• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب سے چند اقتباسات

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب سے چند اقتباسات

۱۔ آریہ سماج کی ہلاکت کی پیش گوئی :۔

۱۔’’اور یہ خیال مت کرو کہ آریہ یعنی ہندو دیانندی مذہب والے کچھ چیز ہیں۔ وہ صرف اُس زنبور کی طرح ہیں جس میں بجزنیش زنی کے اور کچھ نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ توحید کیا چیز ہے۔ ـاور روحانیت سے سراسر بے نصیب ہیں۔ عیب چینی کرنا اور خدا کے پاک رسولوں کو گالیاں دینا اُن کا کام ہے اور بڑا کمال ان کا یہی ہے کہ شیطانی وساوس سے اعتراضات کے ذخیرے جمع کررہے ہیں اور تقویٰ اور طہارت کی رُوح اُن میں نہیں۔ یا درکھو کہ بغیر روحانیت کے کوئی مذہب چل نہیں سکتا۔ اور مذہب بغیر روحانیت کے کچھ بھی چیز نہیں۔ جس مذہب میں روحانیت نہیں اور جس مذہب میں خدا کے ساتھ مکالمہ کا تعلق نہیں اور صدق و صفا کی روح نہیں اور آسمانی کشش اُس کے ساتھ نہیں اور فوق العادت تبدیلی کا نمونہ اس کے پاس نہیں وہ مذہب مُردہ ہے۔ اس سے مت ڈرو۔ ابھی تم میں سے لاکھوں اور کروڑوں انسان زندہ ہوں گے کہ اس مذہب کو نابود ہوتے دیکھ لوگے۔ کیونکہ یہ مذہب آریا کا زمین سے ہے نہ آسمان سے۔ اور زمین کی باتیں پیش کرتا ہے نہ آسمان کی۔ پس تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۶۷،۶۸)

زلازل کے متعلق عام پیشگوئی :۔

’’یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے پس یقینا سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گاتب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے۔ اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں اگر میں نہ آیا ہوتا تو اِن بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا۔ (بنی اسرائیل:۱۶) اور توبہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم اِن زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں۔ انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہوگایہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا مُنہ دیکھو گے۔ اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ۔‘‘

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۲۶۸،۲۶۹)

عالم گیر جنگ نمبر ۲و نمبر ۳ کی پیشگوئی :۔

۱۔’’ایسا ہی یاجوج ماجوج کا حال بھی سمجھ لیجئے۔ یہ دونوں پرانی قومیں ہیں جوپہلے زمانوں میں دوسروں پر کھلے طورپر غالب نہیں ہوسکیں اور اُن کی حالت میں ضعف رہا لیکن خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ آخری زمانہ میں یہ دونوں قومیں خروج کریں گی یعنی اپنی جلالی قوت کے ساتھ ظاہر ہوں گی۔ جیسا کہ سورۂ کہف میں فرماتا ہے یعنی یہ دونوں قومیں دوسروں کو مغلوب کر کے پھر ایک دوسرے پر حملہ کریں گی اور جس کو خدائے تعالیٰ چاہے گا فتح د ے گا۔ چونکہ ان دونوں قوموں سے مراد انگریز اور رُوس ہیں اس لئے ہریک سعادتمند مسلمان کو دعاکرنی چاہیے کہ اُس وقت انگریزوں کی فتح ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۳۷۳)

۲۔’’ہر ایک قوم اپنے مذہب کی حمایت میں اُٹھے گی اور جس طرح ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے ایک دوسرے پر حملہ کریں گے اتنے میں آسمان پر قرناء پھونکی جائے گی یعنی آسمان کا خدا مسیح موعود کو مبعوث فرماکر ایک تیسری قوم پیدا کر دے گا اور ان کی مددکے لئے بڑے بڑے نشان دکھلائے گا یہاں تک کہ تمام سعید لوگوں کو ایک مذہب پر یعنی اسلام پر جمع کردے گا۔ اور وہ مسیح کی آواز سنیں گے اور اس کی طرف دوڑیں گے تب ایک ہی چوپان اور ایک ہی گلہ ہوگا اوروہ دن بڑے سخت ہوں گے۔ اور خدا ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اپنا چہرہ ظاہر کردے گا۔ ‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۱۲۶)

مسئلہ وفات مسیح کے متعلق پیشگوئی :۔

’’ہر ایک مخالف یقین رکھے کہ اپنے وقت پر وہ جان کندن کی حالت تک پہنچے گا اور مرے گا مگر حضرت عیسیٰ کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا۔ یہ بھی میری پیشگوئی ہے جس کی سچائی کا ہر ایک مخالف اپنے مرنے کے وقت گواہ ہو گا۔ جس قدر مولوی اور مُلّاں ہیں اور ہر ایک اہلِ عناد جو میرے مخالف کچھ لکھتا ہے وہ سب یاد رکھیں کہ اس اُمید سے وہ نامراد مریں گے کہ حضرت عیسیٰ کو وہ آسمان سے اُترتے دیکھ لیں۔ وہ ہر گز اُن کو اُترتے نہیں دیکھیں گے یہاں تک کہ بیمار ہو کر غرغرہ کی حالت تک پہنچ جائیں گے اور نہایت تلخی سے اِس دنیا کو چھوڑیں گے۔ کیا یہ پیشگوئی نہیں؟ کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ پوری نہیں ہو گی؟ ضرور پوری ہوگی پھر اگر اُن کی اولاد ہو گی تو وہ بھی یاد رکھیں کہ اسی طرح وہ بھی نامراد مریں گے اور کوئی شخص آسمان سے نہیں اُترے گا۔ اور پھر اگر اولاد کی اولاد ہو گی تو وہ بھی اس نامرادی سے حصہ لیں گے۔ اور کوئی اِن میں سے حضرت عیسیٰ کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۳۶۹)

ذاتی تجر بہ

’’چونکہ ہر ایک شخص کی حالت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اس لئے ہم اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ جن لوگوں نے ہمارے مقابل پر تقویٰ کو ضائع کیا اور راستی سے دشمنی کی وہ نہایت خطرناک حالت میں ہیں اور اگر وہ اس بد سیرت میں اَور بھی ترقی کریں اور رفتہ رفتہ کھلے کھلے طور پر قرآن شریف سے مُنہ پھیر لیں تو ان سے کیا تعجب ہے!!‘‘

(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ ۳۲۰)

اہل بیعت حضرت مسیح موعودؑ کی پاکیزگی

الف:۔ ’’ سو چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت اِسلام کی ڈالے گا اور اِس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی رُوح اپنے اندر رکھتا ہوگا۔ اِس لئے اُس نے پسند کیا کہ اِس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اِس سے وہ اولاد پیدا کرے جو اُن نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلاوے۔ اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہربانو تھا اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اِس کا نام نُصرت جہاں بیگم ہے۔ یہ تفاول کے طور پر اِس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آیندہ خاندان کی بُنیاد ڈالی ہے۔ہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے۔ ‘‘

(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۷۵)

ب۔’’مجھے اِس الہام میں ایک نئی بیوی کا وعدہ دیا اور اِس الہام میں اشارہ کیا کہ وہ تیرے لئے مبارک ہوگی اور تواس کے لئے مبارک ہوگا اور مریم کی طرح اُس سے تجھے پاک اولاد دی جائے گی۔سو جیسا کہ وعدہ دیا گیا تھا ایسا ہی ظہور میں آیا۔ ‘‘

(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۸۸)

ج۔’’یاد رہے کہ یہ شخص (بٹالوی)بدگوئی میں حد سے بڑھ گیا تھا۔ جس شخص کو اس کی گندی تحریروں پر علم ہوگا جو میری نسبت اور میرے اہل بیت آل رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت اس شیخ بے ادب تیز مزاج نے سراسر ظلم اور ناحق پسندی کی خصلت سے اشاعۃ ُ السنہ میں شائع کی ہیں…………میں یقین رکھتا ہوں کہ ہرایک شریف جس کی فطرت میں نقص نہ ہو۔ اور جس کے نیک گوہر میں کچھ کھوٹ نہ ہو اور جس کے نجیب الطرفین ہونے میں کچھ خلل نہ ہو۔ و ہ کبھی اِس بات پر راضی نہیں ہوگا کہ معزز شرفاء کے بارے میں اور سادات کی شان میں او ر اُن پاکدامن خاتونوں کی نسبت جو خاندان نبوت میں سے اور اہل بیت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میں سے ہیں ایسی گندی گالیاں اور ناپاکی سے بھرے افترا مُنہ پر لاوے۔‘‘ (تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۳۲۷، ۳۲۸)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
د:۔ ’’جن عظیم الشان لوگوں کو بڑے بڑے عظیم ذمہ داریوں کے کام ملتے ہیں اور بعض اوقات خدا تعالیٰ سے عِلم پاکر خضر کی طرح ایسے کام بھی اُن کو کرنے پڑتے ہیں جن سے ایک کوتہ بین شخص کی نظر میں وہ بعض اخلاقی حالتوں میں یا معاشرت کے طریقوں میں قابلِ ملامت ٹھہرتے ہیں۔ اُن کے دشمنوں کی باتوں کی طرف دیکھ کر ہرگز بدظن نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اندھے دشمنوں نے کسی نبی اور رسول کو اپنی نکتہ چینی سے مستثنیٰ نہیں رکھا۔ مثلاً وہ موسیٰ مردِ خدا جس کی نسبت توریت میں آیا ہے کہ وہ زمین کے تمام باشندوں سے زیادہ ترحلیم او ر امین ہے مخالفوں نے اُن پر یہ اعتراض کئے ہیں کہ گویا وہ نعوذباﷲ نہایت درجہ کا سخت دل اورخونی انسان تھا…………ایسا ہی حضرت مسیح پر بھی اُن کے دشمنوں نے اعتراض کیا ہے کہ وہ تقویٰ کے پابند نہ تھے…………ایسا ہی عیسائیوں نے ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی عفت اور تقویٰ اور امانت پر اعتراض کئے ہیں…………اور ایسا ہی روافض نے حضرت ابوبکر او ر حضرت عمر رضی اﷲ عنہما کی عفت اور امانت اور دیانت اور عدالت پر انواع اقسام کے عیب لگائے ہیں…………اور ایسا ہی خوارج حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو فاسق قرار دیتے ہیں اور بہت سے امور خلاف تقویٰ اُن کی طرف منسوب کرتے ہیں بلکہ حلیۂ ایمان سے بھی اُن کو عاری سمجھتے ہیں تو اِس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جبکہ صدیق کے لئے تقویٰ اور امانت اور دیانت شرط ہے تو…………کیوں خدا تعالیٰ نے اُن کے حالات کو عوام کی نظر میں مشتبہ کردیا…………حالانکہ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ نہ رسول ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور نہ نبی ہونے کا۔ اور نہ اپنے تئیں ولی اور امام اور خلیفۃ المسلمین کہلاتے ہیں لیکن باایں ہمہ کوئی اعتراض اُن کے چال چلن اور زندگی پر نہیں ہوتا تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسا کیا کہ تا اپنے خاص مقبولوں اور محبوبوں کو بدبخت شتاب کاروں سے جن کی عادت بدگمانی ہے مخفی رکھے جیسا کہ خود وجود اس کا اِس قسم کی بدظنّی کرنے والوں سے مخفی ہے………… وہ قصہ جو قرآن شریف میں حضرت آدم صفی اﷲ کی نسبت مذکور ہے…………اپنے اندر یہ پیشگوئی مخفی رکھتا ہے کہ اہلِ کمال کی ہمیشہ نکتہ چینی ہوا کرے گی۔ خدا تعالیٰ نے اِسی غرض سے خضر کا قصہ بھی قرآن شریف میں لکھا ہے تا لوگوں کو معلوم ہو کہ ایک شخص ناحق خون کرکے او ر یتیموں کے مال کو عمداً نقصان پہنچاکر پھر خدا تعالیٰ کے نزدیک بزرگ اور برگزیدہ ہے۔ ہاں اس سوال کا جواب دینا باقی رہا کہ اس طرح پر امان اُٹھ جاتا ہے اور شریر انسانوں کے لئے ایک بہانہ ہاتھ آجاتا ہے………… اِس اشکال کا جواب یہی ہے کہ ایسے اعتراضات صرف بدظنّی سے پیدا ہوتے ہیں اگر کوئی حق کا طالب اور متقی طبع ہے تو اُس کے لئے مناسب طریق یہ ہے کہ ان کاموں پر اپنی رائے ظاہر نہ کرے جو متشابہات میں سے اور بطور شاذ و نادر ہیں کیونکہ شاذ نادر میں کئی وجوہ پیدا ہوسکتے ہیں………… اور نہیں جانتے کہ یہ متشابہات کا پہلو جو شاذ نادر کے طور پر پاک لوگوں کے وجود میں پایا جاتاہے یہ شریر انسانوں کے امتحان کے لئے رکھا گیا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو اپنے پاک بندوں کا طریق اور عمل ہر ایک پہلو سے ایسا صاف او رروشن دِکھلاتا کہ شریر انسان کو اعتراض کی گنجائش نہ ہوتی مگر خدا تعالیٰ نے ایسا نہ کیا تا وہ خبیث طبع انسانوں کا خبث ظاہر کرے۔ نبیوں او ر رسولوں اور اولیاء کے کارناموں میں ہزارہا نمونے ان کی تقویٰ اور طہارت او ر امانت اور دیانت اور صدق او رپاسِ عہد کے ہوتے ہیں اور خود خدا تعالیٰ کی تائیدات اُن کی پاک باطنی کی گواہ ہوتی ہیں۔ لیکن شریر انسان ان نمونوں کو نہیں دیکھتا اور بدی کی تلاش میں رہتا ہے آخر…………ہلاکت کی راہ اختیار کرکے جہنم میں جاتا ہے۔ ‘‘

(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۴۲۰ تا ۴۲۵ بقیہ حاشیہ)

ھ۔’’ اس اندھی دنیا میں جس قدر خدا کے ماموروں اور نبیوں اور رسولوں کی نسبت نکتہ چینیاں ہوتی ہیں اور جس قدر اُن کی شان اور اعمال کی نسبت اعتراض ہوتے ہیں اور بدگمانیاں ہوتی ہیں…………وہ دنیا میں کسی کی نسبت نہیں ہوتیں اور خدا نے ایسا ہی ارادہ کیا ہے تا اُن کو بدبخت لوگوں کی نظر سے مخفی رکھے اور وہ ان کی نظر میں جائے اعتراض ٹھہر جائیں کیونکہ وہ ایک دولت عظمیٰ ہیں اوردولت عظمیٰ کو نااہلوں سے پوشیدہ رکھنا بہتر ہے۔ اِسی وجہ سے خدائے تعالیٰ اُن کو جو شقی ازلی ہیں اُس برگزیدہ گروہ کی نسبت طرح طرح کے شبہات میں ڈال دیتا ہے تا وہ دولتِ قبول سے محروم رہ جائیں۔ یہ سنت اﷲ ان لوگوں کی نسبت ہے جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے امام اور رسول اور نبی ہوکر آتے ہیں…………پس چونکہ تما م تہمتوں کا معقولی طورپر جواب دینا ایک نظری امر تھااور نظری امور کا فیصلہ مشکل ہوتاہے اور تاریک طبع لوگ اُس سے تسلی نہیں پکڑتے۔ اس لئے خدائے تعالیٰ نے نظری راہ کو اختیار نہیں کیا اور نشانوں کی راہ اختیار کی اور اپنے نبیوں کی بریّت کے لئے اپنے تائیدی نشانوں اور عظیم الشان نصرتوں کو کافی سمجھا۔ کیونکہ ہر ایک غبی اور پلید بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اگر وہ نعوذ باﷲ ایسے ہی نفسانی آدمی اور مفتری اور ناپاک طبع ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ اُن کی نصرت کے لئے ایسے بڑے بڑے نشان دکھلائے جاتے ۔‘‘ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۸۹، ۹۰)

و۔حضرت موسیٰ پر بھی زنا کی تہمت لگی تھی۔

(ماخوذ از تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۳۵۰ حاشیہ)

’’حضرت موسی پر الزام لگانے والے بنی اسرائیل ہی تھے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۱۹۶)

کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے

ز۔’’ مَیں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ظاہری بیعت کرنے والے بہت ایسے ہیں کہ نیک ظنی کا مادہ بھی ہنوز اُن میں کامل نہیں اور ایک کمزور بچہ کی طرح ہر ایک ابتلا کے وقت ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اور بعض بدقسمت ایسے ہیں کہ شریر لوگوں کی باتوں سے جلد متاثر ہوجاتے ہیں اور بدگمانی کی طرف ایسے دوڑتے ہیں جیسے کتامُردار کی طرف ۔ پس میں کیونکر کہوں کہ وہ حقیقی طور پر بیعت میں داخل ہیں مجھے وقتاً فوقتاً ایسے آدمیوں کا علم بھی دیا جاتا ہے مگر اذن نہیں دیا جاتا کہ ان کو مطلع کروں۔ کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے۔ پس مقام خوف ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۱۱۴)

ح:۔ مولوی محمد علی صاحب کو رؤیا میں کہا:۔

’’آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے۔ آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ۔‘‘

(بدر جلد۳ نمبر ۲۹ یکم اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۴ ، تذکرہصفحہ ۴۳۵ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

ط۔’’ آپ کے ساتھ انگریزوں کا نرمی کے ساتھ ہاتھ تھا۔ اسی طرف خدا تعالیٰ تھا جو آپ تھے۔ آسمان پر دیکھنے والوں کو ایک رائی برابر غم نہیں ہوتا۔‘‘ (اربعین نمبر۳۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۴۲۸)

مخالفین سے خطاب اور اپنے دعویٰ پر استقامت

ا۔’’ٹھٹھا کرو جس قدر چاہو گالیاں دو جس قدر چاہو اور ایذا اور تکلیف دہی کے منصوبے سوچو جس قدر چاہو اور میرے استیصال کے لئے ہر ایک قسم کی تدبیریں اور مکر سوچو جس قدر چاہو۔ پھر یاد رکھو کہ عنقریب خدا تمہیں دکھلا دے گا کہ اس کا ہاتھ غالب ہے۔ ‘‘ (تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۵۳)

ب۔’’ دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے۔ اور سراسر بد قسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں۔ میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے ………… اے لوگو! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا۔ اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دُعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دُعا نہیں سُنے گا اور نہیں رُکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرلے…………پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو کاذبوں کے اور مُنہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور۔ خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا…………جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اِسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا۔ خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم۔ پس یقینا سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا۔ خدا سے مت لڑو! یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۴۹،۵۰)

ج۔ ’’مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں۔ مَیں وہ پودا نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اکھڑ سکوں۔ اگر ان کے پہلے اور ان کے پچھلے اور ان کے زندے اور ان کے مُردے تمام جمع ہو جائیں اور میرے مارنے کے لئے دعائیں کریں تو میرا خدا ان تمام دعاؤں کو *** کی شکل پر بنا کر اُن کے منہ پر مارے گا۔ دیکھو صدہا دانشمند آدمی آپ لوگوں کی جماعت میں سے نکل کر ہماری جماعت میں ملتے جاتے ہیں۔ آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں۔ اب اس آسمانی کارروائی کو کیا انسان روک سکتا ہے؟ بھلا اگر کچھ طاقت ہے تو روکو۔ وہ تمام مکرو فریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیں وہ سب کرو اور کوئی تدبیر اٹھا نہ رکھو۔ ناخنوں تک زور لگاؤ۔ اتنی بد دعائیں کرو کہ موت تک پہنچ جاؤ پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو؟ خدا کے آسمانی نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں مگر بد قسمت انسان دُور سے اعتراض کرتے ہیں۔ جن دلوں پر مہریں ہیں ان کاہم کیا علاج کریں۔ اے خدا! تو اس اُمت پر رحم کر۔ آمین۔‘‘ (اربعین نمبر۴۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۴۷۳)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
د۔’’اگرچہ ایک فرد بھی ساتھ نہ رہے اور سب چھوڑ چھاڑ کر اپنا اپنا راہ لیں تب بھی مجھے کچھ خوف نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ خداتعالیٰ میرے ساتھ ہے اگر میں پیسا جاؤں اور کچلا جاؤں اور ایک ذرّے سے بھی حقیر تر ہو جاؤں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور *** دیکھوں تب بھی میں آخر فتح یاب ہوں گا مجھ کو کوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے میں ہرگز ضائع نہیں ہوسکتا دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لاحاصل ہیں۔

اے نادانو اور اندھو مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاؤں گا۔ کس سچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا۔ یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ ہیچ ہیں۔ میں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا۔ میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا کبھی نہیں چھوڑے گا کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا کبھی نہیں ضائع کرے گا ۔دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا۔ میں اس کے ساتھ وہ میرے ساتھ ہے کوئی چیز ہمارا پیوند توڑ نہیں سکتی اور مجھے اس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اس کے دین کی عظمت ظاہر ہو اس کا جلال چمکے اور اس کا بول بالا ہو۔ کسی ابتلا سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگرچہ ایک ابتلا نہیں کروڑ ابتلا ہو۔ ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے ؂

من نہ آنستم کہ روز جنگ بینی پشت من آں منم کاندرمیان خاک و خوں بینی سرے

پس اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو مجھ سے الگ ہو جائے مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پرخار باد یہ درپیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہوسکتے نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب وشتم سے نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے اور جو میرے نہیں وہ عبث دوستی کا دم مارتے ہیں کیونکہ وہ عنقریب الگ کئے جائیں گے اور ان کا پچھلا حال ان کے پہلے سے بدتر ہوگا۔ کیا ہم زلزلوں سے ڈر سکتے ہیں۔ کیا ہم خداتعالیٰ کی راہ میں ابتلاؤں سے خوفناک ہو جائیں گے۔ کیا ہم اپنے پیارے خدا کی کسی آزمائش سے جدا ہوسکتے ہیں ہرگز نہیں ہوسکتے مگر محض اس کے فضل اور رحمت سے۔ پس جو جدا ہونے والے ہیں جدا ہو جائیں ان کو وداع کا سلام۔ ‘‘

(انوارالاسلام۔روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ۲۳،۲۴)

ہ۔’’ ہائے! یہ قوم نہیں سوچتی کہ اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں تھا تو کیوں عین صدی کے سر پر اس کی بنیاد ڈالی گئی اور پھر کوئی بتلا نہ سکا کہ تم جھوٹے ہو اور سچا فلاں آدمی ہے۔‘‘

(اربعین نمبر۴۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۴۶۹)

و۔’’مجھے اُس خدائے کریم وعزیز کی قسم ہے جو جھوٹ کا دشمن اور مفتری کا نیست و نابود کرنے والا ہے کہ میں اُس کی طرف سے ہوں اور اس کے بھیجنے سے عین وقت پر آیا ہوں اور اس کے حکم سے کھڑا ہوا ہوں اور وہ میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا اور نہ میری جماعت کو تباہی میں ڈالے گا جب تک وہ اپنا تمام کام پورا نہ کر لے جس کا اُس نے ارادہ فرمایا ہے۔‘‘

(اربعین نمبر۴۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۳۴۸)

’’ یہ سِلسلہ آسمان سے قائم ہوا ہے۔ تم خدا سے مت لڑو۔ تم اس کو نابود نہیں کر سکتے۔ اس کا ہمیشہ بول بالا ہے………… اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور اس سِلسلہ کو بے قدری سے نہ دیکھو جو خدا کی طرف سے تمہاری اصلاح کیلئے پیدا ہوا۔ اور یقینا سمجھو کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور کوئی پوشیدہ ہاتھ اس کے ساتھ نہ ہوتا تو یہ سلسلہ کب کا تباہ ہو جاتا اور ایسا مفتری ایسی جلدی ہلاک ہو جاتا کہ اب اُس کی ہڈیوں کا بھی پتہ نہ ملتا۔ سو اپنی مخالفت کے کاروبار میں نظر ثانی کرو۔ کم سے کم یہ تو سوچو کہ شائد غلطی ہو گئی ہو اور شائد یہ لڑائی تمہاری خدا سے ہو۔ ‘‘ (اربعین نمبر۴۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۴۵۶)

’’اگریہ علماء موجود نہ ہوتے تو اب تک تمام باشندے اس ملک کے جو مسلمان کہلاتے ہیں مجھے قبول کر لیتے۔ پس تمام منکروں کا گناہ ان لوگوں کی گردن پر ہے۔ یہ لوگ راستبازی کے محل میں نہ آپ داخل ہوتے ہیں نہ کم فہم لوگوں کو داخل ہونے دیتے ہیں۔ کیا کیا مکر ہیں جو کررہے ہیں اور کیا کیا منصوبے ہیں جو اندر ہی اندر اُن کے گھروں میں ہورہے ہیں۔ مگر کیا وہ خدا پر غالب آجائیں گے اور کیا وہ اُس قادر مطلق کے ارادہ کو روک دیں گے جو تمام نبیوں کی زبانی ظاہر کیا گیا ہے۔ وہ اس ملک کے شریر امیروں اور بدقسمت دولتمند دنیا داروں پر بھروسا رکھتے ہیں مگر خدا کی نظر میں وہ کیا ہیں۔ صرف ایک مرے ہوئے کیڑے۔ ‘‘ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۶۶)

’’مجھے ایسی حالت سے ہزار دفعہ مرنا بہتر ہے کہ وہ جو اپنے حسن و جمال کے ساتھ میرے پر ظاہر ہواہے میں اس سے برگشتہ ہو جاؤں۔ یہ دنیا کی زندگی کب تک اور یہ دنیا کے لوگ مجھ سے کیا وفاداری کریں گے تا میں ان کے لئے اُس یارِ عزیز کو چھوڑ دوں…………مجھے ڈراتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں۔ لیکن مجھے اُسی عزیز کی قسم ہے جس کو مَیں نے شناخت کر لیا ہے کہ مَیں ان لوگوں کی دھمکیوں کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتا۔ مجھے اس کے ساتھ غم بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ دوسرے کے ساتھ خوشی ہو مجھے اس کے ساتھ موت بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ اُس کو چھوڑ کر لمبی عمر ہو۔ جس طرح آپ لوگ دن کو دیکھ کر اُس کو رات نہیں کہہ سکتے۔ اِسی طرح وہ نور جو مجھ کو دکھایا گیا میں اس کو تاریکی نہیں خیال کر سکتا۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۲۹۷)

’’مخالف چاہتے ہیں کہ میں نابود ہو جاؤں اور ان کا کوئی ایسا داؤ چل جائے کہ میرا نام ونشان نہ رہے مگر وہ ان خواہشوں میں نامراد رہیں گے اور نامرادی سے مریں گے اور بہتیرے اُن میں سے ہمارے دیکھتے دیکھتے مر گئے اور قبروں میں حسرتیں لے گئے مگر خدا تمام میری مرادیں پوری کرے گا۔ یہ نادان نہیں جانتے کہ جب میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے اس جنگ میں مشغول ہوں تو میں کیوں ضائع ہونے لگا اور کون ہے جو مجھے نقصان پہنچا سکے۔ ‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۳۰۵)
 
Top