حدیث القرطاس
شیعہ اور سنیوں کے درمیان ایک بحث قرطاس کے نام سے مشہور ہے اس کی بناء بخاری کی ایک حدیث پر ہے جو یہ ہے (بخاری کتاب المغازی باب مرض النبیؐو وفاتہٖ)
عَنِ ابْنِ عَبَاسٍ قَالَ لَمَّا حَضَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ فِی الْبَیْتِ رِجَالٌ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھَلَمُّوْا اَکْتُبُ لَکُمْ کِتٰباًلَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہ‘۔فَقَالَ بَعْضُھُمْ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَلَبَ عَلَیْہِ الْوَجْعُ وَ عِنْدَکُمُ الْقُرْاٰنُ حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ فَاخْتَلَفَ اَھْلُ الْبَیْتِ وَاخْتَصَمُوْا فَمِنْھُمْ مَنْ یَّقُوْلُ قَرِّبُوْا یَکْتُبْ لَکُمْ کِتٰباً لَا تَضِلُّوْا بَعْدَہ‘وَ مِنْھُمْ مَنْ یَّقُوْلُ غَیْرَ ذٰالِکَ فَلَمَّا کَثُرَ اللَّغْطُ والْاِخْتِلَافُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُوْمُوْا عَنِّیْ لَا یَنْبَغِیْ عِنْدَ النَّبِیِّ التَّنَازَعُ۔
(بخاری کتاب المغازی باب مرض النبیؐ و وفاتہ، کتاب العلم باب کتابۃ العلم ،کتاب الجہاد،کتاب الجزیہ اخراج الیہود من جزیرۃ العرب، کتاب المغازی)
جواب:۱۔یہ روایت صرف ابن عباسؓ کی ہے جن کی عمر اس وقت صرف گیارہ سال کی تھی اس لئے واقعات کے عدم انضباط کا امکان ہے۔
۲۔حضور کا مخاطب کو ئی خاص شخص نہ تھا۔لہٰذا حضرت علیؓ و عمرؓ عدم تعمیل کے ایک جیسے مجرم قرار پائیں گے بلکہ وہ فریق جو قلم دوات لانے کا حامی تھا وہ یقینا مجرم ہے کہ باوجود سمجھنے کے کہ حضور حکم دیتے ہیں قلم دوات نہ لائے۔
۳۔نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ ’’قُوْمُوْا عَنِّی ْ لَا یَنْبَغِی عِنْدَالنَّبِیْ التَّنَازَعُ‘‘اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ نے قلم دوات نہ لانے کو نہیں بلکہ جھگڑا کرنے کو بُرا سمجھا۔
۴۔اگر حضورؐ ضرور کچھ لکھوانا چاہتے تھے تو باوجود چار دن بعد زندہ رہنے کے کیوں نہ آپ نے لکھوا دیا۔اگر موقع نہیں ملا تو کم از کم زبانی طور پر ہی آپ لوگوں کو وہ بات بتا دیتے۔
۵۔اﷲ تعالیٰ فرماتاہے۔ (المائدۃ:۶۸) یعنی کوئی ایک پیغام نہ پہنچانا بھی رسالت کے منافی ہے۔ پس اگر وہ قرطاس والی حدیث الٰہی منشاء کے ماتحت تھی اور حضورؐ اس کو پہلے نہیں پہنچا چکے تھے تو اب آپ کا فرض تھا کہ آپ باوجود حضرت عمرؓ کے روکنے کے لکھوادیتے یا کم از کم زبانی یہ پیغام پہنچا دیتے۔اگر کہو کہ حضرت عمر ؓ کا ڈر تھا تو قرآن مجید فرماتا ہے (المائدۃ:۶۸) یعنی پیغام الٰہی کے پہنچانے میں تجھے کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا۔
۶۔قرطاس میں ایسی بات حضرتؐ نے لکھوانی تھی جس سے مسلمان گمراہی سے بچیں۔تو اگر کسی جگہ قرآن میں لکھا ہے کہ قرآن مجید ہی ایسی کتاب ہے جس سے لوگ گمراہی سے بچ سکتے ہیں تو ماننا پڑے گا کہ اس قرطاس میں حضرتؐ نے قرآن کریم ہی کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا تھا۔تبھی حضرت عمرؓ نے کہا حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِِاور قرآن میں ہے (النساء:۱۷۷) کہ قرآن کریم کے ذریعہ سے لوگ گمراہی سے بچ سکتے ہیں۔
۷۔آنحضرت ؐ اپنی وفات سے دو ماہ پیشتر حجۃ الوداع سے واپس آتے ہوئے خم غذیر کے مقام پر تمام مسلمانوں کو جمع کر کے فرماتے ہیں۔اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمْ الثَّقَلَیْنِ کِتَابَ اللّٰہِ وَعِتْرَتِیْ۔ (مسلم کتاب فضائل الصحابہ جلد ۲ مصری) یعنی میں تم میں وفات پاکر دو چیزیں چھوڑ جاؤں گا۔ایک قرآن مجید اور دوسرے اپنے حقیقی متبع (خلفاء) اس سے معلوم ہوا کہ رسول مقبولؐ اپنی وفات کے بعد اگر کسی تحریر کے پکڑنے کا حکم دیتے تو وہ کتاب اﷲ ہے۔
۸۔یہ عجیب بات ہے کہ کلام اﷲ جو ۲۳ سال تک نازل ہوتا رہا ہے جس میں اختتام پر یہ کہہ دیا ہے۔ (المائدۃ:۴) اس سے تو گمراہی کا سدِّباب نہ ہوا مگر آپ کی تحریر سے گمراہی ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے۔
۹۔ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ رسول مقبولؐ حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانے لگے تھے مگر اس میں لَنْ تَضِلُّوْاکی نفی غلط ٹھہرتی ہے۔کیونکہ سُنّی لوگ حضرت علیؓ کو خلیفۂ اوّل نہیں سمجھتے مگر شیعہ سمجھتے ہیں۔ باوجود اس کے خودشیعوں کے آپس میں بیسیوں فرقے ہیں۔مثلاً آغاخانی،بوہرے،زیدی،علی الاہی، نصیری، اسمٰعیلی وغیرہ۔
۱۰۔اگر حضرت عمرؓ کا قلم دوات نہ لانا اس لئے کفر و فسق ہے کہ آپ نے حکم کی تعمیل نہ کی تو حضرت علیؓ نے علاوہ اس حکم کی عدم تعمیل کے حدیبیہ کے موقع پر بھی ایک حکم کی قولاً و فعلاً عدم تعمیل کی ہے جہاں انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ میں ہرگز آپ کا نام نہیں مٹاؤں گا باوجودیکہ رسول اﷲ نے حکم دیا تھاکہ اُمْحُ اِسْمِیْ مگر حضرت علیؓ نے کہا وَاللّٰہ ِ لَا اَمْحُوْکَ اَبَدًا حَتّیٰ مَحَاہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (بخاری کتاب الصلح باب کیف یکتب ھذا ماصالح فلان بن فلان) کہ خدا کی قسم میں آپ کا نام کبھی نہیں مٹاؤں گا ۔یہاں تک کہ خود آنحضرت ؐ نے اسے مٹادیا۔