• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 17

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 17


۱
سالِ نو کا پروگرام
(فرمودہ ۳؍جنوری۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
مجھے ابھی تک گلے کی تکلیف سے آرام حاصل نہیںہؤا اور آج سر میں درد بھی ہے اس لئے کوئی لمبا خطبہ بیان نہیں کر سکتا اختصاراً بعض باتیں بیان کردیتا ہوں۔سب سے پہلے یہ اعلان کرتا ہوں کہ چونکہ جلسہ کا کام اور رمضان ختم ہوچکا ہے اس لئے اِس ہفتہ سے اتوار کے روز سے حسبِ معمول درس شروع ہوجائے گا۔ہفتہ کے روز مستورات کا درس ہوتا ہے، مردوں کا نہیں ہوتا۔ پس اتوار سے مردوں کادرس شروع کیا جائے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہاںبعض دفعہ مبلّغوں کے آنے جانے پر پارٹیاں ہوتی ہیں۔ میں نے بہت دفعہ دیکھا ہے کہ منتظمین غلطیاں کرتے ہیں۔ کئی دفعہ اصلاح کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے مگر پھر وہی غلطیاں ہوتی ہیں۔ اِس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ غلطی کے بعد وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ ہم کو سزا نہ ملے او رچونکہ وہ سزا سے بچ جاتے ہیں اِس لئے پھر اُسی غلطی کے کرنے میں انہیں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ سزا انسانی ترقی کیلئے ضروری ہوتی ہے اس لئے جب غلطی ہو تو انسان کو اس کا خمیاز ہ بھُگتنے کیلئے خود کو تیار کرنا چاہئے۔ جب تک یہ روح پیدا نہ ہو غلطیوں کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ ایسے مواقع پر منتظمین بعض ایسی حرکات کرتے ہیں جو دنیا کے عام مروّجہ طریق کے لحاظ سے بھی نہایت ناپسندیدہ اور ناشائستہ ہوتی ہیں۔ مثلاً آج ہی ایک واقعہ ہؤا ہے۔ بعض مبلّغین کے جانے پر مدارس کے طلباء نے ایک پارٹی کا انتظام کیا۔ ایسی پارٹیوں کو میں نہ صرف یہ کہ ناپسندیدہ نہیں سمجھتا بلکہ جماعت کے اندر قربانی اوراِس کی قدر کاجذبہ پیدا کرنے کیلئے اِن کو مفید سمجھتاہوں لیکن ہر چیز خواہ کتنی مفید کیوں نہ ہو اُس کیلئے بعض قواعد ہوتے ہیں جن کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔ اِس پارٹی کے متعلق جب مجھ سے دریافت کیا گیا تو منتظمین کی سہولت کومدّنظر رکھتے ہوئے میں نے کہہ دیا کہ تین جنوری کو صبح یا شام جو وقت بھی مقرر ہوجائے میں آجائوں گا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ صبح کی یا شام کی میں قید نہیں لگاتا جس وقت بھی سہولت ہو کرلی جائے۔ لیکن اِس کا یہ مطلب کوئی عقلمند بھی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ میں اُس دن صبح سے شام تک تمام کام چھوڑ کربیٹھا رہوں گا کہ وہ جب چاہیں بُلالیں۔ منتظمین کیلئے مناسب تھا کہ وہ صبح کا یا شام کا کوئی وقت مقرر کرکے مجھے اطلاع دے دیتے۔ یہ گفتگو یکم کو ہوئی تھی اور اِس کا جواب مجھے اگر دیر سے بھی ملتا تو دو کی صبح کو مل جاناچاہئے تھا۔ دو تاریخ کو جلسہ کے انتظام کے متعلق رپورٹیں وغیرہ پڑھنے کیلئے مردوں کااجتماع ہؤا اور اُس دن چونکہ سیّد ناصر شاہ صاحب کی وفات ہوگئی اِس لئے دوسرا یعنی عورتو ں کا اجلاس نہ ہوسکا اور زنانہ انتظام کے متعلق رپورٹوں وغیرہ کا پڑھا جانا ملتوی کردیاگیا۔ اس کے متعلق اُنہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا کَل دس بجے اس کیلئے پروگرام رکھ لیاجائے؟ چونکہ اُس وقت تک اس پارٹی کے متعلق مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی تھی اور میں اس کے انتظار میں تمام دن فارغ بھی نہیں بیٹھ سکتا تھا اس لئے میں نے انہیں اجازت دے دی کہ کَل دس بجے کا وقت رکھ لو۔ لیکن آج ساڑھے نو بجے کے قریب پارٹی والوں کا آدمی آیا کہ چلیے پارٹی میں۔ میں نے کہا کہ مجھے تو اِس کی کوئی اطلاع نہیں۔ تو اُس نے جواب دیا کہ آپ نے جو کہا تھا کہ خواہ صبح رکھ لو خواہ شام، میں آجائوں گا۔ اب یہ تو صحیح ہے کہ میں نے یہ کہا تھا لیکن وقت مقرر کرکے مجھے اِس کی اطلاع دی جانی چاہئے تھی تاکہ میں باقی وقت کام پرلگا سکتا۔ یہ کسی طرح بھی ممکن نہ تھا کہ میں صبح اُٹھتے ہی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہتا کہ کوئی آدمی آئے گا کہ چل کرچائے پیئو اور میں اُس کے ساتھ اُٹھ کر چل پڑوں گا۔ میرے کام میں تو اگر ایک دن کا بھی ناغہ ہوجائے تو کئی کئی دن تک اس کا خمیازہ بھُگتنا پڑتا ہے اور اتنا کام ہوتا ہے کہ روزانہ ۱۴،۱۵ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ پس یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ وہ جب چاہیں مجھے بُلالیں۔ میرے پاس جو آدمی آیا میں نے اُسے یہ جواب دیا کہ ساڑھے نو بجے آپ آئے ہیں دس بجے ان کا وقت ہے اس لئے میں آپ لوگوں کو صرف ۲۵منٹ دے سکتا ہوں۔ یہ جواب لے کر وہ گیا اور پچیس منٹ کے بعد پھر آیا کہ ہم نے زنانہ جلسہ کی منتظمات سے فیصلہ کرلیا ہے وہ اپنے وقت میں سے پچیس منٹ ہم کو دیتی ہیں۔ میں نے کہا ان کا کوئی اختیار نہیں کہ میرا پروگرام تجویز کریں۔ اب صرف پانچ منٹ باقی رہ گئے ہیں اگر چاہو تو یہ ہوسکتا ہے کہ میں جائوں اور دعا کرکے آجائوں ۔ یہ جواب لے کر وہ پھر چلا گیا اور پھر واپس آکر کہا کہ اچھا ہم شام کو پارٹی کرلیں گے۔
اب کوئی شخص اِس بات کو معقول نہیں قرار دے سکتا کہ ڈیڑھ سَو آدمی کو ڈیڑھ دو گھنٹہ بٹھانے کے بعد یہ کہہ دیا جائے کہ صاحبان! آپ لوگ شام کو تشریف لائیں اور اب چلے جائیں۔ پہلی غلطی کے بعد منتظمین کو چاہئے تھا کہ اِس کا خمیازہ خود بھُگتتے اور یا تو سارا پروگرام اور ایڈریس وغیرہ منسوخ کرکے مجھے لے جاتے کہ اصل چیز دعا ہی ہے دعا کروالیتے اور یا عقل سے کام لیتے اور ان مہمانوں سے کہہ دیتے کہ ہم سے غلطی ہوئی۔ ہمیں بڑی خوشی ہوتی اگر خلیفۃ المسیح شریک ہوسکتے مگر چونکہ ہماری غلطی کی وجہ سے وہ نہیں آسکے اس لئے آیئے ہم خود ہی ایڈریس وغیرہ پڑھ کر چائے وغیرہ پی لیتے ہیں۔ یہ کوئی جہاد تو نہیں تھا کہ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ ؎ ۱ کے ماتحت امام کے بغیر نہ ہوسکتا۔ چائے بغیر امام کے بھی پی جاسکتی ہے ایک ادنیٰ سی بات کیلئے اتنے لوگوں کا اِس قدر وقت ضائع کرنا بالکل نامناسب تھا بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ اُن لوگوں کا بھی فرض تھا کہ جب دس بجتے وہ کہہ دیتے کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اب ہم جاتے ہیں تا آئندہ کے لئے اصلاح ہوتی لیکن منتظمین نے کوشش یہ کی کہ ان کی غلطی کا خمیازہ دوسرا بھُگتے اورقِسم قِسم کی باتوں سے بات کو طُول دیا۔ مثلاً یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم نے فوٹو اُتروانا تھا ،یہ کرنا تھا وہ کرنا تھا، حالانکہ یہ بچوں کی سی باتیں تھیں۔ اگر وہ چاہتے تو ۲۵ منٹ میں دعا بخوبی ہوسکتی تھی۔ وہ ایڈریس اور فوٹو وغیرہ سب باتوں کومنسوخ کردیتے اور کہہ دیتے کہ چائے پی کر دعا کرلی جائے۔ یا اگر ان کویہ پسند نہ تھا تو پھر ان ڈیڑھ سَو لوگوں کا وقت ضائع نہ کرتے اور میری شمولیت کے بغیر پروگرام کے مطابق کارروائی کرلیتے لیکن انہوں نے ان دونوں میں سے کوئی بات بھی نہ کی۔ پونے دس بجے ان کا آدمی آیا اور سَوا گیارہ بجے تک یہ بحث جاری رہی اور اِس طرح ڈیڑھ گھنٹہ تک ڈیڑھ سَو لوگوں کو وہاں بٹھائے رکھا گیا حالانکہ جمعہ کا دن تھا لوگوں نے نہانا دھونا بھی تھا پھر چھُٹی کے دن عزیز و اقارب سے ملناجُلنا بھی ہوتا ہے اِس کا ذکر میں نے خطبہ میں اس لئے کردیا ہے کہ تا آئندہ اصلاح ہو۔
اس میں شبہ نہیں کہ اصرار بھی محبت پر دلالت کرتا ہے لیکن محبت میں معقولیت ہونی ضروری ہے۔ صحابہ کو رسول کریم ﷺ سے عشق تھا لیکن اگر وہ آپ کو پکڑ لیتے کہ گھر میں نہیں جانے دیں گے آپ گھر جاتے ہیں تو ہمیں تکلیف ہوتی ہے تو یہ اُن کا عشق تو کہلاتا مگر غیرمعقول ۔ تو محبت کو ایک حد تک ظاہر کرنا چاہئے اور پھر اپنی غلطی کی وجہ سے اسے دل میں رکھ کر احساسات کے صدمہ کو برداشت کرناچاہئے اور سزا بھُگتنی چاہئے۔ اگر آج میں چلا جاتا تو آئندہ بھی اسی طرح ہوتا اس لئے میں ایک نصیحت تو یہ کرتا ہوںکہ ایسے امور میں عقل سے کام لینا چاہئے۔ میری رائے یہی ہے کہ بہت سے جرائم معاف کئے جاسکتے ہیں مگر بیوقوفی کا جُرم معاف نہیں کیا جاسکتا۔ میری تو سمجھ میں بھی یہ نہیں آتا کہ انسان غلطی کے باوجود یہ سمجھے کہ نتیجہ ٹھیک نکلے گا اور کہ میں اِس کی سزا سے بچ جائوں۔ شاید سزا کے لفظ سے بعض لوگوں نے بید کی بدنی سزا سمجھ لی ہے حالانکہ سزا صرف یہی نہیں بلکہ جذبات اور احساسات کی سزا بھی سزا ہی ہے۔ یہ بھی سزا تھی کہ میری شرکت کے بغیر ہی وہ پارٹی کرلیتے یا ایڈریس وغیرہ پروگرام منسوخ کردیتے یہ جذبات اور احساسات کی سزا تھی۔ غلطی کے باوجود سزا سے بچنے کی کوشش کرنا انسان کو اخلاقی معیار سے نیچے گِرادیتا ہے اور غلطی سے بچنے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ انسان اگر غلطی کرے تو اس کی سزا بھی بھُگتے خواہ وہ سزا مادی ہو یا جذباتی۔
اِس کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ چونکہ نیا سال شروع ہؤا ہے اور اِس کا یہ پہلا جمعہ ہے اس لئے میں پھر بعض باتوں کودُہرادیتا ہوں جومیرے نزدیک اہم اور ضروری ہیں۔ اوّل تو یہ کوئی میرا پروگرام خواہ وہ ایک سال میں پورا ہو خواہ چار پانچ سال میں، یہ ہے کہ کوئی ملک دنیا کا ایسا نہ ہو جس میں تابعی یعنی ایسے لوگ موجود نہ ہوں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کو دیکھاہے۔ اِ س وقت دنیا کے قریباً ایک ہزار ممالک ہوں گے اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام پہنچادیں۔ ملک کی تشریح مَیں حکومتوں کے لحاظ سے نہیں بلکہ زبان کے لحاظ سے کرتا ہوں اور مختلف زبانوں کے لحاظ سے اِس وقت شاید ایک ہزار سے بھی زیادہ ممالک ہوں گے اور ان میں سے صرف ساٹھ ستّر ہی ہیں جن تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمدکی خبر پہنچی ہو۔ باقی ۹۰۰سے زیادہ ابھی تک ایسے ہیں جن تک ابھی یہ خبر نہیں پہنچی بلکہ کافی حصہ ان میں ایسے ممالک کا بھی ہے جن میں اسلام کا نام تو ممکن ہے پہنچ چکا ہو مگر تعلیم نہیں پہنچی۔ اور میرا پروگرام یہ ہے کہ ہم کوشش کریں کہ ان ممالک میں تابعی پیدا کرسکیں۔ وہ وقت تو گزرگیا جب ہم ساری دنیا کو صحابی بناسکتے تھے مگر تابعی بناسکنے کیلئے ابھی وقت ہے۔ صحابہ نے بیسیوں ممالک میں تابعی بنادیئے تھے اور زبان کے لحاظ سے اگر ممالک کی تقسیم کی جائے تو سینکڑوں ممالک میں بنادیئے تھے۔ صحابہ کے زمانہ میں ریل، تار، ڈاک وغیرہ کی سہولتیں نہ تھیں اور ان کے نہ ہونے کے باوجود جب صحابہ نے اتنا کام کیا تو کوئی وجہ نہیں کہ ان سہولتوں کی موجودگی کے باوجود ہم ان سے زیادہ کام نہ کریں۔ قربانی کی قیمت کا اندازہ رستہ کی رکاوٹوں سے کیا جاسکتا ہے۔ اگر صحابہ نے دو سَو ممالک میں تابعی بنائے تو ہم بھی دوسَو ممالک میں تابعی بنا کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے برابر ہم نے کام کیا ہے اس لئے جب تک ان سے کئی گُنا زیادہ کام نہ کریں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے ان کی مشابہت حاصل کرلی۔
پس ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہر ملک میں تابعی پیدا کردیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کو ان تک پہنچادیں یا ان کو یہاں بُلالیں۔ اور اگر ہم یہ کرسکیں تویہ کام اتنا شاندار ہوگا کہ کسی نبی کے زمانہ میں اِس کی مثال نہ مل سکے گی۔ کیونکہ کوئی نبی یا مأمور آج تک ایسا نہیں گزرا جس کے تابعی تمام دنیا میں تھے۔ یہ ایک ایسی عجیب بات ہے کہ اِس کے تصوّر سے ہی میرا دل مسرت سے بھر جاتا ہے اور بجلی کی رَو کی طرف مسرت کی لہر تمام جسم میں دَوڑ جاتی ہے۔ حضرت مسیح ناصریؑ کے صحابہ شام سے چلے او رکشمیر یا مدراس تک پہنچے تھے اور اُن کا یہ کام اُس زمانہ کے لحاظ سے بہت تھا مگر پھر بھی یہ کچھ نہ تھا۔ ہم گو یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ حضرت مسیح ناصری کے پیروئوں نے تابعی بنائے یا نہیں لیکن بہرحال اُنہوں نے روم سے لے کر کشمیر تک آ پ کا پیغام ضرور پہنچادیاتھا اور باوجود اُن دقّتوں کے پہنچا دیا تھا جو اُس زمانہ میں سفر کے رستہ میں تھیں۔ لیکن ہمیں اس زمانہ میں جو سہولتیں حاصل ہیں وہ اِس امر کی مقتضی ہیں کہ ہم ان سے بہت زیادہ کام کریں۔
پس ایک تو دوست دَورانِ سال اِس امر کو مدّنظر رکھیں، اس کیلئے اپنے آپ کو وقف کریں اور چندہ تحریک جدید پر زور دیں۔ گو نقد اور وعدوں کے لحاظ سے تو اِس وقت تک یہ چندہ گزشتہ سال کی نسبت زیادہ ہے مگر اِس لحاظ سے کمی ہے کہ گزشتہ سال اِس وقت تک جتنی جماعتیں اس میں حصہ لے چکی تھیں اُتنی جماعتوں نے اِس سال نہیں لیا۔ معلوم نہیں یہ ان کے عہدیداروں کی سُستی یا غفلت کی وجہ سے ہے یا کسی اور وجہ سے۔ جس تاریخ تک گزشتہ سال ساٹھ ہزار روپیہ بصورت نقد و وعدوں کے آیا تھا اِس سال اسی تاریخ تک اسّی ہزار آیا ہے اور بعض وعدے مجمل ہیں ان کو ملا کر پچاسی ہزار کے قریب رقم ہوجاتی ہے مگر حصہ لینے والی جماعتوں کی تعداد کے لحاظ سے اِس سال کمی ہے۔پس دوست اِس طرف بھی توجہ کریں اور زندگیاں وقف کرنے کی طرف بھی۔ اورکوشش کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی تشریح کے ساتھ اسلام کی تعلیم کو ساری دنیا میں پہنچادیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ میں نے ہندوستان میںتبلیغ کی جو سکیم بنائی ہے اور جس کے ماتحت دوستوں کو ایک ایک،دو دو یا تین تین ماہ وقف کرنے کی تحریک کی ہے اِس پر زور دیا جائے۔ہر جماعت اپنے ہاںجلسہ کرکے ان لوگوں کی ایک لِسٹ مجھے بھجوائے جس میں درج ہو کہ کون کون دوست کتنے کتنے عرصہ کیلئے اور کِن مہینوں میں اِس میں حصہ لینے کیلئے تیار ہیں۔ پچھلے سال کی طرح ایسی اطلاع بھجوانا افراد کے ذمہ نہ سمجھا جائے بلکہ ہر جماعت اس کی فہرست مجھے بھجوائے جس طرح چندہ کی لِسٹیں بھیجی جاتی ہیں۔
احمدیت اِس وقت صحیح اسلام ہے اور اس لحاظ سے قادیان اسلام کی اشاعت کا مرکز ہے جو مکّہ اور مدینہ کے تابع ہے۔ پس اسلامی اشاعت کے اِس مرکز کے اِردگِرد احمدیت کی ترقی ضروری ہے اور ساری جماعت کے افراد کو بعینہٖ اسی طرح جس طرح تنور میں ایندھن جھونکا جاتا ہے اس میں حصہ لینا چاہئے۔ دنیا میں سے ہندوستان، ہندوستا ن میں سے پنجاب اور پنجاب میں سے ضلع گورداسپور میں احمدیت کی ترقی اور مضبوطی نہایت ضروری ہے اور پھر ضلع گورداسپور کے اِردگِرد ضلع ہوشیارپور، امرتسر، سیالکوٹ اور جالندھر کے اضلاع میں احمدیت کو مضبوط کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے مَیں امید کرتا ہوں کہ قادیان کی جماعت بھی محلہ وار اور باہر کی جماعتیں بھی اِس قسم کی فہرستیں جلد ازجلد مجھے بھجوادیں گی۔ یہ لِسٹیں مجھے زیادہ سے زیادہ یکم اپریل تک مل جانی چاہئیں۔ ہاں جو دوست انفرادی طور پر اپنے نام دینا چاہیں وہ جلد بھیج دیں کیونکہ نیکی کی تحریک ہونے پر اِس میں دیر نہیں کرنی چاہئے باقی جماعتیں یکم اپریل تک ایسی فہرستیں بھجوادیں۔
یہ دو تومذہبی باتیں ہیں اِس کے علاوہ ایک اقتصادی بات ہے۔ جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں اِس سال کیلئے ایک پروگرام بیکاری کے دُور کرنے کیلئے بھی میرے مدّنظر ہے۔ اس کے متعلق بہت سے مشورے حاصل ہوچکے ہیں اور سب سے پہلے اس کے ماتحت قادیان میں کام شروع کیا جائے گا جو امید ہے کہ جنوری کے آخر یا فروری تک ہوجائے گا۔ اس کے متعلق اور بھی جو دوست مشورے بھیج سکیں وہ جلد بھیج دیں اور جہاں کی جماعتیں اپنے طور پر کوئی ایسے کام جاری کرسکتی ہوں وہ کردیں۔
اس کے ساتھ ہی تمدّنی لحاظ سے ایک اور بات بھی ہے جو زیادہ تر قادیان کے لوگوں سے تعلق رکھتی ہے اگرچہ باہر کے لوگوں کیلئے بھی ہے اور وہ یہ کہ یہاں جو لوگ باہر سے آتے ہیں اُن کو بِالخصوص عورتوں اور بیماروں کو سڑکوں کی خرابی کی وجہ سے محلوں تک پہنچنے میں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اب کے بعض لوگوں نے تجویز کی ہے کہ اگر دو ہزار روپیہ ہو تو اسٹیشن سے محلہ تک پختہ سڑک بن سکتی ہے اس کیلئے بھی طَوعی طور پر جو دوست ایک آنہ ، دو آنہ، روپیہ، دوروپیہ یا پیسہ ، دو پیسہ ہی یکدم یا ماہوار دے سکتے ہوں دیتے رہیں تو اگلے سالانہ جلسہ تک یہ سڑک بن سکتی ہے اس طرح مسافروں کیلئے بہت سہولت ہوجائے گی اور محلہ تک پہنچنے میں آسانی ہوگی۔ اس کے بعد پھر تھوڑا سا فاصلہ گھروں تک پہنچنے کا رہ جائے گا جو اللہ تعالیٰ جب چاہے گا بعد میں بن جائے گا۔
اس کے بعد میں اس امرکا ذکر کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ گزشتہ سال ہمارے بعض اختلافات حکومت اور احرار دونوں سے ہوگئے تھے جن کے متعلق مَیں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ وہ اب تک قائم ہیں اور احرار سے اُس وقت تک قائم رہیں گے جب تک وہ اپنی غلطی کو تسلیم نہ کریں اور یہ مان نہ لیں کہ جتھے بنا کر اقلیتوں کو ڈرانا اور مرعوب کرنا غلط طریق ہے۔ جب تک وہ ایسا نہ کریں جماعت کا فرض ہے کہ ہر جائز ذریعہ سے ان کا مقابلہ کریں اور ان کی مذہبی، اقتصادی اور سیاسی طاقت کو توڑیں۔ میں جماعت کے تمام افراد کو توجہ دلاتا ہوںکہ اللہ تعالیٰ نے کامیابی کا اصول یہ مقرر کیا ہے کہ سب جماعت اپنی توجہ کو اس کام کی طرف پھیر دے جس کا وہ ذمہ اُٹھائے۔ چنانچہ فتح مکہ کی طرف اشارہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جہاں بھی ہو اور جِدھر سے بھی نکلو تمہاری توجہ مکہ کی طرف ہونی چاہئے ؎ ۲ ۔ پس اِس قاعدہ کے ماتحت تم کو بھی چاہئے کہ اِس امر کا خیال رکھو کہ اِن سلسلہ کے دشمنوں، ملک کے دشمنوں اور امن کے دشمنوں کی طاقت کو توڑا جائے۔ دعائوں کے ذریعہ سے بھی، لوگوں پران کی حقیقت کا انکشاف کرکے بھی اور ان کے مخالفوں سے تعاون کرکے بھی۔ غرضیکہ جن ذرائع سے بھی ہوسکے ان کی طاقت کو توڑا جائے۔ باقی رہی حکومت، سو اس سے ہماری ایسی لڑائی تو نہ ہے اور نہ ہوسکتی ہے جیسی کانگرس کرتی ہے اور ہم مذہبی لحاظ سے بھی پابند ہیں کہ جس حد تک جماعت کے وقار کیلئے مُضِرّ نہ ہو حکومت سے تعاون کریں۔ اس سے تعاون کی حد بندی تو ہوسکتی ہے مگر عدمِ تعاون کسی صورت میں نہیں ہوسکتا۔ اور تعاون کی حد بھی وہی ہے جو حکومت خود قائم کردے۔ پہلے بھی حکومت سے غلطیاں ہوتی رہی ہیں مگر پھر ازالہ کی کوشش بھی اس کی طرف سے ہوتی رہی ہے لیکن گزشتہ سال بعض افسروں نے بِالارادہ بعض ایسی حرکات کی ہیں کہ جو سلسلہ کے وقار کو سخت نقصان پہنچانے والی ہیں اور اس کے ہمارے پاس ایسے یقینی ثبو ت موجود ہیں کہ کسی کے کہنے سے بھی اس کو غلط نہیں سمجھ سکتے۔ ممکن ہے زید یا بکر کو اس سے تعلق نہ ہو، ممکن ہے پنجاب گورنمنٹ اِس سے بَری ہو یا ضلع کے بعض حُکام اِس سے بَری ہوں لیکن یہ کہ سب کے سب اس الزام سے بَری ہیںیہ ایسی بات ہے جسے نہ مَیں تسلیم کرنے کو تیار ہوں اور نہ کوئی عقلمند۔ ہمارے پاس ایسے یقینی ثبوت موجود ہیں کہ ان سے انکار کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کبوتر اپنی آنکھیں بند کرکے سمجھ لیتا ہے کہ اب بلی مجھ پر حملہ نہیں کرے گی۔ ہمارا اپنا طریق یہ ہے کہ اگر ہم سے غلطی ہوجائے تو ہم اس کا اعتراف کرلیتے ہیں اور ہمارے ریکارڈ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے کبھی اِس میں تأمّل نہیں کیا۔ حتّٰی کہ احرار کے خلاف بھی اگر کوئی غلط بات شائع ہوئی تو ہم نے اس کی تردید کردی اور ایسے ہی اخلاق کی ہم حکومت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرکے آئندہ کے لئے یقین دلائے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ حکومت کے بعض افسروں کی طرف سے جماعت کے اخلاق اور اس کی دیانت پر حملے کئے گئے ہیں اور حکومت نے اِس کی تردید نہیں کی اِس لئے فضا کی موجودہ خاموشی سے یہ مطلب ہرگز نہیں سمجھنا چاہئے کہ اِن سب باتوں کا تصفیہ ہوچکا ہے۔ ابھی تک کوئی تصفیہ نہیں ہؤا اور نہ ہی اُس وقت تک ہوسکتا ہے جب تک ایسی حرکات کرنے والوں کو سزائیں نہ دی جائیں۔ خواہ اِس پر سَوسال گزرجائیں، خواہ دو سَو سال۔ ہماری جماعت اخلاقی جماعت ہے اور اخلاقی لحاظ سے میں عفو کو ضروری سمجھتا ہوں اور شاید اسی خیال کے ماتحت ایسے افسروں میں سے ایک نے جس سے ہمیں بہت سی شکایات ہیں ایک شخص سے ذکر کیا ہے کہ وہ مذہبی لیڈر ہیںاور مجھے امید تھی کہ وہ ان باتوں کو بھُول جائیں گے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کا یہ مطالبہ جائز ہے اور اگر میں اسے پورا نہ کروں تو میں مجرم ہوں گا، خدا کے سامنے بھی اور بندوں کے سامنے بھی۔ لیکن عفو اور بیوقوفی کے مابَین ایک حدِّ فاصل ہے عفو کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص غلطی کرتا ہے اور پھر نادم ہے۔ یا پھر اس غلطی کا اثر افراد پر ہے مگر بعض غلطیوں کا اثر اقوام پر پڑتا ہے بلکہ آئندہ نسلوں پر بھی پڑتا ہے اور ایسے امور میں عفو سے کام لینا بیوقوفی اور حماقت ہوتی ہے۔ ہاں اگر ایسے لوگ معافی طلب کرتے اور ندامت کا اظہار کرتے تو ان کا یہ مطالبہ جائز ہوسکتا تھا اور ایسی صورت میں ہمارا طریق یہی ہے کہ اِس بات کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اِس کی تازہ مثال بھی موجود ہے۔ حکومتِ پنجاب سے ایک غلطی ہوئی اور اُس نے اِس کا اعتراف کرلیا۔ اس کے بعد ہم نے پھر کبھی اسے اِس رنگ میں نہیں دُہرایا اور نہ اب ہی میں اس کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ ہم نے حکومت کے اعتراف کو قبول کرلیا اور اِس بات کو دل سے نکال دیا۔ اب میں بھی اس کا ذکر اس رنگ میں نہیں کررہاہوں کہ ہمیں اس کے متعلق حکومت سے شکوہ ہے۔ ہاں باقی امور میں بھی ہم حکومت سے اسی شریفانہ طریق کی امید کرتے ہیں۔
اِس واقعہ کے بعد متواتر بعض افسروں نے ہم پر ظلم کیا ہے۔ جماعت پر یہ سراسر جھوٹا الزام لگایا گیا کہ اِس نے بعض جلسوں میںحکومت کے افسروں کو گالیاں دی اور حرامزادہ کہا حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہؤا۔ ہاں اگر کسی منافق سے خودبخود کہلوایا گیا ہو تو جماعت اِس کی ذمہ دار نہیں ہوسکتی اور جماعت کی طرف اِسے منسوب کرنے والا ظالم ہے۔ یہ جماعت پر اخلاقی حملہ ہے اور ایک مذہبی جماعت کیلئے نہایت اہم سوال ہے اور جب تک یہ الزام قائم ہے کہ ہم نے کسی کو حرامزادہ کہا یا ایسے شخص کی گالی کو پسند کرلیا ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے یہ الزام شائع کیا ہماری صلح ہرگز نہیں ہوسکتی۔
اِسی طرح جماعت پر یہ الزام لگایا کہ وہ حکومت سے بغاوت کے راستہ پرجارہی ہے حالانکہ حکومت سے وفاداری ہم پر احمدیت کی رو سے فرض ہے۔ اور اس الزام کے گویا یہ معنی ہیں کہ ہم احمدیت سے نکل گئے ہیں اور جب تک اِس الزام کی تردید نہیں کی جاتی ایسا کہنے والوں کے ساتھ سَوسال تک بھی ہماری صلح نہیں ہوسکتی۔ ہاں یہ میں کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارا یہ اختلاف حکومتِ پنجاب کے بعض افسروں سے ہے اسے دیکھ کر بعض انگریز دوستوں کو یہ شک گزراہے کہ شاید جماعت حکومتِ برطانیہ کی ہی مخالف ہوگئی ہے لیکن یہ خیال صحیح نہیں۔ اختلاف صرف حکومتِ پنجاب کے بعض افسروں سے ہے اور ان کے خلاف پروٹسٹ بغاوت نہیں کہلاسکتا۔ اور جو شخص اس پروٹسٹ کو بغاوت قرار دیتا ہے وہ دنیا میں غلامی پھیلانا چاہتا ہے اور جو حکومت ہم سے یہ امید رکھے کہ ہم اس کے غلام ہوکر رہیں گے وہ اسے کبھی پورا ہوتے نہیں دیکھ سکے گی۔ ہم خدا کے غلام ہیں اور کسی انسان کی غلامی کبھی کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یہ کوئی مت خیال کرے کہ ہم تھوڑے ہیں اور کوئی حکومت ہمیں کُچل سکتی یا پراگندہ کرسکتی ہے۔ ہم بے شک تھوڑے ہیں اور کمزور ہیں مگر ہمارا تعلق اُس ہستی کے ساتھ ہے جس کے ہاتھ میں تمام بڑے بڑے اور طاقتور لوگوں کی گردنیں ہیں۔ پھر اگر مَیں اسلام کی اشاعت اور ترقی کو اپنی ذات سے وابستہ سمجھتا تو مجھے ڈر ہوسکتا تھا کہ حکومت مجھے پکڑ لے گی تو یہ کام کس طرح ہوگا؟ مگر جب میں جانتا ہوں کہ مَیں ایک کیڑے سے بھی حقیر تَر ہوں او رجو کچھ ہورہا ہے وہ خدا خود کررہاہے تو پھر مجھے کیا پرواہ ہوسکتی ہے۔ اگر میں نہ رہونگا تو وہ تار جو میرے اندر کام کررہی ہے کسی دوسرے کے ساتھ جا لگے گی۔ پس جب تک ان لوگوں کو جنہوں نے ہم پر ظلم کئے یا تو سزا نہیں دی جاتی یا وہ معافی نہیں مانگ لیتے ہماری حکومت سے صلح نہیں ہوسکتی اور میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ غافل جماعتوں کی طرح، ذلیل ہونے والی جماعتوں کی طرح اور تھوڑی دُور چل کر تھک کر بیٹھ جانے والی جماعتوں کی طرح اِس خاموشی سے یہ خیال نہ کرے کہ ان باتوں کا تصفیہ ہوچکا ہے اِن کا تصفیہ نہیں ہؤا اور جب بھی ایسا موقع آئے گا جب حکومت کو ہمارے تعاون کی ضرورت ہوگی اور مذہب ہمیں اختیار دیتا ہوگا کہ چاہے تعاون کریں چاہے نہ کریں ہم کہیں گے کہ ہم تعاون کرتے ہیں مگر پہلے تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا جائے اور ان الزامات کا فیصلہ کرایا جائے۔ یہ کوئی سیاسی سوال نہیں یہ حملہ مذہبی ہے اور ہمارے عقیدہ کے خلاف ہے۔ ہمیں افسروں کو گالیاں دینے والا اور بغاوت کرنے والا بتایا گیا ہے اور اِن باتوں سے ہمارا چِڑ نا بتاتا ہے کہ ان امور کے متعلق ہمارے احساسات نہایت شدید ہیں اور ہم اِن باتوں سے سخت بیزار ہیں او رہم پر یہ الزامات لگانے والوں کو خواہ وہ چھوٹے افسر ہوں خواہ بڑے خدا کے سامنے بھی اور انسانیت کے سامنے بھی جواب دینا پڑے گا۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے اِس حکومت کے سامنے اگر ہمارے پروٹسٹ کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو خدا کی طرف سے ضرور اِن کی گرفت ہوگی۔ زمین پر بھی اور آسمان پر بھی ان کیلئے سزا مقدر ہے جو ضرور مل کررہے گی۔ ہاں اگر شرفاء کی طرح وہ غلطی کا اعتراف کرلیں تو اور بات ہے۔
ان باتوں سے حکومت انکار کرتی ہے مگر یہ بالکل صحیح ہیں۔ ہمیں بعض ذمہ دار افسروں نے بتایا ہے کہ اِس قسم کے سرکلر آئے ہیں۔ یہ ہم مان سکتے ہیں کہ انکار کرنے والے واقعات سے ناواقف ہیں مگر یہ صحیح نہیں کہ وہ واقعات ہوئے ہی نہیں۔ اگر بعض افسر انکار کرتے ہیں تو ہم ان کو سچامان لیتے ہیں مگر یہی کہیں گے کہ ان کوواقعات کا علم نہیں لیکن یہ کہ ایسا ہؤا ہی نہیں ہم کبھی بھی ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ پس جب تک ان الزامات کی تردید نہیں ہوتی ایسے لوگوں سے ہماری صلح سَو سال تک بھی نہیں ہوسکتی۔ ایک مذہبی جماعت کس طرح اخلاقی اور مذہبی حملہ کی برداشت کرسکتی ہے۔ اگر حکومت نے ہماری زمینیں چھین لی ہوتیں یا کوئی اور ذاتی نقصان پہنچایا ہوتا تو ہم خاموش رہ سکتے تھے لیکن اِن باتوں کی موجودگی میں ہرگز چُپ نہیں رہ سکتے کیونکہ یہ جماعت کے اخلاق اور اس کی دیانت پر حملے ہیں۔ اسی طرح مسٹر کھوسلہ ؎ ۳ نے جو فیصلہ لکھا ہے اس کے متعلق ہائی کورٹ کے جج نے یہ لکھا ہے کہ اس میں بعض باتیں ایسی ہیں کہ جن پر میں اِس وجہ سے بحث نہیں کرسکتا کہ حکومت نے ملزم کی سزا میں اضافہ کیلئے اپیل نہیں کی۔ گویا ان کا ازالہ اِس وجہ سے نہیں ہوسکا کہ حکومت نے اس میں رُکاوٹ پیدا کردی اس لئے اِس کی ذمہ وار حکومت ہے اور اسی کا فرض ہے کہ اس کا ازالہ کرے۔ اسے چاہئے کہ یا تو ایک آزاد کمیشن بٹھا کر ان کا فیصلہ کرائے اور یا پھر ہم خود اِن کا ازالہ کریں گے۔ اور اس صورت میں اگر حکومت کی یا اس کے جج کی سُبکی ہو تو اس کی ذمہ داری بھی اسی پر ہوگی۔ ہائی کورٹ کے جج نے تسلیم کیا ہے کہ چونکہ سزا میں اضافہ کا سوال نہیں اِس لئے وہ بعض امور پر بحث نہیں کرسکتے گویا موجودہ صورت میں ہم پرجو بعض اعتراضات قائم ہیں وہ حکومت کے رویہ کی وجہ سے ہیں او رہمارا فرض ہے کہ ان کی تردید کریں۔ اور جیسا کہ ہمارا طریق ہے ہم اس کے متعلق لٹریچر شائع کریں گے اور اس سے اگر حکومت کی سُبکی ہو یا اسے بُرا لگے تو اس کی ذمہ داری اسی پر ہوگی۔ حکومت کے اپنے ریکارڈ اِس امر پر گواہ ہیں کہ یہ باتیں غلط ہیں اور ہم انہیں غلط ثابت کریں گے اور ان باتوں کوکبھی بھی چھوڑ نہیں سکتے۔ ہم اپنے مال، اپنی جانیں، اپنی اولادیں اور دیگر اشیاء کو حکومت کیلئے قربان کرسکتے ہیں مگر جہاں اسلام اور سلسلہ کی عزت کا سوال پید اہوگا ہم کسی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اس کے مقابلہ میں ہماری جانیں، ہماری عزتیں، ہمارے مال، ہمارا امن و سکون اور وطن کی محبت غرضیکہ کسی چیز کی بھی کوئی وقعت ہماری نظروں میں نہیں ہوگی اور ہم ہر چیز کو قربان کرکے سلسلہ کی عظمت کو قائم کریں گے۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہی غلط واقعات احرار برابر دُہراتے چلے جاتے ہیں او رحکومت خاموش ہے حالانکہ حکومت کے ریکارڈ سے ان کی تردید ہوتی ہے۔ پس یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود ہم اس لئے چُپ رہیں کہ حکومت خوش ہوجائے۔ جہاں خدا کی خوشی کے مقابلہ میں حکومت کی خوشی کا سوال آجائے گا ہم حکومت کی خوشی کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں کریں گے۔پس چونکہ آج نئے سال کا پہلا جمعہ ہے میں نے یہ بات واضح کردی ہے تا دوست موجودہ خاموشی سے یہ نہ سمجھ لیں کہ سب باتیں طے ہوگئی ہیں وہ نہ آج طے شُدہ ہیں اور نہ کَل ہوں گی اور اگر تم کسی وقت بھی ان کو طے شُدہ سمجھو گے تو بے غیرت ہوجائو گے اور میری تمہارے لئے اور اپنی اولاد کیلئے بھی یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بے غیرتی سے بچائے اور قربانیوں کی توفیق دے۔ میں تو یہ پسند کروں گا کہ میرا ایک ایک بچہ مرجائے اور مَیں بے نسل رہ جائوں بجائے اِس کے کہ سلسلہ کی عزت کے سوال کے موقع پر وہ بے غیرتی دکھائے۔
پس یہ خاموشی اور وقفہ تمہارے کام اور اغراض کو تمہاری نظروں سے اوجھل نہ کردے۔ خوب یاد رکھو کہ خداکے سلسلہ کی ہتک کی گئی ہے اور تمہارا فرض ہے کہ جان و مال اور عزت و آبرو سب کچھ قربان کرکے اسے قائم کرو اور میں مخلصینِ جماعت سے امید رکھتا ہوں کہ وہ ایسا ہی کریں گے مگر ان کا طریق وہ نہ ہوگا جو مذہب یا دیانت و امانت کے خلاف ہو۔ وہ فسا داور قانون شِکنی ہرگز نہیں کریں گے اور دونوں حدوں کو قائم رکھتے ہوئے اُس وقت تک کام کریں گے جب تک اس ہتک کا ازالہ نہیں ہوجاتا اور سلسلہ کی عزت قائم نہیں ہوجاتی۔ بے شک اللہ تعالیٰ کی نظروں میں اس کی عزت ہے لیکن ہمارا فرض ہے کہ دنیا کی نظروں میں بھی اس کی عزت قائم کریں ورنہ ہماری تبلیغ میں رُکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
(الفضل ۱۱؍جنوری ۱۹۳۶ئ)
؎۱ بخاری کتاب الجہاد والسیر باب یقاتل من وراء الامام و یتقی بہٖ۔
؎۲ وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَاکُنْتُمْ فَوَلُّوْا وَجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ (البقرۃ:۱۵۱)
؎۳ مسٹر جی ۔ ڈی کھوسلہ









۲
تحریک جدید کے مزیدمطالبات
(فرمودہ ۱۰؍جنوری۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں جلسہ سالانہ سے پہلے تحریک جدید کے متعلق بعض خطبات دے رہا تھا اور چونکہ ابھی اِس تحریک میں سے بعض باتیں باقی ہیں اس لئے ان کے متعلق مَیں آج پھر کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
یہ تحریک میں پہلے کرچکاہوں کہ نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں۔ اس غرض کیلئے کہ ان میں سے بعض کو انتخاب کرنے کے بعد باہر تبلیغ کیلئے بھیجا جائے مگر اس کے علاوہ میری تحریک کا ایک حصہ یہ تھا کہ ایسے بیکار لوگ جن کو اِس ملک میں کام نہیں ملتا اگر باہر چلے جائیں تو بیرونی ممالک میں اپنے لئے ترقی کا راستہ نکال سکتے اور سلسلہ کیلئے بھی مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ کہتے ہیں ’’ہم خرما و ہم ثواب‘‘ اسلام نے درحقیقت ملکوں کے فرق اور امتیاز کو ایسا مٹادیا ہے اور دنیا کو اس طرح ایک ہاتھ پر جمع کردیا ہے کہ ہمارے لئے مختلف ممالک کی حیثیت ہی کوئی باقی نہیں رہی اور ساری دنیا ہمارے لئے ایک مُلک کی طرح بن گئی ہے۔ چنانچہ رسول کریم افرماتے ہیں جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا ؎۱ ۔ ساری دنیا میرے لئے مسجد بنادی گئی ہے اِس کے یہ بھی معنی ہیں کہ اسلام میں گِرجوں او رمندروں کا طریق نہیں ہر جگہ انسان عبادت کرسکتاہے۔ مسجد صرف اجتماع کی جگہ ہے ورنہ مساجد عبادت کیلئے مخصوص نہیں اور یہ نہیں کہ مسجد سے باہر عبادت نہیں ہوسکتی جیسا کہ ہندوئوں اور عیسائیوں میں طریق ہے کہ ان کے نزدیک مندروں اور گِرجوں سے باہر عبادت نہیں ہوسکتی۔ اگر کسی جگہ مسجد نہ ہو اور کوئی مسلمان سفر کررہا ہو تو جس جگہ نماز کا وقت آجائے وہی جگہ مسجد اور وہی جگہ عبادت گاہ ہوجائے گی۔ مگر مسجد ایک خدا کا گھر بھی ہے جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ پس جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًاکے یہ معنے بھی ہیں کہ جس طرح سارے لوگ مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور وہاں چھوٹے بڑے ، امیر اور غریب کاکوئی امتیاز نہیں ہوتا اِسی طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہمارے لئے بھی مُلکوں کاکوئی امتیاز نہیں۔ جس طرح مسجد خدا کا گھر کہلاتی ہے اسی طرح ساری دنیا ہمارے خدا کا گھر ہے۔ پس یہ کہنا کہ یہ چینی ہے اوروہ جاپانی، یہ مشرقی ہے اور وہ مغربی ایک فضول بات ہے۔ جس طرح ایک مسجد میں بیٹھ کرکوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں مسجد کے شمالی کونے میں بیٹھا ہوں اور وہ جنوبی میں یافلاں مشرقی کونے میں ہے اورفلاں مغربی میں اس لئے میں اُس سے ممتاز ہوں بلکہ سارے ایک ہی مسجد میں سمجھے جاتے ہیں اسی طرح جب ساری دنیا مسجد ہے اور محمد ﷺ کے ذریعہ ساری دنیا ایک خداکا گھر بنادی گئی ہے تو اِس دنیا کے جس حصہ میں بھی کوئی انسان بیٹھا ہو وہ خدا کے گھر میںبیٹھا ہے۔ چنانچہ ہر مسلمان جانتا ہے بلکہ اب تو غیرمُسلم بھی جاننے لگ گئے ہیں کہ مسجد وہ مقام ہے جس میں چھوٹے اوربڑے کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔
میں نے مسجد ِکعبہ کے ایک سِرے پر ایک چھوٹی سی جگہ حُجرے کی شکل میں الگ بنی ہوئی دیکھی۔ اس کے متعلق جب مَیں نے دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ یہاں شرفاء بعض دفعہ نماز پڑھتے ہیں۔مکہ کے حاکم چونکہ شریف کہلاتے تھے اِس لئے شرفاء سے مکہ کے حکمران مراد تھے۔ میں نے کہا یہ الگ کیوں ہے؟ اُنہوں نے بتایا کہ شریف کو بعض دقتیں پیش آئی تھیں جس کی بناء پر یہ الگ انتظام کرنا پڑا۔ چنانچہ ایک دفعہ اُس نے کسی مسلمان سے کہا کہ تم یہاں سے پیچھے ہوکر کھڑے ہوجائو تو اس نے جواب دیا یہ شریف کا گھر نہیں بلکہ خدا کا گھر ہے اگر شریف کاگھر ہوتا تومیں چلا جاتا لیکن یہ خدا کا گھر ہے اور اس میں سے مجھے کوئی نکال نہیں سکتا۔ چنانچہ بادشاہ ہونے کے باوجود اسے اس کا حق تسلیم کرنا پڑا اور سیاسی احتیاطوں کیلئے اسے علیحدہ حُجرہ بنانا پڑا تاکہ اگر کسی وقت لوگوں سے الگ رہنے کی ضرورت ہو تو شریف یعنی مکہ کے حاکم اس میں نماز ادا کرسکیں ورنہ اصل مسجد میں وہ مجبور تھے کہ دوسروں کے ساتھ کھڑے ہوکر نمازپڑھتے ۔ اب جو موجودہ سلطان نجد ہیں وہ نماز سب لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوکر ہی پڑھتے ہیں۔ پس مسجد میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا اور نہ کوئی شخص خواہ کتنا بڑا ہو کسی اور شخص کو خواہ وہ کتنا چھوٹا ہو بیٹھے ہوئے ایک جگہ سے اُٹھا سکتا ہے سوائے قیامِ امن کی ضرورت کے ماتحت کہ وہ بالکل علیحدہ چیز ہیں۔ نماز کیلئے ہر شخص کا حق ہے کہ وہ جہاں چاہے مسجد میں نماز پڑھے۔ پس مسجد ایک ایسی چیز ہے کہ جس میں امیرغریب، چھوٹے اور بڑے کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ امیر اور غریب پہلو بہ پہلو کھڑے ہوتے ہیں اور ایک مزدور بادشاہ کے پہلو میں کھڑا ہوسکتا ہے اور بادشاہ کا حق نہیں کہ اسے روکے۔ تو جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًاتو درحقیقت آپ نے یہ بھی فرمادیا کہ تمام دنیا کے امتیازات میرے ذریعہ مٹادیئے گئے ہیں کیونکہ مسجد میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا اور نہ اس میں چھوٹے اوربڑے کاکوئی سوال ہوتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس میں کوئی قومی امتیاز نہیں اس کے مقابلہ میں عیسائیوں کو لو تو، ہندوئوں کو لو تو ان کے گِرجوں اورمندروں میں ہمیشہ امتیاز ہوتا۔ بلکہ گِرجوں میں تو جگہیں بھی مخصوص ہوتی ہیں جو بڑی بڑی رقمیں دیں ان کیلئے خاص کوچ (COACH) ہوتے ہیں۔ یہی حال منادر کاہے کہ ان میں بھی قومی امتیاز کاخیال رکھا جاتا ہے مگر اسلامی مسجد ان تمام پابندیوں سے آزاد ہے اورجس طرح لوگ آتے ہیں بیٹھتے چلے جاتے ہیں۔ اگر آگے جگہ خالی نہ ہو تو بعد میں آنے والا پیچھے بیٹھ جاتا ہے ورنہ چھوٹے بڑے کاکوئی امتیاز نہیں۔ پس بڑے اور چھوٹے ہونے کے لحاظ سے مساجد میں فرق نہیں کیا جاتا اورنہ مُلکی لحاظ سے مساجد میں فرق کیا جاتاہے۔ اور میں نے جب کہا ہے کہ مساجد میں نہ مُلکی لحاظ سے فرق کیا جاتا ہے اور نہ بڑے اور چھوٹے ہونے کے لحاظ سے تو درحقیقت میں نے اِس میں ایک استثنائی صورت رکھی ہے۔ مگر وہ استثنائی صورت ایسی نہیں جسے کوئی بھی عقلمند ناجائز قرار دے سکے اور وہ یہ کہ مسجد میں مثلاً ایک پاگل آجائے جس کی عادت یہ ہو کہ وہ لوگوں پرحملہ کردیتاہو تو ایسے شخص کو اگر پکڑ کر لوگ مسجد سے نکال دیں تو یہ جائز ہوگا اور یہ امتیاز نہ کہلائے گا کیونکہ اُس شخص کو مشرقی یا مغربی ہونے کے لحاظ سے مسجد سے نہیں نکالا جائے گا بلکہ ضرررساں اور نقصان دِہ ہونے کی وجہ سے مسجد سے نکالا جائے گا۔ یا اگر کوئی مسجد میں ایسا دشمن آجائے جس کے متعلق شبہ ہو کہ وہ کسی فتنہ اور فساد کی نیت سے آیا ہے تو اگر اسے نماز پڑھنے سے روک دیا جائے یابعض صفوں میں اسے بیٹھنے نہ دیا جائے تو یہ امتیاز کیلئے نہیں ہوگا بلکہ اس کی شرارت اور ایذاء سے بچنے کیلئے ہوگا اور شرارت کے روکنے اور امتیاز کو قائم کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ غرض ایک مجنون یا فسادی کو مسجد سے نکالاجاسکتا ہے یا اُس کی نشست پر قید لگائی جاسکتی ہے مگر اس لئے کسی کومسجد سے نہیں نکالاجاسکتا یا اس پر قید نہیں لگائی جاسکتی کہ وہ دوسروں سے کم مالدار ہے یا ادنیٰ قوم کا ہے یا مشرق کا ہے یا مغرب کا ہے کیونکہ یہ امتیا زہے اور امتیاز مساجدمیں روا نہیں چاہے کوئی ہو۔ بادشاہ ہوں یا فقیر، امیر ہوں یا غریب، چھوٹے ہوں یا بڑے سب ایک صف میں کھڑے ہوں گے، برابر کھڑے ہوں گے اور ان میں کوئی امتیاز نہیں ہوگا۔ تو رسول کریم ﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا سے امتیا زمشرق و مغرب اور امتیاز ادنیٰ و اعلیٰ مٹادیا۔ اورجب ساری دنیا ایک گھر بن گئی تو اب اِس میں کیا حرج ہے کہ کوئی دنیا کے ایک کونے میں رہے اور دوسرا دوسرے کونے میں۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی اسلام دنیا میںآیا سفروں کی مشکلات کا خیال تک لوگوں کے ذہن سے مِٹ گیا۔ جتنے بڑے بڑے مسلمان مصنف گزرے ہیں ان سب کی زندگیوں پر غور کرکے دیکھ لو تمہیں معلوم ہوگا کہ کوئی تیس سال سفرمیں رہا ہے، کوئی چالیس سال سفرمیں رہا ہے، کوئی پچاس سال سفر میں رہا ہے۔ چنانچہ اسی لئے اسلام کے ابتدائی دو سَو سال میں دنیا کے بہترین جغرافیے لکھے گئے ہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پچاس سال کے اندر اندر مسلمان دنیا میں پھیل گئے اور سَو سال کے اندر انہوں نے دنیا کے جغرافیوں کی بنیاد قائم کردی اور دو سَو سال کے اندر ایسے جغرافیے لکھے جن پر آج تک جغرافیوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے بلکہ ہندوستانیوں نے ہندوستان کا ایسا مکمل جغرافیہ نہیں بنایا تھا جو مسلمانوں نے پہلے دو سَوسال میں ہندوستان کا بنایا۔ ایرانیوں نے ایران کا ایسا مکمل جغرافیہ نہیں بنایا تھا جو عربوں نے ابتدائی دو سَو سال میں ایران کا بنایا۔ اسی طرح سیلون، سٹریٹ سیٹلمنٹس ؎۲ ، جاپان اور چائنا کے جو جغرافیے دنیا میں پائے جاتے ہیں یہ سب جغرافیے ابتدائی دو سَو سال کے عرصہ میں مسلمانوں نے بنائے تھے۔ ایسا کیوں ہؤا ؟اسی لئے کہ مسلمان کسی مُلکی پابندی کے قائل نہ تھے بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے ساری دنیا ایک گھر کی طرح بنادی ہے اور چونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ساری دنیا ہمارے لئے ایک گھر کی طرح بنادی گئی ہے اس لئے وہ نکل گئے اور دنیا میں پھیل گئے اور انہوں نے وہ خدمات سرانجام دیں جن پر آج تک فخر کیا جاتا ہے۔ اب وہی خزانہ جو صحابہؓ کو رسول کریم ﷺ سے ملا جماعت احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے توسّط سے پھر بطورِ ورثہ ملا ہے۔ دنیا کچھ باتیں بنائے، کوئی اعتراض کرے یہ حقیقت ہے کہ تمام دنیا تمہاری میراث ہے اور خداتعالیٰ نے تمہیں دی ہے۔ اب یہ تمہارا کام ہے کہ ان جائز ذرائع سے جو خداتعالیٰ نے مقرر کئے ہیں اسے حاصل کرو اور اس کے حاصل کرنے کا پہلا قدم یہی ہے کہ ہمارے نوجوان دنیا میں نکل جائیں، خود کمائیں او رکھائیں اور تبلیغِ احمدیت بھی کرتے پھریں۔
پس علاوہ اِس تحریک کے کہ مبلّغین کے طو رپر نوجوان اپنے آپ کو وقف کریں، پیشہ وروں کے طور پر بھی ہمارے نوجوانوں کوباہر نکلنا چاہئے اس میں ہزاروں بہتریاںہوسکتی ہیں۔ بسااوقات انسان ایک مُلک میں عزت نہیںپاتا مگر دوسرے مُلک میں عزت پاجاتا ہے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے نواب ایران اور افغانستان کے معمولی معمولی آدمی تھے جنہیں اپنے ملکوں میں عزت نہ ملی تو وہ ہندوستان آگئے اور یہاں آکر نواب بن گئے بلکہ اب تک ان کی نسلیں نوابی کررہی ہیں۔ وہ جو اپنے آپ کو اب بنی نوع انسان سے کچھ علیحدہ وجود سمجھتے ہیں خانہ بدوشوں کی طرح ایران اور عرب سے ہندوستان آئے یہاں آکر انہیںکوئی موقع مل گیا اور وہ بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ گئے۔ بنگال کے لوگوں کو انگریز فوج میں داخل نہیں کیا کرتے کیونکہ وہ بُزدل سمجھے جاتے ہیں لیکن سائوتھ امریکہ میں ایک بنگالی جرنیل ہے معلوم نہیں وہ اب زندہ ہے یا نہیں لیکن آج سے دس سال پہلے وہ زندہ تھا۔ پس یہاں تو بنگالی سپاہی کے طور بھی نہیں لئے جاتے لیکن جنوبی امریکہ میں پہنچ کر ایک بنگالی جرنیل بن گیا۔ میں اِس عام قاعدہ کو تسلیم کرتا ہوں کہ جس شخص کی لیاقت کے ظاہر ہونے کا ایک جگہ موقع نہ ملے وہ دوسری جگہ بھی لیاقت ظاہر نہیں کرسکتا لیکن یہ ایک کُلّی قاعدہ نہیں۔ بعض دفعہ ایک چیز ایک جگہ فِٹ نہیں آتی اور ردّی سمجھ کر پھینک دی جاتی ہے مگر دوسری جگہ فِٹ آجاتی ہے۔ ایک اینٹ ایک جگہ معمار رکھتا ہے تو وہ پوری نہیں اُترتی اور معمار اُسے اُٹھا کر پھینک دیتا ہے لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک اور جگہ نکل آتی ہے جہاں اُس اینٹ کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ اُس کے سِوا کوئی اور اینٹ لگ ہی نہیں سکتی تب وہ اُس اینٹ کو جسے ردّی سمجھ کر پھینک چکا ہوتا ہے پھر اُٹھاتا اور اُس جگہ لگا دیتا ہے اور اِس طرح اُس کی عزت قائم ہوجاتی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے اپنے متعلق بھی فرمایا ہے کہ میں وہ پتھر ہوںجسے معماروں نے ردّ کردیا وہی کونے کا پتھر بنا ؎۳ ۔ تو کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز سامنے آتی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ یہ ہمارے قابل نہیں لیکن وہی ظاہری ناقابل سمجھی جانے والی چیز ایک اور جگہ قابل ثابت ہوجاتی اور اُس کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ اِسی طرح بالکل ممکن ہے ہمارے بعض نوجوان یہاں دس روپیہ بھی نہ کماسکیں مگر باہر مُلکوں میں نکل کر کسی حکومت میں وزیر بن جائیں، کسی جگہ جرنیل بن جائیں یا کسی طوائف الملوکی کی حالت میں وہ وہاں کے بادشاہ ہی ہوجائیں۔ یہ اچنبھے کی بات نہیں۔ تاریخ میں اس قسم کی ہزارہا مثالیں ملتی ہیں بلکہ تاریخ کا کیا ذکر ہے بڑی چیز ہمارے لئے قرآن ہے اِس میں حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ دیکھ لو۔ وہی یوسف جس کے متعلق اُس کے بھائی یہ اعتراض کرتے تھے کہ اِس میں قابلیت تو کوئی نہیں ہمارا باپ بِلا وجہ اِس سے محبت کرتا ہے جب مصر میں پہنچے تو اُن کی کتنی بڑی عزت ہوگئی۔ حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کے پاس جو کچھ تھا اور جس قدر ان کے پاس دولت تھی اُس کا اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک اُونٹ کے بار کی زیادتی جب حضرت یوسف علیہ السلام نے اُنہیں دے دی تو وہ اِسی پر خوشی سے کُودنے لگ گے اور کہنے لگے ہمیں بہت غلہ مل گیا ہے۔ موجودہ حالات کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں ان کی پندرہ بیس یا تیس روپیہ ماہوار کی آمد تھی اور وہ بیس یا تیس روپیہ ماہوار کی آمد سے حضرت یوسف علیہ السلام کو محروم رکھنا چاہتے تھے لیکن دوسرے مُلک میں جاکر حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی قابلیت کے ایسے جوہر دکھائے کہ سلطنت کے وزیر بن گئے اور لاکھوں نفوس کی پرورش کرنے لگے۔ پس اِس قسم کی ہزارہا مثالیں ہیں بلکہ آج بھی ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ لوگ اپنے گھروں سے نکلے اور غیر ممالک میں اُنہوں نے خاص عزت اور شُہرت حاصل کرلی۔
یہی مسٹر گاندھی جو ہندوستان کے بہت بڑے لیڈر سمجھے جاتے ہیں انہیں ہندوستان میں عزت حاصل نہیں ہوئی بلکہ ہندوستان میں ناقابل قرار دئیے جانے کی وجہ سے وہ سائوتھ افریقہ چلے گئے اوروہاں خوب عزت حاصل کی۔ پھر وہاں کی عزت اپنے ساتھ لے کر وہ ہندوستان میں آئے اور انہیں ہندوستان میں بھی عزت مل گئی۔
پس میں نوجوانوں کو اور نوجوانوں سے میری مراد عمر والا نوجوان نہیں بلکہ ہر ہمت والا شخص مراد ہے کہتا ہوں کہ باہر نکلیں۔ دراصل انسان ہر عمر میں نوجوان رہ سکتا ہے اور نوجوان رہنا اپنے اختیار کی بات ہوتی ہے۔ کئی لوگ جوانی میں ہی بوڑھے ہوجاتے ہیں وہ کمر پرہاتھ رکھ کر چلتے ہیں اور کہتے ہیں ہائے جوانی! اور کئی ستّر اَسّی سال کی عمر ہونے کے باوجود ہٹّے کٹّے ہوتے اور اپنے آپ کو جوان محسوس کرتے ہیں۔ پس جوانی عمر کے ساتھ نہیں بلکہ امیدوں، حوصلوں اور اُمنگوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ جو شخص جوان رہناچاہتاہے اُسے کوئی بوڑھا نہیں کرسکتا۔ بوڑھاانسان اپنی مرضی سے ہوتا ہے ۔ غرض جب میں یہ کہتا ہوںکہ نوجوان باہر نکلیں تو اِس سے میری مراد دل کے نوجوان ہیں نہ سالوں کے۔ اور میں ایسے سب احمدیوں سے کہتا ہوںکہ اِس تحریک کو نظر انداز نہ کریں۔ خداتعالیٰ نے جب ساری دنیا ان کیلئے مسجد بنادی ہے تو اب ان کو اپنی میراث سے محروم نہیں رہنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر سَو دو سَو نوجوان بھی ہماری جماعت کے غیرممالک میں نکل جائیں تو تھوڑے ہی دنوں میں وہ معلوم کرلیں گے اور جماعت کو بھی معلوم ہوجائے گا کہ باہر بہت سی عزتیں موجود ہیں۔ غیرمُلک میں جانے پر قدرتی طور پر اُس مُلک کے رہنے والوں کو باہر سے آنے والی کی طرف توجہ ہوجاتی ہے اور وہ آنے والے کے متعلق سمجھنے لگتے ہیں کہ نا معلوم اپنے ملک میں اُس کی کتنی بڑی عزت ہے ۔
عربوں کو دیکھ لو جب ان میںسے کوئی پنجاب میںآتاتو لوگ اس کی کتنی عزت کرتے ہیں۔ اپنے ملک میں وہ معمولی حیثیت کے ہوتے ہیں اور ہندوستان آتے بھی مانگتے ہوئے ہیں مگر جب ہندوستان پہنچتے ہیں تو ہندوستانی اُنہیں آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں وہ عرب صاحب تشریف لائے ہیں، عرب صاحب یہ فرماتے ہیں، عرب صاحب وہ فرماتے ہیں اور اِس طرح وہ جاہل عرب جو کچھ کہہ دے ہندوستانی اسے توجہ سے سنتے ہیں اور اُس کی قدر کرتے ہیں۔ یہی حال ہندوستانیوں کابھی ہوتا ہے جب وہ کسی باہر کے ملک میں جاتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ بعض علاقوں میں ہندوستانی بدنام ہیں مگر یہ اپنے اختیار میں ہوتا ہے کہ انسان نئی عزت اپنے لئے قائم کرلے۔ یورپ کے مختلف علاقوں میں معمولی حیثیت کے ہندوستانی گئے اور وہ وہاں ہندوستان کے لیڈر سمجھے جانے لگے ۔ یہی حال امریکہ کا ہے معمولی پنڈت وہاں چلا جاتا ہے تو وہ ویدانت کا ماہر اور عالِم مشہور ہوجاتا ہے۔ امریکن لوگ اُس سے لیکچر دلاتے ، اُس کی خاطر تواضع کرتے اور اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہاں کے لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ اپنے مُلک کا بڑا آدمی ہے حالانکہ ہندوستان میں اُس کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جدید چیز لوگوں کیلئے لذیذ ہوتی ہے۔ تم کسی ہندوستانی کے سامنے یہ کہنے لگ جائو کہ لاہور ایک مشہور شہر ہے، اس میں اتنے کالج، اتنے مدرسے اور اتنی درسگاہیں ہیں، اس کے تاریخی مقامات فلاں فلاں ہیں، اتنے باغ ہیں، چارلاکھ کی آبادی ہے تو کوئی اسے دلچسپی سے نہیں سُنے گا بلکہ کہیں گے پاگل ہوگیا یہ ہمیں کیا بتارہا ہے۔ مگر یہی لیکچر اگر تم امریکہ میں دیتے ہو اور ہندوستان کے شہروں کی کیفیت بتاتے ہو تو وہاں دلچسپ موضوع بن جائے گا کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ لاہور کیسا ہے، کلکتہ کیسا ہے، بمبئی کیسا ہے، پشاور کیسا ہے۔ جس طرح امریکہ والوں کے سامنے اگر تم نیویارک کے حالات بیان کرو تو وہ اسے فضول بات سمجھیں گے اسی طرح ہندوستانیوں کے سامنے ہندوستان کے شہروں کے حالات بیان کرو تو وہ فضول سمجھیں گے لیکن نئی چیز پیش کرو تو ہر کوئی اسے توجہ سے سُنے گا۔ جیسے لنڈن والوں کے سامنے اگر لنڈن کے حالات بیان کئے جائیں تو کوئی نہیں سُنے گا لیکن کسی ہندوستانی کے سامنے بیان کئے جائیں تو وہ بڑی توجہ سے سُنے گا اور دلچسپی لے گا۔ تو جو چیز سامنے ہو اُس کی قدر نہیں ہوتی لیکن جو چیز سامنے نہ ہو اور جس کا علم نہ ہو اُس کے متعلق حالات سننا ہر شخص پسند کرتا ہے۔ تم ہندوستانیوں کے سامنے ہندوستان کے حالات بیان کرکے عزت حاصل نہیں کرسکتے لیکن اگر امریکہ میں ہندوستان کے شہروں اورہندوستانیوں کی رسوم پر لیکچر دو، یہ بتائو کہ ہندوستان میں شادیاں کس طرح ہوتی ہیں ، دولہاکس طرح بنتا ہے، سہرا کس طرح باندھا جاتا ہے تو وہاں یہی باتیں لوگ پیسے دے دے کر سُنیں گے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ ہندوستان میں شادیاں کس طرح ہوتی ہیں۔ تم کسی ہندوستانی مجلس میں پلائو کے پکنے کا طریق بیان کرنے لگو تو لوگ اِس بات کوفضول گوئی قرار دیں گے لیکن اگر تم امریکہ میں لیکچر دیتے ہو کہ ہندوستان میں ایک کھانا پلائو ہوتا ہے اور وہ اس اس طرح پکایا جاتا ہے، اس کا ذائقہ ایسا ایسا ہوتا ہے تو یہی باتیں وہ تمہیں روپے دے کر تم سے سُنیں گے کیونکہ علم نام ہی اِس چیزکا ہے جسے لوگ نہ جانتے ہوں۔ وہاں کے لوگ ہندوستانیوں کی رسوم کو نہیں جانتے نہ یہ جانتے ہیں کہ یہ کھاتے پیتے کیا ہیں اس لئے وہ اِن باتوں کو توجہ سے سنتے بلکہ روپیہ خرچ کرکے سنتے ہیں۔ اور میں تو سمجھتا ہوں اگر لوگ صرف ہندوستانیوں کی رسموں، شادی بیاہ کے طریقوں اور تمدّن و معاشرت کے مروّجہ دستور پر نوجوان لیکچر دیتے پھریں تو اِسی سے وہ کافی روپیہ کماسکتے ہیں۔ کیونکہ غیرملکوں کے لوگوں کو معلوم نہیں کہ ہندوستانی کس طرح شادیاں کرتے ہیں، ان کے کھانے پینے کا کیا طریق ہے، مجلسی قوانین ان میں کیا ہیں، بے شک کوئی شخص ان تمام باتوں کو سیکھ کر یورپین ممالک میں چلا جائے وہاں کے لوگوں میں وہ عالم سمجھاجائے گا۔ یورپ کے علماء کا ایک طبقہ وہ ہے جو فوک لور(FOLK LORE) ؎۴ یعنی پُرانے قصوں کے واقف ہیں۔ کسی کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان کے قصے یاد رکھتا ہے، کسی کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ ایران کے قصے یاد رکھتا ہے۔ پس جو چیز لوگ نہیں جانتے اُسے علم کہا جاتا ہے اور اُس کی قدر کی جاتی ہے۔ پس ہندوستان کے حالات اور اِس کے رسم و رواج کی واقفیت بہم پہنچا کر بھی بعض مُلکوں میں روزی کمائی جاسکتی ہے۔ اِسی طرح ہندوستان میںسے کئی لوگ یورپین ممالک میں جاتے اور دیسی دوائوں سے بہت بڑا روپیہ کمالیتے ہیں۔ بعض قسم کے امراض دنیامیں ایسے ہیں کہ دنیا خیال کرتی ہے کہ ان کا علاج ہندوستان میں بہتر ہوتا ہے۔ پس اگر ان امراض کو معلوم کرکے اس قسم کی دوائیں ساتھ رکھی جائیں تو بہت سے لوگ بیرونی ممالک میں وہ دوائیں لینے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے مُلک کے راول باہر جاتے اورہر جگہ کماتے پھرتے ہیں۔ اورتو اور ہمارے ایک احمدی راول ہیں انہوں نے یہ سنایا کہ وہ ایک دفعہ امریکہ گئے وہ آنکھوں کا آپریشن کرنا جانتے تھے۔ وہاں انہوںنے یہ کام کرنا چاہا تو لوگوں نے بتایا کہ اِس جگہ قانوناً آنکھوں کے آپریشن کی آپ کو ممانعت ہے کیونکہ آپ یونیورسٹی کے سند یافتہ نہیں۔ انہوں نے کہا ہم کیا کریں ہم تو یہی ہُنر جانتے ہیں۔ آخر ایک دن وہ بیٹھے ہوئے حُقّہ پی رہے تھے کہ ایک شخص آیا امریکہ میں چونکہ حُقّہ نہیں ہوتا سِگار یا سگریٹ ہوتا ہے اس لئے اس نے حیران ہوکر پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے بتایا حُقّہ ہے۔ کہنے لگا اس میں سے آواز بھی آتی ہے؟ وہ کہنے لگا ہاں جب حُقّہ پیا جاتا ہے تو گُڑگُڑ کی آواز پیداہوتی ہے۔ وہ کہنے لگا اچھا مجھے ٹھیکہ دو میں تمہیں سٹیج بنادیتاہوں۔ تم وہاں بیٹھ کر حُقّہ پیا کرو میں ٹکٹ لگادوں گا لوگ آئیں گے اور تمہیں حُقّہ پیتے دیکھیں گے۔ یہ مان گئے۔ اُس نے سٹیج بنا کر اُس پرانہیں بٹھادیا اور انہوں نے حُقّہ پینا شروع کردیا۔ لوگ آتے اور انہیں حُقّہ پیتے دیکھ کر بڑے حیران ہوتے۔ کوئی کہتا کہ یہ گُڑ گُڑ کی آواز کہاں سے آتی ہے، کوئی کہتا یہ لمبی لمبی کیا چیز ہے، کوئی کچھ کہتا اور کوئی کچھ۔ انہوں نے بتایا اِس ذریعہ سے اُس نے سینکڑوں روپے کمائے اور سینکڑوں ہمیں دیئے۔ حالانکہ حُقّہ بالکل معمولی چیز ہے۔ ہندوستان میں اگر کوئی کسی سے کہے کہ میں حُقّہ پیتا ہوں تم مجھے پیسہ دو تو وہ پیسہ دینے کی بجائے اُسے چپیڑ مارے گا اور کہے گا کہ تم مجھ سے تمسخر کرتے ہو۔ مگر انہوں نے بتایا کہ ہم مہینوں وہاں رہے ہمارا کام یہی تھا کہ ہم روزانہ حُقّہ لے کر سٹیج پربیٹھ جاتے اور لوگ ٹکٹ لے کر ہمیں حُقّہ پیتے دیکھتے۔ ان کا بیان ہے کہ جب ہم زبان سے واقف ہوئے تو معلوم ہؤا کہ بعض لوگ ہمیں جانور خیال کرتے رہے اور سمجھتے رہے کہ ہندوستان کا کوئی بندر یا ایسا ہی کوئی جانور عجیب قسم کا سگار اِستعمال کرتا ہے۔ غرض ہر مُلک والوں کیلئے غیرمُلک کی چیز اچنبھا ہوتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی چیز سے روپیہ کمایا جاسکتا ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ تم بھی غیرمُلکوں میں نکل کر اِس قسم کا تماشہ کرو بلکہ میرا یہ مطلب ہے کہ غیرمُلکوں میں ادنیٰ سے ادنیٰ چیز بھی اچنبھا معلوم ہوتی ہے اور اپنی چیز کواچنبھا بنانا کوئی مشکل نہیں ہوتا صرف لوگوں میں رَو چلانے کی دیر ہوتی ہے۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے ہندوستانی عطر خود ہندوستانیوں نے چھوڑ دیئے تھے اور وجہ یہ بتاتے تھے کہ یہ تیل ہوتا ہے اور کپڑے پر اِس کا داغ لگ جاتا ہے لیکن پچھلے سات آٹھ سال سے یورپ میں بھی ہندوستانی عطر بِکنے لگ گیا ہے اور وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ اِن عطروں میں طاقت ہوتی ہے۔ ہمارے ہندوستانی تو اِسے کپڑوں پر لگانے سے دریغ کرتے ہیں انہوں نے اب اس عطر کو جسم پر مَل مَل کر نہانا شروع کردیا ہے۔
پس دنیا کے اکثر کام ایک رَوکے ماتحت ہوتے ہیں جب رَو چل جائے تو وہ طبائع میں تغیر پیدا کردیتی ہے۔ دیکھ لو ہندوستان میں کپڑے موجود تھے، یہاں کپڑے بُننے کے کارخانے بھی تھے مگر جب انگریز آئے تو انہوں نے یہ رَو چلادی کہ ہندوستان کے کپڑے اچھے نہیں ہوتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستانیوں نے خود اپنے کپڑے پھینک دیئے اور غیرملکوں کے کپڑے پہننے شروع کردیئے۔ گویا ایک مِسمریزم کا عمل ہے جو دنیا میں کیا جاتا ہے۔ کسی کو تم یقین دلادو کہ فلاں چیز مفید ہے وہ اسے مفید سمجھنے لگ جائے گا او رکسی کو تم یقین دِلادو کہ فلاںچیز مُضِرّ ہے وہ اسے مُضِرّ سمجھنے لگ جائے گا۔ پس دنیا کا بیشتر حصہ مسمریزم کے عمل کے ماتحت ہے۔ ایک کو یقین دِلادو کہ فلاں چیز اچھی ہے وہ اسے اچھی کہنے لگ جائے گا۔ اور اگر یقین دلادو کہ یہ خراب ہے تو وہ اسے خراب سمجھنے لگ جائے گا پس ضرورت ہے کہ لوگوں کے نقطۂ نگاہ کوتبدیل کیا جائے۔ تم یورپ میں کوئی چیز لے کر جائو اُسے اگر خوبی سے پیش کرو گے تو لوگ اُس کی قدرکرنے لگ جائیںگے۔ مثلاً فرض کرو تم یورپ میںپان لے کے جائو اور کہنا شروع کردو کہ اِس سے معدے کوتقویت حاصل ہوتی اور کھانا اچھی طرح ہضم ہوتا ہے اورنمونہ کے طور پر کسی عورت یا بوڑھے آدمی کو دے دو تو دوسرے ہی دن وہ کہنے لگے گا کہ آج کھانا مجھے اچھی طرح ہضم ہؤا ایک پان مجھے اور دے دو۔ تو دنیا میں لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا کوئی مشکل نہیں ہوتا بشرطیکہ جو چیز پیش کی جائے اُس سے لوگوں کو واقعہ میں فائدہ ہو۔ لُوٹ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی دیرپا وہی چیز ہوتی ہے جو نفع رساں ہو۔ ہمارے مُلک میں کئی مفید چیزیں موجود ہیں مگر مغربی اثر سے متأثر ہوکر خود ہمارے مُلک کے لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا ہے۔ مثلاً ہماری ہندوستانی طِبّ نہایت اعلیٰ درجہ کی باتیں اپنے اندر رکھتی ہے اور اب تک بعض امراض کا دیسی طب میں ایسا اعلیٰ اور مکمل علاج موجود ہے کہ یورپ والے اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے مگر ایک خیالات کی رَو تھی جو انگریزوں نے چلادی کہ انگریزی دوائی اچھی ہے اور دیسی دوائی بُری۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ ہندوستانیوںنے بھی اپنی طبّ کو چھوڑ دیا اورانگریزی طب کے شیدا ہوگئے۔ حالانکہ کئی امراض ایسے ہیں جن میں انگریزی دوائیاں ناکام رہتی ہیں اور دیسی دوائیاں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ مثلاً گُردوں کی پتھری ہے کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ اس میں ڈاکٹری علاج سے انہیں فائدہ نہ ہؤا اور ڈاکٹر آپریشن کے بغیر اس کاکوئی علاج نہ بتاتے تھے مگر یونانی دوائوں سے بغیر آپریشن کے فائدہ ہوگیا۔ دو سال ہوئے میری لڑکی امۃ الرشید انتڑیوں کے درد سے بیمارہوئی ڈاکٹروںنے بتایا کہ یہ اپنڈے سائٹس ہے اور اِس کا آپریشن کے بغیر اور کوئی علاج نہیں۔ لاہور کا جو سب سے بڑا سرجن ہے اُس نے کہا کہ تین چار دن تک آپریشن ہوجانا چاہئے ورنہ لڑکی کی جان کا خطرہ ہے اور میرے کہنے پر انہوںنے نرسوں وغیرہ کا سب انتظام کرلیا لیکن اسی عرصہ میں مجھے خیال آیا کہ کسی ماہر طبیب سے بھی علاج کروا کر دیکھ لیا جائے اور لاہور کے مشہور طبیب حکیم نیّر واسطی صاحب کو میں نے بُلوایا۔ انہوں نے جو دوا تجویز کی اُس کی پہلی خوراک سے ہی درد میں خاصی تخفیف ہوگئی اور دوسرے دن تک درد بہت کم ہوگیا حالانکہ مریضہ دوہفتہ سے شدید تکلیف میں مبتلا تھی۔ پس بہت سی خوبیاں ہماری طبّ میں موجود ہیں مگر انگریزوں نے چونکہ خیالات کی یہ رَو چلادی کہ ہندوستانی کچھ نہیں جانتے اِس لئے ہمارے لوگ بھی سمجھنے لگ گئے کہ ہمارے طبیب کچھ نہیں جانتے۔ اِس رَو کے مقابلہ میں اگر ہم بھی ایک رَو چلادیں کہ ہم سے بہتر علاج اور کون کرسکتا ہے فلاں مرض میں دیسی طریق علاج کا انگریزی طریق علاج مقابلہ نہیں کرسکتا، فلاں مرض میں انگریزی دوائیں ناکام رہتیں اور دیسی دوائیں اثر کرجاتی ہیں تو تھوڑے ہی عرصہ میں لوگ دیسی دوائوں کے دِلدادہ ہوجائیں ۔
غرض دنیا میں جہاں حقائق لوگوں کی طبائع پر اثر کیا کرتے ہیں وہاں پروپیگنڈا بھی ایک حد تک اثر کیا کرتا ہے اور بعض دفعہ تو حقائق کو پروپیگنڈا کی رَو دبادیتی ہے اور میں سمجھتا ہوں ہمارا فرض ہے کہ جو رَو ایسی چلائی گئی ہے جس نے علم کو جہالت میں تبدیل کردیا ہے اس کے خلاف ایک رَو چلا کر علم کو پھر علم کی صورت میں دنیا پر ظاہر کردیں۔ اِس طرح نہ صرف اپنے گزارہ کی صورت نکل سکتی ہے بلکہ اور ہزاروں آدمیوں کی بیکاری دُور ہوسکتی ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے ہمت والوں کیلئے دنیا میں کامیابی کے اتنے راستے کھول رکھے ہیں جن کی کوئی انتہاء نہیں۔ مزدوری کے پیشہ سے لے کر بادشاہ بننے تک کے رستے کھُلے ہیں مگر انہی لوگوں کیلئے جو اپنے ملک سے باہر جاتے ہیں۔ چنانچہ بادشاہت کے لحاظ سے ہٹلر کو دیکھ لو وہ گو لفظاً بادشاہ نہیں کہلاتا لیکن اختیارات کے لحاظ سے کئی بادشاہوں سے زیادہ ہے۔ وہ جرمن کانہیں بلکہ آسٹریا کا رہنے والاہے۔ یونان میں وینزویلا ایک زمانہ میں سب سے زیادہ طاقتور رہا ہے مگر وہ یونان کا نہیں بلکہ ایک جزیرہ کا رہنے والا ہے جو ترکوں کے ماتحت ہؤا کرتا تھا۔ آئرلینڈ کا لیڈر ’’ڈی ولیرا‘‘ آئر لینڈ کانہیں بلکہ امریکہ کا ہے ۔ اسی طرح اور بھی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض بڑے بڑے آدمی جو بعض مُلکوں میں ڈکٹیٹر، لیڈر اور بادشاہوں کی طرح سمجھے جاتے ہیں وہ ان مُلکوں کے باشندے نہیں بلکہ باہر سے وہاں آئے لیکن انہوں نے وہاں کے رہنے والوں کی ایسی سچی خیرخواہی کی اور اپنے مفاد کو ان کے مفاد کے ساتھ وابستہ کیا کہ اپنے لئے ملک میں ایک خاص مقام حاصل کرلیا۔ انگریزوں کو ہی دیکھ لو یہ ہندوستان میں کس طرح آئے اور یہاں کے حکمران بن گئے۔
پس علاوہ تبلیغی طور پر باہر جانے کے ہمارے نوجوان جنہیں خداتعالیٰ سمجھ دے اور جنہیں یہاں عزتیں نہیں ملتیں ہندوستان کو چھوڑ کر غیرممالک میں چلے جائیں۔ اگر ان کے پاس روپیہ نہیں تو اس ارادہ کے پیدا ہونے کے بعد انہیں روپیہ کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوگی۔ رنگون سے ابھی ہماری جماعت کے دو دوستوں کا مجھے خط ملا ہے ، ان میں سے ایک جالندھر کا رہنے والاہے اور ایک اسی جگہ کے قریب کسی اور مقام کا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہم آپ کی اِس تحریک کے ماتحت گھر سے پیدل چل پڑے اور اب پیدل چلتے ہوئے رنگون پہنچ گئے ہیں اور آگے کی طرف جارہے ہیں۔ کُجا جالندھر او رکُجا رنگون، پندرہ سَو میل کا سفر ہے لیکن انہوں نے ہمت کی اور پہنچ گئے۔ راستہ میں بیمار بھی ہوئے لیکن دو ماہ بیمار رہنے کے بعد پھر چل پڑے اب وہ سٹریٹ سیٹلمنٹس کے علاقہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ تو ہمت کرکے کام کرنے والوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے کام کے راستے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہمارے نوجوان ہمت کرکے باہر نکل جائیں مگر اس کایہ مطلب نہیں کہ جنہیں یہاں کام کا موقع ملا ہؤا ہے وہ بھی باہر چلے جائیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہاں کام نہیں ملتا وہ باہر جائیں اور جنہیں یہاں کام ملا ہؤا ہے وہ یہاں کام کریں۔ اور میں نے جیسا کہ بتایا ہے اِس کیلئے روپوں کی ضرورت نہیں۔ اگر ہمت کریں تو وہ پیدل بھی جاسکتے ہیں۔
دوسری تحریک جسے آج میں پھر دُہراناچاہتا ہوں یہ ہے کہ جب کام بڑھتے ہیں تو اس وقت کام کرنے والوں کی ضرورت ہؤا کرتی ہے اور اگر کام کرنے والے نہ ملیں تو کئی ضروری کام رہ جایا کرتے ہیں ۔ ہمیں بھی سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر اس وقت ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ہمت، طاقت اور صحت رکھتے ہوں۔ مثلاً بیکاروں کو کام پر لگانے کی تحریک جو میں نے کی ہے اس میں کئی ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کاموں کی نگرانی کرسکیں۔ آخر یہ کام یونہی نہیں ہوجائیں گے بلکہ ان کیلئے نگرانوں کی ضرورت ہوگی او رہمارے پاس پہلے ہی کام کرنے والے آدمی کم ہیں پھر ان کاموں کی نگرانی کیلئے کہاں سے آدمی میسّر آئیں گے۔ اِس غرض کیلئے میں نے تحریک کی تھی کہ ہماری جماعت میں جو لوگ پنشنر ہیں وہ خدماتِ سلسلہ کیلئے اپنی زندگی وقف کریں۔ ساری عمر انہوں نے دنیا کے کاموں میں گزاردی اب کیوں وہ اِس کام کو اختیار نہیں کرتے جس کے کرنے سے انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوسکتی ہے۔ بے شک یہ کام تجارتی ہوگا مگر سوال یہ ہے کہ یہ تجارت کس لئے ہوگی؟ جب یہ تجارت غرباء و مساکین اور یتامیٰ و بیوگان کے فائدہ کیلئے ہوگی تو یقینا اِس تجارت میں حصہ لینا بھی ویسی ہی عبادت ہے جیسے نماز عبادت ہے، جیسے روزہ عبادت ہے، جیسے زکوٰۃ عبادت ہے، جیسے حج عبادت ہے۔ آخر صدقہ و خیرات نماز کی طرح عبادت میں داخل ہے یا نہیں؟ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ کام عبادت نہ ہو جو صرف غرباء کے فائدہ کیلئے کیا جائے گا۔ اگر ایک غریب کو صدقہ دینا نیکی ہے تو غریبوں کو پیشے سکھانا، بیوائوں اور یتیموں کیلئے کام مہیا کرنا اور ان کی زندگی کو سنوارنا کیوں نیکی نہیں۔ اِسی طرح کے اور بھی بہت سے کام ہیں جو تحریک جدید کے ماتحت نکلیں گے۔ پس ان کاموں کے لئے ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جنہیں کچھ تجربہ بھی ہو، صحت بھی اچھی ہو اور جن میں ابھی طاقت ہو۔ ایسے بوڑھے نہیں چاہئیں جو کام سے رہ چکے ہوں بلکہ وہ زیادہ عمر والے جو اَبھی جواں ہمت ہوں، چلنے پھرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور دس بارہ گھنٹے متواتر اگر انہیں کام کرناپڑے تو کرسکتے ہوں ایسے لوگوں کی ہمیں ضرورت ہے۔ پنشن لینے کے بعد ہر شخص ناکارہ نہیں ہوجاتا بلکہ دنیا کا تجربہ یہ ہے کہ پنشن لینے کے بعد جو شخص کام نہیں کرتا وہ ناکارہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے نانا جان میرناصرنواب صاحب نے پنشن لینے کے بعد سلسلہ کاکام کرنا شروع کیا۔ وہ قریباً ۷۶ سال کی عمر میں فوت ہوئے ہیں مگر سوائے آخری دو سالوں کے اُن کی طاقتیں اتنی اعلیٰ تھیں کہ کام کرتے وقت نوجوان اُن سے پیچھے رہ جایا کرتے تھے۔ میں نے ہمیشہ ان کے منہ سے سنا جب کسی نے کہنا کہ آپ اب کیوں کام کرتے ہیں؟ تو وہ کہتے میں نے دیکھا ہے جو لوگ پنشن لینے کے بعد کام نہیں کرتے وہ جلدی مرجاتے ہیں اور واقعہ میں کثرت سے ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ اِدھر لوگوںنے پنشن لی اور اُدھر فوت ہوگئے۔ اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہیں کام کرنے کی عادت ہوتی ہے مگر جب گھر میں آکر بالکل فارغ بیٹھ رہتے ہیں تو آہستہ آہستہ طبیعت پر یہ خیال غالب آجاتا ہے کہ ہم بُڈّھے ہوگئے اور اِس طرح ناکارہ رہ کربیمار ہوجاتے اور مرجاتے ہیں۔ اگر وہ کام کرتے رہتے تو بُڈّھے ہونے کا سوال ہی ان کے دل میں پیدانہ ہوتا۔ پس نکمّے بیٹھے رہنے سے عمریں کم ہوجاتی ہیں پھر ان کے وجود سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچتا گویا وہ زندگی نہ اپنے لئے مفید ہوتی ہے نہ دوسروں کیلئے۔
پس میں نے تحریک کی تھی کہ دنیا کا کام اور حکومت کا کام کرنے کے بعد جو لوگ فارغ ہو جاتے ہیں انہیں کم از کم پنشن کے بعد کا وقت تو خداتعالیٰ کیلئے وقف کرنا چاہئے تا مرنے کے بعد وہ خداتعالیٰ سے کہہ سکیں کہ اے خدا! ہمیں اپنی زندگی میں جو وقت فُرصت کا ملا اُسے ہم نے تیرے دین کیلئے وقف کردیا تھا۔ اِس وقت بھی مرکز میں بعض ہمت رکھنے والے پنشنر اِسی تحریک کے ماتحت کام کررہے ہیں مثلاً خان صاحب فرزند علی صاحب، بابو سراج الدین صاحب، خان صاحب برکت علی صاحب، مرزا عبدالغنی صاحب، ملک مولا بخش صاحب، خان بہادر غلام محمد صاحب اور بعض اور بھی ہوں گے جن کے نام مجھے اِس وقت یاد نہیں۔ وہ روٹی سرکار سے کھاتے ہیں اور کام خداتعالیٰ کا کرتے ہیں۔ لیکن میں یہ کس طرح تسلیم کرلوں کہ ہماری جو لاکھوں کی جماعت ہے اس میں یہ پانچ سات ہی پنشنر ہیں اور کوئی نہیں۔ میںسمجھتاہوں اس سے کہیں زیادہ تعداد میں پنشنر ہماری جماعت میں ہیں وہ ذرا ہمت سے کام لیں اور ارادہ پیدا کریں تو کافی تعدا دمیں کام کرنے والے ہمیں مل سکتے ہیں۔ پس آج میں پھر اُن دوستوں کو جو پنشنر ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سلسلہ کی خدمات کیلئے اپنے آپ کو وقف کریں تا ان کی زندگی کے آخری ایام اللہ تعالیٰ کی رضا اور بنی نوع انسان کی بہتری کے کاموں میں صَرف ہوں۔ اس سے زیادہ کسی انسان کی خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ بغیر قربانی کے اُسے ثواب ملتاجائے۔ پنشنر کوکھانے پینے اور پہننے کیلئے روپیہ کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے گزشتہ زندگی کے کام کے بدلہ میں اسے روپیہ مل رہا ہوتا ہے خواہ وہ ماہوار پنشن کی صورت میں یا پراویڈنٹ فنڈ کی صورت میں۔ اب بقیہ زندگی میں وہ دین کی خدمت کرکے مُفت میںثواب حاصل کرسکتا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا وارث ہوسکتا ہے۔ پھر میں نہیں سمجھتا وہ کیوں وقت ضائع کررہے ہیں اور اپنے آپ کو خدمتِ دین کیلئے کیوں پیش نہیں کرتے؟ یہ مت خیال کرو کہ اتنے کام کس طرح نکل سکتے ہیں؟ ہزاروں کام ایسے ہیں جو ہم نے کرنے ہیں، ہزاروں قسم کی اصلاحات ہیں جوہم نے رائج کرنی ہیں، پھر غریبوں، یتیموں اور بیوائوں کی ترقی کیلئے بیسیوں پیشے ہیں جو ہم نے سکھانے ہیں، اِسی طرح علمی ترقیات کیلئے بیسیوں تحریکات جاری کی جاسکتی ہیں اور جاری کرنی پڑیں گی، پھر اقتصادی ترقی کیلئے بیسیوں کام ہیں جو ہم نے کرنے ہیں۔ اور درحقیقت یہ دنیا مقابلہ کی دنیا ہے اس میں جس شخص نے مقابلہ کو ایک منٹ کیلئے بھی بھُلایا وہ گیا۔ قرآن کریم نے فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَاتِ ؎ ۵ کہہ کر اور ایک جگہ وَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا ؎ ۶ فرما کر اِسی امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اِس دنیا میں مقابلہ ہورہا ہے تمہارا فرض ہے کہ اِس مسابقت میں سب سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔
پس اِس مقابلہ کی دنیا میں ایک منٹ کیلئے بھی اگر کوئی مقابلہ کو بھُول جاتا ہے تو وہ اپنے ہاتھوں اپنی ترقی کے راستہ کو روکتا اور تنزّل کے گڑھے میں گِر جاتا ہے۔ تم سمجھ لو کہ دنیا کیا ہے؟ ایک پاگل خانہ ہے جس میں ہر شخص شور و غوغا کررہاہے۔ اگر اِس میں تمہاری آواز بلند نہیں تو وہ دوسری آوازوں کے مقابلہ میں دب جائے گی اور اگر تم اپنی آواز بلند کرلو تو دوسروں کی آوازیں دب جائیں گی۔ پس جس قسم کی دنیا خداتعالیٰ نے بنائی ہے اِس کے مطابق تمہیں رہنا چاہئے اور اگر تم نہیں رہتے تو دنیا میں ترقی کا کوئی کام نہیں کرسکتے۔ ہاں ضرورت اِس بات کی ہے کہ خداتعالیٰ کے قوانین کے مطابق کام کیا جائے ۔ لُوٹ مار، دغا اور فریب انسان کو تباہ کردیتا ہے اور ایسے شخص کے کام سے برکت اُڑ جاتی ہے۔ پس تم لوگوں کا مقابلہ کرو مگر اِس لئے نہیں کہ اُنہیں لُوٹو بلکہ اِس لئے کہ انہیں فائدہ پہنچائو۔ بہر حال مقابلہ کی روح ضروری ہے اور ہمارے کام کی وُسعت کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ پنشنر ہیںوہ یہاں آئیں اور سلسلہ کے کاموں میں انتہائی سرگرمی کے ساتھ حصہ لے کر مختلف شعبوں میں جماعت کوماہر بنانے کی کوشش کریں۔
ایک تحریک میں نے یہ کی تھی کہ دوست قادیان میں مکانات بنائیں۔ میں آج اِس تحریک کی طرف بھی دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں۔ مکانات خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت بنوارہی ہے اور پہلے سے زیادہ تعداد میں بنوارہی ہے لیکن ابھی اس کی طرف اور زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ ہر مکان جو قادیان میں بنتا ہے وہ احمدیت کو زیادہ مضبوط کردیتا ہے تم قادیان میں مکان بنا کر صرف اپنی جائداد نہیں بناتے بلکہ اس کے ساتھ ہی خداتعالیٰ کی جائدادبھی بڑھاتے ہو۔ ہر اینٹ جو تمہارے مکان میں لگائی جاتی ہے وہ صرف تمہارے مکان کو مضبوط نہیں کرتی بلکہ سلسلہ اور اسلام کو بھی مضبوط کرتی ہے۔ پھر جس قدر قادیان میں عمارتیں بنیں گی اُسی قدر دوسری آبادی بھی ترقی کرے گی۔ جب قادیان میں کھانے والے بڑھیں گے تو ایسی دُکانیں بھی بڑھیں گی جو ان کیلئے آٹا وغیرہ مہیا کریں، ایسی دُکانوں کا راستہ بھی کھلے گا جو کپڑے مہیا کریں، ایسے آدمیوں کیلئے بھی گنجائش نکلے گی جو گھروں کی صفائی کریں۔ پس ہر مکان جو بنایا جاتا ہے وہ اور مکانوں کیلئے بھی راستہ کھولتا ہے اور پھر سب مکان مل کر احمدیت کی مضبوطی کا موجب بنتے ہیں۔ پس جو دوست ابھی تک یہاں مکان نہیں بنواسکے انہیں چاہئے کہ وہ مکان بنوائیں اور جو قادیان میں رہنے والے ہیں انہیں بھی چاہئے کہ مکانات بنائیں۔ قادیان میں مکانات بنانا دنیا نہیں بلکہ دین ہے۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بکثرت یہ الہام ہؤا کہ وَسِّعْ مَکَانَکَ۔ وَسِّعْ مَکَانَکَ۔ وَسِّعْ مَکَانَکَ ؎ ۷ ۔ یعنی اپنے مکانوں کو بڑھائو اور انہیں ترقی دو۔ یہ الہام صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے ہی نہیں تھا بلکہ اِس الہام میں جماعت بھی مخاطب تھی اور اِسے بتایاگیاتھا کہ یاد رکھو اگر تم دشمنوں کے حملوں اور ان کی شرارتوں اور ایذاء رسانیوں سے محفوظ رہنا چاہتے ہو تو اِس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ مرکزِ سلسلہ میں مکانات بنواتے چلے جائو۔ یہ وَسِّعْ مَکَانَکَ کا متواتر الہام درحقیقت آئندہ زمانہ کے متعلق ایک پیشگوئی تھی اور اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ جب کبھی احمدیوں کو مشکل پیش آئے گی اور وہ خداتعالیٰ کے حضور اس التجاء کے ساتھ جھکیں گے کہ الٰہی! ہم کیا کریں؟ تو ہماری طرف سے انہیں یہ کہاجائے گا کہ وَسِّعْ مَکَانَکَ اپنے مکانات کو اور زیادہ وسیع کردو اور اَور زیادہ مرکزکو مضبوط کرو۔ اس پیشگوئی کو پورا کرنا اب آپ لوگوں کا کام ہے اور گو بیسیوں نے اِس کو پورا کیا مگر بیسیوں ایسے بھی ہیں جنہوں نے ابھی تک اِس طرف توجہ نہیں کی۔ میں پھر انہیں توجہ دلاتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ ان کے ربّ نے ان کی مصیبتوں کا علاج یہ بتایا ہے کہ وَسِّعْ مَکَانَکَ ۔ اپنے مکانوں کو وسیع کرو او راس طرح مرکز سلسلہ کو مضبوط کرکے دشمن کو اس پر حملہ کرنے کی طرف سے بالکل ناامید کردو۔ پھر اسی الہام میں وَسِّعْ مَکَانَکَ کہہ کر اِس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ جب مشکلات آئیں تو اُس وقت زمین پر پھیل جانااور اپنی تعداد کو بڑھانے کی کوشش کرنا۔
پس اللہ تعالیٰ نے تمہاری ترقی کا ایک ذریعہ ایک طرف تو تمہیں یہ بتایاہے کہ اپنے مرکز کو مضبوط کرو اور دوسری طرف یہ بتایا ہے کہ تم چین اور جاپان اور امریکہ اور افریقہ اور سٹریٹسیٹلمنٹس اور دوسرے ممالک میں چلے جائو اور دنیا میں پھیلتے چلے جائو یہاں تک کہ کوئی قوم تمہارا مقابلہ نہ کرسکے۔ یاد رکھو بہترین جرنیل دنیا میں وہی سمجھا جاتا ہے جو اپنی فوج کو عقل کے ساتھ پھیلاسکے۔ میرے مخاطب اِس وقت وہ ہیں جو فوجی ہُنر کو نہیں جانتے اور انہیں خطاب کرنے والا وہ شخص ہے جس نے کبھی اپنے ہاتھ سے تلوار نہیں چلائی مگر اللہ تعالیٰ نے اسے علم دیا اور ہر قسم کا علم دیا ہے۔ میں نے کبھی فوجی علم پر کوئی کتاب نہیں پڑھی، میں نے کبھی فوجی پریڈ نہیں دیکھی، میں نے کبھی فوجی جنگ نہیں دیکھی۔ مگر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگر چاہوں تو فوجی نظام پر ایک کتاب لکھ سکتا ہوں اور مَیںالٰہی علم کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ بہترین جرنیل وہی ہے جو فوج کو عقل کے ساتھ پھیلا سکتا ہے۔ یعنی بغیر اِس کے کہ دشمن کو اپنے کسی کمزور مقام پر حملہ کرنے کا موقع دے وہ اپنی فوج کوپھیلاتا چلا جائے کیونکہ اِس طرح دشمن ہمیشہ اس کے نرغہ میں گھِر جانے کا خطرہ میں رہتا ہے۔ پس اس کی دانائی یہ ہے کہ وہ اپنے کمزور مقاموں کا دشمن کو پتہ نہ لگنے دے تا دشمن اس پر حملہ نہ کردے لیکن اپنے لشکر کو پھیلاتا چلاجائے تا دشمن اس کے نرغہ میں گھِر جائے۔ یہ وہی وَسِّعْ مَکَانَکَ والی پالیسی ہے جس کا خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام میں ذکر فرمایا اور ہمیں بتایا کہ جب دشمن تم پر حملہ کرے تو وَسِّعْ مَکَانَکَ کے حکم پر عمل کرنا یعنی اور پھیل جانا۔ پھر حملہ کرے تو اور زیادہ پھیل جانا۔ پھر حملہ کرے تو اور زیادہ پھیل جانا۔ پس اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جہاں قادیان میں بڑھنے کا حکم دیا وہاں ساری زمین پر پھیل جانے کا بھی حکم دیا ہے۔ قرآن کریم میں بھی یہ علم موجود ہے اور دراصل قرآن ہی تمام علوم کا اصل منبع ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات تو اِس کی تشریح ہیں مگر قرآن مجید سے یہ معارف وہی نکال سکتا ہے جو اپنے دل کی آنکھیں کھول کر اسے پڑھے۔ پس یہ دو چیزیں ہیں جن پر جماعت اگر عمل کرے تو وہ دشمن کے حملہ سے بالکل محفوظ ہوجائے۔ یعنی قادیان میں مکانات بناتے جائو اور دنیا میں پھیلتے جائو یہاں تک کہ ساری دنیا پر تمہارا قبضہ ہوجائے۔ جو جماعتیں ایک جگہ رہتی ہیں وہ ہمیشہ کچلی جاتی ہیں۔ اگر ہماری جماعت پنجاب میں محدود ہوتی تو سو چو پچھلا زمانہ کتنا خطرناک آیا تھا اور کیا اگر ہماری جماعت صرف پنجاب میں محدود ہوتی تو وہ کُچلی نہ جاتی؟ اب بھی خطرہ کچھ کم نہیں ہؤا صرف اس نے اپنی شکل بدل لی ہے ورنہ خطرہ پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ میں اس کی تفصیلات میں نہیں پڑ سکتا مگر یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ خطرہ پہلے سے زیادہ ہوگیا ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی اور احرار کی طرف سے بھی۔ جب انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ قوم بیوقوف نہیں کہ یونہی آسانی سے اِسے پکڑا جاسکے تو ان کے حملہ نے اب عقلمندانہ شکل اختیار کرلی ہے۔ بے شک جماعت کے خلاف بدظنّی ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی مگر وہ افسر جو اِس دھوکا میں ہیں کہ ہماری جماعت حکومت کے خلاف بغاوت کی تعلیم دینے لگ گئی ہے جب ان کی آنکھیں کُھلیں گی اُس وقت اَور موجودہ وقت میں جو فاصلہ ہے وہ کس طرح طے ہوسکتا تھا؟ اور حکومت کے وہ افسر جن کے دلوں میں ہماری مخالفت ہے ان کے ظلم سے بچنے کا ہمارے پاس کونسا ذریعہ تھا؟وہ ذریعہ یہی تھا کہ ہماری جماعت پھیلی ہوئی تھی۔ اگر پنجاب کے افسر ہمارے متعلق یہ کہتے کہ یہ جماعت باغی ہے تو یو۔پی، بمبئی، بہار، بنگال اور دوسرے صوبوں کے افسر کہتے ہیں کہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ احمدی جماعت تو حکومت کی وفادار ہے۔ چنانچہ ہمارے ماتحت جو احمدی رہتے ہیں انہوں نے کبھی کوئی باغیانہ حرکت نہیں کی بلکہ بغاوت سے لوگوں کو روکنا ان کا طریق ہے۔ اور اگر پنجاب میں احرار ہمارے متعلق کہتے کہ یہ اسلام کے دشمن ہیںاور ان سے زیادہ بُرااور کوئی نہیں تو دوسرے صوبوںمیں جولوگ بستے وہ کہتے احرار جھوٹ کہتے ہیں احمدیوں سے زیادہ شریف اور نیک تو ہم نے کوئی دیکھا ہی نہیں۔ اگر یہ پھیلائو ہماری جماعت کو حاصل نہ ہوتا تو ہماری بدنامی میں کون سی کسر باقی تھی۔ احرار اور پنجاب گورنمنٹ کے بعض افسروں نے ہمیں بدنام کرنے کی پوری کوشش کی مگرچونکہ ہماری جماعت کو پھیلائو حاصل تھا اور لوگ ہمارے حالات کوجانتے تھے اس لئے ان کی باتوں نے کوئی اثر نہ لیا۔ بلکہ ایک اعلیٰ انگریز افسر سے ہمارے ایک دوست ملے تو وہ کہنے لگے مَیںحیران ہوں پنجاب کے افسروں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ آپ کی جماعت کے خلاف رپورٹیں کرنے لگ گئے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ وہی کچھ کرتے ہیں جس کے کرنے کا آپ کومرکز سے حکم ملتا ہے اور آپ لوگ تو حکومت کے بڑے خیرخواہ ہیں پھر میں نہیں سمجھ سکتا پنجاب کے بعض افسروں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ آپ کے خلاف ہیں۔ اسی طرح اَور بیسیوں افسر ہیں جنہوں نے حکومتِ پنجاب کے بعض افسروں کے رویہ پر اظہارِ تعجب کیا۔ پھر چونکہ ہماری جماعت اِنگلستان میں بھی موجود ہے اس لئے جب پنجاب کی خبریں اِنگلستان جاتی ہیں اور وہ ہمارے آدمیوں کو دیکھتے ہیںتو وہاں کے افسر حیران ہوتے ہیں کہ یہ تو ہمارے دوست ہیں، ہم سے مِلنے جُلنے والے ہیں ہم جانتے ہیں کہ یہ گورنمنٹ کے بدخواہ نہیں بلکہ وفادار ہیں پھر پنجاب کے بعض افسروں کو کیا ہوگیا کہ وہ ایک پُرامن اور اطاعت شعار جماعت کے خلاف رپورٹیں کرنے لگ گئے ہیں۔ چنانچہ کئی ریٹائرڈ گورنر ہیں جنہوں نے اِس قسم کے خیالات کا اظہار کیا اور بعض نے تو اس موقع پر ہیں تحریریں دی ہیں جوہمارے پا س موجود ہیں۔ اِن تحریروں میں انہوں نے لکھا ہے کہ ہم جانتے ہیں یہ جماعت وفادار ہے باقی رہی شورشیںسو وہ ہماری موجودگی میں بھی اس جماعت کے خلاف ہؤا کرتی تھیں۔ مگر ہم تجربہ سے کہہ سکتے ہیں کہ صرف دشمن اس جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ پس یہ وَسِّعْ مَکَانَکَ والے الہام پر عمل کرنے کانتیجہ تھا کہ ہماری جماعت ان حملوں سے محفوظ رہی ورنہ اگر انگلستان میں ہمارا مشن نہ ہوتا، اگرسندھ، بمبئی، یوپی، بنگال اور بہار وغیرہ میں ہماری جماعتیں نہ ہوتی تو حکومتِ پنجاب کے چند نمائندوں کی رائے ہمارے حق میں قبول کی جاتی اور ہمیں بہت بڑانقصان پہنچتا۔ اِسی طرح پنجاب میں تو احرار ہمیں بدنام کرتے ہیں لیکن اور مختلف صوبے جہاں احرار کا زور نہیں وہاں کے لوگ جب ان باتوں کو سنتے ہیں تو حیران ہوکرکہتے ہیں کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا۔ پس توسیع مکانات سے جماعت محفوظ ہوجاتی اور ہرقسم کے حملہ سے بچ جاتی ہے خواہ وہ دینی ہویا دُنیوی۔
پھر روحانی لحاظ سے بھی جماعت کی توسیع ضروری ہوتی ہے کیونکہ روحانیت کی بھی ایک رَو ہوتی ہے جو بعض مُلکوں میں دب جاتی ہے اور بعض میں زور سے چل پڑتی ہے۔ پس اگر مختلف ممالک میں جماعتیں نہ ہوں تو اس روحانی رَو کے مٹ جانے کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔ مثال کے طور پر دیکھ لو ایک مُلک میں غلہ زیادہ ہوتا ہے مگر دوسرے ملک میں اُنہی دنوں قحط پڑا ہوتا ہے۔ ایک میں ایک سال کپاس زیادہ ہوتی ہے تو دوسرے میں ماری جاتی ہے۔ ایک میں ایک سال گنّا زیادہ ہوتا ہے اور دوسرے ملک میں نہیں ہوتا۔ یہی حال روحانی حالتوں کا بھی ہوتا ہے ایک وقت میں ایک ملک میں مخالفت زوروں پرہوتی ہے مگر دوسرے ملک میں مخالفت نہیں ہوتی۔ پس جہاں مخالفت ہوتی ہے وہاں سلسلہ کی ترقی رُک جاتی اور جہاں نہیں ہوتی وہاں ہوتی رہتی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی ملک میں بھی جماعت کی مخالفت ہورہی ہو اُسے مٹنے کا خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ باقی ممالک میں ترقی کررہی ہوتی ہے۔ پس روحانی جماعتوں کو ہمیشہ مختلف مُلکوں میں اپنی تبلیغ کو پھیلادینا چاہئے تا اگر ایک جگہ مخالفت ہو تو دوسری جگہ اِس کمی کو پورا کیا جارہا ہو۔ جس طرح وہ آدمی زیادہ فائدہ میں رہتا ہے جس کے کئی مُلکوں میں کھیت ہوں تا اگر ایک ملک میں ایک کھیت کو نقصان پہنچے تو دوسرے ملکوں کے کھیت اُس کی تلافی کردیں اور اس کے ضرر کو مٹادیں۔ اسی طرح وہی دینی جماعتیں فائدہ میں رہتی ہیں جو مختلف ممالک اور مختلف جگہوں میں پھیلی ہوئی ہوں کیونکہ انہیں کبھی کچلانہیں جاسکتا۔ پس اگرہماری جماعت کے لوگ ساری دنیامیں پھیل جائیں گے تو وہ خود بھی ترقیات حاصل کریں گے اور ان کی ترقیات سلسلہ پربھی اثر انداز ہوں گی۔ اور جس جماعت کی آواز ساری دنیا سے اُٹھ سکتی ہو اُس کی آواز سے لوگ ڈرا کرتے ہیں اور جس جماعت کے ہمدرد ساری دنیا میں موجود ہوں اس پرحملہ کرنے کی جرأت آسانی سے نہیں کی جاسکتی۔ پس مت سمجھو کہ موجودہ خاموشی کے یہ معنی ہیں کہ تمہارے لئے فضا صاف ہوگئی۔ یہ خاموشی نہیں بلکہ آثار ایسے ہیں کہ پھر کئی شورشیں پیدا ہونے والی ہیں اس لئے موجودہ خاموشی کے یہ معنی ہرگز مت سمجھو کہ تمہارا کام ختم ہوگیا۔ یہ فتنہ تو تمہیں بیدار کرنے کیلئے پید اکیا گیا تھا اور اگر تم اب پھر سو گئے تو یاد رکھواگلی سزا پہلے سے بہت زیادہ سخت ہوگی۔ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ تمہیں دنیا میں پھیلائے۔ اگر تم دنیا میں نہ پھیلے اور سوگئے تو وہ تمہیں گھسیٹ کر جگائے گا اور ہر دفعہ کا گھسیٹنا پہلے سے زیادہ سخت ہوگا۔ پس پھیل جائو دنیا میں، پھیل جائو مشرق میں، پھیل جائو مغرب میں، پھیل جائو شمال میں، پھیل جائو جنوب میں، پھیل جائو یورپ میں، پھیل جائو امریکہ میں، پھیل جائو افریقہ میں، پھیل جائو جزائر میں، پھیل جائو چین میں، پھیل جائو جاپان میں اور پھیل جائو دنیا کے کونے کونے میں یہاں تک کہ دنیا کا کوئی گوشہ، دنیا کا کوئی ملک اور دنیا کا کوئی علاقہ ایسا نہ ہو جہاںتم نہ ہو۔ پس تم پھیل جائو جیسے صحابہ پھیلے، پھیل جائو جیسے قرونِ اُولیٰ کے مسلمان پھیلے، جیسے انہوں نے دنیا کے جغرافیے بنائے اسی طرح اب دنیا کے نئے جغرافیے تمہارے ذریعہ سے بننا چاہئیں۔ تم جہاںجہاںجائو اپنی عزت کے ساتھ سلسلہ کی عزت قائم کرو، جہاں پھر واپنی ترقی کے ساتھ سلسلہ کی ترقی کا موجب بنو۔
اِسی طرح مختلف پیشے ہیں جو اَور ملکوں میںسیکھے جاسکتے ہیں انہیں سیکھو اور اپنے ملک کو ترقی دو۔ انگریز ہندوستان آئے تو انہوںنے کپڑا بُننا یہاں سے سیکھا مگر لنکاشائر کا سارے ہندوستان کو محتاج کردیا۔ احمد آباد، ڈھاکہ اور سندھ کی تجارت کو انہوں نے توڑدیااور اپنے ملک کی تجارت کو ترقی دی۔ اسی طرح اور کئی فن انہوں نے یہاں سے سیکھے اور اپنے ملک کو ترقی دی۔ اگر ہمارے آدمی بھی دنیا میں پھیل جائیں تو وہ مختلف ملکوںسے مختلف پیشے ، ہُنر اور دستکاریاں سیکھ کراپنے ملک کو بہت زیادہ فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔ پھر مؤمن کو خداتعالیٰ نے نہایت اعلیٰ ذہن دیاہؤا ہوتا ہے اس سے کام لے کر وہ دوسروں سے زیادہ ترقی کرسکتا ہے۔
پس یہ دو باتیں کہ قادیان میں مکان بنانا اور دنیا میں پھیلنا نہایت اہم ہیں انہیں نظرانداز مت کرو اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے مبلّغوں کا فرض ہے کہ وہ جہاں جائیں نوجوانوں میں یہ روح پیدا کریں کہ وہ باہر نکلیں۔ گھروں میں بیٹھ کرمکھیاں مارنے سے کیا فائدہ ہے۔ کیوں باہرنکل کر ایسے کام نہیں کرتے جن سے سلسلہ کو وُسعت حاصل ہو، اس کی عظمت میں ترقی ہو اور پھر ان کے کام ہندوستان کیلئے ترقی کابھی موجب ہوں۔ چین سے اِس وقت چینی کا سامان آتا ہے کیا وجہ ہے کہ ہم اسے ہندوستان میںتیار نہ کریں۔مگر اس کے لئے ضرورت ہے کہ بعض نوجوان چین میں جائیں اورچینی کاکام سیکھ کر یہاں آئیں اور ملک کو ترقی دیں۔ پھر کہیں مزدوربن کر، کہیں کلرک بن کر اور کہیں دیگر ذرائع سے ان فنون کوحاصل کریں اور دنیا میں نام پیداکریں۔ جاپانیوںنے اپنے ملک کی خاطر یہی کیا تھا۔ ایک دفعہ امریکہ کے لوگوں نے انہیں دھمکی دی اور جاپان پر گولہ باری کی۔ اس کا جاپانی نوجوانوں پر ایسا اثر ہؤا کہ انہوں نے کہا کہ ہم اب اس ذلیل ملک میں اُس وقت تک نہیں آئیں گے جب تک خود عزت حاصل نہ کرلیں اور اپنے ملک کو بھی دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے والا نہ بنادیں۔ ایک مشہور نواب کالڑکا بھی چلا گیا اور وہ جہاز پر کوئلہ ڈالنے والوں میں ملازم ہوگیا اور عرصہ تک جہاز رانی اور جہازسازی کاکام سیکھتا رہا۔ پھر وہ اپنے ملک میں آیا اور اُس نے جہازوں کا کارخانہ کھول کر ملک کی ایک اہم ضرورت کو پورا کردیا اور اُسے اِس قابل بنادیا کہ وہ دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ تو زندہ قومیں غیرت مندہوتی ہیں۔ وہ دنیا سے کوڑے نہیں کھاتیں اور اگر ایک بار کھالیں تو اُس وقت تک دم نہیں لیتیں جب تک اُس فعل کو آئندہ کے لئے ناممکن نہ بنادیں۔
تمہیں بھی اِس وقت ایک کوڑا لگا ہے حکومت کی طرف سے بھی اور رعایا کی طرف سے بھی۔ اگر تم میں غیرت کا ایک شمہ بھی باقی ہے تو جب تک تمہاری جان میں جان ہے اور تمہارے جسم میں سانس چلتا ہے تمہیں یہ کوڑا نہیں بھُولنا چاہئے جب تک اتنی طاقت حاصل نہ کرلو کہ نہ آئندہ تمہیں حکومت کوڑا مارسکے اور نہ رعایا میں سے کوئی تمہیںکوڑا مارسکے۔ بے غیرتی کی زندگی سے غیرت کی موت ہزار درجے بہتر ہوتے ہیں۔ تم بے غیرت مت بنو کہ جس پر تمہارے دل بھی تم پر *** کریںاور آئندہ آنے والی نسلیں بھی تم پر *** کریں۔ تم غیرت مندبنو کہ غیرت کے ہوتے ہوئے اگر تم دنیا میں تھوڑے دن بھی جیئو اور غیرت کی موت مرو تو تمہاری آنے والی نسلیں فخر سے اپنی گردنیں اونچی کریں گی اور کہیں گی کہ ہم ان کے فرزندہیں جنہوں نے اپنی جانیں دے دیں مگر بے غیرتی کی زندگی کو قبول نہ کیا۔
کیوں بعض حُکّام کو یہ جرأت ہوئی کہ وہ تم پر حملہ کریں؟ اس لئے کہ تم تھوڑے ہو اور کمزور ہو۔ کیوں احرار کو یہ جرأت ہوئی کہ وہ تم پر حملہ کریں؟ اس لئے کہ تم تھوڑے ہو اور کمزور ہو۔ پس اب جائو اور دنیا میں نکل کر طاقت حاصل کرو، جائو اور دنیا میںنکل کر اپنی تعداد کو بڑھائو، یہاں تک کہ دنیا کا کوئی شخص تمہیں تھوڑا نہ کہہ سکے، یہاں تک کہ دنیاکاکوئی شخص تمہیں کمزور نہ کہہ سکے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ وہ لوگ جنہیں اپنے مستقبل کے متعلق کوئی امید نہ تھی انہوں نے دنیا میں کس قدر قربانیاں کیں۔ انگلستان سے کس نے وعدہ کیا تھا کہ اسے بادشاہت دے دی جائیگی؟ کسی نے بھی نہیں۔ مگر تمہارے ساتھ تو اُس خدا کا وعدہ ہے جو تمہارا خالق و مالک ہے اور خداتعالیٰ سے بڑھ کر اور کون زیادہ سچا ہوسکتا ہے۔ پھر فرانس کے لوگوں سے کس نے کہا تھا کہ ان کو بادشاہت دی جائے گی؟ جرمنی سے کس نے وعدہ کیا تھا کہ اسے ترقی دی جائے گی؟ ان کے ساتھ کوئی وعدہ نہ تھا صرف انہوںنے غیرت دکھائی اور دنیامیں عزت حاصل کرلی۔ مگر تمہارے متعلق تو خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تمہیں دنیا میں غلبہ دیاجائے گا۔ پس تم اگر اِس غرض کیلئے باہر نکلتے ہو تو تم وہ کام کرتے ہو جس کے متعلق آسمان پر فرشتے تمہارے لئے تیاریاں کررہے ہیں۔
پس تم اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ قابل بنائو، زیادہ سے زیادہ لائق بنائو، نہ صرف دین میں بلکہ دنیا کے ہر کام، ہرفن اور ہر پیشہ میں۔ یہاں تک کہ کوئی میدان ایسا نہ ہو جس میں احمدیہ جماعت کے افراد سے زیادہ لائق افراد دنیا میں مل سکیں۔ سب سے کامل لوہار تم بنو، سب کامل نجّار تم بنو، سب سے کامل معمار تم بنو ، سب سے کامل کیمسٹ تم بنو، سب سے کامل ڈاکٹر تم بنو، سب سے کامل صنّاع تم بنو، سب سے کامل کپڑے بُننے والے تم بنو، سب سے کامل مشینیں بنانے والے تم بنو اور جب تم اِس ارادہ اور عزم سے کھڑے ہوگے اور دنیا کے ممالک میں نکل جائو گے تو خداتعالیٰ کے فرشتے تم پر برکتیں نازل کریں گے اور تم جو کام بھی کرو گے خواہ وہ بظاہر دنیا کا نظر آتا ہو اس کے بدلہ میں تم ثواب پائو گے کیونکہ ہر قدم جو تم اُٹھائو گے اس لئے اُٹھائو گے کہ خداتعالیٰ کی یہ پیشگوئی پوری ہو کہ جماعت احمدیہ دنیاپر غالب آکررہے گی۔ پس تم میں سے وہ لوہار جو اِس لئے آہن گری کے کام میں سب دنیا سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے متعلق خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ یہ دنیا پر غالب آئے گی اور وہ چاہتا ہے کہ اِس پیشگوئی کے پورا کرنے میں وہ بھی حصہ لے تو وہ آہن گری میں ترقی نہیں کررہا بلکہ عبادت کررہا ہے۔ تم میں سے وہ انجینئر جو اس لئے انجینئرنگ کے کام میں ترقی کرکے سب دنیا کو مات کرنا چاہتا ہے کہ خداتعالیٰ کے مسیح کی جماعت کے دنیا پر غالب آنے کی پیشگوئی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اِس کے پورا کرنے میں وہ بھی حصہ لے تو وہ انجینئرنگ نہیں لے رہا بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں حصہ لے رہا ہے۔ اسی طرح تم میں سے وہ زمیندار جو اِس نیت اور ارادہ کے ساتھ اپنی پیدوار کو بڑھاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے متعلق پیشگوئی ہے کہ سب دنیا پر یہ غالب آئے گی اور وہ چاہتا ہے کہ وہ بھی اس کے پورا کرنے میں حصہ لے تو وہ زمینداری میں ترقی نہیں کررہا بلکہ دین میں ترقی کررہاہے۔ پس ہر پیشہ، ہر فن اور ہر ہُنر میں ترقی کرو اور مُلکوں اور علاقوں کی حد بندیوں سے آزاد ہوجائو کہ مؤمن کسی مُلک اور علاقہ کی قید میں مقیّد نہیں ہوتا۔ پھر تم دیکھو گے کہ اُس کے فضل تم پر کس طرح نازل ہوتے ہیں۔ یہ ہماری غفلتیں تھیں جو اِن فتنوں کو ہمارے لئے لائیں اور ہماری ہی غفلتیں ہوں گی جو پھر اِن فتنوں کے دوبارہ لانے کا موجب بنیں گی ورنہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کی آنکھیں کھولنے کیلئے بہت کافی سامان کردیا ہے۔ اگر جماعت اب بھی اِس شدید حملہ کو بھُول جاتی ہے تو وہ اپنی بے غیرتی اور بے حمیتی کا افسوسناک مظاہرہ کرتی ہے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کو بے غیرتی کے مرض سے بچائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اپنے ہاتھوں سے ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے والے بنیں جو جماعت احمدیہ کی ترقی کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیں اور اللہ تعالیٰ نہ صرف ہمارے بلکہ ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے حوصلے اور اُن کی ہمتوں میں بھی اِس قدر برکت دے کہ ساری دنیا کے حوصلے او رہمتیں ان کے سامنے ہیچ ہوجائیں۔ دنیا ہمارا گھر ہے۔ پس جس طرح خداتعالیٰ کے گھر یعنی مساجد میں چھوٹے اور بڑے کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا اِسی طرح ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا سے تمام امتیازات کو مٹادیںتا پھر خداتعالیٰ کا نام دنیا میں بلند ہو اور اُس کی بادشاہت زمین پر بھی آئے جس طرح کہ وہ آسمان پر ہے۔
(الفضل ۱۶؍جنوری ۱۹۳۶ئ)
؎ ۱ بخاری کتاب الصلٰوہ باب قول النبی ﷺ جعلت لی الارض مَسْجِدًا و طہورًا
؎ ۲ سٹریٹ سیٹلمنٹس (STRAIT SETTLEMENTS) ملایا میں برطانیہ کی سابق شاہی نوآبادی۔ 1826ء سے 1858ء تک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنیانگ، ملکا اور سنگاپور کو ایک انتظامی جُزو کی حیثیت سے سنبھالے رکھا ۔ بعد ازاں قلیل مدت کیلئے انڈیا آفس نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ 1867ء میں یہ نو آبادی قائم کی گئی اور 1946ء میں ختم کردی گئی۔ اب سنگاپور ایک الگ کالونی ہے مگر باقی حصے ملایا کے اتحاد میں شامل ہوگئے ہیں۔ (اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ ۷۴۱ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ئ)
؎ ۳ بخاری کتاب المناقب باب خاتم النبیین
؎ ۴ فوک لور: (FOLK-LORE)۔ کہانیاں، رسم و رواج
؎ ۵ البقرۃ: ۱۴۹ ؎ ۶ النّٰزعٰت: ۵
؎ ۷ تذکرہ صفحہ ۵۳ ۔ ایڈیشن چہارم





۳
تحریک جدید کے مالی مطالبہ کی شاندار کامیابی
(فرمودہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۳۶ئ)
تشہد، تعوّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
آج مجھے سر درد کا دَورہ ہے اور اس وجہ سے ذراسی حرکت بھی شدید درد پیدا کردیتی ہے لیکن چونکہ جمعہ کادن تھا میں نے پسند نہ کیا کہ جمعہ میں ناغہ ہوجائے اس لئے مناسب یہی سمجھا کہ بعض درد کو کم کردینے والی دوائوں کااستعمال کرکے خطبہ پڑھ دوں۔ مگر ان دوائوں کے استعمال کی وجہ سے میں ایک ضُعف محسوس کرتاہوں اور اس کے ساتھ ہی درد کی شکایت بھی باقی ہے جس کی وجہ سے میں زور سے نہیں بول سکتا ۔
سب سے پہلے میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اِس سال کی تحریک جدید کی جو مالی تحریک تھی اِس کی معیاد ۱۵؍ جنوری کو ختم ہوچکی ہے۔ میں نے اِس سال کی تحریک کے وقت بتایا تھا کہ چونکہ گزشتہ سال کی تحریک میں بعض دوستوں نے غیرمعمولی حصہ لیا تھا حتّٰی کہ بعض نے عمر بھر کا اندوختہ چندہ میں دے دیا تھا اِس لئے ان سے یہ امید نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ اِس سال بھی اُسی قدر حصہ لے سکیں گے۔ پھر بعض دوستوں نے غلط فہمی سے یہ خیال کرلیا تھا کہ شاید تین سال کا چندہ پہلے سال میں ہی ادا کرنا ہے اِس لئے اُنہوں نے اتنا بوجھ اُٹھالیا تھا کہ امید نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ دوسرے سال بھی اُسی قدر بوجھ اپنے ذمہ ڈال سکیں گے۔ پس ان حالات کومدنظر رکھتے ہوئے مَیں نے دوستوں کو تحریک کی تھی کہ کچھ نہ کچھ اضافہ اپنے چندوں میں کردیں تا کہ وہ دوست جو بالکل حصہ نہ لے سکتے ہوں یا گزشتہ سال سے کم لے سکتے ہوں ان کی کمی کو دوسروں کی زیادتی پورا کردے اور جیسا کہ ہماری پہلی تحریکوں کا حال ہوتا چلا آیا ہے یعنی ہمارا ہر کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سے بڑھ کر ہوتا ہے اس سال کے وعدے گزشتہ سال کے وعدوں سے بڑھ جائیں ۔ سو آج میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے جو خیال کیا تھا کہ ایک حصہ دوستوں کا اِس سال حصہ نہیں لے سکے گا یا اتنا نہیں لے سکے گا وہ احتیاط درست ثابت ہوئی ہے۔ جن دوستوں نے گزشتہ سال سارا اندوختہ چندہ میں دے دیا تھا ان کے متعلق تو ظاہرہی ہے کہ وہ اس رنگ میں اس سال حصہ نہیں لے سکتے تھے ان کے علاوہ اور بھی ایسے دوست ہیں جو گزشتہ سال زیادہ بوجھ اُٹھالینے کی وجہ سے یا دیگر مجبوریوں کے باعث اس سال حصہ نہیں لے سکے یا کم لے سکے ہیں۔ ایسے دوستوں کی تعداد غالباً کئی سَو ہے لیکن اس احتیاط کے ماتحت جس کے لئے میں نے دوستوں کو توجہ دلائی تھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تحریک جو علاوہ عام چندوں کے تھی اور ایک زائد بوجھ تھا گو اختیاری ہی تھا ہماری دوسری تحریکوں کی طرح آگے سے بڑھ کر کامیاب ہوئی ہے۔ یعنی پچھلے سال ایک لاکھ سات ہزار کے وعدے جون تک ہوئے تھے جبکہ بیرونِ ممالک کی جماعتوں کے وعدے بھی پہنچ گئے تھے لیکن اس سال کَل تک ایک لاکھ ساڑھے دس ہزار کے وعدے آچکے تھے۔ حالانکہ ہندوستان کی جماعتوں سے بھی ابھی وعدے آنے کے چار دن باقی ہیں۔ سولہ تاریخ کے پوسٹ کئے ہوئے خطوط کی منظوری کا اعلان میں نے کیا ہؤا ہے اور ہندوستان کے کئی حصے ایسے ہیں جہاں سے چوتھے، پانچویں روز خط یہاں پہنچتا ہے۔ اس لئے پندرہ یا سولہ کے بھیجے ہوئے وعدے ۲۱ تک موصول ہوتے رہیں گے۔
میں یہ ذکر بھی کردیناچاہتا ہوں کہ اس سال بیرون ہند کی بعض جماعتوں کے وعدے جلد وصول ہوگئے ہیں کیونکہ دوستوں کو پہلے سے یہ خیال تھا کہ تحریک ہوگی اور وہ اس کیلئے تیار تھے۔ مشرقی افریقہ جہاں جماعت اچھی تعداد اور اچھی حیثیت میں ہے وہاں سے بیشتر حصۂ جماعت کے وعدے آچکے ہیں جو پچھلے سال اِس وقت تک وصول نہیں ہوئے تھے اس لئے باہر سے اب اتنے وعدوں کی امید نہیں جتنے گزشتہ سال آئے تھے پھر بھی امید ہے کہ اس سال کے وعدے ایک لاکھ پندرہ ہزار تک پہنچ جائیں گے۔ گویا اِس سال آٹھ فیصدی کی زیادتی ہوگی باوجود اس کے کہ کئی دوست اِس سال شامل نہیں ہوسکتے تھے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس سال بعض اُن دوستوں نے جوجماعت میں نئے شامل ہوئے ہیں تحریک میں حصہ لیا ہے او ربعض نے گزشتہ سال کی نسبت اپنے چندوں کو بڑھادیا ہے اس بڑھوتی نیز نئے شامل ہونے والوں نے باوجود اس کے کہ کئی دوست شامل نہ ہوسکے آٹھ فیصدی کی زیادتی کردی ہے۔ اگر باقی لوگ بھی شامل ہوسکتے تو اُمید ہے کہ یہ رقم ایک لاکھ تیس چالیس ہزار تک پہنچ جاتی۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار بیان کیا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات اور بعض مجبوریوں کی وجہ سے ضروری ہے کہ ہمارا ایک مستقل ریزرو فنڈ ہوجس کی آمدنی سے مستقل اخراجات چلائے جائیں اور ہنگامی کاموں کیلئے چندہ ہو۔ اخلاقی لحاظ سے بھی یعنی جماعت کی اخلاقی حالت کومحفوظ رکھنے نیز کام کی وسعت کیلئے بھی ضروری ہے کہ ایک مستقل ریزرو فنڈ قائم کیا جائے۔ صدر انجمن احمدیہ کی آمد کا بیشتر حصہ تنخواہوں میں صَرف ہوجاتا ہے اور اِس وجہ سے ہنگامی کاموں میں رُکاوٹ پیدا ہوتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سلسلہ کے اموال سے اتنا فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا جتنا اُٹھایا جانا چاہئے حتّٰی کہ بعض دفعہ ہمارے مبلّغ اِس لئے یہاں بیٹھے رہتے ہیں کہ باہر جانے کیلئے کرایہ نہیں ہوتا۔ پس کام چلانے کیلئے ضروری ہے کہ مستقل عملہ کے اخراجات کیلئے مستقل آمدنی کے ذرائع ہوں۔ اس لئے میری تجویز ہے کہ ایک ریزرو فنڈ قائم کیا جائے اور تحریک جدید کے ماتحت جو کام جاری کئے گئے ہیں ان کے مستقل اخراجات کیلئے مستقل آمدنی کے ذرائع پیدا کرنے کیلئے مَیں صدر انجمن احمدیہ کے نام پربعض جائدادیں خرید رہا ہوں تا مستقل کاموں کا بار چندوں پرنہ پڑے اور جماعت کے چندے صرف ہنگامی کاموں پرخرچ ہوں۔ مثلاً لٹریچر، اشاعتِ دین اور جلسے وغیرہ اس کیلئے گو بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے مگر جب کام کو چلایا جائے تو میں سمجھتا ہوں بعض ابتدائی دِقّتوں کے بعد یہ کچھ مشکل نہیں رہ جاتا۔ اگر آج تک مالی حالت کا اِس رنگ میں انتظام کیا جاتا کہ مستقل اخراجات مستقل آمدنی سے ہوتے توہم ہندوستان میں اس قدر عظیم الشان تغیر پیدا کرسکتے تھے کہ جس کا بیسواں بلکہ سینکڑواں حصہ بھی اب تک نہیں کرسکے اور اس کے علاوہ وہ اعتراضات بھی نہ ہوسکتے جوبعض کمزور طبائع اور منافقین کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کو یہ خیال تو نہیں آتا کہ مرکز کے بغیر کام نہیں چل سکتا وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اتنے آدمی تنخواہیں لے رہے ہیں اور کھارہے ہیں، وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ یہ لوگ وقت خرچ کرتے ہیں، دین کی خدمت کرتے ہیں انہیں صرف تنخواہوں پر ایک کثیر رقم کا خرچ ہونا دکھائی دیتا ہے لیکن اگر شروع سے ایسا انتظام ہوتا کہ تنخواہوں کا بار چندوں پر نہ پڑتا تو منافقوں کو کمزورطبائع کے لوگوں میں بے چینی پیدا کرنے کا موقع نہ ملتا۔ اگرچہ قرآن کریم نے اِس امر کی پوری تصریح کردی ہے کہ جس کام پرجو لوگ مقرر ہوں اُن کی تنخواہیں اُسی کام کاحصہ ہوتی ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ جو شخص اپنا سارا وقت دے گا وہ گزارہ بھی لے گا۔ دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ وہ باہر کی نسبت یہاں کم گزارہ لیتے ہیںیا زیادہ؟ یا ان کے کام کی قیمت سے ان کاگزارہ کم ہے یا زیادہ؟ اگر ان کے کام، ان کی لیاقت اور منڈی کی قیمت کے لحاظ سے ان کی تنخواہیں کم ہیں تو یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں خواہ ایسے لوگوں کی تعداد ہزار ہو۔ کیونکہ کام چلانے کیلئے جتنے لوگوں کی ضرورت ہوگی اُتنے رکھنے ہی پڑیں گے مگر پھر بھی اِس سے چونکہ کمزور طبائع کودھوکا لگ سکتا ہے اس لئے پہلے سے ہم کو ایسا انتظام کرناچاہئے تھا کہ مستقل اخراجات کا بار عام چندوں پر نہ پڑے۔ تحریک جدید کے متعلق میرا یہی خیال ہے کہ اس کے مستقل اخراجات ریزرو فنڈ کی آمد سے ادا کرنے کا انتظام کیا جائے اور چندوں کاایک ایک پیسہ ہنگامی کاموں پرخرچ ہو، تا ہر ایک شخص کو نظر آسکے کہ تحریک کے کاموں پرکیاخرچ ہورہا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ بظاہریہ بات کمزوروں یا منافقوں کے ڈر کی وجہ سے معلوم ہوتی ہے مگر وہ بات جو سلسلہ کو مضبوط کرنے والی ہو وہ ڈر نہیں بلکہ احتیاط ہے۔ قرآن کریم میں حکم ہے کہ خُذُوْا حِذْرَکُمْ ؎۱ اِس سے شیعوں نے تقیہ کا جواز ثابت کیا ہے لیکن اِس کے یہ معنی نہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ جہاں تک اعتراض سے بچ سکو بچنا چاہئے۔ رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ اِتَّقُوْا مَوَاقِعَ الْفِتَنِ ؎۲ یعنی فتنوں کی جگہوں سے بچتے رہو۔
میں نے چھ سات سال قبل ریزرو فنڈ کی تحریک کی تھی تاہم تبلیغی کام کو اس اُتار چڑھائو سے جو مالی لحاظ سے دنیا پر آتے رہتے ہیں بچائیں۔ دنیا میں کبھی قحط پڑ جاتا ہے اور زمیندار چندہ نہیں ادا کرسکتے، کبھی اشیاء گِراں ہوجاتی ہیں اور ملازموں کے چندوں میں کمی ہوجاتی ہے اور کبھی تجارتی کساد بازاری کے باعث تاجر پورے چندے ادا نہیں کرسکتے اس لئے ایسے اُتار چڑھائو سے تبلیغی کاموں کو محفوظ کرنے کیلئے میں نے ایک ریزرو فنڈ کی تجویز کی تھی اور دوسری تحریک یہ کی تھی کہ جماعت کے دوست آنریری طور پر تبلیغی خدمات کیلئے اپنے آپ کو پیش کریں اور اب یہ سب تحریکیں میںنے تحریک جدید میں جمع کردی ہیں۔
اوّل یہ کہ نوجوان قلیل گزارہ پر تبلیغ کیلئے باہر نکل جائیں۔ اس کے ماتحت خدا کے فضل سے سینکڑوں نوجوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔ کئی باہر جاچکے ہیں دو ابھی کَل گئے ہیں اور پانچ سات تیار بیٹھے ہیں جو ایک دو ماہ میں ہی چلے جائیں گے۔
دوسرے یہ کہ ہر سال ایک رقم بچا کر صدرانجمن کے نام پر کوئی جائداد خریدی جائے یا کوئی نفع بخش کام جاری کردیا جائے ۔
اور تیسرے ہنگامی کاموں کیلئے چندہ کی تحریک کی جائے اور باوجود منافقوں کے اس شور کے کہ جماعت میں کمزوری پیدا ہوگئی ہے یا احراریوں کے اِس پروپیگنڈا کے کہ جماعت کے لوگ تنگ آچکے ہیں مَیں آج خداتعالیٰ کے فضل سے یہ اعلان کرنے کے قابل ہوں کہ جماعت نے گزشتہ سال کی نسبت اس سال زیادہ چندہ کا وعدہ کیا ہے اور مجھے امید ہے کہ اگلے سال اس سے بھی زیادہ دینے کیلئے وہ تیار رہے گی اور تیسرے سال کی تحریک کو ایسے رنگ میں کامیاب کرے گی کہ ہم اس کے اختتام پر دو لاکھ روپیہ ریزرو فنڈمیں منتقل کرسکیں گے۔
میں نے چند سال ہوئے شوریٰ کے موقع پر ۲۵ لاکھ روپیہ ریزرو فنڈکے طور پر جمع کرنے کی تحریک کی تھی مگر افسوس کہ دوستوں نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ اب میری پوری یہ کوشش ہوگی کہ گزشتہ سال اور اس سال کی تحریک جدید کی آمد میں سے ایک لاکھ روپیہ بچا کر ریزرو فنڈمیں جمع کرسکیں اور پھر اگلے سال اللہ تعالیٰ دوستوں کو خاص قربانی کی توفیق دے تو ایک لاکھ روپیہ اس سے جمع کرکے دو لاکھ روپیہ کُل ریزرو فنڈمیں جمع کردیں اور اس سے جیسا کہ میں بتاچکا ہوں کہ کچھ تو صدر انجمن کے نام پر جائدادخرید لی جائے اور کچھ روپیہ بعض سُودمند تجارتوں میں لگادیا جائے اور اس مستقل آمد سے مستقل اخراجات چلائے جائیں اور اس میں سے جو بچے اس سے ریزرو فنڈکو بڑھایا جائے اور آئندہ چندہ کی رقم سے صرف ہنگامی کام چلائے جائیں۔
میں جہاں تک سمجھتا ہوں ہمیں آج یہ ضرورتیں اس لئے پیش آرہی ہیں کہ اِس زمانہ کا نظام گزشتہ زمانوں سے بالکل مختلف ہے۔ اِس زمانہ میں ہمارا اُن دشمنوں سے مقابلہ ہے جن کے حملوں کی بنیاد سرمایہ داری پر ہے اس لئے ہم محاذِ جنگ خواہ کتنا ہی تبدیل کیوں نہ کریں پھر بھی اِس کا خیال رکھنا ہی پڑتا ہے۔ آج عیسائی مبلغ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں او رکروڑوں روپیہ ہر سال ان پر خرچ ہوتا ہے۔ پس اگر اسی رنگ میں ہم بھی ان سے مقابلہ کیلئے تیار نہ ہوں باوجود اس کے کہ ہمارے پاس سچائی ہے وہ لوگوں کو گمراہ کرسکیں گے۔ اسلامی رنگ میں ہمارا کام اس طرح ہونا چاہئے کہ روپیہ کے بغیر بھی چل سکے جیسا کہ تحریک جدید میں مَیں نے مطالبہ کیا ہے۔ لیکن ایک حصہ پھر بھی ایسا رہ جائے گا کہ دشمن کے حملہ کو مدنظر رکھتے ہوئے روپیہ کی ضرورت رہے گی۔ ہمیں کچھ نہ کچھ تنخواہوں والے مبلغ بھی رکھنے پڑیں گے جیسا کہ تحریک جدید میں بھی میں نے بعض عالم رکھے ہیں جو ضرورت کے وقت باہر جاکر کام کرسکیں۔ مثلاً تحریک جدید کے ماتحت تبلیغ کیلئے جانے والوں کے ساتھ بعض اوقات لوگ یہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ اچھا ہم بھی اپنے علماء کو بُلاتے ہیں تم بھی بُلالو تا مباحثہ ہوجائے اور ایسے مواقع کیلئے آٹھ دس علماء کا رکھنا بھی ضروری ہے۔ پس دشمن کی وجہ سے ہم مجبور ہیں کہ ایک حصہ کا کام ایسا بھی رکھیںجو اس حملہ کے ہم رنگ ہو۔ فِی زمانہ جن دشمنوں سے ہمارا مقابلہ ہے وہ مالی لحاظ سے اتنے مضبوط ہیں کہ کئی کئی کروڑ روپیہ ان کے پاس ہے۔ اس وقت باون ہزار پراٹسٹنٹ مشنری کام کررہے ہیں اور پونے تین لاکھ رومن کیتھولک۔ گویاکُل مشینری سَوا تین لاکھ ہیں جو عیسائیت پھیلانے کیلئے دنیا میں مقرر ہیں۔ اگر ان میں سے ہر ایک دس دس آدمیوں کو بھی عیسائی بنائے تو سال بھر میں ۳۵ لاکھ عیسائی بناسکتے ہیں۔ پھر ان کی جائدادوں کو اگر لیا جائے تو وہ بھی بہت ہیں۔ ہماری جماعت تو چونکہ غرباء کی جماعت ہے اس لئے وہ لاکھوں کا نام سننے کے عادی نہیں اِس وجہ سے بعض دوست شاید یہ بھی خیال کریں کہ ۲۵ لاکھ روپیہ کس طرح جمع ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ میری سُنیں اور سب ایک معیار پر آجائیں تو چھ ماہ کے عرصہ میں ۲۵ لاکھ روپیہ جمع ہوسکتا ہے۔ میرا اصول تو یہ ہے کہ جماعت کو ایک رنگ میں آہستہ آہستہ آگے بڑھانا چاہئے ورنہ ۲۵ لاکھ روپیہ تو چھ ماہ کے عرصہ میں جمع ہوسکتا ہے۔ ہاں تو دشمنوں کی مالی حالت کا مَیں ذکر کررہا تھا۔ ساری دنیا کی طاقت تو الگ رہی صرف لاہور کے عیسائی مشن کی جائداد ہی میرا خیال ہے اسّی نوے لاکھ روپیہ کی ہوگی اس سے زیادہ ہو تو ہو کم تو کسی صورت میں نہیں اور اس کے ساتھ اگر ہندوئوں، سکھوں وغیرہ کی جائدادیں ملالی جائیں تو صرف لاہور میں دو تین کروڑ سے کم قیمت کی نہ ہوں گی۔ پس یہ خیال مت کرو کہ یہ رقم زیادہ ہے دشمن کے حملہ کے مقابلہ میں تو یہ کوئی چیز ہی نہیں۔ ہمارا سالانہ بجٹ کئی لاکھ کا ہوتا ہے مگر کام وسعت کے لحاظ سے کچھ نظر نہیں آتا۔ یعنی دشمن کے حملہ کے پھیلائو کے مقابلہ میں اس کی کوئی ہستی نہیں۔ دشمن کے سَوا تین لاکھ مبلّغین جو سب دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کے مقابلہ میں ہمارے صرف چالیس مبلّغ ہیں۔ اب غور کرو دونوں کا آپس میں کوئی جوڑ بھی ہے؟ ہمارے سپرد کسرِ صلیب کا کام کیا گیا ہے لیکن ہم ان کے مقابل پر صرف چالیس مبلّغ رکھ سکے ہیں اور اس پر بھی بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اتنے مبلغین کی کیا ضرورت ہے۔ حالانکہ سَواتین لاکھ کے مجمع میں اگر چالیس کو تلاش کرنا شروع کرو تو شاید دو ہفتہ کے بعد ایک مبلغ کہیں گِرتا پڑتا نظر آسکے۔ پس ہماری جماعت کومدنظر رکھنا چاہئے کہ ہم کس کے مقابلہ کیلئے کھڑے ہیں۔ میری سکیم یہ ہے کہ ہم قلیل زمانہ میںدشمن کے مقابلہ میں ایسی طاقت پیش کرسکیں کہ یہ اس کے مقابل میں کھڑی ہونے کی اہل سمجھی جاسکے ورنہ لاکھوں آدمیوں کے مقابلہ میں چالیس مبلّغ چیز ہی کیا ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات کے لحاظ سے بھی ہمارے دو تین ہزار مبلّغ ہونے چاہئیں۔ ہندوستان میں اِس وقت کم و بیش تین سَو اضلاع ہیں اور بارہ سَو تحصیلیں ہیں اگر ریاستوں کو بھی ساتھ شامل کرلیا جائے تو دوہزار کے قریب تحصیلیں بن جاتی ہیں۔ ہر تحصیل میں کم و بیش پانچ سَو گائوں ہوتے ہیں۔ پس ہندوستان میں اندازاً دس بارہ لاکھ گائوں یا قصبے ہیں۔ اب سال کے دن تین سَو ساٹھ ہوتے ہیں۔ پس اگر ہمارے دو ہزار مبلّغ ہوں تو ڈیڑھ سال میں صرف چند گھنٹوں کیلئے ہر گائوں میں جاسکتے ہیں اور اگر ساری دنیا کو ہندوستان سے پانچ گُنا ہی سمجھ لیا جائے گو علاقہ کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اگر دو ہزار مبلّغ ہوں تو دس سال میں ایک گائوں میں ایک مبلّغ ایک دن کیلئے جاسکے گا لیکن چونکہ سفر کا وقت بھی اس میں شامل ہے اس لئے حقیقتاً ہر گائوں میں ایک مبلّغ صرف ایک دو گھنٹہ ہی ٹھہر سکے گا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد یہ کام کیا ہے کہ ہم ساری دنیا کو احمدی بنائیں او رظاہر ہے کہ ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ ایک گائوں میں ٹھہرنے سے گائوں کے لوگوں کامذہب تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس عرصہ میں تو ہر شخص کے حصہ میں ایک سیکنڈ بھی نہیں آتا۔ دوہزار مبلّغ گویا دس سال میں ساری دنیا کے آدمیوں کو سلام بھی نہیں کرسکتے۔ پس ہمارے سامنے جو کام ہے اس کے لحاظ سے ہمیں عظیم الشان جدوجہد کی ضرورت ہے۔ شاید کوئی کہے کہ ۲۵ لاکھ کے ریزرو فنڈ سے اگر دو ہزار مبلّغ بھی ساری دنیا کو پیغام حق نہیں پہنچاسکتے تو اس کا فائدہ کیا؟ تو ایسے دوستوں کے وہم کودور کرنے کیلئے میں یہ کہتا ہوں کہ مؤمن کا کام صرف جدوجہد کرنا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ غیب سے نصرت و تائید کے سامان مہیا کردیتا ہے۔
رسول کریم ﷺ جنگِ احد کے موقع پر ایک ہزار صحابہ کو لے کر دشمن کے مقابلہ کیلئے نکلے تو منافق کہتے تھے کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ لڑائی ہے تو ہم بھی ضرور چلتے لیکن یہ تو خودکشی ہے کیونکہ وہ لوگ سمجھتے تھے کہ ایک ہزار آدمی سارے عرب سے کسی طرح نہیں لڑ سکتا لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ یہ ایک ہزار کچھ اَور کو زیر کریں گے وہ آگے کچھ اَور لوگوں کو زیر کریں گے اور اس طرح یہی ایک ہزار ساری دنیاکو زیر کرلیں گے۔ چنانچہ یہی ایک ہزار تھے جنہوں نے چین سے لے کر یورپ تک ساری دنیا کو فتح کرلیا۔ پس مؤمن کا کام ابتدا کرنا ہے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی ترقی ہوتی ہے کہ دس، چالیس پچاس ہوجاتے ہیں، پچاس ،سَو اور سَو دوسَو بن جاتے ہیں اور اسی طرح یہ سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پس ہمارا کام صرف یہ ہے کہ صحیح اصول پر جن کواسلام تسلیم کرتا ہے سلسلہ کے کام کی بنیاد رکھ دیں اور پھر امید رکھیں کہ اللہ تعالیٰ خود برکت دے کرہمارے آدمیوں کو بڑھائے گا اور دشمنوں کے دلوں میں ہمارا رُعب پیدا کردے گا۔ ہمارا کام یہ ہے کہ سلسلہ کیلئے جو قربانی بھی ہم سے ہوسکتی ہے کریں خواہ وہ بظاہر کتنی تمسخر والی نظر آئے۔
رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ چندہ کی تحریک کی تو ایک صحابی نے جاکر کچھ مزدوری کی شاید کسی کے کنویں پر جاکر پانی نکالا اور اِس کے عوض اُسے آدھ سیر یا تین پائو غلہ ملا جو اُس نے لاکر چندہ میں ڈال دیا۔ اُس وقت ہزاروں روپیہ کی ضرورت تھی منافق ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ یہ لڑائی کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ یہ جنگ تبوک کا واقعہ ہے جو رومیوں سے درپیش تھی اور رومن حکومت اُس وقت ایسی ہی تھی جیسی آج انگریزی حکومت ہے اور اتنی بڑی حکومت سے لڑائی کیلئے اُس صحابی نے چند مُٹھّی جَو لاکر دیئے منافق اُس پرہنستے تھے لیکن رسول کریم ﷺ کوجب اِس کا علم ہؤا تو آپ نے فرمایا کہ ان کو کیا علم ہے کہ خد اکی نظر میں اس جَو کی کیا قیمت ہے ۔ یہی جَو تھے جن سے مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اور رومیوں کو شکست ہوگئی اور نہ صرف رومیوں کو بلکہ ایرانیوں کو بھی جن کی حکومت بھی رومی حکومت کے مقابل کی تھی مسلمانوں نے شکست دی۔
ایک عیسائی مؤرخ مسلمانوں کے اِس ایمان کو دیکھ کرلکھتا ہے کہ رسول کریم (ﷺ) کے متعلق خواہ کوئی کچھ کہے مگر ایک بات سے متاثر ہوئے بغیرمیں نہیںرہ سکتا اور وہ یہ کہ میں اپنے خیال کی آنکھوںسے ایک مسجد دیکھتا ہوں جس کی چھت پر کھجور کی ٹہنیاں پڑی ہیں بارش ہوتی ہے تو وہ چھت ٹپکتی ہے اور اسی میںوہ لوگ نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں اِنہی کیچڑ سے لتھڑے ہوئے آدمیوں کو جن کے بدن پرپورے کپڑے بھی نہیں مَیں مسجد کے گوشہ میں بیٹھے ہوئے باتیں کرتے دیکھتاہوں۔ یہ بے سامان اور ظاہری علوم سے بے بہرہ لوگ اِس امر پر باتیں کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ دنیا کوکس طرح فتح کرکے اپنے مزعومہ معیارِ تہذیب پر اِسے لانا ہے۔ وہ نہایت سنجیدگی سے یہ مشورے کرتے ہیں اور پھر ایک دن وہی ہوجاتا ہے جو وہ چاہتے تھے۔ وہ دنیا کو فتح کرکے دکھادیتے ہیں اور اس کانقشہ ہی بدل ڈالتے ہیں۔ پس یہ امر جب میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو میں اِس بات کو مانے بغیر نہیں رہ سکتاکہ محمد (ﷺ) کے پیچھے ضرور کوئی بڑی طاقت تھی اور آپ مسیحی مشنریوں کے قول کے مطابق دھوکاباز انسان ہرگز نہ تھے۔
پس جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ۲۵ لاکھ کی رقم جماعت کے لحاظ سے زیادہ ہے انہوں نے احمدیوں کے ایمان کا اندازہ نہیں کیا اور جو ہندوئوں اور عیسائیوں کی طاقت سے واقف ہونے کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ اس قلیل رقم سے کیا بنے گاوہ خداتعالیٰ کی طاقت سے ناواقف ہیں اور ان سے مَیں کہتا ہوں کہ ہماری فتح اِس روپیہ سے نہیں بلکہ اُس ایمان اور اخلاص سے ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہمارے دلوں میں پیدا کیا ہے۔ منافق اپنے دل کو دیکھتا ہے اور اپنے ایمان کو دیکھ کرمحسوس کرتا ہے کہ اس میںتو اتنی طاقت نہیں کہ پہاڑوں کو گراسکے اور سمندروں کو خشک کرسکے۔
یہی نوجوان جو باہرگئے ہیں ان میں سے ایک کی بات سن کرمجھے بڑی خوشی ہوئی۔ اُس نے کہا کہ ہم سے تین سال کا معاہدہ لیا گیا ہے اس میں بھی کوئی مصلحت ہوگی مگر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ تین سال تک خدا کا سپاہی رہنے کے بعد کوئی یہ خیال بھی کس طرح کرسکتا ہے کہ وہ پھر آکر بندوں کی نوکری کرے۔ پس یہ تین سال کا معاہدہ نہیں بلکہ ساری عمر کا ہے۔ ہم اس لئے باہر نہیں جاتے کہ واپس آئیں بلکہ اس لئے جاتے ہیں کہ خدا کی راہ میں مارے جائیں۔ یہ ابھی منہ کے الفاظ ہیں جب اللہ تعالیٰ ان الفاظ کے مطابق ہمارے نوجوانوں کو کام کرنے کی توفیق دے گا تو وہ ایک شاندار نظارہ ہوگا مگر جب تک وہ وقت آئے یہ الفاظ بھی ہمارے لئے خوشی کاموجب ہیں کیونکہ زبان کے الفاظ بھی جب عمل ان کے خلاف نہ ہو ایک قیمت رکھتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت تو زبانی بھی اس ایمان کا اظہار نہ کرسکی تھی۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب ان کومعلوم ہؤا کہ دشمن کالشکر آن پہنچا ہے تو انہوںنے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اِذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ ؎۳ کہ آپ اور آپ کا خدا جائیں او رلڑائی کریں جب فتح ہوجائے گی تو ہم بھی آجائیں گے۔ پس ایمان کی پہلی علامت تو یہی ہوتی ہے کہ منہ سے اظہار کیا جائے اگر وہ سچے دل سے ہوگا تو اللہ تعالیٰ اسے پورا بھی کردے گا۔ غرض منافق اپنے ایمان پر اندازہ کرتا ہے اس لئے جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جماعت غریب ہے اتنا روپیہ کہاں سے آئے گا وہ بھی غلطی پر ہیں اور جو دشمن کی طاقت سے مرعوب ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اِس قلیل رقم سے ہم کیا کریں گے وہ بھی غلطی پر ہیں۔ جو کہتاہے کہ اتنا روپیہ کہاں سے آئے گا اُس نے مؤمنوں کے ایمانوں کا اندازہ نہیں کیا اور ان کے ایمان کے مطابق ان کی قربانیوں کا اندازہ نہیں لگایا۔ اورجو کہتا ہے کہ اس سے کیا ہوگا اُس نے خدا کی نصرت اور تائید کا اندازہ نہیں کیا۔ یہ ایک کام ہے جس کا خدا نے فیصلہ کیاہؤا ہے ہمیں اپنی زندگیوں پر شبہ ہوسکتا ہے، اپنی اولادوں پر شبہ ہوسکتا ہے، اپنی بیویوں کے وجود پر شبہ ہوسکتا ہے، اپنے دوستوں پرشبہ ہوسکتا ہے، زمین و آسمان کے وجود پر شبہ ہوسکتا ہے مگر اس پر کوئی شبہ نہیں ہوسکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دنیا کے تمام اَدیان کو شکست ہوگی اور اسلام کی فتح ہوگی۔
اِس وقت یہاںاتنے لوگ بیٹھے ہیں ان میں مؤمن اور منافق کی پہچان آسان نہیں۔ منافق بھی ہماری نمازوں میں شامل ہوتے ہیں، روزوں میں شامل ہوتے ہیں، درسوں میں آتے ہیں، ان کی آنکھ، ناک اور چہروں سے کوئی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ یہ منافق ہیں مگر انہی لوگوں میں وہ لوگ بھی ہیں جن کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایسا ڈائنا میٹ بھراہؤا ہے اور وہ ایسی قربانیاں کرسکتے ہیں کہ وقت آنے پر دنیا حیران ہوجائے گی کہ ان گڈریوں میں کیسے سپہ سالار تھے جنہیں کوئی نہ دیکھ سکا۔
حضرت عبدالرحمن ؓ بن عوف کا ذکر میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ جنگ بدر میں ان کے دائیں بھی اور بائیں بھی دو انصاری لڑکے کھڑئے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ جب میں نے اُن کو دیکھا تو مجھے حسرت ہوئی کہ آج موقع تھا کہ کُفّار سے اُس بے حرمتی کا کچھ بدلہ لیتا جو وہ رسول کریم ﷺ کی کرتے رہے ہیں مگر آج میرے دونوںطرف دو نَوعمر اور کمزور لڑکے ہیں اور وہ بھی انصاری۔ انصار لڑائی کیلئے اچھے نہیں سمجھے جاتے تھے وہ زراعت میں ماہر سمجھے جاتے تھے مگر لڑائی میں نہیں۔ پس اُن کودیکھ کر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ میںنے خیال کیا کہ میں آج کیا لڑوں گا لیکن مَیں ابھی یہ خیال ہی کررہا تھا کہ مجھے ایک طرف سے کُہنی لگی ۔ مَیں اُس طرف متوجہ ہؤا تو اُس طرف کھڑے ہوئے لڑکے نے میرے کان کے پاس منہ کرکے دریافت کیا کہ چچا! لشکرکفار میں سے ابوجہل کون ہے؟ سناہے کہ وہ رسول کریم ﷺکو بہت دُکھ دیتا رہا ہے، میرا دل چاہتا ہے کہ آج اُسے قتل کروں۔ حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مَیں تجربہ کار فوجی تھا مگر یہ خیال میرے دل میں بھی نہیں آیا تھا کہ میں ابوجہل کو قتل کرسکتاہوں کیونکہ وہ بہادروں کے دائرہ کے اندر تھا اور اُس تک پہنچنا دشوار تھا لیکن میں نے ابھی اس لڑکے کے سوال کاجواب بھی نہیں دیا تھا کہ دوسری طرف سے مجھے کُہنی لگی اور دوسری طرف کے لڑکے نے بھی میرے کان کے ساتھ منہ لگا کر دریافت کیا کہ ابوجہل کون ہے؟ میرا دل چاہتا ہے اُسے قتل کروں۔ دونوں نے اس طرح آہستگی سے اس لئے دریافت کیا تھا کہ دوسرانہ سُن سکے۔ حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھے اُن کی جرأت پر حیرت ہوئی اور میں نے انگلی سے اشارہ کرکے بتایا کہ ابوجہل وہ ہے جو سپاہیوں کے حلقہ میں کھڑا ہے۔ وہ خُود اور زِرہ بکتر پہنے ہوئے تھا اور دو طاقتور فوجی افسر اُس کے آگے ننگی تلوار لئے ہوئے پہرہ کیلئے کھڑے تھے لیکن جونہی میں نے انگلی سے اشارہ کیا وہ لڑکے بعینہٖ اسی طرح جس طرح ایک عقاب چڑیا پر حملہ کرنے کیلئے لپکتا ہے آگے بڑھے اور دشمنوں کو چِیرتے ہوئے اُس پر حملہ آور ہوئے اور قبل اس کے کہ اس کے پہریدار سنبھلنے پاتے انہوںنے ابوجہل کو زخمی کرکے گرادیا ؎ ۴ ۔ تو وہ لڑکے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے پاس کھڑے تھے مگر وہ نہیںجانتے تھے کہ ان کے اندرایسی زبردست ایمانی طاقت ہے۔ اِسی طرح اِس مجلس میں ایسے لوگ ہیں جن کی ایمانی طاقت کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا لیکن جُوںجُوں قربانیوں کاوقت آئے گا وہ ظاہر ہوتے جائیں گے اور قربانیوں کے وقت ہی منافق بھی ظاہر ہوں گے۔ جب قربانی کا وقت آتا ہے تو منافق کہتا ہے کہ ہم کہاں تک بوجھ اُٹھائیں لیکن مؤمن خوش ہوتا ہے کہ کیا اچھا موقع اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔
پس اِس بات سے مت گھبرائو کہ یہ کام کیونکر ہوگا وہ زمانہ بالکل قریب ہے جب خدا دشمن کو ایسی شکست دے گا کہ وہ سر نہیں اُٹھاسکے گا مگر اِس کیلئے تمہیں انہی راستوں سے گزرنا ہوگا جن پر سے انبیاء کی جماعتیں گزری ہیں۔ مؤمن اپنے اور اپنے عزیزوں کے خون سے گزر کرہی خدا کے عرش پر پہنچتا ہے۔ پس یہ یقین رکھو کہ یہ کام ہوسکتا ہے اور اس میں کوئی غیرمعمولی توقّف بھی نہیں۔ صرف اُس وقت کا انتظار ہے کہ ہماری قربانیاں اس حد تک پہنچ جائیں جس تک پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی نصرت آتی ہے۔ جب وہ وقت آئے گا تمہارے جاہل کہلانے والے نوجوان دنیا کے علماء کے دلوں کو فتح کرکے انہیں اسلام کی غلامی میں داخل کردیں گے اور دنیا میں اسلام ہی اسلام پھیل جائے گا۔
اِس موقع پر میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ـ’الفضل‘ میں کچھ اشعار چھپتے رہے ہیں جن کی ردیف درد ہے ۔ ایک رات مَیں سویا ہؤا تھا کہ اسی وزن میںمیری زبان پر ایک مصرعہ جاری ہؤا جو یہ ہے کہ ؎
درد ہی اُس نے بنایا ہے نشانِ اہلِ درد
اور اِس کا مطلب مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ ہر چیز کی کوئی علامت ہوتی ہے ۔ آگ کی علامت دُھواں ہے ، سورج کی علامت روشنی ہے، جسم میں ورم ہو تو بخار ہوجاتا ہے اور طبیب سمجھ لیتا ہے لیکن درد کی علامت کوئی شَے نہیں بلکہ درد ہی درد کی علامت ہے۔ اگر کوئی شخص یونہی شکایت کرنے لگے کہ مجھے درد ہے تو بظاہر ایسی کوئی علامت نہیں جس سے ہم پتہ لگاسکیں کہ اسے درد ہے یا نہیں سوائے اِس کے کہ اُس کی درد والی حالت سے اندازہ لگائیں۔
پس اِس مصرعہ کامطلب یہ ہے کہ جب تم کسی کے اندر درد کی حقیقت پائو تو سمجھ لو کہ اس کے اندر درد ہے ورنہ زبانی کہنے سے کچھ نہیں بنتا۔ کسی کے اگر سرمیں درد ہو تو وہ گو چھپائے بھی مگر پتہ لگ جاتا ہے کہ اسے درد ہے۔ تو اِس مصرعہ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جس کے دل میں عشق ہو وہ چھُپ نہیں سکتا اور اُس کے رگ و ریشہ سے اس کے آثار ظاہرہوجاتے ہیں۔ اسی طرح مومن بھی ظاہری شکلوں سے نہیں بلکہ اپنی حالت سے پہچانے جاتے ہیں ان کے اعمال خود بتادیتے ہیں کہ ان کے دل میں درد ہے ورنہ منہ سے تو ہر شخص کہہ سکتا ہے لیکن جب درد پیدا ہوجائے تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھوڑے ہی عرصہ میں اس کے آثار چہرے پر نظر آنے لگتے ہیں۔ پس مؤمن کی پہچان کیلئے زبانی دعووں کی ضرورت نہیں ہوتی زبانی دعوے تو منافق بھی کرسکتا ہے لیکن مؤمن کو حقیقت خود مشخّص کرکے دکھادیتی ہے۔
دوسری بات مَیں آج یہ کہنی چاہتا ہوں کہ ہمارے مخالفوں نے اب ایک فتنہ کا نیا طریقہ ایجاد کیا ہے کہ وہ اخبار میں جھوٹی رپورٹیں شائع کرتے ہیں جو سَر تا پاجھوٹی ہوتی ہیں اور جن میں سے ہزارواں حصہ بھی صحیح نہیں ہوتا۔ اس سے ان کی غرض ہوتی ہے کہ جس شخص کے متعلق وہ خبر ہوگی اس کے متعلق خیال کرلیاجائے گا کہ اس میں کچھ نہ کچھ نقص تو ضرور ہوگا۔ چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ چونکہ ہمارے دوست عام طو رپر اس چال سے واقف نہیں ہیں وہ دھوکے میں آکر خیال کرلیتے ہیں کہ جس کے متعلق یہ بات کہی گئی ہے ضرور ہے کہ اس میں کچھ نہ کچھ نِفاق ہوگا حالانکہ یہ رپورٹیں سرتا پا غلط ہوتی ہیں۔ اَوروں کا تو کیا کہنا ہے چند دن ہوئے خود میرے متعلق احرار کے ایک اخبار میں لکھا ہؤا تھا کہ صدرانجمن احمدیہ کے دفتر میں ایک میٹنگ ہوئی اور پھر میاں بشیر احمد صاحب اس کی کارروائی لے کر میرے پاس آئے حالانکہ یہ واقعہ سرتا پا غلط تھا۔ نہ کوئی ایسی میٹنگ ہوئی اور نہ میاں بشیر احمد صاحب اس کی کارروائی لے کر میرے پاس آئے۔ تو یہ لوگ ا س طرح کی بے سروپا باتیں لکھتے رہتے ہیں اورا ن کے ذریعے سے جماعت میں بے چینی پھیلانا چاہتے ہیں اور بھائی کو بھائی سے بدظن کرنا چاہتے ہیں ۔ ان میں سے بعض تو سرتا پا غلط ہوتی ہیں اور بعض میں ایک معمولی سی بات صحیح ہوتی ہے اور باقی جھوٹ مِلالیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ صحیح ہؤا کہ زید اور بکر ایک جگہ ملے اور آگے یہ جھوٹ ملادیا کہ انہوں نے فلاں کو گالیاں دیں۔ ہمارے بعض دوستوں میں یہ مرض ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ غیر کا اخبار پڑھنا ضروری ہے حالانکہ جنہوں نے نگرانی کرنی ہے یا جواب دینا ہے انہوں نے تو پڑھنا ہی ہے باقیوں کوکیا ضرورت ہے کہ وہ گالیوں کو پڑھیں۔
میں نے کئی دفعہ سنا یا ہے کہ ایک دفعہ لاہور میں آریوں کا ایک جلسہ تھا جس میں جماعت احمدیہ کا ایک وفد شامل ہؤا جس کے امیر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل تھے۔ اس جلسہ میں آریوں نے رسول کریم ﷺ کو بہت گالیاں دیں اور ہمارے دوست وہاں بیٹھے رہے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سخت ناراض ہوئے کہ آپ لوگ وہاں کیوں بیٹھے رہے؟ پس جن کیلئے مجبوری ہے مثلاً ایڈیٹر ہوئے یا نیشنل لیگ کے افسر یا دعوت وتبلیغ والے ان کا تو کا م ہے دوسرا اگر پڑھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں گالیوں کو پڑھ کر درد نہیں ہوتا ورنہ کون ہے جو خود اپنے آپ کو خنجر مارے۔ ان باتوں کے پڑھنے سے بعض دفعہ آپس میں بدظنّیاں شروع ہوجاتی ہیں۔
کچھ عرصہ ہؤا بعض منافقوں نے یہ کام شروع کیا تھا کہ بعض لوگ لگادیئے جو روزانہ مجھے رپورٹیں بھیجتے تھے کہ میاں بشیر احمد صاحب فلاں جگہ یہ کہہ رہے تھے، خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب یہ شکوہ کرتے تھے، چوہدری فتح محمد صاحب یہ شکایت بیان کرتے تھے اور اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ میں ان سب سے بدگمان ہوجائوں۔ مگر جب یہ کرتے کرتے تھک گئے اور دیکھ لیا کہ مَیں ان رپورٹوں پرکسی کو بھی منافق نہیں سمجھتا تو اب یہ طریق اختیار کیا ہے کہ جماعت کے لوگوں کو آپس میں لڑائیں اور مخلصین کے دلوں میں شک پیدا ہو کہ فلاں آدمی ایسا ہے اور فلاں ایسا ہے اور خیال کرلیں کہ اس میں سے کچھ تو ضرور سچ ہوگا حالانکہ یہ سب باتیں جھوٹی ہوتی ہیں۔ پس اوّل تو مجھے سمجھ ہی نہیں آتی کہ دوستوں کو گالیاں پڑھنے کا کیا شوق ہے اور پھر جو پڑھیں ان کو بدظنی کی ضرورت نہیں۔
تیسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ میں نے جو ایک گزشتہ خطبہ میں کہاتھا کہ بعض حُکّام کا رویہ ہمارے متعلق اچھا نہیں اور اطمینان بخش نہیں اس سے ہرگز دفعہ ۱۴۴ کا منسوخ ہونا مراد نہ تھا۔ بعض دوست جب ایک طرف یہ سنتے ہیں اور دوسری طرف یہ کہ حکومت نے دفعہ ۱۴۴ واپس لے لی تو وہ دونوں باتوں کو مِلا کر سمجھ لیتے ہیں کہ میں نے جو کہا تھا وہ بھی شاید اسی کے متعلق ہے حالانکہ میں نے جو کچھ کہا تھا وہ اور بِناء پر کہا تھا احرار کا یہ پروپیگنڈا بالکل غلط ہے۔ دفعہ ۱۴۴ کہیں بھی ساری عمر کیلئے نہیں لگائی جاتی یہ توہوتی ہی دو ماہ کیلئے ہے۔ اور اس کے اختتام پر یہ شور مچانا کہ حکومت کو شکست ہوگئی ہے او رہماری فتح ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی ڈاکٹر کسی شخص سے کہے کہ تم مریض ہو ہسپتال میں داخل ہوجائو اور پھر اس کے صحت یاب ہونے پر اُسے ڈسچارج کردے تو لوگ شور مچانے لگیں کہ ڈاکٹر جھوٹ بولتا تھا کہ یہ بیمار ہے یہ شخص تو ہسپتا ل سے اچھا بھلا باہر نکلا ہے۔ کوئی ظالم سے ظالم گورنمنٹ بھی دفعہ ۱۴۴ کبھی عمر بھر کیلئے نہیں لگایا کرتی یہ لوگ ایسی باتیں کرکے دراصل لوگوں کوبیوقوف بناتے ہیں۔ ان کا طریق ہی یہ ہے کہ اپنے ساتھیوں کو احمق بنائیں ورنہ دفعہ ۱۴۴ کبھی ہمیشہ کیلئے نہیں لگا کرتی۔ کانگرس پر یہ دفعہ سینکڑوں مرتبہ لگائی گئی اور پھر ضرورت یا میعاد ختم ہوجانے پرمنسوخ کردی گئی۔ حکومت کو جہاں کوئی خطرہ ہوتا ہے وہاں یہ دفعہ لگادیتی ہے اور جب خطرہ کم ہوجائے تو واپس لے لیتی ہے۔ شہید گنج کا واقعہ جب لاہور میں ہؤا تو حکومت نے یہ دفعہ لگادی اور جب جوش ٹھنڈا ہوگیا تو واپس لے لی۔ اب پھر جو فساد ہؤا تو پھر لگادی۔ پس قادیان میں اس کی منسوخی سے یہ نتیجہ نکالنا کہ حکومت کو شکست ہوگئی یا یہ کہ اب وہ احمدیوں کی دشمن ہوگئی ہے بالکل غلط ہے۔ اس طرح تو مولوی عطاء اللہ صاحب جب چار ماہ کی قید کاٹ کر آئیں گے تو وہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حکومت نے شکست مان لی اور ہتھیار ڈال دیئے حالانکہ سزا ہی چار ماہ کی ہے اس کے بعد ایک دن بھی حکومت انہیں قید میں نہیں رکھ سکتی۔ اسی طرح دفعہ ۱۴۴ اور ۳۳۔ امینڈمنٹ ایکٹ بھی ضرورت کے ماتحت ہوتا ہے جب اس کی ضرورت نہ رہے تو اسے واپس لے لیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اس قسم کے پروپیگنڈے سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ احرار جیت گئے حالانکہ اِس دفعہ نے تو بہرحال منسوخ ہوجانا تھا جس طرح کہ چار ماہ پورے ہونے کے بعد حکومت مجبور ہے کہ مولوی عطاء اللہ صاحب کو چھوڑ دے۔ اسی طرح اس دفعہ کی واپسی کا یہ مطلب ہے کہ اب حکومت کو ایسا اندیشہ نہیں رہا۔ ایک وقت لوگوں میں جوش ہوتا ہے اُس وقت حکومت بھی ضروری تدابیر اختیار کرتی ہے پھر وہ جوش ٹھنڈا ہوجاتا ہے تو ان کی ضرورت نہیں رہتی۔ اسی سلسلہ میں یہ لوگ مشہور کررہے ہیں کہ احمدیوں نے تو بہت ناک رگڑی کہ حکومت اسے جاری رکھے مگر حکومت نے نہ مانا حالانکہ یہ بھی سراسر جھوٹ ہے۔ میں تو حیران ہوتا ہوں کہ جو افسر حالات سے واقف ہیں وہ ان کے جھوٹ پر اپنے دلوں میں کیا کہتے ہوں گے وہ ضرور ہنستے ہوں گے۔ اب میں بتاتا ہوں کہ یہ الزام کس قدر غلط ہے اور اب اِس کے چھُپانے کی بھی ضرورت نہیں۔ جن دنوں یہ گرفتاریاں ہورہی تھیں میں نے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو مسٹر پکل چیف سیکرٹری کے پاس بھیجا کہ ہماری یہ خواہش نہیں کہ ہر احراری کو اِس پروپیگنڈا کے ماتحت گرفتار کیا جائے۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ لوگ ہمارا قانون توڑتے ہیں اِس لئے ہم انہیں گرفتار کرتے ہیں آپ کا اِس سے تعلق نہیں۔ اب وہ افسر جن کو میرا یہ پیغام پہنچا ہے وہ ان لوگوں کے پروپیگنڈا کو دیکھ کر اپنے دل میں ضرور ہنستے ہوں گے اور حیران ہوتے ہوں گے کہ یہ لوگ کس قدر جھوٹے ہیں۔ بہرحال ان کے اس پروپیگنڈا سے ہمارا تو فائدہ ہی ہے افسر سمجھتے ہوں گے کہ یہ لوگ کس قدر جھوٹے ہیں۔ ہمارا مطلب تو صرف یہ تھا کہ یہاں آکر یہ لوگ فساد نہ کریں اور فساد کوروکنا ہر حکومت کا فرض ہے اور بعض ٹٹ پونجئے ؎۵ اگر قادیان میں آ بھی جائیں یا کسی لیڈر کے آنے پر سَو،پچاس آدمی جو قادیان کے ہیں ان کے گِرد جمع ہوجائیں تو اس سے شورش کا کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔ پس یہ امر واقعہ ہے کہ میں نے خود شیخ صاحب کو بھیجا کہ ہماری طرف سے ہرگز یہ مطالبہ نہیں کہ کوئی غیراحمدی قادیان نہ آسکے ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ قادیان کو فساد کامقام نہ بننے دیا جائے یا اِس جگہ شرارت آمیز مظاہرے نہ ہوں۔ اِس پر چیف سیکرٹری نے جواب دیا کہ ہمارے ڈپٹی کمشنر نے ایک قانون نافذ کیا ہے جب تک وہ قانون نافذ ہے اِس کے توڑنے والے سزا کے مستحق ہیں جب وہ قانون واپس لے لیا جائے گا وہ نہ پکڑے جائیںگے۔ لیکن یہ لوگ مشہور کررہے ہیں کہ ہم نے ناک رگڑی کہ یہ دفعہ واپس نہ لی جائے۔ پس دوستوں کویاد رکھناچاہئے کہ اِس دفعہ کے منسوخ کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حکومت نے ہم سے دشمنی کی ہے۔ جب حُکّام ہماری مخالفت کرتے ہیں مَیں صاف کہہ دیتاہوں اور جو مخالفت ہوتی ہے اُسے مَیں خوب جانتا ہوں اور جب ضرورت ہوتی ہے اسے ظاہر کردیتا ہوں اور دنیا جانتی ہے کہ میں اس کے اظہار میں کسی سے دبنے والا نہیں ہوں لیکن یہ کارروائی نہ ہماری مخالفت کی وجہ سے ہے او رنہ ہی یہ حکومت کی شکست ہے قانون کے مطابق حکومت کو یہی کرنا چاہئے تھا جو اُس نے کیا۔ پس دوست ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ یہ دفعہ واپس لے کر حکومت نے ہمارے ساتھ دشمنی کی ہے اس نے قانون کے عین مطابق کیا ہے۔ ہاں جن باتوں میں ہمیں حکومت سے شکایت ہے وہ اب بھی موجود ہیں مگر وہ علیحدہ ہیں اس لئے دوستوں کوایسے پروپیگنڈا سے ہرگز متأثر نہیں ہونا چاہئے۔ مؤمن بِلا وجہ کبھی کسی پر الزام نہیں لگاتا ہم نہ حکومت پر الزام لگاتے ہیں نہ احرار پر۔ ہاں جو بھی غلطی کرے گا اس کا اظہار ضرور کردیں گے اور اس معاملہ میںہم کسی فوج یا حکومت سے نہیں ڈریں گے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ اچھی بات کو بھی ضرور ظاہر کردیں گے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ بُری بات کو چھپا لیں۔ اگر کوئی غلطی کرتا ہے تو دیکھیں گے کہ اس کاچھپانا بہتر ہے یا ظاہر کرنا اور پھر جو قیامِ امن کے مناسب ہوگا وہ کریں گے لیکن اچھی بات کو ظاہر کرنے سے ہم نہیں رہ سکتے۔ پس اِس پروپیگنڈا سے بھی مَیں جماعت کو خبردار کرتا ہوں اور اس سے بھی جو ’’مجاہد‘‘ میں جماعت کے بعض دوستوں کے متعلق کیاجارہا ہے اس سے بھی ہرگز متأثر نہیں ہونا چاہئے کہ وہ بھی بالکل جھوٹ ہے۔ یہ صحیح ہے کہ جماعت میں بعض منافق ہیں مگر میں اُن کو خوب جانتا ہوں اور اگر ضرورت ہوئی تو ظاہربھی کردوں گا مگر وہ لوگ مخلصین کو منافق ظاہر کرتے ہیں اور یہ بالکل غلط ہے۔ اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ دفعہ ۱۴۴ کو منسوخ کرنے میں حکومت نے ہم سے دشمنی کی ہے اور احرار سے دوستی۔ اِس میں شک نہیں کہ بعض حُکّام اب بھی ہمارے خلاف ہیں ان کی مخالفتیں میں نے بہت سی ظاہر کردی ہیں اور باقی بھی وقت آنے پر ظاہر کردوں گا مگر اس کارروائی میں ہماری کوئی مخالفت نہیں اور نہ ہی یہ حکومت کی شکست ہے۔ دفعہ ۱۴۴ اور ۳۳۔ امینڈمنٹ ایکٹ کی واپسی کے متعلق ہمیں حکومت سے کوئی شکایت نہیں اس نے جو کیا ہے درست کیا ہے جہاں وہ ہماری مخالفت کرے گی ہم فوراً ظاہر کردیں گے اور نہ قید سے ڈریں گے اور نہ پھانسی سے کہ ہم سے بہت بڑے بڑے لوگ قید بھی ہوئے اور پھانسی پر بھی لٹکائے گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خداتعالیٰ کے نبی تھے مگر پھانسی پر لٹکائے گئے اور حضرت یوسفؑ کو قید کیا گیا پس جو ڈرتا ہے وہ مؤمن ہو ہی نہیں سکتا۔ مؤمن حق کے بیان کرنے میں نڈر ہوتا ہے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اگرکسی سے اختلاف ہو تو اس کی نیکیوں کو بھی عیب ظاہر کیا جائے اور عیب کو بھی عیب۔ ہمیں حکومت سے اختلاف ہے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے جائز افعال کو بھی بُرا کہیں۔ پس دوست احراریوں کے پروپیگنڈا سے ہوشیار رہیں کیونکہ ایک طرف تووہ بِلاوجہ جماعت کو مایوس کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
آخر میں مَیں پھر یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ خواہ نخواہ ان کے لٹریچر کو بھی پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ میں نے سنا ہے کہ ان کے پندرہ بیس پرچے روزانہ یہاں بِک جاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے دوست چار سَو روپیہ سالانہ کی امداد کُفر کودیتے ہیں۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ چار سَو روپے خرچ کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دِلوائو؟ پس جب عملی طور پر آپ لوگوں نے ان کے جھوٹ کو دیکھ لیا ہے تو ان کے پرچوں کو پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ باقی دشمن سے بھی غلط بات کبھی منسوب نہ کرو ہمیشہ سچی بات کرو۔ ہم نے دنیا کو جھوٹ سے نہیں بلکہ اخلاق سے فتح کرنا ہے۔ پس تم اپنی ترقیوں کی بنیاد سچائی اور تقویٰ پر رکھو اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو اور یاد رکھو کہ وہ ہمیشہ متقیوں کا ہی ساتھ دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات سے پتہ لگتا ہے کہ فتح ہماری ہے اور جس طرح ہائی کورٹ سے ڈگری حاصل ہوجانے کے بعد کوئی نہیں گھبراتا اسی طرح تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ شہید گنج ایجی ٹیشن شروع ہوئی تو حکومت نے کہہ دیا کہ ہائیکورٹ نے سکھوں کے حق میں فیصلہ کیا ہؤا ہے تم اِس فیصلہ کو بدلوالو ہم تمہیں دلادیں گے۔ پس کیا تمہیں خدا کے فیصلہ پراتنا بھی اعتماد نہیں جتنا ہائی کورٹ کے فیصلہ پر ہوتا ہے اوریہ خدا کا فیصلہ ہے کہ دنیا ہمارے ہاتھ پرفتح ہوگی۔ پس کوئی خواہ چِیں کرے یا پِیں ، دنیا اسلام کے نام پر ہمارے ہاتھوں فتح ہوگی اور جو لوگ آج مخالف ہیں کَل اسلام اور احمدیت کی صداقت کے قائل ہوکر اسلام اور احمدیت کی شان کے بڑھانے والے ہوں گے۔ وَاللّٰہُ عَلٰی مَااَقُوْلُ شَہِیْدٌ۔
(الفضل ۲۳؍جنوری ۱۹۳۶ئ)
؎۱ النسائ: ۱۰۳
؎ ۲ جامع الصغیر للسیوطی صفحہ ۷ مطبوعہ مصر ۱۳۲۱ھ میں یہ الفاظ ہیں اتقوا مواضع التھم
؎۳ المائدۃ: ۲۵
؎۴ بخاری کتاب المغازی باب فضل من شہد بدرا
؎۵ ٹٹ پونجئے: تھوڑی پونجی یا سرمائے والا


۴
اگر دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کرنا چاہتے ہو تو خلیفۂ وقت
کی اسی طرح کامل اطاعت کرو جس طرح دماغ کی تمام
اعضاء کرتے ہیں
(فرمودہ ۲۴؍جنوری۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
تحریک جدید میں سے ایک جُزو اپنے ہاتھ سے کام کرنا ہے۔ میں ان خطبات میں جو اِس سال کی تحریک جدید کے متعلق دے چکا ہوں غالباً اِس کا ذکرکئی موقعوں پر کرچکا ہوں مگر پھر بھی میں سمجھتا ہوں ابھی یہ مضمون بہت کچھ وضاحت اور تحریک کا مستحق ہے۔ سال ہوگیا جب سے میں نے یہ تحریک کی ہے بلکہ سال کیا اب تو چودہ مہینے ہونے لگے ہیں لیکن باوجود اِس کے کہ میری اِس تحریک پر چودہ مہینے گزرچکے ہیں اور باوجود اِس کے کہ میں نے کہا تھا اس کی مثال قائم کرنے کیلئے تمام چھوٹے بڑے افراد کو اجتماعی طور پر اپنے ہاتھ سے کام کرنے چاہئیں تا دوستوں کیلئے محرّک اور نمونہ ہو، صدر انجمن احمدیہ نے اس قسم کا کوئی کام نہیں کیا حالانکہ کام کرنے کے کئی مواقع بہم پہنچتے رہے ہیں۔ دنیا میں ہر کام نمونہ چاہتا ہے کہنے والا اگر منہ سے ایک بات کہہ دیتا ہے لیکن عمل اس کے خلاف ہوتا ہے تو طبائع پر اچھا اثر نہیں پڑتا اور دنیا میں کام اتنی انواع کے ہؤا کرتے ہیں کہ ان میں سے بہت سے کام دوسرا شخص نہیں دیکھ سکتا۔ مثلاً ہاتھ سے کام کرنا ہے اس میں تحریر بھی شامل ہے اور تحریر کرنے والا بسااوقات اپنے گھر میں کام کرتا ہے جبکہ دوسرے لوگ اُسے نہیں دیکھ سکتے۔ میں اگر رات کوبارہ یا ایک بجے تک کام کرتا رہوں تو کسی کوکیا پتہ ہے کہ میں نے کوئی کام کیا ہے۔ جو شخص نو بجے چارپائی پر لیٹ جاتا ہے وہ یہ سمجھ کر لیٹتا ہے کہ اب ساری دنیالیٹ گئی ہوگی، جو شخص دس بجے چارپائی پر لیٹتا ہے وہ یہ سمجھ کر لیٹتا ہے کہ دس بجے سب لوگ سوگئے ہوں گے، جو شخص گیارہ بجے سوتا ہے وہ یہ خیال کرکے سوتا ہے کہ باقی دنیا بھی اب سورہی ہوگی اور جو بارہ بجے لیٹتا ہے وہ یہ سمجھتاہے کہ اب آدھی رات گزرچکی ہے اب تو کوئی شخص کام نہیں کررہا ہوگا۔ وہ کیا جانتا ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اِس وقت بھی کام میں مشغول ہیں۔ کہتے ہیں ’’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘‘۔ جو چیز آنکھ سے اوجھل ہو اُس کے درمیان ایک پہاڑ حائل ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسان اس کے متعلق صحیح رائے قائم نہیں کرسکتا اور اگر کرے تو اُسے اپنے اوپر قیاس کرتا ہے۔ جو شخص چار گھنٹے کام کرتا ہے وہ سمجھ لیتا ہے کہ چار گھنٹوںسے زیادہ کسی نے کیا کام کرنا ہے اور جو شخص پانچ گھنٹے کام کرتا ہے وہ سمجھ لیتا ہے کہ پانچ گھنٹوں سے زیادہ کسی نے کیا کام کرنا ہے یہ منافقت نہیں بلکہ اس کی طرف سے حقیقت کا اظہارہوتا ہے اور یہ باتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ دنیا میں ایسے کام بھی کرنے چاہئیں جو لوگوں کے سامنے آنے والے ہوں۔ اس طرح وہ لوگ جن کی نظروں سے کام اوجھل ہوتا ہے اور وہ سُستی کرتے ہیں اپنے سے بڑے آدمیوں کو کام کرتے ہوئے دیکھ کر چُست ہو جاتے ہیں۔
میں نے کئی دفعہ اسلامی زمانہ کا ایک واقعہ سنایا ہے کہ خلافت عباسیہ کے دَور میں کوئی مزیّن تھا جسے کسی امیر نے خوش ہوکر پانچ سَو اشرفیاں انعام دے دیں۔ جب اُسے اشرفیاں ملیں تو اشرفیاں لیتے ہی اُس نے خیال کرلیا کہ اب دنیا میں کوئی غریب نہیں رہا۔ چونکہ وہ امراء کا نائی تھا اور اشرفیوں کے چوری ہونے کا اُسے کوئی خطرہ نہ تھا اس لئے وہ جہاں تزئین کرنے جاتا اشرفیوں کی تھیلی بھی لے جاتا اور اُسے اُچھالتا پھرتا۔ امراء کو یہ دیکھ کر مذاق سُوجھا۔ جب کسی کے پاس جاتا وہ پوچھتا میاں مزیّن! شہر کا کیاحال ہے؟ وہ کہتا شہر کا اتنا اچھا حال ہے کہ کوئی کمبخت ایسا نہیں ہوگا جس کے پاس پانچ سَو اشرفیاں بھی نہ ہوں۔ اِسی طرح روز اُس سے مذاق ہوتا۔ ایک دن کسی امیر کو جو مزاح سُوجھا اُس نے چپکے سے وہ تھیلی کھسکا کر اپنے پاس رکھ لی چونکہ حجام کو یہ خطرہ نہیں تھا کہ یہاں سے تھیلی چُرائی جاسکتی ہے اِس لئے اُس وقت تو اُس نے خیال نہ کیا مگر گھر جاکر جو چیزیں دیکھیں تو اشرفیوں کی تھیلی گُم پائی۔ اِس کا اُسے اتنا صدمہ ہؤا کہ بیمار ہوگیا۔ وہ امراء جن کو حال معلوم تھا جب اُس سے پوچھتے کہ میاں! بتائو اب شہر کا کیا حال ہے؟ تو وہ کہتا شہر کنگال ہوگیا ہے، دنیا بھوکی مررہی ہے آخرجس نے وہ تھیلی چھپائی تھی اُس نے لاکر اس کے سامنے رکھ دی اور کہا شہر کو بھُوکا نہ مارو تم اپنی تھیلی لے لو۔ تو انسان کی عادت ہے کہ وہ دوسروں کا قیاس اپنے اوپر کرتا ہے۔ چور اِسی خیال میںرہتا ہے کہ ساری دنیا چور ہے، ایک جھوٹا یہی سمجھتا ہے کہ ساری دنیا جھوٹی ہے، ایک فاسق و فاجر یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ دنیا میں نیک لوگ بھی ہوتے ہیں۔ایک نکمّا اور بیکار شخص یہ نہیں جانتا کہ دنیا میں کام کرنے والے لوگ بھی ہیں وہ سب کو نکمّا اوربیکار خیال کرتا ہے۔ غرض دیواروں کے پیچھے کام کرنے والے کتنا ہی شاندار کام کریں، کتنی محنت اور سرگرمی سے حصہ لیں ، کتنا وقت خرچ کریں پھر بھی ایک نکمّے شخص کی نگاہ میں سب دنیا نکمّی ہوگی اور جب اُسے کسی کام کیلئے کہا جائے گا وہ کہے گا ہم نے سب دیکھے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے آدمی بھی نکمّے بیٹھے رہتے ہیں نہ کام کرتے ہیں نہ کار، مُفت میں تنخواہیں لیتے ہیں ۔ تو کچھ کام ظاہر ہونے چاہئیں اور کچھ نہ کچھ لوگوں کے سامنے نمونہ ہونا چاہئے اس سے اُ ن کو تحریک ہوجاتی ہے اور وہ بھی اپنے ہاتھ سے کام کرناکوئی عار نہیں سمجھتے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانہ میںایک زمیندار شخص جس نے کبھی شہرنہیں دیکھا تھا اور نہ شہری تمدّن سے واقف تھا ریاست کپورتھلہ کا رہنے والا تھا، ایک دفعہ یہاں آیا اور پھر لاہور اور امرتسرجانے کا اسے جو موقع ملا تو شہری زندگی دیکھ کر ایک دم اُس کی کایا پلٹ گئی اور اُس کے دل میں یہ شوق سمایا کہ میں شہری طرزِ رہائش اختیار کروں۔ چنانچہ یہ جنون اُس میں یہاں تک بڑھاکہ وہ سیکنڈ کلاس کے بغیر ریل میں سفر نہیں کرتا تھا اور حالت یہ ہوگئی کہ جب وہ لاہو رکے سٹیشن پر اُترتا تو رومال یا چھتری قُلی کو دے دیتا اور کہتا میرے پیچھے پیچھے چلے آئو۔ حضرت خلیفۃ اوّل نے ایک دفعہ اُس سے پوچھا کہ تم یہ کیا کرتے ہو رومال اور چھتری تک خود اُٹھا نہیں سکتے اور قُلی کو دے دیتے ہو؟ کہنے لگا یہ فیشن ہے اگر قُلی ساتھ نہ ہو تو انسان معزز نہیں سمجھا جاتا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ اُس کی ساری جائداد گِرو پڑی پھر اس کے بعد اُس نے جائداد بیچ ڈالی، پھر اپنی بوڑھی ماں کو مار پیٹ کر اُس کا زیور بیچ ڈالا اور جب اِس طرح بھی کام نہ چلا تو عیسائی ہوگیا چنانچہ وہ اب تک عیسائی ہے حالانکہ اِس سے پہلے وہ ایک سیدھا سادھا نیک طبع نوجوان تھا۔ اُس کاایک لطیفہ مشہور ہے اُس نے ہمارا باغ ایک دفعہ ٹھیکے پر لیا۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی بات ہے۔ ایک لڑکا جو بورڈنگ میں رہا کرتا تھا اب تو بہت نیک اور مخلص احمدی ہے لیکن اُس وقت بڑا شوخ مزاج ہوتا تھا۔ اُس نے ایک دو اور لڑکوں کو اپنے ساتھ ملاکر کہا آئو رات کو ہم باغ میں چل کرمیوے کھائیں۔ جب وہ میوے کھانے گئے تو اُس نے انہیں پکڑ لیا۔ باقی دو تو بھاگ گئے مگر یہ قابو آگیا۔ شاید درخت پر تھا اور اُس سے اُتر نہ سکا یا کوئی اور سبب ہؤا بہرحال وہ پکڑ ا گیا۔ جب وہ پکڑا گیا تو اس شخص نے پوچھا بتا تیرا نام کیا ہے؟ اس کے نام میں عطر کالفظ آتا تھا۔ پہلے تو اس نے بتانا چاہا اور اس کے منہ سے عطر نکل گیا پھر رُکا۔ پھر نام بتانے لگا تو عطر کا لفظ نکل گیا۔ مگر پھر اس نے اپنے آپ کو روکا اور چاہا کہ میں کوئی اور نام بتادوں۔ اتفاقاً اس کا ایک دوسرا نام بھی تھا جو غیرمعروف تھا یعنی فضل الدین۔ اور اس کی وجہ سے بعض لوگ اسے فجا کہتے تھے۔ اُس نے آخر اپنا نام فجا بتادیا۔ نام پوچھ کر اس شخص نے اسے چھوڑ دیا۔ جب صبح ہوئی تو وہ بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ کے ایک لڑکے نے رات باغ سے پھل چُرایا ہے؟ انہوںنے پوچھا اُس کا کیانام تھا ؟ وہ کہنے لگا اُس کا نام فجا ہے۔ وہ کہنے لگے اس نام کا تو کوئی لڑکابورڈنگ میں نہیں۔ اُس نے کہا تو پھر سکول میں ہوگا۔ انہوں نے کہاسکول میں بھی فجا نام کا کوئی لڑکانہیں۔ پھر انہوںنے حُلیہ پوچھا تو اُس نے جو حُلیہ بتایا اس سے انہیں شبہ پڑا اور انہوں نے اس لڑکے کا نام لیا۔ تو وہ کہنے لگا یہ نام نہیں اس کا نام فجا ہے۔ وہ کہنے لگے تمہیں کس طرح پتہ ہے کہ اس کانام فجا ہے؟ وہ کہنے لگا اُس نے اپنا نام یہ بتایا تھا کہ عطر عطر فجا۔ وہ کہنے لگے معلوم ہوتا ہے فجا اس نے تمہیں دھوکا دینے کیلئے بتایا ہے ورنہ اصل نام تو اُس کا وہی ہے جو پہلے اس کے منہ سے نکل گیا تھا۔ تو اس قسم کی سادہ طبیعت کا وہ آدمی تھا لیکن بعد میں اِسراف اور اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنے کے نتیجہ میں اُس کا مال گیا، دولت گئی، عزت گئی اور آخر میں مذہب بھی چلا گیا۔ تو ہاتھ سے کام نہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ اس سے بڑی بڑی خرابیاں پیدا ہوجاتیں اور اچھے اچھے خاندان برباد ہوجاتے ہیں پھر اس کے نتیجہ میں غرباء ہمیشہ غربت کی حالت میں رہتے ہیں اور انہیں اپنی حالت میں تغیر پید اکرنے کا موقع نہیں ملتا۔
اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ میں تحریک کرتا ہوں جماعت ساڑے ستائیس ہزار روپیہ دے اور وہ تھوڑے سے عرصہ میں ایک لاکھ سات ہزار روپیہ کا وعدہ کردیتی ہے۔ پھر دوبارہ ایسی حالت میں تحریک کرتاہوں جبکہ جماعت پر اور بوجھ بھی ہیں تو وہ ایک لاکھ پندرہ ہزار روپیہ کا وعدہ کردیتی ہے لیکن جو تحریک اپنے ہاتھ سے کام کرنے کے متعلق ہے اِس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اور جماعت کی پہلی حالت بدستور چلی آتی ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مال کی قربانی اِس قربانی کی نسبت بہت زیادہ آسان ہے اور یہ قربانی کرتے وقت لوگ ہچکچاہٹ محسوس کرتے اور خوشی سے آمادہ نہیں ہوتے۔اِس کانتیجہ مَیں یہ دیکھتا ہوں کہ زندگیاں وقف کرنے والے نوجوان زندگیاں وقف کرتے ہیں وہ اِس دعوے کے ساتھ زندگی وقف کرتے ہیں کہ بھُوکے رہیں گے، پیاسے رہیں گے، پیدل جائیں گے اور ہرقسم کی تکلیف برداشت کرنے کیلئے خوشی سے تیار رہیں گے لیکن جب ہم اُن کی روانگی پر انہیں اپنے پاس سے کچھ خرچ دیتے ہیں تو جھٹ یہ سوال پیدا کردیتے ہیں کہ اتنا خرچ تو کافی نہیں اَور روپیہ چاہئے۔ یہ امر صاف بتاتا ہے کہ انہیں اِسراف اور اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنے کی عادت ہے۔ وہ وطن چھوڑ دیں گے ، اپنے مستقل کو قربان کردیں گے، بیوی بچوں سے جُدا ہوجائیں گے، ماں باپ سے الگ ہوجائیں گے لیکن اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنا اور اِسراف ان کی راہ میں حائل ہوجائے گا اور ان عادتوں کی وجہ سے وہ مختلف قسم کے سوال پیدا کردیں گے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں بہ نسبت اَور امراض کے یہ مرض زیادہ راسخ ہے حالانکہ یہی وہ مرض ہے جس سے قوم میں غداری، فریب اور خیانت کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور جب اس قسم کی عادت پیدا ہوجائے کہ انسان نکمّا بیٹھا رہے اور جو مُفت میں ملے وہ لے لے تو اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن آتا ہے اور اس سے آکر کہتا ہے مجھ سے پانچ روپے لے لو اور احمدیوں کا کوئی راز بتائو یا ان کی فلاں خبر ہمیں لادو اس پر وہ پانچ روپے لے لیتا اور اپنے ایمان کو ضائع کردیتا ہے۔ بالکل ممکن ہے اس نے دس روپے اپنی طرف سے چندہ میں دیئے ہوں لیکن چونکہ اسے نکمّا بیٹھے رہنے کی وجہ سے یہ عادت پڑی ہوئی ہے کہ مُفت کا روپیہ لیتا اور اپنی ضروریات پر خرچ کرتا ہے اس لئے وہ پانچ روپے دیکھ کر انہیں چھوڑ نہیں سکتا، اور وہی انسان جو احمدیت کیلئے اپنی جان قربان کرنے کیلئے تیار تھا، اپناوطن چھوڑنے کیلئے تیار تھا، اپنے بیوی بچوں سے جُدا ہونے کیلئے تیار تھا محض پانچ روپے پر اپنی قوم کو بیچ دینے کیلئے تیار ہوجاتا ہے۔
یہودااسکریوطی کو دیکھو۔ حضرت مسیح علیہ السلام کیلئے وہ سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار تھا اور حواریوں میںوہ خاص عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا لیکن اس نے تیس درہم پر اور وہ بھی کھوٹے تیس درہموں پر کہ اگر وہ کھوٹے نہ ہوتے تب بھی ان کی قیمت آ جکل کے لحاظ سے ساڑھے سات روپے بنتی ہے حضرت مسیح علیہ السلام کوبیچ دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بھی وہی عادت تھی جو آجکل ہمارے بعض نوجوانوں میں پائی جاتی ہے کہ نکمّا بیٹھے رہتے اور مُفت کی کھاتے ہیں اورمُفت کی کھانے کی عادت پیدا ہوتی ہے اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنے کے نتیجہ میں۔
اِس وقت جتنے لوگ ہیں خواہ وہ بڑے ہیں یا چھوٹے سب میرے مخاطب ہیں اور میں ان میں سے بہت کم لوگوں کو مستثنیٰ کرسکتا ہوںبلکہ میں سمجھتا ہوں اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنے کی عادت کے لحاظ سے باوجود اِس کے کہ یہ تعلیم میرے منہ سے نکل رہی ہے میں اپنی اولاد کو بھی مستثنیٰ نہیں کرسکتا۔ وہ بھی اِس بات پر تو تیار ہوجائیں گے کہ سلسلہ کیلئے اپنی جانیں دیں، تبلیغ کیلئے غیرمُلکوں میں نکل جائیں لیکن اپنے ہاتھ سے کام کرنا انہیں دوبھر معلوم ہوگا۔ یہ محض عادت نہ ہونے کی وجہ سے ہے ورنہ اگر انہیں عادت ہوجائے تو اِس کام میں بھی وہ کوئی تکلیف محسوس نہ کریں۔
رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ وہ اِذخر کاٹ کر لاتے اور بیچتے ؎۱ ۔ اِذخر ایک قسم کا گھاس ہوتا ہے اہل عرب میں چونکہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت تھی اس لئے وہ ان کاموں کوبُرا نہیں سمجھتے تھے لیکن ہمارے ملک میں کام کرناعزت کے خلاف سمجھاجاتا ہے۔ جب تک ہم اِس خیال کو دُور نہیں کردیتے جماعت میں سے آوارگی اور جہالت دور نہیں ہوسکتی۔ اور اگر کام کرنے کی روح جماعت میں پیدا کردیں تو جماعت کا ۲۵ فیصد بوجھ اُترسکتا ہے اور جب اس روح کے نتیجہ میں وہ دنیا میں مفید کام کرنے لگ جائیں تو میں سمجھتا ہوں ۲۵ فیصد بوجھ اور اُترسکتا ہے کیونکہ اِس کے نتیجہ میں چندہ دینے والے بہت سے نئے لوگ پیدا ہوجائیں گے۔ غرض اگر اِس وقت ہمارا خرچ کا تین لاکھ سالانہ بجٹ ہوتا ہے تو بیکاروں کا بوجھ ہٹ جانے کی وجہ سے بجٹ سَوادولاکھ پر آجائے گا اور اگر اِس وقت آمد اڑھائی لاکھ ہوتی ہے تو چندہ دینے والوں کی زیادتی سے آمد سَوا تین لاکھ ہوجائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِس وقت قادیان میں ہی پانچ سَو عورتیں مرد ایسے ہیں جو بالکل نکمّے بیٹھے ہیں اور جن کی نظر اِسی طرف رہتی ہے کہ کوئی انہیں دے تو کھالیں۔ ان میں اخلاص ہے، نیکی ہے اگر فاقہ میں بھی انہیں چندہ کی آواز آئے تو وہ اپنے مانگے ہوئے روپیہ میں سے چندہ دینے کیلئے تیار ہوجائیں گے اور خداتعالیٰ کیلئے اسے خرچ کردیں گے پس ان میں اخلاص کی کمی نہیں، کمی صرف تربیت کی ہے۔ کام لینے والوں نے ان سے کام نہیں لیا او رسمجھانے والوں نے انہیں سمجھایا نہیں او رنہ انہیں بتایا ہے کہ کس رنگ میں وہ اپنی عزت بڑھاسکتے ہیں۔ اگر بتاتے تو وہ بھی دوسروں سے پیچھے نہ رہتے۔ گویا وہ قیمتی موتی ہیں مگر افسوس کہ مٹی کے اندر ملے ہوئے ہیں۔ جس طرح ایک گھوڑا جس پر سوار ہوکر انسان مِیلوں میل سفر کرلیتا ہے اگر انسان اُس کے نیچے کھڑاہوکر اُسے اپنے سرپر اُٹھانا چاہے تو وہ اس کی کمر توڑ دے گا اسی طرح یہ قوم کے گھوڑے ہیں مگر بجائے اِس کے کہ ان کے ذریعہ ترقی کی منازل طے کی جاتیں وہ ایسے پتھر بن گئے ہیں جو قوم کے گلے میں پڑے ہوئے ہیں اور جو اسے نیچے ہی نیچے کھینچے لئے جارہے ہیں۔
پس ضروری ہے کہ اس قسم کے کام تمام جماعت مل کر کرے تا مِل کر کام کرنے کی وجہ سے کوئی شخص ہاتھ سے کام کرنا اپنے لئے عار نہ سمجھے۔ میں نے اُس وقت کئی کام بھی بتائے تھے چنانچہ میں نے کہا تھا مہمان خانہ بننے والا ہے سب مل کراس کی تعمیر کردیں لیکن لوگوں کے کانوں پرجُوں تک نہ رینگی اور مہمان خانہ بن گیا۔ پھر میں نے کہا تھا محلوں میں بڑا گند ہوتا ہے غیر لوگ جب دیکھتے ہوں گے تو باہر جاکر کیا کہتے ہوں گے کہ یہ احمدی تقریریں کرتے وقت تو کہتے ہیں قرآن مجید کا حکم ہے صفائی کرو اور گندگی سے بچو لیکن ہم نے ان کے محلے دیکھے ہیں بدبُوکے مارے ان میں سے گزرا نہیں جاتا۔ متعفن نالیاں ہیں، راستوں پر گند پڑا رہتا ہے اور کوئی صفائی نہیں کرتا۔ میں نے توجہ دلائی تھی کہ محلے والے مل کر اس گند کو دُور کریں اور گڑھے وغیرہ پُر کرکے جگہیں ہموار کردیں۔ آخر لوگ روٹیوں کی دعوت کھانے کیلئے جاتے ہیں یا نہیں؟ پھر کیا وجہ ہے کہ اس کام کیلئے لوگوں کو دعوت دی جائے اور وہ نہ آئیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایک دن دارالرحمت والے سارے شہر کی دعوت کردیں اور کہیں آئو سب مل کر ہمارے محلہ کی صفائی کرو، پھر کسی دن دارالفضل والے سب شہر کو بلالیں کہ آئو ہمارے محلہ کی صفائی کردو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ روٹی کی دعوت میں تو ہم جاسکتے ہیں لیکن کام کی دعوت میں ہم نہیں جاسکتے۔ تو یہ ساری تدبیریں میں نے بتائی تھیں مگر چودہ مہینے ہوگئے کسی نے ہمیں نہیں بلایا ۔دوسری دعوتیں تو لوگ اس کثرت سے کرتے ہیں کہ مجھے پیچھا چھُڑانا مشکل ہوجاتا ہے اور ان کا اصرار ہوتا ہے کہ آج روٹی ہمارے گھر سے کھائیں۔ حالانکہ روٹی انسان اپنے گھر میں روز کھاتا ہی ہے۔ پس ایسی دعوت کا کیا فائدہ جو روز میسّر آتی ہے وہ دعوت کرو جو لوگوں کو میسّر نہیں آتی۔ کام کیلئے بُلائو اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی لوگوں کو عادت ڈالو تا فارغ اور نکمّے بیٹھے رہنے والوں کو بھی کام کی عادت پڑے۔ اور اگر کام کرکے لوگوں کو کھانے کی عادت ہوجائے تو پھر چاہے کوئی لاکھ روپیہ بھی دے اور کہے کہ قوم سے غداری کرو تو وہ غداری کرنے کیلئے تیار نہیں ہوگا کیونکہ اُسے طیب کھانے کی عادت ہوگی۔
پس کام نہ کرنے کے نتیجہ میں اخلاق بِگڑ جاتے ہیں، قوم میں بیکاری اورآوارگی پیدا ہو جاتی ہے اور خداتعالیٰ کی وہ عطا کردہ طاقتیں جن کی قیمت میں دنیا کی کوئی چیز پیش نہیں کی جاسکتی ضائع ہوجاتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی آنکھ کتنی قیمتی چیز ہے لیکن جب کسی کی آنکھ ضائع ہوجائے تو کیا کرڑوں روپیہ دے کر بھی وہ آنکھ بنواسکتا ہے؟ اسی طرح خداتعالیٰ کا دیا ہؤا دماغ جب خراب ہوجاتا ہے اور انسان پاگل ہوجاتا ہے تو بسااوقات سارے ڈاکٹر مل کر بھی اُسے اچھا نہیں کرسکتے۔ پس کام نہ کرنے کے نتیجہ میں علاوہ اور نقصانات کے ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کی عطا کردہ طاقتیں ضائع چلی جاتی ہیں۔ اگر کوئی شخص ایک ہزار روپیہ ڈھاب میں ڈال دے تو قادیان کے سارے لوگ اُسے ملامت کرنے لگ جائیں گے کہ کیسا بیوقوف ہے اس نے ہزار روپیہ ڈھاب میں ڈال دیا لیکن اس سے لاکھوں گُنے نہیں کروڑوں گُنے زیادہ قیمت کا دماغ لوگ ضائع کررہے ہوتے ہیں اور کوئی نہیں کہتا کہ کتنا اندھیر ہے حالانکہ غریب سے غریب اور اَن پڑھ سے اَن پڑھ کے دماغ کے مقابلہ میں ہزاروں روپیہ کی کوئی حقیقت نہیں۔ جاہل سے جاہل انسان سے کہو کہ ہم تجھے ہزار روپیہ دیتے ہیں تُو اپنا بھیجا نکال دے تو وہ اِس کیلئے تیار نہیں ہوگا۔ پس کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ اگر کوئی ڈھاب میں ایک ہزار روپیہ ڈال دے تو سارے لوگ مل کر شور مچادیں کہ اتنا بڑا بیوقوف ہم نے کبھی نہیں دیکھا لیکن جو لوگ اپنے کروڑوں روپیہ سے زیادہ قیمتی دماغ ضائع کررہے ہیں ، اپنی مفید ترین طاقتیں نکمّے اور بیکار بیٹھ بیٹھ کر ضائع کررہے ہیں ہم انہیں دیکھتے اور کوئی شور نہیں مچاتے اور نہ ان کی درستی کے ذرائع اختیار کرتے ہیں۔ پس بیکاری ہمیشہ کام کو ذلّت سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اگر ہم کام کرنے لگ جائیں اور لوگ دیکھیں کہ چھوٹے بڑے سب کام کررہے ہیں تو ذلّت کا خیال لوگوں کے دلوں سے خودبخود نکل جائے اور لوگ کام کرنے میں عزت محسوس کرنے لگیں اور جس دن کام میں لوگ عزت محسوس کرنے لگیں گے، جس دن نکمّا اور بیکار بیٹھنا لوگ اپنے لئے ہلاک کرنے والی زہر سمجھیں گے اُس دن سمجھو کہ دنیا کی بلائیں ٹل گئیں اور روحانیت کی بنیاد قائم ہوگئی۔ کیونکہ کام ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے کرنے کے نتیجہ میں جہاں دُنیوی مصائب کا خاتمہ ہوتا ہے وہاں روحانیت کا بھی دروازہ کُھل جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے یٰٓاَیُّھَاالرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ؎۲ ا ے رسول! طیب کھائو اور اعمال صالحہ کرو۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ طیب کھانے کے نتیجہ میں اعمال صالحہ پیدا ہوتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں ہوسکتا کہ بعض لوگ طیب کھائیں لیکن ان کے پاس دین نہ ہو اور اس وجہ سے شریعت کے مطابق ان سے اعمال صالحہ سرزد نہ ہوں لیکن جن کے پاس دین ہو اور وہ طیب کھائیں ان سے ضروراعمال صالحہ صادر ہوتے ہیں۔ مثلاً یورپ کے لوگ ہیں وہ طیب کھانے کے عادی ہیں بڑی محنت اور مشقّت سے کام کرتے اور اپنی روزی کا سامان مہیا کرتے ہیں لیکن دین ان کے پاس نہیں اگر دین ان کے پاس پہنچ جائے تو چونکہ وہ طیب کھاتے اور مشکل سے مشکل کاموں کو سر انجام دینے کے عادی ہیںاس لئے وہاں اسلام نہایت شاندار نتیجہ پیدا کرے۔
جب میں لنڈن گیا تھا تو یورپ کے لوگوں کے متعلق مجھ پر یہ اثر ہؤا تھا کہ ان میں روحانیت ایشیا سے زیادہ ہے۔ان میں دین کے متعلق ایک جستجو اور تڑپ پائی جاتی ہے پھر ان میں سنجیدگی اور متانت ایشیا والوں سے بہت زیادہ ہے۔ہندوستانی جو پڑھے لکھے ہیں ان کی مجلس میں بیٹھ کر دیکھ لو اور پھر انگریزوں کی مجلس میں بیٹھ کردیکھ لوتمہیں معلوم ہو گا کہ انگریزوں کا مذاق بہت زیادہ سنجیدہ ہے۔ ہندوستانیوں میں چھچھورا پن ہوگا اور پھر بدتہذیبی اور ناشائستگی پائی جائے گی جب بھی دو چار ہندوستانی مل کر بیٹھیں گے کہیں کھانے کا ذکر ہوگا اور اس پر مذاق اُڑایا جارہا ہوگا، کہیں ہوا خارج ہونے پر قہقہے لگ رہے ہوں گے، کہیں ڈکار پر ہنسی ہورہی ہوگی۔ اس کے مقابلہ میں شریف انگریزوں کی مجلس میں تم دس سال رہو تمہیں اِن باتوں کا نشان تک نظر نہیں آئے گا۔ یہاں قادیان میں پڑھے لکھے کئی آدمی ہیں جواِن گندی باتوں میں حصہ لیتے ہیں اور ان کی مجلس میں اس قسم کے لغو اوربیہودہ باتوں کا ذکر ہوتا ہے اور ان پرہنسی اُڑائی جاتی ہے۔
بچپن میں جب مَیں ہائی سکول میں پڑھا کرتا تو دو استاد تھے اُنہیں دیکھ کر مجھے اتنی گھِن اور نفرت آتی جو بیان سے باہر ہے۔ وہ جب بھی ایک دوسرے کی شکل دیکھتے کہیںپاخانے کا مذاق شروع ہوجاتا، کہیں ہوا خارج ہونے کے متعلق ہنسی کرنے لگ جاتے اور مجھے ان کی باتیں سُن سُن کر اتنی گھِن اور نفرت آتی کہ میں چاہتا وہاں سے بھاگ جائوں۔ یہ چھچھورا پن، یہ کمینگی، یہ رذالت اور یہ بیہودگی اور یہ گندہ مذاق کیوں ہے؟ باوجود اس کے کہ خداتعالیٰ کا دین تمہارے پاس ہے یہ رذالت اور کمینگی اسی لئے ہے کہ تمہارے وقت کی کوئی قیمت نہیں اور جب انسان کسی مفید کام پر اپنا وقت خرچ نہیں کرتا تو کوئی نہ کوئی بکواس شروع کردیتا ہے۔ پس جب وہ حقیقی کام نہیں کرتے تو اِس قسم کی بکواس شروع کردیتے ہیں۔ تم اپنے اِردگِرد کے لوگوں پر نظر دوڑائو اور دیکھو کہ کیا یہ باتیں پائی جاتی ہیں یا نہیں؟ مسلمانوں میں کہیں قرآن کریم کی آیتیں ہنسی کے طور پر پڑھی جارہی ہوں گی، کہیں حدیثیں ہنسی کے طور پر پڑھی جارہی ہوں گی، کہیں اسلامی اصطلاحیں مذاق کا نشانہ بن رہی ہوں گی، کہیں کھانے اور دعوتوں کا ذکر ہوگا۔ ایک کہے گا تم فلاں دعوت میں تھے تم نے کتنا کھایا دوسرا کہے گا تم فلاں شادی میں تھے کیا کیا کھایا۔ پھر کہیں کسی کے ڈکار لینے پر مذاق سوجھ جائے گا، کہیں ہوا خارج ہونے پر قہقہہ لگ جائے گا۔ تم بتائو کیا اس قسم کی رذیلانہ او رکمینہ حرکات تمہارے ملک اور سوسائٹی میں ہوتی ہیں یا نہیں؟ پھر سوچو کہ اِس کی کیا وجہ ہے کہ تم میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں۔ اگر تم غور کرو گے تو معلوم ہوگا کہ یہ باتیں محض اس وجہ سے ہیں کہ تمہیں کام کرنے کی عادت نہیں۔ اگر کام کرنے کی عادت ہو تو طبیعت میں سنجیدگی او رمتانت پیدا ہوجاتی ہے اورنہ صرف اِس قسم کی کمینہ حرکات میں انسان حصہ نہیںلیتا بلکہ اس کا وقت ضائع ہونے لگتا ہے تو اسے غصہ آتا ہے۔ پس کام کرنے کی عادت ڈالو اور اپنے اوقات کی قدر کرو۔
عیسائیت کتنی گھنائونی چیز ہے، کتنی قابلِ نفرت چیز ہے فطرت اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے کہ ایک کھاتے پیتے انسان کو خدامانا جائے، انسانی عقل اسے دھکے دیتی اور اسے اپنے سفید کپڑوں پرایک داغ اور میل سمجھتی ہے لیکن باوجود اِن تمام باتوں کے عیسائیوں کے اخلاق کیوں تم سے اعلیٰ ہیں؟ ان کے اعلیٰ اخلاق مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہیں کہ ان قوموں نے کسی سبب سے مَیں اُس سبب کی تعیین نہیں کرتا، مَیں مذہب پر بحث نہیں کررہا کہ میں مذہبی سبب بیان کروں، مَیں اقتصادیات پر بحث نہیں کررہا کہ اقتصادی سبب بیان کروں، مَیں سیاسیات پر بحث نہیں کررہا کہ سیاسی سبب بیان کروں، مَیں یہ کہتا ہوں کہ کسی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو بیکاری سے بچالیا اور کام کرنے کی عادت ڈال لی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ باوجود اس کے کہ مذہب ان کے پاس نہیں ان کے اخلاق تم سے اعلیٰ ہوگئے ۔
ہم جب لنڈن پہنچے اور رات سونے کے بعد میں صبح کو اُٹھا تو میںنے اپنے قافلہ کے دوستوں کے چہروں پر رنجش کے آثار پائے اور مجھے یوں معلوم ہؤا کہ گویا کوئی جھگڑا ہؤا ہے۔ میں نے اِدھر اُدھر سے کُرید کرنا شروع کیا تو مجھے بتایا گیا کہ کچھ جھگڑا ہوگیا تھا مگر آپ کو بتانا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ میں نے کہا کیا ہؤا؟ تو بعض دوستوں نے بتایا کہ اَسباب جب اُتارا گیا تو اُس وقت سوال پیدا ہؤا کہ مختلف کمروں میں کس طرح پہنچے۔ وہاںمزدور اور قلّی نہیں ہوتے بلکہ سب اپنے ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔ چونکہ ہمارے قافلہ والے ہندوستانیت اپنے ساتھ لے کر گئے تھے اِس لئے جب یہ وہاں پہنچے اور اسباب اُٹھانے کیلئے کوئی مزدور نہ پایا تو ان میں سے بعض سخت ناراض ہوئے کہ یہاں ہمارے اچھے مبلّغ رہتے ہیں کہ انہوں نے ہمارا اسباب اُٹھوانے کیلئے کوئی انتظام نہیں کیا اگر مزدور ہوتے تو ان کے ذریعہ اسباب اُٹھوا کر پہنچادیتے۔ ہم سے پہلے چوہدری ظفراللہ خان صاحب وہاں پہنچے ہوئے تھے ان کے ساتھ ان کا ایک دوست بھی تھا جو جرمن کا رہنے والا تھا اور اُس کا باپ نواب تھا۔ میں نے چوہدری صاحب سے کہہ دیا تھا کہ آپ ہم سے پہلے جارہے ہیں ہمارے پہنچنے سے پہلے سیریں وغیرہ کرلیں لیکن جب ہم پہنچیں تو پھر آپ کو ہمارے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اس کے مطابق چوہدری صاحب اور ان کے جرمن دوست ہم سے پہلے اس مکان میں آئے ہوئے تھے۔ بتانے والے نے بتایا کہ اس سوال کے پیدا ہونے پر کہ کمروں میں اسباب کون رکھے ؟ ہمارے ساتھی تو ایک دوسرے سے روٹھ کرالگ ہوگئے اور سارا اسباب چوہدری ظفراللہ صاحب اور ان کے جرمن دوست برونلر نے قافلہ میں سے بعض آدمیوں کے ساتھ مل کر رکھا۔ چوہدری ظفراللہ خان صاحب چونکہ ولایت میں رہ چکے تھے اِس لئے وہ وہاں کے طریق سے واقف تھے اور اُن کا دوست تو یورپ کا ہی تھا گو وہ اب انگلستان میں رہتا ہے اور جنگ کے بعد نوابیاں جاتی رہیں لیکن اب بھی وہ انگلستان میں انجینئر اور موجد ہے اورمعزز شخص ہے مگر باوجود اِس کے اُس نے اپنے ہاتھ سے کام کیا۔ اِس کے مقابلہ میں ہمارے ملک میں اگر پندرہ پُشت سے نوابی بھی کسی کے خاندان سے گئی ہوئی ہو تو مجال نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کرے بہرحال اُس نے اور چوہدری صاحب نے مل کر کام کیا اور اسباب کمروں میں رکھ دیا۔ بے شک بعض ہمارے ساتھیوں نے بھی کام کیا لیکن بعض نے اِس کو بُر امنایا اور کام سے انکار کردیا۔ پس ولایت میں سب اپنے ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔ میرے ساتھ ہی امریکہ کے بعض امراء سفر کررہے تھے وہ بہت بڑے تاجر تھے ، لکھ پتی یا کروڑ پتی تھے اور وہ اپنے اہل و عیال سمیت یورپ کی سیاحت کیلئے آئے ہوئے تھے۔ میرے سامنے جب وہ سٹیشن پراُترے تو ہر ایک نے اسباب کے تین تین بنڈل اپنے آگے پیچھے لٹکالئے اور چل پڑے۔ میرے لئے بھی یہ اچنبھا تھا کیونکہ میں بھی آخر ہندوستانی طریق کا عادی تھا۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی گارڈ یا ڈرائیور نے کسی بڑے افسر کو پہچان لیا تو کہہ دیا لائیے میں اسباب اُٹھا لیتا ہوں اور وہ اسباب اُٹھانے پر اُسے کچھ انعام دے دیتے ہیں مگر یہ اتفاقی ہوتا ہے اور پھر شاذ کے طور پر انعام لینے کی خاطر بعض لوگ دوسرے کا اسباب اُٹھالیتے ہیں لیکن اس صورت کو مستثنیٰ کرتے ہوئے باقی سب لوگ خواہ وہ کتنے بڑے ہوں اپنے ہاتھ سے سب کام کرتے اور اپنا اسباب خود اُٹھا کرلاتے اور لے جاتے ہیں اور ان میں یہ کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی لکھ پتی یا کروڑ پتی اپنے ساتھ کوئی نوکر رکھ لیتا ہے جو اسباب اُٹھا لیتا ہے لیکن مزدوروں اور قلیوں کا وہ طریق جو ہمارے ہاں مروّج ہے یورپ میں کہیں نظر نہیں آتا سب اپنے ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔
پس یہ اخلاق جو اِن میں پیدا ہوئے ان کی اصل وجہ یہی ہے کہ انہوں نے حقیقی کام کرنے کی عادت ڈال لی اور وہ فضول باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتے۔ پھر ان میں سے بھی جو اپنے وقت کو فضول باتوں میں ضائع کرنے والے ہیں ان میں وہی عادتیں پائی جاتی ہیں جو ہندستانیوں میں ہیں۔ بے شک ان کا کثیر حصہ ایسا ہے جو اپنے اوقات کو صحیح طور پر خرچ کرتا ہے لیکن ان میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے وقت کو فضول صَرف کرنے کے عادی ہیں۔ شاید اس لئے کہ وہ شراب پینے کے عادی ہیں اور شراب بھی آوارگی پیدا کرتی ہے یا شاید اس لئے کہ ان میں جُؤا ہے اور جُؤابھی آوارگی پیدا کرتا ہے۔ بہرحال ان میں بھی ایک حصہ آوارہ ہے اور ان میں بھی وہی آوارگیاں، وہی گند اور وہی بُری باتیں پائی جاتی ہیں جو ہندوستانیوں میں پائی جاتی ہیں مگر وہ اتنے بھیانک سمجھے جاتے ہیں کہ شرفاء ان کے پاس کھڑا ہونا بھی گوارا نہیں کرتے۔پس اس لحاظ سے یورپ اور ہندستان میں پھر بھی امتیاز ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں ایک فحش کلام، ایک گندہ دہن اورایک بدمذاق انسان کے پاس کھڑا ہونا شرفاء باعثِ عار نہیں سمجھتے اور نہ اور لوگ بُرا مناتے ہیں۔ انگلستان میں اگر کسی شخص کو اِس قماش کے لوگوں کے پاس کھڑا ہؤا دیکھ لیا جائے تو اُس کی ساری عزت خاک میں مل جاتی ہے اور وہ کسی سوسائٹی میں عزت کی نگاہ سے نہیںدیکھاجاتا۔ لوگ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ جب یہ آوارہ شخص کے پاس کھڑا تھا تو یہ بھی آوارہ ہوگا۔ پس وہاں کے آوارہ ایک زندہ جیل خانہ ہوتے ہیں کہ جو شخص ان کے پاس کھڑا دیکھا جائے یا باتیں کرتا دیکھا جائے اُس کی عزت بھی جاتی رہتی ہے اور جس طرح طاعون سے بچانے کیلئے کیمپ کھولے جاتے ہیں انہوں نے بھی اپنی قوم کو آوارگی سے بچانے کیلئے گویا اِس قسم کے کیمپ بنارکھے ہیں اور آوارگی سے اتنی شدید نفرت اپنی قوم میں پیدا کردی ہے کہ آوارہ شخص سے بات کرنا بھی آوارگی کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی آوارہ کے ساتھ چل پھر رہا ہو، اُس سے باتیں کررہا ہوں اور اُس سے تعلقات رکھتا ہو تو پوچھنے پر لوگ کہہ دیتے ہیں وہ آوارہ ہے یہ تو نہیں۔ مگر وہاں چلنا پھِرنا تو الگ رہا ایک منٹ کیلئے بھی اگر کوئی کسی آوارہ کے پاس کھڑا ہوجاتا ہے تو سب لوگ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے۔ تو کام کرنے کی وجہ سے جماعت میں بہت نیک تغیرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ قادیان اور باہر کے لوگ چندے تو دیتے ہیں مگر جو چیز قوم کی حقیقی روح ہے وہ اِن چندہ دینے والوں نے ابھی تک پیدا نہیں کی۔
پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں اور صدرانجمن احمدیہ کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ کوئی ایسا کام شروع کرے جس میں سب لوگ حصہ لیں۔ کام اس کے ہاتھ میں ہیں میرے ہاتھ میں نہیں۔ اگر میرے ہاتھ میں ہوتے تو مَیں اب تک کئی کام شروع کرادیتا۔
اس کے ساتھ ہی مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ وزراء اورنائب ہوتے ہیں ان کا فرض ہوتاہے کہ وہ اپنے افسر کی روح اپنے اندر پیدا کریں اور اس کے اشاروں کو سمجھیں۔ اگر دماغ میں کوئی اعلیٰ تجویز آئے مگر ہاتھ شل ہوں تو وہ تجویز کسی کام کی نہیں رہتی اور نہ کوئی نتیجہ پیدا کرسکتی ہے۔ ناظر ہونے کی وجہ سے وہ میرے نائب ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ وہی روح اپنے اندر پیدا کریں جو مَیں پیدا کرنی چاہتا ہوں۔ جس طرح بادنما مرغ ہوتا ہے کہ وہ ہوا کے رُخ کے مطابق اپنا رُخ بدلتا ہے اسی طرح بہترین ناظر وہی سمجھا جاسکتا ہے جو خلیفۂ وقت کے اشاروں کو سمجھے۔ جو روح خلیفہ پیدا کرنا چاہے وہی روح ناظر پیدا کریں اور جو سکیم خلیفہ پیش کرے وہی سکیم تمام ناظر رکھیں۔ اگر ناظروں میں تعاون نہ ہو اور وہ میری باتوں کو نہ سُنیں، جو تجاویز میں پیش کروں اُس کی بجائے وہ اپنی تجاویز چلانا چاہیں، جو مَیں تدابیر بتائوں اُن کو چھوڑ کر وہ اپنی تدبیریں بروئے کار لائیں اور اگر کارکنوں میںتعاون نہ ہو، مبلّغوں میں تعاون نہ ہو اور میں کچھ کہتا رہوں اور وہ کچھ اَور کرتے رہیں تو یہ یہی بات ہوگی کہ :
من چہ سرائم و طنبورئہ من چہ سرائد
مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اِخلاص کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ تربیت کے نقص کی وجہ سے اب تک میری مثال اورناظروں اورکارکنوں کی مثال بالکل یہی ہے کہ :
من چہ سرائم و طنبورئہ من چہ سرائد
میں کچھ کہتا ہوں اور وہ کچھ اور کرتے ہیں، میں کوئی سکیم پیش کرتاہوں وہ کوئی اور سکیم چلاتے ہیں، میں کوئی اور پالیسی بتاتا ہوں وہ اپنی پالیسی کے پیچھے چلے جاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہترین سے بہترین تجویز کا بھی وہ شاندار نتیجہ نہیں نکلتا جو نکلنا چاہئے۔ اگر وہ اپنے آپ کو میرا ہاتھ بناتے ، اگر وہ اپنے آپ کو میرا ہتھیار فرض کرتے اور اگر وہ سمجھتے کہ اُن کا کام یہ ہے کہ وہ دیکھیں میرے منہ سے کیا نکلتا ہے اور پھر اسے جاری کرنے کی کوشش کرتے تو اب تک کایا پلٹ گئی ہوتی۔ مگر حالت یہ ہے کہ میں کہتا ہوں جماعت کی اِس رنگ میں تربیت کرو اور مبلّغ وفاتِ مسیح کا مسئلہ رٹتے چلے جاتے ہیں،میں کہتا ہوں جماعت سے بیکاری دور کرو اور مبلّغ خود اپنے اندر بیکاری پیدا کرتے چلے جاتے ہیں، میں کہتا ہوں وعظوں کی بجائے اپنا نیک نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کرو اور وہ پُرانے مسائل لوگوں کے سامنے پیش کرتے چلے جاتے ہیں حالانکہ ہر چیز کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے۔ جو لوگ وفاتِ مسیح مان چکے ہوں اُن کے سامنے وفاتِ مسیح کا مسئلہ پیش کرنا بیوقوفی ہے اور یہ سمجھنا کہ قرآن کریم کی ایک آیت کے ایک ہی معنی ہیں اور زیادہ بیوقوفی ہے۔ قرآن کریم کی کوئی آیت نہیں جو صرف ایک مطلب اپنے اندر رکھتی ہو۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو جن آیتوں سے وفاتِ مسیح ثابت ہے وہ میرے لئے منسوخ کی طرح ہوتیں مگر یہ غلط ہے۔باوجود وفاتِ مسیح تسلیم کرنے کے میرے لئے بھی وہ آیتیں اپنے اندر کئی معارف رکھتی ہیں۔ مثلاً یٰٓعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ ؎۳ والی آیت دوسروں کیلئے یہ مفہوم رکھتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں مگر میرے لئے اِس میں یہ سبق ہے کہ جو شخص خداتعالیٰ کاہوجائے اگر ساری دنیا مل کر بھی اُسے مارنا چاہے تو نہیں مارسکتی۔ اب اگر کوئی شخص میرے سامنے یہ آیت اِس غرض کیلئے پیش کرے کہ اِس سے وفاتِ مسیح ثابت ہوتی ہے تو وہ میرا وقت ضائع کرتا ہے۔ ہرزمانہ کا دَور الگ ہوتا ہے اور ہر دَور میںالگ آیتیں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، الگ حدیثیں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، الگ استدلال پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تم کیوں سمجھتے ہو کہ قرآن کریم کی ایک آیت کے ایک ہی معنی ہیں۔ تم ان ہی آیتوں کو لے کر ان سے اَور اَور معارف نکال سکتے اور دنیا کو محوِ حیرت بناسکتے ہو۔ قرآن کریم تو ذوالبطون ہے اور اس کی ایک ایک آیت میں کئی کئی معارف پنہاں ہیں۔ کسی وقت اس کے کسی معنی پر زور دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی وقت کسی مفہوم پر۔
ضرورت اِس بات کی ہے کہ جماعت محسوس کرے کہ خلیفۂ وقت جو کچھ کہتا ہے اُس پرعمل کرنا ضروری ہے۔ اگر تووہ سمجھتی ہے کہ خلیفہ نے جو کچھ کہا وہ غلط کہا اور اس کا نتیجہ اچھا نہیںنکل سکتا تو جو لوگ یہ سمجھتے ہوں ان کافرض ہے کہ وہ خلیفہ کو سمجھائیں اور اُس سے ادب کے ساتھ تبادلۂ خیالات کریں لیکن اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر ان کا فرض ہے کہ وہ اُسی طرح کام کریں جس طرح ہاتھ دماغ کی متابعت میں کام کرتا ہے۔ ہاتھ کبھی دماغ کو سمجھاتا بھی ہے کہ ایسا نہ کرو۔ مثلاً دماغ کہتا ہے فلاں جگہ مُکّا مارو۔ ہاتھ مُکّا مارتا ہے تو آگے وہ زِرہ کی سختی محسوس کرتا ہے اور ہاتھ کو درد ہوتا ہے۔ اِس پر ہاتھ دماغ سے کہتا ہے کہ اس جگہ مُکّا نہ مروائیں یہاں تکلیف ہوتی ہے اور دماغ اس کی بات مان لیتاہے۔ اِسی طرح جماعت میں سے ہر شخص کا حق ہے کہ اگر وہ خلیفۂ وقت سے کسی بات میں اختلاف رکھتا ہے تو وہ اُسے سمجھائے اور اگر اِس کے بعد بھی خلیفہ اپنے حکم یا اپنی تجویز کو واپس نہیں لیتا تو اس کا کام ہے کہ وہ فرمانبرداری کرے۔ اور یہ تو دینی معاملہ ہے دُنیوی معاملات میں بھی افسروں کی فرمانبرداری کے تاریخ میںایسے ایسے واقعات آتے ہیں کہ انہیں پڑھ کر طبیعت سرور سے بھر جاتی ہے۔
بیلاکلاوا کی جنگ ایک نہایت مشہور جنگ ہے۔ اس میں انگریزوں کو روسی فوج کا مقابلہ کرنا پڑا۔ ایک دن جنگ کی حالت میں اطلاع ملی کہ روسی فوج کا ایک دستہ حملہ کیلئے آرہاہے اور اُس میں آٹھ نوسَو کے قریب آدمی ہیں۔ اِس اطلاع کے آنے پر انگریز کمانڈر نے ماتحت افسر کوحکم دیا کہ تم اپنی فوج کا ایک دستہ لے کر مقابلے کیلئے جائو ۔ اس افسر کو اطلاع مل چکی تھی کہ روسی دستہ آنے کی اطلاع غلط ہے اصل میں روسی فوج آرہی ہے جو ایک لاکھ کے قریب ہے۔ جب انگریز کمانڈر نے حکم دیا کہ ایک دستہ لے کر مقابلے کیلئے جائو تو اُس افسر نے کہا یہ خبر صحیح نہیں ایک لاکھ فوج آرہی ہے اور اُس کا مقابلہ ایک دستہ نہیں کرسکتا۔ انگریز کمانڈر نے کہا مجھے صحیح اطلاع ملی ہے تمہارا کام یہ ہے کہ اطاعت کرو۔ وہ سات آٹھ سَو کا دستہ لے کر مقابلہ کیلئے چل پڑا لیکن جب قریب پہنچا تو معلوم ہؤا کہ حقیقت میں ایک لاکھ کے قریب دشمن کی فوج ہے۔ بعض ماتحتوں نے کہا کہ اِس موقع پر جنگ کرنا درست نہیں ہمیں واپس چلے جانا چاہئے مگر اُس افسر نے گھوڑے کو ایڑ لگا کر آگے بڑھایا اور کہا ماتحت کا کام اطاعت کرنا ہے اعتراض کرنا نہیں۔ باقیوں نے بھی گھوڑے بڑھادیئے اور سب ایک ایک کرکے اس جنگ میں مارے گئے۔ قوم آج تک اِس واقعہ پر فخر کرتی ہے اور کہتی ہے کہ اس کی قوم کے لوگوں نے اطاعت کا کیسا اعلیٰ نمونہ دکھایا اور گو یہ انگریز قوم کا واقعہ ہے مگر کون ہے جو اِس واقعہ کو سن کر خوشی محسوس نہیں کرتا۔ ایک جرمن بھی جب اس واقعہ کو پڑھتا ہے تو وہ فخر محسوس کرتا اور کہتا ہے کاش! یہ نمونہ ہماری قوم دکھاتی، ایک فرانسیسی بھی جب یہ واقعہ پڑھتا ہے تو فخر محسوس کرتا اور کہتا ہے کاش!یہ نمونہ ہماری قوم دکھاتی، ایک روسی بھی جب یہ واقعہ پڑھتا ہے تو فخر محسوس کرتا اور کہتا ہے کاش! یہ نمونہ ہماری قوم دکھاتی۔ پس اطاعت اور افسر کی فرمانبرداری ایسی اعلیٰ چیز ہے کہ دشمن بھی اِس سے متأثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکتا مگر بغیر مصائب میں پڑے اور تکلیفوں کوبرداشت کرنے کے یہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا
اسی طرح ایک اور موقع پر ایک تُرک جرنیل نے روسیوں سے لڑائی کی۔ تُرک جرنیل کو مشورہ دیاگیا کہ اپنے ہتھیار ڈال دو کیونکہ دشمن بہت زیادہ طاقتور ہے لیکن وہ اِس پر تیار نہ ہوا۔ آخر وہ قلعہ میں بند ہوگیا روسیوں نے مہینوں اُس کا محاصرہ رکھا اور کوئی کھانے پینے کی چیز باہر سے اندر نہ جانے دی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جب غذا کا ذخیرہ ختم ہوگیا تو اُس نے سواری کے گھوڑے ذبح کرکے کھانے شروع کردیئے مگر ہتھیار نہ ڈالے لیکن آخر وہ بھی ختم ہوگئے تو اُس نے بُوٹوں کے چمڑے اور دوسری ایسی چیزیں اُبال اُبال کر سپاہیوں کو پلانی شروع کردیں مگر ہتھیار نہ ڈالے۔ آخر سب سامان ختم ہوگئے اور روسی فوج نے قلعہ کی دیواروں کوبھی توڑ دیا تو یہ بہادر سپاہی اطاعت قبول کرنے پرمجبور ہوئے۔ چونکہ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ مفتوح فاتح کے سامنے اپنی تلوار پیش کرتا ہے اسی قاعدہ کے مطابق جب اُس ترکی جرنیل نے روسی کمانڈر کے سامنے اپنی تلوار پیش کی تو روسی کمانڈر کی آنکھوں میںآنسو آگئے او روہ کہنے لگا مَیں ایسے بہادر جرنیل کی تلوار نہیں لے سکتا۔ تو اطاعت اور قربانی اور ایثار ایسی اعلیٰ چیزیں ہیں کہ دشمن کے دل میں بھی درد پیدا کردیتی اور اس کی آنکھوں کو نیچا کردیتی ہیں۔
انگریزی قوم سے جہاں اچھے واقعات ہوئے ہیں وہاں اس سے ایک بُرا واقعہ بھی ہؤا مگر اس کے اندر بھی یہ سبق ہے کہ قربانی اور ایثار نہایت اعلیٰ چیزہے۔ جب نپولین کو انگریزوں کے مقابلہ میں شکست ہوئی اور اُس کے اپنے ملک میں بغاوت ہوگئی تو اس نے کہا میں اپنے آپ کو اب خود انگریزوں کے سپرد کردیتاہوں۔ انگریزوں سے ہی اس کی لڑائی تھی چنانچہ وہ اُسے پکڑ کر انگلستان لے گئے۔ جب پارلیمنٹ کے سامنے معاملہ پیش ہؤا تو اُس نے کہا نپولین سے تلوار کیوں نہیں لی گئی؟ یہ تلوار لینے کا وہی طریق تھا جس کا میں پہلے ذکرکرچکاہوں کہ مفتوح جرنیل سے فاتح جرنیل تلوار لے لیا کرتا تھا۔ جب پارلیمنٹ نے یہ سوال اُٹھایا تو ایک انگریزلارڈ کو اِس غرض کیلئے مقرر کیا گیا کہ وہ جاکر نپولین سے تلوار لے آئے۔ جب اُس کے سپرد یہ کام کیا گیا تو وہ پارلیمنٹ میں کھڑا ہوگیا اور اُس نے کہا ایسے بہادر دشمن سے جس نے اپنے آپ کو خود ہمارے حوالے کردیا ہے تلوار لینا ہماری ذلّت ہے۔ مگر چونکہ اُس وقت انگریزوں میں بہت جوش تھا اور اُنہیںنپولین کے خلاف سخت غصہ تھا اِس لئے بہادری کے خیالات ان کے دلوں میں دبے ہوئے تھے انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا نپولین سے تلوار ضرور لی جائے گی۔پھر انہوں نے اُس لارڈ کے ساتھ ایک ایسے شخص کو کردیا جو ایسے اعلیٰ اخلاق کا مالک نہیں تھا جن اعلیٰ اخلاق کا وہ لارڈ مالک تھا اور کہا کہ نپولین سے ضرور تلوار لی جائے۔ جب وہ نپولین کے پاس پہنچے تو وہ لارڈ نہایت رقّت کے ساتھ نپولین سے کہنے لگا میری زبان نہیں چلتی اورمجھے شرم آتی ہے کہ میں آپ کو وہ پیغام پہنچائوں مگر چونکہ مجھے حکم ہے اِس لئے میں آپ سے کہتاہوں کہ آپ اپنی تلوار ہمارے حوالے کردیں ۔ نپولین نے یہ سن کر کہا کیا انگریز قوم جس کو میں اتنا بہادر سمجھتا تھا اپنے مفتوح دشمن سے اتنی معمولی رعایت بھی نہیں کرسکتی۔ یہ سن کر اُس لارڈ کی چیخ نکل گئی اور وہ پیچھے ہٹ گیا مگر اس کے نائب نے آگے بڑھ کر اُس کی تلوار لے لی۔ تو بہادری اورجرأت کے واقعات غیر کے دل پربھی اثرکرجاتے ہیں۔
اگرہمارے کارکن بھی وہ اطاعت، قربانی اور ایثار پیدا کریں جن کا حقیقی جرأت تقاضا کرتی ہے تو دیکھنے والوں کے دل پر جماعت احمدیہ کا بہت بڑا رُعب پڑے گا اور ہر شخص یہی سمجھے کہ یہ جماعت دنیا کو کھاجائے گی۔ اور اگر یہ نہ ہو بلکہ میں خطبے کہتا چلاجائوں لوگ کچھ اَور ہی کرتے جائیں، مبلّغین کسی اور رستے پر چلتے رہیں، ناظر اپنے خیالوں اور اپنی تجویزوں کو عملی جامہ پہنانے کی فکرمیں رہیں، اسی طرح کارکن، سیکرٹری، پریذیڈنٹ، اُستاد، ہیڈماسٹر سب اپنے اپنے راگ الاپتے رہیں اور بندھے ہوئے جانور کی طرح اپنے کیلے کے گِرد بار بار پھرتے رہیں تو بتائو کیا اس طرح ترقی ہوسکتی ہے؟
خلافت کے تو معنے ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اُس وقت سب سکیموں، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیاجائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم، وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفۂ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔ جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اُس وقت تک سب خطبات رائیگاں،تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں۔میں آج تک جس قدر خطبات دے چکاہوں اُنہیں نکال کر ناظر دیکھ لیں کہ آیا وہ ان پر عمل نہ کرنے کے لحاظ سے مجرم ہیں یا نہیں؟ اِسی طرح محلوں کے پریذیڈنٹ ان خطبات کو سامنے رکھ کر دیکھیں کہ آیا وہ مجرم ہیں یا نہیں؟ ۱۴ ماہ اِس تحریک کوہوگئے مگر کیا ناظروں،محلہ کے پریذیڈنٹوں اور دوسرے کارکنوں نے ذرا بھی اُس روح سے کام لیا جو میں ان کے اندر پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اگر وہ میرے ساتھ تعاون کرتے تو پچھلے سال ہی اتنا عظیم الشان تغیر ہوجاتا کہ جماعت کی حالت بدل جاتی اور دشمن مرعوب ہوجاتا مگر چونکہ وہ اس رنگ میں رنگین نہیں ہوئے جس رنگ میں مَیں اُنہیں رنگین کرنا چاہتا تھا اس لئے عملی طور پر انہوںنے وہ نمونہ نہیں دکھایا جو انہیں دکھانا چاہئے تھا۔ ان کی مثال بدر کے ان گھوڑوں کی سی نہیں جن کے متعلق ایک کافر نے کہا تھا کہ ان گھوڑوں پر آدمی نہیں موتیں سوار ہیں ؎۴ ۔ بلکہ ان کی مثال حنین کے ان گھوڑوں کی سی ہے جنہیں سوار میدانِ جنگ کی طرف موڑتے مگر وہ مکّہ کی طرف بھاگتے تھے ؎۵ ۔
پس میں بیکاری کو دور کرنے کی طرف پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اور تمام کارکنوں کو خواہ وہ ناظر ہوں یا افسر، کلرک ہوں یا چپڑاسی، پریذیڈنٹ ہوں یا سیکرٹری توجہ دلاتا ہوں کہ اِس روح کو اپنے اندر پیدا کرو۔ کیا فائدہ اِس بات کا کہ تم نے چار سَو یا تین سَو یا دو سَو یا ایک سَو ،یا ساٹھ یا پچاس روپیہ چندہ میں دے دیا، اگر تمہارے اندر وہ روح پیدا نہیں ہوئی جو ترقی کرنے والی قوموں کیلئے ضروری ہوتی ہے ۔ ہم اگر پچاس روپے کابیج خریدتے ہیں جسے گھُن لگا ہؤا ہے تو وہ سب ضائع ہے لیکن اگر ہم ایک روپیہ کا بیج خریدتے ہیں اور وہ تازہ اور عُمدہ ہے تو وہ پچاس روپوں کے بیج سے اچھا ہے۔ اسی طرح صرف روپیہ کوئی فائدہ نہیںدے سکتا جب تک وہ ایثار، وہ قربانی، وہ تعاون اور وہ محبت و اخوت کی روح پیدا نہیں ہوتی جو جماعت کو ’’یکجان و دو قالب‘‘ بنادیتی ہے۔
اگر خلافت کے کوئی معنے ہیں تو پھر خلیفہ ہی ایک ایسا وجود ہے جو ساری جماعت میں ہونا چاہئے او راُس کے منہ سے جو لفظ نکلے وہی ساری جماعت کے خیالات اور اَفکار پرحاوی ہونا چاہئے، وہی اوڑھنا، وہی بچھونا ہونا چاہئے ، وہی تمہارا ناک، کان، آنکھ اور زبان ہونا چاہئے۔ ہاں تمہیںحق ہے کہ اگر کسی بات میں تم خلیفۂ وقت سے اختلاف رکھتے ہو تو اسے پیش کرو۔ پھر اگر خلیفہ تمہاری بات مان لے تو وہ اپنی تجویز واپس لے لے گا اور اگر نہ مانے تو پھر تمہارا فرض ہے کہ اُس کی کامل اطاعت کرو ویسی ہی اطاعت جیسے دماغ کی اطاعت اُنگلیاں کرتی ہیں۔ دماغ کہتا ہے فلاں چیز کو پکڑو اور اُنگلیاں جھٹ اُسے پکڑ لیتی ہیں۔ لیکن اگر دماغ کہے او راُنگلیاں نہ پکڑیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ ہاتھ مفلوج اور اُنگلیاں رعشہ زدہ ہیں کیونکہ رعشہ کے مریض کی یہ حالت ہؤا کرتی ہے کہ وہ چاہتا ہے ایک چیز کو پکڑے مگر اس کی اُنگلیاں اسے نہیں پکڑسکتیں۔ پس خلیفہ ایک حکم دیتا ہے مگر لوگ اُس کی تعمیل نہیں کرتے تو اِس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ رعشہ زدہ وجود ہیں۔ لیکن کیا رعشہ والے وجود بھی دنیا میں کوئی کام کیا کرتے ہیں؟ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ سال کا تجربہ مجھے یہی بتاتا ہے کہ ہماری جماعت کا وجود رعشہ والا وجود ہے، دماغ نے حکم دیا مگر ہاتھوں اور اُنگلیوں نے کوئی کام نہ کیا۔ اِس میں شبہ نہیں کہ جماعت نے تحریک جدید میں روپیہ دیا مگر میں نے بتایا تھا کہ اس میں سب سے کم قیمت روپیہ کی ہوگی۔ روپیہ کی قیمت تو رسم و رواج کی وجہ سے ہے۔ آج یورپ کے اثر، اس کے غلبہ اور فوقیت کی وجہ سے ہمیں روپیہ کی ضرورت ہے ورنہ روپوں پر تو ہم تھُوکتے بھی نہیں اور نہ صرف روپوں سے دنیا میں انبیاء کی جماعتیں کبھی کامیاب ہوا کرتی ہیں۔ صحابہؓ کے زمانہ میں کب روپے تھے مگر انہوں نے کام کرکے دکھایا اور وہ کامیاب ہوگئے۔ اِسی طرح ہمیں بھی روپوں کی ضرورت نہیں کام کرنے والے آدمیوں کی ضرورت ہے مگر چونکہ کُفر کی اشاعت میں روپیہ کا بہت بڑا دخل ہے اِس لئے جوابی رنگ میں ہمیں بھی روپیہ لینا اور خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا آگ سے عذا ب دینا منع ہے ؎۶ ۔ اِس حدیث کی رو سے توپوں اور بموں سے لوگوں کو ہلاک کرنا ناجائز ہے مگر چونکہ یورپ والے لڑائیوں میں توپ اوربم استعمال کرتے ہیں اِس لئے مجبوراً اسلامی حکومتوں کو بھی یہ ہتھیار استعمال کرنے پڑتے ہیں ورنہ ہمارے رسول کریم ﷺ کا یہی حکم ہے کہ ہم اِس قسم کے ہتھیار دُنیا سے مٹادیں لیکن چونکہ یورپ والے توپیں چلاتے ہیں اس لئے جواباً توپوں کا استعمال جائز ہے ورنہ جب اسلامی حکومتوں کا دنیا میں غلبہ ہوگا اُس وقت ان کا پہلا فرض یہ ہوگا کہ وہ توپ اور بم کو اُڑادیں اور اسے دنیا سے مٹانے کی کوشش کریں۔
ہمارے محمد ﷺ نے آج تیرہ سَو سال پہلے جسے آج بعض کم بخت تعلیم یافتہ کہلانے والے مسلمان بھی جہالت کا زمانہ کہتے ہیں یہ رحم اورمحبت کی تعلیم دی کہ آگ کا عذاب دینامنع ہے۔ کتنی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے جو رسول کریم ﷺ نے دی۔ آج آگ کا عذاب تم دنیا سے مٹادو تمام خونریزیاں مٹ جائیں گی۔ تم بم سے ایک مرد اور عورت کا فرق نہیںکرسکتے۔ تم ایک توپ کا گولہ چلاتے وقت یہ احتیاط نہیں کرسکتے کہ عورتیں اِس کی زد سے بچی رہیں، بچے محفوظ رہیں لیکن تلوار چلاتے وقت تم یہ سب احتیاطیںکرسکتے ہو۔ تم دیکھ سکتے ہو کہ تمہارے سامنے عورت ہے یا مرد، لڑائی میں شامل ہونے والا ہے یا راہگیر اور مسافر لیکن توپ کا گولہ بِلا تمیز سب کو مٹادے گا۔ عورتیں زد میں آئیں گی تو انہیں ہلاک کردے گا، ہسپتال زد میں آئیں گے تو انہیں تباہ کردے گا، زخمی جو ہسپتال میں زخموں کی وجہ سے کراہ رہے ہوں گے انہیں بھی موت کے گھاٹ اُتار دے گا لیکن تلوار چلاتے وقت انسان سمجھتا ہے کہ میرے سامنے کون ہے اور میں کس کو ہلاک کررہا ہوں۔ پس اگر آج رسول کریم ﷺ کی اِسی ایک تعلیم پردنیا عمل کرے تو جنگ کانقشہ بدل جائے اور رحم کا مفہوم کچھ اَور ہوجائے لیکن چونکہ دنیا توپوں او ربموں سے کام لیتی ہے اِس لئے اسلامی حکومتیں مجبور ہیں کہ وہ دفاع میں توپیں اور بم استعمال کریں۔ اِسی طرح ہم روپیہ کی طرف اِس لئے جاتے ہیںکہ دشمن روپیہ سے کام لے رہا ہے، وہ کفر کی اشاعت روپیہ سے کررہا اور دنیا میں اسلام کے خلاف روپیہ کی مدد سے اعتراضات پھیلارہا ہے۔ورنہ اسلام روپیہ کی قربانی کو ادنیٰ قربانی قرار دیتا ہے اور اصل قربانی وہ اس چیز کو قرار دیتا ہے جو دل اور دماغ اور آنکھ اور زبان اور ہاتھ سے ہو۔ پس میں پھر جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے اندر صحیح قربانی کا مادہ پیدا کرے ورنہ باتیں تو پا در ہوا ؎۷ چیزیں ہیں اور اعلیٰ سے اعلیٰ چیز بھی بے اثر ہوجاتی ہے اگر ماننے والے موجود نہ ہوں۔
(الفضل ۳۱؍ جنوری ۱۹۳۶ئ)
؎۱ بخاری کتاب البیوع باب مَاقیل فی الصَّواغ
؎۲ المؤمنون: ۵۲ ؎۳ آل عمران: ۵۶
؎۴ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۱۶ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
؎۵ سیرت ابن ہشام جلد ۳ صفحہ ۱۰ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ ھ
؎۶ ابوداؤد کتاب الادب باب فی قتل الذر
؎۷ پادر ہوا: بے اصل۔ خیالی۔ فرضی

۵
اللہ تعالیٰ کے سِوا کسی سے نہ ڈرو
(فرمودہ۳۱؍جنوری۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں آج گلے کی تکلیف کی وجہ سے زیادہ بول نہیں سکتا اس لئے اختصار کے ساتھ انسانی اخلاق کی ایک ایسی خصوصیت کی طرف جماعت کو توجہ دلاتاہوں جس کوزیر نظر رکھنا ہر انسان کیلئے ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں عام طور پر انسانی فطرت کی خصوصیات کا مطالعہ اور ان کی حقیقت سے آگاہی حاصل کرنے کی بہت ہی کم عادت ہے۔ بعض بڑے بڑے تعلیم یافتہ آدمی اس بات کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ بنی نوع انسان کی کامیابی اور ترقی کا راز انسانی فطرت کی باریکیوں سے آگاہی حاصل کرنے میں مستور ہے۔ اوّل تو لوگ ان سارے افعال سے ہی جو دماغ کرتا ہے واقف نہیں ہوتے اور اگر واقف ہوں تو چند اصطلاحات کے چکر میں پھنسے رہتے ہیں۔ مثلاً لوگ جانتے ہیں کہ انسان محبت کرتا ہے مگر یہ نہیں جانتے کہ محبت بیسیوں قِسم کی ہوتی ہے اورمحبت کا ظہور سینکڑوں رنگوں میں ہوتا ہے اسی طرح غصے کی بھی سینکڑوں اَقسام ہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ انسان کے اندر غیرت ہوتی ہے مگر یہ نہیں جانتے کہ غیرت کی کتنی اَقسام ہیں، لوگ جانتے ہیں کہ جرأت ایک صفت ہے مگر یہ نہیں جانتے کہ بہادری کی کتنی اقسام ہیں اور یہ کہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص کے اندر بہادری کی بعض اقسام پائی جائیں اور بعض نہ پائی جائیں۔ پس لوگ چند ناموں کو جانتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ایک ہی چیز کے نام ہیں ان کی قِسموں سے وہ واقف نہیں ہوتے۔ جس طرح بیل کا لفظ جب کوئی بولے تو ایک خاکہ سا تو ہر انسا ن کے ذہن میں آجاتا ہے لیکن صرف ماہرِ فن ہی بیل کا لفظ سن کر اس کی مختلف اقسام اور ان کے فوائد اور خصوصیات کو ذہن میں لاسکتا ہے۔
مجھے یا دہے کہ میں ایک دفعہ بہشتی مقبرہ کی طرف سے واپس آرہاتھا کہ رستہ میں مَیں نے کچھ بیل دیکھے جو مجھے بتایا گیا کہ یہ بیچنے کیلئے ہیں۔ میرے ساتھ ایک اور دوست تھے میں نے ان سے کہا کہ بیلوں والے سے ذرا دریافت کریں کہ اِن بیلوں کی اوسط قیمت کیا ہے؟ اور اوسط معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ اور بڑی سے بڑی قیمت کا اندازہ کرلیا جائے لیکن وہ دوست ان باتوں سے ناواقف تھے اِس لئے انہوں نے جاکر بیلوں والے سے پوچھا کہ ایک بیل کی کیا قیمت ہے؟ اِس پر اُس نے جواب دیا کہ آپ کون سے بیل کی قیمت معلوم کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ایک بیل کی قیمت بتادو۔ اُس نے پھر پوچھا کہ کون سے بیل کی؟ انہوں نے پھر وہی سوال دُہرادیا کہ کہہ تو رہا ہوں ایک بیل کی کیا قیمت ہے؟ اس پر بیل کا مالک بولا کہ میں کس بیل کی بتائوں؟ اِس گلّہ میں ایک سَو کا بھی بیل ہے اور دو اڑھائی سَو قیمت والا بھی۔ اس پر میں نے بھی اُس دوست کو سمجھایا کہ سب بیلوں کی ایک قیمت نہیں ہوتی۔ پوچھنا یہ چاہئے تھا کہ کس قیمت سے لے کرکس قیمت تک کے بیل ہیں مگر آپ جس رنگ میں پوچھ رہے ہیں اس کا وہ کیا جواب دے۔ وہ ایک قیمت بتادے اور آپ اچھے سے اچھا بیل منتخب کرکے کہیں کہ یہ اِس قیمت میں دے دو۔
غرض جس طرح حیوانات اور جمادات اور نباتات کی قیمتیں ہوتی ہیں اسی طرح اخلاق کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں او رہر قسم پھر کچھ مدارج اور ممتاز کیفیات رکھتی ہے۔ مثلاً محبت ہے یہ جذبہ بھی اپنے اندر بہت سے اختلاف رکھتا ہے۔ میں اِس وقت محبت پر کوئی مضمون بیان نہیں کررہا صرف ایک موٹی بات بیان کرتا ہوں کہ بعض لوگ بچوں پر جان قربان کردیتے ہیں۔ یہ بھی محبت کی ایک قسم ہے لیکن وطن، حکومت اور مذہب کیلئے قربانی کا سوال ہو تو وہ کوئی پرواہ نہ کریں گے۔ اسی طرح بعض لوگ محبت کی وجہ سے مالی قربانی کیلئے تیار ہوجائیں گے مگر جانی قربانی نہیں کرسکیں گے۔ یا جانی قربانی کیلئے تو تیار ہوں گے مگر مالی قربانی کیلئے قطعاً تیار نہیں ہوں گے۔ جس سے معلوم ہؤا کہ محبت کے بھی کئی مقام ہوتے ہیں جہاں کھڑا ہوکر انسان نئی قسم کا نظریہ حاصل کرتا ہے۔ پس ہم جب محبت کا لفظ بولتے ہیں تو اِس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ یہ ایک چیز کا نام ہے اور محبت ہر ایک شخص میں ایک ہی قسم کی پائی جاتی ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ جذبہ بحیثیت جِنس اس میں پایا جاتا ہے لیکن اس کی کون سی قسم اس میں پائی جاتی ہے یہ بات تفاصیل سے تعلق رکھتی ہے۔
گزشتہ ایام سے میں جماعت کویہ نصیحت کررہا ہوں کہ وہ اپنے اندر جرأت اور قربانی کا مادہ پیدا کریں۔ یہ بھی ایک مجمل لفظ ہے جس کی کئی تفاصیل ہیں۔ جرأت ، بہادری اور قربانی بھی کئی رنگ کی ہوتی ہے۔ کئی لوگ ہوں گے جو مالی قربانی کیلئے تو تیار ہوجائیں گے مگر جانی کیلئے نہیں اور کئی جانی کیلئے تیار ہوں گے مگر مالی کیلئے نہیں۔ پھر کئی لوگ ہوں گے جو جرأت سے حکومت کا مقابلہ کریں گے مگر قوم کے مقابلہ میں کھڑے نہیں ہوسکیں گے۔ اگر وہ اپنی قوم میں کوئی نقص اور عیب دیکھیں تو اُس کو بیان کرنے سے ڈریں گے مگر حکومت کے مقابلہ میں بڑی بہادری دکھائیں گے۔ چنانچہ بعض لوگ چارچار پانچ پانچ بلکہ چھ چھ اور سات سات سال قید ہوجاتے ہیں اور پرواہ نہیں کرتے، لیکن جس بات میں وہ دیکھیں کہ ان کی قوم کے چند لوگ ناراض ہوتے ہیں اُس کے بارہ میں کہہ دیتے ہیں کہ اسے جانے دو۔ انہیں لاکھ سمجھائو کہ مذہب، صداقت ، اخلاق اور انصاف یہی مطالبہ کرتا ہے مگر وہ یہی کہتے جائیں گے کہ قوم کے لیڈروں کا مقابلہ بہت مشکل ہے۔ وہ جیل خانہ میں کئی سال کاٹ لیں گے مگر اپنے چند ایک ہم مشرب لوگوں کی بُری رائے کامقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ پھر بعض لوگ قوم کا مقابلہ بڑی دلیری سے کرلیتے ہیں۔ قوم کے لوگ انہیں *** ملامت کریں، بائیکاٹ کریں، تعلقات منقطع کرلیں، تو وہ ذرا پرواہ نہیں کریں گے لیکن اگر کوئی یہ کہہ دے کہ تمہارے متعلق ڈپٹی کمشنر کی یہ رائے ہے تو وہ جھٹ دَوڑے جائیں گے کہ حضور! یہ بات صحیح نہیں۔ حضور! جس طرح حکم دیں مَیں کرنے کو تیار ہوں۔ ان کے اندر بہادری کا مادہ بے شک ہوتا ہے مگر ساتھ ہی بُزدلی کا مادہ بھی ہوتا ہے۔ ایسے انسان کے اندر ایک قسم کی جرأت ہوتی ہے مگر ساتھ ہی ایک قسم کی بُزدلی بھی ہوتی ہے لیکن کامل بہادری یہ ہے کہ دونوں کا مقابلہ کرنے کیلئے انسان تیار ہو۔ حق کی خاطر قوم کا مقابلہ بھی کرسکے اور حکومت کا بھی۔ اگر قوم غلطی کرے تو وہ سچی بات پیش کرکے کہہ دیں کہ مانو یا نہ مانو حق بات یہی ہے اور حکومت اگر غلطی کرے تو بھی وہ حق بات پیش کرکے کہہ دیں کہ خواہ مانو یانہ مانو حقیقت یہی ہے مگرکئی لوگ ایسا نہیں کرسکتے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ماں باپ کے مقابلہ میں جرأت سے کام نہیں لے سکتے۔ ان کو حق کا علم بھی ہوجائے تو ناحق کو اِس لئے نہ چھوڑیں گے کہ ماں باپ ناراض نہ ہوجائیں۔ مجھے کئی ایسے لوگوں کا علم ہے جن پر احمدیت کی صداقت کھل چکی ہے مگر وہ اِسے اس لئے کھُلم کھُلا قبول نہیں کرتے کہ ماں باپ ناراض ہوجائیں گے۔ اُن سے جب کہاجائے کہ خداتعالیٰ کے مقابلہ میں بندوں کا یا ماں باپ کا ڈریا محبت کیا چیز ہے؟ تو وہ کہیں گے یہ ٹھیک ہے مگر کیا کریں دل نہیں مانتا آپ اِس کو ہماری کمزوری سمجھ لیں مگر ہم ایسا کر نہیںسکتے۔ اور اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان کے اندر جرأت کی وہ قسم نہیں ہوتی۔ پھربعض لوگ بیویوں سے ڈرتے ہیں اور بعض بیویاں خاوندوں سے ڈرتی ہیں۔ اِسی طرح بعض ماں باپ اپنے بچوں سے ڈرتے ہیں۔
ٹرانسوال کی جنگ کے دنوں میں مَیں نے ایک مشہور جرنیل کی نسبت پڑھا کہ وہ بڑا بہادر اور نڈر ہے مگر چوہے کو دیکھ کر اس کی جان جاتی ہے۔ اگر کبھی اسے چوہا نظر آجائے تو جھٹ اردلی کو بلائے گا اور رات بھر جاگتا رہے گا اسے نیند نہیں آئے گی۔ ایسے لوگوں کے اندر کوئی نہ کوئی رگ ایسی ہوتی ہے جس سے خوف داخل ہوجاتا ہے۔ دوسرے مواقع پر وہ جان کی پرواہ نہیں کریں گے۔ بندوقوں، توپوں اور تلواروں کے سامنے اپنے آپ کو ڈال دیں گے، دشمنوں کے ہجوم میں بِلا خوف چلے جائیں گے مگر کسی معمولی سی چیز سے ڈرجائیں گے۔ پس ہر چیز اور ہر خلق کی قِسمیں ہوتی ہیں اور مؤمن کامل کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ تمام قسموں کو مکمل کرے۔ ہر موقع پر اور ہر ہیبت والی چیز کے سامنے اپنے آپ کو دلیربنائے۔ مؤمن کی بہادری ایسی کامل ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سِوا کسی سے نہیں ڈرتا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنا بزدلی نہیں۔ صداقت کے خلاف چلنے سے خوف کھانا بُزدلی نہیں بہادری ہے۔پس اس ہستی سے خوف کھانا جو ہمیشہ راستی پرہوتی ہے بُزدلی نہیں کہلاسکتا کیونکہ اس سے خوف اپنی جان کی وجہ سے نہیں کھاتا بلکہ حق سے دور ہوجانے کے ڈر سے خوف کھاتا ہے۔ چونکہ مؤمن خداتعالیٰ کے سِواکسی کو ایسا نہیں سمجھتا وہ یقین رکھتا ہے کہ قوم، حکومت، افسر، ماتحت سب غلط بات کہہ سکتے ہیںاور غلطی کرسکتے ہیں مگر خداتعالیٰ جو بات کہے وہ غلط نہیں ہوسکتی۔ پس وہ اللہ تعالیٰ سے اس لئے ڈرتا ہے کہ اس سے ڈرنا حق اور انصاف کا تقاضا ہے اور خداتعالیٰ کے سِوا کسی اور سے نہیں ڈرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دوسرے سب لوگ جب خداتعالیٰ کی طرف سے بات نہ کررہے ہوں غلطی کرسکتے ہیں۔ پس جب ہم کہتے ہیں کہ کسی افسر سے نہ ڈرو تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اچھی بات بھی کہے تو بھی نہ مانوبلکہ اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جب وہ غلط بات کہے تب اس کی پرواہ نہ کرو۔ اسی طرح جب کہا جاتا ہے کہ قوم کی پرواہ نہ کرو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ قوم کی سچی بات کو بھی نہ مانو اور کہہ دو کہ ہم بہادر ہیں اورقوم کی بات ماننا بُزدلی ہے۔ ایسا کرناتو حماقت بلکہ ظلم ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم جب غلطی کرے تو اس کی بات نہ مانو اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس سے ڈرو تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ غلطی کرہی نہیں سکتا اُس سے ہر حالت میں ڈرنا چاہئے۔ پس جرأت کا مفہوم یہ ہے کہ جب دوسرا غلط بات کہے تو اس کی پرواہ نہ کی جائے اور اللہ تعالیٰ سے چونکہ غلطی سرزد ہو ہی نہیں سکتی اس لئے اُس سے ڈرنا بُزدلی نہیں۔ بُزدلی صرف یہ ہے کہ حق اور انصاف کے تقاضا کو پورا نہ کیا جائے۔ غرض جس بزدلی کو ہم بُرا کہتے ہیں وہ اس مقام کے متعلق ہے جہاں غلطی، ناانصافی اور ظلم کا امکان ہو اور چونکہ اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسی باتوں کا وہم بھی نہیں ہوسکتا اس لئے صرف اُس کی ذات ہے جس سے ڈرنا بُزدلی نہیں بلکہ بہادری ہے۔ ہاں خداتعالیٰ کے سِوا کسی سے ڈرنا بُزدلی ہے اس لئے انسان کو تیار رہنا چاہئے کہ ان چیزوں کا جو خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں آتیں مقابلہ کرے۔ ہاں اگر اچھی بات کوئی کہے تو انسان تو انسان خواہ شیطان ہی کہے اسے ماننا چاہئے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی نسبت لکھا ہے کہ ایک دفعہ اُن کی صبح کی نماز قضا ہوگئی وہ سوئے رہے اور وقت گزرگیا۔ دوسرے دن انہوں نے کشف دیکھا کہ کوئی شخص اُن کوجگا رہا ہے اُن کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ایک آدمی پاس کھڑا ہے۔ پوچھا کہ کون ہے؟ تو اُس نے کہا میں شیطان ہوں اور آپ کونماز کیلئے جگاتا ہوںیہ حالت کشفی تھی ۔انہوں نے کہا کہ شیطان کا کام تو نماز سے روکنا ہے مگر تُو نماز کیلئے جگاتا ہے یہ کیا بات ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ بے شک میرا کام روکنا ہے مگر کل آپ نماز باجماعت سے رہ گئے تو آپ سارا دن روتے رہے اِس پر اللہ تعالیٰ نے کہا میرے بندے کونماز رہ جانے کا اتنا قلق ہے اسے سَو نمازوں کا ثواب دے دیا جائے۔ اس پر میں نے خیال کیا کہ اگر آپ آج بھی سوئے رہے تو پھر سَو نمازوں کاثواب لے لیں گے اس سے بہتر ہے کہ میں خود ہی جگائوں تا ایک ہی نماز کا ثواب مل سکے ؎۱ ۔ تو نیکی کی بات خواہ کوئی کہے اسے مان لینا چاہئے یہ نہیں کہ کوئی شخص دیکھے کہ شیطان نماز کیلئے جگارہا ہے تو کہہ دے کہ جا میں نماز نہیں پڑھتا۔
احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ ایک صحابی نے ایک شخص کورات کے وقت چوری کرتے ہوئے پکڑا۔ حالات ایسے تھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ میں نے جسے پکڑا ہے وہ انسان نہیں اس نے کہا کہ مجھے چھوڑ دومیں تمہیں ایک بڑی اچھی بات بتاتا ہوں اور اُس نے آیت الکرسی بتائی۔ رسول کریم ﷺ کو جب اِس کا علم ہؤا تو آپ نے فرمایا کہ تھا تو وہ شیطان ہی مگر بات اُس نے بہت اچھی بتائی ؎۲ ۔ تو بعض اوقات شیطان بھی اپنے مفاد کی خاطر اچھی بات بتاسکتا ہے۔ مگر کئی لوگوں کی طبیعت میں ایسی ضدّ اور ہٹ ہوتی ہے کہ دشمن اگر اچھی بات انہیں کہیں تو بھی نہیں مانتے۔ بعض اوقات دیکھا ہے کہ کسی کو نماز کیلئے جگایا جائے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ چل میں نماز نہیں پڑھتا بعد میں چاہے پڑھ ہی لے مگر منہ سے ضرور بے ادبی کے الفاظ بول دے گا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چونکہ تم میرے دشمن ہو اس لئے تم اچھی بات بھی کہو گے تو نہیں مانوں گا حالانکہ اگر شیطان نیکی کی بات بتائے تو اس کا مطلب یہ ہؤا کہ بدی کا راستہ رُک گیا۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ میرا شیطان مسلمان ہوچکا ہے ؎۳ ۔ تو یہ تو خوشی کی بات ہے کہ دشمن بھی فائدہ کی بات کہے۔
پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ اچھی بات خواہ کسی کی طرف سے ہو اسے ماننے کیلئے تیار رہیں خواہ وہ حکومت کی طرف سے ہو خواہ رعایا کی طرف سے، خواہ افسر کی طرف سے ہو، خواہ ماتحت کی طرف سے، خواہ دشمن کی طرف سے ہو، خواہ دوست کی طرف سے اور جو بات اچھی نہ ہو اور حق کے خلاف ہو وہ خواہ کسی کی طرف سے ہو اُسے قطعاً نہ مانیں سوائے انبیاء اور صلحاء کے کہ وہ جو بات بھی کہیں اُس میں حق و صداقت ہوتی ہے اور وہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔
رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں بعض اوقات اپنے بندے کے ہاتھ بن جاتاہوں، اس کے کان ، اس کی ناک، اس کی زبان بن جاتاہوں ؎۴ ۔ اور جو شخص ایسا ہوجائے وہ جو بات بھی کہے گا اچھی ہی کہے گا۔ جیسے مولانا رومؒ نے اپنی مثنوی میں لکھا ہے کہ نَے جب بولتی ہے تو وہ اُس کی اپنی آواز نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے ہونٹ جس قسم کی آواز نکالتے ہیں وہی اس سے نکلتی ہے۔ اِسی طرح جو خداتعالیٰ کا ہوجاتا ہے اُس کی آواز خداتعالیٰ کی آواز ہوتی ہے اور اُسے ماننا خداتعالیٰ کی آواز کو ماننا ہوتاہے۔ ان کے سِوا سب مخلوق غلطیاں کرسکتی ہے، ناحق اور ناانصافی کرسکتی ہے اس لئے آپ لوگوں کا فرض ہونا چاہئے کہ عقل سے کام لیں۔ اچھی بات کو مانیں اور بُری کو ردّ کردیں مگر نہ ماننا بھی اسی اصل پر ہو جو قرآن کریم نے بتایا ہے۔ مثلاً ماں باپ اگر کہیں کہ شرک کرو تو ان کی بات نہ مانو مگر دوسرے امور میں اُن کی تابعداری اور احترام کرو۔ قرآن کریم میں حکم ہے کہ ماں باپ کو اُف تک نہ کہو ؎۵ ۔ حتّٰی کہ اگر وہ شرک کی تعلیم دیں تو اسے نہ مانو مگر یہ حق پھر بھی نہیں کہ انہیں اُف کہو۔ پس نہ ماننے میںبھی وہ طریق اختیارکرو جو خداتعالیٰ نے سکھایا ہے اور جو ادب و احترام کا طریق ہے۔
پس ہماری جماعت کو ہرقسم کے اخلاق سیکھنے چاہئیں۔ خصوصاً جرأت اور بہادری پیدا کرنی چاہئے۔ مثلاً موجودہ حالات ہی ہیں۔ چونکہ ہماری جماعت کی تربیت ایک خاص رنگ میں ہوئی ہے ہمارے دوست بعض باتوں میں گھبراجاتے ہیں۔ حکومت کے ساتھ پہلے ہمارے معاملات اَور قسم کے تھے مگر اب حکومت کے ایک حصہ کا یا بعض افسروں کا رویہ بدل گیا ہے اور وہ ذاتی عداوتوں کی وجہ سے خواہ نخواہ ہمیں دِق کرتے ہیں۔ اگرچہ زمانہ بتادے گا کہ وہ تمام طاقت اور قوت کے باوجود ناکام ہوں گے اور حکومت کے اعلیٰ افسروں کے سامنے ہی انہیں ذلیل ہونا پڑے گا مگر ابھی وہ زمانہ نہیں آیا۔ابھی وہ اپنے ڈنڈے پر نازاں ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ ڈنڈا لوہے کو ٹیڑھا کرسکتا ہے مگر پانی کو نہیں کرسکتا ، اور ہوا کو وہ کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ جو شخص ہوا میں ڈنڈا مارے گا وہ دوسری طرف آکر اُس کے ہاتھ پر لگے گا۔ مؤمن کو اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کثافتوں سے پاک کردیتا اور پانی کی طرح لطیف بنادیتا ہے اس لئے جو شخص ہم پر ڈنڈامارتا ہے وہ دراصل اپنے آپ کو ہی مارتا ہے۔ اِس کی مثال اُس افیونی کی سی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ اُسے شبہ ہؤا کہ اُس کے ہاں چور آتا ہے۔ ایک دن وہ ڈنڈا لے کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اُسے پینک ؎ ۶ جو آئی تو اُس کا اپنا گھُٹنا ہی سامنے آگیا اُس نے زور سے اس پر ڈنڈا مارا اور جب درد ہؤاتو کہنے لگا کمبخت! مار تو گیا ہے مگر اسے بھی خوب لگی ہے۔ تو جو حُکّام ہم پر حملہ کرتے ہیں ان کی حالت اُس افیونی کی سی ہے وہ ہمیں نہیں بلکہ اپنے آپ کوہی ماررہے ہیں۔ ان کی مثال بالکل اُس شیخ چلی کی سی ہے جو اُسی شاخ کوکاٹ رہا تھا جس پر بیٹھا تھا۔ درخت کے نیچے سے کوئی عقلمند گزرا تو اُس نے کہا بیوقوف! یہ کیا کررہا ہے؟ تو گِر جائے گا۔ اُس نے کہا جائو تم بڑے نبی آئے ہو۔ اُس نے کہا اِس میں نبوت کی تو کوئی بات نہیں یہ تو عام بات ہے کہ جس شاخ پربیٹھے ہو اُسی کوکاٹ رہے ہو یہ کٹ کر گِرے گی تو ساتھ ہی تم بھی گِرجائو گے مگر اُس نے اُس کی بات نہ مانی ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ شاخ کٹ کر گری تو وہ بھی ساتھ ہی نیچے آگِرا اور پھر جلدی سے اُٹھ کر پیچھے بھاگا کہ تم تو عالم الغیب ہو بتائو میں کب مروں گا؟ تو اِن افسروں کی مثال بھی شیخ چلی کی سی ہے وہ اس تنے کوکاٹ رہے ہیں جو ان کی اور ساری دنیا کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔
انبیاء کو اللہ تعالیٰ ساری دنیا کی حفاظت کا ذریعہ بنا کر بھیجتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو بھی اللہ تعالیٰ نے حکومت اور پبلک دونوں کی حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ہی ذریعہ دنیا میںامن قائم کرے گاکیونکہ امن کی بنیاد اب اخلاق پرہوگی اورجو اِس جماعت کو نقصان پہنچاتا ہے وہ دراصل اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ مسلمانوں کے لئے جب بھی حقیقی نقصان کا وقت آیا ہے ہم نے ان کی مدد کی ہے اور آئندہ بھی وہ دیکھیں گے کہ ان کے مصائب کو اُٹھانے کیلئے ہماری جماعت ہمیشہ تیار رہے گی۔ اِسی طرح ہندوستان میں اگر کبھی ہندوئوں یا سکھوںکیلئے حقیقی نقصان کاوقت آیا تو اُس وقت بھی احمدیہ جماعت ہی ان کے بچانے کا ذریعہ ہوگی۔ اور اگر کوئی وقت حکومت یا برطانوی قوم پر ایسا آیا تو اُس وقت بھی ہماری جماعت ہی ان کے بچانے کا ذریعہ ہوگی کیونکہ ہماری رشتہ داری بندوں سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ سے ہے اورہم دنیا میں انصاف چاہتے ہیں۔ باوجودیکہ ہم مسلمان ہیں لیکن اگر کوئی وقت ایسا آئے کہ مسلمان، ہندوئوں یا سکھوں پر ظلم کریں تو اُس وقت احمدی مظلوم کاہی ساتھ دیں گے۔ اور اگر رعایا حکومت پرظلم کرے گی تو اُس وقت بھی ہم مظلوم کا ساتھ دیں گے اور دیتے رہے ہیں۔ نادان احراری ہمیں یہ طعنے دیتے ہیں کہ ان کا دعویٰ تھا کہ ہم حکومت کے محافظ ہیں مگر باوجود یکہ بعض افسر ذاتی عداوتوں کی وجہ سے ہماری مخالفت کرتے ہیں اور اِس طرح حکومت سے بلکہ ملکِ معظّم سے غدّاری کررہے ہیں مگر پھر بھی اگر کبھی ایسا وقت آئے کہ حکومت پررعایا ظلم کرے تو حکومت کا ساتھ دیں گے اور اگر حکومت رعایا پر ظلم کرے تو ہم رعایا کا ساتھ دیں گے۔
۱۹۲۷ء میں لاہور میں بعض سکھوں نے چند مسلمانوں کوجو نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہے تھے ماردیا۔ اِس پر بڑا شور ہؤا اورمیں نے بھی اِس میں دلچسپی لی۔ اُس وقت لاہور کے کمشنر مسٹرلینگلے تھے انہوں نے مجھے چِٹھّی لکھی کہ گورنر صاحب کو آپ کی جماعت پر بڑا اعتماد تھاآپ نے اِس وقت کیوں ایسا روّیہ اختیار کیاہے؟ میں نے انہیں جواب دیا کہ ہم نے کبھی بھی آپ کا ساتھ نہیں دیا بلکہ ہم ہمیشہ انصاف کاساتھ دیتے رہے ہیں اور یہ حکومت پر کوئی احسان نہ تھا اور اب جو میںنے مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے تو یہ ان پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ انصاف کی حمایت کرکے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ تو حکومت کی خیر خواہی کے یہ معنی نہیں کہ ہم قوم کے غدّار بنیں۔
میرا عقیدہ ہے کہ حکومت کی وفاداری اور قوم کی خیرخواہی دونوں جمع ہوسکتی ہیں پہلے بھی یہی عقیدہ تھا اور اب بھی یہی ہے کہ حکومت کی خیرخواہی کے معنی پبلک سے غدّاری کے نہیں اور اسی طرح پبلک کی خیرخواہی کے معنی یہ نہیں کہ حکومت سے غداری کی جائے اور جو ایسا سمجھتا ہے وہ بیوقوف ہے۔ اس لئے یہ صحیح ہے کہ حکومت کی حفاظت ہمارے ذریعہ سے ہے۔ میں یہ اب بھی کہتا ہوں اور کہتا رہوں گا مگر اِس کے یہ معنی نہیں کہ ہم ظلم کی حمایت کریں گے۔ بے شک حکومت کی بلکہ احرار کی اور دوسرے مسلمانوں، ہندوئوں اور سکھوں کی سب کی حفاظت ہمارے ذریعہ ہے۔ بظاہر یہ پاگل پن کی بات معلوم ہوتی ہے اور کوئی کہہ سکتا ہے کہ ’’کیا پدی اورکیا پدی کاشوربا‘‘ مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ بیج ہمیشہ چھوٹا ہوتا ہے مگر اس سے بڑا درخت بن جاتا ہے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے اندر سے درخت نکل رہا ہے۔ بڑ کے بیج کو دیکھنے والا اسے ایک چھوٹا سا دانہ سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اِس نے کیا بڑھنا ہے مگربیج جانتا ہے کہ اس کے اندر کس قدر بڑھنے کی طاقت ہے۔ بے شک اِس وقت ہم کمزور ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم نے دنیا پر چھاجاناہے اور ہم جانتے ہیں کہ دنیا کی حفاظت ہمارے ذریعہ ہوگی۔ اگر ہم اس دعوے میں جھوٹے ہیں تو زمانہ اسے ظاہر کردے گا او راگر سچے ہیں تو بھی زمانہ ظاہر کردے گا اور ظاہرکر بھی رہا ہے۔ ہماری جماعت پر پچاس سال کا عرصہ گزر چکا ہے اِس عرصہ میں ہماری کیا کیا مخالفتیں نہیں کی گئیں اور ہمارے خلاف کیا کیاشرارتیں نہیں ہوئیں مگر ہم خداتعالیٰ کے فضل سے بڑھتے ہی جارہے ہیں اور اگر کبھی نہیں بڑھتے تو یہ ہماری اپنی کمزوری ہوتی ہے جیسے دانے کے اپنے اندر اگر کوئی نقص ہو تو وہ نہیں بڑھے گا اسی طرح ہم اپنی کمزوری کی وجہ سے اگر رُکیں تو رُکیں ورنہ خداتعالیٰ نے ہمارے اندر بے انتہاء قابلیتیں رکھی ہیں۔ پس ہم حکومت کے بھی خیرخواہ ہیں اور عایا کے بھی مگر بعض افسر ہماری بِلا وجہ مخالفت کررہے ہیں۔ اب انہوںنے پینترا بدلا ہے ۔ پہلے انہو ںنے بعض بیوقوفوں کو آلہ کار بنایا تھا مگر جب دیکھاکہ یہ بیوقوف تو ہمیں بھی بدنام کررہے ہیں تو اب ایسا رویہ اختیار کیا ہے جوبظاہر زیادہ محتاط ہے مگر ظلم اب بھی موجود ہے اور مجھے اُمید ہے کہ جس طرح انہیں پہلے شکست ہوئی ہے اب بھی ہوگی کیونکہ ہمارا مدار تدابیر پر نہیں بلکہ خداتعالیٰ پر ہے۔
ایک دفعہ ایران کے بادشاہ نے گورنرِ یمن کو لکھا کہ رسول کریم ﷺکو گرفتارکرکے ہمارے پاس بھیج دیا جائے۔ گورنر نے بعض آدمی مدینہ میں بھیجے جنہوں نے جاکر کہا کہ ہمارے شہنشاہ کا ایسا حکم ہے۔ آپؐ نے انہیں فرمایا کہ ٹھہرو ہم دو تین دن تک جواب دیں گے۔ جب ایک دو دن گزرگئے تو انہوں نے کہا کہ دیر ٹھیک نہیں گورنر یمن نے کہا ہے کہ بادشاہ نے غلط خبروں کی بناء پر ایسا حکم دیا ہے آپ آجائیں تومیں سفارش کروں گا۔ آپ نے فرمایا کہ ٹھہرو ہم جواب دیں گے۔ اگلے روز انہوں نے پھر ازراہِ نصیحت کہا کہ دیر اچھی نہیں بادشاہ بگڑ جائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ جائو اپنے گورنر سے کہہ دو کہ ہمارے خدا نے اس کے خدا کومار دیا ہے۔ انہوں نے پھر خیرخواہی کے طور پر کہا آپ انکار نہ کریں بادشاہ ناراض ہوگیا تو آپ کی ساری قوم کو تباہ کردے گامگر آپ نے فرمایا کہ بس جائو اور یہ جواب دے دو۔ وہ چلے گئے اور گورنر کو یہ جواب دے دیا ۔ اُس نے کہااچھا ہم دیکھیں گے اگر یہ بات ٹھیک نکلی تو یہ شخص سچا ہوگا۔ چند روز کے بعد ایک جہاز ایران سے آیا جس میں سے کچھ افسر نکلے اور انہو ںنے گورنر کو ایک سربمہر لفافہ دیا۔ مُہر کو دیکھتے ہی گورنر نے کہا کہ مدینہ والے شخص کی بات سچی معلوم ہوتی ہے کیونکہ خط پر مُہر نئی تھی۔ جب اس نے لفافہ کھولا تو اُس میں لکھا تھا کہ ہمارا باپ ظالم تھا اِ س لئے ہم نے اسے قتل کرکے زمامِ حکومت خود سنبھال لی ہے تم لوگوں سے ہماری وفاداری کا عہد لو۔ نیز ہمارے باپ نے مدینہ کے ایک شخص کے متعلق ایک ظالمانہ حکم دیا تھا ہم اسے بھی منسوخ کرتے ہیں ؎۷ ۔ پس جو جماعتیں خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرلیتی ہیں وہ بندوں سے نہیں ڈرا کرتیں۔
حضرت مسیح ناصری کو صلیب پر لٹکانے والے کتنے خوش تھے کہ ہم نے عیسائیت کا خاتمہ کردیا مگر اِس پر آج انیس سَو سال گزرچکے ہیں اور وہ قوم آج بھی صلیب پر لٹکی ہوئی ہے اور اُسے کہیں پناہ نہیں ملتی۔ انگریزوں نے ان کیلئے فلسطین تلاش کیا مگر وہاں بھی مسلمان ان کی مخالفت کررہے ہیں۔ اور میں بھی سمجھتا ہوں کہ یہود کو فلسطین میں بسانا ظلم ہے جب بھی مسلمانوں کو طاقت ملی وہ اپنا حق ضرور واپس لیں گے اور ان کو نکال دیں گے تو اس قوم کو کہیں بھی امن نہیں۔ پہلے انگریزوں کے ملک میں انہیں امن تھا مگر اب ان میں بھی ایک ایسی قوم پیدا ہورہی ہے جو یہود کو نکالنا چاہتی ہے۔ یہ فیسی اسٹ پارٹی ہے۔ فاسی ازم ایک تحریک ہے جس کی بنیاد مسولینی نے اٹلی میں رکھی تھی۔ انگریزوں کے ملک میں یہ جماعت ابھی زور والی نہیں مگر ترقی کررہی ہے۔ درد صاحب گزشتہ ایام میں ان افسروں کے ظالمانہ رویہ کے سلسلہ میں جو ہمارے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں ان کے بعض لیڈروں سے بھی ملے تھے۔ دَورانِ ملاقات انہوں نے بتایا کہ ہمارا بھی جرمنی کے لوگوں کی طرح یہ خیال ہے کہ یہودیوں کو اپنے ملک میں نہ رہنے دیا جائے ۔ غرض یہود نے سمجھا تھا کہ ہم نے مسیح کو صلیب پر لٹکادیا مگر دراصل وہ یہودیت کو صلیب پر لٹکارہے تھے۔ حضرت مسیح علیہ السلام تو تین گھنٹہ کے بعد صلیب سے اُتر آئے مگر یہود کو صلیب پر لٹکے ہوئے آج انیس سَو سال گزر گئے ہیں۔
پس ہمیں افسروں کی مخالفت کا ڈر نہیں وہ ہمیں نہیں بلکہ دراصل اپنے آپ کوتکالیف میں ڈال رہے ہیں اور وہ دن دُور نہیں جبکہ وہی حکومت جس کے دبدبہ اور گھمنڈ کی وجہ سے وہ ایسا کررہے ہیں اِن کو گرفت کرے گی لیکن حالات ایسے ہیں کہ ہمارے آدمیوں کو بھی اِس سلسلہ میں بعض مشکلات میں سے گزرنا پڑے گا۔ ہماری جماعت حکومت سے تعاون کی عادی ہے اور اب ایک نئے رنگ کے تعاون کا سوال درپیش ہے اس لئے ایسا نہ ہو کہ وہ کسی پولیس والے کی شکل دیکھیں تو سمجھیں کہ یہ نئی قسم کا خطرہ ہے۔ اس رنگ میں بھی انہیں اپنے اندر بہادری پیدا کرنی چاہئے۔ اگر تم ناحق پر ہو تو کوئی پولیس والا آئے یا نہ آئے تمہیں چاہئے کہ اس سے ڈرو۔ ظلم اور جھوٹ بڑی خطرناک چیزیں ہیں اور وہ دل جس میں جھوٹ او رظلم ہوکبھی نہیں پنپتا خواہ ساری دنیا اُس کی حمایت کرے اور اگر تم حق پر ہو تو خواہ حکومت اور کانگرس اور رعایا سب مل کر بھی تمہیں پکڑنا چاہیں تو مت ڈرو۔ اپنے اندر ہرقسم کی دلیری پیدا کرو جہاں بھی بے انصافی دیکھو اُس کا مقابلہ کرو مگر محبت اور پیار سے۔ ظلم کا مقابلہ بھی پیار سے کرو۔ دیکھو! قرآن کریم نے اجازت دی ہے کہ جو لوگ تم پر ظلم کرتے ہیں اُن کا مقابلہ کرو مگر زیادتی کی اجازت نہیں دی۔ پس تم کسی چیز سے نہ ڈرو مگر ظلم کرنے سے ضرور ڈرو۔ اگر حکومت گرفت کرتی ہے تو مت ڈرو، اگر رعایا پکڑتی ہے تو مت ڈرو، اگر ماں باپ یا بیویاں یا اولاد تمہیں حق سے پھیرنا چاہتی ہے تو اِس کا مقابلہ کرو۔ غرض کسی خطرہ سے نہ ڈرو مگر خداتعالیٰ کا خوف ہر وقت دل میں رکھو اور ہر وقت خیال رکھو کہ انصاف اور دیانت ہاتھ سے نہ جائے۔ بہت سے انسان ظلم کے مقابلہ میں ظلم کرتے ہیں مگر تم ظلم کامقابلہ انصاف اور دیانت سے کرو۔ اپنے اندر بہادری پیدا کرو جو لوگ بہادر ہوجاتے ہیں وہ ضرور دنیا کو مغلوب کرکے رہتے ہیں اوربہادری کے ساتھ اگر ایمان بھی ہو تو دیکھنے والا کانپ جاتا ہے۔
ایک جنگ کے بعد رسول کریم ﷺ کو قتل کرنے کی غرض سے ایک شخص اسلامی لشکر کے پیچھے پیچھے بڑی دُور تک چلا آیا۔ صحابہ ایک جگہ آرام کرنے کیلئے لیٹے تو انہوں نے غلطی سے رسول کریم ﷺ کیلئے پہرہ کا کوئی انتظام نہ کیا اور خیال کیا کہ تھوڑی دیر ٹھہرنا ہے اور اِس جنگل میں کون حملہ کرنے آئے گا؟ رسول کریم ﷺ بھی ایک درخت کے نیچے سوگئے وہ دشمن آیا اور آپ ہی کی تلوار جودرخت سے لٹک رہی تھی اُتار کر اُس نے آپ کو جگایا اور پوچھا کہ اب تمہیںکون بچاسکتا ہے؟ آپ نے سادگی سے فرمایا اللہ ؎۸ اور اِس بہادرانہ ایمانی رنگ کا اُس پر ایسا اثر ہؤاکہ اُس کے ہاتھ سے تلوار گرگئی۔ آپ نے اُسے اُٹھایا اور پوچھا اب تمہیں کون بچاسکتا ہے؟ اس نے کہا آپ ہی رحم کریں توکریں۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں اللہ تعالیٰ ہی بچاسکتا ہے جائو چلے جائو۔
تو بہادری اور ایمان بڑا رُعب پیدا کردیتے ہیں۔ پس یہ دونوں چیزیں اپنے اندر پیدا کرو کہ یہ دونوں جس کے اندر جمع ہوجائیں اس کے سامنے تمام دنیا کی طاقتیں خس و خاشاک کی مانند بہتی چلی جاتی ہیں اور جس طرح آندھی کے آگے تنکے اُڑتے پھرتے ہیںیہی حالت تمام طاقتوں کی اُس کے آگے ہوتی ہے۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہیں خداتعالیٰ نے کس لئے پیداکیا ہے ۔ کسی پر ظلم نہ کرو اورجتنی طاقت ملتی جائے ثمر ور درخت کی طرح اتنے ہی جھکتے جائو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اِسی لئے پید اکیا ہے۔ اور اگر اِس غرض کو تم پورا نہیں کرسکتے تو جس طرح پہلے لوگ اس کی *** کے مورد ہوگئے اسی طرح تم ہوگے۔ پس اپنے دلوں میں عہد کرو کہ خداتعالیٰ تمہیں جتنی طاقت دے گا اُتنا ہی دنیا میں عدل و انصاف قائم کرو گے اور اگر تم ایسا کر لو تو پھر تم دنیا میں چلتے پھرتے فرشتے بن جائو گے اور خداتعالیٰ کی رحمتیں اور نصرتیں ناک، کان اور آنکھ کی طرح جو باہر سے نہیں آتیں بلکہ اندر سے ہی پیدا ہوتی ہیں تمہارے اندر گھر کرلیں گی او رہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں گی۔
(الفضل ۱۰؍مارچ ۱۹۳۶ئ)
؎۱ الہام منظوم دفتر دوم صفحہ ۲۸۴
؎۲
؎۳ مسلم کتاب صفات المنافقین باب تحریش الشیطان (الخ)
؎۴ بخاری کتاب الرقاق باب التواضع
؎۵ فَلاَ تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ (بنی اسرائیل: ۲۴)
؎۶ پینک: افیون یا پوست کی اونگھ
؎۷ تاریخ طبری الجزء الثالث صفحہ ۲۴۷ تا ۲۴۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء
؎۸ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع





۶
معذور سے معذور احمدی بھی خدمتِ دین میں ارادئہ نیک
اور دُعا کے ذریعہ حصہ لے سکتا ہے
(فرمودہ ۲۸؍ فروری ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں نے تحریک جدید کے سلسلہ میں ۱۹۳۴ء میں جو امور جماعت کے سامنے پیش کئے تھے وہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں سب بیان ہوچکے ہیں سوائے اس کے جسے میں نے اُنیسواں مطالبہ قرار دیا تھا اور وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دنیا کے تمام انسانوں کیلئے بنایا ہے اورہر انسان کو اس کی خدمت اور اس کی اعانت کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اور ہر انسان کو اُن انعامات کا حصہ دار قرار دیا ہے جو انعامات اسلام کی اعانت اور اس کی تائید کی وجہ سے انسان کو حاصل ہوسکتے ہیں مگر بہت سی تجویزیں اور بہت سی تحریکیں اور بہت سی تدبیریں جو اسلام کی ترقی کیلئے کی جاتی ہیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہر انسان ان میں حصہ نہیں لے سکتا۔ مثلاً مالی تحریک ہے دنیا میں کئی انسان ایسے ہوتے ہیں جو اپنے پاس مال نہیں رکھتے اور اس وجہ سے مالی تحریکات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ یا کئی جانی تحریکیں ہیں کہ جن میں ہر انسان حصہ نہیں لے سکتا۔ کوئی معذور ہوتا ہے، کوئی بیمار ہوتا ہے، کوئی لولا لنگڑا ہوتا ہے او رکوئی بوڑھا ہوتا ہے۔ غرض کئی قسم کی معذوریاں ایسی ہوتی کہ ہیں جن کی وجہ سے بعض لوگ جسمانی خدمات سے محروم ہوجاتے ہیں۔ پھر کئی فنی باتیں ہوتی ہیں اور اہلِ فنون ہی ان میں حصہ لے سکتے ہیں دوسرے ان میں حصہ لینے سے محروم رہتے ہیں۔ مثلاً زخمیوں کی مرہم پٹی ہے اگر کسی وقت اس خدمت کا موقع ملے تو اس میں ایسے ہی مرد اور عورتیں حصہ لے سکتی ہیں جنہیں مرہم پٹی کرنا آتاہو، یا اگر کسی وقت آہن گری کے علم کی ضرورت پڑے تو آہن گر ہی کام آسکتا ہے، یا نجّاری کے متعلق ضرورت محسوس ہو تو نجّار ہی کام آئے گا دوسرے لوگ نہیں، یا اگر معماری کے سلسلہ میں بعض لوگوں کی خدمت کی ضرورت ہو تو معمار ہی قربانی کرسکتاہے دوسرے لوگ نہیں کرسکتے۔ پس باوجود تمام کوششوں اور نیک ارادوں کے پھر بھی بنی نوع انسان کا ایک حصہ ایسا رہ جاتا ہے جو جانی یا مالی یا فنی خدمات میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہوتا اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کی تعلیم جو تمام بنی نوع انسان کیلئے ہے جس میں غریب بھی شریک ہیں اورامیر بھی، بڑے بھی شریک ہیں اور چھوٹے بھی، معذور بھی شریک ہیں اور غیرمعذور بھی، عورتیں بھی شریک ہیں اور مرد بھی، بچے بھی شریک ہیں اور بوڑھے بھی، اس اسلام کے کسی حکم پر جو لوگ لَبَّیْکَ کہنے سے معذور ہوں وہ کیا کریں؟ جب اسلام مالی تحریک کیلئے بلائے تو غرباء کیا کریں؟ جب جسمانی تائید کیلئے بلائے تو اپاہج کیا کریں؟ جب کھُلے میدانوں میں کام کرنے کیلئے بلائے تو عورتیں کیا کریں؟ جب طاقت و قوت کا مظاہرہ چاہئے تو اس وقت بچے اور بوڑھے اور بیمار کیا کریں؟ اور جس وقت علم کی استمداد چاہئے اس وقت جاہل اور اَن پڑھ کیا کریں؟ غرض کوئی علاج اسلام میں ایسا بھی ہونا چاہئے اور کوئی تدبیر اس قسم کی بھی ہونی چاہئے کہ ہر شخص جو مسلمان کہلاتا ہے چاہے وہ کسی حالت میں پڑا ہؤا ہو اپنے ربّ کی آوا زپر لَبَّیْک کہہ سکے اور اپنی طاقت و قوت کے مطابق اس میں حصہ لے سکے تا بنی نوع انسان میں سے کوئی انسان ایسا نہ ہو جو یہ کہہ سکے کہ اے خدا! تیری آواز دوسروں کیلئے تو تھی مگر میرے لئے نہیں تھی، اور تا کوئی ایسا بندہ نہ ہو جسے خداتعالیٰ کہے کہ تُومیرے دین کی خدمت نہیں کرسکتا تھا؟ پس نہ بندے کیلئے موقع ہونا چاہئے کہ وہ حسرت کا اظہار کرے اور کہے کہ میں دین کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا تھا اور نہ ہمارا خالق اپنے کسی بندے سے کہے کہ تُو میرے دین میں کسی مَصرف کا نہ تھا۔ ہمارا خد اربّ العالمین ہے اورربّ العالمین کی آواز تمام بنی نوع انسان کے لئے ہے۔ چاہے وہ کمزور ہو یا طاقتور، جوان ہوں یا اُدھیڑ عمر کے، بچے ہوں یا بوڑھے، عالم ہوں یا جاہل، پھر خواہ وہ فنون سے واقفیت رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں، مال رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں او ربنی نوع انسان میں سے ہر شخص کے اندر کوئی نہ کوئی ایسی طاقت ہونی چاہئے جس سے خدمتِ دین میں کام لے کر وہ فخر کرسکے اور کہہ سکے کہ میں نے بھی اپنے ربّ کی آواز کو سنا اور اس کا جواب دیا۔ بے شک اللہ تعالیٰ بے انتہاء رحم کرنے والا ہے اور وہ اپنے رحم سے جس کو چاہے بخش دے کون اُس کے ہاتھ کو روک سکتا ہے۔ اگر وہ فیصلہ کردے کہ نمرود اور شداد اور فرعون کو جنت میں داخل کردیاجائے تو کون اسے روک سکتا ہے۔ یا فیصلہ کردے کہ عتبہ یا شیبہ اور ابوجہل کو معاف کردیا جائے تو کون اسے منع کرسکتا ہے۔ وہ مالک اور آقا ہے کون ہے جو اس پر اعتراض کرے، کون ہے جو اس کے ہاتھ کو روک سکے۔ پس وہ ان بوڑھوں، اپاہجوں، کمزوروں، ناطاقتوں اور جاہلوں کو اپنے فضل سے جنت میں لے جاسکتاہے جنہیں ا س کے دین کی خدمت کرنے کا کوئی موقع نہ ملا ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں کیا احساس ہوگا۔ بے شک ایک رنگ میں سب ہی خداتعالیٰ کے فضل سے نجات پائیں گے۔
رسول کریم ﷺ نے بھی اہل بیت میں سے ایک کے سوال پر فرمایاتھا کہ میری نجات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے ؎ ۱ ۔ یہ سب سچ ہے مگر ایک فضل اعمال کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اور ایک بغیر اعمال کے فضل ہوتا ہے۔ ایک مؤمن کا جنت میں جانا اورایک کافر کا جنت میں جانا دونوں اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہیں مگر ان دونوں میں بہت بڑا فرق بھی ہے۔ ایک مؤمن کی گردن فخر سے اونچی ہوتی ہے اور وہ کہتا ہے میں نے اپنے ربّ کی آواز کو سنا اور اس پر حتَّی المقدور عمل کرنے کی کوشش کی اس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ نے مجھ پر فضل کیا اور جنت میں داخل کردیا مگر کافر کی گردن شرم سے نیچی ہوتی ہے وہ کہتا ہے میں نے اپنے ربّ کی آواز کو سنا اور اس کا انکار کیا مگر پھر بھی اپنے فضل سے مجھے جنت میں داخل کردیا۔ پس گو نتیجہ ایک ہے مگر دونوں کے ذرائع میں فرق ہے اور دونوں کے احساسات اور جذبات میں فرق ہے۔ یہ تمہارے اپنے اختیار میں ہے کہ تم ایک ہی دستر خوان پر اپنے بچے کو بٹھائو اور اسی پر ایک فقیر کو بٹھادو۔ بے شک کھانا ایک ہوگا مگر تمہارا بچہ جب کھانا کھارہا ہوگا تو گو وہ سمجھے گا کہ مجھ پر میرے باپ کا احسان ہے مگر وہ ساتھ ہی کہے گا میرا حق بھی ہے کہ میں کھائوں لیکن وہی کھانا فقیر کھائے گا اور کہے گا میرا حق تو نہیں صرف اس کی نوازش ہے جس نے مجھے اپنے دسترخوان پر بٹھالیا۔ تو چیز ایک ہے، نظارہ ایک ہے، مزہ ایک ہے لیکن احساس اور جذبات مختلف ہیں۔ اسی طرح بے شک یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس اپاہج، اس جاہل، اس غریب اور اس کمزور کو بھی جنت میں لے جاسکتا ہے جس نے دین کی کوئی خدمت نہ کی ہو مگر سوال یہ ہے کہ وہ اپنے دوسرے مؤمن بھائیوں کے سامنے گردن کس رنگ میں اُٹھائے گا۔ ایک مؤمن جس نے تمام عمر جہاد میں گزاردی اور مرنے کے بعد خداتعالیٰ نے اسے جنت میں داخل کیا وہ کہے گا میں بے شک کمزور ہوں مگر خداتعالیٰ نے مجھے جس قدر طاقتیں دیں ان کے مطابق میں نے اس کی راہ میں کام کیا اور اس نے مجھے جنت میں داخل کردیا۔ ایک مؤمن جس نے دنیا میں مالی قربانی کی اورمرنے کے بعد خداتعالیٰ نے اسے جنت دے دی وہ کہے گا کہ میں بالکل کمزور تھا اور مال خدا تعالیٰ کا ہی عطا کردہ تھا مگر اُسی کی توفیق کے ماتحت میں نے وہ مال اس کی راہ میں خرچ کیا اور خداتعالیٰ نے مجھے جنت دے دی۔ ایک اہلِ فن اور حرفہ جس نے دین کی خدمت کیلئے اپنی فنّی زندگی وقف کردی اور مرنے کے بعد جنت میں داخل ہؤا وہ کہے گا میں بے شک کچھ نہیں کرسکتا تھا اور یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان تھا کہ اُس نے مجھے فن اور حرفہ سکھایا مگر میں ان سے تو اچھا رہا جنہیں خداتعالیٰ نے فن اور حرفہ سکھایا اور انہوں نے اپنے ربّ کی آواز بھی سنی مگر اس پر عمل نہ کیا میرے پاس جو کچھ تھا وہ میں نے خرچ کردیا اور جو فن آتا تھا اس سے دین کی خدمت کردی۔ مگر جو مؤمن نہ اپنے پاس مال رکھتا تھا کہ مالی خدمت کرتا، نہ طاقت رکھتاتھا کہ جسمانی خدمات بجالاتا اور جہاد کرتا، نہ علم رکھتا تھا کہ تبلیغ کرسکتا، وہ مؤمن جس کو ایمان تو نصیب ہوا لیکن زبان نصیب نہ ہوئی کہ اس سے کام لے، وہ مؤمن جسے ایمان تو نصیب ہؤا مگر ہاتھ نصیب نہ ہوئے کہ ان سے کام لے، وہ مؤمن جسے ایمان تو نصیب ہؤا لیکن پائوں نصیب نہ ہوئے کہ ان سے خداتعالیٰ کی راہ میں کام لے سکے بے شک وہ جنت میں داخل ہوجائے لیکن بتائو وہ کیا کہے گا؟ کیا وہ یہ کہے گا کہ میرے ربّ نے مجھے انسان تو بنایا لیکن انسانی کاموں کی توفیق نہ دی اور اب مجھے جنت میں لے تو آیا ہے مگر جنت کے حصول کے کاموں میں میرا کوئی حصہ نہیں۔ کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ہمارا خدا جو غیور خدا ہے جو اپنے بندوں پر انتہائی رحم و شفقت کرنے والا ہے اس نے بندوں کو اسی حالت میں چھوڑ دیا ہوگا اور ان کی اس حسرت کا کوئی علاج نہ کیا ہوگا؟
میں نے ۱۹۳۴ء میں بتایا تھا کہ ہمارے خدا نے ایک تدبیر بتائی ہوئی ہے جس سے وہ اپاہج جو ہاتھ نہیں ہلاسکتے، وہ گونگے جن کی زبان نہیں، وہ غریب جن کے پاس مال نہیں، وہ کمزور اور نحیف جو چارپائی سے اُٹھنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے، وہ سب اُس وقت تک کہ وہ انسان کہلاتے ہیں اور انسان رہتے ہیں ویسی ہی دین کی خدمت کرسکتے ہیں جیسے وہ تندرست جو جہاد میں شامل ہوتے ہیں اور جیسے وہ مجاہد جو دین کی خدمت کیلئے اپنے ملکوں سے باہر جاتے ہیں۔ وہ کیا چیز ہے؟ وہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ ارادئہ نیک اور دعائے اضطرار اعمالِ حسنہ میں سے ایک بہت بڑاعمل ہے۔ لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہاتھ پائوں کا ہِلانا ہی عمل ہے مگر قرآن مجید نے دنیا کے سامنے یہ نکتہ پیش کیا ہے کہ دل کا مستقل ارادہ بھی عمل ہے اوردعا بھی عمل ہے۔
چنانچہ رسول کریم ﷺ جب ایک جہاد میںتشریف لے گئے جس میں مسلمانوں کو بہت سی دقتیں پیش آئیں تو آپ کو محسوس ہؤا کہ بعض صحابہ یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ انہوں نے دین کی خدمت دوسروں سے نمایاں طور پر کی ہے اس پر آپؐ نے صحابہ کی طرف دیکھا اور فرمایا کچھ لوگ مدینہ میں ایسے رہتے ہیں کہ تم کسی وادی میں سے نہیں گزرتے اور کوئی تکلیف خداتعالیٰ کے رستہ میں برداشت نہیں کرتے مگر جس طرح تمہیں ثواب ملتا ہے اسی طرح انہیں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! یہ کیونکر ہم اسلام کی خدمت کیلئے باہر نکلے ہوئے ہیں، خداتعالیٰ کی راہ میں جہاد کررہے ہیں، اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو قربان کرکے طرح طرح کی تکلیفیں اُٹھارہے ہیں اور وہ مدینہ میں آرام سے بیٹھے ہیں پھر وہ اسی ثواب کے مستحق کیونکر ہوسکتے ہیں جس کے ہم ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ ٹھیک ہے مگر جن کا مَیں ذکر کررہا ہوں وہ وہ معذور لوگ ہیں کہ اگر ان کے ہاتھ پائوں ہوتے تو وہ بھی جہاد کیلئے نکلتے، اگر ان کے پاس مال ہوتا تو وہ بھی خداتعالیٰ کی راہ میں اسے خرچ کرتے، اگر ان کے پاس طاقت ہوتی تو وہ بھی اس سے کام لے کر خداتعالیٰ کے دین کی مدد کرتے مگر ان کے پاس کچھ نہیں وہ معذور ہیں اور اپنی معذوری کو دیکھ کر ان کے دل مدینہ میں بیٹھے خون ہو رہے ہیںاور کہتے ہیں کاش! ہمارے پاس مال ہوتا ، کاش! ہمارے پاس طاقت ہوتی تو آج ہم بھی جہاد کرتے۔ پس وہ خداتعالیٰ کے حضور تم سے کچھ کم ثواب کے مستحق نہیں بلکہ ویسے ہی ثواب کے مستحق ہیں جیسے تم ہو اور گو ان کے پاس سامان نہیں مگر ان کا ارادہ یہی ہے کہ اگر سامان ہوتا تو ہم اس سے کام لے کر خداتعالیٰ کی راہ میں نکل کھڑے ہوتے ؎۲ ۔ پس ان کا ارادہ خود عمل ہے اور وہ بھی ویسے ہی ثواب کا مستحق ہے جیسے اور انسانی اعمال۔ حقیقت یہ ہے کہ نیک ارادہ، نیک عمل سے مشکل ہوتا ہے۔ تم نیک عمل منافقت سے کرسکتے ہو مگر تم نیک ارادہ منافقت سے نہیں کرسکتے۔ ایک کمزور سے کمزور انسان منافقت کے ساتھ نیک عمل کرسکتا ہے مگر ایک طاقتور سے طاقتور انسان منافقت کے ساتھ نیک ارادہ نہیں کرسکتا۔ پس ارادے کی طاقت عمل سے زیادہ ہوتی ہے تم عمل کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہو لیکن ارادہ کو اُس وقت تک اپنی مرضی کے مطابق نہیں ڈھال سکتے جب تک تم اپنے ذہن میں اس ارادہ کے مطابق تبدیلیاں پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوجائو۔ پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ ہاتھ پائوں کا عمل زیادہ قیمتی شے ہے اور دل کا عمل بے حقیقت شے ہے۔ خصوصاًجبکہ حقیقت یہ ہے کہ عمل ارادے کے تابع ہے ۔ جب ارادہ طاقت پکڑ لیتا ہے تو جس میں قوتِ عمل نہ ہو اس سے بھی اپنے منشاء کے مطابق عمل کرالیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ؎۳ یعنی عمل نیّتوں کے تابع ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے نیت بدلتی جاتی ہے اس کے مطابق اعمال کی شکل بھی تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے او رایک ہی کام جو ایک کیلئے ترقی اور روحانی بلندی کا موجب ہوتاہے نیت کے بدل جانے کی وجہ سے دوسرے کیلئے ذلّت اور رُسوائی کا موجب بن جاتا ہے۔
چنانچہ دیکھ لو وہ نماز جو خداتعالیٰ کی خوشنودی کا موجب ہے، وہ نماز جو الٰہی محبت میں بیتاب ہوکر جب اد اکی جاتی ہے تو انسان کو خداتعالیٰ کے قریب کردیتی ہے۔ وہی نماز ایک دوسرے وقت میں دوسرے انسان کیلئے باوجود یکہ نماز کی وہی شکل رہتی ہے ، عبارتیں وہی پڑھی جاتی ہیں، وقت اتنا ہی خرچ کیا جاتا ہے بلکہ زیادہ کیونکہ اس میں رِیاء کا پہلو بھی شامل ہوتا ہے دُکھ اور عذاب کاموجب بن جاتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ ؎۴ کہ ایک نمازی ایسے ہوتے ہیں جن پر خداتعالیٰ کا عذاب ہوتا ہے تو نیتوں کی تبدیلی کی وجہ سے انسانی اعمال کی شکل بالکل تبدیل ہوجاتی ہے۔ ایک ڈاکٹر بھی مریض کے جسم میںچاقو مارتا ہے اور ایک قاتل بھی چاقو مارتا ہے مگر ایک کو تم فیس دیتے اور دوسرے کو پھانسی کی سزا دلوانے کی کوشش کرتے ہو۔ مارتے دونوں چاقو ہیں مگر ایک کے تم ممنونِ احسان ہوتے ہو اور دوسرے کے دشمن ہوجاتے ہو اِس کی کیا وجہ ہے؟ اِس کی یہی وجہ ہے کہ اِن دونوں کے پیچھے مختلف ارادے کام کررہے ہوتے ہیں۔ ایک کا ارادہ شِفا دینے کا ہوتا ہے اور دوسرے کا ارادہ چاقو مار کر ہلاک کرنا ہوتا ہے۔
پس اعمال ہمیشہ ارادہ کے تابع ہوتے ہیں اور جب کوئی خدمتِ دین کا پختہ ارادہ کرتا ہے اور ہروقت یہ خیال اُس کے دل پر غالب رہتا ہے کہ کاش! اُس کو توفیق ملتی اور وہ بھی اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح خدمتِ دین کرسکتا لیکن سامانوںکی عدم موجودگی کی وجہ سے اس ارادہ کو عملی صورت میں ظاہر نہیںکرسکتا تو وہ بھی خداتعالیٰ کے حضور ویسا ہی سمجھا جاتا ہے جیسے خدمت دین کرنے والا اوریہ نیک ارادہ اُسے دوسرے سے پیچھے نہیں کرتا بلکہ ان کے برابر رکھتا اور خداتعالیٰ کے قریب کردیتا ہے کیونکہ خداتعالیٰ اس قسم کے ارادہ کو عمل سمجھتا ہے بلکہ اعمال میں بہت بڑا عمل قرار دیتا ہے۔ جو شخص مضبوط ارادہ دین کی خدمت کا رکھتا ہے وہ ویسا ہی جیسے خدمتِ دین عملی صورت میں کرنے والا بشرطیکہ ارادہ کے ساتھ عمل کی قوت اُس میںنہ ہو۔ اور اگر عمل کی قوت تو ہو لیکن صرف ارادے پر اکتفا کرے تو وہ منافق ہے اور اس قسم کا ارادہ بجائے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے جذب کرنے کے اس کے عذاب کاموجب بن جاتا ہے ۔ لیکن عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ارادہ اور خیال میں فرق نہیں کرتے حالانکہ خیال اور چیزہے اور ارادہ اور چیز۔ لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ جب ان کے دل میں کوئی نیک خیال پیدا ہو تو وہی ارادہ ہوتا ہے اور اس وجہ سے وہ اس دھوکا میں آسکتے ہیں کہ گویا ان کے نیک ارادے ہیں حالانکہ وہ ارادے نہیں بلکہ خیالات ہوتے ہیں اور خیال اور ارادہ میں وہی فرق ہوتا ہے جو ایک باپ اور اجنبی آدمی کے احساسات میں اُس وقت فرق ہوتا ہے جب وہ بچہ کو دیکھتے ہیں۔بچہ وہی ہوتا ہے، ہاتھ پائوں اس کے وہی ہوتے ہیں، خدوخال وہی ہوتاہے لیکن جب اسے باپ دیکھتا ہے تو اس کے دل میں اور قسم کے احساسات پیدا ہوتے ہیں اور جب اجنبی دیکھتا ہے تو اَور قسم کے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔ دونوں کے دل میں بچہ کودیکھ کرخیال تو پیدا ہوتا ہے مگر ایک ادنیٰ خیال ہوتا ہے اور ایک اعلیٰ۔ اسی طرح ارادہ اور خیال میں فرق ہے۔ ارادہ اس قوت کو کہتے ہیں جس کے ماتحت اعمال صادر ہوتے ہیں اور خیال اس علم کو کہتے ہیں جو کسی کے متعلق حاصل ہو۔ تمہارے دل میں ہزاروں بار ایک چیز کا خیال آسکتا ہے بغیر اس کے کہ تم اس کا ارادہ کرو اور گو ارادہ سے خیال جدا نہیں ہوتا لیکن خیال سے ارادہ بسا اوقات جدا ہوتا ہے اور خیال بغیر ارادہ کے علم کی ایک کیفیت ہے اور ارادہ علم اور عمل دونوں کا جامع ہے۔ گویا وہ مقام جس میں علم اور عمل باہم ملتے ہیں اور جب انسان یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ میں نے فلاں کام کرنا ہے اور اپنا قلب اور اس کا تمام ماحول اس کیلئے لگا دیتا ہے اس کو ارادہ کہتے ہیں اور اس طرح ارادہ، اعمال کا خالق ہوتا ہے مگر محض خیال عمل کا خالق نہیں ہوتا۔ یہی چیز ہے کہ جب مذہبی امور کے متعلق ہو تو اسے ایمان کہتے ہیں ایمان خیال کا نام نہیں۔ ہزاروں ہندو ہیں جو رسول کریم ﷺ کو سچا سمجھتے ہیں، ہزاروں عیسائی ہیں جو رسول کریم ﷺ کو سچا سمجھتے ہیں، ہزاروں سکھ ہیں جو رسول کریم ﷺ کو سچا سمجھتے ہیں مگر تم نہیں کہتے کہ وہ رسول کریم ﷺ پر ایمان لے آئے ہیں کیوں؟ اس لئے کہ صداقت کا محسوس کرلینا علم ہے ایمان نہیں۔ ایمان اُس حالت کو کہتے ہیں جب انسان اس کے تابع ہو اور وہ اپنے نفس کو کُلّیۃً اسی طرف لگادے اور زندگی کو اس ایمان کے طریق پر ڈھال لے۔ پس خالی صداقت کا قائل ہونا ایمان نہیں بلکہ یقین کے اس مرتبہ کو پہنچ جاناکہ اعمال آپ ہی آپ اس کے مطابق ڈھلتے جائیں ایمان کہلاتا ہے۔ بے شک کمزور حالت میں ایمان مخفی بھی ہوسکتا ہے مگر ا س مخفی ایمان کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ عمل مخفی کرتاہے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ عمل کرتا ہی نہیں۔ مثلاً قرآن مجید میں آل فرعون میں سے ایک شخص کے متعلق آتا ہے کہ یَکْتُمُ اِیْمَانَہٗ ؎۵ وہ اپنے ایمان کو چھپاتا تھا۔ اس کے صرف یہ معنی نہیں کہ وہ دل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سچا سمجھتا تھا بلکہ یہ ہیں کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاچکا تھا صرف اعمال اس کے ظاہر نہ تھے لیکن ایمان دراصل عمل کے بغیر ہوتا ہی نہیں۔ لیکن اس ایمان سے حقیقی ایمان مراد ہے رسمی ایمان مراد نہیں۔ ایک ایمان نام کا ہوتا ہے جیسے قرآن مجید میں آتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ وہ مؤمن نہیں ہوتے ؎۶ ۔ لیکن چونکہ ظاہری طور پر وہ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، قرآن مجید پر ایمان رکھنے کا اِدّعا کرتے ہیں اس لئے ظاہری شکل کی وجہ سے ہم اسے ایمان کہہ دیتے ہیں حقیقت کی رو سے نہیں۔ جیسے مٹی کے بنے ہوئے آم، یا مٹی کے بنے ہوئے سنگترے کو بھی ہم آم اور سنگترہ ہی کہتے ہیں اگرچہ ان میں آم اور سنگترہ کی حقیقت نہیں ہوتی۔ پس چونکہ انسان کے نیک ارادے اور نیک خیال میں امتیاز مشکل ہوتا ہے اس لئے وہ امتیاز عمل سے ظاہر ہوجاتا ہے۔ نیک ارادہ کے ماتحت انسان سے آپ ہی آپ اس کے مطابق عمل بھی ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے لیکن نیک خیال کے ماتحت عمل کاپیدا ہوجانا ضروری نہیں ہوتا۔ پس نیک ارادہ اور نیک خیال میں یہی فرق ہے کہ نیک بات کے متعلق خیال پیدا ہوکر بھی عمل کی حالت ابھی بہت دور ہوتی ہے لیکن نیکی کے ارادہ کے بعد ساتھ ہی عمل بھی شروع ہوجاتا ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ ایک نے صرف خیالات تک اپنے آپ کو محدود رکھا اور دوسرے نے عمل بھی شروع کردیا۔
مگر بہرحال یہ سوال پھر بھی رہ جاتا ہے کہ وہ کمزور اور بے کس جنہیں خداتعالیٰ نے اپنی آواز پر لَبَّیْکَ کہنے کی توفیق دی مگر سامانوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ کوئی خدمتِ دین کا کام نہیں کرسکتے ان کیلئے کوئی ایسا ذریعہ ہے جس سے ان کی عملی قوت برقرار رہے اور وہ بھی کہہ سکیں کہ ہم نے بھی خداتعالیٰ کے دین کی لئے جوطاقتیں ہمیں میسر تھیں لگادیں۔ وہ عمل جیسا کہ میں نے گزشتہ سال بتایا تھا دعا ہے۔ دعا ان اعمال میں سے ہے جس کیلئے کسی مال کی ضرورت نہیں، کسی علم کی ضرورت نہیں ، کسی فن کی ضرورت نہیں، کسی طاقت و قوت کی ضرورت نہیں، اگر کسی کے ہاتھ نہیں کہ وہ ہاتھ اُٹھا کر دعا کرسکے، اگر کسی کی کمر میں ہِلنے جُلنے کی طاقت نہیں کہ وہ چارپائی سے اُٹھ کر نما ز کی حرکات ادا کرسکے تب بھی وہ دعاکرسکتا ہے کیونکہ دُعا ان چیزوں کی محتاج نہیں بلکہ اگر اس کی پیٹھ اکڑ گئی ہے تو وہ لیٹا رہے اور دعا کرے۔ اگر اس کی زبان پر فالج گِرا ہؤا ہے اور وہ دعا کیلئے اپنی زبان نہیں ہِلاسکتا تو دماغ میں دعائیہ فقرات کو دُہرائے۔ اور اگر اس کا دماغ بھی جاتا رہے تو پھر وہ انسانیت سے نکل گیا۔ ایسا انسان زندوں کی بجائے وفات یافتہ لوگوں میں شامل ہوجاتا ہے اور اُس کا زمانۂ عمل ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن جب تک ایک انسان دنیا میں رہتا ہے اور انسانیت کی حدود سے اِدھر اُدھر نہیں ہوتا اُس وقت تک معذور سے معذور انسان بھی عمل کرسکتا ہے اور وہ دعا کا عمل ہے۔ اسے خداتعالیٰ نے باقی اعمال سے کم حیثیت نہیں دی بلکہ یقینا زیادہ حیثیت دی ہے۔ سارے قرآن کریم میں خداتعالیٰ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر تم جہاد کرو گے تو میں تمہارے پاس ضرور آجائوں گا، سارے قرآن کریم میں خداتعالیٰ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر تم نماز پڑھو گے تو میں تمہارے پاس ضرور آجائوں گا، سارے قرآن کریم میں یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر تم روزہ رکھو گے تو میں ضرورتمہارے پاس پہنچ جائوں گا۔ غرض کسی عمل کے متعلق قرآن کریم میں یہ نہیں لکھا کہ اس کے نتیجہ میں ضرور خداتعالیٰ کا قُرب انسان کو حاصل ہوجاتا ہے مگر ایک عمل ہے جس کے متعلق خداتعالیٰ نے کہا ہے کہ اگر کوئی وہ عمل کرے تو میں ضرور اس کے پاس پہنچ جاتا ہوں اور وہ دعا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَا ہُ ؎۷ ۔ وہ کونسی ہستی ہے جو بندہ کی دعائے مضطر سن کر بے تاب ہوکر اُس کے پاس آجاتی ہے؟ فرمایا وہ میں ہوں۔ تو یہ عمل سب اعمال سے زیادہ طاقتور ہے کیونکہ طاقتور دراصل وہی عمل ہے جس میں سب بنی نوع انسان شامل ہوں اور جو عمل تمام روئے زمین کے انسانوں کومساوات کے میدان میں لے آئے۔ نماز میں امتیاز ہوسکتا ہے کیونکہ ممکن ہے ایک شخص کھڑا ہوکرنماز پڑھے اور دوسرا بیٹھ کر، روزہ میں امتیاز ہوسکتاہے کیونکہ ممکن ہے ایک شخص میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو مگر دوسرے میں نہ ہو، تبلیغ میں امتیاز ہوسکتاہے کیونکہ ممکن ہے ایک کو تبلیغ کرنی آتی ہو اور دوسرے کو نہ آتی ہو یا وہ علم نہ رکھتاہو یا تبلیغ کی طاقت نہ رکھتاہو، اسی طرح جہاد، تربیت اور لین دین کے معاملات میں امتیاز نظر آجائے گا اور وہ مجبوری کا امتیاز ہوگا مگر دعا میںمجبوری کا کوئی امتیاز نہیں ہاں مرضی کا امتیاز ہوسکتا ہے۔ لیکن بہرحال دعا ایک ایسی چیز ہے کہ وہ گونگا جس کی زبان نہیں، وہ بہرہ جس کے کان نہیں، وہ مفلوج جس کے جسم کی حِسّ ماری گئی ہو اور گوشت کا ایک لوتھڑا بن کر چارپائی پر پڑا ہؤا ہو وہ بھی اُسی جوش و خروش سے اپنے ربّ کے حضور دعا کاہدیہ پیش کرسکتا ہے جس طرح ایک تندرست اور طاقتور انسان اور اس عمل میں بنی نوع انسان میں قطعاً کوئی امتیاز نہیں۔ ایک چارپائی پر پڑا ہؤا بے حس انسان بھی جس میں حرکت کرنے کی تاب نہیں اپنے خدا کے حضور دعا کے ذریعہ عقیدت کا ہدیہ پیش کرسکتا ہے اور وہ بھی خداتعالیٰ کے فضلوں کو اسی طرح جذب کرسکتا ہے جس طرح اور انسان جو نماز پڑھتے، روزہ رکھتے اور احکامِ اسلامی پر عمل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
پس دعا وہ چیز ہے جس نے دنیا کے تمام چھوٹوں اور بڑوں اور امیروں اور غریبوں کو ایک سطح پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض صوفیاء نے کہا اسلام دُعا کا نام ہے اور دُعا اسلام ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلام دنیا میں مساوات قائم کرنے کیلئے آیا ہے مگر وہ کونسا عمل ہے جو سب کو مساوات بخشتا ہے۔ نماز سب میں مساوات قائم نہیں کرتی کیونکہ عورتوں پر کچھ دن ایسے آتے ہیں جب وہ نماز کی ادائیگی سے معذور ہوجاتی ہیں۔ پھر جب انسان بوڑھا ہوجائے تو کھڑا ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتا اور زیادہ کمزور ہوجائے تو مسجد میں نماز کیلئے نہیں آسکتا۔ اسی طرح حج ہے، زکوٰۃ ہے، صدقہ ہے اور اور بھی بہت سے اعمال ہیں جوخداتعالیٰ نے انسان کی بہتری کیلئے دیئے اور ہمیں ان سے مالا مال کیا ۔ مگر کوئی عمل ایسا نہیں جو سب کو ایک مقام پرلے آئے اور حقیقی مساوات قائم کرکے دکھلائے سوائے نیک ارادہ یا دعا کے یا مذہبی نقطۂ نگاہ سے یہ کہو کہ سوائے ایمان اور دعا کے۔ کیونکہ اسی چیز کا نام مذہبی اصطلاح میں ایمان بن جاتا ہے جسے دُنیوی اصطلاح میں نیک ارادہ کہتے ہیں۔ قوتِ ارادی جب خداتعالیٰ کے تابع ہوجائے تو وہ ایمان بن جاتی ہے لیکن جب آزاد ہو تو صرف ارادی قوت کہلاتی ہے جیسے خواہش جب انسان کے تابع ہو تو محض خواہش کہلاتی ہے لیکن جب خداتعالیٰ کے تابع ہو تو دعا کہلاتی ہے۔ یہ دو چیزیں مل کر دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کرسکتی ہیں، یہ زمین و آسمان کوہِلا سکتی ہیں۔ دنیا دار لوگوں نے اس قوت سے کام لیا اور اس کانام انہوں نے مسمریزم ، ہِپناٹزم اور میجک (MAGIC) رکھا اور اس کیلئے انہوں نے بڑی بڑی مشقیں کیں مگر وہ سب دُنیوی چیزیں ہیں اور حقارت کے قابل ہیں لیکن جس وقت یہ چیزیں خداتعالیٰ کے دین کے رنگ میں رنگین ہو جاتی ہیں انہیں ایمان اور دعا کہتے ہیں اور ان سے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے جاسکتے ہیں۔
علمِ توجہ کیا ہے؟ وہ محض چند کھیلوں کا نام ہے لیکن دعا وہ ہتھیار ہے جو زمین وآسمان کو بدل دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی دعویٰ نہیں کیا تھا صرف براہین احمدیہ لکھی تھی کہ اس کی صوفیاء و علماء میں بہت شُہرت ہوئی۔ پیر منظور محمد صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب کے والد صوفی احمد جان صاحب اُس زمانہ کے نہایت ہی خدارسیدہ بزرگوں میں سے تھے۔ جب انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار پڑھا تو آپ سے خط و کتابت شروع کردی اور خواہش ظاہر کی کہ اگر کبھی لدھیانہ تشریف لائیں تو مجھے پہلے سے اطلاع دیں۔ اتفاقاً اُنہیں دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لدھیانہ جانے کا موقع ملا۔ صوفی احمد جان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت کی۔ دعوت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے گھر سے واپس تشریف لارہے تھے کہ صوفی احمدجان صاحب بھی ساتھ چل پڑے۔ وہ رتر چھتر والوں کے مرید تھے اور ماضی قریب میں رتر چھتر والے ہندوستان کے صوفیاء میں بہت بڑی حیثیت رکھتے تھے اور تمام علاقہ میں مشہور تھے۔ علاوہ زُہد و اِتقاء کے انہیں علمِ توجہ میں اِس قدر ملکہ حاصل تھا کہ جب وہ نماز پڑھتے تو ان کے دائیں بائیں بہت سے مریض صف باندھ کر بیٹھ جاتے۔ نماز کے بعد جب وہ سلام پھیرتے تو سلام پھیرنے کے ساتھ ہی دائیں بائیں پھونک بھی ماردیتے جس سے بہت سے مرید اچھے ہوجاتے۔ صوفی احمد جان صاحب نے ان کی بارہ سال شاگردی کی اور وہ ان سے چکی پسواتے رہے۔ راستہ میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ میں نے اتنے سال رترچھتر والوں کی خدمت کی ہے اور اس کے بعد مجھے وہاں سے اِس قدر طاقت حاصل ہوئی ہے کہ دیکھئے میرے پیچھے جو شخص آرہا ہے اگر میں اس پر توجہ کروں تو وہ ابھی گِرجائے اور تڑپنے لگے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ سنتے ہی کھڑے ہوگئے اور اپنی سوٹی کی نوک سے زمین پرنشان بناتے ہوئے فرمایا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی جب آپ پر خاص جوش کی حالت ہوتی تو آہستگی سے اپنی سوٹی کے سر کو اس طرح زمین پر آہستہ آہستہ رگڑتے جس طرح کوئی چیز کُرید کر نکالنی ہو) صوفی صاحب! اگر وہ گِرجائے تو اس سے آپ کو کیا فائدہ ہوگا اور اُس کو کیا فائدہ ہوگا؟ وہ چونکہ واقعہ میں اہل اللہ میں سے تھے او رخداتعالیٰ نے اُن کو دُوربین نگاہ دی ہوئی تھی اس لئے یہ بات سنتے ہی اُن پر محویت کا عالَم طاری ہوگیا اور کہنے لگے میں آج سے اس علم سے توبہ کرتا ہوں مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ یہ دُنیوی بات ہے دینی بات نہیں۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے ایک اشتہار دیا جس میں لکھا کہ یہ علم اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں۔ چنانچہ کوئی ہندو اور عیسائی بھی اس علم میں ماہر ہونا چاہے تو ہوسکتا ہے اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ آج سے میرا کوئی مرید اسے اسلام کا جزو سمجھ کر نہ کرے ہاں دُنیوی علم سمجھ کر کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ میں نے کہا ہے کہ خداتعالیٰ نے انہیں دُوربین نگاہ دی ہوئی تھی اس کا ہمارے پاس ایک حیرت انگیز ثبوت ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی براہین احمدیہ ہی لکھی تھی کہ وہ سمجھ گئے یہ شخص مسیح موعود بننے والا ہے حالانکہ اُس وقت ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی یہ انکشاف نہیں ہؤا تھا کہ آپ کوئی دعویٰ کرنے والے ہیں۔ چنانچہ اُنہی دنوں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خط میں یہ شعر لکھا
ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نگاہ
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
یہ امر بتاتا ہے کہ وہ صاحبِ کشف تھے اور خداتعالیٰ نے انہیں بتادیا تھا کہ یہ شخص مسیح موعود بننے والا ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ سے پہلے فوت ہوگئے مگر وہ اپنی اولاد کو وصیت کرگئے کہ حضرت مرزا صاحب دعویٰ کریں گے انہیں ماننے میں دیر نہ کرنا۔ اسی تعلق کی بناء پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی شادی ان کے ہاں ہوئی۔
غرض علمِ توجہ ایک دُنیوی چیز ہے زیادہ سے زیادہ لوگ یہ کرلیتے ہیں کہ توجہ سے کسی کے دل میں وہم پیدا کرلیتے ہیں، کسی کو بیہوش کردیا، بعض ماضی کے اخبارات دریافت کرلئے، بعض حال کے واقعات معلوم کرلئے، معمول کو بے حس اور بے طاقت کردیا۔ غرض اِس قسم کے افعال علمِ توجہ سے ہوسکتے ہیں اورہوتے ہیں مگر دعا کے مقابل اس کی کیا حقیت ہے۔ علمِ توجہ کے اثرات انفرادی ہوتے ہیں مگر دعا کے اثرات انفرادی ہی نہیں بلکہ مجموعی بھی ہوتے ہیں۔ پھر تم نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ علمِ توجہ سے کوئی شخص حکومتوں کا تختہ اُلٹ دے، مذاہبِ باطلہ کو دنیا سے نیست و نابود کردے مگر دعا کے مقابلہ میں دنیا کی ساری بادشاہتیں مل کر بھی ہیچ اور ذلیل ہوجاتی ہیں اور جب خداتعالیٰ کا ایک مسکین اور عاجز بندہ اپنی مسکنت کی چادر اوڑھ کر خداتعالیٰ سے یہ کہتا ہے کہ اے میرے ربّ! تُو میرا خالق اور میں تیرا بندہ ہوں تیرا حق ہے کہ تُو مجھ سے جو چاہے کرے لیکن تیرے بندے مجھ پر کیوں ظلم کرتے ہیں؟ تب خداتعالیٰ کی غیرت بھڑکتی اور بڑے بڑے جابر اور ظالم بادشاہوں کا اس طرح تختہ اُلٹ دیتی ہے کہ ان کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے۔
ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ ان کے محلہ میں شاہی دربار کے بعض آدمی رات کو گانا بجانے کا شغل رکھتے ۔ انہوں نے کئی دفعہ سمجھایا کہ لوگوں کی نیندیں اور نمازیں خراب ہوتی ہیں تم اِس شغل کو ترک کردو مگر وہ نہ مانے۔ جب انہوں نے بار بار کہا تو اس خیال کے ماتحت کہ کہیں یہ محلہ والوں سے مل کر ہمیں روکنے کا تہیّہ نہ کرلیں انہوں نے شاہی پہرہ داروں کا انتظام کرلیا۔ جب اس بزر گ کو اطلاع ملی تو انہوں نے کہا اچھا !اُنہوں نے اپنی حفاظت کیلئے فوج بُلالی ہے تو ہم بھی رات کے تِیروں سے ان کامقابلہ کریں گے۔ معلوم ہوتا ہے ان لوگوں کے دلوں میں ابھی کچھ نیکی باقی تھی جونہی ان کے کان میں یہ آواز پڑی کہ ہم رات کے تیروں سے مقابلہ کریں گے، وہ دَوڑتے ہوئے اُس بزرگ کے پاس آئے اور کہنے لگے اِن تیروں کے مقابلہ کی ہم میں طاقت نہیں ہم اپنے شغل سے باز آئے۔پس دعا ایسا ہتھیار ہے کہ اگر کوئی کامل یقین اور پختہ ارادہ کے ساتھ اس سے کام لیتا ہے تو اس کے مقابلہ میں کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔
میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ آپ لوگوں میں سے بعض امراء ہیں وہ مالی لحاظ سے تحریک جدید میں زیادہ حصہ لیں گے، بعض اہلِ علم ہیں وہ تبلیغی لحاظ سے تحریک جدید میں زیادہ حصہ لیں گے، بعض اہل حرفہ ہیں وہ مثلاً غیرممالک میں نکل جانے کے لحاظ سے تحریک جدید میں زیادہ حصہ لیں گے، بعض بچوں والے ہیں وہ تحریک جدید کے بورڈنگ والی تحریک میں زیادہ حصہ لیں گے مگر کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو نہ اپنے پاس مال رکھتے ہوں گے، نہ دولت، نہ علم، نہ حرفہ، نہ فن۔ وہ دل میں کڑھتے ہوں گے او رکہتے ہوں گے ہمارا اس ثواب میں کیا حصہ ہے اورخداتعالیٰ کی اس آواز پر لبیک کہنے والوں میں ہم کیونکر شامل ہوں؟ میں نے بتایا تھا کہ انہیںیاد رکھنا چاہئے کہ خداتعالیٰ نے ان کا بھی اس تحریک میں حصہ رکھا ہے جو دوسروں سے کسی طرح کم نہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ وہ دُعا کریں کہ اس جنگ میں جو آج ہمیں دوسروں سے درپیش ہے خداتعالیٰ ہمیں فتح دے اور مقابلہ کرنے والے دشمنوں کو ذلیل اور رُسوا کرے۔ اس عمل کے نتیجہ میں وہ ان لوگوں کے پیچھے نہیں رہتے جو مال رکھتے ہیں او رخدا تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کررہے ہیں، جو طاقت رکھتے ہیں اور خداتعالیٰ کی راہ میں طاقت خرچ کررہے ہیں، جو فن رکھتے ہیں اور خداتعالیٰ کی راہ میں اپنی فنی خدمات پیش کررہے ہیں اور گو دنیا کی نگاہوں میں یہ دعائیں ہیچ نظر آتی ہوں اور اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ محض زبانی دعائیں ہیچ ہی ہوتی ہیں لیکن پگھلے ہوئے دل کی دعا ہیچ نہیں ہوتی بلکہ وہ بہت بڑی قیمت رکھتی ہے۔ دعا کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے ۔ وہ اِس قسم کاسوال ہے جس کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے
جو منگے سو مر رہے مرے سو منگن جا
یعنی سوال کرنا موت ہے اور مانگنے والے کو چاہئے کہ وہ اپنے آقا کے دروازہ پر مرجائے تب اسے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ پس وہ دعا جو خداتعالیٰ کے ہاں قبول ہوتی ہے، وہ دعاجو اس کی رحمت کو کھینچ لاتی ہے وہ مضطر والی دعا ہے، وہ دعا ہے جو دل کا خون کردیتی ہے اگر وہ دل کا خون کسی شیشی میں گِرایا جاسکے یا کسی کٹوری میں جمع کیا جاسکے تو بتائو وہ لوگ زیادہ قابلِ قدر سمجھے جائیں گے جو سونا چاندی اور پیتل خداتعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں یا وہ زیادہ قابل قدر سمجھا جائے گا جس نے اپنے دل کا خون خداتعالیٰ کے آگے پیش کردیا۔ بے شک دنیا کے لوگ اس دل کے خون کی قدر نہیں کرتے کیونکہ انہیں وہ خون نظر نہیں آتا انہیں صرف سونا چاندی اوراس کے سِکّے دکھائی دیتے ہیں لیکن ہمارا خدا وہ ہے جو عالم الغیب ہے وہ جانتا ہے کہ گو اُس کے ایک بندہ کے پاس سونا چاندی نہیں مگر دین کے غم میں اُس کا دل خون ہورہا ہے اور یہ ہمارے پاس خونِ دل کا ہدیہ لے کر آیا ہے جس کے مقابلہ میں سونے اور چاندی کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ ایک مال دار کے سونے اور چاندی کے سِکّوں کی اور ایک طاقتور کی حالت اور قوت کی بھی وہ اس وقت قربانی قبول کرتا ہے جب ان پر دل کے خون کی پالش ہو ورنہ وہ اسے قبول کرنے کیلئے تیارنہیں ہوتا ۔پس ایک مالدار کی قربانی اور ایک طاقتور جسم رکھنے والے کی قربانی بھی اُسی وقت الٰہی دربار میں قبول ہوسکتی ہے جب اُس پر دل کے خون کے قطرے پڑے ہوئے ہوں ورنہ وہ قربانی اُس کے منہ پر ماری جاتی ہے اور کہا جاتا ہے وَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ۔
پس مت خیال کرو کہ دُعائیں معمولی چیز ہیں، مت خیال کرو کہ تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے جسے قربانی کا موقع نہیںملا۔ تمہارے نیک ارادے اور تمہارے دل کی قربانی جب کہ تم دوسری قربانیوں میں حصہ نہیں لے سکتے اور جبکہ تم عاجزانہ اور مسکینانہ طور پر خداتعالیٰ کے حضور گِر کر سلسلہ کی ترقیات کیلئے دعائیں کرتے ہو، دوسروں کی قربانی سے کم نہیں بلکہ بسااوقات اُن سے بڑھ سکتی ہے کیونکہ یہ صرف قربانی ہی نہیں بلکہ ایک درد اپنے اندر رکھتی ہے۔ جو انسان اپنے پاس مال نہیںرکھتا، طاقت نہیں رکھتا، فن نہیں رکھتا، علم نہیں رکھتا اور دل کی قربانی پیش کرتا ہے ا س کی قربانی کے ساتھ درد بھی شامل ہوتا ہے کیونکہ جب وہ دیکھتا ہے کہ دوسروں کے پاس بہت کچھ ہے مگر میرے پاس کچھ بھی نہیں جو مَیں پیش کروں تو اُس کا دل جو عشق کی چوٹ کھایا ہؤا ہوتا ہے درد اور غم سے پگھل جاتا ہے۔ پس وہ درد والی قربانی ہے اور درد والی قربانی کا وہ قربانی مقابلہ نہیں کرسکتی جس کے ساتھ درد نہیں۔ اگر ایک مجلس میں ایک امیر آدمی خدمت دین کیلئے ایک کروڑ روپیہ پیش کردیتا ہے تو تم اُس مجلس میں نم دار آنکھیں نہیںدیکھو گے۔ بے شک نعرے لگانے والے دیکھو گے، شاباش اور مَرْحَبًا کی آوازیں لگانے والے دیکھو گے مگر کوئی نم دار آنکھ اس مجلس میں اِس وجہ سے نہیں دیکھو گے کہ اُس نے ایک کروڑ روپیہ پیش کردیا۔ لیکن ایک غریب بُڑھیا جس کی آمد کا کوئی ذریعہ نہیں، جسے فاقے پیش آتے ہیں اور جس کے متعلق تمہیں معلوم ہے کہ شاید اب بھی اسے فاقہ ہے اس نے اگر رات کو باوجود بیماری اور کمزوری کے سُوت کاتا اور پھر بازار میں اسے بیچ کر ایک پیسہ لائی اور وہ پیسہ اُس نے خدمتِ دین کیلئے مجلس میں پیش کردیا تو گو وہاں نعرے پیدا نہ ہوں لیکن بیسیوں آنکھوں میں، اُن آنکھوں میں جو روحانیت نما چیزوں کودیکھنے کی طاقت رکھتی ہیں تم آنسو دیکھ لو گے کیونکہ یہ وہ قربانی ہے جس کے ساتھ درد شامل ہے۔ اگر اِس قسم کی قربانی ایک انسان کے دل میں جو سچی قدر دانی کی طاقت نہیں رکھتا درد پیدا کرسکتی ہے تو سمجھ لو کہ اُس عالم الغیب خدا کے حضور میں وہ کس قدر مقبول ہوگی جس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ یقینا ہمارا خدا اُسے اپنی گودمیں بٹھالے گااور اس کے غمزدہ دل کو تسلی دے گا اور کہے گا مت سمجھ کہ تیری قربانی حقیر ہے مَیں ہوں جس نے قربانی قبول کرنی ہے اور میں تیری قربانی کو دوسروں کی قربانی پر ترجیح دیتا ہوں۔
پس تمہیں خوش ہونا چاہئے کہ تمہارے ربّ نے تمہیں اپنی دین کی خدمات سے محروم نہیں رکھا۔ ہر شخص جو تم میں سے کتنا ہی معذور نہ ہو ایک اتنی قیمتی چیز اپنے پاس رکھتا ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کے ہیرے اور جواہرات بھی ماند ہیں۔ پس میں تم سے کہتا ہوں کہ اِس قیمتی قربانی کو خداتعالیٰ کے حضور پیش کرو۔ ہمارا خدا اپنی کتاب میں فرماتا ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ؎۸ ۔ تم مقام بِرّ حاصل نہیں کرسکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز خداتعالیٰ کے حضور پیش نہ کرو۔ تم روپیہ سے زیادہ اپنے دل کو قیمتی سمجھتے ہو یا نہیں؟پس اس کو اپنے ربّ کے آگے پیش کرو اور یاد رکھو اس سے دین کی مدد جس رنگ میں ہوگی وہ سونے اور چاندی کے سِکّوں سے نہیں ہو سکتی۔
پچھلے سال مَیں نے اِسی دعا کی تحریک کو زیادہ مضبوط بنانے کیلئے بعض ہفتے مقرر کردیئے تھے اور روزے رکھنے کی تاکید کی تھی۔ تم میں سے کسی کو نظر آیا ہو یا نہ آیا ہو لیکن جن لوگوں کو خداتعالیٰ نے آنکھیں دی ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ خداتعالیٰ نے انہیں دعائوں کے نتیجہ میں عظیم الشان تغیرات پیدا کئے۔ تمہیں شاید نظر نہ آتا ہو مگر میں تو دیکھ رہا ہوں کہ اٹلی اور ایبے سینیا کی جنگ بھی انہی دعائوں کے نتیجہ میں ہوئی ہے، جاپان کے فسادات بھی انہی دعائوں کے نتیجہ میں ہیں اور کوئٹہ کا زلزلہ بھی انہی دعائوں کے نتیجہ میں آیا ہے۔ اب پھر تم خداتعالیٰ کے حضو رسچی دعائیں کرکے دیکھ لو سلسلہ کے دشمن بالکل پاش پاش ہوجائیں گے خواہ وہ حکومت کے کَل پُرزے ہوں اور خواہ میجارٹی اور اکثریت کے نمائندہ ہوں کیونکہ ہمارے خدا کے سامنے نہ حکومتیں کوئی حیثیت رکھتی ہیں نہ اکثریت کی نمائندگی کوئی حیثیت رکھتی ہے۔
پس میں آپ تحریک جدید کے اُنیسویں مطالبہ کو پھر پیش کرتا ہوں اور جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ابھی وہ دن نہیں آئے کہ تم دشمن کے حملوں سے غافل ہوجائو اور دعائوں کی طرف سے نظر ہٹالو۔ بے شک خداتعالیٰ نے اس عرصہ میں بڑے بڑے نشان دکھائے ہیں مگر مخالفوں نے ان کی قدر نہیں کی کیونکہ نشان دو قسم کے ہوا کرتے ہیں۔ بعض نشان معمولی ہوتے ہیں اور بعض پُرہیبت اور پُرجلال ۔ جس طرح چاند پہلے ہِلال کی شکل میں ہوتا ہے اور پھر قمر اور پھر بدر کی صورت اختیار کرلیتا ہے اسی طرح بعض نشان ہِلال سے مشابہہ ہوتے ہیں بعض قمر سے اور بعض بدر سے۔ ہمیں خداتعالیٰ نے چونکہ روحانی آنکھیں دی ہوئی ہیں اس لئے ہم نے ان نشانوں کو بھی دیکھاجو ابھی ہِلال کی صورت میں ہیں لیکن دشمنوں نے ان نشانوں کو نہیں دیکھا کیونکہ ان نشانوں نے ہِلال سے قمر کی صورت اختیار نہیں کی۔ پس دشمن ابھی تک اپنی شرارت سے باز نہیں آیا۔ خداتعالیٰ نے شہیدگنج کا مسئلہ بھی پیدا کیا اور احرار کی مسلمان دشمنی کے پردہ کو بالکل کھول کر رکھ دیا۔ خداتعالیٰ نے حکومت کے بعض اُن کَل پُرزوں کو بھی سبق دیئے جنہوں نے بِلا وجہ احمدیہ جماعت کی تحقیر اور تذلیل اور اسے تکالیف میں مبتلاء کرنے کا شیوہ اختیار کیا ہؤا تھا اوربعض کے متعلق ہمیں یقین ہے کہ انہیں آئندہ سبق مل جائے گا لیکن اب تک اصل حکومت نے ہماری شکایات کا کوئی ازالہ نہیں کیا اور نہ اشک شوئی کی کوئی کوشش کی ہے۔ سلسلہ کی ہتک اسی طرح جاری ہے جس طرح پہلے جاری تھی۔ گو بعض امور میں اصلاح بھی نظر آتی ہے اور میں اپنے خطبات میں ان کا ذکرکرچکا ہوں لیکن بعض امور میں نئی شرارتیں کی جارہی ہیں۔ جیسے ڈاکخانہ کا رویہ ہے یا قانونی رنگ میں ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ اس فتنہ و فساد کی روح کی اصلاح نہیں ہوئی۔ روح سے میری مراد آدمی نہیں بلکہ وہ جذبات ہیں جو بعض لوگوں کو ہماری جماعت کی مخالفت کیلئے اُکساتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ روح ابھی تک مری نہیں گو ظاہری حالات میں کسی قدر تبدیلی ہوگئی ہے۔
پس ہمارا فرض ہے کہ ہم سلسلہ کی عظمت اور اس کی مشکلات کے ازالہ کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے چلے جائیں اور اس سے کہیں کہ اے خدا! اس کمزوری میں تُو نے ہمیں پیدا کیاہے۔ ہم بے شک کمزور ہیں، ناتواں ہیں، ناطاقت اور خطا کار ہیں لیکن ہم تیرے بندے ہیں۔ تیرا حق ہے کہ جو چاہے ہم سے سلوک کرے مگر تیرے بندے جو قانون کو توڑتے ہوئے ہم پرظلم کر رہے ہیں اُن کاحق نہیں کہ وہ ہمیں اپنے ستم کا نشانہ بنائیں۔ ہم پر جس رنگ میں مظالم ہورہے ہیں تُو انہیں جانتاہے۔ بعض جگہ تُونے جواب دینے سے ہمیں روک رکھا ہے اور بعض جگہ بے طاقت بنادیا ہے ایسی حالت میں سوائے اس کے ہم کیا کرسکتے ہیں کہ تیرے حضور التجاء کریں کہ ہم پر مظالم کرنے والے اور سلسلہ احمدیہ کو دنیا کی نگاہوں میں ذلیل اور حقیر کرنے والے خواہ حُکّام کے زمرہ میں شامل ہوں خواہ رعایا میں تُو خود ان کاہاتھ پکڑ اور ہمیں ان کے شر سے بچا۔ ہم اپنی عزت نہیں چاہتے کیونکہ جب بھی کوئی خداتعالیٰ کے دین میں داخل ہوجاتا ہے وہ اپنی عزت کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے ہمیں اپنی شوکت سے غرض نہیں کہ ہم تیرے دین کی خدمت اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ ہمیں اپنی وجاہت سے غرض نہیں، اپنے وقار سے غرض نہیں مگر ایک چیز ہے جو ہم چاہتے ہیں اور وہ یہ کہ جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے وہ انجام تک پہنچ جائے۔ ہماری خواہش ہے تو یہ ، ہمارا ارادہ ہے تو یہ، ہماری اُمنگ ہے تویہ، ہمارا مقصود ہے تو یہ، ہمارا مطلوب ہے تو یہ کہ ہم چاہتے ہیں پھردنیا میں محمد ﷺ کی حکومت ہو، پھر دنیا میں قرآن مجید کی حکومت ہو، پھر دنیا میں ہمارے ربّ کی حکومت ہو ، اِس خدمت کے بدلہ میں اگر ہمیں کچھ شُہرت ملتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کا انعام ہے۔ ہم اس کے متلاشی نہیں نہ ہم اس کے سائل ہیں ہماری صرف ایک ہی غرض ہے اور وہ یہ کہ خداتعالیٰ کا جلال دنیا میں قائم ہو۔ پس اگر کوئی اِس رستہ میں روک بنتا ہے تو ہماری دعاہے کہ اے خدایا! تُو اسے ہدایت دے یا اسے ہمارے رستہ سے ہٹا دے۔
یاد رکھو! اگر تم سچے دل سے دعائیں کرو تو دنیا میں اتنے عظیم الشان تغیرات ہوں گے کہ تم حیران ہوجائو گے۔ تم نے گزشتہ سال کو دیکھا کہ اس میں خداتعالیٰ کے کتنے عظیم الشان نشانات جمع ہوگئے۔ کوئٹہ کا زلزلہ،شہید گنج کا واقعہ، اٹلی اور ایبے سینیا کی لڑائی، جاپان، چین اور روس کے جھگڑے یہ سب گزشتہ سال کی دعائوں کا نتیجہ تھے۔ بے شک ان میں سے بعض کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیاں تھیں اور بعض خداتعالیٰ کی تجلی ٔقدرت کے ماتحت ظاہر ہوئے۔ اوربے شک لوگ کہتے ہیں کہ کوئٹہ کی زمین میں لاکھوں برس پہلے زلزلہ کی تیاری شروع ہوگئی تھی پھر وہ تمہارے لئے کیونکر نشان بن گیا۔ مگر وہ نادان نہیں جانتے کہ کیا وہ خدا جس نے کروڑوں سال پہلے کوئٹہ میں زلزلہ پیدا کرنے کے سامان پیداکئے تھے اُسے یہ علم نہ تھا کہ اس وقت میرے بعض بندے ظالموں سے رہائی حاصل کرنے کیلئے دعائیں کر رہے ہوں گے؟ جس خدا نے کوئٹہ میں زلزلہ کی تیاری لاکھوں کروڑوں سال پہلے کی تھی اُسے اُس وقت یہ بھی علم تھا کہ اس زمانہ میں میرے بندوں پرظلم ہوگا، میرے مسیح موعود کو اپنی صداقت کیلئے آسمانی نشانوں کی ضرورت ہوگی۔ پس اُس نے کروڑوں سال پہلے اِن ضرورتوں کوپورا کرنے کیلئے یہ تغیرات مخفی کردیئے۔ آخر خداتعالیٰ نے جن دعائوں کوقبول کرنا ہوتا ہے تو وہ ان کیلئے سامان بھی مہیا کردیتا ہے۔ جو گورنمنٹیں لوگوں کو انعامات دینا چاہیں وہ پہلے سے اپنے بجٹ میں انعامات کی گنجائش رکھا کرتی ہیں۔ مگر کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا جسے حکومت انعام دے تو وہ کہے یہ انعام نہیں کیونکہ بجٹ میں حکومت نے پہلے سے اس کیلئے گنجائش رکھی ہوئی تھی بلکہ وہ اسے انعام ہی سمجھے گا۔ یہی حال تقدیروں کا ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ نے بھی ایک عرصہ سے مقدر کررکھا تھا کہ کوئٹہ میںزلزلہ آئے لیکن یہ امر بھی وہ ہمیشہ سے جانتا تھا کہ اس وقت بعض بندے مجھ سے دعا کریں گے اور میں لوگوں کو اپنے قہر کا نشان دکھانے کیلئے یہ زلزلہ بھیجوں گا۔ پس اگر اب بھی حقیقی طور پر دعائیں کی جائیں تو پہلے سال سے بھی زیادہ شاندار نتائج دیکھ سکتے ہو۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ تم استقلال سے دعائوں میں لگے رہو۔ وہ لوگ جو جذباتی باتوں سے متأثر ہوکر چند دن جوش دکھاتے اور پھر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نہیں بلکہ اُس کے غضب کے مستحق ہوتے ہیں۔
پس اپنے اندر بیداری اور ہوشیاری پیدا کرو، دوستوں کوہوشیار اور بیدار کرو ، اپنے ہمسائیوں کو ہوشیار اور بیدار کرو اور کسی کو سُست ہوکر بیٹھنے مت دو پھر تم دیکھو گے کہ دنیا میں کس قدر تغیرات ہوتے ہیں میں نے پچھلے سال کچھ روزے مقرر کئے تھے اور اس سال بھی میرا ارادہ ہے کہ بعض روزے مقرر کروں مگر آج میںان کا اعلان نہیں کرتا یہ اعلان پھر کروں گا۔ آج صرف یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ خصوصیت سے دعائوں میں لگ جائو اور بِالخصوص یہ دعا کرو کہ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ اور رَبِّ کُلُّ شَیْ ئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔ اِس کے علاوہ اور بھی دعائیں اپنی زبان میں کرو جنہیںدلی جوش کے ساتھ خداتعالیٰ کے حضور پیش کرسکو۔ اس تعلیم پر عمل کرکے دیکھ لو تم محسوس کرو گے کہ تم اکیلے نہیں اور نہ دنیا کی نگاہوں میںیتیم ہو کیونکہ ہمارا خدا ہمارا روحانی باپ ہے اور جو بندے اس زندہ اور حی و قیوم خدا کے بیٹوں کی مانند پیارے ہوں وہ یتیم نہیںہوتے اور نہ کبھی ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ زندہ رہنے والا خدا ہے۔ یتیم وہ تب ہوں جب خدا مرے لیکن جب خدا کبھی مر نہیں سکتا تو وہ بھی کبھی یتیم نہیں ہوسکتے۔ پس تمہارے لئے یُتم کا ہونا ناممکن ہے۔ تم مایوس مت ہو بلکہ تم اپنے زندہ خدا کے آستانہ پر گِرجائو اور اس سے تضرّع اور عاجزی سے دعائیں مانگو تب تم دیکھو گے کہ وہ دیو جو غضبناک شکلیں بنا کر تمہیں ڈرارہے ہیں اور تمہیں اِس وقت خوفناک صورتوں میں نظر آرہے ہیں وہ دُھواںبن کر اُڑ جائیں گے اور ان کا نام و نشان تک دنیا میں نہیںرہے گا۔
(الفضل ۱۷؍ مارچ ۱۹۳۶ئ)
؎۱ بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومۃ علی العمل
؎۲ بخاری کتاب المغازی باب نزول النبی ﷺ الحجر
؎۳ بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بد ء الوحی (الخ)
؎۴ اَلمَاعُوْن: ۵ ؎۵ المؤمن: ۲۹
؎۶ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّابِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُوْمِنِیْنَ (البقرۃ: ۹)
؎۷ النمل: ۶۳ ؎۸ آل عمران: ۹۳


۷
صداقت اور دیانت کی تلوار سے دنیا کو فتح کرو
(فرمودہ ۶؍مارچ ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
بوجہ سردرد کے دَورہ اور حرارت کے مَیں آج بہت مشکل سے خطبہ پڑھ سکتا ہوں لیکن میرے نفس نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ میں آج خطبہ تک سے گریز کروں اِس وجہ سے نہایت اختصار کے ساتھ جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جیسا کہ میںنے گزشتہ سال بتایا تھا طاقت اور قوت کے مقابلہ کیلئے کوئی ہتھیار چاہئے اور ہتھیار بھی وہ جو دشمن کے پاس نہ ہو یا دشمن کے ہتھیار اس کے مقابلہ میں ادنیٰ ہوں۔شاعر بے شک اپنے معشوقوں کو بغیرہتھیار کے لڑالیتے ہیں مگر عملی دنیا میں ہتھیار کے بغیر کام نہیں چلتا۔ شاعروں کا کہنا ہے کہ اُن کی دنیا خیالی ہوتی ہے جو چاہیں پاس سے بنالیں ان پر اعتراض کرنے والا کوئی نہیں بلکہ جو اعتراض کرے وہ جاہل سمجھا جاتا ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ذوقِ علم وادب سے محروم ہے جو صداقت کو ان کے سامنے پیش کرتا ہے وہ ان کے نقطۂ نگاہ سے جاہل ہوتا ہے۔ ہمارے کسی شاعر نے کہا ہے کہ:
اِس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
اس شاعر کا معشوق بغیر ہتھیار کے جیت جاتا ہے۔ ادب کے لحاظ سے اس شاعر کاپایہ بہت بلند ہے او رمیں بچپن سے اِس کا مداح ہوں مگر عملی دنیا میں اس کی کیا حقیقت ہے۔ مجازی دنیا میں بے شک یہ بھی ایک اصل ہے کیونکہ اگر ہتھیار کو ظاہری ہتھیار اور لڑائی کو روحانی لڑائی سمجھ لیں تو بے شک یہ بھی درست ہوسکتا ہے لیکن اگر دونوں پہلو ظاہر پر مبنی سمجھے جائیں تو یہ بالکل بے معنی ہے مگر میں نے بتایا ہے کہ شاعر کی دنیا بالکل اَور ہوتی ہے۔ مُغلوں کامشہور بادشاہ تیمور جب ایران کو فتح کرتا ہؤا شیراز میں پہنچا جو حافظ کا جو مشہور صوفی اور شاعر تھے وطن ہے تو کسی نے اُس سے ذکر کیا کہ یہاں کے ایک شاعر نے لکھا ہے
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل مارا
بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را
یعنی اگر وہ میرا معشوق میرے دل کو اپنے قبضہ میں لے لے اور مجھ سے تعلق قائم کرلے تو میں اس کے رُخ سیاہ تِل کے عوض سمرقند وبخارا بخش دوں۔
سمرقند و بخارا تیمور کا وطن تھا اُس نے یہ شعر سن کرکہا کہ میں نے تو سمرقند و بخارا کیلئے دنیا کے ایک سِرے سے لے کر دوسرے سِرے تک قتلِ عام کیا ہے مگر یہ اپنے معشوق کے سیاہ تِل کے عوض اسے دینے کیلئے تیار ہے۔ لیکن میں نے کہا ہے کہ شاعر کی دنیا اَور ہے اور کہتے ہیں کہ تیمور کو بھی اس شاعر کے مقابلہ میں نیچا ہی دیکھنا پڑا اور اُس نے حافظ کو انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔ مگر ہم جس دنیا سے تعلق رکھتے ہیں وہ حقیقت کی دنیا ہے اور یہاں ہر ایک کیلئے ہتھیار کی ضرورت ہے جو اس کے دشمن کے ہتھیار سے زیادہ تیز، تعداد میں زیادہ اور زیادہ کارآمد ہونا چاہئے۔
کوئی زمانہ تھا کہ لوگ غلیل استعمال کرتے تھے، پھر تِیر ایجاد ہوئے جنہوں نے غلیل اور غلّے کو پس پشت ڈال دیا اور وہ قومیں جیتنے لگیں جو تِیرانداز تھیں۔ پھر تیر اندازی میں ترقی ہوئی تو دنیا میں منجنیقیں ایجاد ہوئیں جو پتھرائو کرکے قلعوں کو گِرادیتی تھیں نیزے قلعوں کے مقابل میں ناکام رہتے تھے لیکن منجنیقوں نے قلعوں کو گِرانے کاراستہ کھول دیا، پھر بارود نکلااس سے اس بارہ میں زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ کبھی لوگ چمڑے کی زِرہ پہنتے تھے اور کمزوربازوئوں والے تیراندازوں کے تیروں سے محفوظ رہتے تھے لیکن پھر لوہے کی زِرہ نکلی اور اس سے زیادہ خطرناک ہتھیاروں سے حفاظت کا سامان پیداہوگیا، پھر توپوں کا زمانہ آگیا اور انہوں نے منجنیقوں کی طاقت کو توڑ دیا اور اگر پہلے قلعہ کے نیچے جاکر دیواروں کے نیچے بارود رکھ کر اسے اُڑادیا جاتا تھا تو توپوںنے دور سے ہی انہیں گرانا شروع کردیا۔ پھر وہ قومیں دنیا میں پھیلنے لگیں جو توپیں رکھتی تھیں اورمنجنیقوں والی کمزور ہونے لگیں۔ پھر بندوقیں نکلیں جن کا ابتدا میں چلانابہت محنت طلب تھا۔ اس بات کی ضرورت ہوتی تھی کہ پہلے انہیں بھرا جائے اور پھر مضبوطی سے کسی جگہ باندھ دیا جائے اور پھر فیتہ سے آگ دی جائے۔ اس کے بعد توڑے دار بندوقیں بن گئیں جنہوں نے پہلے کی نسبت تباہی اور خون ریزی آسان کردی۔ پھر کارتُوس والی بندوقیں بن گئیں اور ان کے بعد میگزینوں والی اور ہر وہ قوم جس نے ترقی کی طرف قدم نہ اُٹھایا برباد ہوتی گئی۔ مسلمانوں کے علماء کہلانے والوں نے جس طرح ہندوستان میں مغربی علوم کی تحصیل کو کفر قرار دے کر مسلمانوں کو تباہ کیا اسی طرح بعض علماء نے مسلمان حکومتوں کو توپوں اوربندوقوں کے استعمال سے بھی روکا۔
بخارا کی حکومت ایک وقت اِس قدر زبردست تھی کہ ایک طرف اس نے ڈینیوب ؎۱ کے کناروں تک جو وسطِ یورپ میں ہے تاخت و تاراج کیا اور تمام یورپین حکومتوں کو زیرزبرکرڈالا اور دوسری طرف اس کے بیڑے جاپان کے ساحل تک پہنچ گئے، اس حکومت کا خاتمہ بھی ایسے ہی علماء کے فتووں سے ہؤا۔ روس کی افواج مُہلک ہتھیاروں سے مسلح تھیں لیکن مسلمان علماء نے فتویٰ دے دیا کہ آگ سے عذاب دینا اسلام میں جائز نہیں اس لئے توپوں اور بندوقوں کا استعمال ناجائز ہے حتّٰی کہ بڑے بڑے علماء تو اس بات کو سِرے سے تسلیم ہی نہ کرتے تھے کہ ایک میل سے گولے پھینکے جاسکتے ہیں وہ اسے جادو سمجھتے تھے۔ اب تو توپوں کے گولے سَو سَو میل تک مار کرسکتے ہیں مگر اُس زمانہ میں میل دو میل سے زیادہ نہیں کرسکتے تھے۔ آخر جب روسیوں سے لڑائی ہوئی تو بادشاہ نے چاہا کہ صلح کرلی جائے مگر علماء نے کہا کہ کُفّار سے صلح نہیں ہوسکتی آپ مسلمانوں کو لڑنے دیں ہم روسیوں کو رسیوں سے باندھ باندھ کر لائیں گے۔ وہ رسیاں اور بکریوں کیلئے پتے جھاڑنے والے آلے لے کر میدان میں پہنچے کہ اِس سے انہیں کھینچ کرپھر رسیوں سے باندھ لیں گے لیکن جب روسیوں کی طرف سے گولہ باری شروع ہوئی تو سحر سحر پکارتے ہوئے بھاگنے لگے اور بادشاہ سے جاکرکہا کہ ان لوگوں کوجادو آتا ہے آپ خواہ کچھ کرتے ان کے مقابلہ میں کامیاب نہ ہوسکتے۔ روسیوں نے بخارا کا تخت اُلٹ دیا اور حکومت تباہ ہوگئی۔
لطیفہ یہ ہے کہ توپوں کی ایجاد مسلمانوں سے ہی شروع ہوئی اور دنیا میں سب سے پہلے مغل فوجوں نے ہی ان کو استعمال کیا یورپ والوں نے ان کی نقل کی مگر افسوس کہ موجدوں نے اپنی ایجادوں کو خود بھُلادیا اور جنہوں نے اِتباع کی انہوں نے ترقی دے کرکہاں سے کہاں پہنچادیا۔ پھر توپوں میں ترقی شروع ہوئی حتّٰی کہ موٹرز کی ایجاد ہوئی جو گولہ سیدھا نہیں بلکہ بیضوی رنگ میں پھینکتی ہے اور اس کے رستہ میں پہاڑوں کی اوٹ اور قلعہ کی دیواریں کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں۔ اس کا گولہ پہلے ہوائی کی طرح آسمان کی طرف جاتا اور پھر آکر گرتا ہے۔ اس کے بعد بم ایجاد ہوئے، پھر ٹینک نکل آئے یعنی لوہے کا جہاز جو زمین پر چلتا ہے چند لوگ اس میں بیٹھے ہوئے گولیاں چلا چلا کرمارتے جاتے ہیں باوجود یکہ جرمن قوم بہت ہوشیار اور لڑائی میں ماہر ہے لیکن ٹینک پہلے برطانیہ میں ایجا دہوئے۔ میں نے اس نظّارہ کی تفاصیل پڑھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ پہلا ٹینک جب جرمن افواج کے مقابلہ میں گیا تو ان کے ہوش و حواس اُڑ گئے اور اُن کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس کا مقابلہ کس طرح کریں سوائے پاگلوں والی بہادری کے وہ کچھ نہ کرسکے۔ جرمن فوجیں آتیں اور اُس کے سامنے گِرگِر کر مرجاتیں اور وہ دس بارہ آدمی بحفاظت اندر بیٹھے ہوئے گولیاں چلاتے جاتے۔ انہوںنے اس کا آخری علاج اس طرح کیا کہ ان لاشوں کے ڈھیروں پر کھڑے ہوکر سوراخوں میں سے پستول چلا چلا کر اندر بیٹھے ہوئے آدمیوں کوہلاک کیا اور جس وقت تک انہوں نے بھی ٹینک نہیں بنالئے ان کا بہت نقصان ہوتا رہا۔
خشکی پراس ترقی کے مقابلہ میں ہوا نے بھی جنگ میں کم حصہ نہیںلیا۔ ہوا میں اُڑنے والے جہاز بھی لوگوں نے ایجاد کئے جنہوں نے زمینی فوجوں کوبالکل بے دست و پا کردیا۔اسی طرح سمندری جہازوں میں ترقی ہوئی۔ پہلے وہ بادبانوں سے چلتے تھے ، پھر سٹیم کے ذریعہ چلنے لگے، پھر معمولی دُخانی جہازوں کی جگہ ٹبل شیس کروزرز، ڈسٹرائرز، مائن لیسرز، تارپیڈوبوٹس اور آبدوز جہازوں نے لے لی اور ہر قدم پر ترقی ہونے لگی اور وہ قومیں ترقی کرنے لگیں جو ان سے مسلّح تھیں۔ ترکوں کے ساتھ دوستی کادعویٰ کرتے ہوئے اٹلی نے طرابلس الغرب پرحملہ کیا اور ترکی کے ساحل سے صرف سَو ڈیڑھ سَو میل کے فاصلہ پراس کے ملک پر قبضہ کرلیا لیکن ترک بالکل بے دست و پا تھے کیونکہ ان کے پاس جہاز نہ تھے۔ اب جنگی سامانوںنے اس سے بھی ترقی کی ہے اور گولے بھی بیکار ثابت ہورہے ہیں۔ اب زہریلی گیسیں نکلی ہیں جہاں ان کا گولہ پڑتا ہے سب لوگ بیہوش ہوجاتے ہیں یا پاگل ہوجاتے ہیں۔ دل پراتنا خوف طاری ہوتا ہے کہ ڈرسے انسان پاگل ہوجاتاہے۔ بڑے بڑے جری اور دلیر بھی اس کیمیاوی اثر کے نیچے پاگلوں کی طرح دوڑتے پھرتے ہیں۔کئی لوگ بالکل ہی پاگل ہوجاتے ہیں اور عام طور پر بھی دس بارہ گھنٹے تک اس کا اثر رہتا ہے اور اب اس سے بھی زیادہ ترقی ہورہی ہے اور ایسے سامان نکل رہے ہیں کہ تمام ملک کی خوراک، پانی اور ہوا کو زہریلا کردیاجائے تمام ملک میں ٹائیفائیڈ، پلیگ یاہیضہ کے کیڑے پھیلادیئے جائیں اورنہ معلوم دنیا ان میں ابھی کہاں کہاں تک ترقی کرے گی۔
سوال صرف یہ ہے کہ ہم جنہوں نے ساری دنیا سے مقابلہ کرنا ہے ہمارے پاس کیا ہتھیار ہے؟ تاریخ ہمیںبتاتی ہے کہ صرف وہی غالب آتے ہیں جن کے پاس ہتھیار غالب ہوں اور ہمت و قربانی کی روح ہو۔ میں تسلیم کرتاہوں کہ ہمت اور قربانی کی روح ہم میں موجود ہے مگر یہ ہتھیاروں کا قائم مقام نہیں ہوسکتی۔ بے شک قربانی کی روح بھی ایک حد تک ہتھیار کا کام دے جاتی ہے مگر انتہاء کو پہنچ کر۔
حضرت سیّد اسماعیل صاحب شہید نے جو حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قبل کی صدی کے مجدد تھے مرید تھے اور نہایت روحانی آدمی تھے، پشاور کے علاقہ میں سکھوں پر حملہ کیا۔ آپ کے ساتھ صرف پانچ سَو آدمی تھے اور سکھوں کی فوج بہت زیادہ تھی۔ پھر سکھوں کے پاس توپیں تھیں مگر ان کے پاس کوئی توپ نہ تھی لوگوں نے اُن سے کہا بھی کہ یہ لڑائی بے فائدہ ہے مگر انہوںنے کہا کوئی حرج نہیں اگرہم مارے بھی گئے تو جنت میں جائیں گے۔ پھر انہوں نے اپنے آدمیوں کو سَو سَو یا پچاس پچاس گز کے فاصلے پرپھیلادیا اور حکم دیا کہ تم اِس طرح دَوڑو کہ عین توپ خانہ پر جاکر جمع ہوجائو۔ اب توپ کا گولہ اگر مارتا بھی تو صرف اُس ایک آدمی کو جو اُس کی زد میں ہوتا۔ اِس طرح وہ تمام مجاہدین سکھوں کے توپ خانہ پر جاپڑے اور تلواریں کھینچ کر اُن کوحکم دیا کہ توپوں کا منہ اپنی فوجوں کی طرف موڑ کر چلائو ورنہ قتل کردیا جائے گا۔ توپچیوں نے جان کی خاطر ایسا ہی کیا۔ تو بے شک بعض حالات میں ایمان ایسا ترقی کرجاتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ہتھیار بن جاتا ہے لیکن جب تک کسی نہ کسی قسم کا ہتھیار نہ ہو دشمن کے مقابلہ میں کامیابی محال ہے۔
ظاہری ہتھیار تو ہمارے پاس ہیں نہیں حتّٰی کہ تلواریں بھی نہیں کُجا یہ کہ مشین گنیں، میگزینیں اور بندوقیں ہوں اس لئے ہمارے واسطے اب وہی ہتھیار باقی ہے جو مؤمنوں کا ہوتا ہے اور وہ صداقت اور ایمان کا ہتھیار ہے سچائی کے ہتھیار کے سامنے توپیںبالکل بیکار ہوجاتی ہیں۔ ایک شخص دوسرے پر توپ کا فائر اِس لئے کرتاہے کہ وہ اس کا دشمن ہے لیکن اگر وہ سچائی سے اسے دوست بنالے تو وہی توپ اس کی ہوجائے گی۔ اس لئے میں نے جماعت کو پچھلے سال بھی توجہ دلائی تھی کہ صداقت کے ہتھیار کو استعمال کریں۔ آپ لوگوں میں سے ہر ایک یہ فیصلہ کرلے کہ خواہ کچھ ہو وہ سچائی کو کام میں لائے گا مگر مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہم وہ معیارِ صداقت قائم نہیں کرسکے جس کے ساتھ دلوں کو مسخر کیا جاتا ہے۔ ادھوری صداقت تو اور بھی اُکسا دیتی ہے اس لئے کہ سچائی کامل چاہئے۔ میں نے دیکھا کہ مختلف نوجوانوں کو جو کام سپرد کئے جاتے ہیں ان میں بِالعموم دیانت کا وہ معیار پیش نہیںکرتے جس کی ان سے امید رکھی جاتی ہے۔ مؤمن کا دل اتنا وسیع ہونا چاہئے کہ صداقت اور دیانت اس کے اندر انتہائی درجہ کی ہو اور یہی اس کا ہتھیار ہونا چاہئے۔ بغیرہتھیاروں کے دنیامیںفتح نہیںہوسکتی اور ہتھیاروں کے لحاظ سے دنیا اِس قدر ترقی کرچکی ہے کہ تمہارے پاس اتنے سامان ہی نہیں ہیں کہ ان سے کام لے سکو۔
فرض کرو آج انگریز ہمیں اجازت بھی دے دیں کہ تم ہوائی جہاز اور بحری جہاز اور دوسرے سامان رکھ سکتے ہو تو کیا ہم انہیں خرید سکتے ہیں؟ ایک بڑا جہاز آٹھ کروڑ روپیہ تک تیار ہوتا ہے اور ظاہرہے ہم ایک جہاز بھی نہیں بناسکتے۔ ہوائی جہاز جو اچھے لڑنے والے ہوتے ہیں وہ تین لاکھ سے دس لاکھ تک کے ہوتے ہیں۔ پس ظاہری ہتھیاروں کی اگر حکومت اجازت بھی دے دے تو ہماری جماعت ان سے فائدہ نہیں اُٹھاسکتی۔ ممکن ہے ہندو اور سکھ فائدہ اُٹھاسکیں کیونکہ وہ مالدار اور جتھے والے ہیں مگر ہم نہیںاُٹھاسکتے اس لئے ہم کیوں نہ وہی ہتھیار استعمال کریں جو ہمارے مناسبِ حال بھی ہے اور جسے اور کوئی اختیار نہیں کرسکتا۔
صداقت اور دیانت کا ہتھیار ہی تھا جسے رسول کریم ﷺ نے شدید سے شدید دشمنوں کے مقابلہ پر استعمال کیااور قرآن کریم میں ہے کہ آپ نے فرمایا فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِہٖ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ؎۲ مَیں اس سے پہلے تم لوگوں میں عمر کا ایک حصہ گزار چکا ہوں تم کیوں عقل نہیں کرتے۔ یہی وہ تلوار تھی جس کے سامنے مکہ والوں کی گردنیں جھک جاتی تھیں۔ مسلمانوں نے بھی مجبوراً تلوار چلائی ہے اور اس کے نتیجہ میں بھی بہت سے دشمن مغلوب ہوئے لیکن ان کے چلانے والے اسی صداقت کی تلوار نے پیدا کئے تھے، ان کے چلانے والے ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اورعلیؓ تھے مگر کیا ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ اور علیؓ کو لوہے کی تلوار نے قابو کیا تھا؟ جس وقت آنحضرت ﷺ نے دعویٰ کیا تو حضرت ابوبکرؓ تجارت کا مال لے کرکسی گائوں میں گئے ہوئے تھے۔ واپس آئے تو کسی دوست کے مکان پر بیٹھے تھے کہ اُس کی لونڈی نے کہا تمہارا دوست پاگل ہوگیا ہے وہ کہتا ہے کہ آسمان سے مجھ پر فرشتے اُترتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے دوست آنحضرت ﷺ ہی تھے۔ جب انہوں نے یہ بات سنی تو چادر کندھے پر رکھ لی۔ اُس زمانہ میں عرب کے لوگوں کی روزمرہ کا لباس یہی ہوتا تھا ایک چادر اوڑھ لیتے تھے اور ایک باندھ لیتے تھے۔ چنانچہ آپ نے بھی چادر کندھے پر ڈالی اور چل پڑے۔ آنحضرت ﷺ کے دروازہ پر پہنچ کردستک دی۔ آپؐ باہر تشریف لائے تو حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا کہ سنا ہے آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ آپ پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کیا یہ درست ہے؟ آنحضرت ﷺ نے اِس خیال سے کہ حضرت ابوبکرؓ کو ٹھوکر نہ لگے چاہا کہ اپنے دعویٰ کی کسی قدر تشریح کردیں مگر حضرت ابوبکرؓ نے اِس سے روک دیا اور کہا کہ آپ صرف ہاں یا ناں میں جواب دیں۔ اور جب آپ نے کہا کہ ہاں تو ابوبکرؓ نے کہا کہ میں آپ پر ایمان لے آیا ؎۳ ۔ انہوں نے نہ چاہا کہ اپنے ایمان کو دلائل سے خراب کریں۔ وہ صداقت کی تلوار کے مقتول بننا چاہتے تھے دلائل کی تلوار کے نہیں۔ بے شک حضرت ابوبکرؓ کی تلوار نے اسلام میں بہت کام کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ابوبکرؓ پر کونسی تلوار چلائی گئی تھی۔ ابوبکرؓ کوئی معمولی آدمی نہ تھے۔ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جب عام طور پر ارتداد کی رَو پھیل گئی تومکّہ مدینہ اور ایک اور چھوٹے سے گائوں کے سِوا اور کہیں بھی باجماعت نماز نہ ہوتی تھی۔ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ اُس وقت حضرت ابوبکرؓ ہی تھے جنہوں نے اِس رَو کا مقابلہ کیا ۔ حضرت عمرؓ ان کے پاس گئے اور عرض کیا کہ اِس وقت شورش بہت زیادہ ہوگئی ہے میرا مشورہ یہی ہے کہ آپ ذرا نرم ہوجائیں آہستہ آہستہ سب کو ٹھیک کرلیاجائے گا لیکن حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیاکہ اگر یہ لوگ مدینہ میں گھُس آئیں اور مسلمانوں کی عورتوں کو قتل کردیں اور اُن کی لاشوں کو کُتّے گھسیٹتے پھریں تو بھی میں ان لوگوں سے صلح نہ کروں گاجب تک کہ جو رسول کریم ﷺ کو ایک رسّی بھی زکوٰۃ میں دیتے تھے وہ دوبارہ نہ دینے لگیں ؎۴ ۔ حضرت عمرؓ کبھی کبھی حضرت ابوبکرؓ کو پیار سے بُڈّھا کہا کرتے تھے وہ کہتے ہیں میرا خیال تھا کہ بُڈّھا کمزور دل کا ہے مگر میرا خیال غلط تھا وہ تو ہم سب سے بہادر ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے جنگ کی اور واقعی جب تک زکوٰۃ کی ایک ایک رسّی تک وصول نہ کرلی جنگ بند نہ کی۔ اِس جری اور دلیر ابوبکرؓ کو کس تلوار نے مارا تھا؟
اِسی طرح حضرت عمرؓ آنحضرت ﷺ کے جانی دشمن تھے اور آپ کو قتل کرنے کی نیت سے گھر سے چلے تھے کہ راستے میں کسی نے کہا کہ پہلے اپنے بہن اور بہنوئی کو تو مارو جو مسلمان ہوچکے ہیں۔چنانچہ آپ بہن کے گھرکی طرف چلے ، دروازہ اندر سے بند تھا اور ایک صحابی اندر بیٹھے اُن کوقرآن کریم پڑھارہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے دستک دی تو انہوں نے ڈر کے مارے صحابی کو اور قرآن کریم کے ورق کو بھی چھپادیا اور پھر دروازہ کھولا ۔ حضرت عمرؓ غصہ سے بھرے ہوئے اندر داخل ہوئے اور چونکہ قرآن کریم سن چکے تھے دریافت کیا کہ کون پڑھ رہا ہے؟ بہنوئی نے چھپانے کی کوشش کی تو اُس پر حملہ کردیا اور کہا کہ تُو صابی ہوگیا ہے؟ اُس زمانہ میںمسلمانوں کو صابی کہاجاتا ہے جیسے آجکل ہمیں قادیانی اورمرزائی کہا جاتا ہے۔ ان کی بہن اپنے خاوند کی حفاظت کیلئے بیچ میں آگئیں اور انہیں گھونسہ لگ گیا جس سے اُن کاخون بہنے لگا۔ بہن نے بھی جوش سے کہا کہ سنو! ہم مسلمان ہوگئے ہیں تم سے جو کچھ ہوسکتاہے کرلو۔چونکہ عرب کے لوگوں میں ذاتی شرافت تھی عورت کاخون نکلتا دیکھ کر غصہ فرو ہوگیا اور جھٹ معافی مانگنے لگے اور ندامت کا اظہار کرتے ہوئے بولے اچھا سنائو تم کیا پڑھ رہے تھے؟ مگر بہن غصہ میں تھیں انہوںنے کہا کہ تم ناپاک مشرک ہو جب تک نہا کر نہ آئو تم کو خدا کا کلام نہیںسنایا جاسکتا۔ چنانچہ آپ نے اُسی وقت غسل کیا۔ اس کے بعد اُس صحابی نے قرآن کریم سنانا شروع کیا دل میں نرمی پیدا ہوچکی تھی اِس لئے خاتمہ سے پہلے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ وہاں سے اُٹھے اور خاموشی کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے مکان کی طرف چلے ۔آپ بعض صحابہ کے ساتھ مکان کے اندر بیٹھے وعظ و نصیحت کررہے تھے کہ حضرت عمرؓ نے دستک دی۔ عمرؓ چونکہ دلیری میں مشہور تھے اس لئے بعض صحابہ نے کہا کہ یہ شخص بہت شوریدہ سر ہے دروازہ نہ کھولا جائے ورنہ ضرور شرارت کرے گا۔ حضرت حمزہؓ بھی بیٹھے تھے انہوں نے کہا پرواہ نہیں دروازہ کھول دیا جائے اگر اس نے شرارت کی تو ہم بہادری میں اس سے کم نہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دروازہ کھول دو۔ چنانچہ دروازہ کھولا گیا اور حضرت عمرؓ اندر آئے۔ آنحضرت ﷺ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا عمر! کب تک شرارتوں میں بڑھتے جائو گے؟ حضرت عمرؓنے گردن جھکا دی اور عرض کیا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! میں تو آپ کا غلام بننے کیلئے آیا ہوں۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ صحابہ نے خوشی سے بیتاب ہوکر اِس زور سے نعرہ تکبیربلند کیا کہ مکّہ کے درودیوار گونج اُٹھے ؎۵ ۔ اور یہ پہلا نعرہ تھا جو مسلمانوں نے بلند کیا۔
یورپین مصنف کہتے ہیں کہ اسلام کی ترقی کا مدار عمر کی ذات پر تھا بے شک حضرت عمرؓ کی تلوار نے مشرق ومغرب اور ایشیا و افریقہ میں اسلام کیلئے فتوحات کیں مگر اُن کو کس تلوار نے فتح کیا؟ یہ تلوار وہی صداقت اور راستی کی تلوار تھی جس کے مقابلہ میں اور کوئی تلوار نہیںٹھہرسکتی۔ پس تلوار اور دوسرے ہتھیار آپ لوگوں کی شان کے منافی ہیں۔
انبیاء کی جماعتیں ابتدا میں قربانی کیا کرتی ہیں خود حملہ کبھی نہیں کرتیں۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ مسلمان لڑائی کوموت سمجھتے تھے۔ پس مؤمن امن پسند ہوتاہے اسے لوہے کے ہتھیار نہیں بھاتے بلکہ اس کی محبوب تلوار صداقت کی تلوار ہوتی ہے۔ اس لئے میںجماعت کو بِالعموم اور نوجوانوں کو بِالخصوص یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ صداقت پر قائم ہوں یہ وہ تلوار ہے جو ایمان سے ملتی ہے۔ لوہے کی تلواریں روپے سے مل سکتی ہیں لیکن صداقت کی تلوار کے لئے ایمان کی ضرورت ہے جو صرف تمہارے ہی پاس ہے۔ یہ وہ دھات ہے جو حکومتوں کے خزانوں میں نہیں صرف تم ہی ہو جو یہ تلوار بناسکتے ہو اور چلا سکتے ہو اس لئے اقرار کرو کہ تم میں سے ہر ایک امین اور راستباز بنے گا پھر تمہارے دشمن بھی تمہارے آگے ہاتھ جوڑیں گے اور دنیا میں جسے کسی کام کیلئے دیانتدار آدمی کی ضرورت ہوگی وہ تمہاری تلاش کرے گا۔ صداقت اور دیانت کوئی معمولی نعمت نہیں بلکہ تمام نعمتوں کی جان ہے اور اگر ہمارے نوجوان اقرار کرلیں کہ وہ امین اور راستباز بنیں گے تو وہ بغیر ہتھیاروں کے دنیاکو فتح کرسکتے ہیں۔ راستبازی قولی اور ذہنی سچائی ہے اور امین بننا عملی سچائی کو چاہتاہے۔ اگر ہمارے نوجوان یہ دونوں چیزیں اپنے اندر پیدا کرلیں تو یہ سوال ہی باقی نہیں رہتا کہ انہیں کام نہیںملتا۔ تمہیں چاہئے کہ ثابت کردو کہ احمدی راستباز اور امین ہوتے ہیں پھر شدید سے شدید دشمن بھی تمہیں تلاش کرکے کام دے گا۔
ہمارے سلسلہ کا ایک شدید مخالف دشمن اور احرار کا لیڈر ہے مگر وہ اپنے خانگی معاملات کیلئے ایک احمدی پر اعتماد کرتا ہے وہ پبلک میں آکر تو یہ کہتا ہے کہ کسی احمدی کا منہ تک نہ دیکھو مگر خود ایک احمدی کے سِواکسی پر اعتماد نہیں کرتا۔ پس جہاں بھی احمدیوں نے اپنے معیار کو قائم رکھا ہے دشمنوں نے بھی ان کی دیانت اور قابلیت کو تسلیم کیا ہے۔ ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے مجھے ایک رپورٹ پہنچی کہ ایک احمدی افسر کے متعلق بعض لوگوں نے بہت شورمچایا مگر جب بالا افسروں نے تحقیقات کی تو مخالفوں کے ایک حصہ نے ہی گواہیاں دیں کہ گزشتہ سالہاسال سے ایسا دیانتدار کوئی افسر ہمارے علاقہ میں آیا ہی نہیں۔ پہلے جو بھی آتا تھا رشوت لیتا تھا صرف یہی ایک ہے جو انصاف سے کام لیتا ہے اور افسرانِ بالا کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ وہ بہت دیانتدار آدمی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دوست فوج میں ملازم تھے بعض فوجی کبھی جوش میں آکر لُوٹ مار بھی کرلیتے ہیں اور بعض افسر فوج کی نیک نامی کے قیام کیلئے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جس کمپنی میں تھے اُس کا بھی اُس وقت یہی حال تھالیکن وہ احمدی سچا اور مخلص احمدی تھا وہ ہمیشہ سچی بات کہہ دیتا اور اِس وجہ سے ہندوستانی افسر ہمیشہ اُس سے ناراض رہتے اور وہ اکثر کوارٹر گارڈ میں ہی رہتا۔ ایک دفعہ ان کی فوج کوئٹہ کی طرف گئی اور وہاں بعض فوجیوں کا ایک چھابڑی والے سے جھگڑا ہوگیا اور انہوں نے غصہ میں آکر اُس کی چیزیں چھین لیں اور اُسے مارا بھی۔ پولیس نے اِس معاملہ کی تحقیقات شروع کی تو چند ہندوستانی افسر اِس میں رُکاوٹیں ڈالنے لگے۔ عدالت میں مقدمہ پیش ہوا مجسٹریٹ کوئی دیانتدار انگریز تھاجو چاہتا تھا کہ صداقت کھلے۔ دُکانداروں نے اسے بتایا کہ فوجیوں کے ساتھ ایک شخص ایسا بھی تھا کہ جو ان کو اِس کام سے منع کرتا تھا۔ مجسٹریٹ نے فوجی افسروں کولکھا کہ وہ شخص کہاں ہے اسے پیش کیا جائے۔ جواب میں لکھا گیا کہ وہ سزایاب ہے اور کوارٹر گارڈ میں ہے۔ مجسٹریٹ نے لکھا کہ اسے گواہی کیلئے بھیج دو۔ چنانچہ وہ پیش کیا گیا تو مجسٹریٹ نے اُسے پوچھا کہ تم سزایاب کیوں تھے؟ اُس نے صاف کہہ دیا کہ اسی لئے کہ گواہی نہ دے سکوں اور پھر صاف بات بتادی۔ مجسٹریٹ نے اس کے افسروں کو لکھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کی آپ کے ہاں کھپت نہیں اسے ڈسچارج کردیاجائے تو میں اسے پولیس افسر بنانا چاہتا ہوں اور اسے ڈسچارج دلا کر پولیس میں ایک اچھے عُہدے پرمقرر کرادیا اور اس طرح راستی کی بدولت وہ مالی لحاظ سے بھی فائدہ میںرہا۔ پس صداقت ایک ایسی چیز ہے جو دلوں کو فتح کرتی ہے۔
کہا جاتاہے کہ سیّد عبدالقادر صاحب جیلانی ابھی بچے تھے کہ ان کی ماں نے ان کو ان کے ماموں کے پاس تجات سیکھنے کی غرض سے ایک قافلہ کے ساتھ بھیجا اور چالیس پونڈ ان کی گدڑی میں سی دیئے۔ راستہ میں قافلہ لُٹ گیا۔ ایک ڈاکو نے ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہاں چالیس پونڈ ہیں۔ اسے اعتبار نہ آیا اور گھورگھار کر چلا گیا۔ پھر کسی اور نے یہی سوال کیا اور آپ نے یہی جواب دیا۔ آخر ڈاکو ان کو پکڑ کر اپنے افسر کے پاس لے گئے۔ اس نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس واقعی چالیس پونڈ ہیں یا یونہی کہتے ہو؟ آپ نے کہا میرے پاس ہیں اس لئے کہتا ہوں۔ اُس نے کہا کہاں ہیں؟ تو آپ نے کہا گدڑی میں۔ میری ماں نے سی دیئے تھے۔ گدڑی کھولی گئی تو چالیس پونڈ نکل آئے۔ افسر کو حیرت ہوئی اور اس نے کہا کہ تم بہت بیوقوف ہو تم نے کیوں نہ کہہ دیا کہ میرے پاس کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جب میرے پاس تھے تو میں جھوٹ کس طرح بول دیتا۔ اِس بات کا اُس چور پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے جھٹ توبہ کرلی اور یہی وہ واقعہ ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ نے چوروں کو قطب بنادیا۔
پس امانت اور راستی بڑی عجیب چیز یں ہیں اور ایسی تلواریں ہیں جن سے تم قوی سے قوی دشمن کو قتل کرسکتے ہو او رپھر تم جسے قتل کرو گے وہ لمبی زندگی پائے گا۔ ابوجہل وغیرہ نے لوہے کی تلوار سے مسلمانوں کو مارا مگر خود مرگئے لیکن صداقت کی تلوار سے رسول کریم ﷺ نے جن لوگوں کو مارا وہ ہمیشہ کیلئے زندہ ہوگئے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ۔ پس تم صداقت کی تلوار ہاتھ میں لو اور قتلِ عام کرتے جائو۔ تمہارا یہ قتل ِ عام دنیا کیلئے بہت بڑی برکات کا موجب ہوگا۔ پس اپنے مقام کو سمجھو، تم دُنیوی بادشاہوں کے سپاہی نہیں ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے سپاہی ہو اور تمہارے لئے سب سے بڑی تلوار قرآن اور صداقت کی تلوار ہے اِسے لے کر دنیا میںنکلو پھر تمہارے اندر ایسی تاثیر پیداہوجائے گی کہ تمہارے مقابل پر آنے والا خودبخود مرعوب ہوتا چلا جائے گا۔ بے شک یہ بہت بڑا کام ہے مگر ہمارے خدا میں سب طاقتیں ہیں۔ جھوٹ کے سمندر میں ڈوبے ہوئے انسانوں کیلئے یہ ناممکن ہے کہ سچائی کی کشتی میں بیٹھ سکیں۔ مگر وہ خدا جس نے نوح کے زمانہ میں ایک کشتی تیار کرائی اور جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نوح کا نام دیا اُس کیلئے یہ ناممکن نہیں کہ ایک ایسی کشتی تمہیں دے دے جس سے تم نہ صرف خود اس سمندر سے نکل جائو بلکہ اَوروں کو بھی نکال لو۔ پس میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم پراپنا فضل نازل کرے اور ہمیں سچائی پر قائم ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور صداقت کی تلوار عطا کرے جس کے مقابلہ میں شیطانی تلوار اور کینہ و کپٹ اور بُغض و عِناد کی تلواریں نہ ٹھہر سکیں تا اُس کی حکومت پھر قائم ہو اور محمد ﷺ کا نور پھر دنیا میں پھیلے۔
(الفضل ۱۷؍ مارچ ۱۹۳۶ئ)
؎۱ غُلّہ: مٹی کی گولی یا کنکری جسے غلیل میں رکھ کر چلاتے ہیں۔
؎۲ ڈینیوب: یورپ کے دریائوں میں سے دوسرا سب سے بڑا دریا ۔ بلیک فارسٹ کی مشرقی
دہلانوں سے نکلتاہے او ربحیرئہ اَسود میں جاگِرتا ہے۔
؎۳ یونس: ۱۷
؎۴ سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۸۶ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
؎۵ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ ۵۱ مطبوعہ لاہور ۱۳۰۹ھ
؎۶ سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۱۱۹،۱۲۰ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ




۸
جائز اور پُرامن ذرائع سے دنیامیں صحیح اسلامی حکومت
قائم کرنا ہمارا فرض ہے۔
(فرمودہ ۱۳؍ مارچ ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں نے بارہا جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہر عمارت اپنے اندر کئی حصے رکھتی ہے اور جب تک وہ سب حصے پورے نہ ہوں اُس وقت تک وہ فوائد جو اُس عمارت سے مدنظر ہوں کبھی حاصل نہیں ہوسکتے۔ ایک قلعہ جس غرض کیلئے بنایا گیا ہو اگر وہ اُس غرض کو پورا نہیں کرتا تو وہ قلعہ نہیں کہلاسکتا۔ مثلاً چاروں طرف دیوار بنادی جائے لیکن اِتنی موٹی دیوار نہ بنائی جائے جو توپوں اور گولوں کا مقابلہ کرسکے یا موٹی دیوار تو بنادی جائے لیکن ایسے مصالحہ سے نہ بنائی جائے جو دشمن کے گولوں کا مقابل کرسکے یادیواریں تو ایسے مصالحہ سے بنادی جائیں جو گولوں کا مقابلہ کرسکیں مگر چاروں طرف نہ بنائی جائیں بلکہ اس کا کوئی حصہ کھلا چھوڑ دیا جائے ایسی صورت میں وہ دیواریں قلعہ کی دیواریں نہیں کہلاسکتیں اور نہ قلعہ سے پورا فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ یا مثلاً نہریں ہیں اگر کوئی شخص نہریں کسی مُلک میں جاری کردے لیکن ان کی سطح دوسری زمین سے اونچی نہ رکھے بلکہ زمینیں اونچی ہوں اور نہریں نیچی تو وہ نہریں کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں کیونکہ اُن کا پانی بغیر کسی فائدہ کے بہتا چلاجائے گا۔ یا مثلاً کوئی شخص مکان بنائے لیکن اُس پر چھت نہ ڈالے تو ایسی صورت میں مکان سے جو حفاظت مطلوب ہے وہ حاصل نہ ہوسکے گی۔ یا مکان پر چھت تو ڈال دے لیکن چار کی بجائے تین دیواریں بنادے یا دیواریں تو چاروں بنادے مگر فرض کرو وہ دروازہ نہ رکھے تب بھی اس مکان سے وہ فائدہ حاصل نہیں کرسکے گا کیونکہ وہ اس مکان میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ یا دیواریں بھی بنادے اور دروازے بھی رکھ دے، چھت بھی ڈال دے مگر کواڑ نہ بنائے تب بھی مکان سے وہ پورا فائدہ حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ دروازے کھلے رہنے کی وجہ سے چور آئیں گے اور اس کی چیزیں اُٹھا کر لے جائیں گے۔ غرض جب ہم کسی چیز کو بناتے یا اسے حاصل کرتے ہیں تو ہمارے لئے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ جو فوائد اس چیز سے مطلوب ہیں آیا وہ اس سے حاصل ہوتے ہیں یا نہیں اور آیا اس چیز کی ساری شِقّیں کامل ہیں یا نہیں؟ اگر اس کی تمام شِقّیں کامل ہوں تو ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ جو فوائد اس چیز سے حاصل ہوسکتے ہیں ہمیں بھی حاصل ہوجائیں گے اور اگر اس کی تمام شِقّیں کامل نہیں تو ہمیں اس فائدہ کی امید بھی نہیں رکھنی چاہئے جو تمام شِقّوں کے کامل ہونے کی صورت میں اس سے حاصل ہوسکتا ہے۔
اِس تمہید کے بعدمیں بتانا چاہتا ہوں کہ جس طرح اِس دنیا کی چھوٹی بڑی تمام عمارتوں کی جہات ہیں، دیواریںہیں، چھتیں ہیں، فرش ہیں، موریاں ہیں،کھڑکیاں ہیں، دروازے ہیں، الماریاں ہیں اور روشندان ہیں اسی طرح مذاہب کے بھی چھت ہیں، مذاہب کی بھی دیواریں ہیں اور مذاہب کے بھی دروازے، کھڑکیاں، روشندان، کھونٹیاں او رفرش وغیرہ ہیں اور مذہب بھی کسی ایک چیز کا نام نہیں ہوتا بلکہ اس نام کے اندر بہت سی چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ اگر وہ مشمولہ اشیاء اپنی اپنی جگہ پر موجود ہوں تو ان فوائد کا حاصل ہونا یقینی ہوتا ہے جو مذہب پر عمل کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہوسکتے ہیں اور اگر وہ مشمولہ اشیاء نہ ہوں تو ان فوائد کا حاصل ہونا بالکل غیرمعقول او رخلاف عقل ہوگا۔
ہم لوگ جو مسلمان کہلاتے اور قرآن کریم کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کرنے کے مدعی ہیں اس زمانہ میں ہماری حالت عجیب قسم کی ہے۔ قرآن کریم کے احکام کے دو حصے ہیں ایک حصہ قرآن کریم کے احکام کا وہ ہے جو نظام کے ساتھ تعلق رکھتاہے اور ایک حصہ قرآن کریم کے احکام کا وہ ہے جو افراد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ جو حصہ قرآن کریم کے احکام کا افراد کے ساتھ تعلق رکھتاہے اُس پر ہر جگہ انسان عمل کرسکتا ہے خواہ وہ آبادی میں ہو خواہ جنگل میں، خواہ میدانوں میں ہو خواہ پہاڑوں میں، خواہ گائوں میں ہو خواہ شہروں میں اور جو لوگ دنیا کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں وہ اپنے اپنے طور پر ان احکام کو اگر پوراکرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً نماز کا حکم ہے یا روزہ رکھنے کا حکم ہے یا صدقہ و خیرات دینے کا حکم ہے ان احکام پر جہاں جہاں کوئی مسلمان ہو گا عمل کرے گا اور وہ اپنے لئے ان احکام پر عمل کرنے کی کوئی راہ تلاش کرلے گا جس میں اسے کوئی دِقّت پیش نہیں آئے گی لیکن قرآن کریم کے وہ احکام جو نظام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ نظام کے ذریعہ ہی پورے ہوسکتے ہیں اس کے بغیر نہیں۔ مثلاً زکوٰۃ ہے اگر دنیا میں کوئی اسلامی حکومت نہیں یا حکومتِ اسلامی کی عدم موجودگی کے بعد مسلمانوں میں کوئی نظام بھی موجود نہیں توزکوٰۃ کا فریضہ صحیح معنوں میں ادا نہیں ہوسکتا کیونکہ زکوٰۃ کے متعلق اسلامی تعلیم یہ ہے کہ وہ ایک جگہ جمع ہونی چاہئے اور پھرعقل کے ساتھ اسے مقررہ مواقع پر خرچ کرنا چاہئے۔ یا مثلاً مسلمانوں کی تعلیم کو ایک سطح پر لانے کا سوال ہے یہ افراد کے ذریعہ نہیں ہوسکتا کیونکہ کوئی کسی رنگ کی تعلیم حاصل کرتا ہے او رکوئی کسی رنگ کی، کوئی زیادہ تعلیم حاصل کرتا ہے کوئی کم اور اِس طرح ایک سطح پر وہ اپنے آپ کو نہیں لاسکتے۔ یا مثلاً جہاد ہے اگر جہاد کی کسی وقت ضرورت پیش آجائے اور کوئی حکومت ظالمانہ طور پر مسلمانوں کو اس لئے قتل کرنا شروع کردے کہ وہ کیوں مسلمان ہیں اور تلوار کے زور سے ان کا مذہب تبدیل کرکے انہیں اسلام سے منحرف کرنا چاہے تو ایسے موقع پر اور صرف ایسے موقع پر جہاد بِالسیف جائز ہے مگر یہ حکم بغیر نظام کے پورا نہیں ہوسکتا۔ میں ضمنی طور پر یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ مسلمانوں کی سخت غلطی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں جہاد کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی کافر ملے اسے مارڈالو۔ اگر کافروں کومارنا ہی جہادہے تو پھر اسلام میں ہم کس کو داخل کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ کافر کو اسلام مارنا نہیں چاہتا بلکہ اسے محبت کاقیدی بنانا چاہتا ہے کیونکہ اسلام دنیامیں ہلاکت برپا کرنے کیلئے نہیں آیابلکہ لوگوں کو زندگی دینے کیلئے آیا ہے۔
پس جہاد کے یہ معنی نہیں کہ غیرمُسلم کا سر کاٹ دیاجائے بلکہ جو شخص بِلا وجہ کسی غیرمُسلم کا سر کاٹتا اور اُسے قتل کرتا ہے اِسلام اُسے قاتل اور جہنمی سمجھتا ہے۔ جہاد باِلسیف صرف اُس وقت جائز ہوتا ہے جب کوئی قوم مسلمانوں پر اس وجہ سے حملہ آور ہو کہ کیوں انہوں نے اسلام قبول کیا اور بزورِ شمشیر انہیںمذہب سے منحرف کرنا چاہے اگر اس طریق کی اجازت دی جائے اور اس کا مقابلہ نہ کیا جائے تو پھر مذہب دنیا میں باقی ہی نہیں رہ سکتا۔ اسی لئے اسلام نے حکم دیا ہے کہ جب اس قسم کے حالات پیدا ہوجائیں تو غیرمُسلموں کا مقابلہ کرو مگر یہ مقابلہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب مسلمانوں کے پا س ایک جتھہ ہو اور ان میں نظام پایا جاتا ہو۔ اگر ان کے پاس جتھہ نہیں اور اگر ان میں نظام نہیں اور انفرادی طور پر ایک ایک مسلمان دشمن کے مقابلہ کیلئے جائے گاتو وہ ہلاک ہوجائے گا اور اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ پس جہاد بھی ان احکام میں سے ہے جن میں ایک جتھہ اور نظام کی ضرورت ہے تا مسلمان یکجا ئی طور پر ایک ظالم حکومت یا ظالم قوم کا مقابلہ کرسکیں افراد اس حکم کو کماحقہ نہیں بجالاسکتے۔
پھر اسلام کے جو احکامات حکومت اور جتھہ او رنظام سے تعلق رکھتے ہیں وہ آگے تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو کُلّی طور پر حکومت کے اپنے اختیار میں ہوتے ہیں اور ایک وہ جو کُلّی طور پر نظام کے اختیار میں ہوتے ہیں اور ایک وہ جو اپنی مرضی پرمنحصر ہوتے ہیں۔ خواہ حکومت انہیں اپنے قبضہ میں رکھے خواہ اقوام کو آزاد چھوڑ دے۔ کُلّی طور پر حکومت کے قبضہ میں رہنے والے اختیارات کی مثال ایسی ہی ہے جیسے قاتل کو قتل کی سزا دینا۔ یہ کُلّی طور پر حکومت کے قبضہ میں ہے اور کوئی شخص کسی کو اس لئے قتل نہیں کرسکتا کہ اس کے علم میں وہ یقینی طور پر قاتل ہے کیونکہ قاتل کا علم اسے قتل کی سزادینے کا اختیار نہیں دے دیتا یہ پورے طور پر حکومت کے اختیار میں ہے اور وہی اس اختیار کے ماتحت قاتل کو گرفتار کرکے اسے سزا دے سکتی ہے اور اگر کوئی حکومت قاتل کو قتل نہیں کرتی تو بے شک وہ ظلم کرے گی لیکن وہ خداتعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوگی۔ بندوں کا یہ کام نہیں کہ و ہ آپ ہی آپ قاتل کی تحقیق کرکے اسے سزا دے دیں یا مثلاً چوری کی سزا موجودہ قانون میں قید ہے یہ سزا بھی حکومت نے اپنے قبضہ میں رکھی ہوئی ہے اور کسی دوسرے کا یہ حق نہیں کہ وہ خودبخود کسی چور کو چوری کی سزا دے دے۔ اب جو نظام سے تعلق رکھنے والے احکام ہیں ہمارے لئے ان میں ایک مشکل پید اہورہی ہے اور وہ یہ کہ اِس زمانہ میں ہم پرجو حکومت ہے وہ غیرمُسلم ہے اور اس کا نظام بعض جرائم کی اَور سزا دیتا ہے اور اسلامی نظام ان جرائم کی اَور رنگ میں سزا تجویز کرتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لازمی طور پر اسلامی تعلیم کی ایک شِقّ باطل رہتی ہے۔ مثلاً اسلام ایک قاتل کے متعلق جس رنگ میں تحقیقات کاحکم دیتا اور جو سزا اس کیلئے تجویز کرتا ہے یا ایک چور کے متعلق جس رنگ میں تحقیقات کا حکم دیتا اور جو سزا اس کیلئے تجویز کرتا ہے وہ مسلمانوں کے اختیار میں نہیںبلکہ حکومت کے اختیار میں ہے اور اس طرح ہم موجودہ دَور میں ایسے حالات میں گھِرے ہوئے ہیں کہ اسلامی تعلیم کے بعض حصوں کو پورا کرنے کا اختیار نہیں رکھتے مگر اور بہت سے حصے ایسے ہیں جوباوجود اس کے کہ نظام سے تعلق رکھتے ہیں حکومت نے ان سے اپناہاتھ کھینچ رکھاہے اورلوگوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ جس رنگ میں چاہیں ان امور کا آپس میں فیصلہ کرلیں۔ مثلاً مقدمات کا ایک حصہ ایسا ہے جس کے متعلق حکومت کہتی ہے کہ اسے ضرور ہمارے پاس لائو لیکن ایک حصہ ایسا بھی ہے جس میں وہ کہتی ہے کہ اس کاہمارے پاس لانا یا نہ لانا تمہاری مرضی پر منحصر ہے۔ اگر تم چاہو تو ان مقدمات کو ہمارے پاس لے آئو اور اگر نہ چاہو تو نہ لائو۔ ایسے تمام معاملات اور اختیارات میں جن میں حکومت دخل نہیں دیتی اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کی لوگوں کو اجازت دیتی ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان امور کا اسلامی تعلیم کے مطابق فیصلہ کریں۔ کیونکہ کوئی وجہ نہیں کہ جب حکومت نے ان امور میں دخل اندازی پسند نہیںکی اور ہماری مرضی پر چھوڑ دیا ہے ہم ان کا فیصلہ اسلامی تعلیم کے مطابق نہ کریں۔ ایسے بیسیوں معاملات ہیں جن کے متعلق ہم صحیح اسلامی حکومت کا نقشہ قائم کرسکتے ہیں۔ مثلاً زکوٰۃ کا مسئلہ ہے زکوٰۃ انگریزی حکومت نہیں لیتی اور نہ کسی کو زکوٰۃ دینے پرمجبورکرتی ہے اور چونکہ انگریزی حکومت اِس میںدخل نہیں دیتی اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ اگر مسلمانوں میں نظام موجود ہو تو وہ زکوٰۃ لے کر اسلامی طریق کے ماتحت اس کی تقسیم کا انتظام نہ کریں۔ وہ اگر چاہیں تو ایسے امور میں اسلامی طریق اور شریعت کے مطابق کام کرسکتے ہیں اور جس حد تک وہ اسلامی تعمیر کومکمل کرسکتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اسے مکمل کریں کیونکہ سارے اختیارات تو انہیں حاصل نہیں اس لئے یہی ہوسکتا ہے کہ جن امورمیں حکومت دخل نہیں دیتی اور انہیں حسبِ منشاء کام کرنے کا اختیار دیتی ہے ان میں وہ اسلامی تعلیم کے مطابق فیصلے کریں۔ یہی چیز ہے جسے شروع خلافت سے میں نے اپنے مدنظر رکھا ہے اور جس کی وجہ سے مَیں اپنوں کی نگاہ میں بھی کئی دفعہ بدنام ہؤا ہوں اور غیروں کی نگاہ میں بھی۔ غیر بھی مجھے کہتے ہیں کہ یہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے اور اپنے بھی کئی دفعہ جب انہیں ضرر پہنچتا ہے کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ اپنی حکومت قائم کررہا ہے حالانکہ میں اپنی نہیں بلکہ اسلام کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں اور جہاں حکومت مجھے اجازت دیتی ہے وہاں میں اسلام کی حکومت قائم کرنے کیلئے اپنا پورا زور لگاتا ہوں، لگاتاچلاآیا ہوں اور اِنْشَائَ اللّٰہُ لگاتا چلا جائوں گا اس بات میں نہ مجھے کسی کا ڈر ہے نہ خوف۔ جب مجھے نظر آتا ہو کہ قرآن کریم ایک معاملہ میں فلاں حکم دیتا ہے ، جب مجھے نظر آتا ہو کہ حکومت اِس معاملہ میں مجھے اجازت دیتی ہے کہ میں جس طرح چاہوں کروں اور جب مجھے نظر آتا ہو کہ ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اقرار کرتا ہے کہ میںنے اپنا سب کچھ آپ کیلئے قربان کردیا تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ میں اس معاملہ میں اسلامی حکم جاری نہ کروں اور کیا خداتعالیٰ کے سامنے میرا عذر قابلِ سماعت ہوگا کہ میں نے اس معاملہ میں اسلامی حکم کو اس لئے جاری نہیں کیاکہ حکومت غیر تھی؟خداتعالیٰ کہے گا بے شک حکومت غیر تھی مگر جب اسی حکومت نے تمہیں اجازت دے رکھی تھی کہ ان معاملات میں تم جو چاہو فیصلہ کرو اور پھر جب لوگوں نے اپنا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دے دیا تھا اور کہہ دیا تھاکہ ہمیں ہر فیصلہ منظور ہے تو پھر تم نے کیوں اسلامی فیصلہ کا اِجرا نہ کیا اور کیوں اسلامی تعلیم اس معاملہ میں دنیا میں قائم نہ کی؟ جب فیصلہ ماننے والے کہتے تھے کہ ہمیں ہر فیصلہ منظور ہے اور ہم اسے ماننے کیلئے تیار ہیں، جب حکومت کہتی تھی کہ بہت اچھا اس معاملہ میں ہم دخل نہیں دیتے تم جو چاہو فیصلہ کرلو تو پھر کونسی روک درمیان میں حائل تھی کہ تم نے اسلامی فیصلہ کا اِجرا نہ کیا؟
پس اسلامی تعلیم کو دنیامیں قائم کرنا ، شریعت کے مطابق لوگوں کے جھگڑوں کا تصفیہ کرنا اور جرائم کی اسلامی تعزیر کے مطابق ناقابلِ دست اندازی پولیس معاملات میں سزا دیناہمارا فرض ہے سوائے اُن باتوں کے جن میں حکومت ہمارا ہاتھ روک دیتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم ان معاملات میں تمہیں اپنا حکم چلانے نہیںدیتے اِس کے سِوا ادنیٰ سے ادنیٰ اسلامی حکم جاری کرنا اور اسلامی حکومت کا ہر نقشہ دنیا میں قائم کردینا ضروری ہے مگر وہ حصہ جو حکومت نے اپنے اختیار میں رکھا ہؤا ہے اُس میں ہم دخل نہیںدیتے اور نہ دے سکتے ہیں۔ اگر دشمن ہماری اِس کوشش اور جدوجہد کا نام اپنی حکومت قائم کرنا رکھتا ہے تو رکھے ہمیں اِس کی پرواہ نہیں۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں مگر وہ روحانی حکومت ہے اور ہم نے تو کبھی بھی یہ بات نہیں چھپائی کہ ہم دنیا میں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہم کھلے طور پر کہتے ہیں کہ ہم اسلامی حکومت دنیا پرقائم کرکے رہیں گے اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔ ہم جس چیز کا انکار کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ تلوار اور فتنہ وفساد کے زور سے ہم اسلامی حکومت قائم نہیں کریں گے بلکہ دلوں کو فتح کرکے اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ کیا کوئی خیال کرسکتا ہے کہ اگر آج میرے بس میں یہ ہو کہ میں انگلستان کے تمام لوگوں کومسلمان بنادوں، وہاں کے وزراء کو اسلام میں داخل کردوں اور پارلیمنٹ کے ممبروں کو بھی مسلمان بناکر وہاں اسلامی حکومت قائم کردوں تومیں اپنے اس اختیار سے کام لینے سے انکار کروں گا؟ میں تو ایک منٹ کی بھی دیر نہیں لگائوں گا اور کوشش کروں گا کہ فوراً ان لوگوں کو مسلمان بنا کر انگلستان میں اسلامی حکومت قائم کردوں لیکن چونکہ یہ میرے بس کی بات نہیں اس لئے میں کر نہیں سکتا۔ ورنہ میں اس بات سے انکار تو نہیں کرتا کہ میرے دل میں یہ خیال ہے اور یقینا میرے دل کی خواہش ہے کہ ہمارے بادشاہ مسلمان ہوجائیں، وزراء بھی مسلمان ہوجائیں، پارلیمنٹ کے ممبر بھی مسلمان ہوجائیں اور برطانیہ کے تمام باشندے بھی مسلمان ہوجائیں۔ اس میں اگر دیرہے تو اس لئے نہیں کہ میری یہ خواہش نہیں کہ وہ مسلمان ہوں بلکہ اس لئے دیر ہے کہ اُن کو مسلمان کرنا میرے اختیار میں نہیں اور اِس وجہ سے وہاں اسلامی حکومت قائم نہیں کی جاسکتی۔ ورنہ اسلامی حکومت قائم کرنے کیلئے میرے دل میں تو اتنی زبردست خواہش ہے کہ اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں لگاسکتا اور اپنی اس خواہش کا میں نے کبھی انکار نہیں کیا اور اگر میں انکار کروں اور میرے دل میں اسلامی حکومت کے قائم کرنے کی خواہش نہ ہو تو اسلام کے احکام کے وہ حصے پورے کس طرح ہوسکتے ہیں جن کیلئے ایک نظام کی ضرورت ہے۔ کیا کوئی شخص پسند کرے گا کہ اُس کا گھر ادھورا رہے؟ اگر کوئی شخص اپنے مکان کے متعلق یہ پسند نہیں کرسکتا کہ وہ ادھورا رہے تو خداتعالیٰ کے گھر کے متعلق وہ یہ امر کب پسند کرے گا۔ اس میں کیا شک ہے کہ جب تک تمام دنیا مسلمان نہیںہوتی اور خود حکومت، اسلامی حکومت نہیں ہوجاتی اُس وقت تک اسلام کی عمارت کانی رہتی ہے اور اپنی عمارت کا کانا ہونا کون پسند کرسکتا ہے۔ جب ہر شخص اپنی عمارت کو مکمل دیکھنا چاہتا ہے تو کب کوئی عقلمند ہم سے یہ امید رکھ سکتا ہے کہ ہم اسلام کی عمارت کو کانا رکھنا پسند کریں گے۔ اگر انگریز عیسائی ہی رہیں، یہودی یہودی ہی رہیں، ہند وہندو ہی رہیں تو اسلامی حکومت دنیا میں قائم نہیں ہوسکتی۔ ہاں اس کے قائم کرنے کا ایک طریق ہے اور اس طریق کے ذریعہ ہی دنیا میں ہمیشہ کام ہؤاکرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کانا ہو اور وہ کسی دوسرے سوجا کھے کی آنکھ نکال کر اپنا کانا پن دور کرنا چاہے تو سارے لوگ اُسے بیوقوف ہی سمجھیں گے کیونکہ دوسرے کی آنکھ نکال کر اُس کا کانا پن دور نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اگر کوئی بیوقوف یہ سمجھے کہ چند انگریزوں کو مار کر یا فتنہ و فساد پیدا کرکے وہ اسلامی حکومت قائم کرسکے گا تو وہ حماقت کا ارتکاب کرتا ہے۔ اور اگر فرض کرو وہ چند انگریزوں کو نہیں بلکہ تمام انگریزوں پر حملہ کرتا ہے اور انگریز اس حملہ کی تاب نہ لاکر ملک چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں تب بھی اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوسکتی ہے۔ حکومت اگرقائم ہوگئی تو ہندوئوں کی کیونکہ ایک مسلمان کے مقابلہ میں تین ہندو ہیں اور جس طرح مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسلامی تہذیب اور اسلامی تمدّن اور اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کریں اِسی طرح ہندوئوں کا بھی حق ہے کہ وہ ہندو تہذیب، ہندو تمد ّن اور ہندو حکومت قائم کریں۔ اسی طرح اگرمسلمانوں کو حق ہے کہ وہ انگریزوں کو اس لئے ماریں کہ وہ اسلام میں داخل نہیں اور انہیں اپنے ملک سے اس لئے نکالیں کہ وہ انگریزی حکومت کی بجائے اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں تو یقینا ہندوئوں کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں کو ماریں اور انہیں اپنے مُلک سے نکال کر ہندو حکومت قائم کریں او رایسی صورت میں ہندوئوں کے فعل پر اعتراض کرنا بالکل پاگل پن ہوگا ۔ جو چیز ہمارے لئے جائز ہے وہ ہمارے غیر کیلئے بھی جائز ہونی چاہئے ورنہ یہ خدائی تعلیم نہیں ہوگی کہ وہ مسلمانوں کو تو اختیار دے دے کہ وہ اسلامی حکومت کو قائم کرنے کی کوشش کریں لیکن ہندوئوں کو اپنی حکومت قائم کرنے کا اختیار نہ دے۔ ایسی تعلیم دینے والا خدا نہیں بلکہ سوتیلا باپ ہوگاجو اپنے بیٹے کی تو پرورش کرتا ہے مگر دوسرے کو گھر سے نکال دیتا ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جس چیز کو ہم اپنا حق قرار دیتے ہوں اُسی کو دوسرے کاحق بھی تسلیم کرنے کیلئے تیاررہیں۔
پس یہ طریق بالکل نادرست ہے اور میں ہمیشہ اِس کی مخالفت کرتا رہا ہوں لیکن جائز اور پُرامن طریق سے اسلامی حکومت قائم کرناہماری دلی خواہش ہے اور میں سمجھتا ہوں ہم میں سے ہر ایک کے دل میں یہ آگ ہونی چاہئے کہ ہم موجودہ طرزِ حکومت کی بجائے حکومت اسلامی قائم کریں۔ یہ طبعی خواہش ہے اور میرے دل میں ہر وقت موجود رہتی ہے اور میں نے اِس خواہش سے کبھی انکار نہیں کیا ہاں میرے اور عام لوگوں کے ذرائع میں اختلاف ہے۔ میں اسلامی حکومت کے قیام کیلئے تبلیغی اور پُرامن ذرائع اختیار کرتا ہوں او روہ کہتے ہیں کہ اس کے قائم کرنے کا طریق مار پیٹ اور جبر و تشدّد ہے۔ بہرحال یہ خواہش توجب پوری ہوگی ہوگی اور یقینا ایک دن پوری ہوگی دنیا کی مخالفتیں اور دشمنوں کی روکیں مل کر بھی اِس میں حائل نہیں ہوسکتیں۔
چنانچہ ایک دفعہ رئویا میں مَیں نے اس مسجد کو جس میں مَیں اِس وقت خطبہ پڑھ رہا ہوں (مسجداقصیٰ) دیکھا کہ میں یہاں ممبر پر کھڑا ہوں اوریوں معلوم ہوتا ہے کہ وائسرائے آئے ہیں کیونکہ ہمارے بادشاہ یہاں آنے والے ہیں اور وہ ان کی آمد سے پہلے انتظام دیکھنا چاہتے ہیں چونکہ پروگرام یہ ہے کہ بادشاہ یہاں کے مقدس مقامات دیکھیں گے اور مسجد کو بھی دیکھیں گے اِس لئے وائسرائے دیکھ رہے ہیں کہ آیا تمام انتظام مکمل ہے یا نہیں؟ اُس وقت میں نے دیکھا کہ مسجد اتنی وسیع ہے کہ اِس کا آخری کنارہ مشکل سے نظر آتا ہے اور سینکڑوں فوجی سپاہی پریڈ کے طور پر کھڑے ہیں مگر وہ اتنی دور ہیں کہ ان کی شکلیں پہچانی نہیں جاتیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ وائسرائے مسجد میں داخل ہوئے ہیں اور وہ تمام انتظام کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے پھر دوسرے مقدس مقامات دیکھنے کیلئے چلے گئے ہیں۔ تو یہ چیزیں آخر ہوکر رہیں گی اور کسی کے مٹانے یانہ مٹانے کا سوال ہی نہیں۔ جس چیز کا خداتعالیٰ نے فیصلہ کردیا ہے وہ آخر ہوکرر ہے گی چاہے اس پر عیسائی بُرا منائیں چاہے موسائی بُرا منائیں، چاہے ہندو بُرا منائیں، چاہے سکھ بُرا منائیں یہ خداتعالیٰ کی قضاء ہے کہ دنیا میں اسلامی حکومت قائم کی جائے گی اور جو چیز ایک دن ہونے والی ہو اُسے ہم نے چھپانا کیا ہے اور اِس پر اگر کوئی بُرا مناتا ہے تو ہم اس کا علاج کیا کرسکتے ہیں، مگر جب تک وہ زمانہ نہیں آتا اُس وقت تک ہمارا فرض ہے کہ جن باتوں میں حکومت ہمیں اختیار دیتی ہے ان میںاسلامی حکومت کی طرز پر تمام باتیں جاری کریں۔
بے شک اسلام یہ اجازت نہیںدیتا کہ ہم عادی چور کا ہاتھ کاٹ دیں بلکہ وہ اسے اسلامی حکومت کا فرض قرار دیتا ہے مگر اسلام یہ اجازت تو دیتا ہے کہ چورپر تمدّنی دبائو ڈال کراسے چوری کی عادت سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے۔ پس اگرکوئی چور ی کرے گا تو ہم اُس کے ہاتھ نہیں کاٹیں گے لیکن ہم اس پر تمدّنی دبائو ضرور ڈالیں گے تا اس کی اصلاح ہوجائے او ر وہ آئندہ چوری کا ارتکاب نہ کرے۔
اسی طرح بے شک اسلام ہم کو یہ اجازت نہیںدیتا کہ اگر کوئی شخص عَلَی الْاِعْلَان بدکاری کا ارتکاب کرے تو اُسے ہم سنگسار کردیں بلکہ وہ اسے اسلامی حکومت کا فرض قرار دیتا ہے اور اس لئے اگر کوئی بدکاری کا عَلَی الْاِعْلَان ارتکاب کرے گا تو ہم اسے سنگسار نہیں کریں گے مگر جو تمدنی دبائو ہے اس کے ذریعہ ہم قومی اخلاق کی درستی کرسکتے ہیں کیونکہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔
اسی طرح اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اگر کوئی شخص قتل کرے تو اسے سزا کے طور پر قتل کردیاجائے بلکہ وہ اسے اسلامی حکومت کا اختیار قرار دیتا ہے۔ پس اگر کوئی قتل کرے تو ہم یقینا اسے قتل نہیں کریں گے لیکن اسلام اس بات کا اختیار ہمیں دیتا ہے کہ اگر کوئی قتل کرے تو اُس پر تمدنی دبائو ڈالا جائے تا اُس کی اصلاح ہو۔ پس ہم تمدنی طور پر اس سے تنفّر کا اظہار کریں تا اُس کے دل میں ندامت پیدا ہو اور وہ اس بُرے فعل کا دوبارہ ارتکاب نہ کرے۔ اگر یہ طریق اختیار نہ کیا جائے تو کیا اس وجہ سے کہ اسلام قاتل کو بذاتِ خود قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہم قاتل سے بڑھ کر مصافحہ کریں گے یا اُس سے پیار کرنے لگیں گے؟ یا کیا اس وجہ سے کہ اسلام ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ ہم چور کا ہاتھ کاٹ دیں ہم چور کو چوری کرنے کے بعد شاباش دیں گے اور کہیں گے کہ تُونے کیسا اچھاکام کیا ؟یا کیا اِس وجہ سے کہ اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ دنیا میں جو قحبہ خانے ہیں انہیں خود بخود گِرا دیا جائے ہم کنچنیوں کا گانا جاجاکر سنیں گے؟ ایک جگہ اسلام اگر ہمارے ہاتھ روکتا ہے تو دوسری جگہ ہمیں اختیار بھی دیتا ہے کہ ہم اسے استعمال کریں۔
یہی وہ طریق ہے جسے شروع خلافت سے میں نے اپنے مدنظر رکھا اور میں نے باربار سمجھایا ہے کہ اسلامی عمارت کو مکمل کرنا اور اسے مغربی اثرات سے بچانا ہمارا فرض ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ اسلام میں ہر بیماری کا علاج موجود ہے آجکل کے مسلمان اسلامی احکام سے اتنے جاہل اور ناواقف ہوگئے ہیں کہ جب بھی وہ کوئی طریق اختیار کریں گے غیراسلامی ہوگا حالانکہ اسلام میں وہ تمام طریق موجود ہیں جن پر کاربند ہوکر انسان اپنے حقوق کو حاصل کرسکتا اور دوسروں کے ظلم سے بچ سکتا ہے اور کسی غیر اسلامی طریق کے اختیار کرنے کی ہمیں ضرورت نہیں۔
انہی غیر اسلامی اثرات کے ماتحت ہمارے ملک میں ہڑتالوں کا طریق رائج ہوگیا ہے اس طریق کو ہماری جماعت کے لوگ بھی بعض دفعہ اندھا دھند اختیار کرلیتے ہیں حالانکہ وہ طریق ان کیلئے موزوں ہی نہیں ہوتا۔ ایک بچے کو بازار میں سے گزرتے ہوئے جب کوئی دوسرا بچہ تھپڑ مارتا ہے اور وہ اس کے جواب میں اپنا ہاتھ اُٹھاتا ہے تو اُس وقت بچے کا ہاتھ اُٹھانا بُرا نہیں لگتا لیکن جس وقت اُس کی ماں اُسے مارتی ہے اور وہ اس کے مقابلہ میں اپنا ہاتھ اُٹھاتا ہے تو سارے کہتے ہیںیہ بڑا بے ادب اور گُستاخ ہے اِس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ پہلے موقع پر اُس کا ہاتھ اُٹھانا ایک اجنبی بچہ کے مقابل میں تھا اور اب اس کا ہاتھ اُٹھانا اپنی ماں کے مقابل میں ہے۔ بازار میں سے گزرنے والے بچے میں مقابلہ میں اُس کا ہاتھ اُٹھانا اُسے سج جاتا لیکن اپنی ماں کے مقابلہ میں اُس کا ہاتھ اُٹھانا اُسے نہیں سجتا۔ اِسی طرح بازار میں سے گزرنے والے ایک لڑکے کو کوئی اجنبی اگر کہے کہ ایک ٹانگ اُٹھا کر کھڑا ہوجا تو وہ لڑکا اگر بہت زیادہ اخلاق سے کام لے گا تو خاموش ہوکر گزرجائے گا، اس سے کم اخلاق سے کام لے گا تو اسے ایک نظر دیکھ کرگزرجائے گا، اس سے کم اخلاق سے کام لے گا تو اُسے گھور کر گزرجائے گا، اِس سے کم اخلاق سے کام لے گا تو بڑبڑا کر گزر جائے گا اور اِس سے کم اخلاق سے کام لے گا تو دو چار سُنا کر گزرجائے گا کہ تُو کون ہوتا ہے جو مجھے اِس قسم کی بات کہے لیکن جس وقت سکول روم میں اُستاد لڑکے سے کہتا ہے کہ ایک ٹانگ پر کھڑا ہوجا تو اُس وقت اگر لڑکا اُستاد کو وہی جواب دے جو وہ بازار میں ایک اجنبی شخص کو دیتا ہے تو سارے کہیں گے یہ بڑا ہی بدتہذیب ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ بازار میں ایک اجنبی کے سامنے اس کے الفاظ سج جاتے تھے لیکن اُستاد کے سامنے نہیںسجتے۔ اِسی طرح ایک مسلمان کہلانے والے کا بھی مغربی طریقِ عمل اختیار کرنا اور اسلامی طریق کو چھوڑ دینا اسے کسی صورت میں نہیں سج سکتا۔
اسلامی عمارت جو تمدن کے متعلق ہے اس کی بنیاد انصاف اور محبت پر ہے اس لئے اپنے حقوق کے حصول کیلئے بھی وہی طریق اختیار کرنا چاہئے جو انصاف اور محبت پر مبنی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب کہیں سٹرائک ہوتی اور کوئی احمدی اس میں شریک ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اُسے سخت سزا دیتے اور اُس پر اظہارِ ناراضگی فرماتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ سٹرائک یا سٹرائک کے مشابہہ بھی جب بعض احمدیوں نے کوئی حرکت کی ہم نے اسے سخت ناپسند کیا۔ اِ س لئے کہ جب اسلامی تعلیم میں ان کے مطالبات کا علاج موجود ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ اسلامی طریق اختیار نہیں کرتے اور غیر اسلامی طریق اختیار کرتے ہیں۔ زیادہ تر سٹرائکوں کا سوال مزدوروں اور سرمایہ داروں کے درمیان ہوتا ہے۔ مغربی طریق یہ ہے کہ ہر شخص اپنی طرف سے ایک حق کا مطالبہ کرتا ہے اور ان کا اصول یہ ہے کہ ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ اگر مزدور غالب آجائیں تو وہ مالکِ کارخانہ جات کے حقوق کو دبالیں گے اور اگر مالکِ کارخانہ جات غالب آجائیں تو وہ مزدوروں کے حقوق کو دبالیں گے مگر اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام نہ مزدور کو اجازت دیتا ہے کہ وہ سرمایہ دار کو آنکھیں دکھائے نہ سرمایہ دار کو اجازت دیتا ہے کہ وہ مزدور کو آنکھیں دکھائے کیونکہ یہ دونوں باتیں غیریت پر دلالت کرتی ہیں اور اسلام کامنشاء یہ ہے کہ سب بنی نوع انسان اپنے آپ کو بھائی بھائی سمجھیں کیونکہ خداتعالیٰ سب کا آقا ہے اور محبت کے لحاظ سے وہ ان کا باپ ہے اس لئے آپس میں وہ طریق اختیار نہیں کیا جاسکتا جس میں غیریت پائی جاتی ہو۔ پس ان طریقوں کو اسلام کبھی جائز قرار نہیں دے سکتا۔ نہ پہلے کبھی اس نے انہیں جائز قرار دیا ہے اور نہ آئندہ قرار دے گا۔
میں کہہ چکا ہوں کہ اسلامی طریق کی بنیاد انصاف پرہے اسلام ہرگز یہ اجازت نہیں دیتا کہ مزدور جتھہ بندی اور جماعت کی صورت میں سرمایہ داروں کو دبا کر اپنی طاقت قائم کریں اور نہ اسلام اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ سرمایہ دار جتھہ بندی اور جماعت کی صورت میں مزدوروں اور کام کرنے والوں کو نقصان پہنچائیں بلکہ وہ کہتاہے کہ غیرجانبدار شخص بیٹھیں اور انصاف کی رُو سے باہمی جھگڑوں کا تصفیہ کریں اور پھر دوسروں کا فرض ہے کہ اُسے قبول کریں۔ اسلامی خلافت اور نظام کے معنی ہی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو عقل اور فہم و فراست سے کام لے کر ایک امام منتخب کرنے کی تلقین کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر وہ دیانتداری سے اپنے امام کے انتخاب کی جدوجہد کریں گے تو وہ خود امام کا انتخاب کردے گا۔ اِسی وجہ سے خلافت کا انتخاب خداتعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے اور گو زبان بندوں کی ہوتی ہے مگر ارادہ اور منشاء خداتعالیٰ کا ہوتا ہے۔ جیسے قلم جب لکھتاہے تو دراصل قلم نہیں لکھتا بلکہ ہاتھ لکھتا ہے، ہاتھ بھی نہیں لکھتا بلکہ دماغ ہاتھ سے کام کراتا ہے اِسی طرح گو خلیفہ کا انتخاب بندوں کے ہاتھ سے ہوتا ہے مگر اُس کے پیچھے خداتعالیٰ کام کررہا ہوتا ہے اور گو زبان بندوں کی ہوتی ہے مگر دماغ پر خداتعالیٰ کا قبضہ ہوتا ہے اور اِس طرح حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی انتخاب کرتا ہے اور وہ بندوں کا نہیں بلکہ خدائی انتخاب کہلاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں تعطّل اور تعطیل کا سوال پیدا نہیں ہوسکتا۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان اصولوں پر اپنے تمام کاموں کوچلائیں جو اسلامی بنیاد اور عمارت کے ساتھ وابستگی اور مطابقت رکھیں۔ اگر ہم اس طریق کو اختیار نہیں کرتے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم اسلامی حکومت دنیا میں قائم کرنا نہیں چاہتے۔
میں دیکھتا ہوں کہ ہماری قادیان کی جماعت میں بعض دفعہ جھگڑے پیدا ہوتے ہیں، کہیں دُکانداروں کو شکوہ ہوجاتا ہے کہ ہمارے ریٹ کم ہیں، کہیں لوگوں کویہ شکایت پیدا ہوجاتی ہے کہ دُکانداروں کے ریٹ زیادہ ہیں۔ ابھی کَل مجھے دُکانداروں کے ایک حصہ کے متعلق معلوم ہؤاکہ اُس نے اِس لئے سٹرائک کردی کہ اُن کے ریٹ کم مقرر کئے گئے ہیں۔ اس وجہ سے میں پھر ایک دفعہ تمام جماعت کو بتادینا چاہتا ہوں کہ ہمارا طریق اسلامی ہے غیر اسلامی نہیں۔ اگر کسی کا حق ثابت ہے مگر دوسرا شخص اُسے نہیں دیتا تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ جس شخص کوحق نہیں ملتا خلیفہ اُس کے ساتھ ہے اور اگر اپنے حق کے حاصل کرنے کیلئے غیر اسلامی طریق اختیار کیا جائے گا توپھر خلیفہ اُس کا ساتھ نہ دے گا۔
خلیفہ خداتعالیٰ کا قائم مقام ہے وہ نہ مردوں کا ہے نہ عورتوں کا ، نہ چھوٹوں کا ہے نہ بڑوں کا، نہ مزدوروں کا ہے نہ سرمایہ داروں کا، وہ نہ مشرقی ہے نہ مغربی بلکہ اُس کا تعلق اُس ہستی کے ساتھ ہے جو سب سے بالا ہوکر ہر ایک کو ایک نظر سے دیکھ رہی ہے اِس لئے کوئی کسی کا حق خلافت کی موجودگی میں غصب نہیں کرسکتا۔ خواہ گاہک کا حق ہو یا دکاندار کا ، خواہ مزدور کا حق ہو خواہ سرمایہ دار کا، ہر ایک کے ساتھ عدل کیا جائے گا اور ہر ایک کو انصاف کے ساتھ اُس کا حق دلایا جائے گالیکن دیکھنا یہ پڑے گا کہ آیا عدل حاصل کرنے کیلئے وہی طریق اختیار کیا گیا ہے جو اسلامی ہے یا غیر اسلامی طریق اختیار کیا گیا ہے۔ جو شخص عدل حاصل کرنے کیلئے غیر اسلامی طریق اختیار کرے گا یقینا اُس سے کسی طرح نرمی نہیں کی جائے گی کیونکہ اس طرح ان امور میں بھی اسلامی حکومت کا قائم کرنا ناممکن ہوجاتا ہے جن امور میں اسلامی حکومت قائم کرنا ہمارے اختیار میں ہے۔ پس اِس بات کو اچھی طرح یاد رکھو اور چونکہ پچھلی باتیں ذہن سے اُترجاتی ہیں اِس لئے مَیں دُہرادیتا ہوںکہ ایسے لوگ جو اپنے حقوق کے حصول کیلئے غیراسلامی طریق اختیار کرتے ہیں وہ کسی نرمی اور رحم کے مستحق نہیں سمجھے جاسکتے کیونکہ وہ اسلامی حکومت کے قیام کو صدمہ پہنچاتے اور غیراسلامی طریق دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ پس اگر آئندہ میرے کانوں میں سٹرائک کی آواز آئے گی تو جماعت اُن سٹرائک کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی اور وہ کبھی اُن سے لین دین نہیں کرے گی۔ اسی طرح اگر سرمایہ داروں میں سے کوئی شخص کسی مزدور کا حق نہیں دے گا اور اسے دبائے رکھے گا تو اُسے بھی سخت سزا دی جائے گی۔ انصاف قائم کرنا ہمارا فرض ہے اور وہ خدا جو نہ مشرقی ہے نہ مغربی اُس کا قائم مقام ہونے کے لحاظ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم کسی کو کسی کا حق چھیننے اور دبانے نہ دیں خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب۔ جب اسلام نے اپنے حقوق کے حصول کیلئے ایک طریق مقرر کیا ہؤاہے تو کیا وجہ ہے کہ اسے اختیار نہیں کیا جاتا۔ مثلاً اگر دُکانداروں کو شکایت پیدا ہوئی تھی تو اس کے ازالہ کے دو طریق تھے وہ محکمہ قضاء میں نالش کرسکتے تھے کہ ہمارے ریٹ بڑھائے جائیں اسلامی محکمہ قضاء کو سب اختیارات حاصل ہیں۔ جس وقت محکمہ قضاء میں نالش کردی جائے اور کہا جائے کہ ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم یہ ریٹ رکھیں حالانکہ یہ ریٹ کافی نہیں تو قاضی فوراً دوسرے فریق کو اگر وہ انجمن ہے تو انجمن کو اگر امورعامہ ہے تو امور عامہ کو بُلائے گا اور اُس سے جواب طلب کرے گا اور اگر وہ ثابت کردیں گے کہ ان کے ریٹ کم ہیں تو ان کے پہلے ریٹ منسوخ کئے جائیں گے اور جو جائز ریٹ ہوں گے وہ مقرر کئے جائیں گے اور اگر وہ اس طریق کو پسند نہیں کرتے تھے تو چونکہ یہ انتظامی معاملہ ہے اس لئے براہِ راست خلیفۂ وقت کے سامنے بھی درخواست پیش کی جاسکتی تھی۔ اسی طرح اگر پبلک کو شکایت ہو کہ دُکانداروں کے ریٹ زیادہ ہیں تو وہ انجمن کے پاس شکایت کرسکتے ہیں اور اگر انجمن دُکانداروں کیلئے ایک ریٹ مقرر کردیتی ہے مگر کوئی دُکاندار اس کی تعمیل نہیں کرتا تو بہ اجازت اس سے قطع تعلق کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر انجمن ایک فیصلہ کرتی ہے اور دُکاندار اُس پرراضی نہیں تو وہ اس کے خلاف اپیل کرسکتا ہے جو خلیفۂ وقت کے پاس بھی ہوسکتی ہے اور محکمہ قضاء میں بھی۔ یہ تمام رستے کھلے ہیں اور اِن کے ذریعہ ہر وہ شخص جو سمجھتاہے کہ اُس کاحق مارا جارہا ہے اپنا حق لے سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ان طریق کے خلاف چلتا اور دھمکی سے اپنی بات منوانا چاہتا ہے تو اسلام دھمکی کی روح کو کسی صورت میں پسند نہیں کرتا۔ مؤمن کے اندر تو اسلام وہ دلیری پیدا کردیتا ہے کہ وہ نہ بادشاہ کی دھمکی سے ڈرتا ہے نہ رعایا کی دھمکی سے مگر اس کے ساتھ ہی عدل اور انصاف کی آواز کے سامنے ہر مؤمن جھک جاتا ہے خواہ وہ عدل و انصاف کی آواز ایک ذلیل ترین آدمی کے منہ سے نکلے۔ اگر ایک بادشاہ کسی مؤمن سے کہتا ہے کہ ظلم کر تو اُس مؤمن کی چھاتی تن جانی چاہئے اور اُسے کہہ دینا چاہئے کہ میں ظلم کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں لیکن اگر زمین پر گِرا ہؤاایک اپاہج اور لُولا لنگڑا انسان جس کا منہ مکھیوں کی کثرت کی وجہ سے نظر بھی نہیں آتا تمہیں کہے کہ انصاف کرو تو تمہارا سر اُس کے سامنے جھک جانا چاہئے اور تمہیں کہنا چاہئے کہ سَمْعًا وَّ طَاعَۃً۔ یہ روح ہے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ بالکل مغربی روح کے خلاف ہے۔ مغرب جتھہ بندی کو طاقت دیتا ہے مگر اسلام انصاف کو طاقت دیتا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہمارے سارے کام اس کے مطابق ہوں اور ہر امر میں انصاف اور محبت کی روح ہم اپنے مدّنظر رکھیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک صحابی اپنا گھوڑا دوسرے صحابی کے پاس فروخت کرنے کیلئے لایا اور اُس کی قیمت مثلاً دو سَو روپیہ بتائی۔ دوسرے صحابی نے کہا کہ میں اس قیمت پر گھوڑانہیں لے سکتا کیونکہ اِس کی قیمت دُگنی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کوگھوڑوں کی قیمت سے واقفیت نہیں لیکن مالک نے زیادہ قیمت لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ جب میرا گھوڑا زیادہ قیمت کا نہیں تو میں کیوں زیادہ قیمت لوں اور اِس پر ان کی تکرار ہوتی رہی یہاں تک کہ ثالث کے ذریعہ سے انہوں نے فیصلہ کرایا۔ یہ اسلامی روح تھی جو ان دو صحابیوں نے دکھلائی۔
اسلا م کا حکم یہی ہے کہ ہر شخص بجائے اپنا حق لینے اور اس پر اصرار کرنے کے دوسرے کے حق کو دینے اور اُسے قائم کرنے کی کوشش کرے جس وقت یہ روح قائم ہوجائے اُس وقت ساری سٹرائکیں آپ ہی آپ بند ہوجاتی ہیں مگر کم سے کم نیکی یہ ہے کہ جب کسی کی طرف سے اپنے حق کا سوال پیدا ہو تو وہ حق اُسے دے دیا جائے۔ یہ غیر اسلامی روح ہے کہ چونکہ دوسرے کے حق پر ہم ایک لمبے عرصہ سے قائم ہیں اور اس حق کو اپنا حق سمجھنے کی ایک عادت ہمیں ہوگئی ہے اس لئے ہم دوسرے کو وہ حق نہیں دے سکتے۔ اسلامی روح یہ ہے کہ اگر کوئی دوسرے کا حق ہو اور یہ اس پر عرصہ سے قبضہ جمائے بیٹھا ہو تو اُس کے دل میں اور بھی ندامت پیداہونی چاہئے کہ میں نے اتنا عرصہ ناجائز طور پر دوسرے کے حق کو غصب کیا اور اس سے فائدہ اُٹھاتا رہا۔ یہ تعلیم ہے جو اسلامی تعلیم ہے اور یہی وہ روح ہے جس کے قیام کیلئے اسلامی حکومتوں کی ضرورت ہؤاکرتی ہے۔
میں نے بتایا ہے کہ ہماری حکومت اسلامی حکومت نہیں مگر خداتعالیٰ نے ہماری حکومت کو اتنا دل دیا ہے کہ اس نے بعض امور میں مختلف مذاہب والوں کو کہہ دیا ہے کہ جائو ان میں حسب منشاء فیصلہ کرلو۔ یہ بھی اس کا ایک احسان ہے اور ہم اس کی قدر کرتے ہیں گو اِسی کے بعض مقرر کردہ حُکّام اس کی اس اجازت کی قدر نہیں کرتے۔ ہم کہتے ہیں کہ حکومت نے جن امورمیں دخل دینے کی ضرورت نہیں سمجھی ان سے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور حکومت کا منشاء ہے کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ مگر وہ حُکّام لوگوں پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گو حکومت نے لوگوں کو اجازت دی ہوئی ہے کہ بعض امور میں وہ باہم فیصلہ کرلیا کریں مگر اس کا منشاء نہیں کہ لوگ اس طرح فیصلہ کریں۔ گویا وہ حکومت پر جھوٹ کا الزام عائد کرتے اور اُسے منافق ثابت کرتے ہیں مگر ہم حکومت کو جھوٹا نہیں سمجھتے اور نہ اس کی اس اجازت میں کسی نِفاق کا دخل سمجھتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ جب اس کی طرف سے ایک اجازت ہے تو واقعہ میں حکومت کا منشاء یہ ہے کہ لوگ بجائے سرکاری عدالتوں میںجانے کے بعض امور میں آپس میں سمجھوتہ کرلیا کریں مگر وہ حُکّام یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت یہ بات جھوٹ اورفریب سے کہہ رہی ہے۔ اصل میں اس کے دل میں یہ ارادہ نہیں ۔ پس وہ حکومت کو جھوٹا اور منافق ثابت کرتے ہیں مگر ہم اس کو سچا سمجھ کر اس کی اس اجازت کی قدر کرتے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
غرض جن امور میں حکومت نے اختیار دیا ہؤاہے ان امور میں ہمارا فرض ہے کہ ہم پورے طور پر اسلامی حکومت کا نقشہ قائم کردیں۔ اس میں جتنی غفلت لاعِلمی کی وجہ سے ہو وہ معاف کی جاسکتی ہے، جتنی غفلت انتظام کی دقّت کی وجہ سے ہو مثلاً سال دو سال کسی امر کا انتظام مکمل کرنے میں لگ جائیں تو اتنی تعویق معاف کی جاسکتی ہے مگر جن امور میں ہم اسلامی تعلیم کا احیاء کرسکتے ہیں اور پھر نہیں کرتے ان امور میں غفلت کسی صورت میں معاف نہیں کی جاسکتی اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہم پر انگریزی حکومت ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا کیا انگریزوں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ ان ان باتوں میں ہم دخل نہیں دیتے جس طرح چاہو کرو پس انگریزی حکومت تو بَری ہوچکی اُس نے کہہ دیا کہ بعض امور میں تمہیں اختیار حاصل ہے جس طرح چاہتے ہو اِن کافیصلہ کرو اس لئے وہ تمام باتیں جن میں حکومت کی طرف سے ہمیں اختیار حاصل ہے ان میں ہمیں اسلامی حکومت رائج کرنی پڑے گی۔ جو شخص احمدی رہنا چاہتا ہے اسے وہ حکومت قبول کرنی پڑے گی اور جو اس حکومت کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں وہ خداتعالیٰ کے حضور احمدی بھی نہیں کہلاسکتا۔ پس ایک دفعہ پھر مَیں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں کوئی ایسا طریق برداشت نہیں کرسکتا جو غیراسلامی ہو خواہ مزدوروں کی طرف سے ہو یا مالکوں کی طرف سے، گاہکوں کی طرف سے ہویا دُکانداروں کی طرف سے بلکہ اگر انہیں شکایت ہو تو وہ اسلامی طریق کے مطابق اس کے خلاف متعلقہ افسروں کے پاس درخواست کریں۔ مثلاً مالک اگر کام کرنے والے نوکروں کی غیرمعقول اُجرت مقرر کردیں اور کہہ دیں کہ اس سے زیادہ ہم ہرگز نہیں دیں گے تو اس حکم کے خلاف درخواست کی جاسکتی ہے یا اگر دُکاندار کو اپنی اشیاء کے نرخوں کی کمی کے متعلق شکایت ہو تو وہ بھی درخواست کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ جتھہ بازی کی صورت بنائیں گے اور دھمکی سے اپنی بات منوانے کی کوشش کریں گے تو خواہ وہ مزدور ہوں یا سرمایہ دار، دُکاندار ہوں یا گاہک، دونوں سزا کے مستحق ہوں گے۔
خلافت تو ایک محبت کارشتہ ہے اور جو شخص خلافت کو تسلیم کرتا ہے وہ اپنے قول و عمل سے اِس کابات کااقرار کرتا ہے کہ میں خلافت اور اس کے نظام پر اعتبار کرتا ہوں اور جب وہ اعتبار کرتا ہے تو اپنی حق تلفی یا کسی شکایت کے پیدا ہونے پر ہمارے پاس آتا کیوں نہیں اور اگر آنانہیں چاہتا تو معلوم ہؤا اُسے اعتبار نہیں اور اگر اُسے اعتبار نہیں تو پھر اُس نے بیعت کیوں کی تھی؟ جب اسلام میں حکومت اور خلافت جمع تھیں اُس وقت تو کوئی شخص کہہ سکتا تھا کہ مجھے خلافت پر تو اعتبار نہیں لیکن کیا کروں حکومت بھی تو اسلامی ہے مگر اب تو خلافت الگ ہے اور حکومت الگ اورجب بھی کوئی شخص بیعت کرتا ہے اپنی مرضی اور منشاء سے کرتاہے اور اس امر کا اظہار کرکے بیعت کرتا ہے کہ مجھے نظامِ سلسلہ پر اعتبار ہے۔ اِس صورت میں اُس کا فرض ہے کہ وہ نظامِ سلسلہ پر اعتبار کرتے ہوئے اُس کے سامنے اپنا معاملہ پیش کرے اور اگر وہ پیش نہیں کرتا تو معلوم ہوا اُسے اعتبار نہیں اور جب اُسے اعتبار نہیں تو اُس نے بیعت کیوں کی تھی۔ پس میں جماعت کو ایک دفعہ پھر نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر اسلامی طریق جاری کرے جس کے ذریعہ ہر حقدار کو اُس کا حق مل سکتا ہے غیر اسلامی طریق جاری نہ کرے جو نتائج کے لحاظ سے کسی صورت میںبھی جماعت کیلئے مفید نہیں ہوسکتے۔
قاضیوں کو بھی چاہئے کہ جب وہ قضاء کی کُرسی پر بیٹھے ہوئے ہوں اُس وقت وہ چھوٹوں اوربڑوں ، افسروں اور ماتحتوں، مزدوروں اور سرمایہ داروں، غریبوں اور امیروں، کمزوروں اور طاقتوروں کے تمام امتیازات کو مٹا کر بیٹھیں جس طرح خداتعالیٰ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِہے اور اس کی بادشاہت میں کسی کی حق تلفی نہیںہوسکتی اسی طرح وہ بھی جزاء و سزا کے مالک ہوتے ہیں انہیں بھی چاہئے کہ وہ خداتعالیٰ کی اس صفت کے انعکاس میں فیصلہ کرتے وقت کسی کی حق تلفی نہ ہونے دیں وہ قضاء کے وقت خلیفۃ اللہ ہوتے ہیں اور اُس وقت اُن کے دل پر کسی قسم کا اثر نہیں ہونا چاہئے بلکہ اُن کا دل ایسا ہی غیر کے اثرات سے منزّہ ہونا چاہئے جیسے خداتعالیٰ کا عرش ہوتا ہے اور اگر وہ اس کونبھا نہیں سکتے تو پھر قضا کاہر فیصلہ قیامت کے دن ان کے گلے میں *** کا طَوق بن کر پڑے گا۔ قضاء کوئی کھیل نہیں، تماشا نہیں بلکہ بہت بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔
ایک مشہور بزرگ جن کی آدھی اسلامی دنیا تابع ہے انہوں نے قضاء کی وجہ سے ہی بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھائی میری مراد اس سے حضرت امام ابوحنیفہؒ ہیں۔ انہیں بادشاہ نے قاضی مقرر کیا مگر انہوں نے کہا میں اس کا اہل نہیں کسی اور کو قاضی بنادیا جائے۔ بادشاہ نے زو رلگایا مگر وہ انکار کرتے چلے گئے آخر اُس نے انہیں جیل خانہ میں ڈال دیا وہاں انہیں مارا گیا، پیٹا گیا اور اتنی تکلیفیں پہنچائی گئیں کہ ان کی صحت بِگڑ گئی اور آخر فوت ہوگئے مگر انہوں نے قضاء کا عہدہ قبول نہ کیا۔
ایک اور بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ انہیں قاضی القضاۃیعنی ہائی کورٹ کا چیف جج مقرر کیا گیا۔ دوست انہیں مبارکباد دینے آئے تو دیکھا کہ وہ رورہے ہیں۔ کسی نے کہا کہ یہ کیا؟ ہم تو آپ کو مبارکباد دینے آئے تھے۔ وہ کہنے لگے مبارکباد کیسی؟ انہوں نے کہا مبارک باد اِس بات کی کہ آپ حکومت کی طرف سے قاضی القضاۃ مقرر ہوئے ہیں۔ وہ کہنے لگے یہ مبارکباد دینے کی کون سی بات ہے اس میں تو تمہیں مجھ سے ہمدردی کرنی چاہئے۔ ان کے دوست اس بات کونہ سمجھے تو انہوں نے کہا دیکھو! دو شخص لڑتے ہوئے میرے پاس آئیں گے فرض کروایک شخص کہے گا اس نے میرے سَو روپے دینے ہیں مگر دیتا نہیں دوسرا کہے گا کہ میں نے اس کے کوئی روپے نہیں دینے۔ اب جو کہتا ہے کہ اس نے میرے سَوروپے دینے ہیں وہ بھی جانتا ہے کہ اُس نے روپے دینے ہیں یا نہیں اورجو کہتا ہے کہ میں نے روپے نہیں دینے وہ بھی جانتا ہے کہ اُس نے روپے دینے ہیں یا دے دیئے ہیں مگر میں ان کا فیصلہ کرنے بیٹھوں گا حالانکہ نہ مجھے یہ پتہ ہوگا کہ اس نے روپے دینے ہیں یا نہیں اور نہ یہ پتہ ہوگا کہ دوسرے نے روپے لینے ہیں یا نہیں گویا میں دو سوجاکھوں میںاندھا ہوں گا۔ وہ دونوں جانتے ہوں گے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا اور مجھے نہ یہ پتہ ہوگا کہ سچ کیا ہے اور نہ یہ پتہ ہوگا کہ جھوٹ کیا؟ لیکن فیصلہ میں کروں گا۔ تو قضاء کا عہدہ معمولی عہدہ نہیں۔ اگر کوئی شخص سچے دل سے قضاء کے فرائض سرانجام دیتا ہے تو وہ خداتعالیٰ کے عظیم الشان فضلوں کا وارث ہوجاتا ہے کیونکہ دنیا میں انصاف قائم کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ جس شخص کو قضاء کاعہدہ ملتا ہے اُس کیلئے فوراً دو کھڑکیاں کھل جاتی ہیں ایک جہنم کی طرف سے اور ایک جنت کی طرف سے اور اس کے یہ اپنے اختیار میں ہوتا ہے کہ چاہے تو وہ جہنم میں چلاجائے اور چاہے تو جنت کا وارث بن جائے۔ اگر وہ انصاف سے کام نہیں لیتا، بڑوں کی رعایت کرتا ہے، جلدی جوش میںآجاتا ہے اور حقیقت معلوم کرنے کی پوری کوشش نہیں کرتا تو جہنم اس کے قریب ہوجاتی ہے اور اگروہ انصاف سے کام لیتا ہے، بڑوں کالحاظ نہیں کرتا، چھوٹوں کی حق تلفی نہیں کرتا اور جلدبازی سے کام نہیں لیتا بلکہ پورا غور کرنے کے بعد فیصلہ کرتا ہے تو جنت اُس کے قریب ہوجاتی ہے اور باوجود اَور ہزاروں قسم کی کمزوریوں کے وہ جنت کا مستحق سمجھا جاتا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہوجاتا ہے۔
پس میں قاضیوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دلیر ، منصف اور عادل بننے کی کوشش کریں اور کسی انسان سے نہ ڈریں بلکہ خداتعالیٰ سے ڈریں۔ قاضی ہونے کی صورت میں ان کا تعلق براہِ راست خداتعالیٰ سے ہوجاتا ہے اور کوئی علاقہ درمیان میں نہیں ہوتا۔ پس انہیں صرف خداتعالیٰ کی ذات پر اپنی نگاہ رکھنی چاہئے اور اگر دنیا کے سارے افسر، دنیا کے سارے حُکّام اور دنیا کے سارے بادشاہ مل کر بھی ان کے مخالف ہوجائیں تو وہ وہی کریں جو انصاف ہو اور کسی کا ڈر اپنے دل میں پیدانہ ہونے دیں مگر یہ شرط ہے کہ وہ قانون کے اندر رہتے ہوئے انصاف کریں۔ اگر قانون میں کوئی نقص ہے تو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پرہے جنہوں نے قانون بنایا قاضیوں پر نہیں۔ پس انہیں اِس بات کی اجازت نہیں کہ قانون توڑیں بلکہ قانون کے اندر رہتے ہوئے وہ انصاف کریں اور ہر حق دار کو اس کا حق دلانے کی کوشش کریں۔
دوسری طرف میں جماعت کے احباب کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ اس میں سے جو لوگ اپنے گھروں میں ملازم رکھتے ہیں وہ ملازموں کی اورجو گاہک ہیں وہ دُکانداروں کی مشکلات سمجھیں۔ دیانت ہمارے مُلک سے بہت حد تک اُٹھ چکی ہے اور ہر ایک چاہتا ہے کہ وہ دوسرے کو جس حد تک ممکن ہو لُوٹے اورنقصان پہنچائے۔ افسر اور مالک جو نوکر رکھتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ان کے نوکر تو دیانتداری سے کام کریں لیکن وہ خود دیانتداری سے ان کا حق ادا کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ا سی طرح ملازم چاہتے ہیں کہ انہیںتنخواہ مل جائے لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ کام بھی دیانتداری سے ہوا ہے یا نہیں۔ گویا دونوں ایک دوسرے کا خون چوسنے کی کوشش کررہے ہیں ان حالات میں اگر امن ہو تو کس طرح ہو۔ امن تبھی قائم ہوسکتا ہے جب دونوں اپنے اپنے فرائض کو سمجھیں۔ جو لوگ نوکر نہیں رکھ سکتے وہ نہ رکھیں کیونکہ خداتعالیٰ نے انہیں خود کام کرنے کی توفیق دی ہوئی ہے لیکن اگر کوئی نوکر رکھتا ہے تو اُس کا فرض ہے کہ اس سے انصاف اور حُسنِ سلوک کرے۔
اسی طرح جب کوئی دُکان سے سَودا لینا چاہے تو اس کا فرض ہے کہ جو جائز قیمت وہ مانگے اُسے دے اور اس کی حق تلفی کرنے کی کوشش نہ کرے اور دُکاندار کا فرض ہے کہ وہ صاف اور سُتھری چیز پیش کرے اور جو جائز قیمت ہو وہ وصول کرے۔ مگر اب دونوں طرف سے ظلم ہوتا ہے گاہگ چاہتے ہیں کہ دُکاندار کم قیمت وصول کریں اور دُکاندار اس کا علاج یہ سوچتے ہیں کہ وہ ناقص اور گندی چیزیں کم قیمت پر گاہکوں کو دے دیتے ہیں۔ میں تو سَودا لینے نہیں جاتا لیکن چونکہ سَودے ہمارے گھروں میںآتے رہتے ہیں اس لئے میں کہہ سکتا ہوں کہ سَودوں میں دیانت سے کام نہیں لیا جاتا۔ میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ آٹے میں بِالعموم مٹی ملی ہوئی ہوتی ہے پھر مصری میں بھی بہت کچھ میل اورگند ہوتا ہے یہ دو چیزیں تو ایسی ہیں جو فوراً نظر آجاتی ہیں۔ چنانچہ مصری کے ہر چمچہ میںانسان اگر آنکھیں کھول کردیکھے تو اسے بہت سی مٹی ملی ہوئی دکھائی دے گی جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ محض وزن زیادہ کرنے کیلئے مصری میںمٹی ملالی جاتی ہے۔ اسی طرح آٹے میں ریت اور مٹی ہوتی ہے دانت کے نیچے آٹے کو ذرا چبا کردیکھو فوراً اس میں سے کِر کِر کی آواز آنے لگے گی۔ عام طور پر لوگ ہمارے ملک میں اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے حالانکہ اگر وہ صرف لُقمہ کو چبا چبا کر کھانے کی عادت رکھتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ وہ آٹا نہیں کھارہے بلکہ گند کھارہے ہیں۔ نو ّے فیصدی آٹا ایسا ہوتا ہے جس میں کِرک ہوتی ہے ذرا اسے دانتوں کے نیچے دبائو کِرکِر کی آواز آنے لگ جائے گی اور یہ صحت کیلئے نہایت ہی مضِرّ ہوتا ہے۔ علاوہ اس کے یہ دھوکا بازی بھی ہے کہ دُکاندار قیمت خالص آٹا کی وصول کرتے ہیں اور آٹا وہ دیتے ہیں جس میں ریت اور مٹی ملی ہوئی ہوتی ہے۔ بددیانتی صرف اس کانام نہیں کہ تم کسی کاناحق روپیہ لے لیتے ہو بلکہ بددیانتی اس کا بھی نام ہے کہ تم کسی کی کوڑی اُٹھالیتے ہو۔ اسی طرح بددیانتی صرف اسی کا نام نہیں کہ تم ۹۵ فیصدی آٹا اور ۵فیصدی مٹی ملا کر دو بلکہ اگر تم اٹھانویں فیصدی آٹا اور دو فیصدی مٹی ملاتے ہو یا ننانویں فیصدی آٹا اور ایک فیصدی مٹی ملاتے ہو، یا ساڑھے ننانوے فیصدی آٹا اور نصف فیصدی مٹی ملاتے ہو بلکہ اگر تم ۹۹۹ حصے آٹا اور ہزارواں حصہ مٹی ملاتے ہو تو وہ بھی ویسی ہی بددیانتی اور گندی عادت ہے جیسے ۵فیصدی مٹی ملانا۔ نیکی اوربدی دل سے تعلق رکھتی ہے جس طرح اگر کوئی شخص خداتعالیٰ کی راہ میں اخلاص سے ایک پیسہ دیتا اور وہ یہ امید رکھتا ہے کہ یہ ایک پیسہ امیر آدمی کے ایک لاکھ روپیہ سے کم نہ سمجھاجائے اور وہ اخلاص سے ایک پیسہ دے کر سمجھتا ہے کہ اُس نے لاکھ روپیہ دینے والے جیسی قربانی کی اور اِسی طرح اگر کوئی شخص پانچ فیصدی ٹھگی کرتا ہے تو وہ بھی ٹھگ ہے اور جو ہزارواں حصہ کی ٹھگی کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی ٹھگ ہے۔ جس طرح نیکی کی جزاء نیت پر ہے اسی طرح بدی کی سزا بھی نیت پر ہے۔ جس طرح خداتعالیٰ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی راہ میں ایک غریب شخص نے اخلاص سے ایک پیسہ دیا اور دوسرے امیر نے ایک لاکھ روپیہ دیا بلکہ وہ اخلاص دیکھتا اور اس کے مطابق جزاء دیتا ہے اسی طرح خداتعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ ایک نے پانچ فیصدی ٹھگی کی اور دوسرے نے آدھ فیصدی بلکہ وہ کہے گا کہ دونوں نے ٹھگی کی۔ پانچ فیصدی ٹھگی کرنے والے نے بھی ٹھگی کی اور ہزارواں حصہ ٹھگی کرنے والے نے بھی ٹھگی کی۔ تقدّس اور نجاست کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور جس طرح زیادہ نیکی بھی نیکی اور تھوڑی نیکی بھی نیکی سمجھی جاتی ہے اسی طرح زیادہ بدی بھی بدی اور تھوڑی بدی بھی بدی سمجھی جاتی ہے۔ ممکن ہے یہاں کے دُکاندار خود اِس قسم کی حرکات نہ کرتے ہوں اور باہر سے بے احتیاطی سے اسی قسم کا ناقص مال لاتے ہوں لیکن اس صورت میں بھی وہ بری نہیں ہوسکتے کیونکہ اگر کوئی شخص جاتا ہے اور رہٹ والے سے گندہ آٹا لاتا ہے تو یہ اسی کا قصور ہے۔ اگر گندہ آٹا تھا تو یہ کیوں لایا۔ اسے چاہئے تھا نہ لاتا اور اگر یہ ناقص مال سمجھ کر سَستا لے آیا ہے تو معلوم ہؤاکہ یہ بِلا واسطہ فائدہ اُٹھاتا ہے۔ مثلاً دوسری جگہ سے اچھا آٹا خریدتا تو اس کے ایک سَو ایک روپے خرچ ہوتے لیکن جس رہٹ والے سے اس نے خریدا اسے سَو روپے دینے پڑے تو اس صورت میں بھی یہ ٹھگ ہے کیونکہ یہ دوسرے کی ٹھگی میں شریک ہوتا ہے۔ پس اگر اس قسم کی ٹھگی یہ خود نہیں کرتا بلکہ باہر سے ناقص سَودا لاتا اور بیچتا ہے تو بھی یہ ویسا ہی ٹھگ ہے جیسے اپنے ہاتھ سے آٹے میں مٹی ملانے والا۔ ولایت میں کئی چور ایسے ہیں جو یتیم بچوں کی پرورش کرتے اور پھر ان کے ذریعہ چوریاں کرواتے ہیں۔ کیا تم سمجھتے ہو وہ یتیم بچوں کے ذریعہ چوریاں کروانے کی وجہ سے کم چور ہیں اور اگر خود چوری کرتے تو زیادہ چور ثابت ہوتے؟ وہ ویسے ہی چور ہیں جیسے اپنے ہاتھ سے چوریاں کرنے والے۔ اسی طرح جب تم رہٹ والے سے ناقص آٹا لاتے اور یہ سمجھتے ہو کہ وہ خراب ہے تو تم بھی ویسے ہی مُجرم ہو جیسے اپنے ہاتھ سے آٹے میں مٹی یا ریت ملانے والا۔ جب تم امرتسر کی منڈی سے مصری اور آٹا وغیرہ خرید کرلاتے ہو تو کیا وجہ ہے تمہیں وہ مٹی کے دانے نظر نہیں آتے جو ہمیں نظر آتے ہیں۔ آخر خراب سَودا لانے کی یہی وجہ ہے کہ وہ تمہیں سَستا مل جاتا ہے پھر تم کیوں ویسے ہی فریبی نہیں جیسے وہ جو اپنے ہاتھ سے مصری اور آٹا مٹی ڈال کرخراب کرتے ہیں۔ کئی لوگ بظاہر دیانتدار بھی ہوتے ہیں اور وہ مٹی نہیں ملاتے لیکن جب گیہوں کو صاف کرنے کیلئے زمین پرپھیلاتے ہیں تو پھر انہیں سمیٹتے وقت جب جھاڑو دیں گے تو پائو یا سیر کے قریب اس میں مٹی بھی ملادیں گے اور اپنی طرف سے یہ سمجھیں گے کہ ہم تو بڑے دیانتدار ہیں مگر وہ بھی دیانتدار نہیں کیونکہ وہ ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں لوگوں سے دھوکا اور فریب ہوجاتا ہے۔ پس میں دونوں فریق کو نصیحت کرتاہوں کہ وہ اسلامی طریق اختیار کریں۔ خریداروں کو بھی چاہئے کہ وہ دھوکا سے دُکانداروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں اور دُکانداروں کو بھی چاہئے کہ وہ گاہکوں کو فریب سے گندی چیزیں نہ دیں۔ اسی طرح نوکروں کو بھی چاہئے کہ وہ دیانتداری سے اپنے فرائض ادا کریں اور نوکررکھنے والوں کو بھی چاہئے کہ وہ ان سے ناجائز سختی نہ کریں اور نہ ان کے حقوق تلف کریں۔ اور اگر تم دیانتداری اختیار کرو تو یقینا اس سے تمہیں نقصان نہیں ہوگا بلکہ اس کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ ہمارے مُلک کا عام اخلاقی معیار بہت بلند ہوجائے گا اور دین کواس ذریعہ سے جومدد پہنچے گی وہ مزید برآں ہے۔ پس گزشتہ واقعہ کے متعلق میں دُکانداروں کے اُس حصہ کوجس نے سٹرائک کی، تنبیہہ کرتا ہوں اور آئندہ کیلئے انہیں بتادیتا ہوں کہ ہم اِس قسم کی حرکت برداشت نہیں کرسکتے۔ ہمارا طریق اسلامی ہے او رہم اسلامی طریق ہی دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں لاکھوں آدمیوں کی ضرورت نہیں بلکہ اخلاص ، محبت اور دین پر عمل کرنے والے آدمیوں کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنا سب کچھ اسلام کیلئے قربان کردینا اپنے لئے باعثِ فخر سمجھیں اور اگر اِس روح کے رکھنے والے دس آدمی بھی ہوں تو یقینا ان دس آدمیوں کے ذریعہ ہی دنیا فتح ہوگی اور کوئی طاقت ان کی فتح میں روک بن کر حائل نہیں ہوسکے گی۔ وہ لاکھوں آدمی ہمیں کام نہیں دے سکتے جو اسلامی زندگی کو اختیار کرنے اور اس کے مطابق اپنے جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کیلئے تیار نہیں بلکہ اخلاص رکھنے اور اسلام کے مطابق اپنی عملی زندگیاں بنانے والے آدمی ہمیں کام دے سکتے ہیں۔ اگر آدمیوں کی کثرت اسلام کو غلبہ دے سکتی تو کروڑوں مسلمان کہلانے والے دنیا میں موجود تھے وہ کیوں اسلام کو دنیا پر غالب نہ کردیتے۔ مگر خداتعالیٰ نے ان کو چھوڑ کر ایک چھوٹی سی جماعت کو اس لئے دوبارہ دنیا میں کھڑا کیا ہے تا کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً ؎۱ کا نشان دنیا پرظاہر کرے اور بتائے کہ کئی چھوٹی جماعتیں ہوتی ہیں مگر خداتعالیٰ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ بڑی بڑی جماعتوں کو مغلوب کرلیتی ہیں۔
(الفضل ۱۸ ؍ مارچ ۱۹۳۶ئ)
؎۱ البقرۃ: ۲۵۰


۹
آئو ہم پھر خداتعالیٰ کے حضور چِلاّئیں اور اپنے
آنسوئوں سے اپنی سجدہ گاہ کو تر کردیں
(فرمودہ ۲۰؍ مار چ ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں اپنے گزشتہ خطبات میں اس امر کا ذکرکرچکا ہوں کہ نہ تو وہ مخالفت ہمارے رستہ سے پوری طرح ہٹی ہے جو سلسلہ احمدیہ کو نقصان پہنچانے کیلئے بعض دشمنانِ سلسلہ کی سازش سے شروع کی گئی تھی اور نہ ایسے حالات ہی پیدا ہوئے ہیں کہ جن کے ماتحت ہم یہ کہہ سکیں کہ قریب عرصہ میں وہ مخالفتیں خود بخود دب جائیں گی یا بیٹھ جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشان بے شک ظاہر ہوئے ہیں اور اس کی تائید ہمیں حاصل ہوئی ہے مگر وہ ایسی صورت میں ہے کہ ابھی دشمن اس سے مرعوب نہیں ہؤا گویا وہ پہلی رات کا چاندہے جسے تیز نظر والوں نے تو دیکھ لیا مگر کمزور نظر والے ابھی محروم ہیں۔روحانی آنکھ کو تو وہ تائید و نصرت نظر آرہی ہے مگر جن کی روحانیت مُردہ ہے انہیں وہ تائید و نصرت نظر نہیں آرہی اس لئے اس سے عبرت پکڑنے کیلئے وہ ابھی تیارنہیں ہیں اور فائدہ اُٹھانے کیلئے آمادہ نظر نہیں آتے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان تمام سامانوں کو اور ان تمام ذرائع کو اور ان تمام تدابیرکو اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی کیلئے اور اس کے مخالفوں کی شرارتوں کو دور کرنے کیلئے عطا فرمائی ہیں اور اپنی طرف سے جدوجہد، سعی اور کوشش میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ آنے دیں کیونکہ روحانی سلسلوں کے تمام امور کی بنیاد دو ہی چیزوں پر ہوتی ہے ایک طرف بندے کی انتہائی کوشش اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا انتہائی فضل۔ روحانی سلسلے چونکہ کمزور جماعتوں سے چلائے جاتے ہیں ، ان کے افراد بہت تھوڑے ہوتے ہیں، ان کے پاس سامان نہایت ہی کم ہوتا ہے، دُنیوی طور پر ان سامانوں اور ان افراد سے کامیابی کا منہ دیکھنا مشکل ہوتا ہے اس لئے جو کمی اس کوشش او رسامانوں کی قِلّت اور افراد کی کمی کی وجہ سے رہ جاتی ہے اسے اللہ تعالیٰ کا فضل پورا کردیتا ہے۔
پس یہ دو چیزیں مل کر ہمیشہ روحانی جماعتوں کی کامیابی کا موجب ہوتی ہیں اور یہی ہماری کامیابی کا موجب ہوسکتی ہیں۔ ایک طرف خداتعالیٰ کاہم سے تقاضا ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ اُس کے قدموں میں لا ڈالیں اور اُس کے دین کیلئے قربان کردیں اور دوسری طرف اُس کاوعدہ ہے کہ باقی کمی وہ اپنے فضل سے پوری کردے گا۔ خداتعالیٰ تو وعدوں کا سچا ہے اس کی کوئی بات غلط نہیں ہوسکتی۔ پس اگر کوئی نقص ہو اور نتائج صحیح نہ نکلیں، اگر کامیابی کے آنے میں دیر لگے تو قطعی طور پر ایک ہی نتیجہ اِس سے نکل سکتا ہے کہ جس حد تک ہم سعی کرسکتے تھے اُس حد تک ہم نے سعی نہیں کی۔ اگر خدانخواسہ ہمیں ناکامی حاصل ہو تو سوائے تین باتوں کے کوئی چوتھی بات نہیں ہوسکتی۔ یا تو یہ کہ ہم نے اپنا فرض اد اکرنے میں کوتاہی کی یا یہ کہ خداتعالیٰ نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں کوتاہی کی اور یا یہ کہ جس سلسلہ کو ہم روحانی سمجھتے تھے وہ روحانی نہیں تھا بلکہ دُنیوی تھاخداتعالیٰ کی طرف سے اُس کی نصرت کاکوئی وعدہ نہ تھا۔ پس یہ تین پہلو ہی اس کی ناکامی کے ہوسکتے ہیں چوتھا کوئی نہیں۔
اوّل یہ کہ یہ سلسلہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے اس میں تو ہمارے لئے کسی شک کی گنجائش ہی نہیں۔
دوم یہ کہ خداتعالیٰ اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح اد اکرنے والا ہے اس میں بھی ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا۔ پس اگر کوئی بات باقی رہ جاتی ہے تو یہی کہ کوتاہی ہم سے ہوئی ہے اور ہماری غلطیوں سے کامیابی میں دیر ہوگئی اور مخالفتوں میں ترقی ہوگئی۔
پس ہمارا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اور اپنے فرائض کو یاد رکھتے ہوئے ان تمام تدابیر کو اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ نے اسلام اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی کیلئے فرمائی ہیں اور جیسا کہ میں نے بتایا تھا ان میں سے بہت بڑی تدبیر دعا اور انابت الی اللہ کی ہے۔ دُنیوی سامان اور دُنیوی تدابیر جہاں جاکر رہ جاتی ہیں، جہاں پہنچ کر وہ بیکار ثابت ہوتی ہیں، جہاں وہ بعض وقت مضحکہ خیز بن جاتی ہیں وہاں صرف دعا ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جو آسمان سے فرشتوں کی فوج لے آتا ہے اور زمینی روکوں کو دور کرکے شرارت کو ملیامیٹ کردیتا ہے۔ میںنے بتایا ہے کہ بعض دفعہ ظاہری تدابیر مضحکہ خیز نظر آتی ہیں اس سے میری مراد یہ ہے کہ الٰہی سلسلوں کے افراد کے پاس جو سامان ہوتا ہے وہ نہایت قلیل او رکام نہایت عظیم الشان ہوتا ہے ۔ ظاہر بین نگاہ میں وہ تدابیر اور سامان ہیچ ہوتے ہیں اور کام کے مقابلہ میں ان کی کوئی حقیقت معلوم نہیں ہوتی۔ دیکھنے والا ظاہربین خیال کرتا ہے کہ یہ لوگ حماقت کی بات کررہے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح کہتے ہیں کہ ایک پرندہ رات کو لاتیں آسمان کی طرف کرکے سوتا ہے کہا جاتا ہے کہ جب دوسرے پرندوں نے اُس سے دریافت کیا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ تو اُس نے کہا شاید رات کو جب ساری دنیا سوئی ہوئی ہوتی ہے آسمان گِر پڑے میں لاتیں اِس لئے اوپر کرتا ہوں کہ اُسے سہارا دے کر روک لوں تا دنیا نیچے آکر تباہ نہ ہوجائے۔ یہ ایک مثال بنائی گئی ہے اسی قسم کی مضحکہ خیز صورتوں میں جیسی میں نے بیان کی ہے۔ جب کام بہت بڑا ہو، طاقت بہت کم ہو اور بوجھ بہت زیادہ اُس وقت جو تھوڑی سی طاقت والابڑا بوجھ اُٹھانے کو تیار ہوجاتا ہے دنیا کی نظر میں اُس کی یہ حرکت مضحکہ خیز ہوتی ہے لیکن جس وقت کوئی ایسا انسان جس کے پیچھے ایمان، قربانی اور ایثار کی روح کام کررہی ہو اپنی طاقت سے بہت زیادہ بوجھ اُٹھانے کیلئے آگے بڑھتا ہے تو وہ نظّارہ ایک سمجھ دار انسان کیلئے رقّت انگیز ہوتا ہے مضحکہ خیز نہیں ہوتا۔ ایک مجنون اور پاگل، احمق اور بیوقوف جب وہی کام کرتاہے تووہ مضحکہ خیز ہوتا ہے لیکن جب مؤمن بہادر اور جری مؤمن خداتعالیٰ کے نام پر ہر چیز قربان کردینے کا ارادہ رکھنے والا مؤمن آگے بڑھتا ہے تو دیکھنے والوں کوہنسی نہیں آتی بلکہ ان کے دل درد سے پُر ہوجاتے اورآنکھیں آنسوئوں سے بھر جاتی ہیں۔
بدر کے موقع پر ایک ہزار تجربہ کار سپاہی جن پرعرب کی قوم کو فخر تھا، جن پر مکہ کے لوگ ناز کرتے تھے، جن کوقریش کا قیمتی سرمایہ کہا جاتاتھا، جو صنادیدِ عرب کہلاتے تھے، جو اہلِ عرب کی بڑی سے بڑی مجلسوں میں مسند پر بیٹھنے والے تھے، تجربہ کار اور پورے سازوسامان کے ساتھ اِس ارادہ سے آئے کہ محمد ﷺ اور اس کے صحابہ کو آج ان کے بلند و بالا دعاوی کی وجہ سے پوری طرح سزا دے کر جائیں گے۔ جس وقت اُن کے مقابلہ میں وہ ۳۱۳ لوگ جن میں سے بعض تلوار چلانا بھی نہ جانتے تھے، کئی ایسے تھے جن کے پاس تلواریں تھی ہی نہیں ، جن میں سے اکثر کے پاس سواریاں بھی نہ تھیں، کھڑے ہوئے تو ظاہری نگاہ میں اُن کا یہ فعل مضحکہ خیز تھا اور کہنے والوں نے کہہ بھی دیا کہ جائو اپنے گھروں کو چلے جائو تم ہمارے بھائی ہو اور ہم اپنے بھائیوں کے خون سے زمین کو رنگنا نہیں چاہتے لیکن دوسری طرف ان تیز نظرلوگوں نے جو گو اسلام سے محروم تھے مگر ظاہری عقل سے حصہ وافر رکھتے تھے اندازہ کرلیا تھا کہ یہ معمولی لوگ نہیں ہیں۔ اہلِ عرب نے اپنے ایک تجربہ کار جرنیل کو اسلامی سپاہ کا جائزہ لینے کیلئے بھیجا اُس نے واپس آکر اُن کو جو جواب دیا وہ بتاتا ہے کہ وہ شخص بہت گہری نظر والاتھا اُس نے آکر کہا کہ آدمی تو ان کے تین سَو کے لگ بھگ ہیں لیکن اے قوم کے سردارو! میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ ان سے لڑائی نہ کرو کیونکہ میںنے گھوڑوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں ؎۱ ۔ مجھے ان کے چہروں سے نظر آتا ہے کہ یا تو وہ ہمارے خون سے آج اِس میدان کو رنگ دیں گے اور یا ایک ایک کرکے محمد (ﷺ) پر جان دے دیں گے۔ اگر تم ہر گھر میں ماتم بپا دیکھنا نہیں چاہتے تو آج واپس چلے جائو ورنہ یہ خیال مت کرو کہ مسلمان پیٹھ دکھا کر بھاگ جائیں گے۔
یہ مقابلہ بھی ایک ظاہربین نگاہ کیلئے اُسی طرح مضحکہ خیز تھا جیسے اُحد کا ، اُس دن منافقوں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھاکہ اگر ہم جانتے کہ لڑائی ہوگی تو ضرور جاتے مگر یہ تو صریحاً بیوقوفی کی بات تھی۔ کُجا مکّہ کے تجربہ کار اور بہادر اورکُجا یہ تھوڑے سے سپاہی۔ بدر کی جنگ دنیا داروں کی نگاہ میں اس سے بھی زیادہ غیرمساوی مقابلہ کی تھی اور اس لئے اُن کی نگاہ میں مضحکہ خیز لیکن اُس دن بھی واقعات نے بتادیا کہ انسانی تدابیر جہاں جاکر رہ جاتی ہیں وہاں الٰہی نصرت غیرمعمولی سامان کامیابیوں کے پید اکردیتی ہے۔ مکّہ والوں نے جلدی کرکے اُس جگہ پر قابو پالیا جو اُن کے نزدیک لڑائی کیلئے زیادہ مفید ہوسکتی تھی۔ وہ زمین مضبوط تھی جس پر پائوں زیادہ مضبوطی سے رکھا جاسکتا تھا مگر مسلمانوں کیلئے جو جگہ خالی تھی وہ ریتلی تھی جس میں عام حالات میں قدم جمانا مشکل تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کردیئے جنہوں نے حالات کوبالکل بدل دیا۔ بادل برسے جس سے سخت زمین پھِسلنی ہوگئی اور ریتلی جگہ ٹھوس بن گئی۔ وہی زمین جو دھوپ میں سخت اور آرام دہ تھی بارش کے بعد پھِسلنی ہوگئی اور ریتلی بارش کے بعد مضبوط ہوگئی پھر اُدھر سے اللہ تعالیٰ نے آندھی چلادی جس طرف مسلمانوں کی پیٹھیں تھیں اِس وجہ سے گردو غبار اور کنکرکفار کی آنکھوں میں پڑتے تھے اور ان کے زور سے چلائے ہوئے تِیر بھی مسلمانوں تک نہ پہنچتے تھے مگر مسلمانوں کا کمزور سے کمزور تِیر بھی ان تک جا پہنچتا تھا۔ مسلمان دشمن کو دیکھتے تھے مگر وہ انہیں بوجہ آنکھوں میں گردوغُبار پڑنے کے اچھی طرح نہ دیکھ سکتے تھے۔ یہ سب سامان اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ورنہ نہ بادل انسان کے اختیار میں ہیں اورنہ ہوائیں بندہ کے قبضہ میں۔
اسی طرح جنگِ احزاب کے موقع پر جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے منافق مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے تھے کہ یہ مسلمان تو کہا کرتے تھے کہ دنیا کی بادشاہت ہمیں مل جائے گی آج ان کی عورتوں کیلئے پاخانہ پھرنے کی جگہ بھی نہیں رہی۔ کہاں گئے ان کے وہ دعاوی ۔ اس جنگ میں دس ہزار کفّار کا لشکر مسلمانوں کے مقابل پر تھا اور سارے عرب قبائل جمع ہوکر آئے تھے اُدھر یہودیوں نے مدینہ میں بغاوت کردی تھی اُس وقت سوائے اس کے کہ مسلمان خندق بنالیتے ان کے بچائو کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ چنانچہ حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ خندق کھودیں اور جب وہ خندق کھود رہے تھے تو ایک پتھر ایسا آیا جو ٹوٹنے میں نہ آتا تھا۔ رسول کریم ﷺ کو اطلاع دی گئی آپ وہاں تشریف لائے اورجب زور سے کدال مارا تو پتھر میں سے آگ نکلی اور آپ نے زور سے نعرہ تکبیر بلندکیا صحابہ نے بھی نعرہ لگایا۔ پھر کدال مارا تو پھر آگ نکلی اور آپ نے پھر نعرئہ تکبیر بلند کیا اور صحابہ نے بھی آپ کی تقلید کی۔ تیسری دفعہ کدال مارا تو پھر آگ نکلی اور آپ نے پھر زور سے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا اور صحابہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ جب وہ پتھر ٹُوٹ گیا تو آپ نے صحابہ سے دریافت کیا کہ تم نے نعرے کیوں لگائے ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ آپ نے لگائے تھے ا س لئے ہم نے بھی لگائے۔ آپ نے فرمایا ہاں میںنے تین بار نعرہ تکبیر بلند کیا جس کی وجہ یہ تھی کہ جب پہلی دفعہ پتھر میں سے آگ نکلی تومیں نے اُس شعلہ میں یہ نظّارہ دیکھا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں قیصر کے قلعے تباہ ہوگئے ہیں۔ دوسرے شعلہ میں مجھے کسریٰ کے قلعوں کی تباہی کا نظّارہ دکھائی دیا اور تیسرے میں حمیر کے قلعے بھی سرنگوں نظر آئے ؎۲ ۔ اُس وقت بھی منافقوں نے ہنسی اُڑائی اور کہا کہ جان بچانے کیلئے خندق کھود رہے ہیں او رمدینہ سے باہر نکل نہیں سکتے مگر خواب دیکھ رہے ہیں قیصروکسریٰ کے محلات کے۔ گویا وہ زمانہ مسلمانوں کیلئے اِس قدر مشکلات کا زمانہ تھا کہ منافق جو بُزدل ہوتے ہیں وہ بھی دلیری سے ان پر ہنسی کرنے لگ گئے تھے۔ قرآن کریم نے بھی غزوئہ احزاب یا خندق کا نظّارہ بیان کرکے بتایا ہے کہ اُس وقت مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ گویا وہ زلزلہ میں مبتلاء ہیںاور زمین اپنی فراخی کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی تھی ؎ ۳ ۔
بظاہر اس زبردست لشکر کے مقابل پر صحابہ کا زور نہیں چلتا تھا مگر پندرہ روز کے بعد آدھی رات کے وقت رسول کریم ﷺ نے آواز دی اور فرمایا کوئی ہے؟ مگر کسی نے جواب نہ دیا۔ ایک صحابی نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا تم نہیں کوئی اور ۔ پھر فرمایا کوئی جاگتا ہے؟ مگر کوئی نہ بولا۔ اُسی صحابی نے پھر کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! میںحاضر ہوں مگر آپ نے پھر فرمایا تم نہیں کوئی اور۔ اور پھر تیسری دفعہ آواز دی مگر پھر بھی کوئی نہ بولا اور پھر اُسی نے آواز دی اور آپ نے فرمایا کہ جا ئو دیکھو مجھے اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی ہے کہ کفار کا لشکر تتربتر ہوگیا ہے۔ وہ صحابی باہر نکلے تو دیکھا کہ سب میدان خالی پڑا ہے، نہ غنیم کا کوئی خیمہ تھا اور نہ سامان۔ ایک اور صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں اُس وقت جاگتا تھا مگر سردی شدید تھی اور کپڑے ناکافی تھے اور سردی کی وجہ سے باوجود جاگنے کے منہ سے بات نہ نکلتی تھی ۔
کفار کے بھاگنے کا واقعہ یہ ہے کہ ایک عرب سردار کی آگ بُجھ گئی، اہل عرب اس بات کو منحوس خیال کرتے تھے، اِس نحوست کے دُور کرنے کیلئے اس قبیلہ نے اپنے رواج کے مطابق یہ طریق تجویز کیا کہ رات کے وقت اپنے خیمے وہاں سے اُٹھا کر چند میل کے فاصلے پر لے جا کر لگائیں اور اگلے روز پھر وہیں آلگائیں اور جب رات کو چپکے سے انہوں نے خیمے اُکھاڑنے شروع کئے تو ساتھ والوں نے خیال کیا کہ شکست ہوگئی ہے اور یہ لوگ بھاگ رہے ہیں انہوں نے بھی فوراً اپنے خیمے اُٹھانے شروع کردیئے۔ ان کو دیکھ کر ان کے پاس والوں نے بھی ایسا ہی کیا حتّٰی کہ ابوسفیان کو جو اس لشکر کا سپہ سالار تھا خبر ہوئی تو اُس نے خیال کیا کہ مسلمانوں نے شب خون مارا ہے اِس لئے یہاں سے جلدی بھاگنا چاہئے۔ چنانچہ وہ اِس قدر گھبرایا کہ اونٹ کو کھولے بغیر اُس پر سوار ہوکر اُسے مارنے لگ گیا مگر وہ چلتا کس طرح۔ آخر اس کے کسی ساتھی نے اُس پر اُس کی غلطی کو واضح کیا۔ یہ الٰہی نصرت تھی جس نے اُس وقت جب انسانی تدابیر بیکار ہوچکی تھیں آسمان سے نازل ہوکر رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو نجات دی۔ پس آسمانی نصرت اُسی وقت آتی ہے جب ساری تدابیر انتہاء کو پہنچ کر ختم ہوجاتی ہیں اور کامیابی کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتیں۔ جب وہ دنیا دار نگاہوں میں مضحکہ خیز او رروحانی نظروالوں کیلئے رقّت انگیز ہوجاتی ہیں اُس وقت خداتعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلتے ہیں مگر اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ بندہ چِلّائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں محبت کا بہترین مظاہرہ وہی ہوتا ہے جو ماں کو اپنے بیٹے سے ہوتا ہے۔ بسا اوقات ماں کی چھاتیوں میں دودھ خشک ہوجاتا ہے مگر جب بچہ روتا ہے تو دودھ اُتر آتا ہے۔ پس جس طرح بچے کے روئے بغیر ماں کی چھاتیوں میں دودھ نہیں اُترسکتا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی رحمت کو بندہ کے رونے اور چِلّانے سے وابستہ کردیا ہے۔ جب بندہ چِلّاتا ہے تو رحمت کا دودھ اُترنا شروع ہوتا ہے اس لئے جیسا کہ میںنے بتایاتھا ہمیں چاہئے کہ اپنی طرف سے انتہائی کوشش کریں مگر وہ کوشش نہیں جو منافق مراد لیا کرتے ہیں اور ا س کے بعد جس حد تک زیادہ سے زیادہ دعائوں کو لے جاسکتے ہیںلے جائیں۔ پچھلے سال میںنے سات روزے مقرر کئے تھے مگر چونکہ فتنہ ابھی جاری ہے، شرارت کا سلسلہ بند نہیں ہؤا، مخالفوں نے اللہ تعالیٰ کی تنبیہہ سے عبرت حاصل نہیں کی اور گزشتہ عذاب سے اپنی اصلاح نہیں کی اس لئے آئو ہم پھر خداتعالیٰ کے حضور چِلّائیں۔ تا جس طرح بچہ کے رونے سے ماں کی چھاتیوں سے دودھ اُتر آتا ہے آسمان سے ہمارے ربّ کی نصرت نازل ہو اور وہ روکیں اور مشکلیں جو ہمارے رستہ میں ہیں دور ہوجائیں۔ بعض مشکلات ایسی ہیں جن کا دور کرنا ہمارے اختیار میں نہیں۔ ہم دشمن کی زبان کو بند نہیں کرسکتے اور اُس کے قلم کو نہیں روک سکتے۔ اُن کی زبان اور قلم سے وہ کچھ نکلتا رہتا ہے جسے سننے اور پڑھنے کی ہمیں تاب نہیں۔ ہم نے بارہا حکومت کو توجہ دلائی ہے مگر اُس کے کان ہماری بات سننے سے بہرے ہیں۔ وہی باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہی جاتی ہیں اگر کسی اور کے متعلق کہی جاتیں تو مُلک میں آگ لگ جاتی ۔ مگر وہ باتیں متواتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہی جاتی ہیں لیکن کہنے والوں کی کوئی گرفت نہیں کی جاتی۔ حتّٰی کہ ہمیں تو یہاں تک رپورٹ پہنچی ہے کہ بعض مخالفوں کے حلقوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمیں افسروںنے یقین دلایا ہے کہ احمدیوں کے خلاف جو چاہو لکھو کوئی گرفت نہ ہوگی۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ بات ساری حکومت کی طرف سے نہیں ایک یا دو افسروں پر یہ الزام ہے گو ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ ان کے متعلق بھی صحیح ہے یا غلط، مگر واقعات طبیعت کو اِس کی صحت کی طرف مائل ضرور کرتے ہیں کیونکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق متواتر ایسی باتیں کہی جاتی ہیں جو اگر کسی اور کے متعلق ایک دفعہ بھی کہی جاتیں تو حکومت کبھی خاموش نہ رہتی تو اِس کی کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ کم سے کم سَو مرتبہ اخباروں میں آپ کو کذّاب یا دجّال یا شرابی کہا گیا ہے۔ اگر کم سے کم سَو دفعہ مَیں ایسی گالیاں نہ دکھاسکوں تو حکومت بے شک میری بات نہ مانے لیکن اگر سَو سے زیادہ دفعہ دشمنوں کے اخباروں میں یہ باتیں چھپی ہوں تو ذمہ دار افسروں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اِس ساری غفلت کا جواب انہیں خداتعالیٰ کے سامنے دینا ہوگا اور دنیا کی نگاہوں میں بھی وہ قابلِ ملامت ٹھہریں گے۔ ہم ایک طرف انگریز ی قانون کے الفاظ چھاپیں گے اور دوسری طرف وہ گالیاں جو احراری اخباروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی جاتی ہیں اور برطانوی پبلک سے اپیل کریں گے کہ اس طرح اس کے اچھے نام کو اس کے نوکربدنام کررہے ہیں اور انصاف کا خون کیا جارہا ہے۔ ہم ایک طرف دنیاکو ان مظالم سے مطلع کریں گے تو دوسری طرف اپنے ربّ سے اپیل کریں گے یہاں تک کہ اس ظلم کے ذمہ دار حکام چکّی کے دو پاٹوں کے درمیان آجائیں گے۔ ایک طرف خدا کی *** ان پر برسے گی اور دوسری طرف شریف الطبع انسان خواہ کسی قوم اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ان کے افعال پر اظہارِ نفرت و ملامت کریں گے۔ میں ہرگز نہیں مان سکتا کہ اگر ہمارے اخباروں میںیہی الفاظ یسوع کے متعلق استعمال کئے جائیں ، اگر انہیں دجّال لکھا جائے یا یہ لکھا جائے کہ ناصرہ کا رہنے والاایک شرابی، تو گورنمنٹ کی رگِ حمیت جوش میں نہ آئے۔ اگر یہی الفاظ ان اقوام کے بزرگوں کے متعلق استعمال کئے جائیں جو احرار کی پیٹھ ٹھونک رہی ہیں ، اگر یہ سکھ گوروئوں کے متعلق لکھے جائیں، ہندو رشیوں، سنّیوں کے متعلق لکھے جائیں اور ان لوگوں کے علما ء کے متعلق بولے جائیں جو اپنے آپ کو اکثریت میں بتاتے ہیں تو ہندوستان میں آگ نہ لگ جائے اور حکومت کا قانون حرکت میں نہ آئے لیکن یہ الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق روز استعمال کئے جاتے ہیں اور حکومت بار بار توجہ دلائے جانے کے باوجود خاموش ہے۔ ہمارا صرف ایک ہی قصور ہے اور وہ یہ کہ ہم تھوڑے ہیں اور حکومت کے وفادار ہیں اس لئے ہماری طرف سے بار بار توجہ دلائے جانے کے باوجود حکومت ٹس سے مَس نہیں ہوتی۔ اگر میں کم سے کم سَو ایسے حوالے دکھاسکوں جن میں سے ایک بھی اگر کسی قوم کے پیشوا کے متعلق استعمال کیا جاتا تو مُلک میں آگ لگ جاتی تو کوئی قوم ہمارے صبر اور امن پسندی پر حرف نہیں لاسکتی مگر حکومت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم بھی وہی الفاظ دوسروں کے متعلق دُہرائیں اور جب ہم ایسا کریں تو اس کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ ہم پر اعتراض کرے۔ اور اگر وہ ہم پر اعتراض کرے گی تو آنے والے مؤرّخ ہمیں حق بجانب قرار دیں گے حکومت کو نہیں۔ اگر یہ باتیں جائز ہیں اور جیسا کہ حکومت نے اپنے فعل سے بتادیا ہے جائز ہیں تو ایسا ہی رویہ اختیار کرنے پر اُسے کوئی حق نہیں ہوگا کہ ہم سے باز پُرس کرے۔ ہم حکومت سے کسی فائدہ کی توقع نہیں رکھتے بلکہ صرف یہی کہتے ہیں کہ
مرا ز خیر تو امید نیست بد مرساں
یعنی مجھے تجھ سے کسی بھلائی کی امید نہیں مگر کم سے کم یہ کر کہ نقصا ن تو نہ پہنچا۔
ہمیں ایک لمبے تجربہ کی بناء پر یہ امید ہی نہیں رہی کہ حکومت پنجاب کا وہ عملہ جس کے سپرد اِن امور کا تصفیہ ہے ہمارے احساسات کا احترام کرے گی مگر اب احمدی نوجوان اِس جائز بدلہ کے لینے کیلئے بیتاب ہورہے ہیں اور نیشنل لیگ مَیں سنتا ہوں کہ اپنا پروگرام مکمل کرچکی ہے اور اگر وہ ایسا کرے تو چونکہ حکومت اپنے فعل سے بانیانِ مذاہب اور ہادیانِ طریقت کے متعلق ایسے الفاظ کا استعمال جائز قرار دے چکی ہے کوئی وجہ نہیں کہ میں اپنے نوجوانوں کو اس فعل سے روکوں۔ یہ وہ اخلاق ہیں جن کی صحت پر تمام قوموں کے نمائندوں کی مُہر ثبت ہوچکی ہے اور حکومت نے بھی اسے اپنے عمل سے حدودِ قانون کے اندر قرار دے دیا ہے۔ پس اب میرا فرض نہیں کہ خود دخل دوں میں پہلے ان باتوں سے روکتا تھا مگر افسوس کہ میرے اخلاق سے ناجائز فائدہ اٹھایا گیا مگر یہ سب باتیں دُنیوی تدابیر ہیں اگرجماعت ایسا کرے تو وہ صرف الزامی جواب دے گی مگر اِس فعل سے ان باتوں کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔ بِلا شُبہ ہم میں سے کمزور دلوں کی اِس سے تسلی بھی ہوجائے گی مگر حقیقی روحانیت سے مَس رکھنے والے ان باتوں سے تسلی نہیں پاسکتے۔ جب تک وہ زبانیں کھلی ہیں جن پر یہ الفاظ جاری ہوتے ہیں، جب تک وہ ہاتھ حرکت کرتے ہیں جو ایسی باتیں لکھتے ہیں، جب تک وہ دماغ موجود ہیں جن میں یہ خیالات دَوڑتے ہیں، جب تک وہ دل باقی ہیں جن میںایسے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور جب تک دوبارہ ان باتوں کے کہے یا لکھے جانے کا امکان ہے اُس وقت تک کوئی احمدی چین کا سانس نہیں لے سکتا مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان کا ہٹانا ہمارے اختیار میں نہیں یہ خدا کے اختیار میں ہی ہے اور وہ دونوں طرح ان باتوں کو دور کرسکتا ہے۔ وہی دل جو آج نفرت سے بھرے ہوئے ہیں ان میں محبت کے جذبات پیدا کرکے بھی ہٹاسکتا ہے اور ایسے لوگوں کو تباہ اور اُن کے گھروں کو ویران کرکے بھی ہٹاسکتا ہے۔ حکومت ہمارے ہاتھوں کو پکڑ سکتی ہے مگر وہ خدا کے ہاتھوں کو کس طرح پکڑ سکتی ہے جن ہاتھوں میں وہ خود بھی ایک قیدی کی طرح ہے۔ ہماری فوجیں زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر ہیں حکومت توپیں بنواتی ہے جن کے گولے ۱۵ میل تک مار کرسکتے ہیں مگر ہم وہ توپیں تیار کریں گے جو عرش سے گولہ پھینکتی اور فرش پر رہنے والوں کو ملیامیٹ کردیتی ہیں۔ گورنمنٹ کی گرفت صرف اُن لوگوں تک ہے جو اُس کی حکومت کے ماتحت ہیں مگر ہم وہ وارنٹ جاری کرائیں گے جن سے دنیا کے بادشاہ بھی گرفتار کئے جاسکتے ہیں۔ ہم نے ایک لمبے عرصہ تک اِن باتوں کو سنا او رصبر کیا، دیکھا اور خاموش رہے، ہم نے التجائیں کیں مگر انہیں ٹھُکرادیا گیا، ہم نے عرضیں کیں مگر ان پرکان نہیں دھرے گئے لیکن جب تک وہ تحریریں موجود ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شرابی کہا گیا اور دجّال لکھا گیا اور جب تک حکومت ان کا بدلہ نہیں لیتی ہم کبھی چپ نہ ہوں گے اور جو ہم نہ کرسکیں گے وہ خداتعالیٰ کرے گا جہاں ہمارے ہاتھ روکے جائیں گے وہاں فرشتے کام کریں گے۔ زمین پر امن قائم نہیں ہوگا جب تک ہمارے دلوں میں امن قائم نہیں ہوتا، آسمان تِیر اندازی بندنہیں کرے گا جب تک ہمارے قلوب پر اِن تِیروں کا چلایا جانا ختم نہ ہوگا۔
پس پھر آئو کہ سات روزے رکھیں جواگلے ہفتہ سے شروع کرکے ہر پیر کے دن رکھے جائیں اور چونکہ نفلی روزے سفر میں بھی رکھے جاسکتے ہیں اس لئے جو سفر میں ہوں وہ بھی رکھیںاور اگر کوئی مسافر یا بیمار ہونے کی وجہ سے پیر کے دن روزہ نہ رکھ سکے تو وہ جمعرات کے دن رکھے اور اس طرح چالیس دنوں میں یہ ختم کئے جائیں اور ان دنوں میں مل کر بھی اور انفرادی طور پر بھی ایسی دعائیں کی جائیں جو عرشِ الٰہی کو ہِلا دیں تا خداتعالیٰ اپنی فوجوںکو حکم دے کہ سازوسامان سے تیار ہوجائو او رجائو کہ دنیا کے پردہ پر میرے کچھ مظلوم بندے ہیں انہیں کمزور سمجھ کر کچھ طاقتور حُکّام اور اکثریت کے نمائندے ان پر ظلم کررہے ہیں، ان کے دل غم سے بھرے ہوئے ہیں اور آنکھیں اشکوں سے پُر ہیں وہ تھوڑے ہیں اور بے کس، دنیا کے پردہ پر کوئی ان کا وا لی نہیں، ہر قوم ان سے اس لئے دشمنی کر رہی ہے کہ انہوں نے میری آواز کیوں سُنی اورمیری پُکارپر لَبَّیْکَکیوں کہا میں ان کی آواز سنوں گا اور ان کی پکار کو بیکار نہیں جانے دوں گا۔ بے شک دنیاداروں کی نگاہ میں وہ بیکس ہیں مگر انہیں کیا معلوم کہ میں ان کا والی ہوں اور میں ان کا حامی ہوں تم جائو اور ان کے مخالفوں کو دنیا سے مِٹادو خواہ دلوں میں تبدیلی پیدا کرکے اور ہدایت بخش کر یا ضد کی صورت میں ان کے گھروں پر میری *** برسا کر اور میرا عذاب نازل کرکے۔
پس جھک جائو اور دعا کرو اور پھر جھک جائو اور دعا کرو پھر جھک جائو اور دعا کرو یہاں تک کہ عرشِ الٰہی سے تمہاری امداد کا حکم نازل ہوجائے۔ خداتعالیٰ کے ایک مقدس کو اور رسول کریم ﷺکے نائب کو اتنی گندی گالیاں دی گئی ہیں اور ایسے ناپاک الفاظ سے اسے یاد کیا گیا ہے کہ یہ دنیا اب مؤمن کے رہنے کے قابل نہیں جب تک خد اکا ہاتھ اسے پھر پاک نہ کرے۔ یہ ناپاک ملک خد اکے قہر کو بُلارہا ہے اور یہ گندے لوگ اُس کے غضب کو بھڑکارہے ہیں ہم نے ان کا کیا قصور کیا تھا کہ ہم پر یہ ظلم ہورہے ہیں۔ ہم ہمیشہ حکومت کے وفادار رہے ہیں اور اب بھی وفادار ہیں، ہم ہمیشہ بنی نوع انسان کے خیرخواہ رہے ہیں اور اب بھی خیرخواہ ہیں مگر ہم کیا کریں کہ ہماری طاقت سے زیادہ ہم پربوجھ ڈالا جارہا ہے اور ظلم کا طوفان تھمنے میں آتاہی نہیں ۔ کاش! یہ لوگ ہمیں قتل کردیتے مگر ہمارے آقا کو گالیاں نہ دیتے، کاش! حکومت ہمیں پھانسی کے تختہ پر لٹکادیتی لیکن ان ناقابلِ برداشت گالیوں کو جو ہمیں نہیں بلکہ ہمارے جان و دل سے پیارے ہادی کو دی جاتی ہیں بند کرادیتی۔ اگر حکومت کو خداتعالیٰ نے باطنی آنکھیں دی ہوتیں تو وہ اِس خون کودیکھ سکتی جو ہمارے دلوں سے بہہ رہا ہے۔ وہ اُس خون کا بدلہ لیتی ہے جو چمڑے سے بہایاجاتا ہے پھر کیوں وہ اِس خون کا بدلہ نہیں لیتی جو دل سے بہایا جاتا ہے۔ اب اِس دکھ کی ساعت میں جب کہ خداتعالیٰ ہمیں خود بدلہ لینے سے منع کرتا ہے ہم اِس کے سوا کیا کرسکتے ہیں کہ اُس کے حضور میں گِرجائیں اور اپنے آنسوئوں سے اپنی سجدہ گاہ کو تر کردیںاور التجا کریں کہ اے ہمارے خدا! اے ہمارے آقا! اے بے کسوں کے والی! اے مظلوموں کے حامی! تیری یہ دنیا ظلم اور جور سے ناپاک ہوگئی ہے اپنے فرشتوں کو بھیج کہ توبہ کے پانی یا عذاب کی آگ سے اِس کو پاک کریں کہ اب اِس دنیا میں ایک ایک دن کی رہائش ہمارے لئے عذاب ہے۔ تیرا وعدہ تھا کہ تُو اسے ہمارے لئے جنت بنائے گا۔ اے سچے وعدوں والے! تیری رحمت کا دامن پکڑ کر تجھے تیرے ہی جلال کی قسم دیتے ہوئے ہم تجھ سے ہی التجاء کرتے ہیں کہ ہمارے زخمی دلوں پر ہمدردی کا مرہم لگا اور اِس دنیا کو جو ہمارے لئے خاردار جنگل بن گئی ہے اپنی محبت کا گلزار بنادے اور ہمیں وہ تقویٰ بخش جس سے تیرا نہ ختم ہونے والا وِصال ہمیں حاصل ہو، اور وہ ہمت بخش کہ جس سے تیرے رُوٹھے ہوئے بندوں کوہم منا کر واپس لائیں۔ اے آقا! تجھ میں سب طاقتیں ہیں اور ہم میں کچھ بھی نہیں ۔پھر تیرا در نہ کھٹکھٹائیں تو کہاں جائیں۔ تجھ سے نہ مانگیں تو کِس سے مانگیں۔ رحم کر، رحم کر ، رحم کر کہ تُو اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ہے اور ہم تیرے دروازے کے ابدی بھکاری ہیں۔ آمِیْنَ یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ۔
(الفضل ۲۷؍ مارچ ۱۹۳۶ئ)
؎۱ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۱۶ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
؎۲ السیرۃ الحلبیہ جلد ۲ صفحہ ۳۳۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
؎۳ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالاً شَدِیْدًا (الاحزاب: ۱۲)



۰ ۱
خطرات سے پُر اوقات میں حکومت کی بہترین خدمات
سرانجام دینے کا صلہ جماعت احمدیہ کو کیا مل رہا ہے؟
(فرمودہ ۲۷؍ مارچ ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں آج ایک نہایت اہم معاملہ کے متعلق خطبہ کہنا چاہتا ہوں اور چونکہ اس پر بولنے کیلئے مجھے زیادہ وقت چاہئے تھا اِس لئے مَیں نے اعلان کرادیا تھا کہ دوست ساڑھے بارہ بجے مسجد میں پہنچ جائیں۔ گو میں خود ایک بج کرچار پانچ منٹ پر پہنچا ہوں لیکن میری غرض دیر کرنے سے یہ تھی کہ بعض دفعہ جب تمام لوگ وقت پر نہ آئیں تو دوسروں کا انتظار کرناپڑتا ہے اس لئے میں دانستہ کچھ دیر کرکے آیا ہوں تا سب لوگ جمع ہوجائیں اورخطبہ سننے میں شریک ہوسکیں۔ گو مجھے یہاں آکر یہ محسوس ہؤا ہے کہ غالباً دوست وقت کے قریب قریب ہی مسجد پہنچ چکے تھے اور اس احتیاط کی ضرورت نہ تھی۔
میں سب سے پہلے تو تمہیدی طور پر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت ایک امن پسند جماعت ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے کھڑا ہی اس لئے کیا ہے کہ ہم دنیا میں امن ، صلح اور محبت قائم کریں۔ چنانچہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ناموں میں سے ایک نام خداتعالیٰ نے ’’سلامتی کا شہزادہ‘‘ رکھا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اِس نام کی وجہ سے ہماری جماعت کبھی بھی اُن کاموں کو اختیار نہیں کرسکتی جو فتنہ اور فساد کا موجب ہوں۔ پھر اِس امن پسندی کی طرف متوجہ کرنے کیلئے ہمارے پاس بعض اور قوی وجوہ بھی موجود ہیں جن کے ماتحت امن شِکنی ہمارے لئے کسی صورت میں جائز نہیں۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ ہماری مذہبی تعلیم یہ ہے کہ کسی حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے اُس کے خلاف فتنہ و فساد کھڑا کرنا جائز نہیں۔ہم نے اِس مسئلہ کی وجہ سے بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھائی ہیں۔ ہمارے اپنے بھائیوں نے اِس مسئلہ کی وجہ سے ہمیں کافر قرار دیا بلکہ آدم حریت و آزادی کا پیغام دینے کا مدعی ڈاکٹر اقبال بھی ہمارے خلاف یہ الزام لگاتا ہے کہ ہم جہاد کے خلاف تعلیم دے کر مسلمانوں کو کمزور کرنے کا موجب ہیںاور دوستی کے پردہ میں ان سے دشمنی کرتے ہیں۔ پس ہمارے اس عیب اور گناہ کی تصدیق پُرانے علماء نے بھی کردی اور جدید فلسفیوں نے بھی کردی گویا مغرب اور مشرق دونوں جمع ہوگئے ہمیں مُجرم قرار دینے کیلئے، اِس بناء پر اور اس گناہ کی وجہ سے کہ کیوں ہم نے مسلمانوں کو امن پسندی کی تعلیم دی ہے۔ قوم کی مخالفت کوئی معمولی مخالفت نہیں ہوتی۔ نہ صرف اس میں ہرقسم کاجسمانی دُکھ انسان کو برداشت کرناپڑتا ہے بلکہ دل کا دُکھ بھی اس کے ساتھ شریک ہوتا ہے۔ اسلام بے شک انسان کو بہادربنادیتا ہے، اسلام بے شک انسان کے دل میںجرأت پیدا کردیتا ہے لیکن اسلام انسان کے جذبا ت کو مارتانہیں بلکہ انہیں اُبھارتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ خواہ کوئی بھی حق کی مخالفت کرے، اپنے ہوں یا غیر، مؤمن ان کی پرواہ نہیں کرتا مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ کسی فعل کی وجہ سے خواہ وہ حق کی حمایت ہی کیوں نہ ہو اگروہ اپنے عزیزوں، اپنے رشتہ داروں، اپنے ہمسایوں اور اپنے ہم قوموں سے علیحدگی اختیار کرے تو طبعی طور پر اسے صدمہ ضرور ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ پس یہ کوئی کھیل نہ تھا جو ہم کھیلے اور یہ کوئی معمولی بات نہ تھی کہ ہم نے تمام مسلمانوں کو اپنا اس لئے دشمن بنالیا کہ ہم فتنہ و فساد کے خلاف تعلیم ان میں پھیلاتے ہیں مگر یہ دُکھ ہم نے اُٹھایا، یہ تکلیف ہم نے سہی، یہ مصیبت ہم نے برداشت کی لیکن حق کو نہیں چھوڑا بلکہ ہم ہمیشہ امن پسندی کی تعلیم لوگوں کو دیتے رہے۔ حکومت کے ریکارڈ اس کے گواہ ہیں، حکومت کے اعلانات اس کے گواہ ہیں اور حکومت کی چِٹھیاں اس کی گواہ ہیں۔ پس مذہب کی حکومت سب سے بڑی حکومت ہے اور اس کے حکم کے ماتحت ہم مجبور ہیں خواہ ہم میں سے بعض کا دل نہ بھی چاہے، خواہ بعض ہم میں سے جوش کی حالت میں اپنی عقل و خرد کوچھوڑ کریہ ارادہ بھی کرلیں کہ حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں، کہ اس ارادہ کو عمل کا جامہ نہ پہنائیں۔
دوسری بات جو ہمیں پُرامن رہنے پر مجبور کرتی ہے وہ ہمارے اوردوسری رعایا کے تعلقات ہیں۔ پہلی وجہ میں حکومت کے اور ہمارے تعلقات تھے جن میںمذہب نے ہمیں پابندِامن کردیا ہے لیکن دوسری وجہ وہ احکام ہیں جو رعایا اور رعایا کے آپس کے تعلقات کے متعلق ہیں ان احکام میں بھی آپس میں محبت اور پیار سے رہنے کی تعلیم دی گئی ہے لیکن ان کے علاوہ ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم امن شِکنی نہیں کرسکتے کیونکہ علاوہ مذہبی تعلیم کے مصلحتیں اور ضرورتیں بھی ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم امن شِکنی نہ کریں۔ یعنی اگر ہم میں سے کوئی کمزور شخص مذہب کی حکومت سے کسی وقت انکار بھی کردے تو وہ ضرورتاً اس بات پر مجبور ہے کہ امن شِکنی نہ کرے اور وہ ضرورت یہ ہے کہ ہم ایک تبلیغی جماعت ہیں۔ ہم نے اپنا یہ فرض مقرر کیا ہؤا ہے اور دوسروں کوہم اس بات کی عادت ڈالتے ہیں کہ وہ جائیں اور غیراحمدیوں کوتبلیغ کریں۔ ہم مسلمانوں کو بھی تبلیغ کرتے ہیں، ہم ہندوئوں کوبھی تبلیغ کرتے ہیں، ہم سکھوں کو بھی تبلیغ کرتے ہیں، ہم عیسائیوں کو بھی تبلیغ کرتے ہیں اور اسی طرح ہر اُس قوم کوہم تبلیغ کرتے ہیں جوہمارے سامنے آجاتی ہے۔ اب ایک تبلیغی جماعت کیلئے یہ بالکل ناممکن ہے کہ وہ لوگوں سے لڑے کیونکہ اگر وہ لڑے تو تبلیغ نہیںکرسکے گی۔ اگر ہم اپنے افعال کی وجہ سے مسلمانوں کو برانگیختہ کردیں، اگر ہم اپنے افعال کی وجہ سے ہندوئوں کو برانگیختہ کردیں ،اگر ہم اپنے افعال کی وجہ سے سکھوں کو برانگیختہ کردیں اور اگر ہم اپنے افعال کی وجہ سے عیسائیوں کوبرانگیختہ کردیں تو بتائو تبلیغی میدان ہمارے لئے کونسا رہ جاتا ہے۔ پس اگر ہم میں سے کوئی شخص اس مذہبی حکم کا قائل نہ بھی ہو تو تبلیغی ضرورتوں کی وجہ سے وہ اس بات کیلئے مجبورہے کہ غیرجماعتوں سے اچھے تعلقات رکھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو اس کی خلاف ورزی کرنے والا نہیں۔ ہر قوم میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی اور بُرے لوگوں کو روکنا کوئی آسان بات نہیں۔ ہماری جماعت میں بھی بعض لوگ ایسے ہیں جو بعض دفعہ تقریروں کے ذریعہ یا تحریروں کے ذریعہ سخت کلامی کرتے ہیں مگر وہ سخت کلامی یا تو کسی انتہائی غفلت کی حالت میں ہوتی ہے یا عادتاً ہوتی ہے۔ اور جو شخص عادتاً سخت کلامی کرتاہے وہ بھی اپنی عادت کی وجہ سے نہ مذہب کو یاد رکھ سکتا ہے نہ مصلحتوں اور ضرورتوں کو ۔ یا بعض دفعہ منافق سخت کلامی کرتے ہیں اور ان کی اصل غرض جماعت کو بدنام کرناہوتی ہے۔
پس ہمیشہ یہ تین قسم کے لوگ ہی جماعت میں سے سختی کرتے ہیں لیکن ہمارا رویہ ان کے متعلق ہمیشہ یہ رہا ہے کہ ہم ان کی باتوں پر گرفت کرتے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر غفلت سے سخت کلامی ہو تو تب بھی ہم گرفت کرتے اور اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور اگر عادتاً سخت کلامی ہو تب بھی ہم گرفت کرتے اور اصلاح کی کوشش کرتے ہیںاور اگر کوئی منافقت سے کرے تب بھی اسے سمجھایا جاتا یا اخباروالوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ کیوں ایسے لوگوں کے مضامین شائع کرتے ہیں جن کی اصل غرض ہم پرالزام قائم کرنا ہے ان استثنائی صورتوں کے علاوہ ہماری جماعت کا عام رویہ یہ ہے کہ ہم دوسری قوموں کے متعلق ادب اور احترام کے مقام پر کھڑے ہوں او رہم کہتے ہیں کہ کسی دوسری قوم کادل نہیں دُکھانا چاہئے۔ ہمارے ہاں کثرت سے ایسی مثالیں موجودہیں جبکہ دوسروں کے ہاں ایک بھی مثال موجود نہیں کہ جب ہم میں سے کسی نے غیراقوام کے متعلق سخت کلامی کی تو ہم نے اُسے ڈانٹا اور سزا دی۔ اِس وقت تک تین رسالوں کو مَیں اِس جُرم میں ضبط کرچکاہوں اور کئی دفعہ اخبارات والوں کو ڈانٹ چکا ہوں بلکہ اخباروں میں اس کا ذکر بھی آچکا ہے اور میں سمجھتا ہوں کوئی دوسری قوم اپنے میں سے ایک بھی ایسی مثال پیش نہیں کرسکتی بلکہ دوسری قوموں میں جب کسی سے غلطی ہوجاتی ہے تو وہ ہمیشہ اُس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔
گزشتہ پندرہ بیس سال کی تاریخ دنیا میں موجود ہے اس پر غور کرکے دیکھ لوجب کسی اور قوم کے کسی فرد نے اِس قسم کی غلطی کی یعنی غیرمذاہب والوں کے متعلق سخت کلامی کی تو آیا اُس قوم کے لوگوں نے بحیثیت قوم اس کے متعلق اظہارِ ناراضگی کیا؟ اِس میں شبہ نہیں کہ بعض افراد یا بعض شہروں نے ان پر اپنی ناراضگی اور نفرت کا اظہارکیا مگر وہ بحیثیت جماعت نہ تھا بلکہ بحیثیت افراد تھا۔ اگر سارے ہندوستان کے ہندوئوں میں سے کسی ایک شہر کے ہندوئوں نے کسی ہندو کے فعل پر اظہارِ نفرت کردیا یا کروڑوں مسلمانوں میں کوئی ایک شخص ایسا کھڑا ہؤا جس نے کسی مسلمان کی سختی کے خلاف آواز بلند کردی تو یہ جماعت کافعل نہیں کہلاسکتا بلکہ افراد کافعل ہے۔ لیکن ہماری طرف سے ہمیشہ ایسی سختی کے خلاف جو قوموںمیں تنافر پیدا کرنے والی ہو مِنْ حَیْثُ الْقَوْم آواز اُٹھائی جارہی ہے۔چنانچہ یا خلیفۂ وقت کی طرف سے اس کے خلاف اعلان ہوتا ہے یا صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے اس کے خلاف اعلان ہوتا ہے جن کا اعلان ساری جماعت کا اعلان سمجھا جاتا ہے۔زید اگر اعلان کرتا ہے کہ فلاں نے غلطی کی تو بکرکہہ دیتا ہے کہ میں اِس غلطی کوتسلیم نہیں کرتا۔ اِس کے مقابلہ میں جماعت کا امام جب اعلان کرے کہ فلاں شخص نے غلطی کی تو کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے غلطی نہیںکی گویایہ نفرت کا اظہار ساری جماعت کی طرف سے ہوتا ہے۔
پس اس معاملہ میں جوطریق اختیار کیا ہے اگر باقی جماعتیں بھی وہی طریق اختیار کرتیں تو کبھی ہندوستان میں فساد نہ ہوتے۔ مثلاً اگر ایک ہندو کے قلم سے کسی غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کے بزرگوں کے متعلق نازیبا کلمات لکھے گئے ہوں اور ساری ہندو قوم اس سے نفرت کا اظہار کرے تو آئندہ نہ اُسے یہ جرأت رہے کہ وہ مسلمانوں کے متعلق دلآزار کلمات استعمال کرے اور نہ اس کی اس حرکت سے مسلمانوں کے دلوں میں کوئی غصہ رہے۔ اسی طرح اگر مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسی حرکت ہو کہ ان میں سے کوئی فرد کسی دوسری قوم مثلاً ہندوئوں کے بزرگوں کی ہتک کردے اور پھر یہ بات مسلمانوں کے علم میں لائی جائے اور وہ اس کے خلاف اظہارِ نفرت کردیں تو اس مسلمان کی بھی اصلاح ہوجائے اور ہندوئوں کا غصہ بھی بالکل فرو ہوجائے کیونکہ آخرجب کوئی مسلمان یا ہندو ایک کتاب لکھتا ہے تو اس کی غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ لوگ اسے خریدیں اور پڑھیں لیکن جب وہ یہ دیکھیں کہ غیروںنے تو اسے خریدنا نہیں کیونکہ اس میں ان کے خلاف سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور اپنے اس پر اظہارِ نفرت کررہے ہیں تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت بند ہوجاتی ہے اور آئندہ کیلئے اسے یہ حوصلہ نہیں رہتا کہ وہ کوئی منافرت انگیز تحریر شائع کرے۔ چنانچہ بعض مسلمانوں کی طرف سے مذہب کے متعلق جب بعض ایسی کتابیں لکھی گئیں جو قابلِ اعتراض تھیں اورمسلمانوں نے ان کے خلاف آواز اُٹھائی تو ان مصنفین نے خود اپنے ہاتھ سے وہ کتابیں جلادیں۔ اِس کی مشہور مثال مولوی نذیر احمد دہلوی کی کتاب اُمّہات الاُمہ ہے۔ جب یہ پہلی دفعہ چھپی اور مسلمانوں نے ا س کے خلا ف شور مچایا تو اِس کے مصنف نے خود اِسے جلادیا۔ اب پھر دوبارہ چھپی تو مسلمانوں کے آواز اُٹھانے پراُسے چھاپنے والوں نے جلادیا۔ تو اگر قوم متفقہ طور پر کسی کی سخت کلامی کے خلاف اظہارِ نفرت کرے تو مصنفین کویہ جرأت ہی نہیں رہتی کہ وہ دوسروں کے متعلق دلآزار کلمات استعمال کریں۔ کتابیں لکھنے والے مالدار نہیں ہوتے بلکہ اکثر غریب ہوتے ہیں اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ کتاب چھپوا کرانہیں مالی لحاظ سے بھی گھاٹا رہا اوردوسری طرف نہ قوم میں عزت رہی نہ غیروں پر اثر رہا تو وہ اپنی غلطی کا اقرار کرلیتے ہیں اور اس طریق کو بالکل چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر یہی طریق ہندو اختیار کرتے، اگر یہی طریق عیسائی اختیار کرتے اور اگر یہی طریق دوسری اقوام اختیار کرتیں تو نہ کسی قانون کی ضرورت تھی نہ حکومت کے انتظام کی ضرورت تھی ، نہ بدنظمی پیدا ہوتی، نہ بدمزگی واقع ہوتی، نہ شور اور فساد پیدا ہوتا، سب بھائی بھائی بن کررہتے اور فتنہ و فساد سے مجتنب رہتے۔ لیکن چونکہ دوسرے مذاہب اور دوسری اقوام کی طرف سے یہ طریق اختیار نہیں کیا جاتا اس لئے آپس میں بُغض اور کینہ بھی ترقی کرتا رہتا ہے لیکن ہماری جماعت ہمیشہ امن کے قیام کیلئے اس قسم کی حرکات پر سختی سے نوٹس لیتی ہے اور ان کے انسداد کی پوری کوشش کرتی ہے۔
پھر تبلیغی ضرورتوں کے علاوہ ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جو قرآن مجیدمیں موجود ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر خاص زور دیا ہے کہ دنیا کی تمام قوموں کے بزرگ خداتعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلاَّ خَلاَ فِیْھَا نَذِیْرٌ ؎۱ ۔ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس میں خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی نذیرنہ آیاہو۔ اس تعلیم کے بعد کس طرح ممکن ہے کہ ہم دوسری اقوام کے بزرگوں کو بُرا بھلا کہہ سکیں۔ چونکہ رسول کریم ﷺ کے بعد اسلام کے باہر کوئی نبی نہیں آسکتا تھا اس لئے صرف سکھوں کا سوال رہ جاتا تھا ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتادیا کہ ان کے بانی حضرت باوا نانک صاحب ایک مسلم بزرگ تھے اور جو بزرگ اور ولی اللہ ہو اُس کے خلاف کوئی احمدی اپنی زبان کس طرح کھول سکتا ہے۔ جب ہم حضرت باوا نانک رحمۃ اللہ علیہ کو ایک ولی اللہ تسلیم کرتے ہیں تو ان پر الزام لگانے اور ان کی عیب شماری کرنے کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کے دوست بھی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ بُرے ہوتے ہیں اور چونکہ بُروں کے دوست بھی بُرے ہؤا کرتے ہیں اس لئے حضرت باوا نانک صاحب کی عیب شماری کرنے کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرتے ہیں۔ پس اس تعلیم کے ماتحت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ہم مجبور ہیں کہ گو حضرت باوا صاحب کونبی نہ سمجھیں مگر ولی اللہ اور خدارسیدہ انسان ہونے کی حیثیت میں ان کا ادب اوراحترام کریں اور کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کریں جواِن کی شان کے خلاف ہو۔پس اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلاَّ خَلاَ فِیْھَا نَذِیْرٌ سے ایک ہی قوم باہر رہ جاتی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس قوم کے بانی کے متعلق بھی ثابت کردیا کہ وہ ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے او راس طرح ان کے متعلق بھی ادب اور احترام کے جذبات رکھنے پرہم مجبور ہیںمگر کسی قوم کے ایسے لیڈر جونہ نبی ہیں نہ ولی ان کے متعلق بھی ہماری شریعت یہ حکم دیتی ہے کہ ہم انہیں بُرا بھلا نہ کہیں اور اگر ہم ان کو گالیاں دیں تو ہم خود اس بات کے محرّک بنتے ہیں کہ وہ ہمارے بزرگوں کوگالیاں دیں۔ رسول کریم ﷺ نے اس کا ایک نہایت ہی لطیف مثال میں ذکرفرمایا ۔
آپ نے ایک دفعہ صحابہؓ سے کہا بہت ہی ملعون ہے وہ شخص جو اپنی ماں کو گالی دے ۔ صحابہؓ نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کوئی شخص اپنی ماں کوکس طرح گالی دے سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا جب کوئی شخص کسی دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے اور وہ جواب میں اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو گویا یہ اپنی ماں کو آپ گالی دیتا ہے ؎۲ ۔
تو ہمارے مذہب کی تعلیم یہ ہے کہ بانیانِ مذاہب کے علاوہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے تھے جن لوگوں کو تم نبی اور رسول یا خد ارسیدہ نہیں سمجھتے ان کابھی احترام کرو اور انہیں گالیاں مت دو۔ بے شک جائز تنقید کا دروازہ کھُلا ہے ان کی غلطیوں کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں، ان کے سامنے اچھی بات پیش کرنے کی ممانعت نہیں کیونکہ اگر اس کی اجازت نہ ہو تو تبلیغ نہیں ہوسکتی۔ لیکن سخت الفاظ کی اجازت نہیں سوائے اس کے کہ جوابی رنگ میں ہوں اور میں بارہا بتاچکاہوں اور اِس خطبہ کے شروع میں بھی اشارہ کرچکا ہوں کہ ہم نے عملاً ان باتوں کو کرکے دکھادیا ہے۔ حکومت کے بارے میں کیسے کیسے خطرناک حالات میں سے ہم گزرے ہیں مگر کس صفائی کے ساتھ۔ نہ صرف حکومت کے خلاف کسی قسم کی بغاوت میں حصہ لینے سے ہم نے اپنے آپ کو بچایا بلکہ دوسروں کو بھی محفوظ رکھا۔ آج اگر حکومت بھول گئی ہو تو بھول جائے کیونکہ بعض لوگوں کاحافظہ خراب ہوتا ہے اور وہ باتوں کو پوری طرح یاد نہیں رکھ سکتے مگر اب بھی قریباً وہ سب افسر موجود ہیں جو ۱۹۱۴ء کی لڑائی کے ایام میں موجود تھے وہ تھوڑی دیر کیلئے اپنے مخالف جذبات کو دبا کر اُن دنوں کویاد کریں جب ۱۹۱۴ء میں لڑائی شروع تھی اور سوچیں کہ ۱۹۱۴ء میں ان کے قلب کی کیا کیفیت تھی اور کس طرح وہ وفاداری کے بھوکے نظر آتے تھے۔ اُس دن کس طرح حقیر سے حقیر انسان بھی جو ان کی مدد کیلئے ہاتھ بڑھاتا تھا اُسے ادب اور احترام کے مقا م پر بٹھانے کیلئے تیار ہوجاتے تھے۔
۱۹۱۴ء کا انگریز کس طرح اپنے ملک کی عزت کو خطرے میں گھرا ہؤا پاتا تھا اُس دن بیشک کہنے کو اخبارات میں یہ اعلان ہوتے رہتے تھے کہ ہم بالکل محفوظ ہیں اور ہماری طاقت دشمن کی طاقت سے بہت زیادہ ہے لیکن انگلستان کے بڑے بڑے جرنیلوں نے تو اب کتابیںلکھ کر اصل حالات کو طشت ازبام کردیا ہے اور ان میں اُن تمام واقعات کا ذکرہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ چار سال انگلستان والوں کیلئے عذاب کے سال تھے۔ کئی مواقع ایسے آئے جب انگلستان یہ محسوس کرتا تھا کہ آج وہ اپنی آزادی کوکھودینے کیلئے بالکل تیار بیٹھا ہے۔ انگلستان کے لیڈر یہ محسوس کرتے تھے کہ قوم کی عزت اِس وقت اتنے خطرے میں ہے کہ بالکل ممکن ہے کہ وہ اسے ہمیشہ کیلئے کھو بیٹھیں ۔ یہ خطرناک دن آئے اور اُن دنوں میں چھوٹی سے چھوٹی امداد کے بھی وہ محتاج ہوئے۔ اُن دنوں پر غور کرکے اور ان واقعات کی یاد تازہ کرکے حکومت کے افسر سمجھ سکتے ہیں کہ ہماری جماعت نے کس جرأت ، کس دلیری، کس بہادری او رکس مردانگی کے ساتھ مخالف حالات میں حکومتِ انگریزی کی مدد کی لیکن کیا ہم نے اس کا کوئی بھی بدلہ لیا؟ ہم نے اس کا ایک شمہ بھر بھی بدلہ نہیں لیا اور نہ لینا چاہتے ہیں۔ مگر کیاہم یہ حق نہیں رکھتے کہ کہیں کہ ہمیں وہ برطانوی انصاف دیا جائے جس پر برطانوی انصاف کی امید میں ہماری جماعت نے جانیں دیں۔ پھر جنگ میں جب فتح ہوئی تو کوئی سر بنا کوئی نواب بنا، کسی کو مربعے ملے، کسی کو نوکریاں ملیں اور کسی نے کسی طرح کااعزاز حاصل کیا اور کسی نے کسی طرح کا۔ مگر کیا ہم نے بھی کوئی بحیثیت جماعت گورنمنٹ سے کوئی مطالبہ کیا؟ یا کیا ہمیں بھی گورنمنٹ کی طرف سے کوئی معاوضہ دیا گیا؟ اس میں شبہ نہیں کہ بعض افراد سے حکومت نے اچھا سلوک کیا مگر ہماری خدمات دو طرح کی تھیں۔ ایک وہ خدمات جومِنْ حَیْثُ الْاَفْرَادتھیں اور ایک وہ خدمات تھیں جومِنْ حَیْثُ الْجَمَاعَت تھیں۔ جو خدمات مِنْ حَیْثُ الْاَفْرَادتھیں ان میں بے شک بعض احمدیوں کو گورنمنٹ نے اعزاز دیا اُسی طرح جس طرح کہ اس نے اور لوگوں کو اعزاز دیا لیکن ہزارو ں احمدی ایسے تھے جنہوں نے مرکز کے ذریعہ حکومت کیلئے قربانیاں کیں اور ان کی قربانیوں کاکوئی صلہ گورنمنٹ نے نہ ان احمدیوں کو دیا اور نہ مرکز کو دیا۔نہ مرکز کی یہ خواہش تھی کہ اسے صلہ ملے اور نہ اب خواہش ہے کہ اسے صلہ دیا جائے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان قربانیوں کا صِلہ وہ بھی نہیں ہو سکتا جو آج ہمیں دیاجارہا ہے۔ کسی وقت انگریز بیلجیئم پر حملہ کرنے کی وجہ سے جرمن سے حقارت کرتے تھے اورکہتے کہ اس نے بیلجیئم کے پُرانے معاہدہ کو توڑ دیا اور اسے سکریپ آف پیپر کی حیثیت بھی نہ دی۔
میں ان حکّام سے جو اِس وقت پنجاب میں مقررہیں کہتا ہوںکہ وہ بیسیوں چِٹھّیاں جو ہماری خدمات، وفاداری اور امن پسندی کے متعلق برطانوی حکّام کی ہمارے پاس موجود ہیں سکریپ آف پیپر کی حیثیت رکھتی ہیں؟ بے شک ہم ان کے بدلے کسی انعام کے طالب نہیں مگر ہم اِس بات کے طالب ضرور ہیں کہ ہمیں امن دیا جائے مگر افسوس کہ وہ امن ہمیں نہیںدیاجارہا۔
پھر خلافت کاجب جھگڑا ہؤا اُس وقت بھی انگریزوں کو خطرناک مشکلات درپیش تھیں۔ جنگ کے بعد انگریز کمزوری محسوس کررہے تھے جنگ کے دنوں میں سوشلسٹ اس ہیجان کی وجہ سے جو ملک میں پیداہوگیا تھا دب گئے تھے لیکن جنگ کے بعد ان کی طاقتیں معاً اُبھر آئیں اِدھر آپس میں دل پھٹ چکے تھے اور لُوٹ کے حصوں کو اُڑانے کا شوق ایک دوسرے کے حقوق کو تلف کرنے پر آمادہ کررہا تھا۔ ۱۹۱۹،۱۹۲۰ء کا فرانس وہ فرانس نہیں تھا جو ۱۹۱۴ء کا تھا، ۱۹۱۹،۱۹۲۰ء کا بیلجیئم وہ بیلجیئم نہیں تھا جو ۱۹۱۴ء کا تھا، ۱۹۱۹ئ،۱۹۲۰ء کا اٹلی وہ اٹلی نہ تھا جو ۱۹۱۴ء یا ۱۹۱۵ء کا تھا کیونکہ وہ ایک سال بعد جنگ میں شامل ہؤا ۔ اسی طرح امریکہ ۱۹۱۹ء میں وہ امریکہ نہ تھا جو ۱۹۱۸ء کے شروع میں تھا، دلوں میں بُعد پیدا ہوچکا تھا، لُوٹ کے شوق میں ایک دوسرے کے حقوق کو پامال کیا جارہا تھا اور ایک دوسرے کے خلاف سخت شکایتیںپیداہوچکی تھیں۔ پھر لڑائی کے بعد قدرتی طور پر جو ری ایکشن یعنی ردّعمل ہوتا ہے اس کی وجہ سے خود اپنی رعایا میں بھی بے چینی او ربددلی پیدا ہوگئی تھی۔ اس وقت انگریزی حکومت کی کمزوری اس امر سے بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ تباہ شدہ روس جس کا ملک تفرقہ اور فساد سے بھرا ہؤا تھا، جس کے اندر کوئی نظام نہ تھا، جس کے پاس کوئی طاقت نہ تھی اُس کے چند مزدورلیڈر جو نہ جنگ سے واقف تھے نہ سیاست سے آگاہ انہوںنے آرچنچل کے مقا م پر انگریزی فوجوں کو بُری طرح دِق کیا یہاں تک کہ انگریزوں کواپنی فوجیں واپس بُلا لینی پڑیں۔ اسی زمانہ میں تُرک وہ تُرک جن کاملک تقسیم ہوچکا تھا ، وہ تُرک جن کا بادشاہ قیدیوں کی طرح تھا، وہ تُرک جن کے توپخانے اتحادیوں کے قبضہ میں تھے، وہ شکست خوردہ تُرک اپنے سینے تان کر انگریزی اور فرانسیسی فوجوں کے سامنے آکھڑے ہوئے اور آخرلارڈ کرزن کے ذریعہ ایک معاہدہ ہونے کے بعد انگریزی فوجوں کو واپس آنا پڑا۔ انگریز اُس وقت سازوسامان میں کمزور نہ تھے، دولت میں کمزور نہ تھے لیکن انہیں نظر آرہاتھا کہ آج چاروں طرف پھُوٹ ہے اور ہمارا ساتھ دینے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ اُس زمانہ میں وہ ہندوستان جس میں تینتیس کروڑ کی آبادی ہے اس کے باشندوں میں ایک سِرے سے لے کر دوسرے سرے تک حکومتِ انگریزی کے خلاف آگ لگ چکی تھی، ہندو سوراجیہ کا مطالبہ کرتے تھے، مسلمان خلافت کا شور مچارہے تھے اور کوئی جماعت مِنْ حَیْثُ الْجَمَاعَت انگریزوں کے ساتھ نہ تھی ایسے خطرے کے وقت میں جب اپنے اور پرائے سب گھبرارہے تھے سوائے جماعت احمدیہ کے اور کونسی جماعت تھی جس نے مِنْ حَیْثُ الْجَمَاعَت انگریزں کا ساتھ دیا؟
مجھے یاد ہے کہ جب رولٹ ایکٹ پر شور اُٹھا تو میںنے اپنی جماعت کے لوگوں کواِردگِرد کے دیہات میں بھیجا کہ وہ وہاں کے رئوساء اور بڑے بڑے لوگوں کو اکٹھا کرکے قادیان میں لائیں تامیں انہیں نصیحت کروں کہ وہ اس فتنہ وفساد میں حصہ نہ لیں۔بعض خود غرض لوگ ہم میں اور سکھوں میں ہمیشہ لڑائی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بعض پُرانے اوربڈّھے سکھ جو ہمارے خاندان کی پُرانی روایات اور ان کے اثر سے واقف تھے انہوں نے یہ نہ سمجھتے ہوئے کہ میں انہیں کیوں بُلارہا ہوں مجھے کہلا بھیجا کہ ہم ضرور آئیں گے اور اگر آپ اس موقع پر اپنے خاندان کی پُرانی عظمت قائم کرنا چاہیںتو ہم آپ کا پورا ساتھ دیں گے۔ اُس وقت انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کا جذبہ اس قدر ترقی کرچکا تھا کہ قریب کے گائوں ’’ٹھیکری والا‘‘ سے جو بالکل جاہل گائوں ہے ایک کثیر تعداد پستولوں کی پکڑی گئی تھی کچھ لوگ وہاں پستولوں سے چاند ماری کی مشق بھی کیا کرتے تھے جب یہ رئوساء آئے اور میں نے مسجدمیں جمع کرکے انہیں نصیحت کی کہ آپ انگریزوں کے خلاف شورش میں حصہ نہ لیں تو وہ بھُوکے بھیڑیئے کی طرح ہمارے آدمیوں سے لڑتے تھے مگر ہم نے انہیں سمجھا سمجھا کر اور منتیں کرکے اِس ارادہ سے انہیں باز رکھا اور علاقہ میں شورش پید انہ ہونے دی۔ پھر یہاں ہی نہیں سارے پنجاب میں ہم نے لوگوں کوبھیجا اور امن قائم کیا۔ وہ وقت ایسا خطرناک تھا کہ اگر ذرا آگ لگ جاتی تو انگریز مصنف یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حکومتِ انگریزی کو شدید صدمہ پہنچتا۔ اُس موقع پر ہم نے گالیاں سُنیں، ماریں کھائیں لیکن حکومت سے غدّاری نہیں کی بلکہ پورے امن سے رہے اور دوسروں کوامن سے رہنے کی تلقین کی۔ کیا اِس کا وہی صِلہ ہے جو آج ہمیں دیا جارہا ہے؟ ہمارے جذبات اُس وقت دوسرے مسلمانوں سے کم نہیں تھے۔ خلافت تُرکیہ کے گو ہم قائل نہیں مگر اسلامی حکومتوں کی ترقی کی اُمنگیں ہمارے دلوں میں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ ہیں بلکہ ہم نے تو کبھی اِس بات سے انکار نہیں کیا کہ اسلامی حکومت کے قیام کے سب سے زیادہ خواب ہمیں ہی آتے ہیں اور خواب آنا تو لوگ وہم سمجھتے ہیں ہمیں تو الہام ہوتے ہیں کہ اسلامی حکومتیں دنیا میں قائم کی جائیں گی پس ہمیں کتنادُکھ ہوتا تھا یہ دیکھ کر کہ انگریزی حکومت ہم ہی سے قربانیاں لینے کے بعد تُرکوں کے ٹکڑے ٹکڑے کررہی ہے۔ ہمارے دل بھی زخمی تھے اور ہمارے دلوں سے بھی یہ دیکھ کرخون بہہ رہا تھا کہ صرف ایک قابلِ ذکر اسلامی حکومت دنیا میں باقی تھی مگر افسوس کہ اسے بھی ٹکڑے ٹکڑے کیا جارہا ہے لیکن باوجود اس کے کہ ہمارے جذبات سے کھیلا گیا ہم نے امن قائم رکھنے کی پوری کوشش کی اور کسی ایسی حرکت کو پسند نہ کیا جس سے حکومت کیلئے مشکلات پید اہوں۔
میرے جذبات کی شدت کا ثبوت اِس سے مل سکتا ہے کہ میں نے انہی دنوں مسلمانوں کے سامنے یہ بات پیش کی تھی کہ اگر آپ لوگ پُرامن طریق سے کوشش کریں اور اِس پرزور نہ دیں کہ تُرکوں کابادشاہ سب مسلمانوں کا خلیفہ ہے صرف یہ کہیں کہ اکثر مسلمان ان کوخلیفہ تسلیم کرتے ہیں لیکن باقی مسلمان بھی ان کو واجبُ ال￿اِحترام تسلیم کرتے ہیں تو میں پچاس ہزار روپیہ اور اپنے تمام بیرونی مبلّغ آپ کو اِس غرض کیلئے دینے پر تیار ہوں کہ وہ تُرکوں کی حمایت میں پروپیگنڈا کریں۔ آج ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑھی ہوئی ہے اور اس کی مالی حالت پہلے سے اچھی ہے لیکن ۱۹۱۹ء میں تو بہت ہی کمزور حالت تھی۔ اُس زمانہ کے پچا س ہزار روپے آجکل کے تین چار لاکھ کے برابر ہیں مگر مسلمانوں نے میری تجویز منظور نہ کی اور گاندھی جی کے نان کوآپریشن کے مشورہ کوقبول کرلیا۔ لیکن اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مجھے حکومتِ تُرکیہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا کتنا شدید صدمہ تھا مگر باوجود ان جذبات کے میں نے امن کا طریق اختیارکیا اور اس وجہ سے مجھے مسلمانوں سے گالیاں بھی سننی پڑیں۔ آج لوگ کہتے ہیں کہ آپ کا مشورہ صحیح تھا اور باوجود اس کے کہ مسلمان لیڈروں کے ہاتھ میں میرا ٹریکٹ پہنچا اور وہ خط بھی جس میں تجاویز تھیں مگر وہ کہتے ہیں کہ ہمیں یاد نہیں کہ آپ کی طرف سے ہمیں کوئی ٹریکٹ اورخط ملا ہو۔ اگر ٹریکٹ اور خط پہنچ جاتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ہم آپ کامشورہ قبول نہ کرتے۔
یہ زمانہ گزراتو اِس کے بعد بھی بیسیوں مواقع ایسے پیش آئے کہ اگر دوسری جماعتوں کو وہی مواقع پیش آتے تو وہ کبھی صبر سے کام نہ لیتیں اور ضرور خون ریزی تک نَوبت پہنچ جاتی۔ مثلاً شہید گنج کے موقع پر جامع مسجد میں پولیس اندر داخل ہونے سے گھبراتی ہے۔ مسلمانوں کا ڈکٹیٹر عَلَی الْاِعْلَان تقریریں کرتا ہے اور سپاہی ڈرتے ہیں کہ ہم مسجد میں کس طرح جائیں وہ مسلمانوں کا مقدس مقام ہے لیکن ہمارے مقدس مقام میں دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ کیا گیا۔ گورنمنٹ دوسری اقوام کے مقدس مقامات میں بھی تو ایک مرتبہ دفعہ ۱۴۴ کانفاذ کرکے دیکھے اسے پتہ لگ جائے گا کہ وہاں خونریزی ہوتی ہے یانہیں؟ مگر ہم نے ان تمام باتوں کوبرداشت کیا اور میں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو سختی سے روک کر اُن کے دلوں کا خون کردیا اِس لئے کہ ہماری جماعت کی یہ روایت قائم رہے کہ ہم امن پسند ہیں۔ پھر ان تمام حالتوں میں ہمارا رویہ جہاں ایک طرف حکومت کیلئے پُر امن رہا وہاں ملک سے بھی دوستانہ رہا۔
بنگال میں انارکسٹ انگریزوں کے خون سے کھیل رہے تھے میں نے اپنے خرچ پر انارکِسٹوں کی اصلاح کیلئے وفد بھیجے اور ان کا نہایت مفید اثر ہؤا اور اب جو بنگال میں کام کرنے والے مسلمان موجود ہیں ان کے متعلق تحقیق کرکے دیکھ لیا جائے کہ اب ان کے کیا خیالات ہیں اور ایک دو سال پہلے ان کے خیالات کیا تھے۔ ہمارے مبلّغوں کی اُس وقت کی رپورٹوں سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح انہیں سمجھا بُجھا کر درست کیاگیا اور ان کے خیالات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ خود حکومت کے انگریز افسروں سے پُوچھا جاسکتا ہے کہ ہم نے کِن حالات میں انارکسٹوں کی اصلاح کا کام کیا۔ جو حالت اُس وقت انگریز افسروں کی تھی اُس کاپتہ اِس سے لگ سکتا ہے کہ ہمارا ایک آدمی جو انارکسٹوں کی اصلاح کیلئے مقرر تھا وہ ایک دفعہ ایک مشہور ضلع کے انگریز ڈپٹی کمشنر سے ملنے گیا۔ ابھی ایک منٹ ہی اُسے بات کرتے گزرا تھا کہ یکدم وہ یہ سن کر حیران رہ گیا کہ وہ انگریز ڈپٹی کمشنر اُس سے کہہ رہاہے ’’ہینڈز اپ‘‘۔ یعنی ہاتھ کھڑے کردو۔ یہ الفاظ عموماً اُس وقت کہے جاتے ہیں جب کوئی چور، ڈاکو یاقاتل سامنے آجائے اور یہ خیال ہو کہ وہ حملہ کردے گا اُس وقت فوراً پستول دکھا کر اور ہینڈز اپ کہہ کرتلاشی لی جاتی ہے۔ اس بے چارے نے بھی حیران ہوکرہاتھ اونچے کردیئے اور ڈپٹی کمشنر نے پستول سامنے رکھ کر اُس کی تلاشی لینی شروع کردی۔ جب تلاشی کے بعد کوئی چیز نہ نکلی تو اُس نے پوچھا آپ نے تلاشی کیوں لی تھی؟ وہ کہنے لگامیں نے سمجھا تم کوئی انارکسٹ ہو۔ بعد میں دوسرے موقع پر ایک اور انگریز افسر جو فوج میں کرنیل تھا اسے اپنے ساتھ لے کر ڈپٹی کمشنر کے پاس گیا اور بتایا کہ یہ توبغاوت کے مٹانے کیلئے یہاں کام کررہا تھا آپ اس سے گھبرا کیوں گئے۔
یہ زیادہ دور کی بات نہیں قریب کے عرصہ میں یہ واقعات ہؤا کرتے تھے مگر ہم نے ان واقعات کو دُور کرنے کی کوشش کی اور خداتعالیٰ کے فضل سے بہت حد تک کامیاب ہوئے۔ اس کے ساتھ ہمارا رویہ اپنے ملک کے ساتھ ہمدردانہ رہا کیونکہ ہم نے مُجرم نہیں پکڑوائے بلکہ ان کی کی اصلاح کی کوشش کی او رجب ہمیں معلوم ہوا کہ کوئی شخص باغیانیہ خیالات رکھتا ہے تو ہم نے اُس کے خیالات کودور کیا ہے۔ چنانچہ کئی انارکسٹ تھے جنہوں نے ہماری کوششوں کی وجہ سے اپنے خیالات کو بدل دیا۔ ہماری جماعت میں بھی بعض لوگ موجود جو پہلے انتہا پسند تھے مگر سمجھانے کے بعد اُن کی اصلاح ہوگئی اور وہ جماعت میںشامل ہوگئے۔ پھر ایسے بھی لوگ ہیں جو اگرچہ ہماری جماعت میں شامل نہیں مگر اس قسم کے خیالات سے انہوںنے ہماری وجہ سے توبہ کرلی۔ تو ہمارا جہاں یہ طریق ہے کہ ہم ملک سے فتنہ و فساد دور کرتے ہیں وہاں ہمارا یہ کبھی طریق نہیں ہؤا کہ ہم مجرموں کے نام گورنمنٹ پر ظاہرکریں اور انہیں پکڑوانے کی کوشش کریں۔ سارے سلسلۂ خدمات میں صرف ایک شخص کانا م ہم نے گورنمنٹ کے سامنے پیش کیا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ وہ ہندوستان میں نہیں تھا بلکہ ہندوستان سے باہر کسی اور ملک میں تھا اور ہم اس کو سمجھا نہیں سکتے تھے۔ وہ حکومتِ انگریزی کے خلاف ایک بہت بڑی سازش کررہا تھا جب اس کے نا م سے حکومت کو اطلاع دی گئی تو پہلے فارن سیکرٹری نے اپنی بے بسی کا اقرار کیا لیکن آخر اس حکومت کی معرفت جس میں وہ رہتا تھا اُسے وہاں سے نکال دیا گیا جہاں سے وہ حکومت کو نقصان پہنچاسکتا تھا۔
غرض ہم نے حکومتِ برطانیہ کی مدد کے ساتھ اس امر کا بھی ہمیشہ خیال رکھا ہے کہ اپنے اہلِ ملک کی بھی خیرخواہی کریں اور کبھی جاسوسی کا کام نہیں کیا۔ جس شخص کامَیں نے ذکرکیا ہے کہ اُس کا معاملہ استثنائی ہے اس کے بارہ میں بھی ہم اس لئے مجبور ہوگئے کہ ہم اس کو سمجھا نہیں سکتے تھے ورنہ ہمارا یہ اصول ہے کہ اصلاح کی کوشش کرتے ہیں نہ کہ نقصان پہنچانے کی۔
یہ چند مثالیں ان بہت سی خدمات کی ہیں جوہم نے حکومت کے فائدہ کیلئے کی ہیں مگر نہ تو حکومت نے ہماری قدر کی اور نہ قوم نے ہماری قدر کی حالانکہ نہ ہم نے کبھی ملک سے غدّاری کی اور نہ حکومت کے کسی حکم کی خلاف ورزی کی اور نہ اس کے خلاف بغاوت کا راستہ اختیار کیا مگرباوجود اس کے حکومت نے بھی ہمیں بُرا سمجھا اور قوم نے بھی۔ پس ہر منصف مزاج انسان اگر انصاف سے دیکھے تو اسے ہماری امن پسندی کے جذبات کا قائل ہونا پڑتا ہے لیکن افسوس ہے کہ ہمیں گزشتہ دو سال کے عرصہ سے نہایت ہی تلخ تجربہ ہورہا ہے اور کسی ایسے قصور کی وجہ سے جس کا ہمیں علم نہیں ہمارے خلاف بعض حُکّام کارروائیاں کررہے ہیں۔ہم نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح پتہ لگے ہمارا جُرم کیاہے مگر ہمیں جُرم کاپتہ نہیں لگا اس لئے کہ جب حکومت کے افسروںسے ملاقات کی جاتی اور اُن سے دریافت کیاجاتا ہے تو ہ کہہ دیتے ہیں ہم تو ناراض نہیں۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ جب وہ ناراض نہیں تو یہ کارروائیاں کیوں ہورہی ہیں؟
پھر بعض باتیں جو لوگ بناتے ہیں وہ اتنی مضحکہ خیز ہیں کہ انہیں ماننے کیلئے طبیعت تیار ہی نہیں ہوتی۔ مثلاً پچھلے دنوں لاہور کے ایک اخبار میں دہلی کے ایک نامہ نگار کا ایک مضمون چھپا تھا کہ ہِزایکسی لینسی گورنر پنجاب احمدیوں سے اِس لئے ناراض ہیں کہ ان کے تقرر سے پہلے احمدیوں نے سرہنری کریک کے متعلق گورنر بننے کی کوشش کی اور ان کیلئے پنجاب میں لوگوں سے دستخط لئے۔ یہ اتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ اس کو ناراضگی کی وجہ قرار دینے کیلئے دل تیار نہیں کیونکہ اگر آپس میں اختلاف ہو بھی جائیں تویہ ہم تسلیم نہیں کرسکتے کہ اختلاف کے بعد دوسرے کی ذہانت اور قوتِ فکر بھی کم ہوجاتی ہے۔ پس اوّل تو کوئی فہیم انسان اسے ماننے کیلئے تیار ہی نہیںہوسکتا لیکن جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ واقعات اس کے بالکل اُلٹ ہیں جو ظاہر کئے گئے ہیں تو اس بات کا مضحکہ خیز ہونا او ربھی زیادہ نمایاں صورت اختیار کرلیتا ہے۔
میں نے اِس واقعہ کا کبھی اظہار نہیں کیا کیونکہ اس کے نتیجہ میں بعض لوگوں پرحرف آتا ہے لیکن اب جبکہ ایک اخبار میں یہ واقعہ چَھپ چکا ہے میں مجبور ہوں کہ اس واقعہ کو بیان کروں۔ واقعہ یہ ہے کہ دو تین جگہ سے مجھے اطلاع ملی کہ بعض لوگ جن کے نام میں ظاہر کرنا نہیں چاہتا منٹگمری، امرتسر اور ایک اور ضلع کے لوگوں سے سرہنری کریک کی تائید میں دستخط کرارہے ہیں تا ایک میموریل بھیجا جائے کہ آئندہ گورنر سر ہنری کریک کو مقرر کیا جائے۔ سرہنری کریک ان افسروں میں سے ہیں جن کو ہماری جماعت سے بہت قریب کے زمانہ سے تعلق پیدا ہؤا ہے۔ پہلے پہل شملہ میں ۱۹۳۱ء میں میری ان سے ملاقات ہوئی۔ جب تک وہ پنجاب میں رہے میں نے ہمیشہ انہیں ایک صاف گو دوست پایا اور جب کبھی ان سے کوئی کام پیش آیا مجھے نہیں یاد کہ انہوں نے ہمیں کبھی مایوس کیا ہو۔ جاتی دفعہ انہوں نے مجھے جو چِٹھی لکھی اُس میں انہوںنے صاف طور پر تسلیم کیا کہ جماعت احمدیہ کی وفاداری اور امن پسندی کا اُن کے دل پر گہرا اثر ہے اور یہ امر ان کی تمام عمر کے تجربہ سے ثابت شُدہ ہے، مگر سر ہنری کریک سے بھی پہلے ہم موجودہ گورنر صاحب کو جانتے تھے ان کے تعلقات بھی ہمارے ساتھ دوستانہ تھے۔ جب یہ پنجاب میں لاہور کے ڈپٹی کمشنر تھے اُس وقت بھی ہمارے ان سے اچھے تعلقات تھے۔ گورنمنٹ آف انڈیا میں گئے تب بھی ہم نے انہیں کبھی اپنا بدخواہ نہیں پایا ایسی صورت میں افراد کو مدنظر رکھتے ہوئے ادھر ذہن منتقل ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ ہم ایک کی تائید کرتے اور دوسرے کی مخالفت۔ لیکن ایک بات ایسی تھی جس کی وجہ سے اس میں دخل دینا ہمارے لئے ضروری تھا اور وہ یہ کہ اِس وقت بڑے بڑے انگریز افسروں کے متعلق ہندوستان کے لوگوں کے دلوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ وہ جنبہ داری نہیں کرتے اور نہ اِن میں پارٹیاں ہوتی ہیں۔ اب اگر دستخطوں کا مرض پھیل جاتا تو پنجاب کے زمیندار طبقہ کے دل میںیہ احساس پیدا ہوجاتا کہ انگریزوں میں بھی پارٹیاں ہوتی ہیں اور وہ بھی انصاف اور عدل کے ماتحت تقرریاں نہیں کرتے بلکہ ان میں بھی ایک دوسرے کی طرفداری کی جاتی ہے اور اس طرح انگریزی حکومت کو پنجاب میں اتنا نقصان پہنچتا کہ کانگرس بھی اتنا نقصان حکومت کونہیں پہنچاسکی کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان پر انگریزوں کی فوجیں حکومت نہیں کررہیں بلکہ انگریزوں کا رُعب حکومت کررہا ہے۔ اور انگریزی فوجوں کے متعلق تو وہی حقیقت درست ہے جو ایک کانگرسی نے کہی کہ ۳۳کروڑ ہندوستانی تو تھُوک تھُوک کر سپاہیوں کو بہا سکتے ہیں۔ اور واقعہ میں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر لوگ مرنے کیلئے تیار ہوجائیں تو ۳۳ کروڑ اتنی بڑی تعداد ہے کہ وہ انگریزی فوجوں کا بخوبی مقابلہ کرسکتی ہے مگر وہ مرنے کیلئے تیار نہیں اور اس لئے تیار نہیں کہ انگریزوں کا دلوں پر رُعب ہے۔ پس انگریزی حکومت کی تقویت فوجوں کے ذریعہ نہیں بلکہ اس کے قومی کیریکٹر، انصاف اور رُعب کی وجہ سے ہے اور یہ چیز ایسی ہے کہ باوجود انگریزوں کو زبان سے گالیاں دینے کے جب اس قوم کی مخالفت کا وقت آتا ہے لوگ یہ کہہ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ خبر نہیں دوسری حکومت اِس سے اچھی ملے یا نہ ملے۔ جس دن یہ خیال لوگوں کے دلوں سے اُٹھ گیا، جس دن یہ رُعب لوگوں کے قلوب سے جاتا رہاکہ انگریزی حکومت کا انصاف اور قومی کیریکٹر مضبوط ہے اُس دن نہ انگریزوں کی توپیں کام آئیں گے نہ فوجیں کام آئیں گی بلکہ انہیں اپنا بوریا بستر باندھ کر اپنے ملک کو جانا پڑے گا۔
جرمنی سے بھی توپیں وغیرہ لے کر اس کو بے دست و پا کردیا گیا تھا یہاں تک کہ تنہا بیلجیئم بھی اسے گھور لیتا تھا مگر آج یورپ کی آدھی طاقتیں ایک طرف جرمنی کو تیوری چڑھا کر دیکھتیں اور دوسری طرف چھلانگ لگا کر دو قدم پیچھے ہٹ جاتی ہیں کہ کہیں جرمن تھپڑ نہ ماردے۔ بالکل اسی طرح جس طرح بلیاں آپس میں لڑتی ہیں پہلے ایک بلی غر غر کرتی ہے پھر چھلانگ لگا کر پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ جرمن بھی نہتا تھا مگر جب اس قوم کے افراد نے کہا ہم اب ذلّت برداشت نہیں کرسکتے اور اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ عمل میں نکل کھڑے ہوئے تو انگریزوں اور فرانسیسیوں کی توپیں دھری کی دھری رہ گئیں اور انہوں نے خود توپیں اور بندوقیں بنا کر دکھادیں۔
پس قوم جس دن تیار ہوجاتی ہے اُس دن کوئی طاقت اُس کے ارادوں میں مزاحم نہیں ہوسکتی اور قوم کے تیار ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس قوم کے افراد جو فوجوں میں ہوں وہ بھی خلاف ہوجائیں، جو عہدوں پر ہوں وہ بھی خلاف ہوجائیں اور سب مل کر مقابلہ کریں ایسی صورت میں تھوڑی سی انگریزی فوج بھلا کیا کرسکتی ہے۔ لیکن کیوں لوگ انگریزوں کا مقابلہ نہیں کرتے؟ اس لئے کہ وہ دلوں میں سمجھتے ہیںانگریز انصاف کو پسند کرتے ہیں۔ یہ لوگوں کا یقین ہے کہ جو انگریزی حکومت کو تقویت دے رہا ہے ورنہ انگریزوں کی فوجیں ان کی حکومت کو تقویت نہیں دے رہے۔ پس اگر دستخطوں کی وباء تمام پنجاب میں پھیل جاتی تو انگریزی دبدبہ پر ایک کاری ضرب لگتی اور لوگ یہ سمجھتے کہ انگریزوں میں بھی تفرقہ ہے وہ بھی جتھہ بازی کے مُرتکب ہیں اور ان میں بھی انصاف قائم کرنے کی روح نہیں رہی۔ میںنے جب اِس خبر کو سنا تو مجھے سخت رنج ہؤا ۔ میں جانتا تھا کہ سرہنری کریک ایک نہایت ہی شریف انسان ہیں اور ان کا اس فعل میں دخل نہیں ہوسکتا یہ صرف بعض لوگوں کی چالاکی ہے جو اس طرح اپنی مقبولیت پید اکرنا چاہتے ہیں اس لئے میں نے اس خبر کے معلوم ہونے پردرد صاحب کوسرہنری کریک کے پاس بھیجا اور اُن کوکہلابھیجا کہ آپ ہمارے دوست ہیں اور آپ کی مدد کرنا قدرتی طور پر ہمیں مرغوب ہے لیکن پنجاب کے بعض حلقوں میں ایک ایسا کام ہورہا ہے جس سے آپ کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا مگر آپ کی قوم کو نقصان پہنچے گا کیونکہ آخر لوگوں کے دستخطوں پر تو حکومت نے گورنر کا انتخاب نہیں کرنا لیکن اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کوعلم بھی نہ ہوگا اور انگریزوں کا رُعب پنجاب سے مٹ جائے گا کیونکہ عوام یہ خیال کریں گے کہ انگریزوں کے بڑے بڑے آدمی بھی آپس میں لڑتے ہیں۔ اگر آپ کہیں تو ہم اس تحریک کو روکیں اور اسے دبانے کی کوشش کریں۔ میں جانتا تھا کہ پنجاب کے بعض لوگوں کا یہ فعل سرہنری کریک کے منشاء کے خلاف ہے بلکہ اس کاانہیں علم بھی نہیں ہوگا چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔ انہوں نے کہا مجھے اِس بات کا کچھ علم نہیں اور میں آپ کا احسان مندہوں گا اگر آپ ان لوگوں کا مقابلہ کریں اورانہیں روکیں۔ چنانچہ مختلف جگہوں پر ہم نے آدمی مقرر کئے اور انہوں نے لوگوں کو سمجھایا جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ یہ تحریک دب گئی کیونکہ عموماً ایسی تحریکات چلانے والے کمزور دل کے لوگ ہؤا کرتے ہیں اور جونہی انہیں معلوم ہو کہ ان کاراز فاش ہونے والا ہے وہ دب جاتے ہیں۔ یہ واقعہ ہے جوہؤا ۔ اِس کے ہوتے ہوئے میں یہ کسی طرح تسلیم نہیں کرسکتا کہ ہز ایکسی لینسی گورنر پنجاب پر اس بات کا کوئی اثر ہو یہ بالکل بچوں کی سی بات ہے اور خطبہ میں مَیں نے اس لئے اس واقعہ کا ذکر کردیا ہے کہ سرہنری کریک بھی اِس واقعہ کوپڑھ لیں اور گواہ رہیں کہ میں نے اس واقعہ کو صحیح طور پر پیش کیا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ درد صاحب نے مجھے جو کچھ آکر بتایا اُس میں کوئی غلطی نہ تھی ممکن ہے جو لوگ سرہنری کریک کی تائید میں دستخط کررہے تھے انہوںنے جب دیکھا ہو کہ ان کی سازش کا راز فاش ہوگیا ہے تو انہوں نے ہمارا نام لے دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ احمدی دستخط لے رہے تھے۔ اِس کو میں ماننے کیلئے تیار ہوں لیکن اس امر کو تسلیم کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں کہ ہزایکسی لینسی گورنر پنجاب پر اِس کا کوئی اثر ہو۔ پس واقعہ جو ہے وہ اس کے بالکل اُلٹ ہے جو بیان کیا جاتا ہے۔ ہم نے سرہنری کریک کی تائید میں دستخط نہیں کروائے بلکہ اُن دستخطوں کو رُکوایا اور سرہنری کریک تک بات پہنچائی کیونکہ یہ محض بعض لوگوں کی چالبازی تھی جو چاہتے تھے کہ اپنے لئے ترقی کی کوئی راہ نکالیں مگر انہوں نے اپنی ترقی کے شوق میں یہ نہ سوچا کہ وہ انگریزی حکومت کی جڑوں پرتبر رکھ رہے ہیں۔ پس میں آج اِس راز کوکھول دیتا ہوں لیکن ساتھ ہی یہ کہہ دیتا ہوں کہ میں یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ ہزایکسی لینسی کی طبیعت پر اِس واقعہ کا کسی رنگ میں کوئی اثر ہو۔ پھر کیا بات ہے او رکس جگہ سے یہ امر شروع ہؤا ہے اس کا ہمیں آج تک علم نہیں ہوسکا۔ بعض لوگ بتاتے ہیں کہ پنجاب گورنمنٹ سے شروع ہؤا اور نیچے آیا، بعض لوگ کہتے ہیں کہ نیچے سے شروع ہؤا اور اوپر گیا، اوربعض یہ کہتے ہیں کہ گورنمنٹ آف انڈیا سے نیچے آیا مگر بہرحال کہیں سے یہ بات شروع ہوئی نتیجہ یہ ہے کہ متواتر ایسی تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ جماعت کا امن برباد کیاجائے او راس کی طاقت کو توڑا جائے۔
یہ تو میں بارہا بتاچکا ہوں کہ ہماری جماعت کو توڑنے کی کسی میں ہمت نہیں۔ یہ وہ کونے کاپتھر ہے کہ جو اِس پر گِرا وہ بھی ٹوٹا اور جس پر یہ گِرا وہ بھی چِکناچُور ہوا۔ اگر حکومت کے کسی افسر کا یہ خیال ہے کہ وہ احمدیت کومٹاسکتا ہے تو یہ بالکل ناممکن بات ہے۔ وہ افسر مجھ کونقصان پہنچاسکتے ہیں، جماعت کے ہر شخص کو فرداً فرداً نقصان پہنچاسکتے ہیں، حتّٰی کہ وہ ہمیں مار بھی سکتے ہیں۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پرلٹکائے گئے اور حضرت زکریا علیہ السلام قتل کئے گئے تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں حکومت قتل نہیں کرسکتی یا نقصان نہیں پہنچاسکتی۔ خداتعالیٰ نے حکومت کو جو طاقتیں دی ہیں ان کے ماتحت وہ ایسا کام کرسکتی ہے، چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز، مگر جماعت میرا نام نہیں، جماعت زید کانام نہیں،جماعت بکرکا نام نہیں بلکہ جماعت اُس تعلیم کانام ہے جسے زید، بکر، عمر، خالد کسی کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں پھیلانا ہے۔ اِس چیز کو مٹانے کی کسی میں طاقت نہیں اور عقلمندانسان تو اتنی سی بات سے ہی اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ مٹنے والی تحریکیں ہمیشہ ہی ایک جگہ محدود ہوتی ہیں۔ اگر ہم پنجاب میں محدود ہوتے تو صرف پنجاب میں محدود ہونے کی وجہ سے کوئی خیال کرسکتا تھا کہ وہ ہمیں مٹادے گا مگر ہم تو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پھر پنجاب کے حُکّام دُنیوی اصول کے ماتحت بھی کس طرح خیال کرسکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو وہ مٹاسکتے ہیں۔
رسول کریم ﷺ نے صحابہ کوایک دفعہ مردم شُماری کا حکم دیا۔ مردم شُماری کی گئی تو پتہ چلا کہ سات سَو مسلمان ہیں۔ اس پر صحابہؓ نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!آپ نے کیوں مردم شماری کرائی؟ کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ اب ہمیں کوئی مٹاسکتا ہے۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اب تو ہم سات سَو ہوگئے ہیں ؎۲ ۔ پس ہم تو ان لوگوں کے جانشین ہیں جو سات سَو ہوکر سمجھتے تھے کہ دنیا کی کوئی طاقت انہیں مٹا نہیں سکتی۔ گورنمنٹ تسلیم کرتی ہے کہ پچھلی مردم شماری میں جماعت احمدیہ کی تعدد صرف پنجاب میں ۵۶ہزار تھی۔ جب ہماری تعداد اس کی اپنی تسلیم شُدہ تعداد کے مطابق صرف پنجاب میں ۵۶ہزار تھی تو ہم تو ان لوگوں کی اولاد ہیں جو سات سَو ہوکر مٹنے کانام نہیں لیتے تھے پھر ہم ۵۶ ہزار ہوکر کس طرح خوف کھاسکتے ہیں۔
کوفہ کے لوگ ہمیشہ جھگڑتے رہتے تھے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ان کے روز روز کے جھگڑے سن کر کہا اب میں ان پرایک ایسا گورنر مقرر کروں گاجو انہیں سیدھا کردے گا۔ چنانچہ انہوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کو بھیجا جو اُنیس سال کے تھے جب کوفہ والوں کو پتہ لگا کہ ایک اُنیس سالہ نوجوان ان کا گورنر بن کر آیاہے تو انہوں نے تجویز کیا کہ آئو اس سے کوئی تمسخر کریں۔ چنانچہ بڑے بڑے آدمی جبے پہن کر اس سے ملنے کیلئے گئے اور سوال کیا جناب کی عمر؟ جب رسول کریم ﷺ نے اسامہ کوایک بہت بڑا جیش دے کر جس میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی شامل تھے لڑائی کیلئے بھیجا تھا اُس وقت اُن کی عمر اٹھارہ سال کی تھی، جب کوفہ والوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے پوچھا جناب کی عمر ؟ تو انہوں نے جواب دیا۔ میری عمر پوچھتے ہو؟ جس وقت رسول کریم ﷺ نے اُسامہ کو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا افسر بنا کر بھیجا تھا اُس وقت جو عمر اسامہ کی تھی اُس سے ایک سال زیادہ ہے۔
میں بھی ان لوگوں سے یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ صحابہ کرام نے جب سمجھا تھا کہ اب ہم سات سَو ہوگئے ہیں ہمیں اب کون تباہ کرسکتا ہے تو صحابہ کی اُس وقت کی تعداد سے اب ہم کم سے کم دو سَو گُنے زیادہ ہیں اور ہم محدود نہیں قادیان میں، ہم محدود نہیں پنجاب میں، ہم محدود نہیں یو۔پی میں، ہم محدود نہیں ہندوستان میں بلکہ ہم افغانستان میں بھی ہیں، ہم روس میں بھی ہیں، ہم چین میں بھی ہیں، ہم جاپان میں بھی ہیں، ہم سماٹرا میں بھی ہیں، ہم جاوا میں بھی ہیں، ہم سٹریٹ سیٹلمینٹس میں بھی ہیں، ہم امریکہ میں بھی ہیں، ہم افریقہ میں بھی ہیں، ہم یورپ میں بھی ہیں، ہم بِلادِ عربیہ میں بھی ہیں، اِسی طرح ہم مشرق میں بھی ہیں اور مغرب میں بھی اور دنیا میں خدا کے فضل سے ہم روزبروز بڑھ رہے ہیں۔ پس ہمارے بیج کو کوئی ایک حکومت کوئی دو حکومتیں بلکہ کوئی تین حکومتیں مل کر بھی تباہ نہیں کرسکتیں اور نہ ان کا متفقہ عزم دُنیوی طو رپر ہمیں نقصان پہنچاسکتاہے اور الٰہی طو رپر تو ہم یقینا محفوظ ہیں اور اُس خدا کے ہاتھ میں ہیں جس پر کوئی تلوار نہیں چلاسکتا۔
غرض میں سمجھ ہی نہیں سکا کہ ہمارے خلاف یہ کیوں شورش ہے اور اس کی تہہ میں کونسی بات کام کررہی ہے اور چونکہ میں ہز ایکسی لینسی کا ذکر کررہا ہوں اس لئے اِ س دَوران مَیں ایک اور بات بھی بیان کردینی چاہتاہوں۔ پچھلے سال کے آخر میں اتفاقی طور پر ہمارا یک جگہ اجتماع ہوگیا اور ہزایکسی لینسی کی مہربانی سے ان سے مجھے ملاقات کا موقع مل گیا۔ اُن کی گفتگو کا جو اثر اُس وقت میرے دل پر تھا وہ یہ ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں پر کامل اعتماد رکھتے ہیں اور وہ یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ ہمارے ساتھ بددیانتی کا سلوک ہوتا ہے۔ دوسری طرف میری طبیعت پر یہ اثر بھی تھا کہ وہ پوری نیک نیتی کے ساتھ جماعت احمدیہ اور حکومت میں جو اختلاف واقع ہوگیاہے اسے مٹانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ ذاتی رویہ ان کا نہایت ہی شریفانہ اور ان کے عہدہ کے بالکل مناسبِ حال تھا۔ پس گو میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب تک ان کا نقطۂ نگاہ اپنے ماتحتوں کے متعلق نہ بدلے ہم کسی متفقہ اصول پر نہیں پہنچ سکتے لیکن یہ ضرور ہے کہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم موجودہ حالات کی ذمہ داری کی ابتداء ان کی طرف منسوب کریں۔ پس میرا فرض ہے کہ میں اپنے شکوک و شبہات کو اِدھر اُدھر پھیروں اور ان کا کوئی اور سبب معلوم کروں۔ اس ملاقات کے بعد خطبہ میں مَیں نے اعلان کردیا تھا کہ بعض حالات ایسے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت میں ایک تغیر ہے۔ چنانچہ اس کے بعد کچھ افسر بھی تبدیل کئے گئے اور کچھ لوکل افسر جو قادیان میں شورشیں برپا کررہے تھے ان میں بھی کمی واقع ہوگئی اور میرا خیال ہے، میں نہیں جانتا وہ صحیح ہے یا نہیں کہ اس گفتگو کے نتیجہ میں ہزایکسی لینسی نے مناسب سمجھا کہ اپنے افسروں کو یہ ہدایت کردیں کہ یہ اثر نہیں پیداہونا چاہئے کہ حکومتِ پنجاب احمدیوں کو تکلیف دینا چاہتی ہے۔ غرض حکومت میں تبدیلی شروع ہوئی اور میں نے فراخدلی سے اس تبدیلی کا اعلان کردیا۔ اگر یہ حالات قائم رہتے تو ممکن ہے وہ ناخوشگوار باتیں جو حکومت اور ہمارے درمیان تھیں جاتی رہتیں اور ممکن ہے ہم پھر اس مقام پر آجاتے کہ اطمینان اور سکون کے ساتھ ملک کی خدمت میں حصہ لے سکتے اور حکومت کی بھی مدد کرسکتے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ خاموشی اور سکون زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہا او رکئی تبدیلیاں ظہور میں آنے لگیں۔ چنانچہ پہلی تبدیلی جو یکدم نظر آئی وہ یہ تھی کہ ریتی چھلہ کی زمین کے متعلق حکومت کی طرف سے مقدمہ چلادیا گیا حالانکہ عام حالات میں جب ایک شخص کہتا ہے کہ میرا حق ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ میرا حق ہے تو اس کا علاج یہی ہؤا کرتا ہے کہ جس کا قبضہ ہو اُس کے خلاف دوسرا فریق مقدمہ دائر کردیتا ہے یہی طریق یہاں اختیار کیا جانا چاہئے تھا لیکن کیا یہ گیاکہ حکومت نے اپنے خرچ سے ایک غیرمعروف قانون کے ماتحت ہمارے خلاف فوجداری مقدمہ کھڑا کردیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس زمین کوہماری قرار دیاجائے اورنہ یہ کہتا ہوں کہ ہمارے مخالف کی قرار دیا جاتا کیونکہ حق کا فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے اور عدالت میں مقدمہ پیش ہے مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ حکومت کا یہ فعل یقینا انصاف کے خلاف تھا کہ وہ عدالت میں اپنے خرچ سے ہمارے خلاف مقدمہ کھڑا کرتی۔ بے شک خاص حالات میں حکومت خاص طریق عمل کی بھی محتاج ہوتی ہے مگر یہاں وہ حالات پیدا نہ تھے۔ بہرحال یہ مقدمہ عدالت میں ہے اور وہی فیصلہ کرے گی اور چونکہ قانون ہمیں اس کے متعلق کچھ کہنے سے روکتا ہے اس لئے ہم اس کے متعلق کچھ بیان نہیں کرسکتے۔ ہاں مقدمہ کا چلانا ایک ایگزیکٹو عمل ہے۔ ایک مجسٹریٹ بھی جب مقدمہ چلائے تو ایگزیکٹو حیثیت میں ہی چلائے گا۔ جیسے ڈپٹی کمشنر جب کوئی مقدمہ پیش کرے گا تو بحیثیت ڈپٹی کمشنر پیش کرے گا لیکن جب مقدمہ سنے گا تو بحیثیت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سنے گا۔ پس میرے نزدیک اس مقدمہ کے چلانے کی ذمہ داری حکومت پر ہے نہ کہ عدالت پر۔ اورمیرے نزدیک احسن طریق یہ تھاکہ دونوں فریق کو چھوڑ دیا جاتا کہ ان میں سے جو چاہے عدالت میں چلا جائے مگر حکومت یکدم سرکاری خرچ پر مقدمہ چلوادیتی ہے اور اس زمین کے متعلق مقدمہ چلادیتی ہے جس کے متعلق پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر نے جس کانام میں نہیں لیتا چوہدری ظفراللہ خانصاحب سے ایک ملاقات کے موقع پر کہا کہ میں نے اس زمین کے کاغذات منگوا کر دیکھے ہیں اور ایک لمبے عرصہ تک ان کا مطالعہ کیا ہے اگر مجھ پر ثابت ہوجاتا کہ یہ زمین احمدیوں کی نہیں تو میں ضرور دیواریں گروادیتا۔ اسی طرح ایک افسر نے مجھ سے کہا کہ پہلے ہمیں غلط رپورٹ پہنچی تھی بعد میں ہمیں معلوم ہؤا کہ وہ دو زمینیں جن کے متعلق جھگڑا ہے وہ آپ کی ہیں۔ ان دوباتوں کے بعد جب یکدم سرکاری طور پر مقدمہ چلایا جائے تو ہمیں حیرت و استعجاب کا لاحق ہونا ایک لازمی امر ہے اور ہمیں تعجب ہے کہ اس قدر علم حاصل کرلینے کے بعد کون سی ایسی نئی بات پیدا ہوئی کہ یہ کارروائیاں ہونے لگیں۔ مجھے نہیں معلوم یہ مقدمہ چلانے کا حکم پنجاب کے کسی افسر نے دیا یا ضلع کے کسی افسر نے کہا۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ ظاہر کرے ۔ اگر وہ ظاہر کرے تو پتہ لگ سکتا ہے نہیں تو ہمیں کیا معلوم ہوسکتا ہے کہ کس کے کہنے پر یہ مقدمہ چلایا گیا۔ ہم تو یہی سمجھ سکتے ہیں کہ ایک غیرمعمولی تغیر حکومت میں پیدا ہؤا اور جب ہم اس کے ساتھ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ چارپانچ مہینہ خاموش رہنے کے بعد اِدھر مقدمہ شروع ہؤا اُدھر اِس نیت سے دو احراری آگئے کہ وہ ریتی چھلہ کے احاطہ کے دروازوں میں سے گزریں گے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دیواریں تو چار پانچ ماہ سے بنی ہوئی تھیںان چار پانچ مہینوں میں قادیان والوں کو تو وہاں سے گزرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی لیکن پانچ مہینہ کے بعد جب حکومت نے مقدمہ چلادیا تو یکدم دو احراریوں کو وہاں سے خاص طور پر گزرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ کیا اس کا صاف طور پر یہ مطلب نہیں کہ بعض افسروں نے مقدمہ میں اپنے ہاتھ مضبوط کرنے کیلئے اشارہ کرکے ان دو آدمیوں کو بھجوایا تھا کیونکہ اس دفعہ کے ماتحت جس کے ماتحت مقدمہ چلایا گیا ہے فساد کا خطرہ بھی ضروری ہے۔ پس پانچ مہینے پہلے تو کسی قسم کا جھگڑا پیدا نہ ہؤا لیکن جب گورنمنٹ نے مقدمہ کھڑا کردیا تو کسی ایسے افسر نے جسے اس بات سے دلچسپی تھی کہ مقدمہ ضرور جیتا جائے اشارہ کردیا کہ دو احراری چلے جائیں اور زبردستی دروازوں میں داخل ہوں اس کے بعد جب احراری یہاں پہنچتے ہیں تو ہماری حیرت کی کوئی حد نہیں رہتی جب ہم دیکھتے ہیں کہ پولیس جب گرفتار کرتی ہے تو احرار کے ساتھ ان لوگوں کو بھی گرفتار کرلیتی ہے جو مالکِ زمین کی طرف سے حفاظت پر کھڑے ہوئے تھے حالانکہ ہائی کورٹ کے قریب کے فیصلے موجود ہیں بلکہ موجودہ چیف جسٹس جو نہایت ہی سمجھدار انسان ہیں جنہوں نے برطانوی انصاف کی دھاک بٹھادی ہے او رجن کے مخالف بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایک دیانتدار انسان ہیں اور انصاف کی خواہش رکھتے ہیں انہوں نے کئی فیصلوں میں لکھا ہے کہ جب کوئی شخص اپنی مقبوضہ یا مملوکہ چیز کی حفاظت کررہا ہو تو اس حفاظت میںاگر وہ حملہ آور کا شدید مقابلہ بھی کرے تو وہ مجرم نہیں۔ ایک اور جج نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ اگر ایک شخص کسی دوسرے کا حق چھیننے کیلئے ا س سے لڑے اور دوسرامار ہی کھاتا رہے اس کا سختی سے مقابلہ نہ کرے تو خودحفاظتی کا قانون گورنمنٹ نے کیوں بنایا ہے؟ پس ہمارے آدمی اپنے ایک حق کی حفاظت کررہے تھے اور احراری بے جا طور پر اس حق کو چھیننا چاہتے تھے مگر پولیس نے نہ صرف احراریوں کو گرفتار کیا بلکہ حفاظت کرنے اور پہرہ دینے والوں کو بھی گرفتار کرلیا۔
کوئی شخص سوال کرسکتا ہے کہ آپ بے شک اس زمین پر اپنا حق جتاتے ہیں لیکن گورنمنٹ تو اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ وہ آپ کا حق ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ہمارا اعتراض حق کی بناء پر نہیں اس کا فیصلہ تو عدالت میں ہوگا۔ ہمارا اعتراض تو یہ ہے کہ جب ہمارے خلاف مقدمہ کھڑا کیا گیا ہے تو اس امر کو تسلیم کرلیا گیا ہے کہ اس زمین پر اس وقت ہمارا قبضہ ہے ورنہ اگر ہمارا قبضہ تسلیم نہیں تو ہمارے خلاف مقدمہ کرنے کی وجہ کیا ہے۔ پس جب ہمارا قبضہ تسلیم کرلیا گیا ہے تو جب تک عدالت ہمارے قبضہ کونہ تڑوائے سرکاری محکموں کو ہمارے ساتھ وہی سلوک کرنا ہوگا جو ایک جائز قابض کے ساتھ کیا جاتا ہے او رعدالت کے فیصلہ تک پولیس اور حکومت کا فرض تھا کہ اس احاطہ میں داخل ہونے والوں کے خلاف کارروائی کرتی اور ہمارے آدمیوں کی مدد کرتی۔ ہاں اگر عدالت فیصلہ کردیتی کہ یہ احمدیوں کا حق نہیں تو اس کے بعد اس کا فرض تھا کہ ہمارے مخالفوں کی حفاظت کرتی۔ مگرجب تک عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا اور معاملہ عدالت میں زیرغور تھا اُس وقت تک حکومت خود مقدمہ چلا کر یہ تسلیم کرچکی تھی کہ اس زمین پر احمدیوں کا قبضہ ہے او رجس قبضہ کو حکومت تسلیم کرچکی تھی اس قبضہ کی حفاظت کرنے والوں کو پکڑنا ایک ایسی بات ہے جس کے سمجھنے سے ہم قاصر ہیں اور نہ کوئی اور اسے سمجھ سکتا ہے۔
یہ تبدیلی حکومت کے رویہ میں کیوں ہوئی؟ چاہے لوکل حُکّام کی وجہ سے ہوئی یا اوپر کے حُکّام میں سے کسی نے یہ خیال کیا کہ لوکل حُکّام تو ڈھیلے ہوگئے ہیں میں ہی کوئی تماشہ کروں۔ بہرحال اس میں کوئی راز ہے جو ہماری سخت دل شکنی کاباعث ہے اور یہ بات ہمیں بتاتی ہے کہ حکومت سے قریب کے زمانہ میں ہمیں کسی اچھی تبدیلی کی امیدنہیں ہوسکتی۔
مجھے یہ شبہ کہ اس معاملہ میں حکومت کے بعض افسروں کا دخل ہے اس لئے بھی ہے کہ ان دو احراریوں کے یہاں آنے سے تین دن پہلے احرار کے دفتر سے مجھے رپورٹ ملی کہ ایک شخص جس کا نام زید رکھ لو دوسرے شخص کے پاس جس کا نام بکر رکھ لو گیا اور اسے کہا کہ آپ فلاں شخص کو خط لکھ دیجئے کہ فلاں دن دو آدمی یہاں ضرور بھیج دے اور فلاں شخص سے بھی مَیں مل چکا ہوںاور وہ فلاں شخص حکومت کا ایک افسر تھا۔ اس کے تیسرے دن دو احراری آجاتے ہیں اور ریتی چھلہ کے دروازوں میں سے گزرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو اشاروں میں بات ہوئی تھی وہ اسی واقعہ کے متعلق تھی اورچونکہ اس رپورٹ میں ایک افسر کا نام بھی آتا تھا اس لئے ہمیں تسلیم کرناپڑتا ہے کہ کسی افسر کی اس میں انگیخت ہے۔ ہم یہ بات بالاافسروں کے پاس ثابت نہیں کرسکتے کیونکہ یہ بات اشاروں میں ہوئی تھی، نہ ہم اپنے انفارمر کا پتہ دے سکتے ہیں، نہ خبررسانی کے طریق کی اسے اطلاع دے سکتے ہیں کیونکہ ممکن ہے وہ اسے جھوٹ کہہ دیں گو وقوعہ کی پہلے سے خبر دے دینا جھوٹ نہیں بلکہ علم غیب ثابت کرتا ہے۔
اس سے کچھ عرصہ پہلے ایک اور واقعہ ہوا جو ہمارے لئے حیرت کا موجب ہؤا اور وہ یہ کہ ولایت سے ایک سیاح ہندوستان میں آیا۔ اس کے بعض احمدیوں سے گہرے تعلقات تھے چنانچہ اِسی بناء پر لاہور سے روانگی کے بعد وہ بعض احمدیوں کے ہاں بطور مہمان ٹھہرا مگر ہمیں معلوم ہؤا ہے کہ لاہورمیں حکومتِ پنجاب کے بعض افسروں نے ہماری جماعت کے خلاف اس کے کان بھرے اور اِسی وجہ سے اگرچہ وہ قادیان آنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر بغیر قادیان آئے واپس چلا گیا۔ لاہور سے روانگی کے بعد اور بعض احمدیوں کا مہمان ٹھہرنے کے بعد وہ اپنے فعل پر پچھتایا اور اُس نے ایک خط میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا اور لکھا کہ روزبروز میرا افسوس بڑھ رہا ہے کہ میں نے اس بارہ میں غلطی کی ہے۔ اِس واقعہ سے پتہ لگتاہے کہ حکومت پنجاب کے افسروں کے کم سے کم ایک حصہ کے قلوب میں احمدیوں کے متعلق جو منافرت تھی وہ ابھی دُور نہیں ہوئی۔
تیسری مثال یہ ہے کہ پرسوں اترسوں مجھے ایک ایسے دوست کی روایت پہنچی ہے جو ہماری جماعت میں شامل نہیں مگر چونکہ وہ لاہور میں ایک اعلیٰ عہدہ پر رہے ہیں اس لئے گورنمنٹ کے بعض افسروں سے ان کے اچھے تعلقات ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک احمدی دوست کو بتایا ہے کہ ایک ذمہ دار افسر نے اپنے دفتر میں یہ نوٹ کروایا ہے کہ مرزا صاحب کے دو بیٹے آئی۔ سی ۔ایس کے امتحان کیلئے ولایت گئے ہوئے ہیں اگر وہ پاس ہوکر آجائیں تو انہیں پنجاب میں نہ لگایا جائے۔ یہ خبر اگر صحیح ہے تو بتاتی ہے کہ حکومت کے افسروں کے دلوں میں ابھی تک تبدیلی پیدا نہیں ہوئی اور نچلے افسروں کے جھوٹوں کوسچ تسلیم کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اِس میں میرے نزدیک کئی باتیں قابلِ اعتراض ہیں۔
الف: وہ لڑکے ابھی تعلیم حاصل کررہے ہیں او رامتحان میں پاس ہی نہیں ہوئے۔ پس ابھی سے یہ نوٹ کرنا کہ جب وہ پاس ہوکر آئیں تو انہیں پنجاب میں نہ رکھا جائے اور اس طرح اپنے بُغض کا اظہار کرنا نہایت ہی گِری ہوئی بات ہے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان سے نوکری کرانا ہی نہ چاہے اور ممکن ہے وہ پاس ہی نہ ہوں ہمیں اللہ تعالیٰ کی مشیت کا کیا علم ہے۔ پس انہیں اُس وقت تک انتظار کرنا چاہئے تھا جب تک وہ پاس ہوکر یہاں نہ پہنچ جاتے مگر پہلے سے ہی پیش بندی کے لئے تیار ہوجانا ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کسی نے اپنے دوست سے کہا تھا میاں! تمہاری کُتیا نے سنا ہے بچے دیئے ہیں اور وہ بہت اچھے ہیں ایک بچہ ہمیں بھی دو۔ وہ کہنے لگا بچے تو دیئے تھے مگر وہ مرگئے لیکن اگر وہ زندہ رہتے تب بھی میں تمہیں نہ دیتا۔ وہ کہنے لگا اب تو مرچکے تھے تمہیں یہ کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ اگر زندہ ہوتے تب بھی نہ دیتا۔ اسی طرح ابھی تو وہ موقع آیاہی نہیں اور یہ
ع آب نہ دیدہ موزہ کشیدہ
کے مطابق پہلے ہی اس کیلئے تیاریاں کررہے ہیں۔ پس اگر یہ بات صحیح ہے تو اس افسر نے سیاستاً بھی ایک بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور خوامخواہ دلوں کو حکومت سے پھیرنے کی کوشش کی ہے۔
دوسرے یہ صحیح نہیں کہ میرے دو بیٹے ولایت آئی۔سی۔ایس کی تعلیم کیلئے گئے ہوئے ہیں۔ جو اِس غرض سے گئے ہیں وہ میرے بھتیجے ہیں۔ میرا صرف ایک بیٹا انگلستان میں تعلیم پارہا ہے مگر وہ اس نوکری کیلئے نہیں گیا بلکہ اس کی عمر بھی اسے اس عُہدے کے قابل نہیں رکھتی۔ پہلے میں نے اُسے قرآن مجید حفظ کرایا، پھر مولوی فاضل تک تعلیم دلائی، پھر انگریزی علوم پڑھائے۔ ایسا طالب علم کہاں اس عمر کے اندر تعلیم ختم کرسکتا ہے جونوکری کیلئے ضروری ہے۔ پس وہ ولایت کسی نوکری کیلئے نہیں گیا بلکہ علم کی زیادتی کیلئے گیاہے۔ باقی رہے میرے بھتیجے سو میرے تعلق کااگر میرے بھتیجوں پر یہ اثر پڑے کہ انہیں سرکاری ملازمت میں نہ لیاجائے تویہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ گورنمنٹ یہ نوٹس شائع کردے کہ آئندہ جماعت احمدیہ کے افراد کو سرکاری ملازمتوں میں نہ لیا جائے۔ مگر حکومت کا یہ اعلان نہ کرنا اور اس وجہ سے کہ اسے مجھ سے کسی قسم کی شکایت ہے میرے بھتیجوں کے مستقبل پر اثر ڈالنا یہ امران افسران کے کسی زیادہ اچھے اخلاق پر دلالت نہیں کرتا۔ حالانکہ حکومتیں بھی اخلاق کی ویسی ہی پابند ہوتی ہیں جیسی رعایا۔ اگر خداتعالیٰ نے انہیں کامیاب کردیا تو پھر پنجاب کیا او ریو۔پی کیا او ربنگال کیا او ربمبئی کیا جو تعلیم کیلئے انگلستان جاسکتے ہیں وہ ملازمت کیلئے پنجاب سے باہر بھی رہ سکتے ہیں لیکن اگر وہ پنجاب میں لگ جائیں تو حکومت کو مطمئن رہنا چاہئے کہ ان کی وجہ سے برٹش امپائر کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ آخر آئی۔سی۔ ایس حکومتِ ہند کے کامرس ممبر سے زیادہ باحیثیت نہیں ہوتے۔ پھر جب ظفراللہ خان کی موجودگی میں برطانوی حکومت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تو ان دو لڑکوں کی موجودگی میں اسے کیا نقصان پہنچ جائے گا۔ دراصل اِس قسم کی باتیں صرف دلوں میں میل پیدا کردیتی ہیں اس کے علاوہ اور کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتیں۔ پھر اس قسم کی باتوں کایہ واضح مطلب ہے کہ گورنمنٹ کہتی ہے کہ غیراحمدیوں کو لے لو، سکھوں کو لے لو، عیسائیوں کو لے لو، کانگرسی خاندانوں کے بچوں کو لے لو، انتہاء پسند خاندانوں کے لڑکوں کو لے لو مگر احمدیوں کو نہ لو۔ گویا وہ احمدیوں کو حکومت کے مخالف گروہوں سے بھی بدتر سمجھتی ہے لیکن حکومت تسلی رکھے میرے بیٹے اگر میرے نقشِ قدم پر چلنے والے ہوئے تو ان کا فرض ہوگاکہ وہ کبھی انگریزوں کی نوکری نہ کریں۔
میں نے اپنے جتنے لڑکوں کوتعلیم دلائی ہے اُن میں سے کسی کے متعلق یہ مدّنظر نہیں رکھا کہ اسے نوکری کرائی جائے۔ صرف ایک لڑکا ایسا ہے جسے میں نے ڈاکٹری پڑھوائی ہے اور ممکن ہے ایک دو اور کو بھی کوئی ایسا ہی علم پڑھائوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ علوم بھی سلسلہ کی خدمات کیلئے ضروری ہیں۔ ایسے بچوں کو اگر تجربہ وسیع کرنے کیلئے تھوڑی مدت کیلئے نوکری کرنی پڑی تو وہ بھی جائز ہوسکتی ہے کیونکہ ڈاکٹری کیلئے ضروری ہے کہ مریض ہوں اور ان کا علا ج کرکے تجربہ کو وسیع کیا جائے او رپرائیویٹ پریکٹس میں ابتدا میں کافی مریض مہیا نہیں ہوسکتے اس لئے اگر اس مقصد کیلئے ایک دو سال انگریزوں کی ملازمت کرلی جائے تا تجربہ ہوجائے تو یہ ملازمت نہیں بلکہ تعلیم کا زمانہ ہی کہلائے گا۔ ورنہ نوکری تو ایسی چیز ہے کہ میں اس کا نام سُن کر بھی گھبراتا ہوں اور میرے خداتعالیٰ سے جو تعلقات ہیں اور جس نگاہ سے میںنے اپنے تعلقات کو ہمیشہ دیکھا ہے اس کی رو سے تو میری حیثیت ایک غلام کی ہے اور اسلام کا یہ مسئلہ ہے کہ غلام کے بچے بھی غلام ہی ہوتے ہیں۔ پس جس نقطۂ نگاہ سے میں نے اپنے ربّ کو دیکھا ہے اگر اسی نقطۂ نگاہ سے میرے بچے بھی اپنے ربّ کو دیکھیں گے تو وہ اور جا کہاں سکتے ہیں۔ غلام تو اُسی دروازہ پر رہتا ہے جہاں اس کا آقاہو۔
یہ خبر تو مجھے پرسوں ملی ہے مگر سات آٹھ دن ہوئے میرے بعض بچوں نے جب پرائمری پاس کی تو وہ آپس میں آئندہ پڑھائی کے متعلق باتیں کررہے تھے۔ میں نے اِس خیال سے کہ ان کے دل کے ارادوں کا جائزہ لوں ایک چھوٹے بچے کو بلایا اور اس سے پوچھا بولو انگریز کی نوکری اچھی ہے یا اللہ تعالیٰ کی؟ وہ کہنے لگا خدا کی۔ میں نے کہا اگر خداتعالیٰ کی نوکری اچھی ہے تو وہ پھر مدرسہ احمدیہ میں داخل ہونے سے مل سکتی ہے۔ تو باوجود انگریزی حکومت کاادب و احترام دل میں رکھنے کے ، باوجود اس سے تعاون کرنے کے اور باوجود اس عقیدہ میں دشمنوں کی طرف سے شدید مخالفتیں برداشت کرنے کے انگریزوں کی ملازمت اپنی اولاد کیلئے مَیں پسند نہیں کرتا بلکہ میں یہی پسند کرتا ہوں کہ جس دروازہ کی غلامی مجھے نصیب ہوئی ہے خداتعالیٰ اسی دروازہ کی غلامی میری اولاد کو نصیب کرے کیونکہ دوسرا آقا تبدیل کرنا ہماری غیرتیں برداشت نہیں کرسکتیں۔ ممکن ہے میرے بچوں میں سے سب ایک رنگ میں سلسلہ کی خدمات نہ کرسکیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری اولاد زیادہ ہے۔ اس صورت میں انگریز کی نوکری سے میں یہ زیادہ پسند کروں گا کہ وہ تجارت کرلیں، یا زراعت کرلیں، یا کوئی اور پیشہ اختیار کرلیں ان کاموں میں انسان کوبہت حد تک آزادی رہتی ہے اور وہ خدمتِ سلسلہ کیلئے کافی وقت نکال سکتا ہے۔ نوکریوں میں لوگ آزاد نہیں ہوتے۔ ان پر سَو پابندیاں عائد ہوتی ہیں پھر اقلیتوں کیلئے تو اور زیادہ مشکلات ہوتی ہیں۔ زبردست قومیں تبلیغ بھی کرلیں تو انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔
میں شملہ میں ایک دفعہ گیا وہاں گورنمنٹ کے ایک ممبرنے جلسہ کیا، راجہ رام موہن رائے صاحب کی برسی تھی، اس جلسہ میں انہوں نے برہموسماج کی خوبیاں بڑے زور سے بیان کیں، گورنمنٹ کے کئی وزراء اس میں شامل ہوئے مگر ان سے کسی نے نہ پوچھا کہ وہ اس جلسہ میں کیوں شامل ہوئے ۔ اس کے مقابلہ میں رسول کریم ﷺ کی مدح و تعریف میں جب جلسے ہوتے ہیں تو جو احمدی ملازم ان میں شامل ہوتے ہیں ہیں ان میں سے بعض سے چھ چھ مہینے جواب طلبیاں ہوتی رہتی ہیں کہ تم کیوں جلسہ میں شامل ہوئے؟تو طاقتور اور کمزور میں بہت بڑا فرق ہوتاہے اور جو عمل طاقتور اپنی طاقت کے گھمنڈ میں کرجاتا ہے وہی عمل غریب اور کمزور کیلئے کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
مثل مشہور ہے کہتے ہیں ایک بھیڑیا اور بکری کا بچہ کسی نالے میں سے پانی پی رہے تھے، بھیڑیا اوپر کی طرف تھا اوربکری کا بچہ پانی کے بہائو کی طرف۔ بھیڑیئے نے جب بکری کے بچے کا نرم نرم گوشت دیکھا تو چاہا کہ اُس کا گوشت کھائے اور اُس کی نرم نرم ہڈیاں چبائے۔ یہ سوچ کر اُس نے بکری کے بچے سے کہا نالائق! تجھے شرم نہیں آتی میںپانی پی رہا ہوں اور تو پانی کو گدلا کررہا ہے۔ وہ کہنے لگا آپ اوپر کی طرف ہیں اور میں نیچے کی طرف، بھلا آپ کا پانی میرے پینے کی وجہ سے گدلا کیونکر ہوسکتا ہے۔ بھیڑیئے نے جونہی یہ جواب سنا جھٹ کُود کر اُس کا گوشت نوچ لیا اور کہنے لگا گستاخ! آگے سے جواب دیتا ہے۔ یہ تو تمثیلی زبان میں ایک بات کہی گئی ہے۔انگریزی قوم میں بھی اسی قسم کا ایک لطیفہ مشہور ہے۔ کہتے ہیں ایک افسر سپاہیوں کو پریڈ کرارہا تھا کسی سپاہی پر وہ ناراض تھا مگر اس پر گرفت کا اسے کوئی موقع نہیں ملتا تھا۔ پریڈ کراتے کراتے کہنے لگا سپاہی نمبر۱۳ تمہارا قدم ٹھیک نہیں۔ وہ کہنے لگا حضور! میرا قدم ٹھیک ہے افسر نے یہ جواب سن کر کہا سارجنٹ نمبر۱۳ کو گرفتار کرلو یہ آگے سے جواب دیتاہے۔
تو اقلیتوں کیلئے یہ بات ہؤا ہی کرتی ہے کہ ان کے حقوق کو آسانی سے دبالیا جاتا ہے اور ان پر سختی اور تشدّد کیا جاتا ہے۔ پس اقلیتوں کیلئے سرکاری ملازمتوں میں تبلیغ کرنے میں بہت سی مشکلات ہوتی ہیں۔ انہیں ہروقت خوف رہتا ہے کہ کہیں افسر جواب طلبی نہ کریں اس لئے کیوں ہم وہ کام نہ کریںجن میں انسان اپنی روزی بھی کماسکتا ہے اور خداتعالیٰ کے دین کی خدمت بھی کرسکتا ہے۔ ایک دُکاندار اپنی دُکانداری کے کام سے جب فارغ ہوجاتا ہے تو باقی وقت اُسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، اسی طرح تاجر یا صناع اپنی تجارت اور صنعت و حرفت کا کام آزادی سے کرتے ہوئے دین کی خدمت بھی کرسکتا ہے۔ پس میرے بچوں کے متعلق جن افسروں کو ابھی سے مشکلات نظر آرہی ہیں انہیں بے چینی کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے میری امیدوں اور خواہشوں کو پورا کیا تو وہ ان کے دروازوں پر کبھی نوکری مانگنے نہیں آئیں گے ۔
چوتھا امر ڈاک خانہ کا رویہ ہے یہ بھی قریب کے عرصہ سے جاری ہے۔ ڈاک خانہ میں پہلے ایک احمدی افسر ہؤا کرتا تھا پھر حکومت نے اُسے بدل دیا او رچونکہ تبدیلیوں کے متعلق گورنمنٹ کاقانون ہے اس لئے ہم نے کوئی بُرا نہ مانا اور اُس احمدی سے دریافت کیا کہ جو شخص آپ کی جگہ آرہا ہے وہ کیسا ہے؟ انہوں نے کہا میں اِسے جانتا ہوں وہ ایک شریف آدمی ہے اور اس سے کسی قسم کا خطرہ کا خیال نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ خود مَیں نے جماعت کے کارکنوں کو ہدایات دیںکہ تم لوگ اس سے پورا پورا تعاون کرنے کی کوشش کرو۔ اس سے پہلے ایک اور احمدی کلرک ڈاک خانہ سے بدلا جاچکا تھا اور اس طرح سب ایک ڈھب کے آدمی ڈاک خانہ میں مقرر کردیئے گئے اس تبدیلی کو ہم نے خوشی سے قبول کیا اور میں نے سلسلہ کے افسروں کو تعاون کی ہدایت کی اور کہا مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ شخص شریف ہے مگر اس عملہ کی تبدیلی کانتیجہ کیا ہوتا ہے۔
اوّل تو وہی شخص جس نے تعریف کی تھی اسی کے خلاف آرٹیکل لکھے جانے لگے اور اخبارات میں شائع کرائے جاتے گویا انہوں نے تو یہ سلوک کیا کہ آنے والے کی تعریف کی اور کہا کہ اس سے اچھا سلوک رکھا جائے وہ شریف آدمی ہے لیکن انہوں نے اس سے یہ سلوک کیا کہ اس کے خلاف اخباروں میں مضامین لکھے۔ پھر میرے ساتھ جس نے یہ تاکید کی تھی کہ اچھا سلوک کیا جائے یہ معاملہ کیا گیا کہ میں نے ایک دوائی منگوائی وہ دوائی ابھی مجھے نہیں پہنچی تھی اور نہ اس کے متعلق خط ملا تھاکہ ایک رپورٹر نے احرار کے دفتر سے مجھے اطلاع دی کہ آج فلاں شخص یہ بیان کر رہا تھا کہ میں نے احرار کے اخبار میں یہ مضمون بھیجا ہے کہ یہاں ایسی ایسی دوائیوں کا پارسل آیا ہے۔ میں حیران ہؤا کہ یہ اطلاع انہیں کیونکر مل گئی کیونکہ ابھی تک پارسل کی اطلاع مجھے بھی نہ ملی تھی۔ زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ اس میں قیمتوں کا بھی ذکر تھا اور ایک دوا کا نام بھی صحیح تھا۔ یہ رپورٹ میرے پاس صبح ۹ بجے قریب پہنچی اور بارہ بجے کے قریب ڈاک والا وہ پارسل میرے نام لایا ۔ میں نے اُسی وقت پارسل لے کر دفتر کے ایک آدمی کو اس رپورٹ پرنشان لگا کر جو مجھے صبح پہنچی تھی ڈاک خانہ میں بھیجا کہ انہیں رپورٹ کا اتنا حصہ پڑھا آئو او رکہہ آئو کہ پارسل ہمیں بعد میں پہنچا ہے لیکن یہ اطلاع پہلے پہنچی تھی جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تم لوگوں میں سے کوئی احرار کے دفتر میں اطلاعات دیتا رہتا ہے۔ اس پر پوسٹ ماسٹر صاحب نے کہلا بھیجا کہ مَیں اس واقعہ کی تحقیق کروںگا۔ وہ آدمی واپس آیا تو اُسی وقت دفتر سے ایک اخبار مجھے بھیجا گیا ’’احسان‘‘ تھا یا ’’مجاہد‘‘ مجھے صحیح یاد نہیں میں نے جب اُسے کھولا تو اُس میں پارسل کا ذکر بھی چھپا ہوا دیکھا چنانچہ وہ پرچہ بھی میں نے انہیں بھجوادیا۔ اب اِس کے صاف طور پر یہ معنی ہیں کہ ڈاک خانہ کا عملہ پارسلوں اور خطوط کی اطلاعات احرار تک پہنچاتا ہے اور انہیں خبریں بہم پہنچاتا رہتا ہے۔ ہم نے اس بارہ میں شکایت کی لیکن اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہؤابلکہ جو افسر تحقیق پر مقرر ہؤااُس کا رویہ نہایت افسوسناک رہا ہے اور وہ مجرموں سے بھی زیادہ جُرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ ہمیں صرف یہ جواب ملا ہے کہ یہ جو خبر نکلی ہے لاہور سے نکلی ہے قادیان کے ڈاکخانے سے نہیں نکلی اور دلیل یہ دی گئی ہے کہ یہ اخبار سولہ تاریخ کا ہے اور جو پارسل قادیان میں سولہ کو پہنچا ہے اس میں سولہ کی خبر نہیں چھپ سکتی ۔ بظاہر یہ ایک معقول بات معلوم ہوتی ہے لیکن ہے جھوٹ۔ اس لئے کہ خبر سترہ کے اخبار میں چھپی تھی اور سترہ کی مُہر لگی ہوئی ہمارے پاس موجود ہے سولہ کو پارسل قادیان پہنچا سترہ کو دوپہر کے وقت تقسیم ہوا ۔ سولہ کو بٹالہ سے فون کے ذریعہ سے خبر بھجوائی جاسکتی تھی جیسا کہ احرار ان دنوں میں کرتے رہے ہیں اور شام کو چھپ کر سترہ کو اخبار قادیان پہنچ سکتا تھا۔ ۱۷کی مُہر اس خبار پر خود ڈاکخانہ کی لگی ہوئی موجود ہے مگر افسروں کو دھوکا دینے کیلئے ماتحت عملہ اسے سولہ قرار دے دیتا ہے مگر اس کے علاوہ ایک قطعی ثبوت ہمارے پاس ایسا موجود ہے جس سے یہ بالکل واضح ہوجاتاہے کہ یہ بات لاہور سے نہیں نکلی۔ اگر گورنمنٹ نے اس معاملہ میں تحقیق کی تو اس کے سامنے وہ یقینی اور قطعی ثبوت پیش کردیا جائے گا۔ اب تک میں نے اس کو ظاہر نہیں کیا لیکن اگر گورنمنٹ تحقیق کرے گی تو وہ یقینی اور قطعی ثبوت میں اس کے سامنے پیش کردوں گا ۔ اِس موقع پر میں اس کی تفصیل بتائے بغیر صرف اِس قدر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس رپورٹ کاایک حصہ غلط ہے اگر وہ لاہور سے کسی کی رپورٹ ہوتی اور دُکان سے بات نکلتی تو وہ غلطی نہ ہوتی جو اس رپورٹ میں موجود ہے۔ آخر مجھ سے تو کوئی شخص یہ امید نہیں کرسکتا کہ میں بخاری کو مُسلم یا مُسلم کوبخاری کہہ دوں۔ یہ تو وہی کہہ سکتا ہے جس کو حدیث کا علم نہ ہو۔ پس رپورٹ کے ایک حصہ میں ایسی خطرناک غلطی ہے جو یقینی طور پر اِس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا منبع دُکان والے نہیں جو اپنی دوائوں سے خود ہی ناواقف نہیں ہوسکتے پھر ہمارے پاس اس بات کا قطعی ثبوت موجود ہے کہ ڈاک خانہ کے آدمی احراری ایجنٹوں کے پاس بیٹھتے ہیں۔ ہمارے پاس اس بات کے بھی گواہ موجود ہیں کہ ڈاکخانہ کے آدمیوں نے کہا کہ انہیں ڈاکخانہ کے افسروں نے یقین دلایا ہے کہ احمدیوں کی شکایتوں پر انہیں کوئی تبدیل نہیں کرسکتا اور یہ کہ گورنمنٹ کا منشاء ہے کہ احمدی یہاںنہ رکھے جائیں۔
پھر ایک قطعی ثبوت اس بات کا کہ اِس تمام رویہ میں گورنمنٹ کے بعض افسروں کا ہاتھ کام کررہا ہے یہ ہے کہ خانصاحب فرزند علی صاحب جب ایک افسر سے ملے تو اُس نے کہا کیا آپ سمجھتے ہیں ہم آزاد ہیں ہم بھی بعض باتوں کی وجہ سے مجبور ہیں۔ جس کا صاف یہ مطلب تھا کہ گویا اس کو اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ تبدیلیاں نہ کی جائیں۔ حکومتِ پنجاب ایسی کسی ہدایت کے دینے سے انکار کرتی ہے لیکن اوپر کے واقعہ کی موجودگی میں ہم مجبور ہیں کہ تسلیم کریں کہ کسی لوکل افسر نے جھوٹ بولتے ہوئے ڈاک خانہ کے بعض افسروں کو دھوکا دیا ہے۔
میں گزشتہ ماہ میں سندھ گیا تھا اس سفرمیں میری ڈاک کاجو حال ہؤا وہ یہ ہے کہ جن خطوط پر ۳،۴ اور ۵ تاریخ کی قادیا ن کی مہریں لگی ہوئی تھیں وہ مجھے ۱۱ تاریخ کو ملے حالانکہ ۹ تاریخ کے خطوط بھی مجھے ۱۱ کو ملے۔ ان ۳،۴ اور پانچ تاریخ والے خطوط پر کسی اور جگہ کی مُہر نہیں۔ بعض خطوط ایسے بھی تھے جو غلطی سے کسی اور جگہ چلے گئے لیکن اُن پران دوسرے ڈاک خانوں کی مہُریں تھیں جہاں وہ گئے لیکن اِن خطوط پر کسی اور جگہ کی مُہر نہ تھی جو صاف طور پر اس با ت کا ثبوت ہے کہ ان خطوط کو روکا گیا تھا اور پھر کئی دن کے بعد انہیں روانہ کیا گیا۔ اسی طرح الفضل کو دِق کیا جار ہاہے اور متواتر اس کے پرچے لیٹ کئے جاتے ہیں یا بعض دفعہ پرچے خریداروں کو پہنچتے ہی نہیں۔ اسی طرح جوابی کارڈ غلط مُہر یںلگا کر بعض دفعہ خط لکھنے والوں کو واپس کردیئے جاتے ہیں۔
یہ کارروائیاں ہورہی ہیں اور ان کی طرف متواتر افسروں کومتوجہ کیا جاتا ہے مگر اب تک کوئی توجہ نہیں کی گئی اور جب بار بار توجہ دلانے کے باوجود ایک افسر نے کچھ کہا تو یہ کہا کہ میں آزاد تھوڑا ہوں۔جس کے معنے یہ تھے کہ اگر قادیان میں ایک بکری کی پیٹ میں بھی دردہوتا ہے تو اس کی اطلاع اوپر جاتی ہے اور وہاں کے اشارہ سے اس بارہ میں کوئی کارروائی کی جاتی ہے۔ اب حال میں خان صاحب فرزند علی صاحب، چوہدری اسداللہ خان صاحب اور پیر اکبر علی صاحب پوسٹ ماسٹر جنرل سے ملے ہیں اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ میں اس طرف توجہ کروں گا۔ اگر یہ وعدے پورے ہوجائیں جیسا کہ آثار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذمہ دار حُکّام اِ س دفعہ حقیقت کو پاچکے ہیں اور حالات کی اصلاح کرنے پر تیار ہیں تو ہماری شکایات کا یہ حصہ ختم ہوجائے گا اور ہم باوجود گزشتہ تکالیف کے یقینا اس محکمہ کے افسروں کے ممنون ہوں گے مگر آئندہ تو جو کچھ ہوگا ہوگا۔
جب ہم گزشتہ دو سالوں پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ تمام احمدیوں کو یہاں سے بدل دیا گیا ہے تو ہمار اشبہ اور بھی قوی ہوجاتاہے۔ ریلوے میں ایک احمدی تھا اُسے بھی تبدیل کردیاگیا، ڈاک خانہ میں دو احمدی تھے انہیں تبدیل کردیاگیا، پولیس میں دو احمدی تھے انہیں تبدیل کردیا گیا، ایک نائب پٹواری احمدی تھا اُسے تبدیل کردیاگیا، ایک پٹواری کے متعلق شُبہ تھا کہ وہ احمدی ہے اسے بھی یہاں سے بدل دیا گیا، بجلی والے جن کی آمد کا ۹۰ فیصدی احمدیوں پر انحصار ہے کسی احمدی کو ملازم نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ ہمیں سرکار والا مدار کا حکم نہیں کہ کسی احمدی کو ملازم رکھیں۔ چنانچہ اِس وقت کسی محکمہ میں کوئی بھی اعلیٰ ملازمت والا احمدی نہیں۔ اور پولیس میں تو غریب کانسٹیبلوں تک کو تبدیل کردیا گیا ہے تو اِن حالات کو دیکھ کر ہمارے دلوں میں ایک منظم کوشش کا شُبہ پیداہونا قدرتی اور لازمی امر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ’’حُسنِ اتفاق‘‘ ہے لیکن اگر یہ حُسنِ اتفاق ہے تو کیا یہ حُسنِ اتفاق دنیا میں کہیں اور بھی پایا جاتا ہے؟اِس حُسنِ اتفاق کے ماتحت کوئی کوشش تو کرے کہ کسی جگہ سے سب کے سب مسلمان نکل جائیں یا ہندوئوں کو الگ کردیا جائے۔ پس ہم ہرگز یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں اور نہ دنیا کا کوئی عقلمند یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوگا کہ یہ حُسنِ اتفاق ہے۔ یہ حُسنِ اتفاق نہیں بلکہ سُوئے تدبیر ہے۔ ان چیزوں کے ذریعہ دنیا میں کبھی آپس میں محبتیں قائم نہیں رہتیں اور حکومتیں کبھی محبت کے بغیر دنیا میں قائم نہیں رہتیں۔ آخر کب تک ہم ان باتوں کو دیکھتے چلے جائیں گے اور ہمارے دلوں میں محبت کے جذبات قائم رہیں گے۔ یقینا اس کی بہت بڑی ذمہ داری گورنمنٹ پر ہے اورجب کہ گورنمنٹ ان اخباروں اور رسالوں کو ضبط کرتی ہے جن کے ذریعہ سے سَو دوسَو یا چارسَو آدمیوں کے قلوب کو مجروح کیا جاتا ہے تو کیوں اس کے بعض افسر ایسا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں جس سے ایسی منافرت پھیلتی ہے کہ اکثر اخبار والے اس کا ہزارواں حصہ بھی منافرت نہیں پیدا کرسکتے۔
پانچویں مثال جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کے بعض افسر جماعت احمدیہ کو خوامخواہ دِق کرنے کی کوشش کررہے ہیں کَل کا ایک واقعہ ہے جو بٹالہ میں ہؤا۔ کَل بٹالہ میں ایک ریکروٹنگ افسر آیا تھا اُس کے سامنے ہمارے احمدی نوجوان بھی پیش ہوئے۔ میں نے مولوی عبدالمغنی خان صاحب ناظر بیت المال کو ان کے ساتھ بٹالہ بھیجا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب تمام نوجوان پیش ہوئے تو ایک ہندوستانی افسر وہاں یہ کہتا جارہا تھا کہ مرزائی الگ ہوجائیں یہ مسلمانوں کی بھرتی ہے یہاںمسلمانوں کے سِوا اور لوگ نہیں لئے جائیں گے۔ اس پر ایک دوسرے مسلمان افسر نے کہا کہ جماعت احمدیہ کا مخالف تو میں بھی ہوں مگر میں گولی وہاں چلایا کرتا ہوں جہاں لگ جاتی ہے تم شاید ناواقف ہو تمہیں علم نہیں یہ گورنمنٹ میں بہت رسوخ رکھنے والے ہیں اگر تم انہیں یہاں بھرتی نہیں ہونے دو گے تو یہ اور جگہ بھرتی ہو جائیں گے۔ یہ گفتگو تو مولوی عبدالمغنی صاحب نے سُنی ۔ اس کے علاوہ ایک اور احمدی دوست نے جوبٹالہ کے ہی ہیں اور وہاں کے ایک رئیس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں سنا کہ ایک ہندو افسر انگریز افسر سے کہہ رہا تھا صاحب! یہاں مرزائیوں کی بھرتی نہیں کرنی۔ اُس نے پوچھا مرزائی کیا ہوتے ہیں؟ وہ کہنے لگا یہ مسلمانوں میں ایسا ہی فرقہ ہے جیسے ہمارے ہاں آریہ سماجی ہیں۔ مسلمان بھی ان کومسلمان نہیں سمجھتے بلکہ کافر سمجھتے ہیں۔ وہ انگریز کہنے لگا یہ مرزائی اپنے آپ کوکیا کہتے ہیں؟ وہ کہنے لگا کہتے تو اپنے آپ کو مسلمان ہی ہیں۔ وہ کہنے لگا جب یہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو پھر تو ہمارے لئے یہ بڑی مشکل ہے کہ ہم ان کوبھرتی نہ کریں۔ وہ کہنے لگا نہ صاحب! حکومت کا بھی یہی منشاء ہے کہ کم سے کم گورداسپور کے ضلع میں مرزائی بھرتی نہ کئے جائیں۔ چنانچہ مولوی عبدالمغنی خان صاحب جب بعد میں اس انگریز افسر سے ملے تو اس نے خاص طور پر سوال کیاکہ آپ مرزائی یا احمدی کیوں کہلاتے ہیں؟ آپ لوگ مسلمان ہیں یا نہیں؟ آپ میں اور دوسرے مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کوئی جماعت پنجاب میں ایسی ہے چاہے وہ حکومت کے سیکرٹری ہوں، چاہے ماتحت ارکان ہوں جو اندر ہی اندر لوگوں کے قلوب پر ہماری جماعت کے خلاف اثر ڈال رہے ہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ حکومت کی ملازمتوں کے دروازے احمدیوں پر بند ہوجائیں۔
میں آج صاف طور پر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہم حکومت کی نوکریوں کے محتاج نہیں مگر حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ کھلے طو رپر اعلان کردے کہ آئندہ احمدیوں کو سرکاری ملازمتوں میں نہیں لیا جائے گا۔ کچھ افسر کچھ کہتے رہیں اور کچھ افسر کچھ کرتے رہیں یہ بے اصولی بات ہے۔ میں تو آگے ہی اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا رہتا ہوں کہ چھوڑو اِن نوکریوں کو او رجائو دنیا میں خداتعالیٰ کی نوکری کرو، تجارت کرو، زراعت کرو، صنعت و حرفت میں ترقی کرو اور اس طرح جہاں اپنی روزی کمائو وہاں خداتعالیٰ کا نام بھی دنیا میں پھیلائو۔ اگر گورنمنٹ اعلان کردے تو جیسا کہ کہتے ہیں ’’بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹُوٹا ‘‘مَیں ذاتی طور پر اِس ظلم کو بھی جماعت کیلئے ایک مبارک فال ہی سمجھوں گا۔ میں تو پہلے ہی لوگوں سے کہہ رہا ہوں کہ وہ غیرملکوں میں نکل جائیں۔ بھوکے رہیں، پیاسے رہیں، ننگے رہیں آخر اللہ تعالیٰ ان کی ترقی کے راستے کھول دے گا اور قومی کریکٹر بھی مضبوط ہوگا مگر گورنمنٹ کا فرض ہے کہ وہ کھل کر ایک دفعہ ہم سے کہہ دے کہ تم آئندہ باغی سمجھے جائو گے۔ تااگر پھر جنگ شروع ہو تو کوئی افسر یہ نہ کہنا شروع کردے کہ لائو اپنے احمدیوں کوملک کی خدمت کیلئے پیش کرو۔ مصیبت کے وقت اگر گورنمنٹ نے ہمیں بُلانا ہے تو اب آرام میں بھی ہمارے حقوق ہمیں دے اور اگر مصیبت کے وقت اس نے ہمیں نہیں بُلانا تو پھر بے شک ہم اب بھی اپنے حقوق کا اس سے مطالبہ نہیں کرتے۔ جوں جوں ہماری جماعت بڑھتی اور ترقی کرتی چلی جائے حکومت نئے افراد کو غیرفوجی قرار دیتی جائے یا کہتی جائے کہ تمام سرکاری ملازمتیں انہیں نہیں مل سکتیں ۔ ہم سے پہلوں نے تو اس سے بہت زیادہ قربانیاں کی ہیں پھر ہمارے لئے اس میں گھبراہٹ کی کونسی بات ہوسکتی ہے۔
رسول کریم ﷺ کے پاس ایک دفعہ صحابہؓ نے شکایت کی کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ہم پر کفار کی طرف سے پیہم مظالم ہونے لگ گئے ہیں آپ ان کیلئے بددعا کریں۔ رسول کریم ﷺ نے جواب دیا کہ تم سے پہلے لوگوں کو اس سے بہت زیادہ تکلیفیں پہنچی، وہ سر سے لے کر پیر تک آروں سے چِیر دیئے گئے مگر انہوں نے اُف نہ کی تم بھی صبر کرو اور ان تکلیفوں سے نہ گھبرائو ؎۳ ۔ پس صحابہؓ کو رسول کریم ﷺ یہ کہہ سکتے تھے کہ انہوں نے وہ تکلیفیںبرداشت نہیں کیں جوپہلی اُمتوں نے برداشت کیں تو ہماری جماعت نے تو ابھی صحابہؓ جیسی قربانیاں بھی نہیں کیں پھر ہم کیوں گھبراجائیں۔ ہم توکہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا جو منشاء ہے وہ ہوجائے لیکن گورنمنٹ کیلئے ضروری ہے کہ وہ جو کچھ کہنا چاہتی ہے صفائی سے کہہ دے۔ یہ کوئی صحیح طریق نہیں کہ حُکّام میں سے ایک فریق کچھ کہتا جائے اور دوسرا پوشیدہ طور پر کچھ اور کہتا جائے۔ جس حکومت کے افسروں میں ہی اتفاق نہ ہو اُس کونقصان پہنچنا لازمی ہے۔ پس اگر حکومت چاہتی ہے تو صاف طور پر کہہ دے کہ آئندہ ملازمتیں احمدیوں کو نہیں ملیں گی تو سوائے ان ملازمتوں کے جو امتحانوں کے ذریعہ سے ملتی ہیں ہم دوسری ملازمتوں کیلئے حکومت کے پاس نہیں جائیں گے اور میں ذمّہ لیتا ہوں کہ ہماری جماعت اس پر کوئی شور نہیں مچائے گی اور نہ ہم گورنمنٹ کی نسبت اپنے دل میں کوئی بُغض رکھیں گے مگر پوشیدہ اور مخفی کارروائیوں سے ہمارے دلوں کو ضرور تکلیف ہوتی ہے۔
چھٹی مثال عید گاہ کا واقعہ ہے جس میں ہمارے آدمی زمین ہموار کرنے کیلئے گئے تو پولیس نے کُدالیں اور ٹوکریاں چھین کر انہیں گرفتار کرنا شروع کردیا اور کیمرے والوں کے کیمرے چھین لئے۔ اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ عدالت میں ہماری طرف سے درخواست دی گئی کہ ہمیں کیمرے واپس دیئے جائیں کیونکہ اس موقع کے جو فوٹو لئے گئے تھے وہ ہمیں حق بجانب ثابت کرتے ہیں۔ مجسٹریٹ نے ہماری درخواست سن کر فیصلہ کیا کہ اگلی تاریخ پر اس کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا لیکن جب اگلی تاریخ آتی ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے اپنے طور پر انہیں ڈویلپ کرایا تھا مگر فلم اندر سے خالی نکلے حالانکہ اگر وہ ہمیں کیمرے واپس کرنا نہیں چاہتے تھے تو ان کا فرض تھا کہ وہ پہلی تاریخ پر ہی فیصلہ کردیتے کہ ہم نہیں دیتے تا ہمیں ان کے ارادوں کا علم ہوجاتا اور ہم اپنے حق کے حصول کیلئے ہائی کورٹ میں اپیل کرسکتے مگر ہمیں تویہ کہا گیا کہ اگلی تاریخ کو اِس درخواست کا فیصلہ کیا جائے گا اور درمیان میں انہیں خودبخود ڈویلپ کرالیا گیا او رکہہ دیا گیا کہ وہ اندر سے خالی نکلے حالانکہ فلم کا خالی کرنا کیا مشکل ہوتا ہے ذرا دُھوپ لگادی تو تصویر اُڑ جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ مقدمہ ایک دوسرے مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہؤااور پولیس کی طرف سے دو سِکھ گواہ پیش ہوئے۔ ان کی گواہی ایسی تھی کہ خیال کیاجاسکتا تھا کہ شاید عدالت کے دل پر اس گواہی کی وجہ سے احمدیوں کے حق میں اثر پڑے گا اس پر حاکم ضلع نے مسل خود طلب کرلی۔ چنانچہ جب مقدمہ کی سماعت میں دیر ہوئی اور ہمارے آدمیوں نے وجہ پوچھی تو عدالت نے بتایا کہ مسل ضلع میں منگوالی گئی ہے۔ اس کے بعد معلوم ہؤاکہ حاکم ضلع نے ان گواہوں کو اپنے پاس طلب کیا اور زبردست افواہ ہے کہ ان سے ایک افسر نے کہا کہ ہم نے معتبر ذریعہ سے سنا ہے کہ تم کو احمدیوں کے خلیفہ نے بُلا کرپچاس روپے دے کر گواہی سے پھِرا لیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب وہ گواہ بالا افسروں کے سامنے پیش ہوئے تو ایک پولیس کے افسر نے انہیں علیحدگی میں کہا کہ تم کہہ دو کہ خلیفہ صاحب نے پچاس روپیہ ہمیں رشوت دے کر کہا تھا کہ اِس رنگ میں گواہی دو اس طرح تم لوگ تکلیف سے بچ جائو گے۔
میرا پہلا جواب تو س کے متعلق یہ ہے کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کہ جھوٹے پر خداتعالیٰ کی *** ہو اور دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر مجھے ذرا بھی اس واقعہ کی تصدیق ہوگئی تو میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی مدد سے اِس فریب کو ظاہر کرکے چھوڑوں گا جو اس کے پس پردہ کام کررہا ہے۔ اس قسم کی تلقین کی صرف یہ غرض ہوسکتی ہے کہ مجھے بدنام کیا جائے مگر وہ یاد رکھیں وہ مجھے بدنام نہیں کرسکتے کیونکہ جن لوگوں کا مجھ سے تعلق ہے وہ مجھے جانتے ہیں، وہ میرے حالات اور خصائل سے واقف ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر سارے برٹش انڈیا کے افسر مل کر بھی ایک بات کہیں اور اس کے مقابلہ میں مَیں ایک بات کہوں تو سچی وہی بات ہو گی جو میں کہوں گا۔ پھر قادیان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ بات بالکل جھوٹ ہے۔ میں نے ان سِکھ گواہوں کے کَل ہی نام سنے ہیں اور میں نے آج تک انہیںکبھی دیکھا نہیں اورنہ یاد ہے کہ وہ کبھی مجھ سے ملے ہوں مگر کیا وہ ان چالبازیوں سے صداقت پر پردہ ڈال سکتے ہیں؟ اِدھر دوران مقدمہ میں ہی ڈپٹی کمشنر صاحب کا مسل منگوالینا، اُدھر ایک افسر کا یہ بات کہنا کہ جماعت احمدیہ کے قلوب میں افسروں کے متعلق شکوک پید اکرنے کیلئے بہت کافی ہے۔ آخر ایک مقدمہ جب عدالت میں چل رہا ہو تو پہلے عدالت کو اس کا موقع ملنا چاہئے کہ وہ فیصلہ کرے کہ آیا گواہوں نے جھوٹ بولا ہے یا پولیس نے جھوٹ بولا ہے؟ یہ کیاکہ عدالت کے فیصلہ سے پہلے ہی ایگزیکٹو دخل اندازی کرنی شروع کردے اور بعض افسر اپنا بُغض نکالنا شروع کردیں۔ میں نہیں جانتا اس معاملہ میں انگریزی حکومت کا کیا دستور ہے لیکن چار پانچ دن ہوئے حکومتِ پنجاب کے ہوم سیکرٹری نے کونسل میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم عدالت کے معاملات میں کبھی دخل نہیں دیتے۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر عدالت کے معاملات میں دخل نہیں دیا جاتا تو اِس کے کیا معنے ہیں کہ ایک مقدمہ ایک عدالت میں چل رہا ہے اور فیصلہ سے پہلے ہی اس کی مسل منگوالی جاتی ہے اور گواہوں کوبھی بلایا جاتا اور ان پر اثر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر اس سے مقصد میری بدنامی ہے تو وہ ہو نہیں سکتی۔ باقی مجھے بھی اس کا علاج کرنا آتا ہے اور میں اس کوشش کیلئے مجبور ہوں گا کہ اگر یہ بات سچ ہے تو یا حکومت مجھ پرمقدمہ چلائے یا مجھے اور اُس افسر کو جس نے یہ حرکت کی ہے قَسم کھِلائے۔ خداتعالیٰ نے ہمیں وہ عقلیں دی ہیں جن کے ماتحت قانون کے اندر رہتے ہوئے ہم گورنمنٹ کو مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی صفائی پیش کرے۔ یہ ہمارا رحم ہے جو ہم نے ابھی تک اس قِسم کی کوشش شروع نہیں کی ورنہ نہ ہم قید سے ڈرتے ہیں نہ پھانسیوں سے کیونکہ مؤمن سے بڑھ کر اور کوئی بہادر نہیں ہوتا۔ ممکن ہے گورنمنٹ بعض حالات میں ہمیں مجرم سمجھ لے اور قید کردے مگر جب ہم سے بالا لوگ قید ہوچکے ہیں توہمیں قید سے کیا ڈر ہوسکتا ہے۔ بلکہ اگر حکومت کے بعض افسر ایسے حالات اختراع کردیں جن کے نتیجہ میں پھانسی کی سزا ملتی ہو تو بھی ہم کو کیا خوف ہوسکتا ہے کیونکہ ہم سے بالا لوگ بھی لٹکائے جاچکے ہیں۔ مؤمن جانتا ہے کہ جس وقت خداتعالیٰ نے اُسے اُٹھانا ہوگا اُٹھا لے گا اور وہ اُسی وقت اُٹھائے گا جب وہ کام ہوجائے گا جو اُس نے اپنے بندہ سے لینا تھا اور جب کام ہوچکے تو پھر مؤمن کو اپنی موت سے کیا ڈر ہوسکتا ہے۔ ہم جب دنیا میں ایسی آگ لگاجائیں جوکُفر اور شرک کو خس و خاشاک کی طرح جلا کر راکھ کردے، جب ہم دنیا میں وہ آگ لگادیں جو شیطنت کو بھسم کردے تو اس کے بعد اگر ہم دنیا سے اُٹھالئے جاتے ہیں تو اس میں کیاحرج ہے۔ دنیا میں کون ایسا انسان ہے جو ہمیشہ رہا۔ ہمارا منشاء توشیطان کی عمارت کو ایک آگ لگانا ہے جب وہ آگ لگ جائے تو پھر خدا تعالیٰ کی مشیت چاہے قید کی صورت میں آجائے یا پھانسی کی صورت میں، خواہ معمولی موت کی صورت میں، ہمیں اس سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جوکام ہمارے سپرد کیا گیا تھا وہ ختم ہوگیا۔
ساتویں بات یہ ہے کہ احرار برابر گالیوں میں بڑھتے چلے جارہے ہیں اور حکومت کی طرف سے ان کے روکنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ میں اس موقع پر یہ ذکرکردینا بھی مناسب سمجھتا ہوںکہ چوہدری اسداللہ خان صاحب نے پنجاب کونسل میں بعض تقریریں کیں ا س پر ایک گورنمنٹ افسر نے چوہدری صاحب کو مخاطب کرکے کہا گورنمنٹ تو آپ کی دوست ہے مگر آپ اور پیر اکبر علی صاحب اس کے خلاف تقریریں کرکے خواہ مخواہ اسے دشمن بنارہے ہیں۔ چوہدری صاحب نے تو جو جواب دیا ہوگا دیا ہوگا میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ دوستی کی کوئی علامت بھی تو ہؤا کرتی ہے۔ دوست تو ہم ہیں کہ باوجود اِس قدر اشتعال انگیز حالات کے ہم نے حکومت کے خلاف کوئی حرکت نہیں کی۔ میں نے ایک سکیم بھی سوچی تھی اور میں امید کرتا ہوں کہ اس سکیم کے ماتحت حکومت کومجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے رویہ پر نظرثانی کرے مگر جب حکومت نے کسی قدر ہماری تسلی کی کوشش کی تو میں نے دیانتداری سے اس سکیم کو نظر انداز کردیا۔ شہید گنج کے موقع پر خاص طور پر اس میں حصہ لے سکتے تھے مگر ایک طرف یہ دیکھ کر کہ ہمارے حصہ لینے سے مسلمان شور مچائیں گے اور اس طرح ان میں کمزوری پیدا ہوگی اور دوسری طرف گورنمنٹ کو خوامخواہ مصیبت میں پھنسانے سے احتراز کرتے ہوئے ہم نے اس میں حصہ نہ لیا مگر گورنمنٹ نے پھر بھی ہم پرالزام لگادیا۔ پس اگر دوستی سے پچھلے چند دنوں کی خاموشی مراد ہے تو شاید یہ اعتراض درست ہو لیکن اگر دوستی کے معنی صلح اورمحبت کے ہیں توپھر یہ صحیح نہیں کہ گورنمنٹ ہماری دوست ہے۔ ہم اب بھی تیار ہیں کہ بہت سی باتوں کو معاف کردیں، ہم اب بھی تیار ہیں کہ بہت سی باتوں کو بھُول جائیں مگر کچھ باتیں ایسی ضرور ہیں جن میں گورنمنٹ کو ہماری مرضی کا پور اکرنا ضروری ہے۔ جیسے گالیوں کا سلسلہ ہے کہ اسے بند کرنا گورنمنٹ کا فرض ہے یا جماعت احمدیہ سے ناواجب اور ناروا سلوک کرنے والے افسروں کوبدلنا ہے یہ بھی گورنمنٹ کافرض ہے اور اس کا کام ہے کہ وہ انہیں تبدیل کرے مگر اس رنگ میں کہ ہماری براء ت ثابت ہو اور آئندہ کسی کو ویسی حرکات کی جرأت نہ ہو کیونکہ دوستی کی کوئی علامت آخر گورنمنٹ بھی تو ظاہر کرے۔
ہم تو ہمیشہ سے امن پسند ہیں اور چاہتے ہیں کہ تفرقہ و فساد نہ ہو۔ ہمیں نہ مسلمانوں سے دشمنی ہے نہ ہندوئوں، سکھوں اور عیسائیوں سے، ہم ہر ایک کے دوست بن کررہنا چاہتے ہیں مگر کوئی امن سے رہنے بھی تو دے۔ لیکن باوجود ہماری طرف سے امن پر قائم رہنے کے اگر حکومت رویہ نہ بدلے تو میں اسے کہوں گا کہ فتنہ کو کم سے کم حلقہ میں محدود کرنے کیلئے اسے چاہئے کہ جماعت پر یہ بات کھول دے کہ اقتصادی طور پر اسے حکومت سے کوئی فائدہ اُٹھانے کاحق حاصل نہ ہوگا۔ اس سے بھی بہت سی تلخی دور ہوجائے گی کیونکہ امید کے بعد ناامیدی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے لیکن جب کوئی سمجھ لے کہ میرا کوئی حق نہیں تو اس کا شکوہ بھی کم ہوجاتا ہے۔ اسے چاہئے کہ یہ اعلان کردے کہ آئندہ سرکاری ملازمتوں میں احمدیوں کو نہیں لیا جائے گا۔ ہماری جماعت کے لوگوں کو ایسے اعلان سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں۔ لاکھوں تدبیریں ہیں جو اختیار کی جاسکتی ہیں۔ اگر ملازمتوں کے دروازے گورنمنٹ بند کرے تو ہمارے نوجوان تجارت وغیرہ کی طرف متوجہ ہونے پرمجبور ہوں گے۔
اِس وقت دو نہایت زبردست حکومتیں ہندوستان میں اپنے تعلقات وسیع کرنے کیلئے کوششیں کررہی ہیں اور وہ غیرمعمولی مدد دینے کیلئے بھی تیار ہیں۔ مثلاً وہ اس بات پر تیارہیں کہ تجارتی مال دیں مگر اس کے بدلہ میں روپیہ نہ لیں بلکہ ہندوستانی مال مثلاً گیہوں لے لیں یا کپاس لے لیں اس طرح تجارت میں بہت کچھ سہولت پیدا ہوگئی ہے۔بے شک ابتدا میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے تکلیف ہوگی مگر خطرات میں پڑے بغیر انسانی اخلاق میں مضبوطی نہیں پیدا ہوتی۔ عقلمند اِن تکلیفوں کو بھی خداتعالیٰ کی رحمت سمجھا کرتے ہیں۔ اگر اس تجربہ میں ہمارے نوجوان کامیاب ہوگئے تو وہ اپنی روزی کمانے کے ساتھ ساتھ ان افسروں کو بھی سزا دے دیں گے جو ہمیں ناحق دُکھ دیتے ہیں کیونکہ اِسی طرح لاکھوں کی تجارت انگلستان کے ہاتھ سے نکل کردوسری قوموں کے ہاتھ میں چلی جائے گی بلکہ میں کہتا ہوں کہ دوسری قوموں سے تجارتی تعلق پیدا کرنے سے بھی زیادہ مفید یہ ہے کہ خود صنعت و حرفت کی طرف ہماری جماعت توجہ کرے تا کہ ہرقسم کے سیاسی اثر سے محفوظ ہوجائے۔ گزشتہ جدوجہد کے زمانہ میں یہ امر ثابت ہوگیا ہے کہ زمیندار افسروں سے زیادہ مرعوب ہوتا ہے بہ نسبت تاجروں کے۔ پس تجارت اور صنعت و حرفت کی طرف ہماری جماعت کو زیادہ توجہ چاہئے تاکہ کسی کی محتاجی باقی ہی نہ رہے۔ خود صنعت و حرفت کی طرف توجہ کریں اورتجارت غیرملکوں سے بڑھانے کی کوشش کریں جو قانوناً جائزفعل ہے۔ کوئی قانون ہمیں اس بات پرمجبور نہیں کرتا کہ ہم ضرور انگریزی مال لیں۔ بے شک ہم بائیکاٹ کے مخالف ہیں مگر بغیر بائیکاٹ کئے کے کوئی دوسرا طریق اختیار کرنا تو منع نہیں۔ اگر ہم ایسا کرنے لگیں توکانگرس بھی ہمارے ساتھ شامل ہوجائے گی۔ کانگرس میں اِس وقت کوئی تنظیم نہیں اگر ہم ایک تنظیم کے ساتھ یہ کام کرنے لگیں تو ہزاروں ہندو اور سِکھ ہم سے مل جائیں گے اور قانون شکنی کا خیال لوگ بھُلادیں گے اور اس طرح بِالواسطہ طور پر بھی حکومت کی ایک خدمت کردیں گے اور ساتھ ہی قانون کے اندر رہتے ہوئے خود نفع کماتے ہوئے ہم اپنے حقوق بھی حاصل کرسکیں گے اور یہ صرف ایک ہی طریق نہیں ایسے بیسیوں طریق ہیں جن سے جماعتیں اپنے آپ کو ملازمتوں سے آزاد کرسکتی ہیں۔ جب ملازمتوں کے راستے بندہوںتو خودبخود ہماری جماعت کے دماغ دوسری راہوں کی دریافت اور ان پر چلنے کی طرف متوجہ ہوں گے۔ مگر ہم صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے اور خوامخواہ حکومت کیلئے مشکلات پیدا نہیں کریں گے اور کوشش کریں گے کہ چند افسروں کی وجہ سے حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے کاموجب نہ بنیں مگر جو سلوک ہم سے کیاجارہا ہے نہایت تکلیف دہ ہے اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ آخر کب تک ہم ان باتوں کوبرداشت کرتے چلے جائیں گے، کب تک ہم اپنے امن کوبرباد ہوتا دیکھیں گے یقینا ایک وقت آئے گا جب مجبور ہوکر ہمیںان ذرائع کو اختیار کرنا پڑے گا جو ہمیں ان تکالیف سے بچائیں۔ اس لئے میں ایک دفعہ پھر حکومت کوتوجہ دلاتا ہوں کہ وہ اب بھی اپنے رویہ پر غور کرے۔ ہم اس بات پر تیار ہیں کہ اس سے صلح کرلیں مگر اس کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ بڑی بڑی باتوں میں ہماری شکایتوں کو دور کرے۔
آج حکومت اپنے آپ کو ہماری مدد سے مستغنی سمجھتی ہے مگر میں اُس نگاہ سے دیکھ رہا ہوں جس نگاہ سے وہ نہیں دیکھ رہی کہ حکومت کو پھر مشکلات پیش آنے والی ہیں اور آسمان سے خداتعالیٰ یہ ثابت کردے گا کہ کَل کو یہی حکومت پھر ہماری مدد کی محتاج ہوگی۔ پھر کَل کے افسر ہمیں کہیں گے کہ آئوہماری مدد کرو اور پچھلے افسروں کے رویہ کو نظرانداز کردو مگر میں انہیں بتادینا چاہتا ہوں کہ اگر آج انہوںنے ہماری شکایات کو دور کرنے کی کوشش نہ کی تو کَل ان کا ہمیں اپنی مدد کیلئے بلانا بیکار ثابت ہوگا اور ہم قانون شِکنی سے بچتے ہوئے اپنی جماعت کی معیشت کیلئے دوسرے ذرائع اِنْشَائَ اللّٰہُ نکالیں گے جن کو اختیار کرکے ہم حکومت کی مہربانیوں سے آزاد ہوجائیں گے۔ مگر ہم چھپ کر کوئی کام نہیں کریں گے بلکہ کھلے بندوں کریں گے، عَلَی الْاِعْلَان کریں گے اور حکومت کے قانون کے اندر رہ کر کریں گے یہاں تک کہ انگریزوں کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان باتوں میں کوئی حرج نہیں اور اگر وہ ہم کوان ذرائع کے اختیار کرنے سے روکیں توملک میں بھی شورش برپا ہوجائے گی اور دنیا میں بھی ان کی بدنامی ہوگی۔ انگریزی فطرت کو ہم جانتے ہیں وہ کھلی بے انصافی کو کبھی برداشت نہیں کرسکتی۔ پس ہم اس سے یہ امید نہیںکرسکتے کہ وہ خود ہی قانون بنائے اور ان کے اندر رہ کرکام کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرکے بے انصاف بن جائے۔
پس میں پھر ایک طرف حکومت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ انصاف سے کام لے اور ان فتنہ انگیزیوں کو روکنے کی طرف متوجہ ہو اور دوسری طرف جماعت سے بھی کہتا ہوں کہ وہ زیادہ تر نوکریوں کی طرف توجہ نہ کرے بلکہ تجارت، زراعت اور صنعت و حرفت کے کاموں کو اختیار کرے۔ مگربعض بیوقوف ایسے ہیں جو اَب تک مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ فلاں افسر کے پاس ہماری سفارش کردیں۔ نہ معلوم وہ لوگ میرے خطبے پڑھتے ہیں یانہیں پڑھتے، اور اگر پڑھتے ہیں تو سمجھتے کیوں نہیں۔ مَیں متواتر جماعت کو بتارہا ہوں کہ حکومت کے بعض افسر ہمارے امن کوبرباد کررہے ہیں، وہ ہماری کسی بات پر کان نہیں دھرتے بلکہ ہمیں نقصان پہنچانے اور ہماری طاقت کو توڑنے کی کوشش کررہے ہیں مگر وہ احمق مجھے لکھتے ہیں کہ ہماری سفارش کردیں۔ میںنے تم کو وہ راستہ بتادیا ہے جس پر تم اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہو اور وہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے حضور گِرو اور اس سے دعائیں کرو۔ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اِس پیر سے روزے رکھو مگر معلوم نہیں تمہیں کیا عادت ہوگئی ہے کہ تم خداتعالیٰ کی بجائے بندوں کے پاس جانا پسند کرتے ہو۔
میں تمہیں نوکریوں سے منع نہیں کرتا بے شک تم اچھی سے اچھی ملازمت کیلئے کوشش کرو لیکن یہ سمجھ لو کہ سب لوگوں کو نوکریاں نہیں مل سکتیں اس لئے علاج یہی ہے کہ تم اپنا رزق خدا سے مانگو۔ وہ معمولی معمولی کاموں میں بھی بعض دفعہ اتنی ترقی دے دیتا ہے کہ لوگ رشک کی نگاہوں سے دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ پس تم قربانیوں کیلئے تیار ہوجائو اور اِس بات پر آمادہ رہو کہ اگر تمہیں بھُوکا رہناپڑے، پیاسا رہنا پڑے، ننگا رہنا پڑے تب بھی تم ان تکالیف کو برداشت کرو گے۔ جب یہ روح پیدا کرو گے تو اللہ تعالیٰ غیب سے خودبخود تمہارے لئے کئی رستے کھول دے گا۔
تام چینی کے برتن جس شخص نے بنائے ہیں وہ پہلے نواب تھا لاکھوں روپیہ کامالک تھا مگر جب اس نے یہ کام شروع کیا تو اپناسارا روپیہ اُس نے خرچ کردیا مگر پھربھی کامیاب نہ ہؤا۔ اِس کے بعد اُس نے بیوی کے زیور بیچنے شروع کردیئے، وہ روپیہ ختم ہؤا تو دوستوں اور رشتہ داروں سے قرض لے کرکام کرنا شروع کردیا، جب بالکل اُس کی آخری نوبت پہنچ گئی تو بیس سال کی محنت، تلاش اورجستجو کے بعد وہ تام چینی کے برتن بنانے میں کامیاب ہوا اور اس کے بعد اسی کام سے وہ کروڑ پتی ہوگیا۔
پس صنعت و حرفت کرو اور اپنی ہمتوں کوبلند کرو۔ تجارت اور صنعت و حرفت کے ذریعہ اس قدر آمد ہوتی ہے کہ نوکریوں میں اتنی آمد نہیں ہوتی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نوکریاں نہ کرو۔ جب تک حکومت روک نہیںدیتی اُس وقت تک بے شک نوکریاں کرو لیکن روک دے تو گھبرائو نہیں بلکہ کہہ دو
ملکِ خدا تنگ نیست پائے گدا لنگ نیست
خداتعالیٰ نے دنیا کو نہایت وسیع بنایا ہے۔ ایک جگہ اگر راستہ بند ہو تو وہ دوسری جگہ رزق کا راستہ کھول دیتا ہے اور ہمارا رزق تو خداتعالیٰ کے عرش پر موجود ہے اور اُسی نے ہمیں دینا ہے۔ پس اُسی سے مانگو اور دعائیں کرو۔ میں نے کوشش کی ہے کہ محبت، پیار، نرمی اور دلائل سے حکومت پر تمام باتیں واضح کردوں لیکن اگر باوجود اِس کے حکومت ہماری شکایتوں کو دور کرنے کیلئے تیار نہ ہو تو دنیا گواہ رہے کہ ہم نے امن قائم کرنے اور حکومت سے تعاون کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے لیکن حکومت نے ہماری طرف محبت کاہاتھ نہیں بڑھایا۔ اس کے بعد بھی اگرچہ مَیں کوشش کروں گا کہ ہماری طرف سے حکومت کے ساتھ تعاون ہو لیکن اگر اُس حد تک تعاون نہ ہو سکے جس حد تک کہ ہم پہلے تعاون کرتے تھے تو آئندہ آنے والے افسروں کایہ حق نہیں ہوگا کہ وہ ہم سے سوال کریں کہ تم کیوں اب گزشتہ کی طرح تعاون نہیں کرتے کیونکہ آخر پچھلے لوگ پہلوں کے ہی وارث ہؤاکرتے ہیں۔
(الفضل ۴؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
؎۱ فاطر: ۲۵
؎۲ مسلم کتاب الایمان باب جواز الاستسرار بالایمان للخائف
؎۳ بخاری کتاب المناقب باب علَامَات النبوۃ فی الاسلام

۱ ۱
عجز و انکسارسے دعائیں کر و اور اپنی اصلاح میں لگ جائو
(فرمودہ ۳؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اس ہفتہ سے وہ روزوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جس کے متعلق دو تین ہفتے ہوئے میں نے جماعت کے دوستوں کوہدایت کی تھی اب آئندہ ہفتہ میں اِنْشَائَ اللّٰہُ دوسرا روزہ آئے گا اور اس طرح سات ہفتوں میںخدا کے فضل سے اور اس کی مدد کے ساتھ وہ دعا کا پروگرام ختم ہوگا جس کے متعلق میں اعلان کرچکا ہوں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ؎۱ ۔ مؤمن کوجب کبھی وہ مشکلات میں مبتلاء ہو تو صبر اور نماز و دعا سے مدد طلب کرنی چاہئے۔ صبر کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ انسان ان مصائب اور مشکلات اور اذیتوں کو برداشت کرے جو اللہ تعالیٰ کی مشیّت کے ماتحت اس کے مخالفوں کی طرف سے اسے پہنچ رہی ہوں لیکن صبر کے معنے روزہ کے بھی ہیں، صبر رُک رہنے کانام ہے اور صوم بھی رُک رہنے کانام ہے دونوں لفظ ہم معنی ہیں جس طرح انسان مصائب اور مشکلات کے موقع پر گھبراہٹ سے رُکا رہتا ہے اسی طرح روزہ میں کھانے پینے سے رُکا رہتا ہے۔ پس صبر کے معنے جہاں تکالیف کی برداشت کے ہیں وہاں اس کے معنے روزہ کے بھی ہیں بلکہ صبر روزہ کا زیادہ ہم معنی ہے بہ نسبت اذیتوں او رمشکلات کو برداشت کرنے کے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر عمل کی کوئی جزاء ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ کی جزاء میں خود ہوں ؎۲ یعنی بجائے اس کے کہ روزہ کا انعام مخلوقات میں سے کسی چیز کے ذریعہ دیا جائے اللہ تعالیٰ کی رضا کے ذریعہ سے اس کی جزاء ملتی ہے۔ پس ایسے کام جو خالص مذہبی ہوں اور جن کے نتیجہ میں انسان کی ایک ہی غرض ہو یعنی رضائے الٰہی ان کے حصول اور تکمیل کیلئے بہترین صبر روزہ ہی ہوسکتا ہے کیونکہ روزہ درحقیقت ایک زائد چیز بن جاتا ہے۔
اذیت اور تکلیف دینے والے بعض نعمتوں سے محروم کردیتے ہیں تکلیف اور اذیت کے معنی سوائے اس کے کیا ہیں کہ بعض چیزیں جن کی انسان کو خواہش ہوتی ہے اس سے چھین لی جاتی ہیں مثلاً انسان عزت چاہتا ہے مگر اسے گالیاں دی جاتی ہیں، انسان اپنے بزرگوں کا حترام چاہتا ہے مگر مخالف ان پر جھوٹے الزام لگا کر اور توہین کرکے اس کی راحت چھین لیتاہے، یا جھوٹے مقدمات بنا کر قید کرادیتا ہے، زمین یا مکان لے لیتا ہے، مارپیٹ کر کے جسم کا سکون اور آرام لے لیتاہے غرض تکلیف اور اذیت کے یہی معنے ہیں کہ انسان کی کوئی چیز خواہ وہ جسمانی ہو یا روحانی یا معنوی دوسرا اسے چھین لیتا ہے اور مؤمن کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اس پر بے تابی کا اظہار نہ کرے خواہ اس سے اس کی جان و مال، عزت، آبرو، سکون، آرام سب کچھ چھین لیا جائے اسے چاہئے کہ خدا پر توکل کرکے وقت گزارے۔
اور روزہ کیا ہے انسان خداکیلئے اپنی مرضی سے کچھ چیزیں چھوڑ دیتاہے کھانا پینا چھوڑ دیتاہے، میاں بیوی کے تعلقات ترک کردیتا ہے، رات کو جاگنے والا نہ بھی ہو تو نیند ترک کرتا ہے، اپنی زبان، آنکھوں ،کانوں وغیرہ کی زیادہ حفاظت کرتا ہے کیونکہ اخلاق کی پوری نگرانی کے بغیر روزہ مکمل نہیں ہوسکتا۔ پس جب انسان کسی مصیبت میں مبتلاء ہوتاہے یعنی دشمن اور مخالف اس کی بعض پسندیدہ چیزوں کو اس سے چھین لیتے ہیں تو بندہ خداتعالیٰ کیلئے روزہ رکھتا ہے گویا دوسرے لفظوں میں وہ اللہ تعالیٰ سے کہتا ہے کہ یہ چیزیں کیا ہیں جو مجھ سے چھینی گئی ہیں میں تو تیری خاطر اپنی خوشی سے اور بھی چیزیں چھوڑنے کو تیار ہوں۔ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی تجھ سے کُرتہ مانگے تو اسے چادر بھی دے دے ؎ ۳ ، اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی آگے کردے ؎ ۴ ۔ ممکن ہے آپ نے یہی مضمون بیان فرمایا ہو جو میں بیان کررہا ہوں اور عیسائیوں نے اسے غلط سمجھا ہو۔ روزہ رکھنا گویا یہ کہنا ہے کہ خدایا! تیرے عشق میں کونسی چیز ہے جو میں چھوڑنہیں سکتا اگر تیری مشیّت مجھ سے ایک چیز چھڑاتی ہے تومیں خوشی سے دوسری بھی چھوڑ دیتا ہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ دشمن سے کہتا ہے کہ اس کا کُرتہ چھین لے تو وہ کہتا ہے کہ خدایا! میں تیری خاطر چادر بھی پیش کرتا ہوں، اگر اللہ تعالیٰ دشمن کو اس پر مسلط کرتا ہے کہ گالیاں دے کر اسے کانوں کا عذاب دے تو وہ کہتا ہے میں ز بان اور پیٹ کا عذاب بھی اپنے اوپر لیتا ہوں یعنی بھوکا رہوں گا اور اس طرح جو تکالیف اسے جبری پہنچتی ہیں وہ بھی اس کی ان طَوعی اور رضائی تکالیف کی وجہ سے طَوعی ہی بن جاتی ہیں اور اس کیلئے ثواب کا موجب ہوجاتی ہیں۔ عام لوگ جانتے ہیں اور یہ صرف لطیفہ ہی نہیں بلکہ تجارب سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ لیٹ یا بیٹھ جانے والے انسان پر شیر حملہ نہیں کرتا اور شیر تو کجا کتے کے سامنے بھی اگر کوئی شخص بیٹھ جائے تو وہ اسے نہیں کاٹتا اور کون عقلمند یہ سمجھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میں شیر جتنی مروت بھی نہیں۔ اس لئے جب دشمن حملہ آور ہو اور ہم بجائے جزع فزع کرنے کے خداتعالیٰ کے حضور بیٹھ جائیں اور کہیں کہ ہم تو باقی چیزیں بھی تیرے حوالے کرنے کیلئے تیار ہیں تو یہ ہو نہیں سکتاکہ خداتعالیٰ اس غضب کو روک نہ دے۔ شریف فطرت انسان بھی اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ جو اس کے سامنے لیٹ جائے اس پر حملہ کرے کجا یہ کہ شریف فطرت کو پید اکرنے والا ایسا کرسکے۔
بچپن کی ایک بات مجھے یاد ہے کہ ہم نے ایک کشتی خریدی تھی جو ڈھاب میں پڑی رہتی تھی بعض دفعہ بعض لوگ بغیر اجازت اسے لے جاتے اور اس سے ایسا سلوک کرتے جس سے کہ وہ جلدی خراب ہونے لگی۔ اس میں پانی کثرت سے آنے لگا۔ کبھی اسے اُلٹا دیتے، کبھی ڈبودیتے۔ میں نے بعض ساتھ کھیلنے والے لڑکوں سے کہا کہ تم تاڑ رکھو او رجب کوئی اسے لے جائے تو مجھے بتائو۔ چند روز کے بعد گائوں کے بعض لڑکے اسے لے گئے اور خراب کرناشروع کردیا، ایک لڑکے نے مجھے آکر اطلاع دی میں جلدی سے گیااور دیکھا کہ بعض لڑکے اسے منجدھار میں لے جاکر پانی اُچھا ل رہے ہیں۔ میں نے انہیں آواز دی کہ کشتی ادھر لے آئو۔ ان میں سے کچھ تو تیر کر بھاگ گئے اور کچھ کشتی کو لے آئے مگر وہ کنارے پر اُتر کر وہ بھی بھاگنے لگے۔ میں نے ان میں سے ایک قصاب لڑکے کو پکڑ لیا اور مارنے کیلئے ہاتھ اٹھایا لیکن جب تھپڑ مارنے کیلئے ہاتھ کو نیچے لارہا تھا تو اُس نے جھٹ اپنا جسم ڈھیلا کرکے کلّہ میری طرف کردیااور کہنے لگا لو جی مارلو۔ اُس کا یہ کہنا تھا کہ میرا ہاتھ وہیں گِرگیااور غصہ جاتا رہا بلکہ میں اپنے نفس میں اپنے آپ کو چھوٹا محسوس کرنے لگا کہ میں ایسی چھوٹی بات پر اسے مارنے لگا تھا۔ پس اگر انسانی فطرت ایسے موقع پر اتنی بلند پروازی سے کام لے سکتی ہے تو وہ عظیم الشان ہستی جس کے خزانوں میں کمی نہیں، جس کے فضلوں کی حدبندی نہیں اس کے غضب یا امتحان لینے کے موقع پر اگر انسان اپنے آپ کو اس کے آگے گِرادے تو جو تبدیلی اُس کی صفات میں پید اہوتی ہے انسان ا س کیفیت کا اندازہ ہی نہیں کرسکتا۔
اللہ تعالیٰ کا سلوک اپنے بندوں سے جس محبت کا ہے اس کا اندازہ وہی لگاسکتے ہیں جنہیں اس کی محبت کاتجربہ کرنے کا موقع ملا ہو۔ مجھے یاد ہے میں چھوٹا بچہ تھا جب میں نے رئویا میں ایک چھ سات یا آٹھ برس کی عمر کا بچہ جو نہایت خوبصورت اور نہایت عمدہ سفید لباس پہنے ہوئے تھا دیکھا۔ ساتھ ہی میں نے دیکھا کہ ایک سنگ مَرمَر کا چبوترہ ہے جس کے اِردگِرد ایک دو سیڑھیاں بھی ہیں وہ امرتسر کے اس چبوترے سے ملتا جُلتا ہے جس پر کوئین وکٹوریا کا بُت نصب ہے میں نے دیکھا کہ وہ بچہ ان سیڑھیوں پر کھڑا ہوکر چبوترے پر جھکا ہؤا ہے جس طرح کوئی کسی بزرگ سے دعا اور برکت لینے کیلئے جھکتا ہے اور مجھے یوں معلوم ہؤاکہ گویا آسمان پر کوئی چیز ہے جس سے وہ برکت لینا چاہتا ہے اس پر میں نے اوپر نگاہ ڈالی تو معلوم ہوا کہ آسمان پھٹ گیا ہے اور اس میں سے کوئی پروں والی چیز نیچے آرہی ہے اور مجھے خیال ہؤاکہ یہ حضرت مریم ہیں اور بچہ حضرت عیسیٰؑ ہیں ۔ حضرت مریم ایسے رنگین لباس میں ملبوس تھیں کہ جو دنیا میں نظر نہیں آتے اور انہوں نے چبوترے پر پہنچ کر اپنے پر بچہ پر پھیلادیئے اور جب وہ اس پر جھک گئیں تو آواز آئی کہ Love Creates Love یعنی محبت محبت پیدا کرتی ہے یعنی جب ایک طرف محبت پیدا ہوتی ہے تو دوسری طرف خودبخود ہونے لگتی ہے۔ یہ صداقت جو مجھے رئویا میں دکھائی گئی تما م کائنات میں نظر آتی ہے اورجو حُسن مخلوق میں نظر آتا ہے کس طرح ممکن ہے کہ اس ہستی میں نہ ہو جو محبت کی خالق ہے۔
اِسی کا ہم معنی ایک اور نظارہ مجھے اِس وقت یاد آگیا ہے کچھ عرصہ کی بات ہے کہ ایک مشکل مجھے پیش آئی جس کیلئے میں نے دعا کی مگر اُس کی قبولیت میں کچھ دیر ہوگئی۔ اُس وقت میں نے اپنے دل میں نیت کی کہ کچھ دن میں زمین پرسوئوں گا اور اس طرح زیادہ انکسار کے ساتھ دعا کرسکوں گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو زیادہ سُرعت سے جذب کرسکوں گا چنانچہ میں زمین پر بستر کرکے لیٹ گیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھاکہ اللہ تعالیٰ ایک عورت کی شکل میں آیا اس کے ہاتھ میں ایک سبز شاخ ہے جس کے سرے پر کچھ پتے بھی موجود ہیں او رجس طرح ماں بعض اوقات بچہ پر بظاہر غصہ کا اظہار کررہی ہوتی ہے مگر حقیقتاً وہ محبت کا اظہار کرتی ہے اسی طرح وہ چھڑی پکڑ کر مجھے کہتا ہے کہ اُٹھ کر چارپائی پر لیٹتا ہے یا نہیں؟ مجھے یاد نہیں کہ چھڑی ماردی ہے یا نہیں لیکن رئویا میں مَیں نے دیکھا کہ اس کے ایسا کہنے پر میں کود کر چارپائی پر جاپڑا۔ اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی اورمیں نے دیکھا کہ میں واقع میں بھی کُود کر چارپائی کی طر ف جارہا تھا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اس طرح محبت کے ساتھ مجھے بتایا کہ تمہارا زمین پر لیٹنا مجھے شاق گزرتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کی محبت کا اندازہ وہی لوگ لگاسکتے ہیں جنہوں نے ایسا نقشہ دیکھا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کے مقابلہ میں ماں باپ، بیوی ، خاوند، بہن، بھائی،دوست احباب غرضیکہ دنیا کی سب محبتیں ہیچ ہوتی ہیں اور کوئی بھی عقل یہ تسلیم نہیں کرسکتی کہ جس نے محبت پیدا کی اس کے مقابلہ میں کوئی محبت ٹھہر سکتی ہے۔پس اگر مصیبت اور تکلیف کے ایام میں مؤمن اپنی مرضی سے اور تکالیف اپنے اوپر ڈال لے تو اللہ تعالیٰ کی غیرت معاً بھڑک اُٹھتی ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ بندہ اس کی محبت اور عشق میں اتنا گداز ہے کہ تکالیف پر بجائے شکوہ اور گلہ کرنے کے اور ان پر رنجیدہ ہونے کے خودبخود اَور بوجھ اپنے اوپر ڈالنے کیلئے تیار ہوگیا ہے تو معاً اس کی تکالیف کو دور کرکے اس کی محبت کی قربانی کو قبول کرلیتا ہے اس لئے اس موقع پر روز ہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی چیز ہے اور اس کا اندازہ روحانی لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ پس اس ہتھیار کو معمولی نہ سمجھو دنیا میںلوگ بھوکے رہ کرکمزور ہوجاتے ہیں مگر خداتعالیٰ نے ہمیں وہ نسخہ بتایاہے کہ بھوکے رہ کرہم طاقتور ہوسکتے ہیں۔ مؤمن جب فاقہ کرتا ہے تو اسے ایسی طاقت حاصل ہوتی ہے کہ جس کے مقابل پربڑی بڑی طاقتیں ہیچ ہوتی ہیں۔
یاد رکھنا چاہئے کہ روحانی دنیا بالکل نرالی ہے اور یہاںبعض باتیں دوسری دنیا کی نسبت عجیب ہوتی ہیں۔ فرعون جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابل پردلائل سے شکست کھاکر عاجز آگیا تو اُس نے تمسخر کا طریق اختیا ر کیا اور وزراء سے کہا کہ اونچا محل تیارکرائو۔ لَعَلِّیْ اَطَّلِعَ اِلٰی اِلٰہِ مُوْسٰی ؎۵ ۔ اس طرح میں موسیٰ کے خدا کو دیکھ آئوں مگر دیکھو! خداتعالیٰ بھی کیا لطیفہ کرتا ہے اُس نے اُسے سمندر میں غرق کیا اور اس طرح بتادیا کہ آسمان پر جانے والا تُو کون ہے؟ میں تجھے زمین سے نیچے لے جاکر اپنی شکل دکھاتا ہوں۔ مگر مؤمن جب زمین پر جھکتا ہے، سجدہ کرتاہے اور کہتا ہے کہ میں کیا کروں جو آسمان پر نگاہ ڈالوں اورخدا کے حسین چہرے کو دیکھ سکوں جب وہ اپنے سر کونیچے لے جاتا ہے تو خداتعالیٰ اُسے اوپر اُٹھاتا ہے۔فرعون اوپر جاکر خداتعالیٰ کو دیکھنا چاہتا تھا مگر خدا تعالیٰ نے اسے تحت الثرٰی میں پہنچایا لیکن مؤمن نیچے جاتا اور تذلل اختیار کرتا ہے مگر خداتعالیٰ اسے اُوپر اٹھاتا ہے۔ سورہ نور میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں مؤمن کے گھر کو اونچا کرتا ہوں بلکہ اس کے طفیل اس کے خاندان کو بھی اوپر اُٹھاتا ہوں ؎۶ ۔ اس کے بالمقابل جو بڑائی اور تکبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے نیچے گراتا ہے۔
پس روحانی دنیا کے معاملات بالکل نرالے ہوتے ہیں تم یہ خیال مت کرو کہ روزہ معمولی چیز ہے ہماری لڑائی روحانی ہے اس لئے اس میں روحانی ہتھیار ہی کام آسکتے ہیں۔ جہاں لوہے کی تلواروں سے لڑائی ہو وہاں تو لوہے کی تلوار ہی کام آسکتی ہے مگر جب لڑائی روحانی ہو تو دل کو کاٹنے کیلئے روحانی تلوار کی ضررت ہوتی ہے اور روحانی تلوار کوتیز کرنے کیلئے پتھر کی سان کی ضرورت نہیں بلکہ روزہ کی سان کی ضرورت ہے۔ اِس عالم میں کوئی چیز جتنی موٹی ہو اُتنی بھاری ہوتی ہے مگر روحانی عالم میں کوئی چیز جتنی باریک ہو اُتنی ہی زیادہ وزنی ہوتی ہے۔ اس دنیا میں موٹائی وزن بڑھاتی ہے مگر روحانی عالم میں باریکی وزن کو بڑھاتی ہے۔پس اِس ہتھیار کومعمولی مت سمجھو اور ان دنوں کو غفلت میں مت گزرنے دو۔ ہفتہ میں ہم ایک دن روزہ رکھیں گے اور سات دن دعائیں کریں گے دعائیں خواہ انفرادی طور پر کی جائیں خواہ جماعتیں مل کر دعا کرنے کا انتظام کریں یعنی ایک مقررہ وقت پر سب دوست جمع ہوکر دعاکریں۔
اس کے متعلق میں ایک بات اور کہہ دینا چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ کا طریق بندوں سے مختلف ہوتا ہے اس کا غضب بھی رحمت کے ساتھ مخلوط ہوتا ہے بندہ کو جب دوسرے پر غصہ آتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اسے پیس ڈالے اور مٹا دے مگر خداتعالیٰ کا غضب جب نازل ہورہا ہو اُس وقت بھی اُس کے مدنظر یہی ہوتا ہے کہ اگر ہوسکے تو بچایاجائے۔
حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق روایات میں یہ واقعہ بیان ہؤا ہے جو معلوم نہیں پوری طرح صحیح ہے یا نہیں مگر اس کے بعض حصوں کی تصدیق قرآن کریم سے بھی ہوتی ہے۔ لکھا ہے کہ جب ان کی قوم پر سے عذاب ٹل گیا اور انہیں عذاب کی کوئی خبر نہ ملی بلکہ راہ گزروں سے یہ سنا کہ نینوا کے لوگ بالکل خیریت سے ہیں تو انہوںنے یہ سمجھ کرکہ عذاب نہ آنے کی وجہ سے اُن کی قوم ان کو جھوٹا کہے گی ملک کو چھوڑ کر کہیں چلے جانے کا فیصلہ کرلیا۔ ادھر ان کی قوم توبہ کرچکی اور ان کی آمد کا بے صبری سے انتظارکررہی تھی کہ تا ان پر ایمان لاکران کے حکموں کے مطابق زندگی بسر کرے مگر حضرت یونس ان حالات سے بے خبر تھے۔ پس وہ ملک چھوڑ دینے کے خیال سے وہاں سے چل پڑے اور ایک جہاز پر سوار ہوگئے تاکہ کہیں دور نکل جائیں مگر اللہ تعالیٰ کی مشیّت سے وہ جہاز میں سوار تھے ایک شدید طوفان آیا اور لوگوں نے رائج الوقت خیالات کے مطابق سمجھا کہ کوئی غلام بھاگ کر جہاز میںسوار ہؤاہے جس کی وجہ سے طوفان آیا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے اُن کی گفتگو سنی تو کہا کہ وہ غلام میں ہی ہوں جو اپنے آقا سے بھاگ آیا ہوں یعنی انہوں نے خیال کیاکہ میرے چلے آنے کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند کیا ہے اور اس سبب سے یہ طوفان آیا ہے۔ لوگوں نے ان کی بات کو قبول نہ کیا لیکن جب فیصلہ کرنے کیلئے قرعہ ڈالا تو انہی کانام نکلا آخر لوگوں نے اُن کو سمندرمیں پھینک دیا جہاں اُنہیں ایک بڑی مچھلی نگل گئی اور آپ تین دن اس کے پیٹ میں رہے لیکن اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے ماتحت زندہ رہے۔ تین دن کے بعد مچھلی نے آپ کو اُگل دیا۔ جس جگہ پر اس نے آپ کو اگلا تھا وہاںایک بیل اُگ آئی یا پہلے سے اُگی ہوئی تھی اس کے سایہ میں آپ پناہ لے کرلیٹ گئے۔ آپ مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے نہایت کمزور ہورہے تھے اس لئے نڈھال ہوکر سایہ میں پڑے رہے آپ کو طاقت آرہی تھی کہ یکدم کیا دیکھتے ہیں کہ وہ بیل جس کے سایہ میں آپ لیٹے ہوئے تھے اسے ایک کیڑے نے کاٹ دیا ہے جس کی وجہ سے وہ خشک ہو کرگر گئی۔ آپ کو اس کا بڑا صدمہ ہؤا کیونکہ اس سے آپ کو بہت آرام ملا تھا اور آپ کے منہ سے بے اختیار بددعا نکلی کہ خدا اس کیڑے کو تباہ کرے جس نے اس بیل کو کاٹ دیا ہے مگر چونکہ یہ سب کچھ آپ کو سبق دینے کیلئے ہورہا تھا اللہ تعالیٰ نے معاً آپ کو الہام کیا کہ اے یونس! یہ بیل تیری لگائی ہوئی نہ تھی صرف تجھے اس سے عارضی تعلق پیدا ہوا تھا مگر اس کے کٹ جانے پرتجھے اس قدر رنج ہؤاتُو سوچ کہ جس قوم کی تباہی تُو چاہتا تھا وہ تو میری پیدا کردہ تھی کیا اسے تباہ کرتے ہوئے مجھے رنج نہ ہوتا؟ پھر اگر ان کے توبہ کرنے پر میں نے ان کو بخش دیا تو تجھے کیوں رنج ہؤا۔
اس قصہ کی تفصیلات میں خواہ کچھ غلطی ہو لیکن اس کے اکثر اجزاء کی قرآن کریم تصدیق کرتا ہے۔ پس اس میں جو سبق نکلتا ہے وہ درست ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے غضب میں بھی رحم ملا ہؤاہوتا ہے وہ خود بھی فرماتا ہے کہ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ ؎۷ میری رحمت ہر دوسری شَے پر غالب ہے۔ گویا جس طرح کونین پر میٹھا چڑھادیا جاتا ہے تا آسانی سے کھائی جاسکے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے غضب پر رحمت کی شکر چڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ مؤمن کو بھی اللہ تعالیٰ کا طریق اختیار کرنا چاہئے یعنی اگر ہم کسی کے متعلق دعا کریں کہ وہ تباہ ہوجائے تو اس لئے نہیں کہ اس سے ہمیں تکلیف پہنچی ہے بلکہ اس لئے کہ خداتعالیٰ کی تعلیم کے پھیلنے میں وہ روک بنتا ہے ذاتی عداوت ہرگز نہ ہونی چاہئے۔ اگر ہم واقعہ میں اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں تو ہمارے اندر وہی صفات ہونی چاہئیں جو ہمارے ربّ میں ہیں۔ بے شک ہمارے مخالفین میں عیوب ہیں مگر مؤمن کو ثواب زیادہ نظر آتا ہے۔ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ آپ ایک جگہ سے گزررہے تھے کہ رستہ میں کُتّا مرا ہؤا پڑا تھا۔ حواریوں نے ناکوں کے آگے رومال رکھ لئے، تھوکنا شروع کردیا اور کہنے لگے کہ مُردار سے کس قدر تعفّن اُٹھ رہا ہے۔ لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کھڑے ہوگئے اور فرمایا دیکھو! اس کے دانت کتنے سفیدہیں۔
سو دشمن اگرچہ ہماری مخالفت کرتا ہے مگر ہم اس کی مخالفت کے باوجود دو بلکہ تین پہلوئوں کونظر انداز نہیں کرسکتے۔
ایک یہ کہ اکثر لوگ ایسے ہیں جو دیانتداری کے ماتحت یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے دین سے پھر گئے ہیں اس لئے وہ ہماری اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ گویا وہ ہماری مخالفت خیرخواہی سے متأثر ہوکر کرتے ہیں اس لئے ہم ان کی نیت کو نہیں بھلاسکتے۔ اکثر لوگ غلطی خوردہ ہوتے ہیں وہ ہماری مخالفت کرتے وقت سمجھتے ہیں کہ دین کو قائم کررہے ہیں اوروہ ہمیں مٹاکر اسلام کو قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ اگرچہ وہ شرارت کرتے ہیں اور ہم ان کو غلطی پر سمجھتے ہیں مگر ان کے خیالات پر بھی نیکی کا غلبہ ہوتا ہے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ انبیاء کے مخالفوں کے ذریعہ ان کے ماننے والوں کو دکھ پہنچاتا ہے تا ان کی نیکی اور مخالفوں کی بدی ظاہر ہوجائے۔ گویا اللہ تعالیٰ ایک طرف مؤمنوں کا امتحان لیتا اور دوسری طرف ان کے مخالفوں کی بُرائیوں کو ظاہر کرتا ہے پس ان کی طرف سے جو مخالفت ہوتی ہے اس میں ایک حصہ جبر کا بھی ہوتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ ان تکالیف کا موجب کچھ ہمارا اپنا قصور بھی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم کو پاک کرے۔ ہم میں سے اگر کوئی بدمعاملہ ہو تو دشمن سمجھتے ہیں کہ یہ سب ٹھگ ہیں، کوئی جھوٹ بولتا ہے تو مخالف کہتے ہیں کہ یہ سب جھوٹے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس طرح ہماری کمزریوں کو دور کرے۔
یہ بات بھی ایسی ہے جسے ہم نظرانداز نہیں کرسکتے اور ان تین باتوں کی موجودگی میں ہمارا فرض ہے کہ پہلے مخالفوں کیلئے دعا اور پھر بدعا کریں۔ پہلا کام ہمارا یہ ہے کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہہ کر بیت الدعا کے اوپر ایک کمرہ اپنے لئے بنوایا تھا کہ وہ بھی اس میں دعا کیا کریں گے۔ آپ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ میں اس میںدعا کررہا تھا کہ مجھے نیچے سے اس طرح کی آواز آئی جیسے کوئی عورت دردِ زہ سے بیتاب ہوکر روتی ہے۔ وہ کہتے ہیں میں نے کان لگا کر سنا تو معلوم ہؤاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہایت زاری سے دعا کررہے ہیں۔ وہ طاعون کے دن تھے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب فرماتے ہیں کہ انہوںنے سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کہہ رہے تھے الٰہی! اگر یہ قوم طاعون سے ہلاک ہوگئی تو مجھ پر ایمان کون لائے گا؟
یہ ہمارے سردار کا رویہ ہے پس ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم ڈوبنے والے کو بچائیں اور مرنے والے کو زندہ کرنے کی کوشش کریں۔ غیظ و غضب سے اتنے متاثر مت ہو کہ یہی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کا بیڑا غرق کردے بلکہ پہلے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور بچا لے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ سب انسان ایک آدم کی اولاد ہیں مگر لوگوں نے اس برادری کو بھلادیا اس لئے غیریت پیدا ہوگئی اگر تم اس کا خیال رکھو تو پھر یہ احساس بھی تمہیں ہوجائے گا کہ اپنے بھائیوں کو کون مرواتا ہے۔
مکّہ کے کفار مسلمانوں کے کتنے دشمن تھے مگر اس برادری کا خیال ان پر بھی غالب تھا۔ چنانچہ بدر کے دن بعض نے کہہ دیا کہ مسلمان بھی تمہارے بھائی ہیں ان کوکیسے مارو گے؟ گویا شدید دشمنی کے باوجود محبت کا جوش غالب آگیا۔ پس اگر ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور ساری دنیا ایک برادری ہے تو ہمارا فرض ہے کہ مخالفت کرنے والوں کودعائوں کے تیروں سے ماریں۔ یہ چیز اچھی نہیں کہ ہم بددعائوں سے اپنے بھائیوں کے خون کریں۔ ذاتی جوش میں ہمیں یہ نہ کہنا چاہئے کہ خدایا! ان پر وبال نازل کر بلکہ یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے خدا ہم ان کی بہتری ہی چاہتے ہیں تباہی نہیں۔ ہم خود بھی کمزور تھے مگر تیرے فضل نے ہمیں ڈھانپ لیا تیری رحمت اتنی وسیع ہے کہ اس سے باہر کوئی چیز نہیں پس اگر تُو ان کو بھی ڈھانپ لے اور ہدایت دے دے تو اس سے زیادہ ہماری خوش قسمتی کیا ہوسکتی ہے لیکن اگر تیری حکمت بعض کو اس کا اہل نہیں سمجھتی اور ان کو فنا کرنے میں ہی بہتری ہے تو گو یہ بات ہمارے لئے رنج کا موجب ہوگی مگر ان کو ہمارے رستہ سے اس طرح ہٹادے کہ اسلام کی ترقی میں ان کا وجود روک نہ رہے۔ یہ طریق ہے جوہمیں اختیار کرنا چاہئے یہ دعا بھی ہے اور بددعا بھی۔ یہ دعا ہے اس لئے مَیں کہہ سکتاہوں کہ مؤمن بددعا کبھی نہیں کرتا اور یہ بددعا ہے اس لئے کہہ سکتاہوں کہ مؤمن کبھی کبھی بددعا بھی کرلیتا ہے۔ یہ چیز دونوں کے بین بین ہے اور دعا کی طرف بددعا کی نسبت زیادہ جھکی ہوئی ہے کیونکہ اس میں پہلے ہدایت کی دعا ہے۔ ہاں یہ بھی ہے کہ اگر ہدایت مقدر نہ ہوتو پھر خدا ان کوہمارے رستہ سے ہٹادے تا دین کی ترقی میں روک نہ ہوں۔ پس ہمارا غضب خدا کے لئے چاہئے اور اگر ہم اس طرح دعا کریں تو یقینا یہ غضب خدا کیلئے ہوگا لیکن اگر ہم کہیں کہ خدا ان کوماردے تو اس سے ذاتی غصہ ظاہر ہوتا ہے۔ پس ان دنوں میں اس رنگ میں دعائیں کرو جو میں نے اوپر بتایا ہے اور اس کے ساتھ جماعت کی اصلاح کیلئے بھی دعائیں کرو کیونکہ اگر یہ لوگ تباہ بھی ہوگئے اور ہم نے ان کی جگہ لے لی تو اس کا کیا فائدہ۔ ایک جھوٹے اورفریبی کو ہلاک کروا کر اگر دوسرا جھوٹا اور فریبی جگہ لے لے تو اس میں کوئی خوبی کی بات نہیں۔ اگر ہم خدا تعالیٰ کیلئے ان کی تباہی چاہتے ہیں تو یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ ہم ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے نہ ہوں۔ خدا ہمیں رحم دل، متقی اور دیانتدار بنائے، ہم احسان کرنے والے ہوں کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو ایک سیاہی کو مٹا کر دوسری لگالینے سے دنیا کو کیا فائدہ ہوسکتاہے۔ پس اس بات کیلئے خصوصیت سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ جماعت کاروحانی معیار بلند کردے۔ ابھی کئی لوگ جماعت میں ایسے ہیں کہ جن میںاور غیروں میں مجھے کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ جھوٹ، خیانت، ظلم، حق تلفی سے انہیں گریز نہیں۔ وہ دوستوں کیلئے جھوٹ بول دیتے ہیں اوربندہ کی دوستی کیلئے خدا کی دوستی کو قربان کردیتے ہیں اور اگر یہ چیزیں قائم رہیں تو خداتعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ موجودہ نقشہ کوتباہ کردے بلکہ ہمارے مخالف ہم سے زیادہ ہیں اور اگر دونوں ایک ہی قسم کے ہوں تو پھر زیادہ تعداد والوں کا زیادہ حق ہے کہ انہیں قائم رکھا جائے۔
سو ان دنوں میں خداتعالیٰ سے بہت دعائیں کرو اور عجز و انکسار سے اس کے حضور جھک جائو۔ نہ صرف پیر کے دن بلکہ ہر روز دعائیں کو۔ جہاں امام ایسا نہ ہو جونمازوں میں تلاوت کے ساتھ دعائیں پڑھ سکے وہاں دوسرے وقت میں مل کر دعا کا انتظام کرلو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو علیحدہ علیحدہ دعائیں کرو مگر کوئی دن ایسا نہ گزرے جب دعا نمایاں شکل میں سامنے نہ آچکی ہو اوراگر اس طریق سے دعائیں کی جائیں تو مجھے یقین ہے کہ ہر گز خالی نہ جائیں گی۔ پچھلے سال اس کا تجربہ ہم کرچکے ہیں اِدھر دعا کے ایام کا خاتمہ ہؤا اور اُدھر کوئٹہ میں زلزلہ آیا او رپھر مسلسل تباہیاں آتی رہیں تا کہ دشمن کوبیدار کردیں مگر افسوس کہ اس سے کسی نے فائدہ نہیں اُٹھایا۔ اور مجھے یقین ہے کہ اگر آپ لوگ یہ دن غفلت میں نہ گزاریں گے اور عاجزانہ طور پر خدا کے حضور جھکیں گے تو اللہ تعالیٰ دو نشانوں میں سے ایک ضرور دکھائے گا۔ یا تو وہ ان کو ہدایت دے دے گا یا انہیں ہلاک کردے گا دونوں میں سے ایک بات ضرور ہوکر رہے گی۔ اللہ تعالیٰ رحمت کا نشان دکھائے یا غضب کا اگر تمام احمدی عجز اور انکسار سے دعائوں میں لگے رہیںتو دشمن کے حالات کے مطابق ان دونوںباتوں میں سے ایک کو ضرور معیّن کراکر رہیں گے۔اگر وہ نیکی کی طرف جھکے گا تو رحمت کا نشان ظاہرہوگا او راگر ضد میں بڑھے گا تو غضب کا۔
پس آئو اس رحمت کے دروازہ میں جوخدا نے کھولا ہے داخل ہوجائو جو سوائے تمہارے کسی کو میسر نہیں۔ آج اجابت دعا کے دروازے صرف تمہارے لئے ہی کھولے گئے ہیں اور کسی کیلئے نہیں، قبولیت کے فرشتے تمہارے لئے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیںمگر دوسروں کیلئے ان کی مٹھیاں بند ہیں۔ اس طاقت اور قوت کو حقیر مت سمجھو جو خداتعالیٰ نے تمہیںدی ہے۔ آسمان سے تمہاری کامیابی کے احکام جاری ہوچکے ہیں۔ اگرہمت اور استقلال سے کام لو گے، خدا کے حضور عجز اور انکسار سے جھک جائو گے تو وہ تمہیں توفیق دے گا کہ اپنے آسمانی باپ کا ورثہ حاصل کرسکو لیکن اگر سُستی اور غفلت کرو گے تو اس میں کیا شبہ ہے کہ خالی منہ سے نکلی ہوئی دعائیں قبول نہیں ہؤاکرتیں۔اللہ تعالیٰ کے حضور وہی دعا قبول ہوتی ہے جو دل کے خون سے لکھی جائے زبان کی آواز قبول نہیں ہوتی بلکہ دل کے خون کی تحریر قبول ہوتی ہے۔ اگر دعائوں کے ساتھ دل کے خون کے چھینٹے دو گے تو کامیابی کے رستے کھل جائیں گے ورنہ جوبرکتیں تمہارے لئے مقدر ہیں وہ انتظار کریں گی جب تک کہ تم ان کے قابل نہ ہوجائو۔ انہیں لینا تمہارے اختیار میں ہے چاہے جلد حاصل کرلو اور چاہے ملتوی کرالو۔
(الفضل ۱۱؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
؎۱ البقرۃ: ۴۶
؎۲ بخاری کتاب الصوم باب فی فضل الصوم
؎۳ متی باب ۵ آیت ۴۰۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء
؎۴ متی باب ۵ آیت ۳۹ ۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء
؎۵ القصص: ۳۹
؎۶ فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ (النور: ۳۷)
؎۷ الاعراف: ۱۵۷




۲ ۱
اپنے نفوس کی اصلاح کی طرف توجہ کرو اور خداتعالیٰ
کی خشیت اور اس کی محبت پید اکرو
(فرمودہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
انسانی زندگی کے مختلف دَور ہوتے ہیں۔ کچھ ان حالات کے لحاظ سے جو انسان پر گزرتے ہیں اور کچھ اُس علم کے لحاظ سے جو اُسے حاصل ہوتا ہے۔ یعنی کبھی تو وہ ایسے حالات میں سے گزررہا ہوتا ہے جو اُس کی ترقی کاموجب ہوتے ہیں اورکبھی ایسے حالات میں سے گزررہا ہوتا ہے جواس کے تنزل کا موجب ہوتے ہیں۔ پھر کبھی وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں ایسے حالات میں سے گزررہا ہوں جومیرے لئے ترقی کاسامان اپنے اندر رکھتے ہیں اور کبھی وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں ایسے حالات میں سے گزررہا ہوں جومیرے لئے تنزّل کا سامان اپنے اندر رکھتے ہیں لیکن حقیقتاً اس کا خیال درست نہیں ہوتا۔ اس حالت میں جب وہ گھبراہٹ کا اظہار کررہا ہوتا ہے اس کیلئے خوشی اور مسرت کامقام ہوتا ہے اور جب خوشی کا اظہار کررہا ہوتا ہے اس کیلئے گھبرانے اور رونے کا مقام ہوتا ہے۔
مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ اونچا کررہا ہوتا ہے لیکن بظاہر انہیں اپنے سامنے مشکلات نظر آتی ہیں۔ مؤمنوں اور کفار کا مقابلہ بھی اِسی طرح کا ہوتا ہے۔ دونوں کی حالتیں درحقیقت عدمِ علم کی وجہ سے ہوتی ہیں اور وہ ان سے گھبرارہے ہوتے ہیں لیکن ان کی گھبراہٹ باموقع نہیں ہوتی اور دشمنوں کو اللہ تعالیٰ نیچا کررہا ہوتا ہے جبکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انسان کی ترقی اور بلندی کے سامان ہورہے ہیں وہ خوش ہورہے ہوتے ہیں لیکن ان کی خوشی بھی باموقع اور بامحل نہیں ہوتی۔ ہر ایک کو ان میں سے اللہ تعالیٰ غفلت میں رکھ رہا ہوتا ہے یہاں تک کہ فیصلہ کا وقت آجاتا ہے اور دونوں فریق اپنی اپنی جگہ حیران رہ جاتے ہیں۔ وہ جو اس خیال میںدَوڑا چلا جارہا تھا کہ مجھے تخت پربٹھایا جانے والا ہے وہ یک لخت دیکھتا ہے کہ وہ پھانسی کے تختے پر کھڑا ہے اور جسے یہ خیال تھا کہ اُسے پھانسی کے تختہ کی طرف لے جایا جارہا ہے وہ یکدم دیکھتا ہے کہ اُسے تختِ شاہی پر بٹھادیاگیا ہے۔ وہ انکشاف کاوقت عجیب وقت ہوتا ہے اِس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کوایسے حالات میں سے گزرنے کا موقع ملتا ہے ورنہ ایسے غیرمعمولی حالات ہوتے ہیں کہ بعد میں آنے والی نسلیں بھی ان کو نہیں سمجھ سکتیں۔
آج سے اُنیس سَو سال پہلے جب یہودی حضرت مسیح علیہ السلام کوصلیب پر لٹکارہے تھے اُس وقت ان کے دلوں میں جو خوشی تھی آج اُس کا کون اندازہ کرسکتاہے۔ پھر اس وقت حضرت مسیح کے حواریوں کی جو کیفیت تھی اس کا بھی آج کون اندازہ لگاسکتا ہے۔ جو گھبراہٹ اُس وقت حواریوں میں پیدا ہوئی وہ اِس بات سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ وہ غریب لوگ جو تلوار چلانا جانتے ہی نہ تھے بغیر اس خیال کے کہ ان کے اس فعل کا نتیجہ کیاہوگا ان میں سے ایک نے جس کانام پطرس تھا تلوار نکال لی اور شاہی فوجیوں سے لڑنے کیلئے تیار ہوگیا۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے اسے منع کیا اور کہا اِس سے کیا فائدہ؟ پھر دوسرا اثر پطرس پر یہ پڑا کہ اُس نے حضرت مسیح پر *** بھیجی اور کہا میں اسے جانتا ہی نہیں۔ گویا پہلا اثر تویہ ہؤا کہ وہ بے محل لڑائی کیلئے تیار ہوگیا اور دوسرا اثر یہ ہؤا کہ اس نے بِلاوجہ اپنے آقا اور اُستاد کاانکار کردیا۔ خود حضرت مسیح کے قلب کی جو کیفیت تھی وہ اِس سے معلوم ہوسکتی ہے کہ وہی مسیح جن کے پاس ایک دفعہ اُن کی والدہ اور بھائی جب ملنے کیلئے آئے تو لوگوں نے اطلاع دی آپ کی ماں اوربھائی باہر کھڑے ہیں اور وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں حضرت مسیح علیہ السلام نے کہا کون ہے میرا بھائی، کون ہے میری ماں۔ لیکن دوسرے وقت کی ان کی قلبی کیفیت یہ تھی کہ جب اُن کو صلیب پر لٹکایا گیا اور انہوں نے ہجوم میں اپنی ماں کو کھڑے دیکھا تو ایک حواری کو اشارہ کرکے انہوں نے اپنے پاس بلایا جب وہ پاس پہنچ گیا تو انہوں نے اُس کو کہا کہ تم جانتے ہو یہ عورت کون کھڑی ہے؟ دیکھو! یہ تمہاری ماں ہے اور اے عورت! یہ تیرا بیٹا ہے جس کے صاف طور پر یہ معنی تھے کہ وہ ظاہری حالات کے لحاظ سے یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ان کا آخری وقت قریب ہے اور یہ کہ اب ان کافرض ہے کہ وہ اپنی ماں کی حفاظت اور اس کی تسلی کا کوئی انتظام کریں۔ پس انہوں نے اپنے ایک حواری کو پاس بلا کر کہہ دیا کہ تیرا فرض ہے کہ تُو اسے اپنی ماں سمجھے اور اے ماں! تُو اس کو میری جگہ بمنزلہ اپنے بیٹے کے سمجھنا۔ اُس وقت یہودی کتنے خوش تھے اور حواری کتنے رنجیدہ تھے مگر ان کو کیا علم تھا ان حالات کا جوبعد میں پیش آنے و الے تھے ۔ آج انیس سَو سال گزر گئے مگر کہیں بھی یہود کو آرام کی جگہ نہیں ملتی۔ ہر مُلک ان کیلئے تنگ ہورہا ہے آخری ملک ان کے آرام کا انگلستان تھا مگر اب انگلستان میں بھی ان پر حملے شروع ہوگئے ہیں۔ اُنیس سَوسال کا عرصہ کتنا لمبا ہوتا ہے لوگ سَو سال کے بعد اپنے باپ دادوں کو بھول جاتے ہیں لیکن حضرت مسیح کو دُکھ دینے والے آج انیس سَو سال کے بعد بھی وہ دُکھ اٹھارہے ہیں جن کی نظیر اور کسی قوم میں نہیں مل سکتی اور وہ مسیح جسے کانٹوں کا تاج پہنایا گیا اُس کی وہ عزت ہوئی کہ خدا اپنے عرش سے اُس کی تعریف کرتا اور قرآن مجید میں نہایت اعزاز کے ساتھ اس کا ذکر کرتا ہے اور عیسائی اس کی محبت میں اتنا غلوّ کرتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ وہ خد اکا اکلوتا بیٹا ہے جو عرش پر اس کے دائیں ہاتھ بیٹھا ہے۔ جو پھانسی پر لٹکانے والے تھے اُنہیں دنیا میں کوئی ٹھکانا نہیں تھا مگر جسے پھانسی پر لٹکایا گیا تھا اسے عرش پر بٹھادیا گیا۔ پس اُس وقت کے جو یہود اور حواریوں کے جذبات تھے آج اُن کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا اسی طرح جو آج یہود اور حضرت مسیح کے ماننے و الوں کے جذبات ہیں ان کا پہلے لوگ بھی اندازہ نہیں کرسکتے تھے۔ کیا ان یہودیوں کے باپ دادے یہ اندازہ کرسکتے تھے کہ ہمارے اِس فعل کے نتیجہ میں کتنے ہزار سال تک ہماری اولادوں پر اللہ تعالیٰ کی *** برستی چلی جائے گی؟ اور کیا حضرت مسیح کے حواری یہ خیال کرسکتے تھے کہ ان کی اس قربانی کے نتیجہ میں باوجود اس کے کہ ان کی اولادیں دین کی مخالف ہوجائیں گی، باوجود اس کے کہ وہ دین میں ابتری پھیلانے والی بن جائیں گی پھر بھی خداتعالیٰ کے فضل کوجذب کرتی چلی جائیں گی؟
پس ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ بھی ایک نبی کی جماعت ہے اور اس سے بھی اِس وقت وہی معاملہ ہورہا ہے جوپہلوں سے ہؤاجس طرح پہلوں کو خداتعالیٰ نے ہمیشہ اندھیرے میں رکھا یہاں تک کہ ایک دن اندھیرا دور ہوگیا اور خداتعالیٰ نے اپنے فیصلہ کا اعلان کردیا اسی طرح ضروری ہے کہ ہمیں بھی اندھیرے میں رکھا جائے یہاں تک کہ اس اندھیرے کو دور کردینے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوجائے۔
مصائب کا آنا ضروری ہے، ابتلائوں کا آنا ضروری ہے، تکالیف کا آنا ضروری ہے، یہ سب چیزیں معمولی ہیں اور ان کی کوئی پرواہ نہیں کی جاسکتی۔ جس چیز کی پرواہ ہونی چاہئے وہ یہ ہے کہ یہ مصائب اور ابتلاء ایمانی نہ ہوں کیونکہ جہاں جسمانی مشکلات انسان کے درجہ کو بلند کرتی ہیں وہاں ایمانی مشکلات اس کے درجہ کو گِرادیتی ہیں۔ پس مؤمن کو ان مشکلات سے نہیں ڈرنا چاہئے جو دنیا کی طرف سے آتی ہیں بلکہ اسے ان مشکلات کا فکر کرنا چاہئے جو اس کے نفس کی طرف سے آتی ہیں مگر بہت لوگ ہیں جوان مشکلات کی طرف نگاہ نہیں دَوڑاتے جو انسانی نفس سے پیدا ہوتی ہیں مگر وہ ان مشکلات پر نظر رکھتے ہیں جودوسروں کی طرف سے آتی ہیں حالانکہ وہ مشکلات جو دوسروں کی طرف سے آئیں کھاد کی طرح ہوتی ہیں اور وہ مشکلات جو انسانی نفس کی طرف سے آئیں ایسی ہوتی ہیں جیسے جڑ پر تبر رکھ دیا جائے۔ پس چاہئے کہ ہر شخص جو روحانیت کی قدر کرتا ہے وہ ان مشکلات اور ظلموں کی طرف توجہ کرے جو نفس کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں وہ ظلم اصلی ظلم ہوتے ہیں اور وہ ظلم حقیقی خطرے کا موجب ہوتے ہیں کیونکہ بالکل ممکن ہے ان کے نتیجہ میں ہمارا ایک بھائی عرش سے فرش پر پھینک دیاجائے مگر جو دنیا کی طرف سے مصیبتیں آتی ہیں وہ ایسی ہوتی ہیں کہ انسان کو فرش سے عرش پر لے جاتی ہیں۔ پس بجائے اس کے کہ تم اپنی توجہ ان مشکلات کی طرف پھیرو جو بندے پید اکررہے ہیں میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ زیادہ تر اپنے قلوب کا مطالعہ کرے اور اپنے ایمانوں کو دیکھتی رہے۔
رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں شیطان انسان کے خون کے ساتھ چلتا ہے ؎۱ ۔جس طرح خون میں پیداہ شُدہ زہر کا انسان کو علم بھی نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس کی ہلاکت کا سامان مکمل ہوجاتا ہے اسی طرح شیطان انسان پر قبضہ کررہا ہوتا ہے مگر اسے پتہ بھی نہیں لگتا یہاں تک کہ ایک دن وہ ہلاک ہوجاتا ہے۔ دنیا میں بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جو کئی کئی دن پہلے سے انسانی جسم پر اثر ڈالنا شروع کردیتی ہیں جیسے ہیضہ ہے، چیچک ہے ، انفلوئنزا ہے، محرقہ ہے، طاعون ہے یہ مرضیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک دن، کوئی تین دن، کوئی سات دن اور کوئی پندرہ دن پہلے سے اثر ڈالنا شروع کردیتی ہے مگر اس اثر کا علم نہیں ہوتا یہاںتک کہ خون کے ذریعہ وہ زہر تمام جسم میں سرایت کرجاتا ہے اور اُس وقت بیماری کا علم ہوتا ہے جب بیماری جسم پر اپنا قبضہ جمالیتی ہے اور انسان کیلئے اس سے بھاگنے کا کوئی موقع باتی نہیں رہتا۔ شیطان بھی ان راہوں سے آتا ہے جن راہوں کا انسان کوعلم نہیں ہوتا اور جب ہوتا ہے تواُس وقت ہوتا ہے بلکہ یوں کہو کہ اُس کے ساتھیوں کو علم ہوتا ہے جب شیطان اس پر پوری طرح قبضہ جمالیتا ہے۔ چونکہ دنیوی بیماریوں اور روحانی بیماریوں میں یہ فرق ہوتا ہے کہ دُنیوی بیمار خود بھی محسوس کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بیمار ہوں لیکن روحانی بیمار یہ سمجھتا ہے کہ میں اچھا ہوں اور مجھے بیمار کہنے والے غلطی خوردہ ہیں۔ گویا اُسے ایک قسم کا جنون ہوتا ہے۔ جس طرح پاگل سمجھتا ہے کہ میں پاگل نہیں بلکہ دوسرے لوگ پاگل ہیں اسی طرح وہ سمجھتا ہے کہ میں بیمار نہیں بلکہ مجھے بیمار کہنے والے خود بیمار ہیں۔ تو یوں سمجھنا چاہئے کہ جب شیطان انسان پر قبضہ کرلے تو اس کے دوستوں کومعلوم ہوجاتا ہے کہ یہ بیمار ہے مگر خود اپنے متعلق یہ سمجھتا ہے کہ میں بالکل اچھا ہوں۔
پس ہماری جماعت کو اپنے نفس کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ ہر شخص جوتکبر کرتا ہے اور اپنے آ پ کو محفوظ اور مصئون سمجھتا ہے وہ سمجھے کہ وہ موت کی طرف جارہا ہے۔ مؤمن کبھی بھی خداتعالیٰ کی خشیت اور اس کے خوف سے خالی نہیں ہؤا۔ رسول کریم ﷺ کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ جب رات کو اُٹھتے تو اتنے عجز اور انکسار سے دعائیں کرتے کہ صحابہ کہتے ہیں کہ بعض دفعہ ہمیں رحم آجاتا ؎۲ ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ سے عرض کیاکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب کچھ معاف کردیا ہے آپ کی نجات تو اعمال سے ہوگی آ پ نے فرمایا عائشہ میری نجات بھی خداتعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے ؎۳ ۔
پس جب رسول کریم ﷺ کی یہ حالت تھی تو اور کون ہے جویہ کہہ سکے کہ میں خداتعالیٰ کے ابتلاء اور اس کی آزمائشوں سے بچ گیا ہوں۔ بعض صحابہ کہتے ہیں کہ ہم جب رسول کریم ﷺ کو دعائیں کرتے دیکھتے تو ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ ایک ہنڈیا جوش سے اُبل رہی ہے۔ پس اپنے نفوس کی اصلاح کی طرف توجہ کرو اور تقویٰ و طہارت پیدا کرو اور مت سمجھو کہ تم نیک کام کررہے ہو کیونکہ نیک سے نیک کام میں بھی بے ایمانی پیدا ہوسکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ نہ معلوم کیا بات ہے کہ آجکل لوگ حج کرکے آتے ہیں تو ان کے قلوب میں آگے سے زیادہ رعونت اور بدی پیداہوچکی ہوتی ہے یہ نقص اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ حج کے مفہوم کو نہیں سمجھتے اور بجائے روحانی لحاظ سے کوئی فائدہ اُٹھانے کے محض حاجی بن جانے کی وجہ سے تکبر کرنے لگ جاتے ہیں۔ اِس کے ساتھ ہی آپ ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک بُڑھیا سردی کے دنوں میںرات کے وقت اسٹیشن پر تنہا بیٹھی تھی کہ کسی نے اُس کی چادر اُٹھالی جب اسے سردی لگی اور اُس نے چادر اوڑھنی چاہی تو اسے گم پایا۔ یہ دیکھ کر وہ آواز دے کر کہنے لگی ’’بھائی حاجیا! میری تے اکو چادر سی میں پالے مر جاواں گی۔ تُو ایہہ تے مینوں واپس کردے‘‘۔ یعنی بھائی حاجی! میری تو ایک ہی چادر تھی اِس کی مجھے ضرورت ہے وہ مجھے واپس کردے۔ یہ سن کر جس نے چادر اُٹھائی تھی شرمندہ ہؤا اور اس نے اُس کی چادر اس کے پاس رکھ دی مگر ساتھ ہی اُ س نے پوچھا تجھے یہ پتہ کس طرح لگا کہ چادر چُرانے والا کوئی حاجی ہے؟ وہ کہنے لگی کہ اس زمانہ میں اس قدر سنگدلی حاجی ہی کرتے ہیں۔
پس یہ مت خیال کرو کہ ہم نیک کاموں میں لگے ہوئے ہیں ، یہ مت خیال کرو کہ ہم نیک ارادے رکھتے ہیں کتنا ہی نیک کام انسان کررہا ہو اس میں سے بدی پیدا ہوسکتی ہے اور کتنا ہی نیک ارادہ انسان رکھتاہو وہ اس کے ایمان کو بگاڑ سکتا ہے کیونکہ ایمان ہمارے اعمال کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے رحم کے نتیجہ میں آتا ہے۔ پس تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے رحم پر نگاہ رکھو اور تمہاری نظر ہمیشہ اُس کے ہاتھوں کی طرف اُٹھے کیونکہ وہ سوالی جو یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دروازہ سے اُٹھنے کے بعد میرے لئے اور کوئی دروازہ نہیں کھل سکتا وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرلیتا ہے۔ پس تمہاری نگاہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف اُٹھنی چاہئے جب تک تم اپنی نگاہ اس کی طرف رکھو گے تم محفوظ رہو گے کیونکہ جس کی خداتعالیٰ کی طرف نگاہ اُٹھ رہی ہو اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا مگر جونہی نظر کسی اور کی طرف پھیری جائے اور انسان اس کے دروازہ سے قدم اٹھالے پھر خواہ کتنے ہی نیک ارادے رکھے اور کتنے ہی اچھے کام کرے اس کا کہیں ٹھکانہ نہیں رہتا بلکہ وہ شیطان کی بغل میں ہی جاکر بیٹھتا ہے۔
(الفضل ۱۸ ؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
؎۱ بخاری کتاب الادب باب التکبیر والتسبیح (الخ)
؎۲ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الفتح باب لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ (الخ)
؎۳ بخاری کتاب الادب باب القصد والمداومۃ علی العمل


۱۳
مسٹر کھوسلہ سیشن جج گورداسپور کا فیصلہ اورجماعت احمدیہ
ہم حضرت مسیح موعودؑ کی ہتک کے ازالہ کیلئے اپنے
خون کا آخری قطرہ تک بہادینے کیلئے تیار ہیں
(فرمودہ ۱۷؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں پہلے تو جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ شایدپھر کوئی ابتلاء آنے والاہے کیونکہ میں نے آج رئویا دیکھا ہے کہ میں ایک گھر میں ہوں جو قادیان کا ہی ہے وہاں بہت سے احمدی مرد اورعورتیں جمع ہیں۔ عورتیں ایک طرف ہیں غالباً برقعہ وغیرہ پہن کر بیٹھی ہیں یا اوٹ ہے میں نے اس طرف دیکھانہیں لیکن ایک طرف مرد ہیں اور ایک طرف عورتیں۔ چوہدری مظفرالدین صاحب جو کچھ عرصہ پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے ہیں اور اب بنگال میں مبلغ ہوکر گئے ہیں وہ اور ایک اور آدمی گھبراکر کھڑے ہوئے جلدی جلدی بلند آوا زسے میری توجہ کوایک طرف پھیرانا چاہتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ دیکھئے کیاہے۔ وہ دیکھئے کیا ہے۔ وہاں ایک چوہیا دَوڑی جارہی ہے ۔ لوگ اُسے ماررہے ہیں اور میری توجہ اس طرف ہے لیکن چوہدری صاحب اور ان کا ایک ساتھی مجھے دوسری طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں اور آوازیں دے رہے ہیں۔ ان کے توجہ دلانے پر میں نے اس طرف دیکھا تو ایسا معلوم ہؤا کہ ایک جگہ دیوار شق ہے اور ایک چوہیا وہاں سر کے بل لٹکی ہوئی ہے اسے دکھا کر چوہدری مظفرالدین صاحب جلدی جلدی مجھ سے پوچھ رہے ہیں ۔ حضور یہ طاعون سے مَری ہے یا کسی اور طرح سے۔ حضور یہ طاعون سے مری ہے یا کسی اور طرح سے۔ اسے دیکھ کر میں یہی سمجھتا ہوں کہ یہ طاعون سے ہی مری ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری بڑی بیوی بھی وہیں ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ چلو گھر چلیں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ اس گھر کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسے طاعون سے محفوظ رکھوں گا اس لئے موجودہ جگہ سے جہاں طاعون کے آثار پیدا ہوچکے ہیں ہمارا اس گھر میں جانا وحی الٰہی کی بے حرمتی کا موجب تو نہ ہوگا اور میرے دل میں خیال گزرتا ہے کہ کیوں نہ سات دن کسی کھلے میدان میں باہر رہ کر پھر گھر جائیں۔ میں اسی خیال میں تھاکہ آنکھ کھل گئی۔ اور چوہدری صاحب جب مجھے وہ مری ہوئی چوہیا دکھارہے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اور بھی بہت سے چوہے مرے پڑے ہیں۔ چوہے سے مراد منافق بھی ہوتا ہے او رطاعون بھی۔ پس اس خواب کا اشارہ کسی ایسے فتنہ کی طرف بھی ہوسکتا ہے جو گھبراہٹ کا موجب ہو یا منافقوں سے ہمارا مقابلہ آپڑے اور اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کردے اور اس سے مراد طاعون بھی ہوسکتا ہے اور ممکن ہے اس سال طاعون زیادہ زور سے پھوٹے یا آئندہ زمانہ میں پھر اس کا شدت سے ظہور ہو۔ اسی سال ایک دشمن نے اعتراض کیا ہے کہ مرزا صاحب نے تو لکھا تھا کہ طاعون بند نہ ہوگی اب طاعون کہاں ہے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں یہ فرمایا ہے کہ بندنہ ہو گی وہاں بھی اس کے خاص معنی ہیں اور جہاںفرمایا ہے بندہوگی وہاں بھی اس کے خاص معنی ہیں۔ دراصل اللہ تعالیٰ عذاب لانے کے پیش خیمہ کے طور پر ایسے اعتراضات کرایا کرتا ہے جیسے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَـفَسَقُوْا فِیْھَا ؎۱ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو انگیخت کی جاتی ہے کہ وہ اس کے عذاب کو بھڑکا دیں۔ پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ دعائیں کریں کہ اگر کوئی ایسا فتنہ مقدر ہو تو اللہ تعالیٰ جماعت کو اس سے بچائے اور منافقوں کاوبال ان پر ہی پڑے اور اگر اس سے مراد طاعون ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس سے بھی ہمیں محفوظ رکھے اور جیسا نمایاں سلوک ہمارے ساتھ پہلے کرتا رہا ہے ویسا ہی اب بھی کرے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔
اس کے بعد میں ایک نہایت ضروری امر کی طرف جماعت کوبالعموم اور نیشنل لیگ اور حکومت کو بالخصوص توجہ دلاتا ہوں۔مجھے افسوس ہے کہ وقت کا صحیح اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے میں ایسے وقت میں غسل کیلئے گیا کہ جمعہ کیلئے آنے میں دیرہوگئی اور یہ مضمون کسی قدر طوالت چاہتا ہے مگر چونکہ اس کا جلد سے جلد بیان کردینا ضروری ہے او رگرمی کا موسم شروع ہوجانے کی وجہ سے نماز کا وقت بھی لمبا ہوگیا ہے اس لئے مَیں اسے بیان کردیتا ہوں۔ یہ امر مسٹر کھوسلہ کا فیصلہ ہے۔ ہمارے دوستوں کو معلوم ہے کہ مولوی عطاء اللہ صاحب کے خلاف حکومت نے مقدمہ چلایا تھا اور پہلے مجسٹریٹ کی طرف سے ان کو کچھ سزا بھی دی گئی تھی۔ ان کی طرف سے سیشن کورٹ میں اپیل کی گئی اور وہاں ان کی سزا صرف نام کے طور پر رہ گئی اور سیشن جج نے ایسا فیصلہ کیا جس سے ہماری جماعت کے دل سخت مجروح ہوئے، مجروح ہیں اورمجروح رہیں گے۔ اس کے خلاف ہماری طرف سے ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی جس پر جماعت کا قریباً پندرہ ہزار روپیہ خرچ ہوگیا۔ ہائیکورٹ کے جج نے اپنے فیصلہ میں قریباً ان تمام شکایات کو جو ہم نے پیش کی تھیں درست تسلیم کیا اور ان میں اصلاح کی لیکن بعض باتوں کے متعلق اس نے لکھا کہ چونکہ حکومت کی طرف سے سزا بڑھانے کی درخواست نہیں کی گئی اس لئے قانون مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں واقعات میں جائوں اور میں مجبور ہوں کہ جس حد تک سختی یا سخت الفاظ کے استعمال کا سوال ہے یا ایسے امور کا سوال ہے جو عدالت کی کارروائی سے تعلق نہیں رکھتے صرف اسی حد تک اپنے فیصلہ کومحدود رکھوں۔ اس کانتیجہ یہ ہؤا کہ بعض واقعات جو ہماری انتہائی دل شکنی کا موجب ہیں بلکہ ہمارے مذہب پر حملہ ہیں وہ بغیر جواب کے رہ گئے اور جماعت ایسے حالات میں مبتلاء کردی گئی کہ اس کیلئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ عدالت سے باہر ان کا فیصلہ کرے یاکرائے۔ نیشنل لیگ نے اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور مجھے معلوم ہؤا ہے کہ نیشنل لیگ کے بعض ممبر اس فیصلہ کے متعلق رائے زنی کررہے ہیں ایک چَھپا ہوا ٹریکٹ بھی مجھے ملا ہے اور اگرچہ اُسے پڑھنے کا موقع مجھے تاحال نہیں ملا لیکن جواطلاعات مجھے ملی تھیں ان کی بناء پر نیز ٹائٹل کو دیکھ کر میں سمجھتا ہوں اس میں بھی یہی مضمون ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نیشنل لیگ کے صدر اس بارہ میں حکومت سے گفت و شنید کررہے ہیں۔ نیشنل لیگ کے قیام کی اجازت دیتے ہوئے جب جماعت سے چاروں طرف سے یہ آواز آرہی تھی کہ ایک ایسی مجلس قائم کرنے کی اجازت دی جائے جو ان سیاسی امور میں حصہ لے سکے جن میں جماعت احمدیہ حصہ نہیں لے سکتی۔ اس وقت منجملہ دیگر شرائط کے ایک شرط مَیں نے یہ بھی رکھی تھی کہ سلسلہ کے وقار اور اس کی روایات کو کسی صورت میں بھی پسِ پشت نہ ڈالا جائے، اسلامی تعلیم کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے اور حکومت وقت کا کوئی قانون نہ توڑا جائے۔ میں نے تین ضروری شرائط رکھے تھے اور بتایا تھا کہ ان کے ماتحت لیگ اپنی ذمہ داری پر کام کرے ہاں مناسب مشورہ مجھ سے لے سکتی ہے اور یا جب میں خود مناسب سمجھوں دخل دے سکتا ہوں۔
اب میں سمجھتا ہوں کہ ایسا موقع آیا ہے کہ مجھے خود دخل دینا چاہئے اور چونکہ اس کاتعلق لیگ کے ہزاروں ممبروں کے ساتھ بلکہ تمام جماعت کے ساتھ اور ایک حصہ کا تعلق حکومت کے ساتھ بھی ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ خطبہ میں یہ امر بیان کردوں تا سب کو علم ہوجائے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جبکہ نیشنل لیگ کے صدر حکومت سے گفت و شنید کررہے تھے تو ممبروں کو رائے زنی نہ کرنی چاہئے تھی۔ میرے نزدیک انسان کو ہمیشہ ایک خاص پالیسی کو مدّنظر رکھ کر کام کرنا چاہئے۔ میں مانتاہوں کہ جو رائے زنی کی جارہی ہے وہ آئینی طریق کے اندر ہے مگر آئینی طریق بھی دو قِسم کے ہوتے ہیں۔ بعض ایسے کہ ایک وقت میں دونوں کو استعمال کیا جاسکتا ہے اور پھر بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو آگے پیچھے کرنا پڑتا ہے۔ اور جب ایک طرف اپنی براء ت کی خواہش حکومت سے کی جارہی ہو تو دوسری طرف ایسے طریق اختیارکرنا جس سے اپنے طور پر براء ت کرنے کا ارادہ ظاہر ہوتا ہو کچھ ایسا درست نہیں معلوم ہوتا۔ جب حکومت سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ سلسلہ کے نقصان کی تلافی کرے تو چاہئے تھا کہ پہلے اس سے جواب لے لیا جاتا اور پھر اگر ضرورت باقی رہتی تو خود کوئی قدم اٹھایا جاتا۔ دونوں کو ایک وقت میں جمع کردینا میرے نزدیک مناسب نہیں تھا اور میری ذاتی رائے ہے کہ اس بارہ میں ممبروں نے غلطی کی ہے اور اگر لیگ نے ایسا کرنے کی اجازت دی ہے تو اس نے بھی عقلاً غلطی کی ہے۔ یا تو اسے حکومت کو مخاطب ہی نہ کرنا چاہئے تھا اور جب مخاطب کیا گیا توپہلے اس سے فیصلہ کرانا چاہئے تھا اور یا پھر یہ کہہ دینا چاہئے کہ آپ تو فیصلہ کرتے نہیں اور خواہ مخواہ دیر لگاتے چلے جاتے ہیں اس لئے ہم اب خود سلسلہ کی عزت کو بچانے کی کوشش پر مجبور ہیں۔ میرے نزدیک ان تینوں صورتوں میں سے ایک نہ ایک کا اختیار کرنا ضروری تھا۔ یا تو حکومت کو مخاطب ہی نہ کیاجاتا یا اسے مخاطب کیا جاتا اور اس سے فیصلہ کرایا جاتا۔ اور اگر وہ ایسا رویہ اختیار کرتی جس کے نتیجہ میں وقت ضائع ہوتا ہو تو اس سے کہہ دیا جاتا کہ آپ چونکہ دیر کرتے جاتے ہیں اس لئے ہم خود اس معاملہ کواپنے ہاتھ میں لیتے ہیں آپ اب کچھ کریں یا نہ کریں۔
میری یہ بھی رائے ہے کہ نیشنل لیگ نے حکومت سے گفت و شنید کرنے میں بلا وجہ سُستی سے کام لیا ہے۔ مجھے سخت افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے ذمہ دار لوگ اس ذمہ داری کو پوری طرح نہیں سمجھتے جو اِن پر ہے۔ غالباً نو ماہ یا شاید سال کاعرصہ ہی ہوچکا ہے کہ میں نے صدر انجمن احمدیہ کو توجہ دلائی تھی کہ وہ حکومت سے تصفیہ کرے کہ کیا وہ تحقیقاتی کمیشن کے ذریعہ موجودہ شورش کے ایام کے واقعات میں ہماری، بعض افسروں کی اور احرار کی ذمہ داری کا فیصلہ کرنے کی طرف مائل ہے یا نہیں اور اگر وہ مائل نہ ہو تو پھر ایسے طریق اختیار کئے جائیں جو قانونی اور شرعی حدود کے اندر ہوں اور جن سے سلسلہ کے وقار کوقائم کیا جاسکے۔ لیکن ابھی وہ مرحلہ گورنمنٹ آف انڈیا تک پہنچا ہے حالانکہ اس حد تک زیادہ سے زیادہ چار مہینہ میں پہنچ جانا چاہئے تھا۔ پہلے تو کئی ہفتے چھوٹے چھوٹے ڈرافٹ کرنے میں لگ گئے، پھر کئی ماہ جواب کاانتظار کیا جاتا رہا حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ دو ہفتہ کے بعد ریمائنڈر دے دیا جاتا اور پھر دو ہفتہ کے بعد بھی اگر جواب نہ ملتا تو سمجھ لیا جاتا کہ جواب نہیں آئے گا اوردوسرا قدم اٹھایا جاتا۔ اب مرحلہ وزیرہند کاہے اور اس میں بھی بِلاوجہ دیر ہورہی ہے۔ یہ ایک سچائی ہے جسے زمیندار بھی جانتے ہیں کہ لوہا گرم ہی کوٹا جاسکتا ہے۔ جس کی صلاح لوہا کوٹنے کی ہو اور وہ اُس کے ٹھنڈ اہونے کا انتظار کرے اسے کوئی عقلمندنہیں کہہ سکتا یہ عام قاعدہ ہے کہ جب کسی شکوہ پر لمبا عرصہ گزرجائے تو بالاافسر خیال کرلیتے ہیں کہ لوگوں کا غصہ دور ہوچکا ہے اب اس معاملہ میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے۔ گویا ہمارے صدر انجمن کے کارکنوں نے بالا افسروں کو یہ کہنے کا موقع دے دیا ہے کہ اب گڑے مردے کیوں اکھاڑیں۔ جس وقت کوئی کسی کا گلا دبارہا ہو اور ابھی دم باقی ہو تو ہر ایک اس کی مدد کو پہنچتا ہے کہ شاید بچ جائے مگر جب وہ مرچکا ہو تو لوگوں کو جلدی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ پس جس ذہنی حالت میں حکومت کے بالاافسر دخل دیا کرتے ہیں اسے خود ہمارے کارکنوں نے اپنی سستی سے دور کردیا ہے اگر صدرانجمن ایسے وقت میں وائسرائے تک پہنچتی جبکہ واقعات ابھی تازہ ہی تھے تو دس فیصدی امکان ضرور تھا کہ وہ دخل دے دیتے لیکن وہ ایسے وقت میں ان کے پاس پہنچے جبکہ حکامِ بالا درست سمجھتے ہیں کہ لوہا ٹھنڈا ہوچکا ہے اور جب معاملہ وزیرہند تک پہنچے گا تو ان کیلئے بھی یہ کہنے کا موقعہ ہوگا کہ میں تو غیرمعمولی حالات میں دخل دیا کرتا ہوں اب ان باتوں پر بہت عرصہ گزر چکا ہے اور میرے لئے دخل دینے کی کوئی وجہ نہیں۔
نیشنل لیگ نے بھی اسی قسم کی سستی سے کام لیا ہے غالباً نومبر میں ہائی کورٹ میں فیصلہ ہؤا تھا اسے زیادہ سے زیادہ دسمبر تک حکومت سے گفت و شنید ختم کرلینی چاہئے تھے اور پھر جنوری میں اپنی کارروائی شروع کردینی چاہئے تھے۔ لیگ کی اسی سستی کانتیجہ ہے کہ ایک افسر نے کہہ دیا کہ جب اتنی دیر تم لوگ خاموش رہے تو اب کیا ضرورت اس سوال کو اٹھانے کی ہے۔ گو یہ جواب غلط ہے اور دلائل سے اس کی غلطی کو ثابت کیا جاسکتا ہے مگر فطرتِ انسانی کی اس کمزوری کو کیا کِیا جائے کہ وہ ایسے موقع پر بہانے ڈھونڈتی ہے۔ کوئی شخص جب مشکل میں پھنس جاتا ہے اور وہ مذہبی آدمی نہ ہو تو وہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس مشکل سے پیچھا چھڑائے اور حکومت کے افسروں کا قول اور فعل ایسا ہی ہے لیکن یہ کہنے کاموقعہ ان کو میرے نزدیک لیگ نے ہی دیا ہے ۔ میرے نزدیک ہائی کورٹ کے فیصلہ کے پندرہ روز کے اندر اندر حکومت کو مخاطب کرلینا چاہئے تھا اور اگر پہلی چٹھی کا جواب نہ آتا تو اتنے ہی عرصہ کے بعد دوسری لکھی جاتی۔یہ تو بے شک نہیں لکھنا چاہئے تھا کہ فلاں تاریخ تک ایسا کرو ورنہ ہم اس اس طرح کریں گے کیونکہ یہ ایک قسم کا چیلنج ہے اور حکومت کو چیلنج دینا عقل اور ادب کے خلاف ہے وہ اسے دھمکی سمجھتی ہے اور جس کے ہاتھ میں سونٹا ہو وہ دھمکی سے جلدی غصہ میں آجایا کرتا ہے اور جلدی ہتک محسوس کرنے لگ جاتا ہے۔
دنیا میں بہت جلد اپنی ہتک دو قسم کے لوگ محسوس کرنے لگتے ہیں یا تو طاقت ور جو سمجھتے ہیں ہم اپنا اعزاز کراسکتے ہیں اور یا پھر بہت کمزور۔ پس حکومت کو یہ تو نہیں کہنا چاہئے تھا کہ فلاں تاریخ تک فیصلہ کردو کیونکہ اس سے وہ غصّہ میں آکر کہہ دیتی کہ اچھا جائو جو کرنا ہو کرلو لیکن یہی بات لکھنے کا ایک اور طریق ضرور ہے اور جب مطالبہ معقول ہو تو بغیر دھمکی کے بھی یہ بات لکھی جاسکتی ہے۔ اس موقع پر ہماری پوزیشن یہ تھی کہ احراری اس فیصلہ کو شائع کررہے تھے جس کے بعض حصوں کے متعلق ہائی کورٹ نے سخت ریمارکس دیئے ہیں بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ ایسے فیصلوں سے جس منافرت کودور کرنا مقصود ہوتا ہے وہ اور بھی بڑھ جاتی ہے اور کہ اس میں بعض باتیں واقعہ میں احمدیوں کو تکلیف دینے والی ہیں اور عدالتی دماغ کے ماتحت نہیں لکھی گئیں۔ ا ب اس فیصلہ کے ماتحت حکومت کو تسلیم کرنا پڑ ے گا کہ مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کی اشاعت سے جماعت احمدیہ کوناجائز طور پر دکھ پہنچ رہا ہے اور بلا وجہ نقصان پہنچایاجارہا ہے ایسا دکھ اور ایسا نقصان جس کا جائز طور پر پہنچانا کسی کا حق نہیں اور ہماری پوزیشن ہائی کورٹ کے فیصلہ سے واضح تھی کہ اب لیگ والے اسے حکومت کے پیش کرکے کہہ سکتے تھے کہ پندرہ یا بیس روز ہوئے ہم آپ کو توجہ دلاچکے ہیں ہائیکورٹ کا فیصلہ آپ کے سامنے ہے ہم قانون شکنی نہیں کرنا چاہتے ہمارا دشمن قانون شکنی کررہا ہے اور اس فیصلہ کو شائع کررہا ہے جو ہائی کورٹ سے ردّ کیاجاچکا ہے اور آپ تاخیر کرکے ہم پر اس کے حملہ میں اس کی مدد کررہے ہیں اور ہمارے ہاتھ روک کر ہمارے دکھ کو بڑھارہے ہیں آپ کی طرف سے جتنی دیر ہوگی اتنا ہی آئین کی خلاف ورزی کرنے والے لوگ آئین کے پابند لوگوں کو بِلا وجہ تکلیف پہنچاتے چلے جائیں گے اس لئے آپ جلد از جلد اس کا فیصلہ کریں ورنہ ۱۵ یا ۲۰ روز کے بعد ہم یہ سمجھ لیں گے کہ آپ اس بارہ میں کچھ نہیں کرنا چاہتے اور پھر خود اپنی حفاظت کیلئے کوئی مناسب قدم قانون کی حدود کے اندر اٹھائیں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ بعض دفعہ صدر نیشنل لیگ نے ان معاملات میں مجھ سے مشورہ مانگا ہے مگر میں اس بارہ میں مشورہ دینے سے گریز کرتا رہا ہوں کیونکہ میں چاہتا تھا کہ خود اس کو غور کرنے اور سوچنے سمجھنے کا موقعہ ملے۔ چنانچہ ایک دفعہ میںنے انہیں ایک انگریزی کی ضرب المثل بھی سنائی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض بڑی عمرکے آدمی بھی چاہتے ہیں کہ انہیں بچوں کی طرح چمچوں سے غذا دی جائے۔ کام کی قابلیت نفس پر بوجھ ڈالنے سے ہی پیدا ہوتی ہے اس لئے میںنے مشورہ دینا مناسب نہ سمجھا لیکن اب کہ کارروائی شروع ہوچکی ہے میں چاہتا ہوں کہ اپنا مشورہ بیان کردوں۔ پس میری رائے یہ ہے کہ اگر اس قسم کی چٹھی کے بعد بھی جس کا میں نے ذکر کیا ہے حکومت توجہ نہ کرتی تو پھر لیگ مجاز تھی کہ وہ جو چاہتی کرتی اور اس کا ٹھیک وقت جنوری میں تھا اور اب اپریل میں اسے شروع کرنے کے معنے یہ ہیں گویا تین ماہ کا قیمتی وقت ضائع کردیا گیا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ کارروائی شروع ہی بے موقعہ کی گئی ہے کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے اب تک بھی تو حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا اور لیگ والوں نے یہ بھی نہیں کیا کہ قطعی طور پر حکومت سے کہہ دیا ہو کہ ہم اب خود جواب دینے لگے ہیں۔
ان حالات میں عقلاً یہ بات اچھی نہیں معلوم دیتی اور جو بات عقلاً بھلی معلوم نہ دے وہ طبائع پر اچھا اثرنہیں ڈالتی مثلاً اگر کوئی شخص کسی عدالت میں مقدمہ دائر کرکے اس کے فیصلہ سے قبل ہی اپیل دائر کردے تو اسے کوئی بھی معقول نہیں کہے گا اس لئے میرے نزدیک یہی مناسب ہے کہ اب بھی حکومت پر زور دے کر اس سے جواب لیا جائے یا اسے کہہ دیا جائے کہ چونکہ حکومت بلاوجہ دیر کررہی ہے ہم اس کے فیصلہ کا اب انتظار نہیں کرسکتے اور اس وقت تک اپنے طور پر کوئی طریق اختیار نہ کیا جائے۔
اس کے بعد میں وہ سوال لیتا ہوں جو حکومت اور پبلک کے دل میں بھی پیدا ہورہا ہے اور جو میرے نزدیک واقعی ایسا ہے کہ اس کا جواب دیاجائے اور وہ سوال یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد بھی کیا اس کی ضرورت رہ جاتی ہے کہ حکومت کوئی مزید کارروائی کرے جبکہ ہمارے لئے یہ راستہ کھلا ہے کہ اس فیصلہ کوشائع کریں تو حکومت کی طرف سے کسی کارروائی کی کیا ضرورت ہے۔ یہ سوال بظاہر نظر معقول ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ہائی کورٹ کے فیصلہ کی موجودگی میں بھی ہم مسٹر کھوسلہ کے خلاف کوئی کارروائی کرنا چاہیں تو اس کی کوئی معقول وجہ ہونی چاہئے اور ہمیں اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے کہ اس کے بعد ہمارے لئے کیا مشکل باقی رہ جاتی ہے۔ اس سوال کا جواب میں آج کے خطبہ میں دینا چاہتا ہوں۔ اس میں شبہ نہیں کہ مزید کارروائی کی ضرورت ہے اور ہائی کورٹ کا فیصلہ ہمارے شکوہ، ہمارے دکھ اور ہمارے نقصان کو دور کرنے کیلئے کافی نہیں اور اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد بھی پہلا فیصلہ برابر شائع کیا جارہا ہے اور حکومت اسے نہیں روکتی۔ جن لوگوں تک وہ فیصلہ پہنچتا ہے قدرتی طور پر ان کے دلوں میں کچھ خیالات پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان کے ذریعہ اور لوگوں میں بھی پھیلتے ہیں پھر ہر شخص جس تک یہ فیصلہ پہنچتا ہے ضروری نہیں کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی اُسے مل سکے۔ اب حکومت بتائے کہ اس حالت کا علاج ہمارے پاس کیا ہے۔ اگر حکومت اُسے ہائی کورٹ کے فیصلہ کے معاً بعد ضبط کرلیتی تو ہم کہتے کہ آئندہ نقصان کا تو انسداد ہوگیا اور گزشتہ پر اس حصہ کے متعلق ہم صبر کرلیتے۔ مگر جب وہ فیصلہ برابر شائع ہورہا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کوغلط رنگ میں احرار اخباروں میں شائع کرتے ہیں اور حکومت اس پر کوئی نوٹس نہیں لیتی۔ ہائیکورٹ کے جج نے لکھا ہے کہ میں واقعات میں نہیں جاسکتا کیونکہ حکومت نے سزا بڑھانے کی درخواست نہیں کی اور میں نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ عدالت نے اپنے رستہ سے ہٹ کر اور بے تعلق باتیں فیصلہ میں لکھ کرجماعت احمدیہ کی دل شکنی تو نہیں کی اور اسی اصل کے مطابق اس نے لکھا ہے کہ مجھے اس سے بحث نہیں۔ یعنی میں قانوناً اس بحث میں نہیں پڑ سکتا کہ مرزا صاحب شراب پیتے تھے یا نہیں مگر یہ بات ضرور ہے کہ عدالت کو ایسے الفاظ لکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ مجھے چونکہ قانون اجازت نہیں دیتا کہ واقعات کی بحث میں پڑوں اس لئے میں اس بات کی صحت یا عدمِ صحت کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن احراری اخبار لکھتے ہیں کہ ہائی کورٹ کے جج نے تسلیم کرلیا ہے کہ مرزاصاحب شراب پیتے تھے ۔ ہاں یہ لکھا ہے کہ اُسے ضرورت نہیں کہ وہ اس بحث میں پڑے۔ ایک ہیڈنگ یہی تھا کہ مرزا صاحب شراب پیتے تھے۔ اور بھی کئی مواقع پر اسے غلط رنگ میں پیش کیا گیاگویا پہلے ضرر کو اور بھی خطرناک کردیا گیا ہے اورحیرانی کی بات یہ ہے کہ حکومت کا وہ محکمہ جو چوہدری سرظفراللہ خان صاحب کے خلاف ہر اخبار کا ہر اقتباس حکومت تک پہنچاتا تھا وہ اس موقع پر کیوں سوتا رہا اور یہ اقتباس اس نے حکومت تک کیوں نہ پہنچائے اور اگر پہنچادیئے تو حکومت کیوں خاموش رہی۔ کیا اُسے نظر نہ آتا تھا کہ جس چیز کا ازالہ ہائی کورٹ نے کرنا چاہا تھا اُسے اور پختہ کیاجارہا ہے اور ظاہر ہے کہ ان حالات کی موجودگی میں اگر جماعت احمدیہ اپنی زبان سے کچھ کہنے کی ضرورت سمجھے تو اس کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی۔ دوسری بات یہ ہے کہ جج نے تسلیم کیا ہے کہ حکومت نے سزا کی زیادتی کی درخواست نہیں کی اس لئے میں واقعات میں نہیں پڑ سکتا۔ ہوسکتا ہے کہ ایک جج واقعات سے غلط نتائج اخذ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صحیح نتائج اخذ کرے اور ان کی صحت، عدمِ صحت کے سوال کوہائی کورٹ اسی وقت زیر بحث لاسکتا ہے جب زیادتیٔ سزا کی درخواست ہو۔ ورنہ قانوناً اس پر بحث نہیں ہوسکتی اور یہ درخواست پبلک کی طرف سے نہیں ہؤا کرتی۔ یا تو فریقین میں سے کسی فریق کی طرف سے ہوسکتی ہے اور یا پھر حکومت کی طرف سے اور اس مقدمہ میں تو دوسرا فریق ہی حکومت تھی اس لئے ہماری طرف سے تو یہ درخواست کسی صورت میں بھی نہ ہوسکتی تھی۔ واقعات پربحث کرانا یا تو حکومت کے ہاتھ میں تھا یا مولوی عطاء اللہ صاحب کے ہاتھ میں۔ ظاہرہے کہ مولوی عطاء اللہ صاحب کو ایسی درخواست کرنے کی کیا ضرورت تھی اس لئے ایسا سوال اُٹھانے والی صرف حکومت ہی رہ جاتی تھی اور اس نے اٹھایا نہیں۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جج نے لکھ دیا کہ واقعات کی صحت یا عدمِ صحت کے سوال میں مَیں نہیں جاسکتا اور اس وجہ سے مسٹرکھوسلہ کے فیصلہ کا ایک حصہ ایسا رہ گیاجو واقعات کے صحیح یا غلط ہونے سے تعلق رکھتا ہے اور اس حصہ میں سلسلہ احمدیہ اور اس کے مقدس بانی علیہ السلام پر حملے ہیں۔
اب میں حکومت سے پوچھتا ہوں کہ وہ مجھے بتادے کہ ان کا ردّ جماعت کس طرح کرے اگر اس کے ردّ کی کوئی صورت ہمارے اختیارمیں تھی تو حکومت ہمیں وہ قانون بتادے جس سے ہم ایسا کرسکتے تھے۔ پھر وہ کہہ سکتی ہے کہ تمہارے لئے قانون نے یہ راستہ کھولا ہوا تھا مگر تم نے اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ اس پر ہم اپنی غلطی کو تسلیم کرلیں گے لیکن جب صرف حکومت ہی اس سوال کو اٹھاسکتی تھی اور اس نے نہیں اٹھایا تو ذمہ داری یقینا اس پر ہے اب وہ ہمیں بتائے کہ جومشکل اس نے ہمارے لئے پید اکردی ہے اس کا علاج ہمارے پاس کیا ہے؟ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک بالا افسر نے ایک احمدی سے کہاکہ ناظر امور عامہ نے حکومت کے لیگل ریممبرر(Legal Rememberer) سے کہا تھا کہ ہم سزا کی زیادتی نہیں چاہتے اس لئے ایسی درخواست نہ دیئے جانے کی ذمہ داری جماعت پر ہے۔ میں یہ تونہیں جانتا کہ ناظر امور عامہ نے ایسا کہا تھایا نہیں اس کے متعلق میں نے اب تک ان سے دریافت نہیں کیا لیکن اگر یہ کہا بھی تھا تو بھی میں سمجھتاہوں حکومت کا جواب درست نہیں۔ سزا کی زیادتی نہ چاہنا اور سزا کی زیادتی کی درخواست دینے کی ضرورت نہ سمجھنا ان دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اگرناظر صاحب امور عامہ نے یہ کہا بھی ہو کہ ہم سزا کی زیادتی نہیں چاہتے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ان کا یہ مطلب تھا کہ فیصلہ میں بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر جو الزام لگائے گئے ہیں ان کوبھی ہم دورکرانا نہیں چاہتے اور اس بارہ میں آپ کی ہتک کے ازالہ کی خواہش نہیں رکھتے۔ کوئی عقلمند یہ باور نہیں کرسکتا کہ خانصاحب نے ایسی بات کہی ہو بلکہ کسی احمدی بچہ نے بھی یہ بات کہی ہو ہم تو اس ہتک کو دور کرانے کیلئے اپنے خون کا آخری قطرہ بہادینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں اور یہ خیال کرنا کہ ناظر صاحب امورعامہ نے یہ کہا ہو گاکہ سزا میں زیادتی نہ ہو بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہتک اگر ہوتی ہے توبیشک ہو بالکل خلاف عقل بات ہے۔اگر ہم نے شرافت کی وجہ سے یہ کہا کہ ہم سزا میں زیادتی نہیں چاہتے تو کیا اس شرافت کا نقصان ہمیں پہنچنا چاہئے تھا۔اگر ہم حکومت کو مشکلات سے بچانے کے لئے قربانی کرنے کو تیار تھے تو کیا اس کا یہی فرض تھاکہ ہماری مشکلات میں اضافہ کر دیتی اور ہمیں پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیتی۔اور ان باتوں کا باقی رہنا تو ہمارے لئے پھانسی سے بھی زیادہ ہے اگر ہم نے کہاتھاکہ سزا میں اضافہ نہ ہوتو جماعت احمدیہ حکومت سے لڑتی نہیں رہے گی تو اس کا یہ مطلب کس طرح ہوگیا کہ ہم پر جواعتراض کئے گئے ہیں ہم انہیںبھی دور کرانا نہیں چاہتے۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ درخواست دیتی کہ سزا بڑھائی جائے اور سرکاری وکیل کہہ دیتا کہ یہ درخواست رسمی طور پر اس لئے دی گئی ہے کہ واقعات پر بحث کی جائے ورنہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ سزا میں کوئی حقیقی اضافہ ہو یہ باتیں روز ہائی کورٹ میں ہوتی ہیں اوریہ ضروری نہیں کہ اس طرح نگرانی کرنے میں ہائی کورٹ ضرور سزا میں اضافہ کردے ایسے موقعہ پر جج مدعی کی خواہش کے مطابق واقعات کا فیصلہ کردیتا اور سزا نہیں بڑھاتا۔ کیا حکومت کو اس بات کا علم نہیں تھا جس نے یہ قانون بنائے ہیں۔ پس اگر خانصاحب نے وہ بات کہی ہے تو یہ بتانے کیلئے جماعت احمدیہ حکومت کوکسی مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتی اور مولوی عطاء اللہ صاحب سے بھی اسے کوئی بغض نہیں۔ یہ ہماری شرافت تھی جسے پھانسی کا پھندا بنا کرحکومت ہمارے گلے میں ڈالنا چاہتی ہے اور ہماری نیکیوں کا خمیازہ بھگتنے پر ہمیں مجبور کیا جارہا ہے حکومت کا فرض ہے کہ ہماری مشکلات کو سمجھے اس کے بغیر وہ کسی صحیح نتیجہ پرنہیں پہنچ سکتی۔
جماعت احمدیہ ہمیشہ امن پسند رہی ہے اور اب بھی اس نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ہر حال میں امن پسند رہے گی جس رنگ میں جماعت کے مقدس بانی علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دوسرے بزرگوں پرحملے کئے جاتے ہیں جیسی گندی گالیاں دی جاتی ہیں کیا بالکل ویسی ہی باتوں پر دوسری قوموں نے خون نہیں کئے۔ ہم بزدل نہیں مگر خداتعالیٰ نے ہمارے ہاتھ روکے ہوئے ہیں اگر دس بیس احمدی دس بیس احراریوں کومار دیتے ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ حکومت فوراً توجہ نہ کرتی مگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی امن پسندی کی تعلیم کو زندہ رکھا اور میں بار بار خطبات میں جماعت کو توجہ دلاتا رہا کہ کسی کے بہکاوے میں نہ آنا اور امن پسندی کا سبق بھول نہ جانا۔ حالانکہ یہ میرا فرض تو نہ تھا۔ حکومت کو اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا چاہئے تھا۔ ہم بھی سب کچھ کرسکتے تھے مگر نہیں کیا۔ قادیان میں ہمیں گالیاں دی گئیں بلکہ مارا بھی گیا، میرے بھائی پر ایک فقیر کے لڑکے نے حملہ کیا اور احرار نے کرایا، بمبئی میں ایک احمدی بچے کی لاش کو دفن کرنے سے روک دیا گیا، بریلی میں اپنی خرید کردہ زمین پر نئی بنی ہوئی مسجد کو گرانے کی کوشش کی گئی، احرار سے تعلق رکھنے والے بعض لوگوں نے مسجد کے پاس ایک مکان کرایہ پر اس نیت سے لیا کہ اس کی چھت پر سے مسجد کی چھت پر جایا جاسکے اور اسے نقصان پہنچایا جاسکے اور صاف لفظوں میں احمدیہ مسجد کے گرانے کا فتویٰ بھی شائع کیا گیا جو ہمارے پاس موجود ہے۔ ابھی بھیرہ میں ایک احمدی کو مار مار کر اس کی کھوپڑی توڑدی گئی پہلے تو ڈاکٹر اس کی زندگی سے مایوس تھے مگر اب اطلاع آئی ہے کہ زندگی کی کچھ امید ہوگئی ہے اور اس حملہ کی کوئی دنیوی وجہ نہیں تھی بلکہ محض مذہبی اختلاف اس کا موجب تھا۔ پھر چوہدری اسداللہ خان صاحب پر ریل میں حملہ کیا گیا اللہ تعالیٰ نے انہیں بچالیا۔ سرہانہ دوسری طرف تھا اور خنجر لاتوں کے درمیان پھنس گیا ورنہ اگر سر اس کی طرف ہوتا تو خنجر سینہ میں اُترجاتا۔ اس تمام اشتعال انگیزی کے باوجود کیا حکومت سمجھتی ہے کہ ہمارے سینوں میں دلوں کی بجائے پتھر ہیں ہمارے سینوں میں بھی ویسے ہی دل ہیں جیسے ہمارے دشمنوں کے سینوں میں مگر فرق صرف یہ ہے کہ ان کے دلوں میں حکومت کا خوف ہے او رہمارے دلوں میں خدا کا۔ اگر ہمیں اللہ تعالیٰ کا ڈر نہ ہوتا تو ہم ہندوستان کو راس کماری سے لے کرہمالیہ تک خون سے بھرسکتے تھے لیکن ہم نے نہ صرف یہ کہ اسے ناپسند کیا بلکہ اپنی جماعت کو یہ سبق یاد کراتے رہے کہ ایسے افعال ناجائز ہیں ہمارے اس نیک کام کے عوض میں حکومت نے ہمارے ساتھ کیا نیک سلوک کیا یہی کہ چونکہ انہوں نے ہمارے رستہ میں روکیں پیدا نہیں کیں اس لئے ان کے دل دکھنے دو۔ مگر اسے یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے ہاتھ تو خدا نے باندھ رکھے ہیں لیکن کاش وہ کل کے مؤرخوں کے ہاتھ اور قلم سے نکلنے والے الفاظ کو دیکھ سکتی۔ حکومتیں ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتیں کیا کوئی حکومت ہے جو ہمیشہ قائم رہی ہو؟ کیا روم کی حکومت اپنے عروج کے زمانہ میں یہ خیال کرسکتی تھی کہ وہ کبھی تباہ ہوجائے گی، قسطنطنیہ کی حکومت یہ سمجھ سکتی تھی کہ کوئی وقت آئے گا جب وہ مٹ جائے گی، کیاایران کا کیانی خاندان کبھی یہ وہم کرسکتاتھا کہ ایک زمانہ میں ان کا نام لینے والا بھی کوئی نہ ہوگا، مصر کے فراعنہ کبھی اس کا تصور کرسکتے تھے کہ ان کی جگہ دوسری حکومتیں آجائیں گی، اہل مصر تو شاید انگلستان کانام بھی نہ جانتے ہوں جس نے خدیو ؎۲ کے ذریعہ وہاں حکومت کرنی تھی۔ وہ فرانس کے نام سے بھی ناآشنا تھے۔ لیکن نپولین نے ان کا تمام ملک تہ و بالا کردیا۔ پھر کیا انگریز خیال کرسکتے ہیں کہ ان کی حکومت ہمیشہ رہے گی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ کل تک بھی قائم رہے یا سال تک رہے گی یا ایک صدی تک، بہرحال کوئی حکومت ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی ہے۔ اس کے انصاف کا نام قائم رہ جاتا ہے۔ رومی حکومت مٹ گئی مگر اس کا ایک ظلم اور ایک انصاف آج تک قائم ہے۔ رومی حکومت کا یہ ظلم ہمیشہ یاد رہے گا کہ اس نے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو بے گناہ صلیب پر لٹکادیا اور پیلاطوس کا یہ انصاف بھی ہمیشہ یاد رہے گا کہ باوجود یکہ اسے دھمکی دی گئی کہ بادشاہ کے حضور اس کی رپورٹ کی جائے گی۔ اس نے پانی منگوا کر ہاتھ دھوئے اور کہہ دیا کہ میں مسیح کو بالکل بے گناہ سمجھتا ہوں۔ پیلاطوس کا یہ انصاف اور حکومتِ روم کایہ ظلم دونوں باتیںنہیں مٹیں مگر حکومت روم مٹ چکی ہے۔ موجودہ انگریزی افسر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہمیشہ رہیں گے، ان کی نسلیں بھی ہمیشہ نہیں رہیں گی، حکومت بھی ہمیشہ نہیں رہے گی مگر ان کے افعال باقی رہ جائیں گے۔ آج اگر وہ انصاف کریں گے تو لوگ کہیں گے کہ انگریزی حکومت بڑی اچھی تھی اس نے اقلیت سے انصاف کیا اور اکثریت کی پرواہ نہ کی لیکن اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو آئندہ مؤرخ یہی لکھیں گے کہ وہ انصاف کے دعوے تو بہت کرتی تھی مگر جب وقت آیا تو افسوس کہ وہ فیل ہوگئی۔ کچھ مظلوم لوگ تھے جو انصاف کا مطالبہ کرتے تھے مگر حکومت نے انہیں انصاف نہ دیا۔ وہ دیکھتی رہی اور ان کے دلوںپر خنجر مارے گئے، وہ دیکھتی رہی اور ان کے سروں پرآرے چلائے گئے اورحکومت نے کوئی نوٹس نہ لیا اور صرف اس وجہ سے خاموش رہی کہ اکثریت رکھنے والے لوگ ناراض نہ ہوجائیں۔ صرف یہ چیزیں باقی رہ جائیں گی اور اس بات سے خود انگریز حکام ان کے وزراء اور پارلیمنٹ کے ممبر بھی انکار نہیں کر سکتے کہ انگریزی حکومت ہمیشہ نہیں رہے گی۔ پس ہم بے شک امن پسند ہیں قانون کا احترام کرتے ہیں، عدالتوں اور ججوں کی عزت قائم کرنے کے ہمیشہ قائل رہے ہیں۔ میرے خطبات دیکھ لئے جائیں میں ہمیشہ یہی نصیحت کرتا رہا ہوں اور اب بھی ہمارا یہی مسلک ہے لیکن اس کاکیا علاج ہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی ہماری پوری طرح تسلی نہیں کرتا۔ اگر ہائیکورٹ میں واقعات زیربحث آجاتے تو خواہ کچھ فیصلہ ہوتا ہم خاموش ہوجاتے اور خیال کرلیتے ہیں کہ آخری عدالت تک پہنچ گئے ہیں۔ اس صورت میں حالات کو ماننے کیلئے تیار تھے کہ آخر کہیں پہنچ کر تو خاموش ہونا ہی تھا۔ اور اب بھی جس حصہ کافیصلہ ہائی کورٹ نے کیا ہے ہم عملاً اس کی عزت کررہے ہیں حالانکہ اس سے بھی ہماری تسلی نہیں ہوئی لیکن جس حصہ کے زیر بحث لانے میں حکومت روک بن گئی ہے اس کے متعلق ہماری شکایت کے ازالہ کی کیا صورت ہے۔ پس گو ہم امن پسند ہیں قانون و عدالت کا احترام ضروری سمجھتے ہیںمگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ جس قربانی کا کسی سے مطالبہ کیا جاتا ہے اس کی ایک حد ہونی چاہئے۔ جس شخص کا ایک پیسہ ضائع ہورہا ہو وہ ہم سے امید کرسکتاہے کہ ہم اپنا دھیلا ضائع کرکے اس کا پیسہ بچالیں اور یہ خیال کرلیں کہ وہ غریب آدمی ہے اس کا پیسہ ضائع نہ ہو بلکہ وہ امید کرسکتا ہے کہ ہم اپنا پیسہ ضائع کرکے بھی اس کاپیسہ بچالیں گے۔ حتّٰی کہ دو پیسہ، آنہ، دوآنہ بلکہ روپیہ تک ضائع کرکے اس کا پیسہ بچالیں کیونکہ اس غریب کا پیسہ بہت قیمتی ہے۔ مگر وہ اگر یہ مطالبہ کرے کہ فلاں شخص کے پاس دس کروڑ کی جائداد ہے وہ اسے برباد کرکے میرا پیسہ بچالے تو یہ دانشمندانہ مطالبہ نہیں کہلائے گا۔ پس ہم گو قربانی کے قائل ہیں۔ حکومت، عدالت اور قانون کے ادب اور احترام کے قائل ہیں مگر ہرعقلمندیہ تسلیم کرے گا کہ قربانی نسبتی ہوتی ہے۔ قربانی کے وقت ہمیشہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کون سی چیز بڑی ہے جس کیلئے قربانی کی ضرورت ہے یا خود وہ چیز جس کی قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ حکومت ہم سے فرمانبرداری کا مطالبہ کرتی ہے اور ہم اس مطالبہ کو جائز سمجھتے ہیں اور اس کی خاطر دوسروں سے ہمیشہ لڑتے رہے، گالیاں سنتے اور ماریں کھاتے رہے، حکومت کی فرمانبرداری کی وجہ سے ہمارے خلاف فتوے دیئے گئے مگر ہم پھر بھی یہی کہتے رہے ہیں اور اب بھی ہمارا یہی مسلک ہے کہ حکومتِ وقت کی فرمانبرداری کرنی چاہئے۔ مگر جہاں حکومت ہزاروں باتوں میں ہم سے فرمانبرداری کی توقع رکھتی ہے وہاں کیا وہ یہ امید بھی کرسکتی ہے کہ وہ ہم سے کہے کہ نماز چھوڑ دو تو ہم اس کی فرمانبرداری کریں۔ اگر و ہ ایسا مطالبہ کرے تو ہم فوراً اسے جواب دیں گے کہ آپ کاملک آپ کو مبارک ہو ہم جاتے ہیں اور اگرجانے بھی نہ دے گی تو پھر ہمیں اس سے جہاد کی اجازت ہوگی اور ہم ظاہراً یا خفیہ طور پر جس طرح ممکن ہوگا اسے نقصان پہنچائیں گے اور یہ ایسی صورت ہے کہ حکومت بھی اس کی معقولیت کا انکار نہیں کرسکتی۔ کسی وائسرائے، کسی گورنر اور کسی وزیر کے سامنے اُسے رکھ دو وہ تسلیم کرے گا کہ حکومت کو مذہب میں دخل نہیں دینا چاہئے۔ سو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت کی فرمانبرداری ضروری ہے مگر یہ نہیں کہ وہ مذہب میں دست اندازی کرے تو پھر بھی ہم اس کی فرمانبرداری کرتے جائیں۔ وہ کہے عیسائی ہوجائو تو ہم عیسائی ہوجائیں۔ اگر کوئی حکومت مسلمانوں کو عیسائی ہونے پر مجبور کرے تو یقینا مسلمانوں کاحق ہوگا کہ وہ اس کا مقابلہ کریں خواہ زندہ رہیں یا مرجائیں مگر ایسے حکم کو کسی صورت میں نہ مانیں۔ اگر میرا یہ خیال غلط ہے تو کوئی بڑے سے بڑا افسر اس کے غلط ہونے کا اعلان کردے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ کوئی ایسا اعلان نہیں کرے گا کیونکہ اس سے سب متفق ہیں۔ پس قربانی کے وقت ہمیشہ دیکھا جائے گا کہ کتنی قربانی چاہی جاتی ہے اور جس کیلئے چاہی جاتی ہے اس کی کیا قیمت ہے۔ اگر شخصی تذلیل کا سوال ہو اور کسی فیصلہ میں کسی شخص کو جھوٹا کہاگیا ہو تو اُسے گوارا کیا جاسکتا ہے اور اگر ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد بھی اُسے جھوٹا ہی قرار دیاجائے تو جو لوگ جانتے ہیں کہ وہ سچا ہے وہ بھی اُسے یہی مشورہ دیں گے کہ اب خاموش ہو رہو۔ آخر جج بھی آدمی ہے اور کہیں جاکر یہ جھگڑا ختم ہونا ہی تھا تمہارے دوست جانتے ہیں کہ تم سچے ہو لیکن اگر تذلیل انسان کی نہیں بلکہ مذہب کی ہو اور مذہب بھی وہ جو لوگوںکو بلاتا ہے کہ آئو اور مجھے قبول کرو۔ تو دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ انفرادی تذلیل پر باوجود اس شخص کے سچا ہونے کے ہم زور ڈال سکتے ہیں کہ ذلت برداشت کرلو لیکن مذہب کی تذلیل اگر عدالت کرتی ہے تو اس کی حالت جداگانہ ہے۔ پھر اگر وہ تذلیل اس مذہب کے ماننے والوں کے کسی فعل کی وجہ سے ہو توکہہ سکتے ہیں کہ تمہارا اپنا قصور ہے۔ اگر ہم کوئی مقدمہ عدالت میں لے جاتے ہیں مگر اس مقدمہ میں تو ہم نہ مدعی ہیں نہ مدعاعلیہ ہمیں اپنی بریت پیش کرنے کا بھی موقعہ نہ تھا۔ قانون ہمیں اس سے بالکل بے دخل رکھتاہے مگر فیصلہ کاسارا زور ہمارے خلاف ہے ۔ پس اس کی ذمہ داری بھی ہم پر نہیں بلکہ حکومت پر ہے یا مولوی عطاء اللہ صاحب پر۔ اور اس کے نتیجہ میں اگر کوئی ضرر کسی کو پہنچتا ہے تو ان دونوں میں سے ہی کسی کو پہنچنا چاہئے ہم کیوںخواہ مخواہ اس کا شکار ہوں۔ اس فیصلہ میں ایسے امور زیر بحث لائے گئے ہیں کہ ہائی کورٹ نے صاف کہاہے کہ ان کا زیر بحث لانا ناجائز تھا۔ ہمیںاس سے بحث نہیں کہ ایسا دیانتداری سے کیاگیایا بددیانتی سے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کا اثر ہم پر کیوں پڑے۔ اپیل کی اجازت دینے کے معنے ہی یہ ہیں کہ عدالتوں کا فیصلہ غلط بھی ہوسکتا ہے۔ اگر جج کیلئے غلطی کا امکان نہ ہوتا تو اپیل کے کوئی معنے ہی نہ تھے۔ لیکن عقلاً یا انصافاً بھی اگرکوئی عدالت ایسا فیصلہ کرے جو دانستہ یا نادانستہ طور پر مدعی اور مدعاعلیہ کو چھوڑ کر ایک ایسی جماعت یامذہب پر اثر انداز ہو جو تبلیغی ہو تو اسے کیا کرنا چاہئے۔
یہ سوال ہے جس کا جواب میں حکومت سے دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ حکومت جب ہمیں کہتی ہے کہ مت بولو تو اسے یہ بھی بتانا چاہئے کہ ہم کیا کریں۔وہ بتادے کہ تمہارے لئے فلاں رستہ کھلا ہے یایہی کہہ دے کہ کوئی راستہ کھلا نہیں مگر تم پھر بھی صبر کرو۔ میں اس سے پوچھتا ہوں کہ وہ ان دونوں باتوں میں سے ہمیں کیاکہتی ہے۔ دو ہی باتیں ہیں۔ یا تو رستہ بتادے یا یہ کہہ دے کہ خواہ تم کو کس قدرنقصان پہنچے خاموش رہو۔ جوبھی جواب وہ دینا چاہتی ہے دے تا کہ ہم اس پر غور کریں لیکن صبر کرنے کے متعلق اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل سکتا کیونکہ یہ سخت نامعقول بات ہے کہ کسی سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ خواہ تمہارے مذہب پر کس قدر سخت حملہ ہوا ہو، خواہ تمہاری تبلیغ رک گئی ہو تم خاموش رہو۔ پس اس کیلئے ایک ہی جواب ممکن ہے جو یہ ہے کہ وہ ہمیں بتائے کہ تمہارے لئے قانون نے فلاں رستہ کھلا چھوڑا ہے۔ اگر وہ کوئی ایسا رستہ بتائے جس کے ذریعہ سے خود جواب دیئے بغیر عدالت کے ذریعہ سے فیصلہ کرایاجاسکتا ہو۔ تو میں نیشنل لیگ کومجبور کروں گا کہ اُسی رستہ کو اختیار کرے اور اگر کوئی ایسا رستہ نہیں تو حکومت بتادے کہ ہم کیا کریں۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں صبرکرنے کامشورہ حکومت نہیں دے سکتی۔ یہ فیصلہ ایک لاکھ کی تعدادمیں شائع کیا جاچکاہے۔ اردو انگریزی میں ہندستان، انگلستان اور بعض دوسرے غیرممالک مثلاً افریقہ اور اسلامی ممالک میں بھی بکثر ت تقسیم کیا گیا ممکن ہے اور بھی بعض ایسے علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہو جن کے نام ہم کومعلوم نہیں۔ انگلستان کے متعلق تو خود احرار کے ایک اخبار میں لکھا تھا کہ جب مسٹر گابا وہاں گئے تو انہوں نے اس کی ایک کاپی وزیرہند کو دی تھی۔ اب فرض کرو ہم کسی کے پاس تبلیغ کیلئے جاتے ہیں اور وہ آگے سے پوچھتا ہے کہ کیا تم مسلمان ہو اور اقرار کرنے کی صورت میں دریافت کرتا ہے کہ کیا شراب اسلام میں حلال ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ نہیں حرام ہے۔ تو وہ کہتا ہے کہ تمہارے نبی اور مامور بھی تو شراب پیتے تھے ۔جب ہم کہتے ہیں کہ یہ درست نہیں تو وہ آگے سے کہہ دیتا ہے کہ کیوں نہیں مسٹر کھوسلہ نے ایسا لکھا ہے۔ عدالت کا فیصلہ ہے یہ کوئی احراریوں کا الزام تو نہیں اوربھی ایسے بیسیوں سوال پیدا ہوسکتے ہیں۔ اب ان سوالوں کے جواب میں ہمارے لئے دو ہی رستے کھلے ہیں۔ یا تو کہہ دیں کہ ہمارا سلسلہ واقعہ میں جھوٹا ہے اور ہم آپ کے ہاتھ پر توبہ ہی کرنے آئے ہیں او ریا یہ کہ یہ الزام جھوٹ ہے اور اس کا یہ ثبوت ہے۔ اب حکومت ہمیں بتادے کہ ان دونوں باتوں میں سے وہ کونسا جواب ہم سے چاہتی ہے اور یا پھر کوئی تیسرا جواب بتادے۔ جھگڑا تو وہاں ہوتا ہے جہاں کوئی ضد کرے مگر میں تو حکومت سے ہی سوال کرتاہوں حکومت خود ہی ہمیں اس مصیبت سے بچنے کا ذریعہ بتادے۔ آخر یہ تو ہم کہہ نہیں سکتے کہ چونکہ یہ امور عدالت کے فیصلہ میں آگئے ہیں سلسلہ احمدیہ جھوٹا ہے۔ آخر ہم یہی کرسکتے ہیں کہ کتب و رسائل کے ذریعہ سے ان امور کی تردید کریں جو اس فیصلہ میں ہماری طرف منسوب کئے گئے ہیں لیکن اگر یہ طریق حکومت کے نزدیک معیوب ہے تو پھر وہ خود ہی کوئی علاج ہمیں بتائے۔ اگر وہ صبر کی تلقین کرتی ہے تو کس رنگ میں صبر چاہتی ہے۔ کیا ہم یہ کہیں کہ واقعات تو صحیح ہیں اور احمدیت جھوٹی ہے مگر باوجود اس کے ہم احمدیت کونہیں چھوڑ سکتے۔ یا ہم اس رنگ میں صبر کریں کہ جب کوئی اس فیصلے کاحوالہ دے تو اسے کہہ دیں کہ ہم توبہ کرتے ہیں۔ اگر اس کے سوا بھی صبر کا کوئی طریق ہے تو وہ ہمیں بتادیا جائے۔ جلدی نہیں اپنے مشیروں اور وکیلوں، ججوں سے پوچھ کر بتادے کہ یہ طریق تمہارے لئے کھلا ہے ۔ حکومت ہمارے اس سوال پردیانتداری سے غور کرے کہ اگر کسی مذہب کی یہ پوزیشن ہو تو کیا وہ امید کرسکتی ہے کہ اس کی غلطی کی عزت رکھ لی جائے اور صبر کیاجائے۔ کیا وہ یہ کہہ سکتی ہے کہ آپ ہمارے دوست ہیں ہماری اس غلطی کو نباہنے کیلئے اپنا مذہب چھوڑ دو۔ موجودہ پوزیشن میں وہ اس بات کے سوا ہم سے کیا امید رکھ سکتی ہے لیکن اس بات سے زیادہ غیرمعقول بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ بے شک بعض لوگ ایسا مطالبہ بھی کرلیا کرتے ہیں لیکن ہم حکومت سے ایسی امیدنہیںکرسکتے۔ مجھے ایسے مطالبہ کے متعلق ایک واقعہ معلوم ہے اس واقعہ کا راوی بھی زندہ ہے اور جس کے متعلق ہے وہ بھی زندہ ہے اور دونوں اپنے اپنے محکموں کے چوٹی کے افسر ہیں اس لئے میں ان کے نام نہیں لیتا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک کالج کے پرنسپل نے ایک شخص کی سفارش کی کہ اُسے پروفیسری کے عہدہ پر رکھ لیا جائے۔ جب وہ سفارش ایک بالا افسر کے پاس پہنچی تو اس نے کہا یہ مناسب نہیں کہ آپ ایک ہی آدمی کا نام بھیجتے ہیں دو تین نام بھیجیں تا میرا اختیار بھی تو ثابت ہو کہ میں جس کو ان میں سے چاہوں رکھ سکتا ہوں گو میںکروں گا وہی جو آپ کہیں گے۔ اس پر پرنسپل نے بالا افسر کا اختیار ثابت کرنے کیلئے ایک اور شخص کا نام بھی لکھ دیا مگر ساتھ ہی لکھ دیا کہ یہ اس علم سے واقف نہیں۔ آپ نے چونکہ لکھا ہے کہ دوسرا نام چاہئے اورمیرے پاس کوئی اور آدمی ہے نہیں اس لئے یہ نام بھیجتا ہوں۔ اب یہ دوسرا آدمی چونکہ اس بالا افسر کا ہم مذہب تھا اس نے حکم دیا کہ اسے رکھ لیا جائے۔ اس پر پرنسپل نے اس سے بھی ایک بالا افسر کے پاس شکایت کی کہ آپ نگران اعلیٰ ہیں یہ کس قدر عجیب بات ہے ۔ میں نے جس شخص کی سفارش کی تھی وہ انگلینڈ کا تعلیم یافتہ اور بطورنائب پروفیسر پہلے سے کام کرتا تھا۔ میرا اس سے وعدہ بھی تھا کہ جگہ نکلنے پر تم کورکھا جائے گا مگر اس کی بجائے ایسے شخص کو مقرر کردیا گیا جو اس علم سے بھی ناواقف ہے۔ اس پراس بالا افسر نے جیسا کہ سرکاری افسروں کا قاعدہ ہے پرنسپل سے تو یہی کہاکہ یہ معاملہ میرے پاس لانے والا نہیں اعلیٰ افسر سے کہیں ۔ اور اُدھر اس افسر سے کہا کہ یہ کیا بیوقوفی تم نے کی ہے خیر میں نے تمہاری عزت رکھ لی ہے اور تمہارے ہی پاس معاملہ کو بھیجا ہے خود ہی سلجھالو۔ اب پرنسپل تقرر کرنیو الے افسر کے پاس پہنچا کہ حضرت یہ کیا معاملہ ہے اور آپ نے یہ کیا کردیا۔ اس پر اس نے پگڑی اتار کر اس کے پائوں پر رکھ دی کہ میں پرانے فیشن کا آدمی ہوں مجھے ان باتوں کا کیا پتہ ہے اب میری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اس پر پرنسپل بے بس ہوگیا اور اس نے کہا کہ اچھا جس طرح ہوگا میں کام چلالوں گا۔ یہ بات ایک نہایت ہی ذمہ دار افسر نے جو ہزاروں روپیہ تنخواہ لے رہا ہے مجھ سے بیان کی تھی۔ مگر وہاں تو اس نے پگڑی رکھ کر اپنی عزت بچالی مگر یہاں تو عزت بچانے کی کوئی صورت ہی نہیں۔ پھر ہم نے خود یہ حالات پیدا نہیں کئے۔ اگر ہمارا اختیار ہوتا تو کبھی بھی ایسی حالت پیدا نہ ہونے دیتے جس سے حکومت کو مشکلات کا سامنا ہو مگر خود اس نے ایسے حالات پید اکئے ہیں اس لئے اب نباہنابھی اسی کا کام ہے۔ اس کی وضاحت کیلئے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔یہ حکومت عیسائی ہے اس لئے اس کے گھر کی مثال ہی دیتا ہوں۔ ہمارے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہی مقام ہے جو موسوی سلسلہ میں حضرت عیسیٰؑ کا ہے بلکہ ہمارے نزدیک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درجہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی بڑا ہے۔ وہ اگر اُسے صحیح نہیں سمجھتے تو نہ سمجھیں۔ ہمارا عقیدہ ان پر اور ان کا ہم پرہرگز حجت نہیں لیکن اس بات کو تو یورپین مصنفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ احمدیوں کے نزدیک مرزا صاحب کا درجہ وہی ہے جو عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسیٰؑ کا ہے اور جس طرح آج ہم پرمقدمے کئے جاتے ہیں اسی طرح حضرت عیسیٰؑ پر بھی ہوتے تھے۔ انجیل کو اٹھا کردیکھ لو ان پر بھی حکومت سے بغاوت کاالزام لگایا جاتا تھا۔ ایک مقدمہ ان پر دائر ہوا اور حکومت نے ان کیلئے پھانسی کی سزا تجویز کی اور انہیں پھانسی پر لٹکا بھی دیا گیا۔ عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق وہ فوت ہوگئے لیکن ہمارے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انہیں بچالیا۔ اس مقدمہ کو آج انیس سو سال گزرچکے ہیں اور اس عرصہ میں اس فیصلہ کے ردّ میں سینکڑوں کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ اگر حکومت کے افسر مذہبی آدمی نہیں تو وہ برٹش میوزیم سے اس کے متعلق دریافت کریں کہ اس موضوع پر کتنی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور آج تک لکھی جارہی ہیں۔ ابھی ایک کتاب مجھے ملی جو ایک شخص ریورنڈ اے ۔ جے ۔ واکرؔ ((Rev. A.J. Walker نے لکھی ہے اور اس کا نام ہے Why Jesus was Crucified۔ اس نے واقعات اور گواہیوں پر بحث کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی براء ت ثابت کرے۔ انگریز لوگ کہا کرتے ہیں کہ مشرقی مذہب کے دیوانے ہوتے ہیں۔ تو کیا یہ عجیب بات نہیں کہ مغرب کے مہذب لوگ جو نفس کو قابو میں رکھنے کادعویٰ کرتے ہیں وہ تو انیس سَو سال گزرنے کے بعد بھی اس مقدمہ کا ردّ لکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور ہم مشرق کے مذہبی دیوانوں کو تازہ حملہ کا ردّ لکھنے سے بھی روکا جاتا ہے اور پھر ہم پر تو لوگ اعتراض کرتے ہیں اور ہمیں تبلیغ اور سلسلہ کی عزت کے بچائو کیلئے جواب کی ضرورت ہے۔ عیسائیوں کو تو اس کی ضرورت بھی کوئی نہیں ۔ ان کی چونکہ حکومت ہے اور حکومت کو ہر کوئی سلام کرتا ہے اس لئے حضرت عیسیٰؑ کی بھی لوگ عام طور پر عزت کرتے ہیں۔ حتّٰی کہ گاندھی جی جنہوں نے یونہی رسول کریم ﷺ کی تعلیم پر دو چار لکد ؎۳ رسید کر دیئے تھے اور کہہ دیا تھا کہ اسلام تلوار کے استعمال کی تعلیم دے کر غلطی کا مرتکب ہوا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کے متعلق انہوں نے بھی لکھ دیا کہ ان کی تعلیم محبت سے بھری ہوئی ہے۔ تو جس کا کھائیے اُسی کا گائیے کے مصداق حضرت عیسیٰؑ پر تو اعتراض بھی کوئی نہیں کرتا اس لئے ان کی تعلیم کی حفاظت کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ دل میں خواہ کچھ ہو ظاہراً طور پر ان کی عزت ہی کی جاتی ہے کیونکہ ان کے ماننے والوں کی حکومت ہے مگر مشکلات تو ہمارے لئے ہیں۔ آج جس طرح یہ بات فیشن میں داخل سمجھی جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توہین کی جائے۔ پس حضرت عیسیٰؑ جن کی عزت پہلے ہی محفوظ ہے اگر ان کے متعلق فیصلہ کا ردّ لکھنے کی انیس سَو چھتیس سال بعد بھی ضرورت ہے تو بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق ۱۹۳۵ء میں صادر شدہ فیصلہ کی تردید کی ۱۹۳۶ء میں ضرورت کیوں نہیں؟ حکومت بتائے کہ عیسائیوں کے بڑے بڑے پادری اور عالم فاضل آج تک بھی ایسی کتابیں کیوں لکھتے ہیں۔ کیا وہ پاگل ہوگئے ہیں۔ اس کی ضرورت یہ ہے کہ آج بھی کوئی نہ کوئی اعتراض کر ہی بیٹھتا ہے۔ پس یہ ایک ایسا سوال ہے کہ شاید انیس سو سال بعد بھی اس کے ردّ کی ضرورت باقی رہے۔ پس اس سوال کی اہمیت کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن باوجود اس کے حکومت کو مشکلات سے بچانے کیلئے گو میں نیشنل لیگ کے کام میں عام طور پر دخل نہیں دیا کرتا میں اس امر کیلئے تیار ہوں کہ اگر حکومت مجھے کوئی ایسا طریق بتادے جس پر چل کر ہم اس فیصلہ کے ضرر کودور کرسکیں تو میں تردید و تنقید کے سلسلہ کوحُکماً روک دوں۔
میرا خیال ہے کہ اگر حکومت ٹھنڈے دل سے غور کرے اور جھوٹا وقار اس کے دامنگیر نہ ہو تو وہ اس سوال کو حل کرسکتی ہے او رمیرے نزدیک اس کے دو طریق ہیں۔ اوّل تو یہ کہ اس فیصلہ کو ضبط کرلے اس میں عدالت کی ہتک نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی اشاعت سے چونکہ فساد ہوتا ہے اس لئے ضبط کرلیا گیا اور حکومت کو جب خود کوئی ضرورت پیش آئے تو وہ ایسا کرلیتی ہے۔ ابھی کچھ عرصہ ہوا اسمبلی میں ایک ممبر نے تقریر کی جو اسمبلی کے رسالہ میں شائع بھی ہوئی وہاں سے اُسے ایک اخبار نے نقل کردیا تو اُس سے ضمانت لے لی گئی اور جب اُس نے یہ ڈیفنس پیش کیا کہ حکومت نے خود اسے شائع کیا تھا تو اُسے جواب دیا گیا کہ حکومت کے رسالہ میں بے شک وہ شائع ہوئی لیکن تم کو ایسا کرنے کا اختیار نہ تھا۔ پس جب اپنے دل پر چوٹ لگنے پر حکومت نے یہ طریق اختیار کیا تو وہ دوسروں کیلئے بھی یہی تدبیر اختیار کرسکتی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر حکومت دوسروں کی چوٹوں کو بھی اپنی ہی سمجھے تو سب جھگڑے مٹ جائیں مشکل یہ ہے کہ اپنی چوٹ پر تو وہ حد سے زیادہ بھنّا اُٹھتی ہے مگر دوسرے پر ایسا موقعہ آنے پر کہتی ہے کہ جانے دو۔ اگر وہ اپنے دل میں ایسی تبدیلی کرے کہ ہر چوٹ کو اپنے دل پر محسوس کرے تو ملک میں بالکل امن و امان ہو جائے۔ پس حکومت اس کا فیصلہ دو طرح کرسکتی ہے ایک تو اس فیصلہ کو ضبط کرلے اور دوسرے جماعت احمدیہ کو اجازت دے کہ اس کا جواب کتاب کی صورت میں لکھ دیا جائے جس میں واقعات کی صحیح صورت پر بحث کرکے جواب دیا جائے اور اس میں عدالت کی شخصیت پر بحث نہ ہو پھر جس جگہ بھی اعتراض ہوگا وہاں کے احمدی اس کتاب میں سے دیکھ کر جواب دے دیں گے۔ اس کے بعد میں نیشنل لیگ والوں کوحکم دے دوں گا کہ وہ آئندہ اس بارہ میں کچھ نہ کرے۔ یہ دو تجویزیں میں نے بہت غور سے سوچی ہیں اور ان پر راضی ہوجانے میں بھی میں نے بہت قربانی کی ہے اور حکومت اگر میری طرح قربانی نہیں بلکہ صرف انصاف کرنے کیلئے تیار ہو تو یہ قضیہ نامرضیہ جو حکومت اور ہمارے دونوں کیلئے مشکلات کا موجب ہوسکتا ہے مٹ جائے گا۔ لیکن اگر حکومت ان دونوں تجویزوں کو نہ مانے تو پھر وہ اپنی طرف سے کوئی تجویز بتادے میں اس پر غور کروں گا لیکن اس کا فرض ہے کہ وہ یا تو میری تجویز مان لے اور یا پھر اپنی طرف سے کوئی ایسی تجویز بتائے جس سے اس فیصلہ کا ضرور دور ہوسکے اور اگر اس کی تجویز معقول ہوئی تو میں اس کو ضرور مان لوں گا۔ لیکن اگر کوئی صورت نہ ہو اور حکومت نہ تو خود کوئی تجویز بتائے اور میری پیش کردہ تجویز کے متعلق بھی کہے کہ تم تورعایا کے ایک فرد ہو تم ایسی تجویزیں پیش کرنے والے کون ہو تو پھر اس کا کوئی علاج میرے پاس نہیں اللہ تعالیٰ کے پاس ہی ہے۔ میر اصرف یہ کام تھا کہ ایک اچھے شہری کی حیثیت سے امن کی بہتر صورت پیش کردوں اور ساتھ یہ بھی کہہ دوں کہ اگر حکومت کوئی اور تجویز بتادے تو میں اپنی بات چھوڑ دوں گا لیکن اگر حکومت دونوں میںسے کوئی بات بھی نہ کرے تو پھر میں یہی کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت ہی ایسی ہے اور ملک کا امن برباد ہونے والا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے فساد مقدر ہو تو ادھر رعایا میں سے بعض لوگوں کے دماغ میں نقص پیدا ہوجاتا ہے اور ادھر حکومت اپنے رویہ کوبدلنے کیلئے تیار نہیں ہوتی اس لئے صرف یہی تدبیر باقی رہ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں او رکہیں کہ ہم تو امن چاہتے ہیں مگر جن رستوں کوکھولنا ہمارے اختیارمیں نہیں، انہیں تُو خود ہی کھول دے اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم سلسلہ کی روایات کو بھی قائم رکھ سکیں، قانون کا احترام بھی نہ چھوڑیں اور اس خدا کے پیارے کی عزت بھی قائم کرسکیں جس کی عزت قائم کرنے کیلئے ہم میں سے ہر ایک اپنی اور اپنے تمام خاندان کی عزت قربان کردینا سب سے بڑی عزت سمجھتا ہے۔
(الفضل ۲۴؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
؎۱ بنی اسرائیل: ۱۷
؎۲ خدیو: بادشاہ ۔ انیسویں صدی میں مصر کے بادشاہوں کا لقب
؎۳ لکد: لات۔ ٹھوکر۔ دولَتّی









۱۴
سُستیاں ترک کرو طالبِ آرام نہ ہو
(فرمودہ۲۴؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کی ۔
یٰٓاَیُّھَاالْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰـبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا وَ یَنْقَلِبُ اِلٰٓی اَہْلِہٖ مَسْرُوْرًاوَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰـبَہٗ وَرَائَ ظَہْرِہٖ فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثَبُوْرًا وَّ یَصْلٰی سَعِیْرًا اِنَّہٗ کَانَ فِیْٓ اَہْلِہٖ مَسْرُوْرًا اِنَّہٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ یَّحُوْرَ بَلٰٓی اِنَّ رَبَّہٗ کَانَ بِہٖ بَصِیْرًا ؎ ۱ ۔
اس کے بعد فرمایا :-
دنیا کی اصلاح کوئی ایسی معمولی بات نہیں کہ بغیر خاص توجہ اور خاص تدابیر کے پایۂ تکمیل تک پہنچ سکے مگر عجیب بات یہ ہے کہ انسان ہر چیز کیلئے کسی توجہ کی ضرورت محسوس کرتا ہے مگر نہیں کرتا تو بنی نوع انسان کی اصلاح کی طرف توجہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور اس طرح جو سب سے قیمتی چیز ہے وہ سب سے زیادہ نظر انداز کی جاتی ہے۔زمیندار ایک بھینس رکھتا ہے یا ایک گھوڑی رکھتا ہے۔ تم اس کے گھر میں تھوڑی دیر جاکر دیکھ لو تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ اپنے دن کا کافی حصہ گھوڑی یا بھینس کی خبرگیری میں صرف کرتا ہے۔ اس کے پاس تھوڑی سی زمین ہوتی ہے مگر اس کی نگہداشت کیلئے کافی عرصہ صرف کرتا ہے لیکن تم چوبیس گھنٹے ایک زمیندار کے گھر میں رہ کر اگر یہ معلوم کرنا چاہو کہ وہ کتنا وقت اپنے بچے کی اصلاح میں صرف کرتا ہے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ ایک منٹ بھی صرف نہیں کرتا۔اس کی گھوڑی یا بھینس اس کے وقت کا گھنٹہ دو گھنٹے لے لیتی ہے، اس کی کھیتی اس کے و قت سے آٹھ دس گھنٹے لے لیتی ہے اور اس کی توجہ کو اپنی طرف پھیرلیتی ہے مگر اس کا بیٹا جو اس کی سب سے زیادہ قیمتی جائداد ہے اس پر وہ ایک منٹ بھی صرف نہیں کرتا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسانی حیثیت کو لوگ نہیں سمجھتے۔ سب چیزوں کی درستی کیلئے لوگ کوشش کریں گے، مالوں کی درستی کیلئے کوشش کریں گے، صنعت و حرفت کی درستی کیلئے کوشش کریں گے، تجارت کی درستی کیلئے کوشش کریں گے، زراعت کی درستی کیلئے کوشش کریں گے لیکن قومی اخلاق کی درستی کیلئے کوشش نہیں کریں گے۔ ہمارے سامنے کانگرس کی وہ جدوجہد موجود ہے جو اس نے ملک کی آزادی کیلئے کی۔ کانگرس کے دشمن بھی یہ تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرسکتے کہ کانگرس کی کوششوں میں سے بعض نہایت شاندار اور اعلیٰ درجہ کی تھیں۔ اس سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ کانگرس نے لوگوں میں ذہنی بیداری پید اکی اور حبِّ وطن کا جذبہ قلوب میں موجزن کیا۔ پھر کوئی شخص اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے ملک کا بیشتر حصہ بزدل تھا کانگرس والوں نے ان میں دلیری پیداکی اور انہیں نڈر بنایا۔ غرض ان خوبیوں کا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا مگر جو کچھ انہوں نے کیا اس سارے کا خلاصہ یہ تھا کہ ملک کو آزادی مل جائے، ملک انگریزوں کے اثر سے محفوظ ہوجائے اور ملک کی عزت دنیا میں قائم ہوجائے لیکن اس جدوجہد اور اس کوشش میں بعض باتیں انہوں نے یا ان کے دوستوں نے ایسی بھی اختیار کیں جو اور زیادہ غلامی کا طوق لوگوں کے گلے میں ڈالنے والی ثابت ہوئیں۔ یعنی بعض اخلاقی غلطیاں ایسی ہوئیں جن سے حریت کی روح تو پیدا ہوئی لیکن دوسری طرف اور زیادہ غلامی کی روح پید اہوگئی۔ مثلاً یہی مسئلہ جو نان کوآپریشن کا ہے گو جس مقصد کیلئے استعمال کیا گیا وہ اچھا تھا مگر یہ ذریعہ نہایت گندہ تھا۔ اگر نان کوآپریشن کے اصول ہم صحیح تسلیم کرلیں تو اس کے معنے یہ بنیں گے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کی کبھی اطاعت نہ کرے اور اپنی مرضی ہمیشہ منوانے کی کوشش کرے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نوجوانوں کے اخلاق میں بگاڑ پیدا ہوگیا اور وہی حملے جو کبھی گورنمنٹ کے خلاف کئے جاتے تھے کانگرس کے خلاف شروع ہوگئے۔ ستیہ گرہ۲؎ کو ہی لے لیا جائے یہ کبھی گاندھی جی کے خلاف شروع کی گئی ، کبھی کانگرس کے خلاف اس لئے کی گئی کہ وہ اچھوتوں کی خبرگیری اور ان کے حقوق کی تائید کیوں کرتی ہے،کبھی کسی یونیورسٹی کے خلاف شروع کی گئی ، کبھی پروفیسروں کے خلاف شروع کردی گئی اور کبھی اپنے ماں باپ کے خلاف ہی ستیہ گرہ ہونے لگی۔ گویا ستیہ گرہ ایک غلط اصل کی وجہ سے دنیا کی بدترین استیہ گرہ ہوگئی یعنی بجائے سچائی کی تائید کے جھوٹ کی تائید اس سے ہونے لگی۔ پس اخلاقی طور پر اس تحریک نے لوگوں کو بہت نقصان پہنچایا ۔ اسی طرح کانگرس کی تحریک کے نتیجہ میں گو خود کانگرس والے اس کے بانی نہیں ہوئے مگر بہرحال اس کے نتیجہ میں ٹیررازم یعنی دہشت انگیزی اور قتل کی تحریک شروع ہوئی گویا نوجوانوں کی اخلاقی طور پر موت واقع ہوگئی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ کانگرس والوں نے اس بات کی تو قیمت سمجھی کہ جسم غلامی سے آزاد ہونے چاہئیں مگرانہوں نے اس بات کی کوئی قیمت نہ سمجھی کہ ذہن بھی غلامی سے آزاد ہونے چاہئیں کیونکہ اخلاق کی قیمت ان کے نزدیک معمولی تھی مگر جسموں کی قیمت بہت زیادہ تھی اوریہ مرض کانگرس والوں سے خصوصیت نہیںرکھتا تمام دنیا میں یہ مرض پھیلا ہوا ہے یہی حالت ان ممالک کی بھی ہے جو آجکل ترقی یافتہ سمجھے جاتے ہیں۔ کیا انگلستان، کیا فرانس، کیا جرمنی اور کیا امریکہ سب کے نزدیک انسانوں کی اخلاقی حالت خواہ کتنی ہی خراب کیوںنہ ہو انہیں اس کی چنداں پرواہ نہیںہوگی لیکن جسمانی حالت گرنے کی انہیں فوراً فکر شروع ہوجائے گی۔ اگر ان کے ملک کے سکّہ کی قیمت گرتی ہے تو وہ گھبراجاتے ہیں لیکن اگر ان کے نوجوانوں کے اخلاق گرجائیں تو اس کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی۔ اگر ان کاشلنگ بارہ پنس کی بجائے گیارہ پنس کاہوجائے تو وہ گھبراجاتے ہیں لیکن اگر ان کے ملک میںجؤابازی عام ہوجائے، شراب خوری زیادہ ہوجائے، فواحش کی کثرت ہوجائے تو اس کی انہیں اتنی فکر نہیںہوتی یا جھوٹ، دغا اور فریب پھیل جائے تو اس کی انہیں فکر نہیں ہوگی لیکن شلنگ کابارہ پنس کی جگہ گیارہ پنس کا ہوجانا ان کے ہاں بہت بڑی اہمیت رکھے گا۔ تو درحقیقت تمام انسان سوائے ان لوگوں کے جو مذہبی اثر کے نیچے ہوتے اور انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کے تابع ہوتے ہیں قومی اخلاق کی طرف توجہ نہیں کرتے لیکن مال و دولت کے بڑھانے کی طرف زیادہ توجہ کرتے ہیں جس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی تمام تر کوششیں ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ؎۳ کا مصداق بن کر رہ جاتی ہیں۔ ان کی ساری کوششیں دنیا کے معاملات میں ہی صرف ہوجاتی ہیں دین کے معاملات میں خرچ نہیں ہوتیں۔ مگر ان سے اُتر کر ایک اور گروہ بھی ہے یا یہ کہنا چاہئے کہ ان سے بدتر ایک اور گروہ ہے جس کی کوششیں کہیں بھی خرچ نہیں ہوتیں گویا وہ نکمّے وجود ہوتے ہیں اور میں سمجھتاہوں اس وقت ایشائیوں کی زیادہ تر حالت ایسی ہی ہے۔ یورپ کے لوگوں کے متعلق تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۔ ان کی تمام تر کوششیں دنیا پر صرف ہوگئیں لیکن ایشیائیوں کا ننانوے فیصدی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ حصہ ایسا ہے جس کی کوششیں کہیں بھی خرچ نہیں ہوتیں وہ صرف آرام کرناجانتے ہیں اور کام سے اتناگھبراتے ہیں گویا موت ہے اور ان کی پوری کوشش اس امر پر صرف ہوتی ہے کہ کسی طرح کام سے چھٹ سکیں اور پھر اگر کوئی کام ان کے سپرد کیا جائے تو وہ کبھی اسے وقت پر پورا نہیں کریں گے اور نہ یہ کوشش کریں گے کہ اس کام میں ترقی ہو حالانکہ انسانی پیدائش اس دنیا میں ہے ہی اسی لئے کہ وہ محنت کریں۔
یہ جو میں نے اس وقت آیات پڑھی ہیں ان کا سارا مضمون تو وقت کی قلت کی وجہ سے میں بیان نہیں کرسکتا مگر ان میں اسی مضمون پر زور دیاگیا ہے جو میں اس وقت بیان کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰٓاَیُّھَاالْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ اے انسان! تجھے کدح کرنی پڑے گی اپنے ربّ تک پہنچنے کیلئے۔ کدح کے معنی ہیں شدیدمحنت۔ ایسی محنت جس سے انسان کا جسم کمزور ہونا شروع ہوجائے جسے ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ ہڈیاں گھل گئیں۔ یہ حالت جب انسان کی ہوجائے تو اس کے متعلق کہیں گے اس نے کدح کی۔ کدح کے اصلی معنی کسی چیز کااندر داخل ہوجانا ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں کَدَحَ رَأْسَہٗ بِالْمُشْطِ اس نے کنگھی کے ساتھ اپنے بالوں کو درست کیا۔ چونکہ کنگھی انسان کے بالوں میں داخل ہوجاتی ہے اس لئے اس کے متعلق کدح کالفظ استعمال کیا گیا۔ اسی طرح کہتے ہیں کَدَحَ وَجْھَہٗ اس نے منہ پر ناخن مارے اوروہ ناخن جلد کے اندر گھس گئے تو کدح اس محنت کو کہتے ہیں جس کا اثر جسم سے اتر کر انسان کے اندر چلا جاتا ہے اور محنت شاقہ کی وجہ سے اس کی ہڈیاں گھلنے لگ جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰٓاَیُّھَاالْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ اے انسان! تجھے اتنی محنت کرنی پڑے گی اتنی محنت کرنی پڑے گی کہ اس محنت کی وجہ سے تیری ہڈیاں گھل جائیں تب کہیں تیرے ربّ کی ملاقات تجھے نصیب ہوگی پھر جب ایسا انسان وہاں پہنچے گا تو اس بات کی علامت کیلئے کہ اس کی کدح سچی تھی اور اس کی محنت پوری اتری خداتعالیٰ اس کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دے گا۔ دائیں ہاتھ سے مراد کام کرنے والا ہاتھ ہے دنیا کا اکثر حصہ چاہے وہ مسلمان ہو یا نہ ہو دائیں ہاتھ سے کام کرتا ہے بعض لوگ بے شک لیفٹ ہینڈڈ (Left Handed) یعنی بائیںہاتھ سے کام کرنے والے بھی ہوتے ہیںمگر وہ نہایت قلیل ہوتے ہیں اکثر دائیں ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔ خط لکھیں گے تو دائیں ہاتھ سے ، کوئی چیز کاٹیں گے تو دائیں ہاتھ سے، ضرب لگائیں گے تو دائیں ہاتھ سے، اسلام نے تو دائیں ہاتھ سے کام کرنے کو مذہب کاجزو قرا ردیا ہے مگر عملی طور پر ساری دنیا میں یہ بات پائی جاتی ہے اور ملک کا ملک کم از کم میرے علم میں کوئی ایسا نہیں جہاں بائیں ہاتھ سے کام کیا جاتا ہو۔ افراد بے شک کرتے ہیں مگر وہ قلیل ہوتے ہیں پھر بائیں ہاتھ سے کام کرنا ان کی کوئی خوبی نہیں بلکہ نقص سمجھا جاتا ہے۔ تو دایاں ہاتھ عمل پر دلالت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ وہ عملی لوگ ہوں گے اور محنت اور کوشش سے کام کرنے والے ہوں گے اس لئے اللہ تعالیٰ ان کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دے گا مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے دنیا میں کوئی عمل نہ کیا ہوگا اور ان کی یہ عادت ہوگی کہ جب ان کے سامنے کوئی کام آیا انہوں نے اسے اپنی پیٹھ پیچھے ڈال دیا۔ جیسا کہ کہتے ہیں آج کا کام کل پر ڈال دینا۔ دنیا میں یہ عام دستور ہے کہ جو کام انسان نے کرنا ہو اسے اپنے سامنے رکھ لیتا ہے مگر جو نہ کرنا ہو اسے ایک طرف کردیتا ہے اس کے مطابق چونکہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے پاس جب کام آتا تو وہ اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال دیتے اور اس طرح ان کی پیٹھوں کے پیچھے کاموں کا ایک ذخیرہ جمع رہتا اس لئے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰـبَہٗ وَرَآئَ ظَہْرِہٖ چونکہ وہ اپنی پیٹھ کے پیچھے کام رکھنے کے عادی تھے اس لئے ان کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے رکھا جائے گا۔ فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثَبُوْرًا اس وقت جس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے رکھا جائے گا یہ شور مچانے لگ جائے گاکہ میں تو مارا گیا۔ یہ سست اور کاہل آدمی کی مثال ہے کہ وہ بجائے کام کو اپنے سامنے رکھنے اور اسے پورا کرنے کی کوشش کرنے کے ہمیشہ اسے تاخیر میں ڈالتا اور اسے بھلانے کی کوشش کرتا ہے لیکن دیانت دار اور مؤمن انسان ہمیشہ اُسے سامنے رکھتا اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی مناسبت کے لحاظ سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس شخص کو جو عملی زندگی بسر کرنے والا ہو دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دے گا مگر جو سُست اور کاہل ہوگا اور کام کو اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال دینے کا عادی ہوگا اس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے رکھا جائے گا گویا جس نگاہ سے اس نے دنیا میں اپنے کام کو دیکھنے کی کوشش نہ کی اسی طرح اس کا اعمال نامہ بھی ایسا گندہ ہوگا کہ وہ اسے دیکھنے کیلئے قوتِ برداشت اپنے اندر نہ رکھے گا اور اسی لئے اسے پیٹھ کے پیچھے رکھاجائے گا۔
میں نے متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ سستی اور غفلت بہت بڑی *** ہے اور ہمیں اس *** کوبہت جلد اپنے آپ سے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر ہم اس کو دور نہیں کرسکتے تو ہمیں کم از کم اپنی اولادوں سے تو اس کو دورکرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ڈاکٹروں نے اس بات پر بحثیں کی ہیں کہ ایشیائی لوگ سُست کیوں ہوتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ چونکہ ایشیاء میں ملیریا زیادہ ہوتا ہے اس لئے ملیریا کی وجہ سے ایشیاء والے سُستی کا شکار رہتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں یہ بات غلط ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملیریا سُستی پید اکرتاہے اور جب ملیریا کا انسانی جسم پر اثر ہونے لگے تو بخار چڑھنے سے کئی دن پہلے ہی انسان کاکام کرنے کو جی نہیں چاہتا اور پھر بخار کی حالت میں بھی جمائیاں آتی ہیں، اعضاء شکنی ہوتی ہے اور پژمردگی سی چھائی رہتی ہے۔ پس یہ صحیح ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایشیاء میں ملیریا نہایت سخت ہوتا ہے لیکن اسی ایشیاء میں وہ لوگ بھی ہوئے ہیں جنہوںنے دنیا میں اتنے مہتم بِالشان او رحیرت انگیز کام کئے ہیں کہ دنیا ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ چنانچہ اسی ایشیاء میں رسول کریم ﷺ ہوئے ہیں جن کی زندگی پر جب اس لحاظ سے غور کیا جائے کہ وہ کیسی محنتی زندگی تھی تو ہمیں اس میں محنت کا ایسا اعلیٰ نمونہ نظر آتا ہے کہ اُسے دیکھ کرحیرت آجاتی ہے۔
دنیا میں ایک شخص جرنیل ہوتا ہے اور وہ جرنیلی کے کاموں میں ہی تھکا رہتا ہے، کوئی استاد ہوتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ سکول کا کام اتنا زیادہ ہے کہ دماغ تھک جاتا اور جسم چُور چُور ہوجاتا ہے ، ایک جج ہوتا ہے اور وہ یہ شور مچاتا رہتا ہے کہ ججی کا کام اتنا زیادہ ہے کہ میری طاقتِ برداشت سے بڑھ کر ہے، ایک وکیل ہوتا ہے اور وہ یہ شکوہ کرتا رہتا ہے کہ وکالت کا کام اتنا بھاری ہے کہ مجھے اس سے ہوش ہی نہیں آتا، ایک میونسپل کمیٹی کا پریذیڈنٹ ہوتا ہے اور وہ اس امر کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ اتنا زیادہ کام ہے کہ میں سمجھ ہی نہیں سکتا اسے کس طرح کروں ،ایک لیجسلیٹواسمبلی کا سیکرٹری ہوتا ہے اور وہ کہتا رہتا ہے کہ قانون سازی کا کام اتنا بھاری ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس سے کس طرح عہدہ برآ ہوں۔ غرض ایک ایک کام انسان کی کمر توڑدینے کیلئے کافی ہے مگر محمد ﷺ کی زندگی میں یہ سارے کام بلکہ ان کے علاوہ اور بھی بیسیوں کام ہمیں ایک جگہ اکٹھے نظر آتے ہیں۔ محمد ﷺ معلّم بھی تھے کیونکہ آپ لوگوں کو دین پڑھاتے اور رات دن پڑھاتے، محمد ﷺ جج بھی تھے کیونکہ آپ لوگوں کے جھگڑوں کا تصفیہ کرتے، محمد ﷺ پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی کے فرائض بھی سرانجام دیتے کیونکہ بلدیہ کے حقو ق کی نگرانی و صفائی کی نگہداشت اور چیزوں کے بھائو کا خیال رکھنا یہ سب کام آپ کرتے ، پھر رسول کریم ﷺ مقنّن بھی تھے کیونکہ آپ قرآن کریم کے احکام کے ماتحت لوگوں کو قانون کی تفصیلات بتاتے اور ان کا نفاذ کرتے، اسی طرح رسول کریم ﷺ جرنیل بھی تھے کیونکہ آپ لڑائیوں میں شامل ہوتے او رمسلمانوں کی جنگ میں راہبری فرماتے، رسول کریم ﷺ بادشاہ بھی تھے کیونکہ آپ تمام قسم کے ملکی اور قومی انتظامات کا خیال رکھتے، پھر اس کے علاوہ اور بھی بیسیوں کام تھے جو رسول کریم ﷺ کے سپرد تھے مگر آپ یہ سب کام کرتے اور اسی علاقہ میں رہ کر کرتے جس میں رہنے والوں کی سستی کی دلیل بعض ڈاکٹر یہ پیش کرتے ہیں کہ یہ ملیریا زدہ علاقہ ہے۔ آخر آپ بھی تو ایشیاء کے ہی رہنے والے تھے یورپ کے رہنے والے تو نہ تھے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہمیں اپنی صحت کی درستی کا خیال رکھنا چاہئے اور ملیریا کو اس بات کا موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ ہماری تندرستی برباد کرے مگر ملیریا بھی تو بعض کمزوریوں کی وجہ سے ہی آتا ہے یا روحانی کمزوریاں ملیریا کا شکار بنادیتی ہیں یا جسمانی سستیاں ملیریا کا شکار بنادیتی ہیں یا امنگوں کی کمی ملیریا کا شکار بنادیتی ہے۔ دنیا میں امنگ بھی بہت حد تک بیماریوں کامقابلہ کرتی ہے۔ بے شک بداحتیاطی او ربدپرہیزی بھی بیماری لانے کا باعث بنتی ہے مگر امنگیں بیماری کو دبا لیتی ہیں لیکن وہ جوپہلے ہی اپنے ہتھیار ڈال چکا ہو او رکہے کہ ’’آ بیل مجھے مار‘‘ اور بیماریوںکے مقابلہ کی تاب اپنے اندر نہ رکھتاہو اس پر بیماری بہت جلد غلبہ پالیتی ہے۔ لیکن وہ جو اپنی امنگوں کو زندہ رکھتا، اپنی قوتِ ارادی کو مضبوط کرتا اور اپنے حوصلہ کو بلند رکھتا ہے بیماری اس پر غلبہ نہیں پاسکتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی کی حکومت تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ اگر بیماری اس پر حکومت کرنا چاہے تو وہ اس کی حکومت سے بھی انکار کردیتا ہے۔ پس میں تسلیم کرتا ہوں کہ بیماری کا علاج ہونا چاہئے مگرمیں یہ ہرگز تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ یہ سست اور نکمّا بنانے کا کافی سبب ہے۔ ایسے ہی حالات میں رسول کریم ﷺ نے جس محنت اورمشقت کا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے آپ کے متبعین میں سے کسی کو یہ جرأت نہیں ہوسکتی کہ وہ کہے کہ ملیریا کا ہمارے ملک میں پایا جانا ہمارے ملک کی سُستی اور غفلت کیلئے کافی عذر ہے۔ ہم جب رسول کریم ﷺ کی زندگی دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے آپ آدھی رات کے بعد اٹھ بیٹھتے اور عبادت شروع کردیتے ہیں۔ اسی عبادت کے دورا ن میں فجر کی اذان ہوتی ہے اور آپ کو نماز کیلئے اطلاع ملتی ہے رسول کریم ﷺ نما زپڑھانے چلے جاتے ہیں۔ نما زپڑھا کر آپ مسجد میں ہی بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں جس کو کوئی ضرورت اوراحتیاج ہو وہ بیان کرے۔ اس پر پہلے جن جن لوگوں کورات کو کوئی خواب آیا ہوتا وہ بیان کرتے اور آپ تعبیریں بتاتے، اس کے بعد جنہیں کوئی دوسری حاجتیں ہوتیں وہ آپ کے سامنے اپنی حاجات بیان کرتے اور آپ مناسب مشورے دیتے۔ پھر صحابہ کو آپ قرآن کی تعلیم دیتے بعض کو حفظ کراتے اور بعض کو معانی بتاتے پھر مقدمات والے آجاتے اور آپ ان کے جھگڑوں کو سنتے اور فیصلہ کرتے۔ مقدمات سننے کے بعد ظہر کا وقت آجاتا ہے اور آپ کھانا کھانے اندر تشریف لے جاتے ہیں اس کے بعد ظہر کی نماز ادا کرنے کیلئے نکلتے ہیں۔ ظہر کی نماز کے بعد پھر وہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، درس و تدریس ہوتا ہے، اسلامی ضروریات پر مشورے ہوتے ہیں، قانون کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں، افتاء کا کام کیا جاتا ہے اسی میں عصر کا وقت آجاتا ہے اور آپ عصر کی نماز پڑھانے کھڑے ہوجاتے ہیں پھر یا تو نصائح کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے یا فوجی مشقیں ہونے لگتی ہیں کیونکہ بالعموم عصر کے بعد رسول کریم ﷺ صحابہ سے فوجی مشقیں کراتے کہیں تیر اندازی ہوتی، کہیں کشتی ہوتی، کہیں گھڑدوڑ ہوتی اسی طرح بِالعموم ظہر سے پہلے اور اشراق کے بعد رسول کریم ﷺ بازار تشریف لے جاتے اور بھائو وغیرہ معلوم کرتے اور دیکھتے کہ کہیں دکاندار دھوکا تو نہیں کررہے یا لوگ دکانداروں پر تو ظلم نہیں کررہے اور عصر کے بعد وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع ہوتا یا صحابہ کو فوجی مشقیں کرائی جاتیں اور انہیں جنگ کیلئے تیار کیا جاتا ۔ گویا اس وقت رسول کریم ﷺ جرنیل کے فرائض سرانجام دیتے پھر مغرب کی نماز پڑھا کرکھانا کھاکر آپ مسجدمیں آجاتے اور مجلس لگ جاتی پھر عشاء تک یا تو مقدمات کے تصفیے ہوتے یا شکایات سنی جاتی ہیں یا تعلیم دی جاتی ہے اسی دوران میں عشاء کی نماز کا وقت آجاتا ہے اور عشاء کی نماز پڑھ کر اور نوافل سے فارغ ہوکر آپ سوجاتے اور آدھی رات کے بعد پھر اٹھ بیٹھتے اور اسی کام کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ غرض اس زندگی میں ایک منٹ بھی تو ایسا نہیں آتا جسے ہمارے ہاں گپیں ہانکنے کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے اور نہایت قیمتی وقت محض بکواس میں ضائع کردیا جاتا ہے کہ فلاں کا یہ حال ہے اور فلاں کا یہ ۔ اور اصل کام کی طرف توجہ نہیں کی جاتی اسی وقت کے اندر رسول کریم ﷺاپنی بیویوں کے حقوق بھی اداکرتے تھے اور اتنی توجہ سے ادا کرتے تھے کہ ہر بیوی سمجھتی تھی کہ سب سے زیادہ میں ہی آپ کی توجہ کے نیچے ہوں۔ پھر بیوی بھی ایک نہیں آپ کی نو بیویاں تھیں او رنو بیویوں کے ہوتے ہوئے ایک بیوی بھی یہ خیال نہیں کرتی تھی کہ میری طرف توجہ نہیں کی جاتی۔چنانچہ عصر کی نماز کے بعد رسول کریم ﷺکا معمول تھا کہ آپ ساری بیویوں کے گھروں میںایک چکر لگاتے اور ان سے ان کی ضرورتیں دریافت فرماتے۔ پھر بعض دفعہ خانگی کاموں میں آپ ان کی مدد بھی فرمادیتے اس کام کے علاوہ جو میں نے بیان کئے ہیں او ربھی بیسیوں کام ہیں جو رسول کریم ﷺ سرانجام دیتے ہیں۔ پس آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو فارغ ہو مگر آپ بھی اسی ملیریا والے ملک کے رہنے والے تھے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہم دیکھتے ہیں جو آپ کے ظلّ تھے۔ مجھے یا د ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کام کی یہ حالت ہوتی کہ ہم جب سوتے تو آپ کو کام کرتے دیکھتے اور جب آنکھ کھلتی تب بھی آپ کوکام کرتے دیکھتے اور باوجود اتنی محنت اور مشقت برداشت کرنے کے جو دوست آپ کی کتابوں کے پروف پڑھنے میں شامل ہوتے آپ ان کے کام کی اس قدر‘ قدر فرماتے کہ اگر عشاء کے وقت بھی کوئی آواز دیتا کہ حضور میں پروف لے آیا ہوں تو آپ چارپائی سے اُٹھ کر دروازہ تک جاتے ہوئے راستہ میں کئی دفعہ فرماتے جزاک اللّٰہ۔ آپ کو بڑی تکلیف ہوئی جزاک اللّٰہ۔ آپ کو بڑی تکلیف ہوئی۔ حالانکہ وہ کام اس کام کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہوتا تھا جو آپ خود کرتے تھے۔ غرض اس قدر کام کرنے کی عادت ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں دیکھی ہے کہ اس کی وجہ سے ہمیں حیرت آتی۔ بیماری کی وجہ سے بعض دفعہ آپ کو ٹہلنا پڑتا مگر اس حالت میں بھی آپ کام کرتے جاتے۔سیر کیلئے تشریف لے جاتے تو راستہ میں بھی مسائل کا ذکر کرتے اور سوالات کے جوابات دیتے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس ملیریا زدہ علاقہ کے تھے بلکہ حق یہ ہے کہ دنیا میں جتنے عظیم الشان کام کرنے والے انسان ہوئے ہیں وہ سب اسی ملیریا والے ملک میں ہوئے ہیں کیونکہ اکثر معروف انبیاء ایشیاء میں ہوئے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اسی ملیریا زدہ علاقہ کے تھے، حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اسی ملیریا زدہ علاقہ کے تھے اور حضرت دائود علیہ السلام بھی اسی ملیریا زدہ علاقہ کے تھے اور حضرت عیسیٰؑ علیہ السلام بھی اسی ملیریا زدہ علاقہ کے تھے بلکہ حضرت کرشنؑ ، حضرت رام چندرؑ اور حضرت زرتشت بھی اسی علاقہ کے رہنے والے تھے۔ تو اس میں کوئی شبہ نہیں ہمیں اپنی صحتوں کو درست کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے مگر مغرب کے کسی ڈاکٹر کا کوئی فقرہ سن کر اس کے پیچھے چل پڑنا بھی تو نادانی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل ملیریا وہ ہے جو دل سے پیداہوتا ہے اگر دل کا ملیریا دور نہ ہو تو خواہ ظاہری طور پر انسان ملیریا زدہ علاقہ میں نہ ہو پھر بھی سست اور کاہل رہ سکتاہے۔ چنانچہ یورپ میں بھی سست لوگ ہیں حالانکہ وہاں ملیریا نہیں۔ بڑے بڑے امراء ہوتے ہیں اور انہوں نے اپنا کام یہی سمجھا ہوا ہوتا ہے کہ اچھی اچھی غذائیں کھائیں، شرابیں پئیں اور تاش کھیلیں ان کو کونسا ملیریا ہوتا ہے۔
پس حقیقت یہ ہے کہ دل کا ملیریا ہی انسان کو سست اور غافل کردیتا ہے اور سستی اور غفلت ایسی چیز ہے کہ وہ قوم کو تباہ کردیتی ، اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے انسان کو محروم کردیتی اور نجات سے دور پھینک دیتی ہے۔ میں نے بار بار جماعت کوتوجہ دلائی ہے کہ وہ سستی اور غفلت کو چھوڑے مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا۔ مائیں اپنے بچوں کو سست رکھنا پسند کرتی ہیں مگر یہ پسند نہیں کرتیں کہ ان پر کام کابوجھ پڑے، باپ اپنے بچوں کو سست رکھنا پسند کرتے ہیں مگر یہ پسند نہیں کرتے کہ انہیں کام کی عادت ڈالی جائے اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کام نہ کرنے کی عادت ان میں پیدا ہوجاتی ہے اور اس عادت کا دور ہونا پھر بہت مشکل ہوجا تا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ کوئی شخص ہندو تھا جو بعد میں مسلمان ہوگیا ایک دن کسی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ کوئی لطیفہ کی بات ہوئی اس پر وہ جھٹ کہنے لگا رام رام۔ رام رام۔ کسی نے کہا یہ کیا بات ہے تم تو مسلمان ہو تمہیں رام رام کی بجائے اللہ اللہ کہنا چاہئے تھا۔ وہ کہنے لگا اللہ اللہ داخل ہوتے ہی داخل ہوگا اور رام رام نکلتے ہی نکلے گا ۔ پرانی عادت پڑی ہوئی ہے اس لئے زبان سے رام رام ہی نکل جاتا ہے۔ تو سُستیاں اور غفلتیں اگر کسی قوم میں عادت کے طور پر داخل ہوجائیں تو اس قوم کو کم از کم یہ چاہئے کہ اپنی اولادوں کو اس *** سے بچائے مگر مجھے افسوس ہے کہ اب تک اپنی اولادوں کو سُستی اور غفلت سے بچانے کی طرف جماعت نے کوئی خاص توجہ نہیں کی۔ اس تحریک میں مائیں روک بنتی ہیں، اس تحریک میں باپ روک بنتے ہیں، اس تحریک میں استاد روک بنتے ہیں حالانکہ اگر ماں باپ اور استاد بچوں کی نگرانی کرکے سستی اور غفلت کی عادت اگلی نسل سے دور کردیں تو ان کا یہ کام جہاد اعظم کے برابر حیثیت رکھے گا مگر مجھے افسوس ہے کہ اب تک یہ کام کرنے والے ہمیں میسر نہیں آئے حالانکہ ہمیں ایسے کارکنوں کی ضرورت ہے جنہیں کام میں لذت آئے اور جو وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا ؎۴ کا مصداق ہوں کہ جب کسی کام میں ہاتھ ڈالیں اس میں غرق ہوجائیں اور غرق ہوکر اس میں سے موتی نکال لائیں۔ مجھے تعجب ہوا کہ کل ہی میںنے ایک کام کیلئے ایک دفتر کو تاکید کی اور کہا کہ چونکہ وہ اس کام میں کئی مہینوں سے سستی کرتے چلے آئے ہیں اس لئے اب وہ یہ کام ختم کرکے دفتر بند کریں چاہے دو دن انہیں رات دن دفتر کھلا رکھنا پڑے۔ اس کے جواب میں رات کے تین بجے مجھے ایک افسر کا رقعہ ملا جسے پڑھ کر ہنسی بھی آئی اور رونا بھی۔ ہنستی تو اس لئے کہ اس نے لکھا فلاں شخص بھی میرے ساتھ مل کرکام کررہا ہے اسے تین بجے اٹھنے کی اجازت دی جائے حالانکہ اسی کی غفلت کے نتیجہ میں کام خراب ہوا تھا مگر ذکر اس رنگ میں کیا گیا گویا اس کا کام کرنا بہت بڑا احسان ہے اور رونا مجھے اس لئے آیا کہ میںنے کہا تھا چاہے دو دن انہیں دن رات دفتر کھلا رکھنا پڑے کھلا رکھیں اور اس کام کو ختم کریں مگر مجھے لکھا گیا اب تو تین بج چکے ہیں اب ہم میں سے بعض کو جانے کی اجازت دی جائے۔ وہ تو نوجوان ہیں اور اس لحاظ سے انہیں کام زیادہ کرنا چاہئے مگر میری تو عمر ان سے زیادہ ہے صحت بھی کمزور ہے لیکن سال میں بیسیوں دن ایسے آتے ہیں جب رات کے تین تین چار چار بجے تک مجھے کام کرنا پڑتا ہے مگر انہیں یہی بات اچنبھا معلوم ہوئی کہ ایک دن انہیں رات کے تین بجے تک کام کرنا پڑا اوراس کے بعد انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ کام چھوڑنے کی اجازت لیں گویا ان کے نزدیک تین بجے کے بعد اگر کام کیا جائے تو موت ہی آجاتی ہے۔ حالانکہ بیسیوں دن سال میں مجھ پر ایسے آتے ہیں جب مجھے چار چار بجے تک بیٹھ کر کام ختم کرنا پڑتا ہے اور اس میں بعض دفعہ میں اپنی بیویوں کو بھی شامل کرلیتا ہوں۔ ابھی آٹھ دن ہوئے رات کے وقت سخت گرمی تھی اور میں پسینہ میں شرابور تھا میری بیوی بھی بیمار تھیں مگر میں نے انہیں کہا کہ تم زائد رقعے پڑھ کر مجھے دیتی جائو اور بتاتی جائو کہ اس میں کیا لکھا ہے کیونکہ کام بہت سا اکٹھا ہوگیا ہے۔ چنانچہ ہم دونوں نے بیٹھ کر رات کے تین بجے تک کام ختم کیا اور سوتے ہوئے قریباًچار بج گئے۔ یہ بات بتاتی ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں کو ابھی کا م کرنے کی عادت نہیں ورنہ اگر کام کرنے کی عادت ہو تو تین بجے تک کام کرنے کو اہمیت دینا تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص تنکا اٹھا کر ناچتا پھرے کہ میں نے کتنا بوجھ اٹھایا ہؤا ہے۔ ایسی کئی راتیں مجھ پر گزری ہیں جن میں مجھے صبح کی نما زتک کام کرنا پڑا ہے کئی کتابیں میں نے ایسی لکھی ہیں جن میں بعض دوسرے دوست بھی میرے شریک تھے اور ہم صبح تک کام کرتے چلے گئے صبح کی نماز پڑھ کر پھر بیٹھ گئے اوررات تک کام کرتے رہے۔ پس کام کرنے سے گھبرانا ایک ایسی بات ہے جو میری سمجھ سے بالا ہے حالانکہ میری غرض تحریک جدید اور ان صیغوں کے قائم کرنے سے ہے ہی یہ کہ لوگوں کو کام کرنے کی عادت ڈالی جائے اورنئی پود اتنا کام کرنے کی عادی ہو کہ وہ سمجھے ہی نہ کہ کام ہوتا کیا ہے۔ یہی *** تو میں دور کرنا چاہتا ہوں کہ اب چھ بج چکے ہیں، اب سات بج چکے ہیں، اب دس بج چکے اور ہمیں دفتر بند کرکے چلے جانا چاہئے کیونکہ یہ نہیں دیکھا جائے گاکہ دس بج چکے ہیں یانہیں بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ کا م ختم کرلیا گیا ہے یا نہیں یا کام ختم ہونا ناممکن تو نہیں ہوگیا۔میں یہ مانتا ہوں کہ انسانی طاقت کی حد ہے مگر جو اس حد سے پہلے ہی رہ جاتے ہیں وہ کسی تعریف کے مستحق نہیںسمجھے جاتے۔کام کرنیوالے لوگ تو جب انہیں کوئی ضروری کام لاحق ہو دو دو راتیں مسلسل جاگنا بھی کوئی بڑی بات نہیں سمجھتے اور درحقیقت کام کرنے والا آدمی اگر کام کرکے تھوڑا سا سوجائے تو پھر دوبارہ اس کے کام کرنے کی ویسی ہی طاقت پیدا ہوجاتی ہے جیسے پہلے ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں جب کوئی ضروری کام آپڑے ہوسکتا ہے کہ ایک سوجائے اور دوسرا کام کرتا رہے پھر دوسرا سوجائے اور پہلا کام کرنے لگے گویا باری باری وہ کام کرتے رہیں اسی طرح کام بھی ہوجاتا ہے اور تھکان بھی محسوس نہیں ہوتی۔ مگر جب تک یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ ہم نے کام ختم کرنا ہے وقت نہیں دیکھنا اس وقت تک کاموں میں تعویق ہوتی چلی جائے گی۔ یہی وجہ ہے جو کام چوبیس گھنٹے میں ہوسکتاہے ہمارے آدمی اس پر ہفتہ ہفتہ لگادیتے ہیں اور پھر بھی بعض دفعہ احسن صورت میں نہیں ہوتا۔
پس میں اس مر کو اس لئے خطبہ میں بیان کردیتا ہوں کہ ایک طرف جماعت کو میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس معاملہ میں اس کے تعاون کی ضرورت ہے۔ جو بچے گھروں پہ رہتے ہیں ان کے متعلق والدین کا فرض ہے کہ وہ انہیں کام پر لگائیں اورمحنت اور مشقت کی انہیں عادت ڈالیں۔ مثل مشہور ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ اگر نوجوانوںکا ایک حصہ ایسا ہو جو سست کاہل اور غافل ہو تو انہیں دیکھ کر دسرے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ پس انہیں جفاکش اور محنتی بنائو اور اگر بیماریاں ان کی سستی کاباعث ہیں توان کا علاج کرو لیکن اگر بیماری کوئی نہ ہو اور انسان پھر بھی کاہل اور غافل ہو اور کام سے جی چرانے لگے تو ایسا انسان اپنے ملک کیلئے عار اور مذہب کیلئے ننگ کاموجب ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی میں صدر انجمن کے دوسرے کارکنوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ اس معاملہ میں تعہّد سے کام لیں اور محنت سے کام کرنے کی عادت ڈالیں۔ ممکن ہے میری غلطی ہو لیکن میرا اندازہ ہے کہ ہم میں سے سب سے زیادہ محنت سے کام کرنے والے لوگ بھی اپنی طاقت سے تیسرا حصہ کام کرتے ہیں اور جب اپنے میں سے سب سے زیادہ محنتی لوگوں کے متعلق میں یہ سمجھتا ہوں تو دوسرے لوگ سمجھتے ہیں ان کے کام کی ان کی طاقت کے مقابلہ میں کیا نسبت ہوگی۔ بہرحال میرا یہ اندازہ ہے کہ ہم میں سے محنتی شخص بھی اپنی طاقت سے تیسرا حصہ کام کرتا ہے۔ کچھ تو اس طرح کہ وہ ہوشیاری سے کام نہیں لیتا اور آدھ گھنٹے کا کام گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ میں کرتا ہے اور کچھ اس طرح کہ جتنا وقت کام کیلئے دینا چاہئے اتنا وقت وہ نہیں دیتا اور اگر کارکن وقت بھی زیادہ دیں اور چُستی سے بھی کام لیں تو میں سمجھتا ہوں موجودہ نسبت سے وہ تین گنے زیادہ کام کرسکتے ہیں۔ اب خیال کرو اس وقت جتنے سلسلہ کے کارکن ہیں اگر وہ اس تعداد سے تین گنے زیادہ ہوجائیں تو کتنا کام ہونے لگے۔ لیکن اگر ہمارے موجودہ کارکن ہی اپنے دل میں زیادہ کام کرنے کا پختہ ارادہ کرلیں اور اس کے مطابق عمل کریں تو وہی صورت اب بھی پیدا ہوسکتی ہے اور دنیا کو بہت زیادہ کام دکھاسکتے ہیں۔ کتنی ہی تبلیغ بڑھ سکتی ہے، کتنی ہی تصنیف بڑھ سکتی ہے اور کتنی ہی تربیت بڑھ سکتی ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ تو کدح چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انسان اتنی محنت کرے اتنی محنت کرے کہ اس کے جسم میں ہزال ۵؎پیداہوجائے۔ یہ مت خیال کرو کہ جس قوم کے افراد میں ہزال آجائے گا وہ تباہ ہو جائے گی۔ یہ یورپین لوگوں کاخیال ہے جس کی اسلام تائید نہیں کرتا۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ جس ہزال کے ساتھ اخلاص ہو وہ ہزال انسانی حوصلہ کو بڑھادیتا ہے او راسے کمزور نہیں رہنے دیتا۔ جب خلافت کا جھگڑا ہؤا اُس وقت ہمارے ایک دوست جو ایم۔ اے ہیں اوربنگال کے رہنے والے ہیں خواجہ کمال الدین صاحب کے بہت مداح تھے وہ خلافت کے منکر نہیں تھے مگر کہتے تھے کہ خلافت کے اہل خواجہ صاحب ہیں میں نہیں۔ مجھ سے چونکہ وہ ذاتی طور پر واقف تھے اور جانتے تھے کہ میری صحت ہمیشہ کمزور رہتی ہے لیکن ان کا یہ خیال تھا کہ ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف انہوں نے توجہ کی تو الہام ہؤا ’’بادشاہی را نشاید پیلتن‘‘ کہ بادشاہی کیلئے ہاتھی جیسا جسم نہیں چاہئے۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے میری بیعت کرلی اور بھی الہام انہیں ہوئے تھے مگر ایک الہام یہ تھا۔ تو ہزال جس کے ساتھ ایمان ہو وہ انسان کو خراب نہیں کرتا ایسا انسان کشتی میں بے شک ہار سکتا ہے مگر اپنے فن میں نہیں ہارتا۔ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بڑے بیٹے تھے ا ور اپنے تقویٰ و طہارت اور خدمت دین کی وجہ سے بہت مشہور ہیں دبلے پتلے تھے مگر لڑائی کے کامیاب جرنیلوں میں سے ایک جرنیل سمجھے جاتے تھے۔ ایک دفعہ کفار کے ایک مشہور جرنیل سے ان کا مقابلہ ہوگیا وہ آدمی تھا ذہین اُس نے سوچا میں تلوار میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکوں گا یہ دبلا پتلا اور پھرتیلے جسم کا آدمی ہے تلوار کے وار میں کامیاب ہوجائے گا اس لئے اس نے دائو کھیل کر ان کی کمر پر ہاتھ ڈال دیا اور جس طرح تنکا اُٹھایا جاتا ہے اسی طرح اُس نے اُنہیں اٹھا کر زمین پرپھینکا اور ان کے سینہ پر بیٹھ کرتلوار اٹھائی کہ ان کی گردن کاٹ دے۔ اتنے میں پیچھے سے ایک شخص نے جو اسلام سے مرتد ہوکر عیسائیوں میں شامل ہوچکا تھا تلوار سے اس کافر کی گردن اُڑادی اور اس کا سر کاٹ کر مسلمانوں کے لشکرمیں لے آیا۔ اسلامی لشکر یہ دیکھ کرحیران رہ گیااور لوگوں نے کہا تُو تو مرتد تھا تُو نے اپنے جرنیل کو کس طرح ماردیا؟ وہ کہنے لگا ارتداد کے بعد ہمیشہ میرے دل میں ندامت پیدا ہوتی اور میں اپنی حالت پر افسوس کرتا لیکن ساتھ ہی میں کہتا مجھ سے اتنا بڑا قصور ہوا ہے اب میری توبہ کہاں قبول ہوسکتی ہے یہاں تک کہ یہ دن آیاا ور آج جب عبدالرحمن بن ابی بکر کو اُس نے گرایا اور تلوار سے گردن کاٹنے لگا تو مجھے چونکہ اُن کی نیکی اور تقویٰ کا حال معلوم تھا میرے دل میں یکدم جوش آیا کہ کمبخت آج اگر تُونے دین کی خدمت نہ کی تو اور کونسا دن ہوگا جب تُو دین کی خدمت کرے گا دیکھ! اسلام کاایک درخشندہ ستارہ غائب ہونے لگا ہے تُوکیوں آگے نہیں بڑھتا۔ یہ خیال جونہی میرے دل میں آیا میں نے جھٹ تلوار نکال کر اس کافر کی گردن اڑادی اور ساتھ ہی خیال آیا کہ اب میری توبہ بھی قبول ہوجائے گی۔ تو حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر جسمانی طور پر ہزال رکھتے تھے مگر اپنے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے ایک کامیاب جرنیل سمجھتے جاتے تھے۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور جرنیل تھے مگر دُبلے پتلے اور چھوٹے قد کے آدمی تھی۔ چنانچہ ایک ضرب المثل ہے کہ کُلُّ قَصِیْرٍ فِتْنَۃٌ اِلاَّ عَلِیٌّ ۔ ہر چھوٹا قد رکھنے والا انسان فتنہ ہوتا ہے۔ یعنی بڑا متفنّی ہوتا ہے مگر حضرت علیؓ باوجود چھوٹا قد رکھنے کے ایسے نہیں تھے۔ اور حضرت عمرؓ کے متعلق کہتے ہیں کہ کُلُّ طَوِیْلِ اَحْمَقٌ اِلاَّ عُمَرُ ہر لمبا انسان احمق ہوتاہے مگر حضرت عمرؓ باوجود لمبا ہونے کے ایسے نہ تھے۔ یہ تو ایک مثال ہے او رعام طور پر ایسا ہو بھی جاتا ہے کیونکہ بعض قدوں کے ساتھ بعض باتیں وابستہ ہوتی ہیں لیکن اس سے یہ ضرور معلوم ہوجاتاہے کہ حضرت علیؓ جو ایک مشہور جرنیل تھے دبلے پتلے اور چھوٹے قد کے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ تم اپنے جسموں کی حفاظت کرکے اور بنائو سنگھار کرکے خداتعالیٰ کو حاصل نہیں کرسکتے بلکہ جب محنتیں او رمشقتیں تمہارے جسم کے اندر داخل ہوکر تمہیں گھائل کردیں اور تم میں ہزال نظر آنے لگے اس وقت تم خداتعالیٰ کے حضور پہنچو گے اور تمہارے دائیں ہاتھ میں تمہارے اعمال کاکاغذ دیاجائے گا اور کہا جائے گا اب تمہیں محنتوں کا ثمر ملنے والا ہے جائو بہشت میں داخل ہوجائو۔مگر یہ نہیں کہ بہشت میں آرام مل جائے گا بلکہ بہشت میں بھی کام کرنا پڑے گا۔ آرام کا لفظ اس جگہ ان معنوں کے لحاظ سے میں نے استعمال کیا ہے جو عام طور پر اس کے لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی کام نہ ہو اورہاتھ پر ہاتھ دھر کرانسان بیٹھا رہے اس قسم کا آرام بہشت میں بھی نہیں۔ چنانچہ قرآن کریم سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ بہشت کام کی جگہ ہے اور جولوگ یہ سمجھتے ہیںکہ بہشت میں نکمّا بیٹھا رہنا ہوگا وہ غلط سمجھتے ہیں۔ غرض انسان کیلئے آرام اور حقیقی راحت کام میں ہی ہوتی ہے نکمّے پن میں نہیں ہوتی او رمیں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو محنت اور مشقّت سے کام کرنے کی عادت ڈالیں ورنہ میرے ساتھ ان کا گذارہ نہیں ہوسکتا۔ میں نے ایک عرصہ تک سلسلہ کے دفاتر میں دخل نہیں دیا اور جب میرے پاس لوگ شکایات لاتے تو میں انہیں کہتا کہ متعلقہ دفاتر میں جائو۔ اس سے میری غرض یہ تھی کہ جماعت کو سلسلہ کے نظام کی پابندی کی عادت ڈالی جائے اور میں سمجھتا ہوں نہایت نیک نیتی سے میں نے ایسا کیا اور اب بھی سمجھتاہوں کہ میں نے جوکچھ کیاوہی صحیح طریق عمل تھا لیکن میں سمجھتا ہوں اب وقت آگیا ہے کہ میں کارکنوں کی سستی اور غفلت دور کرنے کیلئے ان کے کاموں میں دخل دوں۔ خصوصاً تحریک جدید کے کارکنوں کو یہ امر مدنظررکھناچاہئے کہ میں ان کے متعلق ہرگز کسی قسم کالحاظ کرنے کیلئے تیار نہیں۔ میرے لئے یہ بہتر ہے کہ ایک کو جواب دے دوں بجائے اس کے کہ اس کی سستی اور غفلت کا سَو یا دو سَو لوگوں پر اثر پڑے۔ اسی طرح اگر ایک مبلغ محنت سے کام نہیں لیتا تو وہ ہزاروںجاہلوں کو ہلاک کرنے کا موجب بنتا ہے۔ پس بہتر ہے کہ اس کو الگ کردیا جائے بجائے اس کے کہ ہزاروں جانوں کی ہلاکت برداشت کی جائے۔ اسی طرح اگر ایک مدرس طالب علموں کا فکر نہیں کرتا، ایک افسر اپنے ماتحتوں کی نگرانی نہیں کرتا تو یہ زیادہ بہتر ہے کہ اس کو الگ کردیا جائے اور وہ ہزاروں جانیں جو اس کی وجہ سے نقصان اٹھارہی ہیں انہیں بچالیا جائے۔ لیکن اگر میری یہ کوشش محدود ہو تحریک جدید کے کارکنوں تک یا محدود ہو سلسلہ کے افسروں او رکارکنوں تک یا قادیان کے لوگوں تک تو بھی اس کا کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا کیونکہ وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ پس زیادہ تر میرے مخاطب جماعت کے وہ لوگ ہیں جوباہر رہتے ہیں اور جواپنے گھروں پر اپنے بچوں کو رکھتے ہیں۔ ایسے بچے بہت بڑی تعداد میں ہیں اور میں اپنی جماعت سے امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو محنت سے کام کرنے کی عادت ڈالے گی یہاں تک کہ ان کاکوئی منٹ ایسا نہ ہو جو فارغ ہو اور جسے وہ فضول ضائع کرسکیں۔ یاد رکھو جس قوم کو ذلّت اور رسوائی پہنچ رہی ہو اس قوم کے موٹے جسم اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتے، جس جسم پر جوتے پڑ رہے ہوں اس جسم کی موٹائی اسے کیا فائدہ دے سکتی ہے۔ پس ایک ذلیل اور رسواشدہ قوم کے گوشت کوئی قابل قدر گوشت نہیں ہوتے۔ کتّے کی بوٹیاں بھی کوئی بوٹیاں ہوتی ہیں ہاں دُبلے پتلے دُنبے کا گوشت موٹے کُتے کے گوشت سے زیادہ قیمت رکھتا ہے۔ پس تم اپنی اولادوں کو اگر کتّوں جیسا بنائو گے تو ان کی بوٹیاں سوائے اس کے کسی کام نہیں آئیں گی کہ چیلیں اور کوّے انہیں کھا جائیں لیکن اگر اخلاق سکھا کر تم انہیں دُنبے جیسا قیمتی وجود بنائو گے تو وہ دُبلے پتلے ہونے کے باوجود بھی روحانی اور اخلاقی دنیا میں زیادہ قیمت پائیں گے۔
مجھے افسوس ہے ایک عرصہ سے عورتوں کاجمعہ کیلئے آنا رُک چکا ہے۔ جس وقت انہیں روکا گیا اُس وقت تو مصلحت تھی مگر اب وہ مصلحت ختم ہوچکی ہے۔ میرے کئی خطبات ایسے ہوتے ہیں جنہیں اگر عورتیں بھی سنیں تو ان کا زیادہ شاندار نتیجہ نکل سکتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں آئندہ عورتوں کیلئے بھی خطبہ سننے کا انتظام کردیا جائے گا۔دراصل بچوں کو سست بنانے میں عورتوں کا بہت حد تک دخل ہوتا ہے اگر اس قسم کے خطبات وہ سنیں تو گو عورتیں تعلیم میں بہت پیچھے ہیں مگر اخلاص سے کام لے کر وہ بہت سے نقائص کا ازالہ کرسکتی ہیں۔ قادیان کی ایک عورت تھوڑے ہی دن ہوئے میرے پاس آئی اور کہنے لگی میں کہتی ہوں میں اپنے بچہ کو مبلّغ بنائو ں گی اور میرا خاوند کہتا ہے کہ اُسے دنیا کاکوئی پیشہ سکھانا ہے آپ اس کا فیصلہ کریں میں نے کہا یہ تمہارا خانگی جھگڑا ہے اس میں مَیں دخل نہیں دے سکتا لیکن ایک بات میں تمہیں بتادیتا ہوں اور وہ یہ کہ تمہارا اثر تمہارے بچے پرزیادہ ہے تم اپنی باتیں اُس کے کانوں میں ڈالتی رہو اور ہمت نہ ہارو۔ تم دیکھو گی کہ اس کے نتیجہ میں ایک دن تمہارے خاوند کی باتیں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور تمہارا بچہ مبلّغ بن جائے گا کیونکہ بچے پر ماں کا اثر باپ سے زیادہ ہوتا ہے اور تمہارا ارادہ تو نیک ہے اس کا اثر کیوںنہ ہوگا۔ تو اگر عورتوں کیلئے خطبہ سننے کا انتظام کردیا جائے تو اس کا بھی بہت کچھ فائدہ ہوسکتاہے لیکن بہرحال جب تک عورتیں خطبہ نہیں سنتیں مردوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کوسمجھیں اور نہ صرف اپنی اولادوں کو بلکہ اپنے بھائیوں کی اولادوں اور اپنے ہمسائیوں کے بچے کو بھی محنتی او رجفاکش بنانے کی کوشش کریں اور یاد رکھیں کہ خداتعالیٰ کا وصال کدح کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ جب انسان کدح کرتا ہے تو نفس دُبلا ہونا اور روح موٹی ہونی شروع ہوجاتی ہے لیکن کدح کے بغیر نفس موٹا ہوجاتا اور روح دُبلی ہوجاتی ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور ہر قِسم کی سُستیاں، عجز اورکسل اس سے دور فرمادے اور اپنے فضل سے اسے محنت، مشقت اور جفاکشی سے کام کرنے کی عادت ڈالے اور اس کدح کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہمارا ربّ ہمیں مل سکتا ہے۔(الفضل ۳۰؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
؎۱ الانشقاق: ۷ تا ۱۶
؎۲ ستیہ گرہ: حکومت کے خلاف پُرامن تحریک
؎۳ الکہف: ۱۰۵ ؎۴ النّٰزعٰت: ۲
؎۵ ہُزال : دُبلا ہونا۔ لاغری۔ دُبلا پن (لغت فارسی)

۱۵
اگر چالیس مؤمن بھی متوکل اور وفادار ہوں
تو وہ ساری دنیا فتح کرسکتے ہیں
(فرمودہ یکم مئی ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
انسانی اخلاق میں بعض باتیں ایسی پائی جاتی ہیں جوقلوب پر اثر کرنے کے لحاظ سے دوسرے اخلاق سے زیادہ مؤثر اور زیادہ حرکت پیداکرنے والی ہوتی ہیں۔ گو عام حالات میں یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ ہر شخص بعض خاص قسم کی باتوں سے متاثرہوتا ہے، کئی آدمی سچائی کی بات سن کر زیادہ متاثر ہوتے ہیں، کئی آدمی دیانت کا واقعہ سن کر زیادہ اثر قبول کرتے ہیں، کئی ایسے ہوتے ہیں کہ جو انصاف کی واردات سنتے ہیں تو قلب میں زیادہ تاثیر پیداہوجاتی ہے، پھر کئی ایسے ہوتے ہیں کہ بہادری کے واقعہ میں زیادہ متاثر ہوتے ہیں، کچھ وفاداری کے واقعات سے زیادہ اثر قبول کرتے ہیں، کچھ لوگ وسعت حوصلہ اور کچھ نرمی سے متاثر ہوتے ہیں۔ غرضیکہ انسانی طبائع مختلف ہیں اور وہ اپنے اپنے رجحان اور اپنے اپنے ادراک کے مطابق واقعات سے اثر قبول کرتی ہیں۔ زلزلہ کے ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کچھ دنوں کیلئے باغ میں رہائش اختیار کرلی تھی چونکہ الہاموں سے اَور زلزلوں کا پتہ چلتا تھا اس لئے آپ کا خیال تھا کہ ایسا نہ ہو وہ قریب میں آنے والے ہوں۔ ان ایام کی بات ہے کہ ایک جگہ پر مختلف جھونپڑیاں بنائی گئی تھیں۔ جن میں مختلف دوست رہتے تھے۔ ایک جھونپڑی میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم رہتے تھے اور ان کے ساتھ والی جھونپڑی میں ایک اور دوست رہتے تھے۔ مولوی صاحب کی طبیعت میں سخت تیزی تھی اور اس دوست کی طبیعت میں بہت نرمی تھی وہ شہر میں بھی مولوی صاحب کے پڑوس میں ہی رہا کرتے تھے مگر وہاں جھونپڑیاں بہت ہی پاس پاس ہوگئیں۔ اس دوست کے بچوں کو رونے کی بہت عادت تھی ادھر مولوی صاحب کی طبیعت بہت نازک تھی وہاں بہت زیادہ قریب رہنے کی وجہ سے بچوں کا شور سنتے سنتے مولوی صاحب سخت تنگ آگئے ۔ ایک دن آپ نے اس دوست کو بلایا اور کہا کہ مجھے آپ پر سخت تعجب آتا ہے اور میں حیران ہوں کہ آپ کس طرح کے آدمی ہیں میں نے گھر پر بھی دیکھا ہے کہ آپ کے ہاں سے شور اور اودھم مچانے کی آوازیں برابر آتی رہتی ہیں مگر وہاں تو کچھ فاصلہ تھا اور اب تو جھونپڑیاں زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے میں بالکل برداشت نہیںکرسکتا اور میرا دل چاہتاہے کہ میں باہر آکر ان بچوں کو خوب ماروں اور آپ پر مجھے سخت تعجب ہے کہ آپ پاس رہتے ہیں اور ان کوکچھ نہیں کہتے۔ یہ سن کر اس دوست نے کہا کہ مولوی صاحب مجھے بھی آپ پر سخت تعجب ہے کہ وہ میرے پاس شور کرتے ہیں اورمیں سمجھتا ہوں یہ نادان ہیں بچوں کا کام ہی شور کرنا ہوتا ہے باوجود اس قدر قریب ہونے کے مجھے کوئی غصہ اور جوش نہیں آتا اور میں حیران ہوں کہ آپ کو اس قدر دور بیٹھے ہوئے کیوں اس قدر جوش آتا ہے۔ گویا مختلف طبائع نے ایک ہی واقعہ سے الگ الگ اثر قبول کیا۔ ایک نے یہ اثر قبول کیا کہ ان بچوں کو سزا دینی چاہئے اور ایک نے یہ کہ بچوں کا یہی کام ہے یہ نادان ہیں اور ان کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنی چاہئے یہ اثر اتنا نمایاں تھاکہ ہر ایک کو دوسرے پر تعجب آتا تھا۔ مولوی صاحب اس بات پر حیران تھے کہ وہ دوست اس قدر شور کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں اور وہ ان پر حیران تھے کہ ان کویہ خیال کیسے پیدا ہوا کہ بچوں کو سزا دینی چاہئے۔ پس لوگ عام طور پر خاص خاص جذبات سے خاص خاص اثر قبول کرتے ہیں بلکہ بعض دفعہ تو ایک ہی واقعہ سے مختلف اثر قبول کرتے ہیں اور یہ تفاوت مختلف حالات میں گھٹتا اور بڑھتا جاتا ہے۔ مگر باوجود اس کے اس میں شبہ نہیںکہ بعض اخلاق دنیا پر گہرا اثر ڈالتے ہیں اور لوگوں کو خاص طور پر اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں اور ایسے اخلاق میں سے بہادری اور وفاداری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ دنیا کا اکثر حصہ ان دو اخلاق سے نہایت ہی متأثر ہوتا ہے اور انسان جب اس قسم کے واقعات سنتا ہے تو یوںمعلوم ہوتا ہے کہ گویا اس کے قلب میں بھی ویسے ہی خیالات پیدا ہورہے ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ میں بھی اسی طرح کی بہادری اور جرأت دکھائوں۔ یہ دونوں اخلاق اس قسم کے ہیں کہ دوسروں سے زیادہ اثر پیدا کرتے ہیں اس میں بھی خاص وجہ ہے مگر میں اس وقت یہ بحث کرنے کیلئے کھڑا نہیںہوا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس وقت میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ اخلاق ضرور زیادہ اثر ڈالتے ہیں اور طبائع جب ایسے واقعات دیکھیں تو ضرور متاثر ہوتی ہیں خواہ وہ دشمن سے ہی کیوں نہ سرزد ہوں۔ ایک دشمن بھی اگر بہادری دکھاتا ہے تو دوسرا دشمن اس سے ضرور متاثر ہوتا ہے ایک دشمن بھی اگر وفاداری کا نمونہ پیش کرتا ہے تو دوسرا اُس سے ضرور اثر پذیر ہوتا ہے اور اگر دوست بھی بزدلی دکھاتا ہے یا کسی غیر سے بھی بے وفائی کا اظہار کرتا ہے تو باوجود دوست ہونے کے اس کا یہ فعل دوسرے دوست کے دل پر گراں گزرتاہے۔ پس یہ دو اخلاق جو نہایت گہرے طور پر انسانی فطرت پر مؤثر ہوتے ہیں ان کی اہمیت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا اور اصل بات تو یہ ہے کہ ایمان سے ان کا بہت گہرا تعلق ہے ۔ کوئی شخص بغیر بہادری کے متوکل نہیں ہوسکتا اورکوئی بغیروفاداری کے کامل الایمان نہیں ہوسکتا۔ متوکل کے معنی یہ ہیں کہ وہ خدا پر بھروسہ رکھتا اور دنیا کی کسی چیز کو حقیقی قرار نہیں دیتا اور بزدلی کے یہ معنی ہیں کہ وہ کسی چیز کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔ پس توکّل او ربہادری اور ایمان وفاداری قریباً مترادف الفاظ ہیں بیوفا شخص ایماندار نہیں ہوسکتا اور بزدل متوکل نہیں ہوسکتا۔ کوئی شخص جتنا جتنا زیادہ توکل میں کمال حاصل کرتا چلا جائے اتنا ہی زیادہ بہادر ہوتا جائے گا اور جتنا کسی کے اندر ایمان بڑھتا جائے وہ اتنا ہی وفادار ہوتا جائے گا۔ درحقیقت توکل نام ہے مذہبی بہادری کا اور ایمان نام ہے مذہبی وفاداری کا۔ جب مذہب اور وفاداری جمع ہوجائیں تو اسے ایمان کہتے ہیں اور جب مذہب اور بہادری جمع ہوجائیں تو اسے توکّل کہتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کی زندگیوں میں یہ دونوں باتیں نہایت نمایاں ہیں اور ان سے پہلے انبیاء کی زندگیوں میں بھی جن کی تاریخ کسی حد تک محفوظ ہے یہ دونوں باتیں نمایاں نظر آتی ہیں۔ ایمان کے ساتھ ساتھ وفاداری اور بہادری بھی ترقی کرتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ وفاداری اور بہادری کے ایسے اعلیٰ معیار پر پہنچ چکے تھے کہ اس سے اوپرکوئی معیار نظر نہیں آتا۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس سے اوپر کوئی معیار ہے نہیں لیکن ہماری کمزور نظر اس سے اوپر دیکھ نہیں سکتی ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب بچے تھے اور یتیم بچے ان کا چچا ان کو پال رہا تھا ان کو جس وقت ساری قوم نے شرک کیلئے مجبور کیا جسے ان کی فطرت قبول کرنے کیلئے تیار نہ تھی ان کے چچا اور چچازاد بھائیوں نے ان کو مشورہ دیا کہ ہم پروہت ؎۱ ہیں اور ہمارا گزارا ہی اس پر ہے اگر آپ نے بتوں کی پرستش نہ کی تو ہمارا رزق بندہوجائے گا۔ اُس وقت اس نہایت ہی چھوٹی عمر کے بچے نے دلیری سے یہ جواب دیا کہ جن بتوں کو انسان اپنے ہاتھ سے گھڑتا ہے ان کو میں ہرگز سجدہ نہیں کرسکتا۔اس جواب کا اندازہ ہر شخص نہیں کرسکتا صرف وہی کرسکتا ہے جسے قربانی کرنے کاموقع ملاہو۔
آج جبکہ ایک منظم حکومت ہندوستان میں موجود ہے اور میں یہ تونہیں کہہ سکتا کہ ظلم ہوتا نہیں کیونکہ ہمیںخود ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن اکثر حکام انصاف کی کوشش ضرور کرتے ہیں ایک قانون موجود ہے جو چاہتا ہے کہ انصاف ہو گو ظالم اپنے ظلم کیلئے اس میں سے رستے نکال لیتے ہیں لیکن پھر بھی ظلم حد کے اندر رہتا ہے اس پُر امن زمانہ میں بھی میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگوں پرجب صداقت کھل جاتی ہے تو وہ مجھے لکھتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان یا احمدی ہوجائیں تو ہمارے گزارہ کی کیا صورت ہوگی؟ ہمارے ساتھ ہمدردی کی کیا صورت ہوگی؟ آج جب احمدیت کو قبول کرنے میں کوئی خاص تکالیف نہیںسوائے معمولی تکالیف کے اچھے اچھے تعلیم یافتہ، بڑی عمر کے اور بیوی بچوں والے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہمدردی کی کیا صورت ہوگی؟ گزارہ کا کیا انتظام ہوگا؟ لیکن حضرت ابراہیم جویتیم ہونے کی وجہ سے پہلے پہلے ہی شکستہ دل تھے اور جن کا پہلے ہی کوئی ٹھکانہ نہ تھا اپنے چچا کے ہاں اور اس کی مہربانی سے پرورش پارہے تھے وہ اپنے دل سے یہ سوال نہیں کرتے کہ اب گزارہ کی کیا صورت ہوگی بلکہ بِلا سوچے بہادرانہ طور پر یہ جواب دیتے ہیں کہ جن بتوں کو انسان خود گھڑتے ہیں اُن کو میں سجدہ نہیں کرسکتا۔
بعینہٖ اسی قسم کا واقعہ رسول کریم ﷺ کو پیش آیا جب ایک لمبے عرصہ تک آ پ نے شرک کے خلاف تعلیم دی اور ایک لمبی کوشش کے بعد اہلِ مکہ آپ کو اور آپ کے صحابہ کو دوبارہ اپنے دین میں شامل کرلینے سے مایوس ہوگئے تو مکہ کے رئوساء آپ کے چچا ابوطالب کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کی خاطر ہم اب تک آپ کے بھتیجے سے نرمی کرتے رہے ہیں مگر ہمارے سایہ کے نیچے رہتے ہوئے اس نوجوان نے ہمارے معبودوں کو بہت بُری طرح ذلیل کیاہے ہم اس پر سختی کرسکتے تھے مگر ہمیں آپ کالحاظ تھا اس لئے اس سے وہ سلوک نہ کیا جس کا وہ مستحق تھا مگر اب یہ بات ہمارے لئے ناقابلِ برداشت ہوگئی ہے اور ہم یہ آخری پیغام لے کر آپ کے پاس آئے ہیں کہ آپ اسے سمجھائیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ اپنی تعلیم پیش نہ کرے بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے معبودوں پر سختی سے حملہ نہ کرے اور تبلیغ میں نرمی کا پہلو رکھے اور اگر وہ آپ کے کہنے سے اتنا بھی کرنے کیلئے تیار نہ ہو تو آپ اس سے قطع تعلق کرلیں اور ہم پر اس کا معاملہ چھوڑ دیں اگر آپ اس کیلئے تیار نہیں ہیں تو گو ہمارے دلوں میں آپ کا ادب بہت ہے اور آپ کے خاندان کو فضیلت حاصل ہے لیکن اب معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ ہم صبر نہیں کرسکتے اور آپ سے بھی ہمیں مجبوراً قطع تعلق کرنا پڑے گا۔ ابوطالب مؤمن نہ تھے اور ایمان کے بعد جس بہادری سے انسان کاتعلق ہوجاتا ہے اس سے محروم تھے وہ رئیس تھے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ریاست سے ہاتھ دھوبیٹھنے کاخطرہ تھا۔ سارا مکہ اُن کوسلام کرتا تھا اور اب ان کے سامنے جو صورتِ حالات تھی اس کا نتیجہ یہ ہوسکتا تھا کہ کوئی اُن کو منہ بھی نہ لگاتا اور یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس قسم کی عزتوں کیلئے لوگ بڑی بڑی قربانیاں بھی کردیتے ہیں اور ایک ایک سلام کیلئے مرا کرتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل سنایا کرتے تھے کہ جب آپ تعلیم سے فارغ ہوکر نئے نئے بھیرہ میں آئے تو بعض مولویوں نے شور مچانا شروع کردیا کہ یہ وہابی ہیں اور بعض نے آپ کے خلاف کفر کے فتوے کی تحریک شروع کی۔ اُس وقت اس علاقہ میں ایک معزز پیر صاحب تھے جن کابھیرہ اور نواح میں بہت اثر تھا اور فتویٰ کفر شائع کرانے والے ان کے پاس بھی گئے کہ دستخط کردیں۔ باقی مولویوں سے تو حضرت خلیفہ اوّل کے دوست نہ ڈرتے تھے مگر ان پیر صاحب کے متعلق انہیں ضرور خیال تھا کہ اگر یہ بھی مولویوں کے ساتھ مل گئے تو فساد بڑھ جائے گا اس لئے آ پ کے دوستوں میں سے ایک زیرک دوست پیر صاحب کے پاس پہنچے اور کہا کہ سنا ہے مولوی لوگ آپ سے فتویٰ لینے آئے تھے۔ پیرصاحب نے کہا ہاں آئے تھے اور جو باتیں وہ کہتے ہیں ٹھیک ہیں اورمیرا ارادہ ہے کہ فتویٰ دے دوں۔ اس پر اس دوست نے کہا کہ آپ تو پیر ہیں اور سب نے آپ کو سلام کرنا ہے نوردین خواہ کچھ ہو آپ کوسلام تو ضرور کرتا ہے اور اگر آپ نے فتویٰ دے دیا تو وہ اور ان کے دوست آئندہ آپ کو سلام نہیں کریں گے۔اس پر پیر صاحب گھبراگئے اور کہا کہ بھلا ہم پیروں کا فتووں سے کیا تعلق ہے آپ مولوی صاحب سے کہہ دیں کہ سلام نہ چھوڑیں۔ اس دوست نے آکرحضرت خلیفہ اوّل سے کہا کہ میں اس طرح کر آیا ہوں اور اب پیر صاحب چاہیں گے کہ آپ اُن کو سلام کریں۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا کیا حرج ہے کردیں گے۔ چنانچہ وہ دوست پھر پیر صاحب کے پاس گئے اور پیر صاحب سے کہا کہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ پیر صاحب بڑے آدمی ہیں ہم ان کو سلام کیوں نہ کریں گے۔ اس پر پیر صاحب بہت خوش ہوئے اورکہنے لگے کہ اچھا ہم فلاںروز اس طرف سے گزریں گے مولوی صاحب سے کہنا کہ ضرور سلام کریں۔ چنانچہ پیر صاحب حضرت مولوی صاحب کے مطب کے سامنے سے گزرے اور حضرت مولوی صاحب نے اپنے دوستوں سمیت باہر نکل کر اُن کو سلام کیا۔ پیر صاحب نے گھوڑا کھڑا کرلیا اور حضرت مولوی صاحب سے باتیں کرنے لگے کہ دیکھو! ہمارے پاس مولوی لوگ فتوے کیلئے آئے تھے مگر ہم نے انکار کردیا کہ ہم کو ان باتوں سے کیا تعلق ہے ہمیں سب نے سلام کرنا ہوتا ہے۔ یہ واقعہ شہر میں پھیل گیا اور پیر صاحب کے مرید اس تحریک سے الگ ہوگئے اور مخالفت کا زور ٹوٹ گیا۔ غرض ابوطالب کیلئے یہ بڑا امتحان تھا وہ سارے شہر میں مکرم سمجھے جاتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب اُن کی عزت جاتی رہے گی انہوں نے رسول کریم ﷺکو بلوا یا او رکہا کہ اے میرے بھتیجے! میں سمجھتا ہوں کہ تُو جو کرتا ہے سچ سمجھ کر کرتا ہے اور میں نے بھی ہمیشہ تیری مدد کی ہے اور تجھے دشمنوں سے بچایا ہے مگر اب میری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں اور کہا ہے کہ یا تو اپنے بھتیجے سے کہو کہ تبلیغ میں نرمی کرے اور یا پھر اس سے قطع تعلق کرلو اور اگر میںایسا نہ کروں تو قوم میرے ساتھ قطع تعلق کرلے گی اور تُو جانتا ہے کہ قوم کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے اب تُو بتا تیری کیا رائے ہے؟ رسول کریم ﷺ نے جس وقت یہ بات سنی آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ نے فرمایا اے میرے چچا! میرے دل میں آپ کا بڑا ادب ہے مگر سچائی کے مقابلہ میں مَیں آپ کی بات ماننے کو تیار نہیں ہوں اگر دشمن میری دائیں طرف سورج اور بائیں طرف چاند لاکر کھڑا کردیں تو بھی میں تبلیغ میں نرمی نہیں کروں گا اور توحید کی اشاعت سے باز نہیں رہوں گا ؎۲ ۔ میں آپ کیلئے ہر قربانی کرنے کو تیار ہوں لیکن یہ بات آپ کی نہیں مان سکتا آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں اور اپنی قوم سے صلح کرلیں میرے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے۔ اس پر باوجود اِس کے کہ ابوطالب کیلئے قوم کا چھوڑنا مشکل تھا اِس دلیرانہ جواب کو سُن کر ان پر یہ اثر ہؤا کہ انہوں نے کہا کہ اگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو بے شک چھوڑ دے میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔
ابوطالب کے اس جواب کی اہمیت کا پورا اندازہ وہ لوگ نہیں کرسکتے جو تاریخ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ایک اور واقعہ کو نہیں جانتے جس سے ابوطالب کی قلبی کیفیت کا پتہ چلتا اور یہ معلوم ہوتا کہ انہیں اپنی قوم سے کتنی محبت تھی۔ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو چونکہ رسول کریم ﷺ کو اُن سے بہت ہی محبت تھی اُن کی قربانیوں اور حُسنِ سلوک کی وجہ سے ، اس لئے آپ کو سخت دُکھ تھا کہ آپ مسلمان ہوئے بغیر مررہے ہیں۔ آپ کبھی ان کے دائیں جاتے او رکبھی بائیں اور کہتے کہ اے چچا! اب موت کا وقت قریب ہے لااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہہ دیجئے مگر ابوطالب خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ آخر رسول کریم ﷺ نے بہت اصرار کیا آپ پر رقت طاری تھی اور آپ بار بار کہتے تھے کہ اے چچا! ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیں تاکہ میں خدا کے حضور کہہ سکو کہ آپ نے اسلام قبول کرلیا تھا لیکن ابوطالب نے آخر میں یہی جواب دیاکہ میں اپنی قوم کے دین کو نہیں چھوڑ سکتا۔ گویا ان کو اپنی قوم سے اتنی محبت تھی کہ وہ اس کے بغیر جنت میں بھی جانانہ چاہتے تھے۔ اسی قوم سے اس قدر شدید محبت رکھنے والے شخص پر رسول کریم ﷺ کے بہادرانہ جواب کا یہ اثر ہؤاکہ اُس نے کہہ دیا کہ اچھا اگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو چھوڑ دے میں آپ کو نہیں چھوڑوںگا ؎۳ ۔
غرض ایسے واقعات کو دیکھ کر دوست تو کیا دشمن بھی متأثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکتا اور ہر شخص خواہ ا س کے دل میں کتنا عِناد بھی کیوں نہ ہو ان واقعات کو سن کر سرجھکالیتا ہے اور ایسے بہادر کی عظمت کے اقرار پر مجبور ہوجاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ایسے بیسیوں نہیں سینکڑوں واقعات موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ بہادری کے ایسے بلند مقام پرتھے کہ اس سے اوپر خیال بھی نہیں کیاجاسکتا ۔ یہ بہادری کہاںسے پیدا ہوئی؟ یہ توکّل ہی سے تھی۔ دنیادار جسے بہادری کہتے ہیں مذہبی لوگ اسے توکّل کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ فرق صرف یہی ہے کہ بہادری کے لفظ سے یہ معلوم نہیں ہوتا یہ چیز کہاں سے آئی اور توکّل کا لفظ بتادیتاہے کہ اس قسم کی بہادری اعلیٰ مقصد سے پید اہوتی ہے۔ توکّل کے یہی معنی ہیں کہ خدا کے مقابلہ میں انسان ہر چیز کی قربانی کیلئے تیار ہو گویا توکّل کا لفظ بہادری کے اسباب و وجوہ اور اس کامنبع بھی بتادیتا ہے اور بہادری و توکّل میں صرف یہی فرق ہے ورنہ دونوں چیزیں ایک ہی ہیں۔ اسی بہادری کو ہم رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ میں بھی دیکھتے ہیں اور صحابہ میں ہی نہیں بلکہ صحابیات میں بھی ہمیں یہ چیز نظر آتی ہے اور نہ صرف عورتوں بلکہ بچوں میں بھی موجود ہے۔ آج وہ زمانہ آیا ہے کہ لوگ اسلام اور ایمان کیلئے قربانی سے بچنے کیلئے عذر اور بہانے تلاش کرتے ہیں اور وقت آنے پر کہتے ہیں کہ ہمیں یہ دقّت ہے وہ روک ہے لیکن رسول کریم ﷺ کی قوتِ قدسیہ کے ماتحت مسلمانوں میں قربانی کا وہ جذبہ پیدا ہوچکا تھا کہ مرد اور بالغ عورتیں تو الگ رہیں بچے بھی اسی جذبہ سے سرشار نظر آتے تھے یہاں تک کہ بدر کی جنگ کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو بلایا تاکہ ان میں سے ان لوگوں کا انتخاب کریں جو جنگ کے قابل ہوں۔ اُس وقت ایک لڑکے کے متعلق آتا ہے دوسرے صحابہ اور وہ خود بھی بیان کرتا ہے کہ جس وقت وہ لوگ کھڑے ہوئے وہ بھی اس جوش میں کہ اسلام کی خاطر جان قربان کرنے کا موقع ملے اُن میں کھڑا ہوگیا مگر چونکہ قد چھوٹا تھا دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں چھوٹا معلوم ہوتا تھا اس وجہ سے خطرہ تھا کہ شاید منتخب نہ ہوسکے اس لئے وہ اپنی انگلیوں کے بل کھڑا ہوگیا اور ایڑیاں اوپر اُٹھالیں تا قد اونچا معلوم ہو اور چھاتی تان لی تا کمزور نہ سمجھا جائے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ پندرہ سال سے کم عمر کا کوئی لڑکا نہ لیا جائے اور جب آپ انتخاب کرتے ہوئے اس کے پاس پہنچے تو فرمایا کہ یہ بچہ ہے اسے کس نے کھڑا کردیا ہے اسے ہٹادو۔ مگر آج ایسا ہوتا تو شاید ایسا بچہ خوشی سے اُچھلنے لگتا کہ میں بچ گیا لیکن جب اُس بچہ کو الگ کیا گیا تو وہ اتنا رویا اتنا رویا کہ رسول کریم ﷺ کورحم آگیا اور آپ نے فرمایا اچھا اسے لے لیا جائے ؎۴ ۔
پھر اُس زمانہ کی عورتوں کا یہ حال تھا کہ ایک عورت آپ کے پاس آئی اور کہا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!قرآن کریم کس کیلئے ہے؟ آپ نے فرمایا سب انسانوں کیلئے۔ اس نے عرض کیا کیا عورتوں کیلئے بھی؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اس پر اس نے کہا کہ پھر جہاد کے حکم پر عورتوں کو کیوں عمل کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ مرد جاکر جانیں قربان کرتے ہیں اور عورتیں اس ثواب سے محروم رہتی ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایاکہ مجھے مردوں کو لے جانے کا ہی حکم ہے مگر اُس عورت نے بہت اصرار کیا کہ میں زخمیوں کی مرہم پٹی کروں گی آپ نے فرمایا کہ اسے لے لیا جائے ؎۵ اور حکم دیاکہ جب بھی مالِ غنیمت آئے اس عورت کو بھی مردوں کے مساوی حصہ دیاجایا کرے کیونکہ اس نے انکار کیا کہ یہ اس وقت گھر میں بیٹھی رہے جبکہ مرد اپنی جانیں قربان کررہے ہوں۔ غرضیکہ مرد کیااور عورت کیا سب نے اپنی قربانی سے یہ بات دکھادی کہ ایمان نے ان کے اندر ایسی جرأت پیدا کردی تھی کہ جس کی مثال دوسری قوموں میں نہیں ملتی۔ یہ چیز گو ایمان سے بہت شاندار ہوجاتی ہے مگر غیرمؤمنوں میں بھی اس کا فقدان نہیں ہوتا۔ ایمان اگرچہ اسے صیقل کردیتا ہے مگر غیر دیندار اقوام میں بھی یہ پائی ضرور جاتی ہے۔
گزشتہ ایام میں ترک دین سے بالکل بے بہرہ ہوچکے تھے گو کہلاتے مسلمان تھے اور اب تو دین سے بہت ہی دور چلے گئے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے شریف قو م شریف جذبات سے عاری نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ گزشتہ جنگ عظیم میں ہم قریباً مہینہ بھر یہ خبر پڑھتے رہے کہ ایک جانباز تُرک سپاہی ایک پہاڑی پر کھڑا ہوکر دشمن کو سخت نقصان پہنچاتا ہے اور پھر غائب ہوجاتا ہے پکڑا نہیں جاتا۔ آخر ایک دن وہ پکڑا گیا تومعلوم ہؤاکہ وہ ایک تُرک عورت تھی اور پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ مرد جب لڑنے کیلئے آئے تو میں نے یہ درست نہ سمجھا کہ میں گھر میں بیٹھی رہوں چنانچہ میں اکیلی ہی چلی آئی اور اس پہاڑی پر بیٹھ کر جب بھی مجھے موقع ملتا قوم کا بدلہ لیتی رہی۔ تو یہ بہادری کے جذبات دین سے باہر بھی ملتے ہیں او ربعض اوقات وہ بھی بہت شاندار ہوتے ہیں گو اتنے نہیں جتنے ایمان اور توکل کے ساتھ۔
میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ جب یونان سے ترکوں کی جنگ ہوئی تو یورپین قومیں منصوبہ بازیاں کرتی رہیں۔ ان کا خیال تھا کہ یونانی دروں کے قلعے فتح کرنے آسان نہیں اور جب تک تُرک اُن تک پہنچیں گے وہ اپنے اندر اتحاد پید اکرکے بیچ میں آکُودیں گی اور پھرترکوں کو ذلّت کی صلح پرمجبور کردیں گی۔ تُرک بھی اس بات سے ناواقف نہ تھے۔ اس لئے انہوںنے اپنے جرنیلوں کوحکم دے رکھا تھا کہ جس قدر جلد ممکن ہو دروں کے قلعے فتح کرلئے جائیں۔ ایک پہاڑی قلعہ کو فتح کرنے پرایک ترک جرنیل مامور تھا اور اسے حکم تھا کہ دو یا تین ہفتہ کے اندر اندر اسے فتح کرے۔ اُس نے متواتر حملے کئے مگر ناکام رہا آخر ایک دن اُس نے سپاہیوں کو بُلا کر کہا کہ یہ معمولی لڑائی کا سوال نہیں بلکہ ہماری قوم کی زندگی اور موت کا سوال ہے اس لئے ہمیں اس بات سے بے پروا ہوکر کہ ہم میں سے کون جیتا رہتا او رکون مرتا ہے کل حملہ کرنا چاہئے اور اس نیت سے کرنا چاہئے کہ یا تو سب کے سب مرجائیں گے اور یا کل شام تک قلعہ میں ہوں گے ۔سب نے اِس کا اقرار کیا اور اگلے روز وہ سپاہیوں کو لے کر قلعہ کی طرف بڑھا۔ وہ دیوانہ وار اوپر چڑھتے جارہے تھے جب نصف فاصلہ طے کرچکے تو اس کرنیل کے گولی لگی اور وہیں گِرگیا اس کے ساتھی اسے اُٹھانے کیلئے آگے بڑھے مگر اس نے کہا تم کو خداکی قسم ہے مجھے کوئی مت چھوئے اگر تم قلعہ کو فتح کرسکو تو اس کے اندر مجھے دفن کردینا ورنہ میری لاش کو کُتّوں کے آگے ڈال دینا۔ یہ بات سن کر سپاہی جو اس کی شفقت اور محبت کی وجہ سے اس کے گرویدہ تھے دیوانہ وار آگے بڑھے اور شام سے پہلے پہلے قلعہ کو فتح کرلیا۔ تو یہ جذبات ہر قوم میں اور ہر حالت میں پائے جاتے ہیں حتّٰی کہ بُزدل قوموں میں بھی انفرادی طور پر اس کی مثالیں مل جاتی ہیں اور تباہ شدہ قوموں میں بھی ملتی ہیں۔
جب جنگ بلقان ہوئی تو میں اس کے تفصیلی حالات سے واقف رہنے کیلئے بعض انگریزی اخبار پڑھا کرتا تھا۔ یونان کے ساتھ مختلف قومیں مل کر تُرکوں پر حملہ آور تھیں جب سالونیکا پر حملہ ہؤا تو ترکوں کے بعض غدار افسروں کی وجہ سے ترکوں کوشکست ہوئی۔ اس کے متعلق میں نے لندن کے ایک اخبار میں پڑھا۔ نامہ نگار نے ایک لیفٹیننٹ کانقشہ کھینچا تھا جب غدار افسروں نے فوج کو پیچھے ہٹنے کاحکم دیا تو اُس نے اِس بات پر زور دیاکہ ہمیں ہرگز پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔ اس پر اعلیٰ افسر نے اسے جھڑک کرکہا کہ تم بیوقوف ہو اور افسروں کی حکم عدولی کرتے ہو اور فوج کو واپس ہونے کا حکم دے دیا۔ نامہ نگار نے لکھا ہے کہ اُس پر میں نے وہ نظارہ دیکھا کہ گو میں غیرجانبدار تھا میری آنکھیں پرنم ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ جب سپاہی پیچھے ہٹنے لگے تو اُس لیفٹیننٹ نے تلوار پھینک دی اور ایک پتھر پر بیٹھ کر چیخیں مار کر رونے لگا اور اس کے کندھے شدتِ گریہ سے یوں حرکت کرتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کے سینہ میں انگیٹھی جل رہی ہے ۔ تو بہادری کے جذبات ہمیشہ دشمن سے بھی بڑائی کا اقرار کرالیا کرتے ہیں اور ایمان کے ساتھ تو بہادری اتنی بڑھ جاتی ہے کہ انسان حیران ہوتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے دنیا میں بُزدلی کیسے رہ سکتی ہے۔ پس مؤمن کو اپنا ایمان پرکھنے کے وقت یہ دیکھنا چاہئے کہ کس حد تک اس کے دل میں جذبۂ جرأت و بہادری ہے اورکس حد تک جذبۂ وفاداری ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں کھانے پینے کا بڑا شوق ہے۔ دوست جب ملتے ہیں تو سوال کرتے ہیں کہ کیا کھلائو گے، کیا پلائو گے اور جب کھانے لگتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ کھانے پینے کیلئے ہی وہ پیداہوئے تھے لیکن یہی لوگ جب ان کے گھروں میں کوئی موت ہوجاتی ہے جب ان کا کوئی عزیز ان سے رخصت ہوجاتا ہے کھانے پینے کی لذت اور خواہش کئی دنوں تک ان کے دل سے جاتی رہتی ہے۔ جب لُقمہ منہ میں ڈالتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ حلق میں پھنستا ہے کوئی چیز خواہ کتنی شیریں کیوں نہ ہو تلخ معلوم ہوتی ہے باوجود اس کے کہ لذیذ کھانا منہ میں اور شیریں پانی پیٹ میں جاتا ہے پیٹ اورمنہ اسے ردّ کرتے ہیں اور لذت کی بجائے تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ایسے ایام میں جبکہ اس سے بہت زیادہ مصیبتیں اسلام کیلئے موجود ہوتی ہیں، جب دین پر بڑی بڑی آفتیں نازل ہوچکی ہوتی ہیں ایسی مصیبتیں اور آفتیں کہ ان کے مقابلہ میں گھروں کی مصیبتیں بالکل ہیچ ہوتی ہیں ہمارے حالات میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔ ہمارے منہ بدستور کھانوں سے لذت اندوز ہوتے ہیں اور پیٹ اسی طرح ٹھنڈے پانی کی اشتہاء محسوس کرتے ہیں اور دن میں کسی وقت بھی یہ خیال پید انہیں ہوتا کہ اسلام کیلئے اس قدر مصائب کے ہوتے ہوئے ہم اس آرام اور سکھ کے مستحق نہیں ہیں اور جب دن میں کسی وقت ہم پر یہ حالت طاری نہیں ہوتی تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے قلوب اس محبت سے آشنا ہیں جوحقیقی محبت کہلاتی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک واقعہ میں نے کئی بار سنایا ہے رسول کریم ﷺ کی وفات کے کئی سال بعد جب ایران سے چکیاں آئیں او رعمدہ آٹا ملنے لگا تو سب سے پہلے جو آٹا تیار ہؤا وہ تحفۃً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیش کیا گیا اور جب ا س کا پھلکا تیار ہوکر آپ کے سامنے آیا تو آپ نے جب ایک لقمہ لے کر منہ میں رکھا تو آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو گرنے لگے۔ ایک سہیلی پاس بیٹھی تھی اُس نے کہا کہ بی بی! یہ تو بڑا نرم پھلکا ہے آپ اسے کھاتے ہوئے روتی کیوں ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اس کی نرمی ہی میرے لئے رونے کا باعث ہے ۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں چکیاں نہ تھیں پتھروں پر کوٹ کوٹ کر ہم آٹا بناتے تھے اور رسول کریم ﷺکو وہی آٹا کھانے کو ملتا تھا۔ بڑھاپے کی عمر میں اور اضمحلال کے وقت بھی آپ یہی کھاتے تھے اور اس پھلکے کی نرمی کومحسوس کرکے میرے دل میں حسرت پید اہوئی کہ کاش! رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایسا آٹا ہوتا تو میں اس کی روٹیاں پکا کر آپ کوکھلاتی ؎۶ ۔
ذرا غور کرو نرم آٹا کون سی چیز ہے جسے آج قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ آج تو کنگال بھی اس کی قدر نہیں کرتے اور ان کوبھی آج اس سے بہت بہتر آٹا ملتا ہے جوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ملا تھا۔ آج تو رولرملوں کے آٹے غریب سے غریب لوگ کھاتے ہیں اور انہیں محسوس بھی نہیں ہوتا کہ یہ کوئی نعمت ہے۔ اب نعمتوں نے اس آٹے سے بہت زیادہ ترقی کرلی ہے مگر کیا کبھی کسی کے دل میں یہ خیال آیا ہے کہ اسلام کے مصائب کی موجودگی میںان کا استعمال مناسب نہیں۔ ہم کہتے ہیں ہم اسلام کے سپاہی ہیں، محمد ﷺ کے فدائی ہیں، ہم کہتے ہیں کہ ہم خدا کے نام پر جانیں قربان کرنے والے ہیں مگر کیا ہمارے گلوں میں وہ نعمتیں کبھی پھنستی ہیں؟ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خدا اور اس کے دین کی ہتک دنیا میں ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کی توہین کرنے والے موجود ہیں مگر کیا دین کی اس انتہائی بے بسی کے باعث ہمارے گلوں میں بھی وہ نعمتیں پھنستی ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کھانے کا ڈھنگ بالکل نرالا تھا میںنے کسی اور کو اس طرح کھاتے نہیں دیکھا آپ پھلکے سے پہلے ایک ٹکڑا علیحدہ کرلیتے اور پھر لقمہ بنانے سے پہلے آپ اُنگلیوں سے اُس کے ریزے بناتے جاتے اور منہ سے سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہتے جاتے اور پھر ان میں سے ایک چھوٹا سا ریزہ لے کر سالن سے چھو کرمنہ میں ڈالتے۔ یہ آپ کی عادت ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ دیکھنے والے تعجب کرتے اور بعض لوگ تو خیال کرتے تھے کہ شاید آپ روٹی میں سے حلال ذرّے تلاش کررہے ہیں لیکن دراصل اس کی وجہ یہی جذبہ ہوتا تھا کہ ہم کھانا کھارہے ہیں اور خدا کا دین مصائب سے تڑپ رہا ہے۔ ہر لقمہ آپ کے گلے میں پھنستا تھا اور سُبْحَانَ اللّٰہ سُبْحَانَ اللّٰہکہہ کر آپ گویا اللہ تعالیٰ کے حضور معذرت کرتے تھے کہ تونے یہ چیز ہمارے ساتھ لگادی ہے ورنہ دین کی مصیبت کے وقت ہمارے لئے یہ ہرگز جائز نہ تھا۔ وہ غذا بھی ایک مجاہدہ معلوم ہوتا تھا، یہ ایک لڑائی ہوتی تھی ان لطیف اور نفیس جذبات کے درمیان جو اسلام اور دین کی تائید کیلئے اُٹھ رہے ہوتے اور ان مطالبات کے درمیان جو خداتعالیٰ کی طرف سے قانونِ قدرت کے پورا کرنے کیلئے قائم کئے گئے تھے مگر ہم جو رسول کریم ﷺ کی امت اور صحابہ کا نمونہ ہونے کے مدعی ہیں کیا یہ ہمارا فرض نہیں کہ وہی جرأت اور دلیری اپنے اندر پیدا کریں جو صحابہ کے اندر تھی۔ آج قربانی پر اُبھارنے کی بجائے اُسے روکنے والے آپ کو ملیں گے اور بہادری کے جذبات پید اکرنے کی بجائے بعض لوگ اس پر ہنستے ہیں مگر مؤمن ہنسی اور تمسخر کی کوئی پرواہ نہیں کیا کرتا وہ دنیا سے اندھا ہوتا ہے، اُس کی بینائی صرف خد اکو دیکھتی ہے، ا س کے دل کی نظریں بلند او رظاہری آنکھیں جھکی ہوئی ہوتی ہیں، اس کے نیکی کے کام کھلے ہوئے مگر بدی کے بندہوتے ہیں وہ خداتعالیٰ کیلئے ہر قربانی کرنے کو عزت سمجھتا ہے اسے کامیابی سمجھتا ہے اور اسی کو نجات خیال کرتا ہے اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رستہ میں انسان کا قربان ہونا سب سے بڑی عزت ہے۔ گو یہ لڑائی کا زمانہ نہیں مگر قربانیوں سے خالی نہیں۔ بے شک آج ہمیں عَلَی الْاِعْلَانقتل نہیں کیاجاتا مگر احمدیت کیلئے آج بھی ہزاروں قسم کی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں۔ ہمارا بائیکاٹ کیا جاتاہے، گالیاں دی جاتی ہیں، مارا پیٹا جاتا ہے اور جب تک جماعت میں سے ایک ایسا حصہ کھڑا نہ ہو جو بہادری اور وفاداری کا وہ نمونہ دکھائے جو دشمن کوبھی کھینچ لیتاہے اُس وقت تک کامیابی کے قریب نہیں پہنچ سکتے۔
بعض لوگ یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ ہمارے دائیں ہاتھ والا کیا کرتا ہے اوربائیں ہاتھ والا کیا کرتا ہے اور یہ نہیں دیکھتے کہ ہم خود کیا کررہے ہیں۔ ہمیں اس سے کیا غرض کہ دائیں ہاتھ والا کیا کرتاہے اور بائیں ہاتھ والا وفادار ہے یا نہیں۔ کیااگر ساری دنیا مرتد ہوجائے اور صرف ایک مؤمن رہے تو وہ اس لئے جان دینے سے دریغ کرے گا کہ اور کوئی اس کے ساتھ نہیں۔ جن مواقع پر آنحضرت ﷺ نے اپنی جان کو خطرات میں ڈالا کیا یہ دیکھ کر ڈالا تھا کہ آپ کے دائیں کون ہے اور بائیں کون او رکس حد تک آپ کی مدد کریں گے؟ کیا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا تو یہ دیکھا تھا کہ میرے مؤید اور حامی کون کون ہیں؟
ایک دفعہ ایک مولوی صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اعتقاد رکھتے تھے یہاںآئے او رآپ سے کہنے لگے کہ آپ نے غلطی کی مولوی لوگ ضدی ہوتے ہیں جب آپ نے دعویٰ کیا تو انہوں نے سمجھا کہ یہ شخص ہم سے بڑا ہوگیا ہے اس لئے مخالفت شروع کردی۔ اگر آپ دعوے سے پہلے علماء کو بُلاتے، اُن کی دعوت کرتے اور پھر پوچھتے کہ اسلام پر جو اِس قدر مصیبت کے ایام ہیں آپ لوگوںنے کبھی غور کیا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں او راس سے عیسائیوں کو اسلام کے خلاف بہت تقویت حاصل ہوتی ہے۔ آپ صاحبان اس کا کوئی حل سوچیں تو وہ ضرور کہتے کہ آپ ہی اس کا کوئی حل سوچئے۔ اس پر آپ کہہ دیتے کہ اگر ہم کہہ دیں کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے ہیں تو اس مشکل سے نجات حاصل ہوسکتی ہے او روہ ضرور کہہ دیتے کہ ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے سُبْحَانَ اللّٰہِ کیا نکتہ نکالا ہے۔ پھر آپ کہتے کہ ایک مشکل یہ ہے کہ جب ہم ان کی وفات کااعلان کریں گے تو عیسائی کہیں گے کہ احادیث میں تو ان کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی ہے اس کا بھی کوئی جواب ہونا چاہئے وہ ضرور پھر یہی کہتے کہ اس کا بھی کوئی جواب آپ ہی فرمائیں تو آپ کہہ دیتے کہ اس کا علاج یہی ہے کہ ہم کہہ دیں آنے والا اِسی اُمت میں سے ہوگا۔ اس پر پھر وہ یہی کہتے کہ سُبْحَانَ اللّٰہ کیا اچھی بات نکالی ہے۔ پھر آپ کہتے کہ اب صرف ان کا ایک اعتراض رہ جاتا ہے کہ جب سب علامتیں پوری ہوچکی ہیں تو آنے والا کہاں ہے؟ آپ لوگ رسول کریم ﷺ کی گدی پر بیٹھے ہیں اپنے میں سے کسی کے متعلق فیصلہ کردیں کہ وہ مثیلِ مسیح ہے تا عیسائیوں کے اس اعتراض کا جواب بھی ہوجائے اور اسلام کو ترقی نصیب ہو۔ مولوی تو چونکہ سخت حاسد ہوتے ہیں وہ کیا مجال جو اپنے میں سے کسی کومان لیتے ضرور یہی کہتے کہ آپ سے بہتر کوئی شخص نہیں۔ یہ سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ اگر انسانی منصوبہ ہوتا تو میں ضرور ایسا ہی کرتا مگر مجھے تو میرے خدا نے جو کہامیں نے لوگوںکو سنادیا۔ یہی حال انبیاء کی امتوں کا ہوتا ہے وہ جب صداقت کو لے کر کھڑی ہوتی ہیں تویہ نہیں دیکھا کرتیں کہ ہمارے دائیں کون ہے اور بائیں کون ہے وہ صداقت کو لے کر دنیا میں آتی ہیں اور لوگ خواہ اُن کو ماریں ،پیٹیں، قتل کردیں بلکہ قیمہ کردیں، جلادیں، ڈبودیں پیچھے نہیں ہٹتیں۔ پس یہ جذبہ اگر ہمارے نوجوانوں میں او رجماعت میں پید اہو تو پھر وہ لوگ ہم میں سے پیدا ہوں گے جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر چالیس مؤمن مجھے مل جائیں تو مَیں دنیا کوفتح کرسکتا ہوں ؎۷ ۔
خوب یاد رکھو بُزدل لاکھوں بھی دنیا کو نفع نہیں دے سکتے، بے وفا کروڑوں کسی کام کے نہیں مگر متوکل اور وفادار چالیس بھی ہوں تو دنیا کو فتح کرسکتے ہیں۔ تم سوچو کہ آخر تمہارے اس مقام کوحاصل کرنے میں کیا روک ہے؟ کیا صرف یہی نہیں کہ تم سمجھتے ہو ہم یہ مقام کس طرح حاصل کرسکتے ہیں؟ مگر یاد رکھو کہ تم خدا کے سوتیلے بیٹے نہیں ہو۔ ابوبکرؓکو خد اپر اس سے زیادہ حق نہیں تھا جو تمہیں ہے، عمرؓ کو اس سے زیادہ خداتعالیٰ پر حق نہیں تھا جو تمہیں ہے، عثمانؓ اور علیؓ کو اللہ تعالیٰ پر اس سے زیادہ حق نہیں تھا جوتمہیں ہے۔ اگر تم آج یہ ارادہ کر لو کہ ہم بھی توکل کے مقام پر کھڑے ہوکر اپنے ربّ سے ایسا رشتہ پیدا کریں گے کہ اس کے مقابلہ میں کسی چیز کی پرواہ نہ رکھیں گے تو وہی جو ابوبکرؓ کوملا تمہیں مل سکتا ہے، جو عمرؓ کوملا تمہیں مل سکتا ہے، جو عثمانؓ اور علیؓ کو ملا تم حاصل کرسکتے ہو صرف عزم اورارادہ کی دیر ہے۔ صرف کُودنا اور چھلانگ لگانی ہے اورپھر دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ پس تم میں سے جو ہمت والے ہوں وہ یہ عزم کرلیں۔ خد اکے قُرب کی خواہش تم میں سے جو رکھتے ہیں میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا بہت قریب ہے اتنا قریب ہے اتنا قریب ہے کہ اگر کوئی نابینا کی طرح آنکھیں بند کرکے ہاتھ پھیلادے تو اسے چھو سکتا ہے اور اسے چھوکر ایسا نور حاصل کرسکتا ہے جس کے بعد تمام اندھیرے دور ہوجاتے ہیں اور ایسی طاقت حاصل کرسکتا ہے جس کے حاصل ہونے پر شیطان کی تمام طاقتیں مٹ جاتی ہیں۔
(الفضل ۷؍ مئی ۱۹۳۶ئ)
؎۱ پروہت: خاندانی برہمن جو تمام خاندان کی پوجا پاٹ، موت اور بیاہ کی رسوم ادا کرتا ہے۔
؎۲ سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۲۸۵ ۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۴ء
؎۳ سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۲۸۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۴ء
؎۴ اسد الغابۃ جلد ۴ صفحہ ۱۴۸ ، مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
؎۵
؎۶
؎۷ ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۳۴۲۔ جدید ایڈیشن

۱۶
دشمنانِ احمدیت کی حیاسوز کذب بیانیاں
(فرمودہ ۸؍ مئی ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
جب کبھی دنیا میں سچائی ظاہر ہوتی ہے تو جھوٹ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے کھڑا ہوجاتا ہے۔ اضداد ہمیشہ ہی ایک دوسرے کی طرف ایک کشش رکھتی ہیں۔جھوٹ کے مٹانے کیلئے سچائی آجاتی ہے اور سچائی کا مقابلہ کرنے کیلئے جھوٹ آجاتا ہے اور یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کبھی رحمانی طاقتوں اور شیطانی طاقتوں میں صلح ہوسکے۔ ہمیشہ ہی رحمانی طاقتیں شیطان کا زور توڑنے کیلئے دنیا میں پیدا ہوتی رہیں گی اور ہمیشہ ہی شیطانی طاقتیں سچائی کا مقابلہ کرنے کیلئے دنیا میں کھڑی ہوتی رہیں گی اور یہی معیار درحقیقت کسی روحانی جماعت کی صداقت کاہوتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں جھوٹ استعمال کیا جاتا ہے۔
اس زمانہ کو جو ایک دو سال سے شروع ہے یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں دو جھوٹ جمع ہوگئے ہیں ایک طرف مخالفینِ صداقت کا جھوٹ ہے اور دوسری طرف منافقین کاجھوٹ ہے۔ اس قسم کے دو جھوٹ بہت کم جمع ہؤا کرتے ہیں ورنہ عام طور پر لوگوں کو ایک ایک جھوٹ کا مقابلہ کرناپڑتا ہے۔ کبھی انہیں مخالفوں کے جھوٹ کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور کبھی انہیں منافقوں کے جھوٹ کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جبکہ یہ دونوں جھوٹ جمع ہوجاتے ہیں جیسے رسول کریم ﷺ کو مدینہ منورہ کی ابتدائی زندگی میں ان دونوں جھوٹوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ آپ کو اہلِ مکہ کا بھی مقابلہ کرنا پڑا اور پھر آپ کو مدینہ میں جو منافقین کا گروہ تھا اس کا بھی مقابلہ کرنا پڑا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید اور نصرت کرکے بتادیا کہ خداتعالیٰ جن کی مدد پر ہو اُن کے خلاف خواہ دشمن کی کتنی بڑی طاقتیں جمع ہوجائیں ذرّہ بھر بھی نقصان نہیں پہنچاسکتیں بلکہ وہ ابدی زندگی پاتے اور مرکر بھی زندہ رہنے والے ہوتے ہیں پس ان کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔ انسان کیا نقصان پہنچاسکتے ہیں یہی کہ وہ ماردیں، یہی کہ وہ جائدادیں چھین لیں، یہی کہ وہ مارپیٹ لیں، یہی کہ وہ گالیاں دیں اور اس طرح جذبات و احساسات کو صدمہ پہنچائیں مگر یہ سب عارضی چیزیں ہیں جن کی مؤمن پروا نہیں کرسکتا کیونکہ مؤمن کی جنت دائمی ہوتی ہے اور یہ عارضی نقصان ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی باغ کی شاخ تراشی کی جائے۔ شاخ تراشی کے بعد درخت برباد نہیں ہوجاتے بلکہ وہ بڑھتے اور زیادہ پھل لاتے ہیں۔ اسی طرح مؤمن کو جب دُنیوی طور پر کوئی نقصان پہنچاتا ہے تو وہ اس کی تباہی کا موجب نہیں ہوتا بلکہ اس کی ترقی کا موجب بن جاتا ہے۔
رسول کریم ﷺ کو کفار نے اگر گالیاں دیں، آپؐ کی عزت و آبرو پر حملہ کیا، وطن سے نکالا اور قسم قسم کی نہ صرف ایذائیں دیں بلکہ ایذائیں ایجاد کیں تو کیا اس سے اشاعتِ اسلام میں کوئی روک واقع ہوگئی؟ اسی طرح حضرت امام حسینؓ کے مقابلہ میں یزیدی طاقتوں نے گو اتنی قوت پکڑی کہ انہوں نے آپ کو شہیدکردیا لیکن یزید آج بھی یزید ہے اور امام حسینؓ آج بھی امام حسینؓ کہلاتے ہیں۔ ان کا نام لیتے وقت لوگ انہیں امام کہتے اور ان کی بادشاہت آج بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن یزید کی بادشاہت ایسی مِٹی کہ آج کوئی اپنے بچوں کانام یزید رکھنے کیلئے تیار نہیں۔ یزید کیسا اچھا نام ہے اس کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ بڑھاتا ہی چلا جائے۔ ہمارے پنجاب میں لوگ اپنے بچوں کا نام اللہ ودھایا رکھتے ہیں جس کا عربی زبان میں اگر ہم ترجمہ کریں تو یزید ہی ہوگا مگر کوئی شخص اپنے بچہ کا یزید نام رکھنے کیلئے تیار نہیں ہوگا اللہ ودھایا نام رکھ لیں گے۔ تو یہ نام باوجود اس کے کہ اس کے معنے بہت اچھے تھے بالکل ذلیل ہوگیا اور آج اس نام سے کوئی شخص اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کوموسوم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اگر کوئی یہ نام رکھتابھی ہے تو اس کے ساتھ کوئی لفظ بڑھادیتا ہے جیسے بایزید مگر صرف یزید کا لفظ مسلمانوں میں بالکل متروک ہے۔ اس کے مقابلہ میں گِنا جائے تو کتنے ہیں جو حسین کہلاتے ہیں۔ اگر تعداد معلوم کی جائے تو حسین نام رکھنے والے لاکھوں نکل آئیں گے اور ہر زمانہ میں نکل آئیں گے پھر وہ سارے کے سارے سوائے خوارج کے نام لیں گے تو امام حسینؓ ہی کہیں گے اور حضرت کہہ کے ہی پکاریں گے۔ تو کسی مخالف کی مخالفت دنیا میں روحانیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ہاں مخالفت کرنے والا تھوڑی دیر کیلئے اپنے دل کو خوش ضرور کرلیتا ے۔
میں نے کہا ہے اِس زمانہ میں ہمارے خلاف دونوں قسم کے مخالف کھڑے ہیں اور جھوٹ بول رہے ہیں۔ وہ لوگ بھی جھوٹ کے ہتھیار سے حملہ کررہے ہیں جو بیرونی دشمن ہیں اور وہ بھی جو اندرونی دشمن یعنی منافق ہیں۔ منافق جب کبھی دیکھتا ہے کہ جماعت پر باہر سے حملہ ہورہا ہے تو وہ اپنا سر اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ اس زمانہ میں ہماری جماعت کی شدت سے مخالفت ہورہی ہے اس لئے کئی منافقین نے جو پہلے دبے ہوئے تھے آج سر اُٹھانا شروع کردیا ہے اور وہ اپنی تنظیم کی فکر میں لگ گئے ہیں لیکن منافق کی تنظیم کوئی تنظیم نہیں ہؤ اکرتی اور نہ مخالف کا حملہ روحانی جماعتوں کیلئے کوئی نقصان رساں حملہ سمجھا جاسکتا ہے۔
جھوٹ تو ہمارے دشمنوں کی طرف سے ہمیشہ بولا ہی جاتا ہے اور اگر ان کے جھوٹوں کو گِنا جائے تو ان کا شمار ناممکن ہو لیکن بعض دفعہ تو وہ ایسا کھلا جھوٹ بولتے ہیں کہ حیرت آجاتی ہے کہ دشمن جب جھوٹ بولنے پر آجائے تو وہ کس طرح سَو فیصدی جھوٹ بول جاتا ہے۔ جب انسان خود سچائی کا پابند ہو تو خیال کرتا ہے کہ کوئی شخص آخر کتنا جھوٹ بول سکتا ہے، پانچ، دس، پندرہ یا بیس فیصدی، اس سے زیادہ جھوٹ وہ کیا بولے گا۔ چنانچہ میرا اپنا یہی خیال تھا میں سمجھا کرتا تھا کہ کوئی آخر کتنا جھوٹ بول سکتاہے۔ اگر اس نے سَو باتیں بیان کی ہیں تو ممکن ہے کہ ان میں سے پانچ جھوٹ ہوں اور پچانوے سچ۔ یا دس جھوٹ ہوں اور نوّے سچ، اس سے بڑھ کر تو جھوٹ بول نہیں سکتا لیکن جب آہستہ آہستہ میرا تجربہ بڑھا تو مجھے معلوم ہؤ ا کہ پچاس ساٹھ فیصدی جھوٹ بھی لوگ بول لیا کرتے ہیں اور اب اِس نئی جنگ میں جو احرار سے شروع ہے مجھے پتہ لگا کہ ہمارے دشمنوں کی طرف سے سَوفیصدی جھوٹ بولا جاتا ہے بلکہ اگر ان کے امکان میں ہوتا کہ سَو فیصدی سے بھی زیادہ جھوٹ بول سکتے تو وہ ضرور زیادہ جھوٹ بولنے کی کوشش کرتے۔ پھر ایسا کھلا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ جس کا پہچاننا کسی کیلئے مشکل ہی نہیں ہوتا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ وہ جھوٹ ہے مگر وہ اسے بیان کرتے اور کھلے بندوں بیان کرتے ہیں حالانکہ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہر شخص جو حالات سے معمولی واقفیت بھی رکھتا ہو سمجھ سکتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے۔ مثلاً ابھی پچھلے چند دنوں میں ان مخالفوں کی طرف سے ایسے ایسے جھوٹ بولے گئے ہیں جو سرتا پا جھوٹ ہیں اور جن میں ایک فیصدی سچائی بھی نہیں پائی جاتی۔ پھر جھوٹ بھی ایسی دلیری سے بولے گئے ہیں کہ یہ نہیں کہا گیا یہ سنی سنائی باتیں ہیں بلکہ یہ کہا گیا کہ یہ ہماری آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی باتیں ہیں۔
مثلاً پچھلے دس بیس دن کے اندر اندر احرار کی طرف سے جو جھوٹ بولے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ احمدیوں کے خلیفہ کی جوان بیٹیاں قادیان میں غیروں کے گھروں سے چندہ مانگتی پھرتی ہیں۔ اب جھوٹ بنانے کو تو انہوں نے بنالیا مگر یہ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ اتنا کھلا جھوٹ ہے کہ قادیان کا کوئی شخص اسے صحیح تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوگا۔ قادیان کی آبادی اِس وقت آٹھ دس ہزار افراد پر مشتمل ہے، ان میں ہندو بھی ہیں، سکھ بھی ہیں، غیراحمدی بھی اور قریباً آٹھ ہزار احمدی ہیں اتنی بڑی جماعت کے سامنے انہوں نے یہ جھوٹ بول دیا اور اس کا نام مذہبی خدمت رکھ دیا۔ پھر خاص طور پر اس بات پر زور دیا گیا کہ لڑکیاں جوان ہیں تا ایسا نہ ہو کہ کوئی خیال کرے کہ شاید احمدیوں کے خلیفہ کی چھوٹی عمر کی بیٹیاں مانگتی پھرتی ہیں۔
اس قسم کا جھوٹ بول کردشمن یہ خیال کرلیتا ہے کہ قادیان کے لوگ اگر سمجھ بھی گئے کہ یہ جھوٹ ہے تو باقی دنیا تو حالات سے واقف نہیں وہ تو اسے درست مان لے گی۔ مثلاً لاہور کے لوگوں کو کیاپتہ ہے کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ، افتراء ہے یا امر واقعہ ؟اور چونکہ اکثر ان میں سے ہمارے مخالف ہیں اس لئے ضروری ہے کہ وہ کہیں یہ سچ ہے۔ اسی طرح گورداسپور کے لوگوں کو کیا پتہ، امرتسر کے لوگوں کو کیا پتہ، پشاور کے لوگوں کو کیا پتہ کہ یہ افتراء ہے یا نہیں وہ لازماً ان باتوں کو سچ سمجھیں گے اور اس طرح جماعت سے نفرت پیداہوگی۔ مگر یہ جو نظریہ ہے کہ اگر قادیان کے لوگوں نے اسے جھوٹ سمجھ لیا تو کیا ہؤا باہر کے لوگ تو اسے افتراء نہیں سمجھیں گے اس سے اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کا افتراء کرنے والے اپنی قوم کامعیارِ عقل بہت چھوٹا تسلیم کرتے ہیں اور اس طرح انہوں نے ہماری ہی ہتک نہیں کی بلکہ اپنی قوم کی ہتک بھی کی ہے اور انہوں نے یہ جھوٹ بول کر تسلیم کرلیا ہے کہ ان کے بھائی بند اور ہم قوم گائودی ؎۱ اور احمق ہیں وہ جو کچھ کہیں گے وہ اُسے مان لیں گے خواہ وہ بات معقولیت سے کس قدر دور ہو او رکبھی اس پر غور نہیں کریں گے۔ مگر کیا تعجب کی بات نہیں کہ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ قادیان کے لوگوں کو کنگال کردیا ، ان کا تمام مال، ان کی تمام املاک لوٹ لیں، وہ فاقوں مررہے ہیں اور ان کا کوئی پُرسانِ حال نہیں اور دوسری طرف جب ان کی تمام دولت میرے پاس آجاتی ہے اور میں انہیں اچھی لوٹ لیتا ہوں تو میری جوان بیٹیاں ان کے گھروں پر مانگنے جاتی ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے کہ مال و دولت لُٹا دینے کی وجہ سے قادیان کے لوگ کنگال ہوگئے ہیں اور ان کی دولت میں نے لُوٹ لی ہے تو پھر میری لڑکیوں کے متعلق یہ کہنا کہ وہ ان کنگالوں کے گھروں پر مانگنے جاتے ہیں صریح طور پر خلافِ عقل بات نہیں تو اور کیا ہے۔
ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ کوئی میراثی تھا اس کے گھر رات کو چور آیا اس نے کمرے میں اِدھر اُدھر تلاش کی مگر کوئی چیزنہ ملی۔ جب سب طرف سے مایوس ہوگیا اور اُسے یہ ڈر بھی پیدا ہؤا کہ کوئی جاگ نہ اُٹھے اور میں پکڑا جائوں تو اس نے جلدی جلدی مکان میں گھومنا شروع کیا۔ اتفاقاً ایک جگہ روشندان میں سے چھن چھن کر چاندنی پڑ رہی تھی اُس نے سمجھا کہ یہ آٹا ہے جلدی میں اُس نے زمین پر چادر پھیلادی مگر جب چاندنی کو آٹا سمجھ کر سمیٹنا چاہا تو اس کے دونوں ہاتھ خالی کے خالی آپس میں مل گئے۔ اِسی دوران میں اتفاقاً میراثی کی آنکھ بھی کھل چکی تھی اور وہ سب نظارہ بستر پر لیٹے ہوئے دیکھ رہا تھا جب اس چور نے آٹا سمجھ کر اسے اکٹھا کرنا چاہا اور دونوں ہاتھ خالی مل گئے تو میراثی ہنس کر کہنے لگا ’’ججمان ایتھے تے دن نوں کچھ نہیں لبھدا تُو رات نوں کی لبھدا ہیں‘‘۔ یعنی میرے آقا! اس گھر میں تو دن کو بھی کچھ نظر نہیں آتا آپ رات کو یہاں کیا تلاش کررہے ہیں۔ تو ایک طرف احرار کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ میں نے لوگوں کو لوٹ لیا اور ان کے مال ہضم کرلئے کنگال اور فقیر بنادیا وہ بھوکے مرتے ہیں مگر انہیں کوئی نہیں پوچھتا اور دوسری طرف کہا جاتا ہے میری جوان بیٹیاں قادیان میں گھر گھر لوگوں سے مانگتی پھرتی ہیں حالانکہ جب بقول ان کے میں نے تو لوگوں کو لوٹ لیا ہے پھر میری بیٹیاں ان کنگالوں کے گھروں میں کچھ مانگنے کس طرح جاسکتی ہیں ۔ مگر اس تضاد اور اختلاف کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ان کا مقصد محض جھوٹ بولنا ہے ایک جگہ ایک رنگ میں جھوٹ بول دیا اور دوسری جگہ دوسرے رنگ میں۔ گویا وہ سمجھتے ہیں کہ احرار اتنے احمق ہیں کہ وہ ان دونوں جھوٹوں کو جو آپس میں بالکل متضاد ہیں صحیح ماننے کیلئے تیار ہوجائیں گے۔ اس جھوٹ کو بھی وہ درست سمجھیں گے کہ میری جوان بیٹیاں لوگوں کے گھروں پر مانگنے جاتی ہیں اور اِس جھوٹ کو بھی صحیح قرار دیں گے کہ میں لوگوں کو لُوٹ لُوٹ کر کنگال بناچکا ہوں اور عقل و سمجھ سے کام لے کر ذرہ بھر بھی نہیں سوچیں گے کہ اگر یہ سچ ہے کہ میں لوگوں کو لوٹ لوٹ کر بہت بڑا امیر بن چکا ہوں تو پھر یہ جھوٹ ہے کہ میری جوان بیٹیاں قادیان میں ٹکڑا سے محتاج لوگوں کے گھروں پر مانگنے جاتی ہیں اور اگر یہ صحیح ہے کہ میری جوان بیٹیاں لوگوں کے گھروں پر مانگنے جاتی ہیں تو پھر یہ جھوٹ ہے کہ میں نے قادیان کے لوگوں کو لوٹ لوٹ کر انہیں کنگال بنادیا ہے مگر وہ اس فرق کونہیں سوچیں گے اور بِلا سوچے سمجھے ان دونوں جھوٹوں کو صحیح تسلیم کرلیں گے۔ جو جماعت ایسی گدھی اور احمق ہوجائے یا جس کے لیڈر اسے اتنا احمق اور بیوقوف سمجھتے ہوں اُس نے دنیا میں کام کیا کرنا ہے اور کونسی خدمتِ دین کرسکتی ہے وہ تو آج بھی تباہ ہوئی اور کل بھی تباہ ہوئی۔
پھر اس کے بعد دوسرا جھوٹ بولا گیا ہے کیونکہ آخر چند دنوں کے بعد اخبار میں کوئی اور دلچسپ خبر بھی توہونی چاہئے تھی کہ اب لوگوں سے خلیفہ کی بیٹیاں مانگ مانگ کر چونکہ تھک گئی ہیں اور کچھ وصول نہیں ہوتا اس لئے انہوںنے اپنی بیویوں کوہدایت کی ہے کہ وہ لوگوں کے گھروں پر مانگنے کیلئے جایا کریں۔ چنانچہ احرار کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ احمدیوں کے خلیفہ نے اپنی چاروں بیویاں بلائیں اور ان سے کہا کہ پہلے تو میں تمہارے سنگھار پر تم سے محبت کیا کرتا تھا مگر اب لوگوں کے گھروں سے مانگنے پر تم سے محبت کیا کروں گا اور جتنا جتنا زیادہ کوئی بیوی مانگ کر لائے گی اتنی ہی زیادہ میری محبت اُسے حاصل ہوگی۔لکھا ہے کہ جب میری بیویوں نے یہ بات سُنی تو انہوں نے کہا کہ اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا۔ ہم آپ کے حکم کی تعمیل میں لوگوں کے گھروں سے مانگ کرلایا کریں گی۔مگر جو میری چوتھی بیوی ہیں ان کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے انکار کیا اور کہا میں تو ہرگز گھروں پرجانے اور لوگوں سے مانگنے کیلئے تیار نہیں اور چونکہ اس جواب کا باقی بیویوں پر اثر پڑا ہے اس لئے اب سکیمیں سوچی جارہی ہیں کہ اُس بیوی کو کس طرح سزا دی جائے تاکہ وہ بھی باقی بیویوں کی طرح مانگنے پرتیار ہوجائے گویا یہ خبر پہلی خبر کا تتمہ ہے۔ ان اخباروں کے وہ خریدار جو اتنے احمق اور بیوقوف ہیں کہ جو بات ان کے سامنے بیان کی جائے خواہ وہ کتنی ہی جھوٹ اور خلافِ واقعہ ہو اُسے ماننے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں ان کیلئے کچھ تعجب نہیں کہ اخبار والے آئندہ یہ خبر بھی لکھ دیں کہ چونکہ بیویوں کے ذریعہ مانگنے پر بھی یہ معاملہ ختم نہیں ہؤا اس لئے اب احمدیوں کے خلیفہ نے اپنے مرید لے کر قادیان کے تمام احراریوں کے گھروں پر حملہ کردیا ہے اور تمام مال و متاع لُوٹ کر گھروں سمیت انہیں صفحۂ دنیا سے غائب کردیا ہے۔ ا س کے چند دن بعد یہ خبر دے دیں کہ امرتسر کے فلاں فلاں محلے غائب ہوگئے ہیں اور انہیں احمدیوں کا خلیفہ اُٹھا کر قادیان لے گیا ہے۔ پھر لکھ دیں کہ لاہور سب کا سب غائب ہوگیا ہے اور سناگیا ہے کہ قادیانی جماعت کا خلیفہ اُسے اپنی جیب میں ڈال کرلے گیا ہے۔ او راس کے بعد شائع کردیں کہ فلاں صوبہ بالکل مفقود ہے اور شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ صوبہ بھی احمدیوں کے خلیفہ نے اپنے مریدوں کی معرفت قادیان اُٹھوا منگوایا ہے۔ احرار نے اپنے چیلوں کو اس قدر احمق بنادیا ہے کہ کچھ تعجب نہیں ان کے چیلے ایسی خرافات کو بھی تسلیم کرلیں ۔ بے شک پہلے بھی انبیاء علیہم السلام کے زمانہ میں شیطان نے جھوٹ بولا ہے مگر تاریخ سے معلوم نہیں ہوتا کہ کبھی اتنا نڈر ہوکر شیطان نے جھوٹ بولا ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان اب یہ سمجھتا ہے کہ احرار کے ذریعہ سے شیطانوں کی ایک وسیع جماعت پید اہوگئی ہے اس لئے اب میں جو چاہو ں کہوں وہ اسے درست تسلیم کرلیں گے۔ پس چونکہ شیطان کے نزدیک اب ان مخالفوں میں کوئی آدمی نہیں رہا سب شیطان ہوگئے ہیں اسی لئے وہ اس قدر کھلا جھوٹ بولنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور اخباروں میں چھاپنا شروع کردیتے ہیں۔
پھر انہی دنوں ہماری مجلس شوریٰ کی کارروائیوں کا ان اخبارات میں ذکر چھپتا رہا ہے مگر جو دوست مجلس میں شامل تھے وہ اگر ان باتوں کو سُنیں تو حیران ہوجائیں کہ یہ کس مجلسِ شوریٰ کا ذکر ہورہا ہے وہ تو یہی سمجھیں کہ یہ کوئی نرالی مجلسِ شوریٰ ہے جس مجلسِ شوریٰ میں ہم شامل تھے اس کا یہ ذکر نہیں۔ مثلاً ان کے نزدیک اس مجلسِ شوریٰ میں مَیں نے کئی گھنٹے اپنی تقریر میں میر قاسم علی صاحب کی خبر لی حالانکہ مجلسِ شوریٰ میں اُن کا نام تک نہیں آیا۔ اسی طرح بعض واقعات اس میں بیان کئے گئے ہیں کہ بیرونی جماعتوں کو اس اِس رنگ میں ڈانٹ پڑی حالانکہ مجلسِ شوریٰ میں اس رنگ میں کوئی ذکر تک نہیں آیا تھا۔
پھر گزشتہ ایام سے برابر ایک تسلسل ایسی فہرستوں کا چلا آتا ہے جن میں مرتدین کے نام لکھے ہوئے ہوتے ہیں مگر جب ان کے متعلق تحقیق کی جاتی ہے توکچھ تو واقعہ میں ایسے لوگ ثابت ہوتے ہیں جو لوگوں کے بہکائے یا ڈرائے سے احمدیت چھوڑ بیٹھتے ہیں مگر یہ بہت قلیل تعداد ہوتی ہے زیادہ تر ایسے ہی ہوتے ہیں کہ جب ہم ان کے متعلق تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فلاں تو عرصہ سے ہماری جماعت کا سخت مخالف ہے اس نے کبھی احمدیت قبول ہی نہیں کی۔ اس کے ارتداد کا اعلان کیسا، پھر فلاں کو جماعت سے خارج ہوئے مثلاً سال دو سال ہوگئے ہیں آج اُس کے مرتد ہونے کا اعلان کیا معنے رکھتا ہے، پھر بعض نام ایسے احمدیوں کے بھی ہوتے ہیں جو نہایت مخلص ہوتے ہیں مگر ان کی طر ف افتراء کے طور پر یہ بات منسوب کردی جاتی ہے کہ انہوں نے احمدیت سے ارتداد کیا۔ آج ہی میں نے الفضل میں ایک شخص کا اعلان پڑھا ہے وہ کہتا ہے میرا نام بھی احراریوں نے مرتدین میں شائع کردیا ہے حالانکہ مَیں خدا کے فضل سے مخلص احمدی ہوں۔ یہ جھوٹ گویا اس قسم کے جھوٹوں میں سے ہے جس میں قدرے سچائی بھی ہوتی ہے یعنی کچھ واقعہ میں مرتد ہوگئے ہوتے ہیں لیکن اکثر نام ایسے ہی لوگوں کے ہوتے ہیں جو یا تو ہماری جماعت کے سخت مخالف ہوتے ہیں یا جماعت سے ایک عرصہ سے خارج ہوچکے ہوتے ہیں یا پھر مخلص احمدی ہوتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے جو بھی چندہ کی تحریک ہوتی ہے ا س کے متعلق ’’احسان‘‘ اور ’’مجاہد‘‘ میں چھاپ دیا جاتا ہے کہ یہ تحریک اس لئے کی گئی ہے کہ مرزا محمود کو فلاں ضرورت پیش آئی تھی اس کیلئے روپیہ درکار تھا اس لئے چندہ کی تحریک کردی گئی۔
پھر اس ضمن میں ان احرار کا ایک چہیتا مضمون ہے۔ یعنی وہ ان تمام رقوم کو ایک استانی کی خاطر قرار دیتے ہیں جو قادیان صرف ایک دن کیلئے آئی تھی او ریہ دیکھنے آئی تھی کہ وہ یہاں رہ کر کام کرسکتی ہے یا نہیں اور یہ دیکھ کر کہ اس کی لڑکیوں کی تعلیم کا یہاں انتظام نہ ہوسکے گا واپس چلی گئی تھی۔ اب جو بھی چندہ کی تحریک ہو وہ اُس کی خاطر سمجھی جاتی ہے اور اس طرح احرا رکے نزدیک اب تک لاکھوں روپیہ اس کیلئے جماعت سے لیا جاچکا ہے۔ ساٹھ ہزار قرض کی جو تحریک کی گئی تھی وہ بھی ان کے نزدیک اسی کیلئے کی گئی تھی۔ پھر اور بھی جو تحریکیں ہوتی ہیں وہ اسی کیلئے سمجھی جاتی ہیں۔ غرض صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے کوئی تحریک ہو وہ انہی اغراض کیلئے سمجھی جاتی ہے حالانکہ ان نادانوں کو معلوم نہیں کہ صدرانجمن احمدیہ کا ایک ایک پیسہ رجسٹروںمیں درج ہوتا ہے۔ انہوں نے غالباً صدر انجمن احمدیہ کی وصولی چندہ کو اپنے چندوں کی طرح سمجھا ہؤ اہے۔ ان کا طریق تو یہ ہے کہ مثلاً مولوی عطاء اللہ صاحب کھڑے ہوگئے اور اُنہوں نے لوگوں سے کہنا شروع کردیا کہ چندہ لائو ہم زردہ کھائیں گے، ہم پلائو کھائیں گے، ہم فرسٹ اور سیکنڈ کلاس میں سفر کریں گے مگر حساب نہیں دیں گے۔ لوگوں نے سمجھا بھلا یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم چندہ کا حساب مانگیں تو یہ نہ دیں یہ دل لگی کررہے ہیں۔ انہوں نے چندہ دے دیا مگر بعدمیں جب لوگوں نے حساب مانگا تو کہہ دیا ہم نے نہیں کہا تھا کہ ہم چندہ لیں گے مگر حساب نہیں دیں گے۔ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ ہم چندہ لے کر پلائو زردہ کھائیں گے اور فرسٹ اور سیکنڈ کلاس میں سفر کریں گے، موٹروں پر سوار ہوں گے مگر حساب نہیں دیں گے اب تم حساب کس طرح لے سکتے ہو۔ پس انہوں نے خیال کیا کہ شاید ہمارے چندے بھی ان کے چندوں کی طرح آتے اور ذاتی ضروریات میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے چندے تو ایسی احتیاط سے رجسٹروں میں درج کئے جاتے ہیں کہ بعض دفعہ چند پیسوں کیلئے دو دو تین مہینہ تک رجسٹروں کی پڑتال کی جاتی اور حساب کی چھان بین ہوتی رہتی ہے۔ لکھنے والا لکھتا ہے کہ میں نے فلاں دن اتنا چندہ بھیجا مجھے مقامی رسید مل گئی ہے مگر مرکزی حساب میں درج نہیں ہؤا۔ یا ڈاک خانہ کی طرف سے تو روپوں کے پہنچنے کی رسید مل گئی مگر دفتر کی طرف سے نہیں ملی اِس پر دفاتر کی معرفت تحقیق کرائی جاتی ہے اور جب چندہ بھیجنے والے کی تسلی نہ ہو تو وہ مجھے لکھتے ہیں اور میں تحقیقات کرتاہوں اور اُس وقت تک نہیں چھوڑتا جب تک حساب صاف نہ ہوجائے اور جو اُلجھن پیدا ہوئی ہو وہ دُور نہ ہوجائے ۔ تو چونکہ وہ ہمارے حالات کو نہیں جانتے اس لئے اپنے اوپر قیاس کرلیتے ہیں۔
ان کی مثال بالکل اس زمیندار کی سی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کے قریب چند نوجوان بیٹھے آپس میں باتیں کررہے تھے کہ ملکہ وکٹوریہ کیا کھاتی ہوگی؟ وہ چونکہ شہروں میں بھی پھر چکے تھے اس لئے ان میں سے کوئی کہتا پلائو کھاتی ہوگی، کوئی کہتا زردہ کھاتی ہوگی، کوئی کہتا متنجن کھاتی ہوگی، اسی طرح ہر ایک نے جس چیز کو وہ زیادہ پسند کرتا تھا اس کا نام لے کر کہنا شروع کردیا کہ ملکہ وکٹوریہ یہ کھاتی ہوگی۔ یہ باتیں سن سن کر وہ زمیندار تنگ آگیا کہنے لگا ۔ہوں!ہوں! تم سب بیوقوف ہو بھلا یہ بھی کوئی کھانے کی چیزیں ہیں۔اصل بات مَیں تمہیں بتا تاہوں۔ ملکہ نے دو کوٹھڑیاں گڑ سے بھر رکھی ہوں گی وہ ٹہلتی ٹہلتی اُدھر جاتی ہوگی تو گڑ کی بھیلی منہ میں ڈال لیتی ہوگی پھر دوسری طرف جاتی ہوگی تو دوسری کوٹھڑی سے گڑ کی بھیلی نکال کر منہ میں ڈال لیتی ہوگی۔ وہ چونکہ گڑ کھانے کا عادی تھا اس لئے اس نے سمجھ لیا کہ ملکہ بھی گڑ ہی کھاتی ہوگی۔ اِسی طرح چونکہ احرار کو خود لوگوں سے چندے وصول کرکے کھانے کی عادت ہے اس لئے وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی یہی کچھ ہوتا ہوگا۔
چنانچہ پندرہ بیس سال کی بات ہے کہ ایک دفعہ ایک اخبار میں چھپا تھا کہ قادیان میں جب لوگوں کے منی آرڈر پہنچتے ہیں تو سب لوگ مسجد میں جمع ہوجاتے ہیں اور شور مچانا شروع کردیتے ہیں کہ لانا ہمارا حصہ کہاں ہے؟ ہر ایک کا روپیہ میں کچھ حصہ مقرر ہوتا ہے۔ مثلاً میرا دوآنے فی روپیہ حصہ ہؤا، مولوی شیر علی صاحب کا روپیہ میں سے دو پیسے، مفتی محمد صادق صاحب کا دو پیسے، مولوی غلام رسول راجیکی صاحب کے دو پیسے، مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے دو پیسے ہوئے۔ جس وقت منی آرڈر پہنچتے ہیں سب دَوڑ پڑتے ہیں اورمسجد میں اکٹھے ہوکر روپیہ کوآپس میں بانٹ کر اپنے اپنے گھر لے جاتے ہیں۔
اب ہم تو اپنے دل میں اِن خبروں کو پڑھ کر یا تو ہنس دیتے ہیں یا ہمیں درد پیداہوتا ہے کہ انسان جب شرافت سے عاری ہوجاتا ہے تو کس طرح کُتّے اور سؤر جتنی بھی نیکی اس میں باقی نہیں رہتی۔ کُتّے اور سؤر میں پھر بھی کچھ حیا ہوتی ہے مگر ایسے صریح جھوٹ بولنے والوں میں تو اتنی بھی حیا نہیں رہی جتنے کُتّے اور سؤر میں پائی جاتی ہے۔پھر کبھی حیرت آجاتی ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کا انسانیت پر کوئی ایسا غضب نازل ہونے والا ہے کہ یہ کمبخت صفحۂ ہستی سے بالکل مٹادیا جائے گا اور اس کا سچائی سے کوئی واسطہ نہ رہے گا۔
پھر تھوڑے ہی دن ہوئے احرار کے ایک اخبار میں ایک اور خبر شائع ہوئی اور لطیفہ یہ ہے کہ ایک ہی اخبار میں ایک ہی صفحہ پر دو متضاد خبریں درج کردی گئیں۔ ان دونوں میں ذکر تھا کہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب قادیان میں آئے اور میری اُن سے گفتگو ہوئی۔ایک خبر میں تو اس گفتگو کو خواب کے رنگ میں بیان کیا گیا تھا اور ایک میں نامہ نگار کی طرف سے وہ گفتگو بیان کی گئی تھی۔ مگر ایک میں تو لکھا تھا کہ میں نے چوہدری ظفراللہ خان صاحب کو خوب ڈانٹا اور دوسری میں یہ لکھا تھا کہ چوہدری صاحب نے مجھے خوب ڈانٹا۔ ایک میں تو مَیں انہیں ڈانٹتا ہوں کہ آپ کچھ بھی نہیں کرتے وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کا ممبر آپ کو کیوں بنایا گیا تھا جب آپ ہماری مشکلات کو دور کرنے کیلئے کوئی علاج نہیں کرتے۔ اور دوسری میں وہ مجھے ڈانٹتے ہیں کہ میں تدبیریں کرکے تھک جاتاہوں مگر تم اپنی بیوقوفی سے کام خراب کردیتے ہو۔ میں سمجھتا ہوں یہ خبریں جس نے لکھیں وہ کوئی معمولی نامہ نگار نہ تھا کیونکہ میری ملاقات کے وقت ملنے والے احمدی کے سِوا اور میرے سِوا دوسرا کوئی شخص وہاں موجود نہیں ہوتا۔ صرف جب غیرشخص ملنے والا ہو تو دفتر کا کوئی آدمی یا کوئی اور دوست وہاں موجود ہوتے ہیں کسی احمدی کی ملاقات کے وقت ایسانہیں کیا جاتا۔ پس جبکہ وہ بالکل الگ کمرہ تھا جس میں گفتگو ہوئی اور اُس وقت اور کوئی تیسرا آدمی پاس موجود نہ تھا تو میں سمجھتا ہوںکہ یہ نامہ نگار آدمی نہیں تھا بلکہ یہ تو چھپکلی تھایا مکھی یا چیونٹی تھا یا کوئی سنپولیا تھا جو کسی بدر رو ؎۲ میں چھپا بیٹھا تھا بہر حال وہ انسان نہیں ہوسکتا۔ یا پھر یہ تسلیم کرنا پڑتا کہ احرار کو کوئی ایسا طلسم آگیا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ مکھی بن کر میری پگڑی پر یا چوہدری صاحب کے کوٹ پر بیٹھ جاتے ہیں لیکن خبر بھی نہیں ہوتی کہ کمرہ میں کوئی اور آدمی ہے اور ہم راز کی باتیں کررہے ہوتے ہیں مگر ’’مجاہد‘‘ اور ’’احسان‘‘ کا نامہ نگار مکھی بنا خو دہمارے کپڑوں پر بیٹھا ہؤاہوتا ہے اور ہنس ہنس کر کہتا جاتا ہے کہ آج ان کا راز خوب معلوم ہؤااور پھر بعد میں شائع کردیتا ہے۔
غرض کوئی احمق یہ نہیں سوچتا کہ وہ نامہ نگار کہ جس نے وہ خبر لکھی اس وقت بیٹھا کہاں تھا اور اس نے وہ گفتگو سنی کس طرح سے جو میرے اور چوہدری صاحب کے درمیان ہوئی۔ خواہ اس کا کوئی موضوع ہو وہ ’’احسان‘‘ یا ’’مجاہد‘‘ کے نامہ نگار کو معلوم کس طرح ہوگئی جبکہ گفتگو جس وقت ہوئی اُس وقت کمرہ میں اَور کوئی آدمی نہ تھا۔ اور یہ طریق صرف چوہدری صاحب سے مخصوص نہیں جماعت کے وہ ہزاروں دوست جو سال بھر میں مجھ سے ملتے ہیں جانتے ہیں کہ وہ اکیلے ملتے ہیں سوائے اِس کے کہ وہ خود کسی دوسرے دوست کو ساتھ لے آئیں۔ یا سوائے مشتبہہ لوگوں کے کہ ان کی گفتگو کے وقت کسی گواہ کا موجود رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح چوہدری صاحب مجھ سے جب ملتے ہیں علیحدگی میں ملتے ہیں اُس وقت اور کوئی پاس نہیں ہوتا۔ ہاں اگر مشترکہ امور پر گفتگو ہو تو اُس وقت جماعت کے اور دوست بھی ہوتے ہیں اور چوہدری صاحب بھی۔ پس ایسی پرائیویٹ گفتگو کی خبر ’’احسان‘‘ یا ’’مجاہد‘‘ کو کس طرح ہوسکتی ہے سوائے اِس کے کہ میں یہ سمجھوں کہ ’’احسان‘‘ اور ’’مجاہد‘‘ کا نامہ نگار اس وقت سنپولیا بنا ہوا کسی بدررو میں بیٹھا تھا یا مکھی بن کر کرسی پر بیٹھا تھا یا چھپکلی بن کر روشندان میں موجود تھا اور اس نے ہماری باتیں سن کر ’’احسان‘‘ اور ’’مجاہد‘‘ میں شائع کرادیں۔ پس اگر کوئی ایسا طلسم ان کے ہاتھ میں آگیا ہے تو یہ اور بات ہے۔ ورنہ سوائے اس کے کیا سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ شیطان کے چیلے ہیں جو ساری دنیا کو اُلّو بنارہے ہیں۔ اِن جھوٹوں کا صرف ایک علاج ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ اُجرت ہم دینے کیلئے تیار ہیں ’’مجاہد‘‘ اور ’’احسان‘‘ والے جب اس قسم کی کوئی خبر شائع کریں تو اس کے آخر میں یہ لکھ دیا کریں۔
لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ
اس طرح جتنی رپورٹیں وہ ہمارے متعلق شائع کریں ان کے بعد لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کے الفاظ بھی لکھ دیا کریں اور ان الفاظ کی قیمت مناسب اشتہاری ریٹ پر وہ ہم سے لے لیا کریں۔ میری طرف سے انہیں کھلی اجازت ہے کہ وہ ان رپورٹوں اور اطلاعات کو درج کرنے کے بعد ہر رپورٹ کے نیچے لکھ دیا کریں کہ جماعت احمدیہ کاجواب اس رپورٹ کے متعلق یہ ہے لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَکہ اور صرف اتنے حصے کی اُجرت کا بل بنا کر مجھے بھیج دیا کریں میں انہیں روپیہ ادا کردوں گا۔ اِس صورت میں ہمارے نزدیک یہی جواب کافی ہوجائے گا اور پھر انہیں یہ بھی فائدہ ہوگا کہ انہیں پیسے مل جائیں گے۔ غرض اس طرح انہیں خبر کی خبر مل جائے گی، اخبار بھی دلچسپ رہے گا اور ہم سے پیسے بھی وصول کرسکیں گے جس کے ذریعہ ممکن ہے وہ اپنے نامہ نگاروں کا گھر بھر سکیں۔
مخالفین کے اِن جھوٹوں کے ساتھ کچھ منافق بھی کھڑے ہوگئے ہیں اور یہ بھی ایک جماعت پید اہوگئی ہے جن میں سے تو کچھ قادیان میں رہ کر اور کچھ اخباروں والوں سے مل کر فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ابھی تین چار دن ہوئے ایک دوست نے ایک خط بھیجا ہے جس میں لکھا ہے کہ بعض بڑے بڑے بزرگ کہتے ہیں (نہ معلوم وہ کون سے بزرگ ہیں) کہ خلیفہ صاحب کی بیویاں سفر میں ہمیشہ فرسٹ کلاس ہوٹلوں میں ٹھہرا کرتی ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سوائے ایک دفعہ کے وہ فرسٹ کلاس چھوڑ کبھی تھرڈ کلاس ہوٹلوں میں بھی نہیں ٹھہریں۔ وہ استثناء ۱۹۱۸ء کے شروع کا ہے اُس وقت میں سخت بیمار ہؤاتھا او رڈاکٹروںنے سمندر پر جانے کا مشورہ دیا تھا اُس وقت بمبئی جاتے ہوئے میرے ساتھ ناصر احمد کی والدہ اور امۃ الحئی مرحومہ تھیں اُس وقت دہلی میں کسی احمدی کا مکان ہمارے قافلہ کو رکھنے کے قابل نہ تھا اس لئے کارونیشن ہوٹل میں جو ایک معمولی ہندوستانی ہوٹل ہے ہماری رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔اس کے سِوا کبھی میری کوئی بیوی میری یاد اورمیرے علم میں کسی فرسٹ یا سیکنڈ یا تھرڈ کلاس ہوٹل میں نہیں ٹھہری۔بیویاں تو الگ رہیںمیں خود بھی ایک دفعہ کے سِوا کسی فرسٹ کلاس ہوٹل میں نہیں ٹہرامگر وہ بھی تبلیغی ضرورتوں کے لئے قیام تھا۔یہ واقعہ سفرِ لنڈن کا ہے جس کے دوران میں بڑے آدمیوں کی ملاقات کے خیال سے میں پیرس میں بعض ساتھیوں سمیت ایسے ہوٹل میں ٹھہرا تھا جسے فرسٹ کلاس ہوٹل کہا جاسکتا ہے مگر وہاں بھی جن کمروں میں ہم ٹھہرے تھے فرسٹ کلاس کمرے نہ تھے بلکہ تھرڈ کلاس کمرے تھے۔ اس کے علاوہ باقی جس قسم کے ہوٹلوں میں ہم ٹھہرے اور جس قسم کا ہم نے کھاناکھایا ان میں سے ایک ہوٹل کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اُس کا کھانا کھاکر مجھے آٹھ دن دست لگے رہے تھے۔ پس ساری عمر میں مجھے اس فرسٹ کلاس ہوٹل میں ٹھہرنا یاد ہے اور وہ بھی تبلیغی ضرورتوں کیلئے تھا باقی کبھی فرسٹ کلاس ہوٹل میں مَیں نہیں ٹھہرا اور نہ کبھی میری بیویاں۔ سوائے ۱۹۱۸ء کے فرسٹ چھوڑ تھرڈ کلاس ہوٹل میں ٹھہریں۔ بہر حال کسی ہوٹل کو فرسٹ اور سیکنڈ کلاس ہوٹل سمجھنا بھی اپنی اپنی نگاہ پر منحصر ہوتا ہے اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ اس دوست نے جھوٹ بولا ہے ممکن ہے انہوں نے دہلی والاواقعہ کسی سے سن کر ہی یہ بات کہہ دی ہو۔ یا پھر ممکن ہے معمولی ہوٹل کو بھی وہ اپنی نگاہ میں فرسٹ اور سیکنڈ کلاس ہوٹل سمجھتے ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ کوئی چوڑھا لاہور کے پاس سے گزررہا تھا اس نے دیکھا ہزاروں آدمی رورہے ہیں۔ وہ حیران ہوکر پوچھنے لگا کیابات ہے؟ لوگوںنے بتایا رنجیت سنگھ مرگیا ہے۔ وہ کہنے لگا میں نے سمجھا خبر نہیں کیا بات ہوگئی ہے جب باپو جیہے (یعنی والد جیسے) مرگئے تو رنجیت سنگھ بیچارہ کون سے حساب میں تھا۔ گویا اُس چوڑھے نے اپنے باپ کو فرسٹ کلاس آدمی سمجھا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کو تھرڈ کلاس ۔پس یہ اپنی اپنی سمجھ کی بات ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کہنے والے نے یہ بات جھوٹ کہی یا فریب کیا ممکن ہے انہوں نے میرے دہلی میں ٹھہرنے کا واقعہ سنا ہو اور اسی کو انہوں نے فرسٹ کلاس ہوٹل میں ٹھہرنا قرار دے لیا ہو مگر جس نیت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے وہ بے شک منافقت والی ہے۔
پھر مشہور کیاجاتا ہے کہ قادیان میں بہت سے منافق رہتے ہیں اور بڑی بڑی میٹنگیں کرتے رہتے ہیں چنانچہ ان میٹنگوں کی خبریں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں اور وہ ایسی دلچسپ ہوتی ہیں کہ ان کو پڑھ کر الف لیلہ کاسا لُطف آتا ہے۔ تقریریں یہ ہوتی ہیں کہ اپنی جانیں قربان کردو اور بہادری و جرأت کا نمونہ دکھائو مگر بتایا یہ جاتا ہے کہ وہ چھپ کر سڑکوں سے دور بیٹھے باتیں کررہے تھے تا جماعت احمدیہ کاکوئی جاسوس ان کی نقل و حرکت کو معلوم نہ کرے اور ان کی باتوں کاپتہ نہ لگائے۔ ادھر تو اتنی بہادری کے دعوے کئے جاتے ہیں کہ کہا جاتا ہے اپنی جانیں قربان کردو اور دوسری طرف اتنا اِخفاء کیا جاتا ہے کہ کوشش کی جاتی ہے ہمارا کوئی آدمی ان کی باتیں نہ سن لے۔
منافقوں کی یہ بہادری ایسی ہی بہادری ہے جیسے چوہوں کے متعلق قصہ مشہور ہے کہ انہوں نے ایک روز مل کرمشورہ کیا کہ بلّی ہمیں روز مارجاتی ہے اس کا کوئی علاج کرنا چاہئے۔ چنانچہ انہوںنے بیٹھ کر طے کیا کہ بلّی کا مقابلہ کرنا چاہئے اس پر فیصلہ ہؤا کہ چوہوں کو اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کرنا چاہئے۔ چنانچہ بڑی بڑی تقریریں ہوئیں اور مطالبہ کیا گیا کہ کون ہے جو اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کرتا ہے اس پر بڑے بڑے چوہے اُٹھے ۔ پچاس ساٹھ نے کہا کہ اب کی دفعہ بلی آئی تو ہم اُس کی دُم پکڑ لیں گے، پچاس ساٹھ چوہوں نے کہا کہ ہم اُس کا دایاں کان پکڑ لیں گے، پچاس ساٹھ نے کہا کہ ہم اُس کابایاں کان پکڑلیں گے سَودو سَو نے کہا کہ ہم اس کی گردن پکڑلیں گے، سَو دوسَو نے کہا کہ ہم اس کی ٹانگوں سے چمٹ جائیں گے، غرض اسی طرح سینکڑوں چوہوں نے اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کردیا اور کہا کہ ہم بلّی کو پکڑ لیں گے او راسے جانے نہ دیں گے۔ جب چوہے یہ تقریریں کررہے اور قربانی کیلئے اپنے آ پ کوپیش کررہے تھے تو گوشہ سے میائوں کی آواز آئی یہ سنتے ہی سب چوہے بھاگ گئے۔ کسی نے کہا بھاگے کہاں جارہے ہو؟ تم نے تو کہا تھا ہم بلّی کا کان پکڑلیں گے، اُس کی گردن پکڑ لیں گے، اُس کی دُم سے چمٹ جائیں گے اور اُسے مارڈالیں گے اب بھاگتے کیوں ہو؟ وہ کہنے لگے سب کچھ طے ہوگیا تھا مگر میائوں پکڑنے کا تو کسی نے وعدہ نہیں کیا تھا۔ یہی حال منافقین کا ہے وہ بھی جانیں قربان کرنے کا اعلان کرتے ہیں مگر میائوں سے بھاگ جاتے ہیں اور اتنی جرأت نہیں کرتے کہ ہمارے کسی آدمی کے کان کو اپنے قریب آنے دیں۔ ہاں زبان سے یہ دعوے بھی کئے چلے جاتے ہیں کہ ہم جانیں قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔
میں ا س سے انکار نہیں کرتا کہ قادیان میں منافق ہیں او ریقینا وہ منافقانہ چالیں چلتے ہیں لیکن یہ جو کہا جاتا ہے کہ وہ میٹنگ کرتے ہیں اور قادیان کے اکثر افراد منافق ہیں یہ محض جھوٹ اور افتراء ہوتا ہے۔ نہ کوئی میٹنگ ہوتی ہے نہ اور ایسی بات ہوتی ہے لیکن ان کی غرض اس قسم کی خبروں سے یہ ہوتی ہے کہ اس قسم کی میٹنگوں کی خبریں پڑھ کر لوگ گھبراجائیں گے اور کہیں گے اَللّٰہُ اَکْبَرُ نہ معلوم اب کیا ہونے والا ہے۔ پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یونہی نام لے دیتے ہیں۔ مثلاً گزشتہ دنوں میں ایک شخص نے کہا کہ اب میں مرزائیوں کو بتادوں گا کہ میرے اخبار میں چوہدری فتح محمد صاحب اور خان صاحب فرزند علی خود مضامین بھجوایا کرتے تھے اور میں تو ان کے چربے نکال کر اخبار میں دے دوں گا مگر کیا کچھ بھی نہ۔
اسی طرح جب شروع شروع میں شکایات کا یہ سلسلہ شروع ہؤا تو ہر ایک کے متعلق میرے پاس کوئی نہ کوئی خبر پہنچتی تھی اور کوئی ایسا نہ تھا جس کی منافقت کی اطلاع انہوں نے میرے پاس نہ بھجوائی ہو۔ میرے بھائیوں کے متعلق کہا گیا کہ وہ منافق ہیں، میرے بیٹوں کے متعلق کہا گیا کہ وہ منافق ہیں، میری بیویوں کے متعلق کہاگیا کہ وہ منافق ہیں، سلسلہ کے تمام ناظروں، سلسلہ کے قریباً تمام افسروں اور ان تمام کارکنوں کے متعلق جن کی کچھ بھی سلسلہ کی خدمات تھیں مجھے لکھا گیا کہ وہ منافق ہیں اور اس رنگ میں اطلاع دی جاتی کہ گویا ایک قیمتی راز ہے جو میرے پاس پہنچایا جارہا ہے۔ کئی لوگ جنہیں اِن باتوں میں سے انفرادی طور پر کسی کے متعلق کوئی اطلاع پہنچتی تو وہ دوڑتے ہوئے میرے پاس آتے اور کہتے کہ فلاں کے متعلق اطلاع ملی ہے کہ وہ منافق ہے۔ میں کہتا جانے دو تمہارے متعلق بھی منافقت کی اطلاع میرے پاس پہنچی ہوئی ہے۔ اس سے منافقوں کی غرض یہ ہؤاکرتی تھی کہ شاید میں ان کی چالوں میں آجائوں گا اور سب کو منافق تسلیم کرلوں گا حالانکہ یہ ہتھکنڈے تو شیطان کے حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے شروع ہیں اور جس نے قرآن مجید پڑھا ہؤاہو وہ آدم کے وقت کی بات سے آج دھوکا نہیں کھاسکتا۔ میں گو آدم کے وقت میںنہیں تھا مگر قرآن کریم کے ذریعہ مَیں آدم کے وقت میں بھی تھا ۔ میں پیدا بعدمیں ہؤامگر قرآن کریم کے ذریعہ مَیں نوحؑ کے ساتھ بھی تھا، میں ابراہیمؑ کے ساتھ بھی تھا، میں موسیٰؑ کے ساتھ بھی تھا، میں دائودؑ کے ساتھ بھی تھا، میں سلیمانؑ کے ساتھ بھی تھا، میں عیسیٰؑ کے ساتھ بھی تھا اور میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ بھی تھا۔ میںنے سب مخالفوں کو دیکھا ہے اور میں کہتاہوں کہ یہ اپنی اِن چالوں کی و جہ سے جو انہوں نے پہلے انبیاء کے وقت اختیار کیں مجھے دھوکا نہیں دے سکتے۔ ہاں میں منافقوں کو جانتاہوں اور بیسیوں منافقوں کو جانتا ہوں۔ ان کو جانتا ہوں اس الٰہی علم کے ذریعہ سے جو مجھے عطا کیا گیا، ان کوجانتاہوںان کشوف اور رئویا کے ذریعہ سے جومجھے دکھائے گئے ۔ پھر کئی ہیں جن کو علمِ ادراک کے ذریعہ جانتا ہوں۔ ایک شخص میرے ساتھ بات کرتا ہے اور میری روح اس کی روح سے ٹکرا کر معلوم کرلیتی ہے کہ یہ منافق کی روح ہے۔ پھر کئی ہیں جن کو ایسی شہادتوں سے جانتا ہوں جو معقول ہوتی ہیں اور قرآنی اصول کے مطابق صحیح ہوتی ہیں۔ اس کے سِوا جتنی باتیں بیان کی جاتی ہیں میں جانتا ہوں کہ وہ غلط ہیں۔ پس میں ان باتوں سے کیوں ڈروں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان اپنے اولیاء کو ڈرایا کرتا ہے ؎۳ ۔ پس جبکہ شیطان اپنے اولیاء کو ڈراتاہے تو میں شیطان اور اس کے چیلوں سے کیوں ڈروں۔ پس بے شک قادیان میں منافق ہیں اور باہر بھی منافق ہیں جویہاں سے بھاگ کر گئے ہیں اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ بعض بڑے بڑے مخلص بن کر دوسروں کو بہکاتے ہیں اور پھر جب گرفت کی جائے تو دلائل بھی دیتے ہیں جیسا عبداللہ بن ابی بن سلول اوردوسرے منافقین کاحال تھا۔ مگر قرآن مجید نے منافقین کی پہچان کیلئے بعض معیار بھی بتادیئے ہیں اور وہ اتنے کھلے معیار ہیں کہ ہر شخص ان کے ذریعہ منافق کا علم حاصل کرسکتاہے۔ مگر لوگ عموماً اپنے جذبات کے تابع رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ منافقین کو نہیں دیکھ سکتے ورنہ اگر وہ اپنے آپ کو قرآن مجید کے تابع کرلیں تو انہیں ایسا نور مل جائے جس کی مدد سے وہ مؤمنوں اور منافقوں میں تمیز کرسکیں لیکن چونکہ وہ جذبات کے تابع رہتے ہیں قرآن مجیدکے تابع اپنے آپ کو نہیں کرتے اس لئے وہ اُس نور سے محروم رہتے ہیں جس سے منافقوں کو پہچانا جاسکتا ہے۔ پس میرے لئے منافقوں کو پہچاننا ایسا ہی آسان ہے جیسے زرد اور سرخ رنگ کامعلوم کرنا اس لئے کہ قرآن مجید نے وہ اصول اور گُربتادیئے ہیں جن سے منافقین کو پہچانا جاسکتا ہے۔
قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ شخص جو مؤمنوں کی مصیبت پر خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے دیکھا! میںنے نہیں کہا تھا اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا وہ منافق ہے۔ قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ شخص منافق ہے جو قسمیں بہت کھاتا ہے، قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ لوگ جو مخلصین پر اعتراض کرتے اور مخالفین کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں وہ منافق ہیں، قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ وہ شخص جو قربانی کے وقت پیچھے ہٹ جاتا اور لوگوں کو بھی ہٹانے کی کوشش کرتا ہے اور عذر تراشنے اور بہانے بنانے لگ جاتا ہے وہ منافق ہے، قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جو شخص اپنی پرائیویٹ مجالس میں نظام پراعتراض کرے اورکہے کہ قربانیوں سے جماعت تباہ ہوتی جارہی ہے وہ منافق ہے، غرض کئی علامتیں ہیں جو قرآن کریم نے ہمیں بتائیں ۔ اگر کبھی منافقوں کے متعلق میںنے کوئی مضمون بیان کیا تو اس میں بہت سی علامتوں کا ذکر کروں گا مگر یہ موٹی موٹی باتیں ہیں اور ان سے اسی طرح منافقوں کو پہچانا جاسکتا ہے جس طرح روزِ روشن میں انسان ہر چیز کو دیکھ سکتا ہے۔ مگر وہ لوگ جوجذبات کے تابع ہوں جن کے دوست میں اگر کوئی عیب ہو تو وہ انہیں نظر نہ آئے لیکن اگر ان کا کوئی دشمن ہو تو فوراً وہ عیب انہیں اس میں نظر آنے لگے ۔ ان کی نگاہوں سے منافق پوشیدہ رہتے ہیں صرف وہی منافقین کو پہچان سکتے ہیں جو ہرقِسم کے بُغض ، کینہ ، حسد اور تمام اندرونی آلائشوں سے صاف ہوں۔ تب انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور ملتا ہے اور وہ نگاہ عطا کی جاتی ہے جس سے وہ منافقوں کو پہچان لیتے ہیں۔
ان ہی منافقوں میں سے ایک نے یہ خبر میرے متعلق شائع کی ہے وہ مجھے چیلنج دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میاں صاحب ذرا ثابت تو کریں کہ جب سے وہ خلیفہ ہوئے ہیں انہوںنے جمعہ کے سِوا کوئی نمازمسجد میں پڑھی ہو۔ اس امر کو اس شخص نے اس رنگ میں پیش کیا ہے کہ ناواقف سمجھے کہ اتنا جھوٹ تو کوئی بول نہیں سکتا ضرور یہ بات سچ ہوگی لیکن ہر قادیان کا رہنے والا اور اکثر لوگ جوباہر سے آتے رہتے ہیں جانتے ہیں کہ اس شخص نے اوّل درجہ کا افتراء کیا ہے ۔ ایسا افتراء کہ خود اس کا باپ اس کے برخلاف اس امر پر مباہلہ کرنے کو تیار ہوگا۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کے نزدیک مجھے اس قدرجادو آتا ہے کہ جب آپ لوگ صبح کی نماز میں آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میںنماز پڑھانے کیلئے مسجدمیں آیا ہوں تو دراصل وہ میں نہیں ہوتا صرف آپ لوگوں کوغلط فہمی ہوجاتی ہے، اِسی طرح ظہر کے وقت جب آپ لوگ آتے ہیں اورمجھے نماز پڑھاتے ہوئے دیکھتے ہیں تب بھی میرا جادو قائم ہوتا ہے اور آ پ یہ سمجھتے ہیں کہ میں آپ کونماز پڑھارہاہوں حالانکہ حقیقت میں مَیں اُس وقت گھر بیٹھا ہؤا ہوتا ہوں، پھر عصر کی نماز میں جب آپ لوگ آتے ہیں اورمجھے نماز پڑھاتے دیکھتے ہیں تو یہ بھی ایک جادو ہوتاہے، یہی حال مغرب اور عشاء کا ہوتاہے آپ لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ میں آپ کونماز پڑھارہاہوں حالانکہ اس منافق کے قول کے مطابق میں اُس وقت گھر بیٹھا ہوتا ہوں۔ یہ جادو غالباً احرار کی طرف سے ہی ہوتا ہوگا ہمیں تو اِس قِسم کا جادو نہیں آتا۔ ہاں ان کے سیکرٹری مسٹر مظہر علی اظہر ہیں اور ان کے ہاں ایسا جادو پایا جاتا ہے۔ مظہر علی صاحب اظہر شیعہ ہیں اور شیعوں کی نہایت ہی معتبر کتاب کافی میں لکھا ہے کہ ان کے امام صاحب نے ایک دفعہ کہا سوائے شیعوں کے جتنے لوگ ہیں سب حرامزادے ہیں۔ کسی نے کہا وہ حرامزادے کس طرح ہوگئے؟ روز لوگوں کے نکاح ہوتے ہیں اور ان نکاحوں کے بعد بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے امام صاحب کہنے لگے تمہیں پتہ نہیں یہ سب دھوکے کی بات ہے اصل بات یہ ہے کہ جس وقت کوئی سُنّی یا مجوسی یا عیسائی اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے تو شیطان اس کی گردن پکڑ کر اسے الگ کر دیتا ہے اور خود اُس کا ہم شکل بن کر اس کی بیوی سے ہم صحبت ہوجاتا ہے بیوی سمجھتی ہے کہ میرا خاوند مجھ سے ہم بستر ہے مگر ہوتا دراصل شیطان ہے اس طرح شیعوں کے سِوا جس قدر لوگوں کی اولاد ہوتی ہے سب ولدالزنا ہوتی ہے۔ پس اگر احرار کے ہاں کوئی ایسا تماشہ دکھا یاجاتا تو تعجب کی بات نہ تھی اور اسے سچ سمجھا جاسکتا تھا مگر ہمارے ہاں تو ایسی کوئی چیز نہیں۔
بعض منافقوں نے یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ خود مغربیت کے خلاف تعلیم دیتے ہیں مگر اپنی بیٹیوں کو انگریزی پڑھاتے ہیں اور اس کے لئے استانی رکھی ہوئی ہے۔ حالانکہ جہاں میں نے مغربیت کے خلاف تقریر کی تھی وہیں اس بات کا جواب بھی دے دیا گیا تھا پھر لڑکیوں کیلئے استانی رکھنے کا سوال تو دُور کا ہے اس سے زیادہ نمایاں ایک اور بات موجود ہے اور وہ یہ کہ میرا بیٹا انگلستان میں انگریزی کی تعلیم حاصل کررہا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ نمایاں مثال یہ ہے کہ میں نے خود انگریزی پڑھنے کی کوشش کی ہے اور انگریزی زبان کا لٹریچر منگوا کرپڑھتا رہتا ہوں لیکن اس کی وجہ جیسا کہ میں پہلے بھی بتاچکا ہوں یہ ہے کہ مغربیت کسی مٹی کے ڈھیر کا نام نہیں جسے پیر مار کر ہم نے مٹانا ہے بلکہ مغربیت اُن آدمیوں کی طرزِ معاشرت اور طرزِ تمدن کانام ہے جو انگریزی بولتے اور فرانسیسی وغیرہ زبانیں بھی استعمال میں لاتے ہیں۔ا س مغربیت کو کس طرح مٹایا جاسکتا ہے جب تک ہم خود انہی کی زبانوں میں مہارت پید اکرکے انہیں اس کے نقائص نہ بتائیں اور انہیں اسلام کی تعلیم نہ پہنچائیں۔ پس جب میں نے کہا تھا کہ مغربیت کو کچل دو تو سوچنا چاہئے کہ میرا اس سے کیا مطلب تھا۔ اگر تو میرا یہ مطلب تھاکہ مغربیت کے دِلدادوں کو زہر دے کر ماردو تو پھر تو سوال ہوسکتا تھا کہ جب انہیں مارنا ہے تو پھر ان کی زبانیں سیکھنے کا کیا مطلب۔ اور اگر میرا مطلب یہ تھا کہ اہلِ مغرب کو مسلمان بنا کر مغربیت کو کچلو تو پھر یہ فرض کس طرح ادا ہوسکتاہے جب تک ہمارے مرد اور ہماری عورتیں انگریزی زبان نہ سیکھیں اور ان تک اپنے خیالات پہنچانے کے قابل نہ بن جائیں۔ میں نے تو کئی دفعہ اس بات پر زور دیا ہے کہ عورتوں کی تعلیم میں یہ نقص ہے بلکہ لڑکوں کی تعلیم میں بھی یہ نقص تھا جس کا انگریزی کے متعلق تو ازالہ ہوگیا ہے مگر عربی کے متعلق ابھی وہ نقص موجود ہے کہ ہمارے ہاں صرف لفظ رٹائے جاتے ہیں اس زبان میں بولنانہیں سکھایا جاتا۔ بڑے بڑے مولوی بھی جب عربی میں بات کریں گے تو رہ جائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل بے شک ہماری جماعت میں وہ لوگ بھی ہیں جو عربی کے ماہر ہیں اور کچھ ہماری جماعت کا وہ حصہ ہے جوعربی ممالک میں رہنے کی وجہ سے عربی زبان میں اچھی طرح گفتگو کرسکتا ہے لیکن باقی مسلمانوں میں سے بڑے بڑے تعلیم یافتہ اشخاص بھی نَعَمْ اور لَا سے آگے نہیں چل سکتے اور نہ اپنے خیالات کا عربی میں اظہار کرسکتے ہیں۔ سرمارتے چلے جائیں گے اور کسی بات پر لَا اور کسی پر نَعَمْ کہہ دیں گے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکیں گے حالانکہ وہ عالم ہوتے ہیں اور واقعہ میں بڑے بڑے عالم ہوتے ہیں۔ اگر وہ کسی ادب کی کتاب پر حاشیہ لکھنے بیٹھیں تو ایسا زبردست حاشیہ لکھیں کہ عربوں اور مصریوں کو حیران کردیں گے لیکن چونکہ انہیں عربی میں باتیں کرنے کی مشق نہیں ہوتی اس لئے اگر کسی سے عربی میں گفتگو کرنے کاموقع آئے تو وہ پسینہ پسینہ ہوجاتے ہیں حالانکہ علم سیکھنے سے غرض یہی ہوتی ہے کہ اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ہماری لڑکیوں کی انگریزی کی تعلیم میں یہ نقص خاص طور پر موجود ہے لڑکوں کی تعلیم میں بھی ہے مگر لڑکیوں کی تعلیم میں یہ نقص بہت زیادہ ہے زبانیں سکھائی جاتی ہیں مگربولنا نہیں سکھایا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی ایف۔اے تک تعلیم پالیتی ہے، بی۔ اے ہوجاتی ہے لیکن جب اُس سے بات کرو تو اُس کی زبان پر Yes اور No کے الفاظ تک نہیں آسکتے۔ یہ نقص تعلیم میں اس لئے واقعہ ہے کہ لڑکیوں او رلڑکوں کو انگریزی اور عربی میں بولنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی مشق نہیں کرائی جاتی حالانکہ جن لوگوں کو بولنے کی مشق ہو وہ تھوڑی سی تعلیم حاصل کرکے بھی اپنے مَافی الضمیر کا بخوبی اظہار کرنے لگ جاتے ہیں۔غرض انگریزی تعلیم حاصل کرنا مغربیت کا اثر قبول کرنا نہیں بلکہ مغربیت کے کچلنے کا یہ ذریعہ ہے اور اس چیز کو ہم جس قدر جلد حاصل کرسکیں حاصل کرنا چاہئے ہاں یہ احتیاط ضروری ہے کہ ہماری لڑکیاں مغربی اثرقبول نہ کریں۔ مگر زبان دانی کیلئے اگر ہم کوئی ایسا انتظام کریں جس سے ہمارے لڑکے اور لڑکیاں عربی اور انگریزی میں بخوبی گفتگو کرسکیں تو یہ بجائے قابلِ اعتراض امر ہونے کے مستحسن امر ہوگا۔ میں تو اس فکر میں ہوں کہ کچھ اور انتظام کرکے چار پانچ ہوشیار لڑکے مصراور عرب میں بھجوائوں تا وہاں سے وہ زبان سیکھ کر آئیں اور پھر ایک بورڈنگ بنادیا جائے جس میں ان کی زیرنگرانی لڑکوں کوعربی میں ہی گفتگو کرنے کی اجازت ہو۔ تا جب وہ تعلیم سے فارغ ہوں تو عربی میں عمدگی سے تقریریں کرنے والے ہوں۔ بھلا عربی یا انگریزی میں جب تک کوئی انسان تقریر نہیں کرسکتا اور اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرسکتا اُس وقت تک اُس زبان کے سیکھنے کا فائدہ کیاہوسکتا ہے۔ خالی کتابیں پڑھ لیناتبلیغ میں مفیدنہیں۔ ہوسکتا ہے ہماری جماعت میں اس وقت صرف چند ہی لوگ ہیں جوعربی میں تقریریں کرسکتے ہیں اور وہ بھی اس لئے کہ وہ کچھ عرصہ تک غیر ممالک میں رہ چکے ہیں۔ مثلاً ولی اللہ شاہ صاحب ہوئے، یا شیخ عبدالرحمن صاحب مصری ہیں کہ وہ مصر میں رہ آئے ہیں، مولوی جلال الدین صاحب شمّس ہیں، مولوی اللہ دتہ صاحب ہیں، ان کے بعد اللہ اللہ خیر صلاً۔ کسی نے دو چار فقرے بول لئے یا ایک دو علماء نے ہمت کرکے خود عربی میں بولنے کی مشق پیدا کرلی تو یہ اور بات ہے ہر شخص ایسی ہمت نہیں کرسکتا۔ بعض ایسی ہمت والے ہوتے ہیں کہ خواہ مکمل سامان انہیں حاصل نہ ہوں پھر بھی وہ اپنی دھن میں لگے رہتے ہیں اور کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن نوّے فیصدی عموماً ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں کہ جب تک سامان ان کیلئے میسر نہ ہوں اُس وقت تک وہ کوئی کمال حاصل نہیں کرسکتے۔پس میں تو انگریزی اور عربی دونوں کے متعلق اس فکر میں ہوں کہ اس طرح سکھائی جائیں کہ انسان اپنے تمام خیالات کا ان میں اظہار کرسکے اور لڑکوں اورلڑکیوں دونوں کے متعلق میری یہ سکیم ہے جب خداتعالیٰ توفیق دے گا یہ بات پوری ہوجائے گی۔
غرض ایک طرف منافقین کی یہ چالیں ہیں اور دوسری طرف دشمن کی مخالفانہ چالیں ہیں لیکن میں سب کو بتادینا چاہتاہوں کہ اوّل تو جاننے والے جانتے ہیں کہ ان باتوں میں سے سوائے دو باتوں کے جن میں کچھ کچھ سچائی کی ملونی پائی جاتی ہے باقی سب باتیں ایسی ہی جھوٹی ہیں جیسے پنجابی میں کہتے ہیں ’’نرا لُون ہی گنہیا ‘‘ہے اس قسم کے جھوٹ روحانی جماعتوں کے متعلق بجائے بداثر پیدا کرنے کے ہمیشہ انہیں فائدہ پہنچایا کرتے ہیں کیونکہ لوگ خود سمجھ جاتے ہیں کہ یہ جھوٹ بولا جارہا ہے۔ لیکن میں تو ان چیزوں پر انحصار ہی نہیں رکھتا میں جانتا ہوں کہ جب میں جماعت کی اصلاح کیلئے کوئی قدم اُٹھائوں کمزور اور منافق لوگ چیخنے لگ جاتے ہیں۔ پس دنیوی نقطہ نگاہ سے میں سمجھتا ہوں میں اپنے راستہ میں کانٹے بورہا ہوں۔مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مؤمن بغیرکانٹوں پر چلے منزلِ مقصود پر نہیں پہنچا کرتا۔
ہماری جماعت لاکھوں کی ہے یا ہزاروں کی ، مؤمنوں کی ہے یا منافقوں کی، مخلصوں کی ہے یا کمزوروں اور متردّدوں کی، اسے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن جماعت کی خواہ کوئی تعداد ہو، جماعت کی خواہ کوئی حالت ہو میں یہ جانتا ہوں اور اُس وقت سے مجھے اس کا علم دیا گیا تھا جب مجھے ابھی یہ بھی پتہ نہ تھا کہ خلافت کیا چیز ہوتی ہے۔ جب مجھے اس بات کا بھی علم نہ تھا کہ خلافت کے مقام پر ایک زمانہ میں مجھے کھڑا کیاجائے گا، جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام زندہ تھے اور میری عمر پندرہ سولہ سال کی تھی، مجھے اُس وقت ہی بتادیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایک ایسے مقام پرکھڑا کرے گا جس کی لوگ سخت مخالفت کریں گے مگر قیامت تک میرے ماننے والے میرے منکروں پر غالب رہیں گے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا اور نہایت ہی زوردار الفاظ میں فرمایاکہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وہ لوگ جو تیری اتباع کریں گے وہ تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رہیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں مجھے یہ الہام ہؤا تھا او راُس وقت میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہے کیونکہ میں نہیںسمجھ سکتاتھا کہ لوگ میری مخالفت کریں گے اور میرے ساتھ تعلق رکھنے والے مخالفوں اور موافقوں کے گروہوں میںتقسیم ہوجائیں گے مگر آج میں سمجھتا ہوں دوسرے الہاموں اور کشوف اور رئویا کی وجہ سے اور ان حالات کی وجہ سے جو میرے پیش آرہے ہیں کہ یہ الہام میرے متعلق ہے۔ خداتعالیٰ نے مجھے ایسے مقام پر کھڑا کیا کہ دنیا اس کی مخالفت کیلئے آگئی۔ بیرونی مخالف بھی مخالفت کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور منافق بھی اپنے سروں کو اُٹھا کر یہ سمجھنے لگ گئے کہ اب ان کی کامیابی کا وقت آگیا لیکن میں ان سب کو حضرت نوحؑ کے الفاظ میں کہتا ہوں کہ جائو اور تم سب کے سب مل جائو اور سب مل کر اور اکٹھے ہوکرمجھ پر حملہ کرو اور تم مجھے کوئی ڈھیل نہ دو اور مجھے تباہ کرنے اور مٹانے کیلئے متحد ہوجائو پھر بھی یاد رکھو خدا تمہیں ذلیل اور رُسوا کرے گا، تمہیں شکست پر شکست دے گا اور وہ مجھے اپنے مقصدمیں کامیاب کرے گا۔
میں اپنی مشکلات کو سمجھتا ہوں، میں بلائوں اور آفات کو سمجھتاہوں، میں راستہ کے مصائب اور بھیانک نظاروں کو سمجھتا ہوں مگر میں جانتا ہوں کہ جس کام کو میں نے اپنے سامنے رکھا ہے اِس جیسا عظیم الشان کام اپنے سامنے رکھنے کے بعد انسان کیلئے دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو فتح کا جھنڈا اُڑاتا ہؤا گھر کو لَوٹے یا اِسی کوشش میں اپنی جان اپنے خدا کے سپرد کردے اِس کے سِوا اور کوئی چیزنہیں جسے وہ قبول کرسکے اور میں نے بھی سوچ کر اور سمجھ کر اور تمام حالات کو جانتے ہوئے اپنا قدم اُٹھایاہے۔ پس تم میں سے وہ منافق جو اپنے آپ کو بڑ انمازی سمجھتے اور مسجدوں میں آآکر گریہ و زاری کرتے ہیں، تم میں سے وہ منافق جو اپنے آپ کو بڑا عاقل او ردانا سمجھتے ہیں، تم میں سے وہ منافق جو اپنے آپ کو بڑا مدبر سمجھتے ہیں، تم میں سے وہ منافق جو اپنے آپ کو بڑا بہادر سمجھتے ہیں، تم میں سے وہ منافق جو اپنے آپ کوبڑا چالاک سمجھتے ہیں، وہ اپنی چالاکیوں اور اپنی تدبیروں اور اپنے اثروں اوراپنے علموں اور اپنے ظاہری تقویٰ اور لسّانی اور اپنی ہر اُس چیز کو لے کر جو انہیں حاصل ہے میر امقابلہ کریں پھر دیکھ لیں کہ نہ ان کی خفیہ تدبیریں انہیں کام دیں گی اور نہ ان کی ظاہری تدبیریں انہیں کوئی فائدہ پہنچاسکیں گی بلکہ ذلّت اور شکست انہیں نصیب ہوگی۔ اسی طرح میں بیرونی دشمنوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ بھی بے شک زور لگالیں اور سلسلہ احمدیہ کومٹانے کیلئے انتہائی جدوجہد صرف کرلیں وہ بھی دیکھیں گے کہ ناکامی و نامرادی ان کے حصہ میں آئے گی اور سلسلہ احمدیہ کو وہ ذرّہ بھر بھی نقصان نہیں پہنچاسکیں گے۔
میں نے اس وقت وہ بات پیش کردی ہے جس سے جھوٹ اور سچ کاپرکھنا بالکل آسان ہوجاتا ہے۔ میرا مستقبل میرے ہاتھ میں نہیں بلکہ میرے خدا کے ہاتھ میں ہے۔ میں اپنی کمزوریوں کو بھی سمجھتا ہوں، اپنی کوتاہیوں کو بھی جانتا ہوں مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جس کام کو لے کر میں کھڑا ہؤا ہوں اِس کے کرنے میں مَیںنے کبھی کوتاہی نہیں کی، میں نے اسلام سے کبھی غداری نہیں کی، میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی احساس میرے دل میں کام کرتا رہا ہے کہ احمدیت اور اسلام کی ترقی کیلئے اپنی ہر چیز قربان کردینی چاہئے، یہ کام میں نے ہمیشہ کیا، ہمیشہ کرتا ہوں اور اِنْشَائَ اللّٰہُ ہمیشہ کرتا چلا جائوں گا۔ میں جانتاہوں اس مقصد کی برکت کو اور میں جانتا ہوں کہ اِس وابستگی کی وجہ سے یہ ممکن ہی نہیں کہ میر اکوئی دشمن مجھ پرغالب آسکے۔ پس خواہ جھوٹ کے ذریعہ ہمارے بیرونی دشمن ہمیں نقصان پہنچانا چاہیں اور خواہ جھوٹ کے ذریعہ اندرونی منافق ہمیں نقصان پہنچانا چاہیں دونوں کو خداتعالیٰ ناکام رکھے گا اور کبھی ان کی آرزوئیں پوری نہیں کرے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا مخالف جھوٹ بولنے والا ہے پھر ہم کیونکر سمجھ لیں کہ وہ سچائی پر غالب آسکتا ہے۔ یہ بُزدل اورمنافق ہمیشہ خفیہ منصوبوں سے کام لیتے ہیں مگر جن کا حوصلہ اتنا پست ہو کہ وہ اس انسان کے سامنے بھی اپنا مَافی الضمیر بیان نہ کرسکیں جسے خداتعالیٰ نے نہ تلوار دی ہے نہ ظاہری حکومت، انہوں نے دنیا میں اور کیا کام کرناہے۔
رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جو منافقین تھے وہ تو باوجود تلوار کا زمانہ ہونے کے بعض دفعہ بول پڑتے تھے مگر آج کل کے منافق تو منافقوں کے بھی منافق ہیں۔جیسے کہتے ہیں ’’گوہ درگوہ کُتّے کا گوہ‘‘ ۔ کُتّا پاخانہ کھاتا ہے اور کُتّے کا پاخانہ تو پاخانے کا پاخانہ ہوتاہے۔ ایسے ذلیل اور ناپاک وجودوں کوکب خداتعالیٰ اپنی مقدس فتح سے برکت دے سکتا ہے۔ ان کا دنیا میں بھی منہ کالا ہوگا او راگلے جہان میں بھی منہ کالا ہوگا۔
ہاں بعض باتیں لطیفہ کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور انہیں دیکھ کر ضرور افسوس ہوتاہے۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ ان منافقین میں سے ایک ایسا منافق بھی ہے جو اس ملک کا رہنے والا ہے جس نے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید جیسا نیک انسان جو حضرت ابوبکرؓ کی مانند تھا ہمیں عطا کیا مگر افسوس اسی ملک نے اِس وقت ایک مسیلمہ کذّاب بھی پیدا کردیا ہے۔ گویااس ملک نے ایک ہماری طرف گوہر پھینکا اور ایک اُس نے زہر پھینکی۔ افغانستان نے ہمیں ایک صدیق دیا اور ایک ہمیں مسیلمہ کذّاب دیا۔ اس میں بھی شاید کوئی خدائی مصلحت ہوتی ہے کہ ہر قوم میں کوئی نہ کوئی نظربٹّو ہوتا ہے تا اس قوم کے لوگ تکبر نہ کرنے لگ جائیں اورفخر اور خیلاء ۴؎کے خیالات میں مبتلاء نہ ہوجائیں۔ کہتے ہیں مور کے پائوں نہایت بدصورت ہوتے ہیں جب وہ ناچ رہا ہوتا ہے اور اپنے پروں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہورہا ہوتا ہے تو اچانک اُس کی نظر اپنے پائوں پر پڑ جاتی ہے اور وہ ناچنا بند کردیتا ہے۔ خداتعالیٰ بھی شاید اِسی لئے قوموں میں بعض باعثِ ننگ وجود بناتا ہے تا وہ جب اپنی قوم کے بعض ممتاز افراد کو دیکھ کر خوش ہورہے ہوں تو اپنے پائوں پر کوڑھ کی حالت کو دیکھ کرتکبّر میں مبتلاء ہونے سے محفوظ رہیں۔ یہی افغانستان کی حالت ہے اس نے بھی ایک صدیق پید اکیا اور ایک مسیلمہ کذّاب پید اکیا مگر بہرحال ان فتنوں کے مقابلہ کی ہمیں فکرکرنی چاہئے تا وہ جو خداتعالیٰ کے وعدے ہیں پورے ہوں اور دشمن اپنی تمام تدابیر میں خائب و خاسر رہے۔ اسی لئے میں نے جماعت سے کہا ہے کہ وہ دعائیں کرے اور اللہ تعالیٰ سے التجاء کرے کہ وہ خود اِن مشکلات و مصائب کوہٹائے۔
اس ہفتہ کا روز ہ آخری روزہ ہوگا جن کو توفیق ملے گی وہ تو اس دن دعا کریں گے ہی مگر میں جماعت کونصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس کے بعد بھی دُعائوں میں لگی رہے اور بیرونی دشمنوں کے جھوٹوں اور کذب بیانیوں کو دیکھتے ہوئے اور دوسری طرف منافقین کی قبیح حرکات کو مدّنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتی رہے کہ وہ ہمارا مالک اور آقا بیرونی دشمنوں کے حملوں سے بھی ہماری جماعت کو محفوظ رکھے اور اندرونی منافقین کی فتنہ آرائیوں سے بھی ہماری جماعت کو بچائے اور دونوں قسم کے دشمنوں کو تباہ و برباد کرکے ہمارے راستہ سے ہٹادے یا انہیں ہدایت دے کر ہمارابھائی بنادے۔
پس دعائیں کرو اور خاص طور پر دعائیں کرو مگر دعا کے پہلو کو ہمیشہ بددعا کے پہلو پر غالب رکھو۔ میں نے تجربہ کیا ہے آج ہماری جماعت میں بیسیوں ایسے مخلص ہیں جو چاریا پانچ یا دس سال پہلے منافق تھے اور بیسیوں ایسے ہیں جو آج سے دس یابیس سال پہلے ہماری جماعت کے شدیدمخالف تھے مگر آج وہ نہایت مخلص احمدی ہیں۔ اس لئے پہلے ہمیشہ یہی دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دشمنوں کو ہدایت دے اور اگر ہدایت کا قبول کرنا ان کیلئے مقدر نہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں تباہ کرے تا احمدیت کا بول بالا ہو اور شیطان اور اس کی ذرّیت کا منہ کالا ہو۔
(الفضل ۱۶؍ مئی ۱۹۳۶ئ)
؎۱ گائودی: بیوقوف ۔ احمق
؎۲ بَدَر￿ رَو: نالی ۔ گندہ پانی بہانے کی نالی۔ پانی باہر جا نے کا راستہ
؎۳ اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطَانُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَائَ ہٗ (آل عمران: ۱۷۶)
؎۴ خَی￿لَائ: خود پسندی ۔ غرور

۱۷
تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق جماعت کو انتباہ
(فرمودہ ۱۵؍مئی ۱۹۳۶ئ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورہ ابراہیم کی آیت وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِھِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِنْ اَرْضِنَا اَوْ لَتَعُوْدَنَّ فِیْ مِلَّتِنَا فَاَوْحٰٓی اِلَیْھِمْ رَبُّھُمْ لَنُھْلِکَنَّ الظّٰلِمِیْنَ ؎۱ تلاوت کی اور پھر فرمایا:-
میں نے بار بار جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنے آپ کوان مشکلات اور ابتلائوں کیلئے تیار کریں جو مستقبل میں ان کا انتظار کررے ہیں مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آرام یا آرام تو نہیں کہنا چاہئے آرام طلبی جو موجودہ طرزِ رہائش کی وجہ سے خصوصاً ہندوستانیوں میں پید اہورہی ہے اِس کی وجہ سے اکثر دوست اس بات کی جو میں کہتاہوں اہمیت کونہیں سمجھتے اور اپنے اندر تغیر پیداکرنے کیلئے آمادہ و تیار نظر نہیںآتے۔ میں اپنی جماعت کے متعلق یہ تونہیں سمجھتا کہ ایسا ہو لیکن بعض دفعہ بدقسمتی سے انسان کی آنکھیں ایسی بند ہو جاتی ہیں کہ وہ نتائج اور انجام سے غافل ہوجاتا ہے یہاں تک کہ مصیبت آکر اُسے پکڑ لیتی ہے۔ ہزاروں بادشاہتیں اور حکومتیں اسی طرح تباہ ہوگئیں کہ ان بادشاہتوں اور حکومتوں والے اپنے خیال میں اس یقین اور اطمینان سے بیٹھے رہے کہ کوئی دشمن ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ہندوستان میں انگریزوں کا تسلّط اسی رنگ میں ہؤا۔ یہاں کے حکمرانوں کوانہوں نے آپس میں لڑادیا اور ان میں سے ہر ایک یہی سمجھتا رہا کہ ہم اپنے دشمن کو مار رہے ہیں اور کسی نے بھی یہ خیال نہ کیا کہ اپنے آپ کومار رہے ہیں۔
ایک انگریز مصنف نے لکھا کہ ہندوستان کو ہم نے فتح نہیں کیا بلکہ ہندوستانیوں نے ہندوستان کوہمارے لئے فتح کیا۔ سارے ہندوستان میں صرف ایک شخص تھا جس نے اس حقیقت کو سمجھا اور دوسروں کو اُکسایا اور ہوشیار کیا مگر کسی نے اس کی بات نہ سنی اور اس کی آواز بالکل رائیگاں گئی یہاں تک کہ ملک ہاتھ سے نکل گیا اور بعد میں افسوس سے ہاتھ ملنے لگے۔ انگریز بھی خوب سمجھتے ہیںکہ درحقیقت وہی ایک شخص تھا کہ جس نے ان کی تدابیر کو سمجھا کیونکہ ان کے دلوں میں اس کا اتنا بُغض ہے کہ وہ اس کے نام پر اپنے کُتّوں کانام رکھتے ہیں جس کا اثر یہ ہے کہ گلی کُوچوں میں آوارہ پھرنے والے بچے بھی جب کسی کو چِڑانا چاہیں تو اُسے کُتّا کہنے کی بجائے ٹیپو ٹیپو کہہ کرپکارتے ہیں اور ان کو معلوم نہیں کہ ہندوستان میں صرف وہی ایک بادشاہ تھا جس نے اس خطرہ کو سمجھا جو یہاں اسلامی حکومت کو پیش آنے والا تھا۔ وہی تھا جس نے غیرت دکھائی اور غیرت پر جان قربان کردی۔ ٹیپو سلطان نے جب انگریزوں کے بڑھتے ہوئے تسلّط کو دیکھا( ٹیپو اُس کا نام نہیں بلکہ جس طرح پنجابی میں بعض لوگوں کے نام کے ساتھ کوئی لفظ ہوتا ہے جسے اُس کی اَل￿ کہا جاتا ہے اِسی طرح ٹیپو کی اَل￿ تھی) تو اُس نے چاروں طر ف مسلمانوں کو خطوط لکھے کہ اسلامی عظمت کا نشان مٹ رہا ہے آئو اکٹھے ہوجائو تا اسے بچایا جاسکے۔ اُس نے ایک طرف ایران کی حکومت کو لکھا تو دوسری طرف افغانستان کی سلطنت کو، پھر اُس نے ترکوں کو بھی لکھا اور اُس کے پہلو میں نظام کی جو حکومت تھی اُسے بھی متوجہ کیا اور یہاں تک لکھا کہ یہ مت سمجھو کہ میں اپنی عظمت چاہتا ہوں اگر تمہارا یہ خیال ہو تو میں تمہارے ماتحت ہو کر لڑنے کو تیار ہوں لیکن خدا کیلئے اور اسلام کی خاطر آئو متحد ہوجائیں مگر جب بدقسمتی آتی ہے تو آنے والے خطرات سے انسان کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں یہاں تک کہ اُسے موت آدباتی ہے۔ اُس وقت کے نظام نے خیال کیا کہ چونکہ انگریز میرے دوست ہیں اور ان کی مدد سے میں ٹیپو کی حکومت کا خاتمہ کرنے والاہوں اِس لئے ڈر کر اُس نے مجھے یہ تحریک کی ہے اور ایرانیوں، افغانوں اور ترکوں نے خیال کیا کہ ہندوستان میں اسلامی سلطنت کاخاتمہ ہونے سے ہمیں کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ آخر اُس بندئہ خدا نے اکیلے ہی مقابلہ کیا اور اُس مقابلہ میں اس کا آخری فقرہ میں سمجھتا ہوں ایسا فقرہ ہے جسے تاریخ کبھی مٹا نہیں سکتی۔ بعض فقرات اپنے اندر ایسے پاکیزہ جذبات کو لئے ہوئے ہوتے ہیں کہ زمانہ کے اثرات اور وقت کا بُعد انہیں مٹا نہیں سکتا۔ جس وقت اس قلعہ کی بیرونی فصیل کو توڑ کر جس میںوہ تھا ایک طرف سے انگریز اندر داخل ہوئے یا یوں کہنا چاہئے کہ بعض غدّار افسروں کی مدد سے وہ اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تو اس کا ایک جرنیل دوڑ کر اس کے پاس پہنچا وہ اس وقت دو فصیلوں کے درمیان کھڑا اپنی فوج کو لڑارہا تھا کہ اُسے اُس کے جرنیل نے یہ خبر دی کہ انگریز شہر میں داخل ہوگئے ہیں اور اب بچائو کی کوئی صورت نہیں سوائے اِس کے کہ آپ ہتھیار رکھ دیں اور اپنے آپ کو ان کے سپرد کردیں وہ یقینا آپ کا اعزاز کریں گے مگر جس وقت سلطان ٹیپو نے یہ سنا کہ انگریز شہر میں داخل ہوگئے ہیں اس نے تلوار میان سے نکال لی اور خود لڑائی میں کود پڑا اور اُس نے کہا کہ گیڈر کی سَو سال کی زندگی سے شیر کی ایک گھنٹے کی زندگی بہتر ہوتی ہے۔ ایک انگریز افسر جو شریف دل رکھتا تھا باوجود اِس کے کہ اس کے دشمنوں سے تعلق رکھتا تھا اپنے تذکرہ اور یادداشت میں بیان کرتا ہے کہ ہم نے متواتر اس کے سامنے یہ بات پیش کی کہ ہم فتح پاچکے ہیں اب تم ہمارے ساتھ کہاں لڑسکتے ہو بہتر ہے کہ ہتھیار ڈال دو مگر وہ نہ مانا یہاں تک کہ میدان میں ڈھیر ہوگیا۔
یہ اکیلا شخص تھا جس نے ہندوستان کی آئندہ حالت کو سمجھا اور مسلمانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی مگر کوئی اس کی بات کو نہ سمجھا اور اس کے نتائج آج ہم دیکھ رہے ہیں ہزاروں غلامیوں کے طوق آج مسلمانوں کے گلے میں پڑے ہیں۔ وہ ایک غلامی کو رو رہے ہیں کہ یہاں انگریز ی حکومت ہے حالانکہ ہندئووں کی حکومت کا طوق بھی ان کی گردن میں ہے، سکھوں کی حکومت کا طوق بھی ان کی گردن میں ہے، بڑے بڑے تاجروں کی حکومت کا طوق ہے، ساہوکاروں کی حکومت کا طوق ہے، ہر محکمہ پر جو لوگ قابض ہیں ان کی حکومت کا طوق ہے، کوئی پیشہ، کوئی فن، کوئی ہنر اور کوئی میدان نہیں جس میں انہیںعزت حاصل ہو اور یہ سب نتیجہ اس آواز کے نہ سننے کا ہے جو انہیں وقت پر سنا دی گئی تھی۔ اُس وقت مسلمان بیوقوفی کی جنت میں بیٹھے رہے جو انہیں دوزخ میں لے گئی۔ انہوں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے سمجھ لیا کہ اب بلّی ان پر حملہ آور نہیں ہوگی لیکن وہ تو تشتّت، اختلاف اور تفرقہ کا زمانہ تھا لوگوں نے اس بات کو نہ سمجھا اور اختلاف کی رَو میں بہہ گئے۔ مگر ہماری جماعت کیلئے ویسا زمانہ نہیں ہم نئے نئے متحد ہوئے ہیں او رفَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ؎۲ کا نظارہ پیش کررہے ہیں ایسی جماعت کی قلبی اور اندرونی حالت یقینا اس سے بہتر ہونی چاہئے اور ہمارے اندر زیادہ بیداری اور ہوشیاری ہونی چاہئے۔
میں نے متواتر توجہ دلائی ہے کہ آئندہ کے خطرات کو محسوس کرو، اپنے اندر تغیر پیدا کرو اور ان قربانیوں کی طاقت اپنے اندر پیداکرو جن کے نتیجہ میں محفوظ رہ سکو مگر بعینہٖ اس طرح جس طرح ایک افیونی کو جگایا جاتاہے مگر وہ پھر سوجاتا ہے، پھر جگایا جاتاہے اور پھر سوجاتا ہے، جماعت کے دوستوں کو جگایا جاتا اور ہوشیار کیا جاتا ہے اور وہ قربانی کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں مگر پھر سو جاتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ کب تک کوئی گلا پھاڑتا رہے گا اگر یہی حالت رہی تو تم سمجھ سکتے ہو اس کا انجام کیا ہوگا۔ یہ مت خیال کر وکہ خدا کے وعدے تمہاری کامیابی کیلئے ہیں خداتعالیٰ کے وعدے مشروط ہوتے ہیں اور اگر انسان اپنے آپ کو ان کا مستحق بنائے تو وہ پورے ہوتے ہیں۔ کیا رسول کریم ﷺ سے جنگ احد میں کامیابی کے اللہ تعالیٰ کے وعدے نہ تھے پھر کیا صرف دس آدمیوں کی غلطی سے وہ فتح شکست نما نہ ہوگئی تھی؟ پس اگر ایک ہزار برس میں سے دس کی غلطی فتح کو شکست نما بناسکتی ہے تو آج تم میں سے ہزاروں کی غفلت سے تمہاری فتح شکست نما کیوں نہیں بن سکتی۔ ہمارے لوگ اس بات پر مطمئن ہیں بالکل اسی طرح جس طرح غافل اور تباہ ہونے والی قومیں ہوتی ہیں کہ وہ ایک آئینی حکومت کے ماتحت آباد ہیں اور کہ انگریز منصف اورعادل ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان کو سبق دیا ہے کہ جن انگریزوں پر تم انحصار کرسکتے ہو وہ بھی تمہارے دشمن ہوسکتے ہیں مگر افسوس کہ ہمارے دوستوں کی آنکھیں ابھی تک نہیں کھلیں۔ میرے بار بار کے خطبات کے باوجود بعض دوست لکھتے رہتے ہیں کہ ہماری سفارش کردو حالانکہ آجکل حکومت کے بعض انگریز افسر بھی جماعت احمدیہ کے شدید دشمن ہیں ایسے ہی دشمن جیسے چوہدری افضل حق صاحب اور مولوی عطاء اللہ صاحب۔ ہم پر صریح ظلم کیا جاتا ہے، صریح جھوٹ ہمارے متعلق بولا جاتا ہے مگر ایسے افسر کوئی توجہ نہیں کرتے بلکہ ایسا کرنے والوں کو انگیخت کرتے ہیں مگر ہم میں سے بعض بے حیا بن کر کہتے ہیں کہ ہماری سفارش کرو۔ مجھے اُس وقت حیرت ہوتی ہے کہ انسان بے حیائی میں کتنا کمال تک پہنچ سکتا ہے وہ ان باتوں کو شاید مبالغہ اورمذاق سمجھتے ہیں جو باتیں مجھے معلوم ہیں وہ تو بہت بڑی ہیں مگر جتنی میں نے بتائی ہیں ان کاہزارواںحصہ بھی اگر ایک شخص کے متعلق ثابت ہو تو میں موت کو اس کے پاس سفارش کرنے کو ترجیح دوں ۔ تمہارے دل میں تو ان باتوں کا اتنا احساس چاہئے تھا کہ خواہ پھانسی پر لٹکنا پڑتا، تمہارے بیوی بچوں کو تمہارے سامنے قتل کردیا جاتا، تو تم اس بات کو زیادہ پسند کرتے بہ نسبت ایسے لوگوں کے پاس سفارش لے جانے کے۔ ایسے افسر تو ہمارے دشمن ہیں مگر شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے تو کہا ہے کہ
حقا کہ با عقوبت دوزخ برابر است
رفتن بہ پائے مردیٔ ہمسایہ در بہشت
یعنی ہمسایہ کی مدد سے جنت میں جانا دوزخ کے برا بر ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس قِسم کی مثالیں محدود ہیں۔ نہ ہندوستان کی ساری گورنمنٹیں ایسی ہیں نہ پنجاب گورنمنٹ کے سارے افسر ایسے ہیں مگر سوال تو یہ ہے کہ ایسے وقت میں کون کہہ سکتا ہے کہ کون کیسا ہے۔ پس ان حالات میں مناسب یہی ہے کہ انسان غیرت سے کام لے اورکہے کہ ہم سفارش نہیں کراتے۔
آج حالت یہ ہے کہ پچھلے دنوں ایک بڑے افسر نے کہا کہ احمدیوں کی بھرتی کی حکومت نے ممانعت نہیں کی اوربعض افسروں نے اعلان کیا تھا کہ سیدوں کی بھرتی منع نہیں ہے مگر میں نے تحقیقات کی ہے یہ دونوں باتیں صحیح ہیں یہ حکم بھی ہے کہ سیدوں کو بھرتی نہ کیا جائے اور یہ حکم بھی کہ احمدیوں کو بھرتی نہ کیا جائے وَاللّٰہُ اَعْلَمُ معاملہ کیاہے۔ اس بڑے افسر کو یا تو علم ہی نہ تھا یا اس نے غلط بیانی کی لیکن جب یہ صحیح ہے کہ ایک طبقہ ضرور ہمارا مخالف ہے تو ہمیں چاہئے دوسروں کے پاس کوئی سفارش نہ لے جائیں۔ جو مخالف نہیں اگر ان کے پاس ہم سفارش کریں تو ممکن ہے وہ تو کوئی احسان نہ جتائیں مگر مخالف طبقہ ضرور کہے گا کہ ہم نے فلاں وقت تمہارا کام کردیا تم ہمیں کس طرح اپنا مخالف کہتے ہو اور یہ الفاظ سننے کیلئے کیا تمہاری غیرت تیار ہے؟ بے شک ایسے افسر اَور ہیں اوردوست اَور مگر ہمیں تو اتنی عقل چاہئے کہ اس کے نتیجہ میں ہمیں کیا طعنہ ملے گا۔ بے شک جو انگریز ہمارے دوست ہیں یا حُسنِ ظنی رکھتے ہیں وہ ایسی بات یاد نہیں دلائیں گے اور سمجھیں گے کہ یہ اچھے شہری ہیں، قانون کے پابند ہیں اور مُلک میں امن قائم کرتے ہیں ان کے بھی حقوق ہیں انہیں کیوں تلف کریں مگر وہ حصہ جو جھوٹ سے پرہیزنہیں کرتا وہ دوسروں کے کام کو لے کر ہمارے منہ پر مارے گا اورکہے گا تمہیں یاد نہیں فلاں وقت ہم نے تمہارا فلاں کام کیا تھا۔ مگر افسوس کہ جماعت کے بعض لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے۔ پتہ نہیں ہمارے ساتھ جو ہورہا ہے اور جس کا میں نے بار بار اپنے خطبات میں ذکر بھی کیاہے وہ ان سب باتوں کو مبالغہ یا مخول اور کھیل ہی سمجھتے ہیں۔ میں جب یہ حالت دیکھتا ہوں تو اگرچہ لفظوں سے تو نہیں کہتا مگر میرا دل چاہتا ہے کہ اگر جائز ہو تو خداتعالیٰ سے کہوں کہ وہ جماعت کے ابتلائوں کو اَور بھی بڑھادے تا ایسے دوستوں کے حواس درست ہوں۔ خدا ابتلائوں کواتنا بڑھائے کہ یہ سونے والے بیدار ہوجائیں اور پاگل عقلمند بن جائیں اور وہ سمجھیں کہ یہ تو پھر بھی غیرلوگ ہیں سعدی نے تو کہا ہے کہ ہمسایہ کی مدد سے جنت میں جانا بھی دوزخ میں جانے کے برابر ہے۔
میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکومت کا ابتلاء اسی وجہ سے آیاہے تا اللہ تعالیٰ ہمیں بتادے کہ انگریزی حکومت میں بھی ایسے کل پُرزے آسکتے ہیں جو ہمیںنقصان پہنچائیں گو یہ آج تھوڑے ہیں مگر کسی کو کیا معلوم کہ کل زیادہ ہوجائیں ۔ اگر آج حکومتِ پنجاب میں ہیں تو کل حکومت ہند میں بھی ہوسکتے ہیں۔ جو شخص کسی دوسرے کے سہارے بیٹھارہتا ہے اس سے زیادہ احمق اور بے حیا کوئی نہیں ہوسکتا۔ انگریز خواہ کتنے اچھے کیوں نہ ہوں مگر ہم کیوں ان کے سہارے پر رہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ اپنے والد صاحب کا ایک واقعہ لُطف لے کر بیان کیا کرتے تھے کہ آپ جب فوت ہوئے اُس وقت اسّی سال کے قریب عمر تھی مگر وفات سے ایک گھنٹہ پہلے آپ پاخانہ کیلئے اُٹھے آپ کو سخت پیچش تھی اور پاخانہ کیلئے جارہے تھے کہ رستہ میں ایک ملازم نے آ پ کو سہارا دیا مگر آپ نے اُس کا ہاتھ جھٹک کر پرے کردیا اور کہا کہ مجھے سہارا کیوں دیتے ہو؟ اس کے ایک گھنٹہ کے بعد آپ کی وفات ہوگئی۔ تو جب ایک معمولی مؤمن بھی کسی کا سہارا لینا پسند نہیں کرتا تو خداتعالیٰ کی خاص جماعت کب ایسا کرسکتی ہے۔ مؤمن تو ہر ایک ہوسکتا ہے خواہ وہ نبی کے ہزارہا سال بعد ہو مگر تم میں تو ابھی کئی صحابہ موجود ہیں اور تم سب تابعی ہو پھر تم کس طرح یہ پسند کرسکتے ہو کہ کسی کا سہارا لو او ر سہارا بھی اُن کا جو عیسائی ہیں اور جن کے مذہب کو مٹانے کیلئے تم کھڑے ہوئے ہو۔ تمہار اہاتھ ہمیشہ اونچا ہونا چاہئے تم ان کی مدد تو کرو مگر ان کی مدد مت لو۔ ایک اچھے شہری کی طرح تمہارا فرض ہے کہ ملک میں امن قائم کرو اور اگر حکومت کسی مصیبت میں ہو تو اس کی تائید کرو جس طرح تمہارا فرض ہے کہ اگر حکومت رعایا پر ظلم کرے تو رعایا کی مدد کرو مگر تمہارے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ بھیک کا ٹھیکرا لے کر اس کے پاس مانگنے جائو۔ مؤمن کی غیرت کا مقام بہت بلند ہوتا ہے وہ مرجانا پسند کرتا ہے مگر مانگنا پسند نہیں کرتا اور دوسرے کو اپنا سہارا بنانا گوارا نہیں کرسکتا۔ تم کس طرح موحد ہوسکتے ہو جب کہ سمجھو کہ انگریز تمہاری جانیں بچائیں گے۔ اگر تمہاری جانوں کا انحصار انگریزوں پر ہے تو یہ آج بھی نہیں ہیں اور کل بھی نہیں۔ انگریزوں کی حکومت بھی آخر انسانوں کی حکومت ہے جو ہمیشہ نہیں رہ سکتی۔ ابی سینیا کا جو حشر ہؤا ہے اس کے بعد خود انگریزی اخبار لکھ رہے ہیں کہ انگریزی حکومت لڑکھڑا رہی ہے اور شاید یہ پہلا موقع ہے کہ انگریزی حکومت کے وزیر اعظم نے یہ کہا ہے کہ میں اپنے نفس میں ذلت محسوس کررہا ہوں۔
پس آدمیوں پر انحصار رکھنا حماقت ہے تم اپنے نفسوں میں وہ قوت پید اکرو کہ کوئی دشمن تم کو ہلاک نہ کرسکے اور ایسی طاقت اول ایمان کی طاقت ہے اور دوسرے اتحاد اور قوتِ عمل کی۔ انسان جب ایمان لے آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کا نگران ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کبھی نہیں مرتا۔ رسول کریم ﷺ سے زیادہ صحابہ کو کس سے عشق ہوسکتا ہے چنانچہ جب آپ فوت ہوئے تو حضرت عمرؓ تلوار لے کر کھڑے ہوگئے کہ جو کہے گا رسول کریم فوت ہوگئے ہیں میں اسے قتل کردوں گا ؎۳ ۔ حضرت ابوبکرؓ اس وقت باہر گئے ہوئے تھے جب آپ کوخبر ہوئی تو آپ آئے اور اندر گئے، جسم پر سے کپڑا اُٹھایا ، ماتھے پربوسہ دیا او رکہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیںوارد نہیں کرے گا۔ یعنی ایک تو جسمانی موت آئی ہے اس کے ساتھ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کی اُمت خراب ہوجائے۔ اس کے بعد آپ باہر آئے اور کہا کہ لوگوں رسول کریم ﷺ فوت ہوگئے ہیں جس طرح تمام پہلے انبیاء فوت ہوچکے ہیں مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا ﷺ فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ۔ سنو تم میں سے بعض سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ زندہ ہیں یہ شرک ہے اور عبادت ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی عبادت کرتا ہے میں اسے خبردار کرتا ہوں کہ آپ فوت ہوگئے ہیں۔ وَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لاَ یَمُوْتُ ؎۴ ۔ لیکن جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اُس کا معبود زندہ ہے اور کبھی نہیں مرسکتا۔
پس ہم تو ان لوگوں کے قائمقام ہیں جنہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات کو بھی اللہ تعالیٰ کے مقابلہ پرکھڑا کرنا جائز نہیں سمجھا۔ ابوبکرؓ نے تو اتنی غیرت دکھائی کہ کہا محمد رسول اللہ ﷺ انسان تھے اور فوت ہوچکے ہیں مگر تم میں سے بعض ایسے بے غیرت ہیں کہ سمجھتے ہیں انگریز ہمیشہ رہیں گے اور ان کی حفاظت کریں گے اور اگر یہی حالت رہی تو یاد رکھو کہ انگریزی حکومت تو کسی دن جاتی ہی رہے گی مگر ساتھ ہی وہ ایسے لوگوں کو بھی لے ڈوبے گی۔ صرف خدا زندہ ہے اور وہی زندہ رہے گا جس کا وہ سہارا ہے۔ باقی حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں ان کے نقطہ ہائے نگاہ بھی بدلتے رہتے ہیں مستقبل کا کسی کو کیا علم ہوسکتا۔ آج سے تین سَو سال پہلے کسی کو کیا علم تھا کہ انگریزوں کی حکومت اتنی وسیع ہوجائے گی اور کون کہہ سکتا ہے کہ آج سے سَو سال بعد ان کی یہ حکومت افسانہ بن کر نہ رہ جائے گی۔
خوب یاد رکھو کہ انگریز بھی تبھی زندہ رہ سکتے ہیں جب وہ خدائے واحدسے تعلق پیدا کریں اور اسی پر توکّل کریں اور تم بھی اسی طرح زندہ رہ سکتے ہو۔ زندگی کے سامان سب کیلئے اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں یہ ضروری نہیں کہ جس طرح پہلی قومیں تباہ ہوگئیں انگریز بھی ہوجائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ اگر یہ جھوٹ اور فریب پر اپنی حکومت کی بنیاد رکھیں گے، انصاف کے مقابلہ میں پرسٹیج کا زیادہ خیال رکھیں گے تو جس طرح روما او رکسریٰ کی عظیم الشان سلطنتیں تباہ ہوئیں یہ بھی تباہ ہوجائیں گے لیکن اگر یہ سچ پر قائم ہوں، انصاف کریں اور خدا سے تعلق پید اکرکے اُسی پر توکّل رکھیں تو ان کی جو پچھلی زندگی ہے اس سے بہت زیادہ لمبی زندگی انہیں مل سکتی ہے مگر پھر بھی وہ تمہارا سہارا نہیں بن سکتے۔ تم خد اکی جماعت ہو اور خدا کو تمہارے لئے غیرت ہے۔ جس طرح کوئی شخص اپنی بیاہتا بیوی کو کسی غیر کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے پھرتا دیکھے تو اُسے غیرت آتی ہے اسی طرح خدا کو غیرت آتی ہے جب اس کی جماعت کسی غیرکا سہارا لے۔ پس انگریز اگر ہمیشہ بھی رہیں تو وہ تمہارا سہارا نہیں بن سکتے۔ باقی رہے دوسرے دشمن ان کا نقشہ قرآن کریم نے ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَائُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُ ؎۵ ان کا بغض ان کے مونہوں سے ظاہر ہوگیاہے اور جو دلوں میں ہے وہ بہت زیادہ ہے۔
امرتسر میں احرار کی جو کانفرنس ہوئی ہے اس میں اس امر پر بہت زور دیا گیا ہے کہ ہمارا کام ہندوستان سے انگریزوں کو نکالنا ہے او راس کے ساتھ سب احمدیوں کو بھی۔ یہ بَدَتِ الْبَغْضَائُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ ہے لیکن ان کے دلوں میں جوہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے او روہ یہ ہے کہ نکالیں گے کیوں ؟ یہیںپھانسی پر لٹکائیں گے۔ یہ وہ دشمن ہے جو تمہارے گِرد گھیرا ڈال رہا ہے، روزبروز زیادہ منظم ہورہاہے اور طاقت پکڑ رہاہے چاہے وہ احرار کی صورت میں ہو اور چاہے کسی اور صورت میں ہو شیطان کواس سے غرض نہیں کہ اس کا نام احراری رہے۔ تمہاری نظر مجلسوں پر ہے اور تم سمجھتے ہو مجلس احرار کو کل جو طاقت حاصل تھی وہ آج نہیں حالانکہ میں نے بار بار کہا ہے کہ تمہارا مقابلہ احرار سے نہیں شیطان سے ہے۔مجھے یاد ہے ہم میں سے بعض کہا کرتے تھے کہ اب مولوی ثناء اللہ صاحب کی طاقت ٹوٹ گئی ہے مگر اب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ان کی طاقت زیادہ تھی یا احرار کی۔ اسی طرح اب بعض یہ خیال کررہے ہیں کہ احرار کی طاقت ٹوٹ گئی ہے اب ہم سو جائیں۔ مگر یاد رکھو تمہارے لئے سونا مقدرنہیں ہے تم یا تو جاگوگے اور یا مرو گے یہ ممکن نہیں کہ لمبی دیر تک سو سکو۔ جب سوئو گے مرو گے یہ سچائیاں ہیں جو ہر نبی کے زمانہ میں ظاہرہوئیں۔ قرآن کریم کو پڑھو اس کا ایک ایک لفظ اس کی تصدیق کرے گا۔ پھر کیا تمہیں اس پر بھی اعتبار نہیں کہ سمجھتے ہو تمہارے ساتھ ویسا نہ ہوگا۔ حضرت آدمؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت دائودؑ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور سب سے آخر آنحضرت ﷺ کے وقت جو کچھ ہؤا کیونکر ممکن ہے کہ وہ پیالہ تم کونہ پینا پڑے وہ ضرور پینا پڑے گا۔ اگر منہ سے نہیں پیئو گے تو نلکیوں کے ذریعہ نتھنوں کے رستہ پلایا جائے گا اور اگر اس طرح بھی نہیں پیئو گے تو پیٹ چاک کرکے پلایا جائے گا۔
دشمن اس فکر میں ہے کہ تم کو ہندوستان سے نکال دے اور یہ وہ چیز ہے جس کا اظہار اس کے منہ سے ہوگیا اس کے دل میں جو کچھ ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے اور تم اس خیال میں ہو کہ ایک حکومت جو قانون کی پابندہے اور وہ تمہارے حفاظت کرے گی۔ اس حکومت کے ایک حصہ نے بتادیاہے کہ جب وہ پکڑے گی قانون بھی مٹ جائے گا بھلاوہ کونسا قانون تھاجس کے ماتحت ایک افسر نے دو سکھ نمبرداروں کو بلا کر یہ کہا کہ ہمیں معتبر ذرائع سے معلوم ہؤا ہے کہ خلیفۂ قادیان نے تم کو بلا کر پچاس پچاس روپے دیئے تھے کہ عیدگاہ کے کیس میں شہادت بدل دو اور اس طرح انہیں جھوٹ بولنے کی تحریک کی اور ایک دوسرے افسر نے ملاقات کے وقفہ میں صاف لفظوں میں ان کو ایسی گواہی دینے کا مشورہ دیا۔ کیا اِس امر کا کروڑواں بلکہ اربواں کھربواں حصہ بھی سچ ہے؟ اور انگریزی حکومت کے بعض افسر اگر اتنا جھوٹ بول سکتے ہیں تو کیا تم سمجھتے ہو کہ بعض دوسرے افسر کسی وقت جھوٹ بول کرتمہیں سزائیں نہیں دلواسکتے۔
جب خدا کسی قوم کو سزا دینا چاہتا ہے تو سب کچھ کرالیتا ہے اس لئے اطمینان سے نہ بیٹھو کہ تمہارے سر پر تلوار منڈلارہی ہے۔ صرف خدا پرتوکّل کرو حاکموں کے دل بھی خدا کے قبضہ میں ہیں وہ چاہے تو انہیں نیک بناسکتا ہے ۔پس تم یہ مت کہو کہ خدا ہم سے ضرور یوں معاملہ کرے گا بلکہ خداوالے بنو پھر تمہارے لئے امن ہوگا خواہ وہ انگریزوں سے کرادے، خواہ ہندوستان میں آئندہ قائم ہونے والی حکومت کے ذریعہ اور خواہ تمہارے اپنے ہاتھوں سے جو سب سے بہتر ہیں مگر ا س کیلئے ضروری ہے کہ غفلتوں اور سُستیوں کو ترک کردو۔
میں محسوس کرتا ہوں کہ جماعت میں آج گزشتہ سال سے دسواں حصہ بھی جوش نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کیلئے خداتعالیٰ کوئی لاٹھی بھیجے تو اُن کی آنکھیں کھلتی ہیں۔ پچھلے سال لٹھ پڑے تھے تو تم بیدار تھے آج خدا نے ان میں کمی کردی ہے تو تم پھر سوگئے ہو۔ پچھلے سال تحریک جدید کے دو ماہ کے اندر اندر آمد تحریک سے بھی بڑھ گئی تھی مگر اس سال گو وعدے زیادہ ہیں مگر آمد دو تہائی ہے اور اس حساب سے اندازہ ہے کہ سال کے آخر تک ۷۴،۷۵ ہزار آمد ہوگی مگر خرچ کابجٹ ایک لاکھ اٹھائیس ہزار ہے۔ ممکن ہے میں غلطی پر ہوں مگر میرا خیال یہی ہے کہ یہ ادنیٰ ایمان ہے کہ انسان کہہ دے کہ میں کچھ نہیں کروں گا۔ مگر جو کہتا ہے اور پھر کرتا نہیں وہ مؤمن نہیں غدّار اور منافق ہے۔
میں نے کئی بار کہا ہے کہ کوئی چندہ مت لکھائو جو دے نہ سکو۔ جبری چندوں کے متعلق تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ زبردستی لئے جاتے ہیں مگر تحریک جدید کے چندہ کے متعلق تو میں نے صاف کہا ہؤا ہے کہ جس کی مرضی ہو وہ دے اور جتنا کوئی چاہے دے پھر بھی جو لکھوانے کے باوجود نہیں دیتا وہ یہ بتاتا ہے کہ اُسے دین کی کوئی پرواہ نہیں وہ صرف نام لکھواکر واہ واہ چاہتا ہے او ریہی بات بڑھتے بڑھتے جنون تک پہنچ جایا کرتی ہے۔ ایک شخص کا مجھے خط آیاہے کہ گزشتہ سال میںنے اس اس قدر (شاید تیس چالیس) روپیہ کا وعدہ کیا تھا مگر دے کچھ نہیں سکا اس سال میرا وعدہ تین ہزار کا لکھ لیں۔ یہ اس MENTALITY او رذہنیت کا آخری نتیجہ ہے جو انسان کو بے عمل کردیتی ہے ہر بُرے عمل کا آخری نتیجہ اُس کے بھیانک پن کو ظاہر کردیتا ہے۔ ایسا انسان جو وعدہ کرتا ہے مگر پورا نہیں کرتا وہ خدا کو دھوکا دینا چاہتا ہے وہ سمجھتا ہے خدا یہ نہیں دیکھے گا کہ اس نے کتنا دیا بلکہ صرف یہ دیکھے گاکہ وعدہ کتنے کا کیا۔ پھر یہی نہیں کہ لوگوں نے اتنا لکھوایا ہے جو دے نہیں سکتے۔ میں جماعت کے حالات سے واقف ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ بعض لوگ اگر اپنی ذمہ داری کو سمجھتے تو اِس سے دُگنا دے سکتے تھے جتنا اب دیا ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جو زیادہ حصہ لے سکتے تھے مگر کم لیا ہے اور پھر بہت ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی حیثیت سے تین چار گنا زیادہ دیا ہے ایسے لوگ یقینا اپنے عمل کابدلہ اللہ تعالیٰ سے لیں گے مگر ان کے اعمال ان لوگوں کیلئے کافی نہیں ہوسکتے جنہوں نے کہنے اور وعدہ کرنے کے باوجود حصہ نہیں لیا۔ پنجاب کی ایک بڑی جماعت ہے جس نے پانچ ماہ کے عرصہ میں ایک پیسہ بھی اد انہیں کیا وہ لکھوا کر سو گئے۔ پھر کئی ایسے بھی ہیں جونہایت غریب ہیں مگر اس عرصہ میں قریباً سارے کا سارا ادا کرچکے ہیں جس سے پتہ لگتا ہے کہ مال کے پاس ہونے یا نہ ہونے کا سوال نہیں بلکہ اخلاص کا سوال ہے۔ بیسیوں ایسے ہیں جن کی رقمیں فہرست میں دیکھ کر مجھے شک ہوتا ہے کہ غلطی سے تو نہیں لکھ دی گئیں کیونکہ بظاہر ان سے اتنا دینے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ تویہ اخلاص کی بات ہے طاقت کی نہیں جتنا ایمان ہو اس کے مطابق کام ہوسکتا ہے۔ مجلس مشاورت کے موقع پر جو نمائندے آئے وہ وعدے کرکے گئے تھے کہ جاتے ہی اِس طرف توجہ کریں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ ننانوے فیصدی نے کوئی توجہ نہیں کی یا کم سے کم ان کی توجہ کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
باقی رہیں دوسری قربانیاں ان کا بھی یہی حال ہے ابھی تک میں یہی سنتا ہوں کہ فلاں کی فلاں سے لڑائی ہے حتّٰی کہ نماز بھی الگ پڑھی جاتی ہے۔ ایک دوست نے سنایا کہ ایک جگہ پانچ احمدی ہیں اور پانچوں الگ الگ نماز پڑھتے ہیں۔ میں اس دوست پر حیران تھا کہ وہ انہیں احمدی کس طرح کہتے ہیں۔ یہ کہنا چاہئے کہ وہاں احمدیت کیلئے پانچ کلنک کے ٹیکے ہیں او رپانچوں تاریکیاں الگ الگ جگہ چھائی ہوئی ہیں۔ احمدی تو بڑا لفظ ہے اس سے ادنیٰ درجہ کا مؤمن بھی اس قدر بے حیا نہیں ہوسکتا کہ خدا کی عبادت میں بھی تفرقہ ڈالے۔ میں نے بار بار کہا ہے کہ خدا کی عبادت میں ایسانہ کرو مگر بعض لوگوں پر کوئی ایسی *** برسی ہے کہ ان پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔
پھر میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ اپنی اولادوں کو کام کا عادی بنائو مگر اس تحریک میں مجھے کئی ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا کہ جو اِس وجہ سے اولاد سے کام نہیں کراتے کہ گرمی زیادہ ہے بھوکے مریں گے مگر جب کہا جائے کہ جو کارخانے کھولے جارہے ہیں ان میں اولاد کو داخل کردو تو کہیں گے کہ وہاں گرمی میں کام کرنا پڑتا ہے۔ ہم تو گرم ملک کے رہنے والے ہیں مگر سرد ملک کے رہنے والے انگریز گرمی میں کام کرنے سے نہیں گھبراتے۔ انگلستان میں چھ ماہ تو برف ہی پڑتی رہتی ہے اور گرمیوں میں بھی اتنی سردی ہوتی ہے کہ آدمی ٹھٹھرنے لگتا ہے۔ جب میں وہاں گیا تھا تو سخت گرمی کا موسم تھا حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے گرم پاجامہ پہنا اور کہنے لگے کہ میں نے ہندوستان میں سخت سردیوں کے موسم میں بھی اسے کبھی نہ پہنا تھا مگر ایسے سرد ملک کے رہنے والے لوگ انجنوں پر کام کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ انگریزوں نے نوکریاں سنبھال لی ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ کیوںنہ سنبھالیں وہ نہیں سنبھالیں گے تو کیا وہ نکمّے لوگ سنبھالیں گے جو گرمی گرمی پکارتے ہیں او راولادوں کوگھروں میں بیکار بٹھائے رکھتے ہیں۔
میںنے الفضل والوں سے کہا تھا کہ وہ شہروں میں ایجنسیاں قائم کریں مگر وہ شکایت کرتے ہیں کہ نوجوان یہ کام نہیں کرتے اور اگر کوئی کرتا ہے تو وہ روپیہ نہیں دیتا جس قوم کے نوجوان چند پیسے بھی لے کر اد ا نہ کریں اور بے کار پھریں کام کیلئے تیار نہ ہوں وہ کب امید کر سکتی ہے کہ زندہ رہے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جس سے مخالف مراد ہیں مگر جماعت کو بھی اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک بڑی لمبی نالی ہے اور اس نالی پر ہزارہا بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اس طرح پر کہ بھیڑوں کا سر نالی کے کنارہ پر ہے اس غرض سے کہ تا ذبح کرنے کے وقت ان کا خون نالی میں پڑے، ہر ایک بھیڑ پر ایک قصاب بیٹھا ہے اور ان تمام قصابوں کے ہاتھ میں ایک ایک چھری ہے جو ہر ایک بھیڑ کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے گویا اللہ تعالیٰ کی اجازت کے منتظر ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ جو دراصل فرشتے ہیں بھیڑوں کے ذبح کرنے کیلئے مستعد بیٹھے ہیں محض آسمانی اجازت کی انتظار ہے، تب میں ان کے نزدیک گیا اور میں نے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّی لَوْلاَ دُعَاؤُکُمْ ؎۶ یعنی میرا خدا تمہاری کیا پرواہ کرتا ہے اگر تم اس کی پرستش نہ کرو اور اس کے حکموں کو نہ سنو۔ میرا یہ کہنا تھا کہ فرشتوں نے فی ال￿فور اپنی بھیڑوں پر چھریاں پھیر دیں اور کہا کہ تم چیز کیا ہو گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔ مطلب یہ ہے کہ وہ نکمّے لوگ مٹادیئے جاتے ہیں بھیڑیں تو پھر بھی گوہ کھا کر نجاست کو دور کرتی ہیں لیکن نکمّا آدمی تو اس سے بھی بدتر ہے۔
پھر میں نے توجہ دلائی کہ صلح کرو اور آپس میں محبت پیدا کرو مگر اس کی طرف بھی پوری توجہ نہیں کی جاتی۔ غرض جماعت کا ایک معتد بہ حصہ ایسا ہے یہ نہیں کہ ساری جماعت ایسی ہے مگر غرباء میں بھی اور امراء میں بھی ایسے لوگ ہیں جو ہمارے ملک کے اس عام مرض میں مبتلاء ہیں یہ لوگ وعظ مزے لینے کیلئے سنتے ہیں عمل کیلئے نہیں۔ اگر عمل کیلئے سنتے تو آج تک ولایت اور سلوک کی کئی منازل طے کرچکے ہوتے مگر وہ مزے کیلئے سنتے یااخبار میں پڑھتے ہیں۔ اگر جماعت ان باتوں کی طرف توجہ کرے جو میں بتاتا ہوں تو یقینا وہ وعدے پورے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے کئے ہیں اور جو پہلے انبیاء کی جماعتوں کے متعلق پورے ہوئے۔ پہلے ہمیں کہا جاتا تھا کہ ذرا افغانستان جائو، ایران جائو اور دیکھو وہاں تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے مگر اب اس نئے انتظام کے ماتحت چونکہ خیال ہوگیا ہے کہ حکومت ہندوستانیوں کومل جائے گی اِس لئے کہا جاتاہے کہ ملک سے نکال دیں گے مگر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی فرمادیا ہے کہ انبیاء کے مخالف ہمیشہ ان کو یہ کہتے رہے ہیں کہ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِنْ اَرْضِنَا یعنی ہمیشہ رسولوں کو ان کی کافر قومیں یہ کہتی رہی ہیں کہ ہم تمہیں اِس ملک سے نکال دیں گے ورنہ اپنا دین چھوڑ کرہمارے ساتھ مل جائو۔ یہ مماثلت بھی آج احرارنے پوری کردی ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہ اپنے جیسے پہلے سب لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں کیونکہ احرار کے منہ سے لَتَعُوْدُنَّ نہیں نکلا بلکہ صرف یہی کہتے ہیں کہ پکڑ کر سمندر پار کردیں گے لیکن اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو تسلی دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ فَاَوْحٰٓی اِلَیْھِمْ رَبُّھُمْ لَنُھْلِکَنَّ الظّٰلِمِیْنَ یعنی یہ کیا نکالیں گے اللہ تعالیٰ اِن کو دنیا سے نکال دے گا۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پور اہوکر رہے گا مگر اِس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے وہ تبدیلی پید اکرو جو نبیوں کی جماعتوں کے لئے ضروری ہے۔ یہ تو ابتدائی زینہ ہے جو میں نے بتایا ہے اسے انتہائی سمجھ کر بیٹھ نہ جائو۔ اس سے بہت بڑی بڑی قربانیوں کا نقشہ میرے ذہن میں ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اپنے وقت پر میں انہیں بیان کروں گا اور اگر آپ دیانتداری کے ساتھ میری اتباع کریں گے تو جس طرح یہ یقینی بات ہے کہ اِس وقت سورج نصف النہار پر ہے ا سی طرح فتح یقینی ہوگی مگر اللہ تعالیٰ کی برکتیں کام سے نازل ہوتی ہیں۔ پہلے اُس کے بن جائو، اُسے اپنا ربّ بنالو، پھر اُس کی طرف سے تمہیں وحی ہوگی کہ لَنُھْلِکَنَّ الظّٰلِمِیْنَ یعنی بہت اچھا ہم ان کو مٹادیں گے۔
حضرت نظام الدین اولیائؒ کا ایک واقعہ ہے جو میں نے کئی بار سنایا ہے۔ وہ بادشاہ کے دربار میں نہیں جایا کرتے تھے مخالفوں نے بادشاہ کو اُکسایا کہ یہ اپنی حکومت بنانا چاہتے ہیں۔ بادشاہ ناراض ہوگیا وہ بہار کی طر ف جارہا تھا اِس لئے اُس نے کہا کہ واپس آکر سزاد یں گے۔ چنانچہ جب وہ واپس آرہاتھا آپ کے مریدوں نے عرض کیا کہ حضور!بادشاہ آیا ہی چاہتاہے کوئی صورت کرنی چاہئے جس سے وہ سزا نہ دے مگر آپ نے فرمایا ہنوز دلّی دور است۔ وہ اور قریب آیا مریدوں نے پھر توجہ دلائی مگر آپ نے پھر وہی جواب دیا حتّٰی کہ بادشاہ شہر کے باہر آموجود ہؤا۔ اسلامی طریق یہی ہے اوررسول کریم ﷺ ایسا ہی کیا کرتے تھے کہ رات کو شہر سے باہر ہی قیام کرکے صبح شہر میں داخل ہوتے اسی کے مطابق بادشاہ نے بھی رات شہر سے باہر قیام کیا۔ مرید اور بھی پریشان تھے انہوں نے پھر جاکر عرض کیا کہ کوئی تدبیر کی جائے مگر آپ نے پھر فرمایا ’’ہنوز دلّی دُور است‘‘۔ رات جشن ہؤا بادشاہ کے لڑکے اور دوسرے امراء نے دعوتیں کیں اور ہجوم اتنا ہوگیا کہ چھت گِر پڑی اور بادشاہ دب کر مرگیا۔
پس اگر تم خداتعالیٰ سے تعلق پید اکرلو ، سچی قربانیوں کیلئے تیار ہوجائو اور ان باتوں پر غور کرو جو میں بتاتا ہوں اور جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو ضرور کامیاب ہوکر رہو گے۔ زمانہ تمہیں نافرمانی کی سزا یا اِتباع کے نتیجہ میںکامیابی دے کر بتادے گا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور ایک بھی میری نہیں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ ضروری ہے کہ جو سلوک پہلے انبیاء کی جماعتوں سے ہؤا وہ تم سے ہو اور جب تم امتحانوں میں پاس ہوجائو گے تو تمہاری فتح بھی یقینی ہوگی۔ اگر اپنی اصلاح کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکات نازل ہوں گی اور اگر سُستی کرو گے تو انجام جتنا بھیانک ہے وہ میں نے بتادیا ہے۔ ابھی دشمن جوکہتا ہے ڈرتے ڈرتے کہتا ہے کہ شاید حکومت پکڑ نہ لے مگر پھر بھی وہ کہہ چکا ہے کہ احمدیوں کو مُلک سے نکال دیا جائے گا گو حکومت کا رویہ احرار کو پکڑنے والا نہیں۔ بار بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی جاتی ہیں خصوصاً اخبار مجاہد کی طرف سے تو حکومت نے کانوں میں روئی ٹھونسی ہوئی ہے، وہ بار بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دجّال، کذّاب، شرابی، عیّاش اور زانی لکھتا ہے لیکن حکومت کو ذرا احساس نہیں ہوتا کہ ایک قانون ہے جو اس نے خود بانیانِ مذاہب کی عزت کے تحفظ کیلئے بنوایا ہؤا ہے وہ کہاں گیا۔ ان حالات میں سوائے اس کے کہ’’ مجاہد‘‘ اوربعض افسروں میں سمجھوتہ ہے اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ دشمن جس قِسم کی شرارت کررہا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اُسے بعض افسروں کی انگیخت اور سہارا ہے لیکن اگر آپ لوگ اپنی اصلاح کرکے اللہ تعالیٰ پر توکل کریں تو ایسے سمجھوتے سب کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جائیں گے۔ ایسے بددیانت حاکموں کو بھی ضرور سزا ملے گی، اُن کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل جائے گی، خواہ اللہ تعالیٰ اُن سے بڑے افسروں کے ذریعہ ان کو سزا دے یا آسمان سے حکم جاری کرے۔ لیکن اگر ہماری طرف سے سُستی اور غفلت ہو تو اللہ تعالیٰ کی غیرت بھڑکنے کی کوئی وجہ نہیں اور وہ انتظار کرے گا جب تک کہ ہم اپنی اصلاح نہ کرلیں یا ہماری جگہ کوئی اور قوم کھڑی نہ ہوجائے۔ جب تک ہم اپنے نفسوں میں تبدیلی نہ کریں گے، جب تک جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی کیلئے تیار نہ ہوں گے، سُستیوں اور غفلتوں کو ترک نہ کریں گے اُس وقت تک کامیابی محال ہے۔
ابھی ایک مقدمہ میرے پاس آیا ہے اور عمر بھر میں میرا یہ پہلا تجربہ تھا کہ فریقین کی باتیں اتنی متضاد تھیں کہ ایک اُن میںسے ضرور خطرناک جھوٹ بول رہا تھا۔ احمدیوں کے متعلق یہ میرا پہلامشاہدہ تھا کہ ایک فریق خطرناک جھوٹ بول رہا تھا اور ایک موقع پر تو فریقین نے اقرار کرلیا کہ فلاں وقت وہ دونوں جھوٹ بول چکے ہیں۔ پس جب تک اپنی اصلاح نہ کرو گے عزت نصیب نہیں ہوگی، جب تک آپس میں صلح نہ کرو، محبت پیدانہ کرو، محنت کی عادت نہ ڈالو، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی کس طرح امید کرسکتے ہو۔ پس مالی اور جانی قربانیوں کیلئے خود بھی تیار ہوجائو اور اولادوں کو بھی قربانی کیلئے تیار کرو۔ اُن کو سختی، محنت اور مشقّت کا عادی بنائو، ایثار اورسچائی کی عادت ڈالو، ہماری جماعت کو تو سچ پر اس طرح قائم ہوناچاہئے کہ اگر احمدی کوئی بات کہہ دے تو لوگ خاموش ہوجائیں کہ بس یہی سچی ہے۔ یہ دن لے آئو پھر دیکھو کس طرح فتح قریب آتی ہے۔ جس طرح خداتعالیٰ قریب بھی ہے اور دور بھی،اسی طرح مؤمن کی کامیابی دور بھی ہوتی ہے اور نزدیک بھی۔ لوگ خدا کو کتنا دور سمجھتے ہیں کہ ساری عمر میں بھی اُس تک نہیں پہنچ سکتے مگر وہ اتناقریب ہے کہ ایک منٹ میں انسان اُسے حاصل کرسکتا ہے یہی حال مؤمن کی کامیابی کا ہے۔ دنیا کو وہ سینکڑوں سالوں میں جاکر حاصل ہوتی ہے مگر مؤمن جب ارادہ کرلیتا ہے تو فوراً کامیاب ہوجاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دُور مت سمجھو اور اگر اپنی اور اپنی اولادوں کی اصلاح کر لو تو گو رات کو آسمان پر مایوسیوں کے بادل تمہیں نظر آتے ہیں مگر جب صبح اُٹھو گے تو تم ہی دنیا کے بادشاہ ہو گے۔
(الفضل ۲۲؍ مئی ۱۹۳۶ئ)
؎۱ ابراہیم: ۱۴ ؎ ۲ آل عمران: ۱۰۴
؎۳ اسدالغابۃ جلد ۳ صفحہ ۲۲۱۔ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
؎۴ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی ﷺ و وفاتہ
؎۵ آل عمران: ۱۱۹
؎۶ تذکرہ صفحہ ۱۸،۱۹۔ ایڈیشن چہارم





۱۸
اگر دنیا کو فتح کرنا چاہتے ہو تو عملی زندگی میں بھی
تعلیمِ اسلام کے مطابق تغیر پید اکرو
(فرمودہ ۲۲؍مئی ۱۹۳۶ئ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں نے بارہا بیان کیا ہے کہ ہماری جماعت معمولی جماعتوں کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کے قیام کی غرض دنیا کے موجودہ نقشہ کوبدل دیناہے۔ اسلام کے عقائد پر دراصل اتنا حملہ آجکل نہیں جتنا کہ اسلامی شریعت، اسلامی طریق اور اسلامی سنّت پر ہے او رچونکہ یہ حملہ نہایت باریک ہوتا ہے پھر اس میں نفس کی سہولت اور آرام کا بھی بہت کچھ دخل ہوتاہے اس لئے ایسے حملے کا دفاع نہایت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اگر ہم غور کرکے دیکھیں تو جہاں احمدیت نے لوگوں کے عقائد میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کردیا ہے وہاں عملی دنیا میں تغیر نہایت ہی قلیل نظر آتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب دعویٰ فرمایا اُس وقت تمام کے تمام مسلمان اِلَّامَاشَائَ اللّٰہُ اس خیال اور اس عقیدہ کے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پرزندہ موجود ہیں اور وہ دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور یہ عقیدہ باوجود اِس کے کہ عقل و نقل کے بالکل خلاف تھا، باوجود اس کے کہ انسانی فطرت اس کو ردّ کرتی ہے پھر بھی دنیا میں اِس قدر مقبول تھا کہ اِس ایک مسئلہ کی وجہ سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف سارے ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان سے باہر بھی شور پڑ گیا۔ مسلمان حیران تھے اور وہ اپنے کھلے ہوئے مونہوں اور پھٹی ہوئی آنکھوں کے ساتھ جس طرح ایک غشی میں مبتلا ہونے والا انسان سکتہ کی حالت میں پڑجاتا ہے اس دعویٰ کو حیرت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعلان پر نہایت ہی تعجب کررہے تھے۔ وہ حیران تھے کہ ایک سمجھدار انسان ایسی بات کس طرح قبول کرسکتا ہے او رکس طرح لوگوں کے سامنے اسے پیش کرسکتا ہے۔ ان کے نزدیک دنیا کی ثابت شُدہ حقیقتوں میں سے سب سے زیادہ ثابت شُدہ حقیقت یہی تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور آسمان پر بیٹھے ہیں سوائے نیچریوں کے جن کی تعداد بہت تھوڑی تھی باقی تمام مسلمان نئی تعلیم کے حاصل کرنے والے کیا اور پُرانی تعلیم کے حاصل کرنے والے کیا، پیر کیا اور مولوی کیا، امیر کیا اور غریب کیا، پیشہ ور کیا اور غیرپیشہ ور کیا، ان میں سے ہر ایک حیرت میں تھا کہ ایسی موٹی بات کو یہ شخص کس طرح ردّ کررہا ہے۔ لوگوں کو اس مسئلہ کے متعلق جس قدر یقین اور وثوق تھا وہ ایک واقعہ اورایک مثال سے اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے۔
پنجاب کے ایک مشہور طبیب جن کی طبّی عظمت کے حضرت خلیفہ اوّل جیسے طبیب بھی قائل تھے اُن کے متعلق حضرت خلیفہ اوّل کا ہی بیان ہے کہ ایک دفعہ اُن کے پاس مولوی فضل دین صاحب مرحوم بھیروی جو حضرت خلیفہ اوّل کے گہرے دوست اور نہایت مخلص احمدی تھے گئے اور انہیں کچھ تبلیغ کی۔ وہ باتیں سن کر کہنے لگے میاں! تم مجھے تبلیغ کرتے ہو تم بھلا جانتے ہی کیا ہو اور مجھے تم نے کیاسمجھانا ہے۔ مرزا صاحب کے متعلق تو جو مجھے عقیدت ہے اس کا دسواں بلکہ بیسواں حصہ بھی تمہیں ان سے عقیدت نہیں ہوگی۔ مولوی فضل دین صاحب مرحوم یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے سمجھا کہ شاید یہ دل میں احمدی ہیں اس لئے انہوں نے کہا اِس بات کو سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ آپ کو حضرت مرزا صاحب سے عقیدت ہے اور میں خوش ہوں گا اگر آپ کے خیالات سلسلہ کے متعلق کچھ اَور بھی سنوں۔ وہ کہنے لگے آج کل کے جاہل نوجوان بات کی تہہ تک نہیں پہنچتے اور یونہی تبلیغ کرنے کیلئے دَوڑ پڑتے ہیں۔ اب تم آگئے ہو مجھے وفاتِ مسیح کا مسئلہ سمجھانے، حالانکہ تمہیں معلوم کیا ہے کہ مرزا صاحب کی اِس مسئلہ کے پیش کرنے میں حکمت کیا ہے۔ وہ کہنے لگے آپ ہی فرمایئے۔ انہوں نے کہا سنو! اصل بات یہ ہے کہ مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کتاب لکھی، تیرہ سو سال میں بھلا کوئی مسلمان کا بچہ تھا جس نے ایسی کتاب لکھی ہو، مرزا صاحب نے اس میں ایسے ایسے علوم بھردیئے کہ کسی مسلمان کی کتاب اِس کا مقابلہ نہیں کرسکتی، وہ اسلام کیلئے ایک دیوار تھی جس نے اُسے دوسرے مذاہب کے حملوں سے بچالیا۔ لیکن مولوی (انہیںگالیاںدینے کی بڑی عادت تھی۔ پانچ سات گالیاں دے کر کہنے لگے) ایسے احمق اور بیوقوف نکلے کہ بجائے اِس کے کہ وہ آپ کا شکریہ ادا کرتے اور زانوئے ادب تہہ کرکے آپ سے کہتے کہ ہم آئندہ آپ کے بتائے ہوئے دلائل ہی استعمال کیا کریں گے ان نالائقوں نے اُلٹا آپ پر کفر کا فتویٰ لگادیا اور اسلام کی اتنی عظیم الشان خدمت دیکھنے کے باوجود جو رسول کریم ﷺ کے بعد تیرہ سَو سال میں اور کسی نے نہ کی آپ کے خلاف کفر کے فتوے دینے لگے اور اپنی علمیت جتانے لگ گئے اور سمجھنے لگے کہ ہم بڑے آدمی ہیں۔ اِس پر مرزا صاحب کو غصہ آنا چاہئے تھا اور آیا۔ چنانچہ انہوں نے مولوی سے کہا اچھا تم بڑے عالم بنے پھرتے ہو، اگرتمہیں اپنی علمیت پر ایسا ہی گھمنڈ ہے تو دیکھ لو حیاتِ مسیح کا عقیدہ قرآن سے اتنا ثابت ہے، اتنا ثابت ہے کہ اس کے خلاف حضرت مسیح کی وفات ثابت کرنی ناممکن نظر آتی ہے لیکن میں قرآن کریم سے ہی حضرت مسیح کی وفات ثابت کرکے دکھادیتا ہوں اگر تم میں ہمت ہے تو اس کا ردّ تو کرو۔ چنانچہ انہوں نے مولویوں کو ان کی بیوقوفی جتانے کیلئے وفاتِ مسیح کا مسئلہ پیش کردیا اور قرآن سے اِس کے متعلق ثبوت دینے لگ گئے۔ اب مولوی چاہے سارا زور لگالیں، چاہے ان کی زبانیں گھس جائیں اور قلمیں ٹوٹ جائیں سارے ہندوستان کے مولوی مل کر بھی مرزا صاحب کے دلائل کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ مرزاصاحب نے انہیں ایسا پکڑا ہے، ایسا پکڑا ہے کہ ان میں سر اٹھانے کی تاب نہیں رہی۔ اب اس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ سارے مولوی مل کر ایک وفد کی صورت میں مرزا صاحب کے پاس جائیں اور کہیں کہ ہم سے آپ پر کفر کا فتویٰ لگانے میں بے ادبی ہوگئی ہے ہمیں معاف کیا جائے، پھر دیکھ لیں مرزا صاحب قرآن سے ہی حیاتِ مسیح ثابت کرکے دکھاتے ہیں یا نہیں۔
اس سے آپ لوگ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُس وقت حیاتِ مسیحؑ کا عقیدہ کتنا یقینی سمجھاجاتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتبار اور اعتماد رکھتے ہوئے اور آپ کو اسلام کا سب سے بڑا خادم سمجھتے ہوئے پھر بھی اُن کا ذہن اِس طرف نہ جاتا کہ جب وہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں تو واقعہ میں وہ فوت ہوچکے ہوں گے بلکہ وہ سمجھتے کہ یہ محض مولویوں کو شرمندہ کرنے کیلئے کہتے ہیں ورنہ حیاتِ مسیح کا مسئلہ تو ایک ثابت شُدہ حقیقت ہے۔ یہ حالت تھی ان لوگوں کی جن کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ دعویٰ پیش کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں ۔ سارے ہندوستان میں ایک آگ لگ گئی ، علماء اپنے بستے کھول کر بیٹھ گئے، ردّ لکھتے لکھتے ان کی قلمیں گھس گئیں اور تقریریں کرتے کرتے ان کی زبان پر آبلے پڑ گئے، انہوں نے حیاتِ مسیح کو ثابت کرنے کیلئے اپنا سارا زور لگادیا مگر نتیجہ کیا ہؤا؟ ہر دن جو نیا چڑھا اس میں ان کے چند ماننے والے اگر احمدی نہیں ہوئے تو حیاتِ مسیح کا انکار کرنے لگ گئے اور آج تمام ہندوستان میں پھر جائو دس تعلیم یافتہ آدمیوں میںسے ایک بھی حیاتِ مسیح کا قائل نظرنہیں آئے گا۔ وہ ابھی تک احمدی نہیں ہوئے مگر وفاتِ مسیح کے قائل ہیں بلکہ ہماری جماعت کا ایک شدید دشمن حیاتِ مسیح اور آمد مسیحؑ کے عقیدہ کو ایک مجوسی عقیدہ خیال کرتا ہے۔ وہ ہماری جماعت کی مخالفت کرتا ہے مگر حیاتِ مسیح کا وہ بھی قائل نہیں اور یہ صرف اس سے ہی مخصوص نہیں انگریزی پڑھے ہوئے اکثر ایسے ہیں جو حضرت مسیح کی حیات تسلیم نہیں کرتے بلکہ مولویوں کے پاس چلے جائو ان میں سے بھی اکثر ایسے دکھائی دیں گے جو حیاتِ مسیحؑ کے قائل نہیں ہوں گے۔ چنانچہ عام طور پر مسلمانوں سے اس مسئلہ پر جب گفتگو کی جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس مسئلہ میں کیا رکھا ہے چلو اِسے چھوڑو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دل سب کے ماننے لگ گئے ہیں۔ اب کجا وہ حالت تھی اور کجا یہ حالت ہے۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب یہ مسئلہ پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء ہر ملک میں بھیجے ہیں تو ساری دنیا میں ایک آگ لگ گئی اور لوگوں نے کہا دیکھو!یہ کافروں کو نبی قرار دیتا ہے۔ اس مسئلہ پراس قدر استہزاء کیا گیا، اس قدر تمسخر کیا گیا کہ کان اس کے سننے کی برداشت نہیں کرتے تھے لیکن آج شدید ترین مخالف اخبار بھی جو رات دن ہمارے خلاف لکھتے رہتے ہیں اس مسئلہ کی صحت کو تسلیم کرچکے ہیں اور ان میں اس بات پر مضمون شائع ہوتے ہیں کہ اسلام پہلے انبیاء کی صداقت کا بھی قائل ہے۔ گویا یا تو اس مسئلہ کو نہایت ہی غلط اور بے بنیاد قرار دیا جاتا تھا یا اب احمدیت کی تعلیم کی اشاعت کی وجہ سے سارے لوگوں کیلئے یہ ایک تسلیم شدہ مسئلہ بن گیا ہے او رتمام سمجھدار انسان احمدیت کی تعلیم کو صحیح تسلیم کرنے لگ گئے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ابتدائے دعویٰ میں جب قرآن مجید کے کامل ہونے کا دعویٰ پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ قرآن مجید کی کوئی آیت منسوخ نہیںتو علماء کہلانے والے اتنے جوش میں آگئے کہ ان کے مونہوں سے جھاگ اور ان کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔ اس وقت یوں معلوم ہوتا تھا کہ قرآن مجید کی بعض آیات کا منسوخ ہونا ہی ان کے نزدیک اسلام کے زندہ ہونے کے مترادف ہے اور اس مسئلہ کو بھی الحاد او رزندقہ کا موجب قرا ردیا گیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ایک اپنا واقعہ سنایا کرتے تھے۔ فرمایا کرتے مَیں ایک دفعہ لاہور گیا غالباً مسجد چینیاں میں نماز پڑھنے کیلئے چلاگیا، میں بھی وضو کررہا تھا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی آگئے اور ان سے گفتگو شروع ہوئی۔ دَورانِ گفتگو مَیں نے کوئی آیت پڑھی تو وہ کہنے لگے یہ منسوخ ہے۔ حضرت مولوی صاحب فرماتے ہیں میں نے انہیں کہا میں قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ کا قائل نہیں ہوں۔ اس پر وہ بڑے جوش میں آگئے اور کہنے لگے یہ ملحد لوگوں کا عقیدہ ہے ، ابومسلم خراسانی بھی ایک ملحد تھا اور اُس کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ قرآن مجید کی کوئی آیت منسوخ نہیں۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا چلو ہم ایک سے دو بن گئے اور پُرانے آدمیوں کی بھی اس مسئلہ کی تائید میں ایک روایت مل گئی۔
تو اُس زمانہ میں یہ ایک عجیب بات سمجھی جاتی تھی اور جو اس کا قائل ہوتا اس کے متعلق سمجھاجاتا کہ وہ اِل￿حاد کا مرتکب ہے اور خیال کیا جاتا کہ جب تک قرآن مجید میں بعض آیات کو منسوخ نہ سمجھا جائے اس وقت تک اسلام کو غلبہ حاصل نہیں ہوسکتا مگر آج جائو اور ان علماء یا عوام سے جو اسلام سے دلچسپی رکھتے ہیں پوچھ لو وہ قرآن مجید کی تمام آیتوں سے استدلال کریں گے اور منسوخ کا نام بھی نہیں لیں گے۔ نئی لکھی ہوئی تفسیروں کو دیکھ لو ان میں سے ناسخ منسوخ کے الفاظ بِالکل اُڑ گئے ہیں گویا دنیا کا نقطۂ نگاہ ہی اس بارے میں بالکل بدل گیا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے وقت عام مسلمانوں کا یہ عقیدہ تھا کہ انبیاء بھی گناہگار ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ انبیاء کے عیوب گنانے میں مولوی لوگ فخر محسوس کرتے اور مزے لے لے کر اپنی مجلسوں میں ان عیوب کو بیان کرتے۔ ان کی وہ مجلسیں دیکھنے کے قابل ہوتی تھیں جب وہ چٹخارے مار مار کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جھوٹ گنواتے اور حضرت یوسف علیہ السلام کی چوریاں بیان کرتے، جب وہ اپنی مجالس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قاتل قرار دیتے اوروہ بجائے اس کے کہ کوئی شرم محسوس کرتے اس میں لذّت اور خوشی پاتے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس سوال کو اُٹھایا اور اس پر بحث کی اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء بالکل معصوم ہوتے ہیں۔ آپ کے اس دعویٰ کو دنیا نے عجیب قِسم کا دعویٰ سمجھا اور اسے ایک غیر معمولی بات خیال کیا مگر آج کہاں ہیں مسلمانوں میں وہ لوگ جو کھڑے ہوکر کہہ سکیں کہ انبیاء نے فلاںفلاں گناہ کئے۔ وہی مسلمان جو یہ باتیں سن کر سر دھنا کرتے تھے، وہی مسلمان جو یہ باتیں سن کر سُبْحَانَ اللّٰہِ اور واہ واہ کے نعرے لگایاکرتے تھے آج اگر کسی کے منہ سے اِس قسم کی باتیں سن لیں تو وہ اُس کی کھوپڑی پر جوتیاں مارنے کیلئے تیار ہوجائیں۔
اسلامی تعلیم کے پُرحکمت ہونے کا دعویٰ بھی ایسا ہی تھا جو دنیا کی نظروں میں عجیب تھا۔ عام طور پر مسلمان یہ خیال کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ایک حکم دیا ہے تو اسے مان لینا چاہئے اس پر دلیل کیسی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب اس دعویٰ کوپیش کیا کہ قرآن مجید کے تمام احکام سبب اور علّت کا ایک سلسلہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور اس کا ہر حکم کسی نہ کسی حکمت کا حامل ہے تو گو اس مسئلہ پر مسلمانوں کی طرف سے مخالفت نہیں ہوئی مگر ان کی نظروں میں یہ دعویٰ عجیب تھا۔ اُس وقت مسلمان اِس کو ایک ذکی الحس دماغ کی تیزیٔ طبع خیال کرتے تھے مگر آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہی کتاب جس میں اِس مسئلہ کا بالتفصیل ذکرہے سرورق پھاڑ کر لوگ اپنے نام سے شائع کررہے ہیں۔ چنانچہ میں نے دیکھا ہے لاہور میں ہی ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ اپنے نام سے شائع کی ہوئی ہے صرف اس نے یہ تبدیلی کی ہوئی ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الہام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے راقم بھی اس میں تجربہ کار ہے اس قسم کے تمام فقرات اس نے کاٹ دیئے ہیں کیونکہ وہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا تھا مگر باقی تمام کتاب اُ س نے اپنے نام سے شائع کی ہوئی ہے۔ اب کجا وہ حالت کہ ان چیزوں پر تعجب کا اظہار کیا جاتا تھا اور کجا یہ عظمت کہ چوری کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کو اپنے نام پر شائع کردیا جاتا ہے۔
قرآن مجید کی آیات میں ترتیب ہونے کا دعویٰ بھی مسلمانوں کے نزدیک ایک بالکل غیرمعقول اور احمقانہ دعویٰ تھا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ امر شائع فرمایا کہ قرآن مجید کی تمام آیات اور ان آیات کے تمام الفاظ میں ترتیب ہے اور اس کی ترتیب کو نظر انداز کرنے سے قرآن مجید کی خوبی اور اس کا حُسن مارا جاتا ہے تو مسلمانوں نے حیرت اور تعجب سے اس دعوے کو دیکھا اور انہوں نے خیال کیا کہ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جسے عقلِ سلیم قبول نہیں کرسکتی۔ ان کی تفسیریں تقدیم و تأخیر کی بحثوں سے بھری پڑی تھیں جہاں کہیں ان کو قرآن مجید کے معنے سمجھ نہ آتے وہ کہتے اس آیت کے الفاظ غلطی سے آگے پیچھے ہوگئے ہیں۔ غلطی کالفظ میں نے اپنی طرف سے بڑھایا ہے کیونکہ آگے پیچھے الفاظ غلطی سے ہی ہؤا کرتے ہیں ورنہ اگرحکمت کے ماتحت الفاظ کی ترتیب ہو تو ان کے متعلق آگے پیچھے ہوجانے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ پس وہ سمجھتے کہ گویا خدا بھی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ کبھی جلدی میں غلطی کرجاتا ہے۔ جو الفاظ بعد میں رکھنے ہوتے ہیں وہ پہلے رکھ دیتا ہے اور جو الفاظ پہلے رکھنے ہوتے ہیں وہ بعد میں رکھ دیتا ہے۔ چنانچہ بڑا دعویٰ ان کا یہ تھا کہ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ ؎۱ میں نَعُوْذُ بِاللّٰہِ خداتعالیٰ سے غلطی ہوئی اسے رَافِعُکَ اِلَیَّپہلے رکھنا چاہئے تھا اور مُتَوَفِّیْکَ بعد میں۔ جب کبھی مسلمانوں کے سامنے احمدی یہ آیت پیش کرتے اور کہتے کہ دیکھو یٰعِیْسٰٓی اِنِّی مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّوالی آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق وفات کا پہلے ذکر ہے اور رفع کا بعد میں جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پہلے فوت ہوئے ہیں اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے گئے ہیں مگر تم کہتے ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے گئے ہیں اگر فوت نہیں ہوئے؟ تو اس پر تمام مولوی جس طرح ایک بیوقوف اور احمق شخص کی حماقت پر مسکرا کرجواب دیاجاتا ہے نہایت عالمانہ شکل بنا کر اور احمدیوں کی مزعومہ جہالت پر ہنسی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آیت میں تقدیم و تأخیر ہوگئی ہے یعنی جو پہلے لفظ رکھنا تھا وہ اللہ تعالیٰ نے بعد میں رکھ دیا او رجسے بعد میں رکھنا تھا اسے پہلے رکھ دیا۔ مگر کوئی نہ بتاتا کہ اس نے کیوں پہلے رکھنے والا لفظ بعد میں او ربعد کا لفظ پہلے رکھ دیا آخر وجہ کیاتھی اور اللہ تعالیٰ کو کونسی ایسی مشکل پیش آئی تھی جس کی بناء پر الفاظ کو آگے پیچھے کرنا پڑا ۔ اگر کوئی مشکل پیش آئی تھی تو اُسے بیان کرنا چاہئے اور اگر حکمت تھی تو اسے بیان کرنا چاہئے تھا مگر یونہی الفاظ کو آگے پیچھے رکھ دینا یا تو مطالب سے جہالت کی وجہ سے ہوتا ہے یا الفاظ سے جہالت کی وجہ سے ہوتا ہے یا پھر جلدی میں بعض دفعہ ایسا ہوجاتا ہے کہ انسان سے الفاظ آگے پیچھے ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ کسی زمیندار کابیل گم ہوگیا وہ تلاش کرتا رہا مگراسے نہ ملا۔ کسی نے اسے کہا کہ تم اس کی تلاش میںکہاں کہاں پھر وگے بہتر ہے کہ تم نماز کے وقت مسجد میں چلے جائو وہاں سب گائو ں کے لوگ جمع ہوں گے وہاں دریافت کرلینا کہ کسی نے میرا بیل دیکھا ہے؟ ممکن ہے ان میں سے کوئی تمہیں بیل کا پتہ دے دے۔ اس نے سوچا یہ تدبیر اچھی ہے مجھے مسجد میں چلنا چاہئے راستہ میں وہ سوچتا گیاکہ مجھے لوگوں سے مہذب طریق سے گفتگو کرنی چاہئے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے اہل مجلس کو سلام کیا جائے اور پھر دریافت کیا جائے کہ کسی نے بیل تو نہیں دیکھا؟ یہ تجویز ذہن میں آتے ہی اس نے فیصلہ کیا کہ جب میں مسجد میں جائوں گا تو لوگوں سے کہوں گا اہلِ مجلس اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہیں آپ نے میرا بیل دیکھا ہے؟ یہ فقرہ سوچ کر وہ چلا۔ مگر اس کے دماغ میں چونکہ بیل کا خیال غالب تھا اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کے الفاظ اس نے محض لوگوں کو خوش کرنے کیلئے لگا رکھے تھے اس لئے مسجد میں پہنچتے ہی جلدی سے اس کے منہ سے نکل گیا ’’اہلِ مجلس بیل بیل کہیں آپ نے میرا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دیکھا ہے‘‘۔
یہ وہ چیز ہے جسے تقدیم و تاخیر کہتے ہیں مگر ان نادانوں سے کوئی پوچھے کہ کیا اللہ تعالیٰ پر بھی کبھی یہ حالت وار د ہوسکتی ہے کہ ’’اہل مجلس بیل بیل کہیں آپ نے میرا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دیکھاہے‘‘۔ کہنا تھا رَافِعُکَ اور منہ سے نکل گیا مُتَوَفِّیْکَ۔ یہ مسلمانوں کی حالت تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا لیکن آج مسلمان مصنفین کی کتابیں پڑھ کردیکھ لی جائیں وہ وہی بات دُہرا رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی کہ قرآن مجید کے الفاظ میں ترتیب ہے چاہے وہ ترتیب نہ دکھاسکیں، چاہے ایسی آیتوں پر بحث کے وقت آج بھی انہیں مصیبت معلوم ہو مگر وہ اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن مجید کی آیات او راس کے الفاظ میں ترتیب پائی جاتی ہے۔ حالانکہ ان کے بڑے بڑے علماء یہ لکھا کرتے تھے کہ قرآن کریم میں کوئی ترتیب نہیں اگر ترتیب ہے بھی تو نہایت موٹی اور معمولی۔
غرض عقائد کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تبدیلیاں دنیا کے سامنے پیش کی تھیں اس زمانہ میں ان کے خلاف نہایت جوش اور غیظ و غضب کا اظہا رکیا گیا اور مسلمانوں نے یوں سمجھا کہ اسلام پر تبر رکھ دیا گیا ہے لیکن جوں جوں جماعت احمدیہ کی طرف سے ان خیالات کو پھیلایا گیا، ان عقائد کی معقولیت، پختگی ، صحت اور درستی لوگوں کے قلوب پر اثر انداز ہوتی چلی گئی اور آہستہ آہستہ مسلمانوں کے دل ان سچائیوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے اور وہ جھوٹے اور غلط عقائد جو ان میں پھیلے ہوئے تھے اور جن کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف جوش اور غیظ و غضب کا اظہار کیاگیا تھا آہستہ آہستہ محو ہوتے گئے یہاں تک کہ وہ تعلیمیں جن کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کفر کے فتوے دیئے گئے اُن کو خود علماء نے قبول کرلیا او رآج سارے علماء کہتے ہیں کہ اس میں مرزا صاحب کی کونسی خوبی تھی یہ باتیں تو پہلے سے قرآن کریم میں موجود تھیں۔ مگر یہ نہیں سوچتے کہ حضرت مرزا صاحب نے کب کہا تھاکہ میں اپنی طرف سے یہ باتیں کہتاہوں انہوں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ یہ باتیں قرآن مجید میں سے بیان کرتا ہوں مگر اُس وقت کے علماء نے انکار کیا اور آج کے علماء کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ان تمام باتوں کو مان رہے ہیں۔
اِس کے مقابلہ میں جب ہم عمل کو دیکھتے ہیں تو عملی زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم جو ہے وہ غیر تو غیر اپنی جماعت میں بھی ابھی تک پوری طرح قائم نہیں ہوئی۔ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ورثہ کے مسئلہ پر خاص طور پر زور دیا ہے اور تاکید کی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو حصہ ملنا چاہئے مگر جہاں وفاتِ مسیح کا مسئلہ ، قرآنی ترتیب کامسئلہ، عصمتِ انبیاء کا مسئلہ اور بیسیوں مسائل ایسے ہیں جنہیں دشمنوں نے بھی تسلیم کرلیا ہے وہاں یہ مسائل ایسے ہیں کہ اپنوں نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا۔ زمینداروں میں یہ مسئلہ زیادہ تر لاپروائی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور زمیندار ہی زیادہ تر اِس مسئلہ کو عملی جامہ پہنانے میں روک بنتے ہیں۔ وہ لڑکوں کو حصہ دے دیں گے مگر لڑکیوں کوحصہ دینے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔
اسی طرح غرباء اور امراء میں پیار، اتحاد، محبت، یکجہتی اور یکسوئی کی جو تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دی ہے کتنے لوگوں نے اس پر عمل کیا ہے؟ اب تحریک جدید کے ماتحت کھانے اور کپڑوں کے متعلق بعض احتیاطیں امراء نے اختیار کی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسی روح کے ماتحت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیدا کرنا چاہتے تھے یا معین صورت میں؟ اگر انسان ایک روح کے ماتحت کام کرے تو وہ اس حکم کے تمام گوشوں کو مدنظر رکھنا اور باریک سے باریک امور بھی بجالانا اپنافرض سمجھتا ہے لیکن اگر صرف حکم کی تعمیل مدنظر ہو تو انسان اپنے آپ کو اس حکم کے الفاظ تک محدود رکھتا ہے۔ نیتوں کے فرق کے ساتھ عمل میں بھی فرق آجاتا ہے۔ جس نے حکم ماننا ہو وہ یہ دیکھتاہے کہ الفاظ کتنے ہیں اور کیا ہیں۔ اور جو اخلاص کے ماتحت کام کرتا ہے وہ سارے پہلوئوں پر غور کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس حکم کے یہ معنے بھی ہونے چاہئیں اور یہ معنے بھی ہونے چاہئیں۔
اسی طرح مغربیت کے مقابلہ کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے فتاویٰ موجود ہیں مگر کتنے احمدی ہیں جو ان پر عمل کرتے ہیں۔لفظی طور پر قربانی کا دعویٰ بہت سے لوگ کر بیٹھیں گے لیکن عملی طور پر ان چیزوں کی عظمت کا اقرار کرنے والے اور اپنے عمل سے ثبوت دینے والے بہت کم لوگ نظر آتے ہیں حالانکہ جب تک ہم اس بات میں کامیاب نہیں ہوجاتے دنیا کے سامنے نمایاںنتیجہ پیش نہیں کرسکتے۔ نمایاں نتیجہ دنیا کے سامنے اسی صورت میں ہم پیش کرسکتے ہیں جب عملی زندگی میں بھی ہم اپنے آپ کو اسی دَور میں لے جائیں جو آج سے تیرہ سو سال پہلے دنیا میں جاری ہؤا ، جب ہماری شکلوں اور صورتوں کودیکھ کر محمد ﷺ کے صحابہؓ کا زمانہ یاد آجائے، جب ہم اس راہ کو اختیار کرلیں جو صحابہؓ نے اختیار کی، جب سچائی پر ہمارا قیام ہوجائے، جب جھوٹ اور فریب سے ہم بچنے والے ہوں، جب لڑائی اور جھگڑے کی روح کو ہم مٹادیں، جب اخلاقِ فاضلہ کا حصول ہماری زندگی کا مقصد ہوجائے، جب اللہ تعالیٰ کی محبت ہر وقت ہمارے سامنے رہے اورجب اس کے قُرب کے حصول کیلئے ہم ہر وقت جدوجہد کرتے رہیں تب ہم دنیا میں تغیر پیدا کر سکتے ہیں اور تبھی دنیا کے لوگ عملی زندگی میں ہماری نقل کریں گے۔ مگر اب تو یہ حالت ہے کہ عقائد میں وہ ہماری نقل کررہے ہیں اورعمل میں ہم ان کی نقل کررہے ہیں حالانکہ وعظ و نصیحت کے لحاظ سے کوئی کمی نہیں ہوئی۔ شاید ہی اہم مسائل میں سے کوئی مسئلہ ایسا رہ گیا ہو جس کے متعلق کوئی لیکچر ، کوئی خطبہ، کوئی رسالہ یا کوئی تصنیف نہ ہو مگر شاید ہی کوئی ایسی بات ہو جس پر جماعت بحیثیت جماعت قائم ہو۔
پہلی چیز تو نماز باجماعت ہی ہے۔ ابھی تک میں دیکھتا ہوں کہ نما زباجماعت کی پوری پابندی نہیں کی جاتی۔ میں نے محلہ وار مسجدوں کے ساتھ انجمنیں اسی غرض کیلئے بنوائی تھیں کہ وہ لوگوں کی نگرانی رکھیں مگر مسجدوں کے ساتھ انجمنیں تو بن گئیں لیکن انہوں نے کام کوئی نہیں کیا۔ گویا نام انہیں ملا مگر کام نہیں ملا کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ ایسے لوگ موجود ہیں او رکافی تعداد میں موجود ہیں جو مساجد میں نماز نہیں پڑھتے او ریہ بھی واقعہ ہے کہ کسی پریذیڈنٹ یا سیکرٹری نے مجھے کبھی اطلاع نہیں دی کہ فلاں فلاں لوگ مسجد میں نماز نہیں پڑھتے جس کے معنے یہ ہیں کہ پریذیڈنٹ یا سیکرٹری نام رکھا کر بیٹھ گئے ہیں کام کرنے کیلئے تیار نہیں لیکن نام کیا فائدہ دے سکتا ہے۔
سب سے بڑا حکم اسلام میں نماز کا ہی ہے کیونکہ اسلام نما زکو خداتعالیٰ سے باتیں کرنا قرار دیتا ہے۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ نماز مؤمن کا معراج ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ مؤمن نماز کی حالت میں اپنے ربّ سے باتیں کرتاہے۔ جب ہم میں سے کچھ لوگ اپنے خدا سے باتیں کرنے کیلئے بھی تیار نہیں تو وہ اس کیلئے اور کیا قربانی کرسکتے ہیں۔ اگر ہر محلہ کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری مساجد میں جاتے ہیں تومیں نہیں سمجھ سکتا کہ انہیں کیا مصیبت پڑتی ہے کہ وہ لوگوں کی نگرانی نہیں کرتے اور اس بات کا پتہ نہیں لیتے کہ فلاں فلاں آدمی مسجد میں نہیں آتا۔ پھر انہیں کیا مصیبت پڑتی ہے کہ وہ میرے پاس ان کی رپورٹ نہیں کرتے۔ مسجدوں میں باجماعت نماز نہ پڑھنے والے معمولی آدمی ہی نہیں بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جو جماعت میں باعزت سمجھتے جاتے یا با رُتبہ سمجھتے جاتے ہیں مگر جماعت کے رُتبہ دے دینے سے بھلا کیابنتا ہے رُتبہ وہ ہے جوخداتعالیٰ کی طرف سے ملے۔ رسول کریم ﷺ ایسے شخص کو جو مسجد میں نماز باجماعت اد انہیں کرتا منافق قرار دیتے ہیں ؎۳ ۔ پس اگر آپ لوگ سب مل کر بھی اُسے لیڈر بنالیں تو اس سے کیا بنتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کے قول کے مطابق تووہ منافق ہے او راُس کی وہی حالت ہے جو حدیثوں میں رسول کریم ﷺ نے بیان کی کہ جب کوئی منافق مرجاتا ہے اور عورتیں اُس پر بین ڈالتی اور کہتی ہیںکہ ہائے او بہادرا! ساری دنیا کا تُوہی سہارا تھا، تو فرشتے اُسے جوتیاں مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا واقعہ میں تو دنیا کا سہارا تھا؟ پھر وہ کہتی ہیں ہائے او میرے شیرا! تو فرشتے پھر اُسے جوتیاں مارتے ہیں اور کہتے ہیں کیا تو شیر تھا؟ تیرے جیسا تو بُزدل دنیا میں اور کوئی نہ تھا۔ تو تمہاری دی ہوئی لیڈری او راعزاز کیا کام دے سکتی ہے۔ رُتبہ وہ ہے جو خدا او راُس کے رسول کی طرف سے ملے اور وہ رُتبہ مسجد میں نماز باجماعت ادا نہ کرنے والے کا یہ ہے کہ وہ منافق ہے۔ پس اگر تم سارے مل کر اُسے اپنا بادشاہ بنالو یا اُسے اپنا لیڈر تسلیم کرلو تو تمہارے رُتبے دینے سے اس کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا کیونکہ رُتبہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے اور عزت وہی ہے جو اُس کی طرف سے عطا ہو۔
غرض ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو مساجد میں نہیں آتے لیکن انجمنیں تو بن گئی ہیں مگر ایسے لوگوں کی کوئی نگرانی نہیں ہوتی اور نہ اُن کی رپورٹیں میرے پاس آتی ہیں۔ سال بھر سے زیادہ ہونے لگا ہے جب یہ کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں مگر ابھی تک ایک کام میں بھی اصلاح نہیں ہوئی بلکہ انہوں نے اصلاح کیا کرنی تھی۔ ان میں تو اتنی ہمت بھی پیدا نہیں ہوئی کہ وہ میرے پاس رپورٹ کرتے حالانکہ انہیں چاہئے تھا کہ وہ لوگ جو مسجدوں میں نماز کیلئے نہیں آتے اُن کا پتہ لگاتے اور پھر پانچ سات آدمیوں پر مشتمل وفد بناتے اور جس کے متعلق یہ ثابت ہوتا کہ وہ اکثر ناغہ کرتا ہے اور مسجد میں نماز کیلئے نہیں آتا اس کے پاس وہ پانچ سات آدمی مل کر جاتے اور اس سے دریافت کرتے کہ وہ کیوں مسجد میں نہیں آتا۔ اگر سستی کی وجہ سے وہ مسجدمیں نہیں آتا تو اسے آئندہ باقاعدہ مسجد میں نماز پڑھنے کی تاکید کی جاتی ۔ اس پر بھی اگر اس کی اصلاح نہ ہوتی تو اس کی رپورٹ میرے پاس کرتے۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اس پہلو سے بالکل غافل رہے ہیں۔ اصل مضمون میرا اور ہے مگر میں ضمنی طور پر مساجد کے مخلص مقتدیوں سے کہتا ہوں جن کے دل میں اسلام اور احمدیت کا درد ہے اور جو چاہتے ہیں کہ اسلام اور احمدیت ترقی کرے کہ اگر ایک مہینہ کے اندر اندر ایسے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اپنی اصلاح نہ کریں تو وہ ایک مہینہ کے اندر ان پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کو برخواست کردیں اور کسی او رکو پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بنالیں۔
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ پریذیڈنٹ یا سیکرٹری کیلئے بڑے پایہ کا ہونا شرط نہیں۔ معزز وہ ہے جو قربانی کرے اور اللہ تعالیٰ کے دین کا درد اپنے دل میں رکھے۔ اگر رسول کریم ﷺ اَن پڑھ ہوتے ہوئے دنیا کے معلّم اور استاد بن سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ کے اتباع میں اَن پڑھ ہوتے ہوئے دنیا میں عظیم الشان کام کرکے نہ دکھاسکیں۔ پس یہ ضروری نہیں کہ پریذیڈنٹ یا سیکرٹری اُسے بنایا جائے جو پڑھ سکتا ہو بلکہ اگر ایک متقی اَن پڑھ ہے تو اس کو ہی اپنا پریذیڈنٹ بنالیں اور پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ سَو دوسَو یا چارسَو ماہوار آمد رکھنے والا ہو۔ بیشک وہ پانچ روپیہ ماہوار کمانے والا ہو، بے شک وہ کنگال ہومگر کام کرنے والا ہو اس کو تم پریذیڈنٹ بنالو۔ اور یاد رکھو کہ عزت وہ نہیں جو دنیا کے مال و دولت سے ملتی ہے اگر مال و دولت کی وجہ سے ہی عزت ملتی تو بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ظلّی نبوت ملنے کے جو ایک معمولی گائوں کے رہنے والے تھے چاہئے تھا کہ راتھ شیلڈ یا راک فیلر یا انگلستان اور امریکہ کے دوسرے کروڑ پتیوں کو یہ منصب ملتا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو نہیں چُنا بلکہ تمام ممالک میں سے ہندوستان کو چُنا جو ہر ملک سے ترقی کی دوڑمیں پیچھے تھا۔ اور ہندوستان میں سے بھی صوبہ پنجاب کو چُنا جو تمام صوبوں کے مقابلہ میں ادنیٰ تھا۔ اور صوبہ پنجاب میں سے بھی ضلع گورداسپور کو چنا جو تمام ضلعوں میں سے خراب سمجھا جاتا تھا اور ضلع گورداسپور میں سے بھی قادیان کو چُنا جو تمام دیہات میں سے ایک معمولی دیہہ تھا اور قادیان میں سے بھی ایسے فرد کو چُنا جو اپنے خاندان میں بھی غیرمعروف تھا۔ تم بھی خداتعالیٰ کے انتخاب کو سامنے رکھا کرو اور دیکھا کرو کہ اللہ تعالیٰ کس بناء پر انتخاب کیا کرتاہے۔ تم بھی کسی کو اس لئے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری مت بنائو کہ وہ بڑی توند والاہے یا بڑی دولت والا ہے یا بڑھ بڑھ کر باتیں کرتا ہے بلکہ تم اُس کو پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بنائو جو واقعہ میں سلسلہ کا درد رکھنے والا ہو اور اسلام کی تڑپ اپنے سینہ میں رکھتا ہو ایسا شخص کام بھی کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی کا بھی وارث ہوگا۔
غرض عملی زندگی میں ہمیں بہت سی کمزوریاں نظر آتی ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم سوچیں ان کی اصلاح کی کیا تدابیر ہیں اور کیا مشکلات ہمارے راستہ میں حائل ہیں مگر میں آج ان تدابیر کو بیان نہیں کرسکتا کیونکہ وقت زیادہ ہوگیا ہے اور میری طبیعت بھی کمزور ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں مَیں اس مضمون کا بقیہ حصہ بیان کرنے کی کوشش کروں گا مگر اُس وقت تک جماعت کے مخلصوں کو چاہئے کہ وہ اس مسئلہ پر غور کریں۔ جو تغیر عقائد کے متعلق میں نے بتایا ہے وہ کتنا عظیم الشان ہے۔ آج سے چالیس سال پہلے جن باتوں کو لوگ کفر قرار دیتے تھے آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے ماتحت خود وہی لوگ ان باتوں کو مان رہے ہیں ۔ اِس سے قیاس کرلو کہ کیا وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو عمل کے متعلق تعلیم ہے وہ ویسی زبردست ثابت نہ ہو۔ اس پر اتنے دن غور کرو اور سوچو کہ اس کی کیاوجہ ہے۔ آیا یہ ہمارے کسی نقص کی وجہ سے ہے یا یہ تعلیم کانقص ہے یا ذرائع کا نقص ہے کہ عقائد کی تعلیم کی تو یہ حالت ہے کہ کافر کہنے والے بھی اسے تسلیم کررہے ہیں اور عملی تعلیم اتنی کمزور ہے کہ اپنوں پر بھی ابھی اس کا پورا اثر نہیں ہوا۔ یہ فرق کیوں ہے؟ جس دماغ پرایک بات نازل ہوئی ہے اُسی دماغ پر دوسری بات بھی نازل ہوئی پھر کیا وجہ ہے کہ عملی حصہ کمزور ہے۔ اس پر اگر غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ضرور نقص ہمارے اندر ہی ہے مگر وہ کیانقص ہے اور اس کے ازالہ کی کیا تدابیر ہیں؟ اس پر غور کرو اور اپنے ذہن میں وہ تدبیریں سوچو جن سے اس نقص کا ازالہ ہوسکے تا تمہارے نفس میں عملی حصہ کی اہمیت کا احساس ہو اور تم میں اس صورتِ حالات کو بدل دینے کی خواہش پیدا ہو۔ پھر میں بھی اِنْشَائَ اللّٰہُ اپنے خیالات ظاہر کروں گا اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ لوگ جو مخلص ہیں وہ میرے ساتھ تعاون کریں اور ان باتوں کے پور اکرنے میں میری مدد کریں گے تا ہماری جماعت پر جو اعتراض آتا ہے اسے ہم دور کرسکیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کوئی بعید بات نہیں۔ اگر ہم سچے طور پر بعض تدابیر اختیار کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں اس حصہ میں بھی ویسی ہی کامیابی حاصل نہ ہو جیسے عقائد کے بارہ میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ درحقیقت ہمارے لئے وہی خوشی کا دن ہوگا جب ہمار اعقیدہ اور عمل دونوں اسلام او راحمدیت کی تعلیم کے مطابق ہوں گے کیونکہ عقیدہ بغیر عمل کے کچھ نہیں جیسے عمل بغیر عقیدہ کے کچھ نہیں۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے بھی اور آپ لوگوں کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان نقائص کو سمجھ سکیں جن کی وجہ سے اب تک ہمیں پوری کامیابی حاصل نہیں ہوئی، اور وہ تدابیر اپنے فضل سے سمجھائے جن پر عمل کرنے سے کامیابی عطا ہو اور ہمیں ایسے مخلص بندے دے جن کے دل ہر قِسم کے بُغض، کینہ اور کپٹ سے پاک ہوں او روہ ان تدابیر کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنی زندگیاں وقت کردیں او ر وہ دن لانے کی کوشش کریں جس میں مؤمن کی جنت اس کے قریب آجاتی ہے۔ یعنی عقیدہ اور عمل دونوں خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہوجاتے ہیں۔
(الفضل ۲۹؍ مئی ۱۹۳۶ئ)
؎۱ آل عمران: ۵۶
؎۲ بخاری کتاب الاذان باب فضل صلاۃ العشاء فی الجماعۃ

۱۹
عملی اصلاح کے اہم سوال کو حل کرنے کی کوشش کی جائے
(فرمودہ۲۹؍مئی ۱۹۳۶ئ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
پہلے تو میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ تحریک جدید کے متعلق سال میں دو جلسے ایسے منعقد کئے جایا کریں جن میں اس تحریک کے اغراض اور اس کے مقاصد، اس کی ضرورت، اس کی اہمیت اور اس کے پورا کرنے کے طریقوں پر روشنی ڈالی جائے اورلوگوں پر اِس تحریک کے مطالبات کی اہمیت واضح کرتے ہوئے اس عمدگی سے یہ تحریک ان کے ذہن نشین کی جائے کہ وہ جو سُست ہیں چُست ہوجائیں، جو ناواقف ہیں وہ واقف ہوجائیں اور جو پہلے ہی چُست ہیں وہ اور زیادہ چُست اور ہوشیار ہوجائیں۔ اس سال ان جلسوں کے متعلق اعلان کرنے میں کسی قدر تأخیر ہوگئی ہے اس لئے آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جون کے مہینہ میں اٹھائیس تاریخ کو جو اتوار کا دن آتا ہے اُس دن تمام جماعتیں اپنی اپنی جگہ پر جلسے منعقد کریں جن میں تحریک جدید کے مختلف شعبوں کے متعلق تقاریر کی جائیں اورمضامین پڑھے جائیں اور جہاں اچھے لیکچرار میسر نہ آسکیں وہاں کی جماعت کے افراد کو چاہئے کہ وہ تحریک جدید کے متعلق میرے گزشتہ خطبات کو نکال کر وہی لوگوں کو سنادیں اورنہایت اچھی طرح اس تحریک کی ضرورت ، اس کے اغراض اور اس کے مقاصد کی تشریح و توضیح کی جائے۔
اس کے بعد میں اس مضمون کو لیتا ہوں جس کا کسی قدر حصہ پچھلے جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے بیان کیا تھا۔ وہ مضمون یہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دو باتیں ہمارے سامنے پیش کی تھیں۔ ایک تو عقائد کی اصلاح کے متعلق تھی اور ایک اعمال کی اصلاح کے متعلق تھی۔ عقائدکی اصلاح کے متعلق جو تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمائی اس کے متعلق ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں ہمیں ایسی عظیم الشان کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ وہی امور جن کے متعلق لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کفر کے فتوے لگاتے تھے، جنہیں خلافِ عقل تسلیم کرتے تھے اور جن کو ماننے اور قبول کرنے کیلئے ملک کا کوئی طبقہ بھی تیار نہ تھا آج ہماری جماعت کے شدید سے شدید معاند اور بدترین مخالف بھی نہ صرف یہ کہ ان کی تردیدنہیں کرتے بلکہ انہیں تسلیم کرتے اور ان کی درستی کا اقرار کرتے ہیں اور اب بجائے یہ اعتراض کرنے کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید کی تعلیم کے خلاف عقائد دنیا میں پھیلائے لوگ اگر کہتے ہیں تو یہ کہ یہ سب باتیں تو پہلے سے قرآن مجید میں موجود تھیں حضرت مرزا صاحب کا انہیں پیش کرنا ان کی کونسی خوبی اور کمال ہے۔ یہ تغیر کوئی معمولی تغیر نہیں پچاس سال کے اندر دنیا کے لاکھوںنہیں کروڑوں افراد کے قلوب میں ایسا حیرت انگیز اور عظیم الشان انقلاب پیدا ہوجانا الٰہی نصرت اور اس کی تائید کے بغیر ممکن نہیں ا ورپھر یہ تغیر نہ صرف ہندوستان میں پیدا ہوچکا ہے، پیدا ہورہا ہے اور پیدا ہوتا چلا جائے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اِس تغیر کو رونما ہونے سے نہیں روک سکتی لیکن اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جوتعلیم عملی اصلاح کے متعلق پیش کی اِس کی نسبت ہم دیکھتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ اِس پہلو میں ہمار اپلہ دشمنوں پر بھاری ہوتا اور ہم دشمنوں کے اعمال میں بھی ایک بہت بڑی اصلاح کرسکتے یا کم از کم اس تعلیم کے نتیجہ میں ہم اپنے اندر ہی ایسی اصلاح کرسکتے جس کو دیکھ کر ہمیں اپنے دل میں یہ محسوس ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تعلیم پر ہم نے عمل کرلیا ہے جو عملی اصلاح کے متعلق آپ نے پیش فرمائی ہمیں نظر یہ آتا ہے کہ ہم دشمن کے عمل سے متأثر ہورہے ہیں اور اُس کی غلطیاں بار بار ہمارے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتی ہیں اور ہم میں سے جو کمزور لوگ ہیں بسا اوقات وہ ان غلطیوں کا شکار ہوجاتے اور دشمن کے بد اثرات سے متأثر ہوجاتے ہیں۔ گویا عقیدے کی جنگ میں ہمارا پہلوجارحانہ اور ہمارے مخالف کا پہلو مدافعانہ ہے مگر عمل کی جنگ میںہمارے دشمن کا پہلو جارحانہ اور ہمارا پہلو مدافعانہ ہے اور بجائے اس کے کہ ہمارے اندر ایسی قوت ہو کہ ہم دشمن او راس کے ساتھیوں کے اعمال میں بھی ایک تغیر پیدا کردیں او راسے ہمارا حملہ بچانا پڑے دشمن ہمارے گھروں میں گھس گھس کر ہماری جماعت کے نوجوانوں اور کمزور طبع لوگوں میں نقص پیدا کرتا رہتا ہے اور ہمارا سارا وقت اِس اندرونی نقص کی اصلاح میں ہی صرف ہوجاتا ہے۔ وہ موقع ہی نہیں آتا کہ ہم دشمن کے اعمال کی بھی اصلاح کریں اور اس کے نقائص کا قلع قمع کریں تا اس کے بداثرات ہمارے اندر داخل ہی نہ ہوسکیں۔ گویا ہماری مثال اس واقعہ سے ملتی جلتی ہے جو ایک بزرگ کے متعلق بیان کیاجاتا ہے ۔
کہا جاتاہے کہ ایک بزرگ تھے جن کے پاس ان کا ایک شاگرد کافی عرصہ رہا اور تعلیم حاصل کرتا رہا جب وہ تعلیم سے فارغ ہوکر اپنے گھر جانے لگا تو ان بزرگ نے اُس سے دریافت کیا کہ میاں تم اپنے گھر جارہے ہو کیا تمہارے ملک میں شیطان بھی ہوتا ہے؟ وہ یہ سوال سن کر حیران رہ گیا اور اس نے کہا شیطان بھلا کہاں نہیں ہوتا ہر ملک میں شیطان ہوتا ہے اور جہاں میں جارہا ہوں وہاں بھی شیطان موجود ہوگا۔ آپ نے فرمایااچھا اگر وہاں شیطان ہوتا ہے تو پھر جو کچھ تم نے میرے پاس رہ کر علم حاصل کیا ہے جب اس پر عمل کرنے لگو گے تو لازماً شیطان تمہارے رستہ میں روک بن کر حائل ہوگا ایسی حالت میں تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگامیں شیطان کا مقابلہ کروں گا۔ وہ بزرگ کہنے لگے بہت اچھا تم نے شیطان کا مقابلہ کیا اور وہ تمہارے دفاع کی تاب نہ لاکر بھاگ گیا لیکن جب پھر تم عمل کی طرف متوجہ ہونے لگے اور خداتعالیٰ کے قُرب کے حصول کے رستوں پرتم نے چلنا شروع کیا اور پھر شیطان پیچھے سے آگیا اور اس نے تمہیں پکڑ لیا اور تمہیں آگے بڑھنے سے روک لیا تو پھر تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگامیں پھر شیطان کا مقابلہ کروں گا اور اس سے پیچھا چھڑا کر اللہ تعالیٰ کے قُرب کے حصول کی جدوجہد میں مشغول ہوجائوں گا۔ انہوںنے کہا بہت اچھا میںنے مان لیا کہ تمہارے مقابلہ کرنے کے نتیجہ میں شیطان اس دفعہ بھی بھاگ گیااور تم جیت گئے لیکن جب پھر تم اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچنے کیلئے جدو جہد کرنے لگے اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوئے او رخداتعالیٰ کے قرب کے حصول کے ذرائع اختیار کرنے لگے اور تم نے شیطان کی طرف سے پیٹھ پھیر کر اللہ تعالیٰ کی طرف رخ کیا تو پھر شیطان آگیا اور اس نے تمہیں پکڑ لیا تو پھر کیا کرو گے؟ شاگردحیران سا رہ گیا اور وہ کہنے لگا مجھے تو پتہ نہیں لگتا آپ ہی فرمائیں کہ مجھے ایسی حالت میں کیا کرنا چاہئے۔ وہ فرمانے لگے اچھا یہ بتائو اگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے جائو جس نے اپنے مکان کی حفاظت کیلئے ایک بڑا سا مضبوط کُتّا رکھا ہؤا ہو اور جب تم اپنے دوست کے مکان میں داخل ہونے لگو تو وہ کُتّا آئے اور تمہاری ایڑھی پکڑ لے تو اُس وقت کیا کرو گے؟ شاگر کہنے لگا میں کُتّے کا مقابلہ کروں گا اور اسے ماروں گا اگر میرے پاس سوٹی ہوگی تو میں اُسے سوٹی ماروں گا، پتھر قریب ہوگا تو وہ اُٹھا کر دے ماروں گا۔ انہوں نے کہا ٹھیک تم نے کُتّے کو سوٹی ماری یا پتھر مارا اور وہ بھاگ گیا لیکن جب پھر تم نے اندر مکان میں داخل ہونے کی کوشش کی اور کُتّے کی طرف سے پیٹھ پھیری تو وہ پھر آگیا اور اس نے تمہاری ایڑی پکڑلی تو اُس وقت کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا میں اُسے پھر ماروں گا اور اُسے ہٹاکر مکان کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرو ں گا۔ انہوں نے فرمایا اچھا فرض کرو دوسری دفعہ بھی کُتّا بھاگ گیا لیکن جب پھر تم دوست سے ملنے کیلئے مکان کے اندر داخل ہونا چاہو تو وہ پھر تمہیں پکڑ لے ایسی حالت میں کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا میں پھر اسے ماروں گا اور اسے ہٹانے کی پوری کوشش کروں گا۔ وہ بزرگ فرمانے لگے اگر یہ جنگ اسی طرح جاری رہے گی کہ جب تم مکان کے اندر داخل ہونا چاہو تو کُتّا تمہاری ایڑی آپکڑے اور جب تم اُسے مارو تو وہ بھاگ جائے لیکن جب پھر مکان کے اندر داخل ہونے لگے تو وہ پھر آکر پکڑنا چاہے تو تم اپنے دوست سے مل کس طرح سکو گے اور اس سے ملاقات کا جو مقصد تم لئے ہوئے ہوگے وہ کس طرح پورا ہوگا؟ شاگرد کہنے لگا جب میں یہ دیکھوں گا کہ یہ جنگ کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتی اور کُتّا بار بار مجھے آپکڑتا ہے تو میں اپنے دوست کو آواز دوں گا کہ میاں! تمہارا کُتّا مجھے نہیں چھوڑتا اسے آکر ہٹائو۔ وہ بزرگ فرمانے لگے بس یہی نسخہ تم نے شیطان کے مقابلہ میں بھی استعمال کرنا ہے۔ شیطان اللہ میاں کا کُتّا ہے اور جب انسان پر بار بار حملہ آور ہو او راللہ تعالیٰ کے قریب نہ ہونے دے تو اس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو پکارو اور اُسے آواز دو کہ اللہ میاں! میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں مگر آپ کا یہ کُتّا مجھے آنے نہیں دیتا اسے روکئے تا میں آپ کے پاس پہنچ جائوں۔ چنانچہ اس پر اللہ تعالیٰ اسے روک لے گا اور تم اس کے قُرب میں بڑھتے چلے جائو گے یہی شیطان کے حملوں سے بچنے کا علاج ہے ورنہ مقابلہ کی صورت میں تو انسان کسی طرح اپنے ربّ کا قرب حاصل نہیں کرسکتا۔ تو ہماری حالت اِس وقت اس واقعہ کے پہلے حصہ کے مطابق ہے ہم چاہتے ہیں کہ ہم نیک باتوں پر عمل کریں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے میدان میں ترقی کرتے چلے جائیں مگر شیطان ہماری ایڑی پکڑ لیتا ہے اور ہمیں آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ ہم اسے مارتے اور اپنے رستہ سے ہٹاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بجائے مدافعانہ پہلو کے جارحانہ پہلو اختیار کریں کہ پھر شیطان ہم پر حملہ کردیتا ہے اور ہمارا کافی وقت اپنے آپ کو اس کے حملوں سے بچانے پر ہی صرف ہوجاتا ہے۔ پس ہم اب تک اس کے دفاع اور اپنی حفاظت کی تدبیروں میں ہی لگے ہوئے ہیں اور اس سے اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ ہم اپنے اصل کام کی طرف متوجہ ہوں اور بجائے مدافعانہ کے جارحانہ پہلو اختیار کریں حالانکہ ہمارا کام یہ نہ تھا کہ ہم اپنے بچائو کی تدابیر میں ہی لگے رہیں بلکہ ہمارا کام یہ تھا کہ ہم خود اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے اور تمام دنیا میں ایک ایسا تغیر پیدا کردیتے کہ اپنے تو الگ رہے غیروں کے اعمال بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ڈھل جاتے لیکن ہماری تو یہ حالت ہے کہ ہمیں ابھی شیطان کے حملوں سے بچائو سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اپنے اعمال بھی ابھی تک اس قابل نہیں ہوئے کہ ہم ان پر مطمئن ہوسکیں۔
اب تو اکثر ایسا ہؤ اہے کہ شیطان آتا ہے اورہمارے ایک آدمی کو بہکا کر لے جاتا ہے ہم سارا دن اُس کی تلاش اور جستجو میں لگے رہتے ہیں لیکن جب شام ہونے کے قریب ہوتی ہے اور ہم اسے تلاش کرکے واپس لارہے ہوتے ہیں تو ہمیں آواز آتی ہے کہ ہم میں سے دو اور آدمیوں کو شیطان بہکا کر اپنے ساتھ لے گیاہے۔ پھر ہم ان کی تلاش میں نکلتے ہیں تو آواز آتی ہے کہ فلاں آدمی کو بھی شیطان پکڑ کر لے گیا ہے۔ غرض ہم میں اور شیطان میں ایک جنگ جاری ہے اورجنگ بھی ایسی کہ جس میں ہماری مثال دشمن سے بھاگے ہوئے شکست خوردہ لوگوں کی سی ہے۔ ہم ایک کو بچاتے ہیں تو دشمن دو کو لے جاتا ہے، ہم دو کو بچاتے ہیں تو وہ تین آدمی لے جاتا ہے، ہم تین کو بچاتے ہیں تو وہ چار لے جاتا ہے۔
غرض عقیدہ کی جنگ میں جہاں ہم نے دشمن کو ہر میدان میں شکست دی اور نہ صرف میدانوں میں اسے شکست دی بلکہ ہم اس کے گھروں پر حملہ آور ہوئے اور ہم نے اسے ایسا لتاڑا اور ایسا لتاڑا کہ اب اس میں سر اٹھانے کی بھی تاب نہیں رہی۔ دشمن کے ہر گھر میں گھس کر ہم نے اس کے باطل عقائد کو کچلا اور اسے ایسی کھلی شکست دی کہ دشمن کیلئے اس سے زیادہ کھلی اور ذلّت کی شکست او رکوئی نہیں ہوسکتی وہاں عمل کے میدان میں ہم دشمنوں میں محصور ہوگئے اور ہمارے لئے ان سے بھاگنے کی کوئی جگہ نہ رہی۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں آدمی وہ ہم میں سے نقائص اور عیوب میں مبتلا کرتے چلے جاتے ہیں۔ ہم ایک جگہ سے بھاگتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ دوسری جگہ امن ملے گا مگر وہاں بھی نقص آموجود ہوتا ہے، پھر وہاں سے بھاگ کر تیسری طرف جاتے ہیں تو وہاں بھی دشمن آموجود ہوتا ہے، تیسری جگہ سے بھاگ کر چوتھی طرف جاتے ہیں تو اس جگہ بھی دشمن ہمارے مقابلہ کیلئے موجود ہوتا ہے گویا جس طرح چاروں طرف جب آگ لگ جاتی ہے تو انسان حیران رہ جاتا ہے اور وہ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ کیا کرے یہی اِس وقت ہماری حالت ہے۔
مجھے ا س پر اپنا ایک رئویا یاد آگیا ۱۹۲۲ء یا ۱۹۲۳ء کی بات ہے میں سویا ہؤ ا تھا کہ میں نے دیکھا ایک جگہ آگ لگ گئی ہے میں اُسے بجھانے کیلئے اٹھا تو میں نے دیکھا ایک اور طرف سے بھی آگ کے شعلے نکلنے شروع ہوگئے ہیں اور وہ پہلی آگ سے زیادہ تیز شعلے ہیں مَیں دوڑ کر اُسے بجھانے کیلئے گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ تیسری طرف بھی آگ لگ گئی ہے اور وہ آگ دوسری آگ سے بھی زیادہ بھڑکنے والی ہے۔ یہ دیکھ کر میں اس آگ کی طرف اسے بجھانے کیلئے بھاگا تو دیکھا تو چوتھی طرف بھی آگ لگی ہوئی ہے او روہ پہلی تینوں آگوں سے زیادہ تیز ہے۔ یہ دیکھ کر میں خواب میں سخت گھبراگیا اور میں کہتا ہوں نامعلوم اب کیا ہوگا آگ ہر طرف لگ رہی ہے اور اس کا ہر شعلہ پہلے شعلوں سے زیادہ تیز ہے۔ میں اسی گھبراہٹ کی حالت میں حیران ہوکر کھڑا تھا کہ میں نے دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ہیں ۔ آپ نے پوچھا تم یہاں کیوں کھڑے ہو؟ میں نے کہا حضور! چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے میں ایک جگہ کی آگ بجھاتا ہوں تو دوسری جگہ نکل آتی ہے، دوسری جگہ کی آگ بجھاتا ہوں تو تیسری جگہ نکل آتی ہے اور ہر آگ پہلی آگ سے زیادہ تیز ہے جو کسی طرح بجھنے میں نہیں آتی۔ آپ نے فرمایا یہ آگ یوں نہیں بجھے گی اِس آگ کی ایک کنجی ہے جو میں تمہیں بتاتاہوں۔چنانچہ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے زمین میں ایک سوراخ دکھا یا اور فرمایا یہ اس آگ کی کنجی ہے۔ پھر آپ نے اشارہ کیا کہ اِس سوراخ کو بند کردو اس پر میں نے اس سوراخ کو زور سے دبادیا اور میں نے دیکھا کہ جونہی میں نے اس سوراخ کو دبایا تمام آگیں بُجھ گئیں اور کوئی شعلہ باقی نہ رہا۔ یہ نظّارہ جو میں نے ۱۹۲۲ء میں یا ۱۹۲۳ء میں دیکھا تھا درحقیقت ہماری جماعت کے مردوں او رعورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی عملی زندگی کا ایک نظّارہ تھا۔ ہم بھی ایک بُرائی کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری نکل آتی ہے، دوسری بُرائی کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں تو تیسری نکل آتی ہے، تیسری بُرائی کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں تو چوتھی نکل آتی ہے، پھر اس جنگ میں ہماری ہمدردی بھی متحد نہیں اور نہ ہماری آواز یکساں ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے تو ساری جماعت شور مچانا شروع کردیتی ہے کہ ہاں ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں انہیں فوت ہونے دو کیونکہ ان کی موت میں ہی اسلام کی حیات ہے، جب ہم کہتے ہیں کہ قرآن مجید بالکل محفوظ ہے اور اس کی کوئی آیت منسوخ نہیں تو ساری جماعت چلاّتی ہے کہ بالکل درست قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہم خود مٹ جائیں گے لیکن قرآن کریم کی کسی آیت کو مٹنے نہیں دیں گے، جب ہم کہتے ہیں انبیاء علیہم السلام بالکل معصوم ہوتے ہیں اور ان کی طرف کسی گناہ کو منسوب کرنا ناجائز ہے توتمام جماعت کی آواز اس آواز کے ساتھ متحد ہوتی ہے اور وہ کہتی ہے ٹھیک ہے واقعہ میں انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں اور ہم کبھی کسی کے منہ سے یہ سننے کیلئے تیار نہیں کہ کسی نبی نے کوئی گناہ کیا۔
غرض عقائد کی اصلاح کے متعلق جب ہم آواز اٹھاتے ہیں تو ساری جماعت کی طرف سے آواز آنے لگتی ہے کہ درست درست لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں لکھا ہے اپنی اولادوں کو ورثہ دو اور لڑکیوں کو بھی شریعت کے مطابق اسی طرح حصہ دو جس طرح لڑکوں کو دیتے ہوتو بجائے سب کی طرف سے متحد طور پر یہ آواز اُٹھنے کے ہاں ہاں یہ بالکل درست ہے ورثہ کا حکم نہایت ضروری ہے اور لڑکیوں کو ورثہ میں نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ آواز دھیمی پڑنی شروع ہوجاتی ہے اور تھوڑی دیر کے بعد ہمیں اپنوں میں سے ہی بعض کے منہ سے یہ آوا زسنائی دینے لگتی ہے کہ لڑکیوں کو ورثہ دینا بڑا مشکل کام ہے اس سے تو ہماری ناکیں کٹ جائیں گی۔ جب ہم کہتے ہیں کہ آئو اور باجماعت نماز پڑھو سارے قرآن کریم میں بار بار یہ ذکر آتا ہے کہ مؤمن وہ ہیں جو یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ ؎۱ نمازوں کو قائم کرتے ہیں یہ کہیں نہیں لکھا کہ یُصَلُّوْنَ الصَّلٰوۃَ مؤمن وہ ہیں جونماز پڑھیں بلکہ نما زکے ساتھ ہر جگہ یُقِیْمُوْنَ کا لفظ آتا ہے اور اقامت ہمیشہ نماز باجماعت میں ہی ہوتی ہے اکیلے نماز پڑھنے میں نہیں ہوتی تو اس آواز کے جواب میں بجائے اس کے کہ جس طرح ہم کہتے ہیں حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے اور ساری جماعت متحد ہوکر کہتی ہے ہاں ہاں فوت ہوگئے انہیں فوت ہونے دو کیونکہ ان کی موت قرآن مجید سے ثابت ہے، یہاں یہ آوازیں نہیں آتیں کہ ہاں ہاں یہ درست ہے نما زہمیشہ باجماعت ہی پڑھنی چاہئے بلکہ یہ آوازیں آنی شروع ہوجاتی ہیں کہ یہ تو بڑا مشکل کام ہے دنیا کے کاموں میں ہم مشغول ہوتے ہیں نماز باجماعت ہم کس طرح ادا کرسکتے ہیں۔جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء بالکل معصوم ہوتے ہیں اور وہ گناہوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تو ہماری جماعت کے سب دوست مل کر کہنے لگ جاتے ہیں کہ بالکل درست انبیاء واقعہ میں معصوم ہوتے ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مؤمنوں پر زکوٰۃ فرض ہے اور ہر مؤمن مرد اور ہر مؤمن عورت جس پر زکوٰۃ کا دینا فرض ہے اُسے چاہئے کہ زکوٰۃ دے تو بجائے یہ آواز آنے کے کہ درست ہے درست ہے جو شخص زکوٰۃ دینے کے قابل ہونے کے باوجود زکوٰۃ نہیں دیتا وہ مسلمان ہی نہیں کہلاسکتا یہ آواز آنے لگ جاتی ہے کہ آجکل کے حالات کے لحاظ سے تو یہ بڑا مشکل کام ہے ۔ اسی طرح عقائد کی اصلاح کیلئے جب اور بیسیوں باتیں کہی جاتی ہیں تو اُن کی تائید اور تصدیق میں جماعت کی طرف سے آوازیں اٹھتی ہیں لیکن جب ہم کہتے ہیں سچ بولنا چاہئے تو ہمیں آواز سنائی دیتی ہے کہ سچ اچھی چیز ہے مگر کیا کریں جھوٹ کے بغیر آجکل گذارہ نہیں ہوسکتا۔
غرض عمل کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس پر جماعت متفقہ طور پر قائم ہو۔ بڑی بڑی قربانیوں کو جانے دو جانی قربانیوں، مالی قربانیوں او رجذبات کی قربانیوں کو ایک طرف رکھو، چھوٹی سے چھوٹی باتوں کوبھی اگر لے لیاجائے تو صاف طور پر ان کے متعلق بڑبڑانے کی آوازیں سنائی دیں گی۔ سچ بولنا کتنی معمولی بات ہے مگر لوگ اس پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ پھر اور زیادہ بڑی باتوں کو جانے دومنہ پرکچھ بال رکھ لینا کونسی بڑی مصیبت ہے مگر لوگ داڑھی منڈوادیں گے اسے رکھنا پسند نہیں کریں گے اور جب انہیں توجہ دلائی جائے تو کہہ دیں گے محمد ﷺ کا دین کے ساتھ تعلق تھا اُن کو اِس سے کیا غرض اور اسلام کو اس سے کیا واسطہ کہ کوئی داڑھی رکھتا ہے یا نہیں رکھتا۔ مجھ سے ہی ایک دفعہ کچھ نوجوانوں نے گفتگو کی اور کہا ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اسلام کا داڑھی سے کیا تعلق ہے اور اسلام کو اس سے واسطہ کیا ہے کہ ہم اپنے منہ پر چند بال رکھتے ہیں یانہیں رکھتے ہیں؟ میں نے کہا واقعہ میں اسلام کو ہرگز اس سے کوئی تعلق نہیںکہ کوئی اپنے منہ پر داڑھی رکھتاہے یا نہیں مگر اسلام کو اس بات سے ضرور تعلق ہے کہ محمد ﷺ کی اطاعت کی جائے، ان کی باتوں کو قبول کیاجائے اور ان کے نمونہ کو اختیار کیا جائے۔ پس یہ سوال نہیں کہ اسلام کا داڑھی سے تعلق ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ اسلام کا محمد ﷺ کی اطاعت سے تعلق ہے یا نہیں۔ اگر تعلق ہے تو پھر ضروری ہے کہ داڑھی کے معاملہ میں بھی محمد ﷺ کی اطاعت کی جائے اور جو شخص محمد ﷺ کی اتنی چھوٹی سی بات ماننے کیلئے تیار نہیں اس سے کب توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ بڑی بڑی قربانیوں کیلئے تیار ہوسکے گا۔ جو شخص ایک پیسہ دینے کیلئے تیار نہیں وہ ہزار روپیہ کہاں دے سکتا ہے۔ جب اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی ہماری جماعت اس بات کی بھی محتاج ہے کہ اُسے بار بار سمجھایا جائے اور وعظ کیاجائے تو وہ بڑے بڑے عظیم الشان تغیرات جو اسلام کے مدّنظر ہیں اور جن تغیرات کے پیدا کرنے کیلئے انسان کو اپنا نفس قربان کردینا پڑتا ہے اُن کی باری ہی کب آئے گی۔ ابھی تو سر پر بودے رکھنا اور داڑھیاں مَنڈوانا اور مونچھیں بڑھانا اور نکٹائیاں لگانا اور پتلونیں پہننا اور سگریٹ نوشی کرنا اور حُقّہ پینا یہی باتیں ہماری توجہ کو کھینچے ہوئے ہیں حالانکہ وہ تغیر جو اسلا م تمدّنِ عالم میں پیدا کرنا چاہتا ہے، وہ تغیر جس کے ماتحت اسلام تمام دنیا کو ایک سطح پر لانا چاہتا ہے، وہ تغیر جس کے ماتحت امیر اور غریب کا فرق اور حکومت اور رعایا کا امتیاز مٹ جاتا ہے اس کیلئے بہت بڑی بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے مگر ہمیں اپنے اندر ابھی اُن قربانیوں کا مادّہ ہی نظر نہیں آتا۔ گویا ہماری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک اتنا عظیم الشان محل تیار کرنا ہے جس میں ساری دنیا نے آرام کرنا ہے مگر اس کے سامانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ ابھی کدال تلاش کررہا ہے جس سے وہ ذرا سی مٹی کھرچ سکے۔ جس شخص کو ایک کدال بھی میسرنہیں کہ وہ اس سے بنیاد کھود سکے اور اس میں اینٹیں رکھ سکے وہ عظیم الشان محل کب تیار کرے گا اور کب ساری دنیا کو اپنے محل میں داخل کرنے کا پروگرام پورا کرے گا۔
پس یہ ایک مُعمّہ ہے جو ہمارے سامنے ہے اور یہ مُعمّہ ہے جسے ہم نے حل کرنا ہے اگر ہم احمدیت کو صحیح معنوں میں سمجھتے ہیں، اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا فرستادہ اور مقدس رسول سمجھتے ہیں تو ہمیں اِس مُعمّہ کو پورے طور پر حل کرنا ہوگا ورنہ اس کے بغیر ہم کسی قِسم کی برکت اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے امیدوار نہیں ہوسکتے۔ ابھی تو ہم اُس شخص کی طرح پریشان پھر رہے ہیں جو بغیر سواری اور کسی ساتھی کے ایک مُہیب اور پُر خطر جنگل میں بہک جائے اور اُسے اپنی منزلِ مقصود پر پہنچنے کا راستہ نہ ملے۔ ہم بھی حیران و پریشان ایک ایسی زمین میں پھررہے ہیں جس میں نہ کوئی انیس ہے نہ جلیس، نہ سواری ہے نہ ٹھہرنے کا مقام ایسی حالت کے ہوتے ہوئے خالی عقیدوں کو ہم نے کیا کرنا ہے اور ان سے دنیا میں کیا تغیر ہوسکتا ہے ۔ حکومت ہمارے پاس نہیں کہ ہم جبر کے ساتھ لوگوں کی اصلاح کریںاور ہٹلر یا مسولینی کی طرح جو شخص ہمارے حکموں کی تعمیل نہ کرے اُسے ملک سے نکال دیں اورجو ہماری باتیں سننے اور اس پر عمل کرنے کیلئے تیار نہ ہو اُسے عبرتناک سزادیں۔ اگر حکومت پاس ہوتی توہم ایک دن کے اندر اندر یہ کام کرلیتے اور دوسرا دن ایسا نہ چڑھنے دیتے جس میں ہمارے اندر یہ نقائص موجود ہوتے۔ اگر آج حکومت ہمیں مل جائے اور ہم حکم نافذ کردیں کہ ہر وہ شخص جو باجماعت نماز نہیں پڑھے گا اسے سات سال قیدِ سخت کی سزا دی جائے گی تو کوئی ہے جو نماز باجماعت نہ پڑھے گا مگر ہمارے پاس جوسزا ہے کہ ہم کہتے ہیں جو شخص باجماعت نمازنہیں پڑھے گا اللہ تعالیٰ اُس پرناراض ہوگا مگر آجکل خداتعالیٰ کی ناراضگی کی کون پروا کرتا ہے۔لوگ انگریز کی ناراضگی سے ڈر جائیں گے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ فلاں کام کے نتیجہ میں خداتعالیٰ ناراض ہوجائے گا تو وہ اس کی پروا نہیں کریں گے۔ اگر آج ہمارے پاس حکومت ہواور ہم یہی اعلان کردیں کہ جو شخص اپنی لڑکی کو ورثہ دینے کیلئے تیار نہیں اس کی جائیداد کو ضبط کرلیا جائے تو کیا ہندوستان میںایک شخص بھی ایسا رہ جائے جولڑکیوں کو ورثہ نہ دے۔ ہر شخص کہے گا کہ مَیں تو مدت سے یہ سوچ رہاتھاکہ کسی طرح لڑکی کوورثہ دوں۔ غرض اگر ہمارے پاس حکومت ہوتی تو صبح سے شام نہیں ہونے پائے گی اور ساری اصلاحات آپ ہی آپ ہوجائیں گی لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے پاس حکومت نہیں اس لئے ہم کو یہ سوال کسی اور طریق سے حل کرنا پڑے گا۔ یا تو حکو مت کے کسی ایسے پہلو کو تلاش کرنا پڑے گا جوانگریزی حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے بھی قائم کیا جاسکتا ہو یا ایسے ذرائع کی تلاش کرنی پڑے گی جو بغیر حکومت کے ہمیں کام دے سکیں او رلوگوں کی عملی زندگی میں اصلاح کرسکیں۔ بہرحال یہ سوال اس قابل ہے کہ غور اور فکر کے ساتھ اسے حل کیا جائے او رہمارا فرض ہے کہ ہم اس سوال پر غور کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ اس سوال کا اطمینان بخش حل ہمیں مل جائے ۔
مگر پیشتر اس کے کہ میں اس سوال کو لوں ایک اور امر کو واضح کردینا چاہتاہوں اور وہ یہ کہ عمل کی اصلاح عقیدہ کی اصلاح کی نسبت کیوں مشکل ہوتی ہے۔ اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سوال مختلف حالتوں میں مختلف شکلیں اختیار کرلیتا ہے۔ بعض زمانوں میںعقیدہ کی اصلاح عمل کی اصلاح سے زیادہ مشکل ہوجاتی ہے او ربعض زمانوں میں عمل کی اصلاح عقیدہ کی اصلاح سے زیادہ مشکل ہوجاتی ہے ۔ جب مصلح کے پاس حکومت ہو تو اُس وقت عمل کی اصلاح جلدی ہوجاتی ہے اور عقیدے کی اصلاح دیر میں ہوتی ہے کیونکہ اُس وقت ایسے منافق ساتھ شامل ہوجاتے ہیں جوگو عقیدتاً ساتھ نہیں ہوتے مگر حکومت سے فوائد حاصل کرنے کیلئے ظاہر میں عقیدہ بدل لیتے ہیں ایسی صورت میں ان کے باطنی خیالات قائم رہتے اور ان کی اصلاح بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ اسی لئے جب کسی مصلح کے پاس ظاہری حکومت ہو تو اُس کے زمانہ میں عقیدہ کی اصلاح عمل کی اصلاح کی نسبت زیادہ مشکل ہوتی ہے لیکن جب حکومت نہ ہو تو پھر عمل کی اصلاح دیر سے ہوتی ہے عقیدہ کی اصلاح جلدی ہوجاتی ہے کیونکہ حکومت نہ ہونے کی وجہ سے وہی لوگ ساتھ شامل ہوتے ہیں جن کے عقیدے درست ہوچکے ہوتے ہیں لیکن عمل میںچونکہ گہرے غور اور لمبی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے ہر وقت نگرانی اور دبائو نہ ہونے کی وجہ سے انسانوں سے بہت سی کمزوریاں سرزد ہوتی رہتی ہیں۔
پس یہ سوال مختلف زمانوں میں مختلف شکلیں اختیار کرلیتا ہے جب مذہب کے پاس حکومت ہو تو اُس وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عقیدے کی اصلاح عمل کی اصلاح سے کیونکر زیادہ مشکل ہے جیسے قرآن مجیدمیں آتا ہے کہ بعض لوگ ہمارے رسول کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں اٰمَنَّا۔ ہمارے عقائد بالکل درست ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ مت کہو بلکہ تم اگر کہنا چاہو تو کہو کہ اَسْلَمْنَا ؎۲ ہمارا ظاہر درست ہے اور ہم ظاہر میں تمام احکامِ اسلام کو مان رہے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں کے پاس حکومت تھی مگر آج وہ زمانہ ہے کہ جب لوگ کہتے ہیں کہ اَسْلَمْنَا ۔ تو ہم کہتے ہیں یہ درست نہیں تمہارا ظاہر ابھی تک اسلام کے مطابق نہیں ہؤا ہاں تم یہ کہہ سکتے ہو کہ اٰمَنَّاکیونکہ تمہارے عقائد درست ہیں۔
غرض قرآن کریم کی یہ آیت اِس زمانہ میں اپنے مفہوم کو بالکل اور رنگ میں ظاہر کرے گی۔ پہلے یہ سوال ہوتا تھا کہ عقیدہ کی اصلاح کیوں مشکل ہے اور اس زمانہ میں یہ سوال ہے کہ عمل کی اصلاح کیوں مشکل ہے اور بغیرحکومت کے اس مشکل کا حل کیا ہے۔ اس غرض کیلئے سب سے پہلے ہمیں اس امر پر غور کرنا چاہئے کہ اعمال کی اصلاح میں کونسی چیزیں روک ثابت ہوتی ہیں تا ہمیں علاج معلوم کرنے میں آسانی ہو۔ اس سوال کو مدنظر رکھتے ہوئے جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی چیز جو عمل کی اصلاح کومشکل بنادیتی ہے وہ لوگوں کا یہ احساس ہے کہ ایک گناہ بڑا ہوتا ہے اور ایک چھوٹا ہوتا ہے۔ عمل کی اصلاح میں یہ سب سے بڑی روک ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض گناہوں پر انسان کو دلیری پید اہوجاتی ہے کیونکہ جب وہ یہ اصل قائم کرتے ہیں کہ ایک بڑے گناہ ہوتے ہیں اور ایک چھوٹے گناہ ہوتے ہیں تو کچھ حصہ گناہوں کا وہ اپنے استعمال میں لاتے رہتے ہیں اور خیال کرلیتے ہیں کہ یہ گناہ تو چھوٹا ہے اس کے کرنے میں کونسا زیادہ حرج ہے اس طرح بیماری کا بیج ضائع نہیںہوتااوربیماری کے بیج کے ضائع نہ ہونے کی وجہ سے خرابی ہمیشہ عَود کرتی رہتی ہے حالانکہ ہمیں رسول کریم ﷺ کی زندگی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ گناہ اور نیکی کے چھوٹے بڑے ہونے کی تعریف بالکل جُداگانہ کیا کرتے تھے۔
احادیث سے ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ کے پاس بعض لوگ آئے اور انہوںنے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ ! سب سے بڑی نیکی کیاہے؟ آپ نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ۔ پھر کوئی اور آیا اور اس نے دریافت کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ !سب سے بڑی نیکی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ماں باپ کی خدمت کرنا۔ اس کے بعد کوئی اور شخص آیا اور اُس نے پوچھا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ !سب سے بڑی نیکی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا۔ تہجد۔ غرض مختلف سوالات کرنے والوں کو آپ نے ایک ہی سوال کا مختلف جواب دیا، کسی کو جہاد کی طرف توجہ دلائی، کسی کو شب بیداری کی طرف متوجہ کیا، کسی کو ماں باپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی تلقین کی۔ اب سب سے بڑی نیکیاں تین توہو نہیں سکتیں سب سے بڑی نیکی ایک ہی ہوسکتی ہے۔ پس اگر سب سے بڑی نیکی جہاد ہے تو ماں باپ کی اطاعت سب سے بڑی نیکی نہیں اور اگر ماں باپ کی اطاعت سب سے بڑی نیکی ہے تو تہجد سب سے بڑی نیکی نہیں مگر رسول کریم ﷺ ان میں سے ہر ایک کو بڑی نیکی قرار دیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کامنشاء کیا تھا؟ صاف ظاہر ہے کہ آپ کا منشاء سب سے بڑی نیکی سے وہ نہ تھا جو عُرفِ عام میں سمجھا جاتا ہے بلکہ آپ کا منشاء یہ تھا کہ درحقیقت ہر انسان کیلئے سب سے بڑا کام الگ الگ ہؤا کرتا ہے۔ ایک انسان ایسا ہوتا ہے جس کے دل میں ماں باپ کی عظمت نہیں ہوتی لیکن وہ روپیہ اُڑاد ینے کا عادی ہوتا ہے اگر اسے خداتعالیٰ کے دین کی راہ میں روپیہ خرچ کرنے کے ثواب کاعلم نہ ہو تب بھی وہ دنیوی کاموں پرروپیہ اُڑا دینے کی عادت رکھتا ہے۔ چنانچہ ایسے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں جو کنچنیوں کے ناچ پر اپنی جائدادیں دے دیتے ہیں۔ ایسے لوگ دُنیا میں پائے جاتے ہیں جو ڈوموں کے لطیفوں پر اپنے قیمتی اموال لُٹادیتے ہیں،ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو آدھ گھنٹہ کے جُوأ کی خاطر اپنی جائدادیں برباد کردیتے ہیں، ایسا انسان اگر خداتعالیٰ کی راہ میں اپنی جائداد دے دیتا ہے تو وہ کونسا بڑا کام کرتاہے اُس کے نزدیک تو جائداد کی کوئی قیمت ہی نہیں کہ اُس کی اِس نیکی کو بڑی نیکی قرار دیا جاسکے۔ ایسے انسان کی سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ وہ جُوئے سے توبہ کرے۔ ایسے شخص کیلئے چوری سب سے بُرا فعل نہیں کیونکہ چوری کی طرف اسے رغبت نہیں، ایسے شخص کیلئے سب سے بڑا گناہ ظلم نہیں کیونکہ ظلم کی طرف اسے توجہ نہیں، ایسے شخص کیلئے سب سے بڑا گناہ جھوٹ نہیں کیونکہ جھوٹ سے اسے کوئی دلچسپی نہیں، ایسے شخص کیلئے سب سے بڑا گناہ قتل نہیں کیونکہ قتل کا جذبہ اُس کے دل میں کبھی پیدا ہی نہیں ہوتا، ایسے شخص کا سب سے بڑا گناہ جُوأ ہے کیونکہ بڑا گناہ وہی ہے جس کی عادت ہو جائے اور جس کا چھوڑنا انسان کو مشکل معلوم ہو۔ اس تعریف کے مطابق ایک ایسا انسان بھی ہوسکتاہے جس کا سب سے بڑا گناہ یہ ہو کہ وہ مونچھیں نہیں ترشواتا ۔ وہ چور بھی نہیں ہوگا، وہ ڈاکو بھی نہیں ہوگا، وہ جھوٹ بھی نہیں بولے گا، وہ دھوکا اور فریب بھی نہیں کرے گا مگر انگریزوں کو دیکھ کر چونکہ اُسے مونچھیں بڑھانے کی عادت ہوچکی ہوگی اِس لئے ہم اس کے متعلق کہیں گے کہ اس کا سب سے بڑا گناہ مونچھیں بڑھانا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اپنے ایک عزیز کا جووہابی خیالات رکھتا تھا واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ کوئی بڑا رئیس آپ سے ملنے آیا۔ وہ تہہ بند تکبر سے لٹکا کرچلا کرتا تھا اور اُس وقت بھی اُس نے اپنی تہہ بند لٹکائی ہوئی تھی اور ٹخنوں سے نیچے پڑ رہی تھی۔ آپ فرماتے ہیں جس وقت اُس عزیز نے اس رئیس کو اس حالت میں دیکھا تو چونکہ وہ نیا نیا علمِ حدیث پڑھ کر آیا تھا اس نے اپنی مسواک اُٹھائی اور اس رئیس کے ٹخنے پر مار کر کہا فِی النَّارِ یہ حصہ دوزخ میں جائے گا کیونکہ حدیثوں میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص تکبّر سے اپنا ازار لمبا رکھے وہ دوزخ میں جاتا ہے ؎۳ ۔ وہ رئیس مسلمان تھا مگر اُسے ہمیشہ اپنی عزت کا خیال رہتا تھا اور اِسی عزت کے خیال سے وہ تہہ بند لٹکا کر باندھا کرتا۔ جب اُس شخص نے ایک بھری مجلس میں اُس رئیس کے ٹخنے پر مسواک مار کر کہا فِی النَّارِتو فوراً اُس رئیس پر اپنی عزت کا خیال غالب آگیا اور اُس نے نہایت غصے سے کہا کہ تجھے کس بیوقوف نے بتایا ہے کہ میں مسلمان ہوں میں ہرگز مسلمان نہیں۔ گویا محمدﷺ کا اگر ایسا حکم ہے تو وہ مسلمانوں پرچل سکتا ہے مجھ پرنہیں چل سکتا۔ اب تہہ بند کے ایک انچ اوپر یا ایک انچ نیچے ہونے میں کیا رکھا ہے مگر ایسے بیسیوں لوگ مل جائیں گے جنہیں اگر یہ کہو کہ تم ایک ہزار مربع لے لو مگر تہہ بند نیچے نہ باندھو تو وہ زمین چھوڑنے کیلئے تیار ہوجائیں گے مگر تہہ بند کا لٹکانا نہیں چھوڑیں گے۔ بلکہ اگر انہیں کہا جائے کہ تمہیں سر کا خطاب مل جائے گا بشرطیکہ تہہ بند لٹکا کر نہ چلو تو وہ سر کا خطاب چھوڑنے کیلئے تیار ہوجائیں گے لیکن اس بات کے چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے کہ تہہ بند ایک انچ اوپر کرکے باندھیں۔ پس ایسے لوگوں کا سب سے بڑا گناہ تہہ بند کو نیچے لٹکانا ہوگانہ کچھ اور۔
اسی طرح ایک زمیندار جب یہ سنتا ہے کہ کسی شخص نے رسول کریم ﷺ کو گالی دی تو اسے اپنی بیویوں کی محبت، اپنے بچوں کی محبت ،اپنے خاندان کی محبت اور اپنی جان کی محبت بالکل فراموش ہوجاتی ہے۔ وہ خاموشی سے ایک گنڈاسہ یا چھرا لیتا ہے اور گھر سے نکل جاتا ہے اور اس شخص کی تلاش شروع کردیتا ہے جس نے رسول کریم ﷺ کو گالی دی ہوتی ہے، پھر جب وہ مل جاتا ہے تو اُسے قتل کردیتا ہے اور جب خود پکڑا جاتاہے تو اَللّٰہُ اَکْبَرکا نعرہ لگاتا ہوا پھانسی کے تختہ پر چڑھ جاتا ہے اور ذرا بھی خیال نہیں کرتا کہ اُس نے کوئی قربانی کی ہے۔ گویا وہ اپنی جان اور اپنا مال اور اپنی ہر چیز رسول کریم ﷺ پر قربان کرنے کیلئے تیار ہوجائے گا لیکن باوجود اس کے اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ بنیے کے پاس جاتا اور اُس سے سُود لیتا ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی ایک خیالی عزت کو قربان نہیں کرتا اور اپنی لڑکی کو ورثہ سے محروم رکھتا ہے۔ ایسے شخص کی سب سے بڑی نیکی یہ نہیں کہ اُس نے اپنی جان رسول کریم ﷺ کی عزت کی حفاظت کیلئے قربان کردی بلکہ اس کی سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ وہ سُود نہ لے اور اپنی لڑکیوں کو جائداد سے ورثہ دے۔ یہ صرف چند مثالیں میں نے دی ہیں ورنہ ہزاروں مثالیں ایسی پائی جاتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نیکی اوربدی ہر انسان کے ساتھ بدلتی چلی جاتی ہے۔
پس جب تک یہ خیال دل میں رہے کہ فلاں بدیاں بڑی ہیں اور فلاں چھوٹی اور فلاں نیکیاں بڑی ہیں اور فلاں چھوٹی اُس وقت انسان نہ بدیوں سے پوری طرح بچ سکتا ہے اور نہ نیکیوں کو پوری طرح حاصل کرسکتا ہے۔ دنیامیں بڑی بدیاںوہی ہیں جن کے چھوڑنے پرانسان قادر نہ ہو اور جو عادت میں داخل ہوچکی ہوں اور بڑی نیکیاں وہی ہیں جن کا کرنا انسان کو دوبھر معلوم ہو۔ اِس نقطہ نگاہ کے مطابق کئی نیکیاں ایسی ہوسکتی ہیں جو ایک کیلئے بڑی ہوں مگر دوسروں کیلئے چھوٹی اور کئی بدیاں ایسی ہوسکتی ہیں جو ایک کیلئے بڑی ہوں لیکن دوسرے کیلئے چھوٹی۔ پس جب تک اِس خیال کو دل سے نکال نہیں دیا جاتا کہ چوری ایک بڑا گناہ ہے، زنا ایک بڑا گناہ ہے، قتل ایک بڑا گناہ ہے، غیبت ایک بڑ اگناہ ہے اور ان کے علاوہ جتنے گناہ ہیں وہ چھوٹے ہیں یا جب تک اس خیال کو دل سے نکال نہیں دیا جاتا کہ چند نیکیاں بڑی ہیں اور باقی چھوٹی مثلاً روزہ بڑی نیکی ہے، نماز باجماعت بڑی نیکی ہے، زکوٰۃ بڑی نیکی ہے، حج بڑی نیکی ہے او راس کے علاوہ جتنی نیکیاںہیں وہ چھوٹی ہیں اُس وقت تک انسان کا عملی حصہ بہت کچھ کمزور رہتا ہے۔ مگر عام مسلمانوں میں اِس وقت یہ مرض پھیلا ہؤا ہے اور وہ یہ کہ وہ بعض نیکیوں کو بڑی اور بعض کو چھوٹی سمجھتے ہیں۔ مثلاً وہ سمجھتے ہیں کہ روزہ سب سے بڑی نیکی ہے اس خیال میں انہیں اس قدر غلو ہے کہ وہ نماز باجماعت چھوڑ دیں گے، زکوٰۃ ساری عمر نہیں دیں گے لیکن جو شخص روزہ نہ رکھے خواہ کسی بیماری اور مجبوری کی وجہ سے نہ رکھے وہ ان کے نزدیک کشتنی اور گردن زدنی ہوگا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں جبکہ آپ سفر کی حالت میں تھے امرتسر میں تقریر فرمارہے تھے کہ آپ کے گلے میں خشکی محسوس ہوئی۔ ایک دوست نے یہ دیکھ کر آپ کے آگے چائے کی پیالی پیش کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیالی ہٹادی لیکن تھوڑی دیر کے بعد اُس نے حلق کی تکلیف کے خیال سے پھر پیالی پیش کردی آپ نے پھر ہاتھ سے اشارہ کیا کہ رہنے دو لیکن تیسری دفعہ اس نے پھر پیالی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آگے کردی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غالباً یہ سمجھ کر کہ اگر میں نے چائے کی پیالی نہ لی تو یہ رِیاء ہوجائے گا اور سمجھا جائے گا کہ میں نے لوگوں کو دکھانے کی خاطر اِس حکم پرعمل نہیں کیا جو سفر کے وقت روزہ نہ رکھنے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دیا ہے جب تیسری بار اُس دوست نے پیالی پیش کی تو آپ نے لے لی اور اس میں سے تھوڑا سا گھونٹ بھرلیا۔ یہ دیکھتے ہی لوگوں نے شور مچانا شروع کردیا کہ امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر رمضان میں روزے نہیں رکھتے۔ وہ لوگ جو اُس وقت شور مچارہے تھے ان میں سے یقینا نوے فیصدی نمازباجماعت کیا نماز کے ہی تارک تھے اور یقینا ان میں سے ننانوے فیصدی جھوٹ بولنے، دھوکا فریب کرنے اور لوگوں کے مال لُوٹ لینے والے تھے مگر اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان میں سے ننانوے فیصدی روزہ دار تھے کیونکہ ہندوستان میں روزہ کو سب سے بڑی نیکی سمجھا جاتا ہے مگر روزہ وہ اس طرح نہیں رکھتے جس طرح رسول کریم ﷺ نے روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ بولتا ، غیبت کرتا یا گالی دیتا ہے خداتعالیٰ کے حضور اس کا کوئی روزہ نہیں ؎۴ وہ صرف بھوکا اور پیاسا رہتا ہے۔ اس حدیث کے مطابق گو ننانوے فیصدی مسلمان بظاہر روزہ رکھ کر بھوکے اور پیاسے رہتے ہیں مگر وہ اس بھوکے پیاسے رہنے کو سب سے بڑی نیکی سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک جو شخص روزے رکھ لے اور چند اور نیکیوں پر عمل کرلے اُس کا بیڑا پار ہے۔ ایسے لوگ دنیامیں پاکیزگی کے قائم کرنے میں کبھی ممدنہیں ہوسکتے اور نہ وہ صحیح معیارِ گناہ قائم کرسکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ذہن میں یہ نقشہ جمالیا ہوتاہے کہ کچھ چھوٹی نیکیاں ہوتی ہیں اور کچھ بڑی نیکیاں ہوتی ہیں اور کچھ چھوٹی بدیاں ہوتی ہیں اور کچھ بڑی بدیاں ہوتی ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جس نیکی کو بڑا سمجھے ہوئے ہوتے ہیں اسے تو وہ اختیار کرلیتے ہیں مگر جن بدیوں کوچھوٹا سمجھ رہے ہوتے ہیں اُن کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے حالانکہ اسلام نے اُسی نیکی کو بڑا قرار دیا ہے جس پر عمل کرنا اُس کیلئے دوبھر ہو اور اُسی بدی کو بڑا قرار دیا ہے جس سے بچنا انسان کیلئے دوبھر ہو۔
پس ایک تو عملی اصلاح میں سب سے بڑی روک یہ ہے کہ لوگ بدیوں اورنیکیوں کے متعلق ذہنی طور پر فرق کرلیتے ہیں اور کہنا شروع کردیتے ہیں کہ بعض گناہ بڑے ہیں اور بعض چھوٹے اور بعض نیکیاں بڑی ہوتی ہیں اوربعض چھوٹی ہوتی ہیں۔ وہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ جو بڑی بڑی نیکیاں ہیں وہ ہم کرلیں گے اور چھوٹی نیکیوں کونظرانداز کردیں گے۔ اسی طرح گناہوں میں سے بھی وہ جن گناہوں کو بڑا سمجھتے ہیں اُن سے بچنے کی کوشش کریں گے مگر اور گناہوں کااپنے اندر پایا جانا انہیں قابلِ اعتراض امر معلوم نہیں ہوگا حالانکہ چھوٹی نظر آنے والی نیکیاں چھوڑ دینے سے بسااوقات بڑے بڑے نقصان ہوجاتے ہیں اور معمولی نظر آنے والی بدیاں کرلینے سے بسااوقات روحانیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ پس ان کی قربانی دونوں طرف سے کم سمجھی جاتی ہے اور خداتعالیٰ کی طرف سے طہارت اور پاکیزگی کا خلعت انہیں عطا نہیں کیا جاتا۔ پھر بعض بدیوں کو چھوٹا سمجھنے کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بدی کا بیج دنیا میں قائم رہتا ہے جو مناسب ماحول کے قائم ہونے پر پھر اُگ آتا ہے۔ اسی طرح جس نیکی کو چھوٹی سمجھ کر چھوڑ دیا گیاہوتا ہے بسااوقات وہ بڑی ہوتی ہے اور جس بدی کو چھوٹی سمجھ کراختیار کرلیا جاتا ہے وہ بسااوقات اس زمانہ میں نہایت مُہلک اور خطرناک نتائج پیدا کرنے والی ہوتی ہے۔ پھر ہر شخص کے نزدیک چھوٹی بڑی بدی الگ الگ ہوتی ہے۔ ایک شخص جس بدی کو بڑا سمجھتا ہے دوسرا اسے چھوٹا سمجھتا ہے اور دوسرا جس بدی کو چھوٹا سمجھتا ہے تیسرا اسے بڑا سمجھتا ہے جس کے نتیجہ میں دنیا میں ہر بدی کابیج موجود رہتا ہے۔ اگر سارے لوگ مل کرفیصلہ کرلیتے کہ فلاں بدی بری ہے تو وہ پید اہی نہ ہوتی۔ جیسے مسلمان سارے گناہوں سے بدترگناہ حتّٰی کہ شرک سے بھی بدتر سؤر کھانا سمجھتے ہیں۔ یہ اسی لئے کہ ان میں متفقہ طور پر سؤر کے متعلق یہ احساس پید اہوچکا ہے کہ اس کا گوشت کھانا بُراہے۔ وہ کنچنیاں جو دو دو آنے، چار چار آنے، روپیہ روپیہ، دو دو روپے، چار چار روپے اور پانچ پانچ روپے پر علیٰ قدرِ مراتب عصمت فروشی کرتی رہتی ہیں اور پھر سینہ پر ہاتھ مار کر کہتی ہیں کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ ہم مؤمنہ ہیں، وہ ڈاکوجو دو آنے پر ایک شخص کاخون بہانا جائز سمجھتے ہیں، وہ لوگ جو پندرہ پندرہ ، بیس بیس روپے لے کر بے دریغ دوسرے کو قتل کردیتے ہیں اور منہ سے اسلام کااقرار بھی کرتے جاتے ہیں، وہ بھی عصمت فروشی اور قتل کو اتنا بُرا فعل نہیں سمجھیں گے جتنا سؤر کا گوشت کھانے کو۔ جس کی یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں سؤر کے گوشت کے متعلق مجموعی طور پر یہ احساس پیدا ہوچکا ہے کہ اس کا کھانا خطرناک گناہ ہے حالانکہ کنچنیوں کا سب سے بڑا گناہ عصمت فروشی ہے اور ایک قاتل کا سب سے بڑا گناہ قتل ہے مگر وہ ان گناہوں کا عادی ہونے کی وجہ سے انہیں تو معمولی سمجھتے ہیں لیکن سؤر کاگوشت کھانا بدترین گناہ سمجھتے ہیں۔ اسی طرح کئی ایسے ملیں گے جو جھوٹ بولنے والے ہوں گے لیکن قتل نہیں کریں گے۔ وہ قاتل کونفرت کی نگاہ سے دیکھیں گے لیکن جھوٹ سے جب انہیں منع کیا جائے گا تو کہہ دیں گے کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیںہوتا۔ پھر کئی ہیں جوچغلخوری کی عادت رکھتے ہیں وہ جھوٹ سے نفرت رکھتے ہیں لیکن چغلخوری کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ اس کے مقابلہ میں جو جھوٹ بولنے کی عادت رکھتا ہے اور چغلخوری سے محفوظ ہے وہ چغلخور سے سخت نفرت رکھے گا۔ اگر کوئی شخص اس کے پاس کسی کی چغلی کرے گا تو وہ آئندہ کیلئے اس کی شکل تک دیکھنے کیلئے تیار نہیں ہوگا اور اس سے شدید نفرت کرے گا لیکن وہ اس کے سچ کو تو اِدھر سے اُدھر بیان کرنے پر ناراض ہوگا اور خود جھوٹ بول لینا اسے معمولی عیب دکھائی دے گا۔
پس چونکہ ہر انسان اپنی فطرت، اپنی عادت اور اپنے ماحول کے مطابق کسی بدی کو بڑا اور کسی کو چھوٹا سمجھتا ہے اس لئے ہر بدی کا بیج دنیا میں موجود رہتا ہے۔ گویا یہ منڈی ہمیشہ ہی پررونق رہتی ہے اس میں کئی ایسے مل جائیں گے جو قتل کو معمولی بدی سمجھ کر لوگوں کوقتل کرنے والے ہوں گے، کئی ایسے مل جائیں گے جو غیبت کو معمولی بدی سمجھ کرلوگوں کی غیبت کرنے والے ہوں گے، کئی ایسے مل جائیں گے جو جھوٹ کو معمولی بدی سمجھ کر لوگوں کے متعلق جھوٹ بولنے والے ہوں گے، کئی ایسے مل جائیں گے جو دوسرے کے مال کھانے کومعمولی بدی سمجھ کر اپنے بھائیوں کامال کھانے والے ہوں گے، کئی ایسے مل جائیں گے جو خیانت کو معمولی بدی سمجھ کر خائن ہوں گے، کئی فسق اور فجور کو معمولی بدی سمجھ کر فاسق اور فاجر نظر آئیں گے غرض ہر گناہ کی کاشت کرنے والے لوگ دنیا میں موجود ہوں گے، کوئی کسی گناہ کو چھوٹا قرار دے رہا ہوگا اور کوئی کسی کو اور اسی طرح ہر گناہ کا بیج دنیا میں محفوظ چلا آئے گا۔ ہاں ایک مثال جو سؤر کے گوشت کی میں نے دی ہے اس کی استثناء رہے گی کیونکہ کروڑوں میں سے ایک مسلمان بھی ایسا نہیں ہوگا جو سؤر کا گوشت کھاتا ہو بلکہ مسلمان سؤر کے قریب بھی نہیں پھٹکتا اِلاَّمَاشَائَ اللّٰہُ۔ چند ایسے لوگوں کوجو مغرب میں رہنے کی وجہ سے اس جذبہ کوکھوچکے ہوں مگر وہ اَلنَّادِرُ کَالْمَعْدُوْمِ کے طور پر ہیں۔ تو جس گناہ کو سارے لوگ ہی بڑا گناہ قرار دے لیں اُس کا مٹانا کوئی مشکل نہیں ہوتا لیکن جن گناہوں کو کچھ لوگ بڑا اور کچھ لوگ چھوٹا قرار دے رہے ہوں ان کا مٹانا نہایت مشکل ہوجاتا ہے۔
دوسراسبب یہ ہے کہ عقیدہ ہر ایک کے دل میں ہوتا ہے اور عقیدے کا تعلق دل سے ہے لیکن عمل کا تعلق ظاہر سے ہے۔ انسانی فطرت میں ہم یہ بات دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی ترقی کیلئے اس میں نقل کامادہ رکھا ہؤا ہے۔ اس نقل کے مادہ کا غلط استعمال کرکے کبھی انسان تباہ بھی ہوجاتا ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ ہمارے فائدے کیلئے رکھا ہؤا ہے۔ اگر نقل کامادہ انسان میں نہ ہو تو وہ مثلاً زبان ہی نہ سیکھ سکے مگر چونکہ نقل کا مادہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں رکھا ہؤا ہے اس لئے ماں باپ کو اردو یا انگریزی یا پنجابی بولتے دیکھ کر بچہ بھی وہی زبان بولنے لگ جاتا ہے اور تھوڑے ہی عرصہ میں کافی زبان سیکھ لیتا ہے۔ یوں کسی غیر زبان کے پڑھنے میں کتنے سال لگ جاتے ہیں لیکن ماں باپ سے سن کر نافہم بچہ بھی چند سالوں میں کتنی مکمل زبان سیکھ جاتا ہے۔ ایک زمیندار ۱۵ سال میں بھی اتنی عربی نہیں پڑھ سکتاجتنی بچپن کی حالت میں ڈیڑھ دو سال کے عرصہ میں وہ پنجابی سیکھ لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں یہ نقل کا مادہ اِس لئے رکھا ہے کہ تا انسانی ترقی ہو اور علوم کا سیکھنا اسے بوجھ محسوس نہ ہو مگر یہی نقل کامادہ کبھی غلط طور پر بھی استعمال ہوکر بچہ کی عملی زندگی کو تباہ کردیتاہے کیونکہ جس طرح بچہ اپنے ماں باپ سے زبان سیکھتا ہے اسی طرح وہ اپنے ماں باپ کو جھوٹ بولتے دیکھ کر ان سے جھوٹ کی بھی عادت سیکھتا اور جھوٹ کی نقل کرنا شروع کردیتاہے۔ یا جب وہ اپنے اِردگِرد کسی کو چوری کرتے دیکھتا ہے تو اُس کو دیکھ کر خود بھی چوری کرنے لگ جاتا ہے۔
بچہ میں یہ نقل کی عادت ویسی ہی ہے جیسے بندر میں نقل کی عادت ہے۔ بندر میں بھی نقل کا مادہ بڑی شدت سے پایا جاتا ہے۔ بعض لوگوں نے بندر کی اس عادت کے متعلق ایک عجیب واقعہ لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ کوئی ٹوپیوں کا تاجر تھا وہ بہت سی ٹوپیاں لئے ایک جنگل میں سے گزر رہا تھا کہ آرام کرنے کیلئے ایک درخت کے نیچے سر پر ٹوپی رکھے سوگیا اور ٹوپیوں کی گٹھڑی پاس رکھ لی۔ اتفاقاً اس درخت پر بہت سے بندر بیٹھے تھے جب بندروں نے دیکھا کہ درخت کے نیچے ایک آدمی سر پر ٹوپی اوڑھے سویا ہؤا ہے اور اس کے پاس بہت سی ٹوپیاں پڑی ہیں تو وہ نیچے آئے اور ان میں سے ہر ایک نے ایک ایک ٹوپی اپنے سر پر اوڑھ لی اور درخت پر چڑھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب ٹوپیوں والے کی آنکھ کھلی تو اُس نے دیکھا کہ ٹوپیاں غائب ہیں وہ حیران ہؤا اور اُس نے سمجھاکہ کوئی چور اُٹھا کرلے گیا ہے مگر اتفاقاً اس نے اوپر جو دیکھا تو بیسیوں بندر اُسے ٹوپیاں پہنے ہوئے دکھائی دیئے۔یہ دیکھ کر اُس نے بندروں کوڈرایا اور دھمکایا مگر انہوں نے کسی طرح ٹوپیاں نہ اُتاریں۔ آخر اُس نے درخت کاپھل جونیچے گرا ہؤا تھا بندروں کو مارنا شروع کیا۔ جب بندروں نے دیکھا کہ یہ پھل اُٹھا اُٹھا کر ہمیں مار رہا ہے تو انہوں نے بھی درخت کے پھل توڑ توڑ کر اُسے مارنا شروع کردیا۔ اب چاروں طرف سے جو اُسے پھل لگے تو وہ گھبراگیا مگر آخر اللہ تعالیٰ نے اسے عقل سے کام لینے کی توفیق دی اور اس نے سمجھا کہ یہ تو محض میری نقل کررہے ہیں۔ اب میںکوئی ایسا طریق سوچوں جس سے یہ ٹوپیاں میری طرف پھینک دیں۔ اس خیال کے آنے پر اُس نے اپنی ٹوپی سر سے اُتاری اور زور سے اسے زمین پر دے مارا۔ یہ دیکھتے ہی سب بندروں نے ٹوپیاں اپنے اپنے سر سے اتاریں اور زور سے زمین پر پھینک دیں اس تاجر نے انہیں اکٹھا کرلیا اور آگے روانہ ہوگیا۔
بچوں کی بھی یہی حالت ہوتی ہے وہ بغیر عقل سے کام لئے دوسروں کی نقل کرنا شروع کردیتے ہیں اور جس وقت وہ عقل کی عمر کو پہنچتے ہیں اور انہیں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ یہ فعل بُرا ہے تو اُس وقت وہ اُن کی عادت میں داخل ہوچکا ہوتاہے۔ وہ بسا اوقات اپنی ماں کو دیکھتے ہیں کہ وہ نمازوں میں سُستی کرتی ہے پھر وہ دیکھتے ہیں کہ اُن کاباپ گھر میں آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ نماز پڑھی؟ تو وہ جواب میں کہہ دیتی ہے ابھی تونہیں پڑھی پڑھ لوں گی۔ بچہ یہ جواب سنتا اور دل میں کہتا ہے کہ مجھ سے بھی جب کسی نے پوچھا کہ نماز پڑھی ہے؟ تو میں کہہ دوں گا ابھی نہیں پڑھی پڑھ لوں گا۔ چنانچہ جب وہ ہوش سنبھالتا ہے اورباپ اُس سے پوچھتا ہے نماز پڑھی تو وہ کہہ دیتا ہے ابھی نہیں پڑھی پڑھ لوں گا۔ پھر وہ دیکھتا ہے کہ باپ گھر میں ناراض ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ تم نے نماز پڑھی؟ تو ماں جواب دیتی ہے اوہ! میں بھول گئی تھی بچہ یہ جواب سنتا اور دل میںکہتا ہے یہ اچھا نسخہ ہے مجھ سے بھی جب کسی نے پوچھا نماز پڑھی؟ تو میں کہہ دوں گا اوہ! میں بھول گیا تھا۔ پھر کبھی وہ دیکھتا ہے کہ باپ جب پوچھتا ہے کہ نما زپڑھی تو ماں جھوٹ بول کر کہہ دیتی ہے کہ میں نے نماز پڑھی لی ہے۔ بچہ جانتا ہے کہ اس نے نماز نہیں پڑھی کیونکہ وہ ہر وقت ساتھ رہتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ بھی کہتا ہے جب مجھ سے کوئی پوچھے گا نماز پڑھی تو میں کہہ دوں گا میں نے پڑھ لی ہے۔ چنانچہ بڑے ہونے پر جب باپ گھر میں آتا اور اپنے بچہ سے دریافت کرتا ہے کہ نماز پڑھی؟ تو وہ نہایت دلیری سے کہہ دیتا ہے اباجان میں نے نماز پڑھ لی ہے۔ یا بچہ اپنے ہمسایہ میں سے کسی کوجھوٹ بولتے دیکھتا یا چوری کرتے دیکھتا ہے تو اُس کو بھی ان افعال میں لذت آنی شروع ہوجاتی ہے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ یہ چیز اچھی ہے یابُری، مزیدار ہے یا غیرمزیدار، وہ صرف نقل کرنی جانتا ہے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بچے روتے ہیں اور ان کے رونے کا بظاہر کوئی سبب معلوم نہیں ہوتا لیکن جب کرید کرید کر بات دریافت کی جائے تو کسی ایسی بات پر وہ رورہے ہوتے ہیں جس میں محض دوسرے کی نقل کا شوق کارفرما ہوتا ہے۔ میری ایک بھانجی کا ہی ایک واقعہ ہے وہ چھوٹی سی تھی کہ ایک دن اس نے رونا شروع کردیا۔ اتنی روئی اتنی روئی کہ سب حیران رہ گئے اور وہ کسی طرح چپ کرنے میں نہ آئے آخر بہت دریافت کرنے پر اُس نے کہا کہ میں کیہوں کی کٹوری میں گڑ کے میٹھے چاول ڈال کرکھائوں گی اس نے کسی کھلائی کی لڑکی کو اس طرح کیہوں کی کٹوری میں گڑ کے میٹھے چاول ڈال کر کھاتے دیکھا تھا بس اس کی نقل کے شوق میں اس نے بھی ضد کرلی اوررونا شروع کردیا۔ چنانچہ اسے چاول پکا کر دیئے گئے اور کیہوں کی کٹوری میں ڈال کراس کے آگے رکھے گئے وہ لے کر کہنے لگی میں اسی جگہ زمین پربیٹھ کر کھائوں گی جہاں اس نے کھائے تھے۔ چنانچہ وہ زمین پر وہیں بیٹھی جہاں اس نے اپنی کھلائی کی لڑکی کو بیٹھے دیکھا تھا او رمیٹھے چاول کھائے۔
اسی طرح مجھے اپنا بھی ایک لطیفہ یاد ہے میں اُس وقت گودیوں میں اٹھایا جاتا تھا ان دنوں میری آنکھیں سخت دکھنے آئیں شدتِ تکلیف سے میں رورہا تھاکہ ایک عورت نے مجھے اُٹھالیا اور اِدھر اُدھر پھرنا شروع کردیا۔ اُس عورت کو چونکہ بھوک لگی ہوئی تھی اِس لئے اُس نے رات کی باسی روٹی لے کر ٹہلتے ٹہلتے کھانی شروع کردی۔ مجھے ساری عمر میں کبھی کسی چیز کے متعلق اتنی شدید حرص پید انہیں ہوئی جتنی اُس دن پیدا ہوئی۔ میں آنکھوں کے درد سے روتا جارہا تھا اور میری سب سے بڑی خواہش اُس وقت یہ تھی کہ رات کی باسی روٹی اس وقت ہو تو میں اُسے ٹہل ٹہل کر کھائوں۔یہ باسی روٹی کا مزہ نہیں تھا جو مجھے آیابلکہ ایک نقل تھی جو میں نے کرنی چاہی۔
تو بچپن میں نقل کی شدید عادت ہوتی ہے اور بغیر سمجھ کے بچہ کام کرتا چلا جاتا ہے اگر اسے نیک ماحول میں رکھ دیں تو وہ نیک کام کرتا چلا جائے گا اور اگر بُرے ماحول میں رکھ دیں تو وہ بُرے کام کرتا چلا جائے گا اور جب بڑے ہوکر لوگ اسے سمجھاتے ہیں اور کہتے ہی کہ یہ چیز بُری ہے اسے مت کرو تو اُس وقت وہ ان کے اختیار سے نکل چکاہوتا ہے لیکن عقیدے میں یہ بات نہیں۔ عقیدہ دماغ میں ہوتا ہے اور اِس وجہ سے عقیدہ نظر نہیں آتا اس لئے عقیدہ میں دوسرے کی نقل نہیں ہوسکتی۔ اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ خدا ایک نہیں بلکہ تین ہیں تو اِردگرد کے بچوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا ہاں اگر وہ تبلیغ کررہا ہو تو بچے زبان سے اُس کی نقل کرنے لگ جائیں گے اور شور مچاتے پھریں گے کہ خدا تین ہیں، خدا تین ہیں او راگر وہ کسی کو کہتے سنیں گے کہ خدا کوئی نہیں تو وہ اس کی نقل کرنے لگ جائیں گے او رکہنے لگیں گے کہ خدا کوئی نہیں۔ لیکن ان امور کے متعلق ان کے دل میں یقین پیدا نہیں ہوگا صرف ان کی زبانیں اسے دُہرارہی ہوں گی کیونکہ وہ زبان کی بات سن کر اس کی نقل کرنے لگ جائیں گے اور دل کی حالت چونکہ ان پرعیاں نہ ہوگی اس کی نقل کرنے کی وہ کوشش نہ کریں گے۔
غرض عمل کا تعلق چونکہ ظاہر سے ہے اس وجہ سے دوسروں کے عیوب کا جلدی اثر ہوجاتا ہے اور اس وجہ سے چونکہ عیسائی کی تثلیث کا عقیدہ بچوں کے سامنے نہیں آئے گا کیونکہ وہ اس کے دماغ میں ہے وہ اس کی نقل نہیں کریں گے لیکن اس کی نکٹائی اور پتلون چونکہ بچوں کے سامنے ہوگی اس لئے وہ فوراً اس کی نقل کرنی شروع کردیں گے اور جب بھی نکٹائی اور پتلون کاذکر آئے گا وہ اس کیلئے بیتاب ہوجائیں گے۔اگر عقیدہ ظاہر کی چیز ہوتی تو بچے اس کی بھی نقل شروع کردیتے مگر عقیدہ چونکہ مخفی چیز ہے اس لئے اس کی نقل کم ہوتی ہے اسے صرف علمی طور پر سمجھایا جاسکتا ہے اور علمی طور پر سمجھانا بچپن کے زمانہ سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ جوانی کے زمانہ سے تعلق رکھتا ہے اور اُس وقت بچہ اگر عقل سے کام لے تو مفید اور مُضِرّ بات میں فرق کرسکتا ہے۔ پس انسانی فطرت میں چونکہ نقل کامادہ رکھا گیا ہے اس لئے اگر بچہ اپنے اِرد گِرد لوگوں کوجھوٹ بولتے دیکھتا ہے تو وہ جھوٹ بولنے لگ جاتا ہے، اگر چوری کرتے دیکھتا ہے توچوری کرنے لگ جاتا ہے، دوسروں کو لوگوں کے حق مارتے دیکھتا ہے تو یہ بھی حق مارنے کی عادت اختیار کرلیتا ہے، جھوٹی قسمیں کھاتے دیکھتا ہے تو یہ بھی جھوٹی قسمیں کھانے لگ جاتاہے، گالیاں دیتے دیکھتاہے تو یہ بھی گالیاں دینے لگ جاتا ہے، نما زکا تارک دیکھتا ہے تو خود بھی نماز کا تارک بن جاتا ہے، روزہ رکھتے نہیں دیکھتا تو اس میں بھی روزہ رکھنے کی عادت پیدانہیں ہوتی، گائے کاگوشت کھاتے دیکھتا ہے تو گائے کا گوشت کھانے کا عادی ہوجاتا ہے، گائے کے گوشت سے نفرت کرتے دیکھتا ہے تو یہ بھی گائے کے گوشت سے نفرت کرنے لگ جاتا ہے۔
سردار فضل حق صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مخلص صحابی تھے جو فوت ہوچکے ہیں وہ سکھوں کے ایک معزز خاندان اور رئیسوں میں سے تھے اُن کی چِڑ ہی لوگوں نے یہ بنائی ہوئی تھی کہ سردار صاحب گائے کا گوشت لائیں یہ سنتے ہی سردار صاحب کو متلی ہونے لگتی۔بعض دفعہ لوگ انہیں زبردستی گائے کی بوٹی کھلانے کی کوشش کرتے۔ مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے جب مہمان خانہ میں وہ آگے آگے ہوتے اور لوگ پیچھے پیچھے اور لوگ انہیں کہتے آج تو آپ کو ایک بوٹی کھلا کررہیں گے اور وہ کہتے خدا کیلئے مجھے نہ کھلانا۔ مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے یہ شاید انہی کاواقعہ ہے یا کسی اور نَومسلم کا۔ بہرحال یہ واقعہ ہے کہ ایک دفعہ انہیں یا کسی اور نَومسلم کوبے خبری میں گائے کے گوشت کی ایک بوٹی کھلادی گئی اور انہیں واقعہ میں قے آگئی۔ یہ گائے کے گوشت کا ذکر سن کر قے آجانا کیا چیز ہے وہی بچپن کا اثر ہے جب انہیں گائے کے گوشت سے نفرت دلائی جاتی ورنہ گائے کے گوشت میں کیا رکھا ہے اور بکرے کے گوشت میں کیا ۔
تو عمل چونکہ نظر آنے والی چیز ہے ا س لئے لوگ اس کی نقل کرلیتے ہیں او ریہ بیج پھر بڑھتا چلا جاتا ہے لیکن عقیدہ چونکہ نظر آنے والی چیز نہیں اس لئے وہ اپنے دائرہ میں محدود رہتا ہے گویا عقیدہ ایک پیوندی درخت ہے کہ اسے خاص طور پر لگایا جائے تو لگتا ہے لیکن عمل کی مثال تخمی درخت کی سی ہے کہ آپ ہی آپ اِس کا بیج زمین میں جڑ پکڑ کر اُگنے لگتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کے عمل کی مثال اس بھٹ کٹیا ۵؎کے پودے کی سی ہے جو ہوا سے لڑھکتا پھرتا ہے اور ہر جگہ اس کا بیج آپ ہی آپ اگتا چلا جاتا ہے اور اُس کا مٹانا مشکل ہوجاتا ہے۔ پس عقیدہ اور عمل میں یہ ایک بہت بڑا فرق ہے جس کی وجہ سے بُرے عقیدہ کا پھیلنا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا بُرے عمل کا پھیلنا آسان ہوتا ہے۔
تیسرا سبب یہ ہے کہ عقیدہ آجل اُمور سے تعلق رکھتا ہے لیکن عمل ایسے امور سے تعلق رکھتا ہے جو عاجل ہوتے ہیں۔مثلاً یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اس کا اس عملی حالت سے کوئی تعلق نہیں۔ جب ایک سنار زیور تیار کرتا ہے او رسوچتا ہے کہ اس میں کھوٹ مِلائوں یا نہ مِلائوں کیونکہ کھوٹ ملانے یا نہ ملانے کا تعلق اُس کی شام کی روٹی کے ساتھ ہے۔ پس وہ اپنے قریب کے فائدے کو دیکھ کرایک راہِ عمل اختیار کرلیتا ہے۔ یا مثلاً یہ سوال کہ مرنے کے بعد کی زندگی ہے یا نہیں۔ بڑی دُور کا سوال ہے ، فرشتے ہوتے ہیں یہ بھی دور کی بات ہے، اللہ تعالیٰ کے نبی سچے ہوتے ہیں اور ان کی باتیںماننے میں انسان کا اپنا فائدہ ہوتا ہے یہ بھی دور کا سوال ہے، خدا کا کلام انسان پر اُترتا ہے یہ بھی بہت دور کی بات ہے، نجات کس کو ملے گی یہ بھی کوئی قریب کا سوال نہیں لیکن ایک سنار کیلئے یہ بالکل قریب کا سوال ہے کہ ایک شخص جو دو روپے کی چاندی دے گیا ہے میں اسے دو روپیہ کی چاندی کی صورت میں ہی واپس کروں یا پونے دو روپیہ کی چاندی میں چار آنہ کا کھوٹ مِلاکر واپس کروں کیونکہ اِس سوال کا تعلق اُس کی شام کی روٹی اور اُس کی بیوی بچوں کے کپڑوں کے ساتھ ہے۔ یہ سوچتاہے کہ اگر میں اِس میں کھوٹ ملادوں تو میری شام کی روٹی کا سوال حل ہوجاتا ہے مگر خد اایک ہے اِس سے اُس کی روٹی یا بیوی بچوں کے کپڑوں کا سوال بظاہر حل نہیںہوسکتا۔ تو عقیدے کا تعلق دورکے امور سے ہوتا ہے اور عمل کا تعلق قریب کے امور سے ہوتا ہے یعنی عمل کا اثر دنیا کے معاملات پر پڑتا ہے اور عقیدے کا اثر انسان کے ذہنی اثرات اور اُس کی روح پر پڑتا ہے اس لئے عقیدہ کی اصلاح میں دُنیوی ضروریات حائل نہیں ہوتیں لیکن عمل کی اصلاح کے راستہ میں دنیوی ضروریات حائل ہوجاتی ہیں۔ ایک شخص جوش میں آتا ہے اور دوسرے شخص سے لڑ پڑتا ہے اتفاقاً زور سے اُس کا ہاتھ اُس کے دل پرلگتا ہے او روہ مرجاتا ہے وہ دونوں ایک جگہ اکیلے ہوتے ہیں اُس وقت عاجل اور فوری طور پر اُس کے دل میں خیال آتا ہے کہ میں چُپ کرکے یہاں سے کھسک جاتا ہوں کسی کو کیا پتہ ہے کہ میں نے اسے ماراہے اگر پکڑا جائوں گا تو کہہ دوں گا مجھے کیا پتہ اس کوکس نے مارا ہے۔ گویا جھوٹ اور فریب کا عاجل فائدہ اس کے سامنے آجاتا اور وہ اس میں گرفتار ہوجاتا ہے لیکن خداتعالیٰ کی توحید سے اس کا اس طرح ٹکرائو نہیں ہوتا۔ ٹکرائو اگر ہوتا ہے تو جھوٹ کے ساتھ۔ یا مثلاً غیبت ہے ایک افسر اس کو تکلیفیں دیتا اور اس پر ظلم و ستم کرتاہے لیکن یہ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا اتفاقاً اس سے اعلیٰ افسر سے اسے ملاقات کرنے کا موقع مل جا تا ہے اور وہ پہلے ہی اس فکر میں حیران ہوتا ہے کہ میں اپنے دشمن سے کس طرح نجات پائوں وہ ملاقات کے وقت کیا دیکھتا ہے کہ اتفاقاً اعلیٰ افسر نے کوئی ایسی بات کہی جو اُس چھوٹے افسر کے خلاف ہے تب وہ فوراً خیال کرتا ہے کہ اگر میں بھی اس افسر کے چند عیوب اس کے پاس بیان کردوں تو یہ اس پر اور ناراض ہوجائے گا۔ چنانچہ یہ دیکھتے ہی کہ وہ بڑا افسر چھوٹے افسر کے خلاف ہے اس چھوٹے افسر کے چند اور عیوب بھی بیان کردیتا ہے اور اس طرح اس کی غیبت کرتا ہے اور دل میں کہتا ہے کہ اگر میں غیبت نہ کروںتو میری جان اورمال کاخطرہ دور نہ ہوگا۔ اس خیال کے آنے پر وہ غیبت کا ارتکاب کرلیتا ہے اور بسااوقات ا س کا مقصد اسے حاصل ہوجاتا ہے مگر توحید تو اس طرح اس کے فائدہ سے نہیں ٹکراتی ۔ پس غیبت سے بچنے پر وہ قادر نہیں ہوسکتا اور توحید کا دعویٰ کرنے پر قادر ہوجاتاہے۔
یہ صرف دُنیوی لحاظ سے میں بیا ن کررہا ہوں ورنہ دینی لحاظ سے تو مؤمن کا خداتعالیٰ خود محافظ ہوتا ہے اور اسے دشمنوں کے شرور سے محفوظ رکھتا ہے۔ غرض دُنیوی لحاظ سے انسان بعض دفعہ عاجلی فائدہ کیلئے بدیوں کا ارتکاب کرلیتا ہے کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اس کا عقیدہ اسے ان امور میں کچھ فائدہ نہیں پہنچاتا لیکن اس کا عمل اسے فائدہ پہنچاتا ہے۔ مثلاً وہ ایک ڈپٹی کمشنر کے پاس جائے اور کہے کہ تھانیدار مجھ پر ظلم کرتا ہے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ تو اس امر کا ڈپٹی کمشنر پر کوئی بھی اثر نہیں ہوتا لیکن ڈپٹی کمشنر کو متأثر کرنے کیلئے اگر وہ یہ غیبت کرے کہ ہمارے ہاں کا تھانیدار آپ کوبہت بُرابھلا کہتا رہتا ہے تو اس پر ڈپٹی کمشنر ضرور تحقیق کرے گا اور وہ واقعہ میں درست پاکر تھانیدار کو سزا دے گا اور اس کا دشمن ہوجائے گا اس طرح اس کی آرزو پوری ہوجائے گی۔ تو بسااوقات بدعمل کا ترک اس لئے مشکل ہوتا ہے کہ انسان کا عاجل فائدہ اس سے وابستہ ہوجاتاہے اور بسا اوقات نیکیوں کو انسان اس وجہ سے ترک کردیتاہے کہ انسان کا عاجل نقصان ان سے وابستہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً جب مالی قربانی کا وقت آتاہے تو بعض انسان خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے چندہ دے دیا تو ہم کپڑے کہاں سے بنوائیں گے غرض نیکیاں اوربدیاں عاجل امور سے تعلق رکھتی ہیں اور عقائد کا آجل سے تعلق ہوتا ہے اور چونکہ انسان طبعی طور پر اپنے قریب کی چیزوں سے متأثر ہوتا ہے بعید کی چیزوں سے متأثر نہیں ہوتا اس لئے لوگ عملی اصلاح کی طرف بہت کم توجہ کرتے ہیں اور عقائد پر پختہ رہتے ہیں۔ اور بھی اس کے بعض موجبات ہیں لیکن چونکہ اب تین بج چکے ہیں اس لئے میں انہیں اگلے جمعہ میں اِنْشَائَ اللّٰہُ بیان کروں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ اس مسئلہ کو تفصیل سے بیان کردوں تا اس کی اہمیت جماعت کے دوستوں پر واضح ہوجائے۔
فی ال￿حال میں نے تین باتیں بتائی ہیںاور یہ تین باتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے عقیدے کی اصلاح سے عمل کی اصلاح بہت زیادہ مشکل ہوجاتی ہے اور یہ باتیں عمل کی اصلاح میں روک بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں۔ ان باتوں کو مدّ نظر رکھ کرہمیں علاج سوچنا چاہئے تا کہ ہم اپنے اعمال میں اصلاح کرسکیں اورجس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ دنیا کے عقائد میں عظیم الشان تغیر ہؤا ہے اسی طرح عملی زندگی میں بھی ایک انقلاب پیدا ہوجائے ۔ میں نے پچھلی دفعہ بھی نصیحت کی تھی اور اب پھر کرتا ہوں کہ احباب کواپنے اپنے طور پر بھی اس مضمون پرغور کرنا چاہئے اور میں امید کرتاہوں کہ جولوگ اصلاحِ اعمال کے ذرائع پر غور کریں گے وہ پیشتر اس کے کہ میری باتیں سنیں خود اپنے اندر ایسی قوت محسوس کریں گے جس سے وہ نقائص کا بہت جلد ازالہ کرسکیں گے۔ پس میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خود بھی اس مسئلہ پرغور کریں اور اگر ان کے ذہن میں کوئی تجویز آئے تو اس سے مجھے اطلاع دیں تا میں بھی ان کی تجاویز سے فائدہ اُٹھاسکوں۔
(الفضل ۲؍ جون ۱۹۳۶ئ)
؎۱ البقرۃ: ۴ ؎۲ الحجرات: ۱۵
؎۳ بخاری کتاب اللباس باب مَنْ جَرَّ اِزَارَاہٗ (الخ)
؎۴ بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور (الخ)
؎۵ بھٹ کٹیا: ایک خاردار بوٹی

۲۰
اعمال کی اصلاح میں کیا مشکلات درپیش ہیں
(فرمودہ ۵؍جون ۱۹۳۶ئ)
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں نے پچھلے جمعہ میں خطبہ میں بعض وہ اسباب بیان کئے تھے جن کی وجہ سے ایسے زمانہ میں جبکہ مذہب کے ساتھ حکومت نہ ہوعملی اصلاح عقیدہ کی اصلاح سے زیادہ مشکل نظر آتی ہے۔ آج میں اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے تو اِس مضمون کا دوسرا حصہ بیان کرنا چاہتا ہوں لیکن اس سے قبل میں بعض اعتراضات کا جواب دینا چاہتا ہوں جو ایک دوست کی طرف سے مجھے موصول ہوئے ہیں اور وہ یہ ہیں۔
۱۔ نیشنل لیگ کور کی طرف سے پنڈت جواہر لال صاحب نہرو کا لاہور میں استقبال کیوں کیا گیا؟
۲۔ اخبار الفضل میں ان کے متعلق فخرِوطن کے الفاظ کیوں لکھے گئے جبکہ ان کے کام جماعت احمدیہ کی پالیسی اور اس کے طریق کے خلاف ہیں؟
۳۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلم لیگ میں داخلہ سے باوجود انگریز حکام کی تائید کے روکا کہ آخر یہ بھی کانگرس کی طرح ہوجائیں گے تو آج نیشنل لیگ کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟
۴۔ یہ کہ میں آپ کی تحریرات سے ہمیشہ یہ سمجھتا رہا ہوں کہ آپ ہندوستان کی آزادی کے حق میں ہیں اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم آپ کو روکے ہوئے ہے۔
۵۔ یہ کہ یہ تغیر درحقیقت پنجاب گورنمنٹ کے بعض افسروں کے ناجائز سلوک کی وجہ سے پیدا ہؤا ہے یعنی کسی حقیقت پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس کا موجب غصہ ہے۔
۶۔ یہ کہ میرے نزدیک یہ طریق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف ہے اس لئے مجھے اجازت دی جائے کہ اس بارہ میں اختلاف رکھ سکوں گو اِسے ظاہر کرکے فساد کا موجب نہ بنوں گا۔
یہ چھ باتیں ہیں جو ان کے خط کا خلاصہ کہی جاسکتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ممکن ہے بعض اور دوستوں کے دلوں میں بھی یہ خیال پید اہورہے ہوں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس خط کا جواب خط کے ذریعہ دینے کی بجائے خطبہ میں دے دوں تا دوسروں کیلئے بھی میرے نقطۂ نگاہ کو واضح کردینے کاموجب ہو۔
پہلی بات یہ ہے کہ پنڈت جواہر لال صاحب نہرو کے استقبال میں کیوں حصہ لیاگیا۔ اس کے متعلق سب سے پہلے میں یہ بتاناچاہتا ہوں کہ آل انڈیا نیشنل لیگ ایک سیاسی انجمن ہے اور اس کے کاموں کی بنیاد سیاست پر ہے اور آل انڈیا نیشنل لیگ کا ہر فعل ضروری نہیں کہ جماعت احمدیہ کے اقدام کے پوری طرح مطابق ہو۔ میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ نیشنل لیگ سلسلہ کی روایات اور تعلیم کے خلاف چل سکتی ہے بلکہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے بلکہ ہونا چاہئے کہ جماعت احمدیہ بحیثیت جماعت جن کاموں میں دلچسپی نہ لینا چاہتی ہو لیگ ان میں دلچسپی رکھے کیونکہ جماعت احمدیہ بحیثیت جماعت مذہبی ہے اور اس کی دلچسپی بحیثیت مذہبی جماعت مذہبی کاموں سے ہی ہوسکتی ہے مگر آل انڈیا نیشنل لیگ ایک سیاسی جماعت ہے اور اس کی دلچسپی سیاسی کاموں سے ہی ہوسکتی ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ سلسلہ کی روایات اور اصول سے نیشنل لیگ دور جاسکتی ہے بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ دونوں کا میدانِ عمل جُدا ہے اور اس لئے دائرئہ عمل ضروری طو رپر جُدا جُدا ہوگا اور طریقِ عمل بھی۔ ہر فرد جونیشنل لیگ کا ممبرہے جیسا کہ میںنے اس کی بنیادی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا جب نیشنل لیگ کی ہدایت کے ماتحت اس کے ممبر کام کریں گے تو ان کے فعل کی ذمہ داری نیشنل لیگ پر ہی ہوگی اور سوائے اِس کے کہ ان کا قدم سلسلہ کی روایات اور اصول کے خلاف ہو میں اس میں دخل نہیں دوں گا۔ ہاںخلاف ہونے کی صورت میں جیسا کہ میں نے پہلے بھی اعلان کردیا تھا میرا فرض ہوگا کہ لیگ سے جواب طلب کروں یا اُسے مناسب ہدایات دوں لیکن جس حد تک کہ لیگ کا کوئی قدم اور سلسلہ کی تعلیم و اصول باہم ٹکراتے نہیں ہم اسے پوری آزادی دیں گے کہ سیاسی معاملات میں جس حد تک وہ دوسری قوموں سے تعاون کرسکتی ہے کرے صرف یہ پابندی اس پر ہوگی کہ اس کا کوئی قدم سلسلہ کی تعلیم کی خلاف نہ ہو۔
پس میرے اس اعلان کے بعد لیگ کے اس کام کو جو اس کے دائرہ عمل کے اندر ہے سلسلہ کی طرف منسوب کرنا سخت غلطی ہے۔ مِن￿ حَی￿ثُ ال￿جماعت جماعت احمدیہ سیاسی کاموں میں حصہ نہیں لے سکتی مگر نیشنل لیگ کے ممبر اس کے ممبر ہونے کی حیثیت سے حصہ لے سکتے ہیں۔ جیسا کہ وہ احمدی جو مسلم لیگ یا مسلم کانفرنس کے ممبرہیں ان کے اندر سیاسیات میں حصہ لینے کی وجہ سے وہ جماعت احمدیہ کے نمائندہ او راس کی پالیسی کے نمائندہ نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ان کے فیصلوں کی ذمہ داری جماعت احمدیہ پر عائد ہوسکتی ہے۔ کسی احمدی کا مسلم لیگ کاممبر ہوجانے کے یہ معنے ہرگز نہیں ہوسکتے کہ جماعت احمدیہ مِن￿ حَی￿ثُ ال￿جماعت سیاسیات میں حصہ لے رہی ہے اور نہ ان کے فیصلوں کا اثر مِن￿ حَی￿ثُ ال￿جماعت جماعت احمدیہ پر پڑے گا۔ اگر کوئی احمدی ممبر کسی فیصلہ کی تائید کرتا ہے تو اس کے یہ معنے ہرگز نہیں کہ ساری جماعت ان فیصلوں کی پابند ہے۔ وہ شخص شخصی حیثیت سے وہاں رائے دے کر آیا ہے اور اگر وہ فیصلہ سے متفق ہے تو وہ شخصی طور پر اُس وقت تک اس کا پابند ہے جب تک کہ جماعت کی طرف سے اُسے روک نہ دیا جائے۔ اسی طرح نیشنل لیگ اگر کوئی فیصلہ کرتی ہے تو جماعت احمدیہ اس کی ذمہ دار اور پابند نہیں ہوگی۔ جماعت کا صرف اتنا کام ہوگا کہ جب وہ کوئی ایسا کام کرے جو بِالبداہت اور بِالصراحت سلسلہ کی روایات اور اس کے اصول کے خلاف ہو اسے روک دے اور کہہ دے کہ آپ کے بحیثیت افراد جماعت احمدیہ ہونے کے ہم آپ کو کوئی ایسا کام نہیں کرنے دیں گے جس سے جماعت پر حرف آئے۔
پس لاہور میں پنڈت جواہر لال نہروکا جو استقبال ہؤا وہ جماعت کی طرف سے نہیں بلکہ نیشنل لیگ کی طرف سے تھا۔ نیشنل لیگ کور نیشنل لیگ کے ماتحت ہے اور بحیثیت اس اقرار کے جو کور میں بھرتی ہوتے وقت ہر شخص نیشنل لیگ سے کرتا ہے وہ پابندہے کہ جب اسے وہ آواز دے تو اس پر لَبَّیْکَ کہے جب تک خلیفۂ وقت کی آواز اُسے نہ روک دے۔نیشنل لیگ کور کا ہر ممبر اپنے عہد اور اقرار کی وجہ سے اس بات کا پابند اور جوابدہ ہے ۔ پس نیشنل لیگ کور کے ممبر لیگ کی ہدایت کے ماتحت قادیان سے بھی او رباہر سے بھی وہاں گئے اور پابند تھے کہ جاتے۔ اس کی ذمہ داری نیشنل لیگ پر ڈالنے سے میرا یہ مطلب نہیں کہ اس کا یہ فعل بُرا تھا بلکہ یہ بالکل جائز فعل تھا اور اس میں کسی قسم کی قباحت نہ تھی اور ابتدا میں مَیںنے نیشنل لیگ کو جو ہدایات دی تھیں وہ ان کے عین مطابق تھا بالکل ٹھیک اور درست تھا مگر پھر بھی اسے جماعت احمدیہ کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا ۔ بلکہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی معمار، نجاریا لوہار احمدی اپنے ہم پیشوں کی کسی مجلس میں شریک ہو تو اس مجلس کا فیصلہ جماعت احمدیہ کا فیصلہ نہیں کہلاسکتا گو اس کی شمولیت ہماری خواہش کے مطابق ہی کیوں نہ ہو۔ محض شمولیت سے اس کا فعل ساری جماعت کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا کیونکہ بعض اوقات اچھے افعال کی جُزئیات میں بھی اختلاف ہوسکتا ہے مثلاً کسی کام کی تفصیلات اگر میں سوچوں تو وہ اس سے مختلف ہونگی جو لیگ سوچے۔ اس لئے اس کا فیصلہ باوجود پسندیدہ ہونے کے میری طرف منسوب نہیں ہوسکتا۔بالکل ممکن ہے کہ وہی فعل اگر میں کرتا تو اس کی تفصیلات بالکل اور ہوتیں۔
پس اوّل تو اس کی ذمہ داری جماعت احمدیہ پر عائد نہیں ہوسکتی باقی رہا یہ سوال کہ وہ فعل سوال کرنے والے دوست کے نزدیک اتنا بُرا اوربھیانک تھا کہ جماعت کو اس سے روکنا چاہئے تھا یہ بات میری عقل سے بالا ہے۔ استقبال ایک اعزازی چیز ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بعض انگریز آتے اور میں نے خود دیکھا ہے کہ آپ میل دو دو میل سے ان کو چھوڑنے کیلئے چلے جاتے۔
بعض روایات میں ہے کہ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک یہودی مہمان آیا اور آپ کے بستر پر رات کو پاخانہ کرکے صبح چلاگیا۔ اتفاقاً رستہ میں اسے یاد آیا کہ کوئی چیز وہاں بھول آیا ہوں اُسے لینے کیلئے وہ واپس آیا تو دیکھا کہ رسول کریم ﷺ کسی خادمہ کو ساتھ لے کر اُسے دھورہے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ دل میں سخت شرمندہ ہؤا کہ میں نے کیا سلوک کیا تھا اور یہ میرا کس قدر اعزاز کرتے ہیں۔ تو کسی کا اعزاز کرنے کے یہ معنے نہیں ہؤا کرتے کہ اس کے خیالات سے کلی اتفاق ہے بلکہ اعزاز انسانیت اور مذہب کی طرف سے ضروری ہے بشرطیکہ اس میں بے غیرتی نہ پائی جائے۔ اگر پنڈت جواہر لال نہرو صاحب اعلان کردیتے کہ احمدیت کو مٹانے کیلئے وہ اپنی تمام طاقتیں خرچ کردیں گے جیساکہ احرارنے کیا ہؤا ہے تو اس قسم کا استقبال بے غیرتی ہوتا لیکن اگر اس کے برخلاف یہ مثال موجود ہو کہ قریب کے زمانہ میں ہی پنڈت صاحب نے ڈاکٹر اقبال صاحب کے ان مضامین کا ردّ لکھا ہے جو انہوں نے احمدیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ قرار دیئے جانے کیلئے لکھے تھے اور نہایت عمدگی سے ثابت کیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے احمدیت پر اعتراض اور احمدیوں کوعلیحدہ کرنے کا سوال بالکل نامعقول اور خود ان کے گزشتہ رویہ کے خلاف ہے تو ایسے شخص کا جبکہ وہ صوبہ میں مہمان کی حیثیت سے آرہا ہو ایک سیاسی انجمن کی طرف سے استقبال بہت اچھی بات ہے جو اقوام کے دلوں سے باہمی بُغض اور تعصب کو دور کرنے کا موجب ہوسکتی ہے۔
میں پہلے بھی کئی بار بیا ن کرچکا ہوں کہ ایک دفعہ لاہور کے ایک ہندو ڈاکٹر یہاں آئے اور مجھے بھی ملے انہوں نے بتایا کہ چند روز ہوئے گاندھی جی کہہ رہے تھے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں قادیان جائوں اور جماعت احمدیہ کے امام سے مل کر انہیں اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کروں کیونکہ یہ بہت منظم جماعت ہے اور بہت اچھا کام کرسکتی ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ میری طرف سے انہیں کہہ دیں کہ وہ ضرور تشریف لائیں ہم ان کاشاندار استقبال کریں گے میں سب لوگوں کو جمع کروں گا اور خود بھی جلسہ میں شامل ہوں گا۔ وہ جتنا عرصہ چاہیں تقریر کریں اگر ان کے خیالات سے مجھے اختلاف ہؤا تو بعد میں مَیں بھی تقریر کروں گا اور اگر ان کی بات کا مجھ پر اثر ہؤا تو میں مان لوں گا اور اگر ان پر میری بات کا اثر ہؤا تو وہ مان لیں۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جبکہ گورنمنٹ کے کسی حصہ کے ساتھ ہمارے اختلاف کا کوئی سوال ہی نہ تھا بلکہ لوگ ہمیں حکومت کے خوشامدی کہتے تھے اور حکومت بھی ہمیں اپنا دوست سمجھتی تھی۔ اُس وقت میں نے کہا تھا کہ ہم گاندھی جی کا شایان شان استقبال کریں گے۔ پس اگر نہرو صاحب کے لاہور آنے پر نیشنل لیگ نے جس کا وہاں مرکزی دفتر ہے (آل انڈیا نیشنل لیگ کا مرکزی دفتر قادیان میں نہیں بلکہ لاہور میں ہے) اگر ان کا استقبال کیا تو یہ عین شرافت اور اچھی مثال کہلائے گا نہ کہ قابلِ اعتراض۔
یہ خیال کہ جس سے اختلاف ہو اُس کا اعزاز نہیں کرنا چاہئے بالکل غلط ہے۔ ہم انگریزوں کا اعزاز ہمیشہ سے کرتے ہیں حالانکہ وہ عیسائی ہیں اور عیسائیت کو مٹانا ہمارے مقاصد میں ہے۔ پس اگر عیسائیت سے اِس قدر شدید اختلاف کے باوجود ہم انگریزوں کا اعزاز کرسکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ نہرو صاحب کا اعزاز کرنا ناجائز ہو۔ اگر ہم ان لوگوں کا اعزاز تو جائز رکھیں جو خدا کو ایک نہیں بلکہ تین سمجھتے ہیں لیکن اس کا استقبال ہمارے نزدیک ناجائز ہو جو یہ کہتاہے کہ ہندوستان انگریزوں سے آزاد ہونا چاہئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جو لوگوں کو خدا کی بادشاہت سے نکالتے ہیں ان کا اعزاز تو ہمارے نزدیک جائز ہے لیکن جو انگریز کی بادشاہت سے ملک کو نکالنا چاہتا ہے اس کا جائز نہیں گویا خداتعالیٰ کی بادشاہت سے بھی زیادہ ہمیں انگریز کی بادشاہت عزیز ہے۔ اگر باوجود اس ہتک کے جو انگریز یعنی عیسائی ہمارے اس خدا کی کرتے ہیں جس کے بِالمقابل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہستی مچھر کے برابر بھی نہیں ہم انگریزوں کا اعزاز کرسکتے ہیں تو پھر یقینا نہرو صاحب کا استقبال بھی ہم کرسکتے ہیں۔ اگر سیاسی اختلاف پر اعزاز ناجائز ہوتا ہے تو مذہبی اختلاف پر یقینا ناجائز ہوجائے گا اور ہم پھر انگریزوں کا اعزاز بھی نہیں کرسکیں گے لیکن ہماری پچاس سالہ تاریخ گواہ ہے کہ باوجود عیسائیت کی شدید دشمنی کے اور باوجود اس کے کہ اسے مٹانا ہمارے مقاصد میں داخل ہے ہم انگریز سے دوستی جائز سمجھتے رہے ہیں، رکھتے رہے ہیں، رکھ رہے ہیں اور رکھتے جائیں گے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم پنڈت نہرو صاحب کا استقبال نہ کریں اور خواہ وہ اچھا کام ہی کرتے ہوں ان کی عزت نہ کریں۔ یہ بات عقل کے خلاف ہے اس لئے نیشنل لیگ نے جو کچھ کیا ٹھیک اور درست کیا اوربہت اچھی مثال قائم کی ہے۔ اب اگر سیاسی طور پر نیشنل لیگ کا کوئی لیڈر کہیں جائے تو ہم کانگرسیوں سے امید کرسکتے ہیں کہ وہ اس کی عزت کریں اور اگر وہ نہ بھی کریں تو بہرحال اخلاقی لحاظ سے ہماری ان پر فتح رہے گی اور دنیا دیکھ لے گی کہ نیشنل لیگ نے باوجود اختلاف کے کانگرسی لیڈر کا استقبال کیا مگر کانگرسیوں نے اس کے لیڈر کا اعزاز نہیں کیا لیکن ابھی یہ قیاسات بہت دور کے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایسی مثالیں قائم کی جائیں تو آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے ساتھ مروّت اورمحبت کا سلوک پید اہوگا اور ہندوستانی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے لیڈروں کا اعزاز کرنا سیکھ جائیں گے اس لئے میرے نزدیک نیشنل لیگ کا یہ فعل قابلِ استحسان ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ پنڈت نہرو صاحب کو فخروطن کیوں لکھا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر تو یہ لفظ ان معنوں میں استعمال کیا گیا ہے کہ وہ ہندوستان کے سچے اور صحیح راہنما ہیں تو میں بھی اس دوست کے ساتھ اعتراض میں شریک ہوں کہ یہ استعمال غلط ہے لیکن اگر استعمال ان معنوں میں ہے کہ وہ اپنے رنگ میں ملک کی بہتری کیلئے کوشش کررہے ہیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ نہرو صاحب یا گاندھی جی یا او روہ لوگ جو ہندوستان یا دنیاکی بہتری کیلئے کوشش کرتے ہیں ان کے احترام کیلئے ہم تیار ہیں او ر اسے عار نہیں بلکہ فخر سمجھتے ہیں۔
رسول کریم ﷺ کو ہم دیکھتے ہیں آپ ہمیشہ غیر قوموں کے لیڈروں کااحترام کرتے تھے۔چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر بخاری کی روایات میں ہے کہ ایک کافر سردار آیا تو آپ نے فرمایا کہ جائو اس کا استقبال کرو اور قربانی کے بکرے اس کے رستہ میں کھڑے کردو تا ا س پر ایک نیک اثر ہو کیونکہ وہ قربانی کو پسند کرتا ہے۔ وہ سردار آپ کا حاکم نہ تھا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ انگریز ہمارے حاکم ہیں بلکہ مدّمقابل تھا مگر باوجود اس کے آپ نے صحابہ کو اس کے استقبال کیلئے بھیجا۔ پس اس میں کوئی حرج نہیں۔ ہر شخص جو کسی شعبۂ زندگی میں اچھا کام کرتا ہے یقینا وہ ہمارا کام کرتا ہے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اَلْکَلِمَۃُ الْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ اَخَذَھَا حَیْث وَجَدَھَا ؎۱ حکمت کی بات مؤمن کی کھوئی ہوئی چیز ہے۔پس جو کوئی حکمت کا کام کررہا ہے خواہ تھوڑا ہو یا بہت اتنے حصہ میں ہم اس کی تعریف کرسکتے ہیں۔ اگر ایک شاعر کی باوجود اس کے کہ شعر اخلاقاً خراب ہوتے ہیں ہم تعریف کرسکتے ہیں تو کیوں ایک سیاسی خادم کی تعریف نہیں کرسکتے۔ ہاں اگر کوئی شخص اس تعریف پر غیرمعمولی زور دے تو یہ اس کی غلطی ہوگی۔ مثلاً توحید کی تعلیم میں جن کے ساتھ ہمارا اتحاد ہوسکتا ہے ہم ان سے اتحاد کریں گے مگر جہاں وہ رسالت کا انکار کریں گے ہم ان کی مخالفت کریں گے ۔ یہ قرآن کریم نے یہودیوں کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ خدا کے بارہ میں ہمارا اور تمہارا اتفاق ہے آئو مل کرکام کریں پھر کوئی وجہ نہیں کہ اگر پنڈت نہرو صاحب سے کسی معاملہ میں ہمارا اتفاق ہو تو ان سے مل کرکام نہ کرسکیں۔
میں سالہاسال سے یہ بات پیش کررہا ہوں کہ کانگرس کی ناکامی کا بڑا موجب یہ امر ہے کہ وہ اس کو اپنے ساتھ شامل کرتی ہے جو سولہ آنہ اس سے متفق ہو ورنہ علیحدہ کردیتی ہے۔ میں نے کئی بار بتایا ہے کہ مذہب میں تو یہ بات درست ہے مگر سیاست میں نہیں۔ سیاست میں جہاں تک کسی سے جوڑ ہو مل کر کام کرنا چاہئے۔ پس اختلاف کے یہ معنے نہیں کہ مشترکہ امور میں بھی مل کر کام نہ کرسکیں سوائے اس کے کہ نقصان کاخطرہ اور ڈر ہو مگر پنڈت نہرو صاحب سے ملنے میں ہمیں کسی نقصان کا ڈر نہیں وہ گاندھی جی سے زیادہ اثر نہیں رکھتے۔ مگر جیسا کہ میںنے بتایا ہے میں تو اس کیلئے بھی تیار ہوں کہ گاندھی جی یہاںآئیں جو چاہیں کہیں ہم سننے کیلئے تیار ہیں۔
یہاں ایک دفعہ آریوں کا جلسہ ہؤا جس میں انہوں نے ہمارے خلاف بہت شور مچایا، جلسہ کے بعد ان کے لیکچرار مجھ سے ملنے آئے میں نے ان سے کہا کہ سناہے آپ کو جگہ کے متعلق تکلیف ہوئی، آپ میرے پاس آتے میں مسجد میں انتظام کرادیتا۔ وہ کہنے لگے کیا آپ اپنی مسجد میں اس کی اجازت دے دیتے؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ اگر ہمارے آقا و مولیٰ نے عیسائیوں کومسجد میں اپنے طریق پرعبادت کرنے کی اجازت دی تو میں آپ کومسجدمیں لیکچر کی اجازت کیوں نہیں دے سکتا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں آج لیکچر دے سکتا ہوں چنانچہ میں نے اجازت دی اور اسی مسجد میں ان کا لیکچر ہؤا جس میں مَیں بھی شامل ہؤا ۔ ا س کے بعد آریہ صاحبان کی موجودگی میں حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے ان کے اعتراضات کا جواب دیا اس کا ایسا اثر ہؤا کہ ان کا جلسہ ہی بند ہوگیا اور شاید بارہ تیرہ سال کے بعد اب ان کاجلسہ ہؤا ہے۔ تو مؤمن کیلئے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی اگر دلائل کمزور ہوں تو ڈرنے کی کوئی بات بھی ہے لیکن جب مؤمن کو یہ یقین ہوتا ہے کہ ہم دوسرے کو اپنی طرف کھینچ لائیں گے تو وہ ہمارا شکار ہے اس سے ڈرنا کیوں ہے اور اگر بہ فرض محال ہمارے مخالف کے پاس سچ ہے تو اس کے قبول کرنے پر ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ ہمیں احرار سے شکوہ یہ نہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوکیوں نہیں مانتے بلکہ یہ ہے کہ انہوں نے اختلاف کو لڑائی کی وجہ کیوں بنالیا ہے۔ اسی طرح بعض انگریز حکام سے ہمیں یہ شکایت نہیں کہ وہ کیوں سمجھتے ہیں کہ یہ جماعت انگریزوں کے خلا ف ہے، وہ اپنے دل میں اگر ایسا سمجھتے ہیں تو سمجھیں، شکایت یہ ہے کہ وہ بغیر تحقیقات اور تفتیش کے ہمیں کچلنا کیوں چاہتے ہیں۔ پنجاب کے ایک کمشنر مسٹر اوبرائن تھے وہ کہا کرتے تھے کہ سارے انگریز جوجماعت احمدیہ کو دوست سمجھتے ہیں بیوقوف ہیں یہ ایسی منظم جماعت ہے کہ کسی روز اپنی بادشاہت قائم کرلے گی مگر ہمیں ان سے شکوہ نہیں تھا کیونکہ وہ اس بناء پر ہمیں کوئی تکلیف نہیں دیتے تھے۔ یہ ان کا خیال تھا کہ یہ جماعت ایسے طریق پر چل رہی ہے کہ انگریزی حکومت کیلئے خطرہ کا موجب ہوسکتی ہے مگر ہمیں ان سے شکایت نہیں تھی۔ ہم سمجھتے تھے کہ گو وہ اپنے آپ کو بہت چالاک سمجھتے تھے لیکن درحقیقت کم عقل تھے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کی کوٹھی پر جاکر بیٹھ جاتے اور مطالبہ کرتے کہ نکالو ان کو یہاں سے۔ پس اگر پنڈت صاحب کو فخرِ وطن ان معنوں میں کہا جائے کہ ان کے بغیر وطن کی نجات نہیں ہوسکتی تو یہ جماعت کی تعلیم کے خلاف ہے لیکن اگر اس کا مطلب یہ ہوکہ وہ لائق اور خادمِ وطن ہیں تو اس میں کیا شبہ ہے کہ وہ ایسے ہیں۔ یہ تو ایک لین دین کا معاملہ ہے کہ باوجود اختلافات کے ایک دوسرے کے بزرگوں کا ادب کیا جاتا ہے۔ پوپ روحانی باپ کو کہتے ہیں اب ہم لوگ بھی یہ لفظ استعمال کرلیتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم اسے روحانی باپ سمجھتے ہیں یا مذہبی طور پر ہم اسے اپنا پیشوا خیال کرتے ہیں۔ جو شخص ان معنوں میں اس لفظ کا استعمال کرے گا وہ عبارت اور لہجہ سے ہی پہچانا جائے گا۔ منافق جب کبھی ایسا لفظ استعمال کرے گا تو اس کالہجہ اور ہوگا لیکن جب مؤمن کرے گا تو اس کا لہجہ اور ہوگا۔ پس ان معنوں میں اگر کسی نے پنڈت نہرو صاحب کو فخرِوطن لکھ دیا ہے تو اس میں کیا حرج ہے جبکہ ہم دوسروں سے امید کرتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے بزرگوں کا ادب کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ دوسروں کے لیڈروں کا احترام نہ کریں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم خیالات میں بھی ان سے متفق ہوگئے ہیں۔ اگر میری نسبت کوئی غیراحمدی حضرت صاحب کا لفظ استعمال کردے تو کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ اس نے اپنے ہم عقیدہ لوگوں سے غدّاری کی؟ اگر آپ لوگ یہ امید کرتے ہیں کہ دوسرے آپ کے امام کی عزت کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ دوسروں کے لیڈروں کی عزت نہ کریں اسی لئے قرآن کریم نے یہ تعلیم دی ہے کہ تم کسی کے بُت کو بھی گالی نہ دو کیونکہ وہ خدا کو گالی دیں گے ۔ ؎۲
تیسرا سوال یہ ہے کہ جب باوجود یکہ فنانشل کمشنر سرولسن نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر زور دیا کہ مسلم لیگ گورنمنٹ کی مرضی کے مطابق کام کرنے والی ہے آپ نے اس کے خلاف اظہارِ رائے کیا اور فرمایا کہ نہیں یہ بھی اسی رَوش پر چلی جائے گی جس پر کانگرس جاچکی ہے تو نیشنل لیگ کے قیام کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ احکام کے معانی بدلتے جاتے ہیں۔ میں اس وقت جس طرح بعض لوگ یونہی کہہ دیا کرتے ہیں کہ اب حالات تبدیل ہوگئے ہیں اس لئے حکم بھی بدل گیا ہے اس طرح نہیں کہہ رہا بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ جب فی ال￿واقعہ حالات بدل جائیں تو یقینا احکام بھی بدل جاتے ہیں۔
جس وقت مسلم لیگ قائم ہوئی اُس وقت حکومت ہند نے ہندوستان کا نصبُ ال￿عین جمہوری حکومت قرار نہیں دیا تھا۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ حکومت نے اختیار اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور آزادی کو نصب العین نہیں قرار دیا اِس لئے لازماً اختلاف فساد کا موجب ہوگا لیکن جب حکومت نے خود جمہوری حکومت حاصل کرنا ہندوستان کا نصبُ ال￿عین قرار دے لیاہے اور رائے عامہ کو تسلیم کرنا قانون کا جُزو قرار دے لیا ہے تو اب ایسے مطالبات کرنا انگریزی حکومت کے خلاف نہیں بلکہ اس کی تائید میں ہے۔ غرض پہلے جو انگریز مسلم لیگ کی تائید کرتے تھے وہ ان کی ایک سیاسی چال تھی مگر اب خود حکومت نے قانون بنادیا ہے کہ ہندوستان کا نصب العین جمہوری حکومت ہے۔ پس نیشنل لیگ یہ مطالبہ نہیں کرے گی کہ اس سے باہر ہندوستان کو کوئی چیز دی جائے بلکہ وہ حکومت ہی کے قانون کی تشریح کا مطالبہ کرے گی اور وہ قانون خود انگلستان والوں نے بنایا ہے۔
اس کی ایک موٹی مثال ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک عیسائی نے آنحضرت ﷺ پر گندے اور ناپاک حملے کئے اور ایک کتاب لکھی۔ مسلمانوں کی طرف سے حکومت کو میموریل بھیجے گئے کہ اس کتاب کو ضبط کیا جائے اور اس شخص کو سزادی جائے مگر آپ نے اس کی مخالفت کی لیکن آج ساری جماعت ان گندی کتابوں کے خلاف جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق شائع کی جاتی ہیں حکومت سے ضبطی کا مطالبہ کرتی ہے حتّٰی کہ احراری بھی اعتراض کرتے ہیں کہ تمہارے امام نے کہا تھا کہ اُمہّات ال￿مؤمنین کو ضبط نہ کرانا چاہئے بلکہ اس کا جواب لکھنا چاہئے اور اب تم ضبطی کا مطالبہ کرکے گویا خود اپنے امام کے خلاف چلتے ہو۔ لیکن اس کا جواب یہی ہے کہ جب آپ نے ضبطی کا مطالبہ کرنے سے روکا تھا اُس وقت کا رائج قانون اس تصنیف کوضبط کرنے اور مصنف کو سزا دینے کی اجازت نہیں دیتا تھا یہ قانون بعد میں بنا ہے۔ لارڈ ایلجن کے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حکومت کو خود توجہ دلائی تھی کہ جو شخص کسی کے بزرگ کی ہتک کرے حکومت کوچاہئے کہ اسے سزا دینے کیلئے قانون بنائے۔ پس اگر اُمہّات ال￿مؤمنین کے متعلق آپ نے ایسے مطالبہ سے روکاتو اس لئے کہ اُس وقت کوئی ایسا قانون موجود نہ تھا۔ پس چونکہ حکومت بے بس تھی، کیونکہ اس کیلئے کوئی رستہ کھلا نہ تھا وہ قانون کے رو سے اس شخص کو پکڑ نہ سکتی تھی۔ ادھر یہ دیکھ کر کہ حکومت کچھ نہیں کرتی مسلمانوں میں جوش بڑھتا اور اس کا نتیجہ سوائے اِس کے کچھ نہ ہوتا کہ ملک میں بغاوت پیدا ہوتی اور فسادات بڑھ جاتے، ملک کا امن برباد ہوجاتا مگر اب حکومت نے ایسا قانون بنادیا ہے ا س لئے ہم اس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ قانون جس غرض کیلئے بنایا گیا تھا اسے پورا بھی کیا جائے۔ اگر اس قانون کے ذریعہ سے کہ ہندو، سکھوں اور عیسائیوں کے مذہبی پیشوائوں اور بزرگوں کی عزت کی حفاظت کی جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جماعت احمدیہ کے بزرگوں کے متعلق یہ قانون معطّل رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت کے تحفظ کیلئے اس کو استعمال نہ کرنے کے یہ معنے ہیں کہ یا تو حکومت ہمیں اپنا دشمن سمجھتی ہے اور ہمیں قانون کے فائدہ سے بھی محروم رکھنا چاہتی ہے یا پھر یہ کہ وہ اکثریت سے ڈرتی ہے اس صورت میں وہ خود غلطی پر ہے ہم مطالبہ کرنے سے قانون شِکن نہیں بنتے بلکہ وہ خود قانون شِکن قرار پاتی ہے۔ اس مطالبہ میں ہم ملک معظم کے نمائندہ ہیں اور حکومت قانون کو توڑنے والی ہے کیونکہ متواتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملے کئے جاتے ہیں اور حکومت کاہاتھ معطّل رہتا ہے اوربیسیوں بار مطالبات کے بعد معمولی سی حرکت کرتا ہے۔
پس یا تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ حالات کے بدلنے کی وجہ سے نیشنل لیگ کاقیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کے خلاف نہیں ہے ورنہ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ایسی گندی کتابوں کی ضبطی کے متعلق حکومت سے مطالبہ کرنا بھی آپ کے منشاء کے خلاف ہے۔ غرض واقعات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ میموریل بھیجنے سے روکنے کی وجہ یہی تھی کہ اُس وقت کوئی ایسا قانون نہ تھا اور اِس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود وائسرائے کو ایسا قانون بنانے کیلئے لکھا۔ اب چونکہ ایسا قانون بن چکا ہے اس لئے ایسا مطالبہ کرناناجائز نہیں۔ اسی طرح جس وقت آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت سے روکا اُس وقت آزادی زیر سایہ برطانیہ ہندوستان کا نصبُ ال￿عین قرار دنہ دیا گیا تھا بعد میں حکومت نے خود اس کااعلان کردیا۔ اب سیاسیات میں حصہ لینے والی انجمن کی طرف سے اس کا مطالبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کہلاسکتا۔
چوتھا اعتراض یہ ہے کہ آپ کی تحریروں سے ہمیشہ آزادی کی خواہش ظاہر ہوتی ہے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ کم از کم ایک شخص نے تو محسوس کیا ہے کہ میں آزادی کا حامی ہوں مگر یہ غلط ہے کہ مجھے اس خیال کا حامی رہنے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم روکتی رہی ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم نے ہی مجھے یہ سکھایا ہے۔ جس چیز سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم روکتی ہے اس سے آج بھی ہم رُکتے ہیں اور وہ بغاوت، فساد او ر قانون شِکنی ہے۔ جو دُکھ ہمیں حکومت کے بعض افسروں کی طرف سے اب دیئے گئے ہیں وہ اگر ہزار گنا بھی بڑھ جائیں تو بھی ان چیزوں کوہم کبھی جائز نہیں سمجھیں گے یہ اصولی تعلیم ہے۔ باقی رہا ہندوستان کی آزادی کاسوال میں ایک منٹ کیلئے بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ہندوستان کی آزادی کا خیال گاندھی جی اور پنڈت نہرو صاحب کو اس سے نصف بھی ہے جتنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تھا۔ انبیاء ہمیشہ دنیا میں غلامی کو دور کرنے کیلئے آتے ہیں ان کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ دنیا کو کسی کا غلام بنا کررکھیں بلکہ ان کا مقصدِ وحید یہی ہوتاہے کہ دنیاکو آزاد کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی چونکہ مامور تھے اس لئے آپ کا بھی یہ مقصدتھا اس لئے جب بھی غلامی کی صورت پید اہو جماعت احمدیہ کافرض ہوگا کہ اس کا مقابلہ کرے باقی تفاصیل میں مَیں اِس وقت نہیں جاسکتا کیونکہ میرا لیکچر سیاسی نہیں۔
میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ ٹیپو سلطان سے انگریزوں کو اس قدر بُغض اِسی وجہ سے ہے کہ وہ ہندوستان میں اسلامی حکومت کیلئے ان کے وجود کو خطرہ سمجھتا تھا او رشاید قریبی زمانہ میں تو نہیں مگر خلافت کے ابتدائی زمانہ میں مَیںنے یہ بھی بتایا تھا کہ اس بادشاہ کاادب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہی سیکھا ہے۔ میں نے بچپن میں ایک دفعہ جب ایک کُتّے کو ٹیپو ٹیپو کہہ کر پکارا تو آپ نے مجھے سختی سے روکا اور فرمایا کہ وہ ایک باغیرت مسلمان بادشاہ تھا تم ایک کُتّے کو اس کے نام سے کیوں پکارتے ہو؟ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمانوں کی غلطی تھی کہ وہ کانگرس میں شامل نہ ہوئے (اس کے متعلق بھی ایک دوست نے اعتراض کیا ہے کہ پھر احمدی کیوں کانگرس میں شامل نہیں ہوتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بتائی ہوئی شرطیںپوری نہیں ہوتیں اورنیشنل لیگ کا استقبال کانگرس میںشامل ہونے کے مترادف نہیں ہے) ہاں قانون شِکنی اور عدمِ تعاون وغیرہ تحریکات کو آپ ہمیشہ ناپسند فرماتے رہے ہیں اور ہم بھی ناپسند کرتے رہیں گے۔اس کے متعلق اسلام نے تفصیلی احکام دیئے ہیں اور ہم پرمظالم خواہ کتنے بھی بڑھ جائیں ہم ایسی تحریکوں سے بچیں گے۔ہاں جو تعاون پہلے تھا ضروری نہیں کہ اسے قائم رکھیں عدمِ تعاون تو کسی صورت میں نہ کریں گے لیکن جہاں قانون مجبور نہیں کرتا وہاں تعاون بھی نہیں کریں گے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کریں گے اور یہ بات قانون کے خلاف نہیں۔
پانچواں اعتراض یہ ہے کہ اس کاموجب بعض حکام کاناواجب رویہ ہے۔ مجھے اس جُرم کے اقرار میں کوئی تأمل نہیں ۔ میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ ہمارے اس رویہ کا موجب بعض افسروں کا ناواجب رویہ ہے اور یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ اعتراض جب ہوتا اگر ہم اپنے اصل کو چھوڑ دیتے محض ناراضگی کا اظہار بُری بات نہیں بلکہ اس کے جواب میں ناواجب رویہ اختیار کرنا بُری بات ہے۔ اگر ہم نے اس صبر آزما حالت کے باوجود جماعت کو قابو میں رکھا ہے تو ہمارا یہ غصہ قابلِ اعتراض نہیں ہوسکتا۔ صبر کی آزمائش غصہ کے وقت ہی ہوتی ہے کہ بچہ کوجب ماں دودھ دیتی ہے تو اُس وقت اس کے صبر کی آزمائش نہیں ہوتی بلکہ اُس وقت ہوتی ہے جب وہ غصہ سے دیوانی ہوکر اسے گھر سے نکالتی ہے۔ یہ ہمارے صبر کی آزمائش کا موقع تھا ہمیں سخت غصہ دلایا گیا مگر ہم نے کوئی ناواجب رویہ اختیار نہیں کیا۔ اس فیصلہ سے زیادہ غصہ دلانے والی بات اور کیا ہوسکتی ہے جو مسٹر کھوسلہ نے کیا، اس سے زیادہ ناواجب رویہ کیا ہوسکتاتھا کہ راہ چلتے اور اپنی جائداد کی حفاظت کرتے ہوئے احمدیوں کوگرفتار کرلیاگیا، چھوٹے چھوٹے بچوں کی مجلسوں پر ایکٹ ۳۲ کا استعمال کیا گیا، کیایہ معمولی باتیں تھیں اور کیا دنیا میں کسی دوسری جگہ ایسا کرکے حکومت کے افسر آرام سے رہ سکتے تھے؟ مگر ہم نے کچھ نہیں کیا۔ پس اظہارِ ناراضگی کو ئی بُری بات نہیں ناجائز ذرائع اختیار کرنا بُری بات ہے۔
آخری بات اختلاف رکھنے کی اجازت کے متعلق ہے۔ سو یہ اجازت میں ہمیشہ سے دیتا آیاہوں اگر سب باتیں سمجھانے کے باوجود کوئی شخص یہ سمجھتا ہو کہ وہ متفق نہیں ہوسکتا تو جبکہ وہ فساد اور بدامنی نہ پیدا کررہاہو اور اختلاف کو اپنی ذات تک محدود رکھتا ہو اُسے اختلاف رکھنے کی اجازت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک شخص نے جو اَب ہمارے رشتہ دار اور عزیز ہیں کہا تھا کہ میں اس شرط پر آپ کی بیعت کرتا ہوں کہ مجھے حضرت علیؓ کو دیگر خلفاء سے افضل سمجھنے کی اجازت دی جائے وہ چونکہ شیعہ تھے اس لئے اِس قسم کی اجازت طلب کی اور آپ نے اجازت دے دی۔ پس اگر ایک شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کودیگر خلفاء سے افضل قرار دیتے ہوئے بیعت کر سکتا ہے تو یہ عقیدہ رکھناکہ انگریزوں سے ہمار ااتنا تعلق ہونا چاہئے کہ اس کی وجہ سے پنڈت نہرو صاحب کا استقبال تک ہمارے لئے جائز نہ رہے کوئی ایسی بات نہیں جوبیعت میں رہنے سے مانع ہو۔
اس کے بعد میں اُس مضمون کی طرف آتا ہوں جس کے متعلق میں گزشتہ دو ہفتوں سے خطبے دے رہا ہوں۔ میں نے تین ایسے اسباب بیان کئے تھے جن کی وجہ سے عمل کی اصلاح عقیدہ کی اصلاح سے زیادہ مشکل ہوجاتی ہے آج میں ایک چوتھا سبب بیان کروں گا جس کی وجہ سے اعمال کی اصلاح بہ نسبت عقائد کی اصلاح کے مشکل ہوجاتی ہے خصوصاً ایسے وقت میں جبکہ مذہب کے ساتھ حکومت نہ ہو اور وہ سبب یہ ہے کہ عقیدہ کا تعلق عادت سے نہیں ہوتا بلکہ وہ جب بدل جاتا ہے تو ہمیشہ کیلئے بدل جاتا ہے مگر عمل کاتعلق عادت سے ہوتا ہے۔کوئی شخص اگر دلائل سن کریہ عقیدہ قائم کرلے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں تو وہ ان کی زندگی کے متعلق اپنے سابقہ عقیدہ کی طرف عادت کے طور پر بار بار نہیں لَوٹے گا بلکہ اس کا عقیدہ ہمیشہ کیلئے بدل جائے گا مگر اعمال میں عادت کادخل ہوتا ہے (بے شک خیالات میں بھی عادت کا ایک حد تک دخل ہوتا ہے مگر بہت کمزور) عادت بے سوچے سمجھے کام کرنے کا نام ہے مگر عقیدہ جانتے ہوئے ایک بات کو ماننے کا نام ہے۔ تم کسی شخص کے پاس جائو اور یکدم ہاتھ اُس کے پیٹ کی طرف لے جائو وہ فوراً کود کر پیچھے ہٹ جائے گا۔
ہم جب بچے تھے تو اس طرح کھیلاکرتے تھے اب بھی بچے اسی طرح کھیلتے ہیں پہلے چھوٹی انگلی اٹھاتے ہیں کہ اس سے ڈرو گے پھر دوسری پھر تیسری اور پھر چوتھی اور پھر انگوٹھا جھٹ آنکھ کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس پر دوسرا شخص یکدم آنکھ بند کرلیتا ہے اور پیچھے ہٹ جاتا ہے یہ ڈر نہیں بلکہ عادت ہے۔ چونکہ انسانی جسم نے عادت ڈال لی ہے کہ جب ایسا موقع ہوگا میں پیچھے ہٹوں گا۔ یہ بعد میں دیکھا جائے گا کہ خطرہ حقیقی تھا یا وہمی اس لئے جسم فوراً پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ ماں جوبچہ پر جان فدا کرنے والی ہوتی ہے وہ بھی اگر بچہ کے پیٹ کی طرف اُنگلی لے جائے تو وہ جھٹ پیچھے ہٹے گا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جسم نے عادت ڈال لی ہے کہ ہوشیار رہنا چاہئے۔
تو غیرارادی افعال کانام عادت ہے لیکن عقیدہ غیر ارادی نہیں ہوسکتا۔ عمل چونکہ اکثر غیرارادی ہوتے ہیں اس لئے ہر شخص کو کوئی نہ کوئی عجیب عادت پڑ جاتی ہے کسی کوہاتھ ہلانے کی، کسی کو کندھا، کسی کو سینہ، کسی کوناک، کسی کو پائوں ہلانے کی عادت ہوتی ہے، کسی کو اور کوئی عادت ہوتی ہے۔ غرض جسم میں مختلف حرکات کا پیداہوتے رہنا عادت کے طور پر ہر ایک انسان کے ساتھ لگا ہؤا ہے اور اس سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اعمال میں عادات کا بہت دخل ہے۔ مثلاً شراب یا افیون کی عادت ہے کہ ایک شخص یہ قربانی توکرلیتا ہے کہ تین خدائوں کی جگہ ایک خداکو مان لے اور یہ نہیں ہوگا کہ دوسرے دن عادتاً اسے تین خدائوں کا خیال آئے مگر افیون کھانے کیلئے اُس کے اندر ضرور خواہش پیداہوگی حالانکہ خداتعالیٰ کے مقابلہ میں یہ کتنی معمولی چیز ہے وہ ایک کے مقابلہ میں دو خدائوں کو چھوڑ دے گا مگر افیون کی گولی کی قربانی نہیں کرسکے گا۔
ہماری جماعت میں سینکڑوں ایسے زمیندار ہیں جنہوں نے بھائیوں کو چھوڑ دیا، ماں باپ کوچھوڑ دیا، بیویوں کوچھوڑ دیا اور بیویوں نے خاوندوں کو چھوڑ دیا، قیمتی سے قیمتی چیزوں کو ترک کردیا مگر حُقّہ کی نال کو نہیں چھوڑ سکے۔ جب وقت آتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ کیا کریں پیٹ پھولنے لگتا ہے۔ اسی طرح چائے کی عادت گو اس سے کم ہے مگر جسے ہو وہ وقت آنے پرپاگلوں کی طرح پھرتا ہے۔ پٹھان کتنی غیرت والے ہوتے ہیں اور کشمیریوں کو ادنیٰ سمجھتے ہیں مگر مجھے یاد ہے ایک دفعہ ہم ایک پہاڑ پر جارہے تھے میرے ساتھ ایک پٹھان دوست تھے جنہیںنسوار کھانے کی عادت تھی مگر وہ اپنی ڈبیا گھر بھول آئے تھے۔ راستہ میں ایک مزدور کشمیری آرہاتھا پٹھان دوست نے اُس کشمیری سے جس کی طرف دوسرے وقت میں وہ منہ کرنا بھی پسند نہ کرتے اور جو کندھے پر لکڑیاں اٹھائے ہوئے آرہا تھا نہایت لجاجت سے کہا کہ اے بھائی کشمیری! اے بھائی کشمیری جی! اے بھائی جی! آپ کے پاس نسوار ہے؟ مجھے یہ سن کربے اختیار ہنسی آگئی کہ جوشخص تکبّر سے گردن اونچی رکھتا تھا اب نسوار کی وجہ سے کس قدر لجاجت پر اُتر آیاہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کچھ دوست یہاں آیا کرتے تھے جن کو حُقّہ پینے کی عادت تھی۔یہاںاور تو کسی جگہ حقہ ہوتا نہیں تھا ہمارے ایک تایا تھے جو سخت دہریہ تھے اور دین سے بالکل تعلق نہیں رکھتے تھے ان کے پاس حُقّہ کیلئے چلے جاتے اور مجبوراً ان کی باتیں سنتے۔ ہمارے وہ تایا ایسے شخص تھے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّل نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کبھی نماز بھی پڑھی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں بچپن سے ہی سلیم الطبع ہوں میں بچپن میں بھی جب کسی کو سر نیچے کرتے دیکھتا تو ہنسا کرتا تھا مراد نماز سے تھی۔ وہ بھنگ بھی پیا کرتے تھے تو ہمارے بعض دوست حُقّہ کیلئے اُن کی مجلس میں چلے جاتے تھے اور ایسی ایسی باتیں جو وہ سلسلہ اور اسلام کے خلاف کرتے مجبوراً سنتے تھے۔ ایک دوست نے سنایا کہ ایک دفعہ ایک احمدی وہاں آگیا اور پھر اپنے آپ کو گالیاں دیتا ہوا واپس آیا ۔ کسی دوست نے پوچھا کیابات ہے؟ تو کہنے لگا اس لئے اپنے آپ کو بُرا بھلا کہہ رہا ہوں کہ حُقّہ کی خاطر نفس نے مجھے ایسی باتیں سننے پر مجبور کیا۔
تو عادتوں کو چھوڑنا بڑ امشکل ہوتاہے بعض لوگوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے انہیں لاکھ سمجھائو، کتنی نگرانی کر ومگر پھر بھی وہ ضرور جھوٹ بولیں گے ان کی اصلاح مشکل ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ ہوتی نہیں کیونکہ اگر نہ ہوسکتی تو میں یہ خطبات ہی کیوں بیان کرتا مگر یہ کام ان کیلئے بڑا مشکل ہوتاہے۔ ایسے لوگ جب بات کرنے لگتے ہیں تو عادت کی وجہ سے ان کے دماغ میں ایک ایسی چمک پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بغیر جھوٹ کے بات کا مزا نہ ہم کو آئے گا اور نہ سننے والے کو۔ پھر بعض لوگوں کوچسکے کی عادت ہوتی ہے اور اِس عادت کی وجہ سے بعض لوگ بڑی بڑی بے غیرتیاں کرتے ہیں۔ قادیان میں ایسے دس بارہ لڑکے ہیں جو دو دو چار چار پیسوں کیلئے احمدیوں کی جھوٹی سچی خبریں احراریوں کوجاکر دیتے ہیں۔ انہیں مٹھائی کھانے کی عادت پڑی ہوئی ہے گھر سے پیسے مل نہیں سکتے اِس لئے وہ خوامخواہ جھوٹی باتیں جاکر دشمنوں سے کہتے ہیں۔ تو عادت ایسی چیز ہے کہ اس کی اصلاح کیلئے بڑی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن عقیدہ میں عادت کا دخل نہیں ہوتا۔ پس عقیدہ کے مقابل پر عمل کی اصلاح کوجو اسباب مشکل بنادیتے ہیں ان میں سے ایک عادت بھی ہے اور اس کا مقابلہ کرنانہایت ضروری ہے۔
چونکہ خطبہ کے پہلے حصہ نے زیادہ وقت لے لیا ہے اس لئے اِس مضمون کاباقی حصہ میں اگلے جمعہ کے خطبہ میں اِنْشَائَ اللّٰہُ بیان کروں گااس وقت میں پھر یہ بات دُہرانی چاہتاہوں کہ یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں ہم نے عقیدہ کے میدان میں عظیم الشان فتح حاصل کی ہے مگر عمل کے میدان میں بُری طرح پِٹ رہے ہیں اور ضرورت ہے کہ عمل کی اصلاح میں بھی کامیابی حاصل کریں اور جب یہ دونوںدیواریںمضبوط ہوجائیں گی تو دشمن کسی راستہ سے بھی ہم پر حملہ نہ کرسکے گا، جب اس کیلئے ہمارے گھر میں داخل ہونے کا کوئی راستہ نہ رہے گا تو اسے سوائے ہتھیار ڈالنے اور ندامت سے سرجھکا لینے کے کوئی چارہ نہ رہے گا۔ اِس معاملہ کے متعلق آپ میں سے ہر ایک کوخود بھی سوچنا چاہئے کہ جماعت کے عملی پہلو کی کس طرح اصلاح ہوسکتی ہے تا جب مَیں مضمون کے آخری حصہ پرپہنچوں تو آپ لوگ خود بھی اِس کیلئے تیار ہوچکے ہوئے ہوں اور جو بات مَیں پیش کروں وہ باہر سے آئی ہوئی معلوم نہ ہو بلکہ آ پ کانفس محسوس کرے کہ یہ اس کے اندر سے ہی پیدا ہوئی ہے اور اسے فوراً قبول کرلے۔
(خطبہ کے بعد ایک اور دوست نے چنداور سوال خطبہ کی بناء پر کئے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اگر پنڈت جی کے اس احسان کا یہ شکریہ ہے کہ جو اُنہوں نے ڈاکٹر اقبال صاحب کے مضمون کا جواب لکھ کر کیا تو لیگ کیوں شامل ہوئی؟ سب جماعت کیوں استقبال میں شامل نہ ہوئی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے یہ نہیں کہاکہ یہ اس احسان کا شکریہ ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ جو شخص ایسا فعل کرتا ہے اسے ہم جماعت کادشمن نہیں کہہ سکتے اور اس وجہ سے اس کا استقبال کرنے والے کو بے غیرت قرار نہیں دے سکتے اور جب استقبال بے غیرتی نہیں تو صرف مہمان کا اعزاز رہ جاتا ہے جو ناجائز نہیں بلکہ مستحسن فعل ہے۔باقی رہا دوسری جماعت کا سوال اگر ان میں سے وہ لوگ جو سرکاری ملازم نہیں اس استقبال میں شامل ہوتے تو یقینا یہ بھی اچھی مثال ہوتی۔ میرے نزدیک وہ بھی قابلِ اعتراض نہ ہوتا کیونکہ ایک دوسرے کے لیڈروں کا ادب جبکہ اس میں بے غیرتی نہ ہو یقینا ایک اچھا فعل ہے۔ چنانچہ گاندھی جی جب ولایت گئے تھے تو ان کا استقبال خود انگریزوں نے نہایت شاندار کیا تھا اور ابھی حال ہی میں جب پنڈت جواہر لال نہرو صاحب انگلستان گئے تھے تو ان کا استقبال بھی انگریزوں نے کیا تھا۔ پس اگر انگریز گاندھی جی کا اور پنڈت جی کا استقبال کرسکتے ہیں تو ہم انگریزوں سے بھی انگلستان کے زیادہ خیرخواہ نہیں کہ ان کا استقبال نہیں کرسکتے۔ اصل میں یہ اعتراض کم حوصلگی کی وجہ سے او رحقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ورنہ اگر ان مواقع کے سِوا جب ایسے اعزاز بے غیرتی پر دلالت کرتے ہیں اگر مخالف خیال رکھنے والے لیڈروں کا اعزاز کیا جائے تو یقینا ایک اچھی مثال قائم ہوگی اور دلوں میں سے منافرت دور ہوکر لوگ ایک دوسرے کی بات پر غور کرنے لگیں گے اور سچ کو ماننے کے زیادہ قریب ہوجائیں گے اور صداقت کے پھیلانے میں آسانی ہوگی)۔
(الفضل ۱۱؍ جون ۱۹۳۶ئ)
؎۱ ترمذی کتاب العلم باب ماجاء فی فضل الفقہ میں یہ الفاظ ہیں اَلْکَلِمَۃُ الْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ فَحَیْثُ وَجَدَھَا فَھُوَ اَحَقُّ بِھَا
؎۲ لاَ تَسَبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسَبُّوا اللّٰہَ (الانعام: ۱۰۹)






۲۱
اعتقادی اصلاح کی نسبت عملی اصلاح کیوں مشکل ہے
(فرمودہ ۱۲؍جون ۱۹۳۶ئ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
مجھے اس ہفتہ کے دوران میں ایک خط ایک ہندو تعلیم یافتہ خاتون کا ملا ہے جس میں انہوں نے اس خیال سے کہ اُن کا پتہ لوگوں پر ظاہر نہ ہو جائے اپنے پتہ کو چھپایا ہے لیکن نام اور کام وغیرہ اور اپنے خاوند کے کام کا انہوں نے ذکرکیا ہے۔ میں وہ نام بھی ظاہرنہیں کرنا چاہتا تاکہ اُن کیلئے کوئی ایسی صورت پیدا نہ ہوجو تکلیف دہ ہو لیکن چونکہ انہوںنے یہ خواہش ظاہرکی ہے کہ میں ان کے سوال کا جواب کسی خطبہ کے ذریعہ سے دوں اس لئے اس حد تک ان کی خواہش کے مطابق میں مجبور ہوں کہ خطبہ میں ان کی اس بات کا ذکر کروں۔
وہ ایک تعلیم یافتہ ہندو خاتون ہیں اور ان کے خط سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں تعصّب نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی ہمدردی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ جس سوال کے متعلق انہوں نے مجھ سے دریافت کیا ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ جس سوال کے متعلق انہوں نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں اُس پر خطبہ میں روشنی ڈالوں اس کی تحریک وہ کہتی ہیں کہ انہیں اس لئے ہوئی کہ کسی احمدی خاتون سے وہ میرے خطبات لے کر کچھ مدت سے پڑھ رہی ہیں اوران کے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ شاید اس معاملہ کے متعلق اگر مَیں تحریک کروں تو نہ صرف جماعت احمدیہ کیلئے بلکہ باقی لوگوں کیلئے بھی ہدایت کا موجب ہوسکے۔
وہ لکھتی ہیں کہ آپ کی تحریک کا اثر نہ صرف مسلمانوں پر ہوتا ہے بلکہ ہندوئوں کے ایک طبقہ پر بھی ہوتاہے کیونکہ میں جانتی ہوں کہ ہندوئوں کاایک طبقہ اندرونی طور پر آپ کی باتوں پرنگاہ رکھتا اور انہیں قدرومنزلت کی نظر سے دیکھتا ہے۔
وہ بات جس کے متعلق انہوں نے اپنے خط میں تحریک کی ہے یہ ہے کہ لڑکیوں کی شادی عام طور پر ان جگہوں پر نہیں کی جاتی جس جگہ شادی کرنا وہ اپنے لئے مناسب خیال کرتی ہیں اس کے نتیجہ میں وہ لکھتی ہیں کہ بہت سے گھر برباد ہورہے ہیں اور بہت سے مرد اور بہت سی عورتیں شادی کرنے سے ہی انکار کردیتی ہیں۔ چونکہ وہ ایک ایسے پیشہ سے تعلق رکھتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں ہر مذہب و ملّت کے گھرانوں سے واسطہ پڑتا ہے اس لئے وہ اس بات سے بہت ہی متأثر نظر آتی ہیں کہ بیسیوں گھرانے تباہی و بربادی کامنہ دیکھ رہے ہیں۔
میںچونکہ اور کوئی ذریعہ ان تک اپنے خیالات کے پہنچانے کانہیں دیکھتا اس لئے میں انہیں خطبہ کے ذریعہ ہی اس امر سے آگاہ کرتاہوں کہ ہماری جماعت کی تعلیم اس باب میں بالکل صاف اور واضح ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ اسلام کی تعلیم اس باب میں بالکل صاف اور واضح ہے کیونکہ ہماری جماعت کسی نئے مذہب پر قائم نہیں بلکہ اسلام کی تعلیم کو ہی دنیا میں قائم کر رہی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ نکاح پسندیدگی پر مبنی ہوتا ہے ؎۱ اور رسول کریم ﷺ نے اس حکم کی توضیح اور تشریح میں نہایت ہی مفصّل ہدایات دی ہیں جن کے ہوتے ہوئے کوئی انسان دھوکا نہیں کھاسکتا۔ ان امور کی طرف میں ہمیشہ ہی جماعت کو توجہ دلاتا رہتاہوں لیکن چونکہ ان کو صرف خطباتِ جمعہ پڑھنے کا موقع ملتاہے اور خطباتِ جمعہ میں اس قِسم کے مضامین بہت کم آتے ہیں ۔ یہ مضامین زیادہ تر نکاح کے خطبات میں بیان ہوئے ہیں اور وہ ان کی نگاہ سے نہیں گزرتے اس لئے انہیں یہ خیال گزرا کہ شاید میری طرف سے اِس بات پر ابھی تک پورا زورنہیں دیا گیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ نکاح کے خطبے اس تعہّد اور احتیاط سے شائع نہیں ہوتے جس تعہّد اور احتیاط سے جمعہ کے خطبے شائع ہوتے ہیں مگر پھر بھی کئی خطبے وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں بعض سالوں میں آٹھ دس خطباتِ نکاح ضرور شائع ہوجاتے ہوں گے ۔ ان میں اکثر انہی امور پر بحث ہوتی ہے کہ عورتوں کے مردوں پر کیا حقوق ہیں، مردوں کے عورتوں پرکیا حقوق ہیں اور شادی کے متعلق اسلام نے کیا کیا شرائط رکھی ہیں۔ پس میں انہیں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اسلامی تعلیم میں اِس قسم کی مشکلات کے مقابلہ میں کامل راہنمائی موجودہے۔ ایسی کامل راہنمائی کہ ہر مذہب و ملّت کے لوگ اسے اپنے اور اپنی نسلوں کے فائدہ کیلئے اختیار کرسکتے ہیں اور اس بارے میں مَیں ہمیشہ ہی جماعت کے لوگوں سے خطاب کرکے (کہ وہی ہیں جنہیں حق کے طور پر میں خطاب کرسکتا ہوں گو فائدہ ان سے سارے ہی اُٹھاسکتے ہیں اور اُٹھاتے رہتے ہیں) یہ باتیں سمجھاتا رہتا ہوں لیکن اس میں شبہ نہیںجماعت احمدیہ ابھی پورے طور پر اس تعلیم پرعامل نہیں۔
ابھی تک ایسی مثالیں میرے سامنے آتی رہتی ہیں کہ ماں باپ نے لڑکیوں کی مرضی کے خلاف یا لڑکوں کی مرضی کے خلاف انہیں شادی کرنے پر مجبور کیا اور اس کے نتیجہ میں وہ ساری عمر کیلئے جہنم میں پڑے رہے۔ پس میں سمجھتاہوں اس قِسم کے مضامین بیان کرنے کی ضرورت ابھی مفقود نہیں ہوئی اور چونکہ اب خطبہ نمبر کی کثرتِ اشاعت کا خاص طور پر انتظام کیا جاتا ہے اس لئے میں کسی موقع پر جمعہ کے خطبہ میں ہی اِنْشَائَ اللّٰہُ اس امر کو تفصیل کے ساتھ بیان کروں گا۔ فی ال￿حال چونکہ میںنے ایک او رمضمون شروع کررکھا ہے اور اس کا پہلے ختم کرنا میرے لئے ضروری ہے اس لئے اس سلسلہ کے ختم ہونے پر میں اِس مضمون کو خطبہ جمعہ میں بیان کروں گا کیونکہ گو اس مضمون کے بیان کرنے کیلئے مجھے دوسرے مواقع بھی میسر آسکتے ہیں اور گو پہلے بھی مَیں اس امرکے متعلق اپنے خیالات ظاہر کرچکا ہوں لیکن میں سمجھتاہوں ابھی اس مضمون کو بیان کرنے کی ضرورت ہے اور ضرورت رہے گی اور میں اِنْشَائَ اللّٰہُ اس کا خیال رکھوں گا۔
اِس کے بعد میں اُس مضمون کو لیتا ہوں جس کو میں نے پچھلے کئی جمعوں سے شروع کررکھا ہے۔ وہ مضمون یہ ہے کہ جماعت احمدیہ جہاں عقائد کے بارہ میں ایک عظیم الشان فتح حاصل کرچکی ہے یہاں تک کہ وہی عقائد جن کو جماعت احمدیہ کی طرف سے جب پیش کیا جاتا تو دشمنوں کی طرف سے ان کا سختی سے انکار کیا جاتا آج جماعت کے شدید ترین دشمن بھی ان عقائد پر قائم ہورہے ہیں اور انہیں اپنا ہی عقیدہ قرار دے رہے ہیں وہاں عمل کے بارہ میں ہمیں بہت کچھ کوتاہی نظر آتی ہے اور ابھی ہمارے اندر وہ روح پیدا نہیں ہوئی جس روح کے ماتحت کام کرکے ہم دنیا کو اپنے اعمال کا وہ نمونہ دکھاسکیں کہ جس کے بعد کوئی شخص ہماری جماعت کی برتری اور فوقیت کو تسلیم کرنے سے انکار نہ کرے۔ پھر یہی نہیں کہ ابھی تک ہماری جماعت کے لوگ اس تعلیم پر پورے طور پر عامل نہیں جو عملی اصلاح کے متعلق اسلام نے پیش کی بلکہ بسا اوقات وہ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو نقل کرنے کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اپنا لوہا لوگوں سے منوائیں لوگوں کے نقّال بن جاتے ہیں اس وجہ سے بجائے اس کے کہ جماعت کی برتری اور فوقیت ثابت ہو لوگ محسوس کرتے ہیں کہ عملی طور پر دنیا کی اصلاح کرنے میں احمدیت ناکام رہی ہے۔
یہ سوال ایسا ہے جسے ہم کسی صورت میں نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اگر ہم اس اعتراض کو دور کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں اور اگر ہم وہ عملی اصلاح نہ کرسکیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے ساتھ ہمارے لئے مقرر کی گئی اور ہماری قِسمت میں لکھی گئی ہے تو ہم قطعی طور پر کسی کامیابی اور کامرانی کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ میں پچھلے دو خطبوں سے یہ مضمون بیان کرتا چلا آرہا ہوں کہ لوگوں کی اعتقادی اصلاح سے عملی اصلاح کیوں مشکل ہے۔ میں اس بارہ میں چار مشکلات بیان کرچکا ہوں جن کی وجہ سے عملی اصلاح زیادہ مشکل ہوتی ہے بہ نسبت اعتقادی اصلاح کے۔ آج میں اس امر کے چند اور سبب بیان کرتا ہوں کہ کیوں اعتقادی اصلاح کی نسبت عملی اصلاح ایسے زمانوں میں زیادہ مشکل ہوتی ہے جب مذہب کے ساتھ حکومت نہیں ہوتی۔
پانچواں سبب اس مشکل کا یہ ہے کہ عقیدے کے راستے میں انسان کے بیوی بچے حائل نہیں ہوتے لیکن عمل کے راستہ میں اس کے بیوی بچے حائل ہوجاتے ہیں ۔جب ایک انسان کہتا ہے خدا ایک ہے تو یہ کہنے کے ساتھ اُسے اپنے بیوی بچوں کے آرام کو قربان نہیں کرنا پڑتا۔ یا جب کوئی کہتا ہے محمد ﷺ خدا کے رسول ہیں تو اس اعلان کے ساتھ اُسے اپنے بیوی بچوں کی کوئی قربانی نہیں کرنی پڑتی۔ یا جب وہ کہتا ہے کہ میں قیامت پر ایمان لے آیا تو یہ دعویٰ اس کی اس ذمہ داری میں جو اس پر اپنے بیوی بچوں کے متعلق ہوتی ہے خلل نہیں ڈالتا۔ اسی طرح جب کوئی ملائکہ پر ایمان لاتا ہے، استجابتِ دعا پر ایمان لاتا ہے ، جزاء وسزاپر ایمان لاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر پر ایمان لاتا ہے تو اسے اپنی اہلی ذمہ داری کے پورا کرنے میں کوئی روک محسوس نہیں ہوتی اور نہ یہ عقائد اس کیلئے کسی فتنہ کا موجب بنتے ہیں سوائے اس صورت میں کہ بیوی بچے اس کے ساتھ عقائد میں اختلاف رکھتے ہوں تب بے شک جھگڑا ہوسکتاہے۔ مثلاً خاوند کہتا ہو کہ خدا ایک ہے اوربیوی کہتی ہو کہ خدا ایک نہیں دو ہیں یا تین ہیں۔ یا ایک شخص کا عقیدہ ہوکہ اس دنیا میں انسان تناسخ کے ذریعہ بار بار آتا ہے اور اس کے باپ کا یہ عقیدہ ہو کہ اس دنیا سے مر کر انسان ایک اور دنیا میں جاتا اور پھر اس جگہ واپس نہیں آتا۔ تو عقائد میں یہ اختلاف جھگڑے کا موجب ہوسکتا ہے لیکن عقائد میں اتحاد کی صورت میں اُس کی بیوی بچے عقیدہ کے راستہ میں حائل نہیں ہوتے اور نہ روک بنتے ہیں۔ لیکن اس صورت میں بھی جب عقائد میں اختلاف ہو عمل کی وجہ سے ہی روکیں پیدا ہوتی ہیں محض عقائد کی وجہ سے روکیں پیدا نہیں ہوتیں۔ اس کے مقابلہ میں عمل کی یہ حالت نہیں عمل میں قدم قدم پر بیوی بچوں کی تکلیف انسان کے سامنے آجاتی ہے۔ مثلاً ساری عمر کوئی شخص تسلیم کرتا رہے کہ خدا ایک ہے ایک موقع پر بھی اس عقیدہ کی وجہ سے اس کے بیوی بچوں کی تکلیف اس کے سامنے نہیں آئے گی۔ مثلاً یہ نہیں ہوگا کہ اس شخص کی بیوی بھوکی رہتی ہو اس وجہ سے کہ وہ خدا کو ایک سمجھتا ہے۔ یا اسے پہننے اور تن ڈھانکنے کیلئے کپڑا نہ ملتا ہو اس لئے کہ اس کا خاوند کہتا ہے خدا ایک ہے۔ یا اُسے اپنی بیمار بیوی کے علاج کیلئے کوئی پیسہ نہ ملتا ہو اس لئے کہ وہ کہتا ہے میں محمدﷺ کو سچا رسول مانتا ہوں۔ غرض انسان کے اہلی فرائض کی ادائیگی میں عقائد اتنے روک نہیں بنتے جتنا عمل روک بن جاتا ہے۔ بعض صورتوںمیں بے شک عقائد کا اختلاف بھی بہت بڑی روک بن جاتا ہے مگریہ اُس وقت ہوتا ہے جب کسی نبی کاابتدائی زمانہ ہوتا ہے اور عقائد کے اختلاف پر اپنے عزیز اور رشتہ دار بھی شور مچانے لگ جاتے ہیں لیکن اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس وقت بھی مسائل کا اختلاف اتنی دشمنی کا باعث نہیں ہوتا جتنااعمال کا اختلاف دشمنی کا باعث بنتا ہے۔
آج جو دنیا میں ہم سے دشمنی کی جارہی ہے اور لوگوں کو ہم پر غصہ ہے وہ دشمنی اور غصہ انہیں اتنا اس بات پر نہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کیوں مانتے ہیں جتنا غصہ انہیں اس با ت پر ہے کہ یہ ہمارے پیچھے نمازیں کیوں نہیں پڑھتے، ہمارے جنازے کیوں نہیں پڑھتے، ہمیں لڑکیاں کیوںنہیں دیتے۔ اگر خدانخواستہ ہماری جماعت کمزوری دکھائے اور وہ غیراحمدیوں کے جنازے پڑھنے لگے، اُن کے پیچھے نمازیں اد اکرنے لگے، اُنہیںلڑکیاں دینے لگے تو آج ہماری جس قدر مخالفت ہے یہ جھاگ کی طرح بیٹھ جائے یا بہت ہی خفیف رہ جائے۔ تو درحقیقت عملی اختلاف ہی انسانی طبائع میں اشتعال پید اکیا کرتا ہے مگر اس کے علاوہ عمل کئی اَور راہوں سے بھی انسان پر اثر ڈالتا ہے۔ مثلاً ایک شخص اسلام کی یہ تعلیم سنتا ہے کہ خدا ایک ہے اور وہ یہ بھی سنتا ہے کہ کسی کا مال نہیں کھانا چاہئے۔ اب جب وہ کہتا ہے کہ خدا ایک ہے تو اس عقیدہ کی وجہ سے اُس کی بیوی کو فاقے نہیں کرنے پڑتے اور نہ اُس کے بچے کو کوئی نقصان پہنچتا ہے لیکن جب اسلام کی یہ تعلیم اس کے سامنے آتی ہے کہ کسی کا مال نہیں کھانا چاہئے تو فرض کرو کسی نے اس کے پاس سَو روپیہ امانت کے طور پر رکھا ہؤا ہوتا ہے لیکن کوئی گواہ نہیں ہوتا اب وہ خیال کرتاہے کہ اگر میں یہ روپیہ لے لوں تو میرا بچہ جو بیمار ہے اس کے علاج پر یہ روپیہ صرف کردوںگا۔ آخر حکیم بغیر فیس کے نہیں آتا نہ دُکاندار بغیر قیمت کے دوائیں دیتا ہے پھر اُس کی بیماری کا علاج ہو تو کس طرح؟ پس ایسے موقع پر اس کے اور اسلام کی تعلیم کے درمیان اس کے بچے کی صحت آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ وہ اگر اسلام کی امانت کے متعلق تعلیم کو مانتاہے تو اُ س کابچہ مرجاتا ہے لیکن خداتعالیٰ کو اگر وہ ایک مانتا ہے یا بالکل ہی خداتعالیٰ کے وجود کو نہیں مانتا تو اس سے اس کے بچے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یا مثلاً میں نے زمینداروں کے متعلق بتایا تھا کہ وہ اپنی لڑکیوں کو ورثہ نہیں دیتے وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح جائداد غیر کے پاس چلی جائے گی اور ان کی خاندانی عزت اور وجاہت کم ہوجائے گی۔ پس چونکہ ِاس تعلیم پر عمل کرنے سے ایک زمیندار یہ دیکھتا ہے کہ اُس کی عزت جاتی رہے گی اِس لئے عزت کا خیال عمل کے راستہ میں روک بن کر کھڑا ہوجائے گا لیکن خداتعالیٰ کو ایک مان کر تو اُس کی عزت برباد نہیں ہوتی۔ یا جب وہ کہتا ہے محمد ﷺ خدا کے رسول ہیں تو اِس سے اُس کی اقتصادی حالت پر اثر نہیں پڑتا۔ یا اگر وہ یہ کہتا ہے کہ خداایک ہے تو اُس سے اُس کی زمین کم نہیں ہوتی۔ یہ نہیں ہوگاکہ اگر اُس کا ایک ایکڑ پہلے ۹ کنال کا ہؤا کرتا تھا تو خداتعالیٰ کو ایک مان کر چھ کنال کا ایکڑ رہ جائے گا لیکن جب وہ یہ کہتا ہے کہ شریعت کے مطابق ورثہ دینا چاہئے اور اُس کا لڑکا لڑکی ہو تو اس کی جائداد کا تیسرا حصہ اسی وقت کم ہوجاتا ہے۔ غرض خداتعالیٰ کو ایک ماننے میں اسے نقصان نظر نہیں آتا لیکن ورثہ کی تعلیم پرعمل کرنے میں فوراً نقصان نظر آنے لگتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اگر میں نے اس پر عمل کیا تو میری جائداد کا تیسرا حصہ غیر کے پاس چلا جائے گا پھر نامعلوم اس کا میرے ساتھ کیسا تعلق ہو وہ میرا شریک بن کر مجھے نقصان پہنچائے گا اور میں اتنی عزت کا مالک نہیں رہوں گا جتنی عزت کا اب مالک ہوں۔ غرض جب وہ خداتعالیٰ کا یا رسول کریم ﷺ کی رسالت کا قائل ہوتا ہے تو اُس کی عزت اُس کے راستہ میں حائل نہیں ہوتی،نہ بیٹے حائل ہوتے ہیں لیکن جونہی وہ لڑکی کو ورثہ دینے لگتا ہے بیٹے کی شکل اُس کے سامنے آجاتی ہے جو اُس سے رحم کی درخواست کررہا ہوتا ہے اور کہتا ہے باپ! مجھ پر رحم کر۔ پس خدا ایک ہے کہنے کے نتیجہ میں اُس کے بیٹے کی شکل اس کے سامنے نہیں آتی لیکن جب اُسے یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ اپنی بیٹی کو ورثہ دو تو فوراً اس کے بیٹے کی شکل اس کے سامنے آجاتی ہے اور وہ اسے یہ کہتا نظرآتا ہے کہ باپ! تم نے سَو ایکڑ میں بمشکل زندگی بسر کی تھی اب مجھ سے یہ کس طرح اُمید کرسکتے ہو کہ میں چھیاسٹھ ایکڑ میں گزارا کرسکوں گا۔ پس لڑکی کو ورثہ دینے کا حکم سن کر بیٹے کی شکل اُس کے سامنے آجاتی اور عمل کے راستہ میں روک بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ یا مثلاً ظلم کا سوال ہے ایک آدمی مرجاتا ہے اس کی جائداد کا سنبھالنے والا کوئی نہیں ہوتا، اس کاایک چھوٹا سا یتیم بچہ رہ جاتا ہے، زمیندار جس وقت ہل لے کرکھیت کے کنارہ پر پہنچتا ہے تو اُسے خیال آتا ہے کہ مجھے اپنی زمین میں سے دس من دانے آئیں گے میرے اتنے لڑکے ہیں اتنی لڑکیاں ہیں، میری بیوی ہے، میرے عزیزرشتہ دار ہیں ان سب کے خرچ کا میںذمہ دار ہوں دس من دانے تو کافی نہیں ہوں گے اس پر وہ کہتا ہے ساتھ کے کھیت کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں اس زمین کامالک مرچکاہے اوربچہ چھوٹا ہے اگر میں دوگز اور زمین میں اپنا ہل چلالوں تو اس میں کیا حرج ہے دس من کی بجائے میرے دانے گیارہ من ہوجائیں گے او راس طرح گزارہ اچھا ہوسکے گا۔ یہ خیال آتے ہی اس کے بیل آگے چلنے لگ جاتے ہیں اور یہ بنہّ شکنی کرکے دوسرے کی زمین کے ٹکڑے کو اپنی زمین میں مِلالیتا ہے۔ مگر کبھی خداتعالیٰ پر ایمان لانا یا محمد ﷺ کو سچا رسول تسلیم کرنا یا قیامت اور جزاء اور سزا کے دن کو ماننا اس طرح اس کے عمل کے راستہ میں روک نہیں بنتا۔ یا مثلاً دین کی خاطر چندہ دینے کا سوال ہے۔ جب ہم اس سے سب سے بڑا چندہ مانگتے اور کہتے ہیں کہ اپنے دل سے سب بتوں کو نکال دے تو وہ اس کیلئے فوراً تیار ہوجاتا ہے لیکن جب چند پیسوں کا سوال آجائے تو اس کیلئے اتنا تیار نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ عقیدہ کے ساتھ کوئی مادی چیز نہیں دینی پڑتی لیکن چندہ دینے میں چونکہ مادی چیز دینی پڑتی ہے اس لئے فوراً اسے خیال آجائے گا کہ میں تو آگے ہی تنگی سے گزارہ کررہا ہوں اگر چندہ دے دیا تو میرے بیوی بچے کیا کھائیں گے۔ یا اسی طرح جانی قربانی کا سوال ہے، یا دین کیلئے وطن چھوڑنے کا سوال ہے ایسے موقعوں پر معاً انسان کواپنے بیوی بچوں کا خیال آجاتا ہے۔وہ کہتا ہے اگر میں غیر ملک کو چلا گیا تو میری بیوی کو کھانے پینے کا سامان کون لا کردیا کرے گا،بچوں کی نگرانی کون کرے گا۔غرض انسان کے جذبات اور اس کی محبت کے تعلقات جن وجودوں سے وابستہ ہیں عمل کے میدان میں وہ قدم قدم پر روک بنتے اور اس سے درخواست کرتے ہیں کہ دیکھنا! ہمارا خیال رکھنا۔ دیکھنا! ہمارا خیال رکھنا۔پس اس لئے قدم قدم پر وہ عمل کے راستہ سے اسے ہٹا دیتے ہیںلیکن عقیدہ کے بارہ میں کوئی ایسی بات پیش نہیں آتی۔ جب یہ عقیدہ میں ایک ہوتے ہیں تو میاں بیوی اور بچے سارے ہی خداتعالیٰ کو مانتے ہیں، سارے ہی محمد ﷺ کی صداقت کے قائل ہوتے ہیں، سارے ہی قرآن مجید کو خداتعالیٰ کی کتاب تسلیم کرتے ہیں او ران عقائد کے بارہ میں اس کے راستے میں روک بن کر کھڑے نہیں ہوتے لیکن جب عملی قربانی کا سوال ہو، جب دیانت اور امانت کے قائم کرنے کا سوال ہو تو اس وقت سو دفعہ یہ روک بن کر کھڑے ہوجائیں گے۔
یہ صرف چند مثالیں میں نے بیان کی ہیں ورنہ بیسیوں اعمال ایسے ہیں کہ انسان ان کے کرنے میں اس لئے کمزوری دکھاتا ہے کہ اس کے بیوی بچے اس کے ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ وہ عملاً اس کے ہاتھ پکڑ لیتے ہیں بلکہ ان کی محبت کا ہاتھ اسے نیکی کی باتوں پرعمل نہیں کرنے دیتا۔ جب یہ سرکاری عدالتوں میں رشوت لینے کیلئے بیٹھتا ہے اُس وقت اسے اس کے بیوی بچے نہیں کہتے کہ تم رشوت لو مگر ان کی شکل اس کے سامنے آجاتی ہے اور ان کی محبت میں مجبور ہوکر وہ رشوت لے لیتا ہے۔ یا جب یہ ایک یتیم اور مسکین کی بنّہ شِکنی کرتا ہے تو اُس وقت اسے اس کے بیوی بچے یہ نہیں کہتے کہ تو بنّہ شکنی کر بلکہ ان کی محبت کی وجہ سے وہ بنّہ شِکنی کرتا ہے اور یہ محبت اس کے دل ودماغ پر اِس قدر غالب ہوتی ہے کہ اگر وہ خود بھی اسے اس بات سے روکیں اور منع کریں تب بھی وہ نہیں رُکتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے ذمہ داری مجھ پر ہے ان کو کیا پتہ کہ کس مصیبت سے روزی کمائی جاتی ہے۔ تو انسانی اعمال کی درستی میں جذبات اور جذبات کو اُبھارنے والے رشتے روک بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے اعمال کی اصلاح عقیدہ کی اصلاح کی نسبت زیادہ مشکل ہوجاتی ہے۔ جب تک اس کی خداتعالیٰ سے محبت ایسے مقام پر نہ پہنچ جائے کہ اس محبت کی شدت کے مقابلہ میں بیوی بچوں کی محبت اور ان کا اصرار اور ان کی وہ شکلیں جو اسے اپیل کرتی ہیں دھندلی ہوجائیں اور وہ ان کے اثر سے آزاد ہوجائے اُس وقت تک عمل کی اصلاح بہت مشکل ہوتی ہے۔ یا پھر اصلاح کی دوسری صورت یہ ہے کہ دنیا کا نظام ایسا تبدیل ہوجائے کہ اسے بددیانتی کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور جو اس کی مشکلات ہوں وہ آپ ہی آپ دور ہوجائیں ۔ اگر جو لوگ فاقے مررہے ہوں انہیں کھانے کیلئے روٹیاں ملنے لگیں، جو ننگے پھررہے ہوں انہیں پہننے کیلئے کپڑے مل جائیں اور جو غریب ہوں ان کی غربت دور ہوجائے تب بھی نیک اعمال میں بہت کچھ مدد مل سکتی ہے لیکن جب یہ دونوں باتیں نہ ہو ں نہ ان کی ضرورتیں پوری ہوں او رنہ خداتعالیٰ کی محبت ایسے مقام پر پہنچی ہوئی ہو کہ وہ باقی محبتوں کو مٹادے اُس وقت تک یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ اعمال کی اصلاح ہوسکے۔ یہ دونوں چیزیں ہیں جو اصلاح کیا کرتی ہیں اور ان دونوں کا ایک وقت میں موجود ہونا اصلاح کیلئے ضروری ہوتا ہے تاکہ کامل اور ناقص ہر ایک کی اصلاح ہوسکے لیکن اگر یہ دونوں ایک وقت میں میسر نہ ہوں تو کم سے کم ایک چیز کا پید اکرنا دنیا کی اصلاح کیلئے ضروری ہے۔ یا تو ہمیں انسانوں کے قلوب میں خداتعالیٰ کی محبت ایسے مقام پر لانی ہوگی کہ اس محبت کے مقابلہ میں انہیں دنیا کی تمام محبتیں بھول جائیں اوریا پھر ہمیں ان کی تکالیف دو رکرنی اور ان کی ضروریات پوری کرنی پڑیں گی تاکہ جس حد تک بددیانتی مجبوری سے پیداہوتی ہے اس کا ازالہ ہوجائے۔
چھٹا سبب جو اعمال کی اصلاح عقیدہ کی اصلاح کی نسبت زیادہ مشکل بنادیتا ہے یہ ہے کہ عقیدہ کا خیال ہر وقت نہیں رکھنا پڑتا لیکن عمل کاخیال ہر وقت رکھنا پڑتا ہے۔ مثلاً جب ایک انسان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ خدا ایک ہے تو ایک دفعہ یہ عقیدہ رکھ لینے کے بعد کہ خدا ایک ہے اس کیلئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ ہر دو گھنٹے کے بعد دُہرائے اور کہے کہ خدا ایک ہے۔ ظہر کے وقت پھر کہے کہ خدا ایک ہے، عصر کے وقت پھر کہے کہ خدا ایک ہے مگر عمل کے بارہ میں باربار توجہ کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ مثلاً ایک دکاندار ہے اسے ہم نے کہہ دیا کہ دیانت سے کام کرنا۔ یہ کہنے کوایک بات کہی گئی ہے مگر اس میں اور یہ عقیدہ رکھنے میں کہ خدا ایک ہے بہت بڑا فرق ہے۔ جب وہ دکاندار یہ کہتا ہے کہ خدا ایک ہے تو اس کے متعلق بار بار اس کے دل میں سوال پید انہیں ہوتا، نہ لالچ کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کہے کہ خدا ایک نہیں دو ہیں، دو نہیں تین ہیں لیکن دیانت کے متعلق دن میں پندرہ بیس دفعہ اس کے سامنے سوال آجاتاہے۔ ایک شخص اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے مجھے چار آنے کی مصری دو۔ معاً اُسے خیال آتا ہے کہ میں اسے چار آنے کی مصری دوں یا پونے چار آنے کی دوں۔ اِسے کیا پتہ کہ چار آنے کی مصری کتنی آتی ہے۔ اس کے بعد ایک اور شخص آتا ہے اورکہتا ہے مجھے آٹھ آنے کی مصری دو۔ اُس وقت پھر اسے خیال آتا ہے کہ میں اسے آٹھ آنے کی مصری دوں یا ساڑھے سات آنے کی دوں اسے کیا پتہ کہ میں نے اسے دو پیسے کی مصری کم دی ہے۔ وہ جاتا ہے تو ایک اور شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے گرم مصالحہ دینا۔ یہ پھر سوچتا ہے کہ میں وزن میں اسے گرم مصالحہ کم دوں یا نہ دوں یا کیوں نہ اسے ردّی مصالحہ دے دوں اس طرح گرم مصالحہ میں سے مجھے دمڑی یا دھیلا بچ جائے گا۔ اسی طرح کوئی آٹا لینے آتا ہے، کوئی آلو لینے آتا ہے، کوئی تیل لینے آتا ہے اور ہر گاہک کے آنے پر اس کے دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ میں بددیانتی کروں یا نہ کروں؟ لیکن یہ عقیدہ رکھنے کے بعد کہ خداتعالیٰ ایک ہے اس کے متعلق باربار اس کے سامنے سوال نہیں آتا۔ یا مثلاً جھوٹ بولنے کی عادت ہے جتنی دفعہ کوئی دوست اُس سے ملتا ہے اور وہ اس سے کوئی بات پوچھتا ہے اسے خیال آجاتا ہے کہ جو بات یہ پوچھتا ہے اس میں اس کا اپنا فائدہ ہوگا یا دوسرے کا نقصان ہوگا۔ پس میں اپنے فائدہ کی بات کہوں یا نہ کہوں اور اس کو دکھ دینے والی بات زبان سے نکالوں یا نہ نکالوں۔ مگر کتنی دفعہ یہ سوال اس کے سامنے آتا ہے کہ خد اایک ہے یا نہیں؟ محمد ﷺ خداتعالیٰ کے سچے رسول ہیں یا نہیں؟ کبھی کوئی مذہبی بحث ہوئی اور کسی نے دریافت کیا تو اور بات ہے ورنہ کئی آدمی ایسے ہوں گے جن سے کئی کئی مہینوںتک کبھی کسی شخص نے یہ نہیں پوچھا ہوگا کہ خدا ایک ہے یا نہیں اور محمدرسول اللہ ﷺ اُس کے سچے رسول ہیں یا نہیں؟ نہ وہ سوال اِس رنگ کاہوتا کہ اس کے نتیجہ میں کوئی قربانی کرنی پڑتی ہو۔
پس اوّل تو عقائد کے متعلق کوئی سوال ہی پید ا نہیں ہوتا اور اگر کبھی پیدا ہو تو اس کیلئے کسی قربانی کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن عمل کا سوال ہروقت انسان کے سامنے آتا رہتا ہے۔ اذان ہوتی ہے اور ایک دکاندار اُٹھ کر نماز پڑھنے چلا جاتا ہے ، دوسرا دُکاندار اسے دیکھتا او رجھٹ خیال کرتاہے کہ یہ تو اِس وقت نماز پڑھنے چلا گیا ہے اگر میں اِس وقت اپنی دکان کھلی رکھوں تو کئی گاہک مجھ سے سَودا لے لیں گے اور اس طرح مجھے دوسرے سے چار آنے یا آٹھ آنے کا زیادہ فائدہ ہوجائے گا۔ یہ خیال آنے پر ادھر تو نماز کی تیاری ہورہی ہوگی اور ادھر یہ اپنی دکان کھولے گاہکوں کے انتظار میں بیٹھا ہوگا لیکن خداتعالیٰ کی توحید اور محمد ﷺ کی رسالت اس طرح بار بار اس کے سامنے نہیں آتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چونکہ اعمال پر اسے بار بار توجہ کرنی پڑتی ہے اس لئے کبھی وہ سُست اور غافل ہوجاتا اور عملی اصلاح کا پہلوذاتی مفاد کیلئے چھوڑ دیتا ہے۔ اعمال پر باربار توجہ دینے کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہو۔ جس طرح وہ شخص جو گھوڑے پرسوار ہو اُسے ہر وقت ہوشیار رہنا پڑتا ہے اِسی طرح مؤمن کو بھی ہر وقت اپنے اعمال پر نگاہ رکھنی پڑتی ہے اور اگر وہ ایک لمحہ کیلئے بھی غافل ہوجائے تو گرجاتا اور اعمال کی اصلاح میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ (اس موقع پر حضور نے فرمایا مدرسوں کے اساتذہ کو چاہئے کہ وہ طالب علموں کو بتادیا کریں کہ جمعہ کے وقت حرکات کرنی منع ہیں۔ طالب علم اِس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں اور ان میں سے ساٹھ فیصدی برابر ایک دوسرے کو اشارے کررہے ہیں ۔ یہ نہایت ہی شرمناک حرکت ہے جو خطبہ کے آداب اور اس کے احترام کے سراسر خلاف ہے۔ بچوں کو کم سے کم ابتدائی دینی تعلیم تو اِس قدر دینی چاہئے کہ وہ خطبہ کے وقت ہر قسم کی حرکات سے بچیں اور یہ صرف بچوں کا سوال نہیں بعض بڑے آدمی بھی ایسی حرکات کرتے رہتے ہیں)۔
تو عملی اصلاح میں یہ دقّت پیش آتی ہے کہ اس کا ہروقت خیال رکھنا پڑتا ہے اور چونکہ ہر وقت خیال نہیں رکھا جاسکتا اس لئے سُستی پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ بیسیوں طبائع ایسی ہیں جو ہر وقت عملی اصلاح کا خیال نہیں رکھ سکتیں۔ جہاں ان کا خیال اِدھر اُدھر ہؤا اور انہوں نے عملی اصلاح سے غفلت کی فوراً ان کا قدم ڈگمگا جاتا ہے وہ بیس دفعہ بددیانتی سے بچتے ہیں لیکن اکیسویں دفعہ ہوشیار نہیں ہوتے اور کوئی فریب کر بیٹھتے ہیں اور جب ایک فریب کرتے ہیں تو اس کے بعد دوسرا فریب کرتے ہیں اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا کیونکہ اگر ایک دفعہ بھی دیانت کی زمام انسان کے ہاتھ سے نکل جائے تو وہ ہمیشہ کیلئے نکل جاتی ہے اور پھر اسے تھامنے کیلئے بہت بڑا مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ بہت دفعہ ایسا ہوتاہے کہ انسان کسی سے لڑائی کرتا اور اسے گالی دے دیتا ہے اس کے نتیجہ میں اسے ہمیشہ کیلئے گالیوں کی عادت ہوجاتی ہے۔ صرف پہلی دفعہ اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کا سوال ہوتا ہے ورنہ اگر ایک دفعہ بھی کوئی بدی کرلے تو پھر انسان کا قدم لڑکھڑا جاتا اور صحیح راستہ پر بہت مشکل سے قائم ہوتا ہے۔
ساتواں سبب جس کہ وجہ سے عقیدہ کی نسبت عمل کی اصلاح زیادہ مشکل ہوتی ہے یہ ہے کہ عقائد کا تعلق خداتعالیٰ کی ذات سے ہوتا ہے اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی خشیت ہر وقت سامنے رہتی ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے سامنے آجاتی ہے، جب ہم کہتے ہیں محمد ﷺ خداتعالیٰ کے رسول ہیں تو محمد ﷺ کی رسالت کے ساتھ ہی خداتعالیٰ کی ذات ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے، جب ہم کہتے ہیں مرنے کے بعد بھی زندگی ہے جس میں انسان کو اعمال کی جزاء و سزا ملے گی تو اِس عقیدہ کے ساتھ بھی خداتعالیٰ کی ذات سامنے آجاتی ہے، اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے ملائکہ ہیں جونیکی کی تحریک کرتے ہیں تو ملائکہ کے ساتھ ہی خداتعالیٰ کی ذات بھی ہمارے سامنے آجاتی ہے، یا جب ہم کہتے ہیں خداتعالیٰ کی قضاء و قدر کا سلسلہ دنیا میں جاری ہے تو قضاء و قدر کے عقیدہ کے ساتھ خداتعالیٰ کی ذات بھی ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ غرض ہر عقیدہ ایساہے جس کا محور خداتعالیٰ کی ذات ہے اس میں ہمیں نہ غصہ آنے کا کوئی سوال ہوتا ہے نہ لڑائی جھگڑے کا کوئی سوال ہوتا ہے خالص اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اُس کا تقویٰ اِس میں کام کررہاہوتا ہے اس لئے عقیدہ کی اصلاح مشکل نہیں ہوتی لیکن عملی اصلاح کا تعلق انسانوں سے ہے اور انسانوں سے دشمنی بھی ہوتی ہے، بے تعلقی بھی ہوتی ہے، ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے کوئی لالچ ہوتا ہے یا جنہیں ہم سے کوئی غرض ہوتی ہے اس لئے خشیت اللہ کی وہ دیوار جو عقیدہ میں انسان کی حفاظت کررہی ہوتی ہے عمل میں نہیں کرتی۔ ایک انسان دوسرے کو کوئی نقصان پہنچادیتاہے کچھ عرصہ کے بعد اتفاقاً دوسرے کواس کے متعلق کوئی گواہی دینی پڑتی ہے او رپوچھا جاتا ہے کہ زید نے یہ کام کیا تھا یا نہیں؟ وہ سوچتاہے اگر میں کہہ دوں نہیں تو اسے نقصان پہنچ جاتاہے اور اگر ہاں کہہ دوں تو وہ بری ہوجاتا ہے اس پر وہ کہتا ہے اچھا اس نے مجھے فلاں وقت نقصان پہنچایا تھا میں بھی اسے نقصان پہنچاتا ہوں۔ اس خیال کے آتے ہی وہ اس کے خلاف گواہی دے دیتا ہے او رکہتا ہے کہ اس نے وہ کام نہیں کیا تھا۔ تو عقائد کا تعلق چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتا ہے اس لئے وہاں خشیت اللہ سے کام لیا جاتا ہے لیکن اعمال کا چونکہ انسانوں سے تعلق ہوتا ہے اور انسانوں سے تعلقات کشیدہ بھی ہوجاتے ہیں اس لئے انسان عملی میدان میں بہت سی کمزوریاں دکھادیتا ہے او رجہاں سچ بولنے کا سوال آتا ہے وہ یہ خیال نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ سے منع کیا ہؤا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ اس شخص نے فلاں وقت مجھے نقصان پہنچایا تھا میں اسے کیوں نقصان نہ پہنچائوں۔ یہ خیال نہیں آتا کہ سچ بولنے کا خداتعالیٰ نے حکم دیا ہؤا ہے۔ تو عقیدہ کے معاملہ میں ہر وقت خداتعالیٰ کی ذات انسان کے سامنے رہتی ہے لیکن عمل کے معاملہ میں انسانوں کی ذات سامنے رہتی ہے اور اس وجہ سے بسااوقات لالچ، دوستانہ، رشتہ داری، لڑائی، بُغض اور کینہ انسانی اعمال کے اچھے حصوں کو ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ ان تمام وجوہ سے وہ عقیدہ کو اَور نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہے اور عمل کو اَور نقطہ نگاہ سے۔ وہ امانت کو اس نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھتا کہ خداتعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہؤا ہے بلکہ اس نقطہ نگاہ کے ماتحت دیکھتا ہے کہ اس خاص موقع پر امانت کی وجہ سے اس کے دوستوں یا دشمنوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح وہ سچ کو اس نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھتا کہ خداتعالیٰ نے سچ بولنے کا حکم دیا ہے بلکہ وہ اس نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے کہ آیا اس سے اُسے یا اس کے دوستوں اور عزیزوں کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچے گا۔ غرض عقیدہ کا چونکہ خداتعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے اس لئے عقائد میں خشیت اللہ کام کرتی رہتی ہے اور اس سے عقیدہ کی اصلاح آسان ہوجاتی ہے لیکن اعمال چونکہ بندوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اس لئے اعمال میں خشیت اللہ کا خانہ خالی رہتاہے اور عمل کی اصلاح بہت مشکل ہوجاتی ہے۔
آٹھواںسبب یہ ہے کہ عمل کی اصلاح دنیامیں ہو ہی نہیں سکتی جب تک خاندان کی اصلاح نہ ہو لیکن عقیدہ کی اصلاح اپنے طور پر ہوجاتی ہے۔ جب انسان یہ عقیدہ رکھے کہ خدا ایک ہے تو خواہ اس کے بیوی بچے یہ مانتے ہوں کہ خدا ایک نہیں دو ہیں ان پر اس عقیدے کا کوئی اثر نہیں ہوگا اور نہ ان کے عقیدے کا اس کے عقیدے پر کوئی اثر ہوگالیکن جب یہ کہتا ہے دیانتداری اختیار کی جائے تو دیانتداری اُس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک اس کی بیوی اوربچے اس کے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔ یہ چاہے کتنا ہی حلال مال کما کرلاتا ہو لیکن اگر اس کی بیوی ہمسایوں کو لُوٹتی رہتی ہے یا اس کا بچہ رشوت کا مال گھر میں لاتا رہتا ہے تو اس کی روزی حلال بن کس طرح سکتی ہے؟ عقیدہ ایسی چیز نہیں کہ اسے اکٹھا کیا جاسکے اس لئے یہ ہوسکتا ہے کہ خاوند کا کوئی اور عقیدہ ہو اوربیوی کا اَور لیکن اعمال میں یہ بات نہیں ہوتی اعمال کا ایک دوسرے پر اثر پڑتا ہے اور اس لحاظ سے ضروری ہے کہ سب خاندان کے اعمال درست ہوں۔ جیسے ایک شخص خواہ کتنی ہی دیانت سے روپیہ کمائے وہ حلال کی روزی اُس وقت تک کہلا ہی نہیں سکتی جب تک اس کی بیوی اور اس کے بچوں کا کمایا ہؤا روپیہ بھی حلال نہ ہو کیونکہ روپیہ نے ایک جگہ جمع ہونا اور اکٹھا خرچ ہونا ہوتا ہے اور اگر حلال میں حرام مال ملتا رہے تو وہ ساری کمائی کو خراب کردیتاہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دوست ولایت گئے جب وہاں سے واپس آئے تو انہوںنے سنایا کہ جس گھر میں مَیں رہتا تھا میں نے اس کی مالکہ کوسختی سے کہا ہؤا تھا کہ میں سؤر کاگوشت نہیں کھایا کرتا میرے لئے الگ بکرے کاگوشت پکایا کرو۔ وہ کچھ مدت تک مجھے گوشت کھلاتی رہی کہ یہ سؤر کا گوشت نہیں بکرے کا ہے۔ ایک دن میں اتفاقاً باورچی خانہ میں چلا گیا تو کیا دیکھتاہوں کہ وہ کانٹے سے ایک بڑے برتن میں سے ایک ایک بوٹی نکالتی اور دوسرے برتن میں ڈالتی جاتی ہے۔ میں نے کہایہ کیا کرتی ہو؟ وہ کہنے لگی تم جو کہتے ہو کہ میں سؤر کاگوشت نہیں کھاتا میں تمہارے لئے بکرے کی بوٹیاں سؤر کی بوٹیوں میں سے الگ کررہی ہوں۔ اُس دن معلوم ہؤا کہ وہ سؤر اور بکرے کا گوشت ایک ہی برتن میں پکاتی۔ بکرے کی بوٹیاں امتیاز کیلئے ذرا چھوٹی رکھاتی او رجب گوشت پک جاتا تو بکرے کی بوٹیاں الگ کرکے انہیں کھلا دیتی۔ اس دوست نے ذکر کیا کہ اِس پر میں اُس سے سخت ناراض ہؤا اور کہا کہ تم تو مجھ کو حرام کھلاتی رہی ہو، سؤر کے گوشت کے ساتھ دوسرا گوشت پکانا منع ہے۔ یہ سن کر وہ بہت بِگڑی مگر آخر کہنے لگی اچھا میں تمہارے لئے بکرے کا گوشت الگ برتن میں پکایا کروں گی۔ وہ کہنے لگے چند دنوں کے بعد پھر جو میں باورچی خانہ میں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو ہنڈیاں چڑھی ہوئی ہیں ایک میں سؤر کا گوشت ہے اور دوسرے میں بکرے کا۔ اس کے پاس ایک چمچہ ہے وہ کبھی ایک ہنڈیا میں پھیرتی ہے اور کبھی دوسری میں۔ اس پر میں نے پھر اُسے منع کیا تو وہ ناراض ہوگئی اورکہنے لگی میں اِس احتیاط کی قائل نہیں بھلا سؤر کے گوشت والا چمچہ بکرے کے گوشت میں پھیرنے سے کیا نقصان ہوجاتا ہے۔
اس مثال کو مدّ نظر رکھتے ہوئے جب گھر وں پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر گھر میں صرف ایک آدمی کا کمایا ہؤا مال نہیں آتا بلکہ اس میں کچھ حصہ باپ کا ہوتا ہے، کچھ بیٹے کاحصہ ہوتا ہے، کچھ بیوی کاحصہ ہوتا ہے، زمینداروں میں خصوصاً یہ بات پائی جاتی ہے کہ خاوند زمینداری کرتاہے او ربیوی بھی گھی بیچ رہی ہوتی ہے یا انڈے بیچ رہی ہوتی ہے یا مرغیاں بیچ رہی ہوتی ہے اور اس میں بیسیوں ٹھگی کے موقعے اسے ملتے رہتے ہیں۔ اب خاوند خواہ کتنی دیانتداری سے زمینداری کرے اگر اس کی بیوی حرام خوری کرتی ہے یا بیوی تو دیانت دار ہے مگر خاوند بددیانت ہے، بیوی تو صاف سُتھرا گھی لاتی اور نہایت مناسب قیمت پر اُسے فروخت کرتی ہے لیکن خاوند اپنے کام میں بددیانتی کرتا اور حرام مال کما کما کرگھر میں لاتا ہے تو اس صورت میں ان کی روزی حلال کی روزی نہیں رہ سکتی کیونکہ اس میں حرام رزق شامل ہوتا رہتا ہے۔ تو عقیدہ الگ رکھا جاسکتا ہے مگر عمل الگ نہیں رکھا جاسکتا اس لئے عمل اُس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک سارے خاندان کے اعمال درست نہ ہوں اور سارے خاندان کے اعمال درست کرنے میں پھر دقتیں پیش آجاتی ہیں۔ مثلاً عبادت ہے۔ جب یہ صبح اپنے بچے کونماز کیلئے جگانے لگتا ہے اس وقت فوراً جذباتِ محبت اس کے سامنے آجاتے ہیں اور دل میں کہتا ہے سخت سردی ہے میں اسے کیوں جگائوں اگر نماز کیلئے جگایا تو اسے سردی لگ جائے گی۔ پھر وہ بیوی کو نماز کیلئے جگانے لگتا ہے تو اُس وقت بھی محبت کے جذبات اُس کے سامنے آجاتے ہیں اور وہ کہتا ہے ساری رات یہ بچے کو اٹھاکر پھرتی رہی ہے اب میں اسے جگائوں گا تو اِس کی نیند خراب ہوجائے گی بہتر ہے کہ یہ سوئی رہے نماز پھر پڑھ لے گی لیکن جب وہ کہتا ہے کہ اللہ ایک ہے تو اس کے سامنے سردی گرمی کا سوال نہیں آتا۔ وہ کہتا ہے بیوی کہو اللہ ایک ہے او ربیوی کہہ دیتی ہے اللہ ایک ہے، وہ کہتا ہے بیٹا کہو لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ اور بیٹا کہہ دیتا ہے لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ۔ لیکن جب نما زکا سوال آتا ہے تو نماز چونکہ قربانی کا مطالبہ کرتی ہے اس لئے کبھی سخت سردی اور کبھی سخت گرمی کا عُذر اُس کے سامنے آجاتا ہے۔ چھ مہینے اس کے سامنے یہ سوال رہتا ہے کہ سخت سردی ہے ان ایام میں بچہ کو نماز کیلئے کیوں جگائوں اسے سردی لگ جائے گی او رچھ مہینے ا س کے سامنے یہ سوال رہتا ہے کہ نازک او رپھول سا بچہ ہے نماز پڑھنے گیا تو اسے گرمی لگ جائے گی ۔ پھر کبھی بیوی کو جگاتے وقت یہ خیال آجاتا ہے کہ یہ ساری رات تو بچے کو اٹھائے پھرتی رہی ہے اس لئے بہتر ہے کہ سوئی رہے نماز پھر پڑھ لے گی۔ غرض قدم قدم پرجذبات اور احساسات اس کے سامنے آجاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ نہ ان کی اصلاح ہوتی ہے اور نہ اس کی اپنی اصلاح مکمل ہوتی ہے اسی لئے خداتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَ اَہْلِیْکُمْ نَارًا ؎۲ اے میرے بندو! نہ صرف اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچائو بلکہ اپنے اہل و عیال کو بھی آگ سے بچائو۔ تمہارا صرف اپنے آپ کو آگ سے بچانا کافی نہیں بلکہ دوسروں کو بچانا بھی ضروری ہے کیونکہ اگر دوسرا نہیں بچے گا تو وہ تمہیں بھی لے ڈوبے گا۔ پس اعمال کی اصلاح میں ایک بہت بڑی روک یہ بھی ہوتی ہے کہ اعمال کی اصلاح اُس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک خاندان کی اصلاح نہ ہو اورخاندان کی اصلاح میں بسااوقات انسان اپنے بچوں اور اپنی بیوی کی تکلیف کا خیال رکھنے کی وجہ سے ناکام رہتا ہے۔
اس جگہ میں یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ اس سبب اور اس سے پہلے سبب میں بہت بڑا فرق ہے۔ پہلا سبب یہ تھا کہ اعمال کی اصلاح اس لئے مشکل ہوتی ہے کہ اس کا انسانوں سے تعلق ہوتا ہے اور اس میں اس بات کا ذکر ہے کہ عمل کی اصلاح کیلئے خاندان کی اصلاح ضروری ہے اور بسااوقات انسان عملی اصلاح سے اس لئے سُستی کرتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے اس سے دوسرے عزیز کو تکلیف ہوگی۔ مثلاً جھوٹ بولنا بچے کہاں سے سیکھتے ہیں؟ جھوٹ بولنا وہ یا ماں باپ سے سیکھتے ہیں یا بازاروں میں پھرنے والے لڑکوں سے۔ اور بازاروں میں وہ اسی لئے پھرتے ہیں کہ ان کے ماںباپ کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچے کو گھر میں کہاں بٹھائے رکھیں اس کا دل میلا ہوگا جس طرح اور بچے گلی کوچوں میں پھررہے ہیں یہ بھی جائے اور پھرے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جاتا ہے اور دوسرے بچوں سے جھوٹ بولنا، گالیاں دینا اور چوری کرنا سیکھ جاتا ہے ۔ اگر وہ لڑکے کی تکلیف کا خیال نہ کرتے بلکہ اس کی نگرانی رکھتے اور بُرے لڑکوں کے پاس اسے نہ بیٹھنے دیتے تو نہ وہ گالیاں دینا سیکھتا، نہ چوری کرناسیکھتا، نہ جھوٹ بولنا سیکھتا مگر ماں باپ کی نرمی کی وجہ سے یہ تمام عیب پیدا ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ بچے کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ روکیں ہیں جو اعمال کی اصلاح میں پیدا ہوتی ہیں ۔ گو اور بھی بعض اسباب ہیں جن کی وجہ سے اعمال کی اصلاح عقیدہ کی اصلاح کی نسبت زیادہ مشکل ہوتی ہے لیکن مثال کے طور پر میں نے آٹھ باتیں بتائی ہیں جن کی وجہ سے عمل کی اصلاح زیادہ مشکل ہوتی ہے او رعقیدہ کی اصلاح اس کی نسبت بہت زیادہ آسان ہوتی ہے۔ عقیدہ میں جب ہم کہتے ہیں کہواللہ ایک ہے تو دوسرا جھٹ اسے مان لیتا ہے لیکن عمل میںکئی جگہ عادت روک بن کرکھڑی ہوجاتی ہے اور وہ انسان کو بے بس کردیتی ہے۔ ہم ایک شخص سے کہتے ہیں تمہیں سچ بولنا چاہئے۔ وہ ہماری نصیحت کوتسلیم کرتا اورکہتا ہے ہاں جی سچ بولنا چاہئے لیکن ذرا آگے چلتا ہے تو جھوٹ بول لیتا ہے کیونکہ جھوٹ بولنے کی اسے عادت ہوچکی ہوتی ہے۔ وہ ہم سے کہتا ہے میں ہمیشہ سچ بولوں گا لیکن تھوڑی دیرکے بعد اس کے بیٹے کی کسی سے لڑائی ہوجاتی ہے پولیس تحقیقات کرتی ہے تو وہ پولیس کی گرفت سے اپنے بچے کو بچانے کیلئے کہہ دیتا ہے میرا بچہ تو یہاں تھا ہی نہیں وہ تو لاہور گیا ہؤا تھا۔ یا ہم سے کہہ جاتا ہے میں آئندہ باقاعدہ نماز پڑھوں گا اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز پڑھوائوں گا لیکن جب گھر پہنچتا ہے او راپنے بچوں سے کہتا ہے اُٹھو نماز کیلئے مسجد میں چلیں تو اُسے پھر خیال آجاتا ہے اور باہر جھانک کردیکھتا ہے اور کہتا ہے اِس وقت سخت لُو چل رہی ہے بہترہے یہیں نماز پڑھ لیں مگر گھر پر کون نماز پڑھتا ہے۔ مسجد میں جاتے ہوئے تو اسے ہر کوئی دیکھتا ہے اور اسے بھی خیال آتا ہے کہ مجھے تعہّد سے نمازیں پڑھنی چاہئیں لیکن جب اس کے دل میں گھر پر نما زپڑھنے کا خیال آتا ہے تو چونکہ گھر پر اُسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا اس لئے آہستہ آہستہ نماز پڑھنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ یا صبح کے وقت جب بچہ کو جگانا ضروری ہوتاہے اسے خیال آجاتا ہے کہ بچہ ہے اس کی نیند خراب ہوجائے گی، بیوی رات بھر جاگتی رہی ہے اسے بھی نہیں جگانا چاہئے۔ یہی امانت، دیانت اور راستی کا حال ہے۔ غرض ہر کام کے کرتے وقت کئی روکیں حائل ہونے لگتی ہیں لیکن عقیدہ کے بارے میں ایسی روکیں حائل نہیں ہوتیں۔
پھر اعمال کے بارہ میں یہ لوگوں کا نقال بنتا ہے۔ ایک شخص کو دیکھتا ہے کہ وہ اکڑ کر جارہا ہے اس کے سرپر ہیٹ ہے اس کی مونچھیں او رڈاڑھی منڈھی ہوئی ہیں۔ یہ خیال کرتا ہے کہ اگر میں بھی اڑھائی روپے کی ٹوپی سر پر رکھ کر انگریز بن جائوں تو کیا حرج ہے لوگ مجھے بھی ’’صاحب سلام‘‘ کہیں گے اور اس خیال کے آنے پر وہ دوسرے کی نقل میں ویسا ہی ہیٹ پہننا شروع کردیتاہے لیکن عقیدہ میں نقل کا خیال نہیں آتا کیونکہ وہ مخفی چیز ہے۔ غرض اعمال کے بارہ میں ایسی روکیں موجود ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے راستہ سے ہٹادیتی اور اس کے قُرب سے پرے پھینک دیتی ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ اگر ہم اعمال کی اصلاح کرنا چاہیں تو اس طرف توجہ کریں۔ صرف یہ کہہ دینے سے کہ ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے اصلاح نہیں ہوسکتی جب تک ہم وہ کوشش نہ کریں اور ان ذرائع کو اختیار نہ کریں جن کے نتیجہ میں اصلاح ممکن ہے۔ ورنہ اس کے بغیر ہماری وہی حالت ہوگی جو ایک برہمن کی مثال میں بیان کی جاتی ہے۔ ہندئووں میں صبح کے وقت دریا پر نہانا نہایت متبرک سمجھا جاتا ہے اور ہندئووں میں سے برہمن تو اسے بہت ہی ضروری خیال کرتے ہیں۔
کہتے ہیں لاہور میں کوئی برہمن صبح کواشنان کرنے چلا سخت سردی کے دن تھے۔ ہانپتا کانپتا دریا کی طرف جارہا تھا کہ راستہ میں ایک اور برہمن اسے مل گیا جو اُس کاواقف تھا اور جو دریا سے واپس آرہا تھا۔ وہ پوچھنے لگا بتائو غسل کیسے کیا آج تو سخت سردی ہے۔ وہ برہمن کہنے لگا میں تو دریا پرگیا مگر مجھے نہانے کی جرأت نہیں ہوئی۔ یہ پوچھنے لگا پھر کیا کیا؟ اس نے کہا میں نے ایک کنکر اُٹھا کر دریا میں پھینک دیا اور کہا ’’توراشنان سو مور اشنان‘‘۔ تیرا نہانا سو میرا نہانا ہوگیا اور یہ کہہ کر میں واپس آگیا۔ یہ کہنے لگا اچھا پھر ’’تور اشنان سو مور اشنان‘‘ چلو پھر تیر انہانا میرا نہانا ہوگیا اور وہیں سے اس کے ساتھ لوٹ آیا۔ تو اس وقت تک ہماری کوششیں اعمال کے میدان میں ایسی ہی ہیں کہ’’ تور اشنان سو موراشنان‘‘۔ ہم ابھی ان ذرائع کو اختیار کرنے کیلئے آمادہ ہی نہیں ہوئے جو ایسے زمانہ میں جو مذہب کے ساتھ حکومت نہ ہو اختیار کرنے ضروری ہوتے ہیں اور جن ذرائع کو اختیار کرکے ہم اپنے اعمال کو ایسا محفوظ کرسکتے ہیں کہ ہمارے دل کی لالچیں اور حِرصیں، ہمارے غصے اور ہماری نفرتیں، ہماری آنکھوں کی نظر جو کسی کو پسند کرتی ہے اور کسی کو ناپسند، ہمارے کانوں کی حِس جو کسی آواز کو اچھا سمجھتی ہے او رکسی کو بُرا، ہمارے رزق کی وسعت یا تنگی اور ہماری عزتوں کی زیادتی یا کمی ہمارے راستہ میں حائل نہیں ہوسکتی اور ہم تمام خطرات سے محفوظ رہ کر اسی طرح عملی اصلاح کرسکتے ہیں جس طرح عقائد کی اصلاح میں ہم نے کامیابی حاصل کی ہے مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ ہماری جماعت مختلف قِسم کی قربانیوں کیلئے تیار رہے۔ جب تک ہماری جماعت اپنے آپ کو اسی طرح محفوظ نہیں کرلیتی جس طرح نہر کے دو کنارے پانی کو لئے چلے جاتے ہیں اُس وقت تک اصلاح کی کامیابی نہیں ہوسکتی۔ وہ پانی جسے میدان میں بکھیر دیا جائے کبھی وہ کام نہیں دے سکتا جو نہر کا پانی کام دیتا ہے۔ بکھرا ہؤا پانی زمین میں بے فائدہ جذب ہوجاتا ہے مگر نہر کا پانی زمینوں کو سرسبزو شاداب کرتا ہے۔ بارشیں کس قدر پانی لاتی ہیں مگر کس طرح بکھر بکھر کر ان کابہت سا پانی ضائع ہوجاتا ہے کیونکہ انسان جس کے فائدہ کیلئے وہ پانی اتارا گیا تھا اسے محفوظ نہیں کرتا۔ اس کے مقابلہ میں نہروں میں پانی بارشوں کے پانی کے مقابلہ میں کس قدر کم ہوتا ہے مگر نہر کا پانی کس قدر زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے۔
پس جب تک حد بندی نہ ہو اور جب تک بعض پابندیاں عائد نہ کی جائیںاس وقت تک روحانی پانی بھی بکھرا رہتا ہے لیکن جب تک ایک حد بندی کے ماتحت اس سے کام لیا جاتا ہے تو وہ عظیم الشان تغیر پید اکردیتا ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جس پر ہماری جماعت کو خصوصیت سے غورکرنا چاہئے اورسوچنا چاہئے کہ ہماری جماعت کی اصلاح کے کیا ذرائع ہیں۔ پھر و ہ ذرائع جو ان کے ذہن میں آئیں یا وہ ذرائع جو میں آگے چل کر بیان کروں گا اُن کو اختیار کرنا چاہئے خواہ ان ذرائع کے اختیار کرنے میں انہیں کتنی بڑی قربانی کرنی پڑے۔
یورپ میں ایک مشہور لیکچر ار تھا اسے عادت تھی کہ جب وہ لیکچر دیتا کندھے اوپر نیچے کرتا رہتا۔ لوگ اسے کہتے کہ تمہارا لیکچر تو بڑا اچھا ہوتا ہے لیکن جب تم کندھے اوپر نیچے کرتے ہو تو لوگ تمہیں دیکھ دیکھ کر ہنسنے لگ جاتے ہیں۔ وہ ہردفعہ اقرار کرتا کہ آئندہ لیکچر میں یہ نقص نہیں ہوگا مگر جب پھر لیکچر دینے لگتا تو پھر اس کے کندھے ہلنے لگتے۔ آخر اُس نے سمجھا کہ یہ نقص اِس طرح دور نہیں ہوگا بلکہ سختی سے یہ نقص دور کرنا پڑے گا۔ چنانچہ اُس نے گھر میں مشق شروع کی وہ گھر پر لیکچر دیتا تو دو تلواریں عین اپنے کندھوں کے اوپر لٹکالیتا تا تقریر کے جوش میں جب اُس کے کندھے ہلیں تو تلواریں اُسے لگیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا جب وہ جوش سے کندھے ہلاتا تو تلوار غڑپ سے اُس کے کندھے میں گھس جاتی اور وہ رک جاتا۔ پھر تقریر کرتے ہوئے کندھے ہلتے تو پھر تلوار آلگتی نتیجہ یہ ہؤا کہ چند دن کے بعد ہی اس کی عادت جاتی رہی۔ اسی طرح ہمیںبھی ایسے طریق ایجاد کرنے پڑیں گے جن کے نتیجہ میں لوگ اس بات پر مجبور ہوجائیں کہ نیک اعمال اختیار کریں۔ جب تک اِس تعہد او راس ارادہ کے ساتھ ہم اصلاحی تدابیر اختیار نہیں کرتے چاہے ہزار سال گزرجائیں ہم اسی جگہ بیٹھے رہیں گے جس جگہ اب ہیں۔ ایک نقص کو دور کریں گے تو دوسرا نقص آجائے گا، دوسرے نقص کوہٹائیں گے تو تیسرا نقص آجائے گا، تیسرے نقص کو ہٹائیں گے تو چوتھا نقص آجائے گا۔
جیسے میںنے اپنا ایک رئویا بیان کیا تھا جس میں مَیں نے دیکھا کہ چاروںطرف آگ لگی ہوئی ہے اور وہ کسی طرح بجھنے میں نہیں آتی۔ اتنے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے اور مجھے گھبرایا ہؤا دیکھ کر فرمایا فلاں جگہ آگ کی جڑ ہے اُسے دبائو تو تمام آگیں خود بخود بجھ جائیں گی۔ اسی طرح جب تک ہم بدیوں کی جڑ نہیں پکڑیں گے اور جب تک ہم اس بات پر تیار نہیں ہوجائیں گے کہ خواہ ہمیں اپنی بیویوں، اپنے بیٹوں، اپنی مائوں ، اپنے باپوں، اپنے بھائیوں ، اپنی بہنوں، اپنے دوستوں ، اپنے عزیزوں اور اپنے رشتہ داروں سے الگ ہونا پڑے تو ہم الگ ہونے کیلئے تیار ہیں اُس وقت تک عملی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ عملی اصلاح کیلئے ہمیں وہی طریق اختیار کرنا پڑے گا جوہر نبی کے زمانہ میں اختیار کیا جاتا ہے کہ خاوند کو بیوی سے، بیوی کو خاوند سے، بچے کو ماں سے، ماں کو بچے سے، بھائی کو بہن سے او ربہن کوبھائی سے الگ ہونا پڑتا ہے۔ اِس قربانی کو اختیار کئے بغیر اب چارہ نہیں کیونکہ اس کے بغیر احمدیت ایک تمسخر رہ جاتی ہے لیکن جب ہم اس امتحان میں کامیاب ہوجائیں گے ، جب ہم خدا کیلئے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی جُدائی کو برداشت کرلیں گے تو جیسا کہ خداتعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ بچھڑے ہوئوں کو ملاتا ہے ہماری جماعت کے بچھڑے ہوئے عزیز بھی مل جائیں گے۔ اگر خداتعالیٰ کی رضا کیلئے کسی وقت خاوند کوبیوی چھوڑنی پڑے یابیوی کو خاوند چھوڑنا پڑے ، ماں باپ کو بچے چھوڑنے پڑیں اور بچوں کو ماں باپ سے الگ ہونا پڑے اسی طرح بھائی بھائی سے اور بہن بہن سے خدا کیلئے جُدا ہوجائے تو یقینا اس سے ہمیں نقصان نہیں ہوگا بلکہ جب اس ابتلا میں ہماری جماعت کامیاب ہوجائے گی تو پھر خدا مائوں، باپوں، بیویوں، بھائیوں، بہنوں، بھانجیوں، پھوپھیوں او رخالائوں کو اکٹھا کردے گا مگر وہ ایک دفعہ اس قربانی کو چاہتا ہے جو اعمال کی اصلاح کیلئے ضروری ہے۔ ہم میں سے کتنے ہی ہیں جنہوں نے عقائد کی اصلاح کیلئے اپنے والدین کو چھوڑا، کتنے ہی ہیں جنہو ںنے اپنی بیویوں کو چھوڑا، کتنے ہی ہیں جنہوں نے اپنے بھائیوں اوربہنوں کو چھوڑا اور انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی۔ اب اگر وہی قربانی ہماری جماعت عمل کی اصلاح کیلئے بھی کرے تو اس دوسری آزمائش کے بعد ہماری چار دیواری مکمل ہوجاتی ہے۔ اب تک صرف دو دیواریں عقائد والی ہیں دو دیواریں جو عمل والی ہیں وہ ابھی ہم نے نہیں بنائیں۔ اس وجہ سے چور آتا اور ہمارا مال اٹھا کر لے جاتا ہے لیکن جب ہم اس قربانی کے نتیجہ میں اپنی چار دیواری کو مکمل کرلیں گے تو پھر چور کے داخل ہونے کے تما راستے مسدود ہوجائیں گے۔
پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خود بھی اس سوال پر غور کریں اور جماعت کی عملی اصلاح کی تدبیریں سوچیں اور اگر ان کے ذہن میں کوئی تدبیر آئے تو وہ مجھے بتائیں۔ جیسا کہ بعض دوست مجھے خطوط کے ذریعہ اطلاع دے رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہر ایک شخص کو یہ ارادہ کرلینا چاہئے کہ اگر دوبارہ اسے اس آگ میں کودنا پڑا جس آگ میں اُسے احمدیت کو قبول کرتے وقت کودنا پڑا تھا تو وہ اس کیلئے خوشی سے تیار ہوگا۔ وہ اس بات کیلئے تیار ہوگا کہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ دے، وہ اس بات کیلئے تیار ہوگاکہ اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ دے، وہ اس بات کیلئے تیار ہوگا کہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو چھوڑ دے مگر وہ اس بات کیلئے تیار نہ ہوگاکہ خداتعالیٰ کے احکام کا وہ حصہ عمل میں نہ لائے جس کو عمل میں لانے کا خدا نے حکم دیا ہے۔
میں یقینا سمجھتا ہوں کہ ہمارے پاس اعمال کی اصلاح کا علاج موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا مامور یونہی تو نہیں بھیج دیا۔ کس طرح ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہو مگر وہ تدابیر نہ بتائی ہوں جن سے لوگوں کے اعمال کی اصلاح ہو سکے۔ اُس نے تدابیر بتائی ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت اس بات کا پختہ عہد کرے کہ وہ ان تدابیر کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہر قِسم کی قربانی کرنے کیلئے تیار رہے گی۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی جگہ عہد کریں کہ ہم ان تجاویز پر عمل کرنے کیلئے تیار ہیں چاہے دوبارہ ان کے خاندانوں کو اُلٹ پلٹ کردیا جائے، چاہے دوبارہ انہیں وہی قربانیاں کرنی پڑیں جو انہوں نے شروع میں احمدیت کو قبو ل کرتے وقت کیں پھر آپ لوگ دیکھیں گے کہ کس طرح وہی عقدئہ لاینحل جسے بیس سال سے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر وہ ابھی تک حل نہیں ہؤا چند مہینوںمیں حل ہوجاتا ہے یا کم سے کم اس کی بنیاد پڑ جاتی ہے ۔ مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے عقائد کی اصلاح کی نسبت عمل کی اصلاح کیلئے زیادہ جدو جہد کی ضرورت ہوتی اور لمبی قربانیوں کی حاجت ہوتی ہے کیونکہ گو اس کے بعض حصے صرف ارادہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں مگر بعض حصے ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں لالچ، غصہ، محبت، نفرت یا عادت کا دخل ہوتاہے اور اس وجہ سے ان کی آہستہ آہستہ اصلاح ہوتی ہے۔
پس ایک طرف تو میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اصلاحِ اعمال کے ذرائع پر غور کرے اور جو مفید تجاویز میں ممدومعاون بنیں گے وہ اپنے دلوں میں یہ نیت کرلیں کہ اگر انہیں ان ذرائع کے اختیار کرنے کے نتیجہ میں اپنے بیوی بچوں، بھائیوں اور بہنوں اور دوسرے عزیز و اقارب کوچھوڑنا پڑے تو وہ اس قربانی کیلئے ہر وقت تیار رہیں گے۔ اوّل تو ایمانداروں سے یہ امید ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ یہ دھمکی سننے کیلئے تیار ہوں۔ ہمیں تو امید رکھنی چاہئے کہ وہ اصلاحِ اعمال کے ذرائع سنتے ہی فوراً ان پر عمل کرنا شروع کردیں گے لیکن جو اس کیلئے تیار نہ ہوں جماعت کے دوستوں کافرض ہے کہ وہ صاف طور پر ان سے کہہ دیں کہ آج کے بعد ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں۔ مت سمجھو کہ اس قِسم کی ہنگامہ خیزی کوئی بُرا نتیجہ پیدا کرے گی۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر کوئی قربانی بُرے نتائج پیدا نہیں کرسکتی۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے میرے شیطان کو بھی مسلمان بنادیا ہے ؎ ۳ یعنی میرا شیطان بھی مجھے جو تحریک کرتا ہے وہ اچھی ہوتی ہے۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ کا جو سچا اور کامل متبع ہو اُس پر جو مشکلات آتی ہیں وہ اُس کی تباہی کا موجب نہیں ہوتیں۔ پس ہر قربانی جو اسلام کی ترقی کیلئے خداتعالیٰ نے مقرر کی ہیں وہ نیک نتائج ہی پید اکرتی ہے۔ اسے بُرے نتائج کا حامل کوئی نہیں بناسکتا۔
(الفضل ۱۸؍ جون ۱۹۳۶ئ)
؎۱ فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ (النسائ: ۴)
؎۲ التحریم: ۷
؎۳ مسلم کتاب صفات المنافقین باب تحریش الشیطان
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۲۲
جو میری سُنے گا وہ جیتے گا اور
جو میری نہیں سُنے گا وہ ہارے گا
(فرمودہ ۱۹؍جون ۱۹۳۶ئ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں نے گزشتہ کئی جمعوں سے ایک خاص مضمون کے متعلق خطبات شروع کررکھے تھے لیکن انسان کچھ ارادہ کرتا ہے اور خداتعالیٰ کچھ ظاہر فرماتا ہے۔ میں آج مجبور ہوگیا ہوں کہ اُس سلسلہ کو فی ال￿حال ملتوی کرکے ایک اور مضمون کے متعلق بعض باتیں کہوں۔
میرے قادیان سے جانے سے پہلے شاید ایک دن پہلے یا اُسی دن صبح کو دو موتیں بچوں کی یہاں ہوگئی تھیں اور اُن کے دفن کرنے کے سلسلہ میں بعض احرار کی طرف سے روکیں ڈالنے کی مجھے رپورٹ ملی تھی مگر بغیر اس کے کہ اُس کے متعلق کوئی ایسا جھگڑا پیداہوتا جو افسوسناک ہوتا وہ معاملہ ختم ہوگیا تھا۔ میں وہاں پہنچا تو دوسرے یا تیسرے دن مجھے ایک تار ملا کہ پھر ایک میّت کے دفن کرنے کے موقع پر شورش ہوئی ہے اور اس پہلے تار کے پہنچنے کے دوسرے دن پھر مجھے تار ملا کہ ایک اوربچہ فوت ہوگیا ہے اور اُس کے دفن کرنے پر معمولی شورش پر بغیر کسی واردات کے معاملہ ختم ہوگیا ہے۔ غالباً اس وجہ سے کہ میرا قیام کوئی یقینی قیام نہ تھا کوئی تحریری رپورٹ امور عامہ کی طرف سے ان واقعات کے متعلق مجھ کو نہیں ملی۔ سوائے دو غیر دفتری خطوط کے جن میں معاملہ وضاحت سے بیان نہ تھا۔ یہاں پہنچ کر مجھے معلوم ہؤا کہ کسی قدر صورت فساد کی بھی پیدا ہوگئی تھی اور یہ کہ ایک شخص نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کو بعض احمدیوں نے مارا ہے۔ چونکہ یہ معاملہ زیر تفتیش ہے اور عدالت میں چلا گیا ہے یا جانے والا ہے میں اس کے متعلق کچھ زیادہ نہیں کہنا چاہتا لیکن اصولی طور پر جماعت کونصیحت کرنا میرا فرض ہے اور مجھے حق ہے کہ میں اسے سمجھائوں۔
ہم لوگ مسلمان ہیں اور پانچ وقت اپنی نمازوں میں یہ دعا کرتے ہیں کہ اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ؎۱ اے اللہ! تُو ہمیں سیدھا راستہ دکھا اُن لوگوں کا راستہ جن پر تُونے انعام کیا۔ جب ہم اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ خدایا! ہمیں سیدھا راستہ دکھا تو کیا ہمارا فرض نہیں ہوتا کہ اس سیدھے راستہ کو دکھانے کیلئے اس کی طرف سے جو آواز آئے اُس پرہم کان بھی دھریں۔ مجھے بعض مؤذّنوں سے شکایت ہوتی ہے کہ جب نماز کا وقت آتا ہے اور وہ مجھے اطلاع دینے آتے ہیں تو زور زور سے کہنا شرع کردیتے ہیں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ نماز کا وقت ہوگیا، جی نما زکا وقت ہوگیا ، جی نماز کا وقت ہوگیا ، ایک بج گیا، اب ڈیڑھ بج گیا،میں اطلاع دینے آیا ہوں او ران کلمات کا وہ اِس قدر تکرار کرتے اور ان پراتنا زور دیتے ہیں کہ میری بات سنتے ہی نہیں آخر وہ چُپ کریں تو میری آواز سنیں۔ جب وہ چُپ ہی نہیں کرتے تو میری آواز کس طرح سن سکتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بسااوقات میں اپنی جگہ پر بیٹھا ہؤا آواز دیتا ہوں او روہ نہیں سنتے، پھر میں اُٹھ کرجواب دیتاہوں تو پھر بھی نہیں سنتے، پھر قریب کے کمرہ میںآکرجواب دیتا ہوں تو بھی نہیںسنتے، پھر برآمدہ میں آکرجواب دیتا ہوں پھربھی میری آواز نہیں سنتے اور مسجدمیں آکر کہہ دیتے ہیں میں اطلاع دینے گیا تھا مگر کوئی جواب نہیں ملاجس سے معلوم ہوتاہے کہ انہیں پتہ نہیں لگا۔ یہ حالت اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ وہ خود شور مچارہے ہوتے ہیں اور میری آواز سننے کی کوشش نہیں کرتے۔ میں ہمیشہ انہیں نصیحت کیا کرتا ہوں کہ جب وہ مجھے آواز دیں توپھر میرے جواب کو بھی متوجہ ہوکر سنا کریں۔ اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہم پانچ وقت خداتعالیٰ کے دروازہ پر دستک دیں اور کہیں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ خدایا! ہمیں سیدھا راستہ دکھا، خدایا! ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اور خداتعالیٰ بتارہا ہو کہ فلاں سیدھا راستہ ہے اُس پرچل کرمیرے پاس آجائو مگر ہم اس کی آواز کو سنتے ہی نہیں اور پھر چُپ کرکے بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کو ہم نے پکارا اور کہا کہ وہ ہمیں سیدھا راستہ دکھائے مگر اس نے ہمیں سیدھا راستہ نہیں دکھایا حالانکہ وہ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھارہا تھا مگر ہم نے اس کی آواز کو سننے کا موقع ہی پیدا نہیں کیا۔ پس میں دیکھتا ہوں کہ اکثر لوگوں کاطریق عمل ہمیشہ ان مؤذنوں کاسا ہوتا ہے جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے۔
میںنے متواتر بتایا ہے کہ ہر چیز اپنے ماحول کے ساتھ ہی ترقی کرسکتی ہے بغیر اس کے نہیں۔ تم اچھے سے اچھاگیہوں کا بیج اگر جیٹھ یاہاڑ میں بودو تو اس سے کھیتی پید انہیں ہوگی، تم عمدہ سے عمدہ کپاس کا بیج اگر اگست اورستمبر میں بودو تو اس بیج سے کپاس کی فصل نہیں ہوگی، یا بہتر سے بہتر گنّا اگر تم اپریل یا مئی میں بودو تو اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا کیونکہ ہرچیز کیلئے خداتعالیٰ نے کچھ قانون مقرر فرمائے ہیں اور ان کے ماتحت ہی نتیجہ نکلا کرتا ہے۔ میں نے ہمیشہ بتایا ہے اور اب دو سال سے تو متواتر بتاتا چلا آرہا ہوں کہ خلافت کی غرض و غایت کچھ نہ کچھ ضرور ہونی چاہئے اور جب کوئی شخص خلیفہ کی بیعت کرتاہے تو اس کی بیعت کے بھی کوئی معنے ہونے چاہئیں۔ اگر تم بیعت کے بعد اورمیرے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے کے بعد میری سنتے ہی نہیں اور اپنی ہی کہے چلے جاتے ہو تو ایسی بیعت کافائدہ ہی کیا؟ اس صورت میں تو ایسی بیعت کو تہہ کرکے الگ پھینک دینا زیادہ فائدہ مند ہے بہ نسبت اس کے کہ انسان دنیامیں بھی ذلیل ہو او رخداتعالیٰ کی نظر میں بھی *** بنے۔
میںنے متواتر آپ لوگوں کو بتایا ہے کہ ہر کام جو آپ لوگ کریں عقل کے ماتحت کریں اور ان ہدایات کے ماتحت کریں جو میں آپ لوگوں دیتا آرہا ہوں۔آپ لوگ اس بات کو سمجھیں یا نہ سمجھیں، اسی طرح دنیااس بات کو سمجھے یانہ سمجھے مگر امرِ واقعہ یہ ہے کہ اِس وقت اسلا م کی ترقی خداتعالیٰ نے میرے ساتھ وابستہ کردی ہے جیسا کہ ہمیشہ وہ اپنے دین کی ترقی خلفاء کے ساتھ وابستہ کیا کرتا ہے۔ پس جومیری سُنے گا وہ جیتے گا اور جو میری نہیں سُنے گا وہ ہارے گا، جومیرے پیچھے چلے گا خداتعالیٰ کی رحمت کے دروازے اس پر کھولے جائیں گے اور جو میرے راستہ سے الگ ہوجائے گا خداتعالیٰ کی رحمت کے دروازے اس پربند کردیئے جائیں گے۔ ایسا انسان جس کی آنکھوںکے سامنے نمونہ نہ ہو وہ معذور ہوتا ہے مگر جس شخص کے سامنے نمونہ ہو اُس کا باوجود نمونہ سامنے ہونے کے صداقت پر مضبوطی سے قائم نہ رہنا بہت بڑا جُرم ہوتا ہے۔
خداتعالیٰ نے خلافت کی باگ میرے ہاتھ میں اِس وقت دی جب ہمارے خزانے میں صرف چند آنے کے پیسے تھے غالباً اٹھارہ آنے تھے جو اُس وقت خزانہ میںموجود تھے۔ پھر پندرہ بیس ہزار روپیہ قرض تھا اور جماعت کا اٹھانوے فیصدی حصہ دشمنوں کے ساتھ ملا ہؤا تھا تب اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اور میرے ہاتھوں سے تمام جماعت کو اکٹھا کیا ، اس کی مالی پریشانیوں کودور کیا اور جماعت آگے سے بھی زیادہ مضبوطی کے ساتھ چلنے لگی۔ پھر مسائل کی بحث شروع ہوئی اگر اہلِ پیغام اِس جنگ میں جیتتے تو کیا نتیجہ نکلتا۔ احمدیت بالکل مٹ جاتی اور روحانی دنیا پر ایک موت آجاتی مگر کیا ا س جنگ کے ہرحصہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے فتح نہیں دی؟ کیا لَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ ؎۲ کا نظارہ اس نے نہیں دکھایا؟ پھر تبلیغِ دین اور اشاعتِ احمدیت کی جنگ میں اس نے میری پالیسی کوکامیاب نہیں کیا؟ سلسلہ کے نظام کے بارہ میں میری سکیم کو غیرمعمولی برکت نہیں بخشی؟ حتّٰی کہ دشمن بھی اس پر رشک کرتے ہیں اور اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پھرنیم سیاسی امور میں ہماری شرکت کے سوال کو لوکیا اس میدان میں اس نے میری باتوں کو درست ثابت نہیں کیا؟ جب جنگِ عظیم کے بعد ادھر خلافت کی شورش پید اہوئی ادھر کانگرس کی شورش نے ملک میں ایک آگ لگادی تو یہ ایک بہت بڑا ابتلاء تھا اور ہندوستان کے عقلمند سے عقلمند انسان بھی اس شورش میں بہہ گئے تھے اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے جو راستہ مجھے بتایا وہی ٹھیک اوردرست نکلا اور آخر لوگ پچھتاکراسی جگہ پر واپس آگئے جس جگہ میں لانا چاہتا تھا۔ پھر ملکانوں میں تبلیغ کا زمانہ آیا خلافت کے فساد کے بعد نئے رنگ میں خلافت کے مٹنے کا جوش پیدا ہؤا ، عرب میں اختلافات کاسلسلہ شروع ہؤا ، ان میں سے ہرمعاملہ میں خداتعالیٰ نے میری رائے کو صحیح ثابت کیا اور دوسروں کی رائے غلط ثابت ہوئی۔ ایک وہ وقت تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانہ میں پیغامیوں کے اس کہنے پرکہ ایک بچہ کے ذریعہ جماعت کو تباہ کیا جارہا ہے، مسجد میں بیٹھے ہوئے احمدی گریہ وبُکا کررہے تھے اور رورہے تھے کہ واقعہ میں جماعت کو ایک بچہ کے ذریعہ تباہ کیا جارہا ہے مگر آج وہی بچہ ہے جس کے سامنے وہی لوگ اس کی بیعت میں داخل ہوکر بیٹھے ہوئے ہیں کیا یہ سب کچھ نشان اورمعجزہ نہیں؟
پس اگر خلافت کے کوئی معنے ہیں تو آپ لوگوں کو وہی طریق اختیار کرنا چاہئے جو میں بتاتا ہوں ورنہ بیعت چھوڑ دینابیعت میں رہ کر اطاعت نہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ وہ طریق جو میں نے متواتر بتایا ہے یہ ہے کہ ہمارے سامنے نہایت ہی اہم معاملات ہیں۔ آج تک ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت پر ایک عدالت نے جو حملہ کیا تھا وہ بغیربدلہ لئے قائم ہے۔ میں ہر اُس حمدی سے جوسمجھتا ہے کہ وہ غیرت مند ہے کہتا ہوں اگر اس کی غیرت کسی اورجگہ ظاہر ہوتی ہے تو وہ سخت بے غیرت ہے۔ اگر وہ واقعہ میں غیرت مند ہے تو کیوں اس کی غیرت اس جگہ ظاہر نہیں ہوتی جہاںحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت پر حملہ کیا جاتا ہے۔ ابھی تک نہ اس فیصلہ کی تردید ہندوستان میں پھیلائی گئی ہے نہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ہی کثرت سے لوگوں میں پھیلایا گیا ہے اور نہ اس کے ازالہ کیلئے گورنمنٹ کو مجبور کیا گیا ہے۔ آجکل تو میں نے طریق ہی یہ اختیار کیا ہؤا ہے کہ جب کوئی احمدی مجھے اس قسم کا خط لکھتا ہے کہ فلاں احمدی نے میرے ساتھ یہ معاملہ کیا تھا جس پرمجھے بڑاجوش آیا مگر میںنے پہلے آپ کو خبر دینا مناسب سمجھا۔ تو میں اُسے لکھا کرتا ہوں میں یہ ماننے کیلئے ہرگز تیار نہیں کہ تم باغیرت ہو۔ تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت کی حفاظت کیلئے غیرت نہیں دکھائی تو میںیہ کس طرح مان سکتا ہوں کہ تم میں اِس وقت غیرت پیدا ہوسکتی ہے جب تمہاری ذات پرکوئی حملہ کرے۔ پس جب تک ہم اس فیصلہ کا ازالہ نہ کرائیں، جب تک ہم گورنمنٹ کومجبور نہ کریں کہ وہ انہی ہاتھوں سے جن ہاتھوں سے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہتک کی ہے اس ہتک کا ازالہ کرے اور اپنی غلطی کا اقرار کرے اُس وقت تک کسی احمدی کا اور معاملات میں اپنے آپ کوباغیرت کہنابالکل جھوٹ ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام آئینی طریق اختیار کرکے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عزت کوقائم کریں پھر اپنی عزتوں کے قیام کا سوال بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ میںنے متواتر بتایا ہے کہ آئینی جدوجہد کے ذریعہ کام کیاجاسکتا ہے بشرطیکہ عقل سے کام لیا جائے اوربشرطیکہ انسان اپنے نفس پر قابو رکھنے کی قابلیت رکھتاہو۔ میری یہ ہدایت جماعت والوں کو ہمیشہ سے معلوم ہے کہ ایسے مواقع جن میں فساد کا خطرہ ہو اُن میں کبھی لاٹھیاںوغیر لے کر نہیں جانا چاہئے۔ احرار کے جلسہ کے موقع پر بھی اوربعد کے دوسرے مواقع پر بھی میںنے متواتر نصیحت کی ہے کہ ایسے موقع پر میرا وہ حکم کہ ہر احمدی کو ہر وقت اپنے پاس لاٹھی رکھنی چاہئے منسوخ سمجھناچاہئے اور اپنی براء ت ثابت کرنے کیلئے ایسی حالت رکھنی چاہئے کہ دشمن اگر مارتا ہے تو بیشک مارے مگر تم پر الزام نہ آئے۔میں نے متواتر سمجھایا ہے کہ یہ سوال نہیں کہ تم حق پر ہو اور تم جُرم سے بری ہو بلکہ سوال یہ ہے کہ تمہاری براء ت اَظْہَرُ مِنَ الشَّمْسِ ہونی چاہئے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اِتَّقُوْامَوَاقِعَ الفِتَنِ ؎۳ ۔ تم سے میں یہی نہیں کہتا کہ تم فتنہ میں مت پڑو بلکہ میں تمہیں یہ بھی کہتا ہوں کہ تم فتنوں کی جگہوں میں بھی مت جائو۔ فتنوں کی جگہوں میں نہ جانے کا مطلب یہی ہے کہ دوسرے کو تم پر الزام لگانے کاکوئی موقع میسرنہیں آنا چاہئے۔ تمہارے لئے اپنی بہادری جتانے کے بہت سے موقعے ہیں بلکہ بیسیوں مواقع ہیں جن میں تم اپنی بہادری جتاسکتے ہو۔ جب دنیا میں خداتعالیٰ کی عزت قائم کرنے کا سوال ہو یا اُس کے رسول کی عزت قائم کرنے کا سوال ہو تو اصل موقع بہادری دکھانے کاوہ ہوتا ہے۔
رسول کریم ﷺ احد کی جنگ میں جب زخمی ہوئے تو کفّار میں یہ خبرمشہور ہوگئی کہ رسول کریم ﷺ نَعُوْذُ بِاللّٰہِمارے گئے ہیں اس سے قدرتی طور پر ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ان کا لشکر ایک جگہ اکٹھا ہوکر اس بات پر فخر کررہا تھا کہ ہم نے محمد (ﷺ) کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِماردیا ہے اس موقع پر ابوسفیان نے کفار کے لشکر کی طرف سے آواز دی او رکہا۔ کہاں ہے محمد(ﷺ)؟ رسول کریم ﷺ اُس وقت تک ہوش میں آچکے تھے آپ نے جب سنا کہ ابوسفیان کہہ رہا ہے کہ کہاں ہے محمد(ﷺ) او رصحابہؓ نے اس کاجواب دینا چاہا تو رسول کریم ﷺ نے انہیں منع فرمادیا اور کہا مت جواب دو خاموش رہو۔ صحابہؓ کی طرف سے جواب نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے سمجھا کہ شاید یہ بات درست ہے کہ محمد (ﷺ) نَعُوْذُ بِاللّٰہِمارے گئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے خوشی سے نعرہ بلند کیا اور کہا ہم نے محمد (ﷺ) کو ماردیا۔ اس کے بعدانہیں قدرتی طور پر خیال پیدا ہؤا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد اگر کوئی شخص مسلمانوں کوسنبھال سکتا ہے تو وہ ابوبکرؓ ہے اس پر ابوسفیان نے آواز دی کہاں ہے ابوبکرؓ؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جواب دینے لگے تو رسول کریم ﷺنے منع فرمادیا اورکہا مت جواب دو۔ اس پر پھر کفار نے خوشی سے ایک نعرہ مارا اور کہا کہ ہم نے ابوبکرؓ کو بھی مار دیا۔ پھر ابوسفیان نے پوچھا کہاں ہے عمرؓ؟ حضرت عمرؓ نہایت تیز مزاج تھے وہ یہ کہنے کو ہی تھے کہ عمرؓ تمہارا سر توڑنے کیلئے موجودہے کہ رسول کریم ﷺ نے انہیں منع کردیا اور فرمایا خاموش رہو کیونکہ اُس وقت اسلامی لشکر تتّر بتّرہوچکا ہے اور صحابہ سخت زخمی تھے اور رسول کریم ﷺ یہ مناسب نہیں سمجھتے تھے کہ ایسی حالت میں دشمن کوچھیڑا جائے اسی لئے آپ صحابہؓ کو جواب دینے سے منع فرماتے رہے کہ دشمن کوانگیخت کرنے کا کیا فائدہ؟ جب انہوں نے سمجھ لیا کہ رسول کریم ﷺبھی مارے گئے ہیں اورحضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عَنْہُمَا بھی مارے گئے ہیں تو ابوسفیان زور سے چِلاّیا اور اُس نے بلند آوازسے نعرہ مار کر کہا اُعْلُ ھُبُلْ اُعْلُ ھُبُلْ۔ ھبل مشرکین مکّہ کا بہت بڑا دیوتا سمجھا جاتا تھا، اُس کا نام لے کر ابوسفیان نے پکارا اُس کی شان بلند ہو کیونکہ ھبل آخر توحید پرستوں کے مقابلہ میں جیت گیا، یہ لوگ مارے گئے اور ھبل کو فتح ہوئی۔ جب ابوسفیان نے یہ نعرہ لگایا تب وہی محمد ﷺجوتینوں موقعوں پر صحابہؓ کو خاموش کرتے چلے آئے تھے اور صحابہؓ بھی اس لئے خاموش تھے کہ رسول کریم ﷺ جواب دیناپسندنہیں فرماتے تھے جب ابوسفیان نے کہا اُعْلُ ھُبُلْ اُعْلُ ھُبُلْتو آپ کی ساری احتیاط اور سارا حزم جاتا رہا اور آپ نے صحابہؓ سے فرمایا کیوں جواب نہیں دیتے؟ انہوںنے کہا کہ یَارَسُوْلُ اللّٰہِ ! ہم تو اس لئے خاموش ہیں کہ آپ نے ہمیں جواب دینے سے منع فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا نہیںاب جواب دو۔ انہوںنے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!کیا جواب دیں ۔ آپ نے فرمایا کہو اَللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ۔اَللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ ؎۴ تمہارا ھبل جھوٹا ہے اللہ ہی ہے جو عزت اور جلال والا ہے۔ تو محمد ﷺکے طریقِ عمل نے ہم کوبتادیا کہ ہماری غیرتیں کیا اور ہمارے جوش کیا اورہماری ہمتیں کیا سب خدا اور اس کے رسول کیلئے ہونی چاہئیں۔
پس ہزاروں قربانیوں کے موقعے تمہارے لئے موجود ہیں۔ سات ہزا رکی قادیان کی احمدی آبادی ہے اس میں سے کم سے کم ڈیڑھ ہزار مرد ہوں گے۔ میںنے تبلیغِ عام کااعلان کیا ہؤا ہے مگر ان میںسے کتنے ہیں جوسال میں سے ایک مہینہ قربان کرکے خداتعالیٰ اور اس کے رسول کا نام دنیا میں پہنچانے کیلئے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ اگر ہم واقعہ میں غیرت مند ہیں تو کیوں ہماری غیرتیں خداتعالیٰ کے نام کیلئے جوش میں نہیں آتیں۔ آخرخدا کے سپاہی اور گائوں کے گنوار لٹھ بازمیں کوئی فرق بھی تو ہونا چاہئے۔ وہ فرق یہی ہے کہ گنوار لٹھ باز کی غیر ت اس وقت بھڑکتی ہے جب اس کے گھر پر کوئی شخص حملہ آور ہو لیکن خداتعالیٰ کے سپاہی کی غیرت اُس وقت بھڑکتی ہے جب خداتعالیٰ کے گھر پر کوئی شخص حملہ آور ہو۔ محمد ﷺ کے گھر پر حملہ کیا گیا آپ نے اپنا گھر چھوڑ دیا، محمد ﷺ کے وطن پرحملہ کیا گیا آپ نے اپناوطن چھوڑ دیا لیکن جب خداتعالیٰ کی ذات پر حملہ ہؤا تو اس وقت محمد ﷺ خاموش نہ رہے بلکہ آپ نے کفار کوجواب دیا۔ محمد ﷺ کی جائدادیں اور آپ کے اموال اور آپ کے املاک اور آ پ کی زمینیں چھین چھین کر دشمنوں نے جو حالت کردی تھی وہ اس سے ظاہر ہے کہ جب آپ حج کیلئے فتح مکہ کے بعد مکہ تشریف لائے تو کسی نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! آپ کہاں ٹھہریں گے؟ کیاہی وہ دردناک جواب ہے جو رسول کریم ﷺ نے دیا۔ آپ نے فرمایا ہمارے لئے تو عقیل نے کوئی گھر چھوڑا ہی نہیں ہم کہاں ٹھہریں گے۔ وہ شخص جس کے باپ دادے مکّہ پرحکومت کرتے چلے آئے تھے سات سال کے بعد مکّہ میں ایک اجنبی کی حیثیت میں آتا ہے اور جب اُس سے ایک شخص پوچھتا ہے کہ آپ کہاں ٹھہریں گے؟ تو وہ مسیح علیہ السلام کی طرح کہتا ہے ’’درندوں کیلئے ماندیںہیں اور چڑیوں کیلئے گھونسلے مگر ابن آدم کیلئے سرچھپانے کی بھی جگہ نہیں‘‘ ۔۵؎ ہمارے لئے تو کوئی گھر ہی باقی نہیںرہا ہم کہاں ٹھہریں گے۔ مگر خداتعالیٰ کیلئے انہی محمد ﷺ کی غیرت دیکھو کہ حنین کے موقع پر صحابہؓ ایک وجہ سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں ، اسلامی لشکر کفار کی شمولیت کی وجہ سے تتر بتر ہوجاتا ہے صرف بارہ آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد رہ جاتے ہیں اور چار ہزار کالشکر دونوںطرف سے تیروں کی بارش برسا رہا ہے ایسی حالت میں گھبرا کر صحابہؓ عرض کرتے ہیں کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! یہ کھڑے رہنے کا موقع نہیں میدانِ جنگ سے پیچھے ہٹئے اور ایک تو وفورِ محبت کی وجہ سے آپ کے گھوڑے کا باگ پکڑ لیتا اور اسے آگے بڑھنے سے روک دیتا ہے مگر رسول کریم ﷺاُس کو ہٹادیتے ہیں اور فرماتے ہیں چھوڑ دو میرے گھوڑے کی باگ۔ او راپنی سواری کو ایڑ لگا کر دشمن کی طرف بڑھتے ہیں اور لشکرِ کفار میں نڈر ہوکر گھس جاتے اور فرماتے ہیں
اَنَا النَّبِیُّ لاَ کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ؎۶
یعنی کیا اِس وقت صحابہ کی ایک غلطی کی وجہ سے تم یہ سمجھتے ہو کہ میں جھوٹاہوں؟ ہرگز نہیں میں خدا کا سچا نبی ہوں اور دیکھو! میںاکیلا اِس وقت تمہاری طرف بڑھ رہا ہوں لیکن اس طرح میرا دشمنوں کی طرف بڑھتے چلے جانا لوگوں کوحیرت میں ڈال دے گا اور وہ کہیں گے شاید یہ خداہے مگر سنو یہ درست نہیں میں خدانہیں بلکہ عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ تو غیرت دکھانے کے بھی موقعے ہوتے ہیں اور جانیں دینے کیلئے بھی موقعے ہوتے ہیں مگر بہرحال کام ایسے طریق پرہونا چاہئے کہ اس کے نتیجہ میں خد ا اور اس کے رسول کی عزت بڑھے۔ میرا اس سے ہرگز یہ منشاء نہیں کہ آپ لوگ اپنے اس حق کو جو قانونی اور شرعی او راخلاقی طور پر آپ کاحق ہے چھوڑ دیں۔
یہی قبرستان جس پر جھگڑا ہؤا ہے اور جس کے اندر واقع ہونے والے گزشتہ حادثہ کے بارہ میں مَیں اس وقت نصیحت کر رہا ہوں میں مانتاہوں کہ وہ ہمارا ہے اور میں یہ نہیں کہتا کہ اس میں اپناحق چھوڑ دو ہم اس میں دوسروںکے ساتھ مل کر حصہ دار ہیں ان کا بھی حق ہے کہ وہ اس میں اپنے مُردے دفن کریں اور ہمارا بھی حق ہے اور میں اس حق کو لینے سے ہرگز منع نہیں کرتا بلکہ میں کہتا ہوں کہ دنیا کی کوئی حکومت ہمیں اس قبرستان میں اپنے مُردے دفن کرنے سے روک نہیں سکتی جوہمارے باپ دادوں نے ہبہ کیا، جس میں ہمارے باپ دادوں کی قبریں موجود ہیں اور جس میں ہمارے بھائی بہنوں کی قبریںموجود ہیں۔ اگر ایسے افسروں کے ہاتھ جو اِس میں مزاحم ہورہے ہیں بالا گورنمنٹ نہیں پکڑے گی تو ہمار اخدا ان کے ہاتھ پکڑے گا مگر وہ قبرستان ہمارے ہاتھ سے نہیں جاسکتا۔ پس مجھے حق کے لینے پراعتراض نہیں میں نے قطعی طور پر لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ میری رائے میں ہمیں اپنے اس حق کو ضرور قائم رکھناچاہئے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس حق کو چھوڑ دیں لیکن سوال اُس طریق کا ہے کہ جسے ہم اپنا حق قائم کرنے کیلئے اختیار کریں اور اُس سلوک کا ہے جو ہم اپنے مخالفوں سے کریں اور اس کے بارہ میں مَیں یہ صاف کہہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ وہی ہونا چاہئے جو میں تجویز کروں۔
پھر دوسرے لوگوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ فساد کیوں کررہے ہیں؟ کیا انہیں یاد نہیں کہ میری ہی خلافت کے ایام میں ہندوئوں کی مڑہیوں کے بارہ میں ایک جھگڑا پیدا ہؤا وہ لوگ میرے پاس آئے اور میں نے انہیں مڑہیوں کیلئے زمین دے دی۔ چنانچہ وہ زمین ہندوئوں کے پاس ہے اور سرکاری کاغذات میں سے اسے دیکھا جاسکتاہے۔ قادیان کے غیراحمدی شاید ڈرتے ہیں کہ اگر قبرستان ختم ہوگیا تو وہ آئندہ اپنے مُردے کہاں دفن کرسکیں گے مگر وہ خدا کے متعلق اتنا بخل اپنے دلوں میں کیوں رکھتے ہیں ؟ کیا اگر یہ قبرستان ختم ہوجائے گا تو خدا اور زمین ان کیلئے مہیا نہیں کرسکتا؟ پھر چاہے قادیان کے سب غیراحمدی احراری ہوں یا غیر احراری انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ مؤمن کبھی کسی کے مُردے کو سڑنے نہیں دیتا اگر ان کے مُردوں کیلئے کوئی جگہ باقی نہ رہی اور ہمارے خاندان نے ان کے مُردوں کو دفن کرنے کا انتظام نہ کیا تو پھر بے شک وہ اعترا ض کرسکتے ہیں لیکن جب ہم نے ہندوئوں کو اس مخالفت کے زمانہ میں ان کی مڑہیوں کیلئے جگہ دی ہے تو کیا ہم مسلمانوں کو قبروں کیلئے زمین نہ دیں گے۔ پس باوجود تمام مخالفتوںکے اگر آج احرار کیلئے جگہ ختم ہوجائے تو کم سے کم مَیں اپنی زندگی تک کہہ سکتا ہوںکہ ان کو قبرستان کیلئے کوئی زمین خریدنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ان کے بھائیوں اور ہم مذہبوں سے پہلے ان کی تکلیف میں مَیں ان کی امداد کرنے کیلئے تیار ہوں گا مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ حق جوخداتعالیٰ نے ہمارا قائم کیا ہے ہم اسے چھوڑ دیں۔ وہاں میری ایک بہن مدفون ہے، میرے ہوش کے زمانہ میں فوت ہوئی، اسے ہاتھوں پراُٹھا کر کچھ دور لے گئے، پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہاتھوں پراٹھا کر لے گئے۔ میری خلافت کے ایام میں وہاںہماری ایک بھانجی بھی دفن ہوئی تھی، ہمارے بہت سے لوگ وہاں دفن ہوتے چلے آئے ہیں ابھی دو تین مہینے کی بات ہے چوہدری عبدالرحمن صاحب سربراہ نمبردار کی بیوی فوت ہوئیں وہ وہیں دفن کی گئیں،محلہ دارالرحمت کے کئی مُردے پچھلے ایام سے وہاں دفن ہوتے چلے آئے ہیں کیونکہ سب سے قریب انہیں وہی جگہ پڑتی ہے۔ پس کوئی حکومت ہم کو اس حق سے باز نہیں رکھ سکتی۔ لیکن اگر حکومت ظالمانہ طور پر ہمیں اس حق سے باز رکھے گی تو پھر ہمارا اصل وہی ہوگاجس کا ہم نے کئی بار اظہار کیا ہے کہ گورنمنٹ کا قانون نہیں توڑنا مگر گورنمنٹ سے میری مراد وہ بارہ بارہ روپیہ کے کانسٹیبل نہیں جو خواہ مخواہ اپنے اوپر گورنمنٹ کاچوغہ پہن کر آجاتے ہیں بلکہ گورنمنٹ سے مراد گورنمنٹ ہے۔ مثلاً حکومتِ پنجاب ہے حکومتِ پنجاب کا نمائندہ ڈپٹی کمشنر اگر تحریری طور پر حکم دے دے کہ میں جماعت احمدیہ کو اِس بات سے روکتا ہوں کہ وہ اس قبرستان میں اپنے مُردے دفن کرے تو پھر ہم عدالتوں کے ذریعہ اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور اگر عدالتوں کے ذریعہ بھی ہمیں اپنا حق نہیں ملے گا تو ہم دعائوں کے ذریعہ اپنے خدا سے اس حق کو حاصل کریں گے مگر بہرحال ہم قانون شِکنی کسی صورت میں نہیں کریں گے۔
اس شورش کی وجہ بھی معلوم ہے اور میں ان احمدیوں کو بھی جانتا ہوں جو اس کے پیچھے ہیں۔ پولیس والوں کو بعض بدعنوانیوں کی وجہ سے جھاڑیں پڑی تھیں اب وہ اس کا بدلہ لینے کیلئے یہ تدبیریں کررہے ہیں اور معاملات کو غلط ملط کررہے ہیں۔ پس ہماری جماعت کو ایسی تدبیروں سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے ۔ میںنے بتایا ہے کہ عدالتوں کا راستہ کھلا ہے ہمارے حق بھی عدالتوں کے ذریعہ طے ہوسکتے ہیں اور ہمارے مخالفین کے حقو ق بھی عدالتوں کے ذریعہ طے ہوسکتے ہیں اور اگر عدالتیں ہمارے خلاف فیصلہ کریں تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمیں تسلیم کرلینا چاہئے کہ ہم اپنا حق عدالتوں سے منوا نہیں سکے کیونکہ بہرحال ایک جگہ معاملہ کو ختم کردینا پڑتا ہے اور اس صورت میں عدالت جو آخری فیصلہ دے اسے تسلیم کرنا پڑے گا۔ اگر عدالت شرارت سے خلافِ حق فیصلہ کرے تو خداتعالیٰ کے حضور ہم اپیل کریں گے اور اگر وہ دیانتداری سے اپنی سمجھ کے مطابق ایک فیصلہ کردے تو چاہے وہ ہمارے خلاف ہی ہو ہم صبر کریں گے اور اگر وہ ہمیں ہمارا حق دلادے تو ہم خوش ہونگے کہ ہمیں اپنا حق مل گیا(مگر یہ صرف دُنیوی امور کے متعلق ہے دینی امور کے بارہ میں کوئی عدالت ہم پر حاکم نہیں ہوسکتی)۔ پس میں پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں (بغیر مقدمہ کی تفصیلات میںپڑنے کے) کہ ہمیشہ ان کو ایسی باتوں سے بچنا چاہئے جن میں وہ زیر الزام آجائیں کیونکہ گورنمنٹ کے بعض افسر پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح وہ جماعت کے افراد پر الزام لگائیں ان کو ایسے مواقع خدادے۔
پھر میں نے بار ہا بتایا ہے کہ یہ مت سمجھیں آپ کیلئے اپنے حقوق حاصل کرنے کے ذرائع نہیں۔ گزشتہ پونے دو سال میں جو احرار سے ہماری لڑائی ہوئی وہ ظاہر ہے اور اس کے نتائج بھی ظاہر ہیں۔ بغیرقانون شِکنی کئے کیا احرار کا زور ٹوٹ گیا یا نہیں ٹوٹا؟ او رکیا اپنے بھائیوں میں ہی وہ ذلیل ہوئے یا نہیں ہوئے؟ پھر کیا گورنمنٹ کے وہ افسر جنہوں نے ہمیں نقصان پہنچایااور ہم سے بِلاوجہ دشمنی کی وہ اور ابتلائوں اور مصائب میں پڑے ہیں یانہیں پڑے؟ اور جو افسر ابھی باقی ہیں خداتعالیٰ انہیں بھی پکڑے گا اور سزا دے گا تم گھبراتے کیوں ہو۔ کسی نے کہا ہے
دیر گیرد سخت گیرد مر ترا
خداتعالیٰ دیر سے پکڑتا ہے مگر جب پکڑتا ہے تو سخت پکڑتا ہے۔ پس تم کیوں سمجھتے ہو کہ بعض افسر پکڑے گئے او ربعض بچے ہوئے ہیں۔ جو افسر بظاہر بچے ہوئے نظر آتے ہیں درحقیقت وہ سزا سے نہیں بچے وہ تمہیں بچے ہوئے نظر آتے ہیں مگر مجھے بچے ہوئے نظر نہیں آتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب پادری عبداللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی کی اور اُس کے ڈرجانے کی وجہ سے خداتعالیٰ نے پیشگوئی ٹلادی تو عیسائیوں نے تو شور مچانا ہی تھا بعض بیوقوف مسلمانوں نے بھی خوشی منائی اور کہنا شروع کردیا کہ حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ جھوٹی نکلی ہے۔ اُس زمانہ میں بہاولپور کے جو نواب صاحب تھے ان کے پیر میاں غلام فرید صاحب چاچڑاں والے تھے جو ایک نہایت ہی نیک اوربزرگ انسان تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر وہ ایمان لائے تھے۔ نواب صاحب کے دل میں ان کی بڑی عقیدت تھی اور وہ ان کا بہت ادب کیا کرتے تھے اور میاں غلام فرید صاحب بھی انہیں اِس طرح ڈانٹ لیتے جس طرح اُستاد شاگرد کو ڈانٹتا ہے۔ اتفاقاً ایک دن جبکہ دربار لگا ہؤا تھا عبداللہ آتھم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کا ذکر چل پڑا اور لوگوںنے کہنا شروع کردیا کہ مرزا صاحب نے آتھم کی موت کے متعلق پیشگوئی کی تھی مگر وہ جھوٹی نکلی لوگ اس کا ذکرکرکے دیر تک ہنستے اور تمسخر اُڑاتے رہے اور میاں غلام فرید صاحب چاچڑاں والے خاموش بیٹھے رہے۔ آخر اس ہنسی میں نواب صاحب بھی شریک ہوگئے اور کہنے لگے واقعہ میں مرزا صاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی ہے۔ اِس پر میاں غلام فرید صاحب نہایت جوش میں آگئے اور فرمانے لگے غلط ہے کون کہتا ہے آتھم زندہ ہے مجھے تو اس کی لاش سامنے نظر آرہی ہے۔ پس تم کیوں اپنے خد اپر بدظنی کرتے ہو اور سمجھتے ہو کہ وہ ان افسروں کو بغیر بدلہ لئے یونہی چھوڑ دے گا اگر ان افسروں کا مستقبل تمہارے سامنے آجائے تو تم حیران ہوجائو کہ ان کیلئے خدا تعالیٰ نے کیا مقدر کیا ہؤا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کوکوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ فرشتوں کی کھنچی ہوئی تلوار ان کے آگے ہوتی ہے۔
میں نے بارہا کہاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور آپ کی وحی کا مطالعہ رکھا کرو تمہیں معلوم ہوگا کہ ان الہامات میں ان فتنوں کے متعلق بھی بہت کچھ خبریں پائی جاتی ہیں۔ پس اس بات سے مت گھبرائو کہ دُنیوی حکومت کے بعض عمود تمہارے خلاف حصہ لیتے ہیں وہ عمود نظر آتے ہیں مگر وہ گھن کھائی ہوئی لکڑیاں ہیں جو آج گِریں یا کل گِریں۔ تم دیکھو گے کہ وہی حکومت جس کے وہ کل پرزے کہلاتے ہیں اسی حکومت کے ہاتھوں وہ سزا پائیں گے اور خداتعالیٰ ان کے عیبوں کو پوشیدہ نہیں رہنے دے گا۔
پس میں یہ نہیں کہتا کہ اپنا حق نہ لو تم اپنے حقوق لو اور ان حقوق کے لینے میں تمہارے ساتھ ہوں میں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پہلے خدا کا حق لے لو بعد میں دنیا سے اپنا حق لو۔ اگر میں اُس وقت آپ لوگوں کے ساتھ ہوتا تو میں تو جب پولیس نے مُردہ بچے کو دفن کرنے میں مزاحمت کی تھی یہی کہتا کہ مُردہ کو دفن کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ پولیس پر چھوڑ دو اور مُردہ بچے اور پولیس کا فوٹو لے کر واپس آجائو۔ جو شخص مُردہ کی ہتک کرتا ہے وہ خداتعالیٰ کی *** اپنے اوپر لیتا ہے ۔ پس تم لعنتیں ان پر پڑنے دیتے اور خود واپس آجاتے آخر وہ ہمارے ہی بھائی بہن تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں سخت سے سخت مصائب برداشت کئے ۔بہار میں ہی ایک احمدی عورت فوت ہوگئی اُس کی لاش احمدی دفن کرکے آئے تو لوگوں نے رات کو لاش نکال کر کُتّوں کے آگے ڈال دی۔ تو وہ تکلیفیں جو پہلوں پر گزریں یاہماری جماعت کے دوسرے بھائیوں پرگزریں ہم پر بھی گزرنی ضروری ہیںاور ہمار افرض ہے کہ ہم ان میں صبر سے کام لیں۔ تمہیں چاہئے تھا کہ تم ان تمام واقعات کا فوٹو لے لیتے اور پھر دنیا میں شائع کردیتے کہ پنجاب کی پولیس ایک احمدی مُردہ کے دفن کرنے میں روک بن رہی ہے۔ یہ تمہارا اتنا سخت بدلہ ہوتا کہ حکام تمہاری منتیں کرتے اور تمہارے آگے ہاتھ جوڑتے پھرتے اور کہتے یہ فوٹو دنیامیں نہ پھیلائو مگر تم نے ایسانہیں کیا۔ کیا میں نے بارہا نہیں کہا کہ ایسے موقعوں پر فوٹو لے لیا کرولیکن محکموں کے ذمہ دار ارکان کے کانوں میں تو روئی پڑی ہوئی ہے تمہارے کانوں میں بھی روئی پڑی ہوئی ہے میری باتیں ایک کان سے سُنتے ہو اور دوسرے سے نکال دیتے ہو۔ میںنے سنا ہے بعض فوٹو لئے گئے ہیں مگر سوال ایک یا دو کا نہیں بلکہ تمہیں ان کی ہر حرکت کا فوٹو لینا چاہئے تھا۔
اب اس کے کفارہ کے طور پر میں ہدایت کرتا ہوں کہ پانچ چھ سَو روپیہ میں سنیما کی مشین مل جاتی ہے جس سے متحرک تصاویر اُتاری جاتی ہیں۔ پس فوراً ایک متحرک تصاویر اُتارنے کا آلہ لے لیا جائے او رجہاں کوئی ایسا واقعہ پیش آئے فوراً متحرک تصاویر کی ایک فلم اُتار لی جائے اور پھر بعد میں اُس کو دنیا کے سامنے شائع کردیا جائے اور بتادیاجائے کہ واقعات کیا تھے اور حکومت کے ایجنٹ کیا ظاہر کررہے ہیں۔ اگر ایسا کیمرہ آپ لوگوں کے پاس ہوتا تو مزاحمت کرنے والوں کی ہر حرکت محفوظ رکھی جاسکتی تھی۔ جو تصویریں لی گئی ہیں وہ ابھی میںنے نہیں دیکھیں معلوم نہیں وہ ٹھیک آئی ہیں یا نہیں آئیں۔ لیکن اگر متحرک تصاویر والا آلہ ہو تو اس کے ذریعہ چلتا ہؤا آدمی بھی نظر آسکتا ہے، لاٹھی مارتا بھی دکھائی دے سکتاہے، لاٹھی سے دھکیلتا ہؤا بھی نظر آسکتا ہے، دوسروں کو فساد کیلئے اس رنگ میں انگیخت کرتا ہؤا بھی نظر آسکتا ہے کہ میاں آگے بڑھو اور فساد کرو۔ پس ایک تو جلد سے جلد اِس قسم کا آلہ لے لو اور دوسرے آئندہ کیلئے اپنے دلوں میں یہ عہد کرو کہ تم پہلے خدا اور اُس کے رسول کی عزت قائم کرو گے اپنی عزتوں کے قائم کرنے کا خیال تمہیں بعد میں آئے گا۔
دیکھو! ایک بہت بڑا کام ہمارے سامنے ہے ہم نے دنیا میں پھر اسلام قائم کرنا ہے۔ وہ اسلام جسے آج ہر شان و شوکت سے محروم کردیا گیا، وہ اسلام جس کے ماننے والوں کی آواز سے مشرق سے لے کرمغرب تک تمام کرہ ارض کانپ جاتا تھا، آج اس اسلام پرایمان لانے والے دنیا میںذلیل ترین وجود سمجھے جاتے ہیں۔ سکھوں کی تعداد کتنی قلیل ہے تیس لاکھ سے وہ زیادہ نہیں اس کے مقابلہ میں ہندوستان کے مسلمانوں کی تعداد سات کروڑ ہے مگر تیس لاکھ سکھوں کی آواز کے مقابلہ میںسات کروڑ مسلمانوں کی آواز کوئی حقیقت نہیں رکھتی حالانکہ ایک وقت وہ تھا کہ چند سَو مسلمانوں کے سامنے تمام دنیا دم مارنے کی جرأت نہ کرتی تھی۔ ہمیں بھی خداتعالیٰ نے وہ رُعب دیا ہے جو ہماری تعداد سے بہت زیادہ ہے اور ہماری دنیا میں مخالفت اسی لئے ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں ان سے لوگ بہت ڈرتے ہیں اور یہ دنیا میں ایک دن پھیل کر رہیں گے مگر ہم اپنے رُعب سے وہ فائدہ نہیں اُٹھاتے جو صحابہؓ نے اُٹھایا۔ وہ ایک وجود پرایمان لے آئے تھے اور اس کے بعد اس کے ہونٹوں کی طرف دیکھتے رہتے تھے کہ ان سے کیا آواز نکلتی ہے مگر ہم تو ابھی منافقوں میں ہی اُلجھ رہے ہیں۔ ایک منافق کی وجہ سے ۱۹۳۴ء میں فتنہ اٹھا اور دوسرے منافق کی وجہ سے ۱۹۳۶ء میں فتنہ اُٹھنے لگا ہے مگر یاد رکھو اگر تقویٰ سے آپ لوگوںنے کام لیا اورمیری اطاعت اور فرمانبرداری میں کام کیا تو ایک کیا دنیا بھر کی حکومتیں مل کر بھی آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتیں۔ تم خدا کے ہوجائو اور اس کے احکام کو مانو پھر خداتعالیٰ تمہارا ہوجائے گا اور اُس کا حکم تمہاری تائید میں ہوجائے گا اور کوئی نہیں جوخداتعالیٰ کے حکم کو توڑ سکے۔ جب خدا دنیا میں ایک ہوا چلادے تو پھر دنیا کے دل خودبخود مرعوب ہونے لگتے ہیں۔ جیسے دریا کے کنارے پر کھڑا ہونے والا شخص اطمینان سے کھڑا ہوتا ہے کہ اچانک دریا کے پانی کی وجہ سے بھربھری زمین دریا میں گِرجاتی ہے اور وہ دھڑام سے پانی میں چلا جاتا ہے۔ اسی طرح جب خداتعالیٰ آسمان سے اپنا روحانی پانی اُتارتا اور اس کی تائید میں دنیا میں ایک ہوا چلا دیتا ہے تو دُنیوی شان و شوکت کی بڑی بڑی عمارتیں اسی طرح گرجاتی ہیں جس طرح دریا کے کنارے پانی کے زور سے گرجاتے ہیں۔ پس تقویٰ کرو، طہارت اختیار کرو اورسچائی سے کام لو۔
اب بھی میری نصیحت یہی ہے کہ جو شخص سچا احمدی ہے اگر اس سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ عَلَی الْاِعْلَاناس کا اقرار کرے۔ اگر وہ اشتعال میں آکر مار بیٹھا ہے یا دوسرے کے مارنے پر اس نے مارا ہے تو وہ یاد رکھے کہ خدا کے غضب سے زیادہ حکومت کا غضب نہیں ہوسکتا۔ جہنم کی چھوٹی سے چھوٹی سزا بھی دنیا کی بڑی سے بڑی سزا سے زیادہ ہیبت ناک ہے۔ یہاں کے جیل خانوں میں ایسے جرائم کی پاداش میں نومہینے سال یا دو سال یا تین سال قید رکھا جاسکتا ہے لیکن جہنم کی قید اس سے بہت زیادہ لمبی اور بہت زیادہ تکلیف دہ ہے۔ پس سچائی تمہارا ہتھیار ہونا چاہئے اور راستی پر تمہارے ہر کام کی بنیاد ہونی چاہئے۔ وہ شخص جو چاہتا ہے کہ خدا کو خوش کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاسچا پیروکار کہلائے وہ اقرار کرے کہ وہ جھوٹ نہیں بولے گا۔ مت سمجھو کہ سچ بولنے کی وجہ سے تم قید ہوجائو گے اگر سچ کی وجہ سے تم قید ہوتے ہو تو خداتعالیٰ کی رحمتیں تم پر نازل ہوں گی۔ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قید نہیں کئے گئے؟ کیا انہیں مارا اور پیٹا نہیں گیا اور کیا حضرت مسیح علیہ السلام کو دشمنوں نے صلیب پر نہیں لٹکایا؟ پھر تمہیں سچ کی وجہ سے قید ہونے میں کیا ڈر ہے۔
احمدیت کا نشان ہمیشہ یہ ہونا چاہئے کہ جو احمدی ہو وہ سچ بولتا ہے اس سے دونوں فائدے ہوں گے۔ خداتعالیٰ بھی خوش ہوگا اور آئندہ کیلئے کمزور طبع لوگ ایسی حرکات سے بھی اجتناب کریں گے کیونکہ وہ کہیں گے کہ اگر ہم نے کوئی خلافِ اخلاق یا خلافِ قانون حرکت کی تو ہم سے سچ بُلوایا جائے گا پھر کیوں نہ ہم اس حرکت کا ارتکاب ہی چھوڑ دیں۔ پس سچائی پر قائم رہو اوراپنے نفس کو یہ کہہ کر دھوکا مت دو کہ جھوٹ سے فتح ہوسکتی ہے۔ انگریز کی سزا کوئی سزا نہیں سزا وہ ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے اُترے۔ اسی طرح انگریز کا ساتھ کوئی ساتھ نہیں بلکہ ساتھ وہ ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے ہو۔ پس بندوں کی طرف سے اپنی نگاہیں ہٹالو اور خداتعالیٰ کی طرف بلند کرو۔
میں حیران ہوتا ہوں کہ نیشنل لیگوں نے یہ کیا اصل بنا رکھا ہے کہ فلاں جگہ کے احمدیوں پر ظلم ہؤا ہم اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے اور گورنمنٹ کو توجہ دلاتے ہیں۔ تم کس گورنمنٹ کوتوجہ دلاتے ہو اور تمہارے کتنی بار توجہ دلانے پر اس نے توجہ کی ہے۔ بے شک چونکہ خداتعالیٰ نے ہم پرایک حکومت قائم کی ہے اس لئے جس جگہ اس قِسم کا کوئی واقعہ ہو وہاں کے لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ حکومت کو اطلاع دیں اور مرکز کابھی فرض ہوتا ہے کہ ان پردشمنانِ سلسلہ کی طرف سے جو مظالم ہوتے ہیں ان کے انسداد کیلئے حکومت کو توجہ دلائے مگر یہ نیشنل لیگیں خواہ مخواہ بے فائدہ کیوں شور مچاتی رہتی ہیں۔ ان کو چاہئے کہ وہ سچی قربانی پیش کریں اور اپنے عمل سے سلسلہ کی عزت کی حفاظت کریں اگر وہ کام کرنا چاہیں تو قانون کے اندر رہتے ہوئے بیسیوں کام کرسکتیں اور اپنے بھائیوں کی مدد کرسکتی ہیں۔مثلاً نیشنل لیگیں بجائے اس کے کہ یہ ریزولیوشن پاس کریں کہ ہم گورنمنٹ کو توجہ دلاتی ہیں اگر ہر نیشنل لیگ ایک ایک آدمی اپنے خرچ پر اپنے بھائیوں کی امداد کیلئے بھیج دیتی تو یہ ریزولیوشن کے ذریعہ گورنمنٹ کو توجہ دلانے سے ہزار درجے زیادہ بہتر تھا۔
پس سچی قربانی کرو اور فضول اور لغو باتیں چھوڑ دو کہ خداتعالیٰ فضول اور لغو باتوں سے خوش نہیں ہوتا۔ یہ باتیں میںنے اتنی بار کہی ہیں کہ اب کہتے کہتے میرا گلا بھی اس قدر متورم اور زخمی ہوچکا ہے کہ خطبہ جمعہ اور اس کے بعد نماز میں قراء ت بھی بلند آواز سے نہیں پڑھ سکتا اور گلا بیٹھ جاتا ہے۔ پس میں تو اب اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے ایسے لوگ مجھے عطا کرے جو سچے طور پر میری باتیں سن کر ان پر عمل کرنے والے ہوں۔ مجھے اس سے کیا فائدہ کہ لاکھوں آدمی میرے ساتھ ایسے ہوں جو میری باتوں پر عمل کرنے والے نہ ہوں۔ سچے مؤمن تو میرے ساتھ اگر دس بیس ہوں تو وہی لاکھوں آدمیوں سے میرے لئے زیادہ خوشی کا موجب ہوسکتے ہیں۔ پس وہ قربانی کرو جو حقیقی قربانی ہو زبانی قربانی خدا تعالیٰ کی نظر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ تم اپنی جانوں اور اپنے اموال کی قربانی کرو، دین کی خدمت میں اپنے آپ کو لگائو اور زیادہ سے زیادہ اپنے اموال خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔ تبلیغ کیلئے باہر نکل جائو اور وہی جو تمہیں گالیاں دیتے ہیں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خدام میں داخل کرو پھر دیکھو کہ دنیا کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے یا نہیں بدلتا۔
پس تم خداتعالیٰ کے ہوجائو اور دنیا کو خدا کے آستانہ پر جھکانے کی کوشش کرو اور یاد رکھو کہ جب خداتعالیٰ ساتھ ہوتا ہے تو پھر دنیا کے لوگ خودبخود ساتھ ہوجاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک قصّہ سنایا کرتے تھے۔ فرماتے تھے کوئی تاجر تھا جو باہر تجارت کیلئے جانے لگا تو اس کے پاس اپنی ضروریات سے زائد دو ہزار روپیہ تھا۔ اُس نے چاہا کہ وہ کسی کے پاس امانت رکھ کرجائے تا جب واپس آئے تو روپیہ اُس سے لے لے۔ یہ خیال آنے پر اس نے سوچا کہ سلطنت کے قاضی سے زیادہ اور کون معتبر ہوسکتا ہے اس کے پاس ہی روپیہ رکھوانا چاہئے۔ چنانچہ اس نے قاضی کے پاس تھیلی رکھوادی۔ سفر سے واپس آکر جب اس نے قاضی سے روپیہ مانگا تو وہ صاف انکار کرگیا اور کہنے لگا مجھے تو تم نے کوئی روپیہ نہیں دیا تھا۔ وہ کہنے لگا میں آپ کویاد دلاتا ہوں جب میں نے آپ کو روپیہ دیا تھا اُس دن اس قِسم کی مجلس میں آپ بیٹھے ہوئے تھے، اِس رنگ کی تھیلی تھی، میں آیا اور آپ کو الگ کونے میں لے جاکر میں نے وہ تھیلی دی۔ قاضی یہ سب باتیں سن کر انکار کرتا چلا گیا کیونکہ گواہ کوئی موجود نہ تھا اور کہنے لگا نہ میاں تم نے مجھے کوئی روپیہ نہیں دیا۔ وہ حیران ہوکر واپس آگیا اور سوچنے لگا اب روپیہ نکالنے کیلئے کونسی تدبیر اختیار کروں۔ آخر اسے یہ خیال آیا کہ بادشاہ کے پاس جاکر فریاد کروں۔ بادشاہ ہفتہ میں ایک دن مظلوموں کی فریاد سنا کرتا تھا وہ اس دن بادشاہ کو ملا اور تمام قصّہ سنایا اس پر بادشاہ کہنے لگا کہ قاضی بھلا یہ بات کب مانے گا کہ اُس نے تمہارا روپیہ لیا ہؤا ہے۔ اگر میں اس سے پوچھوں بھی تو چونکہ تمہارے پاس کوئی گواہ نہیں وہ کہہ دے گا کہ میں نے کوئی روپیہ نہیں لیا اگر اس کا دعویٰ درست ہے تو یہ گواہ پیش کرے اس صورت میںتمہیں اپنا دعویٰ ثابت کرنا مشکل ہوگا اور پھر چونکہ اس طرح قاضی القضاۃ پرالزام عائد ہوتا ہے اور اس سے ہتک ہوتی ہے اور ممکن ہے وہ کہہ دے کہ اس شخص نے میری ہتک کی ہے اسے سزا دی جائے۔ پس یہ طریق تو مفید نہیں کہ میں قاضی سے دریافت کروں ہاں میں تمہیں ایک اور تدبیر بتاتا ہوں اگر تم اس پر عمل کرو گے تو روپیہ تمہیں مل جائے گا۔ میرا فلاں دن جلوس نکلنے والا ہے سارے درباری میرے استقبال کیلئے اپنے گھروں سے باہر نکل کر کھڑے ہوں گے ۔قاضی القضاۃ بھی اپنے چبوترے پر کھڑا ہوگا تم اُس روز قاضی کے چبوترہ کے ایک طرف کھڑے ہوجانا۔ میرا جلوس جب وہاں سے گزرے گا تو میں تمہیں دیکھ کراپنی سواری کھڑی کرلوں گا اور تم سے اس بے تکلفی سے باتیں کروں گاجیسے تم میرے پُرانے دوست ہو۔ تم بھی میری باتوں کے جواب میں بے تکلفی سے بات چیت کرنا اور گھبرانا نہیں۔ چنانچہ جب جلوس نکلا قاضی القضاۃ اپنے دوستوں سمیت چبوترے پر آکر کھڑا ہوگیا۔ یہ دیکھ کر تاجر بھی ایک کونے میں کھڑا ہوگیا۔ جب بادشاہ کی سواری وہاں سے گزری تو اُس کے دل میں ارادہ تو پہلے سے ہی تھا تاجر کی شکل دیکھتے ہی اُس نے اپنا گھوڑا روک لیا ساتھ ہی تمام لوگ جو بازاروں میں ایک جلوس کی صورت میں چل رہے تھے کھڑے ہوگئے اور قاضی کی طرف متوجہ ہوئے بغیر بادشاہ نے تاجر سے نہایت بے تکلفی سے گفتگو شروع کردی اور کہا آپ مدت سے ہمیں نہیں ملے کیا بات ہے؟ تاجر کہنے لگا حضور! میں باہر تجارت کیلئے گیا ہؤا تھا۔ بادشاہ پوچھنے لگا اچھا پھر کب آئے۔ تاجر کہنے لگا حضور! چند دن ہوگئے ہیں۔ بادشاہ نے کہا ہمارے تمہارے اتنے گہرے تعلقات ہیں جب تمہیں یہاں آئے ہوئے چند دن ہوگئے ہیں تو ہم سے ملے کیوں نہیں؟ وہ کہنے لگا حضور! بندہ آپ کا غلام ہے میںتو چاہتا تھا کہ جلدی حضور سے ملاقات ہو مگر کچھ روپیہ کا جھگڑا پید اہوگیا تھا جس کی وجہ سے پریشانی رہی وہ جھگڑا ابھی تک جاری ہے کوئی فیصلہ نہیں ہؤا ۔ بادشاہ کہنے لگا یہ کونسی بڑی بات تھی فیصلہ بھی تو آخر ہم نے ہی کرنا ہوتا ہے تم ہمیں بتاتے اور ہم اُسی وقت روپوں کے جھگڑے کا فیصلہ کردیتے۔ وہ کہنے لگا حضور! کی بڑی مہربانی ہے اگر تسلّی بخش فیصلہ نہ ہؤا تو پھر حضور کو تکلیف دینی پڑے گی۔ اب اِدھر بادشاہ تاجر سے گفتگو کررہا تھا اور اُدھر قاضی القضاۃ کے پیٹ میں چوہے دَوڑ رہے تھے۔ یہ گفتگو کرنے کے بعد جب بادشاہ کی سواری آگے نکل گئی تو قاضی القضاۃ تاجر کی طرف متوجہ ہؤا اور کہنے لگا میاںتاجر! ذرا ادھر آئو مجھے تم سے ایک کام ہے۔ وہ تاجر آیا تو قاضی کہنے لگا کہ اصل بات یہ ہے کہ میں بُڈّھا ہوگیا ہوں جس کی وجہ سے میرا حافظہ بہت کمزور ہے تم اپنی تھیلی کا کوئی اتا پتہ بتائو ممکن ہے کوئی نشانی بتائو تو مجھے یاد آجائے۔ اُس نے وہی باتیں بتائیں جوپہلے بتاچکا تھا کہ اس رنگ کی تھیلی ہے، فلاں مجلس سے میں نے آپ کو علیحدہ بلاکر یہ تھیلی پیش کی تھی۔ قاضی کہنے لگا لاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ۔ یہ علامتیں تم نے مجھے پہلے کیوں نہ بتائیں وہ تھیلی تو محفوظ پڑی ہے۔ پس اگر بادشاہ کے ساتھ ہونے سے سارے لوگ ساتھ ہوجاتے ہیں تو کیا تم سمجھتے ہو ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہو تو دنیا ہمارا مقابلہ کرسکتی ہے؟ دنیا ہرگز ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ نہ ضلع گورداسپور کی حکومت، نہ پنجاب کی حکومت اور نہ ولایت کی حکومت اور نہ ساری دنیا کی حکومتیں مل کر ہمیں نقصان پہنچاسکتی ہیں۔ پس آئو ہم اپنے خدا کو خوش کریں اور ہماری تمام تر توجہ اِس طرف ہو کہ ہم اس کے احکام پرعمل کریں پھر چاہے احراری ہوں یا حکومت کے کارندے کوئی ہمیں نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ پس تم خدا کے ہوجائو اور اُسی پر توکّل کرو۔ یہ سب سے بڑی نعمت ہے جو کسی انسان کو دنیا میں حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر یہ نعمت تمہیں حاصل نہیں تو پھر قید سے چھٹ جانا ایک معمولی بات ہے، قبرستان کا مل جانا ایک معمولی بات ہے بلکہ اگر حکومتیں تمہاری ہوں، پارلیمنٹیں تمہاری ہوں، قانون تمہارے ہوں، تخت تمہارے ہوں اور ہٹلر اور مسولینی بھی اپنی بادشاہتوں کو چھوڑ کر انہیں تمہارے قدموں میں ڈال دیں لیکن تمہارا خدا تم سے ناراض ہو تو تم طاعون کے چوہے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے کیونکہ جس کا خدا دشمن ہو اُس سے زیادہ ذلیل اور ناپاک وجود اورکوئی نہیں ہوسکتا۔
(الفضل ۲۵؍ جون ۱۹۳۶ئ)
؎۱ الفاتحۃ: ۶،۷ ؎۲ النور: ۵۶
؎۳ موضوعات ملا علی قاری صفحہ ۱۶، مطبع مجتبائی دہلی ۱۳۴۶ھ میں اِتَّقُوْا مَوَاضِعَ التُّھْمِ کے الفاظ ہیں۔
؎۴ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ اُحد
؎۵ متی باب ۸ آیت ۲۰ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور ۱۹۹۴ء (مفہوماً)
؎۶ بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالیٰ و یوم حنین (الخ)


۲۳
قادیان کے احرار اپنے مُردوں کو ’’پاک‘‘ رکھنے کیلئے
علیحدہ قبرستان بنانے کیلئے روپیہ یا زمین لے لیں
(فرمودہ ۲۶؍ جون ۱۹۳۶ئ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میرے گلے کی تکلیف ابھی تک بڑھتی چلی جارہی ہے اس وجہ سے مَیں درس بھی نہیں دے سکتا اور اب تو خطبہ بیان کرنا بھی سخت مشکل نظر آتا ہے گلے میں ایک ایسی تکلیف پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے آواز بولنے کے بعد بھرّا جاتی ہے اور پھر اونچا نہیں بولا جاسکتا اور گلے کے بائیں طرف کا حصہ ایسا سُن معلوم ہوتا ہے جیسے جسم کاکوئی حصہ سویا ہؤا ہوتا ہے۔ پس ان حالات میں مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ اپنی آواز دوستوں تک پہنچاسکوں گا یا نہیں اور کہ اپنے مضمون کو کما حقہٗ ادا کرسکوں گا یااختصار سے کام لینا پڑے گا۔
گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے بعض خیالات کا اظہار اس قبرستان کے متعلق کیا تھا جو قادیان کابڑا قبرستان کہلاتا ہے اور جس میںقریباً ہر خاندان کے کچھ افراد مدفون ہیں۔ میںنے ذکر کیاتھا کہ اس قبرستان میں ہمارا ویسا ہی حق ہے جیسے دوسروں کا اور کسی کو یہ حق نہیں کہ ہماری جماعت کے مُردوںکو وہاںدفن ہونے سے روکے اور اپنے اس حق کو حاصل کرنے سے ہم کسی صورت میں باز نہیں رہ سکتے۔ اگر وہاں کسی کے دفن ہونے پر کسی کو اعتراض ہوسکتا ہے تو وہ ہمیں ہوسکتا ہے کیونکہ اس قبرستان کی زمین ہمارے آباء کا عطیہ ہے مگر ہمارا یہ طریق نہیںکہ شرارت پر آمادہ ہوں اور اس قسم کا کوئی سوال اُٹھائیں۔ پس دوسروں کو اس قسم کا کوئی سوال حل کرنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ اس زمین کے مالک ہم ہیں پس اگر کوئی سوال اُٹھ سکتا ہے کہ اس میں دوسرے دفن نہ ہوں تو ہماری طرف سے اُٹھ سکتاہے مگر نہ صرف یہ کہ ہم ایسے طریق کو ناپسند کرتے ہیں بلکہ جیسا کہ میں نے گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں اعلان کیاتھا اگر یہ قبرستان ختم ہوجائے اور ہمارے مخالفوں کے پاس مُردے دفن کرنے کیلئے جگہ نہ رہے تومیں انہیں اپنے پاس سے زمین دے دوں گااور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس پیشکش کے بعد بھی مقامی باشندوں کوکوئی اعتراض باقی رہے گا مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میرے اس صلح و آشتی کے پیغام کانتیجہ بجائے اچھا نکلنے کے اور بھی بُرا نکلا ہے یعنی بجائے اس کے کہ وہ میری اس پیشکش پر مطمئن ہوتے اور تسلی پاجاتے یہاںبعض جلسے کئے گئے ہیں جن میں بعض مقامی باشندوں اور بعض احرار کے باہر سے بھیجے ہوئے آدمیوں کی طرف سے یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ احمدی نجس ہیں اور ان کے نجس اجسام کے ساتھ ہمارے پاک جسم جمع نہیں ہوسکتے۔ گالیاں دینا آسان کام ہے اور جن کی طبیعت میں شرافت نہیں ہوتی وہ گالیاں دے لیتے ہیں پس ان گالیوں کی مَیںچنداں پرواہ نہیں کرتا۔
نجس یا ناپاک کہہ لینا انسان کے اپنے اختیار میں ہے خداتعالیٰ نے زبان دی ہے مگر اسی زبان سے بعض لوگ خدا کو گالیاں دے لیتے ہیں۔پس جو زبان اپنے پید اکرنے والے کو گالیاں دے سکتی ہے وہ اگر میرے یا میرے باپ دادا کے احسانات یا جماعت کی مصالحانہ تدابیر و پیشکش کو ٹھکرادے تو اس پر کیا شکوہ ہوسکتا ہے اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ پس ان کے اس رویہ پر مجھے حیرت نہیں ہوئی اس لئے کہ انسان جب بُغض میں مبتلاء ہوجاتا ہے تو وہ ایسی باتیں کیاہی کرتا ہے۔ اس وقت میں اس سوال میں نہیں پڑتا کہ نجس وہ لوگ ہیں یا ہم ہیں کیونکہ عقائدکے اختلاف کی وجہ سے اس بارہ میں بھی ضرور اختلاف رہے گا۔ ایک مسلمان کے نزدیک عیسائی اور عیسائی کے نزدیک مسلمان نجس ہے ۔ ایک ہندو، مسلمان اور عیسائی کو نجس خیال کرتا ہے اور مسلمان و عیسائی ہند وکونجس سمجھتے ہیں اور یہ نجاست و پاکیزگی کا سلسلہ اتنا وسیع ہے کہ بعض عیسائی اِس بات پر ناراض ہوتے ہیںکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کونبی کیوں کہا جاتا ہے یہ ان کی ہتک ہے کیونکہ وہ خدا کے بیٹے ہیں ۔ اسی طرح بعض ہندو اس بات پر ناراض ہوتے ہیں کہ حضرت کرشنؑ کونبی کیوں کہا جاتا ہے وہ تو اوتار ہیں۔ پس اس نجاست اور طہارت کا سلسلہ کہیں ختم نہیں ہوتا اس لئے اس بحث میں پڑ کر فیصلہ کی خواہش ایک ایسا طولِ امل ہے کہ اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا اس لئے اس بحث میں مَیںنہیں پڑتا اور اس کے دوسرے حصہ کو لیتا ہوں کہ آیا وہ نجاست و طہارت جو دنیا میں انسان کے ساتھ لگی ہوتی ہے قبر میں بھی ساتھ جاتی ہے۔
سو یاد رکھنا چاہئے کہ بعض جذباتی چیزیں ہوتی ہیںجو جذبات کی حد پر جاکر رہ جاتی ہیں انہیں حقیقت کی انتہاء تک ہم نہیں لے جاسکتے۔ احرار کا نجاست اور طہارت کا دعویٰ ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی سیّد سفر پر روانہ ہؤا تو جیسا کہ پُرانے زمانہ میں قاعدہ تھا میراثی خدمت گزاری کیلئے ساتھ تھا ایک جگہ وہ رات کو پہنچے اور سرائے میں گئے وہاں جاکر معلوم ہؤا کہ سب چارپائیاں رُکی ہوئی ہیں۔ ادھر سخت بارش کی وجہ سے کیچڑ بہت تھی ۔ میراثی نے سخت محنت اور جستجو سے ایک چارپائی مہیا کی اورلاکر اسے سیّد صاحب کیلئے بچھادیا۔ سیّد صاحب اس پر بیٹھ گئے اور پائنتی کی طرف میراثی بھی سُکڑ کر بیٹھ گیا۔ اس پر سیّد صاحب غصہ میں آگئے اور لا ل پیلے ہوکر کہنے لگے کہ بے حیا! تجھے شرم نہیں آتی ہمارے برابر بیٹھتا ہے۔ میراثی غریب آدمی تھا ڈر گیا اور عرض کیا حضور غلطی ہوگئی پھر ایسا نہ ہوگا اور نیچے زمین پر کیچڑ میں بیٹھ گیا۔ دوسرے دن پھر وہ ایک سرائے میں پہنچے اور اتفاق سے وہاں بھی کوئی چارپائی فارغ نہ تھی۔ میراثی نے تلاش بہت کی مگر ایک چارپائی بھی نہ مل سکی آخر وہ گھنٹہ آدھ گھنٹہ کے بعد ہاتھ میں پھاوڑہ لئے ہوئے داخل ہؤا اور بغیر کچھ کہے سنے زمین کھودنے لگ گیا۔ سیّد صاحب نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے؟ تو اس نے کہا حضور! چارپائی تو ملی نہیں اس لئے میں اپنے لئے جگہ بناتا ہوں۔ سیّد صاحب نے پوچھا اس کا مطلب؟ تو میراثی نے جواب دیا کہ آپ تو زمین پر بیٹھیں گے اور میں اپنے لئے گڑھا کھودتا ہوں تا برابری نہ ہوجائے کیونکہ میں آپ کے برابر تو بیٹھ نہیں سکتا۔
یہ مثال زبردست اور زیردست کی ہے۔ دوسرے مسلمان چونکہ تعداد میں زیادہ ہیں وہ احمدیوں پر اسی طرح حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ قادیان میں ان کی اقلیت ہرگز انہیں اقلیت نہیں بناتی کیونکہ اقلیت سیاسی حلقہ کے لحاظ سے ہوتی ہے نہ کہ مختلف شہروں یا قصبوں کے لحاظ سے۔ پس یہ لوگ جوکہتے ہیں کہ احمدی نجس ہیں اور ہم پاک ہیں درحقیقت وہ اپنی تعداد اور طاقت کے بل پر ایسا کہہ رہے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ دنیا میں جو نجاست یا طہارت ہوتی ہے وہ قبرستان کے کتنے فاصلہ تک انسان کے ساتھ جاتی ہے۔ اس قبرستان کی مثال بہشتی مقبرہ کی تو ہو نہیں سکتی جس میں دفن ہونا بعض خاص اعمال کے ساتھ وابستہ ہے اور پھر اس کے بارہ میں بھی ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کی زمین پاک نہیں کرتی بلکہ وہ شرائط پاک کرتی ہیں جو تقویٰ اور قربانی کے متعلق اس میں دفن ہونے والوں کیلئے مقرر ہیں۔ پس یہ زیرِبحث قبرستان عام قبرستانوں کے مشابہہ ہے۔ پس عام قبرستانوں کی حالت کو مدنظر رکھ کر ان لوگوں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ وہاں جاکر کونسی پاکیزگی حاصل ہوجاتی ہے۔ سب قبریں تو خدا کی زمین میں ہیں اور اس زمین میں بہرحال احمدی دفن ہوتے رہیں گے ۔ اس لئے احرار کو چاہئے کہ خدا کی زمین کے سِوا کوئی اور جگہ اپنی قبروں کیلئے تلاش کریں یا فیصلہ کرلیں کہ پارسیوں یا ہندوئوں کی طرح اپنے مُردوں کا خاتمہ کیا کریں۔ کیونکہ اس زمین میں تو احمدیوں نے بھی دفن ہونا ہے۔
پھر سوال یہ ہے کہ کیا زندگی میں پاکیزگی اور طہارت کا اور معیار ہے اور موت کے بعد اور؟ زندگی میں انسانی روح جسم کے اندر ہوتی ہے اس لئے ہم بد صحبت سے لوگوں کو روکتے ہیں اور بُرے لوگوں کے پاس نہیں بیٹھنے دیتے کیونکہ زندگی ایک مدرسہ ہے اور سیکھنے کا زمانہ ہے۔ دماغ سوچتا ہے اور کان دوسرے سے بُری باتیں سنتے ہیں اور انسان وہ باتیں سن کر ان کی نقل کرسکتا ہے۔ آنکھیں دیکھتی ہیں او راس لئے بُرے لوگوں کے پاس بیٹھ کر ان کے بُرے کاموں کو دیکھ کر انسان ان کے عادی ہوسکتے ہیں کیونکہ روح کا جسم سے تعلق موجود ہوتا ہے لیکن جب روح جسم سے جُدا ہوجائے تو پھر جسم خواہ کہیں پڑا رہے اور اچھے اور بُرے لاشوں کے اکٹھے پڑا رہنے میں کوئی حرج نہیں ہوسکتا۔ خدا کا زلزلہ کوئٹہ میں آیا اور انہی مکانوں کی چھتوں کے نیچے کنچنیاں دب گئیں اور انہی کے نیچے نمازی او رنیک لوگ، مسلمان بھی وہیں پڑے رہے او رغیرمسلم بھی، خدا نے تو کوئی فرق نہ کیابلکہ سب کو ایک ہی جگہ دفن کردیا۔ یہ نہیں کیا کہ نیک اوربزرگ لوگوں کوالگ کرلیا ہو او رکنچنیوں اور بدکاروں کو الگ۔ خداتعالیٰ کے ماننے والے اور اس کو گالیاں دینے والے بدکار اور نیکوکار سب وہیں دفن تھے۔ اس خدائی قبرستان میں کوئی امتیاز نہ تھا ہاں اگر اس نے کوئی امتیاز کیا تو وہ احمدیوں سے کیا کیونکہ نوّے فیصدی احمدی بچ گئے جبکہ نوّے فیصدی دوسرے لوگ مرگئے۔ پس اگر کسی امتیاز کا خداتعالیٰ نے اظہار کیا تو احمدیوں کیلئے کیا اور انہیں دوسروں سے علیحدہ کرلیا باقی سب کو اکٹھا ہی دفن کردیا۔ تو یہ عجیب بات ہے کہ زندگی میں تو یہ لوگ ہمارے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں حتّٰی کہ ہم پر یہ جھوٹا الزام لگاتے ہیں کہ ہم انہیں قادیان سے نکالنا چاہتے ہیں اور شکوہ کرتے ہیں کہ ایسا کیوں کرتے ہیں حالانکہ اگر احمدی واقعہ میں ان معنوں میںنجس ہیں جن میں احراری انہیںپیش کررہے ہیں تو ان کو چاہئے تھا کہ خود بخود ہی پائوں کی خاک جھاڑ کریہاں سے نکل جاتے مگر زندگی میں تو وہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں اور رہنے پر مُصِرّہیں جبکہ ہم ان پر اپنا اثر ڈال سکتے ہیں مگر مُردوں کا ایک جگہ دفن ہونا وہ گوارہ نہیں کرسکتے۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ احمدی مُردہ قبر میں احراری مُردے کو وفاتِ مسیح کا قائل کرلے گا یا ختمِ نبوت کا مسئلہ سمجھادے گا؟ جہاں بقول ان کے ان کے ایمانوں میں خلل پڑسکتا ہے اور پڑتا رہتا ہے کیونکہ ہمیشہ ان کے آدمی تبلیغ سے متأثر ہوکراحمدیت میں داخل ہوتے رہتے ہیں وہاں تو ساتھ رہنے کیلئے زور لگاتے ہیں حتّٰی کہ ساری دنیا چھوڑ کر جلسوں کیلئے بھی احرار قادیان ہی پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جس عالَم میں احمدی ان کو اپنے عقیدہ سے پھر انہیں سکتے وہاں ان کی صحبت سے ڈرتے ہیں۔ اگر ہمارے ساتھ رہنے کو یہ لوگ اپنے لئے اتنا ہی بُرا سمجھتے تو چاہئے تھا کہ لاہور میں احرار ایک جلسہ کرکے ہمارا شکریہ ادا کرتے کہ یہ لوگ ہمارے بھائیوں کو گندی جگہ سے باہر لاتے اور ان کی روحانی زندگی کو خطرہ سے بچاتے ہیں نہ کہ خواہ مخواہ ہم پریہ الزام لگاکر شور مچاتے کہ احمدی ہمیں قادیان سے نکالنا چاہتے ہیں۔
پھر یہ امر قابلِ غور ہے کہ یہ پاکیزگی اور نجاست کا سوال اب کیوں پیدا ہؤا ۔ احمدی تو برابر پچاس سال سے اس قبرستان میں دفن ہوتے آئے ہیں اور ان کے مُردے بھی وہیں دفن ہوتے رہے ہیں پھرپچاس سال کے بعد اب کونسی نئی پاکیزگی ان کے اندر پیدا ہوگئی ہے۔کیا وہ پاکیزگی احرار کا وجود ہی تو نہیں۔ عجیب بات ہے کہ احرار کے یہاں آنے سے قبل یہ سوال پید انہیں ہؤا بلکہ ان کے آنے کے بعد بھی نہیں ہؤا اور ایک لمبے عرصہ کے بعد اب پیدا ہؤا ہے جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے موجب او رہیں، اس کی پُشت پر بعض اور لوگ ہیں جن کیلئے فتنہ کے اور سب دروازے بند ہوگئے تو انہوںنے یہ جھگڑا شروع کردیا ورنہ پچاس سال تک یہ خیال کیوں نہیں پیدا ہؤا ۔کیا ان کوہمارے عقائد کا اس سے قبل علم نہ تھا؟ کیا ہمارے متعلق مولویوں کے فتوئوں سے وہ اس سے قبل آگاہ نہ تھے؟ پھر احرار بھی یہاں قریباً دو سال سے ہیں اس عرصہ میں ان کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ عیدگاہ اور قبرستان کا سوال اُٹھائیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس فتنہ کے پس پردہ اَور انگلیاں ہیں جوحرکت کررہی ہیں۔ یہ انسان نہیں بلکہ نَے بولتی ہے جس کے پیچھے کسی اور کے ہونٹ ہیں اس وجہ سے میں ان کو معذور سمجھتا ہوں کیونکہ یہ اپنی عقل سے کام نہیں لیتے بلکہ انہیں دوسرے لوگ بُلوارہے ہیں مگر میں ان کو یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ ان کے اعلانات کی وجہ سے اپنے حق کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوسکتی۔ اگر حکومت ہمیں جبراً روک دے گی تو اگرچہ ہم قانون کی پابندی کریں گے اور اس کے حکم کو نہیں توڑیں گے مگر قانونی طور پر اپنے حق کو حاصل کرنے کیلئے پوری کوشش کریں گے اور ہر جائز ذریعہ ان لوگوں کو تباہ کرنے کا استعمال کریں گے جو ہمارے جائز حقوق کے راستہ میں کھڑے ہوں گے۔ اگرچہ ہم قانون کی پابندی کریں گے مگر ایذاء کو دور کرنے کیلئے شریعت اور قانون نے ہمیں جن ذرائع کے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے انہیں ضرور استعمال کریں گے اور دنیا دیکھ لے گی کہ ہمارا حق حاصل ہوکر رہے گا اور دشمن کو نامرادی اور ذلّت کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ مگر میری طبیعت کا رحم اور اسلامی شفقت مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں ان کے سامنے ایک آسان تجویز پیش کروں۔ اس قبرستان میں تو ان کا اور ہمارا دونوں کا حق ہے اور دونوں میں سے کسی کا حق بھی باطل نہیں ہوسکتا۔ احرار دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوںنے اٹھارہ گھمائوں زمین قادیان میں خریدی ہوئی ہے اگرچہ وہ ہمیں نظر تو نہیں آتی کہ کہاں ہے اور نہ سرکاری کاغذات میں سے اس کا پتہ چلتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ خریدی ہوئی ہے۔ اب جن مقامی غیراحمدیوں کاخیال ہے کہ وہ پاک ہیں اور احمدی نجس ہیں وہ اپنے اور اپنے خاندانوں کے تمام افراد کے نام الگ لکھ لیں کیونکہ بعض ایسے غیراحمدی بھی ہیں جو یہ سوال نہیں اُٹھاتے وہ ہمارے ساتھ ہی دفن ہوتے رہے ہیں، ہوتے ہیں اور آئندہ ہونے کیلئے تیار ہیں، ایک قلیل تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو احرار کا آلۂ کار بنے ہوئے ہیں اور انہی کی طرف سے یہ سوال اُٹھایا جارہا ہے ایسے لوگ اپنے اور اپنے خاندانوں کے جملہ افراد کے نام لکھ کر حکومت کے حوالہ کردیں اور لکھ دیں کہ وہ قبرستان میں ہمارے ساتھ دفن نہیں ہوسکتے۔ احرار اپنی خرید کردہ زمین میں سے ایک گھمائوں زمین قبرستان کیلئے ان کو دے دیں اس زمین کی قیمت میں ادا کردوں گا۔ کیا وہ ناپاکی کا سوال پید اکرنے والے اتنا اخلاص بھی ان لوگوں سے نہیں رکھتے کہ ان کے مُردوں کو ناپاک اور جہنمّی بننے سے بچانے کیلئے قیمت لے کرایک گھمائوں زمین دے دیں۔ احرار کی خریدی ہوئی اور سکھوں سے لی ہوئی زمین سے زیادہ مقدس زمین بھلا اور کون سی ہوسکتی ہے۔ ایسی پاک زمین میں جاکر ان کے پاک مُردے اور بھی پاک ہوجائیں گے اور پھر اس کی قیمت بھی میرے جیسے دشمن کی جیب سے نکلے گی۔ اس سے زیادہ مفید صورت ان کیلئے اور کوئی نہیں ہوسکتی وہ اسے مان لیں خواہ مخواہ ہماری ضد میں آکر اپنے مُردے پلید کرنے سے کیا فائدہ۔ اگر واقعی ایمانداری سے ان کا دعویٰ ہے کہ وہ قبرستان ناپاک ہوگیا ہے تو کون عقلمند وہاں اپنے مُردے پلید کرنے کیلئے تیار ہوسکتا ہے محض اس لئے کہ اس زمین پر اپنا قبضہ درست ثابت کرسکے ایسی ناپاک زمین میں مُردے کو دفن کرنے سے تو بہتر ہے کہ اُسے جانور کھاجائیں کیونکہ مُردے کے ناپاک ہونے کے یہ معنے ہیں کہ وہ جہنمی ہے اور ہر عقلمند مُردے کو جہنمی بنانے کی نسبت یہ زیادہ پسند کرے گا کہ اسے جانور کھاجائیں۔ پس اگر ان کا دیانتداری سے یہ خیال ہے کہ ان کے مُردے ناپاک ہوجاتے ہیں تو انہیں میری اس تجویز پر عمل کرنے میں کوئی اعتراض نہ ہوناچاہئے۔ ایک گھمائوں زمین احرار ان کے حوالہ کردیں اور اس کی قیمت مَیں ادا کردوں گا۔ میرے نزدیک یہاں ساٹھ ستّر خاندان احراری ہوں گے ممکن ہے کچھ زیادہ ہوں وہ اس اقرار پر دستخط کردیں کہ آئندہ کیلئے وہ اس قبرستان سے دست بردار ہوتے ہیں اور اس قبرستان میں بحصہ رسدی ان کے حصہ میں جتنی زمین آتی ہے وہ اگر ایک گھمائوں سے زیادہ ہوگی خواہ دس بیس گھمائوں ہو تو اتنی اور اگر ایک گھمائوں سے کم حصہ ان کا نکلتا ہوگا تو کم سے کم ایک گھمائوں زمین میری طرف سے ان لوگوں کو اغراضِ قبرستان کیلئے دے دی جائے گی۔ اس حصہ کی تعیین کرلی جائے اور اس کے مطابق زمین جو ایک گھمائوں سے کسی صورت میں کم نہ ہوگی میں دینے کیلئے تیار ہوں۔ جس کی صورت یہ ہوگی کہ جس قدر زمین کا فیصلہ ہو اُس قدر زمین اپنی گزشتہ خرید کردہ زمین میں سے ان لوگوں کو دے دیں اور اس کی قیمت مجھ سے لے لیں۔ اس زمین میں قادیان کے احرار اور ان کے ساتھی اپنا قبرستان بنالیںاور اس کے بعد پھر ان کو قادیان کے اس قبرستان میں یاکسی دوسرے مشترک قبرستان میں جہاں احمدی دفن ہوتے رہے ہیں دفن ہونے کا کوئی حق نہ ہوگا۔ یہ میں وعدہ کرتاہوں کہ اگر ان کے حصہ میں ایک گھمائوں سے کم زمین آئے گی تو حُسنِ سلوک کا نمونہ پیش کرنے کیلئے مَیں ایک گھمائوں زمین کی قیمت احرار کو دے دوں گا تاکہ کم سے کم ایک گھمائوں کا قبرستان ہو اور ان لوگوں کو لمبے عرصہ تک پھر قبرستان کی فکرنہ کرنی پڑے اور اگر اُن کا حصہ زیادہ ہے تو اتنی زمین کی جو ان کے حصہ میں آتی ہو قیمت ادا کردوں گا۔ لیکن اگر ان کے دوست اور ان کو اُکسانے والے جن کے پاس مسلمانوں کے چندے سے ہی خریدی ہوئی زمین موجود ہے مجھ سے قیمت لے کر بھی ان کو زمین دینے کیلئے تیار نہ ہوں تو وہ مجھے لکھ دیں کہ احرار قیمتاً بھی ہمیں زمین نہیں دیتے پھر میں ان کو خود زمین دے دوں گا۔ یہ بہترین تجویز میں نے ان کومُردے پاک کرنے کی بتائی ہے اور اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو دنیا سمجھ لے گی کہ پاکی اور ناپاکی کا سوال محض ایک ڈھونگ ہے جو دنیا کودھوکا دینے کیلئے رچایاگیا ہے ورنہ حقیقتاً ہمارے ساتھ دفن ہونے کو وہ اپنے لئے پاکیزگی کا موجب سمجھتے ہیں جبھی تو دور جانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ شاید احمدیوں کے طفیل ہمارے مُردے بھی امن پاجائیں ورنہ ایسی سہل تجویز پر ضرور عمل کرتے۔ میں پھر خلاصۃً اپنی تجویز دُہرادیتا ہوں۔
میری تجویز یہ ہے کہ ایسے احراری خاندان احرار کی خرید کردہ زمین میں سے جتنی زمین ان کے حصہ میں اس قبرستان سے آتی ہے لے لیں اور قیمت میں دوں گا، ہاں جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اگر ان کے حصہ میں دو چار کنال ہی آتی ہوگی تو میں ایک گھمائوں ضرور لے دوں گا۔ اور اگر گھمائوں سے زیادہ ہوگی تو اتنی ہی لے کر دوں گا جتنی ان کے حصہ میں آتی ہوگی لیکن ایسے لوگوں کو اپنے اور اپنے خاندانوں کی ایک فہرست گورنمنٹ میں دینی ہوگی کہ آئندہ ہمارا دوسرے قبرستانوں سے کوئی تعلق نہ ہوگا، باقی جو غیراحمدی رہ جائیں گے ان کو پھر کبھی ایسا سوال اُٹھانے کا حق نہیں ہوگا کہ احمدی یہاں دفن نہیں ہوسکتے اور جو اس فہرست میں شامل ہوں گے انہیں یہ حق نہ ہوگا کہ اپنے مُردے اس قبرستان یا کسی دوسرے قبرستان میں جہاں احمدی اپنے مُردے دفن کرتے ہیں لے جائیں۔ یہ دو تجویزیں میں قادیان کے غیراحمدی باشندوں کے سامنے پیش کرتا ہوںاور اپنی ذات کی طرف سے کرتا ہوں۔ یعنی اس کا بوجھ جماعت احمدیہ پر نہیں بلکہ میری ذات پر ہوگا۔ اب قادیان کے احرار کوچاہئے کہ وہ مرکزِ احرار کولکھیں کہ ہمیں پہلے علم نہ تھا اب آپ نے بتایا ہے کہ ہمارے مُردے احمدی مُردوں کے ساتھ دفن ہونے سے ناپاک ہوجاتے ہیں، آپ نے یہاں اٹھارہ گھمائوں زمین خریدی ہوئی ہے قادیان کے مرزا صاحب روپیہ دیتے ہیں جوآپ لے کرایک گھمائوں زمین ہمارے قبرستان کیلئے الگ کردیں۔ اگر مرکزِ احرار اس پر تیار ہو تو وہ سرکاری طور پر زمین رجسٹری کرا کرروپیہ مجھ سے لے لیں۔ اگر ایک گھمائوں سے زیادہ حق ثابت ہو تو اتنی زمین کی قیمت مجھ سے لے لیں۔ یہ قبرستان ان کیلئے بہت زیادہ پاکیزگی کا موجب ہوگا کیونکہ احرار کے روپیہ اور مقدس لوگوں سے خریدی ہوئی زمین میں ہوگا اور اگر ان لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ احراری منہ سے ان کوپاکی اورناپاکی تو بتاتے ہیں مگر اس کے حاصل کرنے میں ان کی کوئی مدد نہیں کرتے اور انہیں پتہ لگ جائے کہ وہ چندوں کا روپیہ اپنی جیبوں میںڈالنا اور اپنے کام میں لانا چاہتے ہیں مسلمانوں کوفائدہ نہیں پہنچانا چاہتے تو وہ مجھے لکھ دیں کہ احرار ہماری مددکیلئے تیار نہیں اور قیمتاً بھی ہمیں جگہ نہیں دیتے۔ اس کے بعد میں ایک گھمائوں یا اس سے زیادہ جتنی ان کے حصہ میں آتی ہو اپنی زمین میں سے یا خرید کر پہلے قبرستان سے الگ مگر اسی طرف ان کودے دوں گا۔ پھر وہ خاندان اس قبرستان میں دفن ہوسکیں گے کسی اور قبرستان میں دفن کرنے کا ان کو حق نہ ہوگا۔
ہاں ایک شرط ضروری ہے۔ مجھے معلوم ہؤا ہے کہ احرار نے قیمت زمینداروں کو دی کم ہے مگر لکھوائی زیادہ ہے اس لئے انہیں حلفیہ بیان دینا ہوگا کہ ہم نے اتنی ہی قیمت دی ہے اور اللہ تعالیٰ کی قسم کھانے کے بعد وہ جتنی قیمت بتائیں گے میں دے دوں گا۔ اگر تھوڑی دی ہوگی تو اتنی ہی مجھ سے لے لیں۔میں نہیںسمجھتا دنیا کوئی انسان اس سے زیادہ حُسنِ سلوک کسی سے کرسکتاہے۔ حکومت مائی باپ کہلاتی ہے مگر وہ بھی ایسا سلوک نہیں کرتی بلکہ ہمیں آنکھیں دکھاتی ہے اور کہتی ہے کہ تمہارے پاس کئی قبرستان ہیں تم اس قبرستان میں اپنا حق چھوڑ دواور یہ قبرستان ان غریبوں کیلئے رہنے دو۔ کوئی پوچھے کہ صاحبِ حیثیت وہ ہے یا میں ہوں؟ وہ سارے ہندستان کی مالک ہے، افریقہ اور دوسرے برّاعظموں میں بھی اس کی ملکیت ہے، ایک چھوٹے سے بنجر علاقہ سے نکل کروہ ساری دنیا میں پھیل گئی ہے، اگر ان لوگوںکا درد اِسے اس قدر ستارہا ہے تو کیوں اپنے پاس سے ان کوزمین نہیں دے دیتی۔ پھر احراری آٹھ کروڑ مسلمانوں کے نمائندے ہیں اور ان کے بھائی ہیں وہ کیوں مدد نہیں کرتے لیکن میں تو پھر بھی تیار ہوں اگر ان کے مائی باپ یعنی حکومت پنجاب کے وہ افسر جو احرار کی ہمدردی میں گھلے جارہے ہیں اور ہمارا اپنے حقوق لینا انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا ان کی مدد نہ کریں، ان کے بھائی یعنی احرار ان کی طرف توجہ نہ کریں، تو وہ میرے پاس آئیں میں پھر بھی ان کی مدد کروں گا۔ میں دولتمند نہیں ہوں بے شک قادیان کے مالکوں میں سے ہوں اور اس کے علاوہ بھی تین گائوں کا ہمارا خاندان مالک ہے مگر آمد کے لحاظ سے ہم دولت مند نہیں ہیں تاہم جب مائی باپ مدد سے ہاتھ اُٹھالیں اور جب برادر پیٹھ دکھاجائیں اُس وقت میں جوان کے خیال میں ان کادشمن ہوںان کی مدد کروں گا اور ظاہرہے کہ اس سے زیادہ حُسنِ سلوک اور کیا ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ پھر بھی شرم و حیا سے کام نہ لیں تو میں سوائے اس کے کیا کہہ سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کا علاج کرے انسان کے پاس ان کا کوئی علاج نہیں۔
یہ دو تجویزیں پیش کرکے میں انتظار کروں گا کہ وہ کس تجویز پر عمل کرتے ہیں لیکن میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میںہنسی اور تمسخر کی کوئی تجویز سننے کیلئے تیار نہیں ہوں۔ مثلاً کوئی ایک شخص مجھے لکھ دے کہ میرے لئے علیحدہ قبرستان کا انتظام کرادو تو میں یہ ماننے کیلئے تیار نہیں ہوں۔ یہ اسی صورت میں مَیں مانوں گا کہ سب کے سب احراری باشندے یہ لکھ دیں او رپھر ان میں سے آئندہ کسی نئے یا پُرانے شخص کو اختیار نہیں ہوگا کہ اس جتھہ میں شامل ہو۔ یا کوئی اعتراض دوسرے قبرستانوں کے متعلق کرے اور کوئی احراری اس جتھے سے باہر نہ رہ سکے گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ احراری قادیان کے کتنے لوگوں کے نمائندہ ہیں۔ یا کیا وہ واقعہ میں ہمارے ساتھ ایک قبرستان میں دفن ہونے کو اپنے لئے موجبِ ناپاکی خیال کرتے ہیں۔ اگر کوئی غیراحمدی ان کے ساتھ شامل نہ ہونا چاہے تو بے شک نہ ہو مگر یہ حق کسی کو نہیں ہوگا کہ بعد میں پھر بدل جائے۔ جواَب علیحدہ ہوجائیں گے وہ علیحدہ رہیں گے اور جو ہمارے ساتھ ہوں گے وہ ہمارے ساتھ شامل رہیں گے اورباقاعدہ قانونی تدابیر کے بعد میری ان تجاویز پر عمل ہوگا۔ ان دونوں میں سے جو تجویز وہ بہتر سمجھیں مان لیں، احرار سے زمین لے لیں جس کی قیمت میں دے دوں گا، یا مجھے لکھ دیں کہ وہ نہیں دیتے تو میں خود خرید کر یا اپنی پُرانی زمینوں میں سے ان کو دے دوں گا۔
اس کے بعد میں خطبہ کو اس بات پرختم کرتاہوں کہ میں نے انتہائی صورت ان کوخوش کرنے کی پیش کردی ہے اور اپنی طرف سے انتہائی تذلّل کا اظہار کردیا ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ نہ سمجھیں تو یاد رکھیں کہ میرا یہ تذلل او رصلح پسندی اس لئے نہیں کہ میں کسی سے ڈرتا ہوں۔ میں نہ اُن سے ڈرتا ہوں نہ اُن کے مددگار حکام سے۔میں صرف خداتعالیٰ سے ڈرتا ہوں او راُسی کی خوشنودی اور اسلام کی طرف سے نیک نمونہ پیش کرنے کیلئے یہ تجویز پیش کررہا ہوں۔ اب اس کے باوجود جو شخص صلح کیلئے تیار نہیں وہ یاد رکھے کہ ہم لڑائی کیلئے بھی تیار ہیں اور باوجود اس کے کہ ہم ان کی طرح جھوٹ اور قانون شکنی سے کام نہ لیں گے پھر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے دشمن ہمیں ہر میدان میں کامیاب پائیں گے۔ اِنْشَائَ اللّٰہُ
(الفضل یکم جولائی ۱۹۳۶ئ)









۲۴
تم اس مقام پرکھڑے ہوجائو کہ دنیا تمہاری نقل کرے
(فرمودہ ۳؍ جولائی ۱۹۳۶ئ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
کئی ہفتے ہوئے ہیں مَیں اعمال صالحہ کے متعلق مضمون بیان کررہاتھاکہ ہمارے عقائد میںہماری جماعت کی کوششیں نہایت بارآور اور کامیاب ثابت ہوئی ہیں۔ ہمارے عقائد کی صحت کو ہمارے دشمنوں نے بھی تسلیم کرلیا،کھلے طور پر اپنا لیا اور اختیار کرلیا ہے اس کے مقابلہ میں اعمال کے بارہ میں ہماری جماعت کی کوششیں ایسی بار آور اور کامیاب نہیں ہیں حتّٰی کہ غیر تو غیر خود اپنی جماعت کے لوگ بھی یہ مانتے ہیں کہ اس بارہ میں ہمیں وہ مقام حاصل نہیں کہ جو دنیا کیلئے نمونہ کہلاسکے حالانکہ ارادہ اور نیت اعمال کے متعلق بھی ویسا ہی موجود ہے جیسا کہ عقائد کی درستی کیلئے۔ پس جب محرک یکساں طاقت کا موجود ہے تو ایک جگہ ارادہ کا کم سے کم اثر اور دوسری جگہ زیادہ سے زیادہ اثر بتاتا ہے کہ بیرونی مخالفت ایک کی کم اور دوسرے کی زیادہ ہے۔
دنیا میں کام کرنے کی دقتیں دو ہی ہیں ایک قوتِ مؤثرہ کی کمی اور دوسرے قوتِ متأثرہ کی کمی۔ یا تو ناکامی اس لئے ہوتی ہے کہ کام کے پیچھے قوتِ ارادی اتنی مضبوط نہیں ہوتی جس کے ذریعہ وہ کام ہوسکتا ہے یا پھر قوتِ ارادی تو ہوتی ہے مگر بیرونی مخالفت اتنی شدید ہوتی ہے کہ اس پر غالب آجاتی ہے۔ مثلاً ایک طالب علم ہے وہ ارادہ کرتا ہے کہ سبق یاد کرے مگر ایک اور طالب علم ہے جو سبق یاد کرنے کا ارادہ ہی نہیں کرتا اور جب وہ ارادہ نہیں کرتا تو کوشش بھی نہیںکرتا۔ پس ان میں سے ارادہ کرنے والا سبق تو یاد کرلے گا اورنہ کرنے والا نہیں کرے گا۔ دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ ایک طالب علم ارادہ تو کرتا ہے مگر اس ارادہ کے مقابلہ میں جو کام اس کے سپرد ہے وہ زیادہ ہے۔ طالب علم سبق یاد کرنے کا ارادہ تو کرتا ہے مگر استاد بیوقوفی سے ایسی کتاب کا سبق اسے دے دیتا ہے جس کا وہ اہل نہیں۔ مثلاً پرائمری کے طالب علم کو ایم۔اے کی کوئی کتاب پڑھاتا ہے اب یہاں ارادہ تو ہے مگر کام اتنا مشکل ہے کہ ارادہ اس پر غالب نہیں آسکتا یا ارادہ تو ہے مگر حافظہ اتنا خراب ہے کہ اس کی خرابی ارادہ پر غالب آجاتی ہے۔ اس لئے جب تک ارادہ کی طاقت اور نہ بڑھ جائے یا جب تک اس سے زیادہ حافظہ پیدا نہ کیا جائے اُس وقت تک سبق یاد نہ ہوگا۔ یا مثلاً حافظہ بھی اچھا ہے ارادہ بھی ہے مگر طالب علم کسی جگہ ملازم ہے اور اسے اتنا وقت ہی نہیں ملتاکہ سبق یاد کرسکے وہ جلدی جلدی کام ختم کرتا ہے کہ کتاب یاد کرنے کیلئے وقت مل جائے مگر وہ اِدھر کتاب لے کر بیٹھتا ہے اور اُدھر اُس کا آقا اُسے دوسرا حکم دے دیتا ہے اور اسے مجبوراً کتاب رکھنی پڑتی ہے۔ اب یہاں ارادہ بھی ہے، حافظہ بھی ہے، یاد کرنے کی قابلیت بھی ہے مگر وقت نہیں۔ ایسے حالات میں ارادہ قوتِ مؤثرہ تھی اور سبق اور اس کے یاد کرانے کے ذرائع قوتِ متأثرہ اور اس کے معاون ارادہ نے جن آلات پر اثر ڈالنا تھا وہ اگر ا س کے مؤید نہیں ہیں تو اس کی تمام کوششیں بے اثر رہیں گی۔ پس یہ دقتیں ہیں جن کی وجہ سے انسان کو ناکامی ہوتی ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہم میں قوتِ ارادہ دونوں امور میں یکساں موجود ہے۔
جب کوئی شخص ہماری جماعت میں داخل ہوتا ہے تو وہ یکساں قوت سے فیصلہ کرتا ہے کہ اپنے عقائد اور اعمال دونوں کی اصلاح کرے گا۔ جب کوئی بچہ ہم میں پیدا ہوتا ہے تو وہ یکساں قوت کے ساتھ ارادہ کرتا ہے کہ وہ اسی طرح اپنے اعمال کو درست کرے گا جس طرح عقائد کو مگر ہر داخل ہونیو الا شخص اور ہر بالغ ہونے والا بچہ ایک ہی جیسی طاقت اور ارادہ کے باوجود عقائد کی اصلاح میں تو کامیاب ہوجاتا ہے لیکن اعمال کی اصلاح میں نہیں۔ ہم یکسانیت سے دشمن پرحملہ کرتے ہیں اس کے عقائد کو تو پہلے حملہ میں ڈگمگا دیتے ہیں لیکن اس کے اعمال میں سالہاسال کی کوشش کے باوجود ذرّہ تبدیلی نہیں کرسکتے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خود اپنے اعمال میں بحیثیت جماعت ہم اصلاح کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ گو ہم میں سے افراد اعمال کی اصلاح میں بھی کامیاب ہیں مگر ملّی اصلاح بعض افراد کی اصلاح سے نہیں ہوسکتی بلکہ اس کیلئے جماعتی اصلاح بھی ضروری ہوتی ہے۔ جماعتی اصلاح دنیا کے سامنے ایک ایسا نظارہ پیش کرتی ہے کہ دوسرے اس سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ دنیامیں سب سے بڑی قوتِ عمل نقل ہے اس سے زیادہ اثر کرنے والی کوئی اور قوت موجود نہیں۔ نقل دنیا میں ایسے حیرت انگیز کام کراتی ہے کہ عقل کو بھی پردے میں چھپادیتی ہے اور یہ چیز دنیا کی عقل اور سمجھ اور فہم پر اِس قدر غالب آجاتی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ہماری گزشتہ تاریخ ابھی اتنی قدیم نہیں کہ نظروں سے اوجھل ہوسکے۔ ابھی قریباً سو سال کا ہی عرصہ ہؤا ہے کہ ہندوستان کا فیشن بالکل اسلامی تھا ۔ لوگ جُبّے اور عمامے پہنتے اور داڑھیاں رکھتے تھے حتّٰی کہ ہندو بھی عمامے اور جُبّے پہنتے اور داڑھیاں رکھتے تھے مگر آج وہ زمانہ ہے کہ وہ لوگ جن کے گھروں سے یہ چیزیں نکلی تھیں وہ خود ان کو چھوڑ بیٹھے ہیں، کوٹ پتلون اور ہیٹ کے دِلدادہ ہیں اور داڑھیاں مُنڈواتے ہیں۔ غور کرو کہ آج سے صرف سَو سال قبل وہ کونسی چیز تھی جس نے داڑھی کو معقول بنادیا تھا، وہ کونسے دلائل تھے جنہوں نے جُبّے او رعمامے کے دوسرے سب لباس پر فوقیت دے دی تھی اور چھوٹے کوٹ کو ادنیٰ او رذلیل قرار دے دیا تھا۔ صرف یہ کہ ایک قوم تھی جسے دنیا اچھا سمجھتی تھی وہ دوسروں کے اثر کوقبول کرنے کیلئے تیار نہ تھی لوگ سمجھتے تھے کہ یہ قوم نہ کسی سے ڈرتی ہے نہ کسی کا اثر قبول کرتی ہے اور پھر ترقی اور عروج پر ہے اس لئے ضرور اس کے اندر کوئی خوبی ہے اس وجہ سے دوسروںنے بھی اس کی نقل شروع کردی۔ پھر ایک اور قوم آئی جس کے پیچھے قوتِ ارادی موجود تھی وہ جُبّہ پوشوں کے سامنے چھوٹے کوٹ اور عماموں والوں کے سامنے ہیٹ پہنے پھرتی رہی، وہ مُنڈی ہوئی داڑھیوں پر استقلال سے قائم رہی، لوگ اُس پر ہنستے اور پھبتیاں اُڑاتے رہے اور کہتے رہے کہ یہ مرد ہیں یا عورتیں؟ ان کے چھوٹے کوٹوں کودیکھ کر لوگ مضحکہ اُڑاتے اور کہتے کہ کتنے کنجوس ہیں کیا دو گِرہ اور کپڑا نہ ملتا تھا کہ لبادہ بنالیتے، ان کے سروں پرہیٹ دیکھ کر کہتے کہ یہ بھی کوئی لباس ہے جیسے بندر کے سر پر ٹوکری رکھی ہو مگر وہ لوگ اپنی بات پر قائم رہے اور آہستہ آہستہ نتیجہ یہ ہؤا کہ جو لوگ ان کی ہنسی اڑُاتے تھے وہ بھی نقل کرنے لگے اور ساری دنیا میں یہی رَو چل گئی کہ چھوٹا کوٹ ہی اچھی چیزہے، ہیٹ بہت آرام دہ ہے دھوپ سے بچاتی ہے، یہاں تک کہ ترکوں نے حکم دے دیا ہے کہ جو سر پر چھجے دار ٹوپی نہ پہنے گا اسے کوڑے لگائے جائیں گے اور جو داڑھی رکھے گا اُسے سزا دی جائے گی۔ داڑھی رکھنے اور لمبا کوٹ پہننے کیلئے لائسنس کی ضرورت ہے جس طرح بندوق کیلئے ہمارے ہاں لائسنس ضروری ہوتا ہے گویا داڑھی سے بھی کسی کو گولی ماری جاسکتی ہے۔ آخر کیا چیز تھی جس سے سَو سال کے اندر اندر دنیا میں اس قدر تغیر ہوگیا اور ترکوں میں تو یہ تبدیلی پندرہ بیس سال سے ہی ہوئی ہے پہلے وہ ہیٹ کے سخت دشمن تھے اور ان کا قومی لباس فیض کیپ۱؎ تھا جسے ہمارے ہاںرومی ٹوپی کہتے ہیں۔ باقی یورپین لباس تو خیر یورپ میں بھی ترکوں سے ہی گیاہے لیکن فیض ابھی قریب میں ان کے ہاں موجود تھی اور پندرہ بیس سال پہلے اسے اُتارنا ترک اپنی ہتک سمجھتے تھے مگر آج جو اسے پہنے اسے کوڑے لگائے جاتے ہیں۔ یہ تغیر کیوں ہؤا ؟ اسی لئے کہ بعض قومیں ایسی تھیں جوہیٹ پہنتی تھیں اور شرماتی نہیں تھیں انہیں دنیوی عزت حاصل تھی اس لئے دوسروں نے خیال کیا کہ شاید ترقی اسی میں ہے۔
نقالوں کی مثال تو ایسی ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کسی ملک میں کوئی شخص طب نہ جانتا تھا وہاں ایک طالب علم تھا جوبہت ہوشیاری کا دعویٰ کرتا تھا اور لسّان تھا مگر دراصل بیوقوف تھا وہاں کے لوگوں نے اسے اپنے ہمسایہ ملک میں طب سیکھنے کیلئے بھیجا اور اس کے ملک کے رئوساء نے اپنے واقفوںاور آشنائوں کے نام اسے خطوط وغیرہ بھی دیئے۔ چنانچہ وہ گیا اور ایک طبیب کے شاگردوں میں داخل ہوگیا۔ ابھی دو تین روز ہی ہوئے کہ طبیب کسی مریض کودیکھنے گیا اور اسے بھی قلمدان اُٹھا کر ساتھ چلنے کو کہا۔ وہاںجاکر مریض کی نبض دیکھی اور اسے کہا کہ آپ نے کل چنے کھالئے بھلا آپ ایسے نازک مزاج کو چنے کہاں ہضم ہوسکتے ہیں پیٹ درد اسی وجہ سے ہے اسے نسخہ لکھ دیا اور واپس آگیا۔ وہ طالب علم استاد کے مکان پر پہنچ کرکہنے لگا کہ بس اجازت دیجئے میں واپس جانا چاہتا ہوں۔ اس نے پوچھا کیا طب سیکھنے کاارادہ ترک کردیا؟ اُس نے کہا نہیں بس میں پڑھ چکا، ہوشیار آدمی بہت جلد سیکھ سکتا ہے وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ استاد نے کہا کہ اتنی جلدی طب کہاںسیکھی جاسکتی ہے؟ اس نے کہانہیں جی! ہوشیار آدمی کیلئے کیا چیز مشکل ہے اصل چیز تشخیص ہے سو اس کا گُر میں نے معلوم کرلیا ہے آگے علاج تو ہر ایک جانتا ہے۔ وطن پہنچا تو لوگوں نے کہا اتنی جلدی آگئے؟ اس نے کہاں ہاں بس میں سیکھ آیا ہوں ہوشیار آدمی جلد سیکھ سکتاہے۔ وہاں کوئی رئیس بیمار ہؤا تو یہ طبیب صاحب بھی پہنچے اور چارپائی کے نیچے نظر ڈالنے کے بعد کہا کہ آپ نازک مزاج آدمی ہیں آپ نے گھوڑے کی زین کھالی بھلا وہ آپ کیونکر ہضم کرسکتے تھے۔ وہ رئیس غصہ سے بھر کر کہنے لگا کہ گستاخی کرتے ہو تمہیں علاج کیلئے بلایا ہے یا ایسی باتوں کیلئے؟ اور نوکروں سے کہا اسے خوب پیٹو جب خوب پِٹ چکا تو کہنے لگا کہ ُاس طبیب نے جس سے میں نے طب سیکھی ایسی ہی بات کی تھی وہ مریض کودیکھنے گیا تو میں بھی اُس کے ساتھ تھا اور تاڑتا رہا کہ کیا کرتا ہے۔ اس نے چارپائی کے نیچے دیکھا دو تین چنے کے دانے پڑے تھے ا س نے مریض سے کہا کہ تم نے چنے کھائے ہیں۔ میں نے سمجھا کہ جو چیز چارپائی کے نیچے پڑی ہو وہی مریض نے کھائی ہوتی ہے۔ تونقال ایسے ہی ہوتے ہیں کسی کو ترقی یافتہ دیکھا تو اس کے کاموں کی نقل شروع کردی مگر اس وجہ سے کہ کبھی اس سے مضحکہ انگیز صورت پیداہوجاتی ہے۔ یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ یہ ایک معمولی طاقت ہے یا بُری چیز ہے اس میں زبردست طاقت ہے اور جس طرح اس سے بُری باتیں پید اہوتی ہیں کبھی یہ اچھی تبدیلیاں بھی پیدا کردیتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فتح مکہ تک عرب کے لوگ سمجھ سمجھ کر اسلام قبول کررہے تھے لیکن فتح مکہ کے بعد ان میں سے بُہتوں نے محض نقل کے طور پر اسلام قبول کرنا شروع کردیا گویا اسلام قبول کرنا اُس وقت فیشن ہوگیا تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک دریا ہے جو اُمڈا چلا آرہا ہے۔ دس دس اور بیس بیس ہزار افرد پر مشتمل قبائل ایک وقت میں اسلام قبول کرتے تھے اورتاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس بارہ میں وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے اور کہتے تھے جلدی کرو ایسا نہ ہو کہ ہمارا مخالف قبیلہ پہلے داخل ہوجائے۔ تو وہ اسلام نقل کا تھا آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد زکوٰۃ کا فتنہ جب اُٹھا تو وہی نقال جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں جلدی کی تھی انہوں نے کفر کی طرف لَوٹ جانے میں بھی جلدی کی ۔ ایسے سب قبائل نے ارتداد اختیار کرلیا حتّٰی کہ سارے عرب میں صرف تین جگہ نماز باجماعت ہوتی تھی۔ یہ اتنا نازک وقت تھا کہ حضرت عمرؓ جیسے بہادر انسان نے بھی حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا کہ اِس وقت ہمیں ذرا نرمی اختیار کرنی چاہئے سارے ملک میں بغاوت ہوگئی ہے مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ جو لوگ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اونٹ کاگھٹنا باندھنے کی رسّی زکوٰۃ میںدیتے تھے جب تک وہ یہ رسّی اب بھی نہ دینے لگیں گے میں ان سے لڑائی بند نہ کروںگا خواہ خطرہ اتنابڑھ جائے کہ دشمن مدینہ میں آجائے او رمدینہ کی گلیوں میں مسلمان عورتوں کی لاشیں پڑی ہوں جنہیں کُتّے گھسیٹتے پھریں ؎۲ ۔ حضر ت عمر رضی اللہ عنہ جب ان سے گفتگو کرکے باہر نکلے تو آپ کے دوستوں نے جو انتظار میں کھڑے تھے اور اسی فکر میں تھے پوچھا کچھ کامیابی ہوئی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اِس بڈھے کو بہت کمزور دل کاسمجھتا تھا مگر یہ تو ہم سب سے زیادہ بہادر ہے اور آخر خداتعالیٰ کے فضل سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلام کو دوبارہ عرب میں قائم کیا اور تربیت کے ماتحت وہی عرب سچے مسلمان بن گئے۔
غرض نقل ایک زبردست طاقت ہے جوکبھی نیکی کے پھیلنے میں ممد ہوتی ہے اور کبھی بدی کے پھیلنے میں۔چنانچہ جیسا کہ میں بتاچکا ہوں یہی نقل جس نے ایک دفعہ اسلام کی اشاعت میں مدد کی تھی دوسرے وقت میں اس کے شعار کو مٹانے میں مدد کی اور وہ لوگ جو داڑھیاں رکھتے تھے ان سے داڑھیاں مُنڈوانے لگی ، کبھی اس نے خدا اور رسول پر ایمان کے اظہار میں مدد دی اور کبھی انکارمیں۔ پس نقل اپنی ذات میں نہ اچھی ہے اورنہ بُری اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ ؎۳ ۔ نقل کرنے والا اگر اچھی چیز کی نقل کرتا ہے تو وہ اچھا ہوجاتا ہے اور اگربُری چیز کی نقل کرتاہے تو بُرا ہوجاتا ہے۔ نقل ایک شیشے کے کٹورے کی مانند ہے اس میں اگر دودھ ڈالا جائے تو دودھ نظر آتاہے اور اگر پانی ڈالا جائے تو پانی۔ اس میں کالا رنگ ڈالا جائے تو وہ کالا نظر آتا ہے اور اگر سُرخ رنگ ڈالا جائے تو سُرخ، غرض وہ ہر رنگ کے قبول کرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔
درحقیقت اس زبردست طاقت کواللہ تعالیٰ نے انسان کی بہتری کیلئے پیدا کیاہے تا کامیابی کے راستہ پر اس کا سفر اس کیلئے آسان ہوجائے گو گندے لوگ اُسے بُری طرح استعمال کرنے لگ جاتے ہیں جیسے اور پاکیزہ اشیاء کو لوگ بُری طرح استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔ا س طاقت کی پیدائش کی اصل غرض یہ ہے کہ صداقت ایک وقت تک جدوجہد کرنے کے بعد جب اپنا سکّہ جمالے تو پھر اس کی اشاعت میں سہولت پیدا ہوجائے۔ چنانچہ جب کوئی قوم ایسے مقام پرکھڑی ہوجاتی ہے کہ لوگ اُ س کی نقل کریں تو وہ کامیاب ہوجاتی ہے ورنہ ایک ایک اور دو دو کو منوانا بڑا لمبا کام ہے۔ اس طرح منوانے کیلئے ایک بڑا لمبا عرصہ کامیابی کیلئے درکارہوتا ہے اور دنیا کب تک انتظار کرسکتی ہے۔ چنانچہ اپنی ترقی کو ہی دیکھ لو اگر لوگ اسی طرح ہماری جماعت میں داخل ہوتے رہیں جس طرح اب ہوتے ہیں یعنی ایک ایک دو دو یا جس طرح رسول کریم ﷺ کے ابتدائی زمانہ میں داخل ہوتے تھے تو شاید ہم ہزار سال میں اتنے لوگوں کو بھی احمدی نہ کرسکیں جتنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک اسلام لائے تھے۔ کامیابی اُسی وقت ہوتی ہے جب لوگ نقل کرنے لگیں۔ اگر جس چیز کی نقل کی جائے سچی ہو تو اس کی نقل کرنے والے بھی عقل والوں جیسے ہی ہوجاتے ہیں کیونکہ تربیت سے سچائی ان کے دلوں میں بٹھادی جاتی ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ دخول کے وقت وہ نقل سے کام لیتے ہیں اور عقل بعد میں آتی ہے مگر نیک امر کی نقل کرنے والا باوجود اس کے کہ اُسے ابھی عقل سے حصہ نہیں ملا ہوتا بوجہ اس کے کہ وہ اچھی اور معقول بات کی نقل کررہاہوتا ہے دوسروں سے ذہین ضرور ہوتا ہے ۔ چنانچہ میں نے کئی دفعہ پیرے کی مثال سنائی ہے وہ کم عقل آدمی تھا صرف نقل سے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا مگر جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اُسے کہا کہ تم قادیان میں کیوں رہتے ہو؟ تواس نے جواب دیا کہ میں کوئی پڑھا لکھا آدمی تو نہیں ہوں صرف اتنا جانتا ہوں کہ مرزا صاحب ریلوے سٹیشن سے بارہ میل کے فاصلہ پر رہتے ہیں اور لوگ خودبخود ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں مگر آپ روز سٹیشن پر آتے ہیں اور آپ کی جُوتیاں بھی گھس گئی ہیں مگر پھر بھی آپ کو کوئی نہیں پوچھتا۔ یہ دلیل اس کی ٹھیک تھی گو اسی حد تک جس حد تک پیرے کے ایمان کا سوال تھا۔
دنیا کی جتنی تسلی نقل سے ہوتی ہے اُتنی دلائل سے نہیں ہوتی۔ نقل میں پونچہ پکڑنے والی بات ہوتی ہے سچائی جب ایک حد تک ترقی کرجاتی ہے تو لوگ اس میں داخل ہونے کیلئے بہانہ ڈھونڈتے ہیں۔ اُس وقت وہ کوئی معمولی سی دلیل بھی سُن لیں تو کہہ دیتے ہیں کہ بس اب ہم سمجھ گئے ہیں۔ ان لوگوں کی مثال اُس دھوبی کی سی ہوتی ہے جسے کہتے ہیں روز گھروالوں سے روٹھنے کی عادت تھی۔ ایک دن اس کے بیوی بچوں نے فیصلہ کیا کہ اگر اب یہ روٹھے تو اسے منایانہ جائے کیونکہ روز منانے سے یہ سر چڑھ گیا ہے۔ اگلے روز وہ پھر روٹھ گیا اور کہنے لگا میں گھر میں نہیں رہوں گا اور بیل لے کر باہر چلا گیا۔ دن بھر انتظار کرتا رہا کہ کوئی منانے آئے گا مگر کوئی نہ آیا۔ اُدھر بھوک نے تنگ کیا تو شام کے وقت بیل کو چھوڑ دیا اُس نے گھر کوہی جانا تھا کیونکہ اسے یہی عادت تھی کہ صبح گھر سے آتا اور شام کو گھر کو چلا جاتا۔ دھوبی نے اُس کی دُم پکڑ لی اور پیچھے پیچھے یہ کہتا ہؤا کہ چھوڑو بھی یار تم مجھے یونہی زبردستی گھر لے جارہے ہو میں نہیں جانا چاہتا گھر آگیا۔ تو جب کوئی قوم ایسے مقام پرکھڑی ہوجائے کہ دوسرے اس کی نقل کرنے لگیں تو پھر ڈر اور خوف جاتا رہتا ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ یہ قوم صبح شام، دن رات بڑھتی ہی جاتی ہے اور اسے کوئی طاقت روک نہیں سکتی، ممکن ہے اس کی مخالفت سے ہم پرکوئی عذاب آئے اور وہ اُس کے ساتھ ملنے کیلئے بہانے کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔ اور جب کوئی جاکر تبلیغ کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ اس طرح تو آج تک ہمیں کسی نے سمجھایا ہی نہ تھا اور جھٹ ایمان لے آتے ہیں۔ تو نقل دونوں طرح کام کرتی ہے مگر یہ مقام حاصل کرنے کیلئے ایک حد تک طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک اس خاص معیار پر کوئی قوم نہ پہنچ جائے لوگ اس کی نقل نہیں کرتے۔ پس ماننا پڑے گا کہ نقل میں بھی فائدے ہیں اور خدا نے اسے بے وجہ پید انہیں کیا او رفائدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ دین کی اشاعت میں بھی اس سے مد دلیتا ہے۔ داخل ہونے کے بعد منوانا آسان ہوجاتاہے کیونکہ داخل ہونے کے بعد انسان حکومت کے اندر آجاتاہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ سہولت پیدا کس طرح ہوتی ہے تا اسے حاصل کیا جاسکے۔ لوگ آج عقائد کے بارہ میں ہماری نقل کررہے ہیں، آج لوگ اگرچہ یہ نہیں جانتے کہ وفاتِ مسیحؑ سے اسلام کے کیا فوائد وابستہ ہیں مگر وہ اُسے مانتے ہیں، سارے قرآن کومحفوظ سمجھنے کے فوائد وہ نہیں جانتے مگر یہ عقیدہ ان کا ہوگیا ہے ، الہام کے جاری ہونے کی پوری حکمت وہ نہیں سمجھتے مگر عیسائیوں اور آریوں سے مقابلہ کے وقت وہ اسلام کی فضیلت کے طور پر اُسے پیش کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ صفاتِ الٰہیہ کے کمال کا اقتضاء یہ ہے کہ سب قوموں میں نبیوں کی آمد تسلیم کی جائے مگردوسروں کے سامنے وہ یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے، لیکن ابھی ہمارے اعمال کی لوگوں نے نقل شروع نہیں کی اور میںنے پچھلے بعض خطبات میں بتایا تھا کہ اس رستہ میں ہمارے لئے کچھ دقتیں ہیں اور یہ بھی بتایا تھا کہ جب قوتِ ارادی یکساں ہے تو یہ امتیاز کیونکر پیدا ہؤا ہے۔
میرے اس بیان کاخلاصہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے قوتِ متأثرہ کی کمزوری اور اس کے معاونین کانقص ہے۔ ایک چاقو سے ہم سنگترہ کاٹ سکتے ہیں مگر لوہے کی سلاخ نہیں کاٹ سکتے، ریتی سے لوہے کو چھیل سکتے ہیں مگر ہیرے کو نہیں کیونکہ وہ زیادہ سخت ہوتا ہے۔پس معلوم ہؤا کہ اعمال کے متعلق ہماری روکیں عقائد کی روکوں سے زیادہ سخت ہیں اور وہ میں بیان کرچکا ہوں کہ کیا ہیں۔
اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ان روکوں کودور کرنے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ اگر ہم دوسروں پر غالب آنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہئے اس سے ہمارے اندر ایسی قوت پیدا ہوجائے گی کہ دوسرں کی اصلاح کرسکیں۔دوسروں سے نقل کرانے کیلئے بہادری اور استقلال کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب کوئی قوم مضبوطی سے ان چیزوں پرقائم ہوجاتی ہے تو دوسرے خود بخود اُس سے مرعوب ہونے لگتے ہیں اور پھر اس کی نقل شروع کردیتے ہیں۔ جب دنیا میں لوگ بُری سے بُری باتوں کی نقل کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اچھی باتوں کی نہ کریں۔ اب انگریزوں میں ناچ کا رواج ہے مگر پہلے اُسے بُرا سمجھا جاتا تھا مگر آہستہ آہستہ لوگوںنے اسے اختیار کرنا شروع کیا۔ پہلے پہلے عورت اور مرد ہاتھ پکڑ کر ناچتے تھے، پھر سینہ کی طرف سینہ کرکے، پھر یہ سلسلہ ترقی کرکے فاصلہ تین انگلی تک آگیا اور اب بہت جگہ پر یہ بھی اُڑتا جاتا ہے۔ تو جس چیز کو بہادری اور استقلال سے قائم رکھا جاتا ہے لوگ اس کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں۔ ملکہ الزبتھ کے زمانہ میں جب پہلے پہل داڑھیاں مُنڈوانے کا حکم دیا گیا تو بعض درباریوں نے اپنے عہدے ترک کرنے اور دربار سے نکلنا منظور کرلیا مگر داڑھیاں مُنڈوانے پر رضامندنہ ہوئے مگر آج کوئی داڑھی رکھنا پسند نہیں کرتا۔ تو ہر چیز کے بدلنے سے پہلے ایک طاقت کی ضرورت ہوتی ہے جب لوگ اسے پیدا کرلیتے ہیں تو دوسرے ان کی نقل شروع کردیتے ہیں اور جب تک وہ پیدا نہ ہو نقل کرانا دشوار ہوتا ہے اور ہم نے اپنے اندر اسی طاقت کو پیداکرنا ہے مگر اس کے رستہ میں بہت سی روکیں ہیں جن کے مقابلہ کیلئے ہم نے قواعد تجویز کرنے ہیں۔ اس کیلئے ہمیں اپنے نفسوں کی قربانی اور ایک ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور جب تک یہ چیزیں ہمیں حاصل نہ ہوں گی ہم کامیاب نہیں ہوسکتے یہ چیزیں کس طرح حاصل ہوسکتی ہیں اس کے متعلق تفصیلی طور پر تو میںابھی بیان نہیں کرسکتا کیونکہ وہ تحریک جدید کا دوسرا حصہ ہے اور اس کے بیان کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ پہلا حصہ پورا ہوجائے۔ جب تک پہلا امتحان پاس نہ کرلیاجائے دوسرے کی طرف قدم اُٹھانا کبھی مفیدنہیں ہوسکتا۔ لیکن میںنے جماعت کو بارہا توجہ دلائی ہے کہ وہ ان مشکلات پر اور ویسی ہی دوسری مشکلات پر جو ہمارے سامنے آئیں غور کرے کہ ان کا کیا علاج ہے وہی علاج ہماری کامیابی کا علاج ہوگا۔ ہر احمدی اس بات پر غور کرے اور یقینا آپ میں سے ہر ایک کا دل یہی گواہی دے گاکہ ہمارے ارادہ میں کمی نہیں ، ارادہ اعمال کی اصلاح کے متعلق بھی ویسا ہی ہے جیسے عقائد کی اصلاح کے بارہ میں۔ نقص قوتِ متأثرہ میں ہے۔ جن پر ہمارے ارادہ نے اثر انداز ہوناہے ان میں نقص ہے۔ ہمارے پاس چاقو موجود ہے مگر جس چیز کو اس سے کاٹنا ہے وہ اس سے زیادہ سخت ہے۔ یا ہمیں اس کو نرم کرنا پڑے گا اور یا پھر چاقو کو تیز کرنا ہوگا اس کے سِوا چارہ نہیں۔ سخت چیز کو نرم کرکے بھی اس سے فائدہ اُٹھایا جاسکتاہے جیسے سونا چاندی ہے اس کا کشتہ بنالیاجاتاہے۔لوہا کتنی سخت چیزہے مگراس کا بھی کشتہ بنالیاجاتا ہے پس یا تو قوتِ ارادی کوزیادہ مضبوط کرو اور یا پھر قوتِ متأثرہ کے نقص کو دور کرو۔ یہی دو علاج ہیں۔ اگر ہم اپنے ارادوں میں اتنی طاقت پیدا کرلیں کہ وہ سب روکوں کو مٹادے تو پھر بھی ہم کامیاب ہوسکتے ہیں اور ایسی قوتِ ارادی ایمان سے ہی پیدا ہوسکتی ہے۔ ایمان جس قدر مضبوط ہوگا اسی قدر قوتِ ارادی مضبوط ہوگی اگر ایمان کمزور ہو تو قوتِ ارادی بھی کمزور ہوگی۔ حضرت مسیح ناصری ؑ نے فرمایا کہ اگر تمہارے اندر رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو تو تم پہاڑوں کو چلا سکتے ہو مگر جب تک یہ مقام حاصل نہ ہو اُس وقت تک جدوجہد کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ بے شک یہ ہوسکتا ہے کہ خداتعالیٰ ہم میں سے بعض کو وہ مقام دے دے کہ ہم جو چاہیں ہوجائے مگر ساری جماعت یہ مقام حاصل نہیںکرسکتی۔ باقیوں کیلئے جدوجہد کی ضرورت پھر بھی باقی رہے گی اور اس کیلئے ہم کو غور کرنا چاہئے کہ وہ کونسی تدابیر ہیں جن سے ساری جماعت کامیابی کامنہ دیکھ سکے اور ان روکوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو ہمارے رستہ میں ہیں ایسے علاج تجویز کرنے چاہئیں کہ باوجود ان کے ہم کامیاب ہوسکیں۔ وہ تدابیر کیا ہیں؟ ان کی تفاصیل تو میں ابھی بیان نہیں کرسکتا ہاں اجمالی طو رپر اس کا ذکر اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو آئندہ خطبہ میں کردوں گا اورباقی کو اُس وقت تک ملتوی رکھوں گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جماعت پہلا قدم اُٹھالے۔ (الفضل ۱۱؍ جولائی ۱۹۳۶ئ)
؎۱ فیض کیپ: (FEZ CAP) تُرکی ٹوپی
؎۲ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ ۵۱ ، مطبوعہ لاہور ۱۸۹۲ء
؎۳ ابوداؤد کتاب اللباس باب فی لبس الشھرۃ

۲۵
اصلاحِ اعمال کیلئے تین چیزوں کی ضرورت ہے
(۱) قوتِ ارادی (۲) صحیح اور پورا علم (۳) قوتِ عملی
(فرمودہ ۱۰ ؍ جولائی ۱۹۳۶ئ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
وہ مضمون جس کے متعلق گزشتہ کئی ہفتوں سے میں خطبات دیتا آرہا ہوں سوائے دو خطبوں کے کہ جن میں تھوڑے دنوں کیلئے اس مضمون کوبند کردیاگیا تھا آج میں پھر شروع کرتا ہوں۔ مضمون یہ ہے کہ احمدیت کو جہاں خداتعالیٰ کے فضل سے عقائد کی اشاعت میں اس قدر عظیم الشان فتح حاصل ہوئی ہے کہ ہماری جماعت کے دشمن بھی وہی عقائد رکھنے لگ گئے ہیں جو ہمارے ہیں اور جن پر کسی زمانہ میں وہ کفر کے فتوے لگایا کرتے تھے، وہاں اعمال کی اصلاح میں ابھی تک ہماری جماعت کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور نہ صرف یہ کہ دشمنوں کو ہم ابھی تک اپنا ہم رنگ نہیں بناسکے بلکہ بعض احمدی بھی ایسے پائے جاتے ہیں کہ جو دشمنوںکے رنگ میں رنگین ہیں اور ان پر احمدیت کا رنگ ابھی تک نہیں چڑھا باوجود اس کے کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً ؎۱ یعنی اللہ تعالیٰ کے رنگ سے بہتر اور کون سا رنگ ہے جس سے انسان اپنے آپ کورنگے پھر بھی ہماری جماعت نے ابھی تک وہ رنگ اختیار نہیں کیا جس کے بغیر خداتعالیٰ کا قُرب اور اس کی محبت انسان کوحاصل نہیں ہوسکتی۔
میںنے اس نقص کی وجوہ بیان کرتے ہوئے بتایاتھا کہ انسان میں ایک قوتِ مؤثرہ ہوتی ہے اور ایک قوتِ متأثرہ ہوتی ہے ۔ او رپھر ان دونوں قوتوں کے معاون ہوتے ہیں اور کامیابی کیلئے صرف قوتِ مؤثرہ کا ہونا ضروری نہیں بلکہ قوتِ متأثرہ کا اس کے مطابق ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر قوتِ متأثرہ اس حد تک نہ ہو جس حد تک قوتِ مؤثرہ ہو تب بھی نتائج اطمینان بخش نہیں نکل سکتے اور اگر قوتِ متأثرہ اس حد تک نہ ہو جس حد تک قوتِ متأثرہ ہو تب بھی نتائج انسان کی امید کے مطابق نہیں نکل سکتے۔ میںنے بتایا تھا کہ قوتِ مؤثرہ جو قومی دماغ کی حیثیت رکھتی ہے جب کوئی بات عمل میں لانا چاہتی ہے تو انسان کی قوتِ ارادی کوحرکت میں لاتی ہے۔ اس کے بعد خداتعالیٰ نے انسان میں ایک مادہ رکھا ہؤا ہے جو قوتِ ارادی کی بات کو مانتا اور اُسے تسلیم کرتا ہے جسے عبودیت بھی کہتے ہیں۔ اگر عبودیت کا مادہ انسان میں نہ ہو تو قوتِ ارادی کی موجودگی کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ جیسے بعض ہاتھ مفلوج ہوتے ہیں دماغ حکم دیتا ہے کہ ہِلو مگر وہ نہیں ہِل سکتے، بعض پائوں مفلوج ہوتے ہیں دماغ حکم دیتاہے کہ چلو مگر وہ نہیں چلتے، بعض زبانیں مفلوج ہوتی ہیں دماغ حکم دیتا ہے کہ بولو مگر وہ نہیں بولتیں، اسی طرح بعض آنکھیں مفلوج ہوتی ہیں دماغ حکم دیتاہے کہ دیکھو مگر وہ نہیں دیکھ سکتیں تو اگر قوتِ متأثرہ موجود نہ ہو یا بہت ہی کمزور ہو تو اُس وقت قوتِ مؤثرہ بیکار اور معطّل ہوجاتی ہے اور اگر قوتِ مؤثرہ بیکار اور معطّل ہو تو قوتِ متأثرہ کو چونکہ حکم دینے والاکوئی نہیں رہتا اس لئے وہ جس طرح چاہتی ہے کام کرتی جاتی ہے اور اس وجہ سے ان کاموں کے مفید نتائج نہیں نکلتے۔ جیسے ہر گھر میں ماں باپ بچوں پرحکومت کرتے ہیں اب اگر بچے اپنے ماں باپ کے حکموںکو نہ مانیں تب بھی گھر کا امن قائم نہیں رہ سکتا اور اگرماں باپ میں عقل نہ ہو او روہ بچوں کی صحیح تربیت اور ان کی نگرانی نہ کرسکیں تب بھی امن نہیں رہ سکتا۔ تو اصلاحِ اعمال کیلئے دونوں قوتوں کا درست ہونا ضروری ہوتا ہے اور میں نے بتایا تھا کہ ہماری قوتِ مؤثرہ میںکوئی نقص نہیں اور اگر کسی کی قوتِ مؤثرہ میں کوئی نقص ہے تو بہت ہی کم ہے ورنہ ارادہ کے طور پر ہماری جماعت کے تمام افراد چاہتے ہیں کہ انہیں تقویٰ اور طہارت حاصل ہو، وہ اسلامی احکام کی اشاعت کرسکیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا قرب حاصل کرسکیں۔ پس ہماری قوتِ ارادی تومضبوط ہے اور طاقتور ہے پھر بھی نتائج صحیح نہیںنکلتے تو یقینا دو باتوں میں سے ایک ضرورہے۔ یا تو یہ کہ عمل کیلئے جتنی قوتِ ارادی چاہئے اُتنی ہمارے اندر نہیں لیکن عقیدہ کی اصلاح کیلئے جتنی قوتِ ارادی کی ضرورت تھی وہ ہم میں موجود تھی اس وجہ سے عقائد کی اصلاح ہوگئی لیکن عملی اصلاح کیلئے چونکہ قوتِ ارادی کی ضرورت تھی اور وہ ہمارے اندر نہیں تھی اس لئے ہم اعمال کی اصلاح میں کامیاب نہ ہوسکے او ریا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ ہماری عبودیت میں کچھ نقص ہے اور قوتِ متأثرہ مفلوج ہونے کی وجہ سے قوتِ مؤثرہ کے اثر کو قبول نہیں کرتی یا جن معاونوں کی اُسے ضرورت ہوتی ہے ان میں کمزوری ہے۔ اس صورت میں جب تک ہم قوتِ متأثرہ کا علاج نہ کرلیں کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ جیسے کوئی طالب علم کند ذہن ہوتاہے وہ سبق پڑھتا ہے مگر یاد نہیں رکھ سکتا اس کا جب تک ذہن درست نہیں کرلیا جاتا اُس وقت تک خواہ اُسے کتنا سبق دیا جائے، کتنی بار اُسے یاد کرانے کی کوشش کی جائے وہ یاد نہیں رکھ سکے گا۔ پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہمارے نیکی کے ارادے دماغ کے ا س حصہ پرکیوں اثر نہیں کرتے جس پر اثر ہونے کے نتیجہ میںعملی اصلاح شروع ہوجاتی ہے اور ہمیں ان روکوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اس رستہ میں حائل ہوتی ہیں۔
میں نے بتایا تھا کہ دو قِسم کی روکیں ہیں جو اس رستہ میں حائل ہوتی ہیں۔ ایک قوتِ ارادی میں کمزوری اور دوسری قوتِ عمل میں کمزوری لیکن ان کے علاوہ ایک تیسری صورت بھی ہے جو ان دونوں کے درمیان ہے اور جو دونوں طرف اپنا اثر ڈالتی ہے اور وہ یہ کہ علمی طور پر انسان میں کمزوری ہو کیونکہ ارادہ بھی علم کے مطابق چلتا ہے۔ مثلاً اگر کسی انسان کویہ معلوم نہ ہو کہ ایک ہزار کا لشکر اُس کے مکان پرحملہ آورہونے والا ہے بلکہ اُسے صرف اتنا معلوم ہو کہ ایک آدمی اس کے مکان پرحملہ کرے گا تو یقینا جو تدابیر وہ اس حملہ کے دفاع کیلئے اختیار کرے گا وہ اس صورت سے مختلف ہوں گی جو اس صورت میں کرتا جب اُسے معلوم ہوتا کہ ایک ہزار آدمی اس کے مکان پرحملہ آور ہونے والے ہیں۔ تو علم کی کمزوری کی وجہ سے بھی نقص پیدا ہوجاتا ہے اور علم کی صحت قوتِ ارادی کو بڑھادیتی ہے۔ جن لوگوں کو کبھی بوجھ اُٹھانے کا موقع ملا ہو وہ جانتے ہیں کہ بعض چیزیں ہلکی نظر آتی ہیں مگر ہوتی بوجھل ہیں ان کے اُٹھاتے وقت انسانی ہاتھ جھٹکا محسوس کرتا ہے ۔ پہلے یہ سمجھ کر وہ ہاتھ ڈالتا ہے کہ یہ ہلکی چیز ہے مگر جب دیکھتا ہے کہ بھاری ہے تو کہتا ہے اوہ! یہ توبھاری چیز تھی اور اس خیال کے آنے پر دوبارہ وہ اسی بھاری چیز کواُٹھا لیتا ہے۔ آخر دوبارہ اس میں زائد طاقت تو نہیں آجاتی۔ طاقت تو وہی ہوتی ہے جو پہلے تھی پھر وجہ کیا ہے کہ پہلی دفعہ وہ چیز اُس سے نہیں اٹھائی جاتی مگر جب دوسری دفعہ اُسے پتہ لگتاہے کہ بوجھل ہے تو وہ اسے اٹھالیتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں ایک قوتِ موازنہ رکھی ہوئی ہے۔ وہ قوت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں کام کیلئے اتنی طاقت درکار ہے او رچونکہ ساری طاقت انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتی بلکہ دماغ میں محفوظ ہوتی ہے اس لئے جب دماغ اتنی طاقت بھیجتا ہے جتنی پہلی دفعہ قوتِ موازنہ طلب کرتی ہے تو انسان کے ہاتھ کو جھٹکا محسوس ہوتاہے اور قوتِ موازنہ سمجھ جاتی ہے کہ میری غلطی تھی تب وہ دماغ کو اور طاقت بھیجنے کیلئے کہتی ہے او راس طاقت کے آنے پر چیز بآسانی اُٹھالی جاتی ہے۔ مثلاً ایک چیز پڑی ہو جس کے متعلق انسان یہ سمجھتاہو کہ یہ دس سیر وزنی ہے لیکن ہوبیس سیر کی تو چونکہ انسان اسے اس طاقت سے اُٹھائے گا جتنی طاقت دس سیر بوجھ اُٹھانے کیلئے ضروری ہوتی ہے اس لئے اس کے ہاتھ کوجھٹکا لگے گا۔ جھٹکا لگنے کے معاً بعد دماغ دس سیر بوجھ اُٹھانے کی اور طاقت بھیج دے گا اور وہ چیز اُٹھائی جاسکے گی۔ تو قوتِ موازنہ نے جو فیصلہ کیا اس کی غلطی کی وجہ سے انسانی ہاتھ کوجھٹکالگا ورنہ طاقت تو اس میں اس بوجھ کو اُٹھانے کی پہلے سے تھی۔ وہ طاقت رکھتا ہے کہ بیس سیربوجھ کو اُٹھالے لیکن قوتِ موازنہ جو دماغ کیلئے وزیر کی حیثیت رکھتی ہے کہا کہ دس سیر وزن کیلئے طاقت چاہئے تب دماغ نے اتنی ہی طاقت بھیج دی لیکن جب دشمن سے مقابلہ ہؤا تو قوتِ موازنہ کو اپنی غلطی محسوس ہوئی اور اس نے دماغ کو اطلاع دی کہ دس سیر مزید کے اٹھانے کی طاقت بھجوائی جائے تب وہ چیز بآسانی اُٹھالی گئی۔ بڑی بڑی چیزیں تو الگ رہیں چھوٹی چھوٹی چیزوں کابھی یہی حال ہوتا ہے ہولڈر کی کیا حیثیت ہوتی ہے لیکن بعض ہولڈروں کے اندر سیسہ بھرا ہوتا ہے۔ اب جو شخص ایسے ہولڈرکو جس میں سیسہ بھرا ہؤا ہو غلطی سے عام ہولڈر سمجھ کر اُٹھائے گا تو چونکہ جتنی طاقت کی ضرورت تھی اس سے وہ کم طاقت خرچ کرے گا اس لئے اندرونی طور پر وہ ایک جھٹکامحسوس کرے گا کیونکہ جب وہ اسے اٹھانے لگتا ہے تو جتنی طاقت کی ضرورت سمجھ کر اُٹھاتا ہے اس سے زیادہ کی ضرورت محسوس ہوجاتی ہے اور اس طرح اس کا ہاتھ جھٹکا محسوس کرتا ہے اور گو ہولڈر اٹھانے کیلئے وہ دوسری دفعہ ہاتھ نہیں ڈالتا بلکہ پہلی مرتبہ ہی اسے اُٹھالیتا ہے مگر اس میںشبہ نہیں کہ اس کا بازو اندرونی طور پر یہ حِس محسو س کرتا ہے کہ مجھے پہلی دفعہ اس ہولڈر کے اٹھانے میں کامیابی نہیں ہوئی بلکہ دوسری دفعہ میں نے اسے اٹھایا ہے۔ گو اس موقع پر پہلی اور دوسری کوشش میں ایک سیکنڈ کے سینکڑویں حصہ کافرق ہوتاہے اور دونوں میں امتیاز کرنامشکل ہوتا ہے مگر فرق ہوتا ضرور ہے۔ یہ قوتِ موازنہ ہمیشہ علم کے ذریعہ آتی ہے خواہ علم اندرونی طور پر ہو خواہ بیرونی طور پر۔ اندرونی علم سے مراد مشاہدہ اور تجربہ ہے اور بیرونی علم سے مراد بیرونجات کی آوازیںہیں جوکان میں پڑیں۔ مثلاً یہ علم کہ دس دشمن آرہے ہیں ان کے مقابلہ کیلئے تیار ہوجائو بیرونی ہے کیونکہ کان اسے سنیں گے اور دماغ کوسنائیں گے۔ لیکن جب دس سیر وزنی شَے اُٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھتے ہیں تو کوئی اسے نہیں کہتا کہ یہ دس سیر وزنی ہے بلکہ سابق تجربہ کی بنا ء پر قوتِ موازنہ آپ ہی اس کے بارہ میں فیصلہ کرتی ہے پس یہ علم اندرونی ہوتا ہے۔
اس تمہید کے بعد میں بتاتاہوں کہ جب انسان اصلاحِ عمل کیلئے کھڑا ہوتاہے تو قوتِ موازنہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ مجھے اپنی جدوجہد کیلئے کس قدر طاقت کی ضرورت ہے۔ بعض دفعہ صحیح علم نہ ہوسکنے کی وجہ سے انسان اعمال کی اصلاح پرغالب نہیں آسکتا اور قوتِ موازنہ عدمِ علم کی وجہ سے اسے صحیح خبر نہیں دیتی کہ اس عملی اصلاح کیلئے کس قدر طاقت کی ضرورت ہے۔ جیسے ظاہر ہے کہ اگر کسی کو معلوم نہ ہوکہ فلاں چیز زہر ہے تو عدمِ علم کی وجہ سے قوتِ موزانہ اس کے کھانے سے ڈرائے گی نہیں لیکن اگر اُسے معلوم ہو کہ یہ زہر ہے تو پھر اس کی قوتِ موازنہ فیصلہ کرے گی کہ آیا اُسے زہر کھانا چاہئے یا نہیں۔ مثلاً اگر ایک شخص زندگی سے بیزار ہے، افکار و ہموم ہر وقت اس پر غالب رہتے ہیں اور وہ مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں رکھتا تو قوتِ موازنہ اسے کہے گی کھالو اچھا ہے مر کر ان جھگڑوں سے نجات تو ملے گی لیکن جوشخص زندہ رہنا چاہتا ہے اسے قوتِ موازنہ کہے گی کہ یہ زہر ہے اسے مت کھائو۔ یا فرض کر وکوئی ایسا زہرہے جوپچاس فیصدی مُہلک ثابت ہوتا ہے اور پچاس فیصدی ایسا بھی ہوتا کہ لوگ بچ جاتے ہیں اب اگر کسی انسان کے سامنے اس قِسم کا زہر رکھ دے اور کہے کہ اگر یہ کھالو تومیں تمہیں ایک ہزار روپیہ انعام دوں گا تو وہاںبھی قوتِ موازنہ اسے بتادے گی کہ کس حد تک اسے اس تجویز پر عمل کرنا چاہئے اور کس حد تک نہیں۔ اگر زندگی اس کیلئے دوبھر ہے، اگرمشکلات ومصائب سے وہ گھرا ہؤا ہے اور جینے سے سخت بیزار ہے تو قوتِ موازنہ کہے گی زہر کھالو اس میں کیا حرج ہے اگر بچ گئے تو روپیہ مل جائے گااگر مرگئے تو دنیا کے دھندوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ لیکن اگر کوئی شخص ہمت والا ہے مشکلات پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے اور کمرِہمت توڑ کر نہیں بیٹھ جاتا تو اسے قوتِ موازنہ کہے گی پچاس فیصدی موت بھی تم کیوں قبول کرتے ہو اسے مت کھائو خواہ تمہیں کتنا ہی انعام ملنے کی لالچ دلائی جائے۔
غرض قوتِ موازنہ انسان کو ہوشیار کرتی ہے اور وہی عدم علم کی وجہ سے اسے غافل کرتی ہے او رپھر اسی عدمِ علم کی وجہ سے یا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے گناہ صادر ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک بچہ جب ایسے لوگوں میں پرورش پاتا ہے جو گناہ کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں جن کی مجلسوں میں ہروقت یہ ذکرہوتا رہتا ہے کہ (۱) جھوٹ کے بغیر تو دنیا میں گزارہ نہیں ہوسکتا (۲)جھوٹ ہی ہے جو تمام ترقیا ت کی کلید ہے (۳) آجکل بھلا کون سچ بولتا ہے (۴) اس زمانہ میں تو جھوٹ بولے بغیر کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی تو ایسے فقرے سن سن کراس کاعلم صرف اسی حد تک محدود رہتا ہے کہ جھوٹ بولنا ایسی بری بات نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے ہوکر جہاں اسے جھوٹ بولنے کا موقع ملے گا اور اپنی قوتِ موازنہ سے وہ فیصلہ چاہے گا کہ قوتِ موازنہ فوراً اسے کہہ دے گی کہ خطرہ زیادہ ہے جھوٹ بول لو اِس میں حرج ہی کیا ہے۔ یا مثلاً غیبت ہے وہ اپنے اِردگرد جب تمام لوگوں کو غیبت کرتے دیکھتاہے تو بڑا ہوکر جب اس کے سامنے بھی کوئی غیبت کا موقع آتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر میںنے غیبت کی تو مجھے فائدہ پہنچ جائے گا تو قوتِ موازنہ اسے کہہ دیتی ہے کہ سارے ہی غیبت کرتے ہیں اگر تم بھی غیبت کر لو تو کیا حرج ہے گویہ گناہ تو ہے مگر کوئی اتنا بڑا گناہ نہیں۔ یہی وہ امر ہے جس کے متعلق میںنے بتایا تھا کہ اصلاحِ اعمال میں ایک خطرناک روک یہ ہے کہ کہا جاتا ہے بعض گناہ بڑے ہیں اور بعض چھوٹے اس کی وجہ سے بعض گناہو ںکولوگ نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ کہتے ہیں یہ تو چھوٹے ہیں ان کے کرلینے میں کیا حرج ہے۔ اس خیال کا اثریہ ہوتا ہے کہ گو قوتِ موازنہ موجود ہوتی ہے مگر وہ اس غلط علم کی وجہ سے جو اُس نے ماحول سے حاصل کیا تھاانہیں اتنی طاقت نہیں دیتی جس طاقت کے نتیجہ میں وہ گناہ پرغالب آسکیں۔جیسے میں نے بتایا ہے کہ اگر ایک چیز دس سیر یا بیس سیر وزنی ہو اور آدمی اسے پانچ چھ سیر وزن کی سمجھ رہا ہو تو خواہ اس میں دو من بوجھ اُٹھانے کی طاقت ہو پہلی دفعہ اس کے ہاتھ کو جھٹکا محسوس ہوگا اور وہ اسے نہ اُٹھاسکے گا۔ پہلی دفعہ اس کے ہاتھ کوجھٹکا لگنا او راس کا اس چیز کونہ اُٹھاسکنا اس لئے نہ تھا کہ اس میں وہ چیز اٹھانے کی طاقت نہ تھی ۔ طاقت تو اُس میں اس سے بھی زیادہ بوجھ اٹھانے کی تھی جھٹکا اسے اس لئے لگا کہ قوتِ موازنہ نے غلط اندازہ کرکے دماغ کوکم طاقت بھیجنے کامشورہ دیا۔ اس طرح گناہوں کو مٹانے کی طاقت بھی انسان میں ہوتی ہے لیکن جب گناہ سامنے آتا ہے اور قوتِ موازنہ کہہ دیتی ہے اس گناہ میں کیا حرج ہے یہ تو معمولی گناہ ہے اور دوسری طرف فائدہ اس سے بہت زیادہ ہے تو دماغ اتنی طاقت اس گناہ کو مٹانے کیلئے نہیں بھیجتا جتنی بھیجنی چاہئے اور وہ اس گناہ کا مرتکب ہوجاتا ہے۔
اب گویا اصلاحِ اعمال کیلئے تین چیزوں کی مضبوطی کی ضرورت ہوئی۔ ایک قوتِ ارادی کی مضبوطی کی ضرورت ہے، ایک علم کی زیادتی کی ضرورت ہے اور ایک قوتِ عملیہ میں طاقت کا پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ علم کی زیادتی بھی درحقیقت قوتِ ارادی کا ہی حصہ ہوتی ہے کیونکہ علم کی زیادتی کے ساتھ قوتِ ارادی بڑھ جاتی ہے یا یوں کہو کہ عمل کرنے پر وہ آمادہ ہوجاتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ اصلاح کیلئے ہمیں تین چیزوں کی ضرورت ہے۔ قوتِ ارادی کی طاقت کہ وہ بڑے بڑے کاموں کے کرنے کی اہل ہو، علم کی زیادتی کہ ہماری قوتِ ارادی اپنی ذمہ داری کومحسوس کرتی رہے اور غفلت میں رہ کر موقع نہ گنوادے، قوتِ عملیہ کی طاقت کہ ہمارے اعضاء ہمارے ارادہ کے تابع چلیں اور اس کے حکم کوماننے سے انکار نہ کریں۔ جب ہماری قوتِ ارادی مضبوط ہوگی وہ ایک زبردست افسر کی طرح اپنی طاقت اور قوت کے ساتھ جسم کی کمزوریوں پرغالب آکر اسے اپنے منشاء کے مطابق کام کرنے پرمجبور کردے گی، جب علم صحیح ہوگا ہم ان ناکامیوں سے محفوظ ہوجائیں گے جو قوتِ موازنہ کی غلطیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ وہ ایک اندازہ کام کا لگاتی ہے لیکن وہ اندازہ غلط ہوتا ہے اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے اوربعض دفعہ اصلاح کا موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور اس کام کیلئے دوبارہ کوشش فضول ہوجاتی ہے او ربعض دفعہ عدمِ علم کی وجہ سے قوتِ ارادی فیصلہ ہی نہیں کرسکتی کہ اسے کیا کرنا چاہئے، اسی طرح جب قوتِ عملیہ مضبوط ہوگی تو وہ قوتِ ارادی کے ادنیٰ سے ادنیٰ اشارہ کو بھی قبول کرے گی جیسے کہ ایک چُست آدمی کو جب کوئی کام کہا جاتا ہے تو وہ فوراً کھڑا ہوجاتا ہے اور ایک سست آدمی کو کہا جاتا ہے کہ وہ اسی معمولی سے کام کو بڑابوجھ سمجھ کر سُستی کرتا ہے۔
لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ قوتِ عملیہ کی کمزوری دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک حقیقی او رایک غیرحقیقی۔ غیر حقیقی تو یہ ہے کہ قوت تو موجود ہو لیکن مثلاً عادت وغیرہ کی وجہ سے زنگ لگا ہؤا ہو اور حقیقی یہ ہے کہ ایک لمبے عرصہ کے عدمِ استعمال کی وجہ سے وہ مُردہ کی طرح ہوگئی ہو اور اسے بیرونی مدد اور سہارے کی ضرورت پیدا ہوگئی ہو۔ غیرحقیقی کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص میں مثلاً طاقت تو ایک من بوجھ اٹھانے کی ہے لیکن بوجہ کام کرنے کی عادت نہ ہونے کے وہ اس بوجھ کو اٹھانے سے گھبراہٹ محسوس کرتا ہے۔ ایسا شخص اگرکسی وقت اپنی طبیعت پر دبائو ڈالے گا تو اس بوجھ کو اٹھانے میں کامیاب ہوجائے گا اور حقیقی مثال یہ ہے کہ بوجہ دیر تک کام نہ کرنے کے کام کی طاقت ہی باقی نہ رہی ہو او راب وہ مثلاً دس سیر بیس سیر سے زیادہ نہیں اٹھاسکتا ایسے شخص سے اگر ہم ایک من بوجھ اُٹھوانا چاہیں تو ہمیں اُسے کوئی مددگار دینا ہوگا یا اس کے بوجھ کودس دس سیر کے حصوں میں تقسیم کرناہوگا۔ غرض جب طاقت کا خزانہ موجود نہ ہو اُس وقت بیرونی ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیںتاکہ جوکام سامنے ہے اسے پورا کردیاجائے۔ یہی حالت بعینہٖ اعمال کی اصلاح کی ہے اور مختلف لوگوں کیلئے مختلف علاجوں کی ضرورت ہؤا کرتی ہے ، بعض کیلئے قوتِ ارادی پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے، بعض کیلئے قوتِ عمل پیدا کرنا اور بعض کیلئے ایسی صورت میں جب وہ بوجھ زیادہ ہو اور ان کی طاقت برداشت سے باہر ہو بیرونی مد دکی ضرورت ہوتی ہے جیسے سَو من بوجھ اگر کسی کے سامنے پڑا ہؤا ہو او روہ اٹھانا چاہے تو اس کیلئے کوئی قوتِ ارادی یا کوئی علم کام نہیں دے سکتا بلکہ باوجود قوتِ ارادی رکھنے کے اورباوجود یہ جاننے کے کہ یہ سَومن ہے وہ اسے ہلا بھی نہیں سکے گا۔ بیس سیر کے متعلق تو جب اسے معلوم ہوگا کہ یہ بیس سیر ہے میں غلطی سے دس سیر سمجھتا رہا تو وہ اسے اٹھالے گا کیونکہ بیس سیر اُٹھانے کی طاقت اس کے اندر موجود تھی۔ یا ایک انسان کے اندر قوتِ ارادی موجود ہے لیکن وہ اس سے کام نہیں لیتا تو اگر کسی دوسرے وقت وہ اپنی قوتِ ارادی سے کام لینا شروع کردے تو وہ اسے فائدہ دے سکتی ہے۔جیسے فرض کرو ایک بڑھیا عورت ہے جس کا ایک ہی بیٹا ہے جو میدانِ جنگ میں چلا گیا اور تھوڑے دنوں کے بعد خبر آئی کہ وہ مرگیا ہے۔ یہ بڑھیا عورت کسی دوسرے وقت بیمار پڑ جاتی ہے اور اپنے علاج کیلئے کوئی کوشش نہیں کرتی کیونکہ وہ کہتی ہے میرا اب دنیامیں کون ہے جس کیلئے میں زندہ رہوں۔ا س کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس مایوسی کی وجہ سے اس کی بیماری بڑھتی چلی جاتی ہے۔ لیکن فرض کرو کہ اس کے بعد جبکہ وہ بالکل کمزور ہوچکی ہوتی ہے یکدم اُسے گورنمنٹ کی طرف سے تار پہنچتا ہے کہ تمہارابیٹا زندہ ہے پہلے غلطی سے اس کی موت کی اطلاع تمہیں بھیجی گئی تھی اس تار کے ملتے ہی وہ بیماری کا مقابلہ کرنا شروع کردے گی۔ دوائیں اُسے موافق آنے لگ جائیں گی، غذائیں اس کے انگ لگنی شروع ہوجائیں گی اور وہ تھوڑے ہی دنوں میں اچھی بھلی ہوجائے گی۔ ایسے واقعات بکثرت دنیامیں ہوتے رہتے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں میں طاقت تو موجود ہوتی ہے لیکن وہ اسے استعمال نہیں کرتے۔ بعض دفعہ اس کے اُلٹ مثالیں بھی مل جاتی ہیں۔ مثلاً چند دن ہی ہوئے ایک عورت کو رات کے وقت سانپ نے کاٹا ، اُ س نے ایک معمولی کیڑا سمجھ کر پرواہ بھی نہ کی، وہ بالکل اچھی بھلی اپنا کام کرتی رہی لیکن دن کو اُسے معلوم ہؤا کہ جس چیز نے اُسے کاٹا تھا وہ سانپ تھا اور وہ فوراً مر گئی۔ یہ واقعہ بھی قوتِ ارادی کی طاقت کا ہے خود زہر شدید نہ تھا بوجہ ناواقفیت کے اس کی تمام قوتِ ارادی اپنا کام کرتی رہی لیکن جب اُسے معلوم ہؤا کہ کاٹنے والی چیز سانپ تھی تو اُس نے ہمت ہاردی اور خیال کیا کہ سانپ کے زہر کا مقابلہ نہیں ہوسکتا اور اس طرح ہتھیا رپھینک دینے سے عورت کی ہلاکت واقع ہوئی۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص ملیریا سے بیمارہے، کونین اس کے پاس موجود ہے ، اس کا ارادہ بھی ہے کہ میں اچھا ہوجائوں لیکن نقص یہ ہے کہ اسے علم نہیں کہ کونین ملیریا کو دُور کردیتی ہے۔ اس عدمِ علم کی وجہ سے باوجود اس کے کہ اس کا دل چاہتا ہے میں اچھا ہو جائوں وہ اچھا نہیں ہوسکے گا کیونکہ اسے علم نہیں کہ کونین ملیریا کو دور کرتی ہے اور اس وجہ سے وہ اس کا استعمال نہیں کرتا۔ یا ایک شخص کے پاس ایک مٹکا پڑا ہؤا ہے پہلے اس میں پانی تھا لیکن بعد میں ختم ہوگیا، یہ دیکھ کر کسی ہمسائے نے اس میں پانی ڈال دیا لیکن اُسے اس بات کا علم نہیں، اسے سخت پیاس لگی ہوئی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مٹکے میں تو پانی نہیںمیںکہاں سے پیئوں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عدمِ علم کی وجہ سے باوجود مٹکے میں پانی موجود ہونے کے پیاسا رہتاہے۔ مگر تیسری صورت یہ ہے کہ پانی ہے ہی نہیں جس سے وہ اپنی پیاس بجھاسکے۔ تمہیں کتنی ہی خواہش ہو کہ اگر پانی ملے تو میں اس سے اپنی پیاس بجھائوں، تمہیں کتنا ہی علم ہو کہ پانی پیاس بجھانے کے کا م آتا ہے لیکن اگر تم ایسے جنگل میں ہو جس میں پانی کہیں ہے ہی نہیں تو پانی کہاں سے مل سکتا ہے۔ پس ایسے موقع پر ارادہ اور علم بھی باطل ہوجاتا ہے اور جب تک پانی نہ ہو انسان کاارادہ اور ا س کاعلم اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ غر ض یہ تین چیزیں ہیں جن کے ذریعہ ہم لوگوں کا علاج کرسکتے ہیں۔
بعض لوگوں کے اعمال میں کمزوری اس لئے ہوتی ہے کہ ان میں قوتِ ارادی نہیں ہوتی، بعض عمل میں اس لئے کمزور ہوتے ہیں کہ ان میں علم کی کمی ہوتی ہے او ربعض عمل میں اس لئے کمزور ہوتے ہیں کہ ان میں قوتِ عملی نہیں ہوتی۔ مؤخرالذکرلوگوں کیلئے جب تک بیرونی سامان مہیا نہ کئے جائیں اس وقت تک کچھ نہیں بن سکتا۔
قوتِ ارادی کیا چیزہے؟ قوتِ ارادی کا مفہوم عمل کے لحاظ سے ہر جگہ بدل جاتاہے اور جو میں مضمون بیان کررہا ہوں اس میں قوتِ ارادی ایمان کا نام ہے۔ انسان کے دل میں اگر پختہ ایمان ہو اور اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق ہو تو اس کے سارے کام آپ ہی آپ ہوجاتے ہیں اور کوئی مشکل ایسی نہیں رہتی جو آسان نہ ہوجائے۔ رسول کریم ﷺ پر جو لوگ ایمان لائے ان میں چور بھی تھے، ان میں ڈاکو بھی تھے، ان میں فاسق و فاجر بھی تھے، وہ مائوں سے بھی نکاح کرلیتے تھے بلکہ ورثہ میں اپنی مائوں کولیتے اور اپنی بیٹیوں کوقتل کردیتے، پھر وہ جواری تھے، شراب خور تھے اور شراب پینے میں اپنی تمام عزت سمجھتے تھے ، وہ ایک دوسرے پر اگر فخر کرتے تو اسی بات پر کہ میں اتنی شراب پیا کرتا ہوں، ایک شاعر اپنے اشعار میں فخر کرتا اور کہتا ہے میں وہ ہوں جو راتوں کو اُٹھ اُٹھ کرشراب پیتا ہوں، وہ ایسے جواری تھے کہ جوئے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے پر فخر کرتے اور جب کسی نے اپنی بڑائی کا اظہار کرنا ہوتا تو کہتا کہ میں وہ ہوں کہ جو اپنا تمام مال جوئے میں لٹا دیتا ہوں، پھر مال آتا ہے تو پھر میں اُسے جوئے میں لٹا دیتا ہوں یہ ان کی ایمان سے قبل کی حالت تھی مگر جب وہ رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے اور ان میں قوتِ ارادی پید اہوگئی تو انہوں نے نہایت قوی اور مضبوط دل سے فیصلہ کرلیا کہ اب ہم خدا کے فیصلہ اور اس کے احکام کے خلاف اپنا کوئی قدم نہیں اُٹھائیں گے۔ یہ فیصلہ انہوں نے اتنی مضبوطی ، اتنی پختگی اور اتنے زور کے ساتھ کیا کہ اس مضبوطی کے مقابلہ میں ان کے اعمال کی کمزوریاں ایک لمحہ کیلئے بھی نہ ٹھہر سکیں۔یکدم ان کے حالات بدل گئے اور وہ خداتعالیٰ کیلئے ہر خطرناک سے خطرناک مصیبت اپنے نفس پروارد کرنے کیلئے تیار ہوگئے اور قوتِ ارادی نے ان کے اعمال کی کمزوری کو اس طرح پرے پھینک دیا جیسے ایک تنکا تُند سیلاب کے آگے بہہ جاتاہے۔ شراب کانشہ کتنا خطرناک ہوتا ہے جب کوئی شرابی شراب کے نشہ میں مدہوش ہو تو اُسے کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا کررہاہے، کئی اپنے ماںباپ کوگالیاں دینے لگ جاتے ہیں، کئی اپنے عزیزوں سے لڑائی اور فساد شروع کردیتے ہیں، کئی یونہی بکواس کرتے چلے جاتے ہیں ، کئی ننگے ہوجاتے ہیں، کئی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ عقل قائم ہونے کے وقت اگر انہیں کوئی سنائے تو وہ کبھی یہ ماننے کیلئے تیار نہ ہوں کہ ان کے منہ سے اس قِسم کی باتیںنکلی ہیں۔
ایک دفعہ میں ایک مضمون لکھ رہا تھا اور اپنے مکان کے اس حصہ میں تھا جو اس گلی پر واقع ہے جو ہمارے گھروں سے مسجد اقصیٰ کو آتی ہے او رجو مکان اِس وقت میاں بشیر احمد صاحب کے پاس ہے اس کے اوپر اُس وقت ایک صحن تھا اُس صحن میں ٹہل ٹہل کر میں مضمون لکھ رہا تھا۔ ٹہلتے ٹہلتے نیچے گلی میں سے مجھے کچھ آواز آئی مجھے معلوم ہواکہ دو سکھ گلی میں سے گزر رہے ہیں۔ پہلے ان کے لہجہ اور پھر اُن کے ناموں کو سن کر مجھے یہ معلوم ہؤا کہ وہ سکھ تھے اب ان کے نام تو مجھے صحیح یاد نہیں لیکن ایسے ہی نام تھے جیسے سوجان سنگھ یا سورن سنگھ۔ بہرحال فرض کرو ایک کا نام سورن سنگھ تھا اور دوسرے کا نام سوجان سنگھ۔ میں نے سنا کہ ان میں سے ایک کہہ رہا ہے او سوجان سنگھا! توں پکوڑے کھانے ہیں؟ میں نے سمجھا کوئی دوست اپنے دوست سے پوچھ رہا ہے کہ کیا تم پکوڑے کھائو گے۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد میں نے پھر سنا کہ کوئی کہہ رہا ہے او سوجان سنگھا! توں پکوڑے کھانے ہیں؟ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ پھر مجھے آواز آئی او سوجان سنگھا !تُوں پکوڑے کھانے ہیں؟ تب میں نے جھانکا کہ یہ کیا بات ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص جو گھوڑے پرسوار ہے وہ گلی میں سے گزررہا ہے اور دوسرا شخص گلی کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا ہے اور کہتا جارہا ہے۔ او سوجان سنگھا! توں پکوڑے کھانے ہیں؟ او سوجان سنگھا! تُوں پکوڑے کھانے ہیں؟ میں نے دیکھا کہ وہ جو گھوڑے پرسوار تھا وہ تو اُس وقت گلی کے نکڑ پر تھا اور دور جاچکا تھا مگر دوسرا شخص دیر تک وہاں بیٹھا یہی کہتا رہااو سوجان سنگھا! توں پکوڑے کھانے ہیں؟ اوسوجان سنگھا! توں پکوڑے کھانے ہیں؟ تب میں سمجھا کہ یہ شرابی ہے عقل و ہوش سے کام لے کر یہ الفاظ منہ سے نہیں نکال رہا۔
یہ تو خیر ایک زمیندار شرابی کا واقعہ ہے ایک دفعہ مجھے ریل گاڑی میں بھی ایسا ہی تجربہ ہؤا۔میں امرتسر سے دہلی جانے کیلئے سوار ہؤا سیکنڈ کلاس کا میں نے ٹکٹ لیا مگر چونکہ دیوالی کا دن تھا اس لئے سخت بھیڑ تھی یہاں تک کہ سیکنڈ کلاس میں بھی چالیس کے قریب آدمی اکٹھے ہوگئے، اکثر کھڑے تھے اور کچھ اوپر کی سیٹوں پر بیٹھے تھے۔ میں سیکنڈ کلاس کے جس کمرہ میں داخل ہؤا اُس میں ایک دو جگہیں ابھی خالی تھیں لیکن جونہی میں داخل ہؤا ایک شخص نہایت تپاک سے مجھے ملا اور اُس نے دوسرے سے کہا آپ ایک طرف ہوجائیں اور انہیں بیٹھنے دیں۔ وہ ایک طرف کھسک گیا اور میں بیٹھ گیا اُس نے مجھ سے کچھ باتیں ایسی کیں جن سے معلوم ہوتاتھا کہ وہ مجھے جانتا ہے۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد ایک اَور شخص آیا تو وہی شخص اس کی طرف متوجہ ہوگیا اور ایک شخص سے کہنے لگا دیکھتے نہیں ایک بھلامانس آیا ہے تم اسے جگہ کیوں نہیں دیتے ایک طرف ہوجائو اور اسے بیٹھنے دو۔ یہ جو میںنے کہا ہے کہ اس کی باتوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ میرا واقف ہے یہ میں نے اس لئے کہا ہے کہ اُس نے مجھے بتایا اُس کا باپ پونچھ میں وزیر تھا اور حضرت خلیفہ اوّل سے بھی اُس نے اپنی واقفیت کا اظہار کیا جس سے مجھے معلوم ہؤا کہ اسے میرے نام وغیرہ سے واقفیت تھی لیکن ابھی اُس نے دوسرے آدمی کوبٹھایا ہی تھا کہ ایک تیسرا شخص آپہنچا ۔ یہ پھر ادھر متوجہ ہؤا اور اسی شخص سے جس کو اس نے نہایت تعظیم سے بٹھایا تھا سختی سے کہنے لگا دیکھتے نہیں ایک بھلا مانس کھڑا ہے اور تم اسے جگہ نہیں دیتے فوراً اس کیلئے جگہ بنائو۔ تب میں سمجھا کہ یہاں خیریت نہیں کیونکہ یہ توہوسکتا ہے کہ وہ مجھے جانتا ہو لیکن یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ جو بھی داخل ہوتا ہے اس کا یہ واقف ہو اور اس کے بیٹھنے کیلئے جگہ بنانا ضروری خیال کرتا ہو۔ اور جب جگہ نہ بنتی تو وہ سختی سے انہی کو ڈانٹنا شروع کردیتا جن کو پہلے عزت سے بٹھاچکا ہوتا اور سوائے میرے کہ اُس نے مجھے اٹھنے کونہ کہا جب بھی کوئی آتا فوراً دوسرے سے کہنا شروع کردیتا دیکھتے نہیں ایک بھلا مانس آیا ہے اور تم اس کیلئے جگہ نہیں بناتے۔ تھوڑی دیر گزری تو پھر ایک اور شخص اندر داخل ہؤا وہ اسے دیکھتے ہی اس طرف متوجہ ہؤا اور کہنے لگا میں آپ کی کیا خاطر کروں؟ دو چار سیکنڈ کے بعد پھر کہنے لگا میں آپ کی کیا خاطر کروں؟ اس نے کہا آپ کی مہربانی۔ مگر یہ جواب سننے کے بعد وہ پھر کہنے لگا میں آپ کی کیا خاطر کروں؟ جب اُس نے باربار دہرانا شروع کیا کہ میں آپ کی کیا خاطر کروں تو میں سمجھا یہ شرابی ہے۔ اتنے میں پھر کوئی شخص ڈبہ میں آگیا اِس پر وہ اُسی شخص سے جس کو کہہ رہا تھا کہ میں آپکی کیا خاطر کروں؟ نہایت سختی سے مخاطب ہو ااور کہنے لگا دیکھتے نہیں ایک بھلامانس آیا ہے اور تم اس کیلئے جگہ نہیں بناتے۔ وہ ایک معزز خاندان سے تعلق رکھنے والا شخص تھا اور اس کا باپ پونچھ کا وزیر تھا مگر شراب کے نشے میں وہ ایسی باتیں کہنے لگ گیا جو عقل و ہوش قائم ہونے کی صورت میں کبھی نہ کہتا۔ تو شراب انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے او راسے بالکل دیوانہ اور پاگل بنادیتی ہے۔ مگر ایمان کی قوت ارادی کو دیکھو۔ محمد ﷺ کے چند صحابہؓایک دفعہ ایک مکان میں جس کے کواڑ بند تھے بیٹھ کر شراب پی رہے تھے، اُس وقت تک شراب کی حُرمت کاحکم نازل نہیں ہؤا تھا، ایک مٹکا شراب کاوہ ختم کرچکے تھے اور دوسرا مٹکا وہ شروع کرنے والے تھے کہ گلی میں سے ایک شخص کی یہ آواز اُن کے کانوں میں پڑی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ مجھ پر خدا کا حکم نازل ہؤا ہے کہ آج سے شراب حرام کی جاتی ہے۔ جب یہ آواز ان کے کانوں میں پہنچی تو ایک شخص جو شراب کے نشے میں مدہوش تھا دوسرے سے کہنے لگا اٹھو دروازہ کھولو اور پتہ لو کہ یہ کہنے والا کیا کہتاہے۔ سننے والوں میں سے ایک شخص نے چاہا کہ اُٹھ کر دروازہ کھولے اور پکارنے والے سے اس کے اعلان کی حقیقت دریافت کرے لیکن ایک اور شخص جو ان کی طرح ہی شراب میں مخمور تھا اُٹھا اور اُس نے سونٹا پکڑ کر شراب کے مٹکے پرزور سے مار کر اُسے پھوڑ دیا۔ جب باقیوں نے پوچھا یہ تم نے کیا کیا پہلے پوچھ تو لینے دیتے کہ اس حکم کا مفہوم کیا ہے۔ تو اس نے جواب دیا کہ میں پہلے مٹکا توڑوں گاپھر حکم کی حقیقت پوچھوں گا ؎۲ ۔ جب میرے کانوں نے یہ آواز سن لی ہے کہ محمد ﷺ نے شراب منع کردی ہے تو میں پہلے اس حکم کی تعمیل کروں گا پھر پوچھوں گا کہ کن حالات میں اور کن قیود کے ساتھ یہ حکم دیا گیا ہے ۔
کتنا عظیم الشان فرق ہے جو ہمیں محمد ﷺ کے صحابہ اوردوسرے لوگوں میں نظر آتا ہے۔ چلے جائو گائوں کی مجالس میں، چلے جائو شہروں کی گلیوں میں، چلے جائو بازاروں میںاو ردیکھو کہ شرابیوں کی کیا حالت ہوتی ہے۔ نہ ان کی عقلیں ٹھکانے ہوتی ہیں، نہ فہم ٹھکانے ہوتے ہیں، نہ سمجھ ٹھکانے ہوتی ہے، اُن کی زبان بے قابو ہوتی ہے اور ان کے ہاتھ پائوں غیرارادی طور پر حرکت کرتے رہتے ہیں۔ نہ انہیں باپ کی پروا ہوتی ہے نہ ماں کی، نہ گورنمنٹ کی پروا ہوتی ہے نہ اُستاد کی، مگر ایمان نے صحابہؓ کے اندر ایسی قوتِ ارادی پیدا کردی کہ باوجود اس کے کہ وہ شراب کے نشہ میں مخمور تھے، باوجود اس کے کہ ایک شراب کا مٹکا وہ اپنے پیٹوں میںانڈیل چکے تھے اور دوسرا مٹکا پینے والے تھے جب انہیں آواز سنائی دیتی ہے کہ محمد ﷺ کہتے ہیں خدا نے شراب حرام کردی ہے تو ان کا نشہ فوراً ہرن ہوجاتا ہے وہ پہلے شراب کا مٹکا توڑتے ہیں اور پھر اعلان کرنے والے سے دریافت کرتے ہیں کہ تُونے کیا کہا تھا۔
یہ قوتِ ارادی ایسی چیز ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے بعد کوئی روک درمیان میں حائل نہیں رہ سکتی بلکہ ہر چیز پر قوتِ ارادی قبضہ کرتی چلی جاتی ہے۔ گویا قوتِ ارادی سے وافر حصہ رکھنے والے روحانی دنیا کے سکندر ہوتے ہیں کہ جس طرف اُٹھتے ہیں اور جدھر کا قصد کرتے ہیں شیطان ان کے سامنے ہتھیار ڈالتا چلا جاتا ہے اور مشکلات کے پہاڑ بھی اگر ان کے سامنے آئیں تو وہ اسی طرح کٹ جاتے ہیں جس طرح پنیر کی ڈلی کٹ جاتی ہے۔ پس اگر اس قِسم کی قوتِ ارادی پیدا ہو جائے اور اس حد تک ایمان پیدا ہوجائے جس حد تک صحابہؓ کا ایمان تھا تو پھر لوگوں کو اصلاحِ اعمال کیلئے اور طریق اختیار کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ آپ ہی آپ اعمالِ حسنہ سرزد ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں امریکہ میں شراب نوشی کے انسداد کیلئے حکومت نے کتنی کوششیں کیں لیکن چونکہ ایمان لوگوں کے دلوں میں نہیں تھا بلکہ ممانعتِ شراب کے پیچھے ایک قانون کام کررہا تھا اس لئے یہ تحریک ناکام رہی۔ ہزارہا موتیں وہاں اس وجہ سے واقع ہوئیں کہ لوگ شراب پینے کے شوق میں سپرٹ پی لیتے ۔ سالہا سال ایسا ہوتا رہا کہ چونکہ لوگوں کو پینے کیلئے شراب نہ ملتی ا س لئے وہ سپرٹ پی لیتے اور سپرٹ میں چونکہ زہریلی چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے اس لئے کئی اندھے ہوجاتے اور کئی مرجاتے۔ پھر امریکہ میں نصف سے زیادہ لوگ ایسے تھے جو باہر سے ناجائز طور پر شرابیں منگواتے اور پیتے۔ گورنمنٹ کاقانون تھا کہ ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ کے بغیر کسی شخص کوشراب نہیں مل سکتی ا س قانون کی وجہ سے ہزاروں ڈاکٹروں کی آمدنیاں پہلے سے کئی گُنے بڑھ گئیں۔ وہ فیس لے کر سرٹیفکیٹ دے دیتے کہ فلاںشخص کا معدہ کمزور ہے یا اور کوئی ایسی بیماری ہے۔ اسے پینے کیلئے شراب ملنی چاہئے۔ غرض ہزاروںڈاکٹروں کا گزارہ محض اس قِسم کے سرٹیفکیٹوں پر ہوگیا اور باوجود شراب نوشی کے خلاف قانون بن جانے کے لوگ کئی قسم کے حیلوں سے کوشش کرتے کہ کسی طرح قانون شکنی کریں لیکن محمد ﷺ کا بتایا ہؤا قانون ابھی رائج نہ ہؤا تھا، ابھی لوگ اس سے ناواقف تھے، صرف پہلا اعلان ہؤا تھا کہ لوگوں نے شراب کے مٹکے توڑ دیئے اور لکھا ہے کہ مدینہ کی گلیوں میں شراب بہتی پھرتی تھی یہ کتنابڑا فرق ہے جو ہمیں نظر آتاہے۔
امریکہ والوں کادعویٰ ہے کہ اب نئی ترقی یافتہ نسل انہی کے ذریعہ دنیا میں قائم ہوگی، وہ دنیا میں ’’سپرمین‘‘ یعنی ترقی یافتہ نسلِ انسانی کہلاتے ہیں اور عام انسانوںسے اپنے آپ کو بالا سمجھتے ہیں لیکن باوجود اس بات کے کہ وہ محسوس کرتے ہیں شراب بُری چیز ہے، باوجود اس کے کہ قانون شراب پینے سے انہیں روکتا ہے، باوجود اس کے کہ حکومت انہیں منع کرتی ہے اورباوجود اس کے کہ ڈاکٹر بھی کہتے ہیں کہ شراب پینا بُری چیز ہے وہ شراب نہیں چھوڑ سکتے۔ ادھر وہ قوم ہے جسے جاہل کہا جاتا ہے، جسے جانگلی کہہ کر پکارا جاتا ہے اور جسے اَن پڑھ کہا جاتا ہے اس کے اندر ہمیں اس قدر اخلاقی قوت نظر آتی ہے کہ وہ جونہی سنتے ہیں کہ محمد ﷺ نے شراب سے منع کیا ہے اُسی لحظہ شراب پینا ترک کردیتے ہیں۔ یہ وہ ایمان ہے جس نے صحابہ کوممتاز کیا۔ امریکہ کے لوگوں کے سامنے صرف قانون تھا لیکن محمد ﷺ کے صحابہؓ کے سامنے ایمان تھا اسی وجہ سے امریکہ باوجود یہ تسلیم کرنے کے کہ شراب بُری چیزہے اسے چھوڑنے میں ناکام رہا اور صحابہؓ باوجود اَن پڑھ ہونے کے شراب کے چھوڑنے میں کامیاب ہوگئے۔ غرض اگر کسی انسان کے اندر مضبوط قوتِ ارادی ہو تو ساری روکیں خودبخود اس کے رستہ سے دور ہوجاتی ہیں۔
اس کے بعد قوتِ علمی ہے ۔ اگر قوتِ علمی کسی میں ہو تو عمل کی جو کمزوری علم کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے وہ بھی دور ہوجاتی ہے۔ جیسے بچے بچپن میں مٹی کھانے کے عادی ہوتے ہیں لیکن جب بڑے ہوتے ہیں تو مٹی کھانا چھوڑ دیتے ہیں اس لئے نہیں کہ انہیں اس بات کاعلم حاصل ہوجاتا ہے کہ مٹی کھانا مُضِرّصحت ہے۔ یابعض چھوٹے بچے جب ان کاناک بہہ رہا ہو تو زبان سے اُسے چاٹتے رہتے ہیں لیکن بڑے ہوکر نہیں چاٹتے کیونکہ بعد میں انہیں اس بات کاعلم ہوجاتا ہے کہ یہ معیوب بات ہے۔ تو کئی گناہ اور کئی عملی کمزوریاں ایسی ہیں جو علم کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں اگر ایسے شخص کا علم مضبوط کردیا جائے تووہ گناہ سے بچ جاتا ہے۔
تیسری چیز جس سے عملی کمزوری سرزد ہوتی ہے وہ قوتِ عملیہ کا فُقدان ہے۔ اس قوتِ عملیہ کے فُقدان کے بھی بعض اسباب ہوتے ہیں جن میں سے مثلاً ایک سبب عادت ہے۔ ایک شخص کے اندر کسی قدر قوتِ ارادی بھی ہوتی ہے ، اس میں قوتِ علمی بھی ہوتی ہے لیکن وقت پر عادت کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ عمل میں کمزوری دکھادیتا ہے۔ یا ایک شخص جانتاہے کہ خداتعالیٰ کا قُرب حاصل ہوسکتاہے وہ دل میں تڑپ اور خواہش بھی رکھتا ہے کہ اسے خداتعالیٰ کا قُرب حاصل ہو لیکن جب وقت آتا ہے تو مادی اشیاء کے لئے جذباتِ محبت یا مادی نقصان کے خیال سے جذباتِ خوف اُس پرغالب آجاتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے قُرب کے ذریعہ کو اختیار نہیں کرسکتا ایسے لوگوں کیلئے اندرونی نہیں بلکہ بیرونی علاج کی ضرورت ہؤا کرتی ہے۔ جیسے چھت کی کڑیاں جب گرنے لگیں تو ضروری ہوتاہے کہ ان کے نیچے سہارا دیا جائے اگر بجائے سہارا دینے کے چھت کے اوپر مٹی ڈالنی شروع کردی جائے تو کڑیاں مٹی کابوجھ نہیں اٹھاسکیں گی اور گر جائیں گی ۔ اس میں شبہ نہیں کہ ایک وقت چھت پر مٹی ڈالنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر دوسرے وقت مٹی ڈالنے کی بجائے چھت کی کڑیوں کے نیچے کوئی سہارا کھڑ ا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح قوتِ عملی کی انتہائی کمزوری کی صورت میں بیرونی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ سہارا کیا ہوسکتا ہے اس کیلئے ہر شخص سمجھ سکتاہے کہ جب ایک شخص کو کسی بات کا علم پہلے سے حاصل ہو تو سہارا یہ تو نہیں ہوسکتا کہ اسے خدا کے غضب سے خوف دلایاجائے یا اللہ تعالیٰ کی محبت کے حاصل کرنے کی تلقین کی جائے کیونکہ ان باتوں کا تو اسے پہلے سے علم ہے۔ قوتِ ارادی اس میں ہے مگر کامل نہیں، علم ہم نے دیا مگر خداتعالیٰ کی محبت اور اس کے غضب کا خوف دل کے زنگ کی وجہ سے اس پراثر نہ کرسکا، اب اس کیلئے کسی اور چیز کی ضرورت ہے اور وہ چیز سوائے اس کے کیا ہوسکتی ہے کہ خدا تو اس کی نظروں سے اوجھل ہے لیکن انسان اس کی نظر سے اوجھل نہیں اسی لئے وہ خدا سے نہیں ڈرتا لیکن بندے سے ڈر جاتا ہے۔ پس اگر ایسے شخص کے دل میں ہم بندے کا رُعب ڈال دیں یا مادی طاقت سے کا م لے کر اُس کی اصلاح کریں تو اس کی بھی اصلاح ہوسکتی ہے۔
غرض یہ تینوں قسم کے لوگ دنیا میں موجود ہیں اور دنیا میں یہ تینوں بیماریاں اکٹھی موجود ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے عمل میں کمزوری اس وجہ سے ہوتی ہے کہ ان کا ایمان کامل نہیں ہوتا، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں عمل کی کمزوری اس وجہ سے ہوتی ہے کہ ان کا علم کامل نہیں ہوتا اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیںجو ایمان اور علم رکھتے ہیں لیکن دوسرے ذرائع سے ان کے قلوب پر ایسا زنگ لگ جاتاہے کہ یہ دونوں علاج ان کیلئے کافی نہیں ہوتے اور ضروری ہوتاہے کہ ان کیلئے بیرونی ہتھیاروں سے کام لیا جائے۔ جیسے پائوں کی ہڈی جب بعض دفعہ ٹوٹ جاتی ہے تو ڈاکٹر ہڈی کوجوڑ کر لکڑی کا اسے سہارا دے دیتے ہیںاس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تھوڑے دنوں کے بعد ہڈی اپنی جگہ پر مضبوطی سے قائم ہوجاتی ہے اور سہارے کی اسے ضرورت نہیں رہتی اسی طرح اس قسم کے انسانوں کیلئے بھی کچھ دنوں کیلئے سہارا کی ضرورت ہوتی ہے ۔ گو پہلے اس میں کام کرنے کی ہمت نہیں ہوتی لیکن سہارا لیتے لیتے آخر اسے صحیح طور پر کام کرنے کی طاقت حاصل ہو جاتی ہے اور وہ سہارے کا محتاج نہیں رہتا۔
ان ذرائع کا جو پہلا حصہ ہے یعنی قوتِ ارادی کی مضبوطی، اس کیلئے خدا تعالیٰ کے انبیاء دنیامیں آتے ہیں اور تازہ اور زندہ معجزات و نشانات دکھاتے ہیں ہماری جماعت کے پاس تو اللہ تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات کا اتناو افر سامان موجود ہے کہ اتنا سامان کیا، اس سامان کے قریب قریب بھی کسی کے پاس موجود نہیں اور اسلام کے باہر کوئی مذہب دنیا میں اِس وقت ایسا نہیں جس کے پاس خداتعالیٰ کا تازہ بتازہ کلام ، اس کے زندہ معجزات اور اس کی ہستی کا مشاہدہ کرانے والے نشانات موجود ہوں جو انسانی قلوب کو ہرقسم کی آلائشوں سے صاف کرتے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت سے لبریز کردیتے ہیں لیکن باوجود اس ایمان کے او رباوجود ان تازہ اور زندہ معجزات کے پھر کیوں ہماری جماعت کے اعمال میں کمزوری ہے؟اس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے سلسلہ کے علماء اور واعظین نے ان چیزوں کے پھیلانے کی طرف اب تک کوئی توجہ نہیں کی۔ تم یہ دیکھو گے کہ ہمارے علماء جاتے ہیں اور مناظروں میں وفاتِ مسیح پر گلا پھاڑپھاڑ کر تقریر یں کرتے ہیں مگر تم کبھی نہیں دیکھو گے کہ انہوں نے جماعت کے سامنے احمدیت کی صحیح تعلیم پیش کرنے کی کوشش کی ہو اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے لوگ تو مل جائیں گے جو وفاتِ مسیح کے دلائل جانتے ہوں گے مگر ایسے لوگ بہت کم ملیں گے جنہیں علم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کو کس رنگ میں پیش کیا، آپ نے معرفت اور محبتِ الٰہی کے حصول کے کیا طریق بتائے، اس کے قُرب کے حاصل کرنے کی آپ نے کن الفاظ میں تاکید کی، خداتعالیٰ کے تازہ کلام اور اس کے معجزات و نشانات آپ پر کس شان کے ساتھ ظاہر ہوئے اور چونکہ وفاتِ مسیح کے مسئلہ سے عملی اصلاح نہیں ہوسکتی اس لئے جماعت اس پہلو میں کمزور رہتی ہے پس جب تک اس طرف ہماری جماعت کے علماء توجہ نہیں کرتے اور اس امر کی طرف ویسی ہی توجہ نہیں کرتے جیسی توجہ انہیں کرنی چاہئے اُس وقت تک جماعت کا وہ طبقہ جو قوتِ ارادی کی کمزوری کی وجہ سے عملی اصلاح نہیں کرسکتا ڈبکیاں کھاتا رہے گا۔ تم اپنے محلوں میں پھر کردیکھ لو کتنے نوجوان ہیں جنہیں یہ شوق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور انہیں بھی اللہ تعالیٰ کا قُرب حاصل ہو، وہ بھی الہامِ الٰہی کے مورد بنیں اور ان سے بھی خداتعالیٰ ہمکلام ہو۔ اگر واقعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام انہیںمعلوم ہوتا، اگر انہیں پتہ ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے کس قدر عظیم الشان نشانات دکھائے اور خداتعالیٰ نے کس طرح آپ سے کلام کیا تو کیا ممکن تھا کہ وہ اس مقام کے حصول کی خواہش نہ کرتے؟ وہ کسی کواچھا کپڑ اپہنتے دیکھتے ہیں تو فوراً اس کی نقل میں اچھا کپڑا پہننا شروع کردیتے ہیں، وہ کسی کو اچھی ٹوپی پہنے دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں بھی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ بھی اسی قسم کی ٹوپی لیں، پھرکس طرح ممکن ہے کہ انہیں اس بات پر یقینِ کامل ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کے الہامات نازل ہوتے تھے، وہ آپ کیلئے تازہ بتازہ نشانات ظاہر کیا کرتا تھا اور ان کے دلوں میں حسرت پیدا نہ ہوتی اور وہ بھی ان باتوں کے حصول کیلئے کوشش نہ کرتے۔ پھر غور کرو کہ کیا واقعہ میں ان میں وحی و الہام کا مورد بننے کی وہی خواہش ہے جو ایک نبی کے قریب زمانہ کے ماننے والوں میں ہونی چاہئے؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ لڑکے ایک کو اچھی پگڑی پہنے دیکھتے ہیں تو فوراً اس جیسی پگڑی خریدنے کی کوشش کرتے ہیں، عمدہ رومی ٹوپی پہنے دیکھتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ ان کے سر پر بھی ویسی ہی رومی ٹوپی ہو، کسی کے پاس اچھا تولیہ دیکھتے ہیں تو اس کی نقل میں خود بھی ایک اچھا سا تولیہ خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غرض وہ ہر چیزکی نقل کرنا چاہتے ہیں پھر کیاوجہ ہے کہ یہ عظیم الشان چیز کہ خداتعالیٰ کا قُرب انسان کو حاصل ہو، اُس کا الہام اُس پر نازل ہو، اس کی وحی کا وہ مورد ہو اور اس کے تازہ اور زندگی بخش کلام کو سننے والا ہو، اس کی نقل کرنے کی وہ کوشش نہیں کرتے۔ صاف پتہ لگتاہے کہ انہیں ان چیزوں کا علم نہیں دیا جاتا اور خداتعالیٰ کے تازہ نشانات کا ان کے سامنے ذکر نہیںکیا جاتا۔
مجھے یاد ہے بچپن میں ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد سخت بیمار تھا اُس نے ایک کپڑے کی خواہش کی (یہ اس کی مرضِ موت تھی)۔ کلکتہ کی کوئی فرم تھی اُس سے وہ کپڑا مل سکتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ کپڑا اُس کیلئے منگوادیا مگرا س کے بعد مبارک احمد شاید فوت ہوگیا یا اور زیادہ بیمار ہوگیا کہ اسے اس کپڑے کی خواہش نہ رہی۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ کپڑا ہم تینوں بھائیوں میں بانٹ دیا۔ میں نے اُس کی صدری بنوالی جب میں صدری پہن کر باہر نکلا تو ایک دوست مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے آپ یہیں ٹھہریں مجھے ایک کام ہے میں ابھی آتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد آگئے ۔ میں نے پوچھا کہاں گئے تھے؟ کہنے لگے ایک ضروری کام تھا ۔ دو تین دن کے بعد وہ آئے تو انہوں نے بھی ایک صدری پہنی ہوئی تھی۔کہنے لگے جب میں نے آپ کو صدری پہنے دیکھا تو میں نے کہا میں بھی اب اس قسم کی دھاری دار صدری بنواکر رہوں گا۔ چنانچہ اُسی وقت مَیں گیا او ربازار سے کپڑا خرید کرصدری سِلوالی۔ خیر اس میں بھی ایک لطیفہ تھا اور وہ یہ کہ ہمارا کپڑا ٹسری تھا اور اس دوست کا کپڑا گبرون یا لدھیانہ کی قسم کا تھا لیکن اس سے اس خواہش کا پتہ چلتا ہے جو دوسروں کی اچھی چیز دیکھ کر انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اب کیا یہ لطیفہ نہیں کہ کسی کی دھاری دار صدری دیکھ کر تو دل بے تاب ہوجائے اور یہ خواہش پیدا ہو کہ کاش! میرے پاس بھی ایسی ہی صدری ہو لیکن الہامِ الٰہی کا ذکر سُن کر اللہ تعالیٰ کے قُرب اور محبت کی باتیں سن کر ہمارے دلوں میں یہ خواہش پیدا نہ ہو کہ ہمیں بھی الہام ہوں، ہمارے لئے بھی خداتعالیٰ اپنے نشانات دکھایا کرے اور ہمیں بھی اپنی محبت سے نوازے۔ اس کی بڑی وجہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ ہے کہ ہمارے سلسلہ کے علماء اور ہمارا سمجھدار طبقہ نوجوانوں کے سامنے اس رنگ میں ان باتوں کوپیش نہیں کرتا کہ یہ امور سہل ال￿حصول اور ممکن ال￿حصول ہیں۔ اوّل تو انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا کیا تعلق تھا اور اگر پتہ بھی ہو تو وہ خیال کرتے ہیں کہ یہ باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مخصوص تھیں حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ پس اگر یہ تڑپ ہماری جماعت میں عام ہوجائے تو ایک بہت بڑا طبقہ ہماری جماعت میں ایسا پیدا ہوسکتا ہے جو گناہ کو بہت حد تک مٹادے گا۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ گناہ بالکل مٹ جائے گا کیونکہ یہ بہت مشکل بات ہے مگر بہت حد تک گناہ پر غالب آیا جاسکتا ہے یا اکثر حصہ جماعت میں ایسے لوگوں کا پیدا ہوسکتا ہے جو گناہوں پر غالب آجائے ورنہ کوئی نہ کوئی گناہگار تو ہر جماعت میں موجود ہوتا ہے جیسے کوئی نہ کوئی مریض یورپ میں بھی ہوتا ہے مگر ہندوستان میں چونکہ مریضوں کی کثرت ہے اس لئے ہم کہتے ہیں ہندوستان میں زیادہ بیماریاںہیں۔ یہاںکی اوسط عمر بیس سال ہے اور یورپ والوں کی اوسط عمر پچا س سال ہے اور گو یہ بھی مرتے ہیںاور وہ بھی، اور یہ بھی بیمار ہوتے ہیں اور وہ بھی لیکن کثرت و قلت کے فرق کی وجہ سے یورپ کو ہندوستان سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ غرض یہ فرق جماعت میں ہوسکتا ہے اور بہت سا حصہ ایسا پیدا کیا جاسکتا ہے جو نیک ہو مگر یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب ہماری جماعت کے علماء باہر جاکر وفاتِ مسیح پرزور دینے کی طرح جماعت کی اصلاح کی بھی کوشش کریں اور یہ بتابتا کراصلاح کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کس قدر برکات سے حصہ دیا ہے۔ آپ پر کس طرح الہامات نازل ہوتے تھے، کس طرح اللہ تعالیٰ سے آ پ محبت کرتے تھے او رپھر اللہ تعالیٰ آپ کی تائید کیلئے کیسے کیسے عظیم الشان نشان ظاہر فرماتا تھا اور آپ کیلئے کس طرح اپنی غیرت کا اظہار کیا کرتا تھا اور یہ کہ یہ باتیں انہیں بھی حاصل ہوسکتی ہیں۔ اگر یہ باتیں باربار جماعت کے سامنے بیان کی جائیں تو یقینا اس میں طاقت پید اہوسکتی ہے اور اس کی قوتِ ارادی ایسی مضبوط ہوسکتی ہے کہ وہ ہزاروں گناہوں پر غالب آجائے اور ان سے ہمیشہ کیلئے محفوظ رہے۔
دوسری چیز علمی قوت ہے جو اصلاحِ اعمال میں مُمِدّ ہوتی ہے۔ اس کے متعلق میںبتاچکا ہوں کہ غلطی سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ کچھ گناہ بڑے ہوتے ہیں اور کچھ چھوٹے۔ اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن گناہوںکو وہ چھوٹا سمجھتے ہیں وہ ان کے قلوب میں راسخ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اگر ہمارے علماء اس بات پر زور دیں اور لوگوں کو بتایا کریں کہ کوئی گناہ چھوٹا نہیںہوتا ہر گناہ خطرناک زہر ہے تو جماعت کی بہت کچھ اصلاح ہوجائے مگرجہاں تک مجھے معلوم ہے سال بھر میں ایک مولوی ایک لیکچر بھی اس قِسم کانہیں دیتا اگر وہ اس قسم کے لیکچر دیتے تو یقینا لوگوں کی اصلاح ہوجاتی۔ خصوصیت سے اس قسم کے لیکچروں کی کالجوں، سکولوں اور مدرسوں میں ضرورت ہؤا کرتی ہے مگرجاکر سکول میں دریافت کریں کہ ا س قِسم کے کتنے لیکچر لڑکوں کے سامنے دیئے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ تمہیں معلوم ہوگا کہ پانچ سال سے تمہارا لڑکا سکول میںداخل ہے مگر اس قِسم کی باتیں ایک دفعہ بھی اس کے کانوںمیں نہیں پہنچائیں گئیں حالانکہ یہ وہ چیزیں ہیں جوروزانہ لڑکوں کے سامنے بیان ہونی چاہئیں۔ پس علمی کمزوری کی وجہ سے بھی بہت سی غلطیاں ہوجاتی ہیں مگر ہمارے سکولوں میں اس قِسم کی علمی کمزوری کو دور کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیںکی جاتی بلکہ اُلٹا ایسی تعلیم دی جاتی ہے جو اخلاق کو خراب کرنے والی ہوتی اور خیالات کو پراگندہ کرنے والی ہوتی ہے۔ چنانچہ سکولوں میں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ اگر کسی عورت سے کوئی غیر مرد محبت کرے اور وہ اس کی خواہشوں کا جواب نہ دے تو وہ بے وفا ہوتی ہے۔ ہماری پُرانی شاعری میں ا س کے سِوا اور ہے ہی کیا۔ یہی اس میں ذکر آتا ہے کہ اگر کوئی مرد کسی لڑکی کو اپنے قابو میں لانا چاہے اور وہ ا س کا کہامان لے تو وہ باوفا ہے، ورنہ بیوفا اور ظالم ہے۔ یہ تعلیم اُس وقت دی جاتی ہے جب لڑکی اور لڑکے کویہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہوس کیا ہوتی ہے، محبت کیاہوتی ہے اور عشق کیا ہوتاہے اور وصل کیا ہوتا ہے مگر وہ شعر پڑھتا اور آہیں بھرتا ہے اور جب اس میں مادہ پید اہوجاتا ہے اور اس کے سامنے اس قِسم کاکوئی منظر آتا ہے تو وہ کہتا ہے اب مجھے ظالم نہیں بلکہ باوفا بننا چاہئے۔ پس سکولوں میں اچھی تعلیم تو کیا بُری تعلیم دی جاتی ہے اور ہماری احمدیہ جماعت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں اِسی لئے میں نے کہا ہے کہ جب تک تعلیم کے کورس بدل نہیں دیئے جاتے ، جب تک پرانی شاعری کو *** قرار دے کر اُسے الگ پھینک نہیں دیا جاتا، جب تک اس شاعری کا شوق رکھنے والوں کو سزائیں نہیںدی جاتیں اور جب تک ان اشعار کی جگہ ایسے اشعار نہیں پڑھائے جاتے جو اخلاق کیلئے مفید ہوں اُس وقت تک اصلاح کبھی نہیں ہوسکتی۔
تیسری چیز دوسرے کا سہارا ہے جو دو قِسم کاہوتا ہے ایک نگرانی کا اور دوسرا جبر کا۔ یعنی کچھ حصہ سہارے کا ایسا ہوتاہے جو نگرانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ مثلاً ایک دوست پاس بیٹھ جاتا ہے اور وہ کہتا ہے میں تمہیں فلاں بدی کا ارتکاب کرنے نہیںدوں گا اور ایک سہارا ایسا ہوتا ہے جو جبر پر مشتمل ہوتا ہے ۔ یعنی اسے مارا پیٹا جاتا ہے، اس پر جُرمانہ کیاجاتا ہے، اس کا بائیکاٹ کیاجاتا ہے اور اس طرح اسے مجبور کردیا جاتا ہے کہ وہ نیک اعمال اختیار کرے۔ اس جبر کے نتیجہ میں گو ابتداء میں وہ جبراً نیکی کے اعمال بجالاتا ہے لیکن آہستہ آہستہ اس کے دل میں بھی ایمان پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے اور وہ خوشی سے نیک اعمال میں حصہ لینے لگ جاتا ہے۔ یہ ذرائع ہیں جن سے بُرے اعمال کا علاج کیا جاسکتا ہے بغیر ان ذرائع کواختیار کئے اصلاح اعمال میں کبھی کامیابی نہیں ہوسکتی۔ یعنی ایمان کاپیدا کرنا، علم صحیح کا پیدا کرنا ، نگرانی کرنا اور جبر کرنا یہ چار چیزیں ہیں جن کے بغیرتمام قوم کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔
دنیا میں ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جو ایمانی قوت اپنے اندر نہیں رکھتا۔ ایسے لوگوں کے قلوب میں اگر قوت ایمانیہ بھردی جائے تو ان کے اعمال درست ہوجاتے ہیں لیکن ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جو عدمِ علم کی وجہ سے گناہوں کا شکار ہوتا ہے اس کیلئے علمِ صحیح کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک طبقہ جو نیک اعمال میں حصہ لینے کیلئے دوسروں کی مدد کامحتاج ہوتا ہے وہ نگرانی کامستحق ہوتا ہے اور وہ طبقہ جو بالکل گِرا ہؤا ہو وہ سز اکا مستحق ہوتا ہے اور جب تک اسے سزانہ دی جائے اس کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ اگر ہم ان چاروں ذرائع کو اختیارکریںگے تو ہم کامیاب ہوں گے اور اگر ہم ان چاروں ذرائع میں سے ایک ذریعہ کو بھی چھوڑ دیں گے تو کامیابی حاصل نہیں کرسکیں گے کیونکہ جس زمانہ میں مذہب کے پاس نہ حکومت ہو نہ تلوار اُس زمانہ میں یہ چاروں علاج ضروری ہوتے ہیں۔ مگر یہ کہ پہلے دو ذرائع چھوڑ کر مؤخرالذکردو ذرائع کی تفصیل کیا ہے اور کس کس طرح ان پر عمل کرنا چاہئے اس کے متعلق میں بتاچکا ہوں کہ یہ میری تحریک جدید کا دوسرا حصہ ہے اور انہیں اُسی وقت بیان کیا جائے گا جب تحریک جدید کے دوسرے حصہ کو پیش کرنے کا وقت آیا۔ لیکن اصول مَیں نے بیان کردیئے ہیں اور اس سے دوست بہت حد تک فائدہ بھی اُٹھاسکتے ہیں لیکن دو چیزیں ایسی ہیں جن پر عمل شروع ہوجانا ضروری ہے۔ ان میں سے پہلی چیز جس پر ابھی سے عمل شروع کردینا چاہئے یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشانات، آپ کی وحی، آپ کے الہامات اور آپ کے تعلق باللہ کا متواتر لوگوں کے سامنے ذکر کیاجائے اور ہر شخص کو بتایاجائے کہ اللہ تعالیٰ کے قُرب کی کیا فوائد ہیں، اس کی محبت انسان کوکس طرح حاصل ہوسکتی ہے اور اس کا پیار جب کسی انسان کے شاملِ حال ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے کس طرح امتیازی سلوک کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ بے شک زندہ آسمان پربیٹھے رہیں، ان کا آسمان پر زندہ بیٹھے رہنااتنانقصان دہ نہیں جتنا خداتعالیٰ کاہمارے دلوں میں مُردہ ہوجانانقصان دہ ہے۔پس کیا فائدہ اس بات کا کہ تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر زور دیتے ہو جبکہ دوسری طرف خداتعالیٰ کو لوگوں کے دلوں میں تم ماررہے ہو اور اسے زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ خداتعالیٰ بے شک حی و قیوم ہے اور وہ کبھی نہیں مرتا مگربعض انسانوں کے لحاظ سے وہ مر بھی جاتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اپنے ایک استاد کا جوبھوپال کے رہنے والے تھے واقعہ سنایا کرتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں انہوں نے ایک دفعہ رئویا میں دیکھا کہ بھوپال کے باہر ایک پُل ہے وہاں ایک کوڑھی پڑا ہؤا ہے۔ جو کوڑھی ہونے کے علاوہ آنکھوں سے اندھا ہے، ناک اس کا کٹا ہؤا ہے، انگلیاں اس کی جھڑ چکی ہیں اور تمام جسم میں پیپ پڑی ہوئی ہے اور مکھیاں اُس پر بھنبھنارہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں مجھے اسے دیکھ کر سخت کراہت آئی اور میں نے پوچھا بابا تُو کون ہے؟ وہ کہنے لگا میںاللہ میاںہوں۔ یہ جواب سن کر مجھ پرسخت دہشت طاری ہوئی اور میںنے کہا تم اللہ میاں ہو۔ آج تک تو سارے انبیاء دنیامیں یہی کہتے چلے آئے کہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ خوبصورت ہے اور اس سے بڑھ کر اور کوئی حسین نہیں، ہم جو اللہ تعالیٰ سے عشق اور محبت کرتے ہیں تو کیا اسی شکل پر؟ اس نے کہا انبیاء جو کچھ کہتے آئے وہ ٹھیک اوردرست ہے میں اصل اللہ میاں نہیں میںبھوپال کے لوگوں کااللہ میاںہوں یعنی بھوپال کے لوگوں کی نظروںمیں مَیںایسا ہی سمجھا جاتا ہوں۔ تو اللہ میاں یوں تو نہیں مرتا مگر جب کوئی انسان اسے بھلا دیتا ہے تو اس کے لحاظ سے وہ مرجاتا ہے۔ تو عجیب بات ہے ہمارے علماء حضرت عیسیٰؑ کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کو زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ کسی وقت اگر یہ سوال پیداہوجائے کہ عیسیٰ مرجائے مگر ساتھ خداتعالیٰ بھی مرجائیں گے تو یقینا ہم یہی کہیں گے کہ اگر عیسیٰ زندہ رہتا ہے تو زندہ رہنے دو لیکن خدا کومرنے نہ دو کیونکہ اگر خدازندہ رہا تو وہ زندہ عیسیٰ کی وجہ سے بھی دنیا میں کوئی بگاڑ پید انہیں ہونے دے گا۔
غرض اصل مضامین جن کی طرف ہمارے مبلغین کوتوجہ کرنی چاہئے اُن کی طرف توجہ نہیں کی جاتی اور نہ دلوں میں ایمان پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ خشک دلائل سے لوگوں کے قلوب پراثر ڈالا جاتا ہے حالانکہ جس کے پاس اللہ تعالیٰ کے تازہ نشانات اورمعجزات ہوں اور جو مشاہدہ اور رئویت کے طور پر خداتعالیٰ کی ہستی کا ثبوت دے سکتا ہو اُسے خشک دلائل سے خداتعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کوئی احمق ہی ہوگا کہ جب اُس سے ایسی حالت میں جبکہ سورج چڑھا ہؤا ہو سورج کے چڑھنے کاثبوت مانگاجائے تو وہ دلائل دینا شروع کردے اور کہنے لگ جائے کہ سورج کی روشنی سفیدہوتی ہے، جب اُس کی روشنی زمین پرپھیلتی ہے تو ہر چیز نظر آنے لگتی ہے ، اتنے بجے چڑھتا ہے اور اتنے بجے غروب ہوتا ہے۔ کیا دنیامیں تم نے کوئی ایسا گدھا اور بیوقوف بھی دیکھا ہے جو سورج کی موجودگی میں سورج کے چڑھنے کے دلائل دیتا ہو۔ ایسی حالت میں تو جب کوئی سورج کے طلوع ہونے کاثبو ت مانگے ایک ہی علاج ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اُس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر اُس کامنہ سورج کی طر ف کردو اور کہو دیکھ لو یہ سورج ہے۔ خداتعالیٰ بھی اِس وقت ہمارے سامنے جلوہ گر ہے، وہ بھی عُریاں ہوکر اپنی تمام صفات کے ساتھ دنیا کے سامنے رونماہوگیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ وہ اپنے سارے حُسن کے ساتھ جلوہ نما ہے ایسی حالت میں اگر ہمارے واعظ اورمبلغ خشک دلائل دینے میں لگے رہتے ہیں تو اُن جیسا احمق اور بیوقوف کون ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں تو ایک ہی علاج ہوسکتاہے اور وہ یہ کہ لوگوں کے کلے پکڑ کر اُن کی آنکھیں اوپر کو اٹھادی جائیں او رکہا جائے دیکھ لو وہ خدا ہے جس نے اپنے تازہ نشانات سے دنیا پر اپنے وجود کو ثابت کیاہے۔یہی چیز ہے جو جماعت کی عملی قوت کو مضبوط کرسکتی ہے۔ تم بچوں، جوانوں، مَردوں، عورتوں اور نووارد احمدیوں کے سامنے یہ باتیں پیش کرو۔ انہیں بتائو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا جلال ظاہر ہؤا، انہیں سمجھائو کہ خداتعالیٰ کا قُرب حاصل کرنے کے کیا ذرائع ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کس طرح حاصل ہوسکتی ہے۔ پھر دیکھو گے کہ وہی لڑکے جو دھاری دار صدریوں کی نقل کرنے کا شوق رکھتے ہیں خداتعالیٰ سے ملنے کی تڑپ بھی اپنے دلوں میں پیدا کریں گے اور اس کے قُرب میں بڑھتے چلے جائیں گے۔
پھر جن میں علم کی کمی ہے اس ذریعہ سے ان کی علمی کمی بھی دور ہوجائے گی۔ اب تو ایسا ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایک معمولی سی بات پر ہم میں سے کسی کو ابتلاء آجاتا ہے۔ مثلاً پانچ روپے اس نے کسی کے دینے تھے مگر وہ دیتا نہیں تھا خلیفۂ وقت کے سامنے معاملہ پیش ہؤا تو اس نے پانچ روپے لے کر اس مستحق کو دلوادیئے پس اتنی سے بات پر اُسے ابتلاء آجاتا ہے اور وہ لوگوں سے کہنا شروع کردیتا ہے کہ خلیفہ نے پانچ روپے مجھ سے ناحق لے کر دوسرے کو دے دیئے۔ یہ الگ سوال ہے کہ وہ پانچ روپے اس کے نہیں تھے بلکہ دوسرے ہی کے تھے بلکہ سوال یہ ہے کہ اگرمبلغین اور واعظین کے ذریعہ باربار جماعتوں کے کانوں میں یہ آواز پڑتی رہے کہ پانچ روپیہ کیا، پانچ ہزار روپیہ کیا، پانچ لاکھ روپیہ کیا، پانچ ارب روپیہ کیا اگرساری دنیا کی جانیں بھی خلیفہ کے ایک حکم کے آگے قربان کردی جاتی ہیں تو وہ بے حقیقت اور ناقابل ذکر چیز ہیں تو اس قِسم کے ابتلاء جماعت کے لوگوں پرکیوں آئیں۔ پھر اگر انہیں بار بار بتایا جائے کہ ساری برکت نظام میں ہے، انہیں سمجھایاجائے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کسی قوم میں سے نظام اٹھالیتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خداتعالیٰ اس قوم پر اپنی *** ڈالنا چاہتا ہے۔ اگر یہ باتیں ہر مَرد، ہر عورت، ہر بچے اور ہر بوڑھے کے ذہن نشین کی جائیں اور ان کے دلوں پران کانقش کیاجائے تو وہ ٹھوکریں جو عدمِ علم کی وجہ سے لوگ کھاتے ہیں کیوں کھائیں۔ مگر قادیان میںہی بعض مجلسوں میں یہ تو سننے میں آجائے گا کہ خلیفہ خدا تھوڑا ہی ہوتا ہے وہ بھی غلطی کرسکتا ہے جیسے عام انسان غلطی کرسکتے ہیں۔ مگر اس قِسم کے الفاظ لوگوں کے منہ سے کم سنائی دیں گے کہ خداتعالیٰ خود قرآن مجیدمیں فرماتا ہے کہ خلفاء جن امور کا فیصلہ کیاکرتے ہیں ہم ان امور کو دنیا میں قائم کرکے رہتے ہیں۔ وہ فرماتا ہے وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ ؎۳ یعنی وہ دین اور وہ اصول جوخلفاء دنیامیں قائم کرناچاہتے ہیں ہم اپنی ذات کی ہی قسم کھاکر کہتے ہیںکہ ہم انہیںدنیا میں قائم کرکے رہیں گے۔ پس اگر یہ باتیں لوگوں کوسنائی جائیں توکیوں معمولی معمولی باتوں پر وہ ٹھوکریں کھائیں۔ پس سب سے اہم ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم کے بعد اور کوئی عالم ایسا نہیں نکلا جس نے اس ذمہ داری کو پوری طرح سمجھا ہو ۔
حافظ روشن علی صاحب مرحوم صرف ایک عالم ہی نہیں تھے بلکہ انہیں لوگوں کی اصلاح کا خیال رہتا تھا اور وہ ہرمعاملہ میں دخل دیتے تھے اور چاہتے تھے کہ لوگوں میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو حالانکہ انہیں کوئی غیرمعمولی طاقتیں حاصل نہیں تھیں، ان کی نظر کمزور تھی اور ان کے قویٰ بھی کمزور تھے مگر چونکہ ان کی قوتِ ارادی او رایمان بہت مضبوط تھا اس لئے وہ سب کام بخوبی کرتے تھے۔ اگر ہمارے علماء اس طرف توجہ کریں اور اپنے لوگوں کی عملی اصلاح کو وہ غیروں کے عقیدوں کی اصلاح کے برابر ہی ضروری سمجھیں تو چند دن کے اندر ہی کایا پلٹ سکتی ہے اور اس کے نتیجہ میں جودوسرے قدم ہیں اُن کا اُٹھانا بھی ہمارے لئے آسان ہوسکتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ گو یہ مضمون نہایت ہی اہم ہے مگر چونکہ اب عصر کا وقت قریب ہورہا ہے اور میرا گلا بھی بیٹھ گیا ہے اس لئے میں اصلاحِ اعمال کے متعلق اپنے خطبات کو موجودہ صورت میں ختم کرتا ہوں کیونکہ میں نے بتایا ہے کہ اس مضمون کے زیادہ تر حصے ایسے ہیں جوتحریک جدید کے دوسرے حصہ سے تعلق رکھتے ہیں او ران کا اُسی وقت بیان کرنا مناسب ہے لیکن اس سے پہلے ہماری جماعت کے علماء لوگوں کو تیار کرسکتے ہیں۔ اور دوسرے لوگ بھی جن کو خداتعالیٰ نے علم و فہم بخشا ہے اور وہ خداتعالیٰ کی خشیت اپنے دلوں میں رکھتے اور الٰہی محبت کے حاصل کرنے کی خواہش اپنے قلوب میں پاتے ہیں لوگوں کو اس رنگ میں تیار کرسکتے اور ان کے اعمال کی اصلاح میں حصہ لے سکتے ہیں اور میرے کام میں سہولت پید اکرکے خداتعالیٰ کی نظر میں خلیفۂ وقت کے نائب قرار پاسکتے ہیں۔
اس کام کا طریق میں بتاچکا ہوں جو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکات اور آپ کے فیوض لوگوں پر ظاہر کئے جائیں، خداتعالیٰ کے زندہ نشانات کا بار بار ذکرکیا جائے، اللہ تعالیٰ کے قُرب کے حصول کے ذرائع لوگوں کوبتائے جائیں، خلیفۂ وقت کی اطاعت اور نظام کی فرمانبرداری کی تلقین کی جائے اور ان لوگوں کے اعتراضات اور وساوس سے انہیں محفوظ رکھا جائے، جو نابینا ہو کر ایک بینا پر اعتراض کرتے ہیں، جو لولے لنجے ہوکر اُس شخص پراعتراض کرتے ہیں جوچلتا پھرتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کے مقر کردہ خلیفہ پر۔ وہ آپ تو نکمّے ہی تھے مگر وہ چاہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی نکمّا کردیں اور انہیں بھی اپنی طرح گمراہی میں مبتلا کردیں۔ ان کے مقابلہ میں اگر وہ لوگ جنہیں خداتعالیٰ نے ہاتھ پائوں دیئے ہیں او رعقل و سمجھ سے انہیں حصہ دیا ہے کام کریں اور جماعت کی تربیت کریں تو آج ہی نقشہ بدل جائے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ وہ وفاتِ مسیحؑ اور ختمِ نبوت کے مسائل میں ہی مشغول رہتے ہیں حالانکہ جس حصہ کی طرف ان کی توجہ ہے وہ علمی ہے اور جس حصہ کی طرف میں انہیں متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ عملی اورعرفانی ہے۔ علم اور چیز ہے اور عرفان اور چیز۔ہمیں جو وفاتِ مسیح وغیرہ کے مسائل کے متعلق علم کی ضرورت ہے وہ دشمن کیلئے ہے لیکن عمل اور عرفان کی اپنی جماعت کیلئے ضرورت ہے مگر ہمارے علماء کی ساری توجہ اِس وقت غیراحمدیوں کی طرف ہے اپنی جماعت کی طرف نہیں۔ اپنی جماعت کے متعلق غالباً وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ چاہے ڈوبے یا مرے ہمیں اس سے کیاکام ہے حالانکہ اگر وہ قلوب کی اصلاح کریں اور لوگوں کے دلوں میں عرفان اور اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کریں تو کروڑوں کروڑ لوگ احمدیت میںداخل ہونے لگ جائیں۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے اِذَا جَائَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِرَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ؎۴ کہ اگر تبلیغ کے ذریعہ تم اپنے مذہب کی اشاعت کرو گے تو ایک ایک دو دو کرکے لوگ تمہاری طرف آئیں گے لیکن اگر تم استغفار اورتسبیح کرو اور اپنی جماعت سے گناہ دور کردو تو پھر فوج در فوج لوگ آئیں گے اور تمہارے اندر شامل ہوجائیں گے۔ تو جو ذرائع مَیں بتارہاہوں اُن پرعمل کرنے سے لاکھوں اور کروڑوں لوگ احمدیت میں داخل ہوسکتے ہیں مگر جو طریق تم اختیار کئے ہوئے ہو اس سے سینکڑوں سال میں بھی ہماری جماعت ساری دنیامیں نہیں پھیل سکتی۔ اگر ہمارے اعمال اچھے ہوں، ہم میں دیانت اور امانت پائی جاتی ہو اور ہم اتنی حلال روزی کما کر کھانے و الے ہوں کہ جس کام پرمقرر کئے جائیں اُس کوپوری تندہی ، پوری خوش اسلوبی اور پوری دیانتداری کے ساتھ کریں تو ہر جگہ کی نوکریاں مل سکتی ہیں اور وہی انگریز جو آج کہتے ہیںکہ احمدیوں کونوکریاںنہ دو ترلے اور منتیں کرکرکے تمہیں نوکریاں دینے کیلئے تیار ہوجائیں گے۔
مسٹر سٹرک لینڈ کوآپریٹو سوسائیٹیز کے ایک انگریز رجسٹرار تھے وہ شملہ میں ایک دفعہ مجھے ملے اور کہنے لگے آپ کے چندہ وصول کرنے والے کس دیانتداری سے کام لیتے ہیں میں تو جسے مقرر کرتا ہوں وہ تھوڑے دنوں میں ہی خائن ثابت ہوجاتا ہے اورمجھے اسے نکالناپڑتاہے۔ میں نے کہا ہمارے ہاں کوئی بددیانتی نہیں کرتا کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ بددیانتی انسانی ایمان کوضائع کردیتی ہے۔ وہ اُس وقت چھٹی پرجارہے تھے کہنے لگے اگر میں واپس آیاتو حکومت سے درخواست کروں گا کہ کوآپریٹو سوسائیٹیز کے انسپکٹر پہلے چھ ماہ کیلئے امام جماعت احمدیہ کے پاس بھیج دیئے جایا کریں تا کہ وہ ان میں دیانت کی روح پیدا کردیں۔ انہوں نے احمدیت کا کافی مطالعہ کیا ہؤا تھا اور وہ احمدیت سے بہت ہی متأثر تھے مگر انہوںنے تو صرف سطحی نگاہ سے جماعت کو دیکھ کر اس رائے کا اظہار کیا تھا لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہم میں بھی کمزور لوگ موجود ہیں اور اگر واقعہ میں ہم میں اس قِسم کی کمزوریاں نہ رہیں تو اس میں کیا شبہ ہے کہ گورنمنٹ منتیںکرکر کے ہم سے آدمی مانگے اور وہ ہمارے دیانتدار آدمیوں کواپنے محکموں کانگران مقرر کرنے کیلئے منتیں کرے۔ پس یہ طریق ہے جس سے جماعت کی عملی اصلاح ہوسکتی ہے ورنہ خالی وفاتِ مسیح او رختمِ نبوت کے مسائل بیان کرنے سے جماعت کی عملی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان مسائل کا بیان کرنا ضروری نہیں وہ بھی ضروری ہیں مگر وہ ایک ابتدائی حربہ ہیں۔ وہ ایسے ہی ہیں جیسے کلہاڑا لے کر ایک پہاڑ کو توڑ اجائے مگر جو طریق میںنے بتایا ہے وہ ایساہے جیسے پہاڑ کے نیچے ڈائنامائٹ رکھ کر اسے ضرب لگادی جائے۔ پس پیشتر اس کے کہ ایک تحریک جدید کا دوسرا حصہ آئے میں علماء سے امید کرتا ہوں کہ وہ ان لائنوں پرجماعت کو تیار کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ وقت آنے پر جماعت کا کچھ حصہ فیل نہ ہوجائے۔ یہ تو خداتعالیٰ کاکام ہے اور بہرحال ہوکر رہے گا لیکن اگر تحریک جدید کے اس دوسرے حصہ کو بیان کرتے وقت دس بیس ٹھوکر کھاکر مرتد ہوجائیں تو ان کا ارتداد بھی ہمارے لئے تکلیف دہ ہوگا۔ کسی کے اگر ہزار بچے بھی ہوں تو بھی وہ پسند نہیںکرسکتا کہ اس کاکوئی بچہ مرجائے پھرہم کب پسند کرسکتے ہیں کہ جب ہم اصلاح جماعت کیلئے کوئی عملی قدم اُٹھائیں تو دس بیس یا پچاس سَو مرتد ہوجائیں۔ پس دوستوں کو دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے قلوب کی اصلاح کرے اور اس کی خامیوں اور نقائص کو دور کرے تا جس وقت عملی اصلاح کیلئے قدم اٹھایا جائے وہ اُس وقت لَبَّیْکَ کہہ کر آگے آجائیں اور دلی شوق سے ان پرعمل کرنے لگیں کسی دوسرے کو انہیں کچھ کہنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔
(الفضل ۱۹؍ جولائی ۱۹۳۶ئ)
؎۱ البقرۃ: ۱۳۹
؎۲ بخاری کتاب التفسیر باب لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (الخ)
؎۳ النور: ۵۶ ؎۴ النصر: ۲ تا ۴


۲۶
خداتعالیٰ نے اخلاق کی درستی اور مادّی ترقی
کو مذہب کے تابع کردیاہے
(فرمودہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۳۶ء بمقام دھرم سالہ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے سب فطرتوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے تجویز فرمایا ہے۔ دنیا میں مذہب اور اخلاق اور انسان کی وہ ضروریات جو اس کے جسم کے ساتھ وابستہ ہیں وہ ایسی مشترک ہیں کہ ان میں آپس میں فرق کرنا مشکل ہے۔ جب کبھی ہم نیچے سے اوپر کی طرف آتے ہیں یعنی جسم کی ضرورتوں کے تقاضوں پر غور کرتے ہوئے اخلاقیات اور پھر مذہب کی طرف آتے ہیں تو بظاہر ساری مادیات کا ہی جُزو معلوم ہوتی ہیں اور اگر ہم اوپر سے نیچے کی طرف آتے ہیں یعنی مذہب سے مادیات کی طرف آتے ہیں تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ساری باتیں مذہب سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ جومادیات پر غور کرنے کے عادی ہیں آہستہ آہستہ مذہب کی تمام ضرورتوں اور اس کے تمام احکام کومادیات کاحصہ قرار دیتے ہیں اور جو مذہب پر غور کرنے کے عادی ہیں وہ ہر ایک شَے کو مذہب کا جُزو قرار دیتے ہیںیہاں تک کہ ان کے نزدیک دنیا کی معمولی سے معمولی بات بھی مذہب کاحصہ ہے ۔ ہندوستان اور یورپ میں یہ امتیازی نشان ہے کہ ہندوستانی لوگ ہرایک بات کوخواہ اخلاق سے تعلق رکھتی ہو یا مادیات سے اِن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسے مذہب کا جُزو بنادیں اور یورپین لوگوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ روحانیات اور اخلاقیات کو مادی دنیا کاحصہ بنادیں۔ وہ لوگ اگر الہام پر غورکرنے لگتے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ یہ انسانی افعال کا جُزو ہے، وہ اخلاق پر غور کریں گے تو اِسی نقطہ نگاہ سے کہ اس سے انسان کو دُنیوی فائدہ ہوتا ہے اور اگر مذہب پر غور کریں گے تو یہی کہیں گے کہ ادنیٰ قِسم کے لوگ جو غیرتعلیم یافتہ ہیں مذہب کے نام سے جرائم اور فتنہ و فساد سے بچ جاتے ہیں۔ اس کے مقابل پر ہندوستان میں خصوصاً مسلمانوں کو دیکھا جائے تو وہ ہر چیز کومذہب کاحصہ بنانے کی فکر میں ہیں گویا نماز روزہ سے اُتر کر اخلاق اور دُنیوی تمام ضروریات خواہ کسی انجمن کا قیام ہو یاکسی جلسہ کا انعقاد ہو وہ کہتے ہیں کہ وہ ہمارے نزدیک اسلام کا حصہ ہیں اور ان میں شامل نہ ہونے والا کافر و مرتد ہے۔ اس معاملہ نے آہستہ آہستہ ایسا خطرناک غلوّ پید اکیا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی جُزئیات بھی خواہ وہ مادی ہوں یا اخلاقی مذہب کا حصہ ٹھہرائی گئی ہیں اور اب تو مذہب آدمیوں کے نام پر ہوگیا ہے ۔ فلاںمولانا صاحب کایہ مذہب ہے اور فلاں عالم کا یہ، اور اس طرح اسلام میں اب کوئی حقیقت باقی نہیں رہی اور یہ لوگ اسلام سے دور جاپڑے ہیں۔
غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ درحقیقت مادیات اخلاق اورمذہب اسی قدر قریب قریب ہیں کہ عام آدمی کو معلوم نہیںہوتا کہ کہاں سے ایک کی حد شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے۔ اگر مذہب اخلاقیات سے اتناقریب نہ ہوتا کہ انسان کوپتہ نہ لگتا کہ مذہب اپنی حد سے نکل کر اخلاقیات کی حد میں داخل ہوتا ہے یا اخلاقیات، مادیات سے اتنا قریب نہ ہوتے کہ انسان کو معلوم نہ ہوتا کہ اخلاقیات اپنی حد سے نکل کرمادیات کی حد میں داخل ہوتے ہیں تو اتنا اختلاف جو آج پایاجاتا ہے نہ ہوتا۔ پس دونوں قوموں کے اختلاف سے معلوم ہؤا کہ دونوںایک زنجیر کی کڑیاں ہیں اور ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور اتنی قریب ہیں کہ انسان نہیں سمجھ سکتا کہ دونوں کی حدود کیاہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ نیچے سے اوپر جانے کی وجہ سے یعنی مادیات سے مذہب کی طرف جانے کی وجہ سے چونکہ انسان مادیات سے اثر قبول کرچکا ہوتا ہے اس لئے وہ اوپر کی چیزوں کو مادیات کے تابع کرتا چلا جاتا ہے اور جو مذہب کا مطالعہ کرتے ہوئے مادیات کی طرف آتا ہے وہ اخلاقیات اور مادیات کو بھی مذہب کے تابع کردیتا ہے اسی لئے کہ وہ اوپر سے اثر قبول کرچکاہوتا ہے اور چونکہ ان میں آپس میں کامل مشابہت ہے اس لئے امتیا زمشکل ہے۔ اسی امتیا ز کے نہ کرنے کی وجہ سے دو گروہ پیدا ہوگئے ہیں ایک ہر شَے کو مادیات کے تابع کرتا ہے اور دوسرا ہر شَے کو روحانیات کے۔ مگر باریک نظروں والا ان دونوں گروہوں کو غلطی پرقرار دے گا۔ اوپر سے نیچے آنے والے نے فرق کو دیکھا نہیں اس نے غلطی کی اور نیچے سے اوپر جانے والے نے تفاوت کی طرف نگاہ نہ اُٹھائی اُس نے بھی غلطی کی لیکن رسول کریم ﷺ کی زندگی میں دونوں پہلو نظر آتے ہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ دنیا کے مادّی مصلح بھی ہیں، اخلاقی مصلح بھی ہیں اور روحانی مصلح بھی ہیں اور آپ کی حیاتِ طیبہ تمام کی جامع نظر آتی ہے۔اگر ایک طرف آپ تعلیم دیتے ہیں کہ اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ ؎۱ تو دوسری طرف روحانیت کی تکمیل کے متعلق زور دیتے ہیں۔ دعا کا تعلق اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایسا ہے جیسے بچے اور ماں کا تعلق ۔ دعا کے معنے پکارنے کے ہیں۔ پکارنے والا تب پکارتا ہے جب اسے یقین ہوکہ کوئی میری مدد کرے گا کیونکہ کون اپنے دشمن کو مدد کیلئے پکارتا ہے؟کہ مجھے آکر بچائو بلکہ انسان ایسے وقت میں خاموش رہتا ہے تا کہ کوئی اس پر ہنسے نہیں۔
دعا میں تین چیزیں پائی جاتی ہیں اوّل یہ کہ اپنے دل میں یقین کرے کہ میری بات قبول کی جائے گی، دوسرے یہ اعتماد رکھے کہ جس کومیں پکارتا ہوں اس میں میری مدد کرنے کی طاقت ہے، تیسرے ایک فطری لگائو جو انسان کو باقی ہر قسم کے لگائو سے پھیر کر اُسی کی طرف لے جاتا ہے۔ پہلے دو تو عقلی نکتے ہیں۔ تیسری فطرتی محبت ہے جو دوسری طرف سے اس کی آنکھ کو بند کرکے محبو ب کی طرف لے جاتی ہے۔ بچہ اور ماں کی مثال کو دیکھ لوبچہ کا ماں سے فطرتی تعلق ہوتا ہے قطع نظراس سے کہ ماں اس کی مدد کرسکے یا نہ کرسکے وہ اسے پکارتا ہے۔ ایک سمندر میں ڈوبنے والا بچہ باوجود یہ جاننے کے کہ میری ماں تیرنا نہیں جانتی پھر بھی اپنی ماں کو آواز دیتا ہے کہ مجھے بچائو کسی دوسرے کوآواز نہیں دیتا کہ کوئی مجھے بچائے بلکہ بے اختیار اپنی ماں کو پکارتا ہے یہ جذباتی تعلق ہے جس کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِبغیر دعا کے انسان کے ایمان کو کامل نہیں کیا جاسکتا۔ پس آنحضرت ﷺ نے بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان تعلق کو ماں اوربچہ کا سا تعلق قرار دیا ہے کہ دنیا سے آنکھ بند کرکے اسی کی طرف بھاگے جب کبھی دکھ پہنچے تو بھاگ کر اسی کے آستانہ پرگرے۔
دوسری چیز اخلاق میں ہم دیکھتے ہیں تو آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ایسے باریک درباریک اخلاقی پہلو معلوم ہوتے ہیں کہ باریک نگاہ والے بھی دیکھ نہیں سکتے۔ مثلاً بیویوں کے معاملہ میں ہی آپ کے متعلق آتا ہے کہ جب کوئی آپ کی بیوی پانی پیتی آپ اُسی جگہ منہ لگا کر پانی پیتے جہاں سے اس نے پیاہوتا ؎۲ ۔ یہ کتنی چھوٹی سی بات ہے مگر کیساباریک نکتہ ہے کہ انسانی محبت بڑے بڑے معاملات سے نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ اخلاق کے بڑے معاملات میں بھی آپ نے ایسی تعلیم دی ہے کہ ایسا معلوم ہوتاہے یہ شخص ساری عمر اخلاقیات کا مطالعہ کرتارہا ہے بنی نوع انسان کے باہمی تعلقات، رشتہ داروں کے باہمی تعلقات، انسان کے ذاتی کیریکٹر کی تفصیلات، جھوٹ، خیانت، بدگمانی سے پرہیز تمام امور نظر آتے ہیں اور کوئی ایسی بات نہیں جس کا ذکرنہ آیا ہو بلکہ ذات میں ایسا کامل نمونہ دکھا یا ہے کہ اگر کسی شخص کوبیسیوں زندگیاںعطا ہوں تب بھی اس کمال کو نہیں پہنچ سکتا۔ تیسری چیز مادیات ہیں ان کے لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں تو رسول کریم ﷺ کی زندگی میں مادیات میں اصلاح کی تعلیم بھی معلوم ہوتی ہے، سڑکوں کو کھلا کرو، پانی کی صفائی رکھو، راستہ کی صفائی کرو، مکان کشادہ بنائو وغیرہ احکام سے آپ کی تعلیم پُر ہے۔ پس مادیات کے لحاظ سے بھی آپ کی تعلیم ایسی مکمل ہے کہ حیرت آجاتی ہے۔ تمام ضروری مادّی چیزیں خواہ وہ سیاست سے تعلق رکھتی ہوں یا تمدّن سے تعلق رکھتی ہوں یاتجارت سے یا صنعت سے متعلق ہوں ہر ایک شَے کو رسول کریم ﷺنے اپنی اپنی جگہ پر بیان فرمایا ہے لیکن باوجود اس کے رسول کریم ﷺ نے اس زمانہ کے لوگو ںکی طرح یہ نہیں کیاکہ دنیا کی ہر شَے کو مذہب کاحصہ قرار دے دیا ہو۔ مثلاً آپ کے متعلق واقعہ آتا ہے کہ ایک دفعہ کچھ لوگ کھیتی باڑی کررہے تھے آپ پاس سے گزرے تو وہ نَر اور مادہ پودوں کو ملارہے تھے آپ نے فرمایا کیا حرج ہے اگر نہ لگائو۔ لوگوں نے لگانے چھوڑ دیئے تو دوسرے سال پھل بہت کم آیا آپ نے ان درختوں کو دیکھ کر دریافت فرمایا تو لوگوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! آپ ہی نے فرمایا تھا۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا میں نے حکم نہیں دیا تھا آپ لوگ اپنی دنیاوی باتوں کومجھ سے اچھا جانتے ہو ؎۳ ۔ اب گویا رسول اللہ ﷺنے مادیات کو مذہب سے جُدا کردیا۔ وہ زبان بھی خدا کے رسول کی زبان تھی مگر باوجود اس کے کہ وہ خدا کے رسول کی زبان تھی آپ نے مادیات کو مادیات قرار دے کرفرمایا کہ تم ان باتوں کو زیادہ جانتے ہو مگر آجکل کے مولوی تو ایسا کرتے ہیں کہ خواہ اُن کے منہ سے انہونی بات بھی نکلے اس کے نہ ماننے سے اسلام کے دائرہ سے خارج اور کافر و مرتد ہونے کا سوال پیدا ہوجاتا ہے۔
دوسری طرف مغربی گروہ ہے ا سکے نزدیک مذہب پر نہ ایمان لانا ضروری ہے، نہ ان کے نزدیک آ پ کی تعلیم کی عزت ہے، نہ اخلاق کی حرمت، وہ ہر شَے کومادی قرار دیتے ہیں یہاں تک کہ اُن کے فلاسفروں نے کہا کہ سوال یہ نہیں کہ خدا نے دنیا کو کس طرح پیدا کیا بلکہ یہ ہے کہ انسان نے خدا کو کس طرح پید اکیا۔ ان کے نزدیک خدا کا سوال انسانی ارتقاء کا نتیجہ ہے اور یہ کہ بے شک خدا کا وجود ایک حقیقت ہے لیکن دماغی ترقی کی وہ انتہائی کڑی ہے اور کچھ نہیں۔ ان کے نزدیک انسان نے اپنے لئے ایک اچھا نمونہ تلاش کرنا چاہا جب وہ انسانوں میں ایک عمدہ نمونہ تلاش نہ کرسکے تو انہوں نے انسانوں سے باہر ایک ذہنی نقشہ تیار کیا۔ پہلی کوشش انسان کی ایسی کامیاب نہ تھی مگر جوں جوں وہ زیادہ غور کرتا گیا زیادہ ترقی کرتا گیا یہاں تک کہ اس نے ایک کامل نقشہ تیار کرلیا اُس کا نام خدا ہے اور ہر انسان کا فرض ہے کہ اس کا حکم مانے یعنی اس کی نقل کرنے کی کوشش کرے بغیر اس کی نقل اُتارنے کے انسان کامیاب نہیں ہوسکتا۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بھی خداتعالیٰ کومانتے ہیں اور اس کی فرمانبرداری کرتے ہیں مگر اس لئے نہیں کہ خدا نے انسان کو پید اکیا ہے بلکہ اس لئے کہ انسان نے آخر ایک کامل وجود کودریافت کرلیا۔ غرض ان لوگوں نے خدا کو بھی مادیات کا حصہ قرار دے لیاہے اور دوسری طرف ہندوستان کے مولویوں نے ہر ایک شَے حتّٰی کہ اخبار، سوسائٹی اورجلسہ کوبھی مذہب کاحصہ ٹھہرا لیا ہے۔ لیکن اس طریق سے نہ دنیا کی اصلاح ہوسکتی ہے نہ مذہب کی۔ جس گروہ نے مادیات کو روحانیات کے تابع کیا وہ کہتا ہے کہ نماز پڑھنے سے دنیا حاصل ہوجاتی ہے۔ دوسرا فریق کہتا ہے کہ دنیامیں کمانا، کھانا کھلانا خدا کے حصول کاموجب ہیں۔ یہ دین کوخیالی نقطہ سے حاصل کرنا چاہتا ہے اور وہ دنیا کے پیچھے تمام روحانیات کو قربان کرنا چاہتا ہے۔ پس یہ دونوں دھوکا خورد ہ اور دھوکا دینے والے ہیں اصل حقیقت رسول کریم ﷺ نے بیان فرمائی ہے کہ یہ دونوںالگ الگ ہیں اور دونوں ضروری ہیں اور ان کو ملانا جائز نہیں۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ بے شک عبادت ضروری ہے لیکن وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا ؎۴ وَلِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَلِجَارِکَ عَلَیْکَ حَقًّا ؎۵ ۔ مگر تیرے نفس کابھی تجھ پرحق ہے اور تیری بیوی کابھی تجھ پر حق ہے اور تیرے ہمسایہ کا بھی تجھ پر حق ہے۔
پس ہمیں تینوں قسم کے ذرائع کا استعمال کرنا ضروری ہے۔ ان میں سے ایک تو دعا، توجہ الی اللہ اور انابت اور عبادت سے کام لیناضروری ہے۔
دوسرے نفس پر قابو پانا، جذبات کودبانا اور عِل￿مُ النفس پر غورکرنا۔ تیسرے مزدوری اور اپنے پیشہ میں دیانت سے کام لینا، علم دُنیوی اور سائنس کاحاصل کرنا ضروری ہے۔ پس ہر ایک شَے ضروری ہے مگر الگ الگ دائرہ کی ضرورت ہے جو ایک دوسرے کو مِلادے گا یا تقدیم و تأخیر کرے گا وہ غلطی کرے گا۔یورپ نے روحانیت کو دنیاکے تابع کرکے دنیا کو حاصل کرلیا۔ دوسرا فقرہ اس کے برعکس یہ ہونا چاہئے کہ ہندوستان نے مذہب کو مقدّم کرکے مذہب کوحاصل کرلیا لیکن افسوس کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ہندوستان نے خدا کے مذہب کومقدّم نہیں کیا بلکہ اپنے نفسانی جذبات کا نام مذہب رکھا اس لئے اسے نہ مذہب مِلا نہ دنیا۔ اس لحاظ سے یورپ کو فضیلت ہے کہ اس نے کچھ تو حاصل کرلیا۔ جس کو مقدّم کیا وہ تو مل گیا مگر اِنہوں نے جس کو مقدّم کیا اسے بھی کھو بیٹھے۔ اِسی حالت کو دور کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کے مامور آتے ہیں جولوگوں کی صحیح راہنمائی کرکے مذہب کومذہب کی جگہ اور اخلاق کو اخلاق کی جگہ اور دنیا کو دنیا کی جگہ رکھتے ہیں۔ بظاہر وہ روحانی پیغام لے کر آتے ہیں مگر ان تینوں چیزوں کا گہرا تعلق ہے اور روحانیت میں کمال سے اخلاق کا درست ہونا لازمی امر ہے، اخلاق کی نگہداشت سے مادیت کی درستی لازمی ہے مگر اس کاعکس درست نہیں۔یعنی یہ ضروری نہیںکہ جس کی دُنیا درست ہو اُس کے اخلاق بھی درست ہوں اور جس کے اخلاق درست ہوں اس کا مذہب بھی درست ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کامنشاء انسان کواپنی طرف لانے کا ہے پس اس نے اخلاق کی درستی اور مادی ترقی کو مذہب کے تابع کردیا ہے تاکہ جوشخص اس کی طرف توجہ کرے اسے باقی سب کچھ آپ ہی آپ مل جائے۔ خداتعالیٰ فرماتاہے کہ کامل مؤمن کو سب ترقیات حاصل ہوتی ہیں مگر کامل دنیا دار کے متعلق ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ؎۶ ۔ ان کی سب کوشش دنیا میں ہی غائب ہوجاتی ہے گویا روحانیت کے قبول کرنے والے کیلئے یعنی اوپر سے نیچے آنے والے کیلئے سیڑھی موجود ہے مگر نیچے سے اوپر جانے والے کیلئے سیڑھی موجود نہیں پس معلوم ہؤا کہ دنیا میں ان تینوں امور کے حصول کیلئے الگ الگ ذرائع ہیں لیکن ایک ذریعہ مشترک بھی ہے اور وہ خداتعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کرنا ہے۔ اخلاق کیلئے کوشش کرنے سے اخلاق مل جائیں گے، مادیات کیلئے کوشش سے مادیات حاصل ہوجائیں گی مگر ہر ایک کوشش کا نتیجہ اسی دائرہ کے اندر محدود رہے گا مگر روحانیت کی درستی کرنے والے کو ساری چیزیںملیں گی۔
صحابہ رضی اللہ عنہم ایمان لاتے وقت اس بات کی بیعت نہیں کرتے تھے کہ گلیاں چوڑی رکھیں گے، سڑکیںکھلی رکھیںگے، صفائی کریں گے بلکہ لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِپڑھتے تھے اسی سے اخلاق درست ہوتے تھے۔ اخلاق کی درستی سے لازماً دنیا درست ہوتی تھی۔ اُس وقت ایک مسلمان کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو دنیامیں کوئی ردّ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ وہ سچ بولتا تھا اور تجارت میں دیانتدار کو دیکھ کردنیا گویا مسلمان ہی کوتجارت سپرد کردیتی تھی اور رعایا سے انصاف برتتے ہوئے دیکھ کروہ لوگ چاہتے تھے کہ مسلمان ہی ہمارے حاکم ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ کاواقع ہے کہ ایک موقع پر آپ کو شام سے فوج ہٹانی پڑی کیونکہ رومیوں کی فوج زیادہ تھی لیکن شامی لوگ روتے اور اصرار کرتے تھے کہ ہم آپ کی مدد کریں گے آپ یہاں سے نہ جائیں۔ باوجود اس کے کہ رومی بھی عیسائی تھے اورشامی بھی عیسائی تھے مگر باوجود رومیوں کے ہم مذہب ہونے کے شامی اِس بات پر آمادہ تھے کہ مسلمانوں کی مدد کریں اور اپنی قوم کے ماتحت رہنا پسند نہ کرتے تھے اس کی وجہ یہی تھی کہ مسلمان اپنے ماتحتوں سے دیانت دارانہ سلوک کرتے تھے۔
پس گو بادشاہت دُنیوی شَے ہے ہر مذہب کے لوگ بادشاہ ہوتے ہیں مگر مسلمانوں کی بادشاہت دنیوی نہ تھی۔ یہ بادشاہت ان کے مذہب کے طفیل ملی تھی اس لئے مذہب کے پیچھے چلتی تھی اور اس وجہ سے اس میں ایسی خوبیاں تھیں کہ ان سے مذہبی اختلاف رکھنے والے بھی نہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی بادشاہت جاتی رہے۔ مگر گو یہ حکومت لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے طفیل ملی تھی لیکن صرف زبانی دعویٰ کے طفیل نہیں بلکہ حقیقی ایمان کے طفیل سے کیونکہ زبانی دعویٰ والا تو دنیا سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے مگر جس کو سچا مذہب مل جائے اس کے اخلاق بھی درست ہوجاتے ہیں اور دنیا بھی۔ پھر چونکہ خداتعالیٰ کو سب دنیا پر بادشاہت حاصل ہے اس لئے وہ سچے مذہب کے حامل کو ظلّی طور پر بادشاہت دے دیتا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک تاجر کی مثال اکثر سنایا کرتے تھے کہ اس نے ایک دفعہ کچھ رقم شہر کے بڑے قاضی کے پاس امانت رکھی کہ جب میں سفر سے واپس آئوں گا تو اپنی امانت لے لوں گا لیکن جب وہ واپس آیا اور اس نے اپنی تھیلی مانگی تو قاضی نے صاف انکار کردیا اورکہا کیسی تھیلی اورکیسی امانت۔ تاجر نے بہتیرے اَتے پتے بتائے کہ فلاںوقت تھا اور فلاں دن تھا، اس طرح آپ بیٹھے تھے۔ قاضی نے کہا کہ مجھے تو کوئی یاد نہیںاور میں تو امانتیں رکھا ہی نہیں کرتا۔ اس جواب پر تاجر بہت پریشان ہؤا آخر اُسے کسی نے بتایا کہ ہفتہ میں فلاں دن بادشاہ کا کھلا دربار ہوتا ہے اور ہر شخص جاکر عرض کرسکتاہے تم اس دن جانااور جاکر اپنا قصہ سنانا۔ اس نے ایسا ہی کیا مگر چونکہ تاجر کے پاس ثبوت کوئی نہیں تھا اس لئے بادشاہ نے کہا کہ شہر کے قاضی کو میں بغیر ثبوت کے کس طرح پکڑ سکتا ہوں۔ ہاں ایک صورت ہوسکتی ہے کہ فلاں دن میری سواری اورجلوس نکلے گا تُوقاضی کے قریب ٹھہرنا میں جب آئوں گا تو تم سے بے تکلفی سے باتیں کروںگا اور تم آگے سے ایسے ظاہر کرنا کہ گویا تم میرے دوست ہو ڈرنامت۔ میں تمہیں کہوں گا کہ آپ ملے نہیں تو آگے سے جواب دینا کہ پہلے میں تو سفر پر گیا ہؤا تھا پھر جب آیا تو کچھ امانت ایک صاحب کے پاس رکھی ہوئی تھی اس کا جھگڑا تھا وصولی کی کوشش میں ہوں اس لئے نہ مل سکا تو میں کہوں گا کہ نہیں تمہیں چاہئے تھاکہ ہمیں آکر ملتے او رآخر ایسے جھگڑے بھی ہمارے پاس ہی آتے ہیں پھر ہمیں آکر کیوں نہ کہا؟ تو جواب دینا کہ اچھا اگر طے نہ ہؤا تو پھر حاضر ہوجائوں گا۔ چنانچہ اس تاجر نے ایسا ہی کیا ۔ قاضی جو پاس ہی سلام کیلئے کھڑا تھا اُس نے یہ باتیں سن کر تاجر کو اپنے پاس بلایا اور کہاکہ میاں! تم اس دن آئے تھے اور کسی تھیلی کاذکر کرتے تھے میرا حافظہ کمزور ہوگیاہے کوئی نشان بتائو تو شاید مجھے امانت یاد آجائے۔ تاجر نے پھر پہلی ہی کہانی دُہرادی کہ اس اس طرح مَیں آیا اور آپ فلاںمجلس میں بیٹھے تھے اور یوں میں نے تھیلی دی تھی۔ تو قاضی کہنے لگا کہ آپ نے پہلے کیوں نہ بتایا یہ امانت تومیرے پاس محفوظ ہے اور روپیہ لاکر تاجر کے حوالے کردیا ۔ تو جب ایک دنیوی بادشاہ جس کو محدود طاقت حاصل ہے اُس کی دوستی انسان کویہ مقام دے دیتی ہے کہ اس سے بڑے بڑے لوگ خوف کھاتے ہیں تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ خداتعالیٰ کی دوستی کسی کوحاصل ہو اور دنیا اس کے قدموں پر نہ گر جائے ا س کا تعلق دیکھ کر تو ہر ذرّہ آگے بڑھتا ہے کہ اس انسان کے قدموں پر نثار ہو کر خداتعالیٰ کی نظروں میں جگہ پائے۔ پس سچا مذہب حاصل کرکے انسان ساری دنیا کو حاصل کرسکتا ہے اورمذہب کے آنے سے سب باتیںآجاتی ہیں۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ کے ذریعہ یہ باتیں جوصحابہ کرام کوحاصل ہوئیں تو انہوں نے دنیاوی طور پر حاصل نہیں کیں بلکہ دنیا مذہب کے تابع ہوکرانہیںملی مگر اس کیلئے ایمانِ کامل ضروری ہے جو خداتعالیٰ کی رضا کو جذب کرے۔ مثلاً ایک شخص جسے کامل ایمان حاصل ہو وہ کس طرح اعلیٰ اخلاق کو چھوڑ سکتاہے اور اگر اخلاق کے سارے شعبے انسان اختیار کرے اور ان پر عمل کرے تو سچائی، دیانت، امانت، تقویٰ او رطہارت سبھی کچھ اسے حاصل ہوگا اور ان کالازمی نتیجہ علم، ہنر، ہوشیاری اورمحنت ہوگا اور ایسے شخص کو لازماً دنیا بھی حاصل ہوجائے گی۔
پس مؤمن کو سب سے زیادہ توجہ روحانی تعلق کی طرف کرنی چاہئے ان لوگوں کی طرح نہیں جو آجکل سمجھتے ہیں کہ منہ سے اقرارکافی ہے۔ خداتعالیٰ کی محبت زبان کی نہیں ہوسکتی بلکہ دل سے ہی ہوسکتی ہے اورجب ایسا ہوتا ہے تو پھر انسان ہر شَے پرقبضہ کرلیتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہؤا کہ منہ کی تھوک سے یا ایک قطرہ سے پہاڑ ڈھک جائیں مگر بادلوں سے ڈھک جاتے ہیں۔ اِسی طرح اگر دل سے محبت کا دھواں اُٹھے تو اس سے اہم نتائج پیدا ہوں گے مگر جو منہ سے دعویٰ کرتا ہے وہ پاگل ہے اسے نہ دین ملے گا نہ دنیا۔ مؤمن کو کامل بننے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ کسی نے کہا ہے
ع کسبِ کمال کُن کہ عزیز جہاں شوی
جب تک کوئی انسان کمال حاصل نہ کرے انعام نہیں مل سکتا۔ مذہب میں داخل ہونے سے بھی کمال ہی فائدہ دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ آجکل ہم سے فائدہ وہی اُٹھاتے ہیں جو گہرا تعلق رکھتے ہیں یاتوپوری مخالفت کرنے والے مثلاً مولوی ثناء اللہ صاحب وغیرہ دوسرے چھوٹے چھوٹے مولویوںکو کوئی پوچھتا بھی نہیں یا کامل اخلاص رکھنے والے۔ ادنیٰ تعلق فائدہ نہیں دیتا۔ اصل میں کمال ہی سے فضل ملتا ہے بغیر اس کے انسان فضل سے محروم رہتا ہے۔ اگر انسا ن ’’ہرچہ بادا باد کشتیٔ ما درآب انداختیم‘‘ کہہ کر خداتعالیٰ کی طرف چل پڑے تو اُس کے ساتھ بھی پہلوں کا سا معاملہ ہوگا۔ آخر خداتعالیٰ کو کسی سے دشمنی نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان کامل طور پر اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے آگے ڈال دے اور اس کے آستانہ پر گِرادے اِس سے آپ ہی آپ اسے سب کچھ حاصل ہوجائے گا اور جو ترقی اس کیلئے ضروری ہوگی وہ آپ ہی آپ مل جائے گی۔ آگ کے پاس بیٹھنے والے کے اعضاء کو دیکھو سب گرم ہوں گے اس کا چہرہ ہاتھ پائوں جہاں ہاتھ لگا ئو گے گرم محسوس ہوگا۔ تو پھر کس طرح ممکن ہے کوئی شخص سب کچھ چھوڑچھاڑ کر خدا کے پاس آئے اور اُس کے پاس بیٹھ جائے اور خداتعالیٰ کا وجود اُس کے اندر سے ظاہرنہ ہو۔ آگ کے اندر لوہا پڑ کر آگ کی خصوصیات ظاہرکرنے لگ جاتا ہے گو وہ آگ نہیں ہوتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا قُرب حاصل کرنے والے لوگوں سے خاص معاملات ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں کُنْ فَیَکُوْنُ والی چادر پہنا دیتا ہے۔ حتّٰی کہ نادان اُن کو خدا سمجھنے لگ جاتے ہیں حالانکہ وہ تو صرف خداتعالیٰ کی صفات کا عکس پیش کررہے ہوتے ہیں ۔
پس اگر کوئی مذہب سے فائدہ اُٹھانا چاہے تو اُس کا طریق یہی ہے کہ اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے آگے کُلّی طور پر ڈال دے لیکن اگر قوم کی قوم اس طرح کرے تو اس پر خاص فضل ہوں گے اور وہ ہر میدان میں فتح حاصل کرے گی۔ ہماری جماعت کیلئے بھی یہی قدم اٹھانا ضروری ہے مگر بہت سے لوگ صرف کہہ دینا کافی سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ سے ایسی محبت کرنی چاہئے کہ ایک طبعی شَے بن جائے صرف جھوٹا دعویٰ نہ ہو کیونکہ جھوٹ اور خداتعالیٰ کی محبت ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی۔ جھوٹ ایک ظلمت ہے اور خداتعالیٰ کی محبت ایک نور پس نور اور ظلمت کیسے جمع ہوسکتے ہیں۔ ایسے شخص کے اندر نہ سُستی ہو نہ فریب نہ دغا۔ کیونکہ یہ سب ظلمات ہیں اور خداتعالیٰ ایک نور ہے اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ؎۷ ۔ جب یہ بُرائیاں کسی قوم سے مٹ جائیں تو وہ قوم ذلیل نہیں رہتی اُس میں سے ذلّت جاتی رہتی ہے اور عزت حاصل ہوجاتی ہے۔ پس اپنی ایسی اصلاح کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جس سے خداتعالیٰ دوست بن جائے اور صرف منہ سے کہنے کا فائدہ نہیں نہ فتویٰ بازی سے کام چل سکتا ہے اور نہ اس سے فائدہ ہوسکتا ہے کہ ہم کوئی انجمن بنالیں یا کارخانے کھول لیں یہ سب باتیں جُزوی ہیں۔جو شخص ادنیٰ باتوں سے آزاد ہونا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ڈال دے۔ ایسی حالت اگر لمحہ کیلئے بھی حاصل ہو تو دنیا میں تغیر پید اکردیتی ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ دو بادل ایک لمحہ کیلئے ملتے ہیں تو ان سے چمک پیدا ہوتی ہے اور تاریک رات کو روشن کردیتی ہے۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ بندہ اور خدا آپس میں ملیں خواہ ایک منٹ کیلئے ہی کیوں نہ ہو تو ایک ایسا نور نہ پیدا ہو جو سب دنیا کو روشن کردے۔
(الفضل ۲۵؍ جولائی ۱۹۳۶ئ)
؎۱ ترمذی کتاب الدعوات باب الدعا مخ العبادۃ
؎۲ ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب مؤاکلۃ الحائض و مجامعتھا
؎۳ مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ماقالہ شرعًا (الخ)
؎۵،۴ بخاری کتاب الصوم باب من اقسم علی اخیہ (الخ)۔ بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم فی الصوم
؎۶ الکہف : ۱۰۵
؎۷ النور: ۳۶


۲۷
بہادر بنو کہ مومن بُزدل نہیں ہوتا اور
رحیم بنو کہ مومن ظالم نہیں ہوتا
(فرمودہ ۲۴؍ جولائی ۱۹۳۶ئ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں جماعت کواس امرکی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ منہ کی باتوں سے دنیا میں ہرگز کامیابی نہیں ہوسکتی۔ ہم میں سب کے سب ہی منہ سے اخلاص کا دعویٰ کرنے والے ہیں مگر عمل سے اخلاص کا ثبوت دینے والے اس کثرت سے موجود نہیں ہیں حالانکہ ہماری مشکلات پہلے سے بہت زیادہ ہوچکی ہیں اور اگر پہلے صرف مختلف مذاہب بلکہ یوں کہو کہ مختلف مذاہب کے افراد مخالف تھے تو اب حکومت میںبھی ایک ایسا طبقہ ہے جس کا مقصود جماعت احمدیہ کی مخالفت ہے۔ لوگ گھبراتے ہیں ان باتوں پر اور بعض گھبرا کر مجھے لکھتے ہیں اور بعض زبانی بھی کہتے ہیں کہ کیابات ہوگئی، خدا کیوں اس کا علاج نہیں کرتا۔ لیکن جہاں میں دعا اور تدبیر میں دوسروں سے بہت زیادہ احتیاط سے کام لیتا ہوں وہاں ان مشکلات کے پیدا ہونے کے متعلق مجھے ہرگز کوئی گھبراہٹ نہیں۔ لوگوں کو اس امر پر حیرت ہے کہ خدا تعالیٰ یہ باتیں کیوں ہونے دیتا ہے اور مجھے اس امر پر حیرت ہے کہ ان کواِس وقت تک خدانے کیوں روکے رکھا ۔ اگر کوئی شخص بالکل نابینا نہیں، بالکل فاترالعقل نہیں ، بالکل کند ذہن نہیں، بالکل ہی جاہل نہیں تو وہ پہلے انبیاء کے حالات کو دیکھ کر معلوم کرسکتا ہے کہ ان کادسواں حصہ بھی ہم پر نہیں گزرا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ کو فرماتا ہے کہ یہ کیونکرممکن ہے کہ تم ان حالات سے نہ گزرو جن سے پہلے انبیاء کی جماعتیں گزری ہیں ؎۱ ۔ آج بھی وہی خدا ہے، وہی دین ہے، صداقت کو ثابت کرنے اور اس کے قائم ہونے کیلئے آج بھی وہی شرائط ہیں جو پہلے تھیں، وہی ذمہ داریاں ہمارے سپرد کی گئی ہیں ، اسی طرح ہم میں ایک مأمور مبعوث کیا گیا ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ جو حالتیں پہلوں پرگزریں وہ ہم پر نہ گزریں، جو تکالیف پہلوں پر آئیں وہ ہم پر نہ آئیں۔ ہم میں اور ان میں سوائے اس کے کیا فرق ہے کہ پہلی جماعتیں تکالیف اُٹھانے کی عادی تھیں اس لئے خداتعالیٰ نے ان پر تکالیف جلد بھیج دیں لیکن ہم لوگ آرام طلبی کی وجہ سے اور ایسے ملک میں رہنے کی وجہ سے جہاں کی حکومت منظم ہے اور جہاں چوری، ڈاکہ اور قتل وغیرہ کی وارداتیں بہت کم ہوتی ہیں مصائب کے عادی نہ رہے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ آہستہ آہستہ ہم پربوجھ ڈالے اور یکدم مصائب کا دروازہ ہم پر نہ کھولے۔ پس ان مصائب کے دیر سے آنے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت مخفی ہے نہ کہ اس کی غفلت۔ ان کا آنا قابلِ تعجب نہیں بلکہ دیر سے آنا قابلِ تعجب ہے۔
پس جو احمدی خیال کرتا ہے کہ یہ مصیبتیں ناقابلِ برداشت ہیں ان ابتلائوں میں کوئی ایسی بات ہے جن کو اس کاایمان سمجھنے سے قاصر ہے وہ یاد رکھے کہ اُسے ایمان کی چاشنی عطا نہیں ہوئی، اللہ تعالیٰ کے انبیاء کی سنّت اسے معلوم نہیں ۔ تم سے بہتر لوگوں کے ساتھ یہی باتیں گزریں اور انہوں نے ان کو اَور نظر سے دیکھا۔ حضرت عمرؓ اللہ تعالیٰ کے کتنے مقرب تھے رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہونا ہوتا تو عمرؓ ہوتا ؎۲ ۔ یہاں میرے بعد سے مراد معاً بعد ہے۔ تو وہ شخص جسے رسول کریم ﷺ بھی اس قابل سمجھتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے کسی کو شہادت کے مرتبہ سے اٹھا کر نبوت کے بلند مرتبہ پر فائز کرنا ہوتا تو اس کا مستحق عمرؓ تھا۔ وہ عمرؓ جس کی قربانیوں کودیکھ کر یورپ کے اشد ترین مخالف بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس قِسم کی قربانی کرنے اور اس طرح اپنے آپ کو مٹادینے والا انسان بہت کم ملتا ہے اور جس کی خدمات کے متعلق وہ یہاں تک غلوّ کرتے ہیں کہ اسلام کی ترقی کو ان سے ہی وابستہ کرتے ہیں۔ وہ عمرؓ دعا کیا کرتے تھے کہ الٰہی! میری موت مدینہ میں ہو اور شہادت سے ہو۔ انہوں نے یہ دعا محبت کے جوش میں کی ورنہ یہ دعا تھی بہت خطرناک ۔ اس کے معنے یہ بنتے تھے کہ کوئی اتنا زبردست غنیم ہو کہ جو تمام اسلامی ممالک کو فتح کرتا ہؤا مدینہ پہنچ جائے اور پھر وہاں آکر آپ کوشہید کرے لیکن اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے اس نے حضرت عمرؓ کی اس خواہش کو بھی پورا کردیا اور مدینہ کو بھی ان آفات سے بچالیا جو بظاہر اس دعا کے پیچھے مخفی تھیں اور وہ اس طرح کہ اس نے مدینہ میں ہی ایک کافر کے ہاتھ سے آپ کو شہید کروادیا۔ بہرحال حضرت عمرؓ کی دعا سے یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ ان کے نزدیک خداتعالیٰ کے قُرب کی یہی نشانی تھی کہ اپنی جان کو اس کی راہ میں قربان کرنے کا موقع مل سکے لیکن آج قُرب کی یہ نشانی سمجھی جاتی ہے کہ خدا بندہ کی جان بچالے۔
حضرت خالدؓ کی ہستی ایسی نہیں کہ کوئی مسلمان آپ کے نام سے ناواقف ہو۔ آپ کا نام کفار میں بھی اسی طرح مشہور ہے جس طرح مسلمانوں میں۔ آپ کا نام مسلمان اگر عزت سے لیتے ہیں تو غیر مسلم دہشت سے۔ وہ شخص موت اور مصائب کی کوئی قیمت نہیں سمجھتاتھا۔ اس کی بہادری کا معیار اتنا بلند تھاکہ بعض واقعات پڑھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی تاریخی واقعہ نہیں بلکہ الف لیلہ کا کوئی قصہ ہے۔ کفار کا لشکر لاکھوں کی تعدادمیں آتاہے، اسلامی لشکر کے بعض افسر مشورہ دیتے ہیں کہ ہمیں پیچھے ہٹ جانا چاہئے، بعض کہتے ہیں کہ لڑنا چاہئے لیکن جب خالدؓ سے مشورہ لیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ سارے اسلامی لشکر کو لڑانے کا کیا فائدہ مجھے دو سَو آدمی دے دیاجائے میں اِنْشَائَ اللّٰہُ اسے شکست دے دوں گا اور آپ نے عملاً ساٹھ ہزار کفار کامقابلہ صرف ساٹھ مسلمان سپاہیوں سے کیاہے اورنہ صرف مقابلہ کیا بلکہ انہیں شکست دی اور ان کے کمانڈر کو قتل کردیا۔ اب دیکھو یہ شخص اپنی قربانیوں کا کیا اندازہ لگاتا ہے ۔ وہ تمہاری طرح یہ نہیں کہتا کہ فلاں موقع پر میں نے آٹھ آنہ چندہ دیا تھا اور فلاں موقع پرپچاس یا سَو یا ہزار دیا تھابلکہ اس کے برخلاف لکھا ہے کہ جب آپ مرض الموت میں مبتلاء تھے تو ان کے ایک دوست ان کے پاس عیادت کیلئے گئے۔ ان کا بیان ہے کہ حضرت خالد مجھے دیکھ کر رو پڑے۔ میں نے کہا کہ خالد تم کیوں روتے ہو؟ موت تو آخر سب کو آنی ہے تم کو اسلام کی جو خدمات کرنے کا موقع ملا ہے ان کی وجہ سے تمہیں خوش ہونا چاہئے کہ اپنے ربّ کے پاس جانے والے ہو اور اس کے انعامات سے حصہ پانے والے ہو۔ ان کے دوست کا بیان ہے کہ میری یہ بات سن کر آپ اور بھی بیتاب ہوکر رونے لگے اور کہا میرے دوست! میرے جسم پر سے کپڑا اُٹھانا اور جب میں نے اُٹھایا تو دیکھا کہ سر سے لے کر کمربند تک کوئی ایک انچ ایسی جگہ نہ تھی جہاںزخم کا نشان نہ ہو ا س کے بعد انہوں نے کہا کہ میری لاتوں پر سے کپڑا اُٹھانا اور جب میں نے اُٹھایا تو جسم کے اس حصہ کا بھی یہی حال تھا۔ اپنے یہ زخم دکھا کر حضرت خالد اور زیادہ بیتاب ہوگئے اور کہنے لگے کہ میں نے ہرموقع پر خدا کی راہ میں اپنے آپ کو قربان کرنے کیلئے ڈال دیا مگر نامعلوم میری کیا بدقسمتی تھی کہ میدانِ جنگ میں مارا نہ گیا اور آج بستر پر پڑا جان دے رہا ہوں ۔ یہ لوگ خدا کے سپاہی تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے متعلق لوگوں کاحق ہے کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رَضُوْا عَنْہُ ؎۳ ۔
کیا یہ عجیب زمانہ نہیں کہ آج آرام کی زندگی بسر کرنے کو خداتعالیٰ کی نعمت قرار دیا جاتا ہے اور کجا وہ زمانہ تھا کہ خالد سر سے لے کر پائوں تک زخمی تھے مگر پھر بھی تسلی نہیں اور ڈرتے ہیں کہ میں چونکہ خداکی راہ میں مارا نہیں گیا نہ معلوم میری باقی قربانیاں بھی قبول ہوئیں یا نہیں۔ پس خوب یاد رکھو کہ جب تک پہلوں جیسی حالتیں ہم پر نہ آئیں یہ خیال کرنا کہ ہم خد اکی مقدّس جماعت ہیں بالکل غلط ہے جوکچھ پہلوں کے ساتھ ہؤا ہم سے ہونا ضروری ہے۔ ابتلاء مؤمن کی ذلّت کا نہیں بلکہ عزت کا موجب ہؤا کرتے ہیں۔
حضرت سیّد عبداللطیف صاحبؓ شہید ہم میں سے ایک فرد تھے اور اس زمانہ کے آدمی تھے مگر آپ نے صحابہ کا نمونہ دکھایا۔ آپ کورئویا میں بتایا گیا تھا کہ آپ پکڑے جائیں گے اور کہ آپ کیلئے بڑا ابتلاء مقدر ہے۔ آپ نے شاگردوں کو اس سے آگاہ کردیا تھا اس لئے جب آپ کی گرفتاری کے احکام دربار سے جاری ہوئے تو آپ کو قبل از وقت اپنے درباری دوستوں کے ذریعہ اس کی اطلاع ہوگئی۔ شاگردوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ بہتر ہے جلدی سے انگریزی علاقہ میں چلے جائیں۔ راوی کا بیان ہے کہ آپ نے اپنے ہاتھ آگے نکال کرکہا کہ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس کی راہ میں مجھے سونے کے کنگن یعنی ہتھکڑیاں پہنائی جائیں گی۔ اور میں سمجھتا ہوں ان لوگوں تک پیغامِ صداقت پہنچانے کا یہ ایک بہترین ذریعہ ہوگاجن تک کسی دوسرے طریق سے یہ پیغام نہیں پہنچایا جاسکتا۔ تو باوجود قبل از وقت اطلاع مل جانے کے اور باوجود اس کے کہ آپ بھاگ سکتے تھے آپ نہیں بھاگے اور اسے ذلّت نہیں سمجھا بلکہ عزت سمجھا اور ہتھکڑی کا نام زیور رکھا اور جب خودبادشاہ نے آپ سے سوال کیا کہ آپ اپنے عقائد چھوڑ دیں یا کم از کم اُن کو چھپالیں تا لوگوں کاجوش کم ہو تو آپ نے جواب دیا کہ میں کس چیز کو چھپائوں۔ صداقت کو؟ اگر میں کوئی بُری بات پیش کررہاہوتا تو بادشاہ تو کُجا کسی معمولی آدمی کے کہنے سے بھی چھوڑ دیتا مگر کیا صداقت کوبھی چھپایا جاسکتا ہے؟ آپ نے ان تکالیف کو مصیبت نہیں سمجھا اور یہ خیال نہیں کیا کہ میری قربانی کے عوض اللہ تعالیٰ نے مجھ سے بیوفائی کی ہے انہوںنے اپنی قوم کے متعلق بھی اس فعل کوبیوفائی نہیں سمجھا۔
ایک شخص کا جو اس موقع پرموجود تھا بیان ہے کہ جب آپ پر پتھر پڑ رہے تھے ، جسم چور ہورہاتھا، ہڈیاں ٹوٹ رہی تھیں، اُس وقت آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے کہ اے میرے ربّ! ان کو ہدایت دے کہ یہ نادانی سے ایسا کرتے ہیں۔ مؤمن ہر چیزمیں رسول کریم ﷺ کا اُسوہ پیش نظر رکھتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پیش نظر اُس وقت طائف کا واقعہ تھا جویوں ہے کہ مکہ والوں نے جب آنحضرت ﷺ کی تبلیغ کوسننے سے انکار کردیا تو آپ کو خیال آیا کہ طائف کے لوگوں کوتبلیغ کروں۔ مکہ کے بدباطن مخالفو ں کوجب علم ہؤا تو انہوں نے طائف والوں کے پاس آدمی بھیجا کہ اس شخص کیلئے ہم نے مکہ میں تو کوئی جگہ چھوڑی نہیں ہمیں امید ہے کہ تم لوگ اپنے مذہب کیلئے ہم سے کم غیرتمند ثابت نہ ہوگے۔ طائف والوں نے جواب دیا کہ تم اسے یہاں آنے دو تم سے زیادہ بدسلوکی ہم کریں گے۔ رسول کریم ﷺ جب طائف پہنچے تو ان لوگوں نے دھوکا سے آپ کو ایک جگہ بلایا کہ آپ کی باتیں سنیں گے اور ادھر شہر کے لڑکوں کو جمع کرلیا جن کی جھولیوں میں پتھر بھرے ہوئے تھے اور ساتھ کُتّے تھے۔ جب آپؐ نے وہاں پہنچ کر بات شروع کی تولڑکوں نے پتھر مارنے شروع کردیئے اور کُتّے بھی چھوڑ دیئے گئے۔ پتھر آپ پر گرتے اور جسمِ اطہر پر زخم لگتے جاتے تھے اور خون بہتا جاتا تھا۔ آپؐ واپس بھاگتے ہوئے کسی جگہ دم لینے کیلئے ٹھہرتے تو جسمِ اطہر سے خون پونچھتے جاتے اور ساتھ فرماتے اے میرے ربّ! یہ لوگ نہیں جانتے میں کون ہوں تو انہیں معاف کر ؎۴ ۔
عربوں میں شرافت کا مادہ تھا اس لئے دشمن بھی بعض اوقات دل میں درد محسوس کرتا تھا۔ رستہ میں ایک عرب سردار کا باغ تھا جب اُس نے آپ کو اس حالت میں آتے دیکھا تو اس کے دل میں درد پیدا ہؤا اور اپنے عیسائی غلام سے کہا انگور توڑ کر لے جائو اوراس شخص کو بُلالائو اور اسے بٹھا کر کھلائو۔ چنانچہ غلام جاکر آپ کو بلا لایا بٹھایا اور انگور کھلائے اور پھر دریافت کیا کہ آپ ﷺ کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا ہے؟ آپ نے اسے ساری بات سنائی او رپھر کہا کہ میں جب طائف سے واپس آرہا تھا تو مجھ پر جبریل نازل ہوئے اورکہا کہ خداتعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ اگر تُو کہے تو طائف والوں کا تختہ اُسی طرح اُلٹ دوں جس طرح لوط کی بستی کا اُلٹا گیا تھا مگر میں نے اسے جواب دیا کہ اگر یہ لوگ تباہ ہوگئے تو مجھ پر ایمان کون لائے گا۔ آپ کی باتیں سن کرعیسائی غلام کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے جب اس کے آقا نے یہ دیکھا تو اس کی مذہبی غیرت جوش میں آگئی اور اپنے غلام کو واپس بلالیا اور کہنے لگا کہ کیا تُو بھی اس کے پھندے میں آگیا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہی واقعہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی نظر کے سامنے تھا اور آپ نے نہ چاہا کہ آپ کا قدم کسی ایسی جگہ پڑے جہاں آنحضرت ﷺ کا قدم نہ پڑا تھا۔ اس واقعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مؤمن کو ایک ہی وقت میں بہادر بھی اور رحیم بھی ہونا چاہئے ۔ یہ دو جذبات بہت کم اکٹھے مل سکتے ہیں۔مگر وہ بہادری حقیقی نہیں ہوتی جس میں ظلم ہو۔وہ شجاعت شجاعت نہیں بلکہ تہوّر ہوتا ہے۔ حقیقی بہادری مؤمن میں ہی ملتی ہے کیونکہ اس کے ساتھ رحم کاجذبہ ضروری ہے۔ مؤمن بیک وقت بہادر بھی اور رحیم بھی ہوتاہے۔ اگر وہ ایک طرف اپنی جان کو اخروٹ اوربادم کے چھلکے سے بھی حقیر سمجھتا ہے تو دوسری طرف اس کے اندر اتنا رحم ہوتا ہے کہ وہی لوگ جو اس پر ظلم کرتے ہیں ان سے وہ عفو کا معاملہ کرتا ہے۔
ایک واقعہ میں نے رسول کریم ﷺ پر کفار کے مظالم کا سنایا ہے جو ایک لمبی زنجیر کی کڑی ہے۔ متواتر تیرہ سال تک آپ پریہ مظالم جاری رہے۔ کبھی آپ پر تلواروں سے حملہ کیا جاتا تو کبھی تیروں اور سونٹوں ا ور پتھروں سے، کبھی آپ کے اوپرنجاست پھینکی جاتی اور کبھی گلا گھونٹا جاتا۔ حتّی کہ آخری ایام میں جب آپ کو مکہ چھوڑنا پڑا مسلسل تین سال تک آپ کا اور آپ کے صحابہ کا ایسا شدید بائیکاٹ کیا گیا کہ کسی سے سَودا بھی مسلمان نہ خرید سکتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کی روایت ہے کہ اتنی تنگی ہوگئی تھی کہ بعض دفعہ دنوں کھانے کو کچھ نہیں ملتا تھا۔ پاخانے سوکھ گئے اور جب پاخانہ آتے تو بالکل مینگنیوں کی طرح ہوتا کیونکہ بعض اوقات درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرتے تھے ؎۵ اور بعض اوقات کھجور کی گٹھلیاں۔ احادیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کی چہیتی بیوی جس نے اسلام کیلئے ہر چیز قربان کردی تھی یعنی حضرت خدیجہؓ ان کی وفات انہی مظالم کے باعث ہوئی۔ ہر شخص خیال کرسکتا ہے کہ جن بی بی کے بیسیوں غلام تھے اور جو لاکھوں روپے کی مالک اورجو مکہ کے مالدار اشخاص میں سے تھیں، جو بیسیوں گھرانوں کو کھانا کھلا کر خود کھاتی تھیں۔ بڑھاپے میں ان کوکئی کئی فاقے کرنے پڑتے اور اگر کچھ کھانے کو ملا بھی تو درختوں کے پتے وغیرہ۔ اُس وقت ان کی صحت پر کیا اثر پڑا ہگا۔ چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے وہ فوت ہوگئیں۔ آنحضرت ﷺ کے چچا ابوطالب بھی انہی تکالیف کی وجہ سے فوت ہوگئے۔ ان حالات میں تو ایک عام انسان تو درکنار بہادر سے بہادر اور جری سے جری انسان کے ساتھ بھی اگر ایسی حالت ہوتی تو اس کے دل کا غصہ انسان بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ اگر ایسی ہی وفاداربیوی انہی حالات میں کسی اور شخص کی ضائع ہوتی تو وہ ان وفاداریوں اور قربانیوں کویاد کرکے اور ان بچوں پر نگاہ ڈال کر جنہیں بے نگران چھوڑ کر وہ دنیا سے رخصت ہوتی بہادر سے بہادر انسان بھی قَسم کھاتا کہ اس صدمہ کے عوض قریش کی ہر عورت کو بھی قتل کرناپڑا تو میں اس سے دریغ نہ کروں گا۔ رسول کریم ﷺ نے کیا کِیا؟ ایک صحابی کابیان ہے کہ ایک جنگ میں جب رسول کریم ﷺ نے قریش کی ایک عورت کی لاش دیکھی تو آپ اس قدر غصہ میں آئے کہ میں نے آپ کو اس قدر غصہ میں کبھی نہ دیکھا تھا اور آپ نے سخت غصہ کی حالت میں دریافت کیا کہ اسے کس نے قتل کیا ہے؟اور پھر فرمایاکہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، ضعیفوں، بیماروں اور مذہبی لیڈروں پر کبھی ہاتھ مت اٹھائو ؎۶ ۔ کجا وہ سلوک اور کجا یہ۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ بہادری کامفہوم یہی ہے جو آنحضرت ﷺ نے بتایا۔ مگر میں اپنی جماعت سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا ان میں بھی وہی جرأت اور وہی رحم ہے جو آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ نے دکھایا؟ ہمارے دوستوں کی حالت یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو دوست گھبراجاتے ہیں کہ اب ہم قید ہوجائیں گے، پکڑے جائیں گے۔کیاانہیں پتہ نہیں کہ جب انہوں نے احمدیت کو قبول کیا تھا تو اس وقت یہ سب چیزیں ان کے سامنے رکھ دی گئی تھیں۔ کیا انہیں کسی نے دھوکا سے احمدیت میں داخل کرلیا تھا؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب میں صاف لکھا ہے کہ جو لوگ تکالیف کو برداشت نہیں کرسکتے ان کا راستہ مجھ سے الگ ہے۔ میر اراستہ پھولوں کی سیج پر نہیں بلکہ کانٹوں پر ہے ؎۷ ۔ کسی سے کوئی دھوکا نہیں کیا گیا۔ ہر شخص جو احمدیت میں داخل ہوتا ہے یہ سمجھ کر ہوتا ہے کہ یہ سب تکالیف اسے برداشت کرنی پڑیں گی پھر شکایت کیسی! اگر تو ہم کسی سے کہتے کہ آئو احمدی ہو جائو ہم تمہیں بڑے بڑے عہدے دلائیں گے، دولت دیں گے، بیماریوںاور تکلیفوں سے بچائیں گے، عمدہ عمدہ عورتوں سے شادیاں کردیں گے، تمہارے بچوں کی تعلیم کا انتظام کردیں گے تو شکایت ہوسکتی تھی مگر ہم تو شروع دن سے یہی کہتے کہ خدا نے ہمیں اس لئے چُن لیاہے کہ دین کیلئے ہمیں قربانی کی بھیڑیں بنائے۔ اگر ابتلائوں کی تلواروں سے گردن کٹوانی ہے، اگر اپنے اور اپنے عزیزوں کے خون سے ہولی کھیلنی ہے تو آئو۔ تو پھر کوئی شکایت کاموقع نہیں۔ یہ بُزدل کا کام نہیں اور ڈرپوک ہمارے ساتھ نہیں چل سکتا۔
ہمیں خداتعالیٰ نے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ تامحمد ﷺ کی بادشاہت کو پھر قائم کریں اور ظاہر ہے کہ شیطان کے چیلے جنہیں اس سے پہلے انسانوں پر بادشاہت حاصل ہے وہ سیدھے ہاتھوں اپنی بادشاہتیں ہمارے حوالے نہیں کریں گے۔ وہ ہر تدبیر اختیار کریں گے جس سے ہمیں کچلا جاسکے اورہر سامان مہیا کریں گے جس سے ہمار ی طاقت کوتوڑا جاسکے۔ لیکن ہمیں خداتعالیٰ کا یہی حکم ہے کہ جائو اور اُس وقت تک دم نہ لو جب تک محمد رسول اللہ ﷺ کا وہ جھنڈا دنیا کے تمام مذاہب کے قلعوں پرنہ گاڑ دو جو صدیوں سے گِرا ہؤا ہے، جس کی عزت کو دشمنوںنے خاک میں ملانے کی ہرممکن کوشش کی ہے۔ ا س مقصد کوہم نے کبھی نہیں چھپایا گو یہ ہمیشہ کہا ہے کہ ہم اس مقصد کو امن کے ذریعہ اور دلوں کوفتح کرکے حاصل کریں گے۔ مگر یہ تو ہم نے کہا ہے کہ ہم ہر حال میں سچائی کو اختیار کریں گے۔ کیا ہمارے دشمنوں نے بھی یہ اقرار کیا ہؤا ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ شکوہ کیسا کہ حکومت کے بعض افسر کیوں آئین کو توڑتے ہیں؟ کیا انہوںنے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہوئی ہے؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ تھا اس نے خیال کیا کہ فوج پر اتنا روپیہ صرف کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ قصائی جو روز چھری چلاتے ہیں ان سے ہی فوج کا کام لیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ سب فوج موقوف کردی گئی۔ اِردگِرد کے بادشاہوں کوجب یہ اطلاع ملی تو ایک بادشاہ نے جو اپنی حکومت کووسیع کرناچاہتا تھا او رہمت والاتھ حملہ کردیا۔ بادشاہ نے قصائیوں کو جمع کرکے حکم دیا کہ جاکر مقابلہ کرو۔ وہ گئے اور تھوڑی دیر کے بعد شور مچاتے ہوئے آگئے کہ ظلم داد، فریاد، بے انصافی، بادشاہ نے دریافت کیا تو کہنے لگے کہ دشمن کالشکر بہت بے انصافی کرتا ہے۔ ہم تو چار چار مل کرایک آدی کو پکڑتے اور سر اور پائوں کو پکڑ کرباقاعدہ بِسْمِ اللّٰہِ کہہ کے چھری پھیرتے ہیں لیکن دشمن بے تحاشہ تلواریں مار مار کر ہمارے بیسیوں آدمی ہلاک کردیتا ہے اس لئے اس کا ازالہ کیا جائے۔ اِسی طرح ہمارے بعض نادان بھی یہی شور کرتے ہیں کہ ہم سچ بولتے ہیں اور آئینی طریق اختیار کرتے ہیں مگر ہمارے دشمن غیرآئینی کارروائیاں کرتے اور جھوٹ بولتے ہیں ان کی بات ایسی ہی ہے جیسے قصائیوں نے کی تھی کیا ہمارا دشمن بھی سچائی کاپابند ہے؟ کیا وہ بھی میری ہدایتوں پر چلنے کیلئے تیار ہے؟ کیا اس کے اخلاق کا بھی وہی معیا رہے جو تمہارے سامنے پیش کیا جاتا ہے؟ کیا اس نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی ہوئی ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی یہ بھی ایک دلیل ہے کہ تم سچ بولتے ہو اور تمہارا دشمن جھوٹ، تم آئین کے مطابق چلتے ہو اور وہ غیرآئینی ذرائع اختیار کرتاہے، تم رحم کرتے ہو اور وہ سختی، اگر تم میں اور اس میں یہ فرق نہ ہوتا تو تم کو احمدیت میںداخل ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
دوسری طرف رحم کامعاملہ ہے۔ بہت تم میں ہیں جوچاہتے ہیں کہ اگر دشمن قابو آئے تو اس سے پوری طرح بدلہ لیاجائے لیکن یاد رکھو یہ طریق مسلمان کا نہیں ہوتا۔ مؤمن سے جب معافی طلب کی جاتی ہے تو وہ معاف کردیتاہے سوائے اس کے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے اس کی ممانعت آچکی ہو۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنی خاص مصلحتوں کے ماتحت رحم سے روک دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وسیع علم ہرچیز پر حاوی ہے۔ قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مخاطب کرکے فرماتا ہے عَفَااللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ ؎۸ منافق جنگ میں نہ جانے کی اجازت لینے آئے اور تُو نے اجازت دے دی۔ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کودورکرے جو اس رحم سے پیدا ہوگی تُو نے کیوں اجازت دی؟ محمد رسول اللہ ﷺ سے خدا کا علم زیادہ تھا اس لئے یہ فرمایا۔ پس ایسے مواقع کے علاوہ جہاں خدا کاحکم ہم کو روکے شدید سے شدید دشمن بھی اگر ہتھیار ڈال دے تو ہمارا غصہ دور ہوجانا چاہئے۔ ہاں مؤمن بیوقوف نہیں ہوتا اور وہ کسی کے دھوکا میں نہیںآتا۔ رسول کریم ﷺ تو یہاں تک احتیاط فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص نے میدانِ جنگ میں جب ایک مسلمان اسے مارنے لگا تھا کہہ دیاکہ میں صابی ہوتاہوں۔ کفار مسلمانوں کوصابی کہا کرتے تھے جس طرح آج ہمیں مرزائی کہتے ہیں حالانکہ یہ سخت بداخلاقی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضگی اپنے اوپر لے لی مگر پھر بھی ہم انہیں مسلمان ہی کہتے ہیں۔عیسائیوں کو عیسائی اوریہودیوں کویہودی کہتے ہیں۔ یہ نہیں کہتے کہ تم کہاں کے ہدایت یافتہ ہو ۔ مگر جو لوگ دین سے بے بہرہ ہوں ان کے اخلاق گِرجاتے ہیں اور وہ دوسرے کا نام بھی ٹھیک طرح نہیں لینا چاہتے۔ تُو اس وقت کے کفار مسلمانوں کوصابی کہاکرتے تھے اور ایک شخص نے لڑائی کے دوران میں کہا کہ میں صابی ہوتاہوں مگر چونکہ یہ نام غلط تھا اور لڑائی ہورہی تھی مسلمان نے اسے مارڈالا۔رسول کریم ﷺ کوجب علم ہؤا تو آپ نے فرمایا۔ تم نے ظلم کیا۔ اسے مارنے کاتمہیں کیا حق تھا۔ اُس صحابی نے عرض کیا کہ اس نے صابی کا لفظ بولا تھا۔ آپ نے فرمایاکہ وہ لوگ صابی ہی کہتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور شخص نے لڑائی میں کلمہ پڑھا اور ایک صحابی نے اُسے ماردیا۔ اس پر بھی رسول کریم ﷺ سخت ناراض ہوئے۔ تو ایک طرف رحم اوردوسری طرف بہادری جب تک انتہاء کونہ پہنچی ہوئی ہو کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا۔
رسول کریم ﷺ نے جب مکہ فتح کیا تو وہ دشمن مجرموں کی حیثیت سے آپ کے سامنے پیش کئے گئے۔ وہ لوگ جن کے مظالم کی وجہ سے آپ کوراتوں رات مکہ چھوڑ کربھاگناپڑاتھا آپ کے سامنے پیش ہوئے۔ جو اِن کے ظلم سے اپنے عزیز وطن کواپنے پیارے خدا کے گھر کو چھوڑنے پر مجبورہوئے تھے۔ اور ان لوگوں کی موجودگی میں پیش ہوئے جن میں سے بعض کی بیویوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر انہوں نے ہلاک کرڈالا تھا، جن کے باپوں اور بھائیوں اور دوستوں کو ایک اونٹ کے ساتھ ایک ٹانگ اور دوسرے سے دوسری ٹانگ باندھ کر اور انہیں مختلف جہتوں میں چلا کر چیر پھاڑ کر ہلاک کردیا تھا ، ان غلاموں کے سامنے جنہیں جیٹھ اورہاڑ کی گرمیوں میں گرم پتھروں پر لٹا لٹا کرجلایا جاتا تھا اور پھر کوڑے لگائے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ اپنے دین سے توبہ کرو پھر چھوڑیں گے، مکہ کے وہ ظالم سردار جنہوںنے تیرہ سال تک صحابہ کے وطن کوان کیلئے جہنم بنارکھا مجرموں کی حیثیت سے حاضر تھے صحابہ کہتے ہیں کہ تلواریں میانوں سے اُچھل اُچھل پڑتی تھیں کہ ان ظالموں سے اپنے بزرگوں کے خون کا بدلہ آج لیں گے۔ مہاجر تو مہاجر انصار کی آنکھوں سے خون ٹپک رہاتھا حتّٰی کہ ایک انصاری سردار کے منہ سے بے اختیار نکل ہی گیا کہ مکہ کے ظالم لوگو! آج تمہارے درودیوار کی اینٹ سے اینٹ ہم بجادیں گے۔ لیکن محمدرسول اللہ ﷺ نے بجائے اُن کو سزا دینے کے خود اُن ہی سے دریافت کیا کہ اے مکہ کے رہنے والو! بتائو تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ انہوںنے آگے سے جواب دیا کہ وہی جویوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کیاتھا۔ آپ نے فرمایا جائو میں نے تم کومعاف کیا ۔ تم مجھے یوسف سے کم رحم کرنے والا نہیں پائو گے اور سب کومعاف کردیا۔ یوسف کے بھائیوں نے انہیں صرف جلاوطن کیا تھا مگر رسول کریم ﷺ پر کفار کے مظالم کے مقابلہ میں جلاوطن کرنا کچھ چیز نہیں۔ یہاں جلاوطنی تو ہزاروں ظلموں میں سے ایک ظلم تھی۔ پھر یوسفؑ کے سامنے اُس کے باپ جائے بھائی کھڑے تھے جن کی سفارش کرنے والے اُن کے ماں باپ موجود تھے مگریہ لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کے عزیزوں اور بھائیوں کے قاتل تھے۔ حضرت حمزہؓ کو قتل کرنے والے کون لوگ تھے؟ رسول کریم ﷺ کی چہیتی بیٹی کو مارنے والے کون تھے جبکہ وہ حاملہ تھیں؟ اور خاوند نے اس خیال سے کہ والد کی عداوت کی وجہ سے لوگ انہیں مکہ میں تنگ کرتے تھے مدینہ روانہ کردیا تھا مگر کفار نے راستہ میں انہیں سواری سے گِرادیا جس سے اسقاط ہوگیا اور اسی کی وجہ سے بعد میں آپ کی وفات ہوگئی۔ حضرت یوسفؑ کے سامنے کون سے جذبات تھے سوائے اس کے کہ ان کے بھائیوں نے اُن کووطن سے نکال دیا تھا مگر یہاں تو یہ حالت تھی کہ ابوطالب کی روح آنحضرت ﷺ سے کہہ رہی تھی کہ میرے (جس نے تیری خاطر تیرہ سال تک اپنی قوم سے مقابلہ کیا )یہ لوگ قاتل ہیں۔ عالَمِ خیال میں حضرت خدیجہؓ آپ کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھیں کہ میںنے اپنا مال و دولت، اپنا آرام آسائش سب کچھ آپ کیلئے قربان کردیا تھا اور یہ لوگ میرے قاتل ہیں۔ حضرت حمزہؓ کھڑے کہہ رہے تھے کہ ان میں ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے میری لاش کی بے حرمتی کی تھی اور میرے جگر اور کلیجہ کو باہر نکال کر پھینک دیا تھا۔ آپ کی بیٹی آپ کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ایک عورت پر ہاتھ اُٹھاتے ہوئے شرم نہ آئی اور ایسی حالت میں مجھ پر حملہ کیا جبکہ میں حاملہ تھی اور مجھے ایسا نقصان پہنچایا جس سے بعدمیں میری وفات ہوگئی۔ پھر وہ سینکڑوں صحابہ جو آنحضرت ﷺ کو اپنے بچوں سے زیادہ عزیز تھے اور جن میں ایسے لوگ بھی تھے کہ جب ان میں سے ایک کومکہ میں کفار نے پکڑا اور قتل کرنے لگے تو کہا کہ کیا تم یہ پسندنہ کرو گے کہ اِس وقت تمہاری جگہ محمد ﷺ ہوں اور تم آرام سے اپنے بیوی بچوں میں بیٹھے ہو؟ تو اُس نے جواب دیا کہ میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میں تو آرام سے گھر میں بیٹھا ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ کے پائوں میں کانٹا بھی چبھے ؎۹ ۔ ایسے عزیز صحابہ کے ناک پائوں اورہاتھ کاٹ کاٹ کرانہیں مارا گیا اور اُن کی روحیں اُس وقت آنحضرت ﷺ کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھیں کہ یہ لوگ ہمارے قاتل ہیں مگر باوجود ان سب جذبات کے آنحضرت ﷺ نے کہا تو یہ کہا کہ لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ؎۰۱ جائو آج تم سے کوئی باز پُرس نہیں کی جائے گی۔
پس غور کرو کیاان سے زیادہ تکالیف ہمیں دی جاتی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بعض چیزیں جسمانی اذیت سے زیادہ ہوتی ہیں مگر یہ محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بھی تھیں اور ان میں بھی صحابہ ہمارے شریک ہیں۔ رسول کریم ﷺ کی ذات پر بھی ایسے حملے کئے جاتے تھے اور ایسی گالیاں دی جاتی تھیں جیسی آج دی جاتی ہیں۔ یہ ممکن ہے بلکہ اغلب ہے کہ ہمارے دشمن گالیاںدینے میںزیادہ ہوشیار ہیں اور ان کی فطرت زیادہ گندی ہے اور کفارِ عرب کی شرافت سے یہ لوگ ناآشنا ہیں مگر یہ نہیں کہ ُاس زمانہ میں گالیاں وغیرہ بالکل دی ہی نہیں جاتی تھیں ۔ اس زمانہ میں بھی رسول اللہ ﷺ کے گھر کی مستورات کے متعلق ویسے ہی گندے اتہام لگائے جاتے تھے جیسے آج لگائے جاتے ہیں اور عرب کے شاعر شعروں میں ان کے ساتھ محبت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ پس یہ ممکن ہے کہ آج کل کے لوگ اس خباثت میں ان سے زیادہ ہوں مگر جسمانی تکالیف صحابہ کو ہم سے بہت زیادہ تھیں۔ اُس زمانہ میں ساری حکومت اسلام کے مخالف تھی مگر آج ساری نہیں۔ آج گورنمنٹ بحیثیت گورنمنٹ ہمارے مقابل پر نہیں بلکہ بعض حکام ہمارے خیرخواہ بھی ہیں اور بعض اپنے عہدہ سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر ہماری مخالفت کرتے ہیں۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کی اتباع کا دعویٰ کرتے ہوئے آج وہی رحم نہ دکھائیں جو آنحضرت ﷺ نے دکھایا اور جسے قریب کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظاہر فرمایا۔
میں چھوٹا تھا مگر مجھے مندرجہ ذیل واقعہ اچھی طرح یاد ہے اور اس لئے بھی وہ واقعہ اچھی طرح یاد ہے کہ اس کے متعلق مجھے بھی اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت رئویا کے ذریعہ خبردی تھی۔ ایک دن ہم سکول سے واپس آئے تو احمدیوں کے چہروں پر ملال کے آثار تھے۔ گول کمرہ اور دفتر محاسب کے درمیان جہاں مسجد کا دروازہ ہے ہم نے دیکھا کہ ہمارے بعض چچائوں نے وہاں دیوار کھینچ دی ہے اس لئے ہم اندر سے ہوکر گھر پہنچے او رمعلوم ہؤا کہ یہ دیوار اس لئے کھینچی گئی ہے کہ تا احمدی نماز کیلئے مسجد میں نہ آسکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حکم دیا کہ ہاتھ مت اُٹھائو اور مقدمہ کرو۔ آخر مقدمہ کیا گیا جو خارج ہوگیا اور معلوم ہؤا کہ جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود نالش نہ کریں گے کامیابی نہ ہوگی۔ آپ کی عادت تھی کہ مقدمہ وغیرہ میںنہ پڑتے مگر یہ چونکہ جماعت کا معاملہ تھا اور دوستوں کو اس دیوار سے بہت تکلیف تھی اس لئے آپ نے فرمایا کہ اچھا میری طرف سے مقدمہ کیا جائے۔ چنانچہ مقدمہ ہؤا اور دیوار گرائی گئی۔ فیصلہ سے بہت پہلے میںنے رئویا میں دیکھا تھا کہ میں کھڑا ہوںاور وہ دیوار توڑی جارہی ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل بھی پاس ہی کھڑے ہیں او رپھر ایسا ہی ہؤا ۔ جس دن سرکاری آدمی اسے گرانے آئے عصر کے بعد میں مسجد والی سیڑھیوں سے اُترا عصر کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل درس دیا کرتے تھے، سخت بارش آئی اور حضرت خلیفہ اوّل بھی شاید بارش کی وجہ سے یا یونہی وہاں آکر کھڑے ہوگئے۔ اس دیوار کی وجہ سے جماعت کو مہینوں یا شاید سالوں تکالیف اٹھانی پڑیں کیونکہ انہیں مسجد تک پہنچنا مشکل تھا۔ پھر مقدمہ پر ہزاروں روپیہ خرچ ہؤا اور عدالت نے فیصلہ کیا کہ خرچ کا کچھ حصہ ہمارے چچائوں پرڈالا جائے۔ کئی لوگ غصہ سے کہہ رے تھے کہ یہ بہت کم ڈالاگیاہے ان کو تباہ کردینا چاہئے۔ جب اس ڈگری کے اجراء کا وقت آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور میں تھے۔ آپ کو عشاء کے قریب رئویا یا الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ یہ بار اُن پربہت زیادہ ہے اور اِس کی وجہ سے وہ تکلیف میں ہیں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ مجھے رات نیند نہیں آئے گی اِسی وقت آدمی بھیجا جائے جوجاکر کہہ دے کہ ہم نے یہ خرچ تمہیں معاف کردیا ہے۔ مجھے اس معافی کی صورت پوری طرح یاد نہیں کہ آیا سب رقم معاف کردی تھی یا بعض حصہ۔ بچپن کا واقعہ ہے اس لئے اس کی ساری تفاصیل یاد نہیں رہیں مگر اتنا یاد ہے کہ فرمایا مجھے رات نیندنہیں آئے گی اِسی وقت کسی کو بھیج دیا جائے جو جاکر کہہ دے کہ یہ رقم یا اس کا بعض حصہ جو بھی صورت تھی تم سے وصول نہ کیاجائے گا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنّت بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ مؤمن کا رحم اتنا بڑھا ہؤا ہوتا ہے کہ دوسرا خیال بھی نہیں کرسکتا۔
مارٹن کلارک کی طرف سے آپ پر مقدمہ کیاگیا اور الزام سے بَری کرنے کے بعد مجسٹریٹ نے آپ سے کہا کہ آپ کو ان پادریوں پر جواس مقدمہ کو اٹھانے والے ہیں مقدمہ چلانے کاحق ہے مگر آپ نے فرمایا یہ ہمارا طریق نہیں۔ کرنل ڈگلس جو اُس زمانہ میں کیپٹن تھے ابھی تک زندہ ہیں اور ولایت میں ہمارے دوستوں سے ملتے رہتے ہیں اور ہمیشہ اس بات کا ذکر کیا کرتے ہیں ہیں کہ جب میںنے مرزا صاحب سے کہا کہ آپ ان پادریوں پر مقدمہ چلاسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا طریق نہیں ہم نے ان کو معاف کردیا۔ تومؤمن کے ایک ہاتھ میں رحم اور دوسرے میں بہادری ہوتی ہے اور اُس کا سر قطب مینار کی طرح سب سے اونچا ہوتا ہے۔ جب دنیا دیکھنا چاہتی ہے کہ کون ہے بہادر ۔ تو اُسے جواب ملتا ہے کہ مؤمن۔ اور جب وہ دیکھنا چاہتی ہے کہ کون ہے رحیم تو اسے مؤمن کے سِوا کوئی نظرنہیں آتا۔ پس یہ دونوں خصلتیں اپنے اندر بڑھائو اور پھر جو مصائب آتی ہیں ان کو آنے دو کہ وہ تمہاری ہلاکت کا نہیںبلکہ ترقی کا موجب ہیں۔ اور جب خدا تعالیٰ تمہارے رحم کا امتحان لے تو یہ دیکھو کہ ایسے وقت میں محمد رسول اللہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا کِیا۔ اُس وقت دشمنوں کے ظلموں پرنظر نہ ڈالو۔ پھر یہ مت سمجھو کہ تمہاری آزادی اور زندگی سے ہی اسلام کی ترقی وابستہ ہے۔ ممکن ہے تمہاری قید یاموت زیادہ مفید ہو۔ اس بات کو خدا پر چھوڑ دو کہ وہ دیکھے کیا مفید اور مناسب ہے اور ایک بہادر اور جری انسان کی طرح ہر انجام سے بے پرواہ ہوکر (سوائے خداکی ناراضگی کے انجام کے) اپنی جانوں اور مالوں کو خدا کے رستہ میں ڈال دو او رجب سب مصائب کو برداشت کرتے ہوئے خداتعالیٰ تمہیں طاقت دے تو یاد رکھو کہ تم اس کی اُمت ہو جس نے مکہ والوں کو بھی معاف کردیا تھا۔ مکہ والوں کے مظالم اور آنحضرت ﷺ کے رحم کی مثال کہیں اور نہ مل سکے گی اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ہر امر میں محمد رسول اللہ ﷺ ہی اسوئہ حسنہ ہیں۔ جرأت او ربہادری میں بھی اور عفو اور رحم میں بھی۔ پس محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کو دیکھو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھو کہ کن حالات میں آپ نے دنیا کا مقابلہ کیا۔
آج جبکہ خدا کے فضل سے ہمارا رعب ساری دنیا پر بیٹھ چکا ہے او رجب لاکھوںلوگ جماعت میںشامل ہیں اور تمام براعظموں میں احمدی موجود ہیں بعض لوگوں کو خیال پید اہوتا ہے کہ بعض باتوں اور فتووں میں ہمیں نرمی کردینی چاہئے۔ پھر غور کرو اُس وقت کتنی دقّت ہوگی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اُس وقت صرف چند آدمی آپ کے ساتھ تھے اور نبوت، کفر و اسلام، نمازوں اورشادیوں کی علیحدگی یہ مسائل پیش کرنے کیلئے کتنے بڑے دل گُردے کی ضرور تھی۔ پس محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بروزِ کامل میں رحم اور بہادری کے دونوں نمونے موجود ہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے صرف نقال بنایا ہے موجد نہیں۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہر چیز او رہر دل پر محمد رسول اللہ ﷺ کی تصویر کھینچتے جائیں ۔ پس بہادر بنو کہ مؤمن بُزدل نہیں ہوتا اور حیم بنو کہ مؤمن ظالم نہیں ہوتا۔ دنیا کیلئے ان دونوں چیزوں کا جمع ہونا مشکل ہے مگر ہمارے لئے آسان ہے کیونکہ ہمارے لئے بنی بنائی تصویر موجودہے۔ خداتعالیٰ نے ان چیزوں کا خمیرکرکے محمد رسول اللہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں بھر دیا ہے اور خمیر سے اور خمیر اُٹھالینا کوئی مشکل نہیں۔ آگ جلانا مشکل ہوتا ہے مگرجب جل جائے تو اس سے ہرشخص اپنی شمع روشن کرسکتاہے۔ نور پید اکرنا خدا کا کام تھا جو اس نے کردیا اب ہمارا کام صرف یہ ہے کہ آئیں اور اپنی شمعیں اس سے لگالیں۔ پس اس طریق کوسمجھو کہ یہی فلاح کا طریق ہے اورخوب یاد رکھو کہ جو بُزدل ہے وہ خدا کے رستہ سے کاٹا جائے گا۔ جب تک تم ایسے بہادر نہ بن جائو کہ قید، قتل، جلاوطنی سب مظالم کوبرداشت کرنے کیلئے آمادہ ہوجائو اُس وقت تک تم خدا کے محبوب نہیں بن سکتے اور جو خدا کا محبوب نہیں بنتا وہ شیطان کا محبوب ہوتاہے۔
(الفضل ۲؍ اگست ۱۹۳۶ئ)
؎۱ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ (البقرۃ:۲۱۵)
؎۲ ترمذی کتاب المناقب باب قولہ ﷺ لوکان نبی بعدی لکان عمر
؎۳ التوبۃ: ۱۰۰
؎۴ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حدیث الفأر
؎۵ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ باب مناقب سعد بن ابی وقاص
؎۶ ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی دعاء المشرکین
؎۷ انوارالاسلام صفحہ ۲۳،۲۴، روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۲۳،۲۴
؎۸ التوبۃ: ۴۳
؎۹ اسد الغابۃ جلد ۲ صفحہ ۲۳۰۔ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ
؎۰۱ السیرۃ الحلبیۃ جلد ۳صفحہ ۸۹۔ مطبع محمد علی صبیح مصر ۱۹۳۵ء










۲۸
ہم کس حد تک دُنیوی عزت کے طالب ہوسکتے ہیں
قربانیاں اورمصائب وہ کھڑکیاں ہیں جن میں سے
ہم اپنے محبو ب کوجھانک سکتے ہیں
(فرمودہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۳۶ء بمقام دھرم سالہ)
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
اس زمانہ میں ہماری جماعت کے خلاف طرح طرح کے منصوبے اور شرارتیں کی جاتی ہیں اور دشمن ہم کوہر قِسم کی تکلیف پہنچانے کے درپے ہیں۔ اس موقع پر ہماری جماعت کو سورئہ فاتحہ کے مضامین پرغور کرنا چاہئے ۔ سورئہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ مؤمن عزت کا طالب ہوتاہے اوریہ کوئی بُری بات نہیں اور وہ ذلّت سے بچنے کی کوشش کرتاہے اور یہ بھی کوئی بُری بات نہیں ۔ اگر یہ باتیں یعنی طلبِ عزت اور ذلّت سے احتراز کی کوشش بُری ہوتیں تو یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ خداتعالیٰ خود ہم کو ان کی طرف سورئہ فاتحہ میںتوجہ دلاتا ۔ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بندہ کچھ تو خداتعالیٰ سے انعام مانگتا ہے اور کچھ باتیں ایسی ہیں جن سے محفوظ رہنے کی التجا کرتاہے۔ پس اگر عزت کی طلب اور ذلّت سے بچنے کی سعی بُری بات ہے تو ہم کوخداتعالیٰ ہرگز ایسی دعانہ سکھلاتا جس میں یہ دونوں باتیں ہوں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے ہم کو ایسی دعا سکھلائی ہے اور وہ دعا ہرنماز میں کرنے کاحکم دیتا ہے۔ یعنی یہ کہ اپنے لئے عزت مانگو اور ذلّت سے بچنے کی کوشش کرو اور یہ تقاضا ایک طبعی تقاضا ہی نہیں بلکہ مذہبی اور روحانی تقاضا ہے۔ اور اس حد تک بندہ مجرم نہیں ٹھہرتا بلکہ خداتعالیٰ کے منشا ء کو پورا کرنے والا اور اُس کی رضا کاطالب قرار پائے گا۔ پس ان خطرات کے ایام میں اگر ہماری جماعت کے دوست عزت کے طالب او رذلت سے محفوظ رہنے کے خواہشمند ہوں تویہ کوئی بُری بات نہیں اس حد تک کہ وہ عزت کے طالب ہوں اور ذلّت سے بچنے کی سعی کریں۔ خداتعالیٰ بھی ان کی خواہش کوجائز قرار دے گا اور اس کا رسول بھی مگر یہاں ایک اختلاف پیدا ہوسکتا ہے جونظر انداز کئے جانے کے قابل نہیں اور وہ اس با ت کے سمجھنے میں ہے کہ عزت کیا چیز ہے اور ذلّت کیا ہے؟ اور کس رنگ میں مؤمن عزت کا طالب اور ذلّت سے بچنے کا خواہشمند ہو تو اس کا یہ کام قابلِ اعتراض نہیں۔ اور وہ کونسی صورت ہے کہ جب اس کا طالب عزت ہونا او رذلت سے بچنے میں کوشاں ہونا قابلِ اعتراض ہوجاتاہے۔ خداتعالیٰ نے جہاں مؤمن کواس طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ عزت کا طالب ہو اور ذلّت سے بچنے کا خواہشمند ہو وہاں خود ہی عزت اور ذلّت کی وضاحت بھی فرمادی ہے۔ پس خداتعالیٰ کی بیان کردہ طلب تو بہتر اورمنشائے الٰہی کو پور اکرنے والی ہوگی لیکن اگر ہم عزت کامفہوم بدل دیں اور اپنی طرف سے کوئی عزت ٹھہرالیں اور پھر اُس کے طالب ہوں تو ہم مجرم ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں عزت کا مفہوم یہ بیان فرمایاہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ؎۱ یعنی ہم کو ان لوگوں کا سیدھا راستہ دکھا جن پر تیرا انعام ہؤا۔ وہ منعم علیہم لوگ کون تھے؟ ان کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَائِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولئِکَ رَفِیْقًا ؎۲ ۔ پس جوبندہ نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں اور صالحین والا انعام پانے کی جستجو کرتا اور نیکیوں اور تقویٰ کا طالب بنتا ہے وہ ہرگز جاہ کا طالب اور دین پر دنیا کو مقدم کرنے والانہ سمجھا جائے گابلکہ قرآن مجید کی رو سے وہ بندہ فرضِ الٰہی کو پورا کرنے والا اور منشائے الٰہی پر عمل کرنے والا سمجھا جائے گاکیونکہ وہ ان سب انعامات کو طلب کررہاہے جو انبیائ، صدیقین، شہداء اور صالحین کو ملے اور ان انعامات کی طلب جوان لوگوں کو ملے عین منشائے الٰہی بلکہ حکمِ الٰہی کے مطابق ہے۔
میں اِس وقت اس بحث میں نہیں جائوں گا کہ نبوت، صدیقیت، شہادت، صالحیت کی تشریحات کیا ہیں؟ ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ ہم کس حد تک عزت کے طالب ہوسکتے ہیں؟ اِس وقت میں یہ حصہ لیتا ہوں کہ انبیاء کو جو انعامات ملے وہ دُنیوی لحاظ سے ان کوکیاپوزیشن دیتے ہیںاور صدیقین کو جو انعامات ملے وہ اُن کودنیاوی لحاظ سے کیا پوزیشن دیتے ہیں اور شہداء اور صالحین کو جو انعامات ملے وہ دنیاوی لحاظ سے ان کوکیا پوزیشن دیتے ہیں۔ پہلے انبیاء کو لو اور دیکھو کہ نبوت کا انعام کس حد تک اُن کو دُنیوی مراتب عطا کرتا ہے۔ اس حد تک ہمارے لئے بھی جائز ہوگا کہ ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو یہ مراتب بخشے۔ نبی کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھو جس حد تک ان کے دنیا سے تعلقات تھے اُس حد تک جاہ کی طلب ہمارے لئے جائز ہے اور جس جگہ پر جاکر وہ کھڑے ہوجاتے ہیں اس سے آگے بڑھنا ہمارے لئے جائز نہ ہوگا۔ ان انبیاء میں سے بعض بادشاہ بھی تھے۔ مثلاً حضر ت نبی کریم ﷺ ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام وغیرہ۔ حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہم السلام۔ حضرت آدم علیہ السلام کو بھی ایک حد تک تنفیذِ امر کا مقام حاصل تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایسی حکومت حاصل نہ سہی لیکن کم از کم اپنے قبیلہ میں وہ ضرور حکومت کرتے تھے۔ غرض بادشاہت کا ثبوت بعض انبیاء میں ضرور ملتاہے اوریہ بات تاریخ سے بھی ثابت ہے اس کے حصول اور قیام کیلئے کس حد تک انہوںنے دین کوتابع کیا ہے اس کی مثال ہمارے سامنے آنحضرت ﷺ کے وجودمبارک میں موجود ہے۔ حضور آخری عمرمیں ایک بادشاہ تھے اس میں کسی کوشک نہیں ہوسکتا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس بادشاہت سے حضور نے دنیاوی فوائد کیا حاصل کئے ہیں۔ مثلاً بیوی بچوں کی آسائش، دوستوں کی آسائش اور رشتہ داروں کی آسائش اس بادشاہت سے حضور نے کہاں تک حاصل کی۔ غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ حضور نے اِس بادشاہت سے دنیاوی فائدہ کوئی بھی حاصل نہیں کیا بلکہ حضورؐ نے اپنی تمام تر زندگی میںلوگوں کیلئے قربانی ہی پیش کی۔ حضور نے ممالکِ مفتوحہ اورجائدادوں کو اپنا ہرگز قرارنہیں دیا۔ حضور کی وفات کے بعد سنّی شیعہ کا جو اختلاف پیدا ہؤا اس عظیم الشان اختلاف کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ حضور نے جائدادوں اور ممالکِ مفتوحہ کو اپنی ذاتی چیز اور ملکیت قرار نہیں دیا اور یہ جائز نہیں ٹھہرایا کہ یہ اشیاء حضور کے خاندان کی طرف بطور ورثہ کے منتقل ہوسکیں۔ پس حکومت سے حضور نے اپنی ذات کیلئے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ حضور کی اولاد کے بارہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضور نے ان کیلئے کوئی چیز بھی دنیا میں نہیں چھوڑی۔ حتّٰی کہ حضور کی وفات کے وقت حضور کی بہت سی اشیاء گِرو رکھی ہوئی ثابت ہوئیں۔ انسان کو اپنی زندگی میں بعض اوقات ایسی ضروریات پیش آجاتی ہیں کہ اسے اپنی مملوکہ اشیاء گِرو رکھنی پڑتی ہیں اسی طرح حضور پر بھی تنگی اور فراخی کے زمانے آتے رہتے تھے۔ خود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارہ میں آتا ہے کہ ایک جنگ میں جب بہت سا مال آیا تو حضرت فاطمہ نے حضور سے درخواست کی کہ اس مال میں سے ایک لونڈی مجھے عنایت فرمائی جائے جو میرا کام کاج کرے۔ حضورؐ نے حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کہ یہ مال میرا تونہیں ہے یہ تو خداتعالیٰ کا ہے۔ میں تم کو اس مال میں سے کچھ نہیں دے سکتا تم خداتعالیٰ کا ذکر کیاکرو اور لونڈی کاخیال ترک کردو ؎۳ ۔
پھر حضور کے دوستوں کو لو۔ رسول کریم ﷺ کے دوست ایسے لوگ تھے جنہوںنے حضور کی بہت خدمات کیں لیکن حضورؐ نے ان سے کوئی ایسا سلوک نہیں کیا جن میں دوسرے لوگوں پر ان کو ترجیح دی گئی ہو۔ حضرت عباسؓ حضور کے چچا بھی تھے اوردوست بھی کیونکہ عمر میں برابر کے تھے ان کے تعلقات حضور سے اس قدر اہم تھے کہ جب کچھ لوگ مدینہ منورہ کے مسلمانوں میں سے حج کرنے آئے اور انہوں نے چاہا کہ حضور کو اپنے ساتھ مدینہ لے چلیں تاکہ حضور مکہ کی تکالیف سے محفوظ ہوجاویں۔ اُس وقت حضور نے ان کی ملاقات کیلئے صرف حضرت عباسؓ کو اپنے ساتھ لیا اور معاہدہ بھی ان کی منشاء کے مطابق کیا۔ یہی حضرت عباسؓ جب بدر کی جنگ میں مسلمان ہونے سے پہلے قیدہوئے تو حضورؐ نے ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا۔ جس طرح باقی قیدیوں کو رسیوں میں جکڑاگیا اسی طرح اِن کو جکڑا گیا اور بوجہ رفاہیت کی زندگی کی عادت کے ان کوکئی دوسرے قیدیوں سے زیادہ تکلیف پہنچی اور وہ شدتِ درد سے کراہتے رہے۔ چنانچہ بعض صحابہؓ نے رات کے وقت حضور علیہ السلام کودیکھا کہ آپ بار بار کروٹیں بدل رہے ہیں اور آپ کو بے چینی کی تکلیف معلوم دیتی ہے۔ اس پر بعض صحابہ نے عرض کی کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضور کو نیند نہیں آرہی اور کچھ بے چینی سی ہے۔ حضور نے فرمایا ہاں میں بے چین ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید عباسؓ کی رسیاں زیادہ سخت باندھی گئی ہیں کیونکہ وہ کراہ رہے ہیں ان کی تکلیف کو دیکھ کرمجھے بے چینی محسوس ہورہی ہے اور میں سو نہیں سکتا۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ حضور! یہ تو معمولی بات ہے ہم اِسی وقت حضرت عباسؓ کی رسیاں ڈھیلی کردیتے ہیں۔ حضور نے فرمایا نہیں، یا تو سب قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کردی جائیں ورنہ عباسؓ کی رسیاں بھی اسی طرح رہنے دی جائیں۔ چنانچہ حضرت عباسؓ اور باقی تمام قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کردی گئیں ؎۴ اور حضرت عباسؓ کو آرام مل گیا تب حضور آرام کی نیند سوئے۔ پس بادشاہت سے حضور نے یا حضور کے دوستوں اور رشتہ داروں نے قطعاً کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ وہ بادشاہت تو خداتعالیٰ کیلئے تھی اور اس بادشاہت میں آپ کو ویسی ہی انفرادی عزت حاصل تھی جیسی اور لوگوں کوتھی۔
یاد رکھنا چاہئے ذاتی عزت اور حکومت کی عزت میں فرق ہوتاہے۔ بعض لوگ حکومت اور انفرادی عزت میں فرق نہیں کرسکتے اس لئے حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ حکومت کے بارہ میں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ ؎۵ کہ جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاع کی اس نے گویا میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے گویا میری نافرمانی کی ۔ گویا نظام کے ماتحت جو حکومت آ پکو حاصل تھی اُس میں نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے مقر ر کردہ امیروں کیلئے بھی آپ کُلّی اطاعت کے طالب ہیںلیکن جہاں ذات کا سوال آتا ہے وہاں اپنے یا اپنے عزیزوں کیلئے کوئی زائد فائدہ طلب نہیں فرماتے۔ پس حاکمانہ مرتبہ اور چیز ہے اور انفرادی عزت اور چیز ہے۔ بھلا اس اطاعت سے حضور کو کیا جسمانی فائدہ ہوسکتا تھا ہاں اس سے خداتعالیٰ کی حکومت ضرور قائم ہوتی تھی۔ لوگ ایسی حکومت کوذاتی عزت خیال کرلیتے ہیں حالانکہ ذاتی عزت او رذاتی فائدہ تو یہ ہے کہ کوئی شخص حکومت کو اپنے آرام و آسائش میں استعمال کرے۔ مثلاً جاگیریں حاصل کرے یا مال جمع کرے وغیرہ۔ لیکن حضور نے اس حکومت سے ایسا فائدہ ہرگز حاصل نہیں کیابلکہ وہ تو حج ، زکوٰۃ اور قربانیوں کیلئے لوگوں کودعوت دیتے تھے۔ پس وہ بڑائی جو نظام کیلئے ہو وہ ذاتی بڑائی نہیں بلکہ ایسی بڑائی تو خداتعالیٰ کی حکومت قائم کرنے کیلئے ضروری ہے۔ پس جب یہ ارشاد ہؤاکہ تم لوگ نبیوں والے انعام مانگو تو اس سے یہ مراد نہیں کہ ہم کو ایسی حکومت ملے جس میں ہماری ذات، اولاد، دوستوں اوررشتہ داوں کو دنیاوی فوائد حاصل ہوں بلکہ اس انعام سے مراد وہ قربانیاں اور تکالیف ہیں جو انبیاء کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے میں اُٹھانی پڑتی ہیں اور یہی وہ انعام ہے جس کے مانگنے کیلئے اللہ تعالیٰ ہم کو حکم فرماتا ہے۔
نبیوں کے بعد صدیقوں کا مقام ہے۔ صدیقوں میں سے حضرت ابوبکرؓ کی ذات ہمارے سامنے ہے۔ ہم آپ کی ذات کا مشاہدہ کرکے معلوم کرتے ہیں کہ کیا صدیقیت کے مقام میں کسی قسم کی ذاتی بڑائی مدنظر ہوتی ہے؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا اعلیٰ مقام خلافت تھا ہم دیکھتے ہیں کہ کیا اس صدیق نے اس مقام کو ذاتی بڑائی کاذریعہ بنایا؟ اس حقیقت کو معلوم کرنے کیلئے میں رسول کریم ﷺکے معاً بعد کا ایک واقعہ لیتا ہوں۔ حضرت نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد سوائے چند علاقوں کے تمام عرب میں بغاوت پھیل گئی اور اس موقع پر حضرت عمرؓ جیسے صحابی بھی خوفزدہ ہوگئے اور انہوںنے اور دوسرے صحابہؓ نے یہ مشورہ کیا کہ ان باغیوں سے رعایت کی جائے اور زکوٰۃ کے لینے میں ان سے نرمی اختیار کی جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ لشکر جو اسامہؓ کے ماتحت حضورؐ نے عیسائیوں سے لڑنے کیلئے بھیجا تھا اُس کو روک لیا جائے اور اس لشکر سے موجودہ بغاوت کے دبانے میں مدد لی جائے۔ یہ مشورہ کرکے حضرت عمرؓ، حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے اور اُن سے جاکر یہ دونوں باتیں کہیں ۔حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ ایک مشورہ آپ کا یہ ہے کہ جیشِ اسامہ کوروک لوں، میرا جواب اس بارہ میں یہ ہے کہ کیا ابن قحافہ کی یہ طاقت ہے کہ وہ اُس لشکر کو جو رسول کریم ﷺ نے بھیجاتھا روک لے؟ یہ لشکر ضرور جائے گا خواہ کفار کالشکر مدینہ میں گھس آئے اور خواہ مدینہ کی عورتوں کی لاشیں گلیوں میں پھینک دی جائیں ؎۶ ۔ باقی رہا زکوٰۃ کے مطالبہ میں نرمی اختیار کرنا تو زکوٰۃ تو خداتعالیٰ کا حکم ہے اگر لوگ اونٹ کی وہ رسی تک جس سے اونٹ کا گھٹنا باندھتے ہیں جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں دیا کرتے تھے اب دینے سے انکار کریں گے تو میں ان سے جنگ کروں گا ؎۷ ۔ یہ بات بتاتی ہے کہ وہ ہر عزت خدا اور اس کے رسول کیلئے سمجھتے تھے اپنے لئے انہیں کسی امر کی خواہش نہ تھی۔
ان کی زندگی میں ایک اورمثال بھی نظر آتی ہے حضرت ابوبکرؓ کے بیٹے عبدالرحمن بھی خلافت کے لائق تھے اور لوگوںنے کہا بھی کہ ان کی طبیعت حضرت عمرؓ سے نرم ہے او رلیاقت بھی ان سے کم نہیں ان کو آپ کے بعد خلیفہ بننا چاہئے لیکن حضرت ابوبکرؓ نے خلافت کیلئے حضرت عمرؓ کوہی منتخب کیا ؎۸ باجود یکہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی طبائع میں اختلاف تھا۔ پس حضرت ابوبکرؓ نے خلافت سے ذاتی فائدہ کوئی حاصل نہیں کیا بلکہ آپ خدمتِ خلق میں ہی بڑائی خیال کیا کرتے تھے۔
صوفیاء کی ایک روایت ہے (وَاللّٰہُ اَعْلَمُ کہاں تک درست ہے) کہ حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے غلام سے پوچھا کہ وہ کون کون سے نیک کام تھے جو تیرا آقا کیا کرتا تھا تاکہ میں بھی وہ کام کروں ۔منجملہ او رنیک کاموں کے اس غلام نے ایک کام یہ بتایاکہ روزانہ حضرت ابوبکرؓ روٹی لے کر فلاں طرف جایا کرتے تھے اور مجھے ایک جگہ کھڑا کرکے آگے چلے جاتے تھے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کس مقصدکیلئے اُدھر جاتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ اس غلام کے ہمراہ اُس طرف کوکھانا لے کر چلے گئے جس کا ذکرغلام نے کیاتھا۔ آگے جاکر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک غار میں ایک اپاہج اندھا جس کے ہاتھ پائوں نہ تھے بیٹھا ہؤاہے۔ حضرت عمرؓ نے اُس اپاہج کے منہ میں ایک لقمہ ڈالا تو وہ روپڑا او رکہنے لگا اللہ تعالیٰ ابوبکرؓ پر رحم فرمائے وہ بھی کیانیک آدمی تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا بابا! تجھے کس طرح پتہ چلا کہ ابوبکرؓ فوت ہوگئے ہیں؟ اس نے کہا کہ میرے منہ میں دانت نہیں ہیں اس لئے ابوبکرؓ میرے منہ میں لقمہ چبا کر ڈالا کرتے تھے آج جو میرے منہ میں سخت لقمہ آیا تو میں نے خیال کیا کہ یہ لقمہ کھلانے والا ابوبکرؓ نہیں ہے بلکہ کوئی اور شخص ہے اور ابوبکرؓ تو ناغہ بھی کبھی نہ کیا کرتے تھے اب جو ناغہ ہؤاتو یقینا وہ دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ پس وہ کونسی شے ہے جو بادشاہت سے حضرت ابوبکرؓ نے حاصل کی؟ کیا سرکاری مال کو اپنا قرار دیا اور حکومت کی جائدادوں کواپنا مال قرار دیا؟ ہرگز نہیں۔ جو اشیاء ان کے رشتہ داروں کو ملیں وہ ان کی ذاتی جائداد سے تھیں۔
اب شہداء کولو۔ شہیدوہ ہے جو خداتعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کردیتاہے۔ پس جب خداتعالیٰ نے فرمایا کہ شہیدوں والا انعام مانگو تو یقینا اس کا یہ مطلب ہؤاکہ ہم کویہ حکم دیا جارہا ہے کہ تم خداتعالیٰ سے یہ دعا مانگو کہ اے خدا! ہم تیرے راستہ میں مارے جائیں اور غور کرو کہ بھلا مارے جانے والے کو دنیاوی فائدہ کیا پہنچ سکتا ہے۔ موت اور دنیاوی فائدہ کس طرح جمع ہوسکتے ہیں۔ معلوم ہؤاکہ شہیدوں والا انعام لینے کیلئے بھی انسان کو اپنے پاس سے کچھ دینا ہی پڑتا ہے یعنی اپنی جان دینی پڑتی ہے تب رضائے الٰہی حاصل ہوتی ہے۔
آگے فرمایا وَالصّٰلِحِیْنَ۔صالح کے معنے نیک کے ہیں۔ صالحین والا انعام نیکی کی توفیق کا مل جانا ہؤا۔ قرآن مجید نے نیک کام یہ نہیں بتلائے کہ ہم کو دنیا کے لوگوں کی نظروں میںعزت مل جائے، لوگ ہم کو گالیاں نہ دیں، لوگ ہماری بات سنیں بلکہ اللہ تعالیٰ تو نیک اُن لوگوں کوقرار دیتا ہے جو مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ؎۹ پر عمل کرنے والے، خدمتِ خلق کرنے والے، نماز، روزہ، زکوٰۃ کے پابند اور غرباء مساکین کی مدد کرنے والے ہوں۔
پس یہی دعاہے جو ہم سے منگوائی گئی ہے اور یہی انعام ہے جس کے مانگنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے یعنی یہ کہ ہم کو نیکیوں کے کرنے کی توفیق مل جائے جو انبیائ، صدیقین اور صالحین کرتے رہے۔ انبیاء خداتعالیٰ کا پیغام پہنچانے کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردیتے ہیں۔ پس جو انبیاء کے انعامات کا طالب ہے یقینا اس کو تکالیف اورمصائب برداشت کرنی پڑیں گی۔ اسی طرح صدیق اُس کو کہتے ہیں جو نبی کے نقشِ قدم پر چلے اور نبی کی طرح خداتعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچائے تو صدیقوں والے انعام کے طالبوں کو بھی انبیاء کی طرح تکالیف اُٹھانی اور قربانیاں کرنی پڑیں گی۔ شہید اُس کو کہتے ہیں جوخدا کی راہ میں اپنی جان دے۔ پس وہ بھی کچھ دیتا ہی ہے یعنی لیتا نہیں۔ اسی طرح صالح وہ ہے جواحکام الٰہیہ پر عمل کرے نہ کہ جاگیردار ہو یا کسی مجلس کا پریذیڈنٹ یامالدار ہو بلکہ قرآن مجید کے نزدیک نیک وہ ہے جو لوگوں کی خبرگیری کرے۔ ذاتی بڑائی کا اُس کو خیال نہ ہو اورخدمتِ خلق پر اس نے کمر باندھ رکھی ہو۔ ان تمام باتوں کے بعد انسان کو ملتا کیاہے۔ فرمایا اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ؎۰۱ ۔ یعنی یہ کہ خواہ نبوت کے ذریعہ سے جستجو کرو خواہ صدیقیت اور شہادت اور صالحیت کے ذریعہ سے ہر رنگ میں تمہاری جستجو عبودیت کیلئے ہونی چاہئے یعنی عبودیت کی چادر کا مِل جانا ہی حقیقی انعام ہے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے عبودیت کی چادر کے مل جانے کے بعد انسان کودنیاوی انعام بھی مل جاتے ہیں مگر وہ ضمنی انعام ہیں اصل نہیں اصل تو صرف عبودیت کا حصول ہے ۔ حکومت کامِل جانا یا عزت کا حاصل ہوجانا تو ضمنی اور غیر مقصود اشیاء ہیں۔
یہاں تک تو یہ بتلایا گیا ہے کہ انسان کو خداتعالیٰ سے کیا مانگنا چاہئے؟ آگے یہ فرماتا ہے کہ کن باتوں سے محفوظ رہنے کی انسان کو دُعا اور خواہش کرنی چاہئے اور وہ کونسی ذلّت ہے جس سے بچے رہنے کاخواہشمند ہونا ضروری ہے؟ فرمایا غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ ؎۱۱ یعنی ذلّت اس کا نام نہیں کہ لوگ ہم کو گالیاںنہ دیں، ہمارا بائیکاٹ نہ کریں، ہمار الین دین بندنہ کردیں بلکہ حقیقی ذلّت یہ ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ بھول جائے جس کا غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ میں ذکرہے یا انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ دے جس کا وَلَا الضَّالِّیْنَمیں ذکر ہے۔ پس فرمایا کہ تم یہ دعا مانگو کہ اے خدا! تُو ہم کواپنے دربار سے نہ نکال اور ہم کو اس سے محفوظ رکھ کہ ہم تجھ کو چھوڑ کر کسی اور طرف چل دیں۔ پس اس ذلت سے بچنے کی اگر ہم دعا کریں تو ہم پر ہرگز کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ جب خود خداتعالیٰ نے اس ذلت سے بچنے کاحکم فرمایا ہے تو پھر اعتراض کے کیا معنی؟ پس قرآن مجید کی بیان کردہ عزت او رذلت تو یہ ہے کہ جس کا اوپر ذکر ہؤاہے۔ اگر ہم اس عزت اور ذلت کے خلاف کوئی اور عزت اور ذلت ٹھہرالیں اور اس عزت کے طالب اور اس ذلت سے بچنے کی کوشش کریںتو ہم اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والے ہوں گے۔
مولوی برہان الدین صاحبؓ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابہ میں سے تھے اور مدرسہ احمدیہ مولوی برہان الدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب کی یادگار کے طور پربنا ہے تاکہ اس مدرسے سے ایسے عالم پید اکئے جائیں جو ان کی کمی پوری کرسکیں اور ان کے جانشین بن سکیں۔ اس سے ان کا احمدیت میں مقام معلوم ہوسکتا ہے۔ اُن کے متعلق میں ایک واقعہ سنا کر بتانا چاہتاہوں کہ خداتعالیٰ کے نیک بندے ذلت اور عزت کا کیا مفہوم لیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب ۱۹۰۲ء میںیا ۱۹۰۳ء میں سیالکوٹ تشریف لے گئے تو غیراحمدیوں میں سے بعض نے شورش کرنے کا ارادہ کیا مگر اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا کہ وہاں حضور کو کوئی تکلیف نہ ہو اس لئے اُس نے یہ انتظام کردیا کہ شہر کے ایک رئیس آغا باقر جو قادیان برائے علاج آچکے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت رکھتے تھے ڈپٹی کمشنر نے انتظام کیلئے ان سے مشورہ کیا۔ انہوںنے اپنی خدمات انتظام کیلئے پیش کردیں اور ساتھ مسٹر بیٹی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو لگائے جانے کی خواہش کی اور ڈپٹی کمشنر نے اسے منظور کرلیا۔ چنانچہ ان دونوں نے مل کر ایسا عمدہ انتظام کیا کہ کسی قسم کی شورش نہ ہوئی۔ لوگ پتھروں کو لے کرمکانوں پرچڑھے ہوئے تھے مگر ان دونوں نے کہہ دیا کہ اگر کسی نے شرارت کی تو ہم اُسے اِس قدر سزا دیں گے کہ وہ یاد رکھے گا یہ سن کر سب دشمن ڈر گئے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر نکلتے وہ ساتھ رہتے۔ اس سفرمیں ایک لیکچر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا اور کچھ لوگوں نے اس میں شورش کرنی چاہی اور بعض آنے والوں پر پتھر پھینکے۔ مسٹر بیٹی نے ان لوگوں کو ڈانٹ کر ہٹادیا اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لیکچر ختم ہوچکا تو بآوازِ بلند کہا کہ مجھے ان مسلمانوں پرافسوس آتا ہے کہ غصہ تو ہم کو آنا چاہئے تھا کہ انہوںنے اپنے لیکچر میں ہمارے خدا کو مُردہ ثابت کیا ہے اور ہمارے خلاف اور بہت سی باتیں کہی ہیں لیکن مسلمانوں کے نبی کی بہت تعریف کی ہے اور وہ پھربھی فساد کرتے ہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے آپ کوسیالکوٹ میں ہر شر سے محفوظ رکھا اور اس سے دشمن اور بھی زیادہ غصہ میںبھرگئے۔ چنانچہ انہوںنے آخر تجویز کی کہ آپ کی واپسی پر ٹرین پر پتھر برسائے جائیں اور جو لوگ چھوڑنے جائیں واپسی کے وقت ان کو دکھ دیا جائے۔ چنانچہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس ہوئے تو آپ کی گاڑی پرپتھر برسائے گئے او رجو لوگ وداع کیلئے گئے تھے واپسی پر اُن پر حملہ کیا گیا۔ ان لوگوں میں مولوی برہان الدین صاحب مرحوم بھی شامل تھے۔ لوگ بُری طرح ان کے پیچھے پڑ گئے ستر یا بہتر سال ان کی عمر تھی اور نہایت کمزور تھے مگر خندہ پیشانی سے مار کھائی حتّی کہ ایک شخص نے گوبر اٹھایا اور ان کے منہ میں ڈال دیا۔ بعض دوستوں نے سنایا کہ مولوی صاحب اُس وقت بالکل غمگین نہ تھے بلکہ بہت خوش تھے اور بار بار کہتے تھے ’’ایہہ نعمتاں کتھوں۔ ایہہ نعمتاں کتھوں‘‘ یعنی یہ نعمتیں ہم کوپھر کب میسر آسکتی ہیں؟ گویا مأمور کی خدمت میں مار کھانے کے مواقع روز روز حاصل نہیں ہؤاکرتے۔ دیکھو! جس چیز کو لوگ ذلت خیال کرتے ہیں اُس کومولوی صاحب نے عین عزت خیال کیا اور یہی قرآنی منشاء ہے۔ قرآن مجید کے نزدیک ذلت یہ نہیں کہ لوگ ہم کو گالیاں دیں کیونکہ گالیاں تو آنحضرت ﷺ کو بھی دیں گئیں، حضور پر اوجھڑی بھی پھینکی گئی تو کیا گالیاں دی جانے ا ور اوجھڑی پھینکے جانے سے حضور کی ذلت ہوئی؟ ہرگز نہیں۔ حضور کانام ہی محمدؐ ہے جس کے معنی عزت دیا گیا کے ہیں۔ پس جو واقعہ بھی حضور سے گزرا وہ یقینا سراسر عزت ہے۔ اگر یہ بات نہیں توخداتعالیٰ جھوٹا ٹھہرتا ہے کیونکہ اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ حضور کو محمد کہتا ہے اور دوسری طرف نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ذلیل ہونے دیتا ہے۔ پس اگر گالیوں کاملنا ذلّت ہے تو یہ ہرگز آنحضرت ﷺ کو نہ دی جاسکتیں۔ ہاں ایک فرق ضرور ہے اوروہ یہ کہ خداتعالیٰ کیلئے گالیاں کھانا عزت ہے لیکن اپنی ذات کیلئے گالیاں کھانا کبھی ذلت کا موجب بھی ہوسکتاہے۔ رسول کریم ﷺ کو ذاتی طو رپر لوگ صادق اورامین کے نام سے یاد کیا کرتے تھے لیکن جونہی حضور نے اللہ تعالیٰ کا نام لیا لوگوں نے حضور کو کاذب کہنا شروع کردیا۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے قرآن مجید میں آنحضرت ﷺ کی طرف یہ قول نقل فرمایا کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِہٖ اَفَلا تَعْقِلُوْنَ ؎۲۱ یعنی دعویٰ نبوت سے قبل کیا کسی نے تم میں سے مجھے گالی دی یا کوئی اعتراض کیا؟ ہاں جونہی میں نے خداتعالیٰ کا نام لیا تو تم نے مجھ کو گالیاں دینا شروع کردیں۔
تویہ گالیاں وہ لوگ حضور کو نہیں دے رہے تھے بلکہ درحقیقت خداتعالیٰ کو دے رہے تھے اور وہ اوجھڑی حضور پر نہیں پھینکی گئی تھی بلکہ دراصل خداتعالیٰ پر پھینکی گئی تھی اور جب حضور کے گلے میں رسّی ڈالی گئی تھی تو محض محمد ﷺ کے گلے میںنہیں بلکہ اُس محمد کے گلے میں ڈالی گئی تھی جورسول اللہ ہونے کا مدعی اور خداتعالیٰ کانام لینے والا تھا۔ پس یہ سلوک گویا حضورؐ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے تھا۔ میرے اس فقرہ پر تعجب نہ کرو کیونکہ انسان سے بعض سلوک خداتعالیٰ سے سلوک قرار پاتے ہیں۔ مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن بعض لوگوں کومخاطب ہوکر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا، میں ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا اس لئے تم جنت میں چلے جائو۔ وہ لوگ کہیں گے تُو کب ہمارے پاس بھوکا ہونے کی حالت میں آیا کہ ہم نے تجھ کو کھانا دیا یا کب ننگا ہونے کی حالت میں آیا کہ تجھ کوکپڑا دیا ۔ تب اللہ تعالیٰ اُن کو فرمائے گا کہ دنیا میں میرا فلاں بندہ بھوکا اور ننگا تھا تم نے اُس کو کھانا اورکپڑا دیا توگویا اُسے نہیں بلکہ مجھے ہی دیا۔ اسی طرح بعض لوگوں کو مخاطب ہوکر فرمائے گا کہ میں تمہارے پاس بھوکا او رننگا ہونے کی حالت میں آیا مگر تم نے مجھے کھانا اور کپڑا نہ دیا اس لئے جہنم میںجائو۔ وہ لوگ کہیں گے کہ اے خدا! تُو کب ہمارے پاس اس حالت میں آیا کہ ہم نے تجھ کوکھانا اورکپڑا نہ دیا تب خداتعالیٰ ان کو بھی یہی جواب دے گا کہ دنیا میں میرا فلاں بندہ بھوکا اور ننگا تھا لیکن تم نے اس کو کھانا اورکپڑے کی مدد نہ دی تو گویا یہ سلوک تم نے اُس سے نہیں بلکہ مجھ سے روا رکھا ؎۳۱ ۔
پس ان تکالیف کانام جوخداتعالیٰ کے راستے میں ہم کو آتی ہیں ذلت رکھنا سراسر جہالت ہے۔ اگریہ تکالیف درحقیت ذلت ہوتیں تو ہم کو قرآن مجید میں یہ دعا سکھلائی جاتی کہ اے خدا! لوگ ہم کو گالیاںنہ دیں، ہمارا بائیکاٹ نہ کریں۔ پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ اس موقع پر سورۃ فاتحہ پر غور کرے کیونکہ ہر ایک وہ چیز جوخدا تعالیٰ کیلئے قربان کی جائے وہ گئی نہیں بلکہ ملی ہے اور وہ عزت ہے نہ کہ ذلت اور وہ انعام ہے کیونکہ جو چیز خداتعالیٰ کے رستہ میں قربان کی جائے سینکڑوں گُنا ہو کر قیامت کے دن واپس ملے گی ۔ اور جو لوگ دنیا کی نظروں میں ذلیل خیال کئے جاتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے نزدیک معزز ہیں اور حقیقی عزت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور حاصل ہو۔ دنیاوی عزتیں تو محض جھوٹ اور فریب ہیں۔ سجدہ کو دیکھو وہ بظاہر کیسی ذلت کی حالت ہے لیکن اس کے بارہ میں نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ ؎۴۱ سجدہ میں چونکہ زمین پر سر رکھ دیا جاتاہے اس لئے یہ بظاہر ذلت کی صورت ہے لیکن حضور فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کیلئے نیچے کوجاتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کوبلند کرتا ہے اور جو شخص دنیاوی نقطۂ نگاہ سے بلند ہونا چاہتا ہے خداتعالیٰ اُس کو بلندی سے نیچے کی طرف لے جاتاہے۔ فرعون نے ہامان سے کہا تھا کہ مجھے ایک محل بنادو جس پر چڑھ کرمیں ذرا موسیٰ کے خدا کو تو دیکھوں ؎۵۱ ۔ اللہ تعالیٰ نے اُس کے ساتھ عجیب سلوک کیا کہ اس کو بحرِ قلزم میں اپنا وجود دکھایا۔ یعنی چونکہ وہ اُوپر کوجانا چاہتا تھا خداتعالیٰ نے کہا کہ تُو اوپر کو کیا جاتاہے میں تم کو نیچے ہی اپنا وجود دکھادیتاہوں۔ پس فرعون جواوپر کو جانا چاہتا تھا اسے خداتعالیٰ نیچے کی طرف لے گیا۔ لیکن مؤمن خداتعالیٰ کیلئے نیچے کی طرف جانا چاہتاہے اسے اللہ تعالیٰ اونچا کرتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ روحانی عالم میں اللہ تعالیٰ کاسلوک بالکل اُلٹ ہوتا ہے یہ گویا خواب کا سا معاملہ ہوتا ہے جیسے خواب میں تعبیر بعض اوقات اُلٹ ہوتی ہے جیسے موت سے مراد عمر کے لمبا ہونے اور دین کی ترقی کے ہیں اور ہنسنے سے مراد رنج اور رونے سے مراد خوشی کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح جسمانی اور روحانی عالَم بعض امور میں اُلٹ چلتے ہیں۔ پس جس قدر لوگ ہم کو گالیاں دیں گے اُسی قدر ہم کوعزت ملے گی اور جس قدر ہم کو دھتکاریں گے اسی قدر اللہ تعالیٰ ہم کو اپنے قریب کرے گا۔ دنیا دیکھ لے کہ گالیوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کیا حرج ہؤا۔ حضور کی جماعت پر ایک دن بھی ایسا نہیں آتا جس میں اُس کو ترقی حاصل نہ ہوتی ہو اور دشمنوں پر ایک دن بھی ایسا نہیں آتا جس میں اُن میںکمی نہ آتی ہو۔ تو ہمارا دشمن نقصان میں ہے نہ کہ ہم۔ گالیاں دینا تو کمزوروں کاکام ہے اور یہ کمزور لوگوں کا ہی اوچھا ہتھیار ہے گالیاں دے کر وہ گویا اپنا ناک آپ کاٹ رہے ہوتے ہیں۔
پس ہماری جماعت کوگھبرانا نہیں چاہئے تکالیف کا آنا خوشی اور فخرکامقام ہے یہ زمانہ تلوار چلانے کاتو نہیں تھا اس لئے ہمارے دلوں میں ضرور یہ حسرت رہنی تھی کہ آنحضرت ﷺ اور دیگر انبیاء کے صحابہ کو تو تکالیف اٹھانے اور قربانیاں کرنے کی توفیق ملی مگرہم کو یہ نعمت نصیب نہ ہوئی۔ پس ہم کو گالیاں دلا کر اور بعض دوسری مشکلات میں مبتلاء کرکے اللہ تعالیٰ نے ہماری یہ حسرت پوری کردی۔ ہماری جماعت کو ہمیشہ یہ سوچنا چاہئے کہ صحابہؓ مصائب کوکس نگاہ سے دیکھا کرتے تھے کیونکہ ہمیں انہیں کے نقشِ قدم پرچلنے کاحکم ہے۔
میں اِس وقت ایک واقعہ بطو رمثال سناتاہوں تاریخوں میں آتا ہے ایک دفعہ رومیوں سے مسلمانوں کی جنگ ہورہی تھی اور جنگ مبارزہ تھی یعنی دونوں طرف کے بہادر ایک ایک کرکے لڑ رہے تھے۔ اتفاقاً ایک رومی سردار نے بہت سے مسلمانوں کومار ڈالا ۔ کئی بہادروں کے مارے جانے کے بعد حضرت ضرارؓ اُس کے مقابلہ کیلئے نکلے لیکن جونہی مقابلہ شروع ہؤاآپ اپنے خیمہ کی طرف بھاگ پڑے۔ یہ دیکھ کر دشمن بہت خوش ہوئے اور مسلمان گھبرا اُٹھے کہ یہ کیا ہؤاکیونکہ ضرارؓ نہایت اعلیٰ پائے کے جرنیل تھے۔ غالباً حضرت ابوعبیدہؓ سردارِ لشکر تھے انہوں نے بھی حیرت کا اظہار کیا۔ جب ضرارؓ اپنے خیمہ میں پہنچے تو ان کی ہمشیرہ غصہ سے باہر نکل آئیں اور اُن کوملامت کرنے لگیں۔حضرت ضرارؓ نے کہا اصل بات یہ ہے کہ میں نے آج اتفاقاً زرہ پہنی ہوئی تھی۔ جب عیسائی جرنیل نے مجھ پرحملہ کیا تو میرے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ ضرارؓ تُو ہمیشہ بغیر زرہ کے لڑتا رہا ہے آج جو تُونے زرہ پہنی ہے تو کیا اس وجہ سے کہ یہ عیسائی جرنیل بہت بہادرہے اور تُو مرنے سے ڈرتا ہے؟ یہ خیال آتے ہی مجھے خوف ہؤاکہ اگر میں آج مرگیا اور خداتعالیٰ نے مجھ سے پوچھا کہ اے ضرارؓ! کیا تُو ہماری ملاقات سے ڈرتا تھا کہ زرہ پہن کر لڑتا تھا؟ تومیں خداتعالیٰ کو کیا جواب دوں گا۔ پس میں خیمہ کی طرف بھاگا تا کہ زرہ اُتار دوں اور پھر جاکر دشمن سے لڑوں۔ یہ وہ نقطہ نظر تھا جس پر صحابہؓ قائم تھے ان کے نزدیک مصائب او رقربانیاں صرف کھڑکیاں تھیں جن میں سے وہ اپنے محبو ب کو جھانکتے تھے۔ غرض مؤمن خداتعالیٰ کے راستے میں پیش آمدہ تکالیف کوانعام سمجھتا ہے او رجو ان تکالیف کو انعام نہیںسمجھتا وہ اپنے دل میں ایمان رکھتاہی نہیں۔
پس ہماری جماعت کوچاہئے کہ وہ تکالیف اور مصائب کو اسی نقطہ نگاہ سے دیکھے یہ کہ قربِ الٰہی کے حصول کیلئے ایک ذریعہ ہیں ہم کو تو صرف گالیاں دی جاتی ہیں اور کچھ تھوڑی سی تکالیف دی گئی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہؓ کو تو گالیاں بھی دی گئیں اور انہیں قتل بھی کیا گیا اورجلاوطن بھی کیا گیا حتّٰی کہ عورتوں تک کو شدید ابتلائوں میں سے گزرنا پڑا۔ خود رسول کریم ﷺ کی ایک صاحبزادی جب اُن کے خاوند نے اس وجہ سے انہیںمدینہ روانہ کردیا کہ مکہ والے ان کو تکلیف دیتے تھے ان پر بُزدل کفار نے حملہ کیا اور سواری سے گِرادیا۔ اس وقت وہ حاملہ تھیں اِسی صدمہ سے اُن کاحمل ساقط ہوگیا اور اسی تکلیف کی وجہ سے وہ آخر فوت ہوگئیں۔ پس خدا کی راہ میں تکلیف پانا عزت ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ عزت کیلئے پید اکئے گئے تھے اگریہ چیزیں عزت نہ ہوتیں تو آپ کو ہرگز ان باتوں سے واسطہ نہ پڑتا۔
پس ہم کواس بات سے خوش ہونا چاہئے کہ خداتعالیٰ نے ہم کو اس قابل سمجھا کہ ہم گالیاں کھائیں او رہم پر پتھر برسیں۔ کشمیر کی تحریک کے موقع پر جب میں سیالکوٹ میںگیا تھا تو اس وقت میری تقریر کے موقع پراحرار نے ایک گھنٹہ پانچ منٹ تک پتھر برسائے اور گو میرا دل چاہتا تھا کہ میں بھی اس تکلیف سے حصہ لوں لیکن بہت سے دوستوں نے میرے گِرد حلقہ کرلیا لیکن اللہ تعالیٰ نے میری خواہش کو پورا کرنے کیلئے تین پتھرمجھ تک پہنچا ہی دیئے۔ یہ سنگ باری ایک گھنٹہ پانچ منٹ تک ہوتی رہی اس کے بعد ڈپٹی کمشنر نے حکم دیاکہ لوگ پانچ منٹ میںچلیں جائیں ورنہ لاٹھی چارج کیا جائے گا۔ تب فواً یہ احرار بہادر وہاں سے بھاگ گئے لیکن ایک گھنٹہ پانچ منٹ تک پتھربرستے رہے۔ اس عرصہ میں بعض رئوساء نے مجھ سے کہا بھی کہ آپ چھت کے نیچے چلے آئیں اور بعض نے لیکچر ملتوی کرنے کو کہا مگرمیں نے یہی جواب دیا کہ نہ میں لیکچر ملتوی کروں گا نہ اندر جائوں گا کیونکہ میں ان پتھروں کے کھانے میںحقیقی خوشی اور لذت محسوس کرتا تھا۔ اور اس موقع پر ہماری جماعت کے پچیس آدمی زخمی ہوئے جن میں بعد میں ایک آدمی فوت بھی ہوگیا۔ ہم کو یہ تو نہیں چاہئے کہ ایسے مواقع ہم اللہ تعالیٰ سے طلب کریں لیکن اگر خودبخودایسے مواقع پیش آجائیں تو گھبرانے کی بجائے خوش ہونا چاہئے۔ جو شخص خداتعالیٰ کے لئے تکلیف اُٹھانا نعمت سمجھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرماتا ہے۔ ماں کو دیکھ لو جب وہ بچے کو کہتی ہے کہ تجھے پھینک دوں اگر بچہ آگے سے خاموش ہورہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مجھے یہ امر منظور ہے تو ماں اُس بچے کو گرانے کی بجائے چھاتی سے لگا لیتی اور پیار کرتی ہے۔ پس ہم کو چاہئے کہ عزت اور ذلت کا معیار وہی رکھیںجو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے نہ کہ اپنی طرف سے ایک چیز کوعزت اور دوسری کو ذلت سمجھ لیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ جو شخص لوگوں کی ظاہربین نظروں میںذلیل ہو وہی شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز ہو۔
(الفضل ۹؍ اگست ۱۹۳۶ئ)
؎۱ الفاتحۃ: ۶،۷ ؎۲ النسائ: ۷۰
؎۳ ابوداؤد کتاب الخراج فی بیان مواضع قسم الخمس (الخ)
؎۴ اسد الغابۃ جلد ۳ صفحہ ۱۰۹ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
؎۵ بخاری کتاب الاحکام باب قول اللہ تعالیٰ اَطِیْعُوااللّٰہَ وَ اَطِیْعُواالرَّسُوْلَ (الخ)
؎۷، ۶ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ ۵۱ مطبوعہ لاہور ۱۸۹۲ء
؎۸ تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحہ ۴۲۵،۴۲۶ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
؎۹ البقرۃ: ۴ ؎۰۱ الفاتحۃ: ۵
؎۱۱ الفاتحۃ: ۷ ؎۲۱ یونس: ۱۷
؎۳۱ مسلم کتاب البر والصلۃ باب فضل عیادۃ المریض
؎۴۱ کنزالعمال جلد ۳ صفحہ ۲۴۳۔ مطبوعہ حلب ۱۹۷۰ء
؎۵۱ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْ اَطَّلِعُ اِلٰٓی اِلٰہِ مُوْسٰی ( القصص: ۳۹)

۲۹
مؤمن کوکامل اطاعت ا ور فرمانبرداری کرنی چاہئے
تحریک جدید کے ذریعہ جماعت احمدیہ کا امتحان ہورہا ہے اس میں کامیاب
ہونے کی کوشش کرو
(فرمودہ ۷؍ اگست ۱۹۳۶ئ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
سب سے پہلے تو میں اس بات پر اظہارِ افسوس کرتا ہوں کہ بعض دوست سٹیشن پر آج گئے تھے اورمیں نے اُن سے مصافحہ نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کل میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو بِالوضاحت اس بات کی ہدایت کردی تھی کہ چونکہ جمعہ کا دن ہوگا اورقادیان پہنچ کر نہانادھونا، کپڑے بدلنا او رپھر کھانے کا وقت ہونے کی وجہ سے کھانا کھانا ہوگا اس وجہ سے زیادہ وقت سٹیشن پر خرچ نہیں کیاجاسکتا اس لئے آپ تار دے دیں کہ دوست سٹیشن پراستقبال کیلئے نہ آئیں۔ انہوں نے پوچھا کیا یہ مطلب ہے کہ مصافحہ نہ کیا جائے۔ میں نے کہا یہ بات مجھے زیادہ شرمناک معلوم ہوتی ہے کہ دوست آئیں مگرمیں اُن سے مصافحہ نہ کروں اس لئے یہ نہ لکھا جائے کہ مصافحہ نہ ہو بلکہ یہ لکھیں کہ دوست سٹیشن پر ہی نہ آئیں لیکن جب میں قادیان پہنچا تو میں نے دیکھا کہ کچھ دوست سٹیشن پراستقبال کیلئے کھڑے ہیں۔ میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے پوچھا تو انہوں نے کہاکہ میں نے تو ہدایت بھجوادی تھی ۔ اس پر مقامی امیر صاحب سے میںنے دریافت کیاکہ میری ہدایت کے خلاف کیوں عمل کیا گیا اور دوستو ںکو جمع کرکے کیوں ایک طرف مجھے شرمندہ کیا گیا اور دوسری طرف انہیں تکلیف دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تار یہی پہنچی تھی کہ مصافحہ نہیں کرنا اس لئے ہم نے لوگوں کو جمع ہونے سے منع نہیں کیا۔ مجھے اس بات پر تعجب ہؤاکہ جب بِالوضاحت پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے مجھ سے یہ بات دریافت کرلی تھی اور ان کی تجویز پر کہ مصافحہ سے روکا جائے میں نے کہہ دیا تھا کہ اسے میں ناپسند کرتا ہوں کہ لوگوں کو جمع ہونے دیا جائے اور پھر مصافحہ سے روکاجائے اس لئے دوستوں کو جمع ہونے سے ہی روک دیا جائے پھر اِس قِسم کی تار کیونکر دی گئی۔ اور میں نے دوبارہ امیر مقامی مولوی سیّد سرور شاہ صاحب سے پوچھا کہ آپ کو غلطی تو نہیں لگی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں میں نے تین شخصوں سے تار پڑھوائی اور سب نے یہی کہا کہ اس میں مصافحہ کو منع کیا گیاہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ تار مجھے بھجوادیں۔ اس کے بعد موٹر میں بیٹھتے ہوئے نیرصاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کیا تھا اور انہوں نے یہ کہا تھا کہ یہی تار چاہئے کہ مصافحہ نہیں ہونا چاہئے اس لئے ان کے مشورہ کے مطابق میں نے یہ تار دے دی تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض نمائش کی خاطر اور صرف یہ دکھانے کیلئے کہ جب قادیان میں امام جماعت احمدیہ آتا ہے تو لوگ استقبال کیلئے جمع ہوجاتے ہیں میری حکم عدولی کرتے ہوئے اِس قِسم کا تار دے دیاگیا۔ میں دنیا کی کسی لغت کے لحاظ سے نہیں سمجھ سکتا کہ جب وضاحتاً یہ ہدایت دے دی گئی ہو کہ لوگ سٹیشن پر نہ آئیں کیونکہ سٹیشن پر ان کے آجانے کے بعد ان سے مصافحہ نہ کرنا مجھے بہت معیوب معلوم ہوتا ہے اور یہ بات مجھے بُری لگتی ہے کہ لوگ جمع ہوجائیں اور میں ان سے مصافحہ نہ کروں میری ہدایت کو ان الفاظ میں ادا کیا جائے کہ لوگ مصافحہ نہ کریں۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے ایک یہ عذر بھی کیا کہ میں نے اور ڈاکٹر صاحب نے یہ سمجھا تھا کہ اگر یہ تار دی کہ لوگ نہ آئیں تو پہرے کا انتظام بھی نہ ہوگا حالانکہ تارمیں آسانی سے لکھا جاسکتا تھا کہ سوائے منتظمین کے اور کوئی نہ آئے۔ لیکن میرے نزدیک اپنی ذات میں بھی یہ عذر فضول ہے اس لئے کہ جو عملہ قادیان سے باہر پہرہ کا انتظام کرسکتا ہے، ریل میں پہرہ کا انتظام کرسکتا ہے وہ قادیان میں کیوں نہیں کرسکتا۔ کیا قادیان کے سٹیشن پر باہر کی نسبت زیادہ خطرات ہوتے ہیں اور سٹیشن کے باہر تو موٹرمیں ہی جانا تھا۔ غرض یہ عذرات بالکل نادرست اور باطل تھے اور اسی ہندوستانی عادت کے ماتحت تھے کہ ’’سوگز واروں گز بھر نہ پھاڑوں‘‘۔ جان قربان کرنے کے دعوے زور شور سے کئے جائیں اور اطاعت بالکل نہ کی جائے اور میں مجبور ہوں کہ سمجھوں کہ محض نمائش او رجھوٹے مظاہرے کی خاطرمیری ہدایت کی دیدہ دانستہ اور جان بوجھ کر نافرمانی کی گئی ہے او رمجھے افسوس ہے کہ اس غلطی کا خمیازہ قادیان کے دوستوں کو بھی بھگتنا پڑا اور جو مجھے تکلیف ہوئی وہ بھی کچھ کم نہیں۔ میں نے صراحتًا کہہ دیا تھا کہ وہ لوگ جو دوستوں کو جمع کرکے تو لے آتے ہیں مگر پھر مصافحہ کرنے سے انہیں روکتے ہیں ان کا روکنا مجھ پر بہت ہی گراں گزرتا ہے۔ جب لوگ جمع ہوجائیں تو اُس وقت میں یہی چاہتا ہوں کہ ان سے مصافحہ کروں اور وہ لوگ جو ایسی حالت میں کہتے ہیں کہ مصافحہ نہ کرو ان کی یہ بات مجھے نہایت ہی شرمناک معلوم ہوتی ہے اس کی تحقیقات تومیں بعد میں کروں گا کہ یہ صریح نافرمانی کیونکر ہوئی لیکن میں چاہتا ہوں کہ دوستوں سے اس بات کی معذرت کردوں کہ میرا ان سے آج مصافحہ نہ کرنا نظام کے قیام کیلئے ضروری تھا۔ ہمارے ہندوستانیوں کی عموماً اور مسلمانوں کی خصوصاً سب سے بڑی *** یہی ہے کہ ان کے تمام کاموںمیں نمائش ہؤاکرتی ہے اطاعت نہیں ہوتی۔ ان کی ذلّت اور رُسوائی کا تمام تر راز اس امر میں ہے کہ وہ سچی اطاعت اور قربانی کے مفہوم سے ناواقف ہیں۔ نہ وہ خدا تعالیٰ کی سچی اطاعت کرتے ہیں اور نہ ان لوگوں کی جن کے ہاتھ میں دینی یا دُنیوی قیادت کی باگیں ہیں۔ نہایت چھوٹی چھوٹی نمائشی باتوں کیلئے ان کی جان یوں نکلتی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
نقصاں جو ایک پیسہ کا دیکھیں تو مرتے ہیں
لیکن بڑے اور عملی کاموں کی طرف ان کی توجہ بالکل نہیں ہوتی۔ ان کی مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قاتلوں میں سے ایک حضرت ابن عباسؓ کے پاس آیا اور آکر کہنے لگا کہ حضور! یہ تو بتایئے کہ حج کے دنوں میں اگر کوئی شخص جوں مار بیٹھے تو اس کی کیا سزا ہے۔ انہوں نے کہا خداکے رسول کے بھائی، خدا کے رسول کے داماد اور خداتعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ کو تم نے قتل کردیا اور تم مجھ سے مسئلہ پوچھنے نہ آئے لیکن حج کے دنوں میںجوں مارنے والے کی سزا کے متعلق تم مجھ سے مسئلہ پوچھنے آگئے ہو۔ جائو دور ہوجائو میں تم کو کوئی مسئلہ بتانے کیلئے تیار نہیں۔ تو یہ ضلالت اور گمراہی ہمارے ملک میںعام ہے کہ لوگ شیطانی قیاس کرتے ہیں اور بات کو خوب سمجھنے کے باوجود پھر بھی اپنے قیاسات دوڑاتے ہیں۔ یہی *** ہے جو ان کی ذلّت اور رُسوائی کا موجب ہے اور جس کی وجہ سے فرمانبرداری اور اطاعت کی روح ہمارے ملک میں نہیں پائی جاتی۔ جن بزرگوں نے یہ کہا ہے کہ پہلا قیاس شیطان نے کیا تھا درحقیقت ان کا بھی ایسے ہی قیاس سے مطلب تھا کہ بات واضح ہوتی ہے، حکم بیّن ہوتا ہے مگر اسے ردّ کردیا جاتا ہے اور ایک راہ پیدا کرکے کہا جاتا ہے کہ ہم نے یوں قیاس کیا تھا۔ اسی قِسم کا قیاس ہے جس نے آدم کے زمانہ سے ہی تباہی مچائی ہوئی ہے۔ جب تک مؤمن کا مقام اس اطاعت اور فرمانبرداری کی حد تک نہ پہنچ جائے کہ جب اُس پر حکم واضح ہوجائے تو پھر چاہے اس کی حکمت اُسے سمجھ آئے یا نہ آئے اُس پر عمل کرے اس وقت تک اسے کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔
پہلا کام مؤمن کا یہ ہوتاہے کہ جب اُسے کوئی حکم دیا جائے اور وہ اسے پوری طرح نہ سمجھ سکے تو اُس حکم کی وضاحت کرا لے۔ جیسے مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کا یہ مقصد ہے کہ مصافحہ نہ ہو۔ میں نے کہا نہیں۔ میر امطلب یہ ہے کہ کوئی شخص سٹیشن پر نہ آئے۔ اس حد تک ان کا پوچھنا بالکل جائز تھا بلکہ ماتحت کا فرض ہوتا ہے کہ جب اُسے کسی غلط فہمی کا اندیشہ ہو تو وہ پوچھ لے لیکن جب ماتحت دریافت کرچکے تو پھر جو بات اُسے کہی گئی ہو اُس کے متعلق اُس کافرض ہوتا ہے کہ وہ اُس پرایسی اطاعت اور فرمانبرداری سے عمل کرے کہ اس میں کسی اعتراض کی گنجائش نہ ہو اور نہ اس میں کسی قِسم کا تخلّف ہو۔ آخر غور تو کرو کہ صحابہؓ میں اور تم میں خداتعالیٰ نے کیوں فرق رکھا ہے۔ اُن کو خداتعالیٰ نے اُٹھایا اور چند سالوں میں ہی آسمان پرپہنچادیا ا ور وہ لوگ جن کے بوٹ عربوں کی گردنوں پرتھے پندرہ بیس سال کے عرصہ میں ہی ان کی گردنوں پرعربوں کی جوتیاں رکھی گئیں۔ یہ بات یونہی تو نہیں ہوگئی ان کے اندر فرمانبرداری کی روح تھی۔ وہ جانتے تھے کہ فرمانبرداری اور اطاعت کسے کہتے ہیں، وہ جانتے تھے کہ عقل سے کام کرنا کسے کہتے ہیں۔ ان کا یہ حال تھا کہ رسول کریم ﷺ ایک دفعہ وعظ فرمارہے تھے آپ نے بعض لوگوں کو کناروں پرکھڑے دیکھا تو فرمایا بیٹھ جائو۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ گلی میں سے مسجد کی طرف آرہے تھے ان کے کانوں میں جونہی یہ آوا زپڑی کہ بیٹھ جائو وہ وہیں بیٹھ گئے اور انہوں نے گھسٹ گھسٹ کر مسجد کے دروازہ کی طرف آنا شروع کردیا جہاں کہ رسول کریم ﷺ تقریر فرمارہے تھے۔ کسی نے پوچھا یہ کیا کررہے ہو؟ تو انہوںنے جواب دیا کہ میرے کانوں میں رسول کریم ﷺ کی یہ آواز آئی تھی کہ بیٹھ جائو اِس لئے میں گلی میں ہی بیٹھ گیا اور میں نے گھسٹ گھسٹ کر مسجد کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ کسی نے کہا آپ مسجد میں داخل ہونے کے بعد بیٹھتے۔ تو عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا کہ اگر داخل ہونے سے پہلے مرجاتا تو خداتعالیٰ کو کیا جواب دیتا ؎۱ ۔ یہ وہ روح تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں نے فتح پائی اور انہوں نے دنیا میں اتنا عظیم الشان تغیرپیدا کردیا کہ حیرت سے دنیا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ استعجاب سے انگشت بدنداں ہوگئی۔
اس فرمانبرداری کے مظاہرہ کی ایک اور مثال میں سناتا ہوں۔ رسول کریم ﷺ جب مرض الموت سے بیمار ہوئے تو آپ نے وفات سے کچھ دن پہلے ایک لشکر رومی حکومت کے مقابلہ کیلئے تیار کیا او راُسامہ بن زیدؓ کو اس کا سردار مقررفرمایا تھا ابھی یہ لشکر روانہ نہیں ہؤاتھا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات ہوگئی اور سارے عرب میں بغاوت ہوگئی۔ اس بغاوت کا حلقہ اتنا وسیع ہوگیا کہ صرف تین مقام ایسے تھے جہاںنماز باجماعت ہوتی تھی ایک مکہ میں، ایک مدینہ میں اور ایک اَور چھوٹے سے گائوں میں ان کے سوا عرب میں ہر جگہ بغاوت رونما ہوگئی تھی۔ بڑے بڑے صحابہؓ نے مل کر مشورہ کیا کہ اس موقع پر اُسامہؓ کالشکر باہر بھیجنا درست نہیں کیونکہ اِدھر ساراعرب مخالف ہے اُدھر عیسائیوں کی زبردست حکومت سے لڑائی شروع کردی گئی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلامی حکومت بالکل درہم برہم ہوجائے گی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے ہم عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ موقع نہیں کہ اُسامہؓ کالشکر باہر بھیجا جائے آپ اس لشکر کو روک لیں اور پہلے عرب کے باغیوں کا مقابلہ کریں جب ہم انہیں دبالیں گے تو اُسامہؓ کے لشکر کو عیسائیوں کے مقابلہ کیلئے بھیج دیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ جب وہ اپنی منکسرانہ حالت ظاہر کرنا چاہتے تو اپنے آپ کواپنے باپ سے نسبت دے کربات کرتے کیونکہ ان کے باپ نہایت مسکین اور غریب آدمی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب کہاکہ جیشِ اُسامہ کوروک لیا جائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کیا ابن ابوقحافہ کی طاقت ہے کہ محمد ﷺ ایک لشکر بھیجیں اور وہ اُسے روک لے۔ پھرفرمایا خدا کی قسم! اگر کفار مدینہ کو فتح کریں اور مدینہ کی گلیوں میں مسلمان عورتوں کی لاشیں کُتّے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جس کو محمدﷺ نے روانہ کرنے کیلئے تیار کیا تھا۔۲؎ اس کے بعد فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ ابن ابوقحافہ کا اپنی خلافت میں پہلا کام یہ ہو کہ وہ محمد ﷺ کے کسی حکم کومنسوخ کردے۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ اس سے بہادری کا وہ جذبہ ظاہر ہوتا ہے جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اندر تھا لیکن درحقیقت اسی میں ان کی کامیابی کا راز تھا۔ وہ قوتِ ارادی جس سے دنیا فتح ہوسکتی ہے اسی صورت میںپیدا ہوسکتی ہے جب کامل اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ انسان کے اندر ہو، جب وہ حیلے حجتیں نہ کریں، جب وہ اپنی تجویزوں اور اپنے قیاسات سے کام لینے کی بجائے اس حکم کو سنے جو اُسے دیا گیا ہو اور اُس پر پوری طرح عمل کرے۔ اگر انسان اس بات کی عادت ڈال لے تو اس صورت میں اسے بہت جلد کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔
پس ایک طرف میں دوستوں سے معذرت کرتاہوں اور دوسری طرف انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اس قِسم کی کارروائیاں تمہیں قطعاً کامیابی عطا نہیں کرسکتیں۔ جب تک تمہارے اندر ایسی فرمانبراری پیدانہ ہو کہ اگرتمہیں کہا جائے تلوار کی دھار پر اپنی گردنیں رکھ دو تو ایک بھی تم میں سے پیچھے نہ ہٹے اس وقت تک تمہیں اطاعت کا مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔ مؤمن کاکام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ ابتدائی تحقیق کر کے دیکھ لیتا ہے کہ مدعی خدا کا رسول ہے یا نہیں۔ یا نبی کی جانشینی اور قائمقامی کا دعویٰ کرنے والا صحیح معنوں میں اس کاقائمقام اورجانشین ہے یا نہیں۔ لیکن جب وہ اسے مان لیتا ہے تو پھر وہ دوسری آواز نہیں نکالتا۔ اس کی اپنی آوازیں بند ہوجاتی ہیں اور اس کیلئے صرف ایک ہی راستہ کھلا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ وہ اُس کی فرمانبرداری اور اطاعت کرتا چلا جائے خواہ اسے آگ میںکودنا پڑے یا سمندر میں چھلانگ لگانی پڑے۔ اسلام تو اسلام جب یہ بات کافروں میں پیدا ہوجاتی ہے تو ہ بھی دنیا کو فتح کرلیتے ہیں۔
نپولین ایک معمولی ماں باپ کا بیٹاتھا لیکن وہ ایسے وقت میں فرانس میں پیدا ہؤا جب فرانس کی حالت بہت گررہی تھی۔ فرانس اس سے پہلے بہت بڑی طاقت رکھتا تھااور سارے یورپ پر اس کا رُعب اور دبدبہ تھا لیکن نپولین کے زمانہ میںفرانس اپنے عروج کی حالت سے گِررہاتھا۔ نپولین نے اسے سنبھالنا چاہا اور اس نے لوگوں سے یہ کہنا شروع کردیا کہ جب تک تم میں تفرقہ اور شقاق ہے تم کامیاب نہیں ہوسکتے۔ تم اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ اپنے اندر پیدا کرو جیت جائو گے چنانچہ ایساہی ہؤا ۔ ملک کی حالت دیکھ کر دردمند لوگ اس کے اردگرد جمع ہونے شروع ہوگئے اور انہوں نے اطاعت اور فرمانبرداری کا بہترین نمونہ دکھایا ایسا نمونہ کہ خود اس نے نپولین کی زندگی میں بھی تغیر پیدا کردیا۔ نپولین ایک دفعہ ایک بڑی جنگ کے بعد فرانس کے پاس اٹلی کے نیچے ایک جزیرہ میں قید کردیا گیا۔ کچھ لوگوں کی مدد سے آخروہ آزا د ہؤا اور فرانس کے ساحل پر اُترا۔ اُس وقت نئی حکومت قائم ہوچکی تھی اور نیا نظام تھا۔ بادشاہ نے پادریوں کو بلایا اور ان کے ذریعہ جرنیلوں سے بائبل پرہاتھ رکھ رکھ کرقسمیں لیں اور جرنیلوں کے ذریعہ تمام سپاہیوں سے قسمیں لیں کہ وہ پوری طرح حکام کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں گے۔ بادشاہ نے یہ قسمیں اس لئے لیں کہ وہ جانتا تھا کہ نپولین نے لوگوں کے دلوں میں ایسی روح پیدا کردی ہے کہ جب بھی نپولین ان کے سامنے آئے گاوہ نئی حکومت سے اپنے سارے تعلقات بھول جائیں گے اور اسی کے گرد جمع ہوجائیں گے۔ اس طرح قسمیں لینے کے بعد جنرل نَے (NAY) کو رئیسِ لشکر بنایا گیا او روہ بیس ہزار سپاہی لے کرنپولین کے مقابلہ کوروانہ ہؤا ۔ نپولین کے ساتھ صرف چندسَو آدمی تھی اور وہ بھی اکثر زمیندار تھے جو لڑائی کے فن سے چنداں واقف نہ تھے اور ان کے پاس ہتھیاروں کی اتنی کمی تھی کہ بعض کے پاس صرف درانتیاں تھیں ۔ اتفاقاً نپولین کے دستہ اور شاہی فوج کی مُڈبھیڑ ایک ایسے مقام پرہوئی جہاں درّہ بہت چھوٹا تھا اور صرف چند آدمی کندھے سے کندھاملا کر گزرسکتے تھے۔ نپولین نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ آگے بڑھو وہ آگے بڑھے تو شاہی فوج نے ان پرگولیاں چلائیں اور وہ مارے گئے۔ پھر اُس نے بعض آدمی بھیجے تو وہ بھی مارے گئے۔ آخر سپاہیوں نے اُسے کہا کہ آگے بڑھنے کی کوئی صورت نہیں۔ دشمن سامنے کھڑا ہے اور وہ کہتا ہے کہ ہم بائبل پر ہاتھ رکھ کر اور قسمیں کھا کر آئے ہیں کہ نپولین کے سپاہیوں کومارڈالیں گے اور چونکہ دوچار سپاہیوں کے سِوا ہم میں سے زیادہ بڑھ نہیں سکتے کیونکہ درّہ چھوٹا ہے اس لئے وہ گولیوں سے ہلاک کردیتے ہیں او رہم مقابلہ بھی نہیں کرسکتے۔ میں اس بات کی مثال دے رہا تھا کہ نپولین نے ان لوگوں میں سے کس طرح اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ پیدا کردیا تھا۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب سپاہیوں نے کہا کہ شاہی فوج کے آدمی ہم پر گولی چلاکر ہمیں ہلاک کردیتے ہیں تو نپولین نے کہا۔ تم نے کہا نہیں ہوگا کہ نپولین کہتا ہے رستہ چھوڑ دو۔ انہوںنے کہا کہ ہم نے کہا تھامگر انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس کا حکم نہیں مان سکتے کیونکہ ہم بائبل پر قسمیں کھا کر آئے ہیں۔ نپولین کہنے لگا میں اس امرکو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ تم نے میرا نام لے کر کہا ہو کہ راستہ چھوڑ دو اور انہوں نے نہ چھوڑا ہو۔ اب جائو اور کہو کہ نپولین کہتا ہے رستہ چھوڑ دو۔ وہ پھر گئے اورانہوں نے یہی کہامگر انہوں نے جواب دیا ہم اب یہ باتیں سننے کیلئے تیار نہیں۔ ہم بائبل پر ہاتھ رکھ کر اور قسمیں کھا کر آئے ہیں کہ تمہارا مقابلہ کریں گے۔ آخر نپولین خود چلا گیا اور کہنے لگا میں دیکھوں گا کہ وہ کس طرح میری بات نہیں مانتے۔ نپولین ان کے سامنے ہؤا اور کہنے لگا دیکھو! نپولین تم سے کہتا ہے کہ راستہ چھوڑ دو۔ شاہی فوج کا افسر کہنے لگا جناب وہ دن گزرگئے اب اور بادشاہ ہے اورنئی حکومت ہم آپ کی بات کس طرح مان سکتے ہیں۔ مگر نپولین جانتاتھا کہ اس نے لوگوں کو اپنی اطاعت کا جوسبق پڑھایا ہؤا ہے وہ اتنی جلدی بھولنے والانہیں۔ وہ آگے بڑھا اور کہنے لگا بہرحال میری فوجوں نے آگے بڑھناہے اگر تم وہ اطاعت کا سبق جو تمہیں پڑھایا گیا تھا بھول چکے ہو تو لو یہ میرا سینہ کھلا ہے جس سپاہی کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے سینہ میں گولی ماردے وہ گولی مار کر اپنا دل خوش کرسکتا ہے۔ نپولین نے جونہی یہ الفاظ کہے وہ پُراناجذبۂ وفاداری ان میں عَود کر آیا اور معاً سپاہیوں نے اپنی بندوقیں ہوا میں اُچھال دیں اور ’’نپولین زندہ باد‘‘ کے نعرے لگانے شروع کردیئے اور دوڑ کر اس کے ساتھ آملے اور کئی ان میں بچوں کی طرح روتے تھے جب یہ خبر جنرل نَے کو ملی تو وہ فوج کا بڑاحصہ جو ابھی پیچھے تھا اس کو لے کر آگے بڑھا لیکن جس وقت نپولین کی آواز اس کی فوج کے کانوں میں پڑی کہ فرانس کے سپاہیو! تمہارا بادشاہ نپولین تم کو بلاتا ہے تو وہ فوج بھی اورجنرل نَے بھی اپنے اقراروں کو بھول گئے اور صرف وہ اطاعت کا جذبہ ان کے اندر رہ گیا جسے نپولین نے ان کے دلوں میں پیدا کیا تھا اور وہ دَوڑ کر اس کے گِرد آجمع ہوئے۔ فرانس میں اس وقت اتنا تفرقہ اور فساد تھا کہ انسان صبح کو نہیں کہہ سکتا تھاکہ وہ شام تک زندہ بھی رہے گا یا نہیں۔ ہزاروں لاکھوں انسان اس تفرقہ اور فساد کے زمانہ میں مارے گئے مگر اس تفرقہ کو نپولین نے فرمانبرداری کی روح پید اکرکے دور کردیا اور ملک کی حالت کو یکدم بدل دیا۔
اب دیکھ لو مسولینی کی وجہ سے اٹلی کو کس قدر عروج حاصل ہے۔ اٹلی کی حالت اتنی ذلیل تھی کہ جنگِ عظیم میں ہر قِسم کی قربانیاں لینے کے بعد فرانسیسیوں اور انگریزوں نے گوشت گوشت تو خود رکھ لیا اور ہڈیاںاٹلی کو دے دیں۔ تمام اعلیٰ ملک اور زرخیز علاقے اپنے قبضہ میں کرلئے اور اٹلی والوں کو محض پرچادیا۔ اس کے بعدمسولینی اُٹھا اور اُس نے فرمانبرداری کی روح اٹلی والوں میں پیداکرنی شروع کردی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اٹلی والوں کے پاس کوئی مذہب نہیں ان کے ساتھ خداتعالیٰ کی وہ تائید نہیں جو سچے مذہب والوں کے ساتھ ہؤا کرتی ہے محض فرمانبرداری کی روح کے نتیجہ میں وہی اٹلی جسے جنگِ عظیم کے بعد فرانسیسیوں اور انگریزوں نے دھتکار کر پرے کردیاتھا آج چیلنج دے رہا ہے، متواتر اور بار بار چیلنج دے رہا ہے کہ اگر کسی طاقت میں دم خم ہے تو اس کا مقابلہ کرلے۔ مگر وہی طاقتیں جو پہلے اسے ذرا ذرا سی بات پر گھورا کرتی تھیں اس طرح چُپ کرکے بیٹھ گئی ہیں گویا وہ دنیا میں ہیں ہی نہیں ۔ آج سے بارہ سال پہلے کے اٹلی میں فرمانبرداری کی روح نہیں تھی اس لئے وہ ذلیل تھا مگر آج بارہ سال کے بعد اٹلی میں فرمانبرداری کی روح پید ا ہوگئی اس لئے وہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگ گیا۔
بیعت کا مفہوم توہے ہی یہ کہ انسان اطاعت میں اپنے آپ کو فنا کردے اوریہ مفہوم اتنا بلند ہے کہ دنیوی امور میں فرمانبرداری اس کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتی۔ آج دنیامیں کون سا بادشاہ ہے جو لوگوں سے بیعت لیتا ہو۔ بیعت تو سوائے اسلام کے اور کہیں نہیں۔ پس بیعت کا مقابلہ دنیا کی فرمانبرداری نہیں کرسکتی۔ بیعت کے معنی بیچ ڈالنے کے ہیں اور جب کسی نے اپنے آپ کوبیچ ڈالا تو پھر کون سی چیز ہے جو اس کی رہ سکتی ہے۔ پس یہ گُر کہ اَطِیْعُوااللّٰہَ وَ اَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ؎۳ ایساہے کہ جب تک کوئی قوم اس پر عمل نہیں کرتی خواہ وہ سچے مذہب کی پابند ہو یا اس سے ناواقف کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ یہی روح ہے جس کو میں تحریک جدید کے ماتحت پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک طبقہ جماعت کا ایسا ہے کہ نہ وہ بیعت کامفہوم سمجھتاہے ، نہ وہ تحریک جدید کا مفہوم سمجھتا ہے اور نہ اطاعت کا مفہوم سمجھتا ہے۔ بے شک ہر جماعت میں کچھ کمزور لوگ ہوتے ہیں مگر کمزور ہونا کوئی عزت کا موجب نہیں کہ ہم کہیں چونکہ تمام جماعتوں میں کمزورلوگ ہؤا کرتے ہیں اس لئے ہمارے اندر بھی کمزور لوگوں کا ہونا قابلِ اعتراض نہیں۔ کمزوری ایک بُری چیز ہے اور اس کا مٹانا ہمارا فرض ہے اگر ہم اپنی کمزوری کو نہیں مٹاسکتے تو یقینا ہم اپنی تباہی کے سامان آپ پید اکرتے ہیں۔ اطاعت اور فرمانبرداری وہ چیزیں ہیں جن کے بغیر دنیا کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔
رسول کریم ﷺ نے دنیا کا مقابلہ آخرکون سے سامان تھے جن سے کیا۔ مال آپ کے پاس نہیں تھا، سپاہیوں کی تعداد آپ کے پاس کم تھی، سوار آپ کے پاس تھوڑے تھے، سامانِ جنگ آپ کے پاس قلیل تھا، آپ نے جس چیز کے ساتھ دنیا پر غلبہ حاصل کیا وہ یہ تھی کہ آپ نے صحابہؓ میں یہ روح پیدا کردی کہ خواہ وہ آگ میں پھینکے جائیں یا سمندر میں ان کافرض ہے کہ وہ اطاعت کریں۔ مکہ والوں کے پاس اعلیٰ سے اعلیٰ فوجیں موجود تھیں، زیادہ سے زیادہ روپیہ جمع تھا کیونکہ وہ تاجر لوگ تھے، ان کے پاس کھانے پینے کی چیزوں کی بُہتات تھی، کپڑوں کی بُہتات تھی، تیروں کی بُہتات تھی، تلواروں کی بُہتات تھی، نیزوں کی بُہتات تھی، اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی بُہتات تھی مگر ایک چیز نہیں تھی یعنی اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ نہیں تھا جس کی وجہ سے نہ ان کی فوجیں ان کے کام آئیں، نہ ان کاروپیہ ان کے کام آیا، نہ تیروں اور تلواروں نے انہیں فائدہ پہنچایا اور نہ گھوڑے اور اونٹ انہیں غالب کرسکے۔ اس کے مقابلہ میں رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ میں یہ چیز موجود تھی اور اِسی چیز نے انہیں کامیاب کیا۔
بدر کی جنگ کے موقع پر دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو کفار نے آپس میں مشورہ کے بعدایک سردار کو مقرر کیا جو دیکھے کہ مسلمانوں کے کتنے آدمی ہیں تا انہیں تسلی ہو اور وہ فتح و شکست کے متعلق اندازہ لگاسکیں۔ انہوں نے مسلمانوںکا جائزہ لینے کیلئے جو سردار مقرر کیا وہ نہایت زیرک اور ہوشیار تھا۔ مسلمانوں کودیکھ کرجب وہ واپس گیا توکہنے لگا آدمی تو وہ تین سَو سوا تین سَو ہیں (اور یہ اس کا کہنا بالکل ٹھیک تھا کیونکہ صحابہؓ ۳۱۳ تھے) مگرمیری نصیحت تمہیں یہی ہے کہ ان کا مقابلہ نہ کرو۔ انہوں نے کہا یہ کیوں؟ وہ اتنے تھوڑے ہیں اور تم ہمیں ان کامقابلہ کرنے سے ڈراتے ہو!! وہ کہنے لگا اے میرے بھائیو! بے شک وہ تھوڑے ہیں مگر میں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر آدمی سوار نہیں دیکھے بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں ؎۴ ۔ یعنی تم یہ خیال نہ کرو کہ تمہارے پاس نیزے ہیں اور ان کے پاس نیزے نہیں، تمہارے پاس تیر ہیں اور ان کے پاس تیر نہیں، تمہارے پاس تلواریں ہیں اور ان کے پاس تلواریںنہیں، تمہارے پاس تیرکمانیں ہیں اور ان کے پاس تیرکمانیں نہیں، تمہارے پاس گھوڑے ہیں اور ان کے پاس گھوڑے نہیں، تم ہزاروں ہو اور وہ تین سَو سواتین سَو ہیں بلکہ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ ایک اشارہ پر مرجانے والے اور ایک آواز پر اپنی جانیں فدا کردینے والے آدمی ہیں۔ ایسے آدمیوں کامقابلہ آسان نہیں کیونکہ میںنے آدمی نہیں دیکھے بلکہ موتیں دیکھی ہیں جو اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار تھیں۔ چنانچہ واقعات نے ثابت کردیا کہ وہ موتیں ہی تھیں۔ وہ سوائے موت کے اور کسی چیز کونہیں جانتے تھے۔ یا وہ خود مارے جاتے تھے یا دوسروں کو ماردیتے تھے۔
میںنے کئی دفعہ واقعہ سنایا ہے کہ اسی جنگ میں دو انصاری لڑکے بھی شامل تھے جو نہایت چھوٹی عمر کے تھے جن میں سے ایک لڑکے کے متعلق رسول کریم ﷺ نے بھی فیصلہ فرمادیا تھاکہ وہ اتنی چھوٹی عمر کا ہے کہ اُسے لڑائی میںشامل نہیں کیا جاسکتا مگر وہ اتنا رویا اتنا رویا کہ رسول کریم ﷺ کو رحم آگیا اور آپ نے اُسے شامل ہونے کی اجازت دے دی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ جو عشرہ مبشّرہ میں سے تھے جنگ میں ان کے دائیں بائیں یہ دونوں لڑکے کھڑے تھے۔ وہ کہتے ہیں میں اپنے دل میں افسوس کررہا تھا کہ آج چھوٹے چھوٹے لڑکے میرے دائیں بائیں ہیں میں کس طرح لڑسکوں گا کہ اتنے میں دائیں طرف سے مجھے کُہنی پڑی۔ میں نے مُڑ کر دیکھا تومجھے معلوم ہؤا کہ اُس لڑکے نے جومیرے دائیں طرف کھڑا تھا مجھے کُہنی ماری ہے۔ مجھے اپنی طرف متوجہ پاکر کہنے لگا چچا! وہ ابوجہل کونسا ہے جو مکہ والوں کا سردار ہے میں نے سنا ہے کہ وہ رسول کریم ﷺ کو بڑا دُکھ دیا کرتا تھا میں نے آج اُس سے بدلہ لینا ہے ۔ وہ کہتے ہیں میں ابھی اُسے جواب بھی دینے نہ پایا تھا کہ دوسری طرف سے مجھے کُہنی پڑی میں نے مُڑکر دیکھا تو مجھے معلوم ہؤا کہ بائیں طرف کے لڑکے نے مجھے کُہنی ماری ہے۔ اُس نے بھی مجھے اپنی طرف متوجہ پاکر کہا چچا! وہ ابوجہل کونسا ہے جو مکہ والوں کاسردار ہے اور جو رسول کریم ﷺکو بہت دُکھ دیا کرتا تھا میں نے آج اُس کی جان لینی ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ باوجود ایک تجربہ کار جرنیل ہونے کے میںخیال بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ابوجہل کومارسکوں گا کیونکہ وہ قلبِ لشکر میں کھڑا تھا اور پہرہ داروں کے جھرمٹ میں تھا اور بہادر سپاہی اس کی حفاظت کیلئے ننگی تلواریں لئے اس کے پہرہ پر کھڑے تھے۔لیکن جب دونوں لڑکوںنے مجھ سے پوچھا تو میں نے انگلی اُٹھائی اور کہا دیکھو! وہ جو قلبِ لشکر میں گھوڑے پر سوار ہے او رجس کے آگے پیچھے سپاہی ننگی تلواریں لئے کھڑے ہیں وہ ابوجہل ہے۔ وہ کہتے ہیں ابھی میرا ہاتھ نیچے نہیں آیا تھا کہ جس طرح باز چڑیا پرحملہ کرتا ہے وہ دونوں کُود کر لشکرِکفارمیں گھس گئے اور اِس تیزی سے گئے کہ پہرہ داروں کے حواس باختہ ہوگئے مگر پھر بھی ایک پہرہ دار نے اُن میں سے ایک کا ہاتھ کاٹ دیا مگر اُس نے اِس کی پرواہ نہ کی او رابوجہل تک پہنچ ہی گیا اور دونوں لڑکوں نے مل کر ابوجہل کو گرادیا ؎۵ اور اُسے بُری طرح زخمی کرکے گرادیا جو بعدمیں عبداللہ بن مسعودؓ کے ہاتھ سے مارا گیا۔
یہ وہ لوگ تھے جن کو ایک ہی دُھن تھی کہ محمد ﷺ کے احکام کی اطاعت میں دنیامیں ایک نیا تغیر پیدا کردیں۔ انہوں نے اطاعت کی اور اس کا پھل پالیا آج ہم جو کچھ کریں گے اس کا پھل آئندہ زمانہ میں پالیں گے مگر یہ چیز ہے جس کی طرف جماعت کو لانا ہمارا فرض ہے اسی لئے آجکل میںبالکل پرواہ نہیں کررہا اور جماعت کا قدم آگے سے آگے بڑھا رہا ہوں اور اسی وجہ سے جو قادیان کے منافق ہیں وہ بھی پہلے سے زیادہ اعتراض کرنے لگ گئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ لوگوں پر بوجھ چونکہ زیادہ پڑ رہا ہے اس لئے وہ جلدی ان کے دھوکا اور فریب میں آجائیں گے مگر وہ نہیں جانتے کہ میں آدمیوں کو نہیں دیکھ رہابلکہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں۔ میں ایسا بیوقوف نہیں کہ سمجھوں کہ اِس وقت جو لوگ میرے سامنے بیٹھے ہیں ان کے ذریعہ میں دنیا کوفتح کرسکتاہوں یا جماعت میں اِس وقت جتنے آدمی شامل ہیں ان کے ذریعہ ساری دنیا فتح کی جاسکتی ہے۔ پچاس ہزار یا لاکھ دولاکھ آدمی ساری دنیا کے مقابلہ میں کیا کرسکتے ہیں ۔ پھر مال کے لحاظ سے انہیں دیکھو تو ان کے پاس مال کہاں ہے، طاقت کے لحاظ سے انہیں دیکھو تو ان کے پاس طاقت کہاں ہے۔ پس میں دنیا کی فتح کاآدمیوں کے ذریعہ اندازہ نہیں کرتا آدمی میرا ساتھ نہیں دے سکتے بلکہ ایمان اور اخلاص میرا ساتھ دے سکتا ہے اور جب کسی انسان کے ساتھ ایمان اور اخلاص شامل ہوجائے تو ساری دنیا کے خزانے مل کر بھی اس کے مقابلے میں ہیچ ہوجاتے ہیں۔ آج میں خصوصیت کے ساتھ اسی مسئلہ کو بیان کرنے کیلئے آیا ہوں کہ جماعت کو توجہ دلائوں کہ اُس مقام کو حاصل کئے بغیر جس میں انسان فنا فی اللہ ہوجاتا ہے کسی قِسم کی کامیابی اور ترقی حاصل نہیں ہوسکتی۔
آج سے قریباً پونے دو سال پہلے جب میں نے تحریک جدید کا اعلان کیا تھا جماعت میں ایک شور تھا، ایک غوغا تھا،ایک ہنگامہ تھا اور لوگ کہہ رے تھے کہ ہم کوحکم دیجئے ہم اپنا سب کچھ احمدیت کیلئے قربان کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن آج جائو او رتحریک جدید کے مالی وعدوں کو دیکھ لو رجسٹر موجود ہیں ان سے معلوم کرلو، پُرانے خطوط محفوظ ہیں انہیں نکال کر پڑھ لو۔ کئی قربانیوں کا شور مچانے والے ایسے نکلیں گے جنہیں کہا گیا تھاکہ اگر تم کوئی رقم ادا نہیں کرسکتے تو اس رقم کی ادائیگی کا وعدہ مت کرو کیونکہ یہ کوئی جبری چندہ نہیں مگر انہوں نے وعدہ کیا پھر اسے پورا نہیں کیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے فرماتے تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاں یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں، مجھے صحیح یاد نہیں چوری ہوگئی اور ان کا کچھ زیور چُرایا گیا۔ ان کا ایک نوکر تھا وہ شور مچاتاپھرے کہ ایسے کم بخت بھی دنیا میں موجود ہیں جو خداتعالیٰ کے خلیفہ کے ہاں چوری کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتے۔ وہ چوری کرنے والے پر بے انتہاء لعنتیں ڈالے اور کہے خدا اس کا پردہ فاش کرے اور اسے ذلیل کرے۔ آخر تحقیقات کرتے کرتے پتہ لگا کہ ایک یہودی کے ہاں وہ زیور گِرو رکھا ہؤا ہے۔ جب اُس یہودی سے پوچھا گیا کہ یہ زیور کہاں سے تمہیں ملا؟ تو اس نے اسی نوکر کا نام بتلایا جو شور مچاتا اور چور پر لعنتیں ڈالتا پھرتا تھا۔ تو منہ سے لعنتیں ڈال دینا یا زبان سے فرمانبرداری کا دعویٰ کرنا کوئی چیز نہیں عمل اصل چیز ہوتی ہے۔ ورنہ منہ سے اطاعت کا دعویٰ کرنے والا سب سے زیادہ منافق بھی ہوسکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ لوگ جنہوں نے تحریک جدید میں وعدہ کیا اور پھر اُسے پورا نہیں کیا منافق ہیں مگر کئی تھے جنہوں نے پہلے سال وعدہ کیا اور پھر وعدہ پورا بھی کیا مگر دوسرے سال کی تحریک میں آکر رہ گئے۔ ایسے لوگ یک سالہ مؤمن تھے اُن کی دوڑ پہلے سال میں ہی ختم ہوگئی دوسرے سال کی دوڑ میں وہ شریک نہ ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پہلے سال شور مچاتے تھے کہ جو قربانی لینی ہے ابھی لے لو۔ ایسے تمام لوگوں کومعلوم ہونا چاہئے کہ میں نے اسی لئے تحریک جدید کے متعلق تین سال کی شرط لگادی تھی تا وہ جو پہلے یادوسرے قدم پر تھک کر رہ جانے والے ہیں وہ پیچھے ہٹ جائیں او رخالص مؤمن باقی رہ جائیں۔ ایمان اور اخلاص کے سانس بھی مختلف ہوتے ہیں۔جیسے کہتے ہیں فلاں اونٹنی دس میل دَوڑ سکتی ہے، فلاں اونٹنی بیس میل اور فلاں سَو میل۔ ایمان کی بھی دَوڑیں ہوتی ہیں اور ایمان کی دوڑ میں وہی جیتتے ہیں جن کیلئے کوئی حد بندی نہ ہو۔ ہمیں نہ یک سالہ مؤمن کام دے سکتے ہیں نہ دوسالہ مؤمن بلکہ وہی کام دے سکتے ہیں جو بغیر کسی شرط کے ہمیشہ قربانیوں کیلئے تیار رہنے والے ہوں۔ اب اِنْشَائَ اللّٰہُ تیسرے سال کی تحریک آنے والی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کئی ہیں جو اس میں بھی رہ جائیں گے۔ وہ دو سالہ مؤمن ہوں گے جو تیسری تحریک کے وقت گر جائیں گے۔ غرض کچھ لوگ اس سال گرگئے اور کچھ لوگ اگلے سال گرجائیں گے اور پھر کچھ سہ سالہ مؤمن ہوں گے جو تین سال قربانیوں پر صبر کرسکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں۔ یہ سب لوگ جھڑتے چلے جائیں گے اور گرتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ صرف وہ مؤمن رہ جائیں گے جو حیاتی مؤمن ہوں گے یعنی ساری زندگی ہی وہ خداتعالیٰ کیلئے قربانیاں کرنے میں گزار دیں گے اور یہی وہ لوگ ہوں گے جن کے ہاتھ پر خداتعالیٰ اپنے دین کو فتح دے گا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تم کو نہیں چھوڑیں گے جب تک خبیث اور طیّب میں فرق کرکے نہ دِکھلادیں۔ اِس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ خبیث اور طیّب میں ضرور فرق کرکے دکھائے گا جو لوگ گھبرارہے ہیں اور خیال کررہے ہیںکہ اس ذریعہ سے میں جماعت کو چھوٹا کررہا ہوں وہ نادان ہیں وہ جانتے ہی نہیں کہ جماعت ترقی کس طرح کرتی ہے، وہ سمجھتے ہی نہیں کہ جماعت کی مضبوطی اور کمزوری کا کیا معیار ہؤا کرتا ہے۔ کیا ایک لمبی زنجیر جس کی بعض کڑیاں کمزور ہوں وہ مضبوط ہوتی ہے یا وہ چھوٹی زنجیر جس کی ساری کڑیاں مضبوط اور پائیدار ہوں۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ وہی زنجیر کام آسکتی ہے جس کی ساری کڑیاں مضبوط ہوں۔ انگریزی میں ایک ضرب المثل ہے جس کامفہوم یہ ہے کہ زنجیر کی طاقت سب سے کمزور کڑی میں ہوتی ہے۔ یعنی سب سے کمزور کڑی جتنی طاقت کی ہوتی ہے اتنی ہی زنجیر کی طاقت ہوتی ہے۔ اسی طرح افراد کے ایمان کی مضبوطی ہی ایسی چیز ہے جو ہمیں اپنے مقاصد میں کامیاب کرسکتی ہے خواہ جماعت کے افراد تھوڑے ہوں یا بہت۔ اسی لئے میں نے تحریک جدید کو لمبا پھیلایا ہے تا میں دیکھوں کہ کہ کتنے مخلص ہیں جو اِس دوڑمیں میرے ساتھ چلتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے پچھلے سال موجودہ سال کی نسبت زیادہ لوگوں کے وعدے پورے ہوئے تھے۔ چنانچہ ابھی میں نے نقشہ منگواکر دیکھا ہے جس سے معلوم ہؤا ہے کہ پچھلے سال آج کے دن تک ۷۴ ہزار روپیہ وصول ہوچکاتھا۔ مگر اس سال آج کے دن تک تریسٹھ ہزار روپیہ وصول ہؤا ہے حالانکہ اس سال گزشتہ سال کی نسبت وعدے زیادہ تھے۔ اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یکسالہ مؤمن تھکنے لگ گئے ہیں اور اگلے سال کی تحریک میں جو دو سالہ مؤمن ہوں گے وہ تھک کر الگ ہوجائیں گے اور پھر پہلی تحریک جدید کے بعد جب دوسرا قدم اٹھایا جائے گا تو وہ جو سہ سالہ مؤمن ہوں گے وہ گرنے لگ جائیں گے یہاں تک کہ خداتعالیٰ کے دین کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں آجائے گا جو خداتعالیٰ کے ساتھ شرطیں باندھنے کے عادی نہیں ہوتے تب اُس وقت فرشتے نازل ہوں گے اور آدمی نہیں بلکہ فرشتے لڑائی کرکے دنیا کو دین کیلئے فتح کریں گے۔ ہاں جیسا کہ قرآن مجید میں منافقوں کا حال لکھا ہے جب دنیا فتح ہوجائے گی اور اسلام کی حکومت عالَم پر قائم ہوجائیگی اُس وقت یکسالہ مؤمن اور دو سالہ مؤمن اور سہ سالہ مؤمن سب جمع ہوکر آجائیں گے اور کہیں گے ہم بھی مؤمن ہیں ہمیں بھی فتوحات میں شامل کیا جائے مگر خواہ وہ دنیا کی چیزیں لے لیں خداتعالیٰ کی بادشاہت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوسکتا۔ دنیا کی بادشاہت محمد ﷺ اور آپ کے نائبین سے چھین کر یزید نے لے لی مگر کیا خداتعالیٰ کے حضور بھی یزید کو کوئی بادشاہت ملی؟ یزید کانام اس دنیا میں بھی جہنم کے دروازہ پر لکھا ہؤا ہے کجا یہ کہ آخرت میں اسے کوئی انعام حاصل ہو۔ پس دنیا کا حصہ گو ایسے لوگوں کو مل جائے مگر آخرت میں انہیں کوئی حصہ نہیں مل سکتا کیونکہ آخرت میں انہی کا حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرطیں نہیں کرتے۔
پس میں جماعت کو آج یہ توجہ دلانے کیلئے آیا ہوں کہ تحریک جدید کے ذریعہ ان کا امتحان ہورہا ہے فیل ہونے والے فیل ہورہے ہیں اور کامیاب ہونے والے کامیاب ہورہے ہیں۔ وہ جو امید کرتے ہیں کہ اب ان کیلئے کوئی آرام کا سانس ہے وہ غلطی پرہیں اگر بندوں کے ہاتھ سے ان کا امتحان نہیں ہوگا تو خداتعالیٰ خود ان کا امتحان لے گا لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ چاہتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مخلصوں او رکمزوروں اور منافقوں کو جُدا جُدا کردیاجائے۔ میںنے تحریک جدید میں جوامور پیش کئے تھے اگر جماعت ان پر عمل کرتی تو ہر سال پہلے سے زیادہ چندہ آتا اورزیادہ چندہ دینے کی طاقت ان میں پیداہوتی ۔
میں نے کہا تھا کہ اپنے اخراجات کو کم کرو اور اخراجات میں کمی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کرکے جو رقم تمہارے پاس بچے وہ اسلام کی ترقی کیلئے دو اور اخراجات میں کمی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کرو۔ جسے دو ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ ملتی ہے وہ اپنے اخراجات کے لحاط سے کمی کرے اور جسے دس روپے ملتے ہیں وہ اپنے اخراجات کے لحاظ سے کمی کرے اور اس طرح جو روپیہ بچے وہ چندہ میں دے دیا جائے مگر معلوم ہوتا ہے چندہ دینے کا یہ گُر جو میں نے بتایا تھا جماعت نے اس پر عمل نہیں کیا۔ میںنے شروع میں بتایاتھا کہ تم منہ سے کہتے ہو ہم اپنا سب کچھ اسلام کیلئے قربان کرنے کیلئے تیار ہیں حالانکہ تمہارے پاس کچھ نہیں ہوتااس صورت میں تمہارا دعویٰ کیونکر صحیح ہوسکتا ہے تمہارا فرض یہ ہے کہ پہلے مُٹھی میں کچھ لواور پھر دینے کا نام لو اور مُٹھی میں لینے کے معنی یہ ہیں کہ تم اپنی زندگیوں میں تغیر پیدا کرو کھانے میں، پینے میں، پہننے میں اور مکانات کی آرائش و زیبائش غرض ہر چیزمیں فرق کرو اور اپنی حیثیت کے مطابق کرو ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایک غریب شخص بھی اتنا ہی چندہ دے جتنا ایک امیر دیتا ہے بلکہ اگر وہ پانچ روپے دے سکتا ہے تو پانچ ہی دے مگر پانچ روپیہ دینا بھی ایک غریب شخص کیلئے تبھی ممکن ہے جب وہ اپنے اخراجات میں کمی کرے گا جیسا کہ ایک امیر کیلئے پانچ سو روپیہ چندہ دینا بھی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ قربانی کرکے اخراجات کو کم نہیں کرتا۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ میں امراء سے کہوں کہ جو کچھ ان کے پاس ہے وہ لائیں اور اسلام کیلئے قربان کردیں۔ ابھی نسبت کے طور پر ان سے قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے جو سَو روپیہ لیتا ہے وہ دس روپے دے اور جو ہزار روپیہ کماتا ہے وہ ایک سَو روپے دے لیکن جب وہ وقت آیا کہ کہا جائے جو کچھ پاس ہے سب اسلام کیلئے حاضر کردو اُس وقت شاید اور زیادہ لوگوں کا امتحان ہوجائے مگر اُس امتحان کے آنے تک ضروری ہے کہ جنہوں نے اپنے آپ کو تحریک جدید کے ادنیٰ امتحان میں شامل کیا ہؤا ہے وہ اس میں کامیاب ہونے کی کوشش کریں۔ مجھے تحریک جدید کے مالی شعبہ اور امانت فنڈ دونوں کی رپورٹوں سے معلوم ہؤا ہے کہ ان دونوں شعبوں کے چندوں میں کمی آرہی ہے او رایک سالہ اور دو سالہ مؤمن کمزوری دکھارہے ہیں مگر مجھے اس کی کوئی گھبراہٹ نہیں۔میں چاہتاہوں کہ ایسے لوگ گرجائیں اور ہمارا ساتھ چھوڑ دیں اور صرف ایسی ہی مخلص جماعت ساتھ رہ جائے جو پورے طور پراطاعت کرنے اور اپنی ہر چیز قربان کرنے کیلئے تیار ہو۔
میں قادیان کے لوگوں کو خصوصاً توجہ دلاتا ہوں کہ میر اہرگز یہ ارادہ نہیں کہ اگر چندہ میں کمی ہو تو ان کاموں کو جن کو شروع کیاجاچکاہے بند کردیا جائے۔ میں پہلے بھی اشارۃً بیان کرچکا ہوں کہ روپیہ کی کمی کی وجہ سے کام ہرگز بند نہیں کئے جاسکتے ۔ اگر روپیہ کی آمد میں کمی ہوئی تو کارکنوں کی تنخواہیں دس فیصدی کم کردی جائیں گے اور اگر دس فیصدی کمی کرکے بھی گزارہ نہ ہؤا تو ان کی تنخواہوں میں بیس فیصدی کمی کردی جائے گی اور اگر بیس فیصدی کمی بھی ضروریات کو پور انہ کرسکی تو تیس فیصدی کمی کردی جائے گی اور اگر تیس فیصدی کمی کافی ثابت نہ ہوئی تو چالیس بلکہ پچاس فیصدی کمی کردی جائے گی۔ صدرانجمن احمدیہ کے جو کارکن پہلے سے کام کررہے ہیں یا وہ کارکن جنہوں نے اِس تحریک جدید پر کام شروع کیا ہے میں آج سے ان سب کو ہوشیار کردیتاہوں کہ اگرانہیں اپنی تنخواہوں میں یہ کمی منظور نہ ہو تو وہ بے شک اپنی نوکریوں کا باہر انتظام کرلیں۔ مجھے یقین ہے کہ پانچ یا دس دفعہ بھی اگر مجھے آدمی بدلنے پڑے تو خداتعالیٰ اپنے فضل سے نئے آدمی بھیجتا چلا جائے گا اور وہ کام پورا ہوکر رہے گا جس کے کرنے کا ذمہ ہم نے اُٹھایا ہؤا ہے اور جس کو تکمیل تک پہنچنانے کافرض ہم پر عائد کیا گیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا نام انبیاء علیہم السلام نے شیطان کی آخری لڑائی کا زمانہ رکھا ہے اس لڑائی کی آگ میں جب تک ہم اپنی ہر چیز جھونکتے نہ جائیں گے اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے۔شاہجہاں کی نسبت آتاہے کہ اُس کی بیوی نے مرنے سے پہلے خواب میں دیکھا کہ میں مر گئی ہوں اورمیری قبر پر بادشاہ نے ایسا ایسا مقبرہ بنایا ہے یہ وہی مقبرہ ہے جسے آجکل تاج محل کہتے ہیںاور آگرہ میں ہے۔ اس نے بادشاہ کے پاس ذکرکیا وہ چونکہ بیمار تھی اور بادشاہ کو اس کی دلجوئی مدنظر تھی اس لئے اُس نے بڑے بڑے انجینئر بلائے اور کہا کیا اس قسم کی عمارت بناسکتے ہو؟ سب نے کہایہ تو کسی جنت کی عمارت کا نقشہ ہے ہم اسے تیار نہیں کرسکتے آخر ایک انجینئر آیا اور اس نے کہا بادشاہ سلامت! ایسی عمارت بن سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ آپ میرے ساتھ کشتی میں سوار ہوکر جمنا کے دوسرے کنارے چلیں اور ہزار ہزار روپیہ کی دو سَو تھیلیاں اپنے پاس رکھوالیں۔ تجویز میں بتادوں گااور وہ جگہ بھی بتادوں گا جہاں اس قِسم کامقبرہ بن سکتا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا جس پر فوراً ہزار ہزار وپیہ کی دوسَو تھیلیاں خزانہ سے آگئیں۔ اس نے ان تھیلیوں کو کشتی میں رکھا او رانجینئر کے ساتھ سوار ہوکر جمنا کے دوسرے کنارے جانے کیلئے روانہ ہوگیا۔ کشتی تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ اس انجینئر نے ایک تھیلی اُٹھائی اور دریا میں پھینک دی اور کہا بادشاہ سلامت! اس طرح روپیہ خرچ ہوگا۔ بادشاہ نے کہا کوئی حرج نہیں۔ دو قدم کشتی آگے بڑھی تو پھر اس نے ایک تھیلی اُٹھائی او ردریامیں پھینک دی اور کہا کہ بادشاہ سلامت! اِس طرح روپیہ لگے گا بادشاہ نے کہا کوئی پرواہ نہیں۔ تھوڑی دور آگے چلے تو اُس نے تیسری تھیلی دریا میں پھینک دی اور پھر چوتھی اور پھر پانچویں۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ہزار ہزار روپیہ کی دو سَو تھیلیاں دریا میں پھینک دیں اور ہر دفعہ یہی کہتا رہا کہ بادشاہ سلامت! یوں روپیہ خرچ ہوگا۔ بادشاہ بھی یہی کہتا رہا کہ پرواہ نہیں تم عمارت تیار کرو۔ جب وہ انجینئر جمنا کے دوسرے کنارے پہنچا تو کہنے لگا بادشاہ سلامت! مقبرہ بن سکتاہے اور یہ جگہ ہے جہاں مقبرہ بنے گا ۔ بادشاہ نے کہا آخر وجہ کیا ہے کہ دوسروں نے کہا ایسا مقبرہ نہیں بن سکتا اور تم کہتے ہو کہ بن جائے گا۔ وہ کہنے لگا بات یہ ہے کہ انہوں نے حضور کے دل کا اندازہ نہیں لگایا تھا انہوں نے سمجھا کہ آپ اس قدر روپیہ کہاں خرچ کریں گے مگر میں نے آپ کے دل کا اندازہ لگالیا ہے اور میں سمجھ گیا ہوں کہ جب آپ دو لاکھ روپیہ کے ضائع ہونے پرچیں بہ جبیں نہیں ہوئے تو اس قسم کے مقبرہ پر بھی بے دریغ روپیہ خرچ کردیں گے۔ اگر آپ ان دو لاکھ کے ضائع ہونے پر چیں بہ جبیں ہوجاتے تو میں بھی کہہ دیتا کہ اس قسم کا مقبرہ نہیں بن سکتا۔ اگر تاج محل کے بنانے کیلئے اتنے وسیع حوصلے کی ضرورت ہوسکتی تھی تو خداتعالیٰ کیلئے ایک نئی زمین بسانے کیلئے کتنے وسیع حوصلہ اور کتنی بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں بھی اسی طرح اپنی جانیں اور اپنے اموال قربان کرنے پڑیں گے جس طرح اس انجینئر نے شاہجہاں کا روپیہ قربان کیا ۔
میں جانتا ہوں کہ ہر شخص کی عقل اتنی وسیع نہیں ہوتی کہ وہ قربانیوں کی حقیقت کو سمجھ سکے بعض تھڑدِلے ہوتے ہیں وہ نہ دین کے پھیلانے کی عظمت جانتے ہیں، نہ قربانی کی حقیقت سے واقف ہوتے ہیں، نہ خداتعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کی ان کے نزدیک کوئی قیمت ہوتی ہے ان کی ایک ایک پیسہ پر جان نکلتی ہے اور دین کیلئے خرچ کرنا انہیں موت دکھائی دیتا ہے۔ مگر وہ جو جانتے ہیں کہ کام کتنا بڑاہے، جو سمجھتے ہیں کہ قربانیاں اپنے اندر کیا عظمت و شان رکھتی ہیں ، جو خداتعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کے مقابلہ میں دُنیوی مال و متاع کو ایک حقیر اور ذلیل چیز قرار دے کر اسے قربان کرنا کوئی بڑی بات نہیں سمجھتے وہ قربانیوں پر بجائے غمگین ہونے کے خوش ہوتے او رقربانیوں کوسستا سَودا سمجھتے ہیں ایسے آدمی خداتعالیٰ کی فضل سے ہماری جماعت میں کم نہیں ہزارہا ہیں جو اسی قسم کا اخلاص اور اسی قسم کی محبت رکھتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں عبدالحکیم نے جب اعتراض کیا کہ جماعت احمدیہ میں سوائے حضرت مولوی نورالدین صاحب اور ایک دو اور آدمیوں کے کوئی صحابہ کا نمونہ نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے اس خیال کی نہایت سختی سے تردید کی اور فرمایا میری جماعت میں ہزاروں ہیں جو صحابہ کا نمونہ ہیں۔ پس میرے لئے گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں یہ خداتعالیٰ کاکام ہے اور وہ خود ایسے آدمی کھڑے کرے گا جو سلسلہ کی مالی اور جانی خدمات سرانجام دیں گے لیکن میں نہیں چاہتا کہ ایک بھی ہم میں سے تباہ ہو اس لئے میں بتادینا چاہتا ہوں کہ میرا رستہ لمبا اورتکلیفوں سے پر ہے جو لوگ کمزو رہیں انہیں چاہئے کہ وہ اپنی کمزوری دور کرکے اپنے آپ کو مضبوط بنائیں۔ اس راستہ میں مال کی قربانی بھی کرنی پڑے گی، جان کی قربانی بھی کرنی پڑے گی، عزت کی قربانی بھی کرنی پڑے گی، وطن کی قربانی بھی کرنی پڑے گی، آرام و آسائش کی قربانی بھی کرنی پڑے گی اور اسی طرح کی اوربہت سی قربانیاں ہیں جو انہیں کرنی پڑیں گی۔ تب خداتعالیٰ کا نور دنیا میں پھیلے گا ۔ پس جو کمزور ہیں وہ میری تحریک کی اہمیت کو سمجھ لیں اور اس کے مطابق عمل کریں ورنہ اس کے سِوا اور کوئی چارہ نہیں کہ یا تو ایک دن مرتد ہوکر انہیںجماعت سے الگ ہونا پڑے گا یا خود انہیں جماعت سے الگ کردیا جائے گا۔ قادیان کے کارکنوں کو بھی اچھی طرح معلوم ہوجانا چاہئے کہ اگر سرمایہ کافی نہ ہؤا تو گو پہلے ہی انہیں باہر کی نسبت قلیل تنخواہیں دی جاتی ہیں لیکن پھر بھی ان کی تنخواہوں میں کمی کی جائے گی اور جو کارکن ا س کیلئے تیار نہ ہوں انہیں پہلے سے اپنی نوکریوں کا باہر انتظام کرلینا چاہئے۔ پھر کارکنوں کے علاوہ جماعت کے جو عام افراد ہیںخواہ وہ قادیان میں رہتے ہوں یا باہر ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس امر کیلئے تیار رہیں اور اب انہیں ہر قدم پہلے سے آگے بڑھانا پڑے گا اور یہ کام ختم نہیں ہوگا جب تک اسلام کی حکومت دنیا میں قائم نہ ہوجائے۔ اس سے پہلے ہمارے لئے کوئی ہالٹ او رکوئی ٹھہرنا اور کوئی آرام نہیں۔ ہاں جب دنیامیں صحیح رنگ میں اسلامی حکومت قائم ہوجائے گی تو ایک مرحلہ ہمارا ختم ہوجائے گا۔ مگر جیسا کہ میں نے بارہا بتایا ہے کہ مؤمن کا کام پھر بھی ختم نہیںہوسکتا جو سچا مؤمن ہو جس دن اس کا کام ختم ہوجاتا ہے اسی دن اس کی موت آجاتی ہے۔ دیکھورسول کریم ﷺ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِذَا جَائَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَ رَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ فَاسْتَغْفِرْہُ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا ؎۶ کہ تیرا کام چونکہ دنیا میں اسلام پھیلانا ہے اس لئے جب اسلام میں جوق درجوق لوگ داخل ہونے لگیں اور فوج درفوج لوگ اسلام قبول کرنے کیلئے آئیں تو سمجھ لینا کہ تیرا وقت ختم ہوگیا اس وقت ذکر الٰہی میں مشغول ہوجانا اور خداتعالیٰ کی طرف توجہ کرنا۔ جب رسول کریم ﷺ نے صحابہؓ کو یہ آیت سنائی تو باقی صحابہؓ تو بڑے خوش ہوئے کہ اب فتوحات کازمانہ آگیا لیکن حضرت ابوبکرؓ رو پڑے وہ نہایت کامل الایمان تھے وہ یہ آیت سنتے ہی سمجھ گئے کہ جب رسول کریم ﷺ کا کام ختم ہوگیا تو پھر آپ نے دنیا میں رہ کر کیا کرنا ہے۔ خداتعالیٰ کا رسول نکمّا نہیں بیٹھتا۔ پس اس کامطلب یہ ہے کہ اب رسول کریم ﷺ کا زمانہ وفات نزدیک ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ کو اتنا رونا آیا کہ ان کی گھگی بندھ گئی۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ بعض صحابہ آپ کے رونے کو سن کر کہہ اُٹھے کہ اِس بڈھے کوکیا ہوگیا ہے کہ خداتعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ اسلام ترقی کرے گا اور جوق در جوق لوگ اس میں داخل ہوں گے اور یہ روتا ہے۔ مگر رسول کریم ﷺ اِس نکتہ کوسمجھ گئے یعنی آپ نے سمجھ لیاکہ حضرت ابوبکرؓ نے آیت کامفہوم سمجھ لیا ہے اس لئے آپ نے ان کی تسلی اور دلجوئی کیلئے فرمایا کہ ابوبکرؓ مجھے اتنے پیارے ہیں اتنے پیارے ہیں کہ اگرکسی بندے کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ابوبکرؓ کو بناتا لیکن یہ اسلام میں میرے بھائی ہیں۔ پھر فرمایا مسجد میں جس قدر کھڑکیاں کھلتی ہیں سب بند کر دی جائیں مگر ابوبکرؓ کی کھڑکی کھلی رہے ۔ اس میں آپ نے اس طرف اشارہ کردیا کہ میرے بعد یہی امام ہوں گے اور انہیں چونکہ نماز پڑھانے کیلئے مسجد میں آنا پڑے گا اس لئے ضروری ہے کہ ان کی کھڑکی مسجد کی طرف کھلی رہے۔ تو مؤمن جب اپنا کام ختم کرلیتا ہے تو وہ بالکل دنیا میں رہنانہیں چاہتا۔
دیکھو! جب کوئی شخص اپنے بیوی بچوں سے جُدا ہوکر غیر ملک میں جاتا ہے تو جب اس کا کام ختم ہوجاتا ہے وہ اپنے بیوی بچوں سے ملنے کیلئے بیتاب ہوجاتا ہے۔ جب بیوی بچوں کی محبت اپنے اندر اتنی کشش رکھتی ہے کہ جب تک اُسے فرضِ منصبی روکے رکھتا ہے وہ رُکارہتا ہے لیکن جب اس کا کام ختم ہوجاتاہے وہ ان کے ملنے کیلئے بیتاب ہوجاتا ہے تو خداتعالیٰ کی محبت اپنے اندر کس قدر کشش رکھتی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ مؤمن جب تک دنیا میں اپنے فرائضِ منصبی میں مشغول رہتا ہے وہ مجبوراً اپنے محبوب خدا سے دور رہنا برداشت کر لیتاہے لیکن جب وہ اپنے فرائضِ منصبی کو پورا کرلیتا ہے اُس وقت وہ ایک منٹ بھی دنیا میں رہنا پسند نہیںکرتابلکہ چاہتا ہے کہ اُڑے اور خدا کے پاس پہنچ جائے۔ ہاں جب تک اس کافرضِ منصبی پورا نہیں ہوتا وہ سمجھتا ہے کہ میں مجبور ہوں کیونکہ میرے آقا کا حکم یہی ہے کہ میں دنیامیں کام کروں مگر کام کے ہوجانے کے بعد وہ ایک منٹ بھی دنیا میں ٹھہرنا پسند نہیں کرتا۔
پس جب تک دنیا میں اسلام کی حکومت قائم نہیں ہوجاتی میر ااور جماعت کا کام ختم نہیں ہوسکتا او رجن کی زندگیوں میں بھی یہ کام ختم ہوگیاکیونکہ ضروری نہیں کہ ہماری زندگیوں میں ہی یہ کام پورا ہو وہ اِس دنیا میں رہنا پسند نہیں کریں گے بلکہ ان کی روحیں اُڑیں گی او رخدا سے جاملیں گی اور پھر نئی پود کو نیا کام سپرد کیا جائے گا۔
درحقیقت لوگو ںنے اس بات کو سمجھا نہیں کہ آخرت کے انعامات کی کیا اہمیت ہے۔ انہوں نے سب کچھ دنیا کو ہی سمجھ رکھا ہے اس لئے وہ اس کی ذرّہ ذرّہ سی بات پرمرتے ہیں حالانکہ دنیا ایک میدانِ جنگ ہے جہاںشیطان سے لڑائی جاری ہے۔ کوئی شخص یہ لڑائی پسند نہیں کرسکتا کہ وہ ساری عمر لڑتا ہی رہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ لڑائی سے جلد سے جلد فارغ ہوکر اپنے گھر آئے۔ پس جس طرح میدانِ جنگ عارضی مقام ہوتا ہے اسی طرح سچا مؤمن چاہتاہے کہ وہ دنیا میں جلد سے جلد شیطان سے لڑائی ختم کرکے اپنے مولیٰ کے پاس پہنچے۔
پس ایک بار پھر میں جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سُستی اور غفلت کو چھوڑ دیں ورنہ اس بات کیلئے تیار رہیں کہ آج نہیں تو کل خداتعالیٰ کی طرف سے انہیں ٹھوکر لگے گی اور ان پر ایسا ابتلاء آئے گا کہ وہ ایمان سے بالکل محروم کردیئے جائیں گے۔ خداتعالیٰ کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ زید یا بکر اس کے سلسلہ میں داخل ہیں یانہیں۔ اگر کوئی شخص اس کے دین میں نہیں رہتا اور خداتعالیٰ دیکھتا ہے کہ وہ اس کے دین کو چھوڑ کر الگ ہورہا ہے تو وہ کہتا ہے جائو میرے دین کا کام کرنے والے اور بہت سے موجود ہیں میں ان سے کام لے لوں گا بلکہ خدا تو خدا ایک مؤمن بھی یہ پسند نہیں کرسکتا کہ کوئی شخص خداتعالیٰ کے دین پر احسان رکھے۔ وہ پسند کرے گا کہ وہ اکیلا خداتعالیٰ کی راہ میں لڑائی لڑے بجائے اس کے کہ اس کے پہلومیں کوئی ایسا شخص ہو جو خدمت کرکے احسان جتانے والا ہو۔ پس جو سچے مؤمن ہیں وہ اس بات کی ذرّہ بھر بھی پرواہ نہیں کرسکتے کہ کوئی ان کا ساتھ دیتا ہے یانہیں اور جو سچے مؤمن نہیں وہ پتھر ہیں جو قوم کے گلے میں پڑے ہوئے ہیں اور جن کی وجہ سے خطرہ ہے کہ بعض دوسرے لوگ بھی ڈوب جائیں ۔پس جتنی جلدی یہ پتھر دور ہوجائیں اورجتنی جلدی ان سے نجات ملے اتناہی اچھا ہے ۔ ہاں چونکہ جن لوگوں سے تعلق اور محبت ہو اُن کے علیحدہ ہونے پر افسوس بھی آتا ہے اس لئے ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے کمزوروں پر رحم فرمائے، انہیں ایمان او ر اخلاص عطا فرمائے او رہمیں بھی وہ طاقت بخشے کہ نہ دنیاکی آفات اور مصیبتیں ہمیں ڈراسکیں اور نہ حکومتیں او ربادشاہتیں ہمیں مرعوب کرسکیں۔ صرف ایک ہی چیز ہو جو ہمارا مقصود ہو اور وہ یہ کہ خداتعالیٰ کی رضا اور اُس کی محبت ہمیں حاصل ہو اور اُس کے قُرب کا مقام ہمیں ملے۔ خداتعالیٰ کیلئے جان دینا ہمارے لئے سب سے بڑی نعمت ہو اور اُس کی خوشنودی کیلئے مرناہماری سب سے بڑی راحت۔
(الفضل ۱۹؍ اگست ۱۹۳۶ئ)
؎۱ اسدالغابہ جلد ۳ صفحہ ۱۵۷۔ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
؎۲ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ ۵۱۔ مطبوعہ لاہور ۱۸۹۲ء
؎۳ النسائ: ۶۰
؎۴ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۱۶۔ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
؎۵ بخاری کتاب المغازی باب فضل من شہد بدراً
؎۶ النصر: ۲ تا آخر


۳۰
استعانت بغیر عبودیت کے حاصل نہیں ہوسکتی
(فرمودہ ۱۴؍ اگست ۱۹۳۶ء بمقا دھرم سالہ)
(غیر مطبوعہ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
کہنے کو تو سب لوگ اپنے آپ کو خداتعالیٰ کا بندہ کہتے ہیں اور خواہ کوئی بادشاہ ہو یا فقیر اس بات میں جھجک محسوس نہیں کرتا کہ وہ خداتعالیٰ کا غلام ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ واقعہ میں اس کے اندر عبودیت موجود بھی ہے یا نہیں۔ منہ سے غلامی کا اقرار کرلینا اور بات ہے اور اپنے عمل سے خداتعالیٰ کے غلام ہونے کا ثبوت پیش کرنا بالکل اور بات ہے۔ بساا وقات ایک آدمی اپنے منہ سے تو ایک بات کا اقرار کرلیتاہے لیکن جب امتحان اور آزمائش کا وقت آتا ہے تو فیل ہوجاتا ہے۔
ابو سینا ایک شخص تھے جن کے خیالات بہت اعلیٰ ہوتے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ ایسی بات کہی جس کا ان کے تمام شاگردوں پر خاص اثر ہؤا کہ ان کا ایک شاگرد بے تحاشہ کہہ اُٹھا آپ تو نبوت کے اہل ہیں آپ تو وہ کام کرسکتے ہیں جو آنحضرت ﷺ سے بھی نہیں ہوسکتے۔ وہ تھے تو مسلمان لیکن اپنے شاگرد کی اس بات کو سن کر مصلحتاً خاموش ہورہے۔ کچھ عرصہ کے بعد سردی کا موسم آگیا اور اس قدر شدید سردی پڑی کہ تالابوں کاپانی منجمد ہونا شروع ہوگیا۔ اس شدید سردی کی حالت میں انہوں نے ایک تالاب کو دیکھ کراپنے اسی شاگرد کوکہا تم اس تالاب میں تو کُودو۔ یہ حکم سن کر ان کاشاگرد حیرت سے ان کامنہ دیکھنے لگا جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ یہ کیسا تکلیف دِہ اور ناممکن العمل حکم دے رہے ہیں اور کہنے لگا آپ مجھ سے یا تومذاق کررہے ہیں یا پھر آپ پاگل ہیں۔ انہوں نے اس شاگرد کو جواب دیا کہ ابھی کچھ دنوں پہلے تُو نے کس برتے پر مجھے کہا تھا کہ آپ تو نبوت کے اہل ہیں حالانکہ میں نے تجھے صرف ایک سرد پانی کے تالاب میں کُودنے کو کہا ہے اور تُو اِس حکم پربھی پورا نہیں اُترسکتا دوسری طرف نبی کریم ﷺ کے صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ حضور نے اُن کو طرح طرح کے مصائب میں ڈالا لیکن انہوںنے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ اُن کوہمیشہ اس بات کی خواہش رہتی تھی کہ ہم کو ا س سے زیادہ مشکل کاموں کے کرنے کا حکم دیاجائے۔
آجکل کے مسلمانوں کی تو یہ حالت ہے کہ وہ تمام احکام میں ایسی راہیں تلاش کرتے ہیں جن سے وہ ان احکام سے کسی طرح بچ سکیں۔ حتّٰی کہ بعض مسلمانوں نے ’’کِتَابُ الْحِیَل‘‘ جیسی کتب بھی لکھ دی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ کس طریق سے ہم شریعت کے احکام سے نجات پاسکتے ہیں۔ گویا یہ لوگ ان احکام سے بچنا اپنافرض سمجھتے تھے اور ان احکام کو اپنے اوپر بطور چٹّی کے خیال کرتے تھے لیکن اس کے برخلاف صحابہ کرامؓاعمالِ صالحہ میںایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ چنانچہ ایک صحابیؓ کا ذکر ہے کہ انہوں نے ساری رات جاگنا شروع کردیا تھا تاکہ زیادہ ثواب اور رضائے الٰہی حاصل ہو لیکن حضرت نبی کریم ﷺ نے اُس کو منع فرمادیا۔ اسی طرح ایک صحابیؓ نے ہر روز روزہ رکھنا شروع کردیا لیکن حضور نے اُس کوبھی منع فرمادیا۔ ایک صحابیؓ نے ہر روز پورے قرآن مجید کی تلاوت کا التزام کیا تو حضور نے اُس کو بھی منع فرمایا۔ بعض صحابہؓ نے وِصال کے روزے شروع کردیئے تو حضور نے ان سے فرمایا کہ یہ روزے صرف میری ذات کیلئے ہیں تم یہ روزے نہ رکھا کرو۔
ایک دفعہ حضور نے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو بھائی بھائی بنایا۔ ایک دفعہ مہاجر بھائی، انصاری بھائی سے ملاقات کیلئے گئے کیا دیکھتے ہیں کہ اس انصاری بھائی کی بیوی میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے بیٹھی ہے۔ انہوں نے اس سے دریافت کیا کہ تیری یہ حالت کیوں ہے؟ کہنے لگی میں کس کو دکھانے کیلئے صاف ستھری ہوکر بیٹھوں۔میرے خاوند کی تو یہ حالت ہے کہ ساری رات عبادت کرتا رہتاہے اور دن روزہ کی حالت میں گزاردیتاہے اور اُ س کو اِس بات کی خبر نہیں کہ میں اُس کے گھر میں بطور بیوی کے رہتی ہوں۔ اتنے میں انصاری بھائی بھی آگئے ۔ مہاجر بھائی نے ان کو اِس قدر عبادت سے منع کیا۔ انہوںنے جواب دیا کہ تم عجیب قسم کے بھائی ہو کہ مجھے نیکی سے روکتے ہو اور جب وہ رات کو عبادت کیلئے اُٹھنے لگے تو انہوںنے نہ اُٹھنے دیا اور زبردستی لِٹادیا اور جب دن کو روزہ رکھنے لگے تو روزہ بھی نہ رکھنے دیا۔ اس پر انصاری نے آنحضرت ﷺ سے اس امر کی شکایت کی تو حضور نے فرمایا کہ تمہارے مہاجر بھائی کا یہ فعل بالکل درست ہے اور فرمایا لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَلِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَلِجَارِکَ عَلَیْکَ حَقًّا ؎۱ ۔یعنی ہر وقت عبادت درست نہیں کیونکہ تجھ پر تیرے اپنے نفس، بیوی او رہمسایہ کے بھی حقوق ہیں۔ گویا صحابہؓ میں ہمیشہ اس بات کا بھی مقابلہ ہوا کرتا تھا کہ وہ عبادت میں کسی سے کم نہ رہیں لیکن آج کل کے مسلمان ہر وقت ایسی راہوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں جن سے وہ عبودیت کے پنجے سے نجات پاسکیں اور ان کا اپنے منہ سے یہ کہنا کہ ہم خداتعالیٰ کے عبد ہیں اس مثال کے مطابق ہے کہ ’’سَوگزواروں ایک گز نہ پھاڑوں‘‘ یعنی منہ سے تو سَوگز وارنے کو تیار ہیں لیکن اگر ان کو فی ال￿واقعہ پھاڑنے کیلئے کہا جائے تو انکار کردیں گے۔ یوں تو عبودیت کے دعویدار ہیں لیکن ان میں کِبر، تصنع، ریائ، نمائش سب قسم کے عیوب اور نقائص پائے جاتے ہیں اور زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ وہ اپنے عیوب کو عیوب نہیں سمجھتے اور ان کی مثال اُس بیمار کی طرح ہے جو اپنی بیماری کا احساس نہیں کرتا۔ ایسے بیمار کا علاج بھی مشکل سے ہی ہوسکتا ہے اور اگر کوئی شخص ان کو سمجھانے لگے تو اُلٹا اس بات کو بُرا مانتے ہیں۔
قرآن مجید میں یہ ایک ممتاز خوبی ہے کہ جب کبھی کوئی حکم بیان کرتا ہے تو معاً اس کے ساتھ ہی اس حکم کے فوائد اور اغراض بھی بیان کرجاتا ہے اور یہ خوبی کسی اور کتاب میں نہیں پائی جاتی کیونکہ جب وہ کوئی حکم دیتی ہیں تو اس حکم کے نتائج، فوائد اور اس کے حصول کے طریق نہیں بتاتیں۔ لیکن قرآن مجیدان تمام پہلوئوں کومدنظر رکھتا ہے اسی لئے جب اس نے اِیَّاکَ نَعْبُدُ فرمایا ساتھ ہی اس کا نتیجہ اور فائدہ بھی اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ؎۲ کے الفاظ میں فرمادیا۔ گویا اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے لئے اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ بطور دلیل کے ہے۔ نیز بطور معیار کے بھی یعنی جو شخص عبودیت کا مدعی ہوہم اس کو تب ہی سچا سمجھیں گے جبکہ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کا اعلیٰ مقام اس کو حاصل ہو۔ پس اِیَّاکَ نَعْبُدُ بطور دلیل کے ہے اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُکیلئے اور اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ بطور دلیل کے ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ کیلئے۔ یعنی عبودیت کا دعویٰ بغیر استعانت کے بالکل غلط ہے او راسی طرح استعانت بغیر عبودیت کے ہرگز حاصل نہیںہوسکتی۔ جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں تو اُس پر فرض ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہی اتّکال کرے اور اِدھر اُدھر اپنی نظر نہ اُٹھائے۔ کیا تم نے کبھی یہ دیکھا ہے کہ کوئی شخص کہتا ہو کہ میں فلاں کا بیٹا ہوں اور پھر اور لوگوں کے گھروں سے کھانا اور کپڑا مانگتا پھرتا ہو۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اِس کا یہ مطلب ہے کہ وہ درحقیقت اپنے آپ کو اُس شخص کا بیٹا نہیں سمجھتا بلکہ یہ صرف اس کے منہ کی بات ہے ۔ اسی طرح جو شخص خداتعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں سے مانگتا ہے تو درحقیقت وہ یہ ظاہر کررہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت کے دعویٰ میں سچا نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص عبودیت کے دعویٰ کے باوجود اور لوگوں کا دستِ نگر ہے تو یقینا اُس کاایمان کمزور ہے ورنہ اگر اس کا اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہوتا تو خداتعالیٰ کے مل جانے کے بعد اس کوکسی اور کی حاجت ہی باقی نہ رہتی۔ اور جو شخص خداتعالیٰ کا ہورہتا ہے توپھر اس کو اس بات کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کہ لوگ اس کی مدد کریں بلکہ خداتعالیٰ خود اس کی مدد کرتاہے اور یہ جو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آتا ہے کہ غریبوں اور مساکین کی امداد کرو یہ حکم تو ادنیٰ ایمان والے لوگوں کیلئے فرمایا گیا ہے نہ کہ کامل ایمان والے لوگوں کیلئے ۔ اس حکم سے یہ تو مراد نہیں کہ اے لوگو! تم نبی کریم ﷺ کی یا نوح علیہ السلام کی یا ابراہیم علیہ السلام کی مدد کرو۔ کیونکہ انبیاء کی نصرت کا دارومدار لوگوںپرنہیں ہوتا بلکہ خداتعالیٰ خود ان کی پشت پر ہوتاہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوالہام ہؤا یَنْصُرُکُ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآء ؎۳ یعنی یہ سوال نہیں کہ کوئی تیری مدد کرتا ہے یا نہیں بلکہ ہم خود پکڑ پکڑ کر لوگوں سے تیری مدد کروائیں گے۔ پس رحم اور امداد کا سوال تو ادنیٰ درجہ کے لوگوں کیلئے ہے نہ کہ انبیاء او رکامل مومنوں کیلئے۔کیونکہ انبیاء اور کامل مومن تو سائل اور محروم کے ماتحت نہیں آتے اور مذکورہ حکم اُن دو کے لئے ہی ہے۔ پس حقیقت یہی ہے کہ یہ حکم یا تو کافروں کیلئے ہے یا پھر ادنیٰ مومنوں او رمحروم لوگوں کیلئے ۔ کامل مؤمنوں کی فکر تو خداتعالیٰ خود کرتا ہے۔ ہاں جن لوگوں کا ایمان ہنوز کمال کے درجہ تک نہیں پہنچا ہوتا تو جس طرح غبارہ ہچکولے کھایا کرتا ہے اسی طرح وہ بھی ہچکولے کھاتے رہتے ہیں۔
ایک بزرگ کے متعلق آتا ہے کہ وہ شہر سے دور کسی مقام پر عبادت کیا کرتے تھے اور ان کا رزق وہیں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچ جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ ان کو فاقہ ہؤا اور وہ اُس جگہ کو چھوڑ کر شہر کو چل دیئے اور ایک دوست کے ہاں سے کھانا کھایا اور کچھ کھانا لے کر واپس اسی جگہ کی طرف آنے لگے تو ان کے دوست کا کُتّا بھی اُن کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ انہوں نے جب کُتّے کو پیچھے آتے دیکھا تو اس کو بھوکا سمجھ کرایک روٹی ڈال دی۔ تھوڑی دور جاکر پھر دیکھا کہ کُتّا ابھی پیچھے ہی چلا آرہاہے تو دوسری روٹی ڈال دی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب پھر کُتّا پیچھے ہی چلا آتا نظر آیا تو نہایت غصہ کے ساتھ تیسری روٹی اُس کی طرف پھینک کر کہا کہ تُو بڑابے حیا ہے کہ میرا پیچھا ہی نہیں چھوڑتا۔ ان کے اس کہنے پر معاً اُن کوکشف ہؤا اور کُتّا انسان کی شکل ہوکر ان کو یہ کہتا ہؤا نظر آیا کہ بے حیا میں ہوں یا تُو ہے؟ مجھے اس گھر میں کئی دنوں سے فاقے ہورہے ہیں مگر میں نے وفاداری کی وجہ سے اس گھر کو چھوڑنا گوارا نہ کیا تجھے صرف ایک ہی فاقہ گزرا تھا کہ تُونے خداتعالیٰ کا دروازہ چھوڑ دیا۔ پس کُتّے نے انسانی شکل میں آکر اُن کو یہ بتایا کہ مومن کو اللہ تعالیٰ سے کسی صورت میں بھی مایوس نہ ہونا چاہئے اور ہر وقت اُس کے دروازہ پر ہی اپنی نظر کو لگائے رکھنا چاہئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے مجھے یہ تو قطعاً یقین نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کے بارہ میں ہی فرماتے ہوں کہ ہم طبیبوں کی بھی کیا زندگی ہے کہ اگر ہمارے سامنے کوئی شخص اپنے نیفے کو کھجلاتا ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کو کچھ فیس دینے لگا ہے۔ یہ انہوں نے عام اطباء کی حالت بیان فرمائی ہے نہ کہ اپنی ۔ کیونکہ کامل مومن کی نظر لوگوں کی طرف نہیں ہوتی اور حضرت خلیفہ اوّل کو ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ جب اُن کو روپوں کی ضرورت ہوتی تو فوراً کوئی شخص آتا اور علاج کرواکے بغیر گننے کے کچھ روپے دے جاتا۔ ایک دفعہ حضرت حافظ روشن علی صاحب مرحوم، حضرت خلیفہ اوّل کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اور حضور کو کچھ روپے دے گیا۔ حضور نے حافظ صاحب مرحوم سے گننے کو فرمایا تو وہ روپے اُسی قدر نکلے جس قدر ایک قرض خواہ کو دینے تھے۔ ایسا معاملہ تو عام مؤمنوں سے بھی ہوجاتا ہے لیکن عام مؤمنوں میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی شرط اعلیٰ پیمانہ پر نہیں پائی جاتی بلکہ یہ صرف خاص مؤمنوںکیلئے ہی ہے۔ پس جب کامل مؤمن اِیَّاکَ نَعْبُدُکہہ کر خداتعالیٰ کا کامل عبد ہوجاتا ہے تو پھر اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُکہتا ہے یعنی اے خدا! جب میں تیرا ہی بندہ ہوچکا اب میں تیرے دروازے کو چھوڑ کر اور کسی کا دروازہ کیوں کھٹکھٹائوں؟ گویا اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ لازمی نتیجہ ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُکا۔
اس مقام پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہاں اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پہلے ہونا چاہئے تھا اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ بعد میں کیونکہ بغیر اعانتِ الٰہی کے عبودیت کامقام حاصل ہو ہی نہیںہوسکتا۔ ان کا یہ کہنا بھی ایک طرح سے درست ہے لیکن جس مقام کایہاں بیان ہے اس میں عبودیت، استعانت سے قبل ہی درست ہے کیونکہ یہاں گویا پہلے سوال اُٹھایا ہے کہ کون شخص اللہ تعالیٰ کا عبد ہوتا ہے اس کے بعد خود ہی جواب دے دیا کہ جو خداتعالیٰ سے ہی استعانت طلب کرے اور صرف اسی کی طرف اُس کی نظر اُٹھے اور اُسی پر اُس کا کامل بھروسہ ہو۔
حضرت سیّد عبدالقادر جیلانیؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں اُس وقت تک کھانا نہیں کھایا کرتا جب تک مجھے اللہ تعالیٰ نہیں فرمادیتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ہی ذات کی قسم ہے کہ تُو ضرور کھانا کھا اور میں اُس وقت تک کپڑا نہیںپہنتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ مجھے نہیں فرمادیتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ہی ذات کی قسم کہ تُو ضرور یہ کپڑا پہن۔ یہ بھی ایک خاص مقام ہے جو اُن کوحاصل تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لوگوںنے اعتراض کیا کہ حضور میں سادگی اور فقر نظرنہیںآتا۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل ان لوگوں کو یہ جواب دیا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہام میں سلیمانؑ کے نام سے بھی تو یاد فرمایا ہے اور وہ بادشاہ تھے۔ پس اگر حضور میں حضرت سلیمانؑ کے حالات نہ پائے جائیں توحضور کا یہ الہام غلط ٹھہرے گا۔
حضور کو اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کا رنگ عطا فرمایاتھا۔ حضور میں نبی کریم ﷺ کی سی سادگی بھی تھی اور سلیمانؑ کے حالات بھی حضور میں نظر آتے تھے۔ پس عبودیتِ تامہ کے بعد انسان کو کلی طور پر خداتعالیٰ کی طرف سے استعانت حاصل ہوجاتی ہے اورہر ایک انسان کو یہ درجہ حاصل ہوسکتا ہے بشرطیکہ وہ ہمت نہ ہارے۔ حتّٰی کہ ابوجہل جیسا انسان بھی اِیَّاکَ نَعْبُدُ پر عمل کرکے اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کا مستحق بن سکتاہے۔ اگر ابوجہل کیلئے یہ امر محال ہوتا تو ا س کا یہ مطلب ہے کہ پھر خداتعالیٰ کو کوئی حق نہیں کہ ابوجہل کو سزا دے کیونکہ خداتعالیٰ نے اس کے اندر اگر یہ ملکہ ہی نہیں رکھا تو اس کو سزا دیناقرینِ انصاف نہیں کیونکہ پھر وہ معذور ہے۔ پس اس مقام کے حاصل کرنے کی طاقت اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دے رکھی ہے خواہ وہ کسی مُلک کا ہو ، کسی قوم کا ہو، کسی حالت میں زندگی گزاررہا ہو۔ پس کیوں ہر ایک انسان یہ کوشش نہ کرے کہ وہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے مرحلے کو طے کرتا ہؤا اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی منزل پر جا کر ٹھہرے۔
مجھے ان دوستوں پر تعجب آتا ہے جو دشمنوں کی مخالفت کو دیکھ کر گھبراجاتے ہیں۔ مگر غور کرنا چاہئے کہ اگر دین پرکوئی خطرہ نہ آئے جس میں ہم کودین کی نصرت کاموقع مل سکے تو ہمارے اخلاص کا اظہار کس طرح ہو۔ اسی طرح اگر ہم پرتکالیف اور مصائب نہ آئیں تولوگوں کو کس طرح علم ہو کہ خداتعالیٰ ہماری اعانت فرماتا ہے اور ان تکالیف کو دور کرنا اُس کے سامنے کچھ بھی نہیں اور اس طرح گویا خداتعالیٰ بھی اپنا امتحان دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ میرے اندر کس قدر طاقت اور قوت ہے اور وہ اپنی قدرت کا اس طرح پر اظہار کرتاہے کہ پہلے پہل لوگوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ اس کے بندے کو بظاہر حالات میں ذلیل کرلیں اور اس کو طرح طرح کی تکالیف کا نشانہ بنالیں۔ اُس کی جان اور مال اور آبرو پر حملے کرلیں۔ اس کے بعد یکدم خداتعالیٰ نمودار ہوتا ہے اوردنیا کو کہتا ہے کہ کون ہے جو میرے اس بندے کو ہاتھ لگاسکے ااور پھر اس کے دشمنوں کوذلیل و خوار کردیتا ہے اُس کو عزت کے مقا م پرپہنچادیتا ہے اور اس طرح دنیا کو بتلادیتا ہے کہ میں کس قدر قادر ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ مجھے سلطان عبدالحمید شاہ ٹرکی کی ایک بات بہت ہی پسند آتی ہے اور وہ یہ کہ جب یونان سے جنگ ہونے کو تھی تو اس کے جرنیلوں نے جلسہ کیا اور خوب ردّو قدح کے بعد کہنے لگے کہ ہمارے پاس جنگ کا فلاں فلاں سامان تو کافی موجود ہے لیکن فلاں سامان موجود نہیں ہے اس لئے ہم کو جنگ سے احتراز کرنا چاہئے۔ اس موقع پر سلطان عبدالحمید نے اپنے جرنیلوں سے کہا کہ تم نے اپنی طرف سے سارے خانے پُر کرلئے اب کوئی خانہ خداتعالیٰ کیلئے بھی تو رہنے دو اور حملہ کردو۔ چنانچہ حملہ کیا گیا اور فتح حاصل ہوئی۔ حضور فرمایا کرتے تھے کہ سلطان عبدالحمید کی یہ بات کہ خداتعالیٰ کیلئے بھی کوئی خانہ رہنے دو مجھے بہت ہی پسند ہے۔
میں نے دیکھا ہے کہ جب ہماری جماعت میں سے کسی دوست پر انفرادی طور پر یا جماعت پر بحیثیت مجموعی مصائب آتے ہیں تو دوست گھبرا اُٹھتے ہیں اور دوست اخلاص کی وجہ سے مجھے آن آن کر مشورے دینے لگتے ہیں کہ فلاں بات یوں کریں، فلاں یوں کریں۔ خصوصاً جس جگہ کے دوست آرام میں ہوں جیسا کہ قادیان کی حالت ہے وہ ناصح مشفق بن کر مجھے نصائح شروع کردیتے ہیں کہ گورنمنٹ سے جنگ پر اُترنا ٹھیک نہیں اور لوگوں کو اپنی مخالفت پر آمادہ نہیں کرنا چاہئے۔ وہ تو دل میں خیال کررہے ہوتے ہیں کہ وہ میری خیرخواہی کررہے ہیں لیکن میں اُن کو اپنے دل میں بُزدل یقین کررہا ہوتا ہوں کیونکہ جب ہم اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہہ چکے تو کس طرح ممکن ہے کہ ہم خداتعالیٰ کا کام کریں اور وہ خراب ہوجائے۔ ہمارے تباہ ہوجانے سے دنیا کو ہرگز کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ کیا ابوبکرؓ ، عثمانؓ اورعمرؓ کی شہادت سے اسلام کوکوئی نقصان ہؤا؟ ہرگز نہیں حالانکہ یہ خلفاء مقتدر صحابہ میں سے تھے۔ پس ہم کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم لوگوں کے سامنے جھکیں اور اُن سے غیر ضروری نرمی اختیار کریں۔ یہ خداتعالیٰ کا کام ہے خودبخود ہوجائے گا ہمارا تو صرف اتنا فرض ہے کہ قربانی سے دریغ نہ کریںآگے خداتعالیٰ کی مرضی ہوگی تو ہم سے کام لے لے گا اورمرضی ہوگی تو ہم سے کام نہ لے گا۔ عبودیتِ تامہ کے ساتھ جبکہ استعانت لازمی طور پر لگی ہوئی ہے تو ہم کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ بُزدل شخص کے دل میں عبودیتِ تامہ اور خوف اور لالچ ایک جا جمع ہوسکیں۔ ہاں خداتعالیٰ سے خوف کرنا اور اس کی کسی چیز کی خواہش رکھنا بُزدلی اور لالچ نہیں کہلائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے تو یہ امید ہوتی ہے اور لالچ تو بندوں سے ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ سے ڈرنا بھی عبادت ہے نہ کہ بُزدلی۔ جس طرح سنکھیا سے ڈرنا بُزدلی نہیں کیونکہ جس چیز کا نتیجہ یقینی ہو اُس سے ڈرنا بُزدلی نہیں کہلاتا۔ بُزدلی تو اُس چیز سے ڈرنے کو کہتے ہیں جس کانتیجہ یقینی نہ ہو۔ پس انسان کیونکہ ہم کو یقینی طور پر کوئی نقصان نہیںدے سکتے اس لئے اس سے خوف کرنا بُزدلی کہلائے گا۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کیونکہ یقینی انسان کو تباہ کردینے والی ہے اس لئے اس سے بچنے والا محتاط کہلائے گا نہ کہ بُزدل۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کی امید رکھنا لالچ نہیں کیونکہ لالچ تو اُس چیز کے متعلق کیا جاتا ہے جس کا ملنا شکی ہو۔ لیکن جس چیز کے متعلق ملنے کایقین ہو اُس کے بارہ میں لالچ کا لفظ نہیںبولا جاتا ۔ مثلاً کسی شخص کو تنخواہ کا ملنا یقینی امر ہے تو یہ لالچ نہیں کہلاسکتا۔ پس خداتعالیٰ کی طرف سے جو چیزیں ہم کو ملتی ہیں کیونکہ وہ یقینی ہوتی ہیں اس لئے ان کی امید لالچ نہیں ہے اور جو شخص اس مقام سے اِدھر اُدھر جاتا ہے وہ اپنے اندر عبودیت نہیں رکھتا یا پھر وہ غلطی خوردہ ہے اور اگرچہ ہم اس کو مؤمن کہہ لیں گے لیکن اسے کامل مؤمن نہیں کہہ سکتے۔ اور اپنے کامل مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ ہرگز ضائع نہیں کرتا بلکہ حدیث شریف سے تو معلوم ہوتا ہے کہ لَا یَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ ؎۴ یعنی ان لوگوں کے پاس بیٹھنے والا بھی ضائع نہیں ہوسکتا۔
حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا میرے ساتھ یہ ایک خاص سلوک ہے کہ مجھے رات کا فاقہ کبھی نہیں ہوتا۔ ایک دوست سناتے تھے کہ ایک دفعہ کا ذکرہے کہ حضور رات کے وقت بٹالہ پہنچے اور آپ کے پاس کھانے کیلئے اُس وقت کچھ نہ تھا۔ آپ قادیان سے محبت کی وجہ سے رات کو ہی قادیان کی طرف چل دیئے۔ وہ دوست کہتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ تھا اور میں نے دل میں کہا کہ آج میں حضرت کی اس بات کا امتحان اچھی طرح سے لے سکتاہوں کہ آیا آپ پر کسی رات کوفاقہ آتا ہے یا نہیں۔ کیونکہ آج آپ نے اب تک کچھ نہیں کھایا اور اب چار بج چکے ہیں۔ گھر جاکر بھی ان کو کھانا ملنے کی امید نہیں۔ لیکن خداتعالیٰ کی قدرت ہے کہ جب ہم وڈالہ کے قریب پہنچے تو ایک شخص ہماری طرف دَوڑتا ہؤا آیا اُس کے ہاتھوں میں برتن تھے اور اُس کے پیچھے کچھ ساتھی تھے اُن کو آواز دیتا چلا آرہا تھا۔ جب وہ ہم تک پہنچ گیا تو اس نے ہمارے سامنے کھانا رکھ دیا اور چارپائی بچھوادی۔ جب ہم کھانا کھاچکے تو حضرت خلیفہ اوّل نے اُس دوست سے پوچھا کہ آپ کو کس طرح پتہ تھا کہ آج ہم نے یہاں سے گزرنا ہے؟ کہنے لگا کہ مجھے معلوم تھا کہ آپ دہلی گئے ہوئے ہیں او ردہلی سے واپسی کا دن آج ہے اور میں صبح سے کھانا لئے بیٹھا ہوں کہ آپ اب تشریف لے آئے ہیں۔ نیز میری والدہ سخت بیمار تھی میں نے سوچا کہ میں حضور کو وہ مریضہ بھی دکھادوں گا۔ چنانچہ حضور نے مریضہ کو دیکھ لیا اور قادیان تشریف لے گئے اور آپ کی یہ بات کہ مجھے رات کا فاقہ کبھی نہیں ہوتا پوری ہوگئی۔ تومؤمن جب اللہ تعالیٰ کا ہورہتا ہے تو اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کے ماتحت خودبخود آجاتا ہے اور ہر مؤمن سے اللہ تعالیٰ کے مختلف سلوک ہوتے ہیں ایک ہی رنگ کاسلوک ہر ایک سے نہیں ہوتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں امرتسر سے یکے پر سوار ہوکر روانہ ہؤا۔ ایک بہت موٹا تازہ ہندو بھی میرے ساتھ ہی یکے پر سوار ہؤا وہ مجھ سے پہلے یکے کے اندر بیٹھ گیا اور اپنے آرام کی خاطر اپنی ٹانگوں کو اچھی طرح پھیلالیا حتّٰی کہ اگلی سیٹ جہاں میں نے بیٹھنا تھا وہ بھی بندکردی۔ چنانچہ میں تھوڑی سی جگہ میں ہی بیٹھ رہا۔ اُن دنوں دھوپ بہت سخت پڑتی تھی کہ انسان کے ہوش باختہ ہوجاتے تھے۔ مجھے دھوپ سے بچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ایک بدلی بھیجی جو ہمارے یکّے کے ساتھ ساتھ سایہ کرتی ہوئی بٹالہ تک آئی۔ یہ نظارہ دیکھ کروہ ہندو کہنے لگا آپ تو خداتعالیٰ کے بڑے بزرگ معلوم ہوتے ہیں۔
اسی طرح حضور نے ایک دفعہ کا واقعہ بیان فرمایا کہ میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ ایک مکان میں سورہا تھا کہ مجھے القاء ہؤا کہ کوئی مصیبت آنے والی ہے اس مکان سے جلد نکل چلو اور دل میں ایسا ڈالا گیا کہ جب تک میں اس مکان کے اندر ہوں وہ مصیبت نازل ہونے سے رُکی رہے گی۔ چنانچہ میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے سب دوستوں کو پہلے مکان سے باہر نکال لوں۔ چنانچہ جب وہ باہر چلے گئے اور میں بھی باہر جانے لگا تو ابھی میرا ایک قدم باہر اور ایک دروازے کے اندر کی طرف تھا کہ اس مکان کی چھت گِر پڑی لیکن اپنی قدرت سے خداتعالیٰ نے ہم سب کو اس بلائے ناگہانی سے محفوظ رکھا۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ایسے سلوک کرتاہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے مگر عبودیت شرط ہے اور ایسے انسان کا انجام ضرور بخیر ہوگا۔ بظاہر وہ دنیا کی ظاہر بین نظروںمیں ذلیل ہوتا نظر آرہا ہوگا لیکن انجام کار اُس کو عزت حاصل ہوگی۔ بظاہر وہ بدنام بھی ہورہا ہوگا لیکن انجام کار نیک نامی اسی کوحاصل ہوگی۔ گویا اس شخص کی ابتداء عبودیت سے اور انجام استعانت پر ختم ہوگا۔
عبودیت کے معنی بندگی کے ہیں اورمثل مشہورہے کہ بندگی بیچارگی۔ اور استعانت کے معنی ہیں اعزاز۔ گویا جب انسان بیچارگی کے مقام پر پہنچ جاتا ہے تب اُس کو اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے یہ ترتیب کہ خداتعالیٰ نے پہلے عبودیت اور اس کے بعد استعانت کو رکھا ہے بالکل درست ہے اور جو لوگ اس ترتیب کو بدلناچاہتے ہیں وہ اِس نکتے کو سمجھے ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ پہلے اپنے بندہ کی کامل بیچارگی ظاہرکرتا ہے اور بعد میں اس کی مدد کرکے دنیا کو دکھادیتاہے کہ میں کس طرح اپنے بندوں کی مدد کرتا ہوں۔ اگر استعانت حاصل ہونے سے پہلے انسا ن پر بیچارگی طاری نہ ہو تو پھر استعانت کو بھی لوگ ایک اتفاقی امر سے زیادہ وقعت نہ دیں گے۔ ہر انسان کا فرض ہے کہ استعانت کے اس مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ دنیا ہمیں کیا دے سکتی ہے اور کیا ہم سے چھین سکتی ہے ۔ دنیا ہم کو کچھ نہیں دے سکتی کیونکہ اس کے پاس دینے کوہے ہی کیا اوردنیا ہم سے کچھ لے بھی نہیں سکتی کیونکہ ہم پہلے ہی خداتعالیٰ کیلئے سب کچھ چھوڑے بیٹھے ہیں۔ توہم سے کسی چیز کا چھیننا کیا معنی؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک اندھا کسی سے باتیں کررہا تھا اور اُس کی بلند آواز کی وجہ سے کسی تیسرے شخص کی نیند اُچاٹ ہورہی تھی ۔ وہ اندھے سے کہنے لگا حافظ جی! سوجائیں۔ اس اندھے نے جواب دیا بھائی! میں نے سونا کیا ہے بس خاموش ہی ہورہنا ہے۔ اُس کامطلب یہ تھا کہ میری آنکھیں تو پہلے ہی بندہیں اگر آوا زبند کرلوں تو بس یہی میرا سونا ہوجائے گا۔ یہی حالت کامل مؤمن کی ہوتی ہے کہ وہ پہلے تو خداتعالیٰ کے راستے میں سب کچھ قربان کرکے بیٹھا ہوتا ہے تو دنیا اُس سے کیا چھینے گی؟ کچھ بھی نہیں۔ مؤمن نے اگر دنیا کوتھوڑا بہت ہاتھ لگایا ہؤا ہوتا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ سیّد عبدالقادر صاحب جیلانیؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہولے کھانے اور پہننے کی طر ف ہاتھ کو نہیں بڑھاتا۔ اور ایسے شخص کو کوئی لالچ بھی کس طرح دِلاسکتا ہے کیونکہ ایسے شخص کو خداتعالیٰ زمین و آسمان کی بادشاہت دے دیتا ہے اور وہ خداتعالیٰ کا نوکر ہوجاتاہے۔ تو کیا ایک ہزار روپے کے مالک کو کوئی چار آنے یا آٹھ آنے کا لالچ دے سکتاہے؟ یا ایک کروڑ پتی کوکوئی دس روپے کی طمع دلاسکتاہے؟ ہرگز نہیں۔ اور اگر کوئی اسے لالچ دلانے کی کوشش کرے گا تو وہ احمق ہی ہوگا۔ جس شخص کو خدا مل گیا تو گویا اُس کو زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک مل گیا اور اِس طرح اُس شخص کے ہاتھ میں یہ سب خزانے بھی آگئے اور پھر ایسا انسان لالچ کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا۔
اس کی ایک بیّن مثال یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تبلیغ سے جب کفارِ مکہ تنگ آگئے تو وہ حضور کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ اپنی اس تبلیغ کو بند کردیںاور اس کے بدلہ میں اگر آپ شادی کرنا چاہیں تو ہم اپنے میں سے خوبصورت سے خوبصورت عورتوں سے کرواسکتے ہیں۔ اگر آپ مال کے خواہشمند ہیں تو ہم سب لوگ ہزاروں روپے آ پ کو جمع کرکے لادیتے ہیں اور اگر آپ دنیاوی عزت کے طالب ہیں تو ہم آپ کو اپنا سردار تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن برائے خدا اِس تبلیغ کو بند کردیں۔حضور کیونکہ دنیا کوہیچ اور ذلیل چیز سمجھتے تھے اس لئے اُن کوجواب دیا کہ یہ چیزیں تو کیا اگر تم سورج کومیرے دائیں ہاتھ پر اور چاند کومیرے بائیں ہاتھ کر لاکر رکھ دوتو میں ہرگز اس فرض کو ترک نہیں کرسکتا جو مجھ پر خداتعالیٰ کی طرف سے عائد کیاگیا ہے ؎۵ ۔ پس جس کاخدا ہوگیا اُس کا سب کچھ ہوگیا۔ اب جبکہ دنیا کا سب کچھ ہی اُس کا ہے تو اس کی مملوکہ چیزوں کی اس کو لالچ دلانے کے کیا معنی؟ بھلا کیا کوئی شخص کسی کو اپنے ہی مال میں سے کچھ روپیہ نکال کر اس کولالچ دلاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اور جس شخص کوخداتعالیٰ زمین وآسمان کی بادشاہت دے چکا ہو ایسے شخص کو اگر کوئی یہ کہے کہ ہم تم کو فلاں دنیاوی عہدہ دے دیتے ہیں تو وہ کیا اس بات پر خوشیاں منانے لگے گا؟ قطعاً نہیں۔ او رجبکہ دنیا کے بادشاہ بھی اتنی قدرت کے مالک ہیں کہ ان کے سپاہیوں کی طرف اگر کوئی شخص بُری نظرسے دیکھے تو اس کو تباہ و برباد کردیتے ہیں تو کیا تم خیال کرتے ہو کہ خداتعالیٰ کے سپاہیوں کونقصان دینے کا ارادہ رکھنے والا اللہ تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہ سکتا ہے؟
دیکھ لو کہ اکیلے سیّد عبداللطیف کی شہادت کے نتیجہ میں ہزاروں لوگ کابل میں تباہ وبرباد کردیئے گئے اور اس تباہی کی سیّد صاحب مرحوم نے قبل از وقت پیشگوئی بھی فرمادی تھی اِن الفاظ میں کہ میری موت کے چھ دن بعد جمعرات کے روز اِس شہر پر تباہی آجائے گی۔ جب انسان عبودیت کی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے تو وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہاتھ ڈالنا پسند بھی نہیں کرتا بلکہ اس کی نظر ہمیشہ بلندی کی طرف اُٹھتی ہے اس لئے کہ اس کی امیدگاہ وہ ذات ہوتی ہے جوزمین و آسمان کامالک ہے۔
حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ جب ابھی میری عمر کوئی پندرہ سال کی تھی میں لکھنؤ میں طب پڑھنے کی غرض سے گیا چنانچہ وہاں کے ایک مشہور طبیب کے پاس پہنچا اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا۔ میری سادہ حالت دیکھ کر اُس طبیب کے ساتھی کہنے لگے کہ یہ لڑکا کہاں سے آگیا ہے؟ اور بعض مجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ہنسنے بھی لگ گئے اورکہنے لگے اس کو یہ آداب کس نے سکھائے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ یہ آداب مجھے اُس اُمّی نبی نے سکھائے ہیں جس نے ساری دنیا کو آداب سکھائے۔ اِس جواب میں میرا اشارہ اس طرف بھی تھا کہ انہوں نے باوجود مسلمان ہونے کے میرے سلام کا جواب نہیں دیا۔ چنانچہ میری اس بات کا حکیم صاحب پر بہت اثر ہؤا اور انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ کس غرض کیلئے آئے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ آپ سے طب پڑھنا چاہتا ہوں۔ کہنے لگے کہ میں تو ایک عرصہ سے طب پڑھانا ترک کرچکا ہوں ۔ میں آپ کو ایک اور مشہور طبیب کی شاگردی میں داخل کردیتا ہوں۔ میں نے کہا کہ اگر کسی اور طبیب سے ہی پڑھنا ہے تو پھر آپ کی سفارش کی ضرورت ہی کیا ہے میں خود ہی اس کے پاس جاسکتا ہوں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اچھا بتائیں آپ کس قدر طب پڑھنی چاہتے ہیں۔ مجھے اُس عمر میں طبّ وغیرہ کا تو قطعاً کچھ علم ہی نہ تھا۔ ہاں افلاطون کے بارہ میں سن رکھا تھا کہ وہ بہت چوٹی کے حکیم ہوگزرے ہیں چنانچہ میں نے جواب دیا کہ افلاطون کے برابر طب پڑھنی چاہتا ہوں۔ میں نے افلاطون کا نام لیا تو وہ ہنس کر کہنے لگے کہ اگر آپ کا منشاء افلاطون کے برابر طب پڑھنے کا ہے تو ضرور کچھ نہ کچھ سیکھ ہی لیں گے۔ حضرت خلیفہ اوّل کی نگاہ بچپن میں بھی افلاطون تک ہی گئی اور کسی چھوٹے طبیب کی طرف ان کا ذہن منتقل ہی نہیں ہؤا۔ کامل مؤمن کی بھی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی اشیاء پر نہیں گر پڑتا بلکہ خداتعالیٰ کی شان کے مطابق اس سے امید رکھتا ہے اور اگر ہم خداتعالیٰ سے چھوٹی چھوٹی چیزیں مانگ کر ہی صبر کر بیٹھیں تو یہ خداتعالیٰ کی کسرِ شان ہے گویا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑی چیزیں نہیں دے سکتا۔ خداتعالیٰ کی شان تو یہ ہے کہ وہ ہم کو جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ؎۶ کی امید دلاتاہے ۔ اگر کہیں سے ہم کو کروڑ روپیہ مل رہاہو تو ہم کیوں پانچ روپوں پر راضی ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مؤمن کو لالچ ہوتا ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص عنایت ہے اس کو لالچ نہیںکہا جاسکتا۔ مؤمن کاحوصلہ بہت بلند ہوتا ہے۔
حضرت خلیفہ اوّل فرماتے تھے کہ میرے پاس ایک غریب عورت آئی مجھے خیال ہوا کہ اس کی کچھ امداد کردوں۔ میں نے اس سے کہا کہ مائی! تجھے کچھ ضررت ہو تو بتلائو تاکہ امداد کی جائے۔ کہنے لگی کہ مجھے کچھ ضرورت نہیں۔ خداتعالیٰ نے سب کچھ دے رکھا ہے اور اس کی تفصیل یوں بیان کی کہ میرا ایک لڑکا بھی ہے اور ہم دونوں کے پاس ایک بڑا قرآن مجید ہے۔ جس کو ہم دونوں باری باری پڑھ لیتے ہیں۔ ایک کافی بڑا لحاف ہے اس میں ہم دونوں رات کو اکٹھے سورہتے ہیں۔ جب مجھ کو زیادہ سردی محسوس ہوتی ہے تو مَیں لحاف کو اپنے اوپر اچھی طرح سے لپیٹ لیتی ہوں اور جب میرے لڑکے کو سردی محسوس ہوتی ہے تووہ لحاف کو اپنے اوپر ڈال لیتا ہے۔ ایک مکان ہے اس میں ہم آرام سے گزارہ کرلیتے ہیں۔ اُس عورت کے نزدیک یہی اشیاء سب کچھ کے قائمقام تھیں، اُس کا حوصلہ بلندتھا۔ مؤمن کی شان ہی یہی ہے کہ جس طرح وہ کروڑوں سے نہیں گھبراتا اسی طرح دس روپے سے بھی نہیں گھبراتا۔
پس اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کا درجہ حاصل کرلینے کے بعد مؤمن دنیا کی کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اُس کی پشت پر ایک قادرِ مطلق ہستی ہے۔ دنیا میں دیکھ لو کہ انگریز کیونکر ایک طاقتور حکومت ہے اس لئے اس کا ایک سپاہی بھی اکڑ اکڑکرچلتا ہے اور لوگ اس سپاہی سے ڈرتے بھی ہیں۔ حقیقت میں وہ اس معمولی سپاہی سے نہیں ڈررہے ہوتے بلکہ اُس سپاہی کی پُشت پر جو زبردست طاقت ہے اُس سے ڈر رہے ہوتے ہیں۔ تو جب ایک معمولی سی دنیاوی حکومت کا سپاہی کسی سے نہیں ڈرتاتو کیا خداتعالیٰ کاسپاہی اور اس کا نوکر کسی سے ڈرسکتا ہے۔
اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کا جواب اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یہ دیتا ہے کہ إِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرْیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ؎۷ یعنی جب کوئی شخص یہ سوال کرے کہ خدا کہاں ہے؟ تو تم اس کو کہہ دو کہ خدا تمہارے بالکل قریب ہے۔ تم بولو وہ آیا۔ گویا دَعْوَۃَ الدَّاعِ ایک سیٹی ہے جو مؤمن کودی جاتی ہے جس طرح ایک سپاہی سیٹی بجاتا ہے اور اُس کی سیٹی کی آواز کے سنتے ہی اُس کے افسر اُس کی مدد کیلئے آن موجود ہوتے ہیں اسی طرح جب مومن دَعْوَۃَ الدَّاعِ کی سیٹی بجاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو اپنی مدد کیلئے بلاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فوراً اُ س سیٹی کی آواز سن کر اُس کے پاس آکر کہتا ہے کہ ہاں بتلائو کیا کہتے ہو؟ میں تمہاری مدد کیلئے آگیا ہوں۔ پس بدبخت اور نالائق ہے وہ شخص جو اِس سیٹی کے اپنے پاس ہوتے ہوئے بھی کسی سے ڈرتا ہے۔
قصوں کی کتابوں میں ایسی کہانیاں لکھی ہوتی ہیں کہ فلاں دیو فلاں شخص کو جاتا ہؤا بال دے گیا اور کہہ دیا کہ اگر تم کو میری مدد کی ضرورت ہو تو اِس بال کو آگ دکھادینا مَیں فوراً تمہارے پاس تمہاری مدد کیلئے آن پہنچوںگا۔ یہ تو فرضی کہانیاں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے حقیقت میں ہم کو اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ کا بال دیاہؤا ہے جس کے ذریعہ سے ہم اپنے پروردگار کو جس وقت چاہیں نہایت آسانی سے اپنی مدد کیلئے بُلاسکتے ہیں اور اِس بال کے مل جانے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اپنے دل میں خوف رکھتا ہے تو وہ ازلی شقی اورپاگل ہے اور اللہ تعالیٰ کو پکارنا بعض اوقات اس طور پر بھی ہوتا ہے کہ ہم اس کی راہ میں مارے جائیں یا اور قسم کے مصائب ہم پر ٹوٹیں۔ تو جب ہم اُس کی راہ میں مارے جائیں گے تو یہی ہماری طرف سے خداتعالیٰ کو پکارنا ہوگا اور خداتعالیٰ فوراً ہماری مدد کو آئے گا۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ خوف کے ذریعہ سے ہی انسان سے اپنے آپ کو آواز دِلواتا ہے لیکن اس آواز کے آتے ہی اس انسان کے پاس جانے میںدیرنہیں کرتا اور آتے ہی دنیا کانقشہ بدل دیتاہے، حکومتوں کو تبدیل کردیتا ہے اور اس طرح مؤمن کو ترقی دیتا ہے۔ کیا اگلے زمانہ میں اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو ان کی تجارت نوکریاں بڑھادینے سے ترقی دیا کرتا تھا؟ نہیں بلکہ ان سے مالی و جانی قربانیاں لے کر اور ان کو شدید امتحانوں میں ڈال کر ترقی دیا کرتا تھا۔ ہاں جب مؤمن اس امتحان میں پاس ہوجاتا ہے تو وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت اُس کی مدد کیلئے جوش میں آتی اور دنیا کو بتا دیتی ہے کہ جس شخص میں کامل عبودیت پیدا ہوجائے اُس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے استعانت حاصل ہوتی ہے اور اُس ایک شخص کے بدلہ میں خداتعالیٰ دنیا کو زیروزبر کرنے کیلئے تیار ہوجاتا ہے۔
(مأخوذ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
؎۱ بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم فی الصَّوْمِ (مفہوماً)
؎۲ الفاتحۃ: ۵
؎۳ تذکرہ صفحہ ۵۰ ۔ ایڈیشن چہارم
؎۴ بخاری کتاب الدعوات باب فَضْلِ ذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ
؎۵ سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۲۵۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
؎۶ آل عمران: ۱۳۴ ؎۷ البقرۃ: ۱۸۷



۳۱
احمدی اس نعمت کی قدر کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے سپرد کی ہے
دوست اپنی اولاد کی اور دوسرے نوجوانوں
کی اصلاح کریں
(فرمودہ ۲۱؍ اگست ۱۹۳۶ئ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
انسان کی پیدائش جس اعلیٰ مقصد کیلئے ہوئی ہے اُس کومدنظر رکھتے ہوئے دنیا میں بہت سے فلاسفر اور بہت سے تعلیم یافتہ انسان یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا انسان کی پیدائش کے مقصد میں کامیابی ہوئی ہے اور بنی نوع انسان کے ذریعہ سے خداتعالیٰ نے وہ کام لے لیا ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے اس نے انسان کو پیدا کیا تھا؟ وہ مقصد جسے خداتعالیٰ نے انسانی پیدائش میں مدنظر رکھا ہے یہ ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ ؎۱ یعنی میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف عبادت کیلئے یا اپنا عبد بنانے کیلئے پیدا کیا ہے۔ وہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا واقعہ میں انسان اس مقصد کوپورا کررہا ہے اور کیا واقعہ میں اس نے اس قِسم کی ترقی کی ہے کہ خدا کا عبد کہلانے کا مستحق ہو؟ اور پھر ان کا جواب یہ ہے کہ نہیں۔ اور اس لئے وہ سوال کرتے ہیں کہ اگر انسان کا کوئی پیدا کرنے والا ہے تو کیوں اسے اس مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء اس سوال کاجواب دینے کیلئے آتے ہیں اور دنیا میں نیکی کی ایسی رَو چلاتے ہیں کہ جسے دیکھ کر دشمن کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ مقصد پورا ہوگیا ہے اور اس دن کی آمد کیلئے اگر ہزار دن بھی انتظار کرنا پڑے تو گراں نہیںہوتا۔
پس انبیاء کا زمانہ اتنا قیمتی ہوتاہے کہ اس کی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی انبیاء کے زمانہ کولیلۃ القدر قرار دیا ہے چنانچہ فرمایا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ ؎۲ یعنی وہ ایک رات ہزار مہینوں سے اچھی ہے۔ گویا ایک صدی کے انسان بھی اس ایک رات کیلئے اگر قربان کردیئے جائیں تو یہ قربانی کم ہوگی بہ مقابلہ اُس نعمت کے جو انبیاء کے ذریعہ دنیا کو حاصل ہوتی ہے۔ اس میں مؤمنوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ انہیں نبوت کے زمانہ کی قدر کرنی چاہئے۔
کچھ عرصہ ہؤا میں نے کچھ خطبات عملی اصلاح کے متعلق پڑھے تھے اور جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ عظیم الشان مقصد جس کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت ہوئی اسے پورا کرنے کیلئے ہمیں بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے۔ اعتقادی رنگ میں ہم نے دنیا پر اپناسکہ جمالیا ہے مگر عملی رنگ میں اسلام کا سکہ جمانے کی ابھی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیرمخالفوں پر حقیقی اثر نہیں ہوسکتا۔ موٹی مثال عملی رنگ میں سچائی کی ہے یہ ایسی چیز ہے جسے دشمن بھی محسوس کرتا ہے۔ دل کا اخلاص اور ایمان دشمن کو نظر نہیں آتا مگر سچائی کو وہ دیکھ سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے پہلے کا واقعہ ہے کہ خاندانی جائداد کے متعلق ایک مقدمہ تھا اسی مکان کے چبوترے کے متعلق جس میں اب صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں اس چبوترے کی زمین دراصل ہمارے خاندان کی تھی مگر اس پر دیرینہ قبضہ اس گھر کے مالکوں کا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بڑے بھائی صاحب نے اس کے حاصل کرنے کیلئے مقدمہ چلایا اور جیسا کہ دنیاداروں کا قاعدہ ہے کہ جب زمین وغیرہ کے متعلق کوئی مقدمہ ہو اور وہ اپنا حق اس پر سمجھتے ہوں تو اس کے حاصل کرنے کیلئے جھوٹی سچی گواہیاں مہیا کرتے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی ملکیت ثابت کرنے کیلئے جھوٹی سچی گواہیاں دلائیں۔ اس پر اس گھر کے مالکوں نے یہ امر پیش کردیا کہ ہمیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ان کے چھوٹے بھائی کو بُلاکر گواہی لی جائے اور جو وہ کہہ دیں ہمیں منظور ہوگا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بطور گواہ عدالت میں پیش ہوئے اور جب آپ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ان لوگوں کو اس رستہ سے آتے جاتے اور اس پر بیٹھتے عرصہ سے دیکھ رہے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ اس پر عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ آپ کے بڑے بھائی صاحب نے اسے اپنی ذلّت محسوس کیا اوربہت ناراض ہوئے مگر آپ نے فرمایا کہ جب واقعہ یہ ہے تو میں کس طرح انکار کرسکتاتھا۔
اسی طرح آپ کے خلاف ایک مقدمہ چلایا گیا کہ آپ نے ڈاک خانہ کودھوکا دیا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس زمانہ میں یہ قانون تھا کہ اگر کوئی شخص پیکٹ میں کوئی چٹھی ڈال کر بھیج دے تو سمجھا جاتا تھا کہ اس نے ڈاک خانہ کو دھوکا دیا ہے اور ایسا کرنا فوجداری جُرم قرار دیا جاتا تھا جس کی سزا قید کی صورت میں بھی دی جاسکتی تھی۔ اب وہ قانون منسوخ ہوچکا ہے اب زیادہ سے زیادہ ایسے پیکٹ کوبیرنگ کردیاجاتاہے۔ اتفاقاً آپ نے ایک پیکٹ مضمون کااشاعت کیلئے ایک اخبا رکوبھیجا اور اس قانون کے منشاء کو نہ سمجھتے ہوئے اس میں ایک خط بھی لکھ کرڈال دیا جو اس اشتہار کے ہی متعلق تھا اور جس میں اسے چھاپنے وغیرہ کے متعلق ہدایات تھیں۔ پریس والے غالباً عیسائی تھے اُنہوں نے اِس کی رپورٹ کردی اور آپ پر مقدمہ چلادیا گیا۔ آپ کے وکیل نے کہا کہ پیش کرنے والوں کی مخالفت تو واضح ہے اس لئے ان کی گواہیوں کی کوئی حقیقت نہیں اگر آپ انکار کردیں تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ اُس زمانہ میں اکثر مقدمات میں آپ کی طرف سے شیخ علی احمد صاحب وکیل گورداسپوری پیروی کیا کرتے تھے اور آپ کی پاکیزہ زندگی کو دیکھ کر دعویٰ کے بعد بھی گو وہ احمدی نہ تھے آپ پر بہت حُسنِ ظن رکھتے تھے۔ انہوں نے آپ سے کہا کہ اور کوئی گواہ تو ہے نہیں پھر وہ خط اسی مضمون کے متعلق ہے اور اسے اشتہار کا حصہ ہی کہا جاسکتاہے اس لئے آپ بغیر جھوٹ کا ارتکاب کئے کہہ سکتے ہیں کہ میں نے تو اشتہار ہی بھیجا تھا خط کوئی نہیں بھیجا۔ مگر آپ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ یہ نہیں ہوسکتا جوبات میں نے کی ہے اس کا انکار کس طرح کرسکتا ہوں۔ چنانچہ جب آپ پیش ہوئے اور عدالت نے دریافت کیا کہ آپ نے کوئی خط مضمون میں ڈالا تھا تو آپ نے فرمایا ہاں۔ اس راستبازی کا دوسروں پر تو اثرہونا تھاہی خود عدالت پر ہی اس قدر اثر ہؤا کہ اس نے آپ کو بَری کردیا اور کہا کہ ایک اصطلاحی جُرم کیلئے ایسے راستباز آدمی کو سزا نہیں دی جاسکتی۔
اسی طرح کئی واقعات مقدمات میں آپ کو ایسے پیش آتے رہے جن کی وجہ سے اِن وکلاء کے دلوں میں جن کو ان مقدمات سے تعلق رہا کرتا تھا آپ کی بہت عزت تھی۔ چنانچہ ایک مقدمہ میں آپ نے شیخ احمد علی صاحب کووکیل نہ کیا تو انہوں نے لکھا کہ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے اس مقدمہ میں مجھے وکیل نہیں کیا اس لئے نہیں کہ میں کچھ لینا چاہتا تھا بلکہ ا س لئے کہ مجھے خدمت کا موقع نہیں مل سکا۔ تو سچائی اور راستبازی ایک ایسی چیز ہے کہ دشمن بھی اس سے اثر قبول کئے بغیرنہیںرہ سکتا۔ شیخ علی احمد صاحب آخر تک غیراحمدی رہے اور انہوں نے بیعت نہیں کی مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ظاہری رنگ میں آپ کا اخلاص احمدیوں سے کسی طرح کم نہ تھا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے آپ کی سچائی کو ملاحظہ کیا تھا اور صرف شیخ علی احمد صاحب پر ہی کیا موقوف ہے جن جن کوبھی آپ سے ملنے کا اتفاق ہؤا ان کی یہی حالت تھی۔ جب جہلم میں مولوی کرم دین صاحب نے آپ پر مقدمہ کیا تو ایک ہندو وکیل لالہ بھیم سین صاحب کی چٹھی آئی کہ میر الڑکا بیرسٹری پاس کرکے آیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اسے آپ کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہو اس لئے آپ اس کو اجازت دیں کہ وہ آپ کی طرف سے پیش ہو۔ جس لڑکے کے متعلق انہوں نے یہ خط لکھا تھا وہ اب تک زندہ ہیں۔ پہلے لاء کالج کے پرنسپل تھے پھر جموں ہائیکورٹ کے چیف جج مقرر ہوئے اور اب وہاں سے ریٹائر ہوچکے ہیں۔ انہوں نے الحاح سے یہ درخواست اِس واسطے کی کہ اُن کوسیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ کچھ عرصہ رہنے کا اتفاق ہؤا تھا اور وہ آپ کی سچائی کو دیکھ چکے تھے۔ پس معلوم ہؤا کہ سچائی ایک اعلیٰ پایہ کی چیز ہے جسے دیکھ کردشمن کو بھی متأثر ہونا پڑتا ہے۔ سچائی ایک ایسی چیز ہے جو اپنوں پر ہی نہیں بلکہ غیروں پر بھی اثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ انبیاء دنیا میں آکر راستی اور سچائی کو قائم کرتے ہیں اور ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں کہ دیکھنے والا متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور نقل کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے دنیا میں آکر کوئی توپیں اورمشین گنیں ایجاد نہیں کی تھیں، بینک جاری نہیں کئے تھے یا صنعت و حرفت کی مشینیں ایجاد نہیں کی تھیں پھر وہ کیا چیز تھی جو آپ نے دنیا کو دی اورجس کی حفاظت آپ کے ماننے والوں کے ذمہ تھی۔ وہ سچائی کی روح اور اخلاق فاضلہ تھے۔ یہ چیز پہلے مفقود تھی آپ نے اسے کمایا او رپھر یہ خزانہ دنیا کو دیا اور صحابہؓ اور ان کی اولادوں اور پھر ان کی اولادوں کے ذمّہ یہی کام تھا کہ ان چیزوں کی حفاظت کریں۔
رسول کریم ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو چونکہ عرب کے لوگ وحی اور الہام سے ناآشنا تھے۔ آپ یہ حکم سن کرکہ آپ ساری دنیا کو خداتعالیٰ کاکلام پہنچائیں کچھ گھبرائے۔ یعنی اس لئے کہ آپ اس عظیم الشان ذمہ واری کو کس طرح پورا کریں گے اور اسی گھبراہٹ میں آپ حضرت خدیجہؓ کے پاس تشریف لائے۔ شدّتِ جذبات سے آپ اُس وقت سردی محسوس کررہے تھے حتّٰی کہ جب آپ گھر میںداخل ہوئے تو آپ نے فرمایا زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِیْ مجھے کپڑا اوڑھادو، مجھے کپڑا اوڑھادو۔حضرت خدیجہؓنے دریافت فرمایا کہ آپ کو کیا تکلیف ہے؟ تو آپ نے انہیں سب واقعہ سنایا۔ اِس پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیاکہ کَلاَّ وَاللّٰہِ لاَ یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا ہرگز نہیں ہرگز نہیں ۔ خدا کی قَسم! خدا آپ کوکبھی رُسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ میں فلاں فلاں خوبیاں ہیں۔ اور ان خوبیوں میں سے ایک یہ بتائی کہ تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ ؎ ۳ یعنی جو اخلاق دنیا سے اٹھ گئے تھے آ پ نے اپنے وجود میں ان کو دوبارہ پیداکیاہے او ربنی نوع انسان کی اس کھوئی ہوئی متاع کو دوبارہ تلاش کیا ہے پھر بھلا خدا آپ جیسے وجود کو کس طرح ضائع کرسکتا ہے۔ تو انبیاء کی بعثت کی یہی غرض ہوتی ہے او رمؤمنوں کے سپرد یہی امانت ہوتی ہے جس کی حفاظت کرناان کافرض ہوتا ہے۔
محبت کی وجہ سے انبیاء کا وجود مؤمنوں کو بے شک بہت پیارا ہوتا ہے مگر حقیقت کے لحاظ سے انبیاء کی عظمت کی وجہ وہی نور ہے جسے دنیا تک پہنچانے کیلئے خداتعالیٰ ان کو مبعوث کرتا ہے۔ انہیں خداتعالیٰ کا وہ پیغام ہی جو وہ لاتے ہیں بڑا بناتا ہے۔ پس جب نبی کے اَتباع اس وجود کی حفاظت کیلئے اپنی جانیں قربان کردیتے ہیں تو اس پیغام کی حفاظت کیلئے کیا کچھ نہ کرنے کیلئے تیار ہوں گے۔
رسول کریم ﷺ کی جان کی حفاظت کیلئے صحابہ کرام نے قربانیاں کیں وہ واقعات پڑھ کربدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ان کی محبت دیکھ کر آج بھی دل میں محبت کی لہر پیداہوجاتی ہے۔احد کی جنگ میں ایک موقع ایسا آیا کہ صرف ایک صحابی رسول کریم ﷺ کے ساتھ رہ گئے اور دشمن بے تحاشا تیر اور پتھر پھینک رہے تھے ۔ اُس صحابی نے اپنا ہاتھ حضور کے چہرہ مبارک کی طرف کردیا اور اس پر اتنے تیر اور پتھر لگے کہ وہ ہاتھ ہمیشہ کیلئے بیکار ہوگیا۔ ایک دفعہ اُس صحابی سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے اس ہاتھ کو کیا ہؤا ؟تو انہوں نے بتایا کہ اس طرح آنحضرت ﷺپر حملہ ہؤا تھا اور میں نے یہ ہاتھ حضور علیہ السلام کے چہرہ کے آگے کردیا اور اس پر اتنے تیر اور پتھر کھائے کہ یہ ہمیشہ کیلئے شل ہوگیا۔ اس نے دریافت کیا کہ کیا آپ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی؟ انہوں نے کیا لطیف جوا ب دیا کہنے لگے تکلیف تو اتنی تھی کہ اُف نکلنا چاہتی تھی مگر میں نکلنے نہیں دیتا تھا کیونکہ اگر اُف کرتا تو ہاتھ ہل جاتا کوئی تیر رسول کریم ﷺ کو لگ جاتا۔ تو تم اس قربانی کا اندازہ کرو اور سوچو کہ تم میں سے آج اگر کسی کی انگلی کو زخم آجائے تو وہ کتنا شور مچاتا ہے مگر اس صحابی نے ہاتھ پر اتنے تیرکھائے کہ وہ ہمیشہ کیلئے خشک ہوگیا۔
ایک اور صحابی کا بھی اسی قسم کا واقعہ ہے یہ بھی احد کے موقع کا ہے احد کی جنگ میں جب بعض صحابہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونے کے بعد پھر اکٹھے ہوئے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو! کون کون شہید اور کون کون زخمی ہؤا ہے؟ اس پر بعض صحابہؓ میدانِ جنگ کا جائز ہ لینے کیلئے گئے۔ ایک صحابی نے دیکھا کہ ایک انصاری میدان میں زخمی پڑے ہوئے ہیں۔وہ ان کے پاس پہنچے تو معلوم ہؤا کہ ان کے بازو اور ٹانگیں کٹی ہوئی ہیں اور اُن کی زندگی کی آخری گھڑی قریب آرہی ہے۔ اس پر وہ صحابی ان کے نزدیک ہؤا اور ان سے پوچھا کہ اپنے عزیزوں کو کوئی پیغام پہنچانا ہو تو بتادیں میں پہنچادوں گا۔ اُس زخمی انصاری نے کہا کہ میں انتظار میں ہی تھا کہ کوئی دوست اِدھر سے گزرے تو میں اُسے اپنے عزیزوں کے نام ایک پیغام دوں۔ سو تم میرے عزیزوں کو میرا یہ پیغام پہنچادینا کہ محمد رسول اللہ ﷺ ایک قیمتی امانت ہیں جب تک ہم زندہ رہے ہم نے اپنی جانوں سے ان کی حفاظت کی اور اب کہ ہم رخصت ہورہے ہیں میں امیدکرتا ہوں کہ وہ ہم سے بھی بڑھ کرقربانیاں کرکے اس قیمتی امانت کی حفاظت کریں گے ؎۴ ۔
غور کرو۔ موت کے وقت جبکہ وہ جانتے تھے کہ بیوی بچوں کو کوئی پیغام دینے کیلئے اب ان کیلئے کوئی اور وقت نہیں۔ ایسے وقت میں جب انسان کو جائداد کے تصفیہ اور لین دین کے انفصال کاخیال ہوتا ہے اور جب لوگ اپنے پسماندگان کی بہتری کی فکر سے مشوش ہورہے ہوتے ہیں اُس وقت بھی اس صحابی کو یہی خیال آیاکہ میں تومحمد رسول اللہ ﷺ کی حفاظت میں جان دے رہا ہوں اور تم سے امید کرتا ہوں کہ تم بھی اسی راہ پر گامزن رہوگے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی جان کے مقابلہ میں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کرو گے۔ پس جن لوگوں نے آنحضرت ﷺ کی ذات کیلئے یہ قربانیاں کیں وہ اس پیغام کیلئے جو آپ لائے کیا کچھ قربانیاں نہ کرسکتے ہوں گے اور انہوںنے کیاکچھ نہ کیاہوگا۔
صحابہ نے اس بارہ میںجو کچھ کیا اس کی مثال کے طور پر میں رسول کریم ﷺ کی وفات کا واقعہ پیش کرتاہوں۔ جب آپ کی وفات کی خبر صحابہ میں مشہور ہوئی تو ان پر شدید محبت کی وجہ سے گویا غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ حتّٰی کہ بعض صحابہ نے یہ خیال کیا کہ یہ خبر ہی غلط ہے کیونکہ ابھی آپ کی وفات کا وقت نہیں آیا کیونکہ ابھی بعض منافق مسلمانوں میں موجود ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اِسی خیال میں مبتلاء ہوگئے اور تلوار لے کر کھڑے ہوگئے کہ جوکہے گا آپ فوت ہوگئے ہیں مَیں اُس کی گردن اُڑادوں گا ؎۵ ۔ آپ آسمان پرگئے ہیں پھر دوبارہ تشریف لاکر منافقوں کو ماریں گے اور پھر وفات پائیں گے۔ بہت سے صحابہ بھی آپ کے ساتھ شامل ہوگئے اور کہنے لگے کہ ہم کسی کو یہ نہیں کہنے دیں گے کہ آپ وفات پاگئے ہیں۔ بظاہر یہ محبت کا اظہار تھا مگر دراصل اُس تعلیم کے خلاف تھا جو آنحضرت ﷺ لائے کیونکہ قرآن کریم میں صاف موجود ہے اَفَأِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ ؎۶ یعنی کیا اگر رسول کریم ﷺ فوت ہوجائیں یا قتل ہوجائیں توکیا اے مسلمانو! تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائو گے ۔ بعض صحابہ اس رَو میں بہنے سے بچ گئے اور انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف جواُس وقت اتفاقاً مدینہ سے چند میل باہر گئے ہوئے تھے ایک آدمی بھیجا جو آ پ کو ان حالات کی خبر دے اور بلا کر بھی لائے۔ آپ کو جب یہ خبر ملی تو آپ جلد واپس مدینہ تشریف لائے او رسیدھے اُس حجرہ میں چلے گئے جس میں آپؐ کا جسمِ اطہر رکھا ہؤا تھا اور آپ نے آپؐ کے چہرہ سے چادر اٹھائی اور دیکھاکہ واقعہ میں آپؐ فوت ہوچکے ہیں۔ پھر جھکے اورپیشانی پر بوسہ دیا آپ کی آنکھوں سے آنسونکل پڑے اور جسمِ اطہر کو مخاطب کرکے فرمایاکہ میرے ماں باپ آپ پر فداہوں اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں نہیں لائے گا ؎۷ ۔ یعنی ایک تو ظاہری موت اور دوسرے یہ کہ آپ کی لائی ہوئی تعلیم مٹ جائے۔ پھر آپ باہر تشریف لائے جہاں صحابہ جمع تھے اور جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ تلوارہاتھ میں لے کر بڑے جوش میں یہ اعلان کررہے تھے کہ جو کہے گا آپ فوت ہوگئے ہیں وہ منافق ہے اورمیں اُس کی گردن اُڑادوں گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لائے اور لوگوں کوخاموش ہونے کو کہا اور بڑے زور سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ چُپ رہو مجھے بات کرنے دو اور پھر یہ آیت پڑھی مَامُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَأِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ صرف خدا کے رسول ہیں آپ سے قبل جتنے رسول آئے وہ سب فوت ہوچکے ہیں اگر آپ فوت ہوجائیں یا قتل ہوجائیں تو کیا تم اپنے دین کو چھوڑ دو گے اور سمجھو گے کہ تمہارا دین ناقص ہے؟ پھر نہایت جوش سے فرمایا کہ اے لوگو مَنْ کَانَ یَعْبُدُاللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لاَ یَمُوْتُ جو تم میں سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ خوش ہوجائے کہ ہمارا خدا زندہ ہے اور کبھی نہیں مرسکتا۔ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ ؎۸ لیکن جو محمد رسول اللہ کی عبادت کرتا تھاوہ سن لے کہ آپ فوت ہوگئے ہیں۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بالا آیت پڑھی مجھے ایسا معلوم ہؤا گویا آسمان پھٹ گیا ہے میری ٹانگیں لڑکھڑاگئیں اور پائوں کی طاقت سلب ہوگئی اور میں بے اختیار ہوکر زمین پر گر پڑا ؎۹ ۔ اُس وقت مجھے معلوم ہؤا کہ واقعی آنحضرت ﷺ فوت ہوگئے ہیں۔
دیکھو! حضرت ابوبکرؓ کو آنحضرت ﷺسے کتنی محبت تھی کہ جب انہیں معلوم ہوگیا کہ آپ فوت ہوگئے ہیں تو بے اختیار ہوکر آپ کے جسمِ مبارک کو بوسہ دیا، آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے مگر دوسری طرف اُس سچائی سے کتنی محبت تھی جو آپ لائے تھے کہ حضرت عمرؓ جیسابہادر تلوارلے کر کھڑ اہے کہ جوکہے گا آپ فوت ہوگئے ہیں میں اسے جان سے ماردوں گا اور بہت سے صحابہ ان کے ہم خیال ہیں مگر باوجود اس کے آپ نڈر ہوکرکہتے ہیں کہ جوکہتا ہے محمد رسو ل اللہ ﷺ زندہ ہیں وہ گویا آپ کو خدا سمجھتا ہے میں اسے بتاتا ہوں کہ آپ فوت ہوگئے ہیں۔ مگر وہ خدا جس کی آپ پرستش کرانے آئے تھے وہ زندہ ہے۔ یہ سچائی کا اثر تھا جو محمد ﷺ نے صحابہ کے دلوں میں پیداکردی تھی کہ وہ صحابہ جوننگی تلواریں لے کرکھڑے تھے انہوں نے یہ بات سنتے ہی سر جھکا دیئے اور تسلیم کرلیا کہ ٹھیک ہے آپ واقعہ میں فوت ہوگئے ہیں۔
بعض نادان شاید کہہ دیں اور ایک قوم کہتی بھی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو رسول کریم ﷺسے کامل محبت نہ تھی چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کو آنحضرت ﷺ کو دفن کرنے کا فکرنہ ہؤا بلکہ آپ خلیفہ کے انتخاب میں مشغول ہوگئے مگر یہ معترض غلطی پر ہیں حضرت ابوبکرؓ نے جوکچھ کیا وہ اس تعلیم کی حفاظت کیلئے کیا جو آنحضرت ﷺ لائے تھے ورنہ حضرت ابوبکرؓ کو جوبے مثل محبت رسول کریم ﷺ کے وجود سے تھی وہ مندرجہ ذیل واقعہ سے ظاہر ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اپنی وفات سے قبل ایک لشکر تیار کیا تھاکہ شام کے بعض مخالفین کو جاکر ان کی شرارتوں کی سزا دے۔ ابھی یہ لشکر روانہ نہیں ہؤا تھا کہ آپؐ کی وفات ہوگئی۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے اور اکثر صحابہ نے اتفاق کرکے آپ سے عرض کیا کہ اس لشکر کی روانگی ملتوی کردی جائے کیونکہ چاروں طرف سے عرب میں بغاوت کی خبریں آرہی تھیں اورمکہ، مدینہ اور صرف ایک اور گائوں تھا جس میں باجماعت نماز ہوتی تھی کہ لوگوں نے یہ مطالبہ شروع کردیا تھا کہ ہم زکوٰۃ نہیں دیں گے۔ پس صحابہ نے مشورہ کرکے حضرت عمرؓ کوحضرت ابوبکرؓ کے پاس بھیجا کہ وہ کچھ عرصہ کیلئے اس لشکر کوروک لیں کیونکہ بوڑھے بوڑھے لوگ یا بچے ہی اگر مدینہ میں رہ گئے تو وہ باغی لشکروں کامقابلہ کس طرح کرسکیں گے۔ مگر حضرت ابوبکرؓ نے ان کوجواب دیا کہ کیا ابوقحافہ کے بیٹے کی یہ طاقت ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بھیجے ہوئے لشکر کو روک لے؟ کیا تم چاہتے ہو کہ آپ کی وفات کے بعد میں پہلا کام یہی کروں کہ جو لشکر آپ نے بھیجنا تجویز کیا تھا اسے روک لوں؟ خدا کی قسم! اگر باغی مدینہ میں داخل بھی ہوجائیں اور ہماری عورتوں کی لاشوں کو کُتّے گھسیٹتے پھریں جب بھی وہ لشکر ضرور جائے گا ؎۰۱ ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو آپ سے کتنا عشق تھا مگر چونکہ آپ صدیقیت کے مقام پرتھے اس لئے جانتے تھے کہ آپ کی لائی ہوئی تعلیم کی عظمت اس سے بھی زیادہ ہے۔ پس ان لوگوں نے خداتعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم کو لیا اور اسے قائم رکھا حتّٰی کہ دشمن بھی اقرار کرتے ہیں کہ اسے ذرّہ بھر بھی نہیں بدلا گیا۔ عیسائی، ہندو، یہودی غرضیکہ سب مخالف قومیں تسلیم کرتی ہیں کہ قرآن کریم کاایک شوشہ بھی نہیں بدلا۔ تبدیلی ابتدائی زمانہ میں ہی ہوسکتی تھی جب دوسری قوموں کی نظریں نہ پڑتی تھیں مگر ان لوگوںنے اپنی جانوں سے اس تعلیم کی حفاظت کی اور اس میں ایک شوشہ کا بھی تغیرنہ ہونے دیا نہ صرف لفظی بلکہ معنوی طور پر بھی ۔
اب اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا کہ تا آپ اخلاقِ فاضلہ، رسول کریم ﷺ کی محبت اور عشق دلوں میں قائم کریں اور محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت کا اجراء کریں اور ہمیں اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم نے ان چیزوں کی اسی طرح حفاظت کرنی ہے جس طرح صحابہؓ نے کی تھی ہم میں اور دوسری قوموں میں ایسا امتیاز ہونا چاہئے کہ پتہ لگ سکے کہ ہم نے اس امانت کوقائم رکھا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک جماعت ایسی موجود تھی مگر سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ نسلوں میں بھی یہی جذبہ موجود ہے؟ کیا کوئی عقلمندیہ پسندکرسکتا ہے کہ ایک اچھی چیز اسے تو ملے مگر اس کی اولاد اس سے محروم رہے؟ پھر تم کس طرح سمجھ سکتے ہو کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی قدروقیمت جانتا ہے وہ پسند کرے گا کہ وہ اس کے ورثاء کو نہ ملے لیکن اس کی زمین اور اس کے مکانات انہیں مل جائیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلاَّ لَعِبٌ وَّ لَھْوٌ ؎۱۱ دُنیوی زندگی لہوولعب کی طرح ہے یہ سب کھیل تماشہ کی چیزیں ہیں یہ ایسی ہی ہیں جس طرح فٹ بال، کرکٹ یاہاکی ہوتی ہے۔ پھر کیا کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ حکومت اس کی زمین، مکان اور جائداد تو ضبط کرلے مگر گلی ڈنڈا اُس کے بیٹے کو دے دے یا کوئی پھٹا پُرانا فٹ بال یا ٹُوٹا ہؤا ٹینس ریکٹ یا ہاکی کی سٹک اُس کے بیٹوں کودے دے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیوی چیزیں لہو و لعب ہیں اور دین و دنیا میں وہی نسبت ہے جو ایک حقیقی چیز کو کھیل تماشہ سے ہوتی ہے اور کوئی شخص یہ کب پسند کرسکتا ہے کہ قیمتی ورثہ تو اُس کی اولاد کو نہ ملے اور لہوولعب کی چیزیں مل جائیں۔ لیکن کیاہم میں ایسے لوگ نہیں ہیں جو عملاًایسا کرتے ہیں۔ جب ان کا بیٹاجھوٹ بولے، چوری کرے یا کوئی اور جُرم کرے تو وہ اس کی تائید کرتے ہیں ۔ میں متواتر دیکھ رہاہوں کہ بعض لڑکے قادیان میں ایسی شرارتیں کرتے ہیں کہ احمدیت تو الگ رہی وہ انسانیت کے بھی خلاف ہوتی ہیں مگر ان کے ماں باپ چوری چھپے ان کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اوّل تو وہ اس وجہ سے مجرم ہیں کہ انہوں نے اولاد کو دینی تعلیم سے محروم رکھا اگر ان کے نزدیک نیکی کی کوئی قیمت ہوتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ اس سے اپنی اولادوں کو محروم رکھتے اور اگر اس میں کوتاہی کی تھی تو پھر مجرم کی اعانت سے ہی باز رہتے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ؎۲۱ نیکی اور تقویٰ میں ضرور تعاون کرو مگر بدی اور عدوان میں تعاون نہ کرو۔ پہلا جُرم تو انہوں نے یہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا قُوْااَنْفُسَکُمْ وَ اَھْلِیْکُمْ نَارًا ؎ ۳۱ اپنے آپ کو اور اپنے بیوی بچوں کو جہنم کی آگ سے بچائو مگر انہوں نے ایسا نہ کیا اور دوسرا جُرم یہ کرتے ہیں کہ وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ کے حکم الٰہی کو توڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو دین کو نعمت قرار دیتاہے مگر وہ جماعت جو دین کودنیا پر مقدم رکھنے کی دعویدار ہے اس میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اوّل تو اپنی اولادوں کودین سے محروم رکھتے ہیں اور پھر جب وہ شرارت کریں تو ان کی مدد کرتے ہیں حالانکہ وہ بعض ایسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں کہ جن پر شرافت اور انسانیت بھی چِلّا اُٹھتی ہے چہ جائیکہ احمدیت اور ایمان ان کے متحمل ہوسکیں۔ مگر ایسے مجرموں کے والدین، بھائی،رشتہ دار بلکہ دوست ان کی مدد کرتے ہیں اور یہ نہیںسوچتے کہ ایسا کرنے سے ایمان کہاں باقی رہ جاتا ہے ایسے آدمی کا دین تو آسمان پر اُڑ جاتا ہے۔
محمد رسول اللہ ﷺ کو دیکھو ایک دفعہ بعض صحابہ نے آپ کے پاس کسی مجرم کی سفارش کی تو آپ نے فرمایاخدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو وہ بھی سزا سے نہیں بچ سکے گی ؎۴۱ ۔ تو تقویٰ اور طہارت ایسی نعمت ہے کہ اس کے حصول کیلئے انسان کو کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہمیں جو دولت ملی ہے وہ اعلیٰ اخلاق ہی ہیں اور اپنی اولادں کو ان کاوارث بناناہمارا فرض ہے اور اگر غفلت کی وجہ سے اس میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو مؤمن کافرض ہے کہ وہ تعاون عَلَی الْاِثْمِ نہ دکھائے بلکہ اُسی وقت اس سے علیحدہ ہوجائے جس نے جُرم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں سے اس کی ایسی مثالیں دکھائی ہیں کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایسا کرنا ناممکن ہے۔
سیّد حامد شاہ صاحب مرحوم بہت مخلص احمدی تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن کو اپنے بارہ حواریوں میں سے قرار دیا تھا چنانچہ میرے سامنے جب اپنے حواریوں کے نام گنے تو ان کا بھی نام لیا اور پھر ان کے نیک انجام نے ان کے درجہ کی بلندی پر مُہر بھی لگادی۔ ایک دفعہ ان کے لڑکے کے ہاتھ سے ایک شخص قتل ہوگیا مگر یہ قتل ایسے حالات میں ہؤا کہ عوام کی ہمدردی ان کے لڑکے کے ساتھ تھی۔ دراصل مقتول کی زیادتی تھی جس پر لڑائی ہوگئی ان کے لڑکے نے اُسے مُکّہ مارا اور وہ مرگیا۔ اس وقت سیالکوٹ کا ڈپٹی کمشنر جو انگریز تھا وہ ایسے افسروں میں سے تھا جو جُرم ثابت ہو یانہ ہو سزا ضرور دینا چاہتے ہیں تا رُعب قائم ہو۔ اسے خیال آیا کہ میر حامد شاہ صاحب میرے دفتر کے سپرنٹنڈنٹ ہیں اگر میں ان کے لڑکے کو سزادوں گا تو میرے انصاف کی دھوم مچ جائے گی اس لئے شاہ صاحب کوبلایا اور پوچھا کہ کیا واقعی آپ کے لڑکے نے قتل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا میں تو وہاں موجود نہ تھا لیکن سنا ہے کہ کیا ہے۔ اس نے کہا کہ آپ اسے بلا کر کہہ دیں کہ وہ اقرار کرلے تالوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ہم کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔ آپ نے اپنے لڑکے کوبلا کر پوچھا کہ تم نے اس شخص کو مارا ہے؟ اُس نے کہا ہاں مارا ہے۔ آپ نے فرمایا پھر سچی بات کا اقرار کرلو۔ لوگوں نے کہا کہ کیوں اپنے جوان لڑکے کو پھانسی پر لٹکوانا چاہتے ہو مگر آپ نے فرمایا کہ اِس دنیا کی سزا سے اگلی دنیا کی سزا زیادہ سخت ہے اور اپنے بیٹے کویہی نصیحت کی کہ اقرار کرلے۔ خدا کی قدرت اس نے اقرار تو کرلیا مگر وہ لڑکاکرکٹ کا کھلاڑی تھا اور وہ مجسٹریٹ جس کے پاس مقدمہ تھا وہ بھی کرکٹ کا کھیلنے والا تھا اسے کرکٹ کلب میں معاملہ کی حقیقت معلوم ہوگئی اور چونکہ قانون ایسا ہے کہ اگر مجسٹریٹ کو کسی بات کا یقین ہوجائے تو ملزم سے کچھ پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی اُس نے خود ہی پولیس کے گواہوں پرایسی جرح کی کہ اس لڑکے کی بریت ثابت ہوگئی اور اس نے اس سے کچھ پوچھے بغیر ہی اسے رہا کردیا۔
اِسی قسم کا ایک مقدمہ پچھلے دنوں چوہدری ظفراللہ خان صاحب کے بھائی پر ہؤا ۔چوہدری صاحب اس وقت ولایت میںتھے انہوں نے اپنے بھائی کولکھا کہ یہ ایمان کی آزمائش کا وقت ہے اگر تم سے قصور ہؤا ہے تو میں تمہارا بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے تمہیں نصیحت کرتاہوں کہ اِس دنیا کی سزا سے اگلے جہان کی سزا زیادہ سخت ہے اس لئے اسے برداشت کرلو اور سچی بات کہہ دو۔ تو جو بات ایک شخص کرسکتا ہے کوئی وجہ نہیں کہ دوسرا نہ کرسکے صرف اخلاص اور ایمان کی ضرورت ہے۔ سیالکوٹ کے رہنے والے ہمارے ایک دوست ہیں جو ابھی زندہ ہیں احمدی ہونے کے بعد جب انہیں معلوم ہؤا کہ رشوت لینا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے تو انہوںنے تمام ان لوگوں کے گھروں میں جاجاکر جن سے وہ رشوتیں لے چکے تھے واپس کیں۔ اس سے وہ بہت زیر بار بھی ہوگئے مگر اِس کی انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی۔ تو ہماری جماعت میں ہر قسم کے اعمال کے لحاظ سے ایسے نمونے ملتے ہیں جن کے متعلق کہاجاسکتا ہے کہ وہ صحابہ کے نمونے ہیں لیکن ہمیںان پرخوش نہیں ہوجانا چاہئے بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ ساری جماعت ایسی ہوجائے ایسے لوگوں سے صرف اتنا فائدہ ہوسکتا ہے کہ ان کی مثال دوسروں کے سامنے پیش کرکے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کیا ان کو مال کی ضرورت نہیں، ان کو اپنے بیوی بچوں سے محبت نہیں، پھر اگر وہ خدا کیلئے قربانی کرسکتے ہیں تو تم کیوں نہیں کرسکتے۔
پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس امانت کی قدر کریں جو ان کے سپرد کی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر ہمیں جائدادیں نہیں دیں، حکومتیں نہیںدیں، کوئی ایجادیں نہیں کیں، سامانِ تعیّش مہیا نہیں کئے، صرف ایک سچائی ہے جو ہمیں دی ہے اور اگر وہ بھی جاتی رہے تو کس قدر بدقسمتی ہوگی اور ہم اس فضل کو اپنے ہاتھ سے پھینک دینے والے ہوں گے جو تیرہ سَو سال کے بعداللہ تعالیٰ نے نازل کیا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم کو اسلام دیا، اخلاقِ فاضلہ دیئے اور نمونہ سے بتادیا کہ ان پر عمل ہوسکتاہے۔ پہلے خیال تھا کہ ان چیزوں پرعمل محال ہے مگر آپؑ نے بتادیا کہ عمل ہوسکتا ہے پھر بھی کئی ہیں جو فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ ہم میں سے کئی ہیں جو جوش میں آکر مخالف کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں مگر آپ پر قتل کا ایک جھوٹا مقدمہ بنایا گیا اس وقت اس ضلع کے ڈپٹی کمشنرکیپٹن ڈگلس تھے جو اِس وقت بھی زندہ ہیں اور اب کرنل ڈگلس ہیں۔ وہ اس قدر متعصب تھے کہ جب اِس ضلع میں آئے تو کہا کہ اِس ضلع کے رہنے والا ایک شخص مسیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اب تک کیوںاسے سزا نہیں دی گئی؟ ان کی عدالت میں یہ مقدمہ پیش ہؤا۔ ایک انگریز کہلانے والے شخص نے جو انگریز مشہور تھا مگر دراصل انگریز نہیں پٹھان تھا یہ مقدمہ کیا تھا ۔ اس کے انگریز کہلانے کی وجہ یہ تھی کہ پٹھان ہونے کے سبب سے اُس کا رنگ انگریزوں کی طرح گورا تھا اورپھر ایک انگریز نے اسے بیٹا بنایا ہؤا تھا اس لئے لوگ اُسے انگریز سمجھتے تھے۔ اُس کا نام مارٹن کلارک تھا ان کابیٹا یا بھائی ابی سینا کی سابق حکومت میں وزیر اعظم تھا۔ آپ میں سے کئی ایک نے اخباروں میں پڑھا ہوگا کہ مسٹر مارٹن نے یہ کہا ۔ یہ مارٹن اسی مارٹن کلارک کا بیٹا ہے یا بھائی۔ رشتہ کی تعیین میں اِس وقت نہیں کرسکتا۔ ان مسٹر مارٹن کلارک نے عدالت میں یہ دعویٰ کیا کہ میرے قتل کیلئے مرزا صاحب نے ایک آدمی بھیجا ہے مسلمانوں میں علما ء کہلانے والے بھی اس کے ساتھ اس شورمیں شامل ہوگئے۔ چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب تو اِس مقدمہ میں آپ کے خلاف شہادت دینے کیلئے بھی آئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت بتادیا تھا کہ ایک مولوی مقابل پر پیش ہوگا مگر اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرے گا لیکن باوجود اس کے کہ الہام میں اس کی ذلت کے متعلق بتادیا گیا تھا اور الہام کے پور ا کرنے کیلئے ظاہری طور پر جائز کوشش کرنا ضروری ہوتا ہے مگر مجھے خود مولوی فضل دین صاحب نے جو لاہور کے ایک وکیل اور اس مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے پیروی کررہے تھے سنایا کہ جب میں نے ایک سوال کرنا چاہا جس سے مولوی محمد حسین کی ذلّت ہوتی تھی تو آپ نے مجھے اس سوال کے پیش کرنے سے منع کردیا۔ اصل بات یہ ہے کہ مولوی محمد حسین کی والدہ کنچنی تھی اور مقدمات میں گواہوں پر ایسے سوالات کئے جاتے ہیں کہ جن سے ظاہر ہو کہ وہ بے حیثیت آدمی ہے۔ مولوی فضل دین صاحب نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ سوالات سنائے جو وہ مولوی محمد حسین صاحب پر کرنا چاہتے تھے تو ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ تمہاری ماں کون تھی؟ جسے سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم ایسے سوالات کو برداشت نہیں کرسکتے۔ مولوی فضل دین صاحب نے کہا کہ اس سوال سے آپ کے خلاف مقدمہ کمزور ہوجائے گا اور اگر یہ نہ پوچھا جائے تو آپ کومشکل پیش آئے گی اس لئے کہ گواہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا ایک لیڈر ہونے کی حیثیت سے پیش کررہاہے اور ضروری ہے کہ ثابت کیا جائے کہ وہ ایسا معززنہیں مگر آپ نے فرمایا کہ نہیں ہم اس سوال کی اجازت نہیں دے سکتے۔ مولوی فضل دین احمدی نہیں تھے بلکہ حنفی تھے اور حنفیوں کے لیڈر تھے، انجمن نعمانیہ وغیرہ کے سرگرم کارکن تھے اس لئے مذہبی لحاظ سے تعصّب رکھتے تھے مگر جب بھی کبھی غیراحمدیوں کی مجالس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر کوئی حملہ کیا جاتا تو وہ پُرزور تردید کرتے اور کہتے کہ عقائد کا معاملہ الگ ہے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے اخلاق ایسے ہیں کہ ہمارے علماء میں سے کوئی بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور اخلاق کے لحاظ سے میں نے ایسے ایسے مواقع پر ان کی آزمائش کی ہے کہ کوئی مولوی وہاں نہیں کھڑا ہوسکتا تھا جس مقام پر کہ آپ کھڑے تھے۔ اب دیکھو! ادھر گواہ کے ذلیل ہونے کا الہام ہے، اُدھر اُس کی گواہی آپ کو مجرم بناتی ہے مگر جو بات اس کی پوزیشن کو گرانے والی ہے وہ آ پ پوچھنے ہی نہیں دیتے لیکن جس خدا نے قبل از وقت مولوی محمد حسین صاحب کی ذلّت کی خبر آپ کو دی تھی اس نے ایک طرف تو آپ کے اخلاق دکھا کر آپ کی عزت قائم کی اور دوسری طرف غیرمعمولی سامان پیدا کرکے مولوی صاحب کو بھی ذلیل کرادیا۔ اور یہ اس طرح ہؤا کہ وہی ڈپٹی کمشنر جو پہلے سخت مخالف تھا اس نے جونہی آپ کی شکل دیکھی اس کے دل کی کیفیت بدل گئی او رباوجود اس کے کہ آپ ملزم کی حیثیت میں اس کے سامنے پیش ہوئے تھے اس نے کرسی منگواکر اپنے ساتھ بچھوائی اور اس پر آپ کو بٹھایا۔ جب مولوی محمد حسین صاحب گواہی کیلئے آئے تو چونکہ وہ اس امید میں آئے تھے کہ شاید آپ کے ہتھکڑی لگی ہوئی ہوگی یا کم سے کم آپ کو ذلت کے ساتھ کھڑا کیا گیا ہوگا جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مجسٹریٹ نے اپنے ساتھ کرسی پر بٹھایا ہؤا ہے تووہ غصہ سے مغلوب ہوگئے اور جھٹ مطالبہ کیا کہ مجھے بھی کرسی دی جائے۔ اِس پر عدالت نے کہاکہ نہیں آپ کا کوئی حق نہیں کہ آپ کو کرسی ملے۔مولوی صاحب نے کہا کہ مَیں معزز خاندان سے ہوں اور گورنر صاحب سے ملاقات کے وقت بھی مجھے کرسی ملتی ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے جواب دیاکہ ملاقات کے وقت تو چوہڑے کو بھی کرسی ملتی ہے مگریہ عدالت ہے مرزا صاحب کا خاندان رئیس خاندان ہے ان کا معاملہ اور ہے۔ مولوی صاحب اس پر بھی باز نہ آئے اور کہا کہ نہیں مجھے ضرور کرسی ملنی چاہئے مَیں اہلحدیث کا ایک ایڈووکیٹ ہوں۔ اِس پر ڈپٹی کمشنر کو طیش آگیا اور اس نے کہا کہ بک بک مت کر، پیچھے ہٹ اور جوتیوں میں کھڑا ہوجا۔ مولوی صاحب جب گواہی دے کر باہر نکلے تو برآمدہ میں ایک کرسی پڑی تھی اُس پر بیٹھ گئے کہ لوگ سمجھیں کہ شاید اندر بھی کرسی پر ہی بیٹھے تھے مگر نوکر ہمیشہ آقا کی مرضی کے مطابق چلتے ہیں۔ چپڑاسی نے جب دیکھا کہ صاحب ناراض ہیں تو اس خیال سے کہ برآمدہ میں کرسی پر بیٹھا دیکھ کرمجھے ناراض نہ ہوں آکر کہنے لگا میاں! اُٹھو! کرسی خالی کردو۔ وہاں سے اٹھ کر وہ باہر آئے اور ایک چادربچھی ہوئی تھی اُس پربیٹھ گئے اور خیال کیا کہ چلو اتنی عزت ہی سہی مگر چادر والے نے نیچے سے چادر کھینچتے ہوئے کہاکہ اُٹھو! میری چادر چھوڑدو جو عیسائیوں سے مل کر ایک مسلمان کے خلاف جھوٹی گواہی دینے آیاہو اُسے بٹھا کر میں اپنی چادر پلیدنہیں کراسکتا اور اس طرح ذلّت پر ذلّت ہوتی چلی گئی۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے آپ کی عزت قائم ہوئی۔ اس کے بِالمقابل ہماری جماعت کے کتنے دوست ہیں جو غصہ کے موقع پر اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھو کہ ایسے شدید دشمن کے صحیح واقعات سے بھی اس کی تذلیل گوارا نہیںکرتے مگر ہمارے دوست جوش میں آکر گالیاں دینے بلکہ مارنے پیٹنے لگ جاتے ہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ
رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے
پس ہماری جماعت کو ایک طرف تو یہ اعلیٰ اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے چاہئیں اور دوسری طرف بدی سے پوری پوری نفرت پیدا کرنی چاہئے ایسی ہی نفرت جیسی حضرت رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دکھائی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں بھی یہ دونوں نظارے پائے جاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمن ایک سمویا ہؤا نسان ہوتاہے۔ میں اس موقع پر غیرت کی ایک مثال بھی بیان کردیتاہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ لاہور کے ریلوے سٹیشن پرتھے کہ پنڈت لیکھرام بھی وہاں آگئے او رآپ کو سلام کیا۔ اُس وقت اُن کی شُہرت آریہ لوگوں میں آنحضرت ﷺ کو گالیاں دینے کی وجہ سے خوب ہوچکی تھی اور وہ آریوں کے لیڈر سمجھے جاتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے سلام کا کوئی جواب نہ دیا تو حضور کے ساتھ جو خدام تھے انہوں نے سمجھا کہ شاید آپ نے دیکھانہیں اس لئے عرض کیا کہ حضور پنڈت لیکھرام سلام کرتے ہیں مگر آپ خاموش رہے۔ پنڈت لیکھرام نے بھی اس خیال سے کہ انہوں نے مجھے دیکھا نہیں دوسری طرف ہوکر پھر سلام کیا۔ پھر بھی آپ نے جواب نہ دیا۔ اس پر آپ کے ہمراہی جو شاید فخر محسوس کررہے تھے کہ آریوں کا لیڈر آپ کوسلام کررہاہے پھر انہوں نے آپ کو توجہ دلائی کہ حضور پنڈت لیکھرام جی آپ کو سلام کررہے ہیں۔ ا ِس پر آپ نے جوش سے فرمایا کہ کیا انہیں شرم نہیں آتی کہ آقا کو تو گالیاں دیتے ہیں اور غلام کو سلام کہتے ہیں۔ غرض آپ کے اندر ایک طرف تو بے انتہاء غیرت تھی اور دوسری طرف بے انتہاء رحم اور عفو تھا۔ غیرت تھی تو اِس قدر کہ ایک مشہور لیڈر کا سلام تک لینے کو آپ تیار نہ ہوئے اور رحم تھا تو اتنا کہ ایک شدید مخالف کی ذلّت بھی پسند نہیں کرتے۔ پس یہ اخلاق ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم کو سکھائے اور جنہیں زندہ رکھنے کی کوشش ہماری جماعت کو کرنی چاہئے۔
یاد رکھو کہ جو شخص اپنی اولاد کو نیک اخلاق نہیں سکھاتا وہ نہ صرف یہ کہ اپنی اولاد سے دشمنی کرتا ہے بلکہ سلسلہ سے بھی دشمنی کرتا ہے، آنحضرت ﷺ سے دشمنی کرتاہے اور خدا سے دشمنی کرتاہے۔ مجھے بعض لوگوں نے خطوط لکھے ہیں کہ آپ اعمال کی اصلاح کے متعلق خطبات پڑھ رہے تھے تو بعض نوجوانوں نے داڑھیاں رکھ لی تھیں مگر اِدھر آپ نے خطبات ختم کئے اُدھر اُن کی داڑھیاں غائب ہوگئیں۔ اب بتائو یہ کونسا وعظ ہے جو میں ہر وقت ہی کرتا رہوں اور جس وقت اسے بس کروں اُسی وقت عمل بھی بس ہوجائے۔ بھلا یہ طاقت کس میں ہے کہ روز ہی داڑھی پر لیکچر دیتا رہے۔ مؤمن کیلئے تو اشارہ کافی ہوتا ہے وہ جب صداقت کی بات سن لیتا ہے تو اس کے پیچھے چل پڑتا ہے اور دوبارہ نہیں کہلواتا۔ اگر میں اس طرح لیکچر دیتا رہوں کہ سلسلہ بند ہی نہ ہو تو ہزاروں نیکیاں ہیں ان پر وعظ کیلئے اتنے دن کہاں سے لائوں۔
حضرت خلیفہ اوّل کے پاس ایک مریض آیا اور اس نے ایک سوال کیا۔ یہاں بچے بیٹھے ہیں اس لئے میں وہ سوال تو بیان نہیں کرتامگر اس نے کہا کہ کوئی ایسی دوائی مل جائے کہ میں فلاں کام ۴۸،۵۰ گھنٹے تک کرسکوں۔ آپ نے فرمایا احمق خدا نے تو ۲۴ گھنٹے بنائے ہیں میں تیرے لئے پچاس گھنٹے کہاں سے لائوں۔ تو خد انے ہفتہ کے سات دن مقرر کئے ہیں جن میں سے ایک دن جمعہ ہے جس میں خطبہ پڑھا جاسکتا ہے۔ ادھر ہزاروں نیکیاں ہیں میں ان سب پرروز خطبہ کیسے پڑھ سکتا ہوں ۔ جو لوگ وعظ سن کر عمل کرتے ہیں اور پھر فوراً ہی چھوڑ دیتے ہیں ان کی مثال تو اس کھیل کی سی ہے جسے ’’جیک ان دی بکس‘‘ کہتے ہیں۔ ایک بکس کے اندر لچکدار گڈا ہوتا ہے جب ڈھکنا بند کیا جائے تو وہ بھی اندر چلا جاتا ہے مگر جب ڈھکنا کھولا جائے تو وہ پھر نمودار ہوجاتا ہے اسی طرح میں وعظ کرتا ہوں تو ان لوگوں کی داڑھی نکل آتی ہے اور بس کرتاہوں تو پھر اندر چلی جاتی ہے پس اس داڑھی کا کوئی علاج میرے پاس نہیں ہے۔ خدا نے کسی کو اتنا وقت نہیں دیا کہ ایسا وعظ کرسکے اصل چیز یہی ہے کہ انسان مؤمن بنے پھر یہ سلسلہ ختم ہوجاتا ہے کیونکہ یہ کشمکش اسی وقت تک کیلئے ہے جب تک ایمان نہ ہو۔
مولوی عبداللہ صاحب غزنوی جو صاحب الہام بزرگ تھے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اوراپنی اولاد کی اس سے محرومی کی خبر بھی الہام کے ذریعہ دی تھی ایک دفعہ لوگ ایک بڑے حنفی مولوی کو جو خود بھی نیک تھا آپ سے بحث کرنے کیلئے لائے اور کہا کہ حنفی مولوی صاحب آپ سے کچھ دریافت کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اگر نیت بخیر باشد۔ حنفی مولوی بھی نیک تھا وہیں خاموش ہوکر چل دیا۔ لوگوں نے پوچھا تو کہا کہ میری نیت نیک نہیں تھی کیونکہ فضول بحث کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔ پس نیت اگرنیک ہو تو وعظوں کی حاجت نہیں رہتی۔ قرآن کریم میں ہے کہ وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ ؎۵۱ یعنی تمہارے دلوں میں بھی نشان موجود ہیں کیا تم دیکھتے نہیں۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ جماعت محسوس کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑی ذمہ داری ڈالی ہے انسان کے اندر کمزوریاں خواہ پہاڑ کے برابر ہوں وہ اگر چھوڑنے کا ارادہ کرلے توکچھ مشکل نہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا مشہور مقولہ ہے کہ اگر تمہارے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو تو تم پہاڑ کوان کی جگہوں سے ہٹا سکتے ہو۔ اس کامطلب یہی ہے کہ گناہ خواہ پہاڑ کے برابر ہوں انسان کے اندر ایمان اگر رتی کے برابر بھی پیداہوجائے تو وہ ان پہاڑوں کو اُڑاسکتا ہے۔ مؤمن جس دن ارادہ کرلے اس کے رستہ میں کوئی روک نہیں رہتی۔
میں بتاچکا ہوں کہ ان خطبات کا ایک حصہ تحریک جدید کا دوسرا حصہ ہے جو آئندہ کبھی بیان کروں گااس لئے میں اب بھی اس بار ہ میں کچھ نہیں کہتا ہاں اِس وقت یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوست اپنی اپنی اولادوں کی اور جماعت کے دوسرے نوجوانوں کی اصلاح کریں۔ جھوٹ، چوری، دغا، فریب، دھوکا، بدمعاملگی، غیبت وغیرہ بدعادات ترک کردیں حتّٰی کہ ان کے ساتھ معاملہ کرنے والا محسوس کرے کہ یہ بڑے اچھے لوگ ہیں اور اگر کوئی ان کے پاس کروڑوں روپیہ بھی رکھ دے تو سمجھے کہ بالکل محفوظ ہے کیونکہ جس کے پاس رکھا ہے وہ احمدی ہے اور اگر دوست اپنے اندر ایسی تبدیلیاں پیداکرلیں تو تحریک جدید کے دوسرے حصہ کے ظاہر ہونے سے پہلے ہی سارا کام ہوجاتا ہے۔
اچھی طرح یاد رکھو کہ اِس نعمت کے دوبارہ آنے میںتیرہ سَو سال کا عرصہ لگا ہے اور اگر ہم نے اس کی قدر نہ کی اور پھر تیرہ سَو سال پریہ جاپڑی تو اُس وقت تک آنے والی تمام نسلوں کی لعنتیں ہم پر پڑتی رہیں گی اس لئے کوشش کرو کہ اپنی تمام نیکیاں اپنی اولادوں کودو اور پھر وہ آگے دیں اور وہ آگے اپنی اولادوں کودیں اور یہ امانت اتنے لمبے عرصہ تک محفوظ چلی جائے کہ ہزاروں سالوں تک ہمیں اِس کا ثواب ملتا جائے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جونیکی کسی شخص کے ذریعہ سے قائم ہو وہ جب تک دنیا میں قائم رہے اور جتنے لوگ اسے اختیار کرتے جائیں ان سب کاثواب اُس شخص کے نام لکھا جاتا ہے ۔ پس جوبدلہ ملتاہے وہ بھی بڑا ہے اور امانت بھی اپنی ذات میں بہت بڑی ہے اور اتنی بڑی چیزوں کے ہوتے ہوئے جو فائدہ نہیں اُٹھاتا اُسے نہ کوئی خطبہ فائدہ دے سکتا ہے اور نہ وعظ اور اُس کے متعلق یہی کہنا پڑتا ہے کہ یا تو وہ شقی ازلی ہے اور یاپاگل۔
(الفضل ۲۶؍ اگست ۱۹۳۶ئ)
؎۱ الذّٰریٰت: ۵۷ ؎۲ القدر: ۴
؎۳ بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللّٰہ (الخ)
؎۴ سیرت ابن ہشام جلد ۳ صفحہ ۱۰۰۔۱۰۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
؎۵ اسد الغابۃ جلد ۳ صفحہ ۲۲۱۔ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
؎۶ آل عمران: ۱۴۵
؎۷ تا ؎۹ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی ﷺ و وفاتہٖ
؎۰۱ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ ۵۱ مطبوعہ لاہور ۱۸۹۲ء
؎۱۱ الانعام : ۳۳ ؎۲۱ المائدۃ: ۳ ؎۳۱ التحریم: ۷
؎۴۱ مسلم کتاب الحدود باب قَطع السَّارِقِ الشَّریْفِ
؎۵۱ الذّٰریٰت: ۲۲


۳۲
ہماراماٹو لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے٭
(فرمودہ ۲۸؍ اگست ۱۹۳۶ء بمقام دھرم سالہ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
چونکہ دو دن سے مجھے گلے کے درد کی شکایت ہے اس لئے میں آج کے خطبہ میں ایک چھوٹا سا مضمون بیان کرنا چاہتا ہوں ۔
پچھلے جمعہ مَیں نے الفضل میں ایک دلچسپ بحث دیکھی اور وہ یہ کہ جماعت احمدیہ کا ماٹو کیا ہونا چاہئے؟ اِس مضمون پر دو دوستوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو اخبار الفضل میں شائع ہوچکے ہیں اور یہ دونوں اصحاب میرے ماموں ہیں۔ اسی ماٹو کے بارہ میں ایک تیسرا مضمون بھی میری نظر سے گزرا ہے جس کے بارہ میں مجھے ابھی تک یہ علم نہیں ہے کہ وہ اخبار میں بھی شائع ہؤا ہے یا نہیں؟ ماٹو کے بارہ میں جو دو مضمون اخبار میں شائع ہوچکے ہیں ان میں ایک مضمون میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہمارا ماٹو
’’فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ‘‘ ؎۱
ہونا چاہئے اور دوسرے مضمون میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ہمار امطمحِ نظر جس کودوسرے الفاظ میں ماٹو کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے
’’میں دین کودنیا پر مقدم رکھوں گا‘‘
ہونا چاہئے۔
بہرحال یہ ایک قدرتی امر ہے کہ ہر قوم کیلئے کوئی نہ کوئی مطمحِ نظر ضرور ہوتاہے اور قدرتی طور پر سب قومیں اپنے اپنے ماٹو کو اپنے سامنے رکھتی ہیں اور اس سے فائدہ اُٹھاتی ہیں۔ مطمحِ نظر کااصول یہ ہے کہ جس غرض کیلئے کوئی قوم یا انجمن بنی ہے وہ قوم یا انجمن اس غرض اور مقصد کوہر وقت اپنے سامنے رکھے۔ جس وقت فرانس کے بادشاہوں کے خلاف بغاوت ہوئی تو باغیوں کامطمحِ نظر یہ تھا کہ ہم نے حریت ، مساوات اور اخوت کوحاصل کرکے رہنا ہے اور اس مضمون کے بورڈلکھ لکھ کر انہوں نے مختلف مقامات پرلگادیئے تھے اور اپنی تقریروں میں بھی وہ ان باتوں پرزور دیتے تھے اور بازاروں میں پھر پھر کر لوگوں کو اپنے اس مطمحِ نظر کی طرف توجہ دلاتے تھے۔ انگلستان کی تاریخ سے بھی یہ بات صاف طور پر معلوم ہوتی ہے کہ جب بھی وہاں اختلاف پیدا ہؤا تو جو قوم بھی اُٹھی ہے اس نے اپنے لئے ضرور کوئی نہ کوئی ماٹو تجویز کیا ہے جس کو وہ اپنے سامنے رکھتی تھی۔
پس تمام سوسائٹیاں اور انجمنیں یہ بتانے کیلئے کہ ہم کو دوسری قوموں سے کیا امتیاز ہے اپنے لئے ایک خاص مطمحِ نظرتجویز کرلیتی ہیں۔کوئی انجمن یہ قرار دے لیتی ہے کہ اخلاق کی درستی اُن کے نزدیک سب سے بالا ہے، کوئی قوم یہ کہتی ہے کہ سب سے مقدم تعلیم کی ترقی ہے، کوئی سوسائٹی اپنا نصب العین یہ ٹھہرالیتی ہے کہ ہم نے آزادی کو حاصل کرناہے اور اس کے بغیر ہماری زندگی زندگی کہلانے کی مستحق ہی نہیں۔ غرضیکہ کوئی انجمن سیاسی ہوتی ہے تو کوئی تعلیمی اور ہر ایک نے اپنے لئے کوئی نہ کوئی ماٹو تجویز کررکھا ہوتاہے اور وہ اِس بات کا خاص طور پر خیال رکھتے ہیں کہ جس بات کیلئے ہماری جماعت قائم ہوئی ہے اس کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور اس بات کو اپنی جماعت کے سامنے بھی ہروقت موجود رکھنا ہے۔
دنیا میں ہزاروں قسم کی نیکیاں ہیں اگر ہم ان میں سے ایک نیکی کو چُن لیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسری نیکیاں اس قابل نہیں کہ ان کے حصول کی کوشش کی جائے اور صرف یہ ایک نیکی جس کو ہم اختیار کرنے پر زور دے رہے ہیں اِس قابل ہے کہ اس کواختیار کیاجائے بلکہ مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ فلاں فلاں نیکی کا حاصل کرناہمارے لئے ذرا دقّت طلب سی بات ہے لیکن اس نیکی کے حصول میں ہم کو چند درچندسہولتیں ہیں اس لئے ہم اس کی طرف اپنی توجہ کوزیادہ مبذول کرتے ہیں۔
اسی اصول کے ماتحت جس قوم کو تعلیم سے دلچسپی ہوتی ہے وہ تعلیم کو اور جس قوم کونظام سے دلچسپی ہوتی ہے وہ نظام کو اپناماٹو قرار دے لیتی ہے اور جس قوم کو مثلاً صحت سے دلچسپی ہے وہ ورزش کو اپنا ماٹو قرار دے لے گی۔ غرضیکہ جس جس کام سے کسی قوم کودلچسپی ہوتی ہے وہ اسی کواپنا ماٹو قرار دے کر اس کو اختیار کرنے کی حتّی الوسع کوشش کرتی ہے اور اس کوشش کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ باقی کاموں سے اس قوم کونفرت ہے بلکہ صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس کام کی طرف اس قوم کا زیادہ میلان ہے۔ اس لحاظ سے کوئی بھی اچھا ماٹو کوئی قوم رکھے وہ اُس کیلئے نیکی ہوگا۔ اور بعض ماٹو ایسے بھی ہیں جو آپس میں اشتراک رکھتے ہیں مثلاً یہ ماٹو کہ خدا کی اطاعت کرو اور یہ ماٹو کہ نیکیوں میں ترقی کرو درحقیقت ایک ہی ہیں کیونکہ یہ دونوں باتیں لازم و ملزوم ہیں کیونکہ خدا کی اطاعت کے بغیرنیکیوں کا حصول محال ہے اور اسی طرح جو شخص نیک ہی نہیں وہ خداتعالیٰ کا مطیع کس طرح ہوسکتاہے ۔ اسی طرح یہ ماٹو کہ ’’میں دین کودنیا پر مقدم رکھوں گا‘‘ اور یہ ماٹو کہ ’’میں نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کروں گا‘‘ دونوں گو ایک نہ ہوں مگر آپس میں بہت مشابہہ ہیں اور دونوں ایک حد تک ایک دوسرے کے اندر آجاتے ہیں۔ پس یہ ساری نیکیاں ہی اچھی ہیں اور ہم کو ان کے حصول کی طرف توجہ رکھنی چاہئے۔
لیکن جب میں نے ماٹو کے بارہ میں یہ مضامین الفضل میں پڑھے تو مجھے ایک یہودی کا قصہ یاد آگیاکہ ایک دفعہ ایک یہودی حضرت عمرؓ سے باتیں کررہا تھا کہ دورانِ گفتگو میں کہنے لگا ہم تو آپ لوگوں سے سخت حسد رکھتے ہیں۔حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا کہ آپ کوہم پر کس بات کا حسد آتا ہے؟ وہ یہودی کہنے لگاکہ مجھے اس بات کا حسد ہے کہ آپ کے اسلام میں یہ ایک خاص خوبی ہے کہ دنیا کی کوئی بات ایسی نہیں جس کے بارہ میں آپ کے اسلام کے اندر احکام موجودنہ ہوں حتّٰی کہ آ پ کے اسلام نے تو پاخانہ اور پیشاب کرنے اور کھانا کھانے اور پانی پینے تک کیلئے بھی احکام بتلادیئے ہیں کہ فلاںفلاں کام کرو تو اس طور پر کرو، اسی طرح شادی بیاہ کے بارہ میں بتلادیا کہ اس طرح پر کروغرضیکہ کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کے بارہ میں اسلام کے اندر احکام اور مسائل موجود نہ ہوں۔ ہم کو آپ کے مذہب پر اس بات کا حسد ہے کہ یہ کس قدر وسیع مذہب ہے لیکن ہمارے مذہب میں یہ بات ہرگز موجودنہیں۔
اِس واقعہ کو مدنظر رکھو تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی کسی ایک بات کو بطور ماٹو چننا درست نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کی تو ہربات ہی ایسی ہے جو ماٹو بنانے کے قابل ہے۔ پس فَاسْتَبِقُواالْخَیْرٰتِ بھی ایک نہایت عمدہ ماٹو ہے اسی طر ح یہ ماٹو کہ ’’میں دین کودنیا پر مقدم رکھوںگا‘‘ بھی بہت عمدہ ہے اور اس کی طرف بھی قرآن مجید میں اشارہ موجود ہے اور وہ اِس آیت میں ہے کہ بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی ؎۲ یعنی نادان لوگ دنیا کو دین پر مقدم کرتے ہیں حالانکہ آخرت یعنی دین کی زندگی کانتیجہ دُنیوی زندگی سے اعلیٰ اور دیرپا ہے۔ پس اسے دنیا پر مقدم رکھنا چاہئے بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ ھٰذَا لََفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی صُحُفِ اِبْرَاہِیْمَ وَ مُوْسٰی ؎۳ ۔ یہ تعلیم ہم آج نہیں دے رہے یہ تعلیم سب انبیاء دیتے چلے آئے ہیں چنانچہ موسیٰ اور ابراہیم کی وحیوں میں بھی اس پر زور دیا گیا تھا ۔ قرآن مجید کی اور بھی بہت سی آیات ہیں جو اس مضمون کوادا کرتی ہیں۔ پس یہ اعلیٰ تعلیم ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ قرآن مجید کی وہ کونسی تعلیم ہے جو ماٹو نہ بن سکے۔ میں تو ا س کے جس حکم پر نظر ڈالتا ہوں وہی جاذبِ توجہ نظر آتا ہے اور دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ میں اپنے محبوب کے جس حصے پر نگاہ ڈالتا ہوں
کرشمہ دامن دل مے کشد کہ جا اینجاست
یعنی محبوب کے چہرہ کاہر حصہ کہتاہے کہ بس خوبصورتی کا مقام اگر کوئی دنیا میں ہے تو یہی ہے بس تُو یہیں ٹھہر جا۔
اِس تمہید کے بعد یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کا زمانہ ظَہَرَالْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ؎۴ کا مصداق تھا۔ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہ رہی تھی جس میں خرابی نہ آگئی ہو اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت ﷺ کے ظل اور بروز ہیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کا زمانہ بھی آنحضرت ﷺ کے زمانہ کا ظل ہے اور اس زمانہ میں بھی ہرقسم کی خرابیاں بدرجہ کمال پائی جاتی ہیں اس لئے آج مذہب کی بھی ضرورت ہے،اخلاق کی تمام اقسام کی بھی ضرورت ہے ، دنیا کی ہر خوبی اور ترقی کی بھی ضرورت ہے جہاں لوگوں کے دلوں سے خداتعالیٰ پرایمان اُٹھ گیا ہے وہاں اخلاق فاضلہ بھی اُٹھ گئے ہیں اور حقیقی دُنیوی ترقی بھی مٹ گئی ہے کیونکہ اِس وقت جسے لوگ ترقی کہتے ہیںوہ نفسانیت کا ایک مظاہرہ ہے اور دنیا کی ترقی نہیں کہلاسکتی کیونکہ اِس سے ایک حصۂ دنیا فائدہ اُٹھارہا ہے اور دوسرے کو غلام بنایا جارہا ہے۔ پس ایسے وقت میں ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کی فلاں آیت پر ہمیں خاص طو رپر عمل کرنا چاہئے اور فلاں کی طرف کم توجہ کی ضرورت ہے۔ نہیں بلکہ قرآن مجید کی ہر آیت ہی اِس قابل ہے کہ انسان اس کو اپنا مطمحِ نظر اور نصب العین بنائے خصوصاً اِس زمانہ میں کہ ہر آیت ہی کی طرف سے لوگوں کو بے رغبتی ہے مگر ایسے دن نہ بھی ہوں تب بھی قرآن مجید کی کسی آیت کا چُن لینا انسان کیلئے ناممکن ہے کیونکہ اس کی ہر ایک آیت بے شمار خوبیوں کی جامع ہے اور ہر آیت پر انسان یہ خیال کرکے کہ اس سے بڑھ کربھلا اورکون سی آیت ہوگی حیرت میں پڑ کر وہیں کھڑا کا کھڑا رہ جاتاہے۔ پس اس صورت میں کہ قرآن مجید کی ایک ایک آیت تمام خوبیوں کی جامع ہے ہم کس آیت کو اپنا ماٹو قرار دیں اور کس کو اپنا ماٹو قرار نہ دیںجبکہ ان میں سے ہر ایک ہی ہمارا ماٹو ہے تو ترجیح کی کیا وجہ ہے؟ ہم کو تو اب خود کسی ماٹو کے تجویز کرنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہی جبکہ خداتعالیٰ نے ہمارے لئے سارے قرآن مجید کو ماٹو مقرر کردیا ہے لیکن اگر ایک مختصر ماٹو ہی کی ضرورت ہو تو وہ بھی رسول کریم ﷺ نے ہمارے لئے تجویز کردیا ہے اور وہ لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے۔ یہ جملہ درحقیقت قرآن کریم سے ہی اخذ کیاگیا ہے اور قرآن مجیدکے سب مضامین کا حامل ہے ۔ گویا یہ تمام قرآن مجید کا خلاصہ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ تمام تعلیمیں اور تمام اعلیٰ مقاصد توحید کے ساتھ ہی تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح بندوں کے آپس کے تعلقات اور بندہ کے خداتعالیٰ سے تعلقات توحید کے اندر آجاتے ہیں توحید کے معنی ہیں کہ خداتعالیٰ ایک ہے اور جس طرح سورج بغیر آنکھ کے نظر نہیںآسکتا اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی ایک خاص آنکھ کے بغیر نظر نہیں آسکتا اور وہ آنکھ آنحضرت ﷺ ہیں ان کے ذریعہ سے ہی لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ دنیا کو نظر آسکتا ہے اور اسی حکمت کی وجہ سے لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا ذکرکیاگیا ہے جس کامطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بغیر توحید کا سمجھنا ہی محال ہے۔ گویا آنحضرت ﷺ ہی ایسی دوربین ہیں جس سے توحید دیکھی جاسکتی ہے۔
پس یہ لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ ایسی آیت ہے کہ اس میں بقرہ، آل عمران، نساء وغیرہ سب سورتیں شامل ہیں اور اَلْحَمْدُ سے لے کر وَالنَّاسِ تک کا کوئی مضمون اس سے باہر نہیں۔لیکن توحید ایسی باریک چیز ہے کہ اس کوہر ایک نظر نہیں دیکھ سکتی۔ ہاں ایک عینک ہے کہ اگر اس کو انسان اپنی آنکھوں پر لگالے تو وہ توحیدنظر آنے لگتی ہے اور وہ عینک آنحضرت ﷺ کا وجودِ مبارک ہے اور اس میں کون شبہ کرسکتاہے کہ آنحضرت ﷺ کے آنے سے ہی دنیا میںتوحید قائم ہوئی ورنہ آپؐ کی بعثت سے قبل تو بعض لوگوں نے حضرت عزیر، بعض نے حضرت مسیحؑ کو خدا کابیٹابنا رکھا تھا، بعض لوگ ملائکہ کو معبود بنائے بیٹھے تھے اور ایسے خطرناک زمانہ میں جس میں گویا سب کی آنکھیں کمزور ہورہی تھیں صرف آنحضرت ﷺ کی عینک لگانے سے ہی لوگوں کو توحید نظر آئی۔ آنحضرت ﷺ سے قبل اور حضور کے زمانہ میں لاکھوں فلاسفر موجود تھے لیکن کسی کو توحید کے علَم کو بلند کرنے کاموقع نہ ملا بلکہ اس کے برعکس فلسفیوں نے جو کچھ پیش کیا وہ شرک سے پُر تھا پس حقیقت یہی ہے کہ
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشنـد خدائے بخشنـدہ
یہ محض خداتعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات سے ہی دنیا میں توحید قائم ہوئی اور یہی لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُایسا ماٹو ہے جس کو ہم اپنی اذانوں کے ساتھ بلند آوازمیں بیان کرتے ہیں اور جب کسی شخص کو اسلام میں لایاجاتا ہے تو اُس سے یہی لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہلوایا جاتا ہے کیونکہ حقیقی اسلام اسی کانام ہے اور باقی تشریحات اور تفصیلات ہیں جو ساتھ چسپاں کردی جاتی ہیں۔ اور اگر کسی شخص میںدینی کمزوری پیدا ہوتی نظر آتی ہے تو اس کی بھی یہی وجہ ہوتی ہے کہ لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ اس کے سامنے سے ہٹ گیا ہوتا ہے ورنہ لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ کے سامنے موجود ہونے سے انسان دینی کمزوریوں سے محفوظ ہوجاتا ہے اور جب لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تو زید کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے، عمر کوئی غلطی کر بیٹھتاہے اوربکر کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈاکٹر عبدالحکیم مرتد کے جواب میں فرمایا تھا کہ تم کس طرح کہتے ہو کہ آنحضرت ﷺ کے بغیر بھی توحید حاصل ہوسکتی ہے جبکہ توحید کو انسان رسالت کے بغیر سمجھ ہی نہیں سکتا اور خصوصاً کامل توحیدکیلئے رسالتِ کامل یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کاسمجھنا ضروی ہے۔
غرض جب تک انسان آنحضرت ﷺ میں بالکل محو نہ ہوجائے تو حیدِ کامل کو نہیں سمجھ سکتا اور نہ اس کے تفصیلی جلوہ یعنی قرآن مجید کو سمجھ سکتا ہے۔ وہ لوگ جو رسول کریم ﷺ میں محو ہوکر توحید کو نہیں سمجھتے باوجود عقل کے شرک میں مبتلاء رہتے ہیں جیسے کہ مسیحی ، ہندو، یہودی وغیرہ ہیں اور اسی طرح بہت سے مسلمان کہلانے والے جو پیروں اور فقیروں کو ہی اپنا خدا بنا کربیٹھے ہوئے ہیں۔
حضرت خلیفہ اوّل کی ایک ہمشیرہ نے ایک فقیر کی بیعت کی ہوئی تھی حضرت خلیفہ اوّل نے ایک دفعہ اس کو کہا کہ اپنے پیر صاحب سے جاکر یہ پوچھو کہ آپ کی بیعت سے مجھے کیا فائدہ ہے؟ وہ اس فقیر سے پوچھنے گئیں۔ جب واپس آئیں تو آپ نے دریافت فرمایا کہ سنائو کیا جواب ملا؟ کہنے لگیں پیر صاحب خفا ہوکر بولے کہ تجھے یہ سوال ضرور مولوی نورالدین صاحب نے ہی سمجھایا ہوگا جاکر ان سے کہہ دے کہ ہماری بیعت میں آنے والے مریدوں کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ قیامت کے روز جب ہمارے مریدوں سے خداتعالیٰ حساب لینے لگے گا تو ہم آگے بڑھ کر کہہ دیں گے کہ ان کا حساب ہم سے لینا ان سے نہ پوچھو ۔ اس کے بعد مرید تو دَوڑ کر جنت میں جاداخل ہوں گے اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ ہم سے پوچھے گا تو ہم کہیں گے کہ کیا ہمارے باپ امام حسینؓ کی قربانی کافی نہ تھی کہ اب ہمیں دِق کیا جاتا ہے۔ پس اس پر خداتعالیٰ خاموش ہوجائے گا اور ہم جنت میں چلے جائیں گے۔
یہ سب لغو خیالات اِسی لئے پیدا ہوئے کہ لوگوں نے خداتعالیٰ کو محمد رسول اللہ میں ہوکر نہیں دیکھا۔ اگر وہ خداتعالیٰ کو محمد رسول اللہ کی عینک میں سے دیکھتے تو اس کی ایسی بُری صورت نظر نہ آتی اور توحید سے دُور نہ جاپڑتے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بغیر توحید انسان پر کھل ہی نہیں سکتی۔ چنانچہ دیکھ لو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت ﷺ میں محو ہوگئے اور ان میں محو ہونے کے بعد قرآن مجید پر غور کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن مجید میں سے یہ نظر آگیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے ہیں اور اُن کوزندہ ماننا شرک ہے۔ حضور سے قبل لاکھوں عالم اور فقیہہ موجود تھے لیکن کسی کو قرآن مجید میں یہ بات نظر نہ آئی بلکہ وہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف خداتعالیٰ کی اکثر صفات نہایت شدّومد سے منسوب کرتے تھے مثلاً وہ اب تک آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں،وہ مُردے زندہ کیا کرتے تھے، ان کو غیب کاعلم تھا وغیرہ وغیرہ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ایک احمدی بچہ بھی اِس عقیدہ پرقائم رہنا گوارا نہیں کر سکتا اور وہ نہایت قوی عقلی و نقلی دلائل سے اس کو باطل کرسکتاہے۔ یہ بات اس احمدی بچہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں وہ بات آنحضرت ﷺ میں فنا اور محو ہونے سے آئی ہے۔ پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ سے نور لیا اور اس نور کو دنیا میں پھیلایا تو شرک کی ظلمت اس نور کے آنے سے کافور ہوگئی اور علاوہ اس ایک بات کے اور بھی ہزاروں شرک کی باتیں حضور نے لوگوں کو دکھائیں کہ وہ ان سے پرہیز کریں لیکن یہی باتیں اس زمانہ کے مشہور علماء اور فقہاء کی نظر سے اب تک اوجھل ہیں۔ اس کی صرف یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ آنحضرت ﷺ کے وجود مبارک میں محو نہیں ہوئے اس لئے اس نعمت سے محروم رہے اور حضرت مسیح موعودؑ نے ہی اس زمانہ کے لوگوں کو لااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کا جلوہ دکھلایا اور یہی تو ایک چیز ہے جو اسلام کالُبِّ لباب ہے اور جس کاہر کامل موحّد میں پایا جانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ باقی تفصیلات ہیں اور وہ مختلف آدمیوں کیلئے مختلف شکلوں میں بدلتی چلی جاتی ہیں۔ جیسے کہ ایک شخص آنحضرت ﷺ کے حضور حاضر ہؤا اور عر ض کی یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مجھے سب سے بڑی نیکی بتائیں۔ حضور نے فرمایا ماں کی خدمت کیا کر ؎۵ ۔ اس کے بعد کسی اور موقع پر ایک اور شخص آیا اور اس نے عرض کی کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مجھے سب سے بڑی نیکی بتائیں۔ حضور نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ کیا کر۔ ایک اور شخص نے سب سے بڑی نیکی دریافت کی تو حضور نے اُس کو تہجد بتلائی۔
نادان لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ حضور نے متضاد باتیں بتلائی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان باتوں میں تضاد قطعاً نہیں بلکہ وہ تینوں اشخاص تین مختلف امراض میں مبتلاء تھے ۔ پس اُن کے علاج بھی مختلف ہی ہونے چاہئیں تھے۔ ایک کو ماںکی خدمت نہ کرنے کی مرض تھی حضور نے اُس کیلئے سب سے بڑی نیکی ماں کی خدمت قرار دی۔ دوسرا شخص جہاد فی سبیل اللہ میں سست تھا اُس کو جہاد فی سبیل اللہ سب سے بڑی نیکی بتلائی گئی اور تیسرا شخص تہجد کی ادائیگی میں کمزور تھا اُس کو آنحضرت ﷺ نے یہ فرمادیا کہ تیرے لئے سب سے بڑی نیکی تہجد ہی ہے کیونکہ تُو اس سے محروم ہے۔
الغرض تفصیلات ہر انسان کیلئے بدلتی رہتی ہیں مگر لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ سب کیلئے یکساں ہے یہ ہرگز نہیں بدلتا۔ کسی کو سورہ بقرہ فائدہ دیتی ہے کسی کو آل عمران کسی کو کوئی اور سورۃ یا آیت۔ مگر لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ سب کو یکساں طور پر فائدہ پہنچاتا ہے گویا قرآن کریم کی تمام آیات اپنے اپنے مقام پر بہت عمدہ اور مفید ہیں لیکن لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُسب پرحاوی اور سب سے بڑھ کر ہے اور اس کی مثال یوں سمجھ لو کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ ؎۶ یعنی میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کے پیچھے بھی چلو گے وہ تم کو سیدھے راستہ پر ڈال دے گا۔ پس صحابہ کرامؓ تو ستارے تھے لیکن آنحضرت ﷺ عالَمِ روحانی تھے جس کے اندر یہ سب روحانی ستارے بھی آجاتے ہیں۔ یہ روحانی ستارے اپنی اپنی جگہ پر تو بہت عمدہ تھے لیکن روحانی سورج سے ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔
الغرض ہمارے سامنے خداتعالیٰ کا مقرر کردہ ماٹو لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ تو موجود ہے لیکن لوگ اسلام کے اس ماٹو کو بھول گئے ہیں اور آج کل کے واعظ اپنے وعظوں میں توحید کا نام تک نہیں آنے دیتے بلکہ اِدھر اُدھر کی غیرضروری باتوں کے بیان کرنے میں اپنا قیمتی وقت ضائع کردیتے ہیں حالانکہ توحید کی ضرورت انسان کے ہر ایک کام میں رہتی ہے حتّٰی کہ آنحضرت ﷺ اپنے سونے کے وقت اور وضو کے وقت بھی توحید کا اقرار فرمایا کرتے تھے کیونکہ توحید صرف اِس امر کا نام نہیں کہ انسان بُت پرستی نہ کرے یا کسی شخص کو خداتعالیٰ کے مقابلہ میںزندہ نہ مانے یا کسی کو خدا کا شریک نہ ٹھہرائے بلکہ دنیا کے ہرایک کام میں توحیدکا تعلق ہے کیونکہ جب بھی کسی انسان کو دنیا کے کسی کام پر ذرہ بھر بھروسہ اور اتّکال ہوگیا تو وہ انسان شرک کے مقام پر جا ٹھہرا اور ا س کے موحّد ہونے کا دعویٰ باطل ہوگیا کیونکہ توحید کی لازمی شرط یہی ہے کہ انسان صرف خداتعالیٰ کی ذات پر ہی اتّکال رکھے کیونکہ توحید کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہر کام میں خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی انسان کی نظر صرف ایک خدا کی طرف اُٹھے۔ جہاں اُس کی نظر مَاسِوَی اللہ کی طرف بلند ہوئی اس میں شرک آگیا۔ حتّٰی کہ انسان کوہر قدم پر سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں میں شرک تونہیںکررہا یہاں تک کہ جب آدمی پانی پیتا ہے اور کھانا کھاتا ہے تو اُس وقت بھی دیکھتا ہے کہ کہیں میں اس کام میں شرک تونہیں کررہا۔
پس اپنی جگہ پر فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ بہت عمدہ ماٹو ہے اور اسی طرح ’’میں دین کودنیا پر مقدم رکھوں گا‘‘ بھی بہت اچھا ماٹو ہے لیکن کامل موحّد بننے کیلئے ضروری ہے کہ انسان کی نظر سے ہر ایک چیز غائب ہو جائے اور مَاسِوَی اللہ اس کیلئے کالعدم ہوجائیں حتّٰی کہ انسان خود بھی غائب ہوجائے او راُس کو اگرنظر آئے تو صرف خداتعالیٰ کی ذات نظر آئے پس اپنی اپنی جگہ پر تمام چیزیں اچھی ہیں۔ اگر کوئی جماعت کہے کہ ہمارامطمحِ نظر یہی ہے کہ ہم لوگوں کو نیکی کی تحریک کیا کریں گے تو یہ اچھی بات ہے اگر کوئی جماعت کہے کہ ہمارا نصب العین فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِہے تو یہ بھی اچھی بات ہے اور اگر کوئی کسی اور اچھی بات کو اپنا ماٹو قرار دے لے تو اُس کو بھی یہ حق حاصل ہے لیکن نبوت کے حقیقی متبع کاماٹو اِس زمانہ میں صرف لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہو سکتا ہے کیونکہ اِس سے ہر کمال کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور سب کمال اِسی کلمہ میں آتے ہیں۔ مثلاً فَاسْتَبِقُواالْخَیْرٰتِکو لے لو ۔ اس استباق اور خیرات کے معنی ہم کہاں سے معلوم کریں۔ ’’دین کو دنیا پر مقدم کروں گا‘‘ فقرہ میں دین اور دنیا اور مقدم کرنا تینوں مضمون بھی تشریح کے محتاج ہیں۔ کئی لوگ دین کو دنیا اور کئی دنیا کو دین قرار دیتے ہیں۔ کئی مقدم کی تشریح میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِہمیں صرف کمال کا نقطہ ہی نہیں بتاتا بلکہ تشریح اور توضیح کے حصول کا ذریعہ یہی بتاتا ہے ۔ وہ ایک سَو نیکیوں کی جامع لیکن توحید کی طرف ہمیں بلاتا ہے دوسری طرف توحید کے سمجھنے میں جو دقتیں پیش آسکتی ہیں ان کے حل کرنے کا طریق ہمیں بتادیتاہے۔
غرض جس نے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کو سمجھ لیا اُس نے خداتعالیٰ کو سمجھ لیا اور جس نے خداتعالیٰ کو سمجھ لیا اُس نے سب ہی کچھ سمجھ لیا کیونکہ شرک ہی تمام بدیوں، غفلتوں اورگناہوں کی جڑ ہے اور توحید پر قائم ہونے کے بعد انسان میں اخلاق، علم ، عرفان، تمدن، سیاست ، حدّتِ نظر و حذق یعنی فنون میں کمال سب ہی کچھ آجاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا نور ایک تریاق ہے جو تمام امراض کا واحد علاج ہے۔ جس طرح تریاق کے میسر آنے پر مرض کافور ہوجاتی ہے اسی طرح خداتعالیٰ کا نور جب انسان میں آجاتا ہے تو ا س کے پاس سے تمام امراضِ روحانی بھاگ جاتے ہیں۔
پس ہمارا ماٹو جو خودبخود خداتعالیٰ نے مقرر فرمادیا ہے وہ لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ ہی ہے باقی تفصیلات ہیں اور وعظ کے طور پر کام آسکتی ہیں او روہ سب لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ میں شامل ہیں۔ گویا لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ ایک جامع اِجمال ہے اور ماٹو اِجمال کا ہی نام ہے۔ اِس زمانہ میں چونکہ دجال اپنی پوری طاقت کے ساتھ دنیا میں رونما ہے اور اُس کا نصب العین یہ ہے کہ میں دنیا کو دین پرمقدم رکھوں گا اس لئے ہمارا فرض ہے کہ اس کے مقابل پر یہ کہیں کہ تم تو دنیا کو دین پر مقدم کرتے ہو لیکن ہم دین کو دنیا پرمقدم رکھیں گے اور چونکہ ہم نے دجالی فتنہ کا قلع قمع کرنا ہے اِس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے الہام کی بناء پر شرائطِ بیعت میں ایک یہ شرط بھی رکھی ہے کہ ’’میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا‘‘ جس میں یہ اشارہ پایاجاتا ہے کہ اس معاملہ میں دجال سے ہمارا سخت مقابلہ پڑے گا۔ وہ دنیا کو دین پرمقدم کرکے دکھلائے گا اور ہم اُس کے جواب میں دین کو دنیا پر مقدم کرکے دکھلائیں گے ۔ دجال کا مقصد دنیاوی آرام کو حاصل کرنا ہوگا لیکن ہم دین کی راہ میں مصائب کا آنا ایک نعمت تصور کریں گے۔ لیکن اگر ہم کو خداتعالیٰ دنیاوی آرام بھی دے دے تو یہ کوئی بُری بات نہیں۔
کیا آنحضرت ﷺ نے نہیں فرمایا تھا کہ مجھے قیصروکسریٰ کے خزانے دیئے گئے ہیں۔ تو اگر خزانوں کا ملنا بُری بات ہوتی تو حضور کو کیا (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) بُری چیز دی گئی؟ ہرگز نہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ ہم دنیا کے تابع نہ ہوجائیں بلکہ دنیا کو اپنے ماتحت اور تابع رکھیں اور اِس کو اپنے اوپر سوار نہ ہونے دیں بلکہ ہم اس پر سواررہیں۔ ورنہ ہماری مثال اُس میراثی کی سی ہوگی جس نے دعا کی تھی کہ اے سخی سرور! مجھے کوئی جانور سواری کیلئے دے۔ ابھی وہ چلا جارہا تھا کہ اُس کو ایک گائوں کا رئیس مل گیا جس کی گھوڑی نے راستے میں ہی بچہ دے دیا تھا۔ اُس رئیس نے جب میراثی کودیکھا تو کہا کہ میری گھوڑے کے بچہ کو اُٹھا کر شہر لے چل۔ یہ عجیب معاملہ دیکھ کر میراثی بول اُٹھا واہ سخی سرور! تُو بھی اُلٹی ہی سمجھ کامالک ہے تجھ سے تومیں نے جانور سواری کیلئے مانگا تھا تُو نے اُٹھانے کیلئے دے دیا۔ تو جو انسان دنیا کو اپنے سرپر اُٹھالیتا ہے اُس کی مثال بعینہٖ اس میراثی کی سی ہے کیونکہ دنیا تو خداتعالیٰ انسان کو اِس لئے دیتا ہے کہ انسان اِس پر چڑھے لیکن وہ احمق دنیا کو اپنے سر پر اُٹھا لیتا ہے۔
پس اصل چیز جس سے دنیا کی ترقی ہے وہ لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ ہی ہے اور اس کی عینک جس سے یہ نظر آسکے وہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ ہیں۔ جس طرح عینک کے بغیر آدمی کچھ نہیں دیکھ سکتا اسی طرح آنحضرت ﷺ کے بغیر انسان لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ کو نہیں دیکھ سکتا۔
اس زمانہ میں یوں تو اور بھی بہت سی نیکیاں ہیں اور سب کی طرف ہم کو توجہ کرنی چاہئے لیکن توحید کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہؤا کہ خُذُواالتَّوحِیْدَ خُذُوالتَّوْحِیْدَ یَا اَبْنَائَ الْفَارِسِ ؎۷ اے ابنائے فارس! توحید کومضبوطی سے پکڑ لو۔ توحید کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ ابنائے فارس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاخاندان ہی نہیں بلکہ روحانی لحاظ سے ساری جماعت ہی ابنائے فارس کے ماتحت ہے اور یہ حکم تمام جماعت پر مشتمل ہے۔ یہ قاعدہ ہے کہ مصیبت کے وقت انسان کسی ایک چیز کو خاص طورپر پکڑا کرتاہے۔ فرمایا کہ تم مصائب کے موقع پر توحید کوپکڑ لیاکرو کہ اس کے اندر باقی تمام چیزیں آجاتی ہیں۔ پس ہماری جماعت کافرض ہے کہ وہ لَااِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ کے ماٹو کو ہر وقت اپنے سامنے رکھے کیونکہ اسی میں انسان کی دینی اور دنیاوی فلاح مضمرہے۔
(الفضل ۲۶؍ دسمبر ۱۹۳۶ئ)
؎۱ البقرۃ: ۱۴۹ ؎۲ الاعلٰی: ۱۷،۱۸ ؎۳ الاعلٰی: ۱۹:۲۰
؎۴ الروم: ۴۲
؎۵ بخاری کتاب الادب باب مَنْ اَحَقُّ النَّاسُ بِحَسْنِ الصُّحْبَۃ
؎۶ مشکوٰۃ کتاب المناقب باب مناقب الصحابۃ
؎۷ تذکرہ ۔ صفحہ ۵۲ ۔ ایڈیشن چہارم




۳۳
جماعت کو تدریجی طور پر اب قربانیوں کے
میدان میں آگے سے آگے قدم رکھنا ہوگا
(فرمودہ ۱۱؍ ستمبر۱۹۳۶ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
کھانسی او رگلے کی تکلیف کی وجہ سے میرے لئے بلند آواز سے بولنا بالکل جائز نہیں لیکن چونکہ بخار میں تخفیف ہے اور دو جمعے درمیان میں مَیں یہاں خطبہ نہیں پڑھاسکا اس اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ تکلیف اٹھا کر بھی آج خطبہ جمعہ خود پڑھائوں۔
میں نے چند جمعے ہوئے غالباً ۷؍ اگست کو جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ تحریک جدید کے چندہ کے متعلق مَیں بعض دوستوں میں سُستی اور غفلت دیکھتا ہوں حالانکہ اس چندہ کی تحریک طوعی تھی جبری نہ تھی ۔ یعنی ہر شخص کو اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اس چندے میں شامل ہو یا نہ ہو۔ صرف تحریک کی جاتی تھی اور ہر شخص کو اس میں شامل ہونے کا پابندنہیں بنایا جاتا تھا۔ اِس سُستی کو دیکھ کریہ خطرہ بھی ہوسکتا تھا کہ یہ چیز تو ہمارے سامنے آجاتی ہے مگر اِس تحریک کے وہ دوسرے حصے جو سامنے نہیں آتے ممکن ہے دوست ان میں بھی سُستیاں کررہے ہوں مثلاً ایک کھانا کھانے کی تحریک ہے یا سادہ لباس کی تحریک ہے یابیکار نہ رہنے کی تحریک ہے یا تبلیغ کی تحریک ہے ان ساری قِسم کی تحریکوں کے متعلق قدرتی طور پر یہ شبہ پیدا ہونا لازمی ہے کہ شاید ان میں بھی کسی قِسم کی سُستی ہورہی ہے۔
میرے اِس خطبہ کے نتیجہ میں جماعت میںایک اصلاح تو ہوئی ہے اور وہ یہ کہ چندہ کی رفتار پہلے سے بڑھ گئی ہے اور اس خطبہ کے بعد اِس وقت تک جو دس اور گیارہ ہزارکے درمیان پچھلے سال اور اس سال کے چندہ میں فرق تھا وہ کوئی ساڑھے چھ ہزار کے قریب آگیا ہے۔ گویا چار یا ساڑھے چار ہزار روپیہ کی کمی کو دوستوں نے پورا کیا ہے لیکن ابھی تک جماعت کے تمام افراد میں وہ تحریک پیدا نہیں ہوئی جو ہونی چاہئے تھی۔ جن جن افراد نے علیحدہ طور پر چندے لکھوائے ہیں انہوں نے زیادہ جوش سے چندے ادا کئے ہیں لیکن جماعتی چندوں میں ابھی بہت کچھ کمی ہے (میں الفضل کی کسی قریب کی اشاعت میں بعض بڑی جماعتوں کی لسٹ شائع کروں گا تا کہ ان جماعتوں کو توجہ ہو)۔
درحقیت بہت سی رقم جو جمع ہوئی ہے وہ افراد کی طرف سے جمع ہوئی ہے ورنہ بہت سی جماعتیں ایسی پائی جاتی ہیں جنہوں نے بحیثیت جماعت نہایت سُستی اور غفلت دکھائی ہے میں ان جماعتوں کو ستمبر تک کی مُہلت دیتا ہوں کہ وہ ستمبر تک اپنے بقائے پورے کرنے کی کوشش کریں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سارے دوست ہی ستمبر تک بقائے ادا کریں کیونکہ مُہلتیں بعض کی نومبر تک، بعض کی جنوری تک اوربعض کی اس سے بھی بعد تک ہیں لیکن بہرحال جس حد تک حصہ ان کی طرف ہے اس وقت تک پہنچ جانا چاہئے ۔ اپنی اپنی رقم کے مطابق وہ اس کو ضرور پورا کرنے کی کوشش کریں ورنہ اطلاع دیں کہ کیوں وہ اس وعدے کو پورا کرنے پر قادر نہیںہوسکے جو طَوعی طور پر انہوں نے کیا تھا اور جس کے متعلق کوئی جبر اُن پرنہیں کیا گیا تھا۔
میں بتاچکا ہوں کہ تدریجی طور پر جماعت کو قربانی کے میدان میں اب آگے سے آگے بڑھناہوگا۔ ذاتی طور پر مجھے اِس بات کا قطعاً درد محسوس نہیں ہوسکتا اگر ہماری جماعت موجودہ تعداد سے گھٹ کرآدھی رہ جائے یا چوتھا حصہ رہ جائے یا اس سے بھی زیادہ گِرجائے کیونکہ میں اس یقین پرقائم ہوں کہ مخلصین وہ کچھ کرسکتے ہیں جو تعداد نہیں کرسکتی۔ہمیںاللہ تعالیٰ نے ایسے ذرائع بتائے ہوئے ہیں کہ جن کے ماتحت چند آدمیوں کے ذریعہ بھی ساری دنیا میں اسلام قائم کیا جاسکتا ہے لیکن ان ذرائع کواستعمال کرنے کے اوقات ہوتے ہیں۔ خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ تجھے اور تیری قوم کو کنعان کی حکومت دی جاتی ہے۔ بنی اسرائیل نے آگے سے یہ کہہ دیاکہ اِذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ ؎۱ جا موسیٰؑ تُو اور تیرا ربّ لڑتے پھرو جب فتح ہوجائے گی تو ہم بھی شامل ہوجائیں گے۔ اس وقت تک تو ہم یہیں بیٹھے ہیں۔موسیٰ اور اس کا خدا اکیلے رہ گئے مگر باوجود اس کے کنعان پھر بھی فتح ہؤا اورکنعان پر تیرہ سَو سال تک بنی اسرائیل نے حکومت کی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کوجب صلیب کاواقعہ پیش آیا حواری سب بھاگ گئے بلکہ ایک حواری نے تو آپ پر *** بھی کی اور کہا میں نہیں جانتا یہ کون ہے؟ یہ سب کچھ ہؤا مگر کیا عیسائیت دنیا میں نہیں پھیلی؟ کیاوہ یونہی رک کر رہ گئی؟ پس میں اس یقین پر قائم ہوں اور سمجھتا ہوں کہ جو شخص اس یقین پرقائم رہے گا وہی اپنے ایمان کوسلامت لے کرنکلے گا کہ سلسلہ افراد کی تعداد پر قائم نہیںبلکہ اخلاص پر قائم ہے۔ جس شخص کے دل میں یہ خیال ہوکہ ہر گندی چیز کوہم سمیٹیں اور رکھ لیں وہ نہ سلسلہ کی خدمت کرسکتا ہے اور نہ سلسلہ کو کوئی نفع پہنچاسکتا ہے۔
میرا مطلب یہ نہیں کہ خواہ مخواہ بیٹھے بٹھائے جس کو خدا تمہارے پاس بھیجے اس کو نکالویہ خود ایک بھاری گناہ اور عذاب کا موجب ہے بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص پوری وضاحت اور انکشاف کے بعد اپنے آ پ کو اسلام کیلئے مفید بنانے کیلئے تیار نہیں ہے تو وہ اپنے آپ کو سلسلہ سے آپ نکالتا ہے تم اسے نہیں نکالتے۔ ایک کمزور اور ناطاقت جس میں چلنے کی طاقت نہیں اگر تم اُسے دیکھو تو تمہارا کام ہے کہ اُسے اُٹھائو اور لے چلو۔ ایک ناواقف اور جاہل جسے کوئی علم نہیں اگر وہ تمہارے پاس آتا ہے تو تمہارا کام ہے کہ اسے بتائو اور اپنے ساتھ شامل کرو مگر ایک واقف اور آگاہ شخص جوٹانگیں رکھتے ہوئے بیٹھ جاتا ہے اورکہتا ہے اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَتمہارا فرض ہے کہ تم اُسے سلام کرکے کہہ دو آج سے میں اورتم الگ، ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں۔ جب تمہارے نفس میں اس رنگ میں خدا پر توکل قائم ہوگا تب تم دنیا میں کامیابی حاصل کرسکوگے اور جب تم اپنے آپ کو دیوانگی کے مقام پرکھڑا کرلیتے ہو تب تم منزلِ مقصود پر بھی کامیابی کے ساتھ پہنچ سکتے ہو۔
یہ مت خیال کرو کہ تمہارے دائیں اور بائیں ایسے لوگ ہیں جواندر سے ہوکر تمہاری مخالفت کرتے ہیں وہ منافق ہیں اور منافق کی مثال چوہے کی سی ہوتی ہے جس نے بلی کی میائوں سُنی اور وہ بھاگا۔ مثل مشہور ہے ہے کہ کچھ چوہے تھے انہوںنے آپس میں مشورہ طلب کیا کہ بلی نے ہمیں سخت ستایا ہؤا ہے آئو ہم اسے مل کرپکڑیں۔ آخر صلاح ٹھہری کہ والنٹیئرز طلب کرو جو اپنی جانیں قربان کردیںاور قوم کو اس مصیبت سے نجات دیں۔ چنانچہ پچاس ساٹھ چوہے کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ ہم اپنے آپ کو اس خدمت کیلئے پیش کرتے ہیں کہ اگر بلّی آئی تو ہم اُس کا دایاں پائوں پکڑلیں گے۔ پچاس ساٹھ چوہوں نے کہاہم اُس کا بایاں پائوں پکڑ لیں گے۔ اِسی طرح والنٹیئرز کھڑے ہوتے گئے اور انہوں نے بلّی کا تمام جسم آپس میں تقسیم کرلیا اور کہا ہم اسے پکڑ کر وہیں ماردیں گے ۔ جب سب حصے وہ آپس میں تقسیم کرچکے تو ایک بوڑھا چوہا کہنے لگا تم بلّی کے پائوں اور اُس کے دیگر اعضاء سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا اُس کی میائوں سے ڈرتے ہو اِس لئے یہ بتائو کہ اس کی میائوں کوکون پکڑے گا۔ اِدھر اُس نے یہ کہا اور اُدھر اتفاقاً ایک بلّی نمودار ہوگئی اور اس نے کہا میائوں۔ میائوں کا سننا تھا کہ سارے چوہے اپنی اپنی بِلوں میں گھس گئے یہی حال منافق کاہوتا ہے وہ دعوے بہت کرتا ہے لیکن ہوتا سخت ڈرپوک ہے۔ بھلا وہ منافق جو قلیل التعداد دوستوں کے سامنے کھل کر بات کرنے سے ڈرتاہے وہ کثیر التعداد دشمنوں کا کہاں مقابلہ کرسکتاہے۔ ابتدائی مؤمنوں کی تعداد توکفار کے مقابلہ میں ہمیشہ قلیل ہوتی ہے۔ رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کی تعداد دشمنوں کے مقابلہ میں دسواں حصہ بھی نہ تھی یہی حال ہمارا ہے۔ ۳۳ کروڑ ہندوستان کے باشندے ہیں ان میں اِلاَّّمَاشَائَ اللّٰہُ شریف الطبع لوگوں کومستثنیٰ کرتے ہوئے بہت سے ہمارے جانی دشمن ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جنہیںسلسلہ کی چونکہ واقفیت نہیں ہوتی اس لئے مولوی انہیں ورغلا لیتے ہیں۔ پس وہ جو ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ان کے مقابلہ میں ہماری تعداد ہے ہی کیا۔ پھرتم منافق سے یہ کس طرح امید کرسکتے ہو اور تمہاری یہ امید کس طرح صحیح سمجھی جاسکتی ہے کہ وہ اتنے بڑے دشمنوں کامقابلہ کرے گا جبکہ تم دیکھتے ہو کہ تم اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں سینکڑوں گُنے کم ہو لیکن وہ تم سے ڈرتے ہیں اور تمہارے سامنے بات نہیں کرسکتے۔ جولوگ ہمارے جیسی قلیل اور بے کس جماعت سے ڈرتے اور خوف کھاتے ہیں وہ ہم سے مل کر کئی گُنے طاقتور دشمنوں کامقابلہ کس طرح کرسکتے ہیں۔ وہ تو صرف ایک ہی کام کرسکتے ہیں اور وہ یہ کہ تمہاری صفوں کوپراگندہ کریں، تمہاری چغلخوری اور عیب جوئی کریں اور تمہاری دشمنوں کے پاس خبررسانی کریں ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا کام یہی بیان فرمایا ہے۔ فرماتا ہے منافق تمہارے ساتھ شامل ہوجائیں تو سوائے اِس کے کہ تمہارے اندر تفرقہ پیدا کریں اور دشمنوں کے پاس خبر رسانی کریں اور کیا کرسکتے ہیں۔
پس میرا یقین ہے کہ جماعت کی ترقی ان مخلصین کے وجود پرہے کہ جب جب اور جس جس وقت انہیں مرکز کی طرف سے آواز سنائی دے وہ اس پرلبیک کہتے جائیں اور میں سمجھتا ہوں جب تک جماعت کے خیالات اس بارے میںمتفق نہ ہوں جماعت کے لوگ میری مدد نہیں کرسکتے۔ اگر اس خیال پر تم قائم نہیں کہ تمہاری ترقی اخلاص کے ذریعہ ہے نفاق کے ذریعہ نہیں اور نہ تعداد کے ذریعہ تو تم لاکھوں نہیں کروڑوں نہیں اربوںروپیہ بھی میرے قدموں میں ڈال دو پھر بھی وہ میرے کام نہیں آسکتا کیونکہ وہ توکّل کا روپیہ نہیں بلکہ شرک کا روپیہ ہے اور شرک کا روپیہ کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا۔ اس کے مقابلہ میں اُس شخص کا دیا ہؤا ایک پیسہ بھی برکت کاموجب ہوسکتا ہے جو کہتا ہے کہ میں خدا کا ہوں اور خدا میرا اور فتح صرف خدا دیتا ہے۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ خدا کے سِوا دنیا میںکوئی چیز نہیں اور تما م اشیاء محض سایہ ہیں جو خداکے ارادہ سے اِدھر اُدھر نظر آتی ہیں اور جب وہ ارادہ ہٹالے توکوئی حقیقت باقی نہیں رہتی۔
بعض دوستوں نے جو سلسلہ کے کارکن ہیں میرے گزشتہ خطبہ سے متأثر ہوکر مجھے لکھا ہے کہ ہماری تنخواہوں میں سے اتنا اتنا حصہ کاٹ لیا جایاکرے۔ میں ان دوستوں کے اخلاص کی تو قدر کرتاہوں مگر انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ اَ لْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ ؎۲ خالی قربانی کبھی کامیاب نہیں کرتی بلکہ وہ قربانی کامیاب کیا کرتی ہے جو امام کے پیچھے اور اُس کی اتباع میں کی جائے۔ بے شک مؤمن کوقربانیوں کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے مگر اسے اس بات کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے کہ امام کی آوا زسنے اور جب امام قربانیوں کیلئے بلائے اُس وقت اپنی قربانی کا اظہار کریں۔ نماز کتنی اچھی چیزہے جتنی لمبی نماز ہوجائے اُتنا ہی اچھا ہے مگر رسول کریم ﷺ نے ہی فرمایا ہے کہ جو شخص امام سے پہلے حرکت کرتاہے قیامت کے دن اس کا منہ گدھے کے منہ کی طرح بنایاجائے گا ؎۳ ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص امام کے تکبیر کہنے سے ایک منٹ پہلے نماز کی نیت باندھ لیتا ہے تو وہ ثواب حاصل نہیں کرتا بلکہ رسول کریم ﷺکے قول کے مطابق قیامت کے دن وہ گدھے کی شکل میں اُٹھایا جائے گا۔ پھر رکوع اور سجدہ دعا کیلئے کتنے اچھے مقام ہیں مگر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص امام سے پہلے رکوع یا سجدہ میں چلاجاتا ہے وہ غلطی کرتاہے۔ جب امام جھکے تب جھکنا چاہئے اور جب امام سر ُاٹھائے اس وقت سر اُٹھانا چاہئے۔ پس بے شک انہوں نے اخلاص دکھایا اور میں اِس کی قدر کرتا ہوں اور ان کیلئے دعا کرتا ہوں لیکن ان کی خیرخواہی کے بدلہ میں ان سے یہ خیرخواہی کرتا ہوں کہ انہیں رسول کریم ﷺ کا یہ حکم بتاتا ہوں کہ جس وقت قومی قربانی کا سوال ہو اُس وقت ہر شخص کو امام کی آواز کا انتظار کرنا چاہئے۔ ہاں جب انفرادی قربانی کا سوال ہو تو ہر شخص اپنے اخلاص کے اظہار کیلئے دوسروں سے آگے بڑھ سکتا ہے اور اسے بڑھنا چاہئے۔
درحقیقت امام کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ ایک جماعت بحیثیت جماعت قربانی کرے افراد کی قربانی تو بغیر امام کے بھی ہوسکتی ہے۔ سپین کی نازک حالت میں جب مسلمانوں کی حکومت تباہ ہورہی تھی عیسائیوں نے بعض شرائط پیش کیں کہ اگر مسلمان انہیں مان لیں تو ہم انہیں ملک سے نکل جانے کی اجازت دے دیں گے۔ بادشاہ نے اس کے متعلق مشورہ لینے کیلئے جب اپنے سرداروں کو بلایا تو انہوں نے کہا یہ بہت اچھی بات ہے کہ ان شرائط کو تسلیم کرلیا جائے ہمارے اندر ان کے مقابلہ کی کوئی طاقت نہیں۔ اگر وہ ہمیں افریقہ جانے دیں، کتب خانے ساتھ لے جانے دیں اور کسی قدر مال و دولت کے لے جانے میں بھی مزاحم نہ ہوں تو ہمیں اور کیا چاہئے۔ ان سرداروں میں ایک مسلمان جرنیل بھی تھا جب اس نے یہ باتیں سنیں تو وہ کھڑا ہؤا اور اُس نے کہا سَوڈیڑھ سَو سال سے ہماری حالت اس ملک میں کمزور ہوتی چلی آرہی ہے اور اس عرصہ میں بیسیوں معاہدے عیسائیوں سے ہوئے مگر کیا تم ایک معاہدہ بھی ایسا دکھاسکتے ہو جو انہوں نے پورا کیا ہو۔ جب ایک معاہدہ بھی تم ایسا نہیں دکھاسکتے جو انہوں نے پورا کیا ہو بلکہ ہر معاہدہ کو انہوں نے توڑا ہے تو اب تم کس طرح امید کرسکتے ہو کہ وہ اس معاہدہ کی تمہارے لئے نگہداشت کریں گے۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ باقی سب اس کے پیچھے پڑ گئے کہ یہ پاگل ہے، دیوانہ ہے، یہ نہیں سمجھتا کہ مصلحت کیا چیز ہوتی ہے اتنی عمدہ شرطیں جب وہ پیش کررہے ہیں تو ہمیں ضرور مان لینی چاہئیں اگر یہ شرائط ہم منظور نہیں کریں گے تو چونکہ ہم کمزور ہیں اس لئے وہ شہر فتح کرکے اندر داخل ہوجائیں گے اور ہم سب کو ماردیں گے۔ جب انہوںنے مخالفت کی تو وہ جرنیل اس مجلس سے اُٹھ کر چلا گیا اور اکیلا عیسائی فوج سے لڑا اور مارا گیا۔ لوگوںنے سمجھا یہ ایک بیوقوف تھا جس نے اپنی بیوقوفی کی سزا پالی لیکن وہ بیوقوف نہیں تھا کیونکہ جب صلح ہوگئی اور مسلمانوں نے جہازوں میں عورتوں اور بچوں کو بھر دیا اور کتب خانوں کو بھی ساتھ لے لیا تو جس وقت سپین کو آخری الوداع کہہ رہے اور اپنے آنسوئوں کا ہدیہ اس کے سامنے پیش کررہے تھے عیسائیوں نے یکدم حملہ کرکے ان کے جہازوں کو غرق کردیا اور اس طرح وہ بُزدل اور ذلیل ہوکر مرے لیکن دنیا اس جرنیل کو آج بھی یاد کرتی ہے جس نے بہادری سے اپنی جان دی۔ اس کے مقابلہ میں ان ہزاروں جان دینے والوں پر رحم تو آتا ہے مگر ساتھ ہی دل کے گوشوں سے ان کے متعلق *** کی آواز بھی اُٹھتی محسوس ہوتی ہے۔ پس اکیلا مرجانا اور قربانی کیلئے اپنے آپ کوپیش کردینا ہروقت ہوسکتاہے لیکن امام کی غرض چونکہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک جماعت تیار کرے اس لئے قربانیوں کا وہ آہستہ آہستہ مطالبہ کرتا ہے۔ بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اگر اسلام ایسی ہی قربانی چاہتا ہے جیسی آپ بیان کرتے ہیں تو کیوں اس وقت قربانی کا مطالبہ نہیں کیاجاتا۔ انہیں معلو م ہونا چاہئے کہ بے شک اسلام انتہائی قربانی چاہتا ہے مگر اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ کمزوروں کو اُٹھایا جائے اور انہیں بھی دوسروں کے پہلو بہ پہلو ترقی دی جائے۔ اگر وقت سے پہلے ہی انتہائی قربانی کا مطالبہ کرلیا جائے تو ہزاروں لوگ جو بعد میں مؤمن ثابت ہوسکتے ہیں منافق بن جائیں۔ جیسے اسلام کہتا ہے کہ خد اور رسول کے دشمن تباہ ہوجاتے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ مخالفت کرتے ہیں وہ فوراً تباہ نہیں ہوتے بلکہ انہیں ایک عرصہ تک ڈھیل جاتی ہے۔ قرآن مجید میں ہی بار بار کفّار کا یہ اعتراض دُہرایا گیا ہے کہ جب ہم مخالفت کرتے ہیں تو ہم مارے کیوں نہیںجاتے؟ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہی جواب دیا ہے کہ ہم تمہیں ڈھیل دیتے ہیں شاید کسی وقت تم درست ہوجائواور ہدایت پر آجائو۔ یہی حال انبیاء کی جماعتوں کا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ انہیں آہستہ آہستہ قربانیوں کی طرف لاتا ہے تا جو گرنے والے ہیں وہ کم ہوجائیں اور بچنے والے زیادہ ہوں۔
پس قربانی کا معیار اسی جگہ پہنچ کر رہے گا جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں پہنچا اور جہاں آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں پہنچا مگر چونکہ کمزوروں اور ناطاقتوں کو اُٹھانا بھی ایمان کاحصہ ہے اس لئے امام کا فرض ہوتا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ قربانیوں کا مطالبہ کرے اور زیادہ سے زیادہ جماعت کو بچائے۔ پس جماعت کے تمام مخلصین کو اس دن کا انتظار کرنا چاہئے جب اگلی قربانی کا ان سے مطالبہ کیا جائے۔ بیشک اپنے دلوں میں فیصلہ انہیں آج سے ہی کرلینا چاہئے مگر عمل اُسی دن ہونا چاہئے جس دن امام کی آواز ان کے کانوں میں پہنچے کیونکہ اَ لْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ۔
اسی طرح بہت سے دوستوں نے میرے اس اعلان سے گھبرا کر تیسرے سال کیلئے وعدے کرنے شروع کردیئے ہیں۔میں ان دوستوں کے اخلاص پر بھی جَزَاکُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِکہتے ہوئے ان کو تنبیہہ کرتا ہوں کہ ابھی میری طرف سے تیسرے سال کی قربانیوں کا مطالبہ نہیں ہؤا ۔ ان کو کیا معلوم کہ میں پہلے سالوں سے اب کی دفعہ کس قدر زیادہ کا مطالبہ کروں گا۔ یا قربانی کا کس رنگ میں مطالبہ کروں گا۔ پس ان کو بھی اس دن کا انتظار کرنا چاہئے جب تیسرے سال کی قربانیوں کے متعلق میری طرف سے اعلان ہو۔ پھر جب اعلان ہوجائے تو اس کے مطابق وہ وعدے کریں۔ فی ال￿حال دوستوں کو اِس کوشش میں لگ جانا چاہئے کہ جہاں جہاں جماعتوں نے وعدے پورے کرنے میں سُستی دکھائی ہے وہاں کی جماعتوں کو سُستی کے دور کرنے اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی طرف توجہ دلائیں۔ میری پہلی مخاطب جماعت قادیان ہے مگر مجھے معلوم نہیں کہ اِس نے اپنے وعدوں کے پورا کرنے میں سُستی دکھائی ہے یا چُستی؟ اگر اِنہوں نے چُستی دکھائی ہے تو انہیں مزید چُستی کی ضرورت ہے اور اگر انہوں نے سُستی کی ہے تو انہیں اپنی سُستی دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور پچھلے دونوں سالوں کے بقائے بھی ادا کرنے چاہئیں یہاں تک کہ نومبر میں جب تیسرے سال کی قربانیوں کے متعلق اعلان کیاجائے تو ان کی طرف کوئی بقایا نہ ہو اور وہ اپنے وعدوں کو پورا کرچکے ہوں۔
پھر ساتھ ہی میں دوستوں کواس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید کے دوسرے حصوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جوں جوں اس تحریک پر جماعت کے لوگ عمل کرتے جارہے ہیں کمزور اورمنافق طبقہ گھبرارہاہے اور زیادہ سے زیادہ اعتراض کرتا جارہاہے کہ فلاں نے یوں کیا اور فلاں نے یوں کیا حالانکہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ فلاں نے یوں کیا اور فلاں نے یوں وہی تو منافق ہوتا ہے۔ جب تک وہ یہ ثابت نہ کرے کہ اس نے کیا کِیا۔ جو شخص اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے اُس کاحق ہے کہ وہ کہے باقی لوگوں نے کیا کِیا اور وہ کیا کرتے ہیں بشرطیکہ وہ اعتراض جائز ہو کیونکہ بعض حالات میں بعض کیلئے قربانی کا زیادہ موقع ہوتا ہے اوربعض کیلئے کم۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی محبت کے حصول کیلئے قربانی کرنے والے ہوتے ہیں وہ اعتراض کم کرتے ہیں اور لوگوں کی اصلاح کی کوشش زیادہ کرتے ہیں۔
حدیثوں میں اس کی ایک مثال بھی آتی ہے ۔ حضرت ابوبکر ص ہمیشہ قربانی میں دوسروں سے بڑھے ہوئے رہتے مگر ان کو کبھی دوسروں کی قربانی دیکھ کر یہ خیال نہ آتا کہ وہ کم ہے لیکن کم قربانی کرنے والوں کو ضرور خیال آجاتا کہ ان کی قربانی زیادہ ہے۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے قربانی کا مطالبہ کیا۔ حضرت عمر ص نے کہا حضرت ابوبکرؓ قربانی میں ہمیشہ بڑھ جاتے ہیں اب کی دفعہ میں انہیں شکست دوں گا۔ اُس وقت تک حضرت ابوبکر ص کی جو مالی قربانی تھی وہ نصف کے قریب نہیں پہنچی تھی اور جب وہ گھر سے مال لاتے نصف سے کم ہوتا۔ حضرت عمر ص نے کہا میں اب کے اپنا نصف مال لے جائوں گا اور ان کو شکست دوں گا مگر جب وہ اپنے گھر کا نصف مال لئے چلے آرہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر ص پہلے ہی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچے ہوئے ہیں اور رسول کریم ﷺ اُس مال کو جو چندہ کے طور پر ابوبکرؓ لائے تھے دیکھ کر حیرت کے ساتھ اُن سے پوچھ رہے تھے کہ ابوبکرؓ !کیا تم نے اپنے گھر میں بھی کچھ چھوڑا ؟ اور حضرت ابوبکرؓ جواب میں عرض کررہے تھے کہ اب اللہ اور اس کے رسول کا نام ہی گھر میں باقی ہے اور توکچھ نہیں ؎۴ ۔ حضرت عمر ص نے جب یہ واقعہ دیکھا تو وہ کہنے لگے اِس شخص کو شکست دینا ہمارے بس کی بات نہیں۔ اس واقعہ سے حضرت ابوبکر ص کے دو کمال ظاہر ہوتے ہیں ایک یہ کہ وہ قربانی میں سب سے آگے بڑھ گئے اور دوسرے یہ کہ باوجود اپنا سارا مال لانے کے پھر سب سے پہلے پہنچ گئے اور جنہوں نے تھوڑا دیا تھا وہ اس فکر میں ہی رہے کہ کتنا گھر میں رکھیں اور کتنا لائیں ۔ مگر باوجود اس کے حضرت ابوبکرؓ کے متعلق یہ کہیں نہیںآتا کہ اُنہوں نے دوسروں پر اعتراض کیا ہو۔ حضرت ابوبکرؓ قربانی کرکے بھی یہ سمجھتے تھے کہ ابھی خدا کا میں دیندار ہوں او رمیں نے کوئی اللہ تعالیٰ پر احسان نہیں کیا بلکہ اُس کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے توفیق دی لیکن منافق خود تو کوئی قربانی نہیں کرتا البتہ دوسروں کی قربانیوں پر اعتراض کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ گالیاںدیتا ہے اور جب اُسے کہا جائے کہ گالی مت دو تو وہ کہتاہے فلاں گالی نہیں دیتا؟ وہ چغلی کرتا ہے اور جب اُسے کہا جاتا ہے کہ چغلی مت کرو تووہ کہتاہے کہ کیا فلاں چغلی نہیں کرتا اور باوجود اِس شدید عیب کے وہ سمجھتاہے کہ وہ مصلح ہے اور دعویٰ کرتاہے کہ وہ دیندار ہے۔ اسی طرح وہ چندے میں سُستی کرتا ہے اور جب اُسے کہا جائے کہ سستی مت کرو تو وہ کہتا ہے کہ کیا فلاں شخص چندہ دینے میں سُستی نہیں کرتا؟ اور اکثر اوقات جب وہ کہتا ہے کہ فلاں شخص چندہ دینے میں سُستی نہیں کرتا وہ جھوٹ بول رہا ہوتاہے اور محض اپنے آپ کوبچانے کیلئے دوسروں کو عیب میں ملوث کرتاہے۔
ایک دفعہ ایک شخص نے میرے متعلق ایک اعتراض چھپوایا (وہ منافق کی مثال نہیں بلکہ دشمنوں میں سے ایک شخص کی مثال ہے اور گو منافقوں کی مثالیں بھی مَیں دے سکتا ہوں مگر شاید اس طرح ان کا نام ظاہر ہوجائے جو ابھی میں ظاہر کرنا نہیں چاہتا)کہ اِنہوں نے خلافت سے بہت سا روپیہ کمایا ہے چنانچہ اِن کو صرف جلسہ سالانہ پر پچاس ہزار روپیہ نذر کا آتا ہے۔
ایک دوست نے جب مجھے یہ اعتراض سنایا تو میں نے انہیں کہا اُسے کہہ دیں کہ وہ آکر ٹھیکہ لے لے اور جتنا روپیہ نذر کا اکٹھا ہو اُس میں سے نَو حصے آ پ رکھ لیا کرے اور ایک حصہ مجھے دے دیا کرے۔ گو اس ایک حصہ میں سے بھی بہت سا روپیہ جماعت کے کاموں پر ہی خرچ کردوں گا مگر پھر بھی مجھے اس ٹھیکہ میں نفع رہے گا۔ پس اُسے کہو کہ وہ اس شرط پر ٹھیکہ لے لے کہ وہ پانچ ہزار تو مجھے دے دیا کرے اور جس قدر نذرانہ آئے وہ خود رکھ لیا کرے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا اکثر حصہ دینی ضروریات پر خرچ کرکے پھر بھی مجھے نفع ہی رہے گا۔
غرض منافق اور دشمن ہمیشہ اپنے پاس سے باتیں بیان کرنی شروع کردیتے ہیں اور کئی دوست انہیں سن کر گھبراجاتے ہیں او رکہنے لگ جاتے ہیں کہ فلاں کی نسبت وہ یہ کہتا تھا اور فلاں کی نسبت یہ۔ بھلا جو خدا سے اخلاص نہیں رکھتا وہ اپنے بھائی سے کیا اخلاص رکھ سکتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے بخاری لے دیں۔ فرمانے لگے میں نے اُسے کہاکہ مجھے اِس وقت توفیق نہیں۔ وہ کہنے لگا یہ بھی کوئی بات ہے کہ آ پ کو توفیق نہ ہو آپ صاف طور پر یہی کہہ دیں کہ میں لے کر نہیں دینا چاہتا۔ فرمانے لگے کیوں؟ وہ کہنے لگا سیدھی بات ہے حضرت مرزا صاحب کے دو تین لاکھ مریدہیں اگر وہ مرزاصاحب کو ایک ایک روپیہ نذرانہ دیتے ہوں تو دو لاکھ روپیہ کا نذرانہ انہیں آجاتا ہوگا اور اگر وہ چار چار آنے بھی آپ کو نذرانہ دیںتو پچاس ہزار روپیہ نذر کاتو آپ کوہر سال مل جاتا ہوگا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے کہ میں نے اُسے کہا کہ پہلے تم یہ بتائو کہ آج تک تم نے مجھے کتنی چونّیاں دی ہیں؟ جس قدر تمہاری طرف سے مجھے چونّیاں پہنچی ہیں وہ گِنادو اور پھر اِ س پر دوسروں کا قیاس کرلو اِس پر وہ خاموش ہوکر چلا گیا۔ تو منافق آدمی ہمیشہ دوسروں کے متعلق بے بنیاد باتیں کرتا رہتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں یوں ہے اور فلاں یوں۔ پس ان کی باتوں سے گھبرانا نہیں چاہئے اور نہ ان کی پروا کرنی چاہئے کیونکہ کوئی معقول وجہ ایسی نہیں ہوتی جس کی بناء پر سمجھا جاسکے کہ واقعہ میں ہمارا فلاںبھائی ایسا ہے۔ وہ صرف اپنا پہلوبچانے کیلئے اعترا ض کرتا ہے اور اس کی غرض محض اپنے آپ سے اعترا ض کودورکرنا ہوتا ہے اور یہی علامت منافق کی ہے ورنہ کیا یہ جواب دینے سے کہ چونکہ فلاں شخص نجاست پر منہ مارتا ہے اس لئے میں بھی ایسا کرتا ہوں کوئی شخص بری الذمہ سمجھا جاسکتا ہے!! مثل مشہورہے کہ کسی شخص نے دوسرے سے برتن مانگا مگر دیر تک واپس نہ کیا۔ ایک دن یہ اُس کے گھر گیا تو دیکھا کہ وہ اُس برتن میں ساگ کھارہا ہے۔ یہ کہنے لگا چوہدری! یہ بات تو اچھی نہیں کہ تم نے میرا برتن لیامگر اُسے واپس نہ کیا اور اب اس میں ساگ کھارہے ہو میرا نام بھی تم بدل دینا اگر میں تمہارے برتن میں جاکر پاخانہ نہ کھائوں۔ ان منافقوں کا جواب اگر واقعات کے لحاظ سے درست ہو تب بھی اس کی حیثیت اس جواب سے زیادہ نہیں ہے۔ بھلایہ بھی کوئی جواب ہے کہ میں اگر جھوٹ بولتا ہوں تو فلاں بھی جھوٹ بولتا ہے، میں اگر فریب کرتاہوں تو فلاں بھی فریب کرتا ہے، میں اگر غدّاری کرتا ہوںتو فلاں بھی غدّاری کرتا ہے، میں اگر بدکاری کرتاہوں تو فلاں بھی بدکاری کرتاہے ، گویا چونکہ دوسرا شخص بھی جھوٹ بولتا ، فریب کرتا، غدّاری کرتا اور بدکاری کامرتکب ہوتا ہے اس لئے جھوٹ جھوٹ نہ رہا، فریب فریب نہ رہا، غدّاری غدّاری نہ رہی اور بدکاری بدکاری نہ رہی۔
غرض یہ یقینی بات ہے کہ جوں جوں جماعت قربانی میں ترقی کرے گی منافق چونکہ ساتھ نہیں چل سکے گا اس لئے وہ شور مچانے لگ جائے گا کہ یہ بھی ناجائز ہے اور وہ بھی ناجائز مگر جماعت کو اِدھر اُدھر نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ سیدھا اپنی منزلِ مقصود کی طرف پڑھتے چلے جانا چاہئے۔ ۱۹۱۳ء میں مَیں نے رئویا دیکھاکہ دو پہاڑ ہیں جن کی ایک چوٹی سے دوسری چوٹی کی طرف میں جانا چاہتاہوں۔ وہ پہاڑ ایسے ہی ہیں جیسے صفا اورمَروہ۔ لیکن صفا اورمَروہ کے درمیان جو جگہ تھی وہ تو اب پاٹ گئی ہے مگر خواب میں جو دو پہاڑ میں نے دیکھے ان کے درمیان جگہ خالی تھی۔ جب میں ایک چوٹی سے دوسری چوٹی کی طرف جانے لگا تومجھے ایک فرشتہ ملا اور کہنے لگا جب تم دوسری چوٹی کی طرف جانے لگو گے تو راستہ میں تمہیں بہت سے شیطان اور جِنّات ڈرائیں گے اور تمہاری توجہ اپنی طرف پھرانا چاہیں گے مگر باوجود اس کے کہ وہ ہر رنگ میں تمہیں ڈرائیں تمہیں اپنی طرف متوجہ کرنا چاہیں تم ان کی طرف نہ دیکھنا اور یہی کہتے جانا کہ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘، ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘۔ اس کے بعد میں جب چلا تو راستے میں مَیں نے دیکھا کہ ایک وسیع جنگل ہے جس میں سے عجیب عجیب شکلیں نکل نکل کر مجھے ڈرانا چاہتی ہیں، کہیںہاتھی نکلتے ہیں اور وہ مجھے ڈراتے ہیں،کہیں چیتے نکلتے ہیں اور مجھے ڈراتے ہیں کہیں خالی سر آجاتے ہیں اور مجھے خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہیں بغیر سروں کے دھڑ آجاتے ہیں۔ غرض عجیب عجیب رنگوں اور عجیب عجیب شکلوں میں وہ مجھے ڈراتے اور میری توجہ اپنی طرف پھرانا چاہتے ہیں مگر جب میں کہتا ہوں ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ تو وہ سب شکلیں غائب ہوجاتی ہیں۔ غرض اسی طرح میں چلتا گیا یہاں تک کہ منزلِ مقصود پر پہنچ گیا ۔ تو درحقیقت اس قِسم کے لوگوں کی باتوں کو سُن کر اِس فکر میں پڑ جانا کہ فلاں نے فلاں پر یہ اعتراض کیا ہے فضول بات ہے۔ مؤمن کاکام یہ ہے کہ جب وہ اس قِسم کی کوئی بات سنے تو ذمہ دار لوگوں تک اُسے پہنچا دے مگر یہ کہ منافق جن لوگوں پر الزام لگائے اُن الزامات کی تحقیق کی جائے یہ بیوقوفی کی بات ہے۔ اگر واقعہ میں انہیں کوئی اعتراض ہے اور وہ منافق نہیں تو کیوں وہ اس طریق کو اختیار نہیں کرتے جو شریعت نے مقرر کیاہے۔ گھروں میں بیٹھ کر باتیں کرنے اور دوسروں پر اعتراض کرنے کا مطلب ہی کیاہے۔
پس ہر دوست کو اس طرف سے بالکل آنکھیں بند کرکے فیصلہ کرلینا چاہئے کہ میں ہی ہوں جس نے یہ کام کرنا ہے۔ خواہ میرے بیوی بچے، عزیز دوست اور رشتہ دار سب مجھے چھوڑ دیں مجھے ان کی کوئی پرواہ نہیں میں خود اس کا م کو کروں گا اور جب دوست اس قِسم کا پختہ ارادہ کرلیں گے تو خود بخود کام میں سہولتیں پیداہوتی چلی جائیں گی۔ اب تک جوکام ہؤا ہے کیا وہ ہماری تدبیروں کانتیجہ ہے؟ میں تو جب اُس زمانہ کی جماعت پر نگاہ دوڑاتا ہوںجب خلافت کا کام خداتعالیٰ نے میرے سپرد کیا اور آج کی جماعت کودیکھتا ہوں تو میں خود جس کے ہاتھ میں یہ سب کام ہؤا اپنے ذہن میںاسے ایک خواب سمجھتا ہوں۔ آج ہماری طاقت خداتعالیٰ کے فضل سے پہلی طاقت سے سینکڑوں گنے زیادہ ہے، آج خداتعالیٰ کے فضل سے ہم سینکڑوں گنے زیادہ وسیع علاقہ میں پھیلے ہوئے ہیںاور وہ بیسیوں قومیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کانام بھی نہیں جانتی تھیں آج خداتعالیٰ کے فضل سے ان میں ہماری جماعتیں قائم ہیں۔ پس میں تو اس ترقی پر جب نگاہ ڈالتا ہوں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا ایک خواب ہے اور میری اس حالت کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوںنے وہ رات دیکھی ہے جس سے پہلے دن حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کی وفات ہوئی۔ اس رات مولوی محمد علی صاحب نے ایک ٹریکٹ تمام جماعت میں تقسیم کیا جس میں لکھا تھا آئندہ کسی خلیفہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ صرف ایک پریذیڈنٹ ہوناچاہئے اور وہ بھی چالیس سال سے اوپر کی عمر کا ہو اور پھر غیراحمدیوں کو کافر نہ کہتاہو۔ ادھر ہمیں یہ نظر آتا تھا کہ جماعت کی کنجی ان کے ہاتھ میں ہے،سارے عہدے ان کے قبضے میں ہیں اورخزانہ بھی انہی کے ماتحت ہے او راس پر بھی انہی کاقبضہ ہے۔ وہ رات جنہوں نے قادیان میںگزاری ہے وہ جانتے ہیں کہ جماعت کیسی خطرناک حالت میں سے گزری ہے۔ اس وقت کی حالت بالکل ایسی ہی تھی جیسے پانی پر ایک بلبلہ ہو اور اچانک ایک تیز آندھی اُسے مٹانے کیلئے آجائے۔ ایک تیز آندھی کے مقابلہ میں بلبلے کی کیا حیثیت ہوا کرتی ہے ہر شخص اس کا اندازہ آسانی سے لگا سکتاہے۔ بلبلہ تیز آندھی کے مقابلہ میں ایک بالکل بے حقیقت شَے ہوتا ہے مگر کوئی کیا جانتا ہے کہ یہی بلبلہ ایک دن گنبد خضراء بننے والا ہے اور آسمان کی طرح دنیا پر چھاجانے والا ہے۔ بلبلہ بلبلہ ہی تھا اور طوفان طوفان ہی تھا مگر اس بلبلہ کے اندر جو ہوا بھری ہوئی تھی وہ معمولی ہوا نہ تھی بلکہ خدا کی رو ح تھی وہ بڑھی، وہ ترقی پائی، وہ مضبوط ہوئی یہاں تک کہ ایسی چھت بن گئی جس کے نیچے ساری قوموں نے آرام پایا۔ پس کون ہے جو مؤمن کو ڈراسکے کون ہے جو اُسے خائف کرسکے کہ مؤمن کی طاقت اس کے نفس سے نہیں آتی بلکہ اس کے خدا کی طرف سے آتی ہے۔ ایک تلوار جو خالی پڑی ہوئی ہو وہ ایک بچہ کو بھی زخمی نہیں کرسکتی لیکن ایک معمولی سی چھڑی مضبوط انسان کے ہاتھ میں جاکر دوسرے انسان کا سر بھی توڑ سکتی ہے۔ پس دنیا کے سامانوں سے مت ڈرو اور اس کی تکلیفوں کامت خیال کرو تم میں سے ہر فرد واحد کا معاملہ براہ راست خداتعالیٰ سے ہے پس اپنے دل میں عہد کرو کہ اس آخری زمانہ کے مصلح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا کی اصلاح کریں گے اور بیوی بچوں، ہمسایوں، دوستوں ، رشتہ داروں اور ملنے والوں کی کوئی پروا نہ کریں گے او رجس جس قربانی کیلئے بلایا جائے گا اس کیلئے آمادہ ہوں گے۔ جب تم ایسا کرو گے تو تمہارا معاملہ خدا سے صاف ہوگیا۔ لاَ یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا ھْتَدَیْتُمْ ؎۵ جب تم ہدایت پاگئے تو دوسرے کی گمراہی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ خداتعالیٰ کے سامنے تم دنیا کے ذمہ دار نہیں بلکہ صرف اپنی جان کے ذمہ دار ہو۔ جب تم اپنی جان خداتعالیٰ کے سامنے پیش کردو گے اور کہہ دو گے کہ اے خدا! ہم نے تیرے لئے اور تیرے دین کی اشاعت کیلئے اپنی جان بھی قربان کردی آگے لوگوں کی اصلاح ہوئی یا نہیںہوئی یہ تیرا کام تھا ہمارا نہیں تو تم اپنے فرض سے سبکدوش سمجھے جائو گے اور تم پر کوئی الزام نہیںہوگا۔ مگر یاد رکھو اگر انسان خداتعالیٰ کیلئے اپنی جان دینے کیلئے تیار ہوجائے تو ناممکن ہے کہ دنیا کی اصلاح نہ ہو۔ زمین ٹل سکتی ہے، آسمان ٹل سکتے ہیں، پہاڑ غائب ہوسکتے ہیں، دریا خشک ہوسکتے ہیں، سمندر بھاپ بن کراُڑ سکتے ہیں، تمام عالَم تہہ و بالا کیاجاسکتا ہے مگر مؤمن کی قربانی کو خدا کبھی ضائع نہیں ہونے دیتا۔ اس کے دل سے بہا ہؤا ایک قطرئہ خون سارے زمین و آسمان سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ چاہے تم اس دنیا میں کامیابی دیکھو چاہے اگلے جہان میں آسمان پر سے جھانک کر دیکھو بہرحال تمہاری قربانیاں ضائع نہیںہوں گی۔ دنیا کی اصلاح ہوکر رہے گی اور حضرت مسیح موعود ں کا مشن دنیا میں قائم ہوکر رہے گا اور تم خدا کی گود میں ہنستے ہوئے کہو گے کہ ہمارا تھوڑا سا خون دنیا میں کتنے عظیم الشان تغیرات پید اکرنے کا موجب ہؤا ۔ آج اسلام تباہی کی حالت میں گِرا ہؤا ہے مگر صدیوں تک اسلام نے دنیا میں نہایت نیک اور مہتم بِالشان تغیر پید اکئے ہیں۔ وہ دو دو چار چار روپے کی حیثیت کے صحابہؓ جن کے جسم پر کپڑے بھی کافی نہیں ہوتے تھے اور جن کے پیٹ میں روٹی نہیں ہوتی تھی وہ کس اعلیٰ مقام کو پہنچے؟ جس وقت اگلے جہان میں خدا اُن کی روحانی بینائی کو تیز کرتا ہوگا اور گزشتہ صدیوں میں جب وہ آسمان پرسے جھانک کر دیکھتے ہوں گے کہ کس طرح دنیا میں یورپ سے لے کر چین کے کناروں تک مسلمان خدا کا نام پھیلانے میں مصروف ہیں تو اُن کے دل کس قدر خوشیوں سے بھر جاتے ہوں گے اور وہ کس کس رنگ میں مزے نہ لیتے ہوں گے کہ ہماری چھوٹی چھوٹی قربانیاں دنیا میں کتنا عظیم الشان تغیر پید اکرگئیں اور ہمار ابویا ہؤا چھوٹا سا بیج کیسا عظیم الشان درخت بن گیا یہی حال آئندہ ہونے والا ہے ۔ ہمارے زمانہ میں یہ باتیں آئیں یا نہ آئیں مگر یہ آکر رہیں گی اور اگر اِس دنیا میں ہم نے اِن امور کو پورا ہوتے نہ دیکھا تو ہم آسمان پرسے دنیا کو جھانکیں گے اور دنیا کے تغیرات کو دیکھ کر کہیں گے کہ خدا نے سب کچھ ہمارے ہاتھوں سے کرایا۔ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے تجھ سے جو وعدے کئے ہیں ان وعدوں میں سے بعض تیری زندگی میں پورے کردیں گے اوربعض تیری وفات کے بعد پورے کریں گے ؎۶ ۔یہی حال مؤمن کا ہوتا ہے وہ کچھ امور کو پورا ہوتے اپنی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے اور کچھ امور کے پورا ہونے کو آسمان پر سے جھانک کر دیکھتا ہے اورمیں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے دیکھنے سے آسمان پر سے دیکھنا کچھ کم حیثیت نہیں رکھتا بلکہ دنیا میں انسان جب ان امور کو دیکھتا ہے تو اُس کے ساتھ بہت سے خطرات بھی لگے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ آئندہ کے حال سے بھی ناواقف ہوتا ہے لیکن آسمان پر بیٹھی ہوئی روح مستقبل سے بھی واقف کی جاتی ہے اور وہ جانتی ہے اُس وسعت کو جو اُس کا لگایا ہؤا درخت دنیا میں حاصل کررہا ہوتا ہے۔ پس اپنی ذات کا معاملہ خدا سے درست کرلو دنیا کا معاملہ خداتعالیٰ خود درست کردے گا کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے مؤمن کی قربانی کبھی ضائع نہیں ہوتی، ضائع نہیں ہوسکتی او رضائع نہیں کی جاتی۔
(الفضل ۱۹؍ ستمبر ۱۹۳۶ئ)
؎۱ المائدۃ: ۲۵
؎۲ بخاری کتاب الجہاد والسیر باب یقاتل مِنْ وَّرَائِ الْاِمَامِ وَ یُتَّقٰی بِہٖ
؎۳ بخاری کتاب الاذان باب اِثْم مَنْ رَفَعَ رَأسَہٗ قَبْلَ الْاِمَام
؎۴ ترمذی ابواب المناقب۔ باب مناقب ابی بکر الصدیق
؎۵ المائدۃ: ۱۰۶
؎۶ وَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ (یونس: ۴۷)

۳۴
مؤمن کو امرِ الٰہی کے حصول کیلئے ہروقت
اور ہر قربانی کیلئے تیاررہنا چاہئے
(فرمودہ ۱۸؍ستمبر ۱۹۳۶ئ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
گو پچھلے جمعہ کا خطبہ پڑھنے کی وجہ سے میری طبیعت زیادہ خراب ہوگئی لیکن آج بھی میں نے یہی فیصلہ کیا کہ خطبہ خود ہی پڑھوں خواہ وہ کتنا ہی مختصر کیوںنہ ہو۔
میں نے پچھلے خطبہ میں جماعت کواس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ الٰہی جماعتیں قربانی کے ساتھ ترقی کیا کرتی ہیں اور تعداد اپنی ذات میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ چنانچہ قرآن کریم میں بھی ہمیں توجہ دلائی گئی ہے کہ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ ؎۱ یعنی بہت سی چھوٹی جماعتیں ہوتی ہیں جو بڑی جماعتوں پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے غالب آجاتی ہیں۔ پس معلوم ہؤا کہ تعداد اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں بلکہ اصل چیز امراللہ ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ کا امر حاصل ہوجائے وہ جیت جاتی ہے اور جس کے خلاف اللہ تعالیٰ کا امر نازل ہوجائے وہ ہارجاتی ہے۔ پس ہمیں اتنی کوشش اپنی فتح اور کامیابی کی غرض سے جماعت کو بڑھانے کی نہیں کرنی چاہئے جتنی کوشش کہ فتح اور کامیابی کے واسطے امرِالٰہی کے حاصل کرنے کیلئے کرنی چاہئے۔ میں نے اس فقرہ میں ایک شرط لگائی ہے جو معمولی نہیں بلکہ نہایت ضروری ہے۔ میں نے کہا ہے کہ فتح و کامیابی کی غرض سے ہمیں اپنی تعداد بڑھانے کی اتنی کوشش نہیں کرنی چاہئے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمیں اپنی تعداد بڑھانے کی کوشش ہی نہیں کرنی چاہئے بلکہ یہ ہے کہ تعداد بڑھاتے وقت ہماری غرض یہ نہیں ہونی چاہئے کہ ہمیں فتح و کامیابی حاصل ہو بلکہ جماعت بڑھانے کی غرض یہ ہونی چاہئے کہ اس طرح صداقت پھیلتی ہے اور خداتعالیٰ کا نام قائم ہوتا ہے۔ دنیا میں لوگ جتھے اس لئے بناتے ہیں کہ مضبوط ہوجائیں اور اپنی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں کہ تا غالب آجائیں مگر اسلام تبلیغ کا حکم ہمیں اس لئے نہیں دیتا کہ ہم زیادہ ہوجائیں کیونکہ وہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمارا توکّل خدا پر ہوکسی بندہ پرنہ ہو۔ پس مؤمن اور غیرمؤمن دونوں تبلیغ کرتے ہیں مگرجبکہ غیرمؤمن اپنی تعداد بڑھانے کیلئے تبلیغ کرتا ہے مؤمن صرف اپنے گمراہ بھائی کو ہدایت دینے کیلئے تبلیغ کرتاہے اور اس لئے تبلیغ نہیں کرتا کہ کوئی شخص اس کے ساتھ شامل ہوکر اس کی طاقت بڑھائے پس وہ رحم کرتا ہے ۔ اسلامی و غیراسلامی تبلیغ میں یہی فرق ہے۔ اسلام کی تبلیغ جذبۂ رحم کے ماتحت دوسرے کوتباہی سے بچانے کیلئے ہوتی ہے اور اپنی طاقت کو بڑھانے کیلئے مؤمن کی نگاہ بندوں پر نہیںبلکہ خدا پر ہوتی ہے لیکن جب ایک غیرمسلم یا غیرمؤمن (ہوسکتا ہے کہ ایک شخص مُسلم ہو مگر مؤمن نہ ہو ) تبلیغ کرتا ہے تو وہ اپنی جان پر رحم کرتا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے میں کمزور ہوں دوسرے کو اپنے ساتھ شامل کرکے اس کے ذریعہ اپنی جان بچائوں مگر اس کے برعکس مؤمن اور مُسلم دوسرے پر رحم کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خداتعالیٰ نے مجھ پر فضل کرکے مجھے نجات دی ہے اس لئے مجھے چاہئے کہ دوسرے کو بھی گڑھے سے بچائوں۔ مؤمن کی تبلیغ جتھہ بندی کیلئے نہیں بلکہ ہدایت کیلئے ہوتی ہے۔
پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ فتح و کامیابی کیلئے تعداد بڑھانے کی کوشش نہ کرو تو میرا یہ مطلب نہیں کہ تعداد بڑھانے کی کوشش ہی نہ کر وبلکہ یہ مطلب ہے کہ اس غرض کو مدنظر رکھ کرنہ کرو۔ تعداد بڑھانے کی کوشش ضرور کرو مگر اس غرض سے کہ خداتعالیٰ کا نام روشن ہو، بھُولے بھٹکے بندے راہِ راست پر آجائیں۔ غلبہ اور فتح و کامیابی کی بنیاد اس امر پر ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا امر حاصل ہو اور جب اللہ تعالیٰ کا امر حاصل ہوجائے تو بڑے لوگ کیا کرسکتے ہیں۔ پُرانے زمانہ میں تلواروں کا رواج تھا اور لوگ اچھی اچھی تلواریں جمع کرتے تھے اور جن کے پاس زیادہ اچھی تلواریں ہوتی تھیں لوگ ان سے ڈرتے تھے۔ پھر تیر نکلے تو جن کے پاس اچھے تیر کمانیں ہوں وہ جیت جاتے تھے۔ پھر ڈھالیں نکلیں تو جن کے پاس صرف تیرکمان تھے وہ کمزور ہوگئے۔ جب سکندر نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اسے زیادہ تر اِسی وجہ سے فتح حاصل ہوگئی کہ اس کے پاس اعلیٰ قِسم کی ڈھالیں تھیں۔ وہ صرف چند ہزار آدمیوں کے ساتھ آیا تھا اس کی فوج کی تعداد بعض حملوں میں چار سے بارہ ہزار تک بیان کی جاتی ہے مگر ا ُس نے اِسی سے ایران او رہندوستان کی بڑی بڑی تعداد رکھنے والی فوجوں کا مقابلہ کیا اور اُن کو شکست دی۔ ڈھالوں کے بعد منجنیقیں نکلیں اور ان کے ذریعہ دور دور پتھر پھینکے جانے لگے۔ اس کے بعد بارود نکلا، پھر رائفلیں اور توپیں ایجاد ہوئیں اور اب گیس پھینکنے والے بم اور ہوائی جہاز ایجاد ہوئے ہیں اور ایک ایک ہوائی جہاز سینکڑوں گائوں تباہ کرسکتا ہے۔ ایسے ایسے زہریلے بم ایجاد ہوئے ہیں کہ ایک بم سے بارہ میل کے رقبہ کو تباہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ بم ہوائی جہاز وں سے پھینکے جاتے ہیں او رنیچے کے لوگ ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ تو اب دنیا میں تعداد کوئی چیز نہیں بلکہ طاقت کے دوسرے ذرائع ہیں۔ پھر کیا ایک مؤمن کیلئے یہ شرم کی بات نہیں کہ دوسرے لوگ جو غیرمؤمن ہیں وہ تو تعداد کی کوئی حقیقت نہیں سمجھتے بلکہ طاقت کیلئے تعداد کے مقابلہ میں ہوائی جہازوں، بموں اور توپوں پر انحصار رکھتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ خواہ دشمن کتنی زیادہ تعدادمیں کیوں نہ ہو ہم اسے زیر کریں گے اور ایک مؤمن سمجھے کہ خداتعالیٰ کی طاقت ہوائی جہاز جتنی بھی نہیں ، توپ اوربم جتنی بھی نہیں۔ ایک اکیلا انسان ایک جہاز سے بم پھینک کر بارہ میل علاقہ کا جس کی آبادی اوسط آبادی کے لحاظ سے تین ہزار بنتی ہے مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوجاتا ہے لیکن ایک مؤمن کا اتنا ایمان بھی نہ ہو کہ اس کے خدا کی ہوائی جہا زکے برابر بھی طاقت ہے۔
پس جو سچے مؤمن ہیں وہ جیتنے کیلئے تعداد کا کبھی خیال بھی نہیں کرتے وہ اگر غلطی کررہے ہیں تو یہ کہ تھوری تعداد کے ساتھ بُہتوں پر حملہ کردیا۔ ایسی مثالیں اسلامی تاریخ میں کثرت سے ملتی ہیں کہ پچاس ساٹھ یا سَو آدمیوں نے ساری فوج پر حملہ کردیا مگر ایسی کوئی مثال نہیں کہ دشمن کی زیادہ فوج پر مسلمانوں نے حملہ مزید کمک کے آنے پرملتوی کردیا۔ پچاس او رساٹھ مسلمانوں نے پچا س پچاس او ر ساٹھ ساٹھ ہزا رکفا رپر حملہ کردیا اور مارے گئے مگرڈر کر پیچھے نہیں ہٹے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ خداتعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور قرآن شریف میں بھی ہمیں یہی بتاتا ہے کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ کہ بہت ہی تھوڑی جماعتیں تم سے پہلے گزری ہیں جو اللہ تعالیٰ کے امر کے حاصل ہونے کی وجہ سے بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آگئیں۔ پس ہمیں اس لئے اپنی تعداد بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہم جیت جائیں گے بلکہ ہم اس بات کے خواہشمند ہیں کہ لوگ تباہی اور بربادی سے بچ جائیں۔ فتح حاصل کرنے کیلئے ہمیں صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کریں جو سچی قربانی سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دائم رہنے والی اور اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ؎۲ ہستی ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور وہ اُسی کو اپنے قریب لاتا ہے جو اِس بات پر یقین رکھے کہ خدا تعالیٰ زندہ کرنے والا ہے۔ زید کے متعلق اگر یہ یقین کامل ہو کہ وہ اچھا تیراک ہے او ریہ ممکن نہیں کہ وہ کسی کو ڈوبنے دے تو اس کے موجود ہوتے ہوئے کوئی شخص خطرناک سمند رمیں کُود پڑنے سے بھی نہیں ڈرے گا۔ اسی طرح جس کو خداتعالیٰ پر یہ یقین ہو کہ وہ اَلْحَیُّ ہے او رزندہ کرنے والا ہے وہ ہر موت قبول کرنے کیلئے تیار ہوگا۔ پس جب تک کوئی اللہ تعالیٰ کی صفت اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ پر یقین نہیں رکھتا جس کی علامت یہ ہے کہ وہ ہر موت کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں رہتا اُس وقت تک اللہ تعالیٰ بھی اُس کے ایمان کو قبول نہیں کرتا۔ جس شخص کو یقین ہو کہ اُس نے اتنی مشق کرنی ہے کہ سنکھیا اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا وہ تولہ بھر سنکھیا بھی کھاجائے گا لیکن جسے یہ یقین نہ ہو وہ کبھی ایسی جرأت نہیں کرسکتا۔ پھر بعض لوگوں کو آگ پر چلنے کی ترکیب آتی ہے وہ اس سے نہیں ڈرتے لیکن کوئی دوسرا آگ کے نزدیک بھی نہیں جاسکتا اسی طرح جو شخص اللہ تعالیٰ کو اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُجانتا ہے وہ موت سے نہیں ڈرتا۔
ہندوئوں میں ایک لطیفہ مشہور ہے مگر ہم اس سے ایک سبق ضرور حاصل کرسکتے ہیں۔ کہتے ہیں کوئی راجہ تھا جس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی اُس نے علاج وغیرہ بہت کرائے مگر بے سود۔ ہندوئوں میں تین خدا سمجھے جاتے ہیںبرہما، ویشنو اور شیو۔ برہما پیدائش کا خدا سمجھا جاتا ہے، ویشنو رزق کا اور شیو موت کا خدا۔ اس راجہ نے برہما کی نذر مانی کہ اگر میرے ہاں بیٹا ہوتو میں تیری عبادت کیا کروں گا۔ ہندو برہما کی عبادت نہیں کرتے کیونکہ سمجھتے ہیں کہ اس نے تو صرف پیدا ہی کرنا تھا سو کردیا اس سے اب کسی نفع نقصان کی کیا امید ہے۔ اب تو روزی دینے والے او رمارنے والے خدا کی عبادت ضروری ہے۔ گویا عبادت میں بھی وہ تجارتی اصول کو مدنظر رکھتے ہیں احسان کے ماتحت خدا کی عبادت نہیں کرتے۔ تو اس راجہ نے برہما کی عبادت کرنے کا وعدہ کیا اور اس کے ہاں لڑکا پیداہوگیا۔ جب وہ لڑکا جوان ہؤا تو باپ نے کہا کہ اب تک تو میں برہما کی عبادت کرتا رہا ہوں مگر موت چونکہ شیو جی کے ہاتھ ہے اس لئے ہمیں اب اس کی عبادت کرنی چاہئے ایسا نہ ہو کہ وہ تجھے ماردے مگر بیٹا اس بات کا سخت مخالف تھا اور اسے احسان فراموشی قرار دیتا تھا۔ یہ اختلاف آپس میں اِس قدر بڑھا کہ باپ نے غصہ میں آکر شیو جی سے درخواست کی کہ اس کے بیٹے کو ماردے چنانچہ بیٹا مرگیا۔ برہما کو جب اِ س کا علم ہؤا تو اس نے کہا کہ اچھا یہ ہماری عبادت کی وجہ سے مارا گیا ہے اُس نے پھر اُسے پیدا کردیا۔ شیو جی نے پھر ماردیا اور برہما نے پھر پید اکردیا اور دونوں میں یہ لڑائی شروع ہوگئی۔ تو یہ یوں تولطیفہ ہے مگر حقیقت سے خالی نہیں۔ دراصل شیو انسان خود ہوتا ہے اور برہما خدا ہوتاہے۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کیلئے اپنے آپ کو مارتا ہے تو خداتعالیٰ اُسے پھر پیدا کردیتاہے۔ دیکھو صحابہؓ نے کتنی دفعہ اپنے آپ کو مارا اور کتنی دفعہ خداتعالیٰ نے اُن کو زندہ کیا۔ جب صحابہؓ بدر کے میدان میں لڑنے گئے تو کیا انہوں نے موت قبول نہ کی تھی؟ پھر کیا جنگ احد موت نہ تھی؟ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافق کہتے تھے یہ تو صریح موت ہے اگر ہمیں علم ہوتا کہ لڑائی ہے تو ہم ضرور شامل ہوتے ۔ پھر کیا احزاب کی جنگ موت نہ تھی؟ منافق جیسے بُزدل اور موقع پر مسلمانوں کو طعنے دیتے پھرتے تھے کہ پاخانہ پھرنے کیلئے تو جگہ ملتی نہیں اور دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ پھر کیا غزوئہ تبوک موت نہ تھی؟ پھر آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد عرب میں بغاوت ہوگئی تھی کیا اُس وقت صحابہؓ نے اپنے لئے موت قبول نہ کی تھی؟ پھر جب حضرت ابوبکرؓ نے قیصر سے مقابلہ شروع کیا تو کیا موت نہ تھی؟ عرب کی کُل آبادی اتنی بھی نہیں جتنی فلسطین کی مگر مسلمانوں نے مقابلہ ایسے بادشاہ سے شروع کیا جس کے ماتحت فلسطین تھا، شام تھا، بلغاریہ، مقدونیہ، مصر، طرابلس، آرمینیا، اسوریہ کے علاقے بھی تھے گویا اتنی بڑی حکومت سے ٹکر لگائی۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایران سے بھی جنگ شروع کردی اور اُس وقت ایرانی حکومت کے ماتحت افغانستان ، ہندوستان، چین ، چینی ترکستان اور ایشیائی روس کے علاقے تھے گویا آدھی دنیا پر ایران کی حکومت تھی اور آدھی دنیا پر روم کی اور مسلمان بہ یک وقت ان دونوں حکومتوں سے لڑ رہے تھے پھر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ موت نہ تھی۔
پس غور کرو کہ صحابہؓ نے کتنی دفعہ اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالا گویا وہ شہد کی مکھیاں تھیں اور موت ان کیلئے شہد تھا۔ لوگ موت سے بھاگتے پھرتے ہیں مگر صحابہؓ موت کے اوپر خود گرتے تھے اور خدا اُن کو پھر زندہ کردیتاتھا۔ پس مؤمن کو امرالٰہی کے حصول کیلئے ہر وقت اور ہر قربانی کیلئے تیار رہنا چاہئے مگر قومی قربانی نظام کے ماتحت ہونی چاہئے۔ اگرچہ انفرادی قربانی انسان ہر وقت پیش کرسکتا ہے۔
پس میں جماعت کو اِس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ اس کا توکّل انسانوں پر نہیں بلکہ خدا پر ہونا چاہئے اور ترقی کی بنیاد اسے امرِالٰہی پر رکھنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ جب اللہ تعالیٰ کا امرحاصل ہوجائے جو قربانیوں سے ہی حاصل ہوتا ہے تو پھر ترقی کے رستہ میں کمی ٔتعداد روک نہیں بن سکتی اس لئے میں نے تحریک جدید میں ہرقِسم کی قربانیاںرکھی ہیںمگر مجھے افسوس ہے کہ کئی لوگ کھانے پینے اور لباس کے معاملہ میں اس کی پوری پابندی نہیں کرتے۔ زیورات بنوانے کے معاملہ میں بعض عورتیں اس پر عمل کرنے میں کوتاہی کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے جماعت ابھی تک ان قربانیوں کو پیش نہیں کرسکی جن کی ضرورت ہے کیونکہ جب انسان کے پاس ہے ہی کچھ نہیں تو وہ قربانی کیا کرے گا۔ اگر تمہارے جسم کے اندر روح موجود ہے تو تم جان کی قربانی پیش کرسکتے ہو مگر جب روح ہی نہیں تو جان کی قربانی کے کیا معنی؟ اسی طرح جو شخص اقتصاد کی مدد سے کچھ رقم پس انداز نہیں کرتا وہ مالی قربانی کس طرح کرسکے گا اور جو شخص جلد جلد کام کرنے کا عادی نہیں وہ وقت کی قربانی کس طرح کرسکتاہے۔ وقت کی قربانی وہی کرسکتاہے جو جلد کام کرنے کا عادی ہو، جان کی قربانی وہی کرسکتا ہے جس کے پاس جان ہو اور مالی قربانی وہی کرسکتا ہے جس نے محنت سے کام کیا ہو اور پھر اقتصاد سے کچھ بچایا بھی ہو۔ پس جب تک تحریک جدید کے سارے حصوں پرعمل نہیں ہوتا اور ہر ایک مطالبہ کو مدنظر نہیں رکھا جاتا اُس وقت تک ہم ترقی کے میدان میں نہیں اُترسکتے۔
یاد رکھو کہ منہ کی قربانی کسی کام کی نہیں۔ قربانی وہی ہے جو حقیقی معنوں میں ہو۔ منہ کی قربانی کی تو وہی مثال ہے کہ ’’سَوگز واروں ایک گز نہ پھاڑوں‘‘ اور اِس سے اسلام کو یا دین کو قطعاً کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ (الفضل ۲۶؍ ستمبر ۱۹۳۶ئ)
؎۱ البقرۃ: ۲۵۰ ؎۲ البقرۃ: ۲۵۶

۳۵
جذبات کے اظہار کا صحیح طریق
تحریک جدید کے مطالبات کے مطابق قربانی کرناہے
(فرمودہ ۲۵؍ ستمبر ۱۹۳۶ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
آج میں بعض ضروری امور کے متعلق خطبہ کہنا چاہتاہوں بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آواز میرا ساتھ دے۔ سب سے پہلے تو مَیں اس واقعہ کو لیتا ہوں جس کے متعلق دوستوںکی طرف سے کثرت کے ساتھ خطوط آرہے ہیں۔ یعنی ۱۷ تاریخ کا واقعہ جبکہ ناصر احمد کو چھوڑ کر میں سٹیشن پر سے واپس آرہا تھا اُس وقت موٹرپر کسی شخص نے کوئی چیز پھینکی۔ اِس واقعہ کے متعلق قدرتی طور پر دوستوں میں جوش پیدا ہؤا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تک متواتر خطوط ہندوستان کے تمام اطراف سے آرہے ہیں اور بعض جگہ سے تار بھی آئی ہے اور کئی دوستوں نے یہ اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے کام کاج چھوڑ کر بھی یہاں قادیان آنے کیلئے تیار ہیں۔ پھر کئی دوستوں نے گورنمنٹ پر اظہارِ ناراضگی کیا ہے اور کئی نے قادیان کے دوستوں پر اظہارِ ناراضگی کیا ہے کہ آخر جب ایک گلی کے مخدوش ہونے کا انہیں علم ہے تو وہ کیوں اس جگہ پہرہ کا انتظام نہیں کرتے۔ اسی طرح کسی نے احرار کے خلاف جذبات کا اظہار کیا ہے اور کسی نے مقامی حکام کو مطعون کیا ہے۔ یہ چٹھیاں صرف احمدیوں کی طرف سے ہی نہیں بلکہ کئی غیراحمدیوں کی طرف سے ہیں اور کئی ہندوئوں کی طرف سے بھی۔ پس ایک تو دوستوں کی تشویش کو دور کرنے کیلئے اور دوسرے اظہارِ حقیقت کیلئے میں چاہتا ہوں کہ اس امر کے متعلق بعض باتیں بیان کروں۔
جس قدر واقعہ اُس دن ہؤا ہے وہ اسی قدر ہے کہ جبکہ ہم سٹیشن پر سے واپس آرہے تھے تو اُس گلی میں جو شیخ یعقوب علی صاحب کی گلی کہلاتی ہے ان کے گھر کے قریب جب موٹر گزررہا تھا تو اُس کی چھت پر قریباً اُسی جگہ جہاں میں بیٹھا تھا مگر ذرا بائیں طرف بائیں کندھے کے اوپر کے قریب کوئی چیز زور سے گِری۔ اُس کے اندر اچھی زور کی طاقت تھی کیونکہ موٹر کی چھت پر کپڑا ہوتا ہے اور اُس کے اورلکڑی کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے مگر وہ چیز اِس زور سے گِری کہ کپڑے سمیت چھت سے آلگی اور چھت کانپی اور یوں معلوم ہؤا کہ اس میں سے کچھ ذرّے بھی گِرے ہیں حالانکہ اس کے نیچے بھی کپڑا ہوتا ہے۔ اس کے گرنے پر میں نے ڈرائیور سے کہا کہ وہ موٹر ٹھہرائے تا دیکھا جائے کہ کیا بات ہے مگر چونکہ موٹر کی رفتار تیز ہوتی ہے اور موٹر چلانے والا ارادہ کے باوجود اُسے یکدم نہیں روک سکتا اس لئے اُسے موٹر کے روکنے میں کچھ دیر لگی۔ تب میں نے دوبارہ اُسے کہاکہ موٹر کو جلدی کھڑا کرو چنانچہ اُس نے موٹر کو کھڑ اکیا مگر وہ اندازاً دس پندرہ گز کے فاصلہ پر جا کر کھڑی ہوئی اور جس جگہ وہ ٹھہری وہاں میاں فیروز الدین صاحب پٹواری کا مکان ہے۔ وہ باہر رہتے ہیں مگر ان کا گھر یہیں ہے لیکن وقوعہ اس مکان سے دس یا پندرہ یا بیس گز پرے کا ہونا چاہئے یا اس سے کم و بیش فاصلہ۔ کیونکہ چلتی ہوئی موٹر کے فاصلہ کا اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن بہرحال یہ فاصلہ پانچ دس گز سے پندرہ بیس گز تک ہوسکتا ہے۔ موٹر کے ٹھہرجانے پر میںنے اُس کے پائیدان پر کھڑے ہوکر چھت کو دیکھا تو مجھے معلوم ہؤا کہ جو چیز گِری تھی اُس کا اُس حصۂ چھت پرکوئی نشان نہ تھا جس کے متعلق مجھے خیال تھا کہ ا س پرکوئی چیز پھینکی گئی ہے۔ البتہ اس کے اگلے حصہ پرجو بالکل قریب کے زمانہ میں مرمت کرایا گیاتھا تین چار یا پانچ میں صحیح نہیں کہہ سکتا مگر متعدد جگہ سے کپڑا پھٹا ہؤا تھا مگر ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ عزیزم ناصر احمد دو تین ہفتہ پہلے جب اپنی پھوپھی سے ملنے کیلئے ڈلہوزی گئے تھے تو وہاں سے واپسی پر پہاڑ سے کچھ پتھر گِرے تھے یہ کپڑا اُن پتھروں سے پھٹا تھا او ریہ نشان انہی پتھروں کے ہیں۔ پس یہ نشانات پھینکی ہوئی چیز کی طر ف منسوب نہیں کئے جاسکتے تھے ۔ بعد میں مَیں نے بعض دوستوں سے کہاتھا کہ وہ دیکھ لیں کہ آیا یہ سارے نشانات ہی پُرانے ہیںیا ان میں سے کوئی نیا نشان بھی ہے۔ انہوں نے خود تو مجھے اپنی تحقیق کی اطلاع نہیں دی لیکن میں نے سنا ہے دیکھنے پر وہ سب نشانات پُرانے ہی معلوم ہوئے ہیں۔ بہرحال وہ نشان اس وقت کے خیال کے مطابق زیر بحث نہیں آسکتے۔ اس امر کا اندازہ کہ جو چیز پھینکی گئی تھی وہ کس زور سے گِری تھی اس امر سے لگایا جاسکتاہے کہ جب میں نے موٹر کے روکنے کیلئے کہا کہ دیکھیں کیا چیز موٹر پر پھینکی گئی ہے تو اُس وقت ہمراہیوں میں سے ایک نے کہا کہ ٹائر برسٹ ہؤا ہے۔ جن لوگوں نے ٹائر برسٹ ہوتے سنا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس کی اچھی بلند آواز ہوتی ہے ۔ خیر موٹر کے کھڑا ہونے پر بعض دوست اُتر کر اس گھر کے اندر گھس گئے جس کے آگے کار ٹھہری تھی اور اُس کی چھت پر چڑھ کر حملہ آور کو دیکھنے لگے حالانکہ چھت پر چڑھتے چڑھتے حملہ آور دور تک نکل جاسکتا ہے۔ پہلے مجھے شبہ ہؤا کہ ان دوستوں نے یہ خیال کیا ہے کہ اسی گھر سے چیز پڑی ہے اور اس پر میں نے دوسرے دوستوں سے کہاکہ یہ ان کی غلطی ہے موٹر تو آگے آچکی ہے لیکن بعد میں مجھے معلوم ہؤا کہ وہ اس کی چھت پر چڑھ کر یہ دیکھنے گئے تھے کہ شاید اس چیز کا پھینکے والا نظر آجائے۔ اس کے بعد چاروں طرف تلاش کی گئی مگر چیز پھینکنے والے کا کوئی پتہ نہ لگا۔ یہ چیز ایک تو بائیں طرف کی گلی سے پھینکی جاسکتی تھی یا اس سے پہلے ایک کھولہ ہے وہاں سے پھینکی جاسکتی تھی اور ایک مکان ہے جو مقفّل ہے اس مقفّل مکان سے بھی چیز پھینکی جاسکتی تھی بشرطیکہ یہ سازش ہو کیونکہ جو لوگ جرائم کی حقیقت سے واقف ہیں جانتے ہیں کہ مجرموں کو گھروں میںداخل کرکے باہر سے تالا لگادیا جاتا ہے اور اس طرح جُرم کا سراغ لگنا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ تحقیق کرنے والے جب وہاں سے گزرتے ہیں توکہتے ہیں کہ اس جگہ سے تو یہ جُرم نہیں ہوسکتا کیونکہ یہاں قفل لگا ہؤا ہے۔ پھر جب وہ پتہ لگانے سے مایوس ہوجاتے ہیں تو گھنٹہ دو گھنٹہ کے بعد لوگ آتے اور تالا کھول کر مجرم کونکال لے جاتے ہیں۔ تو اگر یہ فعل کسی سازش کا نتیجہ تھا توممکن ہے اس فعل کا ارتکاب اس مقفّل گھر سے ہی ہؤا ہو لیکن مقفّل گھر کو کھولنا قانون کے خلاف ہے اور پولیس ہی ایسا کرسکتی تھی جو وہاں موجود نہ تھی۔ تلاش کے وقت بھی میں نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ممکن ہے اس گھر سے چیز پھینکی گئی ہو۔ بہرحال جب لوگ تلاش کرچکے اور انہیں کوئی آدمی نظر نہ آیا تو کسی ہمارے دوست نے کہا کہ تلاش تو کرو وہ چیز جو گِری ہے کیا او رکہاں ہے؟ اُس وقت تک سب لوگ اسے یقینی طور پر پتھر سمجھ رہے تھے اور مجھے بھی اُس وقت تک یہ خیال نہیں آیا تھا کہ اگر پتھر ہوتا تو نشان چھت پر لگ جاتا اس لئے غالباً یہ کوئی اور شَے ہے (گو بعض صورتوں میں نشان نہیں بھی ہوسکتا لیکن سَو میں سے نناوے دفعہ پتھر کا نشان ہونا چاہئے)۔ اس لئے میں نے بھی اُس دوست کی تائید کی اور کہا کہ اس چیز کو تلاش کرو لیکن چونکہ مغرب کا وقت ہوچکا تھا اس لئے ایک آدھ منٹ کے بعد ہی میں نے کہہ دیا کہ اب چلو ۔ ہاں ایک بات رہ گئی جو یہ ہے کہ میرے پیچھے جوسائیکلسٹ آرہے تھے اُن سے جب میں نے دریافت کیا کہ تم کو معلوم ہے کہ وہ چیز کس طرف سے آئی تھی تو انہوں نے دائیں طرف سے اس کا آنا بتایا (یعنی شمال سے آتے ہوئے جو دائیں طرف ہے یعنی مغرب کی سمت)۔ ہم جو موٹرمیں تھے دھماکے سے ہمارا بھی یہی اندازہ تھا کہ وہ چیز شمال مغربی سمت سے آکر گِری ہے ۔ اس کی تصدیق سائیکلسٹوں نے بھی کی جنہوں نے یہ بیان کیا کہ انہوں نے خود اُدھر سے ایک چیز آتی ہوئی دیکھی ہے جسے وہ ایک ہاتھ کے برابر پتھر سمجھتے تھے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ چونکہ مغرب کا وقت ہوگیا تھا میں دوستوں کو ساتھ لے کر موٹر میں سوار ہوگیا اورمزید تحقیق ترک کردی گئی۔ میری غرض وہاں ٹھہرنے کی صرف اتنی تھی کہ اگرکوئی شخص ایسا پایاجائے تو ہمیں علم ہوجائے کہ وہ کون شخص ہے اور دوسرے میں اسے نصیحت بھی کروںکہ ایسی فضول باتوں سے کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اس قِسم کے واقعات درحقیقت انبیاء کی جماعتوں سے ہونے لازمی ہیں او رہوتے رہتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لاہور میں ایک دفعہ ایک گلی میں سے جارہے تھے شیخ رحمت اللہ صاحب، مرزاایوب بیگ صاحب اور غالباً مفتی محمد صادق صاحب بھی ساتھ تھے کہ کسی نے زور سے پیچھے سے آپ پر دو ہتڑ مارا او رآپ گرگئے۔ جو دوست ساتھ تھے وہ اس شخص کو مارنے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا نہیں نہیں یہ معذور ہے اس نے اپنے خیال میں تو نیکی کا کام ہی کیاہے اسے کچھ نہ کہو جانے دو۔ تو یقینا اگر وہ شخص مجھے مل جاتا تو میں ایسا ہی نمونہ دکھاتا۔ میں نے سنا ہے کہ بعض دوستوں نے کہا کہ اگر وہ مل جاتا تو کیاہم اسے زندہ چھوڑتے؟ مگر میں جانتا ہوں کہ میری موجودگی میں انہیں چھوڑناہی پڑتا۔ میری غرض صرف اتنی تھی کہ کسی کے پتہ لگ جانے سے ایک تو معاملہ کی اصل حقیقت واضح ہوجاتی دوسرے اس کیلئے شرمندگی اور ندامت بھی ہوتی کیونکہ جب ایک شخص اپنی کسی حرکت سے اشتعال دلائے مگر دوسرا اشتعال میںنہ آئے بلکہ نرمی کا معاملہ اُس سے کرے تو یہ اس کیلئے شرمندگی کا موجب ہوتا ہے۔ چونکہ اس چیز کانشان نہیں پڑا اِس لئے بعد میں مَیں نے اِس پر غور کیا اور پولیس کے بعض افسروں سے بھی میری گفتگو ہوئی جس سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ غالباً چمڑے کی کوئی چیز تھی جیسے جوتی وغیرہ یا صاف شُدہ لکڑی تھی۔ اِس قِسم کی چیز سے آواز بھی زور سے پیداہوتی ہے، دھماکہ بھی ہوتاہے لیکن نشان کا پڑنا ضروری نہیں ہوتا اورجہاں تک میں سمجھتا ہوں اس حرکت کے مرتکب کی غرض یہ تھی کہ جماعت میں اشتعال پیدا ہوجائے۔ ایسا یقین کرنے کی یہ وجہ بھی ہے کہ مجھے کئی مہینوں سے رپورٹیں آرہی تھیں بلکہ بعض لوگوں کے نام بھی میرے پاس پہنچ چکے تھے کہ فلاں فلاں شخص اس قِسم کی کارروائیاں کرنا چاہتے ہیں اور بعض کے متعلق میرے پاس ایسی رپورٹیں بھی پہنچیں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم قادیان سے جائیں گے مگر جانے سے پہلے کوئی تماشہ کرکے جائیں گے۔ غرض دو تین مہینہ سے اس قِسم کی رپورٹیں میرے پاس آرہی تھیں۔ پس میری رائے میں وہ کوئی سنجیدگی سے جان کو نقصان پہنچانے کیلئے حملہ نہ تھا بلکہ محض شورش پیدا کرنے کیلئے ایک حرکت تھی تاجماعت میں اشتعال پیدا ہوجائے اور احمدی غیراحمدیوں پر حملہ کردیں مگر یہ ان کی بیوقوفی تھی کہ انہوں نے اشتعال کیلئے میری ذات کو چُنا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری موجودگی میں جماعت کو اشتعال نہیں آسکتا۔ ہاں میری عدم موجودگی میں اشتعال کاامکان ہوسکتاہے لیکن میری موجودگی میں اشتعال کا امکان ہرگز نہیں۔ اِلَّا مَاشَائَ اللّٰہُ ۔ اِلَّا مَاشَائَ اللّٰہُ میں اس لئے کہتا ہوں کہ بعض جگہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہی اشتعال کا ہوتا ہے اس لئے وہاں اشتعال آنا کوئی عیب کی بات نہیں ہوتی لیکن ان استثنائی صورتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے باقی صورتوں میں جماعت کواشتعال میری موجودگی میں نہیں آسکتا۔
اُسی دن کاجس دن یہ وقوعہ ہؤا یہ بھی واقعہ ہے جس کی مجھے رپورٹ پہنچی کہ وہی حنیفا جس نے میاں شریف احمد صاحب پر لاٹھی کا وار کیا تھا اس سے ایک گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ایک شخص نے معانقہ کیا اور میاں شریف احمد صاحب پر حملہ کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے نہایت اعلیٰ کام کیا سب مسلمان آپ کوغازی سمجھتے ہیں۔ اس واقعہ کو اگر موٹر کے وقوعہ سے ملایا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ بعض لوگ اِسی حرکت کیلئے دوسروں کوتیار کرنے کی کوشش کررہے تھے کیونکہ جب ایسے کاموں کی تعریف کی جائے اور کہا جائے کہ آپ تو اس کام کی وجہ سے غازی بن گئے ہیں تو کئی نوجوانوں کو خیال آجاتا ہے کہ ہم بھی غازی بننے کی کوشش کریں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ پہلا غازی تو چھپتا پھرتا تھا او ر پھر پولیس اس کی نگرانی کرتی رہی اور اب بھی اس وقوعہ کے بعد پولیس ا س کے ساتھ لگی ہوئی ہے کیونکہ پولیس کو اگر حفاظت کی ضرورت نظر آتی تو صرف اسی غازی کی۔ اس سے گورنمنٹ کوکچھ ایسی محبت ہے کہ وہ عشق کے درجہ تک پہنچی ہوئی ہے اور یہاں کی پولیس کاتو اس سے لیلیٰ مجنوں والا تعلق ہے جب بھی کوئی واقعہ ہو دَوڑ کر وہ اُس کے گِرد جمع ہوجاتی ہے کہ ہمارے ا س محبوب کو کوئی نقصان نہ پہنچادے۔ حالانکہ عقلمنداحمدی کی تو جُوتی بھی اُس پر پڑنے سے شرمائے گی ایسے ذلیل آدمی کا مقابلہ کرکے کسی نے کیالینا ہے۔ آخر یہ بھی تو انسان کودیکھنا پڑتا ہے کہ میرے مقابلہ میں ہے کون؟
گزشتہ سالوں میں جب مباہلہ والوں نے مجھ پر الزام لگائے تو کئی دوست گھبرا کر مجھے کہتے آپ ان سے مباہلہ کیوں نہیں کرلیتے تا دشمنوں کامنہ بندہوجائے تو میں انہیں یہی جواب دیتا ہوں کہ میں مباہلہ کس سے کروں کیا یہ الزام لگانے والا شخص دینی یا اخلاقی لحاظ سے کوئی بھی حیثیت رکھتا ہے؟
پھر بعض دوست جب الزامات کی اشاعت کو دیکھ کر زیادہ متأثر ہوتے تو میں انہیں سمجھانے کیلئے کہتا کہ اگر کوئی شخص کسی چوڑھی یا کنچنی کو آٹھ آنے دے کر بازار میں کھڑا کردے اور وہ آ پ پر الزام لگادے اور کہے کہ اگر یہ الزام غلط ہے تو مجھ سے مسجد میں مباہلہ کرلو تو کیا اس چوڑھی یا کنچنی کے مقابلہ میں آپ مباہلہ کیلئے تیار ہوجائیں گے؟ اس پر بات اُن کی سمجھ میں آجاتی اور کہتے ہیں کہ ہاں یہ تو ٹھیک ہے۔ تو مقابلہ کیلئے بھی انسان اپنے مدمقابل کی حالت کو دیکھتا ہے میں تو نہیں سمجھتا ہماری جماعت کا کوئی عقلمند اس شخص سے مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو خصوصاً اِس حالت میں کہ وہ یہ بھی جانتے ہیںکہ ایسے آدمی خود کام نہیں کرتے بلکہ کچھ اور کرانے والے ان سے کام کراتے ہیں۔ پس اگر کوئی احمدی قانون کو توڑنے پر آئے گا تو وہ اس پر حملہ کرکے کیوں قانون توڑے گا وہ اس پر توڑے گا جس نے انگیخت کی اور اُسے اُکسایا۔ اوّل تو ہماری تعلیم کے مطابق وہ صبر کرے گا لیکن اگر کوئی دیوانگی کا شکار ہوجائے تو جیسے غالب نے کہا ہے
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو
اگر قانون شِکنی ہی کرنی ہے اور مار پیٹ کا ہی کسی کو خیال پیدا ہونا ہے تو پھر وہ ایسا ہی آدمی تلاش کرے گا جو مُغوی اور مُفسد اور متفنّی ہو یہ بیچارے پانچ پانچ اور دو دو روپے لے کرکام کرنے والے حیثیت ہی کیا رکھتے ہیں ان غریبوں کو تو ہلاشیرا کہہ کر دوسرے لوگ آگے کردیتے ہیں۔ پس ان کا مقابلہ کوئی عقلمند نہیں کرسکتا اور اگر کوئی احمدی اس قسم کی حرکت کرے تو نہ صرف میں اسے قانون شِکن کہوں گا، نہ صرف اُسے اپنا عاصی اور نافرمان کہوں گا بلکہ بیوقوف اور احمق بھی کہوں گا۔ جو شخص گوہ پر اینٹ مارے گا میں اسے بیوقوف نہ کہوں گا تو اور کیا کہوں گا۔ نجاست پر اینٹ مارنے والے پر تو نجاست ہی پڑے گی۔ پس پولیس افسران کے یہ وسوسے تو صرف ان کی روشنیٔ طبع کی علامت ہیں اور کچھ نہیں۔
مقامی پولیس کی حالت تو یہ ہے کہ اسے متواتر خبریں ملیںکہ اس گلی میںفساد کے اندیشے ہیں مگر اس کے پاس پہرے کیلئے کافی پولیس نہ تھی لیکن حنیفا کی جان کی حفاظت کیلئے اس کے پاس ہمیشہ کافی پولیس ہوتی ہے۔ صوبہ کے ایک بہت بڑے افسر نے مجھ سے خود کہاکہ وہ پولیس حنیفا کی حفاظت کیلئے نہیں ہوتی بلکہ اس لئے ہوتی ہے تا وہ پھر کسی احمدی پر حملہ نہ کردے۔ میں نے کہا آپ کی پولیس معلوم ہوتا ہے بات خوب بناسکتی ہے مگر ہم اپنی دیکھی ہوئی بات کا کیونکر انکار کریں کہ پولیس کو باوجود علم ہونے کے وہ خطرہ کی جگہ کے متعلق تو کوئی انتظام نہیں کرتی لیکن حنیفا کے آگے پیچھے پھرنے لگتی ہے۔ غرض ایسے واقعات اس دن او راس کے قریب رونماہوئے کہ یہ یقین کرنے کی کافی وجہ ہے کہ وہ وقوعہ ہتک کے طور پر جماعت کواشتعال دلانے کیلئے کیا گیا گو وہ ایسانہ تھا جس سے جان کا خطرہ ہو یا جو جان پرحملہ کہا جاسکتاہو۔
پس جن دوستوں نے اس وقوعہ کا ذکر ’’پتھر پڑا‘‘ سے ’’پتھریں پڑیں‘‘ کے الفاظ میں کیا میں انہیں نصیحت کرتاہوں کہ مؤمن مبالغہ سے کا م نہیں لیتا بلکہ وہ سچائی کا دِلدادہ ہوتا ہے۔ پتھروں کاکوئی سوال نہیں جو چیز پھینکی گئی وہ ایک تھی پس جو کہتا ہے کہ پتھر پھینکے گئے وہ مبالغہ سے کام لیتا ہے اور اسے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ میرا غالب گمان یہ ہے کہ وہ پتھر نہیں تھا کیونکہ موٹر پر کوئی نشان نہیں اور پتھر کی صورت میں سَومیں سے ننانوے امکانات یہی ہیں کہ نشان ہوتا۔ ہاں سُوکھی مٹی کا ڈلا ہوسکتا ہے یہ بغیر نشان لگنے کے دھماکہ بھی دے سکتا ہے اور آواز بھی اس سے پیدا ہوسکتی ہے اس کامجھے پہلے خیال نہیں آیا اب خطبہ کے وقت خیال آیا ہے پس اگر اس کوبھی شامل کرلیاجائے تو میرے نزدیک چمڑے کی کوئی چیز یالکڑی کی رندہ کی ہوئی چیز یا سُوکھی مٹی کا ڈلا تھا ایسی چیزیں جب پھینکی جائیں توآوا زبھی دے سکتی ہیں اور بہت ممکن ہوتا ہے کہ ان کا نشان بھی نہ رہے۔ سُوکھی مٹی کے ڈلے میں تویہ بھی ممکن ہے کہ اس کی تلاش بھی نہ ہوسکے کیونکہ مٹی کا ڈلالگ کر ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس چیز کی تلاش حقیقی طور پر ہوئی نہیں ایک آدھ منٹ سے زیادہ تلاش نہیںکی گئی۔ میں جلد ہی موٹر میں بیٹھ گیا او ردوستوں کو بُلالیا نیز جو دوست ساتھ تھے وہ گلی کے قریب کے مقامات اور اُس کے ننگے حصہ کوہی دیکھتے رہے دُور دُور انہوں نے نہیں دیکھا اور جو چھتی ہوئی نالیاں تھیں ان کو بھی انہوں نے نہیں دیکھا اور اِس وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر پوری طرح ہم تلاش کرتے تو وہ چیز نہ ملتی۔
اِس موقع پر جماعت نے جو رویہ اختیار کیا ہے میں اسے پسند کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے گورنمنٹ سے کوئی اپیل نہیں کی۔ میرے نزدیک گورنمنٹ کا اورہمارا معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اب اس کے بعد پنجاب کی گورنمنٹ کو توجہ دلانا فضول بات ہے کیونکہ پنجاب کی گورنمنٹ بیعت کرچکی ہے ضلع گورداسپور کی پولیس کی۔ وہ اگر سورج کو کہے کہ اندھیرا ہے تو پنجاب گورنمنٹ کہتی ہے اندھیرا ہے اور اگر وہ رات کو کہے کہ سورج نکلا ہؤا ہے تو حکومتِ پنجاب بھی کہہ دیتی ہے کہ ہاں سورج نکلا ہؤا ہے۔ چونکہ وہ ہماری ہر رپورٹ کے مقابلہ میں پولیس کی رپورٹ کو زیادہ وقعت دیتی ہے اس لئے ایسی صورت میں اس کے پاس شکایت کرنا بے فائدہ امر ہے۔ یہاں کی پولیس والے جو باتیں کرتے رہتے ہیں وہ بھی مجھے پہنچتی رہتی ہیں ان میں سے وہ بھی ہیں جواِس خیال سے متفق ہیں جس کا مَیں نے اظہار کیا اور وہ سمجھتے ہیں کہ کسی شریر نے جماعت کو اشتعال دلانے کیلئے یہ فعل کیا ہے۔ بعض یہ باتیں بھی کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی بچے سے کوئی چیز گرگئی ہو گی حالانکہ جو دھماکہ تھا اُس کو وہی جان سکتے ہیں جو وہاں موجود تھے ۔ پنجابی میں مثل ہے
گھروں میں آواں تے سنیہے تُوں دیویں
اگر پولیس کے سپرنٹنڈنٹ یا ڈپٹی کمشنر یا کمشنر یا گورنرکی موٹر پر ایسا ہی دھماکہ ہو اور وہ کہیں کہ یہ اتفاقی امر ہے کسی بچہ سے کوئی چیز گِرپڑی ہوگی تو میں ان کی بات کو ماننے کیلئے تیار ہوں لیکن وہاں وہ یہ نہیں کہتے بلکہ وہاں ان کا رویہ بالکل مختلف ہؤا کرتا ہے۔ ان کا قول ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ ہم راجہ کے نوکر ہیں بینگن کے نوکر نہیں۔ بعض پولیس کے آدمیوں میں سے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ ساری بات ہی بنائی ہوئی ہے واقعہ کوئی ہؤا ہی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق بولتا ہے جو شخص جھوٹ کاعادی ہو اور جس کا اوڑھنا اور بچھونا جھوٹ ہو وہ کسی بات کو سوائے جھوٹ کے اور کیا سمجھ سکتا ہے۔ اس قسم کے افسر سوائے اس کے کہ پبلک کو حکومت سے بدظن کریں اور اس کے خلاف منافرت کے جذبات پھیلائیں کسی صورت میں گورنمنٹ کی خدمت نہیں کرسکتے۔ غرض دونوں طرف خیالات کی رَو کو آزاد چھوڑ دیا گیاہے ۔ ایک ہمارے دوست تو اِس واقعہ کو سن کر ایسے متأثر ہوئے کہ کہنے لگے ایسی بات تو نہیں کہ کوئی پٹاخہ وغیرہ پھینکا گیا ہو میں نے انہیں بتایا کہ پٹاخے کی آواز اور اس آواز میں بہت فرق ہوتاہے۔ مجھے یہ ڈر پیدا ہؤا کہ آہستہ آہستہ بعض دوست محبت کے جوش میں کہیں اس چیز کو بم ہی نہ سمجھنے لگیں۔ اِس موقع پر بعض جلسے قادیان میں ہوئے ہیں اور بعض دوستوں نے تقریریں کرتے ہوئے کہا کہ ہم یوں کریں گے اور وُوں کردیں گے اس پر بعض دوستوں نے اعتراض کیا ہے کہ ایسا کہنے کا کیا فائدہ کہ ہم یوں کردیں گے وُوں کردیں گے۔ جب کرنے کا وقت آئے اُس وقت جو کچھ کرنا ہو کر دکھائیں بے فائدہ دعوئوں سے کیا فائدہ اور میں اس بات میں ان سے بالکل متفق ہوں۔ میں نے بارہا جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ بیہودہ دعوے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جماعت کا اظہارِاخلاص ایک طبعی بات ہے او روہ جس محبت کانتیجہ ہے اس کو کوئی روک نہیں سکتا وہ ایک قابل قدرچیز اور ایمان کو بڑھانے والی بات ہے لیکن ایسی باتیں کرنا جن کے متعلق انسان کے ذہن میں کچھ بھی نہ ہو کہ کیا کردیں گے ایک بے فائدہ چیز ہے۔ پس جس حد تک کہ دوستوں نے اپنے اخلاص کا اظہار کیا یا ریزولیوشن کے ذریعہ اپنے آپ کو خدمت کیلئے پیش کیا ہے وہ بالکل جائز اور درست بلکہ موجبِ ثواب تھا لیکن اس سے زائد اگر کسی نے دھمکیاں دی ہوں توان سے کسی کو بھی فائدہ نہیں ہوسکتا بلکہ دھمکیاںبھاپ کی طرح انسان کے جوش کو نکال دیتی ہیں۔
میرے نزدیک صحیح طریق جذبات کے اظہار کا یہ ہے کہ دوستوں کو قربانی کی تحریک کی جائے ایسی باتوں سے کیا فائدہ کہ ہم دکھادیں گے ، ہم بتادیں گے، ہم دنیا کو ہِلادیں گے یہ ایک بے فائدہ اور لغو بات ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسے مقرر سے اگر اُسی وقت کوئی پوچھ بیٹھے کہ آپ کیا دکھادیں گے؟ تو وہ یہی کہیں گے کہ ابھی سوچا نہیں ہم آئندہ سوچیں گے اور جب سوچ کر ابھی کوئی فیصلہ کرنا ہے تو پہلے ہی سے دعوے کرنے سے کیا فائدہ؟میرے نزدیک اِس زمانہ میں صحیح طریق جذبات کے اظہار کا یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر جماعت کے دوستوں کو تحریک جدید کی طرف توجہ دلائی جائے دشمنوں کے سارے حملوں کا علاج تحریک جدید میں موجود ہے۔ پس انہیں بتایا جائے کہ جس قدر کرنے والی باتیں ہیں وہ تمہارے امام نے تمہیں بتادی ہیں کیا تم نے ان باتوں پر عمل کرلیا؟ اگر کیا ہے تو اَور کرو۔ اگر نہیں کیا تو ان پر جلدی عمل کرو کہ انہیں باتوں میں ان تمام فِتن کا علاج ہے۔ پس تحریک جدید کے مختلف پہلو جو قربانیوں کے ہیں انہیں لوگوں کے سامنے پیش کیاجائے اور انہیں توجہ دلائی جائے کہ جنہوں نے ابھی تک اس تحریک پر عمل نہیں کیا وہ عمل کریں۔ یہ ایک صحیح ذریعہ قربانی پیش کرنے کاہوگا مگر اس قربانی کا دعویٰ کرنا جس قربانی کا مطالبہ ہی نہ ہو یا جس قربانی کی نوعیت پر خود بھی غور نہ کیا ہو انسان کو نکمّا بنادیتا ہے اور اُس کے دل پر زنگ لگا دیتاہے۔ ایک شخص جو جانتا ہی نہیں کہ کیا کریں گے وہ اگر کہتا ہے کہ ہم مرجائیں گے، ہم مٹ جائیں گے، ہم مٹادیں گے،ہم ہِلادیں گے، ہم دکھادیں گے،ہم بتادیں گے تو وہ بیہودہ اورلغو دعوے کرتاہے اور نہ خود جانتا ہے کہ کس طرح ہِلادیں گے اور نہ وہ جانتے ہیں جو اُس کی تقریر سن رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح ہِلادیں گے، صرف اپنے ہی دل میں وہ دونوں ہِل رہے ہوتے ہیں۔ تو صحیح طریقہ یہ ہے کہ تمہارے سامنے جو پروگرام رکھا گیا ہے اور جوتمہارے اما م نے تمہارے سامنے پیش کیا ہے اُس پر عمل کرو او ر لوگوں کو بتائو کہ یہ حملے اِس لئے ہورہے ہیں کہ تم سکیم کے فلاں فلاںحصے پر عمل نہیں کرتے۔ پھر اُس حصہ کے متعلق دلائل دو، اُس کی تفصیلات کو بیان کرو۔ اُس کے نتائج اس کی خوبیاں اور اُس کے اثرات واضح کرو اور لوگوں کو توجہ دلائو کہ جب وہ قربانیوں کیلئے تیار ہیں تو کیوں تحریک جدید کے ماتحت قربانیاں نہیں کرتے۔ یہ وہ قربانی کی تحریک ہے جو جائز او رمفیدہے۔ پس ایک مفصّل سکیم تمہارے سامنے موجود ہے اس سے فائدہ اُٹھائو خالی جذبات کے اظہار کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ پس یہاں کا جلسہ ریزولیوشن اور اظہارِاخلاص کی حد تک جائز، مفید او رموجب ثواب تھا لیکن اِس سے زائد اگر کوئی خالی دعوے کئے گئے ہیں تو وہ بے فائدہ تھے۔ قربانی کیلئے تمہارے سامنے ایک سکیم موجود ہے اُس پرعمل کرو اور لوگوں کو بھی توجہ دلائو کہ وہ اس کے مطابق اپنی زندگیاں بنائیں اِس کادینی فائدہ بھی ہوگا، دُنیوی فائدہ بھی ہوگا اور پھر ثواب الگ رہاجو تحریک کرنے والوں کوملے گا۔
دوسری بات جس کا ذکر میں آج کرنا چاہتاہوں وہ قادیان میں احرار کے جلسہ کرنے کی کوشش کے متعلق ہے۔ ہمیشہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد قادیان میں احرار جلسہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہماری جماعت میں بھی جوش پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسے موقع پر جوش کا پیداہونا ایک طبعی امر بھی ہے کیونکہ قادیان ہمارا مقدس مقام ہے او رہم یہ کبھی برداشت نہیں کرسکتے کہ لوگ یہاں آئیں اور ان کا مقصد صرف یہ ہوکہ وہ ہمارے بزرگوں کو گالیاں دیں۔ گورنمنٹ کے بعض افسر کہا کرتے تھے کہ ہم کسی کوقادیان آنے سے کیونکر روک سکتے ہیں اور میرا جواب ہمیشہ یہ ہؤا کرتاہے کہ قادیان آنے سے کون روکتا ہے یا کون کہتاہے کہ کسی کو قادیان آنے سے روکیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ قادیان آکر گورنمنٹ انہیں شرارت کرنے سے روکے۔ کیا کوئی گورنمنٹ کاافسر یہ جرأت رکھتا ہے کہ وہ یہ کہہ سکے کہ ہم کیونکر کسی کوقادیان میں آکر شرارت کرنے سے روک سکتے ہیں؟ حکومت کا کوئی بڑا یا چھوٹا افسر یہ فقرہ دُہرانے کی جرأت نہیں کرسکتاکہ ہم کسی کو قادیان آکر شرارت کرنے سے کیونکر روک سکتے ہیں بلکہ میں کہتاہوں یہ بھی نہیں میں اِس حد سے بھی نیچے اُترتاہوں اورکہتا ہوں کہ لوگوں کو قادیان آکر ہمارے دل دُکھانے سے روکیں۔ حکومت کا کوئی افسر یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ہم کیونکر لوگوں کو قادیان میں آکر آپ کا دل دُکھانے سے روک سکتے ہیں۔ اس لئے کہ اس کے اپنے اعمال موجود ہیں جن میںاس سے بہت کم دل دُکھانے والے افعال کو اس نے روکا۔ مسلمان گائے ذبح کرتے ہیں چیز ان کی اپنی ہوتی ہے، روپیہ انہوں نے خرچ کیا ہوتاہے، زمین ان کی اپنی ہوتی ہے لیکن گورنمنٹ آکُودتی ہے اور کہتی ہے کہ ہندو کا دل دُکھتا ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کیا ہندو کا دل ہوتا ہے؟ ایک مسلمان اورپھر احمدی کا دل نہیںہوتا؟تم گائے کے ذبح کرنے پر تو پابندی عائد کردیتے ہو کہ فلاں جگہ کرنی چاہئے اور فلاں جگہ نہیں، تم یہ پابندی عائد کرسکتے ہو کہ جس گائوں میں ہندو زیادہ ہوں اُس میں مسلمانوں کوگائے ذبح کرنے کی اجازت نہیں، تم یہ تو پابندی عائد کرسکتے ہو کہ جس گائوں کے ہندو مالک ہوں اُس گائوں میں مسلمان گائے ذبح نہیں کرسکتے، تم یہ تو پابندی عائد کرسکتے ہو کہ جن گائوں کوہندوئوں نے آباد کیاہو ان میں مسلمان گائے ذبح نہیں کرسکتے، ہاں جن گائوں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہو یا مسلمان ان میں کثرت سے رہتے ہوں یامسلمان اب گائوں کے مالک ہوں وہاں کے مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ چنانچہ یہ سمجھوتہ ہندو اورمسلمان منسٹروں نے مل کر سر میلکم ہیلی یا سر میکلیگن کے زمانہ میں کیا تھا (میرا غالب خیال یہ ہے کہ سرمیلکم ہیلی کے زمانہ میں ہی یہ تجویز منظور کی گئی تھی) بہرحال ان دونوں گورنروں میں سے کسی ایک کے زمانہ میں یہ اصول تجویز کیاگیا تھا لیکن جب یہ اصول طے ہوچکا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ وہی اصول یہاں کیوں نہیں برتتے۔ قادیان میں احمدیوں کی آبادی زیادہ ہے، قادیان میں احمدیوں کی اکثریت ہے اور قادیان احمدیوں کا مقدس مقام ہے پس ہرگز کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ یہاں آکر احمدیوں کادل دُکھائے خصوصاً گالیاں دے کر اور بدزبانی کرکے۔ پھر گائے ذبح کرتے ہوئے کسی کو کوئی گالی نہیں دیتا مگر آپ ہی آپ دل دُکھنے لگ جاتے ہیں اور گورنمنٹ کا دل بھی اس دُکھ کے خیال سے دھڑکنے لگ جاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ گورنمنٹ کا دل عدل اور انصاف کے جذبات سے پُر ہونا چاہئے اور اسے ہمارے دلوں کے دُکھنے پر بھی دھڑکنا چاہئے۔ اس کا دل ہندوئوں کا دل دُکھنے پر دھڑکتا ہے، اس کا دل سکھوں کا دل دُکھنے پر دھڑکتا ہے، اس کا دل عیسائیوں کے دل دُکھنے پر دھڑکتا ہے پھر کیوں احمدیوں کیلئے اس کا دل نہ دُکھے۔
ایک تازہ مثال لکھنؤ کی ہی لے لو وہاں گورنمنٹ نے حکم دیا ہؤا ہے کہ صحابہؓ کی تعریف بازاروں میں نہ کی جائے او رنہ ان کی مدح میں جلسے کئے جائیں کیونکہ اس سے شیعوں کادُل دکھتا ہے۔احراری وہاں مدح صحابہؓ کے نام پر آجکل ایجی ٹیشن کررہے ہیں اور حکومت اُن کو گرفتار کررہی ہے کہ اس فعل سے شیعوں کا دل دُکھتا ہے۔ اب کیا یہ لطیفہ نہیں کہ حکومت برطانیہ کے ماتحت ایک جگہ تو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ اپنے بزرگوں کی تعریف نہ کرو کیونکہ اس سے شیعوں کا دل دُکھتا ہے اور دوسری جگہ اور پھر ایسی جگہ جو ایک جماعت کا مقدس مقام ہے بعض لوگوں کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کے بزرگوں کو گالیاں دیں کیا اِس لئے کہ حکومت کے نزدیک احمدیوں کا دل نہیںدُکھ سکتا؟
میں نے سنا ہے کہ حکومت نے مولوی عطاء اللہ کو قادیان آنے سے روک دیا ہے اگر یہ درست ہے تو اُس نے اچھا کیا کہ ان کو یہاں آنے سے روک دیا لیکن سوال صرف مولوی عطاء اللہ صاحب کی گالیوں کا نہیں بلکہ صرف بزرگانِ جماعت احمدیہ کو گالیاں دینے کا ہے۔ یہاں ہر جمعہ کو جماعت احمدیہ کے بزرگوں کو گالیاں دی جاتی ہیں اور اگر کبھی کوئی پولیس کا سچا رپورٹر وہاں جاتا ہوگا تو گورنمنٹ کے پاس اس کی ڈائریاں بھی پہنچتی ہوں گی لیکن گورنمنٹ کو کبھی خیال نہیں آیا کہ اس دل آزار طریق کو بند کرے۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ لکھنؤ میں مدح صحابہؓ اس لئے جُرم قرار دی جاتی ہے کہ اس سے شیعوں کی دلآزاری ہوتی ہے لیکن احمدیہ جماعت کے مرکز، اس کے مقدس مقام قادیان میں سبِّ بزرگانِ احمدیت کو بھی جُرم نہیں سمجھا جاتا۔ آخر یہ قانون کس عقل کے ماتحت بن رہے ہیں؟ اگر یہاں احرار کی بدزبانی کو روکنا ناجائز ہے تو لکھنؤ میں سُنّیوں کو مدح صحابہؓ سے روکنا اس سے بھی زیادہ ناجائز ہے اور اگر وہاں سنّیوں کو مدح صحابہ سے روکنا جائز ہوسکتا ہے تو قادیان میں احمدیوں کے بزرگوں کے خلاف گالیوں کو روکنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ وہاں صحابہ کی تعریف کا سوال ہے جس سے دل دُکھنا خلافِ عقل ہے اور یہاں جماعت احمدیہ کے بزرگوں کی توہین کا سوال ہے جس سے دل دُکھنا ایک طبعی امر ہے۔ پس حکومت کو چاہئے کہ اپنے افعال کے اس تضاد کو دُور کرے۔ کہا جاسکتا ہے کہ وہ حکم لکھنؤ کا ہے جو یو۔پی میں ہے اور قادیان پنجاب میں ہے۔ بیشک یہ درست ہے لیکن قانون کا اصل تو ایک ہی ہونا چاہئے آخر یو۔پی کے افسر بھی تو انگریز ہی ہیں۔
غرض اگر گورنمنٹ نے مولوی عطاء اللہ صاحب کو روکا ہے تو اس کا یہ فعل مستحسن ہے لیکن یہ فعل اسے کُلّی طور پر الزام سے بری نہیں کرتا کیونکہ گالی مولوی عطاء اللہ صاحب کے منہ سے نکل کر زیادہ بُری نہیں ہوجاتی اور کسی دوسرے احراری کے منہ سے نکل کر گالی اچھی نہیں ہوجاتی بلکہ گالی بہرحال بُر ی چیز ہے اور یہ تو ابتدائی اخلاق کا تقاضا ہے کہ لوگوں کو گالی دینے سے روکا جائے اس معاملہ میں چھوٹے او ربڑے میں فرق نہیں کیا جاسکتا۔
مثل مشہور ہے کہ کوئی بیوقوف نواب تھا اس نے ایک دفعہ مجلس میں بے حجابانہ بلند آواز میں ہوا خارج کردی۔ اُس کے اِردگِرد جو خوشامدی بیٹھے تھے کہنے لگے سُبْحَانَ اللّٰہِ کیا سنتِ رسول پر عمل کیا ہے۔ رسول کریم ﷺ کا یہی حکم ہے کہ ہوا خارج ہونے لگے تو اسے نہ روکو۔ ایک اور بھلامانس بھی اس مجلس میں بیٹھا تھا اسے یہ بات بہت بُری معلوم ہوئی کہ رسول کریم ﷺکا نام اس طرح نامناسب طور پر استعمال کیا گیا ہے اُس نے چاہا کہ اُن کو شرمندہ کرے لیکن چونکہ وہ اسی مجلس میں بیٹھنے والا تھا اُس کے اخلاق بھی زیادہ اچھے نہ تھے اس لئے اس نے بجائے شریفانہ رنگ میںسمجھانے کے دوسرے دن آپ وہی حرکت کردی۔ اس پر سب اُسے کہنے لگے کیسا گدھا ہے، کیسا بیوقوف اور احمق ہے، آدابِ مجلس کا ذرا بھی خیال نہیں۔ وہ کہنے لگا جناب! میں نے تو وہی حرکت کی ہے جو کل اِس قدر قابلِ تعریف سمجھی گئی تھی۔ پس اگر گورنمنٹ الگ الگ آدمیوں سے الگ سلوک کرے گی تو لوگوں کی ملامت کانشانہ بنے گی۔ آخر لوگوں کے دل میں سوال پیدا ہوکر رہے گا کہ جب قانون کا اصل ایک ہے تو کیا وجہ لکھنؤ والوں کیلئے وہ اور رنگ میں ظاہر ہو اور قادیان والوں کیلئے اور رنگ میں؟ آخر لوگ سوچیں گے کہ اس کی یہی وجہ تو نہیں کہ لکھنؤ والے امیر ہیں اور قادیان کے لوگ غریب۔ اگر یہ بھی امیر ہوتے ، اگر ان کی تعداد بھی زیادہ ہوتی اور اس قسم کا واقعہ ہوتا تو گورنمنٹ ان کی یہ باتیں سن کر فوراً کہتی بالکل درست لکھنؤ میں بھی ہم نے ایساہی کیا ہے اور یہاں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے لیکن چونکہ امارت اور غربت کا فرق ہے یہ تھوڑے ہیں اور وہ زیادہ پھر یہ قانون کے پابند ہیں اس لئے ان کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ میں تو بعض دفعہ سوچا کرتا ہوں کہ شاید ہمارا سب سے بڑا جُرم یہی ہے کہ ہم قانون کی پابندی کا فیصلہ کرچکے ہیں اور اس وجہ سے حکومت خیال کرتی ہے کہ ان کی تکلیف کی طرف توجہ نہ کی گئی تو امن میں خلل نہ آئے گا لیکن اگر میرایہ خیال درست ہو تو حکومت کو اپنی اصلاح کرنی چاہئے کیونکہ ایسے حالات ملک کے امن و امان کو برباد کردیتے ہیں اور لوگوں کی محبت حکومت سے کم کردیتے ہیں۔
میں نے کسی کتاب میں پڑھا ہے کہ ایک جاپانی لیڈر نے ایک دفعہ ایک مضمون لکھا اس میں وہ بیان کرتاہے (جس طرح ہندوستان پر یورپین قوموں نے حکومت حاصل کرلی ہے اسی طرح شروع شروع میں انہوںنے جاپان پر بھی حکومت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے جاپان میں کارخانے کھول لئے، تجارتیں شروع کردیں اور جاپان میں اثر پید اکرنا شروع کردیا۔ ایک دفعہ جاپانی امریکن تاجروں سے لڑ پڑے۔ امریکہ والوں کوجب معلوم ہؤا تو انہوںنے اپنے جہاز بھیجے جاپانیوں پر گولہ باری کی اور نہایت کڑی شرائط جاپانیوں سے منوائیں۔ جاپانیوں کو اس سے ایسا ہی دُکھ پہنچا جیسا کہ پچھلے سال ہمیں پہنچا تھا انہوں نے فیصلہ کرلیا اب ہم اپنی عزت قائم کرکے رہیں گے۔ وہ خوش قسمت قوم تھی اُس کے بڑے بڑے نواب جمع ہوئے اور انہوں نے کہا جب یورپین اقوام کے نزدیک ہماری چوڑھے اور چمار جیسی بھی عزت نہیں تو ہماری نوابیاں کس کام کی ہیں۔ سب نے کہا ہم اپنی نوابیاں چھوڑتے ہیں اور سارے اختیارات ایک بادشاہ کو دیتے ہیں چنانچہ سب نے اپنی نوابیاں چھوڑ دیں اور پُرانے شاہی خاندان کے ایک آدمی کو جو عبادت گاہ میں بیٹھا تھا اپنا بادشاہ بنالیا۔ گویا پہلا تغیر انہوں نے یہ کیا ۔ ا س کے بعد ان میں سے نوجوان نکلے اور انہوں نے قسمیں کھائیں کہ ہم اپنے ملک میں واپس نہیں آئیں گے جب تک یورپ اور امریکہ سے وہ ہنر سیکھ کر نہ آئیں جن ہنروں کی وجہ سے وہ ہمارے ملک میں طاقت پکڑ رہے ہیں۔ چنانچہ کسی نے جہاز رانی سیکھنی شروع کردی، کسی نے کارخانوں کا کام سیکھنا شروع کردیا، اس طرح کوئی کسی کام میں لگ گیا او رکوئی کسی میں اور دس پندرہ سال باہر رہ کر جب وہ اپنے ملک میں آئے تو انہوں نے ہر قسم کے کارخانے جاری کردیئے۔ اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ جاپانی مدبر کہتا ہے) کہ ہماری قوم سورہی تھی جب ہم جاگے تو ہم نے دیکھا ہمارے ملک میں یورپین قومیں اپنا اثر بڑھارہی ہیں اور وہ اپنے آپ کو مہذب کہتے ہیں اور ہمیں غیرمہذب۔ تب ہم نے سوچا کہ شاید تہذیب کارخانے جاری کرنے کا نام ہے اور ہم نے اپنے ملک میں ہر قِسم کے کارخانے جاری کردیئے اور ہم نے یورپ کی طرف فخر سے دیکھا اور سمجھا کہ اب وہ کہے گا کہ جاپان بھی مہذب ملک ہے مگر ہم نے دیکھا کہ مغرب نے اپنا سر ہِلادیا اور کہا کہ جاپانی غیرمہذب ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ہم نے سمجھا شاید چونکہ یہ باہر سے ہمارے ملک میں کپڑا لاتے ہیں شاید تہذیب دوسرے ملکوں سے تجارت کرنے کانام ہے پس ہم نے کہا کہ ہم بھی اپنی چیزیں باہر بھیجیں گے اور دنیا میں مہذب کہلائیں گے۔ چنانچہ ہم باہر نکلے اور ہم نے ہر جگہ ان کی منڈیوںکوشکست دی اور دور دور تجارت کی اور خیال کیاکہ مغرب ہماری اس ترقی کو دیکھ کرکہے گا کہ جاپان مہذب ملک ہے مگر مغر ب والوں نے پھر اپنا سر ہِلادیا اور کہا جاپانی غیرمہذب ہیں۔ اس پر ہم نے سمجھا کہ شاید چونکہ یہ اپنے جہازوں میں مال لاتے ہیں اور ہمارے اپنے جہاز نہیں اس لئے ہم ان کی نگاہ میں مہذب نہیں۔ یہ خیال آنے پر ہم نے اپنے جہاز بنائے اور اپنے جہازوں میں غیرممالک کواشیاء بھیجنی شروع کیں اور ہم نے خیال کیا کہ اب تو یہ ہمیںمہذب خیال کریں گے مگر مغربی لوگوںنے پھر سر ہِلادیا اور کہا کہ جاپانی غیرمہذب ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ ہم اس پر پھرحیران ہوئے اور خیال کیا کہ چونکہ ہم تعلیم میں پیچھے ہیں اس لئے غیرمہذب ہوں گے اس پر ہم نے تعلیم پر زیادہ زور دینا شروع کیا اورنئی سے نئی ایجادیں کرنی شروع کردیں مگر ہم پھر بھی مغرب کی نگاہ میں غیرمہذب رہے۔ اتنے میں مانچوریا میں جھگڑا شروع ہوگیا اور روس کے ساتھ ہماری لڑائی ہوئی تب پستہ قد جاپانیوں نے میان سے اپنی تلوار نکال لی اور دیو قد روسیوں پر ٹُوٹ پڑے اور تین لاکھ روسیوں کے خون سے انہوں نے مانچوریا کی زمین کو سُرخ کردیا تب ہم نے دیکھا کہ سارا یورپ اور امریکہ پکار اُٹھا کہ جاپانی مہذب ہیں جاپانی مہذب ہیں۔ وہ کہتا ہے تب ہمیںمعلوم ہؤا کہ یورپین اقوام کے نزدیک تہذیب طاقت کانام ہے۔
اِس قسم کے خیال کا لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونا بہت خطرناک چیز ہؤا کرتی ہے اور حکومت کو یہ امر ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے کہ اگر اس کے ماتحت افسر لوگوں کے دلوں میں اس قسم کا خیال پیداکرتے ہیں تو وہ رعایا کوباغی بناتے ہیں کیونکہ اگر رعایا کے دل میں یہ خیال پیدا ہوجائے کہ حکومت طاقت کے آگے جھکتی ہے دلائل کے آگے نہیں جھکتی تو امن کہاں رہ سکتاہے۔ جب لوگ یہ دیکھیں کہ حکومت طاقتور کی بات مانتی ہے تو ان میں بھی مقابلہ کا جوش پیدا ہوتا ہے اور حکومت کے مقابلہ میں طاقت کااستعمال بغاوت کی روح پھیلاتا ہے۔ پس اگر حکومت سمجھتی ہے کہ لکھنؤ والے چونکہ مالدار ہیں یا جتھے او رطاقت والے ہیں اس لئے اس نے قانون کا وہاں نفاذ کردیا لیکن احمدی کمزور ہیں اس لئے ان کے متعلق کسی قانون کی ضرورت نہیں تو میری نصیحت اسے یہی ہے کہ وہ اپنا رویہ اس بارے میں بدل لے کیونکہ اس خیال کاپیدا ہونا حکومت کے تباہ کرنے کے مترادف ہوتاہے اور اس کی موجودگی میں کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ پس میرے نزدیک خالی مولوی عطاء اللہ کو روکنا کافی نہیں۔ قادیان ہمارا مقدس مقام ہے اور قادیان کے متعلق گورنمنٹ کا یہ قانون ہونا چاہئے اس جگہ سلسلہ احمدیہ اور اس کے بزرگوں کے متعلق توہین آمیز کلمات کا استعمال کسی کیلئے جائز نہیں۔ ہمیں اس بات پر ہرگز اعتراض نہیں اگر کوئی اور قوم کسی اور شہر کو اپنا مقدس مقام سمجھتی ہے تو اس شہر کے متعلق بھی اسی قسم کا قانون نافذ کردیاجائے اگر ہندو کہیں کہ ہردوارؔ یا بنارس ان کا مقدس مقام ہے یا سنّی کسی شہر کو اپنا مقدس مقام قرار دے لیں یا شیعہ کسی شہر کو مقدس مقام قرار دے لیں اور اس طرح اپنے لئے ایک ایک شہر چُن کر اس کے متعلق اس قسم کا قانون بنوالیں تو ہمیں اس پر ہرگز اعتراض نہیں ہوگا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قادیان میں کسی مذہب والے کا اپنے مذہب کی تلقین کرنا ہم ناپسند کرتے ہیں۔اگر کوئی اپنے مذہب کی تبلیغ کرنا چاہتا ہے تو بے شک وہ آئے اور تقریر کرے لیکن تہذیب و شائستگی کے ساتھ۔ ایسے مہذب لیکچراروں کیلئے میں آپ انتظام کرنے کیلئے تیار ہوں بلکہ اسی مسجد میں انہیں لیکچر کی اجازت دے سکتا ہوں لیکن غیرشریفانہ رنگ میں اگر کوئی شخص کسی حرکت کا ارتکاب کرتا ہے تو اُس کی اِس حرکت کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ممکن ہے کہ کوئی شخص کہے کہ تمہارا تو ایک مرکز ہے جس کی وجہ سے گورنمنٹ سے اس قانون کا مطالبہ کرتے ہو لیکن ہم کیا کریں سو ایسے لوگوں سے میں کہتا ہوں تم بھی ایک مرکز بنالو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا مگر یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنے مرکز کے متعلق کسی قانون کا مطالبہ نہ کریں یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کسی لومڑ کی دُم کٹ گئی تھی تو اُس نے سب لومڑوں کو مشورہ دیا کہ ہمیں اپنی دمیں کٹوادینی چاہئیں۔ اگر کسی قوم کا کوئی مذہبی مرکز نہیں تو ہم کیوں اپنا حق چھوڑ دیں اور اگر اسے اس سے تکلیف ہوتی ہے تو وہ اپنا بھی ایک مرکز بنالے۔ ہم خصوصیت سے خیال رکھیں گے کہ ہماری جماعت کا کوئی شخص وہاں جاکر ایسا رنگ اختیارنہ کرے جو دل آزار ہو۔ پس اگر ایسے مراکز ہر قوم تجویز کرلے تو ہمیں اس پر ہرگز اعتراض نہیں ہوگا مگر بہرحال قادیان ہمارا مقدس مذہبی مرکز ہے اور اس جگہ احمدیت یا احمدیت کے بانی یا احمدیت کے بزرگوں کے خلاف کسی قسم کی تضحیک یا تمسخر سننے کیلئے ہم تیار نہیں اور یہ مطالبہ ہمارا اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک گورنمنٹ ان لوگوں کو روکتی نہیں جو یہاں آکر گالیاںدیتے ہیں۔
مولوی عطاء اللہ سے ہمیں کوئی بُغض نہیں نہ انہوں نے ہمارا مال چُرایا ہے کہ انہیں کی بدزبانی ہمیں تکلیف دیتی ہو اور اگر مولوی عنایت اللہ یا شیخ تاج دین صاحب گالیاں دیں تو وہ ہمیں بُری نہ لگتی ہوں۔ اگر گالیاں دینا جائز ہے تو کوئی دے سب کیلئے جائز ہے اور اگر گالیاں دینا جائز نہیں تو کسی کیلئے بھی جائز نہیں خواہ مولوی عطاء اللہ صاحب دیں یا مولوی عنایت اللہ۔ پس ہمارے لئے یہ کافی نہیں کہ مولوی عطاء اللہ صاحب کو قادیان آنے سے روک دیا جائے ہاں اگر گورنمنٹ نے ایسا کیاہے تو اس حد تک ہم اس کی تعریف ضرور کریں گے۔ میں نے ہمیشہ کہاہے کہ ہمیں سچ کوسچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا چاہئے اور ہمارا طریق یہ ہونا چاہئے کہ جو سچ ہو اُسے ہم جھوٹ نہ کہیں او رجو جھوٹ ہو اُسے ہم سچ نہ کہیں اس کے مطابق ہم گورنمنٹ کے اس فعل کی اگر اس نے واقعہ میں ایسا کیا ہے تعریف کریں گے ہاں بقیہ حصہ کی مذمت کریں گے کیونکہ اس نے گالیوں کے انسداد کیلئے کوئی قدم نہیں اُٹھایا جو جماعت احمدیہ اور اس کے بزرگوں کو احرار کے دوسرے نمائندے دیتے ہیں۔
بعض دوست غلطی سے گورنمنٹ کے اچھے کام کی تعریف کرنے سے بھی ڈرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے کہہ دیا کہ گورنمنٹ نے یہ کام اچھا کیا ہے تو ہم جو گورنمنٹ پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہمارے حقوق کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتی اس الزام کی قوت جاتی رہے گی لیکن میں سمجھتا ہوں طاقت ہمیشہ سچائی میں ہوتی ہے دو رُخ طریق میں نہیں ہوتی اور نہ حق کو چھپانے میں ہوتی ہے۔ ابتداء سے یہی میرا اصل رہا ہے اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیشہ مجھے اس اصل پر قائم رکھے کہ ہم سچائی کے پیچھے چلیں اس کے پیچھے نہ جائیں کہ لوگوں پر ہماری باتوں کا کیا اثر ہوتا ہے لوگوں پر جو بھی اثر ہو ہو۔ ہمیں نہیں چاہئے کہ ہم سچائی کوکسی طرح چھپادیں۔ میں جانتاہوں کہ آجکل لوگوں میں عادات کی خرابی کی وجہ سے یہ نقص ہے کہ اگر کسی ایسے شخص کی کوئی نیکی بیان کی جائے جس سے انسان کو شکوہ ہو تو وہ سن کر کہہ دیتے ہیں پھر کیا ہؤا۔ ہر شخص میں کوئی اچھی بات بھی ہوتی ہے اور کوئی بُری بھی۔ پس اس قدر شکوہ کیوں کرتے ہو۔ اس قسم کے لوگوں کے سامنے یقینا ہمارے دلائل کمزور ہوجائیں گے اور وہ جھٹ کہنے لگیں گے کہ جب تمہارے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے بعض حکام نے ظلم اور انصاف دونوں طرح سے کام لیا ہے تو ظلم کوبھول جائو اور انصاف کو یاد رکھو آخر غلطیاں بھی تو انسان سے ہی ہوتی ہیں۔ سچائی کی اِتّباع میں یہ دقّت ہمیں ضرور پیش آئے گی مگر یہ کمزوری سچائی کو چھوڑ دینے سے کم خطرناک ہے۔ اگرلوگوں میں یہ عادت ہے کہ وہ کسی کی ایک خوبی سن کر اُس کے عیوب کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ لوگوں کی اِس عادت کو دور کریںنہ یہ کہ سچائی کو ہی چھوڑ دیں۔ ہمیں دھڑلے سے سچائی کا اظہار کرنا چاہئے او رپھر پوری قوت سے لوگوں کے عیب کو بھی دور کرنا چاہئے ہمیں کہنا چاہئے کہ گورنمنٹ نے فلاں غلطی کی اور ہمیں یہ بھی کہنا چاہئے کہ گورنمنٹ نے فلاں اچھی بات کی۔ ہمیں اس بات کے کہنے سے شرمانا نہیں چاہئے کہ گورنمنٹ کے بعض افسر اچھے ہیں اور نہ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ان کی نیکی کو چھپادیں بلکہ جو افسر نیک کام کریں ہمارا فرض ہے کہ ہم کہیں انہوں نے نیک کام کیااور جو افسربُرا کام کریں ہمارا فرض ہے کہ ہم کہیں انہوں نے بُرا کام کیا۔ ہم صداقت قائم کرنے کیلئے دنیامیں کھڑے کئے گئے ہیں اور ہمارا فرض صرف یہی نہیں کہ ہم زید اوربکر کی اصلاح کریں بلکہ ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ گورنمنٹ کی بھی اصلاح کریں۔ اگر ہم حکومت کے افسروں کی نیکیوں کو چھپائیں تو ہمارے مذہب اورہمارے اخلاق کا ان پر کیا اثر ہوسکتا ہے۔ وہ یہی کہیں گے کہ دنیاداروں کی طرح یہ بھی ہمارے عیب تو بیان کرتے ہیں مگر خوبیاں چھپاتے ہیں مگر جب ہم ان کی خوبیاں بھی بیان کریں گے اور برائیاں بھی ا ن کی اصلاح کیلئے ان کے سامنے رکھیں گے تو ان میں سے جو نیک طبائع ہوں گی وہ کہیں گی یہ نمونہ بہت اچھا ہے آئو ہم بھی یہی نمونہ اختیار کریں اور جب وہ ہمارا نمونہ اختیار کریں گے تو ملک میں امن قائم ہوجائے گا اور چونکہ ہماری غرض نہ حکومت کو نقصان پہنچانا ہے نہ پبلک کو بلکہ ہماری غرض ملک اور قوم اور حکومت کو فائدہ پہنچانا ہے اس لئے جس ذریعہ سے نیکی اور تقویٰ پیدا ہو وہی ذریعہ ہمیں اختیارکرنا چاہئے خواہ عارضی طور پر اس کے نتیجہ میں ہمیں کوئی تکلیف بھی پہنچ جائے۔ ہمارے ملک میں یہ عام رواج ہے کہ اگر آرام سے کوئی کہے کہ مجھے فلاں نے تھپڑ مارا ہے تو اس سے دوسرے کے دل میں ہمدردی پیدا نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی معمولی تھپڑ بھی مارے اور دوسرا زور زور سے چیخیں مارنی شروع کردے تو اوروں کے دل میں فوراً ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ وہ درد سے نہیں چیخ رہا ہوتا بلکہ درد پیدا کرنے کیلئے چیخ رہا ہوتا ہے۔
میں اِس دفعہ دھرمسالہ کے قیام کے دوران میں ایک مرتبہ دھرمسالہ جارہاتھا تو ہماری موٹر کے سامنے چند ہندو چیختے چلاتے ہوئے آئے اور کہنے لگے ایک حادثہ ہوگیا ہے ہماری موٹر دوسری موٹر سے ٹکرا گئی ہے میرے ساتھ چونکہ ڈاکٹر صاحب بھی تھے اس لئے میں نے موٹر کو ٹھہرا لیا اور ہم سب نیچے اُتر آئے ۔ انہی ہندوئوں میں ایک بُڈّھا بھی موجود تھا وہ زور سے چیخ مار کرکہنے لگا وہ عورتوں کی لاشیںپڑی ہیں ان لاشوں کو تو کم سے کم آپ پٹھانکوٹ پہنچادیں۔ یہ سن کر ہم جلدی سے وہاں پہنچے کہ دیکھیں کتنی لاشیں ہیں مگر جب پاس پہنچے تو دیکھا کہ ان لاشوں نے چیخ چیخ کرآسمان سر پر اُٹھا رکھاہے یعنی سب زندہ ہیں۔ اب ان عورتوں کو لاشیں اس نے اسی لئے کہا کہ عام ہندوستانی جب تک یہ نہ سُنے کہ لاشیں پڑی ہیں اُس وقت تک وہ اپنی موٹر سے نیچے نہیں اُترتا اور وہ چونکہ ہمارے اخلاق سے ناواقف تھا اس لئے اُس نے لاشیں کہہ کر ہماری ہمدردی کے جذبات کو اُبھارنا چاہا۔ خیر شیخ بشیر احمد صاحب کو ساتھ لے کر کہ وہ بھی اس سفر میں میرے ہمراہ تھے موٹر میں پٹھانکوٹ گیا وہاںموٹر کا انتظام کروایا گیا اور پولیس کو اطلاع دی گئی اور ڈاکٹر صاحب اور نیر صاحب کو ہم پیچھے چھوڑ گئے تا زخمیوں کی مرہم پٹی اس عرصہ میں ہوجائے۔ میں ضمناً یہ بھی بتادیتا ہوں کہ گورنمنٹ کا انتظام اس بارے میں خطرناک طور پر ناقص ہے۔ میںنے بتایا ہے کہ ان لوگوں میں سے مرا کوئی نہ تھا لیکن ان میں سے ایک مریضہ پسلی میں درد کی شکایت کرتی تھی اور ڈاکٹر صاحب کوخطرہ تھا کہ وہ درد ہڈی ٹوٹنے کے سبب سے نہ ہواور مُہلک ثابت نہ ہو۔ اس لئے جب ہم پٹھانکوٹ پہنچے تو شیخ بشیر احمد صاحب نے تفصیلاً پولیس والوں کو اصل حالات سے اطلاع دے دی لیکن باوجود حالات کی نزاکت کے پولیس والے پہلے تو اس بحث میں لگے رہے کہ وہاں جائے کون پھر ایک بیٹھ گیا کہ لائو پرچہ چاک کروائو اور بیان لکھوائو اور چالیس منٹ اِس طرح ضائع کردیئے گئے۔ دنیا کی کسی مہذب حکومت میں ایسی حماقت پولیس والے نہیں کرسکتے۔ اگر انگلستان میں ایسا واقعہ ہو تو وہ کان پکڑ کر ایسے پولیس والے کو نکال دیں مگر پولیس نے کافی وقت ضائع کیا۔ میں موٹرمیں بیٹھا انتظار کررہا تھا شیخ بشیر احمد صاحب بہت دیرکے بعد واپس آئے تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ اتنی دیر آپ نے کیوں لگائی؟ انہوں نے بتایا کہ پولیس والوں نے ضمنیاں لکھنی شروع کردی تھیں اور آپس میں یہ طے کررہے تھے کہ کون اس کام کیلئے جائے۔ آخر بمشکل انہیں تیار کیا ہے۔ اب یہ تو اتفاقی بات تھی کہ ڈاکٹر صاحب ہمارے ساتھ تھے اور انہوں نے زخمیوں کی مرہم پٹی کی لیکن اگر ڈاکٹر صاحب ساتھ نہ ہوتے تو زخمیوں کی اتنی دیر کون مرہم پٹی کرتا اوراگر اِس وجہ سے ان میں سے کوئی مرجاتا تو اس کی ذمہ داری کس پر ہوتی۔ ایسے موقع پر پہلا فرض پولیس کایہ ہونا چاہئے کہ جس وقت اسے اس قسم کے حادثہ کی اطلاع ملے جبری طو رپر وہ کسی ڈاکٹر کو اپنے ساتھ لے اور پانچ دس منٹ کے اندر اندر حادثہ کے مقام پر پہنچ جائے لیکن وہاں پچاس منٹ کے بعد پولیس آئی اور اتنی دیر میں آدمی مر بھی سکتا ہے یا لاعلاج بھی ہوسکتا ہے۔ غرض ضمنی طور پر میں حکومت کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کیونکہ آجکل میرے لئے اپنے خطبہ کے ذریعہ اسے توجہ دلانا بہت آسان ہے کیونکہ ہرخطبہ اسے باقاعدہ پہنچتا ہے کہ اِس حماقت کا اُسے علاج کرنا چاہئے۔ ایسی حماقتوں کے ہوتے ہوئے کوئی شخص ہندوستان کی حکومت کومہذب نہیں کہہ سکتا گورنمنٹ کوچاہئے کہ وہ پولیس والوں کو ہدایت دے کہ جب انہیں کسی حادثہ کی اطلاع ملے وہ رپورٹیں لکھنے نہ بیٹھ جایا کریں کیونکہ وہ وقت رپورٹیں لکھنے کا نہیں ہوتا بلکہ ان کا پہلافرض یہ ہے کہ وہ ڈاکٹر لے کر اور مرہم پٹی کا ضروری سامان لے کر حادثہ کے موقع پر پہنچیں۔ یہ ابتدائی حقوق ہیں جوبنی نوع انسان کے حکومت پر ہیں اگر گورنمنٹ یہ حقوق اد انہیں کرتی تووہ کوئی کام نہیں کرسکتی۔
میں نے یہ واقعہ اس امر کے ثبوت کے طور پر سنایا ہے کہ ہندوستانیوں میں یہ عادت ہے کہ جب تک وہ مبالغہ سے کام نہ لیں اُس وقت تک سمجھتے ہیں بات کااثر ہی نہیں ہوسکتا اور اگر ان کے مخالف کی کوئی اچھی بات ہو تو اسے بھی اس لئے بیان نہیں کریں گے کہ اس طرح ہماری بات کا اثر کم ہوجائے گا گویا ان کے نزدیک جب تک یہ نہ کہا جائے کہ دکھ ہی دکھ ہے اُس وقت تک بات مؤثر نہیں ہوتی مگر یہ صحیح طریق نہیں اور ایک مؤمن تو اس طریق کو کبھی بھی اختیار نہیں کرسکتا۔ کسی شاعر نے کہا ہے
عیبِ مَے جملہ بگفتنی ہنرش نیز بگو
اے واعظ شراب کی خرابیاں تو تُو نے تمام بیان کردیں لیکن قرآن میں یہ بھی تولکھا ہے کہ اس میں خوبیاں بھی ہیں تُو ان خوبیوں کا بھی تو ذکر کر۔ پس حکومت کی بُرائیوں کو ظاہر کرنا اس کی اصلاح کیلئے جہاں ضروری ہے وہاں حکومت اگر کوئی اچھی بات کرے تو ہمیں اس کی تعریف بھی کرنی چاہئے او رہمارا اختلاف تو حکومت سے ہے ہی نہیں بلکہ حکومت کے بعض افسروں سے ہے اور اس صورت میں تو یہ اور بھی زیادہ ناجائز ہے کہ ہم اُس کی نیکیوں کوچھپائیں اور بدیوں کو بیان کریں۔ پس نیکی اوربدی دونوں کا اظہار اور اقرار کرنا ایک اچھی بات ہے لیکن ہندوستانی ذہنیت اس بارہ میں اِس قدر گِری ہوئی ہے کہ میں نے دیکھا ہے ہماری مثالیں بھی اسی اخلاق کا آئینہ ہیں۔ کہتے ہیں کہ کوئی دوست کسی دوست سے ملنے گیا اور اس نے یہ ظاہر کرناچاہا کہ راستہ میں مَیںنے ایک مزیدار نظارہ دیکھا ہے مگر اس پر اثر ڈالنے اور اس کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے کیلئے وہ کہنے لگا وَاللّٰہِ بِاللّٰہِ ثُمَّ تَاللّٰہِ راستہ میں اس قدر خونریز جنگ ہورہی تھی کہ تھانیسر بھول گیا۔ لاکھوں آدمی کٹا پڑا ہے ۔ اس کے دوست کو پتہ تھا کہ یہ ہمیشہ اثر ڈالنے کیلئے بات کو بڑھاکربیان کرتاہے اُس نے پوچھا سچ سچ کہو کیاواقعہ تھا۔ وہ کہنے لگا بات یہ ہے کہ دو آدمی بُری طرح لڑ رہے تھے ۔ اب یا تو لاکھوں آدمی کٹا پڑا تھا یا صرف دو آدمی بڑی بُری طرح لڑ رہے تھے کا واقعہ رہ گیا مگر دوست کو اس پر بھی اطمینان نہ ہؤا وہ کہنے لگا اچھا کہو نا بات کیاتھی؟دوسرے نے جواب دیا بات یہ ہے کہ راستہ میں دو بلیاں آپس میں لڑ رہی تھیں۔ یہ طریق اچھا نہیں اور ہمیں اس خُلق کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہئے اوربالکل نڈر ہوکر اس طریق پر عمل کرنا چاہئے کہ نیکی کو نیکی اوربدی کو بدی کہا جائے۔ بعض لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ کہا کہ گورنمنٹ نے فلاں فعل اچھا کیا ہے تو لوگ کہیں گے اگر گورنمنٹ کی اب اصلاح ہوگئی ہے تو اس کی گزشتہ کوتاہیوں کو معاف کیوں نہیں کردیتے اور پچھلی باتوں کو جانے کیوںنہیں دیتے۔ چنانچہ صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ بعض ذمہ دار افسروں نے بھی کہا ہے کہ پیچھے جوباتیں ہوچکیں سو ہوچکیں اب اگر فلاں فلاں معاملہ میں گورنمنٹ نے آپ کے حسبِ منشاء فیصلہ کردیاہے تو خاموش کیوں نہیں ہوجاتے۔ اس دلیل سے بھی بعض لوگ ڈر جاتے ہیں مگرمیں اس کا بھی جواب دے دیتا ہوں اور انہیں بتاتا ہوں کہ یہ کوئی ڈرنے کی بات نہیں۔ میں اس دلیل کی کمزوری ظاہر کرنے کیلئے ایک مثال بیان کرتا ہوں۔
فرض کرو ایک شخص نے کسی کا گھوڑا چُرا لیا اورکچھ عرصہ کے بعد وہ اسی گھوڑے پر سوار ہو کر اس شخص کے پاس آیا او رکہنے لگا مجھ سے غلطی ہوگئی کہ میں نے آپ کا گھوڑا چُرا لیا آپ لِلّٰہِ فِی اللّٰہِ مجھے معاف کردیں آپ کی بہت ہی عنایت ہو گی۔ گھوڑے کے مالک نے جب دیکھا کہ یہ اس گھوڑے پر ہی سوار ہوکر معافی طلب کرنے کیلئے آیاہے تو وہ سمجھا کہ اب میرا گھوڑا تو مل ہی جائے گا آئو جھگڑے کو کیوں طول دیں او رجیسا کہ ہمارا عام ہندوستانی طریق ہے کہنے لگا اجی صاحب! ہم اور آپ کیا دو ہیں غلطی تو ہر ایک سے ہوہی جایا کرتی ہے اور میں بھی غلطی کا پتلا ہوں آپ کومیں نے دل سے معاف کیا ۔ اس پر چور کہنے لگا اچھا تو آپ نے اپنے دل سے یہ بات نکال دی؟ گھوڑے کے مالک نے جواب دیا ہاں ہاں میںنے بالکل دل سے نکال دی ہے۔ اب مالک تو امید کررہا تھا کہ یہ معافی مانگ کرگھوڑا مجھے واپس دے جائے گا لیکن چور نے جو کچھ کہا وہ یہ تھا کہ اچھا بھائی صاحب آپ کا بہت شکریہ اور گھوڑے کوایڑ لگا کر وہ جا اور یہ جا۔ مالک بیچارہ منہ دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔ بتائو کیا یہ معافی ہوسکتی ہے؟ اگر گورنمنٹ کے وہ افسر جنہیں شکوہ ہے کہ ہم پچھلی باتوں کو بھلا کیوں نہیں دیتے چاہتے ہیں کہ ہم انہیں معاف کردیں تو ہم آج بھی انہیں معاف کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن وہ ہمارے نقصان کاازالہ بھی تو کریں۔
نقصان ہمیشہ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جن کاازالہ نہیں ہوسکتا اور ایک وہ جن کا ازالہ ہروقت ہوسکتا ہے۔ جن کا ازالہ نہیںہوسکتا ان کے متعلق وہ معافی مانگ لیں اتنا ہی کافی ہے لیکن جن کا ازالہ ہوسکتا ہے اُن کا ازالہ کردیںتو آج ہی تمام جھگڑاختم ہوسکتا ہے ۔ لیکن اگر وہ افسران جن کے خلاف ہمیں شکوہ ہے یہ چاہیں کہ لفظوں سے ہمیں خوش کردیں لیکن ہمارے نقصان کی تلافی نہ کریں تویہ معافی، معافی نہیں کہلاسکتی۔ ہمیں جو نقصان پہنچے ہیں ان میں گو بعض ایسے ہیں جن کی تلافی نہیںہوسکتی مگربعض ایسے ہیں جن کی تلافی ہوسکتی ہے۔ جن کی تلافی نہیں ہوسکتی اُن کے متعلق ہم بھی انہیں مجبور نہیں کرتے لیکن جن کی تلافی ہوسکتی ہے جب تک وہ اس کا ازالہ نہ کریں گے اُس وقت تک ہمارا اور ان افسروں کا جھگڑا ختم نہیں ہوسکتا۔
مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کے خلاف جماعت میں جوش تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کے متعلق طبائع میں جو جوش ہے وہ جوش کسی صورت میں دب نہیں سکتا بلکہ یہ اُبھرتا اور باربار ظاہرہوتاہے۔پچھلے دنوں قادیان میں بعض لوگوں نے زورو شور سے تقریریں کیں، بعض نے قربانیوں کے ڈراوے دیئے، بعض نے حکومت سے شکوہ کیا۔ حکومت سے شکوہ بِالکل بجا اور درست ہے اور میں خود بھی اِس کا مؤید ہوں مگر حکومت سے صرف چند افسر مرادہیں ساری برطانوی حکومت مراد نہیںکیونکہ اس فیصلہ میںسارے برطانیہ کا دخل نہیں۔ اگر ہم ایسا کہیں تو یہ جھوٹ ہوجائے گا۔ پنجاب کے بعض افسروں کا اس معاملہ میں دخل ضرور ہے مگر اسی پنجاب میں بیسیوں انگریز افسر ہیں جن کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ مثلاً فیروز پور، جھنگ، ملتان اور دوسرے کئی ضلعوں کے انگریز افسروں کا اس سے کیا تعلق ہے؟ پھر ساری پنجاب گورنمنٹ کا بھی اس میں دخل نہیں کسی ایک حصہ کا ہے۔ پس میں نہیں سمجھ سکتا کہ بعض مقرروں نے یہ کس طرح کہہ دیا کہ ہم برطانیہ سے ناراض ہیں۔ برطانیہ پر بھی ہم نے حجت پوری نہیں کی جب تک ہم اس پرحجت پوری نہ کرلیں ہمار اہرگز یہ حق نہیں کہ ہم اپنی ناراضگی کو وسیع کریں۔ ہماری ناراضگی ان افسروں پرہے جن پر حجت تمام ہوگئی ہے مگر انہوں نے ہمارے نقصانات کے ازالہ کی کوئی پروا نہیں کی لیکن اگرہم حجت پوری کردیں تب بھی برطانیہ کے وہ شریف آدمی جن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تعریف کی ہے ہم ان کی کس طرح مذمت کرسکتے ہیں۔ بھلا کرنل ڈگلس کی موجودگی میں ہم انگریزی قوم کی کس طرح مذمت کرسکتے ہیں یاسرابٹسن سابق لیفٹیننٹ گورنر جیسے آدمی جس قوم میں ہوں اس قوم کی ہم کس طرح مذمت کرسکتے ہیں۔یہ گورنر ہوکر جب پنجاب میں آئے تو آتے ہی انہیں سرطان کامرض لاحق ہوگیا ڈاکٹروں نے انہیں کہہ دیا کہ وہ جلدی مرجائیں گے چنانچہ چھ ماہ کے بعد و ہ مرگئے۔جب یہ پنجاب میںآئے تو انہوں نے آتے ہی ایک نوٹ لکھا جس کی اُسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اطلاع ہوگئی۔ غالباً ۱۹۰۷ء کے آخرکی بات ہے انہوںنے اس نوٹ میں لکھا کہ جماعت احمدیہ ایک نہایت ہی وفادار جماعت ہے لیکن ہماری گورنمنٹ اسے ہمیشہ شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتی رہی ہے اگر میں زندہ رہا تو پہلا کام یہ کروں گا کہ اس ظلم کو دور کروں۔ اس قِسم کے شریف الطبع لوگوں کی موجودگی میں ہم ساری انگریزی قوم کوکس طرح بُرا کہہ سکتے ہیں بلکہ آج بھی ایسے انگریز موجودہے جو ہم سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ پس پنجاب گورنمنٹ کو بھی ہم بُرا نہیں کہہ سکتے صرف اُن افسران کو بُرا کہہ سکتے ہیں جن سے ہمیں نقصان پہنچا۔ پس اپنے شکوے کو وسیع نہ کرو اور ساری برطانوی حکومت کو الزام نہ دو۔
مجھے معلوم ہؤا ہے کہ بعض مقرروں نے کہاہے کہ برطانوی نمائندوں نے ہمارے مبلّغین کی کبھی مدد نہیں کی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مولوی جلال الدین صاحب شمس کی انہوں نے مدد نہیں کی لیکن بعض برطانوی نمائندوں نے مدد کی بھی ہے۔ مثلاً روس میں جو ہمارے مبلّغین گئے تھے ان کی نہایت تکلیف دِہ اوقات میں انگریزی قونصلوں نے مدد کی، بعض دفعہ قرض کے طور پر روپیہ بھی دیا اور ہماری ہدایتوں کے مطابق انہیں واپس پہنچایا۔ پس یہ غلط بیانی اورجھوٹ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ برطانوی نمائندوں نے ہماری کبھی مدد نہیں کی۔ برطانوی نمائندوں میں سے جنہوں نے ہماری مدد کی وہ شریف انسان اور سچے برطانوی تھے اور جنہوں نے ہماری مددنہیں کی وہ ذلیل انسان اور جھوٹے برطانوی تھے۔
انہی دنوں تحریک جدیدکے ماتحت سپین میں جو ہمارا آدمی گیا ہؤا ہے انگریزی قونصل نے اس سے اظہارِ ہمدردی کیا اور کہا کہ چونکہ لڑائی ہورہی ہے اس لئے میں تمہارے لئے سپین سے باہرجانے کا انتظام کردیتا ہوں اور تم مطمئن رہو کہ تمہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ مگر اس نے کہا میں تومرنے کیلئے ہی آیاہوں میں یہاں سے نہیں جاسکتا اور میں تو چلا ہی اس نیت سے تھا کہ قربانی کروں گا۔ پس اگر میری جان کی قربانی کی ضرورت ہے تو میں یہاں سے کس طرح جاسکتا ہوں۔ پھر انگریزی قونصل نے اسے یقین دلایا کہ ہم ہر طرح تمہارا خیال رکھنے کیلئے تیار ہیں۔ ہم نے اپنے مبلّغ کا حال معلوم کرنے کیلئے جوتار دیا اس کابھی اس نے ہماری تشفی کیلئے تار میں ہی جواب دیا حالانکہ وہ خط بھی لکھ سکتاتھا۔ تو برطانیہ کے اندر اب بھی شرفاء موجود ہیں اوریہ بالکل غیرشریفانہ رویہ ہوگا اگر بعض کے نقص کی وجہ سے ہم ان کے اچھے آدمیوں کی بھی مذمت کرنے لگ جائیں۔
میرے نزدیک نیشنل لیگ کو بجائے حکومت کا شکوہ کرنے کے کچھ اپنا اورکچھ مرکزی لیگ کاشکوہ کرنا چاہئے تھا اور کہنا چاہئے تھا کہ ہمارا قصور زیادہ ہے کہ ہم نے اب تک کچھ نہیں کیا۔ گورنمنٹ ڈرتی کسی حقیقت سے ہے جب اسے پتہ ہو کہ لوگ کہتے تو ہیں مگر کرتے کچھ نہیں تو وہ نہیں ڈرتی۔ کہتے ہیں کسی شخص نے اپنے باورچی خانہ کو دروازہ لگا دیا کیونکہ کُتّے اس کاکھانا کھا جاتے تھے۔ جب کُتّوں نے دیکھا کہ باورچی خانہ کودروازہ لگ گیا تو وہ سب مل کر رونے لگے۔ ایک بڈھا کُتّا آیا اور پوچھنے لگا کیا بات ہے؟ وہ کہنے لگے ہم اسی باورچی خانہ پرپلتے تھے مگر اب وہاں دروازہ لگادیاگیا ہے اب ہم کیا کریں گے؟ وہ کہنے لگا بیوقوفو! دروازہ تو لگ گیا مگر اسے بند کون کرے گا؟ تو ڈرنے کی آخر کوئی وجہ بھی ہؤا کرتی ہے ۔ جب دوسروں پر یہ اثر ہو کہ یہاں باتیں ہی باتیں ہیں کرتے کراتے کچھ نہیں تو وہ ڈر کس طرح سکتے ہیں۔ نیشنل لیگ کو اس عرصہ میں میں نے باربار کہا کہ تم اسلام اور قانون کی حدود کے اندر رہتے ہوئے بہت کچھ کرسکتے ہو مگر اس نے کچھ نہیں کیا۔ اگر وہ اسلام اور قانون کے اندر رہتے ہوئے کچھ کرتے اور انہیں ناکامی ہوتی تو وہ مجھ پر الزام لگاتے مگر یہاں یہ حالت ہے کہ پہلے کور بنی اور پھر جس طرح غبارہ اُڑتاہے وہ کور غائب ہوگئی۔ اب مولوی عطاء اللہ صاحب کے آنے کا خیال تھا تو پھر کور ظہورمیں آگئی ۔ ایسی کو رجو مولوی عطاء اللہ صاحب کے آنے پر بنتی ہے ’’بخاری کور‘‘ ہی کہلاسکتی ہے احمدی کور تونہیں کہلاسکتی۔
میں چونکہ اب فیصلہ کرچکاہوں کہ نیشنل لیگ کے افراد سے سکیم کی بات نہیں کروں گا کیونکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے افراد تو نہیں لیکن اگر نیشنل لیگ کانمائندہ وفد میرے پاس آئے تو میں اب بھی کام کرنے کیلئے ایک سکیم اُس کے سامنے رکھ سکتا ہوں۔ جوں جوں ترقی ہوتی جائے گی اس سکیم میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا اور وہ سکیم ایسی ہوگی جواسلام اور رائج الوقت قانون کے مطابق ہوگی۔ اب تک میں نے اس سکیم کو اس لئے ان کے سامنے نہیں رکھا کہ میں چاہتا تھا کہ وہ اپنی عقل استعمال کریں لیکن چونکہ انہوں نے اپنی عقل سے کام نہیں لیا اس لئے وہ اب بھی میرے پاس آجائیں میں انہیں سکیم بتادوں گا۔
اِسی سلسلہ میں میرے پاس شکایت کی گئی ہے کہ نیشنل لیگ کے حال کے جلسہ کے بعد ممبروں میں ایسی باتیں دیکھنے میں آئی ہیںجواسلام اور احمدیت کے وقار کے خلاف ہیں مثلاً کاغذ کی ٹوپیاں ہیں جو سروں پرپہن رکھی ہیں اور ان پر کچھ فقرے لکھے ہوئے ہیں جن کاکچھ بھی فائدہ نہیں اور پھر وہ ٹوپیاںبعض معذوروں کو پہنادی گئیں ہیں جیسے اسی قسم کی ٹوپی میاں شمس الدین صاحب معذور کے سرپر بھی رکھ دی گئی ہے۔ شکایت کنندہ صاحب کہتے ہیں یہ ایسی ہی بات ہے جیسے زمیندار اخبار والے ایک معمولی حیثیت کے شخص کا نام اخبار کی پیشانی پربطورایڈیٹر لکھ دیتے تھے اور خود تمام کام کرتے تھے۔ جس وقت مضمون کی بناء پر جیل میں جانے کا وقت آتا تو وہ معمولی حیثیت کا آدمی اندر چلا جاتا اور ایڈیٹر صاحب باہردندناتے پھرتے۔ اسی قسم کی حرکت میاں شمس الدین صاحب معذور کے سر پر ٹوپی رکھ کرکی گئی ہے اور ٹوپی پہنانے والے نے سمجھا ہے کہ اگر جیل میں جائے گا تو شمس الدین جائے گا لکھنے والاتو گھر بیٹھا رہے گا۔میں سمجھتاہوں اگر کسی نے اِس نیت سے اُسے ٹوپی پہنائی ہے کہ پکڑا وہ جائے گا اورمیں گھر میں بیٹھارہوں گا تو وہ نہایت پاجی، نہایت خبیث اور نہایت نالائق انسان ہے لیکن اگر کسی نے تمسخر کے ساتھ اس کے سر پر ٹوپی رکھ دی ہے تب بھی میں اسے کہوں گا کہ تُو نے بڑی نادانی کی۔ دینی معاملات میں تمسخر جائز نہیں ہوتا لیکن اگر یہ اعتراض کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس قسم کے فقرات کے نتیجہ میں قانونی رنگ میں کوئی الزام عائد ہوسکتا ہے تو وہ بھی غلطی کرتاہے۔ نیشنل لیگ نے مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کے متعلق حکومت کو بار بار توجہ دلائی ، ہائی کورٹ نے اس فیصلہ کو ردّ کیا لیکن وہ فیصلہ آج تک شائع ہوتا ہے اور اس سے روکا نہیں جاتا بلکہ حکومت نے نیشنل لیگ کے صدر کو صاف کہا ہے کہ ہم نے قانونی مشورہ لیا ہے ہم اس کی اشاعت کوروک نہیں سکتے۔ پس اگرمسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کی اشاعت کو گورنمنٹ روک نہیں سکتی تو مسٹر کولڈ سٹریم کے فیصلہ کو وہ کس طرح روک سکتی ہے اور اس کے فقرات کے استعمال کو وہ قانونی رنگ میں کس طرح زیرِالزام لاسکتی ہے۔ پس بے شک اس فیصلہ کو چھتوں پرلکھ لیاجائے اس میں کوئی حرج نہیں پس اس دوست کو تسلی رکھنی چاہئے کہ میاں شمس الدین جیل میں نہیں جائے گا بلکہ وہیں بیٹھا رہے گا۔
باقی رہا یہ کہ نیشنل لیگ کا یہ فعل وقار کے خلاف ہے ایک حد تک میں بھی اس سے متفق ہوں۔ آج ہی راستہ میں مَیںنے بہت سے والنٹیئروں کو سروں پر کاغذ کی ٹوپیاں پہنے دیکھا ہے اور اب بھی میرے سامنے اس قسم کی ٹوپیاں پہنے ہوئے والنٹیئربیٹھے ہوئے ہیں۔مجھے تو ان کودیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا بھان متی کا تماشہ ہے بھلا اس قسم کے تماشہ سے کیابن سکتا ہے۔ اس فیصلہ کے متعلق بتانا تو ایک ہندو کو ہے کہ یہ فیصلہ غلط ہے اور ہائی کورٹ اِس فیصلہ کو ردّ کرچکی ہے، اس فیصلہ کے متعلق بتانا تو ایک سکھ کو ہے کہ یہ فیصلہ غلط ہے اور ہائی کورٹ کا ایک جج اِس فیصلہ کو ردّ کرچکا ہے، اس فیصلہ کے متعلق بتانا تو ایک عیسائی کوہے کہ یہ فیصلہ غلط ہے او رمسٹر کھوسلہ سے بھی بڑا جج اس فیصلہ کوباطل کرچکا ہے، مگر کاغذکی ٹوپیاں پہننے ہوئے نوجوان بیٹھے یا کھڑے میرے سامنے ہیں گویا مجھے بھی اِس بات میں شبہ ہے کہ یہ فیصلہ غلط ہے یا صحیح۔ اورلطیفہ یہ ہے کہ کور کے ممبر وردیاں پہنے اور ہاتھ میں ڈنڈے لئے کھڑے ہیں لیکن سر پر کاغذ کی ٹوپیا ںرکھی ہیں۔مجھے اِس پرایک لطیفہ یاد آگیا اور جب میں خطبہ پڑھانے آرہا تھا تو اُس وقت بھی اِس لطیفہ کا تصور کرکے اور کور کے ممبروں کودیکھ دیکھ کر میرے لبوں پرمسکراہٹ آجاتی تھی۔ ایک دفعہ یہاں غیراحمدیوں کا جلسہ ہؤا انہوںنے بڑا مجمع کیا۔ ہماری تعداد اُس وقت تھوڑی تھی اور ہمیں اُن کی طرف سے خطرہ تھا ہم نے بھی اس کے مقابلہ میں اپنا انتظام کیا اور پہرے دار لگادیئے جو اِدھر اُدھر چکر کاٹتے تھے۔ یہاں ایک بابا ہیھ ہوتے ہیں ان کی عادت ہے کہ مجلس میں بیٹھے بیٹھے زور سے ان کی ہیھ کی آواز نکل جاتی ہے وہ پہلے کسی زمانہ میں ذکرالٰہی کرتے رہے ہیں اور ذکرالٰہی کی اسی عادت کی وجہ سے اب ان کے سینہ سے بعض دفعہ بے اختیار ہیھ کی آواز زور سے نکل جاتی ہے اور بعض دفعہ اس زور سے نکلتی ہے کہ کئی لوگ اسے سن کر کانپ جاتے ہیں۔ جلسہ کے دن عصر کے بعد مَیں نماز پڑھا کر گول کمرہ میں جہاں منتظمین کا دفتر تھا مشورہ کیلئے گیا۔ وہاںمیں اور درد صاحب اورمیاں بشیراحمد صاحب بیٹھے تھے میرا لڑکا مبارک اُس وقت کوئی ساڑھے سات سال کا تھا وہ بھی وہاں تھا اور بھی کئی لڑکے ہم نے وہاں کھڑے کئے ہوئے تھے تاکہ بوقتِ ضرورت اِدھر اُدھر پیغام پہنچائیں۔ میں آکر بیٹھا ہی تھا کہ وہ بابا صاحب جن کا نام ہی لوگوں نے بابا ہیھ رکھ دیا ہؤا ہے مسجد سے اُترتے ہوئے بیتاب ہوگئے اور انہوں نے زور سے ہیھ کی آوا زنکالی جسے سن کرکئی لوگ کانپ گئے ان کی اس آواز کو سن کر میر الڑکا مبارک احمد دوسرے لڑکوں کے پاس گیا اور انہیں ایک قطار میں کھڑا کرکے کہنے لگا تم سپاہیوں کی طرح کھڑے ہوجائوپھر نہایت سنجیدگی سے کہنے لگا کہ ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی اور وہ یہ ہے کہ سپاہیوں کو افسر قطار میں کھڑا کردیتے ہیں اور پھر حکم دیتے ہیں اٹینشن! اور وہ اس حکم کوسن کر بالکل چُست ہوکر ساکت کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اب ایسے موقع پر جبکہ افسر فوج کو کھڑا کرکے اٹینشن کاحکم دے رہا ہو اور یہ بابا جی وہاں آکر ہیھ کردیں تو بجائے چُست ہوکر کھڑے ہونے کے سب سپاہی کانپ جائیں گے اور صفیں خراب ہوجائیں گی۔ پس اس ہیھ کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ لطیفہ آج مجھے بار بار یاد آتا ہے کور کے ممبر اٹینشن ہوکر کھڑے ہیں مگر سروں پر تماشہ رکھا ہؤا ہے یہ بات فی ال￿واقعہ وقار کے خلاف ہے لیکن اس موقع پر میں یہ بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ وقار کی بھی تشریح کردوں کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ وقار کے لفظ کے رُعب سے کئی دوست سچی خدمت سے محروم نہ ہوجائیں لیکن چونکہ اب عصر کا وقت قریب آرہا ہے اس لئے اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں مَیں اِس مضمون کو بیان کروں گا اور اس پر علمی بحث کروں گا تا ایسا نہ ہو کہ جماعت کے لوگ سُست اور غافل ہوجائیں اور جو کام وہ کررہے ہیں وہ بھی چھوڑ دیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں مَیں یہ بتائوں گا کہ وقار کے کیا معنے ہیں ، وقار کاکس حد تک خیال رکھنا چاہئے اور کس حد تک وقار وقار نہیں بلکہ بے حیائی بن جاتا ہے۔ فی الحال میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ بعض ایسی باتیں ہیں جنہیں لوگ بے وقاری کا موجب سمجھتے ہیں حالانکہ وہ وقار کا موجب ہوتی ہیں اور کئی باتیں ہیں جنہیں وہ وقار والی سمجھتے ہیں حالانکہ وہ وقار کے خلاف ہوتی ہیں۔
(الفضل ۳؍ اکتوبر ۱۹۳۶ئ)



۳۶
’’وقار‘‘ کا حقیقی مفہوم
ہمارے تمام کاموں کی بنیاد عقل اور حکمت پر ہونی چاہئے
(فرمودہ ۲؍ اکتوبر ۱۹۳۶ء )
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورئہ نوح کی ان آیات کی تلاوت کی:-
ثُمَّ اِنِّیْ اَعْلَنْتُ لَھُمْ وَ اَسْرَرْتُ لَھُمْ اِسْرَارًا فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا یُّرْسِلِ السَّمَائَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا وَّ یُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْھَارًا مَالَکُمْ لاَ تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا وَ قَدْخَلَقَکُمْ اَطْوَارًا اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا وَّ جَعَلَ الْقَمَرَ فِیْھِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا وَاللّٰہُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا ثُمَّ یُعِیْدُکُمْ فِیْھَا وَ یُخْرِجُکُمْ اِخْرَاجًا وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا لِّتَسْلُکُوْا مِنْھَا سُبُلاً فِجَاجًا ۔ ؎۱
اس کے بعد فرمایا:-
میں نے گزشتہ خطبہ میں یہ ذکرکیاتھا کہ بعض دوستوں کے اِس فعل پر کہ انہوںنے کاغذکی ٹوپیاں بنا کر اور ان پرہائی کورٹ کے فیصلہ کے چند فقرات لکھ کر انہیں اپنے سروں پر پہن رکھا تھا یابعض نے کوٹ بنواکر اُس پر اِسی قسم کے بعض فقرات لکھ لئے تھے۔ ایک دوست نے یہ اعتراض کیا تھا کہ یہ فعل وقار کے خلاف ہے اور ایسی باتیں احمدیوں کو نہیں کرنی چاہئیں۔ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے میں نے ایک حصہ کے متعلق اپنے خیالات کا گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں ہی اظہار کردیا تھا لیکن ساتھ ہی اِس خوف کا بھی اظہار کیاتھا کہ ایسا نہ ہو ’’وقار‘‘ کے لفظ کے نتیجہ میں جماعت میں سُستی اور غفلت پید اہوجائے یا وہ کوئی ایسا طریق اختیار کرے جواحمدیت کے منشاء ، اسلام کے منشاء اور قرآن مجید کے منشاء کے خلاف ہو اور اس طرح وہ خدمتِ اسلام اور خدمتِ احمدیت سے محروم ہوجائے اس لئے میں نے گزشتہ جمعہ میں ہی کہاتھا کہ چونکہ آج وقت بہت گزرچکا ہے اس لئے اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق عطا فرمائی تو میں اگلے خطبہ جمعہ میں اس مسئلہ کے متعلق اپنے خیالات کو تفصیل کے ساتھ بیان کروں گا۔ سو اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اُس کی مدد سے اپنے اِس وعدہ کے مطابق میں آج وقار کے متعلق بعض باتیں بیان کرنی چاہتا ہوں۔
جہاںتک میںسمجھتا ہوں قرآن کریم میں وقار کالفظ صرف ایک دفعہ استعمال ہؤا ہے اوروہ استعمال سورئہ نوح کی ان آیات میں ہؤا ہے جن کو ابھی میںنے پڑھا ہے۔ موجودہ زمانہ میں تعلیم یافتہ لوگ اور امراء اپنے بہت سے کاموں کی بنیاد یا یوں کہو کہ عدمِ عمل کی بنیاد وقار پر رکھا کرتے ہیں اور غرباء اور غیرتعلیم یافتہ لوگ اس لفظ کو بہت کم استعمال کرتے ہیں اوراس لفظ کے کوئی معنے ان کے ذہن میں نہیں ہوتے۔ پس ہمارے ملک میں عام محاورہ کے لحاظ سے یہ لفظ غرباء او رامراء اور تعلیم یافتہ اور غیرتعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان ایک حدِّ فاصل ہے۔ جب تم کسی امیر شخص سے ملو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ جب بھی کوئی ایسی بات ہو جو اُس کی طبیعت کے اور اُس کی منشاء کیخلاف ہو وہ فوراً کہہ دے گایہ کیسی بیہودہ بات ہے یہ تو وقارکے صریح خلاف ہے۔ اسی طرح جب کسی تعلیم یافتہ شخص سے تم ملو تو معمولی گفتگو اوراِدھر اُدھر کی چند باتوں کے دوران میں ہی تم اُس سے یہ سن لو گے کہ فلاں بات تو وقار کے بالکل خلاف ہے لیکن اس طبقہ کو چھوڑ کر اگر تم غرباء میں چلے جائو تو تمہیں اس لفظ کا استعمال بہت کم بلکہ قریباً قریباً مفقود نظر آئے گا۔ وہاں بِال￿عموم لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ میں یُوں کردوں گا، میں وُوں کردوںگا یہ کوئی نہیں کہے گا کہ میں فلاں بات کیوں کروں یہ وقار کے خلاف ہے ۔ انہیں اگرکوئی بات ناپسند بھی ہو تو اس کی بُرائی ظاہر کرنے کیلئے وہ یہ نہیں کہیں گے کہ یہ وقار کے خلاف ہے بلکہ وہ اِتنا کہنا ہی کافی سمجھتے ہیں کہ فلاںبات ہم نہیں کرسکتے گویا ہمارے ملکی محاورہ کے مطابق یہ لفظ بہت سا انحصار غریب اور امیر کے تفرقہ پر رکھتاہے اور تعلیم اور عدمِ تعلیم کے تفرقہ پر رکھتا ہے لیکن باوجود اس لفظ کے کثیرال￿اِستعمال ہونے کے اگر کسی شخص سے جاکر دریافت کرو کہ یہ وقار کیاچیز ہوتی ہے تو وہ کبھی نہیں بتاسکے گا۔ اب تو میں اس مضمون کوبیان کررہا ہوں اور اِنْشَائَ اللّٰہُ وقار کا مفہوم بیان کرہی دوں گا لیکن اِس سے پہلے اگر اچھے اچھے تعلیم یافتہ اشخاص سے بھی آپ پوچھتے کہ وقار کے کیا معنے ہیں تو وہ ایسے ایسے مضحکہ خیز جواب دیتے کہ آپ سُن کر حیران رہ جاتے۔ جہاں تک میں نے انسانی علم اور انسانی سمجھ کامطالعہ کیاہے اور جہاں تک مجھے انسان کے حالات کا تجربہ ہے ا س کے مطابق میں کہہ سکتاہوں کہ گو قرآن کریم میں یہ لفظ استعمال ہؤا ہے اور میں ابھی ان معنوں کو اِنْشَائَ اللّٰہُ بیان کر دوں گا جو قرآن کریم کی رو سے ثابت ہیں لیکن ہمارے ملکی محاررہ کے مطابق اور اس لفظ کے عام استعمال کومدِّنظر رکھتے ہوئے یہ لفظ اُن چند الفاظ میں سے ہے جن میں سے ہر ایک کی نسبت غالب کی اصطلاح کے مطابق ہم کہہ سکتے ہیں کہ
شرمندئہ معنی نہ ہؤا
اس لفظ کے کوئی بھی معنی لوگوں میں نہیں سمجھے جاتے نہ اس لفظ کو استعمال کرنے اور اسے اپنے منہ سے نکالنے والا سمجھتا ہے کہ اس کے کیا معنے ہیں اور نہ اس لفظ سننے والا سمجھتا ہے کہ یہ لفظ کِن معنوں میں استعمال کیا گیاہے حالانکہ بولنے والے بولتے اور سننے والے سنتے ہیں لیکن نہ بولنے والوں کوخیال آتا ہے کہ وہ غورکریں اس لفظ کے کیا معنے اور کس مفہوم میں وہ یہ لفظ استعمال کررہے ہیں اور نہ سننے والوں کویہ خیال آتا ہے کہ وہ اس لفظ کے مفہوم پر غور کریں اور اس کے اصل معنے معلوم کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن پیشتر اس کے کہ میں وقار کے معنے بیان کروں جن لوگوں کو وقار کا لفظ استعمال کرنے کی عادت ہے میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے دلوں میں سوچیں کہ وقار کے اب تک وہ کیا معنے سمجھتے رہے ہیں۔ اگروہ سوچیں گے توانہیں ابھی معلوم ہو جائے گا کہ وہ اس لفظ کے کوئی معنے نہیں سمجھتے تھے گو اس کا استعمال وہ بہت کرتے تھے۔ درحقیقت بعض چیزوں کی طرف توجہ دلانے سے ایک فائدہ ہوجاتاہے کہ ان کی تشریح ہوجاتی ہے۔ اگر وہ دوست اپنے اعتراض کے دوران میں وقار کا لفظ استعمال نہ کرتے تو شاید مجھے یہ کبھی خیال پیدا نہ ہوتا کہ بہت سے لوگ جانتے ہی نہیں کہ وقار کیا ہوتاہے اور وہ اس بات کے محتاج ہیں کہ ان کے سامنے وقار کی تشریح کردی جائے۔
ہر شخص کا اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے ممکن ہے ہزاروں علماء قرآن کریم کی ان آیتوں کو پڑھ گئے ہوں اور انہیں کبھی خیال بھی نہ آیاہو کہ ان میں وقار کا جو لفظ استعمال ہؤا ہے اس کے کیا معنے ہیں مگر قرآن کریم کی جو آیتیں میرے دل میں اس وقت تک کھٹکتی رہیں جب تک کہ خداتعالیٰ نے ان کا مفہوم مجھ پر نہیں کھولا یا قرآن کریم کی جن آیات کو میں مشکل سمجھتارہا ان میں سے ایک یہ آیت بھی ہے جو ابھی میں نے پڑھی ہے اور جس میں وقار کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ وقار کو جن معنوں میں عام طو رپر لوگ استعمال کرتے ہیں ان معنوں کو جب میں اس آیت پر چسپاں کرتا تو حیران ہوجاتا کہ اس آیت کا مطلب کیا ہؤا کہ مَالَکُمْ لاَ تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا اور خداکے لئے وقار کا لفظ استعمال کرنے کا مقصد کیاہے۔ اورمیں ہمیشہ اس پر حیران رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے معنی مجھ پر کھول دیئے اور وہ آیت جو پہلے میرے لئے مشکل تھی مجھ پر آسان ہوگئی ۔ مگر اس قسم کی آیتیں جن کے معنے ایک عرصہ تک مجھ پر نہیں کھلے صرف چند ہی ہیں ورنہ بِالعموم قرآن کریم خداتعالیٰ کے فضل سے پہلی نظر میں ہی مجھ پر حل ہوگیا ہے۔ ہاں بعض آیات جو دوسروں کو بظاہر سیدھی سادھی نظر آتی رہی ہیں اوربعض ایسی آیات بھی جو دوسروں کے نزدیک بھی مشکل آیات میں سے ہیں پہلی نظر میں ہی مجھ پر حل نہیں ہوئیں بلکہ زیادہ عرصہ تک مجھے ان پر غور کرنے اور ان کے متعلق توجہ اور دعا کرنے کا موقع ملا ہے تب وہ مجھ پر حل ہوئی ہیں۔ غرض انہی آیات میں سے ایک یہ آیت بھی ہے جو بظاہرسیدھی سادھی نظر آتی ہے شاید اِس آیت کے معنے مجھ سے سن کر یا مجھ سے سننے والے کسی اور عالم سے سن کر لوگوں کو اِس آیت کا مفہوم معلوم کرنے کیلئے مشکلات کا سامنا نہ ہؤا ہو کیونکہ شروع سے ہی ان کے سامنے اس آیت کے معنے آگئے لیکن میرے لئے ایک عرصہ تک اِ س آیت میں وقار کے لفظ کا استعمال حیرت کا موجب رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اصل حقیقت واضح کردی۔
اللہ تعالیٰ کیلئے وقار کے لفظ کا استعمال اس مفہوم میں جو ہمارے ہاں استعمال ہوتا ہے ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے اور اب بھی اپنے دلوں میں غور کرکے آپ لوگوں کو معلوم ہوگیا ہو گا کہ عام مفہوم کے مطابق اس لفظ کا استعمال اس جگہ پر عجیب لگتاہے اور انسان کو اطمینان حاصل نہیں ہوتا جب تک اسے وقار کے کوئی ایسے معنے نہ بتائے جائیں جو اللہ تعالیٰ پر چسپاں ہوسکیں۔ غرض میں نے مناسب سمجھا کہ اس موقع پر وقار کی حقیقت کو بھی بیان کردوں اور قرآن کریم کی اس آیت کو بھی پیش کردوں جس میں وقار کا لفظ استعمال کیا گیاہے۔
میں نے کہا ہے کہ یہ لفظ ہمارے ملک میں شرمندئہ معنی نہیں ہؤا اور اِس کا پتہ اس امر سے بھی لگ سکتا ہے کہ جب کسی شخص کے سامنے بہادری کا لفظ بولا جائے تو جرأت اور بہادری کا ایک مفہوم فوراً اس کے ذہن میں آجاتا ہے اور وہ خوب سمجھتا ہے کہ بہادری کیا چیز ہوتی ہے گو ممکن ہے وہ بہادری کی تفصیلات اور اس کی باریکیوں کو نہ سمجھتا ہوں لیکن اس لفظ کا ایک مفہوم اُس کے سامنے ضرور آجاتا ہے۔ اسی طرح جب کسی کے سامنے سچائی کالفظ بولا جائے تو گو سچائی کی باریک قِسمیں اور صداقت اور راستی کی باریک شِقیں اس کے ذہن میں نہ آئیں مگر سچائی کا ایک موٹا سا نقشہ اُس کے ذہن میں فوراً آجاتا ہے اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ سچائی کا کیا مفہوم ہے۔ اسی طرح جب کسی شخص کے سامنے امانت کا ذکر کرو تو چاہے وہ امانت کی باریک قِسمیں نہ جانتا ہو خواہ وہ امانت او ردیانت کی اُس تفصیل سے ناآشنا ہو جو قرآن کریم او ررسول کریم ﷺ نے بیان فرمائی ہے پھر بھی اس کا موٹا سا مفہوم اور امانت و دیانت کے موٹے معنے اُس کے ذہن میں ضرور آجاتے ہیں اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ امانت کالفظ کس مفہوم میں استعمال کیا گیاہے۔ اسی طرح اکثر انسانی اخلاق کاحال ہے جب بھی ان میںسے کسی خُلق کا ذکر انسان کے سامنے کیا جائے اس کا کوئی نہ کوئی مفہوم ذہن میںضرور آجاتا ہے اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس کے کیا معنی ہیں مگر جب لوگ وقار کالفظ بولتے ہیں تو درحقیقت اس کا کوئی مفہوم بھی اس کے ذہن میں نہیں ہوتا بلکہ اگر ہم ذرا گہرے غور سے کام لیں اور وقار کالفظ عام محاورہ کے مطابق استعمال کریں او رپھر سوچیں کہ ہم نے کس چیز پروقار کا لفظ استعمال کیا ہے تو ہمیں فوراً معلوم ہوجائے گا کہ وقار کے معنے ہم اتنے ہی سمجھتے ہیں کہ جو چیز ہمیں پسندنہیں آئی۔ گویا جو چیز ہمیں پسند نہ آئے اس کے متعلق ہم کہہ دیتے ہیں کہ وہ وقار کے خلا ف ہے لیکن اگر ہمیں پسند ہو تو ہم اسے خلافِ وقار نہیں کہتے۔ گویا وقار کیلئے ہمارے محاورہ کے مطابق اُس فعل کے ہیں جو وقار کالفظ استعمال کرنے والے کو پسند آئے۔ مگر چونکہ ہر شخص کی طبیعت الگ الگ ہوتی ہے اس لئے افعال کو پسند اور ناپسند کرنے کے متعلق پھر اختلاف پیدا ہوجائے گا حالانکہ دوسرے امور کے متعلق یہ اختلاف ہمیں نظر نہیں آتا۔
یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص سچائی کا پابند نہ ہو، وہ جھوٹ کا عادی ہو اور خلاف واقعہ باتیں لوگوں میںکہتا پھرتا ہولیکن سچائی کے معنوں میں وہ اختلاف نہیں کرے گا۔ فرض کرو اس نے کسی کو مارا پیٹا ہے اور اس سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم نے فلاں شخص کو مارا؟ اس کے جواب میں ممکن ہے وہ کہہ دے مجھے خدا کی قسم! میں تو وہاں پر موجود ہی نہ تھا مجھے تو علم ہی نہیں کہ کیا واقعہ ہؤا ۔ میری تو اس سے کوئی دشمنی اور عداوت ہی نہیں کہ مجھے اُسے پیٹنے کی ضرورت ہوتی۔ اب وہ جھوٹ توبول رہا ہوتا ہے مگر اِس حالت میں بھی وہ سچ کے معنے سمجھتا ہے او رجانتا ہے کہ سچ کسے کہتے ہیں اور جھوٹ کسے۔ اور یہ تعریف مشرق سے لے کر مغرب تک سب لوگ یکساں طو رپرجانتے ہیں۔ ایک انگریز سے پوچھو کہ سچ کے کیا معنے ہیں تو وہ یہی جواب دے گا کہ کسی امر کو وقوعہ کے مطابق بیان کرنے یا سمجھنے کو سچ کہتے ہیں، ایک جرمن کے پاس چلے جائو وہ بھی یہی جواب دے گا، ایک تُرک کے پاس چلے جائو وہ بھی یہی جواب دے گا، ایک عرب کے پاس چلے جائووہ بھی یہی جواب دے گا، ایک ایرانی سے پوچھ دیکھو وہ بھی سچ کی یہی تعریف بتائے گا، ایک افغانی سے دریافت کرو وہ بھی سچ کی یہی تعریف بتائے گا، ایک ہندوستانی سے پوچھو وہ بھی اسی تعریف کا قائل نظر آئے گا، پھر چین کی طرف نکل جائو، جاپان کی طرف چلے جائو، امریکہ کے لوگوں کے پاس پہنچ جائو وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ سچ اسے کہتے ہیں کہ کوئی بات خلافِ واقعہ نہ بیان کی جائے مگر وقار کے متعلق لوگوں سے پوچھ دیکھو تو اِس کی تعریف میں سینکڑوں جگہ اختلاف نظر آجائے گا۔ ایک کہے گا فلاں بات تو بالکل وقار کے خلاف ہے اور دوسرا کہہ رہا ہوگا کہ یہ بات کہاں وقار کے خلاف ہے اس میں تو کوئی حرج نہیں لیکن سچ کے متعلق اس قسم کا اختلاف نہیں ہوسکتا۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کہے جھوٹ کے بغیر دنیا میں گزارہ نہیں ہوسکتا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کہے ہر شخص دنیا میں اپنا فائدہ چاہتا ہے جب میرا فائدہ جھوٹ بولنے میں ہے تو میں کیوں سچ بولوں مگر یہ کہ سچ کس کو کہتے ہیں اورجھوٹ کس کو اس میں اختلاف نہیں ہوگا۔ گویا سچ کے موٹے معنوں میں کوئی شخص اختلاف نہیں کرسکتا گو باریک اور تفصیلی امور میں اختلاف ہوجاتا ہے مگر وقار کے متعلق قدم قدم پر لوگوں میں اختلاف نظر آجائے گا۔ ایک مالدار شخص جو پورا لباس پہننے کا عادی ہے اور جس کے جسم کے ہر حصہ پر کوئی نہ کوئی چیز موجود ہوتی ہے اگر وہ کسی دن کُرتہ اُتار کر بازار چلا جاتا ہے تو اس کے ہم خیال لوگ کہیں گے اس نے وقار کے خلاف فعل کیا ۔ فرض کر وکوئی ڈپٹی کمشنر ہے یا ای۔اے۔سی ہے یا فوج کا کپتان ہے وہ اگر کسی دن پاجامہ اُتار کر اور ایک معمولی لنگوٹ باندھ کر بازار میں پھرنے لگ جاتا ہے تو اُس کے دوست اور احباب سب کہنے لگ جائیں گے کہ یہ کیسا وقار کے خلاف فعل ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہم دیکھیں گے کہ ایک زمیندار بھی اسی بازار میں پھر رہاہے اس نے بھی ایک لنگوٹ باندھا ہؤا ہے بلکہ اس نے کُرتہ بھی اُتارا ہؤا ہے مگر اس کے دوست اسے دیکھ کر یہ نہیں کہتے کہ یہ فعل وقار کے خلاف ہے یہ بازار میں اس طرح کیوں پھر رہاہے بلکہ وہ اس فعل کو بالکل جائز اور درست سمجھتے ہیں۔ پس دونوں جگہ لنگوٹ ہیںلیکن ایک کے لنگوٹ باندھنے کو خلافِ وقار کہا جاتا ہے اور دوسرے کے لنگوٹ باندھنے کو خلافِ وقار نہیں کہا جاتا ہاں اگر وہ زمیندار جس نے لنگوٹ باندھا ہؤا ہے اگر اپنا لنگوٹ بھی اُتار دیتا ہے تو اُس وقت اُس زمیندار کے ساتھی بھی اسے کہیں گے کہ یہ کیسی خلافِ وقار بات ہے بشرطیکہ انہیں وقار کا لفظ آتا ہو اور اگر وقار کا لفظ نہ آتا ہو تو وہ کہیں گے یہ فعل ہمیں ناپسند ہے۔ اسی طرح ایک مسلمان پردہ دار عورت جو اپنی سوسائٹی میں جہاں پردہ کیاجاتا ہے او ربرقع کو استعمال کیا جاتاہے ہمیشہ پردہ کرتی ہے اگرباہر جاتے ہوئے کسی وقت برقع کی نقاب اُٹھادیتی ہے تو ساری عورتیں اُسے دیکھ کر کہیں گی یہ بات وقار کے بالکل خلاف ہے لیکن ایک زمیندار عورت جو برقع بنوا نہیں سکتی اور جو اپنے حالات کے لحاظ سے برقع پہن نہیں سکتی اگر صرف گھونگھٹ نکالے پھر رہی ہوتی ہے تو اُ س کے اِردگِرد بیٹھنے والی عورتوں کے ذہن میں بھی کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ یہ بات وقار کے خلاف ہے۔ ہاں اگر وہی عورت کسی وقت گھونگھٹ بھی اُتار دے اور ننگے سر پھرنے لگ جائے تو اگر ان عورتوں کو وقار کے لفظ کا علم ہو تو وہ سب کہیں گی یہ کیسی وقار کے خلاف بات ہے۔ اب ایک باپردہ عورت کیلئے صرف نقاب کا اُٹھادینا وقار کے خلاف ہے اور ایک زمیندار عورت کیلئے بے نقاب ہوناوقار کے عین مطابق ہے، ہاں اگر وہ گھونگھٹ بھی اُتار دیتی ہے اور ننگے سر پھرنے لگتی ہے تو یہ فعل وقار کے خلاف ہوجاتا ہے۔ یا ایک دولت مند آدمی اگرکسی دن بغیر بوٹ پہنے ننگے پائوں بازار میں چلا جاتا ہے تو اُس کے سب دوست اور احباب کہیں گے اتنا عقلمند اور متموّل ہوکر اِس نے کیسا خلافِ وقار فعل کیا۔ لیکن اسی بازار اور اسی گلی میں بیسیوں غرباء ننگے پائوں پھرتے نظر آئیں گے اور وہ ایسے ہوں گے کہ سالہاسال سے انہیں جوتی میسر نہیں آئی ہوگی مگر انہیں کوئی نہیں کہے گا کہ ان کا یہ فعل وقار کے خلاف ہے۔ یا ایک معزز اور ذی ثروت آدمی جو اپنی روزی کمانے کی فکر سے بے نیاز ہے اور دوسرے کا محتاج نہیں وہ اگر بازار میں بیٹھ کر نمک کُوٹنے لگ جاتاہے، یا تمباکو کُوٹنے لگ جاتا ہے، یا مرچیں کُوٹنے لگ جاتا ہے تو سارے دوست اسے دیکھ دیکھ کر مسکرائیں گے اور کہیں گے اس کے دماغ میںنقص ہوگیا ہے اور اگرنقص نہ ہوتا تو یہ ایسا خلافِ وقار کام سربازار کیوں کرتا۔ مگر اسی بازار میں ایک چھوٹا دکاندار تمباکو بھی کُوٹتا ہے، نمک بھی کُوٹتا ہے، مرچیں بھی کُوٹتا ہے مگر اس کے ساتھی اس کے پاس مشورہ کیلئے آتے رہتے ہیں اور وہ کبھی نہیں کہتے کہ تو وقار کے خلاف کام کررہا ہے بلکہ وہ اسے ویساہی معزز سمجھتے ہیں جیسے پہلے سمجھتے تھے اور ویساہی مؤقّر سمجھتے ہیں جیسے پہلے سمجھتے تھے۔ ان کے دلوںمیںاس کااحترام بھی ہوتاہے اگر وہ اعلیٰ اخلاق والا ہو تو اس کی عظمت بھی ہوتی ہے۔ وہ اس سے باتیں بھی کرتے ہیں اہم امورمیں اس سے مشورے بھی لیتے ہیں مگر کبھی ان کے ذہن میں یہ نہیں آتا کہ اس کے یہ کام وقار کے خلاف ہیں۔
پس ہمارے ملک میں وقار ایسے فعل، ایسے امر، ایسی بات کوکہا جاتا ہے جو وقار کالفظ استعمال کرنے والے کی عادت کے خلاف ہو مگر کیا ساری ہی عادتیں اچھی ہوتی ہیں؟ اور کیا وہ ساری باتیں جنہیں وقار سمجھا جاتاہے اخلاق او ردین کیلئے مُمدّ ہوتی ہیں؟ اورکیا ان میں سے بیسیوں نہیں سینکڑوںباتیں دین کیلئے مُضِر نہیں ہوتیں؟ پھر اگر ہم ان کو چھوڑ دیں تو کیا ساری سوسائٹی یہ نہیں کہے گی کہ یہ بات وقار کے خلاف ہے؟ مگر کیا وہ بُری زندگی بہترہے جوان لوگوں کی نگاہ میںوقار کے خلاف نہیں یا وہ اچھی زندگی بہترہے جو گولوگوں کی نگاہ میں وقار کے خلاف ہے مگر خداتعالیٰ کی نگاہ میں وقار کے خلاف نہیں کیونکہ خداتعالیٰ وقار کو ان معنوں میں نہیں لیتا جن معنوں میں عام لوگ اسے استعمال کرتے ہیں بلکہ وہ وقار کا لفظ ان معنوں میں لیتا ہے جن معنوں میں قرآن مجید نے اسے استعمال کیا ہے۔
پس جب ہمارے اس دوست نے لکھا کہ نیشنل لیگ کے والنٹیئرز کا یہ فعل کہ انہوں نے اپنے سروں پر کاغذ کی ٹوپیاں پہن رکھی ہیں جن پرہائیکورٹ کے فیصلہ کے چند فقرات لکھے ہوئے ہیں وقار کے خلاف ہے تو اس کے صرف اتنے ہی معنے تھے کہ یہ بات میری عادت کے خلاف ہے اور چونکہ میں ایسی ٹوپی اپنے سر پر رکھنا پسند نہیں کرتا اس لئے میں نہیں چاہتا کہ کوئی اور بھی ایسی ٹوپی سر پر رکھے۔ اب وہی کوٹ جس پرہائی کورٹ کے فیصلہ کے فقرات لکھے گئے ہیں اس دوست کو تو وقار کے خلاف نظر آیا لیکن حضرت باوا نانک صاحب کوایسا کوٹ وقارکے خلاف نظر نہیںآیا۔ وہ ایک بزرگ انسان تھے، ایک قوم کے لیڈر تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے اس فعل سے بہت کچھ فائدہ اُٹھایا ہے اور حضرت باوا نانک صاحب کے چولہ کاحوالہ دے کر ان کے اخلاص کی بہت تعریف کی ہے اور لکھا ہے کہ وہ ایسے مخلص تھے کہ جگہ بجگہ وہ ایسا کوٹ پہنے پھرتے تھے جس پر اللہ تعالیٰ کی توحید اور اُس کی واحدانیت لکھی ہوئی تھی۔ تو حضرت باوانانک صاحب کو یہ چیز وقار کے عین مطابق نظر آئی لیکن ہمارے اس دوست کو یہ بات وقار کے خلاف دکھائی دی اس لئے کہ اس دوست کی آنکھ ایسی بات دیکھنے کی عادی نہ تھی اور حضرت باوا نانک صاحب کانفس ایسی باتوں کے برداشت کرنے کا عادی تھا۔ حضرت باوا نانک صاحب نے سمجھا کہ میں تولوگوں کی ہدایت چاہتا ہوں اگر اس چولہ کے ذریعہ ہی انہیں ہدایت مل سکتی ہے تو میرا اس میں کیا حرج ہے کہ میں اسے پہنے پھروں۔ پس انہوں نے اسے عین وقار سمجھا لیکن یہی فعل اِس زمانہ میں کیا گیا تو اِس دوست کووقار کے خلاف معلوم ہؤا ۔ تو دراصل وقار کے وہ معنے درست نہیں ہیں جوعام لوگ سمجھتے ہیں بلکہ وقار کے کچھ اور معنے ہیں۔ اور عقلاً بھی جس بات کی ہم سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ہم میں ہونی چاہئے اس کا کوئی مفہوم ہونا چاہئے اور مفہوم بھی ایسا جو مستقل ہو یعنی اصولی لحاظ سے وہ تبدیل نہ ہو گو تفصیلات میں اس کا مفہوم بدل بھی سکتا ہے جیسے نمازہے۔ اصولی رنگ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتادیا ہے کہ نماز اسے کہتے ہیں اور نماز اس طرح پڑھنی چاہئے۔ اب جوتندرست ہو وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھتاہے، جوبیمارہو وہ بیٹھ کرنماز پڑھتا ہے،جو زیادہ بیمار ہو وہ لیٹ کرپڑھ سکتا ہے اور جو اور زیادہ بیمارہو وہ دل میں ہی پڑھ سکتا ہے، پھر جنگ کی حالت میں گھوڑے کی پیٹھ پر ہی انسان نماز پڑھ سکتاہے خواہ اس گھوڑے کا منہ کسی طرف بھی ہوجائے یا کشتی میںانسان نماز پڑھتا ہے تو خواہ کشتی کسی رُخ چلتی چلی جائے پڑھنے والے کی نماز ہوتی جائے گی۔ تو شکل کے بدل جانے میںکوئی حرج نہیں ہاں اصول ایک ہونا چاہئے۔
پس ہمیںوقار کے ایسے معنے معلوم کرنے چاہئیں جن معنوں کی رو سے ہم ایسے محفوظ اور مصئون ہوجائیں کہ ہمارا کوئی کام خداتعالیٰ کی نظرمیں بے وقار نہ ہو اور نہ ہمارا کوئی فعل ہمیں کسی نیکی سے محروم کردے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارے ملک میں عام طور پر عادت کا نام وقار رکھا جاتاہے اور ہماری عادت کے خلاف اگرکوئی شخص بات کرے تو ہم کہہ دیتے ہیں یہ وقار کے خلاف ہے مثلاً انگریز پکنک کے موقع پر بعض دفعہ زمین پربیٹھ کرکھانا کھالیا کرتے ہیں لیکن اس کے علاوہ وہ ہمیشہ میزکرسی پر ہی کھانا کھاتے ہیں۔ اب اگر اپنے گھرمیں کوئی انگریززمین پربیٹھ کرکھانا کھانے لگ جائے تو اس کے سب دوست اور رشتہ دار کہنے لگ جائیں گے کہ یہ وقار کے خلاف فعل ہے۔ یا یہ کہیں گے یہ اس کی شان کے خلاف فعل ہے اور انہی معنوں میں یہ لفظ عام طور پر لوگ استعمال کرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں اِس لفظ کو استعمال نہیں کرتا میں بھی اسے استعمال کرتاہوں کیونکہ ہمارے ملک میں اب یہ محاورہ ہوگیا ہے کہ جب کوئی بات ناپسندیدہ ہو اور دوسرے کو اس سے روکنا ہو توکہہ دیا جاتاہے یہ بات وقار کے خلاف ہے۔
مجھے یادہے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانہ میں مَیں ایک دفعہ لاہور گیا۔ اُن دنوں میں تُرکی ٹوپی پہنا کرتا تھا قادیان میں اُس وقت دُکانیں بہت تھوڑی تھیں اور سودا ان میں بہت کم ہوتا تھا۔ اتفاقاً ایک دفعہ میرے سر کے مطابق ٹوپی نہ ملی میں لاہور چلا گیا کہ ٹوپی بھی خرید لائوں گا اور دوستو ں سے بھی مِل آئوں گا، سیر بھی ہوجائے گی۔ جب میں واپس آیا تو گو حضرت خلیفہ اوّل سے میں پوچھ کرہی لاہور گیا تھا مگر آپ نے مجھ سے دریافت کیا میاں! لاہور کیوں گئے تھے؟ میں نے عرض کیا میں لاہور ٹوپی خریدنے کیلئے گیا تھا۔ میرا جواب سن کر آپ بڑی حیرت اور تعجب سے فرمانے لگے ’’ترکی ٹوپی لینے کیلئے‘‘۔ پھر فرمایا یہ تمہاری شان اور وقار کے خلاف ہے کہ تم خود تُرکی ٹوپی لینے جائو۔ پھر حضرت خلیفہ اوّل فرمانے لگے میں نے تو کبھی بازار سے سَودا نہیں خریدا۔ غرض حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کی عادت کے لحاظ سے بازار سے سَودا خریدنا بھی وقار کے خلاف تھا۔ مگر رسول کریم ﷺ کے متعلق تاریخ میں کئی جگہ آتا ہے کہ آپ بازاروں میں جاتے ، سَودا خریدتے اور دُکانداروں کی نگرانی بھی کرتے۔ تو اس زمانہ میں اپنی عادات کی وجہ سے بعض تبدیلیوں کو ہم ناپسند کرتے اور انہیں خلافِ وقار قرار دے دیتے ہیں گو شرعاً ہم انہیں جائز ہی سمجھتے ہوں۔ چنانچہ دیکھ لو صحابہؓ کے متعلق احادیث اور تاریخ میں کئی جگہ ذکر آتا ہے کہ ان میں سے بعض کے پاس کُرتے نہیں ہوتے تھے، سروں پرپگڑیاں اور ٹوپیاں بھی نہیں ہوتی تھیں حتّٰی کہ پائوں میں جوتی بھی نہیں ہوتی تھی صرف تہبند انہوںنے باندھا ہؤا ہوتا اور وہ اسی طرح آدھا دھڑننگا کئے اور ننگے سر بازاروں میں جاتے اور کوئی اِسے وقار کے خلاف نہ سمجھتا مگر اب کوئی غریب آدمی بھی مسجد میں ننگے سر آجائے تو سارے اُس کے پیچھے پڑ جائیں گے اور کہیں گے کہ یہ وقار کے خلاف بات ہے۔ تو دراصل ہمیں بعض چیزوں کی عادت ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ہم برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کے خلاف کوئی کام کرے۔
میں اس بحث میں نہیںپڑتا کہ یہ عادات بُری ہیں یا اچھی لیکن اصولاً اِس وقت اِس قدرکہہ دینا چاہتا ہوں کہ بعض عادات اچھی ہیں اور بعض بُری۔ اس لئے بعض جگہ اس لفظ کا عام مفہوم بھی درست ہوجاتا ہے اور بعض دفعہ غلط ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر بیوہ کا نکاح لے لو۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بیوہ عورتوں کا نکاح کرنے میں کوئی ہتک نہیں سمجھی جاتی تھی خود رسول کریم ﷺ نے اپنی بیوہ لڑکیوں کی شادیاںکیں اور آپ کی ایک نواسی تو متعدد بار بیوہ ہوئیں اور متعدد بار ہی ان کی شادی ہوئی۔ مجھے اِس وقت صحیح یاد نہیں مگر غالباً حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک لڑکی جن کانام سکینہ تھا جہاں تک تاریخ سے معلوم ہوتا ہے وہ سات بار بیوہ ہوئیں اور سات دفعہ ہی اُن کی شادی ہوئی۔ اسلامی دستور کے مطابق ان کایہ فعل کوئی شخص بھی بُرا نہ سمجھتا تھا بلکہ اسے مستحسن سمجھتے تھے۔ مگر ہمارے ملک کااب یہ حال ہے اس کا اس مثال سے پتہ چل سکتا ہے کہ میںنے ایک دفعہ ایک سیّد نوجوان سے کہاکہ تمہاری بہن بیوہ ہے اس کی شادی کرادو۔ اس نے نہایت ہی حیرت و استعجاب سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا آپ کیا بات کہتے ہیں؟ میں نے کہا میں یہ کہتا ہوں کہ تمہاری بہن بیوہ ہے اس کی کہیں شادی کرادو۔ اُس نے جواب دیا آپ تومیری ہتک کرتے ہیں۔ میںنے کہا جس خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے آپ کو عزت حاصل ہے اُن کی تو بیوہ لڑکیوں کی شادی کرنے سے ہتک نہ ہوئی اور آپ کی اس سے ہتک ہوجاتی ہے؟ تمہاری عزت آخر اسی وجہ سے ہے کہ تم محمد ﷺ کی بیٹی کی اولاد ہو مگر محمدﷺ کی بعض بیٹیاں بیوہ ہوئیں اور آپ نے اُن کی دوسری شادیاں کیں۔ پس تمہاری دادی جو رسول کریم ﷺ کی بیٹی تھیں اُنہیں کون سی زائد خصوصیت حاصل ہے کہ ان کی اولاد کی بیوائوں کی شادیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ آخر رسول کریم ﷺ کی ساری اولاد ہی عزت کے قابل ہے۔ اگر آپ نے اپنی ایک بیوہ بیٹی کی بھی شادی کی ہے تو دوسری بیٹی کی نسل میں سے کوئی شخص اپنی بیوہ بہن یا لڑکی کی شادی کیوں نہیں کرسکتا مگر میرا یہ جواب ان کی سمجھ میں نہ آیا اور وہ یہی کہتے رہے کہ یہ ہتک ہے میں اسے کس طرح برداشت کرسکتا ہوں۔ اب یہ موجودہ زمانہ کے بڑے خاندانوں میں وقار کے خلاف بات سمجھی جاتی ہے کہ ان میں سے کوئی اپنی کسی عزیزہ کی دوبارہ شادی کردے مگر رسول کریم ﷺ کو اس میں کوئی بات وقار کے خلاف نظر نہیںآتی تھی۔
اِسی طرح اور ہزاروں باتیں ہیں جوعرب میں اس وقت رائج تھیں مگر آج ہمارے زمانہ میں اگر وہی باتیں کی جائیں تو سب لوگ انہیں وقار کے خلاف سمجھنے لگ جائیں۔ اِس کی وضاحت کیلئے ایک اورمثال بھی دے دیتاہوں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ بڑے بڑے صحابہؓ جب جنگ میں جاتے تو اشعار پڑھتے۔ رسول کریم ﷺ ان کے شعر سنتے اور اُنہیں داد دیتے لیکن ہمارے زمانہ میں اگر کوئی معزز شخص شعر پڑھنے لگ جائے تو سب کہنے لگ جائیں گے کہ یہ وقارکے خلاف بات ہے حالانکہ تاریخ سے صاف طور پر نظر آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ جب کسی جنگ پر تشریف لے جاتے تو صحابہؓ ایسے اشعار پڑھتے جن میں لوگوں کو خداتعالیٰ کی راہ میں جانیں دینے کی ترغیب دی جاتی اور رسول کریم ﷺ صحابہؓ کے ایسے اشعار سُن کراُن کی تعریف کرتے اور کوئی شخص اسے وقارکے خلاف نہ سمجھتا۔ لیکن اِس زمانہ میں وہی بات وقار کے خلاف سمجھی جاتی ہے حالانکہ صحابہؓ میں ہمیں یہ بات دکھائی دیتی ہے بلکہ صحابہؓ تو الگ رہے خود رسول کریم ﷺ کے گھروں میں بعض اشعار گائے جاتے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے جہاں مزامیر سے روکا ہے وہاں گانے یا بعض قسم کے باجوں کی اجازت بھی دی ہے۔ چنانچہ شریفانہ اشعار کا رسول کریم ﷺ کے گھروں میں پڑھا جانا ثابت ہے۔چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بعض عورتوں سے گانا سُن رہی ہیں وہ پیشہ ور گانے والی عورتیں نہیں تھیں جنہیں اسلام نے ناپسند کیابلکہ محلہ کے معزز گھرانوں کی بہو بیٹیاں یابیویاں تھیں اور وہ بعض دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آکر گاتی تھیں۔ رسول کریم ﷺ نے ان کے فعل کو ناپسند نہیں کیا بلکہ ایک دفعہ عورتوں کے گانے کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ ؓ پرناراضگی کااظہار کیا تو رسول کریم ﷺ نے انہیںمنع کیا اور فرمایا اِس میں کوئی حرج نہیں ۔ مگر آج کسی گھر میں کوئی شریف عور ت گا تو جائے تم دیکھ لو گے کہ باوجود حدیثیں پڑھنے کے ، باوجود تاریخی واقعات سے آگاہی رکھنے کے گھر گھر یہ چرچا ہوتا ہے کہ نہیں کہ فلاں عورت تو بڑی بُری ہے وہ تو خوش اِلحانی سے شعر پڑھتی ہے۔ گویا لوگ اب صرف اتنا سمجھتے ہیں کہ میراثنیں اور ڈومنیاں ہی گا سکتی ہیں شرفاء کا حق نہیں کہ وہ گائیں۔ مگر ہندوستان سے باہر نکل کرانگلستان چلے جائیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ معزز سے معزز گھرانوں کی عورتیں گاتی ہیں، جرمنی چلے جائیں تو وہاں بھی یہی نظر آتاہے، فرانس چلے جائیں تو وہاں بھی یہی دکھائی دیتا ہے اور پھر شریعت پر غورکرنے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے اس قسم کے گانے سے منع نہیں کیا پھر کیا وجہ ہے کہ یہاں تو اِس قسم کا گاناعیب سمجھاجاتاہے مگر انگلستان وغیرہ میں کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا۔ وہاں لوگ اس قسم کے گانے گانے کی تائیدمیں دلائل بھی دیں گے، اس کی خوبیاں بھی بیان کریں گے، اس کی ضرورت بھی واضح کریںگے۔ یہ فرق صرف اس لئے ہے کہ اب ہندوستان کے مسلمانوں میں اس کے خلاف عادت پڑ گئی ہے اور یورپ کا طریقِ عمل اس عادت کے خلاف ہے۔
پس وقار کے معنے درحقیقت ہمارے ملک کے استعمال کے لحاظ سے یہ ہیں کہ جو میں کہتا ہوں اُس کے خلاف نہ کیاجائے گویا ہمارے ملک میں وقار کے لفظ کے ماتحت ایک انسان دوسروں پر حکومت کرنا چاہتا ہے مگر اس حکومت کو منوانے کیلئے وہ یہ نہیں کہتا کہ چونکہ مَیں یُوں کہتا ہوں ایسا مت کرو کیونکہ وہ ڈرتاہے کہ اگر میں نے کہا ایسا مت کرو تو دوسرا آگے سے جواب دے گا کہ تُو کون ہوتا ہے مجھے حکم دینے والا۔ اس لئے وہ اپنی بات کو مؤثر کرنے اور لوگوں پر رُعب ڈالنے کیلئے یوں کہہ دیتا ہے کہ یہ بات وقار کے خلاف ہے اس لئے ایسا نہ کرو اور دوسرا آدمی جو اس سے کمزور طبیعت کا ہوتا ہے فوراً شرمندہ ہوجاتا ہے اور دل میں کہتا ہے کہ اوہو! جب یہ بات ہے تو میں اَب اسے نہیں کروں گا۔ انسانی طبیعت پر اس قسم کا اثر کہ وہ بعض باتوں کو پسند کرتا ہے اور بعض کو ناپسند خاندانوں کے رسم و رواج کی وجہ سے ہوتا ہے ، قوموں کے تغائر کی وجہ سے ہوتا ہے، خاص خاص مذاہب کی مختلف تعلیمات کی وجہ سے ہوتا ہے اور ان تمام تأثرات کی وجہ سے جو اثر انسان کی طبیعت پر پڑے اسے لوگ وقار کہتے ہیں۔ اس کے مطابق جب تک لوگ کام کرتے ہیں دوسرے کہتے ہیں یہ بڑے باوقار ہیں لیکن جب ان کے خلاف چلاجائے توکہہ دیتے ہیں یہ وقار کے خلاف کام کرتے ہیں۔ پس اس محاورہ کے استعمال کے لحاظ سے وقار کو نہ تو ہم ثواب کا موجب کہہ سکتے ہیں اورنہ عذاب کا باعث، نہ اسے اچھا کہہ سکتے ہیں نہ بُرا، جب یہ اچھے معنوں میں استعمال ہوگا تو ہم کہیں گے اچھا ہے اور جب بُرے معنوں میں استعمال ہوگا تو ہم کہیں گے بُرا ہے لیکن جن معنوں میں قرآن کریم نے اس لفظ کو استعمال کیاہے ان کے رو سے یہ ہمیشہ ہی اچھا ہوتا ہے۔
یادرہے کہ وقار کے معنے عربی زبان میں بوجھ کے ہوتے ہیں او راس سے سکون کامفہوم لیا جاتاہے کیونکہ بوجھل چیز ملتی کم ہے۔ دوسرے معنے وقار کے عقلمندی اوردانائی کے ہوتے ہیں تو اصولی طو رپر وقار کے دو معنے بن گئے ایک سکون کے معنے دوسرے عقلمندی اور دانائی کے۔ ہمارے ملک میں جب یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو سکو ن کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جس طرح کہ انگریزی میں کنزرویٹونس (Conservativeness) کہتے ہیں۔ لوگ عام طو رپر کنزرویٹو پارٹی کو جانتے ہیں اس کے معنے بھی سکون ہیں یعنی ایسی پارٹی جو کہتی ہے ہم اپنے آباء و اجداد کے طریق کو یونہی نہیں چھوڑ سکتے بلکہ ہم اپنے مقام پر کھڑے رہیں گے ہاں جب کوئی واضح غلطی نظر آئی تواسے چھوڑ دیں گے محض بعض اچھے اصول کو دیکھ کرہم اپنی باتوں میں تبدیلی کرنے کیلئے تیار نہیں بلکہ تجربہ کے بعد تبدیلی کریں گے اور جب تک تجربہ نہ ہو اُس وقت تک باپ دادوں کی راہنمائی ہمارے لئے کافی ہے۔ اس قسم کی پارٹی کو کنزرویٹو پارٹی کہتے ہیں جس کا اردو میں ترجمہ قدامت پسند کیاجاتا ہے اور اِسی کو سکون کہا جاتاہے اور وزن او ربوجھ کے بھی یہی معنے ہوتے ہیں کیونکہ اس سے سکون پیداہوجاتا ہے۔
پس وقار کے ایک معنے عادات کی اِتّباع میں سکون پیداکرنے کے ہیں اور دوسرے معنے عقلمندی اور دانائی کے ہیں۔ دوسرے معنوں پر غور کرنے اور ان کی تفصیلات پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لغت کے لحاظ سے موقع او رمحل کے مطابق کسی صحیح غرض اور مقصد کے ماتحت کام کرنا وقارکہلاتا ہے اور جب کوئی شخص بے موقع او ربے محل کام کرے تو اسے عدمِ وقار کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں وقار کالفظ انہی دوسرے معنوں میں استعمال ہؤا ہے کیونکہ پہلے معنے گو معیوب نہیں مگر خداتعالیٰ کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ساکن ہے اللہ تعالیٰ کیلئے کون سی قدامت ہے کہ ہم ان معنوں میں اُس کے متعلق وقار کالفظ استعمال کرسکیں۔ انسانوں کیلئے تو بیشک ایک قدیم خیال ہوسکتاہے او رایک جدید لیکن اللہ تعالیٰ تو وہ ہے جو وحدہٗ لاشریک ہے ا س کیلئے خاندانوں یا قوموں کی رسم و رواج کا کون سا سوال ہے کہ سکون کا لفظ اس کے متعلق استعمال کیا جاسکے۔ اُس کے متعلق وقار کے یہی معنے ہوں گے کہ وہ موقع اورمحل کے مطابق کسی غرض اور حکمت کے ماتحت کام کرنے والا ہے اورجب خداتعالیٰ کے متعلق وقار کالفظ ان معنوں میں استعمال ہؤا ہے تو ایک مسلما ن بھی جب اس لفظ کا استعمال کرے گا تو انہی معنوں میں استعمال کرے گا۔
پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ انسان کو باوقا رہونا چاہئے تو اسلامی نقطہ نگاہ کے ماتحت اس کے یہی معنے ہوں گے کہ انسان کو موقع اور محل کے مطابق عقلمندی اور دانائی سے کام کرنا چاہئے۔ اب وقار کے ایک معنے معیّن ہوگئے اور اس کے معنوں کا ابہام دور ہوگیا اور ہمیں معلوم ہوگیا کہ باوقار اسے کہتے ہیں جو عقل اور سمجھ کے ماتحت موقع اورمحل کی رعایت مدنظر رکھتے ہوئے ایسا کام کرے جس میں کوئی حکمت اور فائدہ ہو اور بے وقار اُس شخص کو کہیں گے جو ایسے افعال کا مرتکب ہو جو حکمت اور فائدہ سے خالی ہوں اور جو موقع اور محل کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے خلافِ عقل اور خلافِ دانش ہوں۔ اس تعریف کے لحاظ سے وہ مثالیں جو میں پہلے دے آیا ہوں اگر ان کو دیکھا جائے تو فوراً پتہ لگ جائے گا کہ ان میں بیان کردہ وہ کون سے فعل وقار کے مطابق ہیں اور کون سے فعل وقار کے خلاف ہیں۔ ایک عورت جو گھر میں رہ سکتی ہے، جو عورت برقعہ بناسکتی ہے اور برقعہ پہن سکتی ہے وہ اگر کسی موقع پر بغیر کسی خاص ضرورت کے اپنا نقاب اُٹھادیتی ہے تو چونکہ اس نے پردہ اُتارا حالانکہ وہ پردہ کرسکتی تھی اور چونکہ قرآن مجید نے حکم دیا تھاکہ جو عورت اپنی زینت کے مقامات کو چھپاسکتی ہے وہ چھپائے اور اُس نے باوجود زینت کے مقامات چھپانے پر مقدرت رکھنے کے زینت کا مقام نہیں چھپایا اس لئے کہاجائے گا کہ وہ عورت بے وقار ہے اور اُس کا یہ فعل وقار کے خلاف ہے۔ لیکن ایک زمیندار عورت جوبرقعہ نہیں بنواسکتی جو اپنی ضروریات کے لحاظ سے برقعہ نہیں پہن سکتی اور جو اِس بات پر مجبور ہے کہ وہ اپنے لئے اور اپنے بچوں کیلئے رزق کمانے کیلئے اپنے خاوند کے ساتھ کھیتی پر جائے اورکام میں اُس کاہاتھ بٹائے اس کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ گھونگھٹ نکالے اور کام کرتی پھرے اور اس کا ایسا کرنا عین وقار ہوگا۔ پس وہی چیز جو ایک برقعہ پوش امیر عورت کیلئے بے وقاری کا موجب ہے وہ ایک زمیندار عورت کیلئے بے وقاری کا موجب نہیں بلکہ وقار کاموجب ہے اس لئے نہیں کہ وہ عادت کے خلاف کام کرتی ہے بلکہ اس لئے کہ ایک امیر برقعہ پوش عورت کام کیلئے اور کئی وسائل اختیار کرسکتی ہے اوراپنی زینت کے مقامات کو بھی چھپاسکتی ہے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو شریعت اس پر الزام رکھتی ہے کہ اس نے کیوں اپنا نقاب اُٹھایا لیکن ایک غریب زمیندار عورت پر اِلَّا مَاظَہَرَ مِنْھَا ؎۲ کے مطابق کوئی الزام نہیں آئے گا کیونکہ وہ مجبور ہے کہ باہر جاکر اپنے خاوند کے ساتھ کام کرے۔
پس ایک نقاب کا اُٹھادینا حکمت کے خلاف ہے اور دوسری کا برقعہ پہنناحکمت کے خلاف ہے ہاں اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ گھونگھٹ نکالے کیونکہ کھیت پر کام کرنے میں گھونگھٹ اس کے کام میں روک نہیں بن سکتا لیکن اگر وہ کسی وقت گھونگھٹ بھی اُتار دیتی اور ننگے سر پھرنے لگتی ہے تب ہم اس کے متعلق بھی کہیں گے کہ اُس کا یہ فعل وقار کے خلاف ہے کیونکہ گھونگھٹ اتارنے کی اسے کوئی ضرورت نہ تھی اور نہ گھونگھٹ اُتارنے کا وہ کوئی موقع اورمحل تھا۔
پھر شریعت نے ظاہری پردہ سے زیادہ اندرونی پردہ پر زور دیا ہے اور کسی عورت کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ اپنی کسی بہن یا بیٹی یا سہیلی کے سامنے ننگی ہو لیکن اگر کوئی عورت اپنی بیٹی یا بہن کے سامنے پیشاب کرنے بیٹھ جاتی ہے تو چونکہ اُس کا یہ فعل عقل و سمجھ کے خلاف اور موقع و محل کی رعایت سے عاری ہوگا اِس لئے ہم کہیں گے کہ وہ عورت بے وقار ہے لیکن وہی عورت اپنی مجبوری کے ماتحت جب اسے دردِزِہ ہوتا ہے اور بچہ جننے کا وقت قریب آتا ہے تو دانا دائی یا واقف کار معالج کوبلاتی اور اس کے سامنے ننگی ہوجاتی ہے اور کوئی نہیںکہتا کہ یہ فعل وقار کے خلاف ہے ۔ تو حکمت کے ماتحت کام کرنا وقار ہوتا اور بغیر کسی حکمت کے کام کرنا بے وقاری کہلاتا ہے۔ اب دیکھ لو قرآن کریم میںوقار کالفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کہتے ہیں اے میرے ربّ! میں نے اس قوم کے سامنے کھول کھول کر اپنی باتیں پیش کردیں، میںنے اس خیال سے کہ شاید دوسرے لوگوں کے سامنے انہیں میرے منہ سے نصیحت کی بات سن کرتکبر میں اپنی عزت کا خیال نہ آجائے اور یہ نہ کہہ دیں کہ ہماری ہتک ہوگئی علیحدگی میں بھی انہیں باتیں سمجھائیں اور میں نے انہیں ایسی باتیں نہیں کہیں جو اِن کیلئے بوجھل ہوں اورجن پر عمل کرنے سے انہیں تکلیف ہو بلکہ میں نے اُنہیں یہی کہا کہ اپنے ربّ سے معافی مانگو یہ نہیں کہا جیسا کہ پادری کہتے ہیں کہ میرے سامنے اپنے گناہوں کااقرار کرتے ہوئے ان کے متعلق معافی طلب کرو بلکہ میں نے انہیں کہا کہ تم دنیاکے کسی انسان کے سامنے نہیں بلکہ عالم الغیب خدا کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کرو اور یہ اقرار کوئی مُضِرّ بھی نہیں کیونکہ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا وہ خدا ایسا ہے جو گناہوں کو بہت بخشتا ہے۔ پس اگر تم گناہوں کی معافی اللہ تعالیٰ سے طلب کرو گے تو تمہیں فائدہ ہوگااور خداتعالیٰ تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ پھر میں نے انہیں کہا کیا تم دیکھتے نہیں کہ باوجود تمہارے گناہوں کے اللہ تعالیٰ آسمان سے کثرت سے تمہارے لئے بارشیں نازل کرتا ہے اور اُس نے تمہیں بیٹے دیئے ہیں، مال دیا، باغات دیئے ہیں نہریں دی ہیں، جب وہ تمہارے گنہگار ہونے کی حالت میں تم سے اتنا سلوک کرتا ہے تو اگر تم توبہ کرلوگے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو گے تو سوچو تو سہی کہ خدا تم سے کیسا اچھا معاملہ کرے گا، جب تم اس کی رضامندی کیلئے کوئی کام نہیں کرتے بلکہ اس کے غضب کو اپنے اوپر بھڑکاتے ہو اور وہ تمہاری اس حالت کے باوجود تم پر اس قدر فضل کرتاہے تو جب تم اسے خوش کرلو گے تو وہ تمہارے لئے کیا کچھ نہیں کرے گا۔ پھر وہ کہتے ہیں میں نے ان کے سامنے یہ بات بھی پیش کی کہ مَالَکُمْ لاَ تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا آخر تم جو خداتعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتے تو اسی لئے نا کہ سمجھتے ہو کہ ہم سے کوئی سوال جواب نہ ہوگا اور نہ ہم مر کر دوبارہ اُٹھائے جائیں گے یہی دنیا کی زندگی ہے جس میں ہمارا کام ہے کہ کھائیں اور پئیں اور عیش اُڑائیں خدا کو اِس سے کیا غرض کہ ہم دنیا میں کیا کرتے ہیں اور آیا اس کی عبادت بھی کرتے ہیں یا نہیں مگر مَالَکُمْ لاَ تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا تم کو کیا ہوگیا کہ تم خداتعالیٰ کے متعلق یہ خیال نہیں کرتے کہ وہ باوقار ہے۔ یعنی ہر کام حکمت کے ماتحت کرتا ہے اور موقع اور محل کے مطابق کرتاہے۔ اور کیوں یہ خیال کرتے ہو کہ اس نے تم کو یونہی بغیر کسی مقصد اور مدعا کے پیدا کیا ہے۔ پھر وہ اپنے اس دعویٰ کی کہ خداتعالیٰ کا بندوں کو پید اکرنا بغیرحکمت کے نہیں ہوسکتا یہ دلیل دیتے ہیں کہ وَ قَدْخَلَقَکُمْ اَطْوَارًا خداتعالیٰ نے تم کومختلف حالتوں اور ہیئتوں میں پید اکیا ہے۔ یعنی اوّل تو انسانی پیدائش ایک وسیع قانون کے ماتحت ہے، باریک ذرّات سے اس نے سب دنیا کو جوڑا، پھر ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر زمین کوقابلِ نشو نما بنایا، پھر اس میں سے سبزیاں نکالیں، پھر جانور پیدا کئے، پھر انسان کو اس سے ترقی دے کر پیداکیا، پھر انسانی دماغ کو ترقی دے کر کامل بنایا، اب اس قدر وسیع قانون اورنظام کے ماتحت پیدا ہونے والے انسان کی نسبت تم کیونکر کہہ سکتے ہو کہ اس کی پیدائش میں اللہ تعالیٰ کاکوئی مقصد ہی نہ تھا۔ دوسری دلیل تجربہ کی دی کہ علاوہ ہیئتوں کے اختلاف کے انسانوں کی حالتوں میں بھی اختلاف ہے ہر نیک اور بدعمل کابدلہ ظاہر یا مخفی طور پر اس دنیا میں ملتا ہؤا نظر آتا ہے اور جب یہ نظارہ ہر جگہ نظر آرہاہے ہے تو تم کیونکر کہہ سکتے ہو کہ انسان کو بِلا مقصد پیدا کیاگیا ہے۔ جب خداتعالیٰ کی طرف سے جزاء و سزا ایک خاص حد تک نازل ہورہی ہے تو پھر قانونِ قدرت کے اس ظہور کی موجودگی میں انسانی پیدائش کو عبث کیونکر کہاجاسکتا ہے اور تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ خداتعالیٰ کا یہ فعل جو اتنے لمبے عرصہ سے جاری ہے اور جس کی ہر زمانہ میں نگرانی کی جارہی ہے محض ایک کھیل ہے۔
اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا وَّ جَعَلَ الْقَمَرَ فِیْھِنَّ نُوْرًا وَّ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا۔ کیا تم اپنی طرف اور کارخانۂ عالَم کی طرف نہیںدیکھتے کیا یہ سب کچھ اتفاق کے نتیجہ میں پیدا ہو گیا ہے؟ اطوارکی پہلی دلیل کے ماتحت انسان کہہ سکتا تھا کہ یہ سب کچھ اتفاق ہے جیسے آجکل سائنسدن کہتے ہیں کہ دنیا کا پیداہونا ایک اتفاقی امر ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے شک بعض باتوں میں اتفاق ہوسکتا ہے لیکن کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس دنیا میں لاکھوں کروڑوں ستارے ہیں اور یہ سب کے سب طباقاً ہیں یعنی ایک قانون کے ماتحت چل رہے ہیں۔ کبھی اتفاق بھی ایک قانون کے ماتحت ہؤا کرتاہے۔ اب اِس وقت جمعہ میں اتنے آدمی بیٹھے ہیں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ سب اتفاقی طور پر آکر بیٹھے ہیں۔ ہر شخص جو اِس اجتماع پر نظر ڈالے گا وہ یہی کہے گا کہ کوئی خاص بات ہے یا کوئی خاص دن ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ اس طرح اکٹھے ہوکر بیٹھے ہیں اور اگر کوئی غیرمُسلم ہم سے پوچھے تو ہم اُسے بتادیں گے کہ آج جمعہ ہے جو ہماری عبادت کادن ہے اور ہم سب اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے جمع ہوئے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ اِس امر کا ذکرکرتے ہوئے فرماتا ہے کارخانۂ عالَم پر نگاہ ڈالو سارے کے سارے کو تم طباق پائو گے یعنی ایک مطابقت سب میں دیکھو گے اور ہر چیز میں ایسی مطابقت کا پایا جانا قانون پر دلالت کرتاہے اتفاق پر دلالت نہیںکرتا۔ اب دیکھ لو اِدھر انسان دنیا میں پیدا کیاگیا اور اس کے چہرہ پر آنکھیں پید اکی گئیں اور اُدھر کروڑوں میل پرایک سورج بنادیاگیاکیونکہ آنکھ بغیر روشنی کے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ مگر کیا کروڑوں میل پر ایک سیارہ کا بنایا جانا اور اِس غرض کیلئے بنایاجانا کہ تا انسان دیکھے اور دنیا میں کام کاج کرے اتفاقی امر ہے؟ یہ تو اتفاق مانا جاسکتا تھا کہ اِس دنیا میں انسان کی آنکھ بن گئی مگر آنکھ کے بننے کے ساتھ کروڑوں میل پر ایک سورج کا بن جانا کس طرح اتفاق ہو گیا۔ اس سے تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اتفاق نہیں بلکہ ایک مقتدرہستی نے بِال￿اِ رادہ انہیں بنایا ہے۔ پھر انسانی زندگی کے قیام کیلئے جیسا کہ دن کی ضرورت تھی ایسا ہی رات بھی ضروری تھی اس کیلئے خد انے تاریکی پیدا کردی مگر اِسی کے ساتھ ہی ہلکی روشنی کی بھی انسان کوضرورت تھی جس کیلئے خداتعالیٰ نے سورج کے مقابلہ میں ذرا قریب کرکے ایک چاندبنادیا جو سورج سے ہی روشنی لیتا ہے اس چاند کی روشنی سے فصلیں پکتی ہیں اور انسان کی صحت کو کئی لحاظ سے فائدہ پہنچتا ہے اب یہ اتفاق کس طرح ہوگیا کہ اِدھر آنکھ بنی اور اُدھر چونکہ وہ بغیر سورج کی روشنی کے کام نہیں دے سکتی تھی اس لئے سورج بن گیا ۔ پھر یہ امر دیکھتے ہوئے کہ بعض دفعہ سورج کی روشنی کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ براہِ راست نہ پڑے بلکہ چھن کر پڑے اتفاقی طور پر ایک اور سیارہ بن گیاجو رات کے وقت روشنی دینے لگا ۔
غرض تمام کائنات عالَم پر جب غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ساری دنیا ایک قانون کے ماتحت چل رہی ہے اور اسے کوئی ہوشمند انسان اتفاق نہیں کہہ سکتا۔ پس حضرت نوح علیہ السلام یہ دلائل دے کر ان لوگوں کوبتاتے ہیں کہ تمہاری پیدائش لغو اور عبث نہیں بلکہ تمہیں ایک خاص مقصد کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے پیدا کیاہے آخر تم اپنے آپ کو عقلمند سمجھتے ہو یا نہیں سمجھتے۔ اگر سمجھتے ہو تو کیا اسی لئے نہیں کہ تم حکمت کے ماتحت کام کرتے ہو پھر جب تم اپنے متعلق یہ خیال کرتے ہو کہ تم ہمیشہ حکمت کے ماتحت کام کرتے ہو تو تم یہ کس طرح خیال کرسکتے ہوکہ خداتعالیٰ نے یہ کام حکمت کے ماتحت نہیں کیا اور اُس نے یونہی انسانوں کو پید اکردیا ہے۔ آخر تم بڑوں کو کیوں بڑا کہتے ہو اسی لئے کہ تم سمجھتے ہو کہ وہ سمجھدار تھے اور ان کا حق ہے کہ انہیں بڑا کہا جائے۔ پھر اگر تمہارے باپ دادا اپنے چند سالوں کے کاموں کی وجہ سے سمجھدار بن گئے اور تمہارے لئے ضروری ہوگیا کہ تم ان کے کاموں پر اعتراض نہ کرو تو یہ کس طرح خیال کرسکتے ہو کہ خداتعالیٰ کا ایک دومنٹ کا کام نہیں بلکہ کروڑوں اور اربوں سال کاکام نَعُوْذُبِاللّٰہِ لغو اور بے فائدہ ہے۔ تو وقار کے معنی قرآن کریم میں حکمت والے کام کے بیان کئے گئے ہیں گویا تمام دنیا کی پیدائش اور اس کاایک قانون کے ماتحت چلنا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صاحبِ وقار ہے یعنی وہ کوئی کام فضول، بے غرض اور بے محل نہیں کرتا بلکہ اس کا ہر کام کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہوتا ہے اس کے مطابق ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم جب بھی وقار کالفظ استعمال کریں تو یہ امر اپنے مدِّنظر رکھیں کہ ہم جو کام کرتے ہیں یا جس کام کے کرنے کی لوگوں کوتاکید کرتے ہیں وہ بے محل تو نہیں کیونکہ بے محل ہونے کے لحاظ سے بھی وقار اور غیروقار کا سوال سامنے آجاتا ہے۔
مثلاً وہی واقعہ جس کے متعلق اس دوست کے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ وہ وقار کے خلاف ہے اس کو میں نے بھی بے وقار قرار دیا تھا اور اِس کی وجہ بھی میں نے اُسی خطبہ میں بیان کردی تھی کہ یہ امر بتانا تو ہندوئوں کوہے کہ مسٹر کھوسلہ نے غلط فیصلہ کیا، یہ امر بتانا تو سکھوں اور عیسائیوں کو ہے کہ ہائیکورٹ کے ایک جج نے مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کو باطل قرار دیا ہے، مگر ٹوپیاں پہن کرگھوم اپنے بازاروں میں رہے ہیں حالانکہ اپنے بازاروں میں پھرنے کا کیا فائدہ۔ پس یہ کام بے حکمت تھا، بے غرض اوربے فائدہ تھا اور ایک لغو فعل تھاجس کا ارتکاب کیا گیا مگریہی فعل ایک اور رنگ میں اگر کیاجائے تو بالکل وقار کے مطابق ہوگا۔ دیکھو ایک شخص سمجھدار ہے وہ دوسروں کو اپنی بات بخوبی سمجھاسکتا ہے لوگ اُس کی بات سُن کر مان بھی سکتے ہیں وہ اگر کوئی ایسا کام کر بیٹھتا ہے مثلاً اسی قسم کی ٹوپی پہن کر چل پڑتا ہے اور زبان سے اس فیصلہ کی تردیدنہیں کرتا تو ہم کہیں گے اُس کایہ فعل خلافِ وقار ہے کیونکہ جس شخص کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ اس فیصلہ کو دلائل سے غلط ثابت کرے وہ اگر اپنی ٹوپی پر ہائیکورٹ کے ایک فیصلہ کا ایک فقرہ لکھ کر سمجھ لیتا ہے کہ اُس کا فرض ادا ہوگیا تو وہ ایک لغو کام کرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص زبان سے کام نہیں لے سکتا مثلاً فرض کرو کوئی گونگا ہے وہ بول نہیں سکتا لیکن چونکہ وہ بھی چاہتا ہے کہ اس ثواب میں شریک ہو اِس لئے اگر وہ ایسا کوٹ پہن کرپھرتا ہے جس پر مسٹر کھوسلہ کے متعلق تردیدی فقرات درج ہوں تو کوئی شخص نہیں کہے گا کہ اس کا فعل خلافِ وقار ہے کیونکہ آخر ایک گونگے کیلئے بھی تو ثواب کا کوئی ذریعہ چاہئے۔ وہ اگر مسٹر جسٹس کولڈ سٹریم کے فیصلہ کواپنی زبان سے نہیں دُہرا سکتا اور لوگوں کو یہ نہیں بتاسکتا کہ ہائیکورٹ کے ایک جج نے مسٹرکھوسلہ کے فیصلہ کے متعلق کیا کہا تو اُس کا کوٹ پہن کرلوگوں میں پھرنا ایک بامعنی اورباغرض کام ہے جسے کوئی بھی بُرا نہیں کہہ سکتا بلکہ اگر وہ اپنی ٹوپی پر بھی اس قسم کی باغرض اوربامقصد عبارت لکھواکر لوگوں میں جاتا ہے تو وہ یقینا گونگا ایک مفید کام کرتاہے۔
شاید اس موقع پر کوئی شخص اعتراض کرے کہ حضرت باوا نانک صاحب تو زبان سے اپنے عقائد کا اظہار کرسکتے تھے پھر انہوں نے چولہ کیوں بنوایا اور کیوں اُس پر عربی عبارات لکھوائیں اور کیوں اسے پہنے پھرے حالانکہ ان کی قوم عربی آیات کا مطلب نہیں سمجھ سکتی تھی۔ ا س کا جواب یہ ہے کہ حضرت باوا نانک صاحب کے چولہ پہننے میں بھی حکمت تھی اور وہ حکمت یہ تھی کہ بیشک سکھ اور ہندو جن میں وہ چولہ پہن کر اپنے عقائد کی اشاعت کیا کرتے تھے عربی سے ناواقف تھے لیکن چونکہ باوا نانک ایک ایسی قوم میں کام کررہے تھے جس میں ان کے کام کے مٹ جانے کا اندیشہ تھا اور خطرہ تھا کہ بعد میں ان کی قوم ان کے عقائدکاانکار نہ کردے اور اِس بات کو قبول ہی نہ کرے کہ حضرت باوا نانک صاحب لوگوں کے سامنے اسلامی تعلیم پیش کیاکرتے تھے اس لئے باواصاحب نے چولہ بنوایا۔ وہ چولہ انہوں نے اپنے زمانہ کے لوگوں کیلئے نہیں بنوایا بلکہ بعد میں آنے والے لوگوں کیلئے بنایاتھا تا ہمیشہ کیلئے وہ چولہ اِس بات پر گواہ رہے کہ باوا صاحب مسلمان تھے اور اسلامی تعلیم کی اشاعت ہی ان کا کام تھا۔ عربی میں آیاتِ قرآنیہ آپ نے چولہ پر اس لئے لکھوائیں تا چولہ کو اُن کی قوم محفوظ رکھے کیونکہ اگر وہ گورومکھی میں قرآنی تعلیم کا ترجمہ لکھواتے تو اوّل تو لوگ خیال کرسکتے تھے کہ یہ ان کے اپنے اقوال ہیں دوسرے اگر کسی کو قرآن کریم کا خیال آجاتا تو شاید چولہ کو چھپادیتا لیکن اصل آیات کو بوجہ زبان نہ سمجھنے کے سکھوں نے کوئی آسمانی نشان سمجھا اور اسے محفوظ رکھا۔ اور اگر کہا جائے کہ انہوں نے اس چولہ کو پہناکیوں، رکھ کیوں نہ چھوڑا تو اس کاجواب یہ ہے کہ اگر وہ خالی رکھ ہی چھوڑتے تو ان کی قوم یہ خیال کرتی کہ شاید کسی اور کا چولہ ہو ان کے پہننے کی وجہ سے تاریخی شہادت قائم ہوگئی کہ باوا نانک صاحب اسی چولہ کو پہنتے تھے اور ان کو پسند تھا۔
غرض چولہ پر اصل عربی آیات ہونے کی وجہ سے سکھوں میں سے کسی کو اس کے تباہ کرنے کا خیال نہ آیایہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ آگیا اور آپ نے اس چولہ سے فائدہ اُٹھا کر سکھ قوم کو ان کے گرو کے عقیدہ کی طرف توجہ دلائی۔ پس جوکام حضرت باوا صاحب نے کیا نہایت پرحکمت او رباموقع اوربرمحل تھا لیکن اگر اسی قسم کا چوغہ پہن کراب میں پھرنے لگوں یا سلسلہ کا کوئی عالم اس قسم کا چوغہ پہن کر پھرنے لگے تو یہ خلافِ وقار فعل ہوگا کیونکہ جب قرآن کریم کی انہی آیتوں کو ہم لوگوں کے سامنے پیش کرسکتے اور ان کے مطالب سے انہیں آگاہ کرسکتے ہیں تو ان آیتوں کو ایک چوغہ پر لکھوا کر پہننے کا کیا مطلب ۔ لیکن اگر ایک گونگا جو بول نہیں سکتا یا ایسا شخص جس میں تقریر کرنے کا ملکہ نہیں جو اَن پڑھ ہے اورلوگوں سے گفتگو کرنے میں جھجھک محسوس کرتا ہے وہ اگر کہتا ہے کہ لائو مجھے کسی کوٹ پر قرآن کریم کی چند آیتیں جن سے سلسلہ کی صداقت ثابت ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ثابت ہوتا ہے لکھ دو تا کہ میں اسے پہن کر لوگوں میں پھرتا رہوںاور تا اگر میں زبان سے تبلیغ نہیں کرسکتا تو کم از کم اپنے کوٹ سے ہی لوگوں کوتبلیغ کروں تو کوئی شخص اس کے فعل کو لغو یا خلافِ وقار قرار نہیں دے گا لیکن یہ فعل میرے لئے لغو ہوگا کیونکہ میں زبان سے لوگوں کو سمجھاسکتا ہوں۔
غرض میں یا سلسلہ کا کوئی اور عالم اس قسم کا چوغہ پہن لے تو یہ وقار کے خلاف فعل ہوگا لیکن اگر ایک اَن پڑھ اس قسم کا چوغہ پہنتا ہے جو زبان سے تبلیغ کرنے کا ملکہ اپنے اندر نہیں رکھتا تو اس کا یہ فعل جائز ہوگا بشرطیکہ وہ اس قسم کاچوغہ پہن کران لوگوں کے سامنے جائے جن کو سمجھانا اُس کے مدنظر ہے لیکن اگر وہی شخص اِس قسم کا چوغہ پہن کر اِس مسجد میں آجاتا ہے تو چونکہ اس مسجد میں اِس قسم کا چوغہ پہن کر آنے کا کوئی فائدہ نہیں اِس لئے اُس کا یہ فعل خلاف محل ہونے کی وجہ سے وقار کے خلاف ہوگا اور یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی شخص جوتی اپنے سر پر رکھ لے یا ٹوپی پائوں میں ڈال لے۔ جس طرح جوتی کا سر پر رکھنا یا ٹوپی کا پائوں میں ڈال دینا خلافِ وقار امر ہے اسی طرح جب کوئی شخص اِس قسم کاچوغہ یا اس قسم کی ٹوپی پہن کر جس پر لوگوں کو متوجہ کرنے کیلئے بعض فقرات لکھے ہوئے ہوں اپنی مسجدمیں آتا یا اپنے لوگوں میں ہی پھرتا رہتا ہے تو وہ وقار کے خلاف فعل کرتاہے۔
غرض ضرورت کے مطابق بات کرنا اور دانائی اور حکمت سے کام لینا وقار ہے۔ اس تعریف کے بعد جیسی جیسی ضرورت بدلتی جاتی ہے وقار والے افعال بھی بدلتے جاتے ہیں مگر ان سب میں اصل وہی کام کرتا ہے جومیں نے بیان کردیا ہے اگر ایسا کام کیا جائے جو باموقع اور برمحل ہواور لوگوں کا فائدہ اس میں مدنظر ہو تو وہ وقار والا کام کہلائے گا اور اگرحکمت کومدنظر نہ رکھا جائے تو خلافِ وقار فعل ہوجائے گا۔
غرض اچھے بھلے سمجھدار آدمیوں کا اپنے لوگوں میں ہی اس قسم کی ٹوپیاں پہن کرپھرنا جن پر بعض مختصر فقرات لکھے ہوئے ہوں جن کا مطلب بھی لوگ نہ سمجھ سکیں خلافِ وقار ہے مگر ایک کوٹ بنواکر کسی گونگے یا اَن پڑھ کا پہن لینا تاکہ وہ اپنے کپڑوں سے ہی لوگوں کو اصل حقیقت کی طرف متوجہ کرتا رہے ایک باوقار کام ہے۔ غرض کام کے لحاظ سے، کام کرنے والے کے لحاظ سے اور موقع اورمحل کے لحاظ سے وقار والے کاموں اور غیروقار کاموں کی نوعیت بدلتی چلی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر یوں سمجھ لو ایک راج ہے وہ کسی کا مکان بنانے کیلئے ہمیشہ گو لگاتا اور بانسوں پر تختے رکھ کر اُن پر بیٹھ کر کام کرتا ہے اور کسی کے وہم میں بھی نہیں آتا کہ اُس کا یہ فعل وقار کے خلاف ہے لیکن کسی کے مکان کے پاس اِسی طرح بانس گاڑ کر اور اس پر تختے بچھا کر اگر سلسلہ کا کوئی عالم بیٹھ جائے تو جو شخص بھی وہاں سے گزرے گا ہنسے گا اور کہے گا کیسی خلافِ وقار حرکت ہے۔ اب راج کو لوگ روز دیکھتے ہیں کہ وہ تختوں پر بیٹھ کرکام کررہاہے مگر کبھی انہیں خیال نہیں آتا کہ یہ وقار کے خلاف امر ہورہا ہے اس لئے کہ ان کی فطرت اس موقع پر بولتی اور کہتی ہے کہ راج کا یہ فعل باموقع اور برمحل ہے اور اس میں بنی نوع انسان کا فائدہ ہے لیکن ایک سلسلہ کے عالم کا اس طرح بیٹھ رہنا چونکہ بالکل بے فائدہ ہوگا اس لئے سب اسے لغو اور خلافِ وقار فعل کہنے لگ جائیں گے۔
غرض وقار کے یہ بالکل غلط معنی ہیں کہ چونکہ ہمیں ایک کام کرنے یا اس کے دیکھنے کی عادت نہیں اس لئے اس کام کو جاری نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اگر ہم اس تعریف کو درست سمجھیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم سلسلہ کی ترقی کے راستہ میں روکیں پیدا کرتے ہیں۔ پس اپنی عادات کے خلاف کسی کو چلتے دیکھنا بے وقاری نہیں بلکہ حکمت کے خلاف کام کرنا بے وقاری ہے۔ کوئی شخص اگر ایک مجلس میں کھڑا ہوکر ایک پائوں پر ناچنے لگ جائے تو سب کہیں گے اسے اپنے وقار کا کوئی خیال نہیں لیکن اگر ایک اور شخص جو کسی ضرورت کیلئے دھوپ میں کھڑا کردیاگیا ہے تپتی ہوئی زمین کی گرمی برداشت نہ کرکے کبھی ایک پائوں اٹھائے اور کبھی دوسرا تو کوئی اسے وقار کے خلاف فعل قرار نہیں دے گا۔
غرض قرآن مجید نے وقار کے معنے یہ بتائے ہیں کہ انسان حکمت عقل اور دانائی کے ماتحت کام کرے اس میں سکون کے معنے آجاتے ہیں کیونکہ عقل اور دانائی کے ماتحت جب کوئی کام کیا جائے تو وہ جوش انسان میں نہیں ہوگاجو اُس کے عقلی توازن کو متزلزل کردیتا ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ عادات کے خلاف کام کرنا بھی بعض دفعہ وقار کے خلاف کہلاسکتاہے اور یہ اس موقع پر ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے قومی طریق کو بِلا وجہ اور بِلا حکمت چھوڑدے۔ مثلاً اپنے قومی لباس یا قومی تمدن کو بِلا کسی خاص مقصد یا حکمت کے چھوڑ دے تو ایسے شخص کو بھی وقار کے خلاف کام کرنے والا قرار دیں گے کیونکہ وہ بِلا وجہ ساری قوم کو اپنا دشمن بنالیتا ہے۔ اگر اس کے پاس کوئی دلیل ہو تو بے شک اس طریق کو وہ چھوڑ سکتا ہے لیکن اگر وہ بغیر کسی معقول وجہ کے اپنے قومی طریق کو چھوڑتا ہے تو وہ یقینا لوگوں میں بِلاوجہ ہیجان پیدا کرتا ہے اوربے وقار فعل کا مرتکب ہوتا ہے۔ اگر ایک قوم فیصلہ کرلیتی ہے کہ ہم نے پگڑی ہی پہننی ہے تو کسی شخص کے پگڑی پہننے میں کیا حرج ہے کہ وہ ٹوپی پہن کر اپنی قوم میں ہیجان پیدا کرے۔ جب دونوں اچھی ہیں توکیا وجہ ہے کہ جماعت کے افراد وہ چیز اختیار نہ کریں جسے سب قوم نے پسندکیا ہے۔ غرض بِلا وجہ ایسی قومی عادات کو چھوڑنا جن میں عقلاً اور شرعاً کوئی خاص نقص نہیں اور اپنے لئے قوم کے خلاف کوئی دوسری راہ تلاش کرنا بھی خلافِ وقار کام ہے کیونکہ اس سے طبائع میں بلاوجہ جوش پیدا ہوتا ہے۔
ایک دفعہ جب مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کے متعلق مجھ سے مشورہ لیا گیا تو میں نے پوچھنے والوں کو انہی معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بتایا کہ اشتہاروں والے اپنے اشتہارات لوگوں میں وسیع طو رپر پھیلانے کا یہ انتظام کرتے ہیں کہ ایک آدمی کے آگے پیچھے بورڈ لگادیتے ہیں جس کے درمیان دو ڈنڈے لگے ہوئے ہوتے ہیں اس بورڈ پر اخبار والے اپنا اشتہار لگا دیتے ہیں اور ایک آدمی ان بورڈوں کو لے کرچکر کاٹتا پھرتا ہے۔ انگلستان میں اس قسم کے بورڈوں کو سینڈوچ بورڈ کہتے ہیں دو پھٹے آگے پیچھے ہوتے ہیں اور ان پر اُس دن کے اخبا رکا خلاصہ لکھا ہوتا ہے اور ایک شخص اسے اُٹھائے پھرتاہے۔ وہ بازاروں میں پھرتا رہتا ہے اور اس بورڈ کو پڑھ پڑھ کر لوگ اخبار خریدتے اور پڑھتے ہیں۔ میں نے انہیں کہاکہ ہم غریب ہیں اوردشمن امیر، پھر ہمارے مستقل کام ہزاروں چل رہے ہیں جن پر ماہوار ہزاروں روپیہ خرچ ہوتا ہے اس کے مقابلہ میں ہمارے دشمنوں کو کبھی کبھی جوش آتا ہے اور وہ بعض دفعہ بہت زیادہ روپیہ بھی اکٹھا کرلیتے ہیں لیکن بہرحال انہیں کبھی کبھی جوش آتا ہے اور ہمارے کام ہزاروں ہیں اور پھر مستقل ہیں ایک دن کے کام نہیں کہ آج کیااو رکل چھوڑ دیا۔ بلکہ انہیں مسلسل کرتے چلے جانا ہے پھر ہم نے کسی ایک قوم کا یا ایک ملک کانہیں بلکہ ساری دنیا کا مقابلہ کرنا ہے اگر مسٹرکھوسلہ کے فیصلہ کے خلاف ہم ٹریکٹ شائع کریں تو دنیا میں اِس وقت دو ارب کی آبادی ہے اگر ہم ساری دنیا کو یہ بتاناچاہیں کہ ہم مظلوم ہیں اور دوسَو آدمیوں کیلئے صرف ایک ٹریکٹ رکھیں تو ہمیں ایک کروڑ ٹریکٹ شائع کرنا پڑے گا اور ایک کروڑ ٹریکٹ شائع کرنے کیلئے کم از کم دس لاکھ روپیہ کی ضرورت ہوگی اور چونکہ ہمارے اس ایک ٹریکٹ سے مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کی تردید کی ضرورت پوری نہیں ہوگی اس لئے اور اشتہارات اور ٹریکٹ بھی شائع کرنے کی ضرورت رہے گی۔ اب جب کہ دس لاکھ روپیہ سے صرف ایک ٹریکٹ شائع کیاجاسکتاہے تو خود ہی سوچیں ہماری غریب جماعت اس خرچ کی کہاں متحمل ہوسکتی ہے اور اگر ہم باقی دنیا کو چھوڑ کر صرف ہندوستان میں اس فیصلہ کی تردید کی کثرت سے اشاعت کریں تب بھی پچاس ساٹھ ہزار روپیہ کی ضرورت ہے اور اگر صرف شہر لاہور میں اچھی طرح اشاعت کریں تب بھی سَو دوسَو روپیہ خرچ ہوجائے گا لیکن اگر ایک آدمی مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کے متعلق ہائی کورٹ کے فقرات اسی قسم کے سینڈوچ بورڈ پرلکھوا کر یا ایک پھٹے پرلکھ کراور اسے اپنے ہاتھ میں لے کر یا سائیکل پر رکھ کر پھر تا رہے تو چار آنے کے خرچ سے وہ سارے لاہور کو آگاہ کر سکتا ہے۔ اب یہ بے حکمت کام نہیں بلکہ پُرحکمت کام ہے کیونکہ اس ذریعہ سے ہم دوسرے لوگوں تک اپنی آواز بھی پہنچادیں گے اور خرچ زیادہ نہیں ہوگا۔ پس یہ فعل وقار کے خلاف نہیں بلکہ وقار کے عین مطابق ہے۔ اگر ہم اس تشریح کو مدنظر نہ رکھیں جو میں نے کی ہے تو پھر وقار کے یہ معنی ہوں گے کہ انسان کام کاج چھوڑ کر بیٹھ جائے نہ ہاتھ ہِلائے نہ پائوں۔ مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کی تردید کی اشاعت کیلئے اس قسم کی اور تجاویز بھی استعمال کی جاسکتی ہیں لیکن چونکہ میرا اصل خطبہ وقار کے متعلق ہے مسٹرکھوسلہ کے متعلق نہیں اس لئے میں نے ایک مثال بتادی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ضرورتیں ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم تمام ایسے طریق اختیار کریں جو عام حالات میں یا روپیہ ہونے کی صورت میں گو وقار کے خلاف سمجھے جاسکتے ہوں مگر ہماری موجودہ حالت کے لحاظ سے ہرگز نہیں۔ اگر ہمارے پاس کافی روپیہ آجائے یا ہر شخص ہم میں سے پڑھا لکھا اورمقرر ہو تو پھر ایسے طریق اختیار کرنا یقینا وقار کے خلاف فعل ہوگا اور ہمارے لئے مناسب ہوگا کہ ہم انہیں چھوڑ دیں لیکن موجودہ حالات کا تقاضا بالکل اور ہے۔
یاد رکھو لوگوں کی رسوم او رلوگوں کے رواج او رلوگوں کی عادات کوئی چیز نہیں اصل چیز یہ ہے کہ ہمارا کوئی قدم اسلام کے خلاف نہ ہو اور ہمارا کوئی کام عقل و دانش اور موقع و محل کی رعایت سے خالی نہ ہو اگر اسلام اور احمدیت کی خدمت میں ہمیں کوئی ایسا کام کرنا پڑے جو ہماری عادات یا رسوم و رواج کے خلاف ہو تو ہمیں اس کے اختیار کرنے سے ہچکچانا نہیں چاہئے کیونکہ ہمارا اصل کام اسلام اور احمدیت کی خدمت ہے لیکن اگر اسلام اور احمدیت کیلئے کوئی بات مُضِرّ ہے تو خواہ وہ ہمارے رسوم اور ہمارے رواج کے مطابق ہو اُس کو چھوڑنے اور ترک کرنے میں ہی برکت ہوگی۔ غرض اگر کسی بات میں اسلام کاکوئی فائدہ ہے تو ہم اسے ہی اختیار کریں گے خواہ ہمیں اُس کیلئے کتنی بڑی قربانی کرنی پڑے اور خواہ اس کو اختیار کرکے ہم دنیا کی نگاہ میں بے وقار ہی بن جائیں۔
پس سُست اور غافل مت بنو بلکہ باوقار بنو مگر ان معنوں میں نہیں کہ تم اپنے باپ دادوں کے پُرانے طریق کو چھوڑنے کیلئے تیار نہ ہو بلکہ ان معنوں میںجن معنوں میں قرآن کریم نے اس لفظ کو استعمال کیا ہے یعنی جو کام کرو وہ پُرحکمت ہو، وہ عقل کے ماتحت ہو اور تمہارا مقصد و مدعا اُس سے یہ ہو کہ لوگوں کو فائدہ پہنچے۔ جب بھی تمہارے سامنے کوئی کام پیش ہو تم غور کرو کہ اس سے اسلام اور احمدیت کو فائدہ پہنچتا ہے یا نہیں۔ اگر اس سے اسلام اور احمدیت کو فائدہ پہنچتا ہو، اگر وہ موقع اور محل کے مطابق ہو، اگر وہ حکمت اور دانائی کی روح اپنے اندر رکھتا ہو، پھر خواہ اس کی کوئی شکل اور کوئی صورت ہو تمہارا فرض ہے کہ اس کا م کو کرو کیونکہ وہی کام تمہارے وقار کا موجب ہے اور جو اس کے خلاف ہے اس کو مت کرو کیونکہ اس میں تمہارا وقار نہیں بلکہ بے وقاری ہے۔
(الفضل ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۳۶ئ)
؎۱ نوح: ۱۰ تا ۲۱ ؎۲ النور: ۳۲

۳۷
مالی قربانی اور سادہ زندگی کی طرف خاص توجہ کی جائے
(فرمودہ ۹؍ اکتوبر۱۹۳۶ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
تحریک جدید کا دوسرا سال عنقریب ختم ہونے والا ہے اور تیسرے سال کے متعلق چند ہفتوں تک اِنْشَائَ اللّٰہُ اعلان ہونے کو ہے اس لئے پھر ایک دفعہ میں اُن دوستوں کوجو اخلاص و تقویٰ کے ساتھ سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں ان کے فرائض کی طرف متوجہ کرتا ہوں۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ جماعت کی کثرت یا تعداد کی زیادتی سلسلہ پر اثر اندازنہیں ہوسکتی۔ ہماری کمزوری آج سے چالیس سال پہلے کے مقابلہ میں اس لحاظ سے نہیں کہ آج ہماری تعداد کم ہے آج سے چالیس سال قبل سارے ہندوستان میں شاید اتنے احمدی نہیں تھے جتنے آج اس مسجد میں بیٹھے ہیں۔ آج سے چالیس سال قبل کا زمانہ ۱۸۹۶ء کا بنتا ہے اور اُس وقت سارے ہندوستان میں شاید ہزار ڈیڑھ ہزار احمدی ہوں گے کیونکہ ۱۸۹۳ئ۔ ۱۸۹۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین چار سَو تعداد لکھی تھی اور اس لحاظ سے ۱۸۹۶ء میں اندازاً ہزار ڈیڑھ ہزار احمدی بنتے ہیں اور آج اس مسجد میں جس قدر لوگ بیٹھے ہیں وہ غالباً دو اڑھائی ہزار ہوں گے۔
پس تعداد کے لحاظ سے تو خداتعالیٰ نے ہمیں اتنی ترقی دی ہے کہ آج صرف قادیان کی جماعت اُس وقت کی ساری جماعت سے زیادہ ہے مگر اُس زمانہ میں باوجود اس کے کہ افراد تھوڑے تھے، بوجہ اس کے کہ مخالفت زیادہ تھی اور ہر فرد مظالم کا تختۂ مشق بن رہا تھا ایمان داروں کے سامنے یہ بات نئی نئی آئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مأمور کو نئے سرے سے دنیا کی ہدایت کیلئے بھیجا ہے ایمان ایک شاندار مظاہرہ کررہا تھا اور منافق بہت ہی کم تھے میں نے کہا ہے کہ بہت ہی کم تھے لیکن یہ نہیں کہا کہ بالکل ہی نہ تھے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے خود لکھا ہے کہ اُس زمانہ میں بھی بعض کمزور طبائع کے لوگ تھے۔ موجودہ زمانہ میں چونکہ بعض سارے کے سارے خاندان احمدی ہوچکے ہیں، ان کے ساتھ بعض ان کے رشتہ دار بھی لگے بندھے اور ان کی دیکھا دیکھی احمدی ہوگئے ہیں، پھر نئے نئے بچے پید اہوتے ہیں جن کی تربیت کی طرف ان کے والدین کوئی توجہ نہیں کرتے اور وہ صرف اس وجہ سے احمدی ہیں کہ ان کے ماں باپ احمدی تھے ورنہ وہ سوچ سمجھ کر تحقیق کرکے جماعت احمدیہ میں شامل نہیں ہوئے۔
پھر یُوں بھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں وضاحت فرمائی ہے جب جماعتیں ترقی کرتی ہیں تو بعض دفعہ قربانیوں کے مطالبہ میں زیادتی کی وجہ سے کمزور لوگوں میں منافقت پیدا ہونے لگ جاتی ہے۔ ابتدائی زمانہ میں تو صرف یہی قربانی ہوتی ہے کہ بیعت کرلی اور دین کی راہ میں مالی قربانی پیش کردی یا وہ قربانی پیش کردی جو دشمن زبردستی حاصل کرتا ہے مگر جماعت کی ترقی کے بعد سینکڑوں قسم کی قربانیوں کا مطالبہ شروع ہوجاتا ہے، کچھ تمدنی ہوتی ہیں، کچھ اقتصادی، کچھ علمی ، کچھ نفسی، کچھ اخلاقی، کچھ سیاسی، کچھ اہلی جو بعض لوگوں کو ناگوار گزرتی ہیں اور اس وجہ سے نِفاق کا مادہ ان میں پیدا ہونے اور نشوونما پانے لگتا ہے پس اسی سنّت کے مطابق اب اُس وقت کی نسبت منافق زیادہ ہیں اور اس لئے تعداد کی زیادتی کے باوجود ہمارے لئے وہ امن نہیں ہے جو اُس وقت تھا۔
غرض آج ہمیں خطرہ اس طرف سے نہیں ہے کہ ہماری تعداد پہلے سے کم ہوگئی ہے بلکہ خطرہ اس امر سے ہے کہ اب منافق پہلے کی نسبت زیادہ ہیں ورنہ آج اگر جماعت آدھی یا چوتھائی حصہ رہ جائے لیکن ساتھ ہی منافقوں کی نسبت موجودہ نسبت سے کم ہوجائے تو ہماری طاقت زیادہ ہوجائے گی کم نہ ہوگی بلکہ میں تو بارہا غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ا گر ہماری تعداد سَوگُنا کم ہوجائے اور منافق بالکل نکل جائیں تو ہماری طاقت موجودہ طاقت سے سَوگُنا زیادہ ہوجائے گی۔ منافق ایک طرف تو پوشیدہ رہتا ہے اور دوسری طرف نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ ؎۱ کا نعرہ لگاتا رہتا ہے اس وجہ سے سادہ لوح مؤمن ہمیشہ ہی منافق کی چالاکی اور ہوشیاری کا شکار رہتے ہیں۔ منافق جس سے ملتا ہے پہلے اس کی نسبت تاڑتا ہے کہ یہ کس خیال کا آدمی ہے اورپھر اس سے بات کرتاہے۔
بعض منافقین کے متعلق ان کے دوستوں نے بتایا کہ ہم پندرہ بیس سال سے ان سے تعلقات رکھتے تھے مگر ان کی منافقت کا ہمیں کوئی علم نہیں ہؤا اور جب ہمیں معلوم ہؤا کہ انہوں نے بعض دوسرے لوگوں سے منافقانہ باتیں کیں توہم حیران رہ گئے۔ منافق بھی سوچ بچار کرکے دوستانے کرتا ہے بعض دفعہ وہ ایک مخلص انسان سے اس لئے دوستانہ لگالیتا ہے کہ وہ ہمیشہ میری براء ت کا گواہ رہے گا اور اس کی دوستی اور ضرورت کے موقع پر اس کی شہادت کی وجہ سے لوگ مجھ پر شک نہیں کرسکیں گے اور خیال کریں گے کہ اتنے مخلص آدمی سے تعلق رکھنے والا منافق نہیں ہوسکتا اور اگر کسی شخص نے میری منافقت کا بھانڈا پھوڑ دیا تو میں جھٹ اس مخلص کی شہادت پیش کروںگا کہ یہ شخص میرا اتنے سال سے دوست ہے اس سے میرے خیالات پوچھو اور وہ جھٹ اپنی مؤمنانہ سادگی سے کود کر آگے آجائے گا اور بڑے جوش سے میرے مخلص ہونے کی گواہی دے گا۔ ایسے آدمیوں کو چھوڑ کر وہ دوسرے لوگوں سے ان کے خیالات کے مطابق منافقانہ گفتگو کرتے ہیں۔ مثلاً ایک منافق کو اگر ایک دوسرے شخص کی نسبت جوہو تو مخلص لیکن کمزوری کی وجہ سے منافق کا اثر قبول کرنے کیلئے تیار ہو یہ معلوم ہو کہ اُسے نظام سلسلہ سے کوئی شکوہ ہے لیکن ساتھ ہی وہ خلیفہ سے اخلاص رکھتاہے تو وہ جھٹ اُسے جاکر ملے گا اور یوں بات شروع کرے گا کہ کیا کِیا جائے خلیفہ تک تو کوئی بات پہنچنے ہی نہیں دیتا اگر ان تک بات پہنچے تو وہ ایک منٹ میں انصاف کردیں مگر مشکل تو یہ ہے کہ ان تک بات پہنچتی ہی نہیں اور یہ درمیانی افسر غریبوں پر ظلم کرتے چلے جاتے ہیں۔ سننے والا چونکہ نظامِ سلسلہ سے ٹھوکر کھائے ہوئے ہوتا ہے اور اُس کی امیدیں خلافت کے وجود سے وابستہ ہورہی ہوتی ہیں وہ اس کلام میں نظام پر حملہ اِس قدر محسوس نہیں کرتا جس قدر خلافت سے عقیدت کا اظہار اُسے نظر آتا ہے اور چونکہ وہ خود بھی اُس وقت اِسی رائے کا ہوتا ہے وہ اس منافق کو عقلمند مخلص سمجھتے ہوئے اُس کی محبت کو اختیار کرلیتا ہے یہاں تک کہ کچھ دنوں میں نِفاق کا زہر اُس کے ایمان کے تریاق کو بھی ضائع کردیتا ہے اور یہ کمزور مخلص ایک دن اپنے آپ کو خالص منافق پاتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر اسی منافق کو کسی ایسے شخص کا علم ہوتا ہے جسے کسی وجہ سے خلافت سے کچھ بدظنی ہوجاتی ہے تو یہ دَوڑ کر اُس کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ پہلے توبچ بچ کر شبہات ظاہر کرتا ہے، کبھی کہتاہے خلافت برحق مگر موجودہ خلیفہ کی طبیعت ذرا نازک ہے، کبھی کہتا ہے خلیفہ اوّل بہت متقی انسان تھے، کبھی کہتا ہے وہ بہت سادہ تھے، پھر آہستہ آہستہ جب وہ اس شخص کے ایمان کو کمزور کرلیتا ہے تو کھلے طور پر کہہ دیتاہے کہ اجی! ناظر اور دوسرا عملہ کیا کرے خلیفہ صاحب کسی کی بات تو سنتے نہیں اور اگر کوئی حق بات کہہ دے تو اُس کی شامت آجائے۔ اس پر اُلٹی جھاڑیں پڑیں اور ایسی ڈانٹ ڈپٹ ہو کہ ساری عمر یاد رکھے کیا کسی نے جماعت سے نکلنا ہے کہ خلیفہ کو جاکر سچا مشورہ دے۔
غرض وہ ہرقسم کے آدمی سے علیحدہ علیحدہ ایسی گفتگو کرتا ہے جو اُس کمزور انسان کے مرض کے مطابق ہو خواہ ایک گفتگو دوسری سے متضاد ہی ہو۔ بعض دفعہ اس منافق کی گفتگو ایسی متضاد ہوتی ہے کہ اگر دونوں شخص اکٹھے ہوکر تبادلہ خیالات کریں تو دنگ رہ جائیں کہ اس منافق نے ایک سے کیا کہا اور دوسرے سے کیا کہا۔ ایک سے تو یہ کہا کہ خلیفہ بیچارہ کیاکرے اُس تک تو ناظر بات نہیں پہنچنے دیتے ورنہ وہ تو انصاف دینے پر تیار رہتا ہے اور دوسرے سے یہ کہا کہ کارکن تو نہایت اچھے ہیں لیکن ان کی کوئی سنتا ہی نہیں۔ ناظر بیچارے کئی دفعہ سچ کہنے کی کوشش کرتے ہیں مگر فوراً ڈانٹ پڑجاتی ہے۔
غرض منافق کی چال ہر جگہ بدلتی رہتی ہے وہ جانتا ہے کہ جن مؤمنوں سے وہ علیحدہ علیحدہ گفتگو کرتا ہے وہ اکٹھے ہوکر تو کبھی اُس کی گفتگو دُہرائیں گے نہیں اس لئے اس کا بھید نہیں کھل سکے گا اور اگر وہ کبھی اکٹھے ہوکر بات بھی کرلیں اور اس کی شرارت کا بھانڈا پھوٹ جائے تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ پھر یہ قسمیں کھاکھا کر اور جھوٹ بول بول کراپنے عیب پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ اِن دنوں بھی منافقوں کا یہی رویہ ہے اگر وہ پکڑے جائیں تو جھٹ قسمیں کھانے لگ جاتے ہیں کہ اصل میں غلط فہمی ہوگئی میں نے کچھ اور کہا تھا۔ لیکن جب یہ بہانہ بھی نہ چلے اور الزام ثابت ہوجائیں تو پھر جو چھوٹا الزام ہو اُسے تسلیم کرلیں گے مثلاً اوپر کی مثال میں یہ تسلیم کرلیں گے کہ ہاں ہم نے ناظروں کے خلاف کہا تھا خلیفہ کے خلاف نہیں کہا اور اُس شخص کو مخاطب کرکے جس کے سامنے ناظروں کی شکایت او رخلیفہ کی براء ت کی تھی چلاّنے لگ جائیں گے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے خلیفہ سے کس قدر اُنس ہے ان صاحب کو غلط فہمی لگ گئی ہے ورنہ یہ تو بے شک خلیفہ کے خلاف باتیں کہہ رہے تھے لیکن میں اس کی تردید کرتا چلا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ نہیں سب قصور ناظروں اور دوسرے افسروں کا ہے اور وہ بیچارہ شخص بھی اپنے تجربہ کی بناء پر جو درحقیقت تجربہ نہ تھا فریب تھا شہادت دینے لگ جائے گا۔ قرآن کریم میں منافق کی علامت یہ بتائی ہے کہ وہ حلاّف اورجھوٹا ہوتا ہے یعنی جھوٹ بھی خوب بولتا ہے لیکن پھر جھوٹ پر پردہ ڈالنے کیلئے قسمیں بھی خوب کھاتا ہے۔
میں نے شروع میںہی بتایا تھا کہ تحریک جدید کے متعلق منافقوں میں چہ میگوئیاں ہوں گی کیونکہ منافق زیادہ قربانیوں کی برداشت نہیں کرسکتا مثلاً منافق کہیں گے کہ انجمن کی مالی حالت اس قدر خراب ہے اور اس پرتحریک جدید کے چندے اسے اور بگاڑ رہے ہیں۔ چنانچہ مجھے ابھی بعض لوگوں کی نسبت جو معزز اور باوقار سمجھے جاتے ہیں اور جنہیں لوگ معتبر اور دیانتدار خیال کرتے ہیں اطلاع ملی ہے کہ وہ اپنی مجلس میں ذکر کررہے تھے کہ اِس زمانہ میں تحریک جدید کو جاری کرکے انجمن کی مالی حالت اور خراب کردی گئی ہے کیونکہ اِس کی وجہ سے لوگ عام چندے ادا نہیں کرسکتے۔ ان کا پہلا جھوٹ تو انجمن کے رجسٹر دیکھنے سے معلوم ہوسکتا ہے کیونکہ رجسٹروں سے پتہ چلتا ہے کہ انجمن کی آمد آگے سے زیادہ ہے اگر قرضہ ہے تو اِس وجہ سے کہ اخراجات آمد کی زیادتی سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ آمد پہلے سے کم ہوگئی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ قریب کے سالوں میں عموماً جھٹ پٹ آمد میں کمی آنے لگتی تھی مگر اب متواتر کئی سال سے آمد ایک ہی سطح پر قائم ہے اِلَّا مَاشَائَ اللّٰہُ کسی ہفتہ یا مہینہ میں کوئی کمی ہو کیونکہ جولوگ قربانی کے عادی ہو جاتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ قربانی کرتے ہیں اس لئے تحریک جدید نے آمد میں کمی نہیں کی بلکہ زیادتی کی ہے یا کم سے کم اسے ایک ہی سطح پرقائم کردیا ہے۔
پھر جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ پر اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا تحریک جدید طَوعی ہے اس میں حصہ لینے کیلئے کسی کو مجبور نہیں کیاجاتا بلکہ اُن ہی سے اس کاچندہ لیا جاتا ہے جو خوشی سے ادا کریں اور انجمن کے چندے بھی باقاعدہ اد اکریں بلکہ گزشتہ سال کئی لوگوں نے یہ بات پیش کی تھی کہ ہم نے تحریک جدید کا وعدہ لکھایا تھا مگر اُس وقت ہمیں اپنی طاقت کا علم نہ تھا اب ہم محسوس کرتے ہیں کہ اگر تحریک جدید کا چندہ اد اکریں تو انجمن کے چندے ادا نہیں کرسکیں گے اس لئے ہمیں تحریک جدید کا چندہ معاف کردیا جائے تو اُن کا تحریک جدید کا چندہ معاف کردیا گیا۔ مگر منافق کیلئے ان دلائل کا بیان کرنا فضول ہے کیونکہ منافق کو دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی اور جب اُس کے اعتراض کا جواب دے دیا جائے تو اوّل تو وہ کہہ دیتا ہے کہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں میں نے تو اعتراض ہی نہیں کیا پھر اگر ثابت کردیاجائے کہ اُس نے اعتراض کیا تھا تو وہ یہ کہہ دیتا ہے کہ غلط فہمی ہوگئی میرا مطلب کچھ اور تھا۔ پھراگر یہ بھی ثابت کردیاجائے کہ جو کچھ اُس نے کہاتھا اس کے متعلق کوئی غلط فہمی ہرگز نہیں ہوئی اس کا وہی مطلب تھا جولیا گیا۔ تو پھر کہتا ہے کہ میںنے کہا تو تھا مگر اب جو آپ نے جوابات دیئے ہیں ان سے میری پوری تشفی ہوگئی ہے اور میرا ایمان دوبارہ تازہ ہوگیا ہے اور یہ فقرہ اتنی بار دُہراتا ہے کہ سادہ لوح مؤمن بھی سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہمارے امام کی زبان میں کس قدر تأثیر ہے کہ اس گمراہ شُدہ انسان کا ایمان پھر تازہ ہوگیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ان تازہ جھوٹوں اور جھوٹی قسموں سے اُس کے اندر اگر کوئی ذرّہ ایمان کا تھا بھی تو وہ بھی ضائع ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کے بعد جب یہ منافق اپنے احباب کی مجلس میں جاتا ہے تو کہتا ہے کہ جی! کیا کریں گزارہ جو کرنا ہوا اور ان اشخاص کو گالیاں دینے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے جنہوں نے اس کا بھانڈا پھوڑا تھا او رکہتا ہے کہ مجھے معلوم تھا کہ یہ خبیث ایسا بے وفا نکلے گا اس چغلخور کو چغلی کرتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی او راس کے ساتھ منافق سر ہِلاتے ہوئے اُس کی ہاں میں ہاں ملائیں گے اور کہیں گے کہ آجکل کا زمانہ ہی ایسا گندہ ہوگیا ہے اب تو سگے بھائی پر بھی انسان اعتبار نہیں کرسکتا اور ان بدمعاشوں میں سے کوئی بھی تو یہ محسوس نہیں کرے گا کہ خبیث وہ خود ہیں، بے وفا وہ خود ہیں، چغل خور وہ خودہیں اور بے اعتبار وہ خود ہیں۔
درحقیقت منافق کی مثال شتر مرغ کی ہوتی ہے جسے کسی نے کہا تھا کہ آئو تم پر بوجھ لادیں تو اُس نے کہا کہ کبھی مرغوں پر بھی بوجھ لادا جاتا ہے اور جب اُسے کہاگیا کہ اگر تم مرغ ہو تو پھر اُڑتے کیوں نہیں تو اُس نے جواب دیا کہ کبھی اُونٹ بھی اُڑا کرتے ہیں۔ تو منافق شتر بھی ہوتا ہے اور مرغ بھی۔ اگر اُس کے ایک دعوے کی بناء پر اُس پر اعتراض کیا جائے تو وہ دوسرے دعوے کی پناہ لے لیتا ہے اور اگر دوسرے دعوے کی بناء پر اس پر اعتراض کیا جائے تو وہ پہلے کی یا پھر ایک تیسرے دعوے کی پناہ لے لیتا ہے اُس پر وعظ و نصیحت کاکوئی اثر نہیں ہوتا۔ ہر گرفت پر اُس کا پہلا جواب تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور جب دلیل سے ثابت کردیا جائے کہ جو الزام لگایا گیا اُس کے مطابق ہی اس نے گفتگو کی تھی تو اس کا دوسرا جواب یہ ہوتا ہے کہ اب مجھے یاد آگیا ہے کہ بے شک میں نے ایسا ہی کہا تھا مگر میرا مطلب اس سے یہ نہیں تھا جو سمجھا گیا ہے اور جب یہ بھی ثابت کردیاجائے کہ اس کا مطلب بھی اس گفتگو سے یہی تھا تو تیسرا جواب اُس کا یہ ہوتا ہے کہ میرا مطلب اعتراض کا نہیں تھا بلکہ سمجھنے کا تھا اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہ اب میں سمجھ گیا ہوں اور میرا ایمان تازہ ہوگیا ہے بلکہ میری اِس گفتگوکی وجہ سے کئی اور میرے جیسے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچ گیا ہوگا جن کے دلوں میں بھی ایسے خیالات پیدا ہورہے ہوں گے۔ اگر اس طرح سوال نہ کیا جائے تو معارف بھی تو نہیں کھلتے اور ایمان کو تازگی بھی حاصل نہیں ہوتی۔ غرض اعتراض سوال بن جاتا ہے اور منافقت دوسروں کے ایمان کو تازہ کرنے کے ذریعہ کا نام پاتی ہے۔ مگر منافق ہر موقع پر جھوٹ بولتا ہے اور اس پر حُسنِ ظن رکھنے والا مطمئن ہو جاتا ہے کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہ اب اس شخص کی تسلی ہوگئی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جتنی سفارشیں منافقوں کی میرے پاس آتی ہیں اتنی مخلص محتاجوں کی سفارشیں نہیں آتیں۔ محلہ میں مخلص حاجت مند ہوتے ہیں، بیوائیں مصیبت میں ہوتی ہیں، یتیم آوارہ پھر رہے ہوتے ہیں، مگر کوئی خبر نہیں لیتا لیکن اِدھر کسی منافق کے متعلق کوئی سوال اُٹھا اور اُدھر بڑے بڑے ثقہ اور وزنی آدمی سفارشوں پر سفارشیں لئے آتے ہیں۔ ملاقاتوں اور چٹھیوں کے ذریعہ ناک میں دم کردیتے ہیں ۔ کئی توکہتے ہیں کہ اس کے متعلق غلط فہمی ہوگئی ہے۔ کئی کہتے ہیں کہ اب اِس نے سچی توبہ کرلی ہے اور اتنا کوئی نہیں سوچتا توبہ تو وہ نعمت ہے کہ معمولی مؤمن کو بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔ پھر اُس شخص کو اِس قدر جلدی نایاب تحفہ خداتعالیٰ کی طرف سے کسی طرح حاصل ہؤا کہ جس کی نسبت قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ دوزخ کے سب سے نچلے حصہ میں رکھے جائیں گے اور وہ سادہ لوح مؤمن جو منافقوں کی اِس رنگ میں سفارش کرتے ہیں کہ یہ منافق ہی نہیں ان کے بارہ میں غلط فہمی ہوگئی ہے کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہر شخص جس پر منافقت کاالزام لگا ہے بری ہوتاہے تو وہ منافق کہاں ہیں جن کی نسبت خدا اور اس کے رسول کے کلام میں کثرت سے خبر دی گئی ہے۔ ان سادہ لوح مؤمنوں کی مثال اُن غیراحمدیوں کی سی ہوتی ہے جو قرآن کریم میں یہ تو پڑھتے ہیں کہ ہر قوم میں خدا کا نبی گزرا ہے لیکن جب کوئی حضرت کرشنؑ یا حضرت رام چندر ؑجی کو نبی کہہ دے تو آگ بگولہ ہوجاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ آخر قرآ ن کریم کے اِس دعویٰ کی تصدیق کسی مثال سے ہی ہوسکتی ہے ورنہ اِس صداقت کے بیان کرنے سے فائدہ کیا ہوا۔
غرض قسم کھا کر الزام کو دور کرنا اور بالکل پکڑے جانے کی صورت میں جھٹ توبہ کا اظہار کرنا تو منافق کے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے اس سے دھوکا کھانا تو ایک مؤمن کیلئے ناممکن ہونا چاہئے۔ منافق تو جب دیکھتا ہے کہ اُس کا جُرم ظاہر ہوگیا تو فوراً بھاگتا ہے اور معافی مانگتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کی جنگ سے جب واپس لَوٹے تو منافقین فوراً حاضر ہوئے اور معذرتیں کرنے لگے اور درخواست کرنے لگے کہ ہمیں معاف کردیں اور لِلّٰہ ابھی ہاتھ اٹھا کر دعا کردیں ؎۲ ۔ دیکھنے والا تو خیال کرتا ہے کہ یہ کتنے مخلص لوگ ہیں یہ نہیں چاہتے کہ ایک منٹ بھی اس حالت میں رہیں لیکن درحقیقت اُن کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ بات یہی ختم ہوجائے اور مزید تحقیقات نہ ہو لیکن مؤمن ایسی بناوٹی معذرت سے ہچکچاتا ہے۔
احادیث میں آتاہے کہ تین مؤمن بھی اس جنگ میں شامل نہ ہوئے تھے ان میں سے ایک کا طویل بیان احادیث میں آتاہے وہ فرماتے ہیں کہ جب میں رسول کریم ﷺ کی واپسی کے بعد آپ کے پاس پہنچا تو میںنے لوگوں سے دریافت کیا کہ سنائو پیچھے رہنے والے اور بھی کوئی آئے ہیں یانہیں اور انہوںنے کیا کیا طریق معذرت کااختیار کیا ہے اور ان سے کیا سلوک ہؤا ہے؟ انہوںنے بتایا کہ لوگ آتے ہی عذر معذرت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! ہماری معافی کیلئے دعاکردیں تو آپ ان کیلئے دعا کردیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مجھے خیال آیا کہ میں بھی کوئی عذر کردوں اور سرزنش سے چھوٹ جائوں مگر پھر مجھے کچھ خیال آگیا اور میںنے صحابہؓ سے پوچھا کہ کون کون لوگ آچکے ہیں؟ انہوں نے نا م لئے تو سب منافق تھے صرف دومؤمنوں کا نام انہوںنے لیا اور بتایا کہ انہوں نے کوئی عذر نہیں کیا بلکہ اپنی غلطی کا اقرار کیا ہے۔ تب میں نے دل میں کہا کہ میں منافقوں کے ساتھ کیوں شامل ہوں بہتر ہے کہ ایسے عذر پیش کرنے کی بجائے جو حقیقتاً عذر نہیں کہلاسکتے صاف کہہ دوں کہ غلطی ہوگئی ہے آپ جو چاہیں مجھ سے معاملہ کریں۔ چنانچہ یہ خیال آنے پر میں نے اقرار جُرم کا فیصلہ کرلیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے منافقوں کے ساتھ شامل ہونے سے بچالیا۔ چنانچہ میں گیا اور رسول کریم ﷺ سے صاف طور پر کہہ دیا کہ میری سُستی اور غفلت تھی کہ میں غزوہ میں شامل نہ ہؤا ورنہ کوئی حقیقی عذر نہیں تھا۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم تمہارے متعلق نہ آئے تم سے قطع تعلق کیا جائے گا۔ اِس صحابی کا نام کعب بن مالک تھا وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں اس حکم سے سخت تکلیف پہنچی کیونکہ مدینہ میں سب مسلمان ہی تھی اورجو منافق تھے ان میں سے بھی کسی کو جرأت نہ تھی کہ ان سے بات چیت کرے یہاں تومیں نے دیکھا ہے کہ جن لوگوں سے بات چیت منع ہے وہ محلوں میں احمدیوں کے مکانوں پر بھی چلے جاتے ہیں محلے والے معلوم نہیں سوئے رہتے ہیں کہ ان کو پتہ ہی نہیں لگتا۔ یہاں کے بعض احمدی سانپوں کوپالتے ہیں مگر وہ یاد رکھیں کہ یہ سانپ نہ خدا کو ڈس سکتے ہیں نہ اُس کے رسول کو او رنہ خلیفہ کو۔ یہ انہی کو ڈسیں گے جو اِن کو پالتے ہیں۔ ہم تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے محفوظ ہیں کیونکہ جسے اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں لے لے اُسے کون ڈس سکتا ہے یہ اِنہیں کو ڈسیں گے جنہیں وہ ڈس سکتے ہیں اور افسوس کہ وہ دیکھتے ہوئے ان سانپوں کی حرکات پر اغماض سے کام لیتے ہیں۔ غرض مدینہ میں کوئی منافق بھی ان سے بات چیت نہ کرسکتا تھا۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس حکم کے چند دن کے بعد معلوم ہؤا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ بیوی بچے بھی ان لوگوں سے جُدا ہوجائیں۔ ہم تینوں میں سے ایک صحابی بوڑھے تھے ان کی بیوی رسول کریم ﷺ کے پاس گئی اور عرض کیا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میرا خاوند تو پہلے ہی مرچکاہے نہ کھانا کھاتا ہے نہ سوتا ہے پھر بوجہ ضعیف ال￿عمر ہونے کے ہر وقت مدد کا محتاج ہے، میاں بیوی کے تعلقات کے قابل تو وہ پہلے ہی نہ تھا اگر آپ اجازت دیں تو میں کھانے پینے میں اُس کی مدد کروں۔ آپ نے فرمایا اچھا اتنی اجازت ہے۔ اس پر مجھے خیال آیا کہ میں بھی کیوں نہ اپنے لئے ایسی اجازت حاصل کرنے کا انتظام کروں مگر پھر خیال آیا کہ وہ بوڑھا ہے میں جوان ہوں میرے لئے ایسا کرنا مناسب نہیں۔ اس پر میں نے بیوی سے کہاکہ تُو میکے چلی جا ایسا نہ ہو کہ میں تجھے بُلائوں اور تُو جواب دے دے۔ مجھے کسی اور کے متعلق تو خیال ہی نہ تھا کہ مجھ سے بات چیت کرے ۔ ہاں رسول کریم ﷺ کی محبت اور شفقت کی وجہ سے خیال تھا کہ میرے درد کو دیکھ کر آپ کو ضرور رحم آئے گا۔ اس لئے میں آپ کی مجلس میں جاتا اور زور سے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا او رپھر دیکھتا کہ آپ کے ہونٹ حرکت کرتے ہیں یا نہیں مگر آپ جواب نہ دیتے اور میں گھبراہٹ میں اُٹھ آتا اور خیال کرتا کہ آپ کے ہونٹ ہلے ہوں گے مگر میں دیکھ نہیں سکا اس لئے مجلس سے اُٹھ کر چلا جاتا اور پھر لَوٹ کر آکر زور سے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ کر پھر ہونٹوں کی طرف دیکھتا اور پھر اُٹھ آتا اور پھر جاتا مگر آپ جواب نہ دیتے ہاں کنکھیوں سے کبھی کبھی میری طرف دیکھ لیتے۔ وہ کہتے ہیں جب بہت دن گزرگئے تو میں اپنے چچیرے بھائی کے پاس جن کے ساتھ میں ہمیشہ کھاتا پیتا اور رہتا سہتا تھا گیا وہ اپنے باغ میں کام کررہا تھا۔ میں نے اُسے کہا کہ اے بھائی! تُو میرا محرم رازہے ہم دونوںہمیشہ اکٹھے رہے ہیں اور ہماری کوئی بات ایک دوسرے سے پوشیدہ نہیں تجھے خوب معلوم ہے کہ میں مخلص مسلمان ہوں اور نفاق کی کوئی رگ مجھ میںنہیں میں آج گھبراہٹ میں تجھ سے پوچھنے آیا ہوں کہ بتائو کیا مَیں منافق ہوں؟ مگر اُ س نے کوئی جواب نہ دیا اور صرف آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا جس سے اُس کا مطلب یہ تھا کہ خدا اور اُس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایسے بھائی نے جو میرا محرم راز تھا مجھے یہ جواب دیاتو میں نے محسوس کیا کہ زمین مجھ پر تنگ ہوگئی ہے اور میں گھبراکر باغ کی دیوار پھاند کرباہر آگیا اور دیوانہ وار شہر کی طرف چل پڑا۔ جب شہر کے پاس پہنچا تو ایک شخص میرے قریب آیا اور پوچھا کہ کیاں تُو فلاں شخص ہے؟ میں نے کہاں ہاں تو اُس نے مجھے ایک خط دیا کہ یہ فلاںبادشاہ نے بھیجا ہے یہ ایک عرب کا عیسائی بادشاہ تھا جو رومی حکومت کے ماتحت تھا۔ میں نے کھول کر پڑھا تو اُس میں لکھا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ تم عرب کے رئیس ہو اور تمہیں محمد(ﷺ) نے ذلیل کیا ہے حالانکہ تمہاری قدر کرنی چاہئے تھی اگر تم میرے پاس آجائو تو میں تمہارے شایانِ شان تم سے سلوک کروں گا۔ مالکؓ کہتے ہیں کہ میرے بھائی نے مجھے جو جواب دیا تھا اُس سے میرا دل اُلٹ رہا تھا وہ خط دیکھ کر مجھ پر سکتہ کی حالت طاری ہوگئی اور میں نے سوچا کہ یہ شیطان کا آخری حملہ ہے ایسا نہ ہو کہ میرے قدم لڑکھڑا جائیں اور میں نے اُس قاصد سے کہا کہ میرے پیچھے آئو۔ ایک جگہ ایک آدمی بھٹی جلا رہا تھا میں نے اُس خط کو پُرزے کرکے اُس میں ڈال دیا اور اُس سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے کہہ دینا کہ اِس کا جواب یہ ہے۔ یہ ان کے ابتلاء اورمصیبت کی آخری گھڑیاں تھیں۔ آخر اللہ تعالیٰ نے رحم کیااور رسول کریم ﷺ کو فرمایا کہ ان کی غلطی معاف کردی جائے ؎۳ ۔ تو مؤمن ا س قسم کی توبہ نہیں کرتا جیسی کہ منافق کرتاہے (اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو میں کسی آئندہ خطبہ میں یہ بتائوں گا کہ مؤمن کی توبہ او رمنافق کی توبہ میں کیا فرق ہوتا ہے کہ ایک کو سچا تسلیم کیاجاتا ہے اور دوسری کو جھوٹا کہا جاتا ہے اور کیوں ایک کو فوراً توبہ کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے اور دوسرے کی فوری توبہ کو منافقت کی علامت قرار دیا جاتا ہے)۔ مؤمن اگر غفلت کرے تو سزا کیلئے ہر وقت تیار رہتا ہے وہ جانتا ہے کہ اصل معافی تو تکلیف اور قربانی کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے لیکن منافق جھٹ معذرت کرتاہے۔ اُس کا پہلا پینترا یہ ہوتا ہے کہ بالکل غلط ہے دوسرا یہ کہ ہاں یاد آگیا میں نے کہا تھا اور تیسرا یہ کہ اب میری تسلی ہوگئی ہے کمزوری کی گھڑیاں بھی انسان پر آہی جاتی ہیں اب پھر میرا ایمان تازہ ہوگیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ایمان کبھی اُس کے دل میں تھا ہی نہیں۔ یا اگر کبھی تھا تو مدت ہوئی رُخصت ہوچکا ہے مگرمنہ سے وہ روز اُسے تازہ کرتا ہے۔ پس مؤمن اورمنافق میں یہ فرق ہے کہ مؤمن غلطی کرتا ہے تو سزا کو برداشت کرتا ہے مگر منافق جھوٹ بولتا اور معذرتیں کرتاہے۔ منافق کو پکڑنامشکل نہیں مگر اس کیلئے دانائی اور بیدارمغزی کی ضرورت ہے جو افسوس ہے کہ ہمارے دوستوں میں بہت کم ہے اگر کبھی میں منافقین کیلئے سفارش کرنے والوں کے نام اُن بورڈوں پر لکھوادوں جو امورعامہ نے لگوارکھے ہیں تو دوست حیران رہ جائیں گے کہ کیا سب کو انہی سے اخلاص تھا۔
بعض حالات میں مَیں جانتا ہوں کہ یہ اُس منافق کی چالبازی کا نتیجہ ہوتا ہے اور چونکہ روشن دماغی اِن دنوں کم ہے اس لئے دوست اس کے قابومیںآجاتے ہیں۔ ان کے عقل کا توازن خراب کرنے کیلئے دو آنسو گِرادینا دو سرد آہیں بھرلینا یادو قسموں کاکھالینا کافی ہوتا ہے پھر وہ جو کہے درست مان لیتے ہیں۔
تومنافق اعتراض کرتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ ایسی جگہ جہاں کوئی جواب دینے والا نہ ہو ۔ ورنہ جواب دے سکنے والوں کے سامنے وہ ایک اعتراض بھی کرکے دیکھیں پھرانہیں معلوم ہو کہ کس طرح انہیں جوتے اُٹھا کربھاگنا پڑتا ہے۔
ہم نے ایک کام کرنا ہے بلکہ ہم نے کیا ہمارے خدا نے کرنا ہے اور اس کیلئے ہم تو ایسے ہی ہیں جیسے روٹی پکانے والا اُپلے استعمال کرتا ہے۔ اُپلے کی حیثیت سوائے اِس کے کیا ہے کہ وہ جلتا ہے اور راکھ ہوجاتا ہے۔ پس انسان تو محض واسطہ بنتا ہے ورنہ جس حقیقت کو اللہ تعالیٰ قائم کرنا چاہتاہے وہ اجسام سے تعلق ہی نہیں رکھتی انسان کا تعلق تو اس سے صرف اتنا ہی ہوتاہے جتناروٹی پکانے کیلئے اُپلے کا۔ ورنہ جو کام خداتعالیٰ نے کرنا ہے اُسے کوئی روک نہیں سکتا۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر میں مؤمنوں کو بیدارکرنا چھوڑ دوں تو یہ کام رُک جائے گا، یا اگر غافلوںکو چُست کرنا چھوڑ دوں تو یہ کام نہ ہوگا، اگر سوتوں کوبیدار نہ کروں تو یہ کام رہ جائے گا؟ ہرگز نہیں۔ وہ میر ی یا کسی اور کی ذات سے تعلق نہیں رکھتا وہ ہرحال میںہوگا مگر انسان حریص ہوتا ہے کہ وہ اور اُس کے دوست فائدہ اُٹھائیں اس لئے میں چاہتاہوں اور کوشش کرتاہوں کہ مجھے بھی اور میرے دوستوں کوبھی اس میں خدمت کا موقع مل جائے اور خداتعالیٰ کی رحمت کانزول ہم پر بھی ہوجائے۔ اس سلسلہ میں وعظ و نصیحت کا یہی مطلب ہے کہ جیسے کوئی خزانہ لُٹا نے لگا ہو تو ایک دوست جسے اس کا علم ہوجائے وہ دوسرے دوستوں کوبھی اطلاع کردے کہ آکر جھولیاں بھرلو۔
رسول کریم ﷺ نے صحابہؓ سے ایک بیعت رضوان لی تھی جو ایک بیری کے درخت کے نیچے لی گئی تھی اس کی تفصیل یہ ہے کہ آپؐ نے حضرت عثمانؓ کو صلح کا پیغام دے کر مکہ بھیجا تھا وہاں ان کے دوستوں اور رشتہ داروں نے ان کو ٹھہرالیا اور یوں مصالحت کی باتیں بھی لمبی ہوگئیں اس لئے جس وقت تک ان کی واپسی کا اندازہ تھا (ضمناً میں حضرت عثمانؓ کے اخلاص کا ذکر بھی کردیتا ہوں۔ حضرت عثمانؓ جب مکہ میں گئے تو ان کے دوستوں نے کہا کہ اب آپ آ تو گئے ہیں عمرہ کرلیں۔ انہوںنے جواب دیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تمہاری فوجیں رسول کریم ﷺ کو تو باہر روکے ہوئے ہوں اور میں عمرہ کرلوں۔ میں اگر کروںگا تو آپؐ کے ساتھ کروں گا ورنہ نہیں)۔ تو اُدھر ان کی واپسی میں دیرہوئی اور اِدھر بعض شرارت پسندوں نے مشہور کردیا کہ حضرت عثمانؓ قتل کردیئے گئے ہیں او رمنافقوںنے جھٹ یہ خبر پھیلادی تا رسول کریم جوش میں آکر حملہ کردیں۔ مگر آپ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے حملہ تو نہ کیا مگر چونکہ ہوشیاررہنا ضروری تھا آپ نے صحابہؓ کوجمع کیا اور فرمایا کہ میں تم سے بیعت لینا چاہتا ہوں۔ یہ بیعت اسلام کی بیعت کے علاوہ ہوگی اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت عثمانؓ جومیرے ایلچی تھے شہید ہوگئے ہیں تو ہم ان کے قاتلوں سے جنگ کریں گے اور آپ لوگوں میں سے جو چاہیں میرے ہاتھ پر اِس وقت بیعت کریں کہ اگر ایسی جنگ ہمیں کرنی پڑی تو وہ میدانِ جنگ سے بھاگے گا نہیں بلکہ فتح کے بغیر لَوٹے گا نہیں ( اِس بیعت کوبیعتِ رضوان کے علاوہ موت کی بیعت بھی کہتے ہیں)۔ صحابہ آئے اور بیعت کیلئے ایک دوسرے پر گِرنے لگے حتّٰی کہ بعض کو تو اتنا جوش تھا کہ وہ تلوار سے دوسرے کو پیچھے ہٹا کر خود بیعت کیلئے آگے بڑھنا چاہتے تھے ۔ اتفاقاًحضرت عمرؓ اُس وقت کہیں اِدھر اُدھر ہوگئے تھے لیکن ان کے لڑکے عبداللہ بن عمرؓ موجود تھے انہوں نے خود ایک موقع پر بیان کیا کہ ایک نیکی میں اگر مَیں چاہتا تو اپنے باپ سے آگے بڑھ جاتا اور وہ موقع بیتِ رضوان کا تھا۔ جب یہ بیعت شروع ہوئی تو میں نے اِدھر اُدھر دیکھا حضرت عمرؓ وہاں موجود نہ تھے میں ان کی تلاش میں چلا گیا اور جب تلاش کرکے لایا تو اُس وقت بہت سے لوگ بیعت کرچکے تھے میں اگر اپنے باپ کوشریک کرنے کی کوشش نہ کرتا تو سابقون میں ہوتا۔ تو مؤمن ضرور کوشش کرتا ہے کہ عزیز و اَقرباء کو نیکی میں شریک کرے ورنہ خدا تعالیٰ کے کام نہ کسی کے شریک ہونے سے مکمل ہوتے ہیں اورنہ کسی کے شریک نہ ہونے سے رہ جاتے ہیں۔
کئی منافق طبع اور کمزور ایمان والے یہ کہہ دیں گے کہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ روپیہ کے بغیر یا آدمیوں کے بغیر کام ہوجائے اور میں تصدیق کرتا ہوں کہ ان کا یہ اعتراض صحیح ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا تمہارا دیکھا ہی سب کچھ ہے اور اگر تمہیں اس میدان کی خبر ہو جو روحانیت کا میدان ہے تو تمہیں پتہ لگے کہ وہاں یہ سوال نہیں ہوتا۔ انسان ایک رئویا دیکھتا ہے کہ وہ آسمان پرہے اور خد اکے حضور پیش ہے مگر تمہیں کیا نظر آتاہے صرف یہی کہ وہ خراٹے لے رہا ہے۔ اسی طرح روحانیت کے مقام کی اس شخص کو کیا خبرہوسکتی ہے جو وہاں گیا ہی نہیں۔ تم بے شک کہہ سکتے ہو کہ جب ہم نے دیکھاہی نہیں تو کیسے مان لیں۔ مگر یہ بھی تو سوچو کہ وہ روپیہ اور وہ آدمی کہاں سے آتے ہیں جس سے کام ہوتا ہے۔ جس کی عقل ہو وہ جانتا ہے کہ خدا ہی لاتا ہے پھر وہ آدمی کہاں ہوئے جو کام کرتے ہیں وہ خدا ہی ہؤا اور وہ روپیہ کہاں ہؤا وہ بھی خداہی ہوا۔ ہماری جماعت کی جو کمزور حالت ہے وہ ظاہر ہے مگر سات کروڑ مسلمانوں کا کوئی ایک بھی ادارہ ہے جس میں غرباء سے اتنا روپیہ آتا ہو جتنا ہماری جماعت جمع کرتی ہے؟ بے شک امراء کے بعض کالج وغیرہ ہیں مگر وہ بھی یا تو حکومت سے امداد لیتے ہیں یا راجوں، مہاراجوں کی مدد سے چلتے ہیں۔ افراد کی مدد ہندوستان بھر میں کسی کو اتنی نہیں ملتی حالانکہ مسلمانوں کی تعداد سات کروڑ ہے اور ہماری تعداد سرکاری مردم شماری کے مطابق پنجاب میں صرف ۵۶ ہزار اور سارے ہندوستان میں ایک لاکھ ہے۔ پھر منافق بھی شور مچاتے رہتے ہیں اور ورغلاتے رہتے ہیں مگر ہمارے دوست ہر لحاظ سے قربانی میں آگے ہی بڑھتے ہیں۔پس سوچنا چاہئے کہ یہ سب کام کون کررہا ہے دوسری انجمنوں میں سے کسی میں اگر ایک منافق بھی ہو تو وہ ٹُوٹ جاتی ہے مگر یہاں بیسیوں ہیں اُن کی سفارشیں بھی دوست کرتے ہیں ، تائیدیں بھی کرتے ہیں اور اُن کی باتیں بھی سنتے ہیں پھر بھی قربانی میں آگے ہی آگے جماعت بڑھتی جاتی ہے۔ کیا اس کے باوجود کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ کام انسان کرتے ہیں؟
کارلائل ایک انگریز جو بڑا مصنف ہے اس نے رسول کریم ﷺ کے متعلق بھی ایک مضمون لکھا ہے جس میں وہ لکھتاہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے آنحضرت ﷺ کی عزت اور عظمت ان کی تعلیم کی وجہ سے قائم نہیں ہوئی بلکہ تلوار سے قائم ہوئی ہے مگر وہ کہتا ہے اس اعتراض کی حقیقت میری سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ اس اعتراض کے ساتھ ہی ایک دوسرا سوال یہ بھی پیداہوتا ہے جس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا کہ یہ تلوار چلانے والے کہاں سے آئے تھے؟ کیا محمد (ﷺ) کوئی نسلی بادشاہ تھے کہ انہوں نے اپنی سپاہ سے اپنے ملک کو وسیع کرلیا؟ اگر نہیں توپھر سوال یہ ہے کہ محمد (ﷺ) کے پاس تلوار چلانے والے کہاں سے آئے تھے؟ وہ بہادر لوگ جنہوںنے ساری دنیا کو مار مار کر اس طرح آگے لگالیا سوچنا چاہئے کہ ان تلوار چلانے والوں کو کونسی تلوار نے فتح کیا تھا؟ اگر کہو کہ دلیل سے وہ قابو کئے گئے تھے تو پھر سوال یہ ہے کہ جس دلیل نے ان بہادروں کوقابو کیاتھا تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ وہ دلیل دوسروں کو قابو کرنے میں ناکام رہی تھی۔ کارلائل کا یہ جواب یہاں بھی چسپاں ہوتا ہے بیشک ہمارا کام بھی بظاہر آدمیوں اور روپیہ کے ذریعہ ہورہا ہے مگر ان آدمیوں اور روپیہ کو لانے کے ذرائع کو بھی تو دیکھنا چاہئے ان کو خداتعالیٰ کے سِوا کون لاتا ہے۔منافق اور بعض غیراحمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی یہ کہا کرتے تھے کہ منظم جماعت ہے اس لئے کام چل جاتا ہے مگر وہ بھی یہ نہ سوچتے تھے کہ ان لوگوں کو کون لایا جو تنظیم کے ماتحت چلنے کیلئے تیار ہوگئے ہیں۔ اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے خود ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیا ہے۔ فرماتا ہے یَنْصُرُکَ رِجَالٔ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِنَ السَّمَائِ ؎۴ ۔ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کو ہم آسمان سے وحی کریں گے۔پس جب کوئی شخص سلسلہ کی مدد کرتا ہے تو اس لئے کہ خدا کا فرشتہ اسے کہتا ہے کہ جا اور جاکر مدد کر۔ غرض ہمیں جوکچھ ملتاہے آدمیوں کا دیا ہؤا نہیں بلکہ خدا کا دیا ہؤا ہے اور ہمارے سلسلہ کے کام آدمیوں اور روپوں کے بغیر ہی چل رہے ہیں کیونکہ جس طرح وحی سے مدد کرنے والا انسان کی حیثیت سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے ہتھیار کی حیثیت سے کام کرتا ہے اِسی طرح وحی سے ملا ہؤا روپیہ نہیں صرف خداتعالیٰ کا اِذن ہے۔
غرض الہامِ الٰہی کے مطابق ہر وہ قربانی کرنے والا جو سلسلہ کی مدد کرتا ہے وہ اپنی ہر قربانی کے وقت مُل￿ہم ہوتا ہے اگر وہ ایک پیسہ بھی سلسلہ کی خدمت کیلئے دیتاہے تو چونکہ اُس وقت خداتعالیٰ کا الہام اس کے دل پر نازل ہورہا ہوتا ہے اس لئے دیتا ہے۔ پس اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی دے دیا ہؤا ہے۔ منافقوں کے ان سوالوں کا جواب دینے کے بعد میں ان مخلصوں کو توجہ دلاتاہوں جومیرے اوّل مخاطب ہیں۔ اتنی لمبی تمہید میں نے اِس لئے بیان کی ہے کہ منافق میرے مخاطب نہیں ہیں ان سے کیوں مدد لوں جن کے متعلق دل چاہتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دے تو ان کو تباہ کردے ایسے لوگ تو جب چندہ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت لے لیتا ہوں ورنہ دل تو یہی چاہتا ہے کہ واپس کردوں کہ یہ مال ہمارے لئے کسی برکت کا نہیں بلکہ نقصان کاموجب ہی ہوگا۔
پس میں مؤمنوں سے کہتا ہوں کہ کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے سامنے اللہ تعالیٰ نے بغیر روپیہ اور بغیر آدمیوں کے کام کیا ہے۔ جب جماعت میرے سپردہوئی اس وقت سترہ اٹھارہ ہزار روپیہ قرض تھا اور خزانہ میں صرف چند آنے تھے پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ثابت کردکھایا یا نہیں کہ وہ بغیر روپیہ کے بھی کام چلادیتاہے۔ اُس وقت غیرمبائعین نہایت فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے ساتھ اٹھانوے فیصدی جماعت ہے اور تمہارے ساتھ صرف دو فیصدی۔ مگر اب ان سے پوچھ کردیکھو کہ اٹھانوے فیصدی ان کے ساتھ ہے یا میرے ساتھ؟ اور اِس وقت تک ایک کروڑ کے قریب روپیہ میرے ہاتھوں سے گزرچکا ہے یہ مطلب نہیں کہ میرے ہاتھ میں آیا بلکہ انجمن میں جو بھی آتا ہے وہ میری نگرانی میں خرچ کرنے کیلئے ہی لوگ بھیجتے ہیں اِس لئے اصولی طور پر وہ میرے ہاتھ میں ہی آتا ہے۔ تین لاکھ کا عام طور پر ہمارا بجٹ ہوتاہے خاص چندے اس کے علاوہ ہوتے ہیں اور اس طرح ۲۲ سال کے عرصہ میں قریباً اسّی لاکھ روپیہ آچکاہے۔ پھر مقامی طور پر بھی جماعتیں چندے کرلیتی ہیں اور ان کی تعداد ۲۰،۲۵ لاکھ سے کم نہ ہوگی۔ پس چند آنے اور دو فیصدی آدمی میرے ہاتھ میں دے کر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں ان چند آنوں کو ایک کروڑ روپیہ سے اور دو فیصدی آدمیوں کو اٹھانوے فیصدی یا اس سے زیادہ آدمیوں سے تبدیل کردوں۔
کئی دفعہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک سادھو ایک شخص کے پاس آتا ہے اور کہتاہے کہ مجھے دس روپیہ کا نوٹ دو میں بیس کا بنادوں گا اور لوگ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ نہیں بناسکتا اسے روپیہ دے دیتے ہیں۔ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ وہ ایسا کرسکے گا پھر بھی لالچ کی وجہ سے اُس پر ایمان لے آتے ہیں مگر ان نادانوں کو دیکھو جو مجھ پر ایمان نہیں لاتے جس نے چند آنوں کو ایک کروڑ بنادیا او ردو فیصدی کواٹھانوے فیصدی میں بدل دیا اور پھر یہ سب کام ان حالات میں ہؤا کہ مخالفت کے طوفان کے بعد طوفان اُٹھتے چلے آتے تھے یہی وہ کام ہے جسے زمینی زبان میں جادو اور آسمانی زبان میں معجزہ کہتے ہیں او رمعجزہ بھی نبیوں والا معجزہ ہے جو نبیوں اور ان کے خلفاء کو ہی ملتا ہے ان کے سِوا بڑے بڑے اولیاء بھی اس سے محروم رہتے ہیں۔ کاش! لوگ آنکھیں رکھتے اور دیکھتے اور اس حقیر قربانی کو نگاہ میں نہ رکھتے جس کی توفیق ان کو یا ان کے دوستوں کوملی ہے بلکہ ان عظیم الشان نتائج کو دیکھتے جو اس حقیر قربانی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ سے ظاہر کرائے ہیں۔
میں مخلصوں کو پھر ایک بار توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے وعدوں کوپورا کریں۔ تھوڑا عرصہ ہؤا میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ اِس سال کی آمد گزشتہ سال کی اِسی تاریخ سے گیارہ ہزار کم ہے اگرچہ وعدے گزشتہ سال سے زیادہ ہیں او رتحریک کی تھی کہ دوست اِس کمی کو جلد پورا کریں اور یہ اللہ تعالیٰ کے شکر اورحمد کامقام ہے کہ اب کمی ۱۱ ہزارکے بجائے صِرف اڑھائی ہزار رہ گئی ہے (آج جب کہ میں خطبہ درست کررہا ہوں یہ کمی آٹھ سَو رہ گئی ہے)۔ مگر چونکہ اب تک بھی گزشتہ سال سے آمد کم ہے حالانکہ ۸،۱۰ ہزار کے قریب زیادہ ہونی چاہئے تھی اس لئے میں پھر احباب کو اس نقص کی طرف توجہ دلاتا ہوں مجھے افسوس ہے کہ بعض بڑی جماعتوں نے بہت لاپرواہی کی ہے مثلاً لائل پور، لاہور اورسیالکوٹ کی جماعتیںاعتراض کے نیچے آرہی ہیں بعض دیہات کی جماعتوں نے اپنی نسبت کے لحاظ سے بہت بڑے چندے دیئے ہیں۔ایک گائوں میں معمولی حیثیت کے صرف چار پانچ احمدی ہیں ایک ان میں سے شاید مدرّس یا پٹواری ہے اور باقی زمیندار ہیں مگر اُن کاچندہ ڈیڑھ سَو ہے اگر اِس نسبت سے بڑی جماعتوں کاچندہ لگایا جاتا تو وہ تین چارگُنا زیادہ ہونا چاہئے تھا۔ جب اس گائوں کے افراد کی لِسٹ میرے سامنے آئی تو میں حیران رہ گیا کہ اتنے غریب لوگوں نے ایسی تنگی کی حالت میں کس طرح ایسا اخلاص دکھایا ہے جو دوسرو ں کیلئے نمونہ ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ بعض جماعتوں نے اُس سے بہت کم قربانی کی ہے جتنی وہ کرسکتی تھیں اور پھر اُسے بھی پورا کرنے سے قاصر ہو رہی ہیں اِس لئے میں اُن کو توجہ دلاتا ہوں کہ غفلت اور سُستی کو ترک کریں۔ اب صرف دو ماہ کا عرصہ باقی رہ گیا ہے سوائے اُن کے جو اجازت لے کر میعاد میں اضافہ کرالیں۔ گو کمی پوری کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ساڑھے آٹھ ہزار کی کمی پوری کی ہے مگر پھر بھی ابھی بہت کوشش کی ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ اس لئے میں جانتا ہوں کہ جب وقت قریب آئے گا تو اللہ تعالیٰ مخلصین کے دل میں الہام کردے گا اور چندہ پورا ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا یہی وعدہ ہے اور تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ہمارے کاموں میں اکثر زیادتی ہی ہوتی ہے اِلاَّّمَاشَائَ اللّٰہُ کوئی ہی ایسا موقع ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کسی خاص مشیّت کے ماتحت کبھی کمی آئی ہو۔
پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وقت کم ہے اس لئے مالی بھی اور دوسری قربانیاں کرنے کی طرف بھی پوری پوری توجہ کریں۔خصوصاً سادہ زندگی کی طرف زیادہ توجہ کریں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سادہ زندگی کی ہدایت پر عمل کرنے میں کچھ نقص ہے ورنہ اتنا اثر چندوں پر نہ پڑتا۔ کیونکہ سادہ زندگی سے اخراجات میں جو کمی آنی چاہئے چندوں کابوجھ اس سے کم ہے اس لئے چاہئے تو یہ تھا کہ دوستوں کے پاس کچھ روپیہ جمع ہوتا مگر ایسا نہیں ہؤا ۔ سادہ زندگی کی تحریک کوئی معمولی نہیں بلکہ دراصل دنیا کے آئندہ امن کی بنیاد اِسی پر ہے۔ جب تک جماعت احمدیہ قائم رہے گی تحریک جدید بھی کسی نہ کسی شکل میں چلے گی چندہ کی شکل چند سالوں تک ختم ہوجائے اور میں کوشش کررہا ہوں کہ آمدکی مستقل صورت پید اہوجائے اور یہی وجہ ہے کہ آمد کا معتد بہ حصہ مَیں سلسلہ کیلئے جائداد بنانے پر لگارہا ہوں تا اس کی آمد سے کام چلائے جاسکیں اور چندوں کی ضرورت صرف وقتی کاموں کیلئے ہی رہے لیکن اس تحریک کے جو دوسرے حصے ہیں وہ کبھی ختم نہیں ہوسکتے خصوصاً سادہ زندگی کی تحریک جو بہت ضروری ہے یہی ہے جو امیر و غریب کاامتیاز مٹاتی ہے۔ مغربی اور مشرقی اور شہری و دیہاتی تمدن میں سوائے اِس کے کیا فرق ہے کہ گائوں کے امیر کی زندگی بھی سادہ ہوتی ہے مگر شہروں میں ایسا نہیں۔ ایک گائوں میں دو سَو ایکڑ زمین کے مالک کاتمدن بھی ایسا ہی ہوتا ہے جیسا دو ایکڑ زمین کے مالک کا۔ اور وہ دونوں دارے میں بیٹھ کر اکٹھے باتیں کرتے ہیں گو یہ ممکن ہے کہ دو ایکڑ کے مالک کو کسی وقت فاقہ کی نوبت آجاتی ہو مگر دو سَو ایکڑ کا مالک دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہو یا یہ تو دودھ پیتا اورمکھن کھاتا ہو او روہ لسّی پی کر ہی گزارہ کر لیتا ہو مگر اجزاء دونوں کی غذا کے ایک ہی ہوں گے۔ وہی ساگ پات دونوں کھائیں گے یہ نہیں کہ بڑے زمیندار کی خوراک ایسی ہو کہ وہ غریب کے گھر میں کھانا نہ کھاسکے۔
قادیان کے انہی معترضین میں سے جواعتراض کرتے رہتے ہیں ایک کے متعلق مجھے ایک لطیفہ یاد ہے۔ مجھے ایک ایسی دعوت میں جانے کا اتفاق ہؤا جہاں وہ بھی مدعو تھا۔ میزبان نے نہ معلوم اس لئے پلائو نہیں پکوایا تھا کہ وہ اس کی توفیق نہ رکھتا تھا یا یونہی اُس نے جِدت کی۔ میں نے یہ خیال کرکے کہ یہ شرمندہ نہ ہو کہا کہ یہ آپ نے بہت اچھا کیا جو پلائو نہ پکوایا مجھے تو پلائو کھانے سے بخار ہوجاتا ہے (بوجہ ضعفِ معدہ کے مجھے پلائو کھانے سے اکثر حرارت ہوجاتی ہے خصوصاً جبکہ ایک دو دعوتیں اکٹھی ہوجائیں) یہی وجہ ہے کہ میں دعوتوں میں شریک ہونے سے اکثر اجتناب کرتاہوں۔ خیر تو میں نے کہا کہ یہ پلائو کی رسم تو اُڑادینی چاہئے اور میری غرض یہی تھی کہ کوئی اور شخص بول نہ اُٹھے اور میزبان کی دِل شِکنی نہ ہو مگر اُس شخص سے نہ رہا گیا اور وہ بول اُٹھا کہ میں تو اِس دعوت کو دعوت ہی نہیں سمجھتا جس میں پلائو نہ ہو۔ میں تو تعریف کررہا تھا کہ یہ عمدہ کام ہے اور ایک غرض یہ بھی تھی کہ کوئی شخص کوئی دِل شِکنی کا کلمہ نہ کہہ دے مگر پھر بھی وہ شخص رہ نہ سکا ۔ لیکن زمینداروں میں دیکھ لو کھانے کی نوعیت میں فرق بہت کم ہوگا۔ طرزِ بود و باش ایسی ہوتی ہے کہ سب آزادی سے ایک دوسرے سے مِلتے جُلتے ہیں مگر شہروں میں ایسا نہیں ہوتا۔ ایک شخص جس کی تنخواہ بیس روپے ہے دوہزارتنخواہ والے سے ملنے کی کبھی جرأت نہ کرسکے گا حالانکہ یہاں بھی نسبت وہی ہے جو دو اور دوسَو گھمائوں میں ہے مگر شہروں میںبیس روپے تنخواہ لینے والے کی کیا مجال ہے کہ جو دو ہزار تنخواہ والے کی دری پر بیٹھ سکے او راِس کااتنا اثر ہے کہ زمیندار لوگ بڑے ہونے کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ فرعونیت میں بڑا ہے۔ میںنے دیکھا ہے کہ مجھے جو زمیندار احمدی ملنے آتے ہیں وہ جب دور سے دیکھتے ہیں تو جوتیاں اُتار دیتے ہیں وہ خدمت کو بڑائی نہیں سمجھتے بلکہ فرعون مزاجوں کو دیکھ کران غریبوں کے ذہن میں بڑائی کے معنے فرعونیت کے ہی ہوگئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اگر بڑے آدمی کے ساتھ چارپائی پر بیٹھ گئے تو بس شامت ہی آجائے گی۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کے پیروں نے بھی بڑائی کایہی مفہوم پیش کیاہے۔ اس کے متعلق مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک پیر صاحب سفر کررہے تھے اور ساتھ ایک میراثی خدمتگار تھا پُرانے زمانہ میں میراثی اکثر سفروں میں خدمت کیلئے ساتھ جایا کرتے تھے وہ رات کے وقت ایک سرائے میں پہنچے بارش ہونے کی وجہ سے تمام کیچڑ ہی کیچڑ تھا اور مشکل یہ ہوئی کہ چارپائی صرف ایک ہی ملی۔ میراثی نے وہ پیر صاحب کیلئے بچھادی اور خود پرے ہٹ کر پائنتی کی طرف بیٹھ گیا۔ پیر صاحب طیش میں آگئے اور اس بیچارے کے دوچار تھپڑ لگادیئے اور کہا کہ بے شرم! ہمارے برابر بیٹھتا ہے۔ اگلے روز پھر ایک سرائے میں پہنچے اور اتفاق سے وہاں ایک چارپائی بھی نہ ملی اُس نے پیر صاحب کو تو کچھ گھاس پھوس جمع کرکے بستر کردیا اور خود پھاوڑا لے کرزمین کھودنے لگا۔ پیر صاحب کہنے لگے کہ یہ کیا کرتا ہے؟ اُس نے کہا کہ اپنے لئے گڑھا کھودتا ہوں کیونکہ آپ کے برابر تو نہیں بیٹھ سکتا۔ تو بیچاروں کو ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ بڑائی کے معنی ان کے نزدیک فرعونیت کے ہوگئے ہیں۔
میں بار بار منع کرتا ہوں اور سیڑھیوں میں بھی لکھواکرلگا رکھاہے کہ جوتیاں نہ اُتاری جائیں مگر اوّل تو کوئی پڑھتا نہیں اور اگر پڑھے تو خیال کرلیتاہے کہ اگرچہ لکھا ہؤا ہے پھر بھی ادب کا تقاضا یہی ہے کہ جوتیاں اُتاردی جائیں۔ تویہ چیزیں شہرت او رمغربیت کے اثرکے ماتحت ہیں۔محبت، پیار،اخلاص اور مہمان نوازی جو دیہات میں ہے وہ شہروںمیں نہیں۔لاہور کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہے جو اگرچہ غلط ہی ہو مگر شہری ذہنیت کا اظہار ضرور کرتا ہے وہ یہ کہ لاہور میں کسی کے کوئی مہمان آجائے توکہتے ہیں کہ بھائی جی! روٹی بھی تیار ہے اور گاڑی بھی۔ اور ظاہر ہے کہ جس نے جانا ہو وہ روٹی کہاں کھائے گاوہ تو یہی کہے گا کہ اچھا میں جاتا ہوں۔
اِس تحریک سے میری غرض یہ ہے کہ دو آدمیوںمیں جوفرق ہے یعنی ایک اپنے آپ کوآدمی سمجھتا ہے اور دوسرا فرعون اِسے مٹادیاجائے اور دونوں ہی آدمی بن جائیں۔ حضرت خلیفہ اوّل کا ایک لطیفہ یاد ہے آپ کے پاس بعض شاگردبھی بیٹھے رہتے تھے اور شاگردوں میں سے بھی بعض اپنے آپ کو بڑا سمجھ لیاکرتے ہیں۔بعض اوقات آپ کسی مریض کو دوا لگانے کیلئے فرماتے کہ کوئی تنکا وغیرہ لائو یا کوئی اور کام بتاتے تو بعض دفعہ اگر وہی شاگرد موجود ہوتے جواپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے تو وہ بیٹھے رہتے۔ اور آپ جب دریافت فرماتے کہ فلاں چیز ابھی آئی یا نہیں تو وہ کہہ دیتے کہ حضور! کوئی آدمی آتا ہے تو منگوالیتے ہیں۔ اِس پر آپ فرماتے کہ تھوڑی دیر کیلئے آپ ہی آدمی بن جائیں۔ تو زندگی کے سادہ نہ ہونے کی وجہ سے کچھ آدمی آدمی نہیں رہے بلکہ بعض آدمیت سے نکل گئے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ سارے ہی آدمی بن جائیں اس لئے یہ تحریک ہمیشہ جاری رہے گی ورنہ مذہب اپنی اصلی شکل پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس لئے اس تحریک کے مالی حصہ کے سِوا باقی سب تحریکیں دائمی ہیں اور حقیقت میں وہ زیادہ مقدم ہیں او رچونکہ اِس سال کی تحریک کے اَب صرف دو ماہ باقی رہ گئے ہیں اِس لئے جن دوستوں نے غفلت کی ہے وہ اب جلد کوتاہیوں کو پورا کریں تا وقت پوراہونے کے بعد ان کے دل ملامت نہ کریں۔ میں تو کوئی ملامت نہیں کروں گا کیونکہ طَوعی تحریک ہے مگر ان کے دل ضرور ملامت کریں گے۔ پس پیشتر اِس کے کہ دل ملامت کریں انہیں چاہئے کہ کوشش کریں تا سال کے اختتام پر وہ خوش ہوں او رکہہ سکیں کہ پہلابوجھ تو ہم اُٹھاچکے اب نئے سال کا اُٹھانے کو تیار ہیں۔
(الفضل ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۳۶ئ)
؎۱ البقرۃ: ۱۲
؎۳،۲ بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالکؓ
؎۴ تذکرہ ، صفحہ ۵۰ ۔ ایڈیشن چہارم


۳۸
منافقین کا جماعت احمدیہ سے علیحدہ ہونا
جماعت کیلئے ہرگز نقصان رساں نہیں
(فرمودہ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۳۶ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
چونکہ آج میرے گلے میں زیادہ تکلیف ہے اور کھانسی بھی زیادہ اُٹھ رہی ہے اس لئے میں زیادہ دیر تک بول نہیں سکتا لیکن پھر بھی آجکل کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چونکہ مجھے بولنا پڑتا ہے اس لئے آج میں اختصار کے ساتھ پھر اسی مضمون کو لیتا ہوں جس مضمون کے متعلق میں نے گزشتہ جمعہ میں خطبہ پڑھا تھا یایہ کہو کہ اس مضمون کے ایک حصہ کے متعلق جس کی طرف خطبہ کے ابتداء میں مَیںنے دوستوں کوتوجہ دلائی تھی۔
دوستوں کو معلوم ہے کہ متواتر کئی خطبات کے ذریعہ میں جماعت کوتوجہ دلاتا آرہا ہوں کہ افراد اور ان کی تعداد پر خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعتوں کی طاقت نہیں ہوتی بلکہ ان کی طاقت اخلاص اور ایمان پرہوتی ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت کے تمام افراد میں ابھی تک یہ حِس پید انہیں ہوئی کہ وہ اس نکتہ کو سمجھیں۔ وہ خطبات سنتے ہیں مگر ایک کان سے سنتے اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔ بڑی سے بڑی نعمت بھی اگر اس سے فائدہ نہ اُٹھایا جائے اور بڑی سے بڑی نصیحت بھی اگر اس پرعمل نہ کیا جائے انسان کے کسی کام نہیںآسکتی۔
منافقین کاوجود جس قسم کازہر اپنے اندر رکھتا ہے اس زہر کے ازالہ یااس کے علاج کی طرف لوگ بہت ہی کم توجہ کرتے ہیںآخر اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ یہی کہ خداتعالیٰ اپنے ہاتھ میں اس کام کو لے لے گا اور جب اللہ تعالیٰ کسی کام کو اپنے ہاتھ میں لے لیتاہے توپھر وہ یہ نہیں دیکھا کرتا کہ اس کا اثر دوسروں پر کتنا شدید اور کتنا ہیبت ناک پڑتاہے۔ جب تم اپنے گھروں میں آگ جلاتے ہو تو تم یہ احتیاط کرلیا کرتے ہوکہ وہ آگ تمہارے اسباب کو نہ لگے بلکہ صرف چولہے تک ہی محدود رہے۔ تم کبھی اس امر کو برداشت نہیں کرسکتے یا اس قسم کی کوئی بے احتیاطی اختیار نہیںکرسکتے جس کے نتیجے میں وہ آگ چولہے سے نکل کر تمہارے اسباب کو لگ جائے اور اسباب کے بعد تمہارے گھر کوجلادے اور گھر کوجلانے کے بعد تمہارے ہمسایوں کے مکانات اور ان کے اسباب کوجلانا شروع کردے۔ لیکن یہی آگ جب خداتعالیٰ کی طرف سے لگتی ہے تو وہ کس طرح وسیع علاقہ میں پھیل جاتی اور کس قدر مال و اسباب کا نقصان کردیتی ہے۔ جب خداتعالیٰ کی طرف سے کہیں آگ لگتی ہے تو بسا اوقات وہ گھر کا تمام مال و اسباب جلادیتی ہے، بسااوقات نہ صرف ایک گھر کا مال و اسباب جلادیتی ہے بلکہ ہمسایوں کے مکانات اور ان کے مال و اسباب کوبھی جلادیتی ہے، پھر بسااوقات وہ سارا محلہ جلادیتی ہے اوربسااوقات سارے شہر کو جلا کرراکھ کردیتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے میں نے خود اپنے کانوں سے یہ مضمون بارہا سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو قسم کے ابتلاء آیا کرتے ہیں۔ ایک تو وہ ابتلاء ہوتے ہیںجن میں بندے کو اختیار دیا جاتا ہے کہ تم اس میں اپنے آرام کیلئے خود کوئی تجویز کرسکتے ہو ۔ چنانچہ اس کی مثال میں آپ فرماتے دیکھو! وضو بھی ایک ابتلاء ہے سردیوں کے موسم میں جب سخت سردی لگ رہی ہو ٹھنڈی ہوا چل رہی اور ذرا سی ہوا لگنے سے بھی انسان کوتکلیف ہوتی ہو خداتعالیٰ کی طرف سے انسان کوحکم ہوتا ہے کہ نماز پڑھنے سے پہلے وضو کرو۔ بسا اوقات جب نماز کا وقت ہوتاہے اُس وقت گرم پانی نہیں ہوتا یا بسا اوقات اسے گرم پانی میسر تو آسکتا ہے مگر اُس وقت تیار نہیں ہوتا۔ پھر بسا اوقات اسے گرم پانی میسر ہی نہیں آسکتا یخ بستہ پانی ہوتا ہے اور اسی پانی سے اُسے وضو کرکے نماز پڑھنی پڑتی ہے۔ آپ فرمایا کرتے یہ بھی ایک ابتلاء ہے جو اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کیلئے رکھ دیا مگر فرمایا یہ ایسا ابتلاء ہے جس میں بندے کو اختیار دیا گیا ہے یعنی اُسے اِس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر پانی ٹھنڈا ہے تو گرم کرلے گویا یہ ایک اختیاری ابتلاء ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا اور انسان کو اس بات کی اجازت دی کہ اگر ٹھنڈے پانی سے تم وضو نہیں کرسکتے تو ہمت کرو اور آگ پر پانی گرم کرلو ۔اور اپنے گھر میں آگ موجود نہیں تو ہمسایہ کے گھر سے آگ لے کر پانی گرم کرلو اور گرم پانی سے وضو کرنے کے بعد اچھی طرح گرم کپڑے پہن لو تا تمہیں سردی محسوس نہ ہو۔ یا بعض اوقات لوگ مسجدوں میں حمام بنادیتے ہیں جن میں پانی گرم رہتا ہے۔ پس جو لوگ غریب اپنے گھروں میں پانی گرم نہیں کرسکتے وہ مساجدمیں جاکر حمام سے وضو کرسکتے ہیں یا اگر مسجد میں گرم حمام کاانتظام نہیں تو پھر اگر کوئی ہمت والا کنویں سے تازہ پانی کا ڈول نکال کراس سے وضو کرلیتاہے اس طرح بھی وہ سردی سے بچ جاتاہے کیونکہ سردیوں میں کنویں کا تازہ پانی قدرے گرم ہوتا ہے۔ پس اگر کوئی ذریعہ اس کے پاس موجود نہیں تو وہ اس طرح اپنی تکلیف کو دور کرسکتا ہے۔ اسی طرح فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حکم دیا کہ علی الصبح اُٹھے اور نما زفجر پڑھے۔ اب سردیوں میں صبح کے وقت اُٹھنا کتنا دوبھر ہوتا ہے لیکن انسان کے پاس اگر کافی سامان ہو تو یہ تکلیف بھی اسے محسوس نہیں ہوسکتی۔ مثلا اگر اسے تہجد کی نماز پڑھنے کی عادت ہے تو وہ یہ کرسکتا ہے کہ تہجد کی نماز پڑھتے وقت کمرے کے دروازے اچھی طرح بند کرے تا کمرہ گرم رہے اورباہر کی ٹھنڈ ی ہوا اندر نہ آسکے۔ اسی طرح جب فجر کی نماز پڑھنے کیلئے مسجد کو جائے تو کمبل یا دُلائی اوڑھ سکتا یا گرم کوٹ پہن کر جاسکتا ہے اور اگر کوئی غریب بھی ہو تو وہ بھی پھٹی پُرانی صدری یا کوٹ پہن کرجاسکتا اور سردی کے اثر سے اپنے آپ کو بچاسکتاہے۔ اور اگرکوئی شخص بالکل ہی غریب ہو اور اس کے پاس نہ کمبل ہو نہ دُلائی نہ صدری نہ کوٹ تو اسے بھی زیادہ تکلیف نہیں ہوسکتی کیونکہ ایسے شخص کو سردی کے برداشت کرنے کی عادت پڑجاتی ہے اور خداتعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جس چیز کا انسان عادی ہوجائے وہ اس کو تکلیف نہیں دیتی۔ میں نے دیکھا ہے کہ باورچی خانہ میں کام کرنے والی عورتیں اپنے ہاتھوں سے چولہے سے انگارے نکال لیتی ہیں اور انہیں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی حالانکہ ہم ان انگاروں کے قریب بھی نہیں جاسکتے۔ اسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ دوزخیوں کوجب دوزخ میں عذاب دیا جائے گا تو کچھ عرصہ کے بعد جب ان کی جلدیں پک جائیں گے اور انہیں عذاب سہنے کی عادت ہوجائے گی تو بَدَّلْـنٰـھُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا ؎۱ ہم ان کے چمڑے تبدیل کردیں گے اور نیا چمڑہ انہیں دے دیں گے کیونکہ اگر ایک ہی چمڑہ رہے تو انہیں دوزخ کا عذاب سہنے کی عادت ہوجائے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کا منشاء دوزخیوںکو دوزخ کا عذاب محسوس کرانا ہے اس لئے تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد انہیں نئی جلدیں ملیں گی تا وہ عذاب ہمیشہ محسوس کرتے رہیں اور عذاب کا عادی ہوجانے کی وجہ سے اس کی تکلیف کا احساس ان کے دلوں سے مٹ نہ جائے۔
میرا مضمون گو اور ہے مگر چونکہ قرآن مجید کا جب ذکر آتاہے تو توجہ خودبخود اس کی طرف پھر جاتی ہے اس لئے اس جگہ ایک قابلِ ذکر نکتہ بھی بیان کردیتا ہوں۔تم تمام دنیا کی علمی کتابوں کو پڑھ کر دیکھ لو تمہیں معلوم ہوگا کہ اعصاب کا تفصیلی علم ہمارے زمانہ کی دریافت ہے اس سے پہلے قدیم طب میں اعصاب کا علم اس طرح موجود نہیں تھا کیونکہ اس علم کابہت سا تعلق خوردبین سے ہے جو پہلے معلوم نہ تھی اس وجہ سے پہلے زمانہ کے اطباء اس بات کوبہ تفصیل نہ جانتے تھے کہ انسان کی تمام جلد پر حِس والے اعصاب کاایک جال پھیلا ہوا ہے او روہ جال اتنا باریک ہے کہ خورد بین سے بھی بعض دفعہ نظر نہیں آسکتا۔ یہ موجودہ زمانے کی تحقیق کا نتیجہ ہے مگر قرآن مجیدنے آج سے تیرہ سَو سال پہلے ہی بتادیا تھا کہ حِس جلد کے ذریعہ ہوتی ہے حالانکہ پہلے علمی رنگ میں یہ بات ثابت نہیں تھی۔ غرض قرآن کریم نے ہی سب سے پہلے دنیا کو یہ نکتہ بتایا ہے کہ حِس والے اعصاب جلد پر پھیلے ہوئے ہیں اور جب کسی انسان کی جلد جل جائے یا پختہ ہوجائے تو اس کی حِس کم ہوجاتی ہے۔ اسی امر کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کچھ کچھ عرصہ کے بعد دوزخیوں کی جلد کوبدل دے گا اور اس طرح تازہ اور زندہ اعصاب انہیں دے کران کی حِس کو پھر مکمل کردے گا تا وہ عذا ب محسوس کریں۔ بہرحال خداتعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جب کسی شخص کو کسی دکھ یا تکلیف کی عادت ہوجائے تو ا س کے متعلق اس کااحساس کم ہوجاتا ہے اور چونکہ سردیوں میں غرباء کے پاس گرم کپڑے نہیں ہوتے اور نہ اور سامان ہوتے ہیں جن سے انہیں سہارا حاصل ہو اس لئے ان کی جلد کو خداتعالیٰ کی طرف سے مضبوط کردیاجاتا ہے گویا یہ خدائی لباس یا خدائی کوٹ ہوتا ہے جو سردیوں میں غرباء کو پہنایا جاتاہے۔ جب کسی شخص کو گرم کوٹ سردی سے محفوظ رہنے کیلئے نہیں ملتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کی جلد میں ایسی طاقت پید اکردی جاتی ہے کہ اسے سردی محسوس نہیں ہوتی کیونکہ سردی کی اسے عادت پڑجاتی ہے اور یہ عادت ہی اس کے بچائو کا ایک ذریعہ بن جاتی ہے۔
غرض سردیوں میں وضو کرنا یا تہجد اور صبح کی نماز کیلئے اُٹھنا ایک ابتلاء ہے مگر اس ابتلاء میں انسان کواجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنی سہولت اور آرام کومدنظر رکھ لیا کرے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے استاد بعض دفعہ طالب علم سے کہتا ہے کہ تم اپنے کان خود کھینچو۔ طالب علم اُستاد کے اِس حکم کی تعمیل میں جب اپنے کان کھینچے گا تو وہ ضرور لحاظ رکھ لے گا کہ اسے تھوڑے سے تھوڑا درد ہو لیکن جب وہ طالب علم شرارت سے باز نہیں آتا تو پھر استاد اسے یہ نہیں کہتا کہ اپنے کان خود کھینچو بلکہ وہ دوسرے سے کہتا ہے کہ اس کے کان کھینچو۔ پس وہ اس کے کان کھینچتا ہے اور کان کھینچنے کے ساتھ اسے جھٹکے بھی دیتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ایک ابتلاء تو اِس قسم کے آیا کرتے ہیں جواختیاری ہوتے ہیں او رجن میں انسانوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی سہولت اور آرام کو مدنظر رکھ لیں لیکن جب انسان ان ابتلائوںسے فائدہ نہیں اُٹھاتے تو وہ یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور پھر اُس وقت انسان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف ابتلاء ہی نہیں آتے بلکہ جھٹکے بھی ملتے ہیں اورجب اُسے جھٹکے آتے ہیں تو اس کے سِوا اور لوگوں کو بھی جھٹکے آتے ہیں اور وہ سب اپنی اپنی جگہوں سے ہِلائے جاتے ہیں۔
مدینہ میں بعض یہودی قومیں رہتی تھیں جو مسلمانوں سے ہمیشہ فتنہ وفساد کابازار گرم رکھتیں۔ جب ان کی شرارتیں حدود سے تجاوز کرگئیں تو رسول کریم ﷺ نے ان کے سامنے یہ امر پیش فرمایا کہ چاہو تو تم خود اپنے آپ کوسزا دے لو اور چاہو تو ہم تمہیں سزادیں۔ وہ سمجھدار لوگ تھے انہوں نے کہا ہم خود ہی اپنے آ پ کوسزا دے لیتے ہیں چنانچہ وہ مدینہ چھوڑ کر چلے گئے اور باہر آباد ہوگئے۔ لیکن بعض دفعہ جب خدا اور اس کے رسولوں کے دشمن یہ کہتے ہیں کہ ہم اور تم اکٹھے نہیں رہ سکتے اور یہ کہ تم یہاں سے چلے جائو ورنہ ہم تمہیں یہاں سے نکال دیں گے تو خدائی جواب انہیں یہ ہوتا ہے کہ یہ ہماری زمین ہے اور یہ بندے بھی ہمارے بندے ہیں یہ تو یہاں سے نہیں جاسکتے لیکن اگر تم نبیوں کی جماعتوں سے مل کر نہیں رہ سکتے تو ہم تمہیں یہاں سے نکال کر رہیں گے۔ چنانچہ پھر خدا انہیں نکالتا ہے اور اسی طرح نکالتا ہے جس طرح اس نے کانگڑہ میںلوگوں کو نکالا، جس طرح اس نے بہار میں لوگوں کو نکالا، جس طرح اس نے کوئٹہ میں لوگوں کو نکالا، اس خدائی عذاب کی گرفت میں پھر کچھ دوسرے لوگ بھی آجاتے ہیں کیونکہ خدائی قانون یہ ہے کہ وَلاَ تَرْکَنُوْا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ ؎۲ ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا تو ظالم طبع لوگوں کو تم اپنے میں سے آپ جُدا کرو اور اگر تم انہیں جُدا کرنے کیلئے تیار نہیں تو یاد رکھو جب ہم نے ظالموں کے گھروں پر آگ برسائی تو اگر تمہارے گھروں کو بھی لگ جائے تو شکوہ نہ کرنا۔
ہماری جماعت کے سامنے بھی اِس وقت یہی سوال درپیش ہے کہ آیا وہ اپنے گھروں کو اللہ تعالیٰ کی آگ سے جلوانا چاہتی ہے یامنافقوں اورمنافق طبع لوگوں سے الگ ہونا چاہتی ہے اس کے سِواتیسری کوئی صورت نہیں ان میں سے ایک کا وقوع ضروری ہے یا منافق ہماری جماعت میں سے الگ ہوجائیں گے یا خدا ان کے گھروں کو جلائے اور ان کے گھروں کے ساتھ ان لوگوں کے گھر بھی جو اُن سے ملنے والے اور ان سے محبت اور دوستی کے تعلقات رکھنے والے ہیں جل جائیں گے۔ تم کو خداتعالیٰ کا سلسلہ اتنا پیارا ہو یا نہ ہو لیکن خداتعالیٰ کو یہ سلسلہ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ پیارا ہے کیونکہ وہ صداقت ہے اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی اُس وقت سے لے کر آج تک وہ اِس صداقت کی حفاظت کیلئے سامان مہیا کرتا چلا آیا ہے۔ آخر سوچو کہ تمہیںاپنی زندگیوں میں جن منافقوں سے واسطہ پڑتا ہے ان کی تعداد کتنی ہے۔ یہاں کے اور بیرونی جماعتوں کے منافقوں کو ملا کر زیادہ سے زیادہ ان کی تعداد دو چار ہزار ہوگی ان دوچار ہزار منافقوں کی ساری دنیا کے مقابلہ میںنسبت ہی کیا ہے۔ دنیا کی آبادی اِس وقت دو ارب ہے اِن دو ارب آدمیوں کے مقابلہ میں دو چارہزار منافقوں کی کچھ بھی حیثیت نہیں۔
پھر جس صداقت کو احمدیت پیش کرتی ہے اور جس صداقت کو اسلام ظاہر کرتا ہے وہ صداقت دو ارب آدمیوں سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ عالَمِ انسانی سے تعلق رکھتی ہے اور صرف عالَمِ انسانی سے نہیں بلکہ تمام عالَم سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ انسان عالَمِ صغیر ہے اور تمام عالَم اس کی خاطر پیدا کیاگیا ہے بلکہ انسان بھی ایک اور چیز کی خاطر پیدا کیا گیا ہے جسے سچائی کہتے ہیں۔ اس سچائی کے کامل نمونے جو دنیا میں ہوئے ہیں ان کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاکَ ؎۳ ۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ سے خدا تعالیٰ نے یہی کہا کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاکَ یعنی اے محمد! ﷺ اگر تُو نہ ہوتا تو میں زمین و آسمان کو کبھی پیدا نہ کرتا۔ محمد ﷺ کو خداتعالیٰ نے یہ بحیثیت انسان نہیں کہا کہ اگر تُو پیدا نہ ہوتا تو میں زمین و آسمان کو پیدا نہ کرتا بلکہ نمائندئہ صداقت ہونے کی حیثیت سے کہا اور اِس وجہ سے کہا کہ محمد ﷺ کا وجود سچائی سے مل گیا تھا یہاں تک کہ سچائی اور محمد ﷺ میں کوئی فرق نہ رہا تھا۔
اسی طرح اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خداتعالیٰ نے کہا کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاکَ ؎۴ کہ اگر تُو نہ ہوتا تو میں زمین و آسمان کو پیدا نہ کرتا۔ یہ بھی آپ کو بحیثیت انسان نہیں کہا گیا بلکہ ایک نمائندئہ صداقت ہونے کی حیثیت سے کہا گیا اوراِس وجہ سے کہا گیا کہ آپ کا وجود سچائی سے مل گیا یہاں تک کہ آپ میں اور سچائی میں کوئی فرق نہ رہا۔
پس جب خدا نے کہا کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاکَ تو اس کے یہی معنی تھے کہ اگر سچائی نہ ہوتی ، اگر دنیا میں یہ حقیقت مضمرّہ نہ ہوتی جو سارے عالَم کی جان ہے جو خدا میں سے آتی اور پھر خدا میں ہی جاکر مل جاتی ہے تو میں زمین و آسمان کبھی پیدا نہ کرتا۔ یہ سارا عالَم اس سچائی کیلئے پیدا کیا گیا ہے اِس دائمی، اس ازلی اور اس ابدی سچائی کیلئے جو خدا میں سے آتی اور خدا میں ہی واپس چلی جاتی ہے اس دائمی سچائی کے کامل نمائندے محمدﷺ تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاکَ۔ اور اس دائمی سچائی کے ظلّی نمائندے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی فرمایا کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاکَ لیکن مستقل طور پر محمدﷺ کو ہی کہا گیاہے کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاکَ یعنی اے محمد ﷺ چونکہ تُو اس دائمی سچائی کانمائندہ ہے جو مجھ میں سے آتی اور مجھ میں ہی آکر مل جاتی ہے اور جس کا اشارہ ھُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ؎۵ میں بھی ہے اس لئے اگر تُو پیدا نہ ہوتا جو سچائی کا نمائندہ بننے والا تھا تو میں زمین و آسمان کبھی پیدا نہ کرتا مگر چونکہ تُو ایک زمانہ میں میری سچائی کا کامل نمائندہ بننے والا تھا اس لئے میں نے زمین و آسمان کو پیدا کردیا کیونکہ تیرے ذریعہ میری اس صداقت اور سچائی کا ثبوت ملنا تھا۔ پھر جب محمد ﷺ کے وجود میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر اپنے وجود کوفنا کر دیا۔ آپؐ کی محبت میں اپنے آپؑ کو مٹادیا اور سچائی کی اُس چادر کو اوڑھ لیا جو دائمی ہے، جو ازلی اور ابدی ہے، جو خدا میں سے آتی اور خدا میں ہی واپس چلی جاتی ہے تو خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی الہاماً فرمایا کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاکَ اب خود سوچ لو جس جُرم اور جس گناہ کے نتیجہ میں یہ سچائی پوشیدہ ہوجائے، جس جُرم اور جس گناہ کے نتیجہ میں یہ سارے افعال باطل ہوجائیں اور اربوں ارب اور کھربوں کھرب سالوں سے خداتعالیٰ جس سچائی کو قائم کرنا چاہتا ہے وہ مشتبہہ ہوجائے اس جُرم اور اس گناہ سے ہمیں کتنی شدید نفرت رکھنی چاہئے۔
پس ہزار دو ہزار، یا لاکھ دولاکھ، یاکروڑ دو کروڑ، یا ارب دوارب انسانوں کا سوال نہیں بلکہ اگر دس ارب انسان بھی اس سچائی کے مقابلہ پر آجائیں تو جس طرح سر کو کھجلی سے بچانے کیلئے ایک جوں ماردی جاتی ہے اسی طرح ان اربوں لوگوں کی تباہی کی بھی پرواہ نہیں کی جاسکتی کیونکہ صداقت دنیا کی ہر چیز پر مقدم ہے اور انسانوں کی سچائی کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں بلکہ ایک وقت کی دنیا کیا قیامت تک کے سارے عالَم اور قیامت تک پیدا ہونے والے نسلِ انسانی کے تمام افراد بھی سچائی کے مقابلہ میں کوئی وزن نہیں رکھتے۔ وہ صرف اتنا ہی وزن رکھتے ہیں جتنا صداقت سے وہ تعلق رکھتے ہوں۔ اِسی لئے جب میںنے کہا کہ سچائی کے مقابلہ میں اربوں ارب بلکہ قیامت تک پیدا ہونے والے افراد کی تباہی کی بھی پرواہ نہیں کی جاسکتی تو محمد ﷺ ان انسانوں سے باہر آگئے کیونکہ انہیں انسانیت سے بہت بلند اور بالا مقام حاصل تھا وہ ازلی سچائی کے مظہر ہوگئے تھے۔ اسی طرح وہ دوسرے لوگ بھی باہر آجائیں گے جو حسبِ مراتب صداقت سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ پس انسانوں سے مراد وہ انسان نہیں جو صداقت کے نمائندہ ہیں ان کے سِوا باقی تمام انسان اگر ابتدائے عالَم سے لے کر قیامت تک تباہ کردیئے جائیں تو سچائی کے مقابلہ میں وہ اتنا وزن بھی نہیں رکھتے جتنا ایک من وزن کے مقابلہ میں چنے کاایک دانہ حیثیت رکھتا ہے۔ یہ زمین، یہ آسمان، یہ سورج، یہ چاند، یہ ستارے، یہ سیارے اور قسم قسم کی اشیاء جو خداتعالیٰ نے پیدا کیں یہ سب سچائی کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ خداتعالیٰ خود فرماتا ہے کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاکَ اے محمد! ﷺ یہ ساری چیزیں تیرے لئے ہیں کیونکہ تُو ہماری سچائی کا نمائندہ ہے اور اگر تُو پیدا نہیں ہوتا تو پھر ان چیزوں کی کچھ بھی ضرورت نہیں تھی کیونکہ سچائی کے بغیر یہ سب حقیر اور ذلیل چیزیں ہیں۔
پس کون بیوقوف یہ خیال کرسکتا ہے کہ اس کاوجود اتنابڑا ہے کہ سچائی کے مقابلہ میں اس کی پروا کرنی چاہئے۔ سچائی تو اتنی قیمتی چیز ہے کہ اس کیلئے خداتعالیٰ نے محمد ﷺ کے وجود کو بھی خطرہ میں ڈال دیا، مکہ اور مدینہ میں جب لوگ آ پ پر حملہ کرتے تو ان میں سے ہر شخص اسی لئے حملہ کرتا تھا کہ وہ ازلی اور ابدی صداقت جو آپ کے ذریعہ دنیا میں ظاہرہوئی مٹادے۔ پس اس سچائی کیلئے تو محمد ﷺ کی جان کو بھی خداتعالیٰ نے خطرہ میں ڈال دیا کجا یہ کہ ایک منافق کی جان کی سچائی کے مقابلہ میں حفاظت کی جائے۔
تاریخوں میں ایک واقعہ آتا ہے نہ معلوم وہ سچا بھی ہے یا نہیں مگر بہرحال ذکر آتا ہے کہ رسول کریم ﷺکے والد کہیں سے آرہے تھے کہ راستہ میں انہوں نے دیکھا ایک عورت بیٹھی ہے اُس عورت پر رسول کریم ﷺ کے والد کاچہرہ دیکھ کر ایسی وارفتگی طاری ہوئی کہ اُس نے ان سے شادی کی خواہش ظاہر کی کہ آپ مجھ سے شادی کرلیں۔عرب کی عورتوں میں ہندوستان کی عورتوں کی نسبت بہت آزادی تھی اور اُن میں عورت کا شادی کی خود خواہش کرنا کچھ ایسا معیوب نہ سمجھا جاتا تھا مگر پھر بھی عورت کی ذات اپنے اندر شرم و حیا کا فطرتی مادہ رکھتی ہے اور وہ مرد سے اس قسم کی بات کہتے ہوئے شرماتی ہے لیکن اُس عورت نے کہہ ہی دیا کہ آپ مجھ سے شادی کرلیں۔ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ نے اُسے کوئی جواب نہ دیا اورگو وہ عورت معزز اور مالدار تھی اور شاید اُس سے شادی کرناان کیلئے مفید ہوتا لیکن انہیں جواب دیتے ہوئے شرم محسوس ہوئی اور وہ اپنے گھر چلے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ پھروہاں سے گزرے تو اسی عورت کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا اوراب کی دفعہ خود اُن کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اگر یہ کہے تو میں اس سے شادی کرلوں۔ وہ یہ امید رکھتے تھے کہ عورت پھر شادی کیلئے خود اپنے آپ کو پیش کرے گی لیکن وہ عورت خاموش رہی اور اُس نے انہیں کچھ نہ کہا۔ اس پر انہیں بہت تعجب ہؤا اور انہوں نے اُسے مخاطب کرکے کہا کہ اُس دن جو میں یہاں سے گزرا تھا تو تم نے کہا تھا کہ مجھ سے شادی کرلو اور میں خاموش رہا تھا لیکن آج تم نے یہ بات نہیں کہی اِس کی کیا وجہ ہے؟ وہ عورت کہنے لگی اُس دن جو آپ یہاں سے گزرے تھے تو مجھے آپ کے ماتھے پر ایک نور نظر آیا تھا مگر آج وہ نور مجھے نظر نہیں آیا۔ دراصل اسی عرصہ میں حضرت عبداللہ رسول کریم ﷺ کی والدہ ماجدہ کے پاس تشریف لے گئے او رانہیں آپ کا حمل قرار پاگیا وہ نور جو اُس عورت کو نظر آیا وہ وہی ازلی سچائی تھی جو نسلاً بعد نسلٍ لوگوں کی پُشت میں منتقل ہوتی چلی آئی تھی لیکن جب وہ سچائی آمنہ کے پیٹ میں منتقل ہوگئی تو تمام مرد اس سے محروم ہوگئے یہاں تک کہ محمد ﷺ کے ذریعہ پھر وہ نور دنیا میں ظاہر ہؤا ۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ یہ روایت صحیح بھی ہے یا نہیں لیکن اس میں ہمارے لئے ایک سبق ضرور ہے خواہ وہ تصویری زبان ہی میں کیوں نہ ہو۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتاہے یہ روایت مواہب اللدنیہ میں جو تاریخ کی مشہور کتاب ہے آتی ہے۔ یہ قصہ خلافِ عقل بھی نہیں ہے جو عام واقعات دنیا میں خداتعالیٰ کے انبیاء کی شناخت کے متعلق ہوتے رہتے ہیں ممکن ہے انہی کی طرح اللہ تعالیٰ نے ا س عورت کو کشفی نگاہ دے دی ہو اور اُس نے وہ نورِ محمدیؐ دیکھ لیا ہو جو دنیا میں ظاہر ہونے والا تھا لیکن بہرحال خواہ یہ واقعہ صحیح ہے یا غلط ہم اس سے سبق حاصل کرسکتے ہیںخواہ تاریخی لحاظ سے ہم اس کی صحت کی ذمہ داری نہ لے سکتے ہوں۔ پس وہ صداقتِ دائمی، وہ ازلی اور ابدی صداقت جو خداتعالیٰ سے آتی اور خداتعالیٰ کی طرف ہی چلی جاتی ہے تمام عالَم پر مقدم ہے اور وہی اس دنیا کی پیدائش کا مقصد ہے اور درحقیقت وہی نور ہے جس کا ذکرسورہ نور میں اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں فرماتا ہے کہ اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ؎۶ اللہ ہی آسمان و زمین کانور ہے۔ شاید تم کہو کہ جب اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کانور ہے تو تم نے محمد ﷺ اور بعض خاص افراد کو اِس کاحامل قرار کیوں دیاہے ایک کودوسرے سے کیا امتیاز حاصل ہے۔ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ بعض لوگ اتنے کثیف ہوتے ہیں کہ ان میں سے خداتعالیٰ کا وہ نور نظر نہیں آسکتا۔ گویا ان کی مثال اس خول کی سی ہوتی ہے جس میں بجلی کی تار گزرتی ہے۔ میں نہیں جانتا وہ لوہے کاہوتا ہے یا کسی اور چیز کا لیکن بہرحال بجلی والے بجلی کی بعض تاروں پر ایک خول چڑھاتے ہیں اس خول کی وجہ سے وہ نان کنڈکٹر ہوجاتی ہے یعنی اندرسے ہزاروں لاکھوں گھوڑوں کی طاقت والی بجلی گزررہی ہوتی ہے او راوپر سے ایسی محفوظ ہوتی ہے کہ ایک چڑیا یا چوہیا بھی اگر بیٹھ جائے تو اُسے کوئی گزند نہیں پہنچ سکتا۔ پس بعض وجود نان کنڈکٹر ہوتے ہیں لیکن بعض وجود ایسے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے اندر جذب کرکے اسے باہر بھیجنا شروع کردیتے ہیں جیسے بجلی کی تاریں ہوتی ہے اور بجلی کو جذب کرتیں او راسے دوسری چیزوں تک پہنچادیتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتاہے اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اللہ تعالیٰ کا نور زمین و آسمان میں ہر جگہ موجود ہے فرق صرف یہ ہے کہ بعض نے اپنے آپ کو نان کنڈکٹر بنالیا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس نور سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاسکتے او ربعض اُس نور کو جذب کرکے دوسرے لوگوں تک بھی پہنچادیتے ہیں اِس قسم کے وجود محمدیؐ وجود ہوتے ہیں۔ پس نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ہرجگہ موجود ہے مگر یہی صداقتِ ازلی جو خدا نے پیداکی صرف انہی کو نظر آسکتی ہے جو الوہیت کی چادر اوڑھ لیں تا کوئی شخص یہ کہہ سکے کہ دنیا میں دو چیزیں ہیںبلکہ ہر کوئی انہیں دیکھ کر یہی کہے کہ یہ سب نور اللہ کا ظہورہے اور اس نور میں کوئی دوئی نہیں۔
غرض نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ سے وہ صداقتِ ازلیہ مراد ہے جس کا کامل ظہور محمد ﷺ کے ذریعہ ہؤا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلاکَ یعنی میں نے دنیا اسی ازلی صداقت کو ظاہرکرنے کیلئے پیدا کی ہے اور اِس ازلی اور ابدی صداقت کو اور کسی نے کامل طور پر ظاہرنہیں کیا صرف تُو ایسا وجود ہے جس نے اسے کامل طو رپر ظاہر کیا۔ پس اگر تُو پیدا نہ ہوتا تو میں اس زمین و آسمان کوہرگز پیدا نہ کرتا۔ پس اس ازلی اور ابدی صداقت کے مقابلہ میں جسے نور اللہ کہتے ہیں دنیا کا کوئی انسان ، دنیا کی کوئی جماعت، دنیا کی کوئی نسل ،بلکہ کروڑوں اور اربوں سالوں کی نسلیں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتیں اور یقینا ان سب کو مٹایا جاسکتا اور انہیں تباہ و برباد کیا جاسکتا ہے لیکن سچائی کے مشتبہہ ہونے یا اس کے مٹنے کو کبھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ایک سرمیں پڑی ہوئی جُوں کی کوئی قیمت ہوسکتی ہے لیکن سوائے اُن انسانوں کے جنہوںنے سچائی سے اپنے آپ کو کامل طور پر وابستہ کرلیا اور لوگوں کی ایک جُوں کے برابر بھی حیثیت نہیں ہے۔
بچپن میں ہمیں کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا ۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہتے تو آپ ہمیں ایسی کہانیاں سناتے جنہیں سن کر عبرت حاصل ہوتی ۔انہی کہانیوں میں سے ایک کہانی مجھے اِس وقت یاد آگئی جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے میں نے سنا۔ آپ فرماتے حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں طوفان اِس وجہ سے آیا کہ لوگ اُس وقت بہت گندے ہوگئے تھے اور گناہ کرنے لگ گئے تھے۔ وہ جُوں جُو ں اپنے گناہوں میں بڑھتے جاتے خداتعالیٰ کی نگاہ میں ان کی قیمت گرتی جاتی۔ آخر ایک دن ایک پہاڑی کی چوٹی پر کوئی درخت تھا اور وہاں گھونسلے میں چڑیا کا ایک بچہ بیٹھا ہؤا تھا اُس بچے کی ماںکہیں گئی اور پھر واپس نہ آسکی شاید مرگئی یا کوئی اوروجہ ہوئی کہ نہ آئی۔ بعدمیں اس چڑیا کے بچہ کو پیاس لگی اور وہ پیاس سے تڑپنے لگا اور اپنی چونچ کھولنے لگا تب خداتعالیٰ نے یہ دیکھ کراپنے فرشتوں کوحکم دیا کہ جائو او رزمین پر پانی برسائو اور اتنا برسائو کہ اس پہاڑ کی چوٹی پر جو درخت ہے اُس کے گھونسلہ تک پہنچ جائے تا کہ چڑیاکا بچہ پانی پی سکے۔ فرشتوں نے کہا خدایا! وہاں تک پانی پہنچانے میں تو ساری دنیا غرق ہوجائے گی۔ خداتعالیٰ نے جواب دیا کوئی پرواہ نہیں اِس وقت دنیا کے لوگوں کی میرے نزدیک اتنی بھی حیثیت نہیں جتنی اُس چڑیا کے بچہ کی حیثیت ہے۔
اِس کہانی میں یہی سبق سکھایا گیا ہے جوبالکل درست ہے کہ صداقت اور راستی سے خالی دنیا ساری کی ساری مل کر بھی خداتعالیٰ کے نزدیک ایک چڑیا کے بچہ جتنی حیثیت نہیں رکھتی ۔ تو پھر بتائو کہ ایک یا چند انسانوں کی صداقت کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہوسکتی ہے کہ ان کا لحاظ رکھا جائے۔ میں ایک عرصہ سے تم میں سے وہ لوگ جن کی آنکھیں ہیں انہیں دکھا رہا ہوں ، جن کے کان ہیں انہیں سنا رہا ہوں اور جن کی حِس ہے انہیں محسوس کرارہا ہوں کہ سلسلہ کے قیام یا اس کی زندگی کے قیام کے مقابلہ میں منافق تو کیا خود تمہاری جانوں کی بھی پرواہ نہیں کی جاسکتی بلکہ جس طرح کُتّے کی سڑی ہوئی لاش پھینک دی جاتی ہے اسی طرح اگر تم صداقت کے مقابل پر آجائو تو تمہیں پھینک دیا جائے گا بلکہ سڑے ہوئے کُتّے کی لاش پھینکتے ہوئے بھی رحم آسکتا ہے لیکن اگر تم صداقت کے مقابلہ میں کھڑے ہوجائو توتم سڑے ہوئے کُتّے کی لاش جتنی بھی حیثیت نہیں رکھو گے اور فوراً سلسلہ سے منقطع کردیئے جائو گے۔ تم خود غورکرکے دیکھ لو میں نے جس وضاحت سے صداقت کی قیمت تمہارے سامنے پیش کی ہے اس کے بعد کیا کوئی بھی شخص یہ خیال کرسکتا ہے کہ اس صداقت کو چند نفوس کے لئے مِٹتے ہوئے دیکھا جاسکتاہے۔ میں اپنی حیثیت سمجھتاہوں او رتم اپنی حیثیت جانتے ہو ہم سب سوچ سمجھ کر معلوم کرسکتے ہیں کہ کیا ہماری اس صداقت کے مقابلہ میں کوئی بھی حیثیت ہے۔ ہمارے ملک میں کُتّے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھا جاتا ہے اسی لئے میں نے کُتّے کی مثال دی ہے ورنہ اگر مجھے کُتّے سے بھی کم حیثیت رکھنے والی چیز کی مثال نظر آتی تو میں وہی دیتا ممکن ہے کہ بعض لوگ سچائی کے مقابلہ میں اپنی قیمت اِس سے زیادہ سمجھتے ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ازلی سچائی کے مقابلہ پر اپنے آپ کو سڑے ہوئے کُتّے سے تشبیہہ دے کر مَیں نے اپنی قیمت زیادہ ہی لگائی ہے کم نہیں لگائی کیونکہ اس صداقتِ ازلیہ کے مقابلہ میں انسان کی حیثیت کچھ بھی نہیں ، نہ ایک کی نہ دو کی، نہ دس کی نہ بیس کی، نہ سَو کی نہ ہزار کی بلکہ لاکھوں اور کروڑوں اور اربوں سالوں کی نسلوں کی قیمت بھی سچائی کے مقابلہ میں کچھ نہیں وہ نوراللہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے نور کے مقابلہ میں حقیر اور ذلیل انسان کی کیا قیمت ہوسکتی ہے۔ وہی تو ایک چیز ہے جسے دیکھ کر خداتعالیٰ کے پاک بندے اپنی جانیں دیتے چلے آئے ہیں۔
حضرت نظام الدین صیجت اولیاء کے متعلق ایک واقعہ آتاہے جو میں نے خود تو نہیں پڑھا مگر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سے میں نے سنا ہے ۔ آپ ایک دفعہ شاگردوں کے ساتھ ایک بازار میں سے گزر رہے تھے کہ آپ نے ایک چھوٹا سا لڑکادیکھا جو نہایت خوبصورت تھا آپ فوراً آگے بڑھے اور اُسے چوم لیا۔ شاگردوں نے جب یہ دیکھا کہ ہمارے پیرومُرشد نے ایک لڑکے کا بوسہ لیا ہے تو وہ فوراً ایک دوسرے سے آگے بڑھے اور انہوں نے اس لڑکے کو چومنا شروع کردیا۔ اُن کے ایک مرید تھے جو ان کے بہت مقرب تھے اور بعد میں ان کے خلیفہ بھی ہوئے انہوں نے اس موقع پر لڑکے کو نہ چوما بلکہ الگ کھڑے رہے۔ یہ دیکھ کر باقی لوگ باتیں بنانے لگ گئے کہ اس شخص کے دل میں حضرت بزرگ صاحب کا ذرا بھی ادب نہیں بزرگ صاحب نے ایک کام کیا اور اس نے نہیں کیا۔ وہ حسد کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ اعتراض کرتے چلے جارہے تھے کہ چلتے چلتے راستہ میں حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے دیکھا ایک بھٹیارا بھٹی میں آگ جلارہا ہے اور اُس کے شعلے اِس تیزی سے بھڑک رہے ہیں کہ پاس کھڑا نہیں ہؤا جاتا ۔ حضرت نظام الدین صاحب اولیاء کے چہرہ پر یہ دیکھ کر یکدم ایک تغیر آیا اور ربودگی کی سی حالت طاری ہوگئی اور جھٹ آگے بڑھے اور آگ کے شعلہ کا بوسہ لے لیا مگر آگ کا بوسہ لینے سے نہ تو اُن کے بال جلے اور نہ منہ۔ وہ پیچھے ہٹے تو وہی شاگرد جو بعد میں ان کا خلیفہ ہؤا اور جس نے لڑکے کو نہیں چوما تھا آگے بڑھا اور اُس نے بھی آگ کو بوسہ دیا پھر پیچھے ہٹ کر اُس نے دوسروں سے کہا حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے آگ کو بوسہ دیا ہے آپ بھی اسے بوسہ دیجئے۔ مگر وہاں بوسہ دینے کی انہیںکس طرح جرأت ہوسکتی تھی وہاں تو وہی بوسہ دے سکتا تھا جسے خداتعالیٰ نے یہ کہا ہو کہ آگ تیری غلام بلکہ تیرے غلاموں کی بھی غلام ہے۔ جب ان میں سے کوئی شخص آگے نہ بڑھا تو وہ شاگرد اُن سے مخاطب ہوکر کہنے لگامیں نے تمہارا اعتراض سنا ہے کہ پیر صاحب نے لڑکے کو بوسہ دیامگر اِس نے نہیں دیا حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ پیر صاحب نے لڑکے کو بوسہ نہیں دیا تھا بلکہ انہیں اس میں سے نوراللہ نظر آیا تھا اور اُس نوراللہ کو انہوں نے بوسہ دیا مگر مجھے اس میں سے نوراللہ نظر نہ آیا اس لئے میں نے اُسے بوسہ نہ دیا اگر میں اسے بوسے دیتا تو وہ حظِّ نفس ہوتا اپنے پیر کی اتباع نہ ہوتی لیکن اب جبکہ انہیں آگ میں نوراللہ نظر آیا مجھے بھی اس میں سے نوراللہ دکھائی دیا پس میں نے بھی آگ کو بوسہ دے دیا۔ اگر تم نے بھی لڑکے میں نوراللہ دیکھ کر اُسے بوسہ دیا تھا تو اب آگ کو کیوں بوسہ نہیں دیتے؟ اور اگر تم نے محض حظِّ نفس کی وجہ سے لڑکے کو چوما تھا تو مجھ پر تمہارا اعتراض کس طرح درست ہوسکتا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ کا نور ظاہر ہوتا اور خداتعالیٰ کے پیاروں کو نظر آجاتا ہے چاہے وہ آگ میں نظر آئے یا کسی اور چیز میں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ کا یہ نور آگ میں نظر آیا تھا اور وہ اس کی طرف دوڑتے ہوئے چلے گئے تھے۔
پس اس صداقت کے مقابلہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ پھر اسی طرح ظاہر ہوئی جس طرح حضر ت محمد ﷺ کے ذریعہ ظاہر ہوئی تھی انسانوں کی کوئی ہستی نہیں کہ ان کا لحاظ کیاجاسکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فرمودہ مجھے اِس وقت ایک اور مثال بھی یاد آگئی ہے جو مُردہ کُتّے والی مثال سے زیادہ بہتر مثال ہے آپ فرمایا کرتے تھے ایسے لوگوں کی طاعون سے مرے ہوئے چوہوں جتنی بھی حیثیت نہیں ہوتی اور یقینا یہ مثال مُردہ کُتّے سے بھی زیادہ واضح ہے کیونکہ مرے ہوئے کُتّے کی لاش میں گوبُو اور سڑاند ہوگی لیکن طاعون سے مرے ہوئے چوہے میں بُو اورسڑاند کے علاوہ طاعون کا زہر بھی ہوگا۔ پس مرے ہوئے کُتّے سے صرف ناک اذیت اُٹھاتا ہے لیکن طاعون سے مرے ہوئے چوہے سے ناک کے ساتھ جان بھی تکلیف پاتی ہے کیونکہ ایسا چوہا انسانی جان کو بھی تلف کردیتا ہے۔
پس تمہارے اندر اگر نِفاق ہے تو اسے دور کرو اور اگر تمہارے اندر نفاق نہیں تو تمہار اوہ ہمسایہ جس میں نفاق ہے اس کے نفاق کو دور کرنے کی کوشش کرو اور اس کے زہر سے دوسروں کوبچائو اور اگر تم اس کی حمایت اور حفاظت کیلئے کھڑا ہونا چاہتے ہو تو میں تم سے درخواست کروں گا کہ تم طاعون سے مرا ہؤا چوہا اگر اپنے گھر میں رکھ لو تو میں سمجھوں گا کہ تم دیانتدار ہو۔ ایسے لوگ اگر آمادہ ہوں تو اب کی دفعہ جب طاعون پڑے تو طاعون زدہ علاقے سے مرے ہوئے چوہے لائیں اور اپنے اپنے گھروں میں رکھ لیں اور اگر وہ اس کیلئے تیار نہیں لیکن منافق کو پناہ دینے کیلئے وہ ہر وقت تیار ہیں تو بتائو ان کے ایمان اور ان کی دیانتداری پر میـںکس طرح یقین کرسکتا ہوں۔ میں تو یہ سمجھوں گا کہ ان میں بھی نفاق کی کوئی نہ کوئی رگ پائی جاتی ہے اگر ان میں نفاق نہیں تو وہ طاعون سے مرے ہوئے چوہوں کو اپنے گھروں میں کیوں نہیں رکھتے۔ اسی لئے نا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ چوہے رکھنے سے ہمیں طاعون لگ جائے گی۔ پھر جب وہ طاعون سے مرا ہؤا چوہا رکھنے سے ڈرتے ہیں لیکن منافق کے ساتھ ملنے اور اُس سے دوستی او رتعلق رکھنے میں کوئی ضرر نہیں دیکھتے تو کیوں یہ نہ سمجھا جائے کہ خود ان کے اندر نفاق کی کوئی رگ پائی جاتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سنایا ہؤا ایک اور واقعہ بھی مجھے یاد ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے جالینوس ایک دفعہ بازارمیں سے گزررہا تھا کہ ایک دیوانہ دَوڑتا ہؤا آیا اور اُس سے چمٹ گیا۔ جالینوس جب گھر واپس گیا تو جاتے ہی اس نے اپنی فصد کھلوائی۔ کسی نے پوچھا آپ فصد کیوں کھلواتے ہیں وہ کہنے لگا ہمیشہ ایک چیز کی طرف اسی جنس کی چیز رجوع کیا کرتی ہے آج جب ایک مجنون اور دیوانہ شخص بازار میں مجھ سے چمٹ گیا تو میں نے سمجھا کہ میرے اندر بھی ضرور کوئی دیوانگی کی رگ ہے پس کیوں نہ اس کے ظاہر ہونے سے پہلے میں اس کا علاج کرلوں۔ غرض پہلے اپنی عقلوں سے کام لو، پھر دعائوں اور اِنابت الی اللہ سے کام لو، اس کے بعد ہمت اور جرأت سے کام لو، بُزدل اور ڈرپوک مت بنو اور یہ مت خیال کرو کہ تم دس یا بیس ہزار آدمی کھوکر اپنا نقصان کرو گے ۔ یقینا اگر دس لاکھ آدمی بھی کسی سچی جماعت سے نکل جائیں تو وہ ایک کروڑ بن کر ہم میں آئیں گے اور مخلص بن کر آئیں گے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی ایک بیوی جو فوت ہوگئیں نہایت سادہ طبع اوربہت ہی مخلص تھیں۔ ان کی نرینہ اولاد کوئی زندہ نہیں رہتی تھی صرف دو لڑکیاں تھیں جن میں سے چھوٹی مفتی فضل الرحمن صاحب سے بیاہی گئی اور بڑی مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کے لڑکے مولوی عبدالواحد صاحب سے۔ ان دونوں لڑکیوں کی آگے اولاد ہے۔ مولوی محمداسماعیل صاحب غزنوی کا بہت لوگوں نے نام سناہوگا وہ انجمن سعودیہ کے ہندوستان میں نمائندے ہیں اور کانگرس میں بھی بہت عرصہ تک کام کرچکے ہیں او رغزنوی خاندان کے مشہور فرد ہیں۔ مفتی فضل الرحمن صاحب کی اولاد شروع شرو ع میں مرجاتی تھی اِس سے قدرتی طور پر نانی کو تکلیف ہوتی کہ میری اولاد تو فوت ہؤا ہی کرتی تھی اب میری لڑکی کی اولاد بھی فوت ہونے لگ گئی ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس عموماً دعا کرانے کیلئے آیا کرتیں ۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں فرمایا آپ گھبرائیں نہیں اللہ تعالیٰ آپ کی بیٹی کو اولاد دے گا۔ اُن کا اللہ تعالیٰ پر اِس قدر ایمان تھا کہ ایک دفعہ ان کا ایک بچہ فوت ہوگیا وہ بچہ خلقی طور پر کچھ نقص اپنے اندر رکھتا تھا، کانوں سے بہرہ تھا اورآنکھیں بھی شاید کمزور تھیں اس بچہ کی وفات پر ایک عورت اُن کے پاس افسوس کرنے آئی تو کہنے لگیں میرا بچہ اچھا ہوگیا ہے یعنی پہلے تو اس میں نقص تھا لیکن اب وہ اللہ تعالیٰ کے پاس خوبصورت ہونے کیلئے گیاہے۔
تو یاد رکھو خداتعالیٰ کی خاطر جن لوگوں سے قطع تعلق کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اُن کے بہتر قائمقام پیدا کردیتا ہے جو نہ صرف اخلاص میں بڑھے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ تعداد میں بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنے مخلص بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خداتعالیٰ کیلئے قربان کرنے کو تیار ہوگئے اور بیٹے نے بھی خداتعالیٰ کاحکم ماننے میں کوئی عذرنہ کیا تو خداتعالیٰ نے انہیں کہا اے ابراہیم! تُو نے میرے حکم کے ماتحت اپنے اکلوتے بیٹے کو میری راہ میں قربان کرنے کیلئے تیاری کی آسمان کی طرف دیکھ ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آسمان کی طرف دیکھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا دیکھ کیا آسمان پرستارے ہیں؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا ہاں حضور ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تُو ان ستاروں کو گِن سکتا ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا اے خدا! میں تو ان ستاروں کو نہیں گِن سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم! دیکھ چونکہ تُو اپنے اکلوتے بیٹے کو میری راہ میں قربان کرنے کیلئے تیار ہوگیا تھا اس لئے میں تیری نسل کو اس قدر بڑھائوں گا کہ وہ اسی طرح نہیں گنی جاسکے گی جس طرح آسمان پرستارے نہیں گنے جاسکے۔ کیا وہ خدا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے مخلص بیٹے کی قربانی پر اِس قدر کثرت سے نسل دے سکتا ہے وہ ہمیں منافق فرزندو ںکی قربانی پر ان کے ایسے قائمقام نہیں دے گا جو ان کی کمی کو پورا کرنے والے ہوں۔ یقینا جو قوم خداتعالیٰ کی محبت اور اخلاص میں اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ نفاق کو برداشت نہیںکرسکتی اسے اللہ تعالیٰ اسی طرح بڑھاتا ہے جس طرح آسمان پر ستارے کثرت سے پھیلے ہوئے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اِس نکتے کو سمجھے تھے یا نہیں جو ستاروں کی طرف اشارہ کرکے اللہ تعالیٰ نے ظاہر کیا کیونکہ اُس وقت تک علمِ ہیئت کی ترقی اِس حد تک نہیں ہوئی جس حد تک موجودہ زمانہ میں ہوئی ہے لیکن آج ہم بالکل اور رنگ میں اس نکتہ کو سمجھتے ہیں او روہ یہ ہے کہ آج دنیاکی لمبائی کا اندازہ میلوں میں نہیں لگایا جاتا۔ مثلاً یہ نہیں کہاجاتا کہ ایک زمین سے دوسری زمین کا اتنے میل کا فاصلہ ہے بلکہ ا س لمبائی کا اندازہ روشنی کی رفتار سے لگایا جاتا ہے۔ روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ اسّی ہزار میل چلتی ہے اور دنیا کی وسعت کا اندازہ اس نور کی روشنی سے ہی لگاتے ہیں اور یہ ایک اور ثبوت ہے اس بات کا کہ اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔ اللہ ہی آسمان اور زمین کا نور ہے یعنی اس میں بتایا گیا زمین و آسمان کی وسعت کا اندازہ تم کسی اور چیز سے نہیں لگا سکتے صرف نور اور اس کی رفتار سے ہی لگاسکتے ہو۔ غرض جب ایک سیکنڈ میں روشنی ایک لاکھ اسّی ہزار میل چلتی ہے تو ایک منٹ میں ایک کروڑ آٹھ لاکھ میل روشنی چلے گی ۔ پھر اسے ایک گھنٹہ کے ساتھ ضرب دو تو یہ ۶۴ کروڑ ۸۰ لاکھ میل بنتے ہیں۔ ان میلوں کو ایک دن کی روشنی کا حساب لگانے کیلئے ۲۴ سے ضرب دیں تو یہ ۱۵ ارب ۵۵ کروڑ ۲۰ لاکھ میل رفتار بن جاتی ہے۔ اب پھر اسے ایک سال کی رفتار کاحساب نکالنے کے لئے ۳۶۰ دنوں سے ضرب دیں تو ۵۵ کھرب ۹۸ ارب ۷۲ کروڑ میل بنتے ہیں۔ یہ حساب ایک روشنی کے ایک سال کی لمبائی کا ہوتا ہے لیکن دنیا کی لمبائی تین ہزار سال کی علمِ ہیئت والے قرار دیتے تھے۔ پس ان اعداد کو ۳ ہزار سال سے ضرب دینی ہوگئی اب اس کا حاصل ضرب جو نکلے وہ حسابی لحاظ سے درحقیقت ناقابلِ اندازہ ہی ہوجاتا ہے کیونکہ اربوں کے اوپر کا حساب درحقیقت حساب نہیں سمجھا جاتا مگر یہ حساب یہاں ختم نہیں ہوگیا جُوںجُوں نئے آلات دریافت ہورہے ہیں یہ اندازے بھی غلط ثابت ہورہے ہیں۔ چنانچہ جنگ کے بعد کی تحقیق میں یہ قرار دیا گیا کہ دنیا کی لمبائی ۶ ہزار روشنی کے سال کے برابر ہے مگر اس کے بعد بالکل تازہ تحقیق جو ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب باتیں غلط ہیں ہم دنیا کی لمبائی کا اندازہ ہی نہیں لگاسکتے کیونکہ جس طرح بچے کا قد بڑھتا ہے اسی طرح دنیا بھی بڑھتی چلی جارہی ہے اور اب اس کی لمبائی بارہ ہزار روشنی کے سالوں کے برابر ہے۔ یہ ایک اور ثبوت اِس آیت کی صداقت کا ہے کہ اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کہ خدا زمین و آسمان کانور ہے چونکہ خدا خود غیرمحدود ہے اس لئے اس کا نور بھی جس چیز میں داخل ہوجاتا ہے اُسے غیر محدود کردیتا ہے۔ علم ہیئت کی اس ترقی کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے الہام سے جو لذت ہم اُٹھاسکتے ہیں وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نہیں اٹھاسکتے تھے۔ خیر تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہا جس طرح آسمان کے ستاروں کوکوئی شخص گِن نہیں سکتا اسی طرح تیری اولاد کو بھی کوئی گِن نہیں سکے گا۔ اب آسمان کے ستاروں کی جو حقیقت بیان کی گئی ہے اس کے مطابق اس پیشگوئی کا سوائے اِس کے اور کوئی مطلب نہیں تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد غیرمحدود ترقی کرے گی اور اگر کبھی لوگ اسے گننے پر قادر ہونے لگیں گے تو جھٹ خداتعالیٰ اسے بڑھادے گا کیونکہ خداتعالیٰ قرآن کریم میں دوسری جگہ فرماتا ہے زمین و آسمان خداتعالیٰ کی مٹھی میں ہیں۔ پس جو چیز خداتعالیٰ کی مٹھی میں ہو اُس کا انسان کہاں اندازہ لگاسکتا ہے۔ اسی لئے جب انسان کا علم اس اندازے کے قریب قریب پہنچنے لگتاہے تو خداتعالیٰ اس دنیا کواور زیادہ بڑھادیتا ہے۔ اس نئے علم سے وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ؎۷ کی صداقت کاسائنس نے اقرار کرلیااور معلوم ہوگیا کہ زمین و آسمان کا اندازہ خداتعالیٰ کے سِوا اور کوئی نہیں کرسکتا اور جب بھی انسانوں کااندازہ حقیقت کے قریب پہنچے گا دنیا اور زیادہ پھیل جائے گی کیونکہ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِبتاتا ہے کہ عالَم کا اندازہ محض خداتعالیٰ کے علم میں ہے اس کے سِوا او رکوئی شخص اس کا احاطہ نہیں کرسکتا اسی لئے انسان جب اپنے خیالی علم کے ذریعہ اپنے خیال میں ایک اندازہ تک پہنچ گیا تو معاً بعد اُسے معلوم ہؤا کہ حقیقت تو اَور ہی ہے اور خداتعالیٰ نے دنیا کو اور زیادہ پھیلادیا ہے۔
پس ہم جس معرفت کو حاصل کئے ہوئے ہیں اس کے مطابق منافقین کاجماعت سے علیحدہ ہونا ہرگز جماعت کیلئے نقصان دہ نہیں ہوسکتا بلکہ غیر محدود ترقی کا موجب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجیدمیں صاف طور پر فرماتا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی ایک شخص مرتد ہوگا تو اللہ تعالیٰ اُس کی جگہ اُس سے بہتر قائمقام لائے گا۔ پس ہمیں ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں تم صداقت قائم کرنے اور کفر اور نِفاق کو اپنے اندر سے نکالنے کی کوشش کرو خواہ وہ نفاق تمہارے اندر ہو یا تمہارے بیوی بچوں اور عزیز ترین وجودوں میں۔ تم ان سب کو اللہ تعالیٰ کیلئے قربان کردو تا تمہیں وہ انعام حاصل ہوں جو قربانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں۔ یاد رکھو جب تک تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اپنے عزیزوں کو قربان کرنے کیلئے تیار نہیں ہوگے اُس وقت تک خداتعالیٰ خود تمہاری تعداد کو غیرمعمولی طور پر نہیں بڑھائے گا آخر خداتعالیٰ تمہاری تعداد کو کیوں بڑھائے۔ کیا اِس لئے کہ نِفاق اور شرارت بھی ساتھ ساتھ ترقی کرے ہاں جب تم نفاق کو اپنے اندر سے نکال کر باہرپھینک دو گے، جب تم شرارت اور فتنہ انگیزی سے بکلّی مجتنب ہوجائو گے تب خداتمہارے متعلق کہے گا کہ یہ بیج ہے جو جنت کا بیج ہے آئو میں اسے اپنی جنت میں بووئوں لیکن اگر تمہارے اندر نِفاق ہوگا تو تمہاری مثال گھن کھائے ہوئے بیج کی طرح ہوگی اور اس امر کو اچھی طرح سمجھ لو کہ خداتعالیٰ اپنے باغ میں گھن کھائے ہوئے بیج کو کبھی بونے کیلئے تیار نہیں ہوتا بلکہ پھل دینے والا بیج اپنی جنت میں بوتاہے او رپھل دینے والا بیج وہی ہے جو نہ منافق ہے نہ منافقت کی کوئی رگ اس میں پائی جاتی ہے۔ ایسا شخص یقینا جنت کابیج ہے او روہ جنت میں دائمی زندگی حاصل کرے گا۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ جنت کیا چیز ہے جنت وہی جگہ تو ہے جو ان پاکیزہ ارواح کا مسکن ہے جو ہرقسم کے کفر اور نفاق سے پاک ہوں گے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ؎۸ کہ اے میرے بندے! جا او رتُو جنت کا درخت بن جا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ ؎۹ میں نے اپنے ہاتھ سے تیرے لئے اپنی رحمت اور قدرت کا درخت بویا ہے اور فرماتا ہے کہ میں نے تیرے لئے اسماعیلی درخت بویاہے یعنی ایک ایسا بیٹا مقدر کیاہے جواسماعیلی رنگ رکھتا ہوگا یعنی وہ سب دنیا سے مقابلہ کرے گا اور دنیا اس کا مقابلہ کرے گی۔ اسی طرح صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی نسبت فرمایا کہ کابل سے اُکھیڑا گیا اور ہمارے ہاں لگا یا گیا ؎۰۱ ۔ پس جنت کے اصل درخت وہی روحیں ہیں جو دنیا سے پاک ہوکر اپنے ربّ کے حضور جاتی اور خد اکے نور کے پانی سے دائمی زندگی بسر کرتی ہیں۔ پس اگر تم دائمی زندگی حاصل کرنا چاہتے ہو تو نِفاق کواپنے دلوں سے نکال دو اور کامل پاکیزگی اور کامل طہارت حاصل کرکے جنت کے درخت بن جائو تب خداتمہارے پاس آئے گا اور وہ تمہیں ہمیشہ کیلئے اپنے قُرب میں جگہ عطا فرمائے گا۔
(الفضل ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۳۶ئ)
؎۱ النسائ: ۵۷ ؎۲ ھود: ۱۱۴
؎۳ موضوعات ملا علی قاری۔ صفحہ ۵۹ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ھ
؎۴ تذکرہ صفحہ ۶۱۲ ، ایڈیشن چہارم
؎۵ الحدید: ۴ ؎۶ النور: ۳۶ ؎۷ البقرۃ: ۲۵۶
؎۸ الفجر: ۳۰،۳۱
؎۹ تذکرہ صفحہ ۹۰، ایڈیشن چہارم
؎۰۱ تذکرہ صفحہ ۴۸۴، ایڈیشن چہارم میں یہ الفاظ ہیں ’’کابل سے کاٹا گیا اور سیدھا ہماری طرف آیا‘‘۔


۳۹
حمد ِکامل کیلئے صفاتِ الٰہیہ رَبُّ الْعٰلَمِیْن، الرَّحْمٰن،
الرَّحِیْم اور مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کا مظہربننا ضروری ہے
(فرمودہ ۲۳؍ اکتوبر ۱۹۳۶ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
خطبہ شروع کرنے سے پہلے میں اس امر کااعلان کرنا چاہتا ہوں کہ چونکہ نماز جمعہ کے بعد مجلس شوریٰ کااجلاس ہوگا اس لئے جمعہ کی نماز کے ساتھ میں عصر کی نماز بھی پڑھادوںگا اور نماز کے بعد چند نکاحوں کااعلان کرنا ہے۔ پہلے اُن کا اعلان کروں گا پھر دعا کے بعد مجلس شوریٰ کے اجلاس کیلئے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال کی طر ف جائوں گا۔
اِس کے بعد میں دوستوں کواس امر کی طرف توجہ دلاتاہوں کہ دنیا میں کوئی تعریف کسی انسان کو حاصل نہیں ہوسکتی جب تک اس میں چار باتیں نہ پائی جائیں۔ حقیقی تعریف ہمیشہ چار باتوں سے ہی ہوتی ہے جن کا ذکر سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندوں سے کہو میری حمد کریں اور کہیں کہ سب کامل اور سچی تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں کیونکہ اس میں چار باتیں پائی جاتی ہیں وہ رَبُّ الْعٰلَمِیْن ہے ایک، الرَّحْمٰن ہے دو، الرَّحِیْم ہے تین اور مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِہے چار۔ چونکہ یہ چار باتیں اس میںپائی جاتی ہیں اس لئے وہ تعریف کا مستحق ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ وہ خداجس نے دنیا کو پیدا کیاہے جس کا احساس انسانی زندگی کے ہر لمحہ اور ہر ساعت پر اور انسانی جسم کے ہر ذرہ پر ہے اس خد اکی تعریف کے ساتھ بھی دلیل دی گئی ہے کہ وہ سچی تعریف کا مالک ہے کیونکہ اس کے اندر یہ چار باتیں پائی جاتی ہیں اگر یہ نہ ہوتیں تو وہ تعریف کامستحق نہ ہوتا تو کیا یہ تعجب کی بات نہیںکہ انسان جو اس قدر محدود دائرہ عمل رکھتاہے اور اگر کوئی حُسن اس میں ہو تو نہایت ناقص ہوتا ہے، جس کی خوبیاں نہایت مشتبہہ ہوتی ہیں وہ یہ امید کرتا ہے کہ ان چار باتوں کے بغیر ہی اس کی تعریف ہوجائے، نہ وہ اپنے درجہ کے مطابق رَبُّ الْعٰلَمِیْن بنے، نہ اپنی حیثیت کے مطابق رحمن ہو، نہ رحیم اورنہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہو مگر پھر بھی لوگ کہیں کہ واہ یہ کیا اچھا آدمی ہے۔ جھوٹ سے تو یہ بات ہوسکتی ہے جھوٹی تعریف انسان ہر طرح کراسکتاہے۔ غریب، کمزور سے جو چاہا کہلوالیا مگر حقیقی تعریف نہیں کراسکتا۔
ایک احمدی دوست کا ہی قصہ ہے ان کے ایک بھائی مخلص احمدی تھے ان کی وجہ سے وہ احمدی تو ہوگئے مگر قادیان آنے کی توفیق ان کو نہ ملی اور نہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کا موقع ملا۔ ان کی دوبیویاں تھیں اور ان کا طریق یہ تھا کہ کسی ذرا سی بات پر ناراض ہوکر بیوی کو مارنے لگتے اورجس کا قصور سمجھتے اسے مارنے کے بعد دوسری کو بھی مارتے اور وہ سبب پوچھتی کہ میرا تو کوئی قصور نہیں مجھے کیوں مارتے ہو؟ تو کہتے کہ تُو اس پر ہنسے گی اس لئے تجھے مارتا ہوں۔ وہ ایک کو تو قصور کی وجہ سے مارتے تھے اور دوسری کو اس لئے کہ وہ ہنسے نہیں۔ ایک دفعہ قادیان سے کوئی دوست ان کے پاس گئے اورجب ان کو علم ہؤا کہ یہ بیویوں کو مارتے ہیں تو انہوں نے نصیحت کی کہ یہ بہت بُری بات ہے او ربڑا ظلم ہے اللہ تعالیٰ نے عورتوں سے محبت او رپیار کا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اگر آپ قادیان جاتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم سنتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہے جو آپ کررہے ہیں۔وہ شخص چونکہ دل سے نیک تھااس لئے اس بات کا اس پر بڑا اثر ہؤا ۔ اس نے یہ باتیں سُنیں اور روپڑا اور کہنے لگا کہ اب کیا کروں۔ اُس دوست نے بتایا کہ اب تو یہی طریق ہے کہ اپنی بیویوں سے معافی مانگیں او رتوبہ و استغفار کریں۔ وہ گھر میں گئے اور دونوں بیویوں کو بلا کر پاس بٹھایا اور کہا کہ مجھ سے بہت بڑا قصورہؤا اور اتنا بڑا گناہ ہؤا ہے کہ شاید میری بخشش بھی نہ ہو سکے۔ اب مجھے پتہ چلا ہے کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ بیوی کو مارنا نہیں چاہئے اِلَّا مَاشَائَ اللّٰہ ان امور میں جن کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے سو میں بہت گنہگار ہوں اب تم دونوں مجھے معاف کردو۔ مگر ان کی بیویاں شاید بوجہ اَن پڑھ ہونے کے خاوند کی طبیعت کو پڑھنے سے قاصر تھیں انہوں نے خیال کیا کہ یہ اب نرم اور ڈھیلاہے اب ہمارے لئے بدلہ لینے کا موقع ہے کہنے لگیں اب جو معافی مانگنے آئے ہو پہلے ہی کیوں اِس قدر ظلم کرتے رہے ہو پھر ایک کو تو قصورپر اوردوسری کو بِلا وجہ ہی مارتے رہے ہو پہلے ہی خیال کرلینا چاہئے تھا۔ معانی مانگنے کیلئے ان کا جوش چونکہ عارضی تھا اور نصیحت کے ماتحت تھا بیویوں سے جب یہ جواب سنا تو سامنے لاٹھی پڑی تھی کہنے لگے معاف کرتی ہو یا اس لاٹھی سے تمہاری ہڈیاں توڑ دوں۔ بیویوں نے جب یہ دیکھا کہ پھر وہی دَورہ ہونے لگا ہے تو کہنے لگیں آپ نے آخر قصورکون سا کیا ہے جس کی معافی مانگتے ہیں۔ آپ تو بہت اچھے آدمی ہیں۔ تو اس قسم کی تعریف تو انسان کرواہی لیتا ہے یہ کون سا مشکل کام ہے۔ تعریف وہ ہے جو دل سے نکلتی ہے اور علم کے ماتحت ہوتی ہے۔
سچی تعریف ہمیشہ دو طرح سے ہی ہوسکتی ہے ایک علم کے ماتحت ہو اور دوسرے دل سے نکلتی ہوسچی تعریف کیلئے یہ دو شرطیں ایک وقت میں ضروری ہیں ممکن ہے ایک تعریف علم کے ماتحت ہو مگر دل سے نہ نکلے اور یہ بھی ممکن ہے ایک تعریف دل سے نکلے مگر علم کے ماتحت نہ ہو۔ ایک گائوں میں چلے جائو کئی پارٹیاں نظر آئیں گی ایک دوسری کو قتل کرنے والی اور مال و اسباب لُوٹنے والی۔ ان میں سے ہر ایک مجلس میں بیٹھو وہ اپنے لیڈر کی تعریف کرتی ہوگی کہ وہ بڑے اچھے آدمی ہیں ، بڑے شریف ہیں اور بڑے نیک ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں جس نے دوست سے نیکی کی وہ نیک ہے دشمن سے ظلم کو بھی وہ نیکی سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دشمن سے جتنا ظلم بھی کیا جائے وہ نیکی ہی ہے۔ ڈاکو، فاسق، فاجر اور بدمعاش کی تعریف میں ان کی زبانیں خشک ہوتی ہیں وہ تعریف دل سے تو کرتے ہیں مگر علم کے ماتحت نہیں کیونکہ وہ جانتے ہی نہیں شرافت اور نیکی کیا ہے۔ دوسرا پہلو علم کا یہ ہے کہ بعض دفعہ انسان کو اس چیز کا پتہ ہی نہیں ہوتا وہ ایک چیز کو دیکھتا ہے کہ روشن اور خوبصورت ہے مگر اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ اپنی ذات میں زہر ہے مثلاًایک سانپ ہوتا ہے بچہ اُس پر ہاتھ پھیرتا اور سمجھتا ہے کہ کیسا نرم ہے مگر وہ اُسے ڈس لیتا ہے اُس کی ذات کے اندر جو برائیاں ہوتی ہیں ان کااسے علم نہیں ہوتا۔ یہ علم کی کمی کی دوسری مثال ہے کہ انسان اس چیز کی حقیقت سے ہی ناواقف ہوتا ہے۔ سانپ کی چمکتی ہوئی آنکھیں اور نرم جسم دیکھ کربچہ خیال کرتا ہے کہ کیسا خوبصورت ہے مگر اسے یہ علم نہیں ہوتا کہ ابھی ڈس کر اُسے ماردے گا۔تو علم کی کمی کی وجہ سے یا علم کی غلطی کی وجہ سے لوگ تعریف کردیتے ہیں۔ پھر کبھی تعریف علم کے ماتحت تو ہوتی ہے مگر دل سے نہیں ہوتی۔ مثلاً ایک شخص بھوکا ہے اُسے کئی روز کا فاقہ وہ دیکھتا ہے کہ ایک آدمی کسی دوسرے بھوکے کو کھانا کھلارہا ہے اب اس کی زبان تو کہتی ہے کہ کیسا نیک دل آدمی ہے مگر اس کادل یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ کاش! مجھے بھی کھلاتا گو اس کی پوری مثال نہیں مگر اس سے مشابہہ مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کاوہ واقعہ ہے جو قرآن کریم میں آتا ہے اور چارپرندوں کے واقعہ سے مشہور ہے۔ آپ نے خداتعالیٰ سے سوال کیا کہ آپ مُردوں کو کس زندہ کرتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم کو میری طاقتوں پر ایمان نہیں؟ آپ نے جواب دیا ایمان تو ہے وَلٰـکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ ؎۱ یہ زبان کا ایمان ہے میں دیکھتا ہوں کہ آپ مُردوں کو زندہ کرتے ہیں اور اقرار کرنا پڑتا ہے کہ کرتے ہیں مگر دل کہتا ہے کہ یہ طاقت میری اولاد کی نسبت بھی استعمال ہو، میں چاہتا ہوں کہ یہ نشان اپنے نفس میں دیکھوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کی قوم چار دفعہ مُردہ ہوگی اور ہم اسے چار دفعہ زندہ کریں گے۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ان کے ذریعہ حضرت ابراہیم کی آواز بلند ہوئی او ریہ مُردہ زندہ ہؤا پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ حضرت ابراہیمؑ کی آواز بلند ہوئی اور یہ مُردہ زندہ ہؤا پھر آنحضرت ﷺ کے ذریعہ وہی آواز بلند ہوئی اور اس مُردہ قوم کو زندگی ملی اور چوتھی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ابراہیمی آواز پھیلی اور وہی مُردہ زندہ ہؤا ۔ چار دفعہ ابراہیمی نسل کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آوازیں دیں اور چاروں دفعہ وہ دَوڑ کر جمع ہوگئیں۔ پہلاپرندہ جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بلایا اور اطمینانِ قلب حاصل کیا وہ موسوی اُمت تھی، دوسرا پرندہ عیسوی اُمت تھی، تیسرا پرندہ (آنحضرت ﷺ کے جلالی ظہور کی حامل اور مظہر )محمدی جماعت ہے اور چوتھا پرندہ (آپ کے جمالی ظہور کی مظہر) جماعت احمدیہ ہے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے قلب کو راحت پہنچائی اور آپ نے کہا کہ واقعی میرا خدا زندہ کرنے والا ہے۔ حضرت ابراہیم نے جواب دیاتھا کہ لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْجس کا مطلب یہی ہے کہ حضور! زبان تو اقرار کرتی ہے اور میں ہر روز دیکھتا ہوں کہ آپ مُردوں کو زندہ کرتے ہیں پھرمجھے کس طرح انکار ہوسکتاہے کہ آپ ایسا کرسکتے ہیں لیکن اگرمیری اولاد ہدایت نہ پائے تو مجھے اطمینانِ قلب کس طرح حاصل ہوسکتاہے۔ پس اطمینانِ قلب کیلئے میں نشان مانگتا ہوں۔ میری عقل وفکر، میرے ہوش و حواس اور میرا مشاہدہ کہتا ہے کہ آپ مُردوں کوزندہ کرتے ہیں مگر دل کہتا ہے کہ میں خود کیا تعریف کروں جب تک یہ پتہ نہ لگے کہ میری اولاد میں بھی یہ نشان ظاہر ہوگا ۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا دماغ ہی نہیں بلکہ دل بھی متوجہ ہو اور میرے دل میں عشق پیدا ہو اور دل اُسی وقت توجہ کرتاہے جب اپنی ذات پر احسان ہو۔ تو جب تک علم کے ساتھ اور دل سے نہ ہو تعریف، تعریف نہیں ہوسکتی اور اس کیلئے ان چار باتوں کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں بیان کی ہیں اور جن سے قلب کی بھی اور دماغ کی بھی تسلی کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ حمد کیلئے ضروری ہے کہ جس کی حمد کی جائے اُس کے اندر یہ چاروں کمالات ہوں۔
کامل حمد کیلئے ایک ضروری چیز تو یہ ہے کہ اس کا احسان محدود نہ ہو اور وہ رَبُّ الْعٰلَمِیْنہو ہر عقلمند سوچ سکتا ہے کہ حمد کامل اس کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ فرض کرو دنیا میں دس آدمی ہی آباد ہیں اب ان میں سے اگر نو ہی تعریف کریں اورایک نہ کرے یا آٹھ تعریف کریں اور دو نہ کریں یا سات تعریف کریں اور تین نہ کریں تو یہ حمدِ کامل نہ ہوسکے گی۔ کامل حمد جبھی ہوگی کہ دسوں تعریف کریں تو اللہ تعالیٰ کے متعلق فرمایا کہ وہ رَبُّ الْعٰلَمِیْن ہے وہ سب جہانوں کارب ہے نہ اِسی زمانہ کا بلکہ گزشتہ اور آئندہ زمانوں کا بھی اور نہ صرف انسانوں کا بلکہ سب مخلوق کا وہ ربّ ہے جو چیز بھی عالمِ وجود میں ہے وہ سب کا ربّ ہے اور جب اللہ تعالیٰ سب کا ربّ ہے تو کونسی چیز اُس کی حمد سے باہر رہ سکتی ہے۔پس حمدِ کامل کیلئے پہلے رَبُّ الْعٰلَمِیْن ہونا او رپھر رحمٰن اور رحیم اور مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہونا ضروری ہے۔
رحمٰن کے معنے ہیں بغیر محنت کے وہ فضل کرتا ہے اور رحیم کے معنے ہیں کہ انسانی کاموں کے اعلیٰ بدلے دیتا ہے مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے معنے ہیں کہ وہ حساب لیتا ہے تو سختی نہیں کرتا بلکہ نرمی سے کام لیتا ہے۔ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِکے بغیر انسان کی تسلی نہیں ہوسکتی۔ کسی کا ماضی خواہ کتنا ہی شاندار کیوں نہ ہو مستقبل خوف کے نیچے ہی رہتا ہے۔ تو مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِکہہ کر مستقبل بھی خوشکن کردیا او ربتادیا کہ انجام بھی اس کے ہاتھ میں ہے اگر نیک نیتی سے کام لو تو جو غلطیاں رہیں گی ان کی تلافی بھی وہ خود کردے گا۔ اس کے بیسیوں معنے ہیں جن میں سے ایک درجن کے قریب مَیں نے اپنے اس درس میں بیان بھی کئے ہیں جو الفضل میں شائع ہونا شروع ہؤا ہے لیکن ایک معنے ا س کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ مؤمن کے انجام کو اپنا انجام قرار دے لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تیرا انجام میرا انجا م ہے اگر تم اپنے دل میں عشق پیدا کرلو تو تمہارے انجام کو میں اپنا انجام قرار دے لوں گا۔ اگر تم ہارے تو گویا مَیں ہارا، اگر تم پر الزام آئے گا تو مجھ پر آئے گا، اگر تم پر تباہی آئی تو گویا میری بادشاہت پر تباہی آئے گی، تمہارا انجام اب تمہارا نہیں بلکہ اسے میں نے اپنا انجام بنالیا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق رسول کریم ﷺ نے جنگِ بدر میں شامل ہونے والے صحابہؓ کو فرمایا کہ اِعْمَلُوْا مَاشِئْتُمْ ۲ ؎ جائو جو چاہو کرو اس کا مطلب یہ نہیں یہ جائو بے شک ڈاکے ڈالو، چوریاں کرو، قتل و غارت کرو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کوئی کتنا بھی زور لگالے تم گمراہ نہیں ہوسکتے تمہارا انجام اللہ تعالیٰ نے اپنا انجام قرار دے لیا ہے اب تم گمراہ نہیں ہوسکتے۔
اس نکتہ کے ماتحت اس بدری صحابی کا واقعہ دیکھو جس نے مکہ والوں کو اسلامی لشکر کے آنے کے متعلق اطلاع دے دی تھی۔ رسول کریم ﷺنے سختی سے منع فرمایا تھا کہ اہلِ مکہ کو اسلامی لشکر کے آنے کی کوئی اطلاع نہ دی جائے۔ لیکن ایک بدری صحابی نے مکہ میں اپنے رشتہ داروں کو رُقعہ لکھ بھیجا کہ آنحضرت ﷺ اپنی فوج سمیت آرہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو الہاماً آگاہ کردیا۔ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور بعض او رصحابہؓ کو بلایا اور بتایا کہ فلاں رستہ پر اور فلاں منزل پر تمہیں ایک عورت ملے گی اُس کے پاس ایک رقعہ ہوگا وہ لے آئو۔ حضرت علی ص جب اُس عورت کے پاس پہنچے اور رُقعہ کے متعلق دریافت فرمایا تو اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی رُقعہ نہیں ہے۔ اُسے دھمکیاں بھی دی گئیں مگر وہ انکار کرتی رہی، لالچ بھی دیئے گئے مگر اُس نے نہ مانا۔ صحابہ نے کہا کہ ممکن ہے کہ کوئی اور عورت ہو اَور کسی اور طرف سے نکل گئی ہو لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا مَیں یہ بات نہیں ماننے کا۔ آنحضرت ﷺ نے یہ الہامِ الٰہی سے خبر دی تھی اور یہ ممکن نہیں کہ وہ عورت نکل کر جاسکے اور اُسے کہا کہ میں ابھی ننگا کرکے تیری تلاشی لوں گا اس لئے بہتر ہے کہ رُقعہ دے دے اس سے وہ ڈر گئی اور گُت کھول کر اس میں سے رُقعہ نکال کر دے دیا اس میں یہ خبر لکھی تھی کہ آنحضرت ﷺ تشریف لارہے ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے اس صحابی کو بلایا اور پوچھا یہ تم نے لکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ آپ نے فرمایا کیوں؟ تو انہوں نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! آپ نے جو احتیاطیں کیں یہ اللہ تعالیٰ کا حکم تھا ورنہ جس خدا نے آپ کے ساتھ فتح کا وعدہ کیا ہے مکہ والے اُس کی طاقتوں کا مقابلہ کہاں کرسکتے ہیں مکہ میں میرے کوئی رشتہ دار ایسے نہیں ہیں جو میرے بیوی بچوں کی حفاظت کرسکیں باقی سب صحابہ کے رشتہ دار مکہ کے بڑے بڑے رئیس ہیں مَیں نے اِس لئے رُقعہ بھیج دیا تھاکہ اِس وجہ سے وہ میرے بیوی بچوں کو نقصان نہ پہنچائیں گے۔ باقی خدا کی بات تو پوری ہوکر ہی رہے گی اس لئے میرا رُقعہ بھیج دینا کوئی ایسی بات نہ تھی جس سے اسلام کو نقصان پہنچ سکے۔
عام حالات میں یہ ایک منافقانہ بات ہے اور اِس جو اب کو سُن کر انسان کہے گا کہ بہانے بناتا ہے لیکن اس میں شبہ بھی کیا ہے کہ یہ بات سچی تھی خداتعالیٰ کے وعدہ کو کون ٹلاسکتا تھا مگر چونکہ عام حالات میں یہ ایک منافقانہ بات تھی اس لئے صحابہؓ نے اپنی تلواریں نکال لیں کہ اجازت ہو تو ابھی سر کاٹ دیں مگر رسول کریم ﷺنے فرمایا آرام سے بیٹھو تمہیں معلوم نہیں کہ یہ بدری ہے ؎۳ ۔ یہ واقعہ خود بتاتا ہے کہ اِعْمَلُوْا مَاشِئْتُمْ کا کیا مطلب ہے۔ اس صحابی سے غلطی ہوئی مگر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو الہام کے ذریعہ سے اطلاع دے دی اور وہ رُقعہ واپس آگیا اس عورت نے جاکر یہ سارا واقعہ مکہ میں بیان تو کر ہی دیا ہوگا کہ اس طرح فلاں شخص نے مجھے ایک رُقعہ دیا تھا جس میں یہ لکھا تھا اور اس طرح وہ مجھ سے واپس لے لیا گیا اور اس طرح وہ صحابی ا س رُقعہ سے جو فائدہ اُٹھانا چاہتے تھے وہ بھی حاصل ہوگیا ہوگااور اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے اس رُقعہ کے پہنچنے کے گناہ سے اُس صحابی کو بھی بچالیا۔ آنحضرت ﷺ نے کئی کئی منزلیں ایک ایک دن میں طے کیں تا مکہ والوں کو خبر ہونے سے پیشتر ہی پہنچ جائیں۔ تو اِعْمَلُوْامَاشِئْتُم میں یہی بتایا تھا کہ بدری صحابی اگرکوشش بھی کریں تو اُن سے کوئی ایسی بات سرزد نہ ہو گی جو انہیں گنہگار بنادے۔ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ اگر یہ رُقعہ پہنچا تو وہ صحابی گنہگار ہوگا اس لئے رسول کریم ﷺکو حکم دیا کہ بھیجو علی ؓ کو اور رُقعہ واپس منگوالو۔ یہ مثال ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اس مقام پر پہنچ جائے اللہ تعالیٰ اُس سے گناہ سرزد ہونے ہی نہیں دیتا۔ ایک صحابی نے غلط فہمی کی وجہ سے ایک ایسا فعل کیا جو اُسے گناہگاربنانے والا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنا حکم جاری کرکے اسے بچالیا۔ تو مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ایسے انسان کے انجام کو اللہ تعالیٰ اپنا انجام قرار دے لیتا ہے۔
مقبرہ بہشتی کیلئے وصیت بھی دراصل اسی کے ماتحت ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر وصیت کرنے والا گنہگار ہوجائے تو پھر؟ لیکن ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایسے شخص کے انجام کو اللہ تعالیٰ اپنا انجام قرار دے لیتا ہے۔ گندہ شخص اگر وصیت کردے تو وصیت قبول کرلینے والا گنہگار ہوگا لیکن وصیت کرنے والا اپنی نیت کے مطابق ضرور جنت میں جائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ بعض اشخاص کے انجام کو اپنا انجام قرار دے لیتاہے۔ بالکل ممکن ہے کہ اگر کوئی موصی گنہگار ہو تو اللہ تعالیٰ موت کے وقت فرشتوں سے تلقین کرا کر اُسے توبہ کا موقع دے دے اور وہ جنت میں چلا جائے یا اگر وہ اس قابل نہیں تو موت سے قبل اس کی وصیت منسوخ کرادے۔ پس مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنکے اَن￿ گنت معنے ہیں۔ بیسیوں کہنا قرآن کریم کی ہتک ہے جن میں سے ایک یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے انجام کواپنا انجام قرار دے لیتاہے۔یہ چار باتیںہیں جن کی وجہ سے انسان حمد کا مستحق ہوسکتا ہے لیکن تعجب کا مقام ہے کہ بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے بغیر ہی ان کی تعریف ہو۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے متعلق اظہارِ نفرت کیا ہے جو کوئی کام تو کرتے نہیں لیکن تعریف کی خواہش رکھتے ہیں۔
میں اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ تعریف کا احساس قدرتی ہے بے شک یورپین فلاسفر کہتے ہیں کہ انسان کوتمام قسم کی تعریفوں سے مستغنی ہونا چاہئے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا کی تعریف سے بھی مستغنی ہونا چاہئے۔ حقیقی تعریف سے مستغنی ہونے والا انسان احمق کہلائے گا۔ تعریف کا جذبہ طبعی ہے حتّٰی کہ رسول کریم ﷺ نے تو اسے اتنی اہمیت دی ہے کہ فرمایا جس شخص کے متعلق چالیس مؤمن کہیں کہ وہ نیک تھا وہ ضرور جنت میں جائے گا گویا جنت کو بھی شہادت پر منحصر کردیا لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ تعریف کا جذبہ چونکہ جُزوِ فطرت ہے اس لئے چالیس مؤمن جس کی تعریف کریں اُس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہی ہے کیونکہ فطرت اللہ تعالیٰ سے ہی آتی ہے۔ پس جب یہ فطری جذبہ ہے تو اسے پورا کرنے کے سامان بھی کرنے ضروری ہیں اور وہ سامان یہی ہیں کہ مؤمن کا احسان محدود نہ ہو۔ انسان او رخدا میں یہی فرق ہے کہ خدا کا احسان ہر چیز پر براہِ راست ہوتا ہے مگر انسان کے اعمال محدود ہیں اس لئے اُس کا احسان ہر چیز پر براہِ راست نہیں ہوسکتا اس وجہ سے وہ ان معنوں میں تو رَبُّ الْعٰلَمِیْن نہیں ہوسکتا لیکن اسے چاہئے کہ وہ ان معنوںمیں تو رَبُّ الْعٰلَمِیْنبنے کہ جسے اس کے ساتھ واسطہ پڑے اُس کے ساتھ وہ ربوبیت کا معاملہ کرے۔ اس کے بعد جن لوگوں سے اس کا واسطہ نہیں پڑا اُن کو بھی اللہ تعالیٰ اسی شاخ میں شامل کردے گا۔ مثلاً اُس کا واسطہ ایک ہزار انسانوں سے پڑا ہے اور وہ ان کے ساتھ ربوبیت کا معاملہ کرتا ہے تو خداتعالیٰ اس کے رجسٹر میں یہی لکھے گا کہ وہ تمام مخلوق سے ربوبیت کامعاملہ کرتا ہے۔
دوسرا طریق اس کا یہ ہے کہ عمل کی طاقت جہاں محدود ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے خیال کی طاقت کو غیرمحدود پیدا کیا ہے۔ آریہ اعتراض کرتے ہیں کہ انسانی اعمال محدود ہیں پھر ان کا اجر کس طرح غیرمحدود ہوسکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِس کایہی جواب دیا ہے کہ انسان کے اعمال بے شک محدود ہیں مگر اس کی نیت محدود نہیں انسان نے کب کہا تھاکہ ساٹھ یا ستر سال کی عمر میں اُسے وفات دے دی جائے اس کی نیت غیرمحدود تھی اور ارادہ غیرمحدود عمل کرنے کا تھا او راس کے عوض اللہ تعالیٰ کا وعدہ اسے غیرمحدود جنت دینے کا تھا۔ اب خدا تو اسے غیرمحدود جنت دینے پر قادر ہے لیکن انسان غیرمحدود عمل کرنے پر قادر نہیں۔ خداتعالیٰ جب چاہے اسے وفات دے سکتا ہے۔ پس اس کی اس کمزوری کا فائدہ بھی اللہ تعالیٰ اسے ضرور دے گا۔
تو دوسرا ذریعہ رَبُّ الْعٰلَمِیْن بننے کا ارادہ ہے۔ تمہارے دل میں یہ جوش ہونا چاہئے کہ تمام دنیا کو ہدایت دی جائے، تمام دنیا کو آرام اور سکھ پہنچایا جائے، تمام مخلوق کی ترقی کا موجب بنا جائے۔ اب اگر تمہارا ارادہ ہزار اشخاص کو فائدہ پہنچانے کا تھا مگر موقع صرف سَو کو ہی پہنچانے کا ملا تو ثواب تمہیں ہزار کا ہی ہوگا اور اگر ارادہ غیرمحدود مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا تھا مگر موقع صرف ہزار ہی کو پہنچانے کا ملا تو ثواب بھی غیرمحدود کا ہی ہوگا۔ اسی اصل کے ماتحت آنحضرت ﷺ نے فرمایا نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِنْ عَمَلِہٖ ؎۴ ۔پس بدلہ اللہ تعالیٰ عمل کے مطابق نہیں بلکہ نیت کے مطابق دیتا ہے اور اسی لئے انسان غیرمحدود کا وارث بنتاہے۔ انسان جب اپنے جذبات کو رَبُّ الْعٰلَمِیْن کی صفت کے ماتحت کرلیتا ہے اور اس کی نیت یہ ہوجاتی ہے کہ ساری دنیا بلکہ سارے عالم کی بہتری کی کوشش کرے لیکن کر ان کیلئے ہی سکتا ہے جس سے اس کا واسطہ پڑے تو وہ مظہرِ رَبُّ الْعٰلَمِیْن بن جاتا ہے اور اُس وقت تعریف کامستحق ہوجاتا ہے۔ فرض کرو وہ دس آدمیوں کو فائدہ پہنچاسکتا ہے مگر اس کی نیت یہ تھی کہ اگر خداتعالیٰ موقع دے تو دوارب لوگوں کو فائدہ پہنچائے لیکن اُسے موقع صرف دس کوہی پہنچانے کا مل سکا تو گیارھویں کو جب اُس کی نیت کا علم ہوگا کہ یہ رات دن اس کوشش میں رہتا تھا کہ اسے فائدہ پہنچائے تو وہ اس کی تعریف کرے گا یا نہیں۔ اور جوں جوں یہ علم پھیلتا جائے گا اس کی تعریف بھی پھیلتی جائے گی اور جو اس کی تعریف نہیں کرے گا وہ صرف اس وجہ سے نہیں کرے گا کہ اسے علم نہیں۔
اس طرح لَاعِلم ہونے کی وجہ سے تعریف نہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے متعلق بھی موجود ہیں ان کا تعریف نہ کرنا عدمِ علم کی وجہ سے ہے اگر انہیں پتہ ہو کہ خداتعالیٰ ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتاہے تو وہ ضرور اُس کی تعریف کریں ۔ پس اس طرح جو بندہ نیک نیت ہے اس کے متعلق بھی اگر ساری دنیا کوعلم ہو تو سب اُس کی تعریف کریں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفت رحمٰن اور رحیم ہے۔ انسان کے پاس جو سامان میسر ہے وہ دوسرے کو دے دیتا ہے اور نیت یہ رکھتا ہے کہ اور ہو تو وہ بھی دے دوں۔ تو اس کے عمل میں جو کوتاہی رہے گی اُسے اس کی نیت پوری کردے گی۔ پس عمل اور ارادہ مل کر انسان کو خداتعالیٰ کا مظہر بنادیتے ہیں جس حد تک عمل چلتا ہے وہاں تک عمل دکھانا پڑتا ہے لیکن جہاں غفلت کی وجہ سے یا وفات کی وجہ سے عمل ختم ہوجاتا ہے وہاں ارادہ اور نیت کمی کو پورا کردیتا ہے اور وہ شخص حمد کا مستحق ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ عمل تو درست رکھتے ہیں مگر ان کی نیت درست نہیں ہوتی خصوصاً آجکل تو ظاہرداری بہت ہے ایک شخص ملنے آتا ہے تو کہتے ہیں آئیے تشریف لائیے۔ آپ بہت اچھے آدمی ہیں مگر دل میں یہی ہوتاہے کہ اس نے فلاں موقع پر میرے ساتھ فلاں بات کی تھی اگر موقع ملے تو اس کا گلا گھونٹ دوں۔ عمل تو اچھا ہوتا ہے مگر نیت خراب ہوتی ہے نیت کیلئے ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس زمانہ میں ایمان کی کمی کی وجہ سے نیت زیادہ خراب ہے۔ ہندوستان میں ہندو مسلمانوں کے جتنے جھگڑے ہیں وہ سب نیت کی خرابی کی وجہ سے ہی ہیں۔ ایک مجلس میں ایک پنڈت صاحب سے ایک مولوی صاحب ملتے ہیں تو کہتے ہیںکہ بس آپ کا احسان ہے بیوی بچے آپ ہی کے احسانات کی وجہ سے پلتے ہیں۔ لیکن گھر میں آکر کہتا ہے کہ یہ بڑا خبیث ہے موقع ملے تو اسے جان سے ماردوں۔ اور ہندو مسلمان سے ملتا ہے تو کہتا ہے کہ ’’خان صاحب‘‘ آپ ہی ہمارے اَن￿ دَاتا ہیں لیکن گھر میں جاکر کہتا ہے کہ یہ ’’مُسلے‘‘ جب تک ملک سے نہ نکلیں ہمارا ملک آزاد نہیں ہوسکتا۔ گویا عمل تو درست ہے مگر نیت درست نہیں۔ اگر نیت درست ہو تو عمل کی اصلاح آسانی سے ہوسکتی ہے مگر چونکہ نیت کی اصلاح نہیں ہوتی اس لئے عمل کا فائدہ بھی نہیںپہنچتا اور وہ بیماری پھر عَود کر آتی ہے کیونکہ عمل نیت اور ارادہ کے تابع ہوتا ہے۔
پس مَیں جماعت کو آج یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ایک اہم کام ہمارے ذمہ ہے پھر ہر ایک کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُس کی تعریف ہو۔ ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ مجھے تو یہ خواہش نہیں لیکن مجھے تو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ میرے دل میں تو یہ خواہش ضرور ہے کہ جب میں خداتعالیٰ کے حضور حاضر ہوں تو وہ کہے کہ تُونے بہت اچھا کام کیا۔ پس میں تو تعریف سے مستغنی نہیں ہوں۔ میرا قلب اتنا فلسفی نہیں اسے کمزوری سمجھ لویا کچھ، مجھے تو ضرور یہ خواہش رہتی ہے ۔ پس اگر تم بھی چاہتے ہو کہ وہ ہستیاں تمہاری تعریف کریں جن کی تعریف قیمتی چیز ہے تو عمل کے ساتھ نیت بھی درست کرو۔ جہاں تک ہوسکے، عمل، قربانی اور ایثار سے کام لو اور پھر نیت درست رکھو۔ اگر ایک پیسہ بھی دے سکتے ہو دے دو لیکن نیت یہ رکھو کہ خداتعالیٰ دے تو اَن￿ گنت قربانیاں کریں۔ جو شخص ایک روپیہ چندہ دیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ *** ہے ایسے چندہ پر پیچھے پڑ کرلکھوالیتے ہیں تو ایسا چندہ واقعہ میں ہی *** ہے۔ جس کی نیت چھوٹی ہے مگر ظاہر میں عمل بڑا ہے اس کا عمل حقیقتاً چھوٹا ہے لیکن جس کا عمل کم مگر نیت زیادہ ہے اس کا تھوڑا عمل بھی زیادہ ہے۔ جس چندہ کے بعد دل میں یہ ہو کہ میںنے بہت تھوڑا دیا ہے وہ بہت زیادہ ہے لیکن جس چندہ کے بعد دل میں یہ ہو کہ بہت دے دیا ہے وہ کچھ نہیں۔ یا جو شخص تبلیغ کیلئے ایک مہینہ لگاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ اَور مصیبت آپڑی ہے پہلے تو کہتے تھے چندے دو مگر اب کہتے ہیں وقت بھی دے دو اور کمائی بھی نہ کرو تو اس کے ذریعہ سے اگر کسی کو ہدایت بھی ہوجائے تو خداتعالیٰ کی نظر میں اس کی کوئی وقعت نہیں مگر جوبجائے ایک ماہ کے ایک دن دیتا ہے مگر اس کے د ل میں تڑپ یہ ہے کہ موقع ملے تو اور بھی وقت دوں اُس کی نیت عمل کی کمی کو پورا کردے گی۔ نیت کی کمی کو عمل پورا نہیں کرسکتا مگر عمل کی کمی کو نیت پورا کردیتی ہے۔ جس طرح ایمان کی کمی کو نمازیں اور روزے پورا نہیں کرسکتے مگر نمازوں اور روزوں میں جوکمی رہ گئی ہو اسے ایمان پورا کردیتاہے۔ ظاہری طور پر ہی دیکھ لوکتنے بچے ہیں جو بے حد کریہہ دُبلے پتلے اور دائم المرض ہوتے ہیںمگر ماں باپ اُن کوچھاتی سے لگائے پھرتے ہیں اور ان کی خدمت کرتے ہیں۔ دنیا میں کتنے ماں باپ ہیں جو کسی غیرکے بچہ کومحض اِس وجہ سے محبت کریں کہ وہ خوبصورت ہے لاکھ میں سے ایک بھی عورت شاید ایسی نہ ہو۔ کہتے ہیں دنیا کی آبادی اِس وقت ڈیڑھ ارب ہے غور کرکے دیکھ لو اِن میں چند ہزار بھی ایسی مائیں نہیں ملیں گی جو دوسرے کے بچہ سے محض خوش شکل ہونے کی وجہ سے اپنے بچہ کی طرح محبت کریں مگر پچاس فیصدی ایسی ہیں جو نہایت ہی بدصورت او رایسے گندے بچوں کوجنہیں دیکھ کر گھن آتی ہے چھاتی سے لگائے پھرتی ہیں کیونکہ اُن کیلئے اُن کے دل میں اخلاص ہوتا ہے۔ پس معلوم ہؤا کہ ایمان عمل کی کمزوری کو پورا کردیتا ہے جس طرح محبت ظاہری نقص کو پورا کردیتی ہے ایسی مثالیں تو بے شمار ہیں کہ بچہ بدصورت ہے مگرماں جذبۂ محبت کی وجہ سے پیار کرتی ہے مگر ایسی مثال کوئی نہ ملے گی کہ دل میں نفرت ہو اور صرف خوبصورتی کی وجہ سے کوئی عورت بچہ کو پیار کرے۔
پس اگر واقعہ میں آپ لوگ چاہتے ہیں کہ آپ خداتعالیٰ کے نزدیک تعریف کے مستحق بنیں تو اعمال کے ساتھ نیت کی بھی اصلاح کریں۔ کسی قربانی پر بھی مطمئن نہ ہوں بلکہ نیت رکھیں کہ اَور بھی کریں۔ اگر تو واقعی آپ کے قلب کی یہی حالت ہے تو سمجھ لیں کہ ٹھیک ہے لیکن اگر یہ خیال ہے کہ بوجھ ہے تو نیت ہی نہیں ساتھ ہی عمل بھی ردّ کردیاجائے گا۔
سورۃ فاتحہ میں یہ ایک عظیم الشان نکتہ ہے جو سکھایا گیا ہے مؤمن کو چاہئے اس سے فائدہ اُٹھائے اور ساتھ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور نیت کی اصلاح ایسے رنگ میں کردے کہ ہم اس کی ابدی رحمت اور ابدی جنت کے حقدار ہوجائیں تا خدا تعالیٰ سے ہمارا تعلق حقیقی ہو عارضی اور غیر حقیقی نہ ہو۔
(الفضل ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۳۶ئ)
؎۱ البقرۃ: ۲۶۱
؎۲
؎۳ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الممتحنۃ باب لاَ تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَ عَدُوَّکُمْ
؎۴ المعجم الکبیر جلد ۶ صفحہ ۲۲۸، مطبوعہ عراق ۱۹۷۹ء

۴۰
کامیابی حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ
انسان تذلّل اور انکسار اختیار کرے
(فرمودہ ۶؍ نومبر ۱۹۳۶ء بمقام محمود آباد سندھ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَ تِھِمْ خَاشِعُوْنَ ؎۱ ۔ اس کے بعد فرمایا:-
دنیا میں کئی لوگ شکوہ کیا کرتے ہیں کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوتے اوران کی محنتیں ضائع چلی جاتی ہیں ایسے لوگ ہمیں دُنیوی کام کرنے والوں میں بھی دکھائی دیتے ہیں اور دینی کام کرنے والوں میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ دُنیوی زندگی کو مطمحِ نظر قرار دینے والوں سے بھی بعض شکوہ کیا کرتے ہیں کہ ان کے کاموں کا انفرادی یا قومی رنگ میں کوئی نتیجہ برآمد نہیںہوتا اور دینی کام کرنے والوں میں سے بھی بعض لوگ شکوہ کیا کرتے ہیں کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، استطاعت پر حج بھی کرتے ہیں، ذکر الٰہی بھی کرتے ہیں، سچائی اور دیانت سے بھی کام لیتے ہیں لیکن وہ ان کا کوئی غیرمعمولی اثر اپنے اندر محسوس نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں انہی ناکامیوں کے پیشِ نظر بعض گُر بیان فرمائے ہیں جن کو مدّنظر رکھنے سے انسان دینی و دنیاوی طور پر کامیاب یا بامراد ہوجاتا ہے اور اس کے کاموں کا صحیح نتیجہ برآمد ہونے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَ تِھِمْ خَاشِعُوْنَ وہ مؤمن کامیاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع سے کام لیتے ہیں ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے خیالات کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ ہم کام تو کرتے ہیں مگر ہمیں ملتا کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص خداتعالیٰ کے قُرب کے حصول کیلئے صحیح رنگ میں جدوجہد کرے اور پھر اسے ناکامی حاصل ہو۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک مخلص اور مؤمن بندے کاایمان تقاضا کرتا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی عبادت کسی انعام کے لالچ میں نہ کرے بلکہ عبودیت کو اپنے فرائضِ منصبی میں شمار کرے مگر اس کے یہ معنی بھی نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے کسی اچھے نتیجے کی امیدنہ رکھی جائے ۔ جس بات سے روکا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی عبادت ٹھیکہ کے طور پر نہ کی جائے کہ جتنا انعام ملے گا اتنی ہی ہم عبادت کریں گے۔ وہ عالم الغیب ہستی ہے انسان کوچاہئے کہ اپنا معاملہ اُس پر چھوڑ دے اور صدقِ دل سے اس کی عبادت کرتا چلا جائے پھر اللہ تعالیٰ جس رنگ میںچاہے گا اسے اپنے انعامات سے حصہ عطا فرمادے گا ورنہ اگر اللہ تعالیٰ سے کسی ثواب کی امید ہی نہ رکھی جائے تو دین ایک عبث اور رائیگاں چیز بن جاتی ہے۔ غرض خداتعالیٰ نے ا س آیت میں مؤمنوں کو امید دلائی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ سے اچھے نتائج کی امید رکھنی چاہئے کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص مؤمن ہو اور پھر کامیاب نہ ہو۔
قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ مؤمن کامیاب ہوگئے۔ اس رنگ میں الفاظ اُسی وقت استعمال کئے جاتے ہیں جب کوئی بات یقینی او رقطعی ہو جیسے اگر کوئی شخص سفر پر ہو اور گھبراکر پوچھے کہ ابھی منزلِ مقصودکتنی دورہے تو دوسرا کہتا ہے کہ بس ہم پہنچ ہی گئے ہیں گویا اب شبہ والی بات نہیں۔ اسی طرح جب کوئی یقین دلادیتا ہے کہ وہ فلاں کام ضرور کردے گا اور اس میں شبہ کی گنجائش نہیں تو وہ کہتا ہے کہ بس یہ کام ہؤا سمجھو۔ یہ محاورہ پنجابی میں بھی اسی طرح استعمال ہوتا ہے کہ اب گویا اسے حاصل شُدہ چیز ہی سمجھو۔ اسی طرف قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ میں اشارہ ہے کہ تم مؤمنوں کو بس کامیاب ہؤا سمجھو اور یاد رکھو کہ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کیونکہ مؤمن کا مستقبل ماضی کی مانند یقینی ہوتا ہے ۔ پھر بتایا کہ ایسے مؤمنوں کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ نمازوں میں خشوع و خضوع کرتے ہیں۔
خاشع کے معنے عام طور پر یہ کئے جاتے ہیں کہ جو نمازوںمیں گریہ و زاری کرے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ معنے درست ہیں مگر خاشع کے صرف یہی معنے نہیں بلکہ اس کے علاوہ اور بھی کئی معنی ہیں، اسی طرح صلوٰۃ سے مراد خالی دعا نہیں کیونکہ وہ تو تکلیف کے وقت ہوتی ہے۔ یہاں خصوصیت سے نماز کا ذکر ہے کہ وہ نما زمیں خشوع کرتے ہیں۔ درحقیقت عربوں میں صلوٰۃ کا لفظ عام ہے جو صرف عبادت کیلئے استعمال کیاجاتا ہے خواہ وہ اس شکل میں ہو جیسے مسلمانوں میں عبادت کا رواج ہے یا کسی او رشکل میں ہو جیسے عیسائیوں یا یہودیوں کی نما زہے۔ قرآن کریم میںصلوٰۃ سے مراد بِالعموم عبادت ہی ہوتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے کہ کفار کی صلوٰۃ صرف سیٹیاں بجانا اور تالیاں پیٹنا ہے۔ اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ نماز میں سجدہ کے وقت یا دوسرے موقع پر تالیاں پیٹتے تھے بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کی عبادت اسی قسم کی ہے جس میں کوئی معقول بات نہیں جیسے ہندوئوں کی عبادت چھینے بجانے سے ہوتی ہے اسی طرح مکہ والے بھی کرتے تھے اور اسی کا نام عبادت رکھ لیتے تھے۔ گویا اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ مسلمانوں کی نماز کے وقت بھی تالیاں بجاتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ ایک نیک کام کررہے ہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مشرکوں کی عبادت ایسی ہوتی ہے جیسے تالیاں بجانا۔ اسی طرح خشوع کسی چیز کے نیچے ہونے کو کہتے ہیں اِسی وجہ سے غضِ بصر کیلئے بھی اس لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پس خشوع کے معنے ہوئے نیچے ہوجانا، تذلل اختیار کرنا اور نفس کو مٹادینا۔ بَلْدَۃٌ خَاشِعَۃٌ ایسے شہر کو کہتے ہیں جس کے سب مکانات گرگئے ہوں اور غبار سے اٹے ہوئے ہوں ۔ پس نماز میں خشوع کے یہ معنے ہوئے کہ نماز پڑھنے والا اپنے آپ کو کلی طور پر مٹا دے اور انکسار اختیار کرے ۔ اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ نماز میں انکسار سے کیا مراد ہے سو اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ خداتعالیٰ نے نماز کے اندر ہی انکسار کامفہوم رکھا ہؤا ہے۔ انسان تکبیر کے بعد کھڑ اہوجاتا ہے اور سینے پر ہاتھ باندھ لیتا ہے چونکہ انسان میں یہ ایک کمزوری پائی جاتی ہے کہ جب وہ کوئی اہم کام کرتا ہے تو اس کے نتیجہ میں یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اب مَیں بہت بڑا ہوگیا ہوں جیسے آجکل کے علماء اور سجادہ نشین لوگوں کو اپنی عزت کرتے ہوئے دیکھ کر اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگ جاتے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قیام کے معاً بعد رکوع رکھ دیا اور حکم دیا کہ فروتنی اور انکسار کی وجہ سے نیچے جھک جائو اور ایسا رنگ دکھائو جیسے غلام اپنے آقا کیلئے دکھاتا ہے۔ پھر جب اسے خیال آنے لگتا ہے کہ اب میں نے بڑا کام کرلیا ہے تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اب اورجھک جائو چنانچہ وہ سجدے کا حکم دیتا ہے جو تذلّل کاانتہائی مقام ہے اور سجدہ دو دفعہ رکھا ہے جس کامقصد یہ ہے کہ تواتر سے اِس پر عمل کیا جائے گویا جھکو او رجھکتے چلے جائو۔ پھر ہر رکعت میں اس کا تکرار انسان کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے کہ اسے اپنے ہر کام کا اختتام سجدہ پر ہی کرنا چاہئے کیونکہ بعض لوگ مختلف نیکیوں میں تو حصہ لیتے ہیں لیکن آخر تکبر میں مبتلاء ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جس قوم نے کوئی بڑا کام کرکے تکبر کیا وہ گِرگئی۔ مسلمانوں نے طب میں ترقی کی لیکن جب وہ ایسے مقام پر پہنچ گئی کہ کسی کے آگے جھکنے کو عار سمجھنے لگے تو ان کے ہاتھ سے طب نکل گئی اور یورپ میں چلی گئی۔ اب یورپ نے اِس میں اس حد تک ترقی کرلی ہے کہ پہلا سارا کام کھلوناسا معلوم ہوتا ہے۔ یورپ نے اپنے آپ کو اس وقت تک طالب علم سمجھا ہؤا ہے لیکن جہاں اُس نے یہ خیال کیا کہ اب وہ استاد بن گیا ہے وہ گِرنا شروع ہوجائے گا اور یہ کمال ان سے نکل کر کسی اور کے پاس چلاجائے گا۔ اسی طرح قدیم مصریوں نے انجینئرنگ میں ترقی کی لیکن جب انہوںنے تکبر کیا تو یہ فن ان کے ہاتھ سے نکل کر یونانیوں کے پاس چلاگیا۔ ان سے عربوں کے حصے میں آیا اور جب عربوں نے تکبر کیا تو یورپ میں چلا گیاجب وہ تکبر کریں گے تو ان سے بھی چھن جائے گا۔ پس قوم اسی وقت تک ترقی کرتی ہے جب تک وہ سمجھتی ہے کہ ابھی تک ہم نے اور سیکھنا ہے جب وہ یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ وہ استاد بن گئے ہیں تو ذلیل ہوجاتے ہیں۔
غرض مؤمن دین اور دنیا دونوں میں کامیاب ہوتے ہیں صرف شرط یہ ہے کہ وہ جتنی بھی ترقی کرے اتنا ہی یہ سمجھے کہ میں نے کچھ بھی خدمت نہیں کی۔ اگر یہ مادہ کسی میں پیدا ہوجائے تو وہ بڑھتا چلا جائے گا لیکن جب اُس نے یہ سمجھنا شروع کردیاکہ اب میں نے کافی ترقی کرلی ہے تو وہ گرجائے گا اور اس کے اندر نفاق پیدا ہوجائے گا۔ غور کرو کہ کتنے معمولی سے جھٹکے سے ایک مؤمن منافق بن سکتا ہے پس کبھی تکبر کے قریب بھی نہ جائو عزت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے خواہ اِس دنیا میں دے خواہ اگلے جہان میں۔ کسی کیلئے ایک قسم کی عزت اچھی ہوتی ہے اور کسی کیلئے دوسری قسم کی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ والدین کو اپنے سب بچوں سے ہی پیار ہوتا ہے لیکن بعض چیزیں وہ اپنے کسی بچے کو دیتے ہیں اور کسی کو نہیں دیتے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی خوب جانتا ہے کہ بندے کو کس رنگ میں انعام دیا جاوے۔ انسان کو تو اپنی عبادت کی قیمت بھی معلوم نہیں ہوتی پھر وہ اپنے لئے کوئی انعام کیسے تجویز کرسکتا ہے جب وہ اپنے لئے خود کوئی انعام تجویز کرتا ہے تو وہی اُس کے تنزّل کا مقام ہوتا ہے۔ جیسے دنیا میں کوئی ماںباپ ایسے نہیں جن کواپنے بچوں سے محبت نہ ہو لیکن وہ اس امر کو پسند نہیں کرتے کہ بچہ اُن پرحکومت کرے۔ جب ماں باپ بچے کی طرف سے اس سلوک کو برداشت نہیں کرسکتے تو کیا خداتعالیٰ کی ذات کے متعلق یہ امید ہوسکتی ہے کہ خدا بندے کی حکومت تسلیم کرے اوربندے کو وہی دے جو بندہ خود اپنے لئے تجویز کرے۔ کئی لوگ حج کرتے ہیں تو حاجی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں حالانکہ وہ روزانہ دیکھتے ہیں کہ تمام مؤمن نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہیں لیکن کبھی انہوں نے خواہش نہیں کی کہ انہیں نمازی یا روزے دار کہاجائے۔ اِس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حج کرلینے کے بعد وہ اپنے اندر ایک بڑائی محسوس کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔
مرزا غالب کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے ایک دفعہ ایک خاص قسم کی ٹوپی پہنی جب لوگوںنے بھی ان کی نقل میں اسے پہننا شروع کیا تو انہوں نے اُسے اُتار دیااور اپنی بڑائی میں دوسروں کی نقل کو بھی برداشت نہ کیا حالانکہ اُن کوخوش ہونا چاہئے تھا کہ لوگوں نے اُن کی نقل کی ہے اس کے بِالمقابل اللہ تعالیٰ کے انبیاء ان اخلاق کو لے کر آتے ہیں کہ بجائے اِس کے وہ اپنی نقل کو ناپسند کریں ان کے دل میں خواہش ہوتی ہے کہ لوگ ان کی نقل کریں۔
غرض ایک سچے مؤمن میں تذلّل ہوتا ہے اور وہ جُوں جُوں عبادت کرتا ہے اس کا تذلّل ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ اِس قدر عبادت کرتے تھے کہ آپ کے پائوں متورم ہوجاتے۔ حضرت عائشہ ؓنے ایک دفعہ عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیئے ہیں پھر آپ اتنی مشقّت کیوںکرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا عائشہؓ کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں ؎۲ ۔
اسی طرح ایک دفعہ جب آپ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ اپنے اعمال کے زور سے بہشت میں جائیں گے؟ تو آپ نے فرمایانہیں میں بھی جنت میں خداتعالیٰ کے فضل سے ہی جائوں گا ؎۳ ۔ گویا آپ نے اپنے اعمال کی قیمت محض اللہ تعالیٰ کا فضل رکھی۔ غرض جس کو سچے کام کی توفیق مل جاتی ہے اس کے دل میں کبھی غرور پیدا نہیںہوتا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ایک بزرگ کا واقعہ سنایا کرتے تھے کہ انہوں نے کئی سال تک باقاعدہ مسجدمیں نمازیں پڑھیں تاکہ لوگ ان کی تعریف کریں لیکن خداتعالیٰ نے ان کی کسی گزشتہ نیکی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ان کے متعلق یہ بات ڈال دی کہ یہ سب لوگ انہیں منافق کہتے تھے۔ آخر ایک دن انہیں خیال آیا کہ اتنی عمر ضائع کی کسی نے بھی مجھ کو نیک نہیں کہا اگر خدا کیلئے عبادت کرتا تو خداتعالیٰ تو راضی ہوجاتا۔ یہ خیال ان کے دل میں اتنے زور سے آیا کہ وہ اُسی وقت جنگل میں چلے گئے، روئے اور دعائیں کیں اور توبہ کی او رعہد کیاکہ خدایا! اب میں صرف تیری رضا کیلئے عبادت کیا کروں گا۔ جب واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ یہ شخص ہے تو بہت ہی نیک مگر معلوم نہیں لوگوں نے اسے کیوں بدنام کررکھا ہے اور بچے بوڑھے سب اس کی تعریف کرنے لگے۔ اس بزرگ نے خداتعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ خدایا! صرف ایک دن میںنے تیری رضا کی خاطرنما زپڑھی تھی جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ لوگوں نے میری تعریف کرنی شروع کردی۔
پس ہر مؤمن کیلئے ضروری ہے کہ جب وہ نماز پڑھے تو اس کو شروع کرتے وقت اگر اس کے دل میں تکبر ہو تو ہو لیکن جب اسے ختم کرے تو اُس کا دل تکبر سے بالکل خالی ہوچکا ہو، اسی طرح جب وہ روزہ رکھے تو شروع میں اگر اُس کے اندر کبر کا کوئی شائبہ ہو تو ہو لیکن جب اسے ختم کرے تو وہ تکبر کو کُلّی طو رپر چھوڑ چکا ہو۔
تاریخوں میں آتا ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کی زبان پر یہ فقرہ جاری تھا کہ رَبِّ لاَ عَلَیَّ وَلاَ لِیْ ؎۴ یعنی اے خدا! میں اپنے کاموں کا تجھ سے کوئی بدلہ نہیں مانگتا صرف یہی آرزو ہے کہ میرے اوپر کوئی الزام قائم نہ کیا جاوے۔ گویا ہزارہا کام کرنے کے باوجود وہ یہی سمجھتے تھے کہ اِس وقت تک میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پس ترقی کیلئے ضروری ہے کہ جس قدر بھی عبادت کی جائے اُسی قدر آدمی اورزیادہ جھکتا چلا جائے حتّٰی کہ اُسے یہ احساس بھی نہ ہو کہ اس نے کچھ کیا ہے۔ جو لوگ دنیا میں یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوںنے کچھ حاصل کرلیا ہے اُن کی مثال کنویں کے مینڈک کی سی ہوتی ہے جو سمندر کے مینڈک سے مِلا اور ایک چھلانک لگا کر اُس سے کہا کہ کیا سمندر اتنا بڑا ہوتا ہے؟ اُس نے کہا نہیں۔ اُس نے دو چھلانگیں اور ماریں اور کہا کہ کیا اتنا بڑا ہوتا ہے؟ اُس نے کہانہیں اس سے بہت بڑا ہوتا ہے۔ آخر اس نے تین چھلانگیں ماریں اور کہا کیا اتنا بڑا ہوتا ہے سمندر کے مینڈک نے سر ہلادیا جس پر کنویں کے مینڈک نے اس سے منہ پھیر لیا اور کہا میں ایسے جھوٹے سے بات نہیں کرتا۔ پس فِیْ صَلَا تِھِمْ خَاشِعُوْنَ میں اللہ تعالیٰ نے یہ گُر بتایا ہے کہ اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو تو جتنا بھی تم کام کرواتنی ہی تم پر اپنی کمزوری واضح ہوتی چلی جائے گی۔ اگر کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ اسے اس کے اعمال کے بدلہ میں کیا ملا ہے تو یہ اُس کا منافقت کی طرف پہلا قدم ہوگا اور اگر اس کے اندر یہ احساس ہو کہ اس نے کچھ بھی نہیں کیا تو خداتعالیٰ قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَکے وعدے کے مطابق اسے ضرور کا میاب کرے گا۔
ہماری جماعت میں بھی ٹھوکر کھانے والے ایسے ہی لوگ تھے جیسے ڈاکٹر عبدالحکیم کہ وہ چندے بھی دیتا تھا اور اُس نے کتابیں بھی لکھیں لیکن اس سے کم چندے دینے والے مرتے وقت تک ایمان پر قائم رہے اور خداتعالیٰ نے اُن کو قبول کرلیا۔ پس جو احمدی یہ شکوہ کیا کرتے ہیں کہ انہوںنے چندے بھی دیئے لیکن اس کا ان کو کوئی اجر نہیں ملا ان کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر سچا ایمان پیدا کریں اور اپنی کمزوریوں پر استغفار کریں جب ان کے دل سے یہ احساس جاتا رہے گا کہ انہوں نے کچھ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو ایمان کے اعلیٰ ثمرات سے متمتع فرمائے گا اور انہیں دینی اور دُنیوی دونوں رنگ میں کامیابیاں عطا فرمائے گا۔
(الفضل ۲۷؍ ستمبر ۱۹۶۱ئ)
؎۱ المؤمنون: ۲،۳
؎۲ بخاری کتاب التفسیر ۔ تفسیر سورۃ الفتح باب قولہ اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا
؎۳ بخاری کتاب التفسیر باب القصد والمداومۃ علی العمل
؎۴ بخاری کتاب الجنائز باب ماجاء فی قبر النبی ﷺ (الخ)



۴۱
تحریک جدید کے تیسرے سال کا یکم دسمبر ۱۹۳۶ء سے آغاز
(فرمودہ ۲۷؍ نومبر ۱۹۳۶ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
باوجود طبیعت کی ناسازی اور بخار کے میں نے آج جمعہ کا خطبہ اس لئے کہنے کا ارادہ کیا ہے کہ تا تحریک جدید کے سالِ سوم کی تحریک کا اعلان کرسکوں۔ آج سے دو سال پہلے جب میںنے تحریک جدید کی ابتدا کی تھی اُس وقت کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ تحریک آئندہ کیا رنگ اختیار کرنے والی ہے۔ شاید آج بھی لوگ اس کے نتائج سے ناواقف ہوں گے لیکن میں جانتا ہوں کہ درحقیقت یہ تحریک الٰہی تصرف کے ماتحت ہوئی تھی۔ ہماری جماعت ان سہولتوں کی وجہ سے جو مؤلّفۃ القلوب کے حق میں خداتعالیٰ نے مقرر فرمائی ہیں اُس بیداری اور قربانی سے محروم ہوتی جارہی تھی جس کے بغیر کوئی روحانی قوم کامیاب نہیں ہوسکتی۔ درحقیقت ہمارے کام ایک منظم انجمن کی صورت اختیار کرتے جارہے تھے جس کا کام لوگوں سے کچھ رقوم حاصل کرنا اور انہیں بعض تمدنی یا علمی ضرورتوں پر خرچ کرنا ہوتا ہے اور وہ اصل غرض یعنی اپنے دل کو خدا کی محبت میں فنا کردینا اور دنیا میں ہوتے ہوئے اُس سے جدا رہنا اور دنیا کماتے ہوئے دین میں ترقی کرنا اور بنی نوع انسان میں رہتے ہوئے خد اکے قریب رہنا اور جسمانی سانس لیتے ہوئے اپنے اوپر ایک موت وارد کرلینا اور اپنے قدم ہمیشہ اطاعت کیلئے بڑھاتے چلے جانا اِس کی طرف سے غفلت پید اہورہی تھی تب خدانے چاہا کہ اُس کی رحمت اور اُس کا فضل زمین پر نازل ہو اور اِس کام میں زندگی پیدا کرے جسے خداتعالیٰ دنیا میں جاری کرنا چاہتاہے۔ جس طرح بچوں کے لباس سے بڑوں کے لباس کا فرق ہوتا ہے اسی طرح مؤلّفۃ القلوب والی حالت اور کامل حالت میں فرق ہوتا ہے۔ بچے کبھی ننگے بھی پھر لیتے ہیں اور کبھی کپڑے بھی پہن لیتے ہیں نہ ان کی ایک حالت کو لوگ سراہتے ہیں نہ ان کی دوسری حالت کو قابلِ ملامت قرار دیتے ہیں ۔ اسی طرح روحانیت کی ابتدائی حالتوں میں الٰہی جماعتوں کوکچھ سہولتیں دی جاتی ہیں یہاں تک کہ وقت آجاتا ہے کہ کمزوراور طاقتور میں امتیاز کیا جائے اور منافق اورمؤمن میں فرق کیا جائے تب خدا کی مشیّت ان سہولتوں کو واپس لے لیتی ہے اور دین اپنی کامل شان کے ساتھ دنیا میںقائم کردیا جاتا ہے۔ قرآن کریم تمام کمالات کی جامع کتاب ہے اور اس کا نازل کرنے والا کوئی بندہ نہیں بلکہ علّام الغیوب خدا ہے جس کے علم میں ہرشَے خواہ ماضی، خواہ حال، خواہ مستقبل، غرض کسی زمانہ سے بھی تعلق رکھتی ہو محفوظ ہے اس کیلئے ابد بھی وہی حیثیت رکھتا ہے جو ازل، نہ اس کیلئے کوئی گزشتہ زمانہ ہے نہ آئندہ ہے ہر چیز اس کی نظر کے سامنے حاضر ہے خواہ وہ ہوچکی اور گزر گئی اور خواہ وہ آئندہ ہونے والی اور پوشیدہ ہے۔ اس کیلئے کیا مشکل تھا کہ سارا کاسارا قرآن کریم ایک ہی وقت میں نازل فرمادیتا ۔اُسے نہ سوچنے کی ضرورت تھی نہ تدبر کی، نہ تصنیف میں اُس کا کوئی وقت صرف ہوتا تھا کہ اُس نے قرآن کریم کوآہستہ آہستہ تئیس ۲۳ سال کی مدت میں اُتارا؟ اس میں یہی حکمت تھی کہ آہستہ آہستہ تعلیم اترے اور ایمان کی پہلی حالتوں میں مؤمنوں پر یکدم بوجھ نہ پڑ جائے۔ دو دو چار چار آیتوں پر مؤمن عمل کرتے گئے جب ان کے عادی ہوگئے توپھر اور آیتیں نازل ہوگئیں۔ حکم پر حکم ، ہدایت پر ہدایت، فرمان پر فرمان نازل ہوتا گیا یہاں تک کہ وہ دن آگیا جب محمد ﷺ نے ایک وسیع مجمع میں حج کے ایام میں ایک اونٹنی پر سوار ہوکر دنیا کو یہ خوشخبری سنائی کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ؎۱ ۔ میں نے آج تمہارے لئے دین مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ہے گویا یہ اس امر کا اعلان تھا کہ مؤمنوں کے ایمان پختہ ہوگئے ، ان کے روحانی جسم کی ہڈیاں مضبوط ہوگئیں اور کمر قوی ہوگئی تب خداتعالیٰ نے اپنی امانت کا سارا بار انسان کی پیٹھ پر لاددیا کیونکہ ایک لمبے امتحان کی زندگی میں سے گزر کر انسان نے یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ بوجھ جس کو اُٹھانے سے پہاڑ بھی لرزتے تھے وہ ظلوم وجہول بن کر اور عاشقانہ جوش کے ساتھ اس بوجھ کواپنی پیٹھ پر اُٹھالینے کیلئے تیار ہوگیا تھا۔
شاید بعض لوگ خیال کریں کہ اس لمبے عرصہ میں قرآن کریم کے اترنے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہؤا کہ کئی صحابہؓ جو اخلاص میں زندہ رہنے والوں سے کم نہ تھے خدا کی راہ میں شہید ہوگئے اور کامل کتاب کے دیکھنے کا ان کو موقع نہ ملا اور شاید اس طرح ان کا ایمان نامکمل رہا۔ یہ اعتراض قرآن کریم میں بھی مذکور ہے شاید آج بھی بعض لوگوں کے دلوں میں یہی خیال پیدا ہو سو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایمانی تکمیل دو راہوں سے ہوتی ہے۔ ایک عمل کے کمال کے ساتھ اور ایک ایمان کے کمال کے ساتھ۔ جن لوگوں کو ایمانی کمال حاصل ہوجاتا ہے ان کیلئے عملی کمال ایک طبعی عمل ہوجاتا ہے اور وہ اس ایمانی کمال کے ماتحت اپنے اعمال کو بغیرخارجی تحریک کے آپ ہی آپ ایسے سانچے میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں جو خداتعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے اور اس کی قبولیت کو حاصل کرتا ہے۔ عملی تفصیلات درحقیقت کمزور انسانوں کی تقویت کیلئے ہوتی ہیں اور کامل انسان شکرگزاری کیلئے ان پر عمل کرتا ہے اور خدائی حکم کامل انسانوں سے اس لئے ان احکام پر عمل کرواتا ہے تا کمزور انسان ان کی نقل کرکے عمل نہ چھوڑیں۔ پس گو عملی تفصیلات جاری ہوتی ہیں کامل اور کمزور دونوں پر مگر ان کی اِجراء کی حکمتیں دونوں صورتوں میں مختلف ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت ﷺ کو ایک موقع پر اِس طرف توجہ دلائی کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے گزشتہ و آئندہ ذنوب کو معاف فرمادیا ہے آپ عبادت پر اتنا زور کیوں دیتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایاکہ اے عائشہؓ! اَفَلا اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًاکیا میں شکرگزار بندہ نہ بنوں ؎۲ ۔ یعنی لوگ تو عمل اِس لئے کرتے ہیں تا ان کی امداد سے کامل ہوجائیں اور میں عمل اس لئے کرتا ہوں کہ خدا نے جو مجھے کامل بنایا ہے تو اُس کا شکر ادا کروں۔ پس اس حدیث نے اعمال کی حقیقت کو واضح کردیا ہے خودقرآن کریم کی یہ آیت جسے حضرت عائشہؓنے بیان فرمایا اور جو روحانی اندھوں کے نزدیک ہمیشہ قابلِ اعتراض رہی ہے اس کا یہی مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نبی حصولِ کمال کیلئے عمل نہیں کرتا کیونکہ عملوں نے جو کچھ پید اکرنا تھا وہ تو خدا نے خود ہی اُس کیلئے پیدا کردیا اب وہ جو کچھ کرتا ہے اظہارِ شکر کے طور پر کرتا ہے۔
اِس مسئلہ کی وضاحت اس امر سے بھی ہوجاتی ہے کہ نبی، نبی پہلے بنتا اور شریعت پر بعد میں عمل کرتا ہے او رعام مؤمن عمل پہلے کرتا ہے اور روحانی درجے اسے بعد میں حاصل ہوتے ہیں پس یہ اعتراض کہ وہ صحابہؓ جو اس عرصہ میں فوت ہوگئے کیا ان کے درجے کی تکمیل نہ ہوئی کیونکہ کامل شریعت ان کے زمانہ میں نہیں اُتری تھی اِس حقیقت سے جو میں پہلے بیان کرچکا ہوں دور ہوجاتاہے۔
یہ امر واضح ہے کہ وہ لوگ جو خدا کی راہ میں مارے گئے وہ کمال کو کمالِ ایمان سے حاصل کرچکے تھے اور ان کا دل شدتِ ایمان سے وہ سب کچھ حاصل کرچکا تھا جو تفصیلی احکام سے دوسروں نے حاصل کرنا تھا یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو مُردہ کہنے سے روکا ہے اور انہیں دائمی زندہ قرار دیا ہے یعنی ان کی حالت وفات کے ساتھ ایک جگہ پر قائم نہیں ہوجاتی بلکہ ان کی تکمیل اسی طرح ہوتی چلی جاتی ہے جس طرح دنیا میں رہ کر عمل صالح کرنے والوں کی۔
غرض انسانی ترقی کیلئے خاص قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن انسانی کمزوری ابتداء میں بعض سہولتوں کی بھی طالب ہوتی ہے اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ تکمیلِ شریعت ایک دن میں ہی نہیں کرتا بلکہ ایک لمبے عرصہ میں احکام کے سلسلہ کوختم کرتاہے۔ یہ تو ان لوگوں کی حالت ہے جو اُن انبیاء کے زمانہ میں ہوتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ شریعت نازل کرتا ہے۔ جو انبیاء بغیر شریعت کے آتے ہیں اور جو پہلی کتابوں کی تکمیل کرتے ہیں یعنی ان کے مضامین کو دنیا میں قائم کرتے ہیں ان کی جماعتوں کی کمزوری کا اللہ تعالیٰ ایک اور طرح لحاظ کرلیتا ہے چونکہ شریعت تو پہلے سے مکمل ہوتی ہے احکام کے متعلق تو ان سے کوئی سہولت نہیں کی جاسکتی۔ پس مجاہدات اور قربانیوں میں ان سے سہولت کا معاملہ کیا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ ان پر بوجھ لادا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ دن آجاتا ہے کہ خداتعالیٰ ان کے سامنے یہ شرط پیش کردیتا ہے کہ یا کُلّی طور پر اپنے آپ کو میرے سپرد کردو یا مجھ سے بالکل جُدا ہوجائو جس قدر مُہلت تمہارے لئے ضروری تھی وہ میں دے چکا اب میری رحمت اپنے فضلوں کی تکمیل کیلئے بے تاب ہورہی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تمہیں چُن لوں اور اسی طرح چُن لوں جس طرح کہ تم سے ماسبق جماعت کوچنا جاتا تھا اور تمہارے دلوں کو اپنے غیر کی محبت سے صاف کردوں خواہ وہ وطن کی محبت ہو، خواہ وہ اولاد کی محبت ہو، خواہ وہ بیویوں کی محبت ہو، خواہ وہ آسائش کی محبت ہو، خواہ وہ کھانے پینے کی محبت ہو، خواہ وہ پہننے کی محبت ہو، خواہ ماں باپ کی محبت ہو، خواہ عزت و رتبہ کی محبت ہو، خواہ مال کی محبت ہو، جو شخص اس مطالبہ کو پورا کرتاہے وہی خداتعالیٰ کی برکتوں سے حصہ لیتاہے اور دوسرا شخص جو کمزوری دکھاتا ہے اور شرطیں لگاتا ہے اسے خدا کی درگاہ سے باہر نکال دیا جاتاہے کیونکہ اس کی پہلی روحانی حالت محض ایک نمونہ کے طور پر تھی۔ جس طرح ایک مٹھائی والا گاہک پیداکرنے کیلئے تھوڑی تھوڑی مٹھائی لوگوں کو کھلاتا ہے اور اُس کے بعد امید کرتا ہے کہ لوگ اسے پیسے دے کر خریدیں گے اسی طرح ایسی جماعتوں کے ابتدائی فیوض اور ابتدائی مدارج بطور اس نمونہ کے ہوتے ہیں جو مٹھائی فروش گاہک کو چکھاتا ہے او رجسے پنجابی میں ’’وندگی‘‘ کہتے ہیں۔ جو شخص ساری عمر اسی طرح نمونہ کی مٹھائی لے کرکھانا چاہے دکاندار کبھی اُسے قریب بھی آنے نہیں دیں گے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اُن اشخاص کو جو نمونہ دیکھ کربھی چیز کی قیمت ادا کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے دھتکار دیتا اور اپنی درگاہ سے نکال دیتا ہے۔
ہماری جماعت کے ہرفرد نے جس نے اخلاص اور تقویٰ کے ساتھ احمدیت کو قبول کیاہو اپنے نفس میں تجربہ کیا ہوگا کہ احمدیت کے قبول کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُس پر خاص فضل نازل فرمایا اور روحانیت کی بعض کھڑکیاں اُس کیلئے کھول دیں۔ تمام احمدیوں کو یا درکھنا چاہئے کہ یہ حالت ان کی وہ نمونہ تھی جو خداتعالیٰ نے اس لئے ان کے سامنے پیش کیا تا انہیں روحانی عالَم کی قیمت معلوم ہوجائے اور وہ اس کی لذت سے آشناہوجائیں۔ اب اگر وہ چاہتے ہیں کہ مزا قائم رہے اور لذت بڑھے اور جس چیز کی لذت سے ان کی زبان آشنا ہوئی تھی اس سے ان کا معدہ بھی پُر ہوجائے اور وہاں سے خونِ صالح پیدا ہوکر ان کے دماغ اور ان کے دل اور ان کے تمام جوارح کو طاقت بخشے تو اِس کیلئے انہیں وہی قیمت ادا کرنی ہوگی جو ان سے پہلے لوگوںنے اداکی اس کے بغیر کوئی راہ ان کیلئے کھلی نہیں۔
قربانی ہی ایک راہ ہے جس سے لوگ اپنے یار تک پہنچتے ہیں اور موت ہی وہ راستہ ہے جو ہمیں اپنے محبوب تک پہنچاتا ہے پس اس موت کیلئے تیار ہوجائو اور ان کے اعمال کو اختیار کرو جو انسان کو موت کیلئے تیار کرتے ہیں ہر کام کے کمال کیلئے ابتدائی مشق کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کامل قربانی کیلئے نسبتاً چھوٹی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحریک جدید کے پہلے دَورنے ان چھوٹی قربانیوں کی طرف جماعت کوبلایا ہے وہ جو ان چھوٹی قربانیوں پرعمل کرنے کیلئے تیار ہوں گے خداتعالیٰ بڑی قربانیوں کیلئے توفیق عطا فرمائے گا اور وہ خدا کے بر ّے ہوجائیں گے جس طرح یسوعؑ اور موسیٰؑ اور دائودؑ اور سلیمانؑ اور اَورہزاروں کامل بندے خدا کے بر ّے قرار پائے اور انہوں نے خدا کی محبت کی چھری کو خوشی سے اپنی گردن پر پھروالیا۔دنیا کی تمام شوکتیں اُن کے پائوں پر قربان ہیں، دنیا کی تما م عزتیں اُن کی خدمت پر قربان ہیں، دنیا کی تمام بادشاہتیں اُن کی غلامی پر قربان ہیں، وہ خدا کے ہیں اور خدا ان کا ہے۔ آج ایک زندہ اور باجبروت اور قاہر اور خبردار اور منتظم بادشاہ کو گالی دے کر ایک انسان سزا سے بچ سکتا ہے، اُس کی گرفت سے بھاگ سکتا ہے لیکن یہ لوگ جو انسانوں جیسے انسان تھے اوّل تو فقیری میں انہوں نے عمر گزاردی اور اگر بعض بادشاہ بھی ہوئے تو ان کی بادشاہتیں اپنی دُنیوی عظمت کے لحاظ سے بہت سے دُنیوی بادشاہوں سے کم تھیں لیکن آج جبکہ وہ منوں مٹی کے نیچے دفن ہوئے ہیں اور بعض کی نسلوں کا بھی کوئی پتہ نہیں ہے اور بعض کی اُمتیں بھی مٹ چکی ہیں کوئی زبردست سے زبردست بادشاہ بھی بے ادبی سے ان کا نام لے تو وہ ذلّت اور رُسوائی سے بچ نہیں سکتا کیونکہ خدا میں محو ہوجانے کی وجہ سے خدا کی بادشاہت میں ان کی بادشاہت شامل ہے اور جس طرح خدا کی بادشاہت کبھی فنانہیں ہوتی اُن کی بادشاہت بھی کبھی فنا نہیں ہوسکتی۔
میں نے کہا تھا کہ یہ خدا کے بر ّے ہیں میں نے اِس سے اس طرف اشارہ کیا تھا کہ جس طرح ایک بکری کا گوشت اُس کے ذبح ہوجانے کے بعد انسان کی غذا بن کر انسا ن ہوجاتا ہے اسی طرح لوگ خدا کے بر ّے بن کرقربان ہوجاتے ہیں وہ بھی خدا میں شامل ہوجاتے ہیں اور ابدی ازلی بادشاہت ان کو عطا کی جاتی ہے۔ شاید کسی کے دل میں یہ خیال گزرے کہ ابدی بادشاہت توسمجھ میں آسکتی ہے مگرازلی بادشاہت انہیں کس طرح حاصل ہوتی ہے کیونکہ جب وہ ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے اور ان کو کوئی جانتا بھی نہ تھا تو انہیں بادشاہت کیونکر حاصل ہوئی۔ ایسے لوگو ںکو یاد رکھنا چاہئے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ میں خاتم النبین تھا جبکہ آدمؑ ابھی مٹی اور پانی میں ہی چھپا ہؤا تھا ؎۳ ۔ رسول کریم ﷺ نے اس حدیث میں یہی حکمت بیان فرمائی ہے کہ جو شخص خدامیں ہوجاتا ہے اُس کو ازلی بادشاہت بھی عطا ہوجاتی ہے اور ا س کا ظاہری نشان یہ ہوتا ہے کہ اُس کے آباء و اجداد کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ حفاظت ملتی چلی آتی ہے جس طرف قرآن کریم میں تَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدِیْنَ ؎۴ کے الفاظ سے اشارہ کیا گیا ہے (یہاںساجد کے معنے سجدہ کرنے والے اور نیک کے نہیں ہیں بلکہ فرمانبردار اور مطیع کے ہیں) اور دنیا کا تمام کارخانہ اسی طرح چلایا جاتاہے کہ جب وہ شخص آئے تو موافق حالات پاکر اس روحانی بادشاہت کو قائم کرے جس بادشاہت کو قائم کرنے کیلئے خداتعالیٰ اُن کو مبعوث فرماتا ہے۔ جس طرح ایک معزز آدمی کے آنے سے پہلے شہر کو سجایا جاتا ہے، صفائیاں کی جاتی ہیں، چھڑکائو کئے جاتے ہیں، بڑ ے بڑے پھاٹک کھڑے کئے جاتے ہیں، مکانوں میں سفیدیاں کرائی جاتی ہیں، اِسی طرح ایسے کامل انسانوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے صفائی اور چھڑکائو کا طریق جاری رکھا ہؤا ہے اسی وجہ سے جب وہ دنیامیں آتے ہیں تو وہ جو دنیا کی نگاہوں میں ناممکن ہوتاہے ممکن ہوجاتا ہے۔ آخر آپ لوگوں کوسوچنا چاہئے کہ وہ ہزاروںہزار عیب اور لاکھوں لاکھ نقص جو انسانوں کے دلوں میں پیدا ہورہے تھے اور وہ بے انتہاء زنگ جو ان کے دماغوں کو لگ رہا تھا اس کی موجودگی میں کس طرح خداتعالیٰ نے آپ لوگوں کو جو اَب لاکھوں کی تعدادمیں ہیں اس تعلیم پر ایمان لانے کی توفیق بخشی جو آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے نازل ہوئی تھی اور جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہرقسم کی گرد سے پاک کرکے پھر جلا بخشی تھی۔ اِس کی یہی وجہ تھی کہ وہ علیم و خبیر خدا جو ہمیشہ سے جانتا ہے اور جانتا رہے گا کہ اِس زمانہ میں اس کا مسیح پید اہونے والا ہے وہ دنیا کے ذرّہ ذرّہ میں ایسی تحریک کررہا تھا اُس وقت سے جب سے یہ دنیا پیدا کی گئی بے انتہاء سال اُس وقت سے پہلے جبکہ انسان پہلے پہل دنیا پر ظاہر ہؤا تھا کہ تمام دنیا میں ایسے تغیر پیدا ہوتے رہیں کہ کروڑوں اور اربوں سالوں کے بعد جس وقت اُ س کا مسیح ظاہر ہو تو کچھ دل ایسے تیار ہوں جوفوراً یا قریب کے عرصہ میں اُس کی آواز پر لبیک کہیں او راپنے دلوں کے برتنوں کو اُس کی تعلیم کادودھ بھرنے کیلئے پیش کردیں۔ پس مسیح موعود کی بادشاہت بھی جس طرح ازلی ہے اسی طرح ابدی ہے اور یہی حال باقی تمام انبیاء کا ہے۔ جو شخص اِس نکتے کوسمجھ لے وہی اِس حدیث کوسمجھ سکتاہے جو رسول کریم ﷺ نے ختمِ نبوت کے متعلق بیان فرمائی ہے اور جس کا ذکر مَیں پہلے کرچکا ہوں۔ اس کے سِوا کوئی معنے کرکے دیکھ لو یا ان میں رسول کریم ﷺ کی ہتک ہوجائے گی یا آدم علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کی ہتک ہوجائے گی۔ یہی ایک معنے ہیں جو ایک طرف رسول کریم ﷺ کی عظمت کو قائم کرتے ہیں تو دوسری طرف باقی انبیاء کی عظمت کوبھی قائم رکھتے ہیں۔
پس اے عزیزو! تمہارے لئے ازلی اور ابدی بادشاہت کے دروازے کھلے ہیں تم میں سے جس میں ہمت ہو اور جو موت کے دروازے میں سے گزر کر خدا میں محو ہونے کی طاقت رکھتا ہو اُسے خوش ہونا چاہئے کہ اُس کے لئے بھی وہی برکتیں اور وہی رحمتیں موجود ہیںجو اُس سے پہلے لوگوں کیلئے موجود تھیں۔ ضرورت صرف قربانی کی ہے اور تقویٰ کی ہے جس کا دوسر انام محبت ِ الٰہی ہے۔ جس دل میں خدا کی محبت آگئی باقی سب تفصیلیں اس میں آجاتی ہیں ۔ جس طرح خدا تمام چیزوں کا جامع ہے یعنی ہر چیز اُس کے علم میں ہے اورہر چیز اُس کے قبضہ میں ہے او رہر چیز اُس کی قدرت میں ہے اسی طرح خدا کی محبت بھی جامع ہے اس میں بھی ہر چیز داخل ہوتی ہے یعنی تمام وہ روحانی ضرورتیں جو انسانی تکمیل کیلئے ضروری ہیں محبتِ الٰہی میں سے آپ ہی آپ نکلتی آتی ہیں۔ پس خدا کی محبت پیداکرو اور محبت کا جو لازمی نتیجہ ہے یعنی قربانی اس کے آثار دکھائو تو تمہارے لئے بھی خدا کے فضل اُسی طرح ظاہر ہوں گے جس طرح آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ کیلئے ظاہر ہوئے تھے۔
دنیا میں ایک طوفان بپا ہے لوگ خد اکو بھول گئے ہیں، محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوگئی ہے، وہ چمکتا ہؤا ستارہ جسے خدا نے دنیا کی ہدایت کیلئے پیدا کیا لوگوں کی آنکھوں میں نور پیدا کرنے کی بجائے سرِدست تو حاسدوں کے دلوں میں ایک انگارہ بن کر جل رہا ہے یعنی خدا کامسیح دنیا کی تضحیک اور اُس کے تمسخر کا مرکز بنا ہؤا ہے۔ایک بہت بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے، ایک نئی دنیا کی تعمیر، ایک نئے آسمان اور زمین کی بنیاد، پس اپنی ہمتیں مضبوط کرواور ارادے کی کمر کس لو اور اپنے اِردگِرد کے منافقوں کی طرف نگاہ مت ڈالو کہ مؤمن منافق کو کھینچتاہے نہ کہ منافق مؤمن کو ۔ جس دل میں ایمان ہوتا ہے رسول کریم ﷺفرماتے ہیں کہ اگر اسے آگ میں بھی ڈال دیاجائے تو وہ اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا اور فرماتے ہیں کہ یہ ادنیٰ درجے کاایمان ہے ؎۵ ۔
پس آج میں اجمالی طور پر تحریک جدید کے تمام مطالبات کی طرف جماعت کو پھر بُلاتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس پہلے درجہ کی آخری جماعت میں ہمارے دوست ایسے اعلیٰ نمبروں پرپاس ہوں گے کہ خدا کے فضل ان پربارش کی طرح نازل ہونے لگیں گے اور دشمنوں کے دل مایوسی سے پُر ہوجائیں گے اور منافقوں کے گھروں میں صفِ ماتم بچھ جائے گی۔ ابھی بہت سا کام ہم نے کرنا ہے اور یہ تو ابھی پہلا ہی قدم ہے اگر اِس قدم کے اُٹھانے میں جماعت نے کمزوری دکھائی تو خدا کے کام تو پھر بھی نہیں رُکیں گے لیکن دشمن کو مسیح موعودؑ پر طعن کرنے کا موقع مل جائے گا اور ہر وہ گالی اور ہر وہ دشنام اور ہر وہ طعنہ جو مسیح موعودؑ کو یا ان کے سلسلہ کو دیا جائے گا اُس کی ذمہ داری انہی لوگوں پرہوگی جو اپنے عمل کی کمزوری سے دشمن کو یہ موقع مہیا کرکے دیں گے۔اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت دی تو آئندہ ہفتوںمیں مَیں اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی پھر ایک دفعہ تفصیلی طو رپر ان امور کی طرف توجہ دلائوں گا سرِدست میں نے اجمالاً سب امور کی طرف توجہ دلادی ہے اور مالی حصۂ تحریک کو میں آج ہی خطبہ کے ساتھ شروع کردیتا ہوں کیونکہ اس تحریک کیلئے دوستوں کو ہفتوں محنت کرنی پڑتی ہے او ربڑی مُہلت درکار ہوتی ہے۔ پس اگر اس میں تعویق کی گئی تو احباب کیلئے مشکلات پیدا ہوں گی۔ پس مَیں آج ہی اِس امرکااعلان کرتا ہوں کہ یکم دسمبر سے تحریک جدید کے مالی حصے کی قسط سوم کا زمانہ شروع ہوجائے گا او رمیں دوستوں سے امید رکھتا ہوں کہ جہاں تک ان سے ہوسکے وہ پہلے سالوں سے بڑھ کر اِس میں حصہ لینے کی کوشش کریں کیونکہ مؤمن کا قدم پیچھے نہیں پڑتا بلکہ اسے جتنی قربانی پیش کرنی پڑتی ہے اتنا ہی وہ اخلاص میں آگے بڑھ جاتا ہے۔ ہر وہ شخص جس نے ایک سال یا دو سال اِس قربانی کی توفیق پائی لیکن آج اُس کے دل میں انقباض پیدا ہورہا ہے یا وہ اس بشاشت کو محسوس نہیں کرتا جو گزشتہ یا گزشتہ سے پیوستہ سال میں اس نے محسوس کی تھی اسے میرے سامنے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، اپنے دوستوں کے سامنے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کے سامنے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، اسے چاہئے کہ خلوت کے کسی گوشہ میں اپنے خدا کے سامنے اپنے ماتھے کو زمین پر رکھ دے اور جس قدر خلوص بھی اُس کے دل میں باقی رہ گیا ہو اُس کی مدد سے گریہ و زاری کرے یا کم از کم گریہ و زاری کی شکل بنائے اور خدا تعالیٰ کے حضور میں جھک کرکہے کہ اے میرے خدا! لوگوںنے بیج بوئے اور ان کے پھل تیار ہونے لگے وہ خوش ہیں کہ ان کے اور ان کی نسلوں کے فائدے کیلئے روحانی باغ تیار ہورہے ہیں پر اے میرے ربّ! میں دیکھتا ہوں جو بیج میں نے لگایا تھااس میں سے تو روئیدگی بھی پیدا نہیں ہوئی نہ معلوم میرے کبر کا کوئی پرندہ کھا گیا ،یامیری وحشت کا کوئی درندہ اسے پائوں کے نیچے مسل گیا،یا میری کوئی مخفی شامتِ اعمال ایک پتھر بن کر اس پر بیٹھ گئی اور اس میں سے کوئی روئیدگی نکلنے نہ دی۔اے خدا!اب میں کیا کروں کہ جب میرے پاس کچھ تھا میں نے بے احتیاطی سے اُسے اِس طرح خرچ نہ کیاکہ نفع اُٹھاتا مگر آج تو میرا دل خالی ہے میرے گھر میں ایمان کا کوئی دانہ نہیں کہ میں بوئوں۔ اے خدا! میرے اسی ضائع شدہ بیج کو پھرمہیا کردے اور میری کھوئی ہوئی متاعِ ایمان مجھے واپس عطاکر اور اگر میرا ایمان ضائع ہو چکا ہے تُو اپنے خزانے سے اور اپنے ہاتھ سے اپنے اِس دھتکارے ہوئے بندہ کو ایک رحمت کا بیج عطا فرما کہ میں اور میری نسلیں تیری رحمتوں سے محروم نہ رہ جائیںاور ہمارا قدم ہمارے سچی اور اعلیٰ قربانی کرنے والے بھائیوں کے مقام سے پیچھے ہٹ کر نہ پڑے بلکہ تیرے مقبول بندوں کے کندھوں کے ساتھ ہمارے کندھے ہوں۔ اے خدا! بہت ہیںجو اعمال کے زور سے تیرے فضل کو کھینچ لائے پر ہم کیا کریںکہ ہمارے اعمال بھی اُڑ گئے۔کیا تیرا رحم،کیا تیرا بے انتہاء رحم غیرت میں نہ آئے گا اور ہم جیسے بندوں کو بے عمل ہی اپنے فضل کی چادر میں چھپا نہ لے گا۔
پس تم اس طرح خدا کے آگے زاری کرو تا کہ تمہارے دلوں کے زنگ دور ہو جائیںاور تمہاری مُردہ روح پھر زندہ ہو جائے اور تم کو پہلے سے بڑھ کر قربانیوں کی توفیق ملے اور تمہارے عمل کا نتیجہ پہلے سالوں سے بھی زیادہ دشمن کے لئے حسرت اور یاس کا موجب بنے۔اگر تم سچے دل سے خدا کی طرف جھکو گے تو وہ یقینا تمہارے دلوں کو کھول دے گا اور تم پر یہ ظاہر ہو جائے گا کہ خدا اور اس کے دین کے لئے قربانیوں کے لئے میں تم کو بلاتا ہوں انہی میں اسلا م کی بہتری ہے اورانہی میں اسلام کی شوکت ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ وہ اپنی قربان گاہ پر مسیحِ محمدی کے بر ّوں کی قربانی کرے اور ان کے خون کو اسلام کی خشک شدہ انگور کی بیل کی جڑ میں ڈالے تا کہ وہ پھر ہری ہوجائے او رپھر اس میں خدا کے فضل کے انگور لگنے لگ جائیں۔ اگر تم میں سے کسی نے انجیل پڑھی ہو تو اُس کو معلوم ہوگا کہ روحانی بادشاہت کو انگور کے باغوں سے تشبیہہ دی گئی ہے اور انگور کی ہی بیل ایک ایسی بیل ہوتی ہے جس کو سرسبز و شاداب کرنے کیلئے خون کی کھاد ڈالی جاتی ہے۔ پس اِس کی مثال میں اسی طرف اشارہ تھا کہ خدا کے دین کو تازہ کرنے کیلئے ہمیشہ انسانی قربانیوں کی ضرورت ہوگی اور انسانوں کے خون اِس باغ کی جڑوں میں گرا کر اُسے پھر زندہ اور شاداب کیا جائے گا۔
پس اے دوستو! آئو کہ ہماری جانیں اسلام کے مقابلہ میں کوئی قیمت نہیں رکھتیں ہم میں سے ہر ایک شخص خواہ اُس کو مال مِلا ہے یا نہیں مِلا اپنی اپنی توفیق کے مطابق خدا کے سامنے اپنی قربانی پیش کردے اور اِس قربانی کو پیش کرنے کے بعد ایک مُردے کی طرح الٰہی آستانہ پر گِر جائے یہ کہتے ہوئے کہ اے میرے خدا! اے میرے خدا! میری اِس حقیر نذر کو قبول کر اورمجھے اپنے دروازے سے مت دُھتکار۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ ثُمَّ اٰمِیْنَ
(الفضل ۳؍ دسمبر ۱۹۳۶ئ)
؎۱ المائدۃ: ۴
؎۲ بخاری کتاب التفسیر ۔ تفسیر سورۃ الفتح باب قولہ اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا
؎۳ مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۱۲۷ مطبوعہ بیروت ۱۳۱۳ھ
؎۴ الشعرائ: ۲۲۰
؎۵ بخاری کتاب الایمان باب حلاوۃ الایمان






۴۲
لیلۃ القدر کیا ہے اور اس کے حصول کیلئے کیا کرنا چاہئے
(فرمودہ ۴؍ دسمبر ۱۹۳۶ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں نے سب سے پہلے سال تحریک جدید کا اعلان کرتے ہوئے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ایک تو وہ آپس میں صلح کریں ، لڑائی جھگڑوں کو چھوڑ دیں اور ایک دوسرے کے ایسے قصور جو ذاتی ہوں اور ایسے جھگڑے جو دینی نہ ہوں اُن کو بھلادیں اور دوسرے اپنے بقائے ادا کرنے کی طرف توجہ کریں کیونکہ جو پچھلا بقایا ادا نہیں کرتا وہ آئندہ کیلئے کس طرح وعدہ کرسکتا ہے۔ میری اِس ہدایت کی سند رسول کریم ﷺ کے ایک بیان سے بھی ہوتی ہے جو کہ رمضان کی بعض ساعات کے متعلق ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت کے ماتحت اِس تحریک کے پہلے حصہ کا تیسرے سال کیلئے اعلان کرتے وقت وہی مہینہ آگیا ہے جس میں اِس راز کا انکشاف کیا گیا ہے اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ دوستوں کو پھر اس کی طرف توجہ دلادوں۔ حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس گھڑی کی خبر دی جس میں دعائیں بِالعموم سنی جاتی ہیں اور ایسی ساعات کاعلم ہونا کوئی معمولی بات نہیں اس لئے رسول کریم ﷺ اس خوشی میں گھر سے باہر آئے تا باقی احباب کو بھی اُس وقت کی اطلاع دیں اور وہ بھی اس سے فائدہ اُٹھاسکیں مگر آپؐ جب مسجد میں تشریف لائے تو دو مسلمان آپس میں لڑ رہے تھے آپ اُن کی اِس لڑائی اور اختلاف کے دور کرنے میں مصروف ہوگئے اور ادھر سے آپؐ کو اپنی توجہ ہٹانی پڑی اس لئے جب پھر اس طرف متوجہ ہوئے تو وہ گھڑی آپ کو بھول چکی تھی بلکہ حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بھولی ہی نہیں اللہ تعالیٰ کے تصرّف کے ماتحت اس گھڑی کی یاد اُٹھالی گئی تھی۔ پس آپؐ نے فرمایا کہ اس اختلاف اور جھگڑے کی وجہ سے اس گھڑی کاعلم اُٹھالیا گیا ہے اس لئے اب اسے رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں اور ان میں سے بھی طاق راتوں میں تلاش کرو ؎۱ ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھڑی جس کی مناسبت کی وجہ سے اسے لیلۃ القدر کہا گیا ہے وہ قومی اتفاق اور اتحاد سے تعلق رکھتی ہے اور جس قوم میں سے اتحاد اور اتفاق مٹ جائے اُس میں سے لیلۃ القدر بھی اُٹھالی جاتی ہے۔ لیلۃ القدر کے معنے ہیں وہ رات جس میں انسان کی قسمت کا اندازہ کیا جاتا ہے اور فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آئندہ سال میں اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا، وہ کہاں تک بڑھے گا اورترقی کرے گا، کیاکیا فوائد اسے حاصل ہوں گے اور کیا کیا نقصان اُٹھانے پڑیں گے۔ انسانی ترقی کے تمام فیصلے لیلۃ یعنی ظلمت میں ہی ہوتے ہیں جس طرح کہ اس کی جسمانی ترقی ظلمت میں ہی ہوتی ہے۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کی جسمانی ترقی بھی متواتر ظلمتوں میں ہوتی ہے، ماں کا پیٹ بھی کئی ظلمتوں کامجموعہ ہوتا ہے اور وہیں انسان کی جسمانی ترقیات کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اگر ان ایام میں تربیت یا پرورش اچھی طرح نہ ہو تو آئندہ وہ بچہ کمزور ہوگا، اُس کی اخلاقی حالت بھی اچھی نہیں ہوگی اور وہ دنیا میں کوئی بڑے کام بھی نہیں کرسکے گا یہی وجہ ہے کہ اسلامی فقہاء نے ایامِ حمل میں عورت کا روزہ رکھنا ناپسند کیا ہے کیونکہ اس سے بچہ کی پرورش میں کمزوری واقعہ ہوجاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ایسے مواقع پر طلاق کو بھی ناپسند کیا ہے کیونکہ اس سے جو صدمہ ہوتاہے اس سے بچہ کی پرورش میں کمزوری ہوجاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسی حالت میں اسلام نے نکاح کو بھی ناجائز قرار دیا ہے کیونکہ اس سے جذبات کے ہیجان کے باعث بھی بچہ کی پرورش پر بُرا اثر پڑتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جماع کے وقت کیلئے ایک جامع دعا سکھائی ہے جوماں کے پیٹ میں اس کی تربیت کی ذمہ وار ہوسکتی ہے کیونکہ اس حالت میں بچہ کانوں سے کچھ نہیں سن سکتا صرف ماں باپ کے خیالات سے سبق سیکھتا ہے۔ اس لئے اسلام نے سکھایا ہے کہ اُس وقت یہ دعا کی جائے کہ اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَ جَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا ؎۲ یعنی اے خدا! شیطانی خیالات کو اِس وقت ہم سے دور کردے کیونکہ ہم ایک نیا بندہ پیدا کرنے لگے ہیں اگر اب تک ہماری رگوں میں خون کے ساتھ شیطان دَوڑتا رہا ہے تو اب اسے ہم سے علیحدہ کردے تا آئندہ یہ سلسلہ نہ چل سکے اور اس کے نتیجہ میں جو اولاد تُو ہمیں دینے والا ہے اسے شیطان سے بچا کردے تا بدی کا سلسلہ یہیں منقطع ہوجائے۔ جو ماں باپ ان شہوات کے اوقات میں یہ دعا کریں کوئی وجہ نہیں کہ ان کی اولادنیک نہ ہو او رشیطان کے اثر سے پاک نہ ہو بشرطیکہ خلوصِ نیت سے یہ دعا کی جائے کہ زبان کے ساتھ دل اور دماغ بھی اس دعا کے کرتے وقت شریک ہوں۔ پس شریعت نے بچہ کی تربیت اور پرورش کیلئے ان دنوں میں خصوصاً احتیاط سکھائی ہے جب وہ ظلمات میں ہوتا ہے اور یہ احتیاط کا سلسلہ اُس وقت تک جاری رکھا ہے جب تک کہ ظلمات کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ رضاعت کے ایام بھی اسی سلسلہ کی لمبائی ہیں کیونکہ ان دنوں میں ابھی بچہ اپنی زندگی کیلئے دنیا کی طرف متوجہ نہیں ہوتا بلکہ ماں کی طرف ہی متوجہ ہوتاہے۔ چنانچہ اُس وقت بھی ماں کوروزے رکھنے کی ممانعت ہے ا وربہت سی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔ پس ترقیات کا فیصلہ ہمیشہ ظلمات میں ہوتا ہے اور جس طرح جسمانی ترقیات ظلمت میں ہوتی ہیں اِسی طرح روحانی ترقیات بھی رات میں ہی ہوتی ہیں۔ ہر قوم کی روحانی ترقی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی اس کی ابتدائی قربانیاں ہوتی ہیں اُس کی لیلۃ القدر ہی اس کی ترقیات کی عمر کا معیار ہوتی ہے۔ رسول کریم ﷺنے اِسی لئے فرمایا ہے کہ کوئی شخص جتنا خدا کا پیارا ہو اُتنے ہی زیادہ اُسے ابتلاء پیش آتے ہیں کیونکہ اس کیلئے انعام بھی زیادہ مقدر ہوتے ہیں۔
غرض لیلۃ القدر اُس قربانی کی ساعت کو کہتے ہیں جو خداتعالیٰ کے ہاں مقبول ہوتی ہے۔ بعض قربانیاں مقبول نہیں ہوتیں۔ جنگ بدر میں مکہ کے جو کفار مارے گئے ان کی قربانی خدا کے ہاں مقبول نہیں تھی پس وہ زمانہ لیلۃ القدر نہیں کہلاسکتا مگر جو صحابہ شہیدہوئے اُن کی قربانی مقبول تھی۔ جس تکلیف کی اللہ تعالیٰ کوئی قیمت مقرر نہیں کرتا وہ لیلۃ القدر نہیں وہ سزا ہے، عذاب ہے، انتقام ہے مگر وہ تکلیف جس کیلئے اللہ تعالیٰ قیمت مقرر کرتا ہے وہ لیلۃ القدر ہے یعنی ظلمت ،بلا اور دُکھ جس کا بدلہ دینے کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہو وہ لیلۃ القدر ہے۔ پنجابی میں بھی کہتے ہیں کہ میری قربانی کی کوئی قدر نہیں کی گئی عربی میں بھی یہ لفظ ان معنوںمیں استعمال ہوتا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے ایسی ساعات مقرر کی ہیں کہ جن میں جو قربانیاں وہ کرے وہ ہمیشہ اُس کی نظر میں مقبول ہوتی ہیں مگر ان کیلئے ضروری شرط یہ ہے کہ قوموں میں سے مخلصوں کو آپس میں لڑنا نہیں چاہئے۔ منافق کا گناہ ہمارے ذمہ نہیں مگر سچے مؤمن اگر لڑیں تو ان کالڑنا خداتعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوگا لیکن منافق اگر فتنہ و فساد پیدا کرتا ہے تو چونکہ وہ باغی ہے اس کے افعال کی مؤمنوں کو سزا نہیں ملتی بلکہ اگر مؤمن اس سے بچتے رہیں تو انعام کے مستحق ہوتے ہیں۔
پس میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ہمارے لئے لیلۃ القدر آرہی ہے یعنی ایسے مصائب درپیش ہیں کہ جماعت کی روحانی اوراشاعتی زندگی خطرہ میں ہے اور اس لئے نصیحت کی تھی کہ آپس میں صلح کرلیں او راس طرح خداتعالیٰ اور رسول کریم ﷺ کی خوشنودی حاصل کریں اس لئے اب جبکہ پھر رمضان کامہینہ ہے اور لیلۃ القدر کی گھڑیاں قریب آرہی ہیں اور جبکہ تندرستوں اور حاضروں نے خداتعالیٰ کیلئے روزے رکھے اور تکلیف اُٹھائی ہے میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس تکلیف کا فائدہ حاصل کرنے کیلئے ایسا طریق اختیار کرو جس سے وہ فائدہ حاصل ہؤا اکرتا ہے اور وہ طریق وہی ہے جو رسول کریم ﷺنے فرمایا ہے یعنی یہ ہے کہ باہمی لڑائی اورجھگڑے چھوڑ دو تو لیلۃ القدر تمہیں یاد آجائے گی ورنہ بھلادی جائے گی۔ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بھولنا بھی دو قسم کا ہوتا ہے جب افرا دکی باہم لڑائی ہو تو وہ محروم رہ جاتے ہیں باقی قوم کو وہ گھڑی مل جاتی ہے مگر آخری عشرہ میں تلاش کرنے سے لیکن اگر قوم کی باہم لڑائی ہو تو ساری قوم محروم رہ جائے گی اور تلاش کرنے سے بھی وہ حاصل نہیں ہوگی بلکہ جب وقت آئے گا لوگ سوتے ہی رہ جائیں گے اس لئے لڑائیاں اور جھگڑے چھوڑ دو اور خداتعالیٰ کے دین کیلئے متحد ہوجائو۔ ہاں یہ اتحاد منافق اور مخالف سے نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کیلئے تو خداتعالیٰ کی طرف سے ذلّت مقدر ہوچکی ہے وہ تو جب تک اَذِلَّۃ گروہ میں شامل ہوکر خود معافی نہ مانگے اس وقت تک کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔
اس کے بعدمیں نے جو دوسری بات کہی تھی جب تک ایک ایسا شخص بقائے ادا نہ کرے تحریک جدید اسے کوئی نفع نہیں دے سکتی اس کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں۔ دراصل جو شخص اپنے پہلے حقوق ادا نہ کرتے ہوئے مزید وعدے کرتا ہے وہ خداتعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر بھڑکاتا ہے اور دنیاکو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہؤا خدا کو ناراض کرلیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا کو کیا معلوم ہے کہ میں نے اپنا پچھلا وعدہ پورا نہیں کیا۔ لوگ تو خوش ہوجائیں گے کہ فلاں نے اتنا وعدہ کیاہے مگر اللہ تعالیٰ تو اس دھوکا بازی کو خوب جانتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ اس شخص نے پہلے بھی دھوکا کیا تھا اور اب پھر کرتا ہے اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے فرضی چندوں کے بقایوں کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ کریں اور اگر اد انہیں کرسکے تو دل میں ان کو ادا کرنے کا پختہ اقرار تو کرلیں اور کوئی ایسا طریق مقرر کرلیں جس سے اد اکرسکیں۔ مثلاً کوئی قسط مقرر کرلیں اور اس کے بعد تحریک جدید کی طرف توجہ کریں ورنہ تحریک جدید کا وعدہ اُن کی ترقی کا نہیں بلکہ خداتعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوگا۔ اگر دوست یہ دونوں باتیں کریں یعنی مؤمن اور مخلص لوگ دلوں سے بُغض نکال کر باہم محبت پید اکریں اور بقائے اد اکریں اور پھر تحریک جدید میںحصہ لے سکیں تولیں بلکہ اگر توفیق ہو تو تحریک جدید میں حصہ لینا بھی ضروری سمجھیں تو پھر ترقیات کے دروازے ان پرکھل سکتے ہیں۔
تحریک جدید میں حصہ لینا اگرچہ میں نے اختیاری رکھا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اس میں حصہ لینے سے کوتاہی کی جاسکتی ہے یہ تحریک تو اختیاری تو میں نے اس لئے رکھی ہے کہ انسان کوزیادہ ثواب انہی تحریکوں میں حصہ لینے سے ہوتا ہے جو خود اختیاری ہوں۔ حکم کو تو منافق بھی مان لیتا ہے، ماہواری چندوں میں تو منافق بھی شامل ہوتے ہیں بلکہ ضرور ہوتے ہیں کیونکہ بمصداق ’’چور کی داڑھی میں تنکا‘‘ وہ جانتے ہیں کہ اگر ہم نے سُستی کی تو ہمارا پول کھل جائے گا کمزور مخلص تو بعض دفعہ کوتاہی کرجائے گا مگر منافق نہیں کرے گا وہ ضرور کوشش کرے گا کہ یہ کلنک کا ٹیکا اسے نہ لگے ورنہ وہ بالکل ننگا ہوجائے گا مگر خود اختیاری تحریکوں میں آکر اس کا بھید کھل جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے ان میں حصہ لینا ضروری تونہیں ہے پس اس میں مخلص کے اخلاص کے اظہارکا زیادہ موقع ہوتا ہے۔
ایک بات اور بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جو شخص ہر نیکی اس لئے کرتا ہے کہ اسے جنت ملے گی وہ اعلیٰ درجہ کامؤمن نہیں ہے ۔ مؤمن تو وہ ضرور ہے اور رسو ل کریم ﷺ کی شہادت ہے کہ وہ مؤمن ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آیااور دریافت کیا ۔ کیا آپ کو خدا نے کہا ہے کہ پانچ نمازیں پڑھی جائیں؟ آپ نے فرمایا ہاں، پھر اس نے کہا کیا خداتعالیٰ نے آپ کو حکم دیاہے کہ تیس روزے رکھے جائیں؟ آپ نے فرمایا ہاں، پھر اس نے کہا کیا آپؐ کو خداتعالیٰ نے حکم دیاہے کہ جسے توفیق ہو وہ کم سے کم ایک دفعہ حج ضرور کرے؟ آپ نے فرمایا ہاں، اسی طرح غالباً زکوٰۃ کے متعلق بھی اُس نے پوچھا اور ساتھ ساتھ قَسم بھی دیتا جاتا تھا آخر سب کچھ سن کر اس نے کہا کہ خدا کی قسم! یہ میں ضرور کروں گا مگر اس سے زیادہ نہیں۔ اس پر رسول کریم ﷺنے فرمایا کہ اگر اِس نے اپنی قسم کو پورا کیا تو جنت میں جائے گا ؎۳ ۔ تو وہ مؤمن تو تھا مگر بیوقوف مؤمن تھا۔ ابوبکرؓ نے کبھی ایسا سوال نہیں کیا، عمرؓنے کبھی ایسا سوال نہیں کیا، اسی طرح عثمانؓ،علیؓ، طلحہؓ اور زبیرؓ نے کبھی ایسے سوالات نہیںکئے، اکابر انصار نے کبھی ایسے سوال نہیں کئے، ان کی تویہ حالت تھی غریب صحابہ کا ایک گروہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میںحاضر ہؤا اور عرض کیا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! آپ جو حکم دیتے ہیں وہ اُمراء بھی بجالاتے ہیں ا ور ہم بھی، نمازیں وہ بھی پڑھتے ہیں اور ہم بھی، روزے وہ بھی رکھتے ہیں اور ہم بھی، حج بھی دونوں کرتے ہیں مگر وہ زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہمارے پاس روپیہ نہیں اس لئے یہ ہم سے درجہ میں بڑھ جاتے ہیں کوئی ایسی تدبیر بتائیے کہ یہ ہم سے نیکی میں نہ بڑھ سکیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم ہر نما زکے بعد ۳۳ دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہِ، ۳۳ دفعہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اور ۳۴ دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ پڑھ لیا کرو اللہ تعالیٰ دوسروں سے پہلے تمہیں جنت میں لے جائے گا۔ یہ سن کر سب غرباء نے یہ پڑھنا شروع کردیا۔ یہ نہیں کہا کہ ہم صرف فرائض ہی ادا کریں گے لیکن اس زمانہ کے امراء بھی نیکیوں میں ترقی کرنے کیلئے ہمیشہ ٹوہ میں رہتے تھے ان کوجب علم ہؤا تو انہوںنے بھی یہ وظیفہ پڑھنا شروع کردیا۔ اس پر غرباء آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ان کو روکئے یہ بھی وہ وظیفہ پڑھنے لگے ہیں۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص خد اکی خوشنودی کیلئے کوئی کام کرتا ہے میں اسے کیسے روک سکتا ہوں ؎۴ ۔
پس یہ حقیقی اور عقلمند مؤمن تھے وہ شخص بھی مؤمن تھا اوربخشا ہؤا مؤمن تھا جو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہؤا مگر بیوقوف مؤمن تھا اس نے سمجھا کہ مجھے چھوٹی سے چھوٹی رحمت بھی مل جائے تو کافی ہے مگر عقلمند مؤمن کہتا ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ کیوں نہ لوں۔
پس نوافل اللہ تعالیٰ کا قُرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں یعنی وہ عبادت جو انسان کی مرضی پر چھوڑ دی گئی ہو۔ نوافل ادا کرتے کرتے انسان ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ خداتعالیٰ اُس کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ پکڑتاہے، پائوں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتاہے، زبان بن جاتاہے جس سے وہ بولتا ہے، آنکھیں بن جاتاہے جن سے وہ دیکھتا ہے ؎۵ ، غرضیکہ وہ دنیا میں خدا تعالیٰ کا ظہور اور بروز بن جاتاہے۔ جس طرح بانسری میں سے بجانے والے انسان کی آوازنکلتی ہے اسی طرح خداتعالیٰ اس کے ذریعہ بولتا اور دیکھتا ہے۔ جب اس کی نگاہ کسی چیزکو بُرا دیکھتی ہے تو خداتعالیٰ بھی اُسے بُرا ہی کردیتاہے۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک شخص ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے سامنے کھڑا تھا وہ بالکل کنگال تھا ،اُس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے او ربال پریشان تھے۔ اُس کی پھوپھی پر ایک مقدمہ تھا جس کی حرکت سے اتفاقاً کسی کا دانت ٹوٹ گیا تھا۔ یہ غریب صحابی دوسرے فریق کی منتیں کررہا تھا کہ میری پھوپھی نے شرارتاً ایسانہیں کیا اتفاقاً ایسا ہؤا ہے مگر دوسرا فریق مصر تھا کہ نہیں ضرور اُس کی پھوپھی کا دانت توڑا جائے گا۔ رسول کریم ﷺ بھی سمجھتے تھے کہ شرارتاً ایسا نہیں ہوا اس لئے آپ نے بھی سفارش کی مگر دوسرے فریق نے کہا کہ نہیں ہمارا حق ہے جو ہم ضرور لیں گے۔ جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کی سفارش کو بھی ردّ کردیا تو اُس صحابی کوجوش آگیا اور اُس نے کہا خدا کی قسم! میری پھوپھی کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ وہ غریب آدمی تھا اِس لئے اُس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ میں لڑوں گا اور تمہیں ایسا کرنے سے باز رکھوں گا۔ بلکہ اُس کا مطلب یہ تھا کہ میں خدا تعالیٰ سے اپیل کروں گا۔ جب اس نے یہ قسم کھائی تو دوسرے فریق کے دل ڈر گئے اور وہی لوگ جنہوں نے رسول کریم ﷺ کی سفارش بھی نہ مانی تھی خودبخود کہنے لگے یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ہم نے معاف کردیا۔ رسول کریم ﷺنے فرمایا کہ خدا کا کوئی بندہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اُس کے بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اور جسم پر مٹی پڑی ہوتی ہے مگر جب وہ خداتعالیٰ کے نام پر قسم کھالیتا ہے تو خداتعالیٰ اسے ضرور پورا کردیتا ہے ؎۶ ۔ یہی مطلب ہے اِس کا کہ خداتعالیٰ نوافل کے ذریعہ بندہ کی زبان بن جاتا ہے، آنکھیں بن جاتا ہے، ہاتھ اور پائوں بن جاتا ہے یعنی اخلاص کے ساتھ وہ جس طرف لگ جاتا ہے خداتعالیٰ کے سب فرشتے اسی طرف لگ جاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ وہی ہو جو یہ چاہتا ہے اور یہ مقام نوافل کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتا ہے۔
پس میں نے چاہا کہ تمہارے لئے ایسا موقع بہم پہنچائوں اور ایسی قربانیاں مقرر کروں جو تمہاری مرضی پر موقوف ہوں تا جو لوگ اپنی مرضی سے قربانیاں کریں خداتعالیٰ ان کے ہاتھ، پائوں، کان، آنکھیں اور زبان بن جائے۔ چنانچہ اس شوریٰ پر صدر انجمن کی مالی مشکلات دور کرنے کیلئے بھی میں نے اسی طرح نفلی چندے اور قرضے ہی مقرر کئے ہیں۔ اب تمہارا اختیار ہے کہ ان جانی و مالی قربانیوں کو اختیار کرکے قُربِ الٰہی حاصل کرویہاں تک کہ خداتعالیٰ کے ظہور اور برو زبن جائو۔
مگر میں اس موقع پر ایک اوربات سے بھی ہوشیار کردینا چاہتاہوں بعض لوگ نادانی سے قربانی کے بعد اس امید میں رہتے ہیں کہ اِدھر وہ قربانی کریں اور اُدھر اُن کو دولت مل جانی چاہئے۔ وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ دولت وہ ہے جو خداتعالیٰ دے نہ کہ جو وہ خود تجویز کریں۔ ایسے لوگوں کے حال پر مجھے ہمیشہ ایک لطیفہ یاد آتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کوئی میراثی اسی طرح خداتعالیٰ کے ساتھ سَودا کرنے کا شائق تھا جب کبھی کوئی اُسے نماز کیلئے کہتا وہ یہی جواب دیتا کہ کیا ملے گا؟ ایک دفعہ ایک مولوی نے اُسے وعظ کیا کہ نما زپڑھا کرو۔ تو اُس نے یہی سوال کردیا کہ کیا ملے گا؟ مولوی صاحب نے اُسے روحانیت کی طرف مائل کرنے کیلئے کہا کہ نور ملے گا۔ اِس پر وہ نماز کیلئے تیار ہوگیا مولوی صاحب نے اُسے موٹے موٹے مسائل سمجھادیئے اور تیمّم کا مسئلہ بھی بتادیا۔ فجر کی نماز کے وقت اُس نے بیوی سے کہا کہ اُٹھا تو جاتا نہیں تیمّمکرکے بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ لیتا ہوں نما زپڑھ کر کچھ دیر کیلئے وہ سوگیا جب صبح اُٹھا تو اِسی قسم کے جلد بازوں کی طرح فوری انعام کا امیدوار ہؤا اور اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ بیوی ذرا اُٹھ کر دیکھو تو میرے چہرے پرکوئی نور ہے یا نہیں؟ بیوی نے دیکھا تو کہنے لگی کہ کچھ ہے تو سہی۔ اُس نے پوچھا کہ نور کیسا ہوتا ہے؟ اُس نے کہا کہ کچھ کالا کالا معلوم ہوتا ہے۔بات یہ تھی کہ اُس نے اندھیرے میں تیمّم کرنے کیلئے توے پر ہی ہاتھ ماردیا تھا اور اُس کی سیاہی چہرے پر لگی ہوئی تھی جب اس نے بیوی کا جواب سنا تو اپنے ہاتھ دیکھے اور انہیں بالکل سیاہ پایا کیونکہ توے کی سیاہی پہلے انہی کو لگی تھی۔ انہیں دیکھ کر وہ بیوی سے کہنے لگا اگر نور کالا ہوتا ہے تو اِس میں کوئی شک نہیں کہ پھر وہ گھٹا باندھ کر آیا ہے۔ تو ایسے نادان لوگ ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں اور دُنیوی نعمتوںکا نام فضل رکھتے ہیں حالانکہ اصل نعمت وہ ہے جوموت کے بعد ملتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم دنیا میں بھی اپنے بندوں کوذلیل نہیں رکھتے اور جب چاہتے ہیں بادشاہت بھی دے دیتے ہیں مگر بادشاہت قومی ہوتی ہے انفرادی نہیں۔ مسلمانوں کوجب بادشاہت ملی تو سارے ہی عمرؓ اور عثمانؓ نہیں بن گئے تھے۔ غریب مسلمان اُس وقت بھی موجود تھے اگرنہیں تھے تو زکوٰۃ کسے ملتی تھی او رصدقات کِن کودیئے جاتے تھے ۔ تو دُنیوی اموال کا وعدہ قومی طور پر ہوتا ہے انفرادی وعدے ایسے ہوتے ہیں کہ مثلاً رمضان کیلئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر چیز کیلئے انعام ہوتے ہیں مگر روزے کا انعام میں خود ہوں۔ اب کوئی بدبخت روزے رکھ کر اگر یہ سمجھے کہ میری تنخواہ پانچ سے چھ روپے ماہوار ہوجانی چاہئے تو وہ کتنا نادان ہوگا۔ خداتعالیٰ تو کہتا ہے کہ میں خود اسے مل جاتاہوں مگر وہ کہتا ہے کہ نہیںمجھے آپ کی ضرورت نہیں آپ اپنے گھر میں رہیں اور مجھے صرف ایک روپیہ ماہوار مل جائے۔ اس کی مثال صرف ایسی ہے کہ جیسے کہتے ہیں کہ کوئی ڈپٹی کمشنرکہیں سفر پر جارہا تھا اُس سے کسی فقیر نے سوال کیا اور اس نے اسے دو چار آنے دے دیئے۔ فقیر لوگوں کو چونکہ پولیس کے سپاہیوں سے ہی واسطہ زیادہ تر پڑتاہے وہ ایک جگہ بھیک مانگتے تو پولیس والے وہاں سے اُٹھا کر دوسری طرف بھیج دیتے ہیں، وہاں جاتے ہیں تو دوسرا سپاہی وہاں سے بھی اُٹھادیتا ہے اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ پولیس کے افسر ہی سب سے بڑے ہوتے ہیں۔ اِسی اثر کے ماتحت اُس نے خوش ہوکر اس ڈپٹی کو دعا دی کہ رب تینوٹھانے دار کرے۔ یعنی خداتعالیٰ تجھ کو تھانے دار بنائے جو الفاظ اس محسن کے حق میں بددعا تھے دعا نہ تھے۔ تو ان بیوقوفوں کی مثال بھی ایسی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ روزے کے بدلہ میں مَیں خود مل جاتا ہوں مگر وہ کہتے ہیں نہ حضور ایک روپیہ مہینہ ہی ہمیں دے دیں۔ اگراللہ تعالیٰ روپیہ بھی دیتا ہے تو دے اس کے فضلوں کوکون روک سکتا ہے مگر دُنیوی وعدے جماعتی ہوتے ہیں انفرادی نہیں۔ یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں کہ ہم تمہیں دولت دیں گے یہ ہے کہ ہم تمہاری قوم کو بادشاہت دیں گے۔
تم اگر تحریک جدید پر عمل شروع کردو تو آج، کل یا پرسوں نہیں جب خداتعالیٰ کی مرضی ہوگی تمہاری قوم کو ضرور بادشاہت مل جائے گی۔ دیکھو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے تین سَو سال کے بعد ایک محدود بادشاہت دی تھی مگر آنحضرت ﷺ کو پندرہ بیس سال میں ہی ایک وسیع بادشاہت عطا فرمادی۔ پس اللہ تعالیٰ بحیثیت قوم تم کو بھی یقینا بادشاہت دے گا لیکن اس کے وقت کا علم خدا تعالیٰ کو ہی ہے ہاں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ پہلے مسیح کی قوم کو جس سُرعت سے ترقی ملی تھی اس سے بہت زیادہ سرعت سے ہماری جماعت ترقی کررہی ہے اور پھر جو ہم سے وعدے ہیں وہ پہلے مسیح سے بہت زیادہ ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تین سَو سال کے اندر جماعت احمدیہ سب دنیا پر غالب آجائے گی اور اس کے مخالف صر ف چوہڑے اور چماروں کی طرح کمزور اور قلیل التعداد ہوجائیں گے مگر یہ بادشاہت قومی ہوگی۔ لیکن خداتعالیٰ کا قُرب ہر شخص حاصل کرسکتاہے دنیا چھوٹی ہے اِس لئے ہر ایک کو نہیں مل سکتی مگر خدا بڑا ہے ا س لئے ہر شخص اسے پاسکتا ہے کیا تم جو اِس وقت میرے سامنے بیٹھے ہو پانی کے ایک گلاس سے سیر ہوسکتے ہو؟ ہرگز نہیں لیکن دریائے اٹک سے سب اپنی پیاس بجھاسکتے ہو اور خداتعالیٰ کی وسعت کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں۔
پس دنیا ایک متاع قلیل ہے اور ٹِنڈ یا کوزے کا پانی ہے اسے اگر تقسیم کرو گے تو کسی کا بھی پیٹ نہیں بھرے گا۔ پس جو وعدہ ہر شخص سے ہے وہ دنیا کا نہیں وہ روحانی وعدہ ہے۔ دُنیوی وعدہ صرف قومی وعدہ ہے پس جو اِس لئے قربانی کرتا ہے کہ اُسے دولت مل جائے وہ نادان ہے اور اعلیٰ کو چھوڑ کرادنیٰ کی طرف مائل ہوتا ہے۔ پس اِس نکتہ کو سمجھ کر قربانی کرو تا کوئی ٹھوکر نہ لگے اور اس میراثی کی مثال نہ بن جائو۔ ٹھوکریں ہمیشہ ایسے ہی خیالات سے لگتی ہیں کہ مجھے فلاں خطاب نہیں ملا،میرے لڑکے کو فلاںعہدہ نہیں ملا، یہ رشتہ نہیں ہؤا، فلاں شخص سے ہمارا جھگڑا تھا وہ ہمارے حق میں فیصلہ نہیں ہؤا۔ لیکن جس شخص کی نیت ہی خدا کو ملنے کی ہو اُسے ابتلاء کس طرح آسکتا ہے اُس کے پاس تو جب کوئی منافق جاکر کہے کہ تمہیں دُنیوی دولت نہیں ملی تو وہ کہتا ہے کہ میںنے مانگی ہی کب تھی۔ جب اُسے کہا جائے کہ تمہارے ساتھ فلاں رعایت نہیں کی گئی تو وہ کہتا ہے کہ میں نے اِس کی خواہش ہی کب کی تھی مجھے تو صرف خدا سے ملنے کی خواہش تھی اور وہ مجھے ملا ہؤاہے۔ ایسے شخص کو ابتلاء نہیں آسکتا۔ ابتلاء ہمیشہ اُسے ہی آتا ہے جو بظاہر تو خدا خدا پکار تا ہے مگر ا س کے دل سے دنیا دنیا کی صدائیں نکل رہی ہوتی ہیں۔ پس اگر تم خدا کے ہوجائو اور اُسے اپنا مقصود قرار دے کر قربانیاں کرو تو ساری دنیا مل کر بھی تمہارے لئے ٹھوکر کا سامان پیدا نہیں کرسکتی اور تم اس چیز کے مستحق ہوسکتے ہو جس کے مقابل میں کوئی اور چیز نہیں رکھی جاسکتی۔
رسول کریم ﷺ نے جب مکہ فتح کیا تو مکہ کے لوگ آپ کے پاس آئے جن کی نگاہیں بوجہ ایمان سے پوری طرح روشناس نہ ہونے کے ابھی دنیا ہی کی طرف تھیں اس کے بعد کی ایک جنگ میں کچھ اموال مسلمانوں کے ہاتھ آئے تھے آنحضرت ﷺ نے وہ اموال ان لوگوں میں تقسیم کردیئے۔ ایک انصاری نوجوان نے کسی مجلس میں کہاکہ ہماری تلواروں سے خون ٹپک رہا ہے اور رسول کریم ﷺ نے اموال اپنے رشتہ داروں کو دے دیئے۔ آپ کو اس کا علم ہؤاتو اکابر انصار کو بُلایا اور دریافت کیا کہ مجھے ایسی بات پہنچی ہے۔ انصار رو پڑے اور کہا کہ کسی نادان نے کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں اے انصار! تم کہہ سکتے ہو کہ ہم نے محمد (ﷺ) کو اُس وقت جگہ دی جب اسے کوئی جگہ نہ دیتا تھا اور اس کے شہر والوں نے اسے نکال دیا تھا پھر اس کیلئے عزت اور فتح مندی حاصل کی تو اس نے اموال اپنے رشتہ داروں کوبانٹ دیئے۔ اس پر انصار کی چیخیں نکل گئیں اور انہوں نے پھر کہا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ہم ایسا نہیں کہتے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تم اسی بات کو ایک اور طرح بھی کہہ سکتے ہو اور وہ اس طرح کہ جس شخص کوخدانے تمام دنیا کی ہدایت کیلئے مبعوث کیا وہ مکہ کی چیز تھی مگر خدا اُسے مدینہ میں لے گیا او رپھر خدا نے اپنے زور اور طاقت سے مکہ کو اُس کیلئے فتح کیا۔ اُس وقت مکہ والوں کاخیال تھا کہ ان کی چیز انہیں مل جائے گی مگر مکہ والے بھیڑ اور بکریوں کو لے گئے اور مدینہ والے خدا کے رسول کولے کر اپنے شہر کی طرف چلے گئے ۔ پھر آپ نے فرمایا بے شک یہ بات ایک نادان کے منہ سے نکلی ہے مگر اس کی وجہ سے اب تمہیں اس دنیا کی حکومت نہیں مل سکتی۔ اب تمہاری خدمات کا بدلہ تمہیں حوض کوثر پر ہی ملے گا ؎۷ ۔ دیکھ لو تیرہ صدیاں گزرچکی ہیں اور چودھویں صدی گزررہی ہے اس عرصہ میں ہرقوم ہی اسلام کی بدولت بادشاہ بنی ہے مگر کوئی انصاری بادشاہ نہیں ہوسکا۔ سو بعض اوقات ایک شخص کاقول ساری قوم کیلئے نقصان کا موجب ہوسکتاہے۔
پس وہ جو قربانی اس لئے کرتے ہیں کہ کوئی عہدہ ملے یا دولت ملے وہ ہرگز میری آواز پر لبیک نہ کہیں۔ ایسے لوگ میرے مخاطب نہیں ہیں میرے مخاطب وہ ہیں جو میرے لئے نہیں بلکہ خدا کیلئے قربانی کرتے ہیں۔ جو میرے لئے قربانی کرتاہے وہ ہرگز ایسا نہ کرے کیونکہ میں تو خود کمزور اور بیمار ہوںکسی کا احسان نہیں اُٹھاسکتا میر ے ناتواں کندھے اِس بوجھ کی برداشت نہیں کرسکتے۔
پس میں اپنے لئے نہیں مانگتا اور نہ ہی اس کی مجھے عادت اور ہمت ہے جو خدا کیلئے دیتا ہے وہ دے اور اس کا بدلہ خود خدا ہوگا۔ خدا پر ہی اسے توکل رکھنا چاہئے اگر وہ چاہے تو اسے دنیا بھی دے دے اور چاہے تو انعام آخر ت پرملتوی رکھے۔ بہرحال جو اخلاص سے قربانی کرتا ہے اُس کی قربانی ضائع نہیں جاتی۔ زمین مٹ سکتی ہے، آسمان مٹ سکتاہے، سورج مٹایاجاسکتا ہے مگر خدا کے بندہ کا خدا کیلئے ڈالا ہؤادانہ کبھی ضائع نہیں جاسکتا وہ ضرور نکلتاہے خواہ اِس دنیا میں نکلے اور خواہ آخرت میں۔ مؤمن کی قربانی کو کوئی ضائع نہیں کرسکتا پس میرے مخاطب وہی ہیں جوخدا کیلئے قربانی کرتے ہیں نہ کہ میرے لئے او رقربانی کرتے وقت خد اکو مدنظر رکھتے ہیں نہ کہ دنیا کو۔ ان کو بشارت ہو کہ ہر شخص اپنی قربانی اور ایثار کے مطابق بدلہ لے گا خداتعالی کسی کاقرض نہیں رہنے دیتا وہ ضرور اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی روحانی رنگ میں بھی اورعرفانی رنگ میں بھی، تقویٰ کے رنگ میں بھی اور قوتِ عمل کے رنگ میں بھی ضرور بدلہ دے گا۔ یہ وہی بہتر جانتا ہے کہ کسے کس رنگ میں بدلہ دینا مفید ہوسکتاہے، وہ خوب جانتا ہے کہ بعض لوگوں کیلئے علم او ربعض کیلئے مال اور بعض کیلئے اطمینانِ قلب ٹھوکر کاموجب ہو جاتا ہے۔ پس وہ کیوں اپنے بندے کو ٹھوکر دے۔ نادان سمجھتا ہے کہ اگر اسے ایک خاص صورت میں انعام نہیں ملا تو اسے کچھ نہیں ملا حالانکہ اس کیلئے اس صورت میں انعام کا نہ ملنا ہی انعام کاملنا ہوتا ہے۔
(الفضل ۱۲؍ دسمبر ۱۹۳۶ئ)
؎۱ بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب تحری لیلۃ القدر فی الوتر (الخ)
؎۲ بخاری کتاب الدعوات باب ما یقول اذا اتٰی اہلہ
؎۳ بخاری کتاب الایمان باب الزکٰوۃ من الاسلام جلد ۱صفحہ ۲۶۴ بیروت ۱۹۷۸ئ۔ مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۱۴۳ بیروت ۱۹۹۴ء
؎۴ مسلم کتاب المساجد باب استحباب الذکر بعد الصلٰوۃ
؎۵ بخاری کتاب الرقاق باب التواضع
؎۶ بخاری کتاب الصلح باب الصلح فی الدِّیَۃ
؎۷ بخاری کتاب فرض الخمس باب ماکان النبی ﷺ یعطی المؤلفۃ (الخ)

۴۳
رمضان کی دو راتوں میں تمام احمدی متحدہ طور پر
صرف دو دعائیں مانگیں
(فرمودہ ۱۱؍ دسمبر ۱۹۳۶ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
جلسہ سالانہ کے مہمانوں کیلئے مکان دینے اور اپنی خدمات پیش کرنے کی تحریک آج مجھے ناظم صاحب جلسہ سالانہ کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ دوست جلسہ سالانہ کی خدمات کیلئے بھی اپنے آ پ کوکم پیش کررہے ہیں اور مکان بھی کم دے رہے ہیں۔ جلسہ اب ایک اتنی پُرانی چیز ہوگیا ہے اور اِس کی متعلقہ خدمات او رقربانیاںاتنے سالوں سے چلی آتی ہیں کہ ایمان کاسوال اگر نہ رکھا جائے تو عادت کے باعث بھی اس کیلئے کسی کو یاد کرانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ لوگ حُقّہ پیتے ہیں، افیون کھاتے ہیں، چرس پیتے ہیں، چانڈو اُڑاتے ہیں اور کچھ عرصہ کے بعد اس کی انہیں عادت ہوجاتی ہے کہ چاہے لوگ انہیں روکیں، چاہے دوست انہیں منع کریں، چاہے ڈاکٹر انہیں ڈرائیں، پھر بھی آپ ہی آپ ان کا ہاتھ اس چیز کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ جب چند روزہ استعمال کے نتیجہ میں وہ افیون کا وقت خالی جانے نہیں دیتے، نہ گانجے کا وقت خالی جانے دیتے ہیں ،نہ حُقّے کا وقت خالی جانے دیتے ہیں، نہ چانڈو کا وقت خالی جانے دیتے ہیں تو میں نہیں سمجھتا نیکی ہی ایسی کمزور چیز ہے کہ اس کی عادت نہیں پڑ سکتی۔ میں تو سمجھتا ہوں اخلاص اور ایمان کے علاوہ عادت کے باعث ہی جونہی دسمبر آجائے دوستوں کے دلوں میں بے چینی پیداہونی شروع ہوجانی چاہئے کہ چالیس سالہ پُرانی عادت کے مطابق اب ان کیلئے اپنے مکان خالی کرنے اور اپنی خدمات جلسہ سالانہ کیلئے پیش کرنے کا وقت آگیا ہے مگر وہ عادت پوری کیوں نہیں ہوتی۔ جس طرح ایک نشئی کو اباسیاں آنے لگتی ہیں اسی طرح چاہئے کہ ہمارے دوستوں کو بھی جلسہ سالانہ کے قُرب کے ایام میں اباسیاں آنے لگیں۔ پس میرے لئے یہ بات ماننی ذرا مشکل ہے کہ دوست اپنے مکان خالی نہیں کرتے یا مہمانوں کیلئے اپنی خدمات پیش نہیں کرتے ا س لئے میں سمجھتا ہوں شاید وہی بات ہے کہ افیونی اپنی ڈبیہ بھول جاتا ہے اور مکان لینے والے اچھی طرح تمام لوگوں کے پاس نہیں پہنچے۔ وگرنہ ایمان کے ماتحت تو اِس قسم کاسوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا بلکہ کامل ایمان تو بڑی چیز ہے ایک منافق کے ایمان کے متعلق ہی آتا ہے کہ اُس نے رسول کریم ﷺ سے ایک دفعہ عرض کیا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! دعا کیجئے میں بڑا دولتمند بن جائوں کیونکہ میرا جی چاہتاہے کہ میں خوب صدقے دیا کروں۔ رسول کریم ﷺ نے اُس کیلئے دعا کی اور وہ بڑا دولت مند ہوگیا ہزاروں اونٹ اور ہزاروں بکریاں اُس کے پاس جمع ہوگئیں اور یہی اُس زمانہ کی دولت تھی۔ اب جو اُس پر زکوٰۃ فرض ہوئی تو رسول کریم ﷺ کا مقرر کردہ آدمی اُس کے پاس زکوٰۃ لینے گیا چونکہ ایمان اُس کے دل میں نہیں تھا صرف اُس کا نفس اُسے یہ دھوکا دے رہاتھا کہ اگر مجھے دولت حاصل ہوجائے تو میں صدقے دیا کروں اس لئے جب ایک آدمی زکوٰۃ لینے اُس کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگا معلوم نہیں ان لوگوں کوکیا ہوگیا ہے ہر وقت انہیں چندوں کی پڑی رہتی ہے کبھی کہتے ہیں صدقہ دو، کبھی کہتے ہیں اتنی زکوٰۃ دو، کبھی کہتے ہیں اتنا چندہ دو، ہمار ا اپنا گزارہ ہی مشکل سے چلتا ہے اونٹوں اور گھوڑوں کو دانہ ڈالنا پڑتا ہے، نوکروں کو مزدوری دینی پڑتی ہے اوربہت سے اخراجات ہیں جو پورے ہونے میں نہیں آتے لیکن انہیںہر وقت چندوں کی فکر رہتی ہے اور کہتے ہیں کہ لائو چندہ اب تم پر زکوٰۃ فرض ہوگئی ہے۔ اب فلاں مقصد کیلئے روپیہ چاہئے وہ شخص یہ باتیں سن کر واپس آگیا اور اُس نے رسول کریم ﷺ سے آکر کہہ دیا کہ وہ کہتا ہے کہ ہم کہاں سے دیں ہرو قت چندہ چندہ پکارا جاتا ہے۔ آپ نے فرمایابہت اچھا آئندہ اُس سے کوئی زکوٰۃ اور صدقہ قبول نہ کیا جائے۔ چونکہ اُس شخص کا دل کُلّی طو رپر نہیں مرا ہؤا تھا اس لئے جب اُسے معلوم ہؤا کہ بجائے اس کے رسول کریم ﷺ بطور سزا اُس سے ڈیوڑھا یا دوگُنا چندہ وصول کرتے آپ نے یہ حکم دے دیا کہ آئندہ اس شخص سے کوئی صدقہ قبول نہ کیا جائے اِس پر اُس کے دل نے محسوس کیا کہ درحقیقت میرا دینا لینا تھا اور میں نے غلطی کی جو اس قسم کا جواب اسے دیا۔ چنانچہ اگلے سال وہ بہت سی زکوٰۃ اکٹھی کرکے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہؤا اور عرض کیا کہ میں یہ صدقہ لایا ہوں۔ آپ نے فرمایا نہیں اب تم سے یہ مال قبول نہیں کیاجاسکتا۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اُس سے زکوٰۃ قبول نہ کی گئی، آپؐ کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں جب اہل عرب نے ارتداد اختیار کیا زکوٰۃ کی وصولی کے متعلق لڑائیاں ہوئیں اور پھر دوبارہ اہل عرب اسلام میں داخل ہوئے تو اُس شخص نے سمجھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ میری زکوٰۃ بھی قبول ہو چنانچہ وہ پھر اپنے اونٹوں اور بھیڑوں اوربکریوں کا بہت سا گلہ جو گزشتہ اور موجودہ زکوٰۃ پر مشتمل تھا لے کر حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہؤا مگر انہوں نے فرمایاجس چیز کو خدا کے رسول نے قبول نہیں فرمایا ابوبکر بھی اسے قبول نہیں کرسکتا۔ حدیثوں میںآتا ہے کہ ہر سال وہ زکوٰۃ دینے کیلئے اتنا بڑا گلہ لاتا کہ میدان اُس سے بھرجاتا مگر خلفاء اُس کا مال لینے سے انکار کردیتے اور وہ روتا ہؤا گھر چلا جاتا ۔ یہ شخص کامل مؤمن نہیں تھا کیونکہ اگر کامل مؤمن ہوتا تو رسول کریم ﷺکے پیغامبر کو وہ کیوں یہ جوا ب دیتا کہ ان کو ہر وقت چندوں کی ہی پڑی رہتی ہے مگر اس کے دل میں جو تھوڑا بہت ایمان تھا اس کے باعث وہ ہر سال آتا تھا کہتا تھا کہ میری زکوٰۃ قبول کی جائے۔
پس میں تو یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ منتظمین جلسہ سالانہ میں سے کوئی شخص ہماری جماعت کے مخلص لوگوں کے پاس گیا ہو اور سچ مچ حقیقت بیان کی ہو اور انہوں نے کہہ دیا ہو کہ ہم مکان دینے کیلئے تیارنہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں شاید مکانوں والے منتظمین کے پیچھے پھر رہے ہوں گے اور کہتے ہوں گے ہمارے مکان لیتے کیوں نہیں۔پس میںتو منتظمین کی ہی ملامت کروں گا او رکہوں گا کہ ان کے کام میں کچھ نقص ہے اور انہوں نے صحیح طور پر کوشش نہیں کی ورنہ ہر مکان میںہر سال کچھ نہ کچھ مہمان ٹھہرتے اور ہر سال لوگ مکان دیتے اور ہر سال اپنی خدمات بھی پیش کرتے ہیں اور اب تو نیشنل لیگ کور بھی قائم ہوچکی ہے جس کے والنٹیئروں نے حلفیں اُٹھائی ہوئی ہیں کہ وہ سلسلہ کی خدمت کریں گے آخر یہ حلف انہوں نے مکھن لگا لگا کر چاٹنی تو نہیں اِس کی کوئی نہ کوئی غرض ہونی چاہئے اور وہ غرض یہی ہے کہ وہ سلسلہ کی خدمت کریں۔
غرض میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی شخص میں کوئی کمزوری ہے تو میرا اتنا کہنا ہی اس کیلئے کافی ہے اور اگر افسروں نے کمزوری دکھائی ہے تو انہیں چُستی سے کام کرنا چاہئے او ریقین رکھنا چاہئے کہ یہ کام آخر ہوجائے گا۔ میں نے متواتر جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی ہے کہ بہت سا کام طَوعی طور پر لوگوں سے لینا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اِس طریق کو اختیار فرمایا تھا اور آج ہی کے الفضل میں وہ حوالہ چھپا ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی تحریر فرمایا ہے کہ میں معیّن طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ مقرر نہیں کرسکتا تاکہ تمہاری خدمتیں کہنے کی مجبوری کی وجہ سے نہ ہوں بلکہ اپنی خوشی سے ہوں۔ تو کارکنوں کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ طَوعی طور پر کام کرنے کا موقع دیاکریں اور تحریص اور ترغیب سے کام لیاکریں۔ مؤمن درحقیقت زیادہ ترغیب کا منتظر نہیں ہوتا بلکہ اس کیلئے صرف اشارہ ہی کافی ہوتاہے اور اس اشارہ کو سمجھ کر وہ ایسے جوش سے کام کرتا ہے کہ بعض لوگوں کو دیوانگی کا شُبہ ہونے لگتا ہے۔ اسی لئے جتنے کامل مؤمن دنیا میں ہوئے انہیں لوگوںنے پاگل کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت کرے میرے اُستاد ہؤا کرتے تھے مولوی یار محمد صاحب ان کانام تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی تھے ان کے دماغ میں کچھ نقص ہوگیا تھا مگر یہ نقص اُن کااِس رنگ کا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنا محبوب اور اپنے آپ کو عاشق سمجھتے تھے اسی عشق کی وجہ سے وہ خیال کرنے لگے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پسرِ موعود اور مصلح موعود بنادیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ بات کرتے کرتے بعض دفعہ جوش میں اپنی رانوں کی طرف یوں ہاتھ کو لاتے جس طرح کسی کو بُلایا جاتاہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اِسی رنگ میں جوش سے کچھ کلمات فرمارہے تھے کہ مولوی یار محمد صاحب کُود کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جا بیٹھے بعد میں کسی نے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ تو وہ کہنے لگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں اشارہ کیا تھا اور یہ اشارہ میری طرف تھا کہ تم آگے آجائو چنانچہ میں کُود کر آگے آگیا۔
یہ دیوانگی تھی مگر بعض رنگ کی دیوانگی بھی اچھی ہوتی ہے آخر ان کی یہ دیوانگی بُغض کی طرف نہیں گئی بلکہ محبت کی طرف گئی پس محبت کا دیوانہ غیر اشارہ کو بھی اپنے لئے اشارہ سمجھ لیتا ہے پھر جو قوم خداتعالیٰ کی محبت کادعویٰ کرنے والی ہو وہ صحیح اشارہ کوکیوں نہیں سمجھ سکتی۔ کیا ہماری جماعت کے دیوانوں کی وہ محبت جو وہ سلسلہ سے رکھتے ہیں مولوی یار محمد صاحب جتنی بھی نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رانوں پر آہستگی سے ہاتھ مارا اورانہوںنے سمجھا کہ مجھے بُلارہے ہیں۔
یاد رکھو ہر چیز کی زکوٰۃ ہؤا کرتی ہے انسان کے جسم کی بھی زکوٰۃ ہے، انسان کے مکان کی بھی زکوٰۃ ہے اور زکوٰۃ کے بغیر کوئی چیز پاک نہیں ہوسکتی۔ اور زکوٰۃ کی ایک دفعہ ادائیگی خداتعالیٰ نے مقرر نہیں فرمائی بلکہ ہر سال ادا کرنے کا حکم ہے حتّٰی کہ قرآن کریم نے یہ زکوٰۃ بھی مقرر کردی کہ جب کوئی تمہاراپھل تیار ہو یا غلہ تیار ہو تو اُس میں سے اُسی دن جس دن غلہ کاٹو یا پھل اُتارو کچھ خدا کے بندوں کیلئے بھی الگ کرلو۔ تو شریعت نے ہماری ہر چیز کی زکوٰۃ مقرر کی ہے کیونکہ درحقیقت اسلامی مسئلہ ہے ہی یہی کہ دنیا کی ہر چیز سارے بندوں کی ہے۔پس جب تک باقی بندوں کیلئے حصہ نہ نکال لیاجائے وہ چیز پاک نہیں ہوتی بھلا خداتعالیٰ نے زمین آسمان، سورج چاند، ستارے اور سیارے اپنے تمام بندوں کیلئے پیدا کئے ہیں یا صرف ہمارے لئے۔ پھر جبکہ تمام بندوں کیلئے ہیں تو گویا یہ شاملات ہے اور شاملات پر جو شخص قبضہ کرے وہ گائوںوالوں کو مٹھائی بھی کھلاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے میں اِس چیز پر قبضہ کرنے لگا ہوں جس پر تمہارا بھی حق ہے۔ پس ہر چیز جو ہمارے پاس ہے وہ صرف ہماری نہیں بلکہ ساری دنیا کی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم باقی دنیا کا اس میں سے حصہ نکالیں ورنہ ہمارا قبضہ جابرانہ ہوگا اور جابرانہ قبضہ کی سزا ہؤا کرتی ہے۔
جب انسان زکوٰۃ دیتا رہتا ہے تو خداتعالیٰ کہتا ہے یہ میر ابندہ اِس چیز کا کرایہ دیتا ہے اسے رہنے دو لیکن جب وہ زکوٰۃ نہیںدیتا تو خداتعالیٰ کہتا ہے یہ اب کرایہ نہیں دیتا اسے نکال دو۔ یہ مت خیال کرو کہ دنیا میں ایسی قومیں بھی موجود ہیں جوکرائے نہیں دیتیں۔کیا تم نہیں جانتے کہ بنئے نے جسے تباہ کرنا ہوتا ہے اس سے وہ اپنا سُود وصول نہیں کرتابلکہ اُس کی طرف رہنے دیتا ہے۔ ابھی فیروز پور میں ایک مقدمہ ہؤا ہے ایک شخص نے ۸۴ روپے سُود پر قرض لئے۔ ۶۴ روپے کے بدلہ میں اُس نے اپنی زمین گِرو رکھ دی اور ۲۰ روپیہ کے بدلے میں اُس نے کہاکہ میں چھ روپے سالانہ سُود دیا کروں گا لیکن اس نے سُود نہ دیا اور یہ خیال کرتا رہا کہ بیس روپے ہی ہیں کسی وقت دے دوں گا اور بنئے نے بھی اس سے تقاضا نہ کیا۔ اب اُس نے اس شخص پر دو لاکھ بیس ہزار روپیہ کی نالش کی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ سُود اکٹھا ہوتا گیا اور اس نے اپنی نادانی سے سمجھا کہ بنیامجھ سے رعایت کررہا ہے۔
تو بعض بیوقوف یہ سمجھتے ہیں کہ خدا نے فلاںشخص کو چونکہ نہیں پکڑا اِس لئے اس بدی کے کرلینے میں کوئی حرج نہیں حالانکہ خداتعالیٰ کے پاس اُس کا سُود جمع ہورہا ہوتا ہے اور کسی دن اُس پر اکٹھی نالش ہوگی۔ لیکن مؤمن کو خداتعالیٰ جلدی سزا دے دیتا ہے تاکہ زیادہ سزا اس کیلئے جمع نہ ہوجائے۔ مثلاً اگر تیس چالیس روپے سُود کے جمع ہوتے ہی بنیانالش کردیتا تو اسے زیادہ سزا نہ ملتی لیکن اس نے سُود اس کے پاس جمع ہونے دیا تاکہ زیادہ سزا دلائی جاسکے۔ تو اللہ تعالیٰ کامؤمن سے یہ سلوک ہوتا ہے کہ وہ اُسے جلدی سزا دے دیتا ہے لیکن غیرمؤمن سے یہ سلوک نہیں ہوتا بلکہ خداتعالیٰ اُسے سزامیںڈھیل دیتا جاتا ہے تاکہ اُس پر زیاد عذاب نازل کرے۔
لیلۃالقدرکے متعلق ارشاد اس کے بعد میں دوستوں کو اس اَمر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اب رمضان خاتمہ پر ہے اور کل کا جو روزہ ہے اس میں شبہ ہے یعنی صحیح طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ چھبیسواں ہے یاستائیسواں کیونکہ بعض جگہ روزہ پہلے رکھاگیا ہے اس لئے گویا کل اورپرسوں دونوںدن رمضان کی ستائیسویں ہوسکتی ہے۔ کل ستائیس تاریخ ان لوگوںکی ہے جنہوںنے چاند کودیکھ کرایک دن پہلے روزہ رکھا اور پرسوں ستائیسویں ہمارے لحاظ سے ہے۔ ہمارے ملک کی مثال ہے کہ ’’جوگی بھُلّا دو نالابھ‘‘یعنی کوئی جوگی بھول کر کسی اور کے مکان پر چلا گیا تو اُس مکان والوں نے اُس کی خوب خاطر تواضع کی وہاں سے نکلا تو بھول کرکسی اور کے گھرچلا گیا وہاں بھی اس کی خوب خاطر تواضع ہوئی۔ غرض جتنا جتناوہ گھر بھول کرکسی اور کے گھر میں داخل ہوتا اُتنی ہی زیادہ اس کی خاطر تواضع کی جاتی کیونکہ لوگ سمجھتے کہ اس نے خدا کیلئے دنیا کو چھوڑا ہؤا ہے آئو اس کی خدمت کرکے ثواب حاصل کریں۔ اسی طرح مؤمن بھی بھولتا ہے تو ’’دونا لابھ‘‘والی مثال اُس پر صادق آتی ہے ۔ اب گویا رمضان کی دو ستائیس تاریخیں ہمارے لئے جمع ہوگئی ہیں۔ رمضان کی ستائیس تاریخ کو بِالعموم روحانی علما ء لیلۃ القدر قرار دیتے ہیں اور جب مؤمن بھول جاتا ہے اور وہ یہ خیال کرکے کہ ممکن ہے جسے میں چھبیس تاریخ سمجھتاہوں وہ ستائیس ہو یا ممکن ہے ستائیس ہی اصل تاریخ ہو ، چھبیس اور ستائیس دونوں راتوں میں خاص طور پر عبادت کرتاہے تو اُس مؤمن کی دولیلۃ القدر ہوجاتی ہیں۔ ان دو لیلۃ القدر کے متعلق میں اِس وقت جماعت کوتوجہ دلانا چاہتا ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ میری آوازبیرونی دوستوں تک نہیںپہنچ سکے گی لیکن اگر ’’الفضل‘‘ والے احتیاط سے بغیر مجھے دکھائے ہی آج کا خطبہ شائع کردیں اور صبح لوگوں کو پہنچ جائے تو بیرونی جماعتوں کے دوست بھی اِس سے فائدہ اُٹھاسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی بعید بات نہیں وہ ستائیس کی لیلۃ القدر کو اٹھائیس اور اُنتیس میں بھی تبدیل کرسکتا ہے ۔ وہ بات جو اِن دو دنوں کے متعلق کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کے دوست اپنی صحت کیلئے، اپنی ترقیات کیلئے، اپنے بچوں کیلئے، اپنی بیوی کیلئے، اپنے رشتہ داروں اور اپنے دوستوں کیلئے ، اسی طرح قرضوں کے دور ہونے کیلئے، مقدمات میں کامیاب ہونے اور آفات سے محفوظ رہنے کیلئے بِالعموم دعا کرتے رہتے ہیں لیکن دعا کا ایک طریق یہ بھی ہؤا کرتاہے کہ ایک ہی مقصد و مدعا کیلئے انسان دعا کرنے میںمشغول ہوجائے اور وہ اسی طرح دعا کرے جس طرح حضرت یونس علیہ السلام کے وقت میں لوگوںنے دعا کی تھی۔ حضرت یونس علیہ السلام نے جب نینوا کے لوگوں پر عذاب نازل ہونے کی پیشگوئی کی تو جو وقت عذاب نازل ہونے کیلئے مقر ر تھا اُس وقت تک وہ شہر سے باہر نکل کر عذاب کا انتظار کرتے رہے۔ جب عذاب کی میعاد پر دوچار دن گزرگئے تو اُنہوںنے بعض لوگوں سے پوچھاکہ علاقے کاکیاحال ہے؟ انہوںنے بتایا کہ سب راضی خوشی ہیں۔ حضرت یونس علیہ السلام یہ سن کر کچھ شرمند ہ سے ہوئے اور انہوں نے سمجھا اب میرا وہاںواپس جانا لوگوں کیلئے کیا ہدایت کا موجب ہوسکتاہے بہتر یہی ہے کہ میں کسی اور جگہ چلا جائوں۔ چنانچہ وہ اُس جگہ کو چھوڑ کر چل پڑے اور کسی دوسرے علاقہ میں جانے کیلئے جہاز پر سوار ہوگئے۔ اتفاق سے سمندرمیں سخت طوفان آگیا۔ اُس زمانہ کے لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ سمندر میں طوفان اس لئے آتاہے کہ جہاز پر کوئی غلام بھاگ کر سوار ہوتا ہے اس عقیدہ کے ماتحت اُنہوں نے دریافت کیا کہ کیاکوئی غلام بھاگ کر یہاں آیا ہے؟ مگر کسی نے نہ مانا۔ آخر اُنہوں نے قرعہ ڈالا تو حضرت یونس علیہ السلام کا نام نکلا مگر اُن کو حضرت یونس ؑکی شکل دیکھ کرخیال آیا کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بول سکتا اگر یہ بھاگا ہؤا غلام ہوتا تو خودبخود بتادیتا۔ معلوم ہؤا قرعہ صحیح نہیں پڑا۔ چنانچہ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ انہوں نے تین دفعہ قرعہ ڈالا اور تینوں دفعہ انہی کا نام نکلا۔ آخر وہ حضرت یونس علیہ السلام کے پاس آئے اور کہنے لگے آپ ہیں تو راستباز انسان مگر تین دفعہ قرعہ میں آپ کا ہی نام نکلا ہے معلوم نہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ سُن کرحضرت یونس علیہ السلام کا ذہن بھی اِس طرف منتقل ہوگیا اور کہنے لگے میں ہی خدا کا غلام ہوں جوبھاگ کرآیا ہوں آخرانہوں نے آپ کو اُٹھا کرسمندر میں پھینک دیا تاکہ ہماری بلا دور ہو اور طوفان تھمے۔ حضرت یونس علیہ السلام جب سمندرمیں گِرے تو انہیں ایک بڑی مچھلی نگل گئی جس نے بعد میں انہیں خشکی پر اُگل دیا اِس صدمہ کی وجہ سے کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں بیہوش رہے اور کھانے کو کچھ نہ ملا وہ بہت کمزور ہوچکے تھے۔ ساحل پرجہاں مچھلی نے انہیں اُگلا ایک بہت بڑی بیل اُگی ہوئی تھی حضرت یونس علیہ السلام سِرک کر اُس کے سایہ کے نیچے لیٹ گئے لیکن جب انہیں کچھ طاقت حاصل ہوئی تو اُس بیل کو کیڑے نے کاٹ دیا اور وہ خشک ہوگئی۔ حضرت یونس علیہ السلام کویہ بات بہت بُری معلوم ہوئی اور اُس کے دل میں خیال آیا کہ کمبخت کیڑے نے بیل کو خراب کرکے مجھے تکلیف میں ڈال دیا۔ اِس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہی وحی ہوئی کہ ایک جنگلی بیل جس نے کوئی نسل نہیں چھوڑنی تھی اور جس نے تھوڑے دنوں میںخود خشک ہوکر مُرجھاجانا تھا اُس کے چند دن پہلے خشک ہونے پر جب تُو نے اتنے غصہ کا اظہار کیااور کہا کہ کمبخت کیڑے نے اسے تباہ کردیا توبتائو میں اپنے ہزاروں بندوں کو کس طرح تباہ کردیتا جبکہ وہ ابھی تباہ کرنے کے قابل نہ تھے جائو اور دیکھو تو بات کیا ہوئی ہے؟ حضرت یونس علیہ السلام وہاں سے نینوا کو روانہ ہوئے اور جونہی نینوا والوں نے دیکھاکہ حضرت یونس علیہ السلام آرہے ہیں وہ استقبال کیلئے دَوڑے اوربیعت کیلئے ایک دوسرے پر گِرنے لگے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے پوچھا بات کیا ہے؟ میں نے سنا ہے تم پر عذاب نہیں آیا۔ وہ کہنے لگے یونہی تو عذاب نہیں ٹلا۔ اصل بات یہ ہے کہ جب وہ دن آیا جو آپ نے عذاب کیلئے مقرر کیا تھا توہم نے دیکھا کہ آسمان کارنگ بدل گیا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا آگ برسنے لگی ہے ایک ہیبت ناک طوفان کی بنیاد دیکھ کر یکدم ہمیں خیال آیا کہ آج ہم مرے۔ اس پر ہمارے شہر کے تمام بڑے بڑے لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اب اس کاعلاج یہ ہے کہ شہر کو چھوڑ دو اور جنگل میں نکل جائو، مائیں اپنے بچوں کودودھ پلانا چھوڑ دیں، جانوروں کے مالک جانوروں کے آگے چارہ ڈالنا بندکردیں، پُرانے چیتھڑے یا ٹاٹ کے کپڑے پہن کر جنگل میں نکل جائو اور رونا شروع کردو۔ چنانچہ جنگل میں ہم سب اکٹھے ہوگئے، مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے، جانور غرض سب کے سب ایک میدان میں جمع ہوگئے۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد جب بچوں کو دودھ نہ ملا تو انہوںنے رونا شروع کردیا، جانوروں کوچارہ نہ ملا تو انہوں نے چیخنا شروع کردیا، مردوںاور عورتوں نے چلّانا شروع کردیا اور سب نے مل کر کہرام مچادیا اور ایک ہی دعامانگی کہ اے خدا! یہ عذاب ہم سے ٹل جائے ہم توبہ کرتے ہیں۔ چنانچہ صبح سے شام تک ہم دعا کرتے رہے اور خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ عذاب ہم سے دور کردیا۔ ہم تو اُسی دن سے آپ کاانتظار کررہے تھے کہ کب آپ واپس آتے ہیں تا ہم آپ پر ایمان لائیں۔ کیا تم سمجھتے ہو حضرت یونس علیہ السلام کے مقررہ عذاب کے دن کسی عورت نے یہ کہا ہو کہ یااللہ! میرے بچے کا بخار ٹُوٹ جائے، یا کسی مرد نے یہ کہا ہو کہ یااللہ! فلاںتجارت ہے اس میں مجھے خوب نفع ہو۔ سب نے ایک ہی دعا مانگی اور وہ دعا یہ تھی کہ خدایا! یہ عذاب ہم سے ٹل جائے ہم تیرے حضور توبہ کرتے ہیں اور تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔ یہی آواز تھی جو مرد، عورت، بچہ، جوان، کمزور اور طاقتور غرض سب کی زبان سے نکل رہی تھی اور صبح سے شام تک اُن کی ایک ہی پکار تھی کہ الٰہی! ہمیں معاف کر، الٰہی! اپنے عذاب کوہم سے دور کر۔ دیکھو وہ ایک دعا جو سب نے یک زبان ہوکر مانگی کیسی کارگر ثابت ہوئی۔ یوں تو اُس شہر کے کفّار بھی انفرادی طور پر کبھی کہہ دیا کرتے ہوں گے کہ یا اللہ! ہمیں معاف کر مگر اُس دن جب سب ایک آواز کے ساتھ یہ کہہ اُٹھے کہ الٰہی! ہمیں معاف کر تو خداتعالیٰ نے اُن کی دعا کو قبول کیا اپناعذاب اُن سے ہٹا لیا ا ور اپنے نبی کی پیشگوئی بدل دی۔
اس واقعہ کو پیش نظر رکھ کرمجھے آج خیال آیا کہ ہم مؤمن ہیں اور مؤمن کو ہر چیز سے فائدہ اٹھانا چاہئے ہماری اُمت کانام خداتعالیٰ نے خَیْرُ الْاُمَم رکھا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ سار ی اُمتوں کی خوبیاں ہمارے اندر جمع ہیں جب ساری اُمتوں کی خوبیاں ہمارے اندر جمع ہیں تو مجھے خیال آیا کہ ہم حضرت یونس علیہ السلام کی اُمت والی دعا کرکے دیکھیں ہم اُس کے بندے ہیں اور وہ ہمارا ربّ ہے وہ خالق ہے اور ہم مخلوق ہیں۔ دنیا میں انسان کا اگر معمولی سا بھی نقصان ہوتا ہے تو وہ لٹھ لے کرکھڑا ہوجاتا ہے اور نوکر یابیوی کو مارنا شروع کردیتا ہے کبھی کھانے میں نمک زیادہ ہوجائے تو ناراضگی کا اظہار کردیتا ہے اور یہاں تو اللہ تعالیٰ کے بندوںنے اُس کی دی ہوئی چیزوں کااتنا نقصان کیا ہے کہ اگر اتنا نقصان بندوں کا کوئی کرتا تو وہ کھال اُدھیڑ کر رکھ دیتے۔
حضرت شبلیؒ ایک صوبہ کے گورنر تھے وہ کوئی رپورٹ دینے کیلئے بادشاہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ بادشاہ کا دربار لگا ہؤا ہے ایک جرنیل جو کوئی بڑی مہم فتح کرکے آیا تھا وہ بھی بیٹھا ہؤا ہے اور وہ دربار دراصل اِسی لئے منعقد کیا گیاتھا کہ اُس جرنیل کو خلعت دیا جائے۔ غرض اُس کے اعزاز میں خوشی سے تمام لوگ جمع تھے کہ وہ جرنیل بادشاہ کے سامنے پیش ہؤا اُسے ایک چوغہ بطور خلعت پہنایا گیا او ربادشاہ نے اُ س کی تعریف میں چند کلمات کہے اتفاقاً وہ جرنیل دربار میں جاتے ہوئے رومال ساتھ لانا بھول گیا تھا اور اُس روز اُسے نزلہ کی بھی شکایت تھی دربار میں بیٹھے بیٹھے جو اُسے چھینک آئی تو ناک سے رینٹھ بہہ نکلی۔ وہ سخت حیران ہؤا کہ اب میں کیا کروں جب اُسے اور کچھ نہ سوجھا تو بادشاہ کی آنکھ بچاکر اُس نے اُسی چوغہ سے ناک پونچھ لی کیونکہ اس کے سِوا اور کوئی صورت ناک صاف کرنے کی اُس کیلئے نہیں تھی مگر اتفاق ایسا ہوا کہ گو اُس نے آنکھ بچا کر ناک پونچھی تھی مگر بادشاہ کی نظر پڑ گئی اور وہ آپے سے باہر ہوگیا۔ اُس نے نہایت غصے سے کہا اِس مردود کو ہمارے دربار سے باہر نکال دو یہ ہمارے انعام کی قدرنہیں جانتا۔ اِس کا چوغہ بھی اتار لو اور اسے ذلیل کرو۔ چنانچہ اُس کا خلعت اُتار لیا گیا اور اُسے ذلیل کرکے دربار سے باہر نکال دیا گیا۔ شبلی جو نہایت جابر گورنر تھے انہوںنے جونہی یہ نظارہ دیکھا چیخیں مار مار کر رونا شروع کردیا۔ بادشاہ کہنے لگا کیا تُو پاگل ہوگیا ہے؟ میں ناراض تو اُس پر ہؤا ہوں اور چیخیں تو مارنے لگ گیا ہے۔ شبلی نے کہا حضور! میرا استعفیٰ منظور کیجئے۔ وہ کہنے لگا کیوں؟ شبلی کہنے لگے اِس شخص نے آپ کیلئے جو قربانی کی اور اُس کے مقابلہ میں آپ نے جو اُسے انعام دیا کیا اِن دونوں کی بھی آپس میں کوئی نسبت ہے۔ اِس نے زبردست دشمن کے مقابلہ میں مہینوں اپنے آپ کوموت کے منہ میں ڈالے رکھا، ہر گھڑی یہ ایک موت کا شکار ہوتا اور ہر گھڑی اِس کی بیوی بیوہ ہوتی، اِس نے مہینوں اپنی جان جوکھوں میں ڈال کرفتح حاصل کی اور آپ کے نام کا شُہرہ ہؤا لیکن آپ نے جو اسے چوغہ دیا اس کی کیا حقیقت ہے ویسا چوغہ وہ خود بھی خرید سکتا تھا لیکن چونکہ آپ بادشاہ ہیں اس لئے بادشاہ کی دی ہوئی اتنی چھوٹی چیز کی بھی چونکہ اس نے قدر نہ کی اور اس سے اپنی ناک پونچھ لی جوبالکل مجبوری کی حالت تھی اِس لئے آ پ نے اِس پر اپنے غصے کا اظہار کیا اور اُسے برسرِدربار ذلیل کیا۔ مجھے اس سے یہ خیال پیدا ہؤا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک خلعت پہنائی ہوئی ہے اُس نے مجھے بھی آنکھ، کان، ناک، زبان، دل، دماغ او رہزاروں قوتیں دی ہیں جنہیں میں گِن بھی نہیں سکتا مگر میں انہیں صبح و شام ضائع کرتا ہوں خداتعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی بے قدری کرتا ہوں جب آپ ایک معمولی خلعت کی وجہ سے اُس پر اتنا سخت ناراض ہوئے ہیں تو مجھ پر میرا آقا کس قدر ناراض ہوگا۔ پس اب میں نہیں سمجھتا کہ میں بھی کسی کام کا اہل ہوں۔ آپ مجھے اجازت دیں اور میرا استعفیٰ منظور کریں۔ بادشاہ نے ان کا استعفیٰ منظور کرلیا۔ چونکہ وہ ایک سخت جابر اور ظالم گورنر رہ چکے تھے اس لئے وہ علماء کے پاس جاتے اور کہتے کہ کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ مگر جس کے پاس بھی وہ جاکر یہ کہتے کہ کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ وہی کہتا کہ تمہاری توبہ قبول نہیں ہوسکتی۔ آخر وہ حضرت جنیدبغدادیؒ کے پاس گئے اور کہا میں ہر طرف سے راندہ ہؤا آپ کے پاس آیا ہوں۔ سنا ہے آپ اہل اللہ ہیں آپ بتائیں کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا ہاں اگر تم میری ایک بات مان لو تو میں تمہاری توبہ قبول کرانے کیلئے تیار ہوں۔ انہوں نے عرض کیا فرمایئے میں آپ کا ہر حکم ماننے کیلئے تیار ہوں۔ حضرت جنیدؒ نے کہا تمہارا جو دارالحکومت تھا وہاں تم جائو اور ہر گھر کے دروازہ پر کھڑے ہوکر وہاں کے رہنے والوں سے معافی مانگو اور کہو کہ جو جو مظالم میری طرف سے تم پر ہوئے ہیں انہیں معاف کردو۔ چنانچہ وہ گئے اور سارے شہر میں ایک ایک دروازہ پر دستک دے کر معافی مانگی پھر واپس آئے تو حضرت جنیدؒ نے کہا میں تمہارا تکبر توڑنا چاہتا تھا اور دیکھنا چاہتا تھا کہ تم سچی توبہ کرتے ہو یا نہیں ورنہ توبہ تو ہر حالت میں قبول ہوسکتی ہے۔ اِس پر انہوں نے حضرت جنیدؒ کی بیعت کی اور پھر خو د روحانیت میں اِس قدر ترقی کی کہ مشہور اہل اللہ بن گئے۔
تو اللہ تعالیٰ کی خلعت کی بندہ روز ناقدری کرتا ہے مگر سال میں ایک دن بھی تو ایسا نہیں رکھتا جس میں اپنے ربّ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔ وہ بے شک دعا کرتا ہے مگر دعا کرتے وقت کھچڑی پکا کر رکھ دیتا ہے۔ کچھ تو وہ یہ مانگتا ہے کہ میرے بچے بیمار ہیں انہیں تندرست کر، کچھ وہ یہ مانگتا ہے کہ فلاں مقدمہ چل رہا ہے اس میں مجھے کامیاب کر، کچھ وہ یہ مانگتا ہے کہ فلاں تجارت ہے اس میں مجھے نفع دے، کچھ وہ یہ مانگتا ہے کہ میرا ہمسایہ مجھے دِق کرتا ہے اس کی دقّت میرے سامنے سے ہٹا ، کچھ وہ یہ مانگتا ہے کہ مجھ پر بہت قرض ہوگیا ہے اُسے اُتار۔ غرض وہ دعا کو گڈمڈ کر دیتا ہے اسی طرح جس طرح بابل پر جب عذاب آیاتو وہاں کے رہنے والے متفرق زبانیں بولنے لگ گئے اور یہ تو انفرادی دعائوں کی حالت ہے
میں نے دیکھا ہے نہایت اہم اور نازک اوقات میں بھی جب دعا کے لئے تمام دوست اکٹھے ہوتے ہیںتو چاروں طرف سے آوازیں آنی شروع ہو جاتی ہیںکہ میری بیوی بیمار ہے اس کے لئے دعا فرمائیں،مجھ پر قرضہ زیادہ ہے اس کے لئے دعا فرمائیں، میرے بچوں کی ترقی اور اقبال مندی کے لئے دعا کریں،ان کی یہ حالت دیکھ کر با لکل اُس مثال کا خیال آجاتا ہے جو ہمارے ملک میں ایک زمیندار کے متعلق مشہور ہے اور گو وہ ہنسی کی بات ہے لیکن یہ بتانے کے لئے کہ بے موقع بات ہمیشہ بُری لگتی ہے سنا دیتا ہوں۔کہتے ہیں کوئی زمیندارتھا جو شہر کے پاس ہی دس بارہ میل کے فاصلہ پر رہتا تھا لیکن شہر میں وہ کبھی نہیں گیا تھا۔ لوگ اُس سے پوچھتے کہ کیا تم نے کبھی شہر نہیں دیکھا؟ وہ خاموش ہوجاتا اور شرمندگی میں کچھ جواب نہ دے سکتا۔ آخر ایک دن اُسے خیال آیا کہ میں اب بوڑھا ہوگیاہوں آج شہر تو جاکر دیکھ آئوں۔ اُس نے گھر سے کچھ آٹا لیا اور کپڑے میں باندھ کر شہر کو چل پڑا تا جس وقت وہاں بھوک لگے تو کسی عورت سے کہہ کرروٹی پکوالے۔ اُس نے خیال کیا کہ جس طرح گائوںمیں عورتیں باہرپھرتی رہتی ہیں اِسی طرح شہرمیں بھی پھرتی ہوں گی اور اُن میں سے کسی کو کہہ کر روٹی پکوالوں گا۔ جب وہ شہر میںگیا تو اُس نے دیکھا کہ گھروں کے دروازے بند ہیں اور عورتیں باہر چلتی پھرتی نہیں۔ وہ گلیوں اور بازاروں میں پھرتا رہا اُسے سخت بھوک لگی ہوئی تھی مگر اُسے کوئی عورت ایسی دکھائی نہ دی جسے کہہ کر وہ اپنی روٹی پکواسکتا۔ آخر عصر کا وقت آگیا اور وہ ایک حلوائی کی دکان پر سے گزرا جو لُچیاں تَل رہا تھا وہ دُکان پر کھڑا ہوگیا اور تھوڑی دیر تک اُسے دیکھتا رہا آخر اُس سے نہ رہا گیا اور حلوائی سے پوچھنے لگا بھئی یہ کیا پکارہے ہو؟ اُس نے کہا لُچیاں تل رہا ہوں اُس نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے کپڑے کی گِرہ کھولنی شروع کی اور جو آٹا اُس نے روٹی پکوانے کیلئے باندھ رکھا تھا اُسے یہ کہتے ہوئے کڑاہی میں ڈال دیا کہ ’’میرا بھی لُچ پالے‘‘۔ اُس نے سمجھا کہ جب یہ چھوٹی چھوٹی لُچیاں کہلاتی ہیں تو میرا زیادہ آٹا لُچ بن جائے گا۔ یہی حال اُن لوگوں کاہوتا ہے۔ کیسا ہی اہم موقع ہو وہ اپنی بات ضرور کردیتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ اِس جگہ اپنے لئے نہ مانگنے میں ہی برکت ہے اور اپنی ضروریات کیلئے خاموش رہنے میں ہی اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔
پس میرے دل میں تحریک پیداہوئی کہ آئو دو دن ہم ایسے مقرر کریں جن میں سوائے ایک مشترکہ دعا کے اور کوئی دعا نہ مانگی جائے۔ مثلاً آج کی رات ہماری جماعت کے تمام افراد صرف ایک ہی دعا مانگیں اور وہ یہ کہ الٰہی! تیرا عفوِ تام اور توبۂ نصوح ہمیں میسر ہو اور نہ صرف ہمیں میسر ہو بلکہ ہمارے خاندان کو، ہمارے ہمسایوں کو، ہمارے دوستوں کو، ہمارے عزیز رشتہ داروں کو اور ہماری تمام جماعت کو یہ نعمت میسر آجائے۔ خدایا! ہم تیرے عاجز و خطاکار اور گناہگار بندے ہیں ہم سخت کمزور اور ناتواںہیں جن جالوں اور پھندوں میں ہم نے اپنے آپ کو پھنسا رکھا ہے ان میں سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں اور ہماری نجات کی کوئی صورت نہیں سوائے اِس کے کہ تیرا عفوِتام ہم پر چھاجائے اور آئندہ کیلئے وہ توبۂ نصوح ہمیں حاصل ہوجائے جس کے بعد ذلّت اور تنزّل نہیں ہے۔ جس طرح حضرت یونس علیہ السلام نے ایک ہی دعا مانگی تھی اور کہا تھا کہ خدایا! تیرا عذاب ہم سے ٹل جائے اسی طرح ہم بھی صرف ایک ہی دعا مانگیں اور نہ صرف اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور اہل و عیال کیلئے بلکہ ساری جماعت کیلئے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ یہی فقرات اختیار کئے جائیں بلکہ اپنے اپنے رنگ اور جوش کے مطابق اپنی اپنی خطائوں کو یاد کرکے، دنیا کی خرابیوں اور کمزوریوں کو یاد کرکے کہیں کہ الٰہی! ہم تیرے خطاکار اور گناہگار بندے ہیں تیری بخشش کے سِوا ہمارے لئے کوئی ٹھکانا نہیں۔ ہمارے گزشتہ گناہوں نے ہمیں آئندہ کی نیکیوں سے محروم کر رکھا ہے تُو اپنا عفو ہمیں عطا کر اور ہمیں توبہ کی سچی توفیق عطا فرما۔ وہ توبہ کہ جس کے بعد انسان کوکوئی ذلّت نہیں پہنچ سکتی اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے مقام سے نیچے گِرسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس گڑ بڑ کی دعا سے جس میں ایک منٹ میں تو یہ کہا جاتا ہے کہ خدایا! میرے گناہ معاف کر اور دوسرے منٹ میں یہ کہا جاتا ہے کہ میری تنخواہ دس سے گیارہ روپے ہوجائے دل میںرقّت پیدا نہیںہوسکتی اور نہ وہ سوز اور گداز پیدا ہوتا ہے جس سے دعا قبول ہوتی ہے کیونکہ اِن دعائوں میں سے ایک کا دوسری سے کوئی جوڑ نہیں ہوتا۔ وہ ایسی ہی دعا ہوتی ہے جیسے جنازہ پر کھڑے ہوکر کوئی نکاحوں کا اعلان کرے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ دعائیں نہ مانگو۔ تم وہ دعائیں روز ہی مانگا کرتے ہو۔ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ سال میں کم از کم ایک دن تم خداتعالیٰ کے سامنے صرف اپنے گناہوں پر روئو اور خوشی کی چیز اس سے کوئی نہ مانگو۔ اس سے روپیہ نہ مانگو، اس سے پیسہ نہ مانگو، اس سے دولت نہ مانگو، اُس سے صحت نہ مانگو، اس سے قرضوں کا دور ہونانہ مانگو، اُس سے اعزاز نہ مانگو، اس سے اکرام نہ مانگو، صرف یہی مانگو کہ خدایا! تیرا عفو ِتام ہمیں حاصل ہو اور توبۂ نصوح ہمارے لئے میسر ہو جائے۔ اس دعا کو مختلف رنگوں میں مانگو، مختلف طریقوں سے مانگو، مختلف الفاظ میں مانگو، اپنے لئے مانگو، اپنی بیویوں کیلئے مانگو، اپنے بچوں کیلئے مانگو، اپنے دوستوں کیلئے مانگو، اپنے ہمسایوں کیلئے مانگو، اپنے شہر والوں کیلئے مانگو او رپھر ساری جماعت کیلئے مانگو مگر چیز ایک ہو، بات ایک ہو، رنگ ایک ہو۔ سُر ایک ہو، تال ایک ہو اور جو کہو اُس کاخلاصہ یہ ہو کہ ہم تیرا عفو تجھ سے ہی چاہتے ہیں۔ پس اس عَفُوّ سے مانگو، اس غفّار سے مانگو، اس ستّار سے مانگو، اس توّاب سے مانگو۔ اور اگر تم اس سے رحمانیت مانگو تو اس لئے کہ وہ تمیں اپنا عفو ِتام اور توبۂ نصوح دے اور اگر رحیمیت مانگو تو بھی اسی لئے کہ وہ تمہیں اپناعفّوِ تام اور توبۂ نصوح دے ۔
حدیثوں میں آتا ہے کہ سابقہ امتوں میں سے ایک امت کے تین آدمی ایک دفعہ ایک طوفان میں پھنس گئے اور وہ اس طوفان سے پناہ لینے کیلئے ایک پہاڑ کی غار میں چھپ گئے۔ اتفاقاً زور کی جو آندھی آئی تو پتھر کی ایک بڑی بھاری سِل لڑھک کر اُس غار کے منہ کے آگے آگئی اور نکلنے کا راستہ بند ہوگیا۔ وہ ایک چھوٹی مصیبت سے بچنے کیلئے پہاڑ کی غار میں گئے تھے مگر اُس سے بڑی مصیبت میں پھنس گئے۔ اُس جنگل میں جبکہ وہ ایک پہاڑ کی غار میں محبوس تھے کوئی آدمی ایسا نہ تھا جو انہیں اس مصیبت سے نجات دلاتا۔ تب وہ سخت گھبرائے اور جب انہیں نجات کی کوئی صورت دکھائی نہ دی تو ایک شخص کو دعا کی تحریک ہوئی اور اُس نے اپنے ساتھیوں سے کہا آئو ہم نے اپنی عمر میں جوسب سے زیادہ نیکی کا کام کیاہے اُس کا واسطہ دے کر خداتعالیٰ سے کہیں کہ وہ اس پتھر کو ہٹادے۔ تب اُن میں سے ایک نے کہا اے خدا! تُو جانتا ہے مجھے ایک لڑکی سے جو میری رشتہ دار تھی بڑی محبت تھی اور وہ کسی طرح میرے قابو نہ آتی تھی میں اُس سے بدکاری کرنا چاہتا تھا مگر وہ نہ مانتی۔ آخر میں نے ایسی تدابیر اختیار کیں کہ وہ اِس بات پر مجبور ہوگئی کہ میرے ساتھ بدفعلی کرے۔ جب میں اُس پر قادر ہوگیا اور سالہاسال کی کوششوں اور بہت سا روپیہ خرچ کرنے کے بعد میں اس سے بدفعلی کا ارتکاب کرنے لگا تو اُس نے کہا اے خدا کے بندے! میں تجھے خدا کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ تُو مجھے گناہ میں مبتلاء مت کر۔ میں یہ سنتے ہی ہٹ گیا اور میں نے کہا اب تُونے ایک بڑی ذات کا مجھے واسطہ دیا ہے میں اُسی کی رضا کیلئے اس سے باز رہتا ہوں۔ اے خدا! اگر میں نے یہ کام تیری خوشنودی کیلئے کیا تھا تو اِس کام کے بدلے میں مَیں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ تُو اِ س پتھر کو ہمارے راستہ سے ہٹا دے۔ اِس دعا کے نتیجہ میں زور کی آندھی کا ایک طوفان اُٹھا اور وہ پتھر ذرا لڑھک گیا لیکن ابھی ان کے نکلنے کاراستہ نہ بنا۔ تب دوسرے نے کہا اے خدا! تجھے معلوم ہے کہ ایک مزدور میرے پاس آیا اس نے میری مزدوری کی اور مزدوری کرنے سے پیشتراس کے کہ وہ اُجرت مجھ سے لے چلا گیا میں نے اُس کی اُجرت کے پیسوں سے سوداگری شروع کی او راس میں سے نفع اٹھاتے ہوئے ایک بکری خریدی اس بکری سے اور بکریاں پیدا ہوئیں یہاں تک کہ سینکڑوں بکریوں اور بھیڑوں کاگلّہ میرے پاس ہوگیا وہ کئی سال کے بعد میرے پاس آیا اور کہنے لگا میری اٹھنّی رہتی ہے وہ مجھے دے دو۔ میں نے اُسے اپنے ساتھ لیا اور سینکڑوں بکریوں اور بھیڑوں کاگلّہ اُسے دکھا کر کہا کہ یہ تیری چیز ہے اسے لے جا۔ وہ کہنے لگا کیوں مجھ سے مخول کرتے ہو میری صرف اٹھنّی رہتی تھی وہ مجھے دے دو۔ میں نے اُسے کہا اُس اٹھنّی سے میں نے تجارت شروع کی تھی اور اب اس قدر بھیڑیں اور بکریاں ہوگئیں وہ کہنے لگا پھر تو یہ میری نہ ہوئیں بلکہ تمہاری ہوئیں۔ میں نے اُسے کہا نہیں میری نہیں بلکہ میں نے تمہارے لئے تجارت کی تھی۔ تب وہ نہایت ہی حیران ہؤا آخر میرے مجبور کرنے پر وہ بھیڑوں اور بکریوں کے گلّوں کو ہانک کر اپنے ساتھ لے گیا۔ اے خدا! اگر میں نے یہ کام تیری خوشنودی اور رضا کیلئے کیا تھا تو مجھ پر رحم کر اور یہ پتھر راستہ سے ہٹادے۔ تب پھر زور سے ایک طوفان اُٹھا اور پتھر تھوڑا سا سِرک گیا مگرراستہ پھر بھی نہ بنا کیونکہ چٹان بہت بڑی تھی اور ابھی وہ اتنی نہیں لڑھکی تھی کہ ان کے نکلنے کا راستہ بن جاتا۔ تب تیسرا شخص خداتعالیٰ کے حضور جھکا اور اُس نے کہا اے خدا! تجھے معلوم ہے کہ میں بکریاں چرایا کرتا ہوں اور دودھ پر میرا گزار ہ ہے۔ ایک دن مجھے بکریا ں چراتے چراتے دیر ہوگئی اور میں جلدی گھر نہ پہنچ سکا میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور بچے چھوٹے چھوٹے جب میں گھر پہنچا تو ضُعف کی وجہ سے میرے ماں باپ سوچکے تھے اور بیوی بچے جاگ رہے تھے اور بھوک کی وجہ سے میرا انتظار کررہے تھے جب میں پہنچا تو انہوں نے کہا لائو ہمیں دودھ پلائو تاکہ ہم دودھ پی کر سوجائیں۔ میں نے دودھ کا پیالہ بھرا اور اپنے والدین کی پائینتی کے پاس کھڑا ہوگیا اور کہا جب تک میرے ماں باپ دودھ نہ پی لیں گے میں کھڑ ارہوں گا اور کسی اَور کو دودھ نہیں پلائوں گا۔ میری بیوی زاری کرتی رہی اور میرے بچے چیختے رہے مگر میں نے اُن کی چیخ و پکار کی کوئی پرواہ نہ کی اور دودھ کا پیالہ اپنے ہاتھ میں لئے برابر کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ اُس وقت میرے والدین اُٹھے تو میں نے اُنہیں دودھ پلایا اور پھر اپنے بچوں اور بیوی کو دودھ پلایا۔ اے خدا! اگر میرا یہ کام تیری رضا اور تیری ہی خوشنودی کیلئے تھا اور دنیا کی کوئی غرض اِس میںنہ تھی تو تُو مجھ پر رحم فرما اور اِس پتھر کو راستہ سے ہٹا دے تب پھر زور کا طوفان اُٹھا اور پتھر لڑھک کر نیچے گرگیا اور وہ تینوںشخص غار سے باہر نکل آئے۔
اب دیکھ لووہ تین شخص تھے اور انہوںنے تین قسم کے کام کئے مگر وہ سارے کام صرف اس مقصد کیلئے خداتعالیٰ کے سامنے پیش کئے گئے کہ پتھر ہٹ جائے اور وہ پتھر واقع میں ہٹ گیا۔ یہ مختلف طریقے تھے جو انہوں نے دعا کیلئے اختیار کئے لیکن دعا ایک ہی تھی اور چونکہ وہ مشترک دعا تھی اس لئے قبول ہوگئی۔ اسی طرح تم بے شک اپنے جذبات کو جس طرح چاہو اُبھارو او رجن جن مثالوں سے اپنی گریہ و زاری کو بڑھاسکتے ہو بڑھائو لیکن تان یہیں آکر ٹُوٹے کہ اے خدا! ہم اپنے لئے، اپنے اہل و عیال کیلئے اور اپنی تمام جماعت کیلئے تجھ سے عفو ِتام اور توبۂ نصوح مانگتے ہیں۔ ایک رات تو اِس قسم کی دعائوں میں گزارو پھر جو دوسری رات آئے اس میں بھی تم اپنے لئے کچھ نہ مانگو بلکہ وہ رات صرف اپنے خدا کیلئے وقف کردو اور اُس رات میں بھی صرف ایک ہی دعا مانگو اور وہ یہ کہ اے خدا! تُو کامل ہے، ہر تعریف سے مستغنی ہے، ہر عزت سے مستغنی ہے، ہر شہرت سے مستغنی ہے، تجھے اِس بات کی کوئی حاجت نہیں کہ تیرے بندے تجھ پر ایمان لاتے ہیں یا نہیں ان کے مان لینے سے تیری شان میں کوئی ترقی نہیں ہوسکتی اور نہ ان کے نہ ماننے سے تیری شان میں کوئی کمی آسکتی ہے۔ مگر اے ہمارے ربّ! گو تُو محتاج نہیں لیکن دنیا تیرے نور کی محتاج ہے کہ تیری صفات دنیا پر جلوہ گر ہوں اور تیرا نور عالَم پرپھیلے اور تمام بنی نوع انسان تجھ پر ایمان لائیں اور تیری بادشاہت دنیا میں قائم ہو اے خدا! اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے غریب بندوں کی خاطر دنیا پر رحم فرما۔ اپنی خالقیت کے اظہار کیلئے نہیں بلکہ مخلوق پر ترحّم اور شفقت کرنے کیلئے انہیں وہ راستہ دکھا جو انہیں تیرے قُرب تک پہنچانے والا ہو او رجس کے نتیجہ میں تیری بادشاہت دنیا پر قائم ہوجائے تا بنی نوع انسان تیرے نور سے منور ہوجائیں، ان کے دل روشن ہوجائیں، ان کی آنکھیں چمک اُٹھیں اور ان کے ذہن تیز ہوجائیں۔
سو کل کی رات کو بھی صرف ایک ہی بات پر تان توڑنی چاہئے اور جتنا بھی کسی کو جاگنے کی توفیق ملے اس میں صرف ایک ہی دعا مانگنی چاہئے اس رات میں بھی نہ اپنے لئے دعا کی جائے، نہ اپنے بیوی بچوں کیلئے دعا کی جائے، نہ مقدمہ میں کامیابی کیلئے دعا کی جائے، نہ مال کیلئے دعا کی جائے، نہ عزت کیلئے دعا کی جائے ، نہ ترقیات کیلئے دعا کی جائے، نہ اپنوں کیلئے دعا کی جائے،نہ پرایوں کیلئے دعاکی جائے صرف یہ دعا کی جائے کہ خدا کی خدائی عالَم میں قائم ہو اور اس کے جلال کا دنیا پر ظہور ہو۔
پس آئو کہ ہم اپنی تین سو ساٹھ راتوں میں سے دو راتیں ان دعائوں کیلئے وقف کردیں یقینا یہ ایک نیا تجربہ اور کامیاب تجربہ اور مفید تجربہ ہوگا۔ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ تمہارے سامنے ہے ان سب نے ایک بات مانگی اور سارا دن مانگی اور خدا نے ان کی دعا کو قبول کیا۔ انہوں نے عذاب کے آنے کے بعد دُعا مانگی، ہم عذاب کے آنے سے پہلے دعاکریں گے انہوںنے دن کو مانگی ہم رات کو مانگتے ہیں اور یقینا ہماری دعا ان سے زیادہ بھاری ہوگی کیونکہ دن کی دعا سے رات کی دعا بھاری ہوتی ہے او رعذاب آنے کے بعد کی دعا سے عذاب آنے سے پہلے کی دعا جلدی قبول ہوتی ہے۔ پس آئو کہ ہم ان دو مقاصدکیلئے اپنی راتوں میں سے دو راتیں وقف کردیں۔ ایک رات اپنے لئے اور ایک رات خدا کیلئے وقف کردیں تا خدا کا عشق اور اس کا عفو ِتام ہمیں میسر آجائے ا ور توبۂ نصوح کی ہمیں توفیق ملے۔ دوسری رات ہماری دعا یہ ہو کہ خدا کا جلال اور اُس کی حکومت دنیا پر قائم ہو اور اس کی شان عالَم پر ظاہر ہو۔ گویا ایک رات دعا سلب کی ہو اور دوسری رات جذب کی۔ ایک رات ہم دور کریںاپنے قلوب سے ہرقسم کی بدی کو اور دوسری رات کھینچیں اُس کے نور اور محبت کو۔ ایک رات دور کریں تاریکی کو اور دوسری رات جذب کریں اُس کے نور کو۔ جہاںجہاں اخبار ’’الفضل‘‘ کَل پہنچے وہ کَل ہی دعائوں میں قادیان والوں کے ساتھ شریک ہوجائیں اور پرسوں وہ دعا کریں جو آج رات ہم یہاں کریں گے اور جنہیں اخبار اِن دونوں دنوں میں نہ ملے وہاں کے احباب اگلی دو راتوں میں اسی ترتیب سے دعا کریں اور اگلی دونوں راتیں ان دعائوں کیلئے وقف کردیں جومیں نے بتائی ہیں۔ مگربہرحال صوفیانہ اور روحانی نقطۂ نگاہ سے یہ ایک تجربہ ہے جو نہایت اعلیٰ اور عمدہ ذریعہ ہے خداتعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کا۔ اس کے بعد ہمارے لئے راستہ کھلا ہے اور رمضان کی بعض راتیں ابھی باقی ہیں ان میں اور مقاصد کیلئے دعائیں کی جاسکتی ہیں۔ پس جن لوگوں کو خداتعالیٰ توفیق دے وہ اِن دو راتوں میں خصوصیت سے دعا کریں۔ قادیان والے تو آج اور کل دعائیں کریں۔ آج رات یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کوان کے اہل و عیال کو اور ساری جماعت کو اپنے عفو، اپنی غفّاری اور اپنی ستّاری سے بہرہ ور کرے اور توبۂ نصوح کی توفیق عطا فرمائے اور دوسری رات یہ دعا کرتے ہوئے گزاریں کہ خد اکا نور اور اُس کا جلال دنیاپر ظاہرہو اور اُسی کی حکومت عالَم میں قائم ہو۔ جن لوگوں کو کل اِس کی خبر پہنچے وہ کل قادیان والوں کے ساتھ مشترکہ دعا میں شامل ہوجائیں اور پرسوں وہ دعا کریں جو یہاں آج مانگی جائے گی اور جن کو اِن دونوں دنوں میں اطلاع نہ ہو وہ اگلی دو راتوں کو اسی ترتیب سے دعائوں کیلئے وقف کردیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کئی ہزار آدمی اِس متحدہ دعامیں شریک ہوگئے تو یہ دعائیں قلوب میں صفائی پیدا کرنے اور خداتعالیٰ کی محبت میں زیادتی رونما کرنے کیلئے بہت کامیاب ثابت ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری جماعت کو صحیح راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، اپنی بخشش کی چادر ان پر اوڑھائے، انہیں سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے اور اپنا نور دنیا میں قائم کردے۔
(الفضل ۱۳؍ دسمبر ۱۹۳۶ئ)



۴۴
مخلصین جماعت کو جلسہ سالانہ میں بکثرت شریک ہوکر
دارُالامان کے فیوض و برکات سے حصہ لیناچاہئے
سادہ زندگی اختیار کرو کہ یہ اُس اسلامی تمدّن کا نقطۂ مرکزی ہے جسے اسلام
دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے
(فرمودہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۳۶ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
پہلے تو میں باہر کے دوستوں کی توجہ کیلئے اس امر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ اس سال چندوں میں کئی رنگ میں زیادتی ہوئی ہے اور اتنی زیادتی ہوئی ہے کہ سلسلہ کی تاریخ میں اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ مثلاً تین تحریکیں خصوصیت کے ساتھ اس سال نہایت اہم ہوئی ہیں ایک تو دوستوں میں یہ تحریک کی گئی تھی کہ وہ اپناحصہ وصیت یا عام چندہ پہلے سے زیادہ کردیں۔ اس پر بعض دوستوں نے دسواں حصہ دینے کے بجائے نواں حصہ دینا شروع کردیا ہے او ربعض نے نواں حصہ دینے کی بجائے آٹھواں حصہ دینا شروع کردیا ہے اور بعض نے اس سے بھی زیادہ۔ اسی طرح جو دوست پہلے چار پیسے فی روپیہ چندہ دیاکرتے تھے انہوں نے اب پانچ پیسے فی روپیہ کے حساب سے چندہ دینا شروع کردیا ہے اور بعضوں نے ا س سے بھی زیادتی کی ہے گویا چندہ عام کو مدّنظر رکھتے ہوئے جو چندہ دوست پہلے دیتے تھے کم سے کم اُس کا سَوا یا انہوں نے کردیا ہے اور اس طرح ۲۵ فیصدی زیادتی ہوگئی ہے۔ پھر اس سال جلسہ سالانہ کے چندہ کے علاوہ مساجد اور مہمان خانہ کیلئے بھی چندہ جمع کیا جاتا رہا ہے اور یہ چندہ بھی پہلے سالوں میں نہیں تھا۔ علاوہ ازیں اس سال تحریک جدید کے چندہ کے متعلق میں نے تحریک کی ہے کہ دوست پہلے سالوں سے زیادہ دیں اور گو یہ تحریک اختیار ی ہے لیکن پھر بھی جماعت کی ایک معقول تعداد اس میں حصہ لیتی ہے اور جماعت کے ایک حصہ کی مالی حالت پر ضرور اس کا اثر پڑتا ہے اور ایسے دوستوں سے جب خواہش کی گئی ہے کہ وہ پہلے سالوں سے زیادہ چندہ دیں تو جو لوگ اس پر لَبَّیْکَ کہیں گے یقینا ان کے اموال پر پہلے سے زیادہ بوجھ پڑے گا۔
غرض اس سال کئی تحریکیں اکٹھی جمع ہوگئی ہیں اور یہ سال ہماری جماعت کیلئے ایک خاص آزمائش کاسال ہے۔ پس میں ڈرتا ہوں کہ جماعت کے بعض دوست اس خیال سے کہ مالی بوجھ اس سال ان پر بہت زیادہ پڑا ہے جلسہ سالانہ کے موقع پر آنے میں کوتاہی کرجائیں۔ پس میں دوستوں کو کہتاہوں کہ وہ اس سال کو اپنا ایک ابتلائی سال سمجھ لیں کہ جس میں خداتعالیٰ نے انہیں خصوصیت سے زیادہ قربانیاں کرنے کا موقع دیا ہے اور خیال رکھیں کہ جہاںانہوںنے باقی قربانیاں کی ہیں وہاں ایک قربانی یہ بھی کرلیں کہ جلسہ سالانہ میں شامل ہوکر ان دنوں کے فیوض و برکات سے حصہ لیں سوائے اُن لوگوں کے جواہم مجبوریوں کی وجہ سے نہ آسکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری جماعت کے سارے لوگ جلسہ سالانہ میں شامل نہیں ہوسکتے لیکن کچھ تعداد ایسے لوگوں کی ضرور ہے جو ہر سال جلسہ سالانہ کے موقع پر آتے ہیں اور باقی لوگ ایسے ہیں جن میں سے باری باری ہر سال ایک دو فیصدی آجاتے ہیں۔میںنے دیکھا ہے کہ ضرورت کے موقع پر سلسلہ کے لئے زائد بوجھ اُٹھانے والے زیادہ تر وہی لوگ ہوتے ہیں جو پہلے سے ہی زیادہ قربانیاں کررہے ہوتے ہیں۔مثلاً اگر چندوں کی زیادتی کی فہرست دیکھی جائے اور ان لوگوں کی فہرست دیکھی جائے جنہوں نے اپنی وصیت میں اضافہ کیا تو معمولی نظر سے ہی معلوم ہوجائے گا کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے چندہ تحریک جدید بھی زیادہ دیاہے۔ درحقیقت قربانی کی بھی ایک روح ہوتی ہے جس میں پیدا ہوجائے اس سے سب کام کرالیتی ہے۔ دل کی گِرہ جس وقت اللہ تعالیٰ کھول دیتا ہے تو پھر اس کا نشان ہرجگہ مل جاتاہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے خداتعالیٰ کی طرف سے الہام ہؤا ہے کہ میں نبی ہوں ابوبکرؓ نے کہا ٹھیک ہے میں آپ کو اللہ تعالیٰ کا نبی مانتا ہوں، محمد ﷺ نے فرمایا ہمیں دین کیلئے چندہ کی ضرورت ہے لوگوں کو چاہئے کہ وہ مال دیں ابوبکرؓ نے اپنا سارا مال لاکر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا اور کہا ٹھیک ہے خدمت دین کا یہی موقع تھا، محمد ﷺ نے فرمایا مجھے لڑائی کا حکم ہؤا ہے ابوبکرؓ تلوار باندھ کر آگئے اور کہا چلئے میں تیار ہوں، محمد ﷺ نے سابقہ حکم کے بالکل اُلٹ صلح حدیبیہ کے موقع پر فرمایا ہمارا منشا ء ہے کہ لڑائی نہ کریں بلکہ صلح کرلیں۔ سب کے ماتھے پر شکن آئے یہاں تک کہ عمرؓ کے ماتھے پر بھی مگر ابوبکرؓ نے کہا ٹھیک ہے یونہی ہونا چاہئے اور صلح ہی بہترہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ابوبکرؓ کی روحانیت کی گِرہ کشائی ایسی کردی تھی کہ جو آواز بھی محمد ﷺ کی طرف سے آتی وہ کہتے یہی ہونا چاہئے۔
ایک اور شخص کا حال بھی حدیثوں میںآتا ہے ایک شخص رسول کریم ﷺ کے پاس آیا وہ مؤمن نہیں تھا اس نے آپ کا نام لے کر کہا آپ نے میرے کچھ روپے دینے ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا وہ تو میں نے ادا کر دیئے تھے اس نے کہا نہیں مجھے کوئی ادا نہیں ہوئے۔ اس پر ایک صحابیؓ کھڑا ہوگیا اور اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! میں اس بات کا گواہ ہوں کہ آپ نے روپے ادا کردیئے ہیں۔ اس شخص کا خیال تھا کہ روپوں کی ادائیگی کا کوئی گواہ نہیں ہوگا لیکن جب ایک صحابیؓ نے گواہی دے دی تو چونکہ وہ جھوٹ بول رہا تھا او رناجائز طور پر تقاضا کررہا تھا اس لئے اس نے مان لیا اور کہنے لگا ہاں مجھے یاد آگیا ہے آ پ نے مجھے روپے دے دیئے تھے۔ رسول کریم ﷺنے حیرت سے اس صحابیؓ کی طرف دیکھا اور فرمایا تم اس موقع پر کب تھے؟ اس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! میرے وہاں ہونے کی کیا ضرورت تھی آپ روز کہتے ہیں خداتعالیٰ آسمان سے مجھ پر وحی نازل کرتا ہے اور میں اسے مان لیتا ہوں کیا میں اُس وقت آسمان پرموجود ہوتا ہوں؟ اسی طرح جب آپ کہتے ہیں کہ میںنے روپیہ اد اکردیا ہے تو میں اس کی بھی گواہی دے سکتا ہوں۔ اب دیکھو کہ چونکہ اس صحابی کی گواہی ایمانی طاقت کے ساتھ تھی اس کا دشمن پربھی اثرا ہؤا اور اس نے تسلیم کرلیاکہ میری ہی غلطی تھی۔ تو صرف دل کی گِرہ کھلنے کی دیر ہوتی ہے جس وقت اللہ تعالیٰ کسی انسان کے دل کی گِرہ کھول دیتا ہے تو ہر بات میں اس کیلئے آپ ہی آپ راہنمائی نکلتی آتی ہے۔ تو میں سمجھتاہوں ان اخراجات کے ساتھ دوستوں کویہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جلسہ سالانہ پر آنے کا بھی ایک زائد خرچ ہے جو انہیں برداشت کرنا پڑے گا بلکہ اس سال رمضان بھی ختم ہوچکا ہے گزشتہ تین سالوں میں رمضان کے ایام میں دوسرے لوگوں کو ساتھ لانا مشکل ہؤا کرتا تھا کیونکہ ہم جو جلسہ سالانہ کی مذہبی اہمیت سمجھتے ہیں غیراحمدی نہیں سمجھتے تھے او رکہتے تھے کہ ہم جلسہ پرجاکر رمضان کیوں خراب کریں۔ مگر اب رمضان کا مہینہ گزرچکا ہے اور جلسہ غیررمضان میں آئے گا دوستوں کوکوشش کرنی چاہئے کہ اپنے ایسے رشتہ دار یا دوست جو گو احمدی نہیں لیکن شریف اور دیانت دار ہیں انہیں بھی ساتھ لائیں مگر یہ خیال رہے کہ ان لوگوں کی مثال پر عمل نہ کیاجائے جو دوسروں کواپنے ساتھ لانے کے شوق میں ایسے لوگوں کو بھی لے آتے ہیں جو سلسلہ کے شدید مخالف ہوتے ہیں اور جن کی غرض فتنہ و فساد ہوتی ہے حالانکہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ایسے لوگوں کے لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ ہاں اگر اور موقع پر وہ قادیان آئیں تو انہیں بھی فائدہ پہنچ سکتاہے لیکن جلسہ سالانہ کے موقع پر ایسے لوگوں کوساتھ لانا چاہئے جو شریف الطبع اور تحقیق کاشوق رکھنے والے ہوں کیونکہ ان دنوںتمام لوگ مشغول ہوتے ہیں اور صرف وہی لوگ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جو جلسہ سالانہ سے فائدہ اُٹھانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ جو لوگ شوخ طبع اور چالاک ہوں ان کیلئے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ ان سے پرائیویٹ ملاقاتیں کی جائیں او ربحثیں کی جائیں اور چونکہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ان باتوں کیلئے فرصت نہیں ہوتی ا س لئے ان ایام میں انہیں ہمراہ لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔
اس کے بعد میں تحریک جدید کی طرف پھر متوجہ ہوتا ہوں۔ اوّل تو میں دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بعض جماعتوں نے اس سال کی تحریک کے متعلق اس لئے کہ ان کی جماعت کا نام جلدی پہنچ جائے نامکمل فہرستیں بھیجنی شروع کردیں جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ اب ٹکڑے ٹکڑے ہوکر ان کی جماعت کے دوستوں کی طرف سے وعدے موصول ہورہے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ جلدی کی نیکی ہی اعلیٰ نیکی ہوتی ہے مگر نامکمل نیکی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتاجولوگ جلدی مکمل فہرستیں نہ بھیج سکتے تھے ان کیلئے یہی بہتر تھا کہ وہ اپنی جماعت کے باقی ساتھیوں کا انتظار کرلیتے اورمکمل فہرستیں بھیجتے۔ میں دیکھتا ہوں بعض جماعتوں کی طرف سے پانچ پانچ چھ چھ چٹھیاں آرہی ہیں اور لکھا جارہا ہے کہ اب ہماری یہ لسٹ ہے اور اب یہ لسٹ ہے۔ ایسے لوگ اگر چند دن انتظار کرلیتے تاکہ دوسرے دوست بھی ان کے ساتھ شامل ہوجائیں تو ان کے سابق ہونے میں کوئی فرق نہ آتا۔
میں نے گزشتہ سال اپنے کسی خطبہ میں بیان کیا تھا کہ جو شخص اس لئے انتظار کرتاہے کہ دوسرے دوست بھی اس کے ساتھ شامل ہوجائیں اُس کی سبقت میں کوئی فرق نہیں آسکتا کیونکہ انہوں نے جس دن چندہ کی ادائیگی کی نیت کرلی خدا تعالیٰ کے حضور ان کا نام سابق لوگوں میں لکھا گیا خواہ ہمارے پاس وہ مہینہ ڈیڑھ مہینہ کے بعدپہنچے۔ سابق قرار دینا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے میرا نہیں۔ بالکل ممکن ہے ایک شخص میرے پاس آئے اور سو روپیہ چندہ دے اور میں اس کی بڑی قدر کروں اور ایک دوسرا شخص آئے جو پانچ روپے دے اور میں یہ اندازہ نہ کرسکوں کہ اس نے کتنی بڑی قربانی کے بعد پانچ روپے دیئے ہیں اور خدا کے نزدیک اس کی قربانی زیادہ قرار پاجائے ایسی صورت میں خداتعالیٰ کے نزدیک اوّل نمبر پر پانچ روپے چندہ دینے والا ہی لکھا جائے گا نہ کہ سَوروپیہ چندہ دینے والا۔ اسی طرح ایک شخص جلدی سے خط بھیج دیتا ہے مگر دوسرا شخص انتظار کرتا ہے تا اس کے باقی بھائی بھی اس میں شامل ہوجائیں تو اگر وہ اس احتیاط کی وجہ سے دیر لگاتا ہے کہ وہ عمدگی سے کام کرے اور اس کی ارسال کردہ فہرست ہر لحاظ سے مکمل ہو تو خداتعالیٰ کی نگاہ میں وہی سابق ہے۔
میرا اس احتیاط کی تاکید سے یہ مطلب نہیں کہ جو جلد وعدے بھجواسکتے ہوں وہ بھی جلدی نہ کریں یقینا جو جماعتیں مکمل اور جلدی وعدے بھجواسکیں انہیں ایسا کرنا چاہئے کیونکہ وہ شوکتِ اسلام کے ظاہر کرنے میں مُمِد ہوتی ہیں۔ اگر خلیفہ کے اعلان کے معاً بعد کثیر تعداد میں وعدے وصول ہونے لگیں تو دوسرے لوگوں پر یقینا اس کا ثر پڑتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ دیکھو یہ جماعت کس طرح اپنے امام کی آواز پر لبیک کہتی ہے۔ میری نصیحت صرف ان جماعتوں سے تعلق رکھتی ہے جو صرف جلدی کو مدّنظر رکھتی ہے تکمیل کو نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس سال کے وعدے قلیل زمانہ میں پہلے سالوں سے زیادہ موصول ہوچکے ہیں۔ گزشتہ سال پہلے مہینے میں پچاس ہزار کے وعدے موصول ہوئے تھے لیکن اس دفعہ پندرہ دن میں اسّی ہزار کے قریب کے وعدے وصول ہوئے ہیں جس کی دو وجہیںہیں۔ ایک تو یہ کہ پہلے دو سال کام کرنے سے یہ کام زیادہ منظم ہوچکا ہے اورجماعتیں جلد وعدوں کی فہرست کوپورا کرلیتی ہیںاور دوسری یہ کہ جنہوں نے گزشتہ سالوں میں قربانیاں کی تھیں ان کے اخلاص کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کوزیادہ سہولت سے اور جلدی قربانی پیش کرنے کی اس سال توفیق دے دی ہے۔ خداتعالیٰ کی یہ سنّت ہے کہ جو کوئی اس کی راہ میں قربانی کرے وہ اسے مزید قربانیوں کیلئے زیادہ جوش بخش دیتا ہے اور پچھلی قربانیوں کا ثواب اس رنگ میں بھی اسے ملتا ہے کہ اور قربانیوں کی توفیق اسے مل جاتی ہے۔
میں یہ بھی اعلان کردیتا ہوں کہ اس سال گزشتہ سال کے مقابل پر چونکہ پندرہ دن بعد میں نے تحریک کی ہے اس لئے اس سال کی تحریک کے وعدوں کے اختتام کا وقت ہندوستان کے لئے ۳۱ ؍جنوری ہے۔ گویا ہندوستان کی تمام جماعتوں کے وعدے ۳۱ ؍جنوری تک پہنچ جانے چاہئیں اور ہندوستان سے جوباہر کی جماعتیں ہیں ان کیلئے چونکہ زیادہ وقت درکار ہوتا ہے اس لئے انہیں جون کے آخر تک مُہلت ہے۔
میںنے گزشتہ سال بھی یہ اعلان کیا تھا اور متواتر کیا تھاکہ بیرونِ ہند کی جماعتوں کی وصولی کی تاریخ بھی جون کے آخر تک ہے لیکن معلوم ہوتا ہے انہوںنے ان اعلانات کوپڑھا نہیں اور اب تک بیرونی جماعتوں کی طرف سے تحریکیں ہورہی ہیں کہ ہمیں چندوں کی ادائیگی کیلئے مزید مہلت ملنی چاہئے حالانکہ ان کیلئے پہلے سے جون کے آخر تک کا وقت مقرر ہے اور جنوری کے آخر تک کا وقت ہندوستان والوں کیلئے ہے جن کے وعدوں کی مدت ۱۵؍جنوری تک ختم ہوتی تھی۔ پس وصولی کی مدت بھی اگلے سال کی اسی تاریخ پرختم کی گئی۔
اس کے بعد میں دوستوں کو تحریک جدید کے اس حصہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو سادہ زندگی اختیار کرنے کا ہے میںنے اس کی طرف متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے او رعلاوہ تحریک کے ایام کے دوسرے وقتوں میں بھی توجہ دلائی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جہاں تک اسلام پر غور کرتا ہوں مجھے اس کے تمدّن کا یہ نقطۂ مرکزی نظر آتا ہے اور میں سمجھتا ہوں ہزاروں قومی خرابیاں تکلفات سے پیدا ہوتی ہیں۔ غریب اور امیر کا فرق یا تمدّنی تعلقات کی ترقی یہ سب مبنی ہیں سادہ زندگی یا پُرتکلف زندگی پر۔ جیسی جیسی کسی انسان یا قوم کی زندگی ہو اس کے مطابق قومی تعلقات اور تمدّنی تعلقات ترقی کرتے یا تنزّلکرتے ہیں۔ خالی یہ سوال نہیں کہ خود انسان کیاکھاتا ہے یاکیاپہنتا ہے بلکہ سوال یہ بھی ہے کہ اُس کے کھانے او راس کے پہننے کا اثر اس کی روحانیت اور اس کی قوم پر کیا پڑتا ہے۔ بہت سے لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جن کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی دعوت کریں لیکن وہ اس لئے ان کی دعوت نہیں کرسکتے کہ اگر دعوت کی تو شاید ان کی حیثیت کے مطابق انہیںکھانا نہ کھلاسکیں۔ کئی امراء اس لئے اپنے غریب بھائیوں کی دعوت قبول نہیں کرتے کہ وہ ان کے مزاج کا کھانا انہیں نہیںکھلاسکیں گے۔ لیکن اگر کھانے میں رسول کریم ﷺ کی سنّت کے مطابق وہی طریق جاری ہوجائے جو ہم تحریک جدید کے ماتحت اختیار کئے ہوئے ہیں کہ صرف ایک کھانا پکایا جائے تو نہ دعوت کرنے والے پر کوئی بار پڑتا ہے اور نہ دعوت قبول کرنے والاکوئی ہچکچاہٹ محسوس کرتاہے۔ دعوت کرنے والا سمجھتاہے کہ میرا کوئی زائد خرچ تو ہونے نہیں لگا اور دعوت قبول کرنے والا سمجھتاہے کہ گھر میں بھی تو میں نے ایک ہی کھاناکھاناہے آئو آج اس کی دعوت ہی قبول کرلیں اور وہ کون سا ایک کھانا ہے جس کے متعلق کسی کو دعوت کرنے کاتو خیال آجائے مگر وہ تیار نہ کرسکے۔ آخروہ شخص جو فاقے کرتا ہو اُسے تو دعوت کرنے کا خیال نہیں آسکتا۔ دعوت کا خیال جسے آسکتا ہے وہ بہرحال ایک کھانا تیار کرسکتا ہے اور کوئی شخص ایسا نہیں ہوسکتا جسے دوسرے کی دعوت کرنے کاتو خیال آئے مگر ایک کھانا بھی نہ تیار کرسکے۔ پس اس ذریعہ سے امراء اور غرباء کے تعلقات میں وسعت پیداہوجاتی ہے اور اسلام جس برادری کو دنیامیں قائم کرنا چاہتاہے وہ قائم ہوجاتی ہے۔ یہی حال لباس کا ہے لباس کی نظافت اور صفائی اور چیز ہے لیکن اگر کچھ لوگ اپنے گھروں کو کپڑوںسے بھرلیں اور روپیہ ایسی چیزوں پرخرچ کرنا شروع کردیں جو ضروری نہیں۔ مثلاً گوٹے کناریاں ہیں، فیتے ہیں، ٹھپے ہیں تو ان چیزوں کا لازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ملک کی دولت ایسی جگہ خرچ ہوتی ہے جس جگہ خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ہماری شریعت نے اسی لئے روپیہ جمع کرنے سے منع کیاہے جمع شدہ روپیہ پر زکوٰۃ لگادی ہے اور زکوٰۃ لگا کرکہہ دیا ہے کہ تم بے شک روپیہ جمع کرو مگر ہم چالیس پچاس سال کے اندراندر اسے ختم کردیں گے۔ تو شریعت نے ہم کو روپیہ جمع کرنے سے اسی لئے منع کیاہے کہ جو روپیہ جمع ہوتا ہے وہ لوگوں کے کام نہیںآسکتا اوردنیا کی تجارتوں کو نقصان اور کارخانوں کو ضُعف پہنچتا ہے تونہ شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ روپیہ ضائع کرو اورنہ اس بات کی اجازت دی ہے کہ روپیہ کو اس طرح سنبھال کررکھ لیاجائے کہ وہ لوگوں کے کام نہ آئے۔ان دونوں باتوں پر غور کرنے سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ یہی کہ سادہ زندگی بسر کرو او رروپیہ اس طرح خرچ کرو کہ لوگوں کو فائدہ پہنچے۔ مثلاً تجارتیں کرو کیونکہ تجارت میں ہزاروں لوگوں کوفائدہ پہنچتا ہے۔ بعض کو نوکریوں کے ذریعہ فائدہ پہنچ جاتا ہے، بعض کو دلالی کے ذریعہ سے ، بعض کو حرفت کے ذریعہ سے ۔ ہاں اسلام نے یہ بھی کہہ دیا کہ فضول باتیں نہ کرو کیونکہ اس سے غرباء کے دلوں میں حرص پیدا ہوتی ہے اور ان کے قلوب کو تکلیف پہنچتی ہے۔ مثلاً شادیوں کے موقع پر بڑی تباہی اِس وجہ سے آتی ہے کہ لوگوں میں یہ رواج ہے کہ لڑکے والے بَری دکھاتے ہیں اور لڑکی والے جہیز دکھاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریب لڑکیاں جو ان چیزوں کو دیکھتی ہیں وہ یا تو دل ہی دل میں کڑھتی آتی ہیں یا اگر بیوقوف ہوں تو ماں کو آکر چمٹ جاتی ہیں کہ ہمارے لئے بھی ایسی چیزیں تیار کی جائیں۔ اسی طرح مردوں میں سے کئی جب اس قسم کے نظارے دیکھتے ہیں تو ان کے دلوں میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ جب ہماری شادی ہوگی تو ہم بھی ایسا ہی کریں گے حالانکہ اوّل تو امارت کے یہ معنی ہی نہیں کہ روپیہ ضائع کیاجائے ہاں چونکہ شادیاںخوشی کا موقع ہوتی ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کی بھی تاکید کی ہے کہ ایسے موقع پر کچھ خرچ کیاجائے کیونکہ ایسے موقع پر خرچ کرنا گناہ نہیں بلکہ لڑکی کادل رکھنا مرد کیلئے نہایت ضروری ہے لیکن اس کیلئے وہ طریق اختیار نہیں کرنا چاہئے جو بداثر ڈالے اور غرباء کیلئے تکلیف کا موجب بنے۔ اگر مسلمان قرآن کریم کا علم رکھتے تو وہ سمجھتے کہ قرآن کریم نے ایسے دکھاوے سے منع کیا ہؤا ہے چنانچہ وہ فرماتاہے لَاتَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَامَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ زَہْرَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَھُمْ فِیْھَا ؎ ۱ اگر کسی کو ایسی چیزیں ملیں تو تم ان کی طرف جھانکا نہ کرو اورنہ اپنے دل کو اس طرح میلا کیا کرو۔ پس اگر دکھانے والے دکھاتے اور دیکھنے والے انکار کردیتے اور کہہ دیتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے لَاتَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَامَتَّعْنَا بِہٖ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ کہ اگر کوئی دولتمند ہوں اور وہ اپنی چیزیں دکھا کر تمہارا دل دکھانا چاہیں تو تم وہ چیزیں دیکھا نہ کرو اور اپنے خدا کی طرف نظر رکھا کرو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا رَبِّ اِنِّی لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ ؎ ۲ کہ اے میرے ربّ! میں محتاج تو ہوںمگر میں محتاج ہوکر بندوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ تیری طرف دیکھتا ہوں۔ پس تیری طرف سے جو آجائے اسے میں قبول کرنے کیلئے تیار ہوں تو نہ انہیں تکلیف ہوتی اور نہ وہ اندر ہی اندر کُڑھتے ۔ پس ان رسوم کے نتیجہ میں کمزور طبائع پر بُرا اثر پڑتا ہے لیکن اگر ملک میں سادہ زندگی آجائے تو یقینا بہت سی دولت بچ جائے گی جو غرباء اور ملک کی ترقی کے کام آئے گی اور اس طرح آہستہ آہستہ تمام ملک یا جماعت ایسے مقام پر آجائے گی کہ غریب اور امیرکا فرق بہت کم ہوجائے گا۔ یوں شریعت نے دولت کمانے سے منع نہیں کیا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے وہ جب فوت ہوئے تو انہوں نے اڑھائی کروڑ روپیہ کی جائدا دچھوڑی اُس زمانہ میں تو روپیہ کی قیمت بہت کم تھی لیکن آج بھی جبکہ روپیہ کی قیمت گری ہوئی ہے مسلمانوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس قدر جائداد رکھتے ہیں لیکن خود ان کی اتنی سادہ زندگی تھی کہ ان کا روزانہ خرچ چار آنے ہؤا کرتا تھا اور وہ اپنی آمد کا اکثر حصہ غرباء میں تقسیم کردیا کرتے تھے یہ زندگی تھی جو اسلامی زندگی تھی۔ اسلام نے انہیں کمانے سے منع نہیں کیا تھا انہوںنے کمایا اور کما کربتادیا کہ یوں کمایا کرتے ہیں لیکن دوسری طرف چونکہ اسلام کا یہ بھی حکم تھا کہ اپنی زندگی کو ایسا پُرتکلف نہ بنائو کہ جو کچھ کمائو وہ سب اپنی ذات پر خرچ کردو اور غرباء کیلئے کچھ نہ رہنے دو اس لئے وہ باوجود دولتمند ہونے کے غریب رہے اور یہی چیز ہے جس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ فلاں شخص قربانی کررہا ہے۔
جب تک مسلمانوں میں ایسے لوگ رہے جو کمانے والے اور غرباء پرخرچ کرنے والے تھے اس وقت تک مسلمانوں میں غربت کا وہ زور نہ تھا جو آجکل ہے لیکن جب کمانے والے نہ رہے یا ایسے کمانے والے پید اہوگئے جنہوں نے سب روپیہ اپنے ہاتھوں میں جمع کرلیا اور سوائے اپنی ذات اور ضروریات کے اور جگہ خرچ نہ کیا تو مسلمانوں پرتباہی آگئی۔ چنانچہ آجکل مسلمانوں کی تباہی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اوّل وہ کماتے نہیں جہاں دیکھومسلمان بیکار ہی بیکار دکھائی دیتے ہیں اور اگرانہیں کوئی کام کرنے کو کہا جائے تو اس میں وہ اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا باپ ایسا تھا پس جب تک ہمیںباپ جیسا عہدہ نہ ملے گا ہم کام نہیں کریں گے۔ اسی طرح زمیندار ہیں وہ تو نوکریاں نہیں کریں گے یا کوئی اور پیشہ اپنی روزی کمانے کیلئے اختیار نہیں کریں گے اور جب انہیں کہا جائے کہ کیوں کوئی کام نہیں کرتے تو کہہ دیں گے ہم زمیندار ہیں ہم کوئی اور پیشہ کس طرح اختیار کرسکتے ہیں۔ پس وہ کوئی پیشہ اختیار نہیں کریں گے، کوئی فن نہیں سیکھیں گے، کوئی اور ذریعہ اپنی روزی کمانے کیلئے اختیار نہیں کریں گے، بھوکے مریں گے، اپنی صحت خراب کرلیں گے، اپنی بیوی اور بچوں کی صحت تباہ کرلیں گے لیکن کسی کام کوہاتھ نہیں لگائیں گے۔ زمیندار ماں اپنے بچہ کو بھوکے رہنے کی وجہ سے خون پلاتی جائے گی مگر وہ اسی گھمنڈ میں رہیں گے کہ ہمارا باپ زمیندار تھا ہم موچی کا کام کس طرح کرسکتے ہیں، ہم نجاری اور معماری کا کام کس طرح کرسکتے ہیں، ہم جولاہوں کاکام کس طرح کرسکتے ہیں۔ پس مسلمانوں کی تباہی کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ وہ کام نہیں کرتے اور دوسرا سبب یہ ہے کہ ان میں سے جو کام کرتے ہیں وہ سارا روپیہ اپنے گھروں میں رکھ لیتے ہیں غرباء پر اسے خرچ نہیں کرتے حالانکہ اسلام چاہتا ہے کہ لوگ کمائی کریں اور اس میں سے کچھ اپنی ذات پر خرچ کریں اور کچھ دوسرے لوگوں پر صرف کریں۔ اَمَّابِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّث ؎ ۳ کا مطلب ہی یہ ہے کہ جو نعمت تمہیں ملے اسے دنیا میں پھیلائو۔ تحدیث دو ہی طرح ہوسکتی ہے ایک یہ کہ کچھ اپنی ذات پر اس روپیہ کو خرچ کیا جائے اس سے بھی لوگوں کو پتہ لگ سکتا ہے کہ اسے نعمت ملی ہے اور کچھ غریبوں میں تقسیم کرے اس سے بھی لوگوں کوپتہ لگ سکتا ہے کہ اس کے پاس دولت ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی گُر بتایا ہے کہ یہ گُر بغیر ساد ہ زندگی اختیار کئے کام نہیں آسکتا۔ مجھے افسوس سے کہناپڑتا ہے کہ باوجود بار بار توجہ دلانے کے ہماری جماعت کا ایک حصہ ابھی ایسا ہے جس نے اس کی قیمت کو نہیں سمجھا۔ کئی کئی طریق پر دوست اس سے پہلو تہی کرلیتے ہیں۔ گزشتہ سفر کے موقع پر ہی ایک دوست نے پوچھا (وہ نہایت مخلص احمدی ہیں مگر چونکہ پُرانی عادتیں زیادہ کھانا کھانے کی پڑی ہوئی ہیں اس لئے بعض افراد کی طبیعت کسی نہ کسی آڑ میں اس مطالبہ سے پہلو تہی کا جواز تلاش کرنا چاہتی ہے) کہ میں تحریک جدید پر تو عمل کرتا ہوں لیکن اس طرح کہ ہم ایک جگہ چار آدمی ہیں ہم چاروں ایک ایک کھانا پکوالیتے ہیں اور پھر سب مل کر کھالیتے ہیں اس میں کوئی حرج تو نہیں؟ میں نے کہا چارکھانے تو آج کل ایک وقت امراء بھی نہیں کھایا کرتے آپ کس طرح چار کھانے کھاکر سمجھتے ہیں کہ آپ نے تحریک جدید کے اس مطالبہ پر عمل کرلیا۔ اب دیکھو انہوں نے اپنی طرف سے تحریک جدید پر بھی عمل کیا اور چار کھانے بھی کھالئے پھر میں نے انہیں کہا میں صرف یہی نہیں چاہتا کہ ایک کھانا پکانے کی وجہ سے لوگوں کو اخراجات میں کفایت رہے بلکہ میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ زبان کے چسکا کی عادت نہ پڑے۔ اب چار کھانے کھانے سے چسکا بڑھ سکتاہے کم نہیں ہوسکتا۔ اگر وہ گھر میں کھانا پکاتے تو زیادہ سے زیادہ دو پکاتے لیکن مل کر کھانے کی وجہ سے چار کھانے کھالئے گئے اور یہ بھی سمجھ لیا گیا کہ تحریک جدید پر عمل ہورہا ہے۔ اسی طرح کئی لوگ اس رنگ میں ایک سے زیادہ کھانا کھا لیتے ہیں کہتے ہیں کہ تحفہ آگیا ہے بیشک کبھی کبھار کا تحفہ تحفہ ہے اور ا س کے استعمال میں خصوصاًتحفہ بھیجنے والے کا دل رکھنے کیلئے حرج نہیں بلکہ بعض صورتوں میں ثواب ہے لیکن اگر دو ہمسائے آپس میں ایک دوسرے کے گھر کھانے بھجوانے کی عادت ڈال لیں تو ایسے کھانے کا عام استعمال یقینا تحریک جدید کا غلط استعمال ہوگا۔
غرض تحفوں میں احتیاط کی ضرورت ہے اگر اس بارہ میں تحریک کی حقیقت کے مطابق عمل نہ کیا جائے تو شاید ہمارے گھر میں تو اس تحریک پر کبھی عمل نہ ہوسکے کیونکہ ہمارا تعلق اور رشتہ روحانی خداتعالیٰ کے فضل سے بڑا وسیع ہے اور کوئی نہ کوئی تحفہ ہمارے گھروں میں روز آجاتا ہے اس لئے ہمیں تو تحفہ کے استعمال میں بھی احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ گزشتہ دو سال میں چار پانچ مرتبہ سے زیادہ ایسا اتفاق نہیں ہؤا جہاں سے تحفہ آیا اور میںنے سمجھا کہ اس موقع پر دل رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اسے استعمال کرلیاجائے ورنہ عام طور پر جب کوئی تحفہ بھیج دیتا ہے تو یا تو میں اُسی کو استعمال کرتاہوں گھر کا کھانا نہیں کھایا کرتا یا پھر گھر کا کھانا کھاتا ہوں اور اسے خود استعمال نہیں کرتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں بھیجنے والے نے بھیج دیا اب اسے کیاپتہ کہ میں نے وہ چیز کھائی ہے یا نہیں کھائی اسے توبہرحال ثواب ہوگیا۔ تو تحفوں میں بھی انسان احتیاط کرسکتا ہے اور تحفہ کو بھی وہیں کھانے کی ضرورت ہوتی ہے جہاں ایسا نہ کرنے سے دوسرے کی دل شِکنی کا خوف ہو۔ اسی طرح ایک کھانے کے استعمال میں بعض اور استثنائی صورتیں ہوسکتی ہیں مثلاً کوئی غیراحمدی دعوت کرتاہے یا غیراحمدی کی دعوت کی جاتی ہے تو ایسی حالت میں اگر ایک کھانا کھایا جائے تو وہ سمجھتا ہے میری ہتک کی گئی ہے۔ پس ایسے موقع پر کوئی شخص ایک سے زیادہ کھانا کھالیتا ہے تو یہ اور بات ہے۔ اس قسم کی ایک دعوت مجھے بھی ایک دفعہ پیش آئی ایک جگہ بہت سے غیراحمدی معززین کوبلایا گیا تھا اور انہیں مدنظر رکھتے ہوئے کئی کھانے تیار کئے گئے تھے ان معززین کی دلداری کے طور پر مجھے بھی ایک سے زائد کھانے کھانے پڑے ہاں جہاں بے تکلفی ہو وہاں دعوت کرنے والوں کو کہاجاسکتا ہے یا دوسرے مہمانوں کوبتایا جاسکتا ہے کہ ہم ایک ہی کھانا کھائیں گے زیادہ نہیں۔ تو بعض دوست تحریک جدید کے اس مطالبہ کی اہمیت کونہیں سمجھتے درحقیقت میری غرض اس تحریک سے صرف عارضی فائدہ حاصل کرنا نہیں بے شک اس کاایک عارضی فائدہ بھی ہے اور وہ یہ کہ جو دوست تحریک جدید کے مالی مطالبات میں حصہ لیں انہیں ایک کھانا پکانے کی وجہ سے مالی تنگی محسوس نہ ہو اور ان کی بشاشت قائم رہے ۔ یہ ٹھیک ہے اوراس تحریک میں ایک یہ فائدہ بھی مدنظر ہے لیکن میری اصل غرض یہ ہے کہ ہم دنیا میں اس اسلامی تمدن کو پھر قائم کریں جومحمد ﷺ نے قائم کیا۔ یہ مستقل غرض ہے اور وہ عارضی ہے ہم جب تک اس مستقل غرض کو قائم نہیں کردیتے اُس وقت تک یقینا ہم اسلام کی روح کو قائم نہیں کرسکتے۔ اولیاء اللہ نے لکھا ہے کہ اعلیٰ روحانی ترقیات کیلئے کم کھانا، کم بولنا اور کم سونا ضروری ہے اور کم کھانے سے سادہ زندگی کا بڑا تعلق ہے۔ زیادہ کھانے کھانے والوں کو یہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ وہ کتناکھاگئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک امیر ان کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے بھوک نہیں لگتی کوئی ایسا نسخہ بتائیے جس سے بھوک خوب لگے۔ فرمایا ہم نے اُس کاکچھ دن علاج کیا لیکن ایک دن ہمیں جو اُس کے کھانے پر جانے کا اتفاق ہؤا تو کیادیکھا کہ چالیس کے قریب کھانے اس کے دسترخوان پر جمع ہیں وہ ایک ایک تھالی اُٹھاتا اور ہر تھالی میں سے ایک ایک لقمہ اس غرض کیلئے کھاتا جاتا کہ وہ چکھ کر دیکھے کہ ان میں سے کون سی چیز اچھی پکی ہے اور اپنے کھانے کے متعلق فیصلہ کرے۔ اس کے بعد اُس نے دوچار کھانے پسند کرکے اپنے سامنے رکھ لئے او رچند لقمے کھا کر کہنے لگا مولوی صاحب! دیکھئے بالکل دل نہیں چاہتا کہ کھائوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمانے لگے میں نے اسے کہا اب آپ کا اور کھانے پر کیا دل چاہے چالیس لُقمے تو آپ نے چکھنے کی خاطر کھالئے ہیں حالانکہ عام طور پر انسان بتیس لقمے کھاتا ہے اور اس پر بھی آپ کو شکایت ہے کہ آپ کوبھوک نہیں لگتی۔ تو زیادہ کھانے کھانے والوں کو یہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ وہ زیادہ کھارہے ہیں کیونکہ پیٹ کا کچھ حصہ چکھنے سے بھر جاتا ہے اور باقی حصہ چند اور لُقموں سے بھرجاتا ہے تو چونکہ پیٹ میں جتنی گنجائش ہوتی ہے اتنی ہی غذا وہ کھالیتا ہے اور کھانے ابھی سامنے پڑے ہوتے ہیں اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ میں نے بہت تھوڑا کھایا ہے اور زبردستی اور کھاتا جاتا ہے حالانکہ وہ چکھنے میں ہی بہت کچھ کھاچکا ہوتا ہے۔ تو کم خوری، کم گوئی او رکم سونا یہ روحانی ترقیات کیلئے اولیائے الٰہی ضروری بتاتے ہیں اور کم کھانے کیلئے ضروری ہے کہ انسان ایک کھانا کھائے زیادہ کھانوں میں کم خوری بہت مشکل ہوتی ہے۔ سو دوستوں کو اس تحریک کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ ہمارے دوست عموماً ایک دوسرے پر نگاہ رکھیں گے اور ان کے اعمال کو تاڑیں گے مگر شکایت کی غرض سے نہیں، جاسوسی کے طور پر نہیں کیونکہ جاسوسی اسلام میں منع ہے بلکہ اس نیت سے کہ دوسرے کی اصلاح ہو اور پھر اس شخص کے علاوہ اور کسی کے پاس ذکر نہ کیا جائے۔ یہ میں پسندنہیں کروں گا کہ لوگ میرے پاس آئیں اورکہیں کہ فلاں شخص دو کھانے کھاتا ہے۔ میں نے ایک کھانا کھانے کاکوئی حکم نہیںدیا میں نے صرف تحریک کی ہے کہ اگر کوئی شخص اس تحریک کے باوجود دو کھانے کھاتا ہے تو اُس کا معاملہ خداتعالیٰ کے ساتھ ہے ممکن ہے وہ اِس تحریک کو ہی فضول سمجھتا ہو اور ممکن ہے کہ وہ کسی خاص وجہ سے دو کھانے استعمال کرتا ہو۔ بہرحال جبکہ میری طرف سے ایسا کوئی حکم نہیں تو میں نہیں چاہتا کہ اس کی خلاف ورزی پر کسی کو سزا دوں لیکن میں امیدکرتا ہوں کہ جہاں تک دوستوں سے ممکن ہے وہ اِس سوال پر غور کریں، وہ میرے دلائل کو سوچیں، وہ اسلام کی تاریخ کو دیکھیں، وہ محمد ﷺ کی زندگی پر نگاہ دوڑائیں اور پھر سوچیں کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ صحیح ہے یا نہیں۔ اگر انہیں معلوم ہو کہ صحیح ہے تو اس پر عمل کریں اور اگر کوئی دوست غفلت میں مبتلاء ہے اور اس کے محلے والا سمجھتا ہے کہ اس کو سمجھانا مناسب ہے تو اسے سمجھائے لیکن اسے بدنام نہ کرے اور نہ اُس کی کمزوری کا کسی اور کے پاس ذکر کرے۔ پس اس نظر سے اگر کوئی دوسرے بھائی کے اعمال کودیکھے گا تو یہ تجسّس نہیں کہلائے گا۔ تجسّس اس کو کہتے ہیںکہ انسان اپنے بھائی کے حالات معلوم کرنے کیلئے مخفی ذرائع سے کام لے اور پھر لوگوں میں باتیں کرتا پھرے لیکن جب یہ اپنے بھائی کا نقص اپنی ذات تک محدود رکھتاہے اور کسی او ر کو کانوں کان بھی خبر نہیں ہونے دیتا تو یہ اپنے دوست کا محاسب ہے متجسس نہیں اور دوستوں کامحاسبہ کرنا بڑی نیکی ہوتی ہے۔ یہ یاد رکھو کہ میںنے نگاہ رکھنا کہا ہے تجسّس نہیں کہا اورنگاہ رکھنااور ہوتا ہے او ر تجسّس اور ۔ اگر یہ کسی کے مکان پرجاتا اور گھر والے کے بچہ کو بلاکر پوچھتا ہے کہ آج تمہارے ہاں کیا کیا پکا ہے؟ تو یہ تجسّس ہے اور منع ہے لیکن نگاہ رکھنا یہ ہے کہ مثلاً باتوں باتوں میں کسی نے کہہ دیا کہ آج ہم نے گھر میں یہ چیز پکائی ہے تو اس کی باتیں سن کر اسے نصیحت کردی کہ یہ درست نہیںایک ہی کھانا کھانا چاہئے۔ پس اگر دوست اس کا خیال رکھیں تو میں سمجھتاہوں یقینا قومی کیریکٹر میں ایک بہت بڑی تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ تبدیلی ہوبھی رہی ہے۔ چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں قربانی کی روح اس وجہ سے پیدا ہورہی ہے مگر قربانی کی روح بھی انہی میں پیدا ہوتی ہے جو بشاشت سے اعمال بجالائیں کیونکہ روحانی امور بشاشت ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو لوگ عمل کریں مگر ساتھ ہی کڑھتے چلے جائیں اور کہتے جائیں کہ جب سے ایک کھانا کھانا شروع کیاہے کھانے میں مزا ہی نہیں رہا انہیں میں یہی کہوں گا کہ وہ دو ہی کھانے کھائیں کیونکہ ان کادو کھانے کھانا ایک کھانا کھانے سے زیادہ اچھا ہے۔
پس اس تحریک میں وہی شامل ہو جو اس تحریک کی خوبیوں کاقائل ہوگیا ہو اور اپنی اور اپنی جماعت کی زندگی اس میں محسوس کرتا ہو اور جو شخص ابھی اس مقا م پر نہیں پہنچا وہ تجربہ کرکے دیکھ لے اگر ایک کھانا کھانے کے بعد اس کے دل میں بشاشت پیدا نہ ہو تو چھوڑ دے یعنی اگر اس تحریک کی خوبیوں کو نہ اس کا دل مانتا ہو نہ عقل اور وہ تجربہ کرکے فائدہ نہ دیکھے تو اسے چھوڑ دے۔ ہاں وہ شخص جس کی عقل تو نہ مانتی ہو مگر دل مانتا ہو یعنی وہ سمجھتا ہو کہ خواہ میرا نفس کچھ اورکہتا ہے مگر جب میں ایک شخص پر اعتقاد رکھتا ہوں کہ وہ میرا استاد ہے تو اس نے جو کچھ کہا ہوگا درست ہی کہاہوگا تو ایسے شخص کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن وہ شخص جس کی نہ عقل مانتی ہو نہ دل اور عمل کے بعد بھی اس کی قبض دور نہیں ہوتی وہ اس مطالبہ پرعمل کرکے کوئی فائدہ حاصل نہیںکرسکے گاسوائے اس کے کہ اس کی صحت خراب ہو اور وہ صبح شام کڑھتا رہے اورکچھ نتیجہ ا س کیلئے نہیں نکلے گا۔
میں نے جیسا کہ بتایا ہے یہ معمولی مطالبہ نہیں بلکہ نہایت ہی اہم مطالبہ ہے اور یقینا جو شخص رسول کریم ﷺ کی زندگی، صحابہ کرامؓ کی زندگی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق پرغور کرے گا تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ اسلامی تعلیم اور اسلامی تعامل یہی ہے۔ باقی رہا یہ کہنا کہ اگر اسلامی تعلیم یہی ہے تو آپ حکم کیوں نہیں دیتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں جو عمل کیا جائے وہ بشاشت سے کیا جائے اور اپنی مرضی سے کیا جائے تا کہ ثواب بڑھے۔ جو فوری ضروریات ہوتی ہیں اُن کے متعلق ہم حکم دے دیتے ہیں اور جو فوری امورنہ ہوں ان میں ہم حکم نہیں دیتے بلکہ قوم کو تیار کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں جوں جوں ہماری جماعت اس تحریک پر عمل کرتی چلی جائے گی ایک طبقہ ایسا پیدا ہوجائے گا جو پھر واپس نہیںجائے گا اور کہے گا ہمارے لئے یہی مقام اچھا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ اسلام ایسے تمدّن کو قائم کرنا چاہتا ہے جو دنیا کے تمدّن سے بالکل مختلف ہے اور یہ اس تمدّن کی پہلی سیڑھی ہے۔ آج اگر ہم اس تمدّن میں تبدیلی نہیں کرسکتے تو جب ہمیں بادشاہتیں ملیں گی اُس وقت کیا کریں گے۔ ابھی تو ہماری جماعت میں سے اکثر لوگ غریب ہیں لیکن جب ہم میں سے اکثر لوگوں نے محنت کرنی شروع کردی اور سلطنتیں اور حکومتیں آگئیں تو پھر کتنی خرابیاں پیداہوجانے کااحتمال ہے پھر تو وہی چالیس چالیس کھانا کھانے والے لوگ آجائیں گے جن کاایک ایک لقمہ چکھ کر پیٹ بھر جائے گا اور شکایت کریں گے کہ انہیں بھوک نہیں لگتی۔ غریب بھوکے مر رہے ہوں گے اور ہماری جماعت میں سے وہ لوگ جن کے پاس بادشاہتیں ہوں گی ان کی کوشش یہ ہوگی کہ ساری دنیا کی دولتیں جمع کریں اور باقی ملکوں کو کنگال اور مُفلس بنادیں۔ پس اس چھوٹی سی بات کی طرف اگر توجہ نہ کی گئی تو اس کے نتیجہ میں ہم دنیاکیلئے جنت نہیں دوزخ پیدا کرنے کا موجب ہوجائیں گے جیسے یورپ والے آج کل جہاں جاتے ہیں لوگ ان پر لعنتیں ڈالتے ہیں کہ وہ تمام ملکوں کی دولت جمع کرکے لے گئے لیکن اگر وہ اسلامی تعلیم پر عمل کرتے تو جہاں جاتے لوگ ان کے ہاتھ چُومتے اور کہتے آگئے ہمیں غلامی کی قید سے آزاد کرانے والے۔ پس یہ تقویٰ کی راہ ہے جو میں نے بتائی ہے اور تقویٰ بھی کوئی نہ کوئی ذریعہ چاہتا ہے آخر بغیر کسی ذریعہ کے ہم تقویٰ کس طرح پیدا کرسکتے ہیں۔ جو جو بدیاں دنیا میں پیدا ہیں اُن کے مٹانے کاکوئی نہ کوئی سامان چاہئے اور انہی سامانوں میں سے ایک یہ ہے کہ سادہ زندگی اختیار کی جائے اور کھانے پینے اور پہننے میں ایسا طریق اختیار کیاجائے جس میں اِسراف نہ ہو اور جس میں ہمارے غریب بھائیوں کاحصہ شامل ہو اور امراء اور غرباء کے تعلقات میں کوئی ایسی دیوار حائل نہ ہو کہ غریب امیر کو بُلانے سے ڈرے اور امیرغریب کی دعوت قبول نہ کرسکے بلکہ ایسا تمدّن قائم ہوجائے کہ ہر شخص دوسرے سے خوشی سے ملے اور تکلّفات جاتے رہیں اور یہ سب کچھ سادہ زندگی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ میں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے کہ ہمارے ملک میں پیروں نے لوگوں کو یہ عادت ڈال دی ہے کہ جہاں انہیں کوئی مُرید ملے وہ اپنی جوتی اُتاردے اور میں دیکھتا ہوں کہ باوجود میرے روکنے کے ہماری جماعت کے بعض دوستوں پر اس کا اب تک اثر ہے اور چوتھے پانچویں کوئی نہ کوئی دوست ایسا ملنے آجاتا ہے کہ وہ ادب سے جوتی اُتارنا شروع کردیتاہے۔ بس میری اور اس کی کشتی شروع ہوجاتی ہے میں کہتا ہوں جوتی پہنو اور وہ جوتی اُتار رہا ہوتا ہے۔ تو اسلام یہ چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان میں برادرانہ تعلقات پیداہوں۔ بے شک ایک بڑا بھائی ہو اور دوسرا چھوٹا لیکن بہرحال اخوت اور برادری ہو اور اخوت ہی اسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔ غریب کو تم چھوٹا بھائی سمجھ لو اور امیر کو بڑالیکن امیر اور غریب دونوں بھائی ہیں اوریہی روح ہے جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے اور یہ ادب کے بھی منافی نہیں۔ کیاچھوٹا بھائی اپنے بڑے بھائی کاادب نہیں کرتا اور کیا بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی کیلئے قربانیاں نہیںکرتا۔ بے شک جب مسند پر بیٹھنے کاوقت آئے تو چھوٹا بھائی اپنے بڑے بھائی کو جگہ دے گا اور آپ ایک طرف بیٹھ جائے گا لیکن نوکروں کی طرح وہ جوتیوں میں نہیں کھڑا ہوگا یہی چیز ہے جس کو پھر اسلام دنیامیں قائم کرنا چاہتاہے اور یہی دُنیوی جنت ہے جب یہ نہ ہو او رلکیریں کھینچ دی جائیں کہ تم برہمن ہو، تم کھشتری ہو، تم شودر ہو اُس وقت محبت اور پیار نہیں رہتا اور جس کا دائو چلتا ہے دوسرے کو ذلیل کرکے نکال دیتاہے لیکن جب برادری قائم ہوجائے تو آپس کے تعلقات خراب نہیں ہوسکتے۔ کوئی چھوٹا بھائی یہ کبھی نہیں کہتا کہ میں اپنے بڑے بھائی کوماردوں کیونکہ گو اپنے بڑے بھائی کاادب کرتا ہے لیکن وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ وہ اپنے سکھ کومیرے لئے قربان کرتا ہے اور جانتا ہے کہ اگر کچھ چھوٹے ہونے کی قیمت ادا ہورہی ہے تو کچھ بڑے ہونے کی قیمت بھی ادا ہورہی ہے۔ چھوٹا سمجھتا ہے کہ گو یہ آگے بیٹھتا ہے اور میں پیچھے بیٹھتا ہوں لیکن جب باپ موجود نہ ہو اس کا فرض ہے کہ کما کر چھوٹے بھائیوں کو پالے یا وہ مصیبت میں ہوں تو یہ انہیں بچانے کیلئے جدوجہد کرے یا باپ کی عدم موجودگی میں ان کا حافظ ونگران ہو۔ پس اس پر جو ادب کی قربانی ہے وہ گراں نہیں گزرتی وہ سمجھتا ہے کہ دونوں ہی اپنے مقام کی قیمت ادا کررہے ہیں وہ ایک طرح دے رہا ہے اور میں دوسری طرح دے رہا ہوں۔ اسی طرح میاں بیوی کا تعلق ہے بیوی کھانا پکاتی ہے اور بظاہر وہ ایک ملازمہ نظر آتی ہے لیکن دوسرے موقع پر اُس کا میاں اُس کی ہر بات مان رہاہوتا ہے اور بیوی سمجھتی ہے کہ گو میں اس کا کام کرتی ہوں مگر اس کو بھی میری اطاعت کی قیمت دوسری طرح ادا کرنی پڑتی ہے۔ خاوند اس پرروپیہ خرچ کرتا ہے، خاوند اس سے محبت او رپیار کرتاہے اورخاوند اس کی تکلیف میں کام آتا ہے۔ پس بیوی اپنے آپ کونوکر نہیں سمجھتی بلکہ وہ کہتی ہے کہ اگر اپنے تعلق کی ایک قیمت مَیں ادا کررہی ہوں تو میرا خاوند بھی اپنے تعلق کی قیمت ادا کررہا ہے۔ یہی اخوت کا تعلق ہوتا ہے جس میں تمام انسان ایک دوسرے کیلئے قربانیاں کرتے ہیں صرف عمل کے دائرہ میں اختلاف ہوتا ہے ورنہ ہوتی برابری ہی ہے۔ یہ چیز ہے جسے اسلام قائم کرنا چاہتاہے اور اس کا ایک ذریعہ تحریک جدید ہے جس میں اپنے ہاتھوں سے کام کرنا، کھانے میںسادگی، لباس میں سادگی اور رہائش میں سادگی رکھی گئی ہے اور یہ عارضی چیزیں نہیں بلکہ مستقل چیزیں ہیں اور دوستوں کا فرض ہے کہ جبر سے نہیں بلکہ پیار سے، محبت سے سمجھا کر، دلائل دے کر لوگوں کو قائل کریں۔ جب یہ باتیں ہماری جماعت کے قلوب میں راسخ ہوجائیں گی تو جب احمدیت کو بادشاہتیں ملیں گی اُس وقت کے بادشاہ بادشاہ بن کر نہیں بلکہ بھائی بن کر حکومت کریں گے اور جہاں جائیں گے لوگ کہیں گے یہ ہمیں اُٹھانے آئے ہیں اور جس جس ملک میں بھی احمدیت پھیلے گی خواہ انگلستان میں پھیلے، خواہ جرمن میں یہ وہاں کانقشہ بدل کر رکھ دے گی اور وہ جابر حکومتیں نہیںہوں گی بلکہ خادم حکومتیں ہوں گی اور دنیا کو لُوٹنے کیلئے قائم نہیں ہوں گی بلکہ دنیا کو اُبھارنے کیلئے قائم ہوں گی اور اس ذریعہ سے پھر اسلام کی شوکت اور اس کی عظمت ظاہر ہوگی۔ پس میں اس مطالبہ کی طرف جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں یہ کوئی معمولی کام نہیں بلکہ نہایت ہی اہم ہے۔ دوستوں کوچاہئے کہ وہ اس کی طرف خاص توجہ کریں اور اپنے اخلاق کو ایسی طرز پر ڈھالیں کہ وہ نہ صرف ان کیلئے بلکہ ان کے تمام بھائیوں کیلئے رضائے الٰہی کا موجب، سُکھ کا موجب، عزت کا موجب اور نیک نامی کا موجب ہوں۔
(الفضل ۲۲؍ دسمبر ۱۹۳۶ئ)
؎۱ طٰہٰ: ۱۳۲ ؎۲ القصص: ۲۵ ؎۳ الضحٰی: ۱۲


۴۵
جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کے متعلق
فرائض اور واجبات
(فرمودہ ۲۵؍ دسمبر ۱۹۳۶ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
آج بہت سے دوست جلسہ میں شمولیت کے ارادہ سے قادیان میں تشریف لائے ہوئے ہیں اور بہت سے اور دوست شام یا کل آنے والے ہیں جو ابھی آنے والے ہیں اُن تک تومیں اپنا پیغام نہیں پہنچاسکتا لیکن جو آچکے ہیں انہیں ان کے فرائض اور واجبات کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو اس جلسہ میں شمولیت کرنے والوں پرخدا اور اس کے مأموروں کی طرف سے عائد ہوتے ہیں۔ قادیان کا یہ جلسہ اپنے اندر میلہ کا رنگ نہیں رکھتا کہ دوست یہاں جمع ہوکرخریدو فروخت کریں، نہ یہ اجتماعی تفرّج ؎۱ یا دلچسپی کیلئے کیا جاتا ہے کہ لوگ اس میں شامل ہوکر اپنے دل کی خوشی کے سامان مہیاکریں بلکہ ان دنوں قادیان میں جمع ہونے کی غرض صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ہمارے معبودِ حقیقی اور ہمارے خالق نے اس زمانہ کے لوگوں کی حالت کو دیکھتے ہوئے اور دنیا میں مختلف اقسام کے فتنے اور فساد دیکھ کر آواز دی ہے اُن صادق الوعد لوگوں کوجو ایمان میں سچے اور وعدوں میں پکے ہیں اُن کوبلایا ہے کہ اس کے دین کی ترقی اور اس کے نام پر علو ّکیلئے اس مقام پر جمع ہوکر تدابیر اور تجاویز کریں۔ پس جس طرح نازک وقت پر انسان کا دل فضولیات او رلغویات کی طرف متوجہ نہیںہوسکتا اسی طرح اس موقع پر بھی ہر قسم کی لغویات سے پرہیز لازمی ہے جیسا کہ میں نے بتایاہے اس جلسہ کی کیفیت عام جلسوں یا میلوں کی نہیں ہوسکتی۔ میلوں میں لوگ اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ خوشیاں منائیں مگر ہم یہاں ا س لئے جمع ہوتے ہیں کہ اسلام کیلئے اپنے درد کا اظہارکریں۔ ہمارے اجتماع کی غرض فریاد اور گریہ و زاری ہے پس قلب کی اس حالت میں اگر یہ سچی ہو اور ہم منافق اور بہانے بنانے والے نہ ہوں تو ان دنوں ہمیںہر قسم کی فضولیات اور لغویات سے پرہیز کرنا چاہئے۔ رسول کریم ا کی زندگی کا ہر واقعہ دوسرے سے بڑھ کر ہے اور ہر واقعہ ایسے انسان کی نگاہ کو جس کے دل میں محبت اور عشق کی چنگاری ہو اپنی طرف کھینچنے کیلئے کافی ہے مگر ان تمام نوادر ، سوانح اور واقعات میں سے جو آپؐ کو اپنی زندگی میں پیش آئے میرے مذاق کے مطابق لطیف تر اور جاذب تر واقعہ حنین کا ہے اور زیادہ روحانیت کو بڑھانے والا ہے۔ اُس وقت بعض حدیث العہداور نئے مسلمان ہونے والوں کی کمزوری اور بعض کفار کی خود پسندی او رخودی کی وجہ سے جو صرف اظہارِ شان کی غرض سے مسلمانوں سے مل گئے تھے اسلامی لشکر پر ایک سخت ابتلاء آیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کی تعداد کفار سے زیادہ تھی مگر پھر بھی تمام اسلامی فوج تتر بتر ہوگئی اور رسول کریم ا صرف ۱۲ صحابہ کے ساتھ چارہزار تیر اندازوں کے نرغہ میں گھر گئے۔ حضرت ابوبکرؓ اور بعض دوسرے صحابہ نے آپ سے عر ض کیا کہ اب ٹھہرنے کا وقت نہیں گھوڑے کی باگ پھیریں اور واپس چلیں تا اسلامی فوج کو دوبارہ جمع کرکے حملہ کیاجائے مگر رسول کریم ا نے فرمایا کہ خدا کے نبی میدانِ جنگ سے پیٹھ نہیں موڑا کرتے اور گھوڑے کی باگ اُٹھائی اور اُسے ایڑ لگا کر اور بھی آگے بڑھایا اور کفار کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ
اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ ؎۲
یعنی میں خدا کا نبی ہوں اور جھوٹا نہیں ہوں اور میری اِس طاقت اورجرأت کو دیکھ کر کہ میں چار ہزار تیر اندازوں کے نرغہ میں ہونے کے باوجود آگے ہی بڑھتاجارہا ہوںغلطی سے یہ خیال نہ کرنا کہ مجھ میں خدائی صفات ہیں مَیں وہی عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ پھر آپ نے حضرت عباسؓ کو جو آپ کے چچا بھی تھے مخاطب کرکے فرمایا آپ کی آواز اونچی ہے زور سے آواز دیں کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے۔ اُس وقت رسول کریم ا نے صرف انصار کو آواز دی۔ اِس میں کئی حکمتیں تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اس شکست کی وجہ مکہ کے بعض لوگ تھے اور چونکہ مہاجرین کے اہل وطن نے کمزوری اور غداری دکھائی اس لئے اس رنگ میں آپ نے لطیف طور پر ان کو زجر کی اور صرف انصار کو آواز دی چنانچہ آپ نے فرمایا عباس انصار کو آواز دو۔ اور جس وقت حضرت عباس نے بلند آواز سے یہ فقرہ دہرایا کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے اُس وقت اسلامی لشکر کی یہ حالت تھی کہ ایک صحابی کا بیان ہے کہ ہمارے گھوڑے اور اونٹ ہمارے قبضوں سے نکلے جارہے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ مکہ او رمدینہ سے ورے یہ نہیں رُکیں گے۔ میدان سے بھاگنا مسلمان جانتے ہی نہ تھے اور ان کی غیرتیں یہ برداشت ہی نہیں کرسکتی تھیں کہ ان کی سواریاں ان کو بھگالے جائیں اس لئے وہ کہتے ہیں کہ ہم سارا زور انہیں روکنے کیلئے لگا رہے تھے مگر کامیاب نہ ہوسکتے تھے۔ ہر بھاگنے والا گھوڑا دوسرے کو اور بھگاتا تھا اور ہر بھاگنے والا سپاہی دوسروں کو اور پراگندہ کرتا تھا۔ وہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ ہم بالکل بے بس ہوگئے اور سمجھتے تھے کہ میدان میں واپس آنا ہماری طاقت سے باہر ہے کہ اتنے میں حضرت عباسؓ کی گوجنے والی آواز آئی کہ اے انصار! خد اکا رسول تم کوبلاتا ہے جسے سنتے ہی یوں معلوم ہؤا کہ گویا ہم پر بجلی گر گئی ہے، حشر کا دن ہے اور صورِاسرافیل پھونکا جارہا ہے۔ ہمیں دنیا وَمَافِیْہَاکاکوئی ہوش نہ تھا صرف ایک ہی آواز تھی جو ہمارے کانوں میں گونج رہی تھی اور وہ عباسؓ کی آواز تھی ہم نے گھوڑوں کو موڑنے کی آخری کوشش کی جو مُڑگئے مُڑگئے اور جو نہ مُڑے ہم نے تلواریں نکال کر اُن کی گردنیں اڑادیں او رپیدل دوڑ پڑے اور لَبَّیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! لَبَّیْکَ کہتے ہوئے آناً فاناً آپ کے گِرد جمع ہوگئے ؎۳ ۔
یہ حالتِ اخلاص اور اس طرح رسول کریم ا کی آواز پر لبیک کہنے کا واقعہ میں نہیں جانتا لوگوں کے قلوب پر کیا اثر کرتا ہو مگر میرے پر یہ اثر ہوتاہے کہ سر سے لے کرپائوں تک لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ تیرہ صدیاں اس پر گزرچکی ہیں جب بھی یہ واقعہ میرے سامنے آتا ہے میری روح لبیک کہتی ہوئی رسول کریم اکی طرف جاتی ہے اور میں ہمیشہ اِس واقعہ کو حشر کے میدان سے تشبیہہ دیا کرتا ہوں۔
آج بھی خداتعالیٰ کی آواز محمد ا میں سے ہوتی ہوئی خدا کے مأمور اور آخری زمانہ کے مصلح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ بلند ہوئی اور کہہ رہی ہے کہ اے احمدیو! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے اور آپ وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دی اور اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے جمع ہوگئے۔ پس ان کیفیات کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھیں کہ آپ کو یہ ایام کس تقویٰ، کس محبت و عشق سے گزارنے چاہئیں۔ بظاہر ان ایام میں ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھتے نظر آتے ہیں لیکن دراصل خداتعالیٰ نے ایک ہاتھ بڑھایا ہے جو ہمیں بلارہا ہے اور ہماری نگاہیں اس کی طرف ہیں پس اپنی ذمہ داری کو محسوس کرو اور ان ایام کو بیکاری اور آوارگی، سُستی و غفلت میں نہ گزارو بلکہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرنے، ذکر ِالٰہی کرنے اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کو سننے میں گزارو۔ ذرا سوچو تو سہی کہ کون ایسا محبت و عشق کا دعویٰ کرنے والا ہوسکتاہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا رسول اسے آواز دے تو وہ راستہ میں کھڑا ہوکر بندروں کا تماشہ دیکھنے لگے۔ یہ دن حشر کے ایام سے مشابہہ ہیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ماں اپنے دودھ پینے والے بچہ کو بھی بھلادے گی۔ آج اپنی ضرورتوں، رشتہ داروں، دوستوں، اپنے کاموں، اپنے جذبات اور احساسات کو بھی بھول جائو تمہارے کانوں میں ایک ہی آواز گونجے اور وہ خداتعالیٰ کی آواز ہو اور تمہارا فرض ہے کہ لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھو۔ ہم میں سے کتنے ہوں گے جو کہتے ہوں گے کاش! ہم محمد ا کے زمانہ میں ہوتے اور اس شمع کے گِرد پروانوں کی طرح جل کر راکھ ہوجاتے۔ پھر کتنے ہوں گے جن کے دل میں یہ حسرت ہوگی کہ کاش! ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ پاتے اور خداتعالیٰ کے اس مأمور، آخری مصلح، رسول کریم اکے بروز، مظہر اور خلیفہ کے اِردگِرد اپنے نفوس او راپنے اموال قربان کردیتے۔ ایسے تمام لوگوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے بندے کبھی مرا نہیں کرتے بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں۔ دنیا میں لوگ مرتے آئے ہیں اور سب مرتے جائیں گے مگر رسول کریم ادائمی زندگی پانے والے انسان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حییّ ہونے کی چادر آپ پر ڈال دی ہے اور آپ کو کوئی نہیں مارسکتا۔ اسی طرح سب دنیا مرتی ہے اور مرتی جائے گی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔ خداتعالیٰ نے ابدی زندگی کی چادر انہیں اوڑھادی ہے اور اب کوئی انہیں نہیں مارسکتا پس یہ مت خیال کرو کہ تم کس طرح محمدرسول اللہاکے صحابی بن سکتے ہو اور کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مل سکتے ہو۔ اگر آج تمہاری روحیں ان کے آستانہ پر گرجائیں اور ان کے روحانی وجود کی طرف بڑھیں تو تم آج بھی وہی رُتبے حاصل کرسکتے ہو جو تم سے پہلوں نے حاصل کئے۔ ضرورت صرف تقویٰ ، اخلاص اور ایثار کی ہے۔ تم ہرگز ہرگز یہ خیال مت کرو کہ جو کچھ پہلوں کو ملا وہ تم کو نہیں مل سکتا صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ اپنے اندر اصلاح پید اکرو تقویٰ اور خشیت اللہ پیدا کرو۔ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ ایک سچا عاشق اپنے معشوق کے پیارے سے محبت نہ کرے اور اس کے قریب نہ ہو۔ کیا یہ ممکن ہے کہ تم کسی کے ملازم ہو اور تمہارے آقا کا بچہ تمہیں جنگل میں اکیلا ملے اور تم اسے وہیں چھوڑ کرچلے آئو۔ پھر یہ خیال کرو کہ اگر تقویٰ اور خشیت سے تم اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے اندر پیدا کرلو اور اس کے محبوب بن جائو تو اس کا کامل عبد محمداکس طرح تم سے الگ ہوسکتا ہے یقینا جو محمد ا کا ہو خداتعالیٰ اُس کا ہوجاتا ہے اسی طرح جو خداتعالیٰ کا ہوجائے محمد رسول اللہ ا خودبخود اس کے ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہوجائے خداتعالیٰ اُس کاہوجاتا ہے اور جو خدا کا ہوجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے ہوجاتے ہیں۔پس اگر جسمانی طور پر محمد ا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے جُدا ہوجائیں تو ہمارا خدا تو ہم سے جُدا نہیں تم اگر خدا کے ہوجائو تو محمدا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام خودبخود تمہارے ہوجائیں گے۔
پس اے بعدمیں آنے والو! گھبرائو نہیں کہ خداتعالیٰ نے ترقیات کے رستے تمہارے لئے بند نہیں کئے۔ ایک بزرگ لکھتے ہیں کہ احادیث پڑھتے وقت میرے دل میں یہ خیال آیا کرتا تھا کہ کیا خوش قسمت تھے وہ لوگ جنہوں نے محمداکی زبان مبارک سے کلمات سُنے اور لوگوں تک پہنچائے۔ یہ حسرت میرے دل میں بڑھتی گئی یہاں تک کہ ایک شب خواب میں آنحضرت ا تشریف لائے اور فرمایا بخاری لائو اور اس میں سے ایک حدیث خود مجھے پڑھائی اور پھر فرمایا کہ اب یہ براہ راست تم لوگوں کو ہماری طرف سے سناسکتے ہو۔
پس اگر حقیقی محبت پیدا ہوجائے تو خداتعالیٰ پر کیا مشکل ہے کہ محمدا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو روحانی طور پر تم سے ملادے اور اس طرح ان کے صحابہؓمیں داخل کردے لیکن اس کیلئے شرط یہ ہے کہ تم خودی اور خودپسندی، سُستی ،غفلت اور دین سے بے اعتنائی ترک کردو۔ اس لئے جو لوگ روحانی طور پر ترقی کرنا چاہتے ہیں ان کیلئے ضروری ہے کہ جہاں تک ہوسکے جلسہ کی کارروائی کو دیکھیں اور دوسرے اوقات بھی باہم واقفیت بڑھانے اور محبت و اخوت پیدا کرنے میں صَرف کریں اور ذکرالٰہی بہت کریں کیونکہ یہ دن میلے کے نہیں بلکہ خصوصیت سے خشیتِ الٰہی کے ہیں۔ یہ تین دن اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کردو جو شخص تین دن بھی خدا کیلئے وقف نہیںکرسکتا اس سے یہ کس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ ساری عمر کیلئے اسے بلائے تو وہ لبیک کہے گا۔
پس اِن ایام میں یہ عہد کرلو کہ انہیں تقویٰ اور خشیت کے حصول کی کوشش، ذکر الٰہی اور دینی باتیں سننے اور اخوت ومحبت کے بڑھانے میں صَرف کرو گے اور ان ایام کو آوارہ پھرنے ، دُکانوں پر گپیں ہانکنے، بازاروں میں فضول باتیں کرنے اور فساد و جھگڑے میں ضائع نہیں کرو گے۔ جو دوست ابھی نہیں آئے جو آئے ہوئے ہیں وہ اُن تک بھی میرا یہ پیغام پہنچادیں تا وہ بھی زیادہ سے زیادہ برکت حاصل کرسکیں۔
اس کے بعد میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں لیکن اس لئے نہیں کہ یہاں کے کام کرنے والوں کیلئے سہولت پیدا ہو بلکہ آپ لوگوں کے فائدہ کیلئے اور وہ یہ ہے کہ اتنے بڑے ہجوم میں غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں دوستوں کوچاہئے کہ پیار اور محبت سے کام لیں اور یہ خیال کرلیں کہ جتنی تکلیف انہیں پہنچے گی اتنا ہی ثواب انہیں حاصل ہوگا۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ ذمہ وار افسروں کوتوجہ نہ دلائیں اس کے تو یہ معنے ہوں گے کہ نقص دور نہیں ہوسکے گا اور انتظامات میں اصلاح نہ ہوسکے گی۔ نقص کی افسروں تک اطلاع ضرور پہنچائیں لیکن اپنے دلوں میں ملال نہ پیدا ہونے دیں۔ جہاں غفلت اور سُستی کا دور کرانا ایک سچے اور مخلص مؤمن کا فرض ہے وہاں اس کا یہ بھی فرض ہے کہ اپنی اصلاح کا بھی خیال رکھے اور اس کا طریق یہی ہے کہ دل میں میل نہ آنے دے بلکہ خیال کرے کہ یہ تکلیف بھی میرے لئے ثواب کا موجب ہوگی۔ اس کی شکایت شکایت کیلئے نہیں بلکہ اس لئے ہو کہ نقص دور ہوکر سلسلہ کے کاموں میں ترقی ہو۔
کام کرنے والوں سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ تین بلکہ چار پانچ دن خاص ہیں جن میں وہ برکتیں حاصل کرسکتے ہیں۔ سینکڑوں راتیں ان پر ایسی آئی ہوں گی کہ وہ غفلت کی نیند سوئے ہوں گے او رکئی ایسی بھی آئی ہوں گی کہ صبح اُٹھ کر فجر کی نماز مشکل سے اد اکی اور سورج نکل آیا وہ غفلت کی راتیں ایک تاریک چادر بن کر ان کے گرد چھاگئیں اور قُربِ الٰہی کے حصول میں رکاوٹ بن گئیں۔ اب اگر وہ چار پانچ راتیں ہوشیاری اور بیداری میں صرف کریں تو خداتعالیٰ کے فضل سے یہ ظلمت کی چادر پھٹ سکتی ہے اور ایسا نور پیدا ہوسکتا ہے جو ان کو روحانی رستہ دکھانے میں مدد دے سکتا ہے۔
پس یہ مت خیال کرو کہ تم خدمت کرتے ہو یہ خداتعالیٰ کا تم پر فضل ہے کہ وہ ان مہمانوں کو یہاں لایا اور تم کو خدمت کا موقع دیا۔ اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ تم لوگوں کی خدمت کرتے ہو تو تم مشرک، منافق اورجاہل ہو۔ یہ ان لوگوں کی خدمت نہیں بلکہ اُس خدا کی خدمت ہے جس نے یہ دن مقرر کئے ہیں اور جس نے اپنے دین کے اعلاء کیلئے اپنے بندوں کو یہاں جمع ہونے کا حکم دیا ہے۔ جب آقا کے گھر میں مہمان آیا ہؤا ہو تو اس کے آگے کھانا رکھنے والا خادم یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے مہمان کی خدمت کی ہے وہ مہمان کی نہیں بلکہ اپنے آقا کی خدمت کرتا ہے۔ پس آنے والے خدا کے مہمان او رتم خدا کے خادم ہو اگر تم اِن مہمانوں کی خدمت کرتے ہو تو ان پر کوئی احسان نہیں کرتے۔ یاد رکھو کہ یہ خدا کے مہمان ہیں ان کی ذرا سی دل شِکنی اور ہتک خداتعالیٰ کی دل شِکنی اور ہتک ہے۔
پس ہوشیار ہوجائو کہ تم عظیم الشان امتحان میں بٹھائے گئے ہو اور آئندہ آنے والے چار پانچ دن فیصلہ کریں گے کہ تم کامیاب ہوتے ہو یا نہیں۔ دنیا کے امتحانوں میں کامیاب ہونے والے لوگ انعامات حاصل کرتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کے پیش کردہ سوالوں میں کامیابی حاصل کرکے جو انعامات حاصل ہوسکتے ہیں بندہ ان کا اندازہ بھی نہیں کرسکتا اور ناکامی کی صورت میں جو سزا ملتی ہے دُنیوی امتحانوں میں ناکامی کی سزا اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہوتی۔ پس کوشش کرو اور دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو بھی اور باہر سے آنے والوں کو بھی امتحان میں کامیاب کرے۔ ہم سب کمزور ہیں ایک ہمارا خدا ہی ہے جو سب نقائص سے پاک ہے۔ آئو ہم اس کے سامنے جھک جائیں اور اس سے عاجزانہ درخواست کریں کہ اے خدا ئے قدوس! اپنے عاجز بندوں پر نظر کر، ہمیںپاک کر اور اس امتحان میں کامیاب کر کہ ناکامی کی سزا کی برداشت کی طاقت ہم میں نہیں اور تیرے انعام سے ہم کبھی مستغنی نہیں ہوسکتے۔ میں امید کرتا ہوں کہ موجودہ دوست بعد میں آنے والوں کو میری یہ نصیحت پہنچادیں گے کہ ان اوقات کوخداتعالیٰ کے منشاء کے ماتحت خرچ کریں کیونکہ جونیک بات دوسرے تک پہنچاتا ہے وہ دوہرے ثواب کامستحق ہوتا ہے اور جب سننے والااس پر عمل کرتا ہے تو اسے تیسرا ثواب ملتاہے۔ ہمارے ربّ نے ثواب کی راہیں ہمارے لئے آسان کردی ہیں بشرطیکہ سمجھنے والا سمجھے او ردیکھنے والا دیکھے۔
(الفضل ۱۶؍ جنوری ۱۹۳۷ئ)
؎۱ تفرّج: سیر، تماشا، تفریح
؎۲ مسلم کتاب الجھاد باب غزوۃ حنین
؎۳ سیرت ابن ہشام جلد ۴ صفحہ ۸۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
 
Top