• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر اعتراضات

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر اعتراضات

۱۔ ابن مریم ؑ کیسے ہوئے


اعتراض:۔مرزا صاحب ’’ابن مریم‘‘کس طرح ہوگئے آپ کی والدہ کا نام تو چراغ بی بی تھا۔



جواب:۔(۱) اِطْلَاقُ اِسْمِ الشَّیْءِ عَلٰی مَایُشَابِھُہٗ فِیْ اَکْثَرِخَوَاصِہٖ جَائِزٌ حَسَنٌ ۔ (تفسیر کبیر جلد ۲صفحہ۶۸۹) کہ ایک چیز کا نام دوسری چیز کو (جو اکثر خواص میں اس سے ملتی ہو) دینا جائز ہے۔

(۲)اسم عَلَم بھی بطور مجاز دوسرے کے لئے بولا جاتا ہے۔ چنانچہ بلاغت کی کتاب تلخیص المفتاح صفحہ ۵۹،۶۰ میں لکھا ہے ’’وَلَا تَکُوْنُ عَلَمًا……اِلَّا اِذَا تُضَمَّنَ نُوْعٌ وَّصَفِیَّۃٌ کَحَاتَمٍ۔ ‘‘ کہ عَلَم استعارہ استعمال نہیں ہوتا ہاں جب کوئی صفت پائی جائے تب اسم علم بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ جیسے حاتم ہے۔ (تلخیص المفتاح از محمد عبدالرحمن قزوینی صفحہ ۵۹،۶۰ مطبع مجتبائی دہلی)

(۳)آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَّنْظُرَ اِلٰی عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ فِیْ زُھْدِہٖ فَلْیَنْظُرْ اِلٰی اَبِی الدَّرْدَاءِ ‘‘ (منصب امامت صفحہ ۵۳ مصنفہ سید اسمٰعیل شہید ؒ)

کہ تم میں سے جو شخص عیسیٰ بن مریم کو زہد کی حالت میں دیکھنا چاہے وہ حضرت ابو درداء کو دیکھے۔

(۴)آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو’’یوسف والیاں‘‘ قرار دیا ہے چنانچہ بخاری شریف میں ہے اِنَّ کُنَّ لَاَنْتُنَّ صَوَاحِبُ یُوْسُفَ۔

(بخاری کتاب الصلوٰۃ باب اھل العلم والفضلاء احق بالامامۃ)

اس کا ترجمہ تجرید بخاری مترجم اردو سے نقل کیا جاتا ہے۔ ’’چنانچہ حفصہ ؓ نے عرض کی تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ٹھہرو بیشک یقینا تم لوگ یوسف کی ہم نشین عورتیں ہو۔‘‘

(تجرید جلد ۱ صفحہ۹۷)

نوٹ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ’’صَوَاحِبُ‘‘جمع ہے’’صَاحِبَۃٌ‘‘ کی۔ جس کے معنی ہیں ’’بیوی‘‘جیسا کہ قرآن مجید میں ہے’’‘‘(الانعام:۱۰۲) کہ خدا کا بیٹا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اس کی بیوی کوئی نہیں ہے۔ پس حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کااپنی ازواج مطہرات کو صَوَاحِبُ یُوْسُفَ قرار دینے کے کیا معنی ہوئے۔

(۵)حضرت خواجہ میر درد دہلوی فرماتے ہیں:۔

اﷲ ! اﷲ ! بہر انسان بقدرتِ کاملہ حق تعالیٰ عیسیٰ ؑ وقتِ خویش است و ہر دم او را برائے خود معاملہ نفسِ عیسوی در پیش است۔ (رسالہ دردؔ مطبع شاہجہانی بھو پال صفحہ ۲۱)

(۶)شیخ معین الدین اجمیری ؒ فرماتے ہیں ؂

د مبدم روح القدس اندر معینے میدمد

من نمے گوئیم مگر من عیسٰی ؑ ثانی شدم

(دیوان خواجہ معین الدین چشتی ؒ صفحہ ۱۶ بحوالہ عسل مصفّٰی جلد ۱ صفحہ ۶۲۳)

(۷)ابن مریم ہونے کے متعلق تفصیلی بحث الہامات پر اعتراضات کے جواب زیر عنوان ’’ابن مریم بننے کی حقیقت‘‘ پاکٹ بک ہذا صفحہ ۶۴۰ تا ۶۴۴ پر ملاحظہ ہو۔

کسر صلیب

مسیح موعودؑنے تو آکر کسر صلیب کرنی تھی ؟

جواب۔الف۔علامہ بدر الدین رحمۃ اﷲ علیہ شارح صحیح بخاری نے لکھا ہے۔ ’’فُتِحَ لِیْ ھُنَا مَعْنٰی مِنَ الْفَیْضِ الْاِلٰھِیِّ وَھُوَ اَنَّ الْمُرَادَ مِنْ کَسْرِ الصَّلِیْبِ اِظْھَارُکَذِبِ النَّصَارٰی‘‘(عینی شرح بخاری جلد ۵ صفحہ ۵۸۴ مصری )کہ مجھ کو اس مقام پر فیضِ الٰہی سے الہاماً یہ بتایا گیا ہے کہ کسر صلیب سے مراد عیسائیت کو جھوٹا ثابت کرنا ہے۔

(ب)حضرت حافظ ابن حجرالعسقلانی لکھتے ہیں:۔

’’اَیْ یُبْطِلُ دِیْنَ النَّصْرَانِیَّۃِ ‘‘ (فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد ۶ صفحہ ۳۵)

یعنی کسر صلیب کا مطلب دین عیسائیت کا ابطال ہے ۔

ج۔ حضرت ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی کسر صلیب کے یہی معنی کئے ہیں لکھتے ہیں:۔ ’’اَیْ فَیُبْطِلُ النَّصْرَانِیَّۃَ ‘‘(مرقاۃ المفاتیح کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ ؑ)یعنی مسیح موعود نصرانیت کو جھوٹا ثابت کرے گا۔

د۔ علامہ نووی نے بھی یہی معنی کئے ہیں۔

(دیکھو نووی شرح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ بن مریم )

ھ۔ ’’یُرِیْدُ اَبْطَالًا لِشَرِیْعَۃِ النَّصَارٰی۔ ‘‘ (مجمع بحار الانوار جلد ۲ صفحہ ۷ ۲۵ از شیخ محمد ظاہر مطبع نول کشور)کہ کسر صلیب کا مطلب عیسائیت کا ابطال ہے۔

و۔ باقی رہا یہ کہنا کہ حضرت مرازصاحب نے اپنے زمانہ ہی میں عیسائیت کو نیست و نابو د کیوں نہیں کردیا ؟ تو سنو!

جواب:۔ (۱)قرآن مجید میں ہے ’’‘‘(بنی اسرائیل : ۸۲) کہ حق (قرآن ) آیا اور باطل (کفر) بھاگ گیا اور باطل بھاگنے ہی والا ہے۔ اب قرآن مجید کے آنے سے جس طرح دنیا سے باطل بھاگ گیا ہو ا ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودؑکے آنے سے عیسائیت بھی تباہ ہو چکی ہے۔

(۲)اصل بات وہی ہے جو اﷲ تعالیٰ نے قرآ ن مجید میں بیان فرمائی ہے۔ (الانفال : ۴۳)کہ ہلاک وہ ہوا جو دلائل سے مغلوب ہوا۔

(۳)حدیث میں بھی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یَمْحُواللّٰہُ بِیَ الْکُفْرَ۔ ‘‘ (بخاری کتاب المناقب باب ما جاء فی اسماء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بحوالہ مشکوٰۃ کتاب الرؤیا باب أسماء النبیؐ اصح المطابع ) کہ میں ماحی ہوں یعنی اﷲ تعالیٰ میرے ذریعہ کفر کو دنیا سے مٹا دے گا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث ہوئے ۱۳۷۲ برس گزر گئے کیا ظاہری طور پر کفر دنیا سے مٹ گیا ؟پھر اس جگہ اتنے بیتاب ہونے کا کیا باعث ہے۔

۴۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غلبۂ اسلام کا ہونا اپنے زمانہ میں قرار دیا ہے اور’’زمانہ‘‘ کے متعلق حضرت فرماتے ہیں:۔

ا ۔ ’’ مسیح موعود کا زمانہ اس حد تک ہے جس حد تک اس کے دیکھنے والے یا دیکھنے والوں کے دیکھنے والے اور یا پھر دیکھنے والوں کے دیکھنے والے دنیا میں پائے جائیں گے اور اس کی تعلیم پر قائم ہوں گے۔ غرض قرون ثلاثہ کا ہونا برعایت منہاج نبوت ضروری ہے۔‘‘

(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۴۷۸ حاشیہ)

ب۔’’یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا۔ ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسیٰ ؑبن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا۔ اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسیٰ ؑبن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گی۔ تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا۔ اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسٰیؑ اب تک آسمان سے نہ اُترا۔ تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے۔ اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ مَیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے۔‘‘

(تذکرۃ الشہادتین۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۶۷)

ج۔ ’’خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی اُنہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اُس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا ۔‘‘ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ ۳۰۴)

د۔’’پوری ترقی دین کی کسی نبی کی حین حیات میں نہیں ہوئی بلکہ انبیاء کا یہ کام تھا کہ انہوں نے ترقی کا کسی قدر نمونہ دکھلا دیا اور پھر بعد اُن کے ترقیاں ظہور میں آئیں……سو مَیں خیال کرتا ہوں کہ میری نسبت بھی ایسا ہی ہو گا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۳۶۵)

ھ۔’’ مسیح موعود صرف اس جنگِ روحانی کی تحریک کے لئے آیا۔ ضرور نہیں کہ اُس کے روبرو ہی اس کی تکمیل بھی ہو۔ بلکہ یہ تخم جو زمین میں بویا گیا آہستہ آہستہ نشوونما پائے گا یہاں تک کہ خدا کے پاک وعدوں کے موافق ایک دن یہ ایک بڑا درخت ہو جائے گا۔ اور تمام سچائی کے بھوکے اور پیاسے اس کے سایہ کے نیچے آرام کریں گے۔ دلوں سے باطل کی محبت اُٹھ جائے گی گویا باطل مر جائے گا اور ہر ایک سینہ میں سچائی کی روح پیدا ہو گی اس روز وہ سب نوشتے پورے ہو جائیں گے جن میں لکھا ہے کہ زمین سمندر کی طرح سچائی سے بھر جائے گی۔مگر یہ سب کچھ جیسا کہ سنّت اﷲ ہے تدریجاً ہو گا۔ اس تدریجی ترقی کے لئے مسیح موعود کا زندہ ہونا ضروری نہیں بلکہ خدا کا زندہ ہونا کافی ہو گا۔ یہی خدا تعالیٰ کی قدیم سنّت ہے اور الٰہی سنتوں میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ پس ایسا آدمی سخت جاہل ہو گا کہ جو مسیح موعود کی وفات کے وقت اعتراض کرے کہ وہ کیا کر گیا۔ کیونکہ اگرچہ یکدفعہ نہیں مگر انجام کار وہ تمام بیج جو مسیح موعود نے بویا تدریجی طور پر بڑھنا شروع کرے گا اور دلوں کو اپنی طرف کھینچے گا یہاں تک کہ ایک دائرہ کی طرح دنیا میں پھیل جائے گا۔ ‘‘ (ایام الصلح۔روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۲۹۵)[/div2]
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن

اعتراض۔ مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے کسر صلیب کیسے کی اور جماعت احمدیہ نے اسلام کی کیا خدمت ہے ؟



جماعت احمدیہ کی خدمات کا اقرار

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو عظیم الشان خدمتِ اسلام کرنے والی جماعت اپنے پیچھے چھوڑی۔ یہی ’’کسر صلیب‘‘کا مفہوم ہے۔ جماعت احمدیہ کو ایسے صحیح عقائد دیئے، خصوصاً مسئلہ وفاتِ مسیح۔ اور پھر دلائل کا وہ بے بہا خزانہ دیا کہ عیسائی مناظرین کی جرأت نہیں کہ احمدی مناظرین کے بالمقابل میدان میں کھڑے ہو سکیں۔ پھر لنڈن میں مسجد بنانا اور اس کے مینار سے مرکز کفر و شرک میں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِکا نعرہ بلند کرنا یہ بھی جماعت احمدیہ ہی کے حصہ میں آیا۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ۔

ذیل میں چند اقتباسات مخالفین سلسلہ کی تحریرات سے درج کئے جاتے ہیں جن میں انہوں نے جماعت احمدیہ کی خدمات اسلامی کا خصوصاً معرکہ شدھی کے متعلق خدمات کا اقرار کیا ہے۔

۱۔ مولوی ظفرعلی آف زمیندا ر لکھتے ہیں:۔

’’مسلمانانِ جماعت احمدیہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں جو ایثار۔ کمر بستگی۔ نیک نیتی اورتوکل علی اﷲ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے۔ وہ اگر ہندو ستان کے موجود ہ زمانہ میں بے مثال نہیں تو بے انداز عزت اورقدر دانی کے قابل ضرور ہے۔ جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں اس اولو العزم جماعت نے عظیم الشان خدمت اسلام کر کے دکھا دی۔‘‘

(زمیندا ر ۲۴ جون ۱۹۲۳ء )

۲۔ مولانا محمد علی صاحب جوہر برادر مولا نا شوکت علی صاحب مرحوم لکھتے ہیں:۔

’’نا شکر گزاری ہوگی اگر جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں۔ یہ حضرات اس وقت اگرا یک جانب مسلمانوں کی سیا سیا ت میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف تبلیغ اورمسلمانوں کی تنظیم اورتجارت میں بھی انتہائی جد و جہد سے منہمک ہیں۔ اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقہ کا طرز عمل سواد اعظم اسلا م کے لئے بالعموم اور ان اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اﷲ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمت اسلام کے بلند بانگ و در باطن ہیچ دعاوی کے خوگر ہیں مشعل راہ ثابت ہوگا۔‘‘ (اخبار ہمدرد دہلی ۲۶ ستمبر ۱۹۲۷ء)

۳۔ ’’احمدی بھائیوں نے جس خلوص۔ جس ایثار۔ جس خوشی اور جس ہمدردی سے اس کام میں حصہ لیا ہے وہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس پر فخر کرے۔‘‘ (زمیندار ۱۸ اپریل ۱۹۲۳ء)

۴۔ جماعت احمدیہ نے خصوصیت کے ساتھ آریہ خیالات پر بہت بڑی ضرب لگائی ہے اور جماعت احمدیہ جس ایثار اور درد سے تبلیغ اور اشاعت اسلام کی کو شش کرتی ہے وہ اس زمانہ میں دوسری جماعتوں میں نظر نہیں آتی۔‘‘ (اخبار مشرق ۲۵ مارچ ۱۹۲۳ء)

۵۔ ’’اس وقت ہندوستان میں جتنے فرقے مسلمانوں میں ہیں سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا ہندوؤں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہو رہے ہیں صرف ایک احمدی جماعت ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جماعت سے مرعوب نہیں ہے اور خالص اسلامی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔‘‘ (اخبار مشرق گورکھ پور ۱۲ستمبر ۱۹۲۷ء)

۶۔’’گھر بیٹھ کر احمدیوں کو برا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے ، لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان اور امریکہ یورپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں۔ کیا ندوۃ العلماء و دیوبند فرنگی محل اور دوسرے علمی اور دینی مرکزوں سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ بھی تبلیغ و اشاعت حق کی سعادت میں حصہ لیں۔ کیا ہندوستان میں ایسے متمول مسلمان نہیں ہیں جو چاہیں تو بلا دقت ایک ایک مشن کا خرچ اس طرح سے دے سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہے ، لیکن افسوس کہ عزیمت کا فقدان ہے۔ فضول جھگڑوں میں وقت ضائع کرنا اور ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنا آج کے مسلمانوں کا شعار ہو چکاہے۔‘‘ (زمیندار ۱۷ دسمبر ۱۹۲۷ء)

۷۔ جناب مولانا عبدالحلیم صاحب شررؔ فرماتے ہیں:۔

’’احمدی مسلک شریعت محمدیہ کو اسی قوت او ر شان سے قائم رکھ کر اس کی مزید تبلیغ و اشاعت کرتا ہے ۔ خلاصہ یہ کہ بابیت اسلام کے مٹانے کو آئی ہے اور احمدیت اسلام کو قوت دینے کے لئے۔ اور اسی کی برکت ہے کہ باوجود چند اختلافات کے احمدی فرقہ اسلام کی سچی اور پر جوش خدمت ادا کر تے ہیں جو دوسرے مسلمان نہیں کرتے۔‘‘ (رسالہ د لگداز بابت ماہ جون ۱۹۰۶ء)


۳۔ جماعت احمدیہ کے اخلاق پر الزام

اعتراض۔ بعض لوگ شہادۃ القرآن کے حوالہ سے کہا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح مو عود علیہ السلام نے اپنی جماعت کی بہت مذمت کی ہے۔ پس آپ کے آنے کا اثر کیا ہو ا؟



جواب۔ شہادۃ القرآن حضرت اقدس کے ابتدائے دعویٰ کی تصنیف ہے جب کہ ابھی سلسلۂ بیعت شروع ہوئے دو تین سال کا عرصہ ہو ا تھا۔ پس ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو غیر احمدیت کی حالت سے نکل کر اس سلسلہ میں داخل ہوئے تھے ان کی وہ پرانی بیماری یک دم تو دور نہ ہو سکتی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تربیت کے عظیم الشان اثر کا اندازہ ابتدائی سالوں میں کرنا نادانی ہے۔ لازم ہے کہ حضرت کی وفات کے قریب احمدیوں کی اخلاقی حالت کامقابلہ ان کی ابتدائے دعویٰ مسیح موعود کی اخلاقی حالت کے ساتھ کیا جائے تو اس میں زمین آسمان کا فرق نکلے گا۔

بیشک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابتدائے دعویٰ میں بعض مریدین کی بد اخلاقی کا ذکر فرماکر ان کواصلاح کی طرف توجہ دلائی جس طرح ایک شفیق اور محسن باپ اپنے بیٹوں کی خطا کاریوں پر ان کو سرزنش بھی کرتا ہے۔ لیکن کیا اس کے بعد ان لوگوں نے اپنی اصلاح نہیں کر لی تھی؟ اور کیا حضرت نے بعد میں اپنی جماعت کی حیرت انگیز اخلاقی و روحانی ترقی کا ذکر نہیں فرمایا؟’’‘‘ (البقرۃ:۸۶)لو سنو!

۱۔ ’’ افسوس کہ ہماری جماعت کی ایمانداری اور اخلاص پر اعتراض کرنے والے دیانت اور راستبازی سے کام نہیں لیتے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۷۲)

۲۔پھر اپنی جماعت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:۔

’’ اکثران میں صالح اور نیک بخت ہیں۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۷۲)

۳۔’’میرے لئے یہ عمل کافی ہے کہ ہزارہا آدمیوں نے میرے ہاتھ پر اپنے طرح طرح کے گناہوں سے توبہ کی ہے اور ہزار ہا لوگوں میں بعد بیعت میں نے ایسی تبدیلی پائی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ کسی کو صاف نہ کرے ہر گز ایسا صاف نہیں ہو سکتا اور میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرے ہزار ہا صادق اور وفادار مرید بیعت کے بعد ایسی پاک تبدیلی حاصل کر چکے ہیں کہ ایک ایک فرد اُن میں بجائے ایک ایک نشان کے ہے ۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۴۹)

۴۔’’ہزار ہا انسان خدا نے ایسے پیدا کئے کہ جن کے دلوں میں اُس نے میری محبت بھر دی بعض نے میرے لئے جان دے دی اور بعض نے اپنی مالی تباہی میرے لئے منظور کی اور بعض میرے لئے اپنے وطنوں سے نکالے گئے اور دُکھ دیئے گئے اور ستائے گئے اور ہزارہا ایسے ہیں کہ وہ اپنے نفس کی حاجات پر مجھے مقدم رکھ کر اپنے عزیز مال میرے آگے رکھتے ہیں۔اور میں دیکھتا ہوں کہ اُن کے دل محبت سے پُر ہیں اور بہتیرے ایسے ہیں کہ اگر میں کہوں کہ وہ اپنے مالوں سے بکلی دست بردار ہو جائیں یا اپنی جانوں کو میرے لئے فدا کریں تو وہ تیار ہیں۔ جب میں اس درجہ کا صدق اور ارادت اکثر افراد اپنی جماعت میں پاتا ہوں تو بے اختیار مجھے کہنا پڑتا ہے کہ اے میرے قادر خدا !درحقیقت ذرّہ ذرّہ پر تیرا تصرف ہے تو نے ان دلوں کو ایسے پر آشوب زمانہ میں میری طرف کھینچا اور اُن کو استقامت بخشی یہ تیری قدرت کا نشان عظیم الشان ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۳۹،۲۴۰)

۵۔’’میں حلفاًکہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں۔ اور باتیں سننے کے وقت ایسے روتے ہیں کہ ان کے گر یبان تر ہو جاتے ہیں۔ میں اپنے ہزار ہا بیعت کنند گان میں اسقدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیرو ان سے جوان کی زندگی میں ان پرایمان لائے تھے، ہزار ہا درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں۔ اور ان کے چہروں پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں۔ شاذو نادر کے طور پر اگر کوئی اپنے فطرتی نقص کی وجہ سے صلاحیت میں کم رہا ہو تو وہ شاذو نادر میں داخل ہے۔ میں دیکھتا ہوں میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے……پھر بھی میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کے لئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سناتا، مگر دل میں خوش ہوں۔‘‘

(الذکر الحکیم نمبر ۱۔ صفحہ ۱۶، صفحہ۱۷۔ و سیرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ۱۴۶،۱۴۷مصنفہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے)

۶۔’’میں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے………… میں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں۔ ناپاک دل کے لوگ ان کو کافر کہتے ہیں۔ اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں۔‘‘

(انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۳۱۵ بقیہ حاشیہ)

۷۔ ’’میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے۔ میں د یکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لئے میں ان کو بلاتا ہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتا ہے۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جا تا ہے۔ میری طرف سے کسی امر کا اشارہ ہوتا ہے اور وہ تعمیل کے لئے تیار۔ حقیقت میں کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہو سکتی جب تک اس میں اپنے امام کی اطاعت اور اتباع کے واسطے اس قسم کا جوش او ر اخلاص اور وفاکا مادہ نہ ہو۔‘‘

(الحکم جلد ۸نمبر ۲۵،۲۶ ۔ ۳۱ جولائی و ۱۰ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۲ کالم نمبر۴)

۸۔’’وَأَشْکُرُ اللّٰہَ عَلٰی مَا أَعْطَانِیْ جَمَاعَۃً أُخْرٰی مِنَ الْأَصْدِقَاءِ الْأَتْقِیَاءِ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَالصُّلَحَاءِ الْعُرَفَاءِ، الَّذِیْنَ رُفِعَتِ الْأَسْتَارُ مِنْ عُیُوْنِہِمْ، وَمُلِئَتِ الصِّدْقُ فِیْ قُلُوْبِہِمْ۔ یَنْظُرُوْنَ الْحَقَّ وَیَعْرِفُوْنَہٗ، وَیَسْعَوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا یَمْشُوْنَ کَالْعَمِیْنِ۔ وَقَدْ خُصُّوْا بِإِفَاضَۃِ تَہْتَانِ الْحَقِّ وَوَابِلَ الْعِرْفَانِ، وَرَضَعُوْا ثَدْیٰ لِبَانِہٖ، وَأُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمْ وَجْہَ اللّٰہِ…… وَشَرَحَ اللّٰہُ صُدُوْرَہُمْ وَفَتَحَ أَعْیُنَہُمْ وَآذَانَہُمْ، وَسَقَاہُمْ کَأْسَ الْعَارِفِیْنَ۔ ‘‘

(حمامۃ البشری۔ روحانی خزائن جلد۷ صفحہ۱۸۱)

پس شہادۃ القرآن صفحہ ۹۸ تا ۱۰۴ کے زمانہ کی تحریر سے (جو اوائل دعویٰ کا زمانہ ہے )تمسک کر کے جماعت احمدیہ کے اخلاق اور روحانیت پر حملہ کرنا بد دیانتی ہے اور اس کی مثال تو ایسی ہی ہے کہ تمہارے جیسا کوئی عقلمند کسی طبیب یا ڈاکٹر کے مطب یا ہسپتال میں نوآمد مریضوں کو دیکھ کر فوراً کہہ اٹھے کہ یہ طبیب یا ڈاکٹر تو بڑا ناقابل ہے۔ کیونکہ اس کے پاس جس قدر مریض ہیں ان میں سے ایک بھی تندرست نہیں۔ حالانکہ کسی معالج کی اہلیت یا عدم اہلیت کے اندازہ کیلئے اس کے نو وارد مریضوں کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ ان لوگوں کی حالت کو دیکھا جاتا ہے جو کافی عرصہ اس کے زیر علاج رہ چکے ہوں۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۴۔مسیح کا جائے نزول

اعتراض۔ مسیح نے تو منارہ دمشقی پر نازل ہونا تھا۔ (مسلم کتاب الفتن۔باب نزول عیسیٰ بن مریم)



الجواب۔ مینارہ والی حدیث پر علامہ سندی نے یہ حاشیہ لکھا ہے:۔

’’وَ قَدْ وَرَدَ فِیْ بَعْضِ الْاَحَادِیْثِ اَنَّ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ یَنْزِلُ بِبَیْتِ الْمُقَدَّسِ وَ فِیْ رَوَایَۃٍ بِالْاُرْدُنِ وَ فِیْ رَوَایَۃٍ بِمُعَسْکَرِ الْمُسْلِمِیْنَ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ۔ ‘‘

(حاشیہ ابن ماجہ کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ ابن مریم و مرقاۃ المفاتیح کتاب الفتن باب العلامات بین یدی الساعۃ و ذکر الدجّال)

کہ بعض احادیث میں آتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بیت المقدس میں نازل ہوں گے اورایک روایت میں یہ ہے کہ اردن میں نازل ہوں گے اور ایک روایت میں ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں ، خدا جانے درست بات کونسی ہے۔‘‘پس جہاں مسیح نازل ہوا وہی درست اور صحیح ہے۔

۵۔ مہدی کا بنی فاطمہؓ میں ہونا

اعتراض۔ حدیث میں ہے کہ مہدی حضرت فاطمہؓ کی اولاد سے ہوگا۔



جواب:۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی بنی فاطمہؓ میں سے ہیں۔ کیونکہ آپ کی بعض دادیاں سادات میں سے تھیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:۔

’’ میرے اجداد کی تاریخ سے ثابت ہے کہ ایک دادی ہماری شریف خاندان سادات سے اور بنی فاطمہ میں سے تھی۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ۔ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ۲۱۲ حاشیہ)

اگر کہو نسل ماں کی طرف سے نہیں بلکہ باپ کی طرف سے چلتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قاعدہ عام خاندانوں میں ہو تو ہو مگر خاندان سادت میں ابتداء ہی سے نسل لڑکی کی طرف سے چلتی ہے۔ کیونکہ اس خاندان کی نسل حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہاسے چلی تھی۔

۲۔ مخالفین کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ اعتراض ہونا کہ آپ بنی فاطمہ سے نہیں ہیں بذاتِ خود حضرت کی صداقت کی دلیل ہے کیونکہ لکھا ہے:۔ یَقُوْلُ لَہٗ لَسْنَا نَعْرِفُکَ وَ لَسْتَ مِنْ وُّلْدِ فَاطِمَۃَ کَمَا قَالَ الْمُشْرِکُوْنَ لِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔

(بحار الانوار باب الآیات المأوّلۃ بقیام القائم)

کہ امام مہدی کو اس کے مخالف کہیں گے کہ ہم نہیں جانتے کہ تو کون ہے کیونکہ تو حضرت فاطمہؓ کی نسل سے نہیں ہے۔ (امام محمد باقر ؒ فرماتے ہیں کہ ان کا یہ اعتراض ایسا ہی بودااور ناقابل اعتناء ہو گا) جیسا کہ آنحضرت صلعم پر مشرکینِ مکہ کی طرف سے جس قدر اعتراضات کئے گئے وہ ناقابل اعتناء تھے۔

۳۔ احادیث میں مہدی کے نسب کے متعلق اس قدر اختلاف ہے کہ اس بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف حجت نہیں پکڑی جاسکتی۔ ملاحظہ ہو:۔

الف۔ اَلْمَھْدِیُّ مِنْ عِتْرَتِیْ مِنْ وُلْدِ فَاطِمَۃَ۔ (کنز العمال کتاب القیامۃ جلد نمبر۷ صفحہ۱۸۶ حدیث نمبر ۱۹۳۸)کہ مہدی بنی فاطمہ میں سے ہوگا۔

ب۔ سَیَخْرُجُ مِنْ صُلْبِہٖ رَجُلٌ یُسَمّٰی بِاِسْمِ نَبِیِّکُمْ یُشبہُ فِی الْخُلْقِ وَلَا یُشبہُ فِی الْخَلْقِ ثُمَّ ذَکَرَ قِصَّۃً یَمْلَاءُ الْاَرْضَ عَدْلًا اَخْرَجَہٗ اَبُوْدَاوٗدَ۔ (النجم الثاقب جلد ۲ صفحہ ۹۰ حاشیہ مطبع احمدی پٹنہ) کہ حضرت حسنؓ کی نسل سے وہ پیدا ہوگا۔ جس کانام آ نحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا نام اور جس کے کام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کام ہوں گے اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔

ج۔ ’’اِنَّ الْمَھْدِیَّ مِنْ وُلْدِ الْحُسَیْنِ۔‘‘ رَوَاہُ ابْنُ عَسَاکَرٍ عَنْ جَابِرٍ۔ (النجم الثاقب جلد ۲ صفحہ ۱۹۳ حاشیہ مطبع احمدی پٹنہ) کہ مہدی امام حسین کی اولاد سے ہو گا۔

د۔ قَالَ یَا عَمِّ اَمَا شَعُرْتَ اِنَّ الْمَھْدِیَّ مِنْ وُلْدِکَ۔ (حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ ۳۵۲ و کنز العمال جلد۶ صفحہ ۱۷۹) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے عباس! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ مہدی آپ کی اولا د سے ہو گا۔

گویا مہدی حضرت عباس کی نسل سے ہوگا۔

ذ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ وہ شخص جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا میری نسل سے ہوگا۔ (تاریخ الخلفاء از علامہ جلال الدین سیوطی ؒ نور محمد۔ اصح المطابع۔ کارخانہ تجارت کتب کراچی صفحہ۲۲۹ بزبان عربی ) غرضیکہ امام مہدی کے متعلق اس بارے میں بہت اختلاف ہے اور صحیح بات وہی ہے جو اس روایت میں ہے کہ اُبَشِّرُکُمْ بِالْمَھْدِیِّ یُبْعَثُ فِیْ اُمَّتِیْ عَلٰی اِخْتِلَافٍ مِنَ النَّاسِ وَ زَلَازِلٍ۔ (النجم الثاقب جلد۲ صفحہ ۱۱۲ مطبع احمدی پٹنہ) کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم کو مہدی کی خوشخبری دیتا ہوں جو میری اُمت سے ہوگا اور وہ ایسے زمانہ میں مبعوث ہو گا جب کہ لوگوں میں بہت اختلاف عقائد ہو گا اور زلزلے آئیں گے۔

۶۔ مہدی کا مکہ میں پیدا ہونا

اعتراض ۔ امام مہدی نے تو مکہ میں پیدا ہو کر مدینہ سے ظا ہر ہونا تھا۔



جواب:۔الف۔ اس معاملہ میں بھی روایات میں شدید اختلاف ہے ملاحظہ ہو:۔

’’اَنْ یَّخْرُجَ مِنْ تَھَامَ ۃٍ (جواہر الاسرار صفحہ ۵۶)کہ مہدی تہامہ سے ظاہر ہو گا۔

ب۔ یَخْرُجُ الْمَھْدِیُّ مِنَ الْقَرْیَۃِ یُقَالُ لَھَا کَدْعَۃٌ۔ (جواہر الاسرار صفحہ ۵۶) کہ امام مہدی ایک گاؤں سے ظا ہر ہوگا جس کا نام کدعہ ہوگا۔ اور ا س کے پاس ایک مطبوعہ کتاب ہوگی جس میں اس کے ۳۱۳ اصحاب کے نام ہوں گے۔ (یہ کتاب جس میں حضرت اقدس کے ۳۱۳ اصحاب کے نام ہیں۔ انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۳۲۴ تا ۳۲۸ہے۔ (خادم)

مہدی کدعہ نامی گاؤں میں پیدا ہوگا۔(حجج الکرامہ صفحہ ۳۵۸از نواب صدیق حسن خان صاحب)

ج۔ ’’یَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ ھَارِبًا اِلٰی مَکَّۃَ۔ ‘‘ (ابو داؤد کتا ب المہدی ) ’’یعنی وہ مدینہ سے ظاہر ہو کر مکہ کی طرف جائے گا۔‘‘

۷۔مولد میں اختلاف

الف۔ مہدی کا مولد بلادِ مغرب ہے۔ (حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ۳۵۶تا ۳۵۸۔ اقتراب الساعۃ صفحہ ۶۲از نواب نورالحسن خان صاحب مطبع مفیدعام الکائنہ فی آگرہ)

ب۔’’تولِّد او در مکہ معظمہ باشد۔‘‘ (رسالہ مہدی مصنفہ علی متقی )

ج۔ مسند احمد بن حنبلؒ باب خروجِ مہدی میں ہے کہ۔ ’’مہدی خراسان کی طرف سے آئے گا۔‘‘

د۔ ’’مہدی حجاز سے آئے گا اور دمشق کی طرف جائے گا۔‘‘(حجج الکرامۃ صفحہ۳۵۸ )غرضیکہ اس معاملہ میں بھی اختلاف ہے درست وہی روایت ہے جس میں مہدی کہ کدعہ نامی گاؤں سے ظاہر ہونے کا ذکر ہے جو لفظ قادیان کی بدلی ہو ئی صورت ہے۔ بوجہ عدم احتیاط رواۃ۔

۸۔ مہدی کا نام محمد ہونا

اعتراض ۔ مہدی کا نام محمد ان کے والد کا نام عبداﷲ اور ان کی والدہ کا نام آمنہ ہو گا ؟



جواب:۔ ا۔ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا ایک راوی عاصم بن ابی النجود ہے جو ضعیف ہے۔ عاصم بن ابی النجود کے متعلق مفصل بحث مسئلہ حیات مسیح کے ضمن میں حضرت ابن عباس کی تفسیر متعلقہ آیت اِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ میں گزر چکی ہے وہاں سے دیکھی جائے۔ (پاکٹ بک ہذاصفحہ۲۱۵)

۲۔ ابنِ خلدون نے اس روایت پر نہایت مبسوط بحث کر کے ثابت کیا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ (مقدمہ ابنِ خلدون مطبوعہ مصر ۲۶۱۔ و مترجم اردو مطبع نفیس اکیڈمی حصہ دوم صفحہ ۱۵۸ تا ۱۶۰)

۳۔ یہ روایت خلیفہ مہدی عباسی کو خوش کرنے کے لئے وضع کی گئی تھی۔ کیونکہ اس کا نام محمد اور اس کے باپ کا نام عبداﷲ تھا اور مہدی لقب تھا۔ چنانچہ امام سیوطیؒ نے اس روایت کا اطلاق اسی مہدی عباسی پر کیا ہے ملاحظہ ہو:۔ ’’تاریخ الخلفاء باب ذکر مہدی‘‘ (اردو ترجمہ موسومہ بہ محبوب العلماء مطبوعہ پبلک پرنٹنگ پریس لاہو ر ۳۴۱)

۴۔ بر بنائے تسلیم یہ استعارہ کے رنگ میں تھا۔ جس کامطلب یہ تھا کہ امام مہدی کا وجود اپنے آقا اور مطاع آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے الگ نہ ہوگا۔ جیسا کہ حضرت غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں:۔ اِنَّ بَاطِنَہٗ بَاطِنُ مُحَمَّدٍ۔ (شرح فصوص الحکم صفحہ۵۱، ۵۳ مطبعۃ الزاہریہ مصریہ) کہ مہدی کا باطن محمد صلعم کا باطن ہو گا۔

۵۔ مہدی کے نام کے متعلق بھی روایات میں اختلاف ہے:۔

الف۔ مہدی کا نام محمد ہوگا۔(اقتراب الساعہ صفحہ۶۱از نواب نورالحسن خان صاحب)

ب۔مہدی کا نام احمد ہوگا۔ (اقتراب الساعہ صفحہ ۶۱از نواب نورالحسن خان صاحب) چنانچہ لکھاہے:۔

’’اکثر روایتوں میں اس کا نام محمد آیا ہے۔بعض میں احمد بتایا ہے۔‘‘

ج۔مہدی کا نام عیسیٰ ہو گا۔ (جواہر الاسرار صفحہ ۶۸)

یہ اختلاف بتاتا ہے کہ مہدی کے یہ نام بطور صفات کے ہیں نہ کہ ظاہری نام۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۹۔صاحب شریعت ہونا

اعتراض۔ نبی کے لئے تو صاحب شریعت ہونا ضروری ہے۔ مگر مرزا صاحب صاحبِ شریعت نہ تھے۔



جواب۔ صاحبِ شریعت ہونا ضروری نہیں۔

نمبر ۱:۔ قرآن مجید میں ہے:۔

’’‘‘ (المائدۃ: ۴۵) کہ ہم نے تورات نازل کی اس میں ہدایت اور نور تھا اور انبیاء (بنی اسرائیل )جو تورات کو مانتے تھے وہ سب فیصلہ تورات سے ہی کیا کرتے تھے۔

اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام رازیؒ تحریر فرماتے ہیں:۔

یُرِیْدُ النَّبِیِّیْنَ الَّذِیْنَ کَانُوْا بَعْدَ مُوْسٰی وَذٰلِکَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی بَعَثَ فِیْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ اُلُوْفًا مِنَ الْاَنْبِیَاءِ لَیْسَ مَعَھُمْ کِتَابٌ اِنَّمَا بَعَثَھُمْ بِاِقَامَۃِ التَّوْرَاۃِ۔ ‘‘(تفسیر کبیرزیر آیت ٌ۔ المائدۃ:۴۵) یعنی اس آیت میں نبیوں سے مراد وہ نبی ہیں جو موسیٰ ؑکے بعد مبعوث ہوئے۔ اس لئے کے اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں ہزاروں نبی ایسے مبعوث فرمائے جن کے پاس کوئی کتاب نہ تھی بلکہ وہ محض تورات ہی کو قائم کرنے کی غرض سے مبعوث کئے گئے تھے۔

۲۔ دوسرے مقامات پر امام رازیؒ نے بالوضاحت تحریر فرمایا ہے :۔

فَجَمِیْعُ الْاَنْبِیَآءِ مَااُوْتُو الْکِتَابَ وَ اِنَّمَا اُوْتِیَ بَعْضُھُمْ۔ (تفسیر کبیر زیر آیت ۔آل عمران: ۸۲)کہ تمام انبیاء کو کتاب نہیں ملی تھی بلکہ ان میں سے صرف بعض انبیاء کو کتاب ملی تھی۔

۳۔ امام رازی ؒ حضرت اسحق ، ایوب ، یعقوب، یونس ،ہارون ، داؤد اور سلیمان علیہم السلام کے نام لکھ کر تحریر فرماتے ہیں:۔’’لِاَنَّھُمْ مَا جَاءُ وْا بِکِتَابٍ نَاسِخٍ ‘‘

(تفسیر کبیر زیر آیت۔الحج: ۵۳)

علامہ ابو السعود تحریر فرماتے ہیں:۔

’’وَالنَّبِیُّ……مَنْ بَعْثُہٗ لِتَقْرِیْرِ شَرِیْعَۃٍ سَابِقَۃٍ کَاَنْبِیَاءِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ الَّذِیْنَ کَانُوْابَیْنَ مُوْسٰی وَعِیْسٰی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ۔ ‘‘

(تفسیر ابی السعود بر حاشیہ تفسیر کبیر زیرآیت الحج:۵۳)

یعنی نبی وہ ہوتا ہے جس کی بعثت کی غرض محض سابق شریعت کو قائم کرنا ہوتی ہے جس طرح کہ وہ تمام انبیاء تھے جو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کے درمیان مبعوث ہوئے۔

۵۔’’اَنَّ الرَّسُوْلَ لَا یَجِبُ اَنْ یَّکُوْنَ صَاحِبَ شَرِیْعَۃٍ جَدِیْدَۃٍ(مُسْتَقِلَّۃٍ) فَاِنَّ اَوْلَادَ اِبْرَاہِیْمَ کَانُوْا عَلٰی شَرِیْعَتِہٖ۔ ‘‘(روح المعانی جلد ۵ صفحہ۱۸۶)

یعنی رسول کے لئے ضروری نہیں کہ وہ نئی شریعت لانے والا ہو۔ کیونکہ ابراہیم کی اولاد میں جو نبی آئے وہ سب ابراہیم ؑ کی شریعت پر تھے۔

غیر احمدی ـ:۔قرا ٓن مجید میں ہے (الانعام: ۹۰)پس ہر نبی کا صاحب کتاب ہونا ضروری ہے۔



جواب:۔ اس آیت کا ہرگزیہ مطلب نہیں کہ ہر نبی کے لئے فرداً فرداً مستقل جدید کتاب لے کر نازل ہونا ضروری ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نبی کسی نہ کسی مُنْزَل من اﷲ کتاب کی طرف لوگوں کو دعوت دے کر اس کتاب کے ذریعہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے خواہ وہ کتاب اﷲ تعالیٰ نے خود اس پر نازل فرمائی ہو یا اس سے کسی پہلے نبی پر نازل ہوئی ہو۔ چنانچہ ملاحظہ ہو حوالجات ذیل:۔

۱۔ حضرت امام رازیؒ تحریرفرماتے ہیں :۔

الف۔ ’’اَنَّ جَمِیْعَ الْاَنْبِیَآءِ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ اُوْتُواالْکِتَابَ بِمَعْنٰی کَوْنِہٖ مُھْتَدِیًا بِہٖ دَاعِیًا اِلَی الْعَمَلِ بِہِ وَ اِنْ لَمْ یُنْزَلْ عَلَیْہِ۔ ‘‘ زیر آیت(اٰل عمران:۸۲)

کہ ہر نبی کو ان معنوں میں کتاب دی گئی ہے کسی نہ کسی کتاب کے ذریعہ سے رشد و ہدایت کا کام کرتا اور اس پر عمل کرنے کی لوگوں کو دعوت دیتا تھا۔اگرچہ وہ کتاب خود اس پر نازل نہ ہوئی ہو۔

ب۔ امام رازی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:۔

وَ یَحْتَمِلُ اَنْ یَّکُوْنَ الْمُرَادُ مِنْہُ اَنْ یُّؤْتِیَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی فَھْمًا تَامًّا لِمَا فِی الْکِتَابِ وَ عِلْمًا مُحِیْطًا بِحَقَائِقِہٖ وَاَسْرَارِہٖ وَھٰذَا ھُوَ الْاَوْلٰی لِاَنَّ الْاَنْبِیَآءَ الثَّمَانِیَۃَ عَشْرَ الْمَذْکُوْرِیْنَ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی کُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمْ کِتَابًا۔ (تفسیر کبیر زیرآیت الخ الانعام: ۹۰)

یعنی اس ایتاء کتاب کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہر نبی کو کتاب کے حقائق و معارف اور اسرار و رموز کا کامل علم عطا فرماتا ہے اور یہی معنی زیادہ صحیح ہیں کیونکہ قرآن مجید میں جن اٹھارہ انبیاء کا ذکر ہے ان میں سے ہر ایک پر الگ الگ کتاب نازل نہیں کی ہوئی تھی۔

۲۔ تفسیر بیضاوی میں ہے۔

۔ یُرِیْدُ بِہٖ الْجِنْسَ وَلَا یُرِیْدُ بِہٖ اَنَّہٗ اُنْزِلَ مَعَ کُلِّ وَاحِدٍ کِتَابًا یَخُصُّہٗ فَاِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَمْ یَکُنْ مَعَھُمْ کِتَابٌ یَخُصُّھُمْ وَ اِنَّمَا کَانُوْا یَأْ خُذُوْنَ بِکُتُبِ مَنْ قَبْلَھُمْ۔ ‘‘ (تفسیر بیضاوی زیر آیت ۔ البقرۃ:۲۱۳)

ا س آیت میں لفظ کتاب بطور جنس استعمال ہوا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر ایک نبی کو الگ الگ خاص کتاب دی گئی۔ کیونکہ انبیاء میں سے اکثریت ان کی ہے جن کے پاس کوئی ان کی مخصوص کتاب نہ تھی۔ بلکہ وہ اپنے سے پہلے نبی کی کتاب سے ہی احکام اخذ کرتے تھے۔

۳۔ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تابع تھے۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء باب چھٹا ذکر حضرت حسن بصری اردو ترجمہ )

۴۔ حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اَوْ یَکُوْنُ نَظْمَ مَا قَضٰی لِقَوْمٍ مِنْ اِسْتِمْرَارِ دَوْلَۃٍ اَوْ دِیْنٍ یَقْتَضِیْ بَعْثَ مُُجَدَّدٍ کَدَاوٗدَ وَسُلَیْمَانَ وَ جَمْعِ مِنْ اَنْبِیَاءِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ۔ ‘‘

(حجۃ اﷲ البالغہ حصہ اوّل صفحہ ۱۵۹ مترجم اردو مطبع حمایت اسلام پریس لاہور )

یعنی انبیاء ؑ کی دوسری قسم وہ ہے کہ جو ایسے وقت میں مبعو ث کئے جاتے ہیں جبکہ پہلے نبی کے ذریعہ سے قائم شدہ نظام کو جاری رکھنے کے لئے تجدید کی ضرورت کے لئے ایک مجدد کومبعوث کرنا مقصود ہوتاہے۔ جیسا کہ حضرت داؤد اور سلیمانؑ اوربنی اسرائیل کے تمام انبیاء۔‘‘

۵۔ تفسیر حسینی میں لکھا ہے:۔

’’ایک کتاب جس کا نام زبور تھا اور اس میں حق تعالیٰ کی ثناء تھی فقط۔ اوامر نواہی کچھ نہ تھے۔ بلکہ حضرت داؤد کی شریعت وہی توریت کی شریعت تھی۔‘‘

(تفسیر قادری حسینی جلد ۱ مترجم اردو صفحہ۲۰۶ زیر آیت سورۃ النساء :۱۶۴ )

۶۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت جو ( اٰل عمران: ۵۱) آیا ہے تو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑکوئی نئی شریعت لائے تھے۔ بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ یہود کے علماء نے از خود جن حلال چیزوں کو حرام قرار دے رکھا تھا۔ حضرت عیسیٰ ؑنے ان کے بارہ میں توراۃ کے اصل حکم کو بحال فرما کر توریت ہی کو قائم کیا۔ چنانچہ لکھا ہے:۔

’’اِنَّ الْاَحْبَارَ کَانُوْا قَدْ وَضَعُوْا مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ شَرَایِعَ بَاطِلَۃً وَ نَسَبُوْھَا اِلٰی مُوْسٰی فَجَاءَ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَ رَفَعَھَا وَاَبْطَلَھَا وَ اَعَادَ الْاَمْرَ اِلٰی مَا کَانَ فِیْ زَمَنِ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ۔ ‘‘

(تفسیر کبیر زیر آیت ۔اٰل عمران :۱۶۴)

یعنی یہود کے علماء نے بعض احکام باطل آپ ہی اپنے پاس سے وضع کر کے ان کو موسیٰ ؑکی طرف منسوب کر رکھا تھا۔ پس عیسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ انہوں نے ان غلط احکام کو قائم نہ رہنے دیا،بلکہ ان کو باطل قرار دے کر سابق اصل حکم کو برقرار رکھا جو موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تھا۔‘‘

۷۔ حضرت محی الدین ابن عربی تحریر فرماتے ہیں:۔

’’نبی کبھی صاحب شریعت ہوتا ہے جیسے رسل علیہم السلام ہیں اور کبھی صاحب شریعت جدید نہیں ہوتا ہے بلکہ پہلی ہی شریعت میں اس کے حقائق کو ان کی استعداد کے موافق تعلیم کرتا ہے۔ جیسے بنی اسرائیل کے انبیاء ہیں۔‘‘ (فصوص الحکم مقدمہ فصل نمبر ۱۲ نبوت ورسالت کے بیان میں مترجم اردو صفحہ ۷۴)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن

نبی کے لئے تو صاحب شریعت ہونا ضروری ہے۔ مگر مرزا صاحب صاحبِ شریعت نہ تھے۔ (حصہ دوم )



۸۔عقلی دلیل:۔

یہ دعویٰ کہ ہر نبی کے لئے نئی شریعت کا لانا ضروری ہے اور یہ کہ جب تک پہلے نبی کے احکام کو منسوخ کر کے نیا حکم نہ لائے کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا۔ اس قدر خلاف عقل ہے کہ کوئی شخص جسے تاریخ انبیاء کا علم ہو اپنی زبان سے یہ دعویٰ نکال نہیں سکتا۔ کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں اور ایک ہی قوم اور شہر بلکہ ایک ہی مکان میں بعض دفعہ دو دو تین تین بلکہ چار چار اور اس سے زیادہ بھی نبی ہوتے رہے ہیں۔ مثلاً حضرت موسیٰ و ہارون۔ ابراہیم و اسمٰعیل و اسحق۔یعقوب و یوسف۔ داؤدو سلیمان ، حضرت زکریا و یحییٰ اورعیسیٰ علیہم السلام۔

پس اگر ہر نبی کے لئے جدید شریعت کا لانا ضروری ہو تو پھر یہ مضحکہ خیز صورت تسلیم کرنی پڑے گی کہ ایک ہی شہر میں ایک نبی نماز ظہر کے وقت یہ اعلان کرتا ہے کہ پانچ نمازیں فرض ہیں تو عصر کے وقت دوسرانبی یہ اعلان کر رہا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہو گیا ہے۔ اب چار نمازیں فرض ہو گئی ہیں۔ اس طرح تو مذہب مذہب نہیں رہے گا بلکہ تماشا بن کے رہ جائے گا۔

۹۔ (الانعام: ۹۰)کی تفسیر میں علامہ شہاب الدین فرماتے ہیں:۔

اَلْمُرَادُ بِاِیْتَائِہِ التَّفْھِیْمُ التَّامُ بِمَا فِیْہِ مِنَ الْحَقَائِقِ وَالتَّمْکِیْنِ مِنَ الْاِحَاطَۃِ بِالْجَلَائِلِ وَالدَّقَائِقِ اَعَمُّ مِنْ اَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ بِالْاِنْزَالِ اِبْتِدَاءً……فَاِنَّ الْمَذْکُوْرِیْنَ عَلٰی کُلِّ وَاحِدٍ مِنْھُمْ کِتَابٌ مُعَیَّنٌ۔

(تفسیر ابی السعود بر حاشیہ تفسیر کبیر زیرآیت الانعام:۹۰۔ روح المعانی زیرآیت الانعام:۹۰)

کہ اس سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو پوری پوری تفہیم عطا کرے گا ان حقائق اور دقائق کی جو اس کتاب میں ہیں عام اس سے کہ ان کو کوئی خاص کتاب دی جائے کیونکہ وہ انبیاء جن کا قرآن میں ذکر ہے ان میں سے کئی ایسے ہیں جن پر کوئی کتاب معین نازل نہیں ہوئی۔

(نیزدیکھو تذکرۃ الاولیا ء ذکرحضرت حبیب عجمی انوار الازکیا صفحہ ۶۵ چھٹا باب )

۱۰۔ آیت کے نیچے لکھا ہے ’’لَا مَعَ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْھُمْ عَلَی الْاِطْلَاقِ اِذْلَمْ یَکُنْ لِبَعْضِھِمْ کِتَابٌ وَ اِنَّمَا کَانُوْا یَأْخُذُوْنَ بِکُتُبِ مَنْ قَبْلَھُمْ۔ ‘‘

(روح البیان زیرآیت البقرۃ:۲۱۳ تفسیر ابی السعود و بر حاشیہ تفسیر کبیر زیرآیت البقرۃ:۲۱۳)

یعنی اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر ایک نبی کو الگ الگ کتاب دی گئی تھی کیونکہ ایسے انبیاء بھی ہوئے ہیں جن کے پاس اپنی کتاب کوئی نہ تھی پہلے نبی کی کتاب سے ہی وہ استنباط کیا کرتے تھے۔ (اٰل عمران :۸۲)

۱۱۔اَرَادَ بِالنَّبِیِّیْنَ الَّذِیْنَ بُعِثُوْا بَعْدَ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَذٰلِکَ اَنَّ اللّٰہَ بَعَثَ فِیْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ اُلُوْفًا مِنَ الْاَنْبِیَآءِ وَ لَیْسَ مَعَھُمْ کِتَابٌ اِنَّمَا بُعِثُوْا بِاِقَامَۃِ التَّوْرَاۃِ وَ اَحْکَامِھَا۔

(تفسیر خازن زیر آیت( المائدۃ:۴۵)

کہ آیت’’‘‘میں نبیوں سے مرا د وہ نبی ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد مبعوث ہوئے اور یہ اس لئے ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں ہزاروں نبی ایسے بھیجے کہ جن کے پاس کوئی کتاب نہ تھی۔ بلکہ وہ محض توراۃ اور اس کے حکموں کو قائم کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔

۱۲۔ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی لکھتے ہیں:۔

’’پھر ان کے بعد اور رسو لوں کو( جو کہ صاحب شریعت مستقلہ نہ تھے) یکے بعد دیگرے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا۔‘‘

(حمائل مترجم اشرف علی تھانوی مطبوعہ دہلی زیر آیت (الحدید:۲۸)

۱۳۔کے نیچے لکھا ہے :۔

’’اوپر ذکر تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں بہت سے انبیاء بھیجے جو ہمیشہ احکام تورات کی حکم برداری میں خودبھی لگے رہتے اور بنی اسرائیل کے عابدوں اورعالموں کو بھی ان کی تاکید کرتے۔ ان آیتوں میں فرمایا کہ ان انبیاء بنی اسرائیل کے قدم بقدم سب انبیاء بنی اسرائیل تھے اور آخر پر اﷲ تعالیٰ نے عیسیٰ بن مریم کو تورات کے احکام کی تصدیق و نگرانی کے لئے بھیجا۔‘‘

(حمائل مترجم اشرف علی سورۃ المائدۃ آیت: ۴۵)

۱۰۔کفر کا فتویٰ

اعتراض ۔ مرزا صاحب (مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ) پر کفر کا فتویٰ کیوں لگا؟



جواب:۔ ضرور تھا کہ ایسا ہی ہوتا۔ قرآن مجید میں ہے۔ (یٰسٓ: ۳۱)

۲۔ ’’وَ اِذَا خَرَجَ ھٰذَ الْاِمَامُ الْمَھْدِیُّ فَلَیْسَ لَہٗ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ اِلَّا الْفُقَھَاءُ خَاصَّۃً فَاِنَّہٗ لَا تَبْقٰی لَھُمْ رِیَاسَۃٌ۔ وَلَا تَمِیِیْزٌ عَنِ الْعَامَّۃِ۔ ‘‘

(فتوحات مکیہ از محی الدین ابنِ عربی جلد ۳ صفحہ۳۳۶ مطبع دار صادر بیروت)

کہ جب امام مہدی آئیں گے تو اس کے سب سے زیادہ شدید دشمن اس زمانہ کے علماء اور فقہاء ہوں گے۔ کیونکہ اگر مہدی کو مان لیں تو ان کی عوام پر برتری اور ان پر امتیاز باقی نہ رہے گا۔

۳۔’’علماءِ وقت کہ خوگرِ تقلیدِ فقہا و اقتدائے مشائخ و آبائے خود با شند گویند کہ ایں شخص خانہ برانداز دین و ملتِ ماست و بمخالفت برخیز ند و بحسب عادتِ خود۔ حکم بتکفیر و تضلیل وے کنند۔ ‘‘

(حجج الکرامہ صفحہ ۳۶۳از نواب صدیق حسن خان صاحب)

۴۔ حدیث ’’عُلَمَآءُ ھُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَآءِ ‘‘(مشکوٰۃ کتاب العلم فصل سوم)سے بھی یہی پتہ چلتا ہے۔ نیز آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمانا کہ امام مہدی کو میر اسلام کہنا۔ (درمنثور جلد ۲ صفحہ ۲۴۵ مطبع دارالمعرفہ بیروت لبنان و بحا رالانوار جلد ۱۳ صفحہ ۱۸۳ مطبوعہ ایران) یہ بھی بتاتا ہے کہ آنحضرتؐ کو معلوم تھا کہ ایسے لوگ بھی موجود ہوں گے جو مہدی پر *** بھیجیں گے۔

اور اس کے تریاق کے طور پر آنحضرت ﷺ نے اسے اپنا سلام بھیجا ہے۔

( تفصیل دیکھو تحفہ گولڑویہ صفحہ ۴۳ حاشیہ)

۵۔ امام ربّانی مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ ’’جب مسیح موعود آئے گا توعلماء ظواہر مجتہدات اور اعلیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام از کمال دقت و غموض ماخذ، انکار نمائند و مخالف کتاب و سنت دانند۔‘‘

( مکتوبات امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی حصہ نمبر ۷ مکتوب نمبر ۵۵)

یعنی علماء ظواہر حضرت مسیح موعودؑکے اجتہاد ات کا انکار کریں گے اور ان کو قرآن مجید اور سنت نبوی کے خلاف قرار دیں گے کیونکہ وہ بباعث دقیق ہونے اور ان کے مآخذ کے مخفی ہونے کے مولوی کی سمجھ سے بلند و بالا ہوں گے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۶۔ یہی حال مہدی علیہ السلام کا ہو گا کہ اگر وہ آگئے تو سارے مقلد بھائی ان کے جانی دشمن بن جاویں گے۔ ان کے قتل کی فکر میں ہوں گے۔ کہیں گے یہ شخص تو ہمارے دین کو بگاڑتا ہے۔‘‘

(اقتراب الساعۃ صفحہ ۲۲۴از نواب نورالحسن خان صاحب مطبع مفیدعام الکائنہ فی آگرہ ۱۳۰۱ھ)

۷۔ پھر لکھا ہے:۔ ’’ان( امام مہدی) کے دشمن علماء اہل اجتہاد ہوں گے اس لئے کہ ان کو دیکھیں گے کہ خلاف مذہب آئمہ حکم کرتے ہیں……ان (امام مہدی) کا دشمن کھلم کھلا کوئی نہ ہوگا مگر یہی فقہ والے بالخصو ص کیونکہ ان کی ریاست باقی نہ رہے گی۔ عام لوگوں سے کچھ امتیاز نہ ہوگا‘‘۔

(اقتراب الساعۃ صفحہ ۹۵از نواب نورالحسن خان صاحب مطبع مفیدعام الکائنہ فی آگرہ ۱۳۰۱ھ)

۸۔علماء کا ’’حربہ تکفیر‘‘ ملاحظہ ہو۔ (پاکٹ بک ہذاصفحہ ۷۰۷)

۱۱۔کسی کا شاگرد ہونا

اعتراض:۔نبی کسی کا شاگرد نہیں ہوتا۔ مرزا صاحب شاگرد رہے۔



جواب۔ (ا)قرآن مجید:۔ موسیٰ علیہ السلام ایک بندہ خدا (خضر) سے کہتے ہیں ـ:۔

(الکہف:۶۷)

یعنی موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ کیا میں آپ کی اس امر میں پیروی کروں کہ آپ مجھے وہ علم پڑھائیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے ؟

اگر نبی کا کسی سے علم سیکھنا منافی نبوت ہے تو کیا حضرت موسیٰ ؑنے اپنی نبوت سے دستبردار ہونے کے لئے یہ تدبیر نکالی تھی ؟

۲۔ تمہارایہ من گھڑ ت قاعدہ کہ نبی کسی کا شاگرد نہیں ہوتا۔ کہاں لکھا ہے ؟ قرآن و حدیث کا ایک ہی حوالہ پیش کر و ورنہ اپنی جہالت کا ماتم کرو !

۳۔ حدیث میں ہے:۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی نسبت فرماتے ہیں۔ اِذَا کَانَ بِھَا اَھْلُ اَبْیَاتٍ مِنْھُمْ وَ شَبَّ الْغُلَامُ وَ تَعَلَّمَ الْعَرَبِیَّۃَ مِنْھُمْ۔

(بخاری کتا ب الانبیاء باب یَزِفُّوْنَ النَّسْلَان فِی الْمَشْیِ و تجرید بخاری مترجم اردو مع اصل متن عربی مرتبہ مولوی فیروز الدین اینڈ سنز لاہور ۱۳۴۱ ھ جلد ۲ صفحہ ۱۳۷ ترجمہ از تجرید بخاری)

’’یہاں تک کہ جس وقت ان( بنو جرہم۔ خادمؔ) میں سے کچھ گھر والے( چشمۂ زمزم کے اردگرد جمع۔ خادمؔ) ہوگئے اور وہ بچہ (حضرت اسمٰعیل ؑ۔ خادمؔ )جوان ہو ا اور اس نے ان سے عربی زبان سیکھی۔‘‘

۴۔ حضرت ابی بن کعب سے مروی ہے کہ آنحضرت صلعم نے قصہ موسیٰ و خضر کے سلسلہ میں فرمایا:۔

’’قَالَ جِئْتُ لِتُعَلِّمَنِیْ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا۔

(بخاری کتا ب الانبیاء باب فضل خضر حدیث الخضر مع موسی علیہما السلام صحیح مسلم کتا ب الفضائل۔ باب من فَضَائِلِ خِضر )

یعنی حضرت موسیٰ ؑنے خضر سے کہا کہ میں آپ کے پاس اس لئے آیا ہو ں تاکہ آپ مجھے اس علم میں سے کچھ پڑھائیں جو آپ کو دیا گیا ہے۔‘‘

۵۔تفسیر:۔ اس حدیث کی شرح میں علامہ نووی تحریر فرماتے ہیں:۔

اِسْتَدَلَّ الْعُلَمَاءُ بِسُؤَالِ مُوْسَی السَّبِیْلِ اِلٰی لِقَاءِ الْخِضْرِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِمَا وَسَلَّمَ عَلٰی اِسْتِحْبَابِ الرَّحْلَۃِ فِیْ طَلَبِ الْعِلْمِ وَاِسْتِحْبَابِ الْاِسْتِکْثَارِ مِنْہُ وَاِنَّہٗ یَسْتَحِبُّ لِلْعَالِمِ وَاِنْ کَانَ مِنَ الْعِلْمِ بِمَحَلٍّ عَظِیْمٍ اَنْ یَّاخُذَہٗ مِمَّنْ ھُوَ اَعْلَمُ مِنْہُ وَ یَسْعٰی اِلَیْہِ فِیْ تَحْصِیْلِہٖ وَ فِیْہِ فَضِیْلَۃُ طَلَبِ الْعِلْمِ۔‘‘

(حاشیہ النووی علی مسلم کتاب الفضائل باب فضائل زکریا و خضر)

یعنی موسیٰ علیہ السلام کے خضر کی ملاقات کی درخواست کرنے سے علماء نے اس بات کی دلیل لی ہے کہ طلب علم کیلئے سفر کرنا اور حصول علم کے لئے بار بار درخواست کرنا جائز ہے۔ نیز یہ کہ اگرچہ کوئی خود کتنا ہی بڑا صاحب علم کیوں نہ ہو پھر بھی اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ علم رکھنے والے سے علم حاصل کرے اور حصول علم کی غرض سے کوشش کر کے اس کے پاس جائے۔ نیز اس سے علم کے سیکھنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔

۶۔ تفسیر سعیدی ترجمہ اردو تفسیر قادری حسینی جلد ۲صفحہ ۱۵ میں ہے :۔

’’رسول ایسا چاہیے کہ جن کی طرف بھیجا گیا ہے ان سے ان اصول و فروعِ دین کا عالم زیادہ ہو جو ان کی طرف لایا ہے اور جو علم اس قبیل سے نہیں اس کی تعلیم امورِ نبوت کے منافی نہیں اور اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُ مْ اس قول کا مؤید ہے۔ (جلد ۱ صفحہ ۶۳۸ سورۃ الکہف :۶۶، ۶۷)

۷۔ تفسیر بیضاوی میں ہے:۔

وَلَا یُنَافِیْ نُبُوَّتَہٗ وَ کَوْنَہٗ صَاحِبَ شَرِیْعَۃٍ اَنْ یَّتَعَلَّمَ مِنْ غَیْرِہٖ مَا لَمْ یَکُنْ شَرْطًا فِیْ اَبْوَابِ الدِّیْنِ۔

(بیضاوی زیر آیتالخ الکہف :۶۷ )

یعنی حضرت موسیٰ ؑکا کسی غیر سے ایسا علم سیکھنا جو امور دین میں سے نہ ہو۔ ان کی نبوت اور ان کے صاحب شریعت ہونے کے منافی نہیں ہے۔ (یعنی نہ صرف نبی بلکہ صاحب شریعت نبی بھی دوسرے علوم میں دوسروں کا شاگرد ہو سکتا ہے۔ )

۸۔ تفسیر الجلالین الکمالین از علامہ جلال الدین سیوطی میں زیر آیت الکہف:۷۱ لکھا ہے:۔

فَقَبِلَ مُوْسٰی شَرْطَہٗ رِعَایَۃً لِاَ دَبِ الْمُتَعَلِّمِ مَعَ الْعَالِمِ۔

(زیر آیت ۔ الکہف :۷۱)

کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خضرکی پیش کردہ شرط اسی طرح قبول کرلی جس طرح ایک شاگرد اپنے استاد کی شرط کوکمال ادب سے قبول کیا کرتا ہے۔

۹۔یاد رہے کہ خضر کے نبی ہونے میں بھی اختلاف ہے جلالین میں ہے :۔

نُبُوَّۃً فِیْ قَوْلٍ وَ وِلَایَۃً فِیْ آخِرً وَعَلَیْہِ اَکْثَرُ الْعُلَمَاءِ۔

(جلالین زیر آیت ۔الکہف:۶۶ نیز دیکھو حاشیہ نووی علی المسلم۔ فضائل زکریا والخضر علیہماالسلام)

یعنی علماء کی اکثریت اس طرف ہے کہ خضر نبی نہیں بلکہ ولی تھے۔

۱۲۔ کیا کوئی نبی لکھا پڑھا نہیں ہو سکتا

غیر احمدی:۔ ’’آج تک کوئی نبی لکھا پڑھا نہیں آیا اور نہ کسی نبی نے کوئی کتاب لکھی۔‘‘



جواب:۔ ایسا کہنا صریح جہالت ہے کیونکہ’’اُمِّی‘‘ ہونا تو صرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔ اگر ہر نبی ہی ’’اُمِّی‘‘ ہو تو پھر آپ ؐ کی یہ خصوصیت کیونکر ہوئی ؟

اور پھر (الاعراف:۱۵۸ )فرمانے کی کیا ضرورت تھی ؟ چنانچہ لکھا ہے:۔

۱۔ پڑھا لکھا ہونا منصب نبوت کے خلاف نہیں ہے۔…… حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ؑکے حالات دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پڑھے لکھے تھے لیکن نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو کہ سِرِّ نبوت کی تفصیل شرح اور علوم باطنی کے حقیقی رازدان تھے اﷲ تعالیٰ نے اپنی تعلیم کے سوا کسی غیر کی تعلیم کا منت کش ہوناگوارا نہ فرمایا۔

چنانچہ گذشتہ آسمانی کتب میں بھی امّی کے لقب کے ساتھ آپ کو بشارتیں دی ہیں۔

(تاریخ القرآن مصنفہ حافظ محمد اسلم صاحب جے۔ راج۔پوری مکتبہ جامعہ نئی دہلی صفحہ ۱۳ و صفحہ ۱۴ با ختلاف الفاظ مطبوعہ مطبع فیض عام علی گڑھ ۱۳۲۶ ھ زیر عنوان ’’تمہید‘‘ صفحہ۸)

۲۔ تفسیر حسینی میں ہے :۔

’’حضرت موسیٰ اور حضرت داؤ د علیہما السلام پر کتا ب جو ایک بار اتری تو وہ لکھتے پڑھتے تھے اورہمارے حضرت خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہٖ اجمعین امّی تھے۔‘‘

(تفسیر حسینی مترجم اردو جلد ۲ صفحہ ۱۴۰ زیر آیت (الفرقان:۳۳ )

۳۔ بیضاوی میں آیت مندرجہ بالا (الفرقان:۳۳)کے ماتحت لکھا ہے:۔

وَکَذَالِکَ اَنْزَلْنَاہُ مُفَرِّقًا لِنُقَوِّیَ بِتَفْرِیْقِہٖ فُؤَادَکَ عَلٰی حِفْظِہٖ وَفَھْمِہٖ لِاَنَّ حَالَہٗ یُخَالِفُ حَالَ مُوْسٰی وَدَاوٗدَ وَ عِیْسٰی عَلَیْھِمُ السَّلَامُ حَیْثُ کَانَ اُمِّیًا وَکَانُوْا یَکْتُبُوْنَ۔ ‘‘

(بیضاوی مطبوعہ مطبع احمدی دہلی جلد ۳ صفحہ ۹۶)

یعنی ہم نے ایسے ہی قرآن مجید کو بیک وقت نازل کرنے کی بجائے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تاکہ ہم تیرے دل کو اس سے مضبوط کریں اور توا سے بآسانی یاد رکھ سکے اور سمجھ سکے۔ یہ اس لئے ہوا کہ آنحضرت صلعمکا حال موسیٰ۔ داؤ د اور عیسیٰ علیہم السلام سے مختلف تھا۔ بدیں وجہ کہ آپؐ ’’اُمّی‘‘تھے مگر موسیٰ داؤد اور عیسیٰ علیہم السلام لکھے پڑھے ہوئے تھے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۴۔ حضرت امام رازی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اِنَّہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَمْ یَکُنْ مِنْ اَھْلِ الْقِرَاءَ ۃِ وَالْکِتَابَۃِ فَلَوْ نُزِّلَ عَلَیْہِ ذٰلِکَ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً کَانَ لَا یَضْبِطُہٗ وَلَجَازَ عَلَیْہِ الْغَلَطُ وَالسَّھْوُ وَاِنَّمَا نَزَلَتِ التَّوْرَاۃُ جُمْلَۃً لِاَنَّھَا مَکْتُوْبَۃٌ یَقْرَءُ ھَا مُوْسٰی۔ ‘‘

(تفسیر کبیر رازی جلد۶ صفحہ ۴۷۲ مطبوعہ مطبع اوّل۔ نیا ایڈیشن جلد ۲۴ صفحہ ۷۸ مصر زیر آیت بالا الفرقان :۳۳)

یعنی آنحضرت صلعم لکھے پڑھے ہوئے نہیں تھے۔ پس اگر آپؐ پر قرآن مجید ایک ہی مرتبہ سارا نازل ہو جاتا توآپ اسے محفوظ نہ رکھ سکتے اور اس میں غلطیاں اور سہو جا ئز ہو جاتا ،لیکن تورات جو بیک وقت نازل ہو گئی تھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لکھی لکھائی تھی اور حضرت موسیٰ ؑ پڑھنا جانتے تھے۔‘‘

۵۔ حدیث نبویؐ میں ہے:۔

اَوَّلُ مَنْ خَطَّ بِالْقَلَمِ اِدْرِیْسُ۔

(مسند امام احمد بن حنبلؒ بحوالہ کنوز الحقائق فی احادیث خیر الخلائق مصنفہ امام عبدالرؤف المنادی باب الالف برحاشیہ جامع الصغیر مطبوعہ مصر جلد ۱ صفحہ ۸۹ )

کہ سب سے پہلے حضرت ادریس علیہ السلام نے قلم سے لکھنا شروع کیا۔

۶۔سیرۃ ابن ہشام میں ہے:۔

’’یہی ادریس پیغمبر ہیں اور انہی کو پہلے نبوت ملی اور انہی نے قلم سے لکھنا ایجاد کیا۔‘‘

( سیرۃ ابن ہشام مترجم اردو جلد ۱ صفحہ ۱ مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہور و مطبوعہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن ۱۳۶۷ ھ)

احراری امیر شریعت:۔ اگر نبی کسی سے پڑھے تو پھر استاد کبھی کبھی اس کے کان بھی کھینچے گا۔ اسے مار بھی پٹے گی۔ بڑاہو کر پھر کس طرح ان کے سامنے سر اٹھا سکے گا۔

جواب:۔ ہر طالب علم ضروری تو نہیں کہ تمہارے جیسا ہو۔ بعض ہونہار اور نیک طالبعلم ایسے بھی ہوتے ہیں جو کبھی بھی استاد سے مار پٹنے تک نوبت نہیں آنے دیتے بلکہ استاد ان کی عزت کرتے ہیں۔ لیکن اگر محض احتمال اور فرضی قیاس آرائی پر بنیاد رکھنا جائز ہو تو پھر تو یہ بھی کہو کہ کسی نبی کا باپ ، ماں بڑا بھائی، دادا، چچا کوئی نہیں ہو نا چاہیے۔ کیونکہ بچپن میں ان بزرگان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھوں کان کھنچوانے اور مار پٹنے کا خطرہ اور احتمال ہے۔ خیر یہ تو بچپن میں مار کھانے کا قصہ ہے۔ لیکن قرآن مجید میں تو لکھا ہے کہ ایک نبی نے بڑ ے ہو کر بلکہ نبی بن کر اپنے چھوٹے بھائی موسیٰ ؑسے ڈاڑھی اور سر کے بال نچوائے۔ ملاحظہ ہو:۔

(الاعراف:۱۵۱)کہ موسیٰ ؑ نے (غصّہ کی حالت میں )اپنے بھائی( ہارونؑ) کا سر پکڑ کر اسے اپنی طرف جھٹکا دیا توحضرت ہارونؑ نے کہا ’’اے میری ماں کے بیٹے! مجھے قوم نے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ وہ مجھے قتل کر دیتے۔ پس تو دشمنوں کو خوشی نہ دکھا۔ نیز ملاحظہ ہو سورۃ طٰہٰ:۹۵۔

(طٰہٰ:۹۵ ) کہ اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی اور میرے سر(کے بال) نہ پکڑ! مگر باوجود اس شماتتِ اعداء اور مار پیٹ کے ہارون نبی کے نبی ہی رہے۔ یہ تو قرآن ہے مگر یہاں احراری امیر شریعت کی عقل کے رو سے کوئی نبی پڑھا لکھا نہیں ہو سکتا۔ محض اس خوف سے کہ کہیں بچپن میں استاد سے مار نہ کھا بیٹھے پھر بڑا ہو کر کیا کرے گا؟

۲۔پھر حضرت مسیح موعودؑکے اساتذہ تو ہمیشہ آپ کی عزت کرتے تھے اور ہرگز ثابت نہیں کہ حضور کو کسی استاد نے کبھی ایک دفعہ بھی مارا ہو۔ پس محض فرضی احتمالات و قیاسات پر اعتراضات کی بنیاد رکھنا اور واقعات کو نظر انداز کر دینا کسی معقول انسان کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔

۱۳۔اعتراض۔ نبی کا نام مرکب نہیں ہوتا۔ مرزا صاحب کا نام مرکب تھا؟



الجواب:۔ ۱۔یہ معیار کہاں لکھا ہے۔ بھلانام کے مرکب یا مفرد ہونے کا نبوت کے ساتھ کیا تعلق؟

۲۔ قرآن مجید میں ہے۔ ( اٰل عمران:۴۶) اس آیت میں فرشتے نے حضرت عیسیٰ ؑ کا نام ’’‘‘بتایا ہے جو مرکب ہے۔

۳۔’’اسمٰعیل‘‘ بھی مرکب ہے اِسْمَعْ اور اِیل جس کا ترجمہ ہے ’’سن لی‘‘ اﷲ نے میری! یعنی اﷲ نے میری دعا سن لی۔

۱۴۔حج کرنا

اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے حج کیوں نہیں کیا ؟



الجواب:۔ حج کے لئے بعض شرائط ہیں (۱) راستہ میں امن ہو۔(اٰل عمران:۹۸) (۲) صحت ہو۔(۳) بوڑھے والدین نہ ہوں۔(دیکھوتفسیر کبیر امام رازی زیر آیت آل عمران:۹۸۔ نیز دیکھو کشف المحجوب مصنفہ داتا گنج بخشؒ مترجم اردو صفحہ ۳۷۷۔ ما لا بد منہ اردو صفحہ ۶۸ تاجران کتب برکت علی اینڈ سنز لاہور)جن کی خدمت اس پر فرض ہو یا چھوٹی اولاد نہ ہو جس کی تربیت اس پر فرض ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں تینوں شرائط نہ پائی جاتی تھیں۔ لاہور گئے، رستہ میں قتل کرنے کے لئے لوگ بیٹھ گئے۔ امرتسر اور سیالکوٹ میں گئے مخالفین نے اینٹیں ماریں۔ دہلی گئے وہاں آپ پر حملہ کیا گیا۔ اور مکہ میں تو حضرت پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا تھا۔ پس آپ پر حج کے لیے جانا فرض نہ تھا کیونکہ حج صرف اس حالت میں ہوسکتا ہے کہ رستہ میں امن ہو۔ خود آنحضرت صلعم نے حدیبیہ کے سال حج نہیں کیا۔ محض اس وجہ سے کہ کافر مانع ہوئے۔

۲۔ آپ کو دوران سر اور ذیابیطس کی دو بیماریاں تھیں۔ ۳۔آپ کے والد بزرگوارآپ کے سر پر چالیس سال کی عمر تک زندہ رہے اور اس کے بعد اولاد تھی۔

۴۔ تذکرۃ الالیاء میں ہے۔’’ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے ارادہ حج کا کیا۔ جب میں بغداد پہنچا تو حضرت ابو حازم مکیؒ کے پاس گیا۔ میں نے ان کو سوتے پایا۔میں نے تھوڑی دیر صبر کیا۔ جب آپ بیدار ہوئے تو فرمانے لگے کہ میں نے اس وقت حضرت پیغمبر علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ کو تیرے لئے پیغام دیا اور فرمایاکہ کہہ دو اپنی ماں کے حقوق کی نگہداشت کرے کہ اس کے لئے وہی بہتر ہے حج کرنے سے۔ ا ب تو لوٹ جا۔ اور اس کے دل کی رضا طلب کر۔ میں واپس پھرا اور مکہ معظمہ نہ گیا۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء ذکر ابوحازم مکیؒ باب نمبر ۷ صفحہ ۶۸۔ انوار الازکیاء اردو ترجمہ ظہیر الاصفیاء صفحہ ۵۷)

بھلا ایک ماں کی خدمت تو حج سے بہتر ہے پھر اسلام( جس پر ہزاروں مائیں قربان کی جاسکتی ہیں) کی خدمت کرنا کیوں حج سے بہتر نہیں۔

۵۔’’فَجَائَتْ اِمْرَأَۃٌ مِنْ خَثْعَمٍ…… فَقَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ فَرِیْضَۃَ اللّٰہِ عَلٰی عِبَادِہٖ فِی الْحَجِّ اَدْرَکَتْ اَبِیْ شَیْخًا کَبِیْرًا لَا یَثْبُتُ عَلَی الرَّاحِلَۃِ اَفَاَحُجُّ عَنْہُ قَالَ نَعَمْ۔ ‘‘

( بخاری کتاب الحج باب وجوب الحج و فضلہٖ)

خثعم قبیلہ کی ایک عورت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا یا رسول اﷲ میرا باپ بہت بوڑھا ہے اور اس پر اﷲ تعالیٰ کا فریضہ حج فرض ہوگیا ہے۔ وہ بوجہ بڑھاپا اونٹ پر بیٹھ نہیں سکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں۔ آنحضرت صلعم نے فرمایا ہاں۔ یہی حدیث مسلم کتاب الحج باب الحج عن العاجز……مع شرح نووی میں بھی ہے۔

۶۔’’عَنْ عِکْرَمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَجُلٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ اَبِیْ مَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ اَفَاَحُجُّ عَنْہُ قَالَ اَرَاَیْتَ لَوْ کَانَ عَلٰی اَبِیْکَ دَیْنٌ اَکُنْتَ تَقْضِیْہِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فََدَیْنُ اللّٰہِ اَحَقُّ۔ ‘‘ ( نسائی کتاب مناسک الحج باب تشبیہ قضاء الحج بقضاء الدین)

حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت عکرمہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے آنحضرت صلعم سے عرض کیا۔ یا رسو ل اﷲ میرا باپ فوت ہوگیا اور اس نے حج نہیں کیا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں ؟ فرمایا کیا اگر تیرے باپ پر کوئی قرضہ ہوتا تو تو اس کو ادا کرتا ؟ اس نے عرض کیا ہاں۔ فرمایا پھر اﷲ کا قرضہ زیادہ قابل ادائیگی ہے یعنی اس کو ادا کردو۔ حضرت مسیح موعودؑکی طرف سے بھی حج بدل کرایا گیا اور حضرت حافظ احمد اﷲ صاحب مرحوم نے فریضۂ حج ادا کیا۔

فَجِّ الرَّوْحَاءِ

آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ مسیح موعود حج کرے گا اور فَجِّ الرَّوْحَاءِ سے عمرہ کرے گا۔ آنحضرتؐ نے مسیح موعودؑکو حج کرتے دیکھا ہے:۔

الجوا ب۔۱۔ آنحضرت صلعم نے دجّال کو بھی حج کرتے دیکھا ہے۔ کیا دجّال بھی حاجی ہوگا ؟ ’’رَجُلٌ یَطُوْفُ بِالْبَیْتِ فَقُلْتُ مَنْ ھٰذَا قَالُوا الْمَسِیْحُ الدَّجَّالُ۔ ‘‘

(بخاری کتاب بدء الخلق کتا ب الانبیاء باب واذکر فی الکتاب مریم )

کہ آنحضرت صلعم فرماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو کعبہ کا طواف کرتے دیکھا آپ نے پوچھا یہ کون ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ دجّال ہے۔ باقی رہی حدیث لَیُھِلَّنَّ ابْنُ مَرْیَمَ بِفَجِّ الرَّوْحَاءِ حَاجًّا اَوْ مُعْتَمِرًا اَوْ لَیَثْنِیَنَّھُمَا۔ (صحیح مسلم کتاب الحج باب اھلال النبیؐ و ھدیہ) تو یاد رکھنا چاہیے کہ (۱)حدیث کے الفاظ میں اَوْ۔ اَوْ۔ اَوْ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ آنحضرتؐکے اصل الفاظ محفوظ نہیں ہیں۔ یہ روایت سند کے لحاظ سے بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کا ایک راوی محمد بن مسلم بن شہاب الزہری ہے۔ اس کے متعلق لکھا ہے’’قَالَ اَبُو الزَّنَّادِ کُنَّا نَکْتُبُ الْحَلَالَ وَالْحَرَامَ وَکَانَ ابْنُ شُھَّابٍ یَکْتُبُ کُلَّمَا سَمِعَ۔ ‘‘ (تہذیب التہذیب باب المیم زیرلفظ محمد)۔ کہ ابولزناد نے کہا ہے کہ ہم تو حلال اورحرام کی بابت حدیث جمع کرتے تھے۔ مگر ابن شہاب جو سنتا تھا لکھ لیتا تھا۔پس و ہ حجت نہیں ہے اور ابو داؤد کہتے ہیں کہ’’قَدْ رُوِیَ مِأَتَیْنِ عَنْ غَیْرِ الثِّقَاتِ کہ زہری کی روایت کردہ روایتوں میں دو صد کے قریب روایتیں غیرثقہ راویوں سے مروی ہیں۔ (تہذیب التہذیب باب المیم زیرلفظ محمد)نیز اس کے متعلق علامہ ذہبی کی رائے یہ ہے کہکَانَ یُدَلِّسُ فِی النَّادِرِ۔ (میزان الاعتدال زیرلفظ محمدبن مسلم)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
اسی طرح حدیث کا دوسرا راوی سعید بن منصور بن شعبۃ الخراسانی ابو عثمان ہے اس کے متعلق لکھا ہے کہ اِذَا رَأَی فِیْ کِتَابِہٖ خَطَاءً لَمْ یَرْجِعْ عَنْہُ۔ (تہذیب التہذیب باب الحاء زیرلفظ حُرملۃ و میزان الاعتدال زیر لفظ سعید بن منصور) یعنی یہ راوی اتنا ضدی تھا کہ اگر اپنی تحریر کردہ حدیث میں کوئی غلطی بھی دیکھتا تھا تو اپنی غلطی سے رجوع نہ کرتا تھا۔ اسی طرح دوسری سند میں سعد بن عبدالرحمن الفہمی بھی ہے جس نے یہ روایت زہری سے لی ہے۔ اس کے متعلق لکھا ہے کہ ’’وَھُوَ دُوْنَھُمْ فِی الزُّھْرِیِّ‘‘……فِیْ حَدِیْثِہٖ عَنِ الزُّھْرِیِّ بَعْضُ الْاِضْطِرَابِ۔ (تہذیب التہذیب باب السین زیرلفظ سعد)کہ لیث کی جو روایت زہری سے ہو وہ مشکوک ہوتی ہے۔ پس روایت متنازعہ بھی مشکوک ہے۔ تیسرے طریقہ میں حرملہ بن یحییٰ بن عبداﷲ بھی ضعیف ہے۔ ابو حاتم اس کے متعلق کہتے ہیں کہ’’لَا یُحْتَجُّ بِہٖ ‘‘ کہ اس کا قول حجت نہیں۔ نیز یہ روایت اس راوی نے ابن وہب سے لی ہے۔ حالانکہ یہ ثابت ہے کہ ان دونوں کے درمیان دشمنی تھی۔ پس یہ روایت حجت نہیں۔(تہذیب التہذیب باب الحاء زیرلفظ حُرملۃ )

مختصر یہ کہ یہ روایت ضعیف ہے اور اس میں زہری کی تدلیس اور لیث کا اضطراب اور حرملہ کی عدم ثقاہت کا دخل ہے۔لہٰذا حجت نہیں۔

۲۔ فَجِّ الرَّوْحَاءِ کوئی میقات نہیں۔ چنانچہ (الف)فَجَّ بمعنی طریق است و ہر دور امکانیست ما بین مدینہ طیبہ روادمی صغر ا در راہ مکہ مکرمہ(حجج الکرامۃ صفحہ ۳۲۹ از نواب صدیق حسن خان صاحب بزبان فارسی)پس ثابت ہو ا کہ یہ میقات نہیں۔

ب۔ لَیْسَ بِمِیْقَاتٍ (اکمال الاکمال شرح مسلم جلد ۳ ص ۳۹۸)کہ فج روحاء کوئی میقات نہیں۔

ج۔ لغت کی کتاب قاموس میں ہے اَلرَّوْحَاءُ بَیْنَ الْحَرَمَیْنِ عَلٰی ثَلَاثِیْنَ وَ اَرْبَعِیْنَ مِیْلًا مِنَ الْمَدِیْنَۃِ (قاموس فصل الرّاء باب الحاء )کہ روحاء حرمین کے درمیان مدینہ سے تیس چالیس میل کے فاصلہ پر ہے۔ پس یہ نہ میقات ہے اور نہ میقات کے بالمقابل۔

۳۔ مسلم کی ایک دوسری حدیث اس حدیث کی شرح کرتی ہے۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سِرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃِ فَمَرَرْنَا بِوَادٍ فَقَالَ اَیُّ وَادٍ ھٰذَا؟ فَقَالُوْا وَادِی الْاَزْرَقِ فَقَالَ کَاَنِّیْ اَنْظُرُ اِلٰی مُوْسٰی فَذَکَرَ مِنْ لَوْنِہٖ وَ شَعْرِہٖ شَیْئًا…… وَاضِعًا اَصْبَعَیْہِ فِیْ اُذُنَیْہِ لَہٗ جُؤَارٌ اِلَی اللّٰہِ بِالتَّلْبِیَۃِ مَارًّا بِھٰذَا الْوَادِیْ۔ قَالَ ثُمَّ سِرْنَا حَتّٰی اٰتَیْنَا عَلٰی ثَنِیَّۃً فَقَالَ اَیُّ ثَنِیَّۃً ھٰذِہٖ؟ فَقَالُوْا ھَرْشٰی……فَقَالَ کَاَنِّیْ اَنْظُرُ اِلٰی یُوْنُسَ عَلٰی نَاقَۃٍ حَمْرَاءَ عَلَیْہِ جُبَّۃُ صُوْفٍ…… مَارًّا بِھٰذَا الْوَادِیْ مُلَبِّیًا۔ ‘‘

(مسلم کتاب الایمان باب الاسراء برسول اللّٰہ الی السموت و فرض الصلٰوۃ)

حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ ہم ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان گئے۔ پس ہم ایک وادی سے گزر ے۔ آنحضرت صلعم نے پوچھا یہ کونسی وادی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ وادی ارزق۔ آنحضرت صلعم نے فرمایا گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں پھر آنحضرت صلعم نے حضرت موسیٰ کے رنگ اور بالوں کاکچھ ذکر کیا انہوں نے اپنی انگلیاں دونوں کانوں میں ڈالی ہوئی ہیں اور وہ اس وادی سے گزرتے ہوئے لبیک کہہ رہے ہیں۔ راوی کہتا ہے کہ پھر ہم آگے چلے یہاں تک کہ ہم ایک ٹیلے پرپہنچے۔ آنحضرتؐنے پوچھا یہ کونسا ٹیلا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ ہرشیٰ ٹیلہ ہے آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ گویا میں یونس ؑ کو ایک سرخ اونٹنی پر سوار ایک صوف کا جبہ پہنے ہوئے اس وادی سے گزرتے ہوئے اور لبیک کہتے ہوئے دیکھ رہاہوں۔‘‘

معلوم ہوا کہ جس طرح کشفی حالت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان انبیاء کو تلبیہ کہتے ہوئے دیکھا اسی طرح وادی فج الروحاء میں احرام باندھے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا۔

۴۔چنانچہ تصوف کی مشہور کتاب التعرف کی شرح میں ابو ابراہیم اسمٰعیل بن محمد بن عبداﷲ المستملی لکھتے ہیں۔قَالَ اَبُوْ مُوْسٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ مَرَّ بِالصَّخْرَۃِ مِنَ الرَّوْحَاءِ سَبْعُوْنَ نَبِیًَّا حُفَاۃً عَلَیْھِمُ الْعَبَاءُ یَطُوْفُوْنَ الْبَیْتَ الْعَتِیْقَ۔ (شرح التعرف صفحہ۷)کہ ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ میں نے روحاء کے مقام پر ایک چٹان کے پاس گذشتہ ستر نبیوں کو ننگے پاؤں چادریں اوڑھے کعبہ کا طواف کرتے دیکھا ہے۔ پس اسی فج الروحاء کے مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا ہے۔

۵۔پس اس کشف کی تعبیر ہوگی اور تعبیر یہ ہے۔ ’’وَاَنْ رَّاٰی اَنَّہٗ حَجَّ اَوِعْتَمَرَ فَاِنَّہٗ یَعِیْشُ عَیْشًا طَوِیْلًا وَ تُقْبَلُ اُمُوْرُہٗ۔ (تعطیر الانام فی تعبیر الاحلام باب الحاء)یعنی جو شخص یہ دیکھے کہ اس نے حج یا عمرہ کیا ہے پس اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ لمبی عمر پائے گا اور اس کی مرادیں پوری ہوں گی۔

۶۔ وَمَنْ رَّاٰی فَعَلَ شَیْئًا مِنَ الْمَنَاسِکِ فَھُوَ خَیْرٌ عَلٰی کُلِّ حَالٍ وَ قِیْلَ اِنَّ الْاَحْرَامَ تَجَرَّدٌ فِی الْعِبَادَۃِ اَوْخُرُوْجٌ مِنَ الذَّنُوْبِ……فَاِنَّہٗ یَدُلُّ عَلٰی حُصُوْلِ رَحْمَۃٍ۔

(کتاب الاشارات فی علم العبارات باب ۱۰ صفحہ ۴۱ بر حاشیہ تعطیر الانام جلد۲ باب الصّاد)

کہ اگرکوئی شخص دیکھے کہ اس نے حج کے مناسک میں سے کوئی اد ا کیا ہے۔ تو یہ بہرحال اچھا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ احرام باندھنا (خواب میں )صرف عبادت کے لئے یا گناہوں سے نکلنے کے لئے خاص ہے۔ کیونکہ یہ حصول رحمت پر دلالت کرتا ہے۔

۷۔
وَمَنْ رَاٰی کَاَنَّہٗ خَارِجٌ اِلَی الْحَجِّ فِیْ وَقْتِہٖ……وَاِنْ کَانَ مَغْمُوْمًا فُرِجَ عَنْہٗ……فَاِنْ رَاٰی کَاَنَّہٗ یُلَبِّیُ فِی الْحَرَمِ فَاِنَّہٗ یَظْفُرُ بِعَدُوِّہٖ وَ یَأْمَنُ خَوْفَ الْغَالِبِ۔

(منتخب الکلام فی تفسیر الاحلام لامام محمد بن سیرین باب نمبر ۱۴ صفحہ ۳۷ بر حاشیہ تعطیر الانام باب الباء جلد ۱ صفحہ ۳۷)

کہ خواب میں جو شخص یہ دیکھے کہ حج کے ایام میں حج کے لئے جا رہا ہے پس اگر تو اس کو کوئی خوف ہے تو وہ امن پائے گا۔ اور اگر وہ ہدایت یافتہ نہیں تو ہدایت پائے گا۔ اور اگر وہ مغموم ہے تو غم دور ہو گا۔ اور اگر کوئی خواب میں دیکھے کہ وہ احرام کی حالت میں لبیک کہہ رہا ہے پس وہ کامیاب ہو جائے گا اور خوف سے امن میں ہو جائے گا۔

۸۔ اور یہاں ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ دجّال کافر ہے۔ اس کا طواف سے کیا کام ؟ جواب اس کا یہ دیا ہے علما ء نے کہ یہ آنحضرتؐ کے مکاشفات سے ہے۔ خواب میں تعبیر اس کی یہ ہے کہ آنحضرت صلعم کو دکھایا ۔ روز ہوگا کہ عیسیٰ ؑ گرد دین کے پھریں گے واسطے قائم کرنے دین کے اور درستی کرنے خلل و فساد کے۔ اور دجّال بھی پھرے گا گرد دین کے بقصد خلل و فساد ڈالنے کے دین میں۔ کَذَا قَالَ الطَّیْبِیُّ۔

(مظاہر حق شرح مشکوٰۃ کتاب علامات قیامت باب حلیہ دجّال و مرقاۃ شرح مشکوٰۃ کتاب الفتن باب العلامات بین یدی الساعۃ و ذکرالدجّال۔ مجمع البحار الانوار جلد ۲ صفحہ ۳۲۲ و بر حاشیہ مشکوٰۃ صفحہ ۴۰۵ مطبع نظامی)

۹۔’’ لَیُھِلَّنَّ‘‘ کا مضارع اس حدیث میں مولوی ثنااﷲ امرتسری کے ترجمہ قرآن کو مدنظر رکھتے ہوئے حال کے لئے بھی ہو سکتا ہےَ جیسا کہ مولو ی صاحب مذکور نے آیت (النساء:۷۳)کا ترجمہ کوئی تم میں سے سستی کر تا ہے کیا ہے۔

(دیکھوتفسیر ثنائی تفسیر سورۃ النساء زیر آیت )


۱۵۔اعتراض ۔ مرزا صاحب سے تو خدا کا وعدۂ حفاظت تھا۔ پھر کیا ڈر تھا ؟


جواب:۔۱۔’’(المائدۃ:۶۷)کا وعدہ تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ بھی تھا اوریہ وعدہ ابتدائے نبوت میں ہواتھا۔‘‘

(درمنثور زیر آیت ۔ المائدۃ:۶۷)

پھر حضرت ؐ ہجرت کے لئے رات کو نکلے اور غارثور میں چھپنے کی کیا ضرورت تھی ؟ نیز در منثور میں ہے کہ’’کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا خَرَجَ بَعَثَ مَعَہٗ اَبُوْطَالِبٍ مَنْ یَّکَلُؤْہٗ۔ ‘‘نیز دیکھو ابن کثیر بر حاشیہ فتح البیان زیرآیت۔و بحرمحیط زیرآیت ) کہ رسول خد صلعم جب کہیں جاتے تو حضرت ابو طالب کسی آدمی کو بطور حفاظت ساتھ بھیج دیتے تھے۔ نیز اگر یہ کہو کہ مرزا صاحب نے پنج بنائے اسلام بھی پورے نہ کئے تو تم یہ بتاؤ کہ نبیوں کے سردار آنحضرت صلعم نے پانچ بناء اسلام کو پورا کیا ہے ؟ آپؐ کا زکوٰۃ دینا ثابت کرو نیز حضرت علیؓ کا۔

۲۔ جنگ بدر کے موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے زرہ پہنی۔ فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ رَأَیْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَلْبَسُ الدِّرْعَ (بیضاوی زیرآیت المائدۃ:۵۱)کہ بد ر کی جنگ کے موقع پر میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو زرہ بکتر پہنے ہوئے دیکھا۔

۳۔ تفسیر حسینی میں لکھا ہے :۔

’’تفسیر وسیط میں محمد بن کعب قرظی سے منقول ہے کہ لیلۃ العقبہ میں پچہتر آدمی اہل مدینہ میں سے حضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیعت کرتے تھے۔ عبداﷲ رواحہؓ نے کہا کہ یا رسول اﷲ وہ شرط کر لیجئے جو خدا اور رسول کے واسطے آپ چاہتے ہیں۔آپ نے فرمایا کہ خدا کے واسطے تو میں یہ شرط کرتا ہوں کہ تم اسی کی عبادت کرو اور اس کا شریک نہ ٹھہرا ؤ۔ اور اپنے واسطے یہ شرط کرتا ہوں کہ ان چیزوں سے میری حفاظت کرو جن سے اپنی جانوں اور مالوں کی حفاظت کرتے ہو۔‘‘
(تفسیر قادری مترجم زیر آیت۔التوبۃ :۱۱۰)

۱۶۔مرزاصاحب نے ملازمت کی


اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے ملازمت کیوں کی ؟


الجواب۔ بخاری میں ہے کہ آنحضرت صلعمنے فرمایا کُنْتُ اَرْعَاھَا عَلٰی قَرَارِیْطَ لِاَہْلِ مَکَّۃَ (بخاری کتاب الاجارۃ باب رَعْیِ الْغَنَمِ )کہ میں چند قیراط لے کر کفار مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ نیز قرآن مجید میں حضرت موسیٰ ؑ کا اپنے خسر کی بکریاں چرانا پڑھو۔

۱۷۔چندہ لیتے تھے؟


اعتراض۔ مسیح یہ مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے چندہ کیوں لیا ؟


حضرت مرز ا صاحب چندہ لیتے ہیں۔ حالانکہ مہدی نے تو مال بانٹنا تھا یہاں تک کہ کوئی قبول کرنے والا باقی نہیں رہے گا۔
جواب:۔ مولویوں کو پیسو ں کی خاص طور پر فکر ہوتی ہے۔ حدیث میں ’’یَفِیْضُ الْمَالُ ‘‘ ہے ۔(دیکھو ترمذی کتاب الفتن باب ما جاء فی نزول عیسٰی بن مریم)یعنی اس زمانہ میں دولت اور مال زیادہ ہوگا۔ جیسا کہ اب ہے۔

۲۔ اگر’’یَفِیْضُ الْمَالُ ‘‘ (ترمذی کتاب الفتن باب ما جاء فی نزول عیسٰی بن مریم )کو صحیح سمجھ کر یہ معنی کئے جائیں کہ مسیح موعودؑآکر مال تقسیم کرے گا مگر کوئی اس کو قبول کرے گا تو اس سے مراد دنیوی مال و دولت تو ہو نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ترمذی شریف کی ایک اور صحیح حدیث میں ہے:۔ ’’لَوْ کَانَ لِاِبْنِ اٰدَمَ وَادِیًا مِّنْ مَالٍ لَابْتَغٰی عَلَیْہِ ثَانِیًا وَلَوْکَانَ لَہٗ ثَانِیًا لَابْتَغٰی عَلَیْہِ ثَالِثًا وَلَا یَمْلَاءُ جَوْفَ ابْنِ اٰدَمَ اِلَّا التُّرَابُ ‘‘ (ترمذی کتاب المناقب ابی ابن کعب)

’’اگر انسان کو ایک وادی مال و دولت سے بھرپور مل جائے تواس پر بھی وہ ضرور دوسری وادی کا آرزومند ہوگا۔ اور جب اس کو دوسری وادی بھی حاصل ہو جائے تو اس پر بھی وہ تیسری وادی کا خواہشمند ہوگا۔ اور( سچ تو یہ ہے کہ) انسان کے پیٹ کو سوائے خاک کے اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ (یعنی قبر میں ہی جا کر اس کی حرص مٹتی ہے ۔)‘‘

پس یہ کس طرح ممکن ہے کہ مہدی کے وقت میں یہ انسانی فطرت بدل جائے اور آنحضرت صلعم کا یہ فرمان غلط ہو جائے۔ پس مہدی کے مال بانٹنے سے مراد وہ علوم آسمانی اور حقائق معارف کا خزانہ ہے جو مسیح موعودؑنے لوگوں کو دیا اور جس کو تمہارے جیسے بد قسمت قبول نہیں کرتے۔

۳۔ اس مال سے مراد وہ متعدد انعامات ہیں جو آپ نے اپنی مختلف کتابوں کے جواب لکھنے والوں کے لیے مقرر فرمائے۔ مگر کسی کو ان کے قبول کرنے کی جرأ ت نہیں ہوئی۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۴۔ قرآن مجید میں ہے:۔الف۔(المجادلۃ:۱۳)کہ اے مسلمانو ! جب تم آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس کوئی مشورہ کرنے جاؤ تو کچھ چندہ بھی لے جایا کرو۔
ب۔(التوبۃ:۱۱۱)
کہ اﷲ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کے مال اور ان کی جانیں خرید کر اس کے عوض ان کو جنت دے دیا ہے۔

ج۔ قرآن مجیدمیں سینکڑوں آیات انفاق فی سبیل اﷲ کے متعلق ہیں۔
۵۔الزامی جواب

بخاری میں ایک نہایت دلچسپ حدیث ہے۔ جس کے مطابق حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ بعض صحابہؓ کسی گاؤں میں بحالت سفر ٹھہرے اور اہل گاؤں سے دعوت طلب کی، مگر ان لوگوں نے مہمانی سے انکار کیا۔ اتنے میں اس قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا۔ سب علاج کئے لیکن فائدہ نہ ہوا۔ کسی نے انہیں کہا کہ گاؤں سے باہر جو لوگ (صحابہ)ٹھہرے ہوئے ہیں ان سے پوچھو۔ شاید ان میں سے کسی کو کوئی علاج معلوم ہو۔ چنانچہ جب وہ لوگ صحابہ کے پاس آئے تو ایک صحابی نے کہا ہاں میں دم کرنا جانتا ہوں۔ مگر چونکہ تم لوگوں نے ہمیں مہمانی دینے سے انکار کر دیا تھا اس لئے اب بلااُجرت علاج نہیں کروں گا۔ ا س پر ان لوگوں کے ساتھ ان کا معاوضہ چند بھیڑیں ، بکریاں مقرر ہوا۔ اس صحابی نے قبیلہ کے سردار پر’’‘‘پڑھ کر دم کیا جس سے وہ یکدم اچھا ہو گیا اور اس صحابی کو گاؤں والو ں نے معاوضہ ادا کر دیا۔ اس پر باقی صحابہ نے کہا اس معاوضہ میں ہمارا بھی حق ہے پس ہمارا حصہ بانٹ دو مگر وہ صحابی جنہوں نے دم کیا تھا کہتے تھے کہ چونکہ دم میں نے کیاہے اس لئے یہ میرا ذاتی حق ہے کسی دوسرے کا اس میں حصہ یا دخل نہیں۔ اس پر یہ فیصلہ ہوا کہ آنحضرت صلعمکے پاس چلتے ہیں جو فیصلہ حضورؐ کریں۔ آخر وہ سب اصحاب آنحضرت صلعم کے حضور پیش ہوئے۔ حضور صلعم نے سب واقعہ سنا۔ پھر اس دم کرنے والے صحابی سے مخاطب ہو کر فرمایا:۔

’’وَمَا یَدْرِیْکَ اَنَّھَا رُقْیَۃٌ ثُمَّ قَالَ قَدْ اَصَبْتُمْ اَقْسِمُوْا وَاضْرِبُوْا لِیْ مَعَکُمْ سَھْمًا فَضَحِکَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ‘‘

(بخاری کتاب الاجارۃ باب مَا یُعْطِیْ فی الرقیۃ علٰی أحیاءِ العَرَب بفاتحۃِ الکتاب)

یعنی آنحضرتصلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’تم کو کیسے معلوم ہو ا کہ (سورۃ فاتحہ سے) جھاڑ پھونک یا دم کیا جاتا ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا اب اس کو بانٹ لو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی لگا دو۔‘‘ یہ کہہ کر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم مسکرائے۔

سوال یہ ہے کہ(۱) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا حصہ کیوں نکلوایا۔ (۲) مسکرائے کیوں تھے ؟

۶۔ اسی طرح بخاری کتاب الوکالۃ باب الوکالۃ فی قضاء الدیوان پر ہے کہ آنحضرت صلعم سے ایک شخص نے اپنا سابقہ قرض طلب کیا اور آپؐسے جھگڑا کر کے سخت کلامی کی۔ جس پر صحابہ اسے مارنے لگے مگر آنحضرتؐنے صحابہ کو اس سے منع فرمایا مگر اپنا قرض صحابہؓ سے ادا کروایا۔

۱۸۔مراق


اعتراض ۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے مجھے مراق ہے (بد ر جلد ۲ نمبر ۲۳ صفحہ ۵ کالم نمبر ۲۔ ۷ جون۱۹۰۶ء) اور مراق کا ترجمہ ہے۔ ہسٹیریا بقول مرزا بشیر احمد صاحب (سیرۃ المہدی جلد ۱ صفحہ ۱۳ مطبوعہ ۲۱ دسمبر ۱۹۲۳ء)اور جس کو ہسٹیر یا ہو، وہ نبی نہیں ہو سکتا۔ بقول ڈاکٹر شاہ نواز خاں صاحب اسسٹنٹ سرجن جہلم (ریویوآف ریلجنز جلد ۲۵ جلد ۸ صفحہ۱۱،۱۲ و ۲۹۲ اگست ۱۹۲۶ء)پس ثابت ہو ا مرزا صاحب نبی نہ تھے ان کو کا ٹا لیپسی CATALEPSY کا مرض تھا۔(رسالہ مراق مرزا مؤلفہ حبیب اﷲ صفحہ ۲)


جواب:۔ (۱) خدا کے انبیا ء کو ہمیشہ مجنون ہی کہا جاتا ہے۔ قرآن میں کہا ہے (الصّٰفٰت:۳۷)

(۲) سب انبیاء کے سردارآنحضرت صلعم کے بد باطن دشمنوں نے آپؐکے متعلق بھی یہی بکواس کی تھی۔ چنانچہ ملاحظہ ہو کتاب

"A Contribution to the History of Islamic Civilisation"

(by Von Kremer Page 180-185)

اصل الفاظ یہ ہیں :۔

"Our acquaintance with the fable, later on repeated with a peculiar zest, that Mohammed invented the story of his intercourse with Gebriel in order to allay the anxiety of Khadijah for epileptic fits with which he was often seized.

ii Guibert of Nogent writes, Mohammed however, was soon seized with epileptic fits, and Khadijah frightened and alarmed at this malady, hastened to the hermit for an explanation. She was, thereupon assured that the apparent epilepsy was only the condition in which Mohammed was honoured with divine revelations."

۳۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ہرگز نہیں فرمایا کہ مجھ کو مراق ہے۔ یہ غلط ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ’’مراق‘‘ تھا۔ حضرت مسیح موعودؑکو’’دوران سر‘‘ یعنی ’’سر درد‘‘ کا مرض ضرور تھا۔ اورحضرتؑ نے اپنی قریباً ہر ایک کتاب میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ مگر حضور نے ایک مقام پر بھی اس کا نام مراق نہیں رکھا۔ بدر ۷ جون ۱۹۰۶ء جس کا حوالہ معترضین نے دیا ہے وہ حضرت کی تحریر نہیں بلکہ ڈائری ہے۔ اور ڈائری حضرت مسیح موعودؑکی تحریر کے بالمقابل اور خلاف ہونے کی صورت میں حجت نہیں۔ پس اگر’’مراق کے لفظ سے مراد مالیخولیا‘‘ ہے تو یہ حضرت کی تحریرات کے سراسر خلاف ہے۔ لہٰذا قابل قبول نہیں۔ حضرت نے جب صدہا مرتبہ اسی بیماری کا نام اپنی تحریرات میں ’’دوران سر‘‘ تحریر فرمایا ہے اور ایک جگہ بھی’’مراق‘‘ نہیں لکھا تو ڈائری اس کے خلاف پیش نہیں ہوسکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:۔

’’ایسا ہی خدا تعالیٰ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر کوئی خبیث مرض دامنگیر ہو جائے جیسا کہ جذام اور جنون اور اندھا ہونا اور مرگی۔ تو اس سے یہ لوگ نتیجہ نکالیں گے کہ اس پر غضب الٰہی ہو گیا اس لئے پہلے سے اُس نے مجھے براہین احمدیہ میں بشارت دی کہ ہریک خبیث عارضہ سے تجھے محفوظ رکھوں گا اور اپنی نعمت تجھ پر پوری کرونگا۔‘‘

(اربعین نمبر ۳۔ روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۴۲۹ حاشیہ)

۴۔الزامی جواب

تم لوگ ہمیشہ خدا کے نبیوں کے متعلق ایسی ایسی باتیں گھڑتے ہی رہتے ہو جس سے انہیں خللِ دماغ کا مریض تسلیم کرنا پڑے۔ حضرت مرزا صاحب کے تو تم دشمن ہو مگر تم نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا بھی لحاظ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ آپ کے متعلق لکھ دیا کہ آپؐپر جادو کا اثر ہوگیا اور آپؐ کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ آپ سمجھتے تھے کہ میں نے فلاں کام کیا ہے حالانکہ آپ نے نہ کیا ہوتا تھا۔ ( گویا نعوذباﷲ حواس قائم نہ رہے تھے )۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:۔

’’عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ سُحِرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ…… حَتّٰی کَانَ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ اِنَّہٗ یَفْعَلُ الشَّیْءَ وَمَا یَفْعَلُہٗ۔ ‘‘

(بخاری کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس و جنودہ۔ تجرید بخاری از علامہ حسین بن مبارک زبیدی ۹۰۰ ھ فیروز الدین اینڈ سنز لاہور)

ترجمہ از تجرید بخاری:۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کہتی ہیں کہ( ایک مرتبہ) نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا (ا س سے) آپ کو خیال ہوتا کہ ایک کام کیا ہے حالانکہ آپ نے اس کو کیا نہ ہوتا۔‘‘

پھر باوجود ان روایا ت کے حضرت مسیح موعودؑپر اعتراض کرو تو معذور ہو۔ کیونکہ یرقان کے مریض کو ہر چیز زرد ہی نظر آتی ہے۔ باقی رہا ’’دورانِ سر‘‘ اور اس پر مذاق اوّل تو اس لئے کہ مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعۃ باب خروج الدجّال و نزول مسیح جلد ۲ مصری کی حدیث میں ہے کہ مسیح موعودؑدو زرد چادریں پہنے ہوئے ہو گا۔ یہ آپ کی صداقت کی دلیل ہے اور اس لئے بھی کہ ڈاکٹری کی رو سے دورانِ سر دماغ کے اعلیٰ ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔

"The Subjects of Migraine are nearly always of an active capable and intelligant type."

(A Text Book of The Practice of Medicine. U.W.Migraine)

’’یعنی دورانِ سر کے مریض قریباً ہمیشہ قابل اور عالی دماغ آدمی ہوتے ہیں۔‘‘

باقی رہا سائل کا طرز استدلال۔ سو وہ خود ہی اس کی غلطی پر گواہ ہے ۔حضور نے کب کہا ہے کہ مجھے ہسٹیریا ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بے شک حضرت اُمّ المومنین کی زبانی ہسٹیریا کا لفظ بولا ہے۔ مگر( اوّل) آپ کوئی ڈاکٹر نہیں ہیں کہ جو ترجمہ دوران سر کا کیا ہے وہ درست ہو اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہسٹیریا کا مرض تھا۔ پس تیسرا حوالہ جو معترض نے نقل کیا ہے وہ بھی بے فائدہ ہے۔ نہ حضرت اپنی نسبت ہسٹیریا تسلیم کرتے ہیں نہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ہسٹیریا کا ترجمہ مالیخولیا کرتے یا سمجھتے ہیں۔ پس مخالف کا استدلال قطعاً باطل ہے۔ ڈاکٹر شاہ نواز خان صاحب نے محولہ بالا رسالہ میں طبی نقطۂ نگاہ سے ثابت کر دیا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑکو قطعاً ہسٹیریا نہ تھا۔ ہم نے جو انگریزی عبارتیں (VON KREMER)کی نقل کی ہیں ان میں وہ آنحضرت صلعم کی نسبت (EPILEPSY)کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ اور لطف یہ کہ مولوی ثناء اﷲ نے حضرت مسیح موعود ؑکی نسبت (CATALEPSY)کا لفظ استعمال کیا ہے اور انگریزی ڈکشنری میں دونوں کا ترجمہ ایک ہی بتایا گیا ہے۔ ’’‘‘ (البقرۃ:۱۱۹)

نوٹ۔ اسی کتاب کے صفحہ ۱۸۵ و صفحہ ۱۸۸ پر VON KREMER (فان کریمر)نے آنحضرتؐ کی وفات کے متعلق ایسی گندی اور ناقابل بیان فحش نویسی کی ہے کہ ہم اسے یہاں انگریزی میں بھی نقل نہیں کر سکتے۔ ان غیر احمدیوں کو جو حضرت مسیح موعودؑکی وفات کے متعلق فحش کلامی کیا کرتے ہیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ وہ اس قدر دلآزا ر ہے کہ حضرت مسیح موعودؑکے متعلق جو کچھ غیراحمدی کہا کرتے ہیں وہ دسواں حصہ بھی اس تحریر کے مقابلہ میں دل آزار نہیں۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۹۔مبہی دوائیاں

اعتراض۔ مرزا صاحب قوت باہ (مردانہ طاقت ) کی دوائیاں کھا یا کرتے تھے۔



جواب۔ قرآن مجید میں ہے’’‘‘ (الکہف:۱۱۱)کہ کہہ دے کہ میں بھی تمہاری طرح کا انسان ہوں۔ بوجہ بشریت تمام بشریت کے تقاضے (جو گناہ نہ ہوں )انبیاء کے ساتھ ہوتے ہیں۔ کوئی نبی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلعم کے متعلق بھی اسی قسم کے واقعات ہیں:۔

۱۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی مشہور و معروف کتاب’’کیمیائے سعادت‘‘میں فرماتے ہیں:۔

’’اور غرائیب اخبار میں منقول ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فر مایا کہ میں نے اپنے آپ میں ضعفِ شہوت دیکھا تو جبرائیل نے مجھے ہریسہ کھانے کو کہاا ورا س کا سبب یہ تھا کہ حضور ؐ کی نو عورتیں تھیں اوروہ تمام عالم پر حرام ہو چکی تھیں اور ان کی امید تمام جہان سے منقطع ہو چکی تھی ۔‘‘

(کیمیائے سعادت۔ مترجم اردو از ملک عنایت اﷲ صاحب پر و فیسر مشن کالج مطبوعہ دین محمدی پریس۔ رکن سوم مہلکات میں اصل پیٹ اور شرمگاہ کی خواہش کے علاج میں صفحہ ۲۷۰)

نوٹ:۔ کیمیائے سعاد ت کے فارسی ایڈیشن مطبع نولکشور کے صفحہ ۲۷۸ پر یہ روایت درج ہے:۔

۲۔’’ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جبرائیل سے اپنی قوتِ باہ کا شکوہ کیا۔ جبرائیل ؑ نے کہا کہ تم ہریسہ کھایا کرو ا س میں قوت چالیس مردوں کی رکھی ہے۔‘‘

۳۔ ’’انس بن مالک کہتے ہیں کہ فرمایا حضرت ؐ نے کہ تم خضا ب کیا کرو حناکا، کہ قوت باہ پیدا کرتی……ان حدیثات کو غایت الاحکام فی صناعت الاحکام نجم الدین ابن اللبودی ۶۶۱ھ والے نے بیان کیاہے۔‘‘ (طب نبوی شائع کردہ ملک دین محمد اینڈ سنز صفحہ ۷)

۴۔ تم لوگوں نے تو حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق اپنی تفاسیر میں لکھا ہے کہ وہ ’’حَصُوْر‘‘تھے۔ ان معنوں میں کہ ان میں قوتِ باہ مطلقاً مفقود تھی۔ (اس سے زیادہ بیان کرنا قرین مصلحت نہیں۔ خادمؔ)

دیکھو تفسیر ابن کثیر جلد ۱ تفسیر زیر آیت (آل عمران: ۴۰)

۵۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق لکھا ہے:۔ ’’وَکَانَ النِّسَاءُ وَالطِّیْبُ اَحَبَّ شَیْءٍ اِلَیْہِ وَکَانَ یَطُوْفُ عَلٰی نِسَائِہٖ فِی اللَّیْلَۃِ الْوَاحِدَۃِ وَکَانَ قَدْ اُعْطِیَ قُوَّۃُ ثَلٰثِیْنَ فِی الْجِمَاعِ وَ غَیْرِہٖ۔ ‘‘ (زاد المعاد فصل:فی ھدیہ النکاح و معاشرتہؐ أھلہٖ)

کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بیویاں اور خوشبو بہت پیاری تھی۔ اور آپ ؐ اپنی سب بیویوں کے پاس ایک ہی رات میں ہو آیا کرتے تھے۔ اور حال یہ تھا کہ آپ کو جماع وغیرہ کے لحاظ سے تیس مردوں کی قوت عطا ہوئی تھی۔

۶۔ ’’کَانَ یَطُوْفُ عَلٰی جَمِیْعِ نِسَائِہٖ فِیْ لَیْلَۃٍ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ۔ ‘‘

(جامع الصغیر امام سیوطی جلد۳ باب الکاف حدیث نمبر۷۰۸۵۔ مسند امام احمد بن حنبل حدیث نمبر۱۲۵۱۵، ۱۲۵۱۴ ، بخاری کتاب الغسل باب الجنب یخرج و یمشی فی السوق وغیرہ۔ مسلم کتاب الحیض باب ماجاء جواز نوم الجنب……الخ۔ ابو داؤد کتاب الطھارۃ باب ما جاء فی الرجل یطوف……الخ۔ ترمذی ابواب الطھارۃ باب ما جاء فی الرجل یطوف علی نساۂ بغسل واحد۔ نسائی کتاب الطھارۃ باب ایتان النساء قبل احداث الغسل۔ ابن ماجہ کتاب الطھارۃ باب ما جاء فیمن یغتسل من جمیع نساء ہ غسلا واحدًا۔تجرید بخاری مترجم اردو شائع کردہ فیروز اینڈ سنز ۱۳۴۱ھ جلد ۱ صفحہ۸۱)

ترجمہ از تجرید بخاری بحوالہ مذکورہ بالا:۔

’’رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے پاس (ایک ہی غسل میں۔ خادم) ایک ہی ساعت کے اندر رات اور دن میں دورہ کر لیتے تھے۔ اور وہ گیارہ تھیں۔ (ایک روایت میں آیا ہے کہ وہ نو تھیں۔ انس ؓ سے پوچھا گیا کہ آپ ؐ ان سب کی طاقت رکھتے تھے ؟ وہ بولے ہم تو کہا کرتے تھے کہ آپ کو تیس مردوں کی قوت دی گئی ہے۔

۷۔ ایک اور حدیث میں ہے:۔ ’’أَتَانِیْ جِبْرِیْلُ بِقِدْرٍ فَاَکَلْتُ مِنْھَا فَاُعْطِیْتُ قُوَّۃَ اَرْبَعِیْنَ رُجُلًا فِی الْجَمَاعِ۔ ‘‘ (جامع الصغیر للسیوطی مصری باب الالف الہمزہ جلد۱)

’’یعنی جبرئیل ؑ میرے پاس ایک مٹی کی ہنڈیا لائے۔ سو میں نے اس میں سے کھا یا تو مجھے جماع میں چالیس مردوں کی قوت دی گئی۔‘‘

۹۔ ایک اور روایت میں ہے:۔

’’اُعْطِیْتُ قُوَّۃَ ثَلَاثِیْنَ رَجُلًا فِی الْبِضَاعِ۔ ‘‘(فردوس الاخبار دیلمی بحوالہ کنوز الحقائق فی احادیث خیر الخلائق باب الالف بر حاشیہ جامع الصغیر باب الالف مصری جلد ۱)’’کہ مجھے جماع میں تیس مردوں کی قوت دی گئی ہے۔‘‘

۹۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک ہی رات میں سو بیویوں سے مجامعت کی۔

(مسند امام احمد بن حنبل مسند ابی ھریرۃ حدیث نمبر۷۰۹۷۔ بخاری کتاب النکاح باب قول الرجل لَأَطُوْفَنَّ اللَّیْلَۃَ عَلٰی نِسَائِیْ۔ مسلم کتاب الایمان بَابُ الْاِسْتِثْنَاءِ فِی الیمین وغیرھا۔ نسائی کتاب الایمان والنذور باب الاستثناء فی الیمین۔ بحوالہ جامع الصغیر للسیوطی حرف الکاف مصری جلد ۲ صفحہ ۸۵)

۲۰۔ٹانک وائین

اعتراض۔ مرزا صاحب نے حکیم محمد حسین صاحب قریشی مرحوم کی معرفت ٹانک وائن منگوائی؟



جواب:۔ ۱۔ ٹانک وائن شراب نہیں ہوتی بلکہ ایک دوائی ہے جو مختلف قسم کی بیماریوں خصو صاً بچہ پیدا ہونے کے بعد زچہ کے لئے مفید ہے۔ چنانچہ مشہور کتاب"METERIA MEDICA OF PHARACAUTICAL COMBINATIONS AND SPECIALITIES."میں جو علم اجزاء و خواص الادویہ کی کتاب ہے’’ٹانک وائن‘‘ کے متعلق لکھا ہے:۔

("Restorative after childs birth prophylactic against malarial fevers, anaemia, anorexia" Page 197)

کہ ٹانک وائن بچہ کی ولادت کے بعد زچہ کی بحالی طاقت کیلئے مفید ہے نیز ملیریا کے زہر کو زائل کرنے اور کمی خون اور بھوک نہ لگنے کے لئے بھی مفید ہے۔ اب جب ہم حضرت اقدس کے محولہ خط کو جس میں ٹانک وائن کا ذکر ہوا ہے پڑھتے ہیں تو اس میں کہیں بھی حضور نے اس کے متعلق یہ نہیں لکھا کہ میں نے اسے خود استعمال کرنا ہے۔ حضرت اقدس خاندانی حکیم بھی تھے اور اکثر غریب بیماروں کو بعض اوقات نہایت قیمتی ادویہ اپنی گرہ سے دے دیا کرتے تھے۔ لہٰذا محض دوائی منگوانے سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اسے حضور نے خود استعمال فرمایا۔ انتہائی بغض کا نتیجہ ہوگا۔

۲۔ ہاں ا س خط کے ساتھ ملحق خط میں حضرت اقدس نے اپنے گھر میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کی ولادت کا ذکر فرما کر بعض دوائیں طلب فرمائی ہیں پس ٹانک وائین بھی غالبا زچہ ہی کے لئے منگوائی گئی۔ کیونکہ یہ دوائی اسی موقع پر استعمال کی جاتی ہے۔ پس اندریں حالات بلاوجہ زبانِ طعن درازکرنا انتہائی بد بختی ہے۔ خصو صاً جبکہ ہم ثا بت کر آئے ہیں کہ یہ شراب نہیں بلکہ ایک دوائی کا نام ہے۔ اور اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ یہ دوائی کسی شراب فروش کی دکان سے نہیں ملتی۔ بلکہ انگریزی دوائی فروشوں کی دکان پر سے ملتی ہے۔

پس یہ ثابت ہے کہ ٹانک وائین شراب نہیں بلکہ دوائی ہے اور وہ دوائی بھی حضرت نے خود استعمال نہیں فرمائی لیکن غیر احمدیوں کے نزدیک تو خالص شراب کا استعمال بھی مندرجہ ذیل صورتوں میں جائز ہے۔ ملاحظہ ہو:۔

۱۔ ’’شراب میں تھوڑی سی ترشی آجائے تو پینا حلال ہے۔‘‘

(فتاویٰ ہندیہ ترجمہ فتاویٰ عالمگیری مطبع نولکشور بار دوم ۱۹۰۱ء جلد ۴ صفحہ ۴۰۶)

۲۔ ’’گیہوں و جو و شہد و جوار کی شراب حلا ل ہے۔‘‘

(عین الہدایہ ترجمہ ہدایہ جلد ۴ صفحہ ۳۹۸ مطبوعہ نولکشور بار اوّل ۱۸۹۶ء)

۳۔ ’’چھوارے و منقیٰ کی شراب حلال ہے۔‘‘

(مزدوری ترجمہ قدوری صفحہ ۲۴۳ مطبع مجتبائی دہلی بار دوم ۱۹۰۸ء)

۴۔ ’’جس نے شراب کے نو پیالے پئے اور نشہ نہ ہوا۔ اور پھر دسوا ں پیا اور نشہ ہو گیا تویہ دسواں پیالہ حرام ہے۔ پہلے نو پیالے نہیں۔‘‘

(غایۃالاوطار ترجمہ درِّ مختار جلد ۴ صفحہ۲۶۴مطبع نولکشور بار چہارم ۱۹۰۰ء)

۵۔ ’’پیاسے کو شراب پینا ضرورتاً جائز ہے۔‘‘ (ایضاً جلد ۱ صفحہ۱۰۶)

۶۔’’جو گوشت شراب میں پکایا گیا ہو۔ وہ تین بار جوش دینے اور خشک کرنے سے پاک ہو جاتا ہے۔‘‘ (ایضاً جلد ۱ صفحہ۱۰۷)

( فتاویٰ ہندیہ ترجمہ فتاویٰ عالمگیر ی صفحہ ۵۶ جلد ۱ و صفحہ ۱۳۴، صفحہ ۴۰۷، منقول از حقیقۃ الفقہ الموسومہ بہ الاسم التاریخی افاضات الجدیدہ محبوب المطابع برقی پریس دہلی مصنفہ الحاج مولوی محمد یوسف صاحب جے پوری بر صفحات ۱۴۷ ،۱۴۸، ۱۶۹،۱۷۰ حصہ اوّل)

۷۔ علاوہ ازیں شرح وقایہ میں لکھا ہے کہ’’جو کوئی چیز مسکر مخلوط ہو وئے تو بناء برمذہب امام صاحب درست ہے۔‘‘ (شرح وقایہ جلد ۴ صفحہ ۵۹ و کتاب الاشریہ آخری سطر مترجم اردو۔ موسومہ بہ نور الہدایہ جلد ۴ صفحہ۲۱۱ مطبوعہ مطبع نظامی کانپور)اور ظاہر ہے کہ دوائی ٹانک وائین مخلوط ہی کی صورت زیادہ سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ نہ اس سے زیادہ۔

۸۔ پھر لکھا ہے:۔ (الف)’’شراب بقدر سکر کے حرام ہے یہ مذہب اما م ابو حنیفہ ؒ کا ہے۔‘‘

(شرح وقایہ کتاب الأشربہ)

ب۔’’اور جائز ہے سرکہ بنا نا خمر کا۔‘‘ (نور الہدایہ ترجمہ اردو شرح وقایہ کتاب الأشربہ)

ج۔ اسی طرح نبیذ کھجور کا یا انگور خشک کا جب تھوڑا ساپکا لیا جائے۔ اگر چہ اس میں شدت ہو جائے لیکن ان تینوں کا اس مقدار تک پینا درست ہے کہ نشہ نہ کرے اور لہوو طرب کے قصد سے نہ پئے۔ بلکہ قوت کے لئے استعمال کرے۔ ‘‘ (نورالہدایہ ترجمہ اردو شرح وقایہ کتاب الأشربہ)

د۔’’نسائی نے مثلث کی حِلّت کو حضرت عمر ؓ سے روایت کیا۔ امام صاحب کے نزدیک صرف آخر کا پیالہ ہے جس سے نشہ ہوا۔‘‘ ( نور الہدایۃ ترجمہ اردو شرح وقایہ کتاب الأشربہ)

ر۔’’اور مکروہ ہے خمر (شراب )کی تلچھٹ کا پینا اور اس کو کنگھی میں مل کر بالوں کو لگانا ، لیکن تلچھٹ کا پینے والا جب تک مست نہ ہووے تو اس کو حد نہ لگے گی۔‘‘ (شرح وقایہ کتاب الأشربہ)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۲۔ریشمی کپڑے اور کستوری

اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا احمد علیہ السلام نے ریشمی کپڑا منگوایا اور کستوری استعمال کی۔


’’مرزا صاحب نے اپنے ایک مرید کو لکھا کہ میری لڑکی مبارکہ کے لئے ریشمی کرتا چاہیے جس کی قیمت چھ روپے سے زائد نہ ہو اور گوٹا لگا ہو اہو۔‘‘

(خطوط امام بنام غلام صفحہ ۵ مجموعہ مکتوبات حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام حکیم محمد حسین صاحب قریشی لاہو ر )

نیز کستوری استعما ل کیا کرتے تھے۔

جواب:۔ کستوری کا استعمال ذیابیطس کی بیماری کے لئے بطور علاج کے تھا اورہم نے آج تک قرآن مجید، حدیث یا کسی دوسری فقہ کی کتاب میں یہ نہیں پڑھاکہ کستوری حرام ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ (المؤمنون:۵۲)کہ اے رسولو ! جو پاک چیزیں ہیں وہ کھاؤ اور نیک کام کرو۔

باقی رہا مبارکہ کے لئے ریشمی کرتا اور گوٹا لگا ہو ا تو عورتوں کے لئے یہ دونوں چیزیں اسلامی شریعت کی رو سے حلال ہیں۔ ہاں اگریہ اعتراض ہو کہ خدا کے محبوبوں کو اچھی پوشاکوں اور اچھے کھانوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تو اس کا جواب سن لو !

۱۔’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اکثر مشک اور عنبر استعمال کرتے تھے۔‘‘

(سیرۃ النبیؐ شبلی نعمانی حصہ اوّل جلد ۲ صفحہ ۱۶۲ طبع یازدہم ۱۹۷۹ء نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد)

۲۔ ابو داؤد میں ہے کہ:۔ ’’ایک صحابی پر کسی حروری نے اعتراض کیا کہ تم نے قیمتی حلہ کیوں پہنا۔ تو انہوں نے جواب میں کہا۔ میں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسم پر قیمتی لباس دیکھا ہے۔‘‘

(ابو داؤد کتاب اللباس باب لباس الغلیظ )

۳۔ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’روایت ہے کہ حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دو سیر کستوری ایک ہی مرتبہ پانی میں ڈال دی او ر اپنے اور اپنے بالوں کے اوپر مل دی‘‘

(کشف المحجوب مترجم اردو تئیسواں بخشش او ر سخاوت کے بیان میں )

۴۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ڈاڑھی میں زعفرا ن لگایا کرتے تھے:۔

’کَانَ یَلْبَسُ النِّعَالَ السَبْتِیَۃَ وَ یُصَفِّرُلِحْیَتَہٗ بِالْوَرْسِ وَالزَّعْفَرَانَ۔ ‘‘

(بخاری کتاب اللباس باب النِّعَال السَّبْتِیَّۃِ وَغَیْرَھَا۔ مسلم۔ ابو داؤد کتاب الترجُّل باب فی خضاب الصفرۃ۔ بحوالہ جامع الصغیر مصنفہ اما م سیوطی مصری جلد ۲ صفحہ ۱۲۱)

کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم رنگے ہوئے چمڑے کی جوتی پہنتے تھے اور ہندو ستانی زعفران اور دوسرے زعفران سے داڑھی کو رنگا کرتے تھے۔‘‘

۵۔’’حضرت عثمان ؓ نے اپنے دانتوں کو سونے کے تار سے باندھ رکھا تھا۔‘‘

(تاریخ الخلفا ء مصنفہ امام سیوطی مترجم اردو بیان الأمراء۔ذکر عثمان ؓ)

۶۔ حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ ﷲ علیہ ’’پیران پیر‘‘ جن کا دعویٰ ہے کہ’’میں اپنے جدِّامجد کے قدم پر ہوں۔ نہ اٹھایا کوئی قدم آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی مقام سے کہ نہ رکھا میں نے اپنا قدم اس جگہ پر۔‘‘

(گلدستہ کرامات صفحہ ۷۔ روایات شیخ شہاب الدین سہر وردی مطبع مجتبائی دہلی)

نیز فرماتے ہیں کہ:۔ ’’ھٰذَا وَجُوْدُ جَدِّیْ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا وَجُوْدَ عَبْدِالْقَادِرِ۔ ‘‘ (ایضاً صفحہ ۱۰)

کہ میرا وجود نہیں بلکہ میرے نانا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجود ہے۔ ان کے کپڑوں کی یہ کیفیت تھی۔

(الف) ’’جناب فیض مآب ملائک رکاب محبوب سبحانی قدس اﷲ سرہ نہایت مقبول وضع اور خوش پوشاک رہتے تھے اور جسم مبارک کے کپڑے بھی ایسے بیش قیمت اور گراں بہا ہوتے تھے کہ ایک گز کپڑا دس دینار کو خریدا جاتا تھا۔ بلکہ ایک دفعہ عمامہ کرامت شمامہ جناب غوثیہ کا ستر ہزار دینار کو خریدا گیا تھا۔‘‘

(گلدستہ کرامات صفحہ۱۱۲۔ مطبع مجتبائی، مناقب چہل و سوم در بیان بعض مخزن کرامات مطبع افتخار دہلی صفحہ ۸۰)

(ب) جناب غوث الاعظم نعلین (جوتیاں )قَدَمَیْنِ شَرِیْفَتَیْنِاپنے کی اس قدر بیش قیمت پہنا کرتے تھے کہ وہ نعلین یا قوت سرخ اور زمرد سبز سے مرصع ہو اکرتی تھیں اور نیچے کے تلووں میں ان کے میخیں چاندی اور سونے کی جڑی ہوئی تھیں او ر کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوتا تھا کہ آپ نے کوئی نعلین آٹھ دن سے زیادہ اپنے پائے مبارک میں پہنی ہوں۔‘‘

(گلدستہ کرامات صفحہ ۱۱۲ مطبع مجتبائی مناقب چہل و چہارم در تعریف نعلین مطبع افتخار دہلی صفحہ ۸۱)

(ج) اور کبھی کوئی پوشاک ایک روز سے زیادہ آپ کے بدن شریف پر نہیں رہتی تھی اور سوداگر اور تجار اقالیم دور دراز سے پارچات عمدہ اور لباس ہائے بیش قیمت آپ کے واسطے لایا کرتے تھے…… اشیائے معطر سے آپ کوبہت شوق تھا کہ ہنگامِ مصروفیت عبادت جسم شریف اور لباس کو اس قدر عطر لگایا جاتا تھا کہ تمام مکان عالیشان مدرسہ معطر ہوجاتا تھا او ر اکثر یہ شعر آپ کی زبان حق ترجمان پر رہتا تھا ؂

ہزاربار بشویم دہن ز عطر و گلاب ہنو ز نامِ تو گفتن کمال بے ادبی است

(گلدستہ کرامات صفحہ ۲۱ مطبع مجتبائی )

۷۔’’حضرت امام جعفر صادق نے اعلیٰ لباس زیب تن کیا۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء مترجم اردو پہلا باب صفحہ ۱۵ شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز علمی پرنٹنگ پریس )

نیز محبوبانِ الٰہی کے اعلیٰ لباس کے پہننے کی حکمت ملاحظہ فرمائیں (کشف المحجوب از حضرت داتا گنج بخش صاحب مترجم اردو مولوی فیروزالدین صاحب صفحہ۵۴ مطبوعہ فیروز سنز لاہور) لیکن حضرت مسیح موعودؑکا لباس تو بالکل سادہ ہوتا تھا جس کا تم بھی انکار نہیں کر سکتے۔

۲۲۔طبیعت کی سادگی اور محویت

غیر احمدی:۔ حضرت مرزا صاحب بعض اوقات ایک پاؤں کا جوتا دوسرے میں پہن لیتے تھے۔ کبھی قمیض کے بٹن نیچے اوپر لگا لیتے تھے عام طور پر لو گوں کے نا م بھول جاتے تھے۔ کیااس قسم کا شخص بھی مقرب بارگاہ الٰہی ہو سکتا ہے ؟



جواب۔ یہی تو مقربان بارگاہ الٰہی کی علامت ہے کہ ان کو انقطاع الی اﷲ کی وہ حالت میسر ہوتی ہے جس سے دنیا وار لوگ بکلی محروم ہوتے ہیں ان کی یہ محویت اس لئے ہوتی ہے کہ ان کو دنیا اور اس کے دھندوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے وقت ہی نہیں ملتا۔ کیونکہ وہ دن رات اپنے خالق کی طرف سے مفوضہ فرائض کی سر انجام دہی میں مصروف رہتے ہیں ان کو دنیا اور دنیا کے دھندوں میں قطعاً انہماک نہیں ہوتا کیونکہ وہ دنیا میں نہیں ہوتے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔ ؂

ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں
آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار

(درثمین اردو صفحہ ۸۲)

۱۔ حدیث نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی فرمایا:۔’’اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَاکُمْ۔‘‘(کنز العمال جلد ۱۱ صفحہ ۴۲۵ نیا ایڈیشن )یعنی دنیا میری نہیں بلکہ تمہاری ہے اور تم ہی اپنی دنیا کے امور کو مجھ سے زیادہ سمجھتے ہو۔

(نیز دیکھیں مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال عن انس ؓ و عائشہ ؓ)

۲۔ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:۔ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ نے ہم کو ہدایت فرمائی ہے کہ دنیا اور دنیا کی چیزوں کے جاتے رہنے میں خطرہ نہیں۔ ان کی طرف دل مشغول نہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ جب تو فانی کی طرف مشغول ہو گا تو باقی سے درپردہ رہے گا۔ جبکہ نفس اور دنیا طالب کے واسطے حق سے حجاب ہوتا ہے۔ اس لئے دوستانِ خداوند عز وجل نے اس سے منہ موڑا ہے۔‘‘

(تلخیص از کشف المحجوب مترجم ا ردو مولوی فیروزالدین صاحب فصل اوّل ذکر حضرت ابوبکر صدیق ؓ)

پھر فرماتے ہیں:۔

’’ایک گروہ نے لباس کے ہونے یا نہ ہونے میں تکلف نہیں کیا۔ اگر خداوند تعالیٰ نے ان کو گڈری دی تو پہن لی۔ اور اگر قبادی تو بھی پہن لی۔ اور اگر ننگا رکھا تو بھی ننگے رہے۔ اور میں کہ علی بن عثمان جلابی رضی اﷲ عنہ کا بیٹا ہوں اس طریق کو میں نے پسند کیاہے اور اپنا لباس پہننے میں ایسا ہی کیا ہے۔‘‘

(تلخیص از کشف المحجوب مترجم اردو چوتھا باب فصل سوم )
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۳۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:۔

الف۔ حضرت حبیب عجمی رحمۃ اﷲ علیہ کے بارے میں حضرت شیخ فرید الدین عطار تحریر فرماتے ہیں:۔

’’تیس سال تک ایک کنیز آپ کے ہاں رہی، لیکن آپ نے اس کا منہ تک نہ دیکھا۔ آپ نے اس لونڈی کو مخاطب کر کے فرمایا۔ اس تیس سالی کی مدت مجھ کو یہ مجال نہ تھی کہ خدا کے سوا کسی اورکی طرف دھیان کروں۔ اس وجہ سے تیر ی طرف متوجہ نہ ہو سکا۔‘‘

(تذکرۃ الاولیا ء اردو ترجمہ صفحہ ۳۷ شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز )

(ب) حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ کی نسبت لکھا ہے:۔

’’آپ کے استغراق کا یہ عالم تھا کہ ایک مرید جو بیس سال سے ایک دم کے لئے آپ سے جدا نہ ہوا تھا، جب بلاتے تھے تو اس سے اس کا نام دریافت فرماتے۔ ایک دن اس مرید نے عرض کی کہ حضرت ! شاید آپ مذاق میں ایسا کہتے ہیں اور ہر روز میرا نام دریافت فرماتے ہیں۔ فرمایا کہ میں مذاق نہیں کرتا بلکہ اﷲ تعالیٰ کے نام نے تمام مخلوق کو میرے ذہن سے فراموش کر دیا ہے۔ اگر چہ میں تیرا نام یاد کرتا ہوں لیکن پھر بھول جاتا ہوں۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء اردو صفحہ ۱۱۹۔ باب چودھواں شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز )

ج۔ حضرت داؤ د طائی رحمۃ اﷲ علیہ کے بارے میں لکھا ہے:۔

’’ایک دفعہ ایک شخص نے آپ کے پاس جا کر کہا کہ آپ کے مکان کی چھت ٹوٹ گئی ہے ، گر پڑے گی۔ فرمایا بیس سال ہوئے میں نے چھت کو نہیں دیکھا پھر آپ سے پوچھا گیاکہ خلقت سے کیوں نہیں ملتے ؟ فرمایا اگر اپنے آپ سے فراغت ہو تو دوسروں کے پاس بیٹھوں۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء اردو صفحہ ۱۵۴۔اکیسواں باب شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز )؂

د۔ حضرت ابو سفیان ثوری ؒ کی نسبت لکھا ہے:۔

’’ایک دفعہ اآپ نے ایک کپڑا الٹاپہن لیا۔ لوگوں نے کہا کہ سیدھا کر کے پہنو مگر آپ نے نہ کیا اور فرمایا کہ یہ کپڑا میں نے خدا کی خاطر پہنا ہے۔ خلقت کی خاطر اس کو بدلنا نہیں چاہتا۔ ‘‘

(تذکرۃ الاولیا ء اردو صفحہ ۱۴۰۔ سولہواں باب شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز )

۲۳۔ پردہ کے عدم احترام کا الزام

غیر احمدی۔ حضرت مرزا صاحب کے سامنے نامحرم عورتیں چلتی پھرتی رہتی تھیں۔ بلکہ ایک ضعیفہ عورت ’’بانو‘‘ نام نے ایک مرتبہ آپ کے رضائی کے اوپر سے پاؤں دبائے۔



جواب:۔ اس اعتراض کی بنیاد حضرت مسیح موعود ؑ یا حضور ؑ کے خلفاء کی کسی تحریر پر نہیں بلکہ زبانی راویات پر ہے۔ اور ظاہر ہے کہ حجت صرف حضرت مسیح موعود ؑ یا حضور ؑ کے خلفاء کی تحریرات ہیں۔ حضرت اقدس ؑ کی اپنی تحریرات کے برخلاف کوئی ڈائری یاکسی اور کا قول یا روایت ہر گز حجت نہیں۔ احراری معترضین اس سلسلہ میں جس قدر روایات پیش کرتے ہیں وہ سب ایسی کتابوں کی ہیں جن کی غلطی یا خطا سے منزہ ہونے کا دعویٰ خود ان کے مؤلفین یا مرتبین کو بھی نہیں ہے۔ حضر مرزا بشیر احمد صاحب کی تا لیف ’’سیرۃ المہدی ‘‘ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ جیسا کہ خود حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کے دیباچہ میں تحریر فرمایا ہے:۔

الف۔اس سے یہ مراد نہیں کہ میں ان روایات کی تفصیل کے متعلق بھی صحت کایقین رکھتا ہوں۔ میں سمجھتاہوں کہ ہمارے ملک میں جو روایت کا طریق ہے اور جو روایات کے متعلق لوگوں کے حافظہ کی حالت ہے وہ مجھے ایسا خیال کرنے سے مانع ہے۔

(سیرت المہدی حصہ اوّل عرض حال صفحہ ب مطبوعہ۲۱ دسمبر ۱۹۲۳ء)

پھر تحریر فرماتے ہیں:۔

’’ میرا مقصود یہ رہا ہے کہ روایت کے سب پہلو واضح ہو جائیں تا کہ اوّل تو اگر کوئی کمزوری ہے تو وہ ظاہر ہو جاوے۔‘‘ ( ایضاً صفحہ ج)

پھر فرماتے ہیں :۔’’میں الفاظ روایت کی صحت کا دعویدار نہیں ہوں۔‘‘ ( ایضاً صفحہ۱)

علاوہ ازیں سیرت المہدی حصہ سوم کے شروع میں عرض حال صفحہ ۱ کے عنوان کے ماتحت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حصہ اوّل کی کئی روایات کی غلطیاں بیان فرمائی ہیں۔ نیز خو د حصہ سوم کی بعض روایات کے بارے میں تحریر فرمایا ہے کہ:۔ ’’اگر یہ روایت درست ہے۔‘‘( مثلاً دیکھیں حصہ سوم۔ صفحہ۲۲، ۲۶، ۵۰، ۵۵، ۱۳۸)اسی طرح صفحہ۶۴ پر بھی درج کردہ روایت کی صحت کے بارے میں شک کا اظہار فرمایا ہے۔ اسی طرح صفحہ ۱۳۹ پر روایت نمبر ۷۱۰ کے بھی ایک اہم حصہ کو ’’مغالطہ‘‘ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

ب۔ خود سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۵روایت نمبر ۴۷۷ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ غیر محرم عورتوں سے لمس سے پرہیز فرماتے تھے۔

پس ضروری ہے کہ مباحثات میں استدلال کی بنیاد صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور ؑ کے خلفاء کی تحریرات پر رکھی جائے نہ کہ روایات پر۔

۲۔ جہاں تک شریعتِ اسلامی کی تعلیم کا سوال ہے قرآن مجید نے ایسے مردوں یا عورتو ں کو جو ’’‘‘( یعنی شہوانی جذبات سے خالی )ہوں۔ مثلابوڑھے اور بوڑھیاں یا خداکے صالح اور پاک بندے، ایک دوسرے سے پردہ کرنے کا حکم نہیں دیا۔ چنانچہ (الف) قرآن مجید میں سورۃ نور آیت:۳۲ رکوع ۴ میں جہاں پردے کے احکام ہیں وہاں کے الفاظ موجود ہیں جن کو پردے کے حکم سے مستثنیٰ کیا گیا ہے۔

الف۔ اس کی تفسیر میں حضرت امام رازی تفسیر کبیر میں تحریر میں فر ماتے ہیں:۔

’’اَوْ شُیُوْخٌ صُلَحَآءُ اِذَا کَانُوْا مَعَھُنَّ غَضُّوْا اَبْصَارَھُمْ……وَقَالَ بَعْضُھُمُ الشَّیْخُ وَ سَآئِرُ مَنْ لَا شَھْوَۃُ لَہٗ۔ ‘‘(تفسیر کبیر رازی زیرآیت ۔ النور:۳۲)

یعنی ایسے صالح بوڑھے جو عورتوں کی معیت کے وقت غضِ بصر کرنے والے ہوں یا تمام بوڑھے اور ایسے تمام لوگ جو شہوت سے پاک ہوں۔

ب۔ تفسیر بیضاوی جلد ۲ میں آیت (النور:۳۲) کی تفسیر میں لکھا ہے ’’ ھم الشّیوخ الأھمام ‘‘ یعنی اس سے مراد معمر بوڑھے ہیں۔

ج۔ تفسیر حسینی میں ہے:۔ ’’بے شہوت والے…… مردوں میں سے یعنی وہ مرد جو کھانا مانگنے گھروں میں آتے ہیں اور عورتو ں سے کچھ حاجت ہی نہیں رکھتے یعنی ان سے شہوت کا دغدغہ نہیں جیسے بہت بوڑھا ۔‘‘

(تفسیر حسینی قادری مترجم اردو جلد ۳زیر آیت النور:۳۲)

۳۔احادیث نبویّہ کی روشنی میں ـ:۔ الف۔ ’’عَنْ اَنَسِ ابْنِ مَالِکٍ یَقُوْلُ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْخُلُ عَلٰی اُمِّ حَرَامِ بِنَتِ مِلْحَانَ فَتُطْعِمُہٗ وَ کَانَتْ تَحْتَ عِبَادَۃِ بْنِ الصَّامِتِ فَاَطْعَمَتْہُ وَ جَعَلَتْ تَفْلِیْ رَأْسَہٗ فَنَامَ ثُمَّ اسْتَیْقَظَ یَضْحَکُ۔ ‘‘

(الادب المفرد باب ھَلْ یَغْلِیْ اَحَدٌ رَأْسَ غَیْرِہٖ)

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت ام حرام بنت ملحان کے گھر جایا کرتے تھے تو وہ حضورؐ کو کھا نا پیش کرتیں۔( وہ حضرت عبادہ بن صامت کی زوجہ تھیں۔) حضرت ام حرامؓ نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو کھا نا کھلایا اور حضورؐکے سر سے جوئیں نکالنے لگیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سو گئے اور پھر مسکراتے ہوئے بیدار ہو گئے۔

ب۔ اسی طرح الادب المفرد میں ہے کہ حضرت سعدؓ کے بازو کی رگ میں غزوۂ احزاب کے موقع پر زخم آگیا تو ان کو مدینہ میں رفیدہ نامی ایک عورت کے پاس اس کے گھر میں رکھاگیا وہ ان کاعلاج اور مرہم پٹی کرتی تھیں۔ خود آنحضرت صلعم بھی صبح شام اس عورت کے ہاں سعد ؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے رہے۔

ج۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی برتن میں حلوہ کھا رہی تھیں کہ حضرت عمرؓ بھی تشریف لے آئے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل میں کھانے میں ان کے ساتھ ہوگئے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ’’فَاَصَابَتْ یَدَہٗ اِصْبَعِیْ‘‘کہ اس اثناء میں حضرت عمرؓ کا ہاتھ میری انگلی کے ساتھ چھو گیا۔

( الادب المفرد باب اکل الرجل مع امرتہ حدیث ۱۰۵۳)

د۔ بخاری میں ہے :۔ ’’عَنْ اَنَسٍ قَالَ اِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ یَدْخُلُ بَیْتًا بِالْمَدِیْنَۃِ غَیْرَ بَیْتِ اُمِّ سُلَیْمٍ اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِہٖ فَقِیْلَ لَہٗ قَالَ اِنِّیْ اَرْحَمُھَا قُتِلَ اَخُوْھَا مَعِیْ۔ ‘‘( بخاری کتاب الجہاد والسیر باب فضل من جھز غازیا او خلفہ بخیر) حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے گھر وں کے علاوہ سارے مدینہ میں صرف اُم سلیمؓ کے گھر میں بالالتزام تشریف لے جاتے تھے۔ بعض لوگوں نے حضورؐ سے اس کا سبب دریافت کیاتو حضورؐ نے فرمایا کہ اُمّ سلیمؓ کا بھائی میرے ہمراہ لڑتے ہوئے شہید ہو گیا تھا۔ اس لیے میرے دل میں اُمّ سلیمؓ کے لیے خاص رحم ہے۔( صفحہ۴۱)

ھ۔صحیح مسلم میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضورؐکے بعد ابو بکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما حضرت زید بن ثابتؓ کی بیوی اُمِّ اَیْمَن کے ہاں ان کی ملاقات کے لیے جایاکرتے تھے۔ (مسلم کتاب فضائل الصحابۃ بَابُ مِنْ فَضَائِلِ اُمِّ اَیْمَن) غرضیکہ کہ بیسیوں حوالے اس قسم کے موجو د ہیں۔

و۔ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کی زائدہ نام کی باندی کی حدیث مشہور ہے کہ ایک روز پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور آپ کو سلام کہا۔ پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے زائدہ! کیوں میرے پاس دیر سے آئی ہو۔ تو مُوَفَّقَہ ہے اور میں تجھ سے محبت رکھتا ہوں۔‘‘

(تلخیص از کشف المحجوب مترجم اردو شائع کردہ شیخ الٰہی بخش محمد جلال الدین مطبوعہ ۱۳۱۴ھ باب معجزات و کرامات کا فرق)

ز۔ حضرت داتا صاحبؒ تحریر فرماتے ہیں۔ فقیہیوں کااتفاق ہے کہ جب راگ و رنگ موجود نہ ہوں اور آوازوں کے سننے سے بری نیت ظاہر نہ ہو تب اس کا سننا مُباح ہے اور اس پر بہت آثار و اخبار لاتے ہیں۔ جیسے کہ عائشہؓ سے روایت ہے :۔

’’قَالَتْ کَانَتْ عِنْدِیْ جَارِیَّۃٌ تَغَنِّیْ فَاسْتَأْذَنَ عُمَرُ فَلَمَّا اَحَسَّتْہُ وَ سَمِعَتْ حِسَّہٗ فَرَّتْ فَلَمَّا دَخَلَ عُمَرُ تَبَسَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَہٗ عُمَرُ مَا اَضْحَکَکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ کَانَتْ عِنْدَنَا جَارِیَّۃٌ تَغَنِّیْ فَلَمَّا سَمِعَتْ حِسَّکَ فَرَّتْ فَقَالَ عُمَرُ فَلَا اَبْرَحُ حَتّٰی اَسْمَعَ مَا سَمِعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْمَعُ۔ ‘‘

ترجمہ :۔ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے کہا ہے۔ میرے پاس ایک لونڈی گا رہی تھی اتنے میں حضرت عمر ؓنے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ جب اس لونڈی نے معلوم کیا اور ان کے آنے کی آواز سنی توبھاگ گئی۔ پھر جب حضرت عمرؓ اندر داخل ہوئے حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مسکرائے۔ تب حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ! آپ کس بات پر ہنستے ہیں؟ حضرتؐنے فرمایا کہ ہمارے پاس لونڈی گا رہی تھی۔ جب اس نے آپ کی آواز سنی تو بھا گی۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ میں نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ حضرتؐ کا سنا ہو انہ سنوں۔ پھر رسول اﷲ صلعم نے اس کو بلایا۔ تب وہ آکر گانے میں مصروف ہوئی اور رسول اﷲ صلعمسنتے تھے اور اکثر اصحاب نے ایسی روایت بیان کی ہے۔

(کشف المحجوب مترجم اردو صفحہ ۴۶۲، لحن اور آواز سننے کا باب صفحہ ۴۶۹، صفحہ ۴۷۰)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۴۔ اولیاء اُمت کی مثالیں

الف۔ حضرت داتا گنج بخش ؒ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’جوانمردوں کا سپاہی اور خراسان کا آفتاب ابوحامد احمد بن خضر ویہ بلخی رحمۃ اﷲ علیہ بلند اور اشرافِ وقت سے خاص تھا اور اپنے زمانہ میں قوم کا پیشوااور خاص……اور فاطمہ جو اس کی زوجہ تھی طریقت میں اس کی بڑ ی شان تھی……جب احمد ؒ کو بایزید ؒ کی زیارت کا قصد ہو ا۔ فاطمہؓ نے بھی ان کے ساتھ اتفاق کیا۔ جب بایزید ؒ کے پاس آئے تو منہ سے پردہ اٹھایا اور گستاخانہ کلام شروع کی۔ احمد ؒ کو اس سے تعجب ہوا۔اور اس کے دل میں غیرت نے جوش مارا اور کہا۔ اے فاطمہ! یہ کیا گستاخی ہے؟ جوآج تو نے بایزیدؒ سے کی ہے مجھے بتانی چاہیے۔ فاطمہ ؒ نے کہا کہ اس سبب سے کہ تومیری طبیعت کا محرم ہے۔ میں تجھ سے خواہش نفسانی کو پہنچتی ہوں اور اس سے خداسے ملتی ہوں۔ اور کہا کہ اس پریہ دلیل ہے کہ وہ میری صحبت کی پرواہ نہیں رکھتا اور تو میرا محتاجِ صحبت ہے۔ وہ ہمیشہ ابو یزید ؒ کے ساتھ شوخی کرتی۔ تا آنکہ ایک روز بایزیدؒ نے فاطمہ کا ہاتھ دیکھا کہ حنا سے رنگین ہے۔ پوچھا کہ اے فاطمہ! تو نے ہاتھ پر حنا کیوں لگائی ہے ؟ اس نے جو ب دیا کہ اے بایزید! جب تک تونے میرے ہاتھ اور حنا کو نہیں دیکھا تھا مجھے تجھ سے خوشی تھی۔ اب کہ تیری نظر مجھ پر پڑی پھرصحبت ہماری حرام ہو گئی……ابو یزید ؒ نے کہا مَنْ اَرَادَ اَنْ یَّنْظُرَالِٰی رَجُلٍ مِنَ الرِّجَالِ مَخْبُوْءٌ تَحْتَ لِبَاسِ النِّسَآءِ فَلْیَنْظُرْ اِلٰی فَاطِمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا۔ یعنی جو کسی مرد کو عورتو ں کے لباس میں چھپا ہوا دیکھنا چاہے تو اس کو کہا کہ فاطمہ کی طرف دیکھ۔ اور ابو حفص حداد رحمۃ اﷲ علیہ نے کہا ہے۔ لَوْ لَا اَحْمَدُ خِضْرَوِیَۃٌ مَا ظَھَرَتِ الْفَتُوَّۃُ۔ یعنی احمد بن خضرویہ نہ ہوتا تو جوان مردی اور مروت پیدانہ ہوتی ۔‘‘

(تلخیص از کشف المحجوب مترجم اردو فصل ۲۳۔ ذکر حضرت ابو حامد احمد بن خضرویہ)

ب۔ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ:۔

’’آپ( حضرت احمد خضر ویہ ؒ)کی بیوی امرائے بلخ میں سے تھی۔ اور وہ بھی طریقت میں بے نظیرتھیں۔ آپ کے نکاح میں آتے ہی انہوں نے ترکِ دنیا کو اپناشغل کیا اور ریاضت مجاہدہ میں مشغول ہو گئیں اور کما ل حاصل کیا۔ حضرت بایزید بسطامی ؒ سے بے تکلفانہ گفتگو رہا کرتی تھی۔ آپ کے دل میں بہت غیرت آئی کہ بیوی نے بایزیدؒ کے سامنے پردہ کیوں نہ کیا۔ لیکن بیوی نے کہا تم میری طیعت کے محرم ہو اور تم سے میں اپنی خواہش تک پہنچوں گی۔ لیکن بایزید طریقت کے محر م ہیں۔ ان سے خداتک پہنچوں گی۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء ذکر احمد خضرویہؒ باب ۳۳ مترجم اردو شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز بار سوم صفحہ ۱۸۳ و ظہیر الاصفیاء صفحہ ۲۷۳ مطبوعہ ۱۹۱۷ء اردو ترجمہ تذکرۃ الاولیاء)

ج۔ حضرت عطاررحمۃ اﷲ علیہ حضرت ابو بکر شبلی رحمۃ اﷲ علیہ کے بارے تحریر فرماتے ہیں:۔

’’ ایک دن شیخ ( حضرت جنید بغدادی رحمۃ اﷲ علیہ) کے گھر میں گئے۔ آپ کی اہلیہ شانہ کر رہی تھیں۔ شبلی ؒنے شانہ چھیننا چاہا۔آپ کی اہلیہ نے پردہ کرنا چاہامگر شیخ ( جنید ؒ) نے فرمایا کہ نہ سر ڈھکو نہ پردہ کرو کیونکہ یہ اپنے آپ میں نہیں ہیں۔ ان لوگو ں کو کچھ خبر نہیں۔‘‘

(ایضاً صفحہ ۲۹۸ ذکر ابو بکر شبلی باب نمبر ۷۸ و ایضاً صفحہ ۵۲۴)

د۔’’ ایک دفعہ ( شبلی ؒ ) علی الصبح باہر گئے۔ تو ایک نوخیز حسین عورت کو ننگے سر دیکھا۔ آپ نے کہا کہ ’’اے گل! سر بہ پوش‘‘( یعنی اے پھول اپنے سر کو ڈھک لے ) عورت نے جواب دیا کہ یا شیخ! گل سر نمے پوشد ( پھو ل اپنا سر نہیں ڈھانکتا ہے ) عورت کا یہ جواب سن کر نعرہ مارا اور بیہوش ہوگئے۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء باب ۷۸ صفحہ ۲۹۹ اردو ترجمہ ایڈیشن مذکور شائع کردہ شیخ غلام علی اینڈ سنز کشمیری بازار لاہور)

ھ۔ حضرت عطار رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک رات ہم رابعہ ( بصری رحمۃ اﷲ علیہا۔ خادمؔ) کی خدمت میں گئے۔ آپ نماز پڑھنے کے لیے کھڑی ہوئیں اور صبح تک نماز میں مصروف رہیں۔ میں دوسرے گوشے میں ذکر الٰہی میں مصروف رہا۔ صبح آپ ( رابعہ رحمۃ اﷲ علیہا ) نے فرمایا کہ اس بات کاکس طرح شکریہ ادا کریں کہ اﷲ تعالیٰ نے رات بھر ہم کو نماز کی توفیق بخشی۔

(تذکرۃ الاولیاء باب نمبر۹ صفحہ ۶۳)

د۔’’خواجہ حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن رابعہ ( بصری رحمۃ اﷲ علیہا) کے ہاں تھا۔ حقیقت اور طریقت کی باتیں ہو رہی تھیں ، لیکن ہم دونوں میں سے کسی کے دل میں بھی مرد یا عورت ہونے کا خیال تک بھی نہ آیا۔ لیکن جب میں وہاں سے واپس ہوا تو اپنے آپ کو مفلس اور ان کو مخلص پا یا۔‘‘ (ایضاً باب ۹ صفحہ ۵۶، ۵۷)

ز۔ خواجہ حسن (بصری رحمۃ اﷲ علیہ۔خادم) نے ایک دفعہ آپ ( حضرت رابعہ بصری رحمۃ اﷲ علیہا۔ خادمؔ) سے دریافت کیا کہ کیا تم کو شوہر کی رغبت نہیں ؟فرمایا عقد نکاح جسم پر ہوتا ہے اور یہاں میراوجود ہی نہیں۔ میں مالک کی مملوک ہوں مالک سے پوچھو۔‘‘ (ایضاً صفحہ ۵۷)

ح۔ ’’ ایک رات خواجہ حسن ( بصری رحمۃ اﷲ علیہ )اپنے چند رفیقوں کے ہمراہ حضرت رابعہ (بصری رحمۃ اﷲ علیہا ) کے ہا ں تشریف لے گئے ، لیکن وہاں چراغ نہ تھا۔ اور خواجہ حسن (بصری رحمۃ اﷲ علیہا) کو چراغ کی ضرورت تھی۔ چنانچہ رابعہ ( رحمۃاﷲ علیہا )نے اپنی انگلی پر پھونک ماری جس سے انگلی فوراً روشن ہو گئی اور صبح تک چراغ کا کام دیتی رہی۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ یہ کس طرح ممکن ہے ؟ تو میں کہوں گا کہ جو شخص نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی تا بعداری کرتا ہے اس کو اس کرامت سے ضرور حصہ ملے گا۔‘‘(ایضاً )

ط۔ ایک دفعہ چندآدمی آپ( حضرت رابعہ بصری ؒ)کے پاس آئے۔ دیکھا کہ گوشت کو دانتوں سے کاٹ رہی ہیں۔ لوگوں نے پوچھا کہ کیا آپ کے پا س چھری نہیں ہے ؟فرمایا کہ جدائی کے خوف سے میں نے کبھی چھری نہیں رکھی۔ (ایضاً صفحہ ۶۰)

ی۔’’حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ عصر کی نماز کے بعد آپ ( حضرت رابعہ بصری رحمۃ اﷲ علیہا ) کی خدمت میں گیا۔ آپ اس وقت کچھ کھانا پکانا چاہتی تھیں اور گوشت ہانڈی میں ڈال دیا تھا۔ آپ کی توجہ گفتگو میں پڑ گئی اور ہانڈی کا خیا ل نہ رہا۔ (ایضاً صفحہ ۶۳)

(۵)۔بانوؔ والی رویت مندرجہ ’’سیرۃ المہدی‘‘ کے بارے میں مندرجہ بالا جوابات کے علاوہ مندرجہ ذیل باتیں بھی قابل توجہ ہیں:۔

ا۔ وہ ایک بوڑھی بیوہ تھی۔ اور اس کے ارزل العمر تک پہنچ چکنے کا ثبوت خود روایت کا نفس مضمون ہے۔

ب۔ جسم کے مس کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ روایت کے اندر ہی سردی کے موسم اور رضائی کا ذکر موجود ہے کہ وہ رضائی کے اوپر سے دبارہی تھی۔

ج۔حضرت امّ المومنین رضی اﷲ عنہا اور دیگر گھر کے لوگ موجود تھے اور بانو مذکورہ کی سادگی پر ہنس رہے تھے۔

مگر حدیث نمبر الف مندرجہ بالا دوبارہ مطالعہ فرمایئے۔ سر کو سہلانے یا اس سے جوئیں نکالنے کے لیے سر کو چھونا بہر حال ضروری ہے۔ (پاکٹ بک ھٰذا صفحہ ۶۸۳)

۲۴۔ عدمِ احترامِ رمضا ن کا الزام

غیر احمدی:۔حضرت مرزا صاحب نے امر تسر میں رمضان کے ایام میں تقریر کرتے ہوئے چائے پی لی اور رمضا ن کا احترام نہ کیا۔



جواب:۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ا مر تسر میں مسافر تھے۔ اس لیے بموجب شریعت آپ پر روزہ رکھنا فرض نہ تھا۔ ملاحظہ ہو :۔

قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :۔

’’‘‘(البقرۃ:۱۸۵)کہ بیمار اور مسافر بجائے رمضان میں روزہ رکھنے کے بعد میں روزہ رکھ کر گنتی پوری کر ے۔

حدیث :۔ حدیث شریف میں ہے:۔

الف۔’’اِنَّ اللّٰہَ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ وَ شَطْرَ الصَّلٰوۃِ۔ ‘‘

(مسند امام احمد بن حنبلؒ حدیث أنس بن مالک نمبر۱۸۵۶۸۔ ابو داؤد کتاب الصیام باب من اختار الفطر مطبع نول کشور صفحہ ۲۶۹)

یعنی اﷲ تعالیٰ نے مسافر پر سے روزے اور نصف نماز کا حکم اٹھا دیا ہے۔

ب۔’’صَائِمُ رَمَضَانَ فِی السَّفْرِ کَالْمُفْطَرِ فِی الْحَضَرِ۔ ‘‘

( ابن ماجہ کتاب الصیام باب ما جاء فی الافطار فی السفر۔ جامع الصغیر للسیوطی باب الصاد جلد۲ مطبوعہ مصر)

ترجمہ:۔ رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے والامسافر ویسا ہی ہے۔ جیسا حضر میں روزہ نہ رکھنے والا۔

نوٹ:۔حضرت امام سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ نے یہ حدیث نقل کر کے لکھاہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

ج۔’’عَلَیْکُمْ بِرُخْصَۃِ اللّٰہِ الَّذِیْ رَخَّصَ لَکُمْ۔ ‘‘

(مسلم کتاب الصیام باب جواز الصوم والفطر فی شہر رمضان)

یعنی تم پر خداکی دی ہوئی رخصتوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔

د۔’’لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمِ فِی السَّفَرِ۔ ‘‘

(مسلم کتاب الصیام باب جوازالصوم والفطر فی شھر رمضان للمسافر فی غیرمعصیۃ……الخ و بخاری کتاب الصیام باب قول النبی صلی اﷲ علیہ وسلم لمن ظلل علیہ الخو تجرید بخاری مترجم اردو شائع کردہ مولوی فیروزالدین اینڈ سنز ۱۳۴۱ھ جلد۱ صفحہ۳۷۳ و صفحہ۶۰۰)

یعنی سفر کی حالت میں روزہ رکھنانیکی نہیں ہے۔

ھ۔’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ اِلٰی مَکَّۃَ فَصَامَ حَتّٰی بَلَغَ عُسْفَانَ ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَرَفَعَہٗ اِلٰی یَدِہٖ لِیَرَاہُ النَّاسُ فَاَفْطَرَ حَتّٰی قَدِمَ مَکَّۃَ وَ ذَالِکَ فِیْ رَمَضَانَ۔ ‘‘

(بخاری کتاب الصوم باب مَنْ اَفْطَرَ فِی السَّفْرِ لِیَرَاہُ النَّاسُ ومسلم کتاب الصیام باب جوازالصوم والفطر……)

یعنی آنحضرت صلعم مدینہ سے روزہ رکھ کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مقام عسفان پر پہنچ کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے پانی منگوایا۔ اور پھر پانی کو اپنے دونوں ہاتھوں سے اس غرض سے اونچااٹھایا کہ سب لوگ آ پؐ کو پانی پیتے ہوئے دیکھ لیں۔ پھر آپؐنے روزہ توڑ دیا اور یہ واقعہ رمضان کے مہینہ میں ہوا۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
نوٹ:۔ یہ واقعہ حدیبیہ کے سفر کا ہے۔ اس حدیث پر علماء نے بہت طول و طویل بحثیں کی ہیں۔ بعض علماء کاخیال یہ ہے۔ ’’اَنَّہٗ خَرَجَ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ فَلَمَّا بَلَغَ کُرَاعَ الْغَمِیْمِ فِیْ یَوْمِہٖ اَفْطَرَ فِیْ نَھَارِہٖ وَاسْتَدَلَّ بِہٖ ھٰذَا الْقَائِلُ عَلٰی اَنَّہٗ اِذَا سَافَرَ بَعْدَ طُلُوْعِ الْفَجَرِ صَائِمًا لَہٗ اَنْ یُّفْطَرَ فِیْ یَوْمِہٖ۔ ‘‘

(مسلم کتاب الصوم بَابُ جَوَازِالصَّوْمِ وَالْفِطْرِ فِیْ شَھْرِ رَمَضَانَ لِلْمُسَافِرِ ……الخ حاشیہ نووی)

’’یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم جس روز مدینہ سے روانہ ہوئے اسی روز اس مقام پر پہنچ کر دن کے وقت ہی روزہ توڑ ڈالا۔ اور اس سے ان لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ جو شخص طلوعِ فجر کے بعد روزہ رکھ کر سفر پرنکلے اس پر واجب ہے کہ وہ دن ہی میں روزہ توڑ دے۔

لیکن جن علماء نے اس سے اختلاف کی ہے ان کا خیال ہے ’’لَا یَجُوْزُ الْفَطْرُ فِی ذَالِکَ الْیَوْمِ وَ اِنَّمَا یَجُوْزُ لِمَنْ طَلَعَ عَلَیْہِ الْفَجَرُ فِی السَّفَرِ۔ ‘‘( ایضاً)

یعنی روزہ کی حالت میں سفر پر نکلنے والوں کے لیے اس دن روز ہ رکھنا جائز نہیں۔ بلکہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر سفر کی حالت میں صبح طلوع کرے تو مسافر کے لیے جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے۔

مطلب یہ ہے کہ اس خیال کے علماء کے نزدیک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو رمضان کے مہینے میں دن کے وقت تمام لوگو ں کو دکھا کر پانی پیا تھا وہ سفر کا پہلا دن نہیں بلکہ دوسرا دن تھا اور آپ نے دوسرے دن روزہ نہیں رکھا تھا۔

یہاں ہمیں علماء کے اس اختلاف میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ جو بات بہر حال ثابت ہے اور جس سے کسی عقید ہ یا خیال کے عالم کو بھی اختلاف نہیں ہو سکتا وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینہ میں سفر کی حالت میں نہ صرف یہ کہ روزہ نہیں رکھا بلکہ تمام لوگوں کو دکھا کر دن کے وقت پانی پیا۔ اس حدیث کے الفاظ ’’فَرَفَعَہٗ اِلٰی یَدَیْہِ لِیَرَاہُ النَّاسُ‘‘اس ضمن میں بالکل واضح ہیں۔ یہاں تک کہ امام بخاریؒ نے تو باب کا عنوان ہی ’’مَنْ اَفْطَرَ فِی السَّفَرِ لِیَرَاہُ النَّاسُ‘‘رکھا ہے۔ یعنی وہ شخص جو رمضان میں لوگوں کو دکھا کر کھا نا کھائے۔

ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس سنت سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اگر کوئی مسافر رمضان میں عام لوگو ں کے سامنے کھائے پیئے تو اس میں کوئی قابل ِ اعتراض بات نہیں۔ اور اس پر ’’عدمِ احترامِ رمضان‘‘ کا خود ساختہ نعرہ لگانا جا ئز نہیں۔

در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی امر تسر میں اپنے آقا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اسی سنت پر عمل فرمایا اور لوگوں کے سامنے سفر کی حا لت میں چائے پی لی۔

یہ اعتراض کرنے والے احراری اگر سفر حدیبیہ کے وقت مقام عسفان پر موجود ہوتے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر بھی اعتراض کرنے سے بھی باز نہ آتے۔

و۔’’مَنْ لَمْ یَقْبَلْ رُخْصَۃَ اللّٰہِ کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الْاِثْمِ مِثْلُ جِبَالِ عَرَفَۃَ۔ ‘‘

( مسند احمد بن حنبلؒ مسند عبداﷲ بن عمر حدیث نمبر ۵۳۶۹ بحوالہ جامع الصغیر السیوطیؒ باب المیم جلد۲)

’’یعنی جو کوئی اﷲ کی دی ہوئی رخصتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتااس پر عرفہ پہاڑ کے برابر گناہ ہے۔‘‘

ز۔اوپر بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ پیش کیا جا چکا ہے۔ اب اُمت محمدیہ کے مایۂ ناز ولی اﷲ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ کا بھی ایک واقعہ ملاحظہ فرما یئے:۔

یاد رہے کہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ اس شان کے بزرگ ہیں کہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اﷲ علیہ نے ان کی نسبت فرمایا ہے :۔

’’اَبُوْ یَزِیْدَ مِنَّا بِمَنْزِلَۃِ جِبْرِیْلَ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ۔ ‘‘ یعنی ابو یزید ؒ ہمارے (اولیاء اُمت کے ) درمیان ایسا ہے کہ جیسے جبرائیل فرشتوں میں۔

(تلخیص از کشف المحجوب مصنفہ حضرت داتا گنج بخشؒ مترجم اردو تیسری فصل۔ شیخ ابوحمدانؒ کی ملامت کی حقیقت )

علاوہ ازیں خود حضرت داتا گنج بخش صاحبؒ نے حضرت بایزیدبسطامی رحمۃ اﷲ علیہ کے مزار پر کئی کئی ماہ تک مجاورت بھی کی۔ چنانچہ خود تحریر فرماتے ہیں:۔

’’ میں کہ علی بن عثمان جلابی رحمۃ اﷲ علیہ کا بیٹا ہوں۔ ایک وقت مجھے مشکل پیش آئی اور میں نے بہت کوشش کی اس امید پر کہ مشکل حل ہو جائے گی، مگر حل نہ ہوئی۔ اس سے پہلے مجھے اس قسم کی مشکل پیش آئی تھی اور میں شیخ ابو یزیدؒ کی قبر پر مجاور ہوا تھا تآنکہ مشکل حل ہوئی۔ اس مرتبہ بھی میں نے وہاں کا ارادہ کیا اور تین مہینے اس کی قبر پر مجاور ہوا تھا اور ہر روز تین مرتبہ غسل اور تیس مرتبہ وضو کرتا تھا۔‘‘

(تلخیص از کشف المحجوب چوتھا باب ’’ملامت میں ‘‘ذکر شیخ ابو حمدانؒ کی ملامت کی حقیقت)

اب حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ کا واقعہ بھی حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ کی زبانی سنیے:۔

’’ابو یزیدرحمۃ اﷲ علیہ……حجاز سے آ رہے تھے اور شہر رےؔ میں یہ چرچا ہوا کہ بایزیدؒ آئے ہیں۔ شہر کے لوگ استقبال کو گئے تا کہ ادب اور تعظیم سے ان کو لائیں۔ ابو یزید ان کی خاطر داری میں مشغول ہوئے اور راہِ حق سے رہ کر پریشان ہوئے۔ اور جب بازار سے آئے تو آستین سے ایک روٹی نکال کر کھانے لگے۔ اور یہ ماجرا رمضا نِ مبارک میں ہوا۔سب لوگ اس سے برگشتہ اور بے اعتقاد ہوئے اور ان کو اکیلا چھوڑ دیا۔پھر ابو یزید ؒ نے اس مرید سے جو ان کے ساتھ تھا کہا کہ ’’تو نے دیکھا ہے کہ میں نے شریعتِ مبارک کے ایک مسئلہ پر عمل کیا سب خلقت نے مجھے ردّ کیا۔‘‘

(تلخیص از کشف المحجوب ’’ملامت کا بیان‘‘ چوتھا باب مترجم اردو۔ یہی واقعہ تذکرۃ الاولیاء اردو صفحہ ۱۰۷ باب چودھواں اور ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء شائع کردہ حاجی چراغدین سراجدین جلالی پرنٹنگ پریس بار سوم صفحہ ۱۳۵۔ ۱۹۱۷ء پر بھی درج ہے۔)

ح۔ظہیر الاصفیاء اردو ترجمہ تذکرۃ الاولیاء میں حضرت معروف کرخی رحمۃ اﷲ علیہ کا بھی ایک واقعہ درج ہے کہ آپ نے رمضان کے مہینہ میں عین بازار میں پانی پیا۔( باب ۲۹صفحہ ۱۷۵ )

۲۵۔بہشتی مقبرہ

اعتراض۔ بہشتی مقبرہ تو قبروں کی تجارت ہے ۔


جواب۔
۱۔ قرآن مجید میں ہے:۔

(سورۃ توبۃ: ۱۱۱) یعنی اﷲ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ یہ سودا کیا ہے کہ ان کی جانیں اور ان کے مال لے لئے ہیں اور ان کے بدلے ان کو ’’جنت‘‘ دی ہے۔

۲۔ اسی طرح سورۃ صف آیت ۱۱، ۱۳ رکوع ۲ میں ’’احمد رسول‘‘ کے متبعین کو بالخصوص مخاطب کر کے فرمایا:۔

’’ (سورۃ الصّفّ:۱۱ تا۱۳)

اس آیت میں ان مومنوں کے لیے جو ایمان اور عملی صورت میں مالی و جانی قربانیاں کرنے والے ہوں جنت کا وعدہ دیاگیا ہے۔

۳۔ (البقرۃ:۱۸۱)

یعنی تم میں سے جب کسی کو موت آوے اس حا لت میں کہ وہ مال بطور ترکہ چھوڑنے والا ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ معروف کے مطابق والدین اور اقربین کو وصیت کر جائے۔

۴۔ شریعتِ اسلامیہ میں بموجب ارشاد نبوی صلعممندرجہ بخاری شریف کتا ب الوصایا بَابُ الْوَصِیَّۃِ بِالثُّلُثِ اپنی متروکہ جا ئیداد کے ۱/۳حصہ کے بارے میں ہر شخص کو وصیت کرنے کاحق ہے۔

۵۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :۔

’’ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ صرف اس قبرستان میں داخل ہونے سے کوئی بہشتی کیونکر ہو سکتا ہے کیونکہ یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ زمین کسی کو بہشتی کر دے گی بلکہ خدا کے کلام کا یہ مطلب ہے کہ صرف بہشتی ہی اس میں دفن کیا جائے گا۔ ‘‘ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۳۲۱ حاشیہ)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۶۔ لیکن بایں ہمہ مندرجہ ذیل حوالجات ملاحظہ ہوں:۔

الف۔’’مَثَلُ اَھْلِ بَیْتِیْ مِثْلُ سَفِیْنَۃِ نُوْحٍ مَنْ رَکِبَھَا نَجَا وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْھَا غَرَقَ۔ ‘‘

(مستدرک امام حاکمؒ بحوالہ جامع الصغیر للسیوطیؒ جلد۲ باب المیم و تجرید الاحادیث از علامہ مناوی صفحہ ۳۰۷)

کہ میرے اہلِ بیت کی مثال نوح کی کشتی کی سی ہے جوکوئی اس کشتی پر سوار ہو گا نجات پائے گا اور جوان سے پیچھے ہٹے گا وہ غرق ہو جائے گا۔

ب۔ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ تذکرۃ الاولیا ء میں حضرت ابوالحسن خرقانی رحمۃ اﷲ علیہ کی نسبت تحریر فرماتے ہیں:۔

’’لوگوں نے پوچھا آپ کی مسجد اور دوسری مسجدوں میں کیا فرق ہے؟ فرمایا۔ بروئے شریعت سب یکساں ہیں۔ مگر بروئے معرفت اس مسجد میں بہت طول ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ دوسری مسجدوں میں سے ایک نور نکل کر آسمان کی طرف جاتاہے مگر اس مسجد پر ایک نور کاقُبّہ بناہوا ہے اور آسمان سے نورِ الٰہی اس طرف آتا ہے۔ فرماتے ہیں ایک روز ندا سنی کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص تمہاری مسجد میں آئے گا اس پر دوزخ حرام کردی جائے گی۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء باب ۷۷ اردو ترجمہ شائع کردہ برکت علی اینڈ سنز لاہور بار سوم صفحہ ۲۹۴)

نوٹ:۔ یاد رہے کہ حضرت ابو الحسن خرقانی رحمۃ اﷲ علیہ وہ بزرگ ہیں جن کے بارے میں حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں :۔

’’شرف اہلِ زمانہ اور اپنے زمانہ میں یگانہ ابو الحسن علی بن احمد الخرقانی رحمۃ اﷲ علیہ بہت بڑے مشائخ میں سے ہوئے ہیں۔ اور ان کے زمانے میں سب اولیاء ان کی تعریف کرتے تھے……اور استاد ابو القاسم عبدالکریم قشیری رحمۃ اﷲ علیہ سے میں نے سنا ہے کہ جب ولایت خرقان میں آیا تو اس پیر ( یعنی ابو الحسن خرقانی ؒ۔ خادمؔ)کے دبدبہ کے باعث میری فصاحت تمام ہوئی اور عبارت نہ رہی اور میں نے خیا ل کیا کہ میں ولایت سے جداہو گیاہوں۔‘‘

(تلخیص از کشف المحجوب مترجم اردو شائع کردہ شیخ الٰہی بخش و محمد جلال الدین فصل سوم ذکر حضرت ابوالحسن بن احمد الخرقانی ؒ باب چھٹا)

ج۔ حضرت ابو نصر سراج رحمۃ اﷲ علیہ کی نسبت حضرت فرید الدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’فرماتے ہیں کہ جو جنازہ میری قبر کے پاس سے گزرے گااس کی مغفرت ہو گی۔‘‘

( تذکرۃالاولیاء ایڈیشن متذکرہ بالا صفحہ ۳۰۰ باب نمبر ۷۹)

د۔ تذکرۃ الاولیاء میں حضرت ابو الحسن خرقانی رحمۃاﷲ علیہ کے ساتھ محمود غزنوی کی ایک گفتگو کا حال ان الفاظ میں مذکور ہے:۔

’’محمود نے کہا بایزیدؔ ( رحمۃاﷲ علیہ)کی نسبت کچھ فرمائیں۔آپ ( حضرت ابو الحسن خرقانی ؒ) نے کہا کہ بایزیدؔ ؒ ٔنے فرمایا ہے کہ جس نے مجھ کودیکھا وہ شفاعت سے بے خوف ہو گیا۔ محمودؔ نے کہا کہ کیا بایزیدؒ پیغمبرخدا صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر ہیں؟ ابو جہل اور ابو لہب نے ان کو دیکھا مگر ان کی شفاعت نہ کی گئی؟ فرمایا کہ ادب کرو پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کو سوائے ان کے چاروں صحابہ کرام ؓ کے اور کسی نے نہ دیکھا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اﷲ تعالی فرماتا ہے۔ ’’۔‘‘ (الاعراف:۱۹۹) محمود کو یہ بات پسند آئی۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء مترجم اردو باب ۷۷ صفحہ ۲۷۹ و ظہیرالاصفیاء ترجمہ اردو)

(تذکرۃ الاولیاء باب ۷۷ صفحہ ۴۸۲ مطبوعہ شیخ چراغدین سراجدین کشمیری بازار لاہور)

۲۶۔ دن میں سو سو دفعہ پیشاب

اعتراض ۔ مرزاصاحب نے اربعین نمبر ۴ صفحہ ۴ و صفحہ۵ طبع اوّ ل میں لکھا ہے کہ مجھے دن میں بعض دفعہ سو سو دفعہ پیشاب آ جاتا ہے مرزا صاحب نماز کس وقت پڑھتے ہوں گے؟



جواب:۔یہ تو ’’بعض‘‘ مواقع کا ذکر ہے۔ ور نہ عام طور پر حضرت اقدس ؑ کو ۱۵،۲۰مرتبہ پیشاب آتا تھا۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۳۶۴ و نسیم دعوت صفحہ ۶۹ طبع اوّل)

نماز کے متعلق تمہیں اتنی فکر کی ضرورت نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے ساتھ ہی ذکر فرمایا ہے :۔

’’ وہ بیماری ذیابیطس ہے کہ ایک مدت سے دامنگیر ہے اور بسااوقات سو۱۰۰ سو۱۰۰ دفعہ رات کو یا دن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرت پیشاب سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں۔ بسااوقات میرا یہ حال ہوتا ہے کہ نماز کے لئے جب زینہ چڑھ کر اوپر جاتا ہوں تو مجھے اپنی ظاہر حالت پر امید نہیں ہوتی کہ زینہ کی ایک سیڑھی سے دوسری سیڑھی پر پاؤں رکھنے تک مَیں زندہ رہوں گا۔‘‘ (اربعین نمبر۴۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۷۱)

باقی رہا کثرت پیشاب اور اس پر مضحکہ! تو اس کے جواب میں ذرا مندرجہ ذیل حوالہ جات پڑھ لو :۔

۱۔ حضرت امام رازی رحمۃ اﷲ علیہ حضرت ایوب علیہ السلام کے ابتلاء کی تفصیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:۔

’’فَانْقَضَ عَدُوُّ اللّٰہِ سَرِیْعًا فَوَجَدَ اَیُّوْبَ عَلَیْہِ السَّلَامُ سَاجِدًا لِلّٰہِ تَعَالٰی فَاَتَاہُ مِنْ قِبَلِ الْاَرْضِ فَنَفَخَ فِیْ مَنْخَرِہٖ نَفْخَۃً اِشْتَعَلَ مِنْھَا جَسَدُہٗ وَ خَرَجَ بِہٖ مِنْ فَرْقِہٖ اِلٰی قَدَمِہٖ ثَالَیْلُ وَ قَدْ وَقَعَتْ فِیْہِ حِکَّۃٌ لَا یَمْلِکُھَا وَ کَانَ یَحِکُّ بِاَظْفَارِہٖ حَتّٰی سَقَطَتْ اَظْفَارُہٗ ثُمَّ حَکَّھَا بِالْمَسُوْحِ الْخُشْنَۃِ ثُمَّ حَکَّھَا بِالْفَخَّارِ وَالْحِجَارَۃِ وَ لَمْ یَزَلْ یَحُکُّھَا حَتّٰی تَقَطَّعَ لَحْمُہٗ وَ تَغَیَّرَ وَ نَتَنَ فَاَخْرَجَہٗ اَھْلُ الْقَرْیَۃِ وَجَعَلُوْہُ عَلٰی کُنَاسَۃٍ وَ جَعَلُوْا لَہٗ عَرِیْشًا وَ رَفَضَہُ النَّاسُ کُلُّھُمْ غَیْرُ امْرَءَ تِہٖ…………اِنَّ اَیُّوْبَ عَلَیْہِ السَّلَامُ اَقْبَلَ عَلَی اللّٰہِ تَعَالٰی مُسْتَغِیْثًا مُتَضَرِّعًا اِلَیْہِ۔ فَقَالَ یَا رَبِّ لِاَیِّ شَیْءٍ خَلَقْتَنِیْ…………یَالَیْتَنِیْ کُنْتُ عَرَفْتُ الذَّنْبَ الَّذَیْ اَذْنَبْتُہٗ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ عَمِلْتُ حَتّٰی صَرَّفْتَ وَجْھَکَ الْکَرِیْمَ عَنِّیْ……اِلٰھِیْ اَنَا عَبْدٌ ذَلِیْلٌ اِنْ اَحْسَنْتَ فَالْمَنُّ لَکَ وَ اِنْ اَسَأْتَ فَبِیَدِکَ عُقُوْبَتِیْ……اِلٰھِیْ تَقَطَّعَتْ اَصَابِعِیْ وَ تَسَاقَطَتْ لَھْوَاتِیْ وَتَنَاثَرَ شَعْرِیْ وَ ذَھَبَ الْمَالُ وَ صِرْتُ اَسْأَلُ الْلُقْمَۃَ فَیُطْعِمُنِیْ مَنْ یَمُنُّ بِھَا عَلَیَّ وَ یُعَیِّرُنِیْ بِفَقْرِیْ وَ ھَلَاکِ اَوْلَادِیْ……وَ رَوَی اِبْنُ شِھَابٍ عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اَیُّوْبَ عَلَیْہِ السَّلَامُ بَقِیَ فِی الْبَلَاءِ ثَمَانِیَ عَشَرَۃَ سَنَۃً فَرَفَضَہُ الْقَرِیْبُ وَالْبَعِیْدُ اِلَّا رَجُلَیْنِ مِنْ اِخْوَانِہٖ۔ ‘‘

(تفسیر کبیر زیر آیت الانبیاء:۸۴)

ترجمہ :۔ یعنی دشمن خدا( ابلیس)لپک کر حضرت ایوب علیہ السلام کے پا س پہنچا۔ دیکھا تو حضرت ایوب علیہ السلام سجدے میں گرے ہوئے تھے پس شیطان نے زمین کی طرف سے اس کی ناک میں پھونک ماری جس سے آپ کے جسم پر سر سے پاؤں تک زخم ہوگئے اور ان میں ناقابل برداشت کھجلی شروع ہو گئی۔ حضرت ایوب علیہ السلام اپنے ناخنوں سے کھجلاتے رہے یہا ں تک کہ آپ کے ناخن جھڑ گئے پھر اسے کھردرے کمبل سے جسم کو کھجلاتے رہے پھر مٹی کے ٹھیکروں اور پتھروں وغیرہ سے کھجلاتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کے جسم کا گوشت علیحدہ ہو گیا اور اس میں بدبو پڑ گئی۔ پس گاؤں والوں نے آپ کو باہر نکال کر ایک روڑی پر ڈال دیا اور ایک چھوٹا سا عریش ان کو بنا دیا۔ آ پ کی بیوی کے سوا باقی سب لوگوں نے آپ سے علیحدگی اختیار کر لی……حضرت ایوب علیہ السلام نے درگاہِ خداوندی میں نہایت تضرع سے یہ دعاکی کہ اے میرے رب! مجھے تو نے کس لیے پیدا کیا تھا؟ اے کاش! مجھے اس گناہ کاعلم ہو سکتا جو مجھ سے سر زد ہوا اور اس عمل کاپتہ لگ سکتا جس کی پاداش میں تونے اپنی توجہ مجھ سے ہٹا لی…………الٰہی میں ایک ذلیل انسان ہوں اگر تومجھ پرمہربانی فرمائے تو یہ تیراحسان ہے۔اور اگر تکلیف دینا چاہے تو تو میری سزا دہی پر قادر ہے………… الٰہی میری انگلیاں جھڑ گئی ہیں۔ اور میرے حلق کا کوا بھی گر چکا ہے۔ میرے سب بال جھڑ گئے ہیں۔ میرا مال بھی ضائع ہو چکا ہے اور میرا یہ حال ہو گیاہے کہ میں لقمے کے لئے سوال کرتا ہوں تو کوئی مہربان مجھے کھلا دیتا ہے اور میری غربت اور میری اولاد کی ہلاکت پر مجھے طعنہ دیتا ہے…………ابن شہاب حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ایوب علیہ السلام اس مصیبت میں اٹھارہ سال تک مبتلا رہے۔ یہاں تک کے سوائے دو بھائیوں کے باقی سب دور و نزدیک کے لوگوں نے آپ سے علیحدگی اختیار کر لی۔‘‘

۲۔ تفسیر حسینی المعروف قادری میں ہے:۔

’’حقیقت یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے انواع واقسام کی مصیبتیں ان (حضرت ایوب علیہ السلام) پر مقدر فرمائیں۔ تو بلائیں ان پر ٹوٹ پڑیں۔ غرضیکہ ان کے اونٹ بجلی گرنے سے ہلاک ہوئے اور بکریاں بہیّا آنے سے ڈوبیں۔ اور کھیتی کو آندھی نے پرا گندہ کر دیا۔ اور سات بیٹے تین بیٹیاں دیوار کے نیچے دب کر مر گئے۔ اور ان کے جسم مبارک پر زخم پڑ گئے۔ اور متعفن ہوئے اور ان میں کیڑے پڑ گئے۔ جو لوگ ان پر ایمان لائے تھے مرتد ہو گئے۔ جس گاؤں اور مقام میں حضرت ایوب علیہ السلام جاتے وہاں سے وہ مرتد انہیں نکال دیتے ۔

ان کی بی بی رحیمہ نام…………حضرت ایوب علیہ السلام کی خدمت میں رہیں۔ سات برس۔ سات مہینے۔ سات دن۔ سات ساعت۔ایوب علیہ السلام اس بلامیں مبتلا رہے اور بعضوں نے تیرہ یا اٹھارہ برس بھی کہے ہیں…………عشرات حمیدی میں لکھا ہے کہ جو لوگ ایوب علیہ السلام پر ایمان لائے تھے ان میں سے بعض نے کہا کہ اگر ان میں کچھ بھی بھلائی ہوتی تو اس بلا میں نہ مبتلا ہوتے۔

اس سخت کلام نے ان کے دل مبارک کو زخمی کر دیا اور انہوں نے جناب الٰہی میں(الانبیاء:۸۴)عرض کیا۔ یا اس قدر ضعیف اور ناتواں ہو گئے تھے کہ فرض نماز اور عرض نیاز کے واسطے کھڑے نہ ہوسکتے تھے۔ تو یہ بات ان کی زبان پر آئی۔ یا کیڑوں نے دل و زبان میں نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا اور یہ دونوں عضو توحید اور تمجید کے محل ہیں۔ ان کے ضائع ہونے سے ڈر کر یہ کلمہ زبان مبارک پر لائے۔ یا ان کی بی بی کمال تہی د ستی اور بے چارگی کی وجہ سے اپنا گیسو بیچ کر ان کے واسطے کھانا لائیں۔ ایوب علیہ السلام نے اس حال سے مطلع ہو کر کی آواز نکالی۔

اور بعضوں نے کہا ہے کہ ان کے جسم مبارک میں جو کیڑے پڑتے تھے۔ ان میں سے ایک کیڑا زمین پر آگرا ا ور جلتی ہوئی خاک پر تڑپنے لگا۔ تو ایوب علیہ السلام نے اسے اٹھا کر پھر اسی جگہ پر رکھ دیا۔ چونکہ یہ کام اختیار سے واقع ہوا۔ تو اس نے ایسا کاٹا کہ ایوب علیہ السلام تاب نہ لاسکے اور یہ کلمہ ان کی زبان مبارک پر جاری ہو ا۔

(تفسیر حسینی مترجم اردو الموسومہ بہ تفسیر قادری زیر آیت الانبیاء: ۸۴)

۳۔ حضرت ابو اسحاق ابراہیم بن احمد الخواص رحمۃ اﷲ علیہ جن کو حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ نے ’’سر ہنگ متوکلان اور سالار مستسلمان‘‘ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ان کا توکل میں بڑا شاندار اور بلند درجہ تھا اس کے نشا ن اور کرامتیں بہت ہیں‘‘( تلخیص از کشف المحجوب مترجم اردو باب ۱۸ فضل ۵۴ ذکر ابواسحاق……) ان کی نسبت حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :۔

’’آخر عمر میں آپ کو دستوں کی بیماری لگ گئی دن رات میں ساٹھ بار غسل کرتے جب حاجت سے فارغ ہوتے غسل کر لیتے۔‘‘

( تذکرۃ الاولیاء مترجم اردو باب نمبر۸۱ صفحہ ۳۰۳ و ۳۰۴ و تلخیص از کشف المحجوب اردو صفحہباب ۱۸ فصل ۵۴ ذکر ابواسحاق……)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۴۔ یہی حضرت ابراہیم الخواص رحمۃ اﷲ علیہ اپنا ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں :۔

’’ایک روز میں نواحی ٔ شام میں جا رہا تھا تو انار کے درخت دیکھے۔ میرے نفس نے انار کی آرزو کی۔ مگر چونکہ ترش تھے اس لیے میں نے نہ کھائے جنگل میں پہنچ کر ایک شخص کو دیکھا کہ بے دست و پا اور ضعیف ہے۔ اس کے بدن میں کیڑے پڑ گئے ہیں اور بھڑیں اس کو کاٹ رہی ہیں مجھ کو اس پر شفقت آئی اور کہا کہ اگر تو کہے تو میں تیرے لیے دعا کروں تا کہ اس بلا سے تو رہا ئی پائے۔‘‘

جواب دیا ۔ ’’میں نہیں چاہتا‘‘ میں نے پوچھا۔ کیوں؟جواب دیا۔ ’’اس واسطے کہ مجھے عافیت پسند ہے اور اس کو بلا۔ مگر میں اس کی پسند کو اپنی پسند پر ترجح دیتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اگر تم چاہو کہ ان بھڑوں کو میں تم سے علیحدہ سے رکھوں۔ جواب دیا۔ ’’اے خواص! اپنے آپ سے شیریں انار کی آرزو علیحدہ رکھو۔ تو میر ی سلامتی چاہنا اپنے لیے ایسادل چاہو جو کچھ آرزو نہ کرے۔‘‘ میں نے کہا کہ تم نے کیسے جانا کہ میں خواص ہوں اور انار شیریں کی آرزورکھتا ہوں؟‘‘ جوب دیا کہ ’’جو حقِ تعالیٰ کو پہچانتا ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہتی۔‘‘میں نے کہا ’’تمہا ری حالت ان بھڑوں اور کیڑو ں کے ساتھ کیا ہے؟‘‘جواب دیا ’’میری بھڑیں ڈنگ مارتی ہیں اور کیڑے کھا تے ہیں مگر جب وہ ایساہی چاہتاہے تو بہت اچھا ہے۔‘‘

( ظہیر الاصفیا ء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء باب ۸۱ شائع کردہ حاجی چراغدین سراجدین لاہور بارسوم ۴۹۶، ۴۹۷)

۵۔ حضرت پیرانِ پیر غوث الاعظم سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کے متعلق لکھا ہے :۔

’’ایک دفعہ آپ کوکچھ خلل اسہال کا ہوااور رات بھر باون مرتبہ اتفاق جانے بیت الخلاء کا عمل میں آیا……تو آپ نے باون مرتبہ ہی غسل تازہ کیا۔‘‘

( گلدستہ ٔ کرامات صفحہ ۳۶۴ نیز کتاب مناقب تاج الاولیاء مطبوعہ مصر صفحہ ۳۶)

۲۷۔ تصویر کھنچوانا

اعتراض۔ مرزا صاحب نے فوٹو(تصویر) کھنچوائی۔ حالا نکہ لکھا ہے۔ ’’کُلُّ مُصَوِّرٍ فِی النَّارِ‘‘



جواب :۔ ( ۱) تمہا رے پیش کردہ کلیہ میں سے تو خدا تعالیٰ بھی مستثنیٰ نہیں کیا گیا۔ حالانکہ قرآن مجید میں ہے کہ وہ ’’مُصَوِّرٌ‘‘ہے۔ جیسا کہ فرمایا :۔(سورۃ الحشر :۲۵)

۲۔ قرآن مجید میں حضرت سلیما ن علیہ السلام کے محل کے متعلق لکھا ہے :۔

الف۔’’(سورۃ سبا:۱۴)

ب۔ ان آیا ت کا ترجمہ تفسیر حسینی الموسومہ بہ قادری میں مندرجہ ذیل ہے :۔

’’کا م بناتے تھے جنّ سلیما ن ( علیہ السلام) کے واسطے جو چاہتے تھے سلیما ن ؑ۔ دَر اور دالان اچھے اور دیواریں خوب……اور بناتے تھے مورتیں۔ اور فرشتوں اور انبیاء علیہم السلام کی صورتیں اس وضع پر جس پر کہ وہ عبادت کے وقت رہتے تھے۔ تا کہ لوگ ان تصویروں کو دیکھ کر اسی صورت سے عبادت کریں۔……اور بناتے تھے حضرت سلیمان (علیہ السلام)کے واسطے لکڑی وغیرہ کے کاسے۔ بڑے حوضوں کے مثل اور دیگیں اونچی اونچی…………کہا ہم نے کہ نیک کا م کرو۔ اے آل داؤد! واسطے شکر ان نعمتوں کے کہ ثابت ہیں۔ ‘‘ (تفسیر قادری المعروف بہ تفسیر حسینی اردو زیرآیت سباء:۱۴)

ج۔اما م رازی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں:۔

’’اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی اَنْزَلَ عَلٰی اٰدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ تَابُوْتًا فِیْہِ صُوَرُ الْاَنْبِیَآءِ مِنْ اَوْلَادِہٖ فَتَوَارَثَہٗ اَوْلَادُ اٰدَمَ اِلٰی اَنْ وَصَلَ اِلٰی یَعْقُوْبَ۔ ‘‘ (تفسیر کبیر امام رازیؒ زیرآیتالبقرۃ:۲۵۰)

’’یعنی اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر ایک ’’تابوت‘‘ نازل فرمایا جس میں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں ہونے والے سب نبیوں کی تصویریں تھیں۔ پس وہ صندوق اولاد آد م ؑ میں بطور ورثہ چلتا چلا آیا۔ یہاں تک کہ حضرت یعقوب علیہ السلام تک پہنچا۔ ‘‘

د۔ تفسیر بیضاوی میں ’’تابوت سکینتہ ‘‘ (سورۃ البقرۃ:۲۵۰) کی تشریح میں لکھا ہے:۔

’’قِیْلَ صُوَرُ الْاَنْبِیَآءِ مِنْ اٰدَمَ اِلٰی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ قِیْلَ اَلتَّابُوْتُ ھُوَ الْقَلْبُ۔ ‘‘ (بیضاوی جلد۱ صفحہ ۱۱۸ مطبع احمدی)

یعنی آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک سب انبیا ء علیہم السلام کی تصویریں اس صندوق میں تھیں اور بعض نے کہا ہے کہ تابوت سے مراد دل ہے۔

( ۳)اسی طرح سورۃ البقرۃ:۲۵۰ ع ۳۳ کی آیت:۔

’’‘‘کی تفسیر میں لکھا ہے۔

’’تابوتِ سکینتہ اور وہ ایک صندوق تھا کہ سب انبیاء علیہم السلام کی تصویریں اس میں بنی ہوئی تھیں۔‘‘

(تفسیر قادری ترجمہ اردو تفسیر حسینی زیر آیت ان اٰیۃ ملکہ……البقرۃ:۲۵۰)

(۴) اصل بات یہ ہے کہ ’’تصویر‘‘ اور ’’فوٹو‘‘ میں باریک امتیاز ہے۔ ممنوع ’’تصویر‘‘ ہے فوٹو نہیں۔ تصویر سے مراد ابھری ہوئی ’’صورت‘‘ یعنی ’’بت‘‘ ہے۔ فوٹو درحقیقت ’’تصویر‘‘نہیں بلکہ ’’عکس‘‘ہوتا ہے اور فوٹو گرافی کو ’’عکاسی‘‘کہتے ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ عنہ کی مندرجہ ذیل تشریح درج ہے:۔

’’اِنَّہٗ قَالَ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَۃُ بَیْتًا فِیْہِ کَلْبٌ وَلَا صُوْرَۃٌ یُرِیْدُ التَّمَاثِیْلَ الَّتِیْ فِیْھَا الْاَرْوَاحُ۔ ‘‘(بخاری کتاب بدء الخلق باب اذا قَالَ اَحَدُکُمْ آمین)

یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ فرشتے اس مکان میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔ تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی مراد لفظ ’’تصویر‘‘ سے وہ بت ہیں جن کے بارے میں مشرکین کا عقیدہ تھا کہ ان میں روحیں ہیں۔

(۵)۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود اس اعتراض کا مفصل جواب براہین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۳۶۵ تا ۳۶۷ پرتحریر فرمایا ہے۔ وہا ں سے دیکھا جائے۔

۲۸۔ وفات

اعتراض۔ مرزا صاحب کی وفات ہیضہ سے ہوئی۔ سیرت مسیح موعود ؑ مؤلفہ حضرت مرزا محمود احمد صاحب کے آخری صفحہ پر لکھا ہے کہ وفات کے قریب آپ کو دست آئے۔



جواب:۔ دستوں کا آنا ہیضہ کو مستلزم نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو دستوں کی پرانی بیماری تھی۔ چنانچہ ۱۹۰۳ء میں یعنی اپنی وفات سے چھ سال قبل حضرت اقدس ؑ اپنی کتاب ’’تذکرۃ الشھادتین‘‘روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۴۶پر تحریر فرماتے ہیں کہ مجھے دستوں کی پرانی بیماری ہے۔ نیز الزامی جواب کے لیے کتا ب مصنفہ وان کریمر صفحہ ۱۸۸پڑھو۔ یہ کتا ب پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں موجو د ہے:۔


۲۹۔ اعتراض۔ نبی جہا ں فوت ہوتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے ’’مَا قُبِضَ نَبِیٌّ اِلَّا دُفِنَ حَیْثُ یُقْبَضُ ‘‘ مگر مرزا صاحب فوت لاہور میں ہوئے اور دفن قادیان میں۔


جواب(الف):۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔ کیونکہ اس کا راو ی الحسین بن عبداﷲ جس کے متعلق لکھا ہے۔ ’’تَرَکَہٗ اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلِ وَ عَلِیُّ ابْنُ الْمَدْیِنِیْ وَالنَّسائِیْ وَ قَالَ الْبُخَارِیُّ یُقَالُ: اَنَّہُ کَانَ یَتَّھَّمُ بِالزَّنْدِقَۃِ ‘‘ (حاشیہ علامہ سندی برابن ماجہ الجزء الاوّل صفحہ ۲۵۶ مصری)

یعنی امام احمد بن حنبل ؒ اور علی ابن المدینی ؒ اور نسائی ؒنے اس راوی کو ترک کیا ہے اور امام بخاری نے کہا ہے کہ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ زندیق ہے۔

ب۔یہ حدیث کنز العما ل میں بھی ہے۔ وہاں لکھا ہے۔ ’’لَمْ یُقْبَرْ نَبِیٌّ اِلَّا حَیْثُ یَمُوْتُ ‘‘(جم عن ابی بکرؓ)وَ فِیْہِ اِنْقِطَاعٌ(کنزالعمال حرف الشین کتاب الشمائل باب شمائل الاخلاقحدیث نمبر۱۰۵۲) کہ نبی جہاں مرتاہے وہیں قبر میں رکھا جاتاہے اس حدیث میں انقطاع ہے گویا ناقابل قبو ل ہے۔

ج۔ ’’وَ قَدْ رُوِیَ اَنَّ الْاَنْبِیَآءَ یُدْفَنُوْنَ حَیْثُ یُقْبَضُوْنَ کَمَا رَوٰی ذَالِکَ ابْنُ مَاجَۃَ بِاَسْنَادٍ فِیْہِ حُسَیْنُ ابْنُ عَبْدِاللّٰہِ الْھَاشَمِیُّ وَ ھُوَ اَضْعَفُ ۔‘‘ (نیل الاوطار جلد۲ صفحہ ۲۵۹)

کہ مروی ہے کہ انبیاء جہاں فوت ہوں وہاں مدفون بھی ہوتے ہیں۔ جیساکہ ابن ماجہ نے اس کو روایت کیا ہے۔ اس سند سے جس میں حسین بن عبداﷲ ہاشمی ہے جو کہ اوّل درجہ کا ضعیف راوی ہے۔

د۔ ملّا علی قا ریؒ فرماتے ہیں:۔

’’رَوَاہُ التِّرْمَذِیُّ وَ قَالَ غَرِیْبٌ وَ فِیْ اَسْنَادِہٖ عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ اَبِیْ بَکْرٍ الْمُلَیْکِیُّ یُضَعَّفُ۔ ‘‘ (مرقاۃ جلد۱۰ صفحہ ۳۰۷ شرح مشکوٰۃ کتاب الفضائل مکتبہ حقانیہ پشاور)

کہ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ حدیث غریب ہے اور اس سند میں عبدالرحمن بن ملیکی ہے جو ضعیف ہے۔

نوٹ:۔۱۔ یہ روایت ترمذی ابواب الجنائز صفحہ ۱۷۰ میں ہے اور اس کے آگے ہی لکھا ہے کہ اس حدیث کاراوی عبدالرحمن بن ابی بکر ملیکی ضعیف ہے۔ نیز عبدالرحمن بن ابی بکر المیکی کے بارے میں تہذیب التہذیب باب العین زیرلفظ عبدالرحمن پر لکھا ہے کہ وہ’’ضعیف‘‘ ’’مَتْرُوْکَ الْحَدِیْثِ‘‘ ’’لَیْسَ بِشَیْءٍ۔‘‘ ’’لَا یُتَابِعُ فِیْ حَدِیْثِہٖ۔‘‘ ’’لَیْسَ بِقَوِیٍّ‘‘ علاوہ ازیں اس روایت کا ایک اور راوی ابو معاویہ ( محمد بن خازم الضریرالکوفی) ہے۔ اس کی نسبت لکھا ہے کہ اَبُوْ مُعَاوِیَۃَ الضَّرِیْرُ فِیْ غَیْرِ حَدِیْثِ الْاَغْمَشِ مُضْطَرِبٌ لَا یَحْفَظُھَا حِفْظًا جَیِّدًا۔ (تہذیب التہذیب باب المیم زیرلفظ محمد)

۲۔ تم لوگ ایک حدیث پیش کیا کرتے ہو کہ ’’یُدْفَنُ مَعِیَ فِیْ قَبْرِیْ ‘‘ (مشکوٰۃ کتاب الفتن باب نزال عیسیٰ علیہ السلام فصل نمبر۳) پس اگر یہ درست ہے کہ نبی جہا ں فوت ہوتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے تو بتاؤ کیا عیسیٰ ؑ بوقت وفات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے روضہ مبارک میں داخل ہوکرآنحضرتؐ کی قبر پر لیٹ جائیں گے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۳۔ ایک حدیث بھی اس کی تردید کرتی ہے۔ ملّا علی قاری ؒ فرماتے ہیں:۔

’’وَ قَدْ جَآءَ اَنَّ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ بَعْدَ لَبْثِہٖ فِی الْاَرْضِ یَحُجَّ وَ یَعُوْدُ فَیَمُوْتُ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃَ فَیُحْمَلُ اِلٰی الْمَدِیْنَۃَ فَیُدْفَنُ فِی الْحُجْرَۃِ الشَّرِیْفَۃِ۔ ‘‘ (مرقاۃ برحاشیہ مشکوٰۃ مجتبائی کتاب الفضائل الفصل الثالث) کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ عیسیٰ ؑ زمین میں اپنی عمر کا زمانہ گزار کر حج کرنے جائیں گے اور پھر واپس آئیں گے اور مکہ اور مدینہ کے درمیان فوت ہوں گے اور پھر وہاں سے مدینہ کی طرف ان کو اٹھا کر لے جایا جائے گا اور پھر آنحضرت صلعم کے حجرہ میں دفن کیاجائے گا۔

۴۔ یہ روایت واقعات کے بھی خلاف ہے۔

’’رُوِیَ اَنَّ یَعْقُوْبَ عَلَیْہِ السَّلَامُ مَاتَ بِمِصْرَ فَحُمِلَ اِلٰی اَرْضِ الشَّامِ مِنْ مِصْرَ وَ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ حَمِلَ تَابُوْتَ یُوْسُفَ بَعْدَ مَا اٰتٰی عَلَیْہِ زَمَانٌ اِلٰی اَرْضِ الشَّامِ مِنْ مِصْرَ۔ ‘‘

(بحر الرائق شرح کنزالدقائق از شیخ اسمٰعیل حقی البر و سوی متوفی ۱۱۳۷ھ جلد۲ صفحہ ۲۱۰۔ نیز روح البیان زیرآیت البقرۃ:۱۳۴)

کہ روایت ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام مصر میں فوت ہوئے۔ پس وہ مصر سے ارض شام کی طرف اٹھا کر لائے گئے اور موسیٰ علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کا تابوت بہت مدت گزرنے کے بعد شام میں لائے۔ (نیز شمائل ترمذی حاشیہ نمبر۱۰ صفحہ ۳۳ باب فی وفاۃ رسول اللّٰہ ؐ)

۵۔تفسیر حسینی میں لکھا ہے۔

ــــ ’’یوسف صدیق علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ بنی اسرائیل جب تک ان ( حضرت یوسف علیہ السلام۔ خادمؔ)کا تابوت اپنے ساتھ نہ لے چلیں گے مصر کے باہر نہ جا سکیں گے۔ اور ان لوگوں میں سے کسی کو یہ خبر نہ تھی کہ حضرت یوسف کہاں دفن ہیں؟پس خود حضرت موسیٰ علیہ السلام ندا کرتے تھے کہ جو کوئی مجھے حضرت یوسف کے صندوق کا پتہ دے وہ جو مراد ہے چاہے لے۔ قوم بھر میں سے ایک بڑھیا بڑی عمر کی بولی۔ کہ اس شرط سے میں بتاتی ہوں کہ بہشت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بی بی ہوں۔ اور اسی شرط پر اس نے پتہ بتایا کہ وہ صندوق دریائے نیل کے گڑھے میں ہے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے نکالنے میں مشغول ہوئے۔جب چاند آدھے آسمان پر پہنچا تو اپنا کام کر کے راہ لی۔

(تفسیر حسینی مترجم اردو زیر آیت ۔الشعراء:۵۳)


۳۰۔’’ یُدْفَنُ مَعِیَ فِیْ قَبْرِیْ ‘‘

اعتراض۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کی مسیح نازل ہونے کے بعد میری قبر میں دفن ہو گا۔ یدفن معی فی قبری


جواب:۔ اس کا مفضل جواب ’’حیات مسیح کی تیرھویں دلیل‘‘کے جواب مندرجہ صفحہ۲۳۱پاکٹ بک ہذا پر ملاحظہ فرمائیں۔

۳۱۔ وراثت

غیر احمدی:۔( ۱)۔ بخاری میں ہے کہ نبیوں کا ورثہ نہیں ہوتا ، لیکن مرزا صاحب کا ورثہ تھا۔ (۲) مرزا صاحب نے لڑکیوں کو ورثہ دینے کی مسلمانوں کو تلقین نہیں کی اور نہ آپ کی لڑکیوں کو ورثہ ملا۔



پہلے سوال کا جواب ( ۱) اسی بخاری میں جہا ں آنحضرت صلعم کی حدیث انبیا ء کے ورثہ نہ ہونے والی درج ہے۔ وہیں پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی مندرجہ ذیل تشریح بھی درج ہے:۔

’’یُرِیْدُ بِذَالِکَ نَفْسَہٗ ‘‘( بخاری کتاب المغازی باب حدیث نبی نضیر نیز تجرید بخاری مترجم اردو جلد۲ صفحہ ۲۴۵ روایت نمبر۴۳۵ قصہ بنو نضیر)یعنی آنحضرت صلعم کی اس سے مراد صرف اپنا وجود تھا۔ باقی انبیاء کی وراثت کے متعلق بیان کرنا مقصود نہ تھا۔

(۲) قرآن مجید سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی اس تشریح کی تائید ہوتی ہے کیونکہ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ انبیاء کاورثہ ان کے ورثاء نے لیا اور انبیاء نے بھی اپنے باپ کا ورثہ لیا۔ ملاحظہ ہو۔

الف۔ حضرت داؤدعلیہ السلام خدا کے نبی اور بادشاہ تھے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام آپ کے وارث ہوئے۔ تخت کے بھی اور نبوت کے بھی۔ قرآن مجید میں ہے۔ ( النمل:۱۶) کہ حضرت سلیما ن علیہ السلام وارث ہوئے حضرت داؤد ؑ کے۔ گویا نبی (سلیمان ؑ)نے ورثہ لیا اور نبی ( داؤد) کا ورثہ ان کے وارث نے حاصل بھی کیا۔ چنانچہ حضرت امام رازی ؒ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’قَالَ قَتَادَۃُ وَرَّثَ اللّٰہُ تَعَالٰی سُلَیْمَانَ مِنْ دَاوٗدَ مُلْکَہٗ وَ نُبُوَّتَہٗ۔ ‘‘

(تفسیر کبیرزیر آیت ۔ الانبیاء:۷۹)

یعنی حضرت قتادۃ ؓ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کو حضرت داؤد ؑ کا ان کی حکومت اور نبوت دونوں کا وارث کیا۔ پس حضرت سلیمان ؑ باوجود نبی ہونے کے اپنے باپ حضرت داؤد ؑ نبی کے دنیوی و دینی، جسمانی و روحانی میراث کے پانے والے ہوئے۔ سلیمان نے ہزار گھوڑا ورثہ میں پایا۔

(قصص الانبیاء مصنفہ عبدالواحد قصہ حضرت سلیمانؑ ، تفسیر خازن زیر آیت الانبیاء:۷۹ و معالم التنزیل زیرآیت النمل:۱۶)

ب۔ اسی طرح حضرت امام رازی ؒ کی تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ ۴۳۶ مطبوعہ مصر پر لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کا ’’تابوت سکینہ‘‘ حضرت آدم علیہ السلام پر نازل فرمایا گیا اس میں سب نبیوں کی تصویریں تھیں اور وہ اولادِ آدم میں بطور ورثہ منتقل ہو تے ہوتے حضرت یعقوب ؑ تک پہنچا ( اصل عبار ت ملاحظہ ہو زیر عنوان ’’تصویر کھنچوانا‘‘ صفحہ ۶۹۶پاکٹ بک ہذا۔

ثابت ہوا کہ یہ صندوق حضرت اسحاقؑ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام نے ورثہ میں پایا۔

ج۔ حضرت زکریا ؑ نے خدا سے دعاکی کہ اے خدا! مجھے بیٹا عطا کر جو’’(مریم:۷) کہ وہ بیٹا میرا اور یعقوب کے گھرانے کا وارث ہو۔اِنَّ الْمُرَادَ مِنْ وِرَاثَۃِ الْمَالِ (لوذی جلد۲ صفحہ ۹۲)

دوسرے سوال کا جواب :۔ تمہارایہ کہنا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی بیٹیوں کو ورثہ نہیں ملا سفید جھوٹ ہے۔ کاغذاتِ مال اس امر کے گواہ ہیں کہ حضرت اقدس کی دونوں بیٹیوں کو شریعتِ اسلام کے عین مطابق پورا پورا حصہ دیا گیا اور وہ اپنے اپنے حصوں پر قابض ہیں۔ یوں ہی اپنے پاس سے گھڑ گھڑ کے جھوٹے اعتراض کرنے سے کیا فائدہ ہے؟نیز دیکھو کتاب حضرت مسیح موعودؑ کے کارنامے صفحہ ۱۱۸، باقی رہا یہ سوال کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی یا نہیں کہ لڑکیوں کو ورثہ دینا چاہیے تو اس کا جواب یقینا اثبات میں ہے۔ مندرجہ ذیل حوالجا ت ملاحظہ ہوں۔

۱۔عام تعلیم کہ قرآن مجید کے تمام حکموں پر عمل کرو۔

(کشتی نوح صفحہ۲۴، صفحہ۲۵ طبع اوّل و ایام الصلح صفحہ ۸۶، صفحہ ۸۷)

۲۔خاص مسئلہ وراثت یا لڑکیوں کو حصہ دینے کے متعلق۔

( چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ ۲۱۱)

۳۔ فاسقہ کے حقِ وراثت کے متعلق فتویٰ

( بدر جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخہ ۲۶ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ۶ کالم نمبر ۳ و فتاویٰ احمدیہ صفحہ ۱۴۹ مطبوعہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۳۵ء)

۴۔ بیوی کی وفات پر مہر شرعی حصص کے ساتھ تقسیم کیا جائے۔ ( فتا ویٰ احمدیہ جلد۲ صفحہ ۱۲، صفحہ۱۳)

۵۔ نیز دیکھو آریہ دھرم صفحہ۱ تا صفحہ ۷۸ طبع اوّل و مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ ۱۴۳ تا ۱۸۸۔ ۱۸۸۸ء

۶۔ ’’ورثہ کے متعلق…………قرآن شریف نے مرد سے عورت کا حصہ نصف رکھا ہے اس میں بھید یہ ہے کہ نصف اس کو والدین کے ترکہ میں سے مل جاتا اور باقی نصف وہ اپنے سسرال میں سے جا لیتی ہے۔

(الحکم جلد ۱۲ نمبر۲۲ مورخہ ۲۶؍ مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ۸ کالم۳)

غیر احمدی:۔ حضر ت اماں جانؓ نے آپ کی وفات کے بعد وراثت میں سے کیوں حصہ نہ لیا؟



جواب:۔ بربنائے تسلیم۔ اپنے حق کو اپنی مرضی اور خوشی سے ترک کر دینا اعلیٰ اخلاق میں سے ہے نہ کہ قابل اعتراض۔ مثال ملاحظہ ہو:۔حضرت امام سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’ابو مجاہد سے مروی ہے کہ ابو قحافہ رضی اﷲ عنہ( حضرت ابو بکرصدیق رضی اﷲ عنہ کے والد ماجد)نے حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی میراث سے حصہ شرعی نہیں لیا بلکہ اپنے پوتے ہی کو دے دیا۔آپ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کے بعد چھ مہینے اور چند یوم تک ہی زندہ رہے۔‘‘

(تاریخ الخلفاء مترجم موسومہ محبوب العلماء شائع کردہ ملک غلام محمد اینڈ سنز کشمیری بازار لاہور مطبوعہ مطبع پبلک پرنٹنگ پریس صفحہ ۱۰۴ فصل وفات ابو بکرؓ)

ایک ناقابل تردید ثبوت:۔ یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے بلکہ ۱۵ مارچ ۱۹۴۸ء تک پنجاب کے تمام اضلاع میں مغل قوم کے تمام افراد شریعت کی بجائے ’’رواجِ زمیندارہ‘‘ کے پابند تھے مگر ’’رواجِ عام‘‘ پنجاب کی مشہور و معروف اور مستند ترین کتاب

The Digest of Customary Law

(پنجاب کا رواجِ زمیندارہ)

مصنفہ Sir W.H.Rattigan (سر ڈبلیو۔ ایچ۔ ریٹیگن) کے گیارھویں ایڈیشن مطبوعہ ۱۹۲۹ء کے صفحہ ۱۸ پر لکھا ہے:۔

The family of the Mughal Barlas of Qadian,

Tehsil Batala, is governed by Muhammadan Law.

’’یعنی قادیان کا مغل برلاس خاندان رواجِ زمیندارہ کا نہیں بلکہ قانونِ شریعت کا پابند ہے۔‘‘
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
اب دیکھنا چاہیے کہ پنجاب کے تمام مغلوں میں سے صرف قادیان کے اس مغل خاندان کو شریعت کے پابند ہونے کا فخر کیونکر حاصل ہوگیا؟ جبکہ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت سے قبل یہ خاندان بھی دوسرے مغل خاندانوں کی طرح رواجِ زمیندارہ ہی کا پابند تھا تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ حضرت مسیح موعودؑ ہی کے ’’احیائے شریعت‘‘ کے عظیم الشان کارنامہ کا ایک پہلو ہے۔ پس بجائے اس کے کہ حضرت کے اس کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا حاسد بد بیں اب بھی اعتراض کرنے سے باز نہیں آتا۔ یہ حقیقت ہے کہ حضور کی بعثت سے قبل حضور کا خاندان شریعت کی بجائے رواج کا پابند تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حضور کی بعثت کے بعد یہ خاندان (تمام باقی مغل خاندانوں سے بالکل منفرد ہو کر) شریعت کا پابند ہوگیا۔ کیا یہ تغیر مرزا کمال دین اور نظام دین کی کوششوں کے نتیجہ میں ہوا؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ یہ حضرت مسیح موعودؑ کی قوت قدسیہ کا نتیجہ تھا کہ ’’ابنائے فارس‘‘ نے ابد تک کے لیے احیائے شریعت کا عَلَم اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔

ع کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے

۳۲۔ایک بیٹے کے دو باپ یا ایک بیوی کے دو خاوند

احراری مقررین اپنے جوش خطابت میں جو جی میں آئے احمدیت کے خلاف اناپ شناپ کہتے چلے جاتے ہیں۔ اس قسم کی بے سرو پا باتوں میں سے ایک احسان احمد شجاع آبادی کے الفاظ میں یہ ہے:۔

اعتراض ’’ایک نبی کی امت کے ۷۲ فرقے ہوسکتے ہیں۔ لیکن جس طرح ایک بیوی کے دو خاوند نہیں ہوسکتے، اسی طرح ایک قوم کے بیک وقت دو پیغمبر نہیں ہوسکتے۔‘‘



(تقریر شجاع آبادی احراری مندرجہ اخبار ’’تعمیر نو‘‘ گجرات تبلیغ نمبر ۵ دسمبر ۱۹۴۹ء۔ صفحہ۷ کالم نمبر۱)

احراری مقررین کے اس قسم کے لغو اعتراضات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور خیال آتا ہے کہ خدایا! کیا یہ لوگ فی الحقیقت اپنی ان باتوں کو درست بھی سمجھتے ہیں؟ یا کیا ان لوگوں کا مبلغ علم اسی حد تک محدود ہے کہ ’’جس طرح ایک بیوی کے دوخاوند نہیں ہوسکتے اسی طرح ایک قوم کے بیک وقت دو پیغمبر نہیں ہوسکتے۔‘‘ کیا ان لوگوں کو اتنا بھی علم نہیں کہ بنی اسرائیل میں بیک وقت حضرت موسیٰ ؑاور حضرت ہارونؑ دو نبی تھے؟ حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت یحییٰ ؑبیک وقت نبی تھے۔ حضرت یعقوبؑ اور حضرت یوسفؑ بیک وقت نبی تھے۔ حضرت ابراہیمؑ۔ حضرت اسمٰعیل ؑ اور حضرت اسحٰق علیہ السلام بیک وقت نبی تھے۔ پھر یہ لوگ کس بنا پر یہ کہنے کی جرأت کرتے ہیں کہ کسی قوم میں بیک وقت دو پیغمبر نہیں ہوسکتے؟ اور کس عقل کی بنا پر یہ لوگ ’’ایک بیوی کے دو خاوند‘‘ یا ’’ایک بیٹے کے دو باپ‘‘ کی بے معنے مثال پیش کرتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون ؑکے بیک وقت ایک ہی قوم میں نبی ہونے سے کوئی حرج واقعہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگرچہ وہ دونوں براہ راست نبی تھے، لیکن چونکہ شریعت موسیٰ علیہ السلام کی تھی اور حضرت ہارون ؑ ان کے تابع تھے۔ اس لیے نہ باپوں والی مثال ان پر صادق آتی ہے نہ دو خاوندوں والی!

لیکن حضرت بانی ٔ سلسہ احمدیہ پر تو یہ مثال کسی طور پر بھی صادق نہیں آسکتی کیونکہ حضرت مرزا صاحب۔ حضرت ہارون علیہ السلام کی طرح براہ راست نبی نہیں بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ’’امتی‘‘ اور غلام ہیں۔ کلمہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہی ہے۔ شریعت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہی کی ہے اور مسیح موعودؑ کا مقام صرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے غلام اور نائب کا ہے۔ باپ محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم ہی ہیں اور مسیح موعودؑ آپ کا روحانی فرزند ہے۔ یاد رہے کہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کی شرائط بیعت میں آپ کے ساتھ جس تعلق کے قیام کا عہد لیا جاتا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’اس عاجز سے تعلق اخوت رکھے گا۔‘‘ گویا جماعت احمدیہ کے افراد کا تعلق بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت سے ’’اخوت‘‘ کا ہے کیونکہ ان کا روحانی باپ حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہی ہیں۔ پس اندھا ہے وہ دشمن جو یہ اعتراض کرتا ہے کہ احمدیوں کے عقائد کے رو سے دو باپ ماننے پڑتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں:۔

مے خانہ وہی ساقی بھی وہی پھر اس میں کہاں غیرت کا محل

ہے دشمن خود بھینگا جس کو آتے ہیں نظر خمخانے دو

(کلام محمود صفحہ ۱۵۴نظم نمبر۹۴)

پھر فرماتے ہیں:۔

شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے احمدؑ کو محمدؐ سے تم کیسے جدا سمجھے

(کلام محمود صفحہ ۱۸۴نظم نمبر۱۲۳)

ہمارا یمان ہے کہ محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ اس وجہ سے آپ ’’ابوالانبیاء‘‘ یعنی تمام اگلے اور پچھلے نبیوں کے باپ ہیں قیامت تک حضور ہی کی ابوتچلے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام محض حضورؐ کے نائب اور روحانی فرزند کا ہے۔ اے کاش احراری معترضین کے دل میں خدا کا خوف ہو اور موت کادن ان کو یاد ہو جب اس احکم الحاکمین کے سامنے حاضر ہوکر اپنے تمام اقوال و اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہوگا۔ اس وقت یہ ’’جوش خطابت‘‘ یہ زبان کی چالاکیاں اور یہ اشتعال انگیز نعرے کام نہیں آئے گی۔

۳۳۔کیا نبی کے آنے سے قوم بدل جاتی ہے !

اعتراض ۔ نئے نبی کے آنے سے نئی امت بن جاتی اور اس کے ماننے والے نئی قوم بن جاتے ہیں۔



مولوی محمد علی صاحب احراری بھی ایک دور کی کوڑی لائے ہیں۔آپ نے ہر مقام پر ہر احرارکانفرنس میں یہ نیا’’علمی نکتہ‘‘ پیش کیا ہے کہ چونکہ قوم نبی سے بنتی ہے اس لیے ہر نئے نبی کے آنے پر اس کی قوم کا نام بھی بدل جاتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے یہودی کہلاتے تھے مگر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تو جن یہودیوں نے ان کو مان لیا۔وہ یہودی نہ رہے بلکہ ’’عیسائی‘‘ ہوگئے۔ پھر جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے تو جن عیسائیوں نے حضور کے دعویٰ کو قبول کر لیا وہ عیسائی نہ رہے بلکہ مسلمان کہلانے لگے۔بعینہٖ اسی طرح مرزا صاحب کے ماننے والے مسلمان نہیں کہلاسکتے۔ان کو احمدی یا قادیانی کہا جائے گا کیونکہ انہوں نے ایک نیا نبی تسلیم کر لیا ہے۔

جواب ۔ یہ ہے وہ مایۂ ناز اعتراض کہ جب گجرات احرار کانفرنس منعقدہ ۳۰ نومبر ۱۹۴۹ء کے موقع پر مولوی محمد علی احراری نے اسے بیان کیا تو ’’امیر شریعت احرار‘‘ نے اچھل اچھل کر اس نئے ’’نکتہ‘‘ پر انہیں دل کھول کر داد دی۔بلکہ یہاں تک کہا ’’جامیں نے تجھے سارے ارمان بخش دیئے‘‘ پھر مولوی محمد علی احراری نے ہرمقام پر یہی اعتراض دہرایا اور قریباً ہر جگہ ’’امیر شریعت احرار‘‘ نے اسی انداز میں انہیں داد علم وعقل کے ساتھ یہی ڈرامہ دہرایا۔

اب آئیے! اس اعتراض کا تجزیہ کریں اور دیکھیں اس میں کس قدر صداقت اور سچائی ہے۔

پہلا مغالطہ :۔ اس مزعومہ دلیل میں پہلا مغالطہ تو یہ دیا گیا ہے کہ گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد پہلا نبی جو آیا وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان قریباً چودہ سو سال کا فاصلہ ہے اس عرصہ میں بنی اسرائیل میں ہزاروں انبیاء آئے۔حضرت یوشع بن نون ،داؤد،سلیمان ،حزقیل ،سموئیل ،یوئیل ،ملاکی ،ایلیاہ، میکاہ،عزراء وغیرہ ہزاروں نبی ہیں جو حضرت عیسیٰؑ سے پہلے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک ہی قوم بنی اسرائیل میں آئے۔پس اگر یہ بات درست ہے! کہ قوم نبی سے بنتی ہے اور نئے نبی کے آنے سے قوم بدل جاتی ہے تو پھر مولوی محمد علی صاحب احراری اور ان کے اس ’’نکتہ‘‘پر عش عش کر اٹھنے والے احراری امیر شریعت بتائیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ان کے بھائی ہارون جو نبی تھے تو ان کے ذریعہ سے کونسی ’’نئی قوم‘‘ معرض وجود میں آئی تھی اور ان کے ماننے والوں کا نام کیا رکھا گیا تھا؟پھر ان کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہلے خلیفہ حضرت یوشع علیہ السلام بن نون کے نبی ہونے پر جو نئی قوم پیدا ہوئی تھی وہ کونسی تھی؟اور اس کا کیا نام تھا؟اسی طرح ان کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام کے ذریعہ کونسی نئی قوم بنی تھی!پھر ان کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلا م نے کس قوم کی تشکیل فرمائی تھی ان کی قوموں کے کیا کیا نام تھے؟خود احراری معترض کو بھی مسلم ہے کہ موسیٰ کی قوم کا نام یہودی تھا اور یہ نام قائم رہا جب تک کہ عیسیٰ علیہ السلام نہیں آگئے۔ تب جا کر بقول معترض اس قوم کا نام بدلا۔ اگر قوم نبی سے بنتی ہے او رنئے نبی کے آنے سے پہلے نبی کی قوم کا نام بدل جاتا ہے تو پھر کیوں اس قوم کا نام چودہ سو سال تک نہ بدلا؟ اوراس وقت باوجود اس کے کہ بقول قرآن مجید ’’‘‘ (المومنون:۴۵) ’’‘‘(البقرۃ:۸۸)کہ اﷲ تعالیٰ نے پہ بہ پے اور قدم بقدم رسول بھیجے مگر پھر بھی اس قوم کا نام نہ بدلا۔تو اب کیوں نام بدل جائیگا؟حقیقت یہ ہے کہ یا تو یہ لوگ علم دین سے بکلی بے بہرہ ہیں جو ایسی مضحکہ خیز باتیں کرتے ہیں کہ ایک طالب علم بھی دیکھ کر بے اختیار ہنس پڑے اور یا جان بوجھ کر مغالطہ آفرینی کرکے اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔

دوسر ا مغالطہ :۔احراری معترض نے دوسرا مغالطہ یہ دیا ہے کہ گویا ’’یہودی‘‘ اس قوم کا نام ہوا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائی۔حالانکہ تاریخ کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت سے پہلے بھی موجود تھے اور حضر ت موسیٰ علیہ السلام خود اپنی نبوت سے پہلے بھی یہودی تھے۔پولوس رسول حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کے باوجود خود کو ’’یہودی‘‘قرار دیتا ہے۔ (دیکھو اعمال باب ۲۲ آیت ۳)

کیونکہ یہودی’’مذہب‘‘نہیں بلکہ نسل ہے آج اس وقت دنیا میں لاکھوں عیسائی موجود ہیں جو نسلاً یہودی ہیں۔ پس احراری معترض کا یہ کہنا کہ موسیٰ کے ماننے والے ’’یہودی‘‘ کہلائے اور حضرت عیسیٰ ؑ کے ماننے والے عیسائی بالبداہت باطل ہے۔

تیسرا مغالطہ :۔احراری معترض نے تیسرا مغالطہ یہ دیا ہے کہ گویا ’’مسلمان‘‘ کا نا م اور لقب صرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد مسلمانوں کوآپ پر ایمان لانے کے باعث دیا گیا۔ حالانکہ قرآن مجید سے صاف پتہ لگتا ہے کہ خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ماننے والوں کا نام ’’مسلم‘‘ تھا۔قرآن مجید میں ہے۔

الف۔(اٰل عمران:۶۸) کہ ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ خالص مسلمان تھا۔

ب۔(البقرۃ :۱۳۳)کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت یعقوب ؑنے اپنی اولاد کو یہ وصیت کی کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے دین (اسلام) کو چن لیا ہے۔ پس تم پر ایسی حالت میں موت آئے جبکہ تم مسلمان ہو۔

ج۔حضرت یوسف علیہ السلام کی دعاقرآن مجید میں ہے:۔

…………(یوسف:۱۰۲)

کہ اے میرے خدا ! مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے ساتھ ملا دے۔

د۔موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کا نام بھی ’’مسلم‘‘ ہی تھا۔قرآن مجید میں ہے کہ جب فرعون غرق ہونے لگا تو اس نے کہا۔

’’‘‘(یونس:۹۱) کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ اس خد ا کے سوا اور کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لاتے ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔اگر موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کا نام ’’یہودی‘‘ تھا تو فرعون کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ میں ’’یہودی‘‘ ہوتا ہوں نہ یہ کہ ’’مسلمان‘‘ ہوتا ہوں۔

ھ۔حضرت سلیمان علیہ السلام کے ماننے والوں کا نام بھی ’’مسلمان‘‘ ہی تھا۔ملاحظہ ہو قرآن مجید میں ہے حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کو جو خط لکھا اس میں لکھا ۔’’(النمل :۳۲)کہ میرے بالمقابل سر کشی نہ کرو او رمیرے پاس ’’مسلمان‘‘ ہو کر آجاؤ۔

و۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں کا نام بھی ’’مسلمان‘‘ ہی تھا۔قرآن مجید میں ہے:۔

(اٰل عمران:۵۳)کہ جب عیسیٰ علیہ السلام نے محسوس کیا کہ ان کے مخالفین ان کی نبوت کے انکار پر مصر ہیں تو انہوں نے اعلان کیا کہ خدا کے دین کا مددگار کون ہے؟حواریوں نے عرض کیا ہم خدا کے دین کے انصار ہیں۔پس اے عیسیٰ آپ گواہ رہیں کہ ہم ’’مسلمان‘‘ ہیں۔پس قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیات سے صاف طور پر ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہر سچے نبی کے پیرؤں کا نام مسلمان ہی ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے (اٰل عمران :۲۰)خدا کے نزدیک صحیح اور درست ایک ہی مذہب ہے جس کا نام اسلام ہے۔ پس خدا کی طرف سے جو بھی نبی آئے گا وہ خدا کے دین اسلام ہی کی طرف انسانوں کو دعوت دے گا اور اس کے ماننے والوں کا نام ’’مسلم‘‘ ہی ہوگا۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۳۴۔حضرت مرزا صاحب کے ماننے والوں کا کیا نام رکھا گیا

اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام کے ماننے والوں کا نام احمدی کیوں رکھا گیا ؟


احراری معترض نے یہ مغالطہ بھی دیا ہے کہ خود حضرت مرزا صاحب نے اپنی جماعت کا نام ’’مسلمان‘‘ نہیں رکھا بلکہ ’’احمدی‘‘ رکھا۔اور مرد م شماری کے کاغذوں میں بھی جماعت کو ’’احمدی‘‘ کا نام لکھانے کی ہدایت کی۔ حالانکہ یہ محض تلبیس اور جھوٹ ہے کیونکہ حضرت مرزا صاحب نے ہر گز اپنی جماعت کا نام محض ’’جماعت احمدیہ‘‘ یا اپنے ماننے والوں کا نام محض ’’احمدی‘‘ نہیں رکھا۔اور نہ اپنی جماعت کو محض ’’احمدی‘‘ نام مرد م شماری کے کاغذوں میں لکھانے کی ہدایت فرمائی جس اشتہار میں حضرت مرزا صاحب نے اپنی جماعت کا نام تحریر فرمایا ہے وہ ۴ نومبر ۱۹۰۰ء کو شائع ہوا اور تبلیغ رسالت جلد نمبر ۹ صفحہ نمبر ۸۱تا ۹۱پر موجود ہے اس میں حضور تحریر فرماتے ہیں :۔

’’یاد رہے کہ مسلمانوں کے فرقوں میں سے یہ فرقہ جس کا خدا نے مجھے امام اور پیشوا اور رہبر مقرر فرمایا ہے ایک بڑا امتیاز ی نشان اپنے ساتھ رکھتاہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد نمبر ۲ صفحہ ۳۵۷)

’’اور وہ نام جو اس سلسلہ کے لیے موزوں ہے جس کو ہم اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لیے پسند کرتے ہیں وہ نام مسلمان فرقہ احمدیہ ہے۔ اور جائز ہے کہ اس کو احمدی مذہب کے مسلمان کے نام سے بھی پکاریں۔یہی نام ہے جس کے لئے ہم ادب سے اپنی معزز گورنمنٹ میں درخواست کرتے ہیں کہ اسی نام سے اپنے کاغذات اور مخاطبات میں اس فرقہ کو موسوم کرے یعنی ’’مسلمان فرقہ احمدیہ۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد ۲صفحہ ۳۶۴،۳۶۵)

’’اس فرقہ کا نام ’’مسلمان فرقہ احمدیہ‘‘ اس لیے رکھا گیا کہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے دو نام تھے ایک محمد صلی اﷲ علیہ وسلم دوسرا احمد صلی اﷲ علیہ وسلم۔‘‘

(دیکھو اشتہار۴ نومبر ۱۹۰۰ء و تبلیغ رسالت جلد ۹ صفحہ ۹۰،۹۱)

پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے خود اپنی جماعت کے لیے لفظ ’’مسلمان‘‘ کو ترک کر دیا ہے وہ جان بوجھ کر لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے۔ جماعت احمدیہ مسلمان فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے جس طرح دوسرے تمام فرقوں کے علیحدہ علیحدہ امتیاز ی نام ہیں مثلاً ’’اہلسنت والجماعت‘‘ ’’حنفی‘‘ یا ’’اہلحدیث‘‘ یا شیعہ وغیرہ اسی طرح اس فرقہ کا بھی ’’احمدی‘‘ نام ہے۔ لیکن جس طرح باقی سب فرقے ’’اسلام‘‘ کے فرقے ہی ہیں بلکہ اصل اور حقیقی اسلام کے حامل ہونے کے مدعی ہیں اسی طرح اس فرقہ کا بھی دعویٰ ہے کہ اصل اور حقیقی اسلام اسی فرقہ میں ہے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر اعتراضات

مرزا صاحب ’’ابن مریم‘‘کس طرح ہوگئے آپ کی والدہ کا نام تو چراغ بی بی تھا۔
مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے کسر صلیب کیسے کی اور جماعت احمدیہ نے اسلام کی کیا خدمت ہے ؟
حضرت مسیح مو عود علیہ السلام نے اپنی جماعت کی بہت مذمت کی ہے۔ پس آپ کے آنے کا اثر کیا ہو ا؟
اعتراض۔ مسیح نے تو منارہ دمشقی پر نازل ہونا تھا۔
اعتراض۔ حدیث میں ہے کہ مہدی حضرت فاطمہؓ کی اولاد سے ہوگا۔
6. اعتراض ۔ امام مہدی نے تو مکہ میں پیدا ہو کر مدینہ سے ظا ہر ہونا تھا۔
7. اعتراض ۔ مہدی کا نام محمد ان کے والد کا نام عبداﷲ اور ان کی والدہ کا نام آمنہ ہو گا ؟
8.اعتراض۔ نبی کے لئے تو صاحب شریعت ہونا ضروری ہے۔ مگر مرزا صاحب صاحبِ شریعت نہ تھے۔
9. نبی کے لئے تو صاحب شریعت ہونا ضروری ہے۔ مگر مرزا صاحب صاحبِ شریعت نہ تھے۔ (حصہ دوم )
10. قرا ٓن مجید میں ہے (الانعام: ۹۰)پس ہر نبی کا صاحب کتاب ہونا ضروری ہے۔
11۔ اعتراض ۔ مرزا صاحب (مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ) پر کفر کا فتویٰ کیوں لگا؟
12۔اعتراض:۔نبی کسی کا شاگرد نہیں ہوتا۔ مرزا صاحب شاگرد رہے۔
13. غیر احمدی:۔ ’’آج تک کوئی نبی لکھا پڑھا نہیں آیا اور نہ کسی نبی نے کوئی کتاب لکھی۔‘‘
14. اعتراض۔ نبی کا نام مرکب نہیں ہوتا۔ مرزا صاحب کا نام مرکب تھا؟
15۔ اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے حج کیوں نہیں کیا ؟
16. اعتراض ۔ مرزا صاحب سے تو خدا کا وعدۂ حفاظت تھا۔ پھر کیا ڈر تھا ؟
17۔ اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے ملازمت کیوں کی ؟
18. اعتراض۔ مسیح یہ مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے چندہ کیوں لیا ؟
19.اعتراض مرزا صاحب کو مراق یعنی ہسٹیریا تھا اوراس لیے وہ نبی نہیں ہو سکتے
20۔ اعتراض۔ مرزا صاحب قوت باہ (مردانہ طاقت ) کی دوائیاں کھا یا کرتے تھے۔
21. اعتراض۔ مرزا صاحب نے حکیم محمد حسین صاحب قریشی مرحوم کی معرفت ٹانک وائن منگوائی؟
22.اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا احمد علیہ السلام نے ریشمی کپڑا منگوایا اور کستوری استعمال کی۔
23. غیر احمدی:۔ حضرت مرزا صاحب بعض اوقات ایک پاؤں کا جوتا دوسرے میں پہن لیتے تھے۔ کبھی قمیض کے بٹن نیچے اوپر لگا لیتے تھے عام طور پر لو گوں کے نا م بھول جاتے تھے۔ کیااس قسم کا شخص بھی مقرب بارگاہ الٰہی ہو سکتا ہے ؟
24. غیر احمدی۔ حضرت مرزا صاحب کے سامنے نامحرم عورتیں چلتی پھرتی رہتی تھیں۔ بلکہ ایک ضعیفہ عورت ’’بانو‘‘ نام نے ایک مرتبہ آپ کے رضائی کے اوپر سے پاؤں دبائے۔
25. غیر احمدی:۔حضرت مرزا صاحب نے امر تسر میں رمضان کے ایام میں تقریر کرتے ہوئے چائے پی لی اور رمضا ن کا احترام نہ کیا۔
26.اعتراض۔ بہشتی مقبرہ تو قبروں کی تجارت ہے ۔
27. اعتراض ۔ مرزاصاحب نے اربعین نمبر ۴ صفحہ ۴ و صفحہ۵ طبع اوّ ل میں لکھا ہے کہ مجھے دن میں بعض دفعہ سو سو دفعہ پیشاب آ جاتا ہے مرزا صاحب نماز کس وقت پڑھتے ہوں گے؟
28.عتراض۔ مرزا صاحب نے فوٹو(تصویر) کھنچوائی۔ حالا نکہ لکھا ہے۔ ’’کُلُّ مُصَوِّرٍ فِی النَّارِ‘‘
29۔ اعتراض۔ مرزا صاحب کی وفات ہیضہ سے ہوئی۔ سیرت مسیح موعود ؑ مؤلفہ حضرت مرزا محمود احمد صاحب کے آخری صفحہ پر لکھا ہے کہ وفات کے قریب آپ کو دست آئے۔
30۔ اعتراض۔ نبی جہا ں فوت ہوتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے۔
31۔اعتراض۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کی مسیح نازل ہونے کے بعد میری قبر میں دفن ہو گا۔ یدفن معی فی قبری
32۔ غیر احمدی:۔( ۱)۔ بخاری میں ہے کہ نبیوں کا ورثہ نہیں ہوتا ، لیکن مرزا صاحب کا ورثہ تھا۔ (۲) مرزا صاحب نے لڑکیوں کو ورثہ دینے کی مسلمانوں کو تلقین نہیں کی اور نہ آپ کی لڑکیوں کو ورثہ ملا۔
33۔ غیر احمدی:۔ حضر ت اماں جانؓ نے آپ کی وفات کے بعد وراثت میں سے کیوں حصہ نہ لیا؟
34۔ اعتراض ’’ایک نبی کی امت کے ۷۲ فرقے ہوسکتے ہیں۔ لیکن جس طرح ایک بیوی کے دو خاوند نہیں ہوسکتے، اسی طرح ایک قوم کے بیک وقت دو پیغمبر نہیں ہوسکتے۔‘‘
35. اعتراض ۔ نئے نبی کے آنے سے نئی امت بن جاتی اور اس کے ماننے والے نئی قوم بن جاتے ہیں۔
36.اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام کے ماننے والوں کا نام احمدی کیوں رکھا گیا ؟
37۔
 
Last edited:
Top