فوج سے لڑ بھڑکراس لشکر کے کوچ کرنے سے پہلے لاسکتاہے ۔توایک یہودی عالم بول پڑااوراس نے کہا کہ وہ تخت میں اس شخص کے تخت لانے سے بھی پہلے حاضر کردیتاہوں ۔یعنی جتنی دیر میں یہ غیر یہودی سرردار یااودمی یاعرب کاسردار کام کرے گا اس سے پہلے میں یہ کام کرلوں گا ۔یعنی ایک نیااور اعلیٰ درجہ کاتخت بنواکر حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضر کردوں گا اورچونکہ وہ یہود کاملک تھا ۔اس لئے عبرانی عالم کویقین تھا کہ یہودی ماہرین صنعت میرے لئے بہت جلد یہ کام کردیں گے ۔پس اس نے عفریت سے بھی پہلے عرش لانے کاوعدہ کیا ۔جب حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے یہ تخت پیش کیا گیا ۔اورآپ نے اسے دیکھاتوفرمایا۔ یہ میرے رب کافضل ہے کہ اس نے ایسے ایسے ہوشیار افسر مجھے عطاکئے ہیں اورمیری ہرتمنا پوری ہوجاتی ہے ۔اللہ تعالیٰ یہ دیکھناچاہتاہے کہ میں اس کا شکر گذار بندہ بنتاہوں یاناشکرا۔اورچونکہ سورئہ بغرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ وَمَاکَفَرَ سُلَیْمٰنُ اس لئے قرآن کریم نے ہی اس بات کی وضاحت کردی کہ ان انعامات کے نتیجہ میں سلیمانؑ شکر گذار بناتھا ناشکرانہیں بناتھا ۔
پھرفرماتاہے کہ شکر گذار بنناخود انسان کے لئے فائدہ بخش ہوتاہے اورناشکرگذار ہونے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی ذات میں کامل ہے او راسے کسی کی احتیاج نہیں ۔
اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی شکر گذار ی کے جذبات کااظہار کرنے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے پھر پہلے مضمون کی طرف رجوع کیا اورفرمایا کہ نَکِّرُوْالَھَاعَرْشَھَا۔یہ تخت جو تم لائے ہو ہے تواچھا لیکن میں یہ چاہتاہوں کہ اس کے تخت سے بھی زیادہ اچھا تخت ہو ۔پس تم ملکہ کے لئے اس کے تخت کو حقیر بنادو یعنی ایسا تخت بنائو کہ اس ے اپنا تخت حقیر نظر آنے لگے ۔میں یہ دیکھناچاہاہوں کہ کیاوہ اس بات کو دیکھ کرتسلیم کرلیتی ہے یا نہیں کہ مجھ پر خداتعالیٰ کے بڑے فضل ہیں یااپنے گھمنڈ پر قائم رہتی ہے ۔
فلما جآء ت قیل اھکذا عرشک۔قالت کانہ ھو۔
پس جب و ہ آگئی توکہا گیا کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے ۔اس پر اس نے کہا ۔کہ یوں معلوم ہوتاہے کہ یہ وہی ہے
واوتینا العلم من قبلھا وکنا مسلمین٭صدھا ماکانت
اورہم کو اس سے پہلے ہی علم حاصل ہوچکاتھا اورہم (تیرے )فرمانبردار بن چکے تھے۔اوراس (یعنی سلیمانؑ)نے ملکہ کو اللہ (تعالیٰ)
تعبدمن دون اللہ ۔انھا کانت من قوم کفرین٭
کے سواپرستش کرنے سے روکا۔وہ یقیناً کافرقوم میں سے تھی ۔ ۱۸؎
۱۸؎ تفسیر :۔جب ملکہ آگئی تواس سے کہا گیا کہ یہ تخت جو ہمارے بادشاہ کے پاس پڑاہے کیاتمہاراتخت بھی ایساہی ہے ۔ اس پر اس کاگھمنڈ اس کے راستہ میں حائل ہوگیا۔اوربجائے یہ کہنے کہ کہ یہ تواس سے بہت اعلیٰ ہے اس نے کہا ،۔یوں معلوم ہوتاہے کہ گویایہ ویساہی تخت ہے ۔مگرپھر کہنے لگی ان تدبیروں کی کیاضرورت تھی ۔ہم تو سلیمانؑ کے دین کے حالات سن کر پہلے ہی معلوم کرچکے ہیں کہ اس کادین سچاہے ۔اورہم فرمانبردار بن چکے ہیں ۔
تب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو ان چیزوں کی پرستش کرنے سے روکا جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے سواپر ستش کرتی تھی او راسے وعظ و نصیحت کی کیونکہ وہ کافرقوم میں سے تھی ۔
قیل لھا ادخلی الصر ح۔فلماراتہ حسبتہ لجۃ و کشفت
اوراسے کہا گیاکہ محل میں داخل ہوجائو۔پس جب اس نے اس (محل)کودیکھاتواس کوگہراپانی سمجھا اورگھبراگئی ۔
عن ساقیھا۔قال انہ صرح ممرد من قواریر ۔قالت رب انی
تب اس (یعنی سلیمانؑ) نے کہا ۔یہ تومحل ہے جس میں شیشہ کے ٹکڑے لگائے گئے ہیں ۔تب وہ (ملکہ )بولی ۔اے میرے رب!
ظلمت نفسی واسلمت مع سلیمٰن للہ رب العالمین٭
میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ۔اورمیں سلیمانؑ کے ساتھ رب العالمین خداپر ایمان لاتی ہوں ۔۱۹؎
۱۹؎ حل لغات :۔اَ لصَّرْحُ: (۱)اَلْقَصْرُ۔محل ۔(۲)کُلُّ بِنَآئٍ عَالٍ۔ہراونچی عمارت (اقرب)
لُجَّۃٌ:لُجَۃٌ کے معنے ہیں مُعْظَمُ ُ الْمَآئِ۔گہراپانی ۔اَلْمِرْاٰۃُ ۔آئینہ۔ اَلْفِضَّۃُ۔ چاندی (اقرب)
مُمَرَّدٌ: مَرَّدَ سے اسم مفعول کاصیغہ ہے اور مَرَّدَ الْبِنَآئَ کے معنے ہیں جس پر شیشے لگائے گئے ہوں ۔اوراسے نازک بنایاگیاہے۔
قَوَارِیْرَ:قَارُوْرَۃٌ کی جمع ہے اور قارورہ کے معنے شیشہ کے ہیں (اقرب)پس قَوَارِیْرَ کے معنے ہوں گے شیشے۔
تفسیر :۔مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ملکہ بلقیس سے شادی کرناچاہتے تھے ۔مگر ان کو جنوں نے خبر دی کہ اس کی پنڈلیوں پر بکریوں کی طرح بال ہیں ۔انہوں نے اس بات کی تحقیق کے لئے ایک عظیم الشان محل بنوایا۔ اوراس میں ایک بہت بڑ ا حوض کھدواکر اسے پانی سے لبریز کردیا اورپھر اس پر بلور کے ٹکڑوں کا ایسا فرش لگوایا کہ انسانی نگاہ دھوکہ کھا جائے اوروہ یہ سمجھے کہ صحن میں پا نی بہہ رہاہے ۔جب یہ محل تیار ہوگیا۔توانہوں نے بلقیس کو وہ محل ٹھہر نے کے لئے پیش کیا۔جب وہ صحن میں سے گذرنے لگی ۔ توچونکہ فرش پر شیشہ لگاہواتھا اواس کے نیچے پانی بہہ رہاتھا ۔اس نے سمجھا کہ سچ مچ پانی بہہ رہاہے اورگھبراکر اس نے اپنے کپڑے اُڑس لئے اورپنڈلیاں ننگی کردیں ۔اس طریق سے آپ نے معلوم کرلیا کہ واقعہ میں اس کی پنڈلیوں پر بال موجود ہیں ۔اورپھر آپ نے ایک بال صفا پوڈر تیار کیا جس سے اس کے بال دور ہوئے۔
بعض کہتے ہیں ۔پنڈلیوں کے بال دیکھنے کے لیء حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس قد رانتظام کیا کرناتھا اصل با ت یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے ملکہ کاتخت منگوایاتھا انہیں خیا ل آیاکہ تخت منگوانے سے میری سبکی ہوئی ہے ۔چنانچہ اس سبکی اکاازالہ کرنے کے لئے آپ نے یہ محل بنوایاتاکہ اپنی وقعت قائم کرسکیں ۔مگردنیاکاکوئی بھی سمجھدار انسان کہہ سکتاہے کہ یہ باتیں ایسی ہیں کہ ان کا ذکر خداتعالیٰ کے کلام میں اورخصوصاً آخری شریعت کلے حامل کلام میںہوناچاہیئے تھا۔ان باتوں کانہ تودین سے تعلق ہے نہ عر فان سے اورنہ خداتعالیٰ کے انبیاء ایسے لغو کام کیا کرتے ہیں ۔اصل بات صرف اتنی ہے ۔کہ ملکہ سباایک مشرکہ عورت تھی اورسورج پرست تھی ۔ حضرت سلیمان علیہ السلاام چاہتے تھے کہ وہ شرک چھوڑ دے ۔اس کے لئے آپ نے اسے زبانی بھی نصیحت فرمائی ۔مگرپھرآپ نے چاہاکہ عملاً بھی اسکے عقیدہ کی غلطی اس پر ظاہر کریں ۔چنانچہ اس کے لئے آپ نے یہ طریق اختیار کیاکہ اس کے قیام کے لئے آپ نے ایک ایسامحل تجویز فرمایا جس میں شیشہ کا فرش تھا اوراس کے نیچے پانی بہتاتھا ۔جب ملکہ اس کے فرش پر سے گذر نے لگی تواسے شبہ ہواکہ یہ پانی ہے اوراس نے جھٹ اپنی پنڈلیوں پر سے کپڑااٹھالیا یااسے دیکھ کروہ گھبراگئی ۔(کَشَفَ عَنْ سَاقٍ کے یہ دونوں معنے ہیں )اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے تسلی دی اورکہا کہ بی بی !دھوکا مت کھائو ۔جسے تم پانی سمجھتی ہو یہ تودراصل شیشہ کا فرش ہے اور پانی اس کے نیچے ہے ۔چونکہ پہلے آپ دلائل سے شرک کی غلطی اس پر واضح کرچکے تھے اس نے فوراً سمجھ لیا کہ انہوں نے ایک عملی مثال دے کر مجھ پر شرک کی حقیقت کھول دی ہے اورسمجھایاہے کہ جس طر ح پانی کی جھلک شیشہ میں تجھے نظر آئی ہے اورتونے اسے پانی سمجھ لیاہے ایساہی خداتعالیٰ کا نور اجرام فلکی میں سے جھلک رہاہے ۔چنانچہ اس دلیل سے وہ بڑی متاثر ہوئی اوربے اختیار کہہ اٹھی کہ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔یعنی اے میرے رب میں نے شرک کرکے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے ۔اب میں سلیمانؑ کے ساتھ یعنی اس کے دین کے مطابق اس خداپر ایمان لاتی ہوں جوسب جہانوں کارب ہے اورسورج اورچاند وغیرہ بھی اسی سے فیض حاصل کررہے ہیں ۔
ولقد ارسلنا الی ثمود اخاھم صٰلحاً ان اعبدوااللہ۔
اورہم نے ثمود کی طر ف ان کے بھائی صالح کو ضرو ررسول بناکربھیجاتھا ۔(یہ کہتے ہوئے )کہ اللہ (تعالیٰ)کی عبادت کرو۔
فاذاھم فریقٰن یختصمون٭قال یقوم
پس وہ سنتے ہی دوگروہ ہوگئے جوآپس میں جھگڑنے لگے۔اس (یعنی صالحؑ ) نے کہا اے میری قوم!
لم تستعجلون بالسیئۃ قبل الحسنۃ۔ لولاتستغفرون اللہ
تم خوشحالی کے آنے سے پہلے خراب حالی کے لئے کیوں جلدی کرتے ہو؟کیا تم خداتعالیٰ سے اپنے گناہوں پر استغفار نہیں کرتے
لعلکھم ترحمون٭قالواطیرنا بک وبمن معک۔
تاکہ تم پر رحم کیاجائے ۔انہوں نے کہا(اے صالح!)ہم نے (جتناسوچاہے)تجھے اور تیرے ساتھیوںکو منحوس ہی پایاہے
قال طئرکم عنداللہ بل انتم قوم تفتنون٭
(یعنی تم لو گ اپنی قوم کے لئے کسی ترقی کانہیں بلکہ تباہی کاموجب ہوگے)اس (یعنی صالح) نے کہا ۔تمہاری نحوست کاسبب تواللہ کے پاس ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم ایسی قوم ہو جس کو آزمائش میں ڈالا گیاہے ۔ ۲۰؎
۲۰؎ حل لغات :۔اِطَّیَّرْنَا اصل میں تَطَّیَّرَ سے ہے اوراس میں قلب اورادغام کاقادہ استعمال ہواہے اور تَطَّیَّرَ کے معنے ہیں تَشَائَ مَ یعنی نحوست کاانداز ہ لگایا یانحوست محسوس کی ۔اہل عرب کہتے ہیں اِطَّیَّرَ بِہٖ وَاِطَّیَّرَ مِنْہُ اور مطلب یہ ہوتاہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص سے نحوست کے آثار دیکھے (اقرب)
طَائِرُکُمْ :طَائِر کے معنے پرندے کے ہیں ۔لیکن عر ب لوگ چونکہ پرندوں سے شگون لیا کرتے تھے اس لئے شگون کے لئے بھی طَائِر کالفظ بول لیا جاتاہے چنانچہ مسافر کورخصت کرتے وقت دعاکے طورپر کہتے ہیں سِرْ عَلَی الطَّائِرِ الْمَیْمُوْنِ۔مبارک شگون پر چل ۔اسی طرح کہتے ہیں ھُوَ مَیْمُوْنُ الطَّائِرِ۔اورمراد یہ ہوتی ہے کہ وہ مبارک چہرے والاہ ہے ۔اسی طرح انسانی اعمال کوبھی خواہ وہ اچھے ہوں یا برے طائر کہتے ہیں ۔۔اورستارے کو بھی طائر کہتے ہیں کیونکہ ستاروں سے بھی نحوست اور بھلائی کے حالات معلوم کئے جاتے ہیں
سورۃ الشعرآء مکیۃ
سورۃ شعراء یہ سورۃ مکی ہے ۔
وھی مع البسملۃ مائتان وثمان وعشرون ایۃً واحد عشر رکوعاً
اور بسم اللہ سمیت اس کی دو سو اٹھائیس (۲۲۸) آیتیں ہیں۔ اور گیارہ رکوع ہیں ۱؎
۱؎ زمانہء نزول ۔:سورئہ شعراء اکثر مفسرین کے نزدیک مکی ہے مگر مقاتل کہتے ہیں کہ اس میں کچھ آیتیں مدنی بھی ہیں ۔جیسا کہ اس آیت میں شعراء کا ذکر ہے (آیت ۲۲۵) اسی طرح وہ آیت میں ذکر ہے کہ کیا ا ن کے لئے یہ نشان کم ہے کہ علماء بنی اسرائیل بھی اس قرآن کو پہنچانتے ہیں یعنی سمجھتے ہیں کہ یہ قرآن انبیا ء بنی اسرائیل کی پیشگوئیوں کے مطابق ہے (آیت ۱۹۸)
ابن عباسؓ اور قتادہؓ کا قول ہے کہ اس میں سے صرف چار آیتیں مدنی ہیں باقی سب سورۃ مکی ہے اور وہ چار آیتیں وہ ہیں جو والشعرآء یتبعھم الغاون سے آخر تک چلتی ہیں ۔(آیت ۲۲۵تا ۲۲۸)لیکن اس قسم کی موشگافی کی وجہ یا تو یہ ہو ا کرتی ہے کہ بعض مضامین کو مفسرین مدینہ یا مکہ کے مناسب حال سمجھ لیتے ہیں یا کسی ایسے واقعہ کو جو ان آیات سے مناسبت رکھتا ہے اپنے قیاس کا موجب بنا لیتے ہیں ۔ورنہ بلا کسی خاص دلیل یا تاریخی گواہی کے یہ تفریق پیدا کرنا درست نہیں۔ مثلاً مقاتل نے اولم یکن لھم ایۃً ان یعلمہٗ علمٰٓوابنی اسرآئیل(آیت ۱۹۸)کو صرف اس لئے مدنی قرار دے دیا ہے کہ اس میں علماء بنی اسرائیل کو ذکر ہے حالانکہ سورئہ مریم قطعی اور یقینی طور پر مکی ہے اور وہ ساری کی ساری عیسائیت اور یہودیت کے ذکرسے پُر ہے ۔اسی طرح سورئہ طٰہٰ قطعی اور یقینی طور پر مکی ہے مگر وہ بھی بنی اسرائیل کے ذکر سے پُر ہے ۔اور ابن عباس ؓاور ان کے دو شاگردوںنے آخری آیتوں کو صرف اس لئے مدنی قرار دے دیا ہے کہ ان میں شعراء کا ذکر ہے ۔اور شعر پر زور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ء مدنی میں دیا گیا تھا ۔اس لئے پہلے مسلمانوں میں شاعر نہ تھے اور ان آیات میں یہ ذکر ہے کہ شاعر محض تُک بند ہوتے ہیں سوائے نیک شاعروں کے ۔گر یہ استدلال درست نہیں کیونکہ بغیر کسی واقعہ کے بھی تو اصول بیان کئے جاتے ہیں ۔اگر اسی طرح دلائل قائم کئے جائیں تو شاید ارسطو ؔکی کتب اور سقراطؔکی کتب سے اس کے عجیب و غریب سوانح زندگی تیا ر کرلئے جائیں ۔آخر انسان واقعات سے جُدا ہو کر بھی تو سوچتا ہے پھر اس کے لئے یہ کیا مشکل ہے کہ وہ یہ سمجھ لے کہ اگر قرآن خدا کا کلام نہیں تو بھی اس میں جاری واقعات سے الگ ہو کر بھی کوئی مضمون آسکتا ہے ۔سب سے زیادہ تعجب کی یہ بات ہے کہ یہ غلطی ابتدا میں خود مسلمانوں کو لگی ہے پھر مسیحیوں نے اُسے اُچھالا ہے ۔ مگر جس نے بھی غور کیا ہے باوجود دشمن کے اس استدلال کی غلطی کو سمجھ گیا ہے ۔چنانچہ ریورنڈ وہیریؔ نے اپنی تفسیر میں اس قسم کے استدلال کو غلط قرار دیا ہے اور اس سورۃ کو یقینی طور پر مکی قرار دیا ہے پس اس قسم کے اجتہاد قطعاً درست نہیں ہو سکتا خواہ مسلمان ایسا کریں یا عیسائی کریں ۔سورتوں کا زمانہ ہم صرف تاریخی شواہد سے متعین کرسکتے ہیں ۔اور وہ بھی محض اس حد تک کہ فلاں سورۃ یا اس کا معتدبہ حصہ فلاں زمانہ میں اترا ہے ۔اس سے زیادہ باتیں جو قیاس سے معلوم کی جائیں ہمیں غلطی کی طرف لے جاسکتی ہیں ۔لیکن ان سے فائدہ کوئی نہیں ہو سکتا ۔
ترتیب سُور:سورۃ الفرقان کے آخر میں بتایا گیا تھا کہ یہ خیا ل مت کرو کہ اللہ تعالیٰ اس نظام کو تباہ کردے گا جو اس وقت دیر سے قائم شدہ مذہبوں کے ذریعہ سے دنیا میں جار ی ہے بلکہ یہ سوچو کہ اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو اپنی آواز پر لبیک کہنے اور اپنے اخلاق کو ظاہر کرنے کے لئے پیدا کیا تھا اگر وہ اس غرض کو پورا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ کوایسے انسان یا اس نظام کے قائم رکھنے کی ضرورت کیا ہے ۔ اور اُسے اس کے تباہ کرنے کا غم کیوں ہو ،اب اس سورۃ میں یہ بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی محبت اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کی وجہ سے اس پیش نظر خطرہ سے گھبراتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بجائے تباہی کے اگر انسان کو بچا لیا جائے تو اچھا ہے ۔یہ بے شک ان کی محبت کا ثبوت ہے لیکن خدا تعالیٰ کی سکیم کے مطابق نہیں ۔کیونکہ خدائی سکیم یہ ہے کہ انسان کو علم وعرفان دے کر اس امر کا موقع دیا جائے کہ وہ اپنی مرضی اور اپنی کوشش سے خداتعالیٰ کے قرب کا راستہ تلاش کرے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کے طبعی نتائج بھگتے ۔اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا توا نسان ایک مشین تو بن جاتا لیکن خدا تعالیٰ کی شکل پر بنایا ہوا وجود نہ ہوتا۔ پس باوجود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمدردی اور محبت اور شدید خواہش کے انسان کو خدائی سکیم کے مطابق چلنا ہوگا ۔اس کے بغیر وہ حقیقی نجات نہیں پاسکتا ۔
اس سورۃ سے مسیحیوں اور یہودیوں سے خطاب جو سورئہ یونس سے شروع تھا اُس کا رُخ بدل کر پھر مسلمانوں کی طرف کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے مقطعات میں تبدیلی کی گئی ہے ۔
اس سورۃ کا نام شعرآء اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس سورۃ کا مضمون بتاتا ہے کہ انسانی ترقی قول اور عمل میں یک رنگی سے ہی حاصل ہوتی ہے اور وہ لوگ جو کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں شعراء کی طرح وہ کامیاب نہیں ہوتے ۔گویا بتایا کہ اس زمانہ میں صرف مسلمان ہی ایسے ہونگے جن کا قول و فعل یکساں ہوگا ۔اس لئے وہی جیتیں گے ۔دوسرے لوگ مثالی طور پر شعراء کی طرح ہیں ۔یعنی دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن عمل کم ہے اس وجہ سے مسلمانوں کے مقابل پر نہیں جیت سکتے ۔
سورۃ شعرآء کے مضامین کا خلاصہ
اس سورت کے شروع میں بتایاگیاہے کہ اس سورۃ اوراس کی تابع سورتوں میں اللہ تعالی کی ا ن تین صفات کی تشریح کی گئی ہے ۔(۱) لطیف (۲)سمیع(۳)مجید۔ یعنی اللہ تعالی کے مخفی سے مخفی رازوں سے واقف ہونے ،دعائوں کے سننے اوراس کے مجید ہونے پر یعنی ان قوانین پر جن سے اس کی اعلیٰ شان ظاہر ہوتی ہے ظلم اورجبرثابت نہیں ہوتا اِس سورۃ میں روشنی ڈالی گئی ہے اوراس کے دلائل دئیے گئے ہیں(آیت ۱و۲)
یہ کتاب اپنے دعاوی کے دلائل خود دیتی ہے ۔کسی اَورکی مدد اوروکالت کی محتاج نہیں ہے(آیت ۳)
پچھلی سورتو ںمیں جوکفارکی تباہی کی خبردی گئی تھی اورکہاگیاتھا کہ خداان پر رحم نہیں کرے گا ۔اس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکفار کی خیر خواہی کی وجہ سے سخت تکلیف پہنچی ہے مگریہ غم بیکار ہے ۔کیونکہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ جبراً مومن بناسکتا ہے اوراس کاکوئی فائدہ نہیں ہے(آیت ۴ و۵)
ذاتی طور پر جو لوگ حقا ئق کے ماننے سے دور ہوچکے ہیں اورہرسچائی پر ہنسی اُڑاتے ہیں ۔(آیت ۶و۷)
دنیامیں اللہ تعالیٰ نے ہرضرورت کے سامان پیدا کئے ہیں اورقسم قسم کے جوڑے بنا ئے ہیں پھر کیو ں خدائی سلسلہ میں بھی جوڑے نہ ہوں ۔یعنی مثیل موسیؑ اورمثیلِ عیسیٰؑ پیدانہ ہوں ۔اگرایسا ہوتو قابل اعتراض امرنہیںبلکہ خداتعالی کی طاقت اوراُس کی رحمت ہی کا ثبوت ملتا ہے(آیت ۸تا ۱۰)
کیا یہ لوگ موسیٰ کو نہیں دیکھتے کہ خدانے اُسے فرعون کی طرف بھیجا ۔اوراُس نے جانے سے پہلے بھی اپنے مُلکیوں کی سنگدلی سے خوف کیااورچاہاکہ عذر سن کر اُسے معا ف کیاجا ئے اورہارون کو مقرر کردیاجائے ۔لیکن خداتعالیٰ نے اُس کا عذر نہ سنا کیونکہ وہی سب سے بہتر وجود اس کام کے لئے تھا ہاں ہارون کو اس کے اساتھ ملادیا ۔اورفرمایا کہ جا کر فرعون کو ہماراپیغام سنادو۔ہم تمہارے ساتھ ہوں گے اور اس سے کہہ دوکہ وہ بنی اسرائیل کو ملک سے نکلنے دے ۔(آیت ۱۱تا۱۸)
فرعون نے اس پر سابق احسان جتائے اوراس کی زند گی پر کچھ اعتراضات کئے ۔اوراُسے احسان فراموش قرار دیا ۔موسیٰؑ نے ا ِس کے جوا ب دیئے اورکہا کہ ا گر مَیں ایسا ہو تاتوخدا مجھے اپنی رسالت کے لئے کیوں چن لیتا ۔(آیت ۱۹تا۲۲)
اورپھر کہا کہ تیرے احسان مجھ پر اس جرم کے مقا بل کیا ہیں کہ تُو نے میری ساری قوم کو غلام بنارکھا ہے (آیت ۲۳)
فرعون نے شرمندہ ہوکربات بدلی اورخدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق سوال شروع کردیئے ۔حضرت موسیٰؑ نے جواب دیئے ۔آخر تنگ آکر اُس نے دھمکی دی کہ میرے سواکو ئی اورمعبودمانا توقید کردوں گا ۔موسیٰؑ نے کہا ۔خداکے شواہد تود یکھ ۔اُس نے کہا ۔اگرکچھ شواہد ہیں تولا۔اِ س پرموسیٰؑ نے اپناعصاپھینکا جوفرعون کو ایک اژدہا نظر آیا ۔اورموسیٰؑ نے اپناہاتھ بغل سے نکالا تو و ہ چمک رہاتھا ۔فرعو نے اِن امورکو سحر قرار دیا ۔اورقوم کو بھڑکایا کہ یہ سیا سی فضیلت چاہتا ہے ۔انہوں نے ساحروں سے مقابلہ کروانے کامشورہ دیا ۔سا حر بلوائے گئے تو وہ مغلوب ہوئے اورموسیٰؑ پر ایما ن لے آئے۔ (آیت ۲۴تا ۵۲)
اِ س پر ہم نے موسیٰ کو اپنی قوم ا س ملک سے نکال لے جانے کے کاحکم دیا ۔(آیت ۵۳)
فرعون نے قوم کو غیرت دلائی ۔پیچھا کیا لیکن برباد ہوااورجونعمتیں اُسے حاصل تھیں ویسی ہی نعمتیں موسیٰؑ کو عطاکرنے کی خدانے تدبیر کی (چنانچہ شام کاعلاقہ مصر سے بالکل مشابہ کہاجاسکتاہے بلکہ وہ علاقہ مصرسے بھی بہترہے)(آیت ۵۴تا ۶۰)
فرعون اپنے لشکروں سمیت آگے بڑھا توموسیٰؑ کی قوم ڈری ۔مگر موسیٰ نے تسلی دی ۔پھر اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر موسیٰ کو سمندر میں سے خشک نکال کر لے گیا اورفرعون کو غرق کردیا ۔(آیت ۶۱ تا ۶۹)
پھر ابراہیم کو دیکھ۔ا س نے اپنی قوم کو توجہ دلائی کہ خداتعالیٰ سنتا ہے اورتمہارے بت سنتے نہیں اوربے طاقت ہیں۔انہوں نے جوان دیا کہ کچھ ہو ہم اپنے با پ دادا کے مذہب کو چھو ڑنہیں سکتے۔ابراہیمؑ نے کہا و ہ سب حق کے خلاف تھے لیکن مَیں تو اُسی خداکومانتا ہوں جو فعّال ہے اوردنیا کے کاموں میں اس کا دخل جاری ہے۔اُس کی طرف سے ہدایت بھی آتی رہتی ہے ۔جسمانی رزق بھی آتا رہتا ہے ۔شفابھی آتی رہتی ہے۔موت کے بعد حیات بھی آتی رہتی ہے اورمرنے کے بعد بھی اُسی پرامیدیں ہیں (آیت ۷۰تا۹۰)
اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت چلی ہوئی ہے کہ وہ نیکوں کی مدد کرتا ہے اوربدوں کوسزادیتا ہے ۔مجر م لو گ پہلے تو اکڑتے ہیں ۔لیکن پھر منت و سماجت پر اُتر آتے ہیں ۔یہ سب باتیں خدا تعالیٰ کے باد شاہ رحمن ہو نے پر دلالت کرتی ہیں (آیت ۹۱تا ۱۰۵)
پھر نوحؑ کو دیکھو ۔اُس نے بھی خداتعالیٰ کی طر ف سے مبعوث ہونے کادعویٰ کیا ۔نیکی کی تعلیم دی ۔اوربغیر کو ئی بدلہ لئے خدمت کرنی چاہی ۔لیکن لوگوں نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ اس کے ماننے والے ادنیٰ درجہ کے لوگ ہیں یہ کیونکر جیت سکتے ہیں ۔مگرنوح نے کہا کہ ادنیٰ اوراعلیٰ کا معیار اعمال صالحہ پر ہے ۔نہ کہ قوم اورحکومت پر (آیت ۱۰۶ تا۱۱۶)
مخالفوں نے بجائے جواب کے دھمکیاں دینی شروع کردیں ۔اِ س پرانہوںنے خداسے فیصلہ چاہا ۔اورمخالفوں کے دنیوی سامان سب دھرے کے دھرے رہ گئے ۔اوروہی ہواجو خدانے چاہاتھا (آیت ۱۱۷تا۱۲۳)
پھر عادؔ کے رسول ہودؔآئے ۔اُن سے بھی اِسی طرح ہوا۔انہوں نے بھی قوم کو توجہ دلائی کہ ظاہری شان وشوکت سے قوم زندہ نہیں رہتی باطنی اخلاق سے زندہ رہتی ہے ۔اوروہ تم میں مفقود ہیں۔انہوں نے کہا یہ باتیں پہلے بھی لوگ کہتے رہے ہیں ۔مگر کسی کا کچھ نہیں بگڑا۔ مگرآخر وہ بھی پکڑے گئے ۔(آیت ۱۲۴تا۱۴۱)
پھر ثمودکی قو م کی طرف صالح آئے ۔انہوں نے بھی بے بدلہ خدمت کا اعلان کیا اوربتایاکہ ظاہر ی شان شوکت روحانی طاقت کے بغیر تباہی کی طرف لے جاتی ہے ۔مگرقوم نے انکارکیا کہ اپنے جیسے آدمی کی اطاعت کیوں کریں۔آخر وہ پکڑے گئے ۔(آیت ۱۴۲ تا ۱۶۰)
اِسی طرح لوطؑ آئے اوران کی قوم کی ساتھ بھی اِسی طرح کامعاملہ گذرا۔وہ اخلاقی بدیوں کاشکار تھے۔(آیت ۱۶۱تا ۱۷۶)
پھر اصحاب الایکہ کا زمانہ آیا ۔ا ن کی نبی شعیبؑ کے ساتھ بھی ایساہی معاملہ ہوا۔اوران کے مخالف پکڑے گئے وہ تجارتی بددیانتی کا شکا ر تھے ۔(آیت ۱۷۷تا۱۹۲)
یہ قرآن بھی خدائی کلام ہے اوراپنی دلیلیں خود دیتاہے۔پہلے نبیوں نے اس کی پیشگوئیاں کی ہیں اوربنی اسرائیل کے علما ء بھی اپنی کتب کے ذریعہ سے اس کی صداقت جانتے ہیں ۔پھر وہ اپنی پہلی مخاطب قوم کی زبان میں آیا ہے ۔اگر غیر زبا ن ہوتی تووہ اُسے سمجھ نہ سکتے مگر اب غور نہ کرنے کی کیا وجہ ہے ۔وجہ وہی ہے جو پہلے نبیوں کے نہ ماننے کی تھی ۔یہ عذا ب کے منتظر ہیں مگر جب وہ آیا تواُنہیں کیا فائدہ ہوگا ؟ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ میں سچے ہیں توان کو سمجھ لینا چاہیئے کہ ان کا آنا اصلاح نہ کرنے والوں کے لئے عذا ب کااعلان ہے ۔(آیت ۱۹۳تا ۲۱۰)
لو گ ا س کی تعلیم کو دیکھیں کہ کیا اس میں شیطا ن کی تائید ہے ؟ اگر نہیں توشیطان نے خداکی تائید کیوں کرنی تھی اوروہ اعلیٰ پُرمعارف کلام کس طرح کرسکتا تھا اِس میں تونبیوں والی باتیں ہیں اورنبیوں والی باتوں کو شیطان سن ہی نہیں سکتا ۔پس اے ہمارے رسولؐ! خدائے واحد کی تبلیغ کرتاچلا جا۔اورسب سے پہلے اپنی قوم کو تبلیغ کر۔اورجو ایمان لائیں ان کی تربیت کر اورجونافرمانی کریں اُن سے برأت ظاہر کراورعزیز و رحیم خداپر توکل کر ۔وہ تجھے دیکھتا ہے اورتجھ کو طاقتور بنانے والا ہے ۔عنقریب مسلمانوں کا بکھرے ہوئے ہونا دورہوجائے گا ۔اوروہ ایسی جگہ پر جائیں گے جہاں اُنہیں اکٹھارہنے کاموقعہ ملے گا ۔اوروہ خدائے واحد کی عبادت آزادی سے کریں گے ۔کیونکہ وہ فریادیں سننے والا ہے ۔
شیطان توان لوگوںپر اُترتے ہیں جوجھوٹے اورگنہگار ہو ں۔وہ آسمانی باتیں سننے کے لئے کان رکھتے ہیں اوران میں سے اکثر جھوٹے ہیں ۔اورشعراء کی پیروی آوار ہ گرد لوگ کرتے ہیں ۔جنہیں صرف زبان کا چسکہ ہوتا ہے ۔عمل نہ اُستاد کریں نہ شاگرد۔ لیکن مومن توعبادت گذار اورسچ کے مبلّغ ہوتے ہیں ۔وہ اسچ کی وجہ سے تکلیفیں بھگتتے ہیں اورمجبورہوکر جواباً ہاتھ اُٹھاتے ہیں۔لیکن ان ں کے سچاہونے کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ کمزور ہوتے ہوئے وہ اپنے دشمنوں پر غالب آجاتے ہیں ۔(آیت ۲۱۱تا۲۲۸)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(میں)اللہ (تعالیٰ) کانام لے کر جو بے حدکرم کرنے والا (اور)بار بار رحم کر نے والا ہے (پڑھتا ہو ں)
طٰسٓمٓ٭ تلک آیات الکتٰب المبین ٭
طاہرؔ(اور)سمیعؔ (اور)مجید (خدا اِس سورۃ کا نازل کرنے والا ہے) یہ آیتیں اس کتا ب کی ہیں جو (اپنے مضامین کو )کھول کر بیان
لعلک باخع نفسک الا یکونوامومنین ٭
کرتی ہے۔ شاید تُو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے گا کہ وہ کیوں نہیں مومن ہوتے ۲؎
۲؎ حل لغات ۔مُبِیْنٌ اَبَانَ سے اسم فاعل کاصیغہ ہے اوراَبَانَ لازم اورمتعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ۔یعنی کبھی اِس کے معنے ظاہر ہونے کے ہوتے ہیں ۔چنانچہ اقرب الموارد میں لکھا ہے ۔اَبَانَ الشَّیْئُ اِتَّضَحَ یعنی اَبَانَ الشَّیْئُ کے معنے ہوتے ہیں فلاں چیز ظاہر ہوگئی اوراَبَانَ فُلانٌ الشَّیْئَ کے معنے ہوتے ہیں اَوْضَحَہٗ کسی بات کو خوب واضح اورنمایاں کیا
بَاخِعٌ:بَخَعَ سے اسم فاعل کاصیغہ ہے ۔اوربَخَعَ الشَّاۃَ کے معنے ہیں بَلَغَ بِذَبْحِھَا الْقَضَا۔بکری کی گردن پر چھری چلاتے اوراُسے ذبح کرتے ہوئے کوئی شخص اس کی گردن کے آخری حصہ تک اپنی چُھری لے گیا (اقرب) نیز اَلْبَخَعُ بَخَعَ کامصد رہے ۔اوراس کے معنے ہیں قَتْلُ النَّفْسِ غَمًّا اپنے نفس کو غم کی وجہ سے ہلاک کردینا ۔
تفسیر ۔طٰسٓمٓ جو حروف مقطعات میں سے ہیں اِن میں سے ط لطیف کا سؔسمیع کا اورمؔ مجید کاقائم مقام ہے ۔گویا اس سورۃ اوراس کی تابع سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے محسنِ عظیم ہونے اُس کے مخفی سے مخفی رازوں سے واقف ہونے۔اپنے بندوں کی دعائیں سننے اوراس کے مجید ہونے پر یعنی ان قوانین پر جن سے اُس کی اعلیٰ اوربلند شان ظاہر ہوتی ہے ظلم اورجبر ثابت نہیں ہوتا روشنی ڈالی گئی ہے۔اوراس کے دلائل دیئے گئے ہیں ۔ ۱؎
اسلام کو دوسرے مذاہب پر جو امتیاز ی خصوصیات حاصل ہیں ان میں سے ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسلام نے صفات الٰہیہ کا ایک ایسامکمل نقشہ پیش کیا ہے جوپہلی الہامی کتب میں سے کسی کتا ب میں بھی نہیں پایاجاتا ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک
۱؎ ۔مقطّعات کی تفصیلی بحث کے لئے دیکھیں تفسیر کبیر جلد ۳صفحہ ۷تا ۱۲۔
خداتعالیٰ کی ہستی کو پیش کرنے کاسوال ہے دنیا کی ہرالہامی کتا ب نے اُس کے وجود کو پیش کیا ہے اوراس پر ایمان لانے کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے ۔کیونکہ مذہب کانقطئہ مرکزی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اوراگر کوئی مذہب اللہ تعالیٰ کو ہی پیش نہ کرے تو اُس کاوجود اورعدم برابر ہوجاتاہے۔مگریہ کہ خداتعالیٰ اپنی ذات میں کیا صفات رکھتا ہے یااپنے بندوں سے وہ کس رنگ میں تعلقات رکھتا اوران سے سلوک کرتاہے۔اِن امور پران کتب میں کوئی تفصیلی روشنی نہیں ڈالی گئی ۔صرف یہ کہہ دینا کہ ہماراخدامحبت ہے یاہماراخدابڑادیالو اورکرپالو ہے اُس کی صفاتِ حسنہ کا کوئی حقیقی اورصحیح نقشہ نہیں کہلاسکتا ۔بلکہ اس قسم کی صفات کو خداتعالیٰ کی طرف منسوب کرنا دنیوی خیالات اوررجحانات کابھی نتیجہ کہلاسکتاہے۔مثلاً جب دیکھا کہ لو گ رحم کرنا پسند کرتے ہیں توکہدیا کہ خداتعالیٰ بھی بڑارحم کرنے والا ہے یاجب دیکھا کہ لوگ حسنِ سلوک کو بڑااچھا وصف سمجھتے ہیں توخداتعالیٰ کے متعلق بھی کہدیا کہ وہ بڑاکرپالو ہے ۔پس محض چند صفات کے ذکر سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ پہلے مذاہب نے اس مسئلہ پر کوئی تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔پھر اگر بعض صفات کا ان کتب میں ذکر موجو د بھی ہے تو ان صفات کی تشریح ان میں موجود نہیں اور نہ ہی صفات الٰہیہ کا باہمی تعلق واضح کیا گیا ہے ۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے رئویا میں دیکھا کہ ایک جرمن نو مسلم نے مجھ سے کوئی سوال کیا ہے جس کے جوا ب میں نے اللہ تعالیٰ کی بعض صفات پیش کی ہیں جن میں سے ایک ربّ بھی ہے ۔اس پر اُس جرمن نو مسلم نے کہا کہ ان صفات کا ذکر تو بائیبل میں بھی آتا ہے ۔اس فقرہ کے دونوں معنے ہوسکتے ہیں ۔یہ بھی کہ چونکہ بائیبل میں بھی بعض صفات کا ذکر ہے اس لئے یہ دلائل عیسائیوں پر بھی اثر کرسکتے ہیں اور یہ معنے بھی ہوسکتے تھے کہ گویا قرآن کریم بائیبل کی نقل کرتا ہے ۔میں نے ان دونوں معنوں کا خیال کر کے دل میں سوچا کہ یہ نو مسلم ہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے دل میں یہ خیال آیا ہو کہ قرآن کریم کی بہت سی تعلیم با ئیبل سے ملتی جلتی ہے پھر اس کی فضیلت کیا ہوئی ؟اس خیال کے پیدا ہونے پر میںنے بڑے جوش سے ان کے سامنے تقریر شروع کی کہ بائیبل میں جو یہ صفات آئی ہیں ان سے قرآنی صفات کو امتیا ز حاصل ہے ۔بائیبل میں محض رسمی ناموں کے طور پر وہ صفات بیان کی گئی ہیں اور قرآن کریم نے ان صفات کی باریکیوں کو بیان کیا ہے اور ان مضامین میں وسعت پید اکی ہے اور ان کے راز بیان کئے ہیں ۔چنانچہ میں نے کہا ۔دیکھو ربّ کا لفظ ہے بائیبل نے بھی خدا تعالیٰ کو پیدا کرنے والا یا پالنے والا کہا ہے یا زمین و آسمان کا خالق کہا ہے ۔لیکن قرآن کریم یہ نہیں کہتا بلکہ قرآن کریم سورئہ فاتحہ میں خداتعالیٰ کو ربُّ الْعَالَمِیْنَ کے طور پر پیش کرتاہے اور لفظ ربّ او لفظ عالمین دونوں اپنے اندر امتیازی شان رکھتے ہیں ۔ربّ صرف اسی مضمون پر دلالت نہیں کرتا کہ وہ پیدا کرنے والا ہے اور پالنے والا ہے بلکہ اس امر پر بھی دلالت کرتا ہے کہ وہ نہایت ہی مناسب طور پر انسان کی باریک اور باریک قوتوں اور طاقتوںکو درجہ بدرجہ اور مناسبِ حال ترقی دیتا چلا جاتا ہے ۔اور عالمین کا لفظ محض زمین اور آسمان پر دلالت نہیں کرتا بلکہ زمین و آسمان کے علاوہ مختلف اصناف کی مختلف کیفیتوں پر بھی دلالت کرتا ہے اور یہ مضمون پہلی کتب میں بالکل بیان نہیں ہوا ۔مثلاً عالمین میں جہاں یہ مراد ہے کہ اس جہان کا بھی ربّ اگلے جہان کا بھی ربّ ہے ۔آسمانو ں کا بھی ربّ ہے اور زمینوں کا بھی ربّ ہے ۔وہاں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ عالمِ اجساؔم اور عالمِ ارواح ؔاور عالمِ نساؔء اور عالمِ رجاؔل اور پھر عالمِ ؔفکر اور عالمِ شعورؔ اور عالمِ تصور ؔاور عالمِ تقدیر ؔاور عالمِ عقل ان سب کا بھی وہ ربّ ہے یعنی وہ صرف روٹی ہی نہیں مہیا کرتا ۔وہ صرف انہی چیزوں کو مہیا نہیں کرتا جو جسموں کو پالنے والی ہیں بلکہ وہ ارواح کے بھی پالنے کا سامان کرتاہے اورپھر مختلف تقاضے جو انسان کی فطرت میں پائے جاتے ہیں ان میں سے ہرا یک کی نشوونما کے لئے اس نے قرآن کریم میں تعلیم دی ہے ۔چنانچہ اس قسم کے مضمون پر میں تفصیلی لیکچر ان کے سامنے دے رہا ہوں اور خود مجھے بھی نہایت لذت اور سرور حاصل ہورہا ہے اور میں محسو س کرتا ہوں کہ ایک نیا مضمون اور ایک نئی کیفیت میرے اندر پید اہو رہی ہے ۔یہی لیکچر دیتے دیتے میری آنکھ کھل گئی ۔
غرض اول تو ان کتب میں صفات الٰہیہ پر نہایت اجمالی رنگ میں روشنی ڈالی گئی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی حقیقی شان جلوہ گر نہیں ہوتی ۔ اور پھر جن صفات کا ذکر کیاگیا ہے ان کی بھی تشریح نہیں کی گئی اور نہ ہی صفات الٰہیہ کے باہمی ربط اور تعلق کو واضح کیا گیا ہے لیکن اسلام نے اس بارہ میں ایک جامع تعلیم بنی نوع انسان کے سامنے پیش کی ہے اوربتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے اندر دو قسم کی جلوہ گری رکھتی ہیں ۔اس کا ایک جلوہ تو صفات ؔتنزیہی کے رنگ میں ظاہر ہوتا ہے جو اس کو ان تمام قسم کی کثافتوں سے جو مادیّات میں پائی جاتی اور مخلوقات میں دکھائی دیتی ہیں منزّہ اور پا ک ٹھہراتا ہے ۔اور ایک جلوہ صفاتِ تشبیہی کے رنگ میں ظاہر ہوتا ہے یعنی ایسی صفات کی شکل میں جو مخلوق کی صفات کے مشابہ نظر آتی ہیں چنانچہ وہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو تمام کائنات کا نقطئہ مرکزی ہے وہ اَحَدٌ یعنی اپنی ذات میںاکیلا اور منفرد ہے ۔وہ الصَّمَدُ یعنی ایسی ہستی ہے جس کے سب محتاج ہیں مگر وہ کسی کا محتاج نہیں۔وہ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ ہے ۔یعنی نہ تو اس سے آگے پیداہوتی ہے اورنہ وہ خود کسی کااولاد میں سے ہے ۔و ہ لم یکن لہ کفواً احد ہے ۔ یعنی نہ توکوئی متوازی طاقت ا سکے ساتھ موجود ہے اورنہ اس کے بالمقابل کوئی اورطاقت موجود ہے ۔اول و آخر ہے ۔یعنی تمام اشیاء کی علّت العلل ہے ۔اورسب کی سب مخلوق اسی کی طرف لوٹتی ہے ۔وہ قدیر ہے یعنی ہراس بات پر قادر ہے جس کاوہ ارادہ کرتا ہے۔وہ اَلْحَیُّ ہے یعنی ہمیشہ زندہ رہنے والااوعردوسروں کوزندہ رکھنے والا ہے۔وہ اَلْقَیُّوْمُ ہے یعنی اپنی ذا ت میں قائم اورسب کوقائم رکھنے والا ہے ۔و ہ رَبُّ الْعَالَمِیْن ہے یعنی سب جہانوںکوپیداکرنے والا اوران کو پالنے والاہے۔وہ اَلرَّحْمٰنُ ہے یعنی بنی نوع انسان کو جس قدر ضروریات پیش آنے والی تھیں ان تمام ضرورتوںکو اس نے انسان کی پیدائش سے پہلے ہی محض اپنے فضل سے اورانعام کے طور پرمہیاکردیاہے ۔وہ اَلرَّحِیْمُ ہے یعنی تمام محنتوں اورکوششوں کے اعلیٰ نتائج پیداکرنے والا ہے ۔ وہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہے ۔یعنی ان نتائج کے علاوہ جو اس کی طرف سے طبعی قانون کے ماتحت نکلتے رہتے ہیں اُس نے ہر کام کی ایک انتہامقرر کی ہے ۔جہاں پہنچ کر اس کاآخری فیصلہ صادر ہوجاتاہے اورنیک انسان اپنے کاموںکا اچھا بدلہ اوربُراانسان اپنی برائیو ں کی سزاپالیتاہے ۔مگر یہ بدلے اورجزائیں اللہ تعالیٰ کی مالکیّت کے ماتحت ہوتی ہیں ۔یعنی وہ صرف سزا ہی نہیں دیتا بلکہ اگر چاہتا ہے تواپنے بندوں کو معاف بھی کردیتا ہے ۔وہ عَلِیْمٌ ہے۔یعنی ایک ایک ذرّہ کا اس کو علم ہے ۔بلکہ انسانی فطرت کے مخفی اسرار تک سے آگاہ ہے۔وہ سَمِیْعٌ ہے ۔یعنی لوگوں کی دعائوں اوران کی التجائوں کو سننے والا ہے ۔وہ قھّار ہے یعنی ہرایک چیز اس کے قبضئہ قدرت میں ہے ۔وہ جبّار ہے یعنی ہرفساد کی اصلاح کرتا ہے ۔وہ وھاب ہے یعنی ابندوں کو اپنے انعامات سے وافرحصہ دیتا ہے ۔وہ غَفُوْر ہے یعنی لوگوں کی خطائوں سے چشم پوشی کرتاہے ۔وہ مُھَیْمِن ہے یعنی ہرایک چیز کامحافظ اورنگران ہے ۔ وہ اَلسَّلام ہے یعنی لوگوںو کوسلامتی دینے والا ہے۔وہ اَلقَابِض ہے یعنی ہرایک چیز کو حد کے اندر رکھنے والا ہے۔وہ اَلبَاسِط ہے یعنی کشائش اورفراخی پیداکرنے والاہے ۔و ہ اَلرَّافِع ہے یعنی پستی سے بلندی تک پہنچانے والا ہے ۔ وہ اَلْحَفِیْظ ہے یعنی مخلوق کی حفاظت کرنے والاہے ۔وہ اَلمُتَکَلِّم ہے یعنی لوگوں سے کلام کرنے والا اوران پر اپنے الہامات نازل کرنے والاہے ۔
غرض اسلام ایک کامل الصفات خدادنیا کے سامنے پیش کرتاہے۔وہ عیسائیت کی طرح صرف یہ کہہ کر خاموش نہیں ہوجاتا کہ خدامحبت ہے ۔نہ تورات کی طرح صرف چندصفات بیان کرنے پر اکتفاکرتا ہے بلکہ اس نے ان تما م صفات کا تفصیلاً ذکر کیاہے جن کاانسانی پیدائش کے ساتھ تعلق ہے ۔گویاسب آسمانی ڈیپارٹمنٹس کو اس نے ننگا کرکے دکھادیاہے جو اُس کے مِنَ السَّمَاء ہونے کاثبوت ہے ۔
پھر اسلام نے صرف صفات الٰہیہ کا ایک جامع نقشہ پیش کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ا س نے بنی نوع انسان کو یہ بھی بتایا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرناچاہتے ہو تواس کا طریق یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے یعنی اس کی صفات کی نقل کرنے کی کوشش کرو ۔وہ فرماتا ہے ۔ولقد خلقنٰکم ثم صَوَّرنٰکم ثم قلنا للملٰٓئِکۃِ اسجد والِاٰدم فسجدوااِلَّآ اِبلیس(اعراف ع ۲)یعنی ہم نے تمہیں پیداکیا پھر تمہیں صورت بخشی اورپھر ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کی اطاعت کرو۔اِ س پر فرشتوں نے تو آدم کی اطاعت کی مگر ابلیس نے نہ کی ۔اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کی دوپیدائشیں ہیں۔ایک بشری اورایک روحانی ۔بشری پیدائش کے متعلق تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ولقد خلقنٰکم ہم نے تم کو پیداکیا۔یعنی تمہیں ایک ذی حیات وجود بنایا ۔ثُمَّ صَوَّرنٰکم پھر ہم نے تمہاری ایک روحانی شکل بنائی جس کے ذریعہ سے تم دوسری مخلوق سے ممتاز طور پر پہچانے جاتے ہو ۔اسی کی طرف بائیبل میں بھی ان الفاظ میں اشارہ کیاگیاہے کہ
’’ خدانے انسان کو اپنی صورت پر پیداکیا ۔‘‘(پیداائش باب ۱آیت ۲۷)
لیکن بائیبل نے جوالفاظ استعمال کیئے ہیں ان سے خداتعالیٰ کے جسمانی ہونے کادھوکا لگتاہے ۔لیکن قرآن کریم نے جوالفاظ استعمال کئے ہیں ان سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاں صورت سے روحانی شکل مراد ہے جسمانی نہیں ۔کیونکہ جسمانی پیدائش کا اس سے پہلے ذکر کیاجاچکا ہے ۔پس صَوَّرنٰکم کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے تمہارے اندر صفات الٰہیہ کاحامل بننے کی قابلیت پیداکی یعنی پہلے توہم نے انسان کی جسمانی خلق کی ۔اس کے ناک ،کان ،ہاتھ اورپائوں وغیرہ بنائے اورپھر ہم نے اس کے دماغ کی ایسی تربیت کی کہ وہ صفات الٰہیہ کو اپنے اندر جذب کرنے کے قابل ہوگیا اوراس کے اندر ان کے اظہار کی اہلیّت پیداہوگئی ۔اس کے ابعد ہم نے ملائکہ سے کہا کہ اب تم اس انسان کو سجدہ کرو۔چونکہ قرآن کریم میں اس بات پر بڑازور دیاگیا ہے کہ سجدہ خداتعالیٰ کے سواکسی اَورکے لئے جائز نہیں اس لئے اس سجدہ سے مجازی سجدہ ہی مراد ہے ۔اوراس کے معنی اطاعت اورفرمانبردار ی کے ہیں۔مگر مجازی سجدہ بھی تو مجازی خداکے سامنے ہی ہوسکتا ہے۔اسی لئے فرمایاکہ ثم صوَّرنٰکم ثم قلنا للملئِکۃِ اسجدوالِاٰدم کہ پہلے توہم نے تمہار ے اندر خدائی صفات پیداکیں اورجب تم خدائی صفات کو جذب کرنے اوران کا اظہا کرنے کے قابل ہوگئے توپھر ہم نے ملائکہ سے کہا کہ سجدئہ حقیقی توبہرحال میرے سواکسی اَورکے سامنے ناجائز ہے لیکن ہم تم کو ایک مجازی سجدہ کاحکم دینے لگے ہیںاوراس مجازی سجدہ کے لئے ایک مجازی خداکی ضرورت تھی ۔سووہ مجازی خدا وہ انسان ہے جس کے اند رالٰہی صفات پائی جائیں ۔
لیکن اگر اُسْجُدُوْا سے ہرانسان کے آگے سجدہ کرنا مراد لیاجائے تواس کے معنے یہ بنیں گے کہ وہ چوری کرے توتم بھی چوری میں اس کی مدد کرو۔و ہ ڈاکہ مارے توتم بھی ڈاکہ مارو۔وہ قتل کرے توتم بھی قتل کرو ۔حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔سجدہ بہرحال اسی آد م کے سامنے ہوسکتاہے جوکبھی چوری نہیں کرسکتا ۔کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا ۔کبھی فریب نہیں کرسکتا ۔کبھی شرک نہیں کرسکتا ۔کبھی بددیانتی نہیں کرسکتا ۔کبھی ظلم نہیں کرسکتا ۔اورکبھی کسی خرابی میں مبتلانہیں ہوسکتا اورچونکہ وہ خود ان صفات کاحامل ہوگا جوملائکہ کی صفات سے بڑی ہیں اس لئے اگر ایسے آدم کی اطاعت کی جائے تویہ بالکل درست ہوگا ۔جوشخص خدائی صفات کامظہر ہوگا ملائکہ کی کیاطاقت ہے کہ وہ اس کے خلاف چلیں ۔اس کے متعلق تو ان کا فرض ہوگا کہ وہ اس کے ساتھ چلیں۔پس ہرشخص کے اند ر خداتعالیٰ نے کہ طاقت پیداکی ہے کہ وہ صفاتِ الٰہیہ کا مظہر بن سکے ۔اوراگر وہ اپنے اندر صفات ِ الٰہیہ پیداکرلے توپھر ملائکہ کو حکم دیاجاتاہے کہ وہ اس کی مدد کریں ۔اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اشارہ فرمایاہے کہ جب خداتعالیٰ چاہتاہے کہ اس کے کسی بندے کی مقبولیت دنیا میں پھیلے تووہ ملائکہ کو حکم دیتا ہے اوروہ اس کی مقبولیت دنیا میں پھیلانا شروع کردیتے ہیں ۔(کنز العمال جلد ۶صفحہ ۲۴) پس ہرانسان کے اندر یہ قابلیت ہے کہ وہ صفات الٰہیہ کو اپنے اندر پیداکرلے۔اورجب وہ صفات الٰہیہ اپنے اند ر پیداکرلیتاہے توفرشتوںکو خداتعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیاجاتاہے کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلیں کیونکہ وہ ایک خدانما وجود بن جاتا ہے اوراس کاخداتعالیٰ کے ساتھ اتصال ہوجاتا ہے ۔دنیامیں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہرچیز دوسری چیز کے مشابہ بن کر ہی اُس سے پیوست ہوسکتی ہے ورنہ نہیں۔مثلاً لکڑی کے ساتھ ہم لوہے اورچمڑے کوتو پیوست کرسکتے ہیں کیونکہ ان دونوں میں ٹھو س ہونے کی مشابہت پائی جاتی ہے مگر لکڑی کے ساتھ ہم ہوایا پانی کو پیوست نہیں کرسکتے کیونکہ ان میں مشابہت نہیں پائی جاتی ۔اسی طرح جوچیزیں روحانی ہوتی ہیں ان میں بھی مشارکت کاپایاجاناضروری ہوتاہے ۔پس خداسے ملنے کیح لئے ضروری ہے کہ بندے اورخدامیں روحانی مشارکت ہو اوروہ مشارکت یہی ہے کہ انسان اپنے اندر الٰہی صفات پیداکرے۔جب کوئی شخص اپنے اندر الٰہی صفات پیداکرلیتاہے تو و ہ اپنے اند رالوہیت کارنگ پیداکرلیتاہے اورجب اس کے اندر الوہیت کارنگ آجائے تواس کاخداتعالیٰ سے اتصال اسی طرح ممکن ہوجاتاہے جیسے لکڑی کالوہے سے ۔اورگووہ خدانہیں بن جاتامگرخدانماضرور ہوجاتاہے۔جیسے لکڑی لوہانہیں بن سکتی یالوہالکڑی نہیں بن سکتامگر وہ آپس میں جڑنے کے قابل ہوجاتے ہیں ۔پس خداتعالیٰ سے اتصال اوراس کے قرب کے لئے ضروری ہوتاہے کہ انسان اپنے اندر صفات الٰہیہ پیداکر ے اوراس کی محبت کو اپنے اندر جذب کرے۔پھر جس طرح مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے اسی طرح محبت الٰہی اسے خداتعالیٰ کی طرف کھینچنے لگ جاتی ہے ۔
یہ تعلیم جو اسلام نے دنیاک ے سامنے پیش کی ہے اتنی اہم ہے کہ اگر اس کے مطابق ہرانسان اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی صفات کا مظہر بنانے کی کوشش کرے تویقیناً اس دنیا کانقشہ پلٹ جائے اورہرانسان نیکی کے ایسے بلند مقام پر کھڑاہوجائے کہ جس سے اسکاقد م کبھی منحرف نہ کیاجاسکے ۔یہی حقیقت ایک دفعہ مجھے رؤیا میں بھی بتائی گئی تھی۔مَیں نے ایک دفعہ دیکھا کہ مَیں تقریر کررہاہوں اورمیرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے ۔میں تقریر کرتے ہوئے لوگوں سے کہتاہوں کہ دیکھو انسان کادل خداتعالیٰ نے ایک آئینہ کی مانند بنایاہے ۔جس طرح انسان آئینہ میں اپنا حسن دیکھتا ہے اسی طرح خداتعالیٰ بھی اپنا حسن انسان کے آئینہء قلب میں دیکھناچاہتاہے ۔ پس اگر انسان کا دل خداتعالیٰ کی صفات کو اعلیٰ طور پر ظاہر کرنے والاہو توخداتعالیٰ بھی اس د ل کی قدر کرتا اور اُسے ایک قیمتی متاع قرار دیتاہے ۔لیکن اگر انسان کا دل میلا اورداغدار ہو ۔اوراس میں سے خداتعالیٰ کا چہر ہ نظر نہ آئے یانظرتو آتا ہو لیکن غلط طور پر آتا ہو توخداتعالیٰ بھی ایسے دل کو پرے پھینک دیتا ہے ۔اورجب مَیں نے یہ الفاظ کہے تووہ آئینہ جو میرے ہاتھ میں تھا اُسے مَیں نے زورسے زمین پر دے مارااورکہا کہ ایسے دل کو خداتعالیٰ بھی اُٹھا کر اسی طرح دے مارتاہے اوروہ چُور چُور ہوجاتاہے۔
اِس رؤیا میںیہی نکتہ بتایاگیاہے کہ انسان کو خداتعالیٰ نے اس لئے پیداکیا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کانور ظاہر کرے ۔اور اس کے ذریعہ خداتعالیٰ کی صفات کاظہور ہو۔پس ضروری ہے کہ ہر انسان اپنے دائرہ میں ربّ بھی ہو رحمن بھی ہو رحیم بھی ہو ۔مالک یوم الدین بھی ہو ۔جبار بھی ہو ۔ستّار بھی ہو ۔غفّار بھی ہو ۔علیم ھبی ہو ۔شکور بھی ہو ۔حمید بھی ہو۔مجید بھی ہو ۔ودودبھی ہو۔غرض خداتعالیٰ کی ساری صفات کو وہ ظارہ کرنے والاہو جن کے متعلق مشہوترتویہ ہے کہ وہ ننانوے ہیں مگر ہیں وہ اِس سے بھی زیادہ ۔اگر وہ ایساکرتا ہے تووہ اپنے مقصد حیات کو پوراکرلیتاہے اوراگر اس کے آئینہء قلب میں خدائی صفات کا انعکاس نہیں ہوتا تووہ ایک ٹوٹاہوابرتن ہے جوکسی کام نہیں آتا یاایک میلا اورداغدار شیشہ ہے جس سے خداتعالیٰ کا چہر ہ نظر نہیں آسکتا۔اورجس طرح کو ئی انسان میلا اورداغدار شیشہ اپنے پاس نہیں رکھتا اسی طرح خداتعالیٰ بھی ایساآئینہ اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتا جس کی غرض تویہ تھی کہ وہ خدانمائی کاآلہ بنے مگر میلاہونے کی وجہ سے وہ خدائی حسن کو ظاہر نہیں کرسکتا ۔
غرض اسلام صفات الٰہیہ پر خصوصیت سے زوردیتااوربنی نوع اسنان کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ تمہار اتمام حسن اس امر پر منحصر ہے کہ تم صفات الٰہیہ کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگین کرنے کی کوشش کرو۔اوراس امر کو اچھی طرح یاد رکھو کہ جتنا جتنا کوئی شخص خداتعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیداکرتاچلاجائے گا اُتنا ہی وہ اعلیٰ اخلاق کاحامل ہوگا اوراُسی نسبت سے اُسے اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوگا ۔گویااسلام نیکی اوربدی کی تعریف ایک جدید زاویہء نگاہ سے پیش کرتا ہے اوراعلیٰ اخلاق کی بنیاد صفات الٰہیہ کے انعکاس پر رکھتا ہے ۔یہ نظریہ جو اسلام نے پیش کیاہے اتنا اہم ہے کہ اگرغور سے کام لیاجائے تواس نے مذہبی دنیا میں ایک انقلاب پیداکردیاہے اوراس نے نیکی اوربدی کی تعریف ہی بدل دی ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو گہرے غور و فکر کے عاد ی نہیں صرف اتنا ہی دیکھا کرتے ہیں کہ چونکہ فلاں کام کرنے کوہماراجی چاہتا ہے اس لئے ہم وہ کام کریں گے یافلاں کام کرنے کو چونکہ ہما راجی نہیں چاہتا اس لئے ہم و ہ کام نہیں کریں گے ۔ایسے لوگوںکے نزدیک اچھے کام کی تعریف صرف یہی ہوتی ہے کہ جس کے کرنے پر ان کا جی چاہے اوربُرے کام کی تعریف یہ ہوتی ہے کہ جس کے کرنے کو ان کاجی نہ چاہے ۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تعریف بالکل غلط ہے کیونکہ ہزاروں انسان ایسے ہوتے ہیں جن کا جی کسی کام کے کرنے کو آج توچاہتا ہے مگر کل نہیں چاہتا ۔یاآج توایک شخص چاہنے والی بات کو نہیں چاہتا مگر کل وہ اُسے چاہنے لگتاہے ۔اوراگر اس سے کو ئی شخص سوال کرے کہ تمہارااُس وقت چاہنے اوراب نہ چاہنے یااُس وقت نہ چاہنے اوراب چاہنے کی کیاوجہ ہے تو وہ کہدیتاہے کہ اُس وقت میرے حالات اَورتھے اوراب اَورہیں۔یابسااوقات و ہ کہدیتاہے کہ جب میں نہیں چاہتا تھا تواُس وقت میں غلطی کررہاتھا اوراب جبکہ چاہنے لگاہوں تودرست کررہاہوں ۔ مگر اس کی یکہ بات بھی قطعی نہیں کہلاسکتی ۔کیونکہ عین ممکن ہے کہ کل وہ پھر اپنی چاہی ہوئی چیز سے نفرت کرنے لگ جائے پھر اگر کسی شخص کاکسی کام کو چاہنا ہی نیکی ہوسکتی ہے توفرض کرو زید چاہتا ہے کہ بکر کے باپ کو قتل کردے اوروہ اُسے قتل کردیتاہے توکیابکر اس لئے خاموش رہے گا کہ وہ اِس کام کو چاہتا تھا ؟ یاکسی شخص کاملازم کام میں سستی کرتاہے توکیا اس کاآقا ملاز م کے یہ کہنے پر کہ اس کام کا تعلق میری مرضی کے ساتھ ہے خاموش ہوجائے گا ؟اگر کسی شخص کاکسی کام کوچاہنا ہی نیکی ہوسکتاہے توبکر کااپنے باپ کے قاتل کے خلاف مقدمہ دائر کرنا بے انصافی ہوگا ۔اِ سیطرح آقاکااپنے ملازم کو اس کی سستی پرسزادینا ظلم ہوگا۔کیونکہ زید چاہتا تھا کہ بکر کے باپ کو قتل کردے اورملازم چاہتاتھا کہ وہ کام میں سستی کرے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہی شخص جوخود نیکی اوربدی کے متعلق ایک فارمولاتجویز کرتا ہے اورکہتا ہے کہ جس چیز کو انسان کا دل چاہے وہ نیکی ہے ۔اورجس کو نہ چاہے وہ بدی ۔اُسی شخص کے باپ کو جب کو ئی شخص قتل کردیتا ہے تووہ سخت غصہ میں آجاتاہے اورکہتاہے کہ میں اس سے بدلہ لے کررہوں گا ۔حالانکہ چاہیئے تھا کہ جب اس کے باپ کاقاتل اُسی کے مجوزہ فارمولاپرعمل کررہاتھا تووہ خوش ہوتا کہ اُس نے نیکی کی ہے ۔اِسی طرح ملازم کے سستی کرنے پر اوریہ کہہ دینے پر کہ میراجی چاہتا تھا کہ مَیں سستی کروں وہ خاموش ہوجاتا بلکہ خوش ہوتا کہ وہ نیکی کے راستہ پر گامز ن ہے ۔مگر ایساکبھی نہیں ہوتا۔پس نیکی اوربدی کی یہ تعریف درست نہیں ۔
پھر بعض لوگوں نے اس تعریف سے ذرااَورترقی کی ہے اورکہا ہے کہ جس کام کو سوسائٹی چاہتی ہے و ہ نیکی ہے اورجس کام کو سوسائٹی نہیں چاہتی و ہ بد ہے ۔مگر اس تعریف پر بھی یہ سوال پیداہوتا ہے کہ ہندوسوسائٹی چاہتی ہے کہ گائے نہ کھائی جائے ۔اورمسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ گائے کھائی جائے ۔یاسکھ سوسائٹی چاہتی ہے کہ جھٹکاکھایاجائے اورمسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ جھٹکانہ کھایاجائے ۔اِسی طرح یورپین سوسائٹی چاہتی ہے کہ شراب پی جائے ۔لیکن مسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ شراب نہ پی جائے ۔ اب جبکہ ہندوسوسائٹی یہ چاہتی ہے کہ گائے نہ کھائی جائے کیونکہ ایساکرنا سخت گناہ ہے اورمسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ گائے کھائی جائے کیونکہ اُس کاکھانا ہمارے مذہب میں جائز ہے ۔سِکھ سوسائٹی چاہتی ہے کہ جھٹکاکھایاجائے لیکن مسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ جھٹکانہ کھایاجائے کیونکہ جھٹکاکھاناحرام ہے ۔یورپین سوسائٹی چاہتی ہے کہ شراب پی جائے ۔لیکن مسلمان سوسائٹی چاہتی ہے کہ شراب بالکل نہ پی جائے کیونکہ اس کاپینا حرام ہے ۔توہم کونسی سوسائٹی کی خواہش کے مطابق فیصلہ کریں گے آیا ہم مسلمان سوسائٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریں گے یاسِکھ سوسائٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریں گے یا ہندوسوسائٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریں گے یایورپین سوسائٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریں گے ۔اگر ہم ہندوسوسائٹی کے چاہنے کے امطابق فیصلہ کرتے ہیں کہ گائے کاکھانا سخت جرم ہے تومسلمان کہے گا گائے کھانا جائز ہے ۔اگر ہم سکھ سوسائٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریںکہ جھٹکاکھاناچاہیئے توایک مسلمان کہے گا جھٹکا کھانا حرام ہے ۔اگر ہم یورپین سوسائیٹی کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کریں گے کہ شراب پینی چاہیئے تومسلمان کہے گا شراب پینا حرام ہے ۔غرض ہمیں کوئی سوسائٹی بھی ایسی نظر نہیں آتی جس کے چاہنے کے مطابق فیصلہ کردیاجائے تواس پر باقی تمام سوسائٹیاں متفق ہوجائیں ۔ہزاروں ہزار نیکی اورعیب کی باتیں ایسی ہیں جن میں لوگوں کے اندر شدید اختلاف پایا جاتا ہے ۔ایک سوسائٹی ایک کام کو بہت بڑی نیکی قرار دیتی ہے تودوسری سوسائٹی اس کو بہت بڑاجرم قرار دیتی ہے یاایک سوسائٹی ایک کام کو سخت گناہ سمجھتی ہے تودوسری سوسائٹی اسی کام کو عین ثواب سمجھتی ہے ۔یورپین لوگ شراب کو بہت اچھا سمجھتے ہیں لیکن مسلمان شراب پینا سخت گناہ سمجھتے ہیں ۔آیا ہم شراب پینے کو یورپ کے معیار کے مطابق نیکی قرار دیں یااسلام کے معیار کے مطابق بدی قراردیں ۔ایک یورپین کسی مسلمان کو شراب کاگلاس پیش کرتا ہے اورمسلمان اس کے پینے سے انکار کرتا ہے توکیا ہم یورپ کے معیار کے مطابق مسلمان کے شراب پینے سے انکارکو بدتہذیبی قراردیں گے یااسلام کے معیار کے مطابق نیکی قرار دیں گے ۔آخر کیا وجہ ہے کہ ہم مسلمان سوسائٹی کی بات مانیں اورعیسائی سوسائٹی کی بات کو ردّ کردیں ۔یاعیسائی سوسائٹی کی بات مانیں اورمسلمان سوسائٹی کی بات ردّکردیں ۔
پھر بعض لوگوں نے اورایک قدم اٹھایاہے۔وہ کہتے ہیں نیکی وہ ہے جسے دنیا کے اکثر لوگ اچھا کہیں اوربدی وہ ہے جسے دنیا کے اکثر لوگ براکہیں۔مگریہ تعریف بھی کوئی معین تعریف نہیں کہلاسکتی ۔کیونکہ دنیا کی اکثریت کو اسی صورت میں نیکی اوربدی کی شناخت کاصحیح معیار قرا دیا جاسکتا ہے جب خود اکثریت ہمیشہ ایک بات پر قائم رہے ۔لیکن ہمیں توہرزمانہ اورہرملک بلکہ قوم کی اکثریت کے خیالات ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ایسی صورت میں دنیا کی اکثریت کو نیکی اوربدی کی شناخت کامعیار کس طرح قرار دیاجاسکتا ہے ۔پھر اگر اس تعریف کو درست سمجھاجائے تواس کے معنے یہ ہوں گے کہ اگر اکثریت کہتی ہوکہ خداکوئی نہیں تو اُس وقت خداتعالیٰ کاانکار کرنا نیکی ہوگا ۔اوراگر اکثریت کہتی ہوکہ خداہے توخداکوماننا نیکی ہوگا ۔لیکن دوسرے وقت وہی اکثریت ہستئی باری تعالیٰ کی قائل ہوجائے وتوپھر خداتعالیٰ پر ایمان لانا نیکی قرار پائے گا اوراس کاانکار کرنا بدی قرار پائے گا ۔گویا اکثریت کے عقائد بدلنے کے ساتھ نیکی اوربدی کی تعیین بھی مختلف ہوتی چلی جائے گی پس نیکی اوربدی کی یہ تعریف بھی کو ئی معین تعریف نہیں کہلاسکتی ۔
پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ نیکی و ہ عمل ہے جس سے سب سے زیادہ خوشی حاصل ہو۔اوربدی وہ عمل ہے جو اُنہی حالات میں اُتنی خوشی پیدانہ کرے ۔مگریہ تعریف بھی صحیح نہیں کیونکہ اِس کے معنے یہ ہیں کہ اگرایک شخص کو ڈاکہ مارکر سب سے زیادہ خوشی حاصل ہوتی ہو۔تواس کے لئے ڈاکہ مارناہی سب سے بڑی نیکی ہوگا حالانکہ اِسے کوئی بھی درست تسلیم نہیں کرتا ۔
پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ نیکی وہ ہوتی ہے جس کادنیاکے سب سے زیادہ لوگوںکو فائدہ پہنچے۔لیکن اس تعریف کو صحیح سمجھاجائے توماننا پڑے گا کہ اگر فرانس بلجیم پر حملہ کرکے اُسے لوٹ لے توجائز ہوگا کیونکہ فرانس کے باشندے بلجیم کے باشندوں سے بہت زیاد ہ ہیں بیشک بلجیم کے تھوڑے سے لوگوںکو نقصان پہنچے گا لیکن چونکہ فرانس کے بہت زیادہ لوگوںو کوفائدہ پہنچتاہے اس لئے ان کا بلجیم پر حملہ کرکے وہاں کے مال و متاع کو لوٹ کر لے جانا نیکی ہو گا ۔اسی طرح جو قوم بھی اکثریت میں ہو ۔اس تعریف کے ماتحت اس کے لئے جائز ہوگا کہ و ہ اقلیت کو لوٹ لے اورکہے کہ یہ نیکی ہے ۔اورجب کوئی سوال کرے کہ یہ نیکی کس طرح ہوئی تو وہ کہدے کہ دیکھ لوکتابوں میں اسی طرح لکھا ہے کہ نیکی وہی ہے جس کادنیا کے زیادہ لوگوںکو فائدہ پہنچے ۔اس کے مقابلہ میںاگر اقلیت رکھنے والی قومیں اکثریت پر حملہ کریں اوران کے مال و اسباب لوٹناچاہیں توان کا یہ فعل بدی کہلائے گا ۔کیونکہ اس طرح تھوڑوں کو فائدہ پہنچتا ہے اوربہتوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
پھر بعضوں نے کہا ہے کہ جس چیز کازیادہ سے زیادہ اورلمبے عرصہ تک فائد ہ پہنچے وہ نیکی ہے ۔مگراس تعریف کے ماننے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ اگر کوئی قوم سوسال تک لوٹ مار کرتی ہے تووہ کم نیکی کرتی ہے اوراگر وہ دوسوسال تک لوٹ مارکرتی تو یہ زیادہ نیکی ہوتی۔
پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ نیکی وہ ہے جس سے اپنی ذات کو زیادہ نفع پہنچے اوربدی و ہ ہے جس سے اپنی ذات کو نقصان پہنچے ۔مگر اس پر بھی ایہ اعتراض پڑتا ہے کہ اگر جھوٹ بولنے سے کسی کی ذات کو زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہو تواس تعریف کے ماتحت جھوٹ بولنا بھی اُس کے لئے نیکی ہوگا ۔حالانکہ اسے کوئی بھی درست نہیں سمجھتا ۔
پھر بعض لوگوں نے کہا ہے کہ نیکی اوربدی کی فطرت پر بنیاد رکھنی چاہیئے ۔یعنی جس چیز کو فطرت نیک کہے وہ نیکی ہے اورجس چیز کو فطرت بد کہے وہ بدی ہے۔یہ تعریف ایک حد تک کو درست ہے ۔مگرکلّی طور پر نہیں ۔میں نے بار ہا ایک مثال بیان کی ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تے کہ ایک چور کو میں نے سمجھانا شروع کیا کہ چوری بہت بُرا فعل ہے ۔تمہیں محنت کرکے حلا ل کی کمائی کھانی چاہیئے ۔اُس نے کہا ۔مولوی صاحب ہم چوری کے لئے بڑی محنت کرتے ہیں اورہمیں فلاں فلاں دشواریوں اوردِقّتوں کاسامنا ہوتا ہے ۔اس لئے یہ فعل ہمارے لئے بالکل جائز ہے ۔آخر جب چور کو کہاگیا کہ اگر تم کچھ چُرایا ہواسونا سُنار کے پاس لے جائو اوراس کے پاس رکھ کر ۔دوچار دنوں کے بعد اس سے واپس مانگو اوروہ دینے سے انکار کرے تو پھر کیا ہو ؟ اس پر وہ چو ر کہنے لگا کہ کیاایسا بھی کوئی خبیث ہوسکتا ہے جودوسرے کامال کھاجائے ۔پس بے شک انسانی فطرت بعض باتوں کے متعلق بولتی توہے مگر محدود حد تک ۔کیونکہ انسانی فطرت بسااوقات بُرے ماحول کے نتیجے میں مسخ بھی ہوجاتی ہے ۔
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ پھر نیکی کس چیز کانام ہے اوربدی کس چیز کانام ہے ۔کیانیکی وہ ہوگی جس کومذہب نیکی قراردیتا ہے اوربدی وہ ہوگی جس کو مذہب بدی قرار دیتا ہے ۔لیکن اگر یہ درست ہوتوسوال پیداہوتا ہے کہ کونسے مذہب کی نیکی نیکی کہلائے گی اورکونسے مذہب کی بدی بدی کہلائے گی ۔اوریہ سوال ایساہے کہ اسکاحل کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ دنیا میں کئی مذاہب پائے جاتے ہیں۔اوران کی تجویز کردہ نیکیوں اوربدیوں میں آپس میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے ۔ایک مذہب ایک کام کو نیکی قرا دیتا ہے تودوسرامذہب اُسی کام کو بدی قرا ردیتا ہے ۔اسلئے اس تعریف سے بھی ہمیں نیکی اوربدی کاحقیقی علم حاصل نہیں ہوسکتا ۔پھر سوال یہ ہے کہ اگر کوئی چیز بغیر کسی حکمت کے صرف شریعت کے روکنے کی وجہ سے گناہ ہوتی ہے توشریعت کا یہ فعل لغو قرا رپاتا ہے۔اوراگر بُرائی کی وجہ سے بُری ہوتی ہے تو پھر یہ دلیل نہ ہوئی کہ جو بُری شے ہو اُس سے شریعت روکتی ہے اورپھر اس حکم یانہی کو اُس حکمت کی طرف منسوب کرنا پڑے گا۔صرف یہ کہدینا کافی نہیں ہوگا کہ جس سے شریعت روکے وہ برائی ہے ۔اورجس کاحکم دے وہ نیکی ہے ۔
اسلام ان تمام نظریات کے خلاف دنیا کو بتاتا ہے کہ خداتعالیٰ کی اصفات کی موافقت اختیار کرنانیکی ہے اوراس کی صفات کے خلاف کا م کرنا بُرائی ہے ۔چنانچہ وہ اس بارہ میں مومنوں کو ہدایت دیتے ہوئے فرماتاہے کہ صِبْغَۃَ اللہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَۃً(بقرہ ع ۱۶)یعنی اے مومنو !تم اللہ تعلایٰ کا رنگ اختیار کرو۔اوراللہ تعالیٰ سے بہتراَورکون ہے جس کارنگ اختیارکیا جاسکے یعنی طرح خداربُّ العالمین ہے ۔و ہ الرَّحمٰن اورالرَّحِیْم ہے ۔وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہے اسی طرح تم بھی کوشش کرو کہ تم اُس کی ربوبیتِ عالمین کے مظہر بن جائو ۔تم اس کی رحمانیت کے مظہر بن جائو ۔اُس کی رحیمیّت کے مظہر بن جائو ۔اس کی مَالِکِیَّتِ یَومِ الدِّیْن کے مظہر بن جائو ۔اسی طرح کوشش کروکہ تم بھی ایک سَتَّار بن جائو۔ایک قسم کے غَفَّار بن جائو۔ایک قسم کے قَھَّار بن جائو ۔ایک قسم کے حمید بن جائو ۔ایک قسم کے مجید بن جائو ۔ایک قسم کے شکور بن جائو۔ ایک قسم کے ودود بن جائو ۔تاکہ تمہیں اللہ تعالیٰ سے ایک قسم کی مشارکت حاصل ہوجائے اور تم صفات الٰہیہ کے مظہر بن کر اخلاق کااعلیٰ مقام حاصل کرلو ۔
پس اسلام کے نزدیک حقیقی خو بی وہ ہے جوحسنِ ازلی کے نقشہ میں ہو اورگناہ یاعیب ہر اس فعل کانام ہے جوصفات الٰہیہ کے منافی ہو ۔ اورچونکہ انسان کو خداتعالیٰ کی صفات کامظہر بننے کی طاقت دی گئی ہے ۔یادوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو ۔کہ خداتعالی ااصل ہے اورانسان اسکی تصویر ہے ۔اس لئے تصویر کا حسن اسی میں ہے کہ وہ اصل کے مطابق ہو ۔اورا سکا عیب یہ ہے کہ وہ اصل کے خلاف ہو پس انسان جو عمل بھی ایساکرتا ہے جواسے خداتعالیٰ کی صفات کے موافق بناتا ہے وہ نیکی ہے اورجو عمل اسے خداتعالی کی صفات سے دور لے جاتا ہے وہ بدی ہے ۔گویانیکی کی حقیقی تعریف اسلام نے یہ پیش کلی ہے نیکی اس عمل یاخیال کانام ہے ۔جوخداتعالی سے جو ایک کامل اوربے عیب ذات ہے مشابہت پیداکرتا ہو ۔اوربدی اُس فعل یاخیال کا نام ہے جو اس کامل اوربے عیب ذات کی پسندیدگی یافعل کے خلاف ہو ۔
بیشک ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ مَیں خداتعالیٰ کو ہی نہیں مانتا ۔اس صورت میں ہمارا فرض ہوگا کہ ہم اس کو خداتعالیٰ کی ہستی کے متعلق دلائل دیں ۔لیکن خداتعالیٰ کی ہستی ثابت کردینے کے بعد اخلاقِ صحیحہ کی پہچان کا صحیح معیار یہی ہوگا ۔کہ جو کام الٰہی صفات کے مطابق ہو و ہ اچھا ہے اورجو کام الٰہی صفات کے خلاف ہو و ہ بُرا ہے ۔کیونکہ وہی ایک ایسی ہستی ہے جو ہرعیب سے پاک ہے اورہرقسم کی اعلیٰ صفات رکھنے والی ہے ۔اس تعریف کی تعیین کے بعد ہمارے لئے اخلاق فاضلہ اوراخلاق سیّئہ کی پہچان کچھ بھی مشکل نہیں رہتی کیونکہ جب ایک ماڈل مل جائے تو خیالی تصویر کی ضرورت نہیں رہتی ۔ہم اس بات کو روز روشن کی طرح ثابت کرسکتے ہیں ۔کہ اپنے اندر ہرقسم کی اعلیٰ صفات رکھنے والی ایک ایسی ہستی موجود ہے جس کے نمونہ پر چل کر انسانی فعل درست ہوسکتے ہیں اوروہ ہستی اتنی حسین ہے کہ اس کی نقل کرکے انسانی افعال بھی حسین ہوسکتے ہیں ۔پس اگر خداتعالیٰ کی کو ئی ہستی ہے اورضروررہے اوروہ اپنے اندر تمام قسم کی صفات حسنہ رکھتی ہے ۔توجوبھی اس ہستی کے افعال کی نقل کرے گا اپنے اندر اخلاق فاضلہ پیداکر نے کے قابل ہوجائے گا ۔
پس اخلاق فاضلہ وہ ہیں جو خداتعالیٰ کی صفات اوراس کے افعال کی نقل کر کے حاصل کئے جائیں اوراخلاق سیّئہ وہ ہیں جو اسے خداتعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے سے دور لے جائیں ۔کیونکہ اس اصل منبع اور مبدء خدا ہے اور انسان درحقیقت اس کی ایک تصویر ہے پس جتنا زیادہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی صفات کی نقل کرے گا اتنا ہی زیادہ اس کے اندر اخلاقِ فاضلہ آتے چلے جائیں گے اور جتنا زیادہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی صفات سے دور رہے گا اُتنا ہی زیادہ اخلاقِ فاضلہ سے دور ہوتا چلا جائے گا یہی حقیقت ہے جس کی بنا ء پر اسلامؔ نے صفات الٰہیہ پر خاص طور پر زور دیا ہے اور باربار اُن کا ذکر فرمایا ہے تاکہ اگر ایک طرف یہ صفات اُس کے وجود کا ثبوت ہوںتو دوسری طرف انسان اُن کا مظہر بن کر ایک خدانما وجودبن جائے ۔جس کے اندر حُسن ہی حُسن ہو اور کوئی عیب اور نقض اس میں دیکھائی نہ دے ۔
سورۃ الشعراء کی ابتدا ء بھی اللہ تعالیٰ کی تین صفات کے ذکر سے کی گئی ہے جن میں پہلی صفت جس کی طرف اِس سورۃ میں توجہ دلائی گئی ہے صفتِ لطیف ؔ ہے ۔
لطیفؔ کے معنوں پر بحث کرتے ہوئے لُغت میں لکھا ہے کہ اس کے معنے ہیں اَلْبَرُّ بِعِبَادِہٖ وَالْمُحْسِنُ اَلیٰ خَلْقِہٖ بِاِیْصَاَلِ الْمَنَافِعِ اِلَیْھِمْ بِرِفْقٍ وَلُطْفٍ اَوِالعَالِمُ بِخَفَایَاالْاُمُورِ ودقَائِقِھَا(اقرب الموارد)یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے جب لطیف کالفظ استعمال ہوتواس کے دومعنے ہوتے ہیں ۔اول یہ کہ وہ لوگوں کی خبر گیری کرنے والااورمحبت اوراحسان کے ساتھ ان کا نفع پہنچانے والاہے اوردوسرے یہ کہ وہ اپنی مخلوق کی مخفی سے مخفی باتوں کو جاننے والا اوران کی تمام حاجات اورضروریات کاعلم رکھنے والا ہے ۔ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر نظام عالم پر نگاہ دوڑائی جائے توہمیں یہ دونوں باتیں اپنے پورے کمال کے ساتھ دنیا میںدکھائی دیتی ہیں ۔اوراس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ واقعہ میں ایک لطیف ہستی ہے جس نے اپنی مخلوق کو فائدہ پہنچانے اوراس کی زند گی برقرار رکھنے کے لئے اِ س قسم کی نعمتوں سے اسے نوازاہے ۔اوراس کی بقاء کے لئے اتنے بڑے سامان پیداکئے ہیں کہ کو ئی شخص اگر ساری عمر بھی ان نعمتوں کاشکر اداکرتارہے تب بھی وہ پور ی طرح شکر ادانہیں کرسکتا ۔چنانچہ دیکھ لو اللہ تعالیٰ کا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ آسمان پر لاکھو ں میل دور سور ج اورچا نداورستارے اس کے بندوں کے لئے رات دن اپنے کام میں مشغو ل ہیں ۔اورزمین الگ اپنے کام میں مصروف ہے ۔انسان تھوڑا سابیج ڈال کر اپنے گھر چلاآتاہے مگر تھوڑے ہی عر صہ میں اس چند سیر بیج کے بد لے ہزاروں من غلہ وہ اپنے گھر لے جاتا ہے ۔وہ اپنے گھر میں آرام سے سورہاہوتا ہے اورزمین اس کے کام میں مصروف ہوتی ہے اورا س کے لئے غلہ اُگارہی ہوتی ہے ۔سبزی اُگارہی ہوتی ہے اورانواع و اقسام کے پھل اورپھو ل پیداکررہی ہوتی ہے ۔یہ سویا ہوااُٹھ کر آتا ہے اوراپنی ضرورت کے مطابق اُگااُگایا اورپکا پکایا پھل لے کر چلا جاتا ہے ۔اسی طرح انسانی جسم پر نگاہ ڈالو ۔کا ن ایک چھوٹی سی چیز ہے مگر یہ بھی خداکی عطا ہے ۔ہواکی لہریں جن کے ذریعہ سے ان میں آواز پہنچتی ہے وہ بھی خداکی پیداکی ہوئی ہیں ۔گلے کے پردے جن سے آوا ز نکلتی ہے وہ بھی خداکے پیداکئے ہو ئے ہیں ۔ایک اچھا گویّا انہی پردوں کے ذریعہ سے گاتاہے جو خدانے دیئے ہیں مگر لو گ کہتے ہیں فلاں گویّا کتنا اچھا گاتا ہے ۔یہ لو گ کہتے ہیں فلاں شخص کا حافظہ کتنا تیز ہے ۔مگر اس کے حافظہ والی جگہ یعنی دماغ بھی خدانے بنایاہے ۔دماغ کے اند رجو سیلز ہوتے ہیں و ہ بھی خدا نے بنا ئے ہیں ۔اسی طرح انسان نما ز پڑھتا ہے توزبان جس سے وہ الفاظ اداکر تا ہے خداتعالیٰ کی پداکردہ ہوتی ہے۔جس مقام پر وہ ان الفاظ کو محفوظ رکھتا ہے یعنی دماغ وہ بھی خدانے بنایا ہے ۔وہ رکوع کرتاہے یا سجدہ کرتا ہے یاقیام کرتاہے توا سکے لئے وہ جتنی قوتوں سے کام لیتا ہے وہ سب کی سب خداتعالیٰ کی پیداکردہ ہوتی ہیں ۔انسان کا ان کی پیدائش میں کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔اسی طرح اگر وہ زکوٰۃ دیتاہے توزکوۃ کاروپیہ خداتعالیٰ کادیا ہواہوتا ہے ۔جن طاقتوں سے اس نے روپیہ کمایا تھا وہ بھی خداتعالی کی دی ہوئی تھیں۔جس ہاتھ سے ا س نے زکوۃ دی و ہ بھی خداکادیاہواتھا۔پھر انسان روزہ رکھتا ہے اس میں بھ اس کاکیا ہے اگر خدانے اس کے اند راتنی طاقت نہ رکھی ہو تی کہ وہ دس بار ہ یا پندر ہ گھنٹے بھوکا رہ سکے تووہ کس طرح روزہ رکھ سکتا تھا ۔پس اگر وہ روز ہ رکھتا ہے تووہ بھی خداتعالیٰ کی دی ہوئی قوتوں کے نتیجہ میں ہی رکھتا ہے ۔اپنے زوراور بل پر نہیں رکھتا ۔یامثلاً ایک لوہار اپنے پیشہ سے شہرت حاصل کرتا ہے تووہ اپنے پیشہ میں جس قد رچیز یں استعمال کرتا ہے سب خداتعالیٰ ہی کی عطا ہوتی ہیں ۔لوہے کو خدانے پہلے پیداکیا ہواہے ۔کوئلہ اس نے پہلے سے پیدا کررکھا ہے ۔آگ جس پر وہ لو ہے کو گر م کرتاہے خداتعالیٰ کی پیدا کردہ ہے ۔اعصاب جن سے وہ کام لیتا ہے خداتعالیٰ کے عطاکردہ ہیں ۔غرض جتنی چیز وں سے وہ کام لیتا ہے سب خداکی پیدا کی ہوئی ہوتی ہیں ۔اس کااپنا صرف اراد ہ ہی ہوتا ہے اَورکچھ نہیں ہوتا ۔ لیکن اتنے بڑے انعامات کے باوجود کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ انسان اللہ تعالی کی نعمتوں سے اپنی آنکھیں بند کرلیتاہے ۔ اوراس وقت و ہ ایسا ناشکر ا بن جاتا ہے کہ اسے کو ئی بھی نعمت دکھائی نہیں دیتی ۔کوئی بھی فضل نظر نہیں آتا۔کسی رحمت سے بھی اس کے قلب میں اللہ تعالیٰ کی محبت کاجذبہ پیدانہیں ہوتا ۔
ہم نے بڑے بڑے مالداروں کو دیکھا ہے ۔وہ موٹروں میں پھرتے ہیں ۔دس دس کھانے ان کے دسترخوانوں پر موجو د ہوتے ہیں ۔ مگر جب کھانے کے لئے بیٹھتے ہیں توکہتے ہیں ۔یہ بھی خراب ہے وہ بھی خراب ہے کھانے کاکو ئی مزہ ہی نہیں آتا ۔اس کے مقابلہ میں غریب آدمی کو دیکھو کہ و ہ روٹی کا سوکھا ٹکڑا کس مزے سے کھاتا ہے اورکس طرح وہی ٹکڑا اسے دنیا کی تمام نعمتوں سے زیادہ لذیز معلوم ہوتاہے ۔مجھے یا د ہے ۔میری دوتین سال کی عمر تھی کہ میری آنکھیں دُکھنے آگئیں ۔ڈاکٹروں نے ایسی حالت میں مجھے روٹی کھلانی منع کردی ۔ایک دن صبح کے وقت مجھے آنکھوں میں سخت تکلیف محسوس ہوئی کیونکہ صبح کے وقت رات بھر آنکھ بند رہنے کی وجہ سے پانی اند ربھر جاتا ہے اورآنکھوں میں درد ہوتاہے ۔اوراس کی وجہ سے لازمی طور پر بچہ رونے لگ جاتا ہے ۔بہرحال آنکھیں دُکھنے کی وجہ سے مجھے تکلیف ہوئی اورمیں نے روناشروع کردیا۔ہمارے گھر کی ایک خادمہ نے یہ دیکھ کر مجھے اُٹھالیا اورپچکارنا شروع کردیا ۔اس وقت وہ روٹی کاایک باسی ٹکڑا ہاتھ میں پکڑے ہوئے بڑے مزے سے کھاتی جاتی تھی ۔اورساتھ ساتھ مجھے پچکارتی جاتی تھی ۔مجھے ساری عمر میں کبھی کسی کھانے کا اتنا مزہ نہیں آیا جتنا مجھے اس باسی ٹکڑہ کی خوشبوکا محسوس ہوا۔کیونکہ وہ اپنے دل کے اطمینا ن کیوجہ سے اس باسی ٹکڑہ میں بھی اتنا لطف محسوس کررہی تھی کہ اس نے وہ لطف اورو ہ لذت کااحساس میرے اند ر بھی پیداکردیا ۔حالانکہ وہ بغیر کسی سالن کے اوربغیرکسی ایسی چیز کے کھارہی تھی جو اس ٹکڑے کو نرم کردے ۔مگر جس مزے سے وہ کھارہی تھی اورجس طرح وہ مچاکے ماررہی تھی ۔و ہ مچاکے محسوس کراتے تھے کہ اس کے نزدیک دنیا کاسب سے بڑاکھانا وہی ہے۔لطیفہ یہ ہے کہ ایک تین چار سال کے بعد ایک دفعہ اماں جانؓ نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاراکس چیز کو دل چاہتا ہے تومیری طبیعت پر اس کااتنا اثر تھاکہ میں نے کہا ۔میر اجی چاہتا ہے کہ میں باسی روٹی کھائوں۔توجب انسان قناعت سے کام لے اور شکر گذاری کے جذبات کے ساتھ ہر چیز کو دیکھے تواسے معمولی سے معمولی چیز بھی دنیا کی اعلیٰ ترین نعمت دکھائی دینے لگتی ہے۔
حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سنایا کرتے تھے کہ ایک بڑھیا تھی جو بڑی نیک اورعبادت گذار تھی ۔میں نے ایک دفعہ اس سے کہا کہ مائی مجھے کو ئی خدمت بتائو ۔میں چاہتا ہوں کہ اگر تمہاری کوئی خواہش ہو تو اس کو پوراکرکے ثواب حاصل کروں۔وہ کہنے لگی ۔اللہ کادیاسب کچھ ہے۔مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔میں نے پھر اصرار کیا اورکہا کہ کچھ توبتائو۔میری بڑی خواہش ہے کہ میں تمہاری خدمت کروں۔وہ کہنے لگی ۔نور الدینؓ! مجھے اَور کیا چاہیئے۔کھانے کے لئے روٹی اوراوڑھنے کے لئے لحاف کی ضرورت ہو تی ہے اللہ تعالیٰ مجھے دوروٹیاں بجھوادیتاہے ۔ایک میں کھالیتی ہو ںاورایک میرابیٹاکھالیتاہے ۔اورایک لحاف ہمارے پاس موجود ہے جس میں ہم دونوں ماں بیٹاسورہتے ہیں ۔میں ایک پہلو پر سوئے ہو ئے تھک جاتی ہوں تو کہتی ہوں ۔بیٹا!اپنا پہلو بد ل لے اورمیں دوسرے پہلوپر لیٹ جاتی ہوں ۔اس کاایک پہلو تھک جاتاہے توو ہ مجھے کہتاہے اورمیں اپنا پہلو بدل لیتی ہوں ۔بس بڑے مزے سیی عمر گذر رہی ہے۔اَور کسی چیز کی کیا ضرورت ہے۔میں نے پھر اصرار کیا ۔توکہنے لگی اچھا ۔اگر تم بہت اصرار کرتے ہو توپھر مجھے ایک موٹے حرفوںوالا قرآن لادو ۔میر ی نظر اب کمزورہوگئی ہے اورباریک حرف نظر نہیں آتے ۔موٹے حرفوں والا قرآ ن مل جائے تومیں آسانی سے قرآن پڑھ سکوں گی ۔اب ایک طرف اس بڑھیا کی حالت کو دیکھو اوردوسری طرف اس امر کو سوچو۔کہ اب اگر کوئی چار سوروپیہ ماہوار کماتاہے تووہ بھی بے چین ہے ۔پانچسو روپیہ ماہوار کما تا ہے تو و ہ بھی بے چین ہے ۔دوہزار روپیہ ماہوار کماتاہے تووہ بھی بے چین ہے ۔حالانکہ مال حاصل کرنا اصل مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود راحت اورچین ہوتاہے ۔اوراگر یہی حاصل نہ ہوتو روپیہ لے کرکسی نے کیا کرنا ہے لیکن اگر انسان اپنے دل میں شکر گذاری کا جذبہ پیداکر ے تواسے عالم کاذرہ ذرہ اپنا محسن دکھا ئی دیتا ہے ۔ اورچونکہ عالم کا ہرذرہ خداتعالیٰ کے احسان کے نیچے ہے اس لئے اسے خداہی اپنا محسن حقیقی نظر آتا ہے ۔
حضرت مرزامظہر جان جانا ن ؒ دلی کے ایک بہت بڑے بزرگ گذرے ہیں ۔ان کے متعلق لکھا ہے کہ انہیں لڈّو بہت پسند تھے ۔ دِلّی میں بالا ئی کے لڈو بنتے ہیںجو بہت لذیز ہو تے ہیں ۔ایک دفعہ وہ اپنی مجلس میں بیٹھے ہو ئے تھے کہ کو ئی شخص بالا ئی کے دولڈو ان کے پا س ہدیۃً لایا ۔ان کے ایک شاگر د غلام علی شاہ بھی ا س وقت پا س ہی بیٹھے ہو ئے تھے انہوں نے وہ دونوں لڈو ان کو دے دیئے۔بالائی کے لڈو بہت چھو ٹے چھو ٹے ہوتے ہیں ۔انہوں نے ایک دفعہ ہی وہ دونوں لڈو اُٹھا ئے اورمونہہ میں ڈا ل لئے۔ جب وہ کھا چکے تو حضر ت مرزا مظہر جان جانانؒ نے ان کی طرف دیکھا اورفرمایا۔میاں غلام علی !معلوم ہوتا ہے تم کو لڈو کھانے نہیں آتے ۔و ہ اس وقت تو خاموش ہو گئے مگر کچھ دنوں کے بعد ا ن سے کہنے لگے ۔حضور مجھے لڈوکھانے سکھا دیجئے ۔حضرت مرزامظہر جان جانانؒ نے کہا کہ اگر اب کسی دن لڈو آئیں تومجھے بتایا ۔میں تمہیں لڈوکھانا سکھادوں گا۔کچھ دنوں کے بعد پھر کو ئی شخص ان کے پاس بالائی کے لڈو لایا۔میاں غلام علی صاحب کہنے لگے ۔حضور!آپ نے میرے ساتھ وعدہ فرمایا ہواہے کہ میں تمہیں لڈو کھانا سکھادوں گا ۔آ ج اتفاقاً پھر لڈو آگئے ہیں ۔آپ مجھے بتائیں کہ لڈو کس طرح کھائے جاتے ہیں ۔انہوں نے اپنا رومال نکالا ۔اوراس پر وہ لڈو رکھ کر ایک لڈو سے ذرہ ساٹکڑہ توڑکر اپنے منہ میں ڈالااورسبحان اللہ !سبحان اللہ کہنے لگ گئے ۔پھر فرمانے لگے ۔واہ مظہر جان جاناںؒتجھ پر تیرے رب کاکتنا بڑافضل ہے ۔یہ کہکر پھر سبحان اللہ !سبحان اللہ کہنے لگ گئے اوراپنے شاگرد کو مخاطب کر کے فرمایا۔میاں غلام علی! یہ لڈو کن کن چیزوں سے بنتاہے ۔انہوں نے چیزوں کے نام گنانے شروع کردیئے کہ اس میں کچھ بالائی ہے کچھ میٹھاہے ۔کچھ میدہ ہے ۔یہ سن کر انہوں نے پھر سبحان اللہ !سبحان اللہ کہنا شروع کردیا اورفرمایا۔میاں غلام علی! تمہیں پتا ہے یہ میٹھا جو اس لڈو میں پڑا ہے کس طرح بنا۔انہوں نے بتایا کہ زمیندار نے پہلے گنا بویا۔پھر بیلنے میں اس کو بیلا ۔پھر رس تیار ہو ئی اوراس سے شکر بنائی گئی ۔حضرت مظہر جان جانانؒ فرمانے لگے ۔دیکھو وہ زمیندار جس نے شکر کو بویاتھاو ہ کس طرح اپنے بیوی بچوں کو چھو ڑکر راتوںکو اُٹھ اٹھ کر اپنے کھیتو ں میں گیا اس نے ہل چلایا ۔کھیتوںکو پانی دیا اورایک لمبے عرصہ تک محنت و مشقت برداشت کرتارہا۔صرف ا سلئے کہ مظہر جان جانانؒ ایک لڈو کھالے۔یہ کہہ کر وہ پھر اللہ تعالی کی تسبیح و تحمیدمیں مشغول ہوگئے ۔اورتھو ڑی دیر بعد فرمانے لگے ۔چھ ماہ زمیندار اپنے کھیت کو پانی دیتا رہا۔پھر کس محنت سے اس نے نیشکر کو بیلا ۔اس سے رس نکالی اورپھر آگ جلا کر کتنی دفعہ وہ اس دنیا کے دوزخ میں گیا ۔محض اس لئے کہ مظہر جان جانانؒ ایک لڈو کھالے ۔اس کے بعد انہوں نے اسی طرح میدہ اوربالائی کے متعلق تفاصیل بیان کرنی شروع کردیں ۔کہ کس طرح ہزاروںآدمی دن رات ان کاموں میں مشغول رہے ۔انہوں نے اپنی صحت کی پرواہ نہ کی۔انہوں نے اپنے آرام کو نہ دیکھا انہوں نے اپنی آسائش کو نظر انداز کردیا ۔اوریہ سارے کام خداتعالیٰ نے ان سے محض اس لئے کرائے کہ مظہر جان جانان ایک لڈو کھالے ۔یہ کہہ کر ان پر پھر ربودگی کی کیفیت طاری ہوگئی اوروہ سبحان اللہ ! سبحان اللہ کہنے لگ گئے ۔اتنے میں عصر کاوقت آگیا اوروہ اٹھ کر نماز کے لئے چلے گئے ۔اورلڈو اسی طرح پڑارہا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی ہم نے دیکھا ہے ۔آپ کا یہ طریق تھا کہ جب آپ روٹی کھاتے توروٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا توڑکر اپنے منہ میں ڈال لیتے اوراس وقت تک کہ دانت اسکو چباسکیں اچھی طرح چباتے رہتے ۔آپ کی عادت بڑالقمہ لینے کی نہیں تھی بلکہ آپ ہمیشہ چھوٹا لقمہ لیتے اورجہاں ا س لقمہ کو دیر تک چباتے رہتے وہاں روٹی کاایک اَور ٹکڑا لے کر اپنے ہاتھ میں ملتے جاتے اورساتھ ہی سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے جاتے ۔کچھ دیر کے بعد اس میں سے کوئی ٹکڑہ سالن لگا کر منہ میں ڈال لیتے اورروٹی کے باقی ٹکڑے دسترخوان پر پڑے رہتے دیکھنے والے بعض دفعہ کہا کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام روٹی کے ٹکڑوں میں سے حلال اورحرام ذرّے الگ الگ کرتے ہیں اورچونکہ روٹی کے بہت سے ٹکڑے آپ کے دسترخوان پر جمع ہوجاتے تھے اس لئے جب آپ کھانے سے فارغ ہوجاتے تولو گ تبرّک کے طور پر ان ٹکڑوں کو آپس میں تقسیم کرلیاکرتے تھے۔
تواللہ تعالیٰ کی رحمتیں اوربرکتیں اتنی وسیع ہیںکہ اگر انسان غور کرے اورسوچے تواسے معلوم ہو کہ ہرقدم جو انسان اٹھا تاہے ۔ہرلمحہ جو انسانی زندگی پر گذرتاہے۔ہرساعت جو اس پر آتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں اوراس کی بے انتہاء برکات کو اپنے ساتھ لے کر آتی ہے اورپھر اگر انسان اورزیادہ غور کرے تواسے معلوم ہوکہ ساراجہان اس کی خدمت میں لگا ہواہے ۔اوردن رات اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے وہ حصہ پارہا ہے ۔ہرہاتھ جو وہ لمباکرتاہے ۔ہرآنکھ جو وہ جھپکتا ہے ۔ہرآوازجو وہ سنتاہے ۔ہر تھوک جو وہ نگلتاہے اللہ تعالیٰ کے فضل اوراس کے احسان کا ہی نتیجہ ہے ۔ورنہ خودانسان میں یہ کہاں طاقت تھی کہ وہ ایساکرسکتا ۔اگرڈاکٹر ہائیڈروکلورک ایسڈ پلا پلا کرانسان کی قوت ہضم کو درست کرتے تو وہ چند دنوں کے اند ر اند رمرجاتا ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کے اند ر ایسی مشین لگادی ہے کہ جونہی کو ئی غذااستعمال میں آتی ہے و ہ مختلف قسم کی تبدیلیوں کے بعد اسے انسانی خو ن میں شامل کردیتی ہے ۔اورپھر خو ن اس غذا کو لے کر فوراً دل میں پہنچتا ہے جہاں اس کی صفائی کے لئے اسے پھیپھڑوں میں سے گذاراجاتاہے ۔پھر صاف شدہ خون د ل کے بائیں حصہ میں آ نے کے بعد ایک بڑی رگ کے ذریعہ دل سے باہر نکلتاہے جو آگے چل کر دوحصوں میں منقسم ہوجاتی ہے ۔ ایک حصہ سرکی طر ف خو ن لے جاتاہے اوردوسرا حصہ دل کے مقام کے نچلے حصہ کی طرف خو ن لے جاتاہے۔اوراس طرح ہرعضو اپنی اپنی ضرورت کے مطابق غذا حاصل کرلیتاہے ۔مثلاً دماغ کے وہ اعلیٰ حصے جو عقل اورشعور کے مرکزہیںوہ اس سے اپنی غذالے لیتے ہیں اورجسم کے مختلف اعضاء کو حرکت میں لانے والے مراکز اپنی غذالے لیتے ہیں ۔اسی طرح آنکھ،کان ،ناک ،زبان اوردوسرے اعضاء اپنی غذالے لیتے ہیں ۔غرض ایک عظیم الشان نظام ہے جو زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کے اند رجاری کیاہواہے ۔
لوگ کارخانے دیکھتے ہیں توتعجب کرتے ہیں ۔چکیّوںکو دیکھتے ہیں توحیران ہوجاتے ہیں ۔کہ یہ کس طرح آٹاپیس رہی ہیں۔مگرانہیں کبھی احساس نہیں ہوتا کہ ان تمام مشینوں سے ایک بڑی مشین اللہ تعالیٰ نے خود انسانی جسم کے اندر پیداکررکھی ہے ۔جو پیس بھی رہی ہے ۔جوصاف بھی کررہی ہے۔جوطاقت بھی پہنچا رہی ہے ۔جس طرح بعض مشینیں ایسی ہوتی ہیں جومیدہ الگ نکالتی جاتی ہیں اورسبوس الگ نکالتی جاتی ہیں اسی طرح انسانی جسم میں اللہ تعالیٰ نے جو مشین بنارکھی ہے ان میں سے کوئی خون صالح پیداکرتی ہے ۔ کو ئی عقل کو طاقت دیتی ہے ۔کوئی سمع کو طاقت دیتی ہے ۔کوئی بصر کو طاقت دیتی ہے ۔کوئی قوت گویائی کو طاقت دیتی ہے ۔غرض ایک نظام ہے جو انسان کے اندر د ن رات کام کررہاہے ۔اوربیسیوں چیزیں ہیں جو اس سے پیداہوتی ہیں ۔ان میں سے کو ئی انسانی حِس کو طاقت دیتی ہے۔کوئی قوت شامہ کو طاقت دیتی ہے۔کوئی اعصاب کو طاقت دیتی ہے ۔اسی طرح انسانی جسم میں مختلف قسم کے ڈیپارٹمنٹ بنے ہوئے ہیں ۔اتنے بڑے ڈیپارٹمنٹ دنیوی گورنمنٹوں میں بھی نہیں ہوتے جتنے انسانی دماغ میں اللہ تعالیٰ نے بنائے ہوئے ہیں ۔مگرانسان کو احساس بھی نہیں ہوتاکہ مجھ پراللہ تعالیٰ کے کیاکیا احسانات ہورہے ہیں ۔وہ اندھے کی طرح گذ ر جاتاہے اوراس کادل اللہ تعالیٰ کی محبت سے ہمیشہ خالی رہتاہے ۔لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ آپ کھاناکھاتے تو بسم اللہ پڑھتے۔کھاناکھاچکتے تواللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ۔اسی طرح کپڑے پہنتے توخداتعالیٰ کی حمد کرتے حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے ہی کیاتھے بہت معمولی اورسادہ کپڑے ہواکرتے تھے۔آجکل ململیں اورلٹھے اورکئی قسم کے ارام دہ کپڑے لوگ پہنتے ہیں ۔اوران کے دلوں میں خداتعالیٰ کے شکر کاکوئی جذبہ پیدانہیں ہوتا۔وہ مومن کہلاتے ہیں وہ خدااوراس کے رسول ؐکوماننے والے کہلاتے ہیں مگرانہیں کبھی خیال نہیں آیا کہ خداکاوہ رسول جس کے متعلق یہ کہاگیاتھا کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ ۱؎ اسے اپنے پہننے کے لئے جو کپڑے نصیب ہوئے ان سے ہزاروں گنازیادہ اعلیٰ اورزیادہ آرام دہ کپڑے آج ہرادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کو نصیب ہیں ۔مگرحالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اوراس کے شکر کے جواعلیٰ ترین جذبات معمولی کپڑے پہن کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں پیداہوتے تھے وہ آج ہمارے دلوں میں پیدانہیں ہوتے ۔یہ تمنااورخواہش پیدانہی ہوتی کہ کاش یہ نعمتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتیں کیونکہ ان نعمتوں کے اصل مستحق آپؐ ہی تھے ۔
حضر ت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اورکہنے لگا ۔میں سیّد ہوں ۔میری بیٹی کی شادی ہے ۔آپ اس موقعہ پر میری کچھ مدد کریں ۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ یو ں تو بڑے مخیّر تھے مگرطبیعت کا رجحا ن ہے جو بعض دفعہ کسی خاص پہلو کی طرف ہوجاتا ہے ۔آپ نے فرمایا۔میں تمہاری بیٹی کی شادی کے لئے وہ ساراسامان تمہیں دینے کے لئے تیار ہوں جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہؓ کو دیاتھا ۔وہ یہ سنتے ہی بے اختیار کہنے لگا ۔آپ میری ناک کاٹناچاہتے ہیں ۔حضر ت خلیفہ او ل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تمہاری ناک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناک سے بڑی ہے ۔تمہاری عزت تو سیّد ہونے میں ہے ۔پھر اگر اس قدر جہیز دینے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک نہیں ہوئی تو تمہاری کس طرح ہوسکتی ہے ۔
تو حقیقت یہ ہے کہ آج ایک ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان بھی دنیوی نعمتوں کے لحاظ سے اس سے زیادہ نعمتیں رکھتا ہے جتنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پائیں مگرا سکا دل محبت کے جذبات سے خالی ہوتاہے ۔وہ ہزاورں گنازیادہ نعمتیں دیکھ کر بھی اپنے رب کا شکریہ ادانہیں کرتا ۔لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں خداتعالیٰ کے شکر کے جذبات اس قسم کے پائے جاتے تھے کہ آسمان سیی جب بارش برستی تووہ زمیندار جس کی کھیتیاں اس بارش سے تیار ہوتیں خاموشی کے ساتھ گذر جاتا ۔اسے پانی جمع کرتے ہوئے کبھی خیال بھی نہ آتا کہ یہ کہاں سے آگیاہے ۔وہ شہر جن میں کنوئیں نہیں ہوتے اورجہاں کے رہنے والے بارش پر تالابو ں میں پانی جمع کرلیتے ہیں تاکہ سال بھر ان کی ضروریات پوری ہوتی رہیں وہ بھی اپنے لئے اوراپنے جانوروں کے لئے پانی جمع کرتے مگران کے دلوں میں بھی یہ احساس پیدانہ ہوتاکہ ان کے رب نے ان پر یہ کتنا بڑا احسان کیاہے کہ وہ سورج کی شعاعوں کے ذریعے سمندروں کا پانی بخارات کی صورت میں تبدیل کرتا اورپھر ہوائوں کے ذریعے ان کے ملک میں لاکر برسادیتاہے ۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن کے نہ تالاب تھے نہ کھیتیاں تھیں نہ جانور تھے بارش آتی توآپؐ کمرہ سے نکل کر باہر صحن میں آجاتے ۔اپنی زبان باہر نکال
۱؎ فوائد المجموعہ مصنفہ علامہ شوکانی ص ۱۱۶ و موضوعات کبیر ص ۷۰۔
لیتے اورجب اس پر پانی کا قطرہ گرتا توآپؐفرماتے ۔یہ میرے رب کاتاز ہ احسان ہے ۔یہ محبت اورپیار کاکیسا دلفریب رنگ ہے ۔ لوگ پلائو اورزردہ کھا کربھی خداتعالیٰ کی محبت کاجوش اپنے دلوں میں نہیں پاتے اواس کے فضلوں کے شکر گذار نہیں ہوتے ۔لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تعالیٰ سے محبت اس پایہ کی تھی کہ آپؐ اپنی زبان باہر نکال کر اس پر بارش کا قطرہ لیتے اوراخداتعالیٰ کی اس تازہ نعمت کاشکر اداکرتے۔اسی وجہ سے قرآن کریم میں بار بار اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر اداکرو۔ اوراس کے احسانات کوہمیشہ یا د رکھو ۔جب انسان ہر چیز کو خداتعالیٰ کا نعام سمجھتا اوراس کی نعمتوں کی قدر کرتاہے تواسے ایک ایسی سیڑھی مل جاتی ہے جو اسے خداتعالیٰ تک پہنچا دیتی ہے۔نہ شیطان اس کی راہ میں روک بنتا ہے اورنہ اس کا نفس اسے نیچے گراسکتا ہے ۔وہ اس سیڑھی پر چڑھتے ہوئے سیدھا خداتعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے ۔کیونکہ اس کے دل میں خداتعالیٰ کے احسانات کو دیکھ دیکھ کر شکر کامادہ پیداہوجاتاہے جواسے اوپر ہی اوپر لے جاتا ہے نیچے گرنے سے اسے کلی طورپر محفوظ کردیتا ہے ۔
لطیف کے دوسرے معنے جیساکہ اوپر بتایاجاچکا ہے اَلْعَالِمُ بِخَفایَا الاُمُورِ وَدَقَائِقِھَا کے ہیں ۔یعنی ایسی ہستی جو تمام امور کے مخفی درمخفی پہلوئوں کو جاننے والی اورکائنات عالم کے تمام اسرار اورغوامض کاعلم رکھنے والی ہے ۔ان معنوں کے لحاظ سے اس میں یہ اشار ہ کیا گیاہے کہ انسان کی نگاہ اپنے تمام علوم اورایجادات کے باوجود صرف ظاہر تک محدود رہتی ہے ۔ا ن امور کے پس پشت جو اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان غیب کام کررہاہوتاہے اورجو باریک د رباریک حکمتیں ان میں مخفی ہوتی ہیں ان سے وہ آگاہ نہیں ہوتا اوراگر کائنات عالم کے رموز اوراسرار اس پر منکشف ہوتے ہیں تواسی وقت جب اللہ تعالیٰ اپنی صفتِ لطیف کے ماتحت اسے اپنے حقائق سے آشناکرتااوراخفاء کے پردوں کو اس کی آنکھوں سے دور کرتاہے ۔اسی کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ تولوگوں سے یہ کہدے کہ وَلَوْ کُنْتُ اَعلمُ الغیبَ لَامْتَکْثَرْتُ مِنَ الخَیرِ ۔وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْٓئُ(اعراف آیت ۱۸۹)یعنی اگر میں غیب کا واقف ہوتاتوبھلائیوں میں سے اکثر اپنے لئے جمع کرلیتااورمجھے کبھی کو ئی تکلیف نہ پہنچتی ۔درحقیت اگر غور سے کام لیا جائے تواللہ تعالیٰ نے علم غیب کو اپنے ہاتھ میں رکھ کر انسان کے لئے دوبرکتیں پیداکردی ہیں ۔ایک برکت تو پر دئہ غیب کی وجہ سے اسے حاصل ہوتی ہے اوترایک برکت کشف غیب کی وجہ سے اسے حاصل ہوتی ہے ۔پردئہ غیب کی وجہ سے جو برکت اسے حاصل ہے وہ تو اس سے ظاہر ہے کہ انسان کی ساری زندگی جدوجہدسے تعلق رکھتی ہے اورجدوجہد کی ساری بنیاد ہی غیب پرہے ۔اگر غیب کا پردئہ حائل نہ ہو تو سعی و عمل کاساراسلسلہ ختم ہوجائے ۔مثلا بچوں کو ان کے والدین سکول میں پڑھنے کے لئے بھیجتے ہیں ۔اوروہ بھی اگر محنتی اورذہین ہو ںتووہ سمجھتے ہیں کہ ہم اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے دنیا میں عزت حاصل کرلیں گے ۔لیکن کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ جب ان کا امتحان قریب آتا ہے توان میں سے بعض لڑکے بیماریوں یااچانک حادثات کی وجہ سے وفات پاجاتے ہیں ۔اب اگر خداتعالیٰ نے علم غیب اپنے ہاتھ میں نہ رکھا ہوتا اورایک طالب علم کو یہ یقینی طور پر معلوم ہوتا کہ میں نے پندرہ سال کی عمر کو پہنچ کر مرجانا ہے ۔تووہ اسی وقت سے مغموم رہنا شروع کردیتا ۔اوراس کے والدین بھی رونے پیٹنے لگ جاتے اوروہ اپنی عمر کو بالکل ضائع کردیتا ۔لیکن پردئہ غیب کے حائل ہونے کی وجہ سے وہ برابر محنت کرتا چلا جاتاہے ۔ اورگوبعد میں آکر وہ فوت ہو جاتاہے مگر جس طرح ایک ٹوٹنے والے ستارے کی روشنی سے بھی کئی بھولے بھٹکے مسافر راہ پالیتے ا ورکئی گڑھوں میں گرتے ہوئے سنبھل جاتے ہیں ۔اسی طرح وہ دوسرے لڑکوں کے لئے ایسی روشنی چھو ڑجاتاہے جو ان کی ترقی کاموجب بن جاتی ہے ۔کیونکہ کئی لڑکے ایسے تھے جن کے سامنے اگراس کاوجود نہ ہوتا۔تووہ کبھی محنت نہ کرتے ۔انہوں نے اگر محنت کی تواسی لئے کی کہ اس لڑکے کی محنت اورذہانت کودیکھ کران کے دلوں میں بھی رشک پیداہوا۔اورانہوں نے بھی تعلیم میں دلچسپی لینی شروع کردی اوررفتہ رفتہ وہ ترقی کرگئے ۔
اسی طرح انسان اپنے دوستوں اوررشتہ داروں میں پھر تاہے ۔جن میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی دوستی خود غرضانہ ہوتی ہے ۔یاو ہ اپنے دل میں اس کے خلاف کئی قسم کے منصوبے سوچتے رہتے ہیں ۔یا اس کے رشتہ دار بظاہر اس سے محبت کرتے ہیں ۔ لیکن وہ اپنے دلوں میں اس کے بد خواہ ہوتے ہیں ۔اگر پردئہ غیب حائل نہ ہوتا اورانسان کو پتہ لگ جاتا کہ میرافلاںدوست اپنے دل میں میرے متعلق اس قسم کے خیالات رکھتاہے یامیرافلاں رشتہ دارمیرابدخواہ ہے توایک قیامت برپاہوجاتی ۔جس گھر میں دیکھو لڑائی ہورہی ہوتی ۔ایک کہہ رہاہوتا کہ تم نے میرے خلاف فلاں فلاں بات کیوں سوچی تھی۔اوردوسراکہہ رہاہوتاکہ تمہارے دل میں میرے خلاف اس قسم کے خیالات کیوں آرہے تھے ۔بیوی خاوند یس ناراض ہوتی اورخاوند بیوی سے ناراض ہوتا۔اورامن اورسکون دنیا سے اٹھ جاتا۔پس پردئہ غیب جو اللہ تعالیٰ نے حائل کررکھا ہے یہ اس کی ایک بڑی رحمت ہے ۔
پھر اگر پردئہ غیب نہ ہوتا تولڑائیوں میں تمام دنیا تباہ ہو کررہ جاتی ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔اَلْحَربُ خُدْعَۃٌ ۱ ؎ ۔یعنی لڑائی لڑنے کاساراکمال اس میں ہے کہ سب باتیں پردئہ اخفاء میں رہیں اورلڑنے والے اپنی سیاست اورتدبیر پر اعتماد کریں۔لیکن اگر پردئہ غیب نہ ہوتا اورجنگوں میں ایک طرف والوں کو پتہ لگ جاتا کہ ہمارادشمن اس وقت فلاں جگہ پر ہے تووہ اپنی توپوں کا منہ عین اسی طرف کردیتے جدھر دشمن ہوتا۔اسی طرح دوسری طرف سے بھی توپوں کے گولے عین اسی جگہ آکر گرتے۔جہاں دشمن موجود ہوتا اوراس طرح کوئی متنفس بھی نہ بچ سکتا۔اب توایساہوتاہے کہ اگر ایک لاکھ فوج میدان میں جاتی ہے تواس میں سے چند ہزار مرجاتے ہیں اورباقی فوج صحیح وسلامت رہتی ہے۔ لیکن اگر پردئہ غیب نہ ہوتا اورفریقین کو ایک دوسرے کے حالات کاعلم ہوجاتا ۔تونشانہ عین دشمن پر بیٹھتا اورکو ئی شخص بھی محفوظ نہ ر ہ سکتا۔اسی طرح سائنس کی ترقی اورعلوم جدیدہ کے انکشاف کی بنیاد بھی غیب پر ہی ہے ۔اگر ہرچیز ظاہر ہوتی تو سعی و عمل اورایجادات کاتمام سلسلہ ختم ہوجاتا اورانسان ایک ناکارہ وجو د بن کر رہ جاتا ۔غرض دنیاکے تمام کاروبار غیب پر چل رہے ہیں اگر غیب نہ رہے تودنیا کاتمام کارخانہ بھی ختم ہوجائے ۔اسی طرح روحانی عالم میں جزاء و سزا کی بنیاد بھی پردئہ غیب پر رکھی گئی ہے۔اگرپردئہ غیب ہٹادیاجائے تونہ نیکی قابل جزا سمجھی جائے اورنہ بدی سے اجتناب قابل ثواب سمجھا جائے ۔
ہم ایک دفعہ لکھنؤ گئے ۔وہاں ایک سرحدی مولوی عبدالکریم تھا ۔جو ہماری جماعت کاشدید مخالف تھا ۔اس نے ہمار ے آنے کے ابعد ایک تقریر کی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے ایک واقعہ کو اس نے نہایت تحقیر کے طور پر بیان کیا ۔وہ واقعہ یہ تھا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام دِلّی گئے وہاں ہمار ے ایک رشتہ دار کے ماموں مرزاحیرت دہلوی تھے۔انہیں ایک دن
۱؎ ۔ترمذی ابواب الجہاد ۔
شرارت سوجھی اوروہ جعلی انسپکٹر پولیس بن کر آگئے ۔اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ڈرانے کے لئے کہنے لگے کہ میں انسپکٹر پولیس ہو ںاورمجھے حکومت کی طرف سے اس لئے بھیجا گیاہے کہ میں آپ کو نوٹس دوں کہ آپ یہاں سے فوراً چلے جائیں ۔ورنہ آپ کو سخت نقصان ہو گا۔حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تواس کی طرف توجہ نہ کی۔مگر جب بعض دوستوں نے تحقیق کرنی چاہی کہ یہ کو ن شخص ہے توو ہ وہاں سے بھاگ گئے۔اس واقعہ کو مولوی عبدالکریم سرحدی نے اس رنگ میں بیان کیا کہ دیکھو وہ خداکانبی بنا پھر تا ہے مگروہ دلّی گیا تومرزاحیرت انسپکٹر پولیس بن کر اس کے پاس چلا گیا ۔وہ کوٹھے پر بیٹھا ہواتھا ۔(حالانکہ یہ بات بالکل جھو ٹ تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نیچے دکان میں بیٹھے ہوئے تھے )جب اس نے سنا کہ انسپکٹرپولیس آیا ہے تووہ ایساگھبرایاکہ سیڑھیوں سے اترتے وقت اس کاپیر پھسلااوروہ مونہہ کے بل زمین پر آگرا۔لوگوں نے یہ تقریر سن کر بڑے قہقہے لگا ئے اورہنستے رہے۔لیکن اسی رات مولوی عبدالکریم کو خداتعالیٰ نے پکڑ لیا ۔وہ اپنے مکان کی چھت پر سویاہواتھا ۔کہ رات کو وہ کسی کام کے لئے اٹھا اورچونکہ اس کی چھت کی کوئی منڈیر نہیں تھی اورنیندسے اس کی آنکھیں بند ہورہی تھیں ااس کاایک پائوں چھت سے باہر جاپڑا اور وہ دھڑم سے نیچے آگرا۔اورگرتے ہی مرگیا۔اب دیکھو اگر اس کو غیب کاپردہ نہ ہونے کی وجہ سے پتہ ہوتا کہ مجھے گستاخی کی یہ سزاملے گی تووہ کبھی گستاخی نہ کرتا بلکہ آپ پر ایمان لے آتا گوایسایمان اس کے کسی کام نہ آتا۔کیونکہ جب غیب ہی نہ رہا توایمان کاکیافائد ہ۔ایمان تو وہی کارآمد ہوسکتاہے جوغیب کی حالت میں ہو ۔ثواب یا عذاب سامنے نظر آنے پر توہر کوئی ایما ن لاسکتا ہے ۔ حضرت ابو بکر ؓ جب ایمان لائے تو یہ سمجھ کرایمان لائے تھے کہ مجھے دین کے راستہ میں قربانیاں کرنی پڑیں گی اوراپنی جان دینی پڑے گی اوراگر پرد ئہ غیب نہ ہوتا ۔اورانکوپہلے سے معلوم ہوتاکہ ان کے لئے انعامات مقد رہیں اوروہ ان انعامات کی لالچ میں ایمان لے آتے توان کاایمان کہاں رہتا ۔اسی طرح حضرت عمرؓ جب یمان لائے تو ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ خلیفہ بنیں گے ۔بلکہ وہ تواس ارادہ سے نکلے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردوں گا ۔مگر جب اپنی بہن سے انہوں نے قرآن کریم کے چند اوراق لے کر پڑھے توان پر حق کھل گیا ۔اوروہ ایمان لے آئے اوران حالات می ایمان لائے کہ وہ جانتے تھے کہ مجھے مسلمان ہوکراب اپنی جان قربان کرنی پڑے گی ۔
اسی طرح حضرت عثمانؓ ایک خاموش طبع انسان تھے مگر ان کی قربانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی عزت بخشی کہ صلح حدیبیہ کے وقت تمام صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ یارسول اللہ!اگر ہم میں سے کو ئی شخص مکہ میں جانے کے وقابل ہے تووہ عثمانؓ ہی ہیں۔چنانچہ حضرت عثمانؓ مکہ گئے اورچونکہ ان کی رشتہ داری مکہ میں بہت زیادہ تھی ۔رؤساء نے ان سے کہا کہ آپ کعبہ کا طواف کرلیں مگر حضرت عثمانؓ نے انکار کردیا۔اورکہا کہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم طواف نہیں کریں گے میں بھی نہیں کروں گا ۔حضرت عثمانؓ کو مکہ والوں سے بات چیت کرتے ہوئے دیر ہوگئی اوراندھیراہونے لگا ۔تومسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمانؓ کو شہید کردیاگیاہے ۔اسی لیء وہ ابھی تک واپس نہیں لوٹے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی ۔تو آپؐ نے تمام صحابہؓ کو جمع کیا اوران سب سے بیعت لی وہ ایک ہی بیعت تھی جو آپ نے موت کے نام پر لی۔اس بیعت کے موقعہ پر آپؐ نے صحابہ سے یہ اقرار لیا کہ ہم دشمن کے مقابلہ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے چاہے ہم سب کے سب مارے جائیں۔ جب صحابہؓ بیعت کرچکے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا۔اس وقت عثمانؓ یہاں نہیں ہے ۔اورممکن ہے وہ ماراگیاہو۔لیکن چونکہ اس کے زندہ ہونے کابھی امکان ہے اس لئے (آپ نے اپنادوسرا ہاتھ اپنے ہاتھ پر رکھتے ہوئے فرمایا)میں عثمانؓ کی جگہ اپنا ہاتھ بیعت کے لئے رکھتا ہوں ۔ ۱؎ اب دیکھو عثمانؓ کے لئے یہ کتنا بڑااعزاز تھا ۔اس کے مقابلہ میں اگران کی ہزار سالہ زندگی بھی قربان ہوجاتی تو ہیچ تھی ۔لیکن اگر حضر ت عثمان کو پتہ ہوتا کہ مجھے یہ اعزاز ملنے والاہے اورمیرے لئے فلاں فلاں انعامات مقدر ہیں اوروہ محض ان انعامات کا لالچ کرتے ہوئے ایمان لے آتے تو ان کے ایمان کی کیا حقیقت رہ جاتی ۔
اسی طرح حضرت علیؓ جب ایمان لائے تووہ ابھی بچے ہی تھے اوروہ یہ سمجھ کرایمان لایء تھے کہ مجھے اسلام کے لئے ہرقسم کے مصائب برداشت کرنے پڑیں گے یہاں تک کہ اگر جان قربان کرنے کاوقت آیا تو مجھے اپنی جان بھی خداتعالیٰ کی راہ میں پیش کرنی پڑے گی ۔حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رسالت کے ابتدائی ایام میں ایک دعوت کی جس میں بنو عبدالمطلب کو بلایا۔تاکہ ان تک پیغام حق پہنچایاجائے ۔چنانچہ آپؐ کے بہت سے رشتہ دار اس دعوت میں شریک ہوئے ۔جب سب لو گ کھاناکھاچکے تو آپؐ نے کھڑے ہوکر تقریر کرنا چاہی۔مگر ابو لہب نے ا ن سب لو گوںکو منتشر کردیا اوروہ آپ کی بات سنے بغیر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔آپؐ بہت حیران ہوئے کہ یہ اچھے لوگ ہیں جو دعوت کھاکر بھی بات نہیں سنتے ۔مگر آپؐ مایوس نہیں ہوئے بلکہ آپؐ نے حضرت علی سے فرمایاکہ دوبارہ ان کی دعوت کی جائے ۔چنانچہ دوبارہ ان سب کو کھانے پر مدعوکیا گیا ۔جب وہ سیر ہو کر کھا چکے تو آپ کھڑے ہوئے اورفرمایاکہ دیکو اللہ تعالیٰ کایہ تم پر کتنا بڑااحسان ہے کہ اس نے اپنا نبی تمہارے اند ربھیجا ہے ۔ میں تمہیں خداکی طرف بلاتاہوں۔اگر تم میری بات مانوگے تو تم دینی اوردنیوی نعماء کے وارث قرار پائو گے ۔کیاتم میں سے کوئی ہے جو اس کام میں میرامددگار بنے ؟یہ سن کر ساری مجلس پر سناٹے کی سی حالت طاری ہوگئی مگر یکلخت ایک کونے سے ایک نوعمر بچہ اُٹھااوراس نے کہا کہ گومیں ایک کمزورترین فرد ہوں اورعمر میں سب سے چھوٹاہوں مگر میں آپ کاساتھ دوں گا ۔یہ بچے حضرت علیؓ تھے جنہوں نے اس وقت اسلام کی تائید کااعلان کیا ۲؎۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے احضرت علیؓ کو یہ عظیم الشان قر بانی کرنے کی توفیق عطافرمائی کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے لئے رات کے وقت اپنے گھر سے نکلنا چاہا۔توآپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم میرے بستر پر لیٹ جائو تاکہ کفار اگر جھانک کردیکھیں توانہیں یہ دکھائی دیتا رہے کہ کو ئی شخص بستر پر سورہاہے اوروہ تعاقب کے لئے ادھر ادھر نہ نکل کھڑے ہوں۔اس وقت حضرت علیؓ نے یہ نہیں کہا کہ یارسول اللہ۔مکان کے اردگرد تو قریش کے چنیدہ نوجوان ہاتھ میں تلواریں لئے کھڑے ہیںاگرصبح کو انہیں معلوم ہواکہ آپ کہیں باہر تشریف لے جاچکے ہیں تو وہ مجھ پر حملہ کرکے مجھے قتل کردیں گے ۔بلکہ و ہ بڑ ے اطمینان کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر لیٹ گئے اورآپؐ نے اپنی چادر ان پر ڈال دی ۔جب صبح ہوئی اورقریش نے دیکھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حضرت علیؓ آپ کے بستر سے اٹھے ہیں
۱؎۔تاریخ الخیس جلد ۲ص ۲۲و سیرۃ ابن ہشام جلد سوم ص ۱۵۸
۲؎ ۔ السیرۃ الحلبیہ جلد اول ص ۳۰۴۔
تووہ اپنی ناکامی پر دانت پیس کر رہ گئے ۔اور انہوں نے حضرت علی ؓ کو پکڑ کر مارا پیٹا ۔مگر اس سے کیا بن سکتا تھا ۔خُدائی نوشتے پورے ہوچکے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلامتی کے ساتھ مکہ سے باہر جاچکے تھے ۔اُس وقت حضرت علیؓ کو کیا معلوم تھا کہ مجھے اس ایمان کے بدلے میں کیا ملنے والا ہے ۔ہاں اللہ تعا لیٰ جانتا تھا کہ اس قربانی کے بدلہ میں صرف حضرت علیؓ ہی عزت نہیں پائیں گے بلکہ حضرت علی کی اولاد بھی عزت پائے گی ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ پر پہلا فضل تو یہ کیا کہ اُن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا شرف بخشا اور دوسرا فضل اللہ تعالیٰ نے اُن پر یہ کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اُ ن کے لئے اتنی محبت پیدا کی کہ آپؐ نے بارہا اُن کی تعریف فرمائی ۔ جب حضرت علیؓ بڑی عمر کو پہنچے ہوں گے تو اُن کواللہ تعالیٰ کے یہ فضل دیکھ کر کتنا فخر محسوس ہوتا ہوگا ۔اور اُن کی کتنی راحت ہوتی ہوگی ۔پھر ایک دفعہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی جنگ کے لئے باہر تشریف لے گئے ۔تو آپؐ نے حضرت علیؓ کو مدینہ میں رہنے کا حکم دیا۔ حضرت علیؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔اور انہوں نے کہا ۔یا رسول اللہ !کیا آپؐ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ چلے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ۔اَلَا تَرْضیٰ اَنْ تَکُوْنَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْ سیٰ(ترمذی جلد۲ابواب لمناقب)یعنی اے علی ؓ !کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارونؑ کو موسیٰؑ سے تھی ۔ یعنی ہارون ؑ کو بھی تو موسیٰؑ اپنے پیچھے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ پھر کیا ہارون کی عزت کم ہوگئی تھی۔اب دیکھو یہ اعزاز جو حضرت علیؓ کو حاصل ہوا ۔اس کے مقابلہ میں اُن کی قربانیاں کیا چیز تھیں۔ اسی طرح اس امت کے اکثر اولیاء ؔ اور صوفیا ء حضرت علیؓ کی اولاد میں سے ہی تھے ۔ اور پھر ان کے ذریعے خدا تعالیٰ نے ایسے ایسے معجزات ظاہر کئے کہ ان کو دیکھ کر حیرت آتی ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے ایک دفعہ سُنا ہوا ہے ۔کہ ہارون اؔلرشید نے امام موسیٰؔ رضاؒ کو کسی وجہ سے قید کردیا ۔ اور اُن کے ہاتھو ں اور پائوں میں رسیّاں باندھ دی گئیں ۔ اُس زمانہ میں سپرنگ دار گدیلے تو نہ تھے ۔عام روٹی کے گدیلے ہوتے تھے ۔ ہارون ؔ الرشید اپنے محل میں آرام دہ گدیلوں پر سویا ہوا تھا کہ اُس نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں ۔اور آپؐ کے چہرہ پر غضب کے آثار ہیں ۔آپؐ نے فرمایا۔ ہارون ؔالرشید! تم ہم سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو ۔مگر تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم تو آرام دہ گدیلوں پر گہری نیند سور ہے ہو ۔اور ہمارا بچہ شدّت گرما میں ہاتھ پائوں بندھے ہوئے قید خانہ کے اندر پڑا ہے یہ نظارہ دیکھ کر ہارونؔ الرشید بیتاب ہو کر اُٹھ بیٹھا ۔اور ایک کمانڈر کو ساتھ لے کر اُسی جیل خانہ میں گیا اور اپنے ہاتھ سے اُن کے ہاتھوں اور پائوں کی رسیا ں کھولیں۔ انہوں نے ہارونؔ الرشید سے کہا ۔ آپ تو اتنے مخالف تھے اب کیا بات ہوئی کہ خود چل کر یہاں آگئے ۔ہارونؔ الرشید نے اپنا خواب سنایا اور کہا میں آپ سے معافی چاہتا ہوں ۔میں اصل حقیقت کو نہ جانتا تھا ۔ اب دیکھ اس زمانہ میں کتنا بڑا فاصلہ تھا۔ ہم نے کئی بادشاہوں کی اولادوں کو دیکھا ہے کہ وہ دربدر دھّکے کھاتی پھرتی ہیں میں خود دلّی میں ایک سقّہ دیکھا جو شاہانِ مغلیہ کی اولاد میں سے تھا۔ وہ لوگوں کو پانی پلاتا پھرتا تھا مگر خود اُس میں اتنی حیا ضرور تھی کہ مانگتا کچھ نہ تھا ۔دوری طرف حضرت علی ؓ کی اولاد کو دیکھو کہ اتنی پُشتیں گذرنے کے بعد بھی خدا تعالیٰ ایک بادشاہ کو رئویا میں ڈراتا ہے ۔اور اُن سے حُسن سلوک کرنے کی تاکید کرتا ہے ۔اگر حضرت علیؓ کو اس اعزاز کا پتہ ہوتا اور اُن کی غیب کا علم حاصل ہوتا اور وہ محض اس عزت افزائی کے لئے اسلام قبول کرتے تو ان کا ایمان صرف سودا اور دوکانداری رہ جاتا۔کسی انعام کا موجب نہ بنتا۔
اِسی طرح حضرت خدیجہؓ جب ایمان لائیں تو اُن کو کیا معلوم تھا کہ اس ایمان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اُن کو کیاکچھ برکات مقدّر کر رکھتی ہیں۔ بیشک انہوں نے اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے اپنا تمام مال قربان کردیا۔ یہاں تک کہ وہ مکہ کی متمول ترین عورت ہوتے ہوئے غربت اور تنگدستی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبورہوگئیں۔ اور پھر شعیب ابی ؔ طالب میں متواتر تین سال تک انہوںنے ایسی ایسی تکالیف برداشت کیںکہ اُنہی کے نتیجہ میں آپ وہاں سے نکلتے ہی انتقال فرماگئیںمگر اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کو ایسا نوازا کہ آج تک عالمِ اسلام اُن کا نام عزت اور ادب کے ساتھ لے رہا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ان کی ایسی محبت ڈالی کہ جنگ بدر میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کے داماد ابو العاصؔ جو ابھی تک اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے قید ہوکر آئے تو آپ ؐ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ نے جو ابھی مکہ میں ہی تھیںاُن کے فدیہ کے طور پر اپنے گلے کا ہار اتارکر بھیج دیا ۔یہ وہ ہار تھا جو حضرت خدیجہؓ نے اپنی بیٹی کو جہیز میں دیا تھا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو آپ ؐ کو حضرت خدیجہؓ یا دآگئیں۔اور آپؐ کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے ۔پھر آپؐ نے صحابہ سے فرمایا۔ اگر تم چاہو تو خدیجہؓ کی یہ یادگار اُن کی بیٹی کے پاس محفوظ رہے ۔
اِسی طرح حضرت خدیجہؓ کی وفات کے کئی سال بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنے گھر میں تشریف رکھتے تھے ۔کہ حضرت خدیجہؓ کی بہن ہالہؓ آپؐ سے ملنے کے لئے آئیں اور دروازے پرکھڑے ہوکر انہوں نے کہا۔کیا میں اندر آسکتی ہوں ۔ہالہؓ کی آواز چونکہ اپنی بہن خدیجہؓ سے بہت کچھ ملتی جلتی تھی ۔اس لئے اس آواز کے کان میں پڑتے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں حضرت خدیجہ ؓ کی یاد تازہ ہوگئی ۔آپؐ بے تاب ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا۔آہ میرے خدا!یہ تو خدیجہؓ کی آواز معلوم ہوتی ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اُن پر ایسا احسان کیا کہ ابراہیم ؓ کے سوا جو حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے پید اہوئے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی تمام اولاد حضرت خدیجہؓ سے ہی پیدا ہوئی ۔چنانچہ حضرت خدیجہ ؓ کے بطن سے آپ کے تین لڑکے اورچار لڑکیاں پیداہوئیں ۔ لڑکے توسب کے سب بچپن میں ہی وفات پاگئے۔مگرحضرت زینبؓ حضرت رقیّہؓ،حضرت ام کلثومؓ اورحضرت فاطمہؓ چاروں لڑکیاں زندہ رہیں۔اوراسلام میں داخل ہوئیں ۔حضرت امام حسنؓ اور امام حسین ؓ حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے بطن سے ہی پیداہوئے تھے جوحضرت خدیجہؓ کی صاحبزادی تھیں۔اورانہی کی اولاد آج سادات کہلاتی ہے۔غرض اللہ تعالیٰ نے انہیں اوران کی تمام نسل کو اپنے غیر معمولی انعامات سے نوازا۔لیکن اگر حضرت خدیجہؓ کومعلوم ہوتا کہ انہیں ایک دن یہ اعزاز حاصل ہونے والا ہے کہ تمام عالمِ اسلام انہیں اُم المومنین کہے گا اورقیامت تک ان کی نسل کو معز ز اورمکرّم قرار دیاجائے گا اوروہ اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں بلکہ محض اس عزت اورمقام کے حصول کے لئے ایمان لاتیں توان کاایمان لاناان کے کس کام آتا ۔
اسی طرح ابوجہل جو سمجھتا تھا کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے ساتھیوںکو مارڈالوں گا اوراسلام کو مٹادوں گا ۔اگر اس کو یہ علم ہوتا کہ اس کی مخالفانہ کوششوں کے باوجود اسلام دنیا میں پھیل جائے گا اوردنیا میں اس کانام *** کے ساتھ لیا جائے گا بلکہ خود اس کابیٹا اسلام میں داخل ہوجائے گا اوروہ اسلام کے لئے دشمنوں سے لڑتا ہواماراجائے گا تووہ کبھی اسلام کے خلاف اپنی آواز بلند نہ کرتا۔غرض اگرپردئہ غیب حائل نہ ہوتا تونہ اابوبکر ؓ ابو بکر ؓ ہوسکتا۔نہ اوبو جہل ابو جہل بن سکتا۔لیکن جہاںد ینی اوردنیوی کاروبار پردئہ غیب کی وجہ سے چل رہاہے وہاں مومنوںکے ایمان کی ترقی انکشافِ غیب سے تعلق رکھتی ہے ۔جب انبیا ء دنیا میں آتے اورلوگوں کو غیب کی خبریں سناتے ہیں اورپھر مخالف حالات میں ان کی بتائی ہوئی باتیں پوری ہوجاتی ہیں تودلوں میںایک نیا ایمان پیداہوجاتاہے اورخداتعالیٰ کی ہستی اس طرح عریاں ہوکر لوگوں کے سامنے آجاتی ہے کہ اس کے وجود کاکوئی دیانتدار انسان انکار نہیں کرسکتا ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ کپور تھلہ کے احمدیوں اورغیر احمدیوں کا وہاں کی ایک مسجد کے متعلق مقدمہ ہوگیا ۔ جس جج کے پاس یہ مقدمہ تھا اس نے مخالفانہ رویہ اختیارکرنا شروع کردیا ۔اس پر کپور تھلہ کی جماعت نے گھبراکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کودعاکے لئے خط لکھا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے جواب میں انہیں تحریرفرمایا کہ اگر میں سچا ہوں تومسجد تم کو مل جائے گی۔مگر دوسری طرف جج نے اپنی مخالفت بدستور جاری رکھی اورآخر اس نے احمدیوں کے خلاف فیصلہ لکھ دیا ۔ مگر دوسرے دن جب وہ فیصلہ سنانے کے لئے عدالت میں جانے کی تیاری کرنے لگا توا س نوکر سے کہا ۔مجھے بوٹ پہنادو ۔نوکر نے ایک بوٹ پہنایا اوردوسر اابھی پہنا ہی رہاتھا ۔کہ کھٹ کی آواز آئی ۔اس نے اوپر دیکھا ۔توجج کا ہارٹ فیل ہوچکا تھا ۔اس کے مرنے کے بعد دوسرے جج کو مقرر کیاگیا۔اوراس نے پہلے فیصلہ کو بدل کر ہماری جماعت کے حق میں فیصلہ کردیا ۔جودوستوں کے لئے ایک بہت بڑانشان ثابت ہوا۔اوران کے ایمان آسمان تک جاپہنچے۔غرض اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے انبیاء کے ذریعہ متواترغیب کی خبریں دیتا ہے ۔جن کے پوراہونے پر مومنوں کے ایمان اَور بھی ترقی کرجاتے ہیں۔یہ غیب کی خبروں کا ہی نتیجہ تھا کہ جو لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ان کے دل اس قدر مضبوط ہوگئے کہ اورلو گ توموت کو دیکھ کر روتے ہیں ۔مگر صحابہؓ میں سے کسی کو جب خداتعالیٰ کی راہ میں جان دینے کاموقعہ ملتا تووہ خوشی سے اچھل پڑتا۔اورکہتا فُزْتُ وَربِّ الْکَعْبَۃِ۔ربِ کعبہ کی قسم! میں کامیا ب ہو گیا ۔آخریہ روح ان کے اند رکہا ں سے آگئی تھی ۔یہ وہی روح تھی جو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کی خبریں بتابتا کر مومنوں کے اند ر بھر دی تھی ۔اگر ان پر انکشافِ غیب نہ ہوتاتووہ ا س اعلیٰ مقام پر کبھی کھڑ ے نہ ہوسکتے جس پر مسلمان پہنچے۔پس یہ دونوں چیزیں اپنی اپنی جگہ بنی نوع انسان کے لئے منفعت بخش ہیں۔غیب بھی اپنی جگہ فائدہ مندہے اورانکشافِ غیب بھی اپنی جگہ نفع رساں ہے۔ساری لذتیں غیب کے ساتھ ہیں اورساری روحانیت کشفِ غیب کے ساتھ وابستہ ہے
خداتعالیٰ کی دوسری صفت جس کی طرف ان مقطّعات میں توجہ دلائی گئی ہے وہ ا س کی صفت سمیع ہے ۔اَلسَّمِیْعُ کے معنے ہیں کہ وہ لوگوں کی دعائیں سنتا اورانہیں نرالے طور پر قبول کرتاہے اوریہ کہ اس کے سوانہ زندہ آدمی دوسروں کی دعائیں سن سکتے ہیںاور نہ مردہ۔ صرف خداہی ہے جو لوگوں کی دعائیں سنتا اوران کو قبول فرماتا ہے ۔چنانچہ دیکھ لو ۔کوئی یورپ میں دعامانگ رہاہوتاہے ۔کوئی ایشیا میں دعا مانگ رہاہوتاہے ۔کوئی چین میں مانگ رہاہوتاہے ۔کوئی جاپان میں مانگ رہاہوتاہے ۔کوئی روس میں مانگ رہاہوتا ہے۔کوئی مصر ۔شام اورفلسطین میں مانگ رہاہوتاہے ۔مگر خداان سب کی دعائیں سن رہاہوتا ہے ۔پس اس صفت کے ذریعے بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تمہاراخداوہ ہے جو تمہاری دعائوں کو سننے والااورتمہار ی تمام ضروریات اورحاجات میں کام آنے والاہے تمہیں جب بھی کوئی مشکل پیش آئے ۔تمہارافرض ہے کہ تم خداتعالیٰ کے حضور جھکو ۔اوراس سے دعاکرو۔اس کے لئے کسی مال کی ضرور ت نہیں۔کسی ہنر کی ضرورت نہیں۔کسی طاقت اورقوت کی ضرورت نہیں۔اگر کسی کے دونوں ہاتھ شل ہوچکے ہوں یاکوئی شخص اتنا نحیف اورکمزور ہوچکا ہوکہ وہ چارپائی سے اٹھ کر نماز کی حرکات بھی ادانہ کرسکے۔تب بھی و ہ دعاکرسکتا ہے۔ کیونکہ دعاان چیز وںکی محتا ج نہیں ۔وہ بیشک لیٹا رہے اوراللہ تعالیٰ سے دعاکرتاچلا جائے ۔بلکہ اگر اس کی زبان پر فالج گراہواہے اوروہ دعا کے لئے اپنی زبان بھی نہیں ہلا سکتا ۔توو ہ دماغ میں ہی دعائیہ فقرات کو دوہراتا ہے اوراگر اس کادماغ بھی کام کرنے سے رہ جائے توپھر اس کا زمانہ عمل ختم ہوجاتاہے۔لیکن جب تک ایک انسان دنیا میں رہتا ہے اورانسانیت کی حدود سے وہ ادھر ادھر نہیں ہوتا اس وقت تک ایک معذور سے معذور انسان بھی اس میں حصہ لے سکتاہے یہاں تک کہ وہ گونگا جس کی زبا ن نہیں وہ بہرہ جس کے کان نہیں ۔وہ مفلوج جس کے جسم کی حِس ماری گئی ہو ۔اوروہ گوشت کا لو تھڑہ بن کر چارپائی پر پڑاہواہووہ بھی اسی جو ش و خروش سے اپنے رب سے دعاکرسکتاہے جس طرح ایک تندرست اورطاقتور انسان ۔
غرض دعاایک ایسی چیز ہے جس نے دنیا کے تمام چھوٹوں اوربڑوں اورامیروں اورغریبوں کو ایک سطح پر لاکر کھڑا کردیاہے ۔اوردعاہی وہ ہتھیا رہے جس کے متعلق خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایاہے کہ اَمَنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَادَعَاہُ(نمل آیت ۶۳) وہ کو نسی ہستی ہے جو بندہ کی دعائے مضطر سن کر بیتا ب ہو جاتی اور دوڑ کر اس کے پاس آجاتی ہے ۔فرمایا ۔وہ میں ہوں۔پس یہ عمل سب اعمال سے زیادہ طاقتو ر ہے بیشک نماز بھی ایک ضروری چیز ہے۔روزہ بھی ایک ضروری چیز ہے۔زکوٰۃ بھی ایک ضروری چیز ہے ۔حج بھی ایک ضروری چیز ہے ۔جہاد بھی ایک ضروری چیز ہے ۔مگر دعاوہ عمل ہے جس کے متعلق خداتعالیٰ نے کہا ہے کہ اگر کوئی مجھے سچے دل سے پکا رے تومیں ضرور اس کے پاس پہنچ جاتاہوں ۔چنانچہ وہ فرماتا ہے ۔وَاِذَاسَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔یعنی جب کبھی میر ے بندے انسانی خدائوں سے ناامید ہوکر پوچھیں کہ ہماراآسمانی خداکہاں ہے۔ہم پر تو فرعون نے اورنمرود نے اورشدّاد نے اتنا تصرّف کرلیا ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کہاں جائیں اورکس طرح ان کے مصائب اورآفات سے رہائی حاصل کریں توتُوانہیں کہہ دے کہ تمہیں میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں ۔اِنِّیْ قَرِیْبٌ میں خود تمہارے قریب آیاہواہوں۔اگرتمہاراباپ تمہارے کام آسکتا ۔یاتمہاراچچا تمہاری مدد کرسکتا ۔یاتمہارااَورکوئی رشتہ دار تمہارے قریب ہوتا توتمہیں دوڑ کر اس کے پاس جانا پڑتا ۔مگر اب تمہیں کہیں جانے کی ضرور ت نہیں ۔میں خود تمہارے قریب آیا ہواہوں ۔پس تمہاری فریاد سنی جانے میں کوئی وقت نہیں لگ سکتا ۔دنیا میں توتمہیں مدد حاصل کرنے کے لئے اپنے دوستوں اوررشتہ داروں کے پاس جانا پڑتا ہے ۔ مگر میں توآپ دوڑ کر تمہارے قریب آچکا ہوں پھر تمہیں کیا مشکل پیش آسکتی ہے ۔
یہ پیغام جو اسلام نے دنیا کے ہرفرد کو دیاہے اتنا اہم اوراس قدر عظیم الشان انقلاب پیداکرنے والا ہے کہ اس کی موجودگی میں دنیا کا کوئی دکھ انسان کو پریشان نہیں کرسکتا ۔دشمن خواہ آسمان سے بھی اونچے چلے جائیں اگر کو ئی شخص سچے دل سے اپنے رب کو پکا رے تواللہ تعالیٰ آسمان سے اپنا ہاتھ بڑھا کر ان کی گر دنیں مروڑ سکتا ہے۔بیشک وہ چھا ن چھان کر پانی پئیں ۔بیشک و ہ رات اوردن پرہیز کرتے رہیں اگر خداتعالیٰ ان کی ہلاکت کافیصلہ فرمادے تووہ ہیضہ یا طاعون یا انفلوئنزاکے کیڑوں کو بھی حکم دے سکتا ہے کہ تم اتنی تعداد میں فلاں شخص کے اندر داخل ہوجائو۔کہ دنیا کی کو ئی دوائی اس پر اثر نہ کرسکے اوروہ تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوجائے اورمیرامومن بندہ خوش ہوجائے کہ میں نے اس کی مدد کی ہے۔ ایک بزرگ کاواقعہ لکھا ہیح کہ ان کے محلہ میں شاہی دربار کے بعض آدمی رات کو گانے بجانے کا شغل رکھتے تھے ۔انہوں نے کئی دفعہ سمجھا یا کہ لوگوں کی نیندیں اورنمازیں خراب ہوتی ہیں تم اس شغل کو ترک کردو ۔مگر وہ نہ مانے ۔جب انہوں نے بار بار کہا تو اس خیال کے ماتحت کہ کہیں یہ محلہ والوں سے مل کر ہمیں روکنے کاتہیہ نہ کرلیں۔انہوں نے شاہی پہرہ داروں کا انتظام کرلیا ۔جب اس بزرگ کو اطلاع ملی تو انہوں نے کہا اچھا اِنہوں نے اپنی حفاظت کے لئے فوج بلالی ہے توہم بھی رات کے تیروں ان کامقابلہ کریں گے ۔معلوم ہوتاہے ان لوگوںکے دلوں میں ابھی کچھ نیکی باقی تھی ۔جونہی ان لوگوں کے کان میں یہ آواز پڑی کہ ہم رات کے تیروں سے مقابلہ کریں گے ۔وہ دوڑتے ہوئے اس بزرگ کے پاس آئے اورکہنے لگے ۔ان تیروں کے مقابلہ کی ہم میں طاقت نہیں۔ ہم اپنے شغل سے باز آئے ۔پس دعاایک یساہتھیا رہے کہ اگر کوئی شخص کامل یقین اورپختہ ایمان کے ساتھ اس سے کام لے توبظاہر ناممکن نظر آنے والی باتیں بھی اس کے لئے ممکن ہوجاتی ہیں ۔
مجھے یادہے ایک دفعہ میں دریا پر گیا ۔بھائی عبدالرحیم صاحب جو بچپن میں میرے استاد رہے ہیں اورکچھ اَو ردوست میرے ساتھ کشتی میں سوارتھے۔جب ہم کشتی میں بیٹھے ہو ئے دریا کی سیر کررہے تھے تومیرے لڑکے ناصر احمد نے اپنے بچپن کے لحاظ سے کہا کہ ابا جان!اگر اس وقت ہمارے پاس مچھلی بھی ہوتی توبڑامزہ آتا ۔میں نے کہا ۔لوگ کہتے ہیں کہ پانیوں میں خواجہ خضر کی حکومت ہے ۔اگر خواجہ خضر کو ئی مچھلی ہماری طرف پھینک دیں توتمہاری یہ خواہش پوری ہوسکتی ہے ۔جب میں نے یہ فقرہ کہا تو بھائی عبدالرحیم صاحب جھنجھلا کرکہنے لگے کہ آپ کیسی باتیں کرتے ہیں اس بچے کی عقل ماری جا ئے گی میں نے کہا ۔ہمارے خدامیں توسب طاقتیں ہیں وہ چاہے تو ابھی مچھلی بھجوادے ۔میں نے یہ فقرہ ابھی ختم ہی کیا تھا کہ یکدم پانی کی ایک لہر اٹھی اورایک بڑی سی مچھلی کود کر ہماری کشتی میں آگری ۔میں نے کہا دیکھ لیجئے خداتعالیٰ نے اپنی قدرت نمائی کردی ۔اورہمارے دل میں جو خواہش پیداہوئی تھی و ہ اس نے پوری کردی ۔خواجہ خضر بے شک وفات پاچکے ہوں مگرہماراخداجو ہماراخالق اورمالک ہے اور سَمِیْعُ الدُّعَا ہے و ہ توزندہ ہے اوروہ ہمارے جذبات کو جانتا ہے اس نے اس خواہش کودیکھا اورمیر ی بات کو پوراکردیا ۔
اسی طرح ایک دفعہ بڑی تپش کے بعد بارش آئی جس کمرہ میں میں رہتاتھا ۔اس کی کھڑکی میں نے کھولی اوربارش کا نظارہ دیکھنے لگا ۔ چونکہ بڑی دیر کے بعد بارش آئی تھی ۔اس لئے مجھے اس بارش کا بڑا مزہ آیا ۔مگر اس روز مجھے پیچش کی شکایت تھی۔میں بھی بارش کانظارہ دیکھ ہی رہاتھا کہ مجھے اجابت محسوس ہوئی ۔جب میں جانے لگا تو بیساختہ میرے منہ سے نکلا کہ خدایا!توایسا فضل فرماکہ خواہ درمیانی عرصہ میں یہ بارش بند ہوجائے جب میں واپس آجائوں توپھر بار ش شروع ہوجائے ۔چنانچہ ایساہی ہوا۔جو نہی میں گیا ۔بارش بند ہوگئی ۔اورجب میں کمر ہ میں واپس آیا اورمیں نے دوبارہ کھڑکی کھولی تو یکدم بارش شروع ہوگئی جو آدھ گھنٹہ یاپون گھنٹہ تک جاری رہی۔اب دیکھو بار ش میرے اختیار میں نہیں تھی مگر خداتعالی نے ایسا فضل کیاکہ ادھر میں کمرہ میں پہنچا اوراُدھر بارش شروع ہوگئی۔ اسی طرح حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک جماعت نے بڑے اصرارسے مجھے اپنے پاس بلایا ۔جب میں واپس آرہاتھا تو چلتے چلتے کسی آئندہ خرچ کے خیال سے میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالاتو ایک روپیہ کم تھا۔اس وقت میں نے اللہ تعالیٰ سے دعاکی ۔کہ اللہ میاں مجھے ایک روپیہ بھیجیں۔ابھی میرے دل سے یہ دعانکل ہی رہی تھی کہ قریب کے گائوں سے ایک آدمی ہماری طرف آتا دکھائی دیا۔جماعت کے دوست جلدی سے حفاظت کے لئے میرے اردگرد جمع ہوگئے ۔میں نے کہا کیا ہوا۔کہنے لگے یہ ہمارے سلسلہ کا شدید دشمن ہے اوراحمدیوں پر اکثر حملے کرتا رہتاہے ۔ہم آپ کے گرد اس لئے کھڑے ہوگئے ہیں کہ وہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے ۔جب ہم اس گائوں کے قریب پہنچے تو وہ دوڑتا ہواآیا اورمیرے ساتھیوں کو دھکا دے کرآگے بڑھا اورپھر اس نے ادب کے ساتھ میری طرف ہاتھ بڑھایااورایک روپیہ میرے ہاتھ پر رکھ کرچلا گیا ۔میں نے کہا ۔آپ لو گ کہتے تھے یہ مارنے آیاہے اوراس نے توایک روپیہ نذرانہ کے طور پر دے دیا ہے۔پھر میں نے انہیں بتایا کہ ابھی میرے دل میں خیال آیا تھا کہ خدامجھے ایک روپیہ بھیجے ۔سوخدانے اس شخص کو بھیجدیااور اس نے مجھے ایک روپیہ نذرانہ کے طور پر دے دیا۔غرض انسان کو اگر خداتعالیٰ پر کامل یقین ہو تو وہ اس کے لئے بڑے بڑے نشانا ت ظاہر کردیتا ہے ۔
حدیثوں میں آتا ہے کہ سابقہ امتوں مکیں سے ایک امت کے تین آدمی ایک دفعہ ایک طوفان میں پھنس گئے اورو ہ اس طوفان سے پناہ لینے کے لئے ایک پہاڑ کی غار میں چھپ گئے ۔اتفاقاً زور کی جو آندھی آئی توپتھر کی ایک بڑی بھاری سِل لڑھک کر اس غار کے منہ کے آگے آگئی اورنکلنے کاراستہ بند ہوگیا۔وہ ایک چھوٹی مصیبت سے بچنے کے لئے پہاڑ کی غار میں گئے مگر اس سے بڑی مصیبت میں پھنس گئے ۔اس جنگل جبکہ وہ ایک پہاڑ کی غار میں محبوس تھے کو ئی آدمی ایسانہ تھا جو انہیں اس مصیبت سے نجا ت دلاتا ۔وہ سخت گھبرائے اورجب انہیں اپنی نجات کی کوئی صورت دکھائی نہ دی ۔توایک شخص کو دعاکی تحریک ہوئی اوراس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آئو ہم نے اپنی عمر میں جو وسب سے زیادہ نیک کاکام کیا ہے اس کاواسطہ دے کر خداتعالیٰ سے کہیں کہ وہ اس پتھر کو ہٹا دے ۔تب ان میں سے ایک نے کہا کہ اے خدا!تجھے معلوم ہے کہ ایک مزدورمیرے پاس آیا ااس نے میری مزدوری کی اورپھر پیشتر اس کے کہ وہ مجھ سے اجر ت لیتا چلا گیا ۔میں نے اس کی اجرت کے پیسوں سے تجارت شروع کی اورا سمیں سے نفع اٹھاتے ہوئے ایک بکر ی خریدی اس بکری سے اور بکریاں پیداہوئیں یہاںتک کہ سینکڑوں بکریوںاوربھیڑوں کا گلہ میرے پاس ہوگیا ۔وہ کئی سال کے بعد میرے پاس آیااورکہنے لگا میری اٹھنی رہتی ہے وہ مجھے دی جائے ۔میں اسے اپنے ساتھ لے گیا ۔اورسینکڑوں بکریوںاوربھیڑوں کا گلّہ اسے دکھا کرکہا یہ تیری امانت ہے اسے لے جا ۔وہ کہنے لگا ۔مجھ سے کیوں مذاق کرتے ہو ۔میری صرف اٹھنی رہتی تھی وہ مجھے دیدو۔میں نے اسے کہا ۔اس اٹھنی سے ہی میں نے تجارت شروع کی تھی اوراب اس قدر بھیڑیں اوربکریاں ہوگئی ہیں ۔وہ کہنے لگا ۔ پھر تو یہ میری نہ ہوئیں ۔تمہاری ہوئیں ۔میں نے اسے کہا ۔نہیں میں نے اپنے لئے نہیں بلکہ تمہارے لئے تجارت کی تھی ۔تب وہ نہایت ہی حیران ہو ا۔مگر میرے مجبور کرنے پر وہ بھیڑوں اوربکریوں کے گلّوں کو ہانک کر اپنے گھر لے گیا ۔اے خدااگر میں نے یہ کام تیری رضااور خوشنودی کے لئے کیاتھا توتُو مجھ پر رحم فرما اوریہ پتھر راستہ سے ہٹا دے ۔اس دعاکے نتیجہ میں زورسے آندھی کا ایک طوفان اٹھا اور اورو ہ پتھر ذراسالڑھک گیا ۔مگر ابھی ان کے نکلنے کا راستہ نہ بنا ۔ تب دوسرے نے کہا ۔اے خدا توجانتا ہے کہ مجھے ایک لڑکی سے جو میری رشتہ دار تھی بڑی محبت تھی مگر وہ کسی طرح میرے قابو میں نہیں آتی تھی ۔ایک دفعہ ملک میں شدید قحط پڑا ۔اوروہ او راس کے رشتہ بھوکے مرنے لگے۔آخر مجبور ہوکر وہ لڑکی میرے پاس مدد کے لئے آئی ۔میں نے اسے کہا کہ میں تمہاری مدد کے لئے تو تیارہوں مگر پہلے تم میرے ساتھ ہمبستری کر و۔ وہ مجبوراً اس کام کے لئے رضامند ہوگئی ۔ جب میں اس کے قریب گیا ۔تو اس لڑکی نے کہا ۔میں تمہیں خداکاواسطہ دے کر کہتی ہوں کہ تو مجھے گناہ میں مبتلا مت کر ۔یہ سنتے ہی میں الگ ہوگیا ۔اورمیں نے کہا ۔ اب تو نے ایک بڑی ذات کا مجھے واسطہ دیا ہے میں اسی کی رضا کے لئے اس کام کو ترک کرتاہوں۔چنانچہ لڑکی اُٹھی اور اپنے گھر چلی گئی اور میں نے روپیہ بھی اسے دے دیا ۔اے خدا!اگر میں نے یہ کام محض تیری رضااور خو شنودی کے لئے کیا تھا تو تُو اس پتھر کو ہما رے راستہ سے ہٹا دے ۔تب پھر زور سے ایک طوفان اٹھا اورپتھر تھوڑاسا اورسرک گیا ۔مگر راستہ پھر بھی نہ بنا کیونکہ چٹان بہت بڑی تھی اور ابھی وہ اتنی نہیں لڑھکی تھی کہ ان کے نکلنے کا راستہ بن جاتا ۔تب تیسرا شخص خداتعالیٰ کے حضورجھکا اوراس نے کہا اے خداتجھے معلوم ہے کہ میں بکریاںچرایا کرتاہوں ۔ایک دن مجھے بکریاں چراتے چراتے دیر ہوگئی اورمیں جلدی گھر نہ پہنچ سکا۔میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے او ربچے چھوٹے چھوٹے ۔جب میں گھر پہنچا تو میرے ماں باپ سوچکے تھے او ربیوی بچے جاگ رہے تھے اور بھو ک کی وجہ سے میراانتظار کرہے تھے۔جب میں پہنچا تو انہوں نے کہالائوہمیں دودھ پلائو ۔تاکہ ہم دودھ پی کر سوجائیں ۔مگر میں نے کہا جب تک میرے ماں باپ دودھ نہ پی لیں ۔کسی اورکودودھ نہیں دے سکتا ۔چنانچہ میں نے دودھ کا پیالہ بھر او راپنے والدین کی پائنیتی کے پاس کھڑاہوگیا ۔میری بیوی زاری کرتی رہی اورمیرے بچے چیختے رہے ۔مگر میں نے ان کی چیخ و پکا رکی کویء پرواہ نہ کی۔ اور دودھ کا پیالہ اپنے ہاتھ میں لئے برابر کھڑا رہا۔یہاں تک کہ صبح ہوگئی اس وقت میرے والدین اٹھے تومیں نے انہیں دودھ پلا یا اور پھر اپنی بیوی اور بچوں کودودھ پلایا ۔اے خدا اگر میرایہ کام محض تیری رضا اورخوشنودی کے لئے تھا اور دنیا کی کوئی غرض اس میں نہ تھی توتومجھ پر رحم فرمااوراس پتھر کو راستہ سے ہٹادے ۔تب پھر زورکاطوفان اٹھااورپتھر لڑھک کر نیچے گر گیا ۔اوروہ تینوں شخص غار سے باہر نکل آئے ۔(ریاض الصالحین ابواب الاخلاص والنیۃ )
غر ض دعاایک بہت بڑا ہتھیا رہے جوہرمصیبت میں انسان کے کام آتا اور اسے ہرقسم کی مشکلا ت سے رہائی عطاکرتا ہے ۔اتنے بڑے ہتھیار کے ہوتے ہوئے بڑاہی نادان وہ شخص ہے جو مصیبت کے آنے پر کسی اورکی طرف بھاگے اور اس سے مدد مانگے ۔ سچا مومن وہی ہے جو اپنی ہرضرورت خداتعالیٰ سے مانگے ۔یہاں تک کہ اسے اگر اپنی جوتی کے لئے تسمہ کی بھی ضرورت ہو تو وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی سے مانگے ۔اوراس امر پر کامل یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ اس کی ہرضرورت کو پوراکرنے پر قادر ہے اوروہ اسے اپنے دروازے سے کبھی خائب و خاسر واپس نہیں لوٹائے گا ۔جب مومن کے اند ریہ کیفیت پیداہوجائے تووہ سب دنیا کو بھول جاتاہے اور صرف اللہ تعالی کو ہی اپنا حقیقی کار ساز سمجھتاہے ۔میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے کہ ہماری جماعت کے ایک دوست مولوی امام الدین صاحب جو گولیکی ضلع گجرات کے رہنے والے اورقاضی اکمل صاحب کے والد تھے اوراب فوت ہوچکے ہیں وہ صوفی منش آدمی تھے۔ اورمجھے ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ وہ روحانی مقام احمدیت میں نصیب نہیں ہوسکاجس کے متعلق ہم سب کچھ سنا کرتے تھے میں نے ایک دفعہ ان سے پوچھا کہ وہ کیا مقام تھا جس کا آپ ذکر سنا کرتے تھے ۔کہنے لگے ہمارے پیر صاحب کہا کرتے تھے کہ جو شخص ہماری صحبت میں چند دن رہے اسے ہم عرش پر سجد ہ کراسکتے ہیں اور وہ خداتعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے ۔ میں احمدیت کو اپنی پہلی حالت سے بالا تو تسلیم کرتا ہوں مگر وہ نظارہ مجھے احمدیت میں نظر نہیں آتا ۔میں نے ان کو ایک لطیفہ سنایاکہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ ایک صوفی طرز کے پیر نے جب سنا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرلی ہے تواس نے اپنے ایک مریدکے ذریعہ مجھے کہلا بھیجا کہ مرزاصاحب کو مان کر اوران کی بیعت کرکے کیا حاصل ہوسکتا ہے۔اگر آپ میری بیعت کرلیں تو مجھے اتنا کمال حاصل ہے کہ میں آپ کا پہلا سجدہ کی عرش پر کروادوں ۔جب اس کے مرید نے مجھے صوفی کا یہ پیغام سنایا تومیں نے کہلا بھیجا کہ مجھے عرش پر سجدہ کرنے سے جوتیاں نہ پڑیں گی ۔خداتعالیٰ کہے گا میں نے زمین پر سجدہ کرنے کاحکم دے رکھا ہے اور تو آسمان پر سجدہ کرنے آگیاہے ۔اس پر مولوی امام الدین صاحب مرحوم کہنے لگے یہ تو ٹھیک ہے مگرا س سے میری تسلی نہیں ہوئی ۔غرض و ہ جب بھی مجھ سے ملتے اسی قسم کی بات کرتے اورمیں کسی نہ کسی رنگ میں ان کو جواب دیاکرتا مگر ان کے دل کی خلش دور نہ ہوتی ۔آخر ایک دن میں نے ان سے کہا مولوی صاحب کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جس شخص کو خداتعالیٰ نظر آجائے اوراسے اتنے کمالات حاصل ہوجائیں کہ وہ خداتعالیٰ کے عرش پر سجدہ کرنے لگ جائے ۔توایسے آدمی کی کیا حالت ہوتی ہے ایسے آدمی کاکفیل خود خداتعالیٰ ہو جاتاہے اوراسے بندوں کی کوئی احتیاج نہیں رہتی بلکہ وہ جوکچھ مانگتا ہے خداتعالیٰ ہی سے مانگتا ہے اورچاہے بندے اس کی مدد کریں لیکن اس کی حالت یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِنَ السَّمَائِ کی سی ہوتی ہے ۔ اورجولوگ اس کی مدد کرتے ہیں وہ خود محتاج ہوتے ہیں ۔اسی بات کے کہ اس کی مددکریں وہ اس بات کامحتاج نہیں ہوتا کہ کوئی اس کی مدد کرے۔ایسے شخص کو کچھ دینے والا سمجھ رہاہوتاہے کہ میں اس کی مدد کررہاہوں ۔مگرلینے والا سمجھ رہاہوتا ہے کہ میں اسے سے لے کر اس پر احسان کررہاہوں ۔کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دینے والا زید ہو یا بکر ۔اسے خداتعالیٰ نے ہی میری ضرورتوںکو پوراکرنے کے لئے بھیجا ہے۔میں کسی زید کا بکر کا ہرگز محتا ج نہیں ۔ایسے شخص کو چاہے کسی ذریعہ سے کوئی چیز پہنچے وہ سمجھتا یہی ہے کہ یہ خدانے مجھے بھیجی ہے ۔اب آپ بتائیں کہ کیا آپ کے پیر صاحب کو بھی یہ مقام حاصل تھا ۔کہ اللہ تعالیٰ ان کی تمام ضروریات کو پوراکرتاہو؟جب میں نے ان سے یہ سوال کیا تو وہ خاموش ہوگئے اورکہنے لگے کہ میں اب سمجھ گیاہوں ۔ہمارے پیرصاحب جو کہتے ہیں کہ ہم یو ں نظارے دکھاتے ہیں اورعرش پر سجد ہ کرادیتے ہیں ۔جب کبھی فصل وغیرہ کا موقعہ آتاتوزمینداروں کے پاس چلے جاتے ان سے کہتے کہ ہمارابھی خیال رکھنا ۔اب میں اس بات کو اچھی طرح سمجھ گیا ہوں کہ اگر فی الواقعہ ان کا خداتعالیٰ کے ساتھ سچاتعلق ہوتا توکسی بندے سے کیوں کہتے کہ میرابھی خیال رکھنا ۔غرض خداتعالیٰ کو اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھ لینے والے کے سامنے صرف خداتعالیٰ کی ہی ذات رہتی ہے اوروہ اسی سے اپنی ہرضرورت طلب کرتااوراسی کو حقیقی کارساز سمجھتاہے ۔مگرجہاں ایک مومن کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ خداتعالیٰ سے ہمیشہ دعائیں مانگتا رہے وہاں اس کے لئے یہ بھی ضروری ہوتاہے کہ وہ لالچ اورحرص کے جذبات سے کلیۃً بالا رہے اورکبھی خداتعالیٰ کا شکوہ اپنی زبان پر نہ لائے ۔اللہ تعالیٰ مومنوںکو اس بارہ نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ لَاتَمُدَنَّ عَیْنیِْکَ اِلیٰ مَامَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًامِّنْھُمْ زَھْرَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَالِفَفْتِنَھُمْ فِیْہِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ
وَّاَبْقٰی(سورئہ طٰہٰ آیت ۱۳۲)یعنی تم اپنی گردن لمبی کرکرکے یہ نہ دیکھا کروکہ فلاں کو جوکچھ ملا ہے وہ مجھے کیوں نہیں ملا ۔تمہیں کیا پتہ کہ اس چیز کاملنا تمہارے لئے فائدہ بخش تھا یانہیں ۔اگر وہی کچھ تمہیں مل جات توممکن تھا کہ تم تکلیف میں پڑ جاتے ۔بیشک اگر کسی کے پاس د س ارب روپیہ بھی موجود ہو تووہ یہ دعاکرسکتا ہے کہ خدایاتو میں تیرے مزید فضلوں کا محتاج ہو ںلیکن اگر کسی کے پاس دس روپے ہوں اور وہ ہروقت کُڑھتارہے اور ایک بے چینی اضطراب اس میں پایاجائے اوروہ کہے کہ فلاں کے پاس تو سوروپیہ ہے اورمیرے پاس صرف دس روپے ہیں اوروہ خداتعالیٰ کا شکوہ کرتا پھرے تویہ درست نہیں ہوگا۔پس بے شک اللہ تعالیٰ کے فضلوں اوراس کے انعاموں کو طلب کرو۔مگر ہمیشہ یہ عادت ڈالو کہ خداتعالیٰ نے تمہیں جس مقام پر رکھا ہے اس مقام کے متعلق تمہارے دل میں کبھی خفگی پیدانہ ہو ۔اورتم یہ نہ سمجھو کہ خداتعالیٰ نے تمہیں گرایاہواہے اورتمہاراغیرتم سے اچھا ہے ۔مثنوی رومی والوں نے ایک حکایت لکھی ہے ۔وہ لکھتے ہیں ۔ایک سپیراتھا جس نے ایک سانپ پکڑا جو کسی اورسپیرے کے پاس نہیں تھا ۔وہ سانپ اس نے نہایت سنبھال کر رکھا ہواتھا اس کے دوست آشنا آتے تووہ بڑے شوق سے وہ سانپ ان کو دکھا تا ۔ایک دن جووہ صبح کو اٹھا تواس نے دیکھا کہ گھڑے میں سے سانپ نکل گیا ہے ۔اتفاقاًاس کا ڈھکنا کھلا رہ گیااورسانپ نکل گیا ۔اب اسے بڑی گھبراہٹ ہوئی اوراس نے خداتعالیٰ کے حضور رونا اورچلانا شروع کردیا ۔کہ خدایامیراسانپ مجھے مل جائے ۔خدایا میراسانپ مجھے مل جائے ۔گھنٹہ دوگھنٹہ دعاکرنے کے بعد وہ گھڑ ے کامنہ کھول کر دیکھتاکہ سانپ اس میں واپس آگیاہے کہ نہیں ۔مگر سانپ کہاں آتا ۔وہ پھر دعامیں مشغول ہوجاتا اسی طرح وہ ساراد ن اورساری رات دعاکرتارہا۔جب صبح ہوئی توایک شخص آیا اوراس نے اسے آکر کہا کہ فلاں گھر میں چلئے وہاں ایک نئی قسم کے سانپ نے ایک شخص کوکاٹا ہے اوروہ مرگیا ہے ۔سب سپیرے وہاں ہیں سانپ پکڑاہواہے اورآپ کو بھی بلایا گیاہے تاکہ آپ اس سانپ کو دیکھ لیں ۔جب وہ گیا اوراس نے سانپ دیکھا تووہ وہی تھا جواس کے گھر سے بھاگاتھا اورجس کے لئے چوبیس گھنٹے سے دعاکررہاتھا ۔معلوم ہوتا ہے اس کے اندر کوئی نیکی تھی جو اللہ تعالیٰ کو پسند آگئی ۔سانپ اس کے گھر سے بھا گا اوردوسرے گھر میں چلا گیا ۔دوسرا شخص یہ سمجھ کر کہ یہ نئی قسم کاسانپ ہے اسے پکڑنے لگا توسانپ نے اسے ڈسا اور وہ مر گیا جب اس نے یہ نظارہ دیکھا تو وہ پھر اللہ تعالیٰ کے حضورسجدہ میں گر گیااورکہنے لگا خدایا میں توسمجھتاتھاکہ تونے میری دعانہیں سنی ۔مگر درحقیقت تونے میری دعاسن لی تھی اوراس کانہ ملنا ہی میرے لئے مفید اوربابر کت تھا ۔توہزاروں دفعہ انسان ایسی خواہشیں کرتاہے جو مضر ہوتی ہیں ۔اولادیں ہی بعض دفعہ ایسی گندی نکلتی ہیں کہ وہ انسان کے لئے بدنامی کاباعث بن جاتی ہیں اوروہ ان کو دیکھ دیکھ کر روتا ہے۔ آخر اتنا توسوچوکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب شادی ہوئی تو وہ بھی یہ دعاکرتے ہوں گے کہ اللہ میاں ہمیں اپنے فضل سے بیٹا دے ۔مگر ظاہر ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ بھی ایک غریب گھرانے سے تھیں اورآپ کے والد بھی کوئی مالدارآدمی نہ تھے۔ ان کی شادی بہت معمولی سرمایہ سے ہوئی ہوگی ۔اورصرف چند آدمی ہوں گے جو اس شادی میں شریک ہوئے ہوں گے لیکن اس کے مقابلہ میں ابو جہل کے باپ کی جب شادی ہوئی ہوگی توکس دھوم دھڑکے سے ہوئی ہوگی اورکس طرح سات سات آٹھ آٹھ دن تک اونٹ ذبح کرکرکے مکہ والوں کی ضیافتیں کی گئی ہوں گی ۔لیکن اس دھوم دھڑکے کی شادی سے ابو جہل پیدا ہوااوراس چپ چپاتے کی شادی سے محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیداہوئے ۔بظاہر ابوجہل کے باپ کی شادی پردنیا کہتی ہو گی کہ کیا برکت والا گھر ہے ۔او رمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ کی شادی پر دنیا کو رحم آتا ہوگا اوروہ کہتے ہوں گے کہ کیسا غریب گھرانہ ہے ۔ مگر اس وقت کسی کے واہمہ اورگمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ جسے یہ برکت والا گھر سمجھا جاتاہے وہ عرب کو تباہ کرکے رکھ د ے گا اورجس کو قابل رحم سمجھاجاتاہے ان کی شادی کے نتیجہ میں وہ وجود پیدا ہونے والا ہے جو نہ اصرف عرب کو تباہی سے بچانے والاہو گا بلکہ وہ ساری دنیا کے لئے رحمت اوربرکت کا موجب ہوگا ۔
غرض کوئی انسان نہیں جانتا کہ وہ جو کچھ اپنے لئے مانگ رہاہے وہ اس کے لئے مفید بھی ہوگا یانہیں۔اس بات کاعلم صرف خداتعالیٰ کو ہی ہوتا ہے اورجب انسان اس قدر محدود علم رکھنے والا ہے تووہ خداتعالیٰ کے کسی سلوک کو یااس کی عطاکردہ نعمت کو براکیوں سمجھے ۔بیشک وہ حضرت موسیٰؑ کی طرح یہ بھی کہے کہ الٰہی تیری طرف سے جوبھی خیر نازل ہو اس کا میں محتاج ہوں ۔اگروہ دس کروڑ دے توتم کہو کہ الٰہی میں دس ارب کامحتاج ہوں لیکن یہ نہ کہو کہ مجھ پر کتنی سختی ہوئی ہے کتنا ظلم ہواہے کتنی تکلیف میں میں مبتلاہو ں۔کیونکہ اس طرح خداتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری ہوتی ہے جوجائز نہیں۔
تیسری صفت جس کی طرف ان مقطّعات میں توجہ دلائی گئی ہے وہ مجید کی صفت ہے ۔مجید کے معنے یہ ہیں کہ خداتعالی بڑی بزرگی اورشان رکھنے والاہے ۔قرآن کریم نے ایک دوسرے مقام پراللہ تعالیٰ کی اس صفت کی طرف ان الفاظ میں بھی اشار ہ فرمایا ہے کہ کُلَّ یَوْمٍ ھُوَفِیْ شَانٍ(الرحمن ع ۲)یعنی تمہاراخداوہ ہے جو ہروقت ایک نئی شان میں جلوہ گرہوتاہے اورہمیشہ اپنے ایسے نشانات ظاہرکرتا ہے جن سے ا س کی اعلیٰ و ارفع شان دنیا پر ظاہر ہوتی ہے حقیقت یہ ہے کہ دیکھی ہوئی چیز کو دوبارہ دیکھنا انسان کو کوئی خاص لطف نہیں دیتا ۔انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے جدت کامادہ رکھا ہواہے اوروہ چاہتا ہے کہ نئے نئے جلوے اس کے سامنے ظاہر ہوں ۔جب ریل گاڑی جاری ہو ئی توشروع شروع میں لوگ اسے عجوبہ سمجھتے ہوئے اس پر پھولوں کے ہار ڈالتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کا جوش ختم ہو گیا ۔پھر ہوائی جہاز اوردوسری سواریاں نکلیں۔توان کی طرف متوجہ ہوگئے۔غرض فطرت انسانی کو ہمیشہ نئی چیزوں سے لطف آتاہے اوروہ نئی نئی چیزوں سے تسلی پاتی ہے ۔کیونکہ جب وہ کوئی نئی چیز دیکھتا ہے توایک نئی امید اس کے اند ر پیداہوجاتی ہے ۔اوروہ سمجھتا ہے کہ شاید کوئی نیا جلو ہ مجھے نظر آنے لگا ہے۔ اسی فطرت کے تقاضہ کو پوراکرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے موسم بدلتے ہیں اورنئے نئے پھل پیداہوتے ہیں ۔اورانسان بیھ اکبھی اپنے لباس میں تغیر کرتاہے کبھی مکا ن میں اورکبھی نئے نئے کھانے تیار کرتاہے کیونکہ نئی چیز سے انسانی فطرت تسکین پاتی اورایک لطیف حظ محسوس کرتی ہے ۔اسی فطری تقاضا کے مطابق مجھے قرآن پڑھ کر بھی بڑامزہ آتا ہے ۔لیکن جب رات کو خداتعالیٰ میرے کان میں کویء بات کہتاہے توکچھ نہ پوچھو کہ اس کا کیا مزہ ہوتا ہے۔کیونکہ وہ ایک نئی چیز ہوتی ہے جو دل کو لذت او رسرور سے بھر دیتی ہے ۔غرض اسلام بتا تا ہے کہ تمہاراخدامجید ہے اوروہ ہمیشہ اپنی ایسی قدرتیں ظاہرکرتا ہے جن سے اس کی اعلیٰ خان اورمجد کااظہار ہوتاہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دیکھ لو کسرہ نے یہودیوں کی انگیخت پر گورنریمن کو آرڈ ربھجوایا۔کہ عرب میں جو ایک نیا مدعی نبوت پیداہواہے اسے گرفتار کرکے میرے پاس بھجوادیاجائے ۔گورنر یمن نے آپ کی گرفتاری کے لئے اپنے سپاہی بھجوادیئے اورانہیں کہا کہ میری طرف انہیں پیغام دیدیا جائے کہ مجھے تومعلوم نہیں کہ آپ کاکیا قصور ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ آپ آجائیں ۔ورنہ ممکن ہے کہ کسرہ کی فوجیں عرب پر دھاوابول دیں اورساراملک ایک مصیبت میں گرفتارہوجائے۔جب وہ پیغامبر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورانہوں نے آپ کواپنے ساتھ چلنے کو کہا توآپ نے فرمایا ٹھہرومیں تمہیں پھر جواب دوں گا ۔چنانچہ وہ دودن ٹھہرے اورپھر حاضر ہوئے ۔آپ نے فرمایاایک دن اورٹھہر جائو ۔تیسرے دن جب وہ آپ سے ملے تو آپ نے فرمایا۔جائو اپنے گورنرسے کہہ دوآج رات میرے خدانے تمہارے خداوند کو مار ڈالا ہے ۔وہ سخت حیران ہوئے کہ آپ نے یہ کیا بات کہی ہے اورانہوں نے پھر آ پ سے ساتھ چلنے کی درخواست کی ۔مگر آپ نے فرمایا میں نے تمیں جواب دیدیا ہے ۔جائو اوراپنے گورنرسے یہ بات کہہ دو ۔چنانچہ انہوں نے واپس جاکر گورنرسے یہی بات کہہ دی ۔گورنر یمن نے یہ بات سنی تو وہ کہنے لگا کہ یاتویہ شخص پاگل ہے اوریا پھر خداکاسچا نبی ہے ۔ہم چند دن انتظارکرتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ اس کی یہ بات سچی ثابت ہوتی ہے یانہیں۔چنانچہ تھوڑے ہی دنوں کے بعد یمن کی بندر گاہ پر ایک جہاز لنگر انداز ہوا۔ اوراس میں سے ایک سفیر اُترا ۔جو گورنر یمن کے نام ایک سربمہر لفافہ لایا۔گورنر یمن نے لفافہ دیکھا تو اس پر ایک نئے بادشا ہ کی مہر تھی ۔اس نے وہ مہر دیکھتے ہی اپنے درباریوںسے کہا کہ عرب کے نبی کی بات سچ معلوم ہوتی ہے ۔پھر اس نے خط کھولا تو وہ کسریٰ کے بیٹے شیرویہ کا تھا اوراس کا مضمون یہ اتھا کہ ہماراباپ سخت ظالم تھا اوراس نے تمام ملک میں تباہی مچا رکھی تھی میں نے اسے فلاں رات قتل کردیا ہے اوراب میں اس کی جگہ تخت حکومت پر بیٹھا ہوں۔تمہارافرض ہے کہ تم اپنی مملکت کے تمام لوگوں سے میری اطاعت کا اقرار لو اورمجھے یہ بھی معلوم ہواہے کہ اس نے جوسفاکیاں کی تھیںان میں سے ایک یہ بھی سفاکی تھی کہ اس نے عرب کے ایک مدعی نبوت کے متعلق لکھا تھا کہ اسے گرفتار کرکے میرے پا س بھجوادیاجائے ۔ہم اس حکم کو بھی منسوخ کرتے ہیں ۔(طبری جلد ۳ص ۱۵۸۳و ۱۵۸۴)۔اب دیکھو کسریٰ نے چاہاکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتارکرکے آپ کو سزادے اوراس طرح دنیا میں آپ کو ذلیل کرے مگرمجید خدانے آپ کی بزرگی اورعظمت کو اوربھی دوبالا کردیا اورکسریٰ کو اس کے اپنے بیٹے کے ہاتھو ں قتل کروادیا۔
اسی طرح حضرت نظام الدین صاحب اولیاءؒجودِلّی کے ایک بہت بڑے بزرگ گذرے ہیں ۔ان کے زمانہ کا بھی ایک بادشاہ غیاث الدین تغلق ان کامخالف ہوگیا ۔وہ اس وقت بنگال کی طرف کسی جنگ پر جارہاتھا ۔اس نے کہا جب میں واپس آئوں گا تو انہیں سزادوں گا ۔ان کے مریدوں نے یہ بات سنی توبڑے گھبرائے اورانہوں نے شاہ صاحب سے آکر کہا کہ حضورجو لوگ شاہی دربار میں رسوح رکھتے ہیں اگر ان کی ذریعہ بادشاہ کے پاس سفارش ہوجائے تو بہتر ہوگا ۔آپ نے فرمایا۔ہنوز دِلّی دوراست ۔ابھی تواس نے لڑائی کے لئے جانا ہے اورپھر دشمن سے جنگ کرنی ہے ابھی سے فکر کی کیا ضرورت ہے ۔اس وقت تووہ دلی میں موجود ہے اورلڑائی کے لئے گیا بھی نہیں۔پھر آٹھ دس دن اَورگذرگئے ۔تومرید پھر گھبرائے ہوئے آپ کے پاس آئے ۔اورکہا ۔حضور اب تو آٹھ دس دن گذر چکے ہیں اوربادشاہ لڑائی کے لئے جاچکا ہے ۔اب توکو ئی علاج سوچنا چاہیئے ۔مگر آپ نے پھر وہی جواب دیا کہ ہنوز دلی دوراست۔آخر جس جنگ پر وہ گیا تھا اس کے متعلق خبر آگئی کہ اس میںبادشاہ کو فتح حاصل ہوگئی ہے اورو ہ واپس آرہاہے ۔ مرید پھر گھبرائے ہوئے آپ کے پاس پہنچے اوربادشاہ کی واپسی کی خبر دی ۔مگر آپ نے پھر یہی جواب دیاکہ ہنوز دلی دور است ۔ابھی تو وہ دوچار سومیل کے فاصلہ پر ہے ۔ابھی کسی فکر کیاضرورت ہے ۔جب وہ آٹھ دس منزل کے فاصلہ پر پہنچ گیا تووہ پھر آئے اورانہوں نے کہا کہ اب تو و ہ بہت قریب آگیا ہے ۔آپ نے فرمایا ۔ہنوز دلی دور است۔جب و ہ اورزیادہ قریب آگیا اوردوتین منزل تک پہنچ گیا توپھر آ پ کے مرید سخت گھبراہٹ کی حالت میں آپ کے پاس پہنچے مگر اپ نے پھر یہی جواب دیا کہ ہنوز دلی دو ر است ۔آخر ایک دن پتہ چلا کہ بادشاہ کی فوجیں فصیل کے باہر ٹھہر گئی ہیں ۔ان کے مرید یہ خبر سن کر پھر آپ کے پاس آئے اورکہا ۔حضور اب تو وہ دلی کی فصیلوں تک آپہنچا ہے ۔آپ نے فرمایا ۔ہنوز دلی دور است ۔ابھی تو وہ فصیل کے باہر ہے ۔اندرتوداخل نہیں ہواکہ ہمیں گھبراہٹ ہو۔اسی رات ولی عہد نے فتح کی خوشی میں ایک بہت بڑی دعوت کی اورشاہانہ جشن منایا ہزاروں لو گ اس دعوت اوررقص و سرود کی محفل میں شریک ہوئے ۔ولی عہد نے اس دعو ت کا انتظام ایک بہت بڑے محل کی چھت پر کیا تھا ۔چونکہ چھت پر بہت زیادہ لوگ اکٹھے ہو گئے تھے اس لئے اچانک چھت نیچے آگری ۔اورباد شاہ اوراس کے رفقاء سب د ب کر ہلا ک ہوگئے ۔ صبح بادشاہ کی موت کی خبر آئی ۔توانہوں نے کہا ۔کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ ہنوز دلی دور است۔ ۱؎
غرض ہمار اخدا بڑی بزر گ شان والا ہے اورجو بھی اس کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرتا ہے و ہ اپنی اپنی رووحانیت اور درجہ کے مطابق بزرگی حاصل کرلیتا ہے ۔اورجس اطرح خداتعالیٰ کی شان اورعظمت پر حملہ کرنے والاسزاپاتا ہے اسی طرح و ہ لو گ جو خداتعالیٰ کے مقربین پر حملہ کرتے ہیں وہ بھی اپنے کئے کی سزاپائے بغیر نہیں رہتے ۔
دنیا میں ہزارہا انبیاء گذرے ہیں جن میں سے اکثر کے نام بھی ہمیں معلوم نہیں۔ان کے جسم ہزاروں من مٹی کے نیچے مدفون ہیں اوران کی اپنی قائم کردہ جماعتیں بھی دنیا میں موجود نہیں ۔مگرچونکہ وہ ایک خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے کھڑے ہوئے تھے اس لئے خدانے انہیں ایسی بزرگی عطا فرمائی کہ آج بھی اگر کوئی ان کی ہتک کرتاہے توخداآسمان سے ان کی مدد کے لئے دوڑاچلا آتا ہے اوران کی عزت او ر شہرت پر لگایا جا نے والاہرداغ مٹاکر رکھ دیتا ہے۔
غرض طٰسٓمٓ میں اللہ تعالی کی تین صفات لطیف ،سمیع اورمجید کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اوربتایا گیا ہے کہ اس سورۃ میں خداتعالیٰ کے عالم اسرار ہونے اس کے محسن عظیم ہونے اوراس کے سمیع الدُّعاہونے اوراس کے صاحب عظمت و جبروت ہونے پر روشنی ڈالی
۱؎ ۔’’مشاہیر اسلام ‘‘شائع کردہ ادارہ صو فی ص ۱۵،۱۶ و تذکرۃ الاولیا ء حصہ دوم مصنفہ رئیس احمد جعفری ص ۳۴۲۔
گئی ہے اوران صفات کو واقعات کے رنگ میں ثابت کیاگیا ہے۔چنانچہ اس کے ثبوت میں پہلی بات ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ تِلْکَ اٰیَاتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْن یہ آیات ایک ایسی کتاب کی ہیں جو ہرایک حقیقت کو خو ب کھول کر بیان کرنے والی ہے اوریہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کتاب کو نازل کرنے والاخداانسان کی تمام ضروریات کو جانتااوراس کی فطرت کے مخفی اسرار تک سے آگاہ ہے ۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اس میں مبین کالفظ رسول کریم صلکی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی استعمال ہواہے ۱؎۔نور کے متعلق بھی استعما ل ہواہے ۲؎۔فضل کے متعلق بھی استعمال ہواہے ۳؎۔حق کے متعلق بھی استعمال ہواہے ۴؎۔اسی طرح اورکئی چیز وں کے متعلق بھی استعمال ہواہے ۔مگرکسی الہامی صحیفہ کے متعلق سوائے قرآن کریم کے مبین کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔حضر ت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کے متعلق صرف ایک د فعہ یہ مضمون بیان ہواہے مگر وہاں مستبین کالفظ استعمال کیاگیاہے نہ کہ مبین کا ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَاٰتَیْنَھُمَا الْکِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَ( اَلصّٰفّٰت ع ۴)ہم نے موسیٰؑ اورہارونؑ دونوں کو ایک کامل کتاب دی جس می تمام احکام بیان کئے گئے تھے ۔اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ قرآن کریم دونوںمضمونوں میں فرق کرتاہے ۔قرآن کریم میں یہ لفظ اس کی نسبت بارہ دفعہ استعمال ہواہے ۔دس دفعہ کتا ب کے ساتھ اوردودفعہ قرآن کے لفظ کے ساتھ۔پس ایک جگہ مستبین اوردوسری جگہ مبین کالفظ استعمال کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ ایک جگہ وضاحت اوردوسری جگہ وضاحت اور ایضاح کی طرف اشارہ کرنامقصودہے۔کیونکہ اِستبان کے معنے واضح ہوجانے کے ہیں اوراَبَانَ کے معنے واضح ہونے کے بھی ہیں اورواضح کردینے کے بھی ہیں۔پس قرآن کریم کے متعلق مبین کالفظ استعمال فرماکر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ قرآن کریم کودوسری کتب پر یہ ایک زائد فضیلت حاصل ہے ۔کہ وہ نہ صرف خو د اپنے مطالب کے لحاظ سے واضح ہے اورایسی صداقتیں بیان کرتاہے جوایک ثابت شدہ حقیقت ہوتی ہیں بلکہ وہ موضح بھی ہے یعنی وہ دوسری الہامی کتب کی صداقتوں کو بھی
واضح کرتاہے ۔اوریہ ایک ایسی فضیلت قرآن کریم کو حاصل ہے جس میں اس کے ساتھ اورکوئی کتاب شامل نہیں باقی جس قدر الہامی کتب ہیں ان کا صرف اس قد رکام تھا کہ وہ اپنے مطالب کو واضح کردیتیں اوراپنے مدعاکوظاہر کردیتیں۔کیونکہ وہ صرف ایک ایک قوم کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی تھیںان کواس سے کوئی تعلق نہیں تھا کہ باقی کتب جھو ٹی ثابت ہوتی ہیں یا سچی۔باقی انبیاء جھوٹے ثابت ہوتے ہیں یا سچے ۔باقی قومیں خداتعالیٰ کے نور کی وارث ثابت ہوتی ہیں یامحروم ثابت ہوتی ہیں۔وہ صرف اپنے ذکر کولے لیتی تھیں یااپنے حلقہ اوردائرہ تک محدود رہتی تھیں لیکن قرآن کریم چونکہ سب اقوام کو ایک نقطئہ مرکزی پر جمع کرنے کے لئے آیا ہے وہ نہ صرف بنی نوع انسان سے تعلق رکھنے والے تمام احکام کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرتاہے اوران کے ہر گوشہ کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ وہ پہلی کتابو ںکی حقیقت کو بھی ظاہرکرتاہے اورپہلے نبیوں پر عائد شدہ الزاموںکو دور کرتاہے اورپہلی کتب کی کوتاہیوں کو دلائل کے ذریعہ اعتراضات سے پاک کرتاہے ۔مثلاً انسانی فطرت کے ارتقاء کی طرف اشارہ کرکے یالوگوں کی دست اندازی کی طر ف اشارہ کرکے یالوگوںکے استنباط کو غلط بتاکر ۔غرض وہ پہلے نبیوں پہلی کتب اورپہلی اقوام کی خوبیوں کو بھی واضح کرتاہے اوران پر عائد
۱؎ ۔زخر ف آیت ۳۰ و دُخان آیت ۱۴ ۲؎ ۔نساء آیت ۱۷۵ ۳؎ نمل آیت ۱۷ ۔ ۴؎ ۔نو رآیت ۲۶
ہونے والے اعتراضات کو بھی ردّ کرتاہے اس طرح و ہ گویامستبین کے مقام سے نکل کر مبین کے مقام تک پہنچ جا تاہے ۔اس کی مثال کے طور پر دیکھ لو بنی اسرائیل جب مصر سے نکل کرکنعان کی طر ف آئے توبائیبل بتاتی ہے کہ بنی اسرائیل کے بیس سال سے زائد عمرکے لڑنے کے قابل مردوں کی تعداد بارھویں قبیلہ کو چھو ڑکر جن کی گنتی نہیں کی گئی تھی چھ لاکھ تین ہزار پانچ سو پچا س تھی ۱؎۔اگر بارھویں قبیلہ کا بھی اندازہ کرلیا جائے توہم کہہ سکتے ہیں کہ فوجی خدمات سرانجا م دینے کے قابل مرد ساڑھے چھ لاکھ تھے۔اگرعورتوں بچوں اور بوڑھو ںکی تعداد معلوم کرنے کے لئے ہم اس تعداد کو دس گناکرلیں کیونکہ عام طورپر چھ سے دس فیصدی تک ملک کی آبادی جنگی خدمت کے قابل سمجھی جاتی ہے تویہ تعداد ساٹھ لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔مگرعقل اس امر کو تسلیم نہیں کرسکتی کہ بنی اسرائیل ساٹھ لاکھ ہوں۔کیونکہ اول تواتنے آدمی مصر سے اتنے قلیل عرصہ میں نکل ہی نہیں سکتے تھے جتنے قلیل عر صہ میں وہ نکلے دوسرے یرونؔپارکی بستی جس میں وہ آکر بسے ہیں اس قدر آبادی کی متحمل ہی نہیں ہوسکتی تھی ۔اب بھی فلسطین کی آبادی پندرہ لاکھ ہے ۔حالانکہ اب یہودیوں نے امریکہ کی مدد سے اسے آباد کیاہے ۔پس اس ملک میں جو پہلے سے آباد تھا ۔ ساٹھ لاکھ آدمیوں کاآکر بس جانا بالکل خلاف عقل بات ہے۔ پس بائیبل بنی اسرائیل کی جو تعداد بناتی ہے ۔وہ عقلی لحاظ سے کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں سمجھی جاسکتی مگر قرآن کریم نے آکر بتایاکہ یہ با ت غلط ہے ۔وہ لو گ صرف چند ہزار تھے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَ رَ الْمَوْتِ۔(بقرہ آیت ۲۴۴)یعنی کیا تجھے ان لوگوں کاحال معلوم نہیں جواپنے گھروں سے موت کے ڈ رسے نکلے جبکہ وہ چند ہزار تھے ۔پس بائیبل نے تویہ بتایا کہ بنی اسرائیل لاکھوں کی تعداد میں مصر سے نکلے تھے ۔لیکن قرآن کریم نے اس غلطی کی اصلاح کی اوربتایاکہ وہ لاکھوں نہیں بلکہ ہزاروں تھے۔
اسی طرح حضرت سلیمانؑ خداتعالیٰ کے ایک مقدس نبی تھے مگر بائیبل نے ان پر شرک کا الزام لگادیااورکہا کہ
’’جب سلیمان بُڈھا ہوگیا تواس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کرلیا اوراس کا دل خداوند اپنے خداکے
ساتھ کامل نہ رہا ‘‘ (نمبر ۱ صلاطین باب ۱۱آیت ۴و ۵)
پھر لکھا ہے :۔
’’ خداوند سلیمان سے ناراض ہوا کیونکہ اُس کا دل خداوند اسرائیل کے خدا سے پھر گیا تھا ۔‘‘
پھر یہ شرک سلیمانؑ نے ایسی حالت میں کیا جبکہ خدا تعالیٰ نے دوباردکھائی دے کر اُس کو اس بات کا حکم کیا تھا کہ وہ غیر معبودوں کی پیروی نہ کرے ۔پر اُس نے وہ بات نہ مانی جس کا حکم خداوند نے دیا تھا۔‘‘(۱۔سلاطین باب۱۱ آیت ۹,۱۰)
گویا سلیمانؑ نعوذ باللہ اتنا خطرناک کافر تھا کہ دودفعہ خدا اُس پر ظاہر ہوا اور دودفعہ اُس نے ظاہر ہو کر کہا ۔کہ دیکھنا غیر معبودوں کی پرستش نہ کرنا ۔مگر پھر بھی وہ اپنی بیویوں کے حسن کو دیکھ کر ایسا فریفتہ ہوا کہ اس نے غیر معبودوں کے لئے مندر بنائے اور انکے آگے سجدہ کرنے لگ گیا مگر قرآن کریم نے آکر بتایا کہ وماکفر سلیمان ولکن الشاطین کفروا( بقرہ آیت ۱۰۳)سلیمان نے کفر کی کوئی بات نہیںکی بلکہ اس پر الزام لگانے والے اوراسے کافر اور مشرک قرار دینے والے خود کافر اور بے
۱؎۔گنتی باب ۲ آیت ۳۲
ایمان تھے چنانچہ تاریخی شہادتیں بھی یہی بتاتی ہیں کہ جو قرآن نے بات کہی ہے وہی ٹھیک ہے اور بائبل کی بات غلط ہے ۔چنانچہ انسائیکلو پیڈیا ببلیکامیں لکھا ہے ۔
یہ بات صحیح ہے کہ حضرت سلیمان ؑ کی بہت سی بیویاں تھیں کچھ اسرائیلی اور کچھ غیر اسرائیلی ۔لیکن نہ تو انہوں نے ان سب کے لئے قربان گاہیں بنائی تھیں اور نہ انہوں نے اپنی بیویوں کے دیوتائوں کی عبادت کو کبھی خداتعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ملایاتھا ۔آپ خداتعالیٰ کی وحدانیت کے انکار کاکبھی تصور بھی نہیں کرسکتے تھے
گویا تاریخ نے تسلیم کرلیا کہ بے شک حضرت سلیمان علیہ السلام کی کئی بیویاںتھیں کچھ یہودی اور کچھ غیر یہودی مگر یہ غلط ہے کہ انہوں نے بت خانے بنائے اور پھر یہ بھی جھوٹ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی بت سو سجدہ کیاہو ۔اب دیکھو بائبل توکہتی ہے کہ انہوں نے بتوں کو سجدے کئے اور قرآن کہتاہے کہ نہیں کئے اور آج کایہودی محقق اور آج کا عیسائی محقق بھی کہتاہے کہ بائبل جھوٹ کہتی ہے سچی بات وہی ہے جو قرآن کہہ رہاہے ۔
پھر بائبل میں حضرت ہارون علیہ السلام کے متعلق کہا گیا ہے کہ انہوں نے بنی اسرائیل کو بچھڑابنا کردیا اور انہیں شرک کی راہ پر چلایا ۔چنانچہ بائبل میںلکھا ہے ۔
’’اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسی نے پہاڑ سے اترنے میں دیر لگائی تووہ ہارون کے پاس جمع ہوکراس سے کہنے لگے کہ اٹھ ہمارے لئے دیوتا بنادے ۔جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس مرد موسیٰ کو جوہم کوملک مصر سے نکال لایاکیاہوگیا ہارون نے ان سے کہا ۔تمہاری بیویوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں ان کو اتار کرمیرے پاس لے آئو ۔چنانچہ سب لوگ ان کے کانوں سے سونے کی بالیاں اتار اتار کران کو ہارون کے پاس لے آئے اور اس نے ان کو ان کے ہاتھوں سے لے کر ایک ڈھالا ہوا بچھڑا بنایا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی۔ تب وہ کہنے لگے اے اسرائیل یہی تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال لایا‘‘(خروج باب ۳۲آیت ۱تا۴)
مگر قرآن نے آکر بتایاکہ یہ بالکل غلط بات ہے۔حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنی قوم کو شرک سے بڑی سختی کے ساتھ روکاتھا اور کہاتھا کہ یاقوم انّما فتنتم بہ وانّ ربّکم الرّحمٰن فاتّبعونی واطیعواامری(طٰہٰ آیت۹۱) یعنی اے میری قوم اس بچھڑے کے ذریعہ تمہاراایمان خراب کردیا گیاہے اور تمہارا رب تو رحمان ہے اور یہ ایک ذلیل اور بیجان بچھڑا ہے ۔پس تم میری فرمانبرداری کرو ۔اور میرے پیچھے چلوسامری کے پیچھے نہ چلوجس نے تمہیںاس شرک کی طرف مائل کیا ہے ۔غرض بائبل نے خداتعالیٰ کے ایک مقدس نبی ہارون ؑ کو داغدار قرار دیا ہے مگر قرآن کریم جو مبین کے مقام پر ہے اس نے آکر بتایا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے خداتعالیٰ کافرستادہ ہارون ؑ اپنی قوم کو ہمیشہ توحید کا ہی وعظ کرتا رہا ۔ یہ قوم کی بدبختی تھی کہ وہ سامری کے پیچھے چل پڑی اور اُس نے ایک بچھڑے کی پرستش شروع کردی ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام پربھی یہودیوں اور عیسائیوں نے بعض خطرناک الزامات لگائے تھے جن کی قرآن کریم نے بڑے زور سے تردید کی اور بتایا کہ وہ تمام ازامات دشمنوں کا افتراء ہیں ۔مثلاً یہود کہتے تھے کہ آپ کی پیدائش نعوذ باللہ بدکاری کے نتیجہ میں ہوئی تھی۔ یعنی یوسفؔ کے نطفہ سے بغیر شادی کے آپ پیدا ہوئے( انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا جلد۵ صفحہ ۱۰۲زیر لفظ celsus اسی طرح بعض یہودی یہ الزام لگاتے تھے کہ آپ نعوذ باللہ ایک رومی سپاہی سپنیتھراؔ کے بیٹے تھے جن کا حضرت مریم صدیقہ سے ناجائز تعلق تھا ( جیوش انسائیکلو پیڈیا جلد ۷صفحہ ۱۷۰ کالم اول) مگر قرآن کریم نے حضرت مریم ؓ کو اس الزام سے پاک ٹھہرایا اور یہ اعلان فرمایا کہ ذالَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْھَا بِنْ رُّوْ حِنَا رَجَعَلْنَا ھَا وَابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ (انبیاء آیت ۹۲)یعنی مریم صدیقہؓ نے جو حضرت میسحؑ کی والدہ مطہّرہ تھیں اپنے تمام سوراخوں کو گناہ سے محفوظ رکھا تھا۔ اور اُن کو جو حمل ہوا وہ ناجائز نہیں تھا بلکہ ایک پاک روح تھی جو اُن کے اندرہم نے داخل کی اور ہم نے اُس کو اوراُس کے بیٹے عیسیٰؑ کو تمام دُنیا کے لئے ایک نشان بنا دیا ۔
اِسی طرح عیسائی آپ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ نعوذ باللہ صلیب پر لٹک کر *** موت مرے ۔چنانچہ عہدنامہ جدید میں پولوسؔ کہتا ہے :۔
’’مسیح جو ہمارے لئے *** بنا اُس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی *** سے چھڑایا کیونکہ لکھا ہے جو کوئی لکڑی پر لٹکایاگیا وہ *** ہے۔‘‘(گلتیوں باب ۲آیت ۱۳)
گویا عیسائیوں نے خدا تعالیٰ کے ایک مقرب کو اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ملعون قرار دے دیا ۔مگر قرآن کریم نے اس الزام کو ردّ کیا اور خود حضرت مسیح کی زبان سے ان الفاظ میں تردید کی کہ وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ دُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا (مریم آیت ۳۴)یعنی جو لوگ مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ میری پیدائش حرامکار ی کے نتیجہ میں تھی وہ غلط کہتے ہیں ۔کیونکہ میری پیدائش پر خداتعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہوئی تھی اورجو لوگ یہ کہیں گے کہ میں *** موت مراوہ بھی غلط کہیں گے ۔کیونکہ میری موت بھی خداتعالیٰ کی حفاظت میں ہوگی اورلعنت کی موت سے میں بچایاجائوں گا ۔اورجو لوگ یہ کہیں گے کہ میں دوسروں کے گناہ اُٹھا کر تین دن جہنم میں پڑارہا۔وہ بھی غلط کہیں گے کیونکہ میری دوبارہ حیات بھی خداتعالیٰ کی سلامتی سے شروع ہوگی ۔
غرض قرآن کریم ان تمام اعتراضات کو ردّکرتاہے جو بائیبل میں لوگوں کی دست اندازی کی وجہ سے شامل ہوچکے تھے۔ اوراپنے فرستادوں کوایک بے عیب شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتاہے ۔اسی قسم کے الزامات ہندوئوں نے بھی اپنے بعض رشیوں اوراوتاروں پر لگائے ہیں۔مثلاً حضرت کرشن کے متعلق لکھا ہے کہ ان کی والد ہ نے انہیں کہا کہ
’’بیٹا !نولاکھ گائیں میرے یہاں دودھ دینے والی ہیں جتنا دودھ مکھن چاہیئے کھایااورلٹایا کرو۔دوسروں کے گھر ماکھن کھانے اورچُرانے مت جایاکرو۔‘‘ (شریمد بھاگوت پُران اسکندھ نمبر۱۰ نمبر۸؍۱۰)
گویا حضرت کرشن نعوذ باللہ مکھن چُراچُراکر کھا یا کرتے تھے حالانکہ ان کے اپنے گھر میں نولاکھ گائے تھی۔
اسی طرح لکھا ہے کہ وہ غیرعورتوں کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول رہاکرتے تھے اورایک عورت کاخاص طور پر نام لے کر لکھا ہے کہ حضرت کرشن نے رات کے وقت اسے جگاکرکہا کہ
’’اے سندری!نیند کو چھوڑ کر مجھ کو شرنگار دان (یعنی دادِ عیش)دے ۔‘‘ (برہم دی درت پران کرشن جنم کھنڈ نمبر ۴ ادھیائے نمبر ۷۲)
مگرقرآن کریم نے حضر ت کرشن اوراسی طرح اَورکئی انبیاء کاجن کے نام تک صفحہ ء تاریخ میںمحفوظ نہیں اجمالی طورپر ذکر کرکے فرمادیا کہ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدَاھُمُ اقْتَدِہُ(انعام ع ۱۰)یعنی یہ سارے کے سارے وہ لو گ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ۔یعنی یہ سب کے سب منعم علیہ گروہ میں شامل تھے اورخداتعالیٰ کے فضلوں اوراس کی تائیدات کے مورد تھے ۔پس اب تمہاراکام یہی ہے کہ تم انہی لوگوں کے راستہ پرچلو اوانہی کی تقلید کرو۔اس سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم تمام انبیاء کو معصوم قرار دیتا اورہرالزام کورد کرتاہے جوان پر لگایا گیا۔خواہ وہ الزام منافقوں کی طرف سے لگایاگیاہو یا مخالفوں کی طرف سے ۔وہ ان کے حسین چہر ہ پر سے ہرقسم کی گردوغبارکو دور کرتا اوران کی نورانیت کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرتاہے اوریہ قرآن کریم کااتنا بڑا احسان ہے کہ جس کی نظیر دنیا کی اَورکوئی کتاب پیش نہیں کرسکتی ۔
پھر رقرآن کریم نے اپنے مبین ہونے کے مقام کو اس طرح بھی ظا ہرکیا کہ اس نے دنیاکے ہرنبی کی عزت کوقائم کیا اوران کی صداقت پر ایمان لانا ضروری قراردیا۔اس میںکوئی شبہ نہیں کہ دنیا کے جس ملک کے حالات سے بھی واقفیت حاصل کی جائے اس کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ کسی نہ کسی بزرگ کو ماننے والے ہیں ۔مگروہ ساری بزرگی صر ف اپنے اپنے بزرگوں تک محدود سمجھتے ہیں ۔ہندوستان کے لوگ اگر حضرت کرشن اورحضرت رامچندر جی کو خداتعالیٰ کا اوتار مانتے ہیں توساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے سوااَورکسی ملک میں کوئی اوتار نہیں ہوا۔ اسی طرح عیسائی اوریہودی بھی یہی کہتے ہیں کہ صرف ہمارے بزرگ سچے تھے باقی سب جھوٹے ہیں ۔لیکن قرآن کریم نے بتایاکہ اِنْ مِنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَانَذِیْرٌ(سورئہ فاطر آیت ۲۵)دنیا کی کو ئی قوم ایسی نہیں جس میں خداتعالیٰ کا کوئی مصلح اورہادی مبعوث نہ ہواہو۔چنانچہ جب ہم مختل اقوام پر نظر دوڑاتے ہیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ و ہ سب کی سب اس بات کی قائل ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کاکوئی نہ کوئی مصلح آیاتھا ۔ہم ہندوئوں پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں ان میں حضرت کرشن اورحضرت رامچندر جی کاوجود دکھائی دیتاہے ۔ہم عیسائیوں پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہم ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وجود نظرآتا ہے ۔ہم یہودیوں پر نگاہ دوڑاتے ہیں توہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام اوردوسرے کئی انبیاء نظر آتے ہیں ۔غرض دنیا کا کوئی خطہ ایسانہیں جس میں کوئی نبی نہ آیا ہو ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ جیسے عرب کاخداہے ویسے ہی وہ ہندوستان اورچین اورشام اورمصر اورایران وغیرہ کابھی خداہے۔اس نے ساری دنیاکے لئے سورج اورچاند اورستارے سب ایک جیسے بنائے ہیں ۔ایک ہی زمین سب کے لئے بنائی ہے۔پھر جب اس نے سب لوگوں کی جسمانی ضرورتوں کو پوراکیاہے توروحانی ضرورتوںکو وہ کس طرح نظر انداز کرسکتا تھا جبکہ روح کی حفاظت جسم سے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ جسم فانی ہے اورروح غیر فانی ۔چنانچہ ایک مسلمان جب اس آیت کو پڑھتاہے تواس کے دل میں تصدیق کی خواہش پیداہوتی ہے۔وہ ہندوئوں کے پاس جاتا ہے اورڈرتے ڈرتے ان سے پوچھتا ہے کہ آپ کی قوم میں بھی کو ئی نبی آیا تھا ۔وہ کہتے ہیں ہاں حضر ت کرشن اورحضرت رامچند رجی اللہ تعالی کا کلام لے کر آئے تھے وہ اپنے وقت کے اوتار تھے۔یہ سن کر اس کا چہرہ بشاشت سے کھل جاتاہے اوروہ کہتا ہے الحمد للہ!یہ بات سچی ثابت ہوگئی کہ ہرقوم میں نبی آئے ہیں۔پھر وہ چین میں جاتا ہے ۔اوروہاں کے لوگوں سے پوچھتاہے کہ آپ کی قوم میں بھی کو یء نبی آیاہے تووہ کنفیوشس کا نام لیتے ہیں ۔اس پر اس کادل اَور بھی زیادہ مسرور ہوجا تاہے کہ الحمد للہ چین میں بھی اللہ تعالیٰ کانبی آیا ہے ۔پھر وہ ایران میں جاتاہے اوروہاں کے لوگوں سے پوچھتا ہے کہ آپ کے پاس بھی کوئی نبی آیا ہے تووہ حضرت زرتشت کانام لیتے ہیں ۔یہ سن کر وہ خوشی سے اپنے جامہ میں پھولانہیں سماتا۔اورکہتاہے کہ اب تو یہ با ت اوربھی پختہ ہوگئی۔پھر وہ یونان میں جاتاہے اوروہاں کے لوگوں سے دریافت کرتاہے کہ تمہارے پاس بھی کو ئی اللہ کا پیغام لے کر آیا ہے ۔تووہ کہتے ہیں ۔ہاں ہمارے ملک میں سقراط اس بات کا دعویدار تھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ہمکلام ہوتاہے ۔اس پر وہ اورزیادہ مسرو ر ہوتاہے اورکہتاہے الحمدللہ میراقرآن یہاں بھی سچاثابت ہوا۔غرض و ہ جس ملک میں بھی جاستاہے اس کی گردن فخر سے اونچی ہوجاتی ہے۔اوراس کادل اس لذت اورسرورسے بھرجاتاہے کہ میری کتاب میں جوکچھ کہاگیاتھا وہ حرف بحر ف درست ثابت ہوا۔لیکن ایک عیسائی ایک ہندواورایک یہودی جس ملک میں بھی جاتاہے۔ ا س کامنہ غم سے کالاہوجاتاہے۔وہ مڈل ایسٹ میں جاتاہے اورسنتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے نبی ہیں تواس کا د ل جل جاتاہے ۔برمامیں جاتا ہے اورسنتا ہے کہ بدھا نبی ہے تووہ رونے لگ جاتاہے ۔ہندوستان میں سنتا ہے کہ کرشن نبی ہے تواس پر جنون سوارہوجاتاہے۔یونان میں جاتاہے اوراسے پتہ لگتاہے کہ اس ملک میں سقراط گذراہے تووہ چیخیں مارنے لگ جاتاہے ۔غرض وہ جس ملک میں بھی جاتاہے اس پر مصیبت آجاتی ہے۔ مگرایک مسلمان جس ملک میں بھی جاتاہے اسے خوشی پر خوشی نصیب ہوتی ہے اورہرملک میں یہ تعلیم اس کی سربلندی اورسُرخروئی کاموجب ہوتی ہے ۔غرض یہ ایک چھوٹی سی آیت ہے ۔لیکن اس چھوٹی سی آیت کو ہی لے کر ساری دنیا میں پھر جائو۔کسی بزرگ کی بڑائی سن کر تمہارے دل میں انقباض پیدانہیں ہوگا اورتمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ قرآن کریم نے یہ تعلیم پیش کرکے باقی تمام الہامی کتب پر اپنی فضیلت کو ثابت کردیاہے ۔پھر خود انسانی وجود جو اللہ تعالیٰ کی وحی کی مہبط اوراس کے انوار وبرکات کامورد تھا اس کے متعلق بھی بعض مذاہب نے یہ غلط نظریہ پیش کیا کہ وہ طبعاً میلان گناہ رکھتاہے۔اوراس کی وجہ اللہ تعالیٰ کی وہ نافرمانی ہے جو آدم اورحوّانے کی جس کی بنا پر وہ فطرتی طورپر گناہگارپیداہوا۔اسی طرح بعض دوسرے مذاہب نے یہ کہناشروع کردیا کہ انسان اپنی تمام کوششوں کے باوجود کبھی پاک نہیں ہوسکتا۔اوراس کی روح کو بار بار مختلف قسم کی جُونوں کے چکر میں ڈالاجا تاہے ۔اول الذکر نظریہ ہمیں عیسائیت کی طرف سے اورثانی الذکر ہندومذہب کی طر ف سے پیش کیا گیا ۔اوردونوں نے انسانی فطرت کو گندہ اورناپاک قرار دیا ۔اوراس کااتنا پروپیگنڈاکیا گیاکہ وہ انسان جو اس لئے پیداکیا گیا تھاکہ اسے اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل ہو اوراپنے اندر اعلیٰ اخلاق اورروحانیت پیداکرکے اللہ تعالیٰ کے کلام اورا سکے الہام کا مورد ہو اس کادل مایوسی کا شکار ہوگیا اوراس نے سمجھا کہ جب میرے لئے ترقی کے تمام راستے بند ہیں اورجب مجھے فطری طورپرگندہ اورناپاک ٹھہرایاگیاہے توپاکیزگی اورتقدس کاتصورمیرے لئے ناممکن ہے ۔کیونکہ انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جو بات متواتر اس کے کان میں ڈالی جائے آہستہ آہستہ وہ اس پر اثر کرناشروع کردیتی ہے ۔اگرکسی کو متواتر کہاجائے کہ تم بہت بیوقوف اورجاہل ہو تووہ رفتہ رفتہ اپنی عقل کو کھو بیٹھتاہے ۔اگرکسی کو کہا جائے کہ وہ چو ر کابیٹاہے توآہستہ آہستہ یہ خیال اس کے دل پر ایساراسخ ہوجائیگا کہ جب کبھی اس کے دل میں لالچ پیداہوگااورکسی کامال ہتھیانے کاارادہ کرے گا تووہ اپنے ارادہ کو روک نہیں سکے گابلکہ کہے گاکہ دنیا توپہلے ہی مجھے چورکابیٹا کہہ رہی ہے اوریہی جذبات نسلاً میرے اند پائے جاتے ہیں ۔اب میںان سے کس طرح رک سکتاہوں ۔اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے امورکوسختی سے ناپسند فرمایااورانہیں قومی ہلاکت اوربربادی کا اصل باعث قراردیاہے ۔کیونکہ انسانی ذہنیت اس قسم کی ہے کہ جب اس پر کوئی اثر ڈالا جائے اوراس کے خیالات کسی خاص طرف مائل کئے جائیں توآہستہ آہستہ وہ ان اثرات کو قبول کرلیتاہے ۔سائیکالوجی یاعلم النفس کی ابتداء درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن کریم کے ذریعہ ہی ہوئی ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اِذاقال الرّجلُ ھَلَکَ النَّاسُ فھو اَھْلَکَھُمْ ۱؎۔یعنی جب کوئی شخص یہ کہتا پھرتاہے کہ قوم برباد ہوگئی قوم برباد ہوگئی تودرحقیقت اس کی بربادی کا موجب وہی بنتاہے ۔کیونکہ جب متواترکسی قوم کے کا ن میں یہ ڈالاجائے گا کہ وہ ہلاک ہوچکی ہے تولوگوں میں قوت مقادمت باقی نہیں رہیگی ۔ اوراس کاتنزل شروع ہوجائے گا۔عیسائیت نے دنیا کو یہ تعلیم دی کہ آدمؑ نے گناہ کیا جو ورثہ میں اس کی اولاد کو بھی ملا ۔اب دنیا اگر گناہ سے بچنابھی چاہے تونہیں بچ سکتی ۔اس عقیدے کے ہوتے ہوئے ایک عیسائی کے لئے یہ کتنا مشکل ہے کہ وہ گناہ کا خیال آنے پر اس کامقابلہ کرے وہ تو کہے گاکہ میں گناہ کامقابلہ کیاکروں۔میں تواس سے بچ ہی نہیںسکتا اورجب وہ گناہ کا مقابلہ کرنے سے گریز کرے گا تولازماً گناہ میں مبتلاہوجائے گا ۔مگرقرآن کریم نے بتایاکہ انسان کو فطرت صحیحہ عطاکی گئی ہے ۔اورخواہ وہ کیسی ہی حالت میں ہو اگر وہ کوشش کرے تو وہ ترقی کر کے اللہ تعالی کاقرب حاصل کرسکتاہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے مَاخَلَقْتُ الجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ( سورہ ذاریات آیت ۵۷)یعنی میں نے جنوں اورانسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیداکیاہے ۔اس جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایاکہ میں نے آد م کو اس لئے پیداکیا تھا کہ وہ میری عبادت کرے بلکہ فرماتاہے مَاخَلَقْتُ الجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِچاہے فرمانبرداری کی طبیعت رکھنے والے انسان ہوںچاہے ناری فطرت رکھنے والے وجود ہوں دونوں کو میں نے عبادت اوراپنے قرب کے لیء پیداکیاہے ۔انس ان لوگوںکو کہتے ہیں جواپنے اندر فرمانبرداری اوراطاعت کاماد ہ رکھتے ہیں ۔اورجنّ ان لو گوں کو کہتے ہیں جن پر پر دہ پڑاہو اہوتاہے ۔یعنی جن کی فطرت صحیحہ پر پردہ پڑ جاتاہے ۔ اوروہ اللہ تعالیٰ سے دور ہوجاتے ہیں ۔قرآن کریم سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ جنّی طبیعت والے نار سے پیداکئے گئے ہیں ۔
۱؎۔مسلم جلد ۲کتاب البر والصلۃ والآداب باب النھی عن قول ھَلَکَ النَّاسُ۔
گویاناری طبیعت والا انسان جوگناہ کی طرف مائل ہوتاہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اسے بھی میں نے عبادت کے لئے پیداکیاہے کیونکہ اس کی ناری طبیعت طبیعتِ ثانیہ ہوتی ہے طبیعت اولیٰ نہیں ہوتی ۔درحقیقت طبیعتیں دوقسم کی ہوتی ہیں ایک طبیعت اولیٰ جو فطرت میں رکھ دی گئی ہے اورایک طبیعت ِ ثانیہ جو ماحول کے اثرات کے ماتحت پیداہوتی ہے اورطبیعت اولیٰ پر غالب آجاتی ہے ۔ اسی لئے اس قسم کی طبیعت رکھنے والے کو جنّ کہتے ہیں ۔جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس کی اصل فطرت پر پردہ پڑاہواہے اورجب ہم اسے جنّ کہتے ہیں توہمارے مدنظر یہ مفہوم ہوتاہے کہ اس کی فطرت اولیٰ نظرنہیں آتی ۔اورچونکہ اس کی فطرت اولیٰ نظر نہیں آتی اس لئے وہ جنّ کہلاتاہے ۔پس فرماتاہے۔وہ لوگ جو خداتعالیٰ سے محجو ب ہوتے ہیں اورجنّات میں شامل ہوتے ہیں اوروہ لو گ جو اپنی طبیعت میں نیکی رکھتے ہیں دونوںکو ہم نے اپنی عبادت کے لئے پیداکیاہے۔جب لوگ ایک لمبے عرصہ تک نیکی کو قائم رکھتے اوراللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں تووہ انس کہلاتے ہیں اورجب وہ نبی کی تعلیم سے غافل ہوجاتے ہیں تووہ جنّ ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کی فطرت صحیحہ ایسی مخفی ہوجاتی ہے کہ وہ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ ہماری جماعت کاقیام کیوں ہواتھا ۔اورہمارے نظام کی غرض کیاتھی یا نبی نے ہمیں کیا تعلیم دی تھی۔پس اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ خواہ وہ جنّات ہوں یاانسان یعنی خواہ ایسے لوگ ہوں جن کے دلوں میں محبتِ الہٰی کی چنگاری سُلگ رہی ہواورخواہ ایسے لوگ ہوں جن کی فطرت صحیحہ پر پردہ پڑاہواہوفطرت ثانیہ غالب آچکی ہو اورسمجھاجاتاہوکہ ان کی طبیعت ثانیہ ہی اصل فطرت ہے دونوں کو ہم نے عبادت کے لئے پیداکیا ہے ۔بعض لوگ کہاکرتے ہیں کہ فلاں شخص کو ہم کیا سمجھائیں ا س میں تونیکی کامادہ ہے ہی نہیں۔بعض لوگ کہاکرتے ہیں کہ فلاں شخص بڑامتعصب ہے وہ ہدایت پا ہی نہیں سکتا۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔تم ایسامت کہو۔اس کی طبیعت اولیٰ نیکی کی طرف مائل ہے ۔یہ تمہاری غلطی ہے کہ تم اس کی طبیعت ثانیہ کو دیکھتے ہواورایک نتیجہ اخذ کرلیتے ہو ۔ہم نے توسب کو اپنی عبادت کے لئے پیداکیاہے ۔ اگر کسی کی فطرت صحیحہ پرپردہ پڑاہواہے تویہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص نیل کے مٹکے میں پڑے تووہ نیلا ہوجاتاہے مگر اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ آدمی نہیں رہا۔یابعض لوگ ریچھ کی کھال پہن لیتے ہیں اوردیکھنے والے ڈرنے اوربھاگنے لگ جاتے ہیں ۔ حالانکہ وہ انسان ہوتے ہیں۔اسی طرح بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی فطرتیں ماحول کی خرابی کی وجہ سے مسخ ہوجاتی ہیں اوران کی ظاہری شکل جنّات والی ہوجاتی ہے ۔چنانچہ وہ لوگ بھی جو غیر مرئی جنات کے قائل ہیں اورہم پر یہ اعتراض کیاکرتے ہیں کہ یہ لو گ جنّوں کے قائل نہیں وہ بھی بعض دفعہ ایسے انسانوںکو جن کی فطرت پرپردہ پڑچکاہوتاہے جنّ کہنے لگ جاتے ہیں ۔چنانچہ وہ شخص جس کے اخلا ق بگڑے ہوئے ہوں اسے دیکھتے ہیں توکہتے ہیں یہ بھیڑیاہے جس سے ان کایہ مطلب نہیں ہوتا۔کہ وہ حقیقی معنوں میں بھیڑیاہے بلکہ یہ مطلب ہوتاہے کہ اس پر بھیڑیے والی خصلت غالب آگئی ہے ۔اسی طرح کسی کے متعلق کہتے ہیں یہ توسانپ ہے ۔ یعنی سانپ کی طرح لوگوںکو ڈستا پھرتاہے ۔یابچھو ہے یعنی بچھو کی طرح لوگوںکو ڈنگ مارتا ہے ۔توبعض دفعہ فطرت ثانیہ فطرت اولیٰ پر غالب اجاتی ہے کہ یہ پہچاننا بھی مشکل ہوجاتاہے کہ ا س شخص کی انسانیت کہاں ہے ۔لیکن جب اس کی فطرت صحیحہ بول اٹھتی ہے تب پتہ لگتاہے کہ اس کے اندرنیکی پائی جاتی ہے ۔دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کتنے کتنے شدید دشمن تھے ۔مگرپھر ان پر کیسی تبدیلی پیداہوئی ۔نہ صرف ان کی اصلاح ہوئی بلکہ وہ روحانیت کے ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچ گئے کہ ان کا پہچاننابھی مشکل ہوگیا۔حضرت عمرؓ جو اسلام اورمسلمانوںکے خلاف لٹھ لئے پھرتے تھے جب انہیں اسلام لانانصیب ہواتوان میں ایسی تبدیلی پیداہوئی کہ دنیاکے فائدہ کے لئے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے لگے ۔اوردن رات اسلام کی خدمت میں مصروف ہوگئے ۔یہی حال عکر مہؓ کا تھا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا ۔توعکرمہؓ اس بغض کی وجہ سے جواسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تھامکہ چھو ڑ کرچلاگیا اوراس نے کہا ۔میں اس ملک میں بھی نہیں رہ سکتا جس میں ایساشخص موجود ہو۔اس کے مظالم کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کردیاتھا کہ اسے معافی نہیں دی جاسکتی وہ جہاں مل جائے اسے قتل کردیاجائے ۔آخر اس کی بیوی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی ۔اوراس نے کہا ۔یارسول اللہ!آپ بڑے رحیم و کریم ہیں ۔آپ نے کتنے ہی لوگوںکومعاف کردیا ہے اگر عکرمہؓ کو بھی آپ معاف فرمادیں تواس میں آپ کاکیاحرج ہے ۔پھر اس نے کہا ۔یارسول اللہ ! کیا یہ بہتر ہے کہ عکرمہؓ کسی غیر ملک میں ذلیل ہوکر رہے یایہ بہتر ہے کہ وہ آپ کے ملک میں آپ کی رعایابن کر رہے اورآپ کاعفو اس کے سرکو نیچا رکھے۔آپ کو اسکی یہ بات پسند آئی۔اورآپؐ نے فرمایا۔ہم نے عکرمہؓ کو معاف کردیا۔یہ سن کر اس کی بیوی اسی وقت اٹھی اوراپنے خاوند کی تلاش میں چل پڑی ۔وہ اس وقت حبشہ جانے کے لئے کشتی میں بیٹھ چکا تھا ۔اس کی بیوی اس کے پاس گئی اوراس نے کہا ۔تم کہاں جارہے ہو۔واپس میرے ساتھ چلو۔میں نے تمہارے متعلق محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کی تھی اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں معاف فرمادیاہے ۔عکرمہؓ یہ سن کر حیران ہوا۔اوراس نے کہا ۔مجھے کس طرح معافی مل سکتی ہے میں نے توبڑے بڑے سخت مظالم کئے ہوئے ہیں۔اس نے کہا ۔تمہیں ان کے وسعت حوصلہ کاکیاعلم؟ میں تمہیں یقین دلاتی ہوں کہ میں تمہارے لئے معافی کی منظور ی لے چکی ہوں ۔تم واپس میرے ساتھ چلو ۔عکرمہؓ کشتی سے اترے اورواپس آگئے ۔ واپسی پر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورانہوں نے عرض کیاکہ یارسول اللہ! میری بیوی میرے پاس آئی تھی اوراس نے کہا تھاکہ میںنے تمہارے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی لے لی ہے۔ کیایہ سچ ہے ؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ہاں!بالکل سچ ہے ۔ہم نے تمہیں معاف کردیاہے ۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہم نے تمہیں سچے دل سے معاف کردیا ہے تواس نے عر ض کیاکہ کیا میں کافر ہونے کی حالت میں مکہ میں رہ سکتاہوں۔آپؐ نے فرمایا۔ہاں تم رہ سکتے ہو۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اوراس کے باپ ابوجہل کے متواتراورشدید ترین مظالم کے باوجود اسے معاف فرمادیا اورمعافی بھی اس رنگ میں دی کہ خواہ وہ اسلام نہ لائے اسے مکہ میں آزادنہ رنگ میں رہنے کی اجازت ہوگی تواس کی طبیعت پر اس کا اتنا اثر ہواکہ اس نے کہا ۔یارسول اللہ! میں آپ پر ایمان لاتاہوں کیونکہ میں سمجھتاہوں کہ اس قسم کی معافی سوائے خداکے راستباز انسان کے اَورکوئی نہیں دے سکتا۔پھریاتو اسکے دل میں اتنا بغض تھا کہ وہ ا س ملک میں بھی رہنانہیں چاہتاتھا جس میں رسول کریم صلی اللہ تھے اوریاپھر اس کے دل میں اتنا تغیر پیداہواکہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عکرمہؓ ہم نے تمہیں معاف ہی نہیں کیا بلکہ ہم تمہیں انعام بھی دینا چاہتے ہیں مانگوجوکچھ مانگنا چاہتے ہو ۔تووہ عکرمہؓ جو اتنا دنیادار تھا اس کے اندر فوراً ہی اتنی تبدیلی پیداہوگئی کہ اس نے کہا کہ یارسول اللہ! میں سوائے اس کے اَورکچھ نہیں مانگتا کہ آپ میرے لئے دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ میرے پچھلے تمام گناہ معاف فرمادے ۔اب کُجایہ کہ وہ مکہ سے بھاگ جاتاہے اورکجایہ کہ مسلمان ہوتاہے اوریکدم اس میں ایسی تبدیلی پیداہوتی ہے کہ وہ سب مخالفانہ خیالات کو بھول جاتاہے ۔پھر یہی عکرمہؓ تھا کہ یاتورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینے کے لئے لڑائیاں کیاکرتاتھا اوریا پھر اسلام میں اس کی فدائیت یہاں تک پہنچ گئی کہ غزوئہ یرموک میں جب بہت سے صحابہؓ مارے گئے توعکرمہؓ اورچنداورنوجوانوں نے مل کر حضرت ابوعبیدہؓسے جوکمانڈرانچیف تھے کہاکہ ہم سے صحابہؓ کی موت نہیں دیکھی جاسکتی ۔اگریہ لوگ مارے گئے تواسلام کی اشاعت کون کرے گا ۔آپ ہمیں اجاز ت دیں کہ ہم چند نوجوان اپنی جانوں کو قربان کرکے عیسائی کمانڈرپرحملہ کرکے اسے ماردیں اورلڑائی ختم ہوجائے ۔ابوعبیدہؓ نے کہا کہ یہ تو بڑا مشکل ہے ۔دس لاکھ لشکر کے مقابلہ میں میں تمہیں کس طرح بھیج سکتاہوں ۔اس میں توتمہاری یقینی ہلاکت ہے ۔مگر آخر دوسرے لوگوں نے کہا کہ جب یہ لوگ قربانی کرناچاہتے ہیں توانہیں قربانی کی اجازت دیدیں۔اورچونکہ ا س جنگ میں بہت سے صحابہؓ مارے جاچکے تھے ابوعبیدہؓ نے آخر اجازت دیدی۔ چنانچہ عکرمہؓ اورچنددوسرے نوجوانوں نے ملکر قلبِ لشکر پر حملہ کیااوروہاں تک پہنچ گئے جہاں ان کا کمانڈرماہان تھا ۔ و ہ اسقدر گھبرایاکہ تخت سے اتر کا بھاگ پڑا ۔اوراس کے بھاگتے ہی فوج میں بھاگڑ مچ گئی اورلڑائی کاپانسہ پلٹ گیا۔مگر اس جدوجہد میں وہ قریباً سب کے سب شہید ہوگئے ۔اسی جنگ کاواقعہ ہے کہ عکرمہؓ زخموں کی شدت اورپیاس کی و جہ سے تڑپ رہے تھے کہ ان کے پاس سے ایک سپاہی گذراجس کے پاس پانی کی چھاگل تھی ۔ اس نے جب انہیں تڑپتے دیکھا تووہ قریب آیا ۔اوراس نے پوچھا کیا آپ کو پیا س لگی ہے ۔انہوں نے کہا۔ہاں ۔اس نے اپنی چھاگل ان کے منہ کے قریب کی تاکہ آپ پانی پی لیں ۔مگرابھی عکر مہؓ نے چھاگل کومنہ نہیں لگایاتھا کہ ان کی نظر فضل بن عباسؓ پرپڑی جوان کے قریب ہی پیاس سے تڑپ رہے تھے انہوں نے کہا ۔فضل مجھ سے زیادہ پیاسامعلوم ہوتاہے تم اسے پانی پلائو۔وہ فضل کے پاس پہنچا توانہوں نے اپنے قریب ایک اورمسلما ن کو تڑپتے دیکھا انہوں نے کہا وہ مجھ سے زیادہ پیاسامعلوم ہوتاہے تم پہلے اسے پانی پلائو ۔توتیسرے کے پاس پہنچا تواس نے چوتھے کی طرف اشارہ کردیا۔ اورچوتھے کے پاس پہنچا تواس نے پانچویں کی طرف اشارہ کردیا ۔تاریخ بتاتی ہے کہ وہ سات آدمی تھے اورساتوں ہی تڑپ رہے تھے مگر ہر ایک نے یہی کہا کہ مجھے پانی نہ پلائو بلکہ میرے ساتھ کو پلائو۔جب وہ آخری آدمی کے پاس پہنچا تووہ مرچکا تھا ۔ اورجب وہ واپس مڑاتواس نے دیکھا کہ باقی چھ بھی فوت ہوچکے تھے۔ اب دیکھو یہ کتنی بڑی قربانی ہے جوعکرمہؓ نے کی۔حالانکہ وہ اسلام کے شدید ترین دشمن تھے۔ پس یہ کہدینا کہ فلاںکو ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی بہت بڑی غلطی ہے۔اللہ تعالیٰ جب ہدایت دیناچاہتاہے توآناًفاناً دے دیتاہے ۔یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایاہے کہ مَاخَلَقْتُ الجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ( سورہ ذاریات آیت ۵۷)اللہ تعالیٰ نے ہرایک کو ہدایت اورپنے قرب کے لئے پیداکیا ہے۔پس بڑاہی مایوس وہ انسان ہے جواللہ تعالیٰ کی اس رحمت کی ناقدری کرے اورسمجھے کہ انسان کو پیدائشی طورپر گنہگار پیداکیا گیاہے ا سلئے و ہ پاکیزگی اورتقدس اختیار ہی نہیں کرسکتا۔
اسلام بتاتاہے کہ یہ نظریہ قطعی طورپرغلط ہے انسان فطرتی طورپر پاکیزہ قویٰ لے کر آیا ہے ۔اوراللہ تعالیٰ نے ہرایک کو اپنے قرب کے لئے پیداکیا ہے اسی طرح وہ ایک دوسرے مقام پر فرماتاہے ۔وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا۔فَاَلَھَمَھَافُجُوْرَھَاوَتَقْوٰھَا۔قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا۔وَقَدْخَابَ مَنْ دَسّٰھَا۔(الشمس آیت ۸تا ۱۱)یعنی ہم انسانی نفس کو اس امر پر شہادت کے طورپر پیش کرتے ہیں کہ اسے ہم نے سب عیوب سے منزّہ پیداکیاہے اوراس کی فطرت میں نیکی اوربدی کی شناخت کی قوت رکھی ہے ۔چنانچہ جوشخص اپنی روح کو بیرونی ملونیوں سے پاک رکھتا ہے وہ کامیاب ہوجاتاہے اورجو شخص اس جبلّی پاکیزگی کو خراب کردیتاہے وہ ناکام ہوجاتاہے۔
غرض اسلام انسان کواس مایوسی کاشکار نہیں ہونے دیتا جس کاشکار اسے دوسرے مذاہب بناتے ہیں بلکہ وہ اس کی روح میں بلند پروازی کی طاقت پیداکرتااوراسے فرش سے اٹھا کر عرش تک لے جاتاہے ۔
پھر قرآن کریم اس لحاظ سے بھی کتاب مبین ہے کہ اس نے ہزاروں ایسی صداقتیں بیان فرمائی ہیں جن کا پہلی الہامی کتب میں کہیں ذکر تک نہیں۔مثلاً قرآن کریم جو موسیٰؑ اورفرعون کے قریباً بائیس سوسال کے بعد نازل ہواہے اس میں یہ لکھا ہے کہ فرعونیوں کے سمندر میں غرق ہونے کے وقت فرعون توبے شک ڈوب گیا تھا۔مگراس کی لاش محفوظ کرلی گئی تھی ۔تاکہ وہ آئندہ آنے والے لوگوں کے لئے عبرت اورنصیحت کا موجب بنے (یونس آیت ۹۳)چنانچہ اب جوپرانی ممیاں نکلی ہیں توان میں فرعونِ موسیٰؑ کی ممی بھی نکلی ہے۔جومصر کے عجائب خانہ میں محفوظ ہے جسے میں نے بھی اپنی آنکھوںسے دیکھا ہے۔اب دیکھویہ قرآن کریم کے کتاب مبین ہونے پر کتنی زبردست شہادت ہے کہ بائیبل جو اس زمانہ کی کتاب ہے جس زمانہ میں فرعون ڈوباتھا۔اس میں توکہیں یہ ذکرنہیں کہ فرعون کی لاش محفوظ کرلی گئی تھی ۔مگر قرآن کریم نے بائیس سوسال بعد نازل ہوکر اس سچائی کو بیان کردیا اورپھر اس سچائی کے بیان کرنے کے چودہ سوسال بعد زمین میں سے فرعون موسیٰؑ کی ممی نکل آئی۔اوراس طرح ثابت ہوگیاکہ قرآن حقیقتاً ا س خدائے بلندو برتر کاکلام ہے جوتمام اسرار کوجاننے والااورتمام غیبوں سے آگاہ ہے ۔
پھر قرآن کریم اس لحاظ سے بھی کتاب مبین ہے کہ وہ اپنے دعاوی کے ثبوت کے لئے بیرونی دلائل کامحتاج نہیں بلکہ وہ خود ہی اپنے دعاوی کے دلائل بھی مہیا کرتاہے برخلاف دوسری الہامی کتابوں کے کہ وہ دعویٰ تو کرتی ہیں مگران کے دلائل نہیں دیتیں۔چنانچہ تورات کو شروع سے لے کر آخر تک پڑھ جائو ۔انجیل کو پڑھ جائو ۔ویدکو پڑھ جائو۔بس یہ معلوم ہوگاکہ فرض کرلیاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب دنیا مانتی ہے اوراس کی ذات میں شک کی گنجائش نہیں۔اس کی صفات کے متعلق اس قدر قلیل روشنی ڈالی گئی ہے کہ انسانی نفس اس سے قطعاً تسلی نہیں پاسکتا ۔زیادہ سے زیادہ اگر کچھ بیان ہواہے تومعجزات پر انحصار کرلیا گیاہے اوراس طرح اس اصل الاصول کو جس پر مذہب کی بنیا د ہے بالکل مہمل چھوڑ دیاگیاہے ۔ا س کے مقابل پرقرآن کریم کودیکھو ۔وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کے وجود کو پیش کرتاہے بلکہ اس کا ثبوت بھی دیتاہے اورنہ صرف اس کاثبوت دیتاہے ۔بلکہ اس کی سب صفات کاثبوت دیتاہے اوراس طرح وہ ایک نیا اصل دنیا کے سامنے پیش کرتاہے جویہ ہے کہ صفات الٰہیہ بندہ کے تعلق رکھنے والی ہیں ان کا الگ ثبو ت بھی ضروری ہے۔ورنہ خداتعالی کاوجود تو ثابت ہو گا۔مگر اس کی صفات کاوجود ثابت نہیں ہوگا۔اس بارہ میں مثال کے طورپر یہ آیت لے لو اللہ تعالیٰ فرماتاہے لَاتُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَھوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۔(انعام آیت ۱۰۴)یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے کہ انسانی نظریں اس تک نہیں پہنچ سکتیں ہا ں وہ خود اس کی نظروں تک پہنچتا اوراپنی طاقت اورقوت کے اظہار سے اوراپنی صفات کے جلوہ سے اپنا وجود ظاہر کرتاہے اوروہ بڑالطیف اورخبیر ہے ۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایاہے کہ اس کانظر نہ آنا اسکے وجود کے منافی نہیں کیونکہ یہ اس کی صفات میں سے ہے کہ وہ نظر نہیں آتا۔لیکن وہ خود اپنے نشانات کے ذریعہ سے اپنے آپ کوظاہر کرتاہے اوربندوں کی نگہداشت رکھتاہے اوران کی تمام جسمانی اورروحانی ضرورتوںکو پوراکرتاہے اوریہ اس امر کا ثبوت ہوتا ہے کہ و ہ ہے لیکن لطیف ۔گویااللہ تعالیٰ کی بعض صفات جوڑے کی حیثیت رکھتی ہیں اوروہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس کے وجو دکو ظاہرکرتی ہیں۔مثلاً خبرداررہنا اورادنیٰ سے ادنیٰ تغیرکو بھی غائب نہ ہونے دینا ۔یہ کام ایک لطیف ہستی کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔یعنی ایسی ہستی کے بغیر جو موجودات کے ہرذرہ سے ایک کامل اتصال رکھتی ہو۔پس خبیر کی صفت لطیف کے لئے بمنزلہ جوڑے کے ہے کہ اس کے ذریعہ سے اس کابھی ظہور ہوتاہے یاان دونوں کاآپس میں روح اورجسم کا تعلق ہے کہ ایک نہ ہوتودوسری صفت بھی ثابت نہیں ہوتی اوردوسری نہ ہوتو پہلی صفت بھی ثابت نہیں ہوتی ۔اگر خبیر کی صفت وَھُوَ یُدْرِکُ الاَبْصَارَ سے ثابت نہ ہوتی تو لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ بھی ثابت نہ ہوتا بلکہ عدم ثابت ہوتا۔اس کے مقابلہ میں اگر لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ ثابت نہ ہوتا یعنی اس کالطیف ہونا توخبیر کی صفت بھی نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ جو وجود کامل اتصال نہیں رکھتا و ہ خبیر بھی نہیں ہوسکتا۔غرض قرآن کریم اس لحاظ سے بھی مبین ہے کہ اسنے صرف دعویٰ کرنے پرہی اکتفانہیں کیا بلکہ وہ جوکچھ کہتاہے اس کے دلائل بھی دیتاہے ۔تاکہ بنی نوع انسان ان احکام پر عمل صرف ایک چٹّی اوربوجھ سمجھ کرنہ کریں بلکہ اس بشاشت اوریقین کے ساتھ کریں کہ انہیں جوکچھ کہاگیاہے ان کے اپنے فائدہ اورترقی کے لئے کہاگیاہے ۔
پھرقرآ ن کریم اس لحاظ سے بھی مبین ہے کہ وہ تمام امور جو احکام یااخلاق یااعتقادات وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں ان سب کو اس کتا ب میں پوری تفصیل کے ساتھ بیان کردیاگیاہے ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کے قرب اوراس کی محبت کے حصول کے لئے جسقدر امور کی ضرورت ہے ان سب کواس کتاب میں واضح کردیاگیاہے ۔گویا قرآن کریم ایک جامع کتاب ہے جسمیں توحید ،نبوت، دعا،قضاوقدر،بعث بعد الموت اورمعا دوغیرہ کے متعلق پوری تفصیل موجود ہے جبکہ دوسری کتب نے ان امورضروریہ سے قریباً خاموشی اختیارکررکھی ہے اوراگر ان میں کچھ ہے توا سقدر ناکافی ہے کہ گویاکچھ نہیں کہا۔اسی طرح نبی اوراس کے فرائض اورنبوت اوراس کی حقیقت کے متعلق بائیبل اوروید اورــژند وغیرہ کتب بالکل خامو ش ہیں ۔قرآن کریم نے وجودِ باری تعالیٰ کے ثبوت اوراس کی صفات پر بھی بحث کی ہے ۔ان روحانی امور کوبھی بیان کیا ہے جوانسان کی روحانی طاقتوں کی تکمیل اورامداد کے لئے ضروری ہیں۔ اسی طرح اس نے انسانی زندگی کے قال پر بھی روشنی ڈالی ہے اوراس کے ثبوت پیش کئے ہیں اورپھر اس نے ان تمام امو رمیں نہ صرف علمی طورپر ایک نئی روشنی بخشی ہے بلکہ عملاً بھی اس نے ایسے انسان پیداکئے ہیں جنہوں نے قرآن کریم پر عمل کرکے اللہ تعالیٰ کاوصال حاصل کرلیا اوران کی روحانی طاقتیں اپنی تکمیل کو پہنچ گئیں ۔غرض قرآن کریم تمام سابق کتبِ الہٰیہ پر اپنے مبین ہونے کے لحاظ سے بھی ایسی نمایاں فوقیت رکھتاہے کہ جس پہلو سے بھی دیکھیں قرآنی حسن انسانی آنکھوں کو خیرہ کئے بغیر نہیں رہتا ۔
پھرقرآن کریم کو دوسری الہا می کتب پر صرف انہی امور میں فضیلت حاصل نہیں جواس میں دوسری کتابوں سے زائد پائے جاتے ہیں یاجن میں اس نے دوسرے مذاہب کی خامیوںاوران کی کوتاہیوں کی اصلاح کی ہے بلکہ جن احکام میں اس کی پہلی کتب سے مشابہت دکھائی دیتی ہے ان میں بھی قرآن کریم نے ان سے بہتر اورجامع تعلیم دنیا کیسامنے پیش کی ہے مثلاً اگر ان کتابوں میں کھاناکھانے کاکوئی طریق بیان کیا گیاہے تواس کابھی قرآن کریم نے ان سے اچھا طریق پیش کیاہے اوراگر ان میں کپڑا پہننے کاکوئی طریق بتایا گیاہے ۔توقرآن کریم نے ان سے بھی بہتر اوراعلیٰ طریق کپڑے پہننے کادنیا کے سامنے پیش کیاہے ۔غررض کوئی معمولی سے معمولی بات بھی ایسی نہیں جس میں قرآن کریم نے ان کتابوں سے زیادہ جامعیت اورتفصیل کے ساتھ اپنی تعلیم پیش نہ کی ہو اورجس میں اس نے اپنے مبین ہونے کے مقام کو ظاہرنہ کیاہو۔مثال کے طور پر میں اس وقت امن عالم کامسئلہ لے لیتاہوں ۔ امن ایک ایسی چیز ہے جس کے لئے دنیا ہمیشہ سے کوشش کرتی چلی آئی ہے چنانچہ یا تودنیا بیرونی امن کے لئے جدوجہد کرتی ہے اویاجب بیرونی امن کے لئے جدوجہد نہیں کررہی ہوتی یا اس میں کامیاب ہوچکی ہوتی ہے تواندرونی امن کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔ چنانچہ بڑے بڑے دولتمند اورعالم و فاضل جب آپس میں ملتے ہیں توان کی گفتگو کا موضوع اکثر یہی ہوتاہے کہ اَورتوہمیں سب کچھ میسر ہے مگر دل کاامن نصیب نہیں۔پس امن صرف بیرونی ہی نیں ہوتا بلکہ دل کابھی ہوتاہے۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک دل کا امن نصیب نہ ہو اس وقت تک ظاہر ی امن بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ آجکل دنیا کے تمام لو گ امن کے خواہشمند ہیں ۔لیکن امن ان کو میسر نہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں اتنی مختلف الانواع مخلوق ہے کہ جب تک کسی ایک قاعدہ کے ماتحت امن کا حصول نہ ہو ۔اس وقت تک سب لو گ مطمئن نہیں ہوسکتے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں انسانوں میں ہزاروں اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ایک دوسرے کے مفاد مختلف ہوتے ہیں ۔ایک دوسرے کے جذبات مختلف ہوتے ہیں۔ایک دوسرے کی خواہشات مختلف ہوتی ہیں اورایک دوسرے کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں ۔ان متضاد خواہشو ں اورمتضاد ضرورتوں کے ہوتے ہوئے دنیا میں امن کس طرح پیدا ہوسکتاہے ۔اسلام بتاتاہے کہ ایسے متضاد اورمخالف خیالات کی موجود گی میں تبھی امن قائم ہوسکتاہے جب ساری دنیا ایک ایسی ہستی کی تابع ہو ۔جو امن دینے کاارادہ رکھتی ہو ۔اگریہ بات نہ ہوتو کبھی امن میسر نہیں آسکتا۔ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ ایک گھر میں ماں باپ ذراادھر ادھر ہوتے ہیں تو تھوڑی ہی دیر میں بچے لہولہان ہوجاتے ہیں ۔کسی کے گلے پر زخم ہوتاہے کسی کے بال نوچے ہوئے ہوتے ہیں کسی کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔ کسی کی آنکھ سوجی ہوئی ہوتی ہے۔مگرجب ماں باپ آتے ہیں توا ن کے سامنے ایسی نرم شکلیں بناکر بیٹھ جاتے ہیں کہ گویا وہ لڑائی جھگڑے کوجانتے ہی نہیں۔اس لیء کہ ماں باپ کی نیت یہ ہوتی ہے کہ ان کے بچے امن سے رہیں۔پس درحقیقت امن اسی وقت حاصل ہوسکتاہے ۔جب دنیا پر ایک ایسی بالا ہستی ہو جوامن کی متمنی ہواورجودوسروںکوامن دیناچاہتی ہو ۔اورایسے قوانین نافذکرناچاہتی ہو جوامن دینے والے ہوں۔اوروہی شخص حقیقی امن دینے والاقرار پاسکتاہے جواس ہستی کی طرف لوگوں کوبلائے ۔ یہ امن دینے والی ہستی کی طرف توجہ دلانے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اورآپ ہی وہ انسان ہیں جن کے ذریعہ دنیا کو یہ معلوم ہواکہ خداتعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام امن دینے والابھی ہے۔چنانچہ سورئہ حشر میں اللہ تعالیٰ کے جونام گنائے گئے ہیں ان میںسے ایک نام یہ بھی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے اَلْمَلِکُ الْقُدُوْسُ السَّلَامُ(سورئہ حشر آیت ۲۴) اے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )تُولوگوں کوتوجہ دلااس خداکی طرف جو بادشاہ ہے پاک ہے اوراَلسَّلَام یعنی دنیا کوامن دینے والا اورتمام سلامتیوں کا سرچشمہ ہے۔یعنی جس طرح ماں باپ یہ کبھی برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کے بچے لڑیں جھگڑیں یافساد کریں ۔بلکہ وہ امن شکن کو سزادیتے اورامن قائم رکھنے والے بچے سے پیارکرتے ہیں اسی طرح تمہارے اوپر بھی ایک خداہے و ہ دیکھ رہاہے کہ تمہارے مفاد مختلف ہیں ۔تمہارے ارادے مختلف ہیں ۔تمہاری ضرورتیں مختلف ہیں ۔تمہاری خواہشیں مختلف ہیں ۔اور تم بعض دفعہ جذبات میں بے قابو ہوکر امن شکن حالات پرتیار ہوجاتے ہو ۔مگریاد رکھو خدایسی باتوںکو پسند نہیں کرتا ۔وہ سلام ہے۔جب تک کوئی سلامتی اختیار نہ کرے اس وقت تک و ہ اس کامحبوب نہیں ہوسکتا۔
ہرشخص سمجھ سکتاہے کہ خالی امن کی خواہش امن پیدانہیں کردیاکرتی ۔کیونکہ بالعموم امن کی خواہش اپنے لئے ہوتی ہے دوسروں کے لئے نہیں ہوتی۔چنانچہ جب لوگ کہتے ہیں۔دولت بڑی اچھی چیز ہے توا سکے یہ معنے نہیں ہوتے کہ دشمن کی دولت بھی اچھی چیز ہے بلکہ مطلب یہ ہوتاہے کہ میرے لئے صحت بڑی اچھی چیز ہے ورنہ دشمن کے متعلق توانسان یہی چاہتاہے کہ وہ نادار اورکمزور ہو ۔اسی طرح جب لو گ عزت و رتبہ کے متمنی ہوتے ہیں توہرشخص کے لئے نہیں بلکہ محض اپنے لئے ۔پس جب دنیاکایہ حال ہے توخالی امن کی خواہش بھی فساد کاموجب ہوسکتی ہے کیونکہ جولوگ بھی امن کے متمنی ہیں وہ ا س رنگ میں امن کے متمنی ہیں کہ صرف انہیں اوران کی قوم کو امن حاصل رہے۔ورنہ دشمن کے لئے وہ یہی چاہتے ہیں کہ اس کے امن کو مٹادیں ۔اب اگر اسی اصل کو رائج کردیاجائے تودنیا میں جوبھی امن قائم ہوگا وہ چند لوگوںکا امن ہوگا۔ساری دنیاکانہیں ہوگا۔اورجو ساری دنیا کاامن نہ ہو وہ حقیقی امن نہیں کہلاسکتا۔حقیقی امن تبھی پیداہوسکتاہے جب انسان کو یہ معلوم ہوکہ میرے اوپر ایک بالا ہستی ہے جومیرے لئے ہی امن نہیں چاہتی بلکہ سارے ملکو ں کے لئے امن چاہتی ہے اوراگر میں صرف اپنے لئے یاصرف اپنی قوم کے لئے یاصرف اپنے ملک کے لئے امن کامتمنی ہوں تواس صورت میں مجھے اس کی مدد اس کی نصرت اوراس کی خوشنودی کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔جب یہ عقیدہ دنیا میں رائج ہوجائے تبھی امن قائم ہوسکتاہے ورنہ نہیں۔پس اَلْمَلِکُ الْقُدُوْسُ السَّلَامُکہہ کر قرآن کریم نے انسانی ارادوں کو پاک و صاف کردیا۔اوریہ تسلیم شدہ بات ہے کہ جب تک ارادے درست نہ ہوں اس وقت تک کام بھی درست نہیں ہوسکتا۔دنیا میں اس وقت جتنے فساد اورلڑائیاں ہیں سب اسی وجہ سے ہیں کہ انسانوں کے ارادے صاف نہیں۔وہ منہ سے جوباتیں کرتے ہیں ان کے مطابق ان کی خواہش نہیں اوران کی خواہشا ت کے مطابق ان کے اقوال اورافعال نہیں۔ آج سب دنیا کہتی ہے کہ لڑائی بُری چیز ہے لیکن اس کامطلب صرف یہ ہوتاہے کہ اگر ہمارے خلاف کوئی لڑے تویہ بُری بات ہے لیکن اگر ان کی طرف وسے جنگ کی ابتداہو تو یہ کوئی بری بات نہیں سمجھی جاتی ۔اوریہ نقص اسی وجہ سے ہے کہ لوگوں کی نظر ایک ایسی ہستی پر نہیں جو سلام ہے ۔وہ سمجھتے ہیں جہاں تک ہمارافائدہ ہے ہم ان باتوں پر عمل کریں گیت مگر جب ہمارے مفاد کے خلاف کوئی بات آئے گی تواسے رد کردیں گے ۔مگر قرآن کریم میں جوخداتعالیٰ کے نام بتائے گئے ہیں ان سے معلوم ہوتاہے کہ وہ سب کا خداہے کسی ایک کانہیں۔اوریہی عقیدہ حقیقی امن کی طرف دنیا کولاسکتاہے کہ دنیا کاایک خداہے جویہ چاہتاہے کہ سب لوگ امن سے رہیں ۔جب ہمارایہ عقیدہ ہوگا تواس وقت ہماری خواہشات خود غرضی پر مبنی نہیں ہوں گی ۔بلکہ دنیا کو عام فائدہ پہنچانے والی ہوں گی اس وقت ہم یہ نہیں دیکھیں گے کہ فلاں بات کا ہمیں فائدہ پہنچتاہے یانقصان بلکہ ہم یہ دیکھیں گے کہ سار ی دنیا پر اس کاکیا اثر ہے۔ یوں تودنیا ہمیشہ اپنے فائدہ کے لئے دوسروں کے امن کو برباد کرتی رہتی ہے ۔لیکن اس عقیدہ کے ماتحت ایساکرنے کی جرأت اس میں نہیں ہوگی کیونکہ وہ سمجھے گی کہ اگر میں نے ایساکیا تو ایک بالا ہستی مجھے کچل کر رکھ دے گی ۔جیسے ایک بچہ دوسرے کاکھلونا چھین لیتاہے تووہ اپنے لئے امن حاصل کرلیتاہے لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرے کاامن بھی چھیناجاتاہے ۔اورایک توخوش ہورہاہوتاہے اوردوسرارورہاہوتاہے ۔ ایسی حالت میں کیا تم سمجھتے ہو کہ ماں باپ یا استاد اگر وہاں موجود ہوں تو وہ اس کھیل کو جاری رہنے دیںگے ؟وہ کبھی اس کو برداشت نہیں کریں گے ۔بلکہ جس بچہ نے کھلوناچھین اہوگا اس کاکھلونا لے کر اس کے اصل مالک کو دے دیں گے ۔اورجب و ہ ایساکرتے ہیں تب بچہ سمجھتا ہے کہ وہ امن جودوسرے کے امن کو برباد کرکے حاصل کیاجاتاہے وہ کبھی قائم رہنے والانہیں ہوتا۔حقیقی امن وہی ہوتاہے جوایسی صورت میں حاصل ہو جب کہ کسی کے حق کو تلف نہ کیا گیاہو ۔
غرض حقیقی امن اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک ایک بالاہستی تسلیم نہ کی جائے اوریہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ امن دینے والاہے صرف اسلام نے ہی پیش کیاہے اوراس نے کہا ہے کہ اَلْمَلِکُ الْقُدُوْسُ السَّلَامُ۔
اس کے بعد وہ پیغام ہے جو اس ہستی کی طرف سے آتاہے ۔کیونکہ جب ایک امن قائم رکھنے کی خواہشمند ہستی کاپتہ مل گیا ۔توانسان کے دل میں یہ معلوم کرنے کی بھی خواہش پیداہوجاتی ہے کہ آیا اس نے امن قائم کرنے کاکوئی سامان بھی کیاہے یانہیں۔کیونکہ اگر اس نے امن قائم کرنے کا کوئی سامان نہیںکیا تویہ لازمی بات ہے کہ اگر ہم خود امن قائم کرنے کی کوشش کریں گے تواس بات کا امکان ہوسکتاہے کہ بجائے امن کے فساد پیداکردیں ۔پس محض امن قائم کرنے کی خواہش انسان کو صحیح راستہ پر قائم نہیں کرسکتی جب تک ایک بالاہستی کی ایسی ہدایات بھی معلوم نہ ہوں جوامن قائم کرنے میں ممد اورمعاون ہوں ۔کیونکہ اگر انسان کو اپنے بالا افسر کی خواہشات کا صحیح علم نہ ہو توانسان باوجود اس آرزو کے کہ و ہ اس کے احکام کی اطاعت کرے اسے پوری طرح خوش نہیں رکھ سکتا۔ پس اگر ہمیں اپنے بالا افسر کی خواہش تومعلوم ہولیکن اس خواہش کو پوراکرنے کاطریق معلوم نہ ہو ۔تب بھی ہماراامن قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ ممکن ہے ہم کوئی اورطریق اختیار کریں اوراس کا منشاء کو ئی اورطریق اختیار کرناہو۔پس ہمارے امن کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ و ہ بالاہستی ہمیں کوئی ایساذریعہ بھی بتائے جو امن قائم کرنے والاہو۔سوا س غرض کے لئے جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں اوریہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا اس نے کوئی ایساذریعہ بتایاہے یانہیں توسورئہ بقرہ میں اس کا جواب نظر آتاہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے :۔وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا(بقر ہ آیت ۱۲۶)یعنی یہ جو آسمان پر سلام خداکی خواہش ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو اس کے لئے ضروری تھا کہ ہم ایک مرکز قائم کرتے جودنیا کوامن دینے والاہوتا۔سوہم نے بیت اللہ کومدرسہ بنایا۔یہاں چاروں طرف سے جولوگ جمع ہوں گے اورامن کاسبق سیکھیں گے ۔پس ہمارے خدانے صرف خواہش ہی نہیں کی ۔ صرف یہ نہیں کہا کہ تم امن قائم کروورنہ میں تم کو سزادوں گا ۔بلکہ اس دنیا میں اس نے امن کاایک مرکز بھی قائم کردیا اوروہ خانہ کعبہ ہے ۔فرماتاہے ۔یہاں لوگ آئیں گے اورا س مدرسہ سے لوگ امن کاسبق سیکھیں گے ۔
پھریہ کہ اس مدرسہ کی تعلیم کیا ہوگی ۔اس کے لئے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خداسے خبر پاکر اعلان فرمادیا کہ قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلَامِ ( مائدہ آیت ۱۶۔۱۷) یعنی اے لوگو!تم تاریکی میں پڑے ہوئے تھے ۔تم کو یہ پتہ نہیں تھاکہ تم اپنے خداکی مرضی کو کس طرح پوراکرسکتے ہو۔اس لئے دنیا میں ہم نے تمہارے لئے ایک مدرسہ بنادیاہے ۔مگرخالی مدرسہ کام نہیں دیتا جب تک کتابیں نہ ہوں۔پس فرمایا قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ۔خداکی طرف سے تمہارے پاس ایک نور آیا ہے جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اوراس کے ساتھ ایک کتاب مبین ہے۔ایسی کتاب جو ہرقسم کے مسائل کو بیان کرنے والی ہے ۔پس خداتعالیٰ نے اسلام کے لئے امن کا مدرسہ بھی قائم کردیا ۔امن کاکورس بھی مقرر کردیا اورمدرسِ امن بھی بھیج دیا۔مدرّسِ امن محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ااورامن کاکورس وہ کتاب ہے جو یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلَامِ کی مصداق ہے ۔جوشخص خداکی رضاحاصل کرناچاہتاہے ۔ اسے چاہیئے کہ اس کتاب کو پڑھے ا سمیں جس قدر سبق ہیں و ہ سُبُلَ السَّلَامِ یعنی سلامتی کے راستے ہیں۔اورکوئی ایک حکم بھی ایسانہیں جس پر عمل کرکے انسانی امن برباد ہوسکے ۔
ایک بالاہستی کاوجودہی ہمارے ارادوں کو درست کرتاہے ۔مدرسہ کاقیام ہماری عملی مشکلات کو حل کرنے میں مدد دیتاہے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس کتا ب کی عملی تفسیر ہے ۔جیسا کہ آپ فرماتے ہیں ک میرے ذریعہ خداتعالیٰ نے وہ کتاب بھیج دی ہے جس میں وہ تمام تفصیلات موجود ہیں جن سے امن حاصل ہوسکتاہے ۔
اب یہ سوال رہ جاتاہے کہ یہ امن جو اسلام قائم کرناچاہتاہے کس کے لئے ہے؟اللہ تعالیٰ اس کاجواب دیتے ہوئے فرماتاہے ۔قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسلامٌ عَلیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰے وہ بندے جو خداتعالیٰ کے پسندیدہ ہوجائیں اوراپنے آپ کو اس کی راہ میں فداکردیں ان کے لئے بھی امن پیداہوجائے گا اوروہ بھی باامن زندگی بسر کرنے لگ جائیں گے ۔یہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایاکہ تما م لو گ جوآپ کی اتباع کرنے والے اورآپ ک مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے ولاے ہیں ان کے لئے کامل امن ہے اوروہ اپنی زندگی کے کسی حصہ میں بھی بدامنی نہیں دیکھ سکتے ۔
پھر سوال پیداہوتاتھا کہ جب خدا سلام ہے تواس کی طرف سے امن ساروں کے لئے آناچاہیئے ۔نہ کہ بعض کے لئے۔کیونکہ اگر خالی اپنوں کے لئے امن ہوتو یہ کو ئی کامل امن نہیں کہلاسکتا ۔اس کابھی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں جواب دیتاہے ۔فرماتاہے ۔ وَقِیْلِہٖ یٰرَبِّ اِنَّ ھٰؤُ لَٓائِ قَوْمٌ لَّایُؤْمِنُوْنَ۔فَاصْفَحْ عَنْھُمْ وَقُلْ سَلَامٌ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(زخرف آیت ۸۹۔۹۰)یعنی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی تعلیم لے کرآئے ہیں جوساروں کے لئے ہی امن کاموجب ہے اورہرشخص کے لئے وہ رحمت کا خزانہ اپنے اندر پوشیدہ رکھتی ہے ۔مگرافسوس کہ لوگ اس کو نہیںسمجھتے ۔بلکہ و ہ اس تعلیم کے خلاف لڑائیاں اورفساد کرتے ہیں جوان کے لئے نوید اورخوشخبری ہے یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی یہ کہناپڑاکہ خدایامیں اپنی قوم کی طرف امن کا پیغام لے کرآیا تھا مگر اِنَّ ھٰؤُ لَٓائِ قَوْمٌ لَّایُؤْمِنُوْنَ یہ قوم جس کے لئے میں امن کاپیغام لایاتھا یہ تومجھے بھی امن نہیں دے رہی اٰمَنَ کے معنے ایمان لانے کے بھی ہوتے ہیں اور اٰمَنَ کے معنے امن دینے کے بھی ہوتے ہیں (اقرب)وَقِیْلِہٖ یٰرَبِّ اِنَّ ھٰؤُ لَٓائِ قَوْمٌ لَّایُؤْمِنُوْنَمیں اسی امر کا ذکر ہے کہ ہمارانبی ہم سے پکار پکارکرکہتاہے کہ خدایا باوجود یکہ میں اپنی قوم کے لئے امن کاپیغام لایاتھا وہ اس کی قد رکرنے کی بجائے میری مخالفت پر کمر بستہ ہو گئی ہے یہاں تک کہ ان لوگوں نے میرے امن کو بالکل برباد کردیا۔مگرفرمایا۔فَاصْفَحْ عَنْھُمْ۔ہم نے اپنے نبی سے یہ کہا ہے کہ ابی ان لوگوںکوتیری تعلیم کی عظمت معلوم نہیں اس لئے وہ غصہ میں آجاتے ہیں اورتیری مخالفت پر کمر بستہ رہتے ہیں توان سے درگذر کر۔کیونکہ ہم نے تجھے امن کے قیام کے لئے بھیجا ہے وَقُلْ سَلَامٌ۔اورجب تجھ پریہ لوگ حملہ کریں اورتجھے ستائیں توتویہی کہتا رہ کہ میں تو تمہارے لئے سلامتی لایاہوں فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ عنقریب دنیا کومعلوم ہوجائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے لئے امن لایاتھا۔لڑائی نہیں لایاتھا ۔گویا وہ امن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لائے وہ صرف مومنوں کے لئے ہی امن نہ رہا۔ بلکہ سب کے لئے امن ہوگیا ۔
پھر صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی نہیں بلکہ تمام مومنوںکو مخاطب کرکے اللہ اتعالیٰ فرماتاہے کہ وَاِذَاخَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْاسَلَامًا( سورہ فرقان آیت ۶۴)وہ جاہل جو اسلام کی غرض و غایت کونہیں سمجھتے جب مسلمانوں سے لڑناشروع کردیتے ہیں ۔ تومومن کہتے ہیں کہ ہم توتمہاری سلامتی چاہتے ہیں چاہے تم ہمارابُراہی کیوں نہ چاہو ۔جب دشمن کہتاہے کہ تم کیسے گندے عقائد دنیا میں رائج کررہے ہو۔تووہ کہتے ہیں یہ گندے عقائد اوربیہودہ باتیں نہیں ۔بلکہ سلامتی کی باتیں ہیں۔گویارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی سلامتی صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہی نہیں بلکہ مومنوں کے لئے بھی ہے ۔اورصرف مومنوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے ہے ۔
پھر سوال پیداہوتاہے کہ یہ سلامتی عارضی ہے یامستقل۔کیونکہ یہ توہم نے ماناکہ السَّلام خداسے امن لاکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دیا ۔مگر بعض امن عارضی بھی ہوتے ہیں جن کے نیچے بڑی بڑی خرابیاں پوشیدہ ہوتی ہیں جیسے بخار کامریض جب ٹھنڈاپانی پیتاہے تواسے بڑاآرام محسوس ہوتاہے ۔مگردومنٹ کے بعدیکدم اس کابخار تیز ہوجاتاہے ۔اورکہتاہے ’’آگ لگ گئی ‘‘پھر برف پیتاہے ۔اورسمجھتاہے کہ آرام آگیا مگریکدم اسے بے چینی شروع ہوجاتی ہے ۔پس سوال ہوسکتاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوامن دے رہے ہیں یہ عارضی ہے یا مستقل؟اس کاجواب دیتے ہوئے فرماتاہے :۔وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓااِلیٰ دَارِ السَّلَامِ(یونس آیت ۲۶)کہ دنیا فسادوں کی طرف لے جاتی ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو تعلیم دی گئی ہے وہ موجودہ زمانہ ہی کے لئے نہیں ۔بلکہ وہ ایک ایساامن ہے جو مرنے کے بعد بھی چلتاچلاجاتاہے اورجواس دنیا کے بعد ایک ایسے گھر میں انسان کو پناہ دیتاہے جہاں سلامتی ہی سلامتی ہے گویایہ زنجیر ایک مکمل زنجیر ہے ۔اس کے ماضی میں ایک سلام ہستی کھڑی ہے اس کے حال میں امن ہے کیونکہ ایک مدرسئہ امن جاری ہوگیاہے اورایک مدرّسِ امن خداتعالیٰ نے بھیج کر امن کاکورس بھی مقررکردیا۔اورعملی طور پر ایک ایسی جماعت تیار کردی جو وَاِذَاخَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْاسَلَامًاکی مصداق ہے ۔پس اس کے ماضی میں بھی امن ہے اوراس کے حاضر میں بھی امن ہے۔پھر اس کے مستقبل میں بھی امن ہے۔کیونکہ وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓااِلیٰ دَارِ السَّلَامِ مرنے کے بعدوہ انسان کو ایک ایسے جہان میں لے جائے گا ۔جہاں سلامتی ہی سلامتی ہوگی۔پس یہ ساری زنجیر مکمل ہوگئی اورکوئی جزو تشنئہ تکمیل نہ رہا۔
اس کے بعدقیام امن کے ذرائع کاسوال آتا ہے۔سواس کے متعلق بھی قرآن کریم روشنی ڈالتااور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ اعلان فرماتاہے کہ وَکَیْفَ اَخَافُ مَآاَشْرَکْتُمْ وَلَاتَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ بِاللہِ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًا۔ فَاَ یَّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ۔اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔(انعام آیت ۸۲) یعنی میرے دل کاامن ان بتوں کودیکھ کر کس طر ح برباد ہوجائے جن کو تم خدائے واحدکا شریک قراردے رہے ہو۔ وَلَاتَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ بِاللہِ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًا حالانکہ تم اپنے دلوں میں جھوٹے طورپر مطمئن ہو۔خطرہ تمہارے ارد گرد ہے۔پس اگر تم عدمِ علم اورجہالت کے باوجود مطمئن ہو اورتمہاراعدم علم تم کوامن دے سکتاہے توتم کس طرح سمجھ سکتے ہو کہ میرا کامل علم مجھے امن نہیں بخش سکتا ۔فَاَ یَّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْن تم بتائوان دونوں میں سے کس کو امن حاصل ہوگا؟اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْن۔اگر تم حماقت کی باتیں نہ کرو اورعقل و خرد سے کام لو تو تم سمجھ سکتے ہوکہ کو ن مامون ہے اورکون غیر مامون ۔
اس جگہ امن کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ نے دوعظیم الشان گُر بیان فرمائے ہیں ۔اول یہ کہ توحید کامل کے قیام کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ جب تک توحید قائم نہ ہوگی اس وقت تک لڑائیاں جاری رہیں گی ۔شرک کاصرف اتنا ہی مفہوم نہیں کہ کوئی ایک کی بجائے تین خدائوں کا قائل ہو ۔بلکہ جب باریک در باریک رنگ میں شرک شروع ہوتاہے توکئی قسم کا شرک نظر آ نے لگ جاتاہے ۔ اس کے علاوہ جب مختلف مذاہب کی تعلیمیں مختلف ہیں ان کے خیالات مختلف ہیں تو اس احالت میں امن اس وقت تک قائم ہی نہیں ہوسکتا جب تک لوگوں کے اند رحقیقی مواخات پیدانہ ہو اورحقیقی مواخات ایک خداکے بغیر نہیں ہوسکتی ۔دنیا میں اس بات پر تو لڑائیاں ہوجاتی ہیں کہ ایک کہتا ہے میرادادافلاں عظمت کا مالک تھا اوردوسراکہتاہے میراداداایساتھا ۔مگر کبھی تم نے بھائیوںکو اس بات پر لڑتے نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک دوسرے کو کہے میں شریف النسب ہوں اورتم نہیں ۔اسی طرح جب دنیا میں توحید کامل ہوگی ۔تبھی اس قسم کی لڑائیاںبند ہوں گی پس اخوت و مساوات کاجوسبق توحید سے حاصل ہوتاہے اَورکسی طرح سے حاصل نہیں ہوسکتا۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم ک متعلق دشمن بھی اقرار کرتاہے کہ اخوت کا جو سبق آپ نے دیا اورکسی نے نہیں دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوت کاسبق الگ کرکے نہیں دیابلکہ آپ نے اصل میں توحید کاسبق دیاجس کالازمی نتیجہ یہ ہواکہ مسلمانوں می اخوت پیداہوگئی ۔مثلاً جب مَیں نماز میں کہوں الحمد للہ رب العالمین سب تعریف اسی اللہ کی ہے جوعیسائیوں کا بھی رب ہے ۔ہندوئوں کا بھی رب ہے یہودیوںکا بھی رب ہے ۔تومیرے دل میں ان قوموں کی نفرت کس طرح ہوسکتی ہے ۔جبکہ میں رب العالمین کے لفظ کے نیچے تمام قوموں اورتمام نسلوں کو لے آتاہوں ۔میں جب نماز میں الحمد للہ رب العالمین کہتاہوں تو تودوسرے الفاظ میں یہ کہتا ہوں کہ الحمد للہ رَبِّ الْمَذاھِبِ کُلِّھَا۔یعنی میں ا س خدا کی تعریف کرتاہوں جو تمام مذاہب کارب ہے ۔اسی طرح جب میں الحمد للہ رب العالمین کہتا ہوں تو ا سکے معنے یہ بھی ہوتے ہیں کہ الحمد للہ رب الاقوام کلھا یعنی میں اس خداکی تعریف کرتاہوں جوتمام اقوام کا رب ہے اسی طرح جب مَیں الحمد للہ رب العالمین کہتاہوں تواس کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ الحمد للہ ربِّ الْبِلادِ کُلِّھَایعنی میں اس خداکی تعریف کرتاہوں جو تمام ملکوں کارب ہے ۔اورجب کہ میں تمام اقوام ۔تما م ملکوںاورتمام
لوگوں میں حسن تسلیم کروںگا تویہ ممکن ہی نہیں کہ میں ان سے عداوت رکھ سکوں۔پس الحمد للہ رب العالمین میں بتادیاگیاہے کہ اگر حقیقی توحید قائم ہواوررب العالمین کی حمد سے انسان کی زبان تر ہو تویہ ممکن ہی نہیں کہ کسی قوم کا کینہ انسان کے دل میں رہے اورا یک طر ف تووہ ان کی بربادی کی خواہش رکھے اوردوسری طرف ان کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد اورتعریف بھی کرے ۔
دوسرانکتہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ نازل فرمایاہے کہ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ علیکم سُلْطٰنًا یعنی دنیا میں امن تبھی برباد ہوتاہے ۔جب انسان فطرتی مذہب کو چھو ڑکررسم و رواج کے پیچھے چل پڑتاہے ۔اگرانسان طبعی اورفطرتی باتوں پر قائم رہے توکبھی لڑائیاں اورجھگڑے نہ ہوں۔یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔اسلام دین فطرت ہے اورحقیقت یہی ہے کہ جو دین فطرت ہو گا ۔وہی دنیا میں امن قائم کرسکے گا اوروہی مذہب امن پھیلاسکے گا جس کاایک ٹکڑا انسان کے دماغ میں ہو۔آخر یہ ہوکس طرح سکتاہے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو ا س تعلیم کی طرف بلائے جس کاجواب ہماری فطرت میں نہیں اورجس کی قبولیت کا مادہ پہلے سے خدانے ہمارے دماغ اورہمارے ذہن میں نہیں رکھا ۔پس فرمایامَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ علیکم سُلْطٰنًا تم کہہ دو کہ تم ان تعلیمو ں کے پیچھے چل رہے ہو جو فطرت کے خلاف ہیں اور میں تم کو ان باتوں کی طرف بلاتاہوں جو تمہاری فطرت میں داخل ہیں ۔اب جو ںجوں انسان اپنی فطرت کو پڑھنے کی کوشش کرے گااس کادل پکار اُٹھے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں جو کتا ب ہے و ہ بالکل سچی ہے۔ کیونکہ ا س کادوسرانسخہ میرے ذہن میں بھی ہے ۔اس طرح آہستہ آہستہ دنیا ایک مرکز پر آجائے گی اورایک ہی خیال پر متحد ہوجائے گی جس کے نتیجہ می امن قائم ہوجائے گا ۔
اب ایک اورسوال باقی ر ہ جاتاہے اوروہ یہ کہ بے شک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدرّسِ امن ہیں۔بے شک آپؐ نے امن کا مدرسہ دنیا میں جاری کردیا بے شک امن کا کورس خدانے مقرر کردیا ۔بیشک اسلام نے تعلیم وہ دی ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے اورجسے دیکھ کر انسانی فطرت پکار اٹھتی ہے کہ واقعہ میں یہ صحیح تعلیم ہے ۔مگر کیا لڑائی بالکل ہی بُری چیز ہے؟ قرآن کریم اس کابھی جواب دیتا اورفرماتا ہے کہ امن کے قیام کے لئے بعض دفعہ جنگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔چنانچہ فرماتاہے۔وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْفَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ(بقرہ آیت ۲۵۲)کہ بیشک امن ایک قیمتی چیز ہے ۔بے شک ا س کی تعلیم خدانے انسانی دماغ میں رکھی ہے ۔مگرکبھی انسان کا دماغ فطرت سے اتنا بعید ہوجاتاہے کہ اورانسانی عقیدے فطرت سے اتنے پر ے ہٹ جاتے ہیں ۔کہ وہ امن سے بالکل دورجاپڑتے ہیں ۔اورنہ صرف امن سے دورجا پڑتے ہیں بلکہ حرّیتِ ضمیر کوبھی باطل کرناچاہتے ہیں۔فرماتاہے ایسی حالت میں امن کے قیام اوراس کو وسعت دینے کے لئے ضروری ہوتاہے کہ جو شرارتی ہیں ان کامقابلہ کیاجائے پس وہ جنگ امن ہٹانے کے لئے نہیں بلکہ امن قائم کرنے کے لئے ہوگی ۔جیسے اگر انسان کے جسم کا کوئی عضو سڑ گل جائے تو فیس خرچ کرکے بھی انسان ڈاکٹرسے کہتاہے کہ اس عضو کو کاٹ دو ۔اسی طرح کبھی ایسے گروہ دنیا میں پیداہوجاتے ہیں جو سرطان اورکینسر کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔اورضروری ہوتاہے کہ ان کا اپریشن کیا جائے تاو ہ باقی حصہ قوم کو بھی گند ہ اورناپاک نہ کردیں ۔پس فرمایا وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْض۔اگر بعض کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بعض کی شرارتوںکو دور نہ کرتا تو لَفَسَدَتِ الارضُ۔ بجائے امن قائم ہونے فساد بڑھ جاتا۔جس طرح سپاہیوں کو بعض دفعہ لاٹھی چارج کا حکم دیاجاتاہے ۔اسی طرح فرمایا ۔بعض دفعہ ہم بھی اپنے بندوںکو اجازت دیتے اورانہیں کہتے ہیں جائو اورلاٹھی چار ج کرو اس لئے کہ لَفَسَدَتِ الارضُ اگر لاٹھی چارج نہ کیاجاتا۔توساری دنیا کاامن برباد ہوجاتا ۔وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْفَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ لیکن اللہ تعالیٰ صرف ایک قوم کو ہی امن نہیں دیناچاہتا بلکہ وہ ساری دنیا کو باامن دیکھنے کاخواہشمند ہے ۔اورچونکہ ان لوگوں سے دنیا کاامن برباد ہوتاہے اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان کا مقابلہ کیا جائے ۔تاساری دنیا میں امن قائم ہو۔بیشک اس کے نتیجہ میں خود ان لوگوںکا امن مٹ جائے گا ۔مگر دنیا میں ہمیشہ مواز نہ کیا جاتاہے ۔جب ایک بڑافائدہ چھوٹے فائدہ سے ٹکراجائے تو اس وقت بڑے فائدے کولے لیاجاتا اورچھو ٹے فائدہ کو قربان کردیاجاتاہے ۔اسی طرح کثیر حصہء دنیا کے امن کی خاطر ایک قلیل گروہ سے جنگ کی جاتی ہے اوراس وقت تک اسے نہیں چھوڑاجاتا جب تک وہ خلاف امن حرکات سے باز نہ آجائے ۔
یہ ایک مختصر ساڈھا نچہ اس تعلیم کاہے جو اسلا م نے قیام امن کے سلسلہ میں دی ۔اس سے ہرشخص اندازہ لگاسکتاہے کہ اسلام نے کس جامعیت اورتفصیل کے ساتھ اس مسئلہ کو بیان کیاہے جبکہ باقی مذاہب اس مسئلہ پر بالکل خاموش ہیں اورانہوں نے نسل انسانی کی کوئی راہنمائی نہیں کی ۔صرف یہ کہہ دینا کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے توتم اپنادوسراگال بھی اس کی طرف پھیر دو۔ اگر کو ئی شخص تم سے قمیص مانگے تواسے چوغہ بی اتار دو۔اگر کوئی شخص تمہیں ایک کوس بیگار میں لے جاناچاہے توتم دوکوس چلے جائو ۔ (متی باب ۵آیت ۳۹تا ۴۲)بین الاقوامی مشکلات کاکوئی حل نہیں کہلا سکتا ۔اورنہ عیسائیت اوریہودیت صرف اس تعلیم پر عمل کرکے کبھی دنیا میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے ۔بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ اس تعلیم پر عمل امن نہیں بلکہ بد امنی پیداکرنے کاموجب ہے۔اگرکوئی شخص ایک کوس پر اپنے گھر کاسامان لے جاناچاہتاہے ۔اورایک مزدورکو وہ زبردستی پکڑ لیتاہے تومسیحیت کہتی ہے کہ اے مزدور پکڑاجااورمقابلہ نہ کر ۔مگرجب اسکاگھر آجا ئے تووہاں ٹھہر نہیں بلکہ ایک کوس اورآگے چلا جا۔اب بتائو اس تعلیم پر عمل کرکے کس کو امن ملا ۔دوسرے شخص کو خود اسباب اٹھاکرواپس لاناپڑے گا اورمزدورکو ایک کوس زائد بوجھ اٹھا ناپڑے گا ۔گویا دونوںکو بدامنی ملی ۔امن نہ ملا ۔
امن صرف اسی تعلیم پر عمل کرکے قائم ہوسکتاہے جو اسلام نے پیش کی ہے ۔کیونکہ اسلام ایک ایسی کتاب مبین پیش کرتاہے جواپنے تمام احکام پر بالتفصیل روشنی ڈالنے والی ہے اورجس کامقابلہ نہ تورات کرسکتی ہے ن انجیل کرسکتی ہے ۔نہ ژند واوستاکرسکتے ہیں اورنہ دنیا کی کو ئی اورکتاب یاصحیفہ کرسکتاہے ۔
کتاب مبین کے ذکر میں اس امر کابیان کردینا بھی ضروری معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین کی شناخت کاانحصار صرف ظاہری دلائل اوربراہین پرہی نہیں رکھا بلکہ اس نے کتاب مبین کی سچائی کے لئے ایک اَورکتاب بھی تیار کی ہوئی ہے جسے قرآنی اصطلاح میں کِتاَبٌ مَّکْنُوْن(سورئہ واقعہ آیت ۷۹)کہاجاتاہے ۔کتاب مکنون کی مثال اس پانی کی سی ہے جوزمین کے اند رمخفی ہوتاہے اورکتاب مبین کی مثال نہروں اوردریائوں اورچشموں کے پانی کی سی ہے جو ظاہر ہوتاہے ۔جس طرح نہروں اوردریائو ں اوربادلوں کے پانی کی وجہ سے کنوئوں کا پانی بھی چڑھ آتاہے ۔اسی طرح کتا ب مین کی آمدپر کتاب مکنون بھی اپنے خزانے اگلنے لگتی ہے ۔اورجب کتاب مبین کاپانی برسنا بند ہوجائے توکتاب مکنون بھی مخفی ترہوجاتی ہے ۔کتاب مکنون سے مراد فطرت صحیحہ اورضمیر ہے اورکتاب مبین خداتعالیٰ کاتازہ الہام ہے ۔اورکتاب مبین کی سچائی کاثبوت یہ ہوتاہے کہ وہ کتاب مکنون کے مطابق ہو گویا اصل میں یہ دونوں ٹکڑے ایک ہی کل کے ہیں جسے کتاب مطلق کہنا چاہیئے اورجب کتاب مکنون اورکتاب مبین کااتحاد ہوجائے توسمجھ لینا چاہیئے کہ وہ کتاب مبین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔گویاکہ اللہ تعالیٰ نے آئندہ لوگوںکو دھوکے سے بچانے کے لئے اپنی کتاب کا ایک ٹکڑا ان کے دلوں اوردماغوں میں بھی رکھ دیاہے۔تاکہ جو کتاب اس کے مطابق ہو وہ اس کی سمجھی جائے اورجو اس کے مطابق نہ ہو وہ جھوٹی قرار پائے ۔اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ۱۹۲۴ء میں مَیں جب ولایت سے واپس آرہاتھاتوجہاز کا ایک انجینئر مجھے علیحدگی میں لے گیا ۔اورکہنے لگاآپ کے ولایت جانے کے لئے تبلیغ توایک بہانہ ہے آپ کسی اَوراہم کام کو سرانجام دینے کے لئے گئے ہوں گے ۔میںنے کہا ۔ہم تو صرف تبلیغ کے لیء ہی گئے تھے اس کے علاوہ اورکوئی کام ہمارے مدنظر نہ تھا ۔مگر چونکہ اس کے دل میں یہی جم چکاتھا کہ کسی اورکام کے لئے گئے تھے اورتبلیغ کو آڑ بنالیاتھا وہ کہنے لگا کہ آپ توانگریزوں کے خلاف کسی قسم کی کوشش کرنے گئے ہوں گے اورآپ کا یہ ظاہرکرنا کہ ہم تبلیغ کے لئے گئے تھے ایک بہانہ ہے ۔میں نے پھر اسے وہی جواب دیاکہ تبلیغ کے سواہمار اکو ئی اورمدعانہ تھا ۔مگر وہ اپنی دھن میں یہی کہتا رہا کہ تبلیغ تو صرف بہانہ ہے ۔اس کے بعد وہ کہنے لگا ۔میں اپنی خدمات آپ کے پیش کرتاہوں ۔آپ میرے سپر دکوئی کام کریں ۔اوراگرآپ نے اپنے نمائندوںکو کسی قسم کی مخفی ہدایات پہنچانی ہوں تومیں اس کا م کوبخوبی سرانجام دے سکوں گا اوربڑی حفاظت سے ان تک پہنچا دیاکروں گا ۔اس کے بعداس نے مزید اعتبار جمانے کے لئے ایک وزیٹنگ کارڈ VISITING CARD نکالااوراس کے دوٹکڑے پھاڑ کرکہا ۔جب آپ مجھے اس قسم کی ہدایات پرمشتمل خط بھیجیں تووزیٹنگ کارڈ کا نصف حصہ اس کے ساتھ مجھے بھیج دیں اوردوسرانصف حصہ اپنے اس نمائندہ کو جس کو وہ خط پہنچاناہوبھیجدیاکریں وہ نمائندہ جب وہ نصف وزیٹنگ کار ڈ دکھا کر مجھ سے آپ کے مخفی خط کا مطالبہ کرے گا تومیں اس کے نصف وزیٹنگ کارڈ کو اپنے والے نصف کے ساتھ ملاکر دیکھ لوں گا ۔اوراگر وہ دونوں ٹکڑے آپس میں مل گئے تومیں سمجھ جائو ں گا کہ یہ خط اسی کو دینا ہے۔پھر اس نے مثال دی کہ فرض کرو میں اپ کا خط لے کر وینس میں پہنچا اوروہاں دیکھا کہ ایک ہندوستانی شخص میرے انتظار میں کھڑا ہے وہ جب اپنی جیب سے وہ نصف کارڈ نکال کر مجھے دکھائے گا تومیں اپنے وزیٹنگ کارڈ سے ملا کردیکھو ں گا۔اگر مل گیاتو آپ کا خط اس کو پہنچا دوں گا ۔یہ مثال تو اس انجینئر نے اپنی اس غلط فہمی کی بناپر دی تھی کہ ہم انگریزوں کے خلاف کسی قسم کی سازش کرنے گئے تھے ۔لیکن اتنی بات بالکل درست ہے کہ جب کسی کارڈ کے دوحصے آپس میں فٹ آجائیں تواس کارڈ کے صحیح ہونے میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین کا ایک حصہ انسان کے ضمیر میں رکھ دیاہے اورجب وہ دونوں آپس میں مل جاتے ہیں توکتاب مبین کی صداقت بالکل واضح ہوجاتی ہے ۔مگرجس طرح بارش نہ ہونے پر کنوئوں کے پانی بھی سوکھنے لگتے ہیں۔اسی طرح کتاب مکنون اس وقت تک کام دیتی ہے جب تک کتاب مبین کاپانی برستارہے ۔جب فترۃ کازمانہ آجائے توکتاب مکنون بھی مخفی ترہوجاتی ہے ۔گویادونوں کی مثال دودوستوں اورمحبّوں کی سی ہے کہ جب ایک قریب آتاہے تو دوسرابھی قریب آجاتاہے اورجب ایک دور چلاجاتاہے تودوسرابھی دورچلاجاتاہے۔جب کتاب مکنون کسی شخص کی اپنی جِلاکی وجہ سے نمایاں ہونے لگتی ہے اوراس کامالک اپنی ذکاوت کی وجہ سے اس کے مطابق اعمال کرکے اسے اورزیادہ مصفّٰی کر دیتاہے تو معاً کتاب مبین یعنی الہام الٰہی اس پر نازل ہونے لگتاہے ۔اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ کیاگیاہے کہ یَکَادُ زَیْتُھَایُضِیْیٓئُ وَلَوْلَمْ تَمْسَسْہُ نارٌ( النور آیت ۳۶)یعنی فطرت مبارکہ محمدیہ ایسی مصفّٰی اورپاکیز ہ تھی کہ قریب تھاکہ خود بخود بغیر آگ کے جل اٹھتی یعنی بغیر اس کے کہ آسمانی آگ اس کو چھوتی وہ آپ ہی آپ دقائق اورمعرفت کو پالیتی ۔کیونکہ سنت اللہ یہی ہے کہ جب اس اندرونی تیل میں التہاب پیداہونے لگے توآسمانی آگ کووہ خود بخود جذب کرلیتاہے ۔غرض ان دونوں کتابوں کا عجیب جوڑ ہے کہ ایک کے قریب ہونے سے دوسری بھی قریب ہوجاتی ہے ۔فطرت صحیح ہوتی ہے تووہ الہام کو کھینچ لیتی ہے اورالہام کی روشنی کسی کو نصیب ہوجائے ۔تواس کی فطرت کے صحیح جذبات ابھر آتے ہیں ۔اوردونوں میں لازم و ملزوم والی لذت پیداہوجاتی ہے ۔اسی طرح جب کتاب مکنون مٹ جائے توکتاب مبین بھی نصیب نہی ہوتی اورجب کتاب مبین سے انسان محروم ہوجائے توکتا ب مکنون بھی مٹ جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایمان کامل کبھی خالی فطرت کے غورسے حاصل نہیں ہوسکتا۔کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ فطرت کامل ہوتو الہام کامل اس سے جداہی نہیں رہ سکتا۔وہ فوراً اس پر اسی طرح آگرتاہے جس طرح وائرلیس کے صحیح آلہ پر خود بخود خبر گرنے لگتی ہے یاجوازبِ بجلی پر بجلی۔
غرض الہام اورفطر ت صحیحہ ایک جوہرکے دوٹکڑے ہیں اوران کو الگ الگ سمجھنا سخت نادانی اوربے وقوفی ہے ۔فطرت صحیحہ اورجذبات متناسب کے نتیجہ میں ہی عشق الٰہی کی آگ بھڑکاکرتی ہے جوکلام کوکھینچ لیتی ہے اوروصال کو آسان کردیتی ہے ۔پس صحیح اورآسمانی کلام وہی ہوسکتاہے جس کو فطرت صحیحہ اورجذبات سے کامل اتصال ہو اوربجائے جذبات کومارنے کے وہ ان کو صحیح طورپرابھارے اورفطرت صحیحہ اس کی تصدیق کرے کہ ہاں یہ کلام میرے جسم کادوسراٹکڑہ ہے اورفوراًاس کی طرف لپک پڑے۔اس کے مقابلہ میں جو کلام فطرت صحیحہ کو مارنے کی کوشش کرتاہے و ہ یقیناً کتاب مکنون کے مخالف چلتاہے اورخواہ منہ اس کی کس قدر ہی تصدیق کریں دل اس پر مطمئن نہیں ہوسکتے اوروہ ضرور اپنے مقصد کے پوراکرنے میں ناکام رہتاہے ۔کیونکہ وہ نصف دھڑ کی طرح ہے یامجرّد نرہے کہ جو بغیر مادہ کے بچہ نہیں دے سکتا۔غرض قرآن کریم کویہ ایک بہت بڑی فضیلت حااصل ہے کہ وہ کتاب مبین بھی ہے اورفطرت صحیحہ انسانیہ میں بھی یہ کتاب موجود ہے ۔یعنی اس کاکوئی حکم انسانی فطرت کے مغائر نہیں ۔لیکن چونکہ بغیر آسمانی مدد کے فطرت صحیحہ کے باریک خزائن کا بھی اظہار نہی ہوسکتا اس لئے اللہ تعالی کتاب مبین اتارتاہے تاکہ اس کے ذریعہ سے کتاب مکنون کاظہور ہو۔اورکتاب مکنون کے ذریعہ سے کتاب مبین کی لوگوںکو شناخت ہو ۔اسی حقیقت کو صلحاء نے اس طرح بیان فرمایاہے کہ مَن عَرَفَ نَفسہٗ فقد عَرَفَ رَبَّہٗ یعنی دقائق فطرت کو سمجھنے سے ہی انسان کو خداملتاہ ۔مگریہ فقرہ ناقص ہے اورشعرکاصرف ایک مصرعہ ہے حق وہی ہے جو قرآن کریم نے بتایاہے کہ عرفانِ نفس سے خداملتاہے لیکن خداتعالیٰ کے کلام کے بغیر عرفان نفس بھی حاصل نہیں ہوتا۔گویاانسان اپنی حقیقت کو سمجھنے کے لئے بھی کتاب مبین کامحتاج ہے اوریہ دونوں چیز یں ایک دوسرے سے وابستہ اورپیوستہ ہیں۔
پھر فرماتاہے لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ اَلَّایَکُوْنُوْامُؤْمِنِیْنَ اے محمدؐ رسول اللہ!یہ عظیم الشان کلام جو ہم نے تجھ پر نازل کیاہے اسے لوگوں تک پہنچانے اورانہی اس لازوال دولت سے متمتع کرنے کے لئے تیرے دل میں بنی نوع انسان کی ہدایت کی اتنی شدید تڑپ پائی جاتی ہے کہ شاید تواپنی جان کو اسی غم میں ہلاک کرلے گا کہ کیوں یہ لوگ اس کتاب مبین پر ایما ن نہیں لاتے جوان کی دنیوی اوراُخروی بہبود کے لئے نازل کی گئی ہے اورجس میں ان کی تمام روحانی اورجسمانی ترقیات کے راز مضمر ہیں ۔ بَخَعَ کے معنے ہوتے ہیں ۔اس طرح چھری پھیر ی کہ گردن کے پچھلے حصہ تک پہنچ گئی ۔گویاذبح کرنے میں مبالغہ اورسختی سے کام لیا ۔ان معنوں کومد نظر رکھتے ہوئے ا س آیت میں یہ اشارہ کیاگیاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نوع انسان سے اتنی شدید محبت تھی کہ وہ ان کے غم میں اپنے آپ کو ہلاک کررہے تھے ۔اوران کے ہدایت نہ پانے کو اس طرح محسوس کررہے تے جس طرح جوش سے بھراہواانسان آگے سے چھری پھیرنا شروع کرتاہے توگردن کے پچھلے حصہ تک کا ٹ جاتاہے۔دنیا میں اب تک ہزاروں انبیاء گذرے ہیں ۔مگر نبی نوع انسان کی محبت کایہ مقام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوااورکسی کو نصیب نہیں ہوا۔حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جہاں ایک طرف عقل و خرد کی بہترین مثال ہے وہاں اس کے ذریعہ جذبات کابھی نہایت پاکیز ہ طورپر ظہور ہواہے اوریہ جذباتی تمثال حقیقتاً اس نہایت لطیف شعر کا مصداق ہے کہ ؎
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدئہ عالم دوامِ ما
دنیا میں خالی عقل نے کبھی زندگی نہیں پائی ۔زندگی ہمیشہ عشق نے پائی ہے ۔جذبات نے پائی ہے ۔دنیا میں بڑے بڑے فلاسفر اورعاشق گذرے ہیں لیکن جو حکومت عشاق نے لوگوں کے دلوں پر کی وہ فلاسفروں کو حاصل نہیںہوئی۔انبیاء میں حقیقی عشق کی جومثالیں ہیں انہیں نظر اندا زکردو اورمجاز ی عشق ہی کو لے لو ۔کتنے آدمی ہیں جو ارسطویاافلاطون کی باتوںکو جانتے ہیں یاان کانام بھی جانتے ہیں۔مگر کتنے ہیں جومجنوں اورلیلیٰ کو جانتے ہیں اورکتنے ہیں جوان کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔کوئی شہر یا قصبہ ایسانہ ہوگا جہاں شاعرنہ ہوں اوریہ شاعرکون ہیں ۔لیلیٰ اورمجنوں کے شاگرد ۔اوران میں سے ان شاعروں کو الگ کرکے جن کو خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں علیحدہ کردیاہے اورجودین کی خدمت یاخداتعالیٰ کویاد کرنے کے لئے شعرلکھتے ہیں۔باقی تما م وہی ہیں جو لیلیٰ مجنوی کی نقل کرناچاہتے ہیں۔اگرچہ وہ لیلیٰ اورمجنوں نہیں ہوتے لیکن تم جس وقت ان کا کلام سنو گے توایسامعلوم ہوگا گویاانہوں نے کبھی کھاناہی نہیں کھایا۔کبھی تکیہ سے سر نہیں اٹھایا کہ ساری رات ان کی آنکھیں نہ کھلی رہی ہوں اوران کی آنکھیں کبھی خشک نہیں ہوئیں۔جگر اوردل ان کے جسم میں ہے ہی نہیں۔مدتیں ہوئیں کچھ خون بن کر اورکچھ پانی بن کر بہہ چکا ہے اوروہ جیتا جاگتا وجود جوتمہارے سامنے بیٹھاہوگاکئی دفعہ مرااور دفن ہوچکا اوراس کے معشوق نے آکر اس کی قبر کو ٹھکرادیا۔جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ لیلیٰ اورمجنوں کو بھی عشق میں پیچھے چھوڑناچاہتا ہے۔توجتنے دلوں پر عشق نے قبضہ کیاہے عقل نے نہیں کیا ۔مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف عقل کے میدان میں ہی اپنی برتری ثابت نہیں کی بلکہ جذبات کے میدان میں بھی و ہ سب عاشقوں سے آگے بڑ ھ گیاحتیّٰ کہ کوئی بھی عاشق عشق میں اس کامقابلہ نہیں کرسکتا۔خداتعالیٰ کے عشق کو جانے دو کیونکہ وہ تمام لوگوںکی رسائی سے بالاہوتاہے ۔ انسانی عشق کو لے لو ۔مجنوں کیا تھا ایک عورت کاعاشق تھا اس کاعشق باغرض تھا وہ اس سے متمتّع ہوناچاہتا تھا ۔اس کے حسن سے فائدہ اٹھاناچاہتاتھا مگراس کے مقابلہ میں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعشق جو دنیا سے تھا وہ کسی فائدہ کی غرض سے نہ تھا ۔تمتّع کے خیال سے نہ تھا اورپھر وہ ایک دوسے نہیں۔ بلکہ سب سے تھا اوربدصورتوں سے اَوربھی زیادہ تھا ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ اَلَّایَکُوْنُوْامُؤْمِنِیْن۔اے محمدؐ!(صلی اللہ علیہ وسلم)شاید تواپنی جان کو ہلاک کردے گا ان خوبصورتوں کے لئے نہیں جنہوں نے ابو بکرؓ اورعمرؓ کی طرح ایمان لاکر اپنے چہروںکو منورکرلیاتھا بلکہ ان بدصورت اوربھونڈی شکل کے لوگوں کے لئے جنہیں دیکھ کر گھِن آتی تھی ۔جنہیں دیکھ کر روحانی شخص کو متلی ہونے لگتی تھی جیسے عتبہ اورشیبہ اورابوجہل وغیرہ توان کے عشق میں مراجاتاتھا کہ کیوں ان کو فائدہ نہیں پہنچاسکتا۔مجنوں کاعشق ا سکے مقابلہ میں کیاہے ۔اس نے اس سے محبت کی جس ک شکل اسے پسندتھی۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعشق ان لوگوں سے بھی تھا جن کی روحانی شکل آپ کوناپسند تھی ۔پھر اس عشق کا کسی ایک سے نہیں ساری دنیا سے وابستہ تھا ۔صرف اس زمانہ کے لوگوں سے ہی نہیں بلکہ آئندہ زمانوں سے بھی جیسا کہ فرمایا ۔وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّایَلْحَقُوْبِھِمْ (جمعہ آیت ۴)یعنی محمد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)صرف اپنے زمانہ کے لوگوں کو ہی فائدہ پہنچانانہیں چاہتابلکہ ان لوگوں کے لئے بھی جو ابھی پیدانہیں ہوئے اپنے دامن فیض کو ممتد کرناچاہتاہے ۔پس غور کررو جذباتی دنیا میں اس کاوجود کتنا عظیم الشان ہے ۔ا س کے عشق کی انتہا ہی نہیں۔وہ اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت سلگاتاہے ۔پھراس سے آسمانوں کی طرف پرواز کرتاہے اوراس کی روح خداکے آستانہ پر گرجاتی ہے اوراس کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت سے چنگاری لیتی ہے گویامحدود محبت غیر محدود محبت کو کھینچتی ہے اورپھر دنیا میں اتی ہے اوربعینہٖ اسی طرح جس طرح مشرق سے نکل کر آفتاب کی شعاعیں روئے زمین پرپھیلنی شروع ہوجاتی ہیں اس کی محبت بھی پھیلتی ہے ۔مشرق و مغرب۔گورے و کالے ۔خوبصورت اوربدصورت سب کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے ۔پھر وہ مکان کی حدبندیوںکو توڑتی ہوئی نکل جاتی ہے اورصدیوں کے بعد صدیاں گذر تی ہیں مگر وہ محبت ختم نہیں ہوتی اورنہ ہوگی ۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کی صف لپیٹ دے ۔اوربنی نوع انسان کو دنیا سے اٹھالے ۔
یوں توہرنیک بندے پر محبت کے ایام کبھی کبھی آتے ہیں ۔حضرت نظام الدینؒصاحب اولیاء کے متعلق ذکر آتا ہے کہ ایک دفعہ اپنے شاگردوں کے ساتھ جارہے تھے کہ راستہ میں ایک خوبصورت لڑکا گذرا۔آپ نے آگے بڑھ کر اس کامنہ چوم لیا ۔اس پر شاگردوں نے بھی ایساہی کرنا شروع کردیا کہ شاید اس میں جلوئہ الٰہی ہو ۔ایک شاگرد جو آپ کے خاص منظور نظر تھے انہوںنے ایسانہ کیا ۔ باقیوں نے ا س پر چہ مگوئیاں شروع کردیں ۔آگے چلے توایک بھٹیاری بھٹی میں آگ جلارہی تھی اورپتوں کی آگ کے شعلے نکل رہے تھے جوایک خوبصورت نظارہ پیش کررہے تھے۔آپ کھڑے ہوکر اسے دیکھتے رہے پھرجھکے اورشعلے کو بوسہ دیا۔اس وقت ا س شاگرد نے بھی شعلہ کو چوما۔جس نے لڑکے کو نہیں چوماتھا۔لیکن باقی شاگرد کھڑ ے رہے او رکسی کو جرأت نہ ہوئی۔اس پر انہوں نے کہا کہ تم لوگوں نے خوبصورت بچے کو چوما تھا کیونکہ چھوٹابچہ سب کوپیارالگتاہے ۔حالانکہ خواجہ صاحبؒ کواس میں خداکاجلوہ نظر آیاتھا ۔اس لئے انہوں نے اسے چوما تھا ۔لیکن مجھے چونکہ نظر نہ آیا ۔اس لئے میں نے نہ چوما۔اب اس آگ میں مجھے خداکا جلوہ نظر آیا اورمیں نے اسے چوم لیا اوریہاں آپ کی اتباع کی۔لیکن وہاں میری آنکھیں نہ کھلیں اس لئے نہ کی۔لیکن تم نے ہواوہوس کے ماتحت بچے کو چوماتھاتووقتی طورپر ہر بزرگ پرایساوقت آتاہے کہ بنی نوع انسان کی محبت سے وہ لبریز ہوجاتاہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وقتی نہ تھی اورآپ کی روح اورجسم کا ایک حصہ تھی جس کا پتہ اس سے لگتاہے کہ جب آپ کی وفات کاوقت آیا توآپ کی زبان پر یہ الفا ظ تھے ۔کہ لَعَنَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارَیٰ اِتَّخَذُوْاقُبُوْرَاَنْبِیَائِ ھُمْ مَسَاجِدَ(مسلم جلد اول کتاب المساجد ومواضع الصلوٰۃ)یعنی خدایہود اورنصاریٰ پرلعنت کرے کہ انہوں نے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا ۔گویاآپ کے دل میں تڑپ تھی کہ یہود اورنصاریٰ کیو ں اپنے لئے جہنم خرید رہے ہیں اورپھر اپنے ماننے والوں کو تنبیہ کی کہ وہ ایسانہ کریں ۔گویاسکرات موت کے وقت بھی آپؐ کے اند رمسلمانوںاورکفار دونوں کی محبت کاجلوہ تھا ۔ایک طرف یہود اورنصاریٰ کو شرک سے بچانے کا درد تھا ۔دوسر ی طرف یہ درد تھا کہ یہی غلطی میرے ماننے والے بھی نہ کریں ۔غرض آپ کی ساری زندگی یہ ثابت کرتی ہے کہ آپ بنی نوع انسان کے ہر طبقہ کے لئے ہمدردی رکھتے تھے ۔
احادیث میں آتاہے کہ پہلے زمانوں میں خداتعالیٰ کادین قبول کرنے والوں کے سروں پر آرے رکھ کر انہیں چیر دیاجاتاتھا اوروہ اُف تک نہیں کرتے تھے ۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک سال نہیں دوسال نہیں تین سال نہیں دس سال نہیں متواتر وفات تک آرے چلتے رہے اورآپ نے اس قد ردکھ اٹھائے کہ زمین و آسمان کے خداکو یہ کہنا پڑاکہ توتواس غم میں اپنے آپ کو ہلاک کررہاہے کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے ۔عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح نے ایک دفعہ صلیب پر چڑھ کر سب گنہگاروں کا کفار ہ اداکردیاتھا ۔مگر مسیح کوتوساری زندگی میں وہی ایک واقعہ پیش آیا ۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کے ہرلمحہ میں لوگوں کے لئے صلیب پر چڑھے اورآپ نے ان کے لئے ہزاروں نہیں لاکھوں موتیں قبول کیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ الفاظ جو اس جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں نہ نوحؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں ۔نہ ابراہیمؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں ۔نہ موسیٰؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں ۔نہ دائودؑ اورسلیمانؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں ۔نہ عیسیٰؑ کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں ۔صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ا ستعمال کئے گئے ہیں۔کیونکہ دنیا کی اصلاح اوران کی ہدایت کاجوغم آپ کوتھا وہ دنیا میں اَورکسی نبی کو نہیں تھا ۔چنانچہ جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات کو دیکھتے ہیں توہمیں یہ دعویٰ ایک حقیقت بن کر نظر آتاہے اورہمیں قدم قدم پر ایسے واقعات دکھائی دیتے ہیں جوآپ کی اس عظیم الشان محبت اورشفقت کاثبو ت ہیںجو آپ کوبنی نوع انسان سے تھی ۔چنانچہ آپ کو خدائے واحد کاپیغام پہنچانے کے لئے سالہاسال تک ایسی تکالیف میں سے گذرناپڑا کہ جن کی کوئی حد ہی نہیں۔ایک دفعہ خانہ کعبہ میں کفار نے آپ کے گلے میں پٹکا ڈال کر اتنا گھونٹا کہ آپ کی آنکھیں سرخ ہوکر باہرنکل پڑیں۔حضرت ابو بکرؓ نے سناتو وہ دوڑے ہوئے آئے اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس تکلیف کی حالت میں دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اورآپ نے ان کفار کو ہٹاتے ہوئے کہا خداکاخوف کرو۔کیاتم ایک شخص پر اس لئے ظلم کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ خدامیرارب ہے ۔ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ایک چٹان پر بیٹھے کچھ گہری فکر میںتھے کہ اچانک ابو جہل آنکلا۔ اوراس نے آتے ہی آپؐ کو تھپڑ مارا اورپھر گندی سے گندی گالیاں آپ کو دینی شروع کردیں ۔آپؐ نے تھپڑ بھی کھالیا اورگالیاں بھی سنتے رہے مگر آپ نے زبان سے ایک لفظ تک نہیں کہا ۔جب وہ گالیاں دے کر چلا گیا توآپ خاموشی سے اٹھے اوراپنے گھر تشریف لے گئے ۔حضرت حمزہؓ کی ایک لونڈی اپنے گھر میں سے دروازہ میں کھڑی یہ سارانظارہ دیکھ رہی تھی ۔حمزہؓ اس وقت اسلام نہیں لائے تھے وہ سپاہی آدمی تھے اورسارادن شکار میں لگے رہتے تھے اورشام کے وقت اپنے گھر آتے تھے اس روز بھی وہ شام کے وقت سینہ تان کر بڑے زورزورسے پیر مارتے اورہاتھ میں تیر کما ن پکڑے اوپچی بنے ہوئے گھر میں داخل ہوئے ۔وہ لونڈی گھر کی پرانی خادمہ تھی اورپرانے نوکر بھی رشتہ داروں کی طرح ہوتے ہیں۔صبح سے وہ اپنا غصہ دبائے بیٹھی تھی جب اس نے حمزہؓ کودیکھا توبڑے جوش سے کہنے لگی ۔تمہیں شرم نہیں آتی تیر کمان لئے جانو رمارتے پھرتے ہو ۔تمہیں پتہ ہے کہ صبح تمہارے بھتیجے کے ساتھ کیاہوا؟حمزہؓ نے کہا ۔کیاہوا؟اس نے کہا ۔میں درواز ہ میں کھڑی تھی ۔تمہارابھتیجاسامنے پتھر پر آرام سے بیٹھاتھا اورکچھ سوچ رہاتھا کہ اتنے میں ابو جہل آیا اوراس نے پہلے تو اس کو تھپڑ مارا۔اورپھر بے تحاشہ گالیاں دینی شروع کردیں ۔پھر اس نے اپنے زنانہ انداز میں کہا ۔اس نے ابو جہل کو کچھ بھی تونہیں کہاتھا ۔کوئی بات اس نے نہیں کی تھی جس کی وجہ سے ابوجہل کو غصہ آتا۔مگر پھر بھی وہ گالیاں دیتاگیا اوردیتاگیا۔اورتمہارابھتیجاچپ کرکے سامنے کی طرف دیکھتارہا۔اوراس نے ان کاکوئی جواب نہ دیا۔ایک عورت اورپھر خادمہ کی زبان سے یہ بات سن کر حمزہؓ کی غیرت جوش میں آئی اورخانہ کعبہ کی طرف چل پڑے۔رؤساء مکہ کاطریق تھا کہ شام کے وقت وہ خانہ کعبہ میں بیٹھ کر اپنی بڑائیاں بیان کرتے اورلوگ ان کی تعریف کرتے ۔تمام رؤساء بیٹھے ہوئے تھے اورابوجہل بھی ان میں موجود تھا کہ حمزہؓ گئے اورانہوں نے وہی کمان جو ان کے ہاتھ میں تھی ۔ابوجہل کے منہ پر ماری اورکہا میں نے سناہے تم نے محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)کامارابھی ہے اورگالیاںبھی دی ہیں اورمیں نے سناہے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے کوئی لفظ تم کونہیں کہاتھا جس کے بدلہ میں تم گالیاں دیتے ۔پھر حمزہؓ نے کہا تم بہادر بنے پھر تے ہو ۔اورجو چپ کرجاتاہے اس پر ظلم اورتعدّی کرتے ہو ۔ اب میں نے سارے مکہ کے سامنے تمہیں ماراہے اگر تم میں ہمت ہے تومجھے مار کردیکھو ۔مکہ کے نوجوان حمزہؓ کو پکڑنے کے لئے اٹھے ۔مگرابو جہل پر ان کاایسارعب طاری ہواکہ اس نے کہاجانے دو۔صبح مجھ سے ہی کچھ زیادتی ہوگئی تھی۔(السیرۃ الحلبیہ جلداول ص ۲۱۵)ایک دفعہ آپ خانہ کعبہ میںنماز پڑھ رہے تھے ۔جب آپ سجدہ میں گئے توبعض شریروں نے آپؐ کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھری لاکر رکھ دی اورچونکہ وہ بڑی بھاری تھی آپ سجدہ سے سر نہ اٹھا سکے ۔حضرت فاطمہ ؓ کو اس بات کاعلم ہواتووہ روتی ہوئی آئیں۔اورانہوں نے آپؐ کی پیٹھ پرسے اوجھری ہٹائی(بخاری ابواب الوضوء باب اذالقیٰ علی ظہر المصلّی قذراوجیفۃ لم تفسد علیہ صلوٰتہٗ) ایک دفعہ آپؐ بازار سے گذر رہے تھے کہ مکہ کے اوباشوں کی ایک جماعت آپؐ کے گرد ہوگئی اوررستہ بھر آپ کی گردن پر یہ کہکر تھپڑ مارتی چلی گئی ۔کہ لوگو! یہ وہ شخص ہے جو کہتاہے کہ میں نبی ہوں ۔
آپؐ کے گھر میں ارد گرد کے گھروں سے متواتر پتھر پھینکے جاتے تھے ۔باورچی خانہ میں گندی چیزیں پھینکی جاتی تھیں ۔جن میں بکریوں اوراونٹوں کی انتڑیاں بھی شامل ہوتی تھیں۔جب آپ نماز پڑھتے توآپ کے اوپر گردوغبار ڈالی جاتی ۔حتیّٰ کہ مجبور ہوکر آپ کو چٹان میں سے نکلے ہو ئے ایک پتھر کے نیچے چھپ کر نماز پڑھنی پڑتی ۔مگر اس کے باوجود آپ خدائے واحدکانام بلند کرتے چلے گئے اوران لوگوں کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرتے رہے۔
جب مکہ والوں نے دیکھا کہ ہمارے یہ مظالم بھی اس شخص کے پائے استقلال میں کوئی جنبش پیدا نہیں کرسکے تو انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے تمام ساتھیوں کا کلّی طورپر مقاطعہ کردیا۔اور انہیں شعیب ابی طالب میں محصور کردیا۔اور فیصلہ کیا کہ کوئی شخص ان کے پاس سودا فروخت نہ کرے اور نہ ان سے لین دین کرے اور برابر تین سال تک انہوں نے آپ کا مقاطعہ جاری رکھا ۔ ان ایا م میںصحابہؓ کو ایسی تکلیف سے اپنے دن بسر کرنے پڑے کہ بعض دفعہ وہ درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے اور بعض دفعہ انہیں کھجور کی گھٹلیاں کھانی پڑیںاور یہ سلسلہ صرف چند دن یا چند ہفتے یا چند مہینے جاری نہ رہا بلکہ تین سال تک جاری رہا ۔ تین سال کے بعد مکہ کے چند شرفاء کے دل میں اس ظلم کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی اور انہوں نے اس معاہدہ کو توڑ کر محصورین کو باہر نکا ل لیا۔ مگر ان تین سالہ لمبے مظالم کا یہ نتیجہ نکلا کہ تھوڑے دنوں بعد ہی آپ کی وفاشعار بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا کیونکہ اس لمبے مقاطعہ نے ان کی صحت پر بُرا اثر ڈالاتھا۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جس مقدس خاتون کے بیسیوں غلام تھے اور جو مکہ کے مالدار اشخاص میں سے تھیں جو بیسیوں گھرانوں کو کھانا کھلا کر خود کھانا کھایا کرتی تھیں ۔بڑھاپے میں جب انہیں کئی کئی فاقے کرنے پڑے اور اگر کچھ کھانے کو ملا بھی تو درختوں کے پتے یا کھجور کی گھٹلیاں تو اس وقت ان کی صحت پر کیا اثر پڑا ہوگا ۔چنانچہ اس تکلیف کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا اورپھر چند دن اور گذرے کہ حضرت ابو طالب ؓ بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے مگر اتنے لمبے ظلم کے باوجود آپؐ نے شعیب ابی طالب سے اپنا قدم باہر رکھتے ہی فیصلہ کیا کہ اگر مکہ کے لوگ خدا تعالیٰ کی آواز سننے کے لئے تیار نہیں تو مکہ سے باہر رہنے والوںکو مجھے خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانا چاہیئے شاید ان میں کوئی سعید روح ہو جو اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہے اور اُسے قبول کر کے اس کی برکات کا وارث ہو۔ چنانچہ آپ طائف تشریف لے گئے جو مکہ سے تقریباً ساٹھ میل فاصلہ پر ایک مشہور شہر ہے اور لوگوں کو خدائے واحد کی طرف بلایا ۔مگر بجائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو سنتے ار اُسے قبول کرتے انہوںنے لڑکوںکو اکسایا اور انہوں نے پتھروں سے اپنی جھولیاں بھر لیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھرائو شروع کردیا ۔آپؐ کے پائوں پتھروں کی بوچھاڑ سے لہولہان ہوگئے اور حضرت زیدؓ بھی جو آپ کے ساتھ تھے آپؐ کو بچاتے ہوئے سخت زخمی ہوئے ۔مگروہ برابر کئی میل تک آپ کو پتھر مارتے چلے گئے ۔ آپ واپس بھاگتے ہوئے کسی جگہ دم لینے کے لئے ٹھہرے تو جسمِ اطہر سے خون پونچھتے اور ساتھ ہی فرماتے ۔ اے میرے ربـ! یہ لوگ نہیں جانتے کہ میں کون ہوں تُو انہیں معاف فرما ۔ راستہ میں مکہ کے ایک سردار کا باغ تھا ۔آپ وہاں ذرا سستانے کے لئے ٹھہر گئے ۔اُس نے جب آپؐ کے کپڑوں کو خون سے لت پت دیکھا تو اُس کے دل میں درد پیدا ہوااور اُس نے اپنے ایک غلام کو بلایا اور اُسے انگو رکے چند خوشے دیئے اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت زیدؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ دو آدمی جو درخت کے نیچے بیٹھے ہیں ۔اُن کے پاس جائو۔اورا نہیں یہ انگور کھلائو ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت زخموں سے چُور چُور تھے اور بہت دیر تک دشمن کے آگے بھاگے آئے تھے ۔لیکن اِدھر یہ غلام آپ کے پاس پہنچا اوراُدھر آپ نے اس غلام کو مخا طب کرتے ہو ئے فرمایا۔تم کہاں کے رہنے والے ہو ۔اس نے جواب دیا ۔میں نینواؔ کارہنے والاہوں۔آپ نے فرمایا۔اچھا !تم میرے بھائی یونس کے وطن کے ہو۔آپؐ کایہ فقرہ سن کر اس غلا م کے کان کھڑے ہوگئے کہ یہ عر ب کا باشند ہ ہونے کے باوجود نینواکے رہنے والے یونس کو اپنا بھائی تصور کرتاہے ۔اس نے آ پ سے پوچھا آپ کاکیاحال ہے اورلوگوں نے آپ سے ایساسلوک کیوں کیا ہے؟آپ نے فرمایا۔تم تو یونسؑ کے ملک کے ہو تم جانتے ہوکہ خداتعالیٰ کی طرف سے جو مصلح دنیا میں آتے ہیں ان سے ایسا ہی سلوک کیاجا تاہے۔میں نے ان لوگوںکاکچھ نہیں بگاڑا۔می نے صرف اتنا کہا تھاکہ تم ایک خداکی طرف آئو اوربتوں کی پرستش نہ کرو۔اورمیں تمہیں بھی یہی بات کہتاہوں کہ تم خداتعالیٰ کی باتوں پر عمل کرو۔و ہ غلام عیسائی تھا ۔اسے آپ کی ا باتیں سن کر یقین ہو گیا کہ یہ شخص خداتعالیٰ کی طرف سے ہے ۔چنانچہ جس طرح انجیل میں حضرت مسیحؑ کے متعلق آتاہے کہ ایک عورت آپ کے پاس آئی اوراس نے آنسوئوںسے آپ کے پائو ں دھوئے اوربالوں سے آپ کے پائوں کی مٹی کو صاف کیا (لوقا باب ۷ آیت ۳۸)اسی طرح وہ غلام بھی آپ کے قدموں میں گرگیا اورا س نے اپنے ہاتھوں سے آپ کے پائوں کی مٹی اورخو ن صاف کرنا شروع کردیا ۔اورمحبت سے آپ کے ہاتھو ںکو بوسہ دیا ۔جب وہ واپس گیا تو با غ کے مالک نے اسے ڈانٹا کہ تم نے یہ کیا کیا ۔مگر اس کا دل کھل چکا تھا ۔اور وہ آپؐ پر ایمان لاچکا تھا ۔اوراب کوئی مخالف اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی سے علیحدہ نہیں کرسکتی تھی۔
بنی نو ع انسان کے لئے یہ کیسی عظیم الشان تڑپ ہے جو آپ کے سینہ و دل میں پائی جاتی تھی۔ہم دیکھتے ہیں کہ حضر ت مسیح علیہ السلام کے پاس ایک عورت آئی اوراس نے کہا ۔اے استاد !مجھے بھی وہ تعلیم سناجو تو اپنی قوم کو دیتا ہے ۔مگرانہوں نے کہا ۔میرے پاس تیرے لئے کچھ نہیں۔یہ تعلیم صرف بنی اسرائیل کے لئے ہے جو میرے بیٹے ہیں ۔اوربیٹوں کی روٹی میں کتوں کے آگے کیسے پھینک سکتاہوں (متی باب ۱۵آیت ۲۶)مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا جو آپ کی قوم کانہ تھا۔ایسے وقت میں آیا جب آپ زخموں سے چو رچُورتھے اورخون سے لت پت دور تک دشمن کے آگے آگے بھاگے چلے آئے تے۔اورایک ایسی جگہ پر آیا جو آپ کے دشمن کی تھی ۔اورذراسی تبلیغ کرنے سے بھی بڑی آفت آسکتی تھی ۔وہ آتاہے او رخو د بھی نہیں کہتاکہ مجھے تبلیغ کرو۔مگر اسے دیکھتے ہی آپ تبلیغ کرنا شروع کردیتے ہیں ۔کیونکہ آپؐ کے لئے عر ب اورغیر عرب برابر تھے ۔آپؐ کے دکھ اورآپؐ کی تکالیف صرف عرب قوم کے لئے ہی نہیں تھیں۔بلکہ کالے گورے ۔عربی ،مصری ،ہندوستانی سب کے لئے تھیں اورآپ اپنی ایک ایک حر کت میں اس بات کا احساس رکھتے تھے کہ لو گوں کو ہدایت میسرآجائے اوروہ خدائے واحد کے آستانہ کی طرف لوٹ آئیں ۔آپ کایہ سفر جو آپ کی قربانی اورایثار کاایک زندہ نمونہ ہے سرولیم میو رکو بھی متاثر کئے بغیرنہ رہ سکا۔اوراسے اپنی کتاب ’’لائف آف محمدؐ۔‘‘ میں یہ الفاظ لکھنے پر مجبو رہونا پڑا کہ ’’ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے طائف کے سفر میں ایک شاندار شجاعانہ رنگ پایا جاتاہے ۔اکیلا آدمی جس کی اپنی قوم نے اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا اوراسے دھتکار دیا خداکے نام پر بہاد ری کے ساتھ نینواؔ کے یوناہ نبی کی طرح ایک بت پر ست شہر کو توبہ کی اورخدائی مشن کی دعوت دینے کے لئے نکلا ۔یہ امر اس کے اس ایمان پر کہ وہ اپنے آپ کو کلّی طورپر خداکی طرف سے سمجھتاتھا ایک بہت بڑی روشنی ڈالتاہے ۔‘‘
سفر طائف سے واپسی پر مکہ والوں نے پھر ایذادہی اوراستہزاء کے د روازے کھول دیئے ۔مگرآپ محبت اورپیار سے مکہ والوںکو بت پرستی کے خلاف وعظ کرتے رہے ۔لوگ بھاگتے تو آپؐ ان کے پیچھے جاتے۔و ہ منہ پھیرتے تو آپ پھر بھی باتیں سناتے ۔آخر ان کے متواتر مظالم کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا وطن ،و ہ وطن جس میں تیرہ سال تک آپ تبلیغ ہدایت کرتے رہے تھے۔اورجس کے رہنے والوں کو آپ نے سب سے پہلے خطاب کیاتھا رات کے وقت چھوڑنا پڑا اورچھپتے چھپاتے آپ مدینہ پہنچے مگر دشمن نے وہاں بھی آ پ کاپیچھا نہ چھوڑا اورمتواتر مدینہ پر حملے ہوتے رہے۔ایک سوبیس کے قریب وہ لڑائیاںہیںجو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہؓ کو لڑنی پڑیںاوران میں سینکڑو ں صحابہؓ اورآپ کے عزیزترین رشتہ دار مارے گئے۔مگرآپؐ نے خدائے واحد کانام بلند کرنے کے سلسلہ میں کبھی کسی مصیبت کوایک پرکاہ کے برابر بھی نہیں سمجھا ۔آپ صبح بھی اورشام بھی اوردن کے اوقات میں بھی اوررات کی تاریکیوں میں بھی اللہ تعالیٰ کاپیغام لوگوں کو پہنچانے کے لئے چلے گئے اوراس بار ہ میں نہ آپ نے جانی قربانی سے دریغ کیا۔نہ مالی قربانی سے دریغ کیا اورنہ عزیزوںاوررشتہ داروں کی قربانی سے دریغ کیا ۔آپ کی دوبیٹیاں ابولہب کے دوبیٹوں سے بیاہی ہوئی تھیں اس نے دھمکی دی کہ اگر آپ توحید کی تعلیم کو ترک نہیں کریں گے تومیں اپنے بیٹوں سے کہکر آپؐ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دلوادوں گا ۔مگر آپ نے پروا نہ کی اوراس بدبخت نے اپنے بیٹوں سے کہکر آپ کی دونوں بیٹیوںکو طلاق دلوادی ۔پھر ہر خطرے کے مقام پر دشمن کا اولین نشانہ صرف آپ کا وجود ہوتاتھا ۔مگر جب بھی کو ئی موقعہ آیا اپ نے اس بہادری سے اس خطرے کی آگ میں اپنے آپ کو پھینکا کہ یوں معلوم ہوتاتھاکہ آپؐ اپنی جان کی کوئی حقیقت ہی نہیں سمجھتے تھے ۔غزوئہ اُحد کے موقعہ پر ایک پتھر آپ کے خود پرآلگا اوراس کے کیل آپ کے سر میں گھس گئے اورآپؐ بے ہوش ہوکر ان صحابہؓ کی لاشوں پر جاپڑے جو آپؐ کے ارد گر د لڑتے ہوئے شہید ہوچکے تھے اوراس کے بعد کچھ اورصحابہؓ کی لاشیں آپ کے جسم اطہر پر جاگریں اورلوگوں نے یہ سمجھا کہ آپ مارے جاچکے ہیں ۔مگرجب آپؐ کو گڑھے سے نکالاگیا۔اورآپ کو ہوش آیاتوآپ نے یہ خیال ہی نہ کیاکہ دشمن نے مجھے زخمی کیاہے ۔میرے دانت توڑدیئے ہیں اورمیرے عزیزوں اوررشتہ داروں اوردوستوںکوشہید کردیاہے بلکہ آپ نے ہوش میں آپ نے ہوش میں آتے ہی دعاکی کہ:۔رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَایَعْلَمُونَ۔ اے میرے رب!یہ لو گ میرے مقام کو شناخت نہیں کرسکے اس لئے توان کو بخش دے اوران کے گناہوںکومعاف فرمادے ۔اسی طرح جب طائف میں آپ کو پتھروں سے لہولہان کیاگیا اورآپ وہاں سے دوڑتے چلے آرہے تھے تواحادیث میں لکھا ہے کہ یکدم آپ پر کشفی حالت طاری ہوئی اورپہاڑوں کافرشتہ آپ کی خدمت میں حاضرہوا۔اوراس نے کہاکہ اگر آپ چاہیں توطائف والوںپر ابھی ان کے پہلو کے دونوں پہاڑ اُلٹادیئے جائیں۔ مگرآپ نے فرمایا۔ایسانہ کرنا۔ان لوگوں نے جوکچھ کیا ہے جہالت اورلاعلمی کی وجہ سے کیاہے ۔مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کی نسل میں سے وہ لو گ پیداکرے گا جو اسلام کے لئے خدمت گذار ہوں گے۔(بخاری کتاب بد الخلق)چنانچہ واقعات بتاتے ہیں ۔کہ باوجود اس کے کہ دشمنوں نے آپ کو مجنون بھی کہا ۔کاہن بھی کہا ۔ساحر بھی کہا کذاب بھی کہا اورہر رنگ میں انہوں نے آپ کے مشن کو مٹاناچاہا۔مگرآخر انہی میں سے ایسی سعید روحیں نکل آئیں جنہوں نے دلیری سے صداقت کو قبول کرلیا اوراپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر وہ دیوانہ وار اسلام کی اشاعت کے لئے نکل کھڑے ہوئے اورتھوڑے عرصہ میں ہی انہوں نے چہار دانگِ عالم کو اسلامی نو رسے منورکردیا۔
غرض لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ اَلَّایَکُوْنُوْامُؤْمِنِیْن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بے مثال شفقت اورمحبت کاذکر کیا گیاہے جوآپ کو بنی نوع انسان سے تھی اوربتایا گیاہے کہ آپ ان کی ہدایت کے لئے رات اوردن اس قدر جہاد فرماتے اوراتنی دعائیں کرتے تھے کہ قریب تھا کہ آپ اس غم سے اپنے آپ کو ہلاک کرلیتے آپ کو نہ اپنے کھانے کی پرواہ تھی نہ پینے کی پرواہ تھی۔نہ نیند اورآرام کی پرواہ تھی ۔آپ لوگوں کوہلاکت کے گڑھوں سے بچانے اوانہیں نجات اورسلامتی کا راہ دکھانے کے لئے راتوںکو اٹھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضورگریہ وزاری کرتے اوراتنی اتنی دیر کھڑے رہتے کہ آپ کے پائوں متورم ہوجاتے ۔گویاجس طرح جوش کی حالت میں بعض دفعہ انسان بکرے پرچھری چلاتے ہوئے اورچھری کو گردن کے آخر ی حصہ تک پہنچا دیتاہے اورقریب ہوتاہے کہ اگرذراسابھی زوراورلگ جائے ۔تواس کی گردن کٹ کر پرے جاپڑے۔اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جان کو ہلاک کرنے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھی تھی ۔اوراگرآپ کی جان بچی تواس کے یہ معنے نہیں کہ آپ نے کوئی کمی کی تھی بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی غیر معمولی حفاظت فرمائی ورنہ آپؐ نے اپنی جان کو ہلاک کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی تھی ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ امتیازی خصوصیت جواللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے اس میں مومنوں کے لئے بھی بڑابھاری سبق ہے اورانہیں توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر تم ترقی کرناچاہتے ہو تواپنی قربانیوںکواس حد تک پہنچائو کہ دشمن کی نظر میں تووہ صریح خود کشی ہو ۔مگر تم جانتے ہو کہ و ہ خود کشی نہیں بلکہ اسی میں تمہاری ابدی حیات کاراز مضمر ہے ۔قرآن کریم میں جنگ اُحد کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اس وقت منافق کہتے تھے کہ اگر ہمیں علم ہوتاکہ لڑائی ہوگی توہم ضرور ساتھ دیتے (آل عمران آیت ۱۶۸) اس کے یہ معنے نہیں کہ انہیں علم نہیں تھا کہ لڑ ائی ہو گی بلکہ بات یہ ہے کہ انہوں نے مشورہ دیاتھاکہ لڑائی کے لئے مدینہ سے باہر نہ نکلیں ۔اوراس پر دوروز بحث ہوتی رہی ۔پس منافق باہر نکل کر لڑنے کو خود کشی قراردیتے تھے اورجب وہ یہ کہتے تھے کہ اگر ہمیں لڑائی کاعلم ہوتاتوہم ضرور جاتے تواس کامطلب یہ ہوتاکہ ہم تواسے لڑائی نہیں بلکہ خود کشی سمجھتے تھے ۔ا سلئے شامل نہ ہوئے۔تواللہ تعالیٰ اپنی مومن جماعت کے سپر د ہمیشہ ایسے کام کرتاہے جنہیں لو گ خودکشی سمجھتے ہیں ۔ان جماعتوںسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں اپنے اموال اپنے اوقات اور اپنی عزت و آبروغرض سب کچھ قربان کردینے کا مطالبہ کیاجاتاہے یہاں تک کہ لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ پاگل ہیں جواتنی بڑی قربانیاں کررہے ہیں اورمنافق بھی کہتے ہیں کہ یہ بیوقوف لوگ ہیں جو ہمیں بھی بیوقوف بناناچاہتے ہیں اورکہتے ہیں کہ تم بھی اسی طرح قربانی کروجس طرح ہم کررہے ہیں۔غرض منافق بھی اورمخالف بھی سب اسے ہلاکت سمجھتے ہیں مگر مومن جانتے ہیں کہ یہ ہلاکت نہیں بلکہ زندگی کو قائم رکھنے کاذریعہ ہے ۔پس لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ اَلَّایَکُوْنُوْامُؤْمِنِیْنمیں صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بے مثال خصوصیت اورآپ کی شفقت علیٰ خلق اللہ کاایک بے نظیر نمونہ ہی پیش نہیں کیاگیا بلکہ مومنوںکویہ نصیحت بھی کی گئی ہے کہ اگر تم خداتعالیٰ کا قرب حاصل کرناچاہتے ہو تو اپنی قربانیوںکو اس حد تک پہنچا دو کہ دوست اوردشمن کی نگاہ میں تمہاری گردن کٹنے کے قریب پہنچ جائے اورہرشخص یہ سمجھے کہ تم موت کے منہ میں جارہے ہو ۔یہی وہ مقام ہے جو روحانی جماعتوںکوحاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے کیونکہ اس کے بغیر انہیں ابدی حیات حاصل نہیں ہوسکتی ۔
ان نشا ننزل علیھم من السماء ایۃ فظلت اعناقھم لھا
اگر ہم چاہیں توآسمان سے ان پرایک ایسانشان اتاردیں کہ اس کے سامنے ان کی گردنیں جھکی کی جھکی رہ جائیں ۔
خٰضعین٭ ومایاتیھم من ذکر من الرحمن محدث الاکانوا
اوررحمن کی طرف سے کبھی کسی کو نیا ذکر نہیں آتا کہ جس سے لو گ
عنہ معرضین٭فقد کذبوافسیاتیھم انبٰئوا ماکانو بہ یستھزء و ن٭
اعراض نہ کرتے ہوں۔سو(چونکہ)انہوں نے (خداتعالیٰ کی آیتوںکو)جھٹلایاہے اس کے نتیجہ میں ان کے استہزاء کی حقیقت ضرور ان پر کھل جائے گی ۔ ۳ ؎
۳؎ حل لغات۔ اَعْنَاقٌ: عُنُقٌ اور عُنْقٌ کی جمع ہے اور اَلْعُنُقُ کے معنے گردن کے ہیں ۔اسی طرح اس کے معنے ہیں اَلرَّئُ وْسَآئُ سردارانِ قوم اَلْجَمَاعَۃُ مِنَ النَّاسِ لوگوں کی جماعت (اقرب)
خَاضِعِیْنَ:خَاضِعٌ کی جمع ہے جو خَضَعَ سے اسم فاعل ہے اورخَضَعَ لَہٗ کے معنے ہیں اِنْقَادَ مطیع ہوگیا۔پس خَاضِعٌ کے معنے ہوں گے جھکنے والا مطیع ہونے والا۔(اقرب)
مُحْدَثٍ کے معنے ہیں نَقِیْضُ الْقَدِیْمِ یعنی نیا(اقرب)
تفسیر :۔ فرماتاہے ۔اگرہم چاہیں توآسمان سے ہم ان پر ایساعذاب نازل کریں کہ جس کی وجہ سے مجبورہوکر ان کی گردنیں جھک جائیں ۔اوریہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے لگ جائیں ۔لیکن اگرہم ایساکریں توان کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتاکیونکہ ایمان اسی حالت میں انسان کے لئے فائدہ بخش ثابت ہوسکتاہے جب خیر اورشر دونوں مخفی ہوں ۔جو چیز کھلے طورپر نظر آرہی ہو اس پر ایمان لانے سے کوئی انعام میسر نہیں آیاکرتا۔جیسے سورج ایک خیر رکھنے والی چیز ہے اوراس کاوجود قطعی طور پر ظاہر ہے ۔لیکن سورج کے وجود کو تسلیم کرلینا انسان کوکسی انعام کامستحق نہیں ٹھہراسکتا۔اوراگر کوئی کہے کہ جب تمہیں محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )پر ایمان لانے سے انعا م ملے گا توہمیں سورج پر ایمان لانے سے کیوں انعام نہیں مل سکتا۔توہم اسے یہی کہیں گے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا علم چونکہ جستجو اورجدوجہد اورقربانی کے نتیجہ میں ہوتاہے ۔اس لئے آپ پرایمان لانا انسان کو اللہ تعالیٰ کے روحانی انعامات کامستحق بنادیتاہے مگر سورج پر ایمان لانے ک لئے چونکہ کسی جدوجہد جستجواورقربانی کی ضرورت نہیں ہوتی اورا سکی حقیقت کلی طورپر ظاہر ہوتی ہے اس لئے اس پر ایمان لانے سے کوئی انعام نہیں مل سکتااوراگر اس جواب پر بھی کو ئی شخص ایہ اعتراض کرے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں توآ پ کے ماننے والوںکو قربانیاں کرنی پڑیں جس کی وجہ سے وہ انعام کے مستحق ہوئے مگر آپؐ کے بعد والوںکوتوکوئی قربانی نہیں کرنی پڑتی اورپھر انہیں انعام کامستحق کیوں قراردیاجاتاہے تواس کاجواب یہ ہے کہ بے شک نسلی مسلمانوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لئے کوئی قربانی نہیں کرنی پڑتی مگرانہیں اپنے ایمان کوقائم رکھنے کے لئے ہروقت قربانی سے کام لینا پڑتا ہے ۔کیونکہ اسلام کے اہرحکم کے بارہ میں ان کے دلوں میں یہ سوال پیداہوتاہے کہ ہم اس پر عمل کیوں کریں اوراس کیوں کے جواب کے لئے انہیں نماز اورروزہ اورحج اورزکوٰۃ کے تمام پہلوئوں پر غور کرناپڑتاہے اورپھر ان احکام پر عمل کرنے کے لئے انہیں ہروقت قربانی اورجدوجہد کے دور میں سے گذرنا پڑتاہے ۔پس قربانیوں سے کوئی بھی مسلمان مستثنٰی نہیں ۔صحابہؓ نے ایمان لانے ک لئے قربانیاں کی تھیں اوربعد میں ایمان لانے والے مسلمانوںکو اپنے ایمان کو قائم رکھنے کے لئے قربانیاں کرنی پڑتی ہیںپس چونکہ روحانی انعامات کاحصول قربانیوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ۔اس لئے اللہ تعالیٰ کبھی ایسے نشانات ظاہر نہیں کرتا جو اتنے کھلے اورواضح ہوں کہ شدید سے شدید معاند بھی ان کو دیکھ رکر سر جھکادیں اورایمان لانے کے لئے دوڑ پڑیں اوران کے لئے انکارکرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ۔کیونکہ اگرایساہوتو پھر ان کاایمان لانا ایک قسم کے جبر کا نتیجہ ہوگا اوراللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتاکہ لو گ کسی جبر کے نتیجہ میں ایمان قبول کریں اوراس طرح اپنے انعامات کو باطل کردیں۔مگر افسوس کہ ا تنی واضح آیت کی موجودگی میں بھی مسلمانوں نے جبر اورقدرؔ کے مسئلہ پر بحثیں شروع کردیں اوریہ نظر یہ قائم کرلیا کہ اللہ تعالیٰ بھی بعض باتوں میں جبرسے کام لیتا ہے ۔چنانچہ آج جب بھی کسی مسلمان سے پوچھا جائے کہ تمہاری مشکلات کاکیا باعث ہے تو وہ ایک سرد آہ کھینچ کرکہہ دے گاکہ ’’ہماری قسمت ‘‘وہ یہ نہیں کہے گاکہ چونکہ ہمارے اند ر بعض کمزوریاں پائی جاتی ہیں اورہم نے قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا اورخداتعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنا اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ہدایات پر چلنا چھوڑ دیاہے اس لئے ہم پر مصائب آرہے ہیں بلکہ وہ یہ کہہ کر کہ ’’ہماری قسمت‘‘اس کی ساری ذمہ داری خداتعالیٰ پر ڈال دے گا ۔حالانکہ یہ آیت بتاتی ہے کہ اگراللہ تعالیٰ نے جبر ہی کرناہوتا تووہ نیک اورہدایت پر جبر کرتااور ایسے نشانات نازل کرتا جن سے بڑے بڑے کفار کی گردنیں جھک جاتیں اوروہ ایمان لانے پر مجبور ہوجاتے۔مگر اللہ تعالیٰ ایسانہیں کرتا۔وہ نشانات تونازل کرتاہے مگران میں ایک قسم کااخفاء بھی رکھتاہے تاکہ جو لوگ ایمان لائیں وہ اپنی اپنی کوشش اورجدوجہد کے مطابق اللہ تعالیٰ سے اجر پائیں۔افسوس ہے کہ مسلمانوں میں نشانات الٰہیہ کے متعلق ایسی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں کہ ایک دفعہ قادیان میں غیر احمدی مولویوں نے جلسہ کیا ۔اس جلسہ میں ایک غیر احمدی مولوی صاحب نے بڑ ے جوش کے ساتھ تقریر کی اورکہا ۔مرزاصاحب نبی بنے پھر تے ہیں۔مرزاصاحب کے معجزے بھی کوئی معجزے ہیں ۔معجزہ تویہ ہوتاہے کہ سید عبدالقاد رصاحب جیلانی ؒکے پاس کو ئی شخص مرغ پکا کر لایا ۔آپ نے کھاکر اس سے کہا ۔تم نے مجھ پراحسان کیاہے مگر ہم بھی تمہیں احسان کا بدلہ دینا چاہتے ہیں اوریہ کہہ کر انہوں نے مرغ کی ہڈیاں لیں اورہاتھ می پکڑ کرانہیں زور سے دبایا تووہی مرغ کُڑکُڑکُڑکُڑ کرکے اپنی اصلی حالت پر آگیا۔اس قسم کے قصے مسلمانوں میں اس لئے آئے کہ انہوںنے معجزات کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کی سنت کو نظر انداز کردیا ۔اوریہ نہ سمجھا کہ اگر ایسے معجزات ظاہر ہو ں توپھر کو ن شخص ہے جوکسی نبی کانکار کرسکتاہے اوراگرایسے معجزات کے ظہو ر کے بعد کوئی شخص ایمان لاتاہے توکون کہہ سکتاہے کہ اس نے ایمان لاکرکوئی قربانی کی ہے اوروہ کسی انعام کامستحق ہے ۔پس اس آیت میں یہ بتایاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی ایسے نشانات نازل نہیں کرتا جوایسے کھلے اورواضح ہوں کہ انہیں دیکھ کرکفار کی گردنیں بھی جھک جائیں اوروہ ایمان لے آئیں ۔کیونکہ اگر ایساہوتو یہ ایک قسم کا جبر ہوگیا اوراللہ تعالیٰ قبول ہدایت کے بارہ میں کسی قسم کا جبر روانہیں رکھتا ۔
پھرفرماتاہے ۔وَمَایَاْتِیْھِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّاکَانُوْاعَنْہُ مُعْرِضِیْنَ جب بھی رحمن خداکی طرف سے کوئی نیا پیغام آتاہے لوگوں نے ہمیشہ اس کاانکارکیاہے ۔پھر یہ لوگ کس طرح اس پیغام کو قبول کرسکتے ہیں ۔اس جگہ خدائی پیغام کو ان معنوں میں نیا نہیں کہا گیاکہ ہرنبی کو ئی نئی شریعت لاتاہے بلکہ ان معنوں میں اسے نیاقرار دیاگیاہے کہ وہ پیغام دنیا کی نگاہوں سے مخفی ہوتاہے ۔دنیا اس کو بھول چکی ہوتی ہے اوروہ اس سے ایسی غافل اوربیگانہ ہوتی ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ اس کی اپنی کھوئی ہوئی چیز ہوتی ہے پھر بھی وہ اسے ایک نئی چیز سمجھنے لگتی ہے اوراس سے ڈر کر دو ربھاگنے لگتی ہے ۔انہی معنوں میںاللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر پہلی کتب الہامیہ کو بھی حدیث قرار دیاہے اورقرآن کریم کی فضیلت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ اَللّٰہُ نَزّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ (نور آیت ۲۴)یعنی اللہ تعالیٰ نے بڑی شان اورطاقت اورقوت کے ساتھ اس کتاب کو اتار اہے جو احسن الحدیث ہے یعنی ساری الہامی کتابوں سے افضل ہے ۔پس ہرنبی جو اس دنیا میں ظاہر ہوا۔وہ دنیا کے لئے ایک نیا پیغام لایا بعض انبیاء توان معنوں میں نیا پیغا م لائے کہ وہ ایک ہدایت جدیدہ لے کر آئے اورکثیر انبیاء ان معنوں میں نیا پیغام لائے کہ انہوں نے وہ پرانی شراب جس کا سرچشمہ الٰہی نور تھا نئے برتنوں میں لوگوں کے سامنے پیش کی ۔مگر کبھی ایسانہی ہواکہ خداتعالیٰ کا کوئی پیغامبر آیا ہو اوردنیا نے اس کے پیغام سے اعراض نہ کیا ہو ۔یااسے مختلف قسم کے مصائب اورآلام کانشانہ نہ بنایاہو۔اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیاکو ایسے رنگ میں چلایاہے کہ عام طورپر یہ اس کے عام قواعد کے ماتحت کا م کرتی رہتی ہے ۔اوربظاہر خداکاہاتھ اس کے کاموں میں نظر نہیں آتا ۔جب سے یہ کائنات پیداہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے زمین کوایک چکر دے دیاہے اوریہ زمین سورج کے گرد اورچاند زمین کے گرد چکر کھارہاہے ۔اورپھر ساری کائنات شمسی مل کر ایک غیر معلوم جہت کی طر ف چلی جارہی ہے ۔بظاہر دیکھنے والایہ خیال کرتاہے کہ یہ اتفاقی حادثہ ہے اوراس دنیا کوپیداکرنے والااورچلانے والاکوئی نہیں ۔کیونکہ ایک قانون ہے جوچل رہاہے ۔مثلاً ایک ایساشخص جس نے گھڑی نہیں دیکھی اگر وہ ایسے گھر میں آجائے ۔جہاں کوئی آدمی موجود نہ ہو اورہفتہ بھر کی کنجی سے چلنے والی گھڑی چل رہی ہو تو وہ گھڑی کو دیکھ کر یہی سمجھے گاکہ یہ آپ ہی آپ چل رہی ہے۔اسے چلانے والا کوئی نہیں۔جب تک وہ وقت نہ آجا ئے کہ جب گھڑی کو کنجی دی جاتی ہے یاجب تک وہ وقت نہ آجائے کہ جب وہ گھڑی کھڑی ہوجائے ۔درمیانی عرصہ سے وہ یہ اندازہ نہیں لگاسکتا کہ کسی اَورنے اس کو کنجی دی ہے ۔اوروہ چل رہی ہے۔اسی طرح دنیا کوچلانے والے نے لاکھوں کروڑوں سال پہلے اس کو کنجی د ے دی۔اوریہ چل رہی ہے ۔جس طرح گھڑی کو دیکھ کرانسان یہ سمجھتاہے کہ وہ آپ ہی آپ چل رہی ہے سوائے اس کے کہ وہ واقف ہو۔اسی طرح دنیا کو دیکھ کر ایک ناواقف انسان یہ سمجھتاہے کہ یہ آپ ہی چل رہی ہے۔لیکن اس قانون کے علاوہ کبھی کبھی خداتعالیٰ اپنی خدائی ثابت کرنے کے لء بعض خاص باتیں بھی ظاہر کیا کرتاہے جن سے پتہ لگ جاتاہے کہ اس دنیا کاایک خالق اورمالک ہے ۔جیسے گھڑی چل رہی ہوتوایک ناواقف آدمی تویہ سمجھے گا کہ یہ آپ ہی چل رہی ہے کسی اَورکا اس پرتصر ف نہیں ۔لیکن مالک آتاہے ۔اسے چابی دیتاہے اورپھر اسے رکھ دیتاہے ۔توا سکو دیکھ کر وہ سمجھ لیتاہے کہ یہ گھڑی کسی اَورکے ذریعہ چل رہی ہے ۔اسی طرح خداتعالیٰ کبھی کبھی اپنی خاص صفات کے ذریعہ اپنی وجود کو ظاہر کرتاہے ۔اوراس کی صفات کا یہ ظہور اس کے رسولوں اورمصلحین کے ذریعہ سے ہوتاہے ۔لیکن یہ صاف بات ہے کہ جب خدااس دنیا میں دخل دے گا ۔تواس کی کوئی وجہ ہوگی اوروہ وجہ یہی ہوتی ہے کہ لوگ خداتعالیٰ سے دور چلے جاتے ہیں۔وہ اس کو بھلابیٹھتے ہیں۔اوراس کے احکام پر ہنسی اڑاتے ہیں اس وقت خداتعالیٰ ان کو یاددلانے کے لئے اپناکوئی ماموراور مرسل بھیجتاہے ۔ جب وہ مامو را ورمرسل دنیا میں آتاہے تووہ زمانہ وہی ہوتاہے ۔جب لو گ خداتعالیٰ کو بھول چکے ہوتے ہیں ۔اورجوشخص کسی چیز کو بھول چکاہو اس کو اس کی طر ف توجہ دلاناکوئی آسان کام نہیں ہوتا۔کیونکہ اس نے بھول کر کوئی اورراستہ اختیار کیاہواہوتاہے اوریہ آنے والا اس کے روز مرہ اورمعمول کے راستہ سے ہٹاکر اسے دوسری طرف لے جاناچاہتاہے ۔اورجوشخص کسی چیز کاعادی ہوچکاہو اس سے ہٹانے والادوست نہیں بلکہ دشمن سمجھاجاتاہے ۔ مثلاہمارے ملک میں بعض عادتیں راسخ ہوچکی ہیں ۔ہندوستان کی عورتیں پان کھاتی ہیں۔اب پان کازندگی کے کسی شعبہ سے تعلق نہیں ۔پان کے ذریعہ علم حاصل نہیں ہوتا۔پان کے ذریعہ روپیہ حاصل نہیں ہوتا ۔لیکن باوجود اس کے اگرکوئی کہے کہ پان چھوڑ دو تو وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گی اوراصرار کریں گی کہ ہم پان کو نہیں چھو ڑسکتیں۔بلکہ پان توالگ رہاچھوٹی سے چھوٹی رسم کوبھی اگر چھڑانے کی کو شش کی جائے تو لوگ مخالفت کرتے ہیں ۔مثلاًگائوں کی عورتیں اپنے سرکو گھی لگاتی ہیں شہر کی عورتیں سرمیں تیل لگاتی ہیں ۔یورپ کی عورتیں تیل بھی پسند نہیں کرتیں وہ ایک قسم کالوشن استعمال کرتی ہیں ۔اب سرکو گھی لگانا زندگی کاکوئی جزو نہیں۔اگرزندگی کاجزو ہوتاتو تیل سے کس طرح گذارہ ہوجاتا۔اگر تیل زندگی کاجزوہوتاتو خالی لوشن سے کس طرح گذارہ ہوجاتا۔ دنیاکے ایک حصے کا تیل چھوڑ دینا اوردوسرے حصے کا گھی چھوڑ دینااوراتیسرے حصے کا تیل اورگھی دونوںکو چھوڑدینا بتاتاہے کہ ان چیزوںکوانسان چھوڑ سکتاہے ۔لیکن باوجود غیر ضروری چیزیں ہونے کے اگر تم گائوں کی عورتوں سے گھی چھڑواناچاہوتوتمہیں سالہاسال لگ جائیں گے ۔وہ کہیں گی کہ اگر ہم گھی لگاناچھوڑ دیں توہمی سردردہوجاتاہے ۔زکام ہوجاتاہے اوروہ تمہاری مخالفت کریں گی اورسمجھیں گی کہ تم ان کے راستہ میں روک بن رہے ہو ۔غرض چھوٹی سے چھوٹی عادت کاچھڑانابھی آسان کام نہیں ہوتا۔ لیکن خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والا مصلح توساری دنیا کو پلٹ دینے کے لئے آتاہے ۔وہ ان کے طورطریق سے انہیں باز رکھنے کی کوشش کرتاہے ۔پھراس کی مخالفت کس طرح نہ ہو۔چنانچہ جب بھی کوئی مصلح آتاہے لوگ اس کی باتوں پر ہنسی اڑاتے ہیں ۔مذاق کرتے ہیں۔ اسے مارتے پیٹتے ہیں۔اس کے ساتھیوںکو مارتے پیٹتے ہیں ۔اوریہ چیز برابراورمتواترچلتی چلی جاتی ہے ۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تومکہ والے اس وقت کئی کئی معبود مانتے تھے ۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہناشروع کیا کہ اللہ ایک ہے توقرآن کریم میں لکھا ہے کہ مکہ والوںکویہ عجیب بات معلوم ہوئی اورانہوں نے اس پر ہنسی اڑانی شروع کردی ۔و ہ ایک دوسرے سے ملتے توکہتے ۔بتائو لات خداہے یانہیں ۔وہ کہتا۔کیوں نہیں۔ پھروہ کہتا۔اچھا مناۃ خداہے یانہیں ۔وہ کہتا ۔یقیناً ہے ۔پھر وہ کہتا ۔اچھا عزّیٰ خداہے یانہیں۔ وہ کہتا ۔ضررور ہے ۔اس پر وہ ایک عجیب انداز میں قہقہہ مار کر کہتاکہ تم نے سنا یہ شخص کیا کہتاہے ۔ اس نے اتنے خدائوں کوایک خدابنادیاہے ۔وہ یہ خیال کرتے تھے کہ جس طرح عورتیں چٹنی بناتی ہیں ۔توکچھ نمک لیتی ہیں ۔کچھ مرچیں لیتی ہیں۔کچھ پودینہ لیتی ہیں اوران سب کوپیس کر چٹنی بناتی ہیں ۔اسی طرح محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لات مناۃ،عزّیٰ وغیرہ کو کوٹ پیس کر ایک خدابنادیاہے ۔قرآن کریم میں لکھا ہے کہ وہ تعجب سے یہ کہاکرتے تھے کہ اَجَعَلَ الْاٰلِھَۃَ اِلٰھًا وَّاحِدً(ص آیت ۶)یعنی ہمارے بہت سے جوخداتھے ان کوتوڑ مروڑ کر اس نے ایک خدابنادیاہے ۔یہ خیال کہ یہ خداہیںہی نہیں ان کے ذہن میں آہی نہیں سکتاتھا ۔جب ان کے سامنے کوئی شخص کہتاکہ ایک خداہے تو وہ سمجھتے تھے کہ ایک خداکے معنے یہ ہیں کہ اس نے سارے خدائوں کو کوٹ کرایک چٹنی سی بنادی ہے اورجب وہ اس بات کو پیش کرتے توسارے لوگ ہنس پڑتے اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پاگل سمجھتے ۔لیکن اب اگر یہی بات کسی مسلمان کے سامنے بیان کروتووہ بھی ہنس پڑے گا ۔………………کیونکہ اب اسے ایک خداپر یقین پیداہوچکا ہے ۔اوراس کایہ خیال پختہ ہوگیاہے ۔تو جس جس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے انبیاء کی طرف سے کوئی بات پیش کی جاتی ہے چونکہ لوگ اس کے عادی نہیں ہوتے اس لئے وہ اس کی مخالفت کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔حضرت آدم علیہ السلام آئے توآپ کے خلاف دھوکا اورفریب سے کام لیاگیا۔اورآخر آپ کوانہوں نے اس مقام سے نکلنے پرمجبور کردیا جوان کا مولد و مسکن تھااورجس میں و ہ خداتعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کئے گئے تھے ۔حضرت نوح علیہ السلام آئے توانہیں بھی مختلف رنگ میں اذیتیں پہنچائی گئیں ۔اورانہیں بھی اپنے ملک سے ہجرت کرنی پڑی ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے ۔تواپ کوآگ میں ڈالا گیا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے توآپ کو اورآپ کے ساتھیوں کوایک لمبے عرصہ تک فرعون کے مظالم کاتختئہ مشق بننا پڑا۔ اورجیساکہ حدیثوں سے معلوم ہوتاہے ۔ بنی اسرائیل میں سے بعض کے سروں پر آرے رکھ کر ان کوچیر دیاگیا ۔حضرت مسیح علیہ السلام آئے تودشمنوں نے آپ کوصلیب پر لٹکا دیااورآپ کے خلفاء اور حواریوں میں سے بھی بعض کوقتل کیااوربعض کو صلیب پر لٹکایا۔پھررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کازمانہ آیاتو ا آپ کو بھی شدید سے شدید مشکلا ت اکاسامنا کرناپڑا۔کئی صحابہؓ قتل کئے گئے ۔بعض کامثلہ کیاگیا بعض کو اس طرح شہید کیا گیاکہ دواونٹو ںسے ان کی دوٹانگیں باندھ کر ان اونٹوںکو مختلف جہات میں دوڑایا گیا۔اوراس طرح ان کو چیر کر دوٹکڑے کردیاگیا۔بعض صحابہؓ کوتپتی ریت پر لٹایاگیا۔بعض کو سخت پتھروں والی زمین پر گھسیٹاگیا ۔بعض کے سینوں پر جوتیوں سمیت ناچاگیا۔عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے ما رمار کر ان کوماراگیا۔غرض وہ تمام قسم کی مصیبتیں اوراذیتیں جو مختلف انبیاء کے زمانہ میں ان کے دشمنوں نے ان کو دیں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمع ہوگئیں ۔اورآپ کے پیغام کو قبول کرنے سے اعراض اختیار کرلیاگیا۔یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت پر بھی ہوا۔اورآپ کو ہررنگ میں کچلنے اورنابود کرنے کی کوشش کی گئی ۔کیونکہ آپ دنیاکی طرف جو پیغام لائے وہ ان کے فرسودہ خیالات کے منافی تھا۔اوران کے اند رایک نیا تغیر پیداکرنے والاتھا۔بانی سلسلہ احمدیہ نے جب دعویٰ کیا تواس وقت لوگوں میں یہ احساس تھا کہ مسیح ناصریؑ دوبارہ دنیامی آئیں گے اوروہ غیر مسلموں کے سب اموال لوٹ کر مسلمانوںکے حوالے کردیں گے ۔لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آتے ہی اعلان فرمادیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں ۔اب بظاہر یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ہرشخص جو دنیا میں پیداہوتاہے وہ ایک دن مرتاہے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اسی طرح آئے اورفوت ہو گئے ۔لیکن مسلمانوں نے اپنے دلوں میں مسیحؑ کی آمد ثانی کے متعلق جو تصورات قائم کررکھے تھے ان کو اس تعلیم سے شدید صدمہ پہنچا ۔اورانہوں نے کہا۔اس کامطلب یہ ہواکہ عیسائیوں کوکوئی نہیں مارے گا۔اس کامطلب یہ ہواکہ ہندوئوں کو کوئی نہیں مارے گا ۔اس کامطلب یہ ہواکہ سکھوںکوکوئی نہیں مارے گا۔اس کامطلب یہ ہواکہ مسلمان ویسے ہی کمزوررہیں گے جیسے پہلے تھے ۔سوائے اس کے کہ وہ اپنے زورسے آگے نکلنے کی کوشش کریں ۔اس کامطلب یہ ہواکہ یورپ اورامریکہ کی دولت مسلمانوںمیں تقسیم نہیں ہوگی ۔غرض اس تعلیم سے حضرت مسیحؑ پرموت ہی نہیں آئی بلکہ خود مسلمان بھی زندہ درگورہوگئے ۔وہ لو گ جو پہلے گھرو ں میں بیٹھے دولتوں کے منتظر تھے سمجھتے تھے کہ امریکہ کے پریزیڈنت کاسارامال فلاں کو مل جائے گا اورراک فیلر کامال فلاںکو مل جائے گا ان کی توساری امیدیں ختم ہوگئیں اوروہ گویا جیتے جی مرگئے ۔اب بظاہر یہ ایک چھوٹی سے چیز نظرآتی ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے قوم کے خیالات کواتنادھکادیاکہ جس کاصدمہ مسلمانوں سے برداشت نہ ہوسکااوروہ مخالفت کے لئے کھڑے ہوگئے ۔پہلے جب مسلمانوں سے کہاجاتاتھایہ کام کروتووہ کہتے تھے ہم نے کام کرکے کیاکرناہے۔مسیح آئے گاتووہ کافروں کے مال لوٹ کر ہمارے گھروں میں ڈال دے گا ۔حضر ت مرزاصاحبؑ کے آنے سے ان کی سب امیدوں پر پانی پھر گیاکیونکہ حضرت مرزاصاحب نے آکر ان سے یہ کہاکہ جوکچھ کرناہے تم نے کرناہے ۔تم نے ہی لڑناہے۔تم نے ہی مرناہے ارتم نے ہی اپنی ترقی کے لئے آپ جدوجہدکرنی ہے ۔گویاجوچیز انہیں بیٹھے بٹھائے حاصل ہونے کی توقع تھی اس کے متعلق انہیں محنت اورقربانی اورجدوجہد کاراستہ دکھایاگیا اورانہیں بتایاگیاکہ تم غلط خیالات میں مبتلاہوکراپنی قیمتی زندگی کو ضائع کررہے ہو۔اس پر ان کا غصہ میں مبتلا ہونااوران کاحضرت مرزاصاحبؑ کی مخالفت کے لئے کھڑاہوجاناایک طبعی بات تھی ۔یہ ایسی ہی بات تھی جیسے کوئی شخص کسی دوسرے کو کہدے کہ آج تمہارے گھر کے تما م افراد کاکھانا ہمارے ہاں ہے لیکن جب کھانے کا وقت آئے تواسے پتہ لگے کہ اسے دھوکادیاگیاہے کھانا وغیرہ کسی نے تیار نہیں کیا اب ایسے موقعہ پروہ غصہ میں نہ آئے تو کیاکرے کیونکہ اسے بھوک لگی ہوئی ہوگی۔بچے رورہے ہوں گے اورادھر یہ حالت ہوگی کہ ابھی گھرمیں آٹاگوندھاجارہاہوگا۔آگ جلائی جارہی ہوگی۔اورسب کہہ رہے ہوں گے کہ یہ کیا مصیبت آگئی ۔اب کھانا کب تیار ہوگا ۔اورکب کھائیں گے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے سے درحقیقت ایساہی ہوا۔مسلمانوں کوکہاگیاتھا کہ تمہاری خداتعالیٰ کی طرف سے دعوت ہے ۔تمہیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔آسمان سے مسیح آئے گا اوروہ دنیا کی دولتیں لوٹ کر تمہارے گھروں میں بھر دے گا اوروہ آرام اوراطمینان کے ساتھے بیٹھے تھے ۔سمجھتے تھے کہ نہ ہمیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت ہے ۔نہ روپیہ کمانے کی ضرورت ہے نہ کسی جدوجہداورقربانی کی ضرورت ہے ۔مسیح آئے گا اورہم اس کے آتے ہی بامِ عروج پر جاپہنچیں گے ۔ا س عقیدہ کے نتیجہ میں جب وہ علم سے محروم ہوگئے ۔ترقیات سے محروم ہوگئے ۔عزت سے محروم ہوگئے ۔شہرت سے محروم ہوگئے ۔پستی اورذلت اورنکبت ان پرپوری طرح چھا گئی توحضرت مرزاصاحب ؑ نے آکر کہاکہ جو کچھ بنے گا اپنے کام سے بنے گا ۔کسی دوسرے پرامید رکھنا بالکل غلط ہے ۔تم کوایک وقت کی روٹی نہ ملنے سے جتناصدمہ پہنچتاہے اس سے کتنا زیادہ صدمہ ان لوگوںوکوہواہوگا۔تم تصور توکروکہ اگرکوئی تم سے مذاق کرے کہ رات کوتمہاراہمارے ہاں کھاناہوگا اورعین وقت پر جب تمہارے بچے بھوک سے بلبلارہے ہو ں ۔تمہیں معلوم ہوکہ تمہارے ساتھ مذاق کیاگیاہے اوراس وقت تمہیں کھاناپکانے کی فکر ہو توجتناغصہ تمہارے دل می اس وقت پیداہوسکتاہے اس سے لاکھوں گنازیادہ غصہ مسلمانوںکو پیداہواکیونکہ ان کا اوران کی نسلوں کا انحصارہی اس لوٹ پر تھا جومسیح نے کرنی تھی ۔پھر ایک چیز نہیںبیسیوں چیزیں ہیں جومسلمانوں میں جھگڑے کاباعث بنی ہوئی تھیں۔ کہیں رفع یدین پر جھگڑاتھا ۔کہیں آمین بالجہر کہنے پر جھگڑاتھا۔کہیں تشہد میں انگلی اٹھانے یانہ اٹھانے پرجھگڑاتھا ۔کہیں نماز میں ہاتھ سینے پر باندھنے یاناف کے نیچے باندھنے پر جھگڑاتھا۔حضرت مرزاصاحبؑ نے ان تما م جھگڑوں کو ختم کردیا اورکہاکہ ان باتوں پر لڑنا جھگڑنا فضول ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ن کبھی قوم کو جوش دلانے کے لئے آمین اونچی بھی کہی ہے اورکبھی نیچی بھی کہی ہے ۔کبھی فوجی روح قائم کرنے کے لئے آپ نے سینہ پر ہاتھ باندھے اورکبھی انکسار اورتذلل کی حالت میں آپؐ نے ناف کے نیچے بھی باندھ لئے ۔کبھی تشہد کے وقت آپ نے ا نگلی اٹھائی اورکبھی نہیں اٹھائی ۔تشہد میں انگلی اٹھانے کے یہ معنے ہیں کہ انسان اپنے ہاتھ سے بھی اس بات کا اقرا رکرتاہے کہ خداایک ہے ۔مگریہ دونوں طرح جائز ہے ۔خواہ کوئی انگلی اٹھائے یا نہ اٹھائے اس کی نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض عربوں کو دیکھ کرکہ ابھی ان میں پوری طرح توحید نہیں آئی تشہد میں انگلی اٹھانے کاحکم دیا۔مگر بعض دفعہ آپ نے انگلی نہیں بھی اٹھائی ۔جوشخص توحید کے عقیدہ پر پختگی کے ساتھ قائم ہوگیاہے اگر وہ انگلی نہ اٹھائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔مگراس مسئلہ پر اتنا زوردیاگیا کہ بعض لوگوں کو محض ا س وجہ سے انگلیاں توڑ دی گئیں کہ انہوں نے تشہد میں انگلی کیوں اٹھائی ہے ۔پھر قرآن کے متعلق مسلمانوں میں یہ غلط خیال قائم تھاکہ اس کی کئی آیا ت منسوخ ہیں ۔لیکن حضرت مرزاصاحبؑ نے آکر کہہ دیاکہ قرآن کریم کی ایک آیت بھی منسوخ نہیں ۔بسم اللہ سے لے کر والناس کے س تک ایک ایک حرف اورایک ایک زبراورایک ایک زیر قابل عمل ہے ۔اب بجائے اس کے کہ مسلمان شکرگذار ہوتے کہ آپؑ نے ایک اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہمارے سامنے پیش کی ہے جوقرآنی حسن کو نمایاں کرنے والی ہے۔چونکہ یہ تعلیم ان کے خیالات کے خلاف تھی انہوں نے آ پ کی مخالفت شروع کردی اورعلماء نے ہندوستان کے ایک سرے سے لیکر اس کے دوسرے سرے تک آپؑ کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپاکردیا اورآپ کو کافر اورمرتداورزندیق اورواجب القتل قراردیاگیا۔
غرض تاریخ کا ہر دور وَمَایَاْتِیْھِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ اِلَّاکَانُوْاعَنْہُ مُعْرِضِیْنَ کی سچائی پرشہادت دے رہاہے۔جب کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی پیغامبر قوم کی زندگی کا پیغام لے کر آیا ہمیشہ اس پر ہنسی اڑائی گئی ۔اسے تباہ کرنے کی کوشش کی گئی اوراس کے پیغام سے اعراض کیاگیا۔اس جگہ بھی اللہ تعالیٰ اسی اعراض کا ذکرکرتے ہوئے فرماتاہے فَقَدْکَذَّبُوْا فَسَیَاْتِیْھِمْ اَنْبٰٓؤُامَاکَانُوْابِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ چونکہ یہ لوگ صداقت کو جھٹلاچکے ہیں اس لئے اب عنقریب ان کے پا س ان امور کے متعلق جب پر یہ ہنسی اڑایاکرتے تھے ہماری عظیم الشان خبریں پوری ہوکر آجائیں گی ۔اورانہیں معلوم ہوجائے گا کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاانکار کیسی خطرناک چیزہے ۔اس جگہ سزائوں کوخبریں اس لئے کہاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ فرقان کے آخر میں کفار کو تنبیہ کی تھی کہ اگر تم خداتعالیٰ کے حضور دعااورگریہ و زاری سے کام نہیں لوگے توخداتعالیٰ تمہاری کوئی پرواہ نہیں کرے گا جس کے معنے یہ تھے کہ اگر وہ توبہ نہیں کریں گے توان پرعذاب نازل ہوگا اوروہ تباہ کردیئے جائیں گے ۔پس چونکہ سورئہ فرقان کے آخر میں انہیں عذاب کی خبر دی گئی تھی جس پر کفار نے ہنسی اڑائی اورانہوںنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام سے اعراض کیا۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے بتایاکہ جن امور پر یہ لوگ ہنسی اڑاتے رہے ہیں ان کے متعلق اب ہماری خبریں ان کے سامنے پوری ہوکر آجائیں گی ۔اورانہیں معلوم ہوجائے گا کہ ہمارے رسول نے جوکچھ کہاتھا ۔سچ کہا تھا ۔ نَبَأٌ کے متعلق علامہ ابوالبقاء نے اپنی کتاب کلیات میں لکھاہے کہ یہ لفظ قرآن کریم میں ہمیشہ ایسے امور کے متعلق استعمال ہوتاہے جو بہت بڑی عظمت اور شان رکھنے والے ہوں ۔اورچونکہ اسلام کے غلبہ سے بڑی اورعظیم الشان خبراورکوئی نہیں ہوسکتی ۔اسلئے اس جگہ انباء میں انہی خبروں کی طرف اشارہ کیاگیاہے جو کفرکی تباہی اوراسلام کے غلبہ کے متعلق قرآن کریم میں دی گئی تھیں۔اورجن پر کفار نے اپنی طاقت اورقوت کے گھمنڈ میں ہنسی اڑائی ۔مگرتھوڑے دنوں کے بعد ہی انہوں نے دیکھا کہ وہی غلام جن کو وہ گلیوں میں گھسیٹاکرتے تھے اورجن کے سینوں پر بڑے بڑے پتھر رکھ کر انہیں لات اور مناۃ کی پرستش کرنے پرمجبور کیاجاتاتھاگھوڑے دوڑاتے اورفتح و ظفر کاپرچم لہراتے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے ۔اورمکہ کے بڑے بڑے صنادید کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہ رہا۔کہ وہ اپنے گھروں میں چھپ کربیٹھ رہیں یامکہ کوچھوڑ کربھاگ جائیں ۔غرض وہ خبریں جو ان کی تباہی کے متعلق دی گئی تھیں پوری ہوئیں۔ اوراسلام عرب کے کونہ کونہ میں پھیل گیا۔اوراب خداکے فضل سے وہ دنیا کے کونہ کونہ میں پھیل چکا ہے ۔اورابھی آئندہ زمانہ میںاوربھی پھیلے گا ۔
اولم یرواالی الارض کم انبتنا فیھا من کل زوج کریم٭
کیاوہ زمین کو نہیں دیکھتے کہ ہم نے اس میں قسم قسم کے عمدہ جوڑے بنائے ہیں
ان فی ذٰلک لآیۃ۔ وماکان اکثرھم مومنین٭ وان ربک لھوالعزیز الرحیم٭
اس میں ایک بڑانشان ہے مگر ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے ۔ اورتیرارب ہی یقیناً غالب(اور)بار بار رحم کرنے والاہے ۔۴؎
۴؎ حل لغات:۔ زَوْج ٌکے معنے ہیں کُلُّ واحِدٍ مَعَہٗ اٰخَرُ مِنْ جِنْسِہٖ۔ہروہ چیز جس کے ساتھ اس کی جنس میں سے ایک اَور وجود بھی ہو ۔اَلصِّنْفُ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ۔ہرچیز کی ایک ایک قسم (اقرب)
تفسیر۔ فرماتاہے ۔کیاانہوں نے کبھی غور نہیں کیا ۔کہ زمین میں ہم نے کس طرح قسم قسم کی اعلیٰ ترکاریاں اورپھل وغیرہ پیداکئے ہیں اگر وہ اس پر غور کرتے توان کومعلوم ہوجاتاکہ دین کے معاملہ بھی خداایساہی کرے گا۔اوراعلیٰ روحانی نعمتیں بھیجے گا جوروح کی غذابنیں گی ۔اوراعلیٰ قسم کے انسان پیداکرے گا جوایکد وسرے کے ہمدرد اورخیرخواہ ہوںگے۔اورگویہ لوگ ابھی خداتعالیٰ کی آواز پر لبیک نہیں کہہ رہے مگر تیرارب بڑاغالب اوررحم کرنے والاہے وہ ضرور ایسی تدبیرکر یگاجس سے دنیا پر اس کی بادشاہت قائم ہوجائے گی ۔اوراس کے رحم کالمباسلسلہ انسانوں کے لئے جاری ہوجائے گا۔
مِنْ کُلِّ زَوْجٍ کَرِیْمٍ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ تمام نباتات نر ومادہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ یعنی ان میں کچھ نر پودے ہوتے ہیں اور کچھ مادہ ۔ اور جب وہ دونوں آپس میں ملتے ہیں تب فصل پیدا ہوتی ہے اسی لئے ماہرین زراعت کہا کرتے ہیں کہ باغوں میں شہد کی مکھّیاں رکھنی چاہئیں کیونکہ وہ نر درخت پر بیٹھ کر اُس سے زکا نطفہ لیتی ہیں ۔اور مادہ درخت پر جا کر رکھ دیتی ہیں جس کی وجہ سے اُسے خوب پھل آتا ہے ۔عرب لوگ کھجو رک متعلق اس حقیقت کو جانتے تھے اوروہ نراورماد ہ درختوں کو آپس میں ملایاکرتے تھے۔مگررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسکاعلم نہیں تھا۔ایک دفعہ آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھجور کے نردرختوںکو مادہ کھجوروں سے ملارہے ہیں۔آ پ نے فرمایاکیاکرتے ہو۔انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم تونرکومادہ پرڈالتے ہیں تاکہ فصل اچھی ہو ۔آپ نے فرمایا۔اس کاکیافائدہ جو پھل پیداہوناہے وہ توہوناہی ہے ۔ انہوں نے یہ سن کر چھوڑ دیامگرنتیجہ یہ ہواکہ ان کی فصل ماری گئی ۔وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حاضر ہوئے اورانہوں نے عرض کیا ۔یارسول اللہ!ہماری توفصل اچھی نہیں ہوئی۔ آپؐ نے فرمایا۔کیوں۔انہوںنے کہا۔آپؐ نے جوفرمایاتھا کہ نرکامادینہ کھجور پرنہ ڈالو ۔آپؐ نے فرمایا۔میں توتمہاری طرح کاایک انسان ہو ں یہ علم توتم جانتے ہو۔مجھے معلوم نہیں۔اس لئے تم وہی کچھ کروجسے علمی لحاظ سے تم صحیح سمجھتے ہو۔(مسلم جلد۲۔ کتاب الفضائل) غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارہ میں ذاتی طورپر کوئی علم نہیں تھا۔مگراللہ تعالیٰ نے بتایاکہ اتمام نباتات آپس میں جوڑہ جوڑہ ہیں ۔بلکہ سورئہ ذاریات میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ(ذاریا ت ع۳) یعنی نرومادہ صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ ہرچیز میں ہیں ۔جمادات میں بھی ہیں۔ نباتات میں بھی ہیں ۔حیوانات میں بھی ہیں۔اوراب توبعض سائنسدان اس تحقیق میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ دھاتوں میں بھی نرومادہ کے قائل ہوگئے ہیں ۔ایک سائنسدان کی کتاب میں میں نے پڑھاکہ ٹین بھی دوقسم کے ہوتے ہیں ۔ایک ٹین نرہوتاہے اورایک مادہ ہوتاہے اوروہ بھی ایک دوسرے کے اثر کو قبول کرکے ایک نئی شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔مگرخداتعالیٰ اس سے بھی اوپر جاتاہے اورفرماتاہے کہ ہم نے ہرچیز کاجوڑا بنایاہے اورچیز کے لفظ میں نباتات بھی آجاتی ہے ۔حیوانات بھی آجاتے ہیں ۔جمادات بھی آجاتے ہیں ۔بلکہ اس سے بڑھ کر ذرّات عالم اورمجموعئہ ذرات عالم بھی آجاتے ہیں اورجب خداتعالی نے یہ کہاکہ ہم نے ہرچیز کو جوڑابنایاہے تواس کے معنے یہ ہوئے کہ خداتعالیٰ کے سواباقی ہرچیز کاجوڑاہے اورکوئی چیز اپنے جوڑے کے بغیر صحیح نتیجہ پیدانہیں کرسکتی ۔جس طرح مادی دنیامیں اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کاجوڑابنایاہے ۔اسی طرح روحانی دنیامیں انسانی روح خداتعالیٰ کے فضل اوراس اکی رحمت کا جوڑاہے اورجب تک الٰہی فضل انسانی روح سے آکر نہ ملے اس وقت تک روحانی نسل کاسلسلہ قائم نہیں ہوسکتا۔مجھے یادہے۔میں ابھی بچہ ہی تھا کہ میں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ میں امرتسر میں ہوں وہاں ملکہ کاایک بت تھا جوسنگ مرمرکا بناہواتھااوراس کے ارد گرد ایک چبوترہ تھا اوروہ بھی سنگ مر مرکابناہواتھا ۔اورچبوترے پر چڑھنے کے لئے سنگ مرمرکی ہی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔میں نے رؤیامیں دیکھاکہ ان سیڑھیوں پرتین چار سال کا ایک بچہ کھڑاہے جو نہایت حسین اورصاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس ہے اورآسمان کی طرف دیکھ رہاہے ۔رؤیامیں میں سمجھتاہوں کہ یہ مسیحؑ ہے۔تھوڑی دیر کے بعد آسمان پھٹااوراس میں سے ایک چیز زمین کی طرف اڑتی ہوئی نظر آئی ۔وہ خوبصورت رنگو ں والے لباس میں لپٹی ہوئی تھی ۔اوراس کے پَر تھے جن سے وہ اڑتی ہوئی آرہی تھی ۔میں رؤیا میں سمجھتاہوں کہ یہ حضرت مریمؑ ہیں نیچے آکر جسے مرغی اپنے پَر پھیلا کر بچوںکو اپنے پَروں کے نیچے لے لیتی ہے ۔اسی طرح اس نے بچہ پراپنے پَر رکھ دیئے ۔اورجب اس نے ایساکیا تومیری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے:۔
LOVE CREATES LOVE
یعنی محبت محبت پیداکرتی ہے ۔جب میری آنکھ کھلی تومیں نے سمجھا کہ مریم جو رؤیامیں مجھے بطور ماں دکھائی گئی ہے اس سے مراد خداتعالیٰ کی محبت ہے اوربچہ جو مسیح کی شکل میں دکھایاگیا و ہ روح کی خداتعالی کی طرف انابت اور جھکنے کاتمثّل تھا ۔جب انسانی روح خداتعالیٰ کی طرف جھکتی ہے وتاس ے نتیجہ میں ایک روحانی وجودپیداہوتاہے جوخداتعالیٰ کوایساہی پیاراہوتاہے جیسے ماں کو اسکابچہ ۔ کیونکہ خداتعالیٰ جسم کے ساتھ پیار نہیں کرتا ۔و ہ وجود جس کے ساتھ خداتعالیٰ پیار کرتاہے ۔و ہ خداتعالیٰ کی رحمت کے ساتھ مل کر پیداہوتاہے ۔اوراس کے لئے خدا بمنزلہ ماں بن جاتاہے ۔
یہی سبق اللہ تعالیٰ نے کفار کو دیاہے ۔اورفرمایاہے کہ کیا وہ زمین کی طرف نہیں دیکھتے کہ ہم نے اس میں کیسے کیسے خوبصورت جوڑے پیداکردیئے ہیں پھر کیا وہ اس نظار ہ کو دیکھتے ہوئے نہیں سمجھ سکتے کہ جس طر ح مادی دنیا میں ہم نے ہرچیز کاجوڑابنایاہے اسی طرح ان کی روح بھی اپنی طاقتوں کے اظہار کے لئے ایک جوڑے کی محتاج ہے اوریہ جوڑاخداتعالیٰ کی رحمت سے مل کر مکمل ہوتاہے ۔پس اگروہ اپنی روحانی نسل کو جاری کرناچاہتے ہیں توانہیں اس خدائی رحمت کے ہاتھ کو تھام لیناچاہیئے جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں اس کی طرف سے بلندہواہے ورنہ جس طرح ایک بانجھ عورت اولاد سے محروم رہتی ہے۔ اسی طرح وہ ان روحانی نعماء سے محروم رہیں گے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ لٹائے جارہے ہیں ۔
واذنادیٰ ربک موسیٰ ان ائت القوم الظالمین ٭
اور(یادکر)جب تیرے رب نے موسیٰ کو پکاراتھا (اورکہاتھا) کہ ظالم قوم یعنی فرعون کی قوم کے پاس جا۔
قوم فرعون ط الایتقون٭ قال رب انی اخاف ان یکذبون
(اوران سے کہہ کہ) کیا وہ تقویٰ نہیں کرتے؟ اس نے (جواب میں )کہا ۔اے میرے رب میں ڈرتاہوں کہ وہ میری تکذیب نہ
ویضیق صدری ولا ینطلق لسانی فارسل الی ھٰرون ٭
کریں ۔اورمیراسینہ تنگی محسوس کرتاہے اورمیری زبان (اچھی طرح) چلتی نہیں پس (میرے ساتھ)ہارونؑ کو بھی مبعوث کر۔
ولھم علی ذنب فاخاف ان یقتلون٭
اور(یہ بات بھی ہے کہ)ان (لوگوں)کامیرے خلاف ایک الزام بھی ہے اورمیں ڈرتاہوں کہ وہ مجھے قتل نہ کردیں ۔
قال کلا ج فاذھباباٰیٰتنا ان معکم مستمعون٭
فرمایا۔ہرگز نہیں ۔پس (ہماراحکم سن کر )تم دونوں ہماری آیتیں لیکر (چلے )جائو۔ہم (تمہارے اورتمہارے ساتھیوں کے ) ساتھ ہوں گے اور(تمہاری دعائوں کو )سنتے رہیں گے ۔
فاتیافرعون فقولاانا رسول رب العالمین٭ان ارسل معنا بنی اسرائیل٭
پس فرعون کے پاس جائو اوراسے کہو کہ ہم رب العالمین(خدا)کے بھیجے ہوئے ہیں۔(اس حکم کے ساتھ )کہ ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے ۔۵؎
۵؎ حل لغات :ذَنْبٌ:یُسْتَعْمَلُ فِیْ کُلِّ فِعْلٍ یَسْتَوْخَمُ عُقَبَاہُ (مفردات ) یعنی ہر وہ فعل جس کانتیجہ خراب ہو ذنب کہلاتاہے ۔
تفسیر ۔فرماتاہے ۔اس وقت کو یاد کروجب تمہارے رب نے موسیٰؑ کو پکارا اوراسے کہاکہ تُو ظالم قوم یعنی فرعونیوں کی قوم کے پاس جااورسے کہہ کہ کیا وہ تقویٰ اختیار نہیں کریں گے ؟ اس پر موسیٰ نے کہا ۔اے میرے رب! میرے جانے کاکیا فائدہ وہ تومجھے جھٹلادیں گے۔علاوہ ازیں میراسینہ ان کے آنے والے سلوک کا تصورکرکے تنگی محسوس کرتاہے اورمیری زبان اس ڈر سے بند ہوتی چلی جاتی ہے کہ وہ انکار سے کام لیں گے ۔پس تو اپنا پیغام ہارون کی طرف بھیج۔نیز وہ مجھ پر گناہ کا الزام بھی عائد کرتے ہیں ۔سومیں ڈرتاہوںکہ کہیں وہ میری بات سنے بغیر ہی مجھے قتل نہ کردیں ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ان کی مجال نہیں کہ وہ ایسا کرسکیں ۔لیکن چونکہ تونے ایک خواہش کااظہار کیا ہے ہم ہارون کو بھی مبعوث کرتے ہیں ۔سوتم دونوں ہمارے نشان لے کر جائو ۔بڑانشان تویہی ہے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اورتمہاری دعائیں سنتے رہیں گے اورفرعون اوراس کے ساتھ تمہار اکچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے ۔سوتم دونوں فرعون کے پا س جائو اور اسے کہو کہ ہم رب العالمین خداکی طرف سے تمہاری طرف رسول بن کر آئے ہیں تم ہمارے پیغام کو قبول کرو۔اوربنی اسرائیل کو غلامی سے نجا ت دے کر ہمارے ساتھ روانہ کردو۔یہ واقعہ بیان فرماکر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جس خدانے فرعون کی قوم کے لئے ہدایت کاسامان مہیا کیاتھا ۔و ہ مکہ والوں کے لئے کیوں ہدایت کاساامان مہیا نہ کرتا۔ فرعون کی قوم کے لئے تو کسی پہلے نبی کی دعاموجود نہیں تھی لیکن مکہ والوں کے لئے تو ابراہیم کی یہ دعاموجود تھی ۔ کہ رَبَّنَاوَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًامِّنْھُمْ یَتْلُوْ ا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ(بقرہ آیت ۱۳)یعنی اے ہمارے رب! توان لوگوں میںاپنا ایک رسول مبعوث فرما جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے انہیں کتاب اوراحکمت سکھائے اوران کا تزکیہء نفوس کرے ۔توبڑاغالب اورحکمت والا ہے ۔پس اگر بغیر کسی دعاکے اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں کی ہدایت کے لئے موسیٰ کومبعوث فرمادیاتواتنی بڑی دعاکی موجودگی میں جبکہ اللہ تعالیٰ کا بھی یہ وعدہ تھا کہ وہ اپنے انعامات کی بارش نسل اسمٰعیل پر برسائے گا اوراسے بھی ایک بڑی قوم بنائے گا ۔(پیدائش باب ۱۷ آیت ۲۰ تا۲۲)کیوں ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ اپنابرگزیدہ کھڑانہ کرتا پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاآنا لوگوں کے لئے کسی حیرت کاموجب نہیں بنناچاہیئے ۔حیرت تب ہوتی جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کا کوئی سامان پیدانہ ہوتا اورابراہیمی دعارائیگاں چلی جاتی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کا ذکر فرماکر یہود کوبھی اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تم موسیٰ کی کتاب پر ایما ن رکھتے ہو۔تمہیں معلوم ہے کہ تورات میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ
’’ میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ ساایک نبی برپاکروں گا اورجوکچھ میں انہیں فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا ۔ اورایساہوگاکہ جوکوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرانام لے کے کہے گا نہ سنے گا تومیں اس کاحساب اس سے لوںگا۔‘‘
(استثناء باب۱۸ آیت ۱۵تا ۲۰)
کیااس پیشگوئی کے مطابق یہ ضروری نہیں تھا کہ موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی اسمٰعیل میں سے ایک ایسانبی آتا جوموسیٰ کامثیل ہوتا۔یعنی جس طرح وہ صاحب شریعت نبی تھا اس طرح آنے والا رسول بھی صاحب شریعت ہوتا۔
پھر تورات میں یہ بھی کہاگیاتھا کہ وہ جب بھی خداکاکلام سنائے گاتوکہے گاکہ میں خداکانام لے کر تمہیں یہ کلام سناتاہوں چنانچہ قرآن کریم کی کوئی سورۃ نہیں جو اللہ تعالیٰ کے نام کے بغیر شروع ہوتی ہو ۔ہرسورۃ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا ہواہوتاہے جوہریہودی اورعیسائی کو اس امر کی طرف توجہ دلاتاہے کہ تم کیوں س نبی کو نہیں مانتے جوموسیٰ کی پیشگوئی کے مطابق جب خداتعالیٰ کا کلام سناتاہے تواس سے پہلے یہ الفاظ بھی کہہ دیتاہے کہ میں اللہ کانام لے کر یہ کلام سناتاہوں اورپھر بھی اس کو کوئی سزانہیں ملتی ۔
غرض موسیٰ کاذکر مکہ والوں کو دعائے ابراہیمی کی طرف اوریہودیوںاورعیسائیوں کو تورات کی پیشگوئی کی طرف توجہ دلانے کے لئے کیاگیاہے اور کہا گیاہے کہ وہ اس دعااورپیشگوئی کی عظمت کو سمجھیں اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاانکار کر کے اللہ تعالیٰ کے غضب کااسی طرح نشانہ بنیں جس طرح فرعون موسیٰ کاانکار کرکے نشانہ بنا ۔
اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ ۔قَوْمَ فِرْعَوْنَ میں یہ بتایاگیاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب فرعون کی طرف بھجوایاگیا تو آپ کا بڑاکام یہی تھاکہ بنی اسرائیل کو اسکی غلامی سے نجات دلائیں ۔اورفرعون کو سمجھائیں کہ وہ اس الٰہی منشاء میں روک نہ بنے۔ اور بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ جانے کی اجازت دے دے۔ چنانچہ جب بنی اسرائیل مصر سے چلے گئے توپھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مصریوںسے کوئی واسطہ نہ رہا بلکہ ان کی تمام ترتوجہ بنی اسرائیل کی طرف ہی مبذول رہی جن کی ہدایت اورترقی کے لئے وہ مبعوث کئے گئے تھے ۔مگرچونکہ بنی اسرائیل اہل مصر سے مل جل کررہتے تھے اوربنی اسرائیل کو الگ مخاطب کرنے اوران کے اند رایک نئی مذہبی روح پیداکرنے کی ا س وقت کو ئی صورت نہیں تھی اس لئے ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے فرعون اوراس کی قوم کو بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت میں شریک کرلیا۔اورآپ نے فرعون اوراس کی قوم کو بڑی بھار ی تبلیغ کی اورمتواتر کئی نشانات کے ذریعہ ان پر حجت تمام کی ۔مگر بنی اسرائیل کے مصر سے چلے جانے کے ابعد آپ کامصریوں سے کوئی واسطہ نہ رہا۔کیونکہ آپ اصولی طور پر صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے ہی مبعوث ہوئے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت کی اورآپ مدینہ تشریف لے گئے تومکہ والوں سے آپ کاتعلق منقطع نہیں ہوابلکہ آپ برابران کی ہدایت کے لئے کوشش فرماتے رہے۔ جوآپ کے درجہ اورمقام کی بلندی کا ایک بہت بڑاثبوت ہے ۔
اَلَایَتَّقُوْنَ میں بتایا گیاہے کہ انبیاء کی بعثت کی اہم غرض تقویٰ کاقیام ہوتی ہے۔مگربالعموم لوگ غلطی سے نیکی اورتقویٰ کو ایک ہی چیز سمجھ لیتے ہیں حالانکہ نیکی تووہ نیک کام ہوتاہے جوہم کرچکے ہیںیاکررہے ہیں ۔اورتقویٰ یہ ہے کہ انسان ایسے مقام پر کھڑاہوجائے کہ اس کے دل میں آئندہ جوجذبات بھی پیداہو ں وہ نیک اورپاک ہوں ۔کیونکہ جذبات کا اصل مقام دل ہے گو ان کا ظہور دما غ کے اعصاب کے ذریعہ سے ہوتاہے ۔
سائنسدان اس امر پر بحثیں کرتے چلے آئے ہیں کہ انسانی روح کا منبع دماغ ہے دل نہیں اوریہی وجہ ہے کہ وہ روح کی حقیقت کو نہیں پاسکے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ انسانی روح کاجیساکہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیموں اوررؤیاو کشوف سے پتہ چلتاہے دل سے تعلق ہے ہاں دما غ چونکہ مغبت اعصاب ہے اس لئے قلبی علوم کو محسوس کرنا اوردل کے علوم مخفیّہ سے مستفیض ہونا اس کاکام ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حیا ۃ کامقام دل کو قرار دیاہے دماغ کو نہیں ۔اورروح کا سب سے گہراتعلق اس عضو سے ہوسکتاہے جوانسانی جسم میں سب سے اہم حیثیت رکھتاہو اورجس کاکام سب سے نمایاںہو۔اوروہ اہم کام دل کاہی ہے ۔دماغ کانہیں ۔دل کی ایک سیکنڈ کی حرکت بندہونے سے کلّی طورپر انسان پرموت وارد ہوجاتی ہے ۔لیکن دماغ میں اگر فتور پیداہوجائے توگواس وجہ سے کہ دما غ کاکام علوم قلیبہ کو مسحوس کرناہے علوم پردہ میں آجاتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ انسان ن پر موت بھی وا رد ہوجائے ۔غرض دماغ خادم ہے اوردل وہ اصل مرکز ہے جہاں اللہ تعالیٰ اپنے انوار نازل کرتاہے ۔لیکن خواہ فلسفیوں کے تتّبع میں کوئی شخص تدبراورتفکر اوراخلاق فاضلہ کاتمام مدار دماغ پررکھے یایہ کہے کہ انسانی عقل اورمعرفت کاسرچشمہ دل ہے ۔اوردماغ کو علوم اورمعارف سے کچھ تعلق نہیں پھر خواہ وہ دل اوردماغ کی بجائے جذبات اورافکار اکالفظ استعمال کرے ۔بہرحال کوئی بھی صورت ہو انسان کے لئے دوچیزوں کی صفاائی نہایت ضروری ہے ،ان میں سے ایک فکر ہے اوردوسری جذبات لطیفہ ہیں۔افکارکی صفائی جسے عربی میں تنویرکہتے ہیں دماغ کی صفائی سے حااصل ہوتی ہے ۔تنویر اس بات کو کہتے ہیں کہ انسان کے اندرایسانورپیداہوجائے جس کی وجہ سے ہمیشہ صحیح خیالات پیداہوتے رہیں ۔جس طرح ایک تندرستی تویہ ہوتی ہے کہ انسان کہے میں اس وقت تندرست ہوں ۔اورایک تندرستی یہ ہوتی ہے کہ انسان آئندہ بھی تندرست رہے ۔اسی طرح تنویر فکر کی وہ درستی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ جو خیالات بھی پیداہوں درست ہی ہوں ۔ اورتنویر کے جومعنے دماغ کی نسبت سے ہیں وہی تقویٰ کے معنے دل کی نسبت سے ہیں ۔یعنی جس طرح فعلاً صحیح خیال کاپیداہونا تنویر نہیں بلکہ ایسے ملکہ کاپیداہوجاناکہ ہمیشہ صحیح خیالات ہی پیداہوتے رہیں تنویر ہے ۔اسی طرح تقویٰ صرف ایک یاچند نیکیوں کانام نہیں بلکہ انسان کاایسے مقام پر کھڑاہوجاناتقویٰ کہلاتاہے کہ اس کے اند رجوجذبات بھی پیداہوں وہ ہمیشہ نیک اورپاک ہوں ۔اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میراشیطان مسلمان ہوگیاہے ۔یعنی میرے دل میں جوخیال بھی پیداہوتاہے نیک ہی ہوتاہے برانہیں ہوتا ۔غرض افکار کے لئے تنویر اورجذبات کے لئے تقویٰ کا لفظ استعمال کیاجاتاہے اورانسان بدی کے حملہ سے اسی وقت محفوظ ہوتاہے جب کسی انسان کو تنویر افکار بھی حاصل ہواورتقویٰ قلب بھی حاصل ہو۔ پس اَلَا یَتَّقُوْنَ میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام قومِ فرعون کی طرف تقوی اللہ کا پیغام لے کر گئے تھے ۔اور آپ کی بعثت کا بڑا مقصد یہ تھا کہ آپ اپنی دعائوں اور تبلیغ اور نصائح کے نتیجہ میں ان کی ایسی اصلاح کردیں کہ نہ صرف ان کے افکار اور ان کے جذبات میں دوستی پید اہوجائے بلکہ ان کے اندر ایسا ملکہ پید ا ہوجائے کہ آئندہ جب بھی ان کے دماغ میں کوئی خیا ل پید ا ہووہ صحیح ہو۔اور جب بھی ان کے دلوں میں کوئی جذبات پید ا ہوں وہ پاکیزہ ہوں ۔یہی چیز ہے جس پر تمام انبیاء زور دیتے چلے آئے ہیں۔ اور اسلام نے بھی اس کی طرف باربار توجہ دلائی ہے ۔کیونکہ روحانی علوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دل پر نازل ہوتے ہیں۔اگر کسی شخص کا دل پاک نہ ہو تو وہ الٰہی فیضان سے محروم رہتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف جانے کا حکم دیا توانہوںنے عرض کیا کہ رَبِّ اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِ۔ اے میرے رب! میں ڈرتا ہوں کہ وہ میری تکذیب نہ کریں۔اس کے یہ معنے نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس سنت قدیم کا علم نہیں تھا کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور مبعوث ہوتاہے تو دنیا ا س کا انکار کیا کرتی ہے بلکہ ان کا خوف اس وجہ سے تھا کہ وہ جانتے تھے کہ تمام قومیں اپنے اپنے زمانہ میں انبیاء کا انکار کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوچکی ہیں ۔پس ان کے دل میں ڈر پیدا ہوا کہ اگر ان لوگوں نے بھی انکار کیا تو یہ بھی خدائی گرفت میں آجائیں گے ۔اور یہ چیز ایسی ہے جو انبیا ء کے لئے سخت دکھ کا موجب ہوتی ہے پس انہوں نے فرعون کی طاقت اورا س کے مظالم پر نظر دوڑاتے ہوئے اس امکانی خطرہ کا اظہار کیا کہ وہ اپنے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے تکذیب پر کمر بستہ ہو جائیگا اوراپنے اس تلخ انجام کو اپنے قریب کردے گا جو ہمیشہ سے منکرین انبیاء کا ہوتا چلاآیا ہے ۔ چنانچہ آیت کا اگلا ٹکڑا ان معنوں کی تائید کرتاہے ۔ وہ فرماتے ہیں وَیَضِیْقُ صَدْرِیْ۔ اے میرے رب! میرا سینہ تنگی محسوس کرتاہے ۔ یعنی ان کے ہدایت کو ردّکردینے کے خیال سے میری یکہ کیفیت ہے کہ میراسینہ تنگ ہورہاہے اورمیرادم گھٹ رہاہے ۔ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس محبت کی طرف اشار ہ فرمایاہے جوانہیں اپنی قوم سے تھی اوربتایاہے کہ ان کاسینہ اپنی قوم کے کفراورفسق کاتصور کرکے تنگی محسوس کرتاتھا اوروہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی قوم الٰہی پیغام کا انکار کرکے اس عذاب کی مستحق ہو ۔ مگر اس بارہ میں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایک بہت بڑی فضیلت حاصل ہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تویہ کہاہے کہ رَبِّ اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِ۔۔اے میرے رب !میں ڈرتاہوں کہ وہ کہیں میری تکذیب نہ کردیں ۔مگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے قَدْنَعَلَمُ اِنَّہٗ لَیْحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّھُمْ لَایُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ(انعام ع ۴) یعنی ہم جانتے ہیں کہ جوکچھ یہ مخالف لوگ کہتے ہیں ۔اس سے تجھے بڑاسخت غم پہنچتاہے کیونکہ یہ تجھ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات کاانکار کرتے ہیں ۔اس آیت میں بتایاگیاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کویہ فکر نہیں تھا کہ قوم ان کی تکذیب کررہی ہے بلکہ آپ اگر غمزدہ تھے تواس لئے کہ قوم خداتعالیٰ کی آیات کاانکار کررہی ہے ۔گویا آپ کاغم اپنی ذات کے لئے نہیں تھا ۔بلکہ آپ کاغم محض ا سوجہ سے تھا کہ قوم خداتعالیٰ کو ردّکررہی ہے اورہرشخص سمجھ سکتاہے کہ ان دونوں نظریوں میں کتنا بڑافرق ہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تویہ ڈر تھاکہ قوم میری تکذیت کرے گی اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا غم تھا کہ قوم خداکاانکار کررہی ہے ۔
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تواپنی قوم سے صرف اتنی محبت تھی کہ اپنی قوم کے کفر کودیکھ کر ان کاسینہ تنگی محسوس کرتاتھا مگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی قوم کے کفرکا اتنا درد تھاکہ اصدمہ کے مارے آپ کی جان نکلی جارہی تھی ۔جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ لَعَلَّکَ باخعٌ نفسک اَلاَّیکونوامومنین یعنی ان لوگوںکے ایمان لانے اورکافررہنے کا ہمارے رسول کو اس قدر صدمہ ہے کہ گویا اس کی گردن پر تلوار رکھ کرکسی نے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک اسے کاٹ دیاہے ۔جب لوگوں کے ایمان لانے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسقدر افسوس تھا توان کاکفرکی حالت میں مرجانا آپ پر کس قد رگراں گذرتاہوگا؟ جوشخص صرف اس بات سے ہی صدمہ محسوس کرتاہو کہ ایک شخص خداتعالیٰ پر ایمان نہی لایا اس کے دل پر اس وقت کیا گذرتی ہوگی جب اسے یہ معلو م ہوتاہوگاکہ اب کفر پر اس کاخاتمہ بھی ہوگیاہے ۔
یہ ایک عجیب بات ہے کہ دنیامیں ہمیشہ بڑی چیزوں پر چھوٹی چیزوں کو قربان کیاجاتاہے مگراللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کمزورانسانیت پراپنے پیداکئے ہوئے قیمتی سے قیمتی جوہروں کو قربان کیا۔آدم اپنے زمانہ کا سب سے قیمتی جوہر تھا ۔مگراللہ تعالیٰ نے ان کمزورلوگوں کے لئے جنہوں نے شیطان کا ساتھ دیا آدم کی سی قیمتی جان کو قربان کرادیا۔حضر ت نوح علیہ السلام اپنے زمانہ میں سب سے قیمتی وجود تھے۔ مگراللہ تعالیٰ نے ان ازلی شقیوں اوران بدبخت وجودوں کے لئے جو ہدایت سے محرومی اختیار کرچکے تھے حضرت نوح علیہ السلام کی جان کو قربان کرادیا ۔حضر ت ابراہیم علیہ السلام اپنے زمانہ کے سب سے قیمتی وجود تھے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جان کو کمزور اورناقص انسانوں کے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کرب وبلامیں مبتلاکیا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام پنے زمانہ کے قیمتی سے قیمتی وجود تھے مگر وہ بنی اسرائیل جو خداکے لئے صرف اس قربانی کے مالک تھے کہ انہوںنے کہہ دیا فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنّاَ ھٰھُنَاقَاعِدُوْنَ(مائدہ آیت ۲۵) اے موسیٰ تواورتیرارب دونوں جائو اور ان سے جنگ کرو۔ہم توبہرحال اسی جگہ بیٹھے رہیں گے۔اس بزدل اورنشانات سے آنکھیں بندکرلینے والی قوم کے لئے خداتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سی قیمتی جان کو قربان کرادیا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے زمانہ کے قیمتی ترین وجودوں می سے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے جن کے متعلق حضرت مسیح علیہ السلام خود کہتے ہیں کہ وہ سانپ اورسانپوں کے بچے ہیں (متی باب ۲۳آیت ۲۳)ان کی زندگی کو بھینٹ چڑھادیا۔پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ پاک اوراعلیٰ وجود اس دنیا میں کون آیا کہ جسکے متعلق ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایاکہ لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ (فوائدالمجموعہ مصنفہ علامہ شوکافی ص ۱۱۶)اے محمد !(صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر تجھے پیدانہ کرنا ہوتاتومیں زمین وآسمان کو بھی پیدانہ کرتا مگر وہ وجود جس کی خاطربنی نوع انسان پیداکئے گئے ۔ابوجہل ،عتبہ اورشیبہ کی ہدایت اوربھلائی کے لئے اس کو ایک ایسی صلیب پر لٹکادیا جولوگوں کو تو نظرنہیں آئی مگرخداتعالیٰ جس کی نظر میں ہر عیب بھی ظاہر ہے وہ اس صلیب کے متعلق فرماتاہے لَعَلَّکَ باخعٌ نفسک اَلاَّیکونوامومنین اے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )شایدکہ غم کی چھری تجھ کو ذبح کرتے کرتے تیری گردن کے آخری تسموںکوبھی کاٹ دے گی اس وجہ سے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے ۔
غرض جہاں تک قربانی اورمحبت کاسوال ہے دنیا کے ہرنبی نے اپنی قوم کے لئے قربانیاں کیں۔اورہرنبی اپنی قوم کے کفر اورنفاق کو دیکھ دیکھ کر پریشان حال رہا ۔مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورپہلے انبیاء میں یہ فرق ہے کہ پہلے انبیاء کے سینے میں تواپنی قوم کا کفردیکھ کرصرف تنگی محسوس ہوتی تھی مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کاکفردیکھ کر ایساغم ہوتاتھا کہ قریب تھا کہ آپ اس غم کی وجہ سے اپنے آپ کو ہلا ک کرلیتے ۔
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تویہ کہاکہ رَبِّ اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِ۔ مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم ملاکہ جااوردنیا کو خداتعالیٰ کا پیغام پہنچا توآپ نے فوراً اپنی بیوی کو خبر دی اورپھر بعد میں اپنی ساری قوم کو خبر دی اوریہ نہیں کہا کہ قوم میری تکذیب کرے گی بلکہ آپ نے دلیری سے خداتعالیٰ کے حکم پر لبیک کہااورکسی ڈراورخوف کا اظہار نہیں کیا ۔یہ امربتاتاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ بہت بلند تھا ۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک اوربات کی اورفرمایا لَایَنْطَلِقُ لِسَانِ اے میرے رب ! میری تو زبان ہی نہیں چلتی ۔مگرخداتعالیٰ کی شان دیکھو کہ وہی موسیٰ جنہیں یہ خوف تھاکہ میں فرعون کے دربا رمیں کس طرح بات کرسکوں گا اورجنہوں نے حضرت ہارو ن علیہ السلام کی یہ خوبی بیان کی تھی کہ ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّی لِسَانًا (قصص آیت ۳۵) وہ بات کرنے میں مجھ سے بہت زیادہ فصیح ہیں جب فرعون کے سامنے جاتے ہیں توحضرت ہارون کو ایک فقرہ بھی بولنے نہیں دیتے ۔اورخود ہی اس کے اتمام سوالات کے جواب دیتے چلے جاتے ہیں ۔ اَفْصَحُ مِنِّی لِسَانًا کے الفاظ بتارہے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام یقینا فصیح البیان تھے اوران کی زبان میں جیساکہ پرانے مفسرین خیال کرتے ہیں کوئی خلقی نقص نہیں تھا صرف اتنی بات ضرور ہے کہ وہ اپنے آپ کو فصاحت بیان میں حضرت ہارون علیہ السلام سے کم درجہ پر سمجھتے تھے ۔مگرجب اللہ تعالیٰ نے رسالت کا کام آپ کے سپر د کیا اورفرعون ک دربار میں آپ تشریف لے گئے ۔تووہاںآ پ کی فصاحت اورآ پ کے دلائل کی مضبوطی کی ایسی دھاک بیٹھی کہ فرعون جھنجلااٹھا اوراس نے سمجھا کہ اب مقابلہ کے لئے کوئی اجتماعی پروگرام مرتب کرنا چاہیئے ورنہ یہ لوگوں کو برگشتہ کردے گا ۔
ہم نے اپنی جماعت میں بھی دیکھا ہے کہ جب کو ئی شخص ا س اخلاص کے ساتھ احمدی ہوتاہے توباوجود اس کے کہ وہ ان پڑھ اورجاہل ہوتاہے احمدی ہوتے ہی اس کی زبان اس طرح کھل جاتی ہے کہ ابڑے بڑے مولوی اس کے ساتھ بات کرنے سے گھبرانے اورکترانے لگ جاتے ہیں ۔اس کی عقل پہلے سے تیز ہوجاتی ہے اوراس کی بحث کرنے کی قابلیت غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہے جس سے صاف پتہ لگتاہے کہ ان کا علم اپنانہیں بلکہ خداتعالیٰ کا عطاکیاہواہوتاہے جو ہرموقعہ پر ان کی تائید کرتا اورانہیںوقت پرایسی ایسی باتیں سمجھادیتاہے کہ حیرت آتی ہے ۔قادیان میں ایک شخص ’’پیرا‘‘ہواکرتاتھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خادم تھا وہ اتنی موٹی عقل کاآدمی تھا کہ سمجھ ہی نہیں سکتاتھاکہ احمدیت کیاہے ۔لیکن اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے ساتھ ایک ذاتی لگائو تھا ۔کہیں اس کو گنٹھیا کی بیماری ہوگئی ۔و ہ پہاڑی آدمی تھا اس کے رشتہ داروں کو بعض لوگوں نے کہا کہ یہاں ا س کاعلاج نہیں ہوسکے گا اسے کہیں میدانوں میں لے جائو ۔چنانچہ وہ اسے گورداسپورلے آئے ۔مگرچونکہ وہ سب غریب آدمی تھے اورایسے لوگوںکو روٹی بھی کھلانی پڑتی ہے اوردوائی بھی دینی پڑتی ہے اس لئے کوئی شخص علاج کرنے کے لئے تیارنہی ہوتاتھا۔آخر کسی نے ان کو بتایاکہ قادیان میں ایک مرزاصاحب ہیں جو بڑے خداپرست ہیں ۔وہ معالج اورحکیم بھی ہیں انکے پاس لے جائو وہ اس کی خبر گیری بھی کریں گے اوردوابھی دیں گے ۔چنانچہ اسکے رشتے دار اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپاس لے آئے اوراسے وہاں چھوڑ کر کھسک گئے ۔ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا علاج کیا اورآہستہ آہستہ اسے آرام آناشروع ہوگیا ۔جب اس کے رشتہ داروں کو معلوم ہواکہ اب وہ اچھا ہوگیاہے اورکام کاج کرسکتاہے۔ تودوسری سردیوں میں پھر اس کے رشتہ دار آئے اورانہوں نے کوشش کی کہ وہ ان کے ساتھ چل پڑے ۔مگرمعلوم ہوتاہے کہ اسکے قلب میں نیکی تھی ۔جب انہوں نے اسے کہا کہ ہم تجھے لینے کے لئے آئے ہیں توکہنے لگا۔تم بے شک میرے رشتہ دارہو مگر تم مجھے چھوڑ کرچلے گئے تھے ۔اس لئے اب توجس نے میراعلاج کیا اورجس کی وجہ سے میں اچھا ہوا۔میرارشتہ دار وہی ہے میں اسے چھوڑ کرنہیں جاسکتا۔وہ ڈیوڑھی پر پڑارہتاتھا اورجومہمان آتاتھا اس کی خدمت کرتاتھا۔اسی طرح گھرکامعمولی کام کاج بھی کردیاکرتاتھا ۔اس کی عقل کایہ حال تھاکہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اسے بڑامجبور کیاکرتے تھے کہ وہ نماز پڑھے مگر وہ یہی جواب دیتاتھاکہ مجھے نماز نہیں آتی ۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو بڑاجوش تھا کہ یہ حضرت مسیح موعودؑ کے دروازے پر بیٹھارہتاہے اورنمازیں نہیں پڑھتا لوگ اسے دیکھیںگے تو اعتراض کریں گے اسلئے آپ اسے بار بار نماز پڑھنے کی نصیحت کرتے تھے مگر وہ جواب دیتا مجھے نماز یاد ہی نہیں ہوتی ۔آخر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے تنگ آکر اسے فرمایا کہ نماز نہیں آتی توسبحان اللہ سبحان اللہ ہی کہہ لیا کرو۔چنانچہ اسکے بعد وہ کبھی ساتویں آٹھویں دن نماز میں شامل ہوجاتاتھا ۔اورسبحان اللہ سبحان اللہ کہتا رہتاتھا۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے ایک دن اس خیال سے کہ شاید انعام کے لالچ سے اسے نماز پڑھنے کی عادت ہوجائے ۔اسے فرمایا ۔پیرے اگرتم ایک دن پانچوں نمازیں وقت پر پڑھو اورایک نماز کابھی ناغہ نہ کرو۔تومیں تمہیں دوروپے انعام دوں گا دوروپے اس زمانہ میں اسکے لئے بڑابھاری انعام تھا ۔وہ کہنے لگا۔آج ضرور میں پانچوں نمازیں پڑھوں گا ۔شاید عشاء کاوقت تھا جب اس نے نماز شروع کی صبح ہوئی توپھر بھی اس نے ہمت کرکے نماز پڑ ھ لی ۔ظہر اورعصرمیں بھی کسی نہ کسی طرح شامل ہوگیا ۔ صرف مغرب کی نماز رہتی تھی ۔ان دنوں چونکہ مہمان تھوڑے ہواکرتے تھے اس لئے ان کا کھاناہمارے گھر تیارہواکرتاتھا ۔اورمغرب کے وقت ان کاکھاناگھرسے جایاکرتاتھا ۔اتفاق ایساہواکہ اس دن مغرب کی نماز نسبتاً دیر سے ہوئی ۔اورکھانالے جانے کا وقت ہوگیا۔جوعورت اند رسے کھانا لایاکرتی تھی اس نے پیرے کو آواز دی کہ پیرے کھاناتیارہے۔مہمانوںکے لئے لے جائو ۔ مگرپیرامسجد میں تھا ۔اوراس وقت نماز ہورہی تھی۔لیکن بلانے والی عورت کو اس کاعلم نہ تھا ۔اس نے دوچار آوازیں دیں مگرپیراوہاں ہوتا تو جواب دیتا ۔آخراس نے زورسے آواز دی کہ پیریاکھانالے جانہیں تومیں تیری شکایت کروں گی ۔یہ آواز چونکہ اس نے زور سے دی تھی ۔اس لئے پیرے نے بھی سن لی ۔جس پر اس نے نماز میں ہی جواب دیاکہ ’’ ٹھہرجا:التحیات پڑھ لواںتے آنداں۔‘‘یعنی ٹھہرجائو۔ابھی تشہّد پڑھ کرآتاہوں ۔گویا عین آخری تشہد میں و ہ بول پڑا اوراس طرح اس نے اپنے دوروپے کھودیئے۔تووہ بہت ہی موٹی عقل کا آدمی تھا ۔اتنی موٹی عقل کہ وہ اپنی بیوقوفی کیوجہ سے مہمانوں کو خوش کرنے کے لئے دال میں مٹی کاتیل ڈال کر کھالیا کرتاتھا اورجب لوگ کہتے کہ تم مٹی کا تیل کیوں ڈالتے ہو ۔توکہتا۔اس میں کیاحرج ہے ۔سرسوں کاتیل نہ ڈالاتو مٹی کا تیل ڈال لیا ۔اس وقت قادیان میں نہ تا رگھر تھا ۔اورنہ ریل آیاکرتی تھی۔اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کبھی تاردینے کی ضرورت پیش آتی یاکوئی ریلوے پارسل منگوانا ہوتا توآپ بٹالے کسی آدمی کو بھجوادیاکرتے تھے اورکبھی کبھی پیرے کو بھی اس غرض کے لئے بھیج دیتے تھے ۔ان دنوں مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی جو سلسلہ احمدیہ کے اشد ترین مخالفوں میں سے تھے اسٹیشن پرجایاکرتے تھے اورجب کسی نوواردمسلمان کو اترتے دیکھتے تواسے پوچھتے کہ وہ کہاں جاناچاہتاہے اورجب کسی کے متعلق معلوم ہوتا کہ وہ قادیان جاناچاہتاہے تواسے ورغلانے کی کوشش کرتے اورکہتے کہ یہیں سے واپس چلے جائو ۔قادیان میں جاکر تمہاراایمان خراب ہوجائے گا ۔ایک دن انہیں اورکوئی شکار نہ ملاتو انہوں نے پیرے کو ہی پکڑ لیا ۔وہ اس دن کوئی تاردینے یا کوئی بلٹی لینے کے لئے بٹالے گیاہواتھا ۔مولوی محمد حسین صاحب اسے کہنے لگے۔پیرے تیراتوایمان خراب ہوگیاہے ۔مرزاصاحب کافر اوردجال ہیں تواپنی عاقبت ان کے پیچھے لگ کر کیوں خراب کرتاہے ۔پیراان کی باتیں سنتا رہا ۔جب وہ اپنا جوش نکال چکے توانہوں نے اپنی باتوں کی پیرے سے بھی تصدیق کروانی چاہی اورانہوں نے اس سے پوچھا کہ بتائو میری باتیں کیسی ہیں ۔پیراکہنے لگا ۔مولوی صاحب ۔ میں توان پڑ ھ اورجاہل ہوں ۔مجھے نہ کوئی علم ہے اورنہ میں مسئلے سمجھ سکتاہوں ۔لیکن ایک بات ہے جو میں بھی سمجھ سکتاہوں اوروہ یہ کہ میں سالہاسال سے بلٹیاں لینے اورتار دینے کے لئے یہاں آتاہوں اورمیں دیکھتاہوں کہ آپ ہمیشہ اسٹیشن پرآکر لوگوں کو قادیان جانے سے منع کرتے ہیں۔آپ کی اب تک شایداس کوشش میں کتنی ہی جوتیاں گھِس گئی ہوں گی ۔مگرپھر بھی آپ کی کوئی نہیں سنتا ۔ اورمرزاصاحب قادیان میں بیٹھے ہیں پھر بھی لوگ ان کی طرف کھچے چلے جاتے ہیں۔آخر کوئی بات توہے جس کی وجہ سے یہ فررق ہے ۔اب دیکھو یہ کیسالطیف اورصحیح جواب ہے۔ وہ فی الحقیقت دینی مسائل کونہیں سمجھ سکتا تھا اوروہ نہیں جانتا تھا کہ دلائل کیا ہوتے ہیں ۔مگر فطرت کے لگائو اورمحبت کی وجہ سے اس نے فوراً سمجھ لیاکہ یہ شخص بہر حال جھوٹ بول رہاہے ۔تواللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بعض دفعہ ایسی باتیں سمجھا دیتاہے کہ انسان کی عقل دنگ ہوجاتی ہے کیونکہ اس کے پاس سارے سامان ہیں ۔اورجس چیز کی کمی ہووہ اس کے پاس موجود ہوتی ہے ۔عقل کی کمی ہوتووہ اس کے پاس موجود ہے جرأت کی کمی ہوتووہ اس کے پاس موجود ہے سخاوت کی کمی ہوتووہ اس کے پاس موجود ہے۔صحت کی کمی ہوتووہ اس کے پاس موجود ہے ۔مال کی کمی ہوتو وہ اس کے پا س موجود ہے۔غرض ہرچیز کے خزانے اس کے پا س موجود ہیں ۔اوروہ اپنے بندوں کو ان خزانوں میں سے ایسے رنگ میں حصہ دیتاہے کہ انسان حیران ہوجاتے ہیں ۔
حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ آتھم کے مباحثہ میں ہم نے جونظار ہ دیکھا اس سے پہلے توہماری عقلیں دنگ ہوگئیں اورپھر ہمارے ایمان آسمان پر پہنچ گئے ۔فرماتے تھے کہ جب عیسائی مباحثہ سے تنگ آگئے اورانہوں نے دیکھا کہ ہماراکوئی دائو نہیں چلاتوچند مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملاکرانہوں نے ہنسی اڑانے کے لئے یہ شرارت کی کہ کچھ اندھے کچھ بہرے کچھ لولے اورکچھ لنگڑے بلائے اورانہیں مباحثہ سے پہلے ایک طرف چھپا کر بٹھا لیا ۔جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے توجھٹ انہوں نے ان اندھوں بہروں اورلولوںلنگڑوںکونکال کر آ پ کے سامنے پیش کردیا ۔اورکہا زبانی باتوں سے جھگڑے طے نہیں ہوتے آپ کہتے ہیں میں مسیح ناصر ی کامثیل ہوں اورمسیح ناصری اندھوں کو آنکھیں دیاکرتے تے بہروں کو کان بخشاکرتے تھے اورلولوں لنگڑوں کے ہاتھ پائوں درست کردیاکرتے تھے ۔ہم نے آپ کو تکلیف سے بچانے کے لئے چند اندھے بہرے اورلولے لنگڑے اکٹھے کردیئے ہیں ۔اگر آپ فی الواقعہ مثیل مسیح ہیں تو ان کو اچھا کرکے دکھادیجئے ۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ہم لوگوںکے دل ان کی اس بات کو سن کر بیٹھ گئے اورگوہم سمجھتے تھے کہ یہ بات یوںہی ہے مگر اس خیال سے گھبراگئے کہ آج لوگوں کو ہنسی اورٹھٹھے کاموقعہ مل جائے گا ۔مگر جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرہ کو دیکھا توآپ کے چہرہ پر ناپسندیدگی اورگھبراہٹ کے کوئی آثار نہ تھے ۔جب وہ بات ختم کرچکے تو آپ نے فرمایا دیکھئے پاد ری صاحب میں جس مسیح کے مثیل ہونے کادعویٰ کرتاہوں اسلامی تعلیم کے مطابق وہ اس قسم کی اندھوںک بہروں اورلولوں لنگڑوںکواچھا نہیں کیاکرتاتھا مگرآپ کایہ عقیدہ ہے کہ مسیح جسمانی اندھوں جسمانی بہروں جسمانی لولوں جسمانی لنگڑوں کو اچھاکیاکرتاتھا اورآپ کی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر تم میں ایک رائی برابر بھی ایمان ہو اورتم کسی پہاڑ سے کہو کہ یہاں سے وہاں چلا جائے تووہ چلاجائے گا ۱؎۔اوراگر تم بیماروں پر ہاتھ رکھو گے توو ہ اچھے ہوجائیں گے ۲؎۔پس یہ سوال مجھ سے نہیں ہوسکتا میں تووہ معجزے دکھا سکتاہوں جو میرے آقاحضرت محمد مصطفیٰ صلی
۱؎ ۔متی باب ۱۷ آت ۲۱ و لوقا باب ۱۷ آیت ۶
۲؎ ۔مرقس باب ۱۶ آیت ۱۷ ،۱۸
اللہ علیہ وسلم نے دکھائے آپ ان معجزوں کامطالبہ کریں تومیں دکھانے کے لئے تیار ہوں ۔باقی رہے اس قسم کے معجزے سو آپ کی کتاب نے بتادیاہے کہ ہر وہ عیسائی جس کے اند رایک رائی کے برابر بھی ایمان ہو ویسے ہی معجزے دکھاسکتاہے جیسے حضرت مسیح ناصری نے دکھائے ۔سوآپ نے بڑی اچھی بات کی جو ہمیں تکلیف سے بچا لیااوران اندھوں بہروں لولوں اورلنگڑوں کو اکٹھاکرلیا اب یہ اندھے بہرے لولے اورلنگڑے موجود ہیں اگرآپ میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان موجود ہے توان کو اچھاکرکے دکھادیجئے آپ فرماتے تھے اس جواب سے پادریوں کو ایسی حیرت ہوئی کہ بڑے بڑے پادری ان لولے لنگڑوں کو کھینچ کھینچ کرالگ کرنے لگ گئے ۔تواللہ تعالیٰ اپنے مقربین کو ہرموقعہ پر عز ت بخشتا ہے ۔اوران کوایسے ایسے جواب سمجھاتاہے جن کے نتیجہ میں دشمن بالکل ہکا بکارہ جاتاہے ۔
قادیان میں ایک دفعہ پادری زویمر آیا جودنیا کامشہورترین پادری اورامریکہ کارہنے والاتھا ۔وہ وہاںکے ایک بہت بڑے تبلیغی رسالہ کا ایڈیٹربھی تھا ۔اوریوں بھی ساری دنیاکی عیسائی تبلیغی سوسائیٹیوں میں ایک نمایاں مقام رکھتاتھا ۔اس نے قادیان کابھی ذکر سناہواتھا ۔جب وہ ہندوستان میں آیا تواورمقامات کودیکھنے کے بعد وہ قادیان آیا اس کے ساتھ ایک اورپادری گارڈن نامی بھی تھا۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اس وقت زندہ تھے ۔انہوںنے اسے قادیان کے تمام مقامات دکھائے ۔مگرپادری آخر پادری ہوتاہے نیش زنی سے باز نہیں رہ سکتا۔ان دنوں قادیان میں ابھی ٹائون کمیٹی نہیں بنی تھی ۔اورگلیوں میں بہت گند پڑارہتاتھا۔پادری زویمر باتوں باتوں میں ہنس کرکہنے لگا ہم نے قادیان بھی دیکھ لیا اورنئے مسیح کے گائوں کی صفائی بھی دیکھ لی ۔ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسے ہنس کرکہنے لگے ۔پادری صاحب ابھی پہلے مسیح کی ہی ہندوستان پر حکومت ہے اوریہ اس کی صفائی کانمونہ ہے ۔نئے مسیح کی حکومت ابھی قائم نہیں ہوئی ۔اس پر وہ بہت ہی شرمندہ اورذلیل ہوگیا ۔پھر اس نے مجھے کہلا بھیجا کہ ۔میںآپ سے ملناچاہتاہوں میری طبیعت کچھ خراب تھی۔ میں نے جواب دیاکہ پادری صاحب بتائیں کہ وہ مجھے کیوں ملناچاہتے ہیں ۔انہوں نے کہا چند باتیں پوچھنا چاہتاہوں ۔مگرپہلے نہیں بتاسکتا۔خیر میں نے ان کو بلالیا ۔وہ بھی آگئے اورپادری گارڈن صاحب بھی آگئے ۔ ایک دودوست اوربھی موجودتھے۔ پادری زویمر صاحب کہنے لگے میں ایک دوسوال کرناچاہتاہوں ۔میں نے کہافرمائیے ۔ کہنے لگے اسلام کاعقیدہ تناسخ کے متعلق کیاہے ؟ آیاوہ اس مسئلہ کومانتاہے یاانکار کرتاہے ۔جونہی اس نے یہ سوال کیامعاً اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈال دیاکہ اس کا اس سوال سے منشاء یہ ہے کہ تم جومسیح موعود مسیح ناصری کابروز اوران کا مثیل کہتے ہو۔توآیا اس سے یہ مطلب ہے کہ مسیح ناصر ی کی روح ان میں آگئی ہے ۔اگر یہی مطلب ہے تو یہ تناسخ ہوا۔اورتناسخ کاعقید ہ قرآن کریم کے خلاف ہے چنانچہ میں نے انہیں ہنس کر کہا ۔پادر ی صاحب آپ کوغلطی لگ گئی ہے ہم یہ نہیں سمجھتے کہ مرزاصاحب میں مسیح ناصری کی روح آگئی ہے بلکہ ہم ان معنوں میں آپ کو مسیح ناصری کامثیل کہتے ہیں کہ آپ مسیح ناصری کے اخلاق اورروحانیت کے رنگ میں رنگین ہوکر آئے ہیں ۔میں نے جب یہ جواب دیا تواس کارنگ فق ہوگیااورکہنے لگاکہ آپ کو کس نے بتایا کہ میں نے یہ سوال کرناتھا ۔میں نے کہا آپ یہ بتائی کہ آیا آپ کااس سوال سے یہی منشاء تھا یا نہیں؟ کہنے لگا۔ہاں میرامنشاء تویہی دریافت کرناتھا ۔میں حیران تھا کہ جب قرآن تناسخ کے خلاف ہے تواحمدی مرزاصاحب کو مسیح موعود کس طرح کہہ سکتے ہیں ۔پھر میں نے کہا اچھا آپ دوسراسوال پیش کریں ۔کہنے لگا۔میرادوسراسوال یہ ہے کہ نبی کی بعثت کیسے مقام پر ہونی چاہیئے یعنی اس کو اپنا کام سرانجا م دینے کے لئے کس قسم کامقام چاہیئے ۔جونہی اس نے یہ دوسراسوال کیا ۔معاً دوبارہ خدانے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس سوال سے اس کامنشاء یہ ہے کہ قادیان ایک چھوٹاساگائوں ہے یہ دنیاکامرکز کیسے بن سکتاہے ۔اوراس چھوٹے سے مقام سے ساری دنیا میں تبلیغ کس طرح کی جاسکتی ہے ۔اگر حضرت مرزاصاحب کی بعثت کامقصدساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ پہنچانا ہے توآپ کو ایسی جگہ بھیجنا چاہیئے تھا جہاں ساری دنیامیں آواز پہنچ سکتی ہو ۔نہ یہ کہ قادیان جو ایک چھوٹاساگائوں ہے اس میں آپ کو بھیج دیاجاتا۔غرض اللہ تعالیٰ انے اس کے سوال کے معاً بعد یہ بات میرے دل میں ڈال دی اورمیں نے پھر اسے مسکراکر کہا۔پادری صاحب ناصرہ یا ناصرہ سے بڑاکوئی شہر ہو وہاں نبی آسکتاہے ۔حضرت مسیح ناصری جس گائوں میں ظاہرہوتے تھے اس کانام ناصر ہ تھا اورناصر ہ کی آبادی بمشکل دس بارہ گھروں پر مشتمل تھی۔ میرے اس جواب پر پھراس کارنگ فق ہوگیا ۔اوروہ حیران ہواکہ میں نے اس کی اسی بات کا جواب دیدیا جو درحقیقت اس کے سوال کے پس پردہ تھی ۔اس ک بعد اس نے تیسراسوال کیا جو اس وقت مجھے یاد نہیں رہا۔بہرحال اس نے تین سوال کئے اورتینوں سوالات کے متعلق قبل از وقت اللہ تعالیٰ نے القاء کرکے مجھے بتادیاکہ اس کا ان سوالات سے اصل منشاء کیاہے اورباوجود اس کے کہ وہ چکر دے کر پہلے اورسوال کرتاتھا پھر بھی اللہ تعالیٰ اس کااصل منشاء مجھ پرظاہر کردیتا ۔اوروہ بالکل لاجواب ہوگیا تواللہ تعالیٰ قلوب پر عجیب رنگ میں تصرف کرتا اوراس تصرف کے ماتحت اپنے بندوں کی مدد کیا کرتاہے ۔اوریہ تصرف صرف خداتعالیٰ کے اختیار میں ہوتاہے بندوں کلے اختیارمیں نہیں ہوتا۔ایک دفعہ ایک کج بحث ملا مجھے مسجد میں ملا ۔اورکہنے لگامجھے مرزاصاحب کی صداقت کا ثبوت دیجئے۔ میں نے کہا قرآن موجود ہے ساراقرآن مرزاصاحب کی صداقت کاثبوت ہے ۔کہنے لگا کونسی آیت ۔میں نے کہا قرآ ن کی ہر آیت مرزاصاحب کی صداقت کاثبوت ہے ۔اب یہ توصحیح ہے کہ قرآن کی ہرآیت ہی کسی نہ کسی رنگ میں نبی پر چسپاں ہوسکتی ہے ۔مگر بعض آیات ایسی ہیں کہ ان کاسمجھا نا اوریہ بتاناکہ کس رنگ میں اس سے نبی کی صداقت کاثبوت نکلتاہے بہت مشکل ہوتاہے ۔فرض کرو کسی آیت میں لڑائی کاواقعہ بیا ن ہو توگواب اس سے بھی نبی کی صداقت ثابت کی جاسکتی ہے مگروہ ایسارنگ ہوتاہے جوعام طبائع کی سمجھ سے بالاہوتاہے۔مگر مجھے اس وقت یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ تصرف فرماکر اس کی زبان سے وہی آیت نکلوائے گا جس سے نہایت وضاحت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہوجائے گی۔ خیر وہ اصرا رکرتارہا کہ آپ کوئی آیت بتائیں ۔مگر میں یہ کہوں کہ آپ کوئی آیت پڑھ دیں ۔اسی سے میں حضرت مرزاصاحبؑ کی صداقت ثابت کردوں گا ۔آخر اس نے یہ آیت پڑھی کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَاھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ(بقرہ آیت ۹)میں نے سمجھ لیاکہ یہ اللہ تعالیٰ کاہی تصرف ہے کہ اس نے اس کی زبان سے یہ آیت نکلوائی ہے چنانچہ میں نے اس سے کہا ۔یہ آیت کن لوگوں کے متعلق ہے۔ مسلمانوں کے متعلق ہے یاغیر مسلمانوں کے متعلق ۔اس کا اصل سوال یہ تھا کہ جب مسلمان نمازیں پڑھتے ہیں اورروزے رکھتے ہیں حج کرتے ہیں اورخدااوراس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں توان کے لئے کسی نبی کی کیا ضرورت ہے ۔جب اس نے یہ آیت پڑھی تومیں نے اس سے پوچھا کہ یہ آیت کن لوگوں کے متعلق ہے ۔اس نے کہا ۔مسلمانوں کے متعلق ۔میں نے کہاتوپھریہ آیت بتاتی ہے کہ مسلمانوں میں سے بھی بعض لوگ خراب ہوجاتے ہیں ۔وہ منہ سے توکہتے ہیں ہم مومن ہیں مگر درحقیقت وہ مومن نہیں ہوتے ۔اورقرآن یہ بتاتاہے کہ خالی اپنے آپ کو مومن کہہ دینا کافی نہیں جب تک انسان اپنے عمل سے بھی ایمان کاثبوت نہ دے ۔اب آپ ہی بتائیں کہ جب مسلمان بھی بگڑ سکتے ہیں توکیا خداتعالیٰ ان کی اصلاح کے لئے کسی نبی کو بھیجے گایانہیں بھیجے گا؟دلوں کوتسلی دینا تو خداکاکام ہے مگر اس کی زبان بندہوگئی اوروہ اس بات کاکوئی جواب نہ دے سکااوراس بات کامیرے دل میں پہلے ہی یقین تھا کہ جو آیت اس کے منہ سے نکلے گی وہ وہی ہوگی جس سے اس کی زبان بند ہوجائے گی توعلم بھی خداکے اختیار میں ہے ۔جرأت بھی خداکے اختیار میں ہے ۔عزت بھی خداکے اختیار میں ہے اورطاقت بھی خداکے اختیا رمیں ہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ خیال کیا کہ میں فرعون کے دربار میں کہاں بول سکوں گا ۔مگر جب وقت آیاتواللہ تعالیٰ نے آپ کی ایسی تائید فرمائی کہ فرعون دنگ رہ گیا اوراسے دلائل کے میدان میں موسیٰ علیہ السلام کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دینے پڑے ۔
اس موقعہ پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ جوفرمایاکہ فَاَرْسَلْ اِلیٰ ھَارونَ تُواپنا پیغام ہارون کی طرف بھیج۔اس سے یہ مراد نہیںکہ تومجھے مبعوث نہ کر بلکہ جیساکہ سورئہ طٰہٰ سے معلوم ہوتاہے ۔انہوں نے یہ دعاکی تھی کہ وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًامِّنْ اَھْلِیْ ھَارونَ اَخِیْ اشْدُدْبِہٖ اَزْرِیْ وَاَشْرِکْہُ فِیْٓ اَمْرِیْ (طٰہٰ آیت ۳۰تا۳۳)یعنی اے میرے خدا! میرے اہل میں سے ہاورن کو جو میرابھائی ہے میرانائب تجویز کراوراس کے ذریعہ سے میری طاقت کو مضبوط فرما اوراسے میرے کام میں شریک کر ۔پس اَرْسِلْ اِلیٰ ھَارونَ کے یہ معنے ہیں کہ میرے علاوہ اس کی طرف بھی کلام بھیج اوراسے بھی میرے ساتھ مبعوث فرما۔اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی مقدس انسان کو نبوت کا مقام عطاکیاجاتاہے تووہ انکسار کی وجہ سے گھبراتاہے اورخیال کرتاہے کہ ایسانہ ہومیں اس عظیم الشان ذمہ واری کو پوری طرح ادانہ کرسکوں ۔اوراس میں میری طرف سے کوئی خامی اورنقص رہ جائے ۔یہی طریق تما م انبیاء کاہے اوراسی طریق سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی کام لیااورکہدیاکہ ہارونؔ کو بھی میرے ساتھ شامل کردیجئے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی احادیث سے ثابت ہے کہ آپؐ نے ابتداء میں انکسار سے کام لیا اور جب فرشتے نے کہا اِقْرَئْ یعنی پڑھ۔توآپؐ نے یہی فرمایا کہ مَااَنَا بِقَارِیئِ۔ میں توپڑھے لکھے آدمیوں میں سے نہیں ہوں۔اس وجہ سے میں نے کیاکام کرناہے ۔اوراسی بناء پر ابتدائی ایام میں آپ کو شدید گھبراہٹ رہی ۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی متواتر تائیدات نے آپ کوایسے مقام پر کھڑاکردیا کہ آپؐ نے سمجھ لیا اب میرافرض ہے کہ میں آگے کی طرف بڑھتاچلاجائوںاورکسی مشکل کی پرواہ نہ کروں مگرآپ کاعرفان چونکہ موسوی عرفان سے بہت زیادہ تھا اس لئے آپ نے یہ نہیںکہاکہ مجھے کوئی مددگار دیاجائے ۔بلکہ آپؐ کے لئے ہی ا س بوجھ کواٹھانے کے لئے تیار ہوگئے ۔حالانکہ آپ کے سپر دجوکام تھا وہ موسیٰ کے کام سے بہت بڑاتھا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک ایسی قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے جومتمدن تھی اورمتمدن لوگوں کودینی علوم سکھانا۔ان میں نظام قائم کرنا اوران کے اند رجماعتی روح پیداکرنا نسبتاً آسان ہوتاہے مگررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی قوم کی طرف آئے تھے جوتمدن اورتہذیب سے بالکل ناآشنا تھی۔ یہاں تک کہ اطاعت جو دنیامیں مہذب قومو ں کاشعارسمجھا جاتاہے وہ ان کے نزدیک سخت ذلت کی بات تھی چنانچہ عرب کی ادب کی کتب میں لکھا ہے کہ عرب میں ایک بادشاہ عمروابن ہند تھا ۔اس نے ایک علاقہ پر جو شام اورعراق کی طر ف تھا اپنی حکومت قائم کی ۔اورعرب کے لحاظ سے اس قدر شوکت حاصل کرلی کہ اسے یہ خیال پیداہواکہ ساراعرب میری بات مانتاہے ۔ ایک دن درباریوں سے ا س نے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ کیاعرب میں کوئی ایساشخص ہے جو میری بات ماننے سے انکار کرسکے ۔ و ہ اس بات کوخوب سمجھتا تھا کہ عرب کے لوگ اطاعت کرنانہیں جانتے ۔مگراس نے خیال کیاکہ مجھے ایسارعب حاصل ہوگیاہے کہ اب عرب کاکوئی شخص کم از کم میری بات ماننے سے انکار نہیں کرسکتا ۔انہوں نے کہا ۔ایک شخص عمر و ابن کلثوم ہے ۔جو اپنے قبیلے کاسردار ہے ۔ہمارے خیا ل میں وہ ایساشخص ہے جو آپ کی اطاعت نہیں کرے گا ۔اس نے کہا ۔بہت اچھا میں اس کی تصدیق کرنے کے لئے اسے بلواتاہوں ۔چنانچہ بادشاہ نے عمر وابن کلثوم کو دعوت دی اوراسے خط لکھاکہ آپ یہا ں تشریف لائیں آپ سے ملنے کو جی چاہتاہے ۔چنانچہ وہ اپنے قبیلہ کے کچھ لوگوںکو لے کر آگیا ۔جیسے عرب کادستورتھا بادشاہ اس وقت کسی جگہ خیموں میں ٹھہراہواتھا۔ وہیں اس نے آکر اپنے خیمے لگادیئے ۔اس نے عمروابن کلثوم کو یہ بھی لکھا تھا کہ اپنی والدہ اوردوسرے عزیزوں کو بھی لیتے آنا ۔چنانچہ وہ اس کے مطابق اپنی والدہ کوبھی لے آیا ۔ عمروابن ہندنے اپنی والدہ سے کہا کہ کام کرتے کرتے عمر و ابن کلثوم کی ماں سے کوئی چھوٹاساکام لے کردیکھنا تاپتہ لگ سکے کہ ان لوگوں کی کیاحالت ہے ۔چنانچہ جب وہ کھاناکھانے بیٹھے تو عرب کے دستورکے مطابق گووہ بادشاہ کہلاتاتھا مگر اس کی ماں خود کھانا تقسیم کرنے بیٹھ گئی ۔اپنے بیٹے کے لئے بھی اورعمروابن کلثوم کے لئے بھی ۔ گویاعمروابن ہندکی والدہ اس وقت عملاً عمروابن کلثوم اوراوراس کے دوسرے عزیزوں کاکام کررہی تھی پس ایسے وقت میں عمرو ابن کلثوم کی ماںکا کسی کام میں ہاتھ بٹانا ہرگز اس کی ہتک کاموجب نہیں ہوسکتاتھا کیونکہ جب بادشاہ کی ماں خود ایک کام کررہی تھی تواس کام میں عمر و ابن کلثوم کی ماں کا ہاتھ بٹاناکوئی ایسی بات نہیں تھی جو اس کی شان اورعزت کے منافی ہوتی ۔مگرواقعہ کیاہوتاہے ۔کھاناتقسیم کرتے وقت ایک تھال کچھ فاصلے پر پڑاتھا۔عمرو ابن ہند کی والدہ کھاناتقسیم کرتے کرتے اسے کہنے لگی ۔بی بی ذراوہ تھال توسِرکاکر ادھرکردینا ۔اسے بھی یہ جرأت نہیں ہوئی کہ اس سے زیادہ اسے کوئی کام کرنے کے لئے کہے ۔مگرتاریخوں میں لکھاہے کہ جونہی اس نے عمرو ابن کلثوم کی والدہ سے یہ بات کہی ۔وہ کھڑی ہوگئی اوراس نے زورسے پکار ناشروع کردیا کہ ’’ او ابن کلثوم ! تیری ماںکی ہتک ہوگئی ہے ‘‘ عمروابن کلثوم اس وقت بادشاہ کے ساتھ کھاناکھارہاتھا اورشاہی اعزاز کی وجہ سے وہ اپنے ہتھیار خیمہ میں ہی چھوڑ آیاتھا ۔مگرجونہی اس نے اپنی ماں کی اس آوازکوسنا۔اس نے اپنی ماں سے جاکر یہ نہیں پوچھا کہ تمہاری کیا ہتک ہوئی ہے ۔ گھبراکر کھڑاہوگیا اورادھر اُدھر دیکھنے لگ گیا ۔خیمہ میں بادشاہ کی تلوار لٹک رہی تھی ۔ا س نے اُچک کر تلوار کو میان سے نکالااور بادشاہ کو قتل کردیا۔پھر باہر نکل کراس نے اپنے قبیلہ والوں سے کہا ۔بادشاہ کا سب مال و متاع لوٹ لو ۔چنانچہ اس کا سب مال و متاع لوٹ کر وہ اپنے وطن کی طرف واپس چلا گیا۔
ایسی اُجڈاوروحشی قوم کی طر ف جو بالکل بے راہ رَو تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمائے گئے۔ اورپھر موسیٰ کی طرح آپ کادائرہ ہدایت صرف بنی اسرائیل تک محدود نہیں رکھاگیا بلکہ آپ کے سپرد تمام دنیا کو دین واحد پرجمع کرنے اورانہیں خداتعالیٰ کے آستانہ پر لاڈالنے کاکام کیاگیا ۔مگراتناعظیم الشان کام سپرد ہونے کے باوجود آپ نے یہ نہیں کہا کہ اے اللہ! میرے رشتہ داروں یا دوستوں میں سے کوئی ساتھی میرے ساتھ کردے ۔بلکہ آپ حکم ملتے ہی کھڑے ہوگئے اورکہا کہ بہت اچھااورکام شروع کردیا ۔گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو اپنی انفرادیت پر پورابھروسہ نہ کرتے ہوئے ساتھی کا مطالبہ کیا ۔اوراگرچہ ایک ساتھی مل جانے سے اجتماعیت نہیں ہوجاتی لیکن تاہم اتنی ڈھارس ضرور ہوجاتی ہے کہ میں اکیلا نہیں بلکہ میرے ساتھ ایک اورساتھی بھی ہے۔ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انفرادیت کے کمال کا مظاہرہ کیا اور اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی کہ دنیا آپؐ سے کیا سلوک کرتی ہے ۔ بہرحال موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارونؑ کو اپنامددگار مقررکرنے کی درخواست کی جواللہ تعالیٰ نے قبول فرمالی ۔مگر وہی موسیٰؑ جنہوں نے خداتعالیٰ کے سامنے یہ عذر کیاتھاکہ میری توزبان نہیں چلتی جب فروعون کے دربارمیں گئے ۔تواللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی قو ت بیانیہ عطافرمائی کہ آپ خود ہی فرعون کے تمام سوالات کے جواب دیتے چلے گئے اورحضرت ہارون علیہ السلام کو بولنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔یہ بالکل ایسی ہی بات ہے ۔جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جب انصا راورمہاجرین میں خلافت کے متعلق اختلاف پیداہوا۔اورحضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمر ؓ وغیر ہ ثقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے توحضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس موقعہ پر تقریرکرنے کے لئے اپنے ذہن میں ایک بہت بڑامضمون تیار کیا ہواتھا ۔اورمیراارادہ تھاکہ میں جاتے ہی ایسی تقریر کروں گا کہ تمام انصار میرے دلائل کے قائل ہوجائیں گے اوروہ اس بات پر مجبور ہوجائیں گے کہ انصار کی بجائے مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کریں۔ مگرجب ہم وہاں پہنچے تو حضرت ابو بکرؓ نے تقریر شروع کردی ۔میں نے اپنے دل میں کہا کہ انہوںنے بھلا کیابیان کرناہے مگرخداکی قسم جتنی باتیںمیں نے سوچی ہوئی تھیں وہ سب انہوں نے بیان کردیں بلکہ ان کے علاوہ انہوں نے اپنے پاس سے بھی بہت سے دلائل دیئے ۔تب میں نے سمجھا کہ امیں ابوبکر ؓ کامقابلہ نہیں کرسکتا۔اسی طرح حضر ت موسیٰ علیہ السلام یہ سمجھتے تھے کہ مجھ سے فرعون کے دربارمیں کہاں بولاجائے گا ۔مگرجب وہاں پہنچے تواللہ تعالیٰ نے آپ کی ایسی تائید فرمائی کہ حضرت ہارون علیہ السلام کو ایک لفظ تک بولنا نہ پڑا اوراس طرح خداتعالیٰ نے اپنے انتخاب کی عظمت کو ظاہر کردیا۔اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک اورعذر کیا اورکہا۔کہ وَلَھُمْ عَلَیَّ ذَنْبٌ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ وہ لوگ مجھ پر ایک گناہ کاالزام لگاتے ہیں ۔سومیں ڈرتاہوں کہ وہ کہیں مجھے قتل ہی نہ کردیں ۔اس کے یہ معنے نہیں کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام خداتعالیٰ کی راہ میں اپنی جان دینے سے ڈرتے تھے بلکہ انہیں اس بات کا خوف تھاکہ کہیں ایسانہ ہو کہ فرعون مجھے جاتے ہی گرفتار کرلے اوراس وجہ سے کہ میرے ہاتھ سے ایک قطبی ماراجاچکاہے میرے قتل کے احکام صادر کردے اورخداتعالیٰ کا پیغام اسے نہ پہنچ سکے۔ گویاانہیں اپنی موت کا غم نہیں تھا بلکہ انہیں اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں انہیں اپنے فرائض کی بجاآوری سے پہلے ہی قتل نہ کردیاجائے اوراس طرح اس مشن کو نقصان نہ پہنچے جو خداتعالیٰ نے ان کے سپرد کیا تھا ۔ورنہ انبیاء خداتعالیٰ کی راہ میں اپنی جان دینے سے نہیں ڈرتے۔ بیشک جہاں تک نبیوں کاوجود ان کی امت کے مقابلہ میں ہوتاہے وہ بہت بڑی حیثیت رکھتے ہیں ۔اتنی بڑی حیثیت کہ اگر ساری دنیا کی جانیں بھی ایک نبی کی جان بچانے کے لئے قربان کرنی پڑیں تووہ قربان کی جاسکتی ہیں ۔مگرجہاںتک صداقت کاسوال ہے نبی بھی اسی طرح صداقت کا خادم ہوتاہے جس طرح اس کاعام پیرو صداقت کاخادم ہوتاہے اگر کسی سلسلہء روحانیہ کے پہلے اورآخری نبی کے علاوہ کہ جن پر سلسلہ کا انحصارہوتاہے کوئی اورنبی ماراجاتاہے یاجلاوطن کردیاجاتاہے لیکن اس کی پیش کردہ صداقت دنیاسے نہیں مٹتی تواس کاماراجانایا وطن سے بے وطن ہوجانا ہرگزقا بل اعتراض نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ نبی کے مقابلہ میں صداقت حاکم ہوتی ہے او رنبی خادم۔ جس طرح نبی کے مقابلہ میں امت خادم ہوتی ہے اورنبی حاکم ۔جس طرح نبی کے مقابلہ میں اگر ساری دنیا بھی تباہ کردی جائے تو کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔اسی طرح اگر خداتعالیٰ کا پیغام دنیا تک پہنچ جائے توپھر بے شک نبی شہید ہوجائے ۔اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔کیونکہ وہ اس غرض کے لئے آیاتھا کہ صداقت دنیا میں پھیلائے ۔پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس خدشہ کا اظہار اپنی موت کے خوف سے نہیں کیا بلکہ اس لئے کیا کہ کہیں صداقت دنیاسے مٹ نہ جائے ۔اورخداتعالیٰ کاپیغام پہنچانے سے پہلے ہی وہ اس کے ظلم واستبداد کا شکار نہ ہوجائیں ۔
وَلَھُمْ عَلَیَّ ذَنْبٌ کے الفاظ بتارہے ہیں کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام سے جویہ فعل سرزد ہواتھا محض ایک اتفاقی حادثہ تھا ۔جو خداتعالیٰ کی نگاہ میں آپ کومجرم بنانے والانہیں تھا۔کیونکہ ذَنْبٌ ہر ایسے فعل کو کہتے ہیں جس کانتیجہ خراب نکلے خواہ شرعی نقطہ نگاہ سے وہ انسان کو مجرم بنانے والانہ ہو (مفردا ت) مگراس سے بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقام کا فرق ظاہرہوجاتاہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ان کی بعثت سے پہلے ایک الزام لگایاگیاخواہ وہ جھوٹاہی تھا ۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی بعثت سے پہلے بھی تمام لوگ امین اورصدوق کہتے اورآپ کی نیکی اورانصاف اوردیانتداری کے قائل تھے ۔ بہرحال یہ حادثہ چونکہ ایسا تھا جس میں فرعونی قوم کا ایک آدمی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے ماراگیاتھااورفرعون کے وزراء نے اپ کے قتل کو قتلِ عمد کا مرتکب قرار دے کرچاہاتھاکہ آپ کو قتل کردیاجائے جس کے نتیجہ میں آ پ کومصر سے بھا گ کر مدین میں پناہ گزین رہنا پڑا اس لئے آپ نے اس فعل کو ذنب قرار دیا ۔اوراس خدشہ کااظہار فرمایاکہ ایسانہ ہو کہ وہ میرے اس فعل کی بناپر مجھے جاتے ہی گرفتارکرلیں اورمجھے قتل کردیں۔یہ واقعہ قرآن کریم میں اس طرح بیان کیاگیاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ رات کے وقت شہر میں پھر رہے تھے کہ انہوںنے دوآدمیوںکو آپس میں لڑتے اوردست وگریبان ہوتے دیکھا ۔ان میں سے ایک ان کی قوم کا فرد تھا اورایک ان کی دشمن یعنی فرعونی قوم کافردتھا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر ان کی قوم کے آدمی نے انہیں آواز دی اوراپنی مدد کے لئے بلایا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام آگے بڑھے اورانہوںنے مخالف شخص کو ایک مکّامارا۔مکّایاتواسے زیادہ زور سے ماراگیایااس شخص کا دل اورجگرکمزورتھااورمکا اس کے دل اورجگرپر لگا۔بہرحال اس کانتیجہ یہ ہواکہ وہ گرگیا اوراس کی جان نکل گئی دوسرے دن و ہ صبح کے وقت پھر شہر کی گشت کے لئے نکلے ۔تواچانک کیادیکھتے ہیں کہ وہی شخص جو کل ان سے مدد مانگ رہاتھا آج پھر کسی اورسے لڑ رہاہے اورموسیٰؑ کو اپنی مددکے لئے بلارہاہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب دیکھا کہ کل بھی یہی شخص لڑرہاتھا اورآج بھی یہی لڑرہاہے توسمجھا کہ یہ کوئی جوشیلا آد می معلوم ہوتاہے ورنہ کیاوجہ ہے کہ ہرشخص اسی کو مارنے کے لئے اٹھ کھڑاہو۔چنانچہ آپ نے اسے کہا کہ دوسرے شخص کاقصورتوہوگا ۔مگرتم بھی بہت جوشیلے معلوم ہوتے ہو۔اس کے بعد انہوں نے چاہاکہ آگے بڑھ کر دوسرے شخص کامقابلہ کریں ۔مگراس نے سمجھا کہ چونکہ ابھی انہوں نے مجھے ڈانٹاہے اسلئے شاید یہ مجھے ہی مارنے کے لئے آگے بڑھے ہیں ۔چنانچہ اس نے بے سوچے سمجھے چلّاچلّاکر کہنا شروع کردیاکہ اے موسی! کیا تویہ چاہتاہے کہ جس طرح کل تونے ایک شخص کوماراتھا اسی طرح مجھے بھی مار دے ۔اس کے اس شورسے ارد گردکے لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ کل جو آدمی ماراگیاہے و ہ موسیٰؑ نے ہی ماراتھا ۔اورچونکہ مقتول فرعونی قوم کاآدمی تھا ۔اس لئے یہ خبر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اورتمام قوم میں ایک جوش پیداہوگیا ۔یہاں تک کہ یہ خبر ذمہ دار افسروں تک پہنچ گئی اورانہوں نے متفقہ طورپر فیصلہ کیاکہ موسیٰؑ کو قتل کردیاجائے ۔اس پر انہی سرداران قوم میں سے ایک شخص جودرپردہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مخلصانہ تعلقات رکھتاتھا دوڑاہواآیااوراس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ سرداران قوم تیرے قتل کامشورہ کررہے ہیں اس لئے میر ی نصیحت یہ ہے کہ فوراً اس شہر سے نکل جائو ۔چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام شہر سے نکلے اورکئی منزلیں طے کرنے کے بعد مدین میں جانکلے ۔پس وَلَھُمْ عَلَیَّ ذَنْب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا اوراس خدشہ کااظہار کیاکہ وہ لو گ اس واقعہ کی بناپر مجھے قتل نہ کردیں ۔اس سے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ظاہرہے کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تواللہ تعالیٰ سے اپنی حفاظت کا وعدہ لیا ۔لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کچھ بولے کھڑے ہوگئے اورآپؐ نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کسی قسم کی تکلیف کی پرواہ نہ کی ۔بہرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اس خدشہ کااظہار کیا تواللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ایساہرگز نہیں ہوسکتا۔تم دونوں ہمارے نشانات کے ساتھ فرعون کے پاس جائو اوریاد رکھو کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اورہمیشہ تمہاری دعائوں کو سنتے رہیں گے ۔جب بھی تمہیں کوئی مشکل پیش آئے تم میرے حضورجھکواوردعائیںکرو۔میں اسی وقت تمہاری مدد کے لئے دوڑاچلاآئوں گا تمہاراکام یہ ہے کہ تم فرعون کے پاس جائو اوراس سے کہوکہ ہم رب العالمین خداکے رسول ہیں ۔اورہم اس لئے آئے ہیں کہ توبنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزادکرکے ہمارے ساتھ روانہ کر دے ۔
اِنَّارَسُولُ رَبِّ العَالَمِیْنَ پر بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہاں موسیٰؑ اورہارونؑ کاذکر ہے مگرآگے یہ فرمایاگیاہے کہ ہم دونوں رب العالمین کی طرف سے رسول ہیں ۔حالانکہ دوآدمیوں کے لئے رَسُوْلاَنِ کا لفظ استعمال کیاجاتاہے رسول کالفظ استعمال نہیں کیاجاتا ۔ا س کاجواب یہ ہے کہ عرب لوگ کبھی کبھی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ ھٰذَانِ رَسُوْلِیْ وَوَکِیْلِیْ وَھٰؤُلَائِ رَسُولِیْ وَوَکِیْلِیْ یعنی یہ دویاسب سے سب میرے رسول اوروکیل ہیں (فتح البیان جلد ۸ ص ۶)اسی طرح قرآن کریم میں بھی دوسری جگہ یہ محاور ہ استعمال کیا گیاہے چنانچہ حضر ت ابراہیم علیہ السلام بتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں فَاِنَّھُمْ عَدُوٌّ لِّیْٓ اِلَّا رَبَّ العٰلَمِیْنَ(شعراء ع ۵)یعنی یہ سب کے سب رب العالمین کے سوامیرے دشمن ہیں حالانکہ عام عربی قواعد کے لحاظ سے یہ کہنا چاہیئے تھا کہ یہ سب میرے اعداء ہیں مگراللہ تعالیٰ نے یہاں اَعْدَائَ کالفظ نہیں بلکہ عَدُوٌّ کالفظ رکھا ہے جومفرد ہے۔ پس اس آیت پر نہ عربی زبان کے لحاظ سے کوئی اعتراض ہوسکتاہے اورنہ محاورئہ قرآن کے لحاظ سے کوئی اعتراض ہوسکتاہے ۔
اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ میں اَنْ تفسیری بھی ہوسکتاہے اور اَنْ مصدری بھی ہوسکتاہے ۔مصدری ہونے کی صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ نَحْنُ مُرْسَلُوْنَ لِنُرْسِلَ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ ہم خداتعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کو ساتھ لے جانے کے لئے رسول بناکربھیجے گئے ہیں ۔اس موقعہ پر قرآن کریم اوربائیبل کے ایک اختلاف کا ذکردینابھی ضروری معلوم ہوتاہے ۔بائیبل میں لکھا ہے۔کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہا کہ
’’تُو اسرائیلی بزرگوں کو ساتھ لے کر مصر کے بادشاہ کے پاس جانا اوراس سے کہنا کہ خداوند عبرانیوں کے خداکی ہم سے ملاقات ہوئی اب تُو ہم کو تین دن کی منزل تک بیابان میں جانے دے تاکہ ہم خداوند اپنے خداکے لئے قربانی کریں ۔‘‘(خروج باب ۳ آیت ۱۸)
گویا نعوذ باللہ خداتعالیٰ نے ایک رنگ میں حضرت موسیٰؑ اورہارونؑ کو دھوکا کی تعلیم دی ۔اورکہا کہ فرعون کو اگر صاف طور پر کہہ دیاگیا کہ ہم بنی اسرائیل کو اس ملک سے نکال کر لے جاناچاہتے ہیں تووہ اس کی جازت نہیں دے گا۔اس دھوکا اورفریب سے اس سے اجازت حاصل کی جائے کہ ہم اپنے خداکے لئے قربانی کرناچاہتے ہیں اس لئے ہمیں مصر سے نکلنے کی اجازت دی جائے ۔جب وہ اس کی اجازت دیدے تو اس بہانہ سے تمام بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے کر مصر سے نکل جانا۔لیکن قرآن کریم کہتاہے کہ یہ بات غلط ہے۔ ہم نے موسیٰؑ اورہاورنؑ کو صاف طور پرکہہ دیاتھا کہ فرعون سے جاتے ہی مطالبہ کردینا کہ ْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْل بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دیاجائے کیونکہ اب ان پرمظالم کی انتہاہوچکی ہے ۔کسی دھوکا اورفریب کی ہم نے انہیں تعلیم نہیں دی تھی ۔
ْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْل کے الفاظ یہ بھی بتاتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک مختص القوم نبی تھے جو صرف بنی اسرائیل کو غلامی کی ان زنجیروں سے آزادکرانے کے لئے آئے تھے جن میں سینکڑوں سال سے جکڑے چلے آتے تھے۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کہ فضیلت عطافرمائی کہ آپ کسی ایک قوم کی طرف نہیں بلکہ تمام دنیا کی طرف رسول بناکر بھیجے گئے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًاوَّنَذِیْرًا(سبا آیت ۲۹) یعنی اے محمدؐ رسول اللہ ! ہم نے تجھے تمام بنی نوع انسان کے لئے بشیر اورنذیر بناکربھیجاہے ۔اورمیں عربی اورغیر عربی یامشرقی اورمغربی کا کو ئی امتیاز نہیں ۔دنیا کے ہرشخص کا خواہ وہ کسی ملک کارہنے والاہو اورخواہ وہ کوئی زبان بولنے والا ہو ۔ فرض ہے کہ وہ تیرے پیغام کو قبول کرے اورتیری ہدایات کے تابع چلے ۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے ملک میں پیداہوئے تھے جو تمام دنیا سے منقطع تھا ۔ وہ ملک تمدن کے لحاظ سے بھی کمزور تھا ۔علمی لحاظ سے بھی کمزور تھااورسیاسی لحاظ سے بھی کمزور تھا ۔ اس کمزور ترین ملک میں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کمزورترین انسان تھے ۔لیکن خداتعالیٰ نے آپ سے کہا کہ ہم نے تجھے تمام دنیاکی طرف رسول بنا کر مبعوث کیا ہے۔
اگرہم اس فقرہ کی صحیح ترجمانی کریں توا سکے معنے یہ ہوں گے کہ خداتعالیٰ نے محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ۔اے میرے رسول! توکہدے کہ میں کینیڈا کی ہدایت کے لئے آیا ہوں جس کو تم جانتے بھی نہیں ۔میں یونائیٹڈ اسٹیٹس امریکہ کی ہدایت کے لئے بھیجاگیاہوں جو ابھی آباد بھی نہیں ہوئیں۔ مجھے خداتعالیٰ نے برازیل،کیوبا،بولیویا، چلّی،کولمبیااورمیکسیکو کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایاہے جنہیں ابھی کوئی جانتابھی نہیں اوربالکل ویران پڑے ہیں اورکسی آئندہ زمانہ میں آباد ہوںگے ۔میں جاپا ن اورفلپائن کی اصلاح کے لئے بھیجا گیاہوں جن کو کوئی نہیںجانتا بلکہ میں ان ملکوںکی ہدایت کے لئے بھی مامو رکیاگیاہوں جوابھی دریافت بھی نہیں ہوئے ۔غرض اس آیت کو پھیلاکر دیکھا جائے توانسان محو حیرت ہوجاتاہے ۔آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس دعویٰ کو پوراکرنے کے کونسے سامان تھے ۔آپ کے پاس کونسے ہوائی جہاز تھے ک جن کے ذریعہ سے آپ امریکہ جاتے ۔کینیڈا جاتے ۔برازیل، کولمبیا اوربولیویاجاتے ۔پھر آپ کے پاس وہ کون سے ذرائع تھے کہ جن سے آپ اپنی تعلیم کو اپنی وفات کے بعد بھی ممتد کئے جاتے جب تک وہ ملک دریافت نہ ہوتے آپ وہاں جاہی کیسے سکتے تھے ۔لوگ بات کرتے ہیں توان کے بیٹے بھول جاتے ہیں اوراگر بیٹے یاد رکھتے ہیں تو پوتے بھول جاتے ہیں ۔اگر پوتے یاد رکھتے ہیں تو پڑپوتے بھول جاتے ہیں ۔مگر یہ ملک تو اس وقت دریافت بھی نہیں ہوئے تھے۔آپؐ کی وفات کے نوسوسال بعد امریکہ دریافت ہوا۔لیکن فرض کرو۔اس وقت امریکہ دریافت بھی ہواہوتا توآپ کے پاس کونسی گارنٹی تھی کہ آپ کا دعویٰ پوراہوجائے گا۔ہمیں تویہی نظر آتاہے کہ لوگ اپنے بچے قربان کرتے ہیں اپنے بھائی قربان کرتے ہیں اپنا عیش اورآرام قربان کرتے ہیں ۔بعض ناجائز باتوں کے لئے قربانیاں کرتے ہیں ۔بعض جائز اوراچھی باتوں کے لئے قربانیاں کرتے ہیں لیکن ان کے نتائج بہت محدود ہوتے ہیں اوران محدود نتائج کا بھی کوئی ذمہ وار نہیں ہوتا۔ مگر محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاجس طرح دعویٰ تمام دنیاسے نرالاتھا ۔اسی طرح آپؐ کا بدلہ بھی نرالاتھاچنانچہ باوجود اس کے کہ آپؐ کے پاس کوئی ایسے سامان نہیں تھے جن سے آپ اپنا پیغام دنیاکے تمام ممالک تک پہنچا سکتے ۔پھر بھی خداتعالیٰ نے آپ کو ابیض و اسود اوراحمر و اصفر سب میں قبولیت بخشی اورآپ کادین مختلف قوموں اورملکوں میں پھیلنا شروع ہوا۔یہاں تک کہ وہ دنیا کے کناروں تک پھیل گیا ۔چنانچہ آج چین میں کروڑوں مسلمان ہیں ۔انڈونیشیا میں نوے فیصدی مسلمان ہیں ۔انڈین یونین میں پچیس تیس فیصدی مسلمان ہیں ۔پھر افغانستا ،ایران ،برما ،شام ،فلسطین ،ایبے سینا ،وسطی افریقہ،شمالی و جنوبی افریقہ ،مغربی و مشرقی افریقہ ،امریکہ ،ایشیا اوریورپ کے بہت سے علاقوں میں لاکھوں کروڑوں مسلمان پائے جاتے ہیں ۔غر ض محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ نمایا ں امتیاز حاصل ہے کہ آپ تمام دنیاکی طر ف مبعوث کئے گئے جبکہ موسیٰؑ صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث کئے گئے ۔
چونکہ بنی اسرائیل کی غلامی کااصل باعث فرعون کا پنجہء استبداد تھا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرعون او راس کی قوم کی طرف موسیٰ کو بھجوایا اوراسے توجہ دلائی کہ بنی اسرائیل کو مظلومیت کی پکار ہمارے عرش تک پہنچ چکی ہے اب تمہارے لئے سوائے اس کے اورکوئی راستہ نہیں کہ تم اپنے فولادی پنجہ کی گرفت کو ڈھیلا کردو اوربنی اسرائیل کو آزاد کردو ورنہ خداتعالیٰ کے فرشتے آسمان سے تلواریں لے کراتریں گے اوروہ تمہیں اس جرم کی عبرتناک سزادیں گے ۔
قال الم نربک فینا ولیداولبثت فینامن عمرک سنین٭
اس (فرعون ) نے کہا (اے موسیٰ)کیاہم نے تجھ کو اس وقت نہیں پالا جبکہ توابھی بچہ تھا ۔اورتونے ہم میں اپنی عمرکے بہت سے سال
وفعلت فعلتک التی فعلت وانت من الکٰفرین٭
گذارے ہیں ۔اورتونے وہ کام بھی کیاہے جو تو کرچکا ہے ۔اورتُو(ہمارے احسانوں کا)ناشکر گذار ہے۔
قال فعلتھا اذاوانامن الضالین٭
(موسیٰ نے )کہا وہ کام(جس کا تونے اشارہ کیاہے)میں نے اس وقت کیاتھا جبکہ میں اپنی قوم کی محبت میں سرشار تھا
ففررت منکم لما خفتکم فوھب لی ربی حکما وجعلنی من المرسلین٭
پس جب مجھے تم سے ڈر محسوس ہواتومیں تم سے بھاگ کر چلاگیا۔اس پرمیرے رب نے مجھے حکم (یعنی عہدئہ نبوت)عطافرمایا اورمجھے رسولوں میں سے (ایک رسول )بنادیا ۔
وتلک نعمۃ تمنھا علی ان عبدت بنی اسرائیل٭
اوریہ(بچپن میں مجھے پالنے کی )نعمت جسکا تم احسان جتاتے ہو کیایہ اس بات کے مقابل میں پیش کیاجاتی ہے کہ تم نے بنی اسرائیل کی ساری قوم کو غلام بنا چھوڑاہے ۔۶؎
۶؎ تفسیر۔فرماتاہے ۔جب فرعون نے موسیٰؑ اور ہارونؑ کا یہ پیغام سُنا۔ تونہایت ڈھٹائی سے کہنے لگا۔ اے موسیٰؑ! وہ دن بھول گئے جب ہم تجھے پالا کرتے تھے۔ اور جب کہ تو نے اپنی عمر کے کئی سال ہم میں گذارے ۔ اب تجھے بھی باتیں کرنی آگئی ہیں اور توجو ہمارے ٹکڑوں پر پلا ہے۔ اب ہمیں ہی نصیحت کرنے کے لئے آگیا ہے ۔یہ الفاظ اس نے موسیٰؑ کی تحقیر کے لئے اسی طرح کہے جس طرح فقیہیوں اورفریسیوں نے جب مسیحؑ کو کوچوں اور بازاروں میں تبلیغ کرتے اور خدائے واحد کا نام بلند کرتے دیکھا تو انہوںنے کہا:۔
’’ کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں۔اور اُس کی ماں کانام مریم اور اس کے بھائی یعقوب اور یوسف اور شعون اور یہودہ نہیں۔ اور کیا اس کی سب بہنیں ہمارے ہاں نہیں۔پھر یہ سب کچھ اس میں کہاں سے آیا ۔اور انہوں نے اس کے سبب سے ٹھوکر کھائی ۔‘‘
(متی باب ۱۳آیت ۵۵,۵۶)
جس طرح فریسیوں کے لئے یہ بات حیرت کا موجب تھی کہ یہ شخص جو ایک بڑھئی کا بیٹا ہے اور جس کی تمام بہنیں ہمارے ہاں بیاہی ہوئی ہیں ہمیں وعظ اور نصیحت کرنے کے لئے آگیا ہے۔ اسی طرح فرعون کے لئے بھی یہ بات حیرت کا موجب ہوئی کہ موسیٰ جسے اس کی ماں نے ہم سے ڈرتے ہوئے سمندر کی طوفانی موجوں میں پھینک دیا تھا اورجسے بچا کر ہم نے اپنے گھروں میں رکھا اور اس کی پرورش کی وہی ہمارے ٹکڑے کھانے کے بعد آج نعوذ باللہ ایسا طوطا چشم نکلا ہے کہ میری طاقت اور عظمت کا اس نے ذرا بھی پاس نہیں کیا اورا س نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ میں اس کی غلامی اختیار کروں ۔فرعون اس وقت موسیٰؑ کی ابتدائی حالت اور اپنے موجودہ عروج کو دیکھ رہاتھا ۔ مگر وہ اس بات کو بھول گیا کہ بعض دفعہ ایک چھوٹا سا بیج بویا جاتا ہے کہ دنیا حیران ہوجاتی ہے ۔اور بعض دفعہ ایک چیز ابتداء میں نہایت اہم نظر آتی ہے لیکن اس کا انجام اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ انسان حیران ہوجاتا ہے کہ ایک چھوٹی سی بات کو اتنی اہمیت اورعظمت کیوں دے دی گئی تھی ۔مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوجہل قریباً ہم عمر تھے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ایسی حالت میںہوئی کہ آپؐ کے والد آپ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہوچکے تھے ۔اگر وہ زندہ بھی ہوتے تو پھر بھی وہ کوئی مالدار آدمی نہیںتھے ۔آپؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب بھی امیر لوگوں میں سے نہ تھے اور گو آپ آسودہ حال ضرور تھے لیکن چونکہ آپ ایک سخی آدمی تھے ۔اس لئے آخری عمر میں آپ کی دولت بہت کم ہوگئی تھی ۔ پس اول تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان کوئی امیر خاندان نہ تھا دوسرے آپ خصوصیت سے غریبانہ حالت میں پیدا ہوئے ۔ آپ ؐ کے والد آپؐ کی پید ائش سے پہلے ہی فوت ہوچکے تھے۔پس آپ کی پیدائش پر آپ کی والدہ نے کیا خوشی کی ہوگی ۔ آپ کی والدہ کے پاس کچھ تھا ہی نہیں ۔لوگ تو دنیا کو دیکھتے ہیں ۔مال اور دولت کو دیکھتے ہیں ۔جہاں روپیہ ہوتا ہے وہاں جمع ہوجاتے ہیں مگر آپ کی والدہ کے پا س روپیہ نہیں تھا۔ شاید آپ کے قریبی رشتہ دار مبارکباد دینے کے لئے آگئے ہوں۔مگر دوسرے لوگوں نے آپ کی پیدائش کوکوئی اہمیت نہیں دی ۔لیکن ابو جہل کاباپ مالدا رتھا ۔جب و ہ پیداہواہوگا اس کے ماں باپ نے کتنی خوشیاں منائی ہوں گی ۔ابوجہل کانام ابوالحکم تھا یعنی حکمتوں کاباپ۔عقلمند دانا اورمدبّر ۔لیکن بعد میں اس نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید مخالفت کی اورحماقت کا اظہار کیا تو مسلمانوں نے اس کانام ابوجہل رکھ دیا۔ابوجہل کے ماں باپ چونکہ مالدارتھے ۔اس لئے جب وہ پیداہواہوگا ۔توہرشخص جس کی ضروریات ان سے وابستہ ہوں گی ان کے گھر پہنچا ہوگا اوراس کی پیدائش پر مبارکباد دی ہوگی اورکہا ہوگا ہماراملک کتنا ہی خوش قسمت ہے کہ جس میں اس جیسابچہ پیداہوا۔اس کے چہر ہ سے ہی معلوم ہوتاہے کہ اس کے اقبال کا ستارہ کتنا بلند ہے۔غرض ا سکی تعریف میں لوگوں نے ہزاروں مبالغے کئے ہوں گے معلوم نہیں ا سکی پیدائش پر کتنے اونٹ ذبح کرکے دعوتیں کی گئی ہوں گی ۔خوشی میں دفیں بجائی گئی ہوں گی ۔عورتوں نے گیت گائے ہو ںگے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر آپ کے گھر کے پاس سے گذرنے والے یہ خیال کرتے ہوں گے کہ ایک غریب کے ہاں بچہ پیداہواہے جو خود بخود ختم ہوجائے گا۔لیکن ابو جہل کی پیدائش پر اس کے گھر کے پاس سے گذرنے والے یہ سمجھتے ہوں گے کہ آج ایک رئیس پیداہواہے ۔نہ معلوم بڑا ہوکر یہ کیا کچھ کرے گا۔غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتداء بظاہر ایک اد نیٰ رنگ میں ہوئی لیکن انتہاکیا ہوئی ؟ وہی بچہ جس کو دائیاں لینے کے لئے تیار نہیں تھیں ۔جس کی پیدائش پر مکہ والوں نے کوئی نوٹس نہیں لیاتھا جب فوت ہواتوعرب کی تاریخ میں ہی نہیں ساری دنیا کی تاریخ میں ایک غیر معمولی حیثیت رکھتا تھا ۔گویاآپ پر یہ الٰہی نوشتہ اپنی پوری شان کے ساتھ صادق آیا کہ
’’ وہ پتھر جسے معماروں نے ناپسند کیا وہ کونے کاسراہوا۔‘‘ (مرقس باب۱۲ آیت ۱۰و لوقاباب ۲۰آت ۱۷)
سارے عرب قبائل آپ کے زیر سایہ تھے جو آپ سے پہلے کسی بادشاہ کے مطیع نہیں ہوئے تھے۔ پھر بادشاہوں کو جوظاہری عظمت حاصل ہوتی ہیح اس کی وجہ سے ڈر کے مارے لوگ ان کی بڑائیاں بیا نکرتے ہیں لیکن دل میں انہیں ہزاروں ہزار گالیاں دیتے ہیں ۔ بادشاہ جب مرجاتے ہیں توبے شک ان کوموت سے ملک کوصدمہ بھی ہوتاہے لیکن لوگ یہی کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ اگر مر گیاہے تو کو ئی دوسر اشخص بادشاہ بن جائے گا اوروہ وہی کام شروع کردے گا جو پہلا بادشاہ کرتاتھا ۔انگریزی میں ایک مثل ہے :۔
KING NEVER DIES یعنی بادشاہ کبھی نہیں مرتے ۔ایک بادشاہ مرجاتاہے تودوسراکھڑاہوجاتاہے اورپہلے بادشاہ اوردوسرے بادشاہ میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوتا۔اگر قوم بیدار ہوتی ہے تودوسرے بادشاہ کے وقت میں بھی وہ ترقی کرتی چلی جاتی ہے ۔لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ نہیں کہاجاسکتا ۔آپ کی وفات کو تمام عر ب نے جو اس وقت آپ کی خوبیوں ،اہمیت اورعظمت کا قائل ہوچکا تھا ایک انسان کی موت خیال نہیں کیا ۔ملک کی موت خیال نہیں کیا ۔بلکہ دنیا کی موت خیال کیا ۔ چنانچہ حسان بن ثابتؓ نے آپ کی وفات پر جو شعر کہے وہ یہ ہیں کہ ؎
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرُ
مَنْ شَائَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اَحَاذِرُ
یعنی اے محمد رسو ل اللہ!آپ تو میری آنکھوں کی پتلی تھے آپ کی وفات نہیں ہوئی بلکہ میری آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں ۔اب کوئی شخص مرتاپھر مجھے اس سے کیا ۔میں تو آپ ؐکے متعلق ہی ڈرتاتھا ۔یہ وہ جذبہء عقیدت تھا جو آپ کے متعلق صحابہؓ میں پایا جاتاتھا ۔حسان بن ثابت ؓ نے ایک شاعرانہ کلام ہی نہیں کہا بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ تمام عرب نے حسان بن ثابتؓ کے ان شعروں کو اپنے ہی جذبات ا اظہار خیال کیا ۔گویا عرب کی آواز حسان بن ثابتؓ کی زبان پر جاری ہوگئی ۔تاریخ کہتی ہے کہ ہفتوں تک مدینہ مکہ اوردوسرے مسلمان شہروں والے اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے بازاروں میں چلتے ہوئے اوراپنے کاروبار کرتے ہوئے یہی شعر پڑھتے تھے کہ
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرُ
مَنْ شَائَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اَحَاذِرُ
لیکن ابو جہل جس کی پیدائش پر ہفتوں اونٹ ذبح کرکے لوگوں میں گوشت تقسیم کیاگیا تھا جس کی پیدائش پر دفوں کی آواز سے مکہ کی فضاگونج اٹھی تھی ۔بد رکی لڑائی میں جب ماراجاتاہے تو پندرہ پندرہ سال کے دوانصار ی چھوکرے تھے جنہوں نے اسے زخمی کیا حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جب جنگ کے بعد لو گ واپس جارہے تھے ۔تومیں میدان میں زخمیوں کو دیکھنے کے لئے چلا گیا ۔آپ بھی مکہ کے ہی تھے اس لئے ابوجہل آپ کو اچھی طرح جانتاتھا ۔آپ فرماتے ہیں کہ میں میدان جنگ میں پھر ہی رہاتھا کہ کیا دیکھتاہوں کہ ابو جہل زخمی پڑاکراہ رہاہے ۔جب میںاس کے پاس پہنچا تواس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں اب بچتانظر نہیں آتا تکلیف زیادہ بڑھ گئی ہے ۔تم بھی مکہ والے ہو میں یہ خواہش کرتاہوں کہ تم مجھے مار دوتامیری تکلیف دور ہوجائے لیکن تم جانتے ہوکہ میں عرب کا سردار ہوں اورعرب میں یہ رواج ہے کہ سرداروں کی گردنیں لمبی کرکے کاٹی جاتی ہیں اوریہ مقتو ل کی سرداری کی علامت ہوتی ہے ۔میری یہ خواہش ہے کہ تم میری گردن لمبی کرکے کاٹنا ۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کی گردن ٹھوڑ ی سے کا ٹ دی اورکہا کہ تیری یہ آخری حسرت بھی پوری نہیں کی جائے گی۔ اب انجام کے لحاظ سے دیکھوتوابوجہل کی موت کتنی ذلت کی موت تھی ۔جس کی گر دن اپنی زندگی میں ہمیشہ اونچی رہاکرتی تھی ۔وفات کے وقت اس کی گردن ٹھوڑی سے کاٹی گئی اوراس کی یہ آخری حسر ت بھی پوری نہیں ہوئی ۔پھرچونکہ کفار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستہ میں گڑھے کھوداکرتے تھے اورمسلمانوںکو پتھروں پر گھسیٹتے تھے اورآپؐ کی یہ پیشگوئی تھی کہ ایک دن ان کفارکو بھی بالوں سے پکڑ پکڑ کرگھسیٹاجائے گااس لئے بد ر کی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو حکم دیاکہ کفار کی لاشوں کو ایک اندھے کنوئیں میں گردیاجائے ۔آپؐ کے اس حکم کے مطابق صحابہؓ نے کفار کی لاشوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر ایک اندھے کنوئیں میں پھینک دیا ۔غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورابوجہل دونوں کو پیدائش اوروفات کو دیکھاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ پیدائش کے وقت جو ناقابل التفات نظر آتاتھا وفات کے وقت وہ سید عرب بنا ۔لیکن جو سید عرب نظر آتاتھا وفات کے وقت وہ نہایت ہی ذلیل وجو د ثابت ہوا۔غرض بعض دفعہ ایک چیز کی ابتداء اورہوتی ہے اورانتہا اور۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی جب پیداہوئے توآپ کے ماں باپ نے آپ کی پیدائش پر خوشی کی ہوگی۔مگر جب آپ کی عمر بڑی ہوگئی اورآپ کے اندر دنیا سے بے رغبتی پیداہوگئی توآپ کے والدآپ کی اس حالت کو دیکھ کرآہیں بھراکرتے تھے کہ ہمارایہ بیٹاکسی کام کے قابل نہیں ۔مجھے ایک سکھ نے بتایاکہ ہم دوبھائی تھے ہمارے والد صاحب بڑے مرزاصاحب (یعنی مرزاغلام مرتضیٰ صاحب) کے پاس آیاکرتے تھے ۔اورہم بھی بسااوقات ان کے ساتھ آجایاکرتے تھے ایک دفعہ مرزاصاحب نے ہمارے والد صاحب سے کہا کہ تمہارے لڑکے غلام احمد (علیہ الصلوٰۃ والسلام )کے پاس آتے جاتے ہیں تم ان سے کہوکہ جا کرسمجھائیں ۔ہم دونوں جب آپ کے پا س جانے کے لئے تیار ہوگئے تومرزاصاحب نے کہا کہ غلام احمد (علیہ السلام )کو باہر جاکرکہنا کہ تمہارے والد صاحب کو اس خیال سے بہت دکھ ہوتاہے کہ اس کاچھوٹالڑکا اپنے بڑے بھائی کی روٹیوں پر پلے گا ۔اسے کہوکہ میری زندگی میں ہی کوئی کام کرے ۔میں کوشش کررہاہوں کہ اسے کوئی اچھی نوکری مل جائے میں مرگیا توپھر سارے ذرائع بند ہوجائیں گے۔ اس سکھ نے بتایا کہ ہم مرزاغلام احمد صاحب (علیہ الصلوٰۃ والسلام ) کے پا س گئے اورکہا کہ آپ کے والد صاحب آپ کابہت خیال رکھتے ہیں ۔انہیں یہ دیکھ کر کہ آپ کچھ کام نہیں کرتے بہت دکھ ہوتاہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ اگر میں مرگیا توغلام احمد کاکیا بنے گا ۔ آپ اپنے والد صاحب کی بات کیوں نہیں مان لیتے ۔ آپ کے والد صاحب اس وقت کپو رتھلہ میں کوشش کررہے تھے اورکپور تھلہ کی ریاست نے آپ کو ریاست کاافسر تعلیم مقررکرنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔وہ سکھ کہنے لگا کہ جب ہم نے یہ بات کہی کہ آپ اپنے والد صاحب کی بات کیوں نہیں مان لیتے آپ کچھ کام کرلیں توآپ نے فرمایا والد صاحب تویونہی غم کرتے رہتے ہیں انہیں میر ے مستقبل کاکیوں فکر ہے میں نے جس کی نوکری کرنی تھی کرلی ہے۔ ہم واپس آگئے اور مرزاغلام مرتضیٰ صاحب سے آکر ساری بات کہہ دی ۔مرزاصاحب نے فرمایاکہ اگر اس نے یہ بات کہی ہے توٹھیک کہا ہے وہ جھوٹ نہیں بولاکرتا۔
یہ آپؑ کی ابتداء تھی اورابھی توانتہانہیں ہوئی لیکن جوعارضی انتہانظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی وفات کے وقت ہزاروں ہزار آدمی آپ پر قربان ہونے والا موجود تھا ۔آپ خو دفرماتے ہیں ؎
لُفَاظَاتُ المَوائِدِ کَانَ اُکُلِیْ
وَصِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامُ الْاَھَالِیْ
ایک وہ زمانہ تھا جب بچے ہوئے ٹکڑے مجھے دیئے جاتے تھے اورآج میرایہ حال ہے کہ میں سینکڑوں خاندانوںکوپال رہاہوں۔ آپ کی ابتداء کتنی چھوٹی تھی مگرآپ کی انتہا ایسی ہوئی کہ علاوہ ان لوگوں کے جو خدمت کرتے تے لنگر میں روزانہ دواڑھائی سوآدمی کھاناکھایاکرتے تھے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ اپنے والد کی جائیداد میں اپنے بھائی کے برابر کے شریک تھے۔لیکن زمینداروں میں یہ عام دستور ہے کہ جو کام کرے وہ توجائیداد میں شریک سمجھاجاتاہے اورجوکام نہیں کرتا وہ جائیداد میں شریک نہیں سمجھاجاتااوریہ دستورابھی تک چلاآتاہے ۔لوگ عموماً کہہ دیتے ہیں کہ جو کام نہیں کرتا اس کاجائیداد میں کیا حصہ ہوسکتاہے ۔آپ کے پاس جب کوئی ملاقاتی آتااورآپ اپنی بھاوجہ کو کھانے کے لئے کہلا بھیجتے تووہ آگے سے کہہ دیتیں کہ وہ یونہی کھاپی رہاہے ۔کام کاج توکرتانہیں ۔ اس پر آپ اپنا کھانااس مہمان کو کھلادیتے اورخود فاقہ کرلیتے یا چنے چباکر گذارہ کرلیتے ۔خداکی قدرت ہے کہ وہی بھاوجہ جو اس وقت آپ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں بعد میں میرے ہاتھ پر احمدیت میں داخل ہوئیں ۔غر ض اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کوئی کام شروع کیاجاتاہے تو اس کی ابتداء بڑی نظر نہیں آیاکرتی لیکن ا سکی انتہاپر دنیا حیران ہوجاتی ہے۔
فرعون نے بھی موسیٰؑ کو ان کی ابتدائی کس مپرسی کا حوالہ دیا اورکہاکہ تم مجھے کیانصیحت کرسکتے ہو ۔تمہاری توخود ہمارے خاندان نے پرورش کی ہے ۔حالانکہ دنیا میں کبھی کسی چیز کی ابتداء کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس کی انتہاپر نظر ڈالی جاتی ہے ۔بڑ کے بیج کو دیکھ کر اگرکوئی شخص اسے بے حقیقت خیال کرتاہے تووہ نادان ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کروہ نادان ہے جو اپنی آنکھوں سے بڑ کے درخت کا اس قدر پھیلائو دیکھے کہ سینکڑوں آدمی اس کے سایہ تلے آرام کررہے ہوںاورپھر بھی وہ اس کے سایہ میں بیٹھنے سے انکار کردے محض اس لئے کہ اس کا بیج کسی زمانہ میں ایساحقیر تھا کہ ہواکاایک معمولی جھونکا بھی اسے پرے پھینک دیتاہے۔بہرحال فرعون نے ایسی ہی حماقت کی اورموسیٰؑ کو اس بات کاطعنہ دیاکہ تُو ہمارے گھروں میں پلتارہاہے ۔وہ اس بات کو بھول گیاکہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ سنت چلی آرہی ہے کہ وہ اپنے نبیوں کو دشمنوں کے زیرسایہ ہی ترقی عطاکیاکرتاہے ۔حضرت مسیح ناصریؑ نے روماکی حکومت کے سایہ تلے پرورش پائی اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن میں ثقیف قوم میں پرورش پائی جس نے ابرہہ کو خانہ کعبہ گرانے کے لئے راہنمادیئے تھے۔گویا وہی قوم جس نے خانہ کعبہ کوگرانے کے لئے اپنی خدمات پیش کی تھیں اللہ تعالیٰ نے اسی قوم کے زیر سایہ اس مقدس انسان کو جگہ دی جودعائے ابراہیمی کا مصداق اورخانہ کعبہ کا مقصودتھا۔ اسی طرح خدانے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو حبشہ کی عیسائی حکومت کے سایہ تلے پناہ دی حالانکہ اسی حکومت کے ایک گورنر ابرہہ نے بیت اللہ پرحملہ کیاتھا۔ موجودہ زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے پھر اسی تدبیر سے کام لیااورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انگریزوں کے زیر سایہ رکھاحالانکہ آپ عیسائیت کی بیخکنی کے لئے مبعوث فرمائے گئے تھے ۔نادان لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں ۔مگروہ نہیں دیکھتے کہ کیا خدانے موسیٰؑ کو فرعون کے زیر سایہ نہیں رکھا ۔کیاخدانے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو ایک عیسائی حکومت کے زیرسایہ نہیں رکھا ۔کیاخود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ثقیف قوم کے زیرسایہ نہیں رکھا ۔پھراگران کاوہاں پرورش پانا قابل اعتراض امر نہیں توحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاانگریزوں کے زیر سایہ ترقی کرنا کس طرح قابل اعتراض ہوگیا۔ یہ تواللہ تعالیٰ کانشان ہے کہ وہ اپنے انبیاء کو خود ان کے دشمنوں کے زیرسایہ رکھ کر ترقی عطافرماتاہے اوراس طرح دنیا پرثابت کردیتاہے کہ اس کے ارادوں کوکوئی شخص روک نہیں سکتا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ پر ہی غو ر کرکے دیکھ لو کجا یہ کہ فرعون نے حکم دے دیاتھا کہ بنی اسرائیل کاکوئی بچہ زندہ نہ رہے اورکجایہ کہ تصرف الٰہی کے ماتحت اس نے خو د اپنے گھرمیںحضر ت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش کی ۔گویاوہی جس کی خاطر بچے مارے جاتے تھے اس کی چھاتیوں پر چڑھ کرموسیٰ بڑھا اورپھولااورپھلا اورآخراسی موسیٰ کی مخالفت نے فرعون کو تباہ و برباد کردیا کیونکہ حضرت موسیٰ کی والدہ نے خداتعالیٰ کی بات پر اعتبار کرکے اپنے بچے کو دریامیں ڈال دیاتھا ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والد ہ نے کئی قسم کی احتیاطوں کے ساتھ ان کو دریا میں ڈالا مگر کون ہے جو اس سے سوگنازیادہ احتیاط کرکے بھی اپنے بچہ کو دریامیں پھینکنے کے لئے تیار ہوسکتاہے ۔انہوں نے خداکاحکم پوراکرنے کے لئے اس موت کو قبول کرلیا ۔ جس کانتیجہ یہ ہواکہ خدانے موسیٰ کو ہمیشہ کے لئے زندہ کردیا اوروہ جس کے متعلق خطرہ تھاکہ دریا کی لہروں میں کہیں غرق نہ ہوجائے خدااسے بچاکر فرعون کے گھر میں ہی لے گیا۔اوراس کی روٹیا ںکھاکھاکر اوراس کے گھر کادودھ پی پی کراوراسی کے کندھوں پرچڑھ چڑھ کراس نے تربیت حاصل کی ۔اورآخرایک دن وہ تمام بنی اسرائیل کو فرعون کے پنجہ سے بچاکرلے آیا ۔اورفرعون اپنے لائولشکر سمیت غرق ہوگیا۔اسی پرورش کا اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طعنہ دیااورپھر کہا کہ وَفَعَلْتَ فَعْلَتَکَ الَّتِیْ فَعَلْتَ وَاَنْتَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ۔اس دوران میں تجھ سے وہ فعل بھی سرزد ہواجس کا تجھے خوب علم ہے یعنی قبطی قوم کا ایک آدمی تیرے ہاتھ سے ماراگیااورتویقیناناشکروں میں سے ہے ۔
اس جگہ اَنْتَ مِنَ الَکَافِرِینَ سے مراد یہ نہیں ہے کہ توکافروں میں سے ہے ۔بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ توسخت ناشکرانکلاکہ تونے ایک محسن قوم کاآدمی مارڈالا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ پہلے تمام حالات پرغورکرواورپھر الزام لگا ئو بے شک یہ فعل مجھ سے سرزد ہواہے مگر فَعَلْتُھَااِذًّاوَاَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَ مجھ سے یہ فعل ایسی حالت میں سرزد ہواتھا جبکہ میں اپنی قوم کی محبت میں سرشارتھا یعنی جب میں نے دیکھا کہ ایک دشمن قوم کا فرد میری قوم کے ایک آدمی کو بلاوجہ ماررہاہے تومجھے اپنی مظلوم قوم کے ایک فرد کی حمایت میں جوش آگیا اورمیں نے ظالم کامقابلہ کیاجس کے نتیجہ میں وہ نادانستہ طورپر ہلاک ہوگیا ۔
یہ واقعہ جس کی طر ف فرعون نے اشار ہ کیا وہی ہے جس کااوپر ذکر کیاجاچکا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک رات ایک قبطی کو دیکھا کہ وہ ایک اسرائیلی سے لڑرہاہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس سے گذرے تواسرائیلی نے حضرت موسیٰ کو دیکھ کرانہیں اپنی مدد کے لئے پکارا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی سمجھا کہ اگر میں نے اسرائیلی کی مدد نہ کی تووہ ماراجائے گا چنانچہ انہوں نے آگے بڑھ کر قبطی کو ایک گھونسامارا۔اب یاتوجوش کی حالت میں وہ گھونسازیادہ زور سے مار بیٹھے یااس کادل کمزور تھا گھونساکہ لگتے ہی وہ مرگیا۔اس واقعہ کافرعون انہیں طعنہ دیتاہے اورکہتاہے کہ ہم نے توتجھے بچوں کی طرح پالااورتونے ہمارے ہی آدلی کو ماردیا ۔اورناشکری کا نمونہ دکھایا ۔حضر ت موسیٰ علیہ السلام اسے جواب دیتے ہیں کہ پہلے سب حالات پر غور کر و اورپھر الزام لگائو ۔یہ تودرست ہے کہ میرے ہاتھ سے ایک آدمی ماراگیا لیکن سوال یہ نہیں کہ آدمی ماراگیایانہیں ۔سوال یہ ہے کہ آیامیرااسے مارنے کا ارادہ تھایانہیں ۔اگرحالات سے یہ ظاہرہوتاہے کہ یہ واقعہ ایساتھا جس میں فوری مدد کی ضرورت تھی ۔توایسی حالت میں اگرمیں نے اپنی قوم کے ایک مظلوم فرد کی مدد کی توگو اتفاقی طورپر ایک آدمی مربھی گیا۔لیکن پھر بھی میں قصوروار کس طرح ہوا۔میراقصور توتب ہوتا جب میں جانتے بوجھتے ہوئے محض قتل کرنے کی نیت سے اسپر حملہ کرتا ۔مگر جبکہ میراارادہ اسے قتل کرنے کا تھا ہی نہیں تواگر نادانستہ طور پر ایک آدمی مرگیا تویہ بات مجھے مجرم بنانے والی کس طرح ہوگئی ۔مگر بہرحال چونکہ میں نے ایک مظلوم قوم کے فرد کی حمایت کی تھی ۔اورحاکم قوم کاایک فردماراگیا تھااس لئے مجھے ڈرپیداہواکہ میرے معاملہ میں انصاف سے کام نہیں لیاجائے گااورمجھے سزادینے کی کوشش کی جائے گی ۔چنانچہ میں تمہارے ملک کوچھوڑ کرمار گیا مگر میرے رب نے جو میرے دلی خیالات کوجانتاتھا ۔مجھے بر ی قرار دیا اورمجھے شریعت عطافرمائی اورمجھے اپنارسول بناکرکھڑاکردیا ۔باقی رہاوہ احسان جو توجتارہاہے کہ ہم نے تجھے پالا ۔سوکیا یہ احسان اس جرم کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت رکھتاہے کہ تم نے اپنے باپ رعمیس ثانی کے زمانہ سے سارے بنی اسرائیل کو اپنی غلامی میں جکڑ رکھا ہے اورتم انہیں بے کار میں پکڑ کر ان سے بڑے بڑے مشقت طلب کام لیتے ہو ۔ اوران پرایسے ایسے مظالم ڈھاتے ہو جونہایت شرمناک ہیں اگر اتنے لمبے عرصہ تک ایک قوم کے مردوںاورعورتوںاور بچوںسے ظالمانہ خدمت لینے کے بعد ایک قوم کا ایک بچہ تم نے پال دیا توکیا غضب کیا ۔
یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت موسیٓ علیہ السلام کو جس فرعون پالا تھا اُس کا نا م رعمیسؔ تھا ۔ مگر دعوی نبوت کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جس فرعون کے پا س جانا پڑا وہ اُس کا بیٹا منفتاحؔ تھا۔ چونکہ وہ بچپن سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے گھروں میں پرورش پاتے دیکھتا رہا تھا اور جانتا تھا کہ اس کے باپ نے کس محبت کیساتھ موسیٰ کی پرورش کی اس لئے اس نے اپنے باپ کے اس سلوک کا ذکر کرتے ہوئے کہااَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْدًا کیا ہم نے تجھے اپنے گھروں میں نہیں پالا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے جواب میں اُسی رعمیس ؔ کے مظالم کا ذکر شروع کردیا جو وہ اپنی زندگی میں بنی اسرائیل پر ڈھاتا رہا ۔یہاں تک کہ اس نے حکم دے دیا تھا کہ بنی اسرائیل کے ہاں جو بھی لڑکا پیدا ہو اُسے مار ڈالا جائے ۔ اور لڑکیوں کو زندہ رکھا جائے ۔رعمیس ؔ کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا منفتاحؔ تخت نشین ہوا اور اُس نے بھی اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بنی اسرائیل پر عرصہ حیات تنگ کردیا ۔ آخر جب ان کی دردناک چیخ وپکا رنے عرشِ الٰہی کو ہلادیا تو اس نے ان اسیروں کی رستگاری کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ فرعون کے پاس جائیں اور انہیں کہیں کہ وہ بنی اسرائیل کو آزاد کردے ۔ مگر بجائے اس کے کہ فرعون اس ظلم سے باز آتا اور بنی اسرائیل کی غلامی کی زنجیروں کو کاٹ دیتا اُس نے موسیؑـٰ پر طعنہ زنی شروع کردی کہ تُو تو ہمارے ٹکڑوں پر پلتا رہا ہے ۔اور اب تو ہی ہمیں وعظ و نصیحت کرنے کے لئے آگیا ہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہ سب کچھ درست ہے ۔ مگر کیا یہ اس ظلم کے جواز کی کوئی دلیل ہے جو بنی اسرائیل پر کیا جارہا ہے اگر مجھے پالا تو کیا اس کے نتیجہ میں تمہارے لئے یہ جائز ہوگیا کہ تم ساری قوم کو اپنی غلامی میں جکڑے رکھو ۔ اور خدا تعالیٰ کے ان بندوں کو جو تمہاری طرح اس دنیا میں آئے ذلّت اور بیچارگی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرو۔
قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ٭
اس پر فرعون نے (شرمندہ ہوکراور بات پھیرنے کے لئے ) کہا۔ یہ رب العالمین کون ہے؟(جس کی طرف سے آنا تم بیان کرتے ہو۔)
قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا۔ اِنْ کُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ٭
(موسیٰؑ نے ) کہا آسمان اور زمین اور جوکچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان کا ربّ ۔اگر تم میں یقین کرنے کی خواہش ہے ۔
قَالَ لِمَنْ حَوْلَہٓٗ اَلَا تَسْتَمِعُونَ٭
اس پر اس (فرعون) نے اپنے اردگرد کے لوگوں سے کہا۔ تم سُنتے نہیں (کہ موسیٰؑ کیا کہتاہے) (موسیٰؑ نے اپنے پہلے بیان کی تشریح کرتے ہوئے )جواب دیا۔
قَالَ رَبُّکُمْ وَرَبُّ اٰبَآ ئِکُمُ الْاَوَّلِیْنَ٭
وہی جو تمہارا بھی رب ہے ،اور تمہارے پہلے باپ دادوں کا بھی رب تھا ۔
قَالَ اِنَّ رَسُوْ لَکُمُ الَّذِیْٓ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ٭
(اس پر فرعون) بولا۔(اے لوگو!) تمہارا وہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ضرور پاگل ہے ۷؎
۷؎ تفسیر:۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون کویہ جواب دیا تو اس نے کھسیانے ہو کر کلام کا موضوع ہی بدل دیا۔اور کہنے لگا۔ اچھا ان باتوں کو جا نے دو ۔تم یہ بتائو کہ تم جو کہہ رہے ہو کہ میں رب العالمین خدا کی طرف سے رسول بن کر آیا ہوں تو یہ رب العالمین خدا کون ہے ؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ۔رب العالمین وہ خدا ہے جو آسمان اور زمین اور جوکچھ ان دونوں کے درمیان ہے اُن کا ربّ ہے اگر تم یقین لانے والوں میں سے بنو۔ تو یہ دلیل تمہارے لئے بڑی کافی ہے ۔فرعون اپنے گردو بیش کے لوگوں سے کہنے لگا ۔سُنتے ہو یہ کیسی بیو قوفی کی باتیں کرتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ۔اگر آسمان اورزمین کے بنانے والے کو تم نہیں سمجھ سکتے تو پھر یہی دلیل سمجھ لو کہ تمہاری اور تمہارے گذشتہ باپ دادوں کی بھی تو کسی نے پرورش کی تھی ۔وہ رب العالمین خدا ہے ۔ فرعون اس دلیل کی طاقت سے جھنجھلا اٹھا اور گالیوں پر اُتر آیا ۔ اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا ۔ یہ شخص جو تمہاری طرف رسول ہو کر آنے کا دعویٰ کرتا ہے یقینا پاگل ہے۔ اس کا مطلب جیسا کہ سورئہ نازعات سے ظاہر ہے یہ تھا کہ اے فرعونیو ! تمہارا رب تو میں ہوں۔ یہ موسیٰؑ رب العالمین کہاں سے لے آیا ہے اور چونکہ میں اس کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرچکا ہوں اور اس کے باوجود یہ اپنے عقیدے پر قائم رہا ہے اس لئے معلوم ہوتاہے کہ اس کے دماغ میں کچھ نقص ہے جو اپنے دعویٰ پر اس قدر اصرار کررہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آج تک دنیامیں خدا تعالیٰ کا کوئی بھی نبی نہیں آیا جسے اس کے مخالفوں نے پاگل نہ کہاہوکیونکہ جس طرح مجنون انسان اپنی انتہائی طاقت استعمال کردیتا ہے اور اُسے اپنے انجام کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اسی طرح اللہ تعالیٰ کے انبیاء بھی ہر قسم کے ڈر اور خوف اور لالچ سے بے نیاز ہوکر اس طاقت کو پہنچاننا شروع کردیتے ہیں جو خدا تعالیٰ ان کے سپرد کی ہوتی ہے اور انہیں اپنے انجام کا کوئی خوف نہیں ہوتا ۔نادان انسان جو ان کی پشت پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ دیکھنے سے قاصر ہوتا ہے وہ انہیں جب اپنے مقصد کیلئے ایسے جوش سے کام کرتا دیکھتا ہے جو بظاہر عقل کے خلاف ہوتا ہے تو انہیں پاگل کہنا شروع کردیتا ہے ۔
علم النفس کے ماہرین نے بھی جنون کی مختلف کیفیات پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب جنون پیدا ہوتا ہے تو انسان اپنے گردو بیش کے تمام حالات کو بھلا دیتا ہے اور اپنے کام کے متعلق اس میں اس قدر انہماک پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ کسی دوسری چیز کی پرواہ ہی نہیں کرتا ۔مجھے یاد ہے حضرت خلیفئہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک عورت جو اُستانی تھی پاگل ہوگئی ۔درمیان میںکبھی کبھی اس کی حالت درست بھی ہوجایاکرتی تھی ۔ایک دفعہ عورتوں میں درس ہورہاتھا اور وہ بھی درس میں شامل تھی کہ یکدم اس عورت کو جنون کا دورہ ہوا اور کھڑکی میں سے کود کر نیچے گرنے لگی ۔ حضرت خلیفئہ اول رضی اللہ عنہ نے اُٹھ کر اسے پکڑ لیا ۔یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے دوچار ماہ بعد کا واقعہ ہے جبکہ ابھی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ گھوڑے سے نہیں گرے تھے ۔ اور آپ میں اتنی طاقت تھی کہ بعض دفعہ آپ اپنا ہاتھ بڑھا کر فرمایا کرتے تھے کہ کوئی اسے ٹیڑھا کرکے دکھادے ۔آپ نے اٹھ کر اس عورت کوپکڑ لیا ۔ لیکن باوجود سارا زور لگانے کے وہ دُبلی پتلی عورت آپ کے ہاتھو ں سے نکلی جاتی تھی۔ اس پر آپ نے عورتوں کو آواز دی کہ یہ تو گرنے لگی ہے میری مدد کیلئے آئو۔ پھرپانچ سات عورتوں نے آپ کے ساتھ مل کر اسے باندھا حالانکہ عقل اور ہوش کے زمانہ میں اس کو سترہ اٹھارہ سال کا بچہ بھی پکڑ سکتا تھا۔ اس وجہ یہی ہے کہ عقلمند انسان سمجھتاہے کہ اگر ایک خاص حد سے زیادہ اُس نے اپنی طاقتوں کو استعمال کیا تو اُسے نقصان پہنچے گا لیکن پاگل کا دماغ اُسے حد سے زیادہ طاقت خرچ کرنے سے نہیں روکتا ۔یہی وجہ ہے کہ پاگلوں میں بہت زیادہ طاقت آجاتی ہے اور ایک ایک پاگل کو آٹھ آٹھ دس دس آدمی مل کر پکڑتے ہیں ۔تب وہ قابو میں رہتاہے پس چونکہ پاگلوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ بسااوقات ایسے جوش سے کام کرتے ہیں جو عقل کے خلاف ہوتا ہے ۔ اس لئے جب لوگ اللہ تعالیٰ کے نبیوںکو دیکھتے ہیں کہ وہ زمانہ کی رو کے بالکل خلاف آواز اٹھا رہے ہیںاور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے انہیں کسی قسم کی ہلاکت اور اور تباہی کی پرواہ نہیں تو وہ کہتے ہیںیہ لوگ پاگل ہیں اگر عقلمند ہوتے تو رائے عامہ کے خلاف اپنی آواز کیوںبلند کرتے ۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے اور آپؐ نے مکہ والوں کے سامنے یہ بات پیش کی کہ ایک خدا کی پرستش کرو تو عرب کے لوگ جولاتؔ اور مناۃؔ اور عزّیٰؔ کے پرستا رتھے ان کے لئے یہ بات حیرت کا موجب ہوئی اور انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ شخص تو پاگل ہے جواتنے خدائوں کو ایک خدا قراردے رہاہے ۔خدا تو کئی ہیں مگر یہ شخص کہتا ہے کہ صرف ایک ہی خدا ہے ۔پس ان کی نگاہ میں آپ کی یہ بات نعوذباللہ ایک پاگلانہ بڑ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا اس لئے بھی پاگل کہتی کہ آپؐ فرماتے تھے ۔ شراب نہ پیو۔جُوا نہ کھیلو ۔اوردوسروں کے مال نہ لوٹو۔ عرب کے لوگ کہتے تھے ۔ یہ کیسا آدمی ہے جو شراب سے منع کرتا ہے جو زندگی کا سرور ہے اورجُوآ کھیلنے اور مال لوٹنے سے منع کرتا ہے جو ایک فائدہ مند کام ہے ۔اس کی یہ باتیں تو پاگلوں والی باتیں ہیں۔ اسی طرح وہ کہا کرتے کہ محمد رسول اللہ کو کیا ہوگیا ہے کہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ تم اپنی زندگیوں کو بنی نوع انسان کی خدمت میں لگا دو ۔اپنے مالوںکو خدا کی راہ میں خرچ کروتو تمہیں ثواب ملے گا ۔ یہ تو پاگلوں والی بات ہے۔
حضرت شعیبؑ جب لوگوں سے کہتے کہ تم دوسروں کا مال نہ لوٹو۔ اپنے مال کو ناجائز کاموں میں صرف نہ کرو ۔ تو آپ کی باتوں سے آپ کی قوم حیران ہوتی تھی اور کہتی تھی کہ شعیب پاگل ہوگیا ہے ۔ اور دیوانوں کی سی باتیں کرتا ہے ۔
اس زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لوگوں نے پاگل کہا۔جب آپ نے وفات مسیح کا مسئلہ دنیا کے سامنے پیش کیا تو مسلمان سمجھ ہی نہ سکے کہ جب ۱۳۰۰سال سے یہ مسئلہ امت محمدیہ کے اکابر پیش کرتے چلے آرہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں تو وہ فوت کس طرح ہوگئے ۔ لوگوں اس مسئلہ کے متعلق جس قدر یقین اور وثوق تھا وہ اس واقعہ سے اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے کہ پنجاب کے ایک مشہور طبیب جن کی طبی عظمت کے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ جسے طبیب بھی قائل تھے۔اورجن کانام حکیم اللہ دین تھا اوربھیرہ کے رہنے والے تھے ایک دفعہ ان کے پاس مولوی فضل دین صاحب بھیروی جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے گہرے دوست اورنہایت مخلص احمد ی تھے گئے ۔اورانہیںکچھ تبلیغ کی ۔وہ باتیں سن کرکہنے لگے۔میاں تم مجھے تبلیغ کرتے ہو تم بھلاجانتے ہی کیا ہو اورمجھے تم نے کیا سمجھاناہے مرزاصاحب کے متعلق توجومجھے عقیدت ہے اس کادسواں بلکہ بیسواں حصہ بھی تمہیں ان سے عقید ت نہیں ہوگی ۔مولوی فضل دین صاحب یہ سن کر بہت خو ش ہوئے اورانہوں نے سمجھا کہ شاید یہ دل میں احمدی ہیں۔اس لئے انہوں نے کہا ۔ا س بات کو سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ آپ کو حضرت مرزاصاحب سے عقیدت ہے اورمیں خوش ہوں گااگر آپ کے خیالات سلسلہ کے متعلق کچھ اَوربھی سنوں ۔وہ کہنے لگے۔ آجکل کے جاہل نوجوان بات کی تہ تک نہیں پہنچتے اوریونہی تبلیغ کرنے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں ۔اب تم آگئے ہو مجھے وفات مسیح کامسئلہ سمجھانے۔حالانکہ تمہیں معلوم ہی کیا ہے کہ مرزاصاحب کی اس مسئلہ کو پیش کرنے میں کیا حکمت ہے؟ وہ کہنے لگے ۔آپ ہی فرمائیے۔انہوں نے کہا سنو!اصل بات یہ ہے کہ مرزاصاحب نے براہین احمدیہ کتاب لکھی ۔تیرہ سوسال میں بھلا کوئی مسلمان کابچہ تھا جس نے ایسی کتا ب لکھی ہو ۔ مرزاصاحب نے ا س میں ایسے ایسے علوم بھر دیئے کہ کسی مسلمان کی کوئی کتا ب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی وہ اسلام کے لئے ایک دیوار تھی جس نے اسے دوسرے مذاہب کے حملوں سے بچالیا ۔لیکن مولوی ایسے احمق اوربے وقوف نکلے کہ بجائے اس کے کہ وہ آپ کا شکریہ اداکرتے اورزانوئے ادب تہ کرکے آپ سے کہتے کہ آئندہ ہم آپ کے بتائے ہوئے دلائل ہی استعمال کیا کریں گے انہوں نے اُلٹا آپ پر کفر کافتویٰ لگادیا اوراسلام کی اتنی عظیم الشان خدمت دیکھنے کے باوجود جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تیرہ سوسال میں اَور کسی نے نہ کی آپ کے خلاف کفر کے فتوے دینے لگے اور اپنی علمیّت جتانے لگ گئے ۔اورسمجھنے لگے کہ ہم بڑے آدمی ہیں ۔اس پر مرزاصاحب کو غصہ آنا چاہیئے تھا اورآیا ۔چنانچہ انہوں نے مولویوں سے کہا ۔اچھاتم تم بڑے عالم بنے پھر تے ہو اگر تمہیں اپنی علمیت پر ایساہی گھمنڈ ہے تودیکھ لو کہ حیات مسیح کاعقیدہ قرآن کریم سے اتنا ثابت ہے کہ اس کے خلاف حضرت مسیح کی وفات ثابت کرنا ناممکن نظر آتاہے ۔لیکن میں قرآن ہی سے حضرت مسیح کی وفات ثابت کرکے دکھاتاہوں۔اگر تم میں ہمت ہے تو اس کاردّکرو۔چنانچہ انہوں نے مولویوںکوان کی بیوقوفی جتانے کے لئے وفات مسیح کامسئلہ پیش کردیا اورقرآن سے اس کے متعلق ثبوت دینے لگ گئے ۔اب مولوی چاہے سارازور لگالیں ۔چاہے ان کی زبانیں گھِس جائیں اورقلمیں ٹوٹ جائیں۔سارے ہندوستان کے مولو ی مل کربھی مرزاصاحب کے دلائل کامقابلہ نہیں کرسکتے ۔مرزاصاحب نے انہیں ایساپکڑاہے کہ ان میں سر اٹھانے کی تاب نہیں رہی ۔اب اس کا ایک ہی علاج ہے اوروہ یہ کہ سارے مولوی مل کر ایک وفد کی صورت میں حضرت مرزاصاحب کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ ہم سے آپ پر کفرکا فتویٰ لگانے میں بے ادبی ہوگئی ہے ۔ہمیں معاف کیاجائے ۔پھر دیکھ لیں مرزاصاحب قرآن ہی سے حیات مسیح ثابت کرکے دکھاتے ہیں یانہیں؟
اس سے انداز ہ لگایا جاسکتاہے کہ اس وقت حیات مسیح کاعقیدہ کتنا یقینی سجھاجاتاتھا ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتبار اوراعتماد رکھتے ہوئے آ پ کو اسلام کا سب سے بڑاخادم سمجھتے ہوئے پھر بھی ان کا ذہن اس طرف نہیں جاتاتھاکہ حضرت مسیح فوت ہوگئے ہیںبلکہ وہ کہتے تھے کہ یہ محض مولویوں کو شرمندہ کرنے کیلئے کہتے ہیںورنہ حیاتِ مسیح کا مسئلہ تو ایک ثابت شدہ حقیقت ہے ۔ جب آپ پر اعتماد رکھنے اور آپ کواسلام کا سب سے بڑاخادم سمجھنے والوں کی یہ کیفیت تھی تو دوسرے لوگ جو آپ کو اسلام کا دشمن قرار دیتے تھے وہ اس مسئلہ کی وجہ سے اگر آپ کو پاگل نہ کہتے تو کیا کہتے ۔ اسی طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا کے سامنے یہ نظریہ پیش کیا کہ اب جہاد کی شکل بدل گئی ہے اب لٹریچر اور تبلیغ کے ذریعہ اسلام پھیلانے کا زمانہ ہے تو مسلمان حیران ہوئے کہ کیا اس طرح اسلام دنیا پر غالب آسکتا ہے ۔اُن کے نزدیک تو ترقی کا صرف یہی ایک ذریعہ تھا کہ غیر مسلموں کو قتل کردیا جائے ۔پس جب انہوں نے سُنا کہ ایک شخص یہ کہہ رہا ہے کہ اسلامؔ کی ترقی غیر مسلموں کو قتل کرنے سے نہیں بلکہ اپنی جانوں کو اسلام کی راہ میں قربان کرنے سے وابستہ ہے تو انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ مرزا صاحب پاگل ہیں جو ایسے خلاف عقل مسائل دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں یہی حربہ فرعون نے بھی استعمال کیا ۔اور جب اس نے دیکھا کہ وہ دلائل کے میدان میں پورا نہیں اتر رہا تو اُس نے کہا یہ تو پاگل ہے جو ایسی احمقانہ باتیں کررہا ہے۔
قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَیْنَھُمَا۔اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ٭
(موسیٰ نے سمجھ لیا کہ وہ بات ٹلانہ چاہتاہے اور)کہا(رب العالمین )وہی ہے جو مشرق کا بھی رب ہے اور مغرب کا بھی (رب ہے) اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ،(ان کا بھی رب ہے ) بشرطیکہ تم عقل سے کام لو۔
قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِلٰھاً غَیْرِیْ لَاَ جْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ٭
(اس پر فرعون نے طیش میں آکر )کہااگر میرے سوا تو نے کوئی اور معبود بنایا تو میں تجھے قید کردوں گا ۔
قَالَ اَوَلَوْ جِئْتُکَ بِشَیْئٍ مُّبِیْنٍ٭
اُس (یعنی موسیٰ )نے کہا۔کیا اُس صور ت میں بھی کہ میں کوئی (حقیقتِ حال کو ) کھول دینے والی چیز تیرے پاس لے آئو (یعنی معجزہ)
قَالَ فَاْتِ بِہٖٓ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ٭
اس پر اُس (یعنی فرعون )نے کہا۔ اگر تو سچا ہے تو لے بھی آ۔
فَاَ لْقٰی عَصَاہُ فَاِذَاھِیَ ثُعبَانٌ مُّبِیْنٌ٭
پس اُس (یعنی موسیٰ) نے اپنا عصازمین پر دھر دیا تو اچانک (اہلِ فرعون نے دیکھاکہ ) وہ ایک صاف صا ف نظر آنے والا اژدہاہے
وَّ نَذَعَ یَدَہٗ فَاِذَاھِیَ بَیْضَآئُ لِلنّٰظِرِیْنَ٭
اور اُس نے اپنا ہاتھ (اپنی بغل سے ) نکالا تو سب دیکھنے والوں نے اچانک دیکھا کہ وہ بالکل سفید ہے ۸؎
۸؎ لغات:۔ثُعْبَانٌ: حِذْبٌ مِّنَ الْحَیَّاتِ طِوَالٌ ۔یعنی ثُعْبَانٌ سانپوں کی اقسام میں سے ایک قسم کا سانپ ہوتا ہے جو خاصا لمبا ہوتا ہے (اقرب)
نَذَعَ: نَذَعَ یَدَہٗ کے معنے ہیں اَجْرَجَھَا مِنْ جَیْبِہٖ ہاتھ کو اپنے گریبان سے نکالا (اقرب)
تفسیر :۔ فرعون نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مجنون کہا تو آپ سمجھ گئے کہ اب یہ مجھے اصل موضوع سے دوسری طرف پھیرنا چاہتاہے اور اس کی خواہش ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی ربوبیّت عالمین پر جو گفتگو شروع ہے وہ ذاتیا ت میں الجھ کر رہ جائے اور میں اس مضمون کو ترک کرکے اس امر پر بحث شروع کردوں کہ مجھے مجنون کیوں کہاگیا ہے ۔میرے اندر تو کوئی جنون والی بات نہیں پائی جاتی ۔ پس آپ نے مناسب سمجھا کہ اُس کی اس گالی کا اُسے کوئی جواب نہ دیںاور اصل موضوع کو جاری رکھیں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ۔رب العالمین خدا وہ ہے جو مشرق کا بھی رب ہے اور مغرب کا بھی رب ہے اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان کا بھی رب ہے۔یعنی تُو تو صرف مصریوں کا رب ہونے کا دعویدار ہے حالانکہ کہ مصر کی دنیا کے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا ہے ۔مشرق ومغرب میں سینکڑوں ملک مصر سے کئی کئی گُنا بڑے موجود ہے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ فرعون مصر والوں کو پال رہا ہے تو وہ لوگ جو مشرق اور مغرب اور ان کے درمیان رہتے ہیں ان کو کون پالتا ہے باہر حال جو ساری دنیا کو پالتا ہے وہی رب العالمین ہے ۔ فرعون رب العالمین نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ وہ خدا اپنے آپ کو مصریوں اور قبطیوں کاخدا کہتا ہے ۔اس پر فرعون کے غصہ کا پارہ بہت ہی چڑھ گیا اور موسیٰ سے کہنے لگا کہ یا تو سیدھی طرح مجھے خدا قرار دو ورنہ میں تجھے قید کردوں گا۔ اور پھر تجھے پتا لگے گا کہ تیری اس گستاخی کی کیا سزا ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰ کی شان دیکھو کہ وہی جو موسیٰؑ کو آہنی سلاخوں کے پیچھے قید کرنا چاہتاتھا خدا تعالیٰ نے اسے بحیرئہ قلزم کی طوفانی موجوں میں ایسا قید کیا کہ وہ اپنے تمام لائو لشکر اور مددگاروں کے باوجود اس قید سے رہا نہ ہوسکا ۔ جب اُس نے قید کرنے کی دھمکی دی ۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ کیا اگر میں کوئی ایسی دلیل لائوں جو میری بات کو بالکل واضح کردے تو کیا تو پھر بھی تم قید کرو گے ؟فرعون نے اپنے دل میں سوچا کہ چلو اس وقت تو بحث سے جان چھوٹی آئندہ دیکھا جائے گا اور کہنے لگا کہ اگر تم سچے ہو تو ایسی دلیل پیش کرو۔ اس پر موسیٰؑ نے اپنے سونٹا زمین پر ڈال دیا تو لوگوں کو اچانک یہ نظر آنے لگا کہ وہ ایک اژدھا ہے جو صاف صاف نظر آرہا ہے ۔اس کے بعد موسیٰؑ نے اپنے پہلو سے اپنا ہاتھ نکالا۔ تو وہ دیکھنے والوں کو چمکتا ہوا نظر آنے لگا۔
اس جگہ یاد رکھنا چاہئیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سونٹے کا سانپ بن جانا اور آپ کے ہاتھ کا لوگوں کو چمکتا ہوا نظر آنا درحقیقت ایک کشفی نظارہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو بھی دیکھا دیا ۔اور رئویا کشوف کے متعلق یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے جس کی انبیاء اور اولیاء کی تاریخ میں کثر ت سے مثالیں پائی جاتی ہیں کہ بعض دفعہ کشفی نظارے ایسے وسیع کردیئے جاتے ہیں کہ وہ دوسروں کوبھی نظر آنے لگ جاتے ہیں ۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زما نہ میں انشقاقِ قمر کو جو معجزہ ظاہر ہو اوہ بھی ایک کشفی نظارہ تھا جو وسیع کردیا گیا ۔اور نہ صرف مکہ کے کچھ لوگوں کو نظرآیا ۱؎ ۔بلکہ جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے ہندوستان کے ایک راجہ کو بھی
۱؎ ۔بخاری جلد۲۔کتاب التفسیر باب قولہ دانشق القمر ۔
نظر آگیا اور وہ مسلمان ہوگیا (تاریخ فرشتہ اُردوجلد ۲صفحہ ۴۹۱مقالہ ۱۱)
مفسرین نے چونکہ اس حقیقت کو نہیں سمجھا اس لئے ان کا ذہن اس طرف چلا گیا کہ چاند واقعہ میں جسمانی طور پر پھٹ کردو ٹکڑے ہوگیا تھا حالانکہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سونٹا تھا تو سونٹا ہی مگر فرعون اور اس کے درباریوں کو وہ ایک اژدہا کی شکل دکھایا گیا ۔اس طرح چاند تو اپنی جگہ پر ہی رہا تھا مگر کشف میں یہ دیکھایا گیا کہ وہ پھٹ گیا ہے ۔ اور جس طرح ہر خواب اور کشف تعبیر طلب ہوتا ہے اسی طرح اس کشف کی بھی یہ تعبیر تھی کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو تغیر رونماہونے والاہے اُس کا وقت اب آچکا ہے اور کفا رکی حکومت عرب سے مٹ جائے گی ۔ چنانچہ اس کیطرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُوَانْشَقَّ الْقَمَرُ(سورئہ قمر آیت ۲)یعنی عرب کی تباہی قریب آگئی ہے اور اُس کا ثبوت یہ ہے کہ چاند پھٹ گیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ساعت کے قریب آنے اور چاند کے پھٹنے میںتعلق تھا ۔مگر ظاہر طور پر چاند کے پھٹنے کا ساعت سے کیا تعلق ہوسکتا ہے ۔اگر ساعت سے ان کا تعلق ہوتا تو تیرہ سو سال کا عرصہ گذرچکا ہے اور قیامت ابھی تک آئی نہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ ساعت قریب آگئی ہے اورا سکی علامت یہ ہے کہ چاند پھٹ گیا ہے پس معلوم ہوا کہ شقؔ کے جو معنے عام طور پرکئے جاتے ہیںوہ بھی غلط ہے اور جو ساعت کے معنے لئے جاتے ہیں وہ بھی درست نہیں۔دراصل قرآن کریم میں انبیاء کی بعثت اوران کی ترقی اور غلبہ کے زمانہ کو ساعت کہاجاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو ساعت آنی تھی اور آپ کے ذریعہ جو تغیر رونما ہونا تھا اس کا وقت اب آگیا ہے اورا س کی علامت یہ ہے کہ چاند پھٹ گیا ہے ۔یہ علامت اس لئے بتائی گئی کہ عربوں میں قمر سے مراد عرب کی حکومت ہوا کرتی تھی ۔چنانچہ حضرت صفیہؓ جو ایک یہودی سردار کی بیٹی تھیں اور بعد میں رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات میں داخل ہوئیں۔انہوں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ ان کی گو د میںچاند آگرا ہے ۔وہ کہتی ہیں جب میں نے اپنے باپ کو یہ خواب سُنائی تو اُس نے میرے منہ پر زور سے تھپڑ مارا اور کہا کہ کیا تو عرب کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے ۱؎۔اس لئے پتہ لگتا ہے کہ عرب کے لوگ قمر سے مراد عرب کی حکومت لیتے تھے ۔
پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کشفی طور پر یہ نظارہ دیکھا یا کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا ہے ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کفارِ عرب کی تباہی کا وقت آ پہنچا ہے چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ؐکے صحابہ پر ایک لمبے عرصے سے مظالم ڈھائے جا رہے تھے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی کہ اب اسلام کی ترقی کا زمانہ آگیا ہے ۔اور یہ نظارہ نہ صرف آپ کو دیکھایا گیا بلکہ کفار کو بھی اس نظارہ میں شامل کرلیاگیا ۔تاکہ وہ بھی اس بات کو سمجھ لیں کہ اب کفر کے مٹنے کے دن آگئے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ میں خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب ’’سُرمہ چشم آریہ‘‘ میں اس معجزہ پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے رئویا کشوف کے دائرہ کی اس وسعت کو تسلیم کیا ہے اور تحریر فرمایا ہے کہ
’’یہ بھی ممکن ہے کہ نبی کی قوت قدسیہ کے اثر سے دیکھنے والوں کی کشفی آنکھیں عطا کی گئی ہوں ۔اور جو انشقاق قرب قیامت میں پیش
۱؎ ۔اصابہ
آنے والا ہے اُس کی صورت ان کی آنکھوں کے سامنے لائی گئی ہو۔کیونکہ یہ بات محقق ہے کہ مقربین کی کشفی قوتیں اپنی شدت حد کی وجہ سے دوسروں پر بھی اثر ڈال دیتی ہیں ۔ اس کے نمونے اربات مکاشفات کے قصوں میں بہت پائے جاتے ہیں بعض اکابر نے اپنے وجود کو ایک وقت اورایک آن میں مختلف ملکوں اور مکانوں میں دکھلادیا ہے۔ باذن اللہ تعالیٰ‘‘ (سُرمہ چشم آریہ صفحہ۲۲۹,۲۳۰) اسی طرح فرماتے ہیں کہ :۔
’’صاحب کشف پر ایسے ایسے اسرار ظاہر ہوتے ہیں کہ ان کی کُنہہ کو سمجھنے میں بکلی عقل عاجز رہ جاتی ہے ۔بعض اوقات صاحبِ کشف صدہا کوسوں کے فاصلہ باوجود حائل ہونے بیشمار حجابوں کے ایک چیز کو صاف صاف دیکھ لیتاہے۔ بلکہ بعض اوقات عین بیداری میں باذنہٖ تعالیٰ اس کی آواز بھی سُن لیتا ہے اور اس سے زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات وہ شخص بھی اس کی آواز سُن لیتا ہے جس کی صورت اس پر منکشف ہوتی ہے ۔بعض اوقات صاحب کشف اپنے عالم کشف میں جو بیداری سے نہایت مشابہ ہے ارواح گذشتہ سے ملاقات کرتا ہے اور عام طور پر ہر یک نیک بخت روح یابدبخت روح کے ساتھ کشفِ قبور کے طور پر ہو سکتی ہے ۔ چنانچہ خود اس میں مولّف رسالہ ہذا صاحبِ تجربہ ہے اور یہ امر ہندوئوں کے مسئلہ تناسخ کی بیخ کنی کرنے والا ہے اور سب سے تعجب کا یہ مقام ہے کہ بعض اوقات صاحبِ کشف اپنی توجہ اور قوت تاثر سے ایک دوسرے شخص پر باوجود صدہا کوسوں کے فاصلہ کے باذنہٖ تعالیٰ عالم بیدار ی میں ظاہر ہوجاتا ہے حالانکہ اس کا وجود عنصری اپنے مقام سے جنبش نہیں کرتا ۔اور عقل کے زور سے ایک چیز کا دوجگہ ہونا محال ہے ۔سودہ محال اس عالمِ ثالث میںممکن الوقوع ہوجاتا ہے۔‘‘ (حاشیہ سُرمہ چشم آریہ صفحہ ۱۳۰)
اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض اور بھی اسیے کشوف ہوئے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے دوسروں کوبھی شریک کرلیا ۔ مثلاً
حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک اجنبی شخص جس پر سفر کے کوئی آثار معلوم نہیں ہوتے تھے آیا۔اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گیا ۔اور پھر اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ ایمانؔ کی کیا تعریف ہے؟اسلامؔ کے کون کون سے ارکان ہیں ؟ احسان ؔکس مقام کا نام ہے؟ قیامتؔ کی کیا نشانیاں ہیں ؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ہر سوال کا جواب دیتے رہے۔ جب وہ چلا گیا تو آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ یہ جبریلؔ تھا جو تمہیں دینی مسائل سکھانے کیلئے آیا تھا ۔(ترمذی جلد۲۔ابواب الایمان )اب یہ بھی ایک کشف تھا جس کے دائرہکو اتنا وسیع کردیا گیا کہ صحابہؓ نے بھی جبریل ؔ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرتے دیکھ لیا۔
اِسی طرح جنگِ بدر کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تائید کیلئے جو ملائکہ نازل فرمائے ۔وہ کشفی حالت میں جہاں بعض صحابہؓ کو دکھائی دیئے وہاں کفار نے بھی اُن کو دیکھا اور پھر انہوں نے اپنی مجالس میں بھی اس کا حیرت کیساتھ ذکر کیا ۔
(تفسیر ابن جریر جلد۴صفحہ ۴۸وتفسیر فتح البیان جلد۲ صفحہ ۱۰۳)
اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بچپن میں اپنی دائی حلیمہ کے ہاں پرورش پا رہے تھے تو روایات میں ذکر آتا ہے کہ آپ کا ایک رضائی بھائی ایک دن دوڑتا ہوا اپنے والدین کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ ہمارے بھائی (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) پر کسی نے حملہ کردیا ہے ۔حلیمہ جلدی سے باہر گئیں تو انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے ہیں ۔حلیمہ نے دریافت کیا کہ کیا ہوا تھا ؟آپؐ نے فرمایا ۔ابھی تین آدمی آئے تھے ۔جنہوں نے میرا سینہ چیرا اور میرے دل کودھوکر اندر رکھ دیا اور پھر چلے گئے اب یہ بھی ایک کشفی نظارہ تھا ۔جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ۔ اور حلیمہ کے بیٹے نے بھی اس نظارے کو دیکھ لیا ورنہ خدا تعالیٰ کے ملائکہ کسی کے دل کی صفائی کے لئے ظاہری چیرپھاڑ کے محتاج نہیں ہوتے ۔اسی طرح حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات مدینہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں سورہے تھے ۔ جب آپؐ تہجد کے لئے اٹھے اور وضو فرمانے لگے تو مجھے آواز آئی کہ آپؐ فرمارہے ہیںلَبَّیْکَ۔لَبَّیْکَ۔ لَبَّیْکَ۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا ۔ نُصِرْتَ۔نُصِرْتَ۔ نُصِرْتَ۔وہ کہتی ہیں۔جب آپ میرے پاس تشریف لائے تو میںنے کہا۔ یا رسول اللہ !کیا کوئی آدمی آیا تھا اور آپ اس سے بات کررہے تھے؟آپ نے فرمایا۔ہاں میرے سامنے کشفی طور پر خزاعہؔ کا ایک وفد پیش ہوا اور میں نے دیکھا کہ وہ شور مچاتے چلے آرہے ہیں کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس کے خدا کی قسم دے کر کہتے ہیں کہ تیرے ساتھ اور تیرے باپ دادوں کے ساتھ ہم نے معاہدے کئے تھے اور ہم تیری مدد کرتے چلے آئے ہیں ۔ مگر قریش نے ہمارے ساتھ بد عہدی کی۔ اور رات کے وقت ہم پر حملہ کرکے جبکہ ہم میں سے کوئی سجدہ میںتھا اور کوئی رکوع میں ہم کو قتل کردیا ۔ اب ہم تیری مد د حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں جب کشفی طور پر مجھے وہ وفد نظر آیا تو میں نے لَبَّیْکَ۔لَبَّیْکَ۔لَبَّیْکَ۔ میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں ۔ میں تمہاری مدد کیلئے حاضر ہوں میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں ۔ پھر میں نے کہا۔ نُصِرْتَ۔نُصِرْتَ۔نُصِرْتَ۔ تجھے مدد دی جائے گی ۔تجھے مدد دی جائے گی ۔تجھے مدد دی جائے گی ؟ا ب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کشفی نظارہ دیکھ رہے ہیں اور کشفی حالت میں ہی آپ
لبّیک ۔لبّیک ۔لبّیک کہتے ہیں ۔ اورپھر تین دفعہ نُصِرْتَ ۔نُصِرْت۔نُصِرْت کہتے ہیں ۔اور یہ آواز حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بھی سن لیتی ہیں ۔ اور وہ آپ سے دریافت فرماتی ہیں کہ کیا کوئی آدمی تھا جس آپ باتیں کررہے تھے ۔اور آپؐ فرماتے ہیں ۔یہ ایک کشفی نظارہ تھا ۔یہ واقعہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ کشفی حالت میں بعض دفعہ دوسرے لوگ بھی شریک کرلئے جاتے ہیں ۔ اب گو حضرت میمونہ ؓ نے وہ وفد نہیں دیکھا ۔مگر انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ جواب سن لیا جو آپؐ نے کشفی حالت میں خزاعہؔ کے وفد کو دیا تھا ۔ اورپھر چند دن بعد ایسا ہی وقوع پذیر ہوگیا ۔
پھر یہ واقعات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نہیں ہوئے بلکہ بعد میں بھی اللہ تعالیٰ ایسے نشانات ظاہر کرتا رہاہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ خطبہ پڑھا رہے تھے کہ خطبہ پڑھاتے پڑھاتے آپ نے بلند آواز میں فرمایا۔ یا ساریۃ الجبلَ۔ اے ساریہ پہاڑ کے دامن میں پناہ لو۔ اور یہ فقرہ آپ نے دو تین مرتبہ دہرایا وہ لوگ جو خطبہ سن رہے تھے ۔ سخت حیران ہوئے کہ حضرت عمرؓ نے یہ کیا کہہ دیا ہے کہ عمرؓ پاگل ہوگیا ہے کہ اُس نے خطبہ پڑھتے پڑھتے یہ بے جوڑ بات کہہ دی کہ یا ساریۃ الجبل اے ساریہ تو پہاڑ کے دامن میں چلا جا۔جب لوگو ں میں یہ چہ میگوئیا ں ہونی شروع ہوئیں تو حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ لوگ آپ کے متعلق مختلف قسم کی باتیں کررہے ہیں اور وہ حیران ہیں کہ آپ نے آج خطبہ میں یہ کیا کہہ دیا کہ یا ساریۃ الجبل ۔ آپ نے فرمایا ۔ میں خطبہ پڑھ رہا تھا کہ کہ اچانک مجھ پر کشفی حالت طاری ہوئی اور عراق کی سرزمین میرے سامنے آگئی اور میںنے دیکھا کہ ساریہ جو اسلامی جرنیل ہے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشمن فوج سے برسرِ پیکار ہے مگر دشمن فوج کا پلّہ بھاری ہے اور قریب ہے کہ اسلامی فوج شکست کھاجائے ۔ میں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو چونکہ اُس وقت میدانِ جنگ کا سب نقشہ میری آنکھوں کے سامنے تھا ۔ میں بلند آواز سے ساریہ ؔسے کہا کہ اے ساریہ! پہاڑ کی طرف ہوجائو تاکہ تم دشمن کے حملہ سے بچ سکو ۔چند دن کے بعد میدانِ جنگ سے حضرت عمر ؓ کوساریہؔکا خطبہ پہنچا۔تواس میں لکھا تھا کہ جمعہ کے دن صبح کی نماز کے وقت ہماری دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی ۔اور ہم اُن سے لڑتے چلے گئے یہاں تک کہ جمعہ کی نماز کا وقت آگیا ۔ اُس وقت اچانک ہمارے کانوں میں آپ کی آواز آئی کہ یاساریۃ الجبل یاساریۃ الجبل اور ہم فوراًمیدان چھوڑ کر پہاڑ کی طرف آگئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح دی اور دشمن شکست کھاگیا (تاریخ الجمیس جلد ۲ صفحہ ۲۷۰،۲۷۱)
اب دیکھو اسلامی افواج مدینہ سے سینکڑوں میل دور ہیں ۔اور حضرت عمرؓ مدینہ میں بیٹھے ہیں۔ مگر جب آپ پر کشفی حالت طاری ہوئی تو نہ صرف آپ کی آواز کو اُن لوگوں نے سنا جو اُس وقت خطبہ میں شریک تھے بلکہ سینکڑوں میل دور عراق کی سرزمین میں ساریہ ؔ اور اُس کے سپاہیوں نے بھی سن لی اور انہوںنے فوراً اس کی تعمیل کی جس کے نتیجہ میں اسلامی فوج تباہی سے بچ گئی اور دشمن شکست رکھا گیا۔ یہ مثال اس حقیقت کو نہایت وضاحت سے ثابت کرتی ہے کہ بعض دفعہ کشوف کے دائرہ کو ایسا وسیع کردیا جاتا ہے کہ سینکڑوں میل دور رہنے والے بھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں ۔
اسی طرح امت محمدیہ میں جو اولیاء گذرے ہیں ان میں سے ایک بزرگ کے متعلق لکھا کہ وہ ہر روز تہجد کے وقت اللہ تعالیٰ سے
دعائیں کیا کرتے تھے ایک رات جب کہ وہ دعا مانگ رہے تھے ان کا ایک مرید بھی ان کے پا س آ کر بیٹھ گیا ۔دعا کرنے کے بعد ان کو ایک الہام ہوا جو اس مرید نے بھی سن لیا مگر ادب کی وجہ سے وہ خاموش رہا دوسرے دن وہ پھر تہجد کے لئے اٹھے اور انہوں نے دعائیں کیں تو پھر ان پر وہی الہام نازل ہوا جو پہلے دن نازل ہوا تھا اور یہ الہام بھی ان کے مرید نے سن لیا مگر پھر بھی وہ خاموش رہا تیسرے دن وہ دعا کے لئے اٹھے اور نماز سے فارغ ہوئے تو پھر انہیں وہی الہام ہو ا جو ان کے مرید نے بھی سن لیا اور وہ کہنے لگا حضور میں برابرتین دن سے یہ دیکھ رہا ہوں کہ ہر روز آپ پر یہ الہام نازل ہوتاہے کہ میں تمہاری دعا قبول نہیںکروں گا مگر آپ برابر دعاکئے جاتے ہیں آپ کو تو چاہئیے کہ اب دعائیں کرنا چھوڑ دیں جب خدا تعالیٰ قبول کرنا نہیں چاہتا تو اتنا زور دینے کا کیا فائدہ ؟ انہوں نے کہا تو تو صرف تین دن یہ الہام سن کر گھبرا گیا ہے مجھے تو تیس سال سے برابر یہ الہام ہورہا ہے مگر میں اللہ تعالیٰ سے مایو س نہیں ہو ا کیوں کہ بندے کا کام دعا مانگتے چلے جانا ہے مایوس ہونا مومن کاکام نہیںلکھا ہے کہ دوسرے ہی دن اللہ تعالیٰ نے ان پر الہام نازل کیا کہ تم نے تیس سال کے عرصہ میںجس قدر بھی دعائیں کی تھیں وہ سب میں نے قبو ل کرلی ہیں انہو ں نے اپنے اس مرید کو بلایا اور کہا ۔دیکھو اگر میں تمہاری بات مان کر دعائیں کرنا ترک کردیتا تو میں اللہ تعالیٰ سے کتنے بڑے فضلوں سے محروم ہو جاتا۔اوراس وقت محروم ہوتا جب کہ میںکامیابی کے دروازے پر پہنچ چکا تھا۔ اب دیکھو ایک بزرگ کو الہام ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کے دائرہ کو اتنا وسیع کردیتا ہے کہ ان کا ایک مرید بھی الہام کی آواز سن لیتا ہے اور برابر تین دن تک سنتا رہتا ہے ۔
موجودہ زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سرخی کے چھینٹوں والا کشف دیکھایا گیا ۔تو سرخی کے چھینٹے نہ صرف آپ کی قمیض پر پائے گئے بلکہ ایک قطرہ میاں عبداللہ صاحب سنوریؓکی ٹوپی پر بھی آگرا۔اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس نشان میں ان کو بھی شریک کرلیا۔ اسی طرح ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میںمجھے بتایا گیا کہ آج رات حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ الہام نازل ہوا ہے کہ اِنَّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔صبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اشاعت کیلئے اپنے الہامات لکھ کر دیئے تواتفاقاً آپ کو یہ الہام لکھنا یاد نہ رہا ۔میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے کہا کہ مجھے تو آج رات ایک فرشتہ نے بتایا تھا کہ آپ کو یہ الہام ہوا ہے کہ اِنَّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃ مگر آپ نے جو الہامات لکھے ہیں ان میں اس کا کہیں ذکر نہیں ۔آپ نے فرمایا ۔ٹھیک ہے مجھے یہ الہام ہو اتھا۔ مگر لکھنا یاد نہیں رہا پھر آپ اندر سے اپنے الہامات کی کاپی اٹھا لائے اور مجھے فرمایا کہ دیکھو اس میں میں نے یہ الہام درج کیا ہوا ہے ۔اس کے بعد آپ نے اس الہام کو بھی اخبار میں شائع کرو ا دیا ۔اب دیکھو ادھر ایک الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوتا ہے اور اُدھر اللہ تعالیٰ مجھے بھی بتا دیتا ہے کہ ان الفاظ میں آپ پر الہام نازل ہوا ہے اور صبح معلوم ہوتا ہے کہ بات بالکل درست تھی ۔
غرض رئویا و کشوف میں بعض دفعہ ساتھ رہنے والے بھی شریک کرلیئے جاتے ہیں ۔اور یہ چیز ایسی قطعی اور یقینی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ملکہ وکٹوریہ کو تبلیغ اسلام کرتے ہوئے لکھا کہ
’’ اگر کوئی طالب حق نیت کی صفائی سے ایک مدت تک میرے پاس رہے اوروہ حضرت مسیح ؑ کو کشفی حالت میں دیکھنا چاہے تو میری توجہ اور دعا کی برکت سے وہ ان کو دیکھ سکتا ہے ۔ان سے باتیں بھی کرسکتا ہے اور ان کی نسبت اُن سے گواہی بھی لے سکتا ہے ۔کیونکہ میں وہ شخص ہوں جس کی روح میں بروز کے طور پر یسوع مسیح کی روح سکونت رکھتی ہے ۔‘‘ (تحفہ قیصر یہ صفحہ ۲۱)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سونٹے کا سانپ بن کر نظر آنا بھی ایسے ہی کشوف میں سے تھا جس کا دائرہ وسیع کردیا گیا اور فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰؑ کا عصا ایک بہت بڑے اژدہا کی صورت میں دیکھا جسے دیکھ کر وہ ڈرے اور ان کے دلوں پر لرزہ طاری ہو گیا۔یہ نظارہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک غریب شخص جس کا ابو جہل کے ذمہ کچھ قرض تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ابو جہل نے میر ا اتنا روپیہ دینا ہے مگر باربار تقاضوں کے باوجود وہ میرا روپیہ مجھے نہیں دیتا ۔آپؐ اس بارہ میں میری مدد کریں ۔اور مجھے اس سے روپیہ دلوادیں۔ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے پہلے ایک ایسی مجلس میں شریک رہ چکے تھے جس کا ہر ممبر یہ حلف اٹھاتا تھا کہ میں مظلوموں کی مدد کروں گا ۔اور حقدار کو اس کا حق دلانے کی کوشش کروں گا ۔اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوراً اس کے ساتھ ابو جہل کے مکان کی طرف چل پڑے حالانکہ اس زمانہ میں مکہ میں آپ ؐ کی شدید مخالفت تھی اور گلی کوچوں میں آپؐ کا اکیلے پھرنا خطرہ سے خالی نہیں تھا مگر آپ ؐ اپنی جان کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ چل پڑے اور ابوجہل کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ وہ باہر آیا ۔ تو آپ نے فرمایا ۔ تم نے اس شخص کا کوئی روپیہ دینا ہے ۔اس نے کہا ۔ہاں !آپؐ نے فرمایا ۔پھر اِسے لادو ۔ وہ چپکے سے اندر گیا اور اس نے روپیہ لاکر دے دیا ۔ جب یہ خبر مکہ کے لوگوں نے سُنی تو انہوں نے ابوجہل کو طعنے دینے شروع کردیئے کہ تم ہمیں تو کہتے ہو کہ محمد رسول اللہ کی کوئی بات نہ مانوں مگر خود اتنا ڈرگئے کہ اس کے کہنے پر تم چپکے سے اند رگئے اور روپیہ لاکر اس کے حوالے کردیا ۔وہ کہنے لگا ۔ تمہیں کیا معلوم کہ میرے پاس کیا واقعہ ہوا جب میں نے دروازہ کھولا اور مجھے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )نظر آئے ۔تو میں نے دیکھا کہ آپ کے دائیں اور بائیں دو مست اونٹ کھڑے ہیں اور وہ ایسے جوش میں ہیں کہ میں نے سمجھا اگر اس وقت میں نے زرابھی انکار کیا تو یہ دونوں اونٹ نوچ کر کھا جائیں گے ۔چنانچہ میں نے اپنی سلامتی اسی میں دیکھی کہ فوراًروپیہ لاکر پیش کردوں ۔یہ بھی ایک کشفی نظارہ تھا جو ابوجہل کو دیکھائی دیا ۔ ورنہ ظاہر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں کوئی دیوانے اونٹ نہیں تھے ۔
اِسی طرح ایک دفعہ ایک ہندوجو لاہور کے کسی دفتر میں اکائونٹنٹ تھا اور علمِ توجہ کا بڑا ماہر تھا کسی برات کے ساتھ اس نیت اور ارادہ سے قادیان آیا کہ میںمرزا صاحب پر مسمریزم کروں گا ۔ تو وہ مجلس میں بیٹھے ناچنے لگ جائیں گے ۔اور لوگوں میں ان کی بڑی سُبکی ہوگی ۔ یہ واقعہ اس ہندو نے خود لاہور کے ایک احمدی دوست میاں عبدالعزیز صاحب مغل کو سنایا تھا جس کی تقریب اس طرح پیدا ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میاں عبد العزیز صاحب کو اپنی ایک کتاب دی اور فر مایا کہ یہ فلاں ہندو کو دے دینا۔ انہوں نے اُسے کتاب پہنچا کر پوچھا کہ حضرت صاحب نے آپ کو یہ کتا ب کیوں بجھوائی ہے اور آپ کا ان کے ساتھ کیا تعلق ہے ۔ اس پر اس ہندو نے یہ سارا واقعہ سنایا اور کہاکہ مجھے مسمریزم کے علم میں اتنی مہارت حاصل ہے کہ اگر میں تانگہ میں بیٹھے ہوئے کسی شخص پر توجہ ڈالوں تو وہ فوراًتانگے کے پیچھے پیچھے بھاگا آئے گا ۔ حالانکہ نہ وہ میر ا واقف ہوگا اور نہ میں اسے جانتا ہوں گا ۔ پھر اس نے کہا۔ میں
آریوں ہندوئوں سے حضرت مرزا صاحب کے خلاف بہت سی باتیں سُنی ہوئی تھیں جن کی بناء پر میں نے ارادہ کیا کہ میں مرزا صاحب پر مسمریزم کے ذریعہ اثر ڈالوں گا۔ اور اُن کے مریدوں کے سامنے ان کی سُبکی کروں گا۔ چنانچہ میں ایک شادی کے سلسلہ میں قادیان گیا اور مرزا صاحب کی مجلس میں بھی چلا گیا مرزا صاحب اُس وقت کچھ وعظ و نصیحت کی باتیں کررہے تھے ۔ میں نے دروازے میں بیٹھ کر اُن پر توجہ ڈالنی شروع کی ۔مگر اُن پر کچھ بھی اثر نہ ہوا ۔ میں نے سمجھا کہ اِن کی قوتِ ارادی زیادہ قوی ہے ۔ چنانچہ میں نے پہلے سے زیادہ توجہ ڈالنی شروع کی ۔ مگر پھر بھی ان پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اور وہ اُسی طرح باتوں میں مشغول رہے ۔تب میں نے سمجھا کہ ان کی قوتِ ارادی بہت زیادہ مضبوط ہے اور میں نے اپنی ساری توجہ اُن پر صرف کردی ۔ میں ابھی توجہ کرہی رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ میرے سامنے کچھ فاصہ پر ایک شیر بیٹھا ہے میں اُسے دیکھ کر کانپ گیا ۔ لیکن میں نے اپنے دل کو ملامت کی کہ تو کیسے وہم میں مبتلا ہوگیا ہے۔ یہاں بھلا شیر کا کیا کام ہے اور میں نے پھر توجہ کرنا شروع کردی ۔ اس پر میں نے دیکھا کہ وہ شیر میرے قریب آگیا ہے اُسے دیکھ کر میرا جسم پھر کانپ اٹھا ۔مگر میں نے اپنے آپ کو سنبھالااور پھر توجہ ڈالنا شروع کردی جب میں اپنا پورا زور لگا دیا تو اچانک میں نے کیا دیکھا کہ وہی شیر کود کر مجھ پر حملہ آور ہوا ہے اور ڈر کے مارے زور سے میری چیخ نکل گئی اور میں جلد ی سے اپنی جوتی لے کر نیچے بھاگا ۔ میری آواز سن کر حضرت مرزا صاحب نے اپنے مریدوں سے کہا کہ دیکھنا یہ کون شخص بھاگا ہے اور اسے کیا ہوا ہے ۔چنانچہ ایک شخص میرے پاس آیا اور اُس نے مسجد کے ساتھ والے چوک میں مجھے آپکڑا میں چونکہ اس وقت سخت حواس باختہ تھا ۔ اِس لئے میں نے اس سے کہا کہ تم مجھے جانے دو ۔ میرے حواس اس وقت درست نہیں ہیں۔ چنانچہ مجھے چھوڑ دیا گیا ۔ بعد میں اس نے یہ تمام واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا اور کہا کہ مجھ سے گستاخی ہوگئی ہے ۔ میں آپ کے مرتبہ کو پہچان نہ سکا ۔ آپ بڑے خدا رسیدہ اور بزرگ انسان ہیں ۔آپ میری اس غلطی کو معاف فرماویں ۔ میاں عبدالعزیز صاحب مغل فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اس ہندو سے پوچھا کہ تم نے یہ کیوں نہ سمجھا کہ مرزا صاحب مسمریزم جانتے ہیں اور اس علم میں وہ تم سے بڑھ کرہیں ۔وہ کہنے لگا ۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ مسمریزم کے لئے توجہ کا ہونا ضروری ہے اور یہ عمل کامل سکون اور خاموشی چاہتا ہے مگر مرزا صاحب تو اس وقت باتوں میں مشغول تھے اس لئے میں نے سمجھ لیا کہ اس کی قوتِ ارادی زمینی نہیں بلکہ آسمانی ہے اور وہ خدارسیدہ انسان ہیں ۔ چنانچہ یہ ہندو جب تک زندہ رہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بڑا معتقد رہا اور ہمیشہ آپ سے خط و کتا بت رکھتا تھا ۔
اسی طرح ۱۸۹۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب عبداللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی فرمائی کہ وہ پندوہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اُس کو سخت ذلّت پہنچے گی ۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے ۔تو عبداللہ آتھم کے دل پر اس پیشگوئی کی ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ اُسے قسم قسم کے خوفناک نظارے نظر آنے شروع ہوگئے ۔ایک دفعہ امرتسر میں اسے ایک خطرناک سانپ سکھائی دیا۔ جس کی اس کے دل پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ وہ بیوی بچوں کو چھوڑ کر لدھیانہ اپنے داماد کے پاس بھاگ گیا ۔مگر وہاں پہنچ کر بھی اسے سکون نہ ملا ۔ بلکہ اُس نے دیکھا کہ بعض آدمی جنہوںنے اپنے ہاتھوں میں نیزے پکڑے ہوئے ہیں اُس کو قتل کرنے کے لئے مستعد کھڑے ہیں اور کوٹھی کے احاطہ کے اندر آپہنچے ہیں ۔ اس پر وہ پھر گھبرایا اور دوڑ کر اپنے دوسرے داماد کے پاس فیروز پور چلا گیا ۔مگر وہاں بھی اُسے ایسے ہی حملہ آور دکھائی دیئے جو بندوقوں اور تلواروں سے مسلح تھے غرض پندرہ ماہ اس نے سخت بے چینی اور
اضطراب میں بسر کئے اور گھبرا کر ادھر اُدھر دوڑتا رہا ۔ یہ نظارے جو آتھم کو دکھائے گئے درحقیقت کشفی رنگ ہی رکھتے تھے ۔ ورنہ اگر کوئی جسمانی سانپ ہوتا تو عبداللہ آتھم اُسے آسانی کے ساتھ مار سکتا تھا ۔اِسی طرح اگر انسان حملہ آور ہوتے تو وہ آسانی سے گرفتار کئے جاسکتے تھے ۔ مگر یہ چیز تو ایسی تھی جو صرف آتھم کودکھائی دی ۔ اور اُس نے خود ان واقعات کو بیان کیا۔
غرض جس طرح ابوجہل کودومست اونٹ دکھائی دیئے اور لاہور کے ہندو دوست کوایک شیر حملہ کرتاہوادکھائی دیا۔اور عبداللہ آتھم کوسانپ اور تلواروںاور نیزوں سے مسلّح افراد دکھائی دئیے ۔اسی طرح فرعون مصر کوموسٰی کا عصا ایک اثردہا کی صورت میں نظرآیا جسے دیکھ کر وہ کانپ گیااور گو اس نے اسے ایک جسمانی سانپ ہی سمجھا مگر درحقیقت اس کی تعبیر یہ تھی کہ موسیٰ کی جماعت ایک دن فرعون اور اس کے تمام لائو لشکر کو اثردہا بن کر کھا جائیگی اور وہی بنی اسرائیل جن کو وہ موسیٰ کے ساتھ بھیجنے کے لئے تیار نہیں ایک دن اس کی تباہی اور بربادی کاباعث بن جائیں گے اور موسٰیؑ کوغلبہ حاصل ہوجائے گا ۔تعطیرالانام میں لکھاہے کہ من رأی انّہ ملک ثعبانا فانّہ یصیب سلطانا عظیمایعنی اگر کوئی شخص یہ دیکھے کہ کوئی بڑااژدہا اس کے قبضے میں آگیاہے تواس کی تعبیر یہ ہوگی کہ اسے بہت بڑاغلبہ حاصل ہوگا ۔پس یہ کشف موسٰیؑ او ر اس کی جماعت کے غلبہ اورفرعون اور اس کی قوم کی تباہی کی خبر اپنے اندر رکھتاتھا ۔اسی طرح اس کشف میں فرعون کو اس طرف بھی توجہ دلائی گئی تھی کہ بنی اسرائیل کاموسٰیؑ کے ہاتھ میں رہنا ضروری ہے ورنہ اگر یہ تمہارے پاس رہی توتمہارے اخلاق و اطوار ہی ان پر اثر انداز ہوں گے مگر پھر یہ انسان نہیں رہیںگے بلکہ سانپ بن جائیں گے ۔اور جس طرح سانپ سفلی زمیں کی مٹی کھاتاہے ۔اسی طرح وہ بھی زمین کے کیڑے بن جائیں گے ایک مضبوط اور مستعد جماعت کی شکل اختیار نہیں کرسکیں گے ۔مگر فرعون نے اس کشفی نظارہ کی حقیقت کو نہ سمجھا اور یہ خیال کرلیاکہ موسٰیؑ کوئی بڑا جادوگر ہے ۔جس نے اپنے جادو کے زور سے سونٹے کو سانپ کی شکل میں تبدیل کردیاہے ۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عصائے موسٰیؑ کے سانپ بن جانے کے متعلق قرآن کریم نے تین الفاظ استعمال کئے ہیں ۔اوّل ثعبان ۔دوم حیّۃ ۔سوم جانّ۔ثعبان کالفظ تو سورۃ اعراف ع ۱۳اورسورۃ شعراء کی زیر تفسیرآیت میں استعمال ہواہے ۔حیّۃکالفظ سورۃ طٰہٰ کے پہلے رکوع میں استعمال ہواہے ۔اور جانّ کالفظ سورۃ نمل ع۱ ور سورئہ قصص ع۴ میں استعمال ہواہے ۔دشمنان اسلام اپنی نادانی سے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک ہی امر کے متعلق قرآن کریم نے اتنے مختلف الفاظ کیوں استعمال کئے ہیں ۔اس سے تو معلوم ہوا کہ قرآن کریم میں اختلاف پایاجاتاہے ۔مگریہ اعتراض قلّتِ تدبر کانتیجہ ہے ۔اگر وہ غور کرتے توانہیں اس میں کوئی اختلاف نظر نہ آتا ۔حقیقت یہ ہے کہ فرعون کے دربار میں جب حضرت موسٰیؑ نے اپناعصاپھینکااور وہ اژدہا بن کر نظرآنے لگا ۔تو اس واقعہ کے متعلق قرآن کریم نے ہرمقام پرصرف ثعبان کالفظ استعمال کیاہے کوئی اور لفظ استعمال نہیں کیا۔پس اس بارہ میںاختلاف کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
باقی رہا حیّۃ اور جانّ کے الفاظ کا استعمال سویہ ددونوں الفا ظ اس موقعہ پراستعمال کئے گئے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی علیہ السلام کواپنے کلام سے نوازا اورانہیں فرعون کی طرف جانے کی ہدایت فرمائی ۔اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اے موسیٰ ؑ اپنا سونٹاپھینک ۔انہوں نے سونٹا پھینکاتو قرآن کریم میںلکھا ہے کہ فاذاہی حیّۃ تسعیٰ (طٰہٰ ع ۱)موسیٰ نے کیادیکھا کہ وہ ایک
سانپ ہے جو دوڑرہا ہے حیّۃ کالفظ چھوٹے اور بڑے دونوں قسم کے سانپوں کے لئے استعمال ہوتاہے ۔لیکن سورۃ نمل اور سور ۃ قصص میں یہی مضمون ان الفاظ میں بیان کیاگیاہے کہ فلمّا راٰھا تھزّکانّھاجانّ ولّیٰ مدبراً ولم یعقّب (نمل ع ۱)جب موسٰی علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ لاٹھی ہل رہی ہے گویاکہ وہ ایک چھوٹا سانپ ہے تو وہ پیٹھ پھیر کربھاگا اور اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔سورئہ قصص رکوع۴میں بھی یہی لفظ استعمال کئے گئے ہیں پس اعتراض ہوسکتاہے تو اس پر کہ ایک ہی واقعہ کے متعلق ایک جگہ حیّۃ اور دوسری جگہ جانّ کالفظ کیوںاستعمال کیاگیاہے۔ثُعْبَانٌ کا لفظ جیسا کہ بتایا جاچکا ہے الگ موقعہ پر استعمال ہوا ہے اس لئے ثُعْبَانٌ کے بارہ میں کوئی سوال پیدا نہیں ہوسکتا ۔ سوال صرف یہ ہوسکتا ہے کہ حَیَّۃٌ کو دوسرے مقام پر جَآنٌ کیوں کہا گیا ہے سو یا د رکھنا چاہیئے کہ سورئہ نمل اور قصص دونوں مقامات پر قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ وہ جَآنٌ تھا بلکہ یہ کہا ہے کہ تَھْتَذُّ کَاَنَّھَا جَآنٌ وہ اس طرح ہلتا تھا جس طرح چھوٹا سانپ ہلتا تھا ۔ گویا تھا وہ بڑ اسانپ ہی مگر وہ ہلتا اس طرح تیزی سے تھا جیسے چھوٹا سانپ ہلا کرتا ہے۔ پس قرآن کریم نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں اُن کا آپس میںکوئی تضاد نہیں۔ جہاں قرآن کریم نے جانّؔ کا لفظ استعمال کیا ہے وہا ں اس سانپ کی صرف تیزی کا ذکر ہے اور یہ بتا نا مقصود ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سونٹا پھینکا تو وہ چھوٹے سانپ کی طرح تیزی سے دوڑنے لگ پڑا وہاں اس کی شکل کا کوئی ذکر نہیں کہ وہ چھوٹا تھا یا بڑا بلکہ یہ بتانا مدّنظر ہے کہ چھوٹے سانپ کی طرح اُس میںتیزی پائی جاتی تھی۔ لیکن جہاں ثُعْبَانٌ کا لفظ آیا ہے وہ آیات دیکھی جائیں تو صرف معلوم ہوگا کہ وہ واقعہ فرعون کے سامنے ہوا ہے اور فرعون کو چونکہ ڈرانا مقصود تھا ۔ اِس لئے اُسے ثُعْبَانٌ کی شکل میں سونٹا دکھائی دیا ۔پس قرآنی آیات میںجو تضادسمجھا جاتا ہے۔ وہ حقیقتاً کوئی تضاد نہیں محض قلّتِ تدبّر یا لغتِ عرب سے ناواقفیت کی وجہ سے ایسے سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔
دوسراؔ نشان جو اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر ظاہر کیا وہ یہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہلو سے اپنا ہاتھ نکالا تو وہ انہیں بالکل سفید اور چمکتا ہوا دکھائی دیا۔ یہ بھی ایک کشفی نظارہ تھا جو فرعونیوں کو دکھایا گیا ۔ اور جس میں ایک تو اس طرف اشارہ تھا کہ اے فرعونیو! تم مسمریزم جانتے ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ سفید رنگ نیکی اور پاکیزگی اور طہارتِ قلب کی علامت ہوا کرتا ہے پس موسیٰؑ کے ہاتھ کا سفید نظر آنا بتا رہا ہے کہ یہ شخص پاک اور بے عیب ہے اور یہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس میں کسی جھوٹ اور افتراء کی آمیزش نہیں ۔ اگر اس کا ہاتھ سیاہ دکھائی دیتا تو یہ اُس کی سیاہی قلب اور باطنی تاریکی کا ثبوت ہوتا ۔ مگر تم دیکھ رہے ہو کہ اس کا ہاتھ سورج کی طرح روشن ہے اور اس کی شعاعیں تمہاری آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہیں۔ پس تم اپنے علم کی بناء پر بھی سمجھ سکتے ہو کہ یہ شخص پاکباز ہے اور تمہارا فرض ہے کہ یہ جو کچھ کہے تو اسے تسلیم کرو۔
اسی طرح موسیٰ کا روشن ہاتھ اس تغیر کا بھی حامل تھا کہ اس شخص کے ہاتھ پر بڑے بھاری تغیرات مقدر ہیں مگر وہ تغیرات کسی ظلم اور تشدّد کے نتیجہ میں نہیں ہونگے ۔ نہ مکر اور فریب اور جھوٹ اور جعلسازی اُن میں کام کررہی ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اُس کی معجزانہ نصرت اس کا باعث ہوگی جس کو موسیٰؑ کی دعائیں جذب کریں گی اور وہ روحانی سلسلہ جس کی اس کے ہاتھ سے بنیاد رکھی جارہی ہے ایک دن دنیا کو اپنے انوار سے روشن کردے گا ۔ گویا جس طرح سورج اور چاند کے طلوع سے تاریکی غائب ہوجاتی ہے
اسی طرح موسیٰؑ کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ کے جو نشانات ظاہر ہوں گے ۔اُن سے وہ ظلمت اور تاریکی دُور ہوجائے گی جو لوگوں کے قلوب کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور شیطان کی جگہ رحمن کی حکومت قائم ہوجائے گی ۔
پھرموسیٰؑ کے اس کشف میں آپ ؑ کی قوم کی پاکیزگی اور طہارت کی طرف بھی اشارہ کیاگیا تھا کیونکہ ہاتھ کی تعبیر میں جہاں بھائی بیٹے اور رشتہ دار وغیرہ مراد ہوتے ہیں وہاں یَدْ سے قوم بھی مراد ہوتی ہے کیونکہ قوم کے افراد بھی ایک دوسرے کی تقویت اور سہارے کا موجب ہوتے ہیں اور مشکالات میں وہ دوسروں کے کام آتے ہیں ۔پس کشفی طور پر آپ کے ہاتھ کا روشن اور بے عیب دکھایا جانا اس تعبیر کا بھی حامل تھا کہ آج تو بنی اسرائیل میں کئی قسم کے عیوب دکھائی دے رہے ہیں لیکن جب یہ قوم میرے ہاتھ پر جمع ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس کے اندر ایسا نور پیدا کردے گا کہ یہ بھولے بھٹکوں کی رہنما بن جائے گی اور اخلاق اور روحانیت میں اعلیٰ درجہ کا کمال حاصل کرے گی ۔
یہ خیال کہ کسی انسان کے جسم سے ایسی شعاعیں کس طرح نکل سکتی ہیں جو دوسروں کو بھی نظر آجائیں صرف اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اس نشان کو ظاہر پر محمول کرلیتے ہیں۔ اگر وہ سمجھتے کہ یہ ایک کشفی واقعہ ہے تو اس قسم کے وساوس بھی ان کے دل میں پیدا نہ ہوتے موسیٰؑ کا زمانہ تو بہت دور کی بات ہے ہم تو دیکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض ایسے نشانات دکھائے ہیں جن میں کشفی نگاہ رکھنے والوں نے اللہ تعالیٰ کے انوار کو ظاہری شکل میں بھی متمثل دیکھا اور اُس کے روحانی کیف سے لذت اندوزہوئے ۔ چنانچہ ۱۹۰۴ء میں جب حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ السلام لاہور تشریف لے گئے تو وہاں ایک جلسہ میں آپؑ نے تقریر فرمائی ۔ایک غیر احمدی دوست شیخ رحمت اللہ صاحب وکیل بھی اُس تقریر میں موجو د تھے ۔ وہ کہتے ہیں ۔ دورانِ تقریر میں مَیں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سرسے نُور کا ایک ستون نکل کر آسمان کی طرف جارہا تھا۔ اُس وقت میرے ساتھ ایک اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔میں نے انہیں کہا ۔دیکھو وہ کیا چیز ہے۔ انہوں نے دیکھا۔ تو فوراً کہا کہ یہ تو نور کا ستون ہے جو حضرت مرزا صاحب کے سر سے نکل کر آسمان تک پہنچا ہوا ہے ۔اس نظارہ کا شیخ رحمت اللہ صاحب پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے اسی دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کی بیعت کرلی ۔ (الفضل ۱۵؍ستمبر ۱۹۴۴ ء)
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت چھ ماہ متواتر روزے رکھے تو آپ نے اُن روزوں کے روحانی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا :۔
’’ اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے ۔چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس اُمت میں گذر چکے ہیں اُن سے ملاقات ہوئی ۔ اور علاوہ اس کے انوارِ روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبز وسُرخ ایسے دلکش اور دستان طور پر نظر آتے تھے جن کا بیان کرنا بالکل طاقتِ تحریر سے باہر ہے ۔وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سُرخ تھے ۔اُن کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ اُن کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتاتھا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی ۔ جیسا کہ اُن کو دیکھ کر دل اور رُوح کو لذّت آتی تھی ۔ میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خد ااور بندہ کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے ۔
یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا۔ اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہوگئی ۔ یہ روحانی امور ہیںکہ دنیا اُن کو نہیں پہنچان سکتی ۔ کیونکہ وہ دنیا کی آنکھوں سے بہت دور ہیں۔ لیکن دنیا میںایسے بھی ہیں جن کو اِن امور سے خبر ملتی ہے ۔‘‘ (کتاب البریّہ حاشیہ صفحہ ۱۲۴،۱۲۷)
اسی طرح ایک دفعہ آپؑ نے فرمایا کہ:۔
’’میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اورپھر وہاں جاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں جذب ہوجاتے ہیں۔ اور وہاں سے نکل کر ان کی لانتہاء نالیاں ہوتی ہیں اور بقدر حصّہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں‘‘۔ (الحکم مؤرخہ ۲۸؍ فروری ۱۹۰۳ ء صفحہ۷)
اسی طرح ایک دفعہ آپؑ کو رؤیا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی ۔ اور آپؑ نے دیکھا کہ جیسے آفتاب کی کرنیں چھوڑتیں ہیں ۔ اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک سورج کی طرح چمک رہی ہے ۔ (تذکرہ صفحہ۴)
جلسہ اعظم مذاہب لاہور میں ابھی آپؑ کا مضمون نہیں پڑھا گیا تھا کہ آپؑ نے رؤیا میں دیکھا کہ ’’میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس ہاتھ کے چھونے سے اس محل میں سے ایک نورِ ساطعہ نکلا جو اردگرد پھیل گیا ۔اور میرے ہاتھ پر بھی اس کی روشنی پڑی ۔‘‘ (تذکرہ صفحہ ۲۹۵)
غرض اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو اصلاحِ خلق کے لئے مبعوث فرماتا ہے وہ انہیں اپنے انوار اور تجلیات کا جلوہ گاہ بناتا ہے اور یہ نور بعض دفعہ ظاہر ی طور پر متمثل ہوکر دوسرے لوگوں کو بھی نظر آجاتا ہے تاکہ سید الفطرت انسان ان فائدہ اٹھائیں اور وہ اپنے قلوب میں تغیر پیدا کریں ۔
خو د مجھے بھی اللہ تعالیٰ کا نور بعض دفعہ متمثل طور پردکھا ئی دیا ہے چنانچہ ۱۹۱۰ء یا ۱۹۱۱ء کا واقعہ ہے کہ مجھے بخار ہوگیا اور ساتھ ہی مجھے اپنی ران میں شدید درد ہونے لگا ۔کیونکہ اُن دنوں طاعون سے بعض اموات ہورہی تھیں مجھے وہم ہوا کہ کہیں یہ طاعون ہی نہ ہو ۔ چنانچہ میں انہیں اپنے کمرے کا دروازہ بند کرلیا اور سوچنے لگا کہ یہ کیا ہونے لگا ہے ۔ اسی اثنا میںجب کہ میری آنکھیں کھولی تھیں میں درودیوار کو دیکھ رہا تھا اور مجھے اپنے کمرہ کی تمام چیزیں نظر آرہی تھیں ۔ میں نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک سفید اور نہایت چمکتا ہوا نور ہے جو میرے کمرے کے نیچے سے نکل رہا ہے اور آسمان کی طرف چھت پھاڑ کر جا رہا ہے ۔نہ اس کی کوئی ابتداء معلوم ہوتی ہے اورنہ انتہا۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ اس نور میں ایک ہاتھ نکلا ہے جس میں ایک سفید چینی کا پیالہ ہے ۔اس ہاتھ نے وہ پیا لہ مجھے پکڑ دیا اور میں نے وہ دودھ پی لیا۔ جب میں وہ دودھ چکا تو میں نے دیکھا کہ نہ تو کوئی درد ہے اور نہ بخار بلکہ میں اچھا بھلا ہوں ۔ اور مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے۔
اسی طرح بعض دفعہ دوسروں کے جسم سے ایسی شعاعیں نکلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جس نے اُن کے اندرونی خیالات بے نقاب ہو جاتے ہیںاور پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ سچے مومن ہیں یا نہیں۔ میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ ایک شخص میرے ساتھ بات کرتا ہے اور میر ی روح اس کی روح سے ٹکرا کر معلوم کرلیتی ہے کہ یہ منافق کی روح ہے ۔ اسی طرح کئی ایسے ہوتے ہیں جو ظاہر میں بڑے اخلاص کا
اظہار کرتے ہیں ۔ہاتھ چومتے ہیں۔ مگر اُن کے ہاتھ چومنے پر مجھے ایسا معلوم ہوتاہے کہ گویا انہوں نے ہاتھ کو نجاست لگا دی ہے اور ان کی باتیں ایسی معلوم ہوتی ہیں کہ گویا وہ گالیاں دے رہے ہیں۔ کیونکہ قلوب کے اسرار بعض دفعہ توا للہ تعالیٰ اس طرح ظاہر کردیتا ہے کہ خود انسان کے منہ سے ایسی باتیں نکل جاتی ہیںجو اس کی قلبی کیفیت کا آئینہ دار ہوتی ہیں اور کبھی اس کے اندر سے باریک شعاعیں نکل کردوسروں کے قلوب پر پڑتی ہیں ۔ اور وہ چیز جسے وہ مخفی سمجھ رہا ہوتا ہے دوسرے پر ظاہر ہوجاتی ہیں ۔ کیونکہ خدا کے بندے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کی نظر باوجود انسانی ہونے کے لوگوں کے دلوں تک پہنچ جاتی ہے اور وہ چیز جو دنیا کے لئے پوشیدہ ہوتی ہے ان کے لئے ظاہر ہوجاتی ہے مگر چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ستّاری کی چادر اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے وہ ان کے عیب کو چھپا لیتے ہیں۔ وہ ایسا اس لئے نہیں کرتے کہ اُن کے دل کا خیال اُن پر ظاہر نہیں ہوتا بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ خدا نہیں چاہتا کہ اُس کی ستّاری کی چادر کو اُٹھا دیا جائے ۔
مجھے یاد ہے قادیان میں ایک دفعہ ایک بہائی عورت آئی اور مختلف مسائل پر مجھ سے گفتگو کرتی رہی ۔مگر اس پرکوئی اثرنہیں ہوتاتھا ۔ایک دن اس سے باتیں کرتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے جسم سے کوئی چیز نکل کراس کے ساتھ ٹکراجاتی ہے لیکن آگے نہیں گذرتی۔آخر میں نے دعاکی تومیں نے دیکھا کہ وہ چیز جوا س کے ساتھ ٹکراتی تھی آگے نکلنے لگی ہے ۔اس کانتیجہ یہ ہوا کہ یاتو وہ بڑے جوش سے باتیں کررہی تھی اور یایکدم گبھرا گئی اور اس نے بحث بند کردی او ر کہنے لگی کہ میرا بچہ بیمار ہے اس لئے میںجاتی ہوں حالانکہ وہ اچھّا بھلاتھا۔
غرض انبیاء اور اولیاء کے جسم سے مختلف قسم کی شعائیں نکلتی رہتی ہیںجو ان کے روحانی درجہ اور مقام کے مطابق مختلف رنگ کی ہوتی ہیں مگر یہ شعائیں مادی آنکھ سے دکھائی نہیںدیتیں بلکہ ان کے دیکھنے کے لئے کشفی نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے جوا للہ تعالیٰ کے فضل سے میسر آسکتی ہے ۔یہی نور تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے نکلا۔اور الٰہی تصرف کے ماتحت فرعون او راس کے درباریوں نے بھی دیکھ لیا۔مگر چونکہ وہ روحانی علوم سے بے بہرہ تھے انہوں نے اتنے بڑے نشان کو دیکھ کر بھی موسیٰ علیہ السلام کی عظمت اور اس کے تقدس کو نہ پہچانا اور یہ خیال کرلیا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے جادو کے زور سے ایسا کرلیاہے بہرحال موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ پرخداتعالیٰ نے اپنے جلا ل او رجمال کااظہار کیااور سانپ کی شکل میں اسے انذاری اور یدبیضاء کی شکل میں تبشیری نشان دکھایا۔مگر بائبل نے عصا کاسانپ بن جاناتوتسلیم کیاہے اگرچہ وہ ا س نشان کوموسیٰ علیہ السلام کیطرف نہیںبلکہ ہارون ؑ کی طر ف منسوب کرتی ہے مگرموسیٰ علیہ السلام کے دربار میں یدبیضاء والے معجزے کے دکھائے جانے کا اس نے ذکرتک نہیںکیا اور یہ اس کی ایک بہت بڑی فروگذاشت تھی جس کا قرآن کریم نے ازالہ کیا۔بلکہ خو د بائبل کی ایک اندرونی شہادت سے بھی ثابت ہے کہ فرعون کے دربار میں یدبیضاء والا نشان بھی ضرور دکھایا گیا تھا ۔اور وہ شہادت یہ ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کو خداتعالیٰ نے فرعون کی طرف جانے کاحکم دیا تو اس وقت بائبل بھی تسلیم کرتی ہے کہ
’’ خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے ۔ اُ س نے کہا ۔ لاٹھی ! پھر اُس نے کہا کہ اِسے زمین پر ڈال دے اُس نے اسے زمین پر ڈالا تو وہ سانپ بن گئی اور موسیٰؑ اُس کے سامنے سے بھاگا۔‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۲,۳)
اِسی طرح لکھا کہ
’’پھر خداوند نے اُسے یہ بھی کہا کہ تو اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر ڈھانک لے۔ اُس نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر اُسے ڈھانک لیا اور جب اُس نے اسے نکال کردیکھا ۔ تو اُس کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا۔ (خروج باب۴آیت ۶)
اس حوالہ میں اوّل تو حضرت موسیٰ کے ہاتھ کی سفیدی کوڑھ کی طرف منسوب کی گئی ہے جو ایک نہایت ہی شرمناک بات ہے موسیٰؑ خدا تعالیٰ کا ایک مقدس نبی تھا ۔اور وہ مقام جہاں اس موسیٰؑ خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہوا تو تجلیاتِ الٰہیہ کا مرکز تھا۔ ایسے مقدس مقا م پرموسیٰؑ جیسے مقدس نبی سے خدا تعالیٰ کا ہمکلام ہونا تو ایک بہت بڑا انعام تھا اور وہ الٰہی برکات اور اس کے فیوض کا وقت تھا ۔ ایسے بابرکت وقت میں خدا تعالیٰ کا یہ عذاب کیسے نازل ہوسکتا تھا کہ موسیٰ کے ہاتھ کو کوڑھ ہوجاتا۔یقینا موسیٰؑ کے ہاتھ کو کوڑھ نہیںہوا۔ بلکہ کسی بدبخت یہودی کادل روحانی کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہوا اور اس نے یہ عیب حضرت موسی علیہ السلام کی طرف منسوب کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس کا ذکر کرتے ہوئے مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ (طٰہٰ ع ۱)کے الفاظ بیان فرمائے ہیں کہ ہاتھ کی سفیدی کسی بیماری کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایک نشان کے طور پر عطا کی گئی تھی۔
بہرحال ان دونوں معجزات کا ذکر کرنے کے بعد بائیبل میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :۔
’’ اوریوں ہوگا کہ اگر وہ تیرا یقین نہ کریں اور پہلے معجزہ ( یعنی لاٹھی کے سانپ بن جانے )کے معجزہ کو بھی نہ مانے تو وہ دوسرے معجزہ (یعنی ہاتھ کی سفید ی اور چمک )کے سبب سے یقین کریں گے ۔‘‘ (خروج باب۴ آیت ۸)
اب اگر لاٹھی کو سانپ کی شکل میں دیکھ کر فرعون ایمان لے آتا تو ہم تسلیم کرسکتے تھے کہ اسے دوسرا معجزہ دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن جب وہ ایمان ہی نہ لایا تو بائیبل کے خود اپنے بیان ضروری تھا کہ موسیٰؑ اُسے یدِ بیضاء والا معجزہ بھی دیکھاتے ۔ اور اگر وہ پھر بھی ایمان نہ لاتا تو اور معجزات دکھاتے جن کا بائیبل میں بھی ذکر آتا ہے اور قرآن کریم نے بھی ان کو بیا ن کیا ہے ۔پس بائیبل کا ایک طرف یہ کہنا کہ اگر فرعو ن پہلے معجزہ کو دیکھ کر ایمان نہ لایا تو پھر دوسرا معجزہ اُسے دکھایا جائے بتا تا ہے کہ فرعون کے سامنے یہ دونوں معجزے دکھائے گئے تھے ۔ مگر بائیبل چونکہ انسانی دست برُد کاشکار رہی ہے اس لئے اس نے اس معجزہ کا ذکر تو کردیا اور دوسرے معجزہ کے دکھائے جانے کا کوئی ذکر نہ کیا۔ لیکن خود اس کی اندرونی شہادت بتا رہی ہے کہ فرعون کے دربار میں یہ دونوں معجزات دکھانے کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا تھا ۔پس صحیح بات وہی ہے جو قرآن کریم نے کہی ہے اور بائیبل نے جو کچھ کہا ہے وہ خو د بائیبل کی اپنی شہادت سے ہی غلط ثابت ہوتا ہے ۔ باقی رہا بائیبل کا یہ کہنا کہ فرعون کے دربار میں موسیٰؑ نے نہیں بلکہ ہارونؑ نے عٰصا پھینکا تھا
(خروج باب۷ آیت ۱۰)
یہ بھی بائیبل کی غلط بیانی ہے کیونکہ خود بائیبل خروج باب ۴ میں تسلیم کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہارونؑ سے نہیں بلکہ موسیٰؑ نے کہاتھا کہ
’’یہ تیرے ہاتھ میں کیاہے ۔ اُس نے کہا لاٹھی !پھر اُ س نے کہا اِسے زمین پر ڈال دے ۔ اُس نے اُسے زمین پر ڈالا اور وہ سانب بن گئی ۔اور موسیٰ اس کے سامنے سے بھاگا۔ تب خداوند نے موسیٰ سے کہا ہاتھ بڑھاکر اس کی دم پکڑ لے۔ اُس نے ہاتھ بڑھایا اور اُسے پکڑ لیا۔وہ اس کے ہاتھ میں لاٹھی بن گیا۔‘‘ (خروج باب۴ آیت ۲,۴)
پھر یہ بات بھی خداتعالیٰ نے موسیٰ سے ہی کہی تھی کہ اگر وہ پہلے معجزہ کو نہ مانیں تو ’’وہ دوسرے معجزہ کے سبب سے یقین کریں گے ۔‘‘
(خروج باب ۴ آیت ۹)
پس جب کہ تمام گفتگو موسیٰؑ سے ہی ہوتی رہی اور موسیٰؑ کی لاٹھی ہی سانپ بنی اور موسیٰؑ کو ہی یہ کہاگیا کہاگر فرعون اور اس کے درباری پہلے معجزہ کو دیکھ کر ایمان نہ لائے تو دوسرے معجزہ کو دیکھ کر ایمان لے آئیںگے تویہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ فرعون کے دربار میں موسیٰؑ کی بجائے ہارون اپنا عصا پھینک دیتے ۔ پس یہ بات بھی بائیبل کیااندرونی شہادت سے باطل قرار پاتی ہے اور صحیح بات وہی ثابت ہوتی ہے جو قرآ ن کریم نے کہی۔
بہر حال یہ دو بڑے بھاری نشانات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ کے ہاتھ پر ظاہر کئے ۔ مگر اس امر کو تسلیم کرنے کے باوجود کہ حقیقتاً یہ ایک بہت بڑا نشان تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سونٹا پھینکا اور وہ سانپ بن گیا یا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سونٹا مارا اور چٹان سے پانی بہہ نکلا پھر بھی اس صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موسیٰ کے عصا کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوعصا عطا فرمایا وہ اتنا عظیم الشان ہے کہ موسیٰؑ کے عصا سے بحیرہ قلزم کا پھٹنا یا اُ ن کے عصا سے پتھر کی چٹانوں سے پانی بہہ نکلنا یا خود اُن کے عصا کا سانپ بن کر لوگوں کو دکھائی دینا اس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔ موسیٰؑ کاعصا بیشک بڑے بھاری نشانات کا حامل تھا مگر آج دنیا میں کہیں موسوی عصاکا نشان نہیں۔وہ عصا موسیٰؑ کے ہاتھ میں رہا اور موسیٰؑ کی وفات کے ساتھ ہی اس کی نشان نمائی کامعجزہ ختم ہوگیا مگر محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ عصا عطافرمایا جس پر انسانوں کی موت اور زمانہ کی گردشیں کوئی اثر نہیںکرسکتیں۔ جسے دنیا کی بڑی سے بڑی حکومتیں بھی توڑنے کی طاقت نہیں رکھتیں۔ اس عصاکو نہ کوئی زمینی کیڑا کھانے کی طاقت رکھتاہے اور نہ کوئی آسمانی صاعقہ اسے صفحہ ہستی سے معدوم کرسکتاہے ۔وہ عصاجو آج بھی کفر کے سر کو پاش پاش کررہاہے اور قیامت تک شیطان کے پھیلائے ہوئے جالوں اور اس کی رسیو ںکو نگلتا چلاجائے گا۔قرآن کریم ہے جومحمد رسو ل اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کوعطاکیاگیا۔اور مسلمانوں سے کہاگیاکہ جاہدھم بہ جھاداً کبیراً(فرقان آیت۵۳)اے مسلمانوتم قرآن کریم کو اپنے ہاتھ میںلو اور ا س کے ذریعہ کفّار سے جہاد کبیر کرو۔گویاقرآن کریم ایک کتاب ہی نہیں بلکہ وہ ایک کامیاب ہتھیار بھی ہے جس سے کفر و شیطنت کی پھیلائی ہوئی ظلمتوں کامقابلہ کیاجاسکتاہے اور بہ کہہ کربتایاکہ یہ قرآن بنی نوع انسان کامقصد بھی ہے اور ایصال مقصد کاذریعہ بھی ہے ۔یعنی روحانی دلائل و براہین کے لئے یہ کسی دوسرے کی وکالت کا محتاج نہیں بلکہ خود بھی اپنے دعاوی کے دلائل بھی دیتاہے اور اس طر ح بنی نوع انسان کے عقلی اور فکری معیار کو بھی بلند کرتاچلاجاتاہے ۔غرض قرآن وہ عظمت و شوکت اپنے اند ر رکھتاہے کہ اس کے ذریعہ تو پ و تفنگ کے بغیر بھی دنیاکو فتح کیاجاسکتا ہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اب دوسرے مسلمانوں میں بھی بیداری اور قربانی کی روح پیدا ہو رہی ہے لیکن قربانی کی وہ روح انہیں توپ وتفنگ کی طر ف لے جاتی ہے ۔بے شک موجودہ دور کا مسلمان آج سے سو یاپچاس سال قبل کے مسلمانوں کی نسبت زیادہ بیدار ہے لیکن وہ توپوں اور تلواروں کی طرف بھاگ رہاہے ۔وہ حسرت سے ایٹم بم بنانے والوں کی طر ف دیکھ رہاہے اور اس امید میں ہے کہ وہ اسے بھی صدقہ کے طور
پر کچھ ہتھیار دے دیں لکین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ تمہاری توپ قرآن ہے ۔تمہاری رائفل قرآن ہے ۔تمہاری بندوق قرآن ہے تمہاراپستول قرآن ہے قرآن وہ ہتھیار ہے جس سے تم نے دنیا کاسر کچلنا ہے پس تم فتح کے لئے اس امر کے محتاج نہیںہو کہ انگلستان تمہیںتوپیں دے ۔تم فتح کے لئے اس امر کے محتاج نہیں ہوکہ امریکہ تم پر مہربان ہو اور ایک دو ایٹم بم دے دے ۔یا فرانس اورجرمن تمہیں کیمیاوی چیزیں پیدا کر کے دے بلکہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم قرآن کریم لو اور دنیا کو فتح کرلو ۔
قرآن وہ کتاب ہے جو انسان کے دل میں خداتعالیٰ کی خشیت پیدا کر کے اس کو خدا کی طرف لے جاتی ہے اور انسان کی جتنی طبعی اورروحانی ضرورتیں ہیں ان سب کو پوراکرتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔وَلَقَد صَرَّفنَا لِلنَّاسِ فِی ھٰذَا القُراٰنِ مِنْ کلِّ مَثَلٍ (بنی اسرائیل ۔۹)ہم نے اس قرآن میں پھیر پھیر کراور چکر دے دے کر اور نئے نئے اسلوب سے اور نئی نئی طرز سے تمام قسم کی فطرتوں کے لئے مضامین بیان کردیئے ہیں۔
دنیامیں دو ہی چیزیں ہوتی ہیں جو کسی تعلیم کی برتری کو ثابت کرتی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر قسم کے مضامین اس میں بیان ہوں۔ اوردوسرےؔ یہ کہ مختلف طبقات میں سے ہر طبقہ کیلئے اس میں مضامین بیان ہوں اور یہ دونوں خصوصیتں قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں گویا کوئی انسان نہیں رہا جو قرآن نے بیان نہ کی ہو۔ جب ہر بات اس بیان کردی گئی ہے اور ہر قسم کے لوگوں کی فطرت کو ملحوظ رکھ کر اس میں تعلیم نازل کردی گئی ہے۔توپھر بنی نوع انسان کو اپنے خدا کی محبت او را س کا پیا رکیوں حاصل نہ ہو ۔بیشک پرانے زمانہ میں موسیٰؑ اور عیسیٰؑ اوردوسرے نبیوں کو خدا ملا اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔لیکن ہمارا دل اس سے تسلی نہیں پاتا ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی خدا کی محبت حاصل ہو ۔اور زندہ کتا ب وہی کہلا سکتی ہے جوزندہ خدا سے ہمار ا تعلق پیدا کردے ۔ اگر وہ ہمیں خدا سے نہیں ملاتی تو اس کتا ب کا وجود اور عدم ہمارے لئے برابر ہوجاتا ہے اور قرآن کہتا ہے کہ ہم نے ہر انسان کی روحانی ضرورتوںکے پوراکرنے کے سامان اس کتاب میں رکھ دیئے ہیں پس جو بھی سچے دل سے اس پر عمل کرے گا وہ اپنے خدا کو پالے گا ۔اسی طرح فرماتا ہے وَاُوْحِیْ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُ نْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ۔(انعام آیت ۲۰)اے محمد رسول اللہ تو لوگوںسے کہہ دے کہ یہ قرآن میری طرف اس لئے وحی کیا گیا ہے کہ میں اس کے ذریعے سے تمہیں بھی فائدہ پہنچائو اور وہ تمام لوگ جن کے کانوں تک اس کی آواز پہنچے ان کو بھی فائدہ پہنچائو ں۔ ایک طرف قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا کہ اس میں ہر قسم کے مضامین بیان کئے گئے ہیں اور ہر قسم کے لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور دوسری طرف اس نے یہ کہا ہے کہ جس کے ہاتھ میں بھی یہ قرآ ن ہے اس کو فائدہ پہنچے گا کیونکہ یہ اسی لئے نازل کیا گیا ہے کہ وہ سب لوگ جن کے کانوں تک اس کی آواز پہنچے اُن کو فائدہ پہنچائے ۔
پس قرآن کریم ایک بہت بڑا ہتھیار ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطاکیاگیا ۔موسیٰؑ کا عصاتو صرف تھوڑی دیر کیلئے فرعونیوں کو سانپ کی شکل میں نظر آیا تھا جسے کچھ دیر کے لئے ان کے جسموںپر لرزہ بھی طاری ہوا مگر قرآن وہ کتاب ہے جو آج تک انزار کا کام کررہی اور پھر اس کا انداز کسی ایک قوم یا ایک ملک سے مخصوص نہیں بلکہ دنیا کی تمام اقوام اور دنیا کے تمام ممالک اس کے دائرہ انزارمیں شامل ہیں اور پھر اس کے انزار کی وسعت زمانوں کی قیود سے بھی بالا ہے۔ قیاموں تک کوئی زمانہ ایسا نہیں آسکتا جس میں
قرآن دشمنانِ اسلام کے لئے ایک نذیر مبین کا کا م نہ کررہا ہویا اس کے انزاری نشانات ان کی شان و شوکت کو مٹا کر اسلام کو غلبہ دینے کی طاقت نہ رکھتے ہوں۔ پھر موسیٰؑ کا عصا صرف موسیٰؑ کے ہاتھ میں ہی نشان دکھا سکتا تھا مگر قرآن جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ایک زندہ کتاب تھی اسی طرح آج سچے اورمخلص مومن کیلئے بھی وہ ایک زندہ کتاب ہے ۔ اور جس طرح وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حقائق و معارف کی کان میں سے لاتعداد ہیرے اور جواہر پیش کرتی تھی اسی طرح وہ امت محمدیہ کے ہر مخلص فرد کو اس کے ایمان اور اخلاص کے مطابق اپنے معارف سے حصہ دیتی او راپنے علوم سے بہرہ ورکرتی ہے ۔ کیونکہ اس کا نزول اس ہستی کی طرف سے ہے جسے غیب کا علم ہے اور جو انسان کے خیالات اور جذبات اور افکار کو جانتی ہے ۔دنیا میں کوئی انسان خواہ اس کا تجربہ کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو تمام افراد کے تما م افکار تمام جذبات اور تمام خیالات کا واقف نہیں ہوسکتا تمام انسانوں کا جذبات افکار اور ان کے خیالات کو وہی ذات سمجھ سکتی ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے اور وہ قرآن کریم میںبولتی ہے اور ہر شخص اپنی ضرورت کی چیز اس میں سے لے جاتا ہے ۔دنیا میں کسی کو کھدر کی ضرورت ہوتی ہے کسی کو لٹھے کی ضرورت ہوتی ہے۔زربفت وکمخواب کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کسی کو سرد یا گرم سوٹ یا رشمی کپڑوں کی مختلف اقسام کی ضرورت ہوتی ہے۔جب کوئی شخص اپنی اپنی ضرورت کے مطابق کپڑے خرید کر دکان سے باہر نکلتا ہے تو اس کی گھٹڑی میںسے ہر قسم کے کپڑے نہیں مل سکتے ہرقسم کے کپڑے صرف دکان سے ہی مل سکتے ہیںجوشہر یا گائوںکے لوگوںکی ضروریات کے لئے قائم ہوتی ہے۔ ایک عالم کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسا ایک کپڑا خریدنے والا ۔ ایک بہت بڑے عالم کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے بہت بڑا امیر جو اپنے خاندان کی ضرورت کے مطابق دکان سے مختلف قسم کے کپڑے ایک بڑی مقدار میں خریدتا ہے ۔تم اس امیر کی شخص کی گھٹڑی میں کپڑے کی میں کپڑے کی بہت سی اقسام دیکھو گے تم اس میں لٹھّے کے تھان دیکھو گے ۔ تم زربفت و کمخواب دیکھو گے ۔ تم کوٹوں کے کپڑے دیکھو گے ۔ لیکن پھر بھی کپڑے کی بیسیوں اقسام ایسی رہ جائیں گی جو تمہیں اس گھٹڑی میں نظر نہیں آئیں گی حالانکہ وہ ہزاروں روپے کا کپڑا خرید کر لایا ہوگا ۔ اسی طرح جو شخص قرآن کریم کا مطالعہ کرتا ہے۔ اس کا علم خواہ کتنا تھوڑا ہو وہ اگر قرآن کریم کیساتھ موانست رکھتا ہے تو اس کا دماغ اپنی ضرورت کے مطابق قرآ ن کریم سے چیزیں لے لیتا ہے ۔ کیونکہ قرآن کریم کی مثال دنیاکی سی ہے جس کے جنگلوں میں تم جاتے ہو اور اپنی ضرورت کے مطابق کوئی نہ کوئی درخت کاٹ لاتے ہو۔ لیکن اس کے اندر پائی جانے والی دھاتوں کی اصلیت تمہیں معلوم نہیں ہوتی۔ اسی طرح قرآنی علوم کو سمجھنے والے افراد قرآن کے سمجھنے میں دوسروں کے ممد تو ہوسکتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم کے قائم مقام نہیں ہو سکتے۔قرآن کریم کا قائم مقام قرآن کریم ہی ہے۔بڑے بڑے مفسر بلکہ ایک نبی بھی اس کا مؤید ۔معین اور ناصر تو ہو اس کا قائم مقام نہیں۔ حتی کہ وہ وجود جو خود قرآن تھا یعنی محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ بھی اس کا قائم مقام نہیں ہوسکتا ۔ وہ زمین میں یورینیم پائی جاتی ہے جس سے ایٹم بنتا ہے وہ ساری چیزوں کو نہیںجانتی ۔ وہ ماں بھی بچے کو پوری طرح نہیں جانتی جس نے نو ماہ تک بچے کو پیٹ میں رکھا ۔قرآن قرآ ن ہی ہے۔ اور انسان انسان ہی ہے ۔ہر موقعہ۔ ہر ضرورت ،ہر جذبہ اور ہر فکر کی تبدیلی پر قرآن اپنے پڑھنے والے کے لئے ایک نیا روپ بدلتا ہے ۔وہ ہر متلاشی کے لئے نیا روپ بدلتا ہے۔ وہ ہر شخص کے لئے نیا دروازہ کھولتا ہے جو اسے حاصل کرنا چاہتاہے۔ پس قرآن کریم کے ساتھ محبت اورپیار کرو اور اس پر غور اور فکر کی عادت ڈالو۔ اس کے بغیر نہ خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوسکتی
ہے اورنہ صحیح اسلامی روح پیدا ہوسکتی ہے ۔ بانی سلسلہ احمدیہؑ نے قرآن کریم کی اسی فضیلت کا اپنے ایک شعر میں اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ ؎
پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰؑ کا عصا ہے فرقاں
پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا
یعنی پہلے ہم نے یہ سمجھا کہ جس طرح موسیٰؑ کا عصا ساحروں کے سانپ نگل گیا تھا ۔اسی طرح قرآن کریم بھی اپنے دلائل براہین اور معجزات ونشانات کے ذریعہ سے دشمنانِ اسلام کے پھیلائے ہوئے جالوں کو تارتار کر دیتا ہے اور اس لحاظ سے موسیٰؑ کے عصا کیساتھ مشابہت ہے لیکن جب ہم زیادہ غور کیا اور قرآن کریم کے مطالب پر گہری نگاہ ڈالی تو ہمیں نظر آیا کہ قرآن کریم موسیٰؑ کے عصا سے لاکھوں گُنا بڑھ کر ہے کیونکہ موسیٰؑ کے عصا سے تو صرف ساحروں کا بھانڈا پھوٹا اور اُن کے سانپ فنا ہوئے مگر قرآن کریم نہ صرف دشمنانِ اسلام کی سرکوبی کے لئے ہروقت ایک چوکس اور ہوشیار جرنیل کی طرح اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے بلکہ اُس کا ایک ایک لفظ مُردوں کو زندہ کرنے والا اور اُن کے اندر زندگی کی تازہ روح پھونکنے والا ہے گویا موسوی عصا نے صرف اتنا کام کیا کہ دشمن کا سرپاش پاش کردیا۔ اوراُسے روحانی لحاظ سے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا قرآن صرف دشمنوں کو ہلاک ہی نہیںکرتا بلکہ اُن کو ازسر نو زندہ کرکے خدا تعالیٰ کا مقرب بھی بنا دیتا ہے ۔اور وہ صرف دفع شر کی ہی خاصیت اپنے اندر نہیں رکھتا بلکہ ایصالِ خیر کا پہلو بھی اس میں بدرجہ کمال پایا جاتا ہے اور وہ مُردوں کو زندہ کرنے کی اپنے اندر طاقت رکھتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اسی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَجِیْبُوْالِلّٰہِ وَلِرَّسْوِلِ اِذَا دعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ(انفال آیت ۲۵)یعنی اے مومنو! جب خدا اور اس کا رسول تمہیں زندہ کرنے کے لئے آواز دے تو تم اُس کی آواز پر فوراًلبیک کہا کرو۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ قرآن کریم مُردوں کو زندہ کرنے کے لئے آیا ہے بے شک اُس کی تعلیم پر عمل کرکے اندھے آنکھیں پا سکتے ہیں۔ بہرے شنوا ہوسکتے ہیں۔ لنگڑے لولے چل پھر سکتے ہیں۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر قرآن کریم میںیہ خوبی ہے کہ اس کی تعلیم پر عمل کر کے مُردے بھی زندہ ہوسکتے ہیں اور اُن میں بھی ایک نئی روحانی حیات پیدا ہوجات ہے ۔یہی روح تھی جس نے عرب کی سرزمین میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔ اور وہ لوگ جو اصنام واجماد کے آگے سربسجود رہا کرتے تھے اور ہرقسم کے فواحش کے ارتکاب میں ایک لذت اور سرور محسوس کیا کرتے تھے خدائے واحد کے ایسے پرستار ہوئے کہ انہوں نے بھیڑ بکریوں کی طرح اُس کی راہ میں اپنے سر کٹوادیئے اور خداتعالیٰ کے قرب میں بڑھتے چلے گئے ۔پس موسیٰؑ کا عصا اس عظیم الشان انعام کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا۔ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوعطا کیا گیا ۔ اورجو آج بھی دشمنانِ دین کیلئے ایک برہانِ قاطع کی حیثیت رکھتا ہے۔
دوسراؔ نشان جو فرعون کے دربا ر میں دکھایا گیا وہ یہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہاتھ انہیں بالکل نورانی اور سفید دکھائی دیا یہ نشان بھی بے شک بہت بڑا ہے جو حضرت موسیٰؑ کے تقدس اور ان کے اعلیٰ شان کو ظاہر کرتا ہے ۔اوران برکات پر روشنی ڈالتا ہے جن کا ان کے ہاتھ پر ظہور مقدر تھا ۔مگر اللہ تعالیٰ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پہلو میں بھی ایک نمایا ں فضیلت عطا فرمائی ۔ چنانچہ موسیٰؑ کا تو صرف ہاتھ سفید دکھائی دیا مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سرتاپا ایک نورِ مجسم قرار دیا ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا کہ :۔یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآ ئَ کُمْ بُرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَٓا اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْناً(نسآء آیت ۱۷۵)
یعنی اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک کھلی دلیل آ چکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایک نہایت روشن نور نازل کیا ہے۔ اسی طرح فرمایا کہ قَدْ جَآعَ کُمْ مِّنْ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ۔(مائدہ آیت ۱۶)تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور اور روشن کتا ب آچکی ہے ۔پس موسیٰؑ کے تو صرف ایک ہاتھ سے نورانی شعاعیں نکلتی دکھائی دی تھیں مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سرتاپانور کا ایک پیکر بنایا۔ اور یہ فرق اس لئے تھا کہ موسیٰؑ نے صرف بنی اسرائیل کی اصلاح کا کام سرانجام دینا تھا مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا تھا۔ اس لئے موسیٰؑ کا تو صرف ایک ہاتھ نور کی شکل میں دکھائی دیا۔ مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ نے سر سے پیر تک نور ہی نور قرار دے دیا ۔
پھر موسیٰؑ کا ہاتھ بیشک نورانی دکھائی دیا مگر بہرحال وہ موسیٰؑ کاہی ہاتھ تھا مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو خدا تعالیٰ نے اپنا ہاتھ قرار دیا اور فرمایا کہ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُدْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ(فتح آیت ۱۱)یعنی وہ لوگ جو تیر ی بیعت کرتے ہیں وہ تیری بیعت نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کرتے ہیں اوران کے ہاتھ پر تیرا ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کاہاتھ ہوتاہے ۔بظاہر انہیں وہ ہاتھ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دکھائی دیتا ہے مگر حقیقتاً وہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوتاہے اسی طرح غزوہ بدر میںجب آپ ؐ نے کفار کی طرف کنکروں کی مُٹھی پھینکی اور اس کے ساتھ ایک طوفانِ باد اٹھا جس نے کفا ر کی آنکھوں کو آندھا کردیا ۔ تو اس واقعہ کاذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمَی۔ (انفال آیت ۱۸)اے محمدرسول اللہ !جب تو نے کفار کی طرف کنکر پھینکے تھے تو تونے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکے تھے ۔ پس موسیٰؑ کا ہاتھ خواہ کس قدر نورانی نظر آیا ۔بہرحال وہ موسیٰؑ کا ہی ہاتھ تھا مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو خدا تعالیٰ نے اپنا ہاتھ قرار دے دیا ۔
پھر اگر ہاتھ کی سفید ی سے یہ اشارہ سمجھا جائے کہ اللہ تعالیٰ ان کی قوم کو روحانی لحاط سے بڑی پاکیزگی عطافرمائے گا ۔اور وہ دین کے لئے بڑی قربانیاں کرنے والے ہوں گے تو اس پہلو کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام پرنمایاں فضیلت عطافرمائی ہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اُسے کنعان کا ملک بنا دیا جائے گا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو ساتھ لے کرمصر سے چل پڑے اور جب وہ ملک سامنے آگیا تو آپ نے اپنی قوم سے کہا کہ جائو اورلڑائی کرکے اس ملک پر قبضہ کرلو ۔حضرت موسیٰؑ کی قوم نے غلطی سے یہ خیال کرلیا کہ خدا تعالیٰ نے یہ ملک ہمیں دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے ۔اس لئے وہ خود ہی اس وعدہ کو پورا کرے گا اور یہ ملک ہمارے قبضہ میں دے دے گا ۔ اگر ہم نے ہی اس ملک کو فتح کرنا تھا تو پھر وعدے کا کیا فائدہ۔چنانچہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیا کہ فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ(مائدہ آیت ۲۵) کہ اے موسیٰؑ! تو اور تیرا رب دونوں جائو او ردشمنوں سے لڑو ۔ ہم تو یہیں بیٹھیں گے جب تم ملک فتح کرکے ہمیں دے دو گے تو ہم اس میں داخل ہوجائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ کو اس قوم کی یہ بات سخت ناگوار گذری اور اس نے کہا کہ اب چالیس سال تک تم اس ملک میں داخل نہیں ہوسکتے چالیس سال تک تم جنگلوں میں بھٹکتے پھرو۔پھر اللہ تعالیٰ تمہاری نئی نسل کو اس امر کی توفیق دے گا کہ وہ اپنی جانیں قربان کرکے اس ملک میں داخل ہوں۔ اور خد اتعالیٰ کے انعامات کے مورد ہوں۔ غرض موسیٰؑ کو وہ قوم ملی جس نے خدا تعالیٰ کا اتنا بڑا نشان دیکھنے کے باوجود کہ اسے فرعون کی غلامی سے آزادی ملی اسے اور اس کی آئندہ نسلوں کو فرعونیوں کے لئے اینٹیں بنانے اور لکڑیاں کاٹنے اور ہر ذلیل سے ذلیل کام کرنے سے نجات ملی پھر بھی موسیٰؑ کا حکم ماننے سے انکار کردیا ۔اور جب انہیں کہا گیا کہ اٹھو اور اس عظیم الشان ملک پر قبضہ کرلو جس پر عاد قوم حکمران ہے تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہم سے یہ کام نہیں ہوسکتا ۔ تو اور تیرا رب دونوں جائو اور دشمنوں سے لڑتے پھرو۔جب دشمن مرگیا اور ہمیں اطمینان ہوگیا کہ اب ہماری جانوں کو کوئی خطرہ پیش نہیں آئے گا تو ہم اس ملک کی حکومت سنبھال لیں گے لیکن محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ صحابہؓ عطا فرمائے جنہوںنے موسیٰؑ کے ساتھیوں کی طرح کسی ایک مقام پر بھی یہ نہیںکہا کہ ہم اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ وہ آپؐ کے دائیں بھی لڑے اور بائیں بھی لڑے ۔ اور آگے بھی لڑے اور پیچھے بھی لڑے ۔ اور انہوں نے ہر نازک سے نازک مقام پر اپنی فدائیت اور جان نثاری کو ثابت کردیا ۔تاریخوں میں لکھا ہے کہ ہجرت مدینہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ ابو سفیان ایک تجارتی قافلہ کیساتھ شام کی طرف سے آرہا ہے اور راستہ میں تمام قبائل کو مسلمانوں کے خلاف اکساتا چلا آتاہے ۔اور قافلہ کا راستہ بھی مدینہ کے پاس سے گذرتا تھا اور گو ایسا قریب تو نہیں تھا مگر مکہ کی نسبت مدینہ سے زیادہ قریب تھا ۔تمام قبائل جو مدینہ کے گرد رہتے تھے وہ شام سے آنے والے قافلہ سے ملتے اور تجارتی چیزوں کا آپس میں تبادلہ کرتے تھے ۔اس لئے شام سے جو قافلہ آتا اس کے مدینہ کے تمام قبائل سے ہوجاتے تھے اور چونکہ اس قافلہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو اکساتے اور اشتعال دلاتے تھے اس لئے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم ہوا کہ ابو سفیان قافلہ کو لے مدینہ کے پاس گذررہا ہے اوریہ بھی معلوم ہواکہ مکہ والے بھی اس خیال سے کہ قافلہ پر مدینہ والے حملہ نہ کریں کچھ لشکر لے کرنکلے ہیں تو آپ نے اپنے دوستوں سے مشورہ لیا کہ اگر ہم مدینہ میں بیٹھے رہے تو دشمن دلیر ہوجائے گا۔ ہمیں آگے چلنا چاہیئے تاکہ دشمن یہ نہ سمجھے کہ ہم اس سے ڈرتے ہیں۔ چنانچہ آپ صحابہؓ کی ایک جماعت کو لے مدینہ سے باہر تشریف لے گئے اور بدر کے مقام پر پہنچے ۔ الٰہی اشارات سے آپ کو معلوم ہوچکاتھا کہ مکہ سے ایک لشکر آرہا ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کا مقابلہ ہوگا ۔ لیکن آپ کو یہ اجازت نہیںتھی کہ آپ اس خبر کو ظاہر کریں ۔ نتیجہ یہ نکلا مدینہ سے بہت کم لوگ آپ کے ساتھ گئے ۔کیونکہ وہ اسے لڑائی نہیںسمجھتے تھے بلکہ صرف جرأت کے اظہار کا ایک موقعہ سمجھتے تھے ۔ بدر کے مقام کے قریب جا کر آپ نے مناسب سمجھا کہ اب یہ بات ظاہر کردی جائے چنانچہ آپ نے لوگوں کو جمع کیا ۔اور فرمایا ۔ اے لوگو!مجھے خدانے کہا ہے کہ دشمن کا لشکر قریب آگیا ہے اور بجائے اس کے کہ قافلہ سے لڑائی ہو شاید اسے سے لڑائی ہوجائے ۔ تمہاری اس بارہ میں کیا رائے ہے؟مہاجرین یکے بعد دیگرے کھڑے ہونے شروع ہوئے اور انہوں نے کہا ۔ یارسول اللہ !ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن انصار خاموش رہے ۔ وہ اس لئے خاموش رہے کہ جو فوج آرہی تھی اس میں مہاجرین کے بھائی بہنوئی ۔سالے ۔چچے اور تائے وغیرہ اور اسی طرح اور قریبی رشتہ دار تھے ۔ انہوں نے خیال کیا کہ اگر ہم نے کہا ۔ ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں تو مہاجرین سمجھیں گے کہ ہمیں ان کے رشتہ داروں سے لڑنے کا شوق ہے پس ان کی دلجوئی اور مہمانوں کی عزت کی وجہ سے سب انصار خاموش رہے ۔ مہاجرین یکے بعد دیگرے اٹھتے اور اٹھ اٹھ کر قربانی کی رغبت ایثار اور فدائیت کے جوش کا اظہار کرتے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر صحابی کی تقریر کے بعد فرماتے ۔ کہ اے لوگو!مجھے مشورہ دو۔ جب آپ نے متواتر یہ بات دہرائی تو ایک انصاری اٹھے اور انہوں نے کہا۔ یارسول اللہ !آپ کو مشورہ تو دیا جارہاہے ۔ لیکن باوجود مشورہ پیش کئے جانے کے آپ یہی فرماتے ہیں کہ اے لوگو مشورہ دو۔ شاید آپ کی مراد لوگوں سے ہم انصار ہیں کہ ہم بھی مشورہ دیں ۔ورنہ مشورہ تو آپ کو مل ہی رہا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ٹھیک ہے ۔میری یہی مراد تھی اس صحابی نے کہا۔ یارسول اللہ ! ہم نے آپ سے مکہ میں ایک معائدہ کیا تھا اور اقرار کیا تھا کہ اگر دشمن مدینہ پر حملہ آور ہواتو ہم ہر طرح اس کا مقابلہ کریں گے لیکن مدینہ سے باہر اگر لڑائی ہوئی تو ہم اس معائدہ کے پابند نہیں ہوںگے ۔ کیونکہ ہمارے اند راتنی طاقت نہیںکہ سارے عرب سے لڑ سکیں۔ شاید آپ جو باربار ہم مشورہ چاہتے ہیںتو آپ کا اشارہ اس معاہد ہ کی طرف ہے ۔ آپ نے فرمایا ۔ٹھیک ہے اس انصاری نے یہ بات سن کر بڑے جوش سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ!جب آپ سے ہم نے مکہ میں وہ معاہد ہ کیا تھااس وقت تک آپ کا مقام ہم پر پوری طرح روشن نہیں ہوا تھا ۔ صرف ایک محدود روشنی ہمیں ملی تھی اور ہم شرطیں باندھنے میںکوئی حرج نہیں سمجھتے تھے لیکن یارسول اللہ ! اس کے بعد حقیقت اسلام ہم پر پوری طرح کھل چکی ہے اور آپ کی صداقت کو ہم نے پوری طرح پرکھ لیا ہے ۔ اس صداقت کے روشن ہوجانے اور پرکھنے کے بعد کیا اب بھی کوئی شرط باقی رہ سکتی ہے۔اب تو شرطوں کا سوال ہی نہیں یا رسول اللہ ! اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ تم اپنے گھوڑوں اور سواریوں کو سمندر میںڈال دو تو ہم بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سمندر میں اپنے ڈال دیں گے اور یارسول اللہ! اگر یہاں جنگ ہوئی تو دشمن گو طاقت ور ہے اور تعدا د میںبھی بہت زیادہ ہے۔مگر ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے۔ آگے بھی لڑیں گے پیچھے بھی لڑیں گے ۔ خدا کی قسم ! دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے ۔یہ وہ نمونہ ہے جو صحابہؓ نے دکھایا اور پھر منہ کی باتوں تک ہی انہوں نے اپنے جذبہ اخلاص کو محدود نہیںرکھا بلکہ عملی رنگ میں بھی وہ رات اور دن اسلام کے لئے قربانیاں کرتے رہے اور انہوں نے ایسی جانثاری کا نمونہ دکھایا کہ سر ولیم میور ؔ ’’لائف آف محمد ‘‘میں غزوئہ احزاب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس جنگ میں کفارکا اتنا بڑا لشکر جمع ہوا تھا کہ اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کا شکست کھا جانا بالکل یقینی امر تھا ۔ مگر اتنے بڑے لشکر کے باوجود کفار کوجو کامیابی حاصل نہ ہوئی تو اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ کفارسے ایک سیاسی غلطی ہوئی۔ اور وہ یہ کہ جب وہ خندق پار کر کے آگے آ جاتے تو وہ اپنی بیوقوفی سے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کیطرف بڑھنا شروع کردیتے تھے مگر محمد رسول اللہ کے صحابہؓ آپ پر اتنے فدا تھے کہ جب وہ دیکھتے کہ ان لوگوں کا منشاء یہ ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کریںتو مرد عورتیں اور بچے پاگلوں کی طرح دشمن کے لشکر کے سامنے آجاتے تھے اور وہ شکست کھانے پر مجبور ہوجاتا تھا اگر وہ یہ بیوقوفی نہ کرتے کہ محمدرسول اللہ کے خیمہ کی طرف رجوع کرتے تو ممکن ہے کہ انکو احزاب میں فتح ہوجاتی۔ غرض صحابہ نے اپنے عشق کا جو نمونہ دکھایا موسیٰؑ کی جماعت کا نمونہ اس کے مقابلہ میں کوئی
حقیقت ہی نہیںرکھتا ۔ پس محمد رسول اللہ کا ید بیضاء موسیٰؑ کے ید بیضاء سے افضل ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عصا قرآنی موسیٰؑ کے عصا پر ہر لحاظ سے فضیلت رکھتا ہے۔
قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَہٓٗ اِ نَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ٭
اِس پر فرعون نے اپنے اردگرد کے سرداروں سے کہا یہ یہ تو کوئی بڑا واقف کار جادوگر ہے
یُّرِیْدُ اَنَ یُّخْرِجَکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ بِسِحْرِہٖ ۔ فَمَا ذَا تَامُرُوْنَ٭
یہ چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے ذریعہ سے تم کو تمہارے ملک سے نکال دے۔پس بتاؤ تم کیا مشورہ دیتے ہو۔
قَالُوْٓا اَرْجِہْ وَاَخَاہُ وَابْعَثْ فِی الْمَدَٓائِنِ حٰشِرِیْنَ٭
انہوں نے کہا۔ اس کو اور اس کے بھا ئی کو (کچھ دن) ڈھیل دے۔اور مختلف شہروں کی طرف آدمی بھجوا جو (قابل آدمیوں کو) جمع کرسکیں۔
یَاْتُوْکَ بِکُلِّ سَحَّارٍ عَلِیْمٍ٭
(اور)ہر بڑے جادو گر اور بڑے جاننے والے کو تیرے پاس لے آئیں۔
فَجُمِعَ السَّحَرَۃُ لِمِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ٭
اس پر سب جادوگر ایک معلوم دن پر جمع کئے گئے۔
وَّ قِیْلَ لِلنَّاسِ ھَلْ اَنْتُمْ مُّجْتَمِعُوْنَ٭
اور لوگوں سے کہاگیا۔ کیا تم سب (ایک مقصد پر) اکٹھے ہونے کے لئے تیا رہو(کہ نہیں)۔
لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَۃَ اِنْ کَانُوْ اھُمُ الْغٰلِبِیْنَ٭
تاکہ اگر جادو گر غالب ہوجائیں تو ہم اُن کے کہنے پر چلیں۔ ۹؎
۹؎حل لغات:۔اَرْجِہْ :اَرْجَہَ الْاَمْرَکے معنی ہیں اَخَّرَہٗ عَنْ وَقْتِہٖ کسی معاملہ کو اس کے وقت سے پیچھے ہٹادیا (اقرب )اَرْجِہْ امر کاصیغہ ہے اس لئے اس کے معنی ہوں گے ۔پیچھے ہٹادے ۔یعنی ڈھیل دے دے ۔
میقا ت :مطلق وقت کوبھی کہتے ہیں ۔اور اس وقت کو بھی کہتے ہیں جو کسی چیز کے لئے مقرر کیاجائے نیز اس کے معنی ہیں الموعود الّذی جعل لہ وقت وہ وعدہ جس کے لئے کوئی وقت مقرر کیاجائے ۔وَقَدْ یُسْتَعَارُ لِلْمَوْضِعِ ِالَّذِیْ جُعِلَ
وَقْتًالِلشَّی ئِّاور کبھی اس جگہ کو بھی میقات کہہ دیتے ہیں جو کسی کام کے سر انجام دینے کے لئے مقرر کی جائے (اقرب)
تفسیر:۔جب فرعون نے موسوی عصا اور ید بیضاء کا نشان دیکھا توچونکہ وہ دینی علوم سے بے بہرہ تھا اُس نے یہ نہ سمجھا کہ یہ ایک کشف ہے جس میں اردگردکے لوگوں کو بھی شامل کرلیا گیا ہے بلکہ سمجھا کہ شاید یہ کوئی جادو گر ہے جو اپنے فن میں بڑا مشّاق ہے اور چونکہ جادو گر روحانی آدمی نہیں ہوتا اس لئے خیال کرلیا کہ ضرور اس جادوگر کے پیچھے کوئی غرض ہوگی اور وہ غرض اُس نے یہ نکالی کہ یہ ہم کو اپنے ملک سے نکالنا چاہتا ہے اس بیوقوف نے یہ نہ سوچا کہ تھوڑی ہی دیر پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام اُس سے کہہ چکے تھے کہ میں تیرے پا س اس لئے آیا ہوں کہ تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے تو جو شخص بنی اسرائیل کو مصر سے نکالنے کی خواہش کرتا ہے وہ قبطیوں کو جو اس کی مخالف قوم تھے مصر سے نکالنے کا کس طرح ارادہ کرسکتا ہے ؟ یہ دونو ں باتیں تو متضاد ہیں۔اگر بنی اسرائیل نکل جاتے تو قبطیوں کے پائوں اور بھی مضبوط ہوجاتے ۔بنی اسرائیل کی نکالنے کی خواہش سے قبطیوں کے نکالنے کا ذکر کہاں سے نکلا؟ مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس کے درباریوں کے ہوش کچھ ٹھکانے تھے انہوں نے سمجھ لیا کہ بادشاہ بے تُکی باتیں کررہاہے موسیٰؑ کی باتوں سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو نکالنا چاہتا ہے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ قبطیوں یعنی قوم فرعون کو نکالنا چاہتا ہے اس لئے انہوں نے کہا اس کو اور اس کے بھائی کو ابھی ڈھیل دیجیئے ۔اور اردگرد آدمی بھیجیئے کہ وہ تمام تمام بڑے بڑے ساحروں کو جمع کرلیں۔ اگر یہ واقعہ میں ساحر ہے نبی نہیں تو یہ اُن سے ہار جائے گا ۔ اور اس کا دعویٰ باطل ثابت ہوجائے گا چنانچہ لوگوں کو اعلان کر کے جمع کیا گیا او ر انہیںکہہ دیا گیا کہ اگر ساحر غالب رہے تو ہم اُن کے پیچھے چل پڑیں گے ۔ یہ فقرہ بتارہا ہے کہ کفار کی ذہنیت کیسی پست ہوتی ہے ۔ چونکہ ان کے دل خدا تعالیٰ کی خشیت سے بالکل خالی ہوتے ہیںاس لئے وہ نبی کو ماننے کیلئے تو کسی صور ت میں بھی تیا ر نہیں ہوتے ۔ لیکن ان کا مخالف تھوڑی سی بھی کامیابی حاصل کرلے تواُس کے پیچھے چلنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں قومِ فرعون کی ایسی افسوسناک ذہنیت کا قرآن کریم نے ایک اور مقام پر ان الفاظ میں ذکر فرمایاہے کہ وَلَقَدْ اَرسَلْنَامُوْسیٰ بِاٰیٰتِنَا وَسُلطٰنٍ مُّبِیْنٍ اِلیٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَاْ ئِہٖ فَاتَّبَعُوْٓ ااَمْرَ فِرْعَوْنَ ۔وَمَآ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ۔(ھودع۹)یعنی ہم نے موسیٰؑ کو ہر قسم کے نشانات اور روشن دلائل دے کر فرعون اور اس کی قوم کے بڑے بڑے عمائد کی طرف بھیجا لیکن بجائے اس کے کہ موسیٰؑ کی پیروی کرتے انہوں نے فرعون کی پیروی کی ۔حالانکہ فرعون کی جو تعلیم تھی وہ صحیح راستہ دکھانے والی نہ تھی ۔لیکن پھر بھی جو گمراہی کیطرف لے جانے والا تھا اس کی بات تو انہوں نے مان لی او ر جو ہدایت کی طرف لے جانے والا تھا اس کی بات نہ مانی ۔
بدقسمتی سے یہی طریق ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔ جب رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوئے تو آپ نے جو تعلیم دی وہ بنی نوع انسان کو فلاح اور کامیابی کے مقام تک پہنچانے والی تھی مگر آپ کے بطن کے لوگوں نے ا س کا انکار کردیا اور پہلے تو ابوجہل کے پیچھے چلے جو فرعون کا ایک روحانی قائم مقام تھا اور اس کی ہر گندی اور فساد پھیلانے والی تعلیم کو انہوں نے قبول کرلیا اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم کو رد کردیا آپؐ کے بعد بھی یہی ہوا ۔ حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ ہوئے تو صحابہؓ آپ پر ایمان لے آئے مگر سارے عرب نے بغاوت کردی اور انہوں نے وہی طریق اختیا رکیا جو ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے اختیار کیا تھا اور اس وقت کے فراعنہ کے پیچھے چل پڑے ۔اس وقت کے فرعون مسلمہ کذاب ۔ اور اسودؔعنسی اور سجاح ؔوغیرہ تھے جنہوں نے جھوٹے طورپر نبوت کا دعویٰ کردیا
اور لوگ ان کے متّبع ہوگئے ۔ مگر جو رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا جانشین تھا اور لوگوں کے اندر اسلامی روح پیدا کرنے والا تھا اس کو چھوڑ دیا۔ پھر آپؐ کے بعد حضرت عمرؓ کو خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ۔ تب بھی یہی ہوا۔ حضرت عمر ؓ اپنی وفات کے قریب حج کیلئے گئے تو بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ عمرؓ مر جائیں گے تو ہم فلاں کو خلیفہ بنائیں گے ۔ اور کسی کی بیعت نہیں کریں گے ۔پھر اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے ماتحت حضرت عثمان ؓ خلیفہ ہوئے تو ان کے زمانہ میں بھی عبداللہ بن صباح جیسے لوگوں نے فتنا کھڑا کردیا۔ یہ شخص بھی مصری تھا جیسا کہ فرعون مصری تھا اور لوگوں نے اس کی بات ماننا شروع کردی ۔ ان کے بعد حضرت علیؓ خلیفہ ہوئے ۔ تب بھی لوگوں نے یہی طریق اختیار کیا پہلے تو حضرت علیؓ کو خلیفہ بننے پر مجبور کیا اور پھر ایک چھوٹا سا عذر کرکے کہ معاویہؓ سے صلح کیوں کی انہیں لوگوں نے جنہوں نے آپ کو خلافت کیلئے کھڑا کیا تھا بغاو ت کردی اور خوارج کے نام سے الگ ہوگئے ۔اورانہوں نے دو صدیوں تک اسلام میں وہ تہلکہ مچایاکہ لوگوں کاا من بالکل برباد ہوگیا ۔اسی طرح رسول کریم ﷺ کی بعثت پر ایک لمبا عرصہ گذرگیا اور امت محمدیہ میں مختلف اولیاء پیداہوئے ۔تب بھی یہی ہوا کہ لوگوں نے ان کی نہ سنی بلکہ ان کے دشمنوں کی سنی جو اپنے وقت کے فرعون تھے اور ان کے پیچھے چل پڑے ۔چنانچہ حضرت معین الدین چشتی ؒ ۔حضرت قطب الدین صاحب بختیار کاکی ۔حضرت نظام الدین صاحب اولیاء اور حضرت خواجہ فریدالدین صاحب گنج شکر وغیرہ کی بھی مخالفت ہوئی ۔حضرت سید احمد صاحب سرہندی آئے تو لوگوں نے جہانگیر کے کان بھرنے شروع کردیئے کہ یہ شخص حکومت کاباغی ہے اسے جلدی سنبھالیں ورنہ سخت فتنہ پیداہوجائے گا۔چنانچہ جہانگیر نے انہیں گوالیار کے قلعہ میں قید کردیا ۔مگر پھر بعض لوگوں نے انہیں سمجھایاکہ یہ بزرگ انسان ہے اسے رہاکردو۔چنانچہ اس نے دانائی سے کام لے کرا نہیںرہاکردیا ۔
غرض جب سے اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور خلفاء کاسلسلہ جاری ہے صداقت کی ہمیشہ مخالفت ہوتی چلی آئی ہے ۔یہی مخالفت کا جذبہ فرعون اور اس کی قوم کے اکابر کے دل و دماغ پربھی حاوی تھا ۔چنانچہ انہوں نے لوگوں کو جمع کیا ۔مگر انہیں یہ کہنے کی توفیق نہ ملی کہ اگر اس مقابلہ کے نتیجہ میں موسیٰ ؑغالب آگیا تو ہم موسیٰؑ کے پیچھے چل پڑیںگے اور اس کی بات مان لیں گے ۔بلکہ انہوں نے اگر لوگوں کے کان میں کوئی بات ڈالی تو صرف یہی کہ اگر جادوگر غالب آگئے تو ہم ان کے پیچھے چل پڑیںگے ۔حالانکہ مقابلہ میں اس بات کابھی امکان تھا کہ موسیٰؑ جیت جاتے اور جادوگر ہار جاتے مگر باوجود اس کے کہ دونوں پہلو ان کے سامنے موجود تھے اور وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اگرجادوگر غالب آگئے تو ہم جادوگروں کی بات مان لیںگے اور اگرموسیٰؑ غالب آیاتو ہم موسیٰؑ کی بات مان لیں گے ۔انہوں نے صرف اتناکہاکہ اگر جادوگر غالب آئے تو ہم ان کے پیچھے چل پڑیں گے اور اس طرح انہوں نے اپنے دلوں کے بغض اورعنادکا اظہار کردیا ۔اور بتادیاکہ انہیں صداقت سے کوئی غرض نہیں۔وہ صرف فرعون کی خوشنودی حاصل کرناچاہتے ہیںاور اسی غرض کیلئے وہ اس مقابلہ کاانتظار کررہے ہیں۔
حضر ت موسیٰؑ جیسے عظیم الشان نبی کے مقابلہ میں ان کاساحروں کو بلانایہ بھی بتاتاہے کہ انبیاء کی ابتدائی حالت کتنی کمزور ہوتی ہے حضرت موسیٰؑ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اور آپ فرعون کو تبلیغ کرنے کے لئے گئے تھے مگر وہ انہیں اتناحقیر سمجھتاتھا کہ ان کے مقابلہ کے لئے اس نے مداریوں کو بلاکرکھڑاکردیا۔مگر کجا وہ حالت اورکجا یہ کہ آج حضرت موسیٰؑ کی امت کو دنیامیں اتنی طاقت حاصل ہے کہ بڑی بڑی سلطنتیں اس کی ناراضگی سے ڈرتی ہیں ۔آج امریکہ جیسی طاقت ان کی پیٹھ پر ہے اور فلسطین میں ان کی حکومت ہے لیکن اس وقت اتنی کمزوری کی حالت تھی کہ فرعون مداریوں کوبلاکر آپ کے مقابلہ پرکھڑاکردیتاہے ۔آج اگر ہندویا عیسائی کسی مسلمان عالم کے مقابل پر بھی مداری کھڑاکردیں تو تمام لوگ شور مچانا شروع کردیں گے کہ ان کی ہتک کی گئی ہے ۔لیکن حضرت موسیٰؑ اس خیال سے کہ شاید اللہ تعالیٰ ان کو اسی راہ سے ہدایت دے دے مقابلہ سے انکار نہ کیا ۔اور مداریوں کے مقابلہ میں بھی کھڑے ہونے کے لئے تیار ہوگئے ۔لیکن اب اگر وہی فرعو ن دوبارہ زندہ کیاجائے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ حضرت موسیٰؑ کے مقابلہ میں اپنے آپ کو ایک بندر سے بھی زیاد ہ ذلیل سمجھے اور یہ دیکھ کرحیران ہوکہ اس کی نسل کاتو دنیامیں کہیں نشان بھی نظر نہیں آتا اور حضرت موسیٰؑ کی قوم فلسطین پر حکومت کررہی ہے ۔
فلمّا جاء السِحرۃ قالوا لفرعون ا ئنّ لنا لاجراً ان کنّا نحن الغٰلبین قال نعم وانّکم اذالّمن المقرّبین
پس جب جادو گر آگئے تو انہوں نے فرعون سے کہاکہ اگر ہم غالب ہوئے تو کیا ہمیں کوئی انعام بھی ملے گا (فرعون نے) کہا۔ہاں :بلکہ اس صورت میں تم دربار میں مقربین میںجگہ پائو گے ۔۱۰؎
۱۰؎تفسیر:۔جب جادوگرآ گئے تو انہوں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم غالب آئے تو کیا ہمیں کوئی انعام بھی ملے گا ؟اس آیت سے نبی اور غیر نبی کی طبیعت کا فرق معلوم ہوجاتا ہے ۔حضرت موسیٰؑ کی باتیں جو اوپرگذر چکی ہیں ان سے صاف معلوم ہوتاہے کہ وہ اپنا اور ساری دنیا کو پالنے والا صرف خداتعالیٰ کوقرار دیتے تھے کسی بندے پر اپنی نگاہ نہیں رکھتے تھے ۔لیکن جو مداری فرعون نے ان کے مقابلہ کے لئے جمع کئے تھے ان کی نظریں اتنی نیچی اور ان کے حوصلے اتنے پست تھے کہ بادشاہ کے دربار میںآتے ہی بول پڑے کہ حضور اگر ہم جیت گئے تو کیا کوئی انعام بھی ملے گا یا نہیں ۔یہی مضمون سورۃ اعراف میں بھی بیان کیاگیا ہے لیکن وہاں طر ز کلام بدل دی گئی ہے ۔وہاں یہ الفا ظ آتے ہیں کہ اِنَّ لَنَا لَاَجْراًاِنْ کُنَّانَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ (اعراف رکوع ۱۴) اگر ہم غالب آئے تو ہم کو ضرور اجر ملے گا۔مگر یہاں یہ کہاگیا ہے کہ اگر ہم غالب آئے تو کیا ہمیں کوئی انعام بھی ملے گا یانہیں۔گویابظاہر دونوں میں اختلاف دکھائی دیتاہے لیکن اگر غور کیاجائے تو ان دونوں آیتو ں میںکوئی حقیقی اختلاف نہیں ۔بے شک یہاں سوالیہ فقرہ استعمال کیاگیاہے ۔ مگر اس سوالیہ فقرہ کے یہ معنی نہیں کہ ان کو اجر ملنے کے متعلق کوئی شبہ تھا بلکہ بعض دفعہ سوالیہ فقرہ رتوقع کے لئے بھی استعمال ہوتاہے ۔ یعنی مطلب تو یہ ہوتاہے کہ ضرور ملے گا مگر کہنے والاکہتا یہ ہے کہ کیاکچھ ملے گابھی ؟پس سورۃ اعرا ف اور سورۃ شوراء کی آیتوں میں کوئی تضاد نہیں ۔مداریوں کے انعام کی خواہش ظاہر کرنے پر فرعون نے کہا۔ہاں ہاں انعام تو ملے گااور اس کے علاوہ تم میرے مقرب بھی ہوجائو گے ۔
قَا لَ لَھُمْ مُّوْ سیٰٓ اَلْقُوْا مَآ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ٭
اس پر موسیٰؑ نے اُن سے کہا جو تدبیر تم نے کرنی ہے کرلو۔
فَاَ لْقَوْا حِبَالَھُمْ وَعِصِیَّھُمْ وَقَالُوْا بِعِزَّۃِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ٭
اس پر انہوں نے اپنی رسیّاں اور اپنے سونٹے (میدان میں نکال کر) رکھ دیئے اور کہا۔ فرعون کے اقبال کی قسم ہم ضرور غالب آئیں گے ۔ ۱۱؎
۱۱؎ تفسیر:۔ جب فرعون اور آنے والے ساحروں میں بات چیت ہوچکی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم نے جو کچھ میرے مقابلہ میں پھینکنا ہے پھینکو۔
اس جگہ بھی سورئہ اعراف سے ایک اختلاف دکھائی دیتا ہے جس کاذکر کر دینا ضروری معلوم ہوتاہے ۔ اور وہ یہ کہ سورئہ اعراف میں یہ لکھا ہے کہ مداریوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَاِ مّآ اَنْ تَکُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ(اعراف ع ۱۴) یعنی پہلے آپ پھینکیں گے یا ہم پھینکیں۔ حضر ت موسیٰ علیہ السلام نے کہا پہلے تم پھینکو۔لیکن اس آیت میں مداریوں کے سوال کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ صر ف حضرت موسیٰؑ کا قول درج ہے کہ تم نے جو کچھ پھینکنا ہے پھینک لو۔ لیکن یہ بھی کوئی اختلاف نہیں بلکہ اس موقعہ کے مناسب یہی کلام تھا ۔ درحقیقت سورئہ اعراف میں مداریوں کا یہ یقین ظاہر کیا گیا ہے کہ ہم کو ضرور اجر ملے گا ۔ اس یقین کے مطابق انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ پہلے آپ پھینکیں گے یا پہلے ہم پھینکیں ۔ لیکن سورئہ شعراء میں وہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن میں توقع کا پہلو غالب ہے یقین کا پہلو اتنا نمایاں نہیںاس لئے اللہ تعالیٰ نے کلام کی مناسبت کے لحاظ سے مداریوں کاسوال حذف کردیا اور صرف حضرت موسیٰؑ کا قول نقل کردیا ۔ کہ میری نسبت پھر دیکھا جائے گا پہلے تم اپنی امید پوری کرلو ۔اور جو کچھ پھینکنا ہے پھینک لو ۔ چنانچہ مداریوں نے اپنی رسیّاں اور سونٹے پھینک دیئے اور فرعون کو خوش کرنے کے لئے کہا کہ فرعون کے اقبال سے ہم ہی غالب رہیں گے ۔ یہ الفاظ جو مداریوں کی زبان سے قرآن کریم میں استعمال کئے گئے ہیں قرآن کریم کی سچائی اور اس کے منجانب اللہ ہونے پر زبردست شاہد ہیں۔ عیسائی پادری ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی کتاب ہے۔ ہم تو ان کے اس اعتراض کو غلط سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں ۔ کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے جو گذشتہ اور موجودہ اور آئیندہ آنے والے زمانوں کے تمام حالات کو خوب جانتا ہے لیکن اگر دشمن کے قول کے مطابق قرآن کریم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی کلام قرار دیاجائے تب بھی ماننا پڑے گا کہ آپ کا ادبی کمال انتہا کو پہنچا ہواتھا اور آپ کے معلومات کی وسعت کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیںتھا کیونکہ قرآن کریم کہتاہے کہ جب فرعون نے مصر کے جادوگروں کو موسیٰؑ کے مقابلہ کیلئے بلایا تو اُس وقت انہوں نے کرتب دکھاتے وقت یہ الفاظ کہے کہ بِعِزَّۃِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغَا لِبُوْنَ۔ فرعون کے اقبال کی قسم ہم ضرور غالب آئیں گے ۔ اور یہ فقرات ایسے ہیں جو عربوں کے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی نہیں آسکتے تھے ۔ کیونکہ عرب میں کوئی مداری نہیں تھے جس سے
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فقرہ سن کر سمجھ لیتے کہ مداری کرتب دکھاتے وقت ہمیشہ اس قسم کے الفاظ کہا کرتے ہیں۔پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ قرآن کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہواہے انہیں سوچنا چاہئیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک اسیے ملک میں پیدا ہوئے تھے جہاں مداریوں اور ہتھکنڈے کرنے والوں کا نام ونشان تک نہ تھا ۔پھر یہ فقرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے بتایا ۔میں نے عرب کی تاریخ کا بڑا گہرامطالعہ کیا ہے ۔ اس کی تاریخ سے یہی پتا چلتا ہے کہ عرب لوگ شعروشاعری کے بڑے دلدادہ تھے اور گلہ بانی کرنا ان کا پیشہ تھا لیکن مداریوں اور ہتھکنڈے کرنے والوں کا ان کی تاریخ میں کہیں ذکر نہیں آتا ۔ وہ مصر اور ہندوستان وغیرہ میں پائے جاتے تھے مگر ان ممالک میںرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی گئے ہی نہیں۔پھر آپ کو یہ کس طرح معلوم ہوگیا کہ مداری جب کھیل دکھاتے ہیں تو وہ یہ فقرہ کہتے ہیں۔ میں نے خود بعض مداریوں کو دیکھا ہے کہ جب وہ کھیل شروع کرتے ہیں تو دیکھنے والوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیںکہ آپ کے اقبال سے ایسا ہوجائے گا ۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے مداریوں نے کہا بِعِزَّۃِ فِرْعَوْنَ۔فرعون کے اقبال کی قسم ۔لیکن عرب کی تاریخ میں کوئی محاورہ میں نے آج تک ایسا نہیں دیکھا۔جس میں یہ کہا گیا ہو کہ ہم یہ کلام فلاں کے اقبال سے شروع کرتے ہیں۔پس یہ فقرہ صاف بتاتا ہے کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے ۔لیکن اگر یہ فقرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے نہیں بتایا بلکہ نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنا لیا تھا تب بھی یہ آپؐ کا اتنا بڑا کمال ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی ۔ کیونکہ یہ بعینہٖ اسی رنگ کا فقرہ ہے جو مداری اب بھی کہتے ہیں ۔مگر یہ کتنی ہنسی کی بات ہے کہ ایک طرف تو وہ خدا تعالیٰ کے نبی پر غالب آنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم یقینا غالب آ جائیں گے اور دوسری طرف جس کی خاطر تماشا دکھا رہے ہیں اُس کی تعریف کرتے چلے جاتے ہیں کہ آپ کے اقبال سے ایسا ہو جائے گا تاکہ کچھ زیادہ پیسے مل جائیں۔
اِنَّہٗ لَکَبِیْرُ کُمُ الَّذِیْ عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ۔ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ۔ لَاُ قَطِّعَنَّ اَیْدِیَکُمْ وَاَرْفُلَکُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّلَاُ صَلِّبَنَّکُمْ اَجْمَعِیْنَ٭
یہ (شخص )یقینا تمہار اکوئی سردار ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے ۔ پس عنقریب تم (اپنا انجام) معلوم کرلو گے میں تمہارے ہاتھو ں اور پیروں کو (اپنی) خلاف ورزی کی وجہ سے کا ٹ دوں گا اور تم سب کو صلیب پر لٹکا دوں گا ۔
قَالُوْا لَا ضَیْرَ اِنَّآ اِلیٰ رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ٭
انہوں نے کہا (اس میں) کوئی حرج نہیں۔ آخر کار ہم اپنے ربّ کی طرف ہی لوٹ کر جانے والے ہیں۔
اِنَّانَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَ خَطٰیٰنَآ اَنْ کُنَّآ اَوَّلَ الْمُؤ مِنِیْنَ٭
ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا ربّ ہمارے گناہ اس وجہ سے معاف کردے گا کہ ہم سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے بن گئے ۔۱۲؎
۱۲؎ حل لغات:۔ تَلْقَفُ۔ لَقِفَ سے مضارع واحد مؤنث غالب کا صیغہ ہے اور لَقِفَ الشَّیئَ کے معنے ہوتے ہیں تَنَاوَلَہٗ بِسُرْ عَۃٍ اس کو جلدی سے پکڑ لیا(اقرب) پس تَلْقَفُ کے معنے ہونگے جو کام جادوگر کر رہے تھے اُس کی جلدی جلدی ملیامیٹ کرنے لگا۔
خِلَافٍ: خِلَافٌ کے معنے مخالفت کے بھی ہیں ۔ او ر اس کے معنے یہ بھی ہیں کہ دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ اور دایاں پاؤں (اقرب) ضَیْرَ: اَلضَّیْرُ کے معنے اَلْمُضَرَّۃُ کے ہیں یعنی نقصان (مفردات )
تفسیر :۔جب مداریوں نے اپنی رسیّاں اور سونٹے پھینک دیئے تو موسیٰؑ نے بھی اپنا عصا اُٹھا کر دے مارا۔اور چونکہ ان رسیّوں اور سونٹوں میں انہوں نے پارہ بھر رکھا تھا جس سے وہ ہلتی تھیں۔اس لئے جب موسیٰؑ کاسونٹا اُن کو زور سے لگا تو اُن میں سوراخ ہوگئے اور ان کا سارا فریب کھل گیا۔گویا تمثیلی زبان میں موسیٰؑ کا سونٹا اُن کے فریب کو کھا گیا ۔ جس پر مداری جو اپنی حقیقت کو خوب جانتے تھے ۔ سجدے میں گر گئے اور چلا اٹھے کہ ہم رب العالمین خدا پر جو موسیٰؑ اور ہارونٰؑ کا خدا ہے ایمان لاتے ہیں ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ موسیٰؑ نبی ہے اور ہم محض مداری ہیں ۔
اس جگہ اُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سَاجِدِیْنَ کے الفاظ فرما کر اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جادوگروں کی یہ شکست ایسی نمایاں تھی کہ انہیں یوں محسوس ہوا کہ گویا کسی خفیہ طاقت نے ان کے پاؤں تلے سے زمین نکال لی ہے اور وہ خدا کے سامنے سجدہ میں گرا دیئے گئے اور انہوں نے بلند آواز سے اس عمل کا اقرار کیا کہ ہم خدائے واحد پر ایمان لاتے ہیں اور موسیٰؑ اور ہارونٰؑ کی اتباع کرتے ہیں۔
اس پر فرعون غصہ میں آگیا اور اس نے کہاکیا تم میری اجازت سے پہلے اس پر ایمان لے آئے ہو ۔ معلوم ہوتا ہے یہ تمہار ا سردار ہے جس نے تم کو مداریوں کا فن سکھایا ہے ۔ پس تم جلدی ہی اپنے اس فعل کا نتیجہ دیکھ لو گے ۔گویا اتنی جلد ی وہ بھول گیا کہ ابھی تو میں ان کے خدا کے ایک نبی کے مقابلہ میں کھڑا کررہاتھا اور ان کو مقرب بنانے کی پیش کش کررہا تھا اور ابھی ان کو اتنا ذلیل قرار دے رہا ہوں کہ جو چاہوں انکو سزاد ے لوں۔ چنانچہ بولا کہ چونکہ تم میرے مخالف چل پڑے ہو۔اس لئے جرم کی وجہ سے میں تمہارے ہاتھ اور پیر کاٹ دوں گا اور پھر تم سب کو صلیب پر لٹکا دوں گا ۔ تاکہ دوسروں کا عبرت حاصل ہو۔مگر وہ پیسے لے کر تماشا دیکھا نے والے مداری اب مومن بن چکے تھے ۔وہ فرعون جیسے لوگوں کی دھمکیوں سے کب مرعوب ہوسکتے تھے انہوں نے جھٹ کہا ۔ اس میںکوئی حرج نہیں ہم نے ایک دن اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہی ہے اگر تمہارے ہاتھ سے مارے گئے تو کون سی بڑی بات ہے اگرتم نے ہم کو مارا تو ہمارا فائدہ ہی ہے۔ دین کی خاطر دکھ اٹھانے کی وجہ سے ہمارا رب ہمارے گناہ معاف کردے گا کیونکہ ہم ایسے برے ماحول میں سب سے پہلے خدا تعالیٰ کے نبی پر ایمان لائے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک کسی انسان کو خدا نظرنہیں آتا دنیاکی مصیبتیں اسے پہاڑ اور اس کے ابتلاء اسے بے کنار سمند ر نظر آتے ہیں ۔ مگر جب خدا نظرآجاتاہے تو اس کی نگاہ میں ساری چیزیں ہیش ہوجاتی ہیں ۔ تب ایک ہی چیز اس کے سامنے ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا قول پوراہو اور خدا کے قول کے مقابلہ میں نہ حکومتیں کوئی حقیقت رکھتی ہیں اورنہ بادشاہتیں کوئی حقیقت رکھتی ہیںاور نہ جائیدادیں کوئی حقیقت رکھتی ہیں۔ وہ ہنستا ہوا جاتا اوراپنی قربانی پیش کرتے خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہوجاتاہے ۔ ہماری جماعت کے صاحبزادہ عبداللطیف صاحب ؓ ہمارے جیسے ہی ایک انسان تھے ۔ مگر جب بادشاہ نے
ان کو بلا کر کہا کہ دیکھیں مولوی صاحب میرے دل میں آپ کا بڑا ادب ہے اور میں آپ کو رہا کرنا چاہتا ہوں لیکن اگر یوں ہی چھوڑ دوںتو مولوی میرے مخالف ہوجائیں گے۔ آپ صرف اتنا کریں کہ جب آپ سے پوچھا جائے کہ کیا آپ قادیانی ہیں تو آپ خواہ دل میں کچھ عقائد رکھیں زبان سے کہہ دیں کہ میں قادیانی نہیںہوں اس طرح میں آپ کو آسانی سے چھوڑ سکوں گا۔حضرت صاحبزادہ عبداللطیف ؓ صاحب نے کہا ۔ بادشاہ تمیں جان کی قیمت معلوم ہوتی ہو گی ۔ مجھے تو اس کی کوئی قیمت معلوم نہیںہوتی اور میں تو ایک قربانی پیش کرنے کے لئے ہی تمہارے پاس آیا ہوں ۔ مجھے تو پہلے ہی کہا گیا تھا کہ میں احمدیت کا اظہار نہ کروں مگر میں انکار کردیا ۔ دراصل وہ گورنر جس کے سامنے وہ پہلی دفعہ پیش ہوئے ۔ وہ بھی ان کے شاگردوں میں سے تھا ۔جب آپ اس سے ملے تو اس نے بھی کہا۔ کہ آپ یہاں سے بھاگ جائیں ۔ورنہ آپ کی جان خطرے میں پڑجائے گی ۔ صاحبزادہ صاحبؓ نے کہا ۔تمہاری ہتھکڑیاں کہاں ہیں لائو اور میرے ہاتھو ں میں پہنائو۔ مجھے تو آج رات خدا نے بتا یا ہے کہ مجھے سونے کے کنگن ڈالے جائیں گے ۔ پس میں اپنی موت سے نہیں ڈرتا ۔ میں تو قوم کی نجات کے لئے اپنی جان پیش کرنا چاہتاہوں ۔پھر جب انہیں پتھرائوکیا گیا ۔تو اس وقت بھی ان کے دل میں اپنی قوم کا کوئی کینہ اور بغض نہیں تھا۔ بلکہ سنگسارکرنے سے پہلے جب انہیں گاڑنے لگے ۔اور گاڑتے اس لئے ہیں کہ پتھر و ں کے ڈر سے انسان بھاگ نہ جائے تو صاحبزادہ صاحب ؓنے کہا کہ میں بھاگتا تو نہیں ۔ مجھے گاڑنے کی کیا ضرورت ہے ۔پھر جب اُن پر پتھر پڑنے لگے تو دیکھنے والوں کی گواہی ہے کہ صاحبزادہ صاحبؓ بلند آوازسے یہ دعا کرتے جاتے تھے کہ اے میرے رب!میری قوم پر رحم کر۔کیونکہ وہ جہالت سے ایسا کررہی ہے ۔یہ وہ شاندار نمونے ہیں جو قوموں کو زندہ کیا کرتے ہیں۔ بیشک اُن میں کچھ کمزور بھی ہوتے ہیں مگر نوجوان جب اس قسم کے نمونہ کو دیکھتے ہیں تو ان کے دلوں میں جوش پیدا ہو جاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کیسا اچھا انجام تھا آؤ ہم بھی ایسی ہی قربانی کریں اور وہ بھی آگ اور خون کے دریا میں چھلانگیں لگا دیتے ہیں ۔ یہی حکمت ہے جس کی بناء پر انجیل میں روحانی بادشاہت کو انگور کے باغ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ ۱؎
کیونکہ انگور کی بیل ہی ایک ایسی بیل ہوتی ہے جس کو سرسبز شاداب کرنے کے لئے خون کی کھاد ڈالی جاتی ہے پس اس مثال میں اس طرف اشارہ تھا کہ خدا تعالیٰ کے دین کو تازہ کرنے کے لئے ہمیشہ انسانی قربانیوں کی ضرورت ہوگی اور انسانوں کے خون اس باغ کی جڑوں میں گرا کر اسے پھر زندہ اور سرسبز شاداب کیا جائے گا ۔چنانچہ روحانی سلسلوں کی ایک لمبی تاریخ اس صداقت کو واضح کرتی ہے۔ آج تک کوئی نبی بھی ایسا نہیں گزرا جس کی جماعت شدید ترین مصائب میں سے نہ گزری ہو۔ ان کو گرفتار کیا گیا ۔ اُن کو قتل کیا گیا ۔ اُن کو پھانسی پر لٹکایا گیا اُن کو تلواروں سے شہید کیا گیا ۔ مگر ان تمام تکالیف کے باوجود صداقت دنیا پر ہمیشہ غالب آئی ۔حضرت داؤدؑ کے بعد بخت نصر نے بیت المقدس کی ساری عمارتیں تہہ و بالا کردی تھیں اور مسجد اقصیٰ کا نشان تک بھی اُس نے نہ چھوڑا تھا ۔ مگر ان تمام باتوں سے کیا ہوا ۔ بات تو وہ تھی جو موسیٰؑ لایا ۔ مگر موسیٰؑ کی لائی ہوئی بات آ ج تک دنیا نہیں مٹا سکی ۔ ان کی عزت آج بھی دنیا میں قائم ہے اور آج بھی ان کے ناموں پر اپنی جانیں قربان کرنے والے لوگ دنیا میں موجود ہیں ۔ آج ایک زندہ اور باجبروت اور قاہر اور خبر دار اور منتظم بادشاہ کو گالی دے کر ایک انسان سزا سے بچ سکتا ہے ۔ اس کی گرفت سے بھاگ سکتا ہے لیکن یہ لوگ جو
۱؎ ۔لوقاباب ۲۰آیت ۹تا۱۸
انسانوں جیسے انسان تھے اوّل تو فقیری میں انہوں نے عمر گزاردی اور اگر بعض بادشاہ بھی ہوئے تو اُن کی بادشاہتیں اپنی دنیوی عظمت کے لحاظ سے بہت سے دنیوی بادشاہوں سے کم تھیں ۔ لیکن آج جب کہ وہ منوں مٹی کے نیچے دفن ہیں اور بعض کی نسلوں کا بھی کوئی پتہ نہیں چلتا۔ اور بعض کی اُمتیں بھی مٹ چکی ہیں کوئی زبردست سے زبردست بادشاہ بھی بے ادبی سے اُ ن کا نام لے تو وہ ذلّت و رسوائی سے بچ نہیں سکتا کیونکہ انہوں نے خداتعالیٰ کی محبت کی چھُری کو خوشی سے اپنی گردنوں پر پھروالیا اور وہ خدا کے برے قرار پائے گویا جس طرح ایک بکری کا گوشت اُس کے ذبح ہوجانے کے بعد انسان کی غذا بن کر انسان ہوجاتا ہے اسی طرح جو لوگ خدا کے برے بن کر قربان ہوجاتے ہیں ۔اور ابدی بادشاہت اُن کو عطا کی جاتی ہے ۔ موسیٰؑ پر ایمان لانے والے ساحروں نے بھی قربانی کا یہی شاندار نمونہ دکھایا ۔اور انہوں نے فرعون سے کہہ دیا کہ ہمارے دل اب نُور ایمان سے منور ہو چکے ہیں اب تیری کوئی بھی تکلیف ہمیں جادئہ حق سے منحرف نہیں کرسکتی ۔ یہی ایمان ہے جو انسان کی نجات کا باعث بنتا ہے اوریہی قربانی کی رُوح ہے جو قوموں کو دنیا پر غالب کیا کرتی ہے ۔
وَاَوْحَیْنَآ اِلیٰ مُوْسیٰٓ اَنْ اَسْرِبِعِبَادِیْٓ اِنَّکُمْ مُّتَّبَعُوْنَ٭
اور ہم نے موسیٰؑ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے جا۔تمہارا پیچھا کیا جائے گا ۔
فَاَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِی الْمَدَٓائِنِ حٰشِرِیْنَ٭
اس پر فرعون نے شہروں کی طرف جمع کرنے والے آدمی بھجوائے ۔
اِنَّ ھٰٓؤُ لَآ ئِ لَشِرْذَمَۃٌ قَلِیْلُوْنَ٭
(یہ کہتے ہوئے کہ ) یہ لوگ (یعنی بنی اسرائیل ) تو ایک تھوڑی سی جماعت ہیں۔
وَاِنَّھُمْ لَنَا لَغَآئِظُوْنَ٭
باوجود اس کے وہ ہم کو غصہ دلا رہے ہیں۔
وَاِنَّا لَجَمِیْعٌ حٰذِرُوْنَ٭
اور ہم ایک (بڑی) جماعت ہیں جو محتاط ہیں (پس ہمیں ان کا مقابلہ کرنا چاہئیے )۔۱۳؎
۱۳؎ حل لغات:۔ اَسْرِ:اَسْرٰی سے امر کا صیغہ ہے۔ اور اَسْرٰی سے باب افعال کا ماضی کا صیغہ ہے ۔ سَرَی الرَّجُلُ کے معنے ہوتے ہیں سَارَ عَامَّۃَ اللَّیْلِ۔ یعنی وہ رات کے اکثر حصہ میں چلتا رہا۔ اور اَسْرٰی کے معنے سَرَی کی طرح ہی ہیں ۔ لیکن بعض ائمہ لُغت نے کہاہے کہ اَسْرٰیلِاَوَّلِ اللَّیْلِ وَسَرَی لِاٰخَرِ اللَّیْلِ ۔رات کے ابتدائی حصہ میں چلنے کے لئے اَسْرٰی کا فعل استعمال کیا جاتا ہے اور رات کے آخری حصہ میں چلنے کے لئے سَرَی کا (اقرب) پس اَسْرِ بِعِبَادِیْ کے
معنے ہونگے (۱) رات کے وقت میرے بندوں کو لے کر چل۔(۲) یا رات کے ابتدائی حصہ میں لے کر چل۔
شِرْ ذَمَۃٌ : اَلشِّرْذَمَۃُ: اَلْجَمَاعَۃُ الْقَلِیْلَۃُ مِنَ النَّاسِ۔ لوگوں کی تھوڑی سی جماعت (اقرب)
حٰذِرُوْنَ: حَاذِرٌ سے جمع کا صیغہ ہے اور حَاذِرٌ کے معنے ہوتے ہیں اَلْمُتَاٰھِّبُ۔ اَلْمُسَتَعِدُّ چوکس اور تیا ر۔(اقرب)
تفسیر:۔ اِس آیت میں اَسْرِ کا لفظ آتا ہے جو سَرٰی سے نکلا ہے اور سَرَی الرَّجُلُ کے معنے ہوتے ہیں سَارَ عَامَّۃَ اللَّیْلِ فلاں شخص رات کا اکثر حصہ چلتا رہا۔ اور جب اَسْرَی الرَّجُلُ اِسْرَائً کہیں تو اس کے معنے بھی سَرٰی کی طرح ہی رات کو چلنے کے ہوتے ہیں ۔لیکن بعض لغویوں نے کہا ہے کہ اَسْرٰی کے معنے ہوتے ہیں رات کے پہلے حصہ میں چلا ۔ اور سَرٰی کے معنے ہوتے ہیں رات کے پچھلے حصہ میں چلا ۔
اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اب فرعون کافی ڈرگیا ہے ۔ اُس سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ۔ اب خدا کا نام لے کر رات کے وقت اپنی قوم کو نکال کر لے جاؤ ۔ہاں ہوشیار رہنا کیونکہ فرعون اور اس کے ساتھی تمہارا پیچھا کریں گے ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ فرعون نے سب شہروں میں ڈھنڈورچی بھیج دیئے اور یہ اعلان کرا دیا کہ بنی اسرائیل ایک چھوٹی سی جماعت ہے جو ہمیں غصہ دلا رہی ہے حالانکہ ہم سب ایک بڑی جماعت ہیں جو ہرقسم کا سازو سامان بھی اپنے پاس رکھتے ہیں ۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم اکثریت میں ہوتے ہوئے اقلیت سے ڈر جائیں اور اُسے کچلنے کے لئے تیار نہ ہوجائیں ۔
یہی وہ عیب ہے جو ہر نبی کے زمانہ میں اُس کے دشمنوں میں دکھائی دیتا ہے کہ وہ اکثریت کے گھمنڈ میں بجائے دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنے کے یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ اگر تم نے ہماری بات نہ مانی تو ہم تمہیں ڈنڈے سے سیدھا کریں گے ۔ مثل مشہورہے کہ کوئی بھیڑیا ندی کے کنارے پانی پی رہاتھا کہ ایک بکری کا بچہ آیا اور اُس نے بھی پانی پینا شروع کردیا ۔ بکری کا بچہ دیکھ کر بھیڑیے کے منہ میں پانی بھر آیا اور اُس نے چاہا کہ اُسے کھالے ۔انسانوں اور حیوانوں کے حالات ایک سے نہیں ہوتے ۔ انسان دلیل دیتا ہے ۔لیکن ایک حیوان دلیل نہیں دیتا ۔ مثال میں چونکہ دلیل دی گئی ہے اِس لئے یہاں بھیڑیے سے مراد وہ آدمی ہے جو بھیڑے کے سے خصائل رکھتا ہو اور بکری کے بچہ سے مراد وہ آدمی ہے جو اس کے خصائل رکھتا ہو بہرحال بھیڑیے کویہ لالچ پیدا ہوا ۔ کہ کسی نہ کسی طرح بکری کے بچہ کو کھالے ۔ چنانچہ وہ بکری کے بچہ کو دیکھ کر کہنے لگا ۔ تجھے شرم نہیں آتی کہ تو میرا پانی گدلا کررہا ہے بکری کے بچہ نے کہا ۔ سرکار یہ کون سی بات ہے آپ نے سوچا نہیں کہ آپ اوپر ہیں اور میں نیچے ہوں۔ آپ کا پیا ہوا پانی میری طرف آرہا ہے نہ کہ میرا پیا ہوا پانی آپ کی طرف جارہا ہے ۔ بھڑیے نے آگے بڑھ کر بکری کے بچہ کو تھپّڑ مارا اور اُسے ماردیا اورکہا نالائق آگے سے جواب دیتا ہے ۔ یہی حالت حق کے مخالفوں کی ہوتی ہے ۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ سچائی کیا چیز ہے ۔وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اکثریت ہماری طرف ہے اور ہم اکثر یت کے بل بوتے پر جو کچھ چاہیں کرسکتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ صاحب قادیان آئے اور ایک بڑے جلسہ میں نعرہ ہائے تکبیر میں انہوں نے کہا ۔ میں ایک نکتہ بیان کرتا ہوں ۔ مرزا صاحب اور میرے درمیان آسان طریقِ فیصلہ یہ ہے کہ مرزا صاحب میرے ساتھ کلکتہ تک ٹرین میں چلیں ۔کلکتہ تک بیسیوں اسٹیشن ہیں ۔ہم دیکھیں گے کہ راستہ میں انہیں پتھر پڑتے ہیں یا مجھے اورپھول مجھ پر برسائے جاتے ہیں یا ان پر ۔ کلکتہ تک جاتے ہوئے اس بات کا فیصلہ
ہوجائے گا کہ مسلمان کس کی تائید میں ہیں ۔جماعت کے دوست گبھرائے ہوئے میرے پاس آئے ۔اور انہوں نے کہا ۔ لوگوں پر بہت برا اثر ہوا ہے اور وہ اِس وقت سخت جوش میں ہیں ۔ شام کو میری تقریر تھی ۔میں نے کہا۔ مولوی ثناء اللہ صاحب نے خود فیصلہ کردیا ہے کہ سچا کون ہے ۔ صرف فرق یہ ہے کہ انہوں نے نتیجہ ازخود نکال لیا ہے ورنہ اگر نتیجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے نکلا ہوا ہے توپھر ہمارے لئے اچھا ہے ۔ میں نے کہا۔ مولوی ثناء اللہ صاحب نے کہا ہے کہ مرزا محمود احمد میرے ساتھ کلکتہ تک چلیں ہم دیکھیں گے کہ راستہ میں پھول کس پر برستے ہیں اور پتھر کس پر پھینکے جاتے ہیں اور اس سے مولوی صاحب نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جس پر پھُول پڑیں گے وہ سچا ہوگا ۔ حالانکہ نتیجہ نکالنا ان کا کام نہیں تھا ہم سے پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوجہل گزرچکے ہیں۔ مولوی صاحب خود بتادیں کہ مکہ میں پتھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑا کرتے تھے یا ابو جہل کو ۔ اور پھول ابوجہل کو پڑ اکرتے تھے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ۔اور اگر پتھررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑا کرتے تھے اور پھول ابوجہل پر برسائے جاتے تھے تو نتیجہ ظاہر ہے کہ جس پر پتھر پڑیں گے وہ سچا ہوگا اور جس پر پھول برسائے جائیں گے وہ جھوٹا ہوگا ۔
غرض کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو دین سے بے بہرہ ہوتے ہیں اور اس وجہ سے وہ ہر قسم کے مظالم پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں ۔ لیکن جس طرح کثرت دماغ میں غرور پیدا کر کے عقل ماردیتی ہے اسی طرح عشق بھی ایک عاشقِ صاد ق کے اندر کبریائی پیدا کردیتا ہے ۔مگر وہ کبریائی کے نشہ میں آکر مارتا نہیں بلکہ مرتا ہے ۔ چنانچہ دیکھ لو کثر ت والوں نے ہمیشہ تھوڑی تعداد والوں کو اپنے غرور میں آکر مارا ہے لیکن عاشقوںنے ہمیشہ اپنے معشوقوں کے لئے جانیں دی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسی حقیقت کی طرف اپنے شعر میں اشارہ فرماتے ہیں کہ ؎
درکوئے تو اگر سرِ عُشاق رازنند
اوّل کسے کہ لافِ تعشق زند منم
یعنی اگر تیرے کوچہ میں جانے والوں کے متعلق یہ حکم ہوجائے کہ ہر شخص جو عاشقی کا دعویٰ کرے گا اُسے قتل کردیا جائے گا تو گو عشق کا دل کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور کوئی شخص دعویٰ کرے یا نہ کرے عاشق عاشق ہی ہوتا ہے ۔لیکن اگر یہ اعلان ہوجائے کہ جو بھی عشق کا دعویٰ کرے گا اس کا سر قلم کردیا جائے گا تو سب سے پہلا شخص جو دعویٰ کرے گا اور کہے گاکہ میں عاشق ہوں وہ میں ہوں گا ۔
حقیقت یہ ہے کہ عاشق اور مسلمان تو متضاد چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی چیز کے یہ دو نام ہیں مگر عاشق سے میری مراد ہوس پرست عاشق نہیں بلکہ ایک سچا اور کامل مسلمان مراد ہے ۔ وہ مصائب کو صرف برداشت ہی نہیں کرتا بلکہ اگر اس پر مصائب نہ آئیںتو وہ اپنے اندر ایک بے کلی سی محسوس کرتا ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں میرا محبوب مجھ سے خفا تو نہیں ہوگیا ۔ مصائب سے بھاگنا ایک منافق کا کام ہے اور مصائب کو برداشت کرنا صرف مسلمان کا خاصہ نہیں بلکہ ایک کافر بھی اس میں شریک ہوسکتا ہے ۔لیکن سچا مسلمان وہ ہے جو نہ صرف مصائب کو برداشت کرتا ہے بلکہ مشکلات کے دور کو اپنی روحانی ترقی کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے۔ اور اگر اس دور میں التواء واقعہ ہو جائے۔تووہ گھبراتا ہے کہ کہیں میرے ایمان میں تو کوئی نقص نہیں آگیا کہ میرا رب میرے ایمان کو دنیا پر ظاہر کرنے کی کوئی تدبیر نہیں کررہا ۔
پس بیشک اکثریت اپنی طاقت کے گھمنڈ میں مومنوں پر ظلم کرتی رہی وہ اسے برداشت کرتے چلے جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ مجرموں کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔ اور اکثریت کے بل بوتے پر ظلم کرنے والے اپنے جرائم کی پاداش میں کیفر کردار کو پہنچ جاتے ہیں چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ فتح کرکے آئے تو آپؐ نے اُن کفار سے جو رات دن آپؐ پر اور آپؐ کے صحابہ ؓ پر شدید ترین مظالم کرتے رہتے تھے پوچھا کہ اے مکہ والوں !بتاؤ میں اب تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں؟آپ کا مطلب یہی تھا کہ تم جو ننانوے فیصدی ہونے کے گھمنڈ میں یہ کہا کرتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا حیثیت ہے ۔ اس کی کیا طاقت ہے کہ وہ ہمارے مقابلہ میں بول سکے ۔اب اُس کے سامنے تم اکثریت کے دعوے دار پیش ہو رہے ہو۔ مگر اس دن وہ ایسے سٹپٹائے کہ انہوں نے کہا ۔ ہم آپؐسے اُسی سلوک کی امید رکھتے ہیں جو یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا ۔ چنانچہ آپؐ نے اُ ن سب کو معاف فرمادیا ۔ یہی اکثریت کا گھمنڈ فرعون کے دماغ میں بھی جاگزین تھا ۔ بلکہ اگر غور سے کام لیا جائے تو جب سے دنیا کا آغاز ہوا ہے ہمیشہ دوقسم کی حکومتیں پائی جاتی رہی ہیں۔ ایک عقل اورسمجھ سے کام لینے والی اور دوسری زور اور طاقت سے کام لینے والی ۔ ہر زمانہ کے محاورے الگ الگ ہوتے ہیں ۔ آج کل جو حکومت عقل اور سمجھ سے کام لے اس کو جمہوریت کہتے ہیں۔ اورجو حکومت زور اور تشدد اور طاقت سے کام لے اس کو ڈکٹیٹر شپ کہتے ہیں ۔یا بعض دفعہ ہٹلر ازم بھی کہ دیتے ہیں۔ مگر نام خواہ کچھ ہی ہو جب سے دنیا بنی ہے یہ دونوں طاقتیں کام کررہی ہیں حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے یہ کام شروع ہوا اور اب تک جاری ہے ۔قرآ ن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے ۔ ایک کی اللہ تعالیٰ نے قربانی قبول کرلی اور دوسرے کی رد کردی۔ ایک کے پیچھے اخلاص اور تقویٰ تھا اس لئے اس کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قربانی کے پیچھے چونکہ اخلاص اور تقویٰ نہیں تھا اس لئے وہ رد ہوئی ۔ اب دانائی تو یہ تھی کہ دوسرا شخص جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی تھی وہ اپنے اند رتقویٰ ۔عجز اور انکسار پید اکرتا اور سمجھتا کہ اس کی قربانی خدا تعالیٰ نے رد کی ہے اس کے بھائی کی وجہ سے رد نہیں ہوئی مگر وہ لیٹھ لے کر اپنے بھائی کے پاس پہنچا اور اسے کہا کہ میں تجھے قتل کردوں گا۔مگر اس کے بھائی نے دلیل والا طریق اختیار کیا اور کہا کہ قربانی قبول کرنا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اگر تجھے اس بات پر غصہ آیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تیری قربانی قبول کیوں نہیں کی تو اس میں میرا کیا قصور ہے ۔ میں تو اپنے آپ کو ایک عاجز بندہ سمجھتا ہوں ۔ یہ فطرت پرانے زمانے کی تھی اس وقت نہ ڈکٹیٹرشپ کے الفاظ تھے نہ جمہوریت کے مگر وہ رو ح موجو دتھی جس سے یہ دونوں چیز یں پید ہوتی ہیں ۔ یہ روح جب سے حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں یا دنیا پید اہوئی ہے متوازی چلی آرہی ہے۔ دنیا میں ایک طبقہ ایسا چلا آیا ہے جو ہمیشہ حق و انصاف کا قائل ہوتا ہے اور دوسرا اپنے زور اور طاقت پر فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بہرحال ہم نے اپنے مرضی پوری کرنی ہے ۔اگر لوگ ہماری مرضی کے مطابق نہیں چلیںگے تو ہم حکومت جتھہ اور طاقت سے دوسروں کو سیدھا کردیں گے اور اپنی مرضی چلائیں گے ۔ انبیاء کی جماعتیں چونکہ ابتداء میں چھوٹی ہوتی ہیں اور بعض دفعہ تو ان کی تعداداتنی قلیل ہوتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بعض انبیاء کو صر ف ایک ایک شخص نے مانا ۔اس لئے ہر شخص ان پر مذاق اڑاتا ہے اور ان کے دعووںکو مجنونانہ بڑسے زیادہ حقیقت نہیں دیتا ۔ فرعون نے بھی اسی گھمنڈ میں شہر شہر اپنے ڈھنڈورچی بھیجے اور ان سے کہا کہ لوگوں کو یہ کہہ کر اشتعال دلائو کہ بنی اسرائیل جو ایک حقیر سی جماعت ہیں ہمیں اشتعال دلا رہے ہیں حالانکہ ہم ایک بڑی زبردست اکثریت اور پھر بڑے محتاط اور دور اندیش اور ہر قسم کے سازو سامان اور اسلحہ سے لیس ہیں۔ ہمار افرض ہے کہ ہم اُن لوگوں کو سختی سے کچل دیں اوران پر ترقی کے تمام دروازے بند کردیں۔
فَاَخْرَجْنٰھُمْ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ٭وَّکُنُوْذٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمِ٭
تب ہم نے اُن (یعنی فرعون اوراُس کی جماعت )کو باغوں اور چشموں اور خزانوں اور عزت والے ملک سے نکال دیا (یعنی محروم کردیا)
کَذٰلِکَ۔ وَاَوْرَثْنٰھَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ٭
ایسا ہی ہوا ۔ اور ہم نے اُن (چیزوں)کا وارث بنی اسرائیل کو کردیا۔
فَاَتْبَعُوْھُمْ مُّشْرِقِیْنَ٭
پھر صبح کے وقت وہ (یعنی فرعون اور اُس کی قوم کے لوگ بنی اسرائیل کو روکنے کیلئے )اُن کے پیچھے چل پڑے ۔
فَلَمَّا تَرَآئَ الْجَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسیٰٓ اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ٭
پھر جب دونوں گروہ ایک دوسرے کے سامنے ہوئے تو موسیٰؑ کے ساتھیوں نے کہا ۔ہم تو پکڑے گئے ۔
قَالَ کَلَّا ۔اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ٭
(موسیٰؑ نے ) جواب دیا ۔ ہرگز ایسا نہیں ہوگا ۔ میرا رب میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے کامیابی کا راستہ دکھا ئے گا ۱۴؎
۱۴؎ حل لغات:۔کُنُوْذٌ: کَنْذٌ کی جمع ہے اور اَلْکَنْذُ کے معنے ہیں وہ مال جو کسی جگہ میں محفوظ ہو۔ اِسی طرح اس کے معنے ہیں الذَّھَبُ سونا ۔اَلْفِضَّۃُ ۔چاندی۔مَایُحْرَذُفِیْہِ الْمَالُ کَالْمَخْذَنِ وَالصَّنْدُوْقِ۔ وہ صندوق یا الماری جس میں مال محفوظ کیا جائے اُس کو بھی کَنْذ کہتے ہیں (اقرب)
مُشْرِقِیْنَ: مُشْرِقٌ سے جمع کا صیغہ ہے جو اَشْرَقٌ سے اسم فاعل ہے اور اَشْرَقَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں دَخَلَ فِیْ شُرُوْقِ الشَّمْسِ۔ کسی جگہ اُس وقت داخل ہوا جب کہ سورج نکل رہاتھا (اقرب)پس مُشْرِقٌ کے معنے ہیں کسی جگہ صبح کے وقت داخل ہونے والا۔
تفسیر :۔ فرعون کو چونکہ اپنی کثر تِ تعداد اور طاقت پر غرور تھا اور وہ بنی اسرائیل کو بالکل حقیر سمجھتا تھا ۔ اسی لئے جب موسیٰؑ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر نکلے تو فرعون کو بھی پتا لگ گیا ۔ اور وہ لاؤ لشکر جمع کرکے موسیٰؑ کے پیچھے چلا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اس نے ایسا کیا تو ہم نے بھی فرعون اور اس کی جماعت کو باغوں اور چشموں اورخزانوں اور عزت والے ملک میں سے نکال دیا اور ہم نے بنی اسرائیل کو ان چیزوں کا وارث کردیا ۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ وہ خود وہاں سے نکلے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ہم نے اُن کو نکالا۔حالانکہ بظاہر واقعہ یہ تھا کہ وہ خود وہاں سے نکلے تھے ۔ درحقیقت اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ وہ موسیٰؑ کے آنے اور اُ ن کے نکلنے کی وجہ سے باہر نکلا تھا اور موسیٰؑ کو بھیجنا اور بنی اسرائیل کو نکالنے کا حکم دینا خدا تعالیٰ کا کام تھا اسی لئے بالواسطہ طور پر خدا تعالیٰ ہی فرعون اور اس لشکر کو نکالنے کا موجب بنا اور خدا تعالیٰ نے اس فعل کو اپنی طرف منسوب کی اور بتایا کہ گو وہ خود نکلا تھا مگر چونکہ یہ تحریک ہماری طرف سے تھی اور ہم نے ہی موسیٰؑ کو بنی اسرائیل کے نکالنے کا حکم دیا تھا اسی لئے ہم ہی فرعون اور اس کے لشکر کو نکالنے والے بن گئے ۔ اور آخر ان نعمتوں کا ہم نے بنی اسرائیل کو وارث بنادیا ۔
اَوْرَثْنٰھَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ سے یہ مراد نہیں کہ انہی باغوںاور انہی چشموں اور انہی خزانوں کا وارث بنادیا ۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ انہیں اسی قسم کے باغوں اور چشموں اور خزانوں کا فلسطین میں وارث بنادیا ۔ یہ ایک غلط خیال ہے جو بعض لوگوں میں پایا جاتا ہے کہ بنی اسرائیل کو مصر پر غلبہ حاصل ہوگیا تھا ۔ اس خیال کی نہ قرآن ِ کریم سے تصدیق ہوتی ہے اور نہ بائیبل سے ۔ قرآنِ کریم اور بائیبل دونوں سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل مصر سے نکلنے کے بعد اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ تک بیابانوں میں پھرتے رہے اور آخر چالیس سال کے بعد انہیںکنعان پر قبضہ ملا ۔پس اَوْرَثْنَھَاسے ملک مصر مراد نہیں بلکہ وہ جگہ مراد ہے جہاں انہیں سب چیزیں میسر آگئیں ۔یعنی فلسطین کا ملک۔ جو اپنے باغات اور چشموں میں مصر کے بالکل مشابہ ہے ۔
فَاَتْبَعُوْھُمْ مُّشْرِقِیْنَ سے ظاہر ہے کہ سورج نکلتے وقت فرعون کا لشکر اُن کے پیچھے چلا تھا۔کیونکہ فرعون نے بھی اپنا لشکر جمع کرنا تھا ۔ اور موسیٰؑ پہلے تیار تھے ۔پس موسیٰؑ پہلے نکل گئے اور فرعون پیچھے نکلا مگر جاتے جاتے جب لشکر فرعون اور موسیٰؑ کے ساتھیوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰؑ کے ساتھی جو صدیوں سے فرعون کے غلام چلے آرہے تھے ڈر گئے اور شور مچانے لگے کہ اے موسیٰؑ! ہم تو مارے گئے اور پکڑے گئے ۔ اس پر موسیٰؑ نے کہا کہ ایسا گمان مت کرو ۔ اُس لشکر کے ساتھ فرعون ہے اور میرے لشکر کے ساتھ خدا ہے اور خدا تعالیٰ یقینا ہمیں پار لے جائے گا ۔خدا تعالیٰ پر توکل کا یہ ایک نہایت ہی شاندار نمونہ ہے جو حضرت موسیٰؑ نے دکھایا مگر اس صداقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انتہائی خطرات میں چاروں طرف سے گھیرے ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ پر جس کامل یقین اور ایمان کا مظاہرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمیںدکھائی دیتا ہے وہ اس واقعہ سے کہیں شاندار اور ایمان افزا ہے ۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت ؔ کا حکم ملا تو آپؐ حضرت ابوبکر ؓ کو اپنے ساتھ لے کر جبلِ ثور ؔ طرف تشریف لے گئے جو مکہ سے کوئی چھ سات میل کے فاصلہ پر ہے اور اس پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار میں چھپ کر بیٹھ گئے ۔ صبح جب کفار نے دیکھا کہ آپؐ اپنے گھر میں موجود نہیں اور ہر قسم کے پہرہ کے باوجود محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامیابی کے ساتھ نکل گئے ہیں تو فوراًآپ کی تلاش میں نکل کھڑ ے ہوئے اور انہوں نے مکہ کے چند بہترین کھوجی جو پاؤں کے نشانات پہچاننے میں بڑی بھاری دسترست رکھتے تھے اپنے ساتھ لئے جو انہیں جبلِ ثور تک لے آئے اور انہوں نے کہا کہ بس محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ہیں تو یہیں ہیں ۔ اس سے آگے اور کہیں نشان نہیں ملتا اُس وقت یہ کیفیت تھی کہ دشمن غار کے عین سر پر کھڑا تھا ۔اور غار کا منہ تنگ نہیں تھا ۔جس کے اند ر جھانکنا مشکل ہومگر وہ ایک فراخ منہ کی کھلی غار ہے جس کے اندر جھانک کر بڑی آسانی سے معلوم کیا جاسکتا تھا کہ کوئی شخص اندر بیٹھا ہے یا نہیں مگر ایسی حالت میں بھی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی خوف طاری نہیں ہوتا بلکہ آپؐ کی قوتِ قدسیہ کی برکت سے
حضرت ابو بکر ؓ کا دل بھی مضبوط رہتا ہے اور وہ موسیٰؑ کے ساتھیوں کی طرح یہ نہیں کہتے کہ ہم پکڑے گئے بلکہ انہوں نے اگر کچھ کہا تھا تو یہ کہ رسول اللہ دشمن اتنا قریب پہنچ چکا ہے کہ وہ اگر ذرا بھی نظر نیچی کرے تو ہمیں دیکھ سکتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اُسْکُتْ یَا اَبَا بَکُرٍ اِثْنَانِ اَللّٰہُ ثَالِثُھُمَا ابو بکر ؓ خاموش رہو ہم اِس وقت دو نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ایک تیسرا خدا بھی ہے پھر وہ کیونکر ہمیں دیکھ سکتے ہیں ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ باوجود اس کے کہ دشمن غار کے سر تک پہنچ چکا تھا پھر بھی اُسے یہ توفیق نہ ملی کہ وہ آگے بڑھ کر جھانک سکتا اور وہ وہیں سے بڑبڑاتے واہی تباہی باتیں کرتے ہوئے واپس چلا گیا ۔ غرض اس واقعہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ موسیٰؑ کے ساتھیوں نے گبھرا کر یہ کہا کہ اے موسیٰؑ! ہم پکڑے گئے ۔گویا انہوں نے اپنے ساتھ موسیٰؑ کو بھی لپیٹ لیا ۔ اور خیال کیا کہ اب ہم سب فرعون کی گرفت میں آنے والے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے توکّل نے آپؐ کے ساتھی پر بھی ایسا اثر ڈالا کہ اس کی زبان سے بھی یہ الفاظ نہ نکلے کہ ہم پکڑے گئے بلکہ اُس نے کہا تو صرف یہ کہ دشمن اتنا قریب آچکا ہے کہ اگروہ ہمیں دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتاہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واہمہ کو بھی برداشت نہ کیا اور فرمایا کہ ایسا خیال بھی مت کرو ہم اس وقت دو نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ایک اور بھی ہستی ہے اور وہ ہمار اخدا ہے ۔
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر سے نکلے تو وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے جسے بائیبل نے اپنی شاعرانہ زبان میں لاکھوں بنا دیا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ایک آدمی تھا۔ اور گو وہ ایک آدمی بھی اپنے ایمان کے لحاظ سے سوالاکھ پربھاری تھا مگر بہر حال وہ فردِ واحد ہی تھا کوئی بڑی بھاری جمعیت اُس کے ساتھ نہیں تھی ۔ پھر موسیٰؑ اور اُس کے ساتھیوں کے سامنے بھاگنے کے لئے ایک کھُلا راستہ تھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ایک آدمی تھا اور باوجود اس کے کہ دشمن سے بھاگنے کا آپؐ کے سامنے کوئی راستہ نہیں تھا اور پھر آپؐ بالکل نہتے تھے آپؐ نے اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھا اور فرمایا ۔ ابو بکر ؓ ! غم مت کرو۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (توبہ آیت ۴۰)یقینا ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے۔
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو صرف یہ کہا کہ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۔ میرا رب میرے ساتھ ہے ۔ وہ یقینا مجھے کامیابی کا راستہ دکھائے گا ۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فرماکر حضرت ابو بکر ؓ کو بھی اپنے وجود میں مدغم کرلیا اور فرمایا کہ جس طرح مجھے خدا کی معیت حاصل ہے اِسی طرح تمہیں بھی خدا کی معیت حاصل ہے ۔ اس لئے گھبراہٹ اور تشویش کی ضرورت نہیں ۔ پھر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ فرعون نے جب موسیٰؑ کا تعاقب کیا تو اُس نے موسیٰؑ اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ لیا ۔ لیکن جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں مکّہ والے نکلے تو خد انے اُن کی آنکھوں کو اندھا کردیا اور نہ صرف وہ رسول کریم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ نے میں کامیاب نہ ہوسکے ۔ بلکہ انہیں اپنی آنکھو ں سے یعنی دیکھنے کی خدا تعالیٰ نے ان کو طاقت نہ دی ۔ اور اس طرح کلّی طور پر خدا تعالیٰ نے اُن کو خائب و خاسر کیا۔ اور اگر کسی شخص نے آپ ؐ کو دیکھ بھی لیا جیسا کہ سراقہؔ نے آپؐ کو مدینہ جاتے وقت دیکھ لیا تھا تو خدا نے اُسے اُس وقت تک واپس نہیں آنے دیا جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپؐ کی صداقت کا نشان اُس نے نہیں دیکھ لیا ۔ گویا دشمن صرف ایک مقام پر آپؐ کو دیکھنے میں کامیاب ہوا مگر اُس مقام پر بھی وہ دشمن کی کامیابی نہیں تھی بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی تھی کیونکہ دشمن نے آپؐ کو گھائل نہیں کیا بلکہ آپؐ نے دشمن کو گھائل کیا اور
پیشتر اس کے کہ وہ واپس لوٹتا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپؐ کی عظمت کا قائل ہوچکا تھا گو اسلام میں وہ فتح مکّہ کے موقعہ پر داخل ہوا۔ (اصابہ جلد ۳ صفحہ ۱۳۵)
فَاَوْحَیْنَآ اِلیٰ مُوْسیٰٓ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْبَحْرَ۔ فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ٭
تب ہم نے موسیٰؑ کی طرف وحی کی کہ اپنے سونٹے کو سمندر پر مار۔ جس پر (سمندر) پھٹ گیا ۔اور اُس کا ہر ٹکڑا ایک بڑے ٹیلے کی طرح نظر آنے لگا ۔
وَاَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰ خَرِیْنَ٭
اور اُس وقت ہم دوسرے گروہ (یعنی فرعون کے گروہ ) کو قریب لے آئے ۔
وَاَنْجَیْنَا مُوْسیٰ وَمَنْ مَّعَہٓٗ اَجْمَعِیْنَ٭
اور موسیٰؑ اور اُس کے ساتھیوں کو نجات دی ۔
ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ٭
اور دوسرے گروہ کو ہم نے غرق کردیا۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً۔ وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّوْمِنِیْنَ٭
اس(واقعہ) میں ایک بڑا نشان ہے ۔لیکن اِن (منکروں ) میں سے اکثر مانتے نہیں ۔
وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیْمُ٭
اور تیرا رب یقینا غالب (اور ) بارباررحم کرنے والا ہے ۔ ۱۵؎
۱۵؎ حل لغات :۔ اِنْفَلَقَ۔ اِنْفَلَقَ کے معنے ہیں اِنْشَقَّ ۔پھٹ گیا (اقرب)
فِرْقٌ: اَلْفِرْقُ کے معنے ہیں اَلطَّائِفَۃُ مِنَ الشَّیْئِ الْمُتَفَرِّ قِ۔ یعنی فِرْقٌ متفرق چیز کے ایک حصہ کو کہتے ہیں(اقرب)
اَلطَّوْدُ: اَلْجَبَلُ الْعَظِیْمُ۔ یعنی طود عربی میں بڑے پہاڑ کو کہتے ہیں۔ نیز اس کے معنے ہیں اَلْمُشْرِفُ مِنَ الرَّمَلِ ۔ریت کا ٹیلہ ۔ اَلَْضْبَۃُ چھوٹی سی پہاڑی جو زمین پر پھیلی ہوئی ہو(اقرب)
اَزْلَفَنَا : اَزْلَفْنَا سے جمع متکلم کا صیضہ ہے اور اَزْلَفَہٗ کے معنے ہیں قرَّبَہٗ ۔اُ س کو قریب کیا جَمَعَہٗ : اُس کو جمع کیا (اقرب) پس اَزْلَفْنَا کے معنے ہونگے ہم نے قریب کیا یا جمع کیا ۔
تفسیر:۔فرماتاہے ہم نے موسیٰؑ کو وحی کی کہ اپناسونٹا سمندرپرمار۔جب اس نے سونٹا ماراتوسمندرپھٹ گیا۔اور ہرٹکڑا یعنی سمندر کی طرف کا پانی بھی اور خشکی کی طرف کاپانی بھی جو جھیلوں کی شکل میں تھاایک اونچے ٹیلے کے طور پر نظر آنے لگ گیا۔اس وقت ہم نے لشکر ِ فرعون کو قریب کردیا۔تب موسیٰؑ اور اس کے ساتھی تو سمندر او رجھیلوں کے درمیان ریت پر سے آرام کے ساتھ گذر گئے مگر فرعون کے لشکر میں گبھراہٹ پیداہوئی اور ان کی گاڑیوں کے پہیے ریت میں پھنسنے لگ گئے نتیجہ یہ ہوا کہ گاڑیاں نکالتے ہوئے مدّ کا وقت آگیا اور وہ سب کے سب غرق ہوگئے ۔
بائبل میں اس معجزہ کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے ’’پھر موسیٰؑ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایااور خداوند نے رات بھر تندپوربی آندھی چلاکر اور سمندر کو پیچھے ہٹاکراسے خشک زمین بنادیااو رپانی دو حصے ہوگیااور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے اور ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ پانی دیوار کی طرح تھا۔اور مصریوں نے تعاقب کیااور فرعون کے سب گھوڑے اور رتھ اور سوار ان کے پیچھے پیچھے سمندر کے بیچ میں چلے گئے ۔اور رات کے پچھلے پہر خداوند نے آگ اور بادل کے ستون میں مصریوں کے لشکر پر نظرکی اور ان کے لشکر کو گبھرادیااور ا س نے ان کے رتھو ں کے پہیوں کو نکال ڈالا ۔سو ان کاچلانامشکل ہوگیا۔تب مصری کہنے لگے آئو ہم اسرائیلیوں کے سامنے سے بھاگیں کیونکہ خداوند اُن کی طرف سے مصریوں کے ساتھ جنگ کرتاہے ۔اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا تاکہ پانی مصریوں اور اُن کے رتھوں اور سواروں پر پھر بہنے لگے ۔ اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور صبح ہوتے ہوتے سمندر پھر اپنی اصلی قوت میں آگیا اور مصری اُلٹے بھاگنے لگے اور خداوند نے سمندر کے بیچ ہی میں مصریوں کو تہہ و بالا کردیا اور پانی پلٹ کر آیا اور اُس نے رتھوں اور سواروں اور فرعون کے سارے لشکر کو جو اسرائیلیوں کا پیچھا کرتا ہوا سمندر میں گیا تھا غرق کردیا اور ایک بھی اُن میں سے باقی نہ چھوڑا ۔ پر بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میںسے خشک زمین پر چل کر نکل گئے اور پانی ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ دیوار کی طرح رہا۔ سو خداوند نے اس دن اسرائیلیوں کو مصریوں کے ہاتھ سے اِس طرح بچایا اور اسرائیلیوں نے مصریوں کو سمند ر کے کنارے مرے ہوئے پڑے دیکھا اور اسرائیلیوں نے وہ بڑی قدرت جو خداوند نے مصریوں پر ظاہر کی دیکھی اور وہ لوگ خداوند سے ڈرے اور خداوند پر اور اُس کے بندے موسیٰ پر ایمان لائے ۔‘‘
(خروج باب ۴ آیت ۲۱ تا ۳۱)
پرانے مفسرین نے اس موقع پر بعض عجیب و غریب قصے بیان کئے ہیں۔ چنانچہ وہ فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِوْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ نے جب سونٹا مارا تو سمندر بارہ جگہ سے پھٹ گیا ۔ تاکہ بنی اسرائیل کے بارہ قبائل اس میں سے علیحدہ علیحدہ گزرجائیں ۔ (تفسیر فتح البیان جلد۷ صفحہ ۱۷)پھر بعض نے اور زیادہ مبالغہ سے کام لیا ہے ۔اور لکھا ہے چونکہ ہر فریق کے درمیان پانی کی ایک دیوار حائل تھی اور بنی اسرائیل ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے اس لئے انہوں نے کہا کہ جب تک ہم ایک دوسرے کو نہیں دیکھیں گے اُس وقت تک ہم ایک قدم بھی آگے نہیں چلیں گے ۔ اس پر موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ۔ اور انہیں حکم ملا کہ پانی کی جو دیواریں کھڑی ہیں ان میں اپنا سونٹا داخل کرو۔ چنانچہ انہوں نے اسی طرح کیا ۔اور تمام دیواروں میں چوڑے چوڑے سوراخ ہوگئے اور وہ سب کے سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگ گئے بلکہ ایک دوسرے کی باتیں بھی سننے
لگے اور ہنسی خوشی سمندر میں سے گزرگئے (کشاف جلد اول صفحہ ۲۱۵زیر آیات وَاِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ)
مفسرین نے یہ قصہ اپنی عجوبہ پسند طبیعت کی تسکین کے لئے تو بیان کردیا مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ حضرت موسیٰؑ کا سونٹا کس قدر لمبا تھا کہ وہ بارہ راستے جن پر سے یہود نے گزرنا تھا ان کی دیواروں میں اس سونٹے نے اپنے ایک ہی وار سے سوراخ کردیئے ۔ اور پھر انہوں نے اس سوال پر بھی کوئی روشنی نہیں ڈالی کہ جن بنی اسرائیل میں باہم اِس قدر محبت پائی جاتی تھی کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھے بغیر سمندر میںسے گزرنے کے لئے بھی تیار نہیں تھے وہ ایک ہی راستہ سے کیوں نہ گزرگئے ۔ اور اُن کے لئے الگ الگ راستے کیوں تجویز کئے گئے ۔ایک طرف اُن کا ایسے پُر خطر وقت میں بھی جب کہ فرعون کے تعاقب میں تھا الگ الگ راستوں سے جانا اور دوسری طرف اُن میں اس قدر محبت کا پایا جانا کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھے بغیر ایک قدم بھی اٹھانا گوارہ نہ کریں بالکل متضاد بیانات ہیں جو اس قصہ کے بنانے والے کے افتراء کو ظاہر کررہے ہیں ۔حقیقت صرف اتنی ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ایسے وقت میں سمندر کے سامنے پہنچایا جبکہ جزر کا وقت تھا ۔چنانچہ اِدھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سمندر پر سونٹا مار ا اُدھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت پانی گھٹنا شروع ہوگیا لیکن جب فرعون کا لشکر پہنچا تو اُس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام سمندر کے اس خشک ٹکڑے کا اکثر حصّہ طے کرچکے تھے۔ فرعون نے اُن کو پار ہوتے دیکھ کر جلدی سے اپنی رتھیںسمندر میں ڈال دیں۔ مگر سمندر کی ریت اُس کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی اُس کی رتھوں کے پہیئے ریت میں پھنسنے لگے ۔جن کو نکالتے نکالتے اِس قدر دیر ہوگئی کہ مدّ کا وقت آگیا ۔ اور فرعون اپنے تمام لشکر کے ساتھ وہیں غرق ہوگیا ۔ فَانْفَلَقَ کا لفظ بھی اِسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ کیونکہ اِنْفَلَقَ کے معنے جُدا ہوجانے کے ہیںاور سمندر کے جدا ہونے کا یہی مفہوم ہے کہ وہ کنارہ سے ہٹ گیا تھا اور اُس کی وجہ سے جو خشکی نکل آئی تھی اس میں سے بنی اسرائیل گزرگئے ۔اُس وقت بنی اسرائیل کے ایک طرف سمندر تھا اور دوسری طرف وہ چھوٹی چھوٹی جھیلیں تھیں جو سمندر کے کنارے واقعہ تھیں اور وہ درمیان میں سے گزرنے والوں کو ریت کے اونچے ٹیلے کی طرح اُٹھی ہوئی نظر آتی تھیں۔اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان معجزہ ا ذکر کرتے ہوئے فرماتاہے اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ۔ وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّوْمِنِیْنَ وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّ حِیْمُ۔اس واقعہ میں خدا تعالیٰ کی طاقت اور اس کی عظمت کا ایک بہت بڑا نشان مخفی ہے مگر افسوس ہے کہ اتنے بڑے نشانات کو دیکھنے کے باوجود لوگوں کی آنکھیں بند رہتی ہیںاور وہ خدا تعالیٰ کے انبیاء پر ایمان لا کر اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ جب بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی نبی آتا ہے اکثریت اس کا انکار کردیتی ہے اوربہت تھوڑے لوگ اس پر ایمان لانے کی سعادت حاصل کرتے ہیںحالانکہ چاہیئے یہ تھا کہ اتنے بڑے نشانات کے بعد اکثریت ہمیشہ خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہتی اور صرف شاذو نادر کے طور پر ہی چند ایسے لوگ رہ جاتے جو اس کی آواز پر لبیک نہ کہتے مگر یہ کتنے تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ اتنے بڑے نشانات بھی لوگوں کی آنکھیں کھولنے کا موجب نہیںبنتے اور وہ مخالفت اور انکار پر ہی کمر بستہ رہتے ہیں۔ مگر اُن کے انکار کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کہ اِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ تیرا رب بڑاغالب اور باربار رحم کرنے والاہے ۔یعنی وہ اپنے نبیوں کو غالب کرکے اپنے عزیز ہونے کا ثبوت دیتاہے اور لوگوں کے استہزاء اور انکار کے باوجود دنیا میں نئی خرابیاں پیدا ہونے پر پھر اپنے رسول بھیج کر اپنے رحیم ہونے کا ثبوت دیتا ہے ۔عربی زبان کے قواعد کے مطابق رحیم کے وزن پر جو الفاظ آتے ہیں اُن
کے معانی میں لمبائی اور تواتر پایا جاتا ہے ۔پس صفت رحیم کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے اپنی اسی سنّت کا ذکر فرمایا ہے جو ہمیشہ سے چلی آرہی ہے کہ جب بھی دنیا میں خرابی پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کے لئے اپنا کوئی مامور مبعوث فرما دیتا ہے جو پھر بھُولے بھٹکے بندوں کا خداتعالیٰ سے تعلق قائم کردیتا ہے چنانچہ دیکھ لو آج تک دنیا میں کوئی نبی بھی ایسا نہیں آیا جو اپنے رشتوں پر غالب نہ آیا ہو ۔ اور کبھی ایسا نہیں ہو اکہ دنیا میں خرابی پیدا ہوئی ہو اور خداتعالیٰ نے اُس کی اصلاح کا سامان نہ کیا ہو ۔آدمؑ آیا تو لوگوںنے اُس کی مخالفت کی۔ مگر آدمؑ کی مخالفت کی وجہ سے خداتعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ اب میں اپنا کوئی نبی نہیں بھیجوں گا بلکہ اُس نے نوح ؑ کی بھی لوگوں نے شدید مخالفت کی۔مگرا س مخالفت کو دیکھتے ہوئے جب پھر اُس کے بندے گمراہ ہوئے تو خدا تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو لوگوں کی ہدایت کیلئے کھڑا کردیا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھی شدید مخالفت ہوئی ۔ یہاں تک کہ لوگوں نے آپ کو آگ میں ڈال دیا مگراتنی مخالفت کے باوجود خدا تعالیٰ جو رحیم تھا اُس نے پھر موسیٰؑ کو لوگوں کی ہدایت کیلئے کھڑا کردیا اور پھر اُن کی اُمت میں سینکڑوں انبیاء مبعوث کئے جن میں سے بعض قتل بھی کئے گئے ۔ مگر لوگوں کی اتنی عداوت کے باوجود جب پھر تمام دنیا میں گمراہی پھیل گئی تو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمادیا۔
غرض اللہ تعالیٰ کے عزیز اور رحیم ہونے کا ہمیں ہر زمانہ میں ثبوت ملتا ہے ۔ ہر زمانہ میں خدا اور اس کا رسول غالب رہے ۔ جیسا کہ وہ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ کَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ(مجادلہ آیت ۲۲)یعنی خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کررکھا ہے کہ میں اور میرے رسول ہمیشہ غالب رہیںگے ۔ اور پھر ہر زمانہ میں اس کے رحیم ہونے کا بھی ثبوت ملتا رہا یعنی باوجود اس کے کہ لوگوں نے اس کے پیاروں کی شدید مخالفت کی پھر بھی وہ باربار لوگوں کی ہدایت کا سامان کرتا رہا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان فرما کر اللہ تعالیٰ نے اپنے عزیزؔاور رحیم ؔ ہونے کی صفات کا اس لئے ذکر کیا ہے کہ اس واقعہ نے ایک طرف تو خداتعالیٰ کے عزیز ہونے کو ظاہر کردیا اور باوجود اس کے کہ موسیٰؑ کی فرعون کے لائو لشکر کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں تھی پھر بھی موسیٰؑ غالب آیا اور فرعون تباہ ہوگیا اور دوسری طرف اس واقعہ نے خداتعالیٰ کے رحیم ہونے کو بھی ثابت کردیا۔ کیونکہ باوجود اس کے کہ موسیٰؑ کی اتنی شدید مخالفت ہوئی پھر بھی خداتعالیٰ نے اپنے رسولوں کا سلسلہ منقطع نہ کیا ۔بلکہ جب پھر اس کے بندے روحانی بھوک اور افلاس کا شکار ہوئے تو اُس نے اُن کی اصلاح کیلئے اپنے رسولوں کو کھڑا کردیا ۔
وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ اِبْرٰھِیْمَ٭
اور ان کو ابراہیمؑ کا واقعہ پڑھ کرسُنا۔
اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَاتَعْبُدُوْنَ٭
جب کہ اُس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟
قَالُوْ انَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَھَا عَاکِفِیْنَ٭
انہوں نے کہا ہم بتوں کی پرستش کرتے ہیں۔اور اُن کے آگے بیٹھے رہتے ہیں۔
قَالَ ھَلْ یَسْمَعُوْنَکُمْ اِذْ تَدْعُوْنَ٭
اِس پر اُس (یعنی ابراہیم ؑ) نے کہا کہ کیا جب تم ان کو بلاتے ہوتو وہ تمہاری (اس )پکار کو سُنتے ہیں؟
اَوْیَنْفَعُوْنَکُمْ اَوْیَضُرُّوْنَ٭
یا تمہیں کوئی نفع پہنچاتے یا ضرر دیتے ہیں ؟
قَالُوْابَلْ وَجَدْنَآ اٰبَآئَ کَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ٭
انہوں نے کہا۔ ایسا تو نہیں لیکن تم نے اپنے بڑوں کو ایسا ہی کرتے دیکھتے آئے ہیں۔۱۶؎
۱۶؎ حل لغات:۔اَصْنَامٌ: صَنَمٌ کی جمع ہے ۔ اور صَنَمٌ کے معنے ہیں صُوْرَۃٌ اَوْتِمْثَالُ اِنْسَانٍ اَوْحَیَوَانٍ یُتَّخَذُ لِلْعِبَادَۃِ۔انسان یا حیوان کا وہ مجسمہ جو عبادت کیلئے بنایا جاتا ہے ۔اَوْکُلُّ مَاعُبِدَمِنْ دُوْنِ اللّٰہِ۔یا اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی عبادت کی جائے اس کو بھی صنم کہتے ہیں (اقرب)
مفردات میں ہے ۔ بَلْ کُلُّ مَا یَشْغُلُ عَنِ اللّٰہِ تَعَالیٰ یُقَالُ لَہٗ صَنَمٌ۔ ہر وہ بات جو اللہ تعالیٰ کی عباد ت کرنے اور اس کے احکام کی تعمیل میں روک بنے وہ صنم کہلاتاہے۔
عَاکِفِیْنَ: عَکَفَ سے اسم فاعل مذکر کاصیغہ عَاکِفٌ آتا ہے ۔ اور عَاکِفُوْنَ اورعَاکِفِیْنَ سے اسم جمع کا صیغہ ہے ۔ عَکَفَ کے معنے ہیں ۔ کسی کی عظمتِ شان کی وجہ سے اُس کیطرف متوجہ ہونا اور ا س کیساتھ رہنا (مفردات) پس عَاکِفٌ کے معنے ہونگے ۔ کسی کی عظمتِ شان کی وجہ سے اُس کے پاس بیٹھنے والا اور اُس کے پاس رہنے والا۔
تفسیر :۔فرماتا ہے ۔اب تو خدا تعالیٰ کے عزیزؔ اور رحیمؔ ہونے کے ثبوت میں ان کو ابراہیمؑ کا واقعہ سُناجس نے اپنی قوم کو توحید کی تعلیم دی اور بتوں کی پرستش سے اُسے روکا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک بُت پرست بلکہ بُت ساز گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور چلڈیا کے ایک شہر اُورکدیم کے رہنے والے تھے ۔ ان کے خاندان کے لوگوں کو گزارہ ہی بتوں کے چڑھا دوں اور بت فروشی پر تھا ۔ والد بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے ۔ اور چچا کی آغوش میں انہوں نے پرورش پائی تھی جس نے اُن کے ہوش سنبھالتے ہی اپنے بیٹوں کے ساتھ آپ کو بھی بت فروشی کے کام پرلگا دیا حقیقت سے نا آشنا چچا کو یہ معلوم نہ تھ اکہ جس دل کو خالق کون و مکاں چُن چکا ہے اُس میں بتوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوسکتی ۔ پہلے ہی دن ایک امیر گاہک جو اپنی عمر کی انتہائی منزلیں طے کر رہاتھا اور تھا بھی مالدار بت خریدنے کیلئے آیا ۔
بت فروش چچا کے بیٹے خوش ہوئے کہ آج اچھی قیمت پر سودا ہوگا ۔ بوڑھے امیر نے ایک اچھا سا بت چُنا اور قیمت دینے ہی لگا تھا کہ اُس بچہ کی توجہ اس گاہک کی طرف ہوئی ۔ اور اُس نے سوال کیا۔ یہاں بوڑھے ۔ تم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہو۔ تم اِس چیز کو کیا کرو گے ؟ اُس نے جواب دیا کہ گھر لے جائوں گا اور ایک صاف اورمطہر جگہ میں رکھ کر اُس کی عبادت کروں گا ۔ یہ سعید بچہ اس خیال پر
اپنے جذبات کو نہ روک سکا۔ اور پوچھا ۔تمہاری عمر کیا ہوگی ۔ اُس نے اپنی عمر بتائی اوراس بچہ نے نہایت حقارت آمیز ہنسی ہنس کر کہا کہ تم اتنے بڑے ہو اور یہ بت تو ابھی چند دن ہوئے میرے چچا نے بنوایا ہے کیا تمہیں اس کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے شرم نہ آئے گی ۔ نہ معلوم اس بوڑھے کے دل پر توحید کی کوئی چنگاری گری یا نہ گری لیکن اُس وقت اُس بت کا خریدنا اُس کیلئے مشکل ہوگیا۔ اور وہ بت وہیں پھینک کر واپس چلا گیا ۔ اس طرح ایک اچھے گاہک کو ہاتھ سے جاتادیکھ کر بھائی سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے اپنے باپ تارہؔ کو اطلاع دی جس نے اس بچہ کی خو ب خبر لی ۔ یہ پہلی تکلیف تھی جواس پاکباز ہستی نے توحید کے لئے اٹھائی لیکن باوجود چھوٹی عمر اور کم سنی کے زمانہ کے یہ سزا جوشِ توحید کو سرد کرنے کی بجائے اُسے اور بھی بھڑکانے کا موجب ہوئی ۔ سزا نے فکر کا دروازہ کھولا اورفکر نے عرفان کی کھڑکیاں کھول دیں۔ یہاں تک کہ بچپن کی طبعی سعادت جوانی کاپختہ عقیدہ بن گئی ۔اور آخر اللہ تعالیٰ نے نور ذہنی نورپر گرکر الہام کی روشنی پیدا کرنے کاموجب ہوگیا ۔ اور خداتعالیٰ ے آپ کو دنیا کی اصلاح کے لئے نبوت کے مقام پر سرفراز فرمادیا ۔
چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تمام خاندان کا گزارہ ہی بتوں کی فروخت پرتھا اور تارہؔ خود بت پرست تھا جیسا کہ بائیبل کی کتاب یشوعؔ باب ۲۴آیت ۲سے ثابت ہوتا ہے اس لئے اُن کے چچا اور چچازاد بھائیوں نے ان کو مشورہ دیا کہ ہم پروہت ہیں اور ہمارا گزارہ ہی اس پر ہے ۔ اگر تم نے بتوں کی پرستش نہ کی تو ہمارا رزق بند ہوجائے گا ۔ مگر آپ نے نہایت دلیری سے جواب دیا کہ جن بتوں کو انسان اپنے ہاتھ سے گھڑتاہے ان کو میں ہرگز سجدہ نہیں کرسکتا۔اس جواب کی اہمیت کااندازہ ہرشخص نہیں کرسکتاصرف وہی کرسکتاہے جسے قربانی کرنے کاموقع ملاہو ۔آج جب کہ منظم حکومتیں دنیامیں موجود ہیں اس پرامن زمانہ میں بھی میں نے دیکھاہے کہ بعض لوگوں پر جب صداقت کھل جاتی ہے تووہ مجھے لکھتے ہیںکہ اگر ہم احمدی ہوجائیںتو ہمارے گذارہ کی کیاصورت ہوگی ؟ہمارے ساتھ ہمدردی کی کیاصورت ہوگی ؟ آج جب احمدیت کو قبول کرنے میں کوئی خاص تکالیف نہیں ہیں سوائے معمولی تکالیف کے ۔اچھے اچھے تعلیم یافتہ بڑی عمر کے اور بیوی بچوں والے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہمدردی کی کیاصورت ہوگی گذارہ کاکیاانتظام ہوگا؟لیکن حضرت ابراہیم ؑ جو یتیم ہونے کی وجہ سے پہلے ہی شکستہ دل تھے اورجن کاپہلے ہی کوئی ٹھکانہ نہ تھااپنے چچاکے ہاں اوراس کی مہربانی سے پرورش پارہے تھے وہ اپنے دل سے یہ سوال نہیں کرتے کہ اب گذارہ کی کیاصورت ہوگی ؟بلکہ بلا سوچے بہادرانہ طو ر پر یہ جواب دیتے ہیں کہ جن بتوں کوانسان خود گھڑتے ہیں ان کومیں سجدہ نہیں کرسکتا۔بعینہ اسی قسم کاواقعہ رسول کریم ﷺ کوبھی پیش آیا۔جب ایک لمبے عرصہ تک آپؐ نے شرک کے خلاف تعلیم دی اور ایک لمبی کوشش کے بعد اہل مکہ آپؐ کو اور آپ کے صحابہ ؓ کو دوبارہ اپنے دین میں شامل کرلینے سے مایوس ہوگئے تو مکہ کے رئوساء آپ ؐ کے چچا ابوطالب کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کی خاطر ہم اب تک آپ کے بھتیجے سے نرمی کرتے رہے ہیں مگر ہمارے سایہ کے نیچے رہتے ہوئے اس نوجوان نے ہمارے معبودوں کو بہت بری طرح ذلیل کیاہے ہم اس پر سختی کرسکتے تھے مگر ہمیں آپ کا لحاظ تھا۔اس لئے ہم نے اس سے وہ سلوک نہ کیاجس کا وہ مستحق تھا ۔مگراب یہ بات ہمارے لئے ناقابل برداشت ہوگئی ہے اور ہم یہ آخری پیغام لے کرآپ کے پاس آئے ہیں کہ آپ اسے سمجھائیں ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ اپنی تعلیم پیش نہ کرے بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے معبودوں پر سختی سے حملہ نہ
کرے اور تبلیغ میں نرمی کاپہلورکھے اور اگروہ آپ کے کہنے سے اتنابھی کرنے کے لئے تیارنہ ہو تو آپ اس سے قطع تعلق کرلیں اور ہم پر اس کامعاملہ چھوڑدیں ۔اور اگر آپ اس کے لئے بھی تیار نہیںہیںتو گو ہمارے دلوں میں آپ کابہت ادب ہے اور آپ کے خاندان کوفضیلت حاصل ہے لیکن اب معاملہ اس حد تک پہنچ گیاہے کہ ہم صبرنہیں کرسکتے اور آپ سے بھی ہمیں مجبوراً قطع تعلّق کرنا پڑے گا ۔ابوطالب مومن نہ تھے اور ایمان کے بعد جو بہادری انسانی قلب میں پیداہوجاتی ہے اس سے محروم تھے۔وہ رئیس تھے اور ان کے نزدیک سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ریاست سے ہاتھ دھوبیٹھنے کاخطرہ ان کے سامنے تھا ۔سارامکّہ ان کو سلام کرتاتھامگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کاساتھ نہ چھوڑنے کایہ نتیجہ ہوسکتاتھا۔کہ کوئی ان کو منہ بھی نہ لگاتا ۔اوریہ کوئی معمولی بات نہ تھی ۔اس قسم کی عزتوں کے لئے لوگ بڑی بڑی قربانیاں بھی کردیتے ہیں او ر ایک ایک سلام کے لئے مراکرتے ہیں۔حضرت خلیفہ اوّل ؓ سنایاکرتے تھے کہ جب تعلیم سے فارغ ہوکرنئے نئے بھیرہ میںآئے تو بعض مولویوں نے شورمچانا شروع کردیاکہ یہ وہابی ہیں اور بعض نے آپ کے خلاف کفر کے فتوے کی تحریک شروع کردی ۔اس وقت اس علاقہ میںایک معزز پیر صاحب تھے جن کا بھیرہ اور اس کے نواح میں بہت اثر تھا۔فتوٰی کفر شائع کرنے والے ان کے پاس بھی گئے کہ دستخط کردیں ۔باقی مولویوں سے تو خلیفہ اوّل ؓ کے دوست نہ ڈرتے تھے مگران پیر صاحب متعلق انہیں ضرور خیال تھا کہ اگر یہ بھی مولویوں کے ساتھ مل گئے تو فساد بڑھ جائیگا اس لئے آپ کے دوستوں میں سے ایک زیرک دوست پیر صاحب کے پا س پہنچے اورکہا۔سناہے مولوی لوگ آ پ سے فتوٰی لینے آئے تھے ۔پیرصاحب نے کہاکہ ہاں آئے تھے او ر جوباتیں وہ کہتے تھے ٹھیک ہیں ااورمیراارادہ ہے کہ فتوٰی دے دوں ۔اس پر اس دوست نے کہاکہ آ پ تو پیر ہیں اور سب نے آ پکو سلام کرناہے ۔نورالدین خواہ کچھ ہو ۔آپ کوسلام تو ضرور کرتاہے اور اگر آپ نے فتوٰی دے دیاتو وہ اور ان کے دوست آئندہ آپ کو سلام نہیں کریں گے ۔اس پرپیر صاحب گھبراگئے اورکہنے لگے ۔بھلا ہم پیروں کافتووں سے کیاتعلق ۔آپ مولوی صاحب سے کہہ دیں کہ سلام نہ چھوڑیں۔اس دوست نے آ کرحضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سے کہاکہ میں اس طرح کرآیاہوں اور اب پیرصاحب چاہیں گے کہ آپ ان کوسلام کریں۔آپ نے فرمایاہماراکیاحرج ہے کردیںگے ۔چنانچہ وہ دوست پھر پیرصاحب کے پاس گئے ۔اور پیرصاحب سے کہاکہ مولوی صاحب کہتے ہیںکہ پیرصاحب بڑے آدمی ہیں ہم ان کو سلام کیوں نہ کریں گے ۔اس پرپیرصاحب بہت خو ش ہوئے اور کہنے لگے کہ اچھاہم فلاں روز اس طرف سے گذریںگے ۔مولوں صاحب سے کہنا کہ ضرورسلام کریں۔چنانچہ پیرصاحب مولوی صاحب ؓ کے مطب کے سامنے سے گذر ے اور حضرت مولوی صاحب ؓ نے اپنے دوستوں سمیت باہرنکل کران کوسلام کیا۔پیرصاحب نے گھوڑا کھڑاکرلیااور حضرت مولوی صاحب سے باتیں کرنے لگے کہ دیکھوہمارے پاس مولوی لوگ فتوٰی کے لئے آئے تھے مگر ہم نے انکار کردیاکہ ہم کو ان باتوں سے کیاتعلق ہے ۔ہمیں سب نے سلام کرناہوا۔یہ واقعہ شہر میں پھیل گیااور پیرصاحب کے مرید اس تحریک سے الگ ہوگئے او رمخالفت کازور ٹوٹ گیا۔غرض ابوطالب کے لئے یہ بڑاامتحان تھا۔وہ سارے شہر میں مکرّم سمجھے جاتے تھے اور ایسامعلوم ہوتاتھا کہ اب ان کی عزّت جاتی رہے گی ۔انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو بلوایااور کہاکہ اے میرے بھتیجے میں سمجھتاہوں کہ توجو کچھ کرتاہے سچ سمجھ کرکرتاہے اور میں نے بھی ہمیشہ تیری مدد کی ہے اور تجھے دشمنوں سے بچایاہے مگراب میری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے کہاہے کہ یاتو اپنے
بھتیجے سے کہو کہ تبلیغ میں نرمی کرے اوریاپھر اس سے قطع تعلق کرلواور اگرمیںایسانہ کروں توقوم میرے ساتھ قطع تعلقی کرلے گی اور تُو جانتاہے کہ قوم کامقابل مشکل ہوتاہے ۔اب تو بتاتیری کیارائے ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے جس وقت یہ بات سنی ۔آپ ؐ کی آنکھوں میںآنسو بھرآئے اورآپ ؐ نے فرمایا۔اے میرے چچا۔میرے دل میں آپ کابڑاادب ہے ۔مگرسچائی کے مقابلہ میں میں آپ کی بات ماننے کے لئے تیارنہیں ہوں ۔اگردشمن میرے دائیں طرف سورج اور بائیں طرف چاند لاکرکھڑاکردیںتب بھی میں تبلیغ میں نرمی نہیںکروں گا۔اور توحیدکی اشاعت سے بازنہیںرہوں گا۔میںآپ کے لئے ہرقربانی کرنے کو تیارہوں لیکن یہ بات آپ کی نہیںمان سکتا۔آپ مجھے میرے حال پر چھوڑدیں اور اپنی قوم سے صلح کرلیں۔میرے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے ۔اس پرباوجود اس کے کہ ابوطالب کے لئے قوم کاچھوڑنا مشکل تھا اس دلیرانہ جواب کوسن کران پرایسااثر ہواکہ انہوں نے کہا کہ اگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو بیشک چھوڑ دے میںتجھے نہیں چھوڑوں گا۔ابوطالب کے اس جواب کی اہمیت کا پورا اندازہ وہ لوگ نہیں لگاسکتے جو تاریخ سے ناوقف ہونے کی وجہ سے ایک اور واقعہ کونہیںجانتے جس سے ابوطالب کی قلبی کیفیت کاپتہ چلتاہے اور یہ معلوم ہوتاہے کہ انہیںاپنی قوم سے کتنی محبت تھی ۔جب ان کی وفات کاوقت قریب آیاتوچونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو ان سے بہت ہی محبت تھی ۔ان کی قربانیوںاور حسن سلوک کی وجہ سے آپ ؐ کو اس بات سے سخت دکھ ہوا کہ آپ مسلمان ہوئے بغیر مررہے ہیں ۔آپ کبھی ان کے دائیں جاتے اور کبھی بائیںاورکہتے کہ اے چچا اب موت کاوقت قریب ہے لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَدّرَسُوْلُ اللّٰہِ کہہ دیجیے مگر ابوطالب خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا ۔آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے بہت اصرار کیا۔آپ ؐ پر رقّت طاری تھی ۔ اورآپ ؐ باربار کہتے تھے کہ اے چچا ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیں تاکہ میں خداکے حضور کہہ سکوں کہ آپ نے اسلام قبول کرلیاتھالیکن ابوطالب نے آپ یہی جواب دیاکہ میںاپنی قوم کے دین کو نہیں چھوڑسکتا۔گویاان کواپنی قوم سے اتنی محبت تھی کہ وہ اس کے بغیرجنت میںبھی جانانہ چاہتے تھے ۔مگر اپنی قوم سے اس قد ر محبت رکھنے والے شخص پررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے بہادرانہ جواب کایہ اثر ہوا کہ اس نے کہہ دیاکہ اچھااگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو چھوڑدے میںتم کونہیںچھوڑوںگا۔ابو طالب کے اس جواب کی اہمیت کا پورا اندازہ وہ لوگ نہیں لگا سکتے جو تاریخ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ایک اور واقعہ کو نہیں جانتے جس ابو طالب کی قلبی کیفیت کا پتا چلتا ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنی قوم سے کتنی محبت تھی۔ جب اُن کی وفات کا وقت قریب آیا تو چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمکو ان سے بہت ہی محبت تھی۔ ان کی قربانیوں اور حسنِ سلوک کی وجہ سے آپؐ کو اس بات سے سخت دُکھ ہواکہ آپ مسلمان ہوئے بغیر مر رہے ہیں ۔ آپ کبھی ان کے دائیں جاتے اور کبھی بائیں اور کہتے کہ اے چچا! اب موت کا وقت قریب ہے لَا اِلٰہَ اَلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہہ دیجیئے ۔مگر ابو طالب خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا ۔آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت اصرار کیا ۔آپؐ پر رقت طاری تھی۔اورآپؐ باربار کہتے تھے کہ اے چچا ! ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیں تاکہ میں خدا کے حضور کہہ سکوں کہ آپ نے اسلام قبول کرلیا تھا لیکن ابو طالب نے آخر میں یہی جواب دیا کہ میں اپنی قوم کے دین کو نہیں چھوڑسکتا ۔ گویا ان کو اپنی قوم سے اتنی محبت تھی کہ وہ اس کے بغیر جنت میں بھی جانا نہ چاہتے تھے ۔ مگر اپنی قوم سے اس قدر شدید محبت رکھنے والے شخص پر رسول کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے بہادرانہ جو اب کا یہ اثر ہوا کہ اُس نے کہہ دیا کہ اچھا اگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو چھوڑے میں تم کو نہیں چھوڑوں گا ۔
جو زیفس ؔ مشہور یہودی مؤرخ پُرانی کتب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حالات کو ذکر کرتے ہوئے لکھتاہے کہ ابراہیم ؑ پہلے آدمی تھے جنہوں نے دلیری سے خدا کے خالق ہونے اور ایک ہونے کا اعلان کیا ۔ اور کہا کہ سب ستارے خدا کے قبضہ میں ہیںاور اُسی کے حکم کے ماتحت حرکت کرتے ہیں۔ چونکہ اُن کی قوم ستارہ پرست تھی اُن کی ستارہ پرستی کی مخالفت نے چلڈ نیز کا غصہ بھڑکادیا اور اُن کو اپنا ملک چھوڑ کرکنعان جانا پڑا ۔کہتے ہیں کہ جب آپ چودہ برس کے تھے تو ستاروں اور بتوں کی پرستش سے بچنے کے لئے آپ نے اپنے باپ کو چھوڑدیا اور خدا سے دُعا کی کہ وہ اُن کو انسانوں کی غلطیوں سے بچائے ۔ یہ بھی لکھا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے زراعت کے بعد عمدہ طریق ایجاد کئے اور انہوں نے اپنے باپ تارہؔ کو توحید کی تعلیم دی مگر وہ لوگوں سے ڈرتا تھا اور اُس نے ان کو خاموش رہنے کو کہا۔ جب حضرت ابراہیم ؑ کے بھائی بھی اُن کے مخالف ہوگئے تو انہوںنے بت خانہ کو آگ لگا دی اور اُن کے بچانے کی کوشش میں اُن کا بھائی ہاران جل مرا(اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لکڑی کے بت تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے تلوار سے اُن کو کاٹ دیا تھا) لکھا ہے کہ نئے سال کے چاند کو ایک دفعہ دیکھ رہے تھے تاکہ آئندہ سال کی فراخی کو معلو کریں کہ ان کو الہام ہوا کہ خدا کی مرضی کے مقابلہ میں ستاروں کااثر کیا حقیقت رکھتا ہے ۔ آخر بہت دُعاؤں کے بعد آپ نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا ۔ تاکہ اعلیٰ صداقتوں کو دنیا میں قائم کریں ۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تین سال کی عمر میں ان کو سچا علم ملا ۔ بعض میں دس اور بعض میں چالیس لکھا ہے ۔ فلسطینی ربّیوں کے لٹریچر میں آپ کے متعلق بہت سی تفاصیل دی گئی ہیں اور آپ کے زمانہ کے بادشاہ کا نام نمرودؔ بتایاگیا ہے اور چاند ستاروں کا واقعہ یوں لکھا ہے کہ تارہؔ نے نمرود ؔ سے ڈر کر جو اُن کے بیٹے کو مارنا چاہتا تھا (کیونکہ نجومیوں نے اُسے بتایا تھا کہ ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو تیری حکومت کو تباہ کردے گا ) تین سال تک حضرت ابراہیم ؑ کوچھپائے رکھا۔ جب وہ بھورے سے باہر نکلے تو سورج کو دیکھ کر انہوں نے خدا سمجھا ۔ جب سورج ڈوبا تو چاند کو خدا اور ستاروں کو اس کا نوکر سمجھا ۔ جب صبح ہوئی تو دونوں سے انکار کرکے کہا کہ خدا کوئی ااور ہو گا ۔ اس پر ابراہم ؑ نے باپ سے پوچھا ۔ آسمان و زمین کس نے پید ا کئے ۔ اُس نے جواب میں کہا کہ یہ بت جو سامنے ہے یہ ہمار ا خدا ہے ۔ ابراہم ؑ نے کہا کہ میں اسے نذر چڑھائوں گا۔ اور عمدہ کھانا پکواکر اس کو دیا اُس نے نہ کھایا تو اور اچھا کھانا پکوا کر سامنے رکھا جب پھر بھی اس نے نہ کھا یا اور نہ کوئی جواب دیا تو آگ سے اس کو اور دوسرے بتوں کو جلا دیا جب تارہؔ واپس آیا تو اُس نے پوچھا ۔ ان کو کس نے جلایا ہے ۔ انہوں نے کہا۔ بڑا چھوٹوں پر ناراض ہوگیا ۔اور غصہ میں اُس نے ان کو جلا دیا ۔ باپ نے کہا۔ بیوقوف جو نہ سُنے اور نہ دیکھے نہ چل سکے ۔ وہ یہ کام کس طرح کر سکتا تھا ۔ انہوں نے کہا ۔ پھر تم زندہ خدا کو چھوڑ کر اِن کے پیچھے کیوں چل پڑے ہو ۔ ایک دن ایک عورت کھانے کی کوئی چیز نذر لائی ۔ ابراہیم ؑ نے کہا ۔ اِن کے منہ ہیں یہ بولتے نہیں۔ آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ۔کان ہیں مگر سنتے نہیں ۔ہاتھ ہیں مگر پکڑ نہیں سکتے ۔ اِن کے بنانے والوں اور ان پر اعتبار کرنے والوں کا بھی یہی حال ہو۔ یہ کہہ کرآپ نے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ اور پھر انہیں جلا دیا ۔ اِس پر آپ نمرودؔ کے سامنے پیش کئے گئے ۔ اُس نے انکو کہا کہ کیا تو نہیں جانتا کہ میں خدا اور دنیا کا حاکم ہوں۔ آپ نے جواب دیا۔ اگر تو خدا اور دنیا کا حاکم ہے توکیوں سورج کو مغرب سے نکال کر مشرق کی
طرح نہیں چڑھاتا ۔ اگر تو خدا اور دنیا کا حاکم ہے تو بتا میرے دل میں اس وقت کیا ہے اور میرا آئندہ کیا حال ہوگا؟ نمرودؔ کی زبان بند ہوگئی اور وہ حیران رہ گیا ۔ اور ابراہیم ؑ نے اپنی بات کو جاری رکھا اور کہا کہ تُو کونسؔ کا بیٹا ہے اور اُسی کی طرح ایک فانی وجود ہے تواپنے باپ کو موت سے نہیں بچا سکا۔ اور نہ تُو خود اس سے بچ سکتا ہے ۔ یہ بھی لکھا ہے کہ نمرودؔ نے کہا۔ آگ کو پوچ ۔ ابراہیم ؑ نے کہا۔ پانی کو کیوں نہیں وہ تو اُسے بجھا دیتا ہے۔ اُس نے کہا۔ بہتر اُسی کو سہی ۔ انہوں نے کہا۔ بادلوں کو کیوں نہیں جو پانی سے پُر ہوتے ہیں۔ اُس نے کہا۔ اُنہی کو سہی۔ انہوں نے کہا۔ ہوا ان کو بھی اڑا دیتی ہے اُس نے کہا اُس کوپوچ۔ انہوں نے کہا۔ انسان اس کے صدمہ سے بھی بچ جاتا ہے اور مکانوں کے پیچھے چھپ جاتا ہے ۔ اس نے کہا پھر میں انسانوں کا بادشاہ ہوں ۔ مجھے پوچ۔ انہوں نے کہا۔ اگر تو خدا ہے تو پھر سورج کو مغرب کی طرف سے نکال کردکھا۔ اس پر نمرود ؔ نے ابراہیم ؑ کے جلانے کا حکم دے دیا۔ ایک لکڑیوں کا انبار پانچ گز مربع جمع کیا گیا اور اُس کو آگ لگائی گئی اور ابراہیم ؑ کو اُ س میں ڈالا گیا ۔ اِسی کی طرف پیدائش باب۱۵ آیت ۷ میں اشارہ ہے ۔ بعض نسخوں میں اس جگہ لکھا ہے کہ ’’ تجھے کدیوں کی آگ سے نکال لایا ۔‘‘ (جیؤش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ ابراہام)
چیلڈنیز میں سورج کی پرستش خاص طور پر کی جاتی تھی (نیلسن انسائیکلو پیڈیا ) چیلڈ نیز کا خدا MENODACK نامی تھا جو سورج کی شعاع یادن کی روشنی سمجھا جاتاتھا ۔ اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ بنی نوع انسان کی نفع پہنچاتا ہے ۔ اس کا نام بعل یعنی آقا بھی تھا ۔ اِس کے علاوہ اُن کو ایک بت شمسؔ تھا یعنی سورج دیوتا۔ ایک سینؔ تھا یعنی چاند دیوتا ۔ ایک نیبوؔ یعنی نبی دیوتا یا معلم تھا ۔
(نیلسنز انسائیکلوپیڈیا بیلبونیا کے ماتحت)
اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے انہی واقعات کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ اگر موسیٰؑ اور فرعون کے واقعات سے بھی یہ لوگ کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے تو پھر تو ان کے سامنے ابراہیم کے واقعات بیان کر کیونکہ ابراہیم ؑ وہ نبی ہے جس کی عزت مکہ والوں کے قلوب میں جاگزیں ہے ۔ اور خصوصیت کیساتھ ان کے سامنے وہ واقعہ بیان کرجبکہ اُس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کس چیز کی عباد ت کرتے ہو؟ چونکہ ان کی قوم نے سورج اور چاند اور ستاروں کے نام پر کئی قسم کے بت بنائے ہوئے تھے اس لئے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ سوال کیا تو انہوں نے کہاکہ ہم تو بت پوجتے ہیں ۔ اور سارا دن اُن کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا ۔ اچھا جب تم ان کو پکارتے ہوتو کیا اُن کیطرف سے کوئی جواب بھی ملتا ہے جس سے پتہ لگے کہ انہوں نے تمہاری دعائیں سُن لی ہیں یا نفع اور ضرر کی شکل میں کوئی نتیجہ بھی نکلتا ہے ؟ یعنی اگر وہ واقعہ میں اپنے اندر خدائی طاقتیں رکھتے ہیںتو جس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کی دعائیں سنتا ہے اسی طرح ان بتوں کوبھی تمہاری دعائیں سننی چاہئیں ۔ اور جس طرح خدا اپنے بندوں کو ہر قسم کی تکالیف سے بچاتا اور اُن کیلئے رحمت اور برکت کے سامان پیدا کرتا ہے اسی طرح ان بتوںکے اندر بھی یہ طاقت ہونی چاہئیے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو فائدہ پہنچائیں اور جو لوگ ان کا انکار کریں انہیں تباہ کردیں۔ مگر کیا یہ بت ایسا کرسکتے ہیں؟ کیا یہ تمہاری باتوں کا جواب دیتے ہیں ؟ ان میں طاقت ہے کہ وہ تمہاری کسی تکلیف کو دور کرسکیں یا تمہیں کوئی نفع پہنچا سکیں۔ اگر ان میں کوئی بات بھی نہیں پائی جاتی تو پھر تم ایسے بتوںکی پرستش کر رہے ہو جونہ سنتے ہیں نہ بولتے ہیں اور نہ نفع اور ضرر کی اپنے اندر کوئی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ دلیل ایسی زبردست ہے کہ ایک صحابیؓ کہتے ہیں۔ مجھے اسلام قبول کرنے کی تحریک صرف اس لئے ہوئی کہ میں ایک دفعہ سفر پر گیا تو عرب کے دستور کے مطابق میں نے پتھر کا ایک چھوٹا سا بت اپنے ساتھ رکھ لیا تاکہ وہ ضرورت کے وقت کام آئے ۔ ایک دفعہ جب کہ میں ایک جنگل میں سے گزر رہاتھا مجھے کوئی ضروری کام پیش آ گیا۔میں نے اپنا اسباب وہیں رکھا اور بت کو پاس بٹھا کر کہا کہ حضور میں تھوڑی دیر کے لئے باہر جارہا ہوں آپ مہربانی فرما کر میرے سامان کی حفاظت کریں ۔ جب میں واپس آیا تو ایک گیدڑ ٹانگ اٹھا کر اُس بت پر پیشاب کررہا تھا یہ دیکھ کر میرے دل میں ایک آگ لگ گئی اور میں نے کہا کہ جو بت گیدڑ کے پیشاب سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکا اُس نے میرے اسباب کی کیا حفاظت کرنی ہے چنانچہ میں نے اُس بت کو وہیں پھینکا اور واپس آکر مسلمان ہوگیا ۔
اِسی طرح ایک اور صحابیؓ کہتے ہیں کہ مجھے توحید کی اس طرح سمجھ آئی کہ میں ایک دفعہ سفر پر گیا تو میںنے اپنے ساتھ آٹے ایک بت بنا کر رکھ لیا ۔ اتفاق ایسا ہوا کہ راستہ میں ہمارا آٹا ختم ہوگیا اور بھوک نے ہمیں بے قرار کردیا ۔ہم نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح کوئی اور چیز مل جائے تو ہم گذارہ کرسکیںمگر ہمیںکوئی چیز نہ ملی جب بھوک نے ہمیں بہت تنگ کیاتو ہم نے اسی بت کو کوٹ کاٹ کر آٹا گوندھ لیااور روٹی پکاکرکھاگئے ۔جب ہم خوب سیر ہوچکے تو مجھے اپنے آپ پر ہنسی آئی کہ میں کیسا احمق ہوں کہ جس وجود کو میں کوٹ کاٹ کر ہضم بھی کرگیااس کومیںاپناخدا اور حاجت روا سمجھتارہاہوں ۔چنانچہ اس کاردّعمل یہ ہوا کہ سفر سے واپس آتے ہی میںمسلمان ہوگیا۔حضرت ابراہیم ؑ نے بتوں کے اسی عجز اور بے چارگی کی طرف توجہ دلائی اور ان سے پوچھا کہ بتائو۔کیایہ تمہیںکوئی نفع دیتے ہیں یاتمہارے دشمنوں کوضرر پہنچاسکتے ہیں؟حضرت ابراہیم ؑ کی قوم نے شرمندہ ہوکرکہاکہ نتیجہ توکچھ نہیںنکلتا۔لیکن ہم نے اپنے باپ دادوں کودیکھاہے کہ وہ ایساہی کرتے تھے۔اس لئے ہم نے بھی بتوں کی پرستش شروع کردی ۔ان کایہ جواب بالکل ایساہی تھاجیسے حضرت خلیفہ اوّل ؓ ایک لطیفہ سنایاکرتے تھے کہ ایک بادشاہ کے دربارمیںصفائی کے لئے ایک خاکروبہ اور ایک خاکروب آیاکرتاتھا۔اس خاکروب اور خاکروبہ نے سؤر پال رکھے تھے ۔اتفاقاً سؤر کاایک بچہ مرگیا۔پالے ہوئے جانور سے بھی انسان کومحبت ہوجاتی ہے چاہے وہ سؤر ہی ہویاکوئی اور جانور۔انکے لئے سؤر کابچہ ایسا ہی تھاجیسے ہمارے لئے گھوڑا یاکوئی اور جانور۔دربارکی صفائی کرتے ہوئے خاکروبہ کواس سؤر کے بچے کاخیال آگیا اور وہ دربار کی ایک دیوار کے ساتھ اپناسر رکھ کررونے لگ گئی ۔اتنے میںدربار کاایک چپڑاسی آیااور اس نے خاکروبہ کو روتے دیکھ کریہ خیال کیاکہ خدانخواستہ اندر کوئی حادثہ ہوگیاہے ۔ مجھے پتہ نہیں لگا ۔اگر کسی نے مجھے دیکھ لیاکہ میں رو نہیں رہا تو مجھ پر بے وفائی کا شبہ کرلیا جائے گا اس لئے وہ بھی رونے لگ گیا ۔ پھر ایک چوبدار آیا۔ اُس نے جو دیکھا کہ یہ دونوں رو رہے ہیں تو سمجھا کہ ضرور کوئی واقعہ ہوا ہے جس کا مجھے پتانہیں لگا ۔ اگر کوئی شخص آگیا اور اس نے دیکھ لیا کہ میں رو نہیں رہا تو وہ خیال کرے گا کہ مجھے بادشاہ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ خیال کرکے وہ بھی مصنوعی طور پر رونے لگ گیا پھر کلرک آئے انہوں نے بھی ان لوگوں کو دیکھ کر رونا شروع کردیا ۔پھر چھوٹے افسر آئے ۔ درباری آئے ۔ وزراء آئے ۔ انہوں نے خیال کیا کہ ہمارا تو خیال تھا کہ ہم ہر وقت خبر رکھیں لیکن ہمیں اس حادثہ کو کوئی علم نہیں ہوا۔ ضرور کوئی بات ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ رو رہے ہیں۔ اگر ہم نہ روئے تو ہم پر بے وفائی کا شبہ کر لیاجائے گا ۔ یہ خیال کرکے وہ بھی رونے لگ پڑے ۔ اور بڑے آدمیوں نے کرسیوں پر بیٹھے ہوئے آنکھوں پر رومال رکھ کر رونا شروع کردیا ۔اتنے میں ایک بڑا وزیر آیا وہ کچھ عقلمند تھا وہ رویا نہیں۔ اُس نے پاس والے وزیر سے دریافت کیا کہ کیا بات ہوئی ہے ۔ اُس نے کہا مجھے تو معلوم نہیں میرے پاس والے وزیر رو رہے تھے اس لئے میں بھی رونے لگ گیا ۔ اُس نے کہا۔ اُس سے پوچھو کیا بات ہے ۔جب اُس سے پوچھا گیا ۔ تو اُس نے کہا۔ مجھے تو علم نہیں۔ میرے ساتھ والا وزیر رو رہا تھا آخر بات خاکروبہ تک پہنچی۔ اس سے دریافت کیا گیا تو اُس نے بتایا کہ میر اسؤر کا بچہ مرگیا تھا۔ مجھے وہ یاد آگیا تو میں نے رونا شروع کردیا ۔ جس طرح ایک خاکروبہ کو دیکھ کر سارا دربار رونے لگ گیا تھا حالانکہ بات کچھ بھی نہیں تھی اِسی طرح انہوں نے کہا کہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو دیکھا تھا کہ وہ اِن بتوں کی پرستش کرتے ہیں ۔ جب ہم نے دیکھا کہ وہ اِن بتوں کے آگے ہاتھ جوڑتے اور سجدے کرتے ہیں تو ہم بھی ہاتھ جوڑنے اور سجدہ کرنے لگ گئے ۔
قَالَ اَفَرَئَ یْتُمْ مَّاکُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ٭
اُس نے کہا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ جن کی تم عبادت کرتے چلے آئے ہو ۔
اَنْتُمْ وَاٰبَآئوُکُمُ الْاَقْدَمُوْنَ٭
تم بھی اور تمہارے پُرانے باپ دادے بھی۔
فَاِنَّھُمْ عَدُوٌّ لِّیْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ٭
وہ سب کے سب ربّ العالمین کے سوا میر ی تباہی چاہتے ہیں۔
الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَھُوَ یَھْدِیْنِ٭
جس (ربّ العالمین) نے مجھے پید اکیا ہے اور (اس کے نتیجہ میں) وہ مجھے ہدایت بھی دیگا۔
وَالَّذِیْ ھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ٭
اور جس کی صفت یہ ہے کہ وہی مجھے کھانا کھلاتا اور وہی مجھے پانی پلاتا ہے ۔
وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ٭
اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ شفا دیتا ہے۔
وَالَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِ٭
اور جو مجھے مارے گا اورپھر زندہ کرے گا ۔
وَالَّذِیْٓ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَلِیْ خَطِیْٓتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ٭
اور وہ ایسا ہے کہ میں اُمید کرتا ہوں کہ وہ میرے گناہ جزا سزا کے وقت مجھے معاف کردے گا ۔۱۷؎
۱۷؎ حل لغات:۔اَلدِّیْنُ کے معنے ہیں اَلْجَزَائُ وَالْمُکَافَأَ ۃُ ۔بدلہ ۔ اَلْحِسَابُ۔محاسبہ ۔اَلْقَضَائُ۔ فیصلہ (اقرب)
تفسیر:۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں جو اب دیا کہ تم مجھے اِن معبودوں کی حالت تو بتائوجن کی تم پرستش کرتے چلے آئے ہو۔ یعنی تم بھی اور تمہارے پہلے باپ دادا بھی ۔ تمہارے یہ سب معبود میرے دشمن ہیں سوائے ربّ العالمین خدا کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے ۔ اگر یہ بُت اپنے اندر کوئی طاقت رکھتے ۔تو کیا یہ سب مل کرمجھ اکیلے پر غالب نہ آجاتے اور مجھے تباہ برباد نہ کردیتے ؟ اس جگہ عَدُوٌّ مفرد استعمال ہوا ہے جو ھُمْ کی خبر کے طور پر آیا ہے ۔ حالانکہ چاہیئے تھا کہ اَعَدَاوٌّ کا لفظ استعمال کیا جاتا جو جمع ہے ۔سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ عرئی زبان کا محاورہ ہے کہ کبھی مبتداء کوجمع اور خبر کو مفرد لے آتے ہیں۔ چنانچہ اس سورۃ کے شروع میں ہی آتا ہے کہ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلٌ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔یعنی اے موسیٰؑ اور ہارونؑ !فرعون سے کہنا کہ ہم دونوں اپنے ربّ کے رسول ہیں حالانکہ موسیٰؑ اور ہارون ؑدو نبی تھے ۔ اور بظاہر اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّکَ کی بجائے اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّکَ کہنا چاہیئے تھا ۔ مگر وہاں رَسُوْلَا رَبِّکَ کی بجائے اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّکَ اِسی لئے کہا گیا ہے کہ عربی زبان میں یہ طریقِ کلام رائج ہے ۔ چنانچہ عربی میں کہتے ہیں۔ ھٰذَانِ رَسُوْلِیْ وَوَکِیْلِیْ وَھٰؤُلَآئِ رَسُوْلِیْ وَوَکِیْلِیْ (فتح البیان جلد ۷صفحہ ۶)یعنی یہ دونوں میرے رسول اور وکیل ہیںاور یہ سب میرے رسول اور وکیل ہیں حالانکہ ھٰذَانِ کے بعد رَسُوْلَا لِیُ آنا چاہیئے تھا یعنی یہ دونوں میرے رسول ہیں اور ھٰؤُلَآئِ کے بعد رُسُلِیْ آنا چاہیئے تھا ۔ کہ یہ سب میرے رسول ہیں۔ مگر تثنیہ کی خبر میں بھی واحد کا صیغہ استعمال کیا گیا ۔ پس یہ ایک مروّجہ عربی کا طریق ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا ۔
فَاِنَّھُمْ عَدُوٌّ لِّیْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ کے متعلق بعض لوگ سوال کیا کرتے ہیں کہ یہاں پتھر کے بے جان بُتوں کو دشمن کہاگیا ہے ۔ مفسرین نے اس سوال کایہ جواب دیا ہے کہ یہاں قلب نسبت سے کام لیا گیا ہے ۔ یعنی جس طرح ہماری زبان میں یہ کہا جاتا ہے کہ پرنالہ چلتا ہے بلکہ پانی چلتا ہے اسی طرح یہاں کہا تویہ گیا ہے کہ وہ میرے دشمن ہیں لیکن مراد یہ ہے کہ میں اِن کا دشمن ہوں ۔ چنانچہ فرّاءؔ نے یہی معنے کئے ہیں اور ان الفاظ کو مقلوب قرار دیا ہے ۔لیکن میرے نزدیک اس جگہ مخالفوں کے عقیدہ پر تعریض کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ تم تو سمجھتے ہو کہ وہ معبود ہیں مگر میں ان کی عبادت نہیں کرتا اِس لئے لازماً وہ میرے دشمن ہوں گے سوائے ربّ العالمین خدا کے جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔ پس اب ہم دیکھ لیں گے کہ ربّ العالمین خدا میری مدد کرکے مجھے بچاتا ہے یا تمہارے معبود میری دشمنی کرکے مجھے ہلاک کرتے ہیں۔ اگر ان بتوں میں بھی کوئی طاقت ہے تو چاہیئے کہ یہ مجھے ہلاک کردیں ۔لیکن وہ ایسا کبھی نہیںکرسکتے ۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ بالکل بے بس ہیں اور ان میں کوئی طاقت نہیں ۔ چنانچہ نتیجہ نے بتادیا کہ ربّ العالمین خد انے ابراہیم ؑ کو بچا لیا اور اُس کی قوم کے معبود اُس کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکے ۔ اِسی طرح اس پیشگوئی کا یہ نتیجہ نکلا کہ یہودی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ماننے والے تھے وہ کامیاب ہوگئے اور اُن کے دشمن تباہ ہوگئے ۔
پھر ربّ العاؔلمین کے الفاظ استعمال فرما کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ میں جس خدا پر ایمان رکھتا ہوں وہ ایک زندہ اور طاقتور خدا ہے مگر تمہارے معبودوں میں تو جان ہی نہیں انہوںنے کسی کی مدد کیا کرنی ہے؟ بے شک ربّ العالمین کے معنوں میں یہ بھی داخل ہے کہ ہمارا خدا انسانوںکا بھی خدا ہے اور جانوروں کا بھی خدا ہے او رکیڑوں مکوڑوں کابھی خدا ہے اسی طرح وہ عربوں کا بھی خدا ہے اور ایرانیوں کا بھی خدا ہے اور ہندوستانیوں کا بھی خدا ہے ۔ لیکن ربّ العالمین میں جن جہانوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ زمانہ کے لحاظ سے بھی ہوسکتے ہیں۔ پس اس کے ایک معنے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ میںجس خدا کو پیش کرتا ہوں وہ ایک زندہ خدا ہے ۔ وہ آدم ؑ کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خداتھا ۔ وہ نوح ؑ کے زمانہ کے لوگوں کابھی خدا تھا اوروہ میرے زمانہ کے لوگوں کا بھی خداہے اور بعد میں آنے والوں کا بھی خدا ہوگا ۔ اور جو خدا آدم علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا تھا اور نوح علیہ السلام کے زمانہ کے لوگوں کابھی خدا تھا اورہمارے زمانہ کے لوگوں کا بھی خدا ہے اور بعد میں آنے والے لوگوں کا بھی خدا ہوگا۔صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک زندہ خدا ہے اگر وہ زندہ خدا نہ ہوتا تو ہرزمانہ کے لوگوں کا کس طرح خدا ہوسکتا ۔ پس رب العالمین کہہ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ میرا خدا ایک زندہ خدا ہے جس سے ہر زمانہ کے لوگ ویسا ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیںجیسے پہلے لوگ فائدہ اٹھاتے رہے ہیں مگر تمہارے بت نہ پہلے لوگوں کو فائدہ پہنچا سکے اور نہ تمہیں کوئی فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ تم اپنے سارے معبودوں کو میری تباہی کیلئے اکٹھا کرلو اور ان کے آگے رو رو کر دعائیں کرو ۔ پھر دیکھو کہ میرا رب العالمین خدا جیتتا ہے یا تمہارے بت فتح حاصل کرتے ہیں ۔گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتایا کہ جس طرح ایک چھوٹا بچہ جب اکیلا گلی میں سے گزر رہا ہوتا ہے اور گلی کے اوباش اور شریر لڑکے اُس کو دق کرنے کیلئے اُس پر حملہ کرتے ہیں تواُن کی آواز سن کر اُس لڑکے کی ماں بیتاب ہوکر اپنے گھر سے باہر نکل آتی ہے اسی طرح میرا رب العالمین خدا میرے ساتھ ہے۔ تم میری کتنی بھی مخالفت کرو اور مجھے کچلنے کیلئے خواہ انتہائی طاقت صرف کردو یہ کبھی نہیںہوسکتا کہ میرا خدا مجھے چھوڑ دے اور تمہارے بت خدائے واحد پر غالب آجائیں ۔ دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ ۔ دنیا کے بڑے سے بڑے مدبّر۔ دنیا کے بڑے سے بڑے لیڈر انسانی امداد پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ اُن کی تکلیفوںکے وقت کچھ انسان آگے آتے ہیں جو بعض دفعہ کامیاب ہوتے ہیںاور بعض دفعہ ناکام ۔ مگر جب کسی مومن کو تکلیف دی جاتی ہے تو خدائے واحد خود آسمان سے اتر آتا ہے اور وہ لڑنے والوں کے سامنے سینہ سپر ہوجاتاہے ۔ اور یہ ایک بہترین انعام ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت کو حاصل ہوا۔ یہی انعام ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی جماعت کو حاصل ہوا ۔ یہی انعام ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی جماعت کو حاصل ہوا ۔ اور یہی انعام ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی جماعت کو حاصل ہوا کہ ایک زندہ خدا اور طاقتور خدا ان کے ساتھ تھا ۔ اور جب بھی دشمن حملہ آور ہوتا تھا خدا آسمان سے اتر کر اُن کیساتھ کھڑا ہوجاتا اور وہ ان کے لئے بڑے بڑے نشانات ظاہر کرتا تھا اور اس کایہ پیار اتنی قیمتی چیز تھا کہ اگر جائز ہوتا تو انسان تمنا کرتا کہ لوگ میری اور بھی دشمنی کریں تاکہ میرے خدا کی محبت میرے لئے اور زیادہ جوش مارے مگراسلام نے ایسی خواہش سے منع کردیا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لَا تَتَمَنُّوْالِقَآئَ الْعَدُوِّ (بخاری کتاب التمنی)اے مومنو! تم کبھی دشمن کے حملہ کی تمنا نہ کرو۔آخر ہمیں سوچنا چاہیئے کہ اس فقرہ کے معنے کیا ہیں؟ کون ہے جو دشمن کے حملہ کی تمنا کیا کرتا
ہے ۔ظاہر ہے کہ جہاں تک لڑائی کا تعلق ہے ۔ جہاں تک مرنے کا تعلق ہے جہاں تک تکالیف کا تعلق ہے کوئی شخص بھی دشمن کے حملہ کی تمنا نہیں کر سکتا ۔ مگر مسلمان ایسی حالت میں تھے کہ ان کے دل اسی نکتہ کے ماتحت جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے بعض دفعہ خواہش کرسکتے تھے کہ کاش ہمار ا دشمن ہم پر حملہ کرے تاکہ ہمارا خدا ہماری مدد کیلئے ہمارے پاس آجائے ۔ پس صر ف یہی وجہ تھی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے مسلمانو! جب دشمن تم پر حملہ کرتا ہے تو خدا تمہارے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے اوریہ بات تمہیں اتنی لذیز معلوم ہوتی ہے اور تمہیں اس پر اتنا مزا آتا ہے کہ جب دشمن حملہ چھوڑ دیتا ہے تو تم کہتے ہو۔ کاش ہمار ا دشمن ہم پر پھر حملہ کرے ۔ تاہمارا خدا پھر ہمارے پاس آجائے ۔ مگر یہ خواہش جہاں تک عشق کا سوال ہے وہاں تک تو درست ہے لیکن الٰہی حکمتوں اور منشاء کے خلاف ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے ادب کے لحاظ سے ایسی خواہشات مت کیاکروہاں جب دشمن تم پر خود بخود حملہ کردے گا اور تمہارا خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہوگا تو یہ ممکن ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ تمہیں چھوڑ دے کیونکہ خدا تعالیٰ کی یہ دائمی سنت ہے کہ وہ اپنے رسولوں کی بھی مدد کرتاہے اور ان لوگوں کی تائید کیلئے بھی اپنے نشانات دکھاتا ہے جو اُن رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔ پس فَاِ نَّھُمْ عَدُوٌّلِّیْ اِلَّا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی اسی سنتِ قدیم کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ تمہارے یہ سب بت جن کے سامنے تم اپنی ناکیں رگڑتے ہو میرے دشمن ہیں اگر ان میں کوئی طاقت ہے تومیرے رب العالمین خدا کے مقابلہ میں جو ایک زندہ اور طاقتور خدا ہے مجھے نقصا ن پہنچا کردکھائیں۔ یقینا تمہارے بت ناکام رہیں گے اور میرا رب العالمین خدا ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا ۔اسی طرح رب العالمین کے الفاظ میں یہ پیشگوئی بھی مخفی تھی کہ یہ دین آخر ایک عالمگیر صور ت اختیار کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف ایسا نبی مبعوث ہوگا جو ساری دنیا کی طرف ہوگااورجس کی فیض رسانی کے دائرہ سے کوئی متنفس بھی باہر نہیں رہے گا ۔
پھر فرماتے ہیں ۔ الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَھُوَ یَھْدِیْنِ رب العالمین خداوہ ہے جس نے مجھے پید کیا ہے اور اُس کے نتیجہ میں لازماً وہ تمام خطرات اور حوادث سے بچاتے ہوئے مجھے منزل مقصود پر پہنچائے گا ۔ اور مجھے اپنے مقصد میں کامیاب کرے گا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ مجھے پیدا کرے اور ایک مقصدِ عظیم کیلئے کھڑا کرے اور پھر اپنی محبت کا ہاتھ پیچھے ہٹا لے اورمجھے حوادث کا شکار ہونے دے ۔ اس کی صفت خلق اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ کامیابی بھی اسی کی طرف سے آئے کیونکہ جوہستی اپنے معرضِ وجود میں آنے کیلئے دوسرے کی محتاج ہے وہ ترقی کے وسائل اور ذرائع بھی خود بخود مہیا نہیں کرسکتی بلکہ اس کے لئے بھی وہ اپنے خالق کی ہی محتاج ہوگی ۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے ۔ جیسے میں اگر کوئی مکان بنائوں تو جب تک میں اس میں دروازے نہ لگائوں ۔جب تک میں اس میں کھڑکیاں نہ رکھوں ۔ جب تک میں اس میں طاقچے اورر روشندان نہ بنائوں اُس وقت تک اس مکان میں نہ دروازہ لگ سکتا ہے نہ کھڑکی لگ سکتی ہے نہ طاقچہ اور روشندان بن سکتا ہے ۔کیونکہ وہ میرا مکان ہے اور میں نے ہی اُسے بنایا ہے ۔ اسی طرح جب انسان کو رب العالمین خدا نے پیدا کیا ہے تو رب العالمین خدا ہی جب تک اس کی مادی اور روحانی ترقی کے سامان مہیا نہ کرے اُس وقت تک وہ جسمانی اور روحانی طور پر کیسے ترقی کرسکتا ہے ۔ ان الفاظ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جہاں اپنی قوم کو اپنے غلبہ اور ترقی کی خبر دی ہے اور اپنے اس یقین محکم کا اظہار کیا ہے کہ میرا خدا مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا ۔ بیشک میرا چچا مجھے چھوڑ دے میرے بھائی
مجھے چھوڑ دیں میرے دوست مجھ سے الگ ہوجائیں میری قوم مجھ سے کنار ہ کرلے پھر بھی رب العالمین خدا جس کے کنارہِ عاطفت میں میںنے اپنی زندگی بسر کی ہے اور جس کی گود میں میں نے پرورش پائی ہے مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا ۔ اور ہمیشہ مجھے عزت اور کامیابی اور غلبہ بخشے گا ۔ہاں آپ نے اپنی قوم کو اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہیں اپنی پیدائش کے مقصد پر غور کرنا چاہیئے اور اپنی زندگی کو رائیگاں نہیںکھونا چاہیئے ۔ آخر اتنی بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ اُسے کسی اور ہستی نے پیدا کیا ہے مگر بہت کم لوگ ہیں جو اس بات پر غور کرتے ہیں کہ انہیں کیوں پیدا کیا گیا ہے ۔ وہ دنیا کی رعنائیوں اور دلچسپیوں میں کچھ ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ اُن کے دلوں میںاور اورسوالات پیدا ہوتے رہتے ہیںمگر اُن کے دلوں میں اگر سوال پیدا نہیں ہوتا تو صرف یہی کہ وہ کیوں پید اکئے گئے ہیں۔ہم نے دیکھا ہے بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ ایسے جنگلوں میں جہاں کوئی آبادی نہیں ہوتی اور ایسے پہاڑوں میں جہاں انسان کا پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے اور شاذو ونادر ہی کوئی انسان وہاں پہنچ سکتا ہے نہایت دلکش اور خوبصورت پھول کیوں پیدا کئے گئے ہیں۔ پھر ہزاروں قسم کے کیڑے برسات کے موسم میں نکلتے ہیں اُن کے پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اِسی طرح سمندروںمیں جھینگر اور دوسرے بعض بدشکل سمندری جانور پیدا کرنے سے کیا فائدہ ہے ۔ پھر قسم قسم کی جڑی بوٹیوں کو اتنی کثرت سے کیوں اگایا گیا ہے ۔ اور زمین پر رینگنے والے کیڑے سانپ اور کنکھجورا وغیرہ کیوں پیدا کئے گئے ہیں۔ غرض سمندر اور زمین پر اور ہوا میں ہزار ہا ایسی چیزیں ہیں جن کے متعلق انسان سوال کرتا ہے کہ وہ کیوں پیداکی گئی ہیں۔ دشوار گزار پہاڑوں میں جہاں انسا ن بڑی مشکل سے پہنچتا ہے بعض اوقات نہایت خوبصورت پھولوں کا نظارہ انسان دیکھتا ہے تو اس کے دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے مقام پر اس قسم کے ہزاروں سوالات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیںاور ہرشخص اپنی اپنی عقل کے مطابق ان سوالات کے جواب دینے کی کوشش کرتا ہے ۔ مثلاً کہتا ہے کہ زہریلے کیڑوں یعنی سانپ وغیرہ کے زہروںسے اب بہت سی دوائیں تیا رہورہی ہیں جو نہایت سریع الاثر ثابت ہوئی ہیں۔ یا یہ کہ دشوار گزار مقامات پریہ خوش کن نظارے اس لئے بنائے گئے ہیں کہ جو لوگ تکلیف ۔مشقت اور محنت برداشت کرسکیںوہی ان نظاروں کو دیکھیں۔ان سوالات اور جوابات سے پتہ لگتا ہے کہ انسان ا س بات کو تسلیم کرتا ہے کہ دُنیا میں ہر چیز کے پیداہونے کی کوئی وجہ اور غرض ہونی چاہیئے مگر انسان کوکبھی یہ بھی خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کیوں پید اکیا ہے۔اور میرے پیدا کرنے کی غرض وغایت کیا ہے۔ وہ اور چیزوں کے پیدا کرنے کی غرض وغایت معلوم کرنے کا بہت شوق رکھتا ہے لیکن اس کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ میں کیوں پید اکیا گیا اور میں اس غرض کو پورا بھی کررہا ہوں یا نہیں۔ اور اگر میں پیدا نہ کیا جاتااور اگر میرا وجود نہ ہوتا تو دنیا کو کیا نقصا ن ہوتا۔ دنیا میں اکثر لوگ ایسے ہیں جن کی زندگی ہوئی نہ ہوئی برا بر ہوتی ہے کیونکہ انہیں نہ اپنی زندگی کی غرض و غایت کا علم ہوتا ہے اور نہ وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر تمام لوگ اس سوال پر غور کریں تو اُن میں سستی اور غفلت اور کام کو ادھورا چھوڑنے کی عادت نہ رہے اور وہ ہر قسم کی قربانیوں سے کام لے کر اپنی روحانی ترقی کیلئے کوشش کریں۔ آخر غور کرو ۔ دنیا میں کتنے لوگ ہٹلرؔ۔ نپولینؔاور تیمورؔ بن سکتے ہیں نہ ساری دنیا ہٹلر ؔبن سکتی ہے اور نہ ساری دنیا نپولین ؔبن سکتی ہے اور نہ ساری دنیا تیمورؔ بن سکتی ہے۔ کیونکہ دنیوی ترقی کا میدا ن بہت تنگ ہے ۔ لیکن ایک مید ان ایسابھی ہے جہاں ہر انسان اپنے آپ کو نمایاں کرسکتاہے اور جتنا جی چاہے ترقی کر سکتا ہے اور کسی کو نقصان پہنچائے بغیر اورکسی کا راستہ روکے بغیر ترقی کرسکتا ہے اور وہ خدا رسیدہ بنے کا میدان ہے ۔ اس میںکسی کے بڑھنے سے کسی دوسرے کا نقصان نہیں اور پھر ہر پیشہ اور ہر درجہ کا انسان خدا رسیدہ بن سکتا ہے ۔ ایک بادشاہ اور اس کا بیٹا بھی خدا رسیدہ انسان بن سکتا ہے اور ایک فقیر بے نوا بھی خدا رسیدہ انسان بن سکتا ہے اور ایک نائی اور دھوبی بھی خدا رسیدہ انسان بن سکتا ہے ۔لوگ کہتے ہیں کہ ایک اقلیم میں دو بادشاہ نہیں ہوسکتے ۔ مگر اولیاء اللہ کا مقام وہ ہے کہ اقلیم تو کیا بلکہ ایک گھر میںبلکہ ایک گھر تو کیا ایک کمرہ میں بھی دس اولیاء اللہ رہ سکتے ہیں۔ اور اس میں کسی کا نقصان نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے راستے اتنے وسیع ہیں ان میں کبھی تنگی پیدا نہیں ہوسکتی ۔ جس طرح سمندر میں سے چڑیا چونچ بھر کر پانی لے جائے تو اس ے سمند ر کے پانی میںکوئی کمی نہیں آتی اس طرح اللہ تعالیٰ سے تعلق کا حال ہے یہ اتنا وسیع خزانہ ہے کہ جس میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کی اتنی محبت حاصل ہوئی کہ جس کی مثال باقی انبیا ء میں نہیں ملتی مگر اس کے باوجود خدا تعالیٰ کے پاس ابو بکر ؓاور عمرؓ اور عثمانؓا ور علیؓ اور طلحہؓ اور زبیرؓ کو دینے کے لئے بھی محبت موجود تھی اور تمام صحابہؓ نے بھی اپنے اپنے ظرف کے مطابق اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کی۔پس ہمیشہ اس بات پر غور کرتے رہنا چاہئیے کہ ہماری پیدائش کی غرض کیا ہے ۔ پیدائش کی اصلی غرض جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا پیار ا بن جائے ۔جب وہ یہ مقام حاصل کرلیتا ہے تو دنیا بے شک مٹ جائے خدا تعالیٰ کے رجسٹر سے اس کا نام کبھی نہیں مٹ سکتا ۔ وہ گڈری میں پڑا ہوا بھی خدا تعالیٰ کا مقرب بن سکتا ہے اور اتنا بڑا بن سکتا ہے کہ دنیاکی بڑائیا ں اس کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہوجائیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم کو اسی بنیادی نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے اور انہیں نصیحت کی ہے کہ تم اپنی پیدائش کے مقصد پر غورکرو اوراللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت کا جو سامان کیا ہے اس سے فائدہ اٹھائو ورنہ تمہاری زندگی بیکار چلی جائے گی اور تم اپنے ہاتھوںاپنی قبر کھود نے والے قرار پائو گے ۔
پھر فرماتے ہیں وَالَّذِیْ ھو یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِرب العالمین خدا ہی ہے جو مجھے کھانا کھلاتا اور پانی پلاتا ہے ورنہ نہ گندم میری پیدا کی ہوئی ہے ۔ نہ پانی میرا بنایا ہوا ہے ۔نہ نمک میرا بنایا ہوا ہے ۔نہ مرچ میری پیدا کی ہوئی ہے ۔ نہ گوشت میرا پیدا کیا ہوا ہے۔ نہ ترکاریاں میں نے پیدا کی ہیں۔ یہ سب چیزیں میرے باپ دادا کی پیدائش سے بھی پہلے کی ہیں۔ بڑے سے بڑے خاندان کا ذکر بھی سو پشتوں سے آگے نہیں جاتا ۔لیکن گندم ۔ پانی ۔ترکاری ۔گوشت ۔نمک ۔مرچ اور مونگ وغیرہ ہزاروں پشتوں سے بھی پہلے کی ہیں۔پھر یہ انسان کی کس طرح ہوگئیں ہم اگر کھاتے ہیں تو اس کے لئے خدا نے ہمیں ان چیزوں کے کھانے کی اجازت دی ہے ۔ ورنہ ہم میں یہ طاقت نہیں تھی کہ یہ چیزیں خود مہیا کرسکتے ۔ اسی طرح جب ہم پانی پیتے ہیں اور اس بات پر غور کرتے ہیںکہ یہ پانی ہمیں کس طرح ملا تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ پانی خدا تعالیٰ نے ہی زمین کی تہوں میں رکھا ہوا ہے ۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بار بار فرماتا ہے کہ اگر ہم اس پانی کو کھینچ لیں تو تم پانی کہاں سے لائو ۔اور یہ بالکل سچی بات ہے ہم میں کوئی طاقت نہیں کہ ہم پانی مہیا کر سکیں۔ یہ سب خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے یہ تمام ضروری اشیا ء ہمیں مہیا کردی ہیں ۔اگر تھوڑی دیر ہی ہمیں پانی نہ ملے تو ہمیں سخت دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔چنانچہ جن علاقوں میں پانی کی کمی ہے وہاں لوگ ایسی ایسی چیزیں پیتے ہیں جن کو ہمارے علاقے میں پانی نہیں کہہ سکتے ۔ مثلاً سندھ اور بلوچستا ن کے بعض علاقے ایسے ہیں۔ جہاں لوگ کیچڑ پیتے ہیں ۔لیکن ہمارے ملک والے ایسا
نہیں کرسکتے ۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں کوئی مشکل پیش آجائے ۔تووہ بھی اس قسم کا پانی پی لیں۔ ورنہ عام حالات میں ہمارے ہاں اسے پانی نہیں سمجھاجاتا ۔ غرض کھانے اور پینے کی کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مہیا نہ کی ہو۔ لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کا وجود مخفی ہے اور وہ پس پردہِ احسان کرتا ہے اس لئے باوجود اس کے کہ اُس کے احسانات بہت زیادہ ہیں لوگ انہیں محسوس نہیں کرتے۔ ماں اپنی چھاتیوں سے دودھ پلاتی ہے ۔اور بچہ اپنی عقل کے مطابق سمجھتا ہے کہ ماں اس پر احسان کرتی ہے اور اپنا خون اُسے چوساتی ہے حالانکہ یہ قربانی کا جذبہ ماں نے خود پیدا نہیں کیا ۔ یہ جذبہ اس کی پیدائش سے بھی پہلے اُس کے اندر رکھا گیا تھا ۔ چنانچہ دیکھ لو چھوٹی چھوٹی لڑکیاں گُڑیاں بناتی ہیں اوران سے کھیلتی ہیں۔ یہ وہی بچہ پالنے کا جذبہ ہوتا ہے جوان کے اندر پایا جاتا ہے۔ ان کے اندر یہ حِس خدا تعالیٰ نے ہی پیدا کی ہے خواہ وہ عقل کے ماتحت ایسا کرتی ہیں یا بے عقلی کے ماتحت ایسا کرتی ہیں۔ بہرحال عورت کے اندر خدا تعالیٰ نے اولاد سے محبت کرنے کا مادہ رکھا ہے۔ اوریہ وہ چیز ہے جو ماں نے خود اپنے اندر پیدا نہیں کی بلکہ اس کی پیدائش سے بھی پہلے اُس کے اندر رکھ دی گئی ہے ۔ اور جب یہ مادہ ماں کی پیدائش سے پہلے کا اس کے اندر پایا جاتا ہے تو پھر یہ اس کا پیدا کیا ہوا نہ ہوا۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ مادہ ماں کا پیدا کیا ہوا نہیں توآخر یہ مادہ ماں کے اندر کس نے پیدا کا ہے۔ بہرحال وہ کوئی اور ہستی ہے۔ اور ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ہستی جس نے سب مخلوقات کو پیدا کیا ہے اسی نے یہ مادہ ماں کے اندر رکھا ہے۔ مگرہم دیکھتے ہیں کہ بچہ ماں سے محبت کرتا ہے خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کرتا اس لئے کہ خدا تعالیٰ اسے نظر نہیں آتا۔ جب اس کی ماں اپنی ماں کے پیٹ میں تھی اور خداتعالیٰ کے فرشتے اس کے دل میں اولاد کی خواہش اور محبت پیدا کررہے تھے تو اس نے اس نظارہ کو دیکھا نہیںتھا ۔ اس نے صر ف اتنا ہی دیکھا کہ ماں اسے اپنی چھاتیوں سے دودھ پلا رہی ہے خواہ وہ فاقہ ہی کررہی ہو اور بھوک کی وجہ سے نڈھال ہورہی ہو۔وہ سوکھ کر کانٹا ہوگئی ہو۔ اُس کا گوشت کھل گیا ہواور ہڈیاں نکل آئی ہوں۔ لیکن ادھر بچہ رؤیا اُدھرماں نے اپنے سوکھے ہوئے پستان اس کے منہ میں دے دیئے ۔خواہ پستانوں میں دودھ کا کوئی قطرہ ہو یا نہ ہو۔ ما ں کے اندر یہ جذبہ کس ہستی نے پید ا کیاہے وہ بچہ کو نظر نہیں آتی ۔ اس لئے وہ اس سے محبت نہیں کرتا۔ماں اپنی چھاتیوں سے دودھ پلاتی ہوئی اسے نظر آتی ہے اس لئے وہ اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے ۔انسان کھانا کھاتا ہے جس شخص نے اسے گندم دی اور اس نے اس سے روٹی بنائی وہ اس کا شکریہ اد اکرتاہے یا جس کی نوکری کر کے اس نے پیسے کمائے اور ان سے اس نے گندم خریدی وہ اس کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ جس ماں اور بیوی نے اسے روٹی پکا کر کھلائی وہ ان کا شکریہ اد اکرتاہے ۔ لیکن جس نے گندم بنائی ۔ جس نے نمک بنایا جس نے پانی بنایا وہ اس کا شکریہ ادا نہیں کرتا اس لئے کہ گندم مہیا کرنے والا یا ملازمت دینے والا اسے نظر آتا تھا ۔ ماں اسے نظر آتی تھی کہ وہ گرمی کے دنوں میں آگ کے آگے بیٹھی روٹی پکا رہی ہے یا سردی میں جب وہ لحاف سے باہر نہیں نکلتا وہ صحن میں بیٹھی اس کے لئے ناشتہ تیا رکر رہی ہے چونکہ وہ اسے نظر آتی ہے اس لئے اس کے اندر احساسِ شکریہ پیدا ہوجاتا ہے ۔لیکن چونکہ اسے اس احسان کا اصلی بانی نظر نہیںآتا اس لئے اسے یہ خیال نہیں آتا کہ دراصل یہ احسان کسی اور ذات نے کیا ہے ۔
ہمارے ملک میں لطیفہ مشہور ہے ۔ واللہ اعلم وہ سچاہے یا عام حالات میں وہ خود بنا لیا گیا ہے ۔جب ہمارے ملک پر انگریز حاکم تھے ۔ لوگوں میں انہیں خوش کرنے کیلئے ڈالیاں پیش کرنے کا رواج تھا ۔ بعد میں اگرچہ یہ قانون بنا دیا گیا تھا کہ افسروں کو ڈالیاں پیش نہ کی جائیں حکام اور روسائے شہر کو جب موقعہ ملتا اوروہ انگریز افسروں کو ملنے کے لئے جاتے تو ان میں سے بعض ہوشیار لوگ ڈالیاں بھی لے جاتے تھے ۔کہتے ہیں کہ ایک انگریز افسر کو ایک ای۔اے۔سی اور ایک تحصیلدار ملنے کے لئے گئے ای۔اے۔سی ڈالی بھی ساتھ لے گیا ۔ یہ تو سارے جانتے ہیں کہ ای ۔اے۔سی بڑا ہوتا ہے اور تحصیلدار چھوٹا ہوتاہے ۔ کئی علاقوں کا چارج ہی ای۔اے۔سی کے پاس ہوتا ہے ۔اور تحصیلدار اس کے ماتحت ہوتاہے ۔پس جب وہ دونوں ملاقات کے لئے گئے تو اتفاقاً انگریز افسر کے پاس ملاقات کا وقت تھوڑا تھا اس لئے بجائے اس کے کہ وہ دونوں کو الگ الگ بلاتا ۔ اس نے کہلا بھیجا کہ دونوں آجائو۔ جب ای۔اے ۔سی ڈالی کو اٹھانے لگا تو تحصیلدار نے آگے بڑھ کر ڈالی اٹھا لی۔ اور کہا حضور ہمارے ہوتے ہوئے آپ یہ تکلیف کیوں کریں۔ چنانچہ تحصیلدار نے ڈالی اٹھائی اور بڑے آرام سے اندر جاکر انگریز افسر کے سامنے رکھ دی اور یہ نہ کہا کہ یہ ڈالی ای۔اے ۔سی نے پیش کی ہے ۔ وہ انگریز افسر اسی اثر کے ماتحت کہ ڈالی تحصیلدار نے پیش کی ہے ای ۔اے۔سی کیطرف پیٹھ کر کے اور تحصیلدار کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا اور اس سے حالات پوچھنے لگا ۔ای ۔اے ۔سی دل ہی دل میں کُڑھ رہا تھا ۔لیکن وہ کیا کرسکتا تھا ۔ برابر دو گھنٹے تک انگریز افسر تحصیلدار سے باتیں کرتا رہا ۔اور اس نے ای ۔اے۔سی کو پوچھا تک نہیں۔ ملاقات سے فارغ ہوکر جب باہر آئے تو ای۔اے ۔سی نے غصہ نکالنا شروع کیا کہ تم نے کیوں یہ حرکت کی۔ تحصیلدار نے کہا ۔حضور یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ آپ میرے سامنے بوجھ اٹھاتے ۔ اب ڈالی تو ای۔اے ۔سی لایا تھا ۔ لیکن چونکہ وہ ڈالی تحصیلدا رنے انگریز افسر کے آگے رکھی تھی اس لئے وہ اس پر مہربان ہوگیا ۔ یہی حال انسان کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ڈالی آتی ہے ۔لیکن ماں باپ ۔بیوی بچہ۔ بہن یا بھائی وہ ڈالی اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ اصل ڈالی پیش کرنے والے یہی ہیں حالانکہ ان کے پیچھے خداتعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے ۔
اسلام ؔ نے انسان کو یہ یاد دلانے کے لئے کہ حقیقی محسن خدا تعالیٰ ہی ہے یہ ترکیب رکھ دی کہ جب تم کھانا کھائو ۔یا پانی پیؤ ۔ تو اس کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیا کرو۔ اور کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کے یہ معنے ہیں کہ یہ کھانا تمہارے سامنے رکھا تو تمہارے ماںنے ہے لیکن بھیجا خدا تعالیٰ نے ہے ۔یا کھانا تمہارے سامنے رکھا تو بیوی نے ہے مگر بھیجا خدا نے ہے یا کھانا تمہارے سامنے رکھا تو بھائی نے ہے لیکن بھیجا خدا تعالیٰ نے ہے ۔اور جب انسان کو پتہ لگ جاتا ہے اور باربار مضمون اس کے سامنے دہرایا جاتا ہے کہ درحقیقت یہ تمام نعمتیں عطا کرنے والا خدا تعالیٰ ہی ہے ۔وہی ہمیں کھانا دیتا ہے وہی ہمیں پانی دیتا ہے ۔ وہی ہمیں پہننے کو کپڑے مہیا کرتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کی طرف دل مائل ہوجاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوجاتی ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ میں یہی نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اصل احسان خدا تعالیٰ کا ہے ۔ جس نے ہمیں کھانے پینے کو دیا ۔ اور جب وہی محسنِ حقیقی ہے ۔تو انسان کی یہ کتنی بڑی نادانی ہے کہ وہ محسنِ حقیقی کو تو چھوڑ دیتا ہے اور ان لوگوں کے آگے جھکنا شروع کردیتا ہے جن کو اس نے صرف ایک درمیانی واسطہ بنایا ہے ۔ گویا وہ شاخ پر تو ہاتھ مارتا ہے او رتنے کو نظر انداز کر دیتا ہے ایسا انسان یقینا اپنی روحانی ترقی کا راستہ اپنے ہاتھ سے بند کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنتا ہے ۔
پھر فرماتے ہیں وَاِذَ امَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو خدا تعالیٰ مجھے شفا بخشتا ہے آپ نے اس جگہ مَرِضْتُ میں مرض کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اورشفا کو خدا تعالیٰ کی طرف ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جتنی چیزیں پیدا کی ہیں وہ سب کی سب انسان کے فائدہ کیلئے پیدا کی ہیں۔ جب انسان ان کو غلط استعمال کرتا ہے تو اس وقت وہ بیمار ہوجاتا ہے یا نقصان اٹھاتا ہے اورجب انسان پھر اس کا کسی رنگ میں ازالہ کردیتا ہے اور علاج کرتا ہے تو شفا پاتا ہے ۔ اس لئے مرض تو انسان کی طرف منسوب ہوتی ہے اور شفا خدا تعالیٰ کی طرف ۔دنیا میں جتنی مصیبتیں اور بلائیں انسان پر وارد ہوتی ہیں ان پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ساری کی ساری خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے غلط استعمال کی وجہ سے آتی ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا صحیح استعمال کیا جائے تو انسان ان مصائب اور بلائوں سے بچ سکتا ہے ۔ مثلاً بیماری ہے۔ یہ کیوں پیدا ہوتی ہے؟ یہ اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ لوگ ایسی چیزیں کھاتے ہیں جن سے ان کے اعضائے انہضام بگڑتے ہیں یا وہ ایسی چیزیں کھاتے ہیں جو اپنے وجود میں تو نقصان دہ نہیں ہوتیں۔ مگر اعتدال سے زیادہ استعمال کرلینے کی وجہ سے یا غلط استعمال کرنے کی وجہ سے وہ بیمار ہوجاتے ہیں۔ مثلاً خربوزہ ہے ۔ جہاں تک خربوزے کا سوال ہے یہ اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے ۔ لیکن اسی نعمت کو اگر اعتدال سے زیادہ استعمال کیا جائے تو مصیبت بن جاتی ہے اور بیماری پیدا ہوتی ہے ۔ یا آم ہے۔ یہ بھی خدا تعالیٰ کی نعمت ہے۔ لیکن حد سے زیادہ کھا لینے سے نقصان ہوتا ہے ۔ غرض اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی نعمتیں ہیں ان کو ایک حد کے اندر استعمال کیا جائے تو فائدہ مند ہیں اورجب حد سے تجواز کیا جائے تو بیماری پیدا ہوجاتی ہے ۔مثلاً بینگن اور کریلے گرم ہوتے ہیں ۔ اگر یہ حد کے اندر کھائے جائیں تو نعمت ہیں لیکن حد سے زیادہ کھائے جائیں تو بینگن سے بواسیر اور کریلوں سے پیچش وغیرہ ہوجاتی ہے ۔اسی طرح گنا ہے ۔اگر اس کا استعمال حد کے اندر کیا جائے تو نہایت فائدہ مند ہے ۔لیکن اگر زیادہ استعمال کیا جائے تو پیشاب کی بعض امراض لاحق ہوجاتی ہیں۔ اب جہاں تک گنے کا سوال ہے وہ بیماری پیدا نہیں کرتا ۔بیماری پیدا کرنے والی چیز گنے کا حد سے زیادہ استعمال ہے ۔ورنہ شوگر انسانی جسم کیلئے نہایت ضروری چیزہے ۔ گلوکوز کو دیکھ لو یہ شوگر ہی ہے ۔ لیکن ڈاکٹر جب مریضوں کو گلوکوز کاانجیکشن کرتے ہیں تو ان کی چھُوٹی ہوئی نبضیں بھی چل پڑتی ہے۔ پہلے زمانہ میں لوگ ناواقفیت سے ذیابیطس کا علاج کرتے ہوئے شکر کو بالکل ختم کردیتے تھے حالانکہ ان کا باقی رہناضروری ہوتا تھا ۔ نتیجہ یہ ہوتاتھا کہ کئی لوگ جن کی شوگر بالکل ختم کردی جاتی تھی ان کاہارٹ فیل ہوجاتاتھا ۔آج کل بھی انسولین کا ٹیکہ کرتے وقت ڈاکٹروں کو یہ ہدایت ہوتی ہے کہ اگر مریض کے قلب پر اس کا اثر ہو تو فوراً اسے گلوکوز کا ٹیکہ کردو۔اور جب ایسا کیا جاتا ہے تو مریض سنبھل جاتا ہے ۔ پس جتنی بیماریاں انسان کے اندر پیدا ہوتی ہیں وہ خدا تعالیٰ کی نعمتوں کے غلط استعمال کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔ اگر ان نعمتوں کا صحیح استعمال کیا جائے تو کبھی بیماری پید انہ ہو ۔ خدا تعالیٰ نے انسان کے فائدہ کے لئے لوہا پید اکیا ہے ۔جب تک اس کا صحیح استعمال کیا جائے یہ نہایت فائدہ مندچیز ہے اور ہر قسم کی مشینریاں اس سے تیا رہوتی ہیں جو انسان کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔لیکن جب ا س کا غلط استعمال کیا جائے تو یہی چیز نقصان دہ ہوجاتی ہے۔ مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے کہ ہمارے مکانوں کی تعمیر کیلئے سیالکوٹ سے ترکھان آئے ہوئے تھے ۔ میں ان کو کام کرتے دیکھتا ۔ اور جب وہ تیشہ چلاتے تو میرے دل میں بھی شوق پیدا ہوتا کہ میں اس کو چلاکر دیکھوں۔ وہ تو روزی کمانے کے لئے کام کرتے تھے مگر میں سمجھتا تھا کہ ان کو اس فعل میں مزا آتا ہے اور میں اپنے دل میںکہتا تھا کہ میں کیوں نہ یہ مزا اٹھائوں۔ میں نے بہت دفعہ کوشش کی کہ تیشہ چلاکر دیکھو ں لیکن وہ مجھے ہاتھ نہ لگانے دیتے تھے اور کہتے تھے ۔ زخمی ہو جائو گے ۔ مگر میں ان کے منع کرنے سے سمجھتا تھا کہ وہ مجھے اس مزے سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ آخر ایک دن میر ا دائو چل گیا وہ نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں گئے ہوئے تھے اور ان کے ہتھیار وہیں پڑے تھے ۔میں نے تیشہ اٹھایا اور چلانا شروع کردیا ۔ مگر پہلی ہی چوٹ لگائی تھی کہ تیشہ میرے ہاتھ پر آلگا اور میں زخمی ہوگیا ۔چنانچہ اس زخم کا نشان ابتک موجو د ہے ۔ اب دیکھو خدا تعالیٰ نے اس لئے نہیں بنایا تھا کہ انسان زخمی ہو مگر اس کے غلط استعمال نے میرے ہاتھ کو زخمی کردیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جتنی چیزیں پیدا کیں ہیں وہ سب کی سب انسان کے فائدہ کے لئے ہیں ۔ لیکن ان کے غلط استعمال سے اسے نقصان ہوتا ہے ۔ مثلاًلڑائی میں دوسرے پر تلوار یا خنجر سے حملہ کیا جاتا ہے جس سے وہ ہلاک ہوجاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے لوہا اس لئے بنایا تھا کہ دوسرے کے سر پر مارا جائے ۔ اگر اسی لوہے کو بجائے انسانوں پر استعمال کرنے کے اس سے چاقو اور چھریاں بنائی جائیں اور ان سے ترکاریاں وغیرہ کاٹنے کا کام لیا جائے یا اس کی کلہاڑیاں بنائی جائیں جن سے درخت کاٹے جائیں یا اس سے ہل چلانے والے اوزار بنائے جائیں اور اس کی مشینریاں تیار کی جائیں تو یہ ایک نہایت ہی مفید چیز ہے۔ لیکن اگر اسی لوہے کو دوسرے کے سر پر مارا جائے تو اس کا سر پھٹ جائے گا ۔ پس دنیا میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جس کا اچھا استعمال کیا جائے تو وہ نقصان پہنچائے ۔ نقصان پہنچانے والی چیز ان نعمتوں کا برا استعمال ہوتا ہے اور نہ کہ خود وہ نعمتیں ۔ مثلاً سانپ اور بچھو کا زہر نہایت خطرناک چیز ہے ۔ مگر ہومیو پیتھک والوں نے کئی قسم کے امراض کے علاج میں اسے استعمال کرنا شروع کردیا ہے اور اسے نہایت مفید پایا جاتا ہے ۔ جن مریضوں کے ناخن پھٹ جاتے ہیںان کو سانپ کا زہر ہومیو پیتھک دوا کی صور ت میں دے دو تو فوراً آرام آجائے گا ۔ اسی طرح سنکھیا ہے ۔اس کے کھانے سے لوگ مرتے بھی ہیں لیکن دیکھنا تو یہ چاہیئے کہ اس کے کھانے سے کتنے لوگ مرتے ہیں اور کتنے زندہ ہوتے ہیں ۔ اگر اندازہ لگایا جائے تو سال میں ہزار دو ہزار آدمی سنکھیا کھانے سے مرتے ہیں۔لیکن جو لوگ اس سے شفا پاتے ہیں ان کی تعداد لاکھوں تک ہے ۔ پرانے ملیریا کے مریض پر جب کوئی دوا اثر نہیں کرتی تو سنکھیا کی قلیل مقدار سے ٹھیک ہوجاتا ہے ۔اس کے علاوہ اور بھی کئی قسم کے امراض کیلئے یہ مفید ہے ۔ اسی طرح کچلہ ہے ۔ یہ بھی زہر ہے اسکے کھانے سے کئی لوگ مرجاتے ہیں ۔ لیکن لاکھوںلاکھ انسان اس سے بچتے بھی ہیں۔ اسی طرح بہت بڑی تباہی والی چیز افیون ہے ۔لیکن اس کی تباہی کے مقابلہ میں اس کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اطباء کا قول ہے کہ طب کی آدھی دوائیں ایسی ہیں جن میں افیون استعمال ہوتی ہے اور اس کا اتنافائدہ ہے کہ اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ جب انسان کو بیچینی اور بے کلی ہوتی ہے ۔ جب انسان کی نیند اڑ جاتی ہے ۔ جب انسان درد سے نڈھال ہوکر خودکشی کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو اس کو مارفیاکا ٹیکہ لگاتے ہیں ۔جس سے اسے فوراً آرام ہوجاتا ہے پس دنیا میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اپنی ذات میں نقصان دینے والی ہو ۔ نقصان دینے والی چیز صر ف غلط استعمال ہے جو انسان کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مرض کو اپنی طرف اور شفا کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے مگر ہمارے ملک میں ایک مسلمان خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے جب کسی کام میں ناکام ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے۔ میں نے تو پورا زور لگا دیا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے ناکام کردیا ۔ گویا وہ خوبی کو اپنی طرف اور برائی کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے ۔ یہ خدا تعالیٰ کی بڑی بھاری ہتک ہے جو ہمارے ملک میں کی جاتی ہے حالانکہ سچے مومن کا یہ طریق ہوتا ہے کہ جب اس کے کام کا اچھا نتیجہ نکل آتا ہے تو وہ کہتا ہے الحمداللّٰہ خدا تعالیٰ نے مجھے کامیاب کردیا ۔ او راگر خراب نتیجہ نکلتا ہے تو وہ انا اللّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھتا ہے۔ اور کہتا ہے میں اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ناکام رہا ہوں ۔ ورنہ خدا تعالیٰ نے تو میرے لئے برکت اور حمت کے ہی سامان کئے تھے ۔اور خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت اسی کو ملتی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح پورا عیب اپنی طرف اور خوبی خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کہتا ہے۔ میرے اس بندہ نے چونکہ عیب اپنی طرف اور خوبی میری طرف منسوب کی ہے۔ اس لئے اب میرا فرض ہے کہ میں اسے پوری طرح کامیاب کروں تاکہ تمام خوبیاں میری طرف ہی منسوب ہوں۔ لیکن جب وہ ایسا نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ کو تمام خرابیوںکا ذمہ وار قرار دیتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس کی مدد سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔
پھر فرماتے ہیں وَالَّذِی ْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحِیْیْنِ میرا خدا وہ ہے جو مجھے مارے گا اور پھر مجھے زندہ کریگا۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات مُحْیِ اورمُھِیْت کا ذکر کیا گیا ہے ۔یعنی وہ زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے ۔اس کے زندہ کرنے کا ثبوت تو وہ ہزاروں لاکھوں بچے ہیں جو روزانہ دنیا میں پید اہوتے ہیں ۔ اور ایسے حالات میں پیدا ہوتے ہیں جو انسان کے اختیار سے باہر ہوتے ہیں اور ایسے حالات میں سے گزر کر بڑھتے ہیں کہ اگر کسی بالا ہستی کاتصرف نہ ہو تو ان کے بڑھنے کی کوئی صور ت ہی نہیں ہوسکتی ۔ایک جانور کا بچہ صر ف چند دن میں ہی اپنی ضرورتوںکوخود بخود پورا کرنے کے قابل ہوجاتا ہے چڑیوںکے بچے ایک یا ڈیڑھ ہفتہ میں اڑنے لگ جاتے ہیں۔مرغیوں کے بچے تین چار ہفتہ میں اپنی ضرورتوں کو پور اکرنے لگ جاتے ہیں۔ چوپائوں کے بچے پیدا ہوتے ہی تھوڑی دیر میں اچھلنے کودنے لگ جاتے ہیں مگرانسان کا بچہ چھ سا ت مہینے بلکہ بعض دفعہ تو نو نو ماہ تک گودی میں اٹھائے رکھنے کے قابل ہوتا ہے ۔ اور بعض اوقات تو سات آٹھ بلکہ نو مہینہ تک وہ گھٹنوں کے بل چلنے کے بھی قابل نہیں ہوتا ۔ پھر اس کی غذا جس سے وہ پرورش پاسکتا ہے اُس کی ما ں کی چھاتیوں میں ہوتی ہے۔کہیں دو تین سال میں جاکر وہ دانت نکالتا ہے ۔بیشک ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو چھ یا سات مہینے میں ہی اپنے دانت نکال لیتے ہیں یا نکالنے شروع کردیتے ہیں مگر بالعموم ایسے دانت جن سے بچہ کسی قدر غذا حاصل کرسکتا ہے وہ ڈیڑھ دو بلکہ اڑھائی سال کے بعد مکمل ہوتے ہیں اتنے لمبے عرصہ تک اپنی جان کو جو کھوں میں ڈال کر ایک عورت جو اپنے بچہ کی خدمت کرتی ہے یہ بغیر اس کے کبھی ممکن ہی نہیں تھا جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی دل میں پرورش کا خیال اور بچہ کی محبت پیدا نہ کردی جاتی ۔ یہ مت خیال کرو کہ صرف ماں ہونا ہی اس محبت کا موجب ہوسکتا ہے۔کیونکہ ماں کے جذبات اس کے اپنے اختیار کی چیز نہیں اور اختیار چیز ہی کسی انسان کی طرف منسوب کی جاتی ہے جو چیز کسی انسان کے اختیار کی نہیں وہ اُس کی طرف منسوب کس طرح کی جاسکتی ہے وہ تو لازماً کسی اور ہستی کی طرف منسوب کرنی پڑے گی ۔ اور وہ ہستی اللہ تعالیٰ کی ہے جس نے ماں کے دل میں اپنے بچوں کی محبت پیدا کی اور اسے پیدائش اور پرورش کی تکالیف برداشت کرنے کی طاقت دی چنانچہ سالہا سال تک وہ اپنے بچوں کو پالتی رہتی ہے پہلے نو ماہ تو وہ اپنے بچے کو پیٹ میں اٹھاتی ہے ۔ پھر دو سال تک اسے گود میں اٹھاتی ہے ۔گویا اوسطاً اڑھائی سال تک ماں اپنے بچہ کی ہورہتی ہے تب کہیں وہ پرورش پاتا ہے ۔ مگر اس کے بعد وہ فارغ نہیں ہو جاتی اور اس طرح اپنی زندگی کا بہترین حصہ عورت اپنے بچوں کی پرورش میں لگا دیتی ہے۔ پس یہ جذبہ محبت جو ہر عورت کے دل میں
اپنے بچوں کے متعلق پایا جاتاہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ ورنہ اتنی محنت کی برداشت انسانی عقل کے ماتحت نہیں ہوسکتی تھی ۔ اگر خدا تعالیٰ یہ جذبات ماں کے دل میں پید انہ کرتا تو آہستہ آہستہ فلسفہ ار عقل کے ماتحت یا تو انسان اولاد پیدا کرنا ہی بند کردیتے اور یاپھر ان کی پرورش کی طرف سے اپنی توجہ کلیتہً ہٹالیتے ۔
پھر خدا تعالیٰ کے مُمِیْت ہونے کا نظارہ بھی روزانہ نظر آتا ہے ۔ بڑے بڑے شہروں میں سینکڑوں آدمی روزانہ مرتے ہیں۔ چنانچہ کسی سڑک پر چلے جائو۔ تمہیں جنازے گزرتے دکھائی دیںگے ۔ چھوٹے قصبات میںبھی پانچویں دسویں کوئی نہ کوئی موت ہوتی رہتی ہے چھوٹے گائوں میں بھی سال میں دوتین موتیں ہوجاتی ہیں ۔پس موت کا یہ نظارہ بھی ہمیں کثرت سے دنیا میں نظر آتا ہے ۔غرض خدا تعالیٰ کی یہ دونوںصفات کہ وہ محیؔ بھی ہے اور ممیت ؔ بھی ہے اس رنگ میں لوگوں کے سامنے آتی رہتی ہیں کہ کوئی ان کا انکار نہیںکر سکتا ۔ حیات انسان کے لئے خوشی کا موجب ہوتی ہے اور موت لوگوں کے لئے رنج کا موجب ہوتی ہے ۔ دشمن کی بھی لاش پڑی ہوئی ہو تو سوائے کسی شقی القلب انسان کے دوسرے انسانوں کے دلوں میں رحم کا مادہ پیدا ہوجاتاہے ۔ بیس بیس تیس تیس سال کی دشمنیاں اس وقت دلوں سے نکل جاتی ہیں اور دشمن کی لاش دیکھ کر انسان کے دل میں سے اس وقت دعا ہی نکلتی ہے ۔ یا اس کے رشتہ داروں اور عزیزوں کیلئے دل میں رحم اورہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہر انسان جانتا ہے کہ جودن اس پر آیا ہے وہ مجھ پر بھی آنے والا ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو عالم الغیب ہے یہ دونوں مواقع نہ کلی طور پر خوشی کا موجب ہوتے ہیں اور نہ کلی طور پر غم کا موجب ہوتے ہیں ۔جب کوئی بچہ کسی کے گھر میں پیدا ہوتا ہے تو اس کے ماں باپ اور عزیز سمجھتے ہیں کہ ایک نیا چاند دنیا میں نکلا ہے ایک رحمت کا نیا دروازہ ہمارے لئے کھلا ہے حالانکہ بسااوقات پیدا ہونے والی روح دنیا کے لئے کئی قسم کے مصائب اور دکھوں کا موجب ہوتی ہے۔ اس کے رشتہ دار تو اس کی پیدائش پر تو خوش ہورہے ہوتے ہیں لیکن آسمان پر خدا کے فرشتے اس کی پیدائش سے غمگین ہو رہے ہوتے ہیں ۔
غرض پیدائش دنیا کے نزدیک ایک ہی نکتہ رکھتی ہے یعنی خوشی کا۔ کسی کی پیدائش پر تھوڑے لوگ خوش ہوتے ہیں اور کسی کی پیدائش پر زیادہ ۔ لیکن آسمان کے فرشتے کسی کی پیدائش پر اگر ان کیلئے رونا ممکن ہوتو آنسو بہاتے یا دوسرے الفاظ میں اپنے رنج کا اظہار کرتے ہیں ۔ اورکسی کی پیدائش پر خواہ دنیا کے لوگ خوشی نہ منائیںفرشتے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہی حال موت کا ہے۔ موت کے وقت بھی دنیا کے ہر انسان کے رشتہ دار اور دوست تھوڑے ہوں یا بہت رنج محسوس کرتے ہیں۔ ایک ڈاکو مرتا ہے تو اس کے بیوی بچے خوش نہیں ہوتے کہ ہماراباپ ڈاکو تھا ۔ قاتل تھا ۔ فتنہ وفساد پھیلاتا تھا۔ اچھا ہوا کہ وہ مرگیا بلکہ ان کی اسی طرح چیخیں نکل جاتی ہیں جس طرح بڑے بڑے محسن اور نیک باپ کے بچوں کی اس کی وفات پر نکل جاتی ہیں اور وہ دنیا کیلئے اس کی موت کو ایسا ہی خطرناک سمجھتے ہیں جیسے کسی بڑے بڑے مصلح کی وفات کو بلکہ شائد اس سے زیادہ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات ہوئی تو چونکہ ان کے دورِ حکومت میں امن قائم ہوا تھا ۔ اور وہ طوائف الملوکی جو پہلے پھیلی ہوئی تھی جاتی رہی تھی اس لئے سکھوں کے علاوہ جو ان کے ہم مذہب اور ہم قوم تھے ہندو او رمسلمان بھی عام طور پر یہ سمجھتے تھے کہ اب ان کی وفات کے بعد پھر فتنے پیدا ہونے شروع ہوجائیںگے ۔اس لئے لوگوں میں ایک کہرام مچا ہو اتھا اور ہر شخص کے آنسو رواں
تھے ۔جن کے زیادہ گہرے تعلق تھے وہ چیخیں مار رہے تھے ۔ فرماتے تھے کہ کوئی چوہڑا لاہور کے قریب سے گزرا اور اس نے کسی سے پوچھا کہ آج لاہور والوں کو کیا ہوگیا ہے کہ جس کو دیکھو رو رہا ہے ۔جس کو دیکھو رو رہا ہے اس نے کہا۔ تمہیں پتہ نہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ فوت ہوگئے ہیں۔ وہ بڑی حیرت کا اظہار کرکے کہنے لگا۔ اچھا! رنجیت سنگھ مرگیا ہے اور اس پر لوگ رورہے ہیں ۔پھر کہنے لگا ۔ ’’ باپو ہوراں جیہے مرگئے تے رنجیت سنگھ بچار اکس شماروچ‘‘۔یعنی جب میرے باپ جیسا آدمی مرگیا تو رنجیت سنگھ بھلاکس شمار میں تھا ۔ اب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ذریعہ بے شک امن قائم ہوا تھا ۔مگر چونکہ اس چوہڑے کا جو تعلق اپنے باپ سے تھا وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ سے نہیں تھا ۔ اور سیاسی فوائد کو وہ سمجھنے کے قابل نہیں تھا اس لئے اس کے نزدیک سب سے بڑی رنج کی بات اپنے باپ کی تھی ۔ اسی طرح کئی بادشاہ بڑے ظالم ہوئے ہیں ۔ مثلاً ہلاکو خاں بڑا ظام مشہور ہے ۔ مگر جب ہلاکو مرا ہوگا تو کیا تم سمجھتے ہو کہ اس کی بیوی اور بچوں کو دوسروں کی بیویوں او بچوں سے کم صدمہ ہوا ہوگا ۔یقیناانہیں ہلاکو خاں کی وفات پر ویسا ہی صدمہ ہوا ہوگا ۔جیسے نوشیروان عادل کی وفات پر اس کے بیوی بچوں کو ہوا تھا ۔حالانکہ نوشیرواں عدل کی وجہ سے مشہور ہے اور ہلاکو خاں ظلم کی وجہ سے مگر دونوں کے بیوی بچوں کو یکساں صدمہ ہوا ہوگا ۔ بلکہ ممکن ہے ہلاکو خاں کی بیوی بچوں کو احساسات کے زیادہ تیز ہونے کی وجہ سے نوشیرواں کے بیوی بچوں سے بھی زیادہ صدمہ ہوا ہو۔ مگر آسمان پر یہ بات نہیں جس طرح پیدائش پر سارے بندے خوش ہوتے ہیں اور کسی کی پیدائش پر تھوڑے لوگ خوش ہوتے ہیںاور کسی کی پیدائش پر زیادہ لوگ خوش ہوتے ہیںمگر آسمان پریہ بات نہیں ۔وہاںکسی کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کیاجاتا ہے اور کسی کی پیدائش پر رنج کا اظہار کیاجاتا ہے ۔ اسی طرح موت کا حال ہے ۔ موت پر سب لوگ رنج کا اظہار کرتے ہیں گو کسی کی موت پر تھوڑے لوگ رنج کا اظہار کرتے ہیں اور کسی کی موت پر زیادہ لوگ رنج کا اظہار کرتے ہیں مگر آسمان پر یہ بات نہیں۔ وہاں کسی کی موت پر رنج کا اظہارکیا جاتا اورکسی کی موت پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ پھر یہ جذبہ بھی اموات کے لحاظ سے نسبتی طورپر تقسیم ہوجاتا ہے اور فرشتوںکا رنج اور ان کی خوشی بعض دفعہ مرکب ہوجاتی ہے ۔ یعنی فرشتے صر ف رنج یا صرف خوشی کا اظہار نہیں کرتے بلکہ ان کی خوشی اور رنج ملا جلا ہوتاہے ۔ مثلاً جب کوئی بدقسمت او گنہگار شخص مرتا ہے یا ایسا ظالم انسان مرتا ہے جس نے دنیا کے امن کو برباد کیا ہواہوتاہے تو خداتعالیٰ کے ملائکہ خوش بھی ہوتے ہیں کہ بندوں کو اس ظالم انسان سے نجات ملی۔ اور وہ رنج بھی کرتے ہیں کہ اپنے مولا کو راضی کرنے کے سے پہلے وہ شخص مرگیا ۔اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کے بزرگ اور نیک لوگ فوت ہوتے ہیں اور دنیا میںان کی وفات کی وجہ سے کہرام مچا ہو ا ہوتاہے تو خداتعالیٰ کے فرشتے ان کی صحبت کے خیال سے خوشی منارہے ہوتے ہیں۔ موت کیا ہے؟موت اس طرح دنیا سے اگلے جہان میں جانے کا ایک دروازہ ہے ۔ جس طرح کوئی مصلح یا محسن انسان کسی شہر میں داخل ہوتاہے تووہاں کے رہنے والے خوشی محسوس کرتے ہیں ۔اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور چنیدہ لوگ جو اپنی نیک اور تقویٰ اورمقامِ قرب میں ملائکہ سے بڑھ کر بلکہ ملائکہ کو سبق دینے والے ہوتے ہیں (جیساکہ حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ سے ظاہر ہے) وفات پاجاتے ہیں تودنیا کے لوگ تو ان کی وفات پر رنج کا اظہار کرتے ہیں اور اس بات پرغمگین ہوتے ہیں کہ وہ اپنا دور ختم کرکے اگلے جہان چلے گئے ۔ مگر فرشتے اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ اب وہ ہمارے ملک میں آگئے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جب مدینہ میںکہرام پڑا ہواتھا ۔ جنت کے لوگوں میںکتنی خوشی منائی جارہی ہوگی ۔
لوگ خدا اور اس کے فرشتوں کی زبان سے سنتے ہونگے کہ خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ دنیا میں پیدا ہوچکا ہے اور وہ بہت بلند روحانی مقامات رکھتا ہے ۔ ان باتوں کو سن سن کر جنتیوں کے دلوں میں کتنی خوشی پیدا ہوتی ہوگی اور وہ کس طرح اس بات کے تصور سے خوش ہوتے ہونگے کہ کبھی یہ مبارک انسان ہم میں بھی آئے گا۔ پس جب فرشتوں نے آپ کی روح قبض کی ہوگی اور جب جنتیوں کو پتہ لگا ہو گا کہ اب ان کی سالہا سال کی امیدیں برآنے لگی ہیں تو انہوں نے کیسی خوشی ظاہر کی ہوگی ۔ مگر بہرحال یہ آسمانی بات ہے زمین پریہی ہوتا ہے کہ موت پر رنج کا اظہار کیا جاتاہے جس طرح خدا تعالیٰ کی یہ دو صفات ہمیں دنیا میں کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ اسی طرح کئی انسان ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کے لئے ولادت کا موجب بنتے ہیں یا اس کی حیا ت کا موجب ہوتے رہتے ہیں مثلاً ماں باپ ہی ہیں وہ نئی نسلیں دنیامیں لاتے ہیں ۔ڈاکٹراور اطباء ہیں وہ مریضوں کا علاج کرتے ہیں ۔ اسی طرح قومی خدمات کرنے والے لوگ ہیں ۔جو ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچاتے ہیں۔ کہیں آگ لگ جائے تو بجھاتے ہیں ۔ اسی طرح اور کئی واقعات اور حادثات جو رونما ہوتے رہتے ہیںان میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔ یہ لوگ خدا کی صفت محیؔ کے مورد ہوتے ہیں ۔ اوراس کا ایک نمونہ ہوتے ہیں ۔ لیکن کئی لوگ دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ تباہیاں اور بربادیاں اور ہلاکتیں لاتے رہیں ۔ کہیں ان کی وجہ سے قتل ہورہے ہوتے ہیں ۔ کہیں فساد ہورہے ہوتے ہیں۔ کہیں غارتگری کے واقعات رونما ہورہے ہوتے ہیں۔ کہیں فساد ہورہے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ خدا کی صفت ممیت ؔ کو ظاہر کرنے والے ہوتے ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ کی ہر صفت کی نقل کرنے والا انسان ضروری نہیں کہ خدا تعالیٰ کا مقبول ہو۔ خدا بیشک مُمِیْت ؔ ہے مگر یہ نہیںہوسکتا کہ ایک قاتل کسی کو بلاوجہ قتل کردے تووہ یہ کہے کہ میں نے چونکہ فلاں شخص کو قتل کرکے خدا تعالیٰ کی صفت ممیت ؔ کا اپنے آپ کو مظہر ثابت کیا ہے اس لئے میں بڑا مقرب ہوں ۔ اگر وہ ایسا کہے گا تو اس کا دعویٰ بالکل غلط ہوگا کیونکہ بندے کو جن حالات میں ممیت ؔ بننے کا حق حاصل ہے ان حالات میں اگر وہ ممیت ؔ بنتاہے تب تو وہ بے شک خدا تعالیٰ کا مقرب بن سکتا ہے ۔ لیکن اگر ان حالات میں ممیتؔ نہیں بنتا تووہ مقرب نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح ولادت خدا تعالیٰ کی احیاء کی صفت ہے مگر ناجائز ولادت کا موجب خداتعالیٰ کی صفتِ محیؔ سے نسبت دیکر اپنے آپ کو خداتعالیٰ کا مقرب نہیں کہہ سکتا ۔ صرف وہی شخص خدا تعالیٰ کی صفت محیؔ یا ممیت ؔ کو پوراکرنے والا قرار پاسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بتا ئے ہوئے قوانین کے ماتحت ان صفات کا مظہر بنتاہے ۔اگر وہ خد تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے ماتحت محی بنتاہے تو بے شک وہ خدا تعالیٰ کا اس صفت میں وہ مظہر بن سکتاہے ۔ اسی طرح اگر وہ خدا تعالیٰ کی صفت ممیت کا مظہر اس رنگ میں بنتاہے جو اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قواعد کے مطابق ہو ۔ تو خدا تعالیٰ کا مقرب ہوسکتا ہے ورنہ نہیں۔ چنانچہ دیکھ لو جس وقت جہاد ہوتاہے ۔دونوں فریق ایک ساکام کررہے ہوتے ہیں ۔ وہ بھی تلوار چلا رہا ہوتا ہے اور یہ بھی تلوار چلا رہا ہوتا ہے ۔ کافر مومن کومارتا ہے اور مومن کافر کو مارتاہے ۔ پس بظاہر ان دونوں کا فعل یکساں ہوتاہے مگر جب کافر کی تلوار سے ایک مومن گرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا عرش کانپ جاتاہے اور فرشتے اس کافر پر لعنتیں ڈالتیں ہیں ۔ لیکن جب کسی مومن کی تلوار سے ایک کافر گرتاہے تو فرشتے خوش ہوتے ہیں اور مومن پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل کرتے ہیں۔ حالانکہ فعل ایک ہوتا ہے مقام ایک ہوتاہے اور ذریعہ قتل ایک ہوتاہے ۔ مگر ایک کے فعل پر تو برکتیں اور حمتیں نازل ہوتی ہیں اور
دوسرے کے فعل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنتیں اور ملامتیں نازل ہوتی ہیں ۔ پس اپنی ذلت میں ممیت ؔ ہونا یا محیؔ ہونا کوئی اچھی یا بری بات نہیں ۔اگر محیؔ ہونا خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت ہوتو اچھا ہوتاہے۔ اگر ممیت ؔ ہونا خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت ہوتواچھا ہوتاہے لیکن اگرممیت ؔ یامحیؔ ہونا خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے خلاف ہو تو یہی بات بری بن جاتی ہے ۔
پس اسلام یہ سکھاتا ہے اپنے کاموںکو ہمیشہ خداتعالیٰ کی رضا کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو۔ اور اس بات سے عبرت حاصل کروکہ دنیا میں لوگ محیؔ ہوکر بھی ظالم ہوتے ہیں اوروہ ممیت ہوکر بھی ظالم ہوتے ہیں ۔کئی ایسے ہیں جو احیاء ؔ کے سامان کررہے ہیں مگر پھر بھی وہ ظالم ہیں اور کئی ایسے ہیں جو امانت کے سامان کررہے ہیں مگر پھر بھی وہ ظالم ہیں ۔ لیکن مومن کی یہ حالت نہیں ہوتی وہ محی بنتا ہے تب بھی اس پر رحم کیاجاتا ہے اور ممیت بنتاہے تب بھی اس پررحم کیا جاتاہے ۔وہ قتل کرتا ہے تب بھی اسے ثواب ملتاہے اور پیدائش کا موجب بنتا ہے تب بھی اسے ثواب حاصل ہوتاہے ۔ پس ایسے انسان بننے کی کوشش کرو تاکہ تم سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جس کے نتیجہ میں تمہیں خداتعالیٰ کی رضا حاصل نہ ہو۔
ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں ایٹم بم کی ایجاد کی وجہ سے بڑی بڑی حکومتیںپریشان ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ اس کا کوئی توڑ پیدا ہو تاکہ دنیا اس کے تباہ کن نتائج سے محفوظ ہوسکے ۔ لیکن دوسری طرف اگر ہم غور کریں تو ہمیں نظرآتاہے کہ خدا تعالیٰ بھی ہمیشہ ایٹم بم گراتا رہتاہے او رہرسال دنیامیں پچاس ساٹھ لاکھ انسان مرجاتے ہیں ۔بلکہ جب کبھی وبائیں پڑتی ہیں توا س سے بھی زیادہ انسان مرجاتے ہیں ۔اورکروڑ ڈیڑھ کروڑ تک تعداد جاپہنچتی ہے مگر ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیںکہ خداتعالیٰ کے اس فعل سے دنیامیں کبھی گھبراہٹ پیدانہیںہوئی ۔اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ خداتعالیٰ جہاں اپنے ایٹم بم (یعنی طبعی موت)سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کومارتاہے وہاں اتنی ہی تعداد کو پیدا بھی کردیتاہے ۔اور اس کے پاس اگر مارنے کی طاقت ہے تو زندہ کرنے کی طاقت بھی موجود ہے ۔یہی وجہ ہے کہ باوجو دلاکھوں اور کروڑوں انسانوں کے سالانہ مرنے کے لوگوں میںگھبراہٹ کے آثار پیدانہیںہوتے ۔وہ جانتے ہیںکہ ہمارا خدا مُحْییٖ بھی ہے اور ممیت بھی ہے ۔وہ مارنابھی جانتاہے او ر پیدا کرنابھی جاتناہے ۔مگر ا ب ایٹم بم یااسی قسم کی اور ایجادات کے ذریعہ موت ایسے لوگوں کے قبضہ میںآئی ہے جو صرف مارناہی جانتے ہیں جلانانہیں جانتے ۔اسی لئے لوگ ایسی چیزوں سے گھبرا اٹھتے ہیں ۔ورنہ دنیامیں لو گ یوں بھی تو مرتے رہتے ہیں لیکن کسی کو گھبراہٹ نہیںہوتی ۔کسی عزیز رشتہ دار کے مرنے پر اس کے لواحقین دوچار روزتک رو دھوکرچپ ہوجاتے ہیں اور تھوڑا عرصہ ہی گذرتاہے کہ اسی گھر میں جہاں سے تھوڑا عرصہ پہلے ماتم اور چیخ و پکار کی آوازیں آتی تھیں ڈھول اور باجے بج رہے ہوتے ہیں او ر کسی خوشی کی تقریب کاانتظام ہورہاہوتاہے ۔غرض عزیز سے عزیز وجود کے مرنے پربھی اس کے متعلقین میںجو گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے وہ عارضی ہوتی ہے جو تھوڑے دنوں تک بالکل مفقود ہوجاتی ہے ۔مگر دیکھ لو ایٹم بم سے دنیا کتنی گھبرائی ہوئی ہے اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اس کے ساتھ موت تو واقع ہوسکتی ہے مگر پیدائش کا کوئی انتظام نہیں۔ اگر اس کیساتھ پیدائش کا بھی انتظام ہوتا تو اتنی گھبراہٹ کبھی نہ ہوسکتی ۔ ہندوئوں میں ایک فرقہ ہے جس میں شامل ہونے والے لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ برہماؔ جی پیدا کرتے ہیں شوجی ؔ مارتے ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ ہندوستان میں برہماجیؔ کے مندر نہیں ہیں اور شوجیؔ کے بہت سے مندر ہیں۔ برہماجیؔ کا سارے ہندوستان میں صرف ایک مندر ہے ۔ کہتے ہیں اس فرقہ سے
تعلق رکھنے والے ایک راجہ کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی ۔ اس راجہ نے اپنے وزراء سے مشورہ کیا کہ میرے ہاں اولاد نہیں ہوتی کیا کرنا چاہیئے ۔ وزراء نے مشورہ دیا کہ آپ برہماجیؔ کی پرستش کریں لڑکا پیدا ہوگا ۔ راجہ نے پرستش شروع کردی اور ساتھ ہی نذر نیاز بھی مانی اور کہا اے برہما! اگر میرے گھر میں بیٹا ہوا تو میں اپنے راج میں سب لوگوں سے صرف تیری ہی پرستش کروائوں گا اور شوجیؔ کی پرستش چھڑادوںگا ۔ تھوڑے عرصہ کے بعد اس کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا ۔ اور اس نے شوجی ؔ کی پرستش سے تمام رعایا کو منع کردیا اور برہما ؔ جی کی پرستش شروع کرادی۔کوئی عقلمند راجہ اسے آکر ملا اور اس نے کہا تمہارا جتنا کام برہماؔ جی کے ساتھ تھا وہ تو پورا ہوگیا اوربیٹا پیدا ہوگیا ۔ اس لئے بہتر ہے کہ اب شوجیؔ مہاراج کی پرستش کی جائے تاکہ وہ غصہ میں آکر لڑکے کی جان نہ نکال لے ۔ راجہ نے اس بات کو سمجھ لیا اور کہا اچھا آئندہ شوجیؔ کی پرستش کی جایا کرے تاکہ میرا لڑکا زندہ رہے ۔چنانچہ شوجیؔ کی پوجا شروع ہوگئی اور برہماؔ جی کو بھلا دیا گیا ۔ لڑکا جب بڑا ہوا تو اس نے کسی کی زبانی یہ سارا واقعہ سنا کہ مجھے برہماجیؔ مہاراج نے پیدا کیا تھا اور اب میرے والدین نے برہماجیؔ کو چھوڑ کر شوجیؔ کی پوجا شروع کردی ہے۔ اس لڑکے کے اندر اخلاقی جرأت تھی ۔ اس نے سوچا کہ احسان کرنے والے کے احسان کی قدر ہونی چاہیئے تھی ۔ اس لئے اس نے فیصلہ کیا کہ میں تو برہماجیؔ کی ہی پوجا کروںگا ۔ جب راجہ نے اپنے بیٹے کا یہ رویہ دیکھا تو اس کو فکر ہوا کہ اگر میرے لڑکے نے برہما جی کی پوجا کی شوجی ناراض ہوجائیں گے اور اس کی جان نکال لیں گے ۔ چنانچہ راجہ نے اپنے بیٹے کو ڈانٹا کہ برہماجیؔ کی پوجا چھوڑ دو۔ لڑکے نے کہا۔ میں برہماجیؔ کا احسان فراموش نہیں ہوسکتا ۔ کچھ مدت باپ بیٹے کا اسی طرح جھگڑا چلتا رہا ۔ جب کسی کے دل میں ضد پیدا ہوجاتی ہے تو وہ روکنے سے اور بھی بڑھتی ہے ۔ بیٹے کے دل میں بھی ضد بڑھتی گئی اور باپ کے دل میں بھی بڑھتی گئی ۔ آخر باپ نے ناراض ہوکر کہا۔ اے شوجی! اس کی جان نکال لے ۔ شوجیؔ نے لڑکے کی جان نکال لی۔ اس پر برہماجیؔ شوجی ؔ پر سخت ناراض ہوئے اور کہا اس کی جان کیوں نکالی گئی ہے ۔انہوں نے پھر اس کو زندہ کردیا مگر شوجی نے دوبارہ اس کی جان نکال لی اور برہماجی نے پھر اس کو زندہ کردیا۔اس طرح دیوتائوں میںلڑائی شروع ہوگئی ۔یہ تو ہندئوں کاعقیدہ ہے ۔مگر درحقیقت با ت یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے اندر دو طاقتیں ہیں ۔ایک طاقت مارتی ہے اور دوسری پیداکرتی ہے ۔اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کومارنے کی طاقت تو دے دی ہے مگر پیداکرنے کی طاقت نہیں دی ۔یہی وجہ ہے کہ دنیاگھبرااٹھی ہے اورجن ممالک کے پاس ایٹم بم نہیںہیںوہ ہروقت سہمے ہوئے اور خوفزدہ رہتے ہیںاور دنیاکے کونے کونے سے آوازیںآتی رہتی ہیںکہ ایٹم بم کولڑائی میںاستعمال نہ کیاجائے مگر میںسمجھتاہوں کہ ایٹم بم دنیاکو توجہ دلاتاہے کہ انسانوںکے ہاتھ میںآئی ہوئی طاقت کس قدر تباہ کن اور ہلاکت خیز ثابت ہوتی ہے اور انسان اس طاقت کو کس طرح بے موقع او ر بے محل استعمال کرکے ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کوتباہ و برباد کردیتاہے اور پھر اسی پر بس نہیں کرتا بلکہ وہ یہ بھی کوشش کرتاہے کہ کسی طرح اس کواور بھی زیادہ مہلک بنائوں تاکہ وہ پہلے سے بھی بڑھ کر تباہی مچاسکے اور زیادہ سے زیادہ انسانوں کو تھوڑ ے سے تھوڑے وقت میںموت کے گھاٹ اتاراجاسکے ۔حالانکہ یہی چیز اگر جائزطریق سے برمحل اور باموقعہ استعمال کی جائے تو بنی نوع انسا ن کے لئے حددرجہ مفید ہوسکتی ہے ۔بہرحال اس گھبراہٹ کاعلاج صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اس خداکی طرف رجوع کیاجائے جومارنابھی جانتاہے اورجِلانابھی جانتاہے ۔اس کے پاس یہ دونوں طاقتیں موجود ہیں ۔چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہی فرمایاہے کہ ہمار ا خدامحیی بھی ہے اور ممیت بھی ہے ۔پس اسی کے ساتھ تعلق رکھناچاہیے جولاکھوں کومارتاہے مگر کسی کے دل میںگھبراہٹ پیدانہیںہوتی ۔کسی گھر میںایک آدمی مرجاتاہے تو اس کے لواحقین دوچار دن تک اس پر رو دھو کرخاموش ہوجاتے ہیں ۔مگر تھوڑے دن نہیں گذرتے کہ اسی گھر میںکوئی بچہ پیداہوتاہے تو مبارک مبارک کے الفاظ کہے جارہے ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ خداکے اختیا ر میں ہے ۔اس لئے ہمیں بھی خداتعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہیے ۔اور اسی پر بھروسہ رکھناچاہیے ۔انسان کی طاقتیں صرف سطحی ہوتی ہیں ۔جب تک خداتعالیٰ کامنشاء اس دنیاکوقائم رکھنے کاہے ۔اس وقت تک ایٹم بم کچھ نہیںکرسکتا۔بلکہ خداان سب مارنے والوں کوبھی مارسکتاہے اور ایسے سامان بھی پیداکرسکتاہے جن سے یہ ایٹم بم سب بے کار ہوکررہ جائیں ۔پس انسان کو ان تمام باتوں سے بے نیاز ہوکرروحانیت کی طرف متوجہ ہوناچاہیے اورصرف خداتعالیٰ کی پرستش کرنی چاہیے ۔جوممیت تو ہے مگر ساتھ محیی بھی ہے یعنی گووہ مارتابھی ہے مگر پھر وہ زندہ بھی کرے گا۔اوراس طرح موت کے بعد بھی اس کی طر ف سے خیر ہی خیر آئے گی ۔موت کا ایک عارضی زمانہ ہوگااور آخر میں انسان کے لئے صرف حیات ہی حیات رہ جائے گی ۔
پھرفرماتے ہیں وَالَّذِیْ اَطْمَعُ اَنْ یَغْفِرَلِیْ خَطِیْئَتِی یَوْمَ الدِّیْنِ میرا رب وہ ہے جس کے متعلق مجھے امید ہے کہ وہ نتائج کے ظہور کے وقت میری کمزوریوں پرپردہ ڈالتے ہوئے اپنافضل میرے شامل ِ حال رکھیگا اور مجھے کامیابی اور کامرانی عطافرمائے گا۔
اس آیت میں جوغفر کالفظ ااستعمال کیاگیاہے اس کے معنی صرف گناہوں کی معافی کے نہیں بلکہ کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے بھی ہیں۔چنانچہ عربی زبان میں جب غَفَرَ الشَّیْئَ غَفْراًکہیںتو اس کے معنی ہوتے ہیں۔سَتَرَہکسی چیز کو ڈھانپ دیا ۔اور جب غَفَرَ الْمَتَاعَ فِیْ الْوِعَائِ کہاجائے تو اسکے معنی ہوتے ہیںاَدْخَلَہ وسَتَرَہسامان کو کسی ٹرنک یاتھیلے میں بندکرکے محفوظ کردیا۔اور جب کسی کے متعلق غَفَرَاللّٰہُ ذَنْبَہ کے الفاظ استعمال کئے جائیںتوا س کے معنی ہوتے ہیںغَطّٰی عَلَیْہِ وَعَفَاعَنْہ ۔خداتعالیٰ نے اس کے قصو ر کوڈھانپ دیااور اس کی کمزوریوں پر پردہ ڈال دیا(اقرب )اسی طرح خطیئۃ کالفظ اثمٌ کے مقابلہ میںاپنے اندر عمومیت رکھتاہے یعنی اثمٌ کالفظ توصرف ایسے قصور کے لئے استعمال کرلیاجاتاہے جن میںارادہ کاکوئی دخل نہیں ہوتا۔اسی طرح یومٌ کالفظ صرف دن کے معنوںمیںاستعمال نہیں ہوتا بلکہ وقت اور زمانہ کے معنوں میںبھی استعمال ہوتاہے ۔چنانچہ قرآ ن کریم میں بعض جگہ یومٌ کالفظ ایک ہزار سال ۱؎ کے لئے ااور بعض جگہ پچاس ہزار سال ۲؎ کے لئے استعمال کیاگیاہے محاورئہ عرب میںبھی یوم زمانہ اور وقت کے معنوں میںاستعمال ہوتاہے چنانچہ ایک شاعر کہتاہے ؎
یَوْمَاہ یَوْمُ ندیً وَ یَوْمُ طَعَان ٖ(لسان العرب و تاج العروس)
یعنی اس شخص کے دو ہی یوم ہیں ۔ایک سخاوت کرنے کایوم اور ایک نیزہ مارنے کایوم ۔اس جگہ یوم وقت کے معنوں میںاستعمال کیاگیاہے اور شاعر اپنے ممدوح کی تعریف کرتے ہوئے کہتاہے کہ اس کی زندگی کے کام صرف دو حصوں میں تقسیم ہیں۔اس کاکچھ وقت تو سخاو ت کے کاموں میں خرچ ہوتاہے اور کچھ وقت لڑائی میںبسر ہوتاہے ۔اسی طرح ایک حدیث میں آتاہے کہ تِلْکَ
۱؎ سورۃ السجدہ ع ۱۔ ۲؎ سورۃ المعارج ع ۱
اَیَّامُ الْھَرَجِیہ فتنہ کے ایام ہیں اور مراد یہ ہے کہ یہ فتنہ کے اوقات ہیں۔اس جگہ بھی یوم وقت اور زمانہ کے معنوں میں استعمال ہواہے ۔باقی رہادین کالفظ سو اس کے بھی عربی زبان میں کئی معانی ہیں ۔دین کالفظ اطاعت کے معنوں میںبھی استعمال ہوتاہے ۔ جزاء اور مطابق عمل نتیجہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتاہے ۔قضا اورفیصلہ کے معنوں میںبھی استعمال ہوتاہے ۔ملّت کے معنوں میںبھی استعما ل ہوتاہے ۔حساب کے معنوں میںبھی استعما ل ہوتاہے ۔غلبہ اور تفوق کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے ۔حکومت اور بادشاہت کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے ۔تدبیرکے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے ۔طریق عبادتکے معنوں میں بھی استعمال ہوتاہے ۔پرہیزگاری کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے ۔حال کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے ۔بلند شان کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے ۔سیرۃ کے معنوں میں بھی استعما ل ہوتاہے ۔پس یوم الدّین کے معنی صرف قیامت کے نہیں کہ اس دعاکو آخری جزاء سزا کے دن کے لئے مخصوص سمجھاجائے بلکہ جیسا کہ اوپربتایاجاچکاہے دین کے ایک معنے جزاء اور مطابق عمل نتیجہ کے بھی ہوتے ہیں ۔پس حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے رب پر امید ہے کہ جب میرے اعمال کانتیجہ نکلے گاتو وہ میری کمزوریوں پرپردہ ڈالتے ہوئے اپنی رحمت میرے شامل حال رکھیگا۔اورمجھے اپنے مقصدمیں کامیابی عطافرمائے گا۔
وہ لوگ جو روحانیت سے بے بہرہ ہوتے ہیں یہ خیال کرلیتے ہیں انسان اسی صور ت میں مغفرت کا طلب گا رہوتاہے جب کہ وہ گناہ آلود زندگی بسر کررہا ہو۔مگر یہ خیال ان کی عربی زبان سے کلی ناواقفیت اور روحانی کوچہ سے قطعی طور پر نا آشنا ہونے کا ثبوت ہے حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان اس بات کا محتاج ہے کہ خدا اسے اپنے نور سے حصہ عطا فرمائے ۔ اسے اپنی طاقت سے طاقت بچشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے جس طرح انسانی آنکھ سورج کی روشنی کے بغیر بیکار ہے اور انسانی کان ہوا کے توسط کے بغیر دوسرے کی آواز سننے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اسی طرح ہر انسان خواہ وہ خداتعالیٰ کا نبی اور رسول کیوں نہ ہو خدائی طاقت اور اس کی مدد کا محتاج ہوتا
ہے ۔اسی لئے اسلام نے سکھایا ہے کہ ہر انسان پانچ وقت نماز کی ہر رکعت میں خدا تعالیٰ سے یہ کہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ یعنی اے خدا !ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں مگر یہ کام ایسا ہے جس میںصرف ہماری کوشش اور ارادہ ہمیں کامیاب نہیں کرسکتا بلکہ اس میں کامیابی صر ف اسی صور ت میں ممکن ہے جب ہماری کوشش کے ساتھ تیری مد د بھی شامل ہوجائے ۔ جب یہ دونوں چیزیں مل جائیں گی ۔تب کوئی نتیجہ پیدا ہوگا ورنہ محض ہماری کوشش کوئی نتیجہ پیدا نہیںکرسکتی ۔ انہی منصوبوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں اپنی طاقت کے مطابق تو خدا تعالیٰ کی توحید پھیلانے کے لئے رات اور دن جدوجہد کررہاہوںمگر میری یہ جدوجہد اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نصرت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی اس لئے میں اسی سے مدد کا طلب گارہوں ۔ اورمیں امید رکھتا ہوں کہ جب ان کوششوں کے نتائج کا ظہور ہوگا تو اس وقت اللہ تعالیٰ میری حقیر کوششو ں میں برکت پیدا فرمائے گا اور اگر کوئی خامی بشریت کی وجہ سے میرے کاموں میںرہ بھی گئی تو اس کمی کو اللہ تعالیٰ کا فضل پورا فرما دے گا اور مجھے اپنے مقصد میں کامیابی عطا فرمائے گا ۔
پھر جیساکہ اوپر بتایا جاچکا ہے دین کے ایک معنے غلبہ کے بھی ہوتے ہیں ۔اس لحاظ سے وَالَّذِیْٓ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَلِیْ خَطِٓیْئَتِیْ یَوْمَ الدِّٓیْنِ کے یہ معنے ہوں گے کہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ روحانیہ کی ترقی کے زمانہ میں بھی جس کی
ترویج میرے ہاتھ سے ہو رہی ہے میر ی بشری کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے سامان پیدا فرمائے گا کہ جن کے نتیجہ میںتبلیغ اور تربیت کا سلسلہ جاری رہے گا اور اس کے دین کی کشتی ہر قسم کے حوادث کے تھپیڑوں سے بچتی ہوئی ساحلِ مراد پر کامیابی سے پہنچ جائے گی ۔
حقیقت یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کا غلبہ جہاں اپنے اندر بڑی بھاری بشارت رکھتاہے ۔ وہاں یہ غلبہ اپنے اندر ایک اندازکا پہلو بھی لئے ہوئے ہوتاہے کیونکہ اس وقت ہزاروں ہزار لوگ سلسلہ روحانی میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ اور چونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے دین کیلئے کسی قسم کی تکلیف برداشت نہیں کی ہوتی اور پھر وہ مذہبی تعلیم سے بھی بہت حد تک ناواقف ہوتے ہیں اس لئے ان کے اندر کئی قسم کے بگاڑ پید اجاتے ہیں ۔ وہ منہ سے تو بے شک ہر قسم کے عقائد کا اظہار کرتے ہیں مگر ان کا عمل اپنے دعویٰ کے مطابق نہیں ہوتا اوروہ دین میں داخل ہوتے ہوئے بھی دین کی عائد کردہ پابندیوں سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں ۔ اور اس طرح قومی تنزل کا بیج پرورش پانے لگتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنی معرفت کی آنکھ سے اس بیج کو دیکھا اور انہوں نے اس کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنی شروع کردیں اورساتھ ہی اس امید کا بھی اظہار کیا کہ میرا رب میراساتھ دیگا ۔ اور وہ میر ی اس بشری کمزوری کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ کوئی ایک انسان ہزاروں لوگوں کی تربیت نہیں کرسکتا اپنے فضل سے خود ہی ایسے سامان پیدا فرمادے گا کہ جن کے نتیجہ میں آنے والوں کی تربیت ہوتی رہے اور وہ اخلاص اور فدائیت کی روح کیساتھ اس کے دین کے جھنڈے کو ہمیشہ بلند رکھیں۔
رَبِّ ھَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِاالصّٰلِحِیْنَ٭
اے میرے رب! مجھے صحیح تعلیم عطا کر ۔اور نیکوں میں شامل کر۔
وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ٭
اور بعد میں آنے والے لوگوں میں ایک ہمیشہ قائم رہنے والی تعریف مجھے بخش۔
وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ النَّعِیْمِ٭
اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا ۔
وَاغْفِرْلِاَبِیْٓ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَ٭
اورمیرے باپ کو معاف کردے وہ بھٹک جانے والوں میںسے تھا ۔
وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ٭
اورجس دن لوگ زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے مجھے اس دن رسو انہ کیجیئو۔
یَوْمَ لَایَنُفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ٭
جس دن کہ نہ مال نفع دے گا نہ بیٹے (نفع دیں گے )۔
اِلَّامَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ٭
اللہ (تعالیٰ) کے پاس ایک تندرست دل لے کرآئے گا ۔ ۱۸؎
۱۸؎ حل لغات:۔ اَلْحُکْمُ: اَلْحُکْمُ بِاشَّیْئِ کے معنے ہیں اَنْ تَقْضِیَ بِاَنَّہٗ کَذَا اَوْلَیْسَ بِکَذَا سَوَائً اَلْزَمْتَ ذٰلِکَ غَیْرَکَ اَوْلَمْ تُلْزِمْہُ یعنی کسی امر کے متعلق یہ فیصلہ کرنا کہ اس کی صحیح صور ت کیا ہے ۔خواہ وہ بات دوسروں پر واجب کی جائے ۔وَالْحُکْمُ اَعَمُّ مِنَ اَحِکْمَۃِ فَکُلُّ حِکْمَۃٍ حُکْمٌ۔یعنی عربی زبان میں دو لفظ استعمال ہوتے ہیںایک حُکْم ہے اور دوسرا اَلْحِکْمَۃُ ہے اور حُکْمُ کالفظ عام ہے اس لئے اس کے ماتحت حکمت کے سارے معنے آجاتے ہیں (مفردات)
اَلْحِکْمَۃُکے معنے ہیں اِصَابَۃُ الْحَقِّ بِالْعِلْمِ وَ الْعَقْلِ یعنی درست بات کوعلم اور عقل سے معلوم کرلینااو ر پالینا(مفردات)
اقرب الموارد میںہے ۔اَلْحِکْمَۃُ۔اَلْعَدْلُ وَ الْعِلْمُ وَالْحِلْمُ وَالنَّبُوَّۃُ ۔یعنی حکمت کے معنے انصاف ۔علم ۔بردباری اور نبوت کے ہیں ۔اسی طرح اس کے معنے ہیں مَایَمْنَعُ مِنَ الْجُھْلِ ہر وہ بات جوجہالت سے روکے ۔وَقِیْلَ کُلُّ کَلاَمٍ مُوَافِقِ الْحَقِّ ہر وہ بات جو حق کے مطابق ہو اس کوبھی حکمت کہتے ہیں۔وَقِیْلَ وَضْعُ الشَّیْئِ فِیْ مَوْضِعِہِ وَصَوَابُ الْاَمَرِوَسِدَادُہُ ۔اوربعض ماہرین لغت کہتے ہیںکہ کسی چیزکابرمحل استعمال حکمت کہلاتاہے ۔(اقرب)
لِسَانَ صِدْقٍ:مفردات میں ہے کہ یُعَبَّرُعَنْ کُلٍّ فَاضِل ظَاھِراً وَبَاطِناً بِالصِّدْقِ ہروہ امرجوظاہری اور باطنی لحاظ سے اعلیٰ درجہ کاہواس کے ساتھ صدق کالفظ استعمال کیاجاتاہے ۔اور یہ جو حضرت ابراہیم ؑ کی دعاآتی ہے کہ وَاجْعَلْ لِّی لِسَانَ صِدْقاس سے یہ مراد ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ ایسابنائے کہ آنے والی نسلیں جوہمارا ذکرخیر کریں تو وہ درست ہو اور خلاف واقعہ نہ ہو (مفرادات)اقرب الموارد میں ہے کہ لِسَانَ الصِّدْقِ اچھے ذکر کو کہتے ہیں ۔
سَلِیْم: اَلسَّلاَمَۃُ کے معنی ہیں اَلتَعرِّیْ مِنَ الا ٰفَاتِ الظَّاھِرَۃِ وَالْبَاطِنَۃِ ۔ظاہری اور باطنی ہرقسم کی خرابیوں سے پاک ہونا(مفردات)پس قلب ٍسلیم کے معنی ہونگے ۔ایسا دل جو ہرقسم کی خرابیوں سے پاک ہو۔
تفسیر:۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چونکہ اللہ تعالیٰ پر ایک بڑی امید کااظہار کیاتھا ۔اس لئے آپ نے سمجھا کہ اب میرا فرض ہے کہ میں خود بھی اس کے آستانہ پر جھک جائوں اور اس سے دعا کروں کہ وہ میری اس خواہش کی تکمیل کے سامان پیدافرمائے اور مجھے ایسی توفیق بخشے کہ میں اس کے پیغام کو احسن طریق پر لوگوں کو پہنچاتا چلا جائوں ۔چنانچہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعافرمائی کہ اے میرے رب !مجھے حکم عطافرمااور مجھے نیک اور پاک لوگوں میں شامل کردے ۔حالانکہ یہ بالکل غلط ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ ہر ملک اور ہر علاقہ میں اللہ تعالیٰ مجدّد پیدا کرتا ہے مگر لوگ قومی یا ملکی لحاظ سے اپنی قوم اور اپنے ملک کے مجدّد کو ہی ساری دنیا کا مجدّد سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ جب اسلام ساری دنیا کے لئے ہے تو ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں اور مختلف ملکو ں میں مختلف مجدّدین کھڑے ہوں ۔ حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی ؓ بھی بیشک مجدّد تھے ۔ مگر وہ ساری دنیا کے لئے نہیں تھے ۔بلکہ صرف ہندوستان کے مجدّد تھے ۔اگر کہا جائے کہ وہ ساری دنیا کے مجدّد تھے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے عرب کو کیا ہدایت دی انہوں نے مصر کو کیا ہدایت دی ۔ ان ملکوں کی ہدایت کیلئے انہوں نے کوئی کام نہیں کیا لیکن اگر ان ممالک کی تاریخ دیکھی جائے تو ان میں بھی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو صاحبِ وحی اور صاحبِ الہام تھے اور جنہوں نے اپنے ملک کی راہنمائی کا فرض سرانجام دیا پس وہ بھی اپنی اپنی جگہ مجدّد تھے اور یہ بھی اپنی جگہ مجدّد تھے ۔ فرض صرف یہ ہے کہ کوئی بڑا مجدّد ہوتا ہے اور کوئی چھوٹا۔ ہندوستا ن میں آنے والے مجدّدین کی اہمیت اس لئے ہے کہ وہ اس ملک میں آئے جہاں مسیح موعود نے آنا تھا ۔اور اس طرح ان کا وجود حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے بطور ارہاص تھا ۔ ورنہ ہمار ا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ صرف یہی مجدد ہیں باقی دنیا مجدّدین سے خالی رہی ہے ہر شخص جو الہام کے ساتھ تجدیدِ دین کا کام کرتا ہے وہ روحانی مجدّد ہے ۔ ہرشخص جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے تجدید کا کوئی کام کرتا ہے وہ مجدّد ہے۔ چاہے وہ روحانی مجدّد نہ ہو ۔جیسے میں نے کئی دفعہ مثال دی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا کہ اورنگ زیبؒ بھی مجدّد تھا ۔حالانکہ کو خود الہام کا دعویٰ نہیں تھا ۔تو نبی کے فیوضِ روحانی کا زمانہ نبی کی زندگی میں ہی شامل ہوتا ہے اور اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو فترت کا زمانہ بہت قلیل رہ جاتاہے ۔ گو بعض ممالک ایسے بھی ہیں جن پر فترت کا زمانہ کسی قدر لمبا نظر آتا ہے مگر ان ممالک کے ارد گرد بھی روحانی فیوض کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر جاری تھا ۔ جیسے عرب کا ملک ہے ۔ اس پر فترت کا ایک لمبا دور آیا۔ گو بعض لوگ کہتے ہیں۔ اس عرصہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے بعض انبیاء ان میں مبعوث ہوئے ۔چنانچہ سنان بن خالد کے متعلق کہا جاتاہے کہ وہ بھی نبی تھے اور اگر اس کو تسلیم کیا جائے تو اس طرح عرب پر بھی زمانہ فترت زیادہ عرصہ تک نہیں رہتا ۔ لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ ملک عرب پر فترت کا دور لمبے عرصہ تک رہا تو بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ اہلِ عرب کے دائیں اور بائیں ایسے لوگ مبعوث ہوتے رہے تھے جو خدا تعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلاتے اور نشانات کے ذریعہ اس کی ہستی کا ثبوت پیش کرتے ۔آخر یہ کوئی ضروری نہیں تھا کہ اہلِ عرب پر کسی ایسے نبی کے ذریعہ ہی اتمام حجت کی جاتی جو ان میں سے ہوتا ۔ جب دائود ؑ کے ذریعہ خدا ان پر ظاہر ہورہاتھا جب سلیمانؑ کے ذریعہ خدا ان پر ظاہر ہورہاتھا ۔جب عیسیٰ ؑ کے ذریعہ خدا ان پر ظاہر ہورہاتھاجب یحییٰ ؑ کے ذریعہ خدا ان پر ظاہر ہورہا تھا ۔جب ذوالقرنین کے ذریعہ جس سے مراد خورسؔ شاہ ایران ہے ان پر خدا ظاہر ہورہا تھا اوریہ وہ لوگ تھے جنہوں نے الہام کا دعویٰ کیا ۔اور یہ وہ لوگ تھے جو اہلِ عرب کے دائیں بائیں مبعوث ہوئے تو اس کے بعد اگر عرب میں کچھ وقفہ بھی ہوا تب بھی وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہمیں پتہ نہیں شرک بری چیزہے ۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا عقیدہ باربار ان انبیا ء کے ذریعہ پیش کیا جا چکا تھا ۔ اوریہ انبیا ء وہ تھے جو اہلِ عرب کے دائیں بائیں مبعوث ہوئے اور جن کے حالات اور جن کی تعلیم سے وہ لوگ بے خبر نہیں ہوسکتے تھے ۔ اگر اس طرح ہم دیکھیں تو فترت کازمانہ بہت ہی قلیل رہ جاتا ہے جب خدا کا نور کہیں نظر نہ آتا ہو ۔اہلِ عرب پر بیشک فترت کا کچھ لمبا زمانہ نظر آتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی برکت کی وجہ سے اوردوسری طرف اہل عرب پر اس رحم کی وجہ سے کہ انہوں نے فترت کا ایک لمبا دور برداشت کیا تھا اپنے خاتم النبیین کو عربوں میں مبعوث فرما دیا اور اس طرح اس کمی کا ازالہ ہوگیا ۔ بہرحال لوگوں کے خلافِ توحید اعمال اس وجہ سے معاف نہیںہوسکتے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی نبی ان پر حجت قائم کرنے کے لئے مبعوث نہیں ہوا ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اس عذر کو ہمیشہ توڑتا رہتاہے اور وہ انبیا ء کے ذریعہ لوگوں پر حجت قائم کردیتا ہے خواہ یہ حجت انبیا ء کی جسمانی زندگی میں ہو خواہ ان کی فیضانی زندگی میں ہو۔ لیکن وہ لوگ جو نہ تو انبیا ء کی جسمانی زندگی کے زمانہ میں موجود ہوتے ہیں اور نہ ان کی فیضانی زندگی میں موجو د ہوتے ہیں ان کا معاملہ ایک جداگانہ نوعیت کا حامل ہوتا ہے ۔ چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایسے لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دوبارہ اپنا رسول بھیجے گا۔اور پھر ان کی اطاعت کرنے والوں یا اس کا انکار کرنے والوں کو اپنے اپنے عمل کے مطابق جزاد ی جائے گی ۱؎ ۔ اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ نبی کے زمانہ میں احکامِ الٰہی کی جو اہمیت ہوتی ہے وہ فترت کے زمانہ میں نہیں ہوتی ۔ جب کسی نبی کی فیضانی زندگی بھی ختم ہو چکی ہو یا اس فیضانی زندگی میں کوئی وقفہ پڑ چکا ہو جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ فیضانی موجودتھی مگر چونکہ کوئی ایسا بندہ موجو دنہیں تھا جو بنی نوع انسان پر آپؐ کی روحانیت کا پر تو ڈالتا اور آپؐ کا نور اپنے آئینہ قلب میں جذب کر کے اس کی شعاعوں سے دوسروں کو منور کرتا اس لئے امت محمدیہ پر بھی فترت کا زمانہ آگیا ۔ مگر وہ فترت کا زمانہ بہت ہی تھوڑا تھا۔ آخر حضرت سید احمد صاحب شہید بریلویؓ کے وفات پاتے ہی انکے تمام شاگرد تو اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوگئے تھے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ ان کی وفات کے ساتھ ہی فتر ت کا زمانہ شروع ہوگیا تھا ۔آپ کی شہادت ۶؍مئی ۱۸۳۱ء کو ہوئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ۱۸۶۴ء کے قریب الہامات شروع ہوگئے تھے اور ۱۸۷۲ء میں آپ نے اسلام کی صداقت کے متعلق مضامین وغیرہ لکھنے شروع کردیئے تھے ۔گویا ابھی ایک انسانی عمر بھی نہیں گزری تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور شخص کو لوگوں کی اصلاح کے لئے کھڑا کردیا یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ نبی ہونے کا ایک نہایت ہی واضح اور کھلا ثبوت ہے اور بتاتا ہے کہ اسلام میں فترت کا زمانہ نہایت قلیل ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ تو صرف نام کے طورپر ہوتا ہے ورنہ ادھر ایک زمانہ ختم ہوتا ہے اور اُدھر تھوڑے سے وقفہ کے بعد ایک اور دور شروع ہوجاتا ہے اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان دنیا میں ہمیشہ جاری رہتا ہے لیکن جن انبیا ء کی فیضانی زندگی ختم ہوجائے اور ان کے بعد بھی فترت کا دور لمبا ہوجائے ۔اس دور میں جو لوگ پیدا ہوتے ہیں ان کے متعلق شرعی احکام بالکل اور رنگ اختیا ر کرلیتے ہیں اور ان کے لئے مغفرت کی دعا بالکل جائز ہوتی ہے ۔
زیر تفسیر آیت میں جو مثال دی گئی ہے وہ ایک ایسے شخص کی ہے جو نبوت کے زمانہ میں تھا یعنی وہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کا چچا تھا اور اس زمانہ میں موجود تھا ۔جب حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے توحید کی تعلیم لوگوں کے سامنے پیش کی ۔پس ایسا انسان جس کے سامنے ایک نبی اپنی تعلیم پیش کرتا ہے اور وہ پھر بھی شرک پر اصرار کرتا ہے بلکہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کو بھی توحید سے پھرانے کی کو شش کرتا ہے اس کے متعلق یقینا اور احکام ہونگے ۔اور زمانہ فترت سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر اور احکام نافذ ہونگے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے اپنے چچا کے متعلق تو مغفرت کی دعا کی واپس لے لی اور اس سے اپنی بیزاری کا اظہار کردیا مگر اپنے
۱؎ تفسیر رُوح المعانی جلد ۴صفحہ ۴۹۶۔
والدین کے متعلق انہوں نے بڑھاپے میں بھی دعا کی کیونکہ وہ زمانہ فترت میں انتقال کر چکے تھے ۔اور ان کے متعلق احکام ایک جداگانہ نوعیت کے حامل تھے۔اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے گذشتہ زمانہ میں جو مسلمان حیاتِ مسیح کے قائل رہے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ان کو بزرگ اور صالح قرار دیا ہے لیکن موجودہ زمانہ میں اس عقیدہ کو آپؑ نے عیسائیت کی مضبوطی کا موجب قرار دیا ہے ۔کیونکہ پہلے لوگوں کو علم نہیں تھاکہ یہ عقیدہ اسلام کے لئے کیسا خطرناک ہے مگر اب یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو چکی ہے ۔ پس چونکہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے والدین زمانہ فترت میں انتقال کر چکے تھے آپ نے ان کی مغفرت کی دعا کی ۔اور چونکہ ان کا چچا توحید کی تعلیم سننے کے باوجود اپنے شرک پر مصر رہا آپ نے اس سے اپنی بیزاری کا اظہار کردیا ۔
حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے اَب کا نام قرآن کریم میں اٰزَر بتایا گیا ہے (سورہ انعام ع ۵)لیکن بائیبل کہتی ہے کہ اس کا نام تارا تھا (پیدائش باب ۱۱آیت ۲۷)عیسائی مستشرقین جو بائیبل کی ہر بات کو وحئی آسمانی سے کم نہیں سمجھتے بالعموم اعتراض کیا کرتے ہیں کہ قرآن کریم نے حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے باپ کا نام آزر قرار دے کر غلطی کی ہے ۔حالانکہ بائیبل نہ تو کوئی تاریخ کی کتاب ہے اور نہ ہی ہم پر حجّت ہے ۔اس کے اپنے بیانات اسقدر متضاد اور ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں کہ قرآن کریم کے مقابلہ میں اسے کسی طرح درست نہیں مانا جاسکتا۔بائیبل میں حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے باپ کا جو نام لکھا ہے وہ لکھنے والے ان کے وقت میں موجود نہ تھے بلکہ سوادو سال بعد میں پیدا ہوئے ۔پھر ان کی بات تاریخی لحاظ سے کیونکر صحیح مانی جاسکتی ہے۔ اور بائیبل کے بیانات کی جو حالت ہے وہ اس ایک مثال سے ہی ظاہرہے کہ بائیبل میں لکھا ہے۔حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھ جو لوگ مصر سے نکلے تھے ان کی تعداد چھ لاکھ سے اوپر تھی(گنتی باب ۱آیت ۴۶) اور وہ یہ لوگ تھے جو لڑائی کے قابل تھے ۔اس لحاظ سے گویا کُل مرد عورتیں اور بچے چوبیس پچیس ۲۵لاکھ ہو گئے۔مگر یہ بالکل ناممکن ہے کہ سوادو سو سال میں بنی اسرائیل کی تعداد اسقدر بڑھ جائے ۔زیادہ سے زیادہ چار ہزار تک بڑھ سکتی ہے بشرطیکہ ان میں کوئی عورت بانجھ نہ ہو اور کوئی مرد نامرد نہ ہو۔گویا اگر نسل کی انتہائی ترقی مدّنظر رکھی جائے جو دنیا میں کسی قوم کو نہیں ہوئی ۔اور یہ تسلیم کر لیں کہ ہر چالیس سال میں ان کی تعداد دگنی ہوجاتی تھی تو حضرت موسٰی علیہ السلام کے زمانہ میں ان کی تعداد چار ہزار ہونی چاہیئے ۔مگربائیبل کہتی ہے کہ ان میں چھ لاکھ سے اوپر جوان لڑنے والے تھے ۔گویا اس وقت بنی اسرائیل کی تعدادچوبیس پچیس لاکھ کے قریب تھی۔یہ بات حضرت موسٰی علیہ السلام کے زمانہ کی بیان کی جارہی ہے۔مگر قرآن کریم دو ہزار سال کے بعد حضرت موسٰی علیہ السلام کے زمانہ کی یہ بات ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ ’’وَھُمْ اُلُوْفُ‘‘۔(بقرۃع ۳۲)وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔اور یہ وہی تعداد ہے جو بنی اسرائیل کی زیادہ سے زیادہ نسل بڑ ھنے کے متعلق اندازہ لگا کر میں نے پیش کی ہے ۔ پس جس کتاب کی یہ حالت ہواُسے تاریخی کتاب کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے ۔وہ تاریخ نہیں بلکہ قصوں اور کہانیوں کی کتاب ہے ۔اگر ہم اس کا احترام کرتے ہیں تو اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ حضرت موسٰی علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ورنہ اس میں اتنا بگاڑ پیدا ہو چکا ہے کہ اباس کی کسی بات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا پھر تورات کہتی ہے کہ حضرت ہارونؑ نے شرک کیا ۔اور اپنے ہاتھ سے پرستش کے لئے بچھڑا بنایا ۔مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ حضرت کہ حضرت ہارونؑ نے شرک نہیں کیا بلکہ انہوں نے دوسروں کو روکنے کی کوشش کی اور یہی بات ایک نبی کی شایان شان ہے ۔
غرض جبکہ بائیبل کی کئی باتیں تاریخ لحاظ سے غلط ہیں تو یہ کس طرح کہاجاسکتاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا بائیبل نے جو نام بتایا ہے وہ غلط ہے ۔ اگر بائیبل کا بیان کلی طور پر درست ہوتا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام تاراؔ ہی ہوتا تو طالمود ؔ میں ا س کے باپ کا نام زارا کیوں لکھا جاتا ۔ اور جوزیفس ؔ جو مشہور یہودی مؤرخ ہے وہ اس کا نام آتھر یعنی آذر کیوں بتاتا (ترجمۃ القرآن از سیلؔ صفحہ ۹۵)یہ اختلاف جو خود یہودیوں کے اندر پایا جاتا ہے ۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے باپ کے نام کے متعلق اختلاف تھا ۔ اور چونکہ قرآن کریم کا نزول اسی لئے ہوا کہ وہ پہلی الہامی کتا ب کے پیدا کردہ اختلافات کو دور کرے اس لئے اس نے اس اختلاف کودور کردیا اور بتادیا کہ اس کا نام آذر ہی تھا۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ تارا سے ہی قرآن کریم نے آذر بنا لیاہو ۔کیونکہ تؔ زؔ سے بدل جاتی ہے ۔ اور قلب کے ذریعہ الف پہلے آجاتاہے معلوم ہوتا ہے عربوں کی زبان پر تارا کا لفظ نہیں چڑھنا تھا ۔انہوں نے تارا کو زارا بنا لیا اور پھر زارا سے آذر بن گیا ۔ چونکہ قرآن کریم عموماً معرّب نام استعمال کرتا ہے ۔جیسے ابراہامؔ کو ابراہیم۔ اور یسوعؔ کو عیسیٰ اور یوحنا ؔ کو یحییٰ اور حنوک ؔ کو ادریس کہا گیا ہے ۔ اسی طرح تاراکو زارا کہہ دیا گیا ہے ۔پس یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ ہم تو یہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ اس جگہ اَب سے ان کا حقیقی باپ مراد ہے ۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اس جگہ اَب کا لفظ چچا کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے اسی لئے دوسرے مقام پر جب انہو ں نے اپنے والدین کے لئے دعا کی تو وہاں اَب کی بجائے والد کا لفظ استعمال کیا ۔پس جبکہ ہم آذر ان کے چچا کا نام سمجھتے ہیں تو بائیبل میں اگر ان کے باپ کا نام تارا آگیا ہے تواس سے قرآن کریم پر کیا اعتراض پڑ سکتا ہے ۔اگر بائیبل ان کے چچا کانام تارا بتا تی تب تو یہ اعتراض ہوسکتا تھا ۔ لیکن بائیبل تو ان کے حقیقی باپ کا نام تاراؔ بتا تی ہے اور قرآن کریم ان کے چچا کانام آذر ؔ بتاتا ہے ان دونوںکا آپس میں کوئی تعلق ہی نہیں کہ ایک نام کو دیکھ کر دوسرے نام پر اعتراض کردیا جائے ۔ اس کی مزید تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ بائیبل حضرت سارا کو جوحضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی تھیں تارہؔ کی بیٹی قرار دیتی ہے ۔ (پیدائش باب ۲۰آیت ۱۲)اگر تارہ کو انکا حقیقی با پ سمجھا جائے تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں ۔کہ آپ نے اپنی سگی بہن سے شادی کی حالانکہ بہن سے شادی کرنا ناجائز تھا ۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دراصل وہ باپ نہیں بلکہ چچا تھا ۔ مگر چونکہ ان کی پرورش اپنے چچا کے گھر میں ہی ہوئی تھی اس لئے لوگوں کو غلطی لگ گئی اور انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تاراؔ کی طرف منسوب کرنا شروع کردیا ۔ اورپھر مؤرخین نے بھی اسے آپ کا باپ قرار دے دیا ۔ اس مقام پر بھی طالمودؔ نے بائیبل کی اصلاح کی ہے اور بتایا ہے کہ حضرت ساراؔ ان کے بھائی کی بیٹی تھیں۔ انکی حقیقی بہن نہیں تھیں پھر طالمود ؔ میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بتوں کے خلاف آواز بلند کی تو آذر نے تنگ آکر بادشاہ کے پا س اُ ن کی شکایت کی اور انہیں سزا دلوانے کی کوشش کی ۔ اس فعل کی بھی عقلی لحاظ سے ایک باپ سے توقع نہیں کی جاسکتی ۔ پس یہ تما م قرائین اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اس جگہ اَب سے ان کاچچا ہی مراد ہے اور بائیبل سے نام کا اختلاف کوئی قابلِ اعتراض امر نہیں۔
پھر فرماتے ہیں وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ ۔ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ ۔ اِلَّا مَنْ َتَیْ اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔ یعنی اے میرے رب! مجھے اس دن کی رسوائی سے محفوظ رکھیؤ جس دن تمام لوگ اپنے اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے اٹھائے جائیں گے اور جس دن نہ انسان کو اس کا مال نفع دے گا اور نہ اس کے بیٹے اس کے کسی کام آئیں گے ہاں وہی شخص فائدہ میں رہے گا جو اللہ تعالیٰ کے پاس ایک پاک اور بے عیب اور مطمئن دل لے کر حاضر ہوگا ۔یہ ظاہر ہے کہ دل تبھی مطمئن ہوتا ہے جب انسان کو یقین ہو کہ اس نے اپنی پیدائش کے مقصد کو حاصل کر لیا ہے اور اسے اپنے انجام کے متعلق کوئی اضطراب لاحق نہ ہو مگر یہ یقین اللہ تعالیٰ کے تعلق کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا پس قلبِ سلیم در حقیقت اُسی شخص کو میسر آتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کر لیتاہے ورنہ ظاہری مال ودولت کسی انسان کو مطمئن نہیں کرسکتی ۔یورپین قوموں کو دیکھ لو۔مال ودولت کے لحاظ سے دنیا کی کوئی قوم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔مگر ہر قسم کی طاقت اور جتھے اور مال کے باوجود ان کے اندر ایک احساس کمتری پیدا ہورہا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی چیز ایسی ہے جو ان کے پاس نہیں بلکہ ایشیائیوں کے پاس ہے ۔یہ احساس کمتری ابھی ان میں اتنا نمایاں نہیں کہ بڑوں اور چھوٹوں سب لوگوں میں پایا جائے لیکن تاہم ان کے اندر ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا ہے جو سمجھتا ہے کہ ان کے پاس دولت بھی ہے مال بھی ہے لیکن انہیں دل کا چین نصیب نہیں ۔وہ لوگ شرابیں پیتے ہیں ۔سینما دیکھتے ہیں ۔ناچ اور گانوں میں دن رات کا ایک بڑ احصّہ بسر کرتے ہیں ۔لیکن جب نشہ اتر جاتا ہے اور وہ چارپائی پر جا کر لیٹتے ہیں تو انہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر کوئی خلا پایا جاتا ہے۔اور وہ خلا سوائے تعلق باللہ اور دین کے اور کوئی چیز پُر نہیں کر سکتی ۔دنیا کی ہر نعمت کو حاصل لینے کے بعد ان کے اندر یہ بے چینی ہوتی ہے کہ کوئی چیز ایسی ہے جو انہیں حاصل نہیں اور وہ انہیں حاصل ہونی چاہیئے۔دراصل خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کا وصال ایک ایسی نعمت ہے کہ جب وہ کسی شخص کو میسر آجاتی ہے تو دنیا کے سارے غم مٹ جاتے ہیں اور اسے کوئی حسر ت باقی نہیں رہتی ۔عارضی غم بے شک آتے ہیں ۔مثلاً اگر کسی شخص کو کانٹا چبھ جائے تو اس کے نتیجے میں اسے درد تو ہوتا ہے لیکن اسے کوئی شخص بیماری نہیں کہہ سکتا ۔اسی طرح عارضی تکلیفیں اور غم تو ایسے انسان پر بھی آتے ہیں ۔لیکن یہ غم ان کے راستہ میں روک نہیں بنتے اور اپنے اپنے درجہ کے مطابق انہیں اطمینان اور سکون حاصل رہتا ہے ۔اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ انسانی جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جب وہ ٹھیک ہو جاتا ہے تو سارا انسانی جسم ٹھیک ہوتا ہے اور جب وہ خراب ہوجاتا ہے تو سارا انسانی جسم خراب ہوجاتاے ۔پھر فرمایا اَلآوَھِیَ الْقَلْبُ ۔سنو وہ گوشت کا لوتھڑا دل ہے۔
بعض لوگوں نے خصوصاً اس زمانہ کے سائینسدانوں اور تشریح الابدان والوں نے کہا ہے کہ وہ چیز جو انسانی اعمال،افعال اور ارادوں اور خواہشات کو مضبوط کرتی ہے اور انہیں ایک نظام کے نیچے لاتی ہے وہ دل نہیں بلکہ دماغ ہے ۔اور سائنس والوں سے ڈرکر بعض مسلمان علماء نے بھی قرآن کریم کی بعض آیات کی ایسی تفسیر شروع کردی ہے جس سے یہ نکلتا ہے کہ قلب سے مراد قلبِ انسانی نہیں بلکہ اس سے مراد محض وہ مقام ہے جو انسانی جسم پر حکومت کرتا ہے چاہے وہ دماغ ہی ہو۔ لیکن میرے نزدیک یہ توجیہہ محض ہی ڈر کی وجہ سے کی گئی ہے ۔ورنہ جہاں تک قرآن کریم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے میرے نزدیک قلب سے مراد وہی چیز ہے جو سینہ میں ہوتی ہے اور اس چیز کو دماغ قراردینا محض دھینگا مُشتی ہے ۔ بہرحال اس حدیث سے ظاہر ہے کہ انسانی اعمال کی صفائی دل کی صفائی کے ساتھ وابستہ ہے ۔تم اپنے ہاتھو ں کی صفائی کرکے پاک نہیں ہوسکتے ۔ تم اپنے منہ کی صفائی کرکے پاک نہیں ہوسکتے ۔ کیونکہ پاکیزگی کا منبع دل ہے ۔ لیکن اگر تم اپنے دل کی صفائی کرلو تو اللہ تعالیٰ کے حضور تم ایک معمئن دل لے حاضر ہو گے ۔ ہمار اخالق اور مالک جس نے مخلوق کو پاکیزگی کے حصول کیلئے پیدا کیا ہے اسکے نزدیک سب سے مقدم دلوں کی پاکیزگی ہے ۔ کیونکہ تقویٰ کا درخت صرف اسی زمین پر پرورش پاسکتا ہے جو پاک اور صاف ہو۔ ناپاک دل اس کی صفات کا جلوہ گاہ نہیں ہوسکتا اور نہ پاک ہاتھ اس کے عرش کے پائے کو چھُو سکتے ہیں۔
وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ٭
او جس دن جنت متقیوں کے قریب کردی جائے گی ۔
وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغٰوِیِنَ٭
اور گمراہوں کیلئے دوذخ پر سے پردے اٹھا دیئے جائیں گے ۔
وَقِیْلَ لَھُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ٭
اور کہاجائے گا کہ کہاں ہیں جن کی تم اللہ کے سواکے عبادت کرتے تھے ۔
مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ۔ ھَلْ یَنْصُرُوْنَکُمْ اَوْیْنْتَصِرُوْنَ٭
کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں ؟یا تمہارا بدلہ لے سکتے ہیں ؟
فَکُبْکِبُوْا فِیْھَا ھُمْ وَالْغَاوٗنَ٭وَجُنُوْدُ اِبْلِیْسَ اَجْمَعُوْنَ٭
پس اس وقت وہ (جھوٹے معبود اور کافر) اور گمراہ اور کے لشکر سارے کے سارے اس (دوذخ) میں اوندھے منہ گرادیئے جائیں گے ۔
قَالُوْا وَھُمْ فِیْھَا یَخْتَصِمُوْنَ٭
وہ آپس میں جب کہ وہ اُس (یعنی جہنم) میں جھگڑ رہے ہوں گے کہیں گے۔
تَااللّٰہِ اِنْ کُنَّا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ٭
خدا کی قسم ہم کھلی کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے ۔
اِذْ نُسَوِّ یْکُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ٭
جب کہ ہم تم کو فرب العالمین خدا کے برابر درجہ دیتے تھے ۔
وَمَآ اَضَلَّنَآ اِلَّا الْمُجْرِمُوْنَ٭
اور ہم کو تو مجرموں نے ہی راستہ بھٹکا دیا تھا ۔
فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ ٭
پس (آج) شفاعت کرنے والوں میںسے کوئی ہماری شفاعت نہیں کرتا ۔
وَلَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ٭
اور نہ ہمارا کوئی غمخوار دوست ہے ۔
فَلَوْ اَنَّ کَرَّۃً فَنَکُوْنَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ ٭
پس اگر ہمیں لوٹنے کی طاقت ہوتی تو ہم (لوٹ کر) ضرور مومنوں میں (شامل)ہوجاتے ۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ۔ وَ مَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّوْمِنِیْنَ٭
اس (واقعہ ) میں ایک بہت بڑا نشان ہے لیکن ان (کافروں )میں اکثر ایمان نہیں لاتے ۔
وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ٭
اور تیرا رب یقینا غالب (اور )باربار رحم کرنے والا ہے ۔۱۹؎
۱۹؎ حل لغات :۔اُزْلِفَتْ: اَزْلَفَ سے مؤنث کا فعل مجہول کا صیغہ ہے اور اَزْلَفَ کے معنے ہیں قَرَّبَہٗ ۔ اس کے قریب کیا (اقرب) پس اُزْلِفَتِ لْجَنَّۃُ کے معنے ہونگے ۔ جنت قریب کردی جائے گی ۔
بُرِّ زَتُ: بَرَّزَ سے مؤنث کا فعل مجہول کا صیغہ ہے اور بَرَّزہٗ کے معنے ہیں اَظْہَرَہٗ وَبَیَّنَہٗ کسی چیز کو ظاہر اورواضح کردیا (اقرب) پس بُرِّزَتْ کے معنے ہونگے ظاہر کر دی جائے گی ۔
اَلْجَحِیْمُ: اَلنَّارُ الشَّدِیِدَۃُ التَّاَجُّجِ۔ یعنی جحیم کے معنے سخت بھڑکنے والی آگ کے ہیں ۔ نیز اس کے معنے ہیں ۔ کُلُّ نَارٍ عَظِیْمَۃٍ فِیْ مَھْوَاۃٍ فَھِیَ جَحِیْمٌ یعنی ہر وہ بڑی آگ جو گڑھے میں ہو۔ اَلْمَکَانُ الشَّدِیْدُ الْحَرِّ۔ سخت گری والی جگہ ۔اِسْمٌ مِنْ اَسْمَآئِ جَھَنَّمَ ۔جہنم کے ناموں میںسے ایک نام جحیم بھی ہے (اقرب)
کُبْکِبُوْا: کَبْکَبُ سے جمع مذکر کا مجہول کا صیغہ ہے اور کَبْکَبَہٗ کے معنے ہیں قَلَّبَہٗ وَصَرَعَہٗ ۔ اس کو پچھا ڑدیا اور شکست دے دی ۔ اور جب کَبْکَبَ الشَّیْئَ کہیں تو معنے ہونگے رَمَاہُ فِیْ الْھُوَّۃِ۔ اس کو گڑھے میں پھینک دیا ۔(اقرب) پس کُبْکِبُوْا کے معنے ہونگے ۔(۱)ان پچھاڑ دیا جائے گا ۔(۲)ان کو گڑھے میں پھینک دیا جائے گا ۔اَلْغَاوٗنَ: اَلْغَاوِیْ کی جمع ہے جو غَوَیٰ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ اور غَوَی الرَّجُلُ کے معنے ہیں ۔ گمراہ ہوگیا خَابَ۔ ناکا م ہوگیا ۔اِنْھَمَکَ فِی الْجَھْلِ۔ جہالت میں لگ گیا ۔ ھَلَکَ ۔ہلاک ہوگیا ۔ پس اَلْغَاوِیْ کے معنے ہونگے گمراہ ہونے والا۔ ناکام ہونے والا۔ جہالت کے کاموں میں مشغول ہونے والا ۔ ہلاک ہونے والا ۔
جُنُوْرٌ: جُنْدٌ کی جمع ہے اور اَلْمُنْدُ کے معنے ہیں اَلْعَسْکَرُ۔ لشکر ۔اَلْاَعْوَانُ ۔مددگار (اقرب)
نُسَوِّیْکُمْ : سَوَّی سے فعل مضارع کا جمع متکلم کا صیغہ ہے اورسَوَّاہُ بِہٖ کے معنے ہیں عَدَّلَ ۔کسی کو کسی کے برابر قرار دیا (اقرب) پس اِذْ نُسَوِّیْکُمْ کے معنے ہوں گے جب ہم تم کو برابر قراردیتے تھے ۔
حَمِیْمٍ:اَلْقَرِیْبُ الَّذِیْ تَھْتَمُّ بِاَمْرِہٖ ۔ وہ قریبی جس کے کاموں کی سرانجام وہی کی فکر رہتی ہو۔ اَلصَّدِیْقُ دوست (اقرب)
کَرَّۃٌ: کَرَّ سے مصدر ہے ۔ اور کَرَّ کے معنے ہیں رَجَعَ۔ لوٹا (اقرب) پس کَرَّۃٌ کے معنے ہیں ایک دفعہ لوٹنا ۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔ اس دن جنت متقیوں کے قریب کردی جائے گی ۔ یعنی متقی جوں جوں نیک کام کرتا چلاجاتا ہے نیکی اس پر آسان ہوتی چلی جاتی ہے ۔میں نے بالعموم دیکھا ہے کہ جب کسی کو نیکی کی لذّت حاصل ہوجائے تو اس کے بعد وہ بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھتا ہے اور ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری نیکی اس کے لئے آسان سے آسان تر ہوجاتی ہے ۔
پارٹیشن سے پہلے میں ایک دفعہ دہلی گیا ۔ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اس وقت تک ابھی وزیر نہیں بنے تھے ۔ویسے وہ حکومت کی طرف سے ایک خاص مقدمہ کی پیروی کیلئے مقرر تھے ۔ اُن دنوں ہندوستان کی حکومت نے انگلستان سے مالیات کے ایک ماہر کو منگوایا تھا تاکہ بعض اہم باتوں میں اس کا مشورہ لیا جاسکے ۔ چوہدری صاحب نے اسے مجھ سے ملانے کے لئے دعوت دی ۔ اس نے اور چیزوں کے علاوہ گلاب جامن یا رس گلے بھی رکھ دیئے ۔اس شخص کے لئے یہ بالکل ایک نئی چیز تھی وہ انہیں دیکھ کر گھبراگیا ۔ مگر چوہدری صاحب نے کہا۔ اس کھاکر دیکھو ۔ چنانچہ اس نے ایک گلاب جامن یا رس گلا ٹھا کر کھایا ۔چوہدری صاحب نے پھر ایک گلاب جامن یا رس گلا اسے دیا ۔ اس نے پھر گریز کیا تو چوہدری صاحب نے ا س سے کہا کہ تم نے پہلا گلاب جامن یا رس گلا تو عجوبہ کے طور پر کھایا تھا ۔ اب دوسرا گلاب جامن یا رس گلا اس کے مزے کی وجہ سے کھائو ۔ میں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ آپ نے یہ کیا بات کہی ہے ۔ انہوں نے بتا یا کہ انگریزی میں یہ محاورہ ہے کہ پہلی چیز عجوبہ کے طور پر ہوتی ہے اور دوسری چیز اس کے مزے کی وجہ سے استعمال کی جاتی ہے ۔ یہ تو ایک دنیوی ضرب المثل ہے لیکن میں نے روحانیت میں بھی دیکھا ہے کہ پہلے چسکہ لگانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پھر خود بخود عادت پڑجاتی ہے ۔ ٹنکچرز جو الکوحل سے تیا ر ہوتی ہیں بچے اور جوان ا ن کے پینے سے گھبراتے ہیں لیکن یورپ میں لوگ شراب تک مزے لے لے کر پیتے ہیں۔ اور روکنے کے باوجود اسے نہیں چھوڑتے ۔ امریکہ میں جب شراب نوشی کے انسداد کے لئے قانون وضع کیا گیا تو ہزار ہا موتیں وہاں صرف اس وجہ سے واقع ہوئیں کہ لوگ شراب پینے کے شوق میں سپرٹ پی لیتے ۔ سالہاسال ایسا ہوتا رہا کہ چونکہ لوگوں کو پینے کیلئے شراب نہیں ملتی تھی اس لئے سپرٹ پی لیتے تھے اور سپرٹ میں چونکہ زہریلی چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے اس لئے کئی اندھے ہوجاتے اور کئی مرجاتے ۔ مگر پھر بھی وہ اپنی خواہش کو نہ روک سکتے ۔ پس ہر چیز کے دومزے ہوتے ہیں ایک توا س کا ذاتی مزاہوتا ہے اور دوسرا مزا عادت کے نتیجہ میں ہوتاہے ۔ ہمارے ملک میں لوگ پان میں زردہ کا استعمال کرتے ہیں ۔ لیکن جس نے پہلے زردہ استعمال نہ کیا ہو اگر زردہ کھا لے تو اس کے سر میں چکر آنے لگتاہے مجھے یاد ہے ایک دفعہ نقرس کی تکلیف ہوئی ۔ ایک دوست جو ہندوستا ن کے تھے انہوں نے کہا ۔ آپ پان میں زردہ ڈال کر کھائیں ۔ درد ہٹ جائے گی ۔ میںنے کہا ۔ میں نے تو زردہ کبھی نہیں کھایا ۔ اس لئے اگر میں نے زردہ کھایا تو سرمیں چکر آجائے گا ۔ انہوں نے کہا نہیں آپ استعمال تو کریں ۔ چنانچہ انہوں نے پان میں زردہ ڈال کر مجھے دیا اورمیںنے کھا لیا ۔اس سے درد میں واقعہ میں کچھ کمی ہوگئی چند گھنٹوں کے بعد انہوں نے پھر مجھے پان میں زردہ ڈال کے دیا ۔ غرض دو دن ہم سفر میںرہے اور دونوں دن برابر وہ مجھے پان میں زردہ ڈال کردیتے رہے ۔ دودن کے بعد میں نے دیکھا کہ درد کی تکلیف کم ہونے لگی ہے تب میں نے اس اسے چھوڑ دیا کہ کہیں اسکی عادت ہی نہ پڑجائے غرض بڑی تکلیف دہ اور بد مزہ چیزیں بھی اگر علاج کے طورپر استعمال کی جائیں توا ن کی عادت پڑ جاتی ہے اور اچھی معلوم ہونے لگتی ہیں ۔ اور جب ادنیٰ چیزوں کی عادت پڑ جاتی ہے تو دین کی قربانی کی عاد ت کیوں نہیں پڑ سکتی ۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان کو ایک دفعہ قربانی کیلئے آگے لایا جائے اسکے بعد خود بخود اس کے اندر ذوق پیدا ہوجاتا ہے ۔اور اسے دین کے کاموں میں ایسی لذت آنے لگتی ہے کہ ان کو ایک لمحہ کے لئے بھی چھوڑنا اس کے لئے ناقابل ِبرداشت ہو جاتا ہے ۔اسی طرح ایک انسان کو روٹی نہیں ملتی تو وہ چلاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتا ہے کہ اے خدایا مجھے روٹی دے ۔اسی طرح اگر اسے اشاعت ِدین کی توفیق ملتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کا ممنون ہوتا ہے اور اس کا شکر ادا کرتا ہے ۔اور اگر کسی وقت اسے دین کی خدمت کی توفیق نہیں ملتی تو وہ خدا تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتاہے کہ وہ اپنی کمزوری کو دور کرے اور اس کے اندر دینی خدمات بجا لانے کی زیادہ سے زیادہ طاقت پیدا کرے۔اس طرح قدم بقدم نیکی اس پر آسان ہوتی جاتی ہے اور جنت اس کے قریب ہوتی چلی جاتی ہے لیکن سچائی سے منحرف لوگوں کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ ان کے لئے دینی قربانیاں جوایک مومن کے لئے بالکل آسان ہوتی ہیںآگ کے شعلوں کا سا رنگ اختیار کر لیتی ہیں ۔اور وہ ان سے دور بھاگتے ہیں اور اپنے آپ کو ان سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔گویا مومن اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے قربانیوں کی آگ میں اپنے آپ کو جھونک دیتے ہیں ۔اور وہ آگ ان کے لئے گلزار بن جاتی ہے لیکن ایک منافق اور ایک گمراہ انسان کو وہی آگ جہنم کا ایندھن بنا دیتی ہے ۔کیونکہ اس وقت اس کی بے ایمانی پر جو پڑدہ پڑاہوتا ہے وہ اُٹھ جاتا ہے۔
اسی طرح اُزْلِفَتِ الْجَنَّتُ لِلْمُتَّقِیْنَ میں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ آخری زمانہ میں جنت متقیوں کے قریب کردی جائے گی۔یعنی اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کردے گا ۔کہ مذہبی باتیں لوگوں کی سمجھ میں آنے لگ جائینگی اور سائنس جو مذہب کی مخالفت کررہی ہوگی اس کی مخالفت آپ ہی آپ ختم ہوجائے گی اس طرح متقی لوگوں کے لئے جنت کا حصول آسان ہوجائے گا ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں یہ پیشگوئی پوری ہورہی ہے اور احرارِ یورپ میں سے کچھ تو آہستہ آہستہ اپنے بلند بانگ دعا وی کو چھوڑ رہے ہیں ۔اور کچھ ان باتوں کو جو اس سے قبل انہیں غیر قدرتی نظر آتی تھیں قانون ِقدرت میں شامل کرکے مذہب کی طرف آرہے ہیں گویا دَنَافَتَدَلّٰی کی سی کیفیت پیدا ہورہی ہے ۔یعنی سائینس دان اوپر کی طرف چڑھ رہا ہے ۔اور علماء نے جو مبالغہ کا رنگ مذہب پر چڑھا دیا تھا وہ اتارا جارہا ہے ۔اور اس ح دنیاخدائی باتوں کی تصدیق کے لئے تیار ہورہی ہے اور جنت ان کے قریب جارہی ہے ۔مگر ایسے زمانہ میں بھی جولوگ خدائی ہدایت کو قبول کرنے سے اعراض کرتے ہیں انہیں اعمال کی جواب دہی کے لئے خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا ۔تب ان سے کہا جائے گا کہ اَیْنَمَاکُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ھَلْ یَنْصُرُوْنَکُم اَوْنَنْتَصِرُوْنَ وہ تمہارے معبود کہاں ہیں جن کے آستانہ پر تم سر جھکاتے تھے اور جنہیں اپنا خدا سمجھا کرتے تھے ۔آج بتائوکہ کیا وہ تمہاری کچھ بھی مدد کر سکتے ہیں یا تمہارا بدلہ لینے کی کوئی طاقت رکھتے ہیں ۔جب وہ اپنی آنکھوں سے اس انجام کو دیکھ لیںگے تو وہ بھی اور ان کے معبود بھی اور تمام ابلیسی لشکر بھی دوذخ میں اوندھے منہ گرا دیئے جائیں گے ۔ اور ان کی تمام عزتیں خاک میں مل جائیں گی ۔تب وہ آپس میں جھگڑنا شروع کردیں گے اور وہ لوگ جو دنیا میں اپنے لیڈروں کی اندھی تقلید کرتے رہے اور خدا تعالیٰ کی آواز پر انہو ں نے کان نہ دھرا۔ وہ ان سے کہیں گے کہ خدا کی قسم ہم تو بڑی غلطی میں مبتلا رہے ۔ جب کہ ہم تمہیں رب العالمین کے برابر درجہ دیتے رہے اورہم نے تمہاری باتوں پر کان دھرا مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے جو منادی آیا۔ اس کی آواز کو ہم نے نہ سنا مگر پھر وہ اپنے دلوں کو تسلی دینے کے لئے کہیں گے ۔ اس میں ہمار ا کیا قصور ہے ۔وَمَا اَضَلَّنَآ اِلَّا الْمُجْرِمُوْنَ ہمیں تو ان مجرموں نے ہی صحیح راستہ سے بھٹکایا ہے ۔ اگر یہ لوگ ہماری راہ میں روک بن کر کھڑے نہ ہوجاتے تو آج یہ ہمار ا حشر کیوں ہوتا ۔ یہ توہم سے کہا کرتے تھے کہ ہم تمہارے سب بوجھ اٹھائیں گے اور تمہیں جنت میں پہنچا دیں گے آج یہ حالت ہے کہ فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ وَلَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ۔نہ آج شفاعت کرنے والوں میں سے کوئی ہماری شفاعت کرتا ہے اور نہ کوئی دوست اور غمخوار ہمیں اس مصیبت سے چھڑاتاہے۔
حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ہماری ایک بہن تھی جو کسی پیر کی مرید تھی۔وہ ایک دفعہ قادیان مجھے ملنے کے لئے آئی ۔تو میں نے کہا بہن تم احمدی کیوں نہیں ہوتیں۔ وہ کہنے لگی مجھے احمدی بننے کی کیا ضرورت ہے ۔میں نے فلاں پیر صاحب کی بیعت کرلی ہے اور انہوں نے مجھے کہہ دیا ہے کہ اب تمہیں کسی نیکی کی ضرورت نہیں جو جی میں آئے کرو ۔ تمہارے سب گناہ ہم نے اٹھا لئے ۔ میں نے کہا۔ اب جب پیر صاحب نے ملو گی تو ان سے پوچھنا کہ قیامت کے دن جب ایک ایک شخص کو گناہوں کی وجہ سے جوتیا ں پڑنی ہیں تو کبھی آپ نے یہ بھی سوچاکہ آپ جنہوں نے اپنے سب مریدوں کے گناہ اٹھا لئے ہیں آپ کو کتنی جوتیا ں پڑیں گی ۔ اچھا میں یہ بات ان سے ضرور دریافت کروں گی ۔ چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد جب وہ دوبارہ آپ سے ملنے کے لئے آئی تو آپ نے پوچھا۔کہ بہن پیر صاحب سے وہ بات پوچھی تھی ۔وہ کہنے لگی ۔ ہاں میں نے پوچھی تھی مگر وہ تو انہوں نے فوراً حل کردی ۔ میں کہا کس طرح ؟ کہنے لگی ۔جب میں نے یہ سوال کیا تو پیر صاحب کہنے لگے ۔ دیکھو جب فرشتے تم سے پوچھیںکہ تم نے فلاں فلاں گناہ کیوں کئے توکہہ دینا کہ مجھے اس کا کچھ پتہ نہیں۔ یہ پیر صاحب کھڑے ہیں ان سے پوچھو ۔ اس پر وہ تمہیں چھوڑ دیں گے ۔ تم اطمینان سے جنت میں چلی جانا ۔ میں نے کہا۔ پیر صاحب! پھر آپ کا کیا بنیگا کہنے لگے ۔جب وہ مجھ سے پوچھیں گے تو میں اپنی لال لال آنکھیں نکال کر کہوں گا کہ بلا میں ہمارے نانا امام حسین ؓنے جو قربانی کی تھی کیا وہ کافی نہیں تھی کہ آج پھر ہمیں تنگ کیا جاتا ہے اور کہاجاتا ہے کہ بتائو تم نے کیا کیا ؟اس پر فرشتے شرمندہ ہوکر ایک طرف ہوجائیں گے اورہم ڈگر ڈگر کرتے ہوئے جنت میں چلے جائیں گے ۔
اس طرح دنیا میں روزانہ ہمیں یہ نظارہ نظرآتا ہے کہ لوگ اپنے دوستوں کی خاطر جھوٹ بولنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ وہ ان کیلئے ہر قسم کے دھوکا اور فریب اور جعلسازی سے کام لینے کے لئے تیا رہوجاتے ہیں اور خدا اور اس کے رسول کے احکام کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں ۔ مگر قیامت کے دن نہ کسی کی دوستی کام آئے گی اور نہ اپنے سروں پر گناہوںکا بوجھ اٹھا لینے کا وعدہ کرنے والے کسی کو جہنم سے بچا سکیں گے بلکہ انہیں حسرت اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ اگر ہم یہ طاقت ہوتی کہ ہم دوبارہ دنیا میں لوٹ کر جاسکتے تو ہم تلافی مافات کرنے کیلئے تیارہیں مگر اسوقت ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکے گی ۔ کیونکہ اس وقت عمل کا دروازہ بند ہوچکا ہوگا ۔ فرماتا ہے ۔ ابراہیمؑ کے اس واقعہ میں بھی ایک بہت بڑا نشان مخفی ہے کہ کس طرح ابراہیمؑ نے انتہائی کمزوری اور ضعف کی حالت میں بتوں کے خلاف آواز بلند کی ۔ کس طرح اس کی قوم نے مخالفت کی اور آخر اسے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا۔ مگر آخر ابراہیم ؑ ہی فاتح ہوا۔ اور بت اس کی قوم کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے ۔مگر اتنا بڑا نشان دیکھنے کے باوجود ابراہیم علیہ السلام کی قوم میں سے اکثر لوگ دینوی لذات میں ہی منہمک رہے۔ اور انہیں آپ پر ایمان لانے کی سعادت حاصل نہ ہوئی ۔لیکن فرماتا ہے۔ اِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمْ۔ تیرا رب یقینا بڑا غالب اور باربار رحم کرنے والا ہے۔ یعنی بے شک ابراہیم علیہ السلام کی قوم کی اکثریت اس پر ایمان نہیں لائی مگر تیرا رب بڑا غالب اور مہربان ہے وہ ایک دن تیری قوم کی اکثریت کو تجھ پر ایمان لانے کی سعادت عطا فرمادے گا ۔اور انہیں ایک لمبے عرصہ تک اپنے انعامات سے متمتع فرماتا چلا جائے گا ۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد ایسا ہی ہوا ۔ آپؐ کی ساری قوم آپ پر ایما ن لے آئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس ایمان کی برکت سے انہیں سینکڑوں سال تک اپنے انعامات سے نوازا ۔اور انہیں ایک لمبا دور حکومت عطا فرمایا ۔
کَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ الْمُرْسَلِیْنَ٭
نوح ؑ کی قوم نے (اپنے)رسولوں کا انکار کیا ۔
اِذْ قَالَ لَھُمْ اَخُوْھُمْ نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ٭
جب کہ ان سے انکے بھائی نوحؑ نے کہا ۔ کیا تم تقویٰ نہیںکرتے ؟
اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ٭
میں تمہاری طرف ایک امانت دار پیغامبر ہوکر آیا ہوں ۔
فَاتَّقُوْ االلّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ٭
پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔
وَمَا ٓ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۔ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ٭
اور میں اس (خدمت کے سلسلہ) میں کوئی اجر نہیں مانگتا ۔میرا بدلہ تو رب العالمین (خدا)کے ذمہ ہے ۔
فَاتَّقُوْ االلّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ٭
پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میر اطاعت کرو۔۲۰؎
۲۰؎ تفسیر:۔فرماتا ہے ۔ نوحؑ کی قوم نے بھی نوحؑ کی جو کہ اس وقت سب رسولوں کا قائم مقام تھا تکذیب کی ۔نوحؑ نے ان کو سمجھا یا مگر وہ نہ مانے اور یہ بھی بتایا کہ آخر میرے سمجھانے کی غرض کیا ہے۔ میں تم سے کچھ مانگتا تو نہیں۔میری امید اور میرا توکل تو صرف رب العالمین خدا پر ہے ۔ پس اللہ کا تقویٰ اختیا ر کرو اور میری اطاعت کرو۔
اَطِیْعُوْنَ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی اطاعت اور شریعت پر عمل جُدا جُدا چیزیں ہیں ۔ اہلِ قرآن کہا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف قرآن کی اطاعت کا حکم ہے ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم نہیں۔ مگر حضرت نوح علیہ السلام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ادنیٰ نبی تھے کہتے ہیں۔ وَاَطِیْعُوْنِ تم میری ذات کی اطاعت بھی کرو ۔ تب تمہارا تقویٰ مکمل ہوگا ۔ کیونکہ خدائی تعلق کا پہلا زینہ خدا تعالیٰ کے نبیوں سے تعلق پیدا کرنا ہوتا ہے جس طرح تمہارے لئے یہ ناممکن ہے کہ تم چھلانگ لگا کر چھت پر چڑھ سکو۔ اسی طرح تمہارے لئے یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف راہنمائی کرنے والے وجودوںکو چھوڑ کر تم خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرسکو مگر جس طرح کبھی کبھا ر ایسا بھی ہوتاہے کہ چھت پر بیٹھا ہوا انسان جب دیکھتا ہے کہ کسی پر شیر یا ڈاکو نے حملہ کردیا ہے تو وہ رسی گرا کر اس کو اوپر کھینچ لیتا ہے ۔اسی طرح کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ۔کہ خداتعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ کوئی شخص اس سے ملنے کی سچی تڑپ رکھتا ہے لیکن وہ ایسے ماحول میں ہے کہ اسے انبیاء کی راہنمائی میسر نہیں آسکتی تو وہ خود اس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ۔ مگر ایسا بہت شاذ ہوتا ہے اور شاذ پرکسی قانون کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی ۔ عام قانون یہی ہے کہ جو لوگ خدا نما لوگ ہوتے ہیں انہی کے ذریعہ انسان کو روحانی ترقی ملتی ہے اور اس ترقی کے حصول کا ایک ہی ذریعہ ہے انسان دینوی محبتوںکو سرد کرکے ان کی محبت کو اپنے اوپر غالب کرلے ۔ جب وہ انکی محبت کو غالب کرلیتا ہے تو انکی اطاعت کرنا اور ان کا نمونہ اختیارکرنا اس کیلئے آسان ہوجاتا ہے ۔ اس وقت وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی غیر ہے جس کی میں اقتداء کررہا ہوں ۔ بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ میر اباپ ہے اور اس کا خون میری رگوں میں دوڑ رہا ہے ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اسی نکتہ کی طرف اپنی قوم کو توجہ دلائی کہ اگر تم نجات حاصل کرنا چاہتے ہوتو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیارکرو۔ اور میری اطاعت کا جؤااپنی گردنوں پر رکھو کیونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے تمہاری ہدایت کیلئے مبعوث فرمایا ہے ۔
قَالُوْآ اَنُوْمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الْاَرْذَلُوْنَ٭
انہوں (یعنی کافروں) نے کہا کہ کیا ہم تجھ پر ایمان لائیں حالانکہ نہایت حقیر لوگ تیرے متبع ہوئے ہیں۔
قَالَ وَمَا عِلْمِیْ بِمَا کَانُوْایَعْمَلُوْنَ٭
اُ س نے کہا مجھے کہاں سے علم آیا ہے کہ ان کے اندر ونی اعمال کیسے ہیں۔
اِنْ حِسَابُھُمْ اِلَّا عَلٰی رَبِّیْ لَوْ تَشْعُرُوْنَ٭
ان کا حساب کرنا تو میرے رب کے ذمہ ہے ۔
وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الْمُوْمِنِیْنَ٭
اگر تم سمجھو ۔اور جو شخص مومن ہوکر میرے پاس آتا ہے میرا کام نہیں کہ میں اسے دھتکاروں ۔
اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ٭
میں تو صرف ایک کھلا کھلا ہوشیا ر کرنیوالا انسان ہوں۔ ۲۱؎
۲۱؎ تفسیر:۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء پر ہمیشہ یہ اعتراض ہوتا چلا آیا ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ہوا کہ اس کے ماننے والے تو ادنیٰ لوگ ہیں ہم اس کی بات کس طرح مان لیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کیا ہی اچھا جواب دیا کہ ہدایت کے قابل سمجھا تو ہدایت دے دی ۔ پس جب اس کے نزدیک ان کے عمل اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے سے ہیں تو میں ان کو کس طرح دھتکار سکتا ہوں ۔آخر ان کا حساب خداتعالیٰ ذمہ ہے ۔میرے ذمہ تونہیں ۔کاش تم عقل سے کام لو ۔اور جس کو خدا تعالیٰ مومن بنا دے ۔اس کی تحقیر نہ کرو ۔اور اگر تم تحقیر کروبھی تو میں بہر حال اسے دھتکار نہیں سکتا کیونکہ اس کو خدا نے میرے حوالہ کیا ہے ۔میرا کام تو یہ ہے کہ میں لوگوں کو بری باتوں سے روکوں ۔اس کے بعد جب خداتعالیٰ کسی کو ہدایت دے دے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ بری باتوں سے رک گیا ہے اور نہایت عزت والا انسان بن گیا ہے ۔اس کے بعد وہی معززہے تم لوگ معزز نہیں ۔اسلامی تاریخ میں اس کے متعلق ایک بڑا اچھا واقعہ آتا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ حج کے لئے تشریف لے گئے تو حج کے عید کے دن لوگ آپ کو ملنے کے لئے آئے ۔شروع میں مکہ کے رؤساء اور رئیسوں کے بیٹے آئے ۔اس کے بعد کچھ غلام آ ئے جو ابتدائے زمانہ میںاسلام لائے تھے۔اُن کے آنے پر حضرت عمر نے رؤساء کو پرے سرکنے کے لئے کہا اور اپنے پاس غلاموں کو بٹھا لیا ۔اس کے بعد کچھ اور نو مسلم غلام آئے۔حضرت ر نے ان کو پھر اپنے پاس بٹھا لیا ۔اور رؤساء کو پَرے سرکنے کا اشارہ کیا ۔اسی طرح متواتر ہوتا رہا۔آخر شر مندہ ہو کر رؤساء کے لڑکے اُٹھ کھڑے اور باہر جاکر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ دیکھ لیا آج تمہاری کتنی بے عزتی ہوئی ہے ۔اس پر ان میں ایک ہوشیار لڑکا بولا کہ اس میں قصور کس کا ہے ۔یہ غلام جن کو تم ذلیل سمجھتے ہو سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھے۔اور انہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی ترقی کے لئے خرچ کی دیں جبکہ تمہارے باپ دادا اسلامؔاور محمدؔرسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی دشمنی کررہے تھے۔اب اسلام کی حکومت آئی ہے تو عزت انہی کو ملے گی ۔ہم کو نہیں ملے ۔باقی ساتھیوں نے کہا ۔تو پھر اس کا علاج کیا ہے ۔اس ذہین لڑکے نے کہا ۔چلو اس کا علاج حضرت عمر ؓسے ہی پوچھیں چنانچہ وہ پھرجمع ہو کر حضرت عمرؓکے پاس گئے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھ کر بات سمجھ لی۔اور کہا۔اے نوجوانو۔مجھے معلوم ہے کہ تمہاری مکّہ میں کیا حیثیت ہے ۔مگر میں مجبور تھا۔یہ لوگ جن کو میں نے آگے بٹھایا ۔محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم بھی ان کو آگے بٹھایا کرتے تھے ۔اب میں ان کے درجہ میں فرق کس طرح کرسکتا تھا ۔ان نوجوانوں نے کہا ۔پھر اس کا کوئی علاج بھی ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ان کے خاندانوں کی عزت کو جانتے تھے اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے اپنا ہاتھ شمال کی طرف اونچا کردیا۔جس کا مطلب یہ تھا کہ اب شام میں عیسائیوں سے جنگ ہورہی ہے۔وہاں چلے جاؤاور اپنے باپ دادا کے گناہوں کا کفارہ اداکرو۔چنانچہ وہ نوجوان خاموشی سے اُٹھ کر چلے گئے اور اسی وقت اونٹوں یا گھوڑوں پر سوار ہوکر شام چلے گئے اور اسلامی لشکر میں مل گئے اور وہیں کفار سے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے ان میں سے کوئی بھی لوٹ کر نہ آیا۔
سو عزت وہی ہوتی ہے جو خدا دے مال و دولت سے عزت نہیں ملتی ۔کافروں کا نبیوں پر ایمان لانے والوں کو اس لئے ذلیل سمجھنا کہ وہ غریب ہیں اوں درجہ کی حماقت ہے جو نبی پر پہلے ایمان لاتے ہیں وہی سب سے زیادہ معزز ہوتے ہیں۔رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ابو بکرؓ۔علیؓ۔زیدؓایمان لائے ۔مکہ کے صنادید کی موجودگی میں ابوبکر ؓ کو مسلمانوں نے خلیفہ تسلیم کیا ۔جن پر ان کے باپ نے بھی تعجب کیا ۔مگر ابوجہلؔ۔عتبہؔ۔اور شیبہؔکی عزت توابو بکرؓاورعلیؓکی جوتیوں کے برابرا بھی نہیں ۔یہی بات حضرت نوح ؑنے اپنے مخالفین کے سامنے پیش کی اور کہا کہ وَمَا عِلْمِیْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔بیشک یہ تمہیں حقیر نظر آتے ہیں ۔ مگر مجھے کیا معلوم کہ ان کی وہ کونسی چُھپی نیکیاں تھیں جن کی وجہ سے خداتعالیٰ نے ان کو یہ شرف بخشا کہ انہوں نے اپنے زمانہ کے نبی کو قبول کرلیا۔ اور تمہاری وہ کون سی بداعمالیاں تھیں جو تمہارے راہ میں حائل ہوگئیں اورجنہوں نے تم سے نورِ بصیرت چھین لیا اور تم اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے سے محروم رہ گئے ۔ اور جب انکی نیکیوں کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ نے ان پر اتنا بڑا انعام نازل کیا ہے کہ انہیں ایک نبی کو ماننے کی سعادت حاصل ہوگئی ہے تو یہ لوگ ذلیل کس طرح ہوئے ۔ ذلیل تو وہ لوگ ہیں جن کی بداعمالیوں نے انہیں اللہ تعالیٰ کے مامور کی شناخت سے محروم کردیا ۔ پھر فرمایا اِنْ حِسَابُھُمْ اِلَّا عَلٰی رَبِّیْ لَوْ تَشْعُرُوْنَ۔ بیشک یہ آج غریب اور کنگال ہیں ۔ کوئی مال اور جائداد ان کے پاس نہیں مگر اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو کبھی ضائع نہیں کرے گا اور وہ ایک دن انہیںبہت بڑی ترقی عطا کرے گا۔ کاش تم شعور سے کام لیتے ۔ اور اس قسم کے بیہودہ عذرات سے کام لے کے خدائی ہدایت کو ٹھکرانے کے لئے تیا ر نہ ہوجاتے ۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اس مضمون کو مختلف مقامات میں مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے ۔ کسی جگہ تو فرمتا ہے کہ ہمارے مخالف شعور سے کام نہیں لیتے اور کسی جگہ فرماتا ہے کہ ہمارے مخالف علم سے کام نہیں لیتے ۔ شعور اس حِس کو کہتے ہیں جو انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور علم اس حِسّ کو کہتے ہیں جو باہر سے آتی ہے ۔ خواہ سن کر یا دیکھ کر یا چھو کر یا چکھ کر ۔ مثلاً ہم چلے جارہے ہوتے ہیں کہ ہمیں ایک جنگل نظر آتا ہے جسے دیکھ کر ہمارا علم بڑھتا ہے ۔ یہ علم باہر سے پیدا ہوتا ہے اندر سے نہیں ۔ یا کسی شخص کو کوئی چیز چکھ کر جس ذائقہ کا پتہ لگتا ہے وہ علم کہلاتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میںبعض دفعہ ہم بیٹھے بیٹھے محسوس کرتے ہیں کہ ہماری کیا ضرورتیں ہیں ۔ ہماری قوم کی کیا ضرورتیں ہیں۔ ہمارے بچوں کی کیا ضرورتیں ہیں۔ ہمارے خاندان کی کیا ضرورتیں ہیں۔ یہ چیز جب قدرتی طور پر آپ ہی آپ پید ا ہو تو اسے شعور کہتے ہیں ۔ گویا انسان جب ان جبلی طاقتوںکو جو اللہ تعالیٰ نے خو د اس کے اندر پیدا کی ہیں محسوس کرکے اپنے لئے ایک نیک راہ تجویز کرتا ہے ۔ تو اسے شعور کہتے ہیں اور جب محنت کرکے انسان جب یہ سوچتا ہے کہ فلاں چیز میرے لئے فائدہ مند ہے یا نہیںتو اس کام کا نام فکر ؔ ہوتاہے ۔ قرآن کریم نے اس کی طرف بھی بار بار توجہ دلائی ہے کیوں کہ یہ قوت بیرونی علم سے نتائج اخذ کرنے میں مدد دیتی ہے اسی کے ایک پہلو کا نام عقل بھی ہے۔ عقل اس قوت کو کہتے ہیں جو انسان کو علم ؔ ۔فکرؔ اور شعورؔ کے مطابق کا م کرنے کی توفیق بخشتی ہے ۔ عقل ؔ کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ انسان سوچتا اور فیصلہ کرتا ہے کہ یہ چیز میرے لئے مضر ہے یا مفید ۔ جب وہ فیصلہ کرے کہ فلاں چیز میرے لئے مضر ہے اور جب یہ حِسّ اسے بری چیز سے روک دے تو اسے عقل کہتے ہیں یعنی بدی کی طرف لیجانے والی چیز سے روکنے والی عقل ہے ۔اسی کی طرف قرآن کریم نے تفقّہ ؔ کے لفظ سے بھی توجہ دلائی ہے ۔ تفقّہؔ کے معنے ہوتے ہیں ۔ کسی چیز کی باریکی کو پا لینا ۔ فرماتا ہے تمہارے سامنے کئے چیزیںآتی ہیں ۔مگر تمہیں یہ نظر نہیں آتا کہ ان سے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یوں دیکھنے میں ایک مرغا ۔ ایک کتا اور ایک بلی انسان کے شریک ہیں پھر تمہارے دیکھنے اور انکے دیکھنے میں کیا فرق ہے ۔ وہ فرق یہی ہے کہ تم ایک چیز کو دیکھ کر نتیجہ نکال لیتے ہو ۔ لیکن مرغا اور بلی اور کتا اسے دیکھ کر کوئی نتیجہ نہیں نکال سکتا۔ بلی اور کتا اگر ایک درخت دیکھتے ہیں تو انہیں اتنا ہی نظر آتا ہے کہ ایک لمبا سا ڈنڈا کھڑا ہے ۔ لیکن انسان صرف یہی فیصلہ نہیں کرتا کہ یہ ایک درخت ہے بلکہ یہ بھی فیصلہ کرتاہے کہ اسے پھل کیا لگتا ہے ۔ کس موسم میں لگتا ہے اور کس موسم میں نہیں لگتا ۔وہ پھل غذا کے کام آتا ہے یا دوا کے کام آتا ہے یا اس درخت سے محض سائے کا کام لیا جاسکتا ہے۔لیکن بکری ان باتوں کو نہیں جانتی ۔گیدڑ اتنا ہی جانتا ہے کتّا اتنا ہی جانتا ہے کہ دھوپ لگے تو تو درخت کے سائے میں بیٹھ جاؤ لیکن انسان کسی درخت کو دیکھ کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کی لکڑی مضبوط ہے اور وہ اسے کاٹ کر دروازے بنا لیتا ہے ۔کسی کے متعلق سمجھتا ہے کہ یہ لکڑی بوجھ زیادہ اُٹھا سکتی ہے اور اس کے وہ شہتیر اور بالے بنا لیتا ہے ۔کسی کے متعلق سمجھتا ہے کہ اس کی لکڑی پانی کو زیادہ برداشت کرنے والی ہے اور وہ اس لکڑی کو ایسے مقامات پر استعمال کرتا ہے جہاں بارشیں زیادہ ہوں ۔کسی کے متعلق سمجھتا ہے کہ یہ محض جلانے کے کام آسکتی ہے چنانچہ وہ اس کا ایندھن بنا لیتا ہے یا اسے کوئلہ کے لئے استعمال کرتا ہے ۔غرض لکڑی وہی ہے ۔جانور بھی اس کو دیکھتا ہے اور انسان بھی اس کو دیکھتا ہے ۔انسان اس کے کئی کئی استعمال نکال لیتا ہے لیکن جانور آدمؑ کے وقت سے صرف سایہ کے نیچے بیٹھنا جانتاہے اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا ہے۔
پھر قرآن کریم نے ایک اور طرح بھی اس طرف توجہ دلائی ہے اور اس کا نام استنباط رکھا ہے ۔استنباط کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ مختلف واقعات کو لے کر انسان ان سے ایک نتیجہ نکالتاہے ۔گویا وہ اپنی قوتِ فکر سے ایک نئی چیز اُگاتا ہے ۔ایک شخص کو زیدؔنظر آتا ہے بکرؔ نظر آتا ہے عمر ؔنظر آتا ہے اور پھر وہ دیکھتا ہے کہ یہ سارے ایک پارٹی کے ہیں اور مختلف راستوں اور مختلف مقامات سے ایک جگہ جمع ہوئے ہیں۔تو وہ ان کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکال لیتا ہے کہ انہوں نے ضرور کوئی سکیم بنائی تھی جس کے ماتحت اکٹھے ہوئے ہیں ۔لیکن بکری اور کتا وغیرہ یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے وہ یہی دیکھیں گے کہ زیدؔآتا سے یا بکرؔ اور عمر ؔاور خالد ؔ آیا ہے ۔لیکن انسان یہ دیکھ کر ایک پار ٹی کے آدمی مختلف راستوں سے ایک مقام پر اکٹھے ہوئے سمجھ جاتا ہے کہ انہوں نے پہلے سے کوئی فیصلہ کیا ہؤا تھا۔یادشمن کاروئی کرتاہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ مجھے کس طرح اسے زک دینی چاہئیے ۔
غرض قرآن کریم نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ تم شعور سے کام لو ۔تم علم سے کام لو۔تم عقل سے کام لو۔تم تفقّہ سے کام لو۔تم استنباط کی قوت سے کام لو اور وہ بار بار دشمنوں کو توجہ دلاتا ہے کہ تمہیں کیا ہوا کہ تم شعور سے کام نہیں لیتے ۔تم علم سے کام نہیں لیتے ۔تم فکر سے کام نہیں لیتے ۔تم عقل سے کام نہیںلیتے ۔تم تفقّہ سے کام نہیں لیتے ۔تم استنباط سے کام نہیں لیتے۔چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دشمنوں میں یہی فرق بتایا ہے ۔فرماتاہے۔قُلْ ھٰذِہِ سَبِیْلِیْٓ اَْعُوْ ٓ ااِلَی اللہ ِعَلٰی بَصِیْرَۃٍاَنَا وَ مَنِ ا تَّبَعَنِْی (سورۃ یوسف آیت ۱۰۹)اے محمدرسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم تو اپنے مخالفوں سے کہہ دے کہ تمہارے اور میرے درمیان ایک ہی فرق ہے تم بھی ایک ہی عقیدہ پر ایمان رکھتے ہو اور میں بھی ایک ہی عقیدہ پر ایمان رکھتا ہوں۔کوئی کہہ سکتا ہے کہ جس طرح محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا ایک عقید ہ ہے اسی طرح ہمارا ایک عقیدہ ہے اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ السلام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے آپ کو سچّا کہیں تو ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے۔ہم کیوںیہ سمجھیں کہ جو جو بات محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں وہ ٹھیک ہے اور جو ان کے دشمن کہتے ہیں وہ غلط ہے۔بہر حال مکہ کا ایک آدمی کہہ سکتا تھا آپ جو کہتے ہیں کہ ہماری بات مانی جائے ۔اس کی وجہ کیا ہے اور کیوں ہم آپ کی باتوںکو تسلیم کریں ۔اس کے کئی جواب ہوسکتے تھے جن میں سے ایک جواب قرآن کریم نے دیا ہے کہ عَلٰی بَصِیْرَۃٍاَنَا وَ مَنِ ا تَّبَعَنِْی ۔تو مکہ والوں سے کہہ دے کہ تمہارے جھوٹے ہونے اور میرے سچے ہونے کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ میں اور میرے ساتھی ہر بات کو دلیل سے مانتے ہیں اور تم بے دلیل مانتے ہو۔تمہارا بلا دلیل ماننا بتاتا ہے کہ تم نے سوچا نہیں اور میرا بادلیل ماننا بتاتا ہے کہ میں نے سوچ کر مانا ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جو سوچ کر مانے گا وہ زیادہ حق پر ہوگا بہ نسبت اس شخص کے جو بلا سوچے سمجھے کسی بات کو تسلیم کرلیتا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ بلا سوچے سمجھے کسی حق بات کو ہی کیوں نہ مان لے۔کیونکہ کہ خواہ وہ حق پر ہو اللہ تعالیٰ اس سے یہ کہے گا کہ تمہیں کیونک پتہ لگا تھا کہ یہ سچ ہے تم نے تو بلا سوچے سمجھے ہی یہ بات مانی تھی ۔لیکن فرض کرو ۔ایک شخص غور کرکے ایک نتیجہ پر پہنچا ہو تو خواہ وہ غلط ہی ہو ۔لیکن چونکہ اس نے صحیح جدو جہد سے کام لیا ہو گا اللہ تعالیٰ کے حضور وہ ثواب کا مستحق ہوگا ۔کیونکہ اپنی طرف سے اس نے صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک شخص جو سوچ کر کوئی فیصلہ کرتا ہے تو خواہ وہ غلط ہی فیصلہ ہی دے تب بھی وہ ثواب کا مستحق ہوگا۔بیشک فیصلہ غلط ہو گا۔ لیکن اس نے سوچ کر اپنی طرف سے پورا زور لگانے کے بعد دیا ہوگا۔اس لئے خواہ وہ فیصلہ کرنے میں غلطی کرجائے۔ اللہ تعالیٰ اس کے متعلق یہی کہے گا کہ اس نے اپنا فرض کو ادا کردیا۔اس لئے وہ انعام کا مستحق ہو گا سزا کا نہیں۔اسی طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص جس پر حجّت تمام نہیں ہوتی وہ دوزخ میں نہیں ڈالاجائے گا ۔کیونکہ اس کے لئے موقع ہی نہیں تھا کہ وہ سوچتا اور غور کرتا۔اسی طرح آپ نے فرمایا کہ دیوانہ شخص دوزخ میں نہیں ڈالا جائے گا کیونکہ وہ معذور تھا اور سوچ نہیں سکتا تھا۔ اسی طرح آپ نے فرمایا کہ بچے جو چھوٹی عمر میں مرجائیں گے یا بڈھا جس کی عقل ماری گئی یا پہاڑوں پر رہنے والا شخص جس تک میری آواز نہیں پہنچی وہ دوزخ میں نہیں ڈالے جائیں گیااس لئے کہ ان کے لئے سوچنے کاموقعہ ہی نہیں تھا ۔پس سزا کا مستحق بھی وہی ہوتا ہے جسے سوچنے کا موقع ملے جو سوچ سمجھ کر کسی سچائی کو قبول کرے ۔رسمی اور آبائی مذ ہب یا رسمی اور آبائی طریقہ خداتعالیٰ کو خوش کر نے کا نہیں ہوسکتا چنانچہ ظاہری طور پر بھی ہمیں یہی قانون نظر آتا ہے۔رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو ۔آپ نے اپنی قو م کو یہی نصیحت کی کہ ہر بات پر غور کرنے کی عادت ڈالو۔اور صحابہ ؓکو بھی آپ یہی نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ سوچو اورسمجھو اور پھر کسی بات کو مانو ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علمی طور پر صحابہؓ کو اتنی فضیلت حاصل ہوگئی اُن کا ان ْپڑھ بھی لوگوں کے سامنے اس طرح دلائل دیتا کہ مخالفوں کے لئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا تھا کہ وہ ڈنڈے کے زور سے اپنی بات منوانے کی کوشش کریںکیونکہ وہ جانتے تھے کہ دلائل کے میدان میں ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔مثلاً شرک کی تعلیم ہے ۔ایک مکہ کا رہنے والا مشرک شرک کی یہ دلیل دیتا تھا کہ میرے ماں باپ نے ایسا کیا ہے ۔کیا وہ جھوٹے تھے۔کیا ان میں عقل نہیں تھی ۔کیا ان میں تمیز نہیں تھی ۔سیدھی بات یہ ہے کہ جب وہ کہیں گے کہ یہ لوگ ہمارے ماں باپ کو جاہل بتاتے ہیں تو نوجوانو ںکو جوش آجائے گااور وہ کہیں گے۔اچھایہ ہمارے ماں باپ کو جھوٹا کہتے ہیں اس طرح وہ مقابلہ کے لئے کھڑے ہو جائیں گے لیکن رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ دلیل دی جاتی تھی کہ تم غور کرکے دیکھ لو۔بتوںمیں کوئی بھی طاقت اور قوت ہے جب ان میں کوئی بھی طاقت نہیں توان کی پرستش کس لئے کی جاتی ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ مکھّی بھی اگر کھانا اُٹھاکر لے جائے تو یہ بُت اس سے چھین نہیں سکتے جب یہ اس قدر کمزور اوربے بس ہیں تو انہیں خدائی کا مقام دینا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔اب یہ ظاہر ہے کہ جو شخص دلیل سے کسی بات کو تسلیم کرے گا اس کا مقابلہ وہ شخص نہیں کرسکتا جو بلادلیل اور بلا سوچے سمجھے ماننے کا عادی ہو بے دلیل ماننے والا بہر حال کسی نہ کسی جگہ جا کر رہ جاتا ہے اسی لئے قرآن کریم میں بار بار آتا ہے کہ تفقّہ ؔسے کام لو عقلؔسے کام لو ۔فکرؔ سے کام لو۔شعورؔسے کام لو۔رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم بھی جب کسی پر خوش ہوتے تو اس کے لئے یہی دعا فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس کو سوچنے کی عادت ڈالے ۔حضرت ابنِ عباسؓکہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے اندر تشریف لے گئے ۔میں لوٹا بھر باہر کھڑا رہا ۔جب آپ اندر سے نکلے ۔تو میں نے آگے بڑھ کر پانی پیش کیا اور وضو کرایا ۔رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم میرے اس فعل سے بہت خوش ہوئے اور آپؐنے فرمایا اَلَّھُمَّ فَقِّھْہُ فِیْ ا لدِّیْنِ۔اے لوگو!تو اسے دین کو سوچنے اور مسائل میں غور کرنے کی توفیق بخش۔اور یہی اصل کام ہو تا ہے کہ انسان سوچے اور پھر کسی نتیجہ پر پہنچے ۔یونہی کسی بات کے پیچھے چل پڑنا اور غورو فکر سے کام نہ لیناانسان کو اس کے اعلیٰ مقام سے گرادیتا ہے ۔اسلام کی اسی تعلیم کا نتیجہ یہ تھا کہ مسلمان جہاں بھی جاتے لوگ حیران رہ جاتے کہ ان لوگوں کا بچہ بچہ علوم جانتا ہے اور بڑی بادلائل گفتگو کرتا ہے۔ اورپھر یہ سوچنے کا ہی نتیجہ تھا کہ ان کے ایمانوں میں تزلزل واقع نہیں ہوتا تھا ۔ کیونکہ وہ جو کچھ مانتے تھے ۔ سمجھ کر مانتے تھے سوچ کرمانتے تھے اور ساری تشریحات کو مدِ نظر رکھ کر مانتے تھے اور پھر یہی وجہ تھی کہ مسلمان جان دیتا تھا تو لوگ حیران رہ جاتے تھے کہ یہ کس دلیری اور جرأت کے ساتھ اپنی جان دے رہے ہیں ۔ ایک صحابیؓ کہتے ہیں کہ میرے ایمان لانے کی وجہ ہی یہی تھی کہ میں نے ایک مسلمان کو اس جرأت کے ساتھ جان دیتے دیکھا کہ میں حیران رہ گیا ۔واقعہ یہ ہوا کہ دشمنوں نے مسلمانوں کی ایک جماعت دھوکا سے گھیر لی ۔ اورپھر مزید دھوکا انہوں نے یہ دیا کہ انہوں نے ان گھیرے ہوئے مسلمانوں سے یہ کہا کہ اگر تم پہاڑی سے نیچے اتر آئو تو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے ۔جب وہ نیچے آئے تو انہوں نے حملہ کرکے اکثر کو شہید کردیا ۔ وہ شخص جس واقعہ کو دیکھنے کے بعد ایمان لایا وہ کہتاہے کہ میں کسی اور قبیلہ کا تھا ۔ لیکن ہم سمجھتے تھے کہ یہ مسلمان لوگ بے دین ہیںاورعربوں کے خلاف جذبات رکھتے ہیں ۔ اور چونکہ ہمارے کانوں میں یہ باربار باتیں ڈالی جاتی تھیں کہ مسلمان عربوں کے دشمن ہیں ۔ اس لئے میں بھی ان لوگوں کیساتھ آکر شامل ہوگیا۔اور مسلمانوں کا میں مقابلہ کیا اس وقت میں نے دیکھا کہ ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے ایک مسلمان کے سینہ میں نیزہ مارا۔ جوں ہی وہ نیزہ اس کے سینے سے پار گیا بے اختیار ا س کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ خدائے کعبہ کی قسم! آج میں نے اپنا مقصد پالیا ۔او ر یہ کہتے ہوئے وہ گرا او رشہید ہوگیا۔ میں نے یہ الفاظ سنے ۔ تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی ۔ میں نے اپنے دل میں کہا۔ یہ کیابات ہے ۔ کیا یہ شخص پاگل تھا کہ دشمن اسے نیزہ مارتا ہے ۔ اور نیزہ بھی ایسی حالت میں مارتا ہے جب یہ اپنے وطن سے سو ڈیڑھ سو میل کے فاصلہ پر ہے ۔ اس وقت بجائے اس کے کہ یہ کہے ہائے اماں ! بجائے اس کے کہ یہ کہے ہائے ابا! بجائے اس کے کہ یہ کہے ہائے میری بیوی! وہ کہتا ہے تویہ کہ خدائے کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ یہ کامیاب کہاں ہوا؟ یہ تو مرگیا تھا پھر اس نے یہ الفاظ کیوں کہے ۔ معلوم ہوتا ہے یہ شخص پاگل تھا ۔ یہ نہیں جانتا تھا کہ کامیابی کیا چیز ہے اور ناکامی کیا چیز؟ چنانچہ میں لڑائی کے بعد میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ کیا یہ کوئی پاگل تھا کہ جب اس پر حملہ کیا گیابجائے اس کے کہ یہ کسی تکلیف کا اظہار کرتا اس نے کہا تو یہ کہ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا ۔وہ کہنے لگا۔مسلمان ایسے ہی ہوتے ہیں۔ وہ مرنے میں کامیابی سمجھتے ہیں ۔ جب اس نے یہ بات کہی تو میرے دل پر اس کا گہرا اثر ہو ا اور میں نے کہا ۔ تب ضرور کوئی بات ہے ورنہ اس طرح جان دینے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوسکتا ۔ چنانچہ ایک میں چوری چھپے مدینہ گیا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں ۔تو میرا دل کھل گیا اور میں نے سمجھا کہ اصل میں یہی سچائی ہے۔ تب میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ مسلمان کیوں جان دیتا ہے۔ مسلمان اس لئے جان دیتا ہے کہ اسے روشنی نظرآجاتی ہے ۔ اور جسے روشنی نظر آجائے اس کا مقابلہ وہ شخص کہاں کرسکتا ہے جسے تاریکی ہی تاریکی دکھائی دے ۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کریم نے باربار مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ تم سوچو اور سمجھو ۔ درحقیقت بغیر اس کے ہمیں کسی دوسری قوم پر فضیلت حاصل نہیں ہوسکتی اگر ہم خالی کہیں کہ تم قرآن مانو۔ اور مسلمان بنوتو ہندو کہیں گے ہندو بنو اور وید پڑھو۔ سکھ کہیں گے سکھ بنو اور گرنتھ پڑھو ۔ عیسائی کہیں گے عیسائی بنو اور انجیل پڑھو ۔ پھر ہم اور ان میں کیا فرق رہا۔ صرف ایک ہی فرق ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ ہم سوچ کر مانیں اور سمجھ کر مانیں جب ہم ہر بات کو سوچ اور سمجھ کرمانیں ۔ جب ہم ہر بات کو سوچ کر اور سمجھ کر ماننے کے عادی ہوجائیں گے تو سچی کتاب والا اپنی کتاب پر زیادہ سے زیاد ہ مضبوط ہوتا چلا جائے گااور غلط تعلیم والا زیادہ سے زیادہ اپنی مذہبی تعلیم سے متنفر ہوتا چلا جائے گا ۔ مثلاً ہم قرآن کریم پر غور کریں گے اور اس کی تعلیموں کو سوچیں گے کہ زیادہ سے زیادہ اس میں سے دلائل نکلتے چلے آئیں گے اور ہمار ا ایمان زیادہ سے زیادہ مضبوط ہوتا چلا جائے گا ۔ لیکن ایک عیسائی عیسائیت پر جتنا بھی غور کرے گا اس کا ایمان کمزور ہوتا چلا جائے گا ۔ ایک یہودی جتنا جتناتورات پر غو ر کرے گا کیونکہ وہ محرف و مبدل ہو چکی ہے اس لئے اتنا ہی اس سے بدظن ہوتا چلا جائے گا ۔اسی طرح جتنا جتنا کوئی ویدوں پر غور کرے گا اتنا ہی وہ ویدوں سے بدظن ہوتا چلا جائے گا ۔ گویا غوراور فکر کا یہ نتیجہ ہوگا کہ مسلمان اپنے ایمان میں مضبوط ہوتا چلا جائے گا اورہندو اور عیسائی اور موسائی اپنے ایمان میں متزلزل اور کمزور ہوتے چلے جائیں گے ۔ پس سوچنا اور سمجھنا مذہب کو مضبوط کرتا اور ایمان کو تقویت دیتا ہے ۔ دنیوی لحاظ سے بھی غور کرکے دیکھ لو ابتدائے اسلا م میں مسلمانوں نے سوچا اور علوم پر غور کیا تو وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔ آخر مسلمانوں سے پہلے عربی زبان موجود تھی ۔ بلکہ عربوں کی یہ مادری زبان تھی مسلمانوں سے پہلے تاریخ موجود تھی لیکن باوجود اس کے انہوں نے اسلام سے پہلے کوئی بھی حرکت نہیں کی ۔ لیکن اسلام کے بعد ان میں ایسی تبدیلی پیدا ہوگئی کہ انہوں نے عربی مدوّن کی ۔لغتیں لکھیں۔ زبان عربی کے اصول اور قوائد وضع کئے ۔ صرف و ناحو کے اصول تجویز کئے ۔ فقہ کے اصو ل تجویز کئے ۔تاریخ کے اصول مدوّن کئے ۔ یہ فرق آخر کیوں ہوا؟ اسی لئے کہ مسلمانوں کو تعلیم دی گئی تھی کہ ہربات پر سوچو اور غور کرو۔ جب انہوں نے سوچا تو ہر میدان میں آگے نکل گئے ۔ اور ان میں بڑے بڑے نحوی ۔ بڑے بڑے صرفی ۔بڑے بڑے قاضی۔ بڑے بڑے مؤرخ اور بڑے بڑے جرنیل نظر آنے لگے ۔ لیکن جب مسلمانوں نے سوچنا ترک کردیا اور یورپ نے سوچنا شروع کیا ۔ تو مسلمان گر گئے اور یورپ کے لوگ کہیں سے کہیں نکل گئے ۔
مسلمان جب ایک زندہ قوم تھے۔ وہ ہر چیز میں غور وفکر کرنے کے عادی تھے ۔ اور اس چیز نے ان کے دماغوں کو ایسا روشن کردیا تھا کہ وہ بڑے بڑے جھگڑے نہایت خوش اسلوبی سے طے کرلیا کرتے تھے ۔یورپ میں بچوں کو جوریڈرز پڑھائی جاتی ہیں ان میں ابن ابی لیلیٰ کا ایک واقعہ آتاہے ۔ یہ حضرت عمر ؓ کے زمانے کے ایک مسلمان جج تھے ۔ انہوں نے قضا میں جس طرح ترقی کی اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ ان کے پاس دوشخص لڑتے ہوئے آئے ۔ ان میں سے ایک تیلی تھا ۔ا ور دوسر ا قصائی ۔ جھگڑا یہ تھا کہ کچھ روپوں کے متعلق ان میں سے ایک کہتا تھا کہ یہ میرے روپے ہیں ۔ اور دوسرا کہتا تھا کہ یہ میرے روپے ہیں ۔ آخر انہوں نے اس کے فیصلہ کی ایک راہ نکالی ۔ غور کرو وہ کتنی باریک بات تھی جو انہوں نے سوچی ۔ انہوں نے سوچا کہ ان میں سے ایک قصائی ہے اور ایک تیلی۔ ان دونوں کے پاس کہیں سے اکٹھی دولت نہیں آسکتی ۔یہی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے روپیہ روپیہ لے جمع کیا ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ روپے کس کے ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے پانی منگوایا اور اسے گرم کروایا۔پھر وہ روپے اس پانی میں ڈال دیئے ۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ پانی پر کیا چیز آتی ہے۔ اگر تیل آیا تو روپے تیلی کے ہوں گے اگر چربی آ گئی تو روپے قصاب کے ہوں گے ۔چنانچہ جو نشان آیا ۔اس کے مطابق انہوں نے فیصلہ کردیا ۔ یہ سوچنے کا نتیجہ تھا کہ ان کے دماغ نے فوراً ایک راہ نکال لی اور اس کے مطابق انہوں نے اس جھگڑے کا فیصلہ کردیا ۔ اس قسم کے ان کے اور بھی بہت سے فیصلے مشہور ہیں اور وہ آج تک یورپ کی ریڈرز میں بچوںکو پڑھائے جاتے ہیں ۔اور انہیں سگیسش قاضی یعنی عقلمند قاضی کہا جاتا ہے ۔ کیوں وہ بہت جلد فیصلہ کردیتے تھے او ر فیصلہ نہایت صائب ہوتا تھا۔ مگر اس کیوجہ کیا تھی؟ وجہ یہی تھی کہ انہیں سوچنے اور غور کرنے کی عادت تھی ۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں کوفہ کے لوگ باربار شرارتیں کرتے تھے اور جو بھی گورنر مقرر ہوکر آتا اس کی شکایتیں کرنی شروع کردیتے اور آخر اسے بدلوا دیتے حضرت عمرؓ سے ایک دفعہ بعض لوگوں نے کہا کہ آپ کوفہ کے گورنر کو باربار کیوں بدلتے ہیں ۔ ان لوگوں کی تو عادت ہی یہی ہے کہ جو شخص بھی ان کا گورنر بن کرجائے اس کی شکایتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جب تک یہ لوگ گورنر بدلنے کیلئے کہتے چلے جائیں گے میں بھی بدلتا چلا جائوں گا تاکہ ان کا کوئی عذر باقی نہ رہے ۔ آخر جب انکی شکایتیں بہت بڑھ گئیں تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اب کی دفعہ میں ایک ایسا آدمی بھیجوں گا جس کے متعلق مجال نہیں کہ کوفہ والے اُف بھی کرسکیں۔چنانچہ انہوں نے ابن ؔ ابی لیلیٰ کو وہاں کا گورنر مقرر کر کے بھیجا ۔اس وقت ان کی عمر ۱۹سال کی تھی۔ کوفہ والوں کو جب پتہ لگا کہ اب ایک ایسا نوجوان ہمارا گورنر بنکرآیا ہے جس کی عمر صرف۱۹سال ہے تو وہ بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے سوچا کہ اب ہم اس کا خوب مذاق اڑائیں گے اور اسے اچھی طرح شرمندہ اور ذلیل کریں گے ۔جب ان کے آنے کی وہاں اطلاع پہنچی تو انہوں نے بڑے بڑے آدمیوں کو اکٹھا کیا اور تجویز یہ کی کہ بوڑھو ں اور بڑی عمر والوں کا ایک وفد بنایا جائے ۔ جو شہر سے باہر نکل کر گورنر کا استقبال کرے۔ اس وفد کے ساتھ عام لوگوں کا ایک بھاری ہجوم ہو۔ تمام شہر میں جلوس نکالا جائے اور جب گورنر صاحب تشریف لائیں تو تمسخر کے طور پر ان سے پوچھا جائے کہ جناب کی عمر کیا ہے ؟ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ بڑے بڑے بڈھے اور آزمودہ کار اورشہر کے رئیس ایک وفد کی صورت میں جمع ہوئے ۔ ان کے ساتھ شہر کے ہزاروں آدمی ایک جلو س کی صور ت میں باہر نکلے تاکہ وہ ابن ؔ ابی لیلیٰ کا استقبال کریں ۔ جب وہ قریب پہنچے تو ا یک بہت بڈھا آدمی جس کو انہوں نے سکھایا ہوا تھا آگے بڑھا اور اس نے کہا۔حضور آپ کی عمر کیا ہے ؟ان کا کیا تھاکہ وہ جواب میں کہیں گے کہ ۱۹سال اور اس پر سب لوگ ہنس پڑیں گے ۔ کہ ۱۹سال کا نوجوان کوفہ جیسے شہر میں گورنر بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ مگر ان کو سوچنے کی عادت تھی او ر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو غور کرنے کا ایسا عادی بنا دیا تھا کہ کہ ان کی نگاہ حقیقت تک فوراً پہنچ جاتی تھی ۔ جب انہوں نے کہا۔ حضور آپ کی عمر ؟ تو وہ فوراً تاڑ گئے کہ ان کی غرض سوال کرنا نہیں بلکہ تمسخر اور استہزاء کرنا ہے چنانچہ انہوں نے جواب میں یہ نہیں کہا کہ میری عمر ۱۹سال ہے ۔بلکہ کہا۔ جناب والا!جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ ؔبن زیدؓ کو شام کی فوج کا افسر بناکر بھیجا تھا ۔ جس میں ابوبکرؓاور عمرؓجیسے انسان بھی شامل تھے تو جو عمر اس وقت اسامہ کی تھی اس سے ایک سال میں بڑ اہوں ۔ جب اسامہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کی فوج کا افسر بنا کر بھیجا ہے اس وقت ان کی عمر ۱۸سال کی تھی ۔ یہ جواب سن کرانہوں نے فیصلہ کرلیا ۔ کہ جب تک یہ شخص یہاں رہے اس وقت تک کوئی شرارت نہیں کرنی ۔چنانچہ انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک قضاکی۔مگر پھر کسی نے انکے تبادلہ کی درخواست نہیں کی ۔ توانسان کو ہمیشہ سوچنے اور صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اپنے مقام سے گر جاتا ہے ۔اب کُجا تو یہ حالت تھی کہ مسلمان ہر علم میں ترقی کررہے تھے اور کُجا یہ حالت ہے کہ جب انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ جو ہوناتھا وہ ہوچکا اب علوم میں ترقی نہیں ہوسکتی تو وہ گر گئے ۔اورایسے گرے کہ اب دنیا کی علمی دوڑ میں غیر مذاہب کے لوگ تو آگے ہیں اور مسلمان پیچھے ہیں ۔ اس کے مقابل میں یورپ نے کہا کہ اگر پہلوں نے ترقی کی تھی تو ہم کیوں نہیں ترقی کرسکتے ۔ہم بھی سوچیں گے اور غورکریں گے اور اس طمع اپنی ترقی کے لے نئے سے نئے راستے نکالیں گے چنانچہ انکے سوچنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے کئی قسم کی ایجادیں کرلیں۔ مثلاً وہ ریل جس میں تمام دنیا سفر کرتی ہے ۔ یہ کس چیز کا نتیجہ ہے۔ یہ سوچنے اور غورکرنے کا ہی نتیجہ ہے ریل کے موجد نے لکھا کہ ہنڈیا کو جب چولہے پر چڑھا یا جاتا ہے تو اس کاڈھکنا سٹیم کے زور سے اُچھلتا ہے اس پر غور کرکے اس کا دماغ اس طرف چلا گیا کہ سٹیم میں بہت بڑی طاقت ہے ۔ اگر سٹیم کو بند رکھا جائے اور ہنڈیا کے نیچے پہیئے لگا دیئے جائیں تو وہ دوڑنے لگ جائے گی ۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا ۔ہنڈیا کے نیچے پہیئے لگائے سٹیم کو بند کیا اور دوڑنے لگ گئی ۔اسی پر قیا س کرکے اس نے ریل تیا رکرلی۔ اب کون یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے ہنڈیا میں سے کبھی سٹیم نکلتے نہیں دیکھی گھروں میں روزانہ عورتیں کھانا پکاتی ہیں اور مرد روزانہ دیکھتے ہیں کہ سٹیم کے زور سے ہنڈیا کا ڈھکنا اچھل رہا ہے۔ مگر ان کا ذہن کبھی اس طر ف مائل نہیں ہوتا کہ وہ اس پر غور کریں اور سوچیں کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے ۔ ریل کے موجد نے اسے دیکھا اور اس نے سوچ کر اس نے ایک ایسی چیز بنا لی جس سے آج ساری دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے ۔اسی طرح اور کئی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جن سے کچھ کا کچھ نتیجہ نکل جاتا ہے کولمبسؔ کو دیکھو ۔ اس نے مسلمانوں سے یہ سنا ہوا تھا کہ زمین گول ہے ۔ حالانکہ علمِ ہیئت کی ترقی اس وقت اتنی نہیں ہوئی تھی۔دراصل مسلمانوں نے چاند گرھن پر غور کرکے یہ نتیجہ نکال لیا تھا کہ زمین چپٹی نہیں بلکہ گول ہے ۔کیونکہ چاند گرہن کے وقت اس پر ایک گو ل نشان ہوتا ہے ۔ اس نشان سے مسلمانوں نے یہ نتیجہ اخذکیا کہ زمین گول ہے ۔ جب کولمبسؔ نے یہ سُنا کہ مسلمانوں کے علماء کا یہ خیال ہے کہ زمین گول ہے توا س نے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر زمین گول ہے تو میں سپین سے چلو ں گا اور ہندوستا ن پہنچ جائوں گا ۔چنانچہ اس نے پہلے بادشاہ اور پھر ملکہ کو تحریک کی کہ وہ اس کی امداد کریں ۔ اور آخر وہ ہندوستان تو نہ پہنچا لیکن ہندوستان سے ایک زیادہ طاقتور ملک امریکہ اُسے مل گیا ۔ یہ نتیجہ کس بات کا تھا ؟اس بات کا کہ مسلمانوں کو سوچنے اورغور کرنے کی عادت تھی ۔ انہوں نے پہلے سوچا کہ چاند گرہن کیوں لگتا ہے اور پھر انہوں نے سوچا کہ یہ نتیجہ نکالا کہ چاند گرہن اس لئے لگتاہے کہ سورج اور چاند کے درمیان زمین آجاتی ہے ۔پھر انہوں نے سوچا کہ گرہن کے وقت چاند پر گول نشان کیوں ہوتاہے ؟اس کا جواب اس کے دماغ نے یہ دیا کہ یہ گول نشان زمین کا ہے ۔ اور یہ گول نشان ثابت کرتاہے کہ زمین چپٹی نہیں بلکہ گول ہے اور جب مسلمان علماء نے کہا کہ زمین گول ہے۔تو یہ کولمبسؔ نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ جب میں سپین سے چلوںگا تو ساری دنیا کے گر دچکر لگالوں گا ۔ چنانچہ گول چیز کے گرد چکر لگایا جاسکتا ہے ۔چپٹی ہوتو کنارہ پر آکر قدم رک جاتاہے ۔ غرض چھوٹی چھوٹی چیزو ں پر غور کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک نیا ملک دریافت ہوگیا۔ اتنا بڑ املک کہ آج ساری دنیا امن کیلئے اس کی طرف دیکھ رہی ہے آج ساری دنیا یہ سمجھتی ہے کہ ہماری حفاظت کا ذریعہ ہی یہی ہے کہ یونئیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی مدد ہمارے ساتھ ہو۔ یہ عظیم الشان نتیجہ آخر کس طرح نکلا؟ اسی طرح کہ پہلے مسلمانوں نے چاند گرہن پر غور کیا پھر چاند گرہن سے یہ نتیجہ نکالا کہ زمین گول ہے اور کولمبسؔ نے زمین کے گول ہونے سے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر وہ گول ہے تو میں ساری دنیا کے گرد چکر لگا لوں گا ۔ چنانچہ وہ چلا اور اس نے ایک نئی زمین دریافت کرلی جو اب اتنا بڑ املک بن گیا ہے کہ ساری دنیا کی راہنمائی کررہا ہے اگر مسلمان چاند کودیکھتے رہتے جس طرح پہلے دیکھا کرتے تھے ۔ اگر مسلمان اس بات پر غور نہ کرتے کہ اس پر گرہن کے وقت گول دائرہ کیوں بن جاتا ہے ۔اگر کولمبسؔ یہ نہ سوچتا کہ زمین کے گول ہونے سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ ساری دنیا کا چکر لگایا جاسکتا ہے تو نہ امریکہ دریافت ہوتا ۔ نہ موٹرکاریں ہوتیں نہ ہوائی جہاز نکلتے نہ بجلی ایجاد ہوتی نہ اتنی عظیم الشان طاقت دنیا پر رونما ہوتی کہ جس کے پیچھے آج انگریز اور فرانس بھی چلنے پر مجبورہیں۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں جتنی ایجادات ہیں وہ ساری کی ساری بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں پر غور کرنے کا نتیجہ ہیں۔ ایڈیسنؔ جس نے فونو گراف اوربجلی وغیرہ کئی چیزیں ایجاد کی ہیں میں نے اس کی سوانح عمری پڑھی ہے ۔ وہ لکھتا ہے کہ میں نے جس قدر ایجاد یں کی ہیں یہ سب کی سب بعض چھوٹے چھوٹے مسائل پر غور کرنے کا نتیجہ ہیں ۔ پس سوچنا اور غور کرنا قومی ترقی کیلئے ایک نہایت ہی ضروری چیز ہے ۔جو تو میں بلا سوچے سمجھے صرف نعرے لگانا جانتی ہیں وہ کوئی کام نہیں کرسکتیں ۔ وہ نعروں سے اس وقت کی فضا کو مشوّش کرسکتی ہیں ۔ وہ نعروں سے کمزور بچوں کو ڈرا سکتی ہیں۔ وہ نعروں سے کمزور عورتوں کے دلو ں کو دہلا سکتی ہیں۔لیکن اگر وہ کوئی حقیقی کام کرسکتی ہیں تو صرف سوچ بچار سے اور صحیح نتائج کو اخذ کر کے ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو شعور کی طرف توجہ دلائی ۔ اور فرمایا کہ کاش اس قسم کے لغو اعتراضات کرنے کی بجائے تم حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور وہ مخفی حِسّ جو انسان کوا س کے اندرونی قویٰ کا علم دیتی ہے اس جس کے نتیجہ میں فطرتِ صحیحہ بید ا ہوتی ہے اس سے کام لیتے ہوئے تم دوسروں پر اعتراض کرنے کی بجائے اپنے نفس پرغور کرتے کہ اس میں کیا کیا خامیاں ہیں اور بُرے بھلے کی تمیز کرنے کی طاقت پیدا کرتے ۔
قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ یٰنُوْحُ لَنَکُوْ نَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِیْنَ٭
انہوں (یعنی کافروں) نے کہا۔ اے نوحؑ ! اگر تو باز نہ آیا تو تُو سنگساروں میںشامل ہوجائے گا (یعنی ہم تجھے سنگسار کردیںگے )۔
قَالَ رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ کَذَّبُوْنِ٭
اس پر اُ س (یعنی نوحؑ ) نے کہا ۔اے میرے رب! میری قوم نے مجھے جھٹلادیا ہے ۔
فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَھُمْ فَتْحًا وَّنَجِّنِیْ وَمَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ٭
پس تو میرے اور ان کے درمیان ایک قطعی فیصلہ کر اور مجھے اور میرے ساتھی مومنوں کو (دشمن کے ) شر سے بچالے۔
فَاَ نْجَیْنٰہُ وَمَنْ مَّعَہٗ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ٭
پس ہم نے اس کو اور جو اس کیساتھ ایمان لائے تھے ایک بھری ہوئی کشتی کے ذریعہ (شر سے)بچالیا۔
ثُمَّ اَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبٰقِیْنَ٭
پھر اس کے بعد جو باقی لوگ تھے ان کو غرق کردیا ۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ۔ وَمَا کَانَ اَکْثَرَھُمْ مُّوْمِنِیْنَ٭
اس پر ایک بہت بڑا نشان تھا مگر ان (یعنی کافروں) میں سے اکثر ایمان لانے پر آمادہ نہیں تھے۔
وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ٭
اورتیر ا رب ہی غالب (اور) باربار رحم کرنے والا ہے ۔ ۲۲؎
۲۲؎ حل لغات :۔ اَلْمَرْجُوْمِیْنَ ۔ اَلْمَرْجُوْمُ سے جمع کا صیغہ ہے ۔ اور رَجَمَ سے اسم مفعول ہے ۔ اور رَجَمَہٗ کے معنے ہیں۔ رَمَا ہُ بِالْحِجَارَۃِ۔ اس کو پتھر مارے۔ قَتَلَہٗ ۔اس کو قتل کیا۔ قَذَفَہٗ ۔اس پر الزام لگایا۔لَعَنَہٗ ۔ اُس پر *** کی۔ شَتَمَہٗ ۔ اس کو گالی دی ۔ھَجْرَہٗ۔ اُس کو جدا کردیا طَرَدَہٗ ۔ اس کو دھتکاردیا (اقرب)
اَلْمَشْحُوْنَ: شَحَنَ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ اور شَحَنَ السَّفِیْنَۃَ کے معنے ہیں مَلَأَ ھَا کشتی کو بھردیا (اقرب) پس اَلْمَشْحُوْنُ کے معنے ہونگے ۔ بھری ہوئی ۔
تفسیر:۔ حضرت نوح علیہ السلام کے مخالفین نے جب دیکھا کہ وہ دلائل سے نوحؑ کو مغلوب نہیں کرسکتے تو انہوں نے کہا کہ اب تو ہمارے پاس ایک ہی علاج ہے ۔ اگر تم اپنی ان باتوں سے باز نہ آئے تو ہم تجھے پتھر مار مار کر ہلاک کردیں گے ۔ آخر حضرت نوح علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حضور جُھکے اور انہوں نے کہا کہ اے میرے رب ! میری قوم نے تو مجھے جھٹلا دیا ہے ۔اب تو ہی میرے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما۔ اور مجھے اور میرے ساتھیوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھ ۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کو سُنا اور اس نے کہا بھری ہوئی کشتی کے ذریعہ انہیں اپنے دشمنوں کے شر سے بچا لیا ۔اور جو باقی لوگ رہ گئے ۔ ان کو طوفان میں غرق کردیا۔ اس واقعہ میں بھی خداتعالیٰ کی عظمت اور اس کی طاقت کا بڑ ابھاری نشان ہے ۔ مگر پھر بھی ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہ لائے ۔ لیکن ان کے ایمان نہ لانے کے باوجود تیرے رب کا عزیز اور رحیم ہونا ثابت ہوگیا ۔ نوحؑ نے اپنے دشمنوں پر غالب آگیا ۔ اور نوحؑ کے حقیر سمجھے جانے والے ساتھی دنیا کے سردار بن گئے ۔
اس جگہ نوحؑ کی کشتی کے متعلق اَلجمَشْحُوْن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنے بھری ہوئی کشتی کے ہیں مگر ظاہر ہے کہ اگر کشتی پہلے ہی بھری ہوئی ہوتو اورلوگ اس میںسوار نہیں ہوسکتے ۔پھر بھری ہوئی کشتی میں نوحؑ کے ساتھی کس طرح بیٹھ سکتے تھے ؟درحقیقت عربی زبان میں بعض دفعہ کسی چیز کو اس پر بعد میں وارد ہونے والی ہو۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ مَنْ قَتَلَ قَتِیْلًا فَلَہٗ سَلْبُہٗ یعنی جو شخص جہاد میں کسی مقتول کو قتل کردے اس کا مال و اسباب قتل کرنے والے کوہی ملے گا ۔ اس حدیث میںآپ نے دوسرے کے متعلق قَتِل کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ حالانکہ وہ بھی زندہ ہوتا ہے ۔ اسی طرح چونکہ وہ کشتی حضرت نوحؑ اور ان کی جماعت کے افراد سے بھرجانے والی تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے کہہ دیاکہ ہم نے انہیں ایک بھری ہوئی کشتی کے ذریعہ نجات دی ۔
کَذَّبَتْ عَادُ الْمُرْسَلِیْنَ٭
(اسی طرح)عادؔ نے بھی رسولوں کا انکار کیا ۔
اِذْ قَالَ لَھُمْ اَخُوْھُمْ ھُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ٭
جب کہ ان سے ان کے بھائی ہود ؑ نے کہا ۔ کیا تم تقویٰ نہیں کرتے ۔
اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ٭
میں تمہاری طرف ایک امانت دار پیغامبر ہوکر آیا ہوں۔
فَاتَّقُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ٭
پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میر ی اطاعت کرو۔
وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۔اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا علٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ٭
اور میں تم سے اس (خدمت) پر کوئی بدلہ نہیں مانگتا میرا بدلہ صرف رب العالمین خد اکے ذمہ ہے (جس نے مجھے بھیجاہے)۔ ۲۳؎
۲۳؎ تفسیر:۔ان آیات میں حضرت ہودؑ کو پھرتمام رسولوں کا قائم مقام بتایا گیا ۔ اور رسول کی جگہ مرسلینؔ کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا کیونکہ ایک رسول کا انکار درحقیقت تمام رسولوں کا انکار ہوتاہے ۔ فرماتا ہے۔جس طرح نوحؑ کو اس کی قوم نے جھٹلایا تھا۔ اسی طرح ہود ؑکوبھی اس کی قوم عاد نے جھٹلایا۔ حالانکہ اس زمانہ میں بھی ہم نے یہی حکم دیا تھا ۔ کہ علاوہ کلامِ الٰہی کی اطاعت کے خود ہودؑ کی اطاعت بھی ضرور ی ہے جس کی طرف اَطِیْعُونِ میں اشارہ کیا گیا ہے ۔
اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْعٍ اٰیَۃً تَعْبَثُوْنَ٭
کیاتم ہر ٹیلہ پر فضول کام کرتے ہوئے عمارت بناتے ہو۔
وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوْنَ٭
اور تم بڑے بڑے محل بنات ہو تاکہ تم ہمیشہ قائم رہو۔
وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ٭
اورجب تم کسی کو پکڑے ہو تو ظالموں کی طرح پکڑتے ہو۔
فَاتَّقُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ٭
پس(اللہ تعالیٰ) کا تقویٰ اختیار کرو اور میر ی اطاعت کرو۔
وَاتَّقُواالَّذِیْٓ اَمَدَّکُمْ بِمَاتَعْلَمُوْنَ٭
پھر میں کہتا ہوں کہ اس (ذات) کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہاری ان چیزوں سے مدد کی ہے جن کو تم جانتے ہو۔
اَمَدَّکُمْ بِاَنْعَامٍ وَّبَنِیْنَ٭
اس نے تمہاری مدد کی ہے چارپائے اوربیٹے ۔
وَجَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ٭
اور باغ اور چشمے دے کر ۔
اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ٭
میں تم پر ایک بڑے دن کا عذاب نازل ہونے سے ڈرتا ہوں۔۲۴؎
۲۴؎ حل لغات:۔ رِیْعٌ : اَلرِّیعُ کے معنے ہیں اَلتِّلُّ الْعَالِیْ ۔ اونچا ٹیلہ۔ اَلطّرِیْقُ الْمُنْعَرِجُ فِی الْجَبَلِ۔ پہاڑ میں چڑھائی کا وہ راستہ جو چکر کھا کر جاتاہو۔ اَلْجَبَلُ الْمُوْتَفِعُ ۔ بلند پہاڑ ۔ وَقِیْلَ مَسِیْلُ الْوَادِیْ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ مُرْتَفِعٍ۔ اور بعض ائمہ لُغت کہتے ہیں کہ ریع ہر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں اونچی جگہ سے پانی آئے اور بہہ جائے (اقرب)
تَعْبَثُوْنَ:عَبَثَ سے فعل مضارع مخاطب جمع کا صیغہ ہے ۔ اور اَلْعَبَثُ (جو عَبَثَ کا مصدر ہے ) کے معنے ہیں۔ اِرْتِکَابُ اَمْرٍ غَیْرُ مَعْلُوْمِ الْفَائِدَۃِ اَوْلَیْسَ فِیْہِ غَرْضٌ صَحِیْحٌ لِفَاعِلِہٖ ۔ کسی ایسی بات کا کرنا جس کا کوئی فائدہ نظر نہ آتا ہو۔ یا ایسا کام کرنا جس کے کرنے والے کی غرض صحیح نہ ہو(اقرب) پس تَعْبَثُوْنَ کے معنے ہونگے تم بے فائدہ کام کرتے ہو۔
مَصَانِعَ کے معنے ہیں ۔ اَلْقُریٰ وَالْمَبَانِی مِنَ الْقُصُوْرِ وَالْحَصُوْنِ۔ بستیاں اور بڑی بڑی عمارات (اقرب)
بَطَشْتُمْ: بَطَشَ سے جمع مذکر مخاطب کا صیغہ ہے ۔اور بَطَشَ کے معنے ہیں اَخَذَہٗ بِالْعَنْفِ۔ سختی سے پکڑا۔ وَتَنَاوَلَہٗ بِشِدَّ ۃٍ عِنْدَالصَّوْلَۃِ۔ حملہ کے وقت سختی سے پکڑا۔ (اقرب) پس بَطَشْتُمْ کے معنے ہونگے تم سختی سے پکڑتے ہو۔
جَبَّارِیْنَ: جَبَّارٌ کی جمع ہے اور جَبَّارٌ کے معنے ہیں۔ کُلُّ عَاتٍ مُتَمَدِّدٍ ۔متکبر اور سرکش شخص ۔ (اقرب)
تفسیر:۔قوم عاد جس کی طرف حضرت ہود علیہ السلام مبعوث ہوئے فنِ تعمیر میں خا ص شغف رکھتی تھی کیوں کہ اس کی تہذیب کی بنیا د علم ہندسہ ۔کمیسٹری ہیئت پرتھی ۔ اس تہذیب کے بانیوں کاخیال تھاکہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مادی عالم میں سورج اور چاند اور ستارے بنائے ہیں اسی طرح انسانی ترقی کے لئے اس نظام کی نقل کرنا ضروری ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ نظامِ شمسی پر غور کرکے اور اسکے راز معلوم کرکے ان کی اتباع کرے ۔ جس طرح آرینؔ ۔ رومنؔ اور ایرانی ثقافت نے متمدن دنیا پر ایک گہرااثر ڈالا۔ اور سابق نظاموںکی جگہ ایک نیا نظام قائم کردیا ۔ اسی طرح بابلی تحریک جس کے بانی قوم عادسے تعلق رکھنے والے تھے اس نے بھی دنیا کے کلچر اور تہذیب پر نہایت گہرااثر ڈالا ۔ اور گو اس تحریک کے بانی کچھ عرصہ بعد سیاسی طور پر اپنی حکومت کو کھو بیٹھے اوراس کی جگہ دوسری اقوام نے لے لی۔مگر ان کو شکست دینے والے ان کے فلسفہ سے آزاد نہ ہوسکے ۔ یہ تحریک چونکہ انتہائی قدیم تحریک ہے اس لئے موجودہ زمانہ میں اس کے آثار بہت کم ملتے ہیں۔ لیکن جتنے آثار بھی ملتے ہیں وہ قرآنی بیانات کی صداقت اور اس کی عظمت کو روشن کردیتے ہیں۔
اس تہذیب کی بنیاد قوم عادکے ہاتھوں رکھی گئی تھی اور اس کو اپنے زمانہ میں اتنی طاقت حاصل تھی کہ ان کے بعد عرب میں کسی اور قوم کو اس قسم کی طاقت حاصل نہیں ہوئی ۔ اس تہذیب بابلی کی علمبردار دو قومیں ہوئیں ہیں ۔ ایک وہ جسے عادِ اولیٰ کہتے ہیں ۔ اور جو تہذیب بابلی کے بانی تھے اور دوسرے ثمود ؔ جو بعد میں اس تہذیب کے حامل بنے اور جو اسی عاد ؔ کی ایک دوسری شاخ تھے ۔ان آیت میںا نہی پہلے عاد یعنی بانیان تہذیب بابلی کا ہی ذکر کیا گیا ہے ۔ اور فرماتا ہے ۔ ہودؑ نے اپنے زمانہ کی مشہور ترین طاقت یعنی قوم عاد سے مخاطب ہوکر کہا ۔ کہ تم لوگ ہر پہاڑی پر شاندار عمارتیں بناتے ہو ۔ اور بڑی بڑی فیکٹریاں اور کمیسٹری کے مرکز تیار کرتے ہواور خیال کرتے ہو کہ تم ہمیشہ قائم رہو گے۔ جیسے یورپ اور روس کے لوگ آج کل یہ خیال کرتے ہیں کہ انکی تہذیب ہمیشہ قائم رہے گی ۔ اس جگہ جو مصانع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے مراد بڑی بڑی فیکٹریاں اور کیمیکل ورکس ہی ہیں۔
پھر فرمایا وَاِذَ بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ تمہارے اند راتنی طاقت پائی جاتی ہے۔کہ جب تم کسی ملک پر غلبہ پاتے ہو تو تم اس کی تہذیب کو بالکل تباہ کردیتے ہو۔ اس کی جگہ اپنی تہذیب اور اپناتمدن قائم کرتے دیتے ہو۔جَبَّارٌ کے معنے ہیں دوسرے کو نیچا کرکے اپنے آپ کواونچا کرنیوالا ۔ پس اس آیت کا مطالب یہ ہے کہ تم دوسری اقوام کے تمدن اور تہذیب کوتباہ کرکے اپنے تمدن اور تہذیب کو دنیا میں قائم کرتے ہو۔اسی طرح وَاِذَ بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ سے استنباط بھی ہوسکتا ہے کہ آلات جنگ کی بعض حیرت انگیز ایجادات انہی کے زمانہ میں ہوئی ہیں۔ چنانچہ جس رنگ میں انہوں نے پہاڑوں میں عمارتیں بنائی ہیں ان کو دیکھ کر بعض مؤرخین نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اس قوم نے بارود اور ڈائنا میٹ ایجاد کرلیا تھا ۔ ان معنوں کی روسے اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ تم ایسے ایسے سامان جنگ ایجاد کرتے ہو جو نہایت ہی مہلک ہیں اور تم ان کے ذریعہ باقی اقوام کو تباہ کرکے اپنی تہذیب اور اپنا تمدن قائم کردیتے ہو غرض بابلی تحریک میں عمارتوں کی تعمیر اور آلات جنگ کی ایجاد اوررصد گاہوں کے بنانے پر زیادہ زور تھا ۔ چنانچہ بابل کی حکومت کا جو بیان تورات میں آتا ہے اس سے بھی قرآنی بیان کی ہی تصدیق ہوتی ہے ۔ بائیبل میں آتا ہے ۔
’’اور انہوں نے کہا۔ آئو ہم اپنے واسطے ایک شہر بنا دیں اور ایک برج جس کی چوٹی آسمان تک پہنچے ۔ اور یہاں اپنا نام کریں ۔ ایسا نہ ہو کہ تمام روئے زمین پر پریشان ہوجائیں ۔ اور خداوند اس شہر اور برج کو جسے بنی آدم بناتے تھے دیکھنے اترا اور خدا وند نے کہا ۔ دیکھ لوگ ایک ہیں اور ا ن سب کی ایک ہی بولی ہے ۔ اب وَے یہ کرنے لگے سو وے جس کام کاارادہ رکھیں گے اس سے نہ رُک سکیں گے آئو ہم اتریں اور انکی بولی میں اختلاف ڈالیں تاکہ وے ایک دوسرے کی بات نہ سمجھیں ۔ ‘‘(پیدائش باب ۱۱آیت ۴تا۷)
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ یہودی تاریخ کے مطابق بھی ان لوگوں کا بڑا کمال بلند و بالا عمارات بنانا تھا ۔ کیونکہ تورات کے اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ دنیا میں زبانوںکے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ کسی وقت بابل ؔکے لوگوں نے ایک بلند عمارت بنانی شرو ع کی تاکہ وہ ان کے لئے ایک نشان قرار پائے اور اس کی وجہ سے وہ پراگندگی سے بچ جائیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کی پراگندگی چاہتاتھا اس لئے اس نے ان کوا س ارادہ سے بعض رکھنے کیلئے ان کی زبانوں میں اختلاف ڈال دیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس قوم میں سے اتحاد مٹ گیا ۔ اور ان کی طاقت ٹوٹ گئی اور وہ اس عمار ت کے بنانے میں ناکام رہے ۔
جو وجہ اس حوالہ میں بتائی گئی ہے وہ تو محض ایک کہانی ہے لیکن اس سے یہ تاریخی شہادت ضرور معلوم ہوجاتی ہے کہ اہلِ بابل اونچی عمارتیں بنانے میں یدِطولیٰ رکھتے تھے ۔ اور ایسی بلند عمارتیں بناتے تھے جن کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔چنانچہ عرب نے اب بھی بعض نہایت پرانی عمارتیں ملتی ہیں جو بہت بڑی بڑی ہیں ۔ بلکہ سفرِ یورپ کے دوران میں عدن سے چند میل کے فاصلہ پر میںنے خود بعض بڑی بڑی اونچی عمارتیں دیکھی ہیںجو اونچے ٹیلوں پر بنی ہوئی تھیں اوران میں حوض وغیرہ بھی تھے ۔ اور لوگ یہی کہتے تھے کہ یہ عاد کی بنائی ہوئی عمارتیں ہیں ۔
یورپ کے لوگ ایک زمانہ میں عاد کے وجود سے ہی انکار کیا کرتے تھے ۔ اور کہا کرتے تھے کہ عادؔ نام کی کوئی قوم نہیں گزری مگر قریباً نصف صدی سے جب سے کہ عادؔ کے آثار ملے ہیں۔ وہ بھی ماننے لگ گئے ہیں کہ عاد ؔ نام کی ایک قوم ہوئی ہے ۔بلکہ مشہور عیسائی مؤرخ جرجی ؔ زیدان نے ’’العرب قبل الاسلام ‘‘ میںلکھا ہے کہ عاد کے متعلق مؤرخوں کی سینکڑوں صفوں کی کتابیں اس سے زیادہ معلومات بیان نہیںکرسکیں جتنے معلومات قرآن کریم نے اپنے چند الفاظ میں بیان کردیئے ہیں۔ قرآن کریم بتا تا ہے کہ یہ قوم حضرت نوحؑ کی قوم کے معاً بعد گزری ہے ۔ چنانچہ فرماتا ہے وَاذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآئَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ(اعراف ع۹)یعنی یاد کرو جب خدا نے تم کو نوح ؑ کی قوم کے بعد اس کا جانشین بنایا ۔ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا جن کی پیشگوئیوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر دی گئی تھی ۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا جن سے موسوی سلسلہ کی ابتداء ہوئی ۔ پھر حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر کیا۔ کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نوحؑ کی شریعت کے پیرو تھے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنَّ مِنْ شِعَتِہٖ لَاِبْرَاھِیْمَ ( صآ فات ع ۳)یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نوحؑ کی جماعت میں سے ہی تھے ۔پس ابراہیم ؑ کے ذکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کے سلسلہ کے بانی حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر فرمادیا۔ اور نوح ؑ کے ذکر کے معاً بعد ہودؑ کا ذکر فرمایا جو قوم عاد ؔ کی طرف مبعوث ہوئے تھے ۔ کیونکہ عاد ہی نے نوح ؑ کی قوم کی جگہ لی تھی ۔
حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو توجہ دلائی کہ تم بڑے بڑے ٹیلوں پر اونچی عمارتیں کھڑکرتے ہو اوراپنی تہذیب اور تمدن کے قیام کے لئے دوسری اقوام کو ظالمانہ طور پر کچل دیتے ہو۔ مگر یہ سب باتیں عبث ہیںکیونکہ ان ظاہری نشانوں کے باوجود تمہارے نشان مٹ جائیں گے اور قائم صر ف تقویٰ رہے گا۔ تم بڑی بڑی فیکٹریاں اور صنعت گاہیں بناتے ہو اور سمجھتے ہو کہ تمہاری قوم ان کے ذریعہ سے زندہ رہے گی اور اپنی مالی ترقی کے گھمنڈ میں غریبوں پر ظلم کرتے ہو۔ مگر یہ جھوٹی عزت تمہارے کسی کام نہیں آئیگی ۔ فَاتَقُو ا اللہَ وَاَطِیْعُوْنِ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ کا تقوی ٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔
وَاتَّقُو االَّذِیْٓ اَمَدَّکُمْ بِمَا تَعْلَمُوْنَ اَمَدَّکُمْ بِاَنْعَامٍ وَّ بَنِیْنَ ۔ وَجَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ اِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ۔ فرمایا آخر یہ علم جس تم دنیا میں ترقی کر رہے ہو خدا تعالیٰ کے ہی دیئے ہوئے ہیں اور وہ سامان جن سے تم کام لیتے ہو وہ بھی خداتعالیٰ ہی کے دیئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح جانور بھی اور اولاد بھی اور باغات بھی۔ اور چشمے بھی سب اسی کی عطا ہیں ۔اگر تم اس کی طرف توجہ نہ کرو گے تو کسی دن یہ سب کچھ چھینا جائیگا ۔
قَالُوْ ا سَوَآئٌ عَلَیْنَآ اَوَعَظْتَ اَمَ لَمْ تَکُنْ مِّنَ الْوٰعِظِیْنَ ٭
انہوں نے کہا تیرا وعظ کرنا یا نہ کرنا ہمارے لئے برابر ہے (کیونکہ جو باتیں ہم کرتے ہیں) ۔
اِنْ ھٰذَآ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِیْنَ ٭
وہ تو پہلے زمانہ کے لوگوں سے رائج ہیں ۔
وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ٭
اور ہم پر (کبھی) عذاب نہیں آئے گا ۔
فَکَذَّ بُوْہُ فَاَھْلَکْنٰھُمْ ۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً۔ وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّوْمِنِیْنَ٭
پس ان کافروں نے انکو جھٹلادیا اور ہم نے انکو ہلاک کردیا ۔ اس واقعہ میں ایک بہت بڑا نشان ہے لیکن ان میں اکثر مومنوں میں سے نہ بنے ۔
وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ٭
اور تیر ارب یقینا غالب(اور) باربار رحم کرنے والا ہے ۔۲۵؎
۲۵؎ تفسیر:۔حضرت ہود علیہ السلام نے جب انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے کہا ۔ میاں ایسی نصیحتیں کرو یا نہ کرو ہم نے ماننا تو ہے ہی نہیں۔پہلے زمانوں سے ایسے لوگ ہوتے چلے آئے ہیں جو کہتے تو رہے ہیں کہ زیادہ دولتیں نہ کمائو اور دولتوں کا گھمنڈ نہ کرو۔ مگر پھر بھی یہ دنیا کام کرتی ہی چلی آئی ہے ۔ ہم کو کارخانے بنانے اور دولتیں کمانے پر کوئی عذاب نہیں ہوگا۔اس لئے خواہ تم ہمیں تبلیغ کرو یا نہ کرو ہمارے لئے یہ برابر ہے اور ہم کبھی تمہاری بات نہیں مان سکتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی انسان سرکشی اور تمرد میں بڑھ جائے تو اسے نیکی کی طرف توجہ دلانا بڑ ا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے ۔لیکن اس مشکل کو تسلیم کرنے کے باوجود قرآن کریم نے مسلمانوں کو یہی ہدایت دی ہے کہ فَذَکِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّکْرٰی (سورئہ اعلیٰ ع ۱)تمہار اکام یہی ہے کہ تم نصیحت کرتے چلے آئو۔ کیونکہ نصیحت کرنا بہرحال دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے ۔ پس خواہ کوئی کتنا ہی مخالف ہو۔ اس کے متعلق کبھی مایوسی کا اظہار نہیں کرتا چاہیئے ۔دل خدا تعالیٰ کے قبضہ و اختیار میں ہیں۔ تمہار ا کام یہ ہے کہ تم باربار خدا اور اسکے رسول ؐ کی باتیں لوگوں کے کانوں میں ڈالتے رہو۔ ایک دن یقینا ایسا آجائے گا کہ ان کے دل کے زنگ دور ہوجائیں گے ۔ اور وہ ہدایت کو خوشی سے قبول کر لیںگے۔
اولیاء کی کتب میں لکھا ہے کہ ایک شخص مسلمانوں کو سخت دکھ دیا کرتا تھا ۔ اور باوجود سمجھانے کے باز نہیں آتا تھا ۔ آخر کئی لوگوں نے تنگ آکر اس محلہ کو ہی چھوڑ دیا جس میں وہ رہتا تھا ۔ ایک دفعہ ایک بزرگ حج کر رہے تھے کہ انہوں نے اسی شخص کو کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا ۔ انہوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ تُو کہاں؟ تیرا کام تو سارادن گانا بجانا اور شرابیں پینا تھا تو کعبہ کا طواف کرنے کے لئے کس طرح آگیا ۔وہ کہنے لگا ۔ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے ۔ آپ لوگ مجھے قرآن بھی سناتے اور حدیثیں بھی بتاتے مگر میرے دل پر ذرا بھی اثر نہ ہوتا ۔ ایک دن مجلس لگی ہوئی تھی۔ دوست احباب بیٹھے ہوئے تھے شراب کی صراحیا ں قرینے سے رکھی ہوئی تھیں کہ یکدم مجھے گلی میں سے گزررہا تھا اور قرآن کریم کی یہ آیت بڑی خوش الحانی سے پڑھتا جار ہا تھا کہ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓااَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ۔کیا مومنوں پرا بھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھرجائیں ۔یہ آیت جونہی میرے کان میں پڑی مجھے یوں معلوم ہو ا کہ یہ آیت ابھی آسمان سے میرے لئے اُتری ہے ۔ میرے آنسو جاری ہوگئے ۔ میں نے مجلس برخواست کردی ۔ گانے بجانے کے آلات توڑ دیئے توبہ کی اور حج کیلئے چل پڑا ۔ تم نے سار ا قرآن مجھے سنادیامگر مجھ پر اثر نہ ہوا لیکن وقت ہوتا ہے۔ ایک آیت نے میر کایاپلٹ دی اور اب میں توبہ کرکے حج کرنے آیا ہوں۔تو قلوب بعض دفعہ ایسے رنگ میں بدلتے ہیں کہ حیرت آجاتی ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک عورت نے دوسری عورت کو مار ااور اس کا دانت توڑ دیا ۔ اسلامی شریعت کی رو سے ضروری تھا کہ اُس عورت کا بھی قصاص کے طورپر دانت توڑا جاتا ۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا۔ وہ عورت جس نے دانت توڑا تھا اس کیطرف سے حضرت ابوہریرہؓ بطور وکیل پیش ہوئے ۔ اور انہوں نے کہا کہ بیشک قصاص کے طور پر اس کا بھی دانت توڑا جانا چاہیئے مگر میں معافی کی دوخواست کرتا ہوں اگر دوسر ا فریق معاف کردے تو یہ اس کا احسان ہوگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دوسری عورت کے رشتہ داروں سے کہا کہ بیشک شریعت نے تمہیں قصاص کا حق دیا ہے ۔ لیکن اگر تم معاف کردو تو اچھا ہے ۔مگر دوسرے فریق پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ لوگ یہی کہتے چلے گئے کہ دانت کے بدلے جب تک دانت نہ توڑا جائے گا ہم نہیں ٹلیں گے ۔ آخر حضرت ابو ہریرہؓ کو جوش آگیا ۔اور انہوں نے کہا۔ خدا کی قسم میری رشتہ دار عورت کا دانت نہیں توڑا جائے گا یہ الفاظ انہوں نے ایسے جوش سے کہے کہ وہ لوگ جو اس بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش بھی نہیں مان رہے تھے ۔ڈرگئے اور انہوں نے کہا۔ یا رسول اللہ !ہم نے معاف کیا۔اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کے جسم غبار آلود ہوتے ہیں مگر جب وہ کسی معاملہ میں خد اتعالیٰ کی قسم کھالیں تو خداتعالیٰ ان کے متعلق اپنی غیرت دکھلاتا اور اس با ت کو پورا کردیتا ہے جس کے لئے وہ قسم کھاتے ہیں۔ تو دیکھو جب حضر ت ابوہریرہ ؓ نے خدا کی قسم کھاکر یہ کہا کہ میری اس رشتہ دار عورت کا دانت نہیں توڑا جائے گا تو وہ لوگ جو اس بارہ میں خود حضرت ابو ہریرہؓ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش بھی ماننے کیلئے تیار نہیںتھے یکدم انکی طبیعت بدل گئی ۔اور انہوں نے اپناحق چھوڑ دیا ۔ پس مومنوں کو اس بات کی اہمیت سمجھنی چاہیئے کہ انہیں ہمیشہ ایک دوسرے کو سمجھاتا رہنا چاہیئے اور یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ دوسرے کی اصلاح نہیںہوسکتی ۔ اور اگر بالفرض دوسرے کی اصلاح نہ بھی ہو تو کم سے کم جو شخص دوسرے کو سمجھائے گا اس کی اپنی اصلاح تو ہوجائے گی ۔ بہرحال دوسرے کو سمجھانا فائدہ کے بغیر نہیںہوتا۔ پس وعظ و نصیحت کا سلسلہ اپنے اندر بھی جاری کرنا چاہیئے اور غیروں میں بھی جاری کرنا چاہیئے ۔ جہاں دوست ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھیں ان کافرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہیں کہ سچ بولو۔ معاملات میں صفائی رکھو ۔ گالی گلوچ سے کام نہ لو ۔جھگڑا نہ کرو۔ محبت اور پیار سے رہو۔ جب اس قسم کے وعظ و نصیحت کاسلسلہ بند ہوجائے تو نئی پود کئی قسم کی غلطیوں میں مبتلا ہوجاتی ہے پرانے لوگ تو شیطان سے بہت ہی لڑائیاں لڑچکے ہوتے ہیں۔ اور ان کے اندر نیکی اور تقویٰ پیدا ہوچکا ہوتا ہے ۔ مگر نئی پود نے وہ لڑائی نہیں کی ہوتی اس لئے شیطان ان کے اندر آسانی سے داخل ہوجاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے آدمؑ اور شیطان کاقصہ اسی لئے بیان کیا ہے کہ ذرا سی غفلت بھی بہت بڑے نقصان کا موجب ہوجاتی ہے ۔اگر آدمؑ جو شیطان کے ساتھ دیر سے جنگ کرتا چلا آرہاتھا ۔ دھوکا کھا سکتا ہے تو جن سے شیطان کی ابھی جنگ ہی نہیں ہوئی وہ تو اس کے فریب میں بہت جلد آسکتے ہیں۔ آدمؑ اسی لئے شیطان کے دھوکا میں آیا کہ شیطان مذہب کا لبادہ اوڑھ کر آدمؑ کے سامنے آیا اورحضرت آدمؑ نے سمجھا کہ اب اس کی اصلاح ہو چکی ہے ۔چنانچہ انہوںنے اس کیساتھ صلح کرلی ۔ اور نتیجہ خراب نکلا ۔ مگر جس شخص نے شیطان سے ابھی لڑائی شروع ہی نہیں کی۔ اس کے سامنے اگر شیطان بزرگ بن کر آ جائے تووہ جلدی دھوکا کھا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اس قصہ کے بیان کرنے سے یہی منشاء ہے کہ جب آدمؑ شیطان کو دیکھ کر دھوکا کھا گیا تو وہ لوگ جو ابھی شیطان کے ہتھکنڈوں سے واقف ہی نہیںوہ اس کی طرف سے کیسے مطمئن ہوسکتے ہیں۔ پس موجودہ اور آئندہ نسلوںکو شیطان کے حملوں سے بچانے کیلئے اسلام یہ نصیحت کرتاہے کہ تم اپنے اندر بھی وعظ و نصیحت کا سلسلہ جاری رکھو اور بیرونی دنیا کو بھی ہمیشہ خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے رہو تاکہ شیطان ذریّتِ آدمؑ کو گمراہ کرنے سے ہمیشہ کیلئے مایوس ہوجائے ۔ بہرحال عاد کی قوم نے ہودؑ کی نصیحتوں پر کوئی کان نہ دھرا اور اس کو جھٹلادیا۔ جس کا نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا ۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً۔ وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّوْمِنِیْنَ وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۔ فرماتا ہے انہوں نے تو بڑے بڑے مکانات بنا کر اپنا نشان قائم کیا تھا مگر ہم نے ان کی بستیاں مٹا کر ایک نشان قائم کردیا ۔ لیکن اس نشان کا ہود کی قوم کوکیا فائدہ پہنچا۔ وہ تباہ ہوگئی اور بعد میں آنے والوں کیلئے ایک عبرت کانشان قائم کرگئی ۔
کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَ٭
ثمود نے بھی رسولوں کو جھٹلایا تھا ۔
اِذْ قَالَ لَھُمْ اَخُوْھُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ٭
جب کہ انہیں ان کے بھائی صالح ؑ نے کہا تھا کہ کیاتم تقویٰ نہیں کرتے ؟
اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ٭
میں تمہاری طرف ایک امانت دار پیغامبر بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
فَاتَّقُوْ االلّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ٭
پس اللہ (تعالیٰ) کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔
وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۔ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ٭
اور میں اس کام پر تم سے کوئی اُجرت طلب نہیں کرتا میری اُجرت تو رب العالمین کے ذمہ ہے (جس نے مجھے بھیجاہے)
اَتُتْرَکُوْنَ فِیْ مَا ھٰھُنَآ اٰمِنِیْنَ٭
کیا(تم خیال کرتے ہوکہ) جو کچھ اس (دنیا) میں ہے تمہیں اسی میں ان کے ساتھ (زندگی بسر کرتے ہوئے ) چھوڑ دیا جائے گا ۔
فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ٭
یعنی باغات اور چشموں میں ۔
وَّ زُرُوْعٍ وَّ نَخْلٍ طَلْعُھَا ھَضِیْمٌ٭
اور لہلہاتے کھیتوں میں اور کھجوروںمیں جن کے پھل بوجھ کی وجہ سے ٹوٹے جارہے ہوں۔
وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِھِیْنَ٭
اور تم لوگ پہاڑ کھودکھود کر (اپنی بڑائی پر) اِتراتے ہوئے گھر بناتے ہو۔
فَاتَّقُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ٭
پس اللہ کا تقویٰ اختیارکرو اور میری اطاعت کرو۔
وَلَا تُطِیْعُوْٓ ااَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ٭
اور حد سے بڑھ جانے والے لوگوں کی باتوں کو مت مانو۔
الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ٭
وہ لوگ جو ملک میں فساد کرتے ہیںاور اصلاح نہیں کرتے۔۲۶؎
۲۶؎ حل لغات:۔طَلْعٌ: طَلْعٌ مِّنَ النَّخْلِ کے معنے ہیں شَیْئٌ یَخْرُجُ کَاَ نَّہٗ نَعْلَانِ مُطْبَقَانِ۔ کھجور کا خوشہ جس کے اندر پھل پیدا ہوتا ہے (اقرب)
ھَضِیْمٌ: دَاخِلٌ بَعْضُھَا فِیْ بَعْضٍ کَاَنَّمَا شُدِخَ۔ وہ خوشہ جس کا ایک حصہ دوسرے کے اندر داخل ہو(اقرب)
تَنْحِتُوْنَ: نَحَتَ سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور نَحَتَ الْحَجْرَ کے معنے ہیں سَوَّاہُ وَاَصْلَحَہٗ پتھر کو گھڑ کر ٹھیک کیا۔ اور نَحَتَ الْجَبَلَ کے معنے ہیں حَضَرَہٗ۔ پہاڑ کو کھودا (اقرب)پس تَنْحِتُوْنَ کے معنے ہوں گے ۔تم کھودتے ہو۔
فَارِھِیْنَ: فَارِہٌ سے جمع کا صیغہ ہے اور اَلْفَارِہُ کے معنے ہیں اَلْحَاذِقُ بِالشَّیْئِ۔ کسی کام کا ماہر (اقرب)
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔عاد ؔکے بعد ثمود کی قوم آئی اور ان میں صالح ؑ نبی آیا ۔ اس نے بھی اپنی قوم کو تقویٰ کی نصیحت کی۔اور بتایاکہ میں تم سے اس تعلیم کے بدلہ میں کچھ مانگتا نہیں۔ میری مزدوری میرا خدا دے گا ۔ تم جن مادی ترقیات پر خوش ہو وہ قائم نہیں رہیں گی۔ نہ یہ باغات رہیں گے ۔نہ چشمے۔ نہ کھیتیاں ۔ نہ کھجوریں جن کے خوشے ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔ تم لوگ بڑے فخر سے پہاڑ کھود کھودکر مکان بناتے ہو مگر عزت حاصل کرنے کا یہ طریق نہیں۔ عزت حاصل کرنے کا طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرواور جو لوگ حد سے نکل جانے والے ہیں اُن کی فرمانبرداری مت کرو۔ اسیطرح وہ لوگ جو زمین میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے ان کے پیچھے مت رہو۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم ثمود عاد کی قائم مقام تھی ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلُکُمْ خُلَفَآئَ مِنْ بَعْدِ عَاد ٍ(اعراف ع۱۰)یعنی اس وقت کو یادکرو جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں عاد کے بعد انکا قائم مقام بنایا ۔ فتوح اؔلشام کا مصنف ابواسمٰعیل لکھتا ہے کہ ثمود کی قوم بصریٰ سے لے کر جو شام کا ایک شہر ہے عدن تک پھیلی ہوئی تھی اور وہیں ان کی حکومت تھی۔ یونانی تاریخوںمیںبھی ثمود کا ذکر آتا ہے اور انہوں نے اس کا ذکر مسیحؑ کے زمانہ کے قریب کیا ہے اور حجرؔ کو اس کا مرکزی مقام بنایا ہے جو اس حکومت کا دارالحکومت معلوم ہوتا ہے۔ یہ مقام مدینہ منّورہ اور تبوک کے درمیان تھا ۔ اور اس علاقہ میں اس قوم کا بڑا زور تھا ۔
اَتُتْرَکُوْنَ فِیْ مَاھٰھُنَآ اٰمِنِیْنَ ۔فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ۔وَّزُرُوْعٍ وَّ نَخْلٍ طَلْعُھَا ھَضِیْمٌ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم ثمود کا ملک چشموں والا اور باغات والا تھا ۔ وہاں کھجوریں بھی اچھی قسم کی ہوتی تھیں اور زراعت بھی خوب ترقی پرتھی ۔ اسی طرح وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِھِیْنَ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کو سنگ تراشی میں کمال حاصل تھا ۔ چنانچہ پرانے آثار سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ شہروں کے شہر پہاڑوں کی کھوہ میں بناتے چلے گئے تھے ۔حتّٰی کہ بعض جگہ انہوں نے پتھر کاٹ کاٹ کر عجیب و غریب محل بنا لئے تھے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اس کے سوا اُن کے اور کسی قسم کے مکان نہیں ہوتے تھے بلکہ اس سے ان کی خاص عمارتوں کی طرف اشارہ ہے جس سے ان کے تمدن کی ترقی ظاہر ہوتی ہے ۔ اسی طرح پہاڑ کھود کھود کر اپنی رہائش کے لئے مکانات اور شہر بنانے میں اس طرف بھی اشارہ معلوم ہوتا ہے ک یہ قوم سال کا کچھ حصہ پہاڑوں پر سیرو تفریح کے لئے بسر کرتی تھی مگر اس کے باوجود کسی کو ان کے ملک پرحملہ کرنے کی جرأت نہیںہوتی تھی ۔ اس قوم نے بھی حضرت صالحؑ کا انکار کیا اور ان کی باتوں پر کان نہ دھرا ۔ چنانچہ حضرت صالحؑ کے سمجھانے پر اس قوم نے جو جواب دیا اس کا قرآن کریم اگلی آیات میں ذکر فرماتا ہے ۔
قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ٭
اس پر وہ (لو گ جو کافر تھے )بولے۔ تجھ کو صرف کھانا دیا جاتا ہے ۔
مَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۔ فَاْتِ بِاٰیَۃٍ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ٭
تُو ہماری طرح کا ایک آدمی ہے ۔پس اگر تو سچاہے توکوئی نشان ظاہر کر۔
قَالَ ھٰذِہٖ نَاقَۃٌ لَّھَا شِرْبٌ وَّلَکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْ مٍ٭
اُس نے کہا۔ یہ ایک اونٹنی ہے ایک دن اس کے لئے گھاٹ پر پانی پینا مقرر ہے اور ایک دن تمہارے لئے گھاٹ سے پانی لینا مقرر ہے ۔
وَلَا تَمَسُّوْھَا بِسُوْٓئٍ فَیَاْخُذُکُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَظِیْمٍ٭
اور تم اس (اونٹنی) کو کوئی نقصان نہ پہنچانا ورنہ ایک بڑے دن کا عذاب تم کو پکڑ لے گا۔
فَعَقَرُوْ ھَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِیْنَ٭
(یہ سن کربھی ) انہوں نے اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور (پھر) شرمند ہوگئے ۔
فَاَخَذَھُمُ الْعَذَابُ۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً۔ وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّوْمِنِیْنَ٭
تب ان کو (موعود) عذاب نے آپکڑا ۔ اس میں یقینا ایک بہت بڑا نشان تھا ۔ لیکن ان میں سے اکثر مومنوں میں شریک نہ ہوئے ۔
وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ٭
اور تیرا رب یقینا غالب (اور) باربار رحم کرنے والاہے ۔۲۷؎
۲۷؎ حل لغات:۔ عَقَرُوْھَا:عَقَرَہٗ کے معنے ہیں جَرَحَہٗ ۔ اُس کو زخمی کردیا۔ نَحَرَہٗ اس کو زبح کیا۔اور جب اونٹ کے متعلق یہ لفظ استعمال کریں اور کہیں کہ عَقَرَالْاِبِلَ تو معنے ہوں گے قَطَعَ قَوَ اِلٰمَھَا بِالسَّیْفِ اس کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں (اقرب) پس عَقَرُوْھَا کے معنے ہوں گے انہوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں۔
تفسیر:۔حضرت صالح علیہ السلام نے جب انہیں نصیحت کی تو انہوں نے جواب میں کہا کہ اے صالحؑ !ہمیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تجھے کھانا دیا جارہا ہے۔یعنی ہمیں تباہ کرنے کے لئے کوئی غیر حکومت تجھے رشوت دے رہی ہے۔ ہر نبی کے وقت میں ایسا ہی ہوا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی مخالف کہتے تھے کہ بعض اور لوگ اس کی مدد کررہے ہیں۔ اور بانی سلسلہ احمدیہ کے وقت میں بھی لوگ یہ کہتے تھے کہ انگریز ان کو روپیہ دے کر مسلمانوں کے خلا ف کھڑ اکررہے ہیں۔
مَآاَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا۔آخر تجھے کیا لال لگے ہوئے ہیں تو ہمارے جیسا ایک آدمی ہی ہے نا ۔ اگر ایسا نہیں اورتو واقعہ میں اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو جو نشان تیرے پاس ہے وہ لے آ۔ حضرت صالح علیہ السلام نے جواب میںکہا کہ لو یہ میری اونٹنی ہے۔ چشمہ پر تم اکھٹے ہوتے ہوتو فساد ہوتا ہے۔ اب تمہارے امتحان کیلئے یہ نشان مقرر کیا جاتاہے کہ ایک دن یہ پانی پیئے گی اور ایک دن تم پانی پی لینا یعنی اپنے جانوروں کو پانی پلانا اور اپنے لئے بھی پانی لے لینا اور اس کو کوئی تکلیف نہ دینا اگر تم اس کے خلاف عمل کرو گے تو تم کو ایک بڑے دن کا عذاب پکڑے گا ۔ انہوں نے اس اونٹنی کے پائوں کاٹ دیئے ۔مگر بعد میں شرمندہ ہوگئے ۔
لوگ ان آیات سے اونٹنی خصوصیات نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ بلکہ بعض مفسرین نے تو عجیب وغریب قصے بھی بیان کردئے ہیں ۔وہ کہتے ہیں لوگ حضرت صالح علیہ السلام کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم تو تب مانیں گے جب فلاں پہاڑ سے اونٹنی پید اکر دو۔انہوں نے دعا کی تو پہاڑ میں سے اونٹنی نکل آئی اور پھر اسی وقت اس اونٹنی نے اپنے جیسا ایک بچہ بھی جن دیا۔( تفسیر جلالین جلد ۲ صفحہ ۱۶۴ ودرمنثورجلد ۳صفحہ ۹۸)مگریہ سب لغو باتیں ہیں جن کا قرآن کریم سے کوئی تعلق نہیں ۔قرآن کریم اس اونٹنی کی پیدائش کو نشان قرار نہیں دیتا بلکہ اس کی آزادی کو نشان قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر کفار نے اس اونٹنی کو دکھ پہنچایا تووہ عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ مگر اس لئے نہیں کہ وہ اونٹنی اپنی ذات میں کوئی اہمیت رکھتی تھی بلکہ اس لئے کہ حضرت صالحؑ اس اونٹنی پر چڑھ کر سارے ملک میں تبلیغ کیا کرتے تھے ۔ اُس زمانہ میں موٹر نہیں تھے نہ ریل اور ہوائی جہاز وغیرہ ایجاد ہوئے تھے ۔ سفر کا ذریعہ صر ف اونٹنی تھی جس پر سوا ر ہوکر حضرت صالح ؑ خدا تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے تھے ۔چونکہ مخالف ان کی اس تبلیغی تگ ودو کو پسند نہیں کرتے تھے اس لئے لازماً وہ آپ کے تبلیغی سفروں میں روک ڈالتے ہوں گے اور آپ کو ادھر اُدھر ہونے نہیں دیتے ہوں گے ۔جب ان کی شوخیاں اور شرارتیں حد سے گزر گئیں تو اللہ تعالیٰ نے اس اونٹنی کو ان کے لئے ایک نشان قرار دے دیا اور فرمایا کہ تم صالحؑ کی اونٹنی کو اِدھر اُدھر پھرنے دواور اس کی تبلیغی مساعی میں روک مت بنو۔ ورنہ خدا تعالیٰ کے عذاب کا مورد بن جائو گے انہوں نے اس انداز کو بھی ایک مجنونانہ بڑ خیال کیا اور تمرّد اور سرکشی سے کام لیتے ہوئے اس اونٹنی کے پائوں کاٹ دیئے ۔ جس کے معنے یہ تھے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو چیلنج کیا اور کہا کہ ہم اپنے ملک میں تیرے نام کو بلند کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ جب انہوں نے خدا تعالیٰ کے لئے اپنے ملک کے دوروازے بند کردیئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس ملک کے دروازے ان کے لئے بند کردیئے ۔اور اس نے انہیں اپنی قہری تلوار کا نشانہ بنا دیا ۔بیشک کو عذاب کو دیکھ کر آخر میں وہ شرمند بھی ہوئے ۔مگر اس وقت شرمندگی کا کیا فائدہ تھا ۔ فرماتا ہے اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ۔وَمَا کَانَ اَکْثَرَھُمْ مُّوْمِنِیْنَ اس واقعہ میں بھی ایک بڑا بھاری نشان ہے جو آئندہ آنے والی نسلوںکو یہ سبق دیتا ہے کہ الٰہی جماعتوں کے تبلیغی راستہ میں روڑے اٹکانا اور خدا تعالیٰ کے نام بلند کرنے کی اجازت نہ دینا قوموں کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مستحق بنا دیتا ہے۔ مگریہ چیز تو بعد میںآنے والے لوگوں کے لئے صرف درس عبرت کا کام دے رہی ہے ۔ خود اس قوم کی اکثریت ایمان سے محروم رہی مگر یہ قوم بھی اپنی ہلاکت اوربربادی سے خداتعالیٰ کے عزیز اور رحیم ہونے کو ثابت کرگئی ۔ اُس نے چاہا تھا کہ صالحؑ مغلوب ہوکر مگر خدا اور اس کا رسول ہی غالب آئے ۔ اورپھر اس نے چاہا تھا کہ صالحؑ کی تبلیغی مساعی رنگ نہ لائیں اور خدا اور اس کے رسول کا نام دنیا میں نہ پھیلے مگر خدا تعالیٰ کی رحیمیت نے حضرت صالحؑ کی تبلیغی کوششوں میں برکت ڈالی اور ان کے انفاسِ قدسیہ سے ایک ایسی جماعت تیا رہوگئی جس نے خدا تعالیٰ کے نور کی قندیلیں اپنے سینوں میں روشن کیں اور بھولی بھٹکی دنیا کے لئے ہادی اور راہنما بن گئی۔
کَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ الْمُرْسَلِیْنَ٭
لوط ؑ کی قوم نے رسولوں کا انکار کیا ۔
اِذْ قَالَ لَھُمْ اَخُوْھُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ٭
جب کہ ان کے بھا ئی لوط نے کہا کہ کیا تم تقویٰ اختیار نہیں کرتے؟
اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ٭
میں تمہاری طرف ایک امانت دار پیغامبر بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
فَاتَّقُوْ االلّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ٭
پس اللہ (تعالی)کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔
وَمَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۔ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ٭
اور میں اس (کام) کے بدلہ میں تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا ۔میر ابدلہ تو صر ف ربّ العالمین کے ذمہ ہے ۔
اَتَاْ تُوْنَ الذُّکْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَ٭
کیا تمام مخلوقات میں سے تم نے نروںکو اپنے لئے چُنا ہے ۔
وَتَذَرُوْنَ مَاخَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ ۔ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ٭
اورتم ان کو چھوڑتے ہو جن کو تمہارے ربّ نے تمہاری بیویوں کی حیثیت سے پید ا کیا ہے (صرف یہی تمہیں کہ تم ایسا فعل کرتے ہو)۔ بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ )تم (انسانی فطرت کے ) تقاضوں کو ہرطرح توڑنے والی قوم ہو۔۲۸؎
۲۸؎ تفسیر:۔فرماتا ہے۔ لوطؑ کی قوم نے بھی رسولوں کا انکار کیا ۔ اس جگہ بھی لوطؑ کیلئے مرسلین کا لفظ استعمال کیا گیاہے۔جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ لوطؑ اپنے زمانہ میں باقی نبیوںکی طرح سب رسولوں کا قائم مقام تھا اور اس کا انکار درحقیقت سب نبیوںکا انکار تھا لوطؑ نے بھی اپنی قوم سے کہا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک رسول امین کی حیثیت میں تمہاری طرف آیا ہوں۔ تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری سنو تاکہ تم نجات پائو۔ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ۔میر ااجر صرف رب العالمین خد ا کے ذمہ ہے۔میں تو اس لئے آیا ہوںتاکہ تم کو برائیوں سے بچنے کی نصیحت کروں۔ اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی طرف توجہ دلائوں۔ تم میں یہ ایک بڑی خرابی پائی جاتی ہے کہ تم مردوں سے جنسی تعلقات قائم کرتے ہواور اللہ تعالیٰ نے تسکین جذبات اور باہمی عودّت و الفت کے قیام کے لئے جو مرد و عورت کے تعلقات کا سلسلہ قائم کیا ہے اس کو پسِ پُشت ڈال رہے ہو۔ یہ چیز بتا رہی ہے کہ تم انسانی فطرت کے تقاضوں کو توڑنے والی قوم ہو۔
قَالُوْالَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ یٰلُوْطُ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِیْنَ٭
انہوں نے کہا۔ اے لوطؑ! اگر تو باز نہ آیا تو تُو ملک بدر کئے جانے والوں میں شامل ہوجائے گا ۔
قَالَ اِنِّیْ لِعَمَلِکُمْ مِّنَ الْقَالِیْنَ ٭
اُس (یعنی لوط ؑ ) نے کہا (بہرحال) میں تمہارے عمل کو نفرت سے دیکھتا ہوں۔
رَبِّ نَجِّنِیْ وَاَھْلِیْ مِمَّا یَعْمَلُوْنَ٭
اے میرے ربّ! مجھے اور میرے اہل کو ان کے اعمال سے نجات دے ۔۲۹؎
۲۹؎ حل لغات:۔ قَالِیْنَ:قَلٰی سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے اور قَلٰی فُلَانًا کے معنے ہیں اَبْدَنَہٗ وَکَرِھَہٗ غَایَہَ الْکَرَاھَۃِ فَتَرَکَہٗ۔ کسی کو ناپسند کیا اور ناپسندیدگی کے بناپر چھوڑ دیا (اقرب)
تفسیر۔انہوں نے لوطؑ کی نصیحتوں سے تنگ آکر اسے دھمکی دی کہ اگر تو باز نہ آیا تو ہم تجھے اپنے ملک سے نکال دیں گے ۔ لوطؑ نے کہا! بے شک نکال دو۔ میں تمہارے اعمال کو بڑی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ خدایا مجھ کو اور میرے خاندان کو ان کے برے اعما ل سے بچا ئیو۔
اس آیت میں ایک تو یہ سبق دیا گیا ہے کہ عذاب ظاہری سے نجات مانگنی اتنی اہم نہیں جتنی کہ عملِ بد سے نجات مانگنی اہم ہے ۔ اور دوسرا سبق یہ دیا گیا ہے کہ نفرت ہمیشہ برے اعمال سے رکھنی چاہیئے نہ کہ گمراہ اور خطاکار انسان کو بھی قابلِ نفرت سمجھنا چاہیئے ۔ اصلاح اخلاق کے سلسلہ میں یہ ایک نہایت ہی اہم نکتہ ہے جس پر اسلا م نے خصوصیت سے زور دیا ہے اور بد اور بدی میں فرق کیا ہے ۔وہ یہ تو کہتا ہے کہ برائی کو دور کرو مگر وہ یہ نہیں کہتا کہ برائی کو دور کرنے کے ساتھ ہی بد کو مٹا ڈالو۔ بلکہ وہ ان دونوں میں ایک حد قائم کرتا اور اس کو ملحوظ رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٓیٰ اَلَّا تلعْدِلُوْا۔ اِعّدِلُوْ اھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی(مائدہ ع ۲)کسی قوم کی دشمنی تمہاری آنکھوں پر ایسا پردہ نہ ڈال دے کہ تم اس کے متعلق نہ انصافی اور ظلم پر اُتر آئو۔ تمہارا کا م یہ ہے کہ تم اس کے متعلق بھی عدل و انصاف کی حدود کا خیال رکھو ورنہ تقویٰ کے مقام سے تم اپنے آپ کو گرانے والے ہوگے ۔ گویا اسلام دشمن کی قابلِ نفرت حرکات سے تو بیزاری کی تعلیم دیتا ہے مگر دشمن کی دشمنی رکھنے سے منع کرتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے لَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْ کُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِ کُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَلَا تُقْسِطُوْٓ ا اِلَیْھِمْ(ممتحنہ ع ۲) وہ لوگ جو تمہارے دین کے مخالف توہیں مگر تمہیں اپنے مظالم کا تختہ مشق بنا کر نہیں جبراً اپنے دین سے منحرف کرنے کی کوشش نہیںکرتے ۔نہ تمہیں اپنے وطن سے بے وطن کرتے ہیں ان کیساتھ نیکی اور حسنِ سلوک کرنے اور ان کے معاملات میں عدل وانصاف سے کام لینے سے اللہ تعالیٰ تمہیں ہرگز نہیں روکتا تمہارا کام یہ ہے کہ تم ان سے نیکی کرو۔اور ان کے معاملات میں بھی انصاف کا پورا پورا خیال رکھو ۔غرض اسلام بنی نو ع انسان کو نصیحت کرتا ہے کہ اگر کسی فر د یا قوم کو تم تقویٰ و طہارت کے خلاف عمل کرتا دیکھو تو اس کے فعل سے تو نفرت کرو مگر اس فرد یا قوم کی خیر خواہی کا جذبہ اپنے دل سے کبھی ہٹنے نہ دو۔ کیونکہ اگر یہ جذبہ مٹ گیا تو تم ان کی اصلاح سے بھی غافل ہوجائو گے ۔حضرت لوط علیہ السلام نے بھی اسی اخلاقی کمال کا مظاہرہ کیا اور فرمایا کہ میں تمہاری اصلاح کے لئے تورات دن کوشش کررہا ہوں لیکن تمہارے گندے افعال سے مجھے شدید نفرت ہے ۔ اس قدر نفرت کہ میں اللہ تعالیٰ سے بھی دعا کرتارہتا ہوں کہ وہ مجھے اورمیرے تمام جسمانی اور روحانی اہل کو بھی ان برائیوں سے محفوظ رکھے مگر تعجب
ہے کہ وہی لوطؑ جن کے اخلاقی کمال کی قرآن کریم نے اس قدر تعریف کی ہے اور جن کے متعلق اس نے دوسری جگہ یہ خبر دی ہے کہ اَدْخَلْنٰہُ فِی رَحْمَتِنَا (انبیاء ع ۵)ہم نے اُسے اپنے سایہ رحمت میں جگہ دی ۔ اس پر بائیبل یہ نہایت ہی گندہ اور ناپاک الزام لگاتی ہے کہ اس نے اپنی لڑکیوں سے سے بدکاری کی ۔اور پھر ان لڑکیوں سے ناجائز بچے پید اہوئے (پیدائش باب ۱۹ آیت ۳۰تا ۳۷)مگر پھر بائیبل جو ایک طرف تو حضرت لوط ؑ اور ان کی پاک دامن بیٹیوں پر بدکاری کا الزام لگاتی اور ان کے بطن سے ناجائز بچوں کی ولادت کا اشتہار دیتی ہے دوسری طرف یہ بھی لکھتی ہے کہ اس حسکاری کے نتیجہ میں ایک بیٹا موآبؔ پیدا ہوا جو موآبیوں کا باپ بنا ۔اور دوسرابیٹا بن عمیؔ پیدا ہوا جو بنی عمون کا باپ بنا۔ گویا ایک طرف تو وہ حضرت لوطؑ اور ان کی بیٹیوں پر الزام لگاتی ہے اوردوسری طرف یہ کہتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان بچوں پرایسا فضل کیا کہ وہ بڑے بڑے خاندانوںکے بانی قرار پائے اور خداتعالیٰ نے ان سے ایک لمبا سلسلہ نسل جاری کر دیا ۔ اگر حضرت لوط ؑ ایسے ہی اخلاق کے حامل ہوتے جس قسم کے اخلاق بائیبل ان کی طرف منسو ب کرتی ہے تو کیا اللہ تعالیٰ ان کی نسل کو ایسی ہی برکت دیتا جیسی بائیبل کے بیان کے مطابق انہیں دی گئی ۔پس بائیبل کا اپنا بیان جو خداتعالیٰ کی ایک فعلی شہادت پر مشتمل ہے اس کے بیان کردہ الزام کو جھوٹا قرار دے رہا ہے ۔اور پھر قرآن کریم جو ایک کتاب مبین کی شکل میں نازل ہواتھا اُس نے کھلے لفظوں میں بتادیا کہ لوطؑ ہمارے مقربین میں سے تھا اور وہ ان تمام گندے اور ناجائز افعال سے منّزہ تھا جن میں اس کی قوم گرفتا رتھی ۔بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے بھی دعائیں کرتا رہتا تھا کہ وہ اس کی مدد کرے۔ اور اسے اور اس کے اہل کو ان برائیوں سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔
فَنَجَّیْنٰہُ وَاَھْلَہٓٗ اَجْمَعِیْنَ٭
پس ہم نے اس کو ۔ اور اس کے اہل کو سب ہی کو نجات دی ۔
اِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغٰبِرِیْنَ٭
سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہنے والوں میں شامل ہوگئی۔
ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِیْنَ٭
پھر(لوطؑ کو نجات دینے کے بعد) سب دوسروںکو ہم نے ہلاک کردیا۔
وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ مَّطَرًا۔فَسَآئَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ٭
اور ہم نے ان پر (پتھر وں کی) بارش برسائی ۔ اور جن کو (خدا کی طرف سے) ہوشیا رکردیا جاتا ہے (لیکن پھر بھی باز نہیں آتے )ان پر برسائی جانے والی بارش بہت بری ہوتی ہے ۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً۔ وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّوْمِنِیْنَ٭
اس واقعہ میں یقینا ایک بڑ انشان تھا لیکن ان (کفار) میں سے اکثر پھر بھی مومن نہ بنے ۔
وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ٭
تیرا ربّ یقینا وہ ہے جو غالب(اور) باربار رحم کرنے والاہے ۔۳۰؎
۳۹؎ حل لغات :۔ھَجُوْزًا : اَلْعَجُوْزُ اَلْمَرْأَۃُ الْمُسِنَّۃُ لِعِجْزِھَا عَنْ اَکْثِرَ الْاُمُوْرِ۔بڑھیا عورت۔ ار بڑھیا عورت کو عجوز کا نام دینے میںیہ حکمت ہے کہ اکثر امور سر انجام دینے سے وہ عاجز ہوتی ہے (اقرب)
غَابِرِیْنَ: غَبَرَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور غَبَرَ کے معنے ہیں۔ مَکَثَ وَبَقِیَ ۔ ٹھہر گیا اور وہ پڑا (اقرب) نیز اَلْغِیْرُ کے معنے ہیں اَلْحِقْدُ۔ کینہ (اقرب)پس غَبِرْ کے معنے ہوں گے ۔ پیچھے رہنے والا اور کینہ رکھنے والا۔
تفسیر:۔ فرماتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا کو سن کر اس کو اور اس کے تمام خاندان کو تو بچا لیا مگر اس کی بڑھیا بیوی عذاب کا شکار ہوگئی۔ کیونکہ وہ غابرین میں سے تھی۔ لُغت میں غِیْر کے ایک معنے اَلْحِقْدُ یعنی کینہ کے بھی لکھے ہیں (اقرب) پس غَابِرِیْن کا لفظ استعمال فرما کر اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ حضرت لوطؑ کی بیوی ان لوگوں میں سے تھی جو حضرت لوط ؑ کی تعلیم سے کینہ اور بُغض رکھتے تھے۔اور آپ کی مخالفت کے درپے رہتے تھے اس لئے جب عذاب آیا تو وہ بھی اُنہی لوگوں کے ساتھ شامل کر دی گئی ۔ بائیبل نے اس مقام پر یہ بیان کیا ہے کہ حضرت لوطؑ کی بیوی بھی بچائے جانے والے لوگوں میں شامل تھی بلکہ لکھا ہے کہ فرشتوں نے اس کا اور اس کی جورو کا اور اس کی دونوں بیٹیوں کا ہاتھ پکڑ ا کیونکہ خداوند کی مہربانی اس پر ہوئی اور اسے نکال کر شہر سے باہر پہنچا دیا ۔(پیدائش باب ۱۹ آیت ۱۶) مگر پھر بائیبل ہی بیان کرتی ہے کہ جاتی دفعہ اس نے پیچھے پھر کے دیکھا اور وہ نمک کا کھمبا بن گئی ۔ (پیدائش باب ۱۹ آیت ۲۶) اوّل تو جیتے جاگتے انسان کا محض پیچھے مڑ کر دیکھنے کی وجہ سے نمک کا کھمبا بن جانا ایک ایسا امر ہے جو بائیبل کے معتقدین کے نزدیک توممکن ہے قابلِ تسلیم ہو۔ مگر کوئی اور شخص اس خوش اعتقادی کا قائل نہیں ہوسکتا۔دوسرے جب اللہ تاعلیٰ کا منشاء یہی تھاکہ ان کی بیوی عذاب سے محفوظ رہے تو اسے نمک کا کھمبا کیوں بنا دیا گیا اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اس عورت نے دس بیس قدم کے بعد پھر تباہ ہونا ہے تو اسے پکڑ کر باہر نکالنے کے کیا معنی تھے؟بائیبل کے یہ متضاد بیانات بتا رہے ہیں کہ انسانی دست بُرد نے اس کی روایات کو انتہائی مخدوش بنا دیاہے۔سچی بات یہی ہے جو قرآن کریم بیان کی کہ حضرت لوطؑ کی بیوی آپ کے مخالف گروہ سے تعلق رکھتی تھی اسی لئے جب عذاب آیا تو وہ بھی اس کی لپیٹ میں آگئی ۔چنانچہ فرماتا ہے ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی (پتھروں کا ذکر سورئہ حجر ع ۵میں کیا گیا ہے)یعنی ایک سخت زلزلہ آیا جس سے ان کی زمین جو پتھریلی تھی پہلے نیچے سے اٹھ کر اوپر آئی اور پھر اوپر سے نیچے گری ۔اور بجائے پانی کے اوپر سے پتھر برسے جس سے وہ تباہ ہوگئے ۔شدید زلزلوں میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ ان سے زمین کے ٹکڑے اڑ کر پھروہیں آکر گرنے لگتے ہیں ۔ فرماتاہے ۔ یہ بھی ایک نشان تھا مگر بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے ۔ وہ قوم تو پھر بھی ایمان نہ لاسکی ۔
بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لوطؑ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھائی حارانؔ کے بیٹے تھے اور اُدرؔ سے جو عراق کا ایک قصبہ تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہی ہجرت کرکے فلسطین کی طر ف چلے آئے تھے ۔اورپھر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے الگ ہو
کر سدومؔ نامی ایک بستی میں رہنے لگے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کاذکر کرکے مکہ والوں کو توجہ دلائی کہ اگر تم اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو لوطؑ کے دشمنوں جیسا سلوک تم سے بھی کیا جائے گا۔ چنانچہ جس طرح لوطؑ کی قوم پر پتھر برسے اسی طرح بدرؔ کی جنگ میں ان پر پتھر پڑے یعنی ایک نشان کے طور آندھی چلی جس کے نتیجہ میں کنکر اُڑاُڑ کر کفار کی آنکھوں میں گھس گئے اور وہ مقابلہ کی طاقت کھو بیٹھے ۔جس کے نتیجہ میں ان کے بڑے بڑے صنادید بدرؔ کے میدان میں ہی ہلاک ہوگئے ۔اور قریش کی عظمت اور ان کے دبدبہ کا خاتمہ ہوگیا پھر معنوی طور پر بھی ان سے یہی سلوک ہوا ۔ چنانچہ جس طرح سدوم کی بستی کے اوپر کے حصہ کو نیچے کردیا۔ اسی طرح کفارِ مکہ کی عزتیں خاک میں مل گئیں۔ ان کے بڑے بڑے خاندان تباہ ہوگئے اوروہی بچے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش میں پناہ گزیں ہوئے ۔
کَذَّبَ اَصْحٰبُ لْئَیْکَۃِ الْمُرْسَلِیْنَ٭
بَن کے رہنے والوں نے بھی رسولوںکا انکار کیا تھا ۔
اِذْ قَالَ لَھُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ٭
جب کہ ان سے شعیبؑ نے کہا کہ کیا تم تقویٰ نہیں کرتے ۔
اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ٭
میں تمہاری طرف ایک امانت دار پیغامبر کی حیثیت سے آیا ہوں ۔
فَاتَّقُو االلّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ٭
پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔
وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ۔ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ٭
او رمیں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ۔ میرا بدلہ صرف رب العالمین (خدا) کے ذمہ ہے ۔۳۱؎
۳۱؎ تفسیر:۔قومِ لوطؑ کے ذکر کے بعد اب اللہ تعالی ٰ اصحاب الائیکہ کا ذکر فرماتا ہے اور بتاتا ہے کہ اصحاب الایکہ نے بھی رسولوں کا انکار کیا تھا ۔ اَیکہ کے معنے ایسے درخت کے ہوتے ہیں جس کی ٹہنیاں بہت پھیلی ہوئی ہوں یا اس جنگلی کے ہوتے ہیں جس میں کثر سے بیریاں اور پیلو کے درخت آگے ہوئے ہوں۔ اور اَیْکٌ اس کی جمع ہے ۔ اسی طرح عربی زبان کا ایک یہ بھی محاورہ ہے کہ فُلَانٌ فَرْعٌ مِنْ اَیْکَۃِ الْمَججدِ کہ فلاں شخص ایکۃ المجد کی ایک شاخ ہے ۔ یعنی اَیْکٌ اعلیٰ خاندان کے لوگوں کو بھی کہتے ہیں۔ پس اصحاب الایکہ کے ایک معنے یہ بھی ہوسکتے ہیںکہ اس میں کسی ایسے علاقہ کا ذکر ہے جس جگہ کے لوگ اپنے آپ کو بڑ اخاندانی سمجھتے تھے اور چونکہ اگلی آیت یعنی اِذْ قَالَ لَھُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ میں حضرت شعیبؑ کا ذکر ہے اور حضرت
شعیبؑ مدین کے رہنے والے تھے جو عربوں کا ایک شہر ہے اور عرب اپنے آپ کو عرانیوں سے زیادہ اچھی نسل کا سمجھتے تھے ۔ اس لئے اس آیت کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ شعیبؑ کی قوم نے جو اپنے آپ کوبڑے خاندان میں سے سمجھتی تھی اپنے رسولوں کا انکارکیا ۔ اسی طرح اس کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ شعیبؑ کی قوم نے جو ایک گھنے جنگل کی مالک تھی اپنے رسولوں کا انکار کیا ۔ دوسری جگہ قرآن کریم نے حضرت شعیبؑ کومدینؔکا رسول قراردیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَاِلیٰ مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا (ھود ع ۸)ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیبؑ کو رسول بناکر بھیجا تھا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینؔ کے باشندے ہی اصحاب الایکہ کہلاتے تھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعہ میں مدینؔ کے پاس کوئی ایسا جنگل تھا جس میں بیری اور پیلو کے درخت بکثر ت پائے جاتے ہوں ۔سواس بارہ میں ایک یونانی جغرافیہ نویس کے حوالہ سے مسٹربرینؔ نے اپنی کتاب ’’گولڈمائنز آف مدین‘‘ میں لکھا ہے کہ خلیج عقبہ کے پیچھے نباتات اور اشجار کے سوا کچھ نہیں ہوتا جو انسانی قدوقامت کے برابرا ہوتے ہیں اور جن کی وجہ سے ہرنوں کے گلّے ۔جنگلی اونٹ اور بارہ سنگھے وہاں کثرت سے رہتے ہیں اسی طرح مویشی اور بھیڑوں کے گلّے بھی (ارض القرآن) اس تاریخی شہادت سے ظاہر ہے کہ مدینؔ کے پاس جو خلیج عقبہ کے سر پر واقع تھا ایک بڑا جنگل تھا جس میں قدِ آدم درخت تھے ۔ اور پیلو اور جنگلی بیر قدآدم ہی ہوتے ہیں ۔ وہاں جنگلی اونٹ رہتے تھے یہ بھی پیلو اور بیر کے درختوں کی موجودگی کی ثبوت ہے کیونکہ اونٹ اسی قسم کے درختوں پر گزارہ کرتے ہیں۔ مویشیوں اور بھیڑوں کے گلّوں کا ذکر بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ مدینؔ کی قوم اسی جنگل میں اپنے جانور چرایا کرتی تھی ۔ یہ قوم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے مدینؔ کی اولاد تھی جو ان کی بیوی قتورہؔ کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے (پیدائش باب ۲۵آیت ۱تا ۴)اور انہی کے نام پر مدین ؔ کہلائے اور پھر اسی نام پرانہوں نے ایک شہر بھی بسایا۔
قرآن کریم نے مدین قوم اور مدین ؔ شہر دونوں کا ذکر کیا ہے ۔ چنانچہ قوم کے معنوں میں تو فرماتا ہے وَاِلیٰ مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا (ہودع ۸)یعنی مدین قوم کی طرف ہم نے انہی کے بھائی شعیبؑ کو مبعوث کیا ۔ اور شہر کے معنوں میں سورئہ توبہ میں ذکر کیا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَاَصْحٰبِ مَدْیَنَ ولالْمُوْتَفِکٰتِ(توبہ ع ۹) یعنی کیا ان کو مدین شہر کے رہنے والوں اور ان بستیوں کی تباہی کی خبر نہیں پہنچی جو عذاب سے اُلٹا دی گئی تھی یعنی قوم لوطؑ کی بستیاں ۔ حضرت شعیب ؑ نے بھی اس قوم سے یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔ میں تمہاری طرف خداتعالیٰ کے ایک رسول کی حیثیت سے آیا ہوں اور اپنے کام کے بدلہ میں تم سے کچھ مانگتا نہیں میر ا بدلہ ربّ العالمین خدا مجھے دے گا ۔
اس آیت میں اور پہلی کئی آیتوں میں گزرچکا ہے کہ جب ہر پہلے رسول نے کیا کہ میری اطاعت کرو توساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ۔ جس سے الٰہی حکومت اور دنیوی حکومت میں فرق معلوم ہوتا ہے ۔ لوگ اطاعت کرو ا کے اجر لیا کرتے ہیں مگر ان آیات میں یہ مذکور ہے کہ میری اطاعت کرو۔ میں اس اطاعت کی وجہ سے تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ۔ پس معلوم ہوا کہ آسمان کی طرف سے جس اطاعت کا حکم آتا ہے وہ جبری اطاعت نہیں ہوتی بلکہ اطاعت کروانے والا درحقیقت بندوں کا خادم ہوتا ہے مگر چونکہ خادم ہمیشہ اجرت لیا کرتے ہیں اس لئے ہر رسول کے منہ سے یہ کہلوایا گیا کہ میرے اطاعت ایسے رنگ میں ہوگی کہ میں تمہاری خدمت تو کروں گا لیکن تم سے کوئی اجر نہیں لوںگا۔ گو بظاہر تم تو میرے مطیع نظرآئو گے لیکن حقیقتاً میں تمہارا خادم ہوںگا۔ وہ تمہاری
اطاعت بھی نرالی ہوگی اور میری خدمت بھی نرالی ہوگی ۔ تم بظاہر اطاعت کرتے ہوئے مجھ سے خدمت کروا ئو گے ۔ اورمیں انتہادرجہ کی خدمت کرتے ہوئے بھی تم سے کوئی اجرت نہیں لوں گا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی بلند مقام عطا فرمایا۔اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی القُرْبیٰ(پ ۲۵ الشوریٰ ع ۳)یعنی اے محمدؐ رسول اللہ ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس محبت اور پیار کے جو اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے کی جاتی ہے۔ مسلمانوں میں سے بعض لوگ غلطی سے اس آیت کے یہ معنی کرتے ہیں کہ تم پر جومیرے احسانات ہیں ا ن کے بدلہ میں مَیں ذاتی طورپر تم سے کسی چیز کا خواہش مند نہیں ہاں میں تم سے صرف اتنی خواہش کرتاہوں کہ میرے رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا۔ مگر یہ معنے درست نہیں ۔ کیونکہ اس صور ت میں آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ میں تم سے اور کوئی اجر نہیں مانگتا ہاںیہ ضرور مانگتا ہوں کہ میرے رشتہ داروں کا خیال رکھنا حالانکہ قرآن کریم کی دوسری آیا ت میں وضاحتًا کہاگیا ہے کہ میں تم سے کوئی ایسا اجر نہیںمانگتا جس کا دنیا کیساتھ کوئی تعلق ہو۔ صرف یہ چاہتاہوں کہ خداتعالیٰ پر ایمان لائو ۔ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تو اللہ تعالیٰ سورئہ سباع۱۲میں یہاں تک فرماتا ہے کہ قُلْ مَا سَاَلْتُکُمْ مِّنْ اَجْرِ فَھُوَ لَکُمْ ۔یعنی اگر تمہارے خیال میں مَیں نے کوئی اجر تم سے مانگا ہے تووہ ہرگز نہ دینا اسے اپنے ہی گھر رکھو۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کہنا کہ مجھ پر ایمان لائوا ورمیرے احکام کی اطاعت کرو یہ کوئی ایسی بات نہیںجس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ذاتی فائدہ ہو۔ ایمان اور اطاعت وتو بہرحا ل لوگوں کی اپنے فائدہ کی چیز ہے ۔ پس اس جگہ جو اجر کا لفظ آیا ہے اور جس کے طلب کرنے کی نفی کی گئی ہے اس سے مراد ایسا ہی اجر ہوسکتا ہے جس کا جسمانی طورپر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یا آپ کے خاندان کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔ اورجہاں تک ایسے اجر اکا تعلق ہے جس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی طور پر فائدہ پہنچ سکتا۔ اس کی نفی دوسری آیت میں جو اسی مفہوم میں آئی ہے موجو د ہے ۔
پس جب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری جگہ بغیر کسی استثنیٰ کے کہہ دیا ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور ساتھ ہی دوسرے انبیاء نے بھی یہی کہا ہے کہ ہم کوئی اجر نہیں مانگتے تو اب اس آیت میں اِلَّا المَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ کے کوئی ایسے معنے کئے جائیں۔جن کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے تعلق ہو تو یہ اوّل تو دوسری آیت کیخلاف ہوگا ۔ دوسرے اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انبیاء سابقین پر فضیلت ثابت ہونے کی بجائے نقص ثابت ہوگا ۔ کیونکہ یہی آیت اللہ تعالیٰ پہلے انبیاء کے منہ سے بھی نکلواتا ہے ۔ مگر وہاں یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے بغیر کسی اجر کی امید کے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بنی نوع انسان کی خدمت کی ۔ ان سے کسی معاوضہ کا تقاضا نہیں کیا ۔ نہ اپنے لئے ۔ نہ اپنے رشتہ داروں کے لئے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ ؐ نے نعوذ باللہ گو یہ تو کہا کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا مگر پہلے انبیاء کے طریق کے خلاف اتنا ضرور کہا کہ میرے رشتہ داروں کا خیال رکھنا اور ان سے محبت کیاکرنا ۔ پس یہ بات ایسی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص کرنے والی اور آپؐ کے درجہ کو گھٹانے والی ہے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اِلَّا استثنیٰ ہے اور استثنیٰ جو نفی کے بعد آئے اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ پہلے جملہ میں جس چیز کی نفی کی گئی تھی اس کے حکم سے بعد میںآنے والی شئے باہر ہے ۔مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ میرے پاس پانچ پانچ
نوٹوں کے سو ا اور کوئی نوٹ نہیں۔ تو اس کے یہ معنی ہوںگے کہ اس نے جو نوٹوں کی نفی کی تھی اس میں سے پانچ پانچ روپے کے نوٹوں پر وہ نفی اثر اندا ز نہیں ۔ ان معنوں کی رُو سے اگراَلْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ کے معنے رشتہ داروں کی محبت کے کئے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنے کا اجر چاہتا ہوں اور اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ کی سخت تنقیص ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ (۱)اگر مَوَدَّۃٌ کے معنے جسمانی رنگ میں نیک سلوک کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اے لوگو! میں تم سے جسمانی طورپر نیک سلوک کی امید نہیں رکھتا مگر میرے رشتہ داروں سے جسمانی طور پر نیک سلوک کرتے رہنا اور(۲)اگر مودۃؔکے معنے روحانی تعلق کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اے لوگو ! میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ مجھ سے روحانی تعلق رکھو صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرے رشتہ داروں سے روحانی تعلق رکھنا ۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں معنے غلط ہیں جسمانی سلوک کے معنے کرکے یہ مراد لینا کہ میرے رشتہ داروں سے جسمانی طورپر نیک سلوک کرناتوا سلئے غلط ہے کہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سوال کی نسبت ہوتی ہے اوردوسرے انبیاء سے بھی آپؐ کا درجہ گرجاتاہے۔ اور روحانی تعلق کے معنے کرنے سے تو یہ معنے بالکل کفر کے ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوجاتا ہے کہ مجھ سے روحانی تعلق نہ رکھو حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روحانی تعلق پیدا کرکے ہی ایمان حاصل ہوتا ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر فرماتاہے کہ جب تک یہ لوگ اپنی بیویوںاور اپنے بچوںا ور اپنے بھائیوں اور اپنے عزیزوں سے زیادہ تجھ سے پیا رنہیں کرتے اس وقت تک یہ مومن نہیں کہلا سکتے ۱؎ ۔پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ مجھ سے مؤدّت کرنی ضروری ہے اور ایسی ضروری ہے کہ تمہیں میری خاطر اگر اپنے ماں باپ کو چھوڑنا پڑے ۔ اپنے بیویوںکو چھوڑنا پڑے ۔ اپنے بچوں کو چھوڑنا پڑے اپنے بھائیوں کو چھوڑنا پڑے ۔ اپنے دوستوں کو چھوڑنا پڑے تو ان سب کو چھوڑ دو۔ پس اس محبت کانہ صرف وجود ثابت ہے بلکہ قرآنِ کریم کی دوسری آیات سے اس قسم کی مؤدّت کا حکم ثابت ہے ۔ اور بتایا گیا ہے کہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی محبت نہیں رکھو گے جو دوسری تمام محبتوں پر غالب ہو تو اس وقت تم ایمان دار نہیں کہلاسکتے۔ پس یہ دونوں معنے باطل ہیں۔
اب ایک ہی صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ کے الفاظ کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی چسپاں کیا جائے اور اس آیت کے معنے یہ کئے جائیں کہ میں تم سے کوئی دنیوی اجر نہیںمانگتا ہاں تم ایک مطالبہ ضرور کرتا ہوں۔اور وہ یہ کہ تم میرے ساتھ روحانی تعلق پید اکرو اور اس تعلق میںایسے اعلیٰ درجہ کے ثابت قدم نکلوکہ اس کی نظیر کسی دنیوی رشتے میں نہ مل سکے اور یہ معنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے بالکل شایاں ہیں ۔ پس قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرً اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ کے یہ معنے ہوئے کہ میں تم سے ایسے ہی تعلقاتِ محبت کا تقاضا کرتاہوں جیسے اعلیٰ درجہ کے قریب سے قریب رشتہ داروں کا آپس میں ہوتاہے ۔گویا وہ مودّت جو قریبی رشتہ داروں میں ہوتی ہے میں تم سے ایسی مودّت کا اپنے متعلق تقاضا کرتا ہوں۔یہ وہی مضمون ہے جسے دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اِنَ اللہَ یَاْمُرُ بِا لْعَدْلِ وَ الْا ِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبیٰ( نحل آیت ۹۱) فرماتا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں عدل اور احسان اور ایتاء ذی القربیٰ کا حکم دیتا ہے ۔ ایتاء ذی القربیٰ
۱؎ سورئہ توبہ آیت ۲۴۔
سے اس جگہ یہی مراد ہے کہ تمہارا نیکیوں کی طرف ایسا طبعی میلان ہو جائے کہ تمہیں نیکی کا کام کرتے وقت یہ خیال ہی پیدا نہ ہو کہ تمہیں اس کے بدلہ میں کچھ ملے گا یانہیں۔گویا تمہیں وہ مقام حاصل ہوجائے جو تمام دنیوی خیالات اور نتائج اور ثمرات کو نظر انداز کردینے والا ہو۔پس اِلاَّ الْمَوَدَۃَ فِیْ الْقُرْبیٰ کے معنے یہ ہوئے کہ میں تم سے وہ محبت چاہتا ہوں جو ایک ماں اور بچہ کے درمیان ہوتی ہے ۔ ماں اپنے بچہ سے حسن سلوک کرتے وقت یہ خیال نہیں کرتی کہ اس کے بدلہ میں مجھے کچھ ملے گا یا نہیں بلکہ وہ ایک فطری لگاؤ کے ماتحت اس سے پیار اور محبت رکھتی ہے۔ یہی حال بچے کا ہوتا ہے۔ماں کی محبت اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کی ہوئی ہوتی ہیاور وہ اس سے ایک والہانہ تعلق رکھتا ہے یہی امر اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ تم مجھ سے ایسی ہی محبت کرو جیسے ایک بچہ اپنی ماں سے کرتا ہے۔بلکہ دوسری آیت میں مومنوں سے اس سے بڑھ کر کر مطالبہ کیا گیا ہے۔اور فرمایا گیا ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے انبیاء سے اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ محبت ہونی چاہئیے ۔پس یہ کم سے کم مطالبہ ہے جو مومنوں سے کیا گیا ہے۔اور اگر اس حد تک کسی شخص کے دل میں محبت نہ پائی جائے تو اسے سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ اپنے دعوٰیٔ ایمان میں جھوٹا ہوتا ہے ۔ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرً اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ کے اصل معنے یہ ہیں کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ۔ہاں تمہاری اصلاح اور ترقی کے لئے یہ چاہتاہوں کہ تمہیں میرے ساتھ ویسی ہی محبت ہو جیسے ذی القربیٰ میں ہوتی ہے ۔یعنی تمہیں یہ احساس ہی نہ رہے کہ اس کے بدلہ میں ملے گا کیا ؟بدلے اور اجر کا خیال تمہارے دل سے بالکل مٹ جائے ۔
مفسُرین نے اس جگہ قربیٰ کے معنے یہ کئے ہیں کہ وہ رستہ جس سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو تا ہے اِلَّا الْمَوَدَّۃفِی الْقُرْبیٰ کی تشریح انہوں نے یہ کی ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ہے صرف یہ چاہتا ہوں کہ تمہارے اندر خدا تعا لیٰ کے قرب کی محبت پیدا ہوجائے ۔مگر اس میں مشکل یہ ہے کہ قربیٰ کے معنے لغت میں قرابت ِرحمی کے ہی ہوتے ہیں۔قُرب کے معنے نہیں ہوتے ۔لُغت والے اَلْقُرْبَۃُ ۔اَلْقُرْبُ اوراَلْقُرْبیٰ میں فرق کرتے ہیں ۔گویا یہ لفظ ت ؔ کے ساتھ ی ؔ اور بغیرت اور ی ؔ کے آتا ہے قرب کے معنے قُرِبِ مکانی کے ہوتے ہیں ۔ لیکن جب قُرِبِ مکانی نہ ہو بلکہ درجہ کا قُرب مراد ہو بلکہ رحمی تعلقات کے لحاظ سے کسی کا قُرب مراد ہو تو اس کے لئے قُرْبیٰ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ اَقْرَبَ الموارد میںلکھا ہے قِیْلَ الْقُرْبُ فِی الْمَکَانِ وَالْقُربیٰ فِی الرِّحْمِ وَالْقُرْبٰۃُ فِی الْمَنْزِلَۃِ ۔ پس چونکہ اس لغت اس میں فرق کرتی ہے اس لئے ہمیں قربیٰ کے وہی معنے کرنے پڑیں گے جو لغت کے مطابق ہوں ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی کوئی اعتراض پیدا کرنے کا موجب نہ ہو اور وہ معنے یہی ہیں کہ میں تم سے ایسی محبت کا تقاضا کرتا ہوں ۔جو ذی الْقُربیٰ سے کی جاتی ہے۔جو تعلق ماں کا اپنے بچے سے ہوتا ہے یا بچے کا اپنی ماں سے ہوتا ہے یاباپ کا اپنے بیٹے سے ہوتا ہے یا بیٹے کا اپنے باپ سے ہوتا ہے تم وہی تعلق میرے ساتھ پیدا کرو ۔ اس تعلق میں کوئی مادی خواہش نہیں ہوتی بلکہ فطری لگائو کے ساتھ ایک دوسرے سے محبت کی جاتی ہے ۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چونکہ میں معلم ہوں اور میرا کام یہ ہے کہ میں تمہیں دینی تعلیم سکھائوں اس لئے ضروری ہے کہ تمہارے اندر طبعی طور پر یہ احساس پایا جائے کہ تمہیں میرے پیچھے چلنا چاہیئے ۔ پس تم ایسی محبت کرو جیسا بچہ اپنی ماں سے کرتا ہے تاکہ تمہیں میرے سو چ سوچ کر میرے احکام کی اطاعت نہ کرنی پڑے بلکہ آپ ہی آپ میرے احکام کے پیچھے چل پڑو ۔گویا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جیسے بیٹا اپنے ماں یا بیٹا اپنے باپ سے کرتاہے اور یہاں تک وہ اپنے ماں باپ کی نقل کرتاہے کہ اگر ہم غور کریں تو انسانی خود وخالاور حرکات میں بھی بیٹیو ں مائوں باپوں اور لڑکیوں سے اتنی مشابہت پائی جاتی ہے کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے ۔ بعض دفعہ باپ کو اپنا ہاتھ کسی خاص طرز پر ہلانے کی عادت ہوتی ہے تو بیٹا بھی اسی طرز پر اپنا ہاتھ ہلانے لگ جاتا ہے یا ماں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی آنکھ کو کسی خاص طریق پر حرکت دے اس کی بیٹی بھی اسی طریق پر اپنی آنکھ کو حرکت دینے لگ جاتی ہے ۔ یا اگر کسی شخص کو خاص طورپر لوچ اور لچک کے ساتھ بات کرنے کی عادت ہوتو بچے بھی اسی طرح لوچ اور لچک کے ساتھ بات کرتے ہیں اگر باپ کے اندر لکنت پائی جاتی ہو تو عام پر دیکھا جاتا ہے کہ بچوں میں بھی لکنت پیدا ہوجاتی ہے تو بچو ں میں ایسا مادہ پایا جاتا ہے کہ جس طرح وہ اپنے ماں باپ کو کام کرنے دیکھتے ہیں اسی طرح خود کام کرنے لگ جاتے ہیں اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُربیٰ میں اس امر کی طر ف اشارہ ہے کہ تم میرے ساتھ صرف ذہنی تعلق نہ رکھو صرف جذباتی تعلق نہ رکھو بلکہ ایسا تعلق رکھو جیسا کہ بچے کا اپنے ماں اور باپ سے ہوتا ہے جس طرح کہ وہ اپنے ماں باپ کی خود بخود نقل کرنے لگ جاتاہے اسی طرح اگر تم مجھ سے فائدہ اٹھانا چاہو تو میرے ساتھ صرف فکری تعلق نہ رکھو بلکہ ایسا تعلق رکھو کہ تم اپنے افکار اور اپنے خیالات اور اپنے اعمال میں خود بخود میری نقل کرنے لگ جائو جیسا بچہ اپنے ماں یا باپ کی نقل کرنے لگ جاتاہے ۔یہ چیز ایسی ہے جو واقعہ میں قابلِ تسلیم ہے کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی شخص فائدہ اٹھائے گا جو ہر کام میں طبعی طورپر آپ کی نقل کرے گا ۔ اگر یہ مادہ اسکے اندر نہیں ہوگا تو وہ آپؐ سے فائدہ کیا اٹھائے گا ۔
ان معنوں سے آپ کے انبیائے سابقین پر فضیلت بھی ثابت ہوجاتی ہے اوروہ اعتراض بھی واقعہ نہیں ہوتا جو بعض لوگوں کے معنے تسلیم کرنے سے آپؐ پر عائد ہوتا ہے اس آیت کے غلطی سے جو معنے کئے جاتے ہیں وہ دوسرے نبیوں کے مقابلہ میں آپ کی تنقیص کرنے والے ہیں کیونکہ باقی نبی اپنی امتوں سے یہی کہتے رہے کہ ہم تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے مگر ان کے نزدیک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر یہ کہہ دیا کہ تم مجھے بیشک کوئی اجر نہ دو مگر دیکھنا میرے بچوںاور میرے رشتہ داروں کا خیال رکھ لینا ۔ لیکن یہ معنے جو میں نے کئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہی زیادہ مکمل ہے کیونکہ پہلے انبیاء نے صرف یہی کہا کہ ہم تم سے کوئی اجرنہیں مانگتے ۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ میں تم سے ایک اجر مانگتاہوں ۔ مگر وہ اجر بھی ایسا ہے جس کا تمہاری ذات کو ہی فائدہ پہنچ سکتاہے اور وہ یہ کہ تم مجھ سے ایسا تعلق رکھوجیسے بچہ اپنی ماں سے رکھتاہے تاکہ تم رات اور دن میرے اعمال کی نقل کرتے رہو جو کچھ میں کہوں اسکی تم نقل کرو۔اورجو کچھ میں کروں اس کی تم نقل کرو جس طرح ماں باپ ہندوستانی لباس پہنتے ہیں تو بچہ بھی ہندوستانی لباس پہننے لگ جاتاہے۔ ماں باپ جو زبان بولتے ہیں وہی زبان بچہ بھی بولنے لگ جاتاہے اسی طرح تم میری طرف دیکھو اور میری کامل طور پر اتباع کرو۔ تاکہ جو تعلیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہای ہدایت کے لئے مجھے ملی ہے وہ تمہاری رگ رگ اور ریشہ ریشہ میں سرایت کرجائے ۔ یہ معنے ایسے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے انبیا ء کی فضیلت اور برتری ثابت کرنے والے ہیں۔ پہلے انبیاء نے اِلَّا الجمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ نہیںکہا۔ اس لحاظ سے ان کی تعلیم یقینا اس درجہ کی نہیں تھی جس درجہ کی تعلیم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی یہ معنے جو میں نے اس آیت کے کئے ہیں ا ن کی تصدیق اسی آیت کا اگلاحصہ بھی کردیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔ وَمَنْ یَّقْتَرِنج حَسَنَۃُ نَّزِدْلَہٗ فِیْھَا حُسْنًا۔جو شخص نیکی کی کوئی کام کرتا ہے ہم اس کی نیکی کو اس لئے اور زیادہ حسین بنا دیتے ہیں ۔اب اگر اس آیت کے معنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں سے تعلقات ِمحبت رکھنا ہوتا تو مَنْ یَّقْتَرِنْ حَسَنَۃٌ نَّزِدْلَہٗ فِیْھَا حُسْنًا کے ذکر کا موقع ہی کیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ جو شخص نیکیوں میںحصہ لیتا ہے ہم اس کے حسن کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں ۔اب اس آیت کا اس سے کیا تعلق ہوسکتا ہے کہ میرے رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا لیکن میں نے جو معنے کئے ہیں ان کے لحاظ سے یہ آیت بالکل صاف ہے ۔میں نے یہ معنے کئے کہ تمہارا میرے ساتھ بچوں والا تعلق ہونا چاہیئے ۔ جس طرح بچہ بغیر فکر اور بغیر دلیل کے اپنے ماں باپ کی نقل کرتا ہے ۔ اسی طرح تمہارافرض ہے کہ تم میری نقل کرو۔ اس پر سوال پیدا ہوتا تھا کہ بچہ تو عقل کے بغیر نقل کرتاہے پس اگر ہم بھی بچوں کی طرح آپ کی نقل کرتے ہیں اور خود غور اور فکر سے کام نہیں لیتے تو یہ ایک ادنیٰ مقام ہے ۔ انسان کو تو جو بات ماننی چاہیئے وہ علیٰ وجہ البصیرت ماننی چاہیئے نہ کہ اندھا دھند ۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ پہلا درجہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا یہی ہوگا کہ تم ان کی ویسی ہی نقل کرو جیسے بچہ ماں باپ کی نقل کرتاہے مگر مَنْ یَّقْتَرِفْ حَسَنَۃً نَّزِدْلَہٗ فِیْھَا حُسْنًا جو شخص آ پ کی نقل کرے گا ۔ اعمال میں آپ کی نقل کرے گا جذبات میں آپ کی نقل کرے گا او اس طرح نیکیاں اپنے اندر پیدا کرتاچلا جائے گا تو گویہ اوپر کے مقام کی نسبت سے ایک ادنیٰ مقام ہوگا ۔ مگر جوں جوں اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ یقین پیدا ہوتا چلا جائے گا کہ آپؐ خداتعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اور وہ آپ کی کامل متابعت کرتارہے گا تو نَزِدْلَہٗ فِیْھَا حُسْنًا ہم اسے رفتہ رفتہ ایک ایسے مقام پر پہنچا دیں گے کہ اسے اعمال کے متعلق ایک کامل بصیرت حاصل ہوجائے گی ۔ گویا ہم اسے پہلے درجہ پر ہی نہیں رہنے دیں گے بلکہ براہ راست اس کے دل پر نُورِ نبوت نازل کرکے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت اورآپ ؐ کی کامل فرمانبرداری کے طفیل اسے بصیرت بھی عطا کردیں گے ۔
پس نَزِدجلَہٗ فِیْھَا حُسْنًا جو اس آیت کا اگلا حصہ ہے یہ بھی بتا رہا ہے کہ اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ سے مراد دنیوی سلو ک نہیں ورنہ نَزِدْلَہٗ فِیْھَا حُسْنًا کے کوئی معنے ہی نہیںبنتے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں پہلے انبیاء بھی اپنی اپنی جگہوں پر لوگوں سے یہی کہتے ہوںگے کہ ہم تمہارے باپ ہیں۔ جیساکہ قرآن کریم سے پتہ لگتاہے ہے کہ ہر نبی مومنوں کا باپ ہوتا ہے اور وہ ان کو اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوں گے کہ جیسے بچے اپنے ماں باپ کی اطاعت کرتے ہیں اسی طرح تمہارا فرض ہے کہ ہماری اطاعت کرو۔ لیکن جب انہوں نے یہ کہا کہ ہم تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے توا س وقت انہوں نے اس کے ساتھ یہ دوسرا فقرہ نہیں کہا جو قلوب میں ایک گدگدی پیدا کردیتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی شخص سے کوئی بڑا کام لینا چاہتاہے توا س کیلئے سامان میں پیدا کردیتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے جو کام لیا وہ کسی اور نبی سے نہیں لیا۔ اسی لئے آپؐ پر جو کلام نازل ہوا وہ بھی ایسا مکمل ہے کہ اس کی آیات کو پڑھتے ہوئے یو ں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز ہمارے دل کو پکڑ رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ یہ بھی لے لواور وہ بھی لے لو۔
اَوْفُواالْکَیْلَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ٭
(اے لوگو!)پیمانہ پورا (بھر کر)دیا کرو ۔اور (دوسروںکو) نقصان پہنچانے والے مت بنو۔
وَزِنُوْ ابِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ٭
اور سیدھی ڈنڈی سے تولا کرو۔
وَلَا تَبْخِسُواالنَّاسَ اَشْیَآ ئَ ھُمْ تَعْثَوْ افِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ٭
اور لوگوںکو ان کی چیزیں (ان کے حق سے) کم نہ دیا کرو۔ اور ملک میں ہرگز فساد نہ کرو۔۳۲؎
۳۲؎ حل لغات:۔اَلْقِسْطَاسَ:اَلْمِیْزَانُ یعنی قسطاس کے معنے ترازو کے ہیں۔ وَاَقْوَمُ الَمِیْزَنِ۔اور خاص طور پر اُس ترازو کے جو بالکل صحیح تول دیتاہو (اقرب)
تفسیر۔حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم دوسروں کو پیمانہ پورا بھر کردیا کرو۔ اور لوگوں کو نقصان پہنچانے والے مت بنو۔ اور ترازوکی ڈنڈی بھی سیدھی رکھا کرو۔ اور انہیں جائز حق سے کم مت دیا کرو۔ اور ملک میں فتنہ وفساد سے کلی طور پر مجتنب رہو۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم میں شرک کے علاوہ تجارتی بددیانتی کا بھی بڑا زور تھا ۔ چونکہ ان لوگوں کا گزارہ زیادہ ترتجارت پرتھا اس لئے وہ دھوکا اور فریب سے کام لینے لگ گئے ۔ وہ اوّل تو وزن میں کمی کردیتے تھے ۔ جس کیلئے ممکن ہے انہوں نے مختلف قسم کے باٹ رکھے ہوئے ہوں ۔اشیاء لیتے وقت اور قسم کے بٹے استعمال کرتے ہوں اور دیتے وقت اور قسم کے بٹوں سے وزن کرتے ہوں۔ پھر وہ ڈنڈی مارنے میں بھی مہارت رکھتے تھے ۔ اور ماپ اور تول دونوں میں لوگوں کو لٹنے کی کوشش کرتے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں تجارتی بددیانتی سے بازرکھنے کی کوشش کی ۔ مگر وہ لوگ جنہیں حرام مال کھانے کی چاٹ لگ گئی تھی اس سے کب باز آنے والے تھے انہوں نے اور بھی اپنے ہاتھ رنگنے شروع کردیئے اور آخر وہ وقت آیا جب اُن کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور آسمان سے عذاب کے فرشتے ان کی تباہی کے لئے نازل ہوگئے ۔
افسوس ہے کہ یہ مرض اس زمانہ میں بھی بڑے زوروں پر ہے اور دیانت ہمارے ملک سے اس حد تک اٹھ چکی ہے کہ ہرشخص چاہتا ہیکہ وہ دوسرے کو جس حد تک ممکن ہولوٹے اور نقصان پہنچائے ۔ گاہک چاہتے ہیں کہ دوکاندار کم قیمت وصول کریں۔ اور دوکاندار اس کا علاج یہ سوچتے ہیں کہ وہ ناقص اور گندی چیزیں کم قیمت پر گاہکوں کو دے دیتے ہیں میں تو سودا لینے نہیں جاتالیکن چونکہ سودے ہمارے گھروں میںآتے رہتے ہیں اس لئے میں کہہ سکتا ہوں کہ سودوں میں بالعموم دیانت سے کام نہیں لیاجاتا ۔آٹے میں مٹی ملی ہوئی ہوتی ہے اور کھانڈ اور شکر میں بھی بہت کچھ میل اور گند ہوتاہے یہ دوچیزیں ایسی ہیں جو فوراً نظرآجاتی ہیں چنانچہ کھانڈ کے ہرچمچہ میں انسان اگر آنکھیں کھول کر دیکھے تو اسے بہت سی مٹی ملی ہوئی دکھائی دیگی ۔ جس صاف معلوم ہوتا ہے کہ وزن زیا دہ کرنے کے لئے مٹی ملائی جاتی ہے۔ اسی طرح آٹے میں ریت اور مٹی ہوتی ہے ۔ دانت کے نیچے آٹے کو ذرا چبا کر دیکھو تو فوراً اس سے کِرکِر کی آواز آنے لگے لگی ۔ عام طور پر ہمارے ملک میں لوگ اپنی صحت کا خیال نہیںرکھتے حالانکہ اگر وہ لقمہ لقمہ چبا کر کھانے کی عادت
رکھتے توا نہیں معلوم ہوجاتا کہ وہ آٹا نہیں کھا رہے بلکہ گند کھا رہے ہیں ۔نوّے فی صدی آٹا ایسا ہوتا ہے جس میں کِر کِر ہوتی ہے۔ذرا اسے دانتوں کے نیچے دباؤتو کِر کِر کی آواز آنے لگ جائے گی اور یہ صحت لئے سخت مضر ہوتا ہے ۔پھر یہ دھوکہ بازی بھی ہے کہ دوکاندار قیمت خالص آٹا کی وصول کرتے ہیں اور آٹا وہ دیتے ہیں جس میں ریت اور مٹی ملی ہوئی ہوتی ہے ۔بد دیانتی صرف اس چیز کا نام نہیں کہ تم کسی کا ناحق روپیہ لے لیتے ہو بلکہ بددیانتی اس بات کا بھی نام ہے کہ تم کسی کی کوڑی اُٹھالیتے ہو ۔اسی طرح بددیانتی صرف اس کا نام نہیں کہ تم ۹۵فی صدی آٹا اور ۵فیصدی مٹی ملا کر دو بلکہ اگر تم ۹۸فیصدی آٹااور ۲فیصدی مٹی ملاتے ہو ۔یا ننانوے فیصدی آٹا اور ۱فیصدی مضی ملاتے ہو یا ساڑھے ننانوے فیصدی آٹااورنصف فیصدی مٹی ملاتے ہو بلکہ اگر تم ۹۹۹ حصّہ آٹا اور ۱۰۰۰/۱ حصہ مٹی ملاتے ہو تو وہ بھی ویسی ہی بددیانتی اور گندی عادت ہے جیسے۵فیصدی مٹی ملانا ۔نیکی اور بدی دل سے تعلق رکھتی ہے ۔جس طرح اگر کوئی شخص خداتعالیٰ کی راہ میں اخلاص سے ایک پیسہ دیتا ہے اور وہ یہ امید رکھتا ہے کہ اس کا ایک پیسہ امیر آدمی کے ایک لاکھ روپیہ سے کم نہ سمجھا جائے اور وہ اخلاص سے ایک پیسہ دے کر سمجھتا ہے کہ اس نے ایک لاکھ روپیہ دینے والے جیسی قربانی کی تھی تو اسی طرح اگر کوئی شخص ۵ فیصدی ٹھگی کرتا ہے تو وہ بھی ٹھگ ہے اور جو ۱۰۰۰/۱ حصہ کی ٹھگی کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی ٹھگ ہے ۔جس طرح نیکی کی جزا نیت پر ہے اور اسی طتح بدی کی سزا بھی نیت پر ہے ۔جس طرح اللہ تعالیٰ یہ نہیںدیکھتا کہ اس کی راہ میں ایک غریب نے اخلاص سے ایک پیسہ دیا اور دوسرے امیر نے ایک لاکھ روپیہ دیا ۔بلکہ وہ اخلاص دیکھتا ہے اور اس کے مطابق جزا دیتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ ایک نے ۵ فی صدی ٹھگی کی ہے اور دوسرے نے آدھ فی صدی بلکہ وہ کہے گا کہ دونوں نے ٹھگی کی ہے۔۵ فیصدی ٹھگی کرنے والے نے بھی ٹھگی کی ہے اور ۱۰۰۰/۱حصہ ٹھگی کرنے والے نے بھی ٹھگی کی ہے تقدس اور نجات کا دل سے تعلق ہوتا ہے اور جس طرح زیادہ نیکی بھی نیکی اور تھوڑی نیکی بھی سمجھی جاتی ہے اسی طرح زیادہ بدی بھی بدی اور تھوڑی بدی بھی بدی سمجھی جاتی ہے ۔ممکن ہے کسی جگہ دوکاندار خود اس قسم کی حرکات نہ کرتے ہوں اور ماہر سے بے احتیاطی سے اس قسم کا ناقص مال لے آتے ہوں۔ لیکن اس صورت میں بھی وہ برے نہیں ہوسکتے کیونکہ اگر کوئی شخص جاتا ہے اور خراس والے سے گندہ آٹا لے آتا ہے تو یہ اسی کا قصور ہے اگر گندہ آٹا تھا تو وہ کیوں لایا ۔ اُسے چاہیئے تھا کہ وہ نہ لاتا۔ اور اگر وہ ناقص مال سمجھ کر سستا لے آیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ بلا واسطہ فائدہ اٹھاتا ہے ۔ مثلاً دوسری جگہ سے اچھا آٹا خریدتا تو اس کے ایک سو ایک روپے خرچ ہوتے ۔ لیکن جس خراس والے سے اس نے خریدا اُسے سو روپے دینے پڑے تواس صور ت میں بھی یہ ٹھگ ہے کیونکہ یہ دوسرے کی ٹھگی میں شریک ہوتا ہے ۔ پس اگر اس قسم کی ٹھگی یہ خود نہیں کرتا بلکہ باہر سے ناقص سودا لاتا اور بیچتا ہے تب بھی وہ ویسا ہی ٹھگ ہے جیسے اپنے ہاتھ سے آٹے میں مٹی ملانے والا۔ ولایت میں کئی چور ایسے ہیں جو یتیم بچوں کی پرورش کرتے اورپھر ان کے ذریعہ چوریاں کرواتے ہیں ۔ اب کیا تم سمجھتے ہو وہ یتیم بچوں کے ذریعہ چوریاں کروانے کی وجہ سے کم چورہیں۔ اگر خود چوری کرتے تو زیادہ چور ثابت ہوتے ۔ وہ ویسے ہی چور ہیں جیسے اپنے ہاتھ سے چوریاں کرنے والے۔ اسی طرح جب تم خراس سے ناقص آٹا لاتے ہو اور یہ سمجھتے ہو کہ یہ خراب ہے تو تم ویسے ہی مجرم ہو جیسے اپنے ہاتھ سے آٹے میں مٹی یا ریت ملانے والا۔ پھر کئی لوگ بظاہر دیانت دار بھی ہوتے ہیں اور وہ مٹی نہیں ملاتے لیکن جب گیہوںکو صاف کرنے کے لئے زمین پر پھیلاتے ہیں تو اسے سمیٹتے وقت جب جھاڑو دیں گے تو پائو یا سیر کے قریب
اس میں مٹی بھی ملا دیں گے اور اپنی طرف سے یہ سمجھیں گے کہ ہم تو بڑے دیانت دار ہیں حالانکہ وہ دیانت دار نہیں ہوتے ۔ اسی طر ح بعض غلّہ فروش کمپنیوں کے ایجنٹ غلّہ خریدتے ہیں ۔ تو اس میں باریک غبار ملادیتے ہیں ۔چونکہ لاکھوں کا غلّہ ہوتاہے اس لئے ان کی یہ چا لاکی چھپی رہتی ہے اور ہر ایک کو اس کا پتہ نہیں لگتا ۔بعض لوگ غلّے کو پانی کا چھینٹادے دیتے ہیں ۔ تاکہ بوجھل ہو جائے ۔ اسی طرح اگر کسی کو کچھ خریدنا ہوتا ہے تو کہتا ہے میں نے اتنا مال لیا مگر تم کچھ بھی رعایت نہیں کرتے اور اگر بیچنا ہوتا ہے تو کہتاہے کہ کیا تم ہمارا گھر ہی لوٹ کر لے جائو گے ۔اسی طرح بمبئی کے بعض تجار کی نسبت تو عجیب روایات سنی جاتی ہیں ۔کہتے ہیں بعض تاجروں کے تین قسم کے باٹ ہوتے ہیں (۱)پورے وزن کے (۲)بھاری(۳)ہلکے۔ اور ان کے انہوں نے عجیب عجیب نام رکھے ہوئے ہیں۔کسی کا نام سبحان اللہؔ رکھا ہوتا ہے۔ کسی کانام استغفراللہ ؔ اور کسی کانام لاحول ولا قوۃ ۔اور جس قسم کا کوئی آدمی دیکھتے ہیں اُسی طرز کا اس سے سلوک کرتے ہیں ۔اگر ہوشیا ر آدمی ہوتو اصل بٹہ نوکر کو لانے کاحکم دیا۔ اور وہ لفظ بول دیا جس سے اصل بٹو ں کی طرف اشارہ ہوتاہے ۔ کوئی سادہ لوح آیا تو چھوٹے بٹے منگوالئے ۔ اسی طرح دھوکا باز عطاروں کا طریق ہے کہ علاقہ میں کوئی وباء ہوجائے تو حکیم لکھنا شروع کردیتے ہیں کہ مریض کو عرق مکو اور عرق گائو زبان پلائو توایک دیانت دار عطار تو بعض دفعہ کہہ دے گا کہ میرے پاس عرق مکو اور عرق گائو زبا ن تیار نہیں۔ لیکن بددیانت عطار کہے گا ۔ میرے پاس دونوں چیزیں موجود ہیں۔ و ہ پانی لے گا بوتل میں بھر دے گا اور کہے گا یہ عرق مکو ہے ۔ یہ عرق کا سنی ہے ۔ یہ عرق گلا ب ہے ۔ تم جو عرق بھی مانگو گے وہ اس کے پاس موجو د ہو گا ۔
ہماری تاریخ طبّ کی کتابوں میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک عبّاسی بادشاہ نے کہا ۔اب طبّ بڑی ترقی کررہی ہے ۔اس پر کسی نے کہا ۔طبّ ترقی کیسے کرسکتی ہے ۔جب تک دوائیں بیچنے والوں میں دیانت پیدا نہ ہو ۔ طبیب چاہے کوئی نسخہ لکھے اس سے کیا فائدہ ہوگا ۔بادشاہ نے کہا ۔بغداد میں پانچ چھ سو دوکانیں ہیں ۔تم تجربہ کرلو ۔اس پر انہوں نے کسی دوائی کا مصنوعی نام رکھ لیا اور کہا ۔یہ دوا منگوا دو ۔وہ دواآنی شروع ہوئی ۔کسی دوا فروش نے ملٹھی ؔبھیج دی اور کہدیا یہی وہ دوا ہے ۔کسی نے عنابؔبھیجدئے اور کہدیا یہی وہ دوا ہے۔ غرض سب دوکانداوں نے یہی طریق اختیار کیا ۔صرف ایک دوکاندار ایسا نکلا جس نے کہا کہ میرے پاس یہ دوا نہیں ۔میں نے یہ نام پہلے کبھی نہیں سنا ۔بادشاہ نے دریافت کیا کہ کس دوکاندا ر نے سچ بولا ہے ۔تو طبیبوں نے کہا ۔سب جھوٹ بولتے ہیں ۔سچا وہی ہے جو کہتا ہے کہ میں نے یہ نام پہلے کبھی نہیں سنا ۔کیونکہ ہم نے مصنوعی نام رکھ کر یہ تجربہ کیا تھا۔اس تجربہ کی وجہ سے مسلمان بادشاہوں نے دوا سازی کا بھی امتحان رکھا تھا اور دوائوں کی پہچان کے لئے سکول بنائے گئے تھے اور جو شخص وہ مخصوص امتحان پاس کر لیتا تھا صرف اس کو دوائی بیچنے کی اجازت دی جاتی تھی۔عام لوگوں کو دوا فروشی کی اجازت نہیں تھی۔
کشمیر میں مَیں نے دیکھا ہے وہاں لوگ مشک کا نافہ لاتے ہیں ۔اور کہتے ہیں کہ اس کے اندرا یک تولہ مشک ہے ۔اور اس کی اصل قیمت بتیس روپے ہے مگر چونکہ ہمیں روپے کی ضرورت ہے اس لئے ہم آپ کو چوبیس پچیس روپے میں نافہ دے دیں گے۔پھر وہی نافہ جس کی جس کی وہ پچیس روپے قیمت بتاتے ہیں بعض دفعہ آٹھ آنہ میں بھی دے دیتے ہیں ۔اور جب تم آٹھ آنہ کا نافہ لے کر یہ سمجھتے ہو کہ دنیا کے سب سے بڑے ماہر تم ہو کیونکہ تم نے ایک شخص سے مشک کانافہ آٹھ آنہ میں لے لیا تو اس وقت بھی تم دھوکہ خوردہ ہوتے ہو۔کیونکہ جب اسے کھول کر دیکھا جاتا ہیتو اس میں سے کبوتر کے جمے ہوئے خون کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا اور تمہیں معلوم
ہوجاتا ہے کہ بڑے ماہر تم نہیں بلکہ بڑا ٹھگ وہی تھا جو تمہیں لوٹ کر لے گیا۔وہ نوفہ کے باہر تھوڑی سی مشک مل دیتے ہیں اوراندر کبوتر کا خون بھر دیتے ہیں ۔کبوتر کے خون کی بعض دوائیوں کے ملانے سے بالکل مشک کی سی شکل ہوجاتی ہے اور ناواقف آدمی سمجھتا ہے کہ آج میں نے بڑا سستا سودا کیا ہے۔میں نے آٹھ آنہ میں مشک کا نافہ خرید لیا ہے ۔حالانکہ اس میں کبوتر کا خون ہوتا ہے اور کبوتر کے خون کی قیمت ایک روپیہ بھی نہیں ہوتی۔
اسی طرح ایک دفعہ میں کشمیر گیا ۔وہاں ایک قسم کی قالین بنتی ہے جو اونی کپڑے کاٹ کاٹ کر اور پھر ان کو سِی کر بناتے ہیں۔اور اس کو گابھاؔ کہتے ہیں ۔ہمیں وہ دیکھ کر پسند آیا۔ چنانچہ میں نے بھی چاہا کہ یہاںسے دوچار خرید کر لے جائیں ۔ اپنے گھروں میں تحفہ دیں گے ۔ ایک شخص اسلام آباد میں اس کا م کے لئے اچھا مشہور تھا ۔ میں نے اس کو جا کر کہا ۔ کہ میں یہ قالین پنجاب میں تحفہ لے جانا چاہتاہوں تم مجھے اچھے سے قالین بنا دو۔ اُس نے کہا۔ اچھا کچھ پیشگی دے دیں۔ چنانچہ ہم نے کچھ رقم اس کو پیشگی دے دی اور ہم آگے پہاڑ پر سیر کے لئے چلے گئے ۔ میں نے اُسے یہ بھی کہا کہ دیکھنا میں جو اس کی لمبائی چوڑائی بتائوں گا وہ ٹھیک ہو۔ کیونکہ میں کمروں کے لحاظ سے لے رہا ہوں۔ اُس نے کہا ۔بالکل ٹھیک ہوں گے ۔جب وہ آئے تو مجھے دیکھتے ہی پتہ لگ گیا کہ وہ ٹھیک نہیں ہیںاور پھر جو ماپ کر دیکھا تو ایک بالشت چوڑائی میں کمی تھی ۔میں نے اس کو کہا کہ یہ تم نے بڑی دھوکا بازی کی ہے کہ اس کو چھوٹا بنادیا ہے۔اس پر اس نے شور مچانا شروع کردیا کہ ’’میںمسلمان ہوں‘‘ ’’میں مسلمان ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔ مسلمان تو تم ہوئے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ساتھ تمہارا وعدہ تھا یا نہیں کہ اتنے لمبے چوڑے قالین بنائوں گا۔ اور پھر دوچار آدمیوں کے سامنے یہ بات ہوئی تھی ۔ میں نے ان آدمیوں سے کہا کہ بتائو تمہارے سامنے اس نے یہ وعدہ کیا تھا یا نہیں۔ انہوں نے کہا ۔تمہارے سامنے وعدہ کیا تھا ۔اس پر میں نے اسے کہا کہ دیکھو تم نے وعدہ کیا تھا ۔ وہ اپنے کشمیری طریق پر کہنے لگا ۔ ’’جی میں مسلمان ہوندی۔ میں مسلمان ہوندی‘‘ ۔میری عمر اس وقت کوئی اُنیس بیس سال کی تھی ۔مجھے اس پر غصہ چڑھے کہ یہ اپنا ٹھگی کی ہے جانے دو۔یہ کیوں کہتاہے کہ میرے مسلمان ہونے کے لحا ظ سے میرا حق تھا کہ میں ٹھگی کرتا۔ غرض میں اصرار کروں کہ اسے پورا کرو۔ اور وہ یہی کہتا جائے کہ میں مسلمان ہو۔ میں مسلمان ہوں ۔ گویا اسلام اتنا گر گیا ہے کہ اب یہ سمجھاجا تاہے کہ مسلمان اگر ٹھگی کرے تو یہ بھی اس کا ایک قسم کا جائز حق ہے ۔
میں جب پہلی دفعہ کشمیر گیا تومجھے معلوم ہوا کہ کشمیر کے تاجروں کی صرف چاندی کے کام کیایک کروڑ روپیہ کی تجارت یورپ والوں سے تھی۔ایک کروڑ روپیہ کی تجار ت کے یہ معنے ہیں کہ بیس پچیس لاکھ روپیہ انہیں بطور منافع حاصل ہوتا تھا اور کام کی مزدوری الگ تھی لیکن مجھے بتایا گیا کہ اب یہ تجارت سولہ لاکھ روپیہ تک رہ گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ کے لوگ کہتے ہیں۔ یہاں کے مال کا کوئی معیارنہیں۔ کبھی کوئی چیز بھیج دیتے ہیں اور کبھی کوئی ۔کبھی تو نہایت اعلیٰ مال روانہ کردیںگے اور کبھی اس میں کھوٹ ملادیں گے۔حالانکہ اگر وہ دیانت داری سے کام کرتے تو وہ ایک کروڑکی تجارت آج تین چار کروڑ روپیہ پہنچی ہوئی ہوتی ۔ پہلے زمانہ میں
تجارتیں بہت کم تھیں۔ تجارت میں زیادتی اسی زمانہ میں ہوئی ہے۔ پھر اگر اس زمانہ میں جب کہ تجارت کا رواج بہت کم تھا ان کی ایک کروڑ روپیہ کی تجارت ہوسکتی تھی تو لازماً اب وہ تجارت تین چار کروڑ روپیہ کی ہوجاتی ۔ مگر بجائے اس کے کہ ان کی تجارت تین چار کروڑ روپیہ تک ترقی کرتی اور کروڑ ڈیڑھ کروڑ روپیہ انہیں نفع حاصل ہوتا۔ پہلی تجارت بھی گر گئی اور وہ ایک کروڑ سے اُتر کر سوالاکھ روپیہ تک آگئی ۔اگر وہ تھوڑے سے نفع کی خاطر بددیانتی کرکے اپنے کام کو نقصان نہ پہنچاتے تونتیجہ یہ ہوتا کہ ان کی یہ تجارت خوب چلتی مگر چونکہ انہوں نے بددیانتی کی اس لئے تجارت میں نفع ہوگیا انگریزوںکے کئی لوگ دشمن ہیں ۔مگر دشمن بھی اقرار کرتے ہیں کہ تجارت کے معاملہ میں انگریزوں پر زیادہ اعتبار کیا جاسکتا ہے ۔ انگریزوں سے اتر کر امریکہ اور جرمن کے لوگ ہیں اور ان سے اتر کر اور ممالک کے لوگ ہیں ۔ مگر ایشیا تجارت میں اتنی خطرناک طورپر بدنام ہے کہ کوئی قوم اس پر اعتبار نہیں کرتی ۔ حالانکہ قوم ترقی ہمیشہ امانت اور دیانت داری کی شہرت کے ساتھ ہوتی ہے ۔اگر تمام مسلمان تاجر دیانتدار ہوں تو لوگ سودوکانوںکو چھوڑ کر ان کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ ان سے سودا اچھا ملتا ہے ۔لیکن اگر کوئی مسلمان دوکاندار بھی ایک من آٹے میں سیر بھی مٹی ملادیتا ہے تو اس کے اندر وہ کون سے چیز ہوگی جس کی وجہ سے لوگ اس کی طرف توجہ کریں گے ۔پس ہر شخص کو اس بات کا فیصلہ کرنا لینا چاہیئے کہ میں نے بددیانتی کو مٹانا ہے ۔ اگر اس کا باپ دوکاندار ہے تو وہ اپنے باپ سے کہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوںگا ۔ اگر اس کے دوست اور رشتہ دار دوکاندار ہیں تو وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے کہہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوںگا ۔اگر اس کی بیوی دوکان کرتی ہے تو وہ اپنی بیوی سے کہہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیںکرنے دوںگا ۔اور اگرتم باز نہ آئے اور اصلاح نہ کی تو میں تمہارے خلاف کھڑا ہوجائوں گا ۔ اگر ہر شخص اس بات کا تہیہ کر لے کہ میں نے بددیانتیوں کا مقابلہ کرنا ہے تو ایک گھنٹہ کے اندر اندر اس عیب کی اصلاح ہو سکتی ہے ۔ اگر تمہار ا بھائی تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتا ہے ۔ اگر تمہارا باپ تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتا ہے اگر تمہاری ماں تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتی ہے اگر تمہاری بیوی تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتی ہے تو یہ بددیانتی اس وقت تک پنپ سکتی ہے ۔ جب تک ان کو یقین ہے کہ تم ان کی محبت کی خاطر ان کی بالا افسروں کے پاس رپورٹ نہیں کروگے ۔ لیکن جب ان کو معلوم ہوجائے گا کہ تم ان کی محبت کی پرواہ نہیں کرو گے اور تم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر وہ بددیانتی سے بازنہ آئے تو تم انکی رپورٹ کرو گے تو کیا یہ ہوسکتا ہے کہ وہ دوسرے منٹ میں بددیا نتی کریں۔ باپ کہے گا بیٹا پچھلا قصور جانے دو آئندہ میں کبھی بددیانتی نہیںکروں گا ۔ بھائی کہے گا پچھلا قصور معاف کرو آج سے میں باز آیا بیوی کہے گی ۔ اب یہ قصور معاف کردو آئندہ میںایسی حرکت نہیں کروں گی ۔ پس قوم کی اصلاح باپ کے ہاتھ میں ہے ۔ باپ کی اصلاح بیٹے کے ہاتھ میں ہے ۔بھائی کی اصلاح بھائی کے ہاتھ میں ہے ۔ بیوی کی اصلاح خاوند کے ہاتھ میں ہے ۔اور ماں کی اصلاح بیٹیوںکے ہاتھ میں ہے ۔اگر تم اس طریق کو استعمال کرو تو چند دن نہیں بلکہ ایک گھنٹہ کے اندر اندر ساری قوم کی اصلاح ہوسکتی ہے ۔لیکن اگر تمہارا دوست دیکھتا ہے کہ وہ بددیانتی کرے گا۔ تو تم اس پر پردہ ڈالوگے اور جھوٹ بولو گے توتم اس کو بھی تباہ کرتے ہواور آپ بھی تباہ ہوتے ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی جماعت روپے سے زندہ نہیں رہ سکتی بلکہ ایمان سے زندہ رہتی ہے اگر روپیہ ہی اصل چیز ہو تو یہودیوں ،عیسائیوں ،پارسیوں اور ہندوئوں کے پاس مسلمانوں سے بہت زیادہ روپیہ ہے ۔پھر خداتعالیٰ نے انکا ساتھ کیوں چھوڑ دیا ۔ اس
لئے کہ ایما ن کا روپے سے کو ئی تعلق نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بھی روپیہ دیتا ہے مگر وہ روپیہ یا تو انعام کے طور پر ہوتاہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُس کے ذریعہ غرباء کی امداد کی جائے ۔ اور یا پھر آزمائش کے طورپر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اس روپیہ کا کیسے استعمال کرتے ہیں۔ اگر تو یہ روپیہ کے آنے سے انسان کا ایمان سلامت ہے تو وہ روپیہ اس کے لئے خیر اور برکت کا موجب ہوتاہے تو وہ روپیہ اس کے لئے خیر اور برکت کا موجب ہوتاہے لیکن اگر وہ روپیہ انسان کے ایمان کو باطل کردیتا ہے اوروہ بے ایمانوں جیسی چالاکیاں کرنے لگ جاتا ہے اور چوروں اور ٹھگوں کی طرح لوگوں کو لوٹتا ہے ۔مثلاً بلیک مارکیٹ شروع کردیتے ہیں ۔مقررہ نرخ پر چیز فروخت نہیں کرتا بلکہ چیز کی موجودگی سے ہی انکار دیتا ہے لیکن اگر اسے کوئی چوری چُھپے حسب منشاء دام دے دے تو وہ فوراًاُسے مہیا کردیتاہے تو وہ روپیہ اس کے لئے عذاب کا باعث بن جاتاہے ۔اس قسم کے ناجائز منافع خوروں کی ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے جیسے کہتے ہیںکہ کسی حریص آدمی کے پاس ایک مرغی تھی جو روزانہ سونے کا ایک انڈیا دیا کرتی تھی۔ اس کے دل میں لالچ پیدا ہوا کہ اگر میں اسے زیادہ کھلائوں تو شاید یہ دو انڈے دینے لگ جائے ۔چنانچہ اس نے مرغی کو پکڑکر اس کا منہ کھول کر روزانہ اسے زیادہ سے زیادہ دانے کھلانے شروع کردیئے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ مرغی بیمار ہو کرمرگئی ۔ اوروہ ایک انڈے بھی محروم ہوگیا۔ اس قسم کے ناجائز منافع خور بھی روپیہ جمع کرتے جاتے ہیں مگر ایک دن آتا ہے جب کسی نہ کسی رنگ میں انہیں اپنی اس بددیانتی خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ۔ فوری نقصان تو اس رنگ میں پہنچ جاتا ہے کہ جب وہ کسی شخص کو ایک سیر چیز دینے کی بجائے پندرہ چھٹانک دیتے ہیں اور وہ گھر جا کر اس کا وزن کرتا ہے تو اسے پتہ لگتا ہے کہ دوکاندار نے اسے چھٹانک چیز کم دی ہے تو وہ آئندہ کے لئے اس سے سودا لینا بند کردیتا ہے ۔ اس طرح بظاہر تو اسے ایک چھٹانک کا نفع ہو اتھا لیکن اسے نقصان ہزار چھٹانک کا ہوگیا ۔ کیونکہ وہ آئندہ کیلئے اس کی دوکان پر نہیں آئے گا ۔ اور کسی دوسرے سے سودا خریدنا شروع کردے گا ۔
یہ خیال کہ صرف بے ایمانی سے ہی روپیہ کمایا جاسکتا ہے اوَل درجہ کا احمقانہ خیال ہے ۔ صحابہؓ دیکھ لو وہ ہرامر میں دیانت کو ملحوظ رکھتے تھے۔ مگر اس زمانہ میں حضرت عبدا الرحمن بن عوفؓ کی وفا ت کے بعد ان کا بچا کھچا روپیہ دوکروڑ نکلا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ دین کے لئے بہت قربانی کرنے والے تھے لیکن اس کے باوجو د ان کے پاس دوکروڑ روپیہ بچ گیا تھا ۔ جو آج کل کے دو ارب کے برابر ہے ۔ اسی طرح تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص گھوڑے کو فروخت کرنے کے لئے بازار میں لایا اوراس نے کہا اس کی پانچ سو درم قیمت ہے ۔ایک صحابی ؓ نے اس گھوڑے کو دیکھا اور اسے پسند کیا اور کہا میں یہ گھوڑا لیتا ہوں ۔ مگر اس کی قیمت میں پانچ سو درم نہیں بلکہ دو ہزار دوہم دوں گا ۔ کیونکہ یہ گھوڑا نہایت اعلیٰ قسم کا ہے اور اس کی قیمت اتنی تھوڑی نہیں جتنی تم بتاتے ہو۔ اس پر گھوڑ ا بیچنے والا اصرار کرنے لگا کہ میں پانچ سو درہم لوں گا اور گھوڑا خریدنے والا اصرار کرنے لگا کہ میں دوہزار درہم دوںگا ۔ایک کہتا کہ تجھے گھوڑے کی پہنچان نہیں یہ گھوڑا زیادہ قیمت کا ہے اور دوسرا کہتا کہ میں صدقہ لینا نہیں چاہتا ۔ میں اپنے گھوڑے کو جانتا ہوں ۔ اس کی قیمت پانچ سو درہم ہی ہے ۔
اس واقعہ پر غور کرو اور دیکھو کہ اس نے کتنا اُلٹ نظارہ دنیا میں نظر آتا ہے ۔ وہاں تو یہ تھا کہ چیز خریدنے والا قیمت بڑھاتا تھا اور چیز بیچنے والا قیمت گراتا تھا ۔ اوریہاں یہ حال ہے کہ دودو آنے کی چیز بعض دفعہ دس دس روپے میں فروخت کی جاتی ہے ۔ ضرور ت اس
امر کی ہے کہ خریدار بھی دوکانداروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں اور دوکاندار بھی گاہکوں کو فریب سے گندی چیزیں نہ دیں۔ اور نہ ماپ او رتول میں انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔
حضرت شعیب علیہ السلام اپنی قوم کو تجارتی دیانت اختیار کرنیکی نصیحت کرنیکے بعد ایک اور نصیحت یہ فرمائی کہ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ :تم زمین میں فسا د نہ کرو۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس قوم میں قتل و غارت اور ڈاکہ زنی کی وارداتیں بھی کثرت سے ہوتی رہتی تھیں۔ چونکہ یہ علاقہ عرب اور شام اور مصر کے راستوں پر تھا اور شام اور مصر کو جانے والے قافلے انکے پاس سے گزراکرتے تھے معلوم ہوتا ہے یہ لوگ مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور بعض کو قتل بھی کردیا کرتے تھے ۔ اِس قیاس کو مزید تقویت اس امر سے بھی حاصل ہوتی ہے کہ یہ لوگ اصحاب الایکہ تھے۔ یعنی ان کے قبضہ میں ایک بہت بڑا جنگل تھا جس میں بیریاں اور پیلو کے درخت بڑی کثرت کیساتھ تھے اور ایسے جنگل میں ڈاکہ ڈالنا زیادہ آسان ہوتا ہے ۔ کیونکہ درختوں کے پیچھے انسان آسانی سے چھپ جاتا ہے ۔ پس حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں نصیحت کی کہ تم تجارتی معاملات میں بھی دیانت اختیار کرو او چوری،ڈاکہ زنی اور قتل وغارت کو بھی ترک کردو۔
وَاتَّقُو االَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالْجِبِلَّۃَ الْاَوَّلِیْنَ٭
اور جس نے تم کو اور تم سے پہلی مخلوق کو پیدا کیا ہے اس کا تقویٰ اختیار کرو۔۳۳؎
۳۳؎ حل لغات :۔ جِبِلَّۃٌ: مفرداتِ امام راغب میں ہے۔جَبِلَّا کَثِیْرٌا ای جَمَاعَۃً یعنی جَبِلَّا کے معنے جماعت کے ہیں (مفردات) پس اَلْجِبِلَّۃَ الْاَوَّلِیْنَ کے معنے ہوں گے پہلی جماعتیں۔
تفسیر:۔پھر فرمایا تم اس خدا سے ڈرو جس نے تم کو بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پہلی قوموں اور جماعتوں کو بھی پیدا کیا ہے یعنی آج تو تم اپنے ان افعال پر نازاں ہو۔ لیکن کیا تم نہیں دیکھتے کہ انہی ناپسندیدہ حرکات کی وجہ سے تم سے پہلے بھی کئی قومیں ہلاک ہوچکی ہیں۔ پھر کیوں تم ان کی ہلاکت اور بربادی سے سبق حاصل نہیں کرتے اور کیوں ان کے زوال کے اسباب پر غور کرکے اپنے اندر تغیّر پیدا کرنیکی کوشش نہیں کرتے ۔
حقیقت یہ ہے کہ قومیں دنیا میں بنتی بھی ہیں اور بگڑتی بھی ہیں ۔اورجب سے دنیا چلی آرہی ہے اُسی وقت سے یہ سلسلہ بھی چلا آرہا ہے ۔ ہزاروں قوموں کی تباہی اور ہزاروں قوموںکی ترقی پر تاریخ کے اوراق شاہد ہیں مگر تاریخ کے تمام واقعات بحیثیت مجموعی انسانی زندگی کے واقعات کا سوواں حصہ بھی نہیں ہیں۔ وہ زمانہ جو تاریخی کہلاتا ہے اس سے بھی مدتوں بیشتر انسان دنیا میں موجود تھا ۔ اورپھر جو زمانہ تاریخی کہلاتا ہے اس کا بھی اکثر حصہ ایسا ہے جس کی تاریخ محفوظ ہے ۔ مگر وہ زمانے جن کی تاریخ محفوظ ہے اور وہ زمانے جن کی تاریخ محفوظ نہیں ان دونوں قسم کے زمانوں میں ہزاروں قومیں بگڑتی اور بنتی چلی گئیں ۔ ہزاروں قوموں نے پہلے بامِ رفعت تک رسائی حاصل کی اور پھر زوال پذیر ہوگئیں اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکا رنہیںکیا جاسکتا ۔ یا یوں کہنا چاہیئے جس طرح انسانی پیدائش کا انکار نہیںکیا جاسکتا اور جس طرح انسانی موت کا انکار نہیں کیا جاسکتا اسی طرح قوموں کی پیدائش اور ان کی موت کا بھی انکار
نہیں کیاجاسکتا ۔ مگر جس طرح بنی نوع انسان ہر روز موت کا مشاہدہ کرنے کے باوجود موت بھلادیتے ہیں ۔ اسی طرح قومیں بھی دوسری قوموں کے تنزل کو دیکھنے کے باوجود اس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتیں ۔
قرآن کریم نے اس مسئلہ پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔اور سورئہ فاتحہ سے لے کر سورئہ الناس تک سارا قرآن کریم ا ن بیانات اسے بھر اپڑا ہے کہ قومی ترقی کے کیا گُر ہیں۔ بیشک اور بھی بہت سے مضامین قرآن کریم میںبیان کئے گئے ہیں ۔اس کے اندر عقلی مضامین بھی بیان کئے گئے ہیں اور علمی بھی ۔ روحانی مضامین بھی بیان کئے گئے ہیںاور جسمانی بھی ۔ اقتصادی مضامین بھی بیان کئے گئے ہیں اور سیاسی بھی ۔ غرض سینکڑوں اور ہزاروں مضامین اس کے اندر بیان ہوئے ہیں لیکن سورئہ فاتحہ کی ابتداء ہی ایسے رنگ میں کی گئی ہے کہ اس میں قومی ترقی اور تنزل سے تعلق رکھنے والے تمام اصول بیان کردیئے گئے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے چھوٹے چھوٹے چشموں سے دریا پھوٹتے ہیں تو ایک کوتاہ اندیش انسان چشمہ میں سے نکلتے ہوئے دریا کو دیکھ کر یہ سمجھنے لگ جاتاہے کہ یہ چھوٹاسا نالہ چند گز یا چند فرلانگ تک جاکر ختم ہوجائیگا یا خشک ہوجائے گا کیونکہ اس کی آنکھ صرف چشمہ میں سے پھوٹتے ہوئے دریا کے اس پاٹ پر ہی ہوتی ہے جس پر سے وہ اگر چھلانگ مار کر اس کے پار جانا چاہے تو بڑی آسانی کے ساتھ جاسکتا ہے ۔ لیکن جب وہ اس چھوٹی سی نالی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے تو وہ یہ دیکھ کرحیران ہوجاتا ہے کہ اب یہ نالی نالے کی صورت اختیار کررہی ہے ۔ تھوڑی دور اور آگے جاکر وہ اور بھی متعجب ہوتا ہے کہ وہ نالہ ایک نہر کی شکل اختیار کررہاہے ۔ اور جب کچھ اورفاصلہ طے کرتا ہے تو یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہتی کہ وہی چھوٹی سی نالی جو چشمے میں سے دھیمے دھیمے پھوٹ رہی تھی اور جس پر سے چھلانگ لگا کر اس پار ہوجانا ذرا بھی مشکل نہ تھا وہ یہاں پہنچ کر بہت بڑ ااور عظیم الشان دریا بن گیا ہے۔ دریائے جہلم جو پنجاب میں پہنچ کر ایک بہت بڑے دریا کی شکل اختیار کر لیتا ہے اپنے دہانہ پر اتنا تنگ ہے کہ چند فٹ سے زیادہ نہیں ۔ اس جگہ کھڑے ہوکر کوئی شخص یہ باور نہیں کرسکتا کہ یہ چشمے میں سے بہنے والا چھوٹا سا نالہ پنجاب کی لاکھوںایکڑ زمین کو سیراب کریگا اور لوگ میلوں میل کشتیوں میں بیٹھ کر اپنی مسافتوںکو طے کریں گے ۔اسی طرح سورئہ فاتحہ کی شروع ہونے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے چشمہ میں سے نکلتے ہوئے نالہ کی لیکن آخر یہ پہنچ کر اس کی مثال بہت بڑے دریا کی سی ہوجاتی ہے ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ میں جس مضمون کو چشمے سے نکلتے ہوئے ایک چھوٹے سے نالے کی طرح بیان کیا گیا ہے ۔ اُسے غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ تک پہنچ کر ایک عظیم الشان دریا کی طرح واضح کردیا گیا ہے ۔ کوئی شخص اگر روحانی نابینا ہوتو الگ بات ہے ورنہ ہر شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ترقی اور تنزل کی تمام منزلیں اس چھوٹی سی سورۃ کے اندر واضح طورپر بیان کی گئی ہیں۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ میں تو ترقی کا مضمون بیان ہوا ہے کہ اے اللہ ہمیں وہ راستہ دکھاجس پر چلنے والے انعام حاصل کرسکتے ہیں۔ اور ہمیں ان قوموں میںشامل فرما جن قوموں نے ترقی کی تھی ۔ مگر آگے چل کر غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ میں بتادیا کہ ہر وہ قوم جس نے ترقی کی وہ آخر کار گر پڑی مگر یہ دعا سکھا کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں تنزل اور پستی سے بچنے کاایک گُر بھی بتا دیا ہے ۔ مستقبل کے متعلق تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے اور کیا ہوگا ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دعا سکھا کر اس امر کی طرف ہماری راہنمائی فرمائی گئی ہے کہ اگر مسلمان توجہ سمجھ اور عقل کو کام میںلائیں تو وہ تنزل سے بچ سکتے ہیں۔ پچھلے دورمیں تو مسلمان اس کی طرف سے توجہ ہٹا لینے کی وجہ سے نہ بچ سکے ۔ لیکن اسلام کیلے ایک نشاۃ ثانیہ کی بھی خبر دی گئی
تھی۔ اور وہ زمانہ مسیح موعودؑ کی بعثت سے شروع ہونا تھا ۔ پس یہ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کی دعا جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہے مسلمان قوم اس پر عمل کرکے دوسری تمام اقوام سے لمبی عمر پاسکتی ہے۔ اور ضلالت سے بچ سکتی ہے۔ یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جو دعا اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بندوں کو سکھاتاہے اس پر اگر عمل کیا جائے تو وہ ہرگز ضائع نہیں جاتی کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک وعدہ مضمر ہوتا ہے کہ اگر تم مجھ سے مانگو گے تومیں تمہیں دے دوںگا ۔ اور یہ خداتعالیٰ کی شان سے بالکل بعید ہے کہ وہ خود اپنے بندوں کو ایک دعاسکھائے اور جب بندے اس دعا پر عمل کریں تو وہ انہیں دے ۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو ایک بہت بڑی چیز ہے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض انسانوں کے وعدے بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں ۔کوئی بادشاہ کوئی ڈپٹی کمشنر کوئی گورنر یا کوئی اور ایسا ہی بڑا حاکم اگر کسی شخص کے ساتھ وعدہ کرے تو وہ شخص اپنے دل میں بڑا خوش ہوتا ہے اور سمجھتاہے کہ یہ لوگ پیشتر اس کے کہ اپنے وعدہ کا ایفاء کریں مربھی سکتے ہیںاور یہ بھی امکان ہوتا ہے کہ وہ کہہ دیں کہ اب ہم اس وعدہ کو پورا نہیں کرسکتے ۔ یاممکن ہے کہ وہ وعدہ کرتے وقت تو بااختیار ہوں لیکن وعدے کے ایفاء کے وقت ان سے تمام اختیارات چھِن چکے ہوں ۔ یا کسی اور محکمہ میں تبدیل ہوگئے ہوں ۔ مگر وہ خدا جو ازلی ابدی ہے وہ نہ بدلتاہے اور نہ مرتاہے اورنہ ہی اس پر کوئی ایسا وقت آسکتا ہے کہ اس سے اختیارات چھِن جائیں اس لئے ہمیں ایسے شخص سے ہزاروں گُنے زیادہ پُر امید ہونا چاہیئے ۔ اور ہمیں اس با ت پر ذرا بھی شک نہیں لانا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کا ایفاء کرے گا ۔ جب خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے تو اس کے اندریہ وعدہ موجود ہے کہ وہ تنزل جو قوموں پر انکے عروج کے بعد آتا ہے مسلمانوں کے اس دعا مانگنے کی وجہ سے پیچھے ڈال دیا جائے گا ۔ اور ان کے عروج کے زمانہ کو لمبا کردیا جائے گا ۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ تھے ۔ جو وَلَا الضَّآلِّیْن کی مدّ اور شدّ سے ایک عجیب استدلال کیا کرتے تھے ۔ وہ بزرگ کہتے تھے کہ وَلَا الضَّآلِّیْن میں جو شدّکے بعد مدّ آئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوںکا زمانہ بہت لمبا ہوگا مگر اس سے بھی بڑا نکتہ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ میں یہ موجود ہے کہ اگرا للہ تعالیٰ نے اس دعا کو پورا ہی نہیں کرنا تھا تو اس دعا پر زور ہی کیوں دیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کا اس دعا کو ہم سے باربار منگوانا بتاتا ہے کہ وہ اسے ضرور پورا کرے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کا گروہ نہ آنا تھا تو یہ دعا مسلمانوں کوسکھائی ہی کیوں گئی تھی ۔ اسی طرح میں کہتاہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بچانا نہ تھا تو غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ والی دعا کیوں سکھائی ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ والی دعا سکھا کر بتا دیا کہ وہ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کا ایک گروہ پیدا کرنا چاہتاہے اسی طرح غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ والی دعا سکھا کر اس نے بتادیا ہے کہ اگر مسلمان اس پر عامل رہے تو ان کو مغضوب اور ضالین میں شامل ہونے سے بھی بچایا جائے گا اگر ضآلین کی مدّ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عیسائیوںکو عروج کالمبا زمانہ نصیب ہوگا تو غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ سے بدرجہ اتم یہ استنباط ہوتاہے کہ مسلمانوں کو عیسائیوں سے بھی لمبا زمانہ دیا جائے گا اور ضآلین سے بھی بچایا جائے گا ۔ حدیثوں سے بیشک یہ معلوم ہوتاہے کہ قیامت کے نزدیک دنیا ہی اشرا ر ہی رہ جائیں گے مگر قرب قیامت کی تعیین کوئی شخص نہیں کرسکتا۔ او رخدا تعالیٰ ہی بہترجانتاہے کہ وہ کب آئے گا ۔ کیونکہ قرآن کریم میں ایک ایک دن کو ایک ہزار اور پچاس ہزار سال کا بتایا گیاہے ۔ اس طرح اگر دنیا کی عمر سات ہزار سال کاشمار کیا جائے تو دنیا کی عمر ستر لاکھ سال بنتی ہے ۔ اور
اگر ایک دن پچاس ہزار سال کا شمار کیا جائے تو یہ عمر ۲۵کروڑ سال بنتی ہے ۔اور خدا کے دن تو اس سے بڑے ہوسکتے ہیںاس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ دنیا کی عمر کتنی ہے ۔ ہم یہ تو مان لیتے ہیں کہ یہ آخری زمانہ ہے مگر اس کی حد بندی کس طرح کی جائے اس کا علم تو صر ف خدا تعالیٰ کو ہی ہے لوگوں کی بحثیں محض فلسفیانہ ہیں ۔ اور فلسفیانہ بحثیں ہمیشہ عبث اور لاحاصل ہوتی ہیں۔ درحقیقت یہ سب باتیں جو آخری زمانہ کے متعلق بیان ہوئی ہیں استعارات سے پُر ہیں جن کی تفصیلا ت ہمیں خداتعالیٰ پر چھوڑ دینی چا ہئیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ سورئہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تم قومی لحاظ سے خواہ کتنی ہی ترقی کرجائو تمہیں ہمیشہ یہ امر مدّ نظر رکھنا چاہئیے کہ اگر تمہارا قدم ذرا بھی پھسلا تویا تو تم مغضوب ؔعلیہم میں شامل ہوجائو گے اور یاپھر ضآلین میں تمہارا شمار ہوجائے گا ۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے اور ہمیشہ اس سے دعائیں کرتے رہو گے کہ وہ وہ تمہارا قدم صراط مستقیم پر قائم رکھے تو اس کا فضل تمہارے شامل حال ہوگا اور ہو تمہیں تنزل اور انحطاط کا شکار ہونے سے محفوظ رکھے گا ۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے اسی نکتہ کی طرف اپنی قوم کو اسی نکتہ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ تم سے پہلے بھی کئی قومیں گزری ہیں جنہیں اپنے اپنے زمانہ میں بڑی بڑی طاقت حاصل تھی مگر جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو وہ تباہ و برباد کر دی گئیں ۔ پھر تم کیوں اپنی چند روزہ زندگی میں تقوی اللہ سے کام نہیںلیتے اور مادّی لذات کے حصول کیلئے ناجائز ذرائع اور تدابیر اختیا ر کرتے ہو ۔
قَالُوْٓا اِنَْمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ٭
(اس پراسکی قوم نے )کہا ۔تُو تو ایسا (شخص) ہے جسے غذادی جاتی ہے ۔
وَمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَاِنْ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ٭
اور تُو صرف ہماری طرح کا ایک انسان ہے اور ہم یقینا تجھے کاذب سمجھتے ہیں۔
فَاَ سْقِطْ عَلَیْنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآئِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ٭
پس اگر تو سچا ہے تو ہم پر کوئی بادل کا ٹکڑ ا گرا۔
قَالَ رَبِّیْٓ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ٭
(اس پر شعیبؑ نے )کہا۔ میرا ربّ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے ۔
فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَھُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ۔ اِنَّہٗ کَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ٭
(مگر اس کے سمجھانے کے باوجود) انہوں نے اس کو جھٹلایا ۔ پس ان کو سایہ کے دن والے عذاب نے آپکڑ ا (یعنی گھنے اور دیر پا بادلوںکے عذاب نے) وہ یقینا ایک بڑے بھاری دن کا عذاب تھا ۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ۔ وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّومِنِیْنَ٭
اس واقعہ میں ایک بڑا نشان تھا اور (اسے دیکھ کر بھی ) ان کافروں میں سے اکثر مومنوں میں شامل نہ ہوئے ۔
وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ٭
اور تیرا رب یقینا غالب(اور) باربار رحم کرنے والا ہے ۔۳۴؎
۳۴؎ حل لغات:۔اَلْمُسَحَّرِین:سَحَّرَ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے اور سَحَّرَ ہٰ کے معنے ہیں اَعْطَاہ‘ اَلسَّحُوْرَ۔ اس کو غذادی (اقرب)۔مفردات ؔمیں ہے سَمُّوْا اَلْغِذَائَ سِحْرًا مِنْ حَیْثُ اِنَّہُ یَدِقُّ وَ یَلْطَفُ تَاْثِیْرُہ‘۔یعنی غذاکو عربی زبان میں سِحْر اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی تاثیر جسم میں بہت باریک اور لطیف ہوتی ہے۔پس مُسَحَّرِیْن کے معنے ہوں گے جن کو غذادی جائے۔
کِسَفاً:۔کِسْفَۃ’‘کی جمع ہے اور اَلْکِسْفَۃُ معنے ہیں اَلْقِطْعَۃُمِنَ الشَّیْ ئِ کسی چیز کا ٹکڑا ہے (اقرب)اَلظُّلَّۃُ :۔اَوَّلُ سَحَابَۃٍ تُظِلُّ ۔بادلوں میں سے پہلا بادل جو زمین پر سایہ ڈالتا ہے ۔(اقرب) عَذَّابَ یَوْمِ الظُّلَۃِ ۔سَحَابَۃٍ اَظَلَّتْھُمْ فَلَجَائُ وْا اِلیٰ ظِلِّھَا فَا طْبَقَتْ عَلیْھِمْ وَ اَ ھْلَکَتْھُمْ۔ شعیبؑ کی قوم پر بادل آئے اور وہ قوم تو ان کو اچھا سمجھتی رہی۔لیکن ان بادلوں نے ان کو برباد کردیا۔ اس کو قرآن مجید نے عَذَ ابَ یَوْمِ الظُّلَۃِ سے تعبیر کیاہے (اقرب)
تفسیر:۔حضرت شعیب علیہ السلام کی نصائح پر ان کی قوم نے جوجواب دیا وہ یہ تھا کہ تم نے جو ہم سے ٹکّر لی ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی اور تمہیںاُکسارہا ہے اور تمہیں مالی مدد دے رہا ہے تاکہ تم ہمارے خلاف ایسی باتیں کرو اور ہماری طاقت کو کمزور کردو۔
سَحَّرَ کے معنے عربی زبان میں کھانا دیئے جانے کے ہوتے ہیں۔مگر استعارۃً انہوں نے یہ الفاظ مدد دیئے جانے معنوں میں استعمال کئے ہیں۔اور مطلب یہ ہے کہ ہم چونکہ تجارتی قوم ہیںجو لوگ تجارت میں ہم سے بڑھ نہیں سکتے انہوں نے تجھ کو رشوت دی ہے کہ تو ہمیں ان طریقوں سے روک دے جن سے ہماری تجارت ترقی کررہی ہے۔پھر انہوں نے کہا کہ مَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۔آخر تو ہمارے جیسا آدمی ہے اور کیا ہے وَاِنْ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکَاذِبِیْنَ اور ہم تو تجھے یقینا جھوٹا سمجھتے ہیں فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآ ئِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ۔ اگر تو سچا ہے تو آسمان سے ہم پر بادل کا کوئی ٹکڑا گرادے ۔یعنی اتنی شدید بارش ہو کہ بجائے اس کے کہ ہماری کھیتیوں اور باغات کا پھل بڑے سارا ملک تباہ ہوجائے۔ہم تو تیری سچائی کا ف یہی ایک میعا رسمجھتے ہیں۔حضرت شعیبؑ نے ان سے کہا۔میرا رب تمہا رے اعمال کو خوب جانتا ہے اور وہ جس قسم کا سلوک چاہے گا تم سے کرے گا ۔مگر پھر بھی وہ اس کو جھٹلاتے ہی رہے ۔آخر ان کو انہی کے میعار کے مطابق ایک سائے والے دن کے عذاب نے پکڑ لیا ۔ یعنی بادوباراں کا ایسا شدید طوفان آیا کہ جس نے ملک کو تباہ کردیا وہ عذاب ایک ہولناک دن کا عذاب تھااور اس نے بعد میں اس
ملک کو آنے والی نسلوں کے لئے ہمیشہ کے لئے ایک نشان بنادیا ۔
یہ امر یاد رکھنا چا ہئیے کہ قرآن کریم نے اس عذاب کے متعلق ایک اور جگہ صَیْحَہ اور دوسری جگہ رَجْفَہ کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔ چنانچہ سورئہ ہود میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَمَّا جَآئَ اَمْرُنَانَجَّیْنَا شُعَیْباً وَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْامَعَہُ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا وَاَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاالصَّیْحَۃُ ْفَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ(ہود ع۸)یعنی جب ہمارا عذاب آگیا ۔تو ہم نے شعیب ؑ اور اس پر ایمان لانے والوں کو اپنے فضل سے بچا لیا اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کا شیوہ اختیار کیا تھا انہیں عذاب نے پکڑ لیا اور وہ اپنے گھروں میں زمین سے چمٹے ہوئے تباہ ہوگئے۔
اسی طرح سورئہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَتْھُمْ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ(عنکبوت ع۴) یعنی انہوں نے شعیب ؑکو جھٹلادیا جس نے نتیجہ میںایک ہلا دینے والے عذاب نے ان کو پکڑ لیا اور اپنے گھروں میں زمین سے چمٹے کے چمٹے رہ گئے۔
ان دونوں مقامات پر یہ امر بیان نہیں کیا گیا کہ آیا یہ عذاب ان پر زلزلہ کی شکل میں آیا یا کسی اور شکل میں ۔مگر سورئہ شعراء میں اللہ تعالیٰ نے اس عذاب کے متعلق وضاحت فرمادی کہ یہ عذاب ایک ہولناک بارش کی صور ت میں آیا تھا ۔جس کے نتیجہ میں وہ اپنے گھروں سے چمٹے کے چمٹے رہ گئے۔باقی رہا صَیْحَۃ یا رَجْفَۃ کے الفاظ کا استعمال ۔ سو صَیْحَۃ کے معنے مطلق عذاب کے بھی ہیں اور صَیْحَۃ کے معنے ایس تباہی کے بھی ہیں جو اچانک آجائے ۔ اور رَجْفَۃکے لفظ میں اس ہلا دینے والے منظر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو انہیں اپنی بد اعمالی کی وجہ سے دیکھنا پڑا اور جس نے ان کی بنیادوںکو ہلا ڈالا ۔ چنانچہ رَجَفَ الْاِنْسَانُ کے معنے ہوتے ہیں لَمْ یَسْتَقِرَّ لِخَوْفٍ عُرِضَ لَہٗ کہ کسی خوف کی وجہ سے اس کا قرار چھینا گیا ۔ اور ایک جگہ آرام سے بیٹھنا اس کے لئے ناممکن ہوگیا اور رَجَفَ الرَّعْدُ کے معنے ہوتے ہیں تَرَدَّدَتْ ھَدْھَدَتُہٗ فِی السَّحَابِ بادلوں میں بڑے زورسے اس کی گڑ گڑاہٹ کی آوازیں پیدا ہوئیں پس یہ الفاظ بھی اس تباہ کن بارش کی طرف اشارہ کررہے ہیں جس نے اچانک ان کے قرار کو چھین لیا ۔ اور انہیں ایک ایسے عذاب میں مبتلا کردیا جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں تھی ۔ ہر شخص اپنے اپنے مکان میں محصور رہا ۔ یہاںتک کہ ان کے مکانوںکی دیواریں چھتوں سمیت ان پر آگریں اور وہ زمین کے ساتھ چمٹے کے چمٹے رہ گئے ۔
فرماتا ہے ۔ شعیب ؑ کی قوم کی اکثریت بھی ایمان سے محروم رہی اور بہت تھوڑے لوگ اپنے زمانہ کے نبی پر ایمان لائے ۔ مگر اے محمدؐ رسول اللہ ! اِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ تجھے کسی گھبراہٹ کی ضرورت نہیں کیونکہ تیرا رب جس نے تجھے نہایت ادنیٰ حالت سے ترقی دیتے دیتے اس عظیم الشان مقام تک پہنچایا ہے وہ بڑا غالب اور باربار رحم کرنے والا ہے ۔ بیشک موسیٰؑ اور ابراہیم ؑ اور نوحؑ اور ہودؑ اور صالح ؑ اور لوطؑ اور شعیب ؑ پر ان کی قوم کی اکثریت ایمان نہیں لائی۔ مگر جس طرح تیری شان ان تمام نبیوں سے نرالی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کا سلوک بھی تیرے ساتھ ان تمام نبیوں سے نرالاہے وہ کبھی ایسا نہیں کرے گا کہ تیری قوم کی اکثریت ایمان سے محروم رہے۔ بلکہ ان کی شدید ترین مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ ان کی اکثریت کو اپنے دامنِ رحمت میں جگہ دے گا اور انہیں تجھ پر ایمان لانے کی سعادت سے بہرہ ور فرمائے گا۔ یہی حکمت ہے جس کی بناء پر باربار اس آیت کو دہرایا گیا ہے رَبَّکَ کہہ
کر اللہ تعالیٰ نے خصوصیت سے اپنی اس غیر معمولی ربوبیت کی طر ف اشارہ فرمایا ہے جو اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ۔ اور اس طرح بتایا کہ جس خدا نے بچپن سے تجھے اپنے کنارہ عاطفت میں رکھا اور تجھے قدم بقدم ترقی دیتے دیتے اس عالی شان مقام تک پہنچایا وہ اب تجھے کس طرح چھوڑ سکتا ہے ۔ وہ یقینا تبلیغ ہدایت کے معاملہ میں بھی تجھ سے ممتاز سلوک کرے گا ۔ اورتیری فضیلت کو باقی تمام انبیاء پر ثابت کردے گا ۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تعالیٰ نے جس غیر معمولی رنگ میں ربوبیت فرمائی اور جس طرح نہایت ادنیٰ حالت سے ترقی دیتے دیتے آپؐ کو بلندیوں کے انتہا تک پہنچایا اس کی نظیر دنیا کے کسی اور نبی کی زندگی میں نظر نہیں آتی ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں ہی یتیم رہ گئے تھے ۔ آپ ؐ کے والد محترم آپ ؐ کی پیدائش سے بھی پہلے اور آپؐ کی والدہ ماجدہ آپؐ کی پیدائش کے چند سال بعد ہی وفات پاگئی تھیں۔ اس کے بعد کچھ عرصہ آپ ؐ کو آپؐ کے دادا حضر ت عبدالمطلب نے اپنے پاس رکھا مگر جب وہ بھی وفات پاگئے تو آپ اپنے چچا ابوطالب کی کفالت میں آگئے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے بڑی محبت اور پیار کے ساتھ آپؐ کی پرورش کی اور ہر نازک سے نازک موقعہ پر انہوں نے آپ کا ساتھ دیا ۔ مگر آپؐ کی زندگی کا ایک واقعہ ایسا ہے جو ہمیشہ ہی میرے قلب کو دمضطرب کردیا کرتا ہے ۔ تاریخوں میں لکھا ہے کہ آپؐ کے چچا کے گھر میں جب کھانا تقسیم ہوتا تھا تو آپؐ کبھی بڑھ کر مانگا نہیں کرتے تھے باقی بچے لڑ جھگڑ کر مانگتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف خاموش کھڑے رہتے اور جب آپؐکی چچی آپؐ کو کچھ دیتی تو آپؐ لے لیتے ۔ خو د مانگ کر نہیں لیتے تھے ۔ بالعموم اس واقعہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقار اور آپ کی متانت کے ثبوت میں پیش کیا جاتا ہے مگرمیں تو جب بھی اس واقعہ کو پڑھتا ہوں میری طبیعت رقّت کے جذبات کے انتہائی مقام پر پہنچ جاتی ہے ۔وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ نہیں تھا بلکہ بچپن کا زمانہ تھا اورآپؐ زیادہ سے زیادہ اس وقت آٹھ نو سال کی عمر کے تھے ۔ اور آٹھ نو سالہ بچے کے متعلق یہ ثابت کرنا کوئی ضروری نہیں ہوتا کہ وہ بڑا باوقار تھا خواہ آئندہ چل کر وہ نبی ہی بننے والا کیوں نہ ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں اَلصَّبِیُّ صَبِیٌّ وَلَو کَانَ نَبِیًا کہ بچہ بچہ ہی ہے خواہ آئندہ زمانہ میں وہ نبی بننے والا ہو ۔ میری طبیعت تو یہ واقعہ پڑھ کر اس خیال سے بے تاب ہوجاتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بچپن کی عمر میں بوجہ اپنی ذہانت اور سمجھ کے( بعض بچے جو ذہین نہیں ہوتے وہ چچی اور ماںکا فرق کوئی زیادہ نہیں سمجھتے اوروہ اسی طرح چچی سے بھی لڑ جھگڑ کر چیزیں مانگ لیتے ہیں جس طرح ماں سے مانگی جاتی ہیں مگر یہ محبت کا نتیجہ نہیںہوتا بلکہ ان کی عقل کی کمی کا نتیجہ ہوتا ہے ) یہ محسوس کرتے ہیں کہ میں اس گھر سے بطور حق کے کچھ نہیں مانگ سکتا۔ مجھ پر تو میرے چچا اور چچی کا یہ احسان ہے کہ انہوں نے محبت اور پیا ر سے مجھے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ پس کبھی بھی اس واقعہ کو پڑھتے ہوئے میں بغیر اس کے کہ رقّت مجھ پر غلبہ نہ پالے آگے نہیں گزر سکتا۔ اور میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب میں کیا جذبات پیدا ہوتے ہوں گے ۔بعض دفعہ آپؐ کے چچا بھی موجو دہوتے اور چچا کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت تھی وہ ایسی تھی کہ باپ کی طرح ہی تھی ۔اسی وجہ سے بعض دفعہ ابو طالب جب گھر میں آتے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عام بچوں سے الگ ایک طرف کھڑے دیکھتے اور یہ بھی دیکھتے کہ باقی بچے شور کر رہے ہیں اور لڑ جھگڑ کر چیزیں لے رہے ہیں مثلاً مٹھائی تقسیم ہورہی ہے تو ایک کہتا ہے کہ ۔میں مٹھائی کی ایک ڈلی نہیں
دو ڈلیاں لوں گا ۔دوسرا کہتا ہے ۔ اماں مجھے تو تُو نے کچھ بھی نہیں دیا ۔ اسی طرح ہر بچہ اپنا اپنا حق جتا کر چیز کا مطالبہ کر رہا ہے اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کونہ میں خاموش بیٹھے ہوئے ہیں تو ابوطالب ان کو بازوسے پکڑ لیتے اورکہتے میرے بچے تو یہاں کیوں خاموش بیٹھا ہے پھر وہ آپ لا کر اپنی بیوی کے پاس کھڑا کردیتے اور کہتے تو بھی اپنی چچی سے چمٹ جا اور اس سے مانگ ۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ چمٹتے اور نہ کچھ مانگتے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت دراصل انہی جذبات کا نتیجہ تھی کہ آپؐ سمجھتے تھے ۔میرااس گھر پر کوئی حق نہیں۔ اور جو کچھ مجھے ملتا ہے بطور احسان ملتا ہے ۔ مجھ پر یہ نکتہ اس وقت کھلا جب میری بیوی سارہ بیگم فوت ہوئیں اس وقت اخبار میں میں نے جو اشتہار شائع کروایا تھا اس میں بھی ایک واقعہ کا ذکر کردیا تھا ۔ سارہ بیگم کی بچی کی جوتی ایک دفعہ پھٹ گئی ۔جس گھر میں مَیں نے اسے رکھا تھا انہوں نے نوکر کوکہا کہ بازار سے جا کر اس بچی کے لئے بوٹ لے آئو۔ چا ر پانچ سال ا سکی عمرتھی وہ بوٹ لایا میں اس وقت صحن میں ایک طرف کھڑا تھا ۔ میں نے دیکھا کہ اس نے بوٹو ں کے جوڑے اپنی گودی میں لے لئے اور خوشی سے کودی اور کہا۔ آمیرے بوٹ آگئے ۔ میرے بوٹ آگئے ۔ مگر پھر میں نے دیکھا کہ یکدم اس کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ اس نے زمین پر بوٹ رکھ دیئے اور حیران ہو کر کھڑی ہوگئی ۔ اور بے اختیار اس کی زبان سے نکلا ۔ ہائے اللہ ! اب میں یہ بوٹ دکھائوں کسے ۔ تب میرے لئے یہ امر حل ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا علیحدہ بیٹھنا بھی اس قسم کا تھا یہ بچی ۲۹ ء میں پیدا ہوئی اور ۳۳ ء کا یہ واقعہ ہے ایک چار سال کے بچے کے منہ سے یہ فقرہ مجھے عجیب قسم کا معلوم ہوا کہ حیران ہوکر اس نے بوٹ زمین پر رکھدیئے اور کہا۔ ہائے اللہ !اب میں بوٹ دکھائوں کسے ۔ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علیحدہ بیٹھنا تھا ۔ وہ بھی اسی رنگ کا تھا ۔ اب یہ جذبات خواہ کتنے ہی بے چین کرنے والے ہوں اگر کوئی شخص اپنی زندگی کو خداتعالیٰ کے لئے خرچ کردیتا ہے تو پھر یہی غم کے جذبات جو دراصل کمزوری کے جذبات ہیں اسے کہیں کا کہیں پہنچا ؒدیتے ہیں۔چنانچہ ایک طرف اس بچے کو دیکھو جو صحن کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا ہے سارے بچے اس کے پاس سے کودتے ہوئے گزرجاتے ہیں اور اپنی والدہ کے پاس پہنچ کر کوئی اس کے کندے پر چڑھ جاتا ہے کوئی اس کے دامن سے لپٹ جاتاہے ۔ کوئی کہتا ہے اماں! میں فلاں چیز ایک نہیں دو لوں گا ۔ غرض کوئی کچھ کہہ رہا ہے اور کوئی کچھ ۔ مگر وہ ایک گوشہ میں خاموش بیٹھا ہے سارے کا خیال اس کے دل میں نہیں آتا ۔ اس کے دل میں آدھے کا خیال بھی نہیں آتا ۔اس کے دل میں چوتھے حصے کو خیال بھی نہیں آتا ۔ اس کے دل میں یہ خیال بھی نہیں آتا کہ وہ بیسویں حصہ کا حقدار ہے ۔ بلکہ اس کے دل میں یہ خیال بھی نہیں آتا کہ میری چچی کچھ مجھے دیتے ہی یا نہیں۔ باقی تمام بچے چمٹ چمٹ کر مانگتے ہیں اصرار کر کے مانگتے ہیں مگر وہ ایک گوشہ میں کھڑے یہ خیال کرتا ہے کہ دنیا میں میراحصہ ہے ہی نہیں۔ میں اگر مانگوں تو کیوں مانگوں۔ اور اگر مانگوں تو کس سے مانگوں ۔ لیکن خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی بسر کرنے کے بعد وہی بے کس اوریتیم جب فوت ہوتا ہے تو دنیا میں اس کے سوا کسی اور کا حصہ باقی نہیں رہتا ۔ ساری ہی دنیا اس کی ہوجاتی ہے ۔اور دنیا ہی نہیں خالق کون ومکاں بھی کہتاہے کہ لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ اے محمدؐ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی زمانہ تھا کہ تو یہ سمجھا کرتا تھا کہ مٹھائی کی ایک ڈلی۔ روٹی کے ایک ٹکڑے اور گوشت کی ایک بوٹی میں بھی تیرا حصہ نہیں اور تو گوشہ تنہائی میں بیٹھا یہ خیال کیا کرتا تھا کہ جن پر میر ا حق تھا وہ دنیا میں نہیں رہے۔ مگر اے محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم تجھے پتہ بھی ہے کہ تیری پیدائش سے بھی پہلے جب کہ ابھی کائناتِ عالم وجود میں نہیں آئی
تھی۔ہم نے اسے پیدا ہی تیری خاطر کیا تھا اور ہم نے اسی وقت سے یہ فیصلہ کیا ہواتھا کہ یہ تمام زمین و آسمان تیری خاطر بنائوں گا ۔ اگر تو نہ ہوتا تو میں زمین و آسمان کو بھی پیدا نہ کرتا ۔ گویا حدیث صوفیاء کی احادیث میں سے ہے ان احادیث میں نے جن کو محدثین صحیح قرار دیتے ہیں مگر حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام نے ثابت کردیا کہ یہ سچی حدیث ہے ۔کیونکہ آپ کا بھی الہام ہے کہ لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ (تذکرہ صفحہ ۶۰۴وصفحہ ۶۴۹)اب مقابلہ کرو اس کیفیت کا اس یتیم کا جو گوشہ تنہائی میں بیٹھا ہوا اپنے آپ کو کامل لاوارث سمجھتا تھا ۔ جو مکہ کے ایک چھوٹے سے غریب گھر میں پیدا ہو ا۔ جوروٹی کے ایک ٹکڑے اور گوشت کی ایک بوٹی پر پر بھی اپنا حق نہیں سمجھتا تھا ۔وہی ایک دن مکہ میں داخل ہوتا ہے اور مکہ کے تمام بڑے بڑے سردارمجرموں کی طرح اس کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور وہ پوچھتا ہے ۔ بتائو اب تم سے کیا سلوک کیا جائے ۔ گویا وہ جن کے گھر کی ایک دھجی پر بھی وہ اپنا تصرف نہیں سمجھتا تھا ان کے جسم کا تسمہ تسمہ اس کے قبضہ میں تھا اور وہ تمام سردار گردن ڈالے ہوئے اس کے سامنے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے آپ ہم سے وہی سلوک کریں جو یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کیا ۔ چنانچہ وہ یتیم جس سے دنیا نے حسنِ سلوک نہیں کیا تھا جسے دنیا نے غیر حقدار اورلاوارث قراردیا تھا ۔ جب خدا نے ان کو طاقت دی تو اُس نے اُن سے یہ سلوک کیا کہ کہا لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ جائو تم پر کوئی گرفت نہیں ۔
غرض یہ وہ شخص تھا جو اپنی ذات سے ستاون اٹھاون سال پہلے اپنے گھر کے صحن میں اس لئے خاموش کھڑا رہتا اور گھر کی مالکہ سے دوسرے بچوں کی طرح نہ چمٹتا وہ سمجھتا تھا کہ میرا اس گھر میں کوئی حق نہیں۔ مگر پھر اس حالت میں اتنا عظیم الشان تغیر آگیا کہ یا تو آپ ایک یتیم اور بے کس تھے اور یا پھر تمام دنیا کا سہار ا آپؐ ہی بن گئے اور تمام دنیا کی ماں آپؐ ہی بن گئے ۔ وہی یتیم بچہ جو کسی وقت بے باپ اور بے ماں کے تھا ۔ ایک وقت اس پر آیا جب وہ ساری دنیا کا باپ اور ساری دنیا کی ماں بن گیا ۔ بلکہ وہی باپ نہیں بنا اس کی بیویاں بھی مومنوں کی مائیں بن گئیں۔ گویا ابوت صرف آپؐ تک محدود نہ رہی بلکہ آپؐ سے تعلق رکھنے والوں کی عظمت بھی آپؐ ہی کے ذریعہ قائم ہوئی ۔
غرض اِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیٌزُ الرَّحِیْمُ میں اللہ تعالیٰ نے ان عظیم الشان احسانات کا ذکر فرمایا ہے جو اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرمائے اور بتایا اب ہے کہ جس خدا نے تجھے اتنی عظیم الشان ترقی بخشی وہ اب بھی تجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا بلکہ تیری ساری مرادیں تجھے دے گا ۔ اور تجھے ساری دنیا پر غلبہ اور فتح عطا کریگا۔ اور یہ غلبہ صرف ایک زمانہ تک محدود نہیں ہوگا ۔ بلکہ جس طرح خدا تعالیٰ بارباررحم کرنے والاہے اسی طرح وہ بار بار تجھے غالب کرے گا ۔ گویا ہر تاریکی کا دور جب بھی دور ہوگا دنیا دیکھے گی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آفتاب حقانیت اپنی پوری شان کے ساتھ چمک رہا ہے ۔
وَاِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ٭
اور یقینا یہ (قرآن) ربّ العالمین خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے ۔
نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ ٭
اس کو لے کر ایک امانت دار کلام بردار فرشتہ (جبریل ؑ)تیرے دل پر اترا ہے ۔
عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ٭
تاکہ تو ہوشیا ر کرنے والی جماعت میں شمار ہوجائے ۔
بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ٭
(اس وک جبریل ؑ نے خد اکے حکم سے ) کھول کر بیان کرنے والی عربی زبان میں اتار اہے ۔
وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ٭
اور یقینا اس کا ذکر پہلی کتابوں میں بھی موجو د تھا ۔
اَوْلَمْ یَکُنْ لَّھُمْ اٰیَۃً اَنْ یَّعْلَمَہٗ عُلَمٰٓوُا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ٭
کیا ان کے لئے یہ نشان کم ہے کہ اس (قرآن ) کو علمائے بنی اسرائیل بھی پہنچانتے ہیں (یعنی سمجھتے ہیں کہ یہ قرآن انبیائے بنی اسرائیل کی پیشگوئیوں کے مطابق ہے )۔۳۵؎
۳۵؎ حل لغات:۔زُبُرٌ: زُبُوْرٌ کی جمع ہے اور اَلزُّبُوْرٌ کے معنے ہیں اَلْکِتٰبُ ۔کتاب (اقرب)
تفسیر:۔حضرت موسیٰؑ حضرت ابراہیمؑ حضرت نوحؑ اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کا ذکر کرنے کے بعد جو بعض مخصوص اقوام کی ہدایت کیلئے مبعوث ہوئے تھے اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کلام جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ناز ل کیا گیا ہے یہ سب دنیا کو مخاطب کرکے ناز ل کیا گیا ہے ۔جب کہ پہلے کلام صرف بعض خاص خاص قوموں کو ہدایت کیلئے نازل ہوئے تھے اور جب کہ وہ کلام صرف اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا ثبوت تھے ۔ یہ کلام ربوبیت عالمین کا ثبوت ہے اور اس کلام کو رُوح الامین لے کر نازل ہوا ہے ۔ کیونکہ پہلے نبیوں کے کلام میں کئی قسم کی خرابیاں واقع ہوگئی تھیںاور بندوں نے اس کی حفاظت میں کوتاہی کی تھی۔ پس خدا تعالیٰ نے اس روح کے ذریعہ سے جو امین ہے محفوظ طور پر یہ کلام آپ پر نازل کیا۔ او رچونکہ کلام الٰہی کے پہنچانے کیلئے اس کا سمجھنا بھی ضروری تھا تاکہ لوگوں تک اس کے پہنچانے میں کسی قسم کی خرابی واقع نہ ہو اس لئے وہ کلام تیرے دل پر نازل کیا گیا ہے اور یقینا یہ کلام پہلی کتب میں بھی مذکور ہے ۔ اس طرح بھی کہ ا سکے اصول ان میںپائے جاتے ہیں اور اس طرح بھی کہ ان کتابوں میں اس کی پیشگوئی موجودہے۔
قرآن کریم کو دوسری الہامی کتب پر جو فضیلتیں حاصل ہوئیں ہیں ان میں سے ایک بہت بڑی فضیلت یہ بھی ہے ۔کہ قرآن کریم سے پہلے ربّ العالمین کا خیال دنیا میں معین صورت میں موجود نہیں تھا ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک ہستی کو سب دنیا کاخالق ومالک مانتے تھے مگر چونکہ ان کی تعلیم قومی تھی اور مشرکین خاص طور پر اپنے اپنے خدا الگ پیش کرتے تھے اس لئے انسانی ذہن محدود خیالات کا مرجع رہتا تھا ۔ اسی وجہ سے فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(شعراء ع ۲) اے موسیٰؑ یہ رب العالمین کو ن ہے جس کی طرف سے مبعوث کئے جانے کاتم دعویٰ کرتے ہو۔ اور پھر ڈوبتے وقت بھی اس نے کہا میں ربّ بنی اسرائیل پر ایمان لاتا ہوں (یونس ع ۹)لیکن قرآن کریم نے اس خیال کو ایک معین صور ت میں پیش کیا او ر اس طرح اتحادِ بین الاقوام کی ایسی داغ بیل ڈال دی جو پہلی تعلیموں کے لحاظ سے ناممکن تھی ۔بائیبل پڑھ کر دیکھ لو۔ اس میں یہی دکھائی دے گا کہ ’’ خداوند نبی اسرائیل کا خدا مبارک ہے جس نے تجھے بھیجا ہے ‘‘( ۱؎سموئیل باب ۲۵آیت ۳۲) ’’ خداوند اسرائیل کا خدا ابدالآباد مبارک ہو‘‘۔ ( ۱؎تواریخ باب ۱۶آیت ۳۴) ’’ خداوند اسرائیل کا خدا جو اکیلا ہے عجائیب کام کرتا ہے ۔ ‘‘( زبورباب ۷۲آیت ۱۸) لیکن قرآن کریم نے اس نقطہ نگاہ کو بالکل بدل دیا ۔ اس نے خدا تعالیٰ کو رب العالمین کی شکل میں پیش کیا اور بتایا کہ وہ صرف افراد اور قوموں کا ہی خدا نہیں بلکہ سب مخلوق کا خدا ہے اس کی ابتداء ہی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ سے ہوئی ہے ۔ یعنی خدا تعالیٰ جو سب جہانوں کا رب ہے اس کی برکات کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں بلکہ جس طرح روحانی طور پر بھی اس نے اپنے فیض سے کسی کو محروم نہیںکیا۔ کفار کو اس خیال پر اس قدر حیرت ہوئی کہ وہ بے اختیار کہہ اٹھے کہ اَجَعَلَ الْاٰ لِھَمَّ اِلٰھًا وَّاحِدً (ص ع۱) یعنی اس نے تو کئی خدائوں کوکوٹ کا ٹ کر ایک خدا بنا دیاہے ۔ اس کے خیال میں یہ امر آہی نہیں سکتا تھا کہ اصل میں ایک ہی خدا ہے او رباقی سب مصنوعی خدا ہیں کیونکہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں سے یہی الفاظ سنتے تھے کہ ’’ہمار ا خدا اور تمہار ا خدا اور‘‘ گو توحید ان کے سامنے پیش کی جاتی تھی ۔مگر وہ توحید کا یہ مطلب نہیں لیتے تھے کہ سب کا خدا ایک ہے ۔ بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ خد اایک ہے مگر وہ بنی اسرائیل یا مسیحیوں کا خدا ہے اور اگر وہ سچا ہے تو پھر ہم بغیر خدا کے ہیں ۔ مگر اسلام نے بتایا کہ وہ مومن وکافر سب کا خدا ہے اورپھر وہ ایک ہی خدا ہے ۔ یہ بیان اس صفائی کے ساتھ دنیا کے لئے بالکل نرالہ تھا ۔ مگر یہ نرالہ پیغام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کو دیا گیا اور پھر نرالے طور پر آپ کو ساری دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا جب کہ پہلے انبیاء صرف ایک ایک قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور اس طرح آپ کے ذریعہ ربُّ الْعٰلَمِیْنَ کا تصور دنای میں قائم کیا گیا حالانکہ آپؐ ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے تھے جس کے باقی دنیا سے کوئی تعلقات نہیں تھے ۔ عرب باقی ساری دنیا سے کٹا ہوا ملک تھا اور عرب کی دنیا صرف عرب تک ہی محدود تھی ۔اوراگر وہ دوسری قوموںکے متعلق کوئی خیال رکھتے بھی تھے تو صرف مفافرت کا خیال تھا ۔ عربوں میں تکبر اتنا زیادہ پایا جاتا تھا کہ کہ وہ سمجھتے تھے کہ ان سے بڑا کوئی ہے ہی نہیں۔ صرف رومن اور ایرانی حکومتوں کی سیاسی برتری کو وہ تسلیم کرتے تھے گویا سیاسی نقطہ نگاہ سے تو وہ عرب کو ادنیٰ سمجھتے تھے لیکن قومی نقطہ نگاہ سے وہ باقی تمام دنیا کو ذلیل خیال کرتے تھے اور قومیت کا خیال آتے ہی وہ عرب کو باقی تمام قوموں سے بالا سمجھنے لگتے تھے ۔ ہاں جب سیاست کا سوال آتا تو وہ رومن اور ایرانیوںکو درباروں میں جا کر رومی اور ایرانی بادشاہوں کو حضور کہنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے کیونکہ جب وہ ان کے درباروں میں جاتے تھے تو کچھ لینے کے لئے جاتے تھے ۔ غرض نہ وہ جغرافیائی حیثیت سے ایک دنیا کے قائل تھے اور نہ قوم لحاظ سے ایک دنیا کے قائل تھے ۔ پھر جو لوگ رومن اور ایرانی درباروں میں جاتے بھی تھے ان کی تعداد بہت تھوڑی ہوتی تھی بالعموم ان میں وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنے گھروں کے ارد گرد سو سو میل سے باہر قدم نہیں رکھا تھا ۔اس کے مقابلہ میں بنی اسرائیل ایک ترقی یافتہ قوم تھی ۔وہ مصر میں رہتے تھے اور ایک ایسی قوم کے اقتدار میں رہتے تھے جس کی اپنی حکومت تھی ۔ پھر مصر ان دنوںسے زیادہ متمدن ملک تھا ۔ مصر کے جہاز یورپ افریقہ اور ہندوستان وغیرہ دوسرے ممالک میں بھی جاتے تھے اور اس کی بیرونی ممالک سے تجارت تھی جس کے نتیجہ میں وہ ان ممالک سے سیاسی اور تمدنی تعلقات رکھتا تھا ۔ غرض مصر میں رہنے والی قوم باقی دنیا کے حالات سے غافل نہیں رہ سکتی تھی۔ مصری قوم اس زمانہ میں ویسی ہی متمدن تھی جیسے آج کل انگلستان کی حکومت ہے ۔انگلستان سیاسی اور تمدنی طورپر اتنی ترقی کرچکا ہے کہ اس میں رہنے والا دنیا کے حالات سے غافل نہیں رہ سکتا ۔ افغانستان میں رہنے والا غافل رہ سکتا ہے کیونکہ تمدنی اور سیاسی ترقی میں ابھی بہت پیچھے ہے۔ یہی حالت عرب کے مصر کے مقابلہ میں تھی ۔لیکن مصر میں رہتے ہوئے ،مصری اقتدار کے ماتحت رہتے ہوئے اور مصری تہذیب کیساتھ تعلق رکھتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسرائیل کا خدا پیش کیا ۔ جیسا کہ بتایا جاچکا ہے تورات میں باربار یہی ذکر آتا ہے ۔ کہ بنی اسرائیل کا خدا یوں کہتا ہے ۔بنی اسرائیل کا خدا یوں کہتا ہے پھر حضرت مسیح علیہ السلام جن کے زمانہ میں تمدن بہت پھیل چکا تھا اوریورپ اور ایشیاء آپس میں مخلوط ہوچکے تھے ۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ میں بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو اکٹھا کرنے کے لئے آیا ہوں۔ گویا دنیا میں اتحاد ہوجانے کے باوجود حضرت مسیح علیہ السلام قومی نظریہ سے اوپر نہیں جاسکے حضرت مسیح علیہ السلام بھی یہ خیال نہیں کرتے تھے کہ بنی اسرائیل کے سوا باقی لوگ خدا تعالیٰ کی مخلوق نہیں۔ وہ بھی خیال نہیں کرتے تھے کہ بنی اسرائیل کے علاوہ باقی مخلو ق بھی خدا تعالیٰ کی مخلوق ہے اور خدا بنی اسرائیل کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بھی خدا ہے مگر باوجود اس ک موسوی نظریہ کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی یہی نظریہ پیش کیا کہ خدا تعالیٰ بنی اسرائیل کا باپ ہے اور باقی لوگ ا س کے سوتیلے بیٹے ہیں اس کے مقابل پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے جو تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے بہت پیچھے تھااور باقی دنیا سے بالکل کٹا ہوا تھا ۔مگر پھر بھی آپ نے دنیا کے سامنے پہلی دفعہ یہ نظریہ پیش کیا کہ تمام قومیں خدا تعالیٰ کی مخلو ق ہیںاور خدا تعالیٰ تمام قوموں کا خداہے۔ آپؐ نے فرمایا ۔ بیشک عرب قوم میری مخاطب ہے اور میں اسی میں پید ا ہوا ہوں مگر میں صرف اسی قوم کی بہبودی اور ہدایت کیلئے مبعوث نہیں ہو ا۔ بلکہ بُعِثْتُ اِلَی الْاَسْوَدِ وَالْاَبْیَضِ وَالْاَحْمَرِ وَالْاَصَغَرِ میں سیاہ اور سفید اور سرخ اور زرد سب قوموں کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں ۔کوئی چینی ہو یا افریقی ،انگریز ہو یا امریکن ہندوستانی ہو یا جاپانی ان ساروںکے لئے مجھے مبعوث کیا گیا ہے ۔ اور میری زندگی ان تمام قوموں کی فلاح و بہبود کیلئے وقف ہے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ رہے مگر بنی اسرائیل کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ رہے مگر اپنی قوم کیلئے ۔ حضرت نوح علیہ السلام زندہ رہے مگر عراقیوں کے لئے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام زندہ رہے مگر فلسطینیوں کے لئے ۔ حضرت کرشن اور حضرت رامچندر علیہما السلام زندہ رہے ۔ مگر ہندوستانیوں کیلئے ۔ انہوں نے تکالیف بھی اٹھائیں اور مصائب بھی برداشت کئے مگر صرف بنی اسرائیل کیلئے یا صرف فلسطینیوں کے لئے یا صرف عراقیوں کے لئے یا صرف ہندوستانیوں کیلئے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ کے حکم سے فرماتے ہیں کہ اِنَّ صَلَّاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَا تِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یعنی میںاگر تکالیف اوردکھ اٹھاتا ہوں تو صرف ایک قوم کیلئے نہیں بیشک میں عر ب قوم میں پیدا ہوا ہوں اور وہ میر ی پہلی مخاطب ہے لیکن میرے دکھ اور میرے مصائب ساری دنیا کیلئے ہیں ۔کیونکہ میں نے اپنی ساری زندگی خدا تعالیٰ کے لئے وقف کی ہوئی ہے اور ایسے خداتعالیٰ کے لئے وقف کی ہوئی ہے جو ربّ العالمین یعنی سب جہانوں کی ربوبیّت کرنے والا ہے۔ میں صرف عرب قوم کا لیڈرنہیں ہوں ۔میں تو خدا تعالیٰ کا جو رب العالمین ہے بندہہوں اور اس کی خاطر میں نے اپنی ساری زندگی وقف کی ہوئی ہے۔وہ اگر ربّ العٰلمین ہے اگر وہ سب جہانوں کی ربوبیّت کرتا ہے تو اس کا خادم ہونے کی حیثیت سے میری تکالیف اور دکھ کسی خاص قوم کے ساتھ کیوں مخصوص ہوں۔میں نے خدا تعالیٰ کو ربّ العالمین سمجھ کر مانا ہے ۔ربِّ عرب یا ربِّ بنی اسرائیل سمجھ کر نہیں مانا ۔اور جب میں نے اسے ربّ العٰلَمِیْن سمجھ کر مانا ہے تو اس کی جتنی بھی مخلوق ہے سب کی خاطر مجھے اپنے اوپر تکالیف وارد کرنی چاہئیں۔اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں کثرت سے اس قسم کے احکام پائے جاتے ہیں کہ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ۔اور نہ عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت ہے ۔مگر مضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جب ایک غیر قوم کی عورت نے آکر کہا کہ اے استاد تو مجھے بھی اس سچائی سے حصّہ دے جو تونے بنی اسرائیل کے سامنے پیش کرتا ہے تواس عورت کی خاطردکھ اور تکالیف اٹھانا تو الگ رہا ۔حضرت مسیح موعود علںہ السلام نے کہا ۔بیٹوں کی روٹی میں کُتّوں کے آگے کیسے پھینک دوں۔گویا ان کی نگاہ میں بنی اسرائیل تو خدا کے بیٹے تھے اور غیر قومیں کتّوں کی مانند تھیں۔اس کے مقابلہ میں اسلام کے ابتدائی زمانہ میں ۔ایسے ابتدائی زمانہ میں جبکہ ابھی تعلیم ابھی مکمل نہیںہوئی تھی۔جبکہ قرآن کریم کا ایک پارہ بھی پورا نازل نہیں ہؤا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہدایت اور راستی کے متلاشی آتے ہیں۔ان میں سے کوئی یونانی ہوتا ہے جیسے سہیلؓ ۔کوئی حبشہ کا ہوتا ہے جیسے بلالؓ۔کوئی ایران کا ہوتا ہے جیسے حضرت سلمانؓ۔یہ لوگ آتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی یہ خواہش پیش کرتے ہیںکہ ہمیں بھی اپنی تعلیم سنائیے ۔ان کے سوال کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیںفر ماتے کہ کوئی شخص اپنے بیٹوں کی روٹی کُتّوں کے آگے نہیں پھینک سکتا ۔بلکہ آپؐ سمجھتے ہیں کہ جس طرح عرب قوم ہے ویسے ہی یہ لوگ بھی ہیں۔آپ فوراً انہیں تعلیم دینا شروع کر دیتے ہیں ۔بلکہ دینی تعلیم دینا تو الگ رہا یہاں تک ثابت ہے کہ دو بھائی تھے جو عربی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے تھے یا بہت کم علم رکھتے تھے۔وہ صرف بائیبل نہیں جانتے تھے اور لوہا کوٹا کرتے تھے۔آپؐان دونوں بھائیوں کو اشاروں کے ساتھ تبلیغ کیا کرتے تھے۔جب آپؐ وہاں سے گذرتے تو ان کے پاس کھڑے ہوجاتے ہیں۔وہ دونوں یونانی تھے اور آپ کی باتیں نہیں سمجھ سکتے تھے۔لیکن آپؐ محبت کی وجہ سے وہاں کھڑے ہوجاتے اور ان کی باتیں سنتے۔پھر آپؐ انہیں تبلیغ کرنے لگ جاتے۔زبان تو وہ سمجھ نہیں سکتے تھے آپؐاشاروں سے انہیں تبلیغ کرتے۔مثلاً اللّٰہ کا لفظ کہہ کر آسمان کی طرف اشارہ کردیا۔آہستہ آہستہ ان دونوں کو آپؐ سے اُنس ہوتا گیا۔اور بالآخر وہ دونوں ایمان لے آئے اسی طرح بلالؓحبشی تھے ۔ اور حبشی غلام بنائے جاتے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں میں سے نہیں تھے جن کے نزدیک کوئی غیر قوم مقہوروذلیل ہو بلکہ آپؐ کے نزدیک سب قومیں یکساں طورپر خدا تعالیٰ کی مخلوق تھیں آپؐ کو یونانیوں اور حبشیوں سے بھی ویسا ہی پیار تھا جیسے عربوں سے ۔ یہی محبت تھی جس نے ان غیر قوموں کے دلوں میں بھی آپ کا وہ عشق پیدا کردیا جس کو عرب کے بھی بہت سے لوگ نہیں سمجھ سکتے تھے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے ۔پھر عرب قوم میں پیدا ہوئے اور عر بوں میں سے بھی قریش قبیلہ میں پیدا ہوئے جو دوسری عرب قوموں کو بھی حقیر اور ذلیل سمجھتا تھا۔ آپؐ کو حبشیوں سے کیا جوڑ تھا ۔ اگر آپؐ سے کسی قوم یا قبیلہ کو محبت ہونی چاہئیے تھی تووہ بنو ہاشم کو ہونی چاہئیے تھی ۔ آپؐ سے کسی کومحبت ہونی چاہئیے تھی تو قریش کو ہونی چاہئیے تھی یا پھر عرب کے لوگوں کو ہونی چاہئیے تھی غیر قوموں کے دلوں میں جن کی حکومت کو آپؐ کے لشکر وں نے تباہ کردیا تھا جن کی قومی برتری کو اسلامی سلطنت نے بے کار کرکے رکھ دیا تھا محبت ہوہی کیسے سکتی ہے ۔انہیں تو آپؐ سے دشمنی ہونی چاہئیے تھی۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے عشق کا یہ حال تھا کہ آپؐ کی وفات کے کئی سال بعدایک دن کچھ لوگ دمشق میں اکٹھے ہوئے اور انہوں نے باتوں باتوں میں کہا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بلال ؓ اذان دیا کرتے تھے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم پھر ان کی اذان سنیں۔ چنانچہ انہوں نے بلال ؓ سے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدینہ سے شام چلے گئے تھے اور پھر شام سے دمشق جا پہنچے تھے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا ۔ لیکن انہوں نے انکار کردیا اور کہا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں نے اذان دینا چھوڑ دیاہے ۔ کیونکہ جب میں بھی اذان دینے کا ارادہ کرتا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ مبارک میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور یہ بات میری برداشت سے باہر ہوجاتی ہے ۔ حضرت عمرؓ بھی ان دنوں دمشق آئے ہوئے تھے ۔لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ آپ بلالؓ سے کہیں کہ اذان دیں۔ ہم میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوںنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے اور ہمارے کان ترس رہے ہیں کہ پھر بلالؓ کی اذان سنیں۔ اور ہم میں وہ بھی ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہیں دیکھا صرف باتیں سنی ہیںوہ بھی خواہش رکھتے ہیں کہ اس شخص کی اذان سن لیں جس کی اذان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سنا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے بلالؓ کو بلایا اور فرمایا لوگوں کی خواہش ہے تو میں اذان دیتا ہوں ۔ لیکن میراد ل برداشت نہیں کرسکتا ۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے بلند آواز سے اُسی رنگ میں اذان دی جس رنگ میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اذان دیا کرتے تھے ۔ بلالؓ کی آواز جونہی فضا میں گونجی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک کو یاد کرکے آپؐ کے صحابہؓ جو عرب کے باشندے تھے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور بعض کی چیخیں بھی نکل گئیں ۔لیکن حضرت بلالؓ جو حبشی تھے جن سے عربوں نے خدمتیں لیں۔جنہیں عربوں سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا اور نہ بھائی چارے کا تعلق تھا وہ اذان ختم کرتے ہی بے ہوش ہوگئے اور چند منٹ بعد ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ۔ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعویٰ پر غیر قوموں کی گواہی تھی کہ میرے نزدیک عرب اور غیر عرب کوئی فرق نہیں ۔ یہ گواہی تھی غیرقوموں کی جنہوں نے آپؐ کی محبت بھری آواز کو سنا اور اس کا اثر جو انہوں نے دیکھا اس نے انہیں اس یقین سے بھردیا کہ ان کی اپنی قوم ان سے وہ محبت نہیں کرسکتی تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کی۔
پھر لوگ مرتے ہیں تو اپنی تکالیف اور دکھ کی وجہ سے انہیں دوسروں کا خیال تک نہیں آتا۔ کیونکہ وفات کے وقت غیر معمولی تکلیف ہوتی ہے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے جس شخص کو وفات کے وقت زیادہ تکلیف ہوتی تھی ۔ میں خیال کرتی تھی کہ وہ گنہگار ہے ۔ مگر جب میں نے آپؐ کی وفات دیکھی تو سمجھا کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ آپؐ کی نزع کی حالت نہایت تکلیف دہ تھی ۔ وفات کے وقت مرنے والوں کو عموماً یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ اپنا کام اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو سنبھال جائیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور بیماری کی وجہ سے جب ایسی حالت کو پہنچے تو آپ ؐ کے لئے چلنا بھی مشکل ہوگیا ۔ تو ایک دن آپ سہار ا لے کر مسجد میں آئے اور صحابہؓ کو اکٹھا کیا اور فرمایا ۔ ہر ایک انسان آخری وقت میں کوئی نہ کوئی نصیحت کرتاہے ۔ میں بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ یہ غلام تمہاری طرح خدا تعالیٰ کے بندے ہیں اور تمہارے بھائی ہیں اور انکے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کرنا اور جو شخص یہ برداشت نہ کرسکتا ہوکہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرے اسے چاہئیے کہ انہیں آزاد کردے لیکن جو شخص ان سے کام لینا چاہتا ہو وہ جو کچھ خود کھائے وہی انہیں کھلائے جو خود پہنے وہی انہیں پہننے کو دے ۔ جس حالت میں وہ خود رہے اسی حالت میں انہیں بھی رکھے ۔اور اگرتم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں کرسکتا تو اسے ان سے خدمت لینے کا کوئی حق نہیں پھر فرمایا۔اے میرے صحابہؓ !عورت پر بہت بڑا ظلم ہوتا رہا ہے ۔میں تمہیں نصیحت کرتاہوں کہ تم عورتوں کے ساتھ نیک سلوک کرواور ان کے حقوق ادا کرو ۔ہمیں انبیا ء سابقین کے متعلق یہ معلوم نہیں کہ وہ کیسے فوت ہوئے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق پتہ لگتا ہے کہ جب آپ کو صلیب پر لٹکایا گیا تواگرچہ وہ ان کی وفات کا وقت نہیں تھا تاہم آپ نے آنکھیں کھول لیںاور حضرت مریم کو رنجیدہ دیکھ کر آپ نے سمجھ لیا کہ وہ اپنے بیٹے کے مصلوب ہوجانے کے بعد اپنے کسی ولی اور نگران کی عدم موجودگی پر افسوس کررہی ہیں۔ آپ نے انے حواری تھومسؔ سے کہا۔ گو جذبات کی وجہ سے آپ اپنا فقرہ مکمل نہ کرسکے کہ اے تھومسؔ یہ ہے تمہاری ماں اور اے عورت یہ ہے تمہارا بیٹا ۔ جس کے یہ معنے تھے کہ میں تھومسؔپر اعتبار کرتاہوں اور اسے تمہارا بیٹا بناتا ہوں۔ اور اے تھومس ؔ میں تم پر اعتبار کرتاہوں اور اسے تمہاری ماں بناتا ہوں۔ یہ بڑا نیک جذبہ ہے جو حضرت مسیحؑ کے دل میں پیدا ہوا۔ مگر اس شخص کی محبت کتنی بالا ہے جو وفات کے وقت اپنے اغراء اور اقرباء کو بھول جائے اور غریب اور مظلوم کی ہمدردی میں اپنے آخری لمحات گزاردے ۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے وقت اگر کسی کا خیال کیا تو وہ صرف مظلوموں ،مقہوروں متروکوں اور ان بے بس اور بے کس لوگوں کا تھا جن کی پرورش کرنے والا کوئی نہیں تھا ۔
پھر عین وفات کا وقت آتا ہے تو آپ کی زبان پر یہ کلمہ جاری ہوتا ہے کہ خدا یہود اور نصاریٰ پر *** کرے جنہوں نے اپنے بزرگوں کی قبروں کو عبادت گاہیں بنالیا ہے یہود اور نصاریٰ بھی موحّد تھے مگر ان میں جو قبروں کو سجدہ کرتے تھے ۔ انہیں آپؐ نے حقارت سے دیکھا اور ان سے اظہارِ نفرت فرمایا ۔ اس فقرے کے معنے درحقیقت یہ تھے کہ اے مسلمانو! تم کسی کو رَبّ العٰلمین نہ بنانا۔ ربّ العٰلمین صرف خدائے واحد ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے ۔ پھرجب موت کا وقت اور قریب آتا ہے تو اس وقت آپ کی زبا ن پر جو الفاظ جاری ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اَللَّھُمَّ الرَّ فِیْقَ الْاَ عْلٰی اَللَّھُمَّ الرَّ فِیْقَ الْاَعْلٰی بے شک آپؐ نے یہاں رفیق کا لفظ استعمال فرمایا ہے مگر اَلْاَعْلٰی کا لفظ ربّ العٰلمین کی طرف ہی اشارہ کرتا ہے ۔ گویا رفیق کہہ کر آپ نے اپنے تعلق بِاللہ کی طرف اشارہ کیا ۔ اور اَلْاَعْلٰی کہہ کر اس کے رَبُّ العٰلَمِیْن ہونے کی طرف اشارہ کیا ۔
غرض رب العلمین کا صحیح معنوں میں تصور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہی دنیا میں قائم ہوا۔ چنانچہ اسی امر کی طرف زیرِ تفسیر آیت میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ اور بتایا گیا ہے کہ پہلے تمام انبیاء صرف اپنی اپنی قوم کی ہدایت کیلئے آئے تھے اور ان پر جو کلام نازل ہوئے وہ بھی مختص القوم اور مختص الزمان تھے مگر اب یہ کلام رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ خد ا کی طرف سے دنیا کی تمام قوموں ،دنیا کے تمام ملکوں اور قیامت تک آنے والے تمام زمانوں کیلئے نازل کیا گیاہے اور پھر اس کلام کو ایک بڑی خصوصیت یہ حاصل ہے کہ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنَ ۔عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ۔روح الامین اس کلام کو لے کر تیرے دل پر نازل ہوا ہے تاکہ تو لوگوں کو ہوشیار اور بیدا ر کرنے والے لوگوں میں شامل ہوجائے ۔ عیسائی اس بات کو ہمیشہ بڑے فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ مسیح پر روح القدس نازل ہوا تھا ۔ حالانکہ قرآن کریم نہ صرف یہ نازل ہوا تھا بلکہ وہ اس سے بڑھ کر یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر روح الامین نازل ہوتا ہے روح القد س کے نازل ہونے کا وہ ان الفاظ میں ذکر فرماتا ہے کہ قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھُدً ی وَّبُشْریٰ لِلْمُسْلِمِیْنَ۔ (نحل ع ۱۴) یعنی اے محمد رسول اللہ تُو لوگوں سے کہہ دے کہ ا س کلام کو روح القدس نے تیرے رب کی طرف سے حق و حکمت کے ساتھ اتارا ہے ۔ تاکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں انہیں وہ ایمان پر ثبات بخشے ۔ اسی طرح یہ کلام اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار بندوں کے لئے مزید ہدایت اور انہیں بشارت دینے کے لئے اس نے نازل کیا ہے ۔ پس یہ بالکل غلط ہے کہ روح القدس کا نزول صرف حضرت مسیحؑ کے ساتھ مخصوص تھا قرآن کریم کو بھی روح القدس ہی لے کر نازل ہوا ہے ۔ اور پہلے نبیوں پر بھی روح القدس ہی نازل ہوتارہا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر قرآن کریم یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ ہر پاک اور امعصوم ہے اور اس لحاظ سے جو فرشتہ بھی کلام لے کر نازل ہو وہ روح القدس ہی کہلاتاہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ملائکہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ فَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُوْمَرُوْنَ (تحریم ع۱)یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں جس بات کا بھی حکم دیا جائے اس کی نافرمانی کرنے کی ان میں طاقت ہی نہیںہوتی بلکہ جو کچھ انہیں کہا جائے وہی کچھ وہ عمل کرتے ہیں۔پس روح القد س کا مفہوم درحقیقت فرشتہ کے لفظ میں ہی شامل ہے۔ لیکن قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مزید امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ آپؐ پر روح الامین نازل ہوا۔ یعنی وہ فرشتہ نازل ہوا جس کے ذمہ یہ بھی فرض تھا کہ وہ قرآن کریم کو صحیح وسالم صورت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائے گویا قرآن کریم کے دونوں حصوں کی حفاظت کا انتظام کر دیا گیا۔ ایک طرف تو اس کے نزول میں کسی غلطی یا نسیان کا امکان باقی نہ رہا ۔ کیونکہ روح الامین اسے لے کر نازل ہوا اور دوسری طرف نزول کے بعد مستقل طور پر اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ (الحجر ع ۱)یعنی ہم نے ہی اس ذکر کو اتار ا ہے اور ہم یقینا اس کی حفاظت کریں گے ۔ گویا قرآن کریم کے متعلق دونوں زمانوں میں حفاظت کا انتظام کرلیا گیا ۔ لیکن انجیل کے دونوں زمانوں کے متعلق کوئی وعدہ نہیں ۔ نہ تو انجیل میں کوئی ایسی آیت ہے جس میں ذکر ہوکہ جب انجیل کی وحی آئی تو رستہ میں اس کی حفاظت کا انتظام کیا گیا۔ یا جب تک وہ حضرت مسیحؑ کے دماغ میں رہی اور دنیا میں نہیں پھیلی اس وقت تک اس کی حفاظت کی گئی اور نہ کوئی ایسی آیت ہے جس میں یہ ذکر ہو کہ جب مسیحؑ نے وہ وحی لکھوا دی یا سنا دی تو اس کے بعد قیامت تک خدا تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لے لی۔ پس انجیل کی حفاظت کا ثبوت خود انجیل سے کوئی نہیں ملتا ۔ لیکن قرآن کریم کی مکمل حفاظت کا ثبوت خود قرآن کریم سے ہی ملتا ہے ۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قطبِ مطہّر پر وحی الٰہی پر نازل ہونے تک بلکہ جب تک وہ وحی دنیا میں شائع نہیں ہوئی اس وقت تک اس کی حفاظت کا ثبوت اس آیت سے ملتا ہے ۔ اور دنیا میں شائع ہوجانے کے بعد اسکی حفاظت کا ثبوت اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ سے ملتا ہے ۔ گویا خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی الٰہی کے نازل ہونے وقت سے لے کر قیامت تک قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ موجود ہے جس کے مشابہ وعدہ بھی انجیل میں کوئی موجود نہیں ۔
غرض روح الامین میں یہ بتا یا گیا ہے کہ اس کلام کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر انتظام کیا گیا ہے تاکہ پہلی کتب کی طرح اس میں کوئی بگاڑ پید انہ ہو ۔ ورنہ ہر فرشتہ اپنی ذات میں امین ہی ہوتا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب کسی صفت کا خاص طورپر ذکر کیا جائے تو اس سے مراد اس کے خاص ظہور کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے مثلاً جہاں روح القد س کا لفظ استعمال کیا جائے وہں اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہوگا کہ یہ کلام اپنے اندر قدوسیت کی صفت رکھتا ہے اور یہ صفت سب نبیوں کے الہام میں مشترک طورپر پائی جاتی ہے ۔لیکن امینؔ کی صفت سے جبریل صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ صرف آپؐ کے کلام کی حفاظت کی گئی جب کہ پہلی الہامی کتب انسانی دست بُرد کاشکار ہوچکی ہیں۔
اس کے بعد فرمایا ہے کہ روح الامین نے یہ کلام تیرے دل پر نازل کیا ہے یعنی روح الامین کا فرض حفاظت اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ وحی تیرے دل پر نازل نہ ہوجائے تاکہ اس کے نتیجہ میں تو لوگوں تک اس وحی کو عمدگی سے پہنچا دے ۔ اس جگہ وحی الٰہی کو قلب پر نازل کرنے کے یہ معنے ہیں کہ جس طرح کلامِ الٰہی لفظوں میں نازل ہوتا ہے اسی طرح نبی کے دل کو بھی ساتھ ساتھ تقویت دی جاتی ہے ۔ گویا اللہ تعالیٰ کا کلام جس شخص پر نازل ہوتا ہے اسے ایک قلبی پاکیزگی اور استقامت بھی عطا کی جاتی ہے تاکہ وہ اسے دنیا میں قائم کرنے میں کامیاب ہوسکے ۔ پس قلب پر نازل ہونے کے یہ معنے ہیںکہ وہ صرف پیغامبر ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ کلام اس کے دل کے اندر جذب ہوجاتا ہے اوروہ اسکا جزو ہوجاتا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ شرعی اور غیر شرعی یا ظلّی وحی میں ایک فرق ہوتا ہے او ر وہ فرق یہ ہے کہ ہر شرعی وحی نبی کے قلب پر بھی نازل ہوتی ہے ۔چونکہ اس وحی کی متعلق یہ حکم ہوتا ہے کہ اس پر اَنَا اَوَّلُ الْمُوْمِنِیْنَ کہو۔ اس لئے یہ قلب پر نازل ہوتی ہے اور جوں جوں نازل ہوتی ہے وہ ایمان کو مضبوط کرتی چلی جاتی ہے ۔ بعض لوگوں نے اس آیت نے ایک غلطی کھائی ہے ۔ خصوصاً بہائیوں کو اس سے غلطی لگی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جو خیال بھی دل میں آجائے وہ وحی ہوتا ہے حالانکہ قرآن کریم اور احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ وحی زبان پر بھی نازل ہوتی ہے ۔مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَجْعَلَ بِہِ کہ تو زبان کو جلدی جلدی حرکت نہ دیا کر۔اس کے معنے یہ ہیں کہ وحی زبان پر بھی نازل ہوتی ہے ۔اصل میں یہ دوہری وحی ہوتی ہے ۔یہ وحی زبان پر بھی نازل ہوتی ہے اور دل پر بھی اس کا نزول ہوتا ہے۔لیکن دوسروں کوجووحی ہوتی ہے وہ بروزی اورظلی طورپر ہوتی ہے اوراس قسم کی وحی ہرقلب پر نازل نہیں ہوتی ۔وہ بعض دفعہ کان پر نازل ہوتی ہے ۔مثلاً انسان ایک کلام سنتاہے ۔اورکہتاہے مجھے یہ الہام ہواہے ۔یااس کی زبان پر کوئی الفاظ جاری ہوجاتے ہیں اوروہ کہتاہے مجھے الہام ہواہے یافلاں کلام میری زبان پر جاری ہواہے ۔مگرتشریعی انبیاء کی جووحی ہوتی ہے یابعض بروزی اورظلی انبیاء کی وحی بھی صرف کان اورزبان پر ہی نازل نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک ہی وقت میں کان یازبان اوراس کے ساتھ قلب پر بھی نازل ہوتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ تین جگہ نازل ہوتی ہے ۔ایک تووہ زبان یاکان پر نازل ہوتی ہے ۔دوسرے قلب پر نازل ہوتی ہے اورتیسرے دما غ پرنازل ہوتی ہے جیسے قرآن کریم میں آتاہے کہ یہ وحی کتاب مکنون ہے یعنی یہ وحی ایک طرف تو اس قرآ ن میں نازل کی گئی ہے ۔اوردوسری طرف اسے انسانی فطرت کے اندررکھ دیاگیاہے پس تشریعی نبیاء کی وحی زبان یاکان پر نازل ہونے کے علاوہ قلب پر بھی نازل ہوتی ہے اور میخ کی طرح دل میں گڑ جاتی ہے ۔یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الَاَمِیْنُ عَلیٰ قَلْبِکَ یعنی چونکہ یہ وحی تیرے قلب پر نازل ہوتی ہے اس لئے تیرے اند اس وحی کے متعلق غیرمعمولی استقامت پائی جاتی ہے ۔اور تُو کہتاہے کہ اگرتم سورج کو میرے دائیںاورچاند کو میرے بائیں لاکر بھی رکھ دو۔اورپھر مجھ سے کہوکہ میں خدائے واحد کی توحید کی اشاعت کرنے سے رک جائو ں تومیں ایسانہیں کروں گا ۔کیونکہ خداتعالیٰ کی وحی میرے دل پر نازل ہوتی ہے ۔اگر وہ میرے قلنب پر نازل نہ ہوتی تومیں تمہاری باتوں کو بھی سنتا لیکن ا ب یہ سوال ہی باقی نہیں رہا کہ میں تمہاری بات سنوں ۔کیونکہ خداتعالیٰ نے میرے دل پر اپنی وحی نازل کی ہے اورمیرے دل میں آہنی میخ کی طرح توحید کاعقیدہ راسخ کردیاہے ۔
بہرحال جیساکہ میں نے بتایاہے بعض لوگوں نے اس آیت سے دھوکہ کھایاہے اوروہ یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ جو خیال بھی دل میں پیداہو وہ وحی ہوتاہے ۔حالانکہ وحی زبان اوترکان پر بھی نازل ہوتی ہے اوراس کے ساتھ ہی اس کا زبان اورکان پر بھی نزول ہوتاہے تاکہ اس کی تائید ہوجائے ۔لیکن بہاء اللہ ایک طرف تو اقرارکرتے تھے کہ مجھے لفظی وحی نہیںہوتی اوردوسری طرف ان کے دل میں جوخیالات بھی پیداہوں ان کو وہ الہام قرار دیتے تھے ۔یہی کیفیت گاندھی جی کی تھی۔وہ بھی بعض دفعہ اپنے خیالات کانام الہام رکھ لیاکرتے تھے۔ لیکن اس جگہ جس وحی کاذکر ہے اس میں مقررہ الفاظ ہوتے ہیں جوتکرار کے ساتھ دہرائے جاتے ہیں اورزبان یاکان کے علاوہ انسانی قلب پر بھی جاری ہوتے ہیں اوران میں اس قدر تکرار ہوتاہے کہ بعض دفعہ آدھ آدھ گھنٹہ تک ایک ایک فقرہ کو دہرایاجاتاہے ۔
پھر اگر قرآن کریم میں صرف یہی آیت ہوتی کہ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الَاَمِیْنُ عَلیٰ قَلْبِکَ توہمیں دھوکہ لگ سکتا تھا کہ شاید اس میں دل کے خیالات کو ہی وحی قراردیاگیاہے لیکن اس کے علاوہ بعض اورآیات بھی قرآن کریم میں آتی ہیں جن سے صراحتاً معلوم ہوتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اورآپؐ کے کان پر بھی وحی نازل ہوتی تھی اوروہ وحی معیّن الفاظ میں ہوتی تھی ۔مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔لَاتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ۔ اِنَّ علینا جَمْعَہٗ وقراٰنَہٗ ،فَاِذَا قَرْاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ(القیامۃ ع۱) یعنی اے محمدؐرسول اللہ ! تُو اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت نہ دیاکر ۔اس قرآن کو جمع کر نا بھی ہمارے ذمہ ہے اوراس کا دنیا کو سنانا بھی ہماراکام ہے ۔پس جب ہم اسے پڑھ لیا کریں تواس کے بعد تُو بھی اسے پڑھ لیاکر۔یہ آیت بتاتی ہے کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی الٰہی بڑی سرعت سے نازل ہوتی تھی اس لئے آپ جلدی جلدی اس کلام کو اپنی زبانس ے دہرانے لگتے تھے تاکہ ان الفاظ پر قابو پاسکیں اوروہ آپ کے دما غ میں پوری طرح محفوظ رہیں ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کوتسلی دی کہ ایساکرنے کی ضرورت نہیں آپ پر جو کلام نازل کیا جارہاہے ۔یہ شریعتِ الٰہیہ کاحامل ہے اورشرعی الہام بھولانہیں کرتا۔کیونکہ اگر وہ بھول جائے تو وحی متلوّ ہی ادھو ری رہ جائے ۔ہاں ہم یہ کلام پڑذ لیا کریں تواس کے بعد توبھی اسے پڑھ لیا کر ۔یہ آیت اس امر پر نصّ صریح ہے کہ قرآن کریم صر ف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مطہّر پر ہی نازل نہیں ہوتاتھا بلکہ وہ التزاماً آپ کو پڑھایابھی جاتاتھا اورپڑھایااسی صورت میں جاسکتاہے جب کہ وہ آپ پر معین الفاظ میں نازل ہوتا۔
اسی طرح قرآن کریم اصطراحاً اس کلام کو کلام اللہ قرار دیتاہے جس سے نہ صرف اس وسوسہ کو دور کیاگیا ہے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو خیالات پیداہوتے تھے انہی کو آپ وحی الٰہی قرار دیتے تھے ۔بلکہ کلام اللہ کہہ کر اس بات کی طرف بھی اشار ہ کیاگیاہے کہ اس کتاب میں شروع سے لے کر آخر تک جو کچھ لکھا ہے یہ سب کا سب اللہ تعالیٰ کاکلام ہے ۔اس میں کسی کے دل کے خیالا ت کا تو کیا ذکر ہے کوئی ایک لفظ بھی ایسانہیں جو کسی نسان کا بنایا ہواہو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلَامَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْ مَنَہٗ (توبہ ع۱)یعنی اگر ان مشرکوں میں سے جو تجھ سے برسرِ جنگ ہیں کوئی شخص پناہ مانگے ۔تواسے پناہ دے تاکہ وہ اس کتاب کو سن سکے جو تجھ پر نازل ہوئی ہے اورجو ساری کی ساری کلام اللہ ہے ۔پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سن لے اورچاہے کہ اپنی قوم کے لوگوں کے پاس واپس چلا جائے توچاہیئے کہ اسے پو ری حفاظت کے ساتھ اس علاقہ میں پہنچا دیاجائے جواس کے امن کامقام ہے ۔اسی طرح قرآن کریم میں فرماناکہ اِقرابِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خلق ۔خلق الانسان من علق۔(سورۃ العلق ع۱)یعنی اے محمد رسول اللہ! تواپنے رب کانام لے کر پڑھ جس نے سب اشیاء کو پیداکیاہے ۔تُواپنے اس رب کانام لے کر پڑھ جس نے انسان کو خون کے ایک لوتھڑے سے پیداکیاہے ۔یہ بھی بتاتاہے کہ قرآنی آیات معین الفاظ میں آپؐ پر نازل ہوتی تھیں جن کی آپ پو ری طرح تلاوت فرماسکتے تھے ۔پھر قرآن کریم کابار بار یہ فرماناکہ قل ھو اللہ احد یا قل یٰاَیُّھا الکافرون یاقل اعوذ برب الفلق یا قل اعوذ برب الناس یہ سب آیات وحیٔ الفاظ پر دلالت کرتی ہیں ۔اسی طرح حدیث میں آتاہے ۔کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔بعض اوقات مجھ پر وحی صلصلۃ الجوس کی طرح آتی ہے اورصلصلۃ الجوس یعنی گھنٹی کی آواز کو کان کے ذریعہ سناجاتاہے ۔اسی طرح آپ فرماتے ہیں وَاَحْیَانًایَتَمَثَّلُ لِیَ الْمَلَکُ رَجُلًافَیُکَلِّمُنِیْ فَاَعِی مایقُوْلُ (بخاری باب کیف کان بدء الوحی)یعنی کبھی اللہ تعالیٰ کافرشتہ آدمی کی شکل میں متمثّل ہوکر میرے پاس آجاتاہے اوروہ مجھ سے کلام کرتاہے جسے میں اپنے دما غ میں محفوظ رکھ لیتاہوں۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ وحی زبان اورکان اورآنکھوں پر بھی نازل ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی اس کا دل پر بھی نزول ہوتاہے ۔جس کی وجہ سے وہ شخص جس پر وحی نازل ہوتی ہے سب سے بڑامومن ہو جاتاہے کیونکہ اس کے کانوں اورزبان کے ساتھ اس کے دل پر بھی وحی کا نزول ہوتاہے ۔اورچونکہ سارے عقائد اورخیالات دل سے ہی پیداہوتے ہیں اس لئے اگر دل پر وحی نازل ہوگئی تو یہ ساری چیز یں آپ ہی آپ درست ہوجاتی ہیں ۔غرض وحی کے کئی مراتب ہوتے ہیں ۔انبیائے تشریعی کی وحی اَوردرجہ کی ہوتی ہے اورانبیائے بروزی اورظلّی کی وحی اَور درجہ کی ہوتی ہے انبیائے بروزی اورظلّی وحی کو بھی بھول سکتے ہیں ۔انبیائے تشریعی شرعی وحی کو نہیں بھولتے ۔کیونکہ اگرشریعت ہی بھول جائے توا ن کی امت تباہ ہوجائے ۔اسی طرح انبیائے بروزی اورظلّی کی ایسی وحی بھی جو کسی پہلی وحی کی تفصیل بیان کرنے یا کسی خاص نکتئہ معرفت کے بیان کرنے کے لئے آتی ہے وہ بھی نہیں بھولتی کیونکہ اس کے لئے بھی وحی قانون جاری ہے جوشرعی وحی کے لیء ہے اوراس کی بھی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے ۔اس میں کو ئی شبہ نہیں کہ عام وحی کی بھی ایک قسم کی حفاظت ہوتی ہے ۔کیونکہ اگر وہ اخبار غیبیہ جن پر خداتعالیٰ اپنے کسی بندہ کو اطلاع دیتاہے ساری کی ساری بھول جائیں تووہ لوگوںکو سنائی کیسے جاسکیں ۔لیکن بہرحال اسے وہ مقام حاصل نہیں ہوتاجو تشریعی وحی کو حاصل ہوتاہے کہ اس کے ایک ایک لفظ اوراورایک ایک شعشہ کی حفاظت ہوتی ہے ۔
پھر فرماتاہے بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ۔اسے خداتعالیٰ نے ایک ایسی زبان میں نازل کیا ہے جو اپنے مطالب کو خوب کھول کر بیان کرنے والی ہے ۔درحقیقت کسی کلام کی حفاظت کا ایک یہ بھی پہلوہوتاہے کہ جوکلام نازل ہو اس کو سمجھنے والے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہوں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اس نے قرآن کریم کو حفاظت کے اس پہلو سے بھی نوازاہے اوراسے ایک ایسی زبان میں نازل کیا ہے جو اپنے مضمون کا آپ واضح کرتی ہے اورپھر وہ ہرقسم کے دلائل بھی اپنے اند ررکھتی ہے ۔
مفرداتؔ راغب جو قرآنی لغت کی مشہور کتا ب ہے اس میں اَلْعَرَبِیّْ کے معنے اَلْمُفْصِحُ کے لکھے ہیں یعنی اپنے مدعاکو خوب صفائی اورصفائی کے ساتھ بیان کرنے والا اوراَلْاِعْرَابُ کے معنے کھولنے اورواضح کرنے کے لکھے ہیں ۔پس بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ میں تو یہ بتایاکہ اللہ تعالیٰ نے اپناآخری شرعی کلام اس زبان میں نازل فرمایاہے جومطالب کے اظہار کے لئے اپنے اندر پوراسامان رکھتی ہے اورہرمسئلہ پوری وضاحت اورتفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہے او ر مُبین میں یہ بتایاکہ وہ صرف اپنے مقاصد کے اظہار پر ہی قدرت نہیں رکھتی بلکہ اپنے ساتھ دلائل اوربراہین کابھی ذخیرہ رکھتی ہے ۔گویا قرآن کریم کا صرف عربی زبان میں ہونا معجزہ نہیں بلکہ قرآن کا عربی مبین ہونے میں معجزہ ہے ۔یعنی اس کی ایسی زبان ہے کہ اس کے اندر دلائل بھی بیان کئے گئے ہیں اوربتایاگیاہے کہ ہم کیوں حکم دیتے ہیں ۔خداتعالیٰ کوکیوں منواتے ہیں فرشتوںکو کیوں منواتے ہیں ۔رسولوں کو کیوں منواتے ہیں ۔ جھوٹ سے کیوں منع کرتے ہیں ۔سچ کی کیوں تائید کرتے ہیں ظلم سے کیوںروکتے ہیں ۔انصاف کی کیوں تائید کرتے ہیں ۔غرض یہ عَرَبِیٌّ مُّبِیْن میں ہے اوراپنے احکام کی دلیلیں بھی دیتاہے ۔جھوٹاآدمی بات تو کہدے گا مگر اس کی دلیل کہاں سے لائے گا ۔ مگریہ کلام تو ایسی زبان میں نازل ہواہے جوعر بی ہی نہیں بلکہ مبین بھی ہے ۔یعنی جوبات بھی کہتی ہے اس کو کھول کر رکھ دیتی ہے اوراس کی معقولیت کے ساتھ دلائل بھی دیتی ہے ۔
پھر فرمایا وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِالْاَوَّلِیْنَ۔قرآن کریم کو ایک اور فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ اس کا ذکر پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی موجودہے ۔اوران میں صراحتاً اس کے نزول کی خبر دی گئی ہے ۔بلکہ یہ بھی بتایاگیاہے کہ وہ کلام دنیا کوایک عربی نبی کی زبان سے سنایاجائے گا ۔چنانچہ مثال کے طور پر اس کے ثبوت میں یسعیاہ نبی کی ایک پیشگوئی کاذکر کیاجاتاہے ۔وہ اپنی کتاب کے اٹھائیسویں باب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
’’ وہ کس کو دانش سکھائے گا ۔کس کو وعظ کرکے سمجھائے گا ۔ان کو جن کا دودھ چھڑایاگیا جوچھاتیوں سے جداکئے گئے کیونکہ حکم پر حکم۔ حکم پر حکم ۔قانون پر قانون ۔قانون پر قانون ہوتاجاتا۔تھوڑایہاں تھوڑا۔ہاں وہ وحشی کے سے ہونٹوں اوراجنبی زبان سے اس گروہ کے ساتھ باتیں کرے گا کہ اس نے ان سے کہا کہ یہ وہ آرام گاہ ہے ۔تم ان کو جو تھکے ہوئے ہیں آرام دیجیئو۔اوریہ چین کی حالت ہے ۔ پر وَے شنوانہ ہوئے ۔سوخداکاکلام ان سے یہ ہو گاحکم پر حکم۔ قانون پر قانون ۔قانون پر قانون ۔تھوڑایہاں تھوڑاوہاں ۔تاکہ وَے چلے جاویں اورپچھاڑی گریں اورشکست کھا ئیں اوردام میں پھنسیں اورگرفتار وہویں۔‘‘
(یسعیاہ باب ۲۸ آیت ۹تا ۱۳)
یسعیاہ نبی نے اس کلام میں یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک زمانہ میں اللہ تعالیٰ پھر لوگوں کی روحانی تشنگی اوربھوک کودور کرنے کے لئے آسمان سے اپنادودھ نازل فرمائے گا ۔مگر یہ دودھ اس قوم کو پلایاجائے گا جس کے افراد ایک لمبے عرصہ سے چھاتیوں سے جدارہ چکے ہوں گے ۔یعنی جن پر فترت کا ایک لمبا زمانہ آچکا ہوگا۔اوراس کلام کی ایک خصوصیت یہ ہوگی کہ وہ یکدم نازل نہیں ہوگا اورنہ کسی ایک شہر اورمقام میں نازل ہوگا۔بلکہ قانون پر قانون اورحکم پر حکم مختلف مقامات میں نازل ہوگااورایک لمبے زمانہ میں اس الٰہی قانون کی تکمیل ہوگی ۔
پھر اس کلام کاایک اَوروصف یہ ہوگا کہ وہ ایک اجنبی یعنی غیر زبان میں نازل ہوگا۔اورآنے والا مقدس رسول وحشی کے سے ہونٹوں کے ساتھ کلام کرے گا ۔یہ وحشی کا لفظ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عربی نبی ہونے کی طرف اشارہ کررہاہے کیونکہ بائیبل کی اصطلاح میں عربوں کے لئے وحشی کالفظ استعمال ہوتاہے۔اسی بناء پر پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۲ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بھی ’’وحشی ‘‘قرار دیاگیاہے۔درحقیقت یہ لفظ اس تعصّب کے اظہار کے لئے بنواسرائیل نے اختیار کیاتھا جوان کے دلوں میں بنو اسماعیل کے متعلق پایاجاتاہے۔اگر وہ تعصب کا شکار نہ ہوتے توآسانی سے وہ عرب کالفاظ استعمال کرسکتے تھے ۔مگر انہوں نے اس لفظ کو اختیار کرنے کی بجائے پہلے اس کا ترجمہ کیا اورپھر ترجمہ کے لئے بھی وحشی کالفظ اختیار کرلیا ۔اس لفظ کا انتخاب اس بناء پر کیا گیا کہ عربی زبان میں ع ر ب کے معنے اپنے مافی الضمیرکوپوری عمدگی کے ساتھ بیان کرنے کے ہوتے ہیں اورعربوں کانام عرب بھی اسی لئے رکھاگیاتھا کہ وہ ادب کے دلدادہ اورنہایت فصیح و بلیغ کلام کرنے کے عادی تھے ۔مگرچونکہ وہ جنگلوں میں رہتے تھے اورخیموں میں ان کی زندگی کٹتی تھی ان کے مخالف انہیں خیموں اورجنگلوں میں رہنے والا کہنے کی بجائے وحشی کہنے لگ گئے ۔اوربائیبل نے بھی یہی طریق اختیارکیا۔اسی وجہ سے یسعیاہ نبی کی پیشگوئی میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ ’’وحشی کے سے ہونٹوںسے کلام کرے گا ‘‘ یعنی وہ عرب میں مبعوث ہو گا ۔اورعربی میںاس پر کلام الٰہی نازل ہوگا ۔چنانچہ اسی امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے پہلے بِلِسَانٍ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٍ کے الفاظ لئے گئے ہیں اورپھر کہا گیاہے کہ تمہیں اس کلام کے قبول کرنے میں کسی قسم کے تردّد اورہچکچاہٹ سے کام نہیں لینا چاہیئے کیونکہ تمہارے اپنے نبیوں کی کتابوں میں اس کے متعلق پیشگوئیاں موجود ہیں ۔ ۱؎
پھر فرمایا ۔اَوَلَمْ یَکُنْ لَّھُمْ اٰیَۃً اَنْ یَّعْلَمَہُ عُلَمٰٓؤُا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ۔کیا ان کے لئے یہ نشان کم ہے کہ اس قرآن کو علمائے بنی اسرائیل بھی پہچانتے ہیں ۔یعنی بنی اسرائیل کے انبیاء نے جب اس قرآن کی خبر دی ہے ۔اوروہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدتوں پہلے گذر چکے تھے اوران کی بتائی ہوئی خبریں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن کریم پر پوری اتر آئی ہیں توکیا قرآن کریم کے ما ننے کے لئے یہ نشان کافی نہیں ۔
اس آیت سے ایک اورمسئلہ پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔اوروہ یہ کہ اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ یعنی قرآن کریم کاپہلی کتابوں میں بھی ذکر ہے ۔اورکتابیں ہمیشہ نبیوں پر ہی نازل ہواکرتی ہیں ۔اس آیت میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ کیا ان لوگوں کے لئے یہ نشان کافی نہیں کہ بنی اسرائیل کے علماء اس کوجانتے ہیں ۔پس سیاقِ کلام کو مدنظر رکھتے ہوئے
۱؎۔اس بار ہ میں تفصیلات کے شائق تفسیر کبیر جلد اول ص ۳۷۰تا۳۹۰ملاحظہ فرمائیں جہاں بائیبل کی ان پیشگوئیوں کاتفصیلی ذکرموجود ہے ۔
صاف ظاہر ہے کہ اس جگہ علماء سے وہی لوگ مراد ہیں ۔جن پر زُبر نازل ہوئیں اورچونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ عُلَمَائُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَآئِ بَنِیْ ٓ اِسْرَآئِ یْلَ (مکتوب امام ربانی دفتر اول حصہ چہارم ص ۳۳مکتوب نمبر ۲۳۴)اس لئے ہم اس آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کامل یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلام کاصرف یہی مفہوم ہے کہ اَنْبِیَآئُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَآئِ بَنِیْ ٓ اِسْرَآئِ یْل یعنی جس قسم کے نبی بنی اسرائیل میں گذرے ہیں ویسے ہی نبی میری امت میں بھی آئیں گے ۔اس کے یہ معنے نہیں کہ صاحب شریعت نبی میری امت میں آسکتے ہیں ۔کیونکہ مشابہت کبھی تمام اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے اورکبھی چند اجزاء پر ۔چونکہ قرآن کریم کے بعد کسی نئی شریعت کا آنا توناممکن ہے ۔پس ایسے ہی انبیاء آسکتے ہیں جوبغیر شریعت کے ہوں اورحدیث بتاتی ہے کہ اس قسم کے انبیاء کا آنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم فرمایاہے ۔
ان آیات پر غور کرکے ہر شخص اندازہ لگاسکتاہے کہ اس جگہ قرآن کریم کی صداقت اوراس کی عظمت اوراس کی ضرور ت پر کیساکامل اورلطیف مضمون بیان کیاگیا ہے ۔ان آیات میں بتایاگیا ہے کہ (۱)یہ وہ کتاب ہے جو خدانے اتاری ہے۔(۲)یہ وہ کتا ب ہے جو جبریل لایاہے ۔(۳)یہ وہ کتاب ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے پاک اورمقدس انسان کے دل پر اتاری گئی ہے ۔(۴) یہ وہ کتاب ہے جس کی غرض گمراہوں کو ہوشیا رکرنا اوران کو آئندہ زندگی میں پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کرنا ہے (۵)یہ وہ کتاب ہے جس کا ذریعئہ بیان عربی مبین ہے ۔(۶)یہ وہ کتاب ہے جس کی خبر پہلی کتب میں بھی موجود ہے ۔یایہ کہ اصولی تعلیم میں
اس کی پہلی کتب کے ساتھ مشابہت ہے اس لئے اس کاانکار درحقیقت تمام مذاہب اور رسولوں کا انکارہے۔اوراس پر ایما ن لانا انسان کو مجموعی طورپر ان تمام برکات اورانوارسے مستفیض کرتا ہے جن انوار اوربرکات سے انفرادی طور پر پہلے صرف ایک ایک قوم مستفید ہواکرتی تھی بلکہ ذوق ایمان رکھنے والے کے لئے تو صرف یہی ایک نشان کافی ہے کہ انبیاء بنی اسرائیل بھی اپنی پیشگوئیوں میں ذکر کرتے رہے ہیں ۔پھر اگر اتنے بڑے شواہد کی موجود گی میں بھی کوئی شخص اس کا انکار کرسکتاہے توسوائے اس کے کیاکہاجاسکتاہے کہ اس کی آنکھیں روحانی بینائی سے محروم ہوچکی ہیں ۔
ولو نزلنہ علی بعض الاعجمین٭فقراہ علیھم ماکانوبہ
اوراگر ہم اس کو عجمیوں میں سے کسی پر اتارتے ۔اوروہ اسکو اِن (کفار )کے سامنے پڑھ کر سناتا تو وہ کبھی بھی اس پر
مومنین٭ کذٰلک سلکنٰہ فی قلوب المجرمین٭
ایمان نہ لاتے ۔ اسی طرح ہم نے مجرموں کے دلو ں میں یہ (بات)داخل کرچھوڑی ہے ۔
لامومنون بہ حتی یرواالعذاب الالیم٭فیاتیھم بغتۃوھم لایشعرون٭
(پس )وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ پس وہ (عذاب)ان کی لاعلمی میں ان کے پاس اچانک آجائے گا ۔
فیقولوا ھل نحن منظرون ٭افبعذابنا یستعجلون٭
تب وہ کہیں گے کیا ہمیں ڈھیل مل سکے گی ۔ سو(بتائو کہ)کیایہی لو گ ہمارے عذاب کو جلدی مانگاکرتے تھے ۔
افرء یت ان متعنھم سنین٭ ثم جاء ھم ماکانوایوعدون٭
پس کیا تجھے یقین نہیں ہے کہ اگر ہم ان کو سالوں تک فائدہ پہنچاتے جاتے ۔ پھر ان کے پاس وہ (عذاب)آجاتا جس کاان سے وعدہ کیاجاتا ہے۔
مااغنی عنھم ماکانوا یمتعون٭ومااھلکنا من قریۃال الھامنذرون٭ذکریٰ وما کنا ظلمین٭
توجو کچھ بھی ان کو دیاگیاہے وہ ان سے اس (عذاب)کوٹلانہیں سکتاتھا۔ اورہم نے کسی بستی کو بغیر اس کے کہ اس کی طرف نبی بھیجے ہوں ہلاک نہیں کیا ۔یہ اس لئے کیا گیا کہ ان کو نصیحت پہنچ جائے ۔اورہم ظالم نہیں۔ ۳۶؎
۳۶؎ :۔حل لغات ۔اَلْاَعْجَمِیْنَ: اَلْاَعْجَمُ کی جمع ہے ۔اوراَلْاَعْجَمُ کیح معنے ہیں مَنْ لَا یُفْصِحُ وَلَایُبَیِّنُ کَلَامَہٗ وَاِنْ کانَ مِنَ الْعَرَبِ۔وہ شخص جو اپنے مافی الضمیر کو عربی زبان میں پوری طرح کھول کر ادانہیں کرسکتا خواہ وہ شخص عرب کے علاقہ کاہو اورعربی جانتاہو۔اسی طرح اَلْاَعْجَمُ کے معنے ہیں مَنْ لَیْسَ بَعَرَبِیٍّ وَاِنْ اَنْصَحَ بِالْعَجَمِیَّۃِ۔ وہ شخص جو عرب کے علاقہ کانہ ہو اورخواہ وہ اپنی زبان خوب فصاحت سے بولتاہو لیکن اس کو بھی عجم ہی کہیں گے (اقرب)
سَلَکْنٰہُ:سَلَکَ سے جمع متکلم کاصیغہ ہے اور سَلَکَ الشَّیئَ فِی الشَّیئِ کے معنے ہیں اَدْخَلَہٗ فِیہِ۔کسی چیز کو کسی چیز میں داخل کیا ۔کَمَا تُسْلَکُ الیَدُ فِی الْحَبِیْبِ وَالْخَیْطُ فِیْ الْاِبْرَۃِ۔جیسے ہاتھ جیب میں داخل کیاجاتاہے یادھاگہ سوئی میں ۔(اقرب)پس سَلَکْنٰہُ کے معنے ہوں گے ہم نے اس کو داخل کیا ۔
مُنْظَرُوْنَ :مُنْظَرٌ کی جمع ہے جو اَنْظَرَ سے اس مفعول کا صیغہ ہے ۔اور اَنْظَرَہٗ کے معنے ہیں اَمْھَلَہٗ اس کو مہلت دی (اقرب)پس مُنْظَرُوْنَ کے معنے ہوں گے مہلت دیئے ہوئے ۔
تفسیر :۔اب فرماتا ہے کہ اگر ہم اس کلام کوکسی عجمی پر نازل کرتے اوروہ انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتاتویہ لو گ اس پر کبھی ایمان نہ لاتے ۔
لغت عرب کے لحاظ سے اَعْجَم اس شخص کو کہتے ہیں جس کاکلام فصیح نہ ہو اوراپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح واضح نہ کرسکے ۔خواہ وہ شخص عرب ہی کیوں نہ ہو اوراعجم کا لفظ ایسے شخص کے لئے بھی استعمال کیاجاتاہے جوعربی نہ ہو ۔خواہ عجمی زبان میں وہ بڑا فصیح ہو (اقرب) اس میں بتایاکہ اگر کلام کاحامل کو ئی غیر عربی شخص ہوتاتو یہ لوگ کہہ سکتے تھے کہ یہ ایک غیر قوم کا آدمی ہے ہم اس کے حالات سے واقف نہیں ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ہم کو دھوکادے رہاہے یا نہیں دے رہا۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اپنی قوم کے آدمی ہیں اوریہ لو گ آپؐ کے حالات کو خوب جانتے ہیں ۔پھر یہ کیونکر فیصلہ نہیں کرسکتے کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا۔جس نے ساری عمر انسانوں پر جھوٹ نہیں بولاوہ خداپر کس طرح جھوٹ بول سکتاہے۔اسی لئے ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ اعلان فرمایاکہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًامِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(یونس ع ۲)یعنی اے لوگو ! میں اپنی زندگی کا ایک بیشترحصہ تم میں گذار چکاہوں کیااس کو دیکھتے ہوئے تم پھر بھی عقل سے کام نہیں لیتے اوریہ نہیں سمجھ سکتے کہ جس شخص کی راستبازی اوردیانت کے تم آج تک قائل رہے ہو وہ اب صداقت کے خلاف اتنا بڑا قدم کیسے اٹھاسکتاہے کہ خداتعالیٰ پر افتراکرنے لگ جائے ۔
زیر تفسیر آیت میں بھی اسی نکتہ کی طرف کفار کو توجہ دلائی گئی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود عربوںمیں سے ہیں اورہیں بھی مکہ کے رہنے والے ۔اگر انہوںنے کسی غیر ملک میں زندگی بسر کی ہوتی تو تم کہہ سکتے تھے کہ گویہ شخص ہماری قوم کاہے مگررہاباہر ہے ۔ اس لئے ہم اس کے حالات کو نہیں جانتے ۔اوریقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص سچاہے یاجھوٹا۔لیکن اب توتمہارے لئے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ۔کیونکہ ایک تومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود تمہاری قوم میں سے آئے ہیں اوردوسرے انہوںنے اپنے بچپن اور جوانی کی عمر تم میں گذاری ہے اورتم لوگ ان کے اخلاق سے اچھی طرح واقف ہو ۔اورتم خود اس بات کے گواہ ہو کہ اس نے صداقت کے خلاف کبھی کو ئی قدم نہیں اٹھایا۔بلکہ اس کی صداقت اوردیانت کایہ عالم ہے کہ تم لوگ اسے اپنی قوم کا سب سے بڑاراستباز اوردیانتدار انسان قراردیتے رہے ہو ۔ایسے حالات میں تم اس کو کس طرح جھوٹا قرار دے سکتے ہو ۔جبکہ اس کی صداقت کے خارجی ثبو ت بھی موجود ہیں اورپرانے انبیاء کی پیشگوئیاں بھی اس پر صادق آرہی ہیں۔مگرچونکہ ان تمام شواہدکو نظرانداز کرتے ہوئے اہل عرب نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاناتھا اس لیء فرمایا۔کَذٰلِکَ سَلَکْنٰہُ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ۔لَایُؤْمِنُوْنَ بِہٖ حَتّٰی یَرَوُاالْعَذَابَ الْاَلِیْمَ۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کا انکار بتارہاہے یہ صرف پہلی امتوںکے نقش قد م پر چل رہے ہیں ۔پہلی اُمتوں نے بھی موسیٰؑ اورابراہیمؑ اورنوحؑ اورہودؑ اورصالحؑ اورلوطؑ اورشعیبؑ کے نشانات دیکھنے کے باوجود اپنے نبیوںکاانکار کیاتھا۔اسی طرح یہ لوگ کررہے ہیں ۔اوراس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ خدائی عذاب کو نہیں دیکھ لیں گے ۔پھر بتایاکہ وہ عذاب توآکر رہے گا مگر فَیَاْ تِیَھُمْ بَغْتَۃً وَّھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ وہ اچانک آئے گاجیسا کہ قدیم سے اللہ تعالیٰ کی سنت چلی آرہی ہے اوراسی طرح پوشیدہ بڑھتے ہوئے آئے گا کہ ان کو پتہ نہیں لگے گا ۔ چنانچہ دیکھ لو فتح مکہ کا واقعہ ایسا اچانک ہواکہ ابو سفیان جیسا جہاندیدہ سردار بھی حیران رہ گیا اور جب ا س نے مکہ کے اردگرد رات کی تاریکی میں دس ہزار سپاہیوں کے خیموں کے سامنے بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے دیکھے توگھبراکر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگاکہ یہ کیاہے کیا آسمان سے اچانک کو ئی لشکر اترآیاہے۔ کیونکہ عرب کی کسی قوم کااتنا بڑالشکر نہیں ہوسکتا۔اس کے ساتھیوں نے مختلف قبائل کے نام لینے شروع کردیئے کہ شاید فلاں ہومگر ابوسفیان ان کی بات کو رد کرتاچلا گیا اور کہنے لگا نہیں نہیں عرب کی کسی قوم کا اتنا بڑالشکر نہیں ۔ ابھی وہ یہ باتیں ہی کررہے تھے کہ اسلامی گار د جو پہرہ پر مقرر تھی پہنچ گئی اورانہوں نے ابوسفیان اوراس کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا ۔ پھر دیکھو کس طرح قرآنی پیشگوئی کے مطابق اس عذاب کو دیکھ کر وہ لوگ ایمان لے آئے جبکہ پہلے نبیوںکی قوموں میں سے اکثر ان پرا یمان نہیں لائے اوراس طرح خداتعالیٰ نے اپنے عزیز اورحیم ہونے کا ثبوت دیدیا ۔
پھر فرماتاہے ۔فَیَقُوْلُوْاھَلْ نَحْنُ مُنْظَرُوْنَ۔اَفَبِعَذَابِنَایَسْتَعْجِلُوْنَ۔اَفَرَئَ یْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰھُمْ سِنِیْنَ ۔ثُمَّ جَآئَ ھُمْ مَاکانوایُوْعَدُوْنَ۔مَااَغْنٰی عَنْھُمْ مَّاکانوایُمَتَّعُوْنَ۔یہ لوگ اپنی مجالس میں عذاب آنے میں دیر لگنے کی وجہ سے کہتے ہیں کہ شاید ہماراحال پہلی امتوں جیسانہیںہوگا ۔شاید ہم کو ڈھیل دی جائے گی اورعذاب جلدی نہیں آ ئے گا ۔فرمایا۔ اس کے معنے تویہ ہیں کہ یہ لوگ اپنی ہنسی اورتمسخر سے ہمارے غضب کو بھڑکاناچاہتے ہیں اورعذاب بہت جلدی لاناچاہتے ہیں ۔لیکن یہ اتنا توسوچیں کہ اگر ہم کچھ مد ت تک ان پر عذاب نہ بھی لائیں اوراس کے بعد ان پر عذاب آجائے توعذاب کے وقفہ کادرمیانی عرصہ انکو کیافائدہ پہنچا سکتاہے۔فائدہ توانہیں ہدایت سے ہی پہنچ سکتاہے مگر وہ ہدایت اختیار کرنے کی طرف توجہ نہیں کررہے۔
پھر فرماتاہے ۔وَمَآاَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ اِلَّالَھَامُنْذِرُوْنَ۔ذِکْریٰ وَمَاکُنَّا ظٰلِمِینَ۔ان لوگوںکو اتنا توسوچنا چاہئے کہ کیا کبھی ایساہواکہ ہم نے کسی بستی کو بغیر اتمام حجت کے ہلاک کردیاہو۔ہرقوم پر جب بھی عذاب آیاتاریخی شہاد ت موجود ہے کہ اس سے پہلے ایک نبی آیا جس کی بڑی غرض یہی تھی کہ انہیں سمجھائے اوربدیوں سے باز رہنے کی نصیحت کرے ۔اگر بغیر اس انذار کے ہم ان لوگوں پر عذاب نازل کردیتے ۔توہم لوگوں کی نگاہ میں ظالم ٹھہرتے مگرہم ایسے نہیں ہیں۔اورہم بغیر ہوشیار کرنے کے کسی قوم کو اپنے عذاب سے ہلاک نہیں کیاکرتے ۔پس ان لوگوںکو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جب ان کی طرف ایک ہوشیا رکرنے والا شخص آگیاہے تواس کے انکار پر عذاب بھی ضرو ر آئے گا کیونکہ جس طرح ڈرانے والے کے بغیر عذاب نہیں آتا اسی طرح ڈرانے والے کے بعد اس کے انکار پر ضرورعذاب آتاہے کیونکہ اگر اس وقت عذاب نہ آئے توڈرانے والا جھوٹاقرا رپاتاہے ۔
ذِکْرٰی کہہ کر بتایاکہ ڈرانے والے کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ لو گ نصیحت حاصل کریں ۔یہ غرض نہیں ہوتی کہ لوگ تباہ ہوجائیں اسی لئے ڈرانے والے کے بعد بھی عذاب میں ڈھیل دی جاتی ہے ۔تاکہ جو لو گ ایمان لاسکتے ہوں وہ ایمان لے آئیں ۔اگر کسی نبی کی بعثت کے معاً بعد عذاب آجائے تونصیحت حاصل کرنے کاکوئی موقع نہیں رہتا۔
وما تنزلت بہ الشیٰطین٭ وما ینبغی لھم وما یستطیعون
اورشیطان اس (قرآن )کولے کرنہیں اُترے ۔ اورنہ یہ کام ان کے مطابق حال تھا اورنہ وہ اس کی طاقت رکھتے تھے ۔
انھم عن السمع لمعزولون٭فلا تدمع مع اللہ الھاً اخر فتکون من المعذبین٭
وہ یقینا(کلام الٰہی کے )سننے سے دور رکھے گئے ہیں ۔ پس تُو اللہ(تعالیٰ)کے ساتھ کسی اَورکو معبود نہ پکار ۔ورنہ تُومبتلائے عذاب لوگوں میں سے ہوجائے گا ۔۳۷؎
۳۷؎ تفسیر :۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے ایک اعتراض کی تردید فرمائی ہے ۔ان کا اعتراض یہ تھا کہ اس شخص کے ساتھ شیطان کا تعلق ہے اوراس کی طرف سے اس پر کلام نازل ہوتاہے ۔چنانچہ گوقرآن کریم نے ان کے اس اعتراض کو الفاظ کی شکل میں نقل نہیں کیا۔لیکن اس اعتراض کی طرف قرآن کریم کے مختلف مقامات میں اشارات ضرو ر پائے جاتے ہیں ۔مثلا ً اللہ تعالیٰ سورئہ تکویر میں فرماتاہے وَمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ(تکویر ع۱)یعنی اس رسول پر نازل ہونے والا کلام کسی دھتکارے ہوئے شیطان کا قول نہیں ہے ۔اسی طرح زیر تفسیر آیات میںاللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وما تنزلت بہ الشیٰطین۔شیطانوںنے اس کلام کونہیں اُتارا۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ کفار کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اس پر شیطان نازل ہوتاہے ۔افسوس ہے کہ بعض مسلمان مفسرین نے اس قول کو اَوربھی پکّاکردیا اورکفار کے ہاتھوں میں انہوں نے ایک خطر ناک ہتھیار دیدیا اوروہ اس طرح کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کفار مکہ کے سردار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورانہوں نے کہا کہ آپؐ کے ماننے والے تو ادنیٰ لوگ ہیں ۔اگرآپؐ دین میں کچھ نرمی کردیں توہم لوگ بھی آپ کے پاس آکر بیٹھا کریں ۔اس طرح دوسرے لوگ بھی آ پ کے پاس آنے لگیں گے ۔اتنے میں آپ نماز پڑھنے لگے جب آپ نے یہ آیت پڑھی کہ اَفَرَئَ یْتُمُ الاَّتَ وَ الُعُزّٰی وَمنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی کہ تم بھی ذرالات او رعزّٰی کاحال سنائو اورتیسرے مناۃ کابھی جو ان کے علاوہ ہے ۔توشیطان نے آپ کی زبان پر یہ کلمات جاری کردیئے کہ تِلکَ الْغَرَنِیْقُ الْعُلیٰ وَاِنَّ شَفَاعْتُھُنَّ لَتُرْتَجٰی۔یعنی یہ لمبی گردنیں رکھنے والے بت بڑی اعلیٰ شان کے مالک ہیں اور ان کی شفاعت کی یقینی طورپرامید کی جاسکتی ہے۔ کفار نے یہ بات سنی تووہ بڑے خوش ہوئے ۔چنانچہ جب آپؐ نے سورۃ ختم کی اورسجدہ کیا توسب کفار نے بھی آ پ کے ساتھ سجدہ کردیا ۔کیونکہ انہوںنے سمجھا کہ آپؐ نے دین میں نرمی کردی ہے ۔اس روایت کو اتنے طریقوں سے بیان کیاگیاہے کہ ابن حجر ؒ جیسے آدمی بھی کہتے ہیں کہ اس کی تاویل کی ضرورت ہے ۔میں اس وقت اس کی تاویل میں نہیں پڑتاکیونکہ اس پر تفصیلی بحث سورئہ حج میں گذر چکی ہے ۔میں صرف یہ بتاناچاہتاہوں کہ کیا واقعہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایساہوا۔مجھے قاضی عیاض کایہ قول بے انتہا پسند ہے کہ بعض محدثین کی قلم سے شیطان نے یہ حدیث لکھوادی ہے ۔گویا اگر شیطان کا تسلط تسلیم ہی کرناہے تو کیوںنہ اس کا تسلط محدثین پر تسلیم کرلیاجائے ۔ یہ توقاضی عیاض کا جواب ہے ۔قرآنی جواب یہ ہے کہ تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی وَاِنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرْتَجیٰ کافقرہ جہاں جہاں بیان کیاجاتاہے ۔اس کے معاً بعد یہ آیت آتی ہے کہ اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَلَہٗ الْاُنْثٰی تِلْکَ اِذًاقِسْمَۃٌ ضِیْزٰی۔اِنْ ھِیَ اِلَّا اَسْمَآئٌ سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاؤُکُمْ مَّا اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطَانٍ(سورئہ نجم ع ۱)یعنی کیاتمہیں تو اپنے لئے بیٹے پسند ہیں اورخداتعالیٰ کے لئے تم لڑکیاں تجویز کررہے ہو۔یہ تقسیم تو نہایت ہی ناقص اورظالمانہ تقسیم ہے ۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف چند نام ہیں جو تم نے اورتمہارے باپ دادوں نے رکھ لئے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ نے ان بتوں کی تائید کے لئے کوئی دلیل نازل نیں کی ۔اب بتائو کہ کیا اس فرضی کلام کے بعد جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیاجاتاہے کوئی شخص ان آیتوں کو سن کر یہ خیال بھی کرسکتاتھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عقائد میں نرمی اختیار کرلی ہے اوراس پر کوئی بیوقوف سے بیوقو ف مشرک بھی سجدہ کرسکتاتھا۔پس یہ آیات ہی بتارہی ہیں کہ ان میں وہ فقرے داخل ہی نہیں ہوسکتے تھے جو بتوں کی تعریف میں بیان کئے جاتے ہیں ۔آخر کفار تو عربی جانتے تھے۔کیاوہ اتنابھی نہیں سمجھ سکتے تھے کہ اس سورۃ کے تولفظ لفظ میں شرک کی مذمت کی گئی ہے پھر یہ کس طرح کہاجاسکتاہے کہ آپؐ نے اپنے دینی عقائد میں نرمی اختیار کرلی ہے۔
یہی مضمون زیر تفسیر آیت میں بیان کیاگیاہے ۔اوراللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ کفار کا یہ الزام کہ اس شخص پر شیطان کلام نازل کرتاہے درست نہیں کیونکہ (الف)اس شخص کا پنا چال چلن ایسااعلیٰ اورپاکیزہ ہے کہ ایسے آدمیوں کا شیطان سے کوئی تعلق ہو ہی نہیں سکتا۔( ب) پھر جو تعلیم اس پر نازل ہوئی ہے وہ ایسی مطہر اورپاک ہے کہ ناپاک شیطان اس تعلیم کو اتار ہی نہیں سکتا ۔آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ شیطان خو د اپنے خلاف تعلیم اتار دے ۔پھر جبکہ اس کلام میں شیطان کے خلاف تعلیم موجود ہے ۔تویہ کلام اس کی طرف سے کیسے نازل ہوسکتاہے ۔(ج) اس کتاب میں آسمانی علوم ہیں اوراس می ںشیطانی کلام کا اس قد ر ردّ ہے کہ اگر شیطان یا اس کے ساتھی اس میں کچھ ملانا بھی چاہیں تونہیں ملاسکتے کیونکہ کہیں کوئی عبارت کھپ ہی نہیں سکتی اورپھر وہ آسمانی علوم کے بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتے کیونکہ اِنَّھُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ خداتعالیٰ نے انہیں آسمان کی باتیں سننے سے محروم کیا ہواہے گویا آسمان پر جاکر باتیں سننا تو الگ رہا وہاں تک کسی کے جانے کی طاقت بھی قرآن کریم نے تسلیم نہیں کی مگر عجیب بات یہ ہے کہ بعض مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ شیطان آسمان پر جاتاہے اوروہ ملاء اعلیٰ اورجبریلؑ اورعرش کلی باتوں کو سن کر زمین پر آجاتاہے اورپھر وہ اپنے چیلے چانٹوں کو وہ باتیں بتاتا پھر تاہے ۔حالانکہ خداتعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ شیطان آسمانی کلام سننے کی طاقت ہی نہیں رکھتا ۔خداتو خداہے۔ اس دنیا کے معمولی معمولی بادشاہوں کے پاس پھٹکنے کی بھی لوگوں میں طاقت نہیں ہوتی اوروہ ان کے قریب جانے سے لرزتے اورگھبراتے ہیں ۔پھر یہ کس طرح ہوسکتاہے کہ زمین و آسمان کے خداکے راز شیطان اُچک کر لے آئے۔ اور وہ انہیں بگاڑ کر دنیا میں پھیلا نا شروع کردے ۔غرض قرآن کریم کفار کے اس الزام کی تردید کرتاہے اوربتاتاہے کہ شیاطین نے اس کلام کو نازل نہیں کیا اوریہ کام نہ ان کے مناسب حال تھا اورنہ وہ اس کی طاقت رکھتے تھے ۔یعنی قرآن کریم میں تو وہ نصیحتیں ہیں جو شیطانی تعلیموں کے بالکل خلاف ہیں ۔پھر یہ کسطرح تسلیم کیاجاسکتاہے کہ شیطان نے خود اپنے خلاف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تعلیم نازل کردی ۔یہ دلیل حضرت مسیحؑ نے بھی اپنی انجیل میں استعمال کی ہے ۔چنانچہ لکھا ہے کہ :۔
’’ پھر وہ ایک گونگی بدروح کو نکال رہاتھا ۔اورجب وہ بدروح نکل گئی توایساہواکہ گونگابولا اورلوگوں نے تعجب کیا ۔لیکن ان میں سے بعض نے کہا ۔یہ توبدروحوں کے سردار بعلز بول کی مددسے بدروحوں کو نکالتاہے ۔بعض اورلوگ آزمائش کے لئے اس سے آسمانی نشان طلب کرنے لگے ۔مگر اس نے ان کے خیالات کو جان کر ان سے کہا جس سلطنت میں پھو ٹ پڑے وہ ویران ہوجاتی ہے اورجس گھر میں پھوٹ پڑے وہ برباد ہوجاتاہے اوراگر شیطان بھی اپنا مخالف ہوجائے تو اس کی سلطنت کس طرح قائم رہے گی کیونکہ تم میری بابت کہتے ہو کہ یہ بدروحوں کو بعلز بول کی مدد سے نکالتاہے ۔‘‘
(لوقا باب ۱۱آیت ۱۴تا۱۸)
اسی طرح متی میں لکھاہے کہ حضرت مسیحؑ نے ان سے کہا :۔
’’ اگرشیطان نے ہی شیطان کو نکالا تووہ آپ اپنا مخالف ہوگیا ۔پھر اس کی بادشاہی کس طرح قائم رہے گی ۔‘‘
(متی باب ۱۲ آیت ۲۶)
قرآن کریم بھی یہی دلیل مخالفوںکے سامنے بیان کرتاہے ۔اورانہیں توجہ دلاتاہے کہ اگرتمہارایہ اعتراض صحیح ہو کہ شیطان نے یہ کلام نازل کیا ہے تواس کے معنے یہ ہوں گے کہ شیطان نے اپنا بیڑہ آپ غرق کرلیا ۔کیونکہ اس کتاب کے لفظ لفظ میں شیطان کو دھتکاراگیاہے اوراس کی ایک ایک تعلیم میں اس پر پھٹکار ڈالی گئی ہے ۔اب یہ کس طرح تسلیم کیاجاسکتاہے کہ شیطان نے خود اپنے خلاف اتنا بڑامواد فراہم کردیا ۔یہ تو عقل کے بالکل خلاف ہے ۔
اسی طرح وَمَا یَسْتَطِیْعُوْنَ میں جو دلیل استعمال کی گئی ہے کہ اس قرآن میں توغیب کی خبریں ہیں اورغیب کی خبریں بیان کرنا شیطان کے اقتدار سے باہر ہے ۔اسے بھی انجیل میں استعمال کیاگیاہے اورحضرت مسیحؑ نے واضح کیا ہے کہ علم غیب صرف خداتعالی کو حاصل ہے اورشیاطین تو الگ رہے فرشتے بھی اس رازوں سے آگاہ نہیں۔چنانچہ ایک دفعہ حضرت مسیحؑ نے جب اپنی آمد ثانی کی علامات بتائیں تواس کے ساتھ ہی آ پ نے اس امر کی بھی وضاحت فرمادی کہ گومیری یہ باتیں کبھی نہیں ٹلیں گی ۔
’’لیکن اس دن اوراس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا ۔نہ آسمان کے فرشتے ۔نہ بیٹا۔ مگر صرف باپ۔جیسانوح کے دنوں میں ہواویساہی ابن آدم کے آنے کے وقت ہوگا ۔کیونکہ جس طرح طوفان کے پہلے سے دنوں میں لوگ کھاتے پیتے اوربیاہ شادی کرتے تھے اس دن تک کہ نوح کی کشتی میں داخل ہوا۔اورجب تک طوفان آکر ان سب کو بہا نہ لے گیا ان کو خبر نہ ہوئی اسی طرح ابن آدم کاآناہوگا ۔‘‘
(لوقاباب ۲۴آیت ۳۶تا۴۰)
غرض محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اور بے عیب زندگی اورآپ کی تعلیم کا پاک اورمطہرہونااورپھر قرآن کریم میں آسمانی علوم اور غیب کی خبروں کا بکثرت اظہار اور شیاطین کا آسمانی علوم کے بیان کرنے کی طاقت ہی نہ رکھنا بتارہاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو یہ الزام لگایاجارہاہے کہ آپ کے ساتھ شیاطین کاتعلق ہے اورا س نے آپ پر یہ کلام نازل کردیاہے سراسرغلط اعتراض ہے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاشیطان سے نہیں بلکہ خداسے تعلق ہے اوراسی نے آپ پر یہ کلام نازل فرمایا ہے۔
پھر فرماتاہے فَلَا تَدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتَکُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِیْنَ۔اے مسلمان!تُوخداکے سواکسی معبود سے دعانہ کر۔ کیونکہ فطرت صحیحہ کے راز صرف خداسے مل سکتے ہیں ۔اورکوئی غیر اللہ اس میں تیری مدد نہیں کرسکتا۔اگرتوفطرت صحیحہ کے راز معلوم کرنے کے لئے غیر اللہ کی طرف جائے گا تو فَتَکُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِیْناس کی طرف سے جوتعلیم تجھے ملے گی ۔اس کے نتیجہ میں تو دکھ ہی دکھ اٹھائے گا کوئی سکھ تجھے نصیب نہ ہوگا۔
وانذر عشیرتک الاقربین٭واخفض جناحک لمن اتبعک من المومنین٭
اورتُو (سب سے پہلے)اپنے سب سے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا۔اورجوتیرے پاس مومن ہوکر آئیں ان کے لئے محبت کے بازو جھکادے
فان عصوک فقل انی بری ء مما تعملون٭
پھر اگر و ہ تیری نافرمانی کربیٹھیں توکہدے کہ میں تمہارے عمل سے بیزارہوں
وتوکل علی العزیز الرحیم٭ الذی یرئک حین تقوم٭
اورغالب (اور) بار بار کرم کرنے والی ہستی پرتوکل کر ۔جو تجھے اس وقت بھی دیکھتاہے جب تو اکیلا نماز کے لئے کھڑاہوتاہے ۔
وتقلبک فی السجدین ٭انہ ھو السمیع العلیم٭
اوراس وقت بھی جبکہ تُو (نماز باجماعت کے لئے )سجدہ کرنے والی جماعت میں اِدھر اُدھر پھر رہاہوتاہے ۔ یقیناً وہ (خداہی) بہت سننے والا (اور)بہت جاننے والا ہے ۳۸؎
۳۸؎ حل لغات :۔ عَشِیْرَۃٌ: اَلْعَشِیْرُ الْقَبِیْلَۃُ وَالْقَرِیْبُ وَالصَّدِیْقُ وَزَوْجُ المَرْأَۃِ وَالمُعَاشِرُ۔یعنی عَشِیْرَۃٌ کے معنے قبیلہ کے بھی ہوتے ہیں ۔دوست کے بھی ہوتے ہیں ۔خاوند کے بھی ہوتے ہیں اورہمسائے کے بھی ہوتے ہیں (اقرب)
اَخْفِضْ:خَفَضَ یَخْفِضُ سے امر کاصیغہ ہے اور خَفَضَ کے معنے ہیں ۔نیچا کیا ۔اوروَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُوْمِنِیْنَ کے معنے ہیں تَوَاضِعْ لَھُمْ۔کہ مومنوں کے ساتھ خاکساری کے ساتھ پیش آ۔اوران سے ملتارہ تاکہ ان کی تربیت ہوتی رہے (اقرب)
تَقَلُّبَکَ: تَقَلُّبٌ تَقَلَّبَ کامصدر ہے ۔اورتَقَلَّبَ عَلیٰ فِرَاشِہٖ کے معنے ہیں تَحَوَّلَ مِنْ جَانِبٍ اِلیٰ جانِبٍ۔وہ اپنے بستر میں ایک طرف سے دوسری طرف ہوتارہا نیز جب یہ فقرہ کہیں کہ ھُوَ یَتَقَلَّبُ فِیْ اَعْمَالِ السُّ لْطَّنِ تومعنے ہوتے ہیںیَتَنَقَّلُ مِنْ عَمَلٍ اِلیٰ عَمَلٍ۔یعنی وہ بادشاہ کے مختلف کاموں میں ادھر سے ادھر جاتاہے(اقرب)
اَلتَّقَلُّبُ:اَلتَّصَرُّفُ یعنی تَقَلّبٌ کے معنے ادھر سے ادھر آنے جانے کے ہیں (اقرب)
تفسیر :۔ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے اَنْذِرج عَشِیْرَتَکَ الاَقْرَبِیْنَ۔یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تُو دنیا کو ڈرا اوراسے بیدار اورہوشیار کر مگر پہلے اپنے رشتہ داروں اورقریبیوں کو ڈرا کیونکہ ان کا تجھ پر دوہراحق ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ رشتہ داریاں دنیا میں بڑابھاری اثر رکھتی ہیں ۔اورتاریخ میں اس کے اثرات کی بعض حرت انگیز مثالیں ہمیں نظر آتی ہیں ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت جب تبلیغ شروع کی اورکفار نے انتہائی طور پر ہررنگ میں اپنا اثر استعمال کرلیا اورکسی طرح بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم اورحق کے اعلان کو نہ چھوڑا ۔تومکہ کے لوگ ابوطالب کے پاس آئے اورانہیں کہا کہ آپ اپنے بھتیجے کو سمجھا لیجئے ورنہ ہم مجبور ہوجائیں گے کہ اس کے ساتھ آپ کا بھی بائیکاٹ کردیں۔حضرت ابوطالب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبلایااوران سے کہا کہ اے میرے بھتیجے میں نے آج تک تیراساتھ دیاہے مگرآج میری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں ۔اورانہوں نے کہا ہے کہ ابو طالب ہم تیرابہت لحاظ کرتے رہے ہیں مگرآج ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اگرتومحمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کو نہیں چھوڑے گا اوراس کی حمایت بدستور کرتاچلاجائے گا توہم تیری سرداری سے بھی انکار کردیں گے ۔ابوطالب ایک غریب آدمی تھے ۔مگروہ ساراوقت اپنی قوم کی خدمت میں لگاتے تھے اس لئے ان کی ساری جائیداد ہی قوم کی محبت تھی ۔دنیاکے کچھ لوگ کمانے میں لگے ہوئے ہوتے ہیں ۔اورکچھ قوم کی خدمت میں لگے ہوئے ہوتے ہیں ۔کمانے والے اپنا بدلہ روپیہ کی صورت میں لے لیتے ہیں ۔مگرخدمت کرنے والے اپنابدلہ قوم کی محبت کی صورت میں لیتے ہیں ۔ابو طالب چونکہ دن رات اپنی قوم کی خدمت میں مصروف رہتے تھے ۔اس لئے ان کی ساری کمائی ہی یہی تھی کہ وہ قوم کی خدمت کرتے تھے اورقوم انہیں سلام کرتی تھی اس لئے جب قوم کی طرف سے انہیں یہ نوٹس ملا توانہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایااورکہا ۔ اے میرے بیٹے میری قوم آج کہہ رہی ہے کہ اگر تُو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کونہیں چھوڑ سکتاتوپھر ہم بھی تجھ کو چھوڑ دیں گے ۔اس وقت یہ خیال کرکے کہ ساری عمر میں نے اپنی قوم کی خدمت میں لگادی تھی مگر آج بڑھاپے میں آکر وہی قوم مجھے چھوڑنے کے لئے تیار ہوگئی ہے حضرت ابو طالب پر رقت طاری ہوئی اوران کی آنکھو ں میں آنسوآگئے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ دیکھ کرکہ میرے چچا باوجود اس کے کہ مسلمان نہیں ہمیشہ میری خدمت کرتے رہے ہیں اورہمیشہ انہوں نے میری تائید کی ہے اوراب میری خدمت اورتائید کی وجہ سے ان کی ایک ہی قیمتی دولت جو ان کے پاس تھی یعنی قوم میں عزت وہ کھوئی جانے لگی ہے رقت طاری ہوگئی ۔ آپ کی آنکھوںمیں آنسو آگئے اور آپ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اے چچا جو پیغام میں لایاہوں و ہ خدانے میرے سپرد کیا ہے ۔ یہ کبھی نہی ہوسکتا کہ کسی کے کہنے پر میں اسے چھوڑ دوں ۔اے میرے چچا ! میں جانتاہوں کہ خداایک ہے لیکن میں اپنی قوم کی خاطر یہ نہیں کہہ سکتا کہ خدایک نہیں ۔اگرمیری قوم سورج کو میرے دائیں اورچاند کو میرے بائیں بھی لاکر کھڑا کردے اوراتنا بڑانشان دکھائے جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی اورپھر کہے کہ اب بھی یہ مان جائو کہ دنیا کاپیداکرنے والا خداایک نہیں تب بھی میں ایسانہیں کرسکتا ۔اے میرے چچا ! میں آپ سے بھی یہ امید نہیں کرتا کہ آپ میری خاطر اتنی بڑی قربانی کریں ۔آپ نے جوخدمت کی ہے ۔میں اس کاممنون ہوں۔لیکن آئندہ کے لئے میں یہ بوجھ آپ پر ڈالنا نہیں چاہتا۔آپ بیشک میراساتھ چھوڑ دیں اوراپنی قوم سے کہہ دیں کہ میں نے اپنے بھتیجے کو چھوڑ دیا ہے اوراب میں تمہارے ساتھ ہوں ۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اوریقین کے ساتھ یہ حیرت انگیز محبت ایک طرف تھی اوردوسری طرف وہ محبت کھڑی دیکھ رہی تھی جو ابو طالب کو اپنے بھتیجے کے ساتھ تھی ۔ابوطالب اس وقت ان دومحبتوں کے درمیان آگئے ۔یوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابو طالب کے بھتیجے تھے مگرابو طالب نے اپنے بیٹوں سے بڑھ کر آپ سے محبت کی اوراپنے بیٹوں سے زیادہ آپ کی خبر گیری کی ۔ پس ایک طرف و ہ محبت کھڑی تھی جو ابو طالب کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی اور دوسری طرف بھتیجے کایہ یقین اورایمان تھا کہ میں نے جس صداقت کو قبول کیاہے میں اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ۔ان کی ایک آنکھ کے سامنے بیک وقت یہ دومحبتیں آکر کھڑی ہوگئیں اوردوسری آنکھ کے سامنے ان کے باپ عبدالمطلب کی روح آکر کھڑی ہوگئی جنہوں نے مرتے وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاہاتھ ابوطالب کے ہاتھ میں یہ کہتے ہوئے دیاتھا کہ ابوطالب اس کاباپ فوت ہوگیاہے اس کی ماں بھی فوت ہوگئی ہے ۔میں نے اس کو اپنے بچوں سے زیادہ عزیز سمجھ کر پالا ہے ۔اب میں مرنے لگاہوں اورمجھ کو تجھ پر یہ اعتبار ہے کہ تواس کام میں سستی اور کوتاہی نہیں کرے گا ۔میں اپنی سب سے زیادہ قیمتی امانت تیرے سپرد کرتاہوں ۔غرض باپ کی روح ایک طرف کھڑی تھی اورصداقت کے فدائی اورسچائی پر جان دینے والے بھتیجے کی روح دوسری طرف کھڑی تھی مگر باوجود اسلام نہ لانے کے ابوطالب ان دومحبتوں کا مقابلہ نہ کرسکے اورانہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیا کہ اے میرے بیٹے !جائو! اورجس چیز کو سچا سمجھتے ہو پھیلائو ۔قوم کا مذہب تومیں نہیں چھوڑ سکتا ۔لیکن تیری خاطر اگر قوم مجھے چھوڑ دے تومیں تیرے لئے یہ قربانی بھی کروں گا ۔اورہمیشہ تیراساتھ دوں گا ۔تب قوم نے یہ فیصلہ کیا کہ بنو ہاشم کا مقاطعہ کیا جائے اس اعلان پر بنو ہاشم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ایک وادی میں جوابو طالب کی ملکیت میں تھی چلے گئے ۔ وادی سے مراد کوئی سرسبز وشاداب علاقہ یا وسیع زمین کا ٹکڑ ا نہیں بلکہ مکہ میں بے پانی اوربے سبزیاں کی وادیاں ہوا کرتی ہیں گویا بے آب وگیاہ زمین کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان میں کوئی کوئی جھاڑی بھی پائی جاتی ہے جس میں اونٹ وغیرہ چر لیتے ہیں اس لئے انہیں وادی کہہ دیا جاتا ہے ۔ مکہ کے پاس ایک ایسی ہی وادی ابوطالب کی تھی ۔ ابو طالب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اور ان چند مسلمانوں کو لے کر جو اس وقت مکہ میں تھے اس وادی میں چلے گئے جب وہ اس وادی میں گئے تو وہ ہاشمی دشمن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مونہہ پر بعض دفعہ گالیاں دیا کرتے تھے وہ ہاشمی دشمن جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکنے میں خوشی محسوس کیا کرتے تھے ۔وہ ہاشمی دشمن جو ابو جہل کو اُکسا اُکسا کر رسول کریم صلی ا للہ علیہ وسلم کو تکالیف پہنچایا کرتے تھے وہ بھی قومی عصبیت اور رشتہ داری کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر اس وادی میں محصور ہوگئے ۔ اور ان سب نے کہا کہ ہم اپنے رشتہ داروں کو نہیں چھوڑ سکتے ۔ ۱؎
تو رشتہ داری بڑا بھاری اثر رکھتی ہے ۔ اور خونی تعلق کبھی کبھی ایسی قربانیاں بھی کروا لیتا ہے جو دوسرے حالات میں ناممکن نظر آتی ہیں۔
۱؎ السیرۃ الجلیہ جلد اول صفحہ ۳۷۵
اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتاہے ۔ اَنْذِرْ عَشِیْرَنَکَ الْاَقْرَبِیْنَ۔ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا کے کونے کونے کے لوگوں کو ڈرا۔لیکن پہلے اپنے عزیزوں کو ڈرا ۔ اس لئے کہ ان کا تجھ پر دوہر احق ہے ۔ ایک حق تو یہ ہے کہ تیرے رشتہ دار ہیں اور ان کے باپ دادوں نے تیرے ساتھ کبھی حسن سلوک کیا تھا ۔ انگریزی میں بھی مثل مشہور ہے کہ CHARITY BEGINS AT HOME یعنی صدقہ و خیرات پہلے گھر سے شروع ہوتا ہے ۔اسی طرح وعظ و نصیحت کا سلسلہ بھی ہمیشہ گھر سے ہی شروع ہونا چاہئیے ۔چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کی اس طرح تعمیل کی کہ آپؐ مکہ کے دستور کے مطابق کوہِ صفا پر کھڑے ہوگئے اور آپ نے مختلف قبائل کو نام لے لے کر بلانا شروع کیا ۔ پہلے آپؐ نے آلِ ؔغالب کوبلایا اور وہ مسجد حرام سے نکل کر کوہِ صفا کے دامن میں آگئے ۔ اس وقت ابو لہب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آلِ ؔغالب تو آگئے ہیں آپ نے جو کچھ کہنا ہے کہہ دیں مگرآپ نے ابولہب کی بات کی طرف کوئی توجہ نہ کی اور لوئی قبیلہ کے افراد کو آپ نے آوا ز دی ۔ وہ پہنچ گئے تو ابولہب نے پھر کہا کہ اب تو لوئی قبیلہ بھی آگیا ہے اب تو آپ بتائیں کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی اس کی بات کو درخورِاعتناد نہ سمجھا اور آلِ مرّہ کو آواز دی ۔ چنانچہ وہ بھی آگئے ۔ پھر آپؐ نے آلِ کلاب اور آلِ قصّی کو بلایا ۔ یہاں تک کہ سب لوگ جمع ہوگئے اور جولوگ خود نہ آسکے انہوں نے اپنا ایلچی بھیج دیا تاکہ وہ معلوم کر کے انہیں اطلاع دے کہ آج انہیں کس غرض کے لئے جمع کیا گیا ہے ۔ جب مکہ کے تمام قبائل قریش سمیت جمع ہوگئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خطاب شروع کیا اور فرمایا۔ دیکھو اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت بڑا لشکر جمع ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیاتم میری اس بات کو مانوگے یا نہیں۔ انہوں نے کہا۔ کیوں نہیں ہم آپ کی بات ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے ہمیشہ آپ کو رستباز پایا ہے مکہ کے حالات سے باخبر لوگ جانتے ہیں کہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطالبہ درحقیقت ایسا ہی تھا جیسے کسی ناممکن چیز کوممکن تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جائے کیونکہ مکہ کے لوگوں کے جانوروادی میں چراکرتے تھے اور وہ ایسا علاقہ ہے کہ اس میں کسی لشکر کا چھپ رہنا ناممکنات میں سے ہے ۔مگر ان لوگوں پر آپ کی راستبازی کا اس قدر اثر تھا کہ انہوں نے کہا۔ خواہ ہماری آنکھیں اس بات کو تسلیم نہ کریں ہم آپ کی بات کو ضرور مانیں گے کیونکہ آپ کی راستبازی ہمارے نزدیک مسلّم ہے ۔ جب انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یک زبان ہوکر اپنے اس یقین اور اعتماد کا کا اظہار کیا ۔ تو آپ نے فرمایا لو سُنو! میں تمہیں ایک اہم خبر سنانا ہوں ۔ اور وہ خبر یہ ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ۔ پس میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم اگر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہنا چاہتے ہو تو میر ی اتباع کرو۔ آپ کا یہ کہنا تھا کہ ابولہب جوش سے کہنے لگا کہ تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْاَیَّامِ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا ۔ یعنی نعوذ باللہ تجھ پر ہلاکت ہو۔ اتنی سی بات کے لئے تُو نے ہمیں اکٹھا کیا تھا ۔اور اسی طرح دوسرے لوگ ہنسی مذاق کرتے اور تمسخر اڑاتے ہوئے منتشر ہوگئے ۱ ؎ ۔مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کی مخالفت اور تمسخر اور استہزاء کے باوجود اشاعت توحید کے کام کو جاری رکھا اور متواتر لوگوںکو پیغامِ حق پہنچاتے رہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں میں سے ایسے لوگ پید اکر دیئے جنہوں نے
۱؎ بخاری کتا ب التفسیر زیرِ آیت و انذرعشیر تک الاقربین وتفسیر رازی زیرِآیت تبّت یداابی لھب وتبّ۔وتفسیر رُوح المعانی زیرِ آیت سورۃلھب۔
اسلام کی اشاعت کے لئے اپنی جانیں تک قربان کردیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان پر کچھ نہ کچھ بیداری کے اوقات بھی آتے ہیں ۔ اور جب کسی پر بیداری کی گھڑی آتی ہے اور اس کے دل کی کھڑکی کھلتی ہے تو وہ سچائی کو قبول کرلیتا ہے ۔ آخر وہ لوگ بھی تھے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلے دن ایمان لائے ۔ جیسے حضرت ابو بکرؓ۔ حضرت خدیجہؓ۔ حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ ۔ اور وہ لوگ بھی تھے جو آپ پر کئی سال بعد ایمان لائے جیسے حضرت خالدبن ولیدؓ ۔ حضرت عمر وبن العاصؓ وغیرہ بیشک خالد بن ولیدؓ میں پہلے سال بھی عقل موجو دتھی۔ لیکن فر ق یہ تھا کہ پہلے سا ل ان کے دل کی کھڑکی نہیں کھلی تھی ۔حضرت عمرو بن العاصؓ میں بھی عقل موجود تھی جو انہیں پہلے مسلمان بنا سکتی تھی لیکن ان کے دل کی بھی کھڑکی نہیں کھلی تھی ۔ حضرت ابو بکرؓؓ۔ حضرت خدیجہؓ۔حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ کی کھڑکیا ں کھلی تھیں۔اس لئے وہ پہلے دن ہی ایمان لے آئے ۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوا ہوں تو ان سب نے آمناد صدّقنا کہا۔ لیکن لوگوں کی کھڑکیاں ایک سال بعد کھلیں ،کچھ لوگوں کی کھڑکیاں چار سال بعد کھلیں ،اور بعض لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب ایمان لائے ۔ پس کھڑکی کھلنے کی بات ہے ورنہ صداقت کبھی اثر کئے بغیر نہیں رہتی ۔
میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوستوں میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے رشتہ دار وں کو تبلیغ نہیں کرتے اور ان پر اتنا دبائو نہیں ڈالتے جتنا ڈالنا چاہئیے ۔ میں نے ایک دفعہ اس پر خاص طور پر زور دیا اور بعض احمدیوں نے ایسا کیا تو اس کا نمایاں اثر ہوا ۔ چنانچہ ایک احمدی دوست نے بتایا کہ میں ایک دن اپنے ایک رشتہ دار کے گھر میں بیٹھ گیا اور اسے کہہ دیا کہ یا تو تم مجھے اپنا ہم خیال بنا لو اور یا تم احمدی بن جائو۔نتیجہ یہ ہواکہ میرے دلائل چونکہ معقول تھے و ہ اس پر اثر کر گئے اوروہ احمدی ہوگیا ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہمیں سمجھا دے کہ ہم غلطی پر ہیں توہمیں اس کی بات ماننے میں کوئی حرج نہیں لیکن افسوس تویہ ہے کہ جماعت کے دوست دلیری سے کام نہیں لیتے ۔آخر یہ صاف بات ہے کہ جس کی دلیل پختہ ہوگی وہ یقینادوسرے شخص کو اپنی طرف مائل کرلے گا ۔ پس ارگرلوگ اپنے اپنے رشتہ داروں کے پاس جائیں تویقینا لاکھوں لاکھ لوگ احمدیت کی طرف مائل ہوجائیں گے آگے پھر ان کے رشتہ دارہو ںگے جنہیں وہ تبلیغ کریں گے اوراس طرح یہ سلسلہ اتنا غیر معمولی وسیع ہوسکتاہے کہ ہمارے احساس اوراندازہ سے بھی بالا ہوسکتاہے۔آخر غور کرو کہ کیا صحابہؓ نے تبلیغ کی تھی یا نہیں۔مگرکیا صحابہؓ کے پاس پریس ہواکرتے تھے ۔کیااُن کے ہاں کتابیں چھپا کرتی تھیں ۔کیا و ہ تنخواہ دار مبلغ رکھا کرتے تھے ۔کیاان کے ہاںجلسے ہواکرتے تھے ؟ ان میں سے کچھ بھی نہیں تھا ۔صرف یہی ہوتاتھا کہ بھا ئی اپنی بہن کو ملنے گیا ۔تووہ پوچھتی کہ بھائی تم نے اپنے باپ داد کے مذہب کو چھوڑکوکیوں چھوڑ دیا ہے وہ جواب دیتاکہ میں تواپنے باپ دادا کی عزت کرتاہوں ۔لیکن بتوں کو خداکاشریک بنالینا بڑی بھاری غلطی ہے ۔بُت ہمیں کیا دے سکتے ہیں ۔دینے والاتو صرف خداہے۔ اس طرح وہ تو حید کا سبق سکھاتا اورپھر اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو دوسراشخص بھی مان لیتا۔نہ کو ئی تقریریں کرتا اتھا نہ لٹریچر شائع کرتا تھا نہ جلسے منعقد کرتاتھاخود بخود رشتہ داروں سے میل جو ل اورملاقات کے ذریعہ ہی سلسلہ وسیع ہوتا چلاجاتا۔مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں سے بعض نے اپن رشتہ داروں کوتبلیغ کرناچھوڑ دی ہے اوراپنے تعلقات ایسے محدود کرلئے ہیں گویا وہ اپنے رشتہ داروں سے بالکل کٹ چکے ہیں ۔حالانکہ مذہباً اوراخلاقاً اورشرعاً ان کا فرض تھا کہ وہ بار بار اپنے رشتہ داروں سے ملتے اوران کی غلط فہمیاں دور کرنیکی کوشش کرتے مگر ادھر وہ احمدی ہوتے ہیں اوراُدھر اپنے رشتہ داروں سے بچنا شروع کردیتے ہیں ۔ تم اپنے آپ کو اتنا کمزور کیوں سمجھتے ہوں ۔تمہارے پاس ایمان ہے۔ تمہارے پاس زندہ صداقت ہے تمہارے پاس تازہ معجزات اورنشانات ہیں ۔تمہارے پاس خدائی تائید کے نشانات ہیں ۔تمہارے اندر تواتنی دلیری ہونی چاہیئے کہ اگر تمہاراکو ئی ایساچچاہے جس سے تم دس سال سے نہیں ملے ۔تواحمدی ہونے کے فوراً بعد اس کے پاس جائو اس سے اپنے تعلقات بڑھائو اوراُسے اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کرو ۔اگر تم اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کرنا شروع کردو تومیں سمجھتاہوں کہ پچاس لاکھ احمدیوں کا رشتہ داراس ملک میں موجودہوگا ۔پس تمہیں غیروں کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں تم اپنے پچا س لاکھ رشتہ داروں کے پا س جائواورحق ان پر واضح کردو۔یہی کام اتنا بڑاہے کہ ایک لمبے عرصہ تک تمیں اس کام سے فرصت نہیں مل سکتی ۔اور جب تم ان پچاس لاکھ کو احمدی بنالو گے توان پچا س لاکھ سے دوکروڑ اوررشتہ دار نکل آئیں گے جن کو سمجھانے کیلئے پھر تمہیں ایک لمبی جدوجہد کی ضرورت ہوگی ۔پس تم تبلیغ کو وہ طریق اختیار کرو وجو قرآن کریم نے اس آیت میں بتایا ہے ۔جب تم اپنے رشتہ داروں سے ملو گے اوران کی غلط فہمیاں دورکرنے کی کوشش کرو گے توتم دیکھو گے کہ ان میں سے ہزاروں ہزار سعید روحیں احمدیت کو قبول کرنے کے لئے دوڑتی چلی آئیں گی اوراگر احمدیت قبول نہیں کریں گی توکم از کم سلسلہ پر اعتراض کی آئندہ انہیں جرأت نہیں ہوگی ۔
میں نے کئی دفعہ سنایاہے کہ جب میں حج کے لئے گیا تو میں مصر کے راستہ گیاتھا ۔اصل میں میری سکیم یہ تھی کہ میں مصر میں عربی تعلیم حاصل کروں گا اوراگلے سال حج کروں گا مگر اتفاقاً قاہرہ جانے سے پہلے میں پورٹ سعید میں ٹھہر گیا ۔اسی رات میں نے رؤیا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رتشریف لائے ہیں اورفرماتے ہیں کہ اگر تم نے حج کرنا ہے تو سب سے پہلے جہاز میں چلے جائو چنانچہ میں نے اسی وقت پتہ لیا اور تین چا ر دن کے بعد جو جہاز جانے والا تھا اس میں حج کے لئے سوار ہوگیا ۔خدا تعالیٰ کی قدرت ہیح کہ اس کے بعد ایسے حالات پیداہوگئے کہ مصر کے لو گ ایک دوسال تک حج کے لئے نہ جا سکے ۔ اس سفر میں میرے ساتھ دومسلمان اورایک ہندوبیرسٹر بھی تھے ۔ان کو کسی طرح پتہ لگ گیا کہ میں احمدی ہوں ۔چنانچہ انہوں نے میرے ساتھ بحث شروع کردی ۔مگر میں نے انہیں یہ پتہ نہ لگنے دیا کہ میں بانئے سلسلہ احمدیہ کالڑکاہوں ۔آخر بڑھتے بڑھتے انہوں نے نہایت ناشائستہ اعتراضات شروع کردیئے ۔میں پھر بھی دلیل کے ساتھ ان کے اعتراضات کو ردّ کرتارہا۔گیارہ دن میں ہم پورٹ سعید پہنچے ۔ہم نے اپنا بھاری سامان پورٹ سعید میں رکھوادیا جب میں گودام سے اپنا ٹرنک نکلواکر باہر نکلا ۔تواتفاقاً میرے ٹرنک پر کسی نے مرزابشیر الدین محمود احمد SON OF THE FOUNDER OF THE AHMADIYYA MOVEMENT َلکھا ہو اتھا ۔میں جہاز کی سیڑھیوں سے اُتر رہاتھا کہ میں نے دیکھا کہ وہ تینوں سرپٹ دوڑے میری طرف چلے آرہے ہیں۔میں نے کہا کیا بات ہے کہنے لگے ۔ معاف کیجئے ہم نے بڑی بیوقوفی کی ۔میں نے کہا کیا ہوا۔کہنے لگے ہم آپ سے بڑی گستاخی سے باتیں کرتے رہے ۔اگر ہمیں پتہ لگ جاتا کہ آپ بانی سلسلہ احمدیہ کے فرزند ہیں توہم اپنے خیالات کے اظہار میں یہ ناشائستہ طریق کبھی اختیار نہ کرتے ۔ میں نے کہا آپ جسمانی تعلق کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں اورمیرے نزدیک روحانی تعلق زیادہ اہم ہوتاہے ۔بہرحال میں نے اس کا اظہار اسلئے نہیں ہونے دیاکہ میں چاہتا تھا کہ آپ کے دل میں جو اعتراضات ہیں وہ سامنے آجائیں ۔توجب مذہبی بات چیت کی جائے دوسراشخص بعض دفعہ غصہ بھی نکال لیتا ہے ۔برابھلابھی کہہ لیتا ہے ۔لیکن اگر دل میں خشیت پیداہوجائے توپھر وہ معذرت بھی کرنے لگتاہے ۔ہم نے کئی ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جوسلسلہ کو شدید گالیاں دیاکرتے تھے ۔مگر پھر وہ اخلاص کے ساتھ اس جماعت میں شامل ہوئے اورانہوں نے اپنے تعلقات کو آخر تک بڑی وفاداری سے نبھایا۔تاریخوں میں آتاہے حضر ت عمر و بن العاصؓ جب وفات پانے لگے تو انتہائی کرب کی حالت میں رونے لگے ۔ان کے لڑکے نے انہیں کہا کہ آپ کیوں گھبراتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسلام کی خدمت کی توفیق بخشی ہے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بہتر جزادے گا ۔انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ مجھ پر دوزمانے گذرے ہیں ۔ایک زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے خاندان کا اتنا بغض میرے دل میں پایاجاتاتھا کہ میں نے انتہائی نفرت کی وجہ سے کبھی آنکھ اٹھا کرآپؐ کی شکل نہیں دیکھی۔پھر خدانے مجھے ہدایت دی اورمیرے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی محبت پیداہوگئی کہ فرطِ محبت او رعشق کی وجہ سے مجھے کبھی جرأت نہیں ہوئی کہ میںآنکھ اٹھا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ سکوں ۔چنانچہ اب اگر کوئی مجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاحلیہ پوچھے تو میں بتانہیں سکتا ۔لیکن آپؐ کی وفات کے بعد ہم سے کئی غلطیاں ہوئیں۔میں ڈرتاہوں کہ ان غلطیوںکا خداتعالیٰ کو کیاجوا ب دوں گا ؟ تودیکھو ایک ایساشخص جس کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا بغض تھاکہ وہ آنکھ اٹھاکربھی رسول ریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھتاتھا ایک دن اس کے دل میں اتنا عشق پیداہوگیاکہ پھر اس عشق کی وجہ سے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھ سکا۔سرسری طورپر توانہوںنے آپ کو دیکھا ہوگا۔لیکن پوری شکل دیکھنے کی انہیں ہمت نہیں پڑی ۔پس لوگوں کی ہدایت سے مایو س مت ہو ۔او راس غر ض کے لئے سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں کے پاس جائو ۔تمہارے اپنے بھائی بہنیں سالے خسر اوردوسرے رشتہ دارموجود ہیں ۔تم ان کے پاس جائو اوران سے اپنے تعلقات کو وسیع کرو۔پھر تم دیکھو گے کہ کس طرح خداتعالیٰ تمہاری تبلیغ میں برکت پیداکردیتاہے۔
مجھے یاد ہے ۔میں چھوٹاتھا اوراپنے ایک رشتہ کی نانی کے ہاں دِلّی میں ٹھہراہواتھا کہ ان کے ایک بھائی حیدرآباد دکن سے ان کے ملنے کے لئے آئے ۔انہوں نے ایک دن مجھے بلایا اورکہا ۔میاں تمہارا اوردوسرے مسلمانوں کا آپس میں کس بات پر اختلاف ہے۔میں اس وقت زیادہ علمی باتیں تو جانتانہیں تھا۔میں نے کہا۔ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اوردوسرے مسلمان کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں۔کہنے لگے ۔تم کس طرح کہتے ہو عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں۔میں نے اس پر قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی یَاعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓااِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔میں نے کہا دیکھئے اس میں صاف لکھا ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھ وفات دوں گا اورپھر تجھے اپنی طرف اٹھا ئوں گا ۔پس وفات پہلے ہے اوررفع بعد میں ۔اس پر باوجود اس کے کہ وہ ستر سال کے بڈھے تھے ۔کہنے لگے تمہاری باتیں تو سب معقول ہیں ۔پھر مولوی کیوں مخالفت کرتے ہیں ۔ہماری نانی بڑی متعصّب تھیں وہ غصہ سے کہنے لگیں کہ آگے ہی لڑکے کا دماغ خراب ہے اوراب تم اس کو اَور خراب کررہے ہو ۔اب دیکھو وہ حیدرآباد دکن سے اپنی بہن کو ملنے آئے تھے اورمیں ایک چھوٹابچہ تھا ۔مگر محض اس وجہ سے کہ میں ان کی بہن کا نواسہ بلکہ پڑنواسہ تھا انہوں نے مجھ سے بات پوچھ لی ۔اگرایک چھوٹے بچے سے بات پوچھی جاسکتی ہے تواپنے جوان اوربالغ داما د سے اپنے خسر سے ،اپنی ساس سے ،اپنے چچا اورماموں سے کیوں دریافت نہیں کیاجاسکتا۔اورجب و ہ تم سے کوئی بات دریافت کریں گے توان کی مثال اس شخص کی سی ہوجائے گی جوکمبل کو تو چھوڑناچاہتاہے مگر کمبل اسے نہیں چوڑتاتھا ۔
کہتے ہیں ۔کسی نہرکے کنارے دوشخص جارہے تھے سردی کاموسم تھا کہ ایک شخص نے نہر میں کمبل تیرتے دیکھا ۔وہ دراصل ریچھ تھا مگر اس نے غلطی سے اسے کمبل سمجھ لیا اس نے اپنے ساتھی سے کہاکہ میں نہر سے کمبل نکال لوں تم ذراٹھہرو۔جب وہ نہر میں کودا اوراس نے کمبل پکڑناچاہا۔توآپس کی رسہ کشی سے ریچھ کے ہاتھ پائو ں جو سردی کی وجہ سے سکڑے ہوئے تھے کھل گئے او راس نے آدمی کو پکڑ لیا ۔اب باہر والے نے آوازیں دینی شروع کیں کہ جلدی باہر نکلو سفر خراب ہورہاہے۔اگرکمبل ہاتھ نہیں آتا تواسے چھوڑ دو۔ اورباہر آجائو ۔وہ کہنے لگا کہ میں تو کمبل کو چھوڑنے کے لئے تیا ر ہو ںمگرکمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔اسی طرح پہلے وہ تم سے پوچھیں گے کہ بتائیے ۔آپ کے کیا اعتقادات ہیں مگر اس کے بعد تمہارے لئے تبلیغ کا ایسارستہ کھل جائے گا کہ جس پر نہ شرعی طورپر کوئی اعتراض ہوگا اورنہ قانونی طورپر کوئی اعتراض ہوسکتاہے کہ ان کی بات نہ سنو ۔اگر کوئی کہے بھی توماں کہے گی یہ میرابچہ ہے میں اس سے ایک بات پوچھ رہی ہو ںتم بیچ میں دخل دینے والے کون ہوتے ہو ۔خسر کہے گا یہ میراداما د ہے میں نے اس سے ایک بات پوچھی ہے تم مجھے روکنے والے کون ہو ۔اورچونکہ حق تمہارے ساتھ ہے اس لئے آخری نتیجہ یہی ہوگاکہ اللہ تعالیٰ ایک دن اس کا دل بھی کھول دے گا ۔اوراسے کھینچ کر صداقت کی طرف لے آئے گا۔
یہ امر یاد رکھو کہ تبلیغ کوئی وقتی چیز نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ہے ۔خداتعالیٰ قرآن کریم میں حضرت مسیح علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتاہے کہ تمہارے ماننے والے نہ ماننے والوں پر قیامت تک غالب رہیں گے اب اس کے صاف یہ معنے ہیں کہ ہمیشہ ایسے آدمی موجود رہیں گے جو حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان نہیں لائیں گے اورجب حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لانا قرآن کریم نے بھی ضروری قراردیاہے توجولوگ مسیحؑ کو نہیں مانیں گے وہ قرآن کریم کو بھی نہیں مانیں گے ۔پس لازماً قیامت تک کچھ ایسے لوگ موجودرہیں گے جواسلام میں داخل نہیں ہوں گے توان کو منوانے کے لئے تبلیغ کی بھی ضرورت رہے گی ۔ہمارے ملک میں لڑکیاں ایک کھیل کھیلتی ہیں ۔اب تو وہ کھیل کھیلتے میں نے لڑکیوں کو نہیں دیکھا لیکن پہلے اس کھیل کا رواج زیادہ تھا ۔وہ کھیل اس طرح ہوتی ہے کہ پانچ چھ لڑکیاں ایک طرف کھڑی ہوجاتی ہیں اورپانچ چھ لڑکیاں دوسری طرف کھڑی ہوجاتی ہیں ۔ایک طرف کی لڑکیاں دوسری طرف کی لڑکیوں کے پاس آتی ہیں تووہ غالباً ان سے رشتہ مانگتی ہیں یاکوئی اورچیز مانگتی ہیں ۔بہرحال وہ سائل بن کرآتی ہیں اوراپناسوال پیش کرتی ہیں تودوسری طرف کی لڑکیاں کہتی ہیں ہم نے نہیں دینا۔اورجب و ہ کہتی ہیں نہیں دینا توکھیل شروع ہوجاتاہے ۔ ایک طرف کی لڑکیاں کہتی ہیں ’’نہیّوں دینا ‘‘اوردوسری طرف کی لڑکیاں کہتی ہیں ۔’’لَے کے رہنا ‘‘اوردیر تک یہ مشغلہ جاری رہتاہے دونوں فریق اپنی ضد پر مُصر رہتے ہیں ۔اسی طرح قرآن کریم کہتاہے کہ قیامت تک کچھ لوگ ایسے موجود رہیں گے جو کہیں گے ہم نے نہیں ماننا۔پس تمہارابھی یہی کام ہے کہ تم کہو ہم نے منواکر چھوڑناہے ۔تمہارا ایمان اورجذبہ بہرحال چھوٹی بچیوں سے زیادہ ہوناچاہئیے ۔تمہاری غیرت ان سے زیادہ ہونی چاہیئے ۔اگران میں سے ایک فریق کہتاہے کہ ہم نے نہیں دیناتو دوسری لڑکیاں کہتی ہیں کہ ہم نے لے کر جاناہے۔اسی طرح تمہارابھی یہی کام ہیح کہ اگرکچھ لوگ ایسے ہوں جو کہیں ہم نے نہیں ماننا توتم کہو ہم نے منواکر ہی چھوڑناہے اوراپنے اس عزم کو کبھی ترک نہیں کرنا۔
میں نے دیکھا ہے لو گ عام طور پر یہ عذر کیا کرتے ہیں کہ ہمارے بھائی یابھتیجے یا دوسرے رشتہ دار ہماری بات نہیں سنتے یاہماری تبلیغ کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ آخروہ بھی توکسی کے بھائی تھے ۔وہ بھی توکسی کے بھتیجے تھے ۔وہ بھی توکسی کے بھانجے تھے۔وہ بھی توکسی کے داماد یاخاوند تھے ۔پھر اگرخداتعالیٰ نے انہیں ہدایت دیدی توان کے رشتہ داروں کو کیوں ہدایت نہیں مل سکتی ۔اصل بات یہ ہے کہ جماعت کے دوست اپنے رشتہ داروں اورقریبی دوستوںکو صحیح طورپر تبلیغ ہی نہیں کرتے ۔ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ان پر اثر نہ ہو ۔آخر ہررشتہ دار کااپنے رشتہ دار پر اورہردوست کااپنے دوست پر اورہربھائی کا اپنے بھائی پر حق ہوتاہے ۔ دنیا میں کوئی بیوی ایسی نہیں ہوسکتی جویہ کہے کہ میراخاوند جہنم میں چلاجائے مجھے اس کی پرواہ نہیں اورنہ کوئی خاوند ایساہوسکتاہے جوکہے کہ خواہ میری بیوی جہنم میں چلی جائے مجھے اس کی پرواہ نہیں۔پس خاوند کا اپنی بیوی کو یابیوی کا اپنے خاوند کو حق بات پہنچانادراصل تبلیغ نہیں بلکہ اپنے فرض کو اداکرنا ہے ۔اسی طرح بھائی کا اپنے بھائی کو حق پہنچانا تبلیغ کرنا نہیں کہلاسکتا بلکہ بھائی کا اپنے بھائی کوحق پہنچانا فرض ہے ۔اسی طرح دوست کا اپنے دوست کو حق پہنچانا تبلیغ نہیں بلکہ اس کا فرض ہے اوراگر و ہ اپنے اس فرض کو ادانہیں کرتا تووہ دوست نہیں بلکہ دشمن سمجھاجائے گا ۔اوراس کادوست بھی اسے اپناخیر خواہ نہیں بلکہ بدخواہ قرارد ے گا کہ اس نے اسے سچائی سے محروم رکھا ۔اگر اس رنگ میں ہررشتہ دار اپنے رشتہ دار کو اورہردوست اپنے دوست کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے حق پہنچائے توتھوڑے عرصہ میں ہی لاکھوں افراد تک صداقت پہنچ سکتی ہے ۔
پھر فرماتاہے وَاخْفِضْ جُنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جولوگ تیری بات مان لیا کریں ان کے ساتھ ہمیشہ نیک برتائو کر تاکہ تیرے حسن سلوک کی وجہ سے وہ اوربھی زیادہ اسلام کے گرویدہ ہوجائیں اوران کی تربیت کا ہمیشہ خیال رکھ تاکہ ان کی طاقت سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھایاجاسکے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دریانکلتے اوربہتے چلے جاتے ہیں لیکن نااہل قومیں ان سے فائدہ اٹھانے کی بجائے صرف اتنا نقصان اٹھاتی ہیں کہ دریا کی طغیانیوں سے ان کے دیہات غرق ہوجاتے یاان کی زمینیں بیکار اوربنجرہوجاتی ہیں یازیادہ سے زیادہ وہ لوگ اتنا فائدہ اٹھالیتے ہیں کہ دریائوں سے مچھلیاں پکڑ لیتے ہیں ۔لیکن جو عقل مند اورذہین قومیں ہوتی ہیں وہ ان سے نہریں نکالتی اوربنجر زمینوں کو آباد کرتی ہیں اوراس طرح اربوں ارب روپیہ کماتی ہیں ۔اسی طرح اگر افراد کی صحیح تربیت کی جائے اوران کے اند رجذبئہ قربانی پیداکیاجائے توان کی طاقت سے اتنا فائدہ اٹھایاجاسکتاہے کہ قوم ترقی کے میدان می کہیں کی کہیں نکل جاتی ہے۔درحقیقت پرانی نسل کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کسی چشمہ یا دریاکامنبع۔ لیکن نئی نسل کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ایک نالہ او راس سے ا گلی نسل کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ایک چھوٹا دریا اورپھر اس سے اگلی نسل کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ایک بڑا دریا ۔اورپھر اس سے اگلی نسل کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ایک بڑاسمندر ۔چشمہ سے پانی پینے کے لئے ہمیں خود چشمہ پرجاناپڑتاہے ۔لیکن نالہ جو ش و خروش سے گھروںکے پا س سے گذرتا ہے ۔اس کے پا س جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔پھر جب وہ ایک چھوٹا دریابن جاتاہے توصرف یہی نہیں کہ وہ گھروں کے پاس بہتاہے بلکہ اورزیادہ پھیل کر وہ گھروں کے قریب آجاتاہے ۔پھر جب وہ چھو ٹادریا وسیع ہوتاہے تواوربی زیاد ہ گھروں کے پاس سے گذرتاہے اوراس کے زمین میں جذب ہونے یا ریت میں غائب ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں رہتا۔وہ پہاڑیوں او رٹیلوں پر سے کودتے اورریتوں پر سے بہتے ہوئے سمندرکی طرف بہتاچلاجاتاہے اورجب وہ دریا سمندر بن جاتاہے۔ توساری زمینوں کے کنارے اس سے ملنے لگ جاتے ہیں اورکوئی حصہ زمین بھی ایسانہیں رہتاجو اس سے متصل نہ ہو۔اسی طرح جب جماعت کے افراد کی صحیح تربیت کی جایء اوراگلی نسلوں میں قربانی اورایثار اورفدائیت کازیادہ سے زیادہ جذبہ پیداکیاجائے تووہ دنیا میں امن کے قیام کا ایک بہت بڑاذریعہ ثابت ہوتے ہیں ۔دنیا کا ایٹم بم جو یورینیم دھات سے بننے والی ایک چیز ہے دنیا کی تباہی اوربربادی کاایک مہلک ہتھیا رہے لیکن افراد جماعت کی طاقت کو صحیح استعمال کرنا اور آئندہ نسل کے اندرجذبئہ قربانی پیداکرنا اوراس کی صحیح تربیت کرنا قوموںکو زندہ رکھنے کا ایک حتمی اوریقینی ذریعہ ہوتاہے۔ کیونکہ اس طرح ہرفرد کے دل میں یہ احساس قائم رہتاہے کہ دنیا کو فتح کرنے اوراسلام کو دوسرے ادیان پرغالب کرنے کے لئے میری ذاتی جدوجہد کی بھی ضرورت ہے ۔ یہی نکتہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی بیان فرمایاہے ۔اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایاہے کہ تیرے دوطریق ہونے چاہئیں ۔ ایک مخالفین کے ساتھ اورایک موافقین کے ساتھ ۔مخالفین کیح ساتھ توتیرایہ طریق ہوناچاہیئے کہ تُوان کو ڈراجن میں تیرے رشتہ دار بھی شامل ہیں اورجو ایسے راستہ پر چل رہے ہیں ۔جوان کے لئے نقصان دہ ہے ۔لیکن اس کے علاوہ تیرادوسراکام یہ بھی ہے کہ تُو مومنوں کی تربیت کرے کیونکہ اب دنیا کی نجات انہی لوگوں کی صحیح تربیت پر منحصر ہے ۔ان میں سے کئی ایسے ہیں جوتیرے رشتہ دار نہیں مگر وہ تیراحکم مانتے اور تیری اطاعت کرتے ہیں ۔پس تُو لوگوںکوبتادے کہ تیرے رشتہ داروں میں سے جو کوئی تیرے خلاف چلے گا اور تیری باتیں نہیں مانے گا وہ سزاپائے گا اورجو تیرارشتہ دارتونہ ہوگا مگر تیری باتوں پر ایمان لے آئے گا وہ انعام پائے گا ۔ یعنی تیرامنکر اگر قریبی بھی ہو گا توسزاپائے گا اورتیرامتبع اگر بعیدی بھی ہوگا توانعام پائے گا ۔ایسے ایمان لانے والوں کے لئے خواہ وہ قریبی ہوں یا بعیدی تُو اپنا بازوجھکادے۔گویا ایک طرف توتُوقریبی کو ڈراتارہ کہ اگر وہ ایمان نہ لائے توسزاملے گی اوردوسری طرف وہ بعیدی جو تیرے رشتہ دار تو نہیں مگرتجھ پر ایمان لے آئے ہیں جن میں سے بعض روم کے ہیں ۔بعض ایران کے ہیں ۔بعض حبشہ کے ہیں ۔بعض شام کے ہیں اوربعض قبائلِ عرب میں سے ہیں ان کی طرف تیری بہتر سے بہترتوجہ ہونی چاہیئے ۔کیونکہ تیرے اصل رشتہ دار اب وہی ہیں ۔جولوگ تیرے قریبی رشتہ دار تو ہیں مگر تجھ پر ایمان نہیں لائے و ہ ایمان نہ لانے کی وجہ سے تیرے رشتہ داروں میں سے نکل گئے ہیں اوراب تیرے اصل رشتہ دار وہی ہیں جو تجھ پر ایمان لائے ہیں اورتیری ہر بات کو مانتے اور تیری پیروی کرتے ہیں ۔
آگے فرماتاہے۔فَاِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّاتَعمَلُوْنَ۔یہاں عَصَوْکَ کے یہ معنے نہیں کہ اِنْ عَصَوْکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔بلکہ یہ عَصَوْکَ مخالفین کے لئے آیاہے۔قرآن کریم کایہ عام قاعدہ ہے کہ جب ایک ہی آیت میں دو باتوں کا ذکر ہو تو ان میں سے ایک فقرہ الگ گروہ کے لئے ہوتاہے اوردوسرافقرہ الگ گروہ کے لئے ۔یہاں جو عَصَوْکَ کا لفظ ہے اس کے معنے ہیں اِنْ عَصَوْکَ عَشِیْرَتُکَ یعنی تیرے رشتہ دار اگر باوجودڈ رانے کے بھی نہ مانیں اوراپنے پہلے راستہ پر ہی گامزن رہیں توتُو ان کو کہہ دے اِنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّاتَعمَلُوْنَ کہ جو کچھ تم کررہے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں ۔یعنی پھر تُو ان سے قطع تعلق کرلے اورکہدے کہ میں تمہارے اعمال سے بیزار ہوں ۔تم اس گھمنڈ میں نہ رہنا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار اور قریبی ہیں ۔اس لئے اگر ہم نے اس کی بات نہ مانی تب بھی ہم نجات پاجائیں گے ۔بے شک تم میرے رشتہ دار ہو ۔مگر نجات رشتہ دار ی اورقرابت پر موقو ف نہیں ہے ۔نجات کا راستہ صرف یہی ہے کہ تم میر ی پیروی کرو۔ورنہ تم باوجود میرے ساتھ رشتہ داری او رقرابت رکھنے کے سزاپائو گے ۔یہ ایک نہایت اعلی درجہ کا طریقہ ء تبلیغ ہے ۔جو قرآن کریم نے بتایاہے۔اگر مسلمان اس پر عمل کر تے تو بڑی کامیابی کامنہ دیکھتے ۔جہاں جہاں اسلام پھیلے وہاں نئے ماننے والوں کو یہ سمجھاناچایئے کہ فوراً اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی طرف جائو اور تبلیغ کے علاوہ ان سے نیک سلوک بھی کرو۔اوراگر وہ تمہاری بات نہ سنیں تو ان سے ایک حد تک الگ ہو جائو تاکہ ان کے اند رندامت پیداہواورتم بھی ا ن کے بد اثر سے بچ جائو ۔جیسا کہ حضرت مسیحؑ نے بھی اپنے حواریوںکو نصیحت کی کہ
’’ اگر کو ئی تم کو قبول نہ کرے ۔اورتمہاری باتیں نہ سنے تو اس گھر یا اس شہر سے باہر نکلتے وقت اپنے پائوں کی گرد جھاڑ دینا ۔‘‘
(متی باب ۱۰آیت ۱۴)
اس کے بعد دوسرے گروہ یعنی مومنین کے متعلق فرمایا وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔یعنی اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) تُواپنے بازو ان مومنوںپر جھکا دے جوتیری اتباع کرتے ہیں ۔بازو جھکانا عرب میں ایک محاورہ ہے جو جانوروں کی مناسبت سے لایا گیاہے ۔یہ دیکھا گیا ہے کہ جب تک جانوروں کے بچے کمزور ہوتے ہیں ۔اوراُڑنے کے قابل نہیں ہوتے یا اچھی طرح چل پھر نہیں سکتے جانوران پر اپنے پر پھیلائے رکھتے ہیں تاکہ بچوں کو چیل وغیرہ نہ لے جائے ۔انسان تو اپنے بچوں کو کپڑے پہنادیتے ہیں ۔مگرجانوروں کے پاس کپڑانہی ہوتا اس لئے وہ بچوں کو اپنے پروں کے نیچے چھپائے رکھتے ہیں ۔ مرغیوں کو دیکھو ۔اگر بچوں والی مرغی کسی جگہ بیٹھی ہو اوراسے کوئی اٹھادے تواس کے پروں کے نیچے سے آٹھ دس بچے نکل کر دوڑ پڑتے ہیں۔پس وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ کے یہ معنے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تجھے چاہیئے کہ تواپنی تمام ترتوجہ مومنوں کی طرف رکھ اوران کی اعلیٰ سے اعلیٰ تربیت کرنے کی کوشش کر ۔اب ظاہر ہے ںکہ یہ تربیت کاکام اورمومنین کو اعلیٰ مدارج تک لے جانے کاکام اس قسم کا تھا کہ اس میں تکالیف او رمشکلات پیش آنے کااحتمال ہوسکتاتھا ۔اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔الّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ ۔وَتَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ۔ اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔انذار کاکام توصرف منہ سے ہوتاہے اورزبان سے ڈرادیناکافی ہوتاہے لیکن تربیت او راصلاح کاکام محنت طلب ہے اوریہ کام ایساہے جو کسی کے اپنے اختیار میں نہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک باپ چاہتاہے کہ میرابیٹاجج بن جائے مگر وہ چٹھی رسان بھی نہیں بن سکتا ۔یاایک باپ چاہتاہے کہ اس کا ابیٹاعالم دین بن جائے لیکن جب و ہ بڑاہوتاہے تو علم دین کی طرف اسے کوئی رغبت ہی نہیں ہوتی ۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ ایک عالم دین جو صرف و نحو کے متبحر عالم تھے اورسارے ہندوستان میں ان کی علمیّت کا شہرہ تھا ۔وہ بہت سادہ طبع تھے اوراگر انہیں کوئی ایساشخص دیکھتا جو ان کو پہلے سے نہ جانتا تووہ یہی سمجھتا کہ یہ گھاس کاٹ کر آئے ہیں ۔ان کانام مولوی خان ملک صاحب تھا ۔وہ کہیں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کے متعلق خبر سن کر قادیان آئے اورآپ کی باتیں سن کر ایمان لے آئے ۔واپسی پر جب وہ لاہورپہنچے تو انہوں نے ارادہ کیاکہ مولوی غلام احمد صاحب سے ملتے چلیں۔مولوی غلام احمد صاحب شاہی مسجد میں درس دیتے تھے اوروہ مولوی خان ملک صاحب کے شاگرد رہ چکے تھے ۔مولوی غلام احمد صاحب بھی بہت مشہور عالم تھے اورچونکہ لاہو رکے لوگ اچھے متموّل تھے اس لئے مولوی غلام احمد صاحب کی مالی حالت بہت اچھی تھی اورسینکڑوں طالبعلم ان کے پاس پڑھتے تھے۔ جب مولوی خان ملک صاحب شاہی مسجد میں پہنچے تووہاں کے طلباء کو تو اس بات کا علم نہ تھا کہ یہ کس پایہ کے آدمی ہیں انہوں نے ان کے معمولی لباس اورظاہری صورت سے یہ اندازہ لگایاکہ یہ کو ئی معمولی آدمی ہیں۔مولوی غلام احمد صاحب نے مولوی خان ملک صاحب سے پوچھا ۔فرمائیے۔کہاںسے تشریف لارہے ہیں ۔انہوں نے کہا ۔’’قادیان سے ۔‘‘انہوں نے حیران ہوکر پوچھا ۔‘‘قادیان سے ‘‘۔ انہوں نے کہا ۔ہاں قادیان سے ۔انہوں نے کہا ۔کیوں؟ کہنے لگے ۔مرزاصاحب کامرید ہونے کے لئے گیاتھا ۔انہوں نے کہا ۔آپ اتنے بڑے عالم ہیں آپ نے ان میں کیا خوبی دیکھی کہ ان کے مرید ہونے کے لئے چلے گئے ۔مولوی خان ملک صاحب نے پنجابی میں انہیں کہا کہ ’’ تُوں اپنا کم کر تینوں تے قَالَ یَقُوْلُ وی چنگی طرح نہیں آوندا۔‘‘یعنی تُواپنا کام کر تجھے تو ابھی قَالَ یَقُوْلُ بھی اچھی طرح نہیں آتا۔ چونکہ مولوی غلام احمد صاحب بھی بڑے مشہور عالم تھے اس لئے جب مولوی خان ملک صاحب نے یہ الفاظ کہے تو مولوی غلام احمد صاحب کے شاگردوں کو سخت غصہ آیا اورانہوں نے مولوی خان ملک صاحب سے مخاطب ہوکر کہا ۔بڈھے تُونے یہ کیا بات کہی ہے ۔ مولوی غلام احمد صاحب نے ان کو منع کیا اورکہا خاموش رہو کہ جو کچھ کہہ رہے ہیں بالکل ٹھیک ہے ۔غرض مولوی خان ملک صاحب مرحوم کو صرف و نحو پر اتنا عبور تھا اوروہ اپنے فن میں اتنے ماہر تھے کہ تمام ہندوستان میں ان کا شہرہ تھا اوران کی بعض تصانیف کے متعلق لو گ یہ سمجھتے تھے کہ ان کتب کا لکھنے والاچا رپانچ سوسال پہلے کاکوئی عالم ہے ۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ان کا ایک واقعہ سنایاکرتے تھے ۔ان کے بڑے لڑکے کانام عبداللہ تھا ۔انہوں نے ایک دفعہ عبداللہ کے متعلق حضرت خلیفہ اولؓ سے شکایت کی کہ میرایہ لڑکا علم کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتا آپ اس کو سمجھائیں کہ اگرآج اس نے تعلیم حاصل نہ کی تو یہ نقصان اٹھائے گا ۔حضرت خلیفئہ اول رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ میں نے عبداللہ کو بلوایااورکہا ۔تمہارے والد صاحب اپنے علمی پایہ کی وجہ سے سارے ہندوستان میں شہرت رکھتے ہیں تم کیوں نہیں پڑھتے ۔وہ کہنے لگا ۔میں پڑھتاتوہوں مگروہ مجھے پڑھاتے ہی نہیں۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔وہ تو میرے پاس شکایت لے کرآئے تھے کہ تم پڑھتے نہیں اورتم کہتے ہوکہ میں پڑھتاہوں اوروہ مجھے پڑھاتے نہیں۔وہ کہنے لگا ۔بات دراصل یہ ہے کہ وہ مجھے عربی پڑھنے کے لئے کہتے ہیں اورمیں عربی پڑھنا نہیں چاہتا بلکہ میں انگریزی پڑھناچاہتاہوں ۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔تم عربی کیوں پڑھنا نہیں چاہتے او رانگریزی کیوں پڑھناچاہتے ہو ۔و ہ کہنے لگا۔بات یہ ہے کہ جب نئی نئی ریل آئی تو میں اوروالد صاحب ایک سفر پر گئے ۔اورآپ تو کہتے ہیں وہ بڑے عالم ہیں مگران کو اتنابھی پتہ نہ تھا کہ گاڑی میں فرسٹ اورسیکنڈ کلاس بھی ہوتی ہے۔چنانچہ یہ اپنی گٹھڑی اٹھائے ہوئے فسٹ کلاس ڈبہ میں گھس گئے ۔وہاں کوئی اینگلو انڈین ٹکٹ کلکٹرکھڑاتھا اس نے انہیں کہا ۔ہٹ بابا تیرایہاں کیاکام ہے ۔جب اینگلوانڈین نے ان کو جھڑکا تویہ پلیٹ فارم پر ہی بھاگ کھڑے ہوئے ۔میں ان کے پیچھے دوڑا۔مگریہ اسٹیشن سے دورنکل گئے اورکوئی میل بھر تک بھاگتے چلے گئے ۔آخر میںنے انہیں جاکر پکڑا اور پوچھا ۔آپ بھاگتے کیوں ہیں ۔کہنے لگے ۔مجھ سے غلطی ہوگئی تھی اس لئے خطرہ تھاکہ سرکاری آدمی پکڑ کرنہ لیجائیں ۔اس دن سے میں نے اپنے دل میں یہ تہیہ کرلیا کہ چاہے کچھ ہوجائے میں نے عربی نہیں پڑھنی اور اگرپڑھنی ہے توانگریزی پڑھنی ہے۔کیونکہ عربی کے اتنے بڑے عالم ہونے کے باوجود جب اس قدر جہالت رہتی ہے کہ گاڑی کے فرسٹ اورتھرڈ کلا س کے ڈبوں کی شناخت بھی نہیں ہو سکتی تواس علم کا فائدہ ہی کیاہے اس لئے اگر یہ مجھے پڑھاناچاہتے ہیں توانگریزی پڑھائیں عربی تومیں کبھی بھی نہیں پڑھوں گا۔اب دیکھو اتنا اعلیٰ پایہ کے عالم و فاضل کا بیٹاباوجود باپ کی خواہش کے کہ وہ علم حاصل کرے دینی علم سے محروم رہ گیا ۔پس وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَک میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایاہے کہ تربیت اوراصلاح کاکام اتنا عظیم الشان ہے کہ یہ بہت زیادہ محنت چاہتاہے اوریہ کام ایساہے کہ جب تک تربیت اوراصلاح پانے والوں کے اندر جوش اوراخلاص اورفرمانبردار ی کامادہ موجود نہ ہو ۔اس کوسرانجام نہیں دیاجاسکتا۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاں مخالفین منکرین اورغیر متبعین کے متعلق فرمایاکہ فَاِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّاتَعمَلُوْن۔یعنی ان کو تو ڈرالیکن اگر وہ تیری بات نہ مانیں توتُوان سے کہدے کہ میں تمہارے اعمال کاذمہ وار نہیں ہوں وہاں مومنوں کے متعلق فرمایا وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔الّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ ۔وَتَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ۔ اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔درحقیقت اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوجومومنوں کی خبرگیری اورتربیت کاحکم دیاتھا وہ پورانہیں ہوسکتاتھا جب تک تین باتیں نہ ہوں ۔ایک تویہ کہ خداتعالیٰ کی تائید ہو دوسرے یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اند ران کی تربیت کاکامل جذبہ موجود ہو اورتیسرے یہ کہ جن کی آپؐ تربیت اور خبرگیری کرناچاہتے تھے ان کے اند ر ماننے کاجذبہ موجود ہو ۔ان تینوں چیزوں کے متعلق فرماتاہے (۱) وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمتُواللہ پرتوکل کرکے اس کام کو شروع کردے وہ تیری ضرو رمددکرے گا ۔یعنی میں تیری مدد کروں گا ۔(۲)الّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ اللہ تعالیٰ خوب جانتاہے کہ تیرے اندر کیاروح کام کررہی ہے ۔یعنی تُو اپنے اندر یہ جذبہ رکھتاہے کہ ان کی تربیت کرے ۔آگے فرماتاہے (۳)وَتَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ۔ پھر تیسری بات بھی تجھے حاصل ہے یعنی تُو ان لوگوں میں پھرتاہے جوہررنگ میں تیری اطاعت اورفرمانبرداری کاجذبہ اپنے اندر رکھتے ہیں ۔یہ تین مشکلات تھیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ان آیا ت میں ذکر کیا ہے ۔فرماتاہے یہ کام اللہ تعالیٰ کی تائید چاہتاہے ۔سومیں تیری مددکرنے کے لئے تیار ہوں۔یہ کام تیرے اندردوسروں کی تربیت اوراصلاح کرنے کا جذبہ چاہتاہے ۔سووہ تیرے اندرموجود ہے ۔یہ کام ان لوگوں کے اندر جن کی تو تربیت اورخبرگیری کرناچاہتاہے کامل اطاعت او رفرمانبرداری کی روح چاہتاہے سووہ ان کے اند رموجود ہے ۔ اس لئے تجھے اس کام میں کسی قسم کی تکلیف کاسامنانہیں ہوسکتا۔
بعض مفسرین نے غلطی سے وَتَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ۔ کے یہ معنے کئے ہیں کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایاگیاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تما م آباء مومن یعنی ساجد تھے ۔حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتاہے کہ ایک دفعہ آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا۔کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعاکی تھی کہ وہ مجھے اپنی والدہ کے لئے استغفار کی اجازت دیدے مگراللہ تعالیٰ نے مجھے اس کی اجازت نہیں دی (مسند احمد بن حنبلؒجلد۵ص ۳۵۵)اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ نظریہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام آباء مومن تھے درست نہیں۔حضرت عبدالمطلب کے متعلق بھی جہاں توحید کی باتوں کا ذکر آتاہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ وہ ایک دُبدبہ کی حالت میں تھے۔کبھی توحیدکی طرف مائل ہوجاتے تھے اورکبھی شرک کی طرف ۔ان کا چاہِ زمزم کی تلاش کے وقت یہ نذر ماننا کہ اگرخداانہیں دس بچے دے گا اوروہ ان کی آنکھوں کے سامنے جوان ہوں گے تووہ ان میں سے ایک کو قربان کردیں گے ۔اورپھر ہبل کے سامنے ان کا قرعہ اندازی کرنا بتارہاہے کہ توحید کاصحیح مقام انہوں نے نہیں سمجھا تھا ۔پس یہ کہنا کہ تَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَکے معنے یقینی اورحتمی طورپر یہی ہیں درست نہیں ۔اصل معنے یہ ہیںکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کی تعریف کرتاہے اورفرماتاہے کہ تمہارارات دن ایسے لوگوں میں گذرہورہاہے جواللہ تعالیٰ کے پرستار اوراس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔تقلّب کا لفظ ایساہی ہے جیسے دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآئِ یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ تیری نظر بار بار اس معاملہ میں آسمان کی طرف اٹھتی ہے ۔پس تَقَلُّبَ کے معنے کسی چیز کی طرف بار بار جانے کے ہوتے ہیں ۔اوریہ ایک حقیقت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تقلّب صحابہؓمیں ہی تھا ۔کبھی جنگی مشاورت ہورہی ہوتی تھی اورجرنیل آپؐ کے گرد جمع ہوتے تھے ۔کبھی قضاء کے معاملات کافیصلہ ہورہاہوتاتھا اورقاضی اورتفقہہ رکھنے والے صحابہؓ آپؐ کے گرد جمع ہوتے تھے کبھی تصوّف کے دریابہائے جاتے تھے اورصوفیاء کاگروہ آپ کے گرد جمع ہوتاتھا ۔کبھی صدقہ و خیرات کاذکر ہورہاہوتاتھا اورصدقہ و خیرات دینے والے آپ کے ارد گرد جمع ہوتے تھے ۔غرض اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اوراس کی اطاعت کانمونہ دکھانے والے ہرقسم کے لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے ۔جس قسم کے کام کی آپ کو ضرورت ہوتی تھی نہ صر ف اس کام کے ماہر آپ کے پاس موجو د تھے بلکہ اس کے ساتھ ہی وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اوردن رات اس کی پر ستش کرنے والے بھی تھے ۔اوررات دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے ہی لو گوں میں چکر لگارہتاتھا ۔ تَقَلُّبٌ بھی یہی ہوتاہے کہ اِدھر اُدھر چکر کاٹنا ۔اورآپ کا ادھر ادھر چکر کاٹنا صحابہ کی ذات کے لحاظ سے ہی تھا ۔پس تَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ کے معنے یہ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے اعلیٰ درجہ کے ساتھی ملے ہوئے تھے کہ آپ جس طرف بھی منہ کرتے ادھر ساجد ہی ساجد نظر آتے تھے ۔جرنیلوں کی طرف منہ کرتے توآپ کے پاس ساجد جرنیل تھے۔قاضیوں کی طر ف منہ کرتے توآپ کے پاس ساجد قاضی تھے ۔مدرسوں کی طرف منہ کرتے توآپ کے پاس ساجد مدرس تھے ۔صوفیاء کی طرف منہ کرتیح تو آپ کے پاس ساجد صوفیاء تھے۔اقتصاد اورتمدن کے ماہرین کی طرف منہ کرتے توآپ کے پاس ساجد ماہرین اقتصاد اورساجد ماہر ین تمدن تھے۔غرض جس طبقہ کی طرف بھی آپ منہ کرتے آپ کو ایسے لوگ مل جاتے جو اس کام کے ماہر بھی ہوتے اوراللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اورعبادت گذاربھی ہوتے ۔اسی احسان کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا ہے اورفرمایا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے گردو پیش سب موحد ہی موحد ہیںاورتُو رات دن ان موحدین میں پھر تاہے ۔یہ ہماراکتنا بڑااحسان ہے کہ مکہ جیسی شرک کی سرزمین میں ہم نے موحد ہی موحد پیداکردیئے ہیں اوران لوگوں کو توحید پرعامل کردیاہے ۔جو ایک نہیں دونہیں سینکڑوں بتوں کی پوجاکرتے تھے ۔تُو دائیں جاتاہے توتجھے موحد نظرآتے ہیں ۔توبائیں جاتاہے تو تجھے موحد نظر آتے ہیں ۔توادھر جاتاہے تو تجھے موحد ملتے ہیں اورتو اُدھر جاتاہے تو تجھے موحد ملتے ہیں ۔غرض توجہاں بھی جاتاہے تجھے موحد نظر آتے ہیں ۔اورمکہ جیسی بستی میں جہاں رات دن بتوں کی پر ستش ہوتی تھی ہم نے تیرے ساتھ موحدین پیداکردیئے ہیں ۔پس تَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ کاوہ مفہوم نہیں جومفسرین نے سمجھا ہے بلکہ ا س آیت میں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر کیاگیاہے جواس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا کہ اس نے آپ کے گرد ساجد ہی ساجد جمع کردیئے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض انبیاء کی بیویاں ان پر ایمان نہیں لائی تھیں۔بعض کی اولاد نے انکی نبوت کاانکار کردیاتھا۔اورگوبیویوں یا اولاد کے انکار سے نبی کی شا ن میں کوئی فرق نہیںآتالیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں تھیں توخداتعالیٰ کے دین پرفدا۔آپ کی اولاد تھی تووہ بھی دین پر قربان۔آپ کے ساتھی تھے تووہ اسلام کے سچے عاشق ۔یہاں تک کہ سب تعلق رکھنے والوںکو اللہ تعالیٰ نے ساجد بنادیا۔اوریہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی اورنبی کو نصیب نہیں ہوئی۔پس اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم توجہاںکہیں جاتاہے موحدین اورساجدین مں پھر تاہے تیرے گھر میں توحید۔تیرے دوستوں میں توحید ۔پھر تُو جدھر جاتاہے توحید کابیج بوتاجاتاہے اورتونے ہزاروں مشرکین کو ساجد بنادیاہے ۔
اس جگہ ضروری معلوم ہوتاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے ایک حوالہ پر بھی روشنی ڈالی جائے ۔جس کا اسی آیت کے ساتھ تعلق ہے۔حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب تریاق القلوب میں فرماتے ہیں :۔
’’ ایک اورجگہ قرآن شریف میں فرماتاہے وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ۔الّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ ۔وَتَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْن یعنی خداپر پر توکل کر جوغالب اور رحم کرنے والاہے ۔وہی خداجو تجھے دیکھتاہے ۔جب تو دعااو ردعوت کے لئے کھڑاہوتاہے ۔وہی خداجوتجھے اس وقت دیکھتاتھا کہ جب توتخم کے طور پر راستبازوں کی پشتوں میں چلاآتاتھا۔یہاں تک کہ اپنی بزرگ والدہ آمنہ کے پیٹ میں پڑا۔’’
(تریاق القلوب ص ۱۳۴ ایڈیشن سوم)
یہ حوالہ چونکہ بظاہر اوپر کی تشریح کے خلاف نظر آتاہے اس لئے یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ ساجد کے لفظی معنی ایسے فرمانبردارکے ہوتے ہیں جو ہربات کو تسلیم کرتاہو اوربغاوت اورنشوز کے آثار اس میں نہ پائے جاتے ہوں۔لیکن اگر ہم گہراغور کریں توساجد کالفظ دوجگہ استعمال ہوسکتاہے ایک مومن ساجد کے لئے اورایک سوسائٹی کے ساجد کے لئے ۔مومن ساجد وہ ہو گاجو خداتعالیٰ کی باتیں ماننے والا ہواو رخداتعالیٰ کے قوانین سے بغاوت کرنے والا نہ ہو ۔اورسوسائٹی کاساجد وہ ہوگاجوسوسائٹی کی باتیں ماننے والا ہو اور سوسائٹی کے قوانین سے بغاوت کرنے والانہ ہو۔اب ہم اس آیت کے معنوں کی طرف آتے ہیں ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے کئی بطن ہیں ۔ایک بطن توقرآن کریم کایہ ہے کہ کسی آیت کے معنے کرتے وقت اس کے سیاق و سباق کی تما م آیات کو دیکھاجاتاہے اوراس کے معنے سیاق و سباق کی آیات کومدنظر رکھ کرکئے جاتے ہیں ۔کیونکہ اگر سیاق وسباق کو مد نظر نہ رکھاجائے تو معنوں میں غلطی کا امکان ہوتاہے ۔پھر ایک بطن یہ ہے کہ معنے کرتے وقت اس کے کچھ آگے آنے والی آیتوں او رکچھ پیچھے آنے والی آیتوں کودیکھاجاتاہے اوران کے معنوں میں تطابق کا خیال رکھاجاتاہے ۔پھر ایک بطن یہ ہے کہ جس آیت کے معنے مطلوب ہوں اس ساری سورۃ کو دیکھا جاتاہے ۔پھر ایک بطن یہ ہے کہ کئی سورتوں کو ملا کر اس کے معنے اخذ کئے جاتے ہیں ۔پھر ایک بطن یہ ہے کہ سارے قرآن مجید کو پیش نظر رکھنا پڑتاہے ۔اسی طرح اوربھی بعض بطن ہیں ۔یہ علم اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے عطافرمایاہے ۔بعض دفعہ ایک مضمون کاتعلق ابتدائی سورتوں کے ساتھ ہوتاہے اوربعض دفعہ بعد والی سورتوں کے ساتھ۔ پھر ایک معنے کسی آیت کے منفردًاہوتے ہیں اورایک معنے دوسری آیتوں کے ساتھ ملا کرکئے جاتے ہیں ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیان فرمودہ معنوں کی اس جگہ کیا صورت ہے۔اس نقطئہ نگاہ سے اگر ہم غور کریں تو توہمیں معلوم ہوتاہے کہ آپ نے اس آیت کے معنے منفردًالئے ہیں ۔سیاق و سباق کو نہیں لیا ۔آپ نے جس مضمون میں اس آیت کو بیان فرمایاہے ۔وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مرسل اچھے اورشریف خاندانوں میں سے آتے ہیں اور ان کی قوم ایسی اعلیٰ ہوتی ہے کہ کوئی شخص اس سے کراہت نہی کرسکتا۔کیونکہ اگروہ ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں جس کو اس شہر یا علاقہ یاملک کے لوگ ذلیل اورحقیر سمجھتے ہوں توان کا مانناطبائع پر گراں گذرتاہے اوریہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت اورحکمت کے خلاف ہے کہ وہ حقیر قوموں میں سے نبیوں کو مبعوث کرکے لوگوںکو تکلیف مالاتطلق میں ڈال دے ۔پس چونکہ ایسے خاندان سے کسی نبی یا رسول کامبعوث ہونا جو رذیل سمجھاجاتاہو طبائع کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوتا ہے اوراس میں مشکلات پیش آتی ہیں ۔اس لئے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے نبیوں اورماموروں کو شریف اور وجیہہ خاندانوں میں سے مبعوث کرتاچلاآیاہے تاکہ لوگوں کے قلوب می ان کے خلا ف نفرت اورحقارت کے جذبات پیدانہ ہو ں۔پس آپ نے اس آیت کے جو معنے لئے ہیں وہ منفردًالئے ہیں سیاق سباق کے لحاظ سے نہیں لئے ۔آپ نے ان معنوں کو اس رنگ میں لیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباواجداد سوسائٹی کے ساجد تھے سوسائٹی سے بغاوت نہ کرتے تھے بلکہ اچھے شہری تھے اوروہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جن کو قوم حقیر،نافرمان یا غدارسمجھتی تھی۔بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم توفرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا ہرنبی ایساہی ہوتاہے ۔اس طرح یہ معنے صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی چسپاں نہیں ہوں گے بلکہ سب نبیوں پر ہوجائیں گے ۔ان معنوں کے لحاظ سے یہاں ساجد کے معنے خداتعالیٰ کو سجدہ کرنے والے کے نہیں ہوسکتے ۔کیونکہ یہ تو مسلمہ امر ہے کہ بعض انبیاء کے آباء و اجداد ساجداً للہ نہ تھے۔ اس لئے لازماً اس کے یہ معنے کرنے پڑیں گے کہ سوسائٹی کے ساجد اورسوسائٹی کے قوانین سے بغاوت نہ کرنے والے۔ ہرسوسائٹی کے اند ر شرافت کا ایک خاص معیار ہوتاہے ۔مثلاً شراب پینا ایک فعل ہے ۔اب فرض کرو ایک مسلمان بھی شراب پیتاہے اورایک انگریز بھی شراب پیتاہے۔توجب مسلمان شراب پئے گا تو اسے اس کی سوسائٹی غیر شریف قراردے گی اورجب انگریز شراب پئے گا اسے اس کی سوسائٹی شریف کہے گی ۔غرض فعل ایک ہی ہے مگر جب اسے دوالگ الگ سوسائٹیوں کے معیار وں پر رکھاجائے گاتو ایک سوسائٹی کے معیار کے مطابق وہ فعل گناہ بن جائے گااوراس کامرتکب سخت گناہگار قرار پائے گا اوردوسری سوسائٹی کے معیار کے مطابق وہ فعل عین شرافت سمجھاجائے گا اوراس کامرتکب سوسائٹی کا فرمانبردار قرارپائے گا ۔پس شرافت کامعیار ہرسوسائٹی کے اپنے اپنے قوانین کے مطابق ہوتاہے ۔اس میں کوئی شبہ نہیںکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد عرب کی سوسائٹی کے مطابق شریف تھے۔لیکن اس میں بھی کویء شبہ نہیں کہ معیارِ اسلام کے مطابق ان میں نیکیاں نہیں پائی جاتی تھیں۔پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت کے جومعنے لئے ہیں منفردًالئے ہیں ۔سیاق وسباق کے لحاظ سے نہیںلئے۔اورقرآن کریم کے ایک بطن کے لحاظ سے وہ بھی درست ہیں ۔اورچونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے سات بطن ہیں ۔اس لئے ایک ایک آیت کے کئی معنے کئے جاسکتے ہیں جو اپنے اپنے رنگ میں سب کے سب درست ہوں گے ۔ایک معنے منفرد آیت کے ہوتے ہیں ۔ایک معنے کئی آیتوں کے تسلسل کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔ایک معنے پوری سورۃ کے تسلسل کے لحاظ سے ہوتے ہیں ۔ایک معنے کئی سورتوں کے تسلسل کیح لحاظ سے ہوتے ہیں ۔اورایک معنے سارے قرآن کریم کے تسلسل کے لحاظ سے ہوتے ہیں اوروہ سارے معنے ہی صحیح ہوتے ہیں۔پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م نے اس آیت کے جو معنے کئے ہیں وہ انفرادی لحاظ سے کئے ہیں اورآپ نے یہ ثابت کیاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد سوسائٹی میں شریف اور معزز سمجھے جاتے تھے اورسوسائٹی کے قوانین کے پابند تھے۔ گویاعرب کی سوسائٹی کے لحاظ سے جن خاندانوںکو شرفاء کے خاندان قرار دیاجاتاتھا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاخاندان نہایت شریف تھا ۔چنانچہ اس فرق کو قرآن کریم نے بھی اتنا تسلیم کیاہے کہ اہل کتاب کے ہاتھ کا کھاناجائز قرار دیاہے اورمشرک کے ہاتھ کا کھاناناجائز قرار دیاہے ۔حالانکہ اہل کتاب شراب بھی پیتے ہیں اورسؤرکاگوشت بھی کھاتے ہیں اوران کے مقابلہ میں مشرکین میں سے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جوسؤر نہی کھاتے (یہاں مشرک کے معنے یہ ہیں کہ وہ جو کسی کتا ب کو ماننے والانہ ہو ۔یہ نہیں کہ جو اہل کتاب ہو وہ شرک کرتاہی نہیں ۔ باریک معنوں کی روسے تواہل کتاب بھی مشرک ہوتے ہیں اوردہریہ بھی مشرک ہوتے ہیں ۔لیکن قرآن کریم کی اصطلاح میں مشرک کا اَورمفہوم ہے او رعرف عام میں مشرک کا اَور مفہوم ہے ۔قرآن کریم نے اہل کتاب ان کو قرار دیاہے جوکسی کتاسب کے قوانین کو مانتے ہیں چاہے وہ ان قوانین پرعامل نہ ہوں ۔ان کاقوانین کو تسلیم کرنا ہی ان کو اہل کتاب کانام دینے کے لئے کافی ہے۔ جیسے بہت سے مسلمان بھی قرآن کریم کے احکام پر نہیں چلتے مگروہ کہلاتے مسلمان ہی ہیں)بہرحال اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے کھانے کو اس لئے جائز قرار دیاہے کہ ان میں کسی کتاب کوماننے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ اخلاق ضرور ہوں گے اورہم ان پر یہ حسن ظنی کرسکتے ہیں کہ چونکہ اہل کتاب میں سے کسی بھی کتاب میں دھوکادیناجائز نہیںاس لئے یہ دھوکادیکر ہمیں کوئی ایسی چیز نہیں کھلادیں گے جوہمارے مذہب کی روسے ناجائزہو۔لیکن جو شخص خود کہتاہے کہ میں کسی قانون کاپابند نہیں توچاہے وہ شریف ہی کیوں نہ ہو ہم اس پر حسن ظنی نہیں کرسکتے ۔کیونکہ ہم یہ سمجھیں گے کہ چونکہ اس کے لئے کسی قانون کے پابند نہ ہونے کی وجہ سے دھوکایافریب کرنے میں کوئی روک نہیں ہے اس لئے ممکن ہے کہ یہ ہمارے ساتھ دھوکاکرجائے اورہمیں کوئی ایسی چیز کھلادے جو ہمارے مذہب میں ناجائزہو۔قرآن کریم نے جو اہل کتاب کاذبیحہ کھانے کی اجازت دی ہے وہ بھی اسی لئے ہے کہ و ہ ایک قانون کے پابند ہیں۔حالانکہ وہ سؤر کاگوشت بھی کھاتے ہیں ۔مگر مشرک کے ہاتھ کاکھانے کی صرف اس لئے اجازت نہیں دی کہ وہ کسی قانون کا پابند نہیں ۔اوراس کو دھوکایافریب دینے سے کوئی چیز روکنے والی نہیں ہے ۔ایک اہل کتاب چاہے دنیوی لحاظ سے بااخلاق نہ ہو اس کاکھاناکھانے کی اجازت ہے ۔اورمشرک چاہے دنیوی لحاظ سے بااخلاق ہو اس کاکھاناکھانے کی اجازت نہیں ۔کیونکہ اہل کتاب کسی نہ کسی قانون کے پابند ہیں ۔یہودی تورات کو مانتے ہیں ۔عیسائی انجیل کومانتے ہیں اورہندوویدوں کو مانتے ہیں اوران سب کاقانون ا س امر پر متفق ہے کہ کسی کے ساتھ دھوکاکرناجائز نہیں ہے ۔اسی لئے شریعت اسلامیہ نے اہل کتاب کو دوسروں سے زائد حقوق دیئے ہیں ۔پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد چونکہ اچھے شہری تھے اورسوسائٹی کے قانون کے پابند تھے اس لئے انہیں ساجد کہاگیا۔مگر وہ ساجدًاللہ نہیں تھے بلکہ ملکی قانون کے ساجد تھے ۔اورشریف خاندان رکھتے تھے ۔اورانبیاء ہمیشہ شریف اوراعلیٰ خاندانوں میں سے ہی آتے ہیں۔اگرکوئی نبی ادنیٰ اقوام میں سے آجائے (جو سنت اللہ کے خلاف ہے) تولوگ اس کو نہیں مان سکتے ۔وہ کہیں گے اس کاخاندان اچھا نہیں ہے۔یایہ غلام ہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہی دیکھ لو ۔آپ غلام نہ تھے مگر چونکہ عرصہ آپ نے فرعون مصر کے گھر سے روٹی کھائی تھی اس لئے فرعون نے کہدیا کہ یہ وہی ہے جس کو ہم نے روٹیاں کھلا کھلا کر پالا ہے ۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو ۔عیسائی آج تک آپ کے متعلق یہ طعنہ دیتے ہیں کہ آپ لونڈی کی نسل میں سے تھے۔ وہ لوگ حضر ت ہاجرہؓ کو لونڈی قرار دیتے ہیں۔حالانکہ تورات سے صاف معلوم ہوتاہے کہ حضرت ہاجرہؓ مصر کے بادشاہ کے رشتہ داروں میں سے تھیں۔اوراس بادشاہ نے انہیں اخلاص لکے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں تحفۃً پیش کیاتھا مگر عیسائیوں نے صرف اس لئے کہ حضرت ہاجر ہؓ تحفۃً دی گئی تھیں ان کو لونڈی قرار دے دیا ۔غرض دشمن توہمیشہ تعصب کی نگاہ سے دیکھنے کا عادی ہوتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مرسل اعلیٰ اورشریف خاندانوں میں سے آتے ہیں تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کومانتے ہوئے انقباض پیدانہ ہو ۔اسی لئے جب ہرقل قیصر روم نے ابوسفیان سے سوال کیا کہ یہ شخص (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)جو نبوت کادعویٰ کرتاہے ۔ا سکا خاندان کیسا ہے توابوسفیان نے یہی جواب دیا کہ وہ اچھے خاندان کا ہے اورمیرے رشتہ داروں میں سے ہے ۔پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس آیت کے معنے سیاق و سباق کے تسلسل میں بیان نہیں فرمائے ۔بلکہ صرف یہ ثابت کیا ہے کہ نبی اپنی قوم می شریف ہوتے ہیں ۔اورابتدائے آفرینش سے آج تک جتنے نبی آئے ہیں وہ سب کے سب معزز خاندانوں میں سے تھے۔اچھے شہریوں اور قانون وقت کے ساتھ چلنے والوں اورسوسائٹی کے مفید ترین لوگوں کی اولادوں میں سے تھے اس لئے لوگ ان کی تحقیر و تذلیل نہ کرسکتے تھے بلکہ ان کا پو راادب اور احترام کرتے تھے۔ غرض اس آیت کے ایک معنے تو وہ ہیں جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے منفردًاکئے ہیں اوردوسرے معنے وہ ہیں جومیں نے سیاق وسباق کے تسلسل کے لحاظ سے بیان کئے ہیں ۔لیکن اس آیت کے ایک تیسرے معنے ساری سورۃ کے تسلسل کے لحاظ سے بھی ہیں ۔
اس سورۃ(الشعراء)میں سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کاذکر آتاہے ۔پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کاذکر آتاہے ۔پھر حضرت نوح علیہ السلام کا ذکرآتاہے۔پھر حضرت صالح علیہ السلام کاذکر آتاہے ۔پھر حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر آتاہے اور پھر حضرت شعیب علیہ السلام کاذکر آتاہے ۔ان سب انبیاء کا ذکرکرنے کے بعد اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرماتاہے ۔ ان کے علاوہ بہت سے انبیاء ایسے بھی ہیں جن کے نام قرآن کریم میں نہیں آئے اوران کی تاریخ بھی محفوظ نہیں ۔قرآن کریم نے قاعدہ کلیہ کی طور پر بیان کردیاہے کہ تمام انبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبردیتے چلے آئے ہیں اورسب نے آپ کے متعلق پیشگوئیاں کیں۔مگران میں سے بعض کی پیشگوئیاں تو محفوظ ہیں اور اورباقی انبیاء کی پیشگوئیاں محفوظ نہیں ہیں جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئیاں موجود ہیں ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئیاں تورات میں موجود ہیں ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئیاں انجیل میں موجود ہیں ۔لیکن جن انبیاء کے نام قرآن کریم میں بیان نہیں ہوئے اورنہ ہی ان کی کوئی تاریخ موجود ہے ۔ان کی پیشگوئیاں بھی موجود نہیں ہیں ۔ان تمام انبیاء کاجن کے میں نے اوپر نام بتائے ہیں ذکرکرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔کیا اس پر شیطان اتر سکتاہے اگر شیطان اترتا توان کے پاس اس بات کاکوئی ثبوت بھی ہوناچاہئیے ۔آخر ان منکرین میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جوکسی نہ کسی نبی کو مانتے ہیں ۔ان میں عیسائی بھی ہیں یہودی بھی ہیں اورکچھ دوسرے لوگ بھی ہیں ۔ عیسائی حضرت عیسیٰؑ کومانتے ہیں ۔یہودی حضرت موسیٰؑ۔نوحؑ ابراہیمؑ اورلوطؑ کومانتے ہیں اور دوسرے کفار ہودؑ اورصالحؑ کومانتے ہیں ۔ان سارے گروہوں میں سے مکہ والوں کے جد امجد حضرت ابراہیمؑ کی پیشگوئیاں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق موجود تھیں۔عیسائیوں کے جدامجد موسیٰ کی پیشگوئیاں موجود تھیں۔غرض اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتاہے َتَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْن ۔تیری صداقت کاایک بہت بڑاثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء تیری خبر دیتے چلے آئے ہیں ۔ تَقَلُّبٌ کے معنے ہوتے ہیں چلنا پھرنا ۔یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تُو موسیٰؑ کے سامنے کشفی حالت میں موجود تھا ۔تُو ابراہیمؑ کے سامنے موجود تھا ۔تونوحؑ کے سامنے موجود تھا ۔توہودؑ کے سامنے موجود تھا ۔توصالحؑ کے سامنے موجود تھا۔فرماتاہے جب تو ان تمام انبیاء کے سامنے موجود تھا جن کو یہ لوگ اپنے بزرگ تسلیم کرتے ہیں تویہ کس طرح تیرانکار کرسکتے اورکہہ سکتے ہیں کہ توراستبازوں میں سے نہیں ہے۔ابراہیمؑ نے کشفی حالت میں تجھے دیکھا ۔اسی لئے اس نے تیری آمد کی خبردی ۔موسیٰؑ نے کشفی حالت میں تجھے دیکھا اسی لئے اس نے تیری آمد کی خبر دی اورعیسیٰؑ نے تجھے دیکھا ۔اسی لئے اس نے تیر ی خبر دی اوران تمام نبیوں نے بتایاکہ اس شان کاایک نبی پیداہونے والاہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔ان انکار کرنے والوں کے جتنے باپ دادے تھے۔وہ تیرے متعلق گواہیاں دے چکے ہیں کہ اس شان کا ایک نبی آئے گا اس کومان لینا ۔اب یہ کس طرح تیرانکار کرسکتے ہیں اوراپنے بزرگوں کی شہادت کو ردّ کرسکتے ہیں ۔غرض اس ساری سورۃ کے تسلسل کے لحاظ سے َتَقَلَّبَکَ فِی السّٰجِدِیْن کے معنے ہیں ۔ َتَقَلَّبَکَ فِی الْاَنْبِیَائِ۔ یعنی ابراہیمؑ نے انگلی اٹھائی اورکہایہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم)راستباز ہے ۔نوح ؑ نے انگلی اٹھائی اورکہا ۔یہ راستباز ہے ۔موسیٰؑ نے انگلی اٹھائی اورکہا ۔یہ راستباز ہے ۔عیسیٰؑ نے انگلی اٹھائی اورکہا یہ راستباز ہے ۔ہودؑ،صالحؑ،لوطؑ اورشعیبؑ نے انگلیاں اٹھائیں اورکہا یہ راستباز ہے ۔فرماتاہے ان تما م انبیاء نے جن کو وتم اپنے بزرگ تسلیم کرتے ہو خبر دی تھی کہ یہ راستباز ہے ۔اب تم اس کا کس طرح انکار کرسکتے ہو؟
اس کے بعد فرماتاہے اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم ُ یقیناً وہ خداجس نے تجھے مبعوث کیاہے دعائوں کو قبول کرنے والا اوراپنے بندوں کے حالات کو جاننے والا ہے ۔اس سے بھی ظاہر ہے کہ پہلی آیت میں نمازوں اوردعائوں ہی کا ذکر ہے ۔نہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ دادوں کا۔تبھی وہ فرماتاہے کہ خداتعالیٰ دعائیں سننے والا اور جاننے والا ہے ۔یعنی تیری اور تیرے ساتھیوں کی دعائیں تعلیم اسلام کو مکمل سے مکمل ترکرتی چلی جاتی ہیں ۔اسی کی طرف دوسری جگہ قرآن کریم میں ان الفاظ میں اشارہ کیاگیاہے کہ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا (طٰہٰ ع۶) یعنی توہمیشہ اللہ سے یہ دعاکرتا رہ ۔کہ اے میرے رب !میرے علم کوبڑھا ۔چونکہ یہ قرآنی دعا ہے ۔ اس لئے صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی یہ دعانہیں مانگتے تھے بلکہ سارے مسلمانے مانگتے تھے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد تو اس دعاسے یہ ہوتی تھی کہ اے خدا!تومجھ پر قرآن کریم کو مکمل سے مکمل ترکرکے اتار اورصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی یہ مراد ہوتی تھی کہ اے خدا !ہمارے رسول کے ذریعہ سے ہمیں کامل سے کامل تر شریعت عطافرما۔
ھل انبئکم علی من تنزل الشیطین٭ تنزل علی کل
کیا میں تجھے بتائوں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں ؟ (شیطان)ہرجھوٹے گناہگار پر اترتے ہیں
افاک اثیم٭یلقون السمع واکثرھم کذبون٭
وہ اپنے کان (آسمان کی طرف )لگاتے ہیں اوران میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں ۳۹؎
۳۹؎ حل لغات :۔ اَفَّاکٍ کے معنے ہیں اَلَّذِیْ یَصُدُّ النَّاسَ عَنِ الْحَقِّ بِبَاطِلِہٖ۔وہ شخص جو لوگوںکو حق و صداقت کے قبول کرنے سے اپنے جھوٹ اور باطل طریقوں سے روکتاہے (اقرب)
تفسیر :۔پہلے تواللہ تعالیٰ نے یہ بتایاتھاکہ اس قرآن کو شیاطین نے نازل نہیں کیا اورنہ ان میں طاقت تھی کہ و ہ ایساکرسکتے ۔اب اس آیت میں اللہ تعالیٰ کفار کے اس اعتراض کے جواب میں یہ مضمون بیان فرماتاہے کہ شیاطین جن لوگوں پر نازل ہوتے ہیں ان کی اکیا علامات ہوتی ہیں ۔چنانچہ فرماتاہے تَنَزَّلُ عَلیٰ کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ۔شیطان ہرجھوٹے گناہگار پر اترتاہے۔یعنی شیطان کا تعلق تو اَفَّاک اور اَثِیْم کے کسی سے ہوہی نہیں سکتا ۔کیونکہ شیطان خود جھوٹ بولتاہے اوراس کانام شیطان ہی بتاتا ہے کہ وہ بڑاگناہگار ہوتاہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تونہ جھوٹا ہے اورنہ گناہگار پھر اس پر شیاطین کس طرح اترسکتے ہیں ۔بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تووہ ہیں جن کی صداقت اورراستبازی کے تم بھی قائل ہو ۔چنانچہ تاریخوں میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا توچونکہ امکہ عرب کے لوگوں کا مرکز تھا ۔اورلوگ وہاں حج کرنے کے لئے آیاکرتے تھے ۔اس لئے چند سرآبرودہ لو گوں نے جمع ہوکر تجویز کی کہ اس سا ل جب باہر سے لوگ حج کرنے کے لئے آئیں گے تواگرہم ان کو آپؐ کے متعلق مختلف باتیں بتائیں گے تووہ ہماری رائے کو غلط سمجھیں گے ۔چاہیئے کہ مل کر ایک فیصلہ کرلیا جائے اوروہی جواب انہیں دیاجائے ۔اس پر ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ ہم کہہ دیاکریں گے کہ وہ جھوٹا ہے ۔جب اس نے یہ بات کہی ۔تواسی وقت ایک شدید دشمن النضر بن الحارث جو ش سے کھڑاہوگیا اورکہنے لگا ۔تم یہ کیا بات کہہ رہے ہو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو توہم صادق اور امین کے طورپر پیش کیاکرتے تھے اس لئے اب اس کو جھوٹا کیسے کہیں گے ۔وہ لوگ تواس جواب سے ہمیں ملزم قرار دیں گے اور کہیں گے کہ تم غلط بیانی سے کام لے رہے ہو(شفاء قاضی عیاض)تواللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راستبازی کے تم بھی قائل ہو توپھر اسی منہ سے یہ کس طرح کہہ رہے ہوکہ اس پر شیطان کلام لے کر نازل ہوتاہے ۔شیطان تو جھوٹوںاور گنہگاروں پر نازل ہواکرتاہے اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامنہ جھوٹوں والانہیں بلکہ اس کا چالیس سالہ عمل اورکردار تمہارے سامنے ہے اوتتم سب جانتے ہوکہ یہ شخص تم سب میں سے زیاد ہ راستباز تھا۔پھر یہ کیسے تعجب کی بات ہے کہ تم شیطان کے نزول کے لئے اسی شخص کانام لے رہے ہو جو شیطان کاسب سے بڑادشمن ہے۔
پھر فرماتاہے یُلْقُوْنَ السَّمْعَ وَاَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْنَ۔وہ لوگ اپنے کان آسمان کی طرف لگائے رکھتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں ۔آسمان کی طرف اپنے کان لگائے رکھنے کے دومعنے ہیں ۔ایک معنے تویہ ہیں کہ وہ اس بات کی خواہش اورتمناکیاکرتے ہیں کہ ان پرالہام نازل ہو اورانہیں کچھ غیب کی خبریں معلوم ہوجائیں ۔اوروہ اپنی اس خواہش میں اس قدربڑھ جاتے ہیں کہ آخر انہیں شیطانی الہام ہونے لگ جاتے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ خود بھی ٹھوکر کھاتے ہیں اوردوسروں کے لئے بھی ٹھوکر کاموجب بنتے ہیں ۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تویہ حالت ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ خداتعالیٰ سے کہے کہ مجھ پر کلام نازل کر خداخود اس پر کلام نازل کرتاہے اوروہ نفسانی رنگ میں کبھی یہ خواہش نہیں کرتا کہ خدااس پر کلام نازل کرے تاکہ وہ دوسروں پر اپنی بڑائی ظاہر کرے۔ہاں جو کلام خود اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتاہے اس پر وہ اس کا شکر بجالاتاہے لیکن جو افّاک اوراثیم ہوتے ہیں ان کے دلوں میں ہروقت یہی خواہش موجز ن رہتی ہے کہ کسی طرح ان پر کلام نازل ہوجائے ۔وہ لو گ کہیں مسمریزم کرتے ہیں ۔کہیں ہیپناٹزم کاعمل کرتے ہیں اورکہیں وظیفے کرتے اورچلّے کاٹتے ہیں اوراس تمام جدوجہد سے ان کا مقصد صرف اتناہوتاہے کہ انہیں کچھ غیب کی خبریں معلوم ہوجائیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام بھی فرمایاکرتے تھے کہ تم کبھی یہ خواہش نہ کروکہ خداتعالیٰ کاکلام تم پر نازل ہو ۔ہاں اگرخداتعالیٰ کاکلام تم پر نازل ہوتاہے اورتم کو کوئی الہام ہوتاہے تویہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ۔تم اگراللہ تعالیٰ سے مانگناچاہتے ہو تواس کافضل مانگو۔ہاں اگر کسی خاص موقعہ پر انسان استخار ہ کرکے خداتعالیٰ سے ہدایت طلب کرے تواَوربات ہے ۔لیکن کلام الٰہی مانگنا اوراس کی خواہش کرنا تواس بات پردلالت کرتاہے کہ اس کے مدنظر صرف اپنی بڑائی کاخیال ہے خداتعالیٰ کے قرب کی اسے کوئی خواہش نہیں ۔اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلام نے الہامات کی خواہش رکھنے سے اپنی جماعت کوسختی سے منع فرمایاہے۔چنانچہ آپ اپنی جماعت کو اس بارہ میں ہدایت دیتے ہوئے فرماتے ہیں :۔
’’ مکالمات الٰہیہ کی اپنے نفس سے خواہش نہیں ظاہرکرنی چاہیئے۔خواہش کرنے کے وقت شیطان کو موقعہ ملتاہے اور ہلاک کرناچاہتاہے ۔بلکہ اپنا مدّعااورمقصود ہمیشہ یہ ہوناچاہیئے کہ خداتعالیٰ کی مرضی کے موافق تزکیہ نفس حاصل ہو اور اس کی مرضی کے موافق تقویٰ حاصل ہو ۔اورکچھ ایسے اعمالِ حسنہ میسر آجاویں کہ وہ راضی ہوجائے ۔پس جس وقت وہ راضی ہوگا تب اس وقت ایسے شخص کواپنے مکالمات سے مشرف کرنا اگر اس کی حکمت اورمصلحت تقاضاکرے گی تووہ خود عطاکردے گا ۔اصل مقصود ا س کو ہرگز نہیں ٹھہراناچاہیئے کہ یہی ہلاکت کی جڑ ہے۔بلکہ اصل مقصود یہی ہوناچاہیئے کہ قرآن شریف کی تعلیم کے موافق احکام الٰہی پر پابندی نصیب ہو اورتزکیہ نفس حاصل ہو ۔اورخداتعالیٰ کی محبت اورعظمت دل می بیٹھ جائے اورگناہ سے نفرت ہو ۔‘‘
(الحکم ۲۴؍نومبر ۱۹۰۷ ء ص ۷)
اسی طرح فرماتے ہیں :۔
’’ وہ لو گ جو اپنے نفس میں پوری پاکیزگی نہیں رکھتے اورپھر خوابوں کی خواہش رکھتے ہیں اورالہامات کی طرف اپنا دل لتگاتے ہیں ان کو حدیث النفس اوراضغاث احلام کے سوائے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
(تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۰۶ء مندرجہ اخبار بد ۱۰؍جولائی ۱۹۰۷ء ص ۱۶)
اس کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت تھی کہ آپ پر کلام الٰہی نازل ہواتوآپ گھبراہٹ کی حالت میں اپنے گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہؓسے فرمایا کہ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلیٰ نَفْسِیْ مجھے اپنے نفس کے متعلق ڈرپیداہوگیاہے کہ نہ معلوم میں اس ذمہ واری کو ادابھی کرسکتاہوں یا نہیں ۔لیکن جوجھوٹے اورشیاطین کی پیروی کرنیوالے لوگ ہوتے ہیں ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ رمل اورنجوم کے ذریعہ اوراسی طرح اَور کئی قسم کے ذرائع سے غیب کی خبریں معلوم کرنے کی را ت دن کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ لو گ ان کی بزرگی تسلیم کریں اور انہی اپنا ملجاء و ماویٰ سمجھنے لگ جائیں ۔
یُلْقُوْنَ السَّمْعَ کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ شیطان کو شش توکرتے ہیں کہ خدائی باتوں کو سنیں ۔لیکن ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں وہ جھوٹ کو چھو ڑنہیں سکتے وہ خداکی سنی ہوئی باتوں میں جھوٹ ملادیتے ہیں ۔اوراس طرح ان کافریب کھل جاتاہے یعنی جب وہ مسلمانوں سے قرآن کریم سنتے ہیں تواس میں غلط باتیں ملا کر لوگوںمیں مشہور کردیتے ہیں اورکہنے لگ جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے قرآن میں یہ یہ باتیں بیان ہوئی ہیں ۔حالانکہ وہ بالکل جھوٹ ہوتاہے ۔
اس کایہ مطلب نہیں جیساکہ مفسرین نے لکھا ہے کہ شیاطین آسمان پر جاکر خداتعالیٰ کی وحی کومعلوم کرلیتے ہیں ۔کیونکہ قرآن کریم ک روسے ایسانہیں ہوسکتا۔جیسا کہ اسی رکوع میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ اِنَّھُمْ عَنِ السَّمْعَ لَمَعْزُوْلُوْنَ(آیت ۲۱۳)یعنی شیطان آسمانی باتوں کے سننے سے دوررکھے گئے ہیں ۔اسی طرح ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتاہے اَمْ لَھُمْ سُلَّمٌ یَّسْتَمِعُوْنَ فِیْہِ فَلْیَاْتِ مُسْتَمِعُھُمْ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ(طورع ۲)یعنی کیا ان کے پاس کوئی ایسی سیڑھی ہے جس کے ذریعہ وہ آسمان پر جاکر خداتعالیٰ کی باتیں سن سکتے ہیں ۔اگر ان میں کوئی اس امر کامدعی ہے کہ وہ آسمان پرگیاتھا۔اوراس نے خداتعالیٰ کی باتیں سنی تھیں تووہ اپنے دعوے کاثبوت پیش کرے ۔ان آیات سے ظاہر ہے کہ آسمان کی باتیں سننا توالگ رہا وہاں تک کسی کے جانے کی اہلیت بھی قرآن کریم نے تسلیم نہیں کی ۔اورجب یہ حقیقت ہے کہ تو یُلْقُوْنَ السَّمْع کے یہ معنے کرنے کس طرح جائز ہوسکتے ہیں کہ وہ آسمان کی باتیں سننے کیی لئے اپنے کان لگائے رکھتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اس جگہ آسمان کی باتیں سننے کے معنے یہ ہیں کہ وہ مومن انسانوں سے خداتعالی کی باتیں سنتے ہیں ۔لیکن ان میں جھو ٹ ملا کر قرآن کریم کو بدنام کرنے کے لئے لوگوں میں مشہور کردیتے ہیں اوراس طرح ان کا جھوٹ لوگوں پر واضح ہوجاتاہے ۔پس اس کے یہ معنے نہیں کہ شیطان آسمان پر جاکر ملاء اعلیٰ اورجبریلؑ اورعرش کی باتوں کوسن لیتاہے اورپھر وہ زمین پر آجاتاہے بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جولوگ شیطان کے مثیل ہوتے ہیں اورجنہوں نے ابلیسی جامہ زیبِ تن کیاہواہوتاہے ۔وہ آسمانی باتوںکو ایسے رنگ میں بگاڑ کر دنیاکے سامنے پیش کرتے ہیں کہ ایک فتنہ برپا ہوجاتاہے اورکئی لوگ ان کے فریب میں آجاتے ہیں ۔گویا براہ راست کلام الٰہی کے سننے سے تووہ محروم ہی ہوتے ہیں ۔آسمانی کتابوں سے وہ جوکچھ آسمانی باتیں حاصل کرتے یں ان میں بھی اپنی عادت کے مطابق اپنے پاس سے جھوٹ ملادیتے ہیں۔اوراس طرح لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
یہی حقیقت اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی بیان فرمائی ہے کہ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَالِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا زُخْرُفَ الْقَوْلِ غَرُوْرًا(انعام ع ۱۴) یعنی اے ہمارے رسول !جس طرح تیرے زمانہ میں ہورہاہے ۔اسی طرح ہم نے ہرنبی کے زمانہ میں انسان شیطانوں اورجن شیطانوں کو چھوڑ رکھاتھا او روہ ایک دوسرے کودھوکا دینے کے لئے جھوٹی باتیں سناتے تھے ۔یہ آیت بھی بتاتی ہے کہ انبیاء کے دشمن جوبڑے لوگوں میں سے بھی ہوتے ہیں ۔وہ ایک دوسرے کو غیب کی باتیں نہیں بتاتے بلکہ جھوٹی باتیں بتاتے ہیں ۔چنانچہ دیکھ لو مسلمان علماء نے قرآن کریم کی تفاسیرلکھی ہیں۔اوروہیریؔ اوربعض دوسرے مستشرقین نے بھی قرآن کریم کی تفاسیر لکھی ہیں ۔لیکن عیسائی پادریوں نے اپنی تفاسیر میں اسلام کو بدنام کرنے کی پوری کوشش کی ہے ۔پس آسمانی باتیں سنن کے لئے کان تومومن بھی رکھتے ہیں اورکافر بھی ۔مگرمومن تواس لئے کان رکھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کوسنیں اوراس پر عمل کریں ۔ اورکفار اس لئے رکھتے ہیں کہ وہ اس میں جھوٹ ملاکر لوگوںکو اورزیادہ گمراہ کریں اورانہیں خدااور اس کے رسول سے دوررکھنے کی کوشش کریں ۔پھر فرماتاہے ۔وَاَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْنَ۔ ان میں سے اکثرجھوٹے ہوتے ہیں ۔اب یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ اس آیت میں پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ تَنَزَّلُ عَلیٰ کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْم شیطان ہرجھوٹے گنہگار پرناز ل ہوتے ہیں اوریہاں فرماتاہے کہ َاَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْن۔ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں ۔جب اکثر جھوٹے ہوتے ہیں تومعلوم ہواکہ سارے کے سارے جھوٹے نہیں ہوتے حالانکہ کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْم کہہ کر ان میں سے ہرایک کو بلااستثناء جھوٹا کہاگیاتھا ۔سویاد رکھناچاہیئے کہ اَکْثَرُھُمْ کے الفاظ اَفَّاکٍ اَثِیْم کے متبعین کے لئے آئے ہیں یعنی اَفَّاکٍ اَثِیْم کے متبعین میں سے اکثرجھوٹے ہوتے ہیں ۔کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ افّاکٍ اثیم کے متبعین سارے کے سارے جھوٹے ہوں ۔ہوسکتاہے کہ ان میں سے بعض غلطی خوردہ ہوں اوروہ اپنے لیڈروں کو سچا سمجھ کر ان کے پیچھے چل رہے ہوں ۔پس چونکہ دنیا میں اس قسم کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جوجھوٹ کو سچ سمجھ کراختیار کرتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان کے تما م متبعین جھوٹے اورکذاب ہوتے ہیں ۔بلکہ فرمایا کہ َاَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْن ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں ۔ہاں ایک قلیل تعداد غلطی خوردہ لوگوں کی بھی ہوتی ہے ۔
والشعراء یتبعھم الغاون٭الم تر انھم فی کل واد یھیمون
اورشعراء کی جماعت ایسی ہوتی ہے کہ ان کے پیچھے چلنے والے گمراہ ہوتے ہیں ۔(اے مخاطب)کیا تیری سمجھ میں (اب تک)نہیں آیا کہ وہ (یعنی شعراء)توہروادی میں بے مقصود کے پھرتے ہیں۔
وانھم یقولون مالا یفعلون٭ الا الذین امنو ا
اوروہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو وہ کرتے نہیں ۔ سوائے (شاعروں میں سے )مومنوں
وعملواالصلحت وذکروااللہ کثیراوانتصروا من بعد ما
اورنیک عمل کرنے والوں کے اوران کے جو اللہ(تعالیٰ)کا (اپنے شعروں میں)کثرت سے ذکرکرتے ہیں اور(اگر ہجو کرتے ہیں تو ابتداء نہیں کرتے بلکہ)
ظلمو وسیعلم الذین ظلمواای منقلب ینقلبون٭
مظلوم ہونے کے بعد (جائز)بدلہ لیتے ہیں اوروہ لوگ جو ظالم ہیں ضرور جان لیں گے کہ کس مقام کی طرف ان کو لوٹ کر جاناہوگا ۴۰؎
۴۰؎ حل لغات:۔یَھِیْمُوْنَ:ھَامَ سے مضارع جمع مذکرغائب کاصیغہ ہے اورھَامَ عَلیٰ وَجْھِہٖ کے معنے ہیں ذَھَبَ مِنَ الْعِشْقِ اَوْ غَیْرِہٖ لَایَدْرِیْ اَیْنَ یَتَوَجَّہُ کہ اپنے عشق یا کسی اورمقصد کی خاطرادھر ادھر گھومتاپھرااور اس کومعلوم نہ ہواکہ وہ کدھر جارہاہے (اقرب) پس یَھِیْمُوْنَ کے معنے ہوں گے وہ سرگردان پھرتے ہیں۔
اِنْتَصِرُوْا:اِنْتَصَرَ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اوراِنْتَصَرَ مِنْہُ کے معنے ہیں اِنْتَقَمَ مِنْہُ اس سے بدلہ لیا ۔اورجب اِنْتَصَرَ عَلَیْہِ کہیں تو معنے ہوتے ہیں اِسْتَظْھَرَ ۔اس پر غالب آگیا ۔وَامْتَنَحَ مِنْ ظُلْمِہٖ۔اس کے ظلم سے محفوظ ہوگیا۔(اقرب)پس اِنْتَصَرُوْا کے معنے ہیں ۔وہ انتقام لیتے ہیں ۔
تفسیر:۔ کفار مکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو سن کر اپنے جن خیالات کااظہار کیاکرتے تھے قرآن کریم نے ان کا مختلف مقامات میں ذکر کیا ہے ۔اوربتایا ہے کہ وہ کبھی آپ کو مجنون کہنے لگ جاتے تھے۔کبھی کہتے تھے کہ اسے پریشان خوابیں آتی ہیں ۔جن کی وجہ سے یہ ایسا دعویٰ کربیٹھا ہے۔ کبھی کہتے یہ ساحر ہے ۔کبھی کہتے یہ خود تو نیک بخت ہے۔لیکن کسی اورنے اس پرجادو کردیاہے ۔گویا یہ ساحر نہیں بلکہ مسحو رہے ۔کبھی کہتے یہ کاہن ہے ۔ کبھی کہتے کہ اسے کو ئی اورشخص باتیں سکھا دیتاہے یہ کلام اس کااپنا نہیں ۔کبھی کہتے کہ اس کے ساتھ شیطان کا تعلق ہے کبھی کہتے یہ مفتری اورکذاب ہے اورکبھی کہتے کہ یہ شاعر ہے ۔چنانچہ سورئہ انبیاء میں اللہ تعالیٰ ان میں سے بعض اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتاہے ۔بَلْ قَالُوْا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَاہُ بَلْ ھُوَ شَاعِرٌ۔(انبیاء ع ۱) یعنی مخالف کہتے ہیں یہ کلام تو پریشان خوابیں ہیں بلکہ پریشان خوابیں بھی نہیں اس نے دیدہ دانستہ یہ باتیں اپنے پاس سے بنالی ہیں بلکہ اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ایک شاعرانہ مزاج رکھنے والا آدمی ہے جس کے دماغ میں طرح طرح کے خیالات اٹھتے رہتے ہیں اورجس طرح مشہور اورقادرالکلام شعراء کے اشعار میں بڑی بھاری فصاحت و بلاغت اوربلند پروازی پائی جاتی ہے ۔اسی طرح اس کاکلام بھی شاعرانہ فصاحت و بلاغت کاحامل ہے ۔پس درحقیقت یہ بھی ایک شاعر ہے کوئی روحانی آدمی نہیں ۔
اللہ تعالیٰ زیر تفسیر آیات میں کفار کے اس ادّعاکو بھی باطل ثابت کرتاہے ۔اورفرماتاہے کہ تمہارایہ خیال بھی کلّی طورپر غلط ہے اوراس کی دلیل یہ ہے کہ شعراء پر ایسے لوگ ہی گرویدہ ہوتے ہیں جن کا تقویٰ اورروحانیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔چونکہ شعراء اپنے شعروں میں عموماً عشق اور محبتِ نفسانیہ اورشہوانیہ کا ذکر کرتے ہیں ۔اس لئے ایسے ہی لوگ ان کے پیچھے چلتے ہیں جو خود بھی تقویٰ سے دور ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بعض آوارہ نوجوانوں کو ان کے سینکڑوں اشعار یاد ہوتے ہیں اوربعض شاعروں کی غزلیں رنڈیا ںگاتی ہیں کیونکہ ان میں خدااوراس کے رسول کا کہیں ذکر نہیں ہوتا بلکہ عموماً ان کے ذریعہ نوجوانوں کے شہوانی جذبات کو تحریک دی جاتی ہے اورواعظ اور ناصح پر پھبتیاں اڑائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے ایسے ہی لوگوں میں مقبولیت ہوتی ہے جن کاروحانیت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔مگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین توایسے ہیں جنہوں نے اپنی صداقت اوردیانت اور عفت اورپاکیزگی کا ایک بے مثال نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کررکھا ہے ۔ان کی راتیں قیام وسجود میں ۔اوران کے دن ذکر الٰہی اوراعلاء کلمئہ اسلام میں بسر ہوتے ہیں ۔پھر تم یہ کس طرح کہہ سکتے ہو کہ جس مقدس انسان کا دامن چھو کر ان کے اند ر ایسی پاکیزگی پیداہوئی ہے و ہ تمہارے بدعمل شاعروں کی طرح ایک ایساانسان ہے جو جذبات کو بھڑکا کر لوگوںکو اپنے ارد گرد جمع کررہاہے ۔اس کی جماعت کی پاکیزگی اوران کا تقویٰ و طہارت میں بے مثال نمونہ قائم کرنا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ تمہار ایہ ادّعا بالکل باطل ہے ۔اورتم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامقام سمجھنے میں سخت غلطی کھائی ہے ۔
پھر فرماتاہے اَلَمْ تَرَ اَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادِ یَّھِیْمُوْنَ۔کیاتم نہیں دیکھتے کہ شاعر مختلف طبائع کو خوش کرنے کے لئے کبھی اِدھر کی بات کردیتے ہیں کبھی اُدھر کی ۔ ان کے سامنے کوئی خاص مقصد اورمدّعانہیں ہوتا بلکہ جو چیز بھی ان کے ذہن می آجائے اسی کے متعلق وہ کچھ نہ کچھ کہنا شروع کردیتے ہیں ۔چنانچہ شاعروں کی کوئی غزل لے لو فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ کاتمہیں ان کی ہرغزل میںنظارہ نظر آجائے گا ۔ایک شعر میں تولکھا ہوگا ۔میں مر گیا ۔میرامعشوق مجھ سے بے وفائی کرتاہے ۔اورمیں اس کے ہجر میں اس کی بے التفاتی کی وجہ سے جاں بلب ہوں ۔مگرساتھ ہی اگلے شعر میں یہ لکھا ہوتاہے کہ مجھے اپنے معشوق کاوصال نصیب ہوا۔میں جی اٹھا اورمیں زندہ ہوگیا ۔ساری غزل کا ایک شعر بھی دوسرے شعر سے جوڑ نہیں رکھتا ۔ایک شعر میں وہ کچھ اَور بیان کررہے ہوتے ہیں اوردوسرے شعر میں وہ کہیں اَور نکل جاتے ہیں ۔ایک شعر میں تووہ کہتے ہیں۔میں محبوب سے ملنے کی تیار ی کررہاہوں ۔اوردوسرے شعر میں کہتے ہیں ہائے مراجارہاہوں ۔غرض ان کی غزلوں کا ہرشعر دوسرے سے متناقض ہوتاہے اوران کی باتوں کا کو ئی سرپیر ہی نہیں ہوتا۔کبھی ادھر کی کہتے ہیں کبھی اُدھر کی ۔کبھی ںکہتے ہیں میں اپنے محبوب کے عشق میں مرگیا حالانکہ وہ زندہ اپنے شعر سنارہے ہوتے ہیں ۔کبھی کہتے ہیں میں اپنے معشوق کے عشق میں سرگردان ہو ں۔حالانکہ وہ اچھے بھلے دنیا کے کام کررہے ہوتے ہیں ۔کبھی کہتے ہیں معشوق ہروقت ہمارے دل میں ہے اوریہ بالکل جھوٹ ہوتاہے ۔کبھی کہتے ہیں میں اپنے محبوب کے لئے خون کے آنسو پی رہاہوں ۔حالانکہ وہ آرام سے زندگی بسرکررہے ہوتے ہیں ۔نہ مر رہے ہوتے ہیں نہ خون کے آنسو پی رہے ہوتے ہیں۔ان کا مطلب صرف اتنا ہوتاہے کہ لوگوں کے جذبات کو ابھاراجائے چاہے وہ ابھارنا اچھے رنگ میں ہویابرے رنگ میں۔کبھی وہ خوشی کی باتیں کرتے ہیں اورکبھی غمی کی۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ یعنی وہ ہرجنگل میں اورہروادی میں سرگردان پھرتے ہیں ۔ ان کو کسی جگہ بھی جذبات کے ابھار نے کاسامان مل جائے چاہے کہیں سے ملے لے لیتے ہیں ۔وہ عاشقوںکوبھی خوش کرتے ہیں اورمعشوقوںکوبھی ۔وہ غریبوں کو بی خوش کرتے ہیں اورامیروں کو بھی ۔و ہ مظلوموں کوبھی خو ش کرتے ہیں اورظالموں کوبھی ۔وہ غالب کو بھی خو ش کرتے ہیں اورمغلوب کو بھی ۔ان کو توہرکسی کی خوشی مطلوب ہوتی ہے ان کو اپنے شعروں میں کتنا بھی جھوٹ بولنا پڑے ۔وہ چاہتے ہیں کہ کوئی غریب ہمارے شعر پڑھے یاامیر ۔ظالم پڑھے یامظلوم ۔عاشق پڑھے یا معشوق،غالب پڑھے یا مغلو ب سب کے سب خوش ہوجائیں چاہے ان کے اشعارحقیقت سے کتنے ہی دور ہوں۔پس شعراء کامقصد اورمدعایہی ہو تاہے کہ ہر خاص و عام ان سے خو ش ہو جائے اوران کے شعروںکی داد دے ۔چنانچہ کبھی وہ کسی امیر کی تعریف کرنے لگ جاتے ہیں اورمقصد یہ ہوتاہے کہ کچھ روپے مل جائیں یاکوئی وظیفہ مقرر ہوجائے ورنہ اس کی ذات سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔لطیفہ مشہور ہے کہ ایک شخص نے جو سخت بھوکاتھا ایک دفعہ چند لوگوںکو جو اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہیں جاتے دیکھا تواس نے خیال کیا کہ یہ غالباً دعوت پر جارہے ہیں میں بھی ان کے ساتھ شامل ہوجائوں ۔جب یہ کھاناکھانے لگیں گے تومیں بھی وہیں سے کھاناکھالوں گا ۔چنانچہ وہ ان کے ساتھ شامل ہوگیا ۔جاتے جاتے وہ بادشاہ کے دربار میں جاپہنچے اورانہوں نے اس کی تعریف میں قصائد پڑھنا شروع کردیئے ۔تب اسے پتہ لگاکہ یہ تو شاعر ہیں اوراپنے اپنے قصائد سنانے آئے ہیں ۔چنانچہ ہر شاعر نے اپنی اپنی بار ی باری پر کھڑے ہوکر قصیدہ سناناشروع کردیا ۔یہ اب سخت حیران ہواکہ میں کیا کروں۔شعر کہنے کی اس میں قابلیت نہیں تھی ۔مگر طبیعت لطیفہ سنج تھی ۔جب سب شاعر اپنے اپنے قصائد سناچکے اوربادشاہ سے انعام لے کر گھروں کوروانہ ہوگئے توبادشاہ اس سے مخاطب ہوااورکہنے لگا ۔اب آپ قصیدہ شروع کریں وہ کہنے لگا حضور میں شاعرنہیں ہوں ۔بادشاہ نے پوچھا آپ یہاں کیوں آئے ہیں ۔وہ کہنے لگا۔حضورمیں وہی ہوں جس کا قرآن کریم میں اس طرح ذکرآتاہے کہ وَالشُّعَرَآئُ یُتَّبِعُہُمُ الْغَاوْنَ۔شاعروں کے پیچھے غاوی آیاکرتے ہیں ۔وہ شاعر تھے اورمیں غاوی ہوں ۔بادشاہ کو اس کا یہ لطیفہ پسند آگیا اور اس نے حکم دیا کہ اسے بھی کچھ انعام دے دیاجائے ۔اب یہ ہے توایک لطیفہ لیکن اس میں کو ئی شبہ نہیں کہ شاعروں کے پیچھے چلنے والے عموماً گمراہ لوگ ہی ہوتے ہیں کیونکہ شاعر کبھی کچھ کہہ دیتے ہیں کبی کچھ ۔ان کا کوئی اصول نہیں ہوتا ۔کبھی ہزلیہ کلام سے لوگوںو کو ہنساتے ہیں ۔کبھی شہادتِ امام حسینؓ کا واقعہ لکھ کر لوگوں کورُلاتے ہیں ۔کبھی مدحیہ قصائد پڑھتے ہیں اورکبھی اس کی ہجو کرناشروع کردیتے ہیں ۔ غرض ہرجنگل می سرگردان پھرتے ہیں ۔کوئی ایک مقصد اورمدعالے کر کھڑے نہیں ہوتے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تودنیا میں توحیدپھیلا نے کے لئے آیا ہے اوریہی ایک مقصد ہے جو رات اور دن اس کے دماغ پر حاوی رہتاہے اوراسی کے لئے وہ تکلیفیں اٹھارہاہے ۔پھر تم یہ کس طرح کہہ سکتے ہوکہ یہ ایک شاعر ہے ۔اگر شاعر ہوتاتو اس کا بھی کوئی مقصد نہ ہوتا ۔جدھر لوگوں کی اکثریت ہوتی ادھر ہی چل پڑتا اوران کو خو ش کرنے کی کوشش کرتا ۔مگر اس نے توسب دنیا کو اپنا مخا لف بنالیاہے اورہر ایک کو توحید کی طرف لانے کی کوشش کررہا ہے پھر یہ شاعر کس طرح ہوا؟
پھر فرماتاہے وَاَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَالَایَفْعَلُوْنَ شاعر وں می ایک یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ ان کا قول اَو رہوتاہے اورفعل اَور۔ اوروہ جوکچھ منہ سے کہتے ہیں عملاً وہ ایسانہیں کرتے ۔یعنی اگر وہ اپنے اشعار میں لوگوںکو اخلاق حسنہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں توخود شرابیں پیتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتے ہیں توآپ نماز اور روزہ کے قریب بھی نہیں جاتے ۔لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاجوقول ہے وہی اس کا عمل ہے اورجو بات اس کے عمل میں ہے۔ وہی اس کی زبان پر ہے ۔پس تمہارایہ کہناکہ محمد رسول اللہ ؐ ایک شاعر ہے محض حقائق پر غور نہ کلرنے کا نتیجہ ہے ۔اگرتم غور کرو توتمہیں نظرآجائے گاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورشعراء کے کلام اوران کے کردا رمیں بُعد المشرقین پایا جاتاہے اوردونوں کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔
پھر فرماتاہے اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوااللّٰہَ کَثِیْرًاوَّنْتَصَرُوْامِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا۔ہاں ان شاعر وںکو ہم مستثنٰی کرتے ہیں جومومن ہیں اورمناسب حال عمل کرتے ہیں ۔وہ اگرشعر کہتے ہیں توان کاشعرحقیقت پرمبنی ہوتاہے اوروہ وہی شعر کہتے ہیں جو عملی زندگی میں ان کے اندرپایاجاتاہے ۔اس کی مثال کے طورپر ہم حضرت حسان بن ثابتؓ کے وہ اشعار پیش کرتے ہیں جو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پرکہے ۔جب انہیں معلوم ہواکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں توانہوں نے اپنے درد اورکرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرٗ
مَنْ شَآئَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ
یعنی اے محمد رسول اللہؐ! تُو تو میری آنکھوں کی پتلی تھا آج تیرے مرنے سے میری آنکھیں اندھی ہوگئیں ۔ا ب خواہ کو ئی مرے ۔میراباپ مرے ۔میری ماں مرے۔بیوی مرے ۔بھائی مرے۔بیٹامرے۔مجھے ان میں سے کسی کی موت کی پرواہ نہیں مَیں تو تیری موت سے ہی ڈراکرتاتھا ۔حضر ت حسان بن ثابتؓ جنہوں نے یہ شعرکہے ۔وہ خو د بھی نیک تھے اور ان کے یہ اشعار بھی حقیقت پر مبنی تھے ۔پس یقینا ایسے لوگ پہلے گروہ میں شامل نہیں۔
پھر فرمایا ۔ان کی عادت میں یہ بات داخل ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کثرت سے ذکرکرتے ہیں ۔اورغیر مومن شاعر وں کی طرح صرف منہ سے یہ نہیں کہتے رہتے کہ ہم اپنے محبوب کے لئے یہ قربانیاں کریں گے بلکہ جب دین کے بار ہ میں ان پر ظلم کیاجاتاہے تووہ عملاً اس کا بدلہ لیتے ہیں اورثابت کردیتے ہیں کہ جس فدائیت کا انہوںنے اپنے شعروں میں ذکر کیاتھا عملاً بھی وہ فدائیت ان کے اند ر پائی جاتی ہے۔مگراس کے ساتھ ہی ان کایہ رویہ نہیں ہوتاکہ وہ اپنے مخالف پر ظلم کریں بلکہ وہ ہمیشہ ظلم کے بعد بدلہ لیتے ہیں اورکسی دوسرے پر ظلم نہیں کرتے ۔
اس آیت میں بھی اورقرآن کریم کی متعدد دوسری آیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عمل صالح کو لازمی قرار دیا ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ منافق بھی زبان سے کہہ دیتاہے کہ میں یمان لایاہوں یامیں خداتعالیٰ اوراس کی شریعت کو مانتاہوں اورلوگ بھی اس کے اس ظاہری قول کے مطابق یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ وہ مومن ہے ۔حالانکہ نہ تو وہ خود اپنے دل میں اسلام کو مان رہاہوتاہے اورنہ ہی خداتعالیٰ اس کے اس ایمان کو تسلیم کرتاہے ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرماتاہے کہ بعض دفعہ لوگ تیرے پاس آتے ہیں اورقسمیں کھا کھا کرکہتے ہیں کہ تُو اللہ کارسول ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم بھی گواہی دیتے ہیںکہ تواللہ کارسول ہے ۔مگریہ لوگ جوکچھ کہتے ہیں صرف زبان سے ہی کہتے ہیںان کے دل میں ایمان نہیں ۔ اس کے مقابلہ میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے دل میں تویہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایمان کی حقیقت کو پوری طرح جانتے ہیں ۔مگر واقعہ یہ ہوتاہے کہ وہ کچھ بھی نہیں جاتے ۔اس کی مثال ایسی ہی ہے ۔جیسے بعض باتیں جواشاروں میں کہی جاتی ہیں ان کے متعلق بعض دفعہ دوسر اسمجھتاہے کہ می نے فلاں کے اشارے کو سمجھ لیاہے اوراشار ہ کرنے والا بھی یہی سمجھتاہے کہ دوسرے نے میرااشارہ سمجھ لیا ہے ۔ لیکن جب بات کھلتی ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے ایک دوسرے کے مطلب کو نہیں سمجھا تھا ۔لطیفہ مشہورہے کہ اکبربادشاہ کے دربا میں ایک دفعہ ایران کا کوئی صوفی آیا ۔اوراس نے کہا ۔آپ اپنے علماء کوبلائیں میں ان سے کچھ سوال کرناچاہتاہوں ۔اکبر نے علماء کو بلوایا۔جب وہ پہنچ گئے تواس صوفی نے اشارے کرنے شروع کردیئے ۔اکبرنے کہا یہ آپ کیاکررہے ہیں ۔کوئی بات کریں جس کی سمجھ بھی آسکے۔صوفی نے کہا باتیں تو جہلا ء بھی کرلیتے ہیں ۔علماء کاکام توصرف اشارے سمجھنا ہے۔اگریہ اشارے نہ سمجھ سکیں تو علماء کیسے ہوئے ۔آخر جب علماء ان اشاروں کو نہ سمجھ سکے توان کو مقابلہ سے عاجز سمجھا گیا ۔اورکہا گیا کہ یہ ہار گئے ہیں ۔اس پر ملّا ابوالحسن بن ابو محاسن جو ملّا پیادہ کلے نام سے مشہور ہے اٹھا ۔اوراس نے کہا ۔میں اس صوفی کے ساتھ مقابلہ کرتاہوں ۔بادشاہ نے ایرانی صوفی سے کہا ۔اب کوئی سوال کرو۔صوفی نے ہاتھ کی ایک انگلی دکھائی ملّاپیادہ نے اس کے جواب میں دوانگلیاں دکھادیں ۔صوفی نے ہاتھ کی انگلیاں کھول کر پنجہ دکھایا۔اس کے جواب میں ملا پیادہ نے مٹھی بند کرکے مکّا دکھا دیا۔اس کے بعد صوفی نے زمین پر ایک گول دائرہ بنایا۔ اورملّاپیادہ نے اس گول دائرہ کے درمیان ایک نقطہ لگادیا ۔اس پر وہ صوفی کہنے لگا ۔واقعی یہ شخص قابل ہے ۔اورمیں اس کے سامنے اب کوئی سوال نہی کرسکتا۔ لوگوں نے صوفی سے پوچھا ۔کہ تمہارا انگلی دکھانے سے کیا مطلب تھا ۔اس نے کہا میرایہ مطلب تھاکہ اللہ ایک ہے اورملّا پیادہ نے اس کا بالکل ٹھیک جواب دیا کہ اللہ توایک ہے مگر اس کے ساتھ اس کا رسول بھی ہے۔پھر میں نے پانچ انگلیا ں دکھائیں جس سے میرایہ مطلب تھا کہ پنج تن ہی ہیں جن پ اسلام کی بنیاد ہے۔اس کے جواب میں ملا پیادہ نے کہا کہ واقعی پنج تن ہیں لیکن حقیقت میں وہ ایک ہی ہیں اوراس کے مکا دکھانے کا یہی مطلب تھا ۔پھر میں نے زمین پر گول دائرہ بنادیا ۔جس کامطلب تھاکہ یہ زمین گول ہے ۔اس کے جواب میں ملا پیادہ نے اس کے درمیان میں دائرہ لگاکر یہ کہا کہ زمین تو گول ہے مگر وہ اپنے محور کے گرد گھومتی ہے ۔جب ملّا دوپیادہ سے پوچھا گیا کہ تم نے کیاسمجھا تھا ۔تواس نے کہا کہ جب صوفی نے ایک انگلی دکھائی تو میں یہ سمجھا کہ یہ کہتاہے کہ میں تیری ایک آنکھ پھوڑ دوں گا ۔اس پر میں نے اس کے جواب میں دوانگلیاں دکھا کرکہاکہ میں تیری دونوں آنکھیں پھوڑ دوں گا ۔پھر اس نے پنجہ دکھا یاتومیں نے سمجھاکہ یہ مجھے کہتاہے کہ میں تیرے منہ پر تھپڑ ماروں گا ۔میں نے اس کے جواب میں کہ میں تمہیں گھونسہ ماروں گا ۔پھر ا س نے زمین پر جب گول دائر ہ بنایا ۔تومیں نے سمجھا کہ یہ کہتاہے کہ انسان کے لئے روٹی ضروری چیز ہے ۔اس پر میں نے درمیان میں نقطہ لگاکرکہا کہ صرف روٹی سے کچھ نہیں بنتا ساتھ پیاز بھی ہونا چاہیئے ۔
اسی طرح ایک شخص زبان سے توکہہ دیتاہے کہ میں ایمان لایا اوروہی سمجھتابھی یہی ہے کہ میں ایمان کی حقیقت سے واقف ہوں مگروہ ایمان کی حقیقت کو نہیں سمجھ رہاہوتا۔پس ایک ایمان تواس قسم کاہوتاہے کہ ایک شخص منافقانہ طورپر صرف زبان سے کہتاہے میں ایمان لے آیا اوراس کے قول کے مطابق لوگ بھی سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ ایمان لے آیاہے مگرخداتعالیٰ اس کے ایمان کی حقیقت کو اچھی طرح جانتاہے اوروہ منافق بھی اپنے دل میں کہتاہے کہ میں تمسخر کررہاہوں ۔لیکن دوسراایمان اس قسم کاہوتاہے کہ ایک شخص سمجھتاہے کہ میں اچھی طرح ایمان کی حقیقت کو سمجھتاہوں مگردراصل وہ کچھ بھی نہیں سمجھاہوتا۔اس کے مقابلہ میں تیسری قسم کاایمان یہ ہے کہ ایک شخص فی الحقیقت ایمان کو سمجھ جاتاہے اورلوگ بھی کہتے ہیں یہ ایما ندار ہے اوراللہ تعالیٰ بھی کہتاہے کہ یہ ایماند ار ہے ۔اس کی مثال اس درخت کی سی ہوتی ہے جس کی جڑزمین کے اند ردو رتک چلی گئی ہو اورکسی قسم کی آندھیاں اس پر اثرانداز نہ ہوسکیں۔پہلی قسم کے ایمان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے کوئی چھوٹاساپودااکھیڑ کرہاتھ میں پکڑاہواہو۔اوراس کی جڑوں کا زمین کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو ۔اوردوسری قسم کے ایمان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک درخت بظاہر زمین میں لگاہواہو مگراس کی جڑیں بالکل زمین کی اوپروالی مٹی میں ہوں۔اوروہ کسّی کے ذراسے دھکے کے ساتھ ہی زمین پرآرہے اورتیسری قسم کے ایمان کی مثال ایسی ہے۔ جیسے ایک بڑاتناور درخت ہو۔اوراس کی جڑیں بھی پاتال تک چلی گئی ہوں ۔یہی اصل ایمان ہے جوانسان کی نجات کاموجب بنتاہے اوراس ایمان کے ساتھ عمل صالح کاہونابھی ضروری ہے ۔لیکن یہ امر یاد رکھناچاہیئے کہ ہمارے ہاں جن باتوں کو نیک عمل کہتے ہیں یاانگریزی میںجنہیں گڈایکشنز Good Actions کہتے ہیں قرآن کریم انہیں عمل صالح قرار نہیں دیتا۔سارے قرآن میں شاذونادر کے طور پر ہی کسی ایک مقام پر نیک عمل کے لئے خیر کالفظ استعمال ہواہو توہواہو ۔ورنہ قرآن کریم ہمیشہ عمل صالح کالفظ استعمال کرتاہے ۔اوراس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک نیکی وہی ہے جومطابق حالات ہو ۔اوراگرحالات کے مطابق کوئی عمل نہ ہو تووہ عمل صالح نہیں کہلائے گا۔مثلاً اگر لوگوںوسے دریافت کیاجائے کہ نیک عمل کون سے ہیں تووہ کہیں گے ۔نماز ،روز ہ، زکوٰۃ،حج اورجہاد وغیرہ ۔حالانکہ قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتاہے کہ بعض نمازیں بری ہوتی ہیں ۔اسی طرح روزے اوربعض صدقہ و خیرات انسان کوثواب پہنچانے کی بجائے اسے خداتعالیٰ کی ناراضگی کامورد بنادیتے ہیں۔پس معلوم ہواکہ خالی نماز نیک عمل نہیں ۔ اگرخالی نماز نیک عمل ہوتا تو وَیْلٌ لِّلْمُصَّلِّیْنَ کیوں آتا۔اورکیوں اللہ تعالیٰ فرماتاکہ بعض نمازیں پڑھنے والے جوریاء کے لئے پڑھتے ہیں جو اس لئے پڑھتے ہیں کہ لوگ کہیں یہ بڑے بزرگ ہیں ۔یہ بڑے زاہد اورعابد ہیں ۔ان پر ہمار ی *** ہوتی ہے ۔ اسی طرح بعض روزے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کاانسان کو مورد بنادیتے ہیں ۔مثلاً انسان عید کے دن روزہ رکھے توو ہ اسلامی نقطئہ نگاہ سے شیطان بن جائے گا ۔یاحج ہے ۔اگر انسان ایسی حالت میں کرے جب اس میں حج کی شرائط نہ پائی جاتی ہوں ۔یازکوٰۃایسی حالت میں دے جبکہ زکوٰۃ اس پر فرض نہ ہو تویہ اعمال صالح نہیں کہلاسکتے ۔عمل صالح وہی عمل ہے جو مطابق حالات او رموقع کے مناسب ہو ۔اسی لئے خداتعالیٰ نے بار بار قرآن کریم میں ایمان کے ساتھ عَمِلُواالصّٰلِحٰتِ کاذکرکیاہے ۔لوگ غلطی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ نماز نجات دلائے گی ۔یاروزہ نجات دلائے گا ۔یاحج نجات دلائے گا یا زکوٰۃ نجاتے دلائے گی ۔حالانکہ نماز و ہ نجات دلاسکتی ہے جونماز پڑھنے کے موقعہ پر پڑھی جائے۔ اگرکسی وقت کفار سے جہادہورہاہو۔لڑائی لڑی جارہی ہو ۔مسلمان مارے جارہے ہوں۔کفار بڑھتے چلے آرہے ہوں اورکوئی شخص مصلّٰی بچھا کر نماز پڑھنے لگ جائے ۔توہم کہیں گے اس کی نماز کوئی نماز نہیں۔ اس وقت جہاد کاکام کرنے کا وقت تھا ۔مصلّٰی پر بیٹھ کر تسبیح پھیرنے کاوقت نہیں تھا ۔اسی طرح اگر کوئی شخص نماز کے وقت نماز نہ پڑھے اورکہے میں جہاد کے لئے چلاجائو ں تو ہم کہیں گے وہ نماز سے بچنے کابہانہ کررہاہے غرض اپنی ذات میں نہ نماز نجات دلاسکتی ہے ۔نہ روزہ نہ زکوٰ ۃ نہ حج نہ جہاد ۔بلکہ جونیک کام بھی موقع اورمحل کے مطابق ہو وہی انسان کے کام آسکتاہے ۔
مومنوں کی دوسری خصوصیت اس آیت میں بتائی گئی ہے کہ وَذَکَرُوااللّٰہَ کَثِیْرًا ۔ وہ اللہ تعالیٰ کابڑ ی کثرت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں ۔چونکہ دنیا میں بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جوصرف اس وقت ذکر کی طرف توجہ قائم رکھ سکتی ہیں۔جب وہ اکیلے ذکر میں مشغول ہوں اوربعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جودوسروں کو ذکر کرتادیکھیں تب ان میں ذکر کرنے کاجوش پیداہوتاہے ۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے انفرادی اورجماعتی دونوں قسم کے ذکرنمازوں میں جمع کردیئے ہیں ۔چنانچہ ظہر اورعصر کی نمازیں اسی طرح پڑھی جاتی ہیں کہ ہرشخص اپنا اپنا ذکرکررہاہوتاہے ۔امام اپنے طور پر خاموشی سے ذکرکررہاہوتاہے اورمقتدی خاموشی سے اپنے طورپر ذکرکررہے ہوتے ہیں ۔لیکن مغر ب عشاء اورفجر کے وقت اللہ تعالیٰ نے یہ طریق مقررکردیا کہ جب امام سورۃ فاتحہ پڑھے تو تم بھی سورۃ فاتحہ پڑھو۔ مگر جب و ہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔غرض نماز میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایساطریق رکھاہے کہ بعض جگہ لوگوں کوکلیتًہ امام کے تابع کردیاہے۔امام کہتاہے اللہ اکبر تومقتدی بھی کہتاہے اللہ اکبر ۔امام رکوع میں جاتاہے ۔تومقتدی بھی رکوع میں چلاجاتاہے ۔امام سجدہ میں جاتاہے تومقتدی بھی سجدہ میں جھک جاتاہے ۔لیکن جوخاموشی کاحصہ ہوتاہے اس میں ہرشخص آزاد ہوتاہے ۔مقتدی کوئی دعامانگ رہاہوتاہے اورامام کوئی دعامانگ رہاہوتاہے ۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے دونوں طبائع کاعلاج کردیا۔ان کابھی جو دوسروں کوذکرمیں مشغول دیکھ کر ذکرکرنے کی عادی ہوتی ہیں اوران کابھی جنہیں اس وقت عبادت میں لذت آتی ہے جب و ہ علیحدہ ہوں ۔چنانچہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں مجلس میں دعاکرتے وقت رقّت آتی ہی نہیں اوربعض ایسے ہوتے ہیں کہ جونہی وہ کسی کی چیخ سنتے ہیں ۔ ان کی بھی چیخیں نکل جاتی ہیں پہلے انہیں جوش نہیں آتا۔لیکن دوسرے کی گریہ و زاری دیکھ کر انہیں بھی رونا آجاتاہے ۔ لیکن کامل مومن وہ ہوتاہے کہ جب وہ علیحدہ بیٹھتاہے تب بھی خداتعالیٰ کاذکر کرتاہے اور جب مجلس میں بیٹھتاہے تب بھی اس کا ذکر کرتاہے۔اسی وجہ سے اسلام نے انفرادی ذکر پر بڑازوردیاہے اوراجتماعوں کے مواقع پر بھی ذکر ِ الٰہی پر زوردیاہے ۔چنانچہ مسلمان جب حج کے لئے جاتے ہیں تو وہاں بھی ذکر الٰہی ہوتاہے ۔شادی اوربیاہ کے لئے جاتے ہیں تووہاں بھی ذکر الٰہی ہوتاہے۔ جنازہ کے لئے جاتے ہیں تووہاں بھی ذکر الٰہی ہوتاہے۔گویاہرقسم کے اجتماعوں کوبابرکت بنانے کانسخہ اسلام نے یہی بتایاہے کہ ذکرالٰہی پر زوردیاجائے ۔اس کے مقابلہ میں انفرادی ذکر کی اہمیت بھی اسلام نے با ر باربتائی ہے ۔یہاں تک کہ کھانا کھاتے وقت۔کھانے سے فارغ ہوتے وقت ،سوتے وقت جاگتے وقت ۔سفرپرجاتیوقت ۔سفرسے آتے وقت۔غم کے وقت خوشی کے وقت ۔ مسجد میں آتے وقت اورمسجد سے جاتے وقت ۔بلندی پرچڑھتے وقت اور بلندی سے اترتے وقت ۔اسی طرح آئینہ دیکھتے وقت ۔کپڑے بدلتے وقت۔ نیاچاند دیکھتے وقت ۔یہاں تک کہ بیوی کے پاس جاتے وقت بھی دعائوں اورذکر الٰہی کی تاکید کی ہے ۔اورپھر فرمایاہے کہ ہرکام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لیاکرو۔ورنہ تمہاراکام بے برکت ہوجائے گا ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام نے یہ بھی کہا ہے کہ ہرنماز کے بعد تینتیس دفعہ سبحان اللہ تینتیس دفعہ الحمد للہ اورچونتیس دفعہ اللہ اکبر اکہہ لیا کرو۔مگراسلام نے یہ بھی کہاہے کہ مومن کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کاذکرکرتے ہیں اوروہ صرف تینتیس یاچونتیس دفعہ تسبیح و تحمید کرنے پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ بات بات پر وہ الحمد للہ سبحان اللہ یا اللہ اکبر کہتے رہتے ہیں ۔اوردرحقیقت اگرغورسے کام لیاجائے تویہ دونوں باتیں ہی ضروری تھیں ۔کیونکہ عشق میں انسان کی دونوں حالتیں ہوتی ہیں ۔عشق میں ایک حالت تووہ ہوتی ہے جب انسان اورکاموں سے فار غ ہوکر اپنے محبوب سے باتیں کرنے میں مشغول ہوجاتاہے ۔اورعشق کی دوسری حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ خواہ اَورکاموں میں مشغول رہے اس کادل اپنے محبوب کی طرف ہی رہتاہے ۔ پس عشق دونوں باتوں کا تقاضاکرتاہے ۔عشق یہ بھی چاہتاہے کہ عاشق اپنے معشوق کے لئے اورکاموں سے فار غ ہوجائے ۔ اورعشق یہ بھی چاہتاہے کہ عاشق اپنے معشوق کا ہروقت ذکرکرتارہے۔پس چونکہ یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں اس لئے اسلام نے بعض جگہ تسبیح و تحمید کی ایک معین مقدار مقررکردی اورپھر یہ بھی کہہ دیاکہ مومن صرف اس تعدا د پر انحصا رنہیں رکھتے بلکہ وہ اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اورہروقت ان کی زبانیں ذکر الٰہی سے تررہتی ہیں ۔اس طرح یہ دونوں چیزیں مل کر ایک مومن کے عشق کو مکمل کرتی ہیں ۔اگراسے یہی خیال آتارہے کہ میں فلاں وقت میں ذکر کروں گا آگے پیچھے نہیں کروں گا تواس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ اپنے اوقات کو کلی طورپر خداتعالیٰ کی یاد میں صرف کرنے کے لئے تیار نہیں ۔وہ اس بات کا منتظر رہتاہے کہ مقررہ وقت آئے تووہ ذکر کرے ۔حالانکہ مومن وہی ہے جو ہرحالت میں خداتعالیٰ کو یاد رکھتاہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کسی بزرگ کا یہ مقولہ سنایاکرتے تھے کہ ’’ دست درکار و دل بایار ‘‘یعنی انسان کے ہاتھ تو کامو میں مشغول ہونے چاہئیں لیکن اس کادل خداتعالیٰ کی طرف متوجہ ہوناچاہیئے ۔اسی طرح ایک بزرک کے متعلق مشہور ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ میں کتنی دفعہ اللہ تعالیٰ کا ذکرکیاکروں ۔توانہوں نے کہا کہ ’’ محبوب کانام لینا اورپھر گن گن کر ‘‘۔ تواصل ذکروہی ہے جو اَن گنت ہو۔مگرایک معین وقت مقرر کرنے میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ انسان اس وقت اپنے محبوب کے لئے اورکاموں سے بالکل الگ ہوجاتاہے ۔اورچونکہ یہ دونوں حالتیں ضروری ہیں اس لئے صحیح طریق یہی ہے کہ معین رنگ میں بھی ذکر الٰہی کیاجائے اورغیر معین طورپربھی اُٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کو یاد کیاجائے ۔اوراس کے فضلوں اوراحسانات کاباربار ذکرکیاجائے۔
تیسری خصوصیت اللہ تعالیٰ نے اس جگہ مومنوں کی یہ بتائی ہے کہ وَانْتَصَرُوْامِنْ بَعْدِ مَاظُلِمُوْا۔وہ خود توکسی پر ظلم نہیں کرتے لیکن اگر کوئی دوسراان پر ظلم کرے تو پھر وہ پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ دلیری سے ظالم کامقابلہ کرتے ہیں ۔چونکہ یہ سورۃ مکی ہے جب کہ ابھی جہاد کا حکم نازل نہیں ہواتھااس لئے درحقیقت اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ اس وقت تومسلمان دشمن کے ظلم و ستم سہہ رہے ہیں لیکن مت سمجھو کہ دشمن کے یہ مظالم رائیگاں جائیں گے ۔بلکہ ایک دن آئے گا کہ ہم انہی مظلوم اور بے کس بندوں کودشمن کے مقابلہ کی اجازت دیدیں گے ۔مگراس وقت بھی یہ اپنے دشمن پرکوئی ظلم نہیں کریں گے بلکہ صرف جائز حد تک اس کے مظالم کا انتقام لیں گے ۔اورپھر آخر میں سب سے بڑی دلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی اللہ تعالیٰ یہ دیتاہے کہ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ۔ وہ لوگ جو ظلم کررہے ہیں عنقریب جان لیں گے کہ ان کا انجام کیساہے یعنی اللہ تعالیٰ کے نبیوں اورشیطان کے بندوں میں یہ فرق ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہرامر پر قادرہے اپنے بندوں کی مدد کرتاہے۔ لیکن شیطان ایسانہیں کرسکتا۔پس عنقریب خداتعالیٰ اپنی مدد کو ظاہر کردے گا اوراسلام کے ظالم معترض دیکھ لیں گے کہ ان کاآخری ٹھکانہ کہاں ہے اوراس طرح دنیا کو پتہ لگ جائے گاکہ آیا وہ شیطان کے پیچھے چل رہے تھے یامسلمان شیطان کے پیچھے چل رہے تھے ۔
سورۃ النمل
سورئہ نمل
مکیۃ وھی مع البسملۃ اربع وتسعون ایۃ وسبعۃ رکوعات
یہ سورۃ مکی ہے ۔اوربسم اللہ سمیت اس کی چورانوے(۹۴) آیتیں ہیں اور سات (۷) رکوع ہیں۔
وقت تنزیل :۔اس سورۃ کو ابن عباسؓ اورابن زبیر ؓ نے مکی قراردیاہے اورباقی مسلمان علماء بھی اسی کی تصدیق کرتے ہیں ۔وہیریؔ نے بھی اسے مکی ہی قرار دیاہے ۔
قریبی تعلق :۔اس سورۃ کاسورئہ الشعراء سے قریبی تعلق یہ ہے کہ سورئہ الشعراء کے آخر میں یہ بتایاگیاتھا کہ مومن غالب آئیں گے اورکفار خداتعالیٰ کی قدیم سنت کے مطابق تباہ ہوجائیں گے مگرچونکہ مضمون کفار کی تباہی کا تھاسورۃ کاباقی سارا زور اس قانون الٰہی کی تفصیل میں تھا کہ کفار ہمیشہ تباہ ہوتے چلے آئے ہیں اب کیوں نہ تباہ ہوں گے ۔سورئہ نمل میں اس مضمون کے دوسرے مخفی پہلو کو زیادہ واضح کیاگیاہے کہ مومن باوجود کمزور ہونے کے ترقی پاتے رہے ہیں ۔کفار کی تباہی کاذکر بے شک سورۃ کے آخر میں کیاگیاہے لیکن زیادہ زور اس سورۃ می اس اصول پر ہے کہ جو لوگ خداتعالیٰ کی آواز سن کر عقیدئہ ذہنی اورفکری اور اخلاق اور نظام الٰہی کو قبول کرتے رہے ہیں وہ ہمیشہ عزت پاتے رہے ہیں ۔
اسی سلسلہ میں یہ بھی بتایاگیاہے کہ مسلمانوں کی ترقی عارضی نہ ہوگی بلکہ ایک لمبے عرصہ تک وہ ترقی کرتے چلے جائیں گے اوربنی اسرائیل کی طرح صرف اپنے ہی ملک کے بادشاہ نہیں ہوں گے بلکہ غیر ملکوں کے بھی بادشاہ ہوںگے ۔
اس سورۃ کا سورئہ الشعراء سے دوسراتعلق یہ ہے کہ سورئہ الشعراء کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاتھا کہ لوگ اس نبی کو شاعرکہتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اس پر شیطان نازل ہوتاہے حالانکہ شیطان جھوٹ بولنے والے اورگنہگار پر نازل ہواکرتاہے ۔اورپھرشیطان کاطریق یہ ہے کہ وہ خدائی تعلیمات کو سن کر انہیں لوگوں کے سامنے اپنی طرف سے پیش کرتے ہیں ۔لیکن ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں ۔یعنی آسمانی تعلیموں میں جھوٹ ملادیتے ہیں ۔اس لئے وہ تعلیمات نتیجہ خیز نہیں ہوتیں اورشعراء جو کہ شیطانوں کی پیروی کرتے ہیں ان کے پیچھے صرف گمراہ لو گ چلتے ہیں کیونکہ وہ کسی مقصد کو لے کر کھڑے نہیں ہوتے صرف دلچسپ باتیں کرنے کاانہیں شوق ہوتاہے ۔کیاتُو دیکھتانہیں کہ و ہ ہروادی میں بہکتے پھرتے ہیں اورجوکچھ کہتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے ۔
اب اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اس سورۃ کی آتیں ایک ایسی کتاب کی آیتیں ہیں جو ہمیشہ پڑھی جائے گی اورجوتمام دینی امور کو خوب کھو ل کر اوربادلیل بیان کرتی ہے اورجومومنوں کو سچاراستہ دکھانے والی ہے اورجو اس پر عمل کرتے ہیں ان کو نیک انجام کی خبردیتی ہے۔اس لئے یہ شیطانی تعلیم نہیں ہوسکتی کیونکہ شیطان نہ سچاراستہ دکھاتاہے نہ اس کی تعلیم پ رچل کرکو ئی شخص خداکی رحمت اوربرکت حاصل کرتاہے ۔اسی طرح اس کتاب پر ایمان لانے والے وہ ہیں جو خداکی عبادت کرتے اورزکوٰۃ دیتے ہیں اوربعد میں آنے والے کلام پر یابعد میں آنے والی زندگی پر بھی یقین رکھتے ہیں ۔یعنی اول توشیطان کی نازل کردہ تعلیم میں جھوٹ ہوتاہے ہدایت نہیں ہوتی دوسرے اس تعلیم کے متبع ہدایت سے بہکے ہوئے ہوتے ہیں اورنیکوکار نہیں ہوتے ۔لیکن اس کتاب میں ہدایت ہے اورسچائیاں ہیں اوراس کے ماننے والے لوگ خداتعالیٰ کی بھی عبادت کرتے ہیں اوربندوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرتے ہیں اور ہمیشہ ہی خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والی باتوں کے مانن کے لئے تیار رہتے ہیں ۔سی طرح دوسری زندگی کااحساس بھی ہروقت ان کے دل میں رہتاہے ۔
پس نہ تومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر شیطان اُتر سکتے ہیں جوایسی کتاب لائے ہیں جوہدایت اوربشارت ہے اورنہ آپ کو شاعر کہاجاسکتاہے ۔کیونکہ آپ کے ماننے والے انسانوں کی ہمدردی اورخداتعالیٰ کی محبت کاایک اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہیں ۔اورشاعرنہ خود عمل کرتاہے اورنہ اس کے اتباع عمل کرتے ہیں ۔
خلاصئہ مضامین :۔اس سورۃ کے شروع میں طٰسٓ حروف مقطعات میں سے آئے ہیں ۔چونکہ یہی حروف مقطعات م کی زیادتی کے ساتھ سورئہ الشعراء سے پہلے بھی آئے ہیں اس لئے یہ سورۃ سورئہ الشعراء کے مضمون کے سلسلہ میں ہی ہے ۔
طٰسٓ میں ط لطیف کاقائم مقام ہے اورس سَمِیع کا ۔پھر فرماتاہے ۔تِلْکَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَکِتَابٍ مُّبِیْنٍ۔ اس سورۃ میں جوآیتیں بیان کی گئی ہیں وہ قرآن کاحصہ ہیں اورایک ایسی کتاب کی آیتیں ہیں جو اپنی دلیلیں خود بیان کرتی ہے اوریہ کتاب کامل ہدایت بھی ہے جیسا کہ ھُدًی کی تنوین سے جواس کو نکرہ بناتی ہے ظاہر ہے اورنکرہ عظمت کے لئے آتاکرتاہے ۔۱؎
پھر فرماتاہے کہ یہ کتاب مومنوں کے لئے بشارت کاموجب ہے ۔ایسے مومنوں کے لئے جو اپنی بدنی عبادتوں کو خداتعالیٰ کے حضور میں ہمیشہ پیش کرتے رہتے ہیں اوراکیلے ہی عبادت نہی کرتے بلکہ دوسرے بنی نوع انسانوں کو بھی عبادت کی طر ف راغب کرکے باجماعت نماز اداکرتے ہیں (جیساکہ یقیمون کے لفظ سے ظاہر ہے اوراقامت ہمیشہ نماز باجماعت میں ہی کہی جاتی ہے )اس طرح وہ مومن جن کے لئے قرآن بشارت ہے وہ ہیں جو اپنے اموال میں سے ایک حصہ ہمیشہ خداتعالیٰ کی راہ میں غریبوں اورناداروں پر خرچ کرنے کے لئے دیتے رہتے ہیں اوروہ یہ خرچ لوگوں کالیڈر بننے کے لئے نہیں کرتے بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ان سے راضی ہوجائے اورو ہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ان کو یقین ہوتاہے کہ خداتعالیٰ کی فرمانبرداری کے نتیجہ میں آخر ان کو روحانی اورجسمانی درجات ملیں گے ۔(آیت ۳و۴)
وہ لوگ جو انجام آخر پر خواہ وہ دنیوی ہو یا آخروی ایما ن نہیںلاتے ان کو اپنی سب کرتوتیں خوبصورت نظرآتی ہیں اوروہ بہکتے پھرتے ہیں ۔ ان کو بڑا عذاب ملے گا اوروہ آخر کار ناکام رہیں گے اور نقصان اٹھائیں گے (آیت ۵و۶)
تجھ پر جو یہ قرآن نازل ہواہے یہ بڑی حکمت والے اورعلم والے خداکی طرف سے ہے ۔اس لئے اس میں بڑی برکتیں ہیں اوربڑی حکمتیں ہیں اوربڑاعلم ہے (آیت ۷)
موسیٰ کاواقعہ ہم تجھے بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ اس نے اپنے گھروالوں سے کہا کہ میں نے دور کچھ آگ دیکھی ہے ۔میں وہاں جاکر یاتوکوئی معلومات اس ملک یااس راستہ کی لاتاہوں یاکوئی انگارہ لاتاہوں تاکہ تم آگ سینکو ۔(آیت ۸)
۱؎:کتاب العروس للسبکی شرح مختصر المعانی جزو اول ص ۳۴۹۔
جب موسیٰؑ اس آگ کے پاس آئے توانہیں پکار کرکہا گیا کہ ا س آگ میں جس کا جلوہ نظر آتاہے یعنی خداتعالیٰ کا وہ بڑی برکت والا ہے اوراس آگ کے ارد گرد کاعلاقہ بھی برکت والاہے ۔یعنی جو لو گ ااس کلام کو قبول کریں گے ان کو بھی بڑی برکت ملے گی ۔ وہ رب العالمین خداجس نے اپنا جلوہ اس آگ میں دکھایا ہے بڑا پاک ہے ۔(آیت ۹)
پھر کہا گیاکہ اے موسیٰؑ:بات یہ ہے کہ میں اللہ ہوں اوربڑاغالب او رحکمت والاہوں ۔یعنی جو نظارہ تم نے دیکھا ہے وہ خداکاجلال ہے اورتُو اپنا عصاپھینک دے۔ جب انہوں نے عصاپھینکا تو دیکھا کہ و ہ اس طرح ہلتاتھا جس طرح سانپ ہلتاہے ۔موسیٰؑ ڈرے اور پیٹھ پھر کربھاگے ۔اس پر ان کو الہام ہواکہ اے موسیٰؑ! ڈرنہیں ۔ڈرمیرے دشمنوں کے لئے ہے۔ ڈرمیرے رسولوں کے لئے نہیں ہاں اگر کوئی شخص غلطی سے ظلم کرے اورپھر اس کے بعد نیکی اختیار کرے تومیں معاف کرنیوالا اوررحم کرنے والاہوں (آیت نمبر ۱۰تا۱۲)
اوراپنے ہاتھ کوگریبان میں ڈال ۔جب تو اس کونکالے گاتو دیکھے گاوہ بالکل سفید ہے۔یعنی وہ چمکتاہوانظرآئے گا ۔مگرکسی قسم کاعیب اس میں نہیں ہوگا۔(آیت ۱۳)
یہ نشان جو ہم نے موسیٰؑ کو دیا یہ ان نو نشانوں میں سے ایک تھا جو فرعون اوراس کی قوم کی طرف بھیجے جانے والے تھے ۔کیونکہ وہ لوگ فرمانبرداری سے نکلے ہوئے تھے ۔لیکن ہوایہ کہ جب موسیٰؑ وہ نشان لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس آیا توباوجود اس کے کہ و ہ نشان بڑے واضح تھے اورحقیقت کو دکھانے والے تھے انہوں نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا ۔اورکہا یہ توکھلا کھلا فریب ہے ۔اوربڑی سختی سے ان نشانات کا انکار کیا ۔حالانکہ ان کے دلوں نے ان کو سچاسمجھ لیاتھا۔ان کایہ انکا ر ظلم اورتکبر کی وجہ سے تھا۔پھر دیکھ کہ ایسے فسادی لوگوںکاکیاانجام ہوا۔(آیت ۱۴و۱۵)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کاواقعہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت دائود ؑ اورسلیمانؑ کا ذکر کرتاہے اوران دونوں کاقول یہ بیان فرماتاہے کہ ہمیں بہت سے مومن بندوں پر خداتعالیٰ نے فضیلت بخشی ہے ۔یعنی خلافتِ روحانی اورجسمانی کے ذریعہ۔(آیت ۱۶)
اس کے بعد فرماتاہے کہ حضرت دائودؑ کی وفات پر سلیمانؑ تخت نشین ہوئے اورانہوں نے لوگوں سے کہا کہ مجھے بھی وہ بولی سکھائی گئی ہے جوبلندی کی طرف پرواز کرنے والے لوگوںیعنی اللہ تعالیٰ کے انبیاء کو سکھائی جاتی ہے ۔اورمجھے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے خداتعالیٰ ان کو مہیاکردیتاہے ۔اوریہ بات اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہی حاصل ہوتی ہے ۔(آیت ۱۷)
پھر فرماتاہے ۔ایک دفعہ سلیمانؑ کے سامنے جنوں اورنسانوں اورپرندوں میں سے ان کے لشکر حاضر کئے گئے اورانہیں ترتیب وار الگ الگ کھڑاکیاگیا ۔(یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ اس وقت کسی ملک پر چڑھائی کرنے کی تیاری کررہے تھے ( (آیت ۱۸)
آپ اپنے لشکروں کے ساتھ جارہے تھے کہ راستہ میں آپ نملہ قوم کی وادی میں سے گذرے۔(جو کو غلطی سے مفسرین نے چیونٹیوں کی وادی سمجھ لیاہے)آپ کو اورآپ کے لائو لشکرکودیکھ کر نملہ قوم کی ملکہ نے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے کہا کہ اے نملہ قوم کے لوگو اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو ۔تاکہ یہ خیال کرکے کہ تم سلیمانؑ کے لشکر کامقابلہ کرناچاہتے ہو سلیمانؑ اورا سکالشکر تمہیں پائو ں کے نیچے روند نہ ڈالے ۔حضرت سلیمانؑ نملہ قوم کی ملکہ کے اس اعلان پر ہنس پڑے اوراللہ تعالیٰ کا شکر بجالائے کہ اس نے دوردراز کے ملکوں میں بھی یہ بات پھیلادی ہے کہ سلیمانؑ ظالم نہیں اوروہ ادنیٰ قوموں کے ساتھ بھی انصاف کرتاہے (آیت ۱۹و ۲۰)
اس وقت حضرت سلیمانؑ نے اپنے لشکر کاجائزہ لیا تو ایک سردارِ لشکر جس کانام ھُدھُد تھا غائب پایا۔ایسے نازک موقعہ پر ایک فوجی افسر کے غائب ہونے سے آپ کو شدید تشویش ہوئی اورآپ نے کہا کہ میںیقیناً اسے سخت ترین سزادوں گا یا اسے قتل کردوں گا ۔ اوریاپھر اسے واضح دلیل کے ساتھ بتانا پڑے گاکہ وہ کیوں غائب رہا ۔(آیت ۲۱و۲۲)
تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ وہ سردار واپس آگیا اوراس نے بتایاکہ چونکہ آپ ملک سباء پر حملہ کرنے جارہے تھے ۔میں پہلے سے اس ملک کے حالات دریافت کرنے کے لئے وہاں چلاگیااوراب میں یہ رپورٹ لے کر آیاہوں کہ اس ملک کی حکمران ایک عورت ہے لیکن غضب کی حاکم ہے ۔ہرقسم کے سازوسامان اس کے پاس موجود ہیں اوراس کی بادشاہت بہت بڑی ہے لیکن روحانی لحاظ سے یہ خرابی بھی ہے کہ ملکہ اوراس کی قوم سورج کی پرستش کرتی ہے اورتوحید سے روگردان ہے ۔حضرت سلیمانؑ سمجھ گئے کہ وہ شرارتاً غائب نہیں ہواتھا اورانہوں نے کہا ۔بہت اچھا ہم وہاں جاکے دیکھیں گے کہ تُو سچ بول رہاہے یاجھوٹ ۔مگرپہلے میرایہ خط لے جا اوراسے ملکہ اوراس کے درباریوں کے سامنے رکھیو اورخود مؤدبانہ طورپر پیچھے ہٹ کر کھڑے ہوجائیو۔اوردیکھیئو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں (آیت ۲۳تا۲۹)
جب ہُدہُد نے و ہ خط پیش کیا ۔توملکہ نے اپنے درباریوں سے کہا کہ یہ بڑامعزز مکتوب ہے جوسلیمانؑ کی طرف سے آیاہے اوراس میں لکھا ہے کہ میرے خلاف سرکشتی مت کرواورفرمانبردار ہو کر میرے حضو رحاضرہوجائو۔(آیت ۳۰تا۳۲)
اس کے بعد ملکہ سبانے اپنی قوم کے سرداروں سے کہا کہ اس مشکل مسئلہ کے حل کے لئے مجھے مشورہ دو۔انہوں نے کہا ۔حضورہم توبڑے طاقتور ہیں اورآزمودہ کارجرنیل ہیں ۔مگرفیصلہ بہرحال آپ کے اختیار میں ہے ۔ملکہ سبانے کہا ۔بات دراصل یہ ہے کہ باشاد ہ جب اپنے زبردست لشکروں کے ساتھ کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تواس کو اجاڑ کر رکھ دیاکرتے ہیں اوروہاں کے معزز شہریوں کو ذلیل جانوروں کی طرح بنادیتے ہیں ۔اس لئے میں نے تویہ تجویز سوچی ہے کہ میں حضرت سلیمانؑ کو ایک تحفہ بھیجتی ہوں اوردیکھتی ہوں کہ میرے آدمی کیاجواب لاتے ہیں ۔(آیت ۳۳تا۳۵)
حضرت سلیمانؑ کو جب و ہ تحفہ پیش کیاگیا ۔توانہوں نے کہا خدانے مجھے اس سے بہتر چیزیں دے رکھی ہیں ۔یہ تحفہ جو مجھے رشوت کے طورپر پیش کیاگیاہے مجھے اپنے عزائم سے باز نہیں رکھ سکتا۔اے ہُدہُدان کی طرف واپس لوٹ جااورانہیں بتادے کہ اب میں ایک ایسالشکر لے کر ان پر چڑھائی کروں گا جس کے مقابلہ کی ان میں طاقت نہیں ہوگی ۔
پھر حضرت سلیمان ؑ نے اپنے سردارانِ لشکر سے کہا کہ پیشتر اس کے کہ یہ لوگ میری اطاعت کا دم بھرتے ہوئے میرے پاس آئیں ۔ تم میں سے کون ملکہ کا تخت میرے پاس لائے گا ۔ایک سردار بولاکہ آپ کے چڑھانی کرنے سے بھی پہلے میں وہ تخت لے آئوں گا اوراس قیمتی دولت کے لانے میں کسی قسم کی خیانت مجھ سے سرزد نہیں ہوگی لیکن ایک اورشخص جس کو دینی علم حاصل تھا اس نے کہا کہ یہ توپھر بھی دیر میں لائے گا میں آپ کی آنکھ جھپکنے سے بھی پہلے وہ تخت لے آئوں گا ۔یعنی ایک نیا اوراعلیٰ درجہ کاتخت بنواکر آپ کے دربار میں فوراًحاضرکردوں گا ۔جب حضرت سلیمانؑ نے دیکھا کہ ایک اعلیٰ درجہ کا تخت بن کرآگیاہے تووہ اللہ کاشکر بجالائے ۔ مگرانہوں نے کہا ۔میں چاہتاہوں کہ تم ایساتخت بناکر لائو جسے دیکھ کر ملکہ کو اپنا تخت حقیر نظر آنے لگے ۔میں دیکھناچاہتاہوں کہ کیا اس بات کو دیکھ کروہ اپنے گھمنڈ پر ہی قائم رہتی ہے یا میری برتری اورفوقیت کو تسلیم کرتی ہے ۔چنانچہ ایساہی کیاگیا آخر ملکہ آئی تواس سے پوچھا گیا کہ بتائو تمہاراتخت بھی ایساہی ہے ۔اس پر بجائے پوری طرح تسلیم کرنے کے وہ کہنے لگی کہ یہ ویساہی معلوم ہوتاہے (آیت نمبر ۳۶تا۴۳)
تب حضرت سلیمانؑ نے اس پر شرک کی برائی واضح کی اورعملی رنگ میں اس پر توحید کی حقیقت آشکار کرنے کے لئے ایک محل بنوایا جس میں شیشہ کے ٹکڑے لگائے گئے تھے ۔ان کے نیچے پانی بہہ رہاتھا ۔ملکہ سبااس محل میں داخل ہوئی تواس نے سمجھا کہ سچ مچ پانی بہہ رہاہے اورگھبراکر اس نے اپنے کپڑے اڑس لئے ۔حضرت سلیمان ؑ نے کہا۔بی بی تجھے غلطی لگی ہے ۔یہ پانی نہیں بلکہ شیشہ میں سے پانی نظرآرہاہے ۔اس دلیل سے وہ سمجھ گئی کہ توحید ہی سچی ہے اوروہ شرک چھوڑ کر حضرت سلیمان علیہ السلام پر ایمان لے آئی ۔(آیت ۴۴و۴۵)
حضرت سلیمانؑ کے واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ ثمود کا ذکر فرماتاہے ۔کیونکہ ثمود کی قوم کا بہت ساعلاقہ حضرت سلیمانؑ کے ماتحت آگیاتھا ۔ اوربتاتاہے کہ ان کے نبی نے بھی ان کو توحید کی تعلیم دی مگر وہ لوگ دوگروہوں میں منقسم ہوگئے ۔بعض نے مان لیا اور بعض نے انکا کردیا۔حضرت صالحؑ کے سمجھانے پر انہوں نے کہا کہ اے صالحؑ!ہم تو تجھے سبز قدما سمجھتے ہیں ۔انہوں نے کہا ۔مجھے بھی تمہاری خیر نظر نہیں آتی کیونکہ تم ایک ایسی قوم ہو جوسچے دین کو چھو ڑ بیٹھی ہو۔ثمود کی قوم میں نو بڑے بڑے عمائد تھے جنہوں نے آپس میں مل کر قسمیں کھائیں اورایک دوسرے کو اکسایاکہ رات کے وقت صالحؑ اوراس کے اہل و عیال پر چھاپہ مارواوراسے قتل کردو ۔اورجب کو ئی پوچھے تو صاف انکار کردو اورکہدوکہ ہم نے تو اس کی ہلاکت کا واقعہ دیکھا ہی نہیں ۔مگر آخر اللہ تعالیٰ کی تدبیر ہی غالب آئی ۔چنانچہ دیکھ لو کہ ان کے گھر تمہارے سامنے اجڑے پڑے ہیں ۔اورخالی اورویران ہیں ۔(آیت ۴۶تا۵۴)
اس کے بعد لوطؑ کاواقعہ بیان فرماتاہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو جنسی بے اعتدالیوں سے روکا ۔مگرقوم نے مخالفت کی ۔آخر زلزلہ سے ان کے شہر کو الٹا دیاگیا اوروہ قوم تباہ کردی گئی ۔(آیت ۵۵تا۵۹)
ان انبیاء کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اب بتائوکہ کیا اللہ اچھا ہے جواپنے بندوںکو بچاتارہتاہے یا معبودانِ باطلہ اچھے ہیں جن کے ماننے والے کبھی کامیاب نہیں ہوئے ۔(آیت ۶۰)
پھر فرماتاہے ۔تم اتناتوسوچوکہ زمین و آسمان کاخدا جو بادلوں سے پانی اتار کر قسم قسم کے باغ اُگاتاہے و ہ بہتر ہے یا وہ معبودانِ باطلہ بہتر ہیں جوان باغوں اورپانیوں کے محتاج ہیں ۔اسی طرح غو رکروکہ وہ کون ہے جس نے زمین کو ٹھہرنے کے قابل بنایاہے ۔اوراس کے اند ردریاچلائے ہیں اورپھر اس نے میٹھے اورنمکین پانی میں ایک روک بنادی ہے ۔کیا ایسے مدبّر خداکاکوئی اورشریک پیش کیاجاسکتاہے ۔پھر یہ بھی تودیکھو کہ مصیبت زدہ لوگوں کی دعائوں کو کون قبول کرتاہے اورکون ان کی دعائوں کو قبول کرکے انہیں دنیا کابادشاہ بنادیتاہے ۔کیاایسے خداکاکوئی اَورہمسر ہوسکتاہے ۔مگرافسوس ہے کہ لوگ پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔(آیت ۶۱ تا۶۳)
پھر فرماتاہے کہ خشکیوں اورسمندر کے اندھیروں میں تمہیںکون راستہ دکھاتاہے ۔اسی طرح بادلوں سے پہلے بھیگی ہو ئی ہوائیں کون چلاتاہے ۔کیااللہ تعالیٰ کے سواکوئی اَورمعبود ہے جوایساکررہاہے ۔اسی طرح وہ جو پہلی دفعہ پیداکرتاہے اورپھر پیدائش کے سلسلہ کو جاری رکھتاہے اورجو آسمان اورزمین سے تمہیں رزق دیتاہے کیا ا س قادر مطلق خداکے سوا اَورکوئی بھی معبود ہے ۔زمین و آسمان کے غیب اللہ تعالیٰ کے سوااَورکوئی نہیں جانتا۔مگرتمہارے معبود تو وہ ہیں جواتنابھی نہیں بتاسکتے کہ ان کا مشرکانہ دین دنیا میں کب قائم ہوگا؟ (آیت ۶۴تا۶۷)
فرماتاہے کفار بس اسی الجھن میں پڑے رہتے ہیں کہ جب ہم اورہمارے باپ دادامرکرمٹی ہوجائیں گے توپھر ہم زندہ کس طرح ہوں گے ۔یہ باتیں پہلے بھی کہی جاتی رہی ہیں اوردرحقیقت انہی کی نقل میں اب بھی وہی باتیں دہرائی جارہی ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اگر یہ کہانیاں ہی تھی توپھر پہلے منکرین نے اپنے اپنے زمانہ میں سزائیں کیوںپائیں ۔اوراگر وہ سزاپاتے رہے ہیں تواے محمدؐرسول اللہ تیرے مخالفین بھی ان باتوں پرالٰہی گرفت سے بچ نہیں سکتے ۔ایسی صورت میں تجھے ان کی تباہی پر غم نہیں کھاناچاہیئے ۔کیونکہ وہ بہرحال آنے والی ہے ۔اسی طرح ان کی مخالفانہ تدبیروں سے ہراساں نہیں ہوناچاہیئے ۔کیونکہ ان کی تمام تدبیریں ناکام رہیں گی ۔یہ لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب کب آئے گا؟ فرماتاہے کچھ توجلدی آنے مقدر ہیں اورکچھ دیر میں آئیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑافضل کرنے والاہے وہ ان کے مخفی ارادوں اور ظاہری افعال کوخوب جانتاہے ۔لیکن اپنے فضل کی وجہ سے ان کو ڈھیل دے رہاہے ۔(آیت ۶۸تا۷۵)
فرماتاہے ۔ آسمان اورزمین میں جتنے مخفی امور ہیں وہ سب خداتعالیٰ کے علم میں ہیں۔چنانچہ اس کے ثبوت میں قرآن کریم کو دیکھ لو کہ وہ سچی بات بیان کردیتاہے جبکہ بائیبل اوردوسری الہامی کتب میں مرورِ زمانہ کی وجہ سے کئی قسم کی غلط باتیں پائی جاتی ہیں ۔یہ قرآن مومنوں کے لئے ہدایت اوررحمت کا پیغام ہے اوروہ اس کے ذریعہ صرف بنی اسرائیل کا صداقت سے منحرف ہوناہی ظاہر نہی کرے گا بلکہ و ہ اسرائیلی قوموں کے درمیان فیصلہ بھی کرے گا اورسچوں کو غالب اورجھوٹوں کو مغلوب کردے گا۔(آیت ۷۶تا۷۹)
فرماتاہے ۔تیراکام یہ ہے کہ تُواللہ تعالیٰ پر توکل کر۔بیشک تیراکام لوگوں کو حق پہنچاناہے مگر پھر بھی جو مردہ د ل لو گ ہیں ان کو نہیں منوایاجاسکتا۔اسی طرح بہراجب پیٹھ پھیر لیتاہے ۔تواشارہ دیکھنے سے بھی محروم ہوجاتاہے ۔ اوراس کی ہدایت کا کوئی ذریعہ نہی رہتا۔ یہی حال اس اندھے کا ہوتاہے جوبیناکے پیچھے چلنے کے لئے تیار نہ ہو ۔صرف اسی کو سچائی سمجھائی جاسکتی ہے جو خداتعالیٰ کے نشانوں پر ایمان لاتاہو۔(آیت ۸۰تا۸۲)
فرماتاہے جب ان کی تباہی کاوقت آئے گا تواللہ تعالیٰ زمین میں سے ایک کیڑانکالے گاجو ان کو کاٹے گا ۔اوردنیا پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ سزاان کو اس وجہ سے ملی ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی باتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔(آیت ۸۳)
پھر فرماتاہے ۔تم اس دن کو یاد کرو جبکہ ہم ہر اس قو م میں سے جو ہمارے نشانات کاانکار کررہی ہوگی ایک بڑی جماعت کھڑی کریں گے ۔اورپھر ان جماعتوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کردیاجائیگا ۔یعنی دنیا میں مختلف ایسوسی ایشنز بن جائیں گی ۔اورسب قوموں میں سے ایک ایک گروہ بے دینی کی خاص طور پر تعلیم دینے لگ جائے گا ۔اوریہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزاکافتویٰ جاری نہ ہوجائے ۔تب ان کی زبانیں بند ہوجائیں گی۔(آیت ۸۴تا۸۶)
فرماتاہے ۔کیاانہوں نے اتنابھی نہیں سوچا کہ ہم ان پر رات یعنی نبوت کے بعد کازمانہ اس لئے لائے تھے کہ یہ ترقی کی نئی قابلیتیں اپنے اند ر پیداکرلیں۔ لیکن یہ لوگ تو اَوربھی سست ہوگئے۔ اورانہوں نے دن یعنی نبوت کے زمانہ سے بھی فائدہ نہ اٹھایا۔(آیت ۸۷)
ایک دن آئے گاکہ صور پھونکاجائے گا ۔یعنی تمام قوموںکو ایک دوسرے کے مقابل پر کھڑاکردیاجائے گا اورآسمان اورزمین میں جوکوئی ہیں و ہ سب ڈر جائیں گے مگرباوجود اس کے کہ یہ تباہی عام ہوگی پھر بھی خداتعالیٰ کے حضور دعا کاراستہ کھلا رہے گا ۔(آیت ۸۸)
فرماتاہے ۔تُو پہاڑوں کو دیکھتاہے توسمجھتاہے کہ و ہ کھڑے ہیں ۔حالانکہ و ہ اس طرح چل رہے ہیں جس طرح بادل ۔یعنی زمین چلتی ہے تووہ بھی اس کے ساتھ اسی طرح چلتے ہیں ۔یہ اللہ تعالیٰ کی صنعت ہے جس نے ہرچیز کو نہایت مضبوط بنایاہے اوروہ تمہارے اعمال کو خوب جانتاہے ۔(آیت ۸۹)
جوشخص کوئی نیکی بجالائے گا ۔اسے اپنے عمل سے بہتربدلہ ملے گا ۔لیکن بدی کرنے والے کوآگ میں اوندھے منہ گرادیاجائے گا۔ مگر بدی کی سزابہرحال عمل کے مطابق ہوگی زیادہ نہیں ۔(آیت ۹۰و۹۱)
فرماتا ہے اے محمد ؐ رسول اللہ ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ مجھے خدا نے یہ حکم دیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی عبادت کروں ۔ یعنی اس جلوہ کے پیچھے چلوں جو مکہ میں ابراہیم ؑکے ذریعے ظاہر ہوا تھا اور عملاً فرمانبرداری کا نمونہ بن کر دکھائوں اور قرآن سب کو پڑھ کر سنائوں ۔ میں کسی پرزبردستی نہیں کروں گا بلکہ میرا کام صرف لوگوں کو پیغام حق پہنچانا ہے ۔ آگے ماننا یا نہ ماننا ان کا کام ہے ۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا تعالیٰ خاموش بیٹھا رہے گا ۔ وہ آسمان سے اترے گا اور ایسے نشان دکھائے گا جو تمہارے سامنے خداتعالیٰ کے وجود کو لاکر کھڑا کردیں گے ۔(آیت ۹۲تا ۹۴)
بسم اللہ الرحمن الرحیم ٭
(میں) اللہ (تعالیٰ) کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور) باربار رحم کرنے والاہے(پڑھتا ہوں)
طٰسٓ تلک اٰیٰت القراٰن وکتاب مبین٭
طاہرؔ (اور) سمیع ؔ(یعنی پاک اور دعائوں کا سننے والا خدا اس سور کا تارنے والاہے) اس آیتیں قرآن اور مدقل کتاب کا حصہ ہیں۔
ھدی وبشری للمومنین ٭
(جو ) مومنوں کے لئے ہدایت اور بشارت (کاموجب) ہیں۔
الذین یقیمون الصلوٰۃ ویؤتون الزکوۃ وھم بالاخرۃ ھم یوقنون٭
(ایسے مومن)جونماز باجماعت ادا کرتے ہیں۔ اور زکوۃ ادا کرتے رہتے ہیں۔ اور آخروی زندگی پر (یا بعد میں آنے والی موعود باتوں پر) یقین رکھتے ہیں۔۱؎
۱؎ تفسیر:۔ اس سورۃ سے پہلے بھی حروف مقطعات طٰسٓ آئے ہیں جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں طؔ اللطیف کا قائم مقام ہے اور سؔ سمیع کا۔
پہلی سورۃ اور اس سورۃ میں یہ فرق ہے کہ پہلی سورۃ کے آخر میں میمؔ بھی آتا ہے جو مجید کا قائم مقام تھا ۔ مگراس سورۃ میں اسے اڑا دیا گیا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں خدا تعالیٰ کی مجد اور بزرگی پر زیادہ زور دیا گیا تھا ۔ اور اس سورۃ میں مضمون تو مشترک ہے لیکن خدا تعالیٰ کے مجید ہونے پر اس میں اتنا زور نہیں دیا گیا جتنا پچھلی سورۃ میں دیا گیا تھا اوراس کی ظاہری دلیل یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر زیادہ کیا گیا تھا اور خدا تعالیٰ کی مجد اورا س کی بزرگی زیادہ تر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ظاہر ہوئی ہے اوراس سورۃ میں موسیٰؑ اور دائودؑ اور سلیمانؑ کا ذکر کیا گیا ہے جن کے وجود سے اللہ تعالیٰ کے واقفِ اسرار روحانیہ ہونے کا ثبوت تو ضرور ملتا ہے ۔ اسی طرح اس کے سمیع ہونے کا بھی ثبوت ملتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے مجید ہونے کا ثبوت جتنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کی زندگی سے ملتا ہے اتنا ثبوت حضرت موسیٰؑ حضرت دائودؑ اور حضرت سلیمانؑ یا ان کے ساتھیوں کی زندگی سے نہیں ملتا ۔
تِلْکَ اٰیَاتُ الْقُرْاٰنِ وَکِتَابٍ مُّبِیْنٍ۔ فرماتا ہے اس سورۃ کی آیتیں قرآن کریم کی آیتیں ہیں اور ایک ایسی کتا ب کی آیتیں ہیں جو اپنے مضمون کو کھول کر بیان کرتی ہیں ۔ اور مومنوں کے لئے ہدایت اور بشارت کا موجب ہے ۔ مگر ان مومنوں کے لئے نہیں جو صرف منہ سے اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ان کیلئے جو نماز یں قائم کرتے ہیں اور زکوتیں دیتے ہیں اور آخرت پر ایمان اور یقین رکھتے ہیں ۔
اس آیت میں تِلْکَ اٰیَاتُ الْقُرْاٰن فرماکر قرآن کریم کی ایک ایسی فضیلت کا ذکر کیاگیاہے جس سے با قی الہامی کتب کلیۃً محروم ہیں ۔دنیا میںکوئی ایسی الہامی کتاب نہیں جواس کثرت کے ساتھ پڑھی جاتی ہو جس کثرت کے ساتھ دنیا میں قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے ۔اوریہی وہ فضیلت ہے جو تِلْکَ اٰیَاتُ الْقُرْاٰن میں بیان کی گئی ہے ۔اوربتایاگیاہے کہ یہ قرآن کی آیات ہیں یعنی اس کتاب کی آیات ہیں جس کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قرآن ہے یعنی وہ تلاوت میں اس قدرآتاہے کہ دنیا کی کوئی اَور کتاب اس کامقابلہ نہیں کرسکتی ۔
درحقیقت جو کتاب دنیا کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والی ہو ضروری تھا کہ وہ قرآن ہویعنی کثرت کے ساتھ پڑھی جانے والی ہو ۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ تورات او رانجیل کے تراجم کے باوجود و ہ اس قدر نہیں پڑھی جاتیں جس قدر کہ قرآن پڑھاجاتاہے حالانکہ وہ عربی زبان میں ہے اورلوگ بھی اسے عربی زبان میں ہی پڑھتے ہیں ۔مخالفین کایہ کہناکہ چونکہ ایسے ذرائع اختیار کئے گئے ہیں جن کی وجہ سے لوگ اسے پڑھتے ہیں جیساکہ نمازوں وغیرہ میں پڑھنا اوراس وجہ سے اس کا پڑھا جاناایک طبعی امر ہے ۔
اس کاجواب یہ ہے کہ یہ پھر بھی طبعی امر نہیں کیونکہ اول جس کتاب کو نماز میں پڑھنے کاحکم ہو ضروری نہیں کہ لوگ کثرت سے اس پر ایمان لے آئیں ۔آخر کثرت نسبت سے ہوتی ہے ۔دوسری کتب کے مقابل میں کثرت تلاوت اس کی تبھی ہوسکتی تھی جبکہ اس کے ماننے والوں کی تعداد بھی بہت ہو ۔ورنہ اس کی کثرت سے تلاوت کس طرح ہوسکتی تھی ۔اورلوگوں سے منوالینا توطبعی امر نہیں ہے ۔ سکھ لوگ گرنتھ پڑھتے ہیں مگر اس کے باوجو د وہ قرآن نہیں ۔ چونکہ ماننے والے نہایت محدود ہیں۔اورکثر ت سے پڑھنے والوں کاوجود یقیناً پیشگوئی کے ماتحت آسکتاہے ۔
دوم۔اگر ماننے والے بھی کثرت سے ہوں تب بھی ضروری نہیں کہ لوگ حکم کوماننے والے ہوں۔مگرہم دیکھتے ہیں کہ باوجود غیر زبان ہونے کے لوگ کثرت سے اس کی تلاوت کرتے ہیں ۔جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ طبعی امر نہیں ہے۔
سوم۔پھر سوال یہ ہے کہ جبکہ الہامی کتب خداتعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں اورخداتعالیٰ عالم الغیب ہے۔ یہ تدابیر جن سے قرآن پڑھاجاتاہے اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہوسکتی تھیں۔پھر کیوں نہ ا س نے دوسری کتب کے متعلق بھی وہ تدابیر اختیار کرلیں ۔یا اب کیوں وہ لوگ یہ تدابیر اختیار نہیں کرلیتے ۔صاف معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتاتھا کہ یہی ایک کتاب قرآن بنے ۔اورجب کتب کے نازل کرنے والے خدانے صرف ایک کتاب کو ہی قرآن بننے کے لئے چنا ہے تویقیناً وہ افضل ہے ۔
چہارم۔یہ کہاجاتاہے کہ قرآن کریم کی عبارت اس قسم کی ہے کہ وہ بہ نسبت دوسری کتب کے جلد یاد ہوسکتی ہے ۔اس لئے لو گ اسے زیادہ حفظ کرتے ہیں ۔مگر سوال یہ ہے کہ کیوں نہ دوسری کتب نے بھی ا یسا ہی کرلیا اورپھر کیا اس قسم کی عبارت بنانا کوئی آسان بات ہے ۔
غرض قرآن کریم کا قرآن ہونا ایک بہت بڑی فضیلت ہے جس میں دوسری کتب شامل نہیں ۔مجھے خیال آیا کرتاہے کہ بعض آریہ مباحثوں میں قرآن کریم کی آیات پڑھ کر فخر کیا کرتے ہیں کہ دیکھو ہم تمہاری کتاب پڑھ لیتے ہیں مگر تم ہماری کتاب نہیں پڑھ سکتے ۔ حالانکہ حقیقت میں ان کا یہ دعویٰ قرآن کریم کی تائید ہوتاہے۔کیونکہ اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ قرآن اپنے دعویٰ کے مطابق قرآن ہے اوردشمن بھی اسی کی زبان میں اسے سیکھ سکتے ہیں اورویدوںکو خود اس کے ماننے والے بھی نہیں پڑھ سکتے ۔پس جونام اس کا غیر معمولی حالات میں قرآن رکھاگیاتھا وہ سچا ثابت ہوا۔اوردشمن نے خود اپنے فعل سے اس کی صداقت پر مہر لگادی ۔پس یہ ہم پر ہنسی نہیں بلکہ ہماری الہامی کتاب کی تصدیق ہے ۔
یہ ایک عجیب امر ہکے کہ سورئہ حجر میں تو الٓرٰ تِلکَ اٰیَاتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ فرمایاہے اور اس سورۃ میں طٰسٓ ۔تِلکَ اٰیَاتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنفرمایاہے۔ گویا ایک جگہ کتاب کو پہلے رکھاہے اورقرآن کوبعدمیں اورمبین کی صفت قرآن کے ساتھ لگائی ہے اوردوسری جگہ قرآن کو پہلے رکھا ہے اور کتاب کو بعد میں اورمبین کی صفت کتاب کے ساتھ لگائی ہے ۔یہ فرق کیوں ہے ؟
اس کے متعلق یہ امر یادرکھنا چاہیئے کہ سورۃ حجر کی اس آیت کے بعد کہ تِلکَ اٰیَاتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنکفار کا ذکر ہے اورفرمایاہے رُبَمَایَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَوْ کَانُوْامُسْلِمِیْنَ اور سورۃ نمل کی آیت کے بعد مومنوں کا ذکر ہے اورفرمایا ہے کہ ھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْن َ اوریہ بات واضح ہے کہ کفار قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرتے ۔انکاعلم زیادہ تر مسلمانوں سے سن کر ہوتاہے اورسننے پر لفظ قرآن دلالت کرتاہے ۔پس ان کے لئے قرآن مبین ہوتاہے ۔اورمومن اپنے مولیٰ کے کلام کو پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں اوران کا پڑھنا ان کے سننے سے زیادہ ہوتاہے ۔مثلاً دن میں اگر وہ ایک پارہ کی تلاوت کرتے ہیں توشاید ایک ربع سنتے ہیں ۔پس ان کا علم زیادہ ترصفت کتاب سے آتاہے ۔اس وجہ سے ان کے لئے صفت کتاب زیادہ مبین ہوتی ہے ۔پس اول الذکر مقام پر قرآن کے ساتھ مبین کو لگایا اورثانی الذکر مقام پر کتاب کے ساتھ ۔اوریہ جوآگے پیچھے ان لفظوںکو کیاگیاہے اس میں یہ حکمت کہے کہ کافر کاپہلا تعلق قرآن سے ہوتاہے ۔یعنی پہلے وہ الفاظ سنتاہے ۔پھر اس کا د ل صاف ہوتو وہ اسے اپنے اوپر واجب کرلیتاہے ۔اورمومن اسے پہلے واجب سمجھے ہوئے ہوتاہے پھر اس کے بعد وہ اس کی قرأت کی طرف توجہ کرتاہے ۔پس جس چیز کو جس سے زیاد ہ قرب تھا اس کے قریب اس لفظ کو رکھ دیاگیاہے ۔
پھر میرے نزدیک سورئہ حجر میں کتاب کالفظ پہلے اور قرآن کالفظ بعد میں اورسورئہ نمل میں قرآن کا لفظ پہلے اورکتاب کا لفظ بعد میں اس لئے بھی رکھاگیاہے کہ سورئہ حجر میں کتاب کی صفت سے زیادہ اس کے قرآن ہونے کی صفت پر زور دیاگیاہے ۔اورچونکہ کسی چیز کادرجہ اورمقام بیان کرتے وقت چھو ٹی چیز کو پہلے بیان کیاجاتاہے اوربڑی کو بعد میں ۔اس لئے سورئہ حجر میں کتاب کو پہلے اورقرآن کو بعد میں بیان کیا گیاہے ۔لیکن اس سورۃ میں چونکہ قرآن کریم کی زبانی تلاوت سے زیادہ اس کی تحریر کے اثر کونمایاں کرناتھا ۔اس لئے اس میں قرآن کالفظ پہلے رکھاگیا اورکتاب کابعد میں ۔گویا قرآن اورکتاب یہ دونام نہیں بلکہ دوصفات ہیں جوقرآن کریم کی بیان کی گیء ہیں اوربتایاگیاہے کہ یہ کتاب بھی ہے اورقرآن بھی ۔کتابٌ میں ا سکے تحریر میں آنے کی طرف اشارہ کیاگیاہے اورقراٰن میں اس کے بکثرت پڑھے جانے کی خبر دی گئی ہے ۔اوریہ دونوں صفات یکجائی طورپر قرآن کریم میں ہی پائی جاتی ہیں۔یعنی یہ کتاب تحریر میں بھی موجود ہے اوراس کثر ت سے اس کی تلاو ت بھی کی جاتی ہے کہ دنیا میں او رکوئی کتاب نہیں جس کی اس کثرت سے تلاوت کی جاتی ہو۔بیشک تورات اورانجیل بھی پڑھی جاتی ہیں مگر اول تووہ اس کثرت کے ساتھ نہیں پڑھی جاتیں جس کثرت کے ساتھ قرآن کریم پڑھاجاتاہے ۔پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایسے عشاق عطافرمائے ہیں جو اس کے ایک ایک لفظ کو حفظ کرتے اوررات دن خود بھی پڑھتے اور دوسروں کو بھی سناستے رہتے ہیں ۔لیکن تورات او رانجیل کادنیا میں کوئی حافظ نہیں ۔ویدوں کا ایک ایک لفظ یاد رکھنے والا دنیا میں کوئی فرد نہیں ۔یہی حال ژند اوراوستاؔ کاہے ۔صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس کتابی صورت میں بھی پڑھاجاتاہے اورحفظ بھی کیا جاتاہے ۔اورپھر نمازوں میں بھی پڑھاجاتاہے ۔پس چونکہ اس سورۃ میں قرآن کریم کی زبانی تلاوت سے زیادہ اس کی تحریر کے اثر کو زیادہ نمایاں کرناتھا۔اس لئے اس سورۃ میں قرآن کالفظ پہلے اور کتاب کالفظ بعد میں رکھاگیا
پھرایک اَور حکمت بھی ان الفاظ کے آگے پیچھے کرنے میں ہے ۔اوروہ یہ کہ سورئہ حجرمیں ان انبیا ء کاذکر تھا جن میں کتابت کا رواج کم تھا اورعلوم کو زبانی یاد رکھاجاتاتھا ۔جیسے حضرت آدمؑ۔حضرت ابراہیمؑ۔حضرت لوطؑ ۔حضرت شعیبؑ اورحضرت صالحؑ وغیرہ ۔ان سب کے زمانوں میںتحریر کارواج کم تھا ۔اورچونکہ سورئہ حجر میں انہی انبیاء کی قوموں سے خطاب کیاگیاہے جن میں تحریر کارواج کم تھا اورجنہوں نے حفظ کے ذریعہ سے قرآنی علوم سے فائدہ اٹھاناتھا ۔ اس لئے اُس سورۃ میں قرآن کے ساتھ مبین کا لفظ رکھا اوربتایاکہ ان اقوام میں اس کلام کی صفت قرآن لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچائے گی ۔لیکن کتاب کی صفت بھی ساتھ ہی بیان کردی تاکہ قرآن کریم کی مکمل حفاظت کااظہا رہو ۔لیکن اس سورۃ میں کتاب کے ساتھ مبین کالفظ لگایاگیاہے ۔کیونکہ اس سورۃ میں حضرت موسیٰؑ اورحضرت دائودؑ او رحضرت سلیمان علیہم السلام کے واقعات پر زوردیاگیاہے جو بنی اسرائیل میں سے تھے او رجن میں کتابت کا رواج زیاد ہ اوربانی یاد رکھنے کارواج کم تھا ۔ان انبیاء کی اقوام نے چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے کلام کی صفتِ کتاب سے بہ نسبت صفت قرآن کے زیادہ فائدہ اٹھاناتھا اس لئے اس کی مناسبت سے اس جگہ قرآن کے لفظ پر کم اورکتاب پر زیادہ زوردیا۔ مگر دونوں صفات کااکٹھا ذکرکرکے اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی کہ قرآن کریم حفظ بھی کیاجائے گا ۔اورلکھا بھی جائے گا ۔ لیکن وہ قومیں جو تحریر سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی ہیں وہ اسے کتاب سے پڑھ کرزیادہ فائدہ اٹھائیں گی اوراس سورۃ میں وہی قومیں مخاطب کی گئی ہیں ۔گویاوہ قومیں جو حافظہ سے زیادہ کام لیتی ہیں ان کے لئے تویہ قرآن مبین ہوگا ۔اورجوقومیں تحریر سے زیادہ فائدہ اٹھاتی ہیں ان کے لئے یہ کتاب مبین ہوگا۔
قرآن کریم پر نظر ڈالنے سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس میں قرآن مبین کالفظ صرف دودفعہ اورکتاب مبین کالفظ بارہ دفعہ استعمال ہواہے ۔جس میں اس امر کی طرف اشارہ کیاگیا ہے کہ قرآن کریم کاکتاب ہونے کے لحاظ سے حلقہ زیادہ وسیع ہوگااور اکثر لوگ اس کے کتاب ہونے سے ہی فائدہ اٹھائیں گے گوایک طبقہ ایسابی ہوگاجو حفظ کے ذریعہ سے اس کی برکات سے بہرہ اندوز ہوگا ۔اوراس طرح مسلمانوں کوتوجہ دلائی گئی ہے کہ وہ تعلیم کارواج زیادہ کریں تاکہ مسلمان قرآنی برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہوسکیں۔
پھر تِلکَ اٰیَاتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْن میں قرآن کریم کی دوسری فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک کتاب ہے یعنی وہ لکھی ہوئی اورمحفوظ ہے جبکہ باقی الہامی کتب اب صرف نام کی کتاب رہ گئی ہیں حقیقتاً وہ اب کتاب نہی رہیں اوران کے الفاظ اوران کی عبارتیں ہی بتارہی ہیں کہ ان کی حقیقت بدل گئی ہے ۔نیز کتاب وجوب پر دلالت کرتی ہے ۔اورصرف قرآن کریم ہی ا ب ایک ایسی کتاسب ہے جس پر عمل کیاجاتاہے ۔چنانچہ آج بھی اس کے ہرحکم پر لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ عمل کرتے ہیں ۔مگر تورات،انجیل ،وید اورژند پر بہت کم عمل ہوتاہے ۔پس قرآن کریم ہی ایک کتاب ہے کیابلحاظ اس کے کہ وہ ساتھ کے ساتھ لکھی جاتی رہی اوراب تک بغیر کسی زیر اورابر کے فرق کے وہ وہی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی اورکیا بلحاظ اس کے کہ یہی وہ کتاب ہے جس پر دنیا میں عمل کیاجاتاہے باقی مذاہب والے بیشک اپنی الہامی کتب کو شائع کرتے اوران کے متعلق اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ۔بلکہ ان کی تعلیموں سے اختلاف رکھنے والوں کو بُرابھلابھی کہتے ہیں مگر جب عمل کاسوال آتاہے تووہ ان کتابوںو کو بالائے طاق رکھنے پر مجبورہوجاتے ہیں اوریہ دونوں حقائق ظاہر وباہرہیں۔
نولڈ کے جرمن کا مشہور مستشرق لکھتاہے کہ
’’ ممکن ہے تحریر کی کوئی معمولی غلطیاں ہوں توہوں ۔لیکن جوقرآن عثمانؓ نے دنیا کے سامنے پیش کیاتھااس کامضمون وہی ہے جومحمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے پیش کیاتھا۔گواس کی ترتیب عجیب ہے ۔یورپین علماء کی یہ کوششیں کہ وہ ثابت کریں کہ قرآن میں بعد کے زمانہ میں بھی کوئی تبدیلی ہوئی ہے بالکل ناکام ثابت ہوئی ہیں ۔‘‘
(انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا زیر لفظ قرآن)
اسی طرح سرولیم مو راپنی کتاب ’’ لائف آف محمد ‘‘ میں لکھتاہے کہ
’’اس زمانہ میں جو قرآن موجود ہے اس کے متعلق ہم ویسے ہی یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اصلی صورت میں محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)کابنایاہواکلام ہے جس یقین سے کہ مسلمان کہتے ہیں کہ وہ خداکا غیر مبدل کلام ہے ۔‘‘
اس کے مقابل پر تورات اوراناجیل کے متعلق خود بڑے بڑے پادری تسلیم کرتے ہیں کہ وہ محرف و مبدل ہوچکی ہیں۔پس دنیائے مذاہب کی تمام الہامی کتب میں سے صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جسے صحیح معنوں می کتاب کہاجاسکتاہے اورجس کاایک ایک لفظ اورایک ایک حرف ا سی شکل میں محفوظ ہے جس شکل میں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔
پھر عمل کو لو ۔توعیسائی کہنے کوتوکہتے ہیں کہ مسیحؑ نے یہ کتنی اچھی تعلیم دی ہے کہ
’’ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جوتیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرابھی اس کی طرف پھیر دے ۔‘‘
(متی باب ۵آیت ۳۹)
مگرآج اس تعلیم پر کہیں بھی عمل نہیں ہورہا ۔اگرعمل ہورہاہے توصرف قرآنی تعلیم پر جس نے کہا ہے کہ تم مجرم کوپکڑواور اسے سزادو۔ لیکن اگر تمہیں دکھائی دے کہ سزاسے وہ اَوربھی بگڑ جائے گا اواگراسے معاف کردیاجائے تواس کے دل میں ندامت پیداہوگی اوروہ اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرے گا توتمہارافرض ہے کہ تم اسے معاف کردو ۔کیونکہ تمہاراکام دوسروں کی اصلاح کرناہے ۔ناواجب سزایاناواجب عفوسے کام لینا تمہارے لئے جائز نہیں ۔غرض عمل کے لحاظ سے بھی صرف قرآن کریم ہی کتاب کہلانے کی مستحق ہے جبکہ باقی کتابیں عمل کے میدان میں بالکل بیکار ثابت ہوچکی ہیں ۔پھر قرآن کریم اس لحاظ سے بھی کتاب ہے کہ اس پر عمل کرکے انسان اللہ تعالیٰ کا مقرب بن سکتاہے۔
کتاب کے معنوں پر بحث کرتے ہوئے ماہرین لغت نے لکھا ہے کہ الکتابُ ما یُکْتَبُ فیہ سُمِّیَ بہٖ لجمعہٖ ابوابہٗ وَ فُصُوْلَہٗ وَمَسَائِلَہٗ یعنی کتاب اس چیز کوکہاجاتاہے جس میں کچھ لکھا گیاہو اوراسے کتاب اسے لئے کہاجاتاہے کہ اس میں مختلف فصلوں اورابواب او رمسائل کو جمع کردیاجاتاہے ۔اسی طرح کتاب کے معنے خط کے بھی ہیں اورکتاب کے معنے فرض کے بھی ہیں ۔حکم کے بھی ہیں اورقضاو قدر کے بھی ہیں ۔اسی طرح کَتَبَ السَّقَاء کے معنے ہوتے ہیں خَرَزَۃٗ بِسِیْرِیْن مشکیزہ کو چمڑے کے تسمہ کے ساتھ سی دیا اورکَتَبَ النَّاقَۃَ کے معنے ہوتے ہیں اونٹنی کو دوسرے بچے کے ساتھ عادی بنانے کی کوشش کی ۔اوراس کے نتھنوںکو سی دیا تاکہ وہ بُو یعنی بھُس بھری کھال کی بُو نہ سونگھے (اقرب)
ان معانی سے معلوم ہوسکتاہے کہ کتاب ا صل میں جمع کرنے کے معنی رکھتی ہے ۔کتاب کو بھی کتاب اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں مختلف مضامین جمع ہوتے ہیں ۔اورخط کو بھی اس لئے کتاب کہتے ہیں کہ وہ دودوستوں کو جمع کردیتاہے ۔اورفرض اورحکم کو بھی اسی لئے کتاب کہتے ہیں کہ فرض اورحکم کوپوراکرکے انسان اپنے مطلوب سے مل جاتاہے ۔اورقضاوقدر کو بھی اسی لئے کتاب کہتے ہیں کہ انسان اس سے کہیں بھاگ نہیں سکتا اوروہ اسے پاکررہتاہے۔
اسی طرح خداتعالیٰ کی وحی کوبھی اسی لئے کتاب کہتے کہ وہ اللہ تعالیٰ اوربندے کو جمع کرنے والی اوران کے درمیان ایک واسطہ ہوتی ہے اوران کے درمیان ایک تقریب پیداکردیتی ہے ۔پس جو کتاب بندہ اورخداتعالیٰ کا تعلق پیداکردیتی ہے وہ توفی الواقعہ کتاب کہلانے کی مستحق ہے ۔لیکن جو کتاب انسان کا خداتعالیٰ سے تعلق پیدانہیں کرتی وہ حقیقی معنوں می کتاب نہیں کہلا سکتی ۔اوریہ خصوصیت صرف قرآن کریم کو یہ حاصل ہے کہ وہ خدااور بندے کے درمیان اتصال پیداکردیتاہے اوراس پر عمل کرنے سے انسان خداتعالیٰ کامقرب ہوجاتاہے ۔قرآن کریم نے اس خصوصیت پر اتنا زوردیاہے کہ وہ فرماتاہے ہم نے انسان کی فطرت میں ہی تعلق باللہ کا مادہ رکھ دیا ہے ۔چنانچہ وہ فرماتاہے ۔خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔اس نے انسان کے اندر تعلق باللہ کامادہ رکھاہے ۔ بیشک اس آیت کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ اس نے انسان کو ایسی حالت سے پیداکیاہے جبکہ وہ رحم سے چمٹاہواتھا ۔لیکن اس آیت کے ایک تحت السطح معنے بھی ہیں اوروہ یہ ہیں کہ عربی محاورہ میں خلِقَ مِنْ شَیْئٍ کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اس کی فطرت میں یہ چیز رکھی گئی ہے مثلاً وَبَدَاَ خَلْقَ الاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے انسان کو مٹی سے پیداکیا ہے ۔لیکن جب خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ آجائے تواس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ ہم نے انسان کو جلدی سے پیداکیاہے ۔کیونکہ جلدی کو ئی مادہ نہیں کہ اسے گھولاا ور انسان پیداکردیا۔بلکہ ا سکے یہ معنے ہوں گے کہ انسان کی فطرت میںعجلت رکھی گئی ہے ۔پس جہاں علق کے ایک معنے یہ ہیں کہ ہم نے انسان کو اس حالت سے پیداکیا ہے کہ وہ رحم سے چمٹاہواتھا وہاں اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ ہم نے انسان کی فطرت میں محبت اورملاقہ کا مادہ رکھا ہے اوراس کی فطرت میں یہ بات مرکوز کردی گئی ہے کہ وہ کسی کا ہورہے ۔حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پنجابی کاایک مصرع سنایاکرتے تھے ۔جس کامفہوم یہ تھا کہ یاتوتُوکسی کاہوجایا کوئی تیراہوجائے ۔پس خَلَقَ الاِنْسانَ مِنْ عَلَقٍ کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ ہم نے انسانی فطرت میں محبت اور علاقہ کا مادہ رکھا ہے ۔یعنی ہم نے اسے ایسی حالت پر پیداکیا ہے کہ و ہ سوائے اس کے چین پاہی نہیں سکتاکہ وہ کسی کاہورہے ۔بیشک جب تک اسے اصل چیز نہیں ملتی اس وقت تک وہ کبھی بیوی کا ہورہتاہے کبھی بہن بھائی کا ہورہتاہے ۔کبھی ماں باپ کا ہورہتاہے۔کبھی دوستوں کا ہورہتاہے اوراس طرح وہ درمیان میں بھولتاپھرتاہے ۔مگرجب خداتعالیٰ کے ملنے کاراستہ اس پر کھل جاتاہے توپھر وہ خداتعالیٰ کا ہی ہوجاتاہے ۔ حدیثوں میں آتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بد ر کے موقعہ پر دیکھا کہ ایک عورت کا بچہ گم ہوگیاہے اوروہ میدان جنگ میں اپنے بچے کو تلاش کرنے کے لئے ماری ماری پھررہی ہے ۔اسے جہاںکو ئی بچہ ملتا اسے پیار کرتی اورگلے لگاتی ،۔لیکن جب وہ دیکھتی کہ و ہ اس کا اپنا بچہ نہیں تواسے چھوڑ دیتی اورآگے چلی جاتی یہاں تک کہ اسے اپنا بچہ مل گیا ۔ اس نے اسے پیار کیااورگلے لگایا ۔اورایک جگہ آرام سے بیٹھ گئی ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ نظارہ دیکھ رہے تھے ۔آپؐ نے صحابہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا۔تم نے اس عورت کو دیکھا ۔جس طرح یہ اپنے بچہ کے لئے بیتاب رہی اورجب اسے اپنا بچہ مل گیا توسکون اوراطمینان کے ساتھ بیٹھ گئی ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنے بھولے بھٹکے بندہ کے لئے ہروقت بے تاب رہتاہے ۔لیکن جب ا س کابند ہ صحیح رنگ میں توبہ کرکے اسے مل جاتاہے تووہ ایساہی سکون محسوس کرتاہے جس طرح ا س ماں نے محسوس کیا ہے ۔پس قرآن کریم دعویٰ کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرانسان کے اندر تعلق اورمحبت پیداکرنے کامادہ رکھ دیاہے اورپھر وہ اس کے حصول کے ذرائع پربھی روشنی ڈالتاہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ چیز جو سچے مذہب کودوسرے مذاہب یاعقائد پرفوقیت بخشتی ہے وہ تعلق باللہ ہی ہے ۔ایک انسان سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر محنتی ہوسکتاہے ۔وہ سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر اچھا تاجر بن سکتاہے وہ سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر اچھا صنّاع بن سکتاہے اوروہ سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر صدقہ و خیراب بھی کرسکتاہے ۔مگردنیا کاکوئی انسان سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر خدارسیدہ نہی ہوسکتا۔یہی وہ چیز ہے جو سچے مذہب پر چلنے والے اورنہ چلنے والے میں مابہ الامتیاز ہے اورجس سے معلوم ہوجاتاہے کہ کوئی شخص سچے مذہب پر چلتاہے یا نہیں ۔یہ ظاہر ہے کہ خدارسید ہ وہی ہوسکتاہے جو اس راستے پر چلتاہے جو خداتک پہنچتاہے ۔جو شخص خداتک جانیوالے راستہ پر نہیں چلتا وہ خداتک کس طرح پہنچ سکے گا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خداکوئی مادے چیز نہیں اورنہ ہی اس کا کوئی خاص مکان ہے مگرساری روحانی اورمعنوی چیزوں کے لئے رستے ہوتے ہیں ۔مثال کے طورپرپڑھنا یا علم حاصل کرنامادی چیز نہیں ۔زبان جاننا مادی چیز نہیں۔اسی طرح جغرافیہ تاریخ اورحساب کاعلم حاصل کرنا مادی نہیں مگران سب کے حصول کے لئے کچھ راستے مقررہوتے ہیں جب تک زبان دانی کے لئے زبان نہ سیکھی جائے ۔جب تک علم حساب کے لئے حساب کی کتابیں نہ پڑھی جائیں جب تک جغرافیہ کے علم کے لئے جغرافیہ کی کتابیں نہ پڑھی جائیں اورجب تک تاریخ دانی کے لئے تاریخ کی کتابیں نہ پڑھی جائیں تب تک انسان زبان تک حساب تک ،جغرافیہ تک اورتاریخ تک نہیں پہنچ سکتا ۔اسی طرح گوخداکوئی مادی چیز نہیں مگراس تک پہنچنے کے لئے ایک راستہ مقررہے ۔چنانچہ اسلام اس بارہ می اعلان کرتے ہوئے فرماتاہے ۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ یعنی اے محمد ؐ رسول اللہ!توتمام بنی نوع انسان کو یہ بشارت دیدے کہ اگرتم اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کرناچاہتے ہو تومیری اتباع کرو ۔اس کانتیجہ یہ ہوگاکہ تمہاراخداتم سے محبت کرنے لگ جائے گا ۔اورتم اس کے محبوب اورپیار ے بن جائو گے ۔یہ کتنی بڑی بشارت ہے جودنیا کو دی گئی ہے اورکتنا امید افزاپیغام ہے جومردہ قلوب میں بھی حیاتِ نو پیداکردیتاہے ۔آج ساری دنیامیں کوئی شخص ایسانہیں جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اس نے تورات یا انجیل یاوید یاژند اوراوستاپرعمل کرکے خداتعالیٰ کاقرب حاصل کرلیا ہے اورخدااس سے ہمکلام ہوتا اوراس پر اپنے غیب کے اسراء ظاہرکرتاہے ۔لیکن مسلمانوں میں ہر زمانہ میں ایسے پاکباز لوگ گذرے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا اور اس کے انوار اوربرکات سے حصہ لیا ۔بلکہ و ہ دائمی طور پر مسلمانوں سے کہ وعدہ کرتاہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْ ارَبُّنَااللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْاتَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلَٓائِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْابِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔نَحْنُ اَوْلِیَآؤُکُمْ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِیْ الْاٰخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ( حٰم السجدہ ع۴)یعنی وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارارب ہے اورپھر وہ استقلال کے ساتھ اس عقیدہ پر قائم ہوگئے وہ اللہ تعالیٰ کے کلام اورا س کے الہام سے نوازے جایئں گے اورخداتعالیٰ کے فرشتے ان پر یہ کہتے ہوئے اتریں گے کہ ڈرونہیں اورنہ کسی پچھلی کوتاہی کے بدنتائج کا خوف کرو۔بلکہ اس جنت کے ملنے سے خوش ہوجائو جس کا تم سے وعدہ کیاگیاتھا ۔ہم اس دنیا میں بھی تمہارے دوست ہیں اورآخرت میں بھی تمہارے دوست رہیں گے ۔اوراس جنت میں جو تمہاراجی چاہے گا وہ تم کو ملے گا اورجو کچھ تم مانگو گے وہ بھی تم کو دیاجائے گا ۔اس سے ظاہر ہے کہ اسلام ہر مومن کے لئے قرب الٰہی کے دروازہ کو کھلا تسلیم کرتاہے اوروہ بنی نوع انسان کو یقین دلاتاہے کہ اگر وہ سچے دل سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریںگے تو خداتعالیٰ انہیں یقیناًاپنا محبوب بنالے گا ۔اورانہیں اپنے کلام اور الہام سے نوازے گااور مشکلات میں ان کی مدد کرے گا اورانہیں غیر معمولی کامیابیوں اوربرکتوں سے حصہ بخشے گا مگر دنیا کی اَورکوئی الہامی کتاب ایسی نہیں جو اپنے متبعین کو ان برکات کا کروڑواں حصہ بھی دے سکتی ہو ۔پس صحیح معنوں میں صرف قرآن کریم ہی کتاب کہلانے کامستحق ہے ۔جبکہ دوسری الہامی کتب نام کے لحاظ سے توکتب کہلاتی ہیں ۔مگر حقیقت کے لحاظ سے وہ کتاب نہیں بلکہ وہ خدااور بندوں کا باہمی تعلق پیداکرنے سے قاصر ہیں۔
پھرقرآن کریم صرف کتاب ہی نہیں بلکہ وہ کتاب مبین بھی ہے۔یعنی وہ نہ صرف انسان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیداکردیتاہے بلکہ تقرب الی اللہ کے لئے جس قدر امو ر کی ضرورت ہے ان سب کو اس نے پوری تفصیل سے بیان کردیاہے گویا احکام یا اخلاق فاضلہ یا اعتقادات صحیحہ سے تعلق رکھنے والی کوئی بات ایسی نہیں جو قرآن کریم نے بیان نہ کی ہو ۔
اصل بات یہ ہے کہ جو چیز درون پردہ ہو ۔جب تک وہ آپ ہمیں آواز نہ دے اورآپ ہماری راہنمائی نہ کرے ہمیں باہر سے اس کے متعلق کچھ علم نہیں ہوسکتا۔فرض کرو ۔ ایک مکان کادروازہ اند رسے بند ہے اورہمیں معلوم نہیں کہ اس کے اندرکون ہے ۔توہمیں اندر کاحال کس طرح معلوم ہوسکتاہے اگر ہم محض اپنے قیاس سے ا س کے متعلق کوئی فیصلہ کریں گے تووہ ویسی ہی بات ہوگی جیسے مشہور ہے کہ کسی شہر میں چار اندھے رہاکرتے تھے ۔اتفاقاً ایک دن اس شہر میں ہاتھی آگیا۔اورسینکڑوں آدمی اس کے دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوگئے ۔ان اندھوں نے شہر والوں سے کہا کہ ہمیں بھی وہاں لے چلو ساراشہر دیکھ آیا ہے ۔اگرہم نہ گئے تولوگ کیا کہیں گے ۔چنانچہ کوئی شخص انہیں سہاراد ے کر وہاں لے گیا ۔اب و ہ دیکھ تونہیںسکتے تھے انہوں نے کہا چلو ہم ٹٹول کر ہی معلوم کرلیتے ہیں کہ ہاتھی کیساہوتاہے ۔چنانچہ ایک نے ہاتھ ماراتووہ س کی دم پر پڑا ۔دوسرے نے ہاتھ ماراتوکان پر پڑا ۔تیسرے نے ہاتھ ماراتوسونڈ پر پڑا ۔چوتھے نے ہاتھ ماراتو پیٹ پر پڑا ۔اس کے بعد وہ واپس آگئے۔اورپھر انہوں نے بیٹھ کر آپس میں ہاتھی کے متعلق باتیں شروع کردیں ۔ایک نے کہا ہاتھی بس ایک لمبی سی چیز ہوتی ہے ۔جس کے آگے تھوڑے سے بال ہوتے ہیں ۔دوسرے نے کہا کہ تم بالکل جھوٹ بولتے ہو ۔ہاتھی توایساہوتاہے جیسے چھا ج ہوتاہے ۔تیسرے نے کہا تم نے ہاتھی دیکھا ہی نہیں وہ تو ڈھول کی طرح ہوتاہے ۔ چوتھے نے کہا کہ سب غلط کہتے ہو ۔وہ توایک موٹی سی لچکدار چیز ہوتی ہے اورکچھ بھی نہیں ہوتا (اس کاہاتھ سونڈ پر پڑاتھا )یہ اختلاف اسی لئے ہوا کہ انہوں نے بے دیکھے محض قیاس سے ایک چیز کا اندازہ لگایا تھا ۔اسی طرح جو چیز درون پردہ ہو اس کا پتہ باہرسے نہیں لگ سکتا اوراگرکوئی پتہ لگانے کی کو شش کرے گاتو وہ اندھوں کی طرح غلط نتیجہ پر ہی پہنچے گا۔یہی حال خداتعالیٰ کی معرفت اوراس کی دینی تعلیموں کا ہے ۔یہ علم صر ف خدا تعالیٰ کی کتاب سے ہی حاصل ہوسکتاہے ۔اورجوشخص اسے باہرسے سیکھنے یا سمجھنے کی کوشش کرتاہے وہ ان اندھوں کی طرح ہوتاہے جن میں سے کسی نے سونڈ پر ہاتھ مار کر سمجھ لیا تھا کہ میں نے ہاتھی دیکھ لیا ہے ۔کسی نے دُ م پر ہاتھ مارکر سمجھ لیا تھا کہ میں نے ہاتھی دیکھ لیاہے ۔کسی نے پیٹ پر ہاتھ مار کر سمجھ لیا تھا کہ میں نے ہاتھی دیکھ لیاتھا اورکسی نے کان پر ہاتھ مارکر سمجھ لیا تھا کہ میں نے ہاتھی دیکھ لیا ہے ۔
اس زمانہ میں بعض بیوقو ف سائینسدان کہتے ہیں کہ ہم عقل سے خداکو معلوم کرسکتے ہیں ۔جیسے بعض بے وقوف علما ء کہتے ہیں کہ مذہب کا عقل سے کیا تعلق ہے ۔یہ دونوں بیوقو ف ہیں ۔خداکو ہم عقل سے دریافت نہی کرسکتے اورمذہب کو بغیر عقل کے ہم سمجھ نہیں سکتے ۔جس طرح دنیا کی تمام معقول باتوںکو سمجھنے کے لئے عقل کی ضرورت ہے اسی طرح مذہب کے سمجھنے کے لئے بھی عقل استعمال کی جاتی ہے ۔جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے کہ قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ (یوسف آیت ۱۰۹) یعنی اے محمدؐ رسول اللہ! تولوگوں سے کہہ دے کہ میراطریق یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتاہوں ۔اورمیں اور میرے متبع سب بصیرت پر قائم ہیں ۔یعنی ہر بات کو ہم دلیل اورعقل کے ساتھ مانتے ہیں یونہی نہیں مانتے ۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ کوئی انسان محض عقل سے خداکو پاسکتاہے ۔خداکو پانے کے لئے مذہب ہمارا راہنما ہے اورمذہب کے سمجھنے کے لئے عقل کاپا سبان ضروری ہے اورعقل کو صحیح راستہ دکھانے کے لئے نبی کاوجود ضروری ہے اورخالی عقل سے جن لوگوں نے مذہب کو پانے کی کوشش کی ہے انہوں نے ہمیشہ ٹھوکر کھائی ہے ۔پنجا بی میں ایک ضرب المثل ہے ۔’’گھروں میں آیاں تے سنیہے تودینداہاں‘‘۔ یعنی گھرسے تومیں آیاہوں اورپیغام تم دے رہے ہو ۔بالکل یہی بات خداتعالیٰ کے متعلق کہی جاسکتی ہے ۔جب کو ئی شخص خداسے ملنا چاہے تولازماً خداہی اسے بتاسکتاہے کہ تم اس اس طرح مجھے مل سکتے ہو ۔وہ خو د بخو د اس تک نہیں پہنچ سکتا ۔پس و ہ سائنسدان پاگل ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خداکو اپنی عقل کے زور سے پاسکتے ہیں ۔خداکو خداکے ذریعہ ہی پایاجاسکتاہے اورخداکی راہنمائی حاصل کرنے کا سب سے بڑااورکامیاب ذریعہ یہی ہے کہ انسان خداکے کلام پر غور کرے اسے سمجھے اوراس پر عمل کرنے کی کو شش کرے ۔
پھر فرماتاہے ۔ھُدًی وَّ بُشْرٰی لِلْمُؤمِنِیْنَ یہ قرآن مومنوں کے لئے بہت بڑی ہدایت او ربشارت کا موجب ہے ۔اس جگہ ھدًی کی تنوین تعظیم کے لئے استعمال کی گئی ہے اور بتایاگیاہے کہ یہ ہدایت بہت بڑی شان رکھتی ہے ۔یعنی ہدایت کاکوئی درجہ اورمقام ایسانہیں جس کی طرف قرآن کریم بنی نوع انسا ن کی راہنمائی نہ کرتاہو۔یوں تواپنے زمانہ میں تورات بھی دنیا کی ہدایت کا موجب تھی اورژندواوستابھی دنیا کی ہدایت کاموجب تھی مگرکامل ہدایت جس نے انسان کو نقطئہ کمال تک پہنچا دیا اورجس کے بعد قیامت تک کے لئے کسی اورہدایت اورراہنمائی کی ضرورت نہیں ۔وہ صرف قرآن کریم ہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر ہدایت کے مختلف مدارج کاذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اَلَّذِیْنَ اھْتَدَوْازَادَھُمْ ھُدًی(محمدؐ ع ۲)یعنی جولوگ ہدایت کے راستہ پرچل پڑتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت پر ہدایت دیتاچلا جاتاہے ۔کیونکہ جس طرح خداتعالیٰ غیرمحدود ہے اسی طرح اس کے قرب کی راہیں بھی لامتناہی ہیں ۔مگرقرآن کریم کاکمال یہ ہے کہ وہ ہر مرحلہ پرانسان کی راہنمائی کرتاہے اوراللہ تعالیٰ کے قرب کے راستہ میں کوئی مقام بھی ایسانہیں آتا جب انسان اپنے آپ کو قرآنی راہنمائی سے مستغنی سمجھ سکے ۔و ہ شروع سے لے کر آخر تک قرآنی ہدایت کا محتاج رہتاہے ۔اورقرآن بھی اسے قدم قد م پر اپنے انوار اور برکات سے حصہ دیتاچلاجاتاہے ۔یہاں تک کہ وہ خداتعالیٰ کے پاس پہنچ جاتاہے ۔
پھر فرمایاکہ یہ مومنوں کے لئے بشارت کابھی موجب ہے یعنی یہی نہیں کہ قرآن انسان کے سامنے اللہ تعالیٰ کے قرب کے غیر متناہی دروازے کھولتاہے بلکہ وہ اس کی تائید میں اپنے نشانات بھی ظاہرکرتاہے اوراپنی بشارتوں سے بھی اسے حصہ دیتاہے اگر مومن کی تائید میں الٰہی نشانات ظاہر نہ ہوں تو چونکہ ہدایت ایک روحانی چیز ہے اوراللہ تعالیٰ کاقرب دوسروں کو مادی آنکھوںسے نظر نہیں آسکتا۔اس لئے لو گ ا س شبہ میں مبتلارہ سکتے تھے کہ معلوم نہیں یہ سچ بھی کہہ رہاہے یانہیں ۔اس شبہ کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ اپنی تائیدات مومنوں کے شامل حال رکھتاہے اوراپنے نشانات ان کی ایمانی تقویت کے لئے اوران کے دشمنوں پر حجت تمام کرنے کے لئے نازل کرتارہتاہے جواس بات کا ثبوت ہوتے ہیں کہ یہ لوگ حقیقۃً ہدایت یافتہ ہیں اورانہوں نے اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرلیا ہے ۔ایک جھوٹا اور مفتری انسان توکہہ سکتاہے کہ مجھے خداتعالیٰ کا قرب حاصل ہے مگر وہ خداتعالیٰ کے نشانات اپنی تائید میں نازل نہیں کرسکتا۔لیکن اگر کسی کے ساتھ خداتعالیٰ کی نصرت اوراس کی تائید کی فعلی شہادت ہو ۔اس پر اللہ تعالی کے الہامات نازل ہوتے ہوں۔اس کی دعائیں غیرمعمولی طور پر قبولیت کا شر ف حاصل کرتی ہوں ۔اس کے دشمنوںکو ناکام رکھاجاتاہو۔اوراسے اپنے مقاصد میں کامیابی پر کامیابی حاصل ہوتی ہو تویہ ثبوت ہوتاہے کہ اس بات کا کہ وہ اپنے اس دعویٰ میں بھی سچا ہے کہ اسے خداتعالیٰ کا قرب حاصل ہے اورقرآن کریم بتاتاہے کہ اس کے احکام پر عمل کرنے والوں کو یہ دونوں باتیں حاصل ہوتی ہیں ۔و ہ اس مستقل ہدایت نامہ پر عمل کرتے کرتے خداتعالیٰ کے قرب میں بھی بڑھ جاتے ہیں ۔اورپھر خداتعالیٰ بھی ان کی تائید کیح لئے آسمان سے اترآتاہے اوروہ انہیں مشکلات کے ہجوم میں بشارات سے حصہ دیتا او رانہیں اپنے دشمنوں پر غلبہ عطافرماتاہے اورجس مقصدکولے کر وہ کھڑ ے ہوتے ہیں اس میں انہیں کامیابی عطاکرتاہے ۔
پھر فرماتاہے ۔یہ قرآن ہدایت او ربشارت کا تو موجب ہے مگر ان کے لئے نہیں جو اپنے منہ سے توایمان کا اظہار کرتے ہیں لیکن عمل دیکھو تونہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں نہ زکوٰۃ دیتے ہیں اورنہ آخر ت پر یقین رکھتے ہیں ۔ایسے لوگوں کے لئے نہ قرآن ہدایت کا موجب بنتاہے اورنہ الٰہی تائیدات او راس کی برکات ان کے شامل حال ہوتی ہیں ۔قرآن کریم کی کامل ہدایت اوراس کی بشارت کے شیریں ثمرات سے صرف وہی لوگ متمتع ہوتے ہیں جو باجماعت نمازیں اداکرتے ہیں ۔ہمیشہ زکوٰۃ دیتے ہیں اورآخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ مذہب کا اہم ترین حصہ جو اس کے لئے دل اور دماغ کی حیثیت رکھتاہے ۔عبادت الٰہی ہی ہے ۔اگرعبادت الٰہی کو ترک کردیاجائے تومذہب صرف رسم و رواج کانام بن کر رہ جائے گا ۔اورخداتعالیٰ سے تعلق کادعویٰ محض ایک ڈھکونسلہ ہوگا ۔اس لئے اس جگہ مومنوں کی پہلی صفت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ َ وہ نمازوںکو قائم کرتے ہیں یعنی خود بھی باجماعت نماز اداکرتے ہیں جس کی طرف یقیمون کالفظ اشارہ کرتاہے اوردوسروںکو بھی نمازوں کی ادائیگی کی تلقین کرتے رہتے ہیں ۔گویابحیثیت جماعت وہ نمازوں کی ادائیگی کاہمیشہ التزام رکھتے ہیں ۔اگریہاں صرف انفرادی نمازوںکا ذکر ہوتاتو یُصَلُّوْنَ کہنا کافی تھا ۔مگراللہ تعالیٰ نے یصلّون کا لفظ استعمال نہیں فرمایابلکہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ۔اسی طرح قرآن کریم کے اَورمقامات میں بھی اَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ یا اَقَامُواالصَّلٰوۃَ کے الفاظ ہی استعمال ہوئے ہیں اوراقامت ہمیشہ باجماعت نماز میں ہی ہوتی ہے ۔پس مومنوں کی ایک بڑی علامت اس آیت میں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ باجماعت نمازیں اداکرتے ہیں اورنہ صرف خود نمازوں کی پابندی کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی نمازوں کی ادائیگی کی تلقین کرتے رہتے ہیں ۔ہم نے دیکھا ہے بعض لوگ خود تو نماز کے بڑے پابند ہوتے ہیں مگراپنے بیوی بچوں کے متعلق کوئی پرواہ نہیں کرتے ۔ حالانکہ اگران کے دل میں سچا اخلاص ہوتویہ ہوہی نہیں سکتاکہ کسی بچے کا یا بیوی کا یابہن بھائی کاچھوڑناانسان گوارہ کرسکے ۔
ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست تھے جواب فوت ہوچکے ہیں ۔ان کے لڑکے نے ایک دفعہ مجھے لکھا کہ میرے والد صاحب میرے نام الفضل جاری نہیں کرواتے ۔میں نے انہیں لکھا کہ آپ کیوں اس کے نام الفضل جاری نہیں کراتے توانہوں نے جوابدیا کہ میں چاہتاہوں کہ مذہب کے معاملہ میں اسے آزادی حاصل رہے اوروہ آزادانہ طورپر اس پر غور کرسکے ۔میں نے انہیں لکھا کہ الفضل پڑھنے سے توآپ سمجھتے ہیں اس پر اثر پڑے گا اورمذہبی آزادی نہیں رہے گی ۔لیکن کیا اسکا بھی آپ نے کوئی انتظام کرلیا ہے کہ اس کے پروفیسر اس پر اثر نہ ڈالیں ۔اس کی کتابیں اس پر اثر نہ ڈالیں ۔اس کے دوست اس پر اثر نہ ڈالیں ۔اورجب یہ سارے کے سار ے اثر ڈال رہے ہیں توکیا آپ چاہتے ہیں کہ اسے زہر توکھانے دیں اورتریاق سے بچایاجائے۔ غر ض اقامت صلوٰۃ ایک نہایت ہی ضروری چیز ہے ۔اوراس میں خود نماز پڑھنا ۔دوسروں کو پڑھوانااوراخلاص اور جوش کے ساتھ پڑھنا ۔باوضو ہوکر ٹھہر ٹھہر کر باجماعت اورپوری شرائط کے ساتھ نماز پڑھنا شامل ہے ۔احادیث میں آتاہے کہ نماز خدااوربندے کے درمیان ملاقات کا ایک ذریعہ ہوتی ہے ۔گویا اس کے ذریعہ الوہیت کا وہ رنگ جونبی کے واسطہ سے اللہ تعالیٰ پیداکرناچاہتاہے مومنوں پر چڑھ جاتاہے ۔اوروہ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہوجاتے ہیں ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز باجماعت کا اس قدر احترام فرماتے تھے کہ ایک دفعہ آپ کے پاس ایک نابینا آیا ۔اوراس نے عرض کیا یارسول اللہؐ!میرامکان مسجد سے بہت دور ہے اورچونکہ مجھے مسجد پہنچنے میں سخت دقّت پیش آتی ہے اس لئے اگر آپ اجازت دیں تومیں اپنے گھر میں ہی نماز اداکر لیا کرو ں (اس وقت مدینہ میں کچے مکانات ہوتے تھے اورجب بارش کے دنوں میں بانی گلیوں میں بہتاتھاتوچونکہ پانی دیواروں کی بنیادوں کے ساتھ ٹکراکر گذرتاتھا اوردیواریں پانی سے ٹوٹ جاتی تھیں اس لئے پانی کی زد سے دیواروں کو بچانے کے لئے لوگوں نے گلی میں دیواروں کی بنیادوں کے ساتھ ساتھ جلے ہوئے پتھر جن کو پنجابی زبان میں کھنگر کہتے ہیں رکھے ہوتے تھے ۔گلیوں میں کھنگر رکھنے کا رواج ہمارے ملک میں بھی ہے اورچونکہ ایک نابینا کے لئے سڑک کے بیچ میں چلنا مشکل ہوتاہے اس لئے وہ ہمیشہ دیواروں کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اوردیوار کے ساتھ ہاتھ مارتے جاتے ہیں ۔اگر وہ ایسی دیوار کے ساتھ چلیں جس کے ساتھ کھنگر رکھے ہوئے ہوںتوان کے گرکرزخمی ہونے کاخطرہ ہوتاہے )جب اس نابینا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ چونکہ دیواروں کے ساتھ پتھر رکھے ہوتے ہیں اورگلی کے بیچ میں مَیں چل نہیں سکتا اوراگر دیوار کے ساتھ چل کر مسجد میں آئوں توگر کرزخمی ہونے کا خطرہ ہے اس لئے مجھے اجازت ہوتو میں گھر پر نماز اداکرلیاکروں ۔تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔بہت اچھا ۔اگرتمہیں مسجد میں آتے ہوئے مشکل پیش آتی ہے توتم اپنے گھر میں ہی نماز اداکرلیا کرو ۔ یہ سن کر وہ نابینا گھر کی طرف چل پڑا ۔مگرابھی وہ تھوڑی دورہی گیا تھا کہ آپ نے صحابہؓ سے فرمایا ۔اس کو واپس بلائو ۔وہ جب واپس آیاتوآپ نے اس سے دریافت فرمایاکہ کیا تمہارے گھر میں اذان کی آواز پہنچ جاتی ہے ۔اس نے عرض کیا ۔ہاں یارسول اللہ!اذان کی آواز توپہنچ جاتی ہے ۔آپ نے فرمایا۔ اگراذان کی آواز تمہارے گھر میں پہنچ جاتی ہے توچاہے تمہیں مسجد میں آتے وقت ٹھوکریں لگیں اورتم زخمی ہوجائو۔مسجد میں ضرور آیاکرو ۔اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا ۔میراجی چاہتاہے کہ جب عشاء یا فجر کی نماز ہو تو میں اپنی جگہ کسی اَورکو کھڑاکردوں اور کچھ لوگوںکو ساتھ لے کر ان کے سروں پر لکڑیوں کے گٹھے رکھ کر سارے شہرکا چکر لگائوں اورجولوگ گھروں میں بیٹھے ہوئے ہوں ان کے گھروں کو آگ لگادوں ۔اب دیکھو گوآپ نے عملا ً ایساکیاتونہیں ۔ مگراس سے اتنا تو ظاہر ہے کہ آپ کے دل میں نماز باجماعت کی کس قدراہمیت تھی ۔آپ نے اس مثال کے ذریعہ لوگوںکو سمجھا یا کہ جولوگ باجماعت نماز ادانہیں کرتے وہ اپنے آپ کودوزخ کا ایندھن بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔بیشک دنیا میں نیکی کے اَور بھی بہت سے کام ہیں ۔لیکن نماز کو خداتعالیٰ نے سب سے مقدّم قرار دیا ہے اورسوائے اس کے کہ کوئی معذوری ہو یاکوئی ہنگامی کام پڑ جائے نمازوں کے اوقات میں مسجد میں آنا نہایت ضروری ہے ۔ہنگامی کاموں سے مراد یہ ہے کہ مثلاً کسی جگہ آگ لگ گئی ہو تواس وقت آگ بجھا نا ضروری ہوگا۔نماز بعد میں اداکرلی جائے گی ۔لیکن اس قسم کے استثنائی حالات کے بغیر جوشخص نماز باجماعت کی ادائیگی میں کوتاہی کرتاہے وہ ایک بہت بڑے جرم کا مرتکب ہوتاہے ۔
دوسری چیز جس کی طرف ان آذیا ت میں توجہ دلائی گئی ہے و ہ زکوٰۃ ہے ۔زکوٰۃ کی ضرورت اوراس کی اہمیت درحقیقت غربت کے سوال سے پیداہوتی ہے ۔اورغربت ایک ایسی چیز ہے جوکبھی بھی بنی نوع انسان سے جدانہیں ہوئی ۔عام طور پر لوگ خیال کرلیتے ہیں کہ جب دنیا کی آبادی بڑھ جاتی ہے توایک حصہ غریب ہوجاتاہے ۔حالانکہ یہ بات درست نہیں ۔آبادی کی کمی کی صورت میں بھی ہمیں غربت ویسی ہی نظرآتی ہے جیسے اس کی کثرت کی صورت میں ۔چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں باوجود اس کے کہ اس وقت صرف چند ہی افراد تھے قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ ان میں سے بھی بعض پر غربت کا زمانہ آیا تھا کیونکہ فرماتاہے کہ اگر تُواس جنت میں رہے گا توتُو پیاسانہیں رہے گا ۔تیرے ساتھی بھوکے نہیں رہیں گے ۔اورتیرے ساتھی ننگے نہیں رہیں گے ۔اس وسیع دنیا میں جہاں ہردولت اورہرخزانہ خالی پڑاتھا اورکسی کاکوئی مالک نہیں تھا کسی مخصوص قانون میں رہ کر روزی ملنے کاسوال ہی کہاں پیداہوسکتاتھا ۔ساری دنیا کاسونا ان کے قبضہ میں تھا۔ساری دنیا کالوہا ان کے قبضہ میں تھا ۔ساری دنیا کے پھل،پھول اوراعلیٰ درجہ کی زمینیں ان کے قبضہ میں تھیں ۔پھر یہ سوال کیونکر پیداہواکہ اگر تُوایک خاص قانون کے ماتحت رہے گا تو بھوک اور ننگ سے بچ جائے گا ۔اس سے معلوم ہواکہ باوجودساری دولتوں کے پھر بھی اس بات کا امکان تھا کہ بعض لوگ بھوکے رہیں ۔بعض پیاسے رہیں اور بعض ننگے رہیں ۔اوریہ صحیح بات ہے ۔درحقیقت دنیا میں دولت دوقسم کی ہوتی ہے ایک بالقوۃ اورایک بالفعل۔پھر بالفعل بھی دوقسم کی ہوتی ہے ۔ایک بالفل دولت ایسی ہوتی ہے جوسکہ کی صورت میں ہویاان چیزوں کی صورت میں جن سے ودسری اشیاء خریدی جاسکتی ہیں۔اورایک بالفعل دولت اجناس کی صورت میں ہوتی ہے جن کو استعمال کیاجاتاہے ۔پھر اجناس کی بھی دوقسمیں ہیں۔ایک وہ جو بغیر کسی اَورتیاری کے انسان کے استعمال میں آجاتی ہیں اورایک وہ جن کی تیاری کے لئے کوشش اورسعی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جہاں تک بالقوۃ دولت یعنی وجود دولت کاسوال ہے انگریزوں نے اسکانام ویلتھ رکھا ہے اواس سے مراد کسی ملک کے وہ سامان دولت ہوتے ہیں جو اس میں قدرتی طورپرپائے جاتے ہیں ۔مثلاً اگرکسی ملک میں سونے کی کانیں ہیں یاچاندی کی کانیں ہیں تواس کے معنے یہ ہیں کہ اس کے پاس ویلتھ ہے ۔مگراس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ اس کے پاس روپیہ ہے ۔اگروہ چاندی اس تک نہیں پہنچ سکی یالوگوں کے پاس زرخیز زمینوں میںگند م اورروئی بونے کے ساما ن نہیں توپھر بھی وہ لوگ بھوکے اورپیاسے اورننگے رہیں گے پس ایک دولت تواس قسم کی ہوتی ہے جوبالقو ۃ ہوتی ہے ۔اگراس ملک کے لوگوں میں صنعت و حرفت نہیں یاانہیں زمینداری کاعلم نہیں توباوجود اس کے کہ وہ کانوں پر بیٹھے ہوں گے اورکروڑوں کروڑ روپیہ کاسونا ان میں موجود ہوگا ۔وہ زرخیز زمینوں پر بیٹھے ہوں گے ۔ایسی زمینوں پر کہ اگر اس میں ایک دانہ بھی ڈال دیاجائے توسینکڑوں دانے پیداہوں ۔لیکن پھر بھی وہ فاقے مررہے ہوں گے گویا ان کے پاس دولت تو ہوگی لیکن ساکن دولت ہوگی ۔لیکن اگر دنیا میں کوئی ایسانظام قائم ہوجاتاہے جولوگوںکو مختلف قسم کے فنون سکھاتاہے خواہ الہام کے ذریعہ سے یاالقائے الٰہی کے ذریعہ سے ۔اوروہ کہتاہے کہ آئوہم تمہیں زمینداری کاطریق بتاتے ہیں کپڑابننے کے طریق سکھاتے ہیں یااسی قسم کے اورفنون سکھاتے ہیں جن سے تم اپنی تمدنی حالت کو سدھار سکوتویقیناً اس کے ذریعہ لوگوں کی بھو ک او را ن کی پیاس دورہوجائے گی ۔جیسے اسلام کی روایتوں میں خواہ وہ کتنی ہی کمزورکیوں نہ ہو ں یہ آتاہے کہ حضرت آدمؑ نے لوگوں کوزراعت سکھائی ۔اورحضرت شیثؑ نے ان کو کپڑابنناسکھایا ۔اب چاہے انہیںآدم نے سکھایاہو یا شیثؑ نے یاکسی اَور نے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابتدائی زمانہ میں اس قسم کے امور میں الہام الٰہی مدد کرتاتھا ۔جیسے قرآن کریم میں صاف طورپر یہ ذکر آتاہے کہ زبان ابتداء میں الہاماً سکھائی گئی تھی ۔چنانچہ فرماتاہے۔عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا۔اس سے قیاس کرکے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جس طرح ابتدائی زمانہ میں الہام کے ذریعہ زبان سکھایاجانا ضروری تھا ۔اسی طرح الہام کے ذریعہ انہیں فنون سکھائے جانے بھی ضروری تھے ۔ورنہ اس کے بغیرانسان مدتوں تک تکلیف اٹھاتاچلاجاتا۔ پس اگرکوئی نبی آجائے اوروہ یہ کہے کہ تم زمین میں ہل چلائو اورکھیتی باڑی کرو۔ اسی طرح وہ مختلف قسم کے درخت اورباغات لگانے کی تعلیم دے تویقیناً اس کے نتیجہ میں اس کے ماننے والوںکو روٹی ملنے لگ جائے گی اوروہ لوگ جو نبی کے تابع نہیں ہوں گے اگر وہ زبان سیکھنے سے انکارکردیں گے توگونگے رہیں گے ۔اوراگرکھیتی باڑی نہیں کریں گے یاکپڑا بننانہیں سیکھیں گے یاکنوئیں نہیں کھودیں گے توبھوکے اورپیاسے اورننگے رہیں گے ۔ یہ فنون ابتدائی دور میں خواہ کیسی ہی ابتدائی شکل میں ہوں ۔خواہ کھال سے وہ اپنا ننگ ڈھانکتے ہوں یاپھلوں پران کا گذارہ ہوتاہواس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو لوگ اس نظام کے ماتحت آجائیں گے و ہ بھوک اورپیاس اور ننگ سے بچ جائیں گے ۔لیکن باوجود اس کے پھر بھی ایک طبقہ ایسا رہ جاتاہے جو غریب ہو ۔کیونکہ حوادث آتے ہیں اورانسان کو بے دست و پابنادیتے ہیں ۔فرض کرو۔دنیا کے پردہ پر ایک ہی انسان ہے کشمیر بھی ا س کے قبضہ میں ہے ۔ہزارہ بھی اس کے قبضہ می ہے ۔کابل کی وادیاں بھی اس کے قبضہ میں ہیں اوراس طرح دنیا کے سارے انگور ساری ناشپاتیاں،سارے سیب اورسارے آم اس کے قبضہ میں ہیں ۔ لیکن اس کے ہاتھ بھی کٹے ہوئے ہیں اورپیر بھی کٹے ہوئے ہیں تووہ اس ساری دولت سے فائدہ نہیں اٹھاسکے گا ۔اورپھر بھی بھوکا اور پیاسارہے گا ۔پس ابتدائی زمانہ میں باوجودکہ دولت موجود تھی دنیا اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتی تھی کیونکہ اسے فنون نہیں آتے تھے جب آدمؑ کے ذریعہ دنیا نے فنون سیکھے اوران کی بھوک اور پیاس اور لباس کی دقّت دور ہوئی توپھر بھی ایک طبقہ ایسا رہ گیا جو ان چیز وں سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھاسکتاتھا ۔جیسے لولے۔لنگڑے اور اپاہج وغیرہ ۔اب چاہے ساری دنیا میں صرف پندرہ آدمی ہوں اوردولولے ہوں پھر بھی دولولے اپنی بھوک اور پیاس کیسے دور کرسکتے ہیں جب تک ان پندرہ میں کوئی نظام موجود نہ ہو اوروہ ان لولوں لنگڑوں کی بھوک اور پیاس دور کرنے کاذمہ وار نہ ہو ۔آدمؑ کی نبوت کی بنیاد اصل میں ان بتدائی تعلیموں پر ہی تھی جن سے انسان بنا ۔آپ نے بنی نوع انسان کو زبان سکھائی ۔مختلف قسم کے فنون کی تعلیم دی ۔تمدن کے اصول بتائے ۔انہیں بتایاکہ آپس میں مل کررہناچاہیئے اوراگرکوئی غریب یالولا لنگڑا ہوتواس کی مدد کرنی چاہیئے ۔جب اس قسم کی سوسائٹی قائم ہوجائے گی ۔توہم کہہ سکیں گے کہ یہ سوسائٹی نہ بھوکی رہے گی نہ ننگی اورنہ پیاسی ۔اگرکوئی لولالنگڑاہوگاتودوسرے لوگ اس کی مدد کریں گے ۔اوراگرلوگ بھوکے ہوں گے تو و ہ زراعت او رباغبانی اورکان کنی کے ذریعہ اپنی اس تکلیف کودورکرسکیں گے اوراس طرح دنیا کو روپیہ بھی مل جائے گا ۔ اوران کی تکالیف بھی دور ہوجائیں گی ۔پس غربت کامسئلہ اس زمانہ کی پیداوار نہیں بلکہ جب سے انسان اس دنیا میں پیداہواہے اس وقت سے یہ سوال زیر بحث چلاآیاہے ۔جب ساری دنیا کے مالک صرف دوچار گھرانے تھے تب بھی غربت موجود تھی اور تب بھی ایک قانون کی ضرورت تھی اسی لئے حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ بنی نوع انسان کو یہ پیغام دیاگیا کہ اگرتم ان قواعد کی پابند ی کرو گے توبھوکے اور پیاسے نہیں رہو گے ۔جس کے معنے یہ ہیں کہ آدمؑ کے زمانہ میں بھی جب صرف چند آدمی تھے ممکن تھا کہ لوگ بھوکے رہیں ۔ممکن تھا کہ وہ پیاسے رہیں اورممکن تھا کہ وہ ننگے پھریں ۔پھرلوگ بڑھنے شروع ہوئے ۔پندرہ سے بیس اوربیس سے سوسوسے ہزار ۔ہز ار سے دس ہزار اوردس ہزار سے لاکھ تک تعداد جاپہنچی اوربڑھتے بڑھتے اب تو دواڑہائی ارب تک آباد ی پہنچ چکی ہے ۔مگرجیسا کہ میں نے بتایا ہے پندر ہ آدمیوںکی صورت میں بھی دنیا بھوکی اورننگی رہ سکتی تھی ۔سو آدمیوں کی صور ت میں بھی دنیا بھوکی اور ننگی رہ سکتی تھی ۔ہزا ر او ر لاکھ آدمیوں کی صورت میں بھی دنیا بھوکی اورننگی رہ سکتی تھی ۔بھوک اور ننگ کی بنیاد ویلتھ پر نہیں ہوتی یہ ایک غلط خیال ہے جو لوگوں میں پیداہوگیاہے کہ غر بت آبادی کی کثرت کی وجہ سے پیداہوتی ہے ۔اصل وجہ یہ ہے کہ غربت اورامارت کادارو مدار اس امر پر ہیح کہ قانون قدرت نے زمین میں جو خزانے مخفی رکھے ہیں انسان ان کو کس حد تک استعمال کرتاہے اورکس حد تک ان کے استعمال کرنے کی عقل اور سمجھ رکھتاہے ۔مثلاً اگرسونا ہواورغلہ نہ ہوتو محض سونے سے لوگوں کی بھوک دور نہی ہوسکے گی یااگر غلہ بھی آجا ئے مگرروٹی پکانی نہیں آتی توپھر بھی انسان بھوکا رہے گا ۔ایسی صورت میں ضروری ہوگا کہ کچھ مددگار ہوں کچھ لوگ کمانے والے ہوں اورکچھ لوگ پکانے والے ہوں ۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مردا ور عورت کا سلسلہ قائم کیا ہے ۔غرض کئی قدم ہوتے ہیں جب تک وہ سارے کے سارے مہیانہ ہوں انسان بھوک اور ننگ سے نہیں بچ سکتا ۔یہ دو رابتدائے عالم سے چلتا آیا ہے ایک زمانہ ایساتھا ۔جب بنی نوع انسان کے پاس ذرائع آمد زیادہ ہوتے تھے اورکم حصہ مجبوریوں میں مبتلا ہوتاتھا ۔مثلاً اگر ہاتھ پائوں کٹے ہوئے لوگوں کو دیکھا جائے یاان لوگوں کی تعداد معلوم کی جائے جو بڑھا پے اور بیمار یوں کی وجہ سے کسی کام کے قابل نہیں رہتے توہ کتنے ہوں گے ۔میں سمجھتاہوں کہ وہ ایک دوفیصدی سے زیادہ نہیں ہوں گے ۔لیکن کام نہ ملنے کی وجہ سے ہزار میں سے نوسوبھی بیکارہوسکتے ہیں ۔جب کسی ملک کی آبادی بڑھ جاتی ہے ۔لیکن ذرائع آمد ترقی نہیں کرتے تودس میں سے بعض دفعہ نو بیکار پھرتے ہیں ۔مگر اس لئے نہیں کہ وہ معذو رہوتے ہیں بلکہ اس لئے کہ انہیں کام نہیں ملتا۔پس جب دنیاکی آباد ی بڑھ گئی۔ تویہ سوال نہ رہا کہ زمین میں سے دولت کس طرح نکالی جائے بلکہ اس سوال کی صورت بالکل بد ل گئی ۔کیونکہ بعض لوگ ایسے تھے کہ باوجود اپناسار ازور صرف کرنے کے کام سے محروم رہتے تھے ۔ایسی حالت میں اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ نئے کام نکالے جائیں۔ غرض یہ دور اسی طرح چلتے چلے آئے ہیں اوردنیا نے فقر و فاقہ کی تکالیف دورکرنے کے لئے مختلف قسم کی تدابیر اختیار کیں ۔چنانچہ کبھی ایسا دو ر آیا کہ لوگوں نے یہ فیصلہ کردیا کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو زندہ رہنے کے قابل ہوتے ہیں اور کچھ لو گ ایسے ہوتے ہیں جو زندہ رہنے کے قابل نہیں ہوتے ۔جیسے ہندوستا ن می شودروں کی کثرت تھی مگر برہمنوں اورکھشتریوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ان لوگوں کا کوئی حق نہیں کہ دنیا میں زندہ رہیں ۔یہ اگر مرتے ہیں تو بیشک مریں۔چنانچہ انہوں نے لوٹ ما رشروع کردی اورشودروں کا کوئی حق متمدن زندگی میں تسلیم نہ کیاگیا۔پھر بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اس مصیبت کا علاج صدقہ و خیرات ہے ۔جن کے پاس زیادہ مال ہو انہیں چاہیئے کہ و ہ غر باء کی مدد کردیا کریں۔
غرض مختلف تدابیر اپنے اپنے رنگ میں اختیار کی گئیں ۔مگر کوئی بھی تدبیر ایسی کامل نہیں تھی جس سے اس مصیبت کو کلیۃً دورکیا جاسکتا ۔ اسلام ہی تھا جس نے اس سوال کا صحیح معنوں میں حل کیا ۔اوراس نے فیصلہ کیا کہ اس قسم کا صدقہ کوئی چیز نہیں ایک معین اور منظم صورت میں غر با ء کی بہبودی کاانتظام ہوناچاہیئے چنانچہ اس کے لئے اس نے زکوٰۃ اور عُشر کا طریق جاری کیا۔جس میںامر اء سے باقاعدہ ایک نظام کے ماتحت روپیہ لیا جاتااورغرباء کی ضروریا ت پر صرف کیاجاتا۔پھر اس نے خبر گیری کے طریق بھی معین کردیئے یو تو پہلے بھی حکومتیں ٹیکس لیا کرتی تھیں ۔مگر ان کا خرچ معین نہیں تھا ۔اسلام نے
اول آمد پر ایک مقرر حصہ اداکرنا واجب کردیا راوراس امر کافیصلہ کیا کہ امر اء سے بہر حال اتنا روپیہ لے لیاجائے ۔دوسری طرف اس نے خرچ بھی معیّن کردیا اوراس طرح غرباء کے گذراہ کی صورت پیداکردی ۔آمد اور خرچ سے تعلق رکھنے والے یہ دو نقطے ایسے ہیں جو اسلام سے پہلے اَورکسی قوم میں نہیں پائے جاتے تھے زکوۃ یہودیوں میں بھی ہے مگر ناقص صورت میں ۔۱؎
لیکن ا سلام نے اس قانون کو مدون کرکے ایک ایسا عظیم الشان نظام قائم فرمایا جو ہمارے لئے ہرتاریکی کی گھڑی میں شمع ہدایت کا کام دیتاہے ۔مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اس نظام کی پوری اہمیت نہ سمجھی اورلدھیا نے کے بڈھے دریا کی طرح یہ نظام بھی ریت میں غائب ہوگیا۔اورمسلمان اس سے کلیۃً غافل ہوگئے ۔حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آکر پہلاکام ہی یہ کیا تھا کہ جائیدادوالوں کو بے جائیداد والوں کا بھائی بنادیا ۔انصارؓ جائیدادوں کے مالک تھے اور مہاجرؓ بے جائیداد تھے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارؓ اورمہاجرینؓ دونوں میں مواخات قائم فرمادی ۔اورایک ایک جائیدا دوالے کو ایک ایک بے جائیداد والے سے ملادیا اوراس میں بعض لوگو ںنے اتنا غلّو کیا کہ دولت تو الگ رہی بعض کی اگر دوبیویا ں تھیں توانہوں نے اپنے اپنے مہاجر بھائیوںکی خدمت میں یہ پیشکش کی کہ وہ ان کی خاطر اپنی ایک بیوی کو طلاق دینے کے لئے تیار ہیں ۔وہ ان سے بے شک شادی کرلیں۔یہ مساوات کی پہلی مثال تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں جاتے ہی قائم فرمائی ۔کیونکہ حکومت کی بنیاد دراصل مدینہ میں ہی پڑی تھی۔اس زمانہ میں زیادہ دولتیں نہ تھیں یہی صورت تھی کہ امیر اورغریب کو اس طرح ملا دیاجائے کہ ہرشخص کو
۱؎ ۔دیکھو خروج باب ۲۳ آیت ۱۰و۱۱۔
کھانے کے لئے کوئی چیز مل سکے۔پھر ایک جنگ کے موقعہ پر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریق کو استعمال فرمایا۔گواس کی شکل بدل دی ۔ایک جنگ کے موقعہ پر آپ کو معلوم ہواکہ بعض لوگوں کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہیں رہی یااگر ہے توبہت ہی کم اوربعض کے پاس کافی چیز یں ہیں۔تویہ صورت حالات دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس جس کے پاس جوکوئی چیز ہے وہ لے آئے اورایک جگہ جمع کردی جائے ۔چنانچہ سب چیزیں لائی گئیں اورآپ نے راشن مقرر کردیا ۔گویایہاں بھی وہی طریق آگیا کہ سب کو کھانا ملناچاہیئے ۔جب تک ممکن تھا سب لوگ الگ الگ کھاتے رہے مگر جب یہ امر ناممکن ہوگیا اورخطرہ پیداہوگیا کہ بعض لوگ بھوکے رہنے لگ جائیں گے تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب تمہیں علیحدہ کھانے کی اجازت نہیں اب سب کوایک جگہ سے برابر کھاناملے گا ۔صحابہؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر ہم نے سختی سے عمل کیا کہ اگر ہمارے پاس ایک کھجور بھی ہوتی توہم اس کا کھانا سخت بددیانتی سمجھتے تھے اوراس وقت تک چین نہیں لیتے تھے جب تک کہ اس کو سٹور میں داخل نہیں کردیتے تھے ۔یہ دوسرانمونہ تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا۔پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دولت بھی آئی اورخزانوں کے منہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھو ل دیئے ۔مگراللہ تعالیٰ چاہتاتھا کہ اس بار ہ میں تفصیلی نظام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جاری ہو تالوگ یہ نہ کہدیں کہ یہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی ۔کوئی اَورشخص اسے جاری نہیں کرسکتا۔چنانچہ ادھر اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ سے ایک نمونہ قائم کردیا اوراُدھر مدینہ پہنچتے ہی انصارؓ نے اپنی دولتیں مہاجرین کے سامنے پیش کردیں ۔مہاجرین نے کہا ہم یہ زمینیں مفت میں لینے کے لئے تیار نہیں ہم ان زمینوں پر بطور مزارع کام کریں گے
اورتمہاراحصہ تمہیں دیں گے ۔لیکن یہ مہاجرین کی طرف سے اپنی ایک خواہش کا اظہار تھا ۔انصارؓ نے اپنی جائیدادوں کے دینے میںکوئی پس و پیش نہیں کیا ۔یہ ایسی ہی بات ہے ۔جیسے گورنمنٹ راشن دے توکوئی شخص نہ لے ۔اس سے گورنمنٹ زیر الزام نہیں آئے گی ۔یہی کہاجائے گا کہ گورنمنٹ نے توراشن مقرر کردیا تھا ۔اب دوسرے شخص کی مرضی تھی کہ و ہ چاہے لیتایا نہ لیتا ۔اسی طرح انصار ؓ نے سب کچھ دیدیا تھا ۔یہ الگ بات ہے کہ مہاجرینؓ نے نہ لیا ۔غرض عملی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام اپنی زندگی میں ہی شروع فرمادیا تھا ۔یہاں تک کہ جب بحرین کا بادشاہ مسلمان ہو اتوآپ نے اسے ہدایت فرمائی کہ تمہارے ملک میں جن لوگوں کے پاس گذارہ کے لئے کوئی زمین نہیںہے تم ان میں سے ہرشخص کو چار درہم او رلباس گذارہ کے لئے دو تاکہ وہ بھوکے اورننگے نہ رہیں۔۱؎ ۔اس کے بعد مسلمانوں کے پاس دولتیں آنی شروع ہوگئیں ۔چونکہ مسلمان کم تھے اوردولت زیادہ تھی اس لئے کسی نئے قانون کے استعمال کی اس وقت ضرورت محسوس نہ ہوئی ۔کیونکہ جو غرض تھی و ہ پوری ہورہی تھی ۔اصول یہ ہے کہ جب خطرہ ہو تب قانون جاری کیا جائے ۔اورجب نہ ہواس وقت اجازت ہے کہ حکومت اس قانون کو جاری کرے یا نہ کرے ۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اورمسلمان دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلنا شرو ع ہوئے تو اس وقت غیر قومیں بھی اسلام میں شامل ہوگئیں عرب لوگ توایک جتھہ اورایک قوم کی شکل میںتھے اوروہ آپس میں مساوات بھی قائم رکھتے تھے جب اسلام مختلف گوشوں می پہنچا اور مختلف قومیں اسلام میں داخل ہونی شروع ہوئیں توان کے لئے روٹی کاانتظام بڑا مشکل ہوگیا ۔آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کی مرد م شماری کرائی اورراشننگ سسٹم قائم کردیا ۔جوبنو امیہ کے عہد تک جاری رہا ۔یورپین مؤرخ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سب سے پہلی مردم شماری حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کرائی تھی۔اوروہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے یہ سب سے پہلی مردم شماری رعایا سے دولت چھیننے کے لئے نہیں بلکہ ان کی غذا کا انتظام کرنے کے لئے جاری کی تھی ۔اَورحکومتیں تواس لئے مردم شماری کراتی ہیں کہ لوگ قربانی کے بکرے بنیں اورفوجی خدمات بجالائیں۔مگر حضرت عمرؓ نے اس لئے مرد م شماری نہیں کرائی کہ لوگ قربانی کے بکرے بنیں بلکہ اس لئے کرائی کہ ان کے پیٹ میں روٹی ڈالی جائے ۔چنانچہ مردم شماری کے بعد تمام لوگوںکو ایک مقررہ نظام کے ماتحت غذاملتی اور جو باقی ضروریات رہ جاتیں ان کے لئے انہیں ماہوارکچھ رقم دے دی جاتی اوراس بار ہ میں اتنی احتیاط سے کام لیاجاتا کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب شام فتح ہوااوروہاں سے زیتون کا تیل آیا توآپ نے ایک دفعہ لوگوں سے کہا کہ زیتوں کے استعمال سے میرا پیٹ پھو ل جاتاہے ۔تم مجھے اجازت دو تومیں بیت المال سے اتنی ہی قیمت کاگھی لے لیا کروں۲؎۔غرض یہ پہلا قدم تھا جو اسلام می لوگوں کی ضروریات کو پوراکرنے کے لئے اٹھا یاگیا ۔اورظاہر ہے کہ اگر یہ نظام قائم ہوجائے تواس کے بعد کسی اَورنظام کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ سارے ملک کی ضروریات کی ذمہ دار حکومت ہوگی ۔ان کاکھانا ۔ان کا پینا ۔ان کا پہنناان کی تعلیم ان کی بیماریوں کا علاج اوران کی رہائش کے لئے مکانات کی تعمیر یہ سب کاسب اسلامی حکومت کے ذمہ ہوگا ۔اوراگر یہ ضروریات پوری ہوتی رہیں۔توکسی بیمہ وغیرہ کی ضرورت نہیں رہتی ۔مگربدقسمتی سے بعد میں آنے والوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ
۱؎ ۔السیرۃ النبویہ برحاشیہ السیرۃ الحلبیہ جلد ۳ص ۶۹
۲؎ ۔سیرۃ ابن عمر الخطاب لابن الجوزی ص ۹۳
یہ بادشاہ کی مرضی پر منحصر ہے ۔وہ چاہے توکچھ دے دے اورچاہے تو نہ دے ۔اورچونکہ اسلامی تعلیم ابھی پورے طورپر راسخ نہیںہوئی تھی وہ لوگ پھر قیصرو کسریٰ کے طریق کی طرف مائل ہوگئے ۔یہ خداتعالیٰ کافضل ہے کہ وہ بڈھا دریاجو ریت میں غائب ہوچکاتھا ۔اسے اللہ تعالیٰ نے پھر ازسرنو میرے دل میں جاری کیا ۔میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے قرآن کریم کی یہ تعلیم لوگوں کے سامنے رکھی ۔مسلمان مجھ سے کثرت کے ساتھ پوچھا کرتے ہیں ۔کالجوں کے پروفیسر اور طلباء بھی یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ اگراسلامی تعلیم یہی تھی تو پھر یہ غائب کیوں ہوگئی ؟ اورمیں ہمیشہ انہیں کہاکرتاہوں کہ اس تعلیم کا غائب ہوناہی بتاتاہے کہ یہ الٰہی تعلیم تھی ۔اگریہ انسانی تعلیم ہوتی تو لوگوں کے دلوں میں ضرور قائم رہتی ۔کیونکہ انسانی تعلیم کو قبول کرنے کے لئے لوگوں کے دماغ تیار ہوچکے ہوتے ہیں اورماحول مناسب ہوتاہے ۔پس اس کا غائب ہونا ہی بتارہاہے کہ یہ تعلیم خداکی طرف سے آئی تھی ۔وہ ایک دفعہ لہر کی صورت میں اٹھی اورپھر اس میں انحطاط واقع ہوگیا ۔اب مقد ریہ ہے کہ پھر دوبارہ اس کی لہر بلند ہو اور اس کی دوسری لہر پہلی سے زیادہ اونچی ہو ۔قانون قدرت پر غورکرکے دیکھ لو۔اس می یہی نظار ہ نظر آئے گا۔بچپن میں جب ابھی میں نے پہاڑنہیں دیکھاتھا میں یہ خیا ل کیاکرتاتھا کہ پہاڑ مینار کی طرح ہوتاہوگا اوررسہ پکڑ کر اوپر چڑھنا پڑتاہوگا مگرجب میں پہلی دفعہ شملہ گیا تو میں نے دیکھا کہ پہلے ایک ٹیلہ آتا ہے اس کے بعد دوسراٹیلہ آتا ہے ۔پھر تیسراٹیلہ آتا ہے ۔اورہرٹیلہ پہلے ٹیلے سے زیادہ بلندہوتاہے ۔مگرہرٹیلے کے بعد ایک انحطاط بھی ہوتاہے ۔جب انسان پہلے ٹیلے پر قدم رکھتاہے تواس کے بعد اسے یہ محسوس ہوتاہے کہ میں اب نیچے جارہاہوں ۔مگر درحقیقت وہ پہلی سطح سے اونچا ہورہاہوتاہے ۔پھر دوسرے ٹیلے کے بعد جب نیچے اترتاہے ۔توپھر اس کے دل میں یہ خیا ل پیداہوتاہے کہ اب میں نچلی طرف جارہاہوں مگرحقیقت میں اس کا قدم اونچا اٹھ رہاہوتاہے ۔اسی طرح قدم بقدم ارتفاع اورانحطاط کے دوروں میں سے گذرتے ہوئے وہ بہت بلند پہاڑپر چڑھ جاتاہے۔ جس طرح قانون قدرت میں ہمیں یہ نظارہ نظر آتاہے ۔اسی طرح انسانی دماغوں کا ارتقاء بھی ہے ۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ا سوقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست فیوض حاصل کرنے کے نتیجہ میں یہ تعلیم لوگوں نے اپنا لی ۔مگر چونکہ دماغی ارتقاء بھی لہروں کی صورت میں چلتاہے اس لئے پہلی لہر کے بعد ا س میں ایک انحطاط کی صورت واقع ہوگئی ۔اب دوسری لہر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ بلند ہوئی ہے ۔ اوریہ لہر قانون قدرت کے مطابق پہلی لہر سے زیادہ بلندہوگی ۔مگر بہرحال ہرلہر کے بعد ایک انحطاط بھی آتاہے اورلوگ اصل تعلیم کو بھول جاتے ہیں ۔جب تک یہ چیز قائم ہے اس وقت تک کسی انشورنس وغیرہ کی ضرورت نہیں رہتی ۔انشورنس کی غرض آخر کیا ہوتی ہے۔ یہی کہ اگرہم مرجائیں توہمارے بیوی بچوں کو روٹی ملتی رہے ۔کپڑا ملتارہے ۔سامانِ خوردونوش اورمکان ملتارہے۔جب حکومت ان تمام چیز وںکی ذمہ وار ہوگی توانشورنس کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔کیونکہ ساروں کامکان بھی مل رہاہوگا۔غذابھی مل رہی ہوگی ۔کپڑابھی مل رہاہوگا۔ان کی تعلیم کابھی انتظام ہورہاہوگا ۔اوران کی بیماریوں کا علاج بھی ہورہاہوگا ۔یہی وہ قومی اخراجات ہیں جن کی ادائیگی کے لئے اسلام نے زکوٰۃ اور صدقہ و خیرات کا وسیع نظام جاری فرمایا ہے ۔اورمومنوں کی علامت ہی اس نے یہ بتائی ہے کہ وہ زکوٰۃ اداکرتے ہیں ۔اوراس طرح مخلوق کی خدمت کرکے خالق کی محبت کوحاصل کرتے ہیں۔دنیا میں بہترین ذریعہ کسی کی محبت حاصل کرنے کا یہی ہوتاہے کہ اس کے کسی عزیز سے محبت کی جائے ریلوے سفرمیں روزانہ یہ نظارہ نظر آتاہے کہ پاس بیٹھے ہوئے دوست کے بچہ کو ذراپچکار دیں یااسے کھانے کے لئے کوئی چیز دیدیں توتھوڑی دیر کے بعد ہی اس کاباپ اس سے محبت کی باتیں کرنے لگ جاتاہے کہ گویا وہ اس کا بہت پرانا دوست ہے ۔یہی طریق روحانی دنیا میں بھی جاری ہیح ۔جب انسان بنی نوع انسان کی بھوک اور ان کے افلاس کودورکرنے کے لئے اپناروپیہ خرچ کرتاہے توخداتعالیٰ کہتا ہے کہ چونکہ یہ میرے پیاروں کی خدمت کرتاہے اس لئے اسے بھی اپنے پیا روں میں داخل کرلیا جائے ۔حدیثوں میں آتاہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعض لوگوں سے کہے گا کہ دیکھو می بیمار تھا مگر تم لوگ میری عیادت کے لئے نہ آئے ۔میں بھوکاتھا ۔مگرتم نے مجھے کھانا نہ کھلا یا ۔میں ننگا تھا ۔تم نے مجھے کپڑ انہ دیا ۔اس پر وہ بندے کہیں گے کہ اے ہمارے رب!توکس طرح بیمار ہوسکتاتھا یاتوکس طرح بھوکااورننگاہو سکتاتھا تُوتو ان نقائص سے منزہ ہے ۔ا س پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جب میرے بندوں میں سے بعض لوگ بیمار تھے یا بعض لوگ بھوکے اورننگے تھے اورتم نے ان کی تیمار داری نہ کی۔نہ انہیں روٹی کھلائی اورنہ ان کا ننگ ڈھانکنے کے لئے انہیں کپڑادای توتم نے انہیں ان چیزوں سے محروم نہیں کیا بلکہ مجھے محروم کیا ۔پس زکوٰۃ اسلام کا ایک اہم ترین رکن ہے جس کو نظر انداز کرنا انسان کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کامورد بنادیتاہے ۔کیونکہ ایساانسان غرباء کے حقوق کو نظر انداز کرنے والاہوتاہے ۔
پھر فرماتاہے مومنوں کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ۔وہ آخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں۔یعنی وہ قربانیاں کرتے اورکرتے چلے جاتے ہیں ۔اوراس امر کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ ان قربانیوں کا پھل انہیں زندگی میں بھی ملتاہے یا نہیں ملتا ۔کیونکہ وہ آنے والی زندگی پر یقین رکھتے ہیں اوریہ یقین ان کے اندر اتنی جرأت پیداکردیتاہے کہ وہ قربانیوں کی آگ میں اپنے آپ کو بلادریغ جھونک دیتے ہیں ۔
دنیا میں بھی جب ایک سپاہی لڑائی میں جاتاہے توآخر کون سے فائدہ کے لئے جاتاہے ۔ہر شخص سمجھتاہے کہ میں ماراجائوں گا اوربسااوقات وہ ماراجاتاہے مگرفائدہ اس کی قوم اٹھاتی ہے۔اسی طرح جب ماں اپنے بچے کو اپنا خو ن چوسارہی ہوتی ہے تواسے کیا فائدہ حاصل ہورہاہوتاہے ۔دودھ کاایک ایک گھونٹ ماں ک خون سے بنتاہے ۔اس لئے ایک ایک گھونٹ جو بچے کے گلے سے اترتاہے وہ درحقیقت ماں کا خون ہوتاہے جسے وہ چوستاہے ۔اگرتمہاری ماں تمہارے منہ میں اپنا دودھ نہ ڈالتی ۔اگرتمہاری ماں بھی یہی کہتی کہ میں اپنا خون کیوں چوسنے دوں توتم زندہ نہیں رہ سکتے تھے ۔تمہاری ماں نے تمہی اپنا خون دیا اس لئے کہ تم زندہ رہو۔اب تمہاراکام یہ ہے کہ تم اپنا خو ن گرائو تاکہ تمہاری اولاد اورتمہاری قوم اورتمہاراملک زندہ رہے ۔
بدر کی جنگ میں جو صحابیؓ شہید ہوئے تھے ان صحابیوںؓ نے دنیا کاکون ساسکھ دیکھا تھا ۔انہوں نے اپنے ماں باپ کو چھوڑا اوراپنے رشتہ داروںکوچھوڑااپنے ساتھیوںکو چھوڑا اورپھر تیرہ برس تک کفار کے سخت ترین مظالم کا نشانہ بننے کے بعد ایک دُکھتے ہوئے دل کے ساتھ،ایک رِستے ہوئے زخم کے ساتھ انہوں نے مکہ کو بھی چھوڑدیا اس امید کے ساتھ کہ انہیں پھر مکہ کی زیارت نصیب ہوگی ۔ مگرابھی ہجرت پر ڈیڑھ سال بھی نہیں گذراتھاکہ وہ اپنے وطن سے دور۔پرانے وطن سے بہت دور اورنئے وطن سے بھی میلوں دور ایک تپتے ہوئے ریت کے جنگل میں کفار کی تلوار سے کٹ کٹ کر تڑپنے لگ گئے ۔ان کے سر ایک طر ف تھے اوردھڑ دوسر ی طرف ۔ اگریہ لو گ بھی یہی کہتے کہ ہم نے قربانی کرکے کیا لینا ہے ۔پھل تودوسروں نے کھانا ہے تواسلام کو وہ شان و شوکت جو بعد میں اسے حاصل ہوئی کہاں حاصل ہوسکتی تھی ۔
اسی طرح جنگ اُحدکا ایک واقعہ ہے ۔جنگ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی ابن کعبؓ کو فرمایا کہ جائو اورزخمیوں کو دیکھو ۔و ہ دیکھتے ہوئے حضرت سعد بن ربیعؓ کے پاس پہنچے جو سخت زخمی تھے اور آخری سانس لے رہے تھے ۔انہوں نے ان سے کہا کہ اپنے متعلّقین اور اعزّاء کو اگر کوئی پیغام دینا ہوتو مجھے دیدیں۔حضرت سعدؓ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں منتظر ہی تھاکہ کو ئی مسلمان ادھر آئے توپیغام دوں۔تم میرے ہاتھ میں ہاتھ دیکر وعدہ کروکہ میراپیغام ضرور پہنچادو گے ۔اوراس کے بعد انہوں نے جو پیغام دیا و ہ یہ تھاکہ میرے بھائی مسلمانوںکو میراسلام پہنچا دینا اورمیری قوم اورمیرے رشتہ داروں سے کہنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پا س خداتعالیٰ کی ایک بہترین امانت ہیں ۔اورہم اپنی جانوں سے اس امانت کی حفاظت کرتے رہے ہیں ۔اب ہم جاتے ہیں اور اس امانت کی حفاظت تمہارے سپر د کرتے ہیں ۔ایسا نہ ہو کہ تم اس کی حفاظت میں کمزوری دکھائو۔دیکھو ایسے وقت میں جب انسان سمجھتاہوکہ میں مررہاہوں ۔کیسے کیسے خیالات اس کے دل میں آتے ہیں ۔ وہ سوچتاہے میری بیوی کاکیاحال ہوگا۔میرے بچوں کو کون پوچھے گا۔مگراس صحابیؓ نے کوئی ایسا پیغام نہ دیا ۔صرف یہی کہا ۔کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے اس دنیا سے جاتے ہیں تم بھی اسی راستہ سے ہمارے پیچھے آجائو۔ان لوگوں کے اند ریہی ایمان کی قوت تھی جس سے انہوں نے دنیا کو تہ و بالاکردیا اورقیصروکسریٰ کی سلطنتوں کے تختے الٹ دیئے ۔قیصر روم حیران تھا کہ یہ کو ن لوگ ہیں ۔کسریٰ نے اپنے سپہ سالار کو لکھا کہ اگر تم ان عربوں کو بھی شکست نہیں دے سکتے توپھر واپس آجائو اورگھر میں چوڑیاں پہن کر بیٹھو ۔یہ گوہیں کھانے والے لوگ ہیں ان کوبھی تم نہیں روک سکتے۔ اس نے جواب دیا کہ یہ توآدمی معلوم ہی نہی ہوتے ۔یہ توکوئی بلا ہیں ۔یہ تلواروں اورنیزوں کے اوپر سے کودتے ہوئے آتے ہیں۔
یہ جرأت مردوں پر ہی موقو ف نہیں ۔مجھے تو ایک ماں کی قربانی پر حیرت آتی ہے۔حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں جب عراق میں قادسیہ کے مقام پر جنگ جاری تھی ۔توکسریٰ میدان جنگ میں ہاتھی لایا ۔اونٹ ہاتھی سے ڈرتاہے اس لئے وہ انہیں دیکھ کر بھاگتے تھے اور اس طرح مسلمانوں کو بہت نقصان ہوااوربہت سے مسلمان مارے گئے ۔آخر ایک دن مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ ہو آج ہم میدان سے ہٹیں گے نہیں۔جب تک دشمن کو شکست نہ دے لیں ۔ایک عورت حضرت خنساء اپنے چا ربیٹوںکولے کر میدان جنگ میںآئیں اوران کو مخاطب کرکے کہنے لگیں کہ پیارے بیٹو!تمہارے باپ نے اپنی زندگی میں ساری جائداد تباہ کردی تھی ۔اورمجھے مجبور کیا کہ میں اپنے بھائی سے کہو ں کہ وہ مجھے حصہ دے ۔چنانچہ میں اس کے پاس گئی ۔اس نے میرابڑا اعزاز کیا ۔بڑی دعوت کی اورپھر اپنی جائداد میں سے آدھی مجھے بانٹ دی ۔میں و ہ لے کرچلی گئی ۔توتمہارے باپ سے میں نے کہا ۔کہ اب تو آرام سے گذارہ کرو۔ مگر اس نے پھر اسے بھی برباد کردیا ۔اورپھر مجبور کرکے میرے بھائی کے پاس مجھے بھیجا ۔پھر میں اس کے پاس گئی ۔اس نے پھر میرابڑااعزازواحترام کیا ۔اورپھر بقیہ میں سے مجھے آدھی جائداد بانٹ دی مگر وہ بھی تمہارے باپ نے برباد کردی اور پھر مجھے مجبور کیا کہ اپنے بھائی سے جاکر حصہ لوں ۔چنانچہ میں پھر بھائی کے پاس گئی اوراس نے پھر بقیہ جائداد بانٹ دی مگر وہ بھی تمہارے باپ نے برباد کردی اورجب تمہاراباپ مراتواس نے کوئی جائیداد نہ چھوڑی ۔میں اس وقت جوان تھی ۔تمہارے باپ کی کوئی جائیداد نہ تھی۔پھر اپنی زندگی میں اس نے میرے ساتھ کو ئی حسن سلوک بھی نہ کیا تھا ۔اوراگر عرب کے رسم و رواج کے مطابق میں بدکارہوجاتی توکوئی اعتراض کی بات نہ تھی ۔مگر میں نے اپنی تمام عمر نیکی سے گذاری اب کل فیصلہ کن جنگ ہونے والی ہے ۔ میرے تم پر بہت سے حقوق ہیں ۔کل کفر او ر اسلام میں مقابلہ ہوگا اگرتم فتح حاصل کئے بغیر واپس آئے ۔تومیں خداتعالیٰ کے حضورکہوں گی کہ میں ان کو اپناکوئی بھی حق نہیں بخشتی ۔اس طر ح اس نے اپنے چاروں بیٹوںکو جنگ میں تیار کرکے بھیج دیا ۔اورپھر گھبراکر خود جنگل میں چلی گئی اوروہاں تنہائی میں سجدہ میں گرکر اورروروکر اللہ تعالی سے دعائیں مانگنے لگی ۔اوردعایہ کی کہ اے میرے خدا میں نے اپنے چاروں بیٹوں کو دین کی خاطر مرنے کے لئے بھیج دیاہے لیکن تجھ میںیہ طاقت ہے کہ ان کو زندہ واپس لے آئے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ مسلمانوں کو فتح بھی ہوگئی اوراس کے چاروں بیٹے بھی زندہ واپس آگئے ۔یہ جرأت او ر بہادری ایمان بالآخرۃ ہی کا نتیجہ تھی ۔یہ لوگ سمجھتے تے کہ دنیا کی نجات اسلام سے وابستہ ہے اورہم خواہ مارے بھی جائیں تب بھی پرواہ نہیں کیونکہ دنیا بچ جائے گی ۔اوراسلام کو غلبہ حاصل ہوجائے گا بیشک ایک کہنے والا کہہ سکتاہے کہ آج تواسلام کو کہیں غلبہ حاصل نہیں۔مگراس تنزل کے زمانہ میں بھی ان لوگوں کی قربانیوں نے ہی مسلمانوں کویہ عظمت دی ہوئی ہے کہ اسلام کانام بوجہ اس کثرت کے جو مسلمانوں کوحاصل ہے دنیا کے تمام لوگ ادب سے لینے پر مجبور ہیں ۔یہ رُعب مسلمانوں کو کہاں سے حاصل ہوا؟ انہی لوگوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں حاصل ہواہے جوبسااوقات فاقہ سے رات کوسوئے اور بسااوقات فاقہ سے ہی صبح کو اٹھے بسااوقات اگران کی پگڑی پھٹی ہوئی ہوتی تھی توانہیں پہننے کے لئے دوسری پگڑی نہیں ملتی تھی ۔جوتی پھٹی ہوئی ہوتی تھی توانہیں پہننے کے لئے دوسر ی جوتی نہیں ملتی تھی ۔یہ وہی رُعب ہے جو تمہارے باپ دادا کی قربانی کے نتیجہ میں تمہیں حاصل ہوا۔کہتے ہیں نام بڑاہوتاہے کام بڑانہیں ہوتا ۔اب کام عام طور پر مسلمانوں کے چھوٹے ہیں ۔لیکن انہیں نام ایسا حاصل ہوگیاہے کہ سب لوگ ان سے ڈرتے ہیں ۔
حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایاکرتے تھے کہ رستم کے گھر میں ایک د فعہ چو ر آگیا ۔رستم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے نکلا اوردونوں میں کُشتی شروع ہوگئی چور کو یہ پتہ نہیں تھا کہ جس شخص کاوہ مقابلہ کررہاہے وہی رستم ہے ۔وہ یہ سمجھ رہاتھا کہ یہ کوئی رستم کا نوکر ہے ۔آخر مقابلہ کرتے کرتے چور غالب آگیا اوروہ سینہ پر چڑھ کر رستم کی گردن کاٹنے لگا ۔اتنے میں رستم نے یکدم شور مچادیا کہ ’’ آگیا رستم۔آگیا رستم ‘‘اورچو ریہ سنتے ہی اس کے سینہ پرسے اتر کربھاگ گیا ۔حالانکہ اس نے رستم کو گرایاہواتھا ۔مگرچونکہ رستم کے نام کو ایک خاص رعب حاصل ہوچکا تھا اس لئے اس نے رستم کوتوگرالیا ۔مگررستم کے نام کا مقابلہ نہ کرسکا اوربھاگ گیا۔ توجولو گ قربانیاں کرنے والے ہوتے ہیں وہ دنیا میں اپنا نام چھوڑ جاتے ہیں ۔وہ مرجاتے ہیں مگر ان کانام ان کی اولادوں کی حفاظت کرتاچلاجاتاہے اورپھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگلے جہان میں جوانہیں لازوال بدلہ ملے گا اس کاتوتصوربھی نہیں کیاجاسکتا ۔پس بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایاہے کہ مومنوں کایہ خاصہ ہے کہ وہ قربانیوں کے میدان میں بڑھتے چلے جاتے ہیں کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل یقین ہوتاہے اوروہ سمجھتے ہیں کہ ہماری یہ قربانیاں ہماری قوم کو بھی عزت دیں گی اور خود ہمارے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی رضاکاموجب ہوں گی ۔گویا وہ وسیع نتائج جو آئندہ نکلنے والے ہوتے ہیں ان پر انہیں پورایقین ہوتاہے ۔ اوروہ اس مقصد کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ۔
ان الذین لایومنون بالاخرۃ زینا لھم اعمالھم فھم یعمھون
وہ لوگ جو اُخروی زندگی پر ایمان نہیں لاتے ۔ ہم نے ان کے اعمال کو ان کے لئے خوبصورت کرکے دکھا یا ہے پس وہ بہکے بہکے
اولئک الذین لھم سوء العذاب وھم فی الاخرۃ ھم الاخسرون٭
پھرتے ہیں ۔ ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا اور وہ اخروی زندگی میں سب سے زیادہ گھاٹاپانے والے ہوں گے ۔۲؎
۲؎ حل لغات :۔یَعْمَھُوْنَ:عَمَہَ سے نکلاہے اور عَمَہَ یَعْمَہٗ عَمَھًا وَعَمُوْھِیَۃً وَعَمْھَانًا کے معنے ہوتے ہیں تَرَدَّدَفِی الضَّلَالِ وَتَحَیَّرَ فِیْ مُنَازَعَۃٍاَوْ طَرِیْقٍ۔گمراہی میں بھٹکا پھر ا اورکسی جھگڑے میں یاراستہ میں حیران ہوگیا ۔یعنی پوری طرح سمجھ نہ سکا کہ اپنے حق میں کیا دلیل دے اورکس راستہ کو اختیار کرے۔
علامہ زمخشری اپنی کتا ب ’’ کشاف ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عَمَہَ کا لفظ بھی عَمٰی کی طرح ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ یاء کے ساتھ جو عَمٰی ہے وہ آنکھوں ک بینائی کے فقدان اورعقل کی بینائی کے فقدان میں مشترک طورپر استعمال ہوتاہے وَالْعَمَہَ خَاصٌ بِالْبَصِیْرَۃِ اور عَمِہَ جو ھ کے ساتھ ہوتاہے وہ عقل کی بینائی کے ساتھ مخصوص ہے ۔گویا اہل عرب یہ کبھی نہیں کہتے کہ فلاں شخص اَعْمَہُ الْعَیْنِ ہے(اقرب)مزید تفصیل کے لئے دیکھیں تفسیر کبیر جلد سوم ص ۳۷
تفسیر :۔فرماتاہے ۔وہ لوگ جو اُخروی زندگی پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے اعمال ان کو خوبصورت کرکے دکھائے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے بر ے اعمال کو بھی اچھا سمجھ رہے ہیں اور گمراہی میں بہکتے پھرتے ہیں ۔
اس آیت میںاللہ تعالیٰ نے کفار کی بدعملی اور ان کے انکار کی بنیادی وجہ آخرت کا انکار قرار دیا ہے اوربتایاہے کہ چونکہ یہ لوگ کسی جزاسزاکے قائل نہیں اس لئے انہیں اپنے اعمال کے متعلق کبی فکرپیدانہیں ہوااورنہ صداقت پر غور کرنے اور اپنے اعمال و کردار کا جائزہ لینے کا انہیں کبھی احساس ہوتاہے ۔اگر انہیں یقین ہوتاک ہمیں ایک دن اپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضرہوناپڑے گااورہمارے ناپسندیدہ اعمال ہمیں گرفت میں لے آئیں گے توان کا رویہ بالکل اَورہوتااوران کے اند رمتانت اور سنجیدگی کے جذبات نمایاںہوتے ۔مگر اب چونکہ گرفت کا احساس ان کے اند رنہیں پایاجاتا اسلئے ان کے دل ایسے غبی ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے ناد رافعال میں بھی ایک لذت اور سرور محسوس کرتے ہیں ۔اورانکو قابل نفرت چیز قرار دینے کی بجائے قابل تعریف سمجھنے لگ گئے ہیں ۔آخر دنیا میں کیوں کوئی شخص کسی سانپ کے سوراخ میں اپنا ہاتھ نہیں ڈالتا۔کیوں وہ جلتی ہوئی آگ میں نہیں کود جاتا ۔کیوں وہ شیروں کی کچھار میں اپنے آپ کو نہیں پھینک دیتا ۔کیوں وہ زہر کاجام اپنے ہونٹوں سے نہیں لگاتا ۔اسی لئیی کہ وہ سمجھتاہے کہ اگرمیں نے سانپ کے سوراخ میں اپنا ہاتھ ڈالاتومیری موت یقینی ہے ۔اگر میں جلتی ہوئی آگ میں کوداتومیراجھلس جانایقینی ہے ۔اگر میں نے اپنے آپ کو شیروں کی کچھا رمیں ڈال دیاتو میری ہلاکت یقینی ہے اگر میں نے زہر کا پیالہ اپنے منہ سے لگایا تومیرامرجانا یقینی ہے ۔پھر اگر ایسا ہی ایما ن کسی شپص کا آخرت پر بھی ہوتووہ کب کسی گناہ کا دلیری کے ساتھ ارتکاب کرسکتاہے ۔ گناہوں پر دلیری اورنبیوں کے انکار کی بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ آخرت کا یقین دل میں نہیں ہوتا ۔انسان بڑی دلیری سے کہہ دیتاہے کہ
’’ ایہہ جہان مٹھا اگلا کِن ڈٹھا ‘‘
یعنی اس جہان کے تومزے ہمیں لوٹنے دو ۔اگلا جہان کس نے دیکھا ہے ۔کہ ایک ان دیکھے دن کے لئے ابھی سے ہم ان لذائذ کوترک کردیں۔غرض اعمال کی خوبی یابرائی صرف جزاسزا کے عقیدہ سے تعلق رکھتی ہے ۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس جگہ فرمایا ہے کہ جو لوگ آخرت کونہیں مانتے وہ اپنے برے اعمال کو بھی اچھا سمجھتے ہیں یعنی نیکی اور بدی میں وہ اصولاً کوئی فرق نہیں کرسکتے کیونکہ جب نتیجہ کوئی نہیں۔نہ اچھے کام کاکوئی انعام ہے اور نہ برے کام کی کوئی سزاہے تو پھر کسی فعل کا اچھا اور کسی کابراہوناکیا معنے رکھتاہے ۔
یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ تمام اعمال نیت کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں ۔یوں توکافر بھی بعض اعمال ایسے کرتاہے جومومنوں کے اعمال ک مشابہ ہوتے ہیں لیکن چونکہ اس کے ساتھ نیت نیک نہیں ہوتی اورنہ خداتعالیٰ کی رضامندی مطلوب ہوتی ہے اسلئے اس کاعمل اسے کسی انعام کا مستحق نہیں بناتا۔لیکن مومن کے عمل کا شاندار نتیجہ نکلتاہے کیونکہ مومن کے عمل کے ساتھ نیت نیک بھی شامل ہوتی ہے اورخداتعالیٰ کی رضاکی جستجو بھی اس کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے ۔
زَیَّنَالَھُمْ اَعْمَالَھُمْ۔پر بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب ان ک برے اعمال خداتعالیٰ ہی ان کو خوبصورت کرکے دکھاتاہے تو پھر ان کا کیا قصور ہوا۔سواس بارہ میں یاد رکھنا چاہیئے کہ درحقیقت یہ خداتعالیٰ کی ایک سنت ہے او راس میں انسانی ترقی کے بہت سے راز مضمر ہیں ۔کہ جب کو ئی شخص کچھ مدت کو ئی کام کرتارہتاہے تواس کوا س کام سے ایک مناسبت پیداہوجاتی ہے اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگ جاتاہے ۔اوریہاںاسی قانون قدت کی طرف اشارہ ہے نہ کہ کسی خاص تقدیر کی طرف۔اوریہ بتایاگیا ہے کہ چونکہ انہوں نے سچے راستہ کو چھوڑ کر غلط راستہ اختیار کرلیاتھا اورانسانی فطرتگ میں یہ بات داخل ہے کہ جب وہ کوئی کام ایک لمبے عرصہ تک کرتاچلاجاتاہے تو اس کام کی محبت اس کے دل میں پیداہوجاتی ہے اوروہ اسے اچھا سمجھنے لگ جاتاہے ۔اس لئے انہیں بھی اب اپنی بد عملی خوبصورت دکھائی دینے لگتی ہے ۔اورچونکہ فطرت انسانی کا خداتعالیٰ ہی خالق ہے اس لئے زَیَّنَالَھُمْ اَعْمَالَھُم فرماکر اسے خداتعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیاہے ۔ورنہ اس کے یہ معنے نہیں کہ خداتعالیٰ انہیں برے اعمال اچھے کرکے دکھاتاہے ۔ بلکہ وہ خود فطرت کی اعلیٰ درجہ کی خوبی کا غلط رنگ میں استعمال کرکے برے اعمال کوبھی اچھے سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے آگ خداتعالیٰ نے اس لئے بنائی ہے کہ اس سے کھان تیار کیا جائے یاسردی سے بچائو کاسامان مہیا کیا جائے ۔اگر کوئی شخص آگ میں گرکر اپنے آپ کو جلا لے تویہ اس کا اپنا قصور ہوگا آگ کو پیداکرنے والے کاکوئی قصورنہیں ہوگا۔اسی طرح خداتعالیٰ نے انسانی ترقی کے لیئے یہ قانون بنایاہے کہ جوشخص کسی کام کاعادی ہوجاتاہے رفتہ رفتہ اسے اچھا سمجھنے لگ جاتاہے اوراس سے اسے ایک طبعی موانست پیداہوجاتی ہے ۔لیکن اگر کچھ لوگ اس قانون کو اس رنگ میں استعمال کریں کہ وہ برائیوں کا ارتکاب شروع کردیں اوراس قانون کے نتیجہ میں انہیں اپنی ہی برائیاں حسین نظر آنے لگیں توا سمیں خود ان کا اپنا ہی قصور ہوگا صانع فطرت پر اس سے کو ئی اعتراض پیدانہیں ہوگا ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاہے کہ جب کوئی شخص نیک عمل کرتاہے توخداتعالیٰ کے ملائکہ اس کے قلب پر ایک سفید نقطہ لگادیتے ہیں ۔دوسرانیک عمل بجالاتاہے تودوسراسفید نقطہ لگادیتے ہیں یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے اس کاتمام دل نو رانی ہوجاتاہے اورہرقسم کی بدی اس میں سے دو رہوجاتی ہے ۔اس کے بالمقابل جب کوئی شخص بدی کرتاہے توفرشتے اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگادیتے ہیں اورجب و ہ دوسری بدی کرتاہے تودوسراسیاہ نقطہ لگادیتے ہیں اورپھر اگروہ بدیوں میں بڑھتاجائے توان نقطوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کاتمام دل تاریک ہوجاتاہے اوراس کی نیکیوں کا خرمن جل کرراکھ ہوجاتاہے۔یہ حدیث بھی اسی قانون فطرت کی تشریح ہے کہ جب کو ئی شخص نیکیوں پر دوام اختیار کرتاہے تو نیکی اس کے جسم کا ایک حصہ بن جاتی ہے ۔اورجب بدیوں پر دوام اختیار کرتاہے توبدیاں اس کے جسم کا ایک حصہ بن جاتی ہیں ۔اورجوچیز انسان کے جسم کا ایک حصہ بن جائے وہ اسے اچھی ہی دکھائی دیتی ہے بری نظر نہیں آتی ۔اگر اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان پر رحم کرتے ہوئے انسانی فطرت میں یہ بات نہ رکھ دیتاتونیکی اختیار کرنایاکسی کام میں دوام اختیار کرنا اس کے لئے بڑا مشکل ہوتا۔ مگرا س قانون کی وجہ سے نیکیوں می ترقی کرنے کاسفر بڑاآسان ہوگیاہے ۔اورہرعمل اس سے اگلے عمل کو آسان تربنادیتاہے ۔آخر ایک ماہر فن کی تعریف کیوں کی جاتی ہے اسی لئے کہ مسلسل ایک کام کرنے کی وجہ سے وہ اپنے اند ر ایک ایسی قابلیت پیداکرلیتاہے کہ اس فن سے اسے ایک مناسبت پیداہوجاتی ہے اوروہ اس میں دوسروں سے آگے نکل جاتاہے ۔اگراللہ تعالیٰ انسانی فطرت میں یہ ملکہ نہ رکھ دیتا کہ مسلسل کام کے نتیجہ میں اسے اپنے کام سے ایک مناسبت پیداہوجاتی ہے توکوئی شخص بھی اپنے فن میں ترقی نہ کرسکتا۔ یہی قانون نیکی اوربدی کے میدان میں بھی جاری ہے ۔ایک نیک انسان پہلے اپنے نفس پر بوجھ محسوس کرتے ہوئے کسی نیکی کیطرف اپنا قدم بڑھاتاہے ۔مگررفتہ رفتہ وہی نیکی اس کے رگ و ریشہ یں اس طرح سرایت کرجاتی ہے کہ اس کاترک کرنا اس کے لئے ناممکنات میں سے ہوجاتاہے ۔اسی طرح جب کوئی شخص بدی میں اپنے آپ کو ملوث کرنا شروع کردیتاہے توخواہ پہلی بدی اس کے دل میں اضطراب پیداکردے مگر رفتہ رفتہ وہی بدی اس کی غذابن جاتی ہے جس کو چھوڑنا اس کے لئے بڑادوبھر ہوجاتاہے ۔
غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی قانون کی طرف اشارہ فرمایاہے اوربتایاہے کہ چونکہ ان لوگوں نے آخرت کا انکار کردیا ہے ۔جس کی وجہ سے انہیں کسی گرفت ک اخوف نہیں رہا ۔اس لئے ان کے دلوں میں گناہوں پر دلیری پیداہوگئی ہے اورپھر متواترگناہوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر ایسازنگ لگ گیا ہے کہ وہ اپنے برے افعال کو بھی اچھاسمجھنے لگ گئے ہیں ۔اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے پاس ایک دفعہ ایک چو ر علاج کرانے کے لئے آیا۔توآپ نے اسے وعظ و نصیحت کرنی شرو ع کی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہاتھ پائوں اس لئے نہیں دیئے کہ تم ان سے حرام روزی کھایاکرو۔بلکہ اس لئے دیئے ہیں کہ تم ان کے ذریعہ سے حلال روزی کما کر کھا ئو ۔تم چوری کرنا چھو ڑکیوں نہیں دیتے ۔اورکیوں حلال روزی نہیں کماتے ۔جب آپ نے اسے یہ وعظ و نصیحت کی تواس کی آنکھیں غصے کی وجہ سے سرخ ہوگئیں ۔اورکہنے لگا ۔اچھامولوی صاحب اگر یہ حلال کی روزی نہیں توپھر اَورکونسی حلال کی روزی ہے ۔آپ لوگ میٹھی نیند سورہے ہوتے ہیں اورہم مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں ۔اگر کسی کوہمارے متعلق علم ہوجائے تووہ ہمیں گولی مارکر مار دے ۔ہم اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈا ل کرچوری کرتے ہیں ۔پھراس سے بڑھ کر اورکونسی حلال روزی ہوسکتی ہے ؟۔حضر ت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ اسے چوری کی عادت پڑ چکی ہے اور یہ اکام کرتے کرتے اس کی فطرت اتنی مسخ ہوچکی ہے کہ اب یہ کام اس کی نگاہ میں برانہیں رہا ۔اس لئے اب بحث کے رنگ میں سمجھانے سے کوئی فائدہ اسے نہیں ہوسکتا۔چنانچہ آپ فرماتے تھے کہ میں نے بات کو ٹلادیا ۔اورادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں تاکہ یہ بات اس کے ذہن سے نکل جائے ۔جب کچھ دیر گذر گئی تومیں نے س سے پوچھا کہ تم چوری کس طرح کرتے ہو؟اس نے کہا کہ اکیلا آدمی چوری نہیں کرسکتا بلکہ ہم پا نچ سات آدمی مل کرچوری کرتے ہیں ۔ان میں سے ایک آدمی گھر کا راز دار ہوتاہے اوروہ عام طور پر سقّہ یا چوہڑہ وغیرہ ہوتاہے کیونکہ راز دار کے بغیر چوری نہیں ہوسکتی ۔وہی کمروں او ردروازوں کے متعلق بتاتا ہے اوروہی اس بات کے متعلق اطلاع دیتاہے کہ نقدی اورزیورات کہاں ہیں ۔اس کے بعد ایک ایسے آدمی کی ضرورت ہوتی ہے جسے سیندھ لگانی آتی ہواوروہ ایسے طور پر اوزاروںکواستعمال کرے کہ سیندھ لگانے کی آواز پیدانہ ہواوراس کی آوازسے گھر والے بیدارنہ ہوجائیں ۔پھر ایک تیسراآدمی ہوناچاہیئے جو تالے وغیرہ کھولنے میں مشاق ہو۔جب دوسراآدمی سیندھ لگالیتاہے تو وہ ایک طرف ہوجاتاہے اورپھر اس تیسرے آدمی کاکام شروع ہوجاتاہے اوروہ صندوقوں کے تالے کھولتاجاتاہے اورپھرایک چوتھا آدمی ایساہوناچاہیئے جو کہ ایسے طورپر چلنے میں مہارت رکھتاہوکہ اس کے پائوں ک آہٹ محسوس نہ ہو۔تیسراآدمی تالے کھول کراورسامان نکال کر چوتھے آدمی کو دیتاجاتا ہے ۔اوروہ باہروالوںکو پکڑاتا جاتاہے ۔پھر ایک پانچویں آدمی کی یہ ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ گلی کے سرے پر کھڑارہے اوراگرکسی شخص کو آتا جاتادیکھے توسیٹی بجادے یا کوئی اوراشارہ کردے تاکہ سب ہوشیار ہوجائیں ۔پھر چھٹا شخص ایساہوناچاہیئے جو سفید کپڑے پہنے ہوئے ہو او رکسی کو اس کے چلنے پھرنے پر شک نہ گذرے ۔کیونکہ ہم تو ننگ دھڑنگ ہوتے ہیں اورہمیں کوئی دیکھ لے تو یقیناً ہم پر چور ہونے کا شبہ کرے لیکن یہ آدمی ایسے کپڑوں میں پھر تاہے کہ کسی کو اس پر شک نہیں گذرسکتا۔ہم نقدی اورزیورات وغیرہ س کے سپرد کردیتے ہیں ۔وہ نہایت اطمینان سے مال لے کر چلاجاتاہے ۔اورساتویں شخص کو جو سنار ہوتاہے دیدیتاہے ۔جو سونے کو اورہیرے اورجواہرا ت کو لاکھ سے جداکرتاہے اور اسے پگھلا کرایک نئی شکل دیدیتاہے ۔اوراس سونے کو آگے بیچتاہے اورپھر ہم سب آپس میں برابر تقسیم کرلیتے ہیں ۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے اسے کہا کہ اگر تمہاری اتنی محنت کے بعد وہ سنا ر تمہاراسوناکھاجائے توپھر تم کیاکرو ۔اس پر بے اختیار اس چور کے منہ سے نکلا کہ کیا وہ اتنا حرام خور ہو گا کہ دوسرے کا مال کھا جائے گا ۔میں نے کہا ۔بس اب تم سمجھ گئے ہو ۔معلوم ہواکہ دوسروں کامال کھانا حرام ہے اورتمہاری فطرت بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے مگر چوری کی عادت نے تمہاری فطرت کو ایسا مسخ کردیا ہے کہ تم اس کام کو بھی حلال کی کمائی سمجھنے لگ گئے ہو ۔مگرجہاں اللہ تعالیٰ کا یہ قانونو ہے کہ جو شخص ایک لمبے عر صہ تک کسی فعل کا ارتکاب کرتارہتاہے وہ رفتہ رفتہ اسے خوبصورت نظر آنے لگتاہے وہاںاس کا ایک یہ بھی قانون ہے کہ کسی برے کام کا اچھا نتیجہ نہیں نکل سکتا ۔چنانچہ فرماتاہے کہ اباوجود اس کے کہ انہیں اپنے برے اعمال میں لذت آرہی ہے اوروہ انہیں اچھا سمجھ رہے ہیں پھر بھی یہ ان کے اعمال بدنتائج سے محفوظ نہی ں رہ سکتے بلکہ انہیں دنیا میں بھی اپنے برے اعمال کی وجہ سے رسواہونا پڑے گا ۔او راُخر وی زندگی میں بھی وہ سب سے زیادہ نقصان اٹھانیوالے ہوں گے ۔
وانک لتلقی القرآن من لدن حکیم علیم٭
اورتجھ کو یقیناً قرآن اس (ہستی) کی طرف سے مل رہاہے جو بہت حکمت والی (اور )بہت جاننے والی ہے۔ ۳؎
۳؎ حل لغات :۔تَلَقّٰی کے معنے براہ راست منہ درمنہ کلام سننے کے ہوتے ہیں ۔چنانچہ لغت میں لکھا ہے ۔تَلَقّٰی الشَّیْئَ اَخَذَہٗ مِنْ فِیْکَ مُشَافَھَۃٌ (اقرب)یعنی تَلَقّٰی الشَّیْئَ کے معنے براہ راست دوسرے کے منہ سے کلام سننے کے ہوتے ہیں۔
تفسیر :۔اب فرماتاہے۔منکر بیشک انکار کرتے چلے جائیں ۔گالیاںد ینے والے گالیاںد یتے چلے جائیں اوربرابھلاکہنے والے برابھلاکہتے رہیں۔خدائے حکیم و علیم نے اپنی سکیم دنیا میں نافذ کردی ہے اوراب دنیا کی کوئی طاقت اسے پوراہونے سے روک نہیں سکتی ۔اب حاسدوں کے لئے حسد کے انگاروں پر لٹنے کے سواکوئی چار ہ نہیں ۔و ہ اپنے مونہہ کی پھونکوں سے نہ خداتعالیٰ کے اس روشن کردہ چرا غ کوبجھا سکتے ہیں اورنہ تیروسنان سے اسلام کی ترقی اوراس کی عظمت کو روک سکتے ہیں ۔کیونکہ یہ وہ تعلیم ہے جو حکیم و علیم خداتجھے بالمشافہ سکھا رہاہے ۔اوریہ ناممکن ہے کہ ایک حکیم ہستی جو ساتھ ہی علیم بھی ہے اس کی تعلیم کو دنیا قبول نہ کرے یااس کی تعلیم کو مٹانے پر وہ قدرت پاسکے ۔اس جگہ بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیداہوتاہے کہ پچھلی سورۃ میں تویہ فرمایاتھا کہ روح الامین تجھ پر کلام اتار تاہے او ریہاں یہ فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ تجھ پر براہ راست کلام ناز ل کرتاہے ۔ان دونوں میں اختلاف کیوں ہے؟ سویاد رکھنا چاہیئے کہ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ روح الامین سے مرادیہ ہے کہ جس صورت میں خداتعالیٰ نے فرشتے کو کلام دیا تھا اسی صورت میں اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا اور نسیان یاغلطی کااس میں کوئی امکان باقی نہ رہا ۔اورجو کلام نسیان او ر غلطی سے پاک ہو اورلفظاً لفظاً او رحرفاً حرفاً اورحرکۃً حرکۃً اس شخص کو پہنچ جائے جس کو کلام بھیجا گیاتھا تووہ ایساہی ہوتاہے جیسا کہ بالمشافہہ بات کرنا ۔کیونکہ بالمشافہہ بات کرنے میں یہی مدنظر ہوتاہے کہ کوئی غلطی نہ رہ جائے یاپیغامبر کچھ بھول نہ جائے ۔ جب پیغامبر کے متعلق بھی یہ احتیا ط کرلی گئی کہ نہ وہ کچھ بھولے نہ غلطی کرے نہ اس کا سنایاہواکلام مخاطب کو بھولے اور نہ وہ اس میں کو ئی غلطی کرے تودونوں کلاموںکو ایک سادرجہ حاصل ہوگیا۔پس اِنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلِیمٍ والی آیت سورئہ شعراء کی اس آیت کے خلاف نہیں کہ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنِ عَلیٰ قَلْبِکَ بلکہ وہ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے ۔
اس آیت میں درحقیقت عیسائیوں کے اس اعتراض کاجواب دیاگیاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تو خداتعالیٰ بالمشافہ کلام کرتاتھامگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جبریل نازل ہوتاتھا ۔اس جگہ بتایاگیاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خداتعالیٰ بالمشافہ گفتگو کرتاتھا ۔روح الامین کے واسطہ بننے کاذکر بطور تمثیل کے کیاگیاہے ۔ورنہ آپؐ سے بالمشافہ کلام ہونے مڑیں کوئی شبہ نہیں ۔
اذ قال موسی لاھلہ انی انست نارا ساتیکم منھا بخر
(یادکرو)جب موسیٰؑ نے ااپنے اہل سے کہا کہ میں نے ایک آگ دیکھی ہے ۔میں یقینا ً تمہارے پاس ا س(آگ )سے کوئی
اواتیکم بشھاب قبس لعلکم تصطلون٭
(عظیم الشان)خبرلائوں گا ۔یاتمہارے پاس ایک چمکتاہواانگارہ لائوں گا ۔تاکہ تم آگ سینکو۔ ۴؎
۴؎ حل لغات :۔اٰنَسْتُ:اٰنَسَ سے واحد متکلم کاصیغہ ہے اوراٰنَسَ الشَّیْئَ کے معنے ہیں اَبْصَرَہ ٗ۔اس کودیکھا ۔اٰنَسَ الصَّوْتَ:سَمِعَہٗ وَاَحَسَّ بِہٖ۔ اگر اٰنَسَ الصَّوْت کافقرہ کہیں تو اس کے معنے ہوں گے آواز کوسنا او رمحسوس کیا (اقرب)پس اٰنَسْتُ کے معنے ہوں گے ۔ میں نے دیکھا ۔
شِھَابٌ: اَلشِّھَابُ کے معنے ہیں شُعْلَۃٌ مِّنْ نَارٍ سَاطِعَۃٍ۔آگ کا شعلہ جو اوپر کو اٹھ رہا ہو۔ کُلُّ مُضِیْئٍ مُّتَوَلِّدٍ مِّنْ نَارٍ ۔آگ سے پیداہونے والی روشنی (اقرب)
قَبَسٍ:اَلْقَبَسُ کے معنے ہیں شُعْلَۃُ نَارٍ تُؤْخَذُ مِنْ مُّعْظَمِ النَّارِ۔ آگ کاشعلہ جو بڑی آگ سے لیاجائے (اقرب)
تَصْطَلُوْنَ:اِصْطَلٰی سے فعل مضارع جمع مذکر مخاطب کا صیغہ ہے اوراِصْطَلیٰ بِالنَّارِ اِصْطِلَائً کے معنے ہیں اِسْتَدْفَأَ بِھَا آگ تاپی اور اس سے گرمی حاصل کی ۔(اقرب)
تفسیر :۔ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے لطیف اور سمیع ہونے کی دلیل کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ پیش کیا گیا ہے ۔چنانچہ فرماتاہے کہ یاد کرو جب موسیٰ علیہ السلام نے مدین سے مصر آتے وقت ایک آگ دیکھی اور اپنے رشتہ داروں سے کہا ۔کہ میں اس آگ اکی طرف جاتاہوں ۔اوریاتومیں اس آگ کے پا س سے کو ئی خبر لائوں گا ۔یاتمہارے لئے کو ئی ایساانگارہ لائوں گاجس سے تم آگ سینک سکو ۔
قبس کا لفظ اس جگہ شھاب کا بدل ہے یعنی شھابسے میری مراد قبس ہے ۔اورچونکہ یہاں ناراً کالفظ استعمال کیاگیاہے ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک روحانی نظارہ تھا جسمانی نظارہ نہیں تھا۔مادی آنکھ سے دیکھنے والا کبھی یہ نہیں کہاکرتا کہ میں نے ’’ ایک آگ‘‘ دیکھی ہے ۔بلکہ وہ یہ کہا کرتاہے کہ میں نے آگ دیکھی ہے ۔اسی طر ح مادی آگ صرف ایک شخص کو نظر نہیں آتی بلکہ سب لوگوں کو نظر آتی ہے۔مگریہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں کہ وہ مجھے نظر آتی ہے ۔جس میں یہ اشا ر ہ پا یا جاتاہے کہ وہ آگ آپ کے باقی ساتھیوں کو نظر نہیں آئی تھی۔
پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں نے کشفی طور پر ایک آگ کا نظارہ دیکھا ہے او رمیں سمجھتاہوں کہ اس نظارہ کے دکھانے سے خداتعالیٰ کامنشاء یہ ہے کہ میں اس آگ تک جائوں ۔سومیں اس آگ تک جائوں گا ۔اورچونکہ وہ آگ ایک کشفی نظارہ تھا ۔اورکشفی طورپر آگ دیکھنے سے مراد ہدایت ہوتی ہے اورہدایت یادیکھنے والے کے لئے مخصوص ہوتی ہے یاساری قوم کے لئے عام ہوتی ہے اورابھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ پتہ نہیں تھا کہ جو انکشاف مجھ پر ہونے والا ہے وہ میرے لئے مخصوص ہے یا میرے خاندان اورقوم کے لئے عام ہے اس لئے انہوں نے اپنے اہل سے کہا ۔کہ اگر وہ ہدایت صرف میرے لئے مخصوص ہوئی تومیں ا س کی خبر تمہیں آرکرسنائوں گا ۔اوراگر وہ ہدایت ایسی ہوئی کہ مجھے دوسروں تک بھی پہنچانے کاحکم ہواتو میں اس میں سے کوئی انگارہ تمہارے سینکنے کے لئے بھی لے آئوں گا ۔یعنی کچھ تعلیم اس میں سے تم کو بھی سنائوں گا تاکہ تم اس سے روحانی سردی دور کرو ۔
اس جگہ جو قبس وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں یہ بھی حقیقی آگ پردلالت نہیں کرتے ۔کیونکہ جب کسی چیز کو کسی اور چیز سے تشبیہہ دی جاتی ہے تو اس کی صفات کو بھی اس کی نسبت استعمال کیاجاتاہے ۔جیسے کسی کو شیر کہیں تویہ نہیں کہیں گے کہ وہ شیر کی طرف تقریر کرتاہے ۔بلکہ یہ کہیں گے کہ وہ شیر کی طرح چنگھاڑتاہے ۔پس چونکہ اس جگہ جلوئہ الٰہی کانام آگ رکھاگیاتھا اس لئے آگے اس کے آثار وغیرہ کا نام بھی انگارہ رکھاگیا۔پس اس جگہ آگ او رانگارے سے مراد و ہ نور الٰہی ہے جو انہوں نے دیکھاتھا ۔اور چونکہ اب تک حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کامل وحی نہیں ہوئی تھی وہ یہ نہیں سمجھ سکتے تھے کہ آیا جو نور ان کی طر ف آیا ہے صرف ان کی ذات کے لئے ہے یاباقی خاندا ن اورقوم کے لئے بھی ہے ۔یعنی یہ جلوہ جو دکھائی دیا ہے یہ جلوئہ نبوت ہے یاجلوئہ ولایت ۔اس لئے انہوں نے کہا کہ آگ کے پاس جا کر یا تو میں کوئی خبر لائوں گا یعنی تم کو یہ بتائوں گا ک خداتعالیٰ نے مجھ پر یہ فضل نازل فرمایاہے ۔اوراگر وہ نور خاندان اورقوم کے لئے ہوایعنی جلوہ جلوئہ ولائت نہ ہوا بلکہ جلوئہ نبوت ہوااورمجھے حکم ہواکہ دوسروں کو بھی تعلیم دو تومیں ایسی تعلیمات لائوں گا جن سے خاندا ن اور قوم فائدہ اٹھائے اوران سے گرمی حاصل کرے۔
فلما جاء ھا نودی ان بورک من فی النا ر ومن حولھا سبحان اللہ رب العالمین٭
پھر جب و ہ اس (یعنی آگ ) کے پا س آئے توانکو آواز دی گئی کہ جو کوئی آگ میں ہے اورجو اس کے گر د ہے اس کو برکت دی گئی ہے ۔ اوراللہ رب العالمین پاک ہے ۔ ۵؎
۵؎ تفسیر :۔اپنے رشتہ داروں کو ہوشیار کرکے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اس جگہ پہنچے جہاں ان کو و ہ نظارہ دکھایاگیاتھاتوان کو الہام ہواکہ بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَھَا یعنی جو شخص اس آگ میں ہے اسے بھی برکت دی گئی ہے اورجو اس کے ماحول میں ہے اسے بھی برکت دی گئی ہے ۔
بعض مفسرین نے اس کے یہ معنے کئے یں کہ اس آگ میں اللہ تعالیٰ کا وجود تھا ۔اورتورات نے بھی یہی نظریہ پیش کیا ہے ۔چنانچہ خروج باب۳ میں لکھا ہے :۔
’’ خداوند کا فرشتہ ایک بوٹے میں سے آگ کے شعلہ میں اس پر ظاہر ہوا۔اس نے نگاہ کی توکیادیکھتاہے کہ ایک بوٹا آگ میں روشن ہے اوروہ جل نہی رہا۔تب موسیٰ نے کہا کہ میں اب نزدیک جائو ں اوراس بڑے منظر کو دیکھو ں کہ یہ بوٹا کیوں نہیں جل جاتا۔جب خداوند نے دیکھا کہ وہ دیکھنے کو نزدیک آیا توخدانے اس بوٹے کے اند ر سے پکاراا ور کہا کہ اے موسیٰ! اے موسیٰ! وہ بولا۔میں یہاں ہوں ۔تب اس نے کہا ۔یہاں نزدیک مت آ۔اپنے پائوں سے جوتااتار۔ کیونکہ یہ جگہ جہاں توکھڑا ہے مقدس زمین ہے۔‘‘
(خروج باب۳ آیت ۲تا ۵)
مگرقرآن اس نظر یہ کو تسلیم نہیں کرتا ۔کیونکہ وہ فرماتاہے کہ موسیٰ پر ہم نے یہ الہا م نازل کیا کہ بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَھَا کہ وہ جو اس آگ می ہے اسے بھی برکت دی گئی ہے اور اس کے ماحول کو بھی برکت دی گئی ہے ۔حالانکہ خداتعالیٰ دوسروں کو برکت دیتاہے ۔اسے کوئی اَور برکت نہیں دیتا۔گویا وہ تبارک تو کہلاسکتاہے مگر بُوْرِکَ نہیں کہلاسکتا۔پس یہ معنے کہ مَنْ فِی النَّار سے خداتعالیٰ مراد ہے کسی صورت میں بھی درست نہیں ہوسکتے ۔
پھر بعض لوگوں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے بُوْرِکَ لفظ بولناجائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو برکت نہیں دی جاتی بلکہ وہ خود برکت دیتاہے فِیْ کے معنے پیچھے کے کئے ہیں اورمراد یہ لی ہے کہ وہ شخص جو اس آگ کے پیچھے آرہاہے یااس کی تلاش میں ہے اسے برکت دی گئی ہے ۔مگر یہ معنے محاورہ کے خلاف ہیں ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فِیْ کے معنے پیچھے کے بھی آتے ہیں ۔مگر یہ معنے ایسے موقعہ پر استعمال کئے جاتے ہیں جبکہ فِیْ کے بعد کسی روحانی یامعنوی چیز کا ذکر ہو ۔ایسے موقعہ پر استعمال نہیں کئے جاتے جبکہ اس کے بعد اشیاء یا اشخاص کا ذکرکیاگیاہو ۔اورچونکہ مفسرین اس آگ کو جسمانی قرار دیتے ہیں اورجسمانی چیز کے لئے جب فِیْ کا لفظ استعمال کیاجائے توا سکے معنے پیچھے کے نہیں ہوتے ۔اس لئے یہ معنے بھی درست نہیں سمجھے جاسکتے ۔
پھر بعض لوگوں نے فِیْ کے معنے قرب کے کئے ہیں اورفِیْ النَّارِکے معنے آگ کے قریب ہونے کے کئے ہیں ۱؎۔اوروَمَنْ حَوْلَھَا کو اس کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے حالانکہ وَمَنْ حَوْلَھَاکے الفاظ ہی ان معنوں کو ردّ کررہے ہیں ۔کیونکہ خود وَمَنْ حَوْلَھَاکے معنے بھی قریب کے ہیں اور دوالفاظ سے ایک ہی مفہوم کواداکرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی ۔پس یہ معنے بھی درست
۱؎ ۔حاشیہ تفسیر قرطبی جلد ۱۳ص ۱۵۸
نہیں ۔
پھر بعض لوگوں نے کہا ہے کہ گو مَنْ کالفظ عام طور پر ذی عقل وجودوں کی طرف اشارہ کرتاہے مگر اس جگہ مَنْ سے مرادلایعقل اشیاء ہیں ۲؎۔اورمراد یہ ہے کہ وہ لکڑیا ںجو اس آگ میں ہیں ۔اوراس ک اردگرد کی جگہ بھی الٰہی تجلّی کی وجہ سے بابرکت ہوگئی ہے ۔مگر میرے نزدیک یہ سب معانی غلط ہیں ۔اورصرف نار سے دھوکا کھا کر کئے گئے ہیں ۔چونکہ انہوں نے نار کو جسمانی نا ر سمجھا اس لئے وہ ان مشکلات میں گرفتارہوگئے۔لیکن جیسا کہ میں ثابت کرچکا ہوں نَارًا کے لفظ سے ثابت ہے کہ یہ نظارہ مادی آگ کا نہیں تھا بلکہ روحانی نا ر کاتھا ۔اورجب اس آگ کو روحانی آگ قرار دے دیاجائے اورآگ سے مراد محبت الٰہی کی آگ سمجھ لیاجائے تواس آیت کا مفہوم سمجھنے میں کوئی دقّت باقی نہیں رہتی ۔کشف یا خواب میں آگ دیکھنے سے مراد ہمیشہ محبت الٰہی کا جذبہ ہوتاہے۔پس بُوْرِکَ کے لفظ سے نہ خداتعالیٰ مراد ہے نہ ہوسکتاہے کیونکہ وہ مجسم نہیں اورنہ اس کوکوئی برکت دیتاہے ۔ اورنہ بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِسے مراد موسیٰؑ ہیں ۔بلکہ اس آیت میں ایک عام قانون الٰہی بیان کیاگیاہے کہ ہروہ شخص جو محبت الٰہی اکی آگ میں جل رہاہواس کو بر کت دی جاتی ہے ۔اسی طرح نہ تو فِیْ کے معنوں کا جھگڑارہتاہے نہ مَنْ کے معنوں کا ۔نہ بُوْرِکَ کی ترکیب کا اورآیت بالکل حل ہوجاتی ہے ۔اوروَمَنْ حَوْلَھَا کے معنے بھی ظاہر ہوجاتے ہیں ۔یعنی جو شخص محبت الٰہی کی آگ میں پڑاہواہو نہ صرف اس کو برکت دی جاتی ہے بلکہ اس کے ہم صحبت بھی برکت پاتے ہیں ۔محبت کو دنیا کی تمام زبانوں میںآگ سے تشبیہ دی جاتی ہے اوررؤیا و کشوف میں بھی اگر کوئی شخص اپنے آپ کو آگ میں جلتاہوادیکھے تواس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ وہ عشق الٰہی کے مقام کو حاصل کرے گا ۔پس بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَھَا کا یہی مطلب ہے کہ جو شخص اس آگ میں پڑے گا و ہ برکت پاجائے گا
اورجواس کے اندرنہیں پڑے گا ۔بلکہ اس کے قریب آکر کھڑا ہوگاگویا اس سے کم حصہ لے گا وہ بھی برکت دیاجائے گا ۔اگر مَنْ فِیْ النَّارِ سے مراد موسیٰؑ ہوتے توپھر سوال پیداہوتاتھا کہ مَنْ حَوْلَھَا سے کیا مراد ہے ۔اس وقت سوائے حضرت موسیٰؑ کے آگ کے پاس اورکون تھا جس کے لئے مَنْ حَوْلَھَا فرمایاگیا۔پس اس جگہ کسی خاص شخص کی طرف اشارہ نہیں کیاگیا۔بلکہ یہ قانون بتایاگیاہے کہ جو اس آگ میں پڑے گا و ہ بھی برکت دیاجائے گا اورجو اس کے پاس آکر اس کی گرمی حاصل کرے گا وہ بھی برکت دیاجائے گا اورماضی کا لفظ مضار ع کے معنوں میں استعمال کیاگیا ہے یعنی برکت دیا جائے گا ۔
پرانے زمانہ میں دِلّی می ایک بزرگ تھے ان کے پا س ایک دفعہ ان کاایک مرید آیا ۔اوراس نے کہا کہ ہماراجو یہ خیال ہے کہ حضرت کرشن اور حضرت رام چندر جی ہندوستان کے نبی تھے یہ درست معلوم نہیں ہوتا ۔کیونکہ میں نے خواب می دیکھا ہے کہ ایک آگ جل رہی ہے اورحضرت کرشن جو تو اس کے اندر ہیں اورحضرت رامچندر جی اس کے کنارہ پر کھڑے ہیں ۔وہ بزرگ کہنے لگے تم نے اس خواب کی تعبیر غلط سمجھی ہے۔آگ کے معنے محبت الٰہی کی آگ کے ہیں اوراللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ بتایاہے کہ کرشن جی خداتعالیٰ کی محبت میں بہت بڑھے ہوئے تھے ۔اوررامچند ر جی ان سے کم درجہ رکھتے تھے۔اسی لئے حضر ت کرشن جی توآگ کے اندرجلتے ہوئے دکھائی دیئے ۔اوررامچندر جی آگ کے کنار ہ پر کھڑے ہوئے نظر آئے ۔
۲؎ ۔تفسیر بحر محیط جلد۷ ص ۵۶
آگے فرماتاہے وسُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔رب العالمین خداتمام عیبوں سے پاک ہے ۔یعنی جنہوں نے یہ کہاہے کہ آگ میں خداتعالیٰ تھا جیسا کہ بائیبل والوں نے وہ سب غلطی کرتے ہیں ۔خداتعالیٰ ہرقسم کے تجسّم سے پا ک اور منزہ ہے ۔اسی طرح سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن کہہ کر اس اامر کی طرف بھی اشار ہ فرمایاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو برکت دیتاہے اس کے ذریعہ دنیا میں اس کی سبّوحیّت کا اظہار ہوتاہے اورہرقسم کے عیوب جو خداتعالیٰ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں ان کا ازالہ کردیاجاتاہے اورخداتعالیٰ کا حسین چہرہ دنیا کو ایک بار پھر اپنی پوری شان کے ساتھ نظر آنے لگ جاتاہے۔
یموسی انہ انااللہ العزیز الحکیم٭والق عصاک فلما
اے موسیٰؑ!بات یہ ہے کہ میں اللہ ہوں جو غالب (اور)حکمت والاہوں۔اورتُولاٹھی پھینک۔اورجب اس نے
راھا تھتز کانھا جان ولی مدبراولم یعقب ۔
اس (یعنی لاٹھی)کودیکھا کہ وہ ہل رہی ہے گویا کہ وہ ایک چھوٹاسانپ ہے توو ہ پیٹھ پھیر کر بھاگا اورپیچھے مڑ کر نہ دیکھا (تب ہم نے
یموسی لاتخف، انی لا یخاف لدی المرسلون٭الامن
کہا )اے موسیٰ! ڈر نہیں ۔میں وہ ہوں کہ رسو ل میرے حضور ڈرانہیں کرتے ۔مگر جس نے
ظلم ثم بدل حسنا بعدسوء فانی غفور رحیم٭
ظلم کیا ۔لیکن پھر اس ظلم کو چھو ڑ کر نیکی اختیار کی ۔میں (اس کے لئے)بڑابخشنے والا (اور)بار با ررحم کرنے والاہوں۔۶؎
۶؎ حل لغات :۔تَھْتَزُّ:اِھْتَزَّ سے فعل مضارع واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے اوراِھْتَزَّتِ الْاِبِلُ کے معنے ہیں تَحَرَّکَتْ فِیْ سَیْرِھَا لِحُدَآئِ الْحَادِیْ حُدی خواں کے حدی کرنے پر اونٹ تیز چلے ۔اورجب اِھْتَزَّ الْمَآئُ فِیْ جَرَیَانِہٖ کہیں تومعنے ہوں گے تَطَلَّقَ ۔پانی تیزی سے بہا اوراِھْتَزَّ الْکَوْکَبُ فِیْ انْقِضَاضِہٖ کے معنے ہیں اَسْرَعَ ۔ستارہ جلدی سے ٹوٹا(اقرب )پس تَھْتَزُّ کے معنے ہوں گے ۔جلدی چلتاہے ۔
اَلْجَآنُّ: کے معنے ہیں حَیَّاۃٌ بَیْضَآئُ کَحْلَائُ الْعَیْنِ لَا تُؤْذِیْ۔ سفید رنگ سرمگیں آنکھوں والاباریک سانپ جوکاٹتانہیں (اقرب)
تفسیر :۔فرماتاہے۔ ہم نے اس وقت موسیٰؑ سے کہا کہ اے موسیٰؑ! میں اللہ ہوں جو بڑاغالب اور حکمت والا ہوں ۔اس سے بھی یہ مراد نہیں کہ آگ کے اند رخداتعالیٰ تھا جس نے کہا کہ میں اللہ غالب اور حکمت والاہوں ۔کیونکہ قرآن کریم کے کسی لفظ سے یہ ظاہر نہیں ہوتاکہ آگ کے اندر سے آواز آ ئی تھی ۔قرآن کریم صرف یہ بتاتاہے کہ ایسی آواز آئی تھی خواہ وہ کہیں سے آئی ہو ۔
درحقیقت یہ آیت بُوْرِکَ مَنْ فِیْ النَّارِ وَمَنْ حَوْلَھَا کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ محبت الٰہی کی آگ میں جلنے والا انسان بڑی برکت پاتاہے اوریہ امر اس بات سے ظاہر ہے کہ میں اللہ غالب اورحکمت والاہوں یعنی جو میری محبت میں جلے گا وہ غالب ہوگا اورڈنڈے کے زور سے غالب نہیں ہوگا بلکہ اس کوبڑی حکمتیں عطاکی جائیں گی اوروہ دلائل اور براہین کے ساتھ غالب آئے گا ۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوردوسرے انبیاء دلائل کے ساتھ دنیا پر غالب آئے ۔
پھر فرماتاہے ہم نے موسیٰؑ کو الہام کیا کہ اپنا سونٹا پھینک دے ۔جب اس نے اپنا سونٹا پھینک دیا تواس نے دیکھا کہ وہ تیزی کے ساتھ ہل رہاہے جیسا کہ چھوٹا سانپ ہلتاہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اس نظارہ کو دیکھ کر دوڑ پڑے اور پیچھے کی طرف انہوں نے مڑ کر بھی نہ دیکھا ۔
جیسا کہ سورئہ الشعراء کی تفسیر میں بتایاجاچکا ہے یہ بھی ایک کشفی نظارہ تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا ۔اورعصاسے مراد ان کی جماعت تھی ۔چنانچہ عربی زبان میں کہتے ہیں شَقَّ الْعَصَا اورمراد یہ ہوتی ہے کہ اس نے جماعت کی وحدت کو توڑ دیا ۔اسی طرح اس نظارہ کے دکھانے سے اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ جب تک تُو اپنی جماعت کو اپنے ہاتھ میں رکھے گا اوراسکی نگرانی کرتارہے گا ۔وہ ایک عصاکی شکل میں کارآمد وجود رہے گی ۔لیکن جب وہ تیری کامل متابعت کو ترک کرکے تیرے روحانی وجود سے الگ ہوجائے گی تووہ ایک سانپ کی شکل اختیار کرلے گی۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کشفی حالت میں اپنا عصاپھینک دیاتوان کو اپنی قوم کا وہ حال نظر آگیا جو ان کی غیر حاضری میں ہونیوالاتھا ۔جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ نظارہ دیکھا تووہ پیٹھ پھیر کر دوڑ پڑے اس پر ان کو الہام ہواکہ یَا مُوْسیٰ لَاتَخَفْ اِنِّیْ لَایَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ۔ اے موسیٰ!ڈرنے کی کونسی بات ہے ۔ رسول جب ہماری خدمت میںحاضر ہوتے ہیں توانعام لینے کے لئے حاضر ہوتے ہیں ۔سزاپانے کے لئے حاضر نہیں ہوتے ۔ پس یہ نظارہ تجھے ڈرانے کے لئے نہیں بلکہ تجھے حقیقت حال سے آگاہ کرنے اور قوم کی نگرانی کی طرف توجہ دلانے ک لئے دکھایاگیاہے
اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّ لَ حُسْنًابَعْدَ سُوْٓئٍ فَاِنِّیْ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ۔ اس آیت کے متعلق بعض لوگوں نے یہ شبہ ظاہر کیاہے کہ اس سے توپتہ لگتاہے کہ رسولوں میں سے بعض ظالم بھی ہوتے ہیں ۔مگران کا یہ اعتراض نحوسے ناواقفیت کی وجہ سے ہے ۔اِلَّا کبھی استثناء متصل کے لئے آتاہے اورکبھی استثناء منقطع کے لئے ۔یعنی اِلَّا کے بعد بعض دفعہ نئے گروہ کا ذکر شروع ہوجاتاہے اورپہلا ذکرختم ہوجاتاہے ۔اس جگہ بھی اِلَّا استثناء منقطع کے طور پر استعمال ہواہے اوراس کے معنے یہ ہیں کہ انبیاء کے علاو ہ دوسرے لوگوں میں سے جوشخص ظلم سے کام لے اورپھر ظلم کے بعد نیکی اختیار کرے توو ہ ڈرتاہے کہ معلوم نہیں میری توبہ قبول بھی ہوئی ہے یانہیں ۔ مگرحقیقت یہ ہے کہ میں بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والاہوں ۔اس لئے انبیاء تو الگ رہے ۔ایسے شخص کے لئے بھی ڈرنے کی کوئی حقیقی وجہ نہیں۔
وادخل ید ک فی جیبک تخرج بیضاء من غیر سوء
اورتُو اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال ۔ و ہ بغیر کسی بیماری کے سفید نکلے گا۔
فی تسع ایت الی فرعون وقومہ انھم کانو قوما فسقین٭
یہ ان نو نشانوں میں سے ہے جو فرعون اوراس کی قوم کی طرف بھیجے جانے والے ہیں وہ اطاعت سے نکل جانے والی قوم ہے ۔
فلما جاء تھم ایتنا مبصرۃ قالو اھذاسحر مبین٭
پس جب ان کے پاس ہمارے نشانات جو آنکھیں کھول دینے والے تھے آئے توانہوں نے کہا ۔یہ توایک کھلا کھلا جادوہے۔
وجحدوابھا واتیقنتھا انفسھم ظلما وعلوا فانظر کیف کان عاقبۃ المفسدین٭
اورانہوں نے اصرار سے ظلم اور تکبر کرتے ہوئے ان نشانوں کا انکار کیا حالانکہ ان کے دل ان پر یقین لاچکے تھے ۔پس دیکھ کہ فساد کرنے والوں کاانجام کیساہواکرتاہے ۔ ۷؎
۷؎ حل لغات :۔اِسْتَیْقَنَتْ: اِسْتَیْقَنَ سے مؤنت کا صیغہ ہے اور اِسْتَیْقَنَ کے معنے تَیَقَّنَ کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں تَیَقَّنَ الْاَمْرَ عَلِمَہٗ وَتَحَقَّقَہٗ یعنی کسی بات کو یقینی طورپر جان لیا ۔(اقرب)
تفسیر :۔پھر فرمایاکہ اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال ۔جب تواسے نکالے گاتووہ سفید ہوگا۔مگر کسی بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ کی نشان نمائی کی وجہ سے وہ نورانی اورسفید ہوگا۔
مِنْ غَیْرَ سُوْٓئٍ کے الفاظ بائیبل کے اس نارواالزام کو ردّ کررہے ہیں جو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ان الفاظ میں لگایا کہ
’’ اس نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر اسے ڈھانک لیا ۔اورجب اس نے اسے نکال کر دیکھا توا س کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا ۔‘‘
(خروج باب ۴ آیت ۶و۷)
گوبائیبل نویسوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ کی سفیدی کو کوڑ ھ کی طرف منسوب کردیاتھا مگر قرآن کریم جو حضرت موسیٰؑ کے دوہزارسال کے بعد آیااو ر جس کی مخالفت میں یہودیوں اورعیسائیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔وہ حضرت موسیٰؑ کو جویہودیوں اورعیسائیوں کا نبی تھا اس الزام سے پاک ٹھہراتاہے جو خود موسیٰؑ کے متبعین نے ان پر لگادیاتھا ۔اوران کے ہاتھ کی سفیدی کو کوڑھ نہیں بلکہ خداتعالیٰ کا ایک عظیم الشان نشان قراردیتاہے ۔
وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتایاکہ چونکہ جو کلام تجھ پر نازل ہواہے وہ تیری قوم کے لئے ہے اس لئے تُوجا ارواپنی قوم کو اپنے ساتھ چمٹالے ۔یعنی ان کواپنے ظل عاطفت میں لے لے ۔اوران کی نیک تربیت کر ۔ اس تربیت کے نتیجہ میں اس قوم میں سے نہایت اعلیٰ درجہ کے لوگ پیداہوں گے ۔جن میں کوئی عیب نہیں ہوگا ۔ وہ دل کے صاف اور خداتعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ اور اس کے مقبول ہو ں گے ۔اوردنیا کو اپنے نو ر سے منور کرنے والے ہو ں گے ۔لیکن جب وہ تجھ سے جداہوگئے ۔یعنی تیری روحانی تعلیم کو انہوں نے پس پشت پھینک دیاتووہ زمین کی طرف جھک جائیں گے اورجس طر ح سانپ سفلی زمین کی مٹی کھاتاہے اسی طرح وہ بھی دنیا ک کیڑے بن جائیں گے ۔چنانچہ دیکھ لو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی جو پتھروں کاکام کرنے والے تھے ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو فتح کو قریب لانے والی ہو ۔مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تربیت کے نتیجہ میں انہیں ایسی ہمت او رطاقت بخشی کہ انہوں نے عمالقہ کی قوم پر فتح حاصل کی اور کنعان پر خدانے انہیں حکمرانی عطافرمادی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا عمالقہ کی قوم پر فتح حاصل کرلینا ایساہی تھا جیسے چوہا بلی کو مارے ۔عمالقہ قوم کی شام او ر کنعان پر حکومت تھی ۔اورو ہ بڑی بھاری شوکت اورعظمت رکھتی تھی اورحضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی اینٹیں پاٹھنے والے غلامی کی زندگی بسرکرنے والے اور سیاست سے کلی طور پر نابلد تھے ۔مگراللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھاکہ وہ اس جاہل اور ناواقف اورغلامی کی زندگی بسرکرنے والی قوم کوعمالقہ کی زمین کاوارث کرے گا اور یہ سینکڑوں سال تک غلام رہنے والی قوم جس نے کبھی تلوار نہیں چلائی تھی اورہمیشہ غلامی کی زنجیروں میں مقید رہی تھی عمالقہ کی قوم پر جو تلوار کی دھنی تھی اورہرقسم کے سازوسامان اس کے پاس موجود تھے غالب آجائے گی ۔چنانچہ ایساہی ہوا۔اورخداتعالیٰ نے انہیں غلبہ عطافرمادیا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب انہوں نے اپنی نادانی سے جہ کہہ دیا کہ اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلًآاِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ۔یعنی تُواور تیراخدادونوں دشمنوں سے لڑتے پھرو۔ہم تو یہیں بیٹھے ہیں ۔مگر آخر حضرت موسی ٰ علیہ السلام کی دعائوں اور تربیت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اندرایساتغیر پیداکیا کہ انہوں نے اپنے آپ کو بلادریغ قربانیوں کی آگ میں جھونک دیااور آخر کنعان کے دروازے ان کے لئے کھل گئے ۔اورغلام کہلانیوالے دنیا ک بادشاہ بن گئے ۔ پھر نہ صرف خداتعالیٰ نے انہیں دنیوی حکومت عطافرمائی بلکہ حضرت موسیٰؑ کی تعلیم پر چل کر ان میں بڑے بڑے ربّانی اوراحباء بلکہ خداتعالیٰ کے نبی تک پیداہوئے جوچودہ سوسال تک دنیا کے لئے شمع ہدایت کاکام دیتے رہے ۔یہ تمام پاکبازوں کا گروہ وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآئَ کی صداقت کاایک عملی ثبوت تھا ۔اورپھر یہ تمام مقدسین مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ کے مطابق معصوم او ربے عیب تھے۔بائیبل نویسوں نے اپنی نادانی سے خداتعالیٰ کے ان انبیاء کو جو بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوتے رہے قسم قسم کے نارواالزام لگائے ہیں۔کسی کے متعلق کہا ہے کہ اس کا دل غیر معبودوں کی طرف پھر گیا ۔کسی کے متعلق کہا ہے کہ اس نے دوسرے کی بیوی اُڑالی اوراس کے خاوند کو مروادیا ۔کسی کے متعلق کہا ہے کہ اس نے جھوٹ بولا۔مگرقرآن کریم ان تمام اتہامات سے ان کو پاک ٹھہراتاہے اور بتاتاہے کہ ہم نے موسیٰؑ کو پہلے سے یہ خبر دی تھی کہ تیری تربیت کے نتیجہ میں ایسے لوگ پیداہوں گے جو نورانیت کا مجسمہ ہوں گے اور ان میں کوئی ایساعیب نہیں ہوگا جو ان کی معصومیت کا داغ دا رکرنیوالاہو ۔
فرماتاہے یہ دونوں نشان ان نونشانوں میں سے ہیں جو فرعون او راس کی قوم کے لئے دکھائے جانے والے ہیں ۔کیونکہ وہ اطاعت سے نکلنے والی قوم ہے ۔
ان نونشانات میںسے عصا اورید بیضا ء کے معجزات کا توا س جگہ ذکر ہے اور دومعجزات کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے کہ وَلَقَدْ اَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ(اعراف ع۱۶)یعنی ہم نے آل فرعون کو قحط اور بچوں کی ہلاکت کے عذاب میں گرفتار کیا ۔تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔باقی پانچ نشانات کا اس آیت میں ذکر آتاہے ۔فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ ۔فَاسْتَکْبَرُوْاوَکَانُوْاقَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ (اعراف ع ۱۶) یعنی ہم نے آل فرعون پر کئی قسم کے عذاب بھیجے جن میں طوفان ،ٹڈیاں،جوؤں،مینڈکوں اورخون کاعذاب شامل تھا ۔
بائیبل کی کتاب ’’خروج‘‘ کے مختلف ابواب میں ان عذابوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں ۔طوفان کا عذاب تو وہی تھا جو بحیرئہ احمر میں ظاہر ہوا۔جب فرعون اور اس کا لشکر اس میں غرق کردیئے گئے لیکن اس کے علاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں پر ٹڈیوں کا عذاب بھی نازل کیا ۔یعنی اتنے ٹڈی دَل آئے کہ ملک کی تمام فصلیں تباہ ہو گئیں اور لوگ بھوکے مرنے لگے ۔ جوؤںکا عذاب بھی نازل کیا ۔یعنی اتنی شدید سردی پڑی کہ لوگوں کے لئے غسل کرنا مشکل ہوگیا ۔اوران کے بال جوؤں سے بھر گئے ۔ مینڈکوںکا عذاب بھی نازل کیا ۔یعنی اتنی کثرت سے بارشیں ہوئیں کہ جگہ جگہ مینڈک پیداہوگئے ۔خون کا عذاب بھی نازل کیا ۔ جس سے یہ مراد ہوسکتی ہے کہ ان کا خون خرا ب ہوگیا اورانہیں کثرت کے ساتھ پھو ڑے وغیرہ نکلنے لگ گئے یاان میں نکسیر کا مرض پھوٹ پڑا ۔یابواسیر دموی کے مرض نے آگھیرا۔یا ان میں وہ طاعون پھیل گئی جس میں مریض کے ناک ،مونہہ او رمقعد سے خون جاری ہوجااتاہے ۔اورکبھی جلد کے نیچے جریان خو ن ہوکر تمام جسم پ رسیاہ داغ پڑ جاتے ہیں ۔اورستر اسی فیصدی مریض ہلاک ہوجاتے ہیں ۔غرض پے درپے ان کے انتباہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے عذاب نازل ہوتے رہے ۔مگرفرماتاہے باوجوداس کے کہ فرعون کی قوم نے وہ نشانات دیکھے جوان کی آنکھیں کھولنے والے تھے پھر بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ توبڑی پُرفریب باتیں ہیں ۔یعن بظاہر تویہ معلوم ہوتاہے کہ یہ نشانات خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں مگر ااصل میں محض اتفاقات ہیں اورانہوں نے ان نشانات کا انکار کردیا ۔حالانکہ ان کے دل سمجھ چکے تھے کہ یہ محض اتفاقات نہیں بلکہ ان کی بداعمالی کی سزاکے طور پر یہ عذاب آرہے ہیں ۔ان کا یہ انکار محض ظلم اور تکبر کی وجہ سے تھا وہ نہیں چاہتے تھے کہ صداقت کا اپنی زبان سے اقرار کرکے اپنی بڑائی کو ضعف پہنچائیں ۔مگر دیکھ لو کہ پھر ان مفسد لوگوںکا انجام کیساخطرناک ہو ا۔جب فرعون اور اس کے ساتھ ہلاک ہوگئے توآج تیرے مخالفوں کا انجام کس طرح اچھا ہوسکتاہے جواسی رستہ پر چل رہے ہیں جس پر فرعون اوراس کے ساتھی چلے اور انہی کی طرح اللہ تعالیٰ کے نشانات کا انکار کرتے چلے جارہے ہیں۔
ولقد اتیان داود و سلیما ن علما۔وقالاالحمد للہ الذی
اورہم نے دائود اورسلیما ن کو علم عطاکیا ۔ اوردونوں نے کہا اللہ ہی سب تعریف کا مالک ہے جس نے
فضلنا علی کثیر من عبادہ المومنین٭
ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی ہے ۔
وورث سلیمٰن داؤد وقال یایھا الناس علمنا منطق الطیر
اورسلیمان اور دائود کا وارث بنا ۔ اوراس نے کہا اے لوگو ! ہمیں پرندوں کی زبان سکھائی گئی ہے
واوتینا من کل شیء ان ھذا لھو الفضل المبین٭
اورہرضروری چیز (یعنی تعلیم) ہم کو دی گئی ہے ۔یہ کھلا کھلا فضل ہے ۔۸؎
۸؎ حل لغات :۔مَنْطِقُ الطَّیْرِ:اَلْمَنْطِقُ اَلْکَلَامُ ۔یعنی منطق کے معنے کلام کے ہیں۔(اقرب)
تفسیر :۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ حضرت دائود ؑ اورحضرت سلیمانؑ کا ذکر فرماتاہے ۔حضرت دائود علیہ السلام کو چونکہ یہودیوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خاص بیٹا تسلیم کیاجاتاہے اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کا ذکر کیاگیاہے اوران دونوں کا یہ قول بیان کیاگیاہے کہ ہمیں خداتعالیٰ نے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت بخشی ہے یعنی خلافتِ روحانی اورخلافتِ جسمانی کے ذریعہ سے اس نے ہمیں مومنوں کا افسر بنایاہے ۔
اس کے بعد فرماتاہے کہ سلیمان ؑ دائودؑ کاوارث ہوا۔یعنی ان کے انتقال کے بعد ان کا جانشین ہوا۔اس سے ظاہر ہے کہ اگلی آیات میں جہاں جہاں نا کالفظ آیاہے اس سے مراد حضرت سلیمانؑ ہی ہیں اورنا کالفظ شاہی سطوت اورجبروت کے اظہار کے لئے ہے نہ یہ بتانے کے لئے کہ حضرت دائودُ اس میں شامل ہیں ۔کیونکہ آیت کے شروع میں یہی بتایاگیاہے کہ حضرت دائود علیہ السلام اس وقت فوت ہوچکے تھے ۔پس یہ جو کہاگیاہے کہ اے لوگو ! ہم کو منطق الطیر سکھائی گئی ہے ۔اس سے مراد صرف حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں نہ کہ حضرت دائودؑ۔کیونکہ حضرت دائودعلیہ السلام اس سے پہلے فوت ہوچکے تھے ۔
مفسرین نے منطق الطیر کی یہ معنے کئے ہیںکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو کبوتروں اورتیتروں اورچڑیوں اوربٹیروں وغیرہ کی زبان سکھائی گئی تھی اوروہ ان کی بولی کو اسی طرح سمجھ لیتے تھے جس طرح ایک انسان کی گفتگوکو دوسراانسان سمجھ لیتاہے۔چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک بلبل کودیکھا کہ ایک شاخ پر بیٹھی ہوئی اپنی دُم اورسرہلاکر کچھ بول رہی ہے۔اس کی آواز سن کر آپ نے اپنے اردگرد بیٹھنے والوں سے پوچھا کہ تم جانتے ہو یہ بلبل کیا کہہ رہی ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ خدااوراس کارسول ہی بہتر جانتے ہیں ہمی کیا علم ہے ۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا۔یہ کہہ رہی ہے کہ دنیا کے سرمیں خاک پڑے ۔میں نے توآج صرف آدھی کھجو رکھائی ہے ۔پھر فاختہ بولی ۔توآپ نے فرمایا۔یہ کہتی ہے کاش یہ سب مخلوق پیداہی نہ ہوتی۔
اسی طرح مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ فرمایاکرتے تھے کہ کبوترکہتاہے ۔مرنے کے واسطے اپنی اولاد یں پیداکرو۔اورویران ہونے ک لئے مکانات بنائو ۔اورموؔر کہتاہے کہ جوکچھ تُوکرے گا اس کابدلہ پائے گا۔اورہد ہد کہتاہے کہ جو دوسرے پر رحم کرے گا خدااس پر رحم کرے گا ۔اورابابیل کہتی ہے کہ نیک اعمال کو آگے بھیجو تاکہ تم انہیں خداکے پاس پائو اورکبوتر کہتاہے کہ سبحان ربی الاعلیٰ مِلْأُسَمَآئِہٖ وَ اَرْضِہٖ۔اورقطا ۃ کہتاہے کہ جو خاموشی اختیارکرے گاسلامت رہے گا ۔اورطوطاکہتاہے کہ افسوس اس پر جس کامقصود اورمطلوب دنیا ہے ۔اورمرغاکہتاہے کہ اے غافلو اللہ کو یاد کرو۔اورمینڈک کہتاہے سبحان ربیَ الْقُدُّوْس ۔اورچڑیاکہتی ہے اے گنہگارو استغفار کرو۔اورچیل کہتی ہے کہ کُلّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ یعنی خداکے سوا ہرچیز ہلاک ہونے والی ہے ۔غرض انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کی بولی کو خوب سمجھتے تھے گوانہوں نے پرندوں میں مینڈک وغیرہ کوبھی شامل کرلیا ہے ۔مگریہ محض استعارے اورمجاز کو نہ سمجھنے کانتیجہ ہے اورایسی ہی بات ہے جیسے قرآن کریم میں تواللہ تعالیٰ یہ فرماتاہے کہ کُلُوْاوَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمْ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ(بقرہ ع ۲۳) یعنی رمضان کے ایام میں سحری کاوقت اس وقت تک ہے جب تک کہ صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظرنہ آنے لگے ۔مگر پنجاب میں بہت سے زمینداررمضان می راتوں میں سفید اورسیا ہ تاگا اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اورچونکہ تاگااچھی روشنی میں ہی نظر آتاہے اس لئے و ہ اس وقت تک خوب کھاتے پیتے رہتے ہیں ۔جب تک انہیں سفید اورسیاہ تاگا الگ الگ نظر نہ آنے لگے۔اسی طرح تشبیہ اوراستعارہ کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں اگر خداتعالیٰ کے ہاتھ کاذکر آجائے توبعض لوگ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ خداکاہاتھ بھی نعوذ باللہ اسی طرح گوشت پوست کا ہے جس طرح ہماراہے ۔اوراگر انہیں کہاجائے ہاتھ سے مراد خداتعالیٰ کی طاقت ہے تووہ کہیںگے کہ تم تاویلیں کرتے ہو۔ جب خدانے ہاتھ کالفظ استعمال کیا ہے تو تمہاراکیا حق ہے کہ تم اس کی تاویل کرو۔یا خداتعالیٰ کے متعلق اِسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ کے الفاظ پڑھیں توجب تک وہ خداتعالیٰ کو ایک سنگ مرمر کے تخت پر بیٹھا ہو اتسلیم نہ کریں انہیں چین ہی نہ آئے گا ۔حالانکہ دنیا کی ہرزبان میں تشبیہہ اور استعارہ کا استعمال موجود ہے۔ہمارے ملک میں محاور ہ ہے کہ ’’ آنکھ بیٹھ گئی ‘‘ مگر کوئی نہیں کہتا کہ آنکھ کی ٹانگیں تھیں یاوہ بیٹھی ہے توکس پلنگ پر اوکرسی پر بیٹھی ہے ۔کیونکہ ہر شخص جانتاہے کہ آنکھ بیٹھنے کے یہ معنے ہیں کہ آنکھ ضائع ہوگئی ۔اورپھوٹ گئی ۔اسی طر ح اورکئی قسم کے استعارات ہماری زبان میں استعمال کئے جاتے ہیں اورکوئی ان پر اعتراض نہیں کرتا بلکہ ان استعارات کو زبان کی خوبی اور اس کاکمال سمجھاجاتاہے ۔
غرض جس طرح دنیا کی ہرزبان میں مجازاوراستعارات کا استعمال پایاجاتاہے اسی طرح الہامی کتابیں بھی ان استعارات کو استعمال کرتی ہیں ۔مگر وہ لو گ جو استعارہ اورمجاز کی حقیقت کو نہیں سمجھتے وہ انہیں ظاہرپر محمول کرلیتے ہیں اوراس طرح خو د بھی ٹھوکر کھاتے ہیں اوردوسروں کے لئے بھی ٹھوکر کا موجب بنتے ہیں ۔
یہی حال منطق الطیر کا ہے ۔مفسرین نے صرف طیر کے لفظ کودیکھ کر خیال کرلیا کہ حضر ت سلیمان علیہ السلام کو امتیازی طور پر اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت عطا فرمائی تھی کہ انہیں تیتروں اوربٹیروں کی بولی بھی سکھادی تھی مگرسوال یہ ہے کہ اس بولی کے سکھانے کا فائدہ کیاتھا ۔یاتویہ تسلیم کیا جائے کہ پرندے بھی بڑے بڑے علوم اورمعارف جانتے ہیں ۔اورچونکہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتاتھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ا س علم سے محروم رہیں اس لئے اس نے آپ کو ان کی زبان بھی سکھادی ۔مگر پرندے توایک جاہل سے جاہل او رغبی سے غبی انسان جتنی بھی عقل نہیں رکھتے پھر ان سے حضرت سلیمان علیہ السلام نے کیا علم سیکھناتھا ۔پھر ان کا دما غ واقعہ میں انتا اعلیٰ ہوتا کہ حضرت سلیمانؑ جیسے نبی کو بھی ان سے معارف اورعلوم حاصل کرنے کی ضرورت تھی توشریعت ان کو ذبح کرنے کی اجازت کیوں دیتی ۔اللہ تعالیٰ کا انسان کو ذبح کرنے کی اجاز ت نہ دینا اورجانوروں کی ذبح کرنے کی اجازت دینا صاف بتارہاہے کہ یہ امتیاز صرف دماغ کے فرق کی وجہ سے رکھاگیاہے ۔اوران کا دماغ عام انسانی دماغ سے بھی ادنیٰ ہے تو حضرت سلیمان علیہ السلام کو ان کی زبان کس حکمت کے ماتحت سکھائی گئی تھی ۔
پھر مفسرین صرف یہیں تک بس نہیں کرتے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو تمام پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی تھیں بلکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہُدہُد جو ایک پرندہ تھا و ہ اتنی عقل اورسمجھ رکھتاتھاکہ اس نے ملکہ سباکی باتیں سمجھیں۔اس کے درباریوں کی باتیں سمجھیں حضرت سلیمان علیہ السلام کی باتیں سمجھیں۔مگر ہُد ہُد کی باتیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے سوااَورکوئی نہیں سمجھ سکتاتھا ۔گویا ایک پرندہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے تمام درباری علماء اورفضلاء سے بھی بڑاتھا ۔کیونکہ وہ ان سب کی باتیں سمجھتاتھا لیکن اس کی بات کو کوئی نہیں سمجھتاتھا اوراگر کوئی سمجھتاتھا تووہ صرف حضرت سلیمانؑ تھے ۔گویا اگر ہدہد سے کسی کو برابری حاصل تھی توصرف حضرت سلیمان علیہ السلام کو تھی باقی جتنے امراء اور وزراء تھے و ہ سب اُس ’’کھٹ بڑھئی‘‘سے نیچے تھے۔یہ اتنا احمقانہ نقشہ ہے کہ ا س کو ایک معمولی عقل رکھنے والا شخص بھی تسلیم نہیں کرسکتا ۔اگر یہ بات مانی جائے توپھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ پرندے انسان سے افضل ہیں ۔اورپھر ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرناپڑے گا کہ پرندوں کو ذبح کرنا جائز نہیں ہاں انسان کو ذبح کرکے کھاناجائز ہے کیونکہ پرندے نعوذ باللہ انسان سے افضل ہیں ۔یہ تو ’’ اندھیر نگری چوپٹ راجہ ‘‘والی بات ہوگی جس کوکوئی بھی معقول انسان تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی ایک استعارہ اور مجاز ہے جس کو لوگوں نے نہ سمجھا اوروہ صحیح راستہ سے بھٹک کر دور از کار ابحثوں میں الجھ کر رہ گئے ۔ طیر عربی زبان میں اڑنے والی چیز کو کہتے ہیں ۔اوراستعارۃً اس سے وہ لوگ مراد ہوتے ہیں جوعالم روحانی کی فضائوں میں پرواز کرتے اورخداتعالیٰ کے برگزیدہ اوراس کے محبوب ہوتے ہیں۔بانئے سلسلہ احمدیہ کاایک الہام بھی ان معنوں پر روشنی ڈالتاہے ۔ آپ کو ایک دفعہ الہام ہواکہ :۔’’ہزاروں آدمی تیرے پروں کے نیچے ہیں ‘‘
(تذکرہ ص ۶۵۰)
اب ظاہر ہے کہ پَر ہمیشہ پرندوں کے ہی ہواکرتے ہیں اورپرندے کے پروں کے نیچے بیٹھنے والے بھی پرندے ہی ہوتے ہیں۔ گویا اس الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی پرندہ قراردیاگیا ۔اورپھر یہ بھی بتایاگیاکہ وہ لوگ جو آپ کی صحبت سے فیض حاصل کرنے والے ہیں ۔وہ بھی عالم روحانی کے پرندے ہیں ۔اس الہا م نے قرآن کریم کی اس آیت کی تشریح کردی اوربتادیا کہ طیر سے مراد جسمانی پرندے نہیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو خداتعالیٰ کی طرف پرواز کرنے والے ہیں ۔ان برگزیدہ لوگوںکو استعارۃً اس لئے بھی پرندہ کہا جاتاہے کہ پرندہ آسمان کی طرف اڑتاہے اور علوم سماوی آسمان سے نیچے کی طرف اترتے ہیں اوریہ ظاہر ہے کہ جب کوئی چیز اوپر سے نیچے کی طرف آرہی ہوگی تووہ سب سے پہلے اسی کو ملے گی جو اوپر پرواز کررہاہوگا ۔ پس عالم روحانی کی فضائوں میں پرواز کرنے والے کواس لئے بھی پرندہ کہاجاتاہے کہ آسمانی علوم اوراسرار غیبی جواللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے انہی لوگوںکو الہام یارؤیا وکشوف کے ذریعہ معلوم ہوتے ہیں جواوپر پرواز کررہے ہو ں۔اورانہی آسمانی طیور کو اللہ تعالیٰ سب سے پہلے اپنے فیو ض سے متمتع فرماتاہے ۔پھر وہ لوگ جو ان کی صحبت میں آکربیٹھتے ہیں و ہ بھی اپنے اپنے اخلاص اوردرجہ کے مطابق ان فیوض سے مستفیض ہوتے چلے جاتے ہیں ۔
غرض طیر کے اس مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے عُلِّمْنَامَنْطَقَ الطَّیْرِ کے یہ معنے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے لوگوں سے کہا کہ اے لوگو!مجھے بھی وہ بولی سکھائی گئی ہے جوبلندی کی طرف پرواز کرنے والے لوگوںکوسکھائی جاتی ہے یعنی نبیوں کے معارف اورحقائق اوریہ اس لئے کہاگیاہے کہ یہودیوں اورعیسائیوں کے نزدیک حضرت سلیمان علیہ السلام نبی نہیں تھے بلکہ صرف ایک بادشاہ تھے ۔چنانچہ بائیبل میں کہیں بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کونبی نہیں قرار دیاگیابلکہ ایک فلاسفر اور عالم قراردیاگیاہے ۔ چنانچہ نمبر۱ سلاطین باب ۴ میں لکھا ہے :۔
’’ اورخدانے سلیمان کوحکمت اور سمجھ بہت ہی زیاد ہ اور دل کی وسعت بھی عنایت کی جیسی سمندرکے کنارے کی ریت ہوتی ہے ۔ اورسلیمان کی حکمت سب اہل مشرق کی حکمت او رمصر کی ساری حکمت پر فوقیت رکھتی تھی ۔‘‘(آیت ۲۹و۳۰)
اسی طرح لکھاہے :۔
’’ اس نے تین ہزار مثلیں کہیں او راس کے ایک ہزار گیت تھے ۔اوراس نے درختوں کا یعنی لبنان کے دیودار سے لیکر زدفا تک کاجو وادیوں پراُگتاہے اورچوپائیوں اورپرندوں اوررینگنے والے جانداروں اورمچھلیوں کا بھی بیان کیا ۔اورسب قوموں میںسے زمین کے سب بادشاہوں کی طرف سے جنہوں نے اس کی حکمت کی شہرت سنی تھی لوگ سلیمان کی حکمت کو سننے آتے تھے۔‘‘(آیت ۳۲،۳۳)
غرض بائیبل حضر ت سلیمان علیہ السلام کو ایک حکیم اورفلاسفرتوقراردیتی ہے مگرنبی قرار نہیں دیتی ۔بلکہ اس سے بڑھ کر وہ حضرت سلیمان علیہ السلام پر یہ الزام لگاتی ہے کہ
’’ جب سلیمان بڈھاہوگیا تواس کی بیویو ں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کرلیا ۔اوراس کا دل خداوند اپنے خداکے ساتھ کامل نہ رہا ۔‘‘(نمبر۱ سلاطین باب ۱۱۔آیت ۴،۵)
پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں اورعیسائیوں کے اس خیال کی تردید کی ہے ۔اوربتایاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نبی تھے اورانہیں بی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہی علوم اورمعارف کئے گئے تھے جو اللہ تعالیٰ کے ان برگزیدہ بندوں کو عطاکئے جاتے ہیں جواس کی طرف پرواز کرتے اور اس کے قرب میں بہت بلند اور بالامقام رکھتے ہیں ۔
پھر فرماتے ہیں وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ہمیں ہر ضروری چیز عطاکی گئی ہے ۔اس جگہ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ کے معنے ہرچیز کے نہیں بلکہ ہرضروری چیز کے ہیں ۔چنانچہ حضر ت سلیمان علیہ السلام کے مدمقابل ملکہ سبا کے متعلق بھی اسی سور ۃ میں آتاہے کہ وَاُؤتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ(آیت ۲۴)حالانکہ وہ دنیا کے ایک نہایت مختصر علاقہ کی بادشاہ تھی ۔اگر َاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْئٍ کے معنے ہرچیز کے کئے جائیں توا س آیت کا یہ مفہوم قرار پاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملکہ سبا اور اس کاتخت بھی حاصل تھ ااورجب ہدہد نے ملکہ کا ذکر کیااورکہا کہ اسے ہرنعمت حاصل ہے تواس کے یہ معنے تھے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اوران کے لشکر بھی اس کو حاصل تھے حالانکہ یہ دونوں باتیں بالبداہت غلط ہیں ۔دراصل عربی زبان کے محاورہ کے مطابق یہ ضروری نہیں ہوتاکہ کُلّ کا لفظ تمام افراد جنس پر مشتمل ہو بلکہ بسااوقات یہ لفظ صرف ضرورت کے مطابق اشیاء پر بولاجاتاہے ۔مثلاً ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔ فَلَمَّا نَسُوْامَا ذُکِّرُوْابِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْئٍ(انعام ع ۵)یعنی جب پہلی قوموں کے افراد نے اس نصیحت کو بھلادیا جوانہیں کی گئی تھی توہم نے ان پر پہلے توہرقسم کی ترقیات کے دروازے کھول دیئے اورپھران پر عذاب نازل کردیا ۔ اس آیت میں بھی کلّ کے لفظ کے یہ معنے نہیں کہ ان کو دنیاک ی ہرنعمت ملی بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ اس زمانہ کی اوران کے ملک کی بڑی بڑی نعمتوں سے انہیں حصہ ملا ۔اسی طر ح اہل مکہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔اَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَّھُمْ حَرَمًااٰمِنًا یُّجْبٰیٓ اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْئٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا(قصص ع ۶)یعنی کیا اہل مکہ کو ہم نے ایک عزت والے اور محفوظ مقا م میں جگہ نہیں دی ۔ جس کی طرف ہمارے انعام کے طور پر ہرقسم کے میوے لائے جاتے ہیں ۔اس آیت میں کلّ سے مراد تمام دنیا کے میوے مراد نہیں بلکہ بہت سے میوے مراد ہیں جواہل مکہ کی صحت اوران کی لذت کے سامان پیداکرنے کے لئے ضروری تھے ۔اسی طرح شہد کی مکھی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ تُوتمام پھلوںکو کھا ۔حالانکہ شہد کی مکھی تمام پھلوںکونہیں کھاتی بلکہ بعض پھلوںکوکھاتی ہے ۔اسی طرح یہاں وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْء کے معنے ہرچیز کے نہیں بلکہ ہرمطابق ضرورت چیز کے ہیں اورمراد یہ ہے کہ جن جن چیزوں کی حضرت سلیمان علیہ السلام کو ضرورت ہوتی تھی خداتعالیٰ ان کومہیاکردیتاتھا اورجن جن چیزوں کی اپنے زمانہ میں ملکہ سباکو ضرورت ہوتی تھی وہ اس کومیسر آجاتی تھیں چنانچہ یہ دعویٰ کرکے حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کے کھلے فضل سے حاصل ہوتی ہے ۔بغیر اللہ تعالیٰ کے فضل کے انسانی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں۔
وحشر لسلیمٰن جنودہ من الجن والانس والطیر فھم یوزعون٭
اور(ایک دفعہ ) سلیمان ؑ کے سامنے جنوں اورانسانوں اورپرندوں میں سے اس کے لشکر ترتیب وار اکھٹے کئے گئے ۔پھر ان کو کوچ کا حکم ملا ۔۹؎
۹؎ حل لغات :۔یُوْزَعُوْنَ:اَوْزَعَ سے فعل مضارع مجہول جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے اوراَوْزَعَ وَزَعَ سے ہے اور وَزَعَہٗ کے معنے ہیں کَفَّہٗ ومَنَعَہٗ وَحَبَسَہٗ۔یعنی اس کوہٹایا۔روکایا روکے رکھا ۔اورجب وَزَعَ الْجَیْشَ کہیں تواس کے معنے ہوتے ہیں حَبَسَ اَوَّلَھُمْ عَلیٰ اٰخِرِھِمْ یعنی لشکر کواول سے لیکر آخر تک روکے رکھا اورجب کہیں کہ رَأَیْتُہٗ یَزَعُ الْجَیْشَ تومعنے ہوں گے یُرَقِّبُھُمْ وَیُسَوِّیْھِمْ وَیَصِفُّھُمْ لِلْحَرْبِ یعنی میں نے اسے دیکھا کہ وہ لشکر کو ترتیب دے رہاتھا اور انہیں ٹھیک کررہاتھا اورلڑائی کے صف بستہ کررہاتھا ۔(اقرب)پس یُوْزَعُوْنَ کے معے ہوں گے کہ (۱)لشکروں کوترتیب دی جاتی تھی (۲)لشکروںکاپوراپورا انتظام رکھاجاتاتھا ۔
تفسیر :۔فرماتاہے ۔ایک دفعہ سلیمانؑ کے سامنے جنوں اورانسانوں اورپرندوں میں سے اس کے لشکر حاضر کئے گئے اورانکو ترتیب وار الگ الگ کھڑا کیاگیا ۔یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اس وقت کسی ملک پر چڑھائی کرنے کے لئے تیار تھے اورانہوں نے اپنی تمام فوج اکٹھی کی تھی جن میں جنات کالشکر بھی تھا ۔انسانوں کالشکر بھی تھا اورپرندوںکا لشکر بھی تھا ۔
جنّات کا لفاظ سامنے آتے ہی مفسرین کاذہن پھر اس طرف منتقل ہوجاتاہے کہ یہ کوئی غیر مرئی مخلوق ہے جو حضرت سلیمانؑ کے قبضہ میں تھی ۔حالانکہ اگروہ قرآن کریم پر غورکرتے توانہیں اس قدر دور از کار تاویلات کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی ۔جنّات کی حقیقت پر غورکرنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھناچاہیئے کہ آیا قرآن کریم میں صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق ہی ذہ ذکرآتاہے کہ انکے پاس جنّ تھے یاکسی اورنبی کے متعلق بھی کہا گیاہے کہ اس کے پاس جنّ آئے۔اس غرض کے لئے جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیںسورۃ احقاف میں یہ آیات نظر آتی ہیں :۔وَاِذْصَرَفْنَآ اِلَیْکَ نَفَرًامِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ۔فَلَمَّاحَضَرُوْہُ قَالُوْٓااَنْصِتُوْا۔فَلَمَّاقُضِیَ وَلَّوْااِلیٰ قَوْمِھِمْ مُّنْذِرِیْنَ۔قَالُوْایٰقَوْمِنَآ اِنَّا سَمِعْنَا کِتَابٰااُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسیٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَھْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ وَاِلیٰ طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۔یٰقَوْمَنَآ اَجِیْبُوْادَاعِیَ اللّٰہِ وَاٰمِنُوابِہٖ یَغْفِرْلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَیُجِرْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ۔(احقاف ع۴)فرماتاہے اس وقت کو بھی یاد کرو جبکہ ہم جنوں میں سے کچھ لوگوں کو تیری طرف لائے جوقرآن سننے کی خواہش رکھتے تھے ۔جب وہ تیری مجلس میں پہنچے توکہنے لگے ۔چپ کرو۔ تاکہ اس کی آواز ہمارے کانوں میں اچھی طرح پڑے ۔جب قرآن کریم کی تلاوت ختم ہوگئی تووہ اپنی قوم کی طرف واپس چلے گئے اور کہنے لگے ۔اے ہماری قوم ہم نے ایک کتاب کی تلاوت سنی ہے ۔جو موسیٰؑ کے بعد اتاری گئی ہے اورجوکتابیں اس سے پہلے اتری ہیں ان سب کی تصدیق کرتی ہے اورحق کی طرف بلاتی او رسیدھا راستہ دکھاتی ہے ۔اے قوم۔اللہ تعالیٰ کے منادی کی آواز کوسنواور اسے قبول کرو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بخش دے گا اورتمہیں دردناک عذاب سے بچائے گا ۔
پس اس سے معلو م ہوتاہے کہ یہ جنّ تورات پر۔حضرت موسیٰؑ پر اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پربھی ایمان لائے تھے ۔پس سلیمانؑ ہی ایک ایسے نبی نہیں جن پر جنّ ایمان لائے ۔بلکہ موسیٰؑ اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی قرآن کریم سے ثابت ہے کہ جنّات ان پر ایمان لائے ۔مگرافسوس ہے کہ مفسرین حضرت سلیمان ؑ کے جنوں کے متعلق توعجیب عجیب قصے سناتے ہیں ۔کہتے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام قالین پر بیٹھ جاتے او رچارجنّوں کو چا ر گوشے پکڑوادیتے اوروہ انہیں اُڑاکر آسمانوں کی سیرکراتے ۔ مگررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو جنّ ایمان لائے ان کے متعلق کسی ضعیف سے ضعیف روایت سے بھی یہ ثابت نہیں کرتے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی ایسی مدد کی ہو حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا کرسفرکرتے تھے ۔آپ کے صحابہؓ کو کئی دفعہ سواریاں نہ ملتیں اوروہ روتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اورکہتے کہ ہمارے لئے کسی سواری کاا نتظام فرمادیجئے توہم جا نے کے لئے حاضر ہیں ۔کئی دفعہ صحابہؓ نے ننگے پیر لمبے لمبے سفر کئے ہیں ۔مگریہ تمام دکھ اور تکلیفیں دیکھنے کے باوجود ان سنگدل جنّوں کا دل نہ پسیجا وہ حضرت سلیمانؑ کے وقت تولشکر کالشکر اٹھا کر دوسری جگہ پہنچا دیتے تھے اوریہاں ان سے اتنا بھی نہ ہواکہ دس بیس مہاجرین کوہی اٹھا کر میدان جنگ میں پہنچادیتے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جنّ غیر از انسان وجو د ہیںجورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ اورحضرت سلیمان علیہم السلام پر ایمان لائے ۔مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان معنوں کوقرآن کریم تسلیم کرتاہے ۔اگر یہ ایک استعارہ ہے تویقیناً قرآن کریم نے اس کو اپنی کسی دوسری آیت میں حل کیا ہوگا ۔اوراستعارہ تسلیم نہ کرنے کی صورت میں قرآن کریم کی دوآیتیں باہم ٹکراجائیں گی اور اس طرح قرآن کریم میں اختلاف پیداہوجائے گا ۔پس ہمیں دیکھناچاہیئے کہ اس کواستعارہ تسلیم نہ کرنے سے قرآن کریم میں اختلاف پیداہوتاہے یااستعارہ تسلیم کرکے اختلاف پیداہوتاہے ۔
استعارہ کے متعلق یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ جولوگ اسے استعارہ نہیں سمجھتے وہ کتہے ہیں کہ یہ ایساہی لفظ ہے جیسے شیطان کا لفظ آتاہے ۔ جس طرح شیطان سے مراد ایک ایسی مخلوق ہے جوانسانوں سے علیحدہ ہے۔اسی طرح جنّ بھی ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے الگ ہے حالانکہ وَاِذَاخَلَوْااِلیٰ شِیٰطِیْنِھِمْ میں مفسرین بالاتفاق کہتے ہیں کہ اس جگہ شیاطین سے مراد یہود اوران کے بڑے بڑے سردار ہیں ۔پس اگ رانسان شیطان بن سکتاہے توانسان جنّ کیوں نہیں بن سکتا ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔وَکَذَالِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلیٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا(انعام ع ۱۴) کہ ہم نے ہرنبی کے دشمن بنائے ہیں شیطان آدمیوں میںسے بھی اورجنّوں میں سے بھی جو لوگوں کومخالفت پراکساتے اور انہیں نبی ا راس کی جماعت کے خلاف برانگیختہ کرتے رہتے ہیں ۔یہاں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر بتادیا ہے کہ انسان بھی شیطان ہوتے ہیں ۔پس اگرشیاطین الانس ہوسکتے ہیں توجن الانس کیوں نہیں ہوسکتے۔ یعنی جس طرح انسانوں میں سے شیطان کہلانے والے پیداہوسکتے ہیں اسی طرح ان میں جنّ کہلانے والے بھی پیداہوسکتے ہیں ۔بہرحال قرآن کریم سے ہمیں پتہ لگ گیا کہ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے قبضہ میں ہی جنّ نہیں تھے بلکہ حضرت موسیٰؑ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جنّ ایمان لائے تھے ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کن کی طرف ہوئی تھی ۔اللہ تعالیٰ سورئہ نساء میں اس کے متعلق فرماتاہے وَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا (نساء ع ۱۱)ہم نے تجھے تمام آدمیوں کے لئے رسول بنا کربھیجا ہے ۔اب اللہ تعالیٰ ا س آیت میں صاف طور پر فرماتاہے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام آدمیوں کی طرف رسول بنا کربھیجا حالانکہ اگرآدمیوں کے علاوہ کوئی اورنرالی مخلوق جسے جنّ کہتے ہیں آپ پر ایمان لائی تھی تویہ کہنا چاہیئے تھا کہ وَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ وَالجِنِّ رَسُوْلاًمگر وہ یہ نہیں فرماتا بلکہ فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے آدمیوں کے لئے رسول بنا کربھیجا ۔توجب آدمیوں کی طرف ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعو ث کئے گئے تھے توصاف پتہ لگ گیا کہ جہاں یہ ذکر ہے کہ جنّ آپ پر ایمان لائے وہاں ان سے جنّ الانس ہی مراد ہیں نہ کہ کو ئی اورنرالی مخلوق جس کا نقشہ عام لوگوں کے دماغوں میں ہے ۔اسی طرح ایک حدیث میں جس کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ ہیں ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے ایسی پانچ خصوصیتیں عطاکی گئی ہیں جو پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ۔ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ کَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثَ اِلیٰ قَوْمِہٖ خَاصَّۃً کہ پہلے ہر نبی اپنی قوم کی طرف بھیجاجاتاتھا وَبُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ عَامَّۃً مگر میں روئے زمین کے تمام آدمیوں کی طرف بھیجاگیاہوں ۔یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قطعی طور پر بیان فرماتے ہیں کہ انبیائے سابقین میں سے ایک نبی بی ایسانہیں جواپنی قوم کے سواکسی اورقوم کی طرف مبعوث ہواہو۔لیکن مسلمان یہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جنّوں اورطیور اور چنونٹیوں کی طرف بھی بھیجے گئے تھے ۔اگر واقعہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام جنّوں اورطیور کی طرف مبعوث ہوئے تھے تووہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نعوذ بااللہ درجہ میں بڑھ گئے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم توصرف انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے ۔
پھر اگر یہ جنّ غیر ازا نسان ہیں تووہ اللہ تعالیٰ کے مخاطب کیونکر ہوگئے ۔اللہ تعالیٰ تو فرماتاہے وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا یَامَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِاسْتَکْبَرْتُمْ مِنَ الْاِنْسِ(انعام ع ۱۵) یعنی جب قیامت کے دن سب لوگ جمع ہوں گے توہم جنّوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہیں گے اے جنّوں کے گروہ!تم نے اکثر حصئہ انسان کو اپنے قابو میں کیا ہواتھا ہم توجنّوں کو تلاش کرتے کرتے تھک گئے مگر قرآن یہ کہتاہے کہ جنّوں نے اکثر وںکو قابو کیا ہواہے ۔حالانکہ ہم تلاش کرتے ہیں تووہ ملتے نہیں۔لوگ وظیفے پڑھتے ہیں چلّہ کشیاں کرتے ہیں اورجب ان کا دماغ خراب ہوجاتاہے اورخشکی سے کان بجنے لگتے ہیں تو کہتے ہیں جنّ آگیا ۔ حالانکہ اس وقت جنّ نہیں آتا بلکہ اس وقت وہ خود دنیا سے کھوئے جاتے اور پاگل ہوجاتے ہیں ۔ترو تازہ دماغ کے ہوتے ہوئے جنّ کبھی انسان کے پاس نہیں آتے۔
غرض جنّوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ قَدِاسْتَکْبَرْتُمْ مِنَ الْاِنْس تم نے انسانوں سے بہت سے فائدے اٹھائے ہیں ۔اوروہ جو انسان ہیں وہ بھی کہیں گے کہ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْض ٍ ہم میں سے بعض نے بعض سے بڑا فائدہ اٹھایا ہے ۔ اب اپنے اپنے محلہ اور گائوں می پھر کر لوگوں سے دریافت کرلو کہ کیا پچاس یا اکاون فیصدی لو گ جنّوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں ؟ سومیں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جو یہ کہتاہوکہ میں جنّوں سے فائدہ اٹھاتاہوں اورمیرے ان سے تعلقات ہیں ۔جس سے صاف ثابت ہوتاہے کہ جنّ سے مراد انسانوں کے علاوہ کوئی اورمخلوق نہیں بلکہ انسانوں میںسے ہی بعض جنّ مراد ہیں ۔اورانسانی جنّوں کی دوستیاں بڑی کثرت سے نظرآتی ہیں ۔
پھر اس سے بڑھ کر ایک اَور دلیل ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ ۔اے جنّوں اورانسانوںکے گروہ جو ہمارے سامنے کھڑے ہو ۔بتائو کیا تمہارے پاس ایسے رسول نہیں آئے جو تمہیں میںسے تھے ۔اب بتائو جب خداتعالیٰ کہتاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض جنّ بھی ایمان لائے او ردوسری طرف یہ فرماتاہے کہ ہمار ارسول بھی انہیں میں سے تھا توکیا اس سے صاف ثابت نہیں ہوتا کہ و ہ جنّ بھی انسان ہی تھے کوئی غیر از انسان وجود نہیں تھے ۔پھر یہیں تک بات ختم نہیں کی بلکہ فرمایا وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا۔ وہ تمہیں انذار بھی کرتے تھے اورقیامت کے دن سے ڈراتے تھے ۔ گویاحضرت موسیٰؑ اور حضرت سلیمانؑ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنوںکو ڈرایابھی کرتے تھے ۔اورانہی یوم آخرت اور اللہ تعالیٰ کا خو ف دلایاکرتے تھے جس سے صاف ثابت ہوتاہے کہ یہ جنّ جنّ الانس ہی تھے کوئی اَور مخلوق نہیںتھے ۔جس طرح شیاطین الانس ہوتے ہیں اسی طر ح جن الانس بھی ہوتے ہیں۔
اب ایک اور موٹی مثال سنو ۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے ۔اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًاوَّ مُبَشِّرًاوَّ نَذِیْرًالِّتُؤْمِنُوْابِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ(الفتح ع ۱)کہ ہم نے اس رسول کو اس لئے بھیجا ہے تاکہ تم ایمان لائو اوراس کی مدد کرو ۔اب جبکہ جنّ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پ رایمان لائے تھے توکیا کوئی ثابت کرسکتاہے کہ ان جنّوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی مدد کی ہو ۔ایک معمولی ملّاکے لئے تووہ انگوروں کے خوشے لاسکتے ہیں ۔مگررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وہ روٹی کا ٹکڑابھی نہ لائے اورآپ کو بسااوقات فاقے کرنا پڑے ایک دفعہ آپ کے چہرے پر ضعف کے آثار دیکھ کرصحابہؓ نے سمجھا کہ آپ کو بھوک لگی ہوئی ہے ۔چنانچہ ایک صحابیؓ نے بکری ذبح کی اورآپ کو اوربعض اَورصحابہؓ کوکھاناکھلایا۔مگرایسے مواقع میں سے ایک موقع پر بھی توجنوں نے مدد نہیںکی۔میں سمجھتاہوں وہ بڑے ہی بے شرم جنّ تھے کہ وہ آجکل کے ملنٹوں کو توسیب اورانگور کھلاتے ہیں مگر رسول کرٓیم صلی اللہ علیہ وسلم کو جن پر وہ ایمان لائے تھے انہوں نے کبھی ایک جَوکی روٹی بھی نہ دی ۔پھر وہ مومن کس طرح ہوگئے ۔وہ توپکے کافر تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال ہی بالکل غلط ہے کہ جنّ کو ئی ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے نرالی ہے ۔ وہ جنّ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے وہ بھی انسان ہی تھے اورجس طرح اَورلوگوں نے اپ کی مدد کی وہ بی مددکرتے رہے ۔اگرکوئی نرالی مخلوق مانی جائے توپھر اس سوال کاحل کرنا ان لوگوں کے ذمہ ہوگا جوجنّات کے قائل ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ انہوںنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی مدد نہ کی ۔حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاچکے تھے اور انہیں حکم دیا گیاتھاککہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کریں ۔
پھر اس سے بڑھ کر ایک اَوردلیل ہے اللہ تعالیٰ سورئہ احزاب میں بطورقاعد ہ کلیّہ کے فرماتاہے ۔اِنَاّ عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَاالْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًاجَھُوْلًا ۔(احزاب ع ۹)کہ ہم نے اپنی شریعت اورکلام کوآسمانوں کی مخلوق کے سامنے پیش کیا اورکہا کوئی ہے جو اس کو مانے اور اس پچر عمل کرے۔ اس پر تمام آسمانی مخلوق نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہم یہ بارِ امانت اٹھانے کے ہرگز قابل نہیں ۔پھر ہم نے زمینوں کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا اورکہا ۔لو یہ بوجھ اٹھاتے ہو ۔انہوں نے کہا ۔ہرگز نہیں ۔پہاڑوں پر پیش کیا توانہوں نے بھی انکارکیا حالانکہ لوگ عام طور پر کہاکرتے ہیں کہ جنّ پہاڑوں پر رہتے ہیں ۔ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا سارے ڈرگئے اور کسی نے بھی اس ذمہ واری کو اٹھانے کی جرأت نہ کی َفَحَمَلَھَاالْاِنْسَانُ صرف ایک انسان آگے بڑھا اوراس نے کہا ۔مجھے شریعت دیجیئے ۔میں اس پر عمل کرکے دکھائوں گا ۔فرماتاہے اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًاجَھُوْلًا ۔انسان نے اپنے نفس پر بڑاظلم کیا۔کیونکہ وہ ہمارے عشق میں سرشار تھا ۔اس نے یہ نہیں دیکھا کہ بوجھ کتنا بڑاہے۔بلکہ شوق سے اسے اٹھانے کے لئے آگے نکل آیا ۔اب دیکھو یہاں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتاہے کہ شریعت کو اٹھانے والا صرف انسان ہے ۔ اورکوئی شریعت کا مکلّف نہیں ۔ اب جبکہ انسان کو ہی خدانے شریعت دی توسوال یہ ہے کہ اگر جنّ غیر ازانسان ہیں تووہ کہاں سے نکل آئے اورانہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن پر ایمان کااظہار کیوں کیا ۔اگریہ تسلیم کیا جائے کہ و ہ غیر ازانسان تھے توخداتعالیٰ کا کلام باطل ٹھہرتاہے کیونکہ خداتعالیٰ یہ فرماتاہے کہ انسان کے سواسب مخلوق نے اس شریعت پر عمل کرنے سے انکارکردیا تھا ۔اورجبکہ قرآن سے ثابت ہے کہ جنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے توصاف معلوم ہوگیا کہ یہ جنّ انسان ہی تھے غیر از انسان نہیں تھے ۔ یہاں بھی جنّ سے مراد جنّ الانس ہی ہیں ۔ایسی مخلوق مراد نہیں جو انسانوں کے علاوہ ہو۔اورنہ میں ایسے جنّوں کاقائل ہوں جو انسانوں سے آکر چمٹ جاتے ہیں ۔مجھے یاد ہے ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ میری ہمشیرہ کے پاس جنّ آتے ہیں اوروہ آپ پر ایمان لانے کے لئے تیار ہیں ۔حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں خط لکھا کہ آپ ان جنّوں کویہ پیغام پہنچا دیں کہ ایک عورت کوکیوں ستاتے ہو ۔اگرستاناہی ہے تومولوی محمد حسین بٹالوی یا مولوی ثناء اللہ کوجاکرستائیں ۔ایک غریب عورت کو تنگ کرنے سے کیا فائد ہ؟ توایسے جنّ کوئی نہیں ہوتے جن کو عام لوگ مانتے ہیں ۔بیشک کئی ایسے لوگ بھی ہوں گے جوانگریزی تعلیم کے ماتحت پہلے ہی اس امر کے قائل ہوں ۔لیکن مومن کے سامنے اصل سوال یہ نہیں ہوتاکہ اس کی عقل کیاکہتی ہے بلکہ اصل سوال یہ ہوتاہے کہ قرآن کریم کیا کہتاہے ۔اگرقرآن کہتاہوکہ جنّ ہوتے ہیں توہم کہیں گے آمنّا وصدّقنا۔ اوراگر قرآن سے ثابت ہوکہ انسانوں کیی علاوہ جنّ کوئی مخلوق نہیں توپھر ہمیں بھی یہی بات ماننی پڑے گی ۔
اصل بات یہ ہے کہ بعض لوگ بڑے متکبر اورسرکش ہوتے ہیں جوکسی دوسرے کی اطاعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔مگرجب انبیاء کے سامنے آتے ہیں تو یکدم ان کی حالت بد ل جاتی ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوہی دیکھ لو ۔ابتدا ء میں وہ اسلام کی کوئی بات برداشت نہیں کرسکتے تھے اورایک دفعہ تو انہیں یہاں تک جوش آیا کہ تلوار سونت لی اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکل کھڑے ہوئے ۔مگرجب رسول کریم صلیاللہ علیہ ولسم کلے پاس پہنچے تو آپ کے رعب کی وجہ سے کانپنے لگ گئے ۔ توبعض طبائع ناری ہوتی ہیں ۔مگر جب نبیوں کے سامنے جاتی ہیں توٹھنڈی ہوکر رہ جاتی ہیں ۔ایسی طبائع رکھنے والے انسانوںکوعربی زبان میں جنّ کہتے ہیں ۔اسی طرح جنّوں سے وہ لوگ بھی مراد ہوتے ہیں جومحلّات میں رہتے ہیں اوران کے دروازہ پر آسانی سے لوگ نہیں پہنچ سکتے۔چنانچہ لغت میں لکھا ہے جِنُّ النَّاسُ مُعَظَّمُھُم ْ(اقرب)یعنی جنّ لفظ انسانوں میں سے بڑے آدمیوںکے لئے بولاجاتاہے کیونکہ ان کی حفاظت کے لئے بڑے بڑے مضبوط پہرہ دارمقرر ہوتے ہیں اورہرشخص آسانی سے ان تک نہیں پہنچ سکتا۔
پرانے زمانہ میں تما م بڑے بڑے بادشاہوں کا یہ دستورتھا کہ وہ خاص خاص مقاموں پر لڑ نے کے لئے اوراپنے باڈی گارڈز کے طور پر اعلیٰ قبیلوں کے آدمیوں کو بھرتی کیاکرتے تھے ۔چنانچہ جرمن کے بادشاہ وَل ہیلم نے بھی ایسا دستہ بھرتی کیاہواتھا ۔اورنپولین نے بھی ایسادستہ بھرتی کیاہواتھا اورہندوستان کے بادشاہ اکبر نے بھی باہرہ کے سیدوں میں سے ایسا دستہ بھرتی کیاہواتھا ۔چنانچہ جب اکبر نے چتوڑہ کے قلعہ پر حملہ کیااور وہ قلعہ جلد فتح نہ ہوسکا تواکبرنے ان رجمنٹوںکو جو باہرہ کے سیدوں می سے بھرتی ہوئی تھیں حکم دیا کہ وہ چتوڑ پر حملہ کریں اور وہ اس وقت تک کٹ کٹ کرمرتے چلے گئے جب تک کہ چتوڑ کے قلعہ کی دیواروں میں رخنہ پیدانہ ہوگیا ۔ چنگیز خاں نے بھی ایک خاص قبیلہ میں سے اپنی حفاظت کادستہ بھرتی کیاتھا۔جس کو بڑی عزت دی جاتی تھی ۔اوراس دستہ ک افسروں کو بادشاہ کے دربار میں خاص مقام پر بٹھایاجاتاتھا ۔نپولین کے محافظ دستہ کا ایک عجیب واقعہ مشہور ہے ۔کہ جب واٹرلُو کے میدان میں نپولین کی فوج کو شکست ہوئی تو اس کامحافظ دستہ میدان سے نہیں ہلا۔لارڈ ولنگٹن کی فوج گولے پر گولے برسارہی تھی اوروہ مرتے چلے جاتے تھے لیکن اپنی جگہ نہیں چھوڑتے تھے اس وقت نپولین کی فوج کا ایک جرنیل جوایک خاص کام پر بھیجا گیاتھا واپس آیااور اس نے جنرل نے کو جو اس خاص دستہ کاافسرتھا جاکرکہا کہ ہماراگولہ بارود ختم ہوچکا ہے اوردشمن بڑھتاچلا آرہاہے تم یہاں کیوں کھڑ ے ہو۔پیچھے ہٹو تاکہ کسی طر ح بادشاہ کی جان بچائی جاسکے اورپھر جمع ہوکر دشمن پر حملہ کریں اس پر جنرل نےؔ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا ۔اورنہایت سادگی سے کہا ۔’’مگرمیں کیاکروں مجھے نپولین نے پیچھے نہیں ہٹنانہیں سکھایا‘‘۔
اس جگہ پر جو جنّ کالفظ بولاگیاہے وہ ایسے ہی خاص دستوں کے لئے بولاگیاہے ۔کیونکہ ان دستوں میں معزز خاندانوں کے افراد بھرتی کئے جاتے تھے جوگھروں میں اورپہروں کے پیچھے رہنے کے عادی ہوتے تھے اورجنّ کہلانے کے مستحق تھے جس کے معنے پوشید ہوجود کے ہیں ۔یعنی وہ لو گ جوعام طورپر نظر نہیں آتے اورپوشیدہ رہتے تھے ۔چنانچہ لغت میں لکھا ہے کہ جنّ کے معنے ہرایسی چیز کے ہوتے ہیں جو حواس سے چھپی ہوئی ہو(اقرب)یعنی جن کی آوازیں سنائی نہ دیں ۔اورآنکھوں کو نظر نہ آئیں ۔گویادنیا سے الگ تھلگ رہنے والے لوگ یادوسرے لفظوں میںامراء جیساکہ لغت نے واضح معنے اس کے امراء بھی کردیئے ہیں ۔پس حضرت سلیمان علیہ السلام کالشکر تین قسم کے لوگوں پرمشتمل تھا (۱)امراء کا خاص حفاظتی دستہ ۔(۲)عوام الناس کی فوج۔(۳)روحانی لوگوں کادستہ۔حضرت سلیمان علیہ السلام ان کو الگ الگ کھڑاکیاکرتے تھے ۔جس طرح تیمور بھی اپنی فوج کے مختلف لوگوںوکوالگ کھڑاکیاکرتاتھا ۔مگروہ روحانی لوگوںیامولویوںکوفوج کے پیچھے کھڑاکیاکرتاتھا ۔اورکہتاتھاکہ یہ جنگ میں سب سے پہلے بھاگیں گے ۔اس لئے ان کو پیچھے کھڑاکرناچاہیئے ۔مگرہم نہیں کہہ سکتے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت میں بھی علماء کا یہی حال تھا ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں علماء کایہ حال نہیں تھا ۔چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ صحابہؓ میں سے زیادہ بہادر اوردلیر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اورپھر انہوںنے کہا کہ جنگ بد ر میں جب رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک علیحدہ چبوترہ بنایاگیا تواسوقت سوال پیداہواکہ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا کام کس کے سپرد کیاجائے ۔اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فوراً ننگی تلوار لے کرکھڑے ہوگئے اورانہوں نے اس انتہائی خطرہ کے موقعہ پر نہایت دلیری کے ساتھ آپ کی حفاظت کافرض سرانجام دیا (تاریخ الخلفاء سیوطی ص ۲۹) اسی طرح احادیث میں آتاہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا ۔اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بابُھَا۔ (الجامع الصغیر جلد اول ص۹۵)یعنی میں علم کاشہر ہوں اورعلیؓ اس کادروازہ ہیں ۔پس حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء میں سے قرار دیا ہے مگر خیبر کی جنگ میں سب سے نازک وقت میں اسلام کا جھنڈا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ ہی کے ہاتھ میں دیاتھا ۔ جس سے معلوم ہوتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت علماء بزدل نہیں تھے بلکہ سب سے زیاد ہ بہادر تھے ۔ہاں شاعر کمزور ہوتے تھے چنانچہ حسان بن ثابتؓ کے متعلق آتاہے کہ ان کادل بہت کمزور تھا ۔
حتی اذااتوعلی وادالنمل۔ قالت نملۃ یایھاالنمل ادخلوا
یہاں تک کہ جب وہ وادی نملہ میں پہنچے تونملہ قوم میں سے ایک شخص نے کہا اے نملہ قوم!چلے جائو
مسکنکم۔لایحطمنکم سلیمان وجنودہ وھم لایشعرون٭
اپنے اپنے گھروں میں ۔ایسانہ ہو کہ سلیما ن ا وراس کے لشکر (تمہارے حالات کو )نہ جانتے ہوئے تمہیں پیروں کے نیچے مسل دیں۔
فتبسھم ضاحکا من قولھا وقال رب اوزعنی ان اشکر
پس وہ (یعنی سلیمان ؑ) اس کی بات سن کر ہنس پڑا۔ اورکہا ۔اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ
نعمتک التی انعمت علی وعلی والدی وان اعمل صالحا
تیری نعمت کا جو تُونے مجھ پر اور میرے والدین پر کی ہے شکریہ اداکرسکوں ۔ اورایسا مناسب عمل کروں
ترضہ وادخلنی برحمتک فی عبادک الصلحین٭
جسے توپسند فرمائے ۔اوراے خداٖ اپنے رحم کے ساتھ تُو مجھے اپنے بزرگ بندوں میں داخل کر۔۱۰؎
۱۰؎ حل لغات :۔لَایَحْطِمَنَّکُمْ: حَطَمَ یَحْطِمُ سے مضارع منفی کاصیغہ ہے اور حَطَمَہٗ کے معنے ہیں کَسَرَہٗ کسی چیز کوتوڑدیا (اقرب)پس لَایَحْطِمَنَّکُمْ کے معنے ہیں ایسانہ ہوکہ وہ تم کو توڑ دیں ۔
اَوْزِعْنِیْ:اَوْزِعْنِیْ اَوْزَعَ سے امر کاصیغہ ہے اوراَوْزَعَ اللّٰہُ فُلَاناً کے معنے ہیں اَلْھَمَہُ الشُّکْرَ خدانے اسے شکر کی توفیق دی ۔(مفردات ) پس اَوْزِعْنِیْ کے معنے ہوں گے مجھے شکر کی توفیق عطاکر ۔
تفسیر :۔فرماتاہے ۔حضرت سلیمان علیہ السلام اپنا لشکر لے کر روانہ ہوئے توچلتے چلتے ان کاوادی نمل میں سے گذرہوا(جس کے ایک معنے چیونٹیوں کی وادی کے بھی ہیں)اس لشکر جرار کودیکھ کرایک نملہ نے کہا ۔اے بھائیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو ۔ ایسانہ ہوکہ سلیمانؑ کا لشکر تمہیں بے خبری میں اپنے پائوں تلے روند ڈالے ۔حضرت سلیمان علیہ السلام اس کایہ قول سن کر ہنس پڑے اورانہوںنے کہا ۔اے میرے خدا! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوںکا شکراداکرسکوں جو تونے مجھ پر اورمیرے ماں باپ پر کی ہیں اورمیں ایسے نیک او رمناسب حال اعمال بجالائوں جن سے توراضی ہوجائے اورتو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں شامل فرما۔
مفسرین نے جس طرح جنّوں اور پرندوں کے متعلق مبالغہ سے کام لیاہے ۔اسی طرح وادی النمل کے متعلق بھی بہت مبالغہ سے کام لیا ہے اورلکھا ہے کہ یہ ایک وادی تھی جس میں چیونٹیاں رہتی تھیں اورچونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کی زبان جانتے تھے اس لئے جب چیونٹی بولی تو حضرت سلیمان علیہ السلام فوراً سمجھ گئے کہ اس نے کیاکہاہے ۔نہ معلوم ہمارے مفسرین نے کس کتاب میں پڑھا ہے کہ چیونٹیاں بھی پرندوں کی ایک قسم ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے تویہ فرمایاتھا کہ ہم نے سلیمان کو منطق الطیر کاعلم دیاتھا مگرہمارے مفسرین نے ان کو چیونٹیوں کی بولی کاعلم بھی بخش دیا ۔وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں لمبے عرصہ تک بارشیں نہ ہوئیں تو آپ نے لوگوں سے فرمایاکہ چلو شہرسے باہ نکل کر استسقاء کی نماز پڑھیں۔جب آپ نماز پڑھنے جارہے تھے ۔تو آپ نے دیکھا کہ ایک چیونٹی اپنی اگلی ٹانگیں اٹھاکر اورآسمان کی طرف منہ کرکے خداتعالیٰ سے یہ دعامانگ رہی ہے کہ خدایا ہم بھی تیری مخلوق ہیں ہمیں بارش سے محروم نہ رکھ۔آپ نے یہ دعاسنتے ہی فرمایاکہ اب استسقاء کی نماز پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں واپس چلو ۔ اس چیونٹی کی دعاہی کافی ہے اوراسی کے نتیجہ میں بارش برس جائے گی ۔(تفسیر ابن کثیر برحاشیہ فتح البیان جلد ۷ص ۲۰۶)
پھر مفسرین نے اپنی تحقیق یہیں تک نہیں رہنے دی بلکہ انہوں نے چیونٹیوں کے قبیلوں کابی پتہ لگایاہے ۔وہ کہتے ہیں کہ جس طرح انسانوں میں مغل اورراجپوت او رپٹھان وغیرہ ہوتے ہیں اسی طرح چیونٹیوں میں بھی مختلف قومیں اورقبائل ہیں ۔چنانچہ یہ علم آپ لوگوںکے کام آئے گا کہ چیونٹیوں کے ایک قبیلہ کانام انہوں نے بنوشیصان بتایاہے اورلکھا ہے کہ اسی قبیلہ کی ایک چیونٹی نے یہ بات کہی تھی اورپھر انہوں نے بڑی تحقیق کے بعد اس کے نام کابھی پتہ لگانے کی کوشش کی ہے۔ گوافسوس ہے کہ کسی ایک نام پر ان کا اتفاق نہیں ہوسکا۔چنانچہ بعض نے اس کانام منذرہ بعض نے طافیہ یالافیہ اور بعض نے خرمّی بتایاہے اورپھر یہ بھی لکھا ہے کہ وہ چیونٹی ایک پائوں سے لنگڑی تھی ۔اسی طرح مفسرین نے اس کاقد بھی بتایاہے ۔چنانچہ بعض کہتے ہیں وہ مرغ کے برابرتھی ۔بعض کہتے ہیں بھیڑکے برابر تھی اوربعض کہتے ہیں وہ بھیڑیے کے برابر تھی ۔اسی طرح مفسرین نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ اس نملہ کے ساتھ چالیس چالیس ہزار چیونٹیاں بطورچوبداررہاکرتی تھیں۔(تفسیر ابن کثیر برحاشیہ فتح البیان جلد ۷ ص ۲۰۵وتفسیر حسینی)
حالانکہ پہلی بات جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اسجگہ نملہ سے مراد چیونٹی نہیں ہے کہ اوپر ذکرتویہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضر ت سلیمان علیہ السلام کومنطق الطیر سکھائی تھی ۔مگراس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چیونٹی بولی تو حضرت سلیمان علیہ السلام سمجھ گئے کہ اس نے کیا کہا ہے ۔ حالانکہ جب دعویٰ یہ تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو پرندوں کی بولی آتی تھی تودلیل میں کسی پرندے کی مثال پیش کرنی چاہیئے تھی ۔مگرمفسرین کہتے ہیںکہ چیونٹی بولی توحضرت سلیمان علیہ السلام کو فوراً سمجھ آگئی جو عُلِّمْنَامَنْطِقَ الطَّیْرِ کاثبوت ہے۔ حالانکہ چیونٹی پرندہ نہیں ۔پس نملہ سے مراد اگرچیونٹی لی جائے تویہ دلیل بالکل عقل میں نہیں آسکتی ۔قرآن جوکچھ کہتاہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو پرندوں کی بولی آتی تھی ۔اوروہ اس کو سمجھتے تھے مگر بولنے لگ جاتی ہے نملہ ۔اوروہ اس بات کوسمجھ جاتے ہیں ۔غرض پہلی بات جو اس ضمن میں قابل غور ہے و ہ یہ ہے کہ نملہ کیا چیز ہے ؟
دوسری چیز یہ قابل غور ہے کہ یہاں حطم کالفظ آتاہے اور حطم کے معنے توڑنے اورغصہ سے حملہ کرنے کے ہوتے ہیں ۔عام طور پر لوگ اس کاترجمہ یہ کردیتے ہیں کہ سلیمانؑ اوراس کالشکرتمہیں اپنے پیروں کے نیچے نہ کچل دیں ۔مگر یہ حطم کے درست معنیح نہیں ۔عربی میں حطم کے معنے توڑدینے اورغصہ میں حملہ کردینے کے ہیں ۔چنانچہ قرآن کریم میں دوزخ کی آگ کاایک نام حطمہ بھی رکھاگیاہے کیونکہ وہ جلادیتی ہے ۔یہ مطلب نہیں کہ آگ کے پیرہوں گے اوروہ لوگوںکواپنے پائوں کے نیچے مسل دے گی ۔پس لَایَحْطِمَنَّکُمْ کے معنے یہ ہوئے کہ ایسانہ ہوسلیمانؑ اوراس کالشکر تمہیں توڑدے یا غصہ سے حملہ کردے اورتباہ کردے ۔اب سوال یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ جو اتنے بڑے نبی تھے جن کے پاس جنّوں اورانسانوں اورپرندوں کے لشکر درلشکر تھے کیاان کا ساراغصہ چیونٹی پر نکلناتھا اورکیاان سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ چیونٹیوں پر حملہ کرنے لگ جائیں گے ۔میں بتاچکاہوں کہ لَایَحْطِمَنَّکُمْ کے معنے پیروں میں مسل دینے کے نہیں بلکہ طاقت کوتوڑدینے اورحملہ آور ہونے کے ہیں ۔اسی لئے عربی زبان میں قحط کو حاطوم کہتے ہیں ۔کیونکہ ا س سے ملک کی طاقت ٹوٹ جاتی ہے ۔اگریہ معنے کئے جائیں توپھر اس کا مطلب یہ ہوگاچیونٹیوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اپنے اپنے بلوں میں گھس جائوایسانہ ہوکہ سلیمان اوراس کالشکر کلہاڑیاں او رکدالیں لے کر آجائے اورہماری بلوںکو کھود کھودکر غلّہ کے دانے نکال لے اوراس طرح ہماری طاقت کو توڑ دے ۔مگرکیاکوئی عقلمند ان معنوںکو درست تسلیم کرسکتاہے ؟۔
تیسری دلیل جونہایت ہی بیّن اور واضح ہے وہ یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے جتنے صیغے استعمال کئے ہیں سب وہ ہیں جوذی العقول کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔مثلاً اُدْخُلُوْا کالفظ آتاہے ۔حالانکہ چیونٹیوں کے لحاظ سے اُدْخُلْنَ کالفظ آناچاہیئے تھا اسی طرح لَایَْطِمَنَّکُمْ میں کُمْ کالفظ آتاہے ۔حالانکہ کُنَّ کالفظ آناچاہیئے تھا ۔پس قرآن مجید کے الفاظ بتارہے ہیں کہ یہ کوئی انسان تھے جن کے لئے کُمْ اور اُدْخُلُوْا وغیرہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔پھر وَھُمْ لَایَشْعُرُوْنَ کہہ کربھی اس بات کو واضح کردیاگیاہے کہ وہ چیونٹیاں نہیں تھیں ۔کیونکہ لشکرتوالگ رہے چیونٹیاںتونبیوں کے پائوں کے نیچے بھی آجاتی ہیں ۔پس اگراس جگہ نملہ سے مرادچیونٹی لی جائے تویہ کہنا کہ سلیمانؑ اوراس کالشکر توکو بے جانے اپنے پائوں کے نیچے کچل نہ دے ایک بالکل بے معنے فقرہ بن جاتا ہے ۔کیا دنیا کی کسی بھی مذہبی کتاب میں لکھا ہے ۔خواہ اسلامی ہویاقبل ازاسلام کی کوئی اور کتاب کہ کوئی نبی سرجھکا کر زمین کی طرف دیکھتے ہوئے چلتاتھا کہ کہیں کوئی چیونٹی اس کے پیروں کے نیچے نہ آجائے ،۔
حقیقت یہ ہے کہ وادی النمل کوئی چیونٹیوں کی وادی نہیں تھی بلکہ ایک حقیقی وادی تھی جس میں انسان بستے تھے ۔چنانچہ تاج العروس جو لغت کی مشہور کتا ب ہے اس میں لکھا ہے کہ شام کے ملک جبرین اورعسقلان کے درمیان ایک علاقہ ہے جسے وادی النمل کہاجاتاہے اورعسقلان کے متعلق تقویم البلدان میں لکھا ہے کہ یہ ساحل سمندر کے بڑے بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہے جو غزہ سے سیناکے ملحق فلسطین کی ایک بندرگاہ ہے بارہ میل اوپر شمال کی طرف واقع ہے ۔اورجبرین شمال کی طرف ایک شہر ہے جو ولایت دمشق میں واقع ہے۔(تقویم البلدان ص ۲۳۸و معجم البلدان جلد۶ص۱۷۴)
پس وادی النمل ساحل سمندر پر یروشلم کے مقابل پر یااس کے قریب دمشق سے حجاز کی آتے ہوئے ایک وادی ہے جواندازًادمشق سے سومیل نیچے کی طر ف تھی ان علاقوںمیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت تک عرب اور مدین کے بہت سے قبائل بستے تھے (مقام کی وضاحت کے لئے دیکھو نقشئہ فلسطین و شام بعہد قدیم و عہد جدید نیلسنز انسائیکلوپیڈیا)
اب ر ہ گیا نملہ سوقاموس میں البرق کے ماتحت لکھا ہے ۔وَالابْرِقَۃُ مِنْ صَیَاہِ النَّمْلَۃ ِ(قاموس جلد ۳ص ۲۱۹)کہ نملہ قوم کے چشموں سے میں سے ایک چشمہ کانام ابرقہ تھا ۔غرض لغت اور جغرافیہ کی مدد سے ہمیں نملہ قوم بھی مل گئی اور وادی النمل کا بھی پتہ چل گیا اوریہ بھی معلوم ہوگیاکہ یہ علاقہ شام میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے علاقہ کے نزدیک تھا ۔اوریہ عجیب بات ہے کہ اس قسم کے نام پرانے زمانہ میں بڑے معقول تھے چنانچہ جنوبی امریکہ میں بعض قوموں کے نام بھیڑیا،سانپ، بچھواورکنکھجوراوغیرہ ہواکرتے تھے ۔بلکہ ہمارے ملک میں ہی ایک قوم کانام کاڈھا ہے ۔نورالدین کاڈھالاہور کے ایک مشہور شخص ہوئے ہیں ۔اسی طرح ایک قوم اکانام کیڑے ہے ۔ایک کانام مکوڑے ہے ۔کشمیر میں ایک قوم کانام ہاپت ہے جس کے معنے ریچھ کے ہیں۔اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام جب ملکہ سبا پر حملہ کرنے کے لئے اپنے ملک سے یمن کی طرف چلے توان کا گذر نملہ قوم کی وادی میں سے ہوا۔جس کو غلطی سے مفسرین نے چیونٹیوں کی وادی بنالیاہے ۔جب آپ وہاں پہنچے تو نملہ قوم کی ملکہ نے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے کہا کہ اے نملہ قوم کے لوگو !اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو ایسانہ ہوکہ یہ خیال کرکے کہ تم سلیمانؑ کے لشکر کامقابلہ کرناچاہتے ہو سلیمان اور اس کالشکر تمہیں پائوں کے نیچے روند ڈالیں۔ان الفاظ نے مفسرین کو اور بھی جرأت دلائی اورانہوں نے یقینی طورپر اسے ایک چیونٹی کاکلام قرار دیدیا۔حالانکہ جب کوئی حملہ آورکسی مقابل قوم کوسختی سے شکست دیتاہے تواس کے لئے محاور ہ میں روند ڈالنے کے الفاظ ہی استعمال کئے جاتے ہیں ۔پس اول تو محاورہ کے لحاظ سے یہ لفظ بالکل واضح تھا لیکن اگر وہ لغت کو دیکھتے وتوانہیں معلوم ہوجاتاکہ حَطَمَ کے معنے توڑ ڈالنے کے بھی ہیں (اقرب) اورمراد یہ ہے کہ ا س نملہ قو م کی ملکہ نے کہا کہ سلیمانؑ تم کو توڑ نہ ڈالے یعنی تمہاری قو ت اورشوکت کو کچل نہ دے ۔فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنْ قَوْلِھَا۔ اس پر سلیمانؑ اس نملہ کی بات سن کر ہنس پڑے ۔
یہاں مفسروں نے یہ عجیب بات نکالی ہے کہ سلیمانؑ جسے خدانے پرندوں کی بولی سکھائی تھی اورمفسروں نے چیونٹیوں کی ۔اس نے چیونٹیوں کے سردار کی بات فوراً سمجھ لی اور ہنس پڑا کہ دیکھو چیونٹیاں بھی مجھے کتنا انصاف پسند سمجھتی ہیں کہ بے سوچے سمجھے تومیراپیرچیونٹی پرپڑ سکتاہے ۔لیکن میں جان بوجھ کر کسی چیونٹی پر بھی پیرنہیں رکھوں گا ۔حالانکہ کوئی شریف آدمی بھی خواہ وہ غیر نبی ہو جان بوجھ کر چیونٹیوں کے اوپر پیر نہیں رکھاکرتا۔ہم نے توکئی شریف آدمیوںکودیکھا ہے کہ برسات کے موسم میں جب کیڑے زمین میںسے نکل آتے ہیں تووہ بچ بچ کرچلتے ہیں کہ کہیں زیاد ہ کیڑے ان کے پیر کے نیچے آکر نہ مارے جائیں ۔پس یہ بات توغلط ہے ۔اصل بات صرف اتنی تھی کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کومعلوم ہواکہ نملہ قوم کی ملکہ نے اپنی قوم کو کہہ دیاہے کہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ جائو ۔اورمخالف مظاہر ہ نہ کرو۔تاکہ اس مظاہر ہ سے بھڑک کر حضرت سلیمانؑ کالشکر ان پر حملہ نہ کردے ۔اوران کو پتہ بھی نہ لگے کہ سردارِ قوم نے اپنی قوم کو عجز وانکسار کاحکم دیا ہے ۔توآپ ہنس پڑے کہ خداتعالیٰ نے کس طرح دوردراز کے ملکوں تک بھی یہ بات پھیلادی ہے کہ سلیمانؑ ظالم نہیں اوروہ ادنیٰ اقوام کے ساتھ بھی انصاف کاسلوک کرتاہے ۔
نملہ قوم کی ملکہ کایہ اعلان کرنا کہ اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو اوردروازے بندکرلو ۔دراصل ا س جنگی دستور کے مطابق تھا کہ جب کو ئی لشکر کہیں سے گذرے اوروہاں کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں گھس جائیں اوردروازے بندکرلیں تواس کے معنے یہ ہوتے تھے کہ وہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں ۔چنانچہ فتح مکہ کے موقعہ پر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کرادیاتھا کہ جولوگ اپنے اپنے گھروں میں گھس جائیں گے اور دروازے بندکرلیں گے ۔توان سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی ۔یہی نملہ نے کہا ۔کہ اپنے اپنے گھروں میں گھس جائواوردروازے بند کرلو ۔حضرت سلیمانؑ سمجھ جائیں گے کہ یہ میرامقابلہ نہیں کرناچاہتے ۔اگرہم باہر رہیں گے توممکن ہے وہ حملہ کردیں ۔حضرت سلیمان علیہ السلام کو جب نملہ قوم کی ملکہ کا یہ اعلان پہنچا ۔تووہ ہنسے اور انہوں نے خداتعالیٰ کا شکر اداکیا کہ میری نیکی اورتقویٰ کی کتنی دوردور خبر پہنچی ہوئی ہے ۔یہ قوم بھی جو اتنی دوررہتی ہے سمجھتی ہے کہ سلیمانؑ ظالمانہ طور پر حملے نہیں کیاکرتا۔اگرہم اپنے دروازے بندکرلیں گے تویہ ہم پر حملہ نہیں کرے گا حالانکہ اس زمانہ کے جنگی دستور کے مطابق جو فاتح قوم ہوتی تھی وہ ملک کو لوٹ لیا کرتی تھی ۔چنانچہ انہوں نے خداتعالیٰ سے مخاطب ہوکر کہا کہ اے اللہ! یہ نیک شہرت تیرے فضل سے ہوئی ہے ۔پس تومجھے توفیق دے ک میں تیرے اس انعام کا شکریہ اداکروںجوتُونے مجھ پر اور میرے ما ں باپ پرنازل کیا ہے اورہمیشہ ایسے کام کروں جن سے توراضی ہو ۔یعنی جس طرح اب ایک نملہ نے تسلیم کیا ہے کہ سلیمانؑ اوراس کے ساتھی جانتے بوجھتے ہوئے ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے ۔اگران لوگوں کے ہاتھ سے کوئی نقصان پہنچا تووہ محض غفلت کا نتیجہ ہوگا ۔ورنہ ارادتاً وہ ظلم اور تعدّی نہیں کرسکتے ۔اسی طرح تومجھے ورمیرے لشکریوں کو توفیق عطافرماکہ وہ ہمیشہ اعلیٰ درجہ کے اخلاق سے آراستہ رہیں اورہمیشہ لوگ یہ تسلیم کرتے رہیں کہ ان لوگوں کے ہاتھوں سے دیدہ و دانستہ کوئی ظلم سرزد نہیںہوسکتا۔اورتُو اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرمادے ۔
وتفقدالطیر فقال مالی لا اری الھد ھد ام کان من الغائبین
اوراس نے سب پرندوں کی حاضری لی ۔پھر کہا ۔مجھے کیاہواہے ۔کہ میں ھد ھد کونہیں دیکھتا ۔یاوہ (جان بوجھ کر )غیر حاضر ہے ۔
لاعذبنہ عذاباشدیدااولااذبحنہ اولیاتینی بسلطن مبین٭
میں اس کویقیناسخت سزادوں گا ۔یااسے قتل کردوں گا ۔یاوہ میرے سامنے کوئی کھلی دلیل (اپنی غیر حاضری کی )پیش کریگا ۔۱۱؎
۱۱؎ تفسیر :۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے سارے لشکر کاجائز ہ لیا اورامراء لشکرکواپنے سامنے حاضری کاحکم دیا تواس وقت علماء میں سے ایک سردار کو جس کانام ہد ہد تھا انہوں نے غائب پایا اس نہایت اہی نازک موقعہ پر جبکہ آپ ایک ملک پر حملہ کرنے کے لئے جارہے تھے اپنے لشکر کے ایک سردار کو غائب دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام کاغصہ بھڑک اٹھا اور ان کا ذہن اس طرف منتقل ہوگیاکہ مبادا اس میں کوئی سازش کام کررہی ہو ۔چنانچہ انہوں نے کہا کہ کیا ہدہد پر میری نظر نہیں پڑی یا وہ کہیں بھاگ گیا ہے ۔ اب میں اسے یاتوکوئی شدید ترین سزادوں گا یااسے قتل کردوں گا اوریاپھر اسے میرے سامنے کوئی واضح ثبوت پیش کرنا پڑے گا کہ وہ کیوں غائب رہا۔
مفسرین خیال کرتے ہیں کہ سچ مچ کے پرندے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر میں شامل تھے اورلشکر کاایک سردار ہدہد پرندہ تھا ۔ جس کو چھوٹے اور بچے بھی غلیلوں سے مار لیتے ہیں ۔اس زبردست کو لے کر حضرت سلیمان علیہ السلام یمن کا ملک فتح کرنے کے لئے نکلے تھے ۔ہرعقلمند سمجھ سکتاہے کہ یہ قصہ ہدہد کوسردار ثابت نہیں کرتا بلکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو نعوذ باللہ بیوقوف ثابت کرتاہے ۔ حالانکہ خداتعالیٰ کے نبی بیوقوف نہیں ہواکرتے ۔یمن کا ملک فتح کرنے کے لئے کبوتر۔فاختہ۔چڑیاں ۔ہدہد۔بٹیر اور تلئیر لے کر نکلناکسی عقلمندکاکام نہیں ہوسکتا ۔ایسے لشکروں کو فتح کرنے کے لئے بادشاہ کی فوجوں کو نکلنے کی ضرورت نہیںہوتی ۔ایسے لشکروں کے آنے کی خبر سن کر توسارے شہر کی گلیوں میں سے بچے غلیلیں لے کر نکل پڑیں گے اورسارے شہر کے لئے عید کادن آجائے گا اورخوب پرندوں کاگوشت کھایاجائے گا ۔آخر یہ جنگ ہو نے لگی تھی یاچڑیماروں کامظاہرہ ہواتھا ۔
تفسیروں کے ان قصوں کو پڑھ کر خیا ل آتاہے کہ تیمور جو کچھ کرتاتھا ٹھیک ہی کرتاتھا ۔کیونکہ جو علماء جنگ کو ایسی حقیر کھیل سمجھتے تھے ان کو لشکرکے پیچھے ہی رکھنامناسب تھا۔پھر لطف یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ جن کے متعلق ابھی یہ کہاگیا ہے کہ وہ ایک چیونٹی کوبھی جانتے ہوئے اپنے پیروں کے نیچے نہیں کچلتے تھے ۔اب اتنے غصے میں آگئے کہ ہدہد جیسے جانور کے متعلق جوایک پِدّی کے برابر ہوتاہے اورکوئی عقل نہیں رکھتافرماتے ہیں کہ یاتووہ کوئی زبردست دلیل لائے ورنہ میں اس کوذبح کرڈالوں گا ۔انا اللہ ونا الیہ راجعون ۔ پرندوں سے وہ امید رکھنی جو بلند عقل کے مالک انسانوں سے رکھی جاتی ہے ایک نبی کاکام نہیں ہوسکتا ۔یہ حضرت سلیمان علیہ السلام ایساکرتے تھے ۔آخر قرآن ہمارے سامنے ہے کیاقرآن سے یہی پتہ لگتاہے کہ پرندے ایسے عقل کے مالک ہیں ۔اگر ان سے کوئی قصورسرزد ہو تو آدمی تلوار لے کرکھڑاہوجائے اوراسے کہے وجہ بیان کرو ورنہ ابھی تمہاراسرکاٹ دوں گا ۔یاکبھی تم نے دیکھا کہ تمہاراکوئی ہمسایہ ہدہدپکڑکر اسے سوٹیاں ماررہاہو اور کہہ رہاہو کہ میرے دانے تُو کیوں کھا گیا تھا اوراگر تم نے کسی کو ایساکرتے دیکھا توکیاتم اسے پاگل نہیں قرار دوگے ۔پھر وہ لوگ جوحضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف یہ امر منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے ہدہد کے متعلق یہ کہا وہ اپنے عمل سے یہی فتویٰ حضرت سلیمان علیہ السلام پربھی لگاتے ہیں بلکہ حضرت سلیمانؑ تویہاں تک کہتے ہیں کہ میں اسے سخت ترین سزادوں گا ۔اَوْلَیَاتِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ۔ورنہ وہ ایسی دلیل پیش کرے جونہایت ہی واضح او رمنطقی ہو ۔ گویا وہ ہدہد سقراط بقراط اورافلاطون کی طرح دلائل بھی جانتاتھا ۔اورحضرت سلیمانؑ اس سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اپنے دلائل پیش کرے گا ۔
(۲)پھرقرآن تو یہ کہتاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس جنّوں اورانسانوں اورطیورکے لشکرتھے مگرحضرت سلیمان ؑ کی نظر صرف ہدہد کی طرف جاتی ہے ۔اورفرماتے ہیں مَالِیَ لَآاَرَی الْھُدْھُدَ کیاہواکہ اس لشکر میں ہدہد کہیں نظر نہیں آتا۔دنیوی حکومتوں میں تو جس کا قد پانچ فٹ سے کم ہو ۔وہ فوج میں بھرتی کے قابل نہیں سمجھاجاتا۔مگرحضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ عجیب بھرتی شروع کردی تھی ک ہدہد بھی ان کے لشکر میں شامل تھا ۔پھر ہدہد کی کوئی فوج آپ کے پاس ہوتی ۔تب بھی کوئی بات تھی ۔ بتایایہ جاتاہے کہ ہدہد صرف ایک آپ کے پاس تھا ۔اس ایک ہدہدنے بھلا کیاکام کرناتھا ۔اورایک جانور ساتھ لے جانے سے کیا مطلب تھا۔
(۳)تیسری بات یہ ہے کہ قرآن یہ کہتاہے ۔کہ ہدہدنے یہ یہ کہا ۔اورمعجزہ یہ بیان کیاگیاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کی بولی سمجھتے تھے حالانکہ اصولی طور پر یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کامعجزہ بیان ہوناچاہئیے تھا ۔مگربیان ہدہد کامعجز ہ ہوتاہے جوسلیمان علیہ السلام کے معجزہ سے بھی بڑھ کرہے ۔
(۴)ایک اَور بات یہ بھی ہے کہ ہدہد ان جانوروں می ںسے نہیں جو تیزپرواز ہوں اوراس قد ردور کے سفر کرتے ہوں ۔یہ جہاں پیداہوتاہے وہیں مرتاہے ۔مگرقرآن یہ بتلاتاہے کہ ہدہد دمشق سے اُڑا اور آٹھ سومیل اڑتاچلاگیا۔یہاں تک کہ سباکے ملک تک پہنچا اوروہاں سے خبر بھی لے آیا ۔گویا وہ ہدہد آجکل کے ہوائی جہازوں سے بھی زیادہ تیز رفتارتھا ۔اورمعجزہ دکھانے والا ہدہدتھا نہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ۔حالانکہ بتانایہ مقصود تھا کہ حضرت سلیمان ؑ نے معجزہ دکھایا۔
(۵)اسی ہدہدکادوسرامعجزہ یہ ہے کہ وہ شرک اورتوحید کے باریک اسرار سے بھی واقف تھا ۔اورا سکو وہ و ہ مسئلے معلوم تھے جو آجکل کے مولویوں کو بھی معلوم نہیں ۔کتنی اعلیٰ توحیدوہ بیان کرتاہے کہتاہے ۔وَجَدْتُّھَا وَقَوْمَھَایَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَھُمْ لَایَھْتَدُوْنَ۔یعنی میں نے اسے اوراس کی قوم کو دیکھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بجائے سورج کوسجدہ کرتے ہیں ۔اورشیطان نے ان کے عمل انہیں خوبصورت کرکے دکھائے ہیں اورانہیں سچے راستہ پر چلنے سے روک دیا ہے ۔جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے ۔پھر اس کی غیرت دینی دیکھو آجکل کے مولویوں کے ہمسایہ میں بت پرستی ہورہی ہوتووہ اس کے روکنے کی کوشش نہیں کرتے مگرہدہد چاروں طرف اُڑتاپھرتاہے اورحضرت سلیمان علیہ السلام کوخبردیتاہے کہ فلاں جگہ شرک ہے ۔فلاں جگہ بت پرستی ہے ۔
(۶)پھر وہ سیاسیات سے بھی واقف تھا ۔کیونکہ وہ کہتاہے کہ اُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ ۔یعنی ملکہ سبا کے پاس بادشاہت کی تمام صفات موجود ہیں ۔گویاوہ ا سکے تمام خزانے اور محکمے چیک کرکے آیا ۔اوراس نے رپورٹ کی کہ وہ تمام چیزیں جن کی حکومت کے لئے ضرورت ہے وہ اس کے پاس موجود ہیں ۔
(۷) پھر شیطان اور اس کی کاروائیوں سے بھی وہ خوب واقف ہے ۔کیونکہ وہ کہتاہے میں جانتاہوں انسان کا جب شیطان سے تعلق پیداہوجائے توبرے خیالات اس کے دل میں پیداہوتے ہیں ۔بلکہ وہ ان خیالات کے نتائج سے بھی واقف تھا ۔کیونکہ کہتاہے فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ ایسے خیالات کے نتیجہ میں انہیں اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستہ سے دور پھینک دیاہے ۔
یہ ہدہد کیا ہوا۔اچھاخاصہ عالم ٹھہرا۔ایساہدہد اگرآج مل جائے توسارے مولویوں کو نکال کر اسی کومفتی بنادینا چاہیئے ۔
(۸)ہاں ایک بات رہ گئی ۔اوروہ یہ کہ و ہ تختِ سلطنت کی حقیقت بھی خوب واقف تھا کیونکہ وہ کہتاہے کہ ملکہ سباکے پاس ایک عظیم الشان تخت ہے جوآپ کے پاس نہیں ۔گویا وہ لالچ بھی دلاتاہے اورکہتاہے اس پر حملہ کیجئے ۔
یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ یہ ہدہد کو ئی پرندہ نہیں تھا ۔کیونکہ قرآن میں صاف موجود ہے کہ وہ امانت جسے فرشتے بھی نہ اٹھاسکے ۔جسے آسمان اورزمین کی کوئی چیز اٹھانے کے لئے تیار نہ ہوئی ۔اسے انسان نے اٹھالیا۔وہی ہے جو ہماری شریعت کے رموز کوجانتاہے ۔ فرشتہ ایک ہی بات سمجھتاہے یعنی نیکی کی بات کو مگر انسان نیکی اور بدی دونوں پہلوئوں کو جانتا او رتمام حالات پر مکمل نگاہ رکھتا ہے۔ مفسر کہتے ہیں کہ ہدہد کوئی جانور تھا ۔حالانکہ حَمَلَھَا الْاِنْسَانُ والی آیت موجود ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کے سواکوئی اَورمخلوق اسرار شریعت کی حامل نہیں ۔پس جبکہ ہدہدبھی اسرار شریعت سے واقف تھا تولازماً وہ بھی انسان ہی تھا نہ کہ پرندہ۔
بعض لوگ سوال کیاکرتے ہیں کہ اگر یہ ہدہد آدمی ہی تھا تواس کے لئے ذبح کا لفظ کیوں استعمال کیاگیاہے ۔سویاد رکھناچاہیئے کہ عربی زبان میں ذبح کالفظ قتل کے معنوں میں بھی استعمال ہوتاہے(تاج العروس)جیسے قرآن کریم میں فرعون اور اس کے ساتھیوںکے متعلق ہی آتاہے کہ یُذَبِّحُ اَبْنَائَ ھُمْ (قصص آیت ۵) وہ بنی اسرائیل کے بیٹوں کوقتل کیاکرتاتھا ۔اگرذبح کے لفظ سے ہدہد کوپرندہ قراردینا درست ہوسکتاہے توکیا یُذَبِّحُ اَبْنَائَ ھُمْ کے یہ معنے ہیں کہ وہ سب پرندے تھے جن کو ذبح کیاجاتاتھا۔
پھر بعض دفعہ جب کسی مناسبت کی بنا ء پر کوئی نام رکھا جاتا ہے تو حسنِ کلام کے لئے الفاظ بھی اسی رنگ کے استعمال کئے جاتے ہیں ۔ جیسے کسی کو شیر قرار دیا جائے تو کہا جائے گا کہ وہ شیر کی طرح دھاڑتا ہے یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ شیر کی طرح سریلی آواز سے گاتا ہے ۔ اسی طرح جب ہد ہد کا ذکر کیا گیا تو گووہ ایک سردار تھا مگر ہد ہد کی مناسبت سے اس کے لئے ذبح کا لفظ استعمال کردیا گیا جو حسنِ کلام کا ایک لطیف نمونہ ہے ۔
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ہد ہد کا نام کیوں رکھا گیا ۔ اور گو اس کا عقلی جواب میں قرآن کریم سے ہی دے چکا ہوں ۔ مگر اب بتاتا ہوں کہ ہد ہدسے مراد کیا ہے ۔ہُدہُد کا پتہ لینے کے لئے جب ہم بنی اسرائیل کی کتابیں دیکھتے ہیں اور اس امر پر غور کرتے ہیں کہ کیا ان میں کسی ہد ہد کا ذکر آتا ہے۔ تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں یہودیوں میں کثرت سے ھُدَدْ نام ہوا کرتا تھا ۔ جو عبرانی سے عربی میں بدل کر ہد ہد ہوگیا ۔ جیسے عبرانی میں ابراہامؔ کہا جاتا ہے مگر جب یہ لفظ عربی میں آیا تو ابراہیمؔ بن گیا ۔ اسی طرح عبرا نی میں یسوع کہا جاتا ہے اور عربی میں عیسیٰؔ کہتے ہیں اسی طرح عبرانی میں موشےؔ کہا جاتا ہے اور عربی میں یہی نام موسیٰ ہوگیا ہے ۔اب بھی کسی اہل عرب کو لکھنؤ کہنا پڑے تو وہ لکھنؤنہیں بلکہ لکھناؔہوء کہے گا ۔ اسی طرح عبرانی میں ھُدَدْ کہا جاتا تھا مگر چونکہ قرآن کریم عربی میں ہے اس لئے جب یہ نام اس میں آیا تو ھُدھُد ہوگیا ۔
تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ھُدَدْ کئی ادومی بادشاہوں کا نام تھا ۔ اور اس کے معنے بڑے شور کے ہوتے ہیں ۔ عربی زبان میں ھدّ کے ایک معنے اَلصَّوْتُ الْغَلِیْظُ۔ یعنی بڑی بلند آواز کے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اونچی آواز والے لڑکے کا نام ھُدَدْ یا ھُدْھُدْ رکھ دیتے تھے مگر یہ نام تیسرے ادومی بادشاہ کا نام بھی یہی تھا ۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایک لڑکے کا نام بھی ہُدہُد تھا (پیدائش باب ۲۵آیت ۱۴)
بائیبل کی کتاب نمبر ۱ سلاطین باب ۱۱آیت ۱۴ میں بھی ادوم کے خاندان کے ایک شہزادے کا ذکر آتا ہے جس کا نام ہددؔ تھا اور جو یو آب کے قتل عام سے ڈر کر مصر بھاگ گیا تھا ۔ جیوئش انسائیکلوپیڈیا میں لکھا ہے کہ پُرانے عہد نامہ میں جب یہ لفظ اکیلا آوے تو اس کے ساتھ کوئی صفاتی فعل یا لفظ نہ ہوتو اس کے معنے ادومی خاندان کے آدمی کے ہوتے ہیں۔
غرض ھُدْ ھُدْ عبرانی زبان کا لفظ ھُدَدْ ہے جو عربی زبان میں آکر ھُدْ ھُدْ ہوگیا ۔ چونکہ مفسرین کو یہ شوق ہوتا ہے کہ اپنی تفسیر کو دلچسپ بنائیں اس لئے وہ بعض دفعہ بے ہودہ قصے بھی اپنی تفسیروں میں درج کردیتے ہیں۔چنانچہ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ضبّ عربی میں گوہ کو کہتے ہیں ۔مگر ضبّ عرب کے ایک قبیلے کے سردار کا بھی نام تھا ۔اور یہ ایسا ہی نام ہے جیسا ہندوئوں میں طوطارام نام ہوتا ہے اور وہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا ۔ اوراس نے آپ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا ۔ اب وعظ کی کتابوں میں اس بات کو ایک قصہ کا رنگ دیتے ہوئے یوں بنان کیا گیا ہے ۔ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جارہے تھے کہ راستہ میں ایک سوراخ میں سے گوہ نکلی۔ اورا س نے قصیدہ پڑھنا شروع کردیا ۔ اب جن لوگوں نے یہ بنا لیا کہ ایک گوہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں قصیدہ پڑھا تھا ان کے لئے ہُدہُد کا پرندہ بنا لینا کون سا مشکل کام تھا۔چنانچہ مفسرین لکھتے ہیں کہ حضر ت سلیمان علیہ السلام کوہدہد کے غائب ہونے کا اس طرح پتہ چلا کہ ایک دفعہ چلتے چلتے وہ ایک ایسے میدان میں پہنچے جہاں پانی نہیں ملتاتھا ۔نماز کاوقت آیاتو حضرت سلیمان علیہ السلا م نے وضو کرناچاہامگرانہی پانی نہ ملا ۔انہوں نے کہا۔ہدہدکہاں ہے اسے کہو کہ پانی تلاش کرے ۔کیونکہ پہلے بھی جب لشکر کوپانی کی ضرورت ہوتی تھی توہدہدپا نی کی جگہ بتایا کرتاتھا ۔مگر اس روز اسے ڈھونڈا تووہ نہ ملا جس پر حضرت سلیمان علیہ السلام کو غصہ آگیا ۔اورانہوں نے کہا کہ ہدہد آیاتومیں اسے سخت سزادوں گا یااسے ذبح کردوں گا۔مگر بعض نے اس واقعہ سے اختلاف کیاہے ۔وہ کہتے ہیں ۔اصل واقعہ یہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرپرندوں کے جھنڈ ہمیشہ سایہ رکھتے تھے ۔ایک دن اچانک ایک سوراخ میں سے دھوپ آگئی ۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے نظر اٹھا کردیکھا توآپ کو پتہ لگ گیا کہ ہدہد کی جگہ خالی ہے ۔(تفسیر روح المعانی)
غرض مفسرین نے عجیب وغریب حکایات اپنی روایت میں لکھ دی ہیں حالانکہ حقیقت صرف اتنی ہے کہ قرآن کریم میں جو ہدہد کہا گیاہے یہ ھُدَدَ کامعرب ہے اوراس سے مراد ادومی خاندان کا کوئی شہزاد ہ ہے جوآپ کے فوجی سرداروں می سے ایک سردار تھا ۔یہ ادومی خاندا ن حضرت سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت میں بستاتھا اورحضرت سلیمان علیہ السلام کے خاندان کارقیب تھا ۔
اس قوم کے سردار کو جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے نہ پایا۔توسمجھا کہ یہ رقیب قبیلہ کاسردار ہے ممکن ہے کسی شرار ت کی نیت سے دشمن کے ملک میں چلا گیا ہو ۔اوراس پر ان کو غصہ آگیا ۔لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ہدہد عرب قبیلہ کاکوئی سردار ہو ۔کیونکہ بائیبل س معلوم ہوتاہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام بھی ہدہد تھا۔ اورتاریخی طور پر یہ امر ثابت ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت تک اس رستہ میںجو فلسطین سے یمن کی طرف آتاہے عرب قبیلے بستے تھے ۔(تقویم البلدان )اورچونک عربوں اور یہودیوں کی باہم سخت چپقلش تھی اورگووہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ماتحت آگئے تھے لیکن مخالفت اب تک باقی تھی ۔اس لئے جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے دیکھا کہ عر ب قوم کاایک سردار غائب ہے توان کے دل می شبہ پیداہوااوروہ ناراض ہوگئے۔اوریمن چونکہ عر ب کاایک حصہ ہے اس لئے یہی بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے ۔
فمکث غیر بعید فقال احطت بمالم تحط بہ وجئتک من
پس کچھ دیر و ہ ٹھہرا(اتنے میںہدہد حاضر ہوا)اوراس نے کہا میں نے اس چیز کاعلم حاصل کیاہے جو تجھے حاصل نہیں اورمیں سبا(کی
سبابنبا یقین٭انی وجدت امراۃ تملکھم واوتیت من کل
قو م کے علاقہ)سے تیرے پاس (آیاہوں )(اور)ایک یقینی خبر لایاہوں ۔(جویہ ہے کہ)میں نے (وہاں)ایک عورت کو دیکھا جو
شیئٍ ولھا عرش عظیم٭وجدتھا
ان (کی ساری قوم)پر حکومت کررہی ہے ۔اورہرنعمت اسے حاصل ہے۔اوراس کا ایک بڑاتخت ہے ۔اورمیں نے اس کو
وقومھا یسجدون للشمس من دون اللہ وزین لھم
اوراس کی قوم کو اللہ کے سوا سور ج کے آگے سجدہ کرتے دیکھا ۔
الشیطن اعمالھم فصدھم عن السبیل فھم لایھتدون٭
اورشیطان نے ان کے عمل ان کو خوبصورت کرکے دکھائے ہیں ۔اوران کو سچے راستہ سے روک دیاہے ۔جس کی وجہ سے وہ ہدایت
الایسجدوللہ الذی یخرج الخبء فی السموت والارض
نہیں پاتے ۔اورمُصّر ہیں کہ اللہ کوسجدہ نہ کریں جو کہ آسمانوں اور زمین کی ہر پوشیدہ تقدیر کو ظاہر کرتاہے
ویعلم ماتخفون وما تعلنون٭اللہ لاالہ الا ھو رب العر ش العظیم٭
اورجوکچھ تم چھپاتے ہو اورظاہرکرتے ہو ان تدبیروں کو بھی جانتا ہے ۔حالانکہ اللہ وہ ہے جس کے سواکوئی معبود نہیں (وہ )ایک بڑے تخت کامالک ہے ۱۲؎
۱۲؎ حل لغات :۔اَلْخَبْئُ کے معنے ہیں مَاخُبِئیَ وَغَابَ ۔یعنی وہ چیز جو چھپائی جائے اورغائب ہو ۔ اور خَبْ ئُ الْاَرْضِ کے معنے ہیں نَبَاتُھَا زمین کی انگوری ۔او رخَبْ ئُ السَّمَآئِ کے معنے ہیں مَطَرُھَا بارش (اقرب)
تفسیر :۔فرماتاہے ۔حضرت سلیمان علیہ السلام کووہاں پڑائو کئے ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ وہ سردار واپس آگیا ۔اوراس نے بتایاکہ چونکہ آپ ملک سباپر حملہ کرنے جارہے تھے اورسباکاعلاقہ میرے ملک کاایک حصہ ہے میں پہلے سے خبر لینے کے لئے وہاں چلا گیا ۔کیونکہ زبان اور قو م کے ایک ہونے کی وجہ سے میرے لئے وہاں کے حالات معلوم کرنا آسان تھا مجھے اس بات کا یقینی طورپر علم حاصل ہوچکا ہے ۔کہ اس وقت اس ملک میں ایک عورت حاکم ہے لیکن غضب کی حاکم ہے ہرقسم کے سازو سامان اس کے پاس موجود ہیں اورا سکی بادشاہت بہت بڑی ہے ۔
اُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ سے یہ مراد نہیں کہ ملکہ سباکو ہرنعمت میسر ہے ۔کیونکہ اگرسے ہرنعمت میسر ہوتی تو جب ااس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس تحفہ بھیجاتھاتوآپ اس وقت یہ نہ کہتے کہ میرے پاس تو اس سے بھی بڑھ کرچیزیں ہیں ۔میں ان تحفوں سے کیونکر متاثر ہوسکتاہوں۔پس حضرت سلیمان علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میرے پاس توملکہ سباسے بھی بڑھ کر مال و دولت اور سامان موجود ہے بتاتاہے کہ اُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ سے صرف یہ مراد ہے کہ ملکہ سباکو اپنی مملکت کے لحاظ سے جس قد چیزوں کی ضرورت ہوسکتی ہے وہ تما م چیزیں اسے میسر ہیں ۔اوروہ بڑی بیدار مغز حکمران ہے ۔شاید یہ کہہ کر اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ڈراناچاہاکہ کہیں وہ اس کے ملک کے ایک حصہ پر قبضہ نہ کرلیں ۔لیکن ساتھ ہی اس نے ایسی بات کہہ دی جس کی وجہ سے حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے ارادہ میں اور بھی پختہ ہوگئے ۔اوروہ یہ کہ میں نے ملکہ او راس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھو ڑکر سورج کی پرستش کرتے دیکھا ہے اورشیطان نے ان کو اپنے اعمال پر بڑانازاں کردیاہے اور توحید کے رستہ سے ہٹادیاہے اوروہ اس بات پر مصر ہیں کہ اس خداکو سجدہ نہ کریں جو آسمان اور زمین کے تمام چھپے رازوں کو ظاہر کرنے والا ہے او رجس نے سورج اورچاند کو محض ایک خاد م کی حیثیت دی ہے اورعلومِ ظاہری اور باطنی اپنے انبیاء کو بتادیئے ہیں ۔وہ اللہ جوکہ موحدوں کا خداہے اس کی بادشاہت اس ملکہ کی بادشاہت سے بہت بڑی ہے اور ضرور اس کی بادشاہت غالب آئے گی اس طرح اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو خوش کرنے کی کوشش کی اور بتایا کہ وہ بلاوجہ غیر حاضر نہیںرہا ۔بلکہ اس نے ملکی مفاد کے لئے یہ تحقیق کرنا ضروری سمجھا تھا ۔
قال سننظراصدقت ام کنت من الکذبین ٭اذھب بکتبی
(اس پر سلیمان نے )کہا ۔کہ ہم دیکھیں گے کہ تونے سچ بولا ہے یاتُو جھوٹوں میں سے ہے۔تومیرایہ خط لے جا
ھٰذا فالقہ الیھم ثم تول عنھم فانظر ماذایرجعون٭
اوراسے ان کے (یعنی سباکی قوم کے )سامنے پھینک دے ۔پھر (ادب سے )پیچھے ہٹ (کر کھڑاہو)جا اوردیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۱۳؎
۱۳؎ تفسیر :۔اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ بہت اچھا ہم نے جاناتوضرورہے ۔ہم وہاں جاکردیکھیں گے کہ تُو نے سچ بولاہے یاایک جھوٹی رپورٹ پیش کردی ہے ۔تُو میرایہ خط لے جا ۔اوران لوگوں کے سامنے جا کر انہیں یہ خط پیش کردے اور پھر ذراپیچھے ہٹ کر اد ب سے کھڑاہوجائیو ۔اوردیکھئیو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔
ذرادیکھو کہ حضرت سلیمان علیہ االسلام جیسا عقلمندنبی ایک پرندے کو کیانصیحت کرتاہے ۔کبوتروں کی گردن میںتولوگ خط باندھ ہی دیاکرتے تھے ۔مگرہدہد کو ڈاکیہ بنانے کالطیفہ ہمارے مفسرین کو کہی سوجھا ہے پھر ایک بے عقل جانورکو کیسے آداب سکھائے جاتے ہیں کہ براہ راست ملکہ کے ہاتھ میں خط نہ دیجئیو ۔کیونکہ یہ ایک بے ادبی سمجھی جاتی ہے ۔بلکہ ا س کے درباریوں کے سامنے خط رکھیئو۔ وہ خود اس کے آگے پیش کردیں گے ۔جیساکہ سلطانی آداب میں یہ بات شامل ہے پھر جلدی سے جواب نہ مانگیئو ۔گویا حضرت سلیمان علیہ السلام کو ہی پرندوں کی بولی نہیں آتی تھی بلکہ ملکہ سباکوبھی آتی تھی ۔اورمناسب انتظار کے بعد جب وہ جواب دیں تولے آئیو۔
قالت یایھا الملواانی القی الی کتاب کریم٭
(جب اس نے ایساکیا تو)وہ (ملکہ )بولی ۔اے میرے درباریو !میرے سامنے ایک معز ز خط رکھاگیاہے ۔(جسکا مضمون یہ ہے کہ)
انہ من سلیمٰن وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ٭
یہ (خط)سلیمان کی طرف سے ہے اوراس میں بتایاگیاہے کہ اللہ جو بے انتہاکرم کرنے والا اوربار بار رحم کرنے والاہے اس کے نام سے ہم شروع کرتے ہیں ۔
الا تعلو علی واتونی مسلمین٭
(اورکہتے ہیں)کہ ہم پر زیادتی نہ کرو۔اورہمارے حضور میں فرمانبردا ربن کر حاضر ہوجائو ۔۱۴؎
۱۴؎ حل لغات :۔ اَلْمَلَأُ کے معنے ہیں اَلْاَشْرَافُ ۔بڑے لوگ ۔صاحب مرتبہ وجاہت والے ۔قِیلَ سُمُّوْ بِذٰلِکَ لِمَلَأتِھِمْ بما یُلْتَمَسُ عِندھم مِنَ المعروف وجَوْدَۃِ الرَّأْیِ اَوْ لِاَنَّھُمْ یَمْلَاُوْنَ العُیُوْنَ اَبَّھَۃٌ وَالصُّدُّوْرَ ھَیْبَۃً۔ اورسراداروں کو مَلَاٌ اس لئے کہتے ہیں کہ جس امرکے متعلق ان سے مشورہ لیاجاتاہے ۔اس کے متعلق رائے دینے کے لئے ان کادماغ بھرپور ہوتاہے ۔نیز ان کو دیکھ کرلوگوں کی آنکھیں اوردل رعب سے بھر جاتے ہیں (اقرب الموارد)
تفسیر :۔جب ہدہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کاخط درباریوں کے آگے رکھ دیااورانہوں نے ملکہ کے آگے پیش کردیا۔توملکہ نے کہا ۔ایک بڑا معز ز خط میرے سامنے پیش کیاگیا ہے وہ سلیمانؑ کی طرف سے ہے اور اس کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی ہے اور اس کا مضمون یہ ہے کہ میرے خلاف سرکشی مت کرو۔ اورفرمانبردار ہوکر میرے حضورحاضرہوجائو۔
دیکھو یہ کتنا واضح اشار ہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام بلاوجہ اس ملک کی طرف نہیں گئے تھے بلکہ پہلے اس ملک کے لوگوں نے کوئی سرکشی کی تھی اس سر کشی کو دبانے کے لئے حضرت سلیمان علیہ السلام نے یمن کا رخ کیاتھا ۔اور اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ۔ کہ اگر تم فرمانبرداری اختیار کروگے تومیں تمہار اپہلا قصور معاف کردوں گا ۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے خط سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے الفاظ لکھے ہیں ۔ان کو دیکھ کر دشمنان اسلام کی طرف سے بالعموم یہ اعتراض کیاجاتاہے کہ قرآن کریم نے اپنی ہر سورۃ کے ابتداء میں جو بسم اللہ لکھی ہے وہ درحقیقت پرانی کتب کی ایک چوری ہے اورپہلے لوگ بھی اس کاعلم رکھتے تھے ۔چنانچہ راڈول لکھتاہے کہ یہ کلمہ یہودی الاصل ہے (وہیری ص۲۸۶ جلد اول)اوروہیری لکھتاہے کہ یہ امر یقینی ہے کہ یہ کلمہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے یہودیوں اور صابیوں سے مستعار لیا ہے ۔آخرالذکر ہمیشہ اپنی تحریروں سے پہلے یہ لکھاکرتے تھے ۔’’ بنامِ یزداں بخشائش گرداوار(وہیری ص ۲۸۹جلد اول) پادری سینٹ کلیئر ٹسڈل صاحب نے اپنی کتاب ’’ ینابیع الاسلام ‘‘ میں اس عبارت کو زرتشتیوں کی طر ف منسوب کیاہے اورلکھاہے کہ کتاب دساتیر میں ہرنبی کے صحیفہ سے پہلے یہ عبارت ہے ‘‘بنام ایزد بخشائش گرمہربان دادگر‘‘(اردو ترجمہ ینابیع الاسلام ص ۱۲۷)
یہ عجیب بات ہے کہ تین مسیحی مصنف اس آیت کومسروقہ ثابت کرنے کے لئے تین سرچشمے اس کے بیان کرتے ہیں ۔ایک یہودیوںکو اس کاسرچشمہ بتاتاہے ۔دوسراصابیوں کو ۔تیسرازردشتیوںکو ۔ان لوگوںکا اس آیت کو مسروقہ ثابت کرنے کے لئے اس قدر کوشش کرناخود اس امر کاثبوت ہے کہ ان کے نزدیک یہ آیت اپنے معنوں کے لحاظ سے ایک سمندرہے۔ ورنہ ان کا یہ لکھ دینا ہی کافی ہوتاکہ اس آیت کے مضمون میں کوئی خاص خوبی نہیں ۔پھرسوال یہ ہے کہ تینوں سرچشموں میں سے اصل سرچشمہ کون ساہے؟ تینوںقوموںکو ا س آیت کاموجد تو قرار نہیں دیاجاسکتا۔پس ضروری ہے کہ یہ مسیحی مصنف یا ان کے شاگرد یہ تصفیہ بھی کرلیں کہ آیا یہودیوں نے زردشتیوں نے یا صابیوں سے چرایا ہے یابرعکس معاملہ ہے ۔
یہ لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہودیوں میں اس کلمہ کے استعمال کا ایک بھی حوالہ نہیں دیاگیا۔اورنہ وہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں کہ جن میں یہودی اس مضمون کو بیان کیاکرتے تھے ۔بلکہ باوجود اس بات کے کہ مسیحیت یہودیت کی ایک شاخ ہے اوریہودی کتب گویامسیحیوں کی اپنی مذہبی کتب ہیں پھر بھی مسیحی مصنّف یہودی کتب کاحوالہ نہیںدے سکے اور نہ ا ن ک الفاظ نقل کرسکے البتہ زرتشتیوں او رصابیوں کی کتب کے حوالے انہوں نے نقل کردیئے ہیں۔جس سے یہ بات اَور بھی روشن ہوجاتی ہے کہ اس آیت کے حسن کو دیکھ کر وہ کچھ ایسے بدحواس ہوگئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اپنی مذہبی کتب میں اس کاوجود ثابت کرناچاہتے ہیں ۔
باقی رہے صابی اور زرتشتی سوصابیوں کی کتب تو محفوظ نہیں ۔ہاں زرتشتیوں کی کتب کے بعض حصے اس وقت بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان کتب کی نسبت خود زرتشتی لوگ کہتے ہیں کہ وہ اصل صورت میں محفوظ نہیں ہیں ۔پس کیاتعجب ہے کہ ان کے بعض حصے اسلام کے بعد ہی بنائے گئے ہوں ۔لیکن اگر ان کتب کو صحیح بھی تسلیم کرلیاجائے تب بھی قرآن کریم پر کوئی اعتراض نہیں پڑتا کیونکہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہی نہیں کہ یہ آیت پہلی دفعہ قرآن کریم میں نازل ہوئی ہے۔بلکہ وہ خود تسلیم کرتاہے کہ یہ آیت پہلے بھی دنیا میں موجود تھی ۔چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو خط ملکہ سبا کو لکھا ۔اس کے الفاظ بتاتے ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اَلَّاتَعْلُوْاعَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ۔پس اگریہ ثابت بھی ہوجائے کہ یہود یا زرتشریوں یاصابیوں یا کسی اَور قوم میں یہ آیت پہلے سے موجود تھی توبھی کوئی حر ج نہیں کیونکہ جب قرآن کریم خود تسلیم کرتاہے کہ یہ آیت حضرت سلیمان علیہ السلام کو معلوم تھی ۔توجو آیت حضرت سلیمان علیہ السلام کو معلوم تھی وہ یقیناً ان کے اتباع کوبی معلوم ہوگی اوربالکل ممکن ہے کہ دوسری قوموں کے نبیوں وک بھی معلوم ہو۔فرق صرف یہ ہے کہ قرآ ن کریم میں اس کامضمون عربی زبان میں نازل ہواہے ۔اورپہلی قوموں میں ان کی اپنی زبانوں میں ہوگا ۔مگربایں ہمہ قرآن کریم میں ہرسورۃ سے پہلے اس آیت کی موجود نقل نہیں کہلاسکتی ۔کیونکہ قرآن کریم میں اس آیت کاوجود ایک پیشگوئی کو پوراکرنے کے لئے ہے اورجوکلام کسی نئی غرض کے لئے دوہرایاجائے اورکسی خاص فائدہ کے لئے اختیار کیاجائے وہ نقل یا چوری ہرگز نہیں کہلاسکتا۔
یہ پیشگوئی خروج باب ۱۹،۲۰ اوراستثناء باب ۱۸ میں مذکور ہے ۔اوراس کاخلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ بنی اسرائیل کو پاک کرکے سینا کے نیچے لاکھڑاکر۔تاکہ وہ سنیں کہ میں تجھ سے کلام کرتاہوں ۔پہلے تووہ پہاڑ کے پاس کھڑے رہیں ۔لیکن جب قرنا کی آواز بہت بلند ہوتو قریب آجائیں ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام جب وہاں گئے اورخداتعالیٰ کاکلام نازل ہواتواس کے ساتھ ہی بجلی چمکی اور دھواں اٹھا اورگرج پیداہوئی ۔وہ لوگ ڈر کے دوجاکھڑے ہوئے ۔جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس گئے توانہوں نے کہا کہ تُو ہی ہم سے بو ل اور ہم سنیں ۔لیکن خداہم سے نہ بولے ۔کہیں ہم مرنہ جائیں ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں سے کہا کہ تم مت ڈرو۔اس لئے کہ خداآیا ہے تاکہ تمہاراامتحان لے اورتاکہ ا سکاجلال تمہارے سامنے ظاہر ہو ۔کہ تم گنا ہ نہ کرو۔مگر پھر بھی وہ لوگ دور ہی کھڑے رہے اورصرف حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی اللہ تعالیٰ کے پاس گئے (خروج باب ۲۰آیت ۱۹تا۲۱)
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداتعالیٰ سے جاکر عرض کیا کہ الٰہی میری قوم توتیرے پاس آنے سے ڈرتی ہے تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر یہ وحی نازل ہوئی کہ :۔
’’ خداوند تیراخداتیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپاکرے گا ۔تم اس کی طرف کان دھریو ۔اس سب کی مانند جو تُو نے خداوند اپنے خداسے حورب میں مجمع کے دن مانگا ۔اورکہا کہ ایسانہ ہوکہ میں خداوند اپنے خداکی آواز پھر سنوں اور ایسی شدت کی آگ میں پھر دیکھو تاکہ میں مرنہ جائو ۔اورخداوند نے مجھے کہا کہ انہوں نے جوکچھ کیاسواچھا کیا ۔میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپاکروں گا ۔اورجوکچھ میں اسے فرمائوں گا وہ سب اسے کہے گا ۔ اورایساہوگاکہ جو کوئی میری باتوںکو جنہیں وہ میرانام لے کے کہے گا نہ سنے گاتومیں اس کا حساب اس سے لوں گا ۔لیکن وہ نبی جوایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کامیں نے اسے حکم نہیں دیا اورمعبودوں کے نام سے کہے تووہ نبی قتل کیاجائے ۔‘‘
(استثناء باب ۱۸ آیت ۱۵تا۲۰)
اس پیشگوئی میں بتایاگیاتھاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک نبی ان کامثیل بن کرآئے گا ۔اوروہ جب بھی خداتعالیٰ کاکلام سنائے گاتوکہے گامیں خداکانام لے کریہ کلام سناتاہوں ۔اورخداکانام لے کر کاترجمہ عربی زبان میں بسم اللہ ہے ۔پس بسم اللہ میں اسم کا لفظ بڑھا کر اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔اوراس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا قرآن کریم کی ہرسورۃ کے شروع میں ہی ایک ثبوت پیش کردیاگیا ہے تایہودیوں اورعیسائیوں پر آپ کی سچائی کھل جائے ۔ اوران پر حجت پو ری ہوکہ وہ موعود جس کاان کی کتابوں میں ذکر ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ۔جو ہربات کو اللہ تعالیٰ کانام لے کر بیان کرتے ہیں ۔ پس ہرسورۃ سے پہلے بسم اللہ ہریہودی اور ہرعیسائی کوتوجہ دلاتی ہے کہ تم کیوں اس نبی کو نہیں مانتے جو موسیٰؑ کی پیشگوئی کے مطابق جب اللہ تعالیٰ کاکلام سناتاہے تواس سے پہلے یہ الفاظ بھی کہہ دیتاہے کہ میں اللہ کا نام لے کر یہ کلام سناتاہوں ۔بہرحال اس پیشگوئی میں بتایاگیا تھا کہ (۱)بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی اسمٰعیلؑ میں سے ایک نبی آئے گا ۔(۲)اس کو حضرت موسیٰؑ کی طرح شریعت دی جائے گی ۔(۳)وہ جو نیامضمون بھی خداکی طرف سے پاکر دنیا کے سامنے پیش کرے گا اس سے پہلے یہ کہہ لے گا کہ میں خداتعالیٰ کانام لے کر اس کلام کو شروع کرتاہوں ۔(۴)اگرکوئی جھوٹاشخص اس پیشگوئی کو اپنے اوپر چسپاں کرناچاہے گا تووہ ہلاک ہوجائے گا ۔(۵)اورجواس پیشگوئی کے مصداق کاانکار کرے گا۔وہ بھی ہلاک کیاجائے گا ۔
پس اس پیشگوئی کے مطابق ہرسورۃ سے پہلے بسم اللہ رکھ دی گئی ۔اوراس طرح یہود اور نصاریٰ کوتوجہ دلائی گئی کہ اگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰؑ اوروہ موعود نبی نہیں توانہیں سزاملے گی کیونکہ پیشگوئی کے مطابق اس پیشگوئی کاجھوٹامصداق سزاسے نہیں بچ سکتا۔ لیکن اگر وہ وہی موعود ہیں اوراس پیشگوئی کے مطابق خداکاکلام اس کانام لے کر بیان کرتے ہیں توپیشگوئی کے مطابق تم انکار کرکے سزاسے نہیں بچ سکتے ۔بلکہ خداتعالیٰ تم سے ضرور حساب لے گا ۔
غرض باوجود اس کی کہ بسم اللہ پہلے انبیاء کی امتوں میں بھی مروج تھی ۔قرآن کریم میں ا سکاوجود چوری نہیں کہلاسکتا۔کیونکہ (۱)قرآن کریم خودتسلیم کرتاہے کہ اس سے پہلے بسم اللہ تھی (۲)اس لئے کہ اس میں بسم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی کوپوراکرنے کے لئے آئی ہے ۔اگر اس کی ہرسورۃ بسم اللہ سے شروع نہ ہوتی توحضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی جھوٹی ہوجاتی ۔ مگرکیایہ امر دساتیر کے متعلق ثابت کیاجاسکتاہے کہ ان کے مصنف بنی اسرائیل میںسے تھے یاحضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح شریعت لائے تھے ۔یاان کی ہروحی سے پہلے بسم اللہ لکھاہواہوتاتھا ۔وہ تو ایک تاریخ کی کتاب ہے جس میں انبیاء کاحال ہے ۔اورحضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی کے یہ الفاظ تھے کہ ’’ ایسا ہوگا کہ جوکوئی میری باتوںکو جووہ میرانام لے کے کہے گا نہ سنے گا تومیں ا س کاحساب اس سے لوں گا ۔‘‘گویا ان الفاظ میں یہ شرط بتائی گئی ہے کہ وہ خداکی وحی ا س کانام لے کر بیان کرے گا پس بسم اللہ کاقرآن مجید کی ہرسورۃ سے پہلے آنا اس پیشگوئی کے مطابق ہے ۔اوراس پر چوری کاکوئی اعتراض خصوصاً ا ن اقوام کے منہ سے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروہیں بالکل زیب نہیں دیتا۔
قالت یایھا الملواافتونی فی امری ماکنت قاطعۃ امرا
پھر اس (ملکہ) نے کہا ۔اے سردارو! میرے معاملہ میں اپنی پختہ رائے دو۔کیونکہ میں کبھی بھی کوئی فیصلہ نہیں کرتی
حتی تشھدون٭قالو انحن اولواقوۃ واولوباس شدید
جب تک کہ تم میرے پاس حاضرہو(کر مشورہ نہ دے لو)۔انہوں(یعنی درباریوں)نے کہا ہم بڑی طاقت والے ہیں اوربڑے
والامر الیک فانظری ماذاتامرین٭
جنگجوہیںاور(آخری )معاملہ آپ کے ہاتھ میں ہے ۔پس غور کرلیں کہ آپ کیا حکم دیناچاہتی ہیں (ہم اس کی اتباع کریں گے )
قالت ان الملوک اذادخلوقریۃ افسدوھاوجعلوا
اس نے کہا کہ جب بادشاہ کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تواسے تباہ کردیتے ہیں اوراس کے باشندوں میں سے
اعزۃ اھلھا اذلۃ وکذٰلک یفعلون٭
معزز لوگوںکو ذلیل کردیاکرتے ہیں اوروہ اسی طرح کرتے چلے آئے ہیں ۔ ۱۵؎
۱۵؎ حل لغات :۔قَاطِعَۃٌ: قَطَعَ سے اسم فاعل واحد مؤنث کاصیغہ ہے اورقَطَعَ فُلَانٌ فِی الْقَوْلِ کے معنے ہیں جَزَمَ اس نے بات پختہ کرلی (اقرب) قَاطِعَۃکے معنے ہوں گے پختہ ۔فیصلہ کرنے والی ۔
تفسیر :۔فرماتاہے ۔یہ خط سن کر ملکہ سبانے کہا ۔اے میری قوم کے سردارو۔میری اس مشکل میں مجھے مشورہ دو۔جب تک تم میرے دربار میں حاضر ہوکر مشورہ نہ دو میں کوئی فیصلہ نہیں کیاکرتی ۔
اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس وقت بھی ڈیماکریسی قائم ہوگئی تھی اوربادشاہت کے حقوق محدود تھے ۔ان سور مائوں نے جنہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک لشکر کے سردار کو جوپِدّی جیساجانورتھا دیکھ لیا تھا کہا کہ حضور ہم تو بڑے طاقتو رہیں اورجنگ میں بڑے آزمودہ کار ہیں ۔ان پرندوں کے لشکر نے ہمار اکیابگاڑ لیناہے ۔دس منٹ میں ہمارے بچے ہی ان کو مارمار کرکھاجائیں گے ۔ مگر فیصلہ بہرحال آپ کے اختیار میں ہے جو آ پ حکم دیں گے کرلیںگے ۔اگرآپ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان چڑیوں کے پیچھے جرنیل گھوڑے دوڑاتے ہوئے دوڑ پڑیں توہم ایساہی کریں گے اور اگرآپ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان چڑیوںکو بھون بھون کر کھاجائو توہم ایساہی کریں گے ۔ملکہ سبانے کہا کہ جب بادشاہ کسی زبردست لشکر کے ساتھ ملک میں داخل ہوتے ہیں تو اس کواجاڑ دیاکرتے ہیں ۔ ااوراس کے باشندوں میں سے معزز لوگوںکوذلیل یعنی جانوروں کی طرح کردیاکرتے ہیں ۔وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ اورہمیشہ بادشاہ اسی طرح کرتے چلے آئے ہیں ۔چنانچہ دنیا کی تاریخ پر غورکرکے دیکھ لو ۔جب بھی کوئی قوم کسی ملک کو فتح کرتی ہے وہ اپنی فتح کے غرور میں مفتوح قوم پر بڑی بڑی سختیاں کرتی ہے اورپھر غرور کے علاوہ اس قوم کو یہ ڈر بھی ہوتاہے کہ اگر مفتوحین کوجلد کچلا نہ گیا۔ توممکن ہے یہ پھر بغاوت کردیں ۔گویا ان کے قلوب میں اطمینان نہیں ہوتا۔اورانہیں ہروقت بغاوت کاخطرہ رہتاہے ۔اسی لئے وہ حدسے زیادہ مظالم ڈھاتے اوربڑی بڑی سختیاں لوگوںپر کرتے ہیں ۔جیسے اٹلی نے جب ایبے سینیا پرقبضہ کیا تواس نے بڑے بڑے ظلم کئے ۔ عرب لو گ ان مظالم کو کثرت سے بیان کیا کرتے ہیں ۔ان کابیان ہے کہ اٹلی نے ایبے سینیا پر قبضہ کرنے کے بعد ہزاروں آدمی بلاوجہ مرواڈالے ۔اوربعض دفعہ لوگوںپر اپنی حکومت کارعب جمانے کے لئے گھروںکے دروازوں پر لوگوں کوپھانسی پر لٹکادیاجاتا۔حالانکہ ان کاکوئی قصور نہیں ہوتاتھا ۔غرض ہرقوم جس کلی بنیا د مذہب پر نہیں ملکوں کو فتح کرنے کے بعد اس قسم کے مظالم کیاکرتی ہے۔آخر دنیا میں ہزاروں سال کی تاریخ موجود ہے ۔تم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اتباع کو چھو ڑکر یاایک دواَور بادشاہوں کومستثنٰی کرکے بتائو تو سہی کہ کسی قوم نے کسی ملک پر غلبہ حاصل کیا ہو ۔اوراس نے وہاںظلم و ستم کا بازار گرم نہ کردیاہو ۔ تورات پڑھ کر دیکھ لو وہاں بھی یہی احکا م ہیں کہ
’’ جبکہ خداوند تیراخداانہیں تیرے حوالے کرے۔توتُوانہی ماریواور حرم کیجیئو۔نہ توان سے کوئی عہد کریو ۔اورنہ ان پر رحم کریو…… تم ان کے مذبحوںکو ڈھادو اور ان کے بتوں کوتوڑ دو۔ان کے گھنے باغوں کو کاٹ ڈالو او ران کی تراشی ہوئی مورتیں آگ میں جلادو ۔‘‘
(استثناء باب ۷ آیت ۲تا ۷)
اسی طرح لکھا ہے:۔
’’ جب خداوند تیراخدا اسے تیرے قبضہ میں کردے توتُو وہاں کے ہر ایک مرد کوتلوار کی دھار سے قتل کر …اورجو کچھ اس شہر میں ہو اس کا سارالوٹ اپنے لئے لے۔‘‘(استثناء باب ۲۰آیت ۱۳تا۱۶)
غرض جب کوئی قوم فاتح ہوتووہ یہی کچھ کیا کرتی ہے ۔انگریزوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا توانہوں نے بھی یہاں کے لوگو ں پر بڑی بڑی سختیاں کیں او رجب غصہ نکل گیا تب اعتدال پر آئے ۔ورنہ غدر کے ایام میں انگریزوں نے جو جو کاروائیاں کی ہیں ان کا ذکر سن کر انسان کانپ اٹھتاہے ۔اس وقت کے کئی چشمدید واقعات کاذکر میں نے بھی سناہے ۔ہمارے اپنے پڑناناکاحال ہماری نانی صاحبہ سنایاکرتی تھیں کہ غدر کے دنوں میں وہ سخت بیمار تھے ۔ایک دن اچانک انگریزی فوج کے کچھ سپاہی مکان کے اندر گھس آئے اوران میں سے ایک نے ان کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص کوبھی میں نے لڑتے دیکھا ہے ۔وہ بیچارے گھبراکر کھڑے ہوئے توان سپاہیوں نے وہیں گولیوں سے ان کو مار ڈالا ۔
ملکہ سباء اسی حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اِنَّ الَمَلُوْکَ اِذَادَخَلُوْاقَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْٓااَعِزَّۃَ اَھْلِھَااَذِلَّۃً۔ یعنی دستور اورقانون یہی ہے کہ جب کسی ملک میں نئے بادشاہ آتے ہیں تومعززلوگوںکو ذلیل کردیاکرتے ہیں ۔ یہ خدائی قانون ہے جو کبھی بدل نہی سکتا ۔سوائے اس کے کہ داخل ہونے والادنیوی اصطلاح میں مَلِک نہ ہو۔ جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاآپ کے خلفاء تھے ۔ وہ روحانی بادشاہ تھے دنیوی اصطلاح میں مَلک نہیں تھے۔ اسی طرح دوچار اورلوگ جنہیں بطور استثناء پیش کیا جاسکتاہے ۔ وہ گوبادشاہ کہلاتے ہوں مگر ان معنوں میں بادشاہ نہیں تھے جن معنوں میںدنیا دار باد شاہ ہوتے ہیں بلکہ درحقیقت وہ خداتعالیٰ کے نیک بندے ہوتے تھے ۔چنانچہ ساری یورپین تاریخ میں صرف ایک مثال ایسی نظرآتی ہے جس میں فاتح نے غیر قوموں کے مقابلہ میں نہیں بلکہ اپنی قوم کے ہی ایک حصہ کے مقابلہ میں عفواوردرگذر کا سلو ک کیا۔یہ مثال ابراھیم لنکن کی ہے ۔ جو امریکہ کا پریزیڈنٹ تھا ۔اس کے عہد حکومت میں ایک دفعہ یونائٹڈ سٹیٹس امریکہ کے ایک حصے نے دوسرے حصے کے خلاف بغاوت کردی ۔جب شمالی یونائٹڈسٹیٹس نے جنوبی یونائٹڈ سٹیٹس پر فتح پالی اور وہ ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہونے لگاتو جرنیلوںنے فتح کا مظاہر ہ کرنے کی بہت بڑی تیاری کی ہوئی تھی اوران کی تجویز تھی کہ بینڈ بجاتے ہوئے ہم شہر میں داخل ہوں گے ۔ مگر جب ابراھیم لنکن نے ان انتظامات کو دیکھا تو اس نے اپنے جرنیلوں کو ڈانٹ دیا اورکہا کہ کیا یہ خوشی کامقام ہے کہ امریکنوں نے امریکنوں کو قتل کیا ہے ۔لڑائی توہمیں مجبوراً کرنی پڑی تھی ورنہ اپنی قوم کا خون بہاناکوئی پسندیدہ بات نہیں ہوسکتی ۔پھر اس نے اپنے جرنیلوں سے کہا کہ تم پیچھے کھڑے رہو میں اکیلا شہر میں داخل ہوں گا ۔چنانچہ وہ اکیلا شہر میں داخل ہوااور باغی فوج کے افسر کے دفتر میں جاکر اس کے ڈیسک پر سر جھکا کر بیٹھ گیااورتھوڑی دیر پُر نم آنکھوں کیساتھ دعا میں مشغول ر ہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔یہ تما م یو رپین تاریخ میں صرف ایک مثال ہے ۔جہاں فاتح نے مفتوح کو ذلیل کرنے کی کو شش نہیں کی لیکن محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تواس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔آپؐ نے جب مکہ فتح کیا توباوجود اس کے کہ کفار مکہ نے سال ہا سال تک آپؐ کو اورآپ کے صحابہؓ کو سخت سے سخت تکالیف پہنچاتے رہے تھے آ پ نے ان سب سے کہہ دیا کہ لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ جائو میں تم پر کوئی گرفت نہیں کرتا۔پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو و درگذر یہیں تک محدود نہیں بلکہ آپؐ نے ایک دفعہ صحابہؓ سے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھ پر مصر کو فتح کرے گا ۔جب تم فاتحانہ حیثیت سے اس میں داخل ہوتواس وقت تم اس بات کو یاد رکھنا کہ تمہاری دادی ہاجرہؓ مصر کی تھی ۔اب کہاںحضرت ہاجرہؓ کازمانہ اور کہاں صحابہؓ کازمانہ مگراتنی دوری کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیس سوسال پہلے کی دادی ہاجرہ ؓ کا ذکرکرکے اپنے صحابہ ؓ کو نصیحت فرمائی کہ تم اس تعلق کی بناپر مصر کے لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا ۔اوران سے حسن سلوک کرنا ۔پس اس قسم کا نمونہ دکھانا انبیاء کاہی کام ہوتاہے ۔ورنہ عام دستور دنیا کے بادشاہوں کا یہی ہے کہ جب وہ کسی ملک میں فاتح بن کر داخل ہوتے ہیں توبڑے بڑے ظلم کرتے اور ہزاروں لوگوں کو بے دریغ قتل کردیتے ہیں ۔
پس ملکہ سبا کو جب حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط ملاتو اس نے اپنی سلطنت کے اکابر سے مشورہ لیا ۔ان سب نے کہا کہ ہم ملک کی خدمت کے لئے تیار ہیں اورلڑنے مرنے پر آمادہ ہیں۔آپ جو حکم دینا چاہتی ہیں ۔دیں ۔اس نے جواب دیا کہ ہماری موت سے ملک کو کیا فائدہ پہنچے گا۔دیکھنا صرف یہ نہیں کہ لوگ جنگ کے لئے آماد ہ ہیں یا نہیں بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری موت کو ئی فائدہ پہنچائے گی یانہیں۔اگر ہم زندہ رہیں اور سلیمانؑ کی بادشاہت تسلیم کرلیں تویہ زیادہ مفید ہوگا یایہ زیادہ مفید ہوگا کہ ہم لڑیں اور مرجائیں او ر سلیمان ہمارے ملک پر قابض ہوجائے ۔غرض حکومت کاکلّی تغیّر ہم پر اثر انداز ہوسکتاہے یااس کاجزوی تغیر ۔ایک تغیّرتویہ ہے کہ سلیمانؑ کو اس ملک کی عظمت اور بڑائی حاصل ہوجائے ۔بادشاہت ہمارے پاس ہی رہے ہم صرف اس کے باجگذار ہو جائیں ۔ اورایک تغیّر یہ ہے کہ ہم مارے جائیں اور ملک بھی سلیمانؑ کے قبضہ میں چلاجائے ۔ان تما م امور پر غور کرکے وہ جوکچھ کہتی ہے وہ یہ ہے کہ جب کسی ملک میں کوئی نئی بادشاہت آیا کرتی ہے تو َجَعَلُوْٓااَعِزَّۃَ اَھْلِھَااَذِلَّۃً وہ ا س ملک کے معززین کو ذلیل کردیاکرتی ہے ۔اس کے یہ معنے نہیں جیساکہ عام طورپر لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومتوں میںجب تغیرہوتونئی حکومت بڑوںکو چھوٹااو رچھوٹوںکوبڑاکردیتی ہے ۔یہاں یہ مضمون بیان نہیں ہوا۔کیونکہ اگر اس کے یہی معنے ہوں گے توگوبڑے چھوٹے ہوجائیں گے لیکن چھوٹوں کے بڑابن جانے سے پھر بھی اس ملک کو ہی فائدہ پہنچے گا اور اسے کوئی نقصان نہیں رہے گا ۔حالانکہ قرآن کریم کی آیت صرف نقصان اور تباہی کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔دراصل اس آیت میں غیر قوم کی حکومت کا ذکر ہے ۔اوربتایاگیاہے کہ جب اس قسم کی نئی بادشاہت کا قیام عمل میں آئے تووہ بڑوںکو ذلیل کردیتی ہے اورجو پہلے ہی ذلیل ہوں وہ اس حکومت میں اَور بھی زیادہ ذلیل اور بے حیثیت ہوجاتے ہیں ۔گویا خارجی قوم کی حکومت نئے حاکم مقررکرتی ۔نئے سردا ربناتی اور نیانظام قائم کرتی ہے ۔پھر وہ لوگ اپنا قانون جاری کرتے ۔اپنے افسروں اوراپنے حکّام کاتقرر کرتے اور اپنے ہی نظام کو رائج کرتے ہیں ۔جیسے انگریز یہاں آئے توانہوں نے انگریزوں کو افسر بنایا ۔مغل آئے توانہوں نے اپنے ساتھیوں کو ترقی دی ۔پٹھان آئے توانہوں نے اپنے ہم قوم افراد کو ذمہ واری کے عہدے دیئے ۔اسی طرح آرین لوگوں نے حکومت کی تو انہوں نے آریوں کوعرو ج پرپہنچایا اورگونڈ اور بھیل وغیرہ اقوام جو کسی زمانہ میں اعزّہ میں سے تھیں انہیں ذلیل کردیا ۔غرض ہرخارجی بادشاہت دنیا میں ایک نیا تغیر پیداکرتی اور پہلے نظام کو بدل کر ایک نیا نظام قائم کرتی ہے تاکہ وہ لوگ دوبارہ اقتدار حاصل کرکے بغاوت نہ کردیں ۔مجھے یا دہے ایک دفعہ دِلّی میں مجھے ایک شخص کے متعلق بتایاگیا کہ یہ مغلیہ خاندان میں سے ہے ۔اس کاکام صرف اتنا تھا کہ وہ حقہ اٹھائے پھرتاتھا اورچاندنی چوک میں او رلال قلعہ کے سامنے لوگوں کو حقہ پلاتاتھا ۔اورحقہ پینے والا اسے آنہ دوآنے دیدیتاتھا ۔وہ ہرشخص کے سامنے جاتا او رکہتاحقہ پی لیجئے ۔و ہ لو گ جو حقہ کے عادی ہوتے و ہ اس سے حقہ لے کر پی لیتے اور جاتے ہوئے آنہ دوآنے دے دیتے ۔اس نے عزت نفس کی وجہ سے بجائے ہاتھ پھیلانے کے یہ طریق اختیار کرلیاتھا ۔پس دنیا کے واقعات اس قانون کی تائید کرتے ہیں کہ جب بھی کسی ملک کی حکومت پر کوئی اورحکومت قبضہ کرتی ہے وہ ملک کے معزز لوگوں کو ذلیل کردیاکرتی ہے اورحکمران خاندان کو کلّی طورپر حکومت کے کاموں سے علیحدہ کرکے گوشئہ گمنامی میں پھینک دیتی ہے اور ایسے لوگوںکو حکومت کی باگ ڈور دیدی جاتی ہے جو پہلی حکومت سے بغض رکھتے ہوں تاکہ وہ ان لوگوں کو اُبھرنے کاموقعہ نہ دیں ۔انگریزوں کو ہی دیکھ لو ۔انہوں نے راجوں مہاراجوں کو اونچا کردیا اورمغلیہ شاہی خاندان کو اس طرح گرادیا کہ آج ان کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔
غرض ملکئہ سبابطورقانون یہ بات بیان کرتی ہے کہ بادشاہ جب کسی ملک می داخل ہوتے ہیں تووہ اس کو تباہ و برباد کردیتے ہیں اوروہاں کے معزز لوگوںکو ذلیل کردیاکرتے ہیں ۔
پھر َجَعَلُوْٓااَعِزَّۃَ اَھْلِھَااَذِلَّۃً میں اعزّہ کے صرف یہی معنی نہیں کہ جو لوگ واقعی معززہوتے ہیں ان کوذلیل کیاجاتاہے بلکہ اس کا ایک او رمطلب یہ بھی ہے کہ جولوگ غریبوں ،کمزوروں اورناتوانوں وک جوتیاں مارنے کی وجہ سے اپنے آپ کو معززسمجھتے ہیں ان کے اس فعل بد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی غیرت او راس کی محبت غرباء کے لئے جو ش میں آتی ہے اور وہ ان پر کسی ایسے بادشاہ کو مسلط کردیتاہے جوان کے خود ساختہ اعزاز کو مٹاکر انہیں ذلیل کردیتاہے ۔گویا جوقومیں جوتوں کے ساتھ دوسروںکو سیدھا کرناچاہتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کو مغلوب کردیتاہے اوردوسروں کو ان پر غلبہ دے دیتاہے ۔چنانچہ دیکھ لو حضرت سلیمان علیہ السلام کابیٹا جب آپ کی وفات کے بعد تخت نشین ہواتو اس نے رعایا کے ساتھ شریفانہ سلوک روانہ رکھا ۔جس کانتیجہ یہ ہواکہ بنی اسرائیل کے دس قبائل نے بغاوت کر دی اور سلیمانؑ کی وسیع سلطنت ایک ریاست کی شکل میں محدود ہوکررہ گئی۔ رعایاکے چند قبائل نے اس سے پیشتر بھی ایک دفعہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت میں منصوبہ کیاتھا کہ ہم حکومت کو موقعہ پاکر کمزورکردیں ۔اوربغاوت کردیں ۔مگرحضرت سلیمان علیہ السلام نے تائید الٰہی سے اس قسم کی بغاوتوںکو دبائے رکھا ۔جب حضرت سلیمان علیہ السلام کابیٹا تخت نشین ہواتوبارہ قبائل میں سے د س نے اکٹھے ہوکر مشورہ کیا کہ چلو بادشاہ کے پاس چل کر درخواست کریں کہ آئندہ ہم پرسختی نہ کی جائے انہوں نے سمجھا کہ ا سطرح اکٹھے ہوکرجانے سے بادشاہ مرعوب ہوجائے گا اور ہم اس سے بعض باتیں منوالیں گے اگر تووہ لوگ حضرت سلیمان علیہ السلام کی زندگی میں آپ کے پاس جاتے اور اپنی شکایات پیش کرتے توچاہے آپ ان کی کوئی بات مانتے یا نہ مانتے اتنا ضرور تھا کہ آپ ان قبائل کا اعزاز کرتے اورانہیں احسن طریق سے سمجھانے کی کوشش کرتے اور کہتے کہ ہم جوکچھ کررہے ہیں تمہارے فائدہ کے لئے کررہے ہیں ۔مگرآپ کی وفات کے بعد آپ کابیٹا چونکہ مؤید من اللہ نہیں تھا ۔اور اس کے اند رتقویٰ نہیں پایاجاتاتھا اس نے جب قبائل کے اس قسم کے مشور ہ کی خبر سنی تووہ آگ بگولہ ہوگیا اوراس نے امراء،وزراء اوردوسرے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ کیاکرناچاہیئے ۔وہ وزراء اور امرا ء بھی بادشاہ کے ہمخیال تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ ’’ گُربہ کُشتن روزِ اول ‘‘جب وہ قبائل آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کی خوب خبرلیں ۔چنانچہ جب وہ قبائل بادشاہ کے پاس آئے توانہوں نے کہا ۔بادشاہ سلامت !ہم نے آپ کے باپ داداکی بھی خدمت کی ہے اوراطاعت گذاررہے ہیں مگراس وقت بعض معاملات ایسے ہیں جن میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہم پرسختی کی جارہی ہے ۔ان میں نرمی ہونی چاہیئے ۔یہ سن کر بادشاہ بڑی شان سے بیٹھ گیا ۔اوراس نے بڑے جوش میں کہا تم نے اگر میرے باپ داداکی اطاعت اور فرمانبرداری کی تھی توکونسااحسان کیاتھا ۔انہوں نے تم سے جوتوں کے ساتھ اطاعت کروائی تھی ۔اسی طرح میں بھی تمہارے شوروشر سے ڈرنے والانہیں ۔بلکہ یاد رکھو میرے باپ دادانے توتم سے جوتوں سے اطاعت کروائی تھی اور میں ڈنڈے مارمار کر تم سے اطاعت کروائوں گا ۔اس لئے مطالبات کو ترک کردو ۔اگرتم میں سے کوئی ذرابھی بولاتو گُدّی سے اس کی زبان کھینچ لی جائے گی ۔وہ یہ سختی کا جواب سن کر سخت برہم ہوئے اورانہوں نے وہیں قصر شاہی کی ڈیوڑھی میں کھڑے ہوکر آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہمارے لئے سوائے اس کے اورکوئی چارہ نہیں کہ ہم بغاوت کردیں۔چنانچہ ان دس قبائل کے آدمیوں نے وہیں ڈیوڑھی میں کھڑے ہوکر اپنا ایک بادشاہ چن لیا اور سلیمانؑ کے بیٹے سے کہدیا کہ ہم تمہاری حکومت سے بغاوت کرتے ہیں ۔چنانچہ ان کی حکومت سینکڑوں سال تک چلتی رہی اور سلیمانؑ کے بیٹے کی حکومت صرف ایک ریاست بن کر رہ گئی ۔اسی طرح وہ لوگ جو ڈنڈے کے زور پر دوسروں پر حکومت کرتے ہیں اوراپنے آپ کو اعزّہ میں سے سمجھتے ہیں ان کی چیرہ دستیاں بھی جب حدسے تجاوز کرجاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اورملک میں ایسا انقلاب پیداہوجاتاہے کہ ملک میں بڑے بڑے معززسمجھے جانے والے ذلیل ہوجاتے ہیں اورانہیں اپنے نارواافعال کی سزابھگتنی پڑتی ہے ۔
پھر گو ملکہ سبا کایہ قول ایک سیاسی ذکر کے دوران بیان کیاگیاہے کہ اِنَّ الَمَلُوْکَ اِذَادَخَلُوْاقَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْٓااَعِزَّۃَ اَھْلِھَااَذِلَّۃً مگر اس میں اس روحانی قانون کی طرف بھی اشارہ کیاگیاہے جوانبیاء کی بعثت پردنیا میںجاری کیاجاتاہے ۔کیونکہ جس طرح دنیوی ملوک اپنے ساتھ ایک انقلاب لاتے ہیں اسی طرح انبیاء جومملکت روحانی کے بادشاہ ہوتے ہیں ان کی آمد کے ساتھ بھی َجَعَلُوْٓااَعِزَّۃَ اَھْلِھَااَذِلَّۃً کانقشہ انسانی آنکھوں کے سامنے آجاتاہے ۔اوران کے زمانہ میں کئی چھوٹے بڑے اور کئی بڑے چھوٹے کردیئے جاتے ہیں ۔کئی حقیر اور ذلیل سمجھی جانے والی قومیں خدا تعالیٰ کے مامور کو قبول کرکے عزت حاصل کرلیتی ہیں ۔اورکئی معززسمجھی جانے والی قومیں خداتعالیٰ کے مامورکو ردّ کرکے ذلیل ہوجاتی ہیں ۔بلکہ دنیا کا ایک لمباتجربہ ا س بات پر شاہد ہے کہ الٰہی صداقتیں ہمیشہ ایسے علاقوں میں ہی زیادہ کثرت اورزیادہ زور کے ساتھ پھیلتی ہیں جوباقی دنیا کی نگاہوں میں جاہل اور وحشی ہوتے ہیں ۔جب کبھی کسی تعلیم نے یکدم کسی قوم کو پکڑاہے تو و ہ قوم ہمیشہ ایسی ہی ہوتی رہی ہے جواپنے ظاہری علوم کے لحاظ سے دوسری قوموں سے ادنیٰ اورگری ہوئی سمجھی جاتی ہے ۔مگرپھر وہی قوم خداتعالیٰ کی آواز پرلبیک کہہ کر دنیا کی فاتح اور حکمران بن جاتی ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ کوئی خواہ کتنا ہی جاہل کیوں نہ ہوانسانی فطرت اپنے ذہن میں کچھ نہ کچھ نتائج نکالتی رہتی ہے بلکہ انسان توایک طرف رہا ہم جانوروں او ردرختوں میں بھی یہ بات دیکھتے ہیں ۔سائنس سے ثابت ہے کہ بعض جانور بعض درختوںپر رہنے کی وجہ سے خاص قسم کے رنگ پیداکرلیتے ہیں ۔تیتری کتنا چھوٹاساجانور ہے نہ اس میں گوشت ہوتاہے نہ ہڈی۔جب تتریاں پھولوںپر اُڑ رہی ہوتی ہیں تووہ کتنی خوبصورت معلوم ہوتی ہیں ۔کتنی حسین اور دلکش نظر آتی ہیں ۔مگراس سے کون انکا رکرسکتاہے کہ ان تتریوںکا رنگ زیادہ ترمرہون منت ہوتاہے ان پھولوں او رپتوںکا جن میں وہ رہتی ہیں ۔وہ مختلف قسم کے پھولوں اور مختلف قسم کے پتوں میں رہتی ہیں اورانہی پتوںاور انہی پھولوں کے رنگ کاانعکاس اپنے پَروں میں پیداکرلیتی ہیں ۔ چنانچہ اکثر تتریوں کے رنگ دوسرے جانور وں کے رنگ کے خلاف عارضی ہوتے ہیں ۔اگرایک طوطے کا سبز رنگ تم مٹاناچاہوتو تم نہیں مٹاسکتے ۔اگرایک فاختہ کابھورارنگ تم مٹاناچاہوتونہیں مٹاسکتے ۔لیکن تیتری کاپَر اپنے ہاتھ میں مسلوتو اس کارنگ فوراً تمہارے ہاتھ کولگ جائے گا ۔جس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس کارنگ درحقیقت ایک فوٹو او رانعکاس ہوتاہے ان شعاعوں کاجو ان پھولوں اور پتوں میں رہنے کی وجہ سے ا سکے پَروں پرپڑتی ہیں ۔جب یہ انعکاس ایک لمبے عرصہ تک چلتاچلاجاتاہے تواسی قسم کا ایک مستقل رنگ پیداہوجاتاہے ۔چنانچہ بالعموم ریت کے اندر رہنے والے جانور بھوسلارنگ اختیارکرلیتے ہیں ۔اورریت کے تودوںمیں ان کی شکل نظر نہیں آتی ۔ہرن سامنے بیٹھا ہواہوتاہے بلکہ گلّے کا گلّابعض دفعہ سامنے ہوتاہے مگرہرشخص ان کو پہچان نہیں سکتا۔ صرف ماہرشکاری ہی امتیاز کرسکتاہے ۔ورنہ عام انسان بسااوقات پاس سے گذر جاتاہے اوراسے معلوم تک نہیں ہوتاکہ سامنے ہربیٹھا ہے ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ریت می ایک لمباعرصہ رہنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ وہ ریت کا رنگ اختیار کرلیتاہے ۔یہی حال درختوںکاہوتاہے کہ درخت بھی اپنے ماحول کے مطابق رنگ اختیار کرتے ہیں اوریہی حال انسانوں کاہوتاہے ۔کہ وہ بھی اپنے اپنے ماحول کے مطابق رنگ اختیار کرتے ہیں ۔ہم ان کو وحشی کہہ دیں ۔ہم ان کو جاہل کہہ دیں ۔ہم ان کو تہذیب و تمدن سے کوسوں دور کہہ لیں ۔لیکن کیا ان کا دما غ اتنا بھی کام نہیں کررہاہوتا جتنا ایک طوطے یاایک تیتر یاایک ہرن کادماغ کام کررہاہوتاہے ۔اگرکچھ کہا جاسکتاہے تویہ کہ جس طرح طوطے اورہرن نے معین صورت میں اپنے تاثرات کو باہر نہیں نکالااسی طرح ایک جاہل اوروحشی نے بھی اپنے ماحول کے تاثرات کو باہر نہیں نکالا۔لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ وہ اپنے ماحول سے متاثر ہوتاہے اور اس کے مطابق ایک رنگ اپنے اند ر پیداکرتارہتاہے ۔تم اگر کسی وحشی سے پوچھو کہ کیا تم نے اپنی زندگی کے ماحول کے نتیجہ میں کوئی اثر قبول کیاہے یانہیں تووہ کہے گا ۔میں نے کوئی اثر قبول نہیں کیا ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے اثر قبول کیاہوتاہے ۔مگروہ اس سے ایساہی ناواقف ہوتاہے جیسے تیتری یہ نہیں جانتی کہ و ہ پھولوں کے رنگ کا اثر قبول کررہی ہے ۔ہرن یہ نہیں جانتاکہ و ہ ریت کی رنگت اپنے اندر پیداکررہاہے ۔ جس طرح شہد کی مکھی بغیراس بات کے جاننے کے کہ وہ کیاپیداکررہی ہے ۔اوراس کے کیاکیا فوائد ہیں ۔مختلف پھولوں پر بیٹھ کر شہد کے باریک ذرات اپنے منہ میںسے نکالتی رہتی ہے اوروہ نکالنے پر مجبور ہوتی ہے اسی طرح وہ قومیں جنہیں دنیا نے الگ پھینک رکھا ہے ۔اپنے ماحول کے اثرات سے متاثر ہورہی ہوتی ہیں گووہ خود بھی نہ سمجھ سکیں کہ ان کاماحول ان کوکسی خاص رنگ میں رنگین کررہاہے ۔مگربہرحال ان قوموں کے دلوں میں باریک طورپریہ حسّ پائی جاتی ہے کہ خدانے ہم کو دنیا سے فائدہ اٹھانے کے لئے پیداکیاتھا ۔باقی لوگ اپناحصہ لے چکے مگرہم نے اس دوڑ میں اپنا حصہ نہیں لیا ہمیں دنیا نے دھتکار رکھا ہے ہمیں اس نے فوائد سے محروم کردیا ہے ۔وہ اور اس کی نسلیں فائدہ اٹھارہی ہیں مگرہمیں فائدہا ٹھانے کاموقعہ نہیں دیاجاتا۔یہ وہ خیال ہوتاہے جو ان قوموں کے دلوں میں بغیر کسی خاص احساس کے یابغیر کسی معین صورت کے اندر ہی اند رپیداہوتارہتاہے ۔جب خداتعالیٰ کی طرف سے کسی نبی کے ذریعہ یہ آواز بلندہوتی ہے کہ میں دنیا کی گری ہوئی قوموں کوترقی کی بلندیوں پر پہنچانے کے لئے آیاہوں توان قوموں کے اند ر ایک خلش سی پیداہوجاتی ہے ایک بے چینی سے رونماہوجاتی ہے ۔ایک اضطراب ساان کی حرکات سے ظاہرہونے لگتاہے وہ کہتی ہیں ہماری امیدوں کے برآنے کاوقت آگیا ۔ہماری نحوستوں کے دور ہونے کازمانہ آگیا۔آئو ہم اس نبی کوقبول کرکے دنیا پرحکمرانی کریںاوراپنے کھوئے ہوئے حق کوحاصل کرنے کی جدوجہد کریں۔
وہ زمین جس می ایک لمبے عرصہ تک ہل چلایاجاتاہے ۔جومختلف قسم کی سبزیاں پیداکرتی ہے جومختلف قسم کے پھل اور پھول تیارکرتی ہے بیشک اس کی روئیدگی انسانی آنکھوںکو تراوت بخشتی ہے ۔اس کے پھل انسانی غذاکے کام آتے ہیں۔اس کے پتے جانوروں کی بھوک مٹانے کاکام دیتے ہیں مگراس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک لمبے استمال کی وجہ سے اپنی طاقت کو کھوبیٹھتی ہے ۔لیکن اس کے پاس کی پڑی ہوئی زمین جو ابھی استعمال میں نہیں آئی ہوتی وہ اس بات کی زیادہ اہل ہوتی ہے کہ اس میں بیج بویاجائے اوراس سے اعلیٰ درجہ کی پیداوار حاصل کی جائے ۔اچھا فلّاح ہمیشہ اس زمین کی طرف جاتاہے جوخالی پڑی ہو۔اس زمین کی طرف نہیں جاتا جسے ہزاروںسال سے بویاجارہاہو۔کیونکہ وہ جانتاہے اب مجھے اس استعمال شدہ زمین سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔مجھے اگر فائدہ ہوگاتو اس زمین سے جو بظاہر بنجر ہے ۔جوبظاہر ویران ہے ۔جوبظاہر غیرآباد ہے ۔بیشک اس پر محنت زیادہ ہوگی ۔مگراس کی فصل دوسری زمینوں سے زیادہ بہترہوگی ۔نادان لوگ گائوں کی مہنگی زمین خریدتے ہیں۔لیکن ہوشیار زمیندار مربعوں والی زمین خریدتاہے نتیجہ یہ ہوتاہے کہ گائوں کی زمینوں کے مالک بعض دفعہ ڈیڑھ ڈیڑھ دودوسو ایکڑ زمین اپنے پاس رکھتے ہیں مگران کی تہ بند پھٹی ہوئی ہوتی ہے ۔ان کے جسم پر پوری چادر بھی نہیں ہوتی ۔لیکن ایک دوسرا شخص عمدہ لباس پہنے ہوئے ہوتاہے ۔اچھاکھاتاپیتاہے اورکہا جاتاہے کہ یہ بڑے زمیندار ہیں مگرا س کے پاس صرف ایک مربع زمین ہوتی ہے ۔حالانکہ ایک مربع کے معنے ہیں صرف ۲۵ ایکڑ ۔ لیکن باوجود ااس کے اس کے پاس صرف ۲۵ایکڑ زمین ہوتی ہے اوردوسرے کے پاس چھ گنازیادہ ہوتی ہے ۔وہ غربت میں اپنی زندگی بسرکرتاہے اورایک مربع رکھنے والاکشائش کی حالت می اپنی زندگی بسرکرتاہے ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک شخص نے عقلمندی سے وہ زمین اختیار کی جس نے اپنی طاقت خرچ نہیں کی تھی اوردوسرے نے اپنے او راپنے خاندان کے لئے اس زمین کوترجیح دی جواپنی طاقتوںکو کھوچکی تھی ۔نتیجہ یہ ہواکہ زیادہ روپیہ خرچ کرنے کے باوجود وہ گھاٹے میں رہااورتھوڑاخرچ کرنے والا فائدہ میں رہا ۔ بیشک شہری لحاظ سے وہ زمین بھی مفید ہوتی ہے ۔اورمکانوں کے لئے گراں قیمت پر فروخت ہوجاتی ہے ۔مگرجہاں تک فصل کاسوال ہے خالی پڑی ہوئی زمین زیادہ مفید ہوتی ہے ۔اورزمیندارہ اصول بھی یہی ہے کہ جب کسی زمین سے زیادہ فائدہ اٹھاناہوتاہے تو اس کو کچھ عرصہ کے لئے خالی چھوڑ دیاجاتاہے ۔
عرب میں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہم جانتے ہیں کہ یہ محض خداتعالیٰ کا فضل تھا اورپیشگوئیوں کے مطابق عر ب میں ہی آپ کا مبعوث ہونا ضروری تھا ۔مگر سوال یہ ہے کہ خدابھی اپنے سارے کام حکمت کے ماتحت کرتاہے ۔اسی لئے اس کاایک نام حکیم ہے ۔یونہی بلا سوچے یا بغیر کسی حکمت کے وہ کوئی کام نہیں کرتا اورجبکہ اس کاہرکام حکمت کے ماتحت ہوتا ہے توہمیں تسلیم کرناپڑتاہے کہ اس کارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوعرب میں مبعوث کرنا کسی بہت بڑی حکمت کے ماتحت تھا ۔اوروہ حکمت یہی تھی کہ عر ب وہ ملک تھا جسے ہزار ہاسال سے دنیا میں کوئی عزت کامقام حاصل نہیں ہواتھا ۔بے شک عر بوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی۔آپ کی تکفیرو تکذیب کی ۔آپ کو برابھلاکہا ۔آپ کو مٹانے کے لئے انہوں نے ہرممکن ذریعہ اختیار کیا ۔مگراس کے باوجود جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز عرب میں گونجتی تھی ۔کہ اے عربو! میں تمہیں دنیا کابادشاہ بنانے کے لئے آیا ہوںتوان کا دل جلدی حرکت کرنے لگ جاتاتھا وہ کہتے تھے ۔یہ کیسی آواز ہے جوہمارے کانوں میںآرہی ہے پھر وہ کچھ اورسوچتے اورکہتے یہ تو وہی آواز ہے جس کے لئے ہم اپنے باپ داداکے زمانہ سے ترستے چلے آرہے تھے۔چنانچہ جب انہیںاپنی مخالفت بھولی عداوت ان کے دلوں سے دورہوئی۔اس آواز نے ان کے دلوں میں ہیجان پیداکردیا ۔اوروہ دیوانہ وار لبیک یارسول اللہ لبیک یارسول اللہ کہتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑ پڑے ۔کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا کہ ہماری ترقی کازمانہ آگیا ۔ان کے دبے ہوئے جذبات اُبھر آئے ۔ان کی دیرینہ خواہشات جوش میں آگئیں اور ہرروک کو توڑ کر وہ اس آواز دینے والے انسان کے اردگرد جمع ہوگئے ۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آواز پر یوں معلوم ہوتاہے کہ عرب کاخشک صحراسمندر بن گیا۔اس کی لہریں اٹھ اٹھ کر ہمسایہ ممالک اور پھر ان کے ساتھ والے ممالک تک پہنچیں اوران سب کوانہوں نے اپنے زیر نگیں کرلیا۔یہ دبی ہوئی حس ہی تھی کہ ہمیں دنیا میں ترقی کرنے کاموقعہ نہیں ملا ۔جس نے عربوں میں ایک دیوانگی پیداکردی۔ جنوں کی سی کیفیت ان میں رونماہوگئی ۔ انہوں نے کہا یہ کیاہواکہ دنیا ترقی میں اپنا حصہ لے چکی مگرہم اس سے محروم رہ گئے ۔تب و ہ اپنے اونٹوں کی مہاریں پکڑے نکلے اور اس جوش اور دیوانگی کے ساتھ نکلے کہ قیصر و کسریٰ کی حکومتیں پاش پاش ہوگئیں اور وہ دنیا کے کناروں تک اپنی حکومت پھیلانے میں کامیاب ہوگئے ۔یہ سامان تھا جو خدانے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی اورعظمت کے لئے کیا کہ آپؐ کو اس ملک میں خداتعالیٰ نے بھیجا جس ملک میں رہنے والوں کے جذبات سینکڑوں سال سے دبے چلے آرہے تھے۔ اوروہ سمجھتے تھے کہ ااور لوگ توحصہ لے چکے مگر ہم اب تک محروم ہیں ۔گویا ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے کہتے ہی کہ کوئی اندھا اورسوجاکھا کھاناکھانے بیٹھے ۔اندھے نے سمجھا کہ سوجاکھا زیادہ کھاناکھارہاہوگا ۔کیونکہ اسکی آنکھیں ہیں اورمیں اندھاہونے کی وجہ سے اس کے مقابلہ میں کم کھارہاہوں ۔یہ خیال آنے پراس نے پہلے توجلدی جلدی کھانا شروع کردیا ۔پھر اس خیال کے آنے پر کہ میری یہ حرکت سوجاکھے نے بھانپ لی ہوگی اوروہ بھی ضرور جلدی جلدی کھانے لگ گیا ہو گا اس نے دونوں ہاتھوں سے کھاناشروع کردیا ۔پھر جو خیال آیا توایک ہاتھ سے وہ چاول منہ میں ڈالتا اور دوسرے ہاتھ سے جھولی میں ڈالتا ۔اس پر پھر اسے خیال آیاکہ اب ضرور سوجاکھا بھی ایساہی کررہاہوگا ۔چنانچہ اب کی دفعہ اس نے تھالی اٹھالی اور کہنے لگا ۔اب میراہی حصہ رہ گیا ہے ۔تم اپنا حصہ کھا چکے ۔اوراس سوجاکھے کی یہ حالت تھی کہ اس نے ایک لقمہ بھی نہیں کھایاتھا ۔وہ اندھے کی حرکات کودیکھ دیکھ کر ہی ہنستاجارہاتھا کہ یہ کیا کررہاہے ۔عر بوں نے بھی ایسا ہی کیا ۔ انہوں نے دنیا کی بادشاہت کی پلیٹ اٹھا کر اپنے سامنے رکھ لی اور کہا کہ تم اپنا حصہ لے چکے یہ ہما راحق ہے ۔غرض یہ الٰہی سامان تھا ۔ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخداتعالیٰ نے اس قوم میں مبعوث کیا جو ایک لمبے عرصہ سے ترقی سے محروم چلی آئی تھی اورجس کے جذبات گودبے ہوئے تھے مگروہ ایک آواز کے منتظر تھے۔اس آواز کے جو انہیں دنیا کا فاتح او رحکمران بنادے ۔ان کے دل یہ دیکھ کر کہ اورلوگ تواپناحصہ لیتے جاتے ہیں اورہمیں کوئی پوچھتابھی نہیں غصہ سے بے تاب ہورہے تھے اورتم جانتے ہوکہ انسان کا ایک ایک سال کا دباہواغصہ باہرنکلے توو ہ دوسرے کو کچل ڈالتاہے ۔پھر کیا حال ہوگا اس قوم کا جس نے صدیوں سے اپنے غصہ کو دلو ں میں دبارکھاہو۔
حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک قصہ سنایاکرتے تھے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ایک دفعہ اپنے باورچی کو محض ا س جرم میں کہ کھانے میں اس نے کچھ نمک زیادہ ڈال دیاتھا ایک سوکوڑے لگانے کی سزادی ۔عزیزالدین ایک مسلمان ان کے وزیرتھے ۔ وہ بڑے نرم دل تھے ۔کہنے لگے ۔یہ بادشاہ کی شان سے بعید ہے کہ کھانے میں ذراسانمک زیادہ ہوجائے تووہ اس پر چڑ کر ایک سوکوڑے لگانے کاحکم دے دے ۔مہاراجہ کہنے لگا ۔وزیر صاحب! آپ یہ خیال نہ کریں کہ میں اسے نمک کی زیادتی پر یہ سزاد ے رہاہوں ۔ اس نے میراایک سوبکراکھایاہواہے او رایک ایک بکرے پر ایک ایک دُرّے کی سزامیں اسے دے رہاہوں۔کھانے میں نمک کی زیادتی محض ایک بہانہ ہے ۔اس ذریعہ سے تومجھے اس کو گذشتہ قصوروں کی سزادینے کا موقع مل گیا ہے ۔
غرض ایک ایک دودوسال کے جذبات اگردبے ہوئے ہوں توانسان پاگل ہوجاتاہے۔ پھر کیا حال ہوگا ان قوموں کاجنہوں نے سالہاسال سے اپنے جذبات کو دبایاہواتھا ۔جوسمجھتی تھیں کہ دنیا اپنا حصہ لے چکی مگرہماراحصہ اس نے ہمیں نہیں دیا ۔یہ دبے ہوئے جذبات قوموںکو کہیں کا کہیں پہنچا دیتے ہیں ۔بے شک یہ جذبات خود ان کی نظر وں میں بھی معیّن نہیں ہوتے جیسے تیتری نہیں جانتی کہ وہ پھولوں کا رنگ اختیار کررہی ہے فاختہ نہیں جانتی کہ وہ بھورارنگ پیداکررہی ہے طوطانہیں جانتاکہ وہ سبز رنگ پیداکررہاہے ۔ ہرن نہیں جانتاکہ وہ بھوسلا رنگ پیداکررہاہے ۔لیکن اس سے انکا رنہیں کیاجاسکتا کہ ایک مخفی اثر اپنے ماحول کا ہرچیز پر پڑتاہے ۔ اسی طرح انسان اس رنگ میں رنگین ہوتاجاتاہے جواس کاماحول اس کلے لئے پیداکرتاہے ۔اگرہرن کی زبان ہوتی اورکوئی شخص اس سے پوچھتاکہ کیاتم کوئی رنگ پیداکررہے ہو تو وہ نہیں بتاسکتاتھاکہ میں بھوسلا رنگ پیداکررہاہوں ۔لیکن اس کی یہ خواہش کہ میں صحرا کی ریت میں چھپ جائوں خود بخود اس کے اند رایک رنگ پیداکردیتی ہے جسے وہ خود بھی نہیں سمجھ سکتا ۔سرخ پھولوں میں رہنے والی تیتری اگر اس کی زبان ہوتی یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ میں سرخ رنگ پیداکررہی ہوں ۔مگراس کی یہ خواہش کہ میں سرخ پھولوںمیں چھپ جائوں خود بخود اس کے پروں میں سرخ رنگ پیداکردیتی ہے ۔ایک سبز رنگ کاطوطا اگر اس کی زبان ہوتی نہیں بتاسکتاتھا کہ میں سبز رنگ پیداکررہاہوں ۔لیکن اس کی یہ خواہش کہ میں سبز رنگ کے پتوں میں چھپارہوں خود بخود اس کے جسم پر سبز رنگ پیداکردیتی ہے ۔اسی طرح وہ جاہل اور وحشی اقوام جو متمدن دنیا سے علیحدہ ہیں جوحکومت سے محروم ہیں جو دنیا سے فائدہ نہیں اٹھارہیں گو اپنی زبان سے نہ کہہ سکیں کہ وہ اس ماحول سے اثر قبول کررہی ہیں مگر ان کی دبی ہوئی خواہشات ان کے جسم پر ایک رنگ پیداکرتی چلی جاتی ہیں ۔وہ دیکھتی ہیں کہ ہماری نسل کے بعد نسل پیداہوئی مگر دنیا نے ہماراحق ہم کون نہ دیا ۔ہماراحق اس نے چھین لیا ۔ہماری دولت اس نے چھین لی ۔ہماری تعلیم اس نے چھین لی ۔اب ہماراکام یہ ہے کہ ہم دنیا پر چھائیں اور اس سے اپنا حق واپس لیں۔ یہ وہ تاثر ہے جواس ماحول کے نتیجہ میں پیداہوتاہے اوریہی وہ تاثر ہے جواقوام کو فاتح بناتاہے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک ایسی قوم میں آئے جومہذب سمجھی جاتی تھی جوتعلیم یافتہ تھی جودنیا کی ترقی کی دوڑ میں اپنا حصہ لے چکی تھی ۔نتیجہ یہ ہواکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورآپ کے حواریوں کو تین سوسال تک تگ و دَو کرنی پڑی ۔لین حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک ایسی قوم میں آئے جو مظلوم تھی جوترقی سے محروم تھی جودیکھتی تھی کہ اَورقومیں توآگے نکل گئیں مگرہم پیچھے رہ گئے ۔نتیجہ یہ ہواکہ موسیٰؑ کی آواز پر وہ یکدم آپ کے گرد جمع ہوگئے ۔کیونکہ ان کی فطرتیں پکار رہی تھیں کہ ہماری ترقی کاوقت اٰگیا ۔جب ان کی فطرت کی آواز خدائی آواز کے ساتھ مل گئی تو انہوں نے دنیاکو روند ڈالا اوراپنا حق لوگوں سے حاصل کرلیا ۔
یہی قانون اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے اوربتایاہے کہ رواحانی دنیا میں جب بھی انبیاء کے ذریعہ ایک انقلاب پیداکیاجاتاہے تواس وقت بھی جَعَلُوْااَعِزَّۃَ اَھْلِھَآ اَذِلَّۃً کانظارہ نظر آتاہے ۔یعنی کئے بڑے بڑے معزز اور عقلمند کہلانے والے ذلیل ہوجاتے ہیں اور کئی چھوٹے اور حقیر نظرآنے والے افراد یاحقیر اور ذلیل سمجھی جانے والی اقوام بڑی بڑی عزتیں حاصل کرلیتی ہیں ۔ابوجہل اپنی قوم میں کتنا عقلمند اورمعززسمجھاجاتاتھالوگوں نے اس کانام ہی ابو الحکم یعنی دانائی کاباپ رکھاہواتھا ۔ مگرجب اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی تووہ اتنا ذلیل ہوگیا کہ لوگوں نے اسے ابوجہل یعنی جہالت کا باپ کہناشروع کردیا ۔اوراس کے مقابلہ میں حضرت علی ؓ کو دیکھ لو وہ صرف گیارہ سال کے تھے جب وہ دین کی تائید کیح لئے کھڑے ہوئے ۔مگرپھر خداتعالیٰ نے ان کو اتنی عزت دی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ خلیفہ بنے اورپھر ان کی نسل کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایسانیک بنایا کہ بارہ نسلوں تک برابر ان میں بارہ امام پیداہوئے ۔لیکن وہ لوگ جواس وقت اپنے آپ کو مکہ کے رؤساء میں سے سمجھتے تھے اوربڑی بڑی عزتوں کے مالک تھے آج ان کاکوئی نام بھی نہیںلیتا اورنہ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے ۔
پس جس طرح دنیوی بادشاہتوں کے متعلق یہ قانون ہے کہ اِنَّ الَمَلُوْکَ اِذَادَخَلُوْاقَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْٓااَعِزَّۃَ اَھْلِھَااَذِلَّۃً اسی طرح دنیا میں بھی یہ قانون جاری ہے اورانبیاء کی بعثت پربھی کئی بڑے سمجھے جانے والے چھوٹے کردیئے جاتے ہیں اورکئی چھوٹے سمجھے جانے والے بڑی بڑی عزتوں کے مالک بن جاتے ہیں ۔
وانی مرسلۃ الیھم بھدیۃ فنظرۃ بم یرجع المرسلون٭
اور(میں نے فیصلہ کیا ہے کہ)میں ان کی طرف ایک تحفہ بھیجوں گی ۔پھر دیکھوں گی کہ میرے ایلچی کیا جواب لیکر واپس آتے ہیں۔
فلما جاء سلیمان قال اتمدونن بمال فما
پھر جب وہ تحفہ سلیمانؑ کے سامنے رکھاگیا تواس نے کہا ۔کیا تم مال کے ذریعہ میری مدد کرنا چاہتے ہو ۔(اگر یہ بات ہے تویادرکھو کہ)
اتٰن اللہ خیر مما اتکم بل انتم بھدیتکم تفرحون٭
اللہ نے جوکچھ مجھے دیا ہے وہ اس سے بہت بہتر ہے جوتم کودیاہے اور(معلوم ہوتاہے کہ )تم اپنے تحفہ پر بڑے نازاں ہو ۔
ارجع الیھم فلنا تینھم بجنود لاقبل لھم بھا ولنخرجنھم منھا اذلۃ و ھم صغرون٭
اے ہد ہد )تو ان کی طرف لوٹ جا اور(ان سے کہہ دے کہ)میں ایک بڑے لشکر کے ساتھ ان کے پاس آئوں گا ۔ایسا لشکر ان کے مقابلہ کی ان کو طاقت نہ ہوگی اور میں ان کو اس (ملک سے ) (مفتوح ہونے کے بعد) ایسی حالت میں نکال دوں گا کہ وہ بادشاہت (کی عزت ) کھو چکے ہونگے ۔۱۶؎
۱۶؎ حل لغات:۔ اَلْقِیَلُ: اَلطَّاقَۃُ طاقت ۔ یُقَالُ مَالِیْ بِہٖ قِیَلٌ۔ محاورہ میں کہا جاتا ہے مجھے اس کی کوئی طاقت نہیں۔(اقرب)
صـغِرُوْنَ: صَاغِر سے جمع کا صیغہ ہے اور اَلصَّاغِرُ کے معنے ہیں اَلْمُھَانُ وَالرَّاضِیْ بِا لذُلِّ وَالضَّیْمِ یعنی رسوا شدہ ۔ وہ شخص جو ذلت اور ظلم پر رضا مند ہو جائے گویا یہ لفظ صَغَار سے ہے جس کے معنے ذلت اور ظلم کے ہیں (اقرب)
تفسیر:۔ جب درباری اپنا مشورہ پیش کرچکے تو ملکہ سبا نے کہا کہ تمام حالات پر غور کرنے کے بعد میں نے یہ سوچا ہے کہ میں انہیں ایک تحفہ بھیجتی ہوں پھر دیکھتی ہوں میرے بھیجے ہوئے آدمی کیا جواب لاتے ہیں ۔ پھر اس نے ایک تحفہ ہد ہد کے سپرد کیا ۔ یہ چڑیا اپنی چونچ میں جو معزز تحفہ لے گئی ہوگی معزز قارئین خود ہی ا سکا اندازہ لگا سکتے ہیں۔حضرت سلیمان ؑ نے بھی اس تحفہ کو دیکھتے ہی کہا کہ کیا تم یعنی ملکہ کے ملک والے لوگ میری مال سے مدد کرنا چاہتے ہو۔
ہُدہُد کی چونچ میں ایک دھیلے کا سواں حصہ ہی آیا ہوگا ۔جب وہ تحفہ سلیمان کے آگے رکھا گیا ہوگا تو ان کو کس طرح فوری طورپر یقین آگیا ہوگا کہ ملکہ سبا کے پاس ہر قسم کا مال موجود ہے ۔ مگر خیر ہد ہد جو کچھ لایا ہوگا اس کو ہم خوب سمجھ سکتے ہیں ۔ چنانچہ اسے دیکھ کر حضرت سلیمان ؑ بولے کہ یہ کیا حقیر چیز تم میرے پاس لائے ہو ۔ خدا نے اس سے بہتر چیزیں مجھے دے رکھی ہیں ۔تمہارے جیسے ذلیل لوگ ہی اس ہد یہ پر خوش ہوسکتے ہیں جس کو ہُدہُد اٹھالایا ہے ۔
پھر فرمایا ۔ اے ہُد ہُد ! ا ن کی طرف لوٹ جا ۔ میں اب ایسا لشکر لے کر ان پر چڑھائی کروں گا جس کے مقا بلہ کی طاقت ان میں نہیں ہوگی ۔کیونکہ اس لشکر میں ہُدہُد بھی ہونگے ۔چڑیاں بھی ہوں گی۔ پدیاں بھی ہوں گی اور بئے بھی ہوں گے اور میں ملک سبا کے لوگوں کو ملک سبا سے ذلیل کر کے نکال دوں گا ۔ اور وہ دیر تک ایسے زبردست لشکر کی ماتحتی میں رہیں گے ۔ (صاغر اسم فاعل ہے جو دوام پر دلالت کرتا ہے )
حضرت سلیمان علیہ السلام کا اس ہدیہ پر ناراض ہونا درحقیقت اس لئے تھا کہ کہ وہ زیادہ زبردست بادشاہوں کا مونہہ رشوت سے بند کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔جب بلقیس کے تحائف حضرت سلیمان علیہ السلام کو پہنچے توا نہوں نے سمجھا کہ اس نے مجھے بھی ایسا ہی بداخلاق اور رشوت خور سمجھا ہے ۔ اس کے اس فعل پر ناپسندیدگی کا اظہار کی ا۔ یہ رشوت کی پیش کش ایسی ہی تھی جیسے مسلمانوں نے جب ایران پر حملہ کیا تو بادشاہ نے اپنے درباریوں سے کہا۔ کہ میں یقین نہیں کرسکتا کہ عرب کے رہنے والے میرے ملک پر حملہ آور ہوئے ہوں ۔ وہ تو نہایت ذلیل لوگ ہیں ۔انہیں میرے ملک پر حملہ آور ہونے کی کیسے جرأت ہوسکتی ہے ۔تم ان کے جرنیل کو پیغام دو ۔ کہ مجھ سے آکر ملے۔ چنانچہ اس کا پیغامبر اسلامی جرنیل کے پا س پہنچا ۔ انہوں نے اپنے ایک صحابی افسر کو ایک دستہ کے ہمراہ بادشاہ ایران کے پاس بھیج دیا ۔صحابہؓ کے ہاتھ میں بڑے بڑے نیزے تھے اور دربار میں لاکھوں روپے کی قالینیں بچھی ہوئی تھیں۔ صحابہ ان قالینوں پر اپنے نیزے مارتے ہوئے گزرگئے ۔ بادشاہ کو سخت غصہ آیا کہ لاکھوں روپے کے قالین ہیں لیکن یہ لوگ ان پر نیزے مارتے ہوئے آرہے ہیں ۔ جب وہ صحابیؓ قریب پہنچ گئے تو بادشاہ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگوں کو مجھ پر حملہ آور ہونے کی کس طرح جرأت ہوئی تم لوگ تو اس قدر ذلیل تھے کہ تم گوہ کا گوشت کھایا کرتے تھے اور اپنی مائوں سے نکاح کرلیا کرتے تھے ۔ میں تمہارا لحاظ کرتے ہوئے تمہارے ہر سپاہی کو ایک ایک اشرفی اور ہر افسر کو دودو اشرفی دوں گا ۔ تم واپس چلے جائو۔ اور حملہ کا ارادہ ترک کردو۔ اس صحابیؓ نے جواب دیا ۔ بادشاہ ! تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہماری یہی حالت تھی ۔ ہم گوہیں کھاتے تھے اور مائوں سے نکاح کر لیا کرتے تھے ۔لیکن اب وہ ہماری حالت نہیں رہی ۔اب خدا تعالیٰ نے ہم میں اپنا ایک رسول مبعوث کیاہے جس نے ہمارا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے اور اس نے ہمیں حلال اور حرام کی تمیز سکھا دی ہے ۔ اب وہ زمانہ چلا گیا جب لوگ ہمیں رشوت دے کر اپنی بات منوا لیتے تھے ۔ اب جب تک ہم تمہارا ملک فتح نہ کریں گے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔بادشاہ نے کہا ۔ میں تمہیں اس گستاخی کی سزا دوںگا ۔ چنانچہ اس نے اپنے ایک سپاہی کو بلایا اوراسے حکم دیا کہ ایک بورا مٹی سے بھر کر لائو۔ جب وہ مٹی کا بورا لے آیا تو اس نے مسلمان افسر سے کہا ۔آگے آئو۔و ہ آگے آگئے ،اس نے کہا ۔نیچے جھکو ۔اس پر وہ نیچے جھک گئے ۔اس نے مٹی کا بوراان کی پیٹھ پر رکھ دیا اورکہنے لگا ۔جائو میں اس بورے سے زیاد ہ تمہیں کچھ دینے کے لئے تیار نہیں۔میں نے تمہیں اشرفیاں پیش کی تھیں۔لیکن تم نے انہی قبول نہ کیا ۔اب تمہیں اس مٹی کے بورے کے سوااورکچھ نہیں مل سکتا۔وہ صحابی ؓ بورااٹھا کر جلدی سے باہر نکل گئے اورگھوڑے پر سوار ہوکر انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا آجائو ۔بادشاہ ایران نے ایران کی زمین خود اپنے ہاتھ سے ہمارے سپرد کردی ہے ۔اس کے بعد انہوںنے گھوڑوں کو ایڑ لگائی اورلشکر کی طرف روانہ ہوگئے ۔مشرک تووہمی ہوتاہے ۔ایران کے بادشاہ نے جب یہ بات سنی تواس نے لوگوں سے کہا جلدی جائو اوعراس مسلمان افسر سے مٹی کابورا لے آئو ۔یہ تو بڑی بدشگونی ہوئی ۔کہ میں اپنے ملک کی مٹی اپنے ہاتھ سے دشمن کے حوالے کردی ۔لیکن وہ اس وقت تک بہت دورنکل چکے تھے ۔
ملکہ سبا نے بھی چاہاکہ کچھ ہدیئے اورتحائف بھجواکر حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس حملہ سے باز رکھنے کی کوشش کرو ں۔مگرانہوں نے ان تحائف کوردّ کردیا ۔کیونکہ وہ تحفہ نہیں تھے بلکہ ایک رشوت تھی ۔
قال یایھا الملواایکم یاتینی بعرشھا
(اس کے بعد )اس نے (اپنے درباریوں سے مخاطب ہوکر )کہا ۔اے درباریو !تم میں سے کون اس تخت کو میرے پاس لے آئیگا
قبل ان یاتونی مسلمین٭قال عفریت من الجن
پیشتراس کے کہ وہ (لوگ)فرمانبردار ہوکر میری خدمت میں حاضر ہوں ۔(پہاڑی قوموںمیں سے)ایک سرکش سردار نے کہا ۔
انا اٰتیک بہ قبل ان تقوم من مقامک ۔وانی علیہ لقوی
آپ کے (اس)مقام سے جانے سے پہلے میں وہ (عرش )لے آئوں گا ۔اورمیں اس بات پر بڑی قدرت رکھنے والا اور
امین٭قال الذی عندہ علم من الکتٰب انا اٰتیک بہ
امانت دار ہو۔(اس پر)اُس شخص نے جس کو (الٰہی) کتاب کاعلم حاصل تھا کہا کہ میں تیرے پاس اس( تخت )کو
قبل ان یرتد الیک طرفک۔فلما راہ مستقرا عندہ قال
تیرے آنکھ جھپکنے سے پہلے لے آئوں گا ۔پس جب اس نے (یعنی سلیمان ؑ نے)اس کو پاس رکھاہوادیکھا۔تواس نے کہا ۔
ھٰذا من فضل ربی۔لیبلونیٓ ء اشکر ام اکفر۔ومن شکر
یہ میرے رب کے فضل کی وجہ سے ہواہے ۔تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتاہوں یا ناشکری کرتاہوں ۔اورجوشکرکرے
فانما یشکر لنفسہ۔ومن کفر فان ربی غنی کریم٭
وہ اپنی جان کے فائدہ کے لئے ایساکرتاہے ا ورجوناشکری کرے تویقیناً میرارب بے نیاز (اور)بڑی سخاوت کرنے والاہے۔
قال نکھرولھا عرشھا ننظر اتھتدی ام تکون من الذین
(پھر)اس نے کہا کہ اس (یعنی ملکہ)کے لئے اس کاعرش حقیر کرکے دکھائو ۔ہم دیکھیں گے کہ کیا وہ ہدایت پاتی ہے یاان لوگوں میں
لایھتدون٭
سے بنتی ہے جو ہدایت نہیں پاتے ۔۱۷؎
۱۷؎ حل لغات :۔ اَلْعِفْرِیْتُ کے معنے ہیں اَلنَّافِذُ فِی الْاَمْرِ اَلْمُبَالِغُ فِیْہِ مَعَ دَھَائٍ ۔کسی کو کرگذرنے والا۔ اَلْخَبِیْثُ ۔ اَلْمُنْکَرُ ۔بُرااورناپسندیدہ (اقرب)
تفسیر :۔پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے سوچاکہ ہدہد کے اس لائے ہوئے تحفہ سے توکچھ نہیں بنتا۔کوئی اور چیز منگوائو۔ فرمایا۔ اے میرے سردارو پیشتراس کے کہ وہ لوگ میرے پاس فرمانبردار ہوکر آئیں ملکہ کاتخت کون میرے پاس لائے گا ۔وہ لوگ جو خاص باڈی گارڈ تھے ان کا ایک سردار بولاکہ آپ کے چڑھائی کرنے سے پہلے میں وہ تخت لے آئوے گا۔چونکہ وہ سردار لشکر تھا ۔اس کوپتہ تھا کہ اس لشکر کایہاں کتنے عر صہ تک پڑائو ہوگا۔اس لئے اس نے اندازہ کرلیا کہ اتنے دنوں میں ملکہ کومرعوب کرکے وہ تخت لایاجاسکتاہے اورساتھ ہی یہ دعویٰ کیا کہ میں ایک طاقتور سردار ہوں اوراس چھوٹے سے ملک کی فوج میرامقابلہ نہیں کرسکتی ۔اورمیں آپ کا مطیع بھی ہوں ۔اس مال کے لانے میں کسی قسم کی خیانت مجھ سے نہیں ہوگی ۔لیکن ایک اَورشخص جس کو دینی علم حاصل تھا اس نے کہا کہ آپ کے آنکھ جھپکنے سے بھی پہلے میں وہ تخت لے آئوں گا ۔
حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ طرف کے معنے خراج کے ہوتے ہیں ۔مگرمیری نظر سے اب تک یہ معنے نہیں گذرے۔اس لئے جب تک وہ معنے نہ ملیں میں تویہی کہوں گا کہ اس فقرہ کے وہی معنے ہیں جوعام بول چال میں ا ستعمال ہوتے ہیں ۔یعنی جلدی کے ۔چنانچہ جب کسی کام کے جلدی کرنے کاذکرکرناہوتویہی کہاکرتے ہیں کہ آنکھ جھپکنے سے پہلے یہ کام ہوجائے گا۔ پس جب ایک سردار نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ ملکہ سبا کاتخت اس کی فوج سے لڑ بھڑکراس لشکر کے کوچ کرنے سے پہلے لاسکتاہے ۔توایک یہودی عالم بول پڑااوراس نے کہا کہ وہ تخت میں اس شخص کے تخت لانے سے بھی پہلے حاضر کردیتاہوں ۔یعنی جتنی دیر میں یہ غیر یہودی سرردار یااودمی یاعرب کاسردار کام کرے گا اس سے پہلے میں یہ کام کرلوں گا ۔یعنی ایک نیااور اعلیٰ درجہ کاتخت بنواکر حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضر کردوں گا اورچونکہ وہ یہود کاملک تھا ۔اس لئے عبرانی عالم کویقین تھا کہ یہودی ماہرین صنعت میرے لئے بہت جلد یہ کام کردیں گے ۔پس اس نے عفریت سے بھی پہلے عرش لانے کاوعدہ کیا ۔جب حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے یہ تخت پیش کیا گیا ۔اورآپ نے اسے دیکھاتوفرمایا۔ یہ میرے رب کافضل ہے کہ اس نے ایسے ایسے ہوشیار افسر مجھے عطاکئے ہیں اورمیری ہرتمنا پوری ہوجاتی ہے ۔اللہ تعالیٰ یہ دیکھناچاہتاہے کہ میں اس کا شکر گذار بندہ بنتاہوں یاناشکرا۔اورچونکہ سورئہ بغرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ وَمَاکَفَرَ سُلَیْمٰنُ اس لئے قرآن کریم نے ہی اس بات کی وضاحت کردی کہ ان انعامات کے نتیجہ میں سلیمانؑ شکر گذار بناتھا ناشکرانہیں بناتھا ۔
پھرفرماتاہے کہ شکر گذار بنناخود انسان کے لئے فائدہ بخش ہوتاہے اورناشکرگذار ہونے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی ذات میں کامل ہے او راسے کسی کی احتیاج نہیں ۔
اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی شکر گذار ی کے جذبات کااظہار کرنے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے پھر پہلے مضمون کی طرف رجوع کیا اورفرمایا کہ نَکِّرُوْالَھَاعَرْشَھَا۔یہ تخت جو تم لائے ہو ہے تواچھا لیکن میں یہ چاہتاہوں کہ اس کے تخت سے بھی زیادہ اچھا تخت ہو ۔پس تم ملکہ کے لئے اس کے تخت کو حقیر بنادو یعنی ایسا تخت بنائو کہ اس ے اپنا تخت حقیر نظر آنے لگے ۔میں یہ دیکھناچاہاہوں کہ کیاوہ اس بات کو دیکھ کرتسلیم کرلیتی ہے یا نہیں کہ مجھ پر خداتعالیٰ کے بڑے فضل ہیں یااپنے گھمنڈ پر قائم رہتی ہے ۔
فلما جآء ت قیل اھکذا عرشک۔قالت کانہ ھو۔
پس جب و ہ آگئی توکہا گیا کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے ۔اس پر اس نے کہا ۔کہ یوں معلوم ہوتاہے کہ یہ وہی ہے
واوتینا العلم من قبلھا وکنا مسلمین٭صدھا ماکانت
اورہم کو اس سے پہلے ہی علم حاصل ہوچکاتھا اورہم (تیرے )فرمانبردار بن چکے تھے۔اوراس (یعنی سلیمانؑ)نے ملکہ کو اللہ (تعالیٰ)
تعبدمن دون اللہ ۔انھا کانت من قوم کفرین٭
کے سواپرستش کرنے سے روکا۔وہ یقیناً کافرقوم میں سے تھی ۔ ۱۸؎
۱۸؎ تفسیر :۔جب ملکہ آگئی تواس سے کہا گیا کہ یہ تخت جو ہمارے بادشاہ کے پاس پڑاہے کیاتمہاراتخت بھی ایساہی ہے ۔ اس پر اس کاگھمنڈ اس کے راستہ میں حائل ہوگیا۔اوربجائے یہ کہنے کہ کہ یہ تواس سے بہت اعلیٰ ہے اس نے کہا ،۔یوں معلوم ہوتاہے کہ گویایہ ویساہی تخت ہے ۔مگرپھر کہنے لگی ان تدبیروں کی کیاضرورت تھی ۔ہم تو سلیمانؑ کے دین کے حالات سن کر پہلے ہی معلوم کرچکے ہیں کہ اس کادین سچاہے ۔اورہم فرمانبردار بن چکے ہیں ۔
تب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو ان چیزوں کی پرستش کرنے سے روکا جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے سواپر ستش کرتی تھی او راسے وعظ و نصیحت کی کیونکہ وہ کافرقوم میں سے تھی ۔
قیل لھا ادخلی الصر ح۔فلماراتہ حسبتہ لجۃ و کشفت
اوراسے کہا گیاکہ محل میں داخل ہوجائو۔پس جب اس نے اس (محل)کودیکھاتواس کوگہراپانی سمجھا اورگھبراگئی ۔
عن ساقیھا۔قال انہ صرح ممرد من قواریر ۔قالت رب انی
تب اس (یعنی سلیمانؑ) نے کہا ۔یہ تومحل ہے جس میں شیشہ کے ٹکڑے لگائے گئے ہیں ۔تب وہ (ملکہ )بولی ۔اے میرے رب!
ظلمت نفسی واسلمت مع سلیمٰن للہ رب العالمین٭
میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ۔اورمیں سلیمانؑ کے ساتھ رب العالمین خداپر ایمان لاتی ہوں ۔۱۹؎
۱۹؎ حل لغات :۔اَ لصَّرْحُ: (۱)اَلْقَصْرُ۔محل ۔(۲)کُلُّ بِنَآئٍ عَالٍ۔ہراونچی عمارت (اقرب)
لُجَّۃٌ:لُجَۃٌ کے معنے ہیں مُعْظَمُ ُ الْمَآئِ۔گہراپانی ۔اَلْمِرْاٰۃُ ۔آئینہ۔ اَلْفِضَّۃُ۔ چاندی (اقرب)
مُمَرَّدٌ: مَرَّدَ سے اسم مفعول کاصیغہ ہے اور مَرَّدَ الْبِنَآئَ کے معنے ہیں جس پر شیشے لگائے گئے ہوں ۔اوراسے نازک بنایاگیاہے۔
قَوَارِیْرَ:قَارُوْرَۃٌ کی جمع ہے اور قارورہ کے معنے شیشہ کے ہیں (اقرب)پس قَوَارِیْرَ کے معنے ہوں گے شیشے۔
تفسیر :۔مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ملکہ بلقیس سے شادی کرناچاہتے تھے ۔مگر ان کو جنوں نے خبر دی کہ اس کی پنڈلیوں پر بکریوں کی طرح بال ہیں ۔انہوں نے اس بات کی تحقیق کے لئے ایک عظیم الشان محل بنوایا۔ اوراس میں ایک بہت بڑ ا حوض کھدواکر اسے پانی سے لبریز کردیا اورپھر اس پر بلور کے ٹکڑوں کا ایسا فرش لگوایا کہ انسانی نگاہ دھوکہ کھا جائے اوروہ یہ سمجھے کہ صحن میں پا نی بہہ رہاہے ۔جب یہ محل تیار ہوگیا۔توانہوں نے بلقیس کو وہ محل ٹھہر نے کے لئے پیش کیا۔جب وہ صحن میں سے گذرنے لگی ۔ توچونکہ فرش پر شیشہ لگاہواتھا اواس کے نیچے پانی بہہ رہاتھا ۔اس نے سمجھا کہ سچ مچ پانی بہہ رہاہے اورگھبراکر اس نے اپنے کپڑے اُڑس لئے اورپنڈلیاں ننگی کردیں ۔اس طریق سے آپ نے معلوم کرلیا کہ واقعہ میں اس کی پنڈلیوں پر بال موجود ہیں ۔اورپھر آپ نے ایک بال صفا پوڈر تیار کیا جس سے اس کے بال دور ہوئے۔
بعض کہتے ہیں ۔پنڈلیوں کے بال دیکھنے کے لیء حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس قد رانتظام کیا کرناتھا اصل با ت یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے ملکہ کاتخت منگوایاتھا انہیں خیا ل آیاکہ تخت منگوانے سے میری سبکی ہوئی ہے ۔چنانچہ اس سبکی اکاازالہ کرنے کے لئے آپ نے یہ محل بنوایاتاکہ اپنی وقعت قائم کرسکیں ۔مگردنیاکاکوئی بھی سمجھدار انسان کہہ سکتاہے کہ یہ باتیں ایسی ہیں کہ ان کا ذکر خداتعالیٰ کے کلام میں اورخصوصاً آخری شریعت کلے حامل کلام میںہوناچاہیئے تھا۔ان باتوں کانہ تودین سے تعلق ہے نہ عر فان سے اورنہ خداتعالیٰ کے انبیاء ایسے لغو کام کیا کرتے ہیں ۔اصل بات صرف اتنی ہے ۔کہ ملکہ سباایک مشرکہ عورت تھی اورسورج پرست تھی ۔ حضرت سلیمان علیہ السلاام چاہتے تھے کہ وہ شرک چھوڑ دے ۔اس کے لئے آپ نے اسے زبانی بھی نصیحت فرمائی ۔مگرپھرآپ نے چاہاکہ عملاً بھی اسکے عقیدہ کی غلطی اس پر ظاہر کریں ۔چنانچہ اس کے لئے آپ نے یہ طریق اختیار کیاکہ اس کے قیام کے لئے آپ نے ایک ایسامحل تجویز فرمایا جس میں شیشہ کا فرش تھا اوراس کے نیچے پانی بہتاتھا ۔جب ملکہ اس کے فرش پر سے گذر نے لگی تواسے شبہ ہواکہ یہ پانی ہے اوراس نے جھٹ اپنی پنڈلیوں پر سے کپڑااٹھالیا یااسے دیکھ کروہ گھبراگئی ۔(کَشَفَ عَنْ سَاقٍ کے یہ دونوں معنے ہیں )اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے تسلی دی اورکہا کہ بی بی !دھوکا مت کھائو ۔جسے تم پانی سمجھتی ہو یہ تودراصل شیشہ کا فرش ہے اور پانی اس کے نیچے ہے ۔چونکہ پہلے آپ دلائل سے شرک کی غلطی اس پر واضح کرچکے تھے اس نے فوراً سمجھ لیا کہ انہوں نے ایک عملی مثال دے کر مجھ پر شرک کی حقیقت کھول دی ہے اورسمجھایاہے کہ جس طر ح پانی کی جھلک شیشہ میں تجھے نظر آئی ہے اورتونے اسے پانی سمجھ لیاہے ایساہی خداتعالیٰ کا نور اجرام فلکی میں سے جھلک رہاہے ۔چنانچہ اس دلیل سے وہ بڑی متاثر ہوئی اوربے اختیار کہہ اٹھی کہ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔یعنی اے میرے رب میں نے شرک کرکے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے ۔اب میں سلیمانؑ کے ساتھ یعنی اس کے دین کے مطابق اس خداپر ایمان لاتی ہوں جوسب جہانوں کارب ہے اورسورج اورچاند وغیرہ بھی اسی سے فیض حاصل کررہے ہیں ۔
ولقد ارسلنا الی ثمود اخاھم صٰلحاً ان اعبدوااللہ۔
اورہم نے ثمود کی طر ف ان کے بھائی صالح کو ضرو ررسول بناکربھیجاتھا ۔(یہ کہتے ہوئے )کہ اللہ (تعالیٰ)کی عبادت کرو۔
فاذاھم فریقٰن یختصمون٭قال یقوم
پس وہ سنتے ہی دوگروہ ہوگئے جوآپس میں جھگڑنے لگے۔اس (یعنی صالحؑ ) نے کہا اے میری قوم!
لم تستعجلون بالسیئۃ قبل الحسنۃ۔ لولاتستغفرون اللہ
تم خوشحالی کے آنے سے پہلے خراب حالی کے لئے کیوں جلدی کرتے ہو؟کیا تم خداتعالیٰ سے اپنے گناہوں پر استغفار نہیں کرتے
لعلکھم ترحمون٭قالواطیرنا بک وبمن معک۔
تاکہ تم پر رحم کیاجائے ۔انہوں نے کہا(اے صالح!)ہم نے (جتناسوچاہے)تجھے اور تیرے ساتھیوںکو منحوس ہی پایاہے
قال طئرکم عنداللہ بل انتم قوم تفتنون٭
(یعنی تم لو گ اپنی قوم کے لئے کسی ترقی کانہیں بلکہ تباہی کاموجب ہوگے)اس (یعنی صالح) نے کہا ۔تمہاری نحوست کاسبب تواللہ کے پاس ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم ایسی قوم ہو جس کو آزمائش میں ڈالا گیاہے ۔ ۲۰؎
۲۰؎ حل لغات :۔اِطَّیَّرْنَا اصل میں تَطَّیَّرَ سے ہے اوراس میں قلب اورادغام کاقادہ استعمال ہواہے اور تَطَّیَّرَ کے معنے ہیں تَشَائَ مَ یعنی نحوست کاانداز ہ لگایا یانحوست محسوس کی ۔اہل عرب کہتے ہیں اِطَّیَّرَ بِہٖ وَاِطَّیَّرَ مِنْہُ اور مطلب یہ ہوتاہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص سے نحوست کے آثار دیکھے (اقرب)
طَائِرُکُمْ :طَائِر کے معنے پرندے کے ہیں ۔لیکن عر ب لوگ چونکہ پرندوں سے شگون لیا کرتے تھے اس لئے شگون کے لئے بھی طَائِر کالفظ بول لیا جاتاہے چنانچہ مسافر کورخصت کرتے وقت دعاکے طورپر کہتے ہیں سِرْ عَلَی الطَّائِرِ الْمَیْمُوْنِ۔مبارک شگون پر چل ۔اسی طرح کہتے ہیں ھُوَ مَیْمُوْنُ الطَّائِرِ۔اورمراد یہ ہوتی ہے کہ وہ مبارک چہرے والاہ ہے ۔اسی طرح انسانی اعمال کوبھی خواہ وہ اچھے ہوں یا برے طائر کہتے ہیں ۔۔اورستارے کو بھی طائر کہتے ہیں کیونکہ ستاروں سے بھی نحوست اور بھلائی کے حالات معلوم کئے جاتے ہیں