حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر اعتراضات
۱۔ ابن مریم ؑ کیسے ہوئے
اعتراض:۔مرزا صاحب ’’ابن مریم‘‘کس طرح ہوگئے آپ کی والدہ کا نام تو چراغ بی بی تھا۔
جواب:۔(۱) اِطْلَاقُ اِسْمِ الشَّیْءِ عَلٰی مَایُشَابِھُہٗ فِیْ اَکْثَرِخَوَاصِہٖ جَائِزٌ حَسَنٌ ۔ (تفسیر کبیر جلد ۲صفحہ۶۸۹) کہ ایک چیز کا نام دوسری چیز کو (جو اکثر خواص میں اس سے ملتی ہو) دینا جائز ہے۔
(۲)اسم عَلَم بھی بطور مجاز دوسرے کے لئے بولا جاتا ہے۔ چنانچہ بلاغت کی کتاب تلخیص المفتاح صفحہ ۵۹،۶۰ میں لکھا ہے ’’وَلَا تَکُوْنُ عَلَمًا……اِلَّا اِذَا تُضَمَّنَ نُوْعٌ وَّصَفِیَّۃٌ کَحَاتَمٍ۔ ‘‘ کہ عَلَم استعارہ استعمال نہیں ہوتا ہاں جب کوئی صفت پائی جائے تب اسم علم بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ جیسے حاتم ہے۔ (تلخیص المفتاح از محمد عبدالرحمن قزوینی صفحہ ۵۹،۶۰ مطبع مجتبائی دہلی)
(۳)آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَّنْظُرَ اِلٰی عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ فِیْ زُھْدِہٖ فَلْیَنْظُرْ اِلٰی اَبِی الدَّرْدَاءِ ‘‘ (منصب امامت صفحہ ۵۳ مصنفہ سید اسمٰعیل شہید ؒ)
کہ تم میں سے جو شخص عیسیٰ بن مریم کو زہد کی حالت میں دیکھنا چاہے وہ حضرت ابو درداء کو دیکھے۔
(۴)آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو’’یوسف والیاں‘‘ قرار دیا ہے چنانچہ بخاری شریف میں ہے اِنَّ کُنَّ لَاَنْتُنَّ صَوَاحِبُ یُوْسُفَ۔
(بخاری کتاب الصلوٰۃ باب اھل العلم والفضلاء احق بالامامۃ)
اس کا ترجمہ تجرید بخاری مترجم اردو سے نقل کیا جاتا ہے۔ ’’چنانچہ حفصہ ؓ نے عرض کی تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ٹھہرو بیشک یقینا تم لوگ یوسف کی ہم نشین عورتیں ہو۔‘‘
(تجرید جلد ۱ صفحہ۹۷)
نوٹ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ’’صَوَاحِبُ‘‘جمع ہے’’صَاحِبَۃٌ‘‘ کی۔ جس کے معنی ہیں ’’بیوی‘‘جیسا کہ قرآن مجید میں ہے’’‘‘(الانعام:۱۰۲) کہ خدا کا بیٹا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اس کی بیوی کوئی نہیں ہے۔ پس حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کااپنی ازواج مطہرات کو صَوَاحِبُ یُوْسُفَ قرار دینے کے کیا معنی ہوئے۔
(۵)حضرت خواجہ میر درد دہلوی فرماتے ہیں:۔
اﷲ ! اﷲ ! بہر انسان بقدرتِ کاملہ حق تعالیٰ عیسیٰ ؑ وقتِ خویش است و ہر دم او را برائے خود معاملہ نفسِ عیسوی در پیش است۔ (رسالہ دردؔ مطبع شاہجہانی بھو پال صفحہ ۲۱)
(۶)شیخ معین الدین اجمیری ؒ فرماتے ہیں
د مبدم روح القدس اندر معینے میدمد
من نمے گوئیم مگر من عیسٰی ؑ ثانی شدم
(دیوان خواجہ معین الدین چشتی ؒ صفحہ ۱۶ بحوالہ عسل مصفّٰی جلد ۱ صفحہ ۶۲۳)
(۷)ابن مریم ہونے کے متعلق تفصیلی بحث الہامات پر اعتراضات کے جواب زیر عنوان ’’ابن مریم بننے کی حقیقت‘‘ پاکٹ بک ہذا صفحہ ۶۴۰ تا ۶۴۴ پر ملاحظہ ہو۔
کسر صلیب
مسیح موعودؑنے تو آکر کسر صلیب کرنی تھی ؟
جواب۔الف۔علامہ بدر الدین رحمۃ اﷲ علیہ شارح صحیح بخاری نے لکھا ہے۔ ’’فُتِحَ لِیْ ھُنَا مَعْنٰی مِنَ الْفَیْضِ الْاِلٰھِیِّ وَھُوَ اَنَّ الْمُرَادَ مِنْ کَسْرِ الصَّلِیْبِ اِظْھَارُکَذِبِ النَّصَارٰی‘‘(عینی شرح بخاری جلد ۵ صفحہ ۵۸۴ مصری )کہ مجھ کو اس مقام پر فیضِ الٰہی سے الہاماً یہ بتایا گیا ہے کہ کسر صلیب سے مراد عیسائیت کو جھوٹا ثابت کرنا ہے۔
(ب)حضرت حافظ ابن حجرالعسقلانی لکھتے ہیں:۔
’’اَیْ یُبْطِلُ دِیْنَ النَّصْرَانِیَّۃِ ‘‘ (فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد ۶ صفحہ ۳۵)
یعنی کسر صلیب کا مطلب دین عیسائیت کا ابطال ہے ۔
ج۔ حضرت ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی کسر صلیب کے یہی معنی کئے ہیں لکھتے ہیں:۔ ’’اَیْ فَیُبْطِلُ النَّصْرَانِیَّۃَ ‘‘(مرقاۃ المفاتیح کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ ؑ)یعنی مسیح موعود نصرانیت کو جھوٹا ثابت کرے گا۔
د۔ علامہ نووی نے بھی یہی معنی کئے ہیں۔
(دیکھو نووی شرح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ بن مریم )
ھ۔ ’’یُرِیْدُ اَبْطَالًا لِشَرِیْعَۃِ النَّصَارٰی۔ ‘‘ (مجمع بحار الانوار جلد ۲ صفحہ ۷ ۲۵ از شیخ محمد ظاہر مطبع نول کشور)کہ کسر صلیب کا مطلب عیسائیت کا ابطال ہے۔
و۔ باقی رہا یہ کہنا کہ حضرت مرازصاحب نے اپنے زمانہ ہی میں عیسائیت کو نیست و نابو د کیوں نہیں کردیا ؟ تو سنو!
جواب:۔ (۱)قرآن مجید میں ہے ’’‘‘(بنی اسرائیل : ۸۲) کہ حق (قرآن ) آیا اور باطل (کفر) بھاگ گیا اور باطل بھاگنے ہی والا ہے۔ اب قرآن مجید کے آنے سے جس طرح دنیا سے باطل بھاگ گیا ہو ا ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودؑکے آنے سے عیسائیت بھی تباہ ہو چکی ہے۔
(۲)اصل بات وہی ہے جو اﷲ تعالیٰ نے قرآ ن مجید میں بیان فرمائی ہے۔ (الانفال : ۴۳)کہ ہلاک وہ ہوا جو دلائل سے مغلوب ہوا۔
(۳)حدیث میں بھی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یَمْحُواللّٰہُ بِیَ الْکُفْرَ۔ ‘‘ (بخاری کتاب المناقب باب ما جاء فی اسماء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بحوالہ مشکوٰۃ کتاب الرؤیا باب أسماء النبیؐ اصح المطابع ) کہ میں ماحی ہوں یعنی اﷲ تعالیٰ میرے ذریعہ کفر کو دنیا سے مٹا دے گا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث ہوئے ۱۳۷۲ برس گزر گئے کیا ظاہری طور پر کفر دنیا سے مٹ گیا ؟پھر اس جگہ اتنے بیتاب ہونے کا کیا باعث ہے۔
۴۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غلبۂ اسلام کا ہونا اپنے زمانہ میں قرار دیا ہے اور’’زمانہ‘‘ کے متعلق حضرت فرماتے ہیں:۔
ا ۔ ’’ مسیح موعود کا زمانہ اس حد تک ہے جس حد تک اس کے دیکھنے والے یا دیکھنے والوں کے دیکھنے والے اور یا پھر دیکھنے والوں کے دیکھنے والے دنیا میں پائے جائیں گے اور اس کی تعلیم پر قائم ہوں گے۔ غرض قرون ثلاثہ کا ہونا برعایت منہاج نبوت ضروری ہے۔‘‘
(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۴۷۸ حاشیہ)
ب۔’’یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا۔ ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسیٰ ؑبن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا۔ اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسیٰ ؑبن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گی۔ تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا۔ اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسٰیؑ اب تک آسمان سے نہ اُترا۔ تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے۔ اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ مَیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۶۷)
ج۔ ’’خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی اُنہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اُس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا ۔‘‘ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد۲۰صفحہ ۳۰۴)
د۔’’پوری ترقی دین کی کسی نبی کی حین حیات میں نہیں ہوئی بلکہ انبیاء کا یہ کام تھا کہ انہوں نے ترقی کا کسی قدر نمونہ دکھلا دیا اور پھر بعد اُن کے ترقیاں ظہور میں آئیں……سو مَیں خیال کرتا ہوں کہ میری نسبت بھی ایسا ہی ہو گا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۳۶۵)
ھ۔’’ مسیح موعود صرف اس جنگِ روحانی کی تحریک کے لئے آیا۔ ضرور نہیں کہ اُس کے روبرو ہی اس کی تکمیل بھی ہو۔ بلکہ یہ تخم جو زمین میں بویا گیا آہستہ آہستہ نشوونما پائے گا یہاں تک کہ خدا کے پاک وعدوں کے موافق ایک دن یہ ایک بڑا درخت ہو جائے گا۔ اور تمام سچائی کے بھوکے اور پیاسے اس کے سایہ کے نیچے آرام کریں گے۔ دلوں سے باطل کی محبت اُٹھ جائے گی گویا باطل مر جائے گا اور ہر ایک سینہ میں سچائی کی روح پیدا ہو گی اس روز وہ سب نوشتے پورے ہو جائیں گے جن میں لکھا ہے کہ زمین سمندر کی طرح سچائی سے بھر جائے گی۔مگر یہ سب کچھ جیسا کہ سنّت اﷲ ہے تدریجاً ہو گا۔ اس تدریجی ترقی کے لئے مسیح موعود کا زندہ ہونا ضروری نہیں بلکہ خدا کا زندہ ہونا کافی ہو گا۔ یہی خدا تعالیٰ کی قدیم سنّت ہے اور الٰہی سنتوں میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ پس ایسا آدمی سخت جاہل ہو گا کہ جو مسیح موعود کی وفات کے وقت اعتراض کرے کہ وہ کیا کر گیا۔ کیونکہ اگرچہ یکدفعہ نہیں مگر انجام کار وہ تمام بیج جو مسیح موعود نے بویا تدریجی طور پر بڑھنا شروع کرے گا اور دلوں کو اپنی طرف کھینچے گا یہاں تک کہ ایک دائرہ کی طرح دنیا میں پھیل جائے گا۔ ‘‘ (ایام الصلح۔روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۲۹۵)[/div2]
Last edited: