• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 17

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 17


۱
سالِ نو کا پروگرام
(فرمودہ ۳؍جنوری۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
مجھے ابھی تک گلے کی تکلیف سے آرام حاصل نہیںہؤا اور آج سر میں درد بھی ہے اس لئے کوئی لمبا خطبہ بیان نہیں کر سکتا اختصاراً بعض باتیں بیان کردیتا ہوں۔سب سے پہلے یہ اعلان کرتا ہوں کہ چونکہ جلسہ کا کام اور رمضان ختم ہوچکا ہے اس لئے اِس ہفتہ سے اتوار کے روز سے حسبِ معمول درس شروع ہوجائے گا۔ہفتہ کے روز مستورات کا درس ہوتا ہے، مردوں کا نہیں ہوتا۔ پس اتوار سے مردوں کادرس شروع کیا جائے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہاںبعض دفعہ مبلّغوں کے آنے جانے پر پارٹیاں ہوتی ہیں۔ میں نے بہت دفعہ دیکھا ہے کہ منتظمین غلطیاں کرتے ہیں۔ کئی دفعہ اصلاح کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے مگر پھر وہی غلطیاں ہوتی ہیں۔ اِس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ غلطی کے بعد وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ ہم کو سزا نہ ملے او رچونکہ وہ سزا سے بچ جاتے ہیں اِس لئے پھر اُسی غلطی کے کرنے میں انہیں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ سزا انسانی ترقی کیلئے ضروری ہوتی ہے اس لئے جب غلطی ہو تو انسان کو اس کا خمیاز ہ بھُگتنے کیلئے خود کو تیار کرنا چاہئے۔ جب تک یہ روح پیدا نہ ہو غلطیوں کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ ایسے مواقع پر منتظمین بعض ایسی حرکات کرتے ہیں جو دنیا کے عام مروّجہ طریق کے لحاظ سے بھی نہایت ناپسندیدہ اور ناشائستہ ہوتی ہیں۔ مثلاً آج ہی ایک واقعہ ہؤا ہے۔ بعض مبلّغین کے جانے پر مدارس کے طلباء نے ایک پارٹی کا انتظام کیا۔ ایسی پارٹیوں کو میں نہ صرف یہ کہ ناپسندیدہ نہیں سمجھتا بلکہ جماعت کے اندر قربانی اوراِس کی قدر کاجذبہ پیدا کرنے کیلئے اِن کو مفید سمجھتاہوں لیکن ہر چیز خواہ کتنی مفید کیوں نہ ہو اُس کیلئے بعض قواعد ہوتے ہیں جن کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔ اِس پارٹی کے متعلق جب مجھ سے دریافت کیا گیا تو منتظمین کی سہولت کومدّنظر رکھتے ہوئے میں نے کہہ دیا کہ تین جنوری کو صبح یا شام جو وقت بھی مقرر ہوجائے میں آجائوں گا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ صبح کی یا شام کی میں قید نہیں لگاتا جس وقت بھی سہولت ہو کرلی جائے۔ لیکن اِس کا یہ مطلب کوئی عقلمند بھی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ میں اُس دن صبح سے شام تک تمام کام چھوڑ کربیٹھا رہوں گا کہ وہ جب چاہیں بُلالیں۔ منتظمین کیلئے مناسب تھا کہ وہ صبح کا یا شام کا کوئی وقت مقرر کرکے مجھے اطلاع دے دیتے۔ یہ گفتگو یکم کو ہوئی تھی اور اِس کا جواب مجھے اگر دیر سے بھی ملتا تو دو کی صبح کو مل جاناچاہئے تھا۔ دو تاریخ کو جلسہ کے انتظام کے متعلق رپورٹیں وغیرہ پڑھنے کیلئے مردوں کااجتماع ہؤا اور اُس دن چونکہ سیّد ناصر شاہ صاحب کی وفات ہوگئی اِس لئے دوسرا یعنی عورتو ں کا اجلاس نہ ہوسکا اور زنانہ انتظام کے متعلق رپورٹوں وغیرہ کا پڑھا جانا ملتوی کردیاگیا۔ اس کے متعلق اُنہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا کَل دس بجے اس کیلئے پروگرام رکھ لیاجائے؟ چونکہ اُس وقت تک اس پارٹی کے متعلق مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی تھی اور میں اس کے انتظار میں تمام دن فارغ بھی نہیں بیٹھ سکتا تھا اس لئے میں نے انہیں اجازت دے دی کہ کَل دس بجے کا وقت رکھ لو۔ لیکن آج ساڑھے نو بجے کے قریب پارٹی والوں کا آدمی آیا کہ چلیے پارٹی میں۔ میں نے کہا کہ مجھے تو اِس کی کوئی اطلاع نہیں۔ تو اُس نے جواب دیا کہ آپ نے جو کہا تھا کہ خواہ صبح رکھ لو خواہ شام، میں آجائوں گا۔ اب یہ تو صحیح ہے کہ میں نے یہ کہا تھا لیکن وقت مقرر کرکے مجھے اِس کی اطلاع دی جانی چاہئے تھی تاکہ میں باقی وقت کام پرلگا سکتا۔ یہ کسی طرح بھی ممکن نہ تھا کہ میں صبح اُٹھتے ہی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہتا کہ کوئی آدمی آئے گا کہ چل کرچائے پیئو اور میں اُس کے ساتھ اُٹھ کر چل پڑوں گا۔ میرے کام میں تو اگر ایک دن کا بھی ناغہ ہوجائے تو کئی کئی دن تک اس کا خمیازہ بھُگتنا پڑتا ہے اور اتنا کام ہوتا ہے کہ روزانہ ۱۴،۱۵ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ پس یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ وہ جب چاہیں مجھے بُلالیں۔ میرے پاس جو آدمی آیا میں نے اُسے یہ جواب دیا کہ ساڑھے نو بجے آپ آئے ہیں دس بجے ان کا وقت ہے اس لئے میں آپ لوگوں کو صرف ۲۵منٹ دے سکتا ہوں۔ یہ جواب لے کر وہ گیا اور پچیس منٹ کے بعد پھر آیا کہ ہم نے زنانہ جلسہ کی منتظمات سے فیصلہ کرلیا ہے وہ اپنے وقت میں سے پچیس منٹ ہم کو دیتی ہیں۔ میں نے کہا ان کا کوئی اختیار نہیں کہ میرا پروگرام تجویز کریں۔ اب صرف پانچ منٹ باقی رہ گئے ہیں اگر چاہو تو یہ ہوسکتا ہے کہ میں جائوں اور دعا کرکے آجائوں ۔ یہ جواب لے کر وہ پھر چلا گیا اور پھر واپس آکر کہا کہ اچھا ہم شام کو پارٹی کرلیں گے۔
اب کوئی شخص اِس بات کو معقول نہیں قرار دے سکتا کہ ڈیڑھ سَو آدمی کو ڈیڑھ دو گھنٹہ بٹھانے کے بعد یہ کہہ دیا جائے کہ صاحبان! آپ لوگ شام کو تشریف لائیں اور اب چلے جائیں۔ پہلی غلطی کے بعد منتظمین کو چاہئے تھا کہ اِس کا خمیازہ خود بھُگتتے اور یا تو سارا پروگرام اور ایڈریس وغیرہ منسوخ کرکے مجھے لے جاتے کہ اصل چیز دعا ہی ہے دعا کروالیتے اور یا عقل سے کام لیتے اور ان مہمانوں سے کہہ دیتے کہ ہم سے غلطی ہوئی۔ ہمیں بڑی خوشی ہوتی اگر خلیفۃ المسیح شریک ہوسکتے مگر چونکہ ہماری غلطی کی وجہ سے وہ نہیں آسکے اس لئے آیئے ہم خود ہی ایڈریس وغیرہ پڑھ کر چائے وغیرہ پی لیتے ہیں۔ یہ کوئی جہاد تو نہیں تھا کہ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ ؎ ۱ کے ماتحت امام کے بغیر نہ ہوسکتا۔ چائے بغیر امام کے بھی پی جاسکتی ہے ایک ادنیٰ سی بات کیلئے اتنے لوگوں کا اِس قدر وقت ضائع کرنا بالکل نامناسب تھا بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ اُن لوگوں کا بھی فرض تھا کہ جب دس بجتے وہ کہہ دیتے کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اب ہم جاتے ہیں تا آئندہ کے لئے اصلاح ہوتی لیکن منتظمین نے کوشش یہ کی کہ ان کی غلطی کا خمیازہ دوسرا بھُگتے اورقِسم قِسم کی باتوں سے بات کو طُول دیا۔ مثلاً یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم نے فوٹو اُتروانا تھا ،یہ کرنا تھا وہ کرنا تھا، حالانکہ یہ بچوں کی سی باتیں تھیں۔ اگر وہ چاہتے تو ۲۵ منٹ میں دعا بخوبی ہوسکتی تھی۔ وہ ایڈریس اور فوٹو وغیرہ سب باتوں کومنسوخ کردیتے اور کہہ دیتے کہ چائے پی کر دعا کرلی جائے۔ یا اگر ان کویہ پسند نہ تھا تو پھر ان ڈیڑھ سَو لوگوں کا وقت ضائع نہ کرتے اور میری شمولیت کے بغیر پروگرام کے مطابق کارروائی کرلیتے لیکن انہوں نے ان دونوں میں سے کوئی بات بھی نہ کی۔ پونے دس بجے ان کا آدمی آیا اور سَوا گیارہ بجے تک یہ بحث جاری رہی اور اِس طرح ڈیڑھ گھنٹہ تک ڈیڑھ سَو لوگوں کو وہاں بٹھائے رکھا گیا حالانکہ جمعہ کا دن تھا لوگوں نے نہانا دھونا بھی تھا پھر چھُٹی کے دن عزیز و اقارب سے ملناجُلنا بھی ہوتا ہے اِس کا ذکر میں نے خطبہ میں اس لئے کردیا ہے کہ تا آئندہ اصلاح ہو۔
اس میں شبہ نہیں کہ اصرار بھی محبت پر دلالت کرتا ہے لیکن محبت میں معقولیت ہونی ضروری ہے۔ صحابہ کو رسول کریم ﷺ سے عشق تھا لیکن اگر وہ آپ کو پکڑ لیتے کہ گھر میں نہیں جانے دیں گے آپ گھر جاتے ہیں تو ہمیں تکلیف ہوتی ہے تو یہ اُن کا عشق تو کہلاتا مگر غیرمعقول ۔ تو محبت کو ایک حد تک ظاہر کرنا چاہئے اور پھر اپنی غلطی کی وجہ سے اسے دل میں رکھ کر احساسات کے صدمہ کو برداشت کرناچاہئے اور سزا بھُگتنی چاہئے۔ اگر آج میں چلا جاتا تو آئندہ بھی اسی طرح ہوتا اس لئے میں ایک نصیحت تو یہ کرتا ہوںکہ ایسے امور میں عقل سے کام لینا چاہئے۔ میری رائے یہی ہے کہ بہت سے جرائم معاف کئے جاسکتے ہیں مگر بیوقوفی کا جُرم معاف نہیں کیا جاسکتا۔ میری تو سمجھ میں بھی یہ نہیں آتا کہ انسان غلطی کے باوجود یہ سمجھے کہ نتیجہ ٹھیک نکلے گا اور کہ میں اِس کی سزا سے بچ جائوں۔ شاید سزا کے لفظ سے بعض لوگوں نے بید کی بدنی سزا سمجھ لی ہے حالانکہ سزا صرف یہی نہیں بلکہ جذبات اور احساسات کی سزا بھی سزا ہی ہے۔ یہ بھی سزا تھی کہ میری شرکت کے بغیر ہی وہ پارٹی کرلیتے یا ایڈریس وغیرہ پروگرام منسوخ کردیتے یہ جذبات اور احساسات کی سزا تھی۔ غلطی کے باوجود سزا سے بچنے کی کوشش کرنا انسان کو اخلاقی معیار سے نیچے گِرادیتا ہے اور غلطی سے بچنے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ انسان اگر غلطی کرے تو اس کی سزا بھی بھُگتے خواہ وہ سزا مادی ہو یا جذباتی۔
اِس کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ چونکہ نیا سال شروع ہؤا ہے اور اِس کا یہ پہلا جمعہ ہے اس لئے میں پھر بعض باتوں کودُہرادیتا ہوں جومیرے نزدیک اہم اور ضروری ہیں۔ اوّل تو یہ کوئی میرا پروگرام خواہ وہ ایک سال میں پورا ہو خواہ چار پانچ سال میں، یہ ہے کہ کوئی ملک دنیا کا ایسا نہ ہو جس میں تابعی یعنی ایسے لوگ موجود نہ ہوں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کو دیکھاہے۔ اِ س وقت دنیا کے قریباً ایک ہزار ممالک ہوں گے اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام پہنچادیں۔ ملک کی تشریح مَیں حکومتوں کے لحاظ سے نہیں بلکہ زبان کے لحاظ سے کرتا ہوں اور مختلف زبانوں کے لحاظ سے اِس وقت شاید ایک ہزار سے بھی زیادہ ممالک ہوں گے اور ان میں سے صرف ساٹھ ستّر ہی ہیں جن تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمدکی خبر پہنچی ہو۔ باقی ۹۰۰سے زیادہ ابھی تک ایسے ہیں جن تک ابھی یہ خبر نہیں پہنچی بلکہ کافی حصہ ان میں ایسے ممالک کا بھی ہے جن میں اسلام کا نام تو ممکن ہے پہنچ چکا ہو مگر تعلیم نہیں پہنچی۔ اور میرا پروگرام یہ ہے کہ ہم کوشش کریں کہ ان ممالک میں تابعی پیدا کرسکیں۔ وہ وقت تو گزرگیا جب ہم ساری دنیا کو صحابی بناسکتے تھے مگر تابعی بناسکنے کیلئے ابھی وقت ہے۔ صحابہ نے بیسیوں ممالک میں تابعی بنادیئے تھے اور زبان کے لحاظ سے اگر ممالک کی تقسیم کی جائے تو سینکڑوں ممالک میں بنادیئے تھے۔ صحابہ کے زمانہ میں ریل، تار، ڈاک وغیرہ کی سہولتیں نہ تھیں اور ان کے نہ ہونے کے باوجود جب صحابہ نے اتنا کام کیا تو کوئی وجہ نہیں کہ ان سہولتوں کی موجودگی کے باوجود ہم ان سے زیادہ کام نہ کریں۔ قربانی کی قیمت کا اندازہ رستہ کی رکاوٹوں سے کیا جاسکتا ہے۔ اگر صحابہ نے دو سَو ممالک میں تابعی بنائے تو ہم بھی دوسَو ممالک میں تابعی بنا کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے برابر ہم نے کام کیا ہے اس لئے جب تک ان سے کئی گُنا زیادہ کام نہ کریں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے ان کی مشابہت حاصل کرلی۔
پس ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہر ملک میں تابعی پیدا کردیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کو ان تک پہنچادیں یا ان کو یہاں بُلالیں۔ اور اگر ہم یہ کرسکیں تویہ کام اتنا شاندار ہوگا کہ کسی نبی کے زمانہ میں اِس کی مثال نہ مل سکے گی۔ کیونکہ کوئی نبی یا مأمور آج تک ایسا نہیں گزرا جس کے تابعی تمام دنیا میں تھے۔ یہ ایک ایسی عجیب بات ہے کہ اِس کے تصوّر سے ہی میرا دل مسرت سے بھر جاتا ہے اور بجلی کی رَو کی طرف مسرت کی لہر تمام جسم میں دَوڑ جاتی ہے۔ حضرت مسیح ناصریؑ کے صحابہ شام سے چلے او رکشمیر یا مدراس تک پہنچے تھے اور اُن کا یہ کام اُس زمانہ کے لحاظ سے بہت تھا مگر پھر بھی یہ کچھ نہ تھا۔ ہم گو یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ حضرت مسیح ناصری کے پیروئوں نے تابعی بنائے یا نہیں لیکن بہرحال اُنہوں نے روم سے لے کر کشمیر تک آ پ کا پیغام ضرور پہنچادیاتھا اور باوجود اُن دقّتوں کے پہنچا دیا تھا جو اُس زمانہ میں سفر کے رستہ میں تھیں۔ لیکن ہمیں اس زمانہ میں جو سہولتیں حاصل ہیں وہ اِس امر کی مقتضی ہیں کہ ہم ان سے بہت زیادہ کام کریں۔
پس ایک تو دوست دَورانِ سال اِس امر کو مدّنظر رکھیں، اس کیلئے اپنے آپ کو وقف کریں اور چندہ تحریک جدید پر زور دیں۔ گو نقد اور وعدوں کے لحاظ سے تو اِس وقت تک یہ چندہ گزشتہ سال کی نسبت زیادہ ہے مگر اِس لحاظ سے کمی ہے کہ گزشتہ سال اِس وقت تک جتنی جماعتیں اس میں حصہ لے چکی تھیں اُتنی جماعتوں نے اِس سال نہیں لیا۔ معلوم نہیں یہ ان کے عہدیداروں کی سُستی یا غفلت کی وجہ سے ہے یا کسی اور وجہ سے۔ جس تاریخ تک گزشتہ سال ساٹھ ہزار روپیہ بصورت نقد و وعدوں کے آیا تھا اِس سال اسی تاریخ تک اسّی ہزار آیا ہے اور بعض وعدے مجمل ہیں ان کو ملا کر پچاسی ہزار کے قریب رقم ہوجاتی ہے مگر حصہ لینے والی جماعتوں کی تعداد کے لحاظ سے اِس سال کمی ہے۔پس دوست اِس طرف بھی توجہ کریں اور زندگیاں وقف کرنے کی طرف بھی۔ اورکوشش کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی تشریح کے ساتھ اسلام کی تعلیم کو ساری دنیا میں پہنچادیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ میں نے ہندوستان میںتبلیغ کی جو سکیم بنائی ہے اور جس کے ماتحت دوستوں کو ایک ایک،دو دو یا تین تین ماہ وقف کرنے کی تحریک کی ہے اِس پر زور دیا جائے۔ہر جماعت اپنے ہاںجلسہ کرکے ان لوگوں کی ایک لِسٹ مجھے بھجوائے جس میں درج ہو کہ کون کون دوست کتنے کتنے عرصہ کیلئے اور کِن مہینوں میں اِس میں حصہ لینے کیلئے تیار ہیں۔ پچھلے سال کی طرح ایسی اطلاع بھجوانا افراد کے ذمہ نہ سمجھا جائے بلکہ ہر جماعت اس کی فہرست مجھے بھجوائے جس طرح چندہ کی لِسٹیں بھیجی جاتی ہیں۔
احمدیت اِس وقت صحیح اسلام ہے اور اس لحاظ سے قادیان اسلام کی اشاعت کا مرکز ہے جو مکّہ اور مدینہ کے تابع ہے۔ پس اسلامی اشاعت کے اِس مرکز کے اِردگِرد احمدیت کی ترقی ضروری ہے اور ساری جماعت کے افراد کو بعینہٖ اسی طرح جس طرح تنور میں ایندھن جھونکا جاتا ہے اس میں حصہ لینا چاہئے۔ دنیا میں سے ہندوستان، ہندوستا ن میں سے پنجاب اور پنجاب میں سے ضلع گورداسپور میں احمدیت کی ترقی اور مضبوطی نہایت ضروری ہے اور پھر ضلع گورداسپور کے اِردگِرد ضلع ہوشیارپور، امرتسر، سیالکوٹ اور جالندھر کے اضلاع میں احمدیت کو مضبوط کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے مَیں امید کرتا ہوں کہ قادیان کی جماعت بھی محلہ وار اور باہر کی جماعتیں بھی اِس قسم کی فہرستیں جلد ازجلد مجھے بھجوادیں گی۔ یہ لِسٹیں مجھے زیادہ سے زیادہ یکم اپریل تک مل جانی چاہئیں۔ ہاں جو دوست انفرادی طور پر اپنے نام دینا چاہیں وہ جلد بھیج دیں کیونکہ نیکی کی تحریک ہونے پر اِس میں دیر نہیں کرنی چاہئے باقی جماعتیں یکم اپریل تک ایسی فہرستیں بھجوادیں۔
یہ دو تومذہبی باتیں ہیں اِس کے علاوہ ایک اقتصادی بات ہے۔ جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں اِس سال کیلئے ایک پروگرام بیکاری کے دُور کرنے کیلئے بھی میرے مدّنظر ہے۔ اس کے متعلق بہت سے مشورے حاصل ہوچکے ہیں اور سب سے پہلے اس کے ماتحت قادیان میں کام شروع کیا جائے گا جو امید ہے کہ جنوری کے آخر یا فروری تک ہوجائے گا۔ اس کے متعلق اور بھی جو دوست مشورے بھیج سکیں وہ جلد بھیج دیں اور جہاں کی جماعتیں اپنے طور پر کوئی ایسے کام جاری کرسکتی ہوں وہ کردیں۔
اس کے ساتھ ہی تمدّنی لحاظ سے ایک اور بات بھی ہے جو زیادہ تر قادیان کے لوگوں سے تعلق رکھتی ہے اگرچہ باہر کے لوگوں کیلئے بھی ہے اور وہ یہ کہ یہاں جو لوگ باہر سے آتے ہیں اُن کو بِالخصوص عورتوں اور بیماروں کو سڑکوں کی خرابی کی وجہ سے محلوں تک پہنچنے میں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اب کے بعض لوگوں نے تجویز کی ہے کہ اگر دو ہزار روپیہ ہو تو اسٹیشن سے محلہ تک پختہ سڑک بن سکتی ہے اس کیلئے بھی طَوعی طور پر جو دوست ایک آنہ ، دو آنہ، روپیہ، دوروپیہ یا پیسہ ، دو پیسہ ہی یکدم یا ماہوار دے سکتے ہوں دیتے رہیں تو اگلے سالانہ جلسہ تک یہ سڑک بن سکتی ہے اس طرح مسافروں کیلئے بہت سہولت ہوجائے گی اور محلہ تک پہنچنے میں آسانی ہوگی۔ اس کے بعد پھر تھوڑا سا فاصلہ گھروں تک پہنچنے کا رہ جائے گا جو اللہ تعالیٰ جب چاہے گا بعد میں بن جائے گا۔
اس کے بعد میں اس امرکا ذکر کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ گزشتہ سال ہمارے بعض اختلافات حکومت اور احرار دونوں سے ہوگئے تھے جن کے متعلق مَیں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ وہ اب تک قائم ہیں اور احرار سے اُس وقت تک قائم رہیں گے جب تک وہ اپنی غلطی کو تسلیم نہ کریں اور یہ مان نہ لیں کہ جتھے بنا کر اقلیتوں کو ڈرانا اور مرعوب کرنا غلط طریق ہے۔ جب تک وہ ایسا نہ کریں جماعت کا فرض ہے کہ ہر جائز ذریعہ سے ان کا مقابلہ کریں اور ان کی مذہبی، اقتصادی اور سیاسی طاقت کو توڑیں۔ میں جماعت کے تمام افراد کو توجہ دلاتا ہوںکہ اللہ تعالیٰ نے کامیابی کا اصول یہ مقرر کیا ہے کہ سب جماعت اپنی توجہ کو اس کام کی طرف پھیر دے جس کا وہ ذمہ اُٹھائے۔ چنانچہ فتح مکہ کی طرف اشارہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جہاں بھی ہو اور جِدھر سے بھی نکلو تمہاری توجہ مکہ کی طرف ہونی چاہئے ؎ ۲ ۔ پس اِس قاعدہ کے ماتحت تم کو بھی چاہئے کہ اِس امر کا خیال رکھو کہ اِن سلسلہ کے دشمنوں، ملک کے دشمنوں اور امن کے دشمنوں کی طاقت کو توڑا جائے۔ دعائوں کے ذریعہ سے بھی، لوگوں پران کی حقیقت کا انکشاف کرکے بھی اور ان کے مخالفوں سے تعاون کرکے بھی۔ غرضیکہ جن ذرائع سے بھی ہوسکے ان کی طاقت کو توڑا جائے۔ باقی رہی حکومت، سو اس سے ہماری ایسی لڑائی تو نہ ہے اور نہ ہوسکتی ہے جیسی کانگرس کرتی ہے اور ہم مذہبی لحاظ سے بھی پابند ہیں کہ جس حد تک جماعت کے وقار کیلئے مُضِرّ نہ ہو حکومت سے تعاون کریں۔ اس سے تعاون کی حد بندی تو ہوسکتی ہے مگر عدمِ تعاون کسی صورت میں نہیں ہوسکتا۔ اور تعاون کی حد بھی وہی ہے جو حکومت خود قائم کردے۔ پہلے بھی حکومت سے غلطیاں ہوتی رہی ہیں مگر پھر ازالہ کی کوشش بھی اس کی طرف سے ہوتی رہی ہے لیکن گزشتہ سال بعض افسروں نے بِالارادہ بعض ایسی حرکات کی ہیں کہ جو سلسلہ کے وقار کو سخت نقصان پہنچانے والی ہیں اور اس کے ہمارے پاس ایسے یقینی ثبو ت موجود ہیں کہ کسی کے کہنے سے بھی اس کو غلط نہیں سمجھ سکتے۔ ممکن ہے زید یا بکر کو اس سے تعلق نہ ہو، ممکن ہے پنجاب گورنمنٹ اِس سے بَری ہو یا ضلع کے بعض حُکام اِس سے بَری ہوں لیکن یہ کہ سب کے سب اس الزام سے بَری ہیںیہ ایسی بات ہے جسے نہ مَیں تسلیم کرنے کو تیار ہوں اور نہ کوئی عقلمند۔ ہمارے پاس ایسے یقینی ثبوت موجود ہیں کہ ان سے انکار کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کبوتر اپنی آنکھیں بند کرکے سمجھ لیتا ہے کہ اب بلی مجھ پر حملہ نہیں کرے گی۔ ہمارا اپنا طریق یہ ہے کہ اگر ہم سے غلطی ہوجائے تو ہم اس کا اعتراف کرلیتے ہیں اور ہمارے ریکارڈ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے کبھی اِس میں تأمّل نہیں کیا۔ حتّٰی کہ احرار کے خلاف بھی اگر کوئی غلط بات شائع ہوئی تو ہم نے اس کی تردید کردی اور ایسے ہی اخلاق کی ہم حکومت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرکے آئندہ کے لئے یقین دلائے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ حکومت کے بعض افسروں کی طرف سے جماعت کے اخلاق اور اس کی دیانت پر حملے کئے گئے ہیں اور حکومت نے اِس کی تردید نہیں کی اِس لئے فضا کی موجودہ خاموشی سے یہ مطلب ہرگز نہیں سمجھنا چاہئے کہ اِن سب باتوں کا تصفیہ ہوچکا ہے۔ ابھی تک کوئی تصفیہ نہیں ہؤا اور نہ ہی اُس وقت تک ہوسکتا ہے جب تک ایسی حرکات کرنے والوں کو سزائیں نہ دی جائیں۔ خواہ اِس پر سَوسال گزرجائیں، خواہ دو سَو سال۔ ہماری جماعت اخلاقی جماعت ہے اور اخلاقی لحاظ سے میں عفو کو ضروری سمجھتا ہوں اور شاید اسی خیال کے ماتحت ایسے افسروں میں سے ایک نے جس سے ہمیں بہت سی شکایات ہیں ایک شخص سے ذکر کیا ہے کہ وہ مذہبی لیڈر ہیںاور مجھے امید تھی کہ وہ ان باتوں کو بھُول جائیں گے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کا یہ مطالبہ جائز ہے اور اگر میں اسے پورا نہ کروں تو میں مجرم ہوں گا، خدا کے سامنے بھی اور بندوں کے سامنے بھی۔ لیکن عفو اور بیوقوفی کے مابَین ایک حدِّ فاصل ہے عفو کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص غلطی کرتا ہے اور پھر نادم ہے۔ یا پھر اس غلطی کا اثر افراد پر ہے مگر بعض غلطیوں کا اثر اقوام پر پڑتا ہے بلکہ آئندہ نسلوں پر بھی پڑتا ہے اور ایسے امور میں عفو سے کام لینا بیوقوفی اور حماقت ہوتی ہے۔ ہاں اگر ایسے لوگ معافی طلب کرتے اور ندامت کا اظہار کرتے تو ان کا یہ مطالبہ جائز ہوسکتا تھا اور ایسی صورت میں ہمارا طریق یہی ہے کہ اِس بات کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اِس کی تازہ مثال بھی موجود ہے۔ حکومتِ پنجاب سے ایک غلطی ہوئی اور اُس نے اِس کا اعتراف کرلیا۔ اس کے بعد ہم نے پھر کبھی اسے اِس رنگ میں نہیں دُہرایا اور نہ اب ہی میں اس کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ ہم نے حکومت کے اعتراف کو قبول کرلیا اور اِس بات کو دل سے نکال دیا۔ اب میں بھی اس کا ذکر اس رنگ میں نہیں کررہاہوں کہ ہمیں اس کے متعلق حکومت سے شکوہ ہے۔ ہاں باقی امور میں بھی ہم حکومت سے اسی شریفانہ طریق کی امید کرتے ہیں۔
اِس واقعہ کے بعد متواتر بعض افسروں نے ہم پر ظلم کیا ہے۔ جماعت پر یہ سراسر جھوٹا الزام لگایا گیا کہ اِس نے بعض جلسوں میںحکومت کے افسروں کو گالیاں دی اور حرامزادہ کہا حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہؤا۔ ہاں اگر کسی منافق سے خودبخود کہلوایا گیا ہو تو جماعت اِس کی ذمہ دار نہیں ہوسکتی اور جماعت کی طرف اِسے منسوب کرنے والا ظالم ہے۔ یہ جماعت پر اخلاقی حملہ ہے اور ایک مذہبی جماعت کیلئے نہایت اہم سوال ہے اور جب تک یہ الزام قائم ہے کہ ہم نے کسی کو حرامزادہ کہا یا ایسے شخص کی گالی کو پسند کرلیا ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے یہ الزام شائع کیا ہماری صلح ہرگز نہیں ہوسکتی۔
اِسی طرح جماعت پر یہ الزام لگایا کہ وہ حکومت سے بغاوت کے راستہ پرجارہی ہے حالانکہ حکومت سے وفاداری ہم پر احمدیت کی رو سے فرض ہے۔ اور اس الزام کے گویا یہ معنی ہیں کہ ہم احمدیت سے نکل گئے ہیں اور جب تک اِس الزام کی تردید نہیں کی جاتی ایسا کہنے والوں کے ساتھ سَوسال تک بھی ہماری صلح نہیں ہوسکتی۔ ہاں یہ میں کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارا یہ اختلاف حکومتِ پنجاب کے بعض افسروں سے ہے اسے دیکھ کر بعض انگریز دوستوں کو یہ شک گزراہے کہ شاید جماعت حکومتِ برطانیہ کی ہی مخالف ہوگئی ہے لیکن یہ خیال صحیح نہیں۔ اختلاف صرف حکومتِ پنجاب کے بعض افسروں سے ہے اور ان کے خلاف پروٹسٹ بغاوت نہیں کہلاسکتا۔ اور جو شخص اس پروٹسٹ کو بغاوت قرار دیتا ہے وہ دنیا میں غلامی پھیلانا چاہتا ہے اور جو حکومت ہم سے یہ امید رکھے کہ ہم اس کے غلام ہوکر رہیں گے وہ اسے کبھی پورا ہوتے نہیں دیکھ سکے گی۔ ہم خدا کے غلام ہیں اور کسی انسان کی غلامی کبھی کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یہ کوئی مت خیال کرے کہ ہم تھوڑے ہیں اور کوئی حکومت ہمیں کُچل سکتی یا پراگندہ کرسکتی ہے۔ ہم بے شک تھوڑے ہیں اور کمزور ہیں مگر ہمارا تعلق اُس ہستی کے ساتھ ہے جس کے ہاتھ میں تمام بڑے بڑے اور طاقتور لوگوں کی گردنیں ہیں۔ پھر اگر مَیں اسلام کی اشاعت اور ترقی کو اپنی ذات سے وابستہ سمجھتا تو مجھے ڈر ہوسکتا تھا کہ حکومت مجھے پکڑ لے گی تو یہ کام کس طرح ہوگا؟ مگر جب میں جانتا ہوں کہ مَیں ایک کیڑے سے بھی حقیر تَر ہوں او رجو کچھ ہورہا ہے وہ خدا خود کررہاہے تو پھر مجھے کیا پرواہ ہوسکتی ہے۔ اگر میں نہ رہونگا تو وہ تار جو میرے اندر کام کررہی ہے کسی دوسرے کے ساتھ جا لگے گی۔ پس جب تک ان لوگوں کو جنہوں نے ہم پر ظلم کئے یا تو سزا نہیں دی جاتی یا وہ معافی نہیں مانگ لیتے ہماری حکومت سے صلح نہیں ہوسکتی اور میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ غافل جماعتوں کی طرح، ذلیل ہونے والی جماعتوں کی طرح اور تھوڑی دُور چل کر تھک کر بیٹھ جانے والی جماعتوں کی طرح اِس خاموشی سے یہ خیال نہ کرے کہ ان باتوں کا تصفیہ ہوچکا ہے اِن کا تصفیہ نہیں ہؤا اور جب بھی ایسا موقع آئے گا جب حکومت کو ہمارے تعاون کی ضرورت ہوگی اور مذہب ہمیں اختیار دیتا ہوگا کہ چاہے تعاون کریں چاہے نہ کریں ہم کہیں گے کہ ہم تعاون کرتے ہیں مگر پہلے تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا جائے اور ان الزامات کا فیصلہ کرایا جائے۔ یہ کوئی سیاسی سوال نہیں یہ حملہ مذہبی ہے اور ہمارے عقیدہ کے خلاف ہے۔ ہمیں افسروں کو گالیاں دینے والا اور بغاوت کرنے والا بتایا گیا ہے اور اِن باتوں سے ہمارا چِڑ نا بتاتا ہے کہ ان امور کے متعلق ہمارے احساسات نہایت شدید ہیں اور ہم اِن باتوں سے سخت بیزار ہیں او رہم پر یہ الزامات لگانے والوں کو خواہ وہ چھوٹے افسر ہوں خواہ بڑے خدا کے سامنے بھی اور انسانیت کے سامنے بھی جواب دینا پڑے گا۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے اِس حکومت کے سامنے اگر ہمارے پروٹسٹ کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو خدا کی طرف سے ضرور اِن کی گرفت ہوگی۔ زمین پر بھی اور آسمان پر بھی ان کیلئے سزا مقدر ہے جو ضرور مل کررہے گی۔ ہاں اگر شرفاء کی طرح وہ غلطی کا اعتراف کرلیں تو اور بات ہے۔
ان باتوں سے حکومت انکار کرتی ہے مگر یہ بالکل صحیح ہیں۔ ہمیں بعض ذمہ دار افسروں نے بتایا ہے کہ اِس قسم کے سرکلر آئے ہیں۔ یہ ہم مان سکتے ہیں کہ انکار کرنے والے واقعات سے ناواقف ہیں مگر یہ صحیح نہیں کہ وہ واقعات ہوئے ہی نہیں۔ اگر بعض افسر انکار کرتے ہیں تو ہم ان کو سچامان لیتے ہیں مگر یہی کہیں گے کہ ان کوواقعات کا علم نہیں لیکن یہ کہ ایسا ہؤا ہی نہیں ہم کبھی بھی ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ پس جب تک ان الزامات کی تردید نہیں ہوتی ایسے لوگوں سے ہماری صلح سَو سال تک بھی نہیں ہوسکتی۔ ایک مذہبی جماعت کس طرح اخلاقی اور مذہبی حملہ کی برداشت کرسکتی ہے۔ اگر حکومت نے ہماری زمینیں چھین لی ہوتیں یا کوئی اور ذاتی نقصان پہنچایا ہوتا تو ہم خاموش رہ سکتے تھے لیکن اِن باتوں کی موجودگی میں ہرگز چُپ نہیں رہ سکتے کیونکہ یہ جماعت کے اخلاق اور اس کی دیانت پر حملے ہیں۔ اسی طرح مسٹر کھوسلہ ؎ ۳ نے جو فیصلہ لکھا ہے اس کے متعلق ہائی کورٹ کے جج نے یہ لکھا ہے کہ اس میں بعض باتیں ایسی ہیں کہ جن پر میں اِس وجہ سے بحث نہیں کرسکتا کہ حکومت نے ملزم کی سزا میں اضافہ کیلئے اپیل نہیں کی۔ گویا ان کا ازالہ اِس وجہ سے نہیں ہوسکا کہ حکومت نے اس میں رُکاوٹ پیدا کردی اس لئے اِس کی ذمہ وار حکومت ہے اور اسی کا فرض ہے کہ اس کا ازالہ کرے۔ اسے چاہئے کہ یا تو ایک آزاد کمیشن بٹھا کر ان کا فیصلہ کرائے اور یا پھر ہم خود اِن کا ازالہ کریں گے۔ اور اس صورت میں اگر حکومت کی یا اس کے جج کی سُبکی ہو تو اس کی ذمہ داری بھی اسی پر ہوگی۔ ہائی کورٹ کے جج نے تسلیم کیا ہے کہ چونکہ سزا میں اضافہ کا سوال نہیں اِس لئے وہ بعض امور پر بحث نہیں کرسکتے گویا موجودہ صورت میں ہم پرجو بعض اعتراضات قائم ہیں وہ حکومت کے رویہ کی وجہ سے ہیں او رہمارا فرض ہے کہ ان کی تردید کریں۔ اور جیسا کہ ہمارا طریق ہے ہم اس کے متعلق لٹریچر شائع کریں گے اور اس سے اگر حکومت کی سُبکی ہو یا اسے بُرا لگے تو اس کی ذمہ داری اسی پر ہوگی۔ حکومت کے اپنے ریکارڈ اِس امر پر گواہ ہیں کہ یہ باتیں غلط ہیں اور ہم انہیں غلط ثابت کریں گے اور ان باتوں کوکبھی بھی چھوڑ نہیں سکتے۔ ہم اپنے مال، اپنی جانیں، اپنی اولادیں اور دیگر اشیاء کو حکومت کیلئے قربان کرسکتے ہیں مگر جہاں اسلام اور سلسلہ کی عزت کا سوال پید اہوگا ہم کسی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اس کے مقابلہ میں ہماری جانیں، ہماری عزتیں، ہمارے مال، ہمارا امن و سکون اور وطن کی محبت غرضیکہ کسی چیز کی بھی کوئی وقعت ہماری نظروں میں نہیں ہوگی اور ہم ہر چیز کو قربان کرکے سلسلہ کی عظمت کو قائم کریں گے۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہی غلط واقعات احرار برابر دُہراتے چلے جاتے ہیں او رحکومت خاموش ہے حالانکہ حکومت کے ریکارڈ سے ان کی تردید ہوتی ہے۔ پس یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود ہم اس لئے چُپ رہیں کہ حکومت خوش ہوجائے۔ جہاں خدا کی خوشی کے مقابلہ میں حکومت کی خوشی کا سوال آجائے گا ہم حکومت کی خوشی کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں کریں گے۔پس چونکہ آج نئے سال کا پہلا جمعہ ہے میں نے یہ بات واضح کردی ہے تا دوست موجودہ خاموشی سے یہ نہ سمجھ لیں کہ سب باتیں طے ہوگئی ہیں وہ نہ آج طے شُدہ ہیں اور نہ کَل ہوں گی اور اگر تم کسی وقت بھی ان کو طے شُدہ سمجھو گے تو بے غیرت ہوجائو گے اور میری تمہارے لئے اور اپنی اولاد کیلئے بھی یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بے غیرتی سے بچائے اور قربانیوں کی توفیق دے۔ میں تو یہ پسند کروں گا کہ میرا ایک ایک بچہ مرجائے اور مَیں بے نسل رہ جائوں بجائے اِس کے کہ سلسلہ کی عزت کے سوال کے موقع پر وہ بے غیرتی دکھائے۔
پس یہ خاموشی اور وقفہ تمہارے کام اور اغراض کو تمہاری نظروں سے اوجھل نہ کردے۔ خوب یاد رکھو کہ خداکے سلسلہ کی ہتک کی گئی ہے اور تمہارا فرض ہے کہ جان و مال اور عزت و آبرو سب کچھ قربان کرکے اسے قائم کرو اور میں مخلصینِ جماعت سے امید رکھتا ہوں کہ وہ ایسا ہی کریں گے مگر ان کا طریق وہ نہ ہوگا جو مذہب یا دیانت و امانت کے خلاف ہو۔ وہ فسا داور قانون شِکنی ہرگز نہیں کریں گے اور دونوں حدوں کو قائم رکھتے ہوئے اُس وقت تک کام کریں گے جب تک اس ہتک کا ازالہ نہیں ہوجاتا اور سلسلہ کی عزت قائم نہیں ہوجاتی۔ بے شک اللہ تعالیٰ کی نظروں میں اس کی عزت ہے لیکن ہمارا فرض ہے کہ دنیا کی نظروں میں بھی اس کی عزت قائم کریں ورنہ ہماری تبلیغ میں رُکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
(الفضل ۱۱؍جنوری ۱۹۳۶ئ)
؎۱ بخاری کتاب الجہاد والسیر باب یقاتل من وراء الامام و یتقی بہٖ۔
؎۲ وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَاکُنْتُمْ فَوَلُّوْا وَجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ (البقرۃ:۱۵۱)
؎۳ مسٹر جی ۔ ڈی کھوسلہ









۲
تحریک جدید کے مزیدمطالبات
(فرمودہ ۱۰؍جنوری۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں جلسہ سالانہ سے پہلے تحریک جدید کے متعلق بعض خطبات دے رہا تھا اور چونکہ ابھی اِس تحریک میں سے بعض باتیں باقی ہیں اس لئے ان کے متعلق مَیں آج پھر کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
یہ تحریک میں پہلے کرچکاہوں کہ نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں۔ اس غرض کیلئے کہ ان میں سے بعض کو انتخاب کرنے کے بعد باہر تبلیغ کیلئے بھیجا جائے مگر اس کے علاوہ میری تحریک کا ایک حصہ یہ تھا کہ ایسے بیکار لوگ جن کو اِس ملک میں کام نہیں ملتا اگر باہر چلے جائیں تو بیرونی ممالک میں اپنے لئے ترقی کا راستہ نکال سکتے اور سلسلہ کیلئے بھی مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ کہتے ہیں ’’ہم خرما و ہم ثواب‘‘ اسلام نے درحقیقت ملکوں کے فرق اور امتیاز کو ایسا مٹادیا ہے اور دنیا کو اس طرح ایک ہاتھ پر جمع کردیا ہے کہ ہمارے لئے مختلف ممالک کی حیثیت ہی کوئی باقی نہیں رہی اور ساری دنیا ہمارے لئے ایک مُلک کی طرح بن گئی ہے۔ چنانچہ رسول کریم افرماتے ہیں جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا ؎۱ ۔ ساری دنیا میرے لئے مسجد بنادی گئی ہے اِس کے یہ بھی معنی ہیں کہ اسلام میں گِرجوں او رمندروں کا طریق نہیں ہر جگہ انسان عبادت کرسکتاہے۔ مسجد صرف اجتماع کی جگہ ہے ورنہ مساجد عبادت کیلئے مخصوص نہیں اور یہ نہیں کہ مسجد سے باہر عبادت نہیں ہوسکتی جیسا کہ ہندوئوں اور عیسائیوں میں طریق ہے کہ ان کے نزدیک مندروں اور گِرجوں سے باہر عبادت نہیں ہوسکتی۔ اگر کسی جگہ مسجد نہ ہو اور کوئی مسلمان سفر کررہا ہو تو جس جگہ نماز کا وقت آجائے وہی جگہ مسجد اور وہی جگہ عبادت گاہ ہوجائے گی۔ مگر مسجد ایک خدا کا گھر بھی ہے جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ پس جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًاکے یہ معنے بھی ہیں کہ جس طرح سارے لوگ مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور وہاں چھوٹے بڑے ، امیر اور غریب کاکوئی امتیاز نہیں ہوتا اِسی طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہمارے لئے بھی مُلکوں کاکوئی امتیاز نہیں۔ جس طرح مسجد خدا کا گھر کہلاتی ہے اسی طرح ساری دنیا ہمارے خدا کا گھر ہے۔ پس یہ کہنا کہ یہ چینی ہے اوروہ جاپانی، یہ مشرقی ہے اور وہ مغربی ایک فضول بات ہے۔ جس طرح ایک مسجد میں بیٹھ کرکوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں مسجد کے شمالی کونے میں بیٹھا ہوں اور وہ جنوبی میں یافلاں مشرقی کونے میں ہے اورفلاں مغربی میں اس لئے میں اُس سے ممتاز ہوں بلکہ سارے ایک ہی مسجد میں سمجھے جاتے ہیں اسی طرح جب ساری دنیا مسجد ہے اور محمد ﷺ کے ذریعہ ساری دنیا ایک خداکا گھر بنادی گئی ہے تو اِس دنیا کے جس حصہ میں بھی کوئی انسان بیٹھا ہو وہ خدا کے گھر میںبیٹھا ہے۔ چنانچہ ہر مسلمان جانتا ہے بلکہ اب تو غیرمُسلم بھی جاننے لگ گئے ہیں کہ مسجد وہ مقام ہے جس میں چھوٹے اوربڑے کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔
میں نے مسجد ِکعبہ کے ایک سِرے پر ایک چھوٹی سی جگہ حُجرے کی شکل میں الگ بنی ہوئی دیکھی۔ اس کے متعلق جب مَیں نے دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ یہاں شرفاء بعض دفعہ نماز پڑھتے ہیں۔مکہ کے حاکم چونکہ شریف کہلاتے تھے اِس لئے شرفاء سے مکہ کے حکمران مراد تھے۔ میں نے کہا یہ الگ کیوں ہے؟ اُنہوں نے بتایا کہ شریف کو بعض دقتیں پیش آئی تھیں جس کی بناء پر یہ الگ انتظام کرنا پڑا۔ چنانچہ ایک دفعہ اُس نے کسی مسلمان سے کہا کہ تم یہاں سے پیچھے ہوکر کھڑے ہوجائو تو اس نے جواب دیا یہ شریف کا گھر نہیں بلکہ خدا کا گھر ہے اگر شریف کاگھر ہوتا تومیں چلا جاتا لیکن یہ خدا کا گھر ہے اور اس میں سے مجھے کوئی نکال نہیں سکتا۔ چنانچہ بادشاہ ہونے کے باوجود اسے اس کا حق تسلیم کرنا پڑا اور سیاسی احتیاطوں کیلئے اسے علیحدہ حُجرہ بنانا پڑا تاکہ اگر کسی وقت لوگوں سے الگ رہنے کی ضرورت ہو تو شریف یعنی مکہ کے حاکم اس میں نماز ادا کرسکیں ورنہ اصل مسجد میں وہ مجبور تھے کہ دوسروں کے ساتھ کھڑے ہوکر نمازپڑھتے ۔ اب جو موجودہ سلطان نجد ہیں وہ نماز سب لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوکر ہی پڑھتے ہیں۔ پس مسجد میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا اور نہ کوئی شخص خواہ کتنا بڑا ہو کسی اور شخص کو خواہ وہ کتنا چھوٹا ہو بیٹھے ہوئے ایک جگہ سے اُٹھا سکتا ہے سوائے قیامِ امن کی ضرورت کے ماتحت کہ وہ بالکل علیحدہ چیز ہیں۔ نماز کیلئے ہر شخص کا حق ہے کہ وہ جہاں چاہے مسجد میں نماز پڑھے۔ پس مسجد ایک ایسی چیز ہے کہ جس میں امیرغریب، چھوٹے اور بڑے کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ امیر اور غریب پہلو بہ پہلو کھڑے ہوتے ہیں اور ایک مزدور بادشاہ کے پہلو میں کھڑا ہوسکتا ہے اور بادشاہ کا حق نہیں کہ اسے روکے۔ تو جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًاتو درحقیقت آپ نے یہ بھی فرمادیا کہ تمام دنیا کے امتیازات میرے ذریعہ مٹادیئے گئے ہیں کیونکہ مسجد میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا اور نہ اس میں چھوٹے اوربڑے کاکوئی سوال ہوتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس میں کوئی قومی امتیاز نہیں اس کے مقابلہ میں عیسائیوں کو لو تو، ہندوئوں کو لو تو ان کے گِرجوں اورمندروں میں ہمیشہ امتیاز ہوتا۔ بلکہ گِرجوں میں تو جگہیں بھی مخصوص ہوتی ہیں جو بڑی بڑی رقمیں دیں ان کیلئے خاص کوچ (COACH) ہوتے ہیں۔ یہی حال منادر کاہے کہ ان میں بھی قومی امتیاز کاخیال رکھا جاتا ہے مگر اسلامی مسجد ان تمام پابندیوں سے آزاد ہے اورجس طرح لوگ آتے ہیں بیٹھتے چلے جاتے ہیں۔ اگر آگے جگہ خالی نہ ہو تو بعد میں آنے والا پیچھے بیٹھ جاتا ہے ورنہ چھوٹے بڑے کاکوئی امتیاز نہیں۔ پس بڑے اور چھوٹے ہونے کے لحاظ سے مساجد میں فرق نہیں کیا جاتا اورنہ مُلکی لحاظ سے مساجد میں فرق کیا جاتاہے۔ اور میں نے جب کہا ہے کہ مساجد میں نہ مُلکی لحاظ سے فرق کیا جاتا ہے اور نہ بڑے اور چھوٹے ہونے کے لحاظ سے تو درحقیقت میں نے اِس میں ایک استثنائی صورت رکھی ہے۔ مگر وہ استثنائی صورت ایسی نہیں جسے کوئی بھی عقلمند ناجائز قرار دے سکے اور وہ یہ کہ مسجد میں مثلاً ایک پاگل آجائے جس کی عادت یہ ہو کہ وہ لوگوں پرحملہ کردیتاہو تو ایسے شخص کو اگر پکڑ کر لوگ مسجد سے نکال دیں تو یہ جائز ہوگا اور یہ امتیاز نہ کہلائے گا کیونکہ اُس شخص کو مشرقی یا مغربی ہونے کے لحاظ سے مسجد سے نہیں نکالا جائے گا بلکہ ضرررساں اور نقصان دِہ ہونے کی وجہ سے مسجد سے نکالا جائے گا۔ یا اگر کوئی مسجد میں ایسا دشمن آجائے جس کے متعلق شبہ ہو کہ وہ کسی فتنہ اور فساد کی نیت سے آیا ہے تو اگر اسے نماز پڑھنے سے روک دیا جائے یابعض صفوں میں اسے بیٹھنے نہ دیا جائے تو یہ امتیاز کیلئے نہیں ہوگا بلکہ اس کی شرارت اور ایذاء سے بچنے کیلئے ہوگا اور شرارت کے روکنے اور امتیاز کو قائم کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ غرض ایک مجنون یا فسادی کو مسجد سے نکالاجاسکتا ہے یا اُس کی نشست پر قید لگائی جاسکتی ہے مگر اس لئے کسی کومسجد سے نہیں نکالاجاسکتا یا اس پر قید نہیں لگائی جاسکتی کہ وہ دوسروں سے کم مالدار ہے یا ادنیٰ قوم کا ہے یا مشرق کا ہے یا مغرب کا ہے کیونکہ یہ امتیا زہے اور امتیاز مساجدمیں روا نہیں چاہے کوئی ہو۔ بادشاہ ہوں یا فقیر، امیر ہوں یا غریب، چھوٹے ہوں یا بڑے سب ایک صف میں کھڑے ہوں گے، برابر کھڑے ہوں گے اور ان میں کوئی امتیاز نہیں ہوگا۔ تو رسول کریم ﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا سے امتیا زمشرق و مغرب اور امتیاز ادنیٰ و اعلیٰ مٹادیا۔ اورجب ساری دنیا ایک گھر بن گئی تو اب اِس میں کیا حرج ہے کہ کوئی دنیا کے ایک کونے میں رہے اور دوسرا دوسرے کونے میں۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی اسلام دنیا میںآیا سفروں کی مشکلات کا خیال تک لوگوں کے ذہن سے مِٹ گیا۔ جتنے بڑے بڑے مسلمان مصنف گزرے ہیں ان سب کی زندگیوں پر غور کرکے دیکھ لو تمہیں معلوم ہوگا کہ کوئی تیس سال سفرمیں رہا ہے، کوئی چالیس سال سفرمیں رہا ہے، کوئی پچاس سال سفر میں رہا ہے۔ چنانچہ اسی لئے اسلام کے ابتدائی دو سَو سال میں دنیا کے بہترین جغرافیے لکھے گئے ہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کی بعثت سے پچاس سال کے اندر اندر مسلمان دنیا میں پھیل گئے اور سَو سال کے اندر انہوں نے دنیا کے جغرافیوں کی بنیاد قائم کردی اور دو سَو سال کے اندر ایسے جغرافیے لکھے جن پر آج تک جغرافیوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے بلکہ ہندوستانیوں نے ہندوستان کا ایسا مکمل جغرافیہ نہیں بنایا تھا جو مسلمانوں نے پہلے دو سَوسال میں ہندوستان کا بنایا۔ ایرانیوں نے ایران کا ایسا مکمل جغرافیہ نہیں بنایا تھا جو عربوں نے ابتدائی دو سَو سال میں ایران کا بنایا۔ اسی طرح سیلون، سٹریٹ سیٹلمنٹس ؎۲ ، جاپان اور چائنا کے جو جغرافیے دنیا میں پائے جاتے ہیں یہ سب جغرافیے ابتدائی دو سَو سال کے عرصہ میں مسلمانوں نے بنائے تھے۔ ایسا کیوں ہؤا ؟اسی لئے کہ مسلمان کسی مُلکی پابندی کے قائل نہ تھے بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے ساری دنیا ایک گھر کی طرح بنادی ہے اور چونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ساری دنیا ہمارے لئے ایک گھر کی طرح بنادی گئی ہے اس لئے وہ نکل گئے اور دنیا میں پھیل گئے اور انہوں نے وہ خدمات سرانجام دیں جن پر آج تک فخر کیا جاتا ہے۔ اب وہی خزانہ جو صحابہؓ کو رسول کریم ﷺ سے ملا جماعت احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے توسّط سے پھر بطورِ ورثہ ملا ہے۔ دنیا کچھ باتیں بنائے، کوئی اعتراض کرے یہ حقیقت ہے کہ تمام دنیا تمہاری میراث ہے اور خداتعالیٰ نے تمہیں دی ہے۔ اب یہ تمہارا کام ہے کہ ان جائز ذرائع سے جو خداتعالیٰ نے مقرر کئے ہیں اسے حاصل کرو اور اس کے حاصل کرنے کا پہلا قدم یہی ہے کہ ہمارے نوجوان دنیا میں نکل جائیں، خود کمائیں او رکھائیں اور تبلیغِ احمدیت بھی کرتے پھریں۔
پس علاوہ اِس تحریک کے کہ مبلّغین کے طو رپر نوجوان اپنے آپ کو وقف کریں، پیشہ وروں کے طور پر بھی ہمارے نوجوانوں کوباہر نکلنا چاہئے اس میں ہزاروں بہتریاںہوسکتی ہیں۔ بسااوقات انسان ایک مُلک میں عزت نہیںپاتا مگر دوسرے مُلک میں عزت پاجاتا ہے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے نواب ایران اور افغانستان کے معمولی معمولی آدمی تھے جنہیں اپنے ملکوں میں عزت نہ ملی تو وہ ہندوستان آگئے اور یہاں آکر نواب بن گئے بلکہ اب تک ان کی نسلیں نوابی کررہی ہیں۔ وہ جو اپنے آپ کو اب بنی نوع انسان سے کچھ علیحدہ وجود سمجھتے ہیں خانہ بدوشوں کی طرح ایران اور عرب سے ہندوستان آئے یہاں آکر انہیںکوئی موقع مل گیا اور وہ بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ گئے۔ بنگال کے لوگوں کو انگریز فوج میں داخل نہیں کیا کرتے کیونکہ وہ بُزدل سمجھے جاتے ہیں لیکن سائوتھ امریکہ میں ایک بنگالی جرنیل ہے معلوم نہیں وہ اب زندہ ہے یا نہیں لیکن آج سے دس سال پہلے وہ زندہ تھا۔ پس یہاں تو بنگالی سپاہی کے طور بھی نہیں لئے جاتے لیکن جنوبی امریکہ میں پہنچ کر ایک بنگالی جرنیل بن گیا۔ میں اِس عام قاعدہ کو تسلیم کرتا ہوں کہ جس شخص کی لیاقت کے ظاہر ہونے کا ایک جگہ موقع نہ ملے وہ دوسری جگہ بھی لیاقت ظاہر نہیں کرسکتا لیکن یہ ایک کُلّی قاعدہ نہیں۔ بعض دفعہ ایک چیز ایک جگہ فِٹ نہیں آتی اور ردّی سمجھ کر پھینک دی جاتی ہے مگر دوسری جگہ فِٹ آجاتی ہے۔ ایک اینٹ ایک جگہ معمار رکھتا ہے تو وہ پوری نہیں اُترتی اور معمار اُسے اُٹھا کر پھینک دیتا ہے لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک اور جگہ نکل آتی ہے جہاں اُس اینٹ کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ اُس کے سِوا کوئی اور اینٹ لگ ہی نہیں سکتی تب وہ اُس اینٹ کو جسے ردّی سمجھ کر پھینک چکا ہوتا ہے پھر اُٹھاتا اور اُس جگہ لگا دیتا ہے اور اِس طرح اُس کی عزت قائم ہوجاتی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے اپنے متعلق بھی فرمایا ہے کہ میں وہ پتھر ہوںجسے معماروں نے ردّ کردیا وہی کونے کا پتھر بنا ؎۳ ۔ تو کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز سامنے آتی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ یہ ہمارے قابل نہیں لیکن وہی ظاہری ناقابل سمجھی جانے والی چیز ایک اور جگہ قابل ثابت ہوجاتی اور اُس کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ اِسی طرح بالکل ممکن ہے ہمارے بعض نوجوان یہاں دس روپیہ بھی نہ کماسکیں مگر باہر مُلکوں میں نکل کر کسی حکومت میں وزیر بن جائیں، کسی جگہ جرنیل بن جائیں یا کسی طوائف الملوکی کی حالت میں وہ وہاں کے بادشاہ ہی ہوجائیں۔ یہ اچنبھے کی بات نہیں۔ تاریخ میں اس قسم کی ہزارہا مثالیں ملتی ہیں بلکہ تاریخ کا کیا ذکر ہے بڑی چیز ہمارے لئے قرآن ہے اِس میں حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ دیکھ لو۔ وہی یوسف جس کے متعلق اُس کے بھائی یہ اعتراض کرتے تھے کہ اِس میں قابلیت تو کوئی نہیں ہمارا باپ بِلا وجہ اِس سے محبت کرتا ہے جب مصر میں پہنچے تو اُن کی کتنی بڑی عزت ہوگئی۔ حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کے پاس جو کچھ تھا اور جس قدر ان کے پاس دولت تھی اُس کا اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک اُونٹ کے بار کی زیادتی جب حضرت یوسف علیہ السلام نے اُنہیں دے دی تو وہ اِسی پر خوشی سے کُودنے لگ گے اور کہنے لگے ہمیں بہت غلہ مل گیا ہے۔ موجودہ حالات کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں ان کی پندرہ بیس یا تیس روپیہ ماہوار کی آمد تھی اور وہ بیس یا تیس روپیہ ماہوار کی آمد سے حضرت یوسف علیہ السلام کو محروم رکھنا چاہتے تھے لیکن دوسرے مُلک میں جاکر حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی قابلیت کے ایسے جوہر دکھائے کہ سلطنت کے وزیر بن گئے اور لاکھوں نفوس کی پرورش کرنے لگے۔ پس اِس قسم کی ہزارہا مثالیں ہیں بلکہ آج بھی ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ لوگ اپنے گھروں سے نکلے اور غیر ممالک میں اُنہوں نے خاص عزت اور شُہرت حاصل کرلی۔
یہی مسٹر گاندھی جو ہندوستان کے بہت بڑے لیڈر سمجھے جاتے ہیں انہیں ہندوستان میں عزت حاصل نہیں ہوئی بلکہ ہندوستان میں ناقابل قرار دئیے جانے کی وجہ سے وہ سائوتھ افریقہ چلے گئے اوروہاں خوب عزت حاصل کی۔ پھر وہاں کی عزت اپنے ساتھ لے کر وہ ہندوستان میں آئے اور انہیں ہندوستان میں بھی عزت مل گئی۔
پس میں نوجوانوں کو اور نوجوانوں سے میری مراد عمر والا نوجوان نہیں بلکہ ہر ہمت والا شخص مراد ہے کہتا ہوں کہ باہر نکلیں۔ دراصل انسان ہر عمر میں نوجوان رہ سکتا ہے اور نوجوان رہنا اپنے اختیار کی بات ہوتی ہے۔ کئی لوگ جوانی میں ہی بوڑھے ہوجاتے ہیں وہ کمر پرہاتھ رکھ کر چلتے ہیں اور کہتے ہیں ہائے جوانی! اور کئی ستّر اَسّی سال کی عمر ہونے کے باوجود ہٹّے کٹّے ہوتے اور اپنے آپ کو جوان محسوس کرتے ہیں۔ پس جوانی عمر کے ساتھ نہیں بلکہ امیدوں، حوصلوں اور اُمنگوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ جو شخص جوان رہناچاہتاہے اُسے کوئی بوڑھا نہیں کرسکتا۔ بوڑھاانسان اپنی مرضی سے ہوتا ہے ۔ غرض جب میں یہ کہتا ہوںکہ نوجوان باہر نکلیں تو اِس سے میری مراد دل کے نوجوان ہیں نہ سالوں کے۔ اور میں ایسے سب احمدیوں سے کہتا ہوںکہ اِس تحریک کو نظر انداز نہ کریں۔ خداتعالیٰ نے جب ساری دنیا ان کیلئے مسجد بنادی ہے تو اب ان کو اپنی میراث سے محروم نہیں رہنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر سَو دو سَو نوجوان بھی ہماری جماعت کے غیرممالک میں نکل جائیں تو تھوڑے ہی دنوں میں وہ معلوم کرلیں گے اور جماعت کو بھی معلوم ہوجائے گا کہ باہر بہت سی عزتیں موجود ہیں۔ غیرمُلک میں جانے پر قدرتی طور پر اُس مُلک کے رہنے والوں کو باہر سے آنے والی کی طرف توجہ ہوجاتی ہے اور وہ آنے والے کے متعلق سمجھنے لگتے ہیں کہ نا معلوم اپنے ملک میں اُس کی کتنی بڑی عزت ہے ۔
عربوں کو دیکھ لو جب ان میںسے کوئی پنجاب میںآتاتو لوگ اس کی کتنی عزت کرتے ہیں۔ اپنے ملک میں وہ معمولی حیثیت کے ہوتے ہیں اور ہندوستان آتے بھی مانگتے ہوئے ہیں مگر جب ہندوستان پہنچتے ہیں تو ہندوستانی اُنہیں آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں وہ عرب صاحب تشریف لائے ہیں، عرب صاحب یہ فرماتے ہیں، عرب صاحب وہ فرماتے ہیں اور اِس طرح وہ جاہل عرب جو کچھ کہہ دے ہندوستانی اسے توجہ سے سنتے ہیں اور اُس کی قدر کرتے ہیں۔ یہی حال ہندوستانیوں کابھی ہوتا ہے جب وہ کسی باہر کے ملک میں جاتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ بعض علاقوں میں ہندوستانی بدنام ہیں مگر یہ اپنے اختیار میں ہوتا ہے کہ انسان نئی عزت اپنے لئے قائم کرلے۔ یورپ کے مختلف علاقوں میں معمولی حیثیت کے ہندوستانی گئے اور وہ وہاں ہندوستان کے لیڈر سمجھے جانے لگے ۔ یہی حال امریکہ کا ہے معمولی پنڈت وہاں چلا جاتا ہے تو وہ ویدانت کا ماہر اور عالِم مشہور ہوجاتا ہے۔ امریکن لوگ اُس سے لیکچر دلاتے ، اُس کی خاطر تواضع کرتے اور اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہاں کے لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ اپنے مُلک کا بڑا آدمی ہے حالانکہ ہندوستان میں اُس کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جدید چیز لوگوں کیلئے لذیذ ہوتی ہے۔ تم کسی ہندوستانی کے سامنے یہ کہنے لگ جائو کہ لاہور ایک مشہور شہر ہے، اس میں اتنے کالج، اتنے مدرسے اور اتنی درسگاہیں ہیں، اس کے تاریخی مقامات فلاں فلاں ہیں، اتنے باغ ہیں، چارلاکھ کی آبادی ہے تو کوئی اسے دلچسپی سے نہیں سُنے گا بلکہ کہیں گے پاگل ہوگیا یہ ہمیں کیا بتارہا ہے۔ مگر یہی لیکچر اگر تم امریکہ میں دیتے ہو اور ہندوستان کے شہروں کی کیفیت بتاتے ہو تو وہاں دلچسپ موضوع بن جائے گا کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ لاہور کیسا ہے، کلکتہ کیسا ہے، بمبئی کیسا ہے، پشاور کیسا ہے۔ جس طرح امریکہ والوں کے سامنے اگر تم نیویارک کے حالات بیان کرو تو وہ اسے فضول بات سمجھیں گے اسی طرح ہندوستانیوں کے سامنے ہندوستان کے شہروں کے حالات بیان کرو تو وہ فضول سمجھیں گے لیکن نئی چیز پیش کرو تو ہر کوئی اسے توجہ سے سُنے گا۔ جیسے لنڈن والوں کے سامنے اگر لنڈن کے حالات بیان کئے جائیں تو کوئی نہیں سُنے گا لیکن کسی ہندوستانی کے سامنے بیان کئے جائیں تو وہ بڑی توجہ سے سُنے گا اور دلچسپی لے گا۔ تو جو چیز سامنے ہو اُس کی قدر نہیں ہوتی لیکن جو چیز سامنے نہ ہو اور جس کا علم نہ ہو اُس کے متعلق حالات سننا ہر شخص پسند کرتا ہے۔ تم ہندوستانیوں کے سامنے ہندوستان کے حالات بیان کرکے عزت حاصل نہیں کرسکتے لیکن اگر امریکہ میں ہندوستان کے شہروں اورہندوستانیوں کی رسوم پر لیکچر دو، یہ بتائو کہ ہندوستان میں شادیاں کس طرح ہوتی ہیں ، دولہاکس طرح بنتا ہے، سہرا کس طرح باندھا جاتا ہے تو وہاں یہی باتیں لوگ پیسے دے دے کر سُنیں گے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ ہندوستان میں شادیاں کس طرح ہوتی ہیں۔ تم کسی ہندوستانی مجلس میں پلائو کے پکنے کا طریق بیان کرنے لگو تو لوگ اِس بات کوفضول گوئی قرار دیں گے لیکن اگر تم امریکہ میں لیکچر دیتے ہو کہ ہندوستان میں ایک کھانا پلائو ہوتا ہے اور وہ اس اس طرح پکایا جاتا ہے، اس کا ذائقہ ایسا ایسا ہوتا ہے تو یہی باتیں وہ تمہیں روپے دے کر تم سے سُنیں گے کیونکہ علم نام ہی اِس چیزکا ہے جسے لوگ نہ جانتے ہوں۔ وہاں کے لوگ ہندوستانیوں کی رسوم کو نہیں جانتے نہ یہ جانتے ہیں کہ یہ کھاتے پیتے کیا ہیں اس لئے وہ اِن باتوں کو توجہ سے سنتے بلکہ روپیہ خرچ کرکے سنتے ہیں۔ اور میں تو سمجھتا ہوں اگر لوگ صرف ہندوستانیوں کی رسموں، شادی بیاہ کے طریقوں اور تمدّن و معاشرت کے مروّجہ دستور پر نوجوان لیکچر دیتے پھریں تو اِسی سے وہ کافی روپیہ کماسکتے ہیں۔ کیونکہ غیرملکوں کے لوگوں کو معلوم نہیں کہ ہندوستانی کس طرح شادیاں کرتے ہیں، ان کے کھانے پینے کا کیا طریق ہے، مجلسی قوانین ان میں کیا ہیں، بے شک کوئی شخص ان تمام باتوں کو سیکھ کر یورپین ممالک میں چلا جائے وہاں کے لوگوں میں وہ عالم سمجھاجائے گا۔ یورپ کے علماء کا ایک طبقہ وہ ہے جو فوک لور(FOLK LORE) ؎۴ یعنی پُرانے قصوں کے واقف ہیں۔ کسی کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان کے قصے یاد رکھتا ہے، کسی کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ ایران کے قصے یاد رکھتا ہے۔ پس جو چیز لوگ نہیں جانتے اُسے علم کہا جاتا ہے اور اُس کی قدر کی جاتی ہے۔ پس ہندوستان کے حالات اور اِس کے رسم و رواج کی واقفیت بہم پہنچا کر بھی بعض مُلکوں میں روزی کمائی جاسکتی ہے۔ اِسی طرح ہندوستان میںسے کئی لوگ یورپین ممالک میں جاتے اور دیسی دوائوں سے بہت بڑا روپیہ کمالیتے ہیں۔ بعض قسم کے امراض دنیامیں ایسے ہیں کہ دنیا خیال کرتی ہے کہ ان کا علاج ہندوستان میں بہتر ہوتا ہے۔ پس اگر ان امراض کو معلوم کرکے اس قسم کی دوائیں ساتھ رکھی جائیں تو بہت سے لوگ بیرونی ممالک میں وہ دوائیں لینے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے مُلک کے راول باہر جاتے اورہر جگہ کماتے پھرتے ہیں۔ اورتو اور ہمارے ایک احمدی راول ہیں انہوں نے یہ سنایا کہ وہ ایک دفعہ امریکہ گئے وہ آنکھوں کا آپریشن کرنا جانتے تھے۔ وہاں انہوںنے یہ کام کرنا چاہا تو لوگوں نے بتایا کہ اِس جگہ قانوناً آنکھوں کے آپریشن کی آپ کو ممانعت ہے کیونکہ آپ یونیورسٹی کے سند یافتہ نہیں۔ انہوں نے کہا ہم کیا کریں ہم تو یہی ہُنر جانتے ہیں۔ آخر ایک دن وہ بیٹھے ہوئے حُقّہ پی رہے تھے کہ ایک شخص آیا امریکہ میں چونکہ حُقّہ نہیں ہوتا سِگار یا سگریٹ ہوتا ہے اس لئے اس نے حیران ہوکر پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے بتایا حُقّہ ہے۔ کہنے لگا اس میں سے آواز بھی آتی ہے؟ وہ کہنے لگا ہاں جب حُقّہ پیا جاتا ہے تو گُڑگُڑ کی آواز پیداہوتی ہے۔ وہ کہنے لگا اچھا مجھے ٹھیکہ دو میں تمہیں سٹیج بنادیتاہوں۔ تم وہاں بیٹھ کر حُقّہ پیا کرو میں ٹکٹ لگادوں گا لوگ آئیں گے اور تمہیں حُقّہ پیتے دیکھیں گے۔ یہ مان گئے۔ اُس نے سٹیج بنا کر اُس پرانہیں بٹھادیا اور انہوں نے حُقّہ پینا شروع کردیا۔ لوگ آتے اور انہیں حُقّہ پیتے دیکھ کر بڑے حیران ہوتے۔ کوئی کہتا کہ یہ گُڑ گُڑ کی آواز کہاں سے آتی ہے، کوئی کہتا یہ لمبی لمبی کیا چیز ہے، کوئی کچھ کہتا اور کوئی کچھ۔ انہوں نے بتایا اِس ذریعہ سے اُس نے سینکڑوں روپے کمائے اور سینکڑوں ہمیں دیئے۔ حالانکہ حُقّہ بالکل معمولی چیز ہے۔ ہندوستان میں اگر کوئی کسی سے کہے کہ میں حُقّہ پیتا ہوں تم مجھے پیسہ دو تو وہ پیسہ دینے کی بجائے اُسے چپیڑ مارے گا اور کہے گا کہ تم مجھ سے تمسخر کرتے ہو۔ مگر انہوں نے بتایا کہ ہم مہینوں وہاں رہے ہمارا کام یہی تھا کہ ہم روزانہ حُقّہ لے کر سٹیج پربیٹھ جاتے اور لوگ ٹکٹ لے کر ہمیں حُقّہ پیتے دیکھتے۔ ان کا بیان ہے کہ جب ہم زبان سے واقف ہوئے تو معلوم ہؤا کہ بعض لوگ ہمیں جانور خیال کرتے رہے اور سمجھتے رہے کہ ہندوستان کا کوئی بندر یا ایسا ہی کوئی جانور عجیب قسم کا سگار اِستعمال کرتا ہے۔ غرض ہر مُلک والوں کیلئے غیرمُلک کی چیز اچنبھا ہوتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی چیز سے روپیہ کمایا جاسکتا ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ تم بھی غیرمُلکوں میں نکل کر اِس قسم کا تماشہ کرو بلکہ میرا یہ مطلب ہے کہ غیرمُلکوں میں ادنیٰ سے ادنیٰ چیز بھی اچنبھا معلوم ہوتی ہے اور اپنی چیز کواچنبھا بنانا کوئی مشکل نہیں ہوتا صرف لوگوں میں رَو چلانے کی دیر ہوتی ہے۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے ہندوستانی عطر خود ہندوستانیوں نے چھوڑ دیئے تھے اور وجہ یہ بتاتے تھے کہ یہ تیل ہوتا ہے اور کپڑے پر اِس کا داغ لگ جاتا ہے لیکن پچھلے سات آٹھ سال سے یورپ میں بھی ہندوستانی عطر بِکنے لگ گیا ہے اور وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ اِن عطروں میں طاقت ہوتی ہے۔ ہمارے ہندوستانی تو اِسے کپڑوں پر لگانے سے دریغ کرتے ہیں انہوں نے اب اس عطر کو جسم پر مَل مَل کر نہانا شروع کردیا ہے۔
پس دنیا کے اکثر کام ایک رَوکے ماتحت ہوتے ہیں جب رَو چل جائے تو وہ طبائع میں تغیر پیدا کردیتی ہے۔ دیکھ لو ہندوستان میں کپڑے موجود تھے، یہاں کپڑے بُننے کے کارخانے بھی تھے مگر جب انگریز آئے تو انہوں نے یہ رَو چلادی کہ ہندوستان کے کپڑے اچھے نہیں ہوتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستانیوں نے خود اپنے کپڑے پھینک دیئے اور غیرملکوں کے کپڑے پہننے شروع کردیئے۔ گویا ایک مِسمریزم کا عمل ہے جو دنیا میں کیا جاتا ہے۔ کسی کو تم یقین دلادو کہ فلاں چیز مفید ہے وہ اسے مفید سمجھنے لگ جائے گا او رکسی کو تم یقین دِلادو کہ فلاںچیز مُضِرّ ہے وہ اسے مُضِرّ سمجھنے لگ جائے گا۔ پس دنیا کا بیشتر حصہ مسمریزم کے عمل کے ماتحت ہے۔ ایک کو یقین دِلادو کہ فلاں چیز اچھی ہے وہ اسے اچھی کہنے لگ جائے گا۔ اور اگر یقین دلادو کہ یہ خراب ہے تو وہ اسے خراب سمجھنے لگ جائے گا پس ضرورت ہے کہ لوگوں کے نقطۂ نگاہ کوتبدیل کیا جائے۔ تم یورپ میں کوئی چیز لے کر جائو اُسے اگر خوبی سے پیش کرو گے تو لوگ اُس کی قدرکرنے لگ جائیںگے۔ مثلاً فرض کرو تم یورپ میںپان لے کے جائو اور کہنا شروع کردو کہ اِس سے معدے کوتقویت حاصل ہوتی اور کھانا اچھی طرح ہضم ہوتا ہے اورنمونہ کے طور پر کسی عورت یا بوڑھے آدمی کو دے دو تو دوسرے ہی دن وہ کہنے لگے گا کہ آج کھانا مجھے اچھی طرح ہضم ہؤا ایک پان مجھے اور دے دو۔ تو دنیا میں لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا کوئی مشکل نہیں ہوتا بشرطیکہ جو چیز پیش کی جائے اُس سے لوگوں کو واقعہ میں فائدہ ہو۔ لُوٹ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی دیرپا وہی چیز ہوتی ہے جو نفع رساں ہو۔ ہمارے مُلک میں کئی مفید چیزیں موجود ہیں مگر مغربی اثر سے متأثر ہوکر خود ہمارے مُلک کے لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا ہے۔ مثلاً ہماری ہندوستانی طِبّ نہایت اعلیٰ درجہ کی باتیں اپنے اندر رکھتی ہے اور اب تک بعض امراض کا دیسی طب میں ایسا اعلیٰ اور مکمل علاج موجود ہے کہ یورپ والے اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے مگر ایک خیالات کی رَو تھی جو انگریزوں نے چلادی کہ انگریزی دوائی اچھی ہے اور دیسی دوائی بُری۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ ہندوستانیوںنے بھی اپنی طبّ کو چھوڑ دیا اورانگریزی طب کے شیدا ہوگئے۔ حالانکہ کئی امراض ایسے ہیں جن میں انگریزی دوائیاں ناکام رہتی ہیں اور دیسی دوائیاں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ مثلاً گُردوں کی پتھری ہے کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ اس میں ڈاکٹری علاج سے انہیں فائدہ نہ ہؤا اور ڈاکٹر آپریشن کے بغیر اس کاکوئی علاج نہ بتاتے تھے مگر یونانی دوائوں سے بغیر آپریشن کے فائدہ ہوگیا۔ دو سال ہوئے میری لڑکی امۃ الرشید انتڑیوں کے درد سے بیمارہوئی ڈاکٹروںنے بتایا کہ یہ اپنڈے سائٹس ہے اور اِس کا آپریشن کے بغیر اور کوئی علاج نہیں۔ لاہور کا جو سب سے بڑا سرجن ہے اُس نے کہا کہ تین چار دن تک آپریشن ہوجانا چاہئے ورنہ لڑکی کی جان کا خطرہ ہے اور میرے کہنے پر انہوںنے نرسوں وغیرہ کا سب انتظام کرلیا لیکن اسی عرصہ میں مجھے خیال آیا کہ کسی ماہر طبیب سے بھی علاج کروا کر دیکھ لیا جائے اور لاہور کے مشہور طبیب حکیم نیّر واسطی صاحب کو میں نے بُلوایا۔ انہوں نے جو دوا تجویز کی اُس کی پہلی خوراک سے ہی درد میں خاصی تخفیف ہوگئی اور دوسرے دن تک درد بہت کم ہوگیا حالانکہ مریضہ دوہفتہ سے شدید تکلیف میں مبتلا تھی۔ پس بہت سی خوبیاں ہماری طبّ میں موجود ہیں مگر انگریزوں نے چونکہ خیالات کی یہ رَو چلادی کہ ہندوستانی کچھ نہیں جانتے اِس لئے ہمارے لوگ بھی سمجھنے لگ گئے کہ ہمارے طبیب کچھ نہیں جانتے۔ اِس رَو کے مقابلہ میں اگر ہم بھی ایک رَو چلادیں کہ ہم سے بہتر علاج اور کون کرسکتا ہے فلاں مرض میں دیسی طریق علاج کا انگریزی طریق علاج مقابلہ نہیں کرسکتا، فلاں مرض میں انگریزی دوائیں ناکام رہتیں اور دیسی دوائیں اثر کرجاتی ہیں تو تھوڑے ہی عرصہ میں لوگ دیسی دوائوں کے دِلدادہ ہوجائیں ۔
غرض دنیا میں جہاں حقائق لوگوں کی طبائع پر اثر کیا کرتے ہیں وہاں پروپیگنڈا بھی ایک حد تک اثر کیا کرتا ہے اور بعض دفعہ تو حقائق کو پروپیگنڈا کی رَو دبادیتی ہے اور میں سمجھتا ہوں ہمارا فرض ہے کہ جو رَو ایسی چلائی گئی ہے جس نے علم کو جہالت میں تبدیل کردیا ہے اس کے خلاف ایک رَو چلا کر علم کو پھر علم کی صورت میں دنیا پر ظاہر کردیں۔ اِس طرح نہ صرف اپنے گزارہ کی صورت نکل سکتی ہے بلکہ اور ہزاروں آدمیوں کی بیکاری دُور ہوسکتی ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے ہمت والوں کیلئے دنیا میں کامیابی کے اتنے راستے کھول رکھے ہیں جن کی کوئی انتہاء نہیں۔ مزدوری کے پیشہ سے لے کر بادشاہ بننے تک کے رستے کھُلے ہیں مگر انہی لوگوں کیلئے جو اپنے ملک سے باہر جاتے ہیں۔ چنانچہ بادشاہت کے لحاظ سے ہٹلر کو دیکھ لو وہ گو لفظاً بادشاہ نہیں کہلاتا لیکن اختیارات کے لحاظ سے کئی بادشاہوں سے زیادہ ہے۔ وہ جرمن کانہیں بلکہ آسٹریا کا رہنے والاہے۔ یونان میں وینزویلا ایک زمانہ میں سب سے زیادہ طاقتور رہا ہے مگر وہ یونان کا نہیں بلکہ ایک جزیرہ کا رہنے والا ہے جو ترکوں کے ماتحت ہؤا کرتا تھا۔ آئرلینڈ کا لیڈر ’’ڈی ولیرا‘‘ آئر لینڈ کانہیں بلکہ امریکہ کا ہے ۔ اسی طرح اور بھی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض بڑے بڑے آدمی جو بعض مُلکوں میں ڈکٹیٹر، لیڈر اور بادشاہوں کی طرح سمجھے جاتے ہیں وہ ان مُلکوں کے باشندے نہیں بلکہ باہر سے وہاں آئے لیکن انہوں نے وہاں کے رہنے والوں کی ایسی سچی خیرخواہی کی اور اپنے مفاد کو ان کے مفاد کے ساتھ وابستہ کیا کہ اپنے لئے ملک میں ایک خاص مقام حاصل کرلیا۔ انگریزوں کو ہی دیکھ لو یہ ہندوستان میں کس طرح آئے اور یہاں کے حکمران بن گئے۔
پس علاوہ تبلیغی طور پر باہر جانے کے ہمارے نوجوان جنہیں خداتعالیٰ سمجھ دے اور جنہیں یہاں عزتیں نہیں ملتیں ہندوستان کو چھوڑ کر غیرممالک میں چلے جائیں۔ اگر ان کے پاس روپیہ نہیں تو اس ارادہ کے پیدا ہونے کے بعد انہیں روپیہ کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوگی۔ رنگون سے ابھی ہماری جماعت کے دو دوستوں کا مجھے خط ملا ہے ، ان میں سے ایک جالندھر کا رہنے والاہے اور ایک اسی جگہ کے قریب کسی اور مقام کا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہم آپ کی اِس تحریک کے ماتحت گھر سے پیدل چل پڑے اور اب پیدل چلتے ہوئے رنگون پہنچ گئے ہیں اور آگے کی طرف جارہے ہیں۔ کُجا جالندھر او رکُجا رنگون، پندرہ سَو میل کا سفر ہے لیکن انہوں نے ہمت کی اور پہنچ گئے۔ راستہ میں بیمار بھی ہوئے لیکن دو ماہ بیمار رہنے کے بعد پھر چل پڑے اب وہ سٹریٹ سیٹلمنٹس کے علاقہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ تو ہمت کرکے کام کرنے والوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے کام کے راستے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہمارے نوجوان ہمت کرکے باہر نکل جائیں مگر اس کایہ مطلب نہیں کہ جنہیں یہاں کام کا موقع ملا ہؤا ہے وہ بھی باہر چلے جائیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہاں کام نہیں ملتا وہ باہر جائیں اور جنہیں یہاں کام ملا ہؤا ہے وہ یہاں کام کریں۔ اور میں نے جیسا کہ بتایا ہے اِس کیلئے روپوں کی ضرورت نہیں۔ اگر ہمت کریں تو وہ پیدل بھی جاسکتے ہیں۔
دوسری تحریک جسے آج میں پھر دُہراناچاہتا ہوں یہ ہے کہ جب کام بڑھتے ہیں تو اس وقت کام کرنے والوں کی ضرورت ہؤا کرتی ہے اور اگر کام کرنے والے نہ ملیں تو کئی ضروری کام رہ جایا کرتے ہیں ۔ ہمیں بھی سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر اس وقت ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ہمت، طاقت اور صحت رکھتے ہوں۔ مثلاً بیکاروں کو کام پر لگانے کی تحریک جو میں نے کی ہے اس میں کئی ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کاموں کی نگرانی کرسکیں۔ آخر یہ کام یونہی نہیں ہوجائیں گے بلکہ ان کیلئے نگرانوں کی ضرورت ہوگی او رہمارے پاس پہلے ہی کام کرنے والے آدمی کم ہیں پھر ان کاموں کی نگرانی کیلئے کہاں سے آدمی میسّر آئیں گے۔ اِس غرض کیلئے میں نے تحریک کی تھی کہ ہماری جماعت میں جو لوگ پنشنر ہیں وہ خدماتِ سلسلہ کیلئے اپنی زندگی وقف کریں۔ ساری عمر انہوں نے دنیا کے کاموں میں گزاردی اب کیوں وہ اِس کام کو اختیار نہیں کرتے جس کے کرنے سے انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوسکتی ہے۔ بے شک یہ کام تجارتی ہوگا مگر سوال یہ ہے کہ یہ تجارت کس لئے ہوگی؟ جب یہ تجارت غرباء و مساکین اور یتامیٰ و بیوگان کے فائدہ کیلئے ہوگی تو یقینا اِس تجارت میں حصہ لینا بھی ویسی ہی عبادت ہے جیسے نماز عبادت ہے، جیسے روزہ عبادت ہے، جیسے زکوٰۃ عبادت ہے، جیسے حج عبادت ہے۔ آخر صدقہ و خیرات نماز کی طرح عبادت میں داخل ہے یا نہیں؟ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ کام عبادت نہ ہو جو صرف غرباء کے فائدہ کیلئے کیا جائے گا۔ اگر ایک غریب کو صدقہ دینا نیکی ہے تو غریبوں کو پیشے سکھانا، بیوائوں اور یتیموں کیلئے کام مہیا کرنا اور ان کی زندگی کو سنوارنا کیوں نیکی نہیں۔ اِسی طرح کے اور بھی بہت سے کام ہیں جو تحریک جدید کے ماتحت نکلیں گے۔ پس ان کاموں کے لئے ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جنہیں کچھ تجربہ بھی ہو، صحت بھی اچھی ہو اور جن میں ابھی طاقت ہو۔ ایسے بوڑھے نہیں چاہئیں جو کام سے رہ چکے ہوں بلکہ وہ زیادہ عمر والے جو اَبھی جواں ہمت ہوں، چلنے پھرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور دس بارہ گھنٹے متواتر اگر انہیں کام کرناپڑے تو کرسکتے ہوں ایسے لوگوں کی ہمیں ضرورت ہے۔ پنشن لینے کے بعد ہر شخص ناکارہ نہیں ہوجاتا بلکہ دنیا کا تجربہ یہ ہے کہ پنشن لینے کے بعد جو شخص کام نہیں کرتا وہ ناکارہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے نانا جان میرناصرنواب صاحب نے پنشن لینے کے بعد سلسلہ کاکام کرنا شروع کیا۔ وہ قریباً ۷۶ سال کی عمر میں فوت ہوئے ہیں مگر سوائے آخری دو سالوں کے اُن کی طاقتیں اتنی اعلیٰ تھیں کہ کام کرتے وقت نوجوان اُن سے پیچھے رہ جایا کرتے تھے۔ میں نے ہمیشہ ان کے منہ سے سنا جب کسی نے کہنا کہ آپ اب کیوں کام کرتے ہیں؟ تو وہ کہتے میں نے دیکھا ہے جو لوگ پنشن لینے کے بعد کام نہیں کرتے وہ جلدی مرجاتے ہیں اور واقعہ میں کثرت سے ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ اِدھر لوگوںنے پنشن لی اور اُدھر فوت ہوگئے۔ اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہیں کام کرنے کی عادت ہوتی ہے مگر جب گھر میں آکر بالکل فارغ بیٹھ رہتے ہیں تو آہستہ آہستہ طبیعت پر یہ خیال غالب آجاتا ہے کہ ہم بُڈّھے ہوگئے اور اِس طرح ناکارہ رہ کربیمار ہوجاتے اور مرجاتے ہیں۔ اگر وہ کام کرتے رہتے تو بُڈّھے ہونے کا سوال ہی ان کے دل میں پیدانہ ہوتا۔ پس نکمّے بیٹھے رہنے سے عمریں کم ہوجاتی ہیں پھر ان کے وجود سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچتا گویا وہ زندگی نہ اپنے لئے مفید ہوتی ہے نہ دوسروں کیلئے۔
پس میں نے تحریک کی تھی کہ دنیا کا کام اور حکومت کا کام کرنے کے بعد جو لوگ فارغ ہو جاتے ہیں انہیں کم از کم پنشن کے بعد کا وقت تو خداتعالیٰ کیلئے وقف کرنا چاہئے تا مرنے کے بعد وہ خداتعالیٰ سے کہہ سکیں کہ اے خدا! ہمیں اپنی زندگی میں جو وقت فُرصت کا ملا اُسے ہم نے تیرے دین کیلئے وقف کردیا تھا۔ اِس وقت بھی مرکز میں بعض ہمت رکھنے والے پنشنر اِسی تحریک کے ماتحت کام کررہے ہیں مثلاً خان صاحب فرزند علی صاحب، بابو سراج الدین صاحب، خان صاحب برکت علی صاحب، مرزا عبدالغنی صاحب، ملک مولا بخش صاحب، خان بہادر غلام محمد صاحب اور بعض اور بھی ہوں گے جن کے نام مجھے اِس وقت یاد نہیں۔ وہ روٹی سرکار سے کھاتے ہیں اور کام خداتعالیٰ کا کرتے ہیں۔ لیکن میں یہ کس طرح تسلیم کرلوں کہ ہماری جو لاکھوں کی جماعت ہے اس میں یہ پانچ سات ہی پنشنر ہیں اور کوئی نہیں۔ میںسمجھتاہوں اس سے کہیں زیادہ تعداد میں پنشنر ہماری جماعت میں ہیں وہ ذرا ہمت سے کام لیں اور ارادہ پیدا کریں تو کافی تعدا دمیں کام کرنے والے ہمیں مل سکتے ہیں۔ پس آج میں پھر اُن دوستوں کو جو پنشنر ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ سلسلہ کی خدمات کیلئے اپنے آپ کو وقف کریں تا ان کی زندگی کے آخری ایام اللہ تعالیٰ کی رضا اور بنی نوع انسان کی بہتری کے کاموں میں صَرف ہوں۔ اس سے زیادہ کسی انسان کی خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ بغیر قربانی کے اُسے ثواب ملتاجائے۔ پنشنر کوکھانے پینے اور پہننے کیلئے روپیہ کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے گزشتہ زندگی کے کام کے بدلہ میں اسے روپیہ مل رہا ہوتا ہے خواہ وہ ماہوار پنشن کی صورت میں یا پراویڈنٹ فنڈ کی صورت میں۔ اب بقیہ زندگی میں وہ دین کی خدمت کرکے مُفت میںثواب حاصل کرسکتا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا وارث ہوسکتا ہے۔ پھر میں نہیں سمجھتا وہ کیوں وقت ضائع کررہے ہیں اور اپنے آپ کو خدمتِ دین کیلئے کیوں پیش نہیں کرتے؟ یہ مت خیال کرو کہ اتنے کام کس طرح نکل سکتے ہیں؟ ہزاروں کام ایسے ہیں جو ہم نے کرنے ہیں، ہزاروں قسم کی اصلاحات ہیں جوہم نے رائج کرنی ہیں، پھر غریبوں، یتیموں اور بیوائوں کی ترقی کیلئے بیسیوں پیشے ہیں جو ہم نے سکھانے ہیں، اِسی طرح علمی ترقیات کیلئے بیسیوں تحریکات جاری کی جاسکتی ہیں اور جاری کرنی پڑیں گی، پھر اقتصادی ترقی کیلئے بیسیوں کام ہیں جو ہم نے کرنے ہیں۔ اور درحقیقت یہ دنیا مقابلہ کی دنیا ہے اس میں جس شخص نے مقابلہ کو ایک منٹ کیلئے بھی بھُلایا وہ گیا۔ قرآن کریم نے فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَاتِ ؎ ۵ کہہ کر اور ایک جگہ وَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا ؎ ۶ فرما کر اِسی امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اِس دنیا میں مقابلہ ہورہا ہے تمہارا فرض ہے کہ اِس مسابقت میں سب سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔
پس اِس مقابلہ کی دنیا میں ایک منٹ کیلئے بھی اگر کوئی مقابلہ کو بھُول جاتا ہے تو وہ اپنے ہاتھوں اپنی ترقی کے راستہ کو روکتا اور تنزّل کے گڑھے میں گِر جاتا ہے۔ تم سمجھ لو کہ دنیا کیا ہے؟ ایک پاگل خانہ ہے جس میں ہر شخص شور و غوغا کررہاہے۔ اگر اِس میں تمہاری آواز بلند نہیں تو وہ دوسری آوازوں کے مقابلہ میں دب جائے گی اور اگر تم اپنی آواز بلند کرلو تو دوسروں کی آوازیں دب جائیں گی۔ پس جس قسم کی دنیا خداتعالیٰ نے بنائی ہے اِس کے مطابق تمہیں رہنا چاہئے اور اگر تم نہیں رہتے تو دنیا میں ترقی کا کوئی کام نہیں کرسکتے۔ ہاں ضرورت اِس بات کی ہے کہ خداتعالیٰ کے قوانین کے مطابق کام کیا جائے ۔ لُوٹ مار، دغا اور فریب انسان کو تباہ کردیتا ہے اور ایسے شخص کے کام سے برکت اُڑ جاتی ہے۔ پس تم لوگوں کا مقابلہ کرو مگر اِس لئے نہیں کہ اُنہیں لُوٹو بلکہ اِس لئے کہ انہیں فائدہ پہنچائو۔ بہر حال مقابلہ کی روح ضروری ہے اور ہمارے کام کی وُسعت کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ پنشنر ہیںوہ یہاں آئیں اور سلسلہ کے کاموں میں انتہائی سرگرمی کے ساتھ حصہ لے کر مختلف شعبوں میں جماعت کوماہر بنانے کی کوشش کریں۔
ایک تحریک میں نے یہ کی تھی کہ دوست قادیان میں مکانات بنائیں۔ میں آج اِس تحریک کی طرف بھی دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں۔ مکانات خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت بنوارہی ہے اور پہلے سے زیادہ تعداد میں بنوارہی ہے لیکن ابھی اس کی طرف اور زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ ہر مکان جو قادیان میں بنتا ہے وہ احمدیت کو زیادہ مضبوط کردیتا ہے تم قادیان میں مکان بنا کر صرف اپنی جائداد نہیں بناتے بلکہ اس کے ساتھ ہی خداتعالیٰ کی جائدادبھی بڑھاتے ہو۔ ہر اینٹ جو تمہارے مکان میں لگائی جاتی ہے وہ صرف تمہارے مکان کو مضبوط نہیں کرتی بلکہ سلسلہ اور اسلام کو بھی مضبوط کرتی ہے۔ پھر جس قدر قادیان میں عمارتیں بنیں گی اُسی قدر دوسری آبادی بھی ترقی کرے گی۔ جب قادیان میں کھانے والے بڑھیں گے تو ایسی دُکانیں بھی بڑھیں گی جو ان کیلئے آٹا وغیرہ مہیا کریں، ایسی دُکانوں کا راستہ بھی کھلے گا جو کپڑے مہیا کریں، ایسے آدمیوں کیلئے بھی گنجائش نکلے گی جو گھروں کی صفائی کریں۔ پس ہر مکان جو بنایا جاتا ہے وہ اور مکانوں کیلئے بھی راستہ کھولتا ہے اور پھر سب مکان مل کر احمدیت کی مضبوطی کا موجب بنتے ہیں۔ پس جو دوست ابھی تک یہاں مکان نہیں بنواسکے انہیں چاہئے کہ وہ مکان بنوائیں اور جو قادیان میں رہنے والے ہیں انہیں بھی چاہئے کہ مکانات بنائیں۔ قادیان میں مکانات بنانا دنیا نہیں بلکہ دین ہے۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بکثرت یہ الہام ہؤا کہ وَسِّعْ مَکَانَکَ۔ وَسِّعْ مَکَانَکَ۔ وَسِّعْ مَکَانَکَ ؎ ۷ ۔ یعنی اپنے مکانوں کو بڑھائو اور انہیں ترقی دو۔ یہ الہام صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے ہی نہیں تھا بلکہ اِس الہام میں جماعت بھی مخاطب تھی اور اِسے بتایاگیاتھا کہ یاد رکھو اگر تم دشمنوں کے حملوں اور ان کی شرارتوں اور ایذاء رسانیوں سے محفوظ رہنا چاہتے ہو تو اِس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ مرکزِ سلسلہ میں مکانات بنواتے چلے جائو۔ یہ وَسِّعْ مَکَانَکَ کا متواتر الہام درحقیقت آئندہ زمانہ کے متعلق ایک پیشگوئی تھی اور اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ جب کبھی احمدیوں کو مشکل پیش آئے گی اور وہ خداتعالیٰ کے حضور اس التجاء کے ساتھ جھکیں گے کہ الٰہی! ہم کیا کریں؟ تو ہماری طرف سے انہیں یہ کہاجائے گا کہ وَسِّعْ مَکَانَکَ اپنے مکانات کو اور زیادہ وسیع کردو اور اَور زیادہ مرکزکو مضبوط کرو۔ اس پیشگوئی کو پورا کرنا اب آپ لوگوں کا کام ہے اور گو بیسیوں نے اِس کو پورا کیا مگر بیسیوں ایسے بھی ہیں جنہوں نے ابھی تک اِس طرف توجہ نہیں کی۔ میں پھر انہیں توجہ دلاتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ ان کے ربّ نے ان کی مصیبتوں کا علاج یہ بتایا ہے کہ وَسِّعْ مَکَانَکَ ۔ اپنے مکانوں کو وسیع کرو او راس طرح مرکز سلسلہ کو مضبوط کرکے دشمن کو اس پر حملہ کرنے کی طرف سے بالکل ناامید کردو۔ پھر اسی الہام میں وَسِّعْ مَکَانَکَ کہہ کر اِس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ جب مشکلات آئیں تو اُس وقت زمین پر پھیل جانااور اپنی تعداد کو بڑھانے کی کوشش کرنا۔
پس اللہ تعالیٰ نے تمہاری ترقی کا ایک ذریعہ ایک طرف تو تمہیں یہ بتایاہے کہ اپنے مرکز کو مضبوط کرو اور دوسری طرف یہ بتایا ہے کہ تم چین اور جاپان اور امریکہ اور افریقہ اور سٹریٹسیٹلمنٹس اور دوسرے ممالک میں چلے جائو اور دنیا میں پھیلتے چلے جائو یہاں تک کہ کوئی قوم تمہارا مقابلہ نہ کرسکے۔ یاد رکھو بہترین جرنیل دنیا میں وہی سمجھا جاتا ہے جو اپنی فوج کو عقل کے ساتھ پھیلاسکے۔ میرے مخاطب اِس وقت وہ ہیں جو فوجی ہُنر کو نہیں جانتے اور انہیں خطاب کرنے والا وہ شخص ہے جس نے کبھی اپنے ہاتھ سے تلوار نہیں چلائی مگر اللہ تعالیٰ نے اسے علم دیا اور ہر قسم کا علم دیا ہے۔ میں نے کبھی فوجی علم پر کوئی کتاب نہیں پڑھی، میں نے کبھی فوجی پریڈ نہیں دیکھی، میں نے کبھی فوجی جنگ نہیں دیکھی۔ مگر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگر چاہوں تو فوجی نظام پر ایک کتاب لکھ سکتا ہوں اور مَیںالٰہی علم کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ بہترین جرنیل وہی ہے جو فوج کو عقل کے ساتھ پھیلا سکتا ہے۔ یعنی بغیر اِس کے کہ دشمن کو اپنے کسی کمزور مقام پر حملہ کرنے کا موقع دے وہ اپنی فوج کوپھیلاتا چلا جائے کیونکہ اِس طرح دشمن ہمیشہ اس کے نرغہ میں گھِر جانے کا خطرہ میں رہتا ہے۔ پس اس کی دانائی یہ ہے کہ وہ اپنے کمزور مقاموں کا دشمن کو پتہ نہ لگنے دے تا دشمن اس پر حملہ نہ کردے لیکن اپنے لشکر کو پھیلاتا چلاجائے تا دشمن اس کے نرغہ میں گھِر جائے۔ یہ وہی وَسِّعْ مَکَانَکَ والی پالیسی ہے جس کا خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام میں ذکر فرمایا اور ہمیں بتایا کہ جب دشمن تم پر حملہ کرے تو وَسِّعْ مَکَانَکَ کے حکم پر عمل کرنا یعنی اور پھیل جانا۔ پھر حملہ کرے تو اور زیادہ پھیل جانا۔ پھر حملہ کرے تو اور زیادہ پھیل جانا۔ پس اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جہاں قادیان میں بڑھنے کا حکم دیا وہاں ساری زمین پر پھیل جانے کا بھی حکم دیا ہے۔ قرآن کریم میں بھی یہ علم موجود ہے اور دراصل قرآن ہی تمام علوم کا اصل منبع ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات تو اِس کی تشریح ہیں مگر قرآن مجید سے یہ معارف وہی نکال سکتا ہے جو اپنے دل کی آنکھیں کھول کر اسے پڑھے۔ پس یہ دو چیزیں ہیں جن پر جماعت اگر عمل کرے تو وہ دشمن کے حملہ سے بالکل محفوظ ہوجائے۔ یعنی قادیان میں مکانات بناتے جائو اور دنیا میں پھیلتے جائو یہاں تک کہ ساری دنیا پر تمہارا قبضہ ہوجائے۔ جو جماعتیں ایک جگہ رہتی ہیں وہ ہمیشہ کچلی جاتی ہیں۔ اگر ہماری جماعت پنجاب میں محدود ہوتی تو سو چو پچھلا زمانہ کتنا خطرناک آیا تھا اور کیا اگر ہماری جماعت صرف پنجاب میں محدود ہوتی تو وہ کُچلی نہ جاتی؟ اب بھی خطرہ کچھ کم نہیں ہؤا صرف اس نے اپنی شکل بدل لی ہے ورنہ خطرہ پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ میں اس کی تفصیلات میں نہیں پڑ سکتا مگر یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ خطرہ پہلے سے زیادہ ہوگیا ہے۔ حکومت کی طرف سے بھی اور احرار کی طرف سے بھی۔ جب انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ قوم بیوقوف نہیں کہ یونہی آسانی سے اِسے پکڑا جاسکے تو ان کے حملہ نے اب عقلمندانہ شکل اختیار کرلی ہے۔ بے شک جماعت کے خلاف بدظنّی ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی مگر وہ افسر جو اِس دھوکا میں ہیں کہ ہماری جماعت حکومت کے خلاف بغاوت کی تعلیم دینے لگ گئی ہے جب ان کی آنکھیں کُھلیں گی اُس وقت اَور موجودہ وقت میں جو فاصلہ ہے وہ کس طرح طے ہوسکتا تھا؟ اور حکومت کے وہ افسر جن کے دلوں میں ہماری مخالفت ہے ان کے ظلم سے بچنے کا ہمارے پاس کونسا ذریعہ تھا؟وہ ذریعہ یہی تھا کہ ہماری جماعت پھیلی ہوئی تھی۔ اگر پنجاب کے افسر ہمارے متعلق یہ کہتے کہ یہ جماعت باغی ہے تو یو۔پی، بمبئی، بہار، بنگال اور دوسرے صوبوں کے افسر کہتے ہیں کہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ احمدی جماعت تو حکومت کی وفادار ہے۔ چنانچہ ہمارے ماتحت جو احمدی رہتے ہیں انہوں نے کبھی کوئی باغیانہ حرکت نہیں کی بلکہ بغاوت سے لوگوں کو روکنا ان کا طریق ہے۔ اور اگر پنجاب میں احرار ہمارے متعلق کہتے کہ یہ اسلام کے دشمن ہیںاور ان سے زیادہ بُرااور کوئی نہیں تو دوسرے صوبوںمیں جولوگ بستے وہ کہتے احرار جھوٹ کہتے ہیں احمدیوں سے زیادہ شریف اور نیک تو ہم نے کوئی دیکھا ہی نہیں۔ اگر یہ پھیلائو ہماری جماعت کو حاصل نہ ہوتا تو ہماری بدنامی میں کون سی کسر باقی تھی۔ احرار اور پنجاب گورنمنٹ کے بعض افسروں نے ہمیں بدنام کرنے کی پوری کوشش کی مگرچونکہ ہماری جماعت کو پھیلائو حاصل تھا اور لوگ ہمارے حالات کوجانتے تھے اس لئے ان کی باتوں نے کوئی اثر نہ لیا۔ بلکہ ایک اعلیٰ انگریز افسر سے ہمارے ایک دوست ملے تو وہ کہنے لگے مَیںحیران ہوں پنجاب کے افسروں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ آپ کی جماعت کے خلاف رپورٹیں کرنے لگ گئے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ وہی کچھ کرتے ہیں جس کے کرنے کا آپ کومرکز سے حکم ملتا ہے اور آپ لوگ تو حکومت کے بڑے خیرخواہ ہیں پھر میں نہیں سمجھ سکتا پنجاب کے بعض افسروں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ آپ کے خلاف ہیں۔ اسی طرح اَور بیسیوں افسر ہیں جنہوں نے حکومتِ پنجاب کے بعض افسروں کے رویہ پر اظہارِ تعجب کیا۔ پھر چونکہ ہماری جماعت اِنگلستان میں بھی موجود ہے اس لئے جب پنجاب کی خبریں اِنگلستان جاتی ہیں اور وہ ہمارے آدمیوں کو دیکھتے ہیںتو وہاں کے افسر حیران ہوتے ہیں کہ یہ تو ہمارے دوست ہیں، ہم سے مِلنے جُلنے والے ہیں ہم جانتے ہیں کہ یہ گورنمنٹ کے بدخواہ نہیں بلکہ وفادار ہیں پھر پنجاب کے بعض افسروں کو کیا ہوگیا کہ وہ ایک پُرامن اور اطاعت شعار جماعت کے خلاف رپورٹیں کرنے لگ گئے ہیں۔ چنانچہ کئی ریٹائرڈ گورنر ہیں جنہوں نے اِس قسم کے خیالات کا اظہار کیا اور بعض نے تو اس موقع پر ہیں تحریریں دی ہیں جوہمارے پا س موجود ہیں۔ اِن تحریروں میں انہوں نے لکھا ہے کہ ہم جانتے ہیں یہ جماعت وفادار ہے باقی رہی شورشیںسو وہ ہماری موجودگی میں بھی اس جماعت کے خلاف ہؤا کرتی تھیں۔ مگر ہم تجربہ سے کہہ سکتے ہیں کہ صرف دشمن اس جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ پس یہ وَسِّعْ مَکَانَکَ والے الہام پر عمل کرنے کانتیجہ تھا کہ ہماری جماعت ان حملوں سے محفوظ رہی ورنہ اگر انگلستان میں ہمارا مشن نہ ہوتا، اگرسندھ، بمبئی، یوپی، بنگال اور بہار وغیرہ میں ہماری جماعتیں نہ ہوتی تو حکومتِ پنجاب کے چند نمائندوں کی رائے ہمارے حق میں قبول کی جاتی اور ہمیں بہت بڑانقصان پہنچتا۔ اِسی طرح پنجاب میں تو احرار ہمیں بدنام کرتے ہیں لیکن اور مختلف صوبے جہاں احرار کا زور نہیں وہاں کے لوگ جب ان باتوں کو سنتے ہیں تو حیران ہوکرکہتے ہیں کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا۔ پس توسیع مکانات سے جماعت محفوظ ہوجاتی اور ہرقسم کے حملہ سے بچ جاتی ہے خواہ وہ دینی ہویا دُنیوی۔
پھر روحانی لحاظ سے بھی جماعت کی توسیع ضروری ہوتی ہے کیونکہ روحانیت کی بھی ایک رَو ہوتی ہے جو بعض مُلکوں میں دب جاتی ہے اور بعض میں زور سے چل پڑتی ہے۔ پس اگر مختلف ممالک میں جماعتیں نہ ہوں تو اس روحانی رَو کے مٹ جانے کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔ مثال کے طور پر دیکھ لو ایک مُلک میں غلہ زیادہ ہوتا ہے مگر دوسرے ملک میں اُنہی دنوں قحط پڑا ہوتا ہے۔ ایک میں ایک سال کپاس زیادہ ہوتی ہے تو دوسرے میں ماری جاتی ہے۔ ایک میں ایک سال گنّا زیادہ ہوتا ہے اور دوسرے ملک میں نہیں ہوتا۔ یہی حال روحانی حالتوں کا بھی ہوتا ہے ایک وقت میں ایک ملک میں مخالفت زوروں پرہوتی ہے مگر دوسرے ملک میں مخالفت نہیں ہوتی۔ پس جہاں مخالفت ہوتی ہے وہاں سلسلہ کی ترقی رُک جاتی اور جہاں نہیں ہوتی وہاں ہوتی رہتی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی ملک میں بھی جماعت کی مخالفت ہورہی ہو اُسے مٹنے کا خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ باقی ممالک میں ترقی کررہی ہوتی ہے۔ پس روحانی جماعتوں کو ہمیشہ مختلف مُلکوں میں اپنی تبلیغ کو پھیلادینا چاہئے تا اگر ایک جگہ مخالفت ہو تو دوسری جگہ اِس کمی کو پورا کیا جارہا ہو۔ جس طرح وہ آدمی زیادہ فائدہ میں رہتا ہے جس کے کئی مُلکوں میں کھیت ہوں تا اگر ایک ملک میں ایک کھیت کو نقصان پہنچے تو دوسرے ملکوں کے کھیت اُس کی تلافی کردیں اور اس کے ضرر کو مٹادیں۔ اسی طرح وہی دینی جماعتیں فائدہ میں رہتی ہیں جو مختلف ممالک اور مختلف جگہوں میں پھیلی ہوئی ہوں کیونکہ انہیں کبھی کچلانہیں جاسکتا۔ پس اگرہماری جماعت کے لوگ ساری دنیامیں پھیل جائیں گے تو وہ خود بھی ترقیات حاصل کریں گے اور ان کی ترقیات سلسلہ پربھی اثر انداز ہوں گی۔ اور جس جماعت کی آواز ساری دنیا سے اُٹھ سکتی ہو اُس کی آواز سے لوگ ڈرا کرتے ہیں اور جس جماعت کے ہمدرد ساری دنیا میں موجود ہوں اس پرحملہ کرنے کی جرأت آسانی سے نہیں کی جاسکتی۔ پس مت سمجھو کہ موجودہ خاموشی کے یہ معنی ہیں کہ تمہارے لئے فضا صاف ہوگئی۔ یہ خاموشی نہیں بلکہ آثار ایسے ہیں کہ پھر کئی شورشیں پیدا ہونے والی ہیں اس لئے موجودہ خاموشی کے یہ معنی ہرگز مت سمجھو کہ تمہارا کام ختم ہوگیا۔ یہ فتنہ تو تمہیں بیدار کرنے کیلئے پید اکیا گیا تھا اور اگر تم اب پھر سو گئے تو یاد رکھواگلی سزا پہلے سے بہت زیادہ سخت ہوگی۔ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ تمہیں دنیا میں پھیلائے۔ اگر تم دنیا میں نہ پھیلے اور سوگئے تو وہ تمہیں گھسیٹ کر جگائے گا اور ہر دفعہ کا گھسیٹنا پہلے سے زیادہ سخت ہوگا۔ پس پھیل جائو دنیا میں، پھیل جائو مشرق میں، پھیل جائو مغرب میں، پھیل جائو شمال میں، پھیل جائو جنوب میں، پھیل جائو یورپ میں، پھیل جائو امریکہ میں، پھیل جائو افریقہ میں، پھیل جائو جزائر میں، پھیل جائو چین میں، پھیل جائو جاپان میں اور پھیل جائو دنیا کے کونے کونے میں یہاں تک کہ دنیا کا کوئی گوشہ، دنیا کا کوئی ملک اور دنیا کا کوئی علاقہ ایسا نہ ہو جہاںتم نہ ہو۔ پس تم پھیل جائو جیسے صحابہ پھیلے، پھیل جائو جیسے قرونِ اُولیٰ کے مسلمان پھیلے، جیسے انہوں نے دنیا کے جغرافیے بنائے اسی طرح اب دنیا کے نئے جغرافیے تمہارے ذریعہ سے بننا چاہئیں۔ تم جہاںجہاںجائو اپنی عزت کے ساتھ سلسلہ کی عزت قائم کرو، جہاں پھر واپنی ترقی کے ساتھ سلسلہ کی ترقی کا موجب بنو۔
اِسی طرح مختلف پیشے ہیں جو اَور ملکوں میںسیکھے جاسکتے ہیں انہیں سیکھو اور اپنے ملک کو ترقی دو۔ انگریز ہندوستان آئے تو انہوںنے کپڑا بُننا یہاں سے سیکھا مگر لنکاشائر کا سارے ہندوستان کو محتاج کردیا۔ احمد آباد، ڈھاکہ اور سندھ کی تجارت کو انہوں نے توڑدیااور اپنے ملک کی تجارت کو ترقی دی۔ اسی طرح اور کئی فن انہوں نے یہاں سے سیکھے اور اپنے ملک کو ترقی دی۔ اگر ہمارے آدمی بھی دنیا میں پھیل جائیں تو وہ مختلف ملکوںسے مختلف پیشے ، ہُنر اور دستکاریاں سیکھ کراپنے ملک کو بہت زیادہ فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔ پھر مؤمن کو خداتعالیٰ نے نہایت اعلیٰ ذہن دیاہؤا ہوتا ہے اس سے کام لے کر وہ دوسروں سے زیادہ ترقی کرسکتا ہے۔
پس یہ دو باتیں کہ قادیان میں مکان بنانا اور دنیا میں پھیلنا نہایت اہم ہیں انہیں نظرانداز مت کرو اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے مبلّغوں کا فرض ہے کہ وہ جہاں جائیں نوجوانوں میں یہ روح پیدا کریں کہ وہ باہر نکلیں۔ گھروں میں بیٹھ کرمکھیاں مارنے سے کیا فائدہ ہے۔ کیوں باہرنکل کر ایسے کام نہیں کرتے جن سے سلسلہ کو وُسعت حاصل ہو، اس کی عظمت میں ترقی ہو اور پھر ان کے کام ہندوستان کیلئے ترقی کابھی موجب ہوں۔ چین سے اِس وقت چینی کا سامان آتا ہے کیا وجہ ہے کہ ہم اسے ہندوستان میںتیار نہ کریں۔مگر اس کے لئے ضرورت ہے کہ بعض نوجوان چین میں جائیں اورچینی کاکام سیکھ کر یہاں آئیں اور ملک کو ترقی دیں۔ پھر کہیں مزدوربن کر، کہیں کلرک بن کر اور کہیں دیگر ذرائع سے ان فنون کوحاصل کریں اور دنیا میں نام پیداکریں۔ جاپانیوںنے اپنے ملک کی خاطر یہی کیا تھا۔ ایک دفعہ امریکہ کے لوگوں نے انہیں دھمکی دی اور جاپان پر گولہ باری کی۔ اس کا جاپانی نوجوانوں پر ایسا اثر ہؤا کہ انہوں نے کہا کہ ہم اب اس ذلیل ملک میں اُس وقت تک نہیں آئیں گے جب تک خود عزت حاصل نہ کرلیں اور اپنے ملک کو بھی دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے والا نہ بنادیں۔ ایک مشہور نواب کالڑکا بھی چلا گیا اور وہ جہاز پر کوئلہ ڈالنے والوں میں ملازم ہوگیا اور عرصہ تک جہاز رانی اور جہازسازی کاکام سیکھتا رہا۔ پھر وہ اپنے ملک میں آیا اور اُس نے جہازوں کا کارخانہ کھول کر ملک کی ایک اہم ضرورت کو پورا کردیا اور اُسے اِس قابل بنادیا کہ وہ دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ تو زندہ قومیں غیرت مندہوتی ہیں۔ وہ دنیا سے کوڑے نہیں کھاتیں اور اگر ایک بار کھالیں تو اُس وقت تک دم نہیں لیتیں جب تک اُس فعل کو آئندہ کے لئے ناممکن نہ بنادیں۔
تمہیں بھی اِس وقت ایک کوڑا لگا ہے حکومت کی طرف سے بھی اور رعایا کی طرف سے بھی۔ اگر تم میں غیرت کا ایک شمہ بھی باقی ہے تو جب تک تمہاری جان میں جان ہے اور تمہارے جسم میں سانس چلتا ہے تمہیں یہ کوڑا نہیں بھُولنا چاہئے جب تک اتنی طاقت حاصل نہ کرلو کہ نہ آئندہ تمہیں حکومت کوڑا مارسکے اور نہ رعایا میں سے کوئی تمہیںکوڑا مارسکے۔ بے غیرتی کی زندگی سے غیرت کی موت ہزار درجے بہتر ہوتے ہیں۔ تم بے غیرت مت بنو کہ جس پر تمہارے دل بھی تم پر *** کریںاور آئندہ آنے والی نسلیں بھی تم پر *** کریں۔ تم غیرت مندبنو کہ غیرت کے ہوتے ہوئے اگر تم دنیا میں تھوڑے دن بھی جیئو اور غیرت کی موت مرو تو تمہاری آنے والی نسلیں فخر سے اپنی گردنیں اونچی کریں گی اور کہیں گی کہ ہم ان کے فرزندہیں جنہوں نے اپنی جانیں دے دیں مگر بے غیرتی کی زندگی کو قبول نہ کیا۔
کیوں بعض حُکّام کو یہ جرأت ہوئی کہ وہ تم پر حملہ کریں؟ اس لئے کہ تم تھوڑے ہو اور کمزور ہو۔ کیوں احرار کو یہ جرأت ہوئی کہ وہ تم پر حملہ کریں؟ اس لئے کہ تم تھوڑے ہو اور کمزور ہو۔ پس اب جائو اور دنیا میں نکل کر طاقت حاصل کرو، جائو اور دنیا میںنکل کر اپنی تعداد کو بڑھائو، یہاں تک کہ دنیا کا کوئی شخص تمہیں تھوڑا نہ کہہ سکے، یہاں تک کہ دنیاکاکوئی شخص تمہیں کمزور نہ کہہ سکے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ وہ لوگ جنہیں اپنے مستقبل کے متعلق کوئی امید نہ تھی انہوں نے دنیا میں کس قدر قربانیاں کیں۔ انگلستان سے کس نے وعدہ کیا تھا کہ اسے بادشاہت دے دی جائیگی؟ کسی نے بھی نہیں۔ مگر تمہارے ساتھ تو اُس خدا کا وعدہ ہے جو تمہارا خالق و مالک ہے اور خداتعالیٰ سے بڑھ کر اور کون زیادہ سچا ہوسکتا ہے۔ پھر فرانس کے لوگوں سے کس نے کہا تھا کہ ان کو بادشاہت دی جائے گی؟ جرمنی سے کس نے وعدہ کیا تھا کہ اسے ترقی دی جائے گی؟ ان کے ساتھ کوئی وعدہ نہ تھا صرف انہوںنے غیرت دکھائی اور دنیامیں عزت حاصل کرلی۔ مگر تمہارے متعلق تو خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تمہیں دنیا میں غلبہ دیاجائے گا۔ پس تم اگر اِس غرض کیلئے باہر نکلتے ہو تو تم وہ کام کرتے ہو جس کے متعلق آسمان پر فرشتے تمہارے لئے تیاریاں کررہے ہیں۔
پس تم اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ قابل بنائو، زیادہ سے زیادہ لائق بنائو، نہ صرف دین میں بلکہ دنیا کے ہر کام، ہرفن اور ہر پیشہ میں۔ یہاں تک کہ کوئی میدان ایسا نہ ہو جس میں احمدیہ جماعت کے افراد سے زیادہ لائق افراد دنیا میں مل سکیں۔ سب سے کامل لوہار تم بنو، سب کامل نجّار تم بنو، سب سے کامل معمار تم بنو ، سب سے کامل کیمسٹ تم بنو، سب سے کامل ڈاکٹر تم بنو، سب سے کامل صنّاع تم بنو، سب سے کامل کپڑے بُننے والے تم بنو، سب سے کامل مشینیں بنانے والے تم بنو اور جب تم اِس ارادہ اور عزم سے کھڑے ہوگے اور دنیا کے ممالک میں نکل جائو گے تو خداتعالیٰ کے فرشتے تم پر برکتیں نازل کریں گے اور تم جو کام بھی کرو گے خواہ وہ بظاہر دنیا کا نظر آتا ہو اس کے بدلہ میں تم ثواب پائو گے کیونکہ ہر قدم جو تم اُٹھائو گے اس لئے اُٹھائو گے کہ خداتعالیٰ کی یہ پیشگوئی پوری ہو کہ جماعت احمدیہ دنیاپر غالب آکررہے گی۔ پس تم میں سے وہ لوہار جو اِس لئے آہن گری کے کام میں سب دنیا سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے متعلق خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ یہ دنیا پر غالب آئے گی اور وہ چاہتا ہے کہ اِس پیشگوئی کے پورا کرنے میں وہ بھی حصہ لے تو وہ آہن گری میں ترقی نہیں کررہا بلکہ عبادت کررہا ہے۔ تم میں سے وہ انجینئر جو اس لئے انجینئرنگ کے کام میں ترقی کرکے سب دنیا کو مات کرنا چاہتا ہے کہ خداتعالیٰ کے مسیح کی جماعت کے دنیا پر غالب آنے کی پیشگوئی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اِس کے پورا کرنے میں وہ بھی حصہ لے تو وہ انجینئرنگ نہیں لے رہا بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں حصہ لے رہا ہے۔ اسی طرح تم میں سے وہ زمیندار جو اِس نیت اور ارادہ کے ساتھ اپنی پیدوار کو بڑھاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے متعلق پیشگوئی ہے کہ سب دنیا پر یہ غالب آئے گی اور وہ چاہتا ہے کہ وہ بھی اس کے پورا کرنے میں حصہ لے تو وہ زمینداری میں ترقی نہیں کررہا بلکہ دین میں ترقی کررہاہے۔ پس ہر پیشہ، ہر فن اور ہر ہُنر میں ترقی کرو اور مُلکوں اور علاقوں کی حد بندیوں سے آزاد ہوجائو کہ مؤمن کسی مُلک اور علاقہ کی قید میں مقیّد نہیں ہوتا۔ پھر تم دیکھو گے کہ اُس کے فضل تم پر کس طرح نازل ہوتے ہیں۔ یہ ہماری غفلتیں تھیں جو اِن فتنوں کو ہمارے لئے لائیں اور ہماری ہی غفلتیں ہوں گی جو پھر اِن فتنوں کے دوبارہ لانے کا موجب بنیں گی ورنہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کی آنکھیں کھولنے کیلئے بہت کافی سامان کردیا ہے۔ اگر جماعت اب بھی اِس شدید حملہ کو بھُول جاتی ہے تو وہ اپنی بے غیرتی اور بے حمیتی کا افسوسناک مظاہرہ کرتی ہے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کو بے غیرتی کے مرض سے بچائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اپنے ہاتھوں سے ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے والے بنیں جو جماعت احمدیہ کی ترقی کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیں اور اللہ تعالیٰ نہ صرف ہمارے بلکہ ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے حوصلے اور اُن کی ہمتوں میں بھی اِس قدر برکت دے کہ ساری دنیا کے حوصلے او رہمتیں ان کے سامنے ہیچ ہوجائیں۔ دنیا ہمارا گھر ہے۔ پس جس طرح خداتعالیٰ کے گھر یعنی مساجد میں چھوٹے اور بڑے کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا اِسی طرح ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا سے تمام امتیازات کو مٹادیںتا پھر خداتعالیٰ کا نام دنیا میں بلند ہو اور اُس کی بادشاہت زمین پر بھی آئے جس طرح کہ وہ آسمان پر ہے۔
(الفضل ۱۶؍جنوری ۱۹۳۶ئ)
؎ ۱ بخاری کتاب الصلٰوہ باب قول النبی ﷺ جعلت لی الارض مَسْجِدًا و طہورًا
؎ ۲ سٹریٹ سیٹلمنٹس (STRAIT SETTLEMENTS) ملایا میں برطانیہ کی سابق شاہی نوآبادی۔ 1826ء سے 1858ء تک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنیانگ، ملکا اور سنگاپور کو ایک انتظامی جُزو کی حیثیت سے سنبھالے رکھا ۔ بعد ازاں قلیل مدت کیلئے انڈیا آفس نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ 1867ء میں یہ نو آبادی قائم کی گئی اور 1946ء میں ختم کردی گئی۔ اب سنگاپور ایک الگ کالونی ہے مگر باقی حصے ملایا کے اتحاد میں شامل ہوگئے ہیں۔ (اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ ۷۴۱ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ئ)
؎ ۳ بخاری کتاب المناقب باب خاتم النبیین
؎ ۴ فوک لور: (FOLK-LORE)۔ کہانیاں، رسم و رواج
؎ ۵ البقرۃ: ۱۴۹ ؎ ۶ النّٰزعٰت: ۵
؎ ۷ تذکرہ صفحہ ۵۳ ۔ ایڈیشن چہارم





۳
تحریک جدید کے مالی مطالبہ کی شاندار کامیابی
(فرمودہ ۱۷؍ جنوری ۱۹۳۶ئ)
تشہد، تعوّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
آج مجھے سر درد کا دَورہ ہے اور اس وجہ سے ذراسی حرکت بھی شدید درد پیدا کردیتی ہے لیکن چونکہ جمعہ کادن تھا میں نے پسند نہ کیا کہ جمعہ میں ناغہ ہوجائے اس لئے مناسب یہی سمجھا کہ بعض درد کو کم کردینے والی دوائوں کااستعمال کرکے خطبہ پڑھ دوں۔ مگر ان دوائوں کے استعمال کی وجہ سے میں ایک ضُعف محسوس کرتاہوں اور اس کے ساتھ ہی درد کی شکایت بھی باقی ہے جس کی وجہ سے میں زور سے نہیں بول سکتا ۔
سب سے پہلے میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اِس سال کی تحریک جدید کی جو مالی تحریک تھی اِس کی معیاد ۱۵؍ جنوری کو ختم ہوچکی ہے۔ میں نے اِس سال کی تحریک کے وقت بتایا تھا کہ چونکہ گزشتہ سال کی تحریک میں بعض دوستوں نے غیرمعمولی حصہ لیا تھا حتّٰی کہ بعض نے عمر بھر کا اندوختہ چندہ میں دے دیا تھا اِس لئے ان سے یہ امید نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ اِس سال بھی اُسی قدر حصہ لے سکیں گے۔ پھر بعض دوستوں نے غلط فہمی سے یہ خیال کرلیا تھا کہ شاید تین سال کا چندہ پہلے سال میں ہی ادا کرنا ہے اِس لئے اُنہوں نے اتنا بوجھ اُٹھالیا تھا کہ امید نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ دوسرے سال بھی اُسی قدر بوجھ اپنے ذمہ ڈال سکیں گے۔ پس ان حالات کومدنظر رکھتے ہوئے مَیں نے دوستوں کو تحریک کی تھی کہ کچھ نہ کچھ اضافہ اپنے چندوں میں کردیں تا کہ وہ دوست جو بالکل حصہ نہ لے سکتے ہوں یا گزشتہ سال سے کم لے سکتے ہوں ان کی کمی کو دوسروں کی زیادتی پورا کردے اور جیسا کہ ہماری پہلی تحریکوں کا حال ہوتا چلا آیا ہے یعنی ہمارا ہر کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سے بڑھ کر ہوتا ہے اس سال کے وعدے گزشتہ سال کے وعدوں سے بڑھ جائیں ۔ سو آج میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے جو خیال کیا تھا کہ ایک حصہ دوستوں کا اِس سال حصہ نہیں لے سکے گا یا اتنا نہیں لے سکے گا وہ احتیاط درست ثابت ہوئی ہے۔ جن دوستوں نے گزشتہ سال سارا اندوختہ چندہ میں دے دیا تھا ان کے متعلق تو ظاہرہی ہے کہ وہ اس رنگ میں اس سال حصہ نہیں لے سکتے تھے ان کے علاوہ اور بھی ایسے دوست ہیں جو گزشتہ سال زیادہ بوجھ اُٹھالینے کی وجہ سے یا دیگر مجبوریوں کے باعث اس سال حصہ نہیں لے سکے یا کم لے سکے ہیں۔ ایسے دوستوں کی تعداد غالباً کئی سَو ہے لیکن اس احتیاط کے ماتحت جس کے لئے میں نے دوستوں کو توجہ دلائی تھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تحریک جو علاوہ عام چندوں کے تھی اور ایک زائد بوجھ تھا گو اختیاری ہی تھا ہماری دوسری تحریکوں کی طرح آگے سے بڑھ کر کامیاب ہوئی ہے۔ یعنی پچھلے سال ایک لاکھ سات ہزار کے وعدے جون تک ہوئے تھے جبکہ بیرونِ ممالک کی جماعتوں کے وعدے بھی پہنچ گئے تھے لیکن اس سال کَل تک ایک لاکھ ساڑھے دس ہزار کے وعدے آچکے تھے۔ حالانکہ ہندوستان کی جماعتوں سے بھی ابھی وعدے آنے کے چار دن باقی ہیں۔ سولہ تاریخ کے پوسٹ کئے ہوئے خطوط کی منظوری کا اعلان میں نے کیا ہؤا ہے اور ہندوستان کے کئی حصے ایسے ہیں جہاں سے چوتھے، پانچویں روز خط یہاں پہنچتا ہے۔ اس لئے پندرہ یا سولہ کے بھیجے ہوئے وعدے ۲۱ تک موصول ہوتے رہیں گے۔
میں یہ ذکر بھی کردیناچاہتا ہوں کہ اس سال بیرون ہند کی بعض جماعتوں کے وعدے جلد وصول ہوگئے ہیں کیونکہ دوستوں کو پہلے سے یہ خیال تھا کہ تحریک ہوگی اور وہ اس کیلئے تیار تھے۔ مشرقی افریقہ جہاں جماعت اچھی تعداد اور اچھی حیثیت میں ہے وہاں سے بیشتر حصۂ جماعت کے وعدے آچکے ہیں جو پچھلے سال اِس وقت تک وصول نہیں ہوئے تھے اس لئے باہر سے اب اتنے وعدوں کی امید نہیں جتنے گزشتہ سال آئے تھے پھر بھی امید ہے کہ اس سال کے وعدے ایک لاکھ پندرہ ہزار تک پہنچ جائیں گے۔ گویا اِس سال آٹھ فیصدی کی زیادتی ہوگی باوجود اس کے کہ کئی دوست اِس سال شامل نہیں ہوسکتے تھے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس سال بعض اُن دوستوں نے جوجماعت میں نئے شامل ہوئے ہیں تحریک میں حصہ لیا ہے او ربعض نے گزشتہ سال کی نسبت اپنے چندوں کو بڑھادیا ہے اس بڑھوتی نیز نئے شامل ہونے والوں نے باوجود اس کے کہ کئی دوست شامل نہ ہوسکے آٹھ فیصدی کی زیادتی کردی ہے۔ اگر باقی لوگ بھی شامل ہوسکتے تو اُمید ہے کہ یہ رقم ایک لاکھ تیس چالیس ہزار تک پہنچ جاتی۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار بیان کیا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات اور بعض مجبوریوں کی وجہ سے ضروری ہے کہ ہمارا ایک مستقل ریزرو فنڈ ہوجس کی آمدنی سے مستقل اخراجات چلائے جائیں اور ہنگامی کاموں کیلئے چندہ ہو۔ اخلاقی لحاظ سے بھی یعنی جماعت کی اخلاقی حالت کومحفوظ رکھنے نیز کام کی وسعت کیلئے بھی ضروری ہے کہ ایک مستقل ریزرو فنڈ قائم کیا جائے۔ صدر انجمن احمدیہ کی آمد کا بیشتر حصہ تنخواہوں میں صَرف ہوجاتا ہے اور اِس وجہ سے ہنگامی کاموں میں رُکاوٹ پیدا ہوتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سلسلہ کے اموال سے اتنا فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا جتنا اُٹھایا جانا چاہئے حتّٰی کہ بعض دفعہ ہمارے مبلّغ اِس لئے یہاں بیٹھے رہتے ہیں کہ باہر جانے کیلئے کرایہ نہیں ہوتا۔ پس کام چلانے کیلئے ضروری ہے کہ مستقل عملہ کے اخراجات کیلئے مستقل آمدنی کے ذرائع ہوں۔ اس لئے میری تجویز ہے کہ ایک ریزرو فنڈ قائم کیا جائے اور تحریک جدید کے ماتحت جو کام جاری کئے گئے ہیں ان کے مستقل اخراجات کیلئے مستقل آمدنی کے ذرائع پیدا کرنے کیلئے مَیں صدر انجمن احمدیہ کے نام پربعض جائدادیں خرید رہا ہوں تا مستقل کاموں کا بار چندوں پرنہ پڑے اور جماعت کے چندے صرف ہنگامی کاموں پرخرچ ہوں۔ مثلاً لٹریچر، اشاعتِ دین اور جلسے وغیرہ اس کیلئے گو بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے مگر جب کام کو چلایا جائے تو میں سمجھتا ہوں بعض ابتدائی دِقّتوں کے بعد یہ کچھ مشکل نہیں رہ جاتا۔ اگر آج تک مالی حالت کا اِس رنگ میں انتظام کیا جاتا کہ مستقل اخراجات مستقل آمدنی سے ہوتے توہم ہندوستان میں اس قدر عظیم الشان تغیر پیدا کرسکتے تھے کہ جس کا بیسواں بلکہ سینکڑواں حصہ بھی اب تک نہیں کرسکے اور اس کے علاوہ وہ اعتراضات بھی نہ ہوسکتے جوبعض کمزور طبائع اور منافقین کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کو یہ خیال تو نہیں آتا کہ مرکز کے بغیر کام نہیں چل سکتا وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اتنے آدمی تنخواہیں لے رہے ہیں اور کھارہے ہیں، وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ یہ لوگ وقت خرچ کرتے ہیں، دین کی خدمت کرتے ہیں انہیں صرف تنخواہوں پر ایک کثیر رقم کا خرچ ہونا دکھائی دیتا ہے لیکن اگر شروع سے ایسا انتظام ہوتا کہ تنخواہوں کا بار چندوں پر نہ پڑتا تو منافقوں کو کمزورطبائع کے لوگوں میں بے چینی پیدا کرنے کا موقع نہ ملتا۔ اگرچہ قرآن کریم نے اِس امر کی پوری تصریح کردی ہے کہ جس کام پرجو لوگ مقرر ہوں اُن کی تنخواہیں اُسی کام کاحصہ ہوتی ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ جو شخص اپنا سارا وقت دے گا وہ گزارہ بھی لے گا۔ دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ وہ باہر کی نسبت یہاں کم گزارہ لیتے ہیںیا زیادہ؟ یا ان کے کام کی قیمت سے ان کاگزارہ کم ہے یا زیادہ؟ اگر ان کے کام، ان کی لیاقت اور منڈی کی قیمت کے لحاظ سے ان کی تنخواہیں کم ہیں تو یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں خواہ ایسے لوگوں کی تعداد ہزار ہو۔ کیونکہ کام چلانے کیلئے جتنے لوگوں کی ضرورت ہوگی اُتنے رکھنے ہی پڑیں گے مگر پھر بھی اِس سے چونکہ کمزور طبائع کودھوکا لگ سکتا ہے اس لئے پہلے سے ہم کو ایسا انتظام کرناچاہئے تھا کہ مستقل اخراجات کا بار عام چندوں پر نہ پڑے۔ تحریک جدید کے متعلق میرا یہی خیال ہے کہ اس کے مستقل اخراجات ریزرو فنڈ کی آمد سے ادا کرنے کا انتظام کیا جائے اور چندوں کاایک ایک پیسہ ہنگامی کاموں پرخرچ ہو، تا ہر ایک شخص کو نظر آسکے کہ تحریک کے کاموں پرکیاخرچ ہورہا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ بظاہریہ بات کمزوروں یا منافقوں کے ڈر کی وجہ سے معلوم ہوتی ہے مگر وہ بات جو سلسلہ کو مضبوط کرنے والی ہو وہ ڈر نہیں بلکہ احتیاط ہے۔ قرآن کریم میں حکم ہے کہ خُذُوْا حِذْرَکُمْ ؎۱ اِس سے شیعوں نے تقیہ کا جواز ثابت کیا ہے لیکن اِس کے یہ معنی نہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ جہاں تک اعتراض سے بچ سکو بچنا چاہئے۔ رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ اِتَّقُوْا مَوَاقِعَ الْفِتَنِ ؎۲ یعنی فتنوں کی جگہوں سے بچتے رہو۔
میں نے چھ سات سال قبل ریزرو فنڈ کی تحریک کی تھی تاہم تبلیغی کام کو اس اُتار چڑھائو سے جو مالی لحاظ سے دنیا پر آتے رہتے ہیں بچائیں۔ دنیا میں کبھی قحط پڑ جاتا ہے اور زمیندار چندہ نہیں ادا کرسکتے، کبھی اشیاء گِراں ہوجاتی ہیں اور ملازموں کے چندوں میں کمی ہوجاتی ہے اور کبھی تجارتی کساد بازاری کے باعث تاجر پورے چندے ادا نہیں کرسکتے اس لئے ایسے اُتار چڑھائو سے تبلیغی کاموں کو محفوظ کرنے کیلئے میں نے ایک ریزرو فنڈ کی تجویز کی تھی اور دوسری تحریک یہ کی تھی کہ جماعت کے دوست آنریری طور پر تبلیغی خدمات کیلئے اپنے آپ کو پیش کریں اور اب یہ سب تحریکیں میںنے تحریک جدید میں جمع کردی ہیں۔
اوّل یہ کہ نوجوان قلیل گزارہ پر تبلیغ کیلئے باہر نکل جائیں۔ اس کے ماتحت خدا کے فضل سے سینکڑوں نوجوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔ کئی باہر جاچکے ہیں دو ابھی کَل گئے ہیں اور پانچ سات تیار بیٹھے ہیں جو ایک دو ماہ میں ہی چلے جائیں گے۔
دوسرے یہ کہ ہر سال ایک رقم بچا کر صدرانجمن کے نام پر کوئی جائداد خریدی جائے یا کوئی نفع بخش کام جاری کردیا جائے ۔
اور تیسرے ہنگامی کاموں کیلئے چندہ کی تحریک کی جائے اور باوجود منافقوں کے اس شور کے کہ جماعت میں کمزوری پیدا ہوگئی ہے یا احراریوں کے اِس پروپیگنڈا کے کہ جماعت کے لوگ تنگ آچکے ہیں مَیں آج خداتعالیٰ کے فضل سے یہ اعلان کرنے کے قابل ہوں کہ جماعت نے گزشتہ سال کی نسبت اس سال زیادہ چندہ کا وعدہ کیا ہے اور مجھے امید ہے کہ اگلے سال اس سے بھی زیادہ دینے کیلئے وہ تیار رہے گی اور تیسرے سال کی تحریک کو ایسے رنگ میں کامیاب کرے گی کہ ہم اس کے اختتام پر دو لاکھ روپیہ ریزرو فنڈمیں منتقل کرسکیں گے۔
میں نے چند سال ہوئے شوریٰ کے موقع پر ۲۵ لاکھ روپیہ ریزرو فنڈکے طور پر جمع کرنے کی تحریک کی تھی مگر افسوس کہ دوستوں نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ اب میری پوری یہ کوشش ہوگی کہ گزشتہ سال اور اس سال کی تحریک جدید کی آمد میں سے ایک لاکھ روپیہ بچا کر ریزرو فنڈمیں جمع کرسکیں اور پھر اگلے سال اللہ تعالیٰ دوستوں کو خاص قربانی کی توفیق دے تو ایک لاکھ روپیہ اس سے جمع کرکے دو لاکھ روپیہ کُل ریزرو فنڈمیں جمع کردیں اور اس سے جیسا کہ میں بتاچکا ہوں کہ کچھ تو صدر انجمن کے نام پر جائدادخرید لی جائے اور کچھ روپیہ بعض سُودمند تجارتوں میں لگادیا جائے اور اس مستقل آمد سے مستقل اخراجات چلائے جائیں اور اس میں سے جو بچے اس سے ریزرو فنڈکو بڑھایا جائے اور آئندہ چندہ کی رقم سے صرف ہنگامی کام چلائے جائیں۔
میں جہاں تک سمجھتا ہوں ہمیں آج یہ ضرورتیں اس لئے پیش آرہی ہیں کہ اِس زمانہ کا نظام گزشتہ زمانوں سے بالکل مختلف ہے۔ اِس زمانہ میں ہمارا اُن دشمنوں سے مقابلہ ہے جن کے حملوں کی بنیاد سرمایہ داری پر ہے اس لئے ہم محاذِ جنگ خواہ کتنا ہی تبدیل کیوں نہ کریں پھر بھی اِس کا خیال رکھنا ہی پڑتا ہے۔ آج عیسائی مبلغ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں او رکروڑوں روپیہ ہر سال ان پر خرچ ہوتا ہے۔ پس اگر اسی رنگ میں ہم بھی ان سے مقابلہ کیلئے تیار نہ ہوں باوجود اس کے کہ ہمارے پاس سچائی ہے وہ لوگوں کو گمراہ کرسکیں گے۔ اسلامی رنگ میں ہمارا کام اس طرح ہونا چاہئے کہ روپیہ کے بغیر بھی چل سکے جیسا کہ تحریک جدید میں مَیں نے مطالبہ کیا ہے۔ لیکن ایک حصہ پھر بھی ایسا رہ جائے گا کہ دشمن کے حملہ کو مدنظر رکھتے ہوئے روپیہ کی ضرورت رہے گی۔ ہمیں کچھ نہ کچھ تنخواہوں والے مبلغ بھی رکھنے پڑیں گے جیسا کہ تحریک جدید میں بھی میں نے بعض عالم رکھے ہیں جو ضرورت کے وقت باہر جاکر کام کرسکیں۔ مثلاً تحریک جدید کے ماتحت تبلیغ کیلئے جانے والوں کے ساتھ بعض اوقات لوگ یہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ اچھا ہم بھی اپنے علماء کو بُلاتے ہیں تم بھی بُلالو تا مباحثہ ہوجائے اور ایسے مواقع کیلئے آٹھ دس علماء کا رکھنا بھی ضروری ہے۔ پس دشمن کی وجہ سے ہم مجبور ہیں کہ ایک حصہ کا کام ایسا بھی رکھیںجو اس حملہ کے ہم رنگ ہو۔ فِی زمانہ جن دشمنوں سے ہمارا مقابلہ ہے وہ مالی لحاظ سے اتنے مضبوط ہیں کہ کئی کئی کروڑ روپیہ ان کے پاس ہے۔ اس وقت باون ہزار پراٹسٹنٹ مشنری کام کررہے ہیں اور پونے تین لاکھ رومن کیتھولک۔ گویاکُل مشینری سَوا تین لاکھ ہیں جو عیسائیت پھیلانے کیلئے دنیا میں مقرر ہیں۔ اگر ان میں سے ہر ایک دس دس آدمیوں کو بھی عیسائی بنائے تو سال بھر میں ۳۵ لاکھ عیسائی بناسکتے ہیں۔ پھر ان کی جائدادوں کو اگر لیا جائے تو وہ بھی بہت ہیں۔ ہماری جماعت تو چونکہ غرباء کی جماعت ہے اس لئے وہ لاکھوں کا نام سننے کے عادی نہیں اِس وجہ سے بعض دوست شاید یہ بھی خیال کریں کہ ۲۵ لاکھ روپیہ کس طرح جمع ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ میری سُنیں اور سب ایک معیار پر آجائیں تو چھ ماہ کے عرصہ میں ۲۵ لاکھ روپیہ جمع ہوسکتا ہے۔ میرا اصول تو یہ ہے کہ جماعت کو ایک رنگ میں آہستہ آہستہ آگے بڑھانا چاہئے ورنہ ۲۵ لاکھ روپیہ تو چھ ماہ کے عرصہ میں جمع ہوسکتا ہے۔ ہاں تو دشمنوں کی مالی حالت کا مَیں ذکر کررہا تھا۔ ساری دنیا کی طاقت تو الگ رہی صرف لاہور کے عیسائی مشن کی جائداد ہی میرا خیال ہے اسّی نوے لاکھ روپیہ کی ہوگی اس سے زیادہ ہو تو ہو کم تو کسی صورت میں نہیں اور اس کے ساتھ اگر ہندوئوں، سکھوں وغیرہ کی جائدادیں ملالی جائیں تو صرف لاہور میں دو تین کروڑ سے کم قیمت کی نہ ہوں گی۔ پس یہ خیال مت کرو کہ یہ رقم زیادہ ہے دشمن کے حملہ کے مقابلہ میں تو یہ کوئی چیز ہی نہیں۔ ہمارا سالانہ بجٹ کئی لاکھ کا ہوتا ہے مگر کام وسعت کے لحاظ سے کچھ نظر نہیں آتا۔ یعنی دشمن کے حملہ کے پھیلائو کے مقابلہ میں اس کی کوئی ہستی نہیں۔ دشمن کے سَوا تین لاکھ مبلّغین جو سب دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کے مقابلہ میں ہمارے صرف چالیس مبلّغ ہیں۔ اب غور کرو دونوں کا آپس میں کوئی جوڑ بھی ہے؟ ہمارے سپرد کسرِ صلیب کا کام کیا گیا ہے لیکن ہم ان کے مقابل پر صرف چالیس مبلّغ رکھ سکے ہیں اور اس پر بھی بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اتنے مبلغین کی کیا ضرورت ہے۔ حالانکہ سَواتین لاکھ کے مجمع میں اگر چالیس کو تلاش کرنا شروع کرو تو شاید دو ہفتہ کے بعد ایک مبلغ کہیں گِرتا پڑتا نظر آسکے۔ پس ہماری جماعت کومدنظر رکھنا چاہئے کہ ہم کس کے مقابلہ کیلئے کھڑے ہیں۔ میری سکیم یہ ہے کہ ہم قلیل زمانہ میںدشمن کے مقابلہ میں ایسی طاقت پیش کرسکیں کہ یہ اس کے مقابل میں کھڑی ہونے کی اہل سمجھی جاسکے ورنہ لاکھوں آدمیوں کے مقابلہ میں چالیس مبلّغ چیز ہی کیا ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات کے لحاظ سے بھی ہمارے دو تین ہزار مبلّغ ہونے چاہئیں۔ ہندوستان میں اِس وقت کم و بیش تین سَو اضلاع ہیں اور بارہ سَو تحصیلیں ہیں اگر ریاستوں کو بھی ساتھ شامل کرلیا جائے تو دوہزار کے قریب تحصیلیں بن جاتی ہیں۔ ہر تحصیل میں کم و بیش پانچ سَو گائوں ہوتے ہیں۔ پس ہندوستان میں اندازاً دس بارہ لاکھ گائوں یا قصبے ہیں۔ اب سال کے دن تین سَو ساٹھ ہوتے ہیں۔ پس اگر ہمارے دو ہزار مبلّغ ہوں تو ڈیڑھ سال میں صرف چند گھنٹوں کیلئے ہر گائوں میں جاسکتے ہیں اور اگر ساری دنیا کو ہندوستان سے پانچ گُنا ہی سمجھ لیا جائے گو علاقہ کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اگر دو ہزار مبلّغ ہوں تو دس سال میں ایک گائوں میں ایک مبلّغ ایک دن کیلئے جاسکے گا لیکن چونکہ سفر کا وقت بھی اس میں شامل ہے اس لئے حقیقتاً ہر گائوں میں ایک مبلّغ صرف ایک دو گھنٹہ ہی ٹھہر سکے گا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد یہ کام کیا ہے کہ ہم ساری دنیا کو احمدی بنائیں او رظاہر ہے کہ ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ ایک گائوں میں ٹھہرنے سے گائوں کے لوگوں کامذہب تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس عرصہ میں تو ہر شخص کے حصہ میں ایک سیکنڈ بھی نہیں آتا۔ دوہزار مبلّغ گویا دس سال میں ساری دنیا کے آدمیوں کو سلام بھی نہیں کرسکتے۔ پس ہمارے سامنے جو کام ہے اس کے لحاظ سے ہمیں عظیم الشان جدوجہد کی ضرورت ہے۔ شاید کوئی کہے کہ ۲۵ لاکھ کے ریزرو فنڈ سے اگر دو ہزار مبلّغ بھی ساری دنیا کو پیغام حق نہیں پہنچاسکتے تو اس کا فائدہ کیا؟ تو ایسے دوستوں کے وہم کودور کرنے کیلئے میں یہ کہتا ہوں کہ مؤمن کا کام صرف جدوجہد کرنا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ غیب سے نصرت و تائید کے سامان مہیا کردیتا ہے۔
رسول کریم ﷺ جنگِ احد کے موقع پر ایک ہزار صحابہ کو لے کر دشمن کے مقابلہ کیلئے نکلے تو منافق کہتے تھے کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ لڑائی ہے تو ہم بھی ضرور چلتے لیکن یہ تو خودکشی ہے کیونکہ وہ لوگ سمجھتے تھے کہ ایک ہزار آدمی سارے عرب سے کسی طرح نہیں لڑ سکتا لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ یہ ایک ہزار کچھ اَور کو زیر کریں گے وہ آگے کچھ اَور لوگوں کو زیر کریں گے اور اس طرح یہی ایک ہزار ساری دنیاکو زیر کرلیں گے۔ چنانچہ یہی ایک ہزار تھے جنہوں نے چین سے لے کر یورپ تک ساری دنیا کو فتح کرلیا۔ پس مؤمن کا کام ابتدا کرنا ہے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی ترقی ہوتی ہے کہ دس، چالیس پچاس ہوجاتے ہیں، پچاس ،سَو اور سَو دوسَو بن جاتے ہیں اور اسی طرح یہ سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پس ہمارا کام صرف یہ ہے کہ صحیح اصول پر جن کواسلام تسلیم کرتا ہے سلسلہ کے کام کی بنیاد رکھ دیں اور پھر امید رکھیں کہ اللہ تعالیٰ خود برکت دے کرہمارے آدمیوں کو بڑھائے گا اور دشمنوں کے دلوں میں ہمارا رُعب پیدا کردے گا۔ ہمارا کام یہ ہے کہ سلسلہ کیلئے جو قربانی بھی ہم سے ہوسکتی ہے کریں خواہ وہ بظاہر کتنی تمسخر والی نظر آئے۔
رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ چندہ کی تحریک کی تو ایک صحابی نے جاکر کچھ مزدوری کی شاید کسی کے کنویں پر جاکر پانی نکالا اور اِس کے عوض اُسے آدھ سیر یا تین پائو غلہ ملا جو اُس نے لاکر چندہ میں ڈال دیا۔ اُس وقت ہزاروں روپیہ کی ضرورت تھی منافق ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ یہ لڑائی کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ یہ جنگ تبوک کا واقعہ ہے جو رومیوں سے درپیش تھی اور رومن حکومت اُس وقت ایسی ہی تھی جیسی آج انگریزی حکومت ہے اور اتنی بڑی حکومت سے لڑائی کیلئے اُس صحابی نے چند مُٹھّی جَو لاکر دیئے منافق اُس پرہنستے تھے لیکن رسول کریم ﷺ کوجب اِس کا علم ہؤا تو آپ نے فرمایا کہ ان کو کیا علم ہے کہ خد اکی نظر میں اس جَو کی کیا قیمت ہے ۔ یہی جَو تھے جن سے مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اور رومیوں کو شکست ہوگئی اور نہ صرف رومیوں کو بلکہ ایرانیوں کو بھی جن کی حکومت بھی رومی حکومت کے مقابل کی تھی مسلمانوں نے شکست دی۔
ایک عیسائی مؤرخ مسلمانوں کے اِس ایمان کو دیکھ کرلکھتا ہے کہ رسول کریم (ﷺ) کے متعلق خواہ کوئی کچھ کہے مگر ایک بات سے متاثر ہوئے بغیرمیں نہیںرہ سکتا اور وہ یہ کہ میں اپنے خیال کی آنکھوںسے ایک مسجد دیکھتا ہوں جس کی چھت پر کھجور کی ٹہنیاں پڑی ہیں بارش ہوتی ہے تو وہ چھت ٹپکتی ہے اور اسی میںوہ لوگ نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں اِنہی کیچڑ سے لتھڑے ہوئے آدمیوں کو جن کے بدن پرپورے کپڑے بھی نہیں مَیں مسجد کے گوشہ میں بیٹھے ہوئے باتیں کرتے دیکھتاہوں۔ یہ بے سامان اور ظاہری علوم سے بے بہرہ لوگ اِس امر پر باتیں کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ دنیا کوکس طرح فتح کرکے اپنے مزعومہ معیارِ تہذیب پر اِسے لانا ہے۔ وہ نہایت سنجیدگی سے یہ مشورے کرتے ہیں اور پھر ایک دن وہی ہوجاتا ہے جو وہ چاہتے تھے۔ وہ دنیا کو فتح کرکے دکھادیتے ہیں اور اس کانقشہ ہی بدل ڈالتے ہیں۔ پس یہ امر جب میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو میں اِس بات کو مانے بغیر نہیں رہ سکتاکہ محمد (ﷺ) کے پیچھے ضرور کوئی بڑی طاقت تھی اور آپ مسیحی مشنریوں کے قول کے مطابق دھوکاباز انسان ہرگز نہ تھے۔
پس جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ۲۵ لاکھ کی رقم جماعت کے لحاظ سے زیادہ ہے انہوں نے احمدیوں کے ایمان کا اندازہ نہیں کیا اور جو ہندوئوں اور عیسائیوں کی طاقت سے واقف ہونے کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ اس قلیل رقم سے کیا بنے گاوہ خداتعالیٰ کی طاقت سے ناواقف ہیں اور ان سے مَیں کہتا ہوں کہ ہماری فتح اِس روپیہ سے نہیں بلکہ اُس ایمان اور اخلاص سے ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہمارے دلوں میں پیدا کیا ہے۔ منافق اپنے دل کو دیکھتا ہے اور اپنے ایمان کو دیکھ کرمحسوس کرتا ہے کہ اس میںتو اتنی طاقت نہیں کہ پہاڑوں کو گراسکے اور سمندروں کو خشک کرسکے۔
یہی نوجوان جو باہرگئے ہیں ان میں سے ایک کی بات سن کرمجھے بڑی خوشی ہوئی۔ اُس نے کہا کہ ہم سے تین سال کا معاہدہ لیا گیا ہے اس میں بھی کوئی مصلحت ہوگی مگر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ تین سال تک خدا کا سپاہی رہنے کے بعد کوئی یہ خیال بھی کس طرح کرسکتا ہے کہ وہ پھر آکر بندوں کی نوکری کرے۔ پس یہ تین سال کا معاہدہ نہیں بلکہ ساری عمر کا ہے۔ ہم اس لئے باہر نہیں جاتے کہ واپس آئیں بلکہ اس لئے جاتے ہیں کہ خدا کی راہ میں مارے جائیں۔ یہ ابھی منہ کے الفاظ ہیں جب اللہ تعالیٰ ان الفاظ کے مطابق ہمارے نوجوانوں کو کام کرنے کی توفیق دے گا تو وہ ایک شاندار نظارہ ہوگا مگر جب تک وہ وقت آئے یہ الفاظ بھی ہمارے لئے خوشی کاموجب ہیں کیونکہ زبان کے الفاظ بھی جب عمل ان کے خلاف نہ ہو ایک قیمت رکھتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت تو زبانی بھی اس ایمان کا اظہار نہ کرسکی تھی۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب ان کومعلوم ہؤا کہ دشمن کالشکر آن پہنچا ہے تو انہوںنے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اِذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ ؎۳ کہ آپ اور آپ کا خدا جائیں او رلڑائی کریں جب فتح ہوجائے گی تو ہم بھی آجائیں گے۔ پس ایمان کی پہلی علامت تو یہی ہوتی ہے کہ منہ سے اظہار کیا جائے اگر وہ سچے دل سے ہوگا تو اللہ تعالیٰ اسے پورا بھی کردے گا۔ غرض منافق اپنے ایمان پر اندازہ کرتا ہے اس لئے جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جماعت غریب ہے اتنا روپیہ کہاں سے آئے گا وہ بھی غلطی پر ہیں اور جو دشمن کی طاقت سے مرعوب ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اِس قلیل رقم سے ہم کیا کریں گے وہ بھی غلطی پر ہیں۔ جو کہتاہے کہ اتنا روپیہ کہاں سے آئے گا اُس نے مؤمنوں کے ایمانوں کا اندازہ نہیں کیا اور ان کے ایمان کے مطابق ان کی قربانیوں کا اندازہ نہیں لگایا۔ اورجو کہتا ہے کہ اس سے کیا ہوگا اُس نے خدا کی نصرت اور تائید کا اندازہ نہیں کیا۔ یہ ایک کام ہے جس کا خدا نے فیصلہ کیاہؤا ہے ہمیں اپنی زندگیوں پر شبہ ہوسکتا ہے، اپنی اولادوں پر شبہ ہوسکتا ہے، اپنی بیویوں کے وجود پر شبہ ہوسکتا ہے، اپنے دوستوں پرشبہ ہوسکتا ہے، زمین و آسمان کے وجود پر شبہ ہوسکتا ہے مگر اس پر کوئی شبہ نہیں ہوسکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دنیا کے تمام اَدیان کو شکست ہوگی اور اسلام کی فتح ہوگی۔
اِس وقت یہاںاتنے لوگ بیٹھے ہیں ان میں مؤمن اور منافق کی پہچان آسان نہیں۔ منافق بھی ہماری نمازوں میں شامل ہوتے ہیں، روزوں میں شامل ہوتے ہیں، درسوں میں آتے ہیں، ان کی آنکھ، ناک اور چہروں سے کوئی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ یہ منافق ہیں مگر انہی لوگوں میں وہ لوگ بھی ہیں جن کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایسا ڈائنا میٹ بھراہؤا ہے اور وہ ایسی قربانیاں کرسکتے ہیں کہ وقت آنے پر دنیا حیران ہوجائے گی کہ ان گڈریوں میں کیسے سپہ سالار تھے جنہیں کوئی نہ دیکھ سکا۔
حضرت عبدالرحمن ؓ بن عوف کا ذکر میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ جنگ بدر میں ان کے دائیں بھی اور بائیں بھی دو انصاری لڑکے کھڑئے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ جب میں نے اُن کو دیکھا تو مجھے حسرت ہوئی کہ آج موقع تھا کہ کُفّار سے اُس بے حرمتی کا کچھ بدلہ لیتا جو وہ رسول کریم ﷺ کی کرتے رہے ہیں مگر آج میرے دونوںطرف دو نَوعمر اور کمزور لڑکے ہیں اور وہ بھی انصاری۔ انصار لڑائی کیلئے اچھے نہیں سمجھے جاتے تھے وہ زراعت میں ماہر سمجھے جاتے تھے مگر لڑائی میں نہیں۔ پس اُن کودیکھ کر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ میںنے خیال کیا کہ میں آج کیا لڑوں گا لیکن مَیں ابھی یہ خیال ہی کررہا تھا کہ مجھے ایک طرف سے کُہنی لگی ۔ مَیں اُس طرف متوجہ ہؤا تو اُس طرف کھڑے ہوئے لڑکے نے میرے کان کے پاس منہ کرکے دریافت کیا کہ چچا! لشکرکفار میں سے ابوجہل کون ہے؟ سناہے کہ وہ رسول کریم ﷺکو بہت دُکھ دیتا رہا ہے، میرا دل چاہتا ہے کہ آج اُسے قتل کروں۔ حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مَیں تجربہ کار فوجی تھا مگر یہ خیال میرے دل میں بھی نہیں آیا تھا کہ میں ابوجہل کو قتل کرسکتاہوں کیونکہ وہ بہادروں کے دائرہ کے اندر تھا اور اُس تک پہنچنا دشوار تھا لیکن میں نے ابھی اس لڑکے کے سوال کاجواب بھی نہیں دیا تھا کہ دوسری طرف سے مجھے کُہنی لگی اور دوسری طرف کے لڑکے نے بھی میرے کان کے ساتھ منہ لگا کر دریافت کیا کہ ابوجہل کون ہے؟ میرا دل چاہتا ہے اُسے قتل کروں۔ دونوں نے اس طرح آہستگی سے اس لئے دریافت کیا تھا کہ دوسرانہ سُن سکے۔ حضرت عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھے اُن کی جرأت پر حیرت ہوئی اور میں نے انگلی سے اشارہ کرکے بتایا کہ ابوجہل وہ ہے جو سپاہیوں کے حلقہ میں کھڑا ہے۔ وہ خُود اور زِرہ بکتر پہنے ہوئے تھا اور دو طاقتور فوجی افسر اُس کے آگے ننگی تلوار لئے ہوئے پہرہ کیلئے کھڑے تھے لیکن جونہی میں نے انگلی سے اشارہ کیا وہ لڑکے بعینہٖ اسی طرح جس طرح ایک عقاب چڑیا پر حملہ کرنے کیلئے لپکتا ہے آگے بڑھے اور دشمنوں کو چِیرتے ہوئے اُس پر حملہ آور ہوئے اور قبل اس کے کہ اس کے پہریدار سنبھلنے پاتے انہوںنے ابوجہل کو زخمی کرکے گرادیا ؎ ۴ ۔ تو وہ لڑکے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے پاس کھڑے تھے مگر وہ نہیںجانتے تھے کہ ان کے اندرایسی زبردست ایمانی طاقت ہے۔ اِسی طرح اِس مجلس میں ایسے لوگ ہیں جن کی ایمانی طاقت کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا لیکن جُوںجُوں قربانیوں کاوقت آئے گا وہ ظاہر ہوتے جائیں گے اور قربانیوں کے وقت ہی منافق بھی ظاہر ہوں گے۔ جب قربانی کا وقت آتا ہے تو منافق کہتا ہے کہ ہم کہاں تک بوجھ اُٹھائیں لیکن مؤمن خوش ہوتا ہے کہ کیا اچھا موقع اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔
پس اِس بات سے مت گھبرائو کہ یہ کام کیونکر ہوگا وہ زمانہ بالکل قریب ہے جب خدا دشمن کو ایسی شکست دے گا کہ وہ سر نہیں اُٹھاسکے گا مگر اِس کیلئے تمہیں انہی راستوں سے گزرنا ہوگا جن پر سے انبیاء کی جماعتیں گزری ہیں۔ مؤمن اپنے اور اپنے عزیزوں کے خون سے گزر کرہی خدا کے عرش پر پہنچتا ہے۔ پس یہ یقین رکھو کہ یہ کام ہوسکتا ہے اور اس میں کوئی غیرمعمولی توقّف بھی نہیں۔ صرف اُس وقت کا انتظار ہے کہ ہماری قربانیاں اس حد تک پہنچ جائیں جس تک پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی نصرت آتی ہے۔ جب وہ وقت آئے گا تمہارے جاہل کہلانے والے نوجوان دنیا کے علماء کے دلوں کو فتح کرکے انہیں اسلام کی غلامی میں داخل کردیں گے اور دنیا میں اسلام ہی اسلام پھیل جائے گا۔
اِس موقع پر میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ـ’الفضل‘ میں کچھ اشعار چھپتے رہے ہیں جن کی ردیف درد ہے ۔ ایک رات مَیں سویا ہؤا تھا کہ اسی وزن میںمیری زبان پر ایک مصرعہ جاری ہؤا جو یہ ہے کہ ؎
درد ہی اُس نے بنایا ہے نشانِ اہلِ درد
اور اِس کا مطلب مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ ہر چیز کی کوئی علامت ہوتی ہے ۔ آگ کی علامت دُھواں ہے ، سورج کی علامت روشنی ہے، جسم میں ورم ہو تو بخار ہوجاتا ہے اور طبیب سمجھ لیتا ہے لیکن درد کی علامت کوئی شَے نہیں بلکہ درد ہی درد کی علامت ہے۔ اگر کوئی شخص یونہی شکایت کرنے لگے کہ مجھے درد ہے تو بظاہر ایسی کوئی علامت نہیں جس سے ہم پتہ لگاسکیں کہ اسے درد ہے یا نہیں سوائے اِس کے کہ اُس کی درد والی حالت سے اندازہ لگائیں۔
پس اِس مصرعہ کامطلب یہ ہے کہ جب تم کسی کے اندر درد کی حقیقت پائو تو سمجھ لو کہ اس کے اندر درد ہے ورنہ زبانی کہنے سے کچھ نہیں بنتا۔ کسی کے اگر سرمیں درد ہو تو وہ گو چھپائے بھی مگر پتہ لگ جاتا ہے کہ اسے درد ہے۔ تو اِس مصرعہ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جس کے دل میں عشق ہو وہ چھُپ نہیں سکتا اور اُس کے رگ و ریشہ سے اس کے آثار ظاہرہوجاتے ہیں۔ اسی طرح مومن بھی ظاہری شکلوں سے نہیں بلکہ اپنی حالت سے پہچانے جاتے ہیں ان کے اعمال خود بتادیتے ہیں کہ ان کے دل میں درد ہے ورنہ منہ سے تو ہر شخص کہہ سکتا ہے لیکن جب درد پیدا ہوجائے تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھوڑے ہی عرصہ میں اس کے آثار چہرے پر نظر آنے لگتے ہیں۔ پس مؤمن کی پہچان کیلئے زبانی دعووں کی ضرورت نہیں ہوتی زبانی دعوے تو منافق بھی کرسکتا ہے لیکن مؤمن کو حقیقت خود مشخّص کرکے دکھادیتی ہے۔
دوسری بات مَیں آج یہ کہنی چاہتا ہوں کہ ہمارے مخالفوں نے اب ایک فتنہ کا نیا طریقہ ایجاد کیا ہے کہ وہ اخبار میں جھوٹی رپورٹیں شائع کرتے ہیں جو سَر تا پاجھوٹی ہوتی ہیں اور جن میں سے ہزارواں حصہ بھی صحیح نہیں ہوتا۔ اس سے ان کی غرض ہوتی ہے کہ جس شخص کے متعلق وہ خبر ہوگی اس کے متعلق خیال کرلیاجائے گا کہ اس میں کچھ نہ کچھ نقص تو ضرور ہوگا۔ چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ چونکہ ہمارے دوست عام طو رپر اس چال سے واقف نہیں ہیں وہ دھوکے میں آکر خیال کرلیتے ہیں کہ جس کے متعلق یہ بات کہی گئی ہے ضرور ہے کہ اس میں کچھ نہ کچھ نِفاق ہوگا حالانکہ یہ رپورٹیں سرتا پا غلط ہوتی ہیں۔ اَوروں کا تو کیا کہنا ہے چند دن ہوئے خود میرے متعلق احرار کے ایک اخبار میں لکھا ہؤا تھا کہ صدرانجمن احمدیہ کے دفتر میں ایک میٹنگ ہوئی اور پھر میاں بشیر احمد صاحب اس کی کارروائی لے کر میرے پاس آئے حالانکہ یہ واقعہ سرتا پا غلط تھا۔ نہ کوئی ایسی میٹنگ ہوئی اور نہ میاں بشیر احمد صاحب اس کی کارروائی لے کر میرے پاس آئے۔ تو یہ لوگ ا س طرح کی بے سروپا باتیں لکھتے رہتے ہیں اورا ن کے ذریعے سے جماعت میں بے چینی پھیلانا چاہتے ہیں اور بھائی کو بھائی سے بدظن کرنا چاہتے ہیں ۔ ان میں سے بعض تو سرتا پا غلط ہوتی ہیں اور بعض میں ایک معمولی سی بات صحیح ہوتی ہے اور باقی جھوٹ مِلالیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ صحیح ہؤا کہ زید اور بکر ایک جگہ ملے اور آگے یہ جھوٹ ملادیا کہ انہوں نے فلاں کو گالیاں دیں۔ ہمارے بعض دوستوں میں یہ مرض ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ غیر کا اخبار پڑھنا ضروری ہے حالانکہ جنہوں نے نگرانی کرنی ہے یا جواب دینا ہے انہوں نے تو پڑھنا ہی ہے باقیوں کوکیا ضرورت ہے کہ وہ گالیوں کو پڑھیں۔
میں نے کئی دفعہ سنا یا ہے کہ ایک دفعہ لاہور میں آریوں کا ایک جلسہ تھا جس میں جماعت احمدیہ کا ایک وفد شامل ہؤا جس کے امیر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل تھے۔ اس جلسہ میں آریوں نے رسول کریم ﷺ کو بہت گالیاں دیں اور ہمارے دوست وہاں بیٹھے رہے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سخت ناراض ہوئے کہ آپ لوگ وہاں کیوں بیٹھے رہے؟ پس جن کیلئے مجبوری ہے مثلاً ایڈیٹر ہوئے یا نیشنل لیگ کے افسر یا دعوت وتبلیغ والے ان کا تو کا م ہے دوسرا اگر پڑھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں گالیوں کو پڑھ کر درد نہیں ہوتا ورنہ کون ہے جو خود اپنے آپ کو خنجر مارے۔ ان باتوں کے پڑھنے سے بعض دفعہ آپس میں بدظنّیاں شروع ہوجاتی ہیں۔
کچھ عرصہ ہؤا بعض منافقوں نے یہ کام شروع کیا تھا کہ بعض لوگ لگادیئے جو روزانہ مجھے رپورٹیں بھیجتے تھے کہ میاں بشیر احمد صاحب فلاں جگہ یہ کہہ رہے تھے، خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب یہ شکوہ کرتے تھے، چوہدری فتح محمد صاحب یہ شکایت بیان کرتے تھے اور اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ میں ان سب سے بدگمان ہوجائوں۔ مگر جب یہ کرتے کرتے تھک گئے اور دیکھ لیا کہ مَیں ان رپورٹوں پرکسی کو بھی منافق نہیں سمجھتا تو اب یہ طریق اختیار کیا ہے کہ جماعت کے لوگوں کو آپس میں لڑائیں اور مخلصین کے دلوں میں شک پیدا ہو کہ فلاں آدمی ایسا ہے اور فلاں ایسا ہے اور خیال کرلیں کہ اس میں سے کچھ تو ضرور سچ ہوگا حالانکہ یہ سب باتیں جھوٹی ہوتی ہیں۔ پس اوّل تو مجھے سمجھ ہی نہیں آتی کہ دوستوں کو گالیاں پڑھنے کا کیا شوق ہے اور پھر جو پڑھیں ان کو بدظنی کی ضرورت نہیں۔
تیسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ میں نے جو ایک گزشتہ خطبہ میں کہاتھا کہ بعض حُکّام کا رویہ ہمارے متعلق اچھا نہیں اور اطمینان بخش نہیں اس سے ہرگز دفعہ ۱۴۴ کا منسوخ ہونا مراد نہ تھا۔ بعض دوست جب ایک طرف یہ سنتے ہیں اور دوسری طرف یہ کہ حکومت نے دفعہ ۱۴۴ واپس لے لی تو وہ دونوں باتوں کو مِلا کر سمجھ لیتے ہیں کہ میں نے جو کہا تھا وہ بھی شاید اسی کے متعلق ہے حالانکہ میں نے جو کچھ کہا تھا وہ اور بِناء پر کہا تھا احرار کا یہ پروپیگنڈا بالکل غلط ہے۔ دفعہ ۱۴۴ کہیں بھی ساری عمر کیلئے نہیں لگائی جاتی یہ توہوتی ہی دو ماہ کیلئے ہے۔ اور اس کے اختتام پر یہ شور مچانا کہ حکومت کو شکست ہوگئی ہے او رہماری فتح ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی ڈاکٹر کسی شخص سے کہے کہ تم مریض ہو ہسپتال میں داخل ہوجائو اور پھر اس کے صحت یاب ہونے پر اُسے ڈسچارج کردے تو لوگ شور مچانے لگیں کہ ڈاکٹر جھوٹ بولتا تھا کہ یہ بیمار ہے یہ شخص تو ہسپتا ل سے اچھا بھلا باہر نکلا ہے۔ کوئی ظالم سے ظالم گورنمنٹ بھی دفعہ ۱۴۴ کبھی عمر بھر کیلئے نہیں لگایا کرتی یہ لوگ ایسی باتیں کرکے دراصل لوگوں کوبیوقوف بناتے ہیں۔ ان کا طریق ہی یہ ہے کہ اپنے ساتھیوں کو احمق بنائیں ورنہ دفعہ ۱۴۴ کبھی ہمیشہ کیلئے نہیں لگا کرتی۔ کانگرس پر یہ دفعہ سینکڑوں مرتبہ لگائی گئی اور پھر ضرورت یا میعاد ختم ہوجانے پرمنسوخ کردی گئی۔ حکومت کو جہاں کوئی خطرہ ہوتا ہے وہاں یہ دفعہ لگادیتی ہے اور جب خطرہ کم ہوجائے تو واپس لے لیتی ہے۔ شہید گنج کا واقعہ جب لاہور میں ہؤا تو حکومت نے یہ دفعہ لگادی اور جب جوش ٹھنڈا ہوگیا تو واپس لے لی۔ اب پھر جو فساد ہؤا تو پھر لگادی۔ پس قادیان میں اس کی منسوخی سے یہ نتیجہ نکالنا کہ حکومت کو شکست ہوگئی یا یہ کہ اب وہ احمدیوں کی دشمن ہوگئی ہے بالکل غلط ہے۔ اس طرح تو مولوی عطاء اللہ صاحب جب چار ماہ کی قید کاٹ کر آئیں گے تو وہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حکومت نے شکست مان لی اور ہتھیار ڈال دیئے حالانکہ سزا ہی چار ماہ کی ہے اس کے بعد ایک دن بھی حکومت انہیں قید میں نہیں رکھ سکتی۔ اسی طرح دفعہ ۱۴۴ اور ۳۳۔ امینڈمنٹ ایکٹ بھی ضرورت کے ماتحت ہوتا ہے جب اس کی ضرورت نہ رہے تو اسے واپس لے لیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اس قسم کے پروپیگنڈے سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ احرار جیت گئے حالانکہ اِس دفعہ نے تو بہرحال منسوخ ہوجانا تھا جس طرح کہ چار ماہ پورے ہونے کے بعد حکومت مجبور ہے کہ مولوی عطاء اللہ صاحب کو چھوڑ دے۔ اسی طرح اس دفعہ کی واپسی کا یہ مطلب ہے کہ اب حکومت کو ایسا اندیشہ نہیں رہا۔ ایک وقت لوگوں میں جوش ہوتا ہے اُس وقت حکومت بھی ضروری تدابیر اختیار کرتی ہے پھر وہ جوش ٹھنڈا ہوجاتا ہے تو ان کی ضرورت نہیں رہتی۔ اسی سلسلہ میں یہ لوگ مشہور کررہے ہیں کہ احمدیوں نے تو بہت ناک رگڑی کہ حکومت اسے جاری رکھے مگر حکومت نے نہ مانا حالانکہ یہ بھی سراسر جھوٹ ہے۔ میں تو حیران ہوتا ہوں کہ جو افسر حالات سے واقف ہیں وہ ان کے جھوٹ پر اپنے دلوں میں کیا کہتے ہوں گے وہ ضرور ہنستے ہوں گے۔ اب میں بتاتا ہوں کہ یہ الزام کس قدر غلط ہے اور اب اِس کے چھُپانے کی بھی ضرورت نہیں۔ جن دنوں یہ گرفتاریاں ہورہی تھیں میں نے شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو مسٹر پکل چیف سیکرٹری کے پاس بھیجا کہ ہماری یہ خواہش نہیں کہ ہر احراری کو اِس پروپیگنڈا کے ماتحت گرفتار کیا جائے۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ لوگ ہمارا قانون توڑتے ہیں اِس لئے ہم انہیں گرفتار کرتے ہیں آپ کا اِس سے تعلق نہیں۔ اب وہ افسر جن کو میرا یہ پیغام پہنچا ہے وہ ان لوگوں کے پروپیگنڈا کو دیکھ کر اپنے دل میں ضرور ہنستے ہوں گے اور حیران ہوتے ہوں گے کہ یہ لوگ کس قدر جھوٹے ہیں۔ بہرحال ان کے اس پروپیگنڈا سے ہمارا تو فائدہ ہی ہے افسر سمجھتے ہوں گے کہ یہ لوگ کس قدر جھوٹے ہیں۔ ہمارا مطلب تو صرف یہ تھا کہ یہاں آکر یہ لوگ فساد نہ کریں اور فساد کوروکنا ہر حکومت کا فرض ہے اور بعض ٹٹ پونجئے ؎۵ اگر قادیان میں آ بھی جائیں یا کسی لیڈر کے آنے پر سَو،پچاس آدمی جو قادیان کے ہیں ان کے گِرد جمع ہوجائیں تو اس سے شورش کا کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔ پس یہ امر واقعہ ہے کہ میں نے خود شیخ صاحب کو بھیجا کہ ہماری طرف سے ہرگز یہ مطالبہ نہیں کہ کوئی غیراحمدی قادیان نہ آسکے ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ قادیان کو فساد کامقام نہ بننے دیا جائے یا اِس جگہ شرارت آمیز مظاہرے نہ ہوں۔ اِس پر چیف سیکرٹری نے جواب دیا کہ ہمارے ڈپٹی کمشنر نے ایک قانون نافذ کیا ہے جب تک وہ قانون نافذ ہے اِس کے توڑنے والے سزا کے مستحق ہیں جب وہ قانون واپس لے لیا جائے گا وہ نہ پکڑے جائیںگے۔ لیکن یہ لوگ مشہور کررہے ہیں کہ ہم نے ناک رگڑی کہ یہ دفعہ واپس نہ لی جائے۔ پس دوستوں کویاد رکھناچاہئے کہ اِس دفعہ کے منسوخ کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حکومت نے ہم سے دشمنی کی ہے۔ جب حُکّام ہماری مخالفت کرتے ہیں مَیں صاف کہہ دیتاہوں اور جو مخالفت ہوتی ہے اُسے مَیں خوب جانتا ہوں اور جب ضرورت ہوتی ہے اسے ظاہر کردیتا ہوں اور دنیا جانتی ہے کہ میں اس کے اظہار میں کسی سے دبنے والا نہیں ہوں لیکن یہ کارروائی نہ ہماری مخالفت کی وجہ سے ہے او رنہ ہی یہ حکومت کی شکست ہے قانون کے مطابق حکومت کو یہی کرنا چاہئے تھا جو اُس نے کیا۔ پس دوست ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ یہ دفعہ واپس لے کر حکومت نے ہمارے ساتھ دشمنی کی ہے اس نے قانون کے عین مطابق کیا ہے۔ ہاں جن باتوں میں ہمیں حکومت سے شکایت ہے وہ اب بھی موجود ہیں مگر وہ علیحدہ ہیں اس لئے دوستوں کوایسے پروپیگنڈا سے ہرگز متأثر نہیں ہونا چاہئے۔ مؤمن بِلا وجہ کبھی کسی پر الزام نہیں لگاتا ہم نہ حکومت پر الزام لگاتے ہیں نہ احرار پر۔ ہاں جو بھی غلطی کرے گا اس کا اظہار ضرور کردیں گے اور اس معاملہ میںہم کسی فوج یا حکومت سے نہیں ڈریں گے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ اچھی بات کو بھی ضرور ظاہر کردیں گے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ بُری بات کو چھپا لیں۔ اگر کوئی غلطی کرتا ہے تو دیکھیں گے کہ اس کاچھپانا بہتر ہے یا ظاہر کرنا اور پھر جو قیامِ امن کے مناسب ہوگا وہ کریں گے لیکن اچھی بات کو ظاہر کرنے سے ہم نہیں رہ سکتے۔ پس اِس پروپیگنڈا سے بھی مَیں جماعت کو خبردار کرتا ہوں اور اس سے بھی جو ’’مجاہد‘‘ میں جماعت کے بعض دوستوں کے متعلق کیاجارہا ہے اس سے بھی ہرگز متأثر نہیں ہونا چاہئے کہ وہ بھی بالکل جھوٹ ہے۔ یہ صحیح ہے کہ جماعت میں بعض منافق ہیں مگر میں اُن کو خوب جانتا ہوں اور اگر ضرورت ہوئی تو ظاہربھی کردوں گا مگر وہ لوگ مخلصین کو منافق ظاہر کرتے ہیں اور یہ بالکل غلط ہے۔ اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ دفعہ ۱۴۴ کو منسوخ کرنے میں حکومت نے ہم سے دشمنی کی ہے اور احرار سے دوستی۔ اِس میں شک نہیں کہ بعض حُکّام اب بھی ہمارے خلاف ہیں ان کی مخالفتیں میں نے بہت سی ظاہر کردی ہیں اور باقی بھی وقت آنے پر ظاہر کردوں گا مگر اس کارروائی میں ہماری کوئی مخالفت نہیں اور نہ ہی یہ حکومت کی شکست ہے۔ دفعہ ۱۴۴ اور ۳۳۔ امینڈمنٹ ایکٹ کی واپسی کے متعلق ہمیں حکومت سے کوئی شکایت نہیں اس نے جو کیا ہے درست کیا ہے جہاں وہ ہماری مخالفت کرے گی ہم فوراً ظاہر کردیں گے اور نہ قید سے ڈریں گے اور نہ پھانسی سے کہ ہم سے بہت بڑے بڑے لوگ قید بھی ہوئے اور پھانسی پر بھی لٹکائے گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خداتعالیٰ کے نبی تھے مگر پھانسی پر لٹکائے گئے اور حضرت یوسفؑ کو قید کیا گیا پس جو ڈرتا ہے وہ مؤمن ہو ہی نہیں سکتا۔ مؤمن حق کے بیان کرنے میں نڈر ہوتا ہے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اگرکسی سے اختلاف ہو تو اس کی نیکیوں کو بھی عیب ظاہر کیا جائے اور عیب کو بھی عیب۔ ہمیں حکومت سے اختلاف ہے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے جائز افعال کو بھی بُرا کہیں۔ پس دوست احراریوں کے پروپیگنڈا سے ہوشیار رہیں کیونکہ ایک طرف تووہ بِلاوجہ جماعت کو مایوس کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
آخر میں مَیں پھر یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ خواہ نخواہ ان کے لٹریچر کو بھی پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ میں نے سنا ہے کہ ان کے پندرہ بیس پرچے روزانہ یہاں بِک جاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے دوست چار سَو روپیہ سالانہ کی امداد کُفر کودیتے ہیں۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ چار سَو روپے خرچ کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دِلوائو؟ پس جب عملی طور پر آپ لوگوں نے ان کے جھوٹ کو دیکھ لیا ہے تو ان کے پرچوں کو پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ باقی دشمن سے بھی غلط بات کبھی منسوب نہ کرو ہمیشہ سچی بات کرو۔ ہم نے دنیا کو جھوٹ سے نہیں بلکہ اخلاق سے فتح کرنا ہے۔ پس تم اپنی ترقیوں کی بنیاد سچائی اور تقویٰ پر رکھو اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو اور یاد رکھو کہ وہ ہمیشہ متقیوں کا ہی ساتھ دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات سے پتہ لگتا ہے کہ فتح ہماری ہے اور جس طرح ہائی کورٹ سے ڈگری حاصل ہوجانے کے بعد کوئی نہیں گھبراتا اسی طرح تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ شہید گنج ایجی ٹیشن شروع ہوئی تو حکومت نے کہہ دیا کہ ہائیکورٹ نے سکھوں کے حق میں فیصلہ کیا ہؤا ہے تم اِس فیصلہ کو بدلوالو ہم تمہیں دلادیں گے۔ پس کیا تمہیں خدا کے فیصلہ پراتنا بھی اعتماد نہیں جتنا ہائی کورٹ کے فیصلہ پر ہوتا ہے اوریہ خدا کا فیصلہ ہے کہ دنیا ہمارے ہاتھ پرفتح ہوگی۔ پس کوئی خواہ چِیں کرے یا پِیں ، دنیا اسلام کے نام پر ہمارے ہاتھوں فتح ہوگی اور جو لوگ آج مخالف ہیں کَل اسلام اور احمدیت کی صداقت کے قائل ہوکر اسلام اور احمدیت کی شان کے بڑھانے والے ہوں گے۔ وَاللّٰہُ عَلٰی مَااَقُوْلُ شَہِیْدٌ۔
(الفضل ۲۳؍جنوری ۱۹۳۶ئ)
؎۱ النسائ: ۱۰۳
؎ ۲ جامع الصغیر للسیوطی صفحہ ۷ مطبوعہ مصر ۱۳۲۱ھ میں یہ الفاظ ہیں اتقوا مواضع التھم
؎۳ المائدۃ: ۲۵
؎۴ بخاری کتاب المغازی باب فضل من شہد بدرا
؎۵ ٹٹ پونجئے: تھوڑی پونجی یا سرمائے والا


۴
اگر دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کرنا چاہتے ہو تو خلیفۂ وقت
کی اسی طرح کامل اطاعت کرو جس طرح دماغ کی تمام
اعضاء کرتے ہیں
(فرمودہ ۲۴؍جنوری۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
تحریک جدید میں سے ایک جُزو اپنے ہاتھ سے کام کرنا ہے۔ میں ان خطبات میں جو اِس سال کی تحریک جدید کے متعلق دے چکا ہوں غالباً اِس کا ذکرکئی موقعوں پر کرچکا ہوں مگر پھر بھی میں سمجھتا ہوں ابھی یہ مضمون بہت کچھ وضاحت اور تحریک کا مستحق ہے۔ سال ہوگیا جب سے میں نے یہ تحریک کی ہے بلکہ سال کیا اب تو چودہ مہینے ہونے لگے ہیں لیکن باوجود اِس کے کہ میری اِس تحریک پر چودہ مہینے گزرچکے ہیں اور باوجود اِس کے کہ میں نے کہا تھا اس کی مثال قائم کرنے کیلئے تمام چھوٹے بڑے افراد کو اجتماعی طور پر اپنے ہاتھ سے کام کرنے چاہئیں تا دوستوں کیلئے محرّک اور نمونہ ہو، صدر انجمن احمدیہ نے اس قسم کا کوئی کام نہیں کیا حالانکہ کام کرنے کے کئی مواقع بہم پہنچتے رہے ہیں۔ دنیا میں ہر کام نمونہ چاہتا ہے کہنے والا اگر منہ سے ایک بات کہہ دیتا ہے لیکن عمل اس کے خلاف ہوتا ہے تو طبائع پر اچھا اثر نہیں پڑتا اور دنیا میں کام اتنی انواع کے ہؤا کرتے ہیں کہ ان میں سے بہت سے کام دوسرا شخص نہیں دیکھ سکتا۔ مثلاً ہاتھ سے کام کرنا ہے اس میں تحریر بھی شامل ہے اور تحریر کرنے والا بسااوقات اپنے گھر میں کام کرتا ہے جبکہ دوسرے لوگ اُسے نہیں دیکھ سکتے۔ میں اگر رات کوبارہ یا ایک بجے تک کام کرتا رہوں تو کسی کوکیا پتہ ہے کہ میں نے کوئی کام کیا ہے۔ جو شخص نو بجے چارپائی پر لیٹ جاتا ہے وہ یہ سمجھ کر لیٹتا ہے کہ اب ساری دنیالیٹ گئی ہوگی، جو شخص دس بجے چارپائی پر لیٹتا ہے وہ یہ سمجھ کر لیٹتا ہے کہ دس بجے سب لوگ سوگئے ہوں گے، جو شخص گیارہ بجے سوتا ہے وہ یہ خیال کرکے سوتا ہے کہ باقی دنیا بھی اب سورہی ہوگی اور جو بارہ بجے لیٹتا ہے وہ یہ سمجھتاہے کہ اب آدھی رات گزرچکی ہے اب تو کوئی شخص کام نہیں کررہا ہوگا۔ وہ کیا جانتا ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اِس وقت بھی کام میں مشغول ہیں۔ کہتے ہیں ’’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘‘۔ جو چیز آنکھ سے اوجھل ہو اُس کے درمیان ایک پہاڑ حائل ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسان اس کے متعلق صحیح رائے قائم نہیں کرسکتا اور اگر کرے تو اُسے اپنے اوپر قیاس کرتا ہے۔ جو شخص چار گھنٹے کام کرتا ہے وہ سمجھ لیتا ہے کہ چار گھنٹوںسے زیادہ کسی نے کیا کام کرنا ہے اور جو شخص پانچ گھنٹے کام کرتا ہے وہ سمجھ لیتا ہے کہ پانچ گھنٹوں سے زیادہ کسی نے کیا کام کرنا ہے یہ منافقت نہیں بلکہ اس کی طرف سے حقیقت کا اظہارہوتا ہے اور یہ باتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ دنیا میں ایسے کام بھی کرنے چاہئیں جو لوگوں کے سامنے آنے والے ہوں۔ اس طرح وہ لوگ جن کی نظروں سے کام اوجھل ہوتا ہے اور وہ سُستی کرتے ہیں اپنے سے بڑے آدمیوں کو کام کرتے ہوئے دیکھ کر چُست ہو جاتے ہیں۔
میں نے کئی دفعہ اسلامی زمانہ کا ایک واقعہ سنایا ہے کہ خلافت عباسیہ کے دَور میں کوئی مزیّن تھا جسے کسی امیر نے خوش ہوکر پانچ سَو اشرفیاں انعام دے دیں۔ جب اُسے اشرفیاں ملیں تو اشرفیاں لیتے ہی اُس نے خیال کرلیا کہ اب دنیا میں کوئی غریب نہیں رہا۔ چونکہ وہ امراء کا نائی تھا اور اشرفیوں کے چوری ہونے کا اُسے کوئی خطرہ نہ تھا اس لئے وہ جہاں تزئین کرنے جاتا اشرفیوں کی تھیلی بھی لے جاتا اور اُسے اُچھالتا پھرتا۔ امراء کو یہ دیکھ کر مذاق سُوجھا۔ جب کسی کے پاس جاتا وہ پوچھتا میاں مزیّن! شہر کا کیاحال ہے؟ وہ کہتا شہر کا اتنا اچھا حال ہے کہ کوئی کمبخت ایسا نہیں ہوگا جس کے پاس پانچ سَو اشرفیاں بھی نہ ہوں۔ اِسی طرح روز اُس سے مذاق ہوتا۔ ایک دن کسی امیر کو جو مزاح سُوجھا اُس نے چپکے سے وہ تھیلی کھسکا کر اپنے پاس رکھ لی چونکہ حجام کو یہ خطرہ نہیں تھا کہ یہاں سے تھیلی چُرائی جاسکتی ہے اِس لئے اُس وقت تو اُس نے خیال نہ کیا مگر گھر جاکر جو چیزیں دیکھیں تو اشرفیوں کی تھیلی گُم پائی۔ اِس کا اُسے اتنا صدمہ ہؤا کہ بیمار ہوگیا۔ وہ امراء جن کو حال معلوم تھا جب اُس سے پوچھتے کہ میاں! بتائو اب شہر کا کیا حال ہے؟ تو وہ کہتا شہر کنگال ہوگیا ہے، دنیا بھوکی مررہی ہے آخرجس نے وہ تھیلی چھپائی تھی اُس نے لاکر اس کے سامنے رکھ دی اور کہا شہر کو بھُوکا نہ مارو تم اپنی تھیلی لے لو۔ تو انسان کی عادت ہے کہ وہ دوسروں کا قیاس اپنے اوپر کرتا ہے۔ چور اِسی خیال میںرہتا ہے کہ ساری دنیا چور ہے، ایک جھوٹا یہی سمجھتا ہے کہ ساری دنیا جھوٹی ہے، ایک فاسق و فاجر یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ دنیا میں نیک لوگ بھی ہوتے ہیں۔ایک نکمّا اور بیکار شخص یہ نہیں جانتا کہ دنیا میں کام کرنے والے لوگ بھی ہیں وہ سب کو نکمّا اوربیکار خیال کرتا ہے۔ غرض دیواروں کے پیچھے کام کرنے والے کتنا ہی شاندار کام کریں، کتنی محنت اور سرگرمی سے حصہ لیں ، کتنا وقت خرچ کریں پھر بھی ایک نکمّے شخص کی نگاہ میں سب دنیا نکمّی ہوگی اور جب اُسے کسی کام کیلئے کہا جائے گا وہ کہے گا ہم نے سب دیکھے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے آدمی بھی نکمّے بیٹھے رہتے ہیں نہ کام کرتے ہیں نہ کار، مُفت میں تنخواہیں لیتے ہیں ۔ تو کچھ کام ظاہر ہونے چاہئیں اور کچھ نہ کچھ لوگوں کے سامنے نمونہ ہونا چاہئے اس سے اُ ن کو تحریک ہوجاتی ہے اور وہ بھی اپنے ہاتھ سے کام کرناکوئی عار نہیں سمجھتے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانہ میںایک زمیندار شخص جس نے کبھی شہرنہیں دیکھا تھا اور نہ شہری تمدّن سے واقف تھا ریاست کپورتھلہ کا رہنے والا تھا، ایک دفعہ یہاں آیا اور پھر لاہور اور امرتسرجانے کا اسے جو موقع ملا تو شہری زندگی دیکھ کر ایک دم اُس کی کایا پلٹ گئی اور اُس کے دل میں یہ شوق سمایا کہ میں شہری طرزِ رہائش اختیار کروں۔ چنانچہ یہ جنون اُس میں یہاں تک بڑھاکہ وہ سیکنڈ کلاس کے بغیر ریل میں سفر نہیں کرتا تھا اور حالت یہ ہوگئی کہ جب وہ لاہو رکے سٹیشن پر اُترتا تو رومال یا چھتری قُلی کو دے دیتا اور کہتا میرے پیچھے پیچھے چلے آئو۔ حضرت خلیفۃ اوّل نے ایک دفعہ اُس سے پوچھا کہ تم یہ کیا کرتے ہو رومال اور چھتری تک خود اُٹھا نہیں سکتے اور قُلی کو دے دیتے ہو؟ کہنے لگا یہ فیشن ہے اگر قُلی ساتھ نہ ہو تو انسان معزز نہیں سمجھا جاتا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ اُس کی ساری جائداد گِرو پڑی پھر اس کے بعد اُس نے جائداد بیچ ڈالی، پھر اپنی بوڑھی ماں کو مار پیٹ کر اُس کا زیور بیچ ڈالا اور جب اِس طرح بھی کام نہ چلا تو عیسائی ہوگیا چنانچہ وہ اب تک عیسائی ہے حالانکہ اِس سے پہلے وہ ایک سیدھا سادھا نیک طبع نوجوان تھا۔ اُس کاایک لطیفہ مشہور ہے اُس نے ہمارا باغ ایک دفعہ ٹھیکے پر لیا۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی بات ہے۔ ایک لڑکا جو بورڈنگ میں رہا کرتا تھا اب تو بہت نیک اور مخلص احمدی ہے لیکن اُس وقت بڑا شوخ مزاج ہوتا تھا۔ اُس نے ایک دو اور لڑکوں کو اپنے ساتھ ملاکر کہا آئو رات کو ہم باغ میں چل کرمیوے کھائیں۔ جب وہ میوے کھانے گئے تو اُس نے انہیں پکڑ لیا۔ باقی دو تو بھاگ گئے مگر یہ قابو آگیا۔ شاید درخت پر تھا اور اُس سے اُتر نہ سکا یا کوئی اور سبب ہؤا بہرحال وہ پکڑ ا گیا۔ جب وہ پکڑا گیا تو اس شخص نے پوچھا بتا تیرا نام کیا ہے؟ اس کے نام میں عطر کالفظ آتا تھا۔ پہلے تو اس نے بتانا چاہا اور اس کے منہ سے عطر نکل گیا پھر رُکا۔ پھر نام بتانے لگا تو عطر کا لفظ نکل گیا۔ مگر پھر اس نے اپنے آپ کو روکا اور چاہا کہ میں کوئی اور نام بتادوں۔ اتفاقاً اس کا ایک دوسرا نام بھی تھا جو غیرمعروف تھا یعنی فضل الدین۔ اور اس کی وجہ سے بعض لوگ اسے فجا کہتے تھے۔ اُس نے آخر اپنا نام فجا بتادیا۔ نام پوچھ کر اس شخص نے اسے چھوڑ دیا۔ جب صبح ہوئی تو وہ بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ کے ایک لڑکے نے رات باغ سے پھل چُرایا ہے؟ انہوںنے پوچھا اُس کا کیانام تھا ؟ وہ کہنے لگا اُس کا نام فجا ہے۔ وہ کہنے لگے اس نام کا تو کوئی لڑکابورڈنگ میں نہیں۔ اُس نے کہا تو پھر سکول میں ہوگا۔ انہوں نے کہاسکول میں بھی فجا نام کا کوئی لڑکانہیں۔ پھر انہوںنے حُلیہ پوچھا تو اُس نے جو حُلیہ بتایا اس سے انہیں شبہ پڑا اور انہوں نے اس لڑکے کا نام لیا۔ تو وہ کہنے لگا یہ نام نہیں اس کا نام فجا ہے۔ وہ کہنے لگے تمہیں کس طرح پتہ ہے کہ اس کانام فجا ہے؟ وہ کہنے لگا اُس نے اپنا نام یہ بتایا تھا کہ عطر عطر فجا۔ وہ کہنے لگے معلوم ہوتا ہے فجا اس نے تمہیں دھوکا دینے کیلئے بتایا ہے ورنہ اصل نام تو اُس کا وہی ہے جو پہلے اس کے منہ سے نکل گیا تھا۔ تو اس قسم کی سادہ طبیعت کا وہ آدمی تھا لیکن بعد میں اِسراف اور اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنے کے نتیجہ میں اُس کا مال گیا، دولت گئی، عزت گئی اور آخر میں مذہب بھی چلا گیا۔ تو ہاتھ سے کام نہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ اس سے بڑی بڑی خرابیاں پیدا ہوجاتیں اور اچھے اچھے خاندان برباد ہوجاتے ہیں پھر اس کے نتیجہ میں غرباء ہمیشہ غربت کی حالت میں رہتے ہیں اور انہیں اپنی حالت میں تغیر پید اکرنے کا موقع نہیں ملتا۔
اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ میں تحریک کرتا ہوں جماعت ساڑے ستائیس ہزار روپیہ دے اور وہ تھوڑے سے عرصہ میں ایک لاکھ سات ہزار روپیہ کا وعدہ کردیتی ہے۔ پھر دوبارہ ایسی حالت میں تحریک کرتاہوں جبکہ جماعت پر اور بوجھ بھی ہیں تو وہ ایک لاکھ پندرہ ہزار روپیہ کا وعدہ کردیتی ہے لیکن جو تحریک اپنے ہاتھ سے کام کرنے کے متعلق ہے اِس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اور جماعت کی پہلی حالت بدستور چلی آتی ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مال کی قربانی اِس قربانی کی نسبت بہت زیادہ آسان ہے اور یہ قربانی کرتے وقت لوگ ہچکچاہٹ محسوس کرتے اور خوشی سے آمادہ نہیں ہوتے۔اِس کانتیجہ مَیں یہ دیکھتا ہوں کہ زندگیاں وقف کرنے والے نوجوان زندگیاں وقف کرتے ہیں وہ اِس دعوے کے ساتھ زندگی وقف کرتے ہیں کہ بھُوکے رہیں گے، پیاسے رہیں گے، پیدل جائیں گے اور ہرقسم کی تکلیف برداشت کرنے کیلئے خوشی سے تیار رہیں گے لیکن جب ہم اُن کی روانگی پر انہیں اپنے پاس سے کچھ خرچ دیتے ہیں تو جھٹ یہ سوال پیدا کردیتے ہیں کہ اتنا خرچ تو کافی نہیں اَور روپیہ چاہئے۔ یہ امر صاف بتاتا ہے کہ انہیں اِسراف اور اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنے کی عادت ہے۔ وہ وطن چھوڑ دیں گے ، اپنے مستقل کو قربان کردیں گے، بیوی بچوں سے جُدا ہوجائیں گے، ماں باپ سے الگ ہوجائیں گے لیکن اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنا اور اِسراف ان کی راہ میں حائل ہوجائے گا اور ان عادتوں کی وجہ سے وہ مختلف قسم کے سوال پیدا کردیں گے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں بہ نسبت اَور امراض کے یہ مرض زیادہ راسخ ہے حالانکہ یہی وہ مرض ہے جس سے قوم میں غداری، فریب اور خیانت کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور جب اس قسم کی عادت پیدا ہوجائے کہ انسان نکمّا بیٹھا رہے اور جو مُفت میں ملے وہ لے لے تو اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن آتا ہے اور اس سے آکر کہتا ہے مجھ سے پانچ روپے لے لو اور احمدیوں کا کوئی راز بتائو یا ان کی فلاں خبر ہمیں لادو اس پر وہ پانچ روپے لے لیتا اور اپنے ایمان کو ضائع کردیتا ہے۔ بالکل ممکن ہے اس نے دس روپے اپنی طرف سے چندہ میں دیئے ہوں لیکن چونکہ اسے نکمّا بیٹھے رہنے کی وجہ سے یہ عادت پڑی ہوئی ہے کہ مُفت کا روپیہ لیتا اور اپنی ضروریات پر خرچ کرتا ہے اس لئے وہ پانچ روپے دیکھ کر انہیں چھوڑ نہیں سکتا، اور وہی انسان جو احمدیت کیلئے اپنی جان قربان کرنے کیلئے تیار تھا، اپناوطن چھوڑنے کیلئے تیار تھا، اپنے بیوی بچوں سے جُدا ہونے کیلئے تیار تھا محض پانچ روپے پر اپنی قوم کو بیچ دینے کیلئے تیار ہوجاتا ہے۔
یہودااسکریوطی کو دیکھو۔ حضرت مسیح علیہ السلام کیلئے وہ سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار تھا اور حواریوں میںوہ خاص عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا لیکن اس نے تیس درہم پر اور وہ بھی کھوٹے تیس درہموں پر کہ اگر وہ کھوٹے نہ ہوتے تب بھی ان کی قیمت آ جکل کے لحاظ سے ساڑھے سات روپے بنتی ہے حضرت مسیح علیہ السلام کوبیچ دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بھی وہی عادت تھی جو آجکل ہمارے بعض نوجوانوں میں پائی جاتی ہے کہ نکمّا بیٹھے رہتے اور مُفت کی کھاتے ہیں اورمُفت کی کھانے کی عادت پیدا ہوتی ہے اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنے کے نتیجہ میں۔
اِس وقت جتنے لوگ ہیں خواہ وہ بڑے ہیں یا چھوٹے سب میرے مخاطب ہیں اور میں ان میں سے بہت کم لوگوں کو مستثنیٰ کرسکتا ہوںبلکہ میں سمجھتا ہوں اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنے کی عادت کے لحاظ سے باوجود اِس کے کہ یہ تعلیم میرے منہ سے نکل رہی ہے میں اپنی اولاد کو بھی مستثنیٰ نہیں کرسکتا۔ وہ بھی اِس بات پر تو تیار ہوجائیں گے کہ سلسلہ کیلئے اپنی جانیں دیں، تبلیغ کیلئے غیرمُلکوں میں نکل جائیں لیکن اپنے ہاتھ سے کام کرنا انہیں دوبھر معلوم ہوگا۔ یہ محض عادت نہ ہونے کی وجہ سے ہے ورنہ اگر انہیں عادت ہوجائے تو اِس کام میں بھی وہ کوئی تکلیف محسوس نہ کریں۔
رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ وہ اِذخر کاٹ کر لاتے اور بیچتے ؎۱ ۔ اِذخر ایک قسم کا گھاس ہوتا ہے اہل عرب میں چونکہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت تھی اس لئے وہ ان کاموں کوبُرا نہیں سمجھتے تھے لیکن ہمارے ملک میں کام کرناعزت کے خلاف سمجھاجاتا ہے۔ جب تک ہم اِس خیال کو دُور نہیں کردیتے جماعت میں سے آوارگی اور جہالت دور نہیں ہوسکتی۔ اور اگر کام کرنے کی روح جماعت میں پیدا کردیں تو جماعت کا ۲۵ فیصد بوجھ اُترسکتا ہے اور جب اس روح کے نتیجہ میں وہ دنیا میں مفید کام کرنے لگ جائیں تو میں سمجھتا ہوں ۲۵ فیصد بوجھ اور اُترسکتا ہے کیونکہ اِس کے نتیجہ میں چندہ دینے والے بہت سے نئے لوگ پیدا ہوجائیں گے۔ غرض اگر اِس وقت ہمارا خرچ کا تین لاکھ سالانہ بجٹ ہوتا ہے تو بیکاروں کا بوجھ ہٹ جانے کی وجہ سے بجٹ سَوادولاکھ پر آجائے گا اور اگر اِس وقت آمد اڑھائی لاکھ ہوتی ہے تو چندہ دینے والوں کی زیادتی سے آمد سَوا تین لاکھ ہوجائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِس وقت قادیان میں ہی پانچ سَو عورتیں مرد ایسے ہیں جو بالکل نکمّے بیٹھے ہیں اور جن کی نظر اِسی طرف رہتی ہے کہ کوئی انہیں دے تو کھالیں۔ ان میں اخلاص ہے، نیکی ہے اگر فاقہ میں بھی انہیں چندہ کی آواز آئے تو وہ اپنے مانگے ہوئے روپیہ میں سے چندہ دینے کیلئے تیار ہوجائیں گے اور خداتعالیٰ کیلئے اسے خرچ کردیں گے پس ان میں اخلاص کی کمی نہیں، کمی صرف تربیت کی ہے۔ کام لینے والوں نے ان سے کام نہیں لیا او رسمجھانے والوں نے انہیں سمجھایا نہیں او رنہ انہیں بتایا ہے کہ کس رنگ میں وہ اپنی عزت بڑھاسکتے ہیں۔ اگر بتاتے تو وہ بھی دوسروں سے پیچھے نہ رہتے۔ گویا وہ قیمتی موتی ہیں مگر افسوس کہ مٹی کے اندر ملے ہوئے ہیں۔ جس طرح ایک گھوڑا جس پر سوار ہوکر انسان مِیلوں میل سفر کرلیتا ہے اگر انسان اُس کے نیچے کھڑاہوکر اُسے اپنے سرپر اُٹھانا چاہے تو وہ اس کی کمر توڑ دے گا اسی طرح یہ قوم کے گھوڑے ہیں مگر بجائے اِس کے کہ ان کے ذریعہ ترقی کی منازل طے کی جاتیں وہ ایسے پتھر بن گئے ہیں جو قوم کے گلے میں پڑے ہوئے ہیں اور جو اسے نیچے ہی نیچے کھینچے لئے جارہے ہیں۔
پس ضروری ہے کہ اس قسم کے کام تمام جماعت مل کر کرے تا مِل کر کام کرنے کی وجہ سے کوئی شخص ہاتھ سے کام کرنا اپنے لئے عار نہ سمجھے۔ میں نے اُس وقت کئی کام بھی بتائے تھے چنانچہ میں نے کہا تھا مہمان خانہ بننے والا ہے سب مل کراس کی تعمیر کردیں لیکن لوگوں کے کانوں پرجُوں تک نہ رینگی اور مہمان خانہ بن گیا۔ پھر میں نے کہا تھا محلوں میں بڑا گند ہوتا ہے غیر لوگ جب دیکھتے ہوں گے تو باہر جاکر کیا کہتے ہوں گے کہ یہ احمدی تقریریں کرتے وقت تو کہتے ہیں قرآن مجید کا حکم ہے صفائی کرو اور گندگی سے بچو لیکن ہم نے ان کے محلے دیکھے ہیں بدبُوکے مارے ان میں سے گزرا نہیں جاتا۔ متعفن نالیاں ہیں، راستوں پر گند پڑا رہتا ہے اور کوئی صفائی نہیں کرتا۔ میں نے توجہ دلائی تھی کہ محلے والے مل کر اس گند کو دُور کریں اور گڑھے وغیرہ پُر کرکے جگہیں ہموار کردیں۔ آخر لوگ روٹیوں کی دعوت کھانے کیلئے جاتے ہیں یا نہیں؟ پھر کیا وجہ ہے کہ اس کام کیلئے لوگوں کو دعوت دی جائے اور وہ نہ آئیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایک دن دارالرحمت والے سارے شہر کی دعوت کردیں اور کہیں آئو سب مل کر ہمارے محلہ کی صفائی کرو، پھر کسی دن دارالفضل والے سب شہر کو بلالیں کہ آئو ہمارے محلہ کی صفائی کردو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ روٹی کی دعوت میں تو ہم جاسکتے ہیں لیکن کام کی دعوت میں ہم نہیں جاسکتے۔ تو یہ ساری تدبیریں میں نے بتائی تھیں مگر چودہ مہینے ہوگئے کسی نے ہمیں نہیں بلایا ۔دوسری دعوتیں تو لوگ اس کثرت سے کرتے ہیں کہ مجھے پیچھا چھُڑانا مشکل ہوجاتا ہے اور ان کا اصرار ہوتا ہے کہ آج روٹی ہمارے گھر سے کھائیں۔ حالانکہ روٹی انسان اپنے گھر میں روز کھاتا ہی ہے۔ پس ایسی دعوت کا کیا فائدہ جو روز میسّر آتی ہے وہ دعوت کرو جو لوگوں کو میسّر نہیں آتی۔ کام کیلئے بُلائو اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی لوگوں کو عادت ڈالو تا فارغ اور نکمّے بیٹھے رہنے والوں کو بھی کام کی عادت پڑے۔ اور اگر کام کرکے لوگوں کو کھانے کی عادت ہوجائے تو پھر چاہے کوئی لاکھ روپیہ بھی دے اور کہے کہ قوم سے غداری کرو تو وہ غداری کرنے کیلئے تیار نہیں ہوگا کیونکہ اُسے طیب کھانے کی عادت ہوگی۔
پس کام نہ کرنے کے نتیجہ میں اخلاق بِگڑ جاتے ہیں، قوم میں بیکاری اورآوارگی پیدا ہو جاتی ہے اور خداتعالیٰ کی وہ عطا کردہ طاقتیں جن کی قیمت میں دنیا کی کوئی چیز پیش نہیں کی جاسکتی ضائع ہوجاتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی آنکھ کتنی قیمتی چیز ہے لیکن جب کسی کی آنکھ ضائع ہوجائے تو کیا کرڑوں روپیہ دے کر بھی وہ آنکھ بنواسکتا ہے؟ اسی طرح خداتعالیٰ کا دیا ہؤا دماغ جب خراب ہوجاتا ہے اور انسان پاگل ہوجاتا ہے تو بسااوقات سارے ڈاکٹر مل کر بھی اُسے اچھا نہیں کرسکتے۔ پس کام نہ کرنے کے نتیجہ میں علاوہ اور نقصانات کے ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کی عطا کردہ طاقتیں ضائع چلی جاتی ہیں۔ اگر کوئی شخص ایک ہزار روپیہ ڈھاب میں ڈال دے تو قادیان کے سارے لوگ اُسے ملامت کرنے لگ جائیں گے کہ کیسا بیوقوف ہے اس نے ہزار روپیہ ڈھاب میں ڈال دیا لیکن اس سے لاکھوں گُنے نہیں کروڑوں گُنے زیادہ قیمت کا دماغ لوگ ضائع کررہے ہوتے ہیں اور کوئی نہیں کہتا کہ کتنا اندھیر ہے حالانکہ غریب سے غریب اور اَن پڑھ سے اَن پڑھ کے دماغ کے مقابلہ میں ہزاروں روپیہ کی کوئی حقیقت نہیں۔ جاہل سے جاہل انسان سے کہو کہ ہم تجھے ہزار روپیہ دیتے ہیں تُو اپنا بھیجا نکال دے تو وہ اِس کیلئے تیار نہیں ہوگا۔ پس کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ اگر کوئی ڈھاب میں ایک ہزار روپیہ ڈال دے تو سارے لوگ مل کر شور مچادیں کہ اتنا بڑا بیوقوف ہم نے کبھی نہیں دیکھا لیکن جو لوگ اپنے کروڑوں روپیہ سے زیادہ قیمتی دماغ ضائع کررہے ہیں ، اپنی مفید ترین طاقتیں نکمّے اور بیکار بیٹھ بیٹھ کر ضائع کررہے ہیں ہم انہیں دیکھتے اور کوئی شور نہیں مچاتے اور نہ ان کی درستی کے ذرائع اختیار کرتے ہیں۔ پس بیکاری ہمیشہ کام کو ذلّت سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اگر ہم کام کرنے لگ جائیں اور لوگ دیکھیں کہ چھوٹے بڑے سب کام کررہے ہیں تو ذلّت کا خیال لوگوں کے دلوں سے خودبخود نکل جائے اور لوگ کام کرنے میں عزت محسوس کرنے لگیں اور جس دن کام میں لوگ عزت محسوس کرنے لگیں گے، جس دن نکمّا اور بیکار بیٹھنا لوگ اپنے لئے ہلاک کرنے والی زہر سمجھیں گے اُس دن سمجھو کہ دنیا کی بلائیں ٹل گئیں اور روحانیت کی بنیاد قائم ہوگئی۔ کیونکہ کام ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے کرنے کے نتیجہ میں جہاں دُنیوی مصائب کا خاتمہ ہوتا ہے وہاں روحانیت کا بھی دروازہ کُھل جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے یٰٓاَیُّھَاالرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ؎۲ ا ے رسول! طیب کھائو اور اعمال صالحہ کرو۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ طیب کھانے کے نتیجہ میں اعمال صالحہ پیدا ہوتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں ہوسکتا کہ بعض لوگ طیب کھائیں لیکن ان کے پاس دین نہ ہو اور اس وجہ سے شریعت کے مطابق ان سے اعمال صالحہ سرزد نہ ہوں لیکن جن کے پاس دین ہو اور وہ طیب کھائیں ان سے ضروراعمال صالحہ صادر ہوتے ہیں۔ مثلاً یورپ کے لوگ ہیں وہ طیب کھانے کے عادی ہیں بڑی محنت اور مشقّت سے کام کرتے اور اپنی روزی کا سامان مہیا کرتے ہیں لیکن دین ان کے پاس نہیں اگر دین ان کے پاس پہنچ جائے تو چونکہ وہ طیب کھاتے اور مشکل سے مشکل کاموں کو سر انجام دینے کے عادی ہیںاس لئے وہاں اسلام نہایت شاندار نتیجہ پیدا کرے۔
جب میں لنڈن گیا تھا تو یورپ کے لوگوں کے متعلق مجھ پر یہ اثر ہؤا تھا کہ ان میں روحانیت ایشیا سے زیادہ ہے۔ان میں دین کے متعلق ایک جستجو اور تڑپ پائی جاتی ہے پھر ان میں سنجیدگی اور متانت ایشیا والوں سے بہت زیادہ ہے۔ہندوستانی جو پڑھے لکھے ہیں ان کی مجلس میں بیٹھ کر دیکھ لو اور پھر انگریزوں کی مجلس میں بیٹھ کردیکھ لوتمہیں معلوم ہو گا کہ انگریزوں کا مذاق بہت زیادہ سنجیدہ ہے۔ ہندوستانیوں میں چھچھورا پن ہوگا اور پھر بدتہذیبی اور ناشائستگی پائی جائے گی جب بھی دو چار ہندوستانی مل کر بیٹھیں گے کہیں کھانے کا ذکر ہوگا اور اس پر مذاق اُڑایا جارہا ہوگا، کہیں ہوا خارج ہونے پر قہقہے لگ رہے ہوں گے، کہیں ڈکار پر ہنسی ہورہی ہوگی۔ اس کے مقابلہ میں شریف انگریزوں کی مجلس میں تم دس سال رہو تمہیں اِن باتوں کا نشان تک نظر نہیں آئے گا۔ یہاں قادیان میں پڑھے لکھے کئی آدمی ہیں جواِن گندی باتوں میں حصہ لیتے ہیں اور ان کی مجلس میں اس قسم کے لغو اوربیہودہ باتوں کا ذکر ہوتا ہے اور ان پرہنسی اُڑائی جاتی ہے۔
بچپن میں جب مَیں ہائی سکول میں پڑھا کرتا تو دو استاد تھے اُنہیں دیکھ کر مجھے اتنی گھِن اور نفرت آتی جو بیان سے باہر ہے۔ وہ جب بھی ایک دوسرے کی شکل دیکھتے کہیںپاخانے کا مذاق شروع ہوجاتا، کہیں ہوا خارج ہونے کے متعلق ہنسی کرنے لگ جاتے اور مجھے ان کی باتیں سُن سُن کر اتنی گھِن اور نفرت آتی کہ میں چاہتا وہاں سے بھاگ جائوں۔ یہ چھچھورا پن، یہ کمینگی، یہ رذالت اور یہ بیہودگی اور یہ گندہ مذاق کیوں ہے؟ باوجود اس کے کہ خداتعالیٰ کا دین تمہارے پاس ہے یہ رذالت اور کمینگی اسی لئے ہے کہ تمہارے وقت کی کوئی قیمت نہیں اور جب انسان کسی مفید کام پر اپنا وقت خرچ نہیں کرتا تو کوئی نہ کوئی بکواس شروع کردیتا ہے۔ پس جب وہ حقیقی کام نہیں کرتے تو اِس قسم کی بکواس شروع کردیتے ہیں۔ تم اپنے اِردگِرد کے لوگوں پر نظر دوڑائو اور دیکھو کہ کیا یہ باتیں پائی جاتی ہیں یا نہیں؟ مسلمانوں میں کہیں قرآن کریم کی آیتیں ہنسی کے طور پر پڑھی جارہی ہوں گی، کہیں حدیثیں ہنسی کے طور پر پڑھی جارہی ہوں گی، کہیں اسلامی اصطلاحیں مذاق کا نشانہ بن رہی ہوں گی، کہیں کھانے اور دعوتوں کا ذکر ہوگا۔ ایک کہے گا تم فلاں دعوت میں تھے تم نے کتنا کھایا دوسرا کہے گا تم فلاں شادی میں تھے کیا کیا کھایا۔ پھر کہیں کسی کے ڈکار لینے پر مذاق سوجھ جائے گا، کہیں ہوا خارج ہونے پر قہقہہ لگ جائے گا۔ تم بتائو کیا اس قسم کی رذیلانہ او رکمینہ حرکات تمہارے ملک اور سوسائٹی میں ہوتی ہیں یا نہیں؟ پھر سوچو کہ اِس کی کیا وجہ ہے کہ تم میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں۔ اگر تم غور کرو گے تو معلوم ہوگا کہ یہ باتیں محض اس وجہ سے ہیں کہ تمہیں کام کرنے کی عادت نہیں۔ اگر کام کرنے کی عادت ہو تو طبیعت میں سنجیدگی او رمتانت پیدا ہوجاتی ہے اورنہ صرف اِس قسم کی کمینہ حرکات میں انسان حصہ نہیںلیتا بلکہ اس کا وقت ضائع ہونے لگتا ہے تو اسے غصہ آتا ہے۔ پس کام کرنے کی عادت ڈالو اور اپنے اوقات کی قدر کرو۔
عیسائیت کتنی گھنائونی چیز ہے، کتنی قابلِ نفرت چیز ہے فطرت اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے کہ ایک کھاتے پیتے انسان کو خدامانا جائے، انسانی عقل اسے دھکے دیتی اور اسے اپنے سفید کپڑوں پرایک داغ اور میل سمجھتی ہے لیکن باوجود اِن تمام باتوں کے عیسائیوں کے اخلاق کیوں تم سے اعلیٰ ہیں؟ ان کے اعلیٰ اخلاق مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہیں کہ ان قوموں نے کسی سبب سے مَیں اُس سبب کی تعیین نہیں کرتا، مَیں مذہب پر بحث نہیں کررہا کہ میں مذہبی سبب بیان کروں، مَیں اقتصادیات پر بحث نہیں کررہا کہ اقتصادی سبب بیان کروں، مَیں سیاسیات پر بحث نہیں کررہا کہ سیاسی سبب بیان کروں، مَیں یہ کہتا ہوں کہ کسی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو بیکاری سے بچالیا اور کام کرنے کی عادت ڈال لی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ باوجود اس کے کہ مذہب ان کے پاس نہیں ان کے اخلاق تم سے اعلیٰ ہوگئے ۔
ہم جب لنڈن پہنچے اور رات سونے کے بعد میں صبح کو اُٹھا تو میںنے اپنے قافلہ کے دوستوں کے چہروں پر رنجش کے آثار پائے اور مجھے یوں معلوم ہؤا کہ گویا کوئی جھگڑا ہؤا ہے۔ میں نے اِدھر اُدھر سے کُرید کرنا شروع کیا تو مجھے بتایا گیا کہ کچھ جھگڑا ہوگیا تھا مگر آپ کو بتانا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ میں نے کہا کیا ہؤا؟ تو بعض دوستوں نے بتایا کہ اَسباب جب اُتارا گیا تو اُس وقت سوال پیدا ہؤا کہ مختلف کمروں میں کس طرح پہنچے۔ وہاںمزدور اور قلّی نہیں ہوتے بلکہ سب اپنے ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔ چونکہ ہمارے قافلہ والے ہندوستانیت اپنے ساتھ لے کر گئے تھے اِس لئے جب یہ وہاں پہنچے اور اسباب اُٹھانے کیلئے کوئی مزدور نہ پایا تو ان میں سے بعض سخت ناراض ہوئے کہ یہاں ہمارے اچھے مبلّغ رہتے ہیں کہ انہوں نے ہمارا اسباب اُٹھوانے کیلئے کوئی انتظام نہیں کیا اگر مزدور ہوتے تو ان کے ذریعہ اسباب اُٹھوا کر پہنچادیتے۔ ہم سے پہلے چوہدری ظفراللہ خان صاحب وہاں پہنچے ہوئے تھے ان کے ساتھ ان کا ایک دوست بھی تھا جو جرمن کا رہنے والا تھا اور اُس کا باپ نواب تھا۔ میں نے چوہدری صاحب سے کہہ دیا تھا کہ آپ ہم سے پہلے جارہے ہیں ہمارے پہنچنے سے پہلے سیریں وغیرہ کرلیں لیکن جب ہم پہنچیں تو پھر آپ کو ہمارے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اس کے مطابق چوہدری صاحب اور ان کے جرمن دوست ہم سے پہلے اس مکان میں آئے ہوئے تھے۔ بتانے والے نے بتایا کہ اس سوال کے پیدا ہونے پر کہ کمروں میں اسباب کون رکھے ؟ ہمارے ساتھی تو ایک دوسرے سے روٹھ کرالگ ہوگئے اور سارا اسباب چوہدری ظفراللہ صاحب اور ان کے جرمن دوست برونلر نے قافلہ میں سے بعض آدمیوں کے ساتھ مل کر رکھا۔ چوہدری ظفراللہ خان صاحب چونکہ ولایت میں رہ چکے تھے اِس لئے وہ وہاں کے طریق سے واقف تھے اور اُن کا دوست تو یورپ کا ہی تھا گو وہ اب انگلستان میں رہتا ہے اور جنگ کے بعد نوابیاں جاتی رہیں لیکن اب بھی وہ انگلستان میں انجینئر اور موجد ہے اورمعزز شخص ہے مگر باوجود اِس کے اُس نے اپنے ہاتھ سے کام کیا۔ اِس کے مقابلہ میں ہمارے ملک میں اگر پندرہ پُشت سے نوابی بھی کسی کے خاندان سے گئی ہوئی ہو تو مجال نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کرے بہرحال اُس نے اور چوہدری صاحب نے مل کر کام کیا اور اسباب کمروں میں رکھ دیا۔ بے شک بعض ہمارے ساتھیوں نے بھی کام کیا لیکن بعض نے اِس کو بُر امنایا اور کام سے انکار کردیا۔ پس ولایت میں سب اپنے ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔ میرے ساتھ ہی امریکہ کے بعض امراء سفر کررہے تھے وہ بہت بڑے تاجر تھے ، لکھ پتی یا کروڑ پتی تھے اور وہ اپنے اہل و عیال سمیت یورپ کی سیاحت کیلئے آئے ہوئے تھے۔ میرے سامنے جب وہ سٹیشن پراُترے تو ہر ایک نے اسباب کے تین تین بنڈل اپنے آگے پیچھے لٹکالئے اور چل پڑے۔ میرے لئے بھی یہ اچنبھا تھا کیونکہ میں بھی آخر ہندوستانی طریق کا عادی تھا۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی گارڈ یا ڈرائیور نے کسی بڑے افسر کو پہچان لیا تو کہہ دیا لائیے میں اسباب اُٹھا لیتا ہوں اور وہ اسباب اُٹھانے پر اُسے کچھ انعام دے دیتے ہیں مگر یہ اتفاقی ہوتا ہے اور پھر شاذ کے طور پر انعام لینے کی خاطر بعض لوگ دوسرے کا اسباب اُٹھالیتے ہیں لیکن اس صورت کو مستثنیٰ کرتے ہوئے باقی سب لوگ خواہ وہ کتنے بڑے ہوں اپنے ہاتھ سے سب کام کرتے اور اپنا اسباب خود اُٹھا کرلاتے اور لے جاتے ہیں اور ان میں یہ کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی لکھ پتی یا کروڑ پتی اپنے ساتھ کوئی نوکر رکھ لیتا ہے جو اسباب اُٹھا لیتا ہے لیکن مزدوروں اور قلیوں کا وہ طریق جو ہمارے ہاں مروّج ہے یورپ میں کہیں نظر نہیں آتا سب اپنے ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔
پس یہ اخلاق جو اِن میں پیدا ہوئے ان کی اصل وجہ یہی ہے کہ انہوں نے حقیقی کام کرنے کی عادت ڈال لی اور وہ فضول باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتے۔ پھر ان میں سے بھی جو اپنے وقت کو فضول باتوں میں ضائع کرنے والے ہیں ان میں وہی عادتیں پائی جاتی ہیں جو ہندستانیوں میں ہیں۔ بے شک ان کا کثیر حصہ ایسا ہے جو اپنے اوقات کو صحیح طور پر خرچ کرتا ہے لیکن ان میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے وقت کو فضول صَرف کرنے کے عادی ہیں۔ شاید اس لئے کہ وہ شراب پینے کے عادی ہیں اور شراب بھی آوارگی پیدا کرتی ہے یا شاید اس لئے کہ ان میں جُؤا ہے اور جُؤابھی آوارگی پیدا کرتا ہے۔ بہرحال ان میں بھی ایک حصہ آوارہ ہے اور ان میں بھی وہی آوارگیاں، وہی گند اور وہی بُری باتیں پائی جاتی ہیں جو ہندوستانیوں میں پائی جاتی ہیں مگر وہ اتنے بھیانک سمجھے جاتے ہیں کہ شرفاء ان کے پاس کھڑا ہونا بھی گوارا نہیں کرتے۔پس اس لحاظ سے یورپ اور ہندستان میں پھر بھی امتیاز ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں ایک فحش کلام، ایک گندہ دہن اورایک بدمذاق انسان کے پاس کھڑا ہونا شرفاء باعثِ عار نہیں سمجھتے اور نہ اور لوگ بُرا مناتے ہیں۔ انگلستان میں اگر کسی شخص کو اِس قماش کے لوگوں کے پاس کھڑا ہؤا دیکھ لیا جائے تو اُس کی ساری عزت خاک میں مل جاتی ہے اور وہ کسی سوسائٹی میں عزت کی نگاہ سے نہیںدیکھاجاتا۔ لوگ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ جب یہ آوارہ شخص کے پاس کھڑا تھا تو یہ بھی آوارہ ہوگا۔ پس وہاں کے آوارہ ایک زندہ جیل خانہ ہوتے ہیں کہ جو شخص ان کے پاس کھڑا دیکھا جائے یا باتیں کرتا دیکھا جائے اُس کی عزت بھی جاتی رہتی ہے اور جس طرح طاعون سے بچانے کیلئے کیمپ کھولے جاتے ہیں انہوں نے بھی اپنی قوم کو آوارگی سے بچانے کیلئے گویا اِس قسم کے کیمپ بنارکھے ہیں اور آوارگی سے اتنی شدید نفرت اپنی قوم میں پیدا کردی ہے کہ آوارہ شخص سے بات کرنا بھی آوارگی کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی آوارہ کے ساتھ چل پھر رہا ہو، اُس سے باتیں کررہا ہوں اور اُس سے تعلقات رکھتا ہو تو پوچھنے پر لوگ کہہ دیتے ہیں وہ آوارہ ہے یہ تو نہیں۔ مگر وہاں چلنا پھِرنا تو الگ رہا ایک منٹ کیلئے بھی اگر کوئی کسی آوارہ کے پاس کھڑا ہوجاتا ہے تو سب لوگ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے۔ تو کام کرنے کی وجہ سے جماعت میں بہت نیک تغیرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ قادیان اور باہر کے لوگ چندے تو دیتے ہیں مگر جو چیز قوم کی حقیقی روح ہے وہ اِن چندہ دینے والوں نے ابھی تک پیدا نہیں کی۔
پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں اور صدرانجمن احمدیہ کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ کوئی ایسا کام شروع کرے جس میں سب لوگ حصہ لیں۔ کام اس کے ہاتھ میں ہیں میرے ہاتھ میں نہیں۔ اگر میرے ہاتھ میں ہوتے تو مَیں اب تک کئی کام شروع کرادیتا۔
اس کے ساتھ ہی مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ وزراء اورنائب ہوتے ہیں ان کا فرض ہوتاہے کہ وہ اپنے افسر کی روح اپنے اندر پیدا کریں اور اس کے اشاروں کو سمجھیں۔ اگر دماغ میں کوئی اعلیٰ تجویز آئے مگر ہاتھ شل ہوں تو وہ تجویز کسی کام کی نہیں رہتی اور نہ کوئی نتیجہ پیدا کرسکتی ہے۔ ناظر ہونے کی وجہ سے وہ میرے نائب ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ وہی روح اپنے اندر پیدا کریں جو مَیں پیدا کرنی چاہتا ہوں۔ جس طرح بادنما مرغ ہوتا ہے کہ وہ ہوا کے رُخ کے مطابق اپنا رُخ بدلتا ہے اسی طرح بہترین ناظر وہی سمجھا جاسکتا ہے جو خلیفۂ وقت کے اشاروں کو سمجھے۔ جو روح خلیفہ پیدا کرنا چاہے وہی روح ناظر پیدا کریں اور جو سکیم خلیفہ پیش کرے وہی سکیم تمام ناظر رکھیں۔ اگر ناظروں میں تعاون نہ ہو اور وہ میری باتوں کو نہ سُنیں، جو تجاویز میں پیش کروں اُس کی بجائے وہ اپنی تجاویز چلانا چاہیں، جو مَیں تدابیر بتائوں اُن کو چھوڑ کر وہ اپنی تدبیریں بروئے کار لائیں اور اگر کارکنوں میںتعاون نہ ہو، مبلّغوں میں تعاون نہ ہو اور میں کچھ کہتا رہوں اور وہ کچھ اَور کرتے رہیں تو یہ یہی بات ہوگی کہ :
من چہ سرائم و طنبورئہ من چہ سرائد
مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اِخلاص کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ تربیت کے نقص کی وجہ سے اب تک میری مثال اورناظروں اورکارکنوں کی مثال بالکل یہی ہے کہ :
من چہ سرائم و طنبورئہ من چہ سرائد
میں کچھ کہتا ہوں اور وہ کچھ اور کرتے ہیں، میں کوئی سکیم پیش کرتاہوں وہ کوئی اور سکیم چلاتے ہیں، میں کوئی اور پالیسی بتاتا ہوں وہ اپنی پالیسی کے پیچھے چلے جاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہترین سے بہترین تجویز کا بھی وہ شاندار نتیجہ نہیں نکلتا جو نکلنا چاہئے۔ اگر وہ اپنے آپ کو میرا ہاتھ بناتے ، اگر وہ اپنے آپ کو میرا ہتھیار فرض کرتے اور اگر وہ سمجھتے کہ اُن کا کام یہ ہے کہ وہ دیکھیں میرے منہ سے کیا نکلتا ہے اور پھر اسے جاری کرنے کی کوشش کرتے تو اب تک کایا پلٹ گئی ہوتی۔ مگر حالت یہ ہے کہ میں کہتا ہوں جماعت کی اِس رنگ میں تربیت کرو اور مبلّغ وفاتِ مسیح کا مسئلہ رٹتے چلے جاتے ہیں،میں کہتا ہوں جماعت سے بیکاری دور کرو اور مبلّغ خود اپنے اندر بیکاری پیدا کرتے چلے جاتے ہیں، میں کہتا ہوں وعظوں کی بجائے اپنا نیک نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کرو اور وہ پُرانے مسائل لوگوں کے سامنے پیش کرتے چلے جاتے ہیں حالانکہ ہر چیز کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے۔ جو لوگ وفاتِ مسیح مان چکے ہوں اُن کے سامنے وفاتِ مسیح کا مسئلہ پیش کرنا بیوقوفی ہے اور یہ سمجھنا کہ قرآن کریم کی ایک آیت کے ایک ہی معنی ہیں اور زیادہ بیوقوفی ہے۔ قرآن کریم کی کوئی آیت نہیں جو صرف ایک مطلب اپنے اندر رکھتی ہو۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو جن آیتوں سے وفاتِ مسیح ثابت ہے وہ میرے لئے منسوخ کی طرح ہوتیں مگر یہ غلط ہے۔باوجود وفاتِ مسیح تسلیم کرنے کے میرے لئے بھی وہ آیتیں اپنے اندر کئی معارف رکھتی ہیں۔ مثلاً یٰٓعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ ؎۳ والی آیت دوسروں کیلئے یہ مفہوم رکھتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں مگر میرے لئے اِس میں یہ سبق ہے کہ جو شخص خداتعالیٰ کاہوجائے اگر ساری دنیا مل کر بھی اُسے مارنا چاہے تو نہیں مارسکتی۔ اب اگر کوئی شخص میرے سامنے یہ آیت اِس غرض کیلئے پیش کرے کہ اِس سے وفاتِ مسیح ثابت ہوتی ہے تو وہ میرا وقت ضائع کرتا ہے۔ ہرزمانہ کا دَور الگ ہوتا ہے اور ہر دَور میںالگ آیتیں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، الگ حدیثیں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، الگ استدلال پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تم کیوں سمجھتے ہو کہ قرآن کریم کی ایک آیت کے ایک ہی معنی ہیں۔ تم ان ہی آیتوں کو لے کر ان سے اَور اَور معارف نکال سکتے اور دنیا کو محوِ حیرت بناسکتے ہو۔ قرآن کریم تو ذوالبطون ہے اور اس کی ایک ایک آیت میں کئی کئی معارف پنہاں ہیں۔ کسی وقت اس کے کسی معنی پر زور دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی وقت کسی مفہوم پر۔
ضرورت اِس بات کی ہے کہ جماعت محسوس کرے کہ خلیفۂ وقت جو کچھ کہتا ہے اُس پرعمل کرنا ضروری ہے۔ اگر تووہ سمجھتی ہے کہ خلیفہ نے جو کچھ کہا وہ غلط کہا اور اس کا نتیجہ اچھا نہیںنکل سکتا تو جو لوگ یہ سمجھتے ہوں ان کافرض ہے کہ وہ خلیفہ کو سمجھائیں اور اُس سے ادب کے ساتھ تبادلۂ خیالات کریں لیکن اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر ان کا فرض ہے کہ وہ اُسی طرح کام کریں جس طرح ہاتھ دماغ کی متابعت میں کام کرتا ہے۔ ہاتھ کبھی دماغ کو سمجھاتا بھی ہے کہ ایسا نہ کرو۔ مثلاً دماغ کہتا ہے فلاں جگہ مُکّا مارو۔ ہاتھ مُکّا مارتا ہے تو آگے وہ زِرہ کی سختی محسوس کرتا ہے اور ہاتھ کو درد ہوتا ہے۔ اِس پر ہاتھ دماغ سے کہتا ہے کہ اس جگہ مُکّا نہ مروائیں یہاں تکلیف ہوتی ہے اور دماغ اس کی بات مان لیتاہے۔ اِسی طرح جماعت میں سے ہر شخص کا حق ہے کہ اگر وہ خلیفۂ وقت سے کسی بات میں اختلاف رکھتا ہے تو وہ اُسے سمجھائے اور اگر اِس کے بعد بھی خلیفہ اپنے حکم یا اپنی تجویز کو واپس نہیں لیتا تو اس کا کام ہے کہ وہ فرمانبرداری کرے۔ اور یہ تو دینی معاملہ ہے دُنیوی معاملات میں بھی افسروں کی فرمانبرداری کے تاریخ میںایسے ایسے واقعات آتے ہیں کہ انہیں پڑھ کر طبیعت سرور سے بھر جاتی ہے۔
بیلاکلاوا کی جنگ ایک نہایت مشہور جنگ ہے۔ اس میں انگریزوں کو روسی فوج کا مقابلہ کرنا پڑا۔ ایک دن جنگ کی حالت میں اطلاع ملی کہ روسی فوج کا ایک دستہ حملہ کیلئے آرہاہے اور اُس میں آٹھ نوسَو کے قریب آدمی ہیں۔ اِس اطلاع کے آنے پر انگریز کمانڈر نے ماتحت افسر کوحکم دیا کہ تم اپنی فوج کا ایک دستہ لے کر مقابلے کیلئے جائو ۔ اس افسر کو اطلاع مل چکی تھی کہ روسی دستہ آنے کی اطلاع غلط ہے اصل میں روسی فوج آرہی ہے جو ایک لاکھ کے قریب ہے۔ جب انگریز کمانڈر نے حکم دیا کہ ایک دستہ لے کر مقابلے کیلئے جائو تو اُس افسر نے کہا یہ خبر صحیح نہیں ایک لاکھ فوج آرہی ہے اور اُس کا مقابلہ ایک دستہ نہیں کرسکتا۔ انگریز کمانڈر نے کہا مجھے صحیح اطلاع ملی ہے تمہارا کام یہ ہے کہ اطاعت کرو۔ وہ سات آٹھ سَو کا دستہ لے کر مقابلہ کیلئے چل پڑا لیکن جب قریب پہنچا تو معلوم ہؤا کہ حقیقت میں ایک لاکھ کے قریب دشمن کی فوج ہے۔ بعض ماتحتوں نے کہا کہ اِس موقع پر جنگ کرنا درست نہیں ہمیں واپس چلے جانا چاہئے مگر اُس افسر نے گھوڑے کو ایڑ لگا کر آگے بڑھایا اور کہا ماتحت کا کام اطاعت کرنا ہے اعتراض کرنا نہیں۔ باقیوں نے بھی گھوڑے بڑھادیئے اور سب ایک ایک کرکے اس جنگ میں مارے گئے۔ قوم آج تک اِس واقعہ پر فخر کرتی ہے اور کہتی ہے کہ اس کی قوم کے لوگوں نے اطاعت کا کیسا اعلیٰ نمونہ دکھایا اور گو یہ انگریز قوم کا واقعہ ہے مگر کون ہے جو اِس واقعہ کو سن کر خوشی محسوس نہیں کرتا۔ ایک جرمن بھی جب اس واقعہ کو پڑھتا ہے تو وہ فخر محسوس کرتا اور کہتا ہے کاش! یہ نمونہ ہماری قوم دکھاتی، ایک فرانسیسی بھی جب یہ واقعہ پڑھتا ہے تو فخر محسوس کرتا اور کہتا ہے کاش!یہ نمونہ ہماری قوم دکھاتی، ایک روسی بھی جب یہ واقعہ پڑھتا ہے تو فخر محسوس کرتا اور کہتا ہے کاش! یہ نمونہ ہماری قوم دکھاتی۔ پس اطاعت اور افسر کی فرمانبرداری ایسی اعلیٰ چیز ہے کہ دشمن بھی اِس سے متأثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکتا مگر بغیر مصائب میں پڑے اور تکلیفوں کوبرداشت کرنے کے یہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا
اسی طرح ایک اور موقع پر ایک تُرک جرنیل نے روسیوں سے لڑائی کی۔ تُرک جرنیل کو مشورہ دیاگیا کہ اپنے ہتھیار ڈال دو کیونکہ دشمن بہت زیادہ طاقتور ہے لیکن وہ اِس پر تیار نہ ہوا۔ آخر وہ قلعہ میں بند ہوگیا روسیوں نے مہینوں اُس کا محاصرہ رکھا اور کوئی کھانے پینے کی چیز باہر سے اندر نہ جانے دی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جب غذا کا ذخیرہ ختم ہوگیا تو اُس نے سواری کے گھوڑے ذبح کرکے کھانے شروع کردیئے مگر ہتھیار نہ ڈالے لیکن آخر وہ بھی ختم ہوگئے تو اُس نے بُوٹوں کے چمڑے اور دوسری ایسی چیزیں اُبال اُبال کر سپاہیوں کو پلانی شروع کردیں مگر ہتھیار نہ ڈالے۔ آخر سب سامان ختم ہوگئے اور روسی فوج نے قلعہ کی دیواروں کوبھی توڑ دیا تو یہ بہادر سپاہی اطاعت قبول کرنے پرمجبور ہوئے۔ چونکہ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ مفتوح فاتح کے سامنے اپنی تلوار پیش کرتا ہے اسی قاعدہ کے مطابق جب اُس ترکی جرنیل نے روسی کمانڈر کے سامنے اپنی تلوار پیش کی تو روسی کمانڈر کی آنکھوں میںآنسو آگئے او روہ کہنے لگا مَیں ایسے بہادر جرنیل کی تلوار نہیں لے سکتا۔ تو اطاعت اور قربانی اور ایثار ایسی اعلیٰ چیزیں ہیں کہ دشمن کے دل میں بھی درد پیدا کردیتی اور اس کی آنکھوں کو نیچا کردیتی ہیں۔
انگریزی قوم سے جہاں اچھے واقعات ہوئے ہیں وہاں اس سے ایک بُرا واقعہ بھی ہؤا مگر اس کے اندر بھی یہ سبق ہے کہ قربانی اور ایثار نہایت اعلیٰ چیزہے۔ جب نپولین کو انگریزوں کے مقابلہ میں شکست ہوئی اور اُس کے اپنے ملک میں بغاوت ہوگئی تو اس نے کہا میں اپنے آپ کو اب خود انگریزوں کے سپرد کردیتاہوں۔ انگریزوں سے ہی اس کی لڑائی تھی چنانچہ وہ اُسے پکڑ کر انگلستان لے گئے۔ جب پارلیمنٹ کے سامنے معاملہ پیش ہؤا تو اُس نے کہا نپولین سے تلوار کیوں نہیں لی گئی؟ یہ تلوار لینے کا وہی طریق تھا جس کا میں پہلے ذکرکرچکاہوں کہ مفتوح جرنیل سے فاتح جرنیل تلوار لے لیا کرتا تھا۔ جب پارلیمنٹ نے یہ سوال اُٹھایا تو ایک انگریزلارڈ کو اِس غرض کیلئے مقرر کیا گیا کہ وہ جاکر نپولین سے تلوار لے آئے۔ جب اُس کے سپرد یہ کام کیا گیا تو وہ پارلیمنٹ میں کھڑا ہوگیا اور اُس نے کہا ایسے بہادر دشمن سے جس نے اپنے آپ کو خود ہمارے حوالے کردیا ہے تلوار لینا ہماری ذلّت ہے۔ مگر چونکہ اُس وقت انگریزوں میں بہت جوش تھا اور اُنہیںنپولین کے خلاف سخت غصہ تھا اِس لئے بہادری کے خیالات ان کے دلوں میں دبے ہوئے تھے انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا نپولین سے تلوار ضرور لی جائے گی۔پھر انہوں نے اُس لارڈ کے ساتھ ایک ایسے شخص کو کردیا جو ایسے اعلیٰ اخلاق کا مالک نہیں تھا جن اعلیٰ اخلاق کا وہ لارڈ مالک تھا اور کہا کہ نپولین سے ضرور تلوار لی جائے۔ جب وہ نپولین کے پاس پہنچے تو وہ لارڈ نہایت رقّت کے ساتھ نپولین سے کہنے لگا میری زبان نہیں چلتی اورمجھے شرم آتی ہے کہ میں آپ کو وہ پیغام پہنچائوں مگر چونکہ مجھے حکم ہے اِس لئے میں آپ سے کہتاہوں کہ آپ اپنی تلوار ہمارے حوالے کردیں ۔ نپولین نے یہ سن کر کہا کیا انگریز قوم جس کو میں اتنا بہادر سمجھتا تھا اپنے مفتوح دشمن سے اتنی معمولی رعایت بھی نہیں کرسکتی۔ یہ سن کر اُس لارڈ کی چیخ نکل گئی اور وہ پیچھے ہٹ گیا مگر اس کے نائب نے آگے بڑھ کر اُس کی تلوار لے لی۔ تو بہادری اورجرأت کے واقعات غیر کے دل پربھی اثرکرجاتے ہیں۔
اگرہمارے کارکن بھی وہ اطاعت، قربانی اور ایثار پیدا کریں جن کا حقیقی جرأت تقاضا کرتی ہے تو دیکھنے والوں کے دل پر جماعت احمدیہ کا بہت بڑا رُعب پڑے گا اور ہر شخص یہی سمجھے کہ یہ جماعت دنیا کو کھاجائے گی۔ اور اگر یہ نہ ہو بلکہ میں خطبے کہتا چلاجائوں لوگ کچھ اَور ہی کرتے جائیں، مبلّغین کسی اور رستے پر چلتے رہیں، ناظر اپنے خیالوں اور اپنی تجویزوں کو عملی جامہ پہنانے کی فکرمیں رہیں، اسی طرح کارکن، سیکرٹری، پریذیڈنٹ، اُستاد، ہیڈماسٹر سب اپنے اپنے راگ الاپتے رہیں اور بندھے ہوئے جانور کی طرح اپنے کیلے کے گِرد بار بار پھرتے رہیں تو بتائو کیا اس طرح ترقی ہوسکتی ہے؟
خلافت کے تو معنے ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اُس وقت سب سکیموں، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیاجائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم، وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفۂ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔ جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اُس وقت تک سب خطبات رائیگاں،تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں۔میں آج تک جس قدر خطبات دے چکاہوں اُنہیں نکال کر ناظر دیکھ لیں کہ آیا وہ ان پر عمل نہ کرنے کے لحاظ سے مجرم ہیں یا نہیں؟ اِسی طرح محلوں کے پریذیڈنٹ ان خطبات کو سامنے رکھ کر دیکھیں کہ آیا وہ مجرم ہیں یا نہیں؟ ۱۴ ماہ اِس تحریک کوہوگئے مگر کیا ناظروں،محلہ کے پریذیڈنٹوں اور دوسرے کارکنوں نے ذرا بھی اُس روح سے کام لیا جو میں ان کے اندر پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اگر وہ میرے ساتھ تعاون کرتے تو پچھلے سال ہی اتنا عظیم الشان تغیر ہوجاتا کہ جماعت کی حالت بدل جاتی اور دشمن مرعوب ہوجاتا مگر چونکہ وہ اس رنگ میں رنگین نہیں ہوئے جس رنگ میں مَیں اُنہیں رنگین کرنا چاہتا تھا اس لئے عملی طور پر انہوںنے وہ نمونہ نہیں دکھایا جو انہیں دکھانا چاہئے تھا۔ ان کی مثال بدر کے ان گھوڑوں کی سی نہیں جن کے متعلق ایک کافر نے کہا تھا کہ ان گھوڑوں پر آدمی نہیں موتیں سوار ہیں ؎۴ ۔ بلکہ ان کی مثال حنین کے ان گھوڑوں کی سی ہے جنہیں سوار میدانِ جنگ کی طرف موڑتے مگر وہ مکّہ کی طرف بھاگتے تھے ؎۵ ۔
پس میں بیکاری کو دور کرنے کی طرف پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اور تمام کارکنوں کو خواہ وہ ناظر ہوں یا افسر، کلرک ہوں یا چپڑاسی، پریذیڈنٹ ہوں یا سیکرٹری توجہ دلاتا ہوں کہ اِس روح کو اپنے اندر پیدا کرو۔ کیا فائدہ اِس بات کا کہ تم نے چار سَو یا تین سَو یا دو سَو یا ایک سَو ،یا ساٹھ یا پچاس روپیہ چندہ میں دے دیا، اگر تمہارے اندر وہ روح پیدا نہیں ہوئی جو ترقی کرنے والی قوموں کیلئے ضروری ہوتی ہے ۔ ہم اگر پچاس روپے کابیج خریدتے ہیں جسے گھُن لگا ہؤا ہے تو وہ سب ضائع ہے لیکن اگر ہم ایک روپیہ کا بیج خریدتے ہیں اور وہ تازہ اور عُمدہ ہے تو وہ پچاس روپوں کے بیج سے اچھا ہے۔ اسی طرح صرف روپیہ کوئی فائدہ نہیںدے سکتا جب تک وہ ایثار، وہ قربانی، وہ تعاون اور وہ محبت و اخوت کی روح پیدا نہیں ہوتی جو جماعت کو ’’یکجان و دو قالب‘‘ بنادیتی ہے۔
اگر خلافت کے کوئی معنے ہیں تو پھر خلیفہ ہی ایک ایسا وجود ہے جو ساری جماعت میں ہونا چاہئے او راُس کے منہ سے جو لفظ نکلے وہی ساری جماعت کے خیالات اور اَفکار پرحاوی ہونا چاہئے، وہی اوڑھنا، وہی بچھونا ہونا چاہئے ، وہی تمہارا ناک، کان، آنکھ اور زبان ہونا چاہئے۔ ہاں تمہیںحق ہے کہ اگر کسی بات میں تم خلیفۂ وقت سے اختلاف رکھتے ہو تو اسے پیش کرو۔ پھر اگر خلیفہ تمہاری بات مان لے تو وہ اپنی تجویز واپس لے لے گا اور اگر نہ مانے تو پھر تمہارا فرض ہے کہ اُس کی کامل اطاعت کرو ویسی ہی اطاعت جیسے دماغ کی اطاعت اُنگلیاں کرتی ہیں۔ دماغ کہتا ہے فلاں چیز کو پکڑو اور اُنگلیاں جھٹ اُسے پکڑ لیتی ہیں۔ لیکن اگر دماغ کہے او راُنگلیاں نہ پکڑیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ ہاتھ مفلوج اور اُنگلیاں رعشہ زدہ ہیں کیونکہ رعشہ کے مریض کی یہ حالت ہؤا کرتی ہے کہ وہ چاہتا ہے ایک چیز کو پکڑے مگر اس کی اُنگلیاں اسے نہیں پکڑسکتیں۔ پس خلیفہ ایک حکم دیتا ہے مگر لوگ اُس کی تعمیل نہیں کرتے تو اِس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ رعشہ زدہ وجود ہیں۔ لیکن کیا رعشہ والے وجود بھی دنیا میں کوئی کام کیا کرتے ہیں؟ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ سال کا تجربہ مجھے یہی بتاتا ہے کہ ہماری جماعت کا وجود رعشہ والا وجود ہے، دماغ نے حکم دیا مگر ہاتھوں اور اُنگلیوں نے کوئی کام نہ کیا۔ اِس میں شبہ نہیں کہ جماعت نے تحریک جدید میں روپیہ دیا مگر میں نے بتایا تھا کہ اس میں سب سے کم قیمت روپیہ کی ہوگی۔ روپیہ کی قیمت تو رسم و رواج کی وجہ سے ہے۔ آج یورپ کے اثر، اس کے غلبہ اور فوقیت کی وجہ سے ہمیں روپیہ کی ضرورت ہے ورنہ روپوں پر تو ہم تھُوکتے بھی نہیں اور نہ صرف روپوں سے دنیا میں انبیاء کی جماعتیں کبھی کامیاب ہوا کرتی ہیں۔ صحابہؓ کے زمانہ میں کب روپے تھے مگر انہوں نے کام کرکے دکھایا اور وہ کامیاب ہوگئے۔ اِسی طرح ہمیں بھی روپوں کی ضرورت نہیں کام کرنے والے آدمیوں کی ضرورت ہے مگر چونکہ کُفر کی اشاعت میں روپیہ کا بہت بڑا دخل ہے اِس لئے جوابی رنگ میں ہمیں بھی روپیہ لینا اور خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا آگ سے عذا ب دینا منع ہے ؎۶ ۔ اِس حدیث کی رو سے توپوں اور بموں سے لوگوں کو ہلاک کرنا ناجائز ہے مگر چونکہ یورپ والے لڑائیوں میں توپ اوربم استعمال کرتے ہیں اِس لئے مجبوراً اسلامی حکومتوں کو بھی یہ ہتھیار استعمال کرنے پڑتے ہیں ورنہ ہمارے رسول کریم ﷺ کا یہی حکم ہے کہ ہم اِس قسم کے ہتھیار دُنیا سے مٹادیں لیکن چونکہ یورپ والے توپیں چلاتے ہیں اس لئے جواباً توپوں کا استعمال جائز ہے ورنہ جب اسلامی حکومتوں کا دنیا میں غلبہ ہوگا اُس وقت ان کا پہلا فرض یہ ہوگا کہ وہ توپ اور بم کو اُڑادیں اور اسے دنیا سے مٹانے کی کوشش کریں۔
ہمارے محمد ﷺ نے آج تیرہ سَو سال پہلے جسے آج بعض کم بخت تعلیم یافتہ کہلانے والے مسلمان بھی جہالت کا زمانہ کہتے ہیں یہ رحم اورمحبت کی تعلیم دی کہ آگ کا عذاب دینامنع ہے۔ کتنی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے جو رسول کریم ﷺ نے دی۔ آج آگ کا عذاب تم دنیا سے مٹادو تمام خونریزیاں مٹ جائیں گی۔ تم بم سے ایک مرد اور عورت کا فرق نہیںکرسکتے۔ تم ایک توپ کا گولہ چلاتے وقت یہ احتیاط نہیں کرسکتے کہ عورتیں اِس کی زد سے بچی رہیں، بچے محفوظ رہیں لیکن تلوار چلاتے وقت تم یہ سب احتیاطیںکرسکتے ہو۔ تم دیکھ سکتے ہو کہ تمہارے سامنے عورت ہے یا مرد، لڑائی میں شامل ہونے والا ہے یا راہگیر اور مسافر لیکن توپ کا گولہ بِلا تمیز سب کو مٹادے گا۔ عورتیں زد میں آئیں گی تو انہیں ہلاک کردے گا، ہسپتال زد میں آئیں گے تو انہیں تباہ کردے گا، زخمی جو ہسپتال میں زخموں کی وجہ سے کراہ رہے ہوں گے انہیں بھی موت کے گھاٹ اُتار دے گا لیکن تلوار چلاتے وقت انسان سمجھتا ہے کہ میرے سامنے کون ہے اور میں کس کو ہلاک کررہا ہوں۔ پس اگر آج رسول کریم ﷺ کی اِسی ایک تعلیم پردنیا عمل کرے تو جنگ کانقشہ بدل جائے اور رحم کا مفہوم کچھ اَور ہوجائے لیکن چونکہ دنیا توپوں او ربموں سے کام لیتی ہے اِس لئے اسلامی حکومتیں مجبور ہیں کہ وہ دفاع میں توپیں اور بم استعمال کریں۔ اِسی طرح ہم روپیہ کی طرف اِس لئے جاتے ہیںکہ دشمن روپیہ سے کام لے رہا ہے، وہ کفر کی اشاعت روپیہ سے کررہا اور دنیا میں اسلام کے خلاف روپیہ کی مدد سے اعتراضات پھیلارہا ہے۔ورنہ اسلام روپیہ کی قربانی کو ادنیٰ قربانی قرار دیتا ہے اور اصل قربانی وہ اس چیز کو قرار دیتا ہے جو دل اور دماغ اور آنکھ اور زبان اور ہاتھ سے ہو۔ پس میں پھر جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے اندر صحیح قربانی کا مادہ پیدا کرے ورنہ باتیں تو پا در ہوا ؎۷ چیزیں ہیں اور اعلیٰ سے اعلیٰ چیز بھی بے اثر ہوجاتی ہے اگر ماننے والے موجود نہ ہوں۔
(الفضل ۳۱؍ جنوری ۱۹۳۶ئ)
؎۱ بخاری کتاب البیوع باب مَاقیل فی الصَّواغ
؎۲ المؤمنون: ۵۲ ؎۳ آل عمران: ۵۶
؎۴ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۱۶ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
؎۵ سیرت ابن ہشام جلد ۳ صفحہ ۱۰ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ ھ
؎۶ ابوداؤد کتاب الادب باب فی قتل الذر
؎۷ پادر ہوا: بے اصل۔ خیالی۔ فرضی

۵
اللہ تعالیٰ کے سِوا کسی سے نہ ڈرو
(فرمودہ۳۱؍جنوری۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں آج گلے کی تکلیف کی وجہ سے زیادہ بول نہیں سکتا اس لئے اختصار کے ساتھ انسانی اخلاق کی ایک ایسی خصوصیت کی طرف جماعت کو توجہ دلاتاہوں جس کوزیر نظر رکھنا ہر انسان کیلئے ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں عام طور پر انسانی فطرت کی خصوصیات کا مطالعہ اور ان کی حقیقت سے آگاہی حاصل کرنے کی بہت ہی کم عادت ہے۔ بعض بڑے بڑے تعلیم یافتہ آدمی اس بات کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ بنی نوع انسان کی کامیابی اور ترقی کا راز انسانی فطرت کی باریکیوں سے آگاہی حاصل کرنے میں مستور ہے۔ اوّل تو لوگ ان سارے افعال سے ہی جو دماغ کرتا ہے واقف نہیں ہوتے اور اگر واقف ہوں تو چند اصطلاحات کے چکر میں پھنسے رہتے ہیں۔ مثلاً لوگ جانتے ہیں کہ انسان محبت کرتا ہے مگر یہ نہیں جانتے کہ محبت بیسیوں قِسم کی ہوتی ہے اورمحبت کا ظہور سینکڑوں رنگوں میں ہوتا ہے اسی طرح غصے کی بھی سینکڑوں اَقسام ہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ انسان کے اندر غیرت ہوتی ہے مگر یہ نہیں جانتے کہ غیرت کی کتنی اَقسام ہیں، لوگ جانتے ہیں کہ جرأت ایک صفت ہے مگر یہ نہیں جانتے کہ بہادری کی کتنی اقسام ہیں اور یہ کہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص کے اندر بہادری کی بعض اقسام پائی جائیں اور بعض نہ پائی جائیں۔ پس لوگ چند ناموں کو جانتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ایک ہی چیز کے نام ہیں ان کی قِسموں سے وہ واقف نہیں ہوتے۔ جس طرح بیل کا لفظ جب کوئی بولے تو ایک خاکہ سا تو ہر انسا ن کے ذہن میں آجاتا ہے لیکن صرف ماہرِ فن ہی بیل کا لفظ سن کر اس کی مختلف اقسام اور ان کے فوائد اور خصوصیات کو ذہن میں لاسکتا ہے۔
مجھے یا دہے کہ میں ایک دفعہ بہشتی مقبرہ کی طرف سے واپس آرہاتھا کہ رستہ میں مَیں نے کچھ بیل دیکھے جو مجھے بتایا گیا کہ یہ بیچنے کیلئے ہیں۔ میرے ساتھ ایک اور دوست تھے میں نے ان سے کہا کہ بیلوں والے سے ذرا دریافت کریں کہ اِن بیلوں کی اوسط قیمت کیا ہے؟ اور اوسط معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ اور بڑی سے بڑی قیمت کا اندازہ کرلیا جائے لیکن وہ دوست ان باتوں سے ناواقف تھے اِس لئے انہوں نے جاکر بیلوں والے سے پوچھا کہ ایک بیل کی کیا قیمت ہے؟ اِس پر اُس نے جواب دیا کہ آپ کون سے بیل کی قیمت معلوم کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ایک بیل کی قیمت بتادو۔ اُس نے پھر پوچھا کہ کون سے بیل کی؟ انہوں نے پھر وہی سوال دُہرادیا کہ کہہ تو رہا ہوں ایک بیل کی کیا قیمت ہے؟ اس پر بیل کا مالک بولا کہ میں کس بیل کی بتائوں؟ اِس گلّہ میں ایک سَو کا بھی بیل ہے اور دو اڑھائی سَو قیمت والا بھی۔ اس پر میں نے بھی اُس دوست کو سمجھایا کہ سب بیلوں کی ایک قیمت نہیں ہوتی۔ پوچھنا یہ چاہئے تھا کہ کس قیمت سے لے کرکس قیمت تک کے بیل ہیں مگر آپ جس رنگ میں پوچھ رہے ہیں اس کا وہ کیا جواب دے۔ وہ ایک قیمت بتادے اور آپ اچھے سے اچھا بیل منتخب کرکے کہیں کہ یہ اِس قیمت میں دے دو۔
غرض جس طرح حیوانات اور جمادات اور نباتات کی قیمتیں ہوتی ہیں اسی طرح اخلاق کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں او رہر قسم پھر کچھ مدارج اور ممتاز کیفیات رکھتی ہے۔ مثلاً محبت ہے یہ جذبہ بھی اپنے اندر بہت سے اختلاف رکھتا ہے۔ میں اِس وقت محبت پر کوئی مضمون بیان نہیں کررہا صرف ایک موٹی بات بیان کرتا ہوں کہ بعض لوگ بچوں پر جان قربان کردیتے ہیں۔ یہ بھی محبت کی ایک قسم ہے لیکن وطن، حکومت اور مذہب کیلئے قربانی کا سوال ہو تو وہ کوئی پرواہ نہ کریں گے۔ اسی طرح بعض لوگ محبت کی وجہ سے مالی قربانی کیلئے تیار ہوجائیں گے مگر جانی قربانی نہیں کرسکیں گے۔ یا جانی قربانی کیلئے تو تیار ہوں گے مگر مالی قربانی کیلئے قطعاً تیار نہیں ہوں گے۔ جس سے معلوم ہؤا کہ محبت کے بھی کئی مقام ہوتے ہیں جہاں کھڑا ہوکر انسان نئی قسم کا نظریہ حاصل کرتا ہے۔ پس ہم جب محبت کا لفظ بولتے ہیں تو اِس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ یہ ایک چیز کا نام ہے اور محبت ہر ایک شخص میں ایک ہی قسم کی پائی جاتی ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ جذبہ بحیثیت جِنس اس میں پایا جاتا ہے لیکن اس کی کون سی قسم اس میں پائی جاتی ہے یہ بات تفاصیل سے تعلق رکھتی ہے۔
گزشتہ ایام سے میں جماعت کویہ نصیحت کررہا ہوں کہ وہ اپنے اندر جرأت اور قربانی کا مادہ پیدا کریں۔ یہ بھی ایک مجمل لفظ ہے جس کی کئی تفاصیل ہیں۔ جرأت ، بہادری اور قربانی بھی کئی رنگ کی ہوتی ہے۔ کئی لوگ ہوں گے جو مالی قربانی کیلئے تو تیار ہوجائیں گے مگر جانی کیلئے نہیں اور کئی جانی کیلئے تیار ہوں گے مگر مالی کیلئے نہیں۔ پھر کئی لوگ ہوں گے جو جرأت سے حکومت کا مقابلہ کریں گے مگر قوم کے مقابلہ میں کھڑے نہیں ہوسکیں گے۔ اگر وہ اپنی قوم میں کوئی نقص اور عیب دیکھیں تو اُس کو بیان کرنے سے ڈریں گے مگر حکومت کے مقابلہ میں بڑی بہادری دکھائیں گے۔ چنانچہ بعض لوگ چارچار پانچ پانچ بلکہ چھ چھ اور سات سات سال قید ہوجاتے ہیں اور پرواہ نہیں کرتے، لیکن جس بات میں وہ دیکھیں کہ ان کی قوم کے چند لوگ ناراض ہوتے ہیں اُس کے بارہ میں کہہ دیتے ہیں کہ اسے جانے دو۔ انہیں لاکھ سمجھائو کہ مذہب، صداقت ، اخلاق اور انصاف یہی مطالبہ کرتا ہے مگر وہ یہی کہتے جائیں گے کہ قوم کے لیڈروں کا مقابلہ بہت مشکل ہے۔ وہ جیل خانہ میں کئی سال کاٹ لیں گے مگر اپنے چند ایک ہم مشرب لوگوں کی بُری رائے کامقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ پھر بعض لوگ قوم کا مقابلہ بڑی دلیری سے کرلیتے ہیں۔ قوم کے لوگ انہیں *** ملامت کریں، بائیکاٹ کریں، تعلقات منقطع کرلیں، تو وہ ذرا پرواہ نہیں کریں گے لیکن اگر کوئی یہ کہہ دے کہ تمہارے متعلق ڈپٹی کمشنر کی یہ رائے ہے تو وہ جھٹ دَوڑے جائیں گے کہ حضور! یہ بات صحیح نہیں۔ حضور! جس طرح حکم دیں مَیں کرنے کو تیار ہوں۔ ان کے اندر بہادری کا مادہ بے شک ہوتا ہے مگر ساتھ ہی بُزدلی کا مادہ بھی ہوتا ہے۔ ایسے انسان کے اندر ایک قسم کی جرأت ہوتی ہے مگر ساتھ ہی ایک قسم کی بُزدلی بھی ہوتی ہے لیکن کامل بہادری یہ ہے کہ دونوں کا مقابلہ کرنے کیلئے انسان تیار ہو۔ حق کی خاطر قوم کا مقابلہ بھی کرسکے اور حکومت کا بھی۔ اگر قوم غلطی کرے تو وہ سچی بات پیش کرکے کہہ دیں کہ مانو یا نہ مانو حق بات یہی ہے اور حکومت اگر غلطی کرے تو بھی وہ حق بات پیش کرکے کہہ دیں کہ خواہ مانو یانہ مانو حقیقت یہی ہے مگرکئی لوگ ایسا نہیں کرسکتے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ماں باپ کے مقابلہ میں جرأت سے کام نہیں لے سکتے۔ ان کو حق کا علم بھی ہوجائے تو ناحق کو اِس لئے نہ چھوڑیں گے کہ ماں باپ ناراض نہ ہوجائیں۔ مجھے کئی ایسے لوگوں کا علم ہے جن پر احمدیت کی صداقت کھل چکی ہے مگر وہ اِسے اس لئے کھُلم کھُلا قبول نہیں کرتے کہ ماں باپ ناراض ہوجائیں گے۔ اُن سے جب کہاجائے کہ خداتعالیٰ کے مقابلہ میں بندوں کا یا ماں باپ کا ڈریا محبت کیا چیز ہے؟ تو وہ کہیں گے یہ ٹھیک ہے مگر کیا کریں دل نہیں مانتا آپ اِس کو ہماری کمزوری سمجھ لیں مگر ہم ایسا کر نہیںسکتے۔ اور اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ان کے اندر جرأت کی وہ قسم نہیں ہوتی۔ پھربعض لوگ بیویوں سے ڈرتے ہیں اور بعض بیویاں خاوندوں سے ڈرتی ہیں۔ اِسی طرح بعض ماں باپ اپنے بچوں سے ڈرتے ہیں۔
ٹرانسوال کی جنگ کے دنوں میں مَیں نے ایک مشہور جرنیل کی نسبت پڑھا کہ وہ بڑا بہادر اور نڈر ہے مگر چوہے کو دیکھ کر اس کی جان جاتی ہے۔ اگر کبھی اسے چوہا نظر آجائے تو جھٹ اردلی کو بلائے گا اور رات بھر جاگتا رہے گا اسے نیند نہیں آئے گی۔ ایسے لوگوں کے اندر کوئی نہ کوئی رگ ایسی ہوتی ہے جس سے خوف داخل ہوجاتا ہے۔ دوسرے مواقع پر وہ جان کی پرواہ نہیں کریں گے۔ بندوقوں، توپوں اور تلواروں کے سامنے اپنے آپ کو ڈال دیں گے، دشمنوں کے ہجوم میں بِلا خوف چلے جائیں گے مگر کسی معمولی سی چیز سے ڈرجائیں گے۔ پس ہر چیز اور ہر خلق کی قِسمیں ہوتی ہیں اور مؤمن کامل کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ تمام قسموں کو مکمل کرے۔ ہر موقع پر اور ہر ہیبت والی چیز کے سامنے اپنے آپ کو دلیربنائے۔ مؤمن کی بہادری ایسی کامل ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سِوا کسی سے نہیں ڈرتا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنا بزدلی نہیں۔ صداقت کے خلاف چلنے سے خوف کھانا بُزدلی نہیں بہادری ہے۔پس اس ہستی سے خوف کھانا جو ہمیشہ راستی پرہوتی ہے بُزدلی نہیں کہلاسکتا کیونکہ اس سے خوف اپنی جان کی وجہ سے نہیں کھاتا بلکہ حق سے دور ہوجانے کے ڈر سے خوف کھاتا ہے۔ چونکہ مؤمن خداتعالیٰ کے سِواکسی کو ایسا نہیں سمجھتا وہ یقین رکھتا ہے کہ قوم، حکومت، افسر، ماتحت سب غلط بات کہہ سکتے ہیںاور غلطی کرسکتے ہیں مگر خداتعالیٰ جو بات کہے وہ غلط نہیں ہوسکتی۔ پس وہ اللہ تعالیٰ سے اس لئے ڈرتا ہے کہ اس سے ڈرنا حق اور انصاف کا تقاضا ہے اور خداتعالیٰ کے سِوا کسی اور سے نہیں ڈرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دوسرے سب لوگ جب خداتعالیٰ کی طرف سے بات نہ کررہے ہوں غلطی کرسکتے ہیں۔ پس جب ہم کہتے ہیں کہ کسی افسر سے نہ ڈرو تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اچھی بات بھی کہے تو بھی نہ مانوبلکہ اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جب وہ غلط بات کہے تب اس کی پرواہ نہ کرو۔ اسی طرح جب کہا جاتا ہے کہ قوم کی پرواہ نہ کرو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ قوم کی سچی بات کو بھی نہ مانو اور کہہ دو کہ ہم بہادر ہیں اورقوم کی بات ماننا بُزدلی ہے۔ ایسا کرناتو حماقت بلکہ ظلم ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم جب غلطی کرے تو اس کی بات نہ مانو اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس سے ڈرو تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ غلطی کرہی نہیں سکتا اُس سے ہر حالت میں ڈرنا چاہئے۔ پس جرأت کا مفہوم یہ ہے کہ جب دوسرا غلط بات کہے تو اس کی پرواہ نہ کی جائے اور اللہ تعالیٰ سے چونکہ غلطی سرزد ہو ہی نہیں سکتی اس لئے اُس سے ڈرنا بُزدلی نہیں۔ بُزدلی صرف یہ ہے کہ حق اور انصاف کے تقاضا کو پورا نہ کیا جائے۔ غرض جس بزدلی کو ہم بُرا کہتے ہیں وہ اس مقام کے متعلق ہے جہاں غلطی، ناانصافی اور ظلم کا امکان ہو اور چونکہ اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسی باتوں کا وہم بھی نہیں ہوسکتا اس لئے صرف اُس کی ذات ہے جس سے ڈرنا بُزدلی نہیں بلکہ بہادری ہے۔ ہاں خداتعالیٰ کے سِوا کسی سے ڈرنا بُزدلی ہے اس لئے انسان کو تیار رہنا چاہئے کہ ان چیزوں کا جو خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں آتیں مقابلہ کرے۔ ہاں اگر اچھی بات کوئی کہے تو انسان تو انسان خواہ شیطان ہی کہے اسے ماننا چاہئے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی نسبت لکھا ہے کہ ایک دفعہ اُن کی صبح کی نماز قضا ہوگئی وہ سوئے رہے اور وقت گزرگیا۔ دوسرے دن انہوں نے کشف دیکھا کہ کوئی شخص اُن کوجگا رہا ہے اُن کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ایک آدمی پاس کھڑا ہے۔ پوچھا کہ کون ہے؟ تو اُس نے کہا میں شیطان ہوں اور آپ کونماز کیلئے جگاتا ہوںیہ حالت کشفی تھی ۔انہوں نے کہا کہ شیطان کا کام تو نماز سے روکنا ہے مگر تُو نماز کیلئے جگاتا ہے یہ کیا بات ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ بے شک میرا کام روکنا ہے مگر کل آپ نماز باجماعت سے رہ گئے تو آپ سارا دن روتے رہے اِس پر اللہ تعالیٰ نے کہا میرے بندے کونماز رہ جانے کا اتنا قلق ہے اسے سَو نمازوں کا ثواب دے دیا جائے۔ اس پر میں نے خیال کیا کہ اگر آپ آج بھی سوئے رہے تو پھر سَو نمازوں کاثواب لے لیں گے اس سے بہتر ہے کہ میں خود ہی جگائوں تا ایک ہی نماز کا ثواب مل سکے ؎۱ ۔ تو نیکی کی بات خواہ کوئی کہے اسے مان لینا چاہئے یہ نہیں کہ کوئی شخص دیکھے کہ شیطان نماز کیلئے جگارہا ہے تو کہہ دے کہ جا میں نماز نہیں پڑھتا۔
احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ ایک صحابی نے ایک شخص کورات کے وقت چوری کرتے ہوئے پکڑا۔ حالات ایسے تھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ میں نے جسے پکڑا ہے وہ انسان نہیں اس نے کہا کہ مجھے چھوڑ دومیں تمہیں ایک بڑی اچھی بات بتاتا ہوں اور اُس نے آیت الکرسی بتائی۔ رسول کریم ﷺ کو جب اِس کا علم ہؤا تو آپ نے فرمایا کہ تھا تو وہ شیطان ہی مگر بات اُس نے بہت اچھی بتائی ؎۲ ۔ تو بعض اوقات شیطان بھی اپنے مفاد کی خاطر اچھی بات بتاسکتا ہے۔ مگر کئی لوگوں کی طبیعت میں ایسی ضدّ اور ہٹ ہوتی ہے کہ دشمن اگر اچھی بات انہیں کہیں تو بھی نہیں مانتے۔ بعض اوقات دیکھا ہے کہ کسی کو نماز کیلئے جگایا جائے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ چل میں نماز نہیں پڑھتا بعد میں چاہے پڑھ ہی لے مگر منہ سے ضرور بے ادبی کے الفاظ بول دے گا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چونکہ تم میرے دشمن ہو اس لئے تم اچھی بات بھی کہو گے تو نہیں مانوں گا حالانکہ اگر شیطان نیکی کی بات بتائے تو اس کا مطلب یہ ہؤا کہ بدی کا راستہ رُک گیا۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ میرا شیطان مسلمان ہوچکا ہے ؎۳ ۔ تو یہ تو خوشی کی بات ہے کہ دشمن بھی فائدہ کی بات کہے۔
پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ اچھی بات خواہ کسی کی طرف سے ہو اسے ماننے کیلئے تیار رہیں خواہ وہ حکومت کی طرف سے ہو خواہ رعایا کی طرف سے، خواہ افسر کی طرف سے ہو، خواہ ماتحت کی طرف سے، خواہ دشمن کی طرف سے ہو، خواہ دوست کی طرف سے اور جو بات اچھی نہ ہو اور حق کے خلاف ہو وہ خواہ کسی کی طرف سے ہو اُسے قطعاً نہ مانیں سوائے انبیاء اور صلحاء کے کہ وہ جو بات بھی کہیں اُس میں حق و صداقت ہوتی ہے اور وہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔
رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں بعض اوقات اپنے بندے کے ہاتھ بن جاتاہوں، اس کے کان ، اس کی ناک، اس کی زبان بن جاتاہوں ؎۴ ۔ اور جو شخص ایسا ہوجائے وہ جو بات بھی کہے گا اچھی ہی کہے گا۔ جیسے مولانا رومؒ نے اپنی مثنوی میں لکھا ہے کہ نَے جب بولتی ہے تو وہ اُس کی اپنی آواز نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے ہونٹ جس قسم کی آواز نکالتے ہیں وہی اس سے نکلتی ہے۔ اِسی طرح جو خداتعالیٰ کا ہوجاتا ہے اُس کی آواز خداتعالیٰ کی آواز ہوتی ہے اور اُسے ماننا خداتعالیٰ کی آواز کو ماننا ہوتاہے۔ ان کے سِوا سب مخلوق غلطیاں کرسکتی ہے، ناحق اور ناانصافی کرسکتی ہے اس لئے آپ لوگوں کا فرض ہونا چاہئے کہ عقل سے کام لیں۔ اچھی بات کو مانیں اور بُری کو ردّ کردیں مگر نہ ماننا بھی اسی اصل پر ہو جو قرآن کریم نے بتایا ہے۔ مثلاً ماں باپ اگر کہیں کہ شرک کرو تو ان کی بات نہ مانو مگر دوسرے امور میں اُن کی تابعداری اور احترام کرو۔ قرآن کریم میں حکم ہے کہ ماں باپ کو اُف تک نہ کہو ؎۵ ۔ حتّٰی کہ اگر وہ شرک کی تعلیم دیں تو اسے نہ مانو مگر یہ حق پھر بھی نہیں کہ انہیں اُف کہو۔ پس نہ ماننے میںبھی وہ طریق اختیارکرو جو خداتعالیٰ نے سکھایا ہے اور جو ادب و احترام کا طریق ہے۔
پس ہماری جماعت کو ہرقسم کے اخلاق سیکھنے چاہئیں۔ خصوصاً جرأت اور بہادری پیدا کرنی چاہئے۔ مثلاً موجودہ حالات ہی ہیں۔ چونکہ ہماری جماعت کی تربیت ایک خاص رنگ میں ہوئی ہے ہمارے دوست بعض باتوں میں گھبراجاتے ہیں۔ حکومت کے ساتھ پہلے ہمارے معاملات اَور قسم کے تھے مگر اب حکومت کے ایک حصہ کا یا بعض افسروں کا رویہ بدل گیا ہے اور وہ ذاتی عداوتوں کی وجہ سے خواہ نخواہ ہمیں دِق کرتے ہیں۔ اگرچہ زمانہ بتادے گا کہ وہ تمام طاقت اور قوت کے باوجود ناکام ہوں گے اور حکومت کے اعلیٰ افسروں کے سامنے ہی انہیں ذلیل ہونا پڑے گا مگر ابھی وہ زمانہ نہیں آیا۔ابھی وہ اپنے ڈنڈے پر نازاں ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ ڈنڈا لوہے کو ٹیڑھا کرسکتا ہے مگر پانی کو نہیں کرسکتا ، اور ہوا کو وہ کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا۔ جو شخص ہوا میں ڈنڈا مارے گا وہ دوسری طرف آکر اُس کے ہاتھ پر لگے گا۔ مؤمن کو اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کثافتوں سے پاک کردیتا اور پانی کی طرح لطیف بنادیتا ہے اس لئے جو شخص ہم پر ڈنڈامارتا ہے وہ دراصل اپنے آپ کو ہی مارتا ہے۔ اِس کی مثال اُس افیونی کی سی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ اُسے شبہ ہؤا کہ اُس کے ہاں چور آتا ہے۔ ایک دن وہ ڈنڈا لے کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اُسے پینک ؎ ۶ جو آئی تو اُس کا اپنا گھُٹنا ہی سامنے آگیا اُس نے زور سے اس پر ڈنڈا مارا اور جب درد ہؤاتو کہنے لگا کمبخت! مار تو گیا ہے مگر اسے بھی خوب لگی ہے۔ تو جو حُکّام ہم پر حملہ کرتے ہیں ان کی حالت اُس افیونی کی سی ہے وہ ہمیں نہیں بلکہ اپنے آپ کوہی ماررہے ہیں۔ ان کی مثال بالکل اُس شیخ چلی کی سی ہے جو اُسی شاخ کوکاٹ رہا تھا جس پر بیٹھا تھا۔ درخت کے نیچے سے کوئی عقلمند گزرا تو اُس نے کہا بیوقوف! یہ کیا کررہا ہے؟ تو گِر جائے گا۔ اُس نے کہا جائو تم بڑے نبی آئے ہو۔ اُس نے کہا اِس میں نبوت کی تو کوئی بات نہیں یہ تو عام بات ہے کہ جس شاخ پربیٹھے ہو اُسی کوکاٹ رہے ہو یہ کٹ کر گِرے گی تو ساتھ ہی تم بھی گِرجائو گے مگر اُس نے اُس کی بات نہ مانی ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ شاخ کٹ کر گری تو وہ بھی ساتھ ہی نیچے آگِرا اور پھر جلدی سے اُٹھ کر پیچھے بھاگا کہ تم تو عالم الغیب ہو بتائو میں کب مروں گا؟ تو اِن افسروں کی مثال بھی شیخ چلی کی سی ہے وہ اس تنے کوکاٹ رہے ہیں جو ان کی اور ساری دنیا کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔
انبیاء کو اللہ تعالیٰ ساری دنیا کی حفاظت کا ذریعہ بنا کر بھیجتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو بھی اللہ تعالیٰ نے حکومت اور پبلک دونوں کی حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ہی ذریعہ دنیا میںامن قائم کرے گاکیونکہ امن کی بنیاد اب اخلاق پرہوگی اورجو اِس جماعت کو نقصان پہنچاتا ہے وہ دراصل اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ مسلمانوں کے لئے جب بھی حقیقی نقصان کا وقت آیا ہے ہم نے ان کی مدد کی ہے اور آئندہ بھی وہ دیکھیں گے کہ ان کے مصائب کو اُٹھانے کیلئے ہماری جماعت ہمیشہ تیار رہے گی۔ اِسی طرح ہندوستان میں اگر کبھی ہندوئوں یا سکھوںکیلئے حقیقی نقصان کاوقت آیا تو اُس وقت بھی احمدیہ جماعت ہی ان کے بچانے کا ذریعہ ہوگی۔ اور اگر کوئی وقت حکومت یا برطانوی قوم پر ایسا آیا تو اُس وقت بھی ہماری جماعت ہی ان کے بچانے کا ذریعہ ہوگی کیونکہ ہماری رشتہ داری بندوں سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ سے ہے اورہم دنیا میں انصاف چاہتے ہیں۔ باوجودیکہ ہم مسلمان ہیں لیکن اگر کوئی وقت ایسا آئے کہ مسلمان، ہندوئوں یا سکھوں پر ظلم کریں تو اُس وقت احمدی مظلوم کاہی ساتھ دیں گے۔ اور اگر رعایا حکومت پرظلم کرے گی تو اُس وقت بھی ہم مظلوم کا ساتھ دیں گے اور دیتے رہے ہیں۔ نادان احراری ہمیں یہ طعنے دیتے ہیں کہ ان کا دعویٰ تھا کہ ہم حکومت کے محافظ ہیں مگر باوجود یکہ بعض افسر ذاتی عداوتوں کی وجہ سے ہماری مخالفت کرتے ہیں اور اِس طرح حکومت سے بلکہ ملکِ معظّم سے غدّاری کررہے ہیں مگر پھر بھی اگر کبھی ایسا وقت آئے کہ حکومت پررعایا ظلم کرے تو حکومت کا ساتھ دیں گے اور اگر حکومت رعایا پر ظلم کرے تو ہم رعایا کا ساتھ دیں گے۔
۱۹۲۷ء میں لاہور میں بعض سکھوں نے چند مسلمانوں کوجو نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہے تھے ماردیا۔ اِس پر بڑا شور ہؤا اورمیں نے بھی اِس میں دلچسپی لی۔ اُس وقت لاہور کے کمشنر مسٹرلینگلے تھے انہوں نے مجھے چِٹھّی لکھی کہ گورنر صاحب کو آپ کی جماعت پر بڑا اعتماد تھاآپ نے اِس وقت کیوں ایسا روّیہ اختیار کیاہے؟ میں نے انہیں جواب دیا کہ ہم نے کبھی بھی آپ کا ساتھ نہیں دیا بلکہ ہم ہمیشہ انصاف کاساتھ دیتے رہے ہیں اور یہ حکومت پر کوئی احسان نہ تھا اور اب جو میںنے مسلمانوں کا ساتھ دیا ہے تو یہ ان پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ انصاف کی حمایت کرکے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ تو حکومت کی خیر خواہی کے یہ معنی نہیں کہ ہم قوم کے غدّار بنیں۔
میرا عقیدہ ہے کہ حکومت کی وفاداری اور قوم کی خیرخواہی دونوں جمع ہوسکتی ہیں پہلے بھی یہی عقیدہ تھا اور اب بھی یہی ہے کہ حکومت کی خیرخواہی کے معنی پبلک سے غدّاری کے نہیں اور اسی طرح پبلک کی خیرخواہی کے معنی یہ نہیں کہ حکومت سے غداری کی جائے اور جو ایسا سمجھتا ہے وہ بیوقوف ہے۔ اس لئے یہ صحیح ہے کہ حکومت کی حفاظت ہمارے ذریعہ سے ہے۔ میں یہ اب بھی کہتا ہوں اور کہتا رہوں گا مگر اِس کے یہ معنی نہیں کہ ہم ظلم کی حمایت کریں گے۔ بے شک حکومت کی بلکہ احرار کی اور دوسرے مسلمانوں، ہندوئوں اور سکھوں کی سب کی حفاظت ہمارے ذریعہ ہے۔ بظاہر یہ پاگل پن کی بات معلوم ہوتی ہے اور کوئی کہہ سکتا ہے کہ ’’کیا پدی اورکیا پدی کاشوربا‘‘ مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ بیج ہمیشہ چھوٹا ہوتا ہے مگر اس سے بڑا درخت بن جاتا ہے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے اندر سے درخت نکل رہا ہے۔ بڑ کے بیج کو دیکھنے والا اسے ایک چھوٹا سا دانہ سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اِس نے کیا بڑھنا ہے مگربیج جانتا ہے کہ اس کے اندر کس قدر بڑھنے کی طاقت ہے۔ بے شک اِس وقت ہم کمزور ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم نے دنیا پر چھاجاناہے اور ہم جانتے ہیں کہ دنیا کی حفاظت ہمارے ذریعہ ہوگی۔ اگر ہم اس دعوے میں جھوٹے ہیں تو زمانہ اسے ظاہر کردے گا او راگر سچے ہیں تو بھی زمانہ ظاہر کردے گا اور ظاہرکر بھی رہا ہے۔ ہماری جماعت پر پچاس سال کا عرصہ گزر چکا ہے اِس عرصہ میں ہماری کیا کیا مخالفتیں نہیں کی گئیں اور ہمارے خلاف کیا کیاشرارتیں نہیں ہوئیں مگر ہم خداتعالیٰ کے فضل سے بڑھتے ہی جارہے ہیں اور اگر کبھی نہیں بڑھتے تو یہ ہماری اپنی کمزوری ہوتی ہے جیسے دانے کے اپنے اندر اگر کوئی نقص ہو تو وہ نہیں بڑھے گا اسی طرح ہم اپنی کمزوری کی وجہ سے اگر رُکیں تو رُکیں ورنہ خداتعالیٰ نے ہمارے اندر بے انتہاء قابلیتیں رکھی ہیں۔ پس ہم حکومت کے بھی خیرخواہ ہیں اور عایا کے بھی مگر بعض افسر ہماری بِلا وجہ مخالفت کررہے ہیں۔ اب انہوںنے پینترا بدلا ہے ۔ پہلے انہو ںنے بعض بیوقوفوں کو آلہ کار بنایا تھا مگر جب دیکھاکہ یہ بیوقوف تو ہمیں بھی بدنام کررہے ہیں تو اب ایسا رویہ اختیار کیا ہے جوبظاہر زیادہ محتاط ہے مگر ظلم اب بھی موجود ہے اور مجھے اُمید ہے کہ جس طرح انہیں پہلے شکست ہوئی ہے اب بھی ہوگی کیونکہ ہمارا مدار تدابیر پر نہیں بلکہ خداتعالیٰ پر ہے۔
ایک دفعہ ایران کے بادشاہ نے گورنرِ یمن کو لکھا کہ رسول کریم ﷺکو گرفتارکرکے ہمارے پاس بھیج دیا جائے۔ گورنر نے بعض آدمی مدینہ میں بھیجے جنہوں نے جاکر کہا کہ ہمارے شہنشاہ کا ایسا حکم ہے۔ آپؐ نے انہیں فرمایا کہ ٹھہرو ہم دو تین دن تک جواب دیں گے۔ جب ایک دو دن گزرگئے تو انہوں نے کہا کہ دیر ٹھیک نہیں گورنر یمن نے کہا ہے کہ بادشاہ نے غلط خبروں کی بناء پر ایسا حکم دیا ہے آپ آجائیں تومیں سفارش کروں گا۔ آپ نے فرمایا کہ ٹھہرو ہم جواب دیں گے۔ اگلے روز انہوں نے پھر ازراہِ نصیحت کہا کہ دیر اچھی نہیں بادشاہ بگڑ جائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ جائو اپنے گورنر سے کہہ دو کہ ہمارے خدا نے اس کے خدا کومار دیا ہے۔ انہوں نے پھر خیرخواہی کے طور پر کہا آپ انکار نہ کریں بادشاہ ناراض ہوگیا تو آپ کی ساری قوم کو تباہ کردے گامگر آپ نے فرمایا کہ بس جائو اور یہ جواب دے دو۔ وہ چلے گئے اور گورنر کو یہ جواب دے دیا ۔ اُس نے کہااچھا ہم دیکھیں گے اگر یہ بات ٹھیک نکلی تو یہ شخص سچا ہوگا۔ چند روز کے بعد ایک جہاز ایران سے آیا جس میں سے کچھ افسر نکلے اور انہو ںنے گورنر کو ایک سربمہر لفافہ دیا۔ مُہر کو دیکھتے ہی گورنر نے کہا کہ مدینہ والے شخص کی بات سچی معلوم ہوتی ہے کیونکہ خط پر مُہر نئی تھی۔ جب اس نے لفافہ کھولا تو اُس میں لکھا تھا کہ ہمارا باپ ظالم تھا اِ س لئے ہم نے اسے قتل کرکے زمامِ حکومت خود سنبھال لی ہے تم لوگوں سے ہماری وفاداری کا عہد لو۔ نیز ہمارے باپ نے مدینہ کے ایک شخص کے متعلق ایک ظالمانہ حکم دیا تھا ہم اسے بھی منسوخ کرتے ہیں ؎۷ ۔ پس جو جماعتیں خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرلیتی ہیں وہ بندوں سے نہیں ڈرا کرتیں۔
حضرت مسیح ناصری کو صلیب پر لٹکانے والے کتنے خوش تھے کہ ہم نے عیسائیت کا خاتمہ کردیا مگر اِس پر آج انیس سَو سال گزرچکے ہیں اور وہ قوم آج بھی صلیب پر لٹکی ہوئی ہے اور اُسے کہیں پناہ نہیں ملتی۔ انگریزوں نے ان کیلئے فلسطین تلاش کیا مگر وہاں بھی مسلمان ان کی مخالفت کررہے ہیں۔ اور میں بھی سمجھتا ہوں کہ یہود کو فلسطین میں بسانا ظلم ہے جب بھی مسلمانوں کو طاقت ملی وہ اپنا حق ضرور واپس لیں گے اور ان کو نکال دیں گے تو اس قوم کو کہیں بھی امن نہیں۔ پہلے انگریزوں کے ملک میں انہیں امن تھا مگر اب ان میں بھی ایک ایسی قوم پیدا ہورہی ہے جو یہود کو نکالنا چاہتی ہے۔ یہ فیسی اسٹ پارٹی ہے۔ فاسی ازم ایک تحریک ہے جس کی بنیاد مسولینی نے اٹلی میں رکھی تھی۔ انگریزوں کے ملک میں یہ جماعت ابھی زور والی نہیں مگر ترقی کررہی ہے۔ درد صاحب گزشتہ ایام میں ان افسروں کے ظالمانہ رویہ کے سلسلہ میں جو ہمارے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں ان کے بعض لیڈروں سے بھی ملے تھے۔ دَورانِ ملاقات انہوں نے بتایا کہ ہمارا بھی جرمنی کے لوگوں کی طرح یہ خیال ہے کہ یہودیوں کو اپنے ملک میں نہ رہنے دیا جائے ۔ غرض یہود نے سمجھا تھا کہ ہم نے مسیح کو صلیب پر لٹکادیا مگر دراصل وہ یہودیت کو صلیب پر لٹکارہے تھے۔ حضرت مسیح علیہ السلام تو تین گھنٹہ کے بعد صلیب سے اُتر آئے مگر یہود کو صلیب پر لٹکے ہوئے آج انیس سَو سال گزر گئے ہیں۔
پس ہمیں افسروں کی مخالفت کا ڈر نہیں وہ ہمیں نہیں بلکہ دراصل اپنے آپ کوتکالیف میں ڈال رہے ہیں اور وہ دن دُور نہیں جبکہ وہی حکومت جس کے دبدبہ اور گھمنڈ کی وجہ سے وہ ایسا کررہے ہیں اِن کو گرفت کرے گی لیکن حالات ایسے ہیں کہ ہمارے آدمیوں کو بھی اِس سلسلہ میں بعض مشکلات میں سے گزرنا پڑے گا۔ ہماری جماعت حکومت سے تعاون کی عادی ہے اور اب ایک نئے رنگ کے تعاون کا سوال درپیش ہے اس لئے ایسا نہ ہو کہ وہ کسی پولیس والے کی شکل دیکھیں تو سمجھیں کہ یہ نئی قسم کا خطرہ ہے۔ اس رنگ میں بھی انہیں اپنے اندر بہادری پیدا کرنی چاہئے۔ اگر تم ناحق پر ہو تو کوئی پولیس والا آئے یا نہ آئے تمہیں چاہئے کہ اس سے ڈرو۔ ظلم اور جھوٹ بڑی خطرناک چیزیں ہیں اور وہ دل جس میں جھوٹ او رظلم ہوکبھی نہیں پنپتا خواہ ساری دنیا اُس کی حمایت کرے اور اگر تم حق پر ہو تو خواہ حکومت اور کانگرس اور رعایا سب مل کر بھی تمہیں پکڑنا چاہیں تو مت ڈرو۔ اپنے اندر ہرقسم کی دلیری پیدا کرو جہاں بھی بے انصافی دیکھو اُس کا مقابلہ کرو مگر محبت اور پیار سے۔ ظلم کا مقابلہ بھی پیار سے کرو۔ دیکھو! قرآن کریم نے اجازت دی ہے کہ جو لوگ تم پر ظلم کرتے ہیں اُن کا مقابلہ کرو مگر زیادتی کی اجازت نہیں دی۔ پس تم کسی چیز سے نہ ڈرو مگر ظلم کرنے سے ضرور ڈرو۔ اگر حکومت گرفت کرتی ہے تو مت ڈرو، اگر رعایا پکڑتی ہے تو مت ڈرو، اگر ماں باپ یا بیویاں یا اولاد تمہیں حق سے پھیرنا چاہتی ہے تو اِس کا مقابلہ کرو۔ غرض کسی خطرہ سے نہ ڈرو مگر خداتعالیٰ کا خوف ہر وقت دل میں رکھو اور ہر وقت خیال رکھو کہ انصاف اور دیانت ہاتھ سے نہ جائے۔ بہت سے انسان ظلم کے مقابلہ میں ظلم کرتے ہیں مگر تم ظلم کامقابلہ انصاف اور دیانت سے کرو۔ اپنے اندر بہادری پیدا کرو جو لوگ بہادر ہوجاتے ہیں وہ ضرور دنیا کو مغلوب کرکے رہتے ہیں اوربہادری کے ساتھ اگر ایمان بھی ہو تو دیکھنے والا کانپ جاتا ہے۔
ایک جنگ کے بعد رسول کریم ﷺ کو قتل کرنے کی غرض سے ایک شخص اسلامی لشکر کے پیچھے پیچھے بڑی دُور تک چلا آیا۔ صحابہ ایک جگہ آرام کرنے کیلئے لیٹے تو انہوں نے غلطی سے رسول کریم ﷺ کیلئے پہرہ کا کوئی انتظام نہ کیا اور خیال کیا کہ تھوڑی دیر ٹھہرنا ہے اور اِس جنگل میں کون حملہ کرنے آئے گا؟ رسول کریم ﷺ بھی ایک درخت کے نیچے سوگئے وہ دشمن آیا اور آپ ہی کی تلوار جودرخت سے لٹک رہی تھی اُتار کر اُس نے آپ کو جگایا اور پوچھا کہ اب تمہیںکون بچاسکتا ہے؟ آپ نے سادگی سے فرمایا اللہ ؎۸ اور اِس بہادرانہ ایمانی رنگ کا اُس پر ایسا اثر ہؤاکہ اُس کے ہاتھ سے تلوار گرگئی۔ آپ نے اُسے اُٹھایا اور پوچھا اب تمہیں کون بچاسکتا ہے؟ اس نے کہا آپ ہی رحم کریں توکریں۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں اللہ تعالیٰ ہی بچاسکتا ہے جائو چلے جائو۔
تو بہادری اور ایمان بڑا رُعب پیدا کردیتے ہیں۔ پس یہ دونوں چیزیں اپنے اندر پیدا کرو کہ یہ دونوں جس کے اندر جمع ہوجائیں اس کے سامنے تمام دنیا کی طاقتیں خس و خاشاک کی مانند بہتی چلی جاتی ہیں اور جس طرح آندھی کے آگے تنکے اُڑتے پھرتے ہیںیہی حالت تمام طاقتوں کی اُس کے آگے ہوتی ہے۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہیں خداتعالیٰ نے کس لئے پیداکیا ہے ۔ کسی پر ظلم نہ کرو اورجتنی طاقت ملتی جائے ثمر ور درخت کی طرح اتنے ہی جھکتے جائو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اِسی لئے پید اکیا ہے۔ اور اگر اِس غرض کو تم پورا نہیں کرسکتے تو جس طرح پہلے لوگ اس کی *** کے مورد ہوگئے اسی طرح تم ہوگے۔ پس اپنے دلوں میں عہد کرو کہ خداتعالیٰ تمہیں جتنی طاقت دے گا اُتنا ہی دنیا میں عدل و انصاف قائم کرو گے اور اگر تم ایسا کر لو تو پھر تم دنیا میں چلتے پھرتے فرشتے بن جائو گے اور خداتعالیٰ کی رحمتیں اور نصرتیں ناک، کان اور آنکھ کی طرح جو باہر سے نہیں آتیں بلکہ اندر سے ہی پیدا ہوتی ہیں تمہارے اندر گھر کرلیں گی او رہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں گی۔
(الفضل ۱۰؍مارچ ۱۹۳۶ئ)
؎۱ الہام منظوم دفتر دوم صفحہ ۲۸۴
؎۲
؎۳ مسلم کتاب صفات المنافقین باب تحریش الشیطان (الخ)
؎۴ بخاری کتاب الرقاق باب التواضع
؎۵ فَلاَ تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ (بنی اسرائیل: ۲۴)
؎۶ پینک: افیون یا پوست کی اونگھ
؎۷ تاریخ طبری الجزء الثالث صفحہ ۲۴۷ تا ۲۴۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء
؎۸ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع





۶
معذور سے معذور احمدی بھی خدمتِ دین میں ارادئہ نیک
اور دُعا کے ذریعہ حصہ لے سکتا ہے
(فرمودہ ۲۸؍ فروری ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں نے تحریک جدید کے سلسلہ میں ۱۹۳۴ء میں جو امور جماعت کے سامنے پیش کئے تھے وہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں سب بیان ہوچکے ہیں سوائے اس کے جسے میں نے اُنیسواں مطالبہ قرار دیا تھا اور وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دنیا کے تمام انسانوں کیلئے بنایا ہے اورہر انسان کو اس کی خدمت اور اس کی اعانت کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اور ہر انسان کو اُن انعامات کا حصہ دار قرار دیا ہے جو انعامات اسلام کی اعانت اور اس کی تائید کی وجہ سے انسان کو حاصل ہوسکتے ہیں مگر بہت سی تجویزیں اور بہت سی تحریکیں اور بہت سی تدبیریں جو اسلام کی ترقی کیلئے کی جاتی ہیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہر انسان ان میں حصہ نہیں لے سکتا۔ مثلاً مالی تحریک ہے دنیا میں کئی انسان ایسے ہوتے ہیں جو اپنے پاس مال نہیں رکھتے اور اس وجہ سے مالی تحریکات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ یا کئی جانی تحریکیں ہیں کہ جن میں ہر انسان حصہ نہیں لے سکتا۔ کوئی معذور ہوتا ہے، کوئی بیمار ہوتا ہے، کوئی لولا لنگڑا ہوتا ہے او رکوئی بوڑھا ہوتا ہے۔ غرض کئی قسم کی معذوریاں ایسی ہوتی کہ ہیں جن کی وجہ سے بعض لوگ جسمانی خدمات سے محروم ہوجاتے ہیں۔ پھر کئی فنی باتیں ہوتی ہیں اور اہلِ فنون ہی ان میں حصہ لے سکتے ہیں دوسرے ان میں حصہ لینے سے محروم رہتے ہیں۔ مثلاً زخمیوں کی مرہم پٹی ہے اگر کسی وقت اس خدمت کا موقع ملے تو اس میں ایسے ہی مرد اور عورتیں حصہ لے سکتی ہیں جنہیں مرہم پٹی کرنا آتاہو، یا اگر کسی وقت آہن گری کے علم کی ضرورت پڑے تو آہن گر ہی کام آسکتا ہے، یا نجّاری کے متعلق ضرورت محسوس ہو تو نجّار ہی کام آئے گا دوسرے لوگ نہیں، یا اگر معماری کے سلسلہ میں بعض لوگوں کی خدمت کی ضرورت ہو تو معمار ہی قربانی کرسکتاہے دوسرے لوگ نہیں کرسکتے۔ پس باوجود تمام کوششوں اور نیک ارادوں کے پھر بھی بنی نوع انسان کا ایک حصہ ایسا رہ جاتا ہے جو جانی یا مالی یا فنی خدمات میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہوتا اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کی تعلیم جو تمام بنی نوع انسان کیلئے ہے جس میں غریب بھی شریک ہیں اورامیر بھی، بڑے بھی شریک ہیں اور چھوٹے بھی، معذور بھی شریک ہیں اور غیرمعذور بھی، عورتیں بھی شریک ہیں اور مرد بھی، بچے بھی شریک ہیں اور بوڑھے بھی، اس اسلام کے کسی حکم پر جو لوگ لَبَّیْکَ کہنے سے معذور ہوں وہ کیا کریں؟ جب اسلام مالی تحریک کیلئے بلائے تو غرباء کیا کریں؟ جب جسمانی تائید کیلئے بلائے تو اپاہج کیا کریں؟ جب کھُلے میدانوں میں کام کرنے کیلئے بلائے تو عورتیں کیا کریں؟ جب طاقت و قوت کا مظاہرہ چاہئے تو اس وقت بچے اور بوڑھے اور بیمار کیا کریں؟ اور جس وقت علم کی استمداد چاہئے اس وقت جاہل اور اَن پڑھ کیا کریں؟ غرض کوئی علاج اسلام میں ایسا بھی ہونا چاہئے اور کوئی تدبیر اس قسم کی بھی ہونی چاہئے کہ ہر شخص جو مسلمان کہلاتا ہے چاہے وہ کسی حالت میں پڑا ہؤا ہو اپنے ربّ کی آوا زپر لَبَّیْک کہہ سکے اور اپنی طاقت و قوت کے مطابق اس میں حصہ لے سکے تا بنی نوع انسان میں سے کوئی انسان ایسا نہ ہو جو یہ کہہ سکے کہ اے خدا! تیری آواز دوسروں کیلئے تو تھی مگر میرے لئے نہیں تھی، اور تا کوئی ایسا بندہ نہ ہو جسے خداتعالیٰ کہے کہ تُومیرے دین کی خدمت نہیں کرسکتا تھا؟ پس نہ بندے کیلئے موقع ہونا چاہئے کہ وہ حسرت کا اظہار کرے اور کہے کہ میں دین کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا تھا اور نہ ہمارا خالق اپنے کسی بندے سے کہے کہ تُو میرے دین میں کسی مَصرف کا نہ تھا۔ ہمارا خد اربّ العالمین ہے اورربّ العالمین کی آواز تمام بنی نوع انسان کے لئے ہے۔ چاہے وہ کمزور ہو یا طاقتور، جوان ہوں یا اُدھیڑ عمر کے، بچے ہوں یا بوڑھے، عالم ہوں یا جاہل، پھر خواہ وہ فنون سے واقفیت رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں، مال رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں او ربنی نوع انسان میں سے ہر شخص کے اندر کوئی نہ کوئی ایسی طاقت ہونی چاہئے جس سے خدمتِ دین میں کام لے کر وہ فخر کرسکے اور کہہ سکے کہ میں نے بھی اپنے ربّ کی آواز کو سنا اور اس کا جواب دیا۔ بے شک اللہ تعالیٰ بے انتہاء رحم کرنے والا ہے اور وہ اپنے رحم سے جس کو چاہے بخش دے کون اُس کے ہاتھ کو روک سکتا ہے۔ اگر وہ فیصلہ کردے کہ نمرود اور شداد اور فرعون کو جنت میں داخل کردیاجائے تو کون اسے روک سکتا ہے۔ یا فیصلہ کردے کہ عتبہ یا شیبہ اور ابوجہل کو معاف کردیا جائے تو کون اسے منع کرسکتا ہے۔ وہ مالک اور آقا ہے کون ہے جو اس پر اعتراض کرے، کون ہے جو اس کے ہاتھ کو روک سکے۔ پس وہ ان بوڑھوں، اپاہجوں، کمزوروں، ناطاقتوں اور جاہلوں کو اپنے فضل سے جنت میں لے جاسکتاہے جنہیں ا س کے دین کی خدمت کرنے کا کوئی موقع نہ ملا ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں کیا احساس ہوگا۔ بے شک ایک رنگ میں سب ہی خداتعالیٰ کے فضل سے نجات پائیں گے۔
رسول کریم ﷺ نے بھی اہل بیت میں سے ایک کے سوال پر فرمایاتھا کہ میری نجات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے ؎ ۱ ۔ یہ سب سچ ہے مگر ایک فضل اعمال کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اور ایک بغیر اعمال کے فضل ہوتا ہے۔ ایک مؤمن کا جنت میں جانا اورایک کافر کا جنت میں جانا دونوں اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہیں مگر ان دونوں میں بہت بڑا فرق بھی ہے۔ ایک مؤمن کی گردن فخر سے اونچی ہوتی ہے اور وہ کہتا ہے میں نے اپنے ربّ کی آواز کو سنا اور اس پر حتَّی المقدور عمل کرنے کی کوشش کی اس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ نے مجھ پر فضل کیا اور جنت میں داخل کردیا مگر کافر کی گردن شرم سے نیچی ہوتی ہے وہ کہتا ہے میں نے اپنے ربّ کی آواز کو سنا اور اس کا انکار کیا مگر پھر بھی اپنے فضل سے مجھے جنت میں داخل کردیا۔ پس گو نتیجہ ایک ہے مگر دونوں کے ذرائع میں فرق ہے اور دونوں کے احساسات اور جذبات میں فرق ہے۔ یہ تمہارے اپنے اختیار میں ہے کہ تم ایک ہی دستر خوان پر اپنے بچے کو بٹھائو اور اسی پر ایک فقیر کو بٹھادو۔ بے شک کھانا ایک ہوگا مگر تمہارا بچہ جب کھانا کھارہا ہوگا تو گو وہ سمجھے گا کہ مجھ پر میرے باپ کا احسان ہے مگر وہ ساتھ ہی کہے گا میرا حق بھی ہے کہ میں کھائوں لیکن وہی کھانا فقیر کھائے گا اور کہے گا میرا حق تو نہیں صرف اس کی نوازش ہے جس نے مجھے اپنے دسترخوان پر بٹھالیا۔ تو چیز ایک ہے، نظارہ ایک ہے، مزہ ایک ہے لیکن احساس اور جذبات مختلف ہیں۔ اسی طرح بے شک یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس اپاہج، اس جاہل، اس غریب اور اس کمزور کو بھی جنت میں لے جاسکتا ہے جس نے دین کی کوئی خدمت نہ کی ہو مگر سوال یہ ہے کہ وہ اپنے دوسرے مؤمن بھائیوں کے سامنے گردن کس رنگ میں اُٹھائے گا۔ ایک مؤمن جس نے تمام عمر جہاد میں گزاردی اور مرنے کے بعد خداتعالیٰ نے اسے جنت میں داخل کیا وہ کہے گا میں بے شک کمزور ہوں مگر خداتعالیٰ نے مجھے جس قدر طاقتیں دیں ان کے مطابق میں نے اس کی راہ میں کام کیا اور اس نے مجھے جنت میں داخل کردیا۔ ایک مؤمن جس نے دنیا میں مالی قربانی کی اورمرنے کے بعد خداتعالیٰ نے اسے جنت دے دی وہ کہے گا کہ میں بالکل کمزور تھا اور مال خدا تعالیٰ کا ہی عطا کردہ تھا مگر اُسی کی توفیق کے ماتحت میں نے وہ مال اس کی راہ میں خرچ کیا اور خداتعالیٰ نے مجھے جنت دے دی۔ ایک اہلِ فن اور حرفہ جس نے دین کی خدمت کیلئے اپنی فنّی زندگی وقف کردی اور مرنے کے بعد جنت میں داخل ہؤا وہ کہے گا میں بے شک کچھ نہیں کرسکتا تھا اور یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان تھا کہ اُس نے مجھے فن اور حرفہ سکھایا مگر میں ان سے تو اچھا رہا جنہیں خداتعالیٰ نے فن اور حرفہ سکھایا اور انہوں نے اپنے ربّ کی آواز بھی سنی مگر اس پر عمل نہ کیا میرے پاس جو کچھ تھا وہ میں نے خرچ کردیا اور جو فن آتا تھا اس سے دین کی خدمت کردی۔ مگر جو مؤمن نہ اپنے پاس مال رکھتا تھا کہ مالی خدمت کرتا، نہ طاقت رکھتاتھا کہ جسمانی خدمات بجالاتا اور جہاد کرتا، نہ علم رکھتا تھا کہ تبلیغ کرسکتا، وہ مؤمن جس کو ایمان تو نصیب ہوا لیکن زبان نصیب نہ ہوئی کہ اس سے کام لے، وہ مؤمن جسے ایمان تو نصیب ہؤا مگر ہاتھ نصیب نہ ہوئے کہ ان سے کام لے، وہ مؤمن جسے ایمان تو نصیب ہؤا لیکن پائوں نصیب نہ ہوئے کہ ان سے خداتعالیٰ کی راہ میں کام لے سکے بے شک وہ جنت میں داخل ہوجائے لیکن بتائو وہ کیا کہے گا؟ کیا وہ یہ کہے گا کہ میرے ربّ نے مجھے انسان تو بنایا لیکن انسانی کاموں کی توفیق نہ دی اور اب مجھے جنت میں لے تو آیا ہے مگر جنت کے حصول کے کاموں میں میرا کوئی حصہ نہیں۔ کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ہمارا خدا جو غیور خدا ہے جو اپنے بندوں پر انتہائی رحم و شفقت کرنے والا ہے اس نے بندوں کو اسی حالت میں چھوڑ دیا ہوگا اور ان کی اس حسرت کا کوئی علاج نہ کیا ہوگا؟
میں نے ۱۹۳۴ء میں بتایا تھا کہ ہمارے خدا نے ایک تدبیر بتائی ہوئی ہے جس سے وہ اپاہج جو ہاتھ نہیں ہلاسکتے، وہ گونگے جن کی زبان نہیں، وہ غریب جن کے پاس مال نہیں، وہ کمزور اور نحیف جو چارپائی سے اُٹھنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے، وہ سب اُس وقت تک کہ وہ انسان کہلاتے ہیں اور انسان رہتے ہیں ویسی ہی دین کی خدمت کرسکتے ہیں جیسے وہ تندرست جو جہاد میں شامل ہوتے ہیں اور جیسے وہ مجاہد جو دین کی خدمت کیلئے اپنے ملکوں سے باہر جاتے ہیں۔ وہ کیا چیز ہے؟ وہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے اس تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ ارادئہ نیک اور دعائے اضطرار اعمالِ حسنہ میں سے ایک بہت بڑاعمل ہے۔ لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہاتھ پائوں کا ہِلانا ہی عمل ہے مگر قرآن مجید نے دنیا کے سامنے یہ نکتہ پیش کیا ہے کہ دل کا مستقل ارادہ بھی عمل ہے اوردعا بھی عمل ہے۔
چنانچہ رسول کریم ﷺ جب ایک جہاد میںتشریف لے گئے جس میں مسلمانوں کو بہت سی دقتیں پیش آئیں تو آپ کو محسوس ہؤا کہ بعض صحابہ یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ انہوں نے دین کی خدمت دوسروں سے نمایاں طور پر کی ہے اس پر آپؐ نے صحابہ کی طرف دیکھا اور فرمایا کچھ لوگ مدینہ میں ایسے رہتے ہیں کہ تم کسی وادی میں سے نہیں گزرتے اور کوئی تکلیف خداتعالیٰ کے رستہ میں برداشت نہیں کرتے مگر جس طرح تمہیں ثواب ملتا ہے اسی طرح انہیں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! یہ کیونکر ہم اسلام کی خدمت کیلئے باہر نکلے ہوئے ہیں، خداتعالیٰ کی راہ میں جہاد کررہے ہیں، اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو قربان کرکے طرح طرح کی تکلیفیں اُٹھارہے ہیں اور وہ مدینہ میں آرام سے بیٹھے ہیں پھر وہ اسی ثواب کے مستحق کیونکر ہوسکتے ہیں جس کے ہم ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ ٹھیک ہے مگر جن کا مَیں ذکر کررہا ہوں وہ وہ معذور لوگ ہیں کہ اگر ان کے ہاتھ پائوں ہوتے تو وہ بھی جہاد کیلئے نکلتے، اگر ان کے پاس مال ہوتا تو وہ بھی خداتعالیٰ کی راہ میں اسے خرچ کرتے، اگر ان کے پاس طاقت ہوتی تو وہ بھی اس سے کام لے کر خداتعالیٰ کے دین کی مدد کرتے مگر ان کے پاس کچھ نہیں وہ معذور ہیں اور اپنی معذوری کو دیکھ کر ان کے دل مدینہ میں بیٹھے خون ہو رہے ہیںاور کہتے ہیں کاش! ہمارے پاس مال ہوتا ، کاش! ہمارے پاس طاقت ہوتی تو آج ہم بھی جہاد کرتے۔ پس وہ خداتعالیٰ کے حضور تم سے کچھ کم ثواب کے مستحق نہیں بلکہ ویسے ہی ثواب کے مستحق ہیں جیسے تم ہو اور گو ان کے پاس سامان نہیں مگر ان کا ارادہ یہی ہے کہ اگر سامان ہوتا تو ہم اس سے کام لے کر خداتعالیٰ کی راہ میں نکل کھڑے ہوتے ؎۲ ۔ پس ان کا ارادہ خود عمل ہے اور وہ بھی ویسے ہی ثواب کا مستحق ہے جیسے اور انسانی اعمال۔ حقیقت یہ ہے کہ نیک ارادہ، نیک عمل سے مشکل ہوتا ہے۔ تم نیک عمل منافقت سے کرسکتے ہو مگر تم نیک ارادہ منافقت سے نہیں کرسکتے۔ ایک کمزور سے کمزور انسان منافقت کے ساتھ نیک عمل کرسکتا ہے مگر ایک طاقتور سے طاقتور انسان منافقت کے ساتھ نیک ارادہ نہیں کرسکتا۔ پس ارادے کی طاقت عمل سے زیادہ ہوتی ہے تم عمل کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہو لیکن ارادہ کو اُس وقت تک اپنی مرضی کے مطابق نہیں ڈھال سکتے جب تک تم اپنے ذہن میں اس ارادہ کے مطابق تبدیلیاں پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوجائو۔ پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ ہاتھ پائوں کا عمل زیادہ قیمتی شے ہے اور دل کا عمل بے حقیقت شے ہے۔ خصوصاًجبکہ حقیقت یہ ہے کہ عمل ارادے کے تابع ہے ۔ جب ارادہ طاقت پکڑ لیتا ہے تو جس میں قوتِ عمل نہ ہو اس سے بھی اپنے منشاء کے مطابق عمل کرالیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ؎۳ یعنی عمل نیّتوں کے تابع ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے نیت بدلتی جاتی ہے اس کے مطابق اعمال کی شکل بھی تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے او رایک ہی کام جو ایک کیلئے ترقی اور روحانی بلندی کا موجب ہوتاہے نیت کے بدل جانے کی وجہ سے دوسرے کیلئے ذلّت اور رُسوائی کا موجب بن جاتا ہے۔
چنانچہ دیکھ لو وہ نماز جو خداتعالیٰ کی خوشنودی کا موجب ہے، وہ نماز جو الٰہی محبت میں بیتاب ہوکر جب اد اکی جاتی ہے تو انسان کو خداتعالیٰ کے قریب کردیتی ہے۔ وہی نماز ایک دوسرے وقت میں دوسرے انسان کیلئے باوجود یکہ نماز کی وہی شکل رہتی ہے ، عبارتیں وہی پڑھی جاتی ہیں، وقت اتنا ہی خرچ کیا جاتا ہے بلکہ زیادہ کیونکہ اس میں رِیاء کا پہلو بھی شامل ہوتا ہے دُکھ اور عذاب کاموجب بن جاتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ ؎۴ کہ ایک نمازی ایسے ہوتے ہیں جن پر خداتعالیٰ کا عذاب ہوتا ہے تو نیتوں کی تبدیلی کی وجہ سے انسانی اعمال کی شکل بالکل تبدیل ہوجاتی ہے۔ ایک ڈاکٹر بھی مریض کے جسم میںچاقو مارتا ہے اور ایک قاتل بھی چاقو مارتا ہے مگر ایک کو تم فیس دیتے اور دوسرے کو پھانسی کی سزا دلوانے کی کوشش کرتے ہو۔ مارتے دونوں چاقو ہیں مگر ایک کے تم ممنونِ احسان ہوتے ہو اور دوسرے کے دشمن ہوجاتے ہو اِس کی کیا وجہ ہے؟ اِس کی یہی وجہ ہے کہ اِن دونوں کے پیچھے مختلف ارادے کام کررہے ہوتے ہیں۔ ایک کا ارادہ شِفا دینے کا ہوتا ہے اور دوسرے کا ارادہ چاقو مار کر ہلاک کرنا ہوتا ہے۔
پس اعمال ہمیشہ ارادہ کے تابع ہوتے ہیں اور جب کوئی خدمتِ دین کا پختہ ارادہ کرتا ہے اور ہروقت یہ خیال اُس کے دل پر غالب رہتا ہے کہ کاش! اُس کو توفیق ملتی اور وہ بھی اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح خدمتِ دین کرسکتا لیکن سامانوںکی عدم موجودگی کی وجہ سے اس ارادہ کو عملی صورت میں ظاہر نہیںکرسکتا تو وہ بھی خداتعالیٰ کے حضور ویسا ہی سمجھا جاتا ہے جیسے خدمت دین کرنے والا اوریہ نیک ارادہ اُسے دوسرے سے پیچھے نہیں کرتا بلکہ ان کے برابر رکھتا اور خداتعالیٰ کے قریب کردیتا ہے کیونکہ خداتعالیٰ اس قسم کے ارادہ کو عمل سمجھتا ہے بلکہ اعمال میں بہت بڑا عمل قرار دیتا ہے۔ جو شخص مضبوط ارادہ دین کی خدمت کا رکھتا ہے وہ ویسا ہی جیسے خدمتِ دین عملی صورت میں کرنے والا بشرطیکہ ارادہ کے ساتھ عمل کی قوت اُس میںنہ ہو۔ اور اگر عمل کی قوت تو ہو لیکن صرف ارادے پر اکتفا کرے تو وہ منافق ہے اور اس قسم کا ارادہ بجائے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے جذب کرنے کے اس کے عذاب کاموجب بن جاتا ہے ۔ لیکن عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ارادہ اور خیال میں فرق نہیں کرتے حالانکہ خیال اور چیزہے اور ارادہ اور چیز۔ لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ جب ان کے دل میں کوئی نیک خیال پیدا ہو تو وہی ارادہ ہوتا ہے اور اس وجہ سے وہ اس دھوکا میں آسکتے ہیں کہ گویا ان کے نیک ارادے ہیں حالانکہ وہ ارادے نہیں بلکہ خیالات ہوتے ہیں اور خیال اور ارادہ میں وہی فرق ہوتا ہے جو ایک باپ اور اجنبی آدمی کے احساسات میں اُس وقت فرق ہوتا ہے جب وہ بچہ کو دیکھتے ہیں۔بچہ وہی ہوتا ہے، ہاتھ پائوں اس کے وہی ہوتے ہیں، خدوخال وہی ہوتاہے لیکن جب اسے باپ دیکھتا ہے تو اس کے دل میں اور قسم کے احساسات پیدا ہوتے ہیں اور جب اجنبی دیکھتا ہے تو اَور قسم کے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔ دونوں کے دل میں بچہ کودیکھ کرخیال تو پیدا ہوتا ہے مگر ایک ادنیٰ خیال ہوتا ہے اور ایک اعلیٰ۔ اسی طرح ارادہ اور خیال میں فرق ہے۔ ارادہ اس قوت کو کہتے ہیں جس کے ماتحت اعمال صادر ہوتے ہیں اور خیال اس علم کو کہتے ہیں جو کسی کے متعلق حاصل ہو۔ تمہارے دل میں ہزاروں بار ایک چیز کا خیال آسکتا ہے بغیر اس کے کہ تم اس کا ارادہ کرو اور گو ارادہ سے خیال جدا نہیں ہوتا لیکن خیال سے ارادہ بسا اوقات جدا ہوتا ہے اور خیال بغیر ارادہ کے علم کی ایک کیفیت ہے اور ارادہ علم اور عمل دونوں کا جامع ہے۔ گویا وہ مقام جس میں علم اور عمل باہم ملتے ہیں اور جب انسان یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ میں نے فلاں کام کرنا ہے اور اپنا قلب اور اس کا تمام ماحول اس کیلئے لگا دیتا ہے اس کو ارادہ کہتے ہیں اور اس طرح ارادہ، اعمال کا خالق ہوتا ہے مگر محض خیال عمل کا خالق نہیں ہوتا۔ یہی چیز ہے کہ جب مذہبی امور کے متعلق ہو تو اسے ایمان کہتے ہیں ایمان خیال کا نام نہیں۔ ہزاروں ہندو ہیں جو رسول کریم ﷺ کو سچا سمجھتے ہیں، ہزاروں عیسائی ہیں جو رسول کریم ﷺ کو سچا سمجھتے ہیں، ہزاروں سکھ ہیں جو رسول کریم ﷺ کو سچا سمجھتے ہیں مگر تم نہیں کہتے کہ وہ رسول کریم ﷺ پر ایمان لے آئے ہیں کیوں؟ اس لئے کہ صداقت کا محسوس کرلینا علم ہے ایمان نہیں۔ ایمان اُس حالت کو کہتے ہیں جب انسان اس کے تابع ہو اور وہ اپنے نفس کو کُلّیۃً اسی طرف لگادے اور زندگی کو اس ایمان کے طریق پر ڈھال لے۔ پس خالی صداقت کا قائل ہونا ایمان نہیں بلکہ یقین کے اس مرتبہ کو پہنچ جاناکہ اعمال آپ ہی آپ اس کے مطابق ڈھلتے جائیں ایمان کہلاتا ہے۔ بے شک کمزور حالت میں ایمان مخفی بھی ہوسکتا ہے مگر ا س مخفی ایمان کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ عمل مخفی کرتاہے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ عمل کرتا ہی نہیں۔ مثلاً قرآن مجید میں آل فرعون میں سے ایک شخص کے متعلق آتا ہے کہ یَکْتُمُ اِیْمَانَہٗ ؎۵ وہ اپنے ایمان کو چھپاتا تھا۔ اس کے صرف یہ معنی نہیں کہ وہ دل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سچا سمجھتا تھا بلکہ یہ ہیں کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاچکا تھا صرف اعمال اس کے ظاہر نہ تھے لیکن ایمان دراصل عمل کے بغیر ہوتا ہی نہیں۔ لیکن اس ایمان سے حقیقی ایمان مراد ہے رسمی ایمان مراد نہیں۔ ایک ایمان نام کا ہوتا ہے جیسے قرآن مجید میں آتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالانکہ وہ مؤمن نہیں ہوتے ؎۶ ۔ لیکن چونکہ ظاہری طور پر وہ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، قرآن مجید پر ایمان رکھنے کا اِدّعا کرتے ہیں اس لئے ظاہری شکل کی وجہ سے ہم اسے ایمان کہہ دیتے ہیں حقیقت کی رو سے نہیں۔ جیسے مٹی کے بنے ہوئے آم، یا مٹی کے بنے ہوئے سنگترے کو بھی ہم آم اور سنگترہ ہی کہتے ہیں اگرچہ ان میں آم اور سنگترہ کی حقیقت نہیں ہوتی۔ پس چونکہ انسان کے نیک ارادے اور نیک خیال میں امتیاز مشکل ہوتا ہے اس لئے وہ امتیاز عمل سے ظاہر ہوجاتا ہے۔ نیک ارادہ کے ماتحت انسان سے آپ ہی آپ اس کے مطابق عمل بھی ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے لیکن نیک خیال کے ماتحت عمل کاپیدا ہوجانا ضروری نہیں ہوتا۔ پس نیک ارادہ اور نیک خیال میں یہی فرق ہے کہ نیک بات کے متعلق خیال پیدا ہوکر بھی عمل کی حالت ابھی بہت دور ہوتی ہے لیکن نیکی کے ارادہ کے بعد ساتھ ہی عمل بھی شروع ہوجاتا ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ ایک نے صرف خیالات تک اپنے آپ کو محدود رکھا اور دوسرے نے عمل بھی شروع کردیا۔
مگر بہرحال یہ سوال پھر بھی رہ جاتا ہے کہ وہ کمزور اور بے کس جنہیں خداتعالیٰ نے اپنی آواز پر لَبَّیْکَ کہنے کی توفیق دی مگر سامانوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ کوئی خدمتِ دین کا کام نہیں کرسکتے ان کیلئے کوئی ایسا ذریعہ ہے جس سے ان کی عملی قوت برقرار رہے اور وہ بھی کہہ سکیں کہ ہم نے بھی خداتعالیٰ کے دین کی لئے جوطاقتیں ہمیں میسر تھیں لگادیں۔ وہ عمل جیسا کہ میں نے گزشتہ سال بتایا تھا دعا ہے۔ دعا ان اعمال میں سے ہے جس کیلئے کسی مال کی ضرورت نہیں، کسی علم کی ضرورت نہیں ، کسی فن کی ضرورت نہیں، کسی طاقت و قوت کی ضرورت نہیں، اگر کسی کے ہاتھ نہیں کہ وہ ہاتھ اُٹھا کر دعا کرسکے، اگر کسی کی کمر میں ہِلنے جُلنے کی طاقت نہیں کہ وہ چارپائی سے اُٹھ کر نما ز کی حرکات ادا کرسکے تب بھی وہ دعاکرسکتا ہے کیونکہ دُعا ان چیزوں کی محتاج نہیں بلکہ اگر اس کی پیٹھ اکڑ گئی ہے تو وہ لیٹا رہے اور دعا کرے۔ اگر اس کی زبان پر فالج گِرا ہؤا ہے اور وہ دعا کیلئے اپنی زبان نہیں ہِلاسکتا تو دماغ میں دعائیہ فقرات کو دُہرائے۔ اور اگر اس کا دماغ بھی جاتا رہے تو پھر وہ انسانیت سے نکل گیا۔ ایسا انسان زندوں کی بجائے وفات یافتہ لوگوں میں شامل ہوجاتا ہے اور اُس کا زمانۂ عمل ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن جب تک ایک انسان دنیا میں رہتا ہے اور انسانیت کی حدود سے اِدھر اُدھر نہیں ہوتا اُس وقت تک معذور سے معذور انسان بھی عمل کرسکتا ہے اور وہ دعا کا عمل ہے۔ اسے خداتعالیٰ نے باقی اعمال سے کم حیثیت نہیں دی بلکہ یقینا زیادہ حیثیت دی ہے۔ سارے قرآن کریم میں خداتعالیٰ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر تم جہاد کرو گے تو میں تمہارے پاس ضرور آجائوں گا، سارے قرآن کریم میں خداتعالیٰ نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر تم نماز پڑھو گے تو میں تمہارے پاس ضرور آجائوں گا، سارے قرآن کریم میں یہ کہیں نہیں کہا کہ اگر تم روزہ رکھو گے تو میں ضرورتمہارے پاس پہنچ جائوں گا۔ غرض کسی عمل کے متعلق قرآن کریم میں یہ نہیں لکھا کہ اس کے نتیجہ میں ضرور خداتعالیٰ کا قُرب انسان کو حاصل ہوجاتا ہے مگر ایک عمل ہے جس کے متعلق خداتعالیٰ نے کہا ہے کہ اگر کوئی وہ عمل کرے تو میں ضرور اس کے پاس پہنچ جاتا ہوں اور وہ دعا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَا ہُ ؎۷ ۔ وہ کونسی ہستی ہے جو بندہ کی دعائے مضطر سن کر بے تاب ہوکر اُس کے پاس آجاتی ہے؟ فرمایا وہ میں ہوں۔ تو یہ عمل سب اعمال سے زیادہ طاقتور ہے کیونکہ طاقتور دراصل وہی عمل ہے جس میں سب بنی نوع انسان شامل ہوں اور جو عمل تمام روئے زمین کے انسانوں کومساوات کے میدان میں لے آئے۔ نماز میں امتیاز ہوسکتا ہے کیونکہ ممکن ہے ایک شخص کھڑا ہوکرنماز پڑھے اور دوسرا بیٹھ کر، روزہ میں امتیاز ہوسکتاہے کیونکہ ممکن ہے ایک شخص میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو مگر دوسرے میں نہ ہو، تبلیغ میں امتیاز ہوسکتاہے کیونکہ ممکن ہے ایک کو تبلیغ کرنی آتی ہو اور دوسرے کو نہ آتی ہو یا وہ علم نہ رکھتاہو یا تبلیغ کی طاقت نہ رکھتاہو، اسی طرح جہاد، تربیت اور لین دین کے معاملات میں امتیاز نظر آجائے گا اور وہ مجبوری کا امتیاز ہوگا مگر دعا میںمجبوری کا کوئی امتیاز نہیں ہاں مرضی کا امتیاز ہوسکتا ہے۔ لیکن بہرحال دعا ایک ایسی چیز ہے کہ وہ گونگا جس کی زبان نہیں، وہ بہرہ جس کے کان نہیں، وہ مفلوج جس کے جسم کی حِسّ ماری گئی ہو اور گوشت کا ایک لوتھڑا بن کر چارپائی پر پڑا ہؤا ہو وہ بھی اُسی جوش و خروش سے اپنے ربّ کے حضور دعا کاہدیہ پیش کرسکتا ہے جس طرح ایک تندرست اور طاقتور انسان اور اس عمل میں بنی نوع انسان میں قطعاً کوئی امتیاز نہیں۔ ایک چارپائی پر پڑا ہؤا بے حس انسان بھی جس میں حرکت کرنے کی تاب نہیں اپنے خدا کے حضور دعا کے ذریعہ عقیدت کا ہدیہ پیش کرسکتا ہے اور وہ بھی خداتعالیٰ کے فضلوں کو اسی طرح جذب کرسکتا ہے جس طرح اور انسان جو نماز پڑھتے، روزہ رکھتے اور احکامِ اسلامی پر عمل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
پس دعا وہ چیز ہے جس نے دنیا کے تمام چھوٹوں اور بڑوں اور امیروں اور غریبوں کو ایک سطح پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض صوفیاء نے کہا اسلام دُعا کا نام ہے اور دُعا اسلام ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلام دنیا میں مساوات قائم کرنے کیلئے آیا ہے مگر وہ کونسا عمل ہے جو سب کو مساوات بخشتا ہے۔ نماز سب میں مساوات قائم نہیں کرتی کیونکہ عورتوں پر کچھ دن ایسے آتے ہیں جب وہ نماز کی ادائیگی سے معذور ہوجاتی ہیں۔ پھر جب انسان بوڑھا ہوجائے تو کھڑا ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتا اور زیادہ کمزور ہوجائے تو مسجد میں نماز کیلئے نہیں آسکتا۔ اسی طرح حج ہے، زکوٰۃ ہے، صدقہ ہے اور اور بھی بہت سے اعمال ہیں جوخداتعالیٰ نے انسان کی بہتری کیلئے دیئے اور ہمیں ان سے مالا مال کیا ۔ مگر کوئی عمل ایسا نہیں جو سب کو ایک مقام پرلے آئے اور حقیقی مساوات قائم کرکے دکھلائے سوائے نیک ارادہ یا دعا کے یا مذہبی نقطۂ نگاہ سے یہ کہو کہ سوائے ایمان اور دعا کے۔ کیونکہ اسی چیز کا نام مذہبی اصطلاح میں ایمان بن جاتا ہے جسے دُنیوی اصطلاح میں نیک ارادہ کہتے ہیں۔ قوتِ ارادی جب خداتعالیٰ کے تابع ہوجائے تو وہ ایمان بن جاتی ہے لیکن جب آزاد ہو تو صرف ارادی قوت کہلاتی ہے جیسے خواہش جب انسان کے تابع ہو تو محض خواہش کہلاتی ہے لیکن جب خداتعالیٰ کے تابع ہو تو دعا کہلاتی ہے۔ یہ دو چیزیں مل کر دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کرسکتی ہیں، یہ زمین و آسمان کوہِلا سکتی ہیں۔ دنیا دار لوگوں نے اس قوت سے کام لیا اور اس کانام انہوں نے مسمریزم ، ہِپناٹزم اور میجک (MAGIC) رکھا اور اس کیلئے انہوں نے بڑی بڑی مشقیں کیں مگر وہ سب دُنیوی چیزیں ہیں اور حقارت کے قابل ہیں لیکن جس وقت یہ چیزیں خداتعالیٰ کے دین کے رنگ میں رنگین ہو جاتی ہیں انہیں ایمان اور دعا کہتے ہیں اور ان سے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے جاسکتے ہیں۔
علمِ توجہ کیا ہے؟ وہ محض چند کھیلوں کا نام ہے لیکن دعا وہ ہتھیار ہے جو زمین وآسمان کو بدل دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی دعویٰ نہیں کیا تھا صرف براہین احمدیہ لکھی تھی کہ اس کی صوفیاء و علماء میں بہت شُہرت ہوئی۔ پیر منظور محمد صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب کے والد صوفی احمد جان صاحب اُس زمانہ کے نہایت ہی خدارسیدہ بزرگوں میں سے تھے۔ جب انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار پڑھا تو آپ سے خط و کتابت شروع کردی اور خواہش ظاہر کی کہ اگر کبھی لدھیانہ تشریف لائیں تو مجھے پہلے سے اطلاع دیں۔ اتفاقاً اُنہیں دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لدھیانہ جانے کا موقع ملا۔ صوفی احمد جان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت کی۔ دعوت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے گھر سے واپس تشریف لارہے تھے کہ صوفی احمدجان صاحب بھی ساتھ چل پڑے۔ وہ رتر چھتر والوں کے مرید تھے اور ماضی قریب میں رتر چھتر والے ہندوستان کے صوفیاء میں بہت بڑی حیثیت رکھتے تھے اور تمام علاقہ میں مشہور تھے۔ علاوہ زُہد و اِتقاء کے انہیں علمِ توجہ میں اِس قدر ملکہ حاصل تھا کہ جب وہ نماز پڑھتے تو ان کے دائیں بائیں بہت سے مریض صف باندھ کر بیٹھ جاتے۔ نماز کے بعد جب وہ سلام پھیرتے تو سلام پھیرنے کے ساتھ ہی دائیں بائیں پھونک بھی ماردیتے جس سے بہت سے مرید اچھے ہوجاتے۔ صوفی احمد جان صاحب نے ان کی بارہ سال شاگردی کی اور وہ ان سے چکی پسواتے رہے۔ راستہ میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ میں نے اتنے سال رترچھتر والوں کی خدمت کی ہے اور اس کے بعد مجھے وہاں سے اِس قدر طاقت حاصل ہوئی ہے کہ دیکھئے میرے پیچھے جو شخص آرہا ہے اگر میں اس پر توجہ کروں تو وہ ابھی گِرجائے اور تڑپنے لگے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ سنتے ہی کھڑے ہوگئے اور اپنی سوٹی کی نوک سے زمین پرنشان بناتے ہوئے فرمایا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی جب آپ پر خاص جوش کی حالت ہوتی تو آہستگی سے اپنی سوٹی کے سر کو اس طرح زمین پر آہستہ آہستہ رگڑتے جس طرح کوئی چیز کُرید کر نکالنی ہو) صوفی صاحب! اگر وہ گِرجائے تو اس سے آپ کو کیا فائدہ ہوگا اور اُس کو کیا فائدہ ہوگا؟ وہ چونکہ واقعہ میں اہل اللہ میں سے تھے او رخداتعالیٰ نے اُن کو دُوربین نگاہ دی ہوئی تھی اس لئے یہ بات سنتے ہی اُن پر محویت کا عالَم طاری ہوگیا اور کہنے لگے میں آج سے اس علم سے توبہ کرتا ہوں مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ یہ دُنیوی بات ہے دینی بات نہیں۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے ایک اشتہار دیا جس میں لکھا کہ یہ علم اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں۔ چنانچہ کوئی ہندو اور عیسائی بھی اس علم میں ماہر ہونا چاہے تو ہوسکتا ہے اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ آج سے میرا کوئی مرید اسے اسلام کا جزو سمجھ کر نہ کرے ہاں دُنیوی علم سمجھ کر کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ میں نے کہا ہے کہ خداتعالیٰ نے انہیں دُوربین نگاہ دی ہوئی تھی اس کا ہمارے پاس ایک حیرت انگیز ثبوت ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی براہین احمدیہ ہی لکھی تھی کہ وہ سمجھ گئے یہ شخص مسیح موعود بننے والا ہے حالانکہ اُس وقت ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی یہ انکشاف نہیں ہؤا تھا کہ آپ کوئی دعویٰ کرنے والے ہیں۔ چنانچہ اُنہی دنوں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خط میں یہ شعر لکھا
ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نگاہ
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
یہ امر بتاتا ہے کہ وہ صاحبِ کشف تھے اور خداتعالیٰ نے انہیں بتادیا تھا کہ یہ شخص مسیح موعود بننے والا ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ سے پہلے فوت ہوگئے مگر وہ اپنی اولاد کو وصیت کرگئے کہ حضرت مرزا صاحب دعویٰ کریں گے انہیں ماننے میں دیر نہ کرنا۔ اسی تعلق کی بناء پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی شادی ان کے ہاں ہوئی۔
غرض علمِ توجہ ایک دُنیوی چیز ہے زیادہ سے زیادہ لوگ یہ کرلیتے ہیں کہ توجہ سے کسی کے دل میں وہم پیدا کرلیتے ہیں، کسی کو بیہوش کردیا، بعض ماضی کے اخبارات دریافت کرلئے، بعض حال کے واقعات معلوم کرلئے، معمول کو بے حس اور بے طاقت کردیا۔ غرض اِس قسم کے افعال علمِ توجہ سے ہوسکتے ہیں اورہوتے ہیں مگر دعا کے مقابل اس کی کیا حقیت ہے۔ علمِ توجہ کے اثرات انفرادی ہوتے ہیں مگر دعا کے اثرات انفرادی ہی نہیں بلکہ مجموعی بھی ہوتے ہیں۔ پھر تم نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ علمِ توجہ سے کوئی شخص حکومتوں کا تختہ اُلٹ دے، مذاہبِ باطلہ کو دنیا سے نیست و نابود کردے مگر دعا کے مقابلہ میں دنیا کی ساری بادشاہتیں مل کر بھی ہیچ اور ذلیل ہوجاتی ہیں اور جب خداتعالیٰ کا ایک مسکین اور عاجز بندہ اپنی مسکنت کی چادر اوڑھ کر خداتعالیٰ سے یہ کہتا ہے کہ اے میرے ربّ! تُو میرا خالق اور میں تیرا بندہ ہوں تیرا حق ہے کہ تُو مجھ سے جو چاہے کرے لیکن تیرے بندے مجھ پر کیوں ظلم کرتے ہیں؟ تب خداتعالیٰ کی غیرت بھڑکتی اور بڑے بڑے جابر اور ظالم بادشاہوں کا اس طرح تختہ اُلٹ دیتی ہے کہ ان کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے۔
ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ ان کے محلہ میں شاہی دربار کے بعض آدمی رات کو گانا بجانے کا شغل رکھتے ۔ انہوں نے کئی دفعہ سمجھایا کہ لوگوں کی نیندیں اور نمازیں خراب ہوتی ہیں تم اِس شغل کو ترک کردو مگر وہ نہ مانے۔ جب انہوں نے بار بار کہا تو اس خیال کے ماتحت کہ کہیں یہ محلہ والوں سے مل کر ہمیں روکنے کا تہیّہ نہ کرلیں انہوں نے شاہی پہرہ داروں کا انتظام کرلیا۔ جب اس بزر گ کو اطلاع ملی تو انہوں نے کہا اچھا !اُنہوں نے اپنی حفاظت کیلئے فوج بُلالی ہے تو ہم بھی رات کے تِیروں سے ان کامقابلہ کریں گے۔ معلوم ہوتا ہے ان لوگوں کے دلوں میں ابھی کچھ نیکی باقی تھی جونہی ان کے کان میں یہ آواز پڑی کہ ہم رات کے تیروں سے مقابلہ کریں گے، وہ دَوڑتے ہوئے اُس بزرگ کے پاس آئے اور کہنے لگے اِن تیروں کے مقابلہ کی ہم میں طاقت نہیں ہم اپنے شغل سے باز آئے۔پس دعا ایسا ہتھیار ہے کہ اگر کوئی کامل یقین اور پختہ ارادہ کے ساتھ اس سے کام لیتا ہے تو اس کے مقابلہ میں کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔
میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ آپ لوگوں میں سے بعض امراء ہیں وہ مالی لحاظ سے تحریک جدید میں زیادہ حصہ لیں گے، بعض اہلِ علم ہیں وہ تبلیغی لحاظ سے تحریک جدید میں زیادہ حصہ لیں گے، بعض اہل حرفہ ہیں وہ مثلاً غیرممالک میں نکل جانے کے لحاظ سے تحریک جدید میں زیادہ حصہ لیں گے، بعض بچوں والے ہیں وہ تحریک جدید کے بورڈنگ والی تحریک میں زیادہ حصہ لیں گے مگر کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو نہ اپنے پاس مال رکھتے ہوں گے، نہ دولت، نہ علم، نہ حرفہ، نہ فن۔ وہ دل میں کڑھتے ہوں گے او رکہتے ہوں گے ہمارا اس ثواب میں کیا حصہ ہے اورخداتعالیٰ کی اس آواز پر لبیک کہنے والوں میں ہم کیونکر شامل ہوں؟ میں نے بتایا تھا کہ انہیںیاد رکھنا چاہئے کہ خداتعالیٰ نے ان کا بھی اس تحریک میں حصہ رکھا ہے جو دوسروں سے کسی طرح کم نہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ وہ دُعا کریں کہ اس جنگ میں جو آج ہمیں دوسروں سے درپیش ہے خداتعالیٰ ہمیں فتح دے اور مقابلہ کرنے والے دشمنوں کو ذلیل اور رُسوا کرے۔ اس عمل کے نتیجہ میں وہ ان لوگوں کے پیچھے نہیں رہتے جو مال رکھتے ہیں او رخدا تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کررہے ہیں، جو طاقت رکھتے ہیں اور خداتعالیٰ کی راہ میں طاقت خرچ کررہے ہیں، جو فن رکھتے ہیں اور خداتعالیٰ کی راہ میں اپنی فنی خدمات پیش کررہے ہیں اور گو دنیا کی نگاہوں میں یہ دعائیں ہیچ نظر آتی ہوں اور اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ محض زبانی دعائیں ہیچ ہی ہوتی ہیں لیکن پگھلے ہوئے دل کی دعا ہیچ نہیں ہوتی بلکہ وہ بہت بڑی قیمت رکھتی ہے۔ دعا کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے ۔ وہ اِس قسم کاسوال ہے جس کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے
جو منگے سو مر رہے مرے سو منگن جا
یعنی سوال کرنا موت ہے اور مانگنے والے کو چاہئے کہ وہ اپنے آقا کے دروازہ پر مرجائے تب اسے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ پس وہ دعا جو خداتعالیٰ کے ہاں قبول ہوتی ہے، وہ دعاجو اس کی رحمت کو کھینچ لاتی ہے وہ مضطر والی دعا ہے، وہ دعا ہے جو دل کا خون کردیتی ہے اگر وہ دل کا خون کسی شیشی میں گِرایا جاسکے یا کسی کٹوری میں جمع کیا جاسکے تو بتائو وہ لوگ زیادہ قابلِ قدر سمجھے جائیں گے جو سونا چاندی اور پیتل خداتعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں یا وہ زیادہ قابل قدر سمجھا جائے گا جس نے اپنے دل کا خون خداتعالیٰ کے آگے پیش کردیا۔ بے شک دنیا کے لوگ اس دل کے خون کی قدر نہیں کرتے کیونکہ انہیں وہ خون نظر نہیں آتا انہیں صرف سونا چاندی اوراس کے سِکّے دکھائی دیتے ہیں لیکن ہمارا خدا وہ ہے جو عالم الغیب ہے وہ جانتا ہے کہ گو اُس کے ایک بندہ کے پاس سونا چاندی نہیں مگر دین کے غم میں اُس کا دل خون ہورہا ہے اور یہ ہمارے پاس خونِ دل کا ہدیہ لے کر آیا ہے جس کے مقابلہ میں سونے اور چاندی کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ ایک مال دار کے سونے اور چاندی کے سِکّوں کی اور ایک طاقتور کی حالت اور قوت کی بھی وہ اس وقت قربانی قبول کرتا ہے جب ان پر دل کے خون کی پالش ہو ورنہ وہ اسے قبول کرنے کیلئے تیارنہیں ہوتا ۔پس ایک مالدار کی قربانی اور ایک طاقتور جسم رکھنے والے کی قربانی بھی اُسی وقت الٰہی دربار میں قبول ہوسکتی ہے جب اُس پر دل کے خون کے قطرے پڑے ہوئے ہوں ورنہ وہ قربانی اُس کے منہ پر ماری جاتی ہے اور کہا جاتا ہے وَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ۔
پس مت خیال کرو کہ دُعائیں معمولی چیز ہیں، مت خیال کرو کہ تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے جسے قربانی کا موقع نہیںملا۔ تمہارے نیک ارادے اور تمہارے دل کی قربانی جب کہ تم دوسری قربانیوں میں حصہ نہیں لے سکتے اور جبکہ تم عاجزانہ اور مسکینانہ طور پر خداتعالیٰ کے حضور گِر کر سلسلہ کی ترقیات کیلئے دعائیں کرتے ہو، دوسروں کی قربانی سے کم نہیں بلکہ بسااوقات اُن سے بڑھ سکتی ہے کیونکہ یہ صرف قربانی ہی نہیں بلکہ ایک درد اپنے اندر رکھتی ہے۔ جو انسان اپنے پاس مال نہیںرکھتا، طاقت نہیں رکھتا، فن نہیں رکھتا، علم نہیں رکھتا اور دل کی قربانی پیش کرتا ہے ا س کی قربانی کے ساتھ درد بھی شامل ہوتا ہے کیونکہ جب وہ دیکھتا ہے کہ دوسروں کے پاس بہت کچھ ہے مگر میرے پاس کچھ بھی نہیں جو مَیں پیش کروں تو اُس کا دل جو عشق کی چوٹ کھایا ہؤا ہوتا ہے درد اور غم سے پگھل جاتا ہے۔ پس وہ درد والی قربانی ہے اور درد والی قربانی کا وہ قربانی مقابلہ نہیں کرسکتی جس کے ساتھ درد نہیں۔ اگر ایک مجلس میں ایک امیر آدمی خدمت دین کیلئے ایک کروڑ روپیہ پیش کردیتا ہے تو تم اُس مجلس میں نم دار آنکھیں نہیںدیکھو گے۔ بے شک نعرے لگانے والے دیکھو گے، شاباش اور مَرْحَبًا کی آوازیں لگانے والے دیکھو گے مگر کوئی نم دار آنکھ اس مجلس میں اِس وجہ سے نہیں دیکھو گے کہ اُس نے ایک کروڑ روپیہ پیش کردیا۔ لیکن ایک غریب بُڑھیا جس کی آمد کا کوئی ذریعہ نہیں، جسے فاقے پیش آتے ہیں اور جس کے متعلق تمہیں معلوم ہے کہ شاید اب بھی اسے فاقہ ہے اس نے اگر رات کو باوجود بیماری اور کمزوری کے سُوت کاتا اور پھر بازار میں اسے بیچ کر ایک پیسہ لائی اور وہ پیسہ اُس نے خدمتِ دین کیلئے مجلس میں پیش کردیا تو گو وہاں نعرے پیدا نہ ہوں لیکن بیسیوں آنکھوں میں، اُن آنکھوں میں جو روحانیت نما چیزوں کودیکھنے کی طاقت رکھتی ہیں تم آنسو دیکھ لو گے کیونکہ یہ وہ قربانی ہے جس کے ساتھ درد شامل ہے۔ اگر اِس قسم کی قربانی ایک انسان کے دل میں جو سچی قدر دانی کی طاقت نہیں رکھتا درد پیدا کرسکتی ہے تو سمجھ لو کہ اُس عالم الغیب خدا کے حضور میں وہ کس قدر مقبول ہوگی جس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ یقینا ہمارا خدا اُسے اپنی گودمیں بٹھالے گااور اس کے غمزدہ دل کو تسلی دے گا اور کہے گا مت سمجھ کہ تیری قربانی حقیر ہے مَیں ہوں جس نے قربانی قبول کرنی ہے اور میں تیری قربانی کو دوسروں کی قربانی پر ترجیح دیتا ہوں۔
پس تمہیں خوش ہونا چاہئے کہ تمہارے ربّ نے تمہیں اپنی دین کی خدمات سے محروم نہیں رکھا۔ ہر شخص جو تم میں سے کتنا ہی معذور نہ ہو ایک اتنی قیمتی چیز اپنے پاس رکھتا ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کے ہیرے اور جواہرات بھی ماند ہیں۔ پس میں تم سے کہتا ہوں کہ اِس قیمتی قربانی کو خداتعالیٰ کے حضور پیش کرو۔ ہمارا خدا اپنی کتاب میں فرماتا ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ؎۸ ۔ تم مقام بِرّ حاصل نہیں کرسکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز خداتعالیٰ کے حضور پیش نہ کرو۔ تم روپیہ سے زیادہ اپنے دل کو قیمتی سمجھتے ہو یا نہیں؟پس اس کو اپنے ربّ کے آگے پیش کرو اور یاد رکھو اس سے دین کی مدد جس رنگ میں ہوگی وہ سونے اور چاندی کے سِکّوں سے نہیں ہو سکتی۔
پچھلے سال مَیں نے اِسی دعا کی تحریک کو زیادہ مضبوط بنانے کیلئے بعض ہفتے مقرر کردیئے تھے اور روزے رکھنے کی تاکید کی تھی۔ تم میں سے کسی کو نظر آیا ہو یا نہ آیا ہو لیکن جن لوگوں کو خداتعالیٰ نے آنکھیں دی ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ خداتعالیٰ نے انہیں دعائوں کے نتیجہ میں عظیم الشان تغیرات پیدا کئے۔ تمہیں شاید نظر نہ آتا ہو مگر میں تو دیکھ رہا ہوں کہ اٹلی اور ایبے سینیا کی جنگ بھی انہی دعائوں کے نتیجہ میں ہوئی ہے، جاپان کے فسادات بھی انہی دعائوں کے نتیجہ میں ہیں اور کوئٹہ کا زلزلہ بھی انہی دعائوں کے نتیجہ میں آیا ہے۔ اب پھر تم خداتعالیٰ کے حضو رسچی دعائیں کرکے دیکھ لو سلسلہ کے دشمن بالکل پاش پاش ہوجائیں گے خواہ وہ حکومت کے کَل پُرزے ہوں اور خواہ میجارٹی اور اکثریت کے نمائندہ ہوں کیونکہ ہمارے خدا کے سامنے نہ حکومتیں کوئی حیثیت رکھتی ہیں نہ اکثریت کی نمائندگی کوئی حیثیت رکھتی ہے۔
پس میں آپ تحریک جدید کے اُنیسویں مطالبہ کو پھر پیش کرتا ہوں اور جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ابھی وہ دن نہیں آئے کہ تم دشمن کے حملوں سے غافل ہوجائو اور دعائوں کی طرف سے نظر ہٹالو۔ بے شک خداتعالیٰ نے اس عرصہ میں بڑے بڑے نشان دکھائے ہیں مگر مخالفوں نے ان کی قدر نہیں کی کیونکہ نشان دو قسم کے ہوا کرتے ہیں۔ بعض نشان معمولی ہوتے ہیں اور بعض پُرہیبت اور پُرجلال ۔ جس طرح چاند پہلے ہِلال کی شکل میں ہوتا ہے اور پھر قمر اور پھر بدر کی صورت اختیار کرلیتا ہے اسی طرح بعض نشان ہِلال سے مشابہہ ہوتے ہیں بعض قمر سے اور بعض بدر سے۔ ہمیں خداتعالیٰ نے چونکہ روحانی آنکھیں دی ہوئی ہیں اس لئے ہم نے ان نشانوں کو بھی دیکھاجو ابھی ہِلال کی صورت میں ہیں لیکن دشمنوں نے ان نشانوں کو نہیں دیکھا کیونکہ ان نشانوں نے ہِلال سے قمر کی صورت اختیار نہیں کی۔ پس دشمن ابھی تک اپنی شرارت سے باز نہیں آیا۔ خداتعالیٰ نے شہیدگنج کا مسئلہ بھی پیدا کیا اور احرار کی مسلمان دشمنی کے پردہ کو بالکل کھول کر رکھ دیا۔ خداتعالیٰ نے حکومت کے بعض اُن کَل پُرزوں کو بھی سبق دیئے جنہوں نے بِلا وجہ احمدیہ جماعت کی تحقیر اور تذلیل اور اسے تکالیف میں مبتلاء کرنے کا شیوہ اختیار کیا ہؤا تھا اوربعض کے متعلق ہمیں یقین ہے کہ انہیں آئندہ سبق مل جائے گا لیکن اب تک اصل حکومت نے ہماری شکایات کا کوئی ازالہ نہیں کیا اور نہ اشک شوئی کی کوئی کوشش کی ہے۔ سلسلہ کی ہتک اسی طرح جاری ہے جس طرح پہلے جاری تھی۔ گو بعض امور میں اصلاح بھی نظر آتی ہے اور میں اپنے خطبات میں ان کا ذکرکرچکا ہوں لیکن بعض امور میں نئی شرارتیں کی جارہی ہیں۔ جیسے ڈاکخانہ کا رویہ ہے یا قانونی رنگ میں ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ اس فتنہ و فساد کی روح کی اصلاح نہیں ہوئی۔ روح سے میری مراد آدمی نہیں بلکہ وہ جذبات ہیں جو بعض لوگوں کو ہماری جماعت کی مخالفت کیلئے اُکساتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ روح ابھی تک مری نہیں گو ظاہری حالات میں کسی قدر تبدیلی ہوگئی ہے۔
پس ہمارا فرض ہے کہ ہم سلسلہ کی عظمت اور اس کی مشکلات کے ازالہ کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے چلے جائیں اور اس سے کہیں کہ اے خدا! اس کمزوری میں تُو نے ہمیں پیدا کیاہے۔ ہم بے شک کمزور ہیں، ناتواں ہیں، ناطاقت اور خطا کار ہیں لیکن ہم تیرے بندے ہیں۔ تیرا حق ہے کہ جو چاہے ہم سے سلوک کرے مگر تیرے بندے جو قانون کو توڑتے ہوئے ہم پرظلم کر رہے ہیں اُن کاحق نہیں کہ وہ ہمیں اپنے ستم کا نشانہ بنائیں۔ ہم پر جس رنگ میں مظالم ہورہے ہیں تُو انہیں جانتاہے۔ بعض جگہ تُونے جواب دینے سے ہمیں روک رکھا ہے اور بعض جگہ بے طاقت بنادیا ہے ایسی حالت میں سوائے اس کے ہم کیا کرسکتے ہیں کہ تیرے حضور التجاء کریں کہ ہم پر مظالم کرنے والے اور سلسلہ احمدیہ کو دنیا کی نگاہوں میں ذلیل اور حقیر کرنے والے خواہ حُکّام کے زمرہ میں شامل ہوں خواہ رعایا میں تُو خود ان کاہاتھ پکڑ اور ہمیں ان کے شر سے بچا۔ ہم اپنی عزت نہیں چاہتے کیونکہ جب بھی کوئی خداتعالیٰ کے دین میں داخل ہوجاتا ہے وہ اپنی عزت کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے ہمیں اپنی شوکت سے غرض نہیں کہ ہم تیرے دین کی خدمت اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ ہمیں اپنی وجاہت سے غرض نہیں، اپنے وقار سے غرض نہیں مگر ایک چیز ہے جو ہم چاہتے ہیں اور وہ یہ کہ جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے وہ انجام تک پہنچ جائے۔ ہماری خواہش ہے تو یہ ، ہمارا ارادہ ہے تو یہ، ہماری اُمنگ ہے تویہ، ہمارا مقصود ہے تو یہ، ہمارا مطلوب ہے تو یہ کہ ہم چاہتے ہیں پھردنیا میں محمد ﷺ کی حکومت ہو، پھر دنیا میں قرآن مجید کی حکومت ہو، پھر دنیا میں ہمارے ربّ کی حکومت ہو ، اِس خدمت کے بدلہ میں اگر ہمیں کچھ شُہرت ملتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کا انعام ہے۔ ہم اس کے متلاشی نہیں نہ ہم اس کے سائل ہیں ہماری صرف ایک ہی غرض ہے اور وہ یہ کہ خداتعالیٰ کا جلال دنیا میں قائم ہو۔ پس اگر کوئی اِس رستہ میں روک بنتا ہے تو ہماری دعاہے کہ اے خدایا! تُو اسے ہدایت دے یا اسے ہمارے رستہ سے ہٹا دے۔
یاد رکھو! اگر تم سچے دل سے دعائیں کرو تو دنیا میں اتنے عظیم الشان تغیرات ہوں گے کہ تم حیران ہوجائو گے۔ تم نے گزشتہ سال کو دیکھا کہ اس میں خداتعالیٰ کے کتنے عظیم الشان نشانات جمع ہوگئے۔ کوئٹہ کا زلزلہ،شہید گنج کا واقعہ، اٹلی اور ایبے سینیا کی لڑائی، جاپان، چین اور روس کے جھگڑے یہ سب گزشتہ سال کی دعائوں کا نتیجہ تھے۔ بے شک ان میں سے بعض کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیاں تھیں اور بعض خداتعالیٰ کی تجلی ٔقدرت کے ماتحت ظاہر ہوئے۔ اوربے شک لوگ کہتے ہیں کہ کوئٹہ کی زمین میں لاکھوں برس پہلے زلزلہ کی تیاری شروع ہوگئی تھی پھر وہ تمہارے لئے کیونکر نشان بن گیا۔ مگر وہ نادان نہیں جانتے کہ کیا وہ خدا جس نے کروڑوں سال پہلے کوئٹہ میں زلزلہ پیدا کرنے کے سامان پیداکئے تھے اُسے یہ علم نہ تھا کہ اس وقت میرے بعض بندے ظالموں سے رہائی حاصل کرنے کیلئے دعائیں کر رہے ہوں گے؟ جس خدا نے کوئٹہ میں زلزلہ کی تیاری لاکھوں کروڑوں سال پہلے کی تھی اُسے اُس وقت یہ بھی علم تھا کہ اس زمانہ میں میرے بندوں پرظلم ہوگا، میرے مسیح موعود کو اپنی صداقت کیلئے آسمانی نشانوں کی ضرورت ہوگی۔ پس اُس نے کروڑوں سال پہلے اِن ضرورتوں کوپورا کرنے کیلئے یہ تغیرات مخفی کردیئے۔ آخر خداتعالیٰ نے جن دعائوں کوقبول کرنا ہوتا ہے تو وہ ان کیلئے سامان بھی مہیا کردیتا ہے۔ جو گورنمنٹیں لوگوں کو انعامات دینا چاہیں وہ پہلے سے اپنے بجٹ میں انعامات کی گنجائش رکھا کرتی ہیں۔ مگر کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا جسے حکومت انعام دے تو وہ کہے یہ انعام نہیں کیونکہ بجٹ میں حکومت نے پہلے سے اس کیلئے گنجائش رکھی ہوئی تھی بلکہ وہ اسے انعام ہی سمجھے گا۔ یہی حال تقدیروں کا ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ نے بھی ایک عرصہ سے مقدر کررکھا تھا کہ کوئٹہ میںزلزلہ آئے لیکن یہ امر بھی وہ ہمیشہ سے جانتا تھا کہ اس وقت بعض بندے مجھ سے دعا کریں گے اور میں لوگوں کو اپنے قہر کا نشان دکھانے کیلئے یہ زلزلہ بھیجوں گا۔ پس اگر اب بھی حقیقی طور پر دعائیں کی جائیں تو پہلے سال سے بھی زیادہ شاندار نتائج دیکھ سکتے ہو۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ تم استقلال سے دعائوں میں لگے رہو۔ وہ لوگ جو جذباتی باتوں سے متأثر ہوکر چند دن جوش دکھاتے اور پھر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نہیں بلکہ اُس کے غضب کے مستحق ہوتے ہیں۔
پس اپنے اندر بیداری اور ہوشیاری پیدا کرو، دوستوں کوہوشیار اور بیدار کرو ، اپنے ہمسائیوں کو ہوشیار اور بیدار کرو اور کسی کو سُست ہوکر بیٹھنے مت دو پھر تم دیکھو گے کہ دنیا میں کس قدر تغیرات ہوتے ہیں میں نے پچھلے سال کچھ روزے مقرر کئے تھے اور اس سال بھی میرا ارادہ ہے کہ بعض روزے مقرر کروں مگر آج میںان کا اعلان نہیں کرتا یہ اعلان پھر کروں گا۔ آج صرف یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ خصوصیت سے دعائوں میں لگ جائو اور بِالخصوص یہ دعا کرو کہ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ اور رَبِّ کُلُّ شَیْ ئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔ اِس کے علاوہ اور بھی دعائیں اپنی زبان میں کرو جنہیںدلی جوش کے ساتھ خداتعالیٰ کے حضور پیش کرسکو۔ اس تعلیم پر عمل کرکے دیکھ لو تم محسوس کرو گے کہ تم اکیلے نہیں اور نہ دنیا کی نگاہوں میںیتیم ہو کیونکہ ہمارا خدا ہمارا روحانی باپ ہے اور جو بندے اس زندہ اور حی و قیوم خدا کے بیٹوں کی مانند پیارے ہوں وہ یتیم نہیںہوتے اور نہ کبھی ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ زندہ رہنے والا خدا ہے۔ یتیم وہ تب ہوں جب خدا مرے لیکن جب خدا کبھی مر نہیں سکتا تو وہ بھی کبھی یتیم نہیں ہوسکتے۔ پس تمہارے لئے یُتم کا ہونا ناممکن ہے۔ تم مایوس مت ہو بلکہ تم اپنے زندہ خدا کے آستانہ پر گِرجائو اور اس سے تضرّع اور عاجزی سے دعائیں مانگو تب تم دیکھو گے کہ وہ دیو جو غضبناک شکلیں بنا کر تمہیں ڈرارہے ہیں اور تمہیں اِس وقت خوفناک صورتوں میں نظر آرہے ہیں وہ دُھواںبن کر اُڑ جائیں گے اور ان کا نام و نشان تک دنیا میں نہیںرہے گا۔
(الفضل ۱۷؍ مارچ ۱۹۳۶ئ)
؎۱ بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومۃ علی العمل
؎۲ بخاری کتاب المغازی باب نزول النبی ﷺ الحجر
؎۳ بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بد ء الوحی (الخ)
؎۴ اَلمَاعُوْن: ۵ ؎۵ المؤمن: ۲۹
؎۶ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّابِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُوْمِنِیْنَ (البقرۃ: ۹)
؎۷ النمل: ۶۳ ؎۸ آل عمران: ۹۳


۷
صداقت اور دیانت کی تلوار سے دنیا کو فتح کرو
(فرمودہ ۶؍مارچ ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
بوجہ سردرد کے دَورہ اور حرارت کے مَیں آج بہت مشکل سے خطبہ پڑھ سکتا ہوں لیکن میرے نفس نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ میں آج خطبہ تک سے گریز کروں اِس وجہ سے نہایت اختصار کے ساتھ جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جیسا کہ میںنے گزشتہ سال بتایا تھا طاقت اور قوت کے مقابلہ کیلئے کوئی ہتھیار چاہئے اور ہتھیار بھی وہ جو دشمن کے پاس نہ ہو یا دشمن کے ہتھیار اس کے مقابلہ میں ادنیٰ ہوں۔شاعر بے شک اپنے معشوقوں کو بغیرہتھیار کے لڑالیتے ہیں مگر عملی دنیا میں ہتھیار کے بغیر کام نہیں چلتا۔ شاعروں کا کہنا ہے کہ اُن کی دنیا خیالی ہوتی ہے جو چاہیں پاس سے بنالیں ان پر اعتراض کرنے والا کوئی نہیں بلکہ جو اعتراض کرے وہ جاہل سمجھا جاتا ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ذوقِ علم وادب سے محروم ہے جو صداقت کو ان کے سامنے پیش کرتا ہے وہ ان کے نقطۂ نگاہ سے جاہل ہوتا ہے۔ ہمارے کسی شاعر نے کہا ہے کہ:
اِس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
اس شاعر کا معشوق بغیر ہتھیار کے جیت جاتا ہے۔ ادب کے لحاظ سے اس شاعر کاپایہ بہت بلند ہے او رمیں بچپن سے اِس کا مداح ہوں مگر عملی دنیا میں اس کی کیا حقیقت ہے۔ مجازی دنیا میں بے شک یہ بھی ایک اصل ہے کیونکہ اگر ہتھیار کو ظاہری ہتھیار اور لڑائی کو روحانی لڑائی سمجھ لیں تو بے شک یہ بھی درست ہوسکتا ہے لیکن اگر دونوں پہلو ظاہر پر مبنی سمجھے جائیں تو یہ بالکل بے معنی ہے مگر میں نے بتایا ہے کہ شاعر کی دنیا بالکل اَور ہوتی ہے۔ مُغلوں کامشہور بادشاہ تیمور جب ایران کو فتح کرتا ہؤا شیراز میں پہنچا جو حافظ کا جو مشہور صوفی اور شاعر تھے وطن ہے تو کسی نے اُس سے ذکر کیا کہ یہاں کے ایک شاعر نے لکھا ہے
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل مارا
بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را
یعنی اگر وہ میرا معشوق میرے دل کو اپنے قبضہ میں لے لے اور مجھ سے تعلق قائم کرلے تو میں اس کے رُخ سیاہ تِل کے عوض سمرقند وبخارا بخش دوں۔
سمرقند و بخارا تیمور کا وطن تھا اُس نے یہ شعر سن کرکہا کہ میں نے تو سمرقند و بخارا کیلئے دنیا کے ایک سِرے سے لے کر دوسرے سِرے تک قتلِ عام کیا ہے مگر یہ اپنے معشوق کے سیاہ تِل کے عوض اسے دینے کیلئے تیار ہے۔ لیکن میں نے کہا ہے کہ شاعر کی دنیا اَور ہے اور کہتے ہیں کہ تیمور کو بھی اس شاعر کے مقابلہ میں نیچا ہی دیکھنا پڑا اور اُس نے حافظ کو انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔ مگر ہم جس دنیا سے تعلق رکھتے ہیں وہ حقیقت کی دنیا ہے اور یہاں ہر ایک کیلئے ہتھیار کی ضرورت ہے جو اس کے دشمن کے ہتھیار سے زیادہ تیز، تعداد میں زیادہ اور زیادہ کارآمد ہونا چاہئے۔
کوئی زمانہ تھا کہ لوگ غلیل استعمال کرتے تھے، پھر تِیر ایجاد ہوئے جنہوں نے غلیل اور غلّے کو پس پشت ڈال دیا اور وہ قومیں جیتنے لگیں جو تِیرانداز تھیں۔ پھر تیر اندازی میں ترقی ہوئی تو دنیا میں منجنیقیں ایجاد ہوئیں جو پتھرائو کرکے قلعوں کو گِرادیتی تھیں نیزے قلعوں کے مقابل میں ناکام رہتے تھے لیکن منجنیقوں نے قلعوں کو گِرانے کاراستہ کھول دیا، پھر بارود نکلااس سے اس بارہ میں زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ کبھی لوگ چمڑے کی زِرہ پہنتے تھے اور کمزوربازوئوں والے تیراندازوں کے تیروں سے محفوظ رہتے تھے لیکن پھر لوہے کی زِرہ نکلی اور اس سے زیادہ خطرناک ہتھیاروں سے حفاظت کا سامان پیداہوگیا، پھر توپوں کا زمانہ آگیا اور انہوں نے منجنیقوں کی طاقت کو توڑ دیا اور اگر پہلے قلعہ کے نیچے جاکر دیواروں کے نیچے بارود رکھ کر اسے اُڑادیا جاتا تھا تو توپوںنے دور سے ہی انہیں گرانا شروع کردیا۔ پھر وہ قومیں دنیا میں پھیلنے لگیں جو توپیں رکھتی تھیں اورمنجنیقوں والی کمزور ہونے لگیں۔ پھر بندوقیں نکلیں جن کا ابتدا میں چلانابہت محنت طلب تھا۔ اس بات کی ضرورت ہوتی تھی کہ پہلے انہیں بھرا جائے اور پھر مضبوطی سے کسی جگہ باندھ دیا جائے اور پھر فیتہ سے آگ دی جائے۔ اس کے بعد توڑے دار بندوقیں بن گئیں جنہوں نے پہلے کی نسبت تباہی اور خون ریزی آسان کردی۔ پھر کارتُوس والی بندوقیں بن گئیں اور ان کے بعد میگزینوں والی اور ہر وہ قوم جس نے ترقی کی طرف قدم نہ اُٹھایا برباد ہوتی گئی۔ مسلمانوں کے علماء کہلانے والوں نے جس طرح ہندوستان میں مغربی علوم کی تحصیل کو کفر قرار دے کر مسلمانوں کو تباہ کیا اسی طرح بعض علماء نے مسلمان حکومتوں کو توپوں اوربندوقوں کے استعمال سے بھی روکا۔
بخارا کی حکومت ایک وقت اِس قدر زبردست تھی کہ ایک طرف اس نے ڈینیوب ؎۱ کے کناروں تک جو وسطِ یورپ میں ہے تاخت و تاراج کیا اور تمام یورپین حکومتوں کو زیرزبرکرڈالا اور دوسری طرف اس کے بیڑے جاپان کے ساحل تک پہنچ گئے، اس حکومت کا خاتمہ بھی ایسے ہی علماء کے فتووں سے ہؤا۔ روس کی افواج مُہلک ہتھیاروں سے مسلح تھیں لیکن مسلمان علماء نے فتویٰ دے دیا کہ آگ سے عذاب دینا اسلام میں جائز نہیں اس لئے توپوں اور بندوقوں کا استعمال ناجائز ہے حتّٰی کہ بڑے بڑے علماء تو اس بات کو سِرے سے تسلیم ہی نہ کرتے تھے کہ ایک میل سے گولے پھینکے جاسکتے ہیں وہ اسے جادو سمجھتے تھے۔ اب تو توپوں کے گولے سَو سَو میل تک مار کرسکتے ہیں مگر اُس زمانہ میں میل دو میل سے زیادہ نہیں کرسکتے تھے۔ آخر جب روسیوں سے لڑائی ہوئی تو بادشاہ نے چاہا کہ صلح کرلی جائے مگر علماء نے کہا کہ کُفّار سے صلح نہیں ہوسکتی آپ مسلمانوں کو لڑنے دیں ہم روسیوں کو رسیوں سے باندھ باندھ کر لائیں گے۔ وہ رسیاں اور بکریوں کیلئے پتے جھاڑنے والے آلے لے کر میدان میں پہنچے کہ اِس سے انہیں کھینچ کرپھر رسیوں سے باندھ لیں گے لیکن جب روسیوں کی طرف سے گولہ باری شروع ہوئی تو سحر سحر پکارتے ہوئے بھاگنے لگے اور بادشاہ سے جاکرکہا کہ ان لوگوں کوجادو آتا ہے آپ خواہ کچھ کرتے ان کے مقابلہ میں کامیاب نہ ہوسکتے۔ روسیوں نے بخارا کا تخت اُلٹ دیا اور حکومت تباہ ہوگئی۔
لطیفہ یہ ہے کہ توپوں کی ایجاد مسلمانوں سے ہی شروع ہوئی اور دنیا میں سب سے پہلے مغل فوجوں نے ہی ان کو استعمال کیا یورپ والوں نے ان کی نقل کی مگر افسوس کہ موجدوں نے اپنی ایجادوں کو خود بھُلادیا اور جنہوں نے اِتباع کی انہوں نے ترقی دے کرکہاں سے کہاں پہنچادیا۔ پھر توپوں میں ترقی شروع ہوئی حتّٰی کہ موٹرز کی ایجاد ہوئی جو گولہ سیدھا نہیں بلکہ بیضوی رنگ میں پھینکتی ہے اور اس کے رستہ میں پہاڑوں کی اوٹ اور قلعہ کی دیواریں کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں۔ اس کا گولہ پہلے ہوائی کی طرح آسمان کی طرف جاتا اور پھر آکر گرتا ہے۔ اس کے بعد بم ایجاد ہوئے، پھر ٹینک نکل آئے یعنی لوہے کا جہاز جو زمین پر چلتا ہے چند لوگ اس میں بیٹھے ہوئے گولیاں چلا چلا کرمارتے جاتے ہیں باوجود یکہ جرمن قوم بہت ہوشیار اور لڑائی میں ماہر ہے لیکن ٹینک پہلے برطانیہ میں ایجا دہوئے۔ میں نے اس نظّارہ کی تفاصیل پڑھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ پہلا ٹینک جب جرمن افواج کے مقابلہ میں گیا تو ان کے ہوش و حواس اُڑ گئے اور اُن کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس کا مقابلہ کس طرح کریں سوائے پاگلوں والی بہادری کے وہ کچھ نہ کرسکے۔ جرمن فوجیں آتیں اور اُس کے سامنے گِرگِر کر مرجاتیں اور وہ دس بارہ آدمی بحفاظت اندر بیٹھے ہوئے گولیاں چلاتے جاتے۔ انہوںنے اس کا آخری علاج اس طرح کیا کہ ان لاشوں کے ڈھیروں پر کھڑے ہوکر سوراخوں میں سے پستول چلا چلا کر اندر بیٹھے ہوئے آدمیوں کوہلاک کیا اور جس وقت تک انہوں نے بھی ٹینک نہیں بنالئے ان کا بہت نقصان ہوتا رہا۔
خشکی پراس ترقی کے مقابلہ میں ہوا نے بھی جنگ میں کم حصہ نہیںلیا۔ ہوا میں اُڑنے والے جہاز بھی لوگوں نے ایجاد کئے جنہوں نے زمینی فوجوں کوبالکل بے دست و پا کردیا۔اسی طرح سمندری جہازوں میں ترقی ہوئی۔ پہلے وہ بادبانوں سے چلتے تھے ، پھر سٹیم کے ذریعہ چلنے لگے، پھر معمولی دُخانی جہازوں کی جگہ ٹبل شیس کروزرز، ڈسٹرائرز، مائن لیسرز، تارپیڈوبوٹس اور آبدوز جہازوں نے لے لی اور ہر قدم پر ترقی ہونے لگی اور وہ قومیں ترقی کرنے لگیں جو ان سے مسلّح تھیں۔ ترکوں کے ساتھ دوستی کادعویٰ کرتے ہوئے اٹلی نے طرابلس الغرب پرحملہ کیا اور ترکی کے ساحل سے صرف سَو ڈیڑھ سَو میل کے فاصلہ پراس کے ملک پر قبضہ کرلیا لیکن ترک بالکل بے دست و پا تھے کیونکہ ان کے پاس جہاز نہ تھے۔ اب جنگی سامانوںنے اس سے بھی ترقی کی ہے اور گولے بھی بیکار ثابت ہورہے ہیں۔ اب زہریلی گیسیں نکلی ہیں جہاں ان کا گولہ پڑتا ہے سب لوگ بیہوش ہوجاتے ہیں یا پاگل ہوجاتے ہیں۔ دل پراتنا خوف طاری ہوتا ہے کہ ڈرسے انسان پاگل ہوجاتاہے۔ بڑے بڑے جری اور دلیر بھی اس کیمیاوی اثر کے نیچے پاگلوں کی طرح دوڑتے پھرتے ہیں۔کئی لوگ بالکل ہی پاگل ہوجاتے ہیں اور عام طور پر بھی دس بارہ گھنٹے تک اس کا اثر رہتا ہے اور اب اس سے بھی زیادہ ترقی ہورہی ہے اور ایسے سامان نکل رہے ہیں کہ تمام ملک کی خوراک، پانی اور ہوا کو زہریلا کردیاجائے تمام ملک میں ٹائیفائیڈ، پلیگ یاہیضہ کے کیڑے پھیلادیئے جائیں اورنہ معلوم دنیا ان میں ابھی کہاں کہاں تک ترقی کرے گی۔
سوال صرف یہ ہے کہ ہم جنہوں نے ساری دنیا سے مقابلہ کرنا ہے ہمارے پاس کیا ہتھیار ہے؟ تاریخ ہمیںبتاتی ہے کہ صرف وہی غالب آتے ہیں جن کے پاس ہتھیار غالب ہوں اور ہمت و قربانی کی روح ہو۔ میں تسلیم کرتاہوں کہ ہمت اور قربانی کی روح ہم میں موجود ہے مگر یہ ہتھیاروں کا قائم مقام نہیں ہوسکتی۔ بے شک قربانی کی روح بھی ایک حد تک ہتھیار کا کام دے جاتی ہے مگر انتہاء کو پہنچ کر۔
حضرت سیّد اسماعیل صاحب شہید نے جو حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قبل کی صدی کے مجدد تھے مرید تھے اور نہایت روحانی آدمی تھے، پشاور کے علاقہ میں سکھوں پر حملہ کیا۔ آپ کے ساتھ صرف پانچ سَو آدمی تھے اور سکھوں کی فوج بہت زیادہ تھی۔ پھر سکھوں کے پاس توپیں تھیں مگر ان کے پاس کوئی توپ نہ تھی لوگوں نے اُن سے کہا بھی کہ یہ لڑائی بے فائدہ ہے مگر انہوںنے کہا کوئی حرج نہیں اگرہم مارے بھی گئے تو جنت میں جائیں گے۔ پھر انہوں نے اپنے آدمیوں کو سَو سَو یا پچاس پچاس گز کے فاصلے پرپھیلادیا اور حکم دیا کہ تم اِس طرح دَوڑو کہ عین توپ خانہ پر جاکر جمع ہوجائو۔ اب توپ کا گولہ اگر مارتا بھی تو صرف اُس ایک آدمی کو جو اُس کی زد میں ہوتا۔ اِس طرح وہ تمام مجاہدین سکھوں کے توپ خانہ پر جاپڑے اور تلواریں کھینچ کر اُن کوحکم دیا کہ توپوں کا منہ اپنی فوجوں کی طرف موڑ کر چلائو ورنہ قتل کردیا جائے گا۔ توپچیوں نے جان کی خاطر ایسا ہی کیا۔ تو بے شک بعض حالات میں ایمان ایسا ترقی کرجاتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ہتھیار بن جاتا ہے لیکن جب تک کسی نہ کسی قسم کا ہتھیار نہ ہو دشمن کے مقابلہ میں کامیابی محال ہے۔
ظاہری ہتھیار تو ہمارے پاس ہیں نہیں حتّٰی کہ تلواریں بھی نہیں کُجا یہ کہ مشین گنیں، میگزینیں اور بندوقیں ہوں اس لئے ہمارے واسطے اب وہی ہتھیار باقی ہے جو مؤمنوں کا ہوتا ہے اور وہ صداقت اور ایمان کا ہتھیار ہے سچائی کے ہتھیار کے سامنے توپیںبالکل بیکار ہوجاتی ہیں۔ ایک شخص دوسرے پر توپ کا فائر اِس لئے کرتاہے کہ وہ اس کا دشمن ہے لیکن اگر وہ سچائی سے اسے دوست بنالے تو وہی توپ اس کی ہوجائے گی۔ اس لئے میں نے جماعت کو پچھلے سال بھی توجہ دلائی تھی کہ صداقت کے ہتھیار کو استعمال کریں۔ آپ لوگوں میں سے ہر ایک یہ فیصلہ کرلے کہ خواہ کچھ ہو وہ سچائی کو کام میں لائے گا مگر مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہم وہ معیارِ صداقت قائم نہیں کرسکے جس کے ساتھ دلوں کو مسخر کیا جاتا ہے۔ ادھوری صداقت تو اور بھی اُکسا دیتی ہے اس لئے کہ سچائی کامل چاہئے۔ میں نے دیکھا کہ مختلف نوجوانوں کو جو کام سپرد کئے جاتے ہیں ان میں بِالعموم دیانت کا وہ معیار پیش نہیںکرتے جس کی ان سے امید رکھی جاتی ہے۔ مؤمن کا دل اتنا وسیع ہونا چاہئے کہ صداقت اور دیانت اس کے اندر انتہائی درجہ کی ہو اور یہی اس کا ہتھیار ہونا چاہئے۔ بغیرہتھیاروں کے دنیامیںفتح نہیںہوسکتی اور ہتھیاروں کے لحاظ سے دنیا اِس قدر ترقی کرچکی ہے کہ تمہارے پاس اتنے سامان ہی نہیں ہیں کہ ان سے کام لے سکو۔
فرض کرو آج انگریز ہمیں اجازت بھی دے دیں کہ تم ہوائی جہاز اور بحری جہاز اور دوسرے سامان رکھ سکتے ہو تو کیا ہم انہیں خرید سکتے ہیں؟ ایک بڑا جہاز آٹھ کروڑ روپیہ تک تیار ہوتا ہے اور ظاہرہے ہم ایک جہاز بھی نہیں بناسکتے۔ ہوائی جہاز جو اچھے لڑنے والے ہوتے ہیں وہ تین لاکھ سے دس لاکھ تک کے ہوتے ہیں۔ پس ظاہری ہتھیاروں کی اگر حکومت اجازت بھی دے دے تو ہماری جماعت ان سے فائدہ نہیں اُٹھاسکتی۔ ممکن ہے ہندو اور سکھ فائدہ اُٹھاسکیں کیونکہ وہ مالدار اور جتھے والے ہیں مگر ہم نہیںاُٹھاسکتے اس لئے ہم کیوں نہ وہی ہتھیار استعمال کریں جو ہمارے مناسبِ حال بھی ہے اور جسے اور کوئی اختیار نہیں کرسکتا۔
صداقت اور دیانت کا ہتھیار ہی تھا جسے رسول کریم ﷺ نے شدید سے شدید دشمنوں کے مقابلہ پر استعمال کیااور قرآن کریم میں ہے کہ آپ نے فرمایا فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِہٖ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ؎۲ مَیں اس سے پہلے تم لوگوں میں عمر کا ایک حصہ گزار چکا ہوں تم کیوں عقل نہیں کرتے۔ یہی وہ تلوار تھی جس کے سامنے مکہ والوں کی گردنیں جھک جاتی تھیں۔ مسلمانوں نے بھی مجبوراً تلوار چلائی ہے اور اس کے نتیجہ میں بھی بہت سے دشمن مغلوب ہوئے لیکن ان کے چلانے والے اسی صداقت کی تلوار نے پیدا کئے تھے، ان کے چلانے والے ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اورعلیؓ تھے مگر کیا ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ اور علیؓ کو لوہے کی تلوار نے قابو کیا تھا؟ جس وقت آنحضرت ﷺ نے دعویٰ کیا تو حضرت ابوبکرؓ تجارت کا مال لے کرکسی گائوں میں گئے ہوئے تھے۔ واپس آئے تو کسی دوست کے مکان پر بیٹھے تھے کہ اُس کی لونڈی نے کہا تمہارا دوست پاگل ہوگیا ہے وہ کہتا ہے کہ آسمان سے مجھ پر فرشتے اُترتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے دوست آنحضرت ﷺ ہی تھے۔ جب انہوں نے یہ بات سنی تو چادر کندھے پر رکھ لی۔ اُس زمانہ میں عرب کے لوگوں کی روزمرہ کا لباس یہی ہوتا تھا ایک چادر اوڑھ لیتے تھے اور ایک باندھ لیتے تھے۔ چنانچہ آپ نے بھی چادر کندھے پر ڈالی اور چل پڑے۔ آنحضرت ﷺ کے دروازہ پر پہنچ کردستک دی۔ آپؐ باہر تشریف لائے تو حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا کہ سنا ہے آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ آپ پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کیا یہ درست ہے؟ آنحضرت ﷺ نے اِس خیال سے کہ حضرت ابوبکرؓ کو ٹھوکر نہ لگے چاہا کہ اپنے دعویٰ کی کسی قدر تشریح کردیں مگر حضرت ابوبکرؓ نے اِس سے روک دیا اور کہا کہ آپ صرف ہاں یا ناں میں جواب دیں۔ اور جب آپ نے کہا کہ ہاں تو ابوبکرؓ نے کہا کہ میں آپ پر ایمان لے آیا ؎۳ ۔ انہوں نے نہ چاہا کہ اپنے ایمان کو دلائل سے خراب کریں۔ وہ صداقت کی تلوار کے مقتول بننا چاہتے تھے دلائل کی تلوار کے نہیں۔ بے شک حضرت ابوبکرؓ کی تلوار نے اسلام میں بہت کام کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ابوبکرؓ پر کونسی تلوار چلائی گئی تھی۔ ابوبکرؓ کوئی معمولی آدمی نہ تھے۔ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جب عام طور پر ارتداد کی رَو پھیل گئی تومکّہ مدینہ اور ایک اور چھوٹے سے گائوں کے سِوا اور کہیں بھی باجماعت نماز نہ ہوتی تھی۔ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ اُس وقت حضرت ابوبکرؓ ہی تھے جنہوں نے اِس رَو کا مقابلہ کیا ۔ حضرت عمرؓ ان کے پاس گئے اور عرض کیا کہ اِس وقت شورش بہت زیادہ ہوگئی ہے میرا مشورہ یہی ہے کہ آپ ذرا نرم ہوجائیں آہستہ آہستہ سب کو ٹھیک کرلیاجائے گا لیکن حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیاکہ اگر یہ لوگ مدینہ میں گھُس آئیں اور مسلمانوں کی عورتوں کو قتل کردیں اور اُن کی لاشوں کو کُتّے گھسیٹتے پھریں تو بھی میں ان لوگوں سے صلح نہ کروں گاجب تک کہ جو رسول کریم ﷺ کو ایک رسّی بھی زکوٰۃ میں دیتے تھے وہ دوبارہ نہ دینے لگیں ؎۴ ۔ حضرت عمرؓ کبھی کبھی حضرت ابوبکرؓ کو پیار سے بُڈّھا کہا کرتے تھے وہ کہتے ہیں میرا خیال تھا کہ بُڈّھا کمزور دل کا ہے مگر میرا خیال غلط تھا وہ تو ہم سب سے بہادر ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے جنگ کی اور واقعی جب تک زکوٰۃ کی ایک ایک رسّی تک وصول نہ کرلی جنگ بند نہ کی۔ اِس جری اور دلیر ابوبکرؓ کو کس تلوار نے مارا تھا؟
اِسی طرح حضرت عمرؓ آنحضرت ﷺ کے جانی دشمن تھے اور آپ کو قتل کرنے کی نیت سے گھر سے چلے تھے کہ راستے میں کسی نے کہا کہ پہلے اپنے بہن اور بہنوئی کو تو مارو جو مسلمان ہوچکے ہیں۔چنانچہ آپ بہن کے گھرکی طرف چلے ، دروازہ اندر سے بند تھا اور ایک صحابی اندر بیٹھے اُن کوقرآن کریم پڑھارہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے دستک دی تو انہوں نے ڈر کے مارے صحابی کو اور قرآن کریم کے ورق کو بھی چھپادیا اور پھر دروازہ کھولا ۔ حضرت عمرؓ غصہ سے بھرے ہوئے اندر داخل ہوئے اور چونکہ قرآن کریم سن چکے تھے دریافت کیا کہ کون پڑھ رہا ہے؟ بہنوئی نے چھپانے کی کوشش کی تو اُس پر حملہ کردیا اور کہا کہ تُو صابی ہوگیا ہے؟ اُس زمانہ میںمسلمانوں کو صابی کہاجاتا ہے جیسے آجکل ہمیں قادیانی اورمرزائی کہا جاتا ہے۔ ان کی بہن اپنے خاوند کی حفاظت کیلئے بیچ میں آگئیں اور انہیں گھونسہ لگ گیا جس سے اُن کاخون بہنے لگا۔ بہن نے بھی جوش سے کہا کہ سنو! ہم مسلمان ہوگئے ہیں تم سے جو کچھ ہوسکتاہے کرلو۔چونکہ عرب کے لوگوں میں ذاتی شرافت تھی عورت کاخون نکلتا دیکھ کر غصہ فرو ہوگیا اور جھٹ معافی مانگنے لگے اور ندامت کا اظہار کرتے ہوئے بولے اچھا سنائو تم کیا پڑھ رہے تھے؟ مگر بہن غصہ میں تھیں انہوںنے کہا کہ تم ناپاک مشرک ہو جب تک نہا کر نہ آئو تم کو خدا کا کلام نہیںسنایا جاسکتا۔ چنانچہ آپ نے اُسی وقت غسل کیا۔ اس کے بعد اُس صحابی نے قرآن کریم سنانا شروع کیا دل میں نرمی پیدا ہوچکی تھی اِس لئے خاتمہ سے پہلے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ وہاں سے اُٹھے اور خاموشی کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے مکان کی طرف چلے ۔آپ بعض صحابہ کے ساتھ مکان کے اندر بیٹھے وعظ و نصیحت کررہے تھے کہ حضرت عمرؓ نے دستک دی۔ عمرؓ چونکہ دلیری میں مشہور تھے اس لئے بعض صحابہ نے کہا کہ یہ شخص بہت شوریدہ سر ہے دروازہ نہ کھولا جائے ورنہ ضرور شرارت کرے گا۔ حضرت حمزہؓ بھی بیٹھے تھے انہوں نے کہا پرواہ نہیں دروازہ کھول دیا جائے اگر اس نے شرارت کی تو ہم بہادری میں اس سے کم نہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دروازہ کھول دو۔ چنانچہ دروازہ کھولا گیا اور حضرت عمرؓ اندر آئے۔ آنحضرت ﷺ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا عمر! کب تک شرارتوں میں بڑھتے جائو گے؟ حضرت عمرؓنے گردن جھکا دی اور عرض کیا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! میں تو آپ کا غلام بننے کیلئے آیا ہوں۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ صحابہ نے خوشی سے بیتاب ہوکر اِس زور سے نعرہ تکبیربلند کیا کہ مکّہ کے درودیوار گونج اُٹھے ؎۵ ۔ اور یہ پہلا نعرہ تھا جو مسلمانوں نے بلند کیا۔
یورپین مصنف کہتے ہیں کہ اسلام کی ترقی کا مدار عمر کی ذات پر تھا بے شک حضرت عمرؓ کی تلوار نے مشرق ومغرب اور ایشیا و افریقہ میں اسلام کیلئے فتوحات کیں مگر اُن کو کس تلوار نے فتح کیا؟ یہ تلوار وہی صداقت اور راستی کی تلوار تھی جس کے مقابلہ میں اور کوئی تلوار نہیںٹھہرسکتی۔ پس تلوار اور دوسرے ہتھیار آپ لوگوں کی شان کے منافی ہیں۔
انبیاء کی جماعتیں ابتدا میں قربانی کیا کرتی ہیں خود حملہ کبھی نہیں کرتیں۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ مسلمان لڑائی کوموت سمجھتے تھے۔ پس مؤمن امن پسند ہوتاہے اسے لوہے کے ہتھیار نہیں بھاتے بلکہ اس کی محبوب تلوار صداقت کی تلوار ہوتی ہے۔ اس لئے میںجماعت کو بِالعموم اور نوجوانوں کو بِالخصوص یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ صداقت پر قائم ہوں یہ وہ تلوار ہے جو ایمان سے ملتی ہے۔ لوہے کی تلواریں روپے سے مل سکتی ہیں لیکن صداقت کی تلوار کے لئے ایمان کی ضرورت ہے جو صرف تمہارے ہی پاس ہے۔ یہ وہ دھات ہے جو حکومتوں کے خزانوں میں نہیں صرف تم ہی ہو جو یہ تلوار بناسکتے ہو اور چلا سکتے ہو اس لئے اقرار کرو کہ تم میں سے ہر ایک امین اور راستباز بنے گا پھر تمہارے دشمن بھی تمہارے آگے ہاتھ جوڑیں گے اور دنیا میں جسے کسی کام کیلئے دیانتدار آدمی کی ضرورت ہوگی وہ تمہاری تلاش کرے گا۔ صداقت اور دیانت کوئی معمولی نعمت نہیں بلکہ تمام نعمتوں کی جان ہے اور اگر ہمارے نوجوان اقرار کرلیں کہ وہ امین اور راستباز بنیں گے تو وہ بغیر ہتھیاروں کے دنیاکو فتح کرسکتے ہیں۔ راستبازی قولی اور ذہنی سچائی ہے اور امین بننا عملی سچائی کو چاہتاہے۔ اگر ہمارے نوجوان یہ دونوں چیزیں اپنے اندر پیدا کرلیں تو یہ سوال ہی باقی نہیں رہتا کہ انہیں کام نہیںملتا۔ تمہیں چاہئے کہ ثابت کردو کہ احمدی راستباز اور امین ہوتے ہیں پھر شدید سے شدید دشمن بھی تمہیں تلاش کرکے کام دے گا۔
ہمارے سلسلہ کا ایک شدید مخالف دشمن اور احرار کا لیڈر ہے مگر وہ اپنے خانگی معاملات کیلئے ایک احمدی پر اعتماد کرتا ہے وہ پبلک میں آکر تو یہ کہتا ہے کہ کسی احمدی کا منہ تک نہ دیکھو مگر خود ایک احمدی کے سِواکسی پر اعتماد نہیں کرتا۔ پس جہاں بھی احمدیوں نے اپنے معیار کو قائم رکھا ہے دشمنوں نے بھی ان کی دیانت اور قابلیت کو تسلیم کیا ہے۔ ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے مجھے ایک رپورٹ پہنچی کہ ایک احمدی افسر کے متعلق بعض لوگوں نے بہت شورمچایا مگر جب بالا افسروں نے تحقیقات کی تو مخالفوں کے ایک حصہ نے ہی گواہیاں دیں کہ گزشتہ سالہاسال سے ایسا دیانتدار کوئی افسر ہمارے علاقہ میں آیا ہی نہیں۔ پہلے جو بھی آتا تھا رشوت لیتا تھا صرف یہی ایک ہے جو انصاف سے کام لیتا ہے اور افسرانِ بالا کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ وہ بہت دیانتدار آدمی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دوست فوج میں ملازم تھے بعض فوجی کبھی جوش میں آکر لُوٹ مار بھی کرلیتے ہیں اور بعض افسر فوج کی نیک نامی کے قیام کیلئے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جس کمپنی میں تھے اُس کا بھی اُس وقت یہی حال تھالیکن وہ احمدی سچا اور مخلص احمدی تھا وہ ہمیشہ سچی بات کہہ دیتا اور اِس وجہ سے ہندوستانی افسر ہمیشہ اُس سے ناراض رہتے اور وہ اکثر کوارٹر گارڈ میں ہی رہتا۔ ایک دفعہ ان کی فوج کوئٹہ کی طرف گئی اور وہاں بعض فوجیوں کا ایک چھابڑی والے سے جھگڑا ہوگیا اور انہوں نے غصہ میں آکر اُس کی چیزیں چھین لیں اور اُسے مارا بھی۔ پولیس نے اِس معاملہ کی تحقیقات شروع کی تو چند ہندوستانی افسر اِس میں رُکاوٹیں ڈالنے لگے۔ عدالت میں مقدمہ پیش ہوا مجسٹریٹ کوئی دیانتدار انگریز تھاجو چاہتا تھا کہ صداقت کھلے۔ دُکانداروں نے اسے بتایا کہ فوجیوں کے ساتھ ایک شخص ایسا بھی تھا کہ جو ان کو اِس کام سے منع کرتا تھا۔ مجسٹریٹ نے فوجی افسروں کولکھا کہ وہ شخص کہاں ہے اسے پیش کیا جائے۔ جواب میں لکھا گیا کہ وہ سزایاب ہے اور کوارٹر گارڈ میں ہے۔ مجسٹریٹ نے لکھا کہ اسے گواہی کیلئے بھیج دو۔ چنانچہ وہ پیش کیا گیا تو مجسٹریٹ نے اُسے پوچھا کہ تم سزایاب کیوں تھے؟ اُس نے صاف کہہ دیا کہ اسی لئے کہ گواہی نہ دے سکوں اور پھر صاف بات بتادی۔ مجسٹریٹ نے اس کے افسروں کو لکھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کی آپ کے ہاں کھپت نہیں اسے ڈسچارج کردیاجائے تو میں اسے پولیس افسر بنانا چاہتا ہوں اور اسے ڈسچارج دلا کر پولیس میں ایک اچھے عُہدے پرمقرر کرادیا اور اس طرح راستی کی بدولت وہ مالی لحاظ سے بھی فائدہ میںرہا۔ پس صداقت ایک ایسی چیز ہے جو دلوں کو فتح کرتی ہے۔
کہا جاتاہے کہ سیّد عبدالقادر صاحب جیلانی ابھی بچے تھے کہ ان کی ماں نے ان کو ان کے ماموں کے پاس تجات سیکھنے کی غرض سے ایک قافلہ کے ساتھ بھیجا اور چالیس پونڈ ان کی گدڑی میں سی دیئے۔ راستہ میں قافلہ لُٹ گیا۔ ایک ڈاکو نے ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہاں چالیس پونڈ ہیں۔ اسے اعتبار نہ آیا اور گھورگھار کر چلا گیا۔ پھر کسی اور نے یہی سوال کیا اور آپ نے یہی جواب دیا۔ آخر ڈاکو ان کو پکڑ کر اپنے افسر کے پاس لے گئے۔ اس نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس واقعی چالیس پونڈ ہیں یا یونہی کہتے ہو؟ آپ نے کہا میرے پاس ہیں اس لئے کہتا ہوں۔ اُس نے کہا کہاں ہیں؟ تو آپ نے کہا گدڑی میں۔ میری ماں نے سی دیئے تھے۔ گدڑی کھولی گئی تو چالیس پونڈ نکل آئے۔ افسر کو حیرت ہوئی اور اس نے کہا کہ تم بہت بیوقوف ہو تم نے کیوں نہ کہہ دیا کہ میرے پاس کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جب میرے پاس تھے تو میں جھوٹ کس طرح بول دیتا۔ اِس بات کا اُس چور پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے جھٹ توبہ کرلی اور یہی وہ واقعہ ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ نے چوروں کو قطب بنادیا۔
پس امانت اور راستی بڑی عجیب چیز یں ہیں اور ایسی تلواریں ہیں جن سے تم قوی سے قوی دشمن کو قتل کرسکتے ہو او رپھر تم جسے قتل کرو گے وہ لمبی زندگی پائے گا۔ ابوجہل وغیرہ نے لوہے کی تلوار سے مسلمانوں کو مارا مگر خود مرگئے لیکن صداقت کی تلوار سے رسول کریم ﷺ نے جن لوگوں کو مارا وہ ہمیشہ کیلئے زندہ ہوگئے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ۔ پس تم صداقت کی تلوار ہاتھ میں لو اور قتلِ عام کرتے جائو۔ تمہارا یہ قتل ِ عام دنیا کیلئے بہت بڑی برکات کا موجب ہوگا۔ پس اپنے مقام کو سمجھو، تم دُنیوی بادشاہوں کے سپاہی نہیں ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے سپاہی ہو اور تمہارے لئے سب سے بڑی تلوار قرآن اور صداقت کی تلوار ہے اِسے لے کر دنیا میںنکلو پھر تمہارے اندر ایسی تاثیر پیداہوجائے گی کہ تمہارے مقابل پر آنے والا خودبخود مرعوب ہوتا چلا جائے گا۔ بے شک یہ بہت بڑا کام ہے مگر ہمارے خدا میں سب طاقتیں ہیں۔ جھوٹ کے سمندر میں ڈوبے ہوئے انسانوں کیلئے یہ ناممکن ہے کہ سچائی کی کشتی میں بیٹھ سکیں۔ مگر وہ خدا جس نے نوح کے زمانہ میں ایک کشتی تیار کرائی اور جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نوح کا نام دیا اُس کیلئے یہ ناممکن نہیں کہ ایک ایسی کشتی تمہیں دے دے جس سے تم نہ صرف خود اس سمندر سے نکل جائو بلکہ اَوروں کو بھی نکال لو۔ پس میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم پراپنا فضل نازل کرے اور ہمیں سچائی پر قائم ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور صداقت کی تلوار عطا کرے جس کے مقابلہ میں شیطانی تلوار اور کینہ و کپٹ اور بُغض و عِناد کی تلواریں نہ ٹھہر سکیں تا اُس کی حکومت پھر قائم ہو اور محمد ﷺ کا نور پھر دنیا میں پھیلے۔
(الفضل ۱۷؍ مارچ ۱۹۳۶ئ)
؎۱ غُلّہ: مٹی کی گولی یا کنکری جسے غلیل میں رکھ کر چلاتے ہیں۔
؎۲ ڈینیوب: یورپ کے دریائوں میں سے دوسرا سب سے بڑا دریا ۔ بلیک فارسٹ کی مشرقی
دہلانوں سے نکلتاہے او ربحیرئہ اَسود میں جاگِرتا ہے۔
؎۳ یونس: ۱۷
؎۴ سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۸۶ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
؎۵ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ ۵۱ مطبوعہ لاہور ۱۳۰۹ھ
؎۶ سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۱۱۹،۱۲۰ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ




۸
جائز اور پُرامن ذرائع سے دنیامیں صحیح اسلامی حکومت
قائم کرنا ہمارا فرض ہے۔
(فرمودہ ۱۳؍ مارچ ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں نے بارہا جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہر عمارت اپنے اندر کئی حصے رکھتی ہے اور جب تک وہ سب حصے پورے نہ ہوں اُس وقت تک وہ فوائد جو اُس عمارت سے مدنظر ہوں کبھی حاصل نہیں ہوسکتے۔ ایک قلعہ جس غرض کیلئے بنایا گیا ہو اگر وہ اُس غرض کو پورا نہیں کرتا تو وہ قلعہ نہیں کہلاسکتا۔ مثلاً چاروں طرف دیوار بنادی جائے لیکن اِتنی موٹی دیوار نہ بنائی جائے جو توپوں اور گولوں کا مقابلہ کرسکے یا موٹی دیوار تو بنادی جائے لیکن ایسے مصالحہ سے نہ بنائی جائے جو دشمن کے گولوں کا مقابل کرسکے یادیواریں تو ایسے مصالحہ سے بنادی جائیں جو گولوں کا مقابلہ کرسکیں مگر چاروں طرف نہ بنائی جائیں بلکہ اس کا کوئی حصہ کھلا چھوڑ دیا جائے ایسی صورت میں وہ دیواریں قلعہ کی دیواریں نہیں کہلاسکتیں اور نہ قلعہ سے پورا فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ یا مثلاً نہریں ہیں اگر کوئی شخص نہریں کسی مُلک میں جاری کردے لیکن ان کی سطح دوسری زمین سے اونچی نہ رکھے بلکہ زمینیں اونچی ہوں اور نہریں نیچی تو وہ نہریں کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں کیونکہ اُن کا پانی بغیر کسی فائدہ کے بہتا چلاجائے گا۔ یا مثلاً کوئی شخص مکان بنائے لیکن اُس پر چھت نہ ڈالے تو ایسی صورت میں مکان سے جو حفاظت مطلوب ہے وہ حاصل نہ ہوسکے گی۔ یا مکان پر چھت تو ڈال دے لیکن چار کی بجائے تین دیواریں بنادے یا دیواریں تو چاروں بنادے مگر فرض کرو وہ دروازہ نہ رکھے تب بھی اس مکان سے وہ فائدہ حاصل نہیں کرسکے گا کیونکہ وہ اس مکان میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ یا دیواریں بھی بنادے اور دروازے بھی رکھ دے، چھت بھی ڈال دے مگر کواڑ نہ بنائے تب بھی مکان سے وہ پورا فائدہ حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ دروازے کھلے رہنے کی وجہ سے چور آئیں گے اور اس کی چیزیں اُٹھا کر لے جائیں گے۔ غرض جب ہم کسی چیز کو بناتے یا اسے حاصل کرتے ہیں تو ہمارے لئے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ جو فوائد اس چیز سے مطلوب ہیں آیا وہ اس سے حاصل ہوتے ہیں یا نہیں اور آیا اس چیز کی ساری شِقّیں کامل ہیں یا نہیں؟ اگر اس کی تمام شِقّیں کامل ہوں تو ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ جو فوائد اس چیز سے حاصل ہوسکتے ہیں ہمیں بھی حاصل ہوجائیں گے اور اگر اس کی تمام شِقّیں کامل نہیں تو ہمیں اس فائدہ کی امید بھی نہیں رکھنی چاہئے جو تمام شِقّوں کے کامل ہونے کی صورت میں اس سے حاصل ہوسکتا ہے۔
اِس تمہید کے بعدمیں بتانا چاہتا ہوں کہ جس طرح اِس دنیا کی چھوٹی بڑی تمام عمارتوں کی جہات ہیں، دیواریںہیں، چھتیں ہیں، فرش ہیں، موریاں ہیں،کھڑکیاں ہیں، دروازے ہیں، الماریاں ہیں اور روشندان ہیں اسی طرح مذاہب کے بھی چھت ہیں، مذاہب کی بھی دیواریں ہیں اور مذاہب کے بھی دروازے، کھڑکیاں، روشندان، کھونٹیاں او رفرش وغیرہ ہیں اور مذہب بھی کسی ایک چیز کا نام نہیں ہوتا بلکہ اس نام کے اندر بہت سی چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ اگر وہ مشمولہ اشیاء اپنی اپنی جگہ پر موجود ہوں تو ان فوائد کا حاصل ہونا یقینی ہوتا ہے جو مذہب پر عمل کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہوسکتے ہیں اور اگر وہ مشمولہ اشیاء نہ ہوں تو ان فوائد کا حاصل ہونا بالکل غیرمعقول او رخلاف عقل ہوگا۔
ہم لوگ جو مسلمان کہلاتے اور قرآن کریم کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کرنے کے مدعی ہیں اس زمانہ میں ہماری حالت عجیب قسم کی ہے۔ قرآن کریم کے احکام کے دو حصے ہیں ایک حصہ قرآن کریم کے احکام کا وہ ہے جو نظام کے ساتھ تعلق رکھتاہے اور ایک حصہ قرآن کریم کے احکام کا وہ ہے جو افراد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ جو حصہ قرآن کریم کے احکام کا افراد کے ساتھ تعلق رکھتاہے اُس پر ہر جگہ انسان عمل کرسکتا ہے خواہ وہ آبادی میں ہو خواہ جنگل میں، خواہ میدانوں میں ہو خواہ پہاڑوں میں، خواہ گائوں میں ہو خواہ شہروں میں اور جو لوگ دنیا کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں وہ اپنے اپنے طور پر ان احکام کو اگر پوراکرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً نماز کا حکم ہے یا روزہ رکھنے کا حکم ہے یا صدقہ و خیرات دینے کا حکم ہے ان احکام پر جہاں جہاں کوئی مسلمان ہو گا عمل کرے گا اور وہ اپنے لئے ان احکام پر عمل کرنے کی کوئی راہ تلاش کرلے گا جس میں اسے کوئی دِقّت پیش نہیں آئے گی لیکن قرآن کریم کے وہ احکام جو نظام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ نظام کے ذریعہ ہی پورے ہوسکتے ہیں اس کے بغیر نہیں۔ مثلاً زکوٰۃ ہے اگر دنیا میں کوئی اسلامی حکومت نہیں یا حکومتِ اسلامی کی عدم موجودگی کے بعد مسلمانوں میں کوئی نظام بھی موجود نہیں توزکوٰۃ کا فریضہ صحیح معنوں میں ادا نہیں ہوسکتا کیونکہ زکوٰۃ کے متعلق اسلامی تعلیم یہ ہے کہ وہ ایک جگہ جمع ہونی چاہئے اور پھرعقل کے ساتھ اسے مقررہ مواقع پر خرچ کرنا چاہئے۔ یا مثلاً مسلمانوں کی تعلیم کو ایک سطح پر لانے کا سوال ہے یہ افراد کے ذریعہ نہیں ہوسکتا کیونکہ کوئی کسی رنگ کی تعلیم حاصل کرتا ہے او رکوئی کسی رنگ کی، کوئی زیادہ تعلیم حاصل کرتا ہے کوئی کم اور اِس طرح ایک سطح پر وہ اپنے آپ کو نہیں لاسکتے۔ یا مثلاً جہاد ہے اگر جہاد کی کسی وقت ضرورت پیش آجائے اور کوئی حکومت ظالمانہ طور پر مسلمانوں کو اس لئے قتل کرنا شروع کردے کہ وہ کیوں مسلمان ہیں اور تلوار کے زور سے ان کا مذہب تبدیل کرکے انہیں اسلام سے منحرف کرنا چاہے تو ایسے موقع پر اور صرف ایسے موقع پر جہاد بِالسیف جائز ہے مگر یہ حکم بغیر نظام کے پورا نہیں ہوسکتا۔ میں ضمنی طور پر یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ مسلمانوں کی سخت غلطی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں جہاد کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی کافر ملے اسے مارڈالو۔ اگر کافروں کومارنا ہی جہادہے تو پھر اسلام میں ہم کس کو داخل کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ کافر کو اسلام مارنا نہیں چاہتا بلکہ اسے محبت کاقیدی بنانا چاہتا ہے کیونکہ اسلام دنیامیں ہلاکت برپا کرنے کیلئے نہیں آیابلکہ لوگوں کو زندگی دینے کیلئے آیا ہے۔
پس جہاد کے یہ معنی نہیں کہ غیرمُسلم کا سر کاٹ دیاجائے بلکہ جو شخص بِلا وجہ کسی غیرمُسلم کا سر کاٹتا اور اُسے قتل کرتا ہے اِسلام اُسے قاتل اور جہنمی سمجھتا ہے۔ جہاد باِلسیف صرف اُس وقت جائز ہوتا ہے جب کوئی قوم مسلمانوں پر اس وجہ سے حملہ آور ہو کہ کیوں انہوں نے اسلام قبول کیا اور بزورِ شمشیر انہیںمذہب سے منحرف کرنا چاہے اگر اس طریق کی اجازت دی جائے اور اس کا مقابلہ نہ کیا جائے تو پھر مذہب دنیا میں باقی ہی نہیں رہ سکتا۔ اسی لئے اسلام نے حکم دیا ہے کہ جب اس قسم کے حالات پیدا ہوجائیں تو غیرمُسلموں کا مقابلہ کرو مگر یہ مقابلہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب مسلمانوں کے پا س ایک جتھہ ہو اور ان میں نظام پایا جاتا ہو۔ اگر ان کے پاس جتھہ نہیں اور اگر ان میں نظام نہیں اور انفرادی طور پر ایک ایک مسلمان دشمن کے مقابلہ کیلئے جائے گاتو وہ ہلاک ہوجائے گا اور اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ پس جہاد بھی ان احکام میں سے ہے جن میں ایک جتھہ اور نظام کی ضرورت ہے تا مسلمان یکجا ئی طور پر ایک ظالم حکومت یا ظالم قوم کا مقابلہ کرسکیں افراد اس حکم کو کماحقہ نہیں بجالاسکتے۔
پھر اسلام کے جو احکامات حکومت اور جتھہ او رنظام سے تعلق رکھتے ہیں وہ آگے تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو کُلّی طور پر حکومت کے اپنے اختیار میں ہوتے ہیں اور ایک وہ جو کُلّی طور پر نظام کے اختیار میں ہوتے ہیں اور ایک وہ جو اپنی مرضی پرمنحصر ہوتے ہیں۔ خواہ حکومت انہیں اپنے قبضہ میں رکھے خواہ اقوام کو آزاد چھوڑ دے۔ کُلّی طور پر حکومت کے قبضہ میں رہنے والے اختیارات کی مثال ایسی ہی ہے جیسے قاتل کو قتل کی سزا دینا۔ یہ کُلّی طور پر حکومت کے قبضہ میں ہے اور کوئی شخص کسی کو اس لئے قتل نہیں کرسکتا کہ اس کے علم میں وہ یقینی طور پر قاتل ہے کیونکہ قاتل کا علم اسے قتل کی سزادینے کا اختیار نہیں دے دیتا یہ پورے طور پر حکومت کے اختیار میں ہے اور وہی اس اختیار کے ماتحت قاتل کو گرفتار کرکے اسے سزا دے سکتی ہے اور اگر کوئی حکومت قاتل کو قتل نہیں کرتی تو بے شک وہ ظلم کرے گی لیکن وہ خداتعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوگی۔ بندوں کا یہ کام نہیں کہ و ہ آپ ہی آپ قاتل کی تحقیق کرکے اسے سزا دے دیں یا مثلاً چوری کی سزا موجودہ قانون میں قید ہے یہ سزا بھی حکومت نے اپنے قبضہ میں رکھی ہوئی ہے اور کسی دوسرے کا یہ حق نہیں کہ وہ خودبخود کسی چور کو چوری کی سزا دے دے۔ اب جو نظام سے تعلق رکھنے والے احکام ہیں ہمارے لئے ان میں ایک مشکل پید اہورہی ہے اور وہ یہ کہ اِس زمانہ میں ہم پرجو حکومت ہے وہ غیرمُسلم ہے اور اس کا نظام بعض جرائم کی اَور سزا دیتا ہے اور اسلامی نظام ان جرائم کی اَور رنگ میں سزا تجویز کرتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لازمی طور پر اسلامی تعلیم کی ایک شِقّ باطل رہتی ہے۔ مثلاً اسلام ایک قاتل کے متعلق جس رنگ میں تحقیقات کاحکم دیتا اور جو سزا اس کیلئے تجویز کرتا ہے یا ایک چور کے متعلق جس رنگ میں تحقیقات کا حکم دیتا اور جو سزا اس کیلئے تجویز کرتا ہے وہ مسلمانوں کے اختیار میں نہیںبلکہ حکومت کے اختیار میں ہے اور اس طرح ہم موجودہ دَور میں ایسے حالات میں گھِرے ہوئے ہیں کہ اسلامی تعلیم کے بعض حصوں کو پورا کرنے کا اختیار نہیں رکھتے مگر اور بہت سے حصے ایسے ہیں جوباوجود اس کے کہ نظام سے تعلق رکھتے ہیں حکومت نے ان سے اپناہاتھ کھینچ رکھاہے اورلوگوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ جس رنگ میں چاہیں ان امور کا آپس میں فیصلہ کرلیں۔ مثلاً مقدمات کا ایک حصہ ایسا ہے جس کے متعلق حکومت کہتی ہے کہ اسے ضرور ہمارے پاس لائو لیکن ایک حصہ ایسا بھی ہے جس میں وہ کہتی ہے کہ اس کاہمارے پاس لانا یا نہ لانا تمہاری مرضی پر منحصر ہے۔ اگر تم چاہو تو ان مقدمات کو ہمارے پاس لے آئو اور اگر نہ چاہو تو نہ لائو۔ ایسے تمام معاملات اور اختیارات میں جن میں حکومت دخل نہیں دیتی اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کی لوگوں کو اجازت دیتی ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان امور کا اسلامی تعلیم کے مطابق فیصلہ کریں۔ کیونکہ کوئی وجہ نہیں کہ جب حکومت نے ان امور میں دخل اندازی پسند نہیںکی اور ہماری مرضی پر چھوڑ دیا ہے ہم ان کا فیصلہ اسلامی تعلیم کے مطابق نہ کریں۔ ایسے بیسیوں معاملات ہیں جن کے متعلق ہم صحیح اسلامی حکومت کا نقشہ قائم کرسکتے ہیں۔ مثلاً زکوٰۃ کا مسئلہ ہے زکوٰۃ انگریزی حکومت نہیں لیتی اور نہ کسی کو زکوٰۃ دینے پرمجبورکرتی ہے اور چونکہ انگریزی حکومت اِس میںدخل نہیں دیتی اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ اگر مسلمانوں میں نظام موجود ہو تو وہ زکوٰۃ لے کر اسلامی طریق کے ماتحت اس کی تقسیم کا انتظام نہ کریں۔ وہ اگر چاہیں تو ایسے امور میں اسلامی طریق اور شریعت کے مطابق کام کرسکتے ہیں اور جس حد تک وہ اسلامی تعمیر کومکمل کرسکتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اسے مکمل کریں کیونکہ سارے اختیارات تو انہیں حاصل نہیں اس لئے یہی ہوسکتا ہے کہ جن امورمیں حکومت دخل نہیں دیتی اور انہیں حسبِ منشاء کام کرنے کا اختیار دیتی ہے ان میں وہ اسلامی تعلیم کے مطابق فیصلے کریں۔ یہی چیز ہے جسے شروع خلافت سے میں نے اپنے مدنظر رکھا ہے اور جس کی وجہ سے مَیں اپنوں کی نگاہ میں بھی کئی دفعہ بدنام ہؤا ہوں اور غیروں کی نگاہ میں بھی۔ غیر بھی مجھے کہتے ہیں کہ یہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے اور اپنے بھی کئی دفعہ جب انہیں ضرر پہنچتا ہے کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ اپنی حکومت قائم کررہا ہے حالانکہ میں اپنی نہیں بلکہ اسلام کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں اور جہاں حکومت مجھے اجازت دیتی ہے وہاں میں اسلام کی حکومت قائم کرنے کیلئے اپنا پورا زور لگاتا ہوں، لگاتاچلاآیا ہوں اور اِنْشَائَ اللّٰہُ لگاتا چلا جائوں گا اس بات میں نہ مجھے کسی کا ڈر ہے نہ خوف۔ جب مجھے نظر آتا ہو کہ قرآن کریم ایک معاملہ میں فلاں حکم دیتا ہے ، جب مجھے نظر آتا ہو کہ حکومت اِس معاملہ میں مجھے اجازت دیتی ہے کہ میں جس طرح چاہوں کروں اور جب مجھے نظر آتا ہو کہ ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اقرار کرتا ہے کہ میںنے اپنا سب کچھ آپ کیلئے قربان کردیا تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ میں اس معاملہ میں اسلامی حکم جاری نہ کروں اور کیا خداتعالیٰ کے سامنے میرا عذر قابلِ سماعت ہوگا کہ میں نے اس معاملہ میں اسلامی حکم کو اس لئے جاری نہیں کیاکہ حکومت غیر تھی؟خداتعالیٰ کہے گا بے شک حکومت غیر تھی مگر جب اسی حکومت نے تمہیں اجازت دے رکھی تھی کہ ان معاملات میں تم جو چاہو فیصلہ کرو اور پھر جب لوگوں نے اپنا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دے دیا تھا اور کہہ دیا تھاکہ ہمیں ہر فیصلہ منظور ہے تو پھر تم نے کیوں اسلامی فیصلہ کا اِجرا نہ کیا اور کیوں اسلامی تعلیم اس معاملہ میں دنیا میں قائم نہ کی؟ جب فیصلہ ماننے والے کہتے تھے کہ ہمیں ہر فیصلہ منظور ہے اور ہم اسے ماننے کیلئے تیار ہیں، جب حکومت کہتی تھی کہ بہت اچھا اس معاملہ میں ہم دخل نہیں دیتے تم جو چاہو فیصلہ کرلو تو پھر کونسی روک درمیان میں حائل تھی کہ تم نے اسلامی فیصلہ کا اِجرا نہ کیا؟
پس اسلامی تعلیم کو دنیامیں قائم کرنا ، شریعت کے مطابق لوگوں کے جھگڑوں کا تصفیہ کرنا اور جرائم کی اسلامی تعزیر کے مطابق ناقابلِ دست اندازی پولیس معاملات میں سزا دیناہمارا فرض ہے سوائے اُن باتوں کے جن میں حکومت ہمارا ہاتھ روک دیتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم ان معاملات میں تمہیں اپنا حکم چلانے نہیںدیتے اِس کے سِوا ادنیٰ سے ادنیٰ اسلامی حکم جاری کرنا اور اسلامی حکومت کا ہر نقشہ دنیا میں قائم کردینا ضروری ہے مگر وہ حصہ جو حکومت نے اپنے اختیار میں رکھا ہؤا ہے اُس میں ہم دخل نہیںدیتے اور نہ دے سکتے ہیں۔ اگر دشمن ہماری اِس کوشش اور جدوجہد کا نام اپنی حکومت قائم کرنا رکھتا ہے تو رکھے ہمیں اِس کی پرواہ نہیں۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں مگر وہ روحانی حکومت ہے اور ہم نے تو کبھی بھی یہ بات نہیں چھپائی کہ ہم دنیا میں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہم کھلے طور پر کہتے ہیں کہ ہم اسلامی حکومت دنیا پرقائم کرکے رہیں گے اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔ ہم جس چیز کا انکار کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ تلوار اور فتنہ وفساد کے زور سے ہم اسلامی حکومت قائم نہیں کریں گے بلکہ دلوں کو فتح کرکے اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ کیا کوئی خیال کرسکتا ہے کہ اگر آج میرے بس میں یہ ہو کہ میں انگلستان کے تمام لوگوں کومسلمان بنادوں، وہاں کے وزراء کو اسلام میں داخل کردوں اور پارلیمنٹ کے ممبروں کو بھی مسلمان بناکر وہاں اسلامی حکومت قائم کردوں تومیں اپنے اس اختیار سے کام لینے سے انکار کروں گا؟ میں تو ایک منٹ کی بھی دیر نہیں لگائوں گا اور کوشش کروں گا کہ فوراً ان لوگوں کو مسلمان بنا کر انگلستان میں اسلامی حکومت قائم کردوں لیکن چونکہ یہ میرے بس کی بات نہیں اس لئے میں کر نہیں سکتا۔ ورنہ میں اس بات سے انکار تو نہیں کرتا کہ میرے دل میں یہ خیال ہے اور یقینا میرے دل کی خواہش ہے کہ ہمارے بادشاہ مسلمان ہوجائیں، وزراء بھی مسلمان ہوجائیں، پارلیمنٹ کے ممبر بھی مسلمان ہوجائیں اور برطانیہ کے تمام باشندے بھی مسلمان ہوجائیں۔ اس میں اگر دیرہے تو اس لئے نہیں کہ میری یہ خواہش نہیں کہ وہ مسلمان ہوں بلکہ اس لئے دیر ہے کہ اُن کو مسلمان کرنا میرے اختیار میں نہیں اور اِس وجہ سے وہاں اسلامی حکومت قائم نہیں کی جاسکتی۔ ورنہ اسلامی حکومت قائم کرنے کیلئے میرے دل میں تو اتنی زبردست خواہش ہے کہ اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں لگاسکتا اور اپنی اس خواہش کا میں نے کبھی انکار نہیں کیا اور اگر میں انکار کروں اور میرے دل میں اسلامی حکومت کے قائم کرنے کی خواہش نہ ہو تو اسلام کے احکام کے وہ حصے پورے کس طرح ہوسکتے ہیں جن کیلئے ایک نظام کی ضرورت ہے۔ کیا کوئی شخص پسند کرے گا کہ اُس کا گھر ادھورا رہے؟ اگر کوئی شخص اپنے مکان کے متعلق یہ پسند نہیں کرسکتا کہ وہ ادھورا رہے تو خداتعالیٰ کے گھر کے متعلق وہ یہ امر کب پسند کرے گا۔ اس میں کیا شک ہے کہ جب تک تمام دنیا مسلمان نہیںہوتی اور خود حکومت، اسلامی حکومت نہیں ہوجاتی اُس وقت تک اسلام کی عمارت کانی رہتی ہے اور اپنی عمارت کا کانا ہونا کون پسند کرسکتا ہے۔ جب ہر شخص اپنی عمارت کو مکمل دیکھنا چاہتا ہے تو کب کوئی عقلمند ہم سے یہ امید رکھ سکتا ہے کہ ہم اسلام کی عمارت کو کانا رکھنا پسند کریں گے۔ اگر انگریز عیسائی ہی رہیں، یہودی یہودی ہی رہیں، ہند وہندو ہی رہیں تو اسلامی حکومت دنیا میں قائم نہیں ہوسکتی۔ ہاں اس کے قائم کرنے کا ایک طریق ہے اور اس طریق کے ذریعہ ہی دنیا میں ہمیشہ کام ہؤاکرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کانا ہو اور وہ کسی دوسرے سوجا کھے کی آنکھ نکال کر اپنا کانا پن دور کرنا چاہے تو سارے لوگ اُسے بیوقوف ہی سمجھیں گے کیونکہ دوسرے کی آنکھ نکال کر اُس کا کانا پن دور نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اگر کوئی بیوقوف یہ سمجھے کہ چند انگریزوں کو مار کر یا فتنہ و فساد پیدا کرکے وہ اسلامی حکومت قائم کرسکے گا تو وہ حماقت کا ارتکاب کرتا ہے۔ اور اگر فرض کرو وہ چند انگریزوں کو نہیں بلکہ تمام انگریزوں پر حملہ کرتا ہے اور انگریز اس حملہ کی تاب نہ لاکر ملک چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں تب بھی اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوسکتی ہے۔ حکومت اگرقائم ہوگئی تو ہندوئوں کی کیونکہ ایک مسلمان کے مقابلہ میں تین ہندو ہیں اور جس طرح مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسلامی تہذیب اور اسلامی تمدّن اور اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کریں اِسی طرح ہندوئوں کا بھی حق ہے کہ وہ ہندو تہذیب، ہندو تمد ّن اور ہندو حکومت قائم کریں۔ اسی طرح اگرمسلمانوں کو حق ہے کہ وہ انگریزوں کو اس لئے ماریں کہ وہ اسلام میں داخل نہیں اور انہیں اپنے ملک سے اس لئے نکالیں کہ وہ انگریزی حکومت کی بجائے اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں تو یقینا ہندوئوں کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں کو ماریں اور انہیں اپنے مُلک سے نکال کر ہندو حکومت قائم کریں او رایسی صورت میں ہندوئوں کے فعل پر اعتراض کرنا بالکل پاگل پن ہوگا ۔ جو چیز ہمارے لئے جائز ہے وہ ہمارے غیر کیلئے بھی جائز ہونی چاہئے ورنہ یہ خدائی تعلیم نہیں ہوگی کہ وہ مسلمانوں کو تو اختیار دے دے کہ وہ اسلامی حکومت کو قائم کرنے کی کوشش کریں لیکن ہندوئوں کو اپنی حکومت قائم کرنے کا اختیار نہ دے۔ ایسی تعلیم دینے والا خدا نہیں بلکہ سوتیلا باپ ہوگاجو اپنے بیٹے کی تو پرورش کرتا ہے مگر دوسرے کو گھر سے نکال دیتا ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جس چیز کو ہم اپنا حق قرار دیتے ہوں اُسی کو دوسرے کاحق بھی تسلیم کرنے کیلئے تیاررہیں۔
پس یہ طریق بالکل نادرست ہے اور میں ہمیشہ اِس کی مخالفت کرتا رہا ہوں لیکن جائز اور پُرامن طریق سے اسلامی حکومت قائم کرناہماری دلی خواہش ہے اور میں سمجھتا ہوں ہم میں سے ہر ایک کے دل میں یہ آگ ہونی چاہئے کہ ہم موجودہ طرزِ حکومت کی بجائے حکومت اسلامی قائم کریں۔ یہ طبعی خواہش ہے اور میرے دل میں ہر وقت موجود رہتی ہے اور میں نے اِس خواہش سے کبھی انکار نہیں کیا ہاں میرے اور عام لوگوں کے ذرائع میں اختلاف ہے۔ میں اسلامی حکومت کے قیام کیلئے تبلیغی اور پُرامن ذرائع اختیار کرتا ہوں او روہ کہتے ہیں کہ اس کے قائم کرنے کا طریق مار پیٹ اور جبر و تشدّد ہے۔ بہرحال یہ خواہش توجب پوری ہوگی ہوگی اور یقینا ایک دن پوری ہوگی دنیا کی مخالفتیں اور دشمنوں کی روکیں مل کر بھی اِس میں حائل نہیں ہوسکتیں۔
چنانچہ ایک دفعہ رئویا میں مَیں نے اس مسجد کو جس میں مَیں اِس وقت خطبہ پڑھ رہا ہوں (مسجداقصیٰ) دیکھا کہ میں یہاں ممبر پر کھڑا ہوں اوریوں معلوم ہوتا ہے کہ وائسرائے آئے ہیں کیونکہ ہمارے بادشاہ یہاں آنے والے ہیں اور وہ ان کی آمد سے پہلے انتظام دیکھنا چاہتے ہیں چونکہ پروگرام یہ ہے کہ بادشاہ یہاں کے مقدس مقامات دیکھیں گے اور مسجد کو بھی دیکھیں گے اِس لئے وائسرائے دیکھ رہے ہیں کہ آیا تمام انتظام مکمل ہے یا نہیں؟ اُس وقت میں نے دیکھا کہ مسجد اتنی وسیع ہے کہ اِس کا آخری کنارہ مشکل سے نظر آتا ہے اور سینکڑوں فوجی سپاہی پریڈ کے طور پر کھڑے ہیں مگر وہ اتنی دور ہیں کہ ان کی شکلیں پہچانی نہیں جاتیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ وائسرائے مسجد میں داخل ہوئے ہیں اور وہ تمام انتظام کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے پھر دوسرے مقدس مقامات دیکھنے کیلئے چلے گئے ہیں۔ تو یہ چیزیں آخر ہوکر رہیں گی اور کسی کے مٹانے یانہ مٹانے کا سوال ہی نہیں۔ جس چیز کا خداتعالیٰ نے فیصلہ کردیا ہے وہ آخر ہوکرر ہے گی چاہے اس پر عیسائی بُرا منائیں چاہے موسائی بُرا منائیں، چاہے ہندو بُرا منائیں، چاہے سکھ بُرا منائیں یہ خداتعالیٰ کی قضاء ہے کہ دنیا میں اسلامی حکومت قائم کی جائے گی اور جو چیز ایک دن ہونے والی ہو اُسے ہم نے چھپانا کیا ہے اور اِس پر اگر کوئی بُرا مناتا ہے تو ہم اس کا علاج کیا کرسکتے ہیں، مگر جب تک وہ زمانہ نہیں آتا اُس وقت تک ہمارا فرض ہے کہ جن باتوں میں حکومت ہمیں اختیار دیتی ہے ان میںاسلامی حکومت کی طرز پر تمام باتیں جاری کریں۔
بے شک اسلام یہ اجازت نہیںدیتا کہ ہم عادی چور کا ہاتھ کاٹ دیں بلکہ وہ اسے اسلامی حکومت کا فرض قرار دیتا ہے مگر اسلام یہ اجازت تو دیتا ہے کہ چورپر تمدّنی دبائو ڈال کراسے چوری کی عادت سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے۔ پس اگرکوئی چور ی کرے گا تو ہم اُس کے ہاتھ نہیں کاٹیں گے لیکن ہم اس پر تمدّنی دبائو ضرور ڈالیں گے تا اس کی اصلاح ہوجائے او ر وہ آئندہ چوری کا ارتکاب نہ کرے۔
اسی طرح بے شک اسلام ہم کو یہ اجازت نہیںدیتا کہ اگر کوئی شخص عَلَی الْاِعْلَان بدکاری کا ارتکاب کرے تو اُسے ہم سنگسار کردیں بلکہ وہ اسے اسلامی حکومت کا فرض قرار دیتا ہے اور اس لئے اگر کوئی بدکاری کا عَلَی الْاِعْلَان ارتکاب کرے گا تو ہم اسے سنگسار نہیں کریں گے مگر جو تمدنی دبائو ہے اس کے ذریعہ ہم قومی اخلاق کی درستی کرسکتے ہیں کیونکہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔
اسی طرح اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اگر کوئی شخص قتل کرے تو اسے سزا کے طور پر قتل کردیاجائے بلکہ وہ اسے اسلامی حکومت کا اختیار قرار دیتا ہے۔ پس اگر کوئی قتل کرے تو ہم یقینا اسے قتل نہیں کریں گے لیکن اسلام اس بات کا اختیار ہمیں دیتا ہے کہ اگر کوئی قتل کرے تو اُس پر تمدنی دبائو ڈالا جائے تا اُس کی اصلاح ہو۔ پس ہم تمدنی طور پر اس سے تنفّر کا اظہار کریں تا اُس کے دل میں ندامت پیدا ہو اور وہ اس بُرے فعل کا دوبارہ ارتکاب نہ کرے۔ اگر یہ طریق اختیار نہ کیا جائے تو کیا اس وجہ سے کہ اسلام قاتل کو بذاتِ خود قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہم قاتل سے بڑھ کر مصافحہ کریں گے یا اُس سے پیار کرنے لگیں گے؟ یا کیا اس وجہ سے کہ اسلام ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ ہم چور کا ہاتھ کاٹ دیں ہم چور کو چوری کرنے کے بعد شاباش دیں گے اور کہیں گے کہ تُونے کیسا اچھاکام کیا ؟یا کیا اِس وجہ سے کہ اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ دنیا میں جو قحبہ خانے ہیں انہیں خود بخود گِرا دیا جائے ہم کنچنیوں کا گانا جاجاکر سنیں گے؟ ایک جگہ اسلام اگر ہمارے ہاتھ روکتا ہے تو دوسری جگہ ہمیں اختیار بھی دیتا ہے کہ ہم اسے استعمال کریں۔
یہی وہ طریق ہے جسے شروع خلافت سے میں نے اپنے مدنظر رکھا اور میں نے باربار سمجھایا ہے کہ اسلامی عمارت کو مکمل کرنا اور اسے مغربی اثرات سے بچانا ہمارا فرض ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ اسلام میں ہر بیماری کا علاج موجود ہے آجکل کے مسلمان اسلامی احکام سے اتنے جاہل اور ناواقف ہوگئے ہیں کہ جب بھی وہ کوئی طریق اختیار کریں گے غیراسلامی ہوگا حالانکہ اسلام میں وہ تمام طریق موجود ہیں جن پر کاربند ہوکر انسان اپنے حقوق کو حاصل کرسکتا اور دوسروں کے ظلم سے بچ سکتا ہے اور کسی غیر اسلامی طریق کے اختیار کرنے کی ہمیں ضرورت نہیں۔
انہی غیر اسلامی اثرات کے ماتحت ہمارے ملک میں ہڑتالوں کا طریق رائج ہوگیا ہے اس طریق کو ہماری جماعت کے لوگ بھی بعض دفعہ اندھا دھند اختیار کرلیتے ہیں حالانکہ وہ طریق ان کیلئے موزوں ہی نہیں ہوتا۔ ایک بچے کو بازار میں سے گزرتے ہوئے جب کوئی دوسرا بچہ تھپڑ مارتا ہے اور وہ اس کے جواب میں اپنا ہاتھ اُٹھاتا ہے تو اُس وقت بچے کا ہاتھ اُٹھانا بُرا نہیں لگتا لیکن جس وقت اُس کی ماں اُسے مارتی ہے اور وہ اس کے مقابلہ میں اپنا ہاتھ اُٹھاتا ہے تو سارے کہتے ہیںیہ بڑا بے ادب اور گُستاخ ہے اِس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ پہلے موقع پر اُس کا ہاتھ اُٹھانا ایک اجنبی بچہ کے مقابل میں تھا اور اب اس کا ہاتھ اُٹھانا اپنی ماں کے مقابل میں ہے۔ بازار میں سے گزرنے والے بچے میں مقابلہ میں اُس کا ہاتھ اُٹھانا اُسے سج جاتا لیکن اپنی ماں کے مقابلہ میں اُس کا ہاتھ اُٹھانا اُسے نہیں سجتا۔ اِسی طرح بازار میں سے گزرنے والے ایک لڑکے کو کوئی اجنبی اگر کہے کہ ایک ٹانگ اُٹھا کر کھڑا ہوجا تو وہ لڑکا اگر بہت زیادہ اخلاق سے کام لے گا تو خاموش ہوکر گزرجائے گا، اس سے کم اخلاق سے کام لے گا تو اسے ایک نظر دیکھ کرگزرجائے گا، اس سے کم اخلاق سے کام لے گا تو اُسے گھور کر گزرجائے گا، اِس سے کم اخلاق سے کام لے گا تو بڑبڑا کر گزر جائے گا اور اِس سے کم اخلاق سے کام لے گا تو دو چار سُنا کر گزرجائے گا کہ تُو کون ہوتا ہے جو مجھے اِس قسم کی بات کہے لیکن جس وقت سکول روم میں اُستاد لڑکے سے کہتا ہے کہ ایک ٹانگ پر کھڑا ہوجا تو اُس وقت اگر لڑکا اُستاد کو وہی جواب دے جو وہ بازار میں ایک اجنبی شخص کو دیتا ہے تو سارے کہیں گے یہ بڑا ہی بدتہذیب ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ بازار میں ایک اجنبی کے سامنے اس کے الفاظ سج جاتے تھے لیکن اُستاد کے سامنے نہیںسجتے۔ اِسی طرح ایک مسلمان کہلانے والے کا بھی مغربی طریقِ عمل اختیار کرنا اور اسلامی طریق کو چھوڑ دینا اسے کسی صورت میں نہیں سج سکتا۔
اسلامی عمارت جو تمدن کے متعلق ہے اس کی بنیاد انصاف اور محبت پر ہے اس لئے اپنے حقوق کے حصول کیلئے بھی وہی طریق اختیار کرنا چاہئے جو انصاف اور محبت پر مبنی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب کہیں سٹرائک ہوتی اور کوئی احمدی اس میں شریک ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اُسے سخت سزا دیتے اور اُس پر اظہارِ ناراضگی فرماتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ سٹرائک یا سٹرائک کے مشابہہ بھی جب بعض احمدیوں نے کوئی حرکت کی ہم نے اسے سخت ناپسند کیا۔ اِ س لئے کہ جب اسلامی تعلیم میں ان کے مطالبات کا علاج موجود ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ اسلامی طریق اختیار نہیں کرتے اور غیر اسلامی طریق اختیار کرتے ہیں۔ زیادہ تر سٹرائکوں کا سوال مزدوروں اور سرمایہ داروں کے درمیان ہوتا ہے۔ مغربی طریق یہ ہے کہ ہر شخص اپنی طرف سے ایک حق کا مطالبہ کرتا ہے اور ان کا اصول یہ ہے کہ ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ اگر مزدور غالب آجائیں تو وہ مالکِ کارخانہ جات کے حقوق کو دبالیں گے اور اگر مالکِ کارخانہ جات غالب آجائیں تو وہ مزدوروں کے حقوق کو دبالیں گے مگر اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام نہ مزدور کو اجازت دیتا ہے کہ وہ سرمایہ دار کو آنکھیں دکھائے نہ سرمایہ دار کو اجازت دیتا ہے کہ وہ مزدور کو آنکھیں دکھائے کیونکہ یہ دونوں باتیں غیریت پر دلالت کرتی ہیں اور اسلام کامنشاء یہ ہے کہ سب بنی نوع انسان اپنے آپ کو بھائی بھائی سمجھیں کیونکہ خداتعالیٰ سب کا آقا ہے اور محبت کے لحاظ سے وہ ان کا باپ ہے اس لئے آپس میں وہ طریق اختیار نہیں کیا جاسکتا جس میں غیریت پائی جاتی ہو۔ پس ان طریقوں کو اسلام کبھی جائز قرار نہیں دے سکتا۔ نہ پہلے کبھی اس نے انہیں جائز قرار دیا ہے اور نہ آئندہ قرار دے گا۔
میں کہہ چکا ہوں کہ اسلامی طریق کی بنیاد انصاف پرہے اسلام ہرگز یہ اجازت نہیں دیتا کہ مزدور جتھہ بندی اور جماعت کی صورت میں سرمایہ داروں کو دبا کر اپنی طاقت قائم کریں اور نہ اسلام اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ سرمایہ دار جتھہ بندی اور جماعت کی صورت میں مزدوروں اور کام کرنے والوں کو نقصان پہنچائیں بلکہ وہ کہتاہے کہ غیرجانبدار شخص بیٹھیں اور انصاف کی رُو سے باہمی جھگڑوں کا تصفیہ کریں اور پھر دوسروں کا فرض ہے کہ اُسے قبول کریں۔ اسلامی خلافت اور نظام کے معنی ہی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو عقل اور فہم و فراست سے کام لے کر ایک امام منتخب کرنے کی تلقین کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر وہ دیانتداری سے اپنے امام کے انتخاب کی جدوجہد کریں گے تو وہ خود امام کا انتخاب کردے گا۔ اِسی وجہ سے خلافت کا انتخاب خداتعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے اور گو زبان بندوں کی ہوتی ہے مگر ارادہ اور منشاء خداتعالیٰ کا ہوتا ہے۔ جیسے قلم جب لکھتاہے تو دراصل قلم نہیں لکھتا بلکہ ہاتھ لکھتا ہے، ہاتھ بھی نہیں لکھتا بلکہ دماغ ہاتھ سے کام کراتا ہے اِسی طرح گو خلیفہ کا انتخاب بندوں کے ہاتھ سے ہوتا ہے مگر اُس کے پیچھے خداتعالیٰ کام کررہا ہوتا ہے اور گو زبان بندوں کی ہوتی ہے مگر دماغ پر خداتعالیٰ کا قبضہ ہوتا ہے اور اِس طرح حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی انتخاب کرتا ہے اور وہ بندوں کا نہیں بلکہ خدائی انتخاب کہلاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں تعطّل اور تعطیل کا سوال پیدا نہیں ہوسکتا۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان اصولوں پر اپنے تمام کاموں کوچلائیں جو اسلامی بنیاد اور عمارت کے ساتھ وابستگی اور مطابقت رکھیں۔ اگر ہم اس طریق کو اختیار نہیں کرتے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم اسلامی حکومت دنیا میں قائم کرنا نہیں چاہتے۔
میں دیکھتا ہوں کہ ہماری قادیان کی جماعت میں بعض دفعہ جھگڑے پیدا ہوتے ہیں، کہیں دُکانداروں کو شکوہ ہوجاتا ہے کہ ہمارے ریٹ کم ہیں، کہیں لوگوں کویہ شکایت پیدا ہوجاتی ہے کہ دُکانداروں کے ریٹ زیادہ ہیں۔ ابھی کَل مجھے دُکانداروں کے ایک حصہ کے متعلق معلوم ہؤاکہ اُس نے اِس لئے سٹرائک کردی کہ اُن کے ریٹ کم مقرر کئے گئے ہیں۔ اس وجہ سے میں پھر ایک دفعہ تمام جماعت کو بتادینا چاہتا ہوں کہ ہمارا طریق اسلامی ہے غیر اسلامی نہیں۔ اگر کسی کا حق ثابت ہے مگر دوسرا شخص اُسے نہیں دیتا تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ جس شخص کوحق نہیں ملتا خلیفہ اُس کے ساتھ ہے اور اگر اپنے حق کے حاصل کرنے کیلئے غیر اسلامی طریق اختیار کیا جائے گا توپھر خلیفہ اُس کا ساتھ نہ دے گا۔
خلیفہ خداتعالیٰ کا قائم مقام ہے وہ نہ مردوں کا ہے نہ عورتوں کا ، نہ چھوٹوں کا ہے نہ بڑوں کا، نہ مزدوروں کا ہے نہ سرمایہ داروں کا، وہ نہ مشرقی ہے نہ مغربی بلکہ اُس کا تعلق اُس ہستی کے ساتھ ہے جو سب سے بالا ہوکر ہر ایک کو ایک نظر سے دیکھ رہی ہے اِس لئے کوئی کسی کا حق خلافت کی موجودگی میں غصب نہیں کرسکتا۔ خواہ گاہک کا حق ہو یا دکاندار کا ، خواہ مزدور کا حق ہو خواہ سرمایہ دار کا، ہر ایک کے ساتھ عدل کیا جائے گا اور ہر ایک کو انصاف کے ساتھ اُس کا حق دلایا جائے گالیکن دیکھنا یہ پڑے گا کہ آیا عدل حاصل کرنے کیلئے وہی طریق اختیار کیا گیا ہے جو اسلامی ہے یا غیر اسلامی طریق اختیار کیا گیا ہے۔ جو شخص عدل حاصل کرنے کیلئے غیر اسلامی طریق اختیار کرے گا یقینا اُس سے کسی طرح نرمی نہیں کی جائے گی کیونکہ اس طرح ان امور میں بھی اسلامی حکومت کا قائم کرنا ناممکن ہوجاتا ہے جن امور میں اسلامی حکومت قائم کرنا ہمارے اختیار میں ہے۔ پس اِس بات کو اچھی طرح یاد رکھو اور چونکہ پچھلی باتیں ذہن سے اُترجاتی ہیں اِس لئے مَیں دُہرادیتا ہوںکہ ایسے لوگ جو اپنے حقوق کے حصول کیلئے غیراسلامی طریق اختیار کرتے ہیں وہ کسی نرمی اور رحم کے مستحق نہیں سمجھے جاسکتے کیونکہ وہ اسلامی حکومت کے قیام کو صدمہ پہنچاتے اور غیراسلامی طریق دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ پس اگر آئندہ میرے کانوں میں سٹرائک کی آواز آئے گی تو جماعت اُن سٹرائک کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی اور وہ کبھی اُن سے لین دین نہیں کرے گی۔ اسی طرح اگر سرمایہ داروں میں سے کوئی شخص کسی مزدور کا حق نہیں دے گا اور اسے دبائے رکھے گا تو اُسے بھی سخت سزا دی جائے گی۔ انصاف قائم کرنا ہمارا فرض ہے اور وہ خدا جو نہ مشرقی ہے نہ مغربی اُس کا قائم مقام ہونے کے لحاظ سے ہمارا فرض ہے کہ ہم کسی کو کسی کا حق چھیننے اور دبانے نہ دیں خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب۔ جب اسلام نے اپنے حقوق کے حصول کیلئے ایک طریق مقرر کیا ہؤاہے تو کیا وجہ ہے کہ اسے اختیار نہیں کیا جاتا۔ مثلاً اگر دُکانداروں کو شکایت پیدا ہوئی تھی تو اس کے ازالہ کے دو طریق تھے وہ محکمہ قضاء میں نالش کرسکتے تھے کہ ہمارے ریٹ بڑھائے جائیں اسلامی محکمہ قضاء کو سب اختیارات حاصل ہیں۔ جس وقت محکمہ قضاء میں نالش کردی جائے اور کہا جائے کہ ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم یہ ریٹ رکھیں حالانکہ یہ ریٹ کافی نہیں تو قاضی فوراً دوسرے فریق کو اگر وہ انجمن ہے تو انجمن کو اگر امورعامہ ہے تو امور عامہ کو بُلائے گا اور اُس سے جواب طلب کرے گا اور اگر وہ ثابت کردیں گے کہ ان کے ریٹ کم ہیں تو ان کے پہلے ریٹ منسوخ کئے جائیں گے اور جو جائز ریٹ ہوں گے وہ مقرر کئے جائیں گے اور اگر وہ اس طریق کو پسند نہیں کرتے تھے تو چونکہ یہ انتظامی معاملہ ہے اس لئے براہِ راست خلیفۂ وقت کے سامنے بھی درخواست پیش کی جاسکتی تھی۔ اسی طرح اگر پبلک کو شکایت ہو کہ دُکانداروں کے ریٹ زیادہ ہیں تو وہ انجمن کے پاس شکایت کرسکتے ہیں اور اگر انجمن دُکانداروں کیلئے ایک ریٹ مقرر کردیتی ہے مگر کوئی دُکاندار اس کی تعمیل نہیں کرتا تو بہ اجازت اس سے قطع تعلق کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر انجمن ایک فیصلہ کرتی ہے اور دُکاندار اُس پرراضی نہیں تو وہ اس کے خلاف اپیل کرسکتا ہے جو خلیفۂ وقت کے پاس بھی ہوسکتی ہے اور محکمہ قضاء میں بھی۔ یہ تمام رستے کھلے ہیں اور اِن کے ذریعہ ہر وہ شخص جو سمجھتاہے کہ اُس کاحق مارا جارہا ہے اپنا حق لے سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ان طریق کے خلاف چلتا اور دھمکی سے اپنی بات منوانا چاہتا ہے تو اسلام دھمکی کی روح کو کسی صورت میں پسند نہیں کرتا۔ مؤمن کے اندر تو اسلام وہ دلیری پیدا کردیتا ہے کہ وہ نہ بادشاہ کی دھمکی سے ڈرتا ہے نہ رعایا کی دھمکی سے مگر اس کے ساتھ ہی عدل اور انصاف کی آواز کے سامنے ہر مؤمن جھک جاتا ہے خواہ وہ عدل و انصاف کی آواز ایک ذلیل ترین آدمی کے منہ سے نکلے۔ اگر ایک بادشاہ کسی مؤمن سے کہتا ہے کہ ظلم کر تو اُس مؤمن کی چھاتی تن جانی چاہئے اور اُسے کہہ دینا چاہئے کہ میں ظلم کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں لیکن اگر زمین پر گِرا ہؤاایک اپاہج اور لُولا لنگڑا انسان جس کا منہ مکھیوں کی کثرت کی وجہ سے نظر بھی نہیں آتا تمہیں کہے کہ انصاف کرو تو تمہارا سر اُس کے سامنے جھک جانا چاہئے اور تمہیں کہنا چاہئے کہ سَمْعًا وَّ طَاعَۃً۔ یہ روح ہے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ بالکل مغربی روح کے خلاف ہے۔ مغرب جتھہ بندی کو طاقت دیتا ہے مگر اسلام انصاف کو طاقت دیتا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہمارے سارے کام اس کے مطابق ہوں اور ہر امر میں انصاف اور محبت کی روح ہم اپنے مدّنظر رکھیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک صحابی اپنا گھوڑا دوسرے صحابی کے پاس فروخت کرنے کیلئے لایا اور اُس کی قیمت مثلاً دو سَو روپیہ بتائی۔ دوسرے صحابی نے کہا کہ میں اس قیمت پر گھوڑانہیں لے سکتا کیونکہ اِس کی قیمت دُگنی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کوگھوڑوں کی قیمت سے واقفیت نہیں لیکن مالک نے زیادہ قیمت لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ جب میرا گھوڑا زیادہ قیمت کا نہیں تو میں کیوں زیادہ قیمت لوں اور اِس پر ان کی تکرار ہوتی رہی یہاں تک کہ ثالث کے ذریعہ سے انہوں نے فیصلہ کرایا۔ یہ اسلامی روح تھی جو ان دو صحابیوں نے دکھلائی۔
اسلا م کا حکم یہی ہے کہ ہر شخص بجائے اپنا حق لینے اور اس پر اصرار کرنے کے دوسرے کے حق کو دینے اور اُسے قائم کرنے کی کوشش کرے جس وقت یہ روح قائم ہوجائے اُس وقت ساری سٹرائکیں آپ ہی آپ بند ہوجاتی ہیں مگر کم سے کم نیکی یہ ہے کہ جب کسی کی طرف سے اپنے حق کا سوال پیدا ہو تو وہ حق اُسے دے دیا جائے۔ یہ غیر اسلامی روح ہے کہ چونکہ دوسرے کے حق پر ہم ایک لمبے عرصہ سے قائم ہیں اور اس حق کو اپنا حق سمجھنے کی ایک عادت ہمیں ہوگئی ہے اس لئے ہم دوسرے کو وہ حق نہیں دے سکتے۔ اسلامی روح یہ ہے کہ اگر کوئی دوسرے کا حق ہو اور یہ اس پر عرصہ سے قبضہ جمائے بیٹھا ہو تو اُس کے دل میں اور بھی ندامت پیداہونی چاہئے کہ میں نے اتنا عرصہ ناجائز طور پر دوسرے کے حق کو غصب کیا اور اس سے فائدہ اُٹھاتا رہا۔ یہ تعلیم ہے جو اسلامی تعلیم ہے اور یہی وہ روح ہے جس کے قیام کیلئے اسلامی حکومتوں کی ضرورت ہؤاکرتی ہے۔
میں نے بتایا ہے کہ ہماری حکومت اسلامی حکومت نہیں مگر خداتعالیٰ نے ہماری حکومت کو اتنا دل دیا ہے کہ اس نے بعض امور میں مختلف مذاہب والوں کو کہہ دیا ہے کہ جائو ان میں حسب منشاء فیصلہ کرلو۔ یہ بھی اس کا ایک احسان ہے اور ہم اس کی قدر کرتے ہیں گو اِسی کے بعض مقرر کردہ حُکّام اس کی اس اجازت کی قدر نہیں کرتے۔ ہم کہتے ہیں کہ حکومت نے جن امورمیں دخل دینے کی ضرورت نہیں سمجھی ان سے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور حکومت کا منشاء ہے کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ مگر وہ حُکّام لوگوں پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گو حکومت نے لوگوں کو اجازت دی ہوئی ہے کہ بعض امور میں وہ باہم فیصلہ کرلیا کریں مگر اس کا منشاء نہیں کہ لوگ اس طرح فیصلہ کریں۔ گویا وہ حکومت پر جھوٹ کا الزام عائد کرتے اور اُسے منافق ثابت کرتے ہیں مگر ہم حکومت کو جھوٹا نہیں سمجھتے اور نہ اس کی اس اجازت میں کسی نِفاق کا دخل سمجھتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ جب اس کی طرف سے ایک اجازت ہے تو واقعہ میں حکومت کا منشاء یہ ہے کہ لوگ بجائے سرکاری عدالتوں میںجانے کے بعض امور میں آپس میں سمجھوتہ کرلیا کریں مگر وہ حُکّام یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت یہ بات جھوٹ اورفریب سے کہہ رہی ہے۔ اصل میں اس کے دل میں یہ ارادہ نہیں ۔ پس وہ حکومت کو جھوٹا اور منافق ثابت کرتے ہیں مگر ہم اس کو سچا سمجھ کر اس کی اس اجازت کی قدر کرتے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
غرض جن امور میں حکومت نے اختیار دیا ہؤاہے ان امور میں ہمارا فرض ہے کہ ہم پورے طور پر اسلامی حکومت کا نقشہ قائم کردیں۔ اس میں جتنی غفلت لاعِلمی کی وجہ سے ہو وہ معاف کی جاسکتی ہے، جتنی غفلت انتظام کی دقّت کی وجہ سے ہو مثلاً سال دو سال کسی امر کا انتظام مکمل کرنے میں لگ جائیں تو اتنی تعویق معاف کی جاسکتی ہے مگر جن امور میں ہم اسلامی تعلیم کا احیاء کرسکتے ہیں اور پھر نہیں کرتے ان امور میں غفلت کسی صورت میں معاف نہیں کی جاسکتی اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہم پر انگریزی حکومت ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا کیا انگریزوں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ ان ان باتوں میں ہم دخل نہیں دیتے جس طرح چاہو کرو پس انگریزی حکومت تو بَری ہوچکی اُس نے کہہ دیا کہ بعض امور میں تمہیں اختیار حاصل ہے جس طرح چاہتے ہو اِن کافیصلہ کرو اس لئے وہ تمام باتیں جن میں حکومت کی طرف سے ہمیں اختیار حاصل ہے ان میں ہمیں اسلامی حکومت رائج کرنی پڑے گی۔ جو شخص احمدی رہنا چاہتا ہے اسے وہ حکومت قبول کرنی پڑے گی اور جو اس حکومت کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں وہ خداتعالیٰ کے حضور احمدی بھی نہیں کہلاسکتا۔ پس ایک دفعہ پھر مَیں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں کوئی ایسا طریق برداشت نہیں کرسکتا جو غیراسلامی ہو خواہ مزدوروں کی طرف سے ہو یا مالکوں کی طرف سے، گاہکوں کی طرف سے ہویا دُکانداروں کی طرف سے بلکہ اگر انہیں شکایت ہو تو وہ اسلامی طریق کے مطابق اس کے خلاف متعلقہ افسروں کے پاس درخواست کریں۔ مثلاً مالک اگر کام کرنے والے نوکروں کی غیرمعقول اُجرت مقرر کردیں اور کہہ دیں کہ اس سے زیادہ ہم ہرگز نہیں دیں گے تو اس حکم کے خلاف درخواست کی جاسکتی ہے یا اگر دُکاندار کو اپنی اشیاء کے نرخوں کی کمی کے متعلق شکایت ہو تو وہ بھی درخواست کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ جتھہ بازی کی صورت بنائیں گے اور دھمکی سے اپنی بات منوانے کی کوشش کریں گے تو خواہ وہ مزدور ہوں یا سرمایہ دار، دُکاندار ہوں یا گاہک، دونوں سزا کے مستحق ہوں گے۔
خلافت تو ایک محبت کارشتہ ہے اور جو شخص خلافت کو تسلیم کرتا ہے وہ اپنے قول و عمل سے اِس کابات کااقرار کرتا ہے کہ میں خلافت اور اس کے نظام پر اعتبار کرتا ہوں اور جب وہ اعتبار کرتا ہے تو اپنی حق تلفی یا کسی شکایت کے پیدا ہونے پر ہمارے پاس آتا کیوں نہیں اور اگر آنانہیں چاہتا تو معلوم ہؤا اُسے اعتبار نہیں اور اگر اُسے اعتبار نہیں تو پھر اُس نے بیعت کیوں کی تھی؟ جب اسلام میں حکومت اور خلافت جمع تھیں اُس وقت تو کوئی شخص کہہ سکتا تھا کہ مجھے خلافت پر تو اعتبار نہیں لیکن کیا کروں حکومت بھی تو اسلامی ہے مگر اب تو خلافت الگ ہے اور حکومت الگ اورجب بھی کوئی شخص بیعت کرتا ہے اپنی مرضی اور منشاء سے کرتاہے اور اس امر کا اظہار کرکے بیعت کرتا ہے کہ مجھے نظامِ سلسلہ پر اعتبار ہے۔ اِس صورت میں اُس کا فرض ہے کہ وہ نظامِ سلسلہ پر اعتبار کرتے ہوئے اُس کے سامنے اپنا معاملہ پیش کرے اور اگر وہ پیش نہیں کرتا تو معلوم ہوا اُسے اعتبار نہیں اور جب اُسے اعتبار نہیں تو اُس نے بیعت کیوں کی تھی۔ پس میں جماعت کو ایک دفعہ پھر نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر اسلامی طریق جاری کرے جس کے ذریعہ ہر حقدار کو اُس کا حق مل سکتا ہے غیر اسلامی طریق جاری نہ کرے جو نتائج کے لحاظ سے کسی صورت میںبھی جماعت کیلئے مفید نہیں ہوسکتے۔
قاضیوں کو بھی چاہئے کہ جب وہ قضاء کی کُرسی پر بیٹھے ہوئے ہوں اُس وقت وہ چھوٹوں اوربڑوں ، افسروں اور ماتحتوں، مزدوروں اور سرمایہ داروں، غریبوں اور امیروں، کمزوروں اور طاقتوروں کے تمام امتیازات کو مٹا کر بیٹھیں جس طرح خداتعالیٰ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِہے اور اس کی بادشاہت میں کسی کی حق تلفی نہیںہوسکتی اسی طرح وہ بھی جزاء و سزا کے مالک ہوتے ہیں انہیں بھی چاہئے کہ وہ خداتعالیٰ کی اس صفت کے انعکاس میں فیصلہ کرتے وقت کسی کی حق تلفی نہ ہونے دیں وہ قضاء کے وقت خلیفۃ اللہ ہوتے ہیں اور اُس وقت اُن کے دل پر کسی قسم کا اثر نہیں ہونا چاہئے بلکہ اُن کا دل ایسا ہی غیر کے اثرات سے منزّہ ہونا چاہئے جیسے خداتعالیٰ کا عرش ہوتا ہے اور اگر وہ اس کونبھا نہیں سکتے تو پھر قضا کاہر فیصلہ قیامت کے دن ان کے گلے میں *** کا طَوق بن کر پڑے گا۔ قضاء کوئی کھیل نہیں، تماشا نہیں بلکہ بہت بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔
ایک مشہور بزرگ جن کی آدھی اسلامی دنیا تابع ہے انہوں نے قضاء کی وجہ سے ہی بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھائی میری مراد اس سے حضرت امام ابوحنیفہؒ ہیں۔ انہیں بادشاہ نے قاضی مقرر کیا مگر انہوں نے کہا میں اس کا اہل نہیں کسی اور کو قاضی بنادیا جائے۔ بادشاہ نے زو رلگایا مگر وہ انکار کرتے چلے گئے آخر اُس نے انہیں جیل خانہ میں ڈال دیا وہاں انہیں مارا گیا، پیٹا گیا اور اتنی تکلیفیں پہنچائی گئیں کہ ان کی صحت بِگڑ گئی اور آخر فوت ہوگئے مگر انہوں نے قضاء کا عہدہ قبول نہ کیا۔
ایک اور بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ انہیں قاضی القضاۃیعنی ہائی کورٹ کا چیف جج مقرر کیا گیا۔ دوست انہیں مبارکباد دینے آئے تو دیکھا کہ وہ رورہے ہیں۔ کسی نے کہا کہ یہ کیا؟ ہم تو آپ کو مبارکباد دینے آئے تھے۔ وہ کہنے لگے مبارکباد کیسی؟ انہوں نے کہا مبارک باد اِس بات کی کہ آپ حکومت کی طرف سے قاضی القضاۃ مقرر ہوئے ہیں۔ وہ کہنے لگے یہ مبارکباد دینے کی کون سی بات ہے اس میں تو تمہیں مجھ سے ہمدردی کرنی چاہئے۔ ان کے دوست اس بات کونہ سمجھے تو انہوں نے کہا دیکھو! دو شخص لڑتے ہوئے میرے پاس آئیں گے فرض کروایک شخص کہے گا اس نے میرے سَو روپے دینے ہیں مگر دیتا نہیں دوسرا کہے گا کہ میں نے اس کے کوئی روپے نہیں دینے۔ اب جو کہتا ہے کہ اس نے میرے سَوروپے دینے ہیں وہ بھی جانتا ہے کہ اُس نے روپے دینے ہیں یا نہیں اورجو کہتا ہے کہ میں نے روپے نہیں دینے وہ بھی جانتا ہے کہ اُس نے روپے دینے ہیں یا دے دیئے ہیں مگر میں ان کا فیصلہ کرنے بیٹھوں گا حالانکہ نہ مجھے یہ پتہ ہوگا کہ اس نے روپے دینے ہیں یا نہیں اور نہ یہ پتہ ہوگا کہ دوسرے نے روپے لینے ہیں یا نہیں گویا میں دو سوجاکھوں میںاندھا ہوں گا۔ وہ دونوں جانتے ہوں گے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا اور مجھے نہ یہ پتہ ہوگا کہ سچ کیا ہے اور نہ یہ پتہ ہوگا کہ جھوٹ کیا؟ لیکن فیصلہ میں کروں گا۔ تو قضاء کا عہدہ معمولی عہدہ نہیں۔ اگر کوئی شخص سچے دل سے قضاء کے فرائض سرانجام دیتا ہے تو وہ خداتعالیٰ کے عظیم الشان فضلوں کا وارث ہوجاتا ہے کیونکہ دنیا میں انصاف قائم کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ جس شخص کو قضاء کاعہدہ ملتا ہے اُس کیلئے فوراً دو کھڑکیاں کھل جاتی ہیں ایک جہنم کی طرف سے اور ایک جنت کی طرف سے اور اس کے یہ اپنے اختیار میں ہوتا ہے کہ چاہے تو وہ جہنم میں چلاجائے اور چاہے تو جنت کا وارث بن جائے۔ اگر وہ انصاف سے کام نہیں لیتا، بڑوں کی رعایت کرتا ہے، جلدی جوش میںآجاتا ہے اور حقیقت معلوم کرنے کی پوری کوشش نہیں کرتا تو جہنم اس کے قریب ہوجاتی ہے اور اگروہ انصاف سے کام لیتا ہے، بڑوں کالحاظ نہیں کرتا، چھوٹوں کی حق تلفی نہیں کرتا اور جلدبازی سے کام نہیں لیتا بلکہ پورا غور کرنے کے بعد فیصلہ کرتا ہے تو جنت اُس کے قریب ہوجاتی ہے اور باوجود اَور ہزاروں قسم کی کمزوریوں کے وہ جنت کا مستحق سمجھا جاتا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہوجاتا ہے۔
پس میں قاضیوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دلیر ، منصف اور عادل بننے کی کوشش کریں اور کسی انسان سے نہ ڈریں بلکہ خداتعالیٰ سے ڈریں۔ قاضی ہونے کی صورت میں ان کا تعلق براہِ راست خداتعالیٰ سے ہوجاتا ہے اور کوئی علاقہ درمیان میں نہیں ہوتا۔ پس انہیں صرف خداتعالیٰ کی ذات پر اپنی نگاہ رکھنی چاہئے اور اگر دنیا کے سارے افسر، دنیا کے سارے حُکّام اور دنیا کے سارے بادشاہ مل کر بھی ان کے مخالف ہوجائیں تو وہ وہی کریں جو انصاف ہو اور کسی کا ڈر اپنے دل میں پیدانہ ہونے دیں مگر یہ شرط ہے کہ وہ قانون کے اندر رہتے ہوئے انصاف کریں۔ اگر قانون میں کوئی نقص ہے تو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پرہے جنہوں نے قانون بنایا قاضیوں پر نہیں۔ پس انہیں اِس بات کی اجازت نہیں کہ قانون توڑیں بلکہ قانون کے اندر رہتے ہوئے وہ انصاف کریں اور ہر حق دار کو اس کا حق دلانے کی کوشش کریں۔
دوسری طرف میں جماعت کے احباب کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ اس میں سے جو لوگ اپنے گھروں میں ملازم رکھتے ہیں وہ ملازموں کی اورجو گاہک ہیں وہ دُکانداروں کی مشکلات سمجھیں۔ دیانت ہمارے مُلک سے بہت حد تک اُٹھ چکی ہے اور ہر ایک چاہتا ہے کہ وہ دوسرے کو جس حد تک ممکن ہو لُوٹے اورنقصان پہنچائے۔ افسر اور مالک جو نوکر رکھتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ان کے نوکر تو دیانتداری سے کام کریں لیکن وہ خود دیانتداری سے ان کا حق ادا کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ا سی طرح ملازم چاہتے ہیں کہ انہیںتنخواہ مل جائے لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ کام بھی دیانتداری سے ہوا ہے یا نہیں۔ گویا دونوں ایک دوسرے کا خون چوسنے کی کوشش کررہے ہیں ان حالات میں اگر امن ہو تو کس طرح ہو۔ امن تبھی قائم ہوسکتا ہے جب دونوں اپنے اپنے فرائض کو سمجھیں۔ جو لوگ نوکر نہیں رکھ سکتے وہ نہ رکھیں کیونکہ خداتعالیٰ نے انہیں خود کام کرنے کی توفیق دی ہوئی ہے لیکن اگر کوئی نوکر رکھتا ہے تو اُس کا فرض ہے کہ اس سے انصاف اور حُسنِ سلوک کرے۔
اسی طرح جب کوئی دُکان سے سَودا لینا چاہے تو اس کا فرض ہے کہ جو جائز قیمت وہ مانگے اُسے دے اور اس کی حق تلفی کرنے کی کوشش نہ کرے اور دُکاندار کا فرض ہے کہ وہ صاف اور سُتھری چیز پیش کرے اور جو جائز قیمت ہو وہ وصول کرے۔ مگر اب دونوں طرف سے ظلم ہوتا ہے گاہگ چاہتے ہیں کہ دُکاندار کم قیمت وصول کریں اور دُکاندار اس کا علاج یہ سوچتے ہیں کہ وہ ناقص اور گندی چیزیں کم قیمت پر گاہکوں کو دے دیتے ہیں۔ میں تو سَودا لینے نہیں جاتا لیکن چونکہ سَودے ہمارے گھروں میںآتے رہتے ہیں اس لئے میں کہہ سکتا ہوں کہ سَودوں میں دیانت سے کام نہیں لیا جاتا۔ میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ آٹے میں بِالعموم مٹی ملی ہوئی ہوتی ہے پھر مصری میں بھی بہت کچھ میل اورگند ہوتا ہے یہ دو چیزیں تو ایسی ہیں جو فوراً نظر آجاتی ہیں۔ چنانچہ مصری کے ہر چمچہ میںانسان اگر آنکھیں کھول کردیکھے تو اسے بہت سی مٹی ملی ہوئی دکھائی دے گی جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ محض وزن زیادہ کرنے کیلئے مصری میںمٹی ملالی جاتی ہے۔ اسی طرح آٹے میں ریت اور مٹی ہوتی ہے دانت کے نیچے آٹے کو ذرا چبا کردیکھو فوراً اس میں سے کِر کِر کی آواز آنے لگے گی۔ عام طور پر لوگ ہمارے ملک میں اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے حالانکہ اگر وہ صرف لُقمہ کو چبا چبا کر کھانے کی عادت رکھتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ وہ آٹا نہیں کھارہے بلکہ گند کھارہے ہیں۔ نو ّے فیصدی آٹا ایسا ہوتا ہے جس میں کِرک ہوتی ہے ذرا اسے دانتوں کے نیچے دبائو کِرکِر کی آواز آنے لگ جائے گی اور یہ صحت کیلئے نہایت ہی مضِرّ ہوتا ہے۔ علاوہ اس کے یہ دھوکا بازی بھی ہے کہ دُکاندار قیمت خالص آٹا کی وصول کرتے ہیں اور آٹا وہ دیتے ہیں جس میں ریت اور مٹی ملی ہوئی ہوتی ہے۔ بددیانتی صرف اس کانام نہیں کہ تم کسی کاناحق روپیہ لے لیتے ہو بلکہ بددیانتی اس کا بھی نام ہے کہ تم کسی کی کوڑی اُٹھالیتے ہو۔ اسی طرح بددیانتی صرف اسی کا نام نہیں کہ تم ۹۵ فیصدی آٹا اور ۵فیصدی مٹی ملا کر دو بلکہ اگر تم اٹھانویں فیصدی آٹا اور دو فیصدی مٹی ملاتے ہو یا ننانویں فیصدی آٹا اور ایک فیصدی مٹی ملاتے ہو، یا ساڑھے ننانوے فیصدی آٹا اور نصف فیصدی مٹی ملاتے ہو بلکہ اگر تم ۹۹۹ حصے آٹا اور ہزارواں حصہ مٹی ملاتے ہو تو وہ بھی ویسی ہی بددیانتی اور گندی عادت ہے جیسے ۵فیصدی مٹی ملانا۔ نیکی اوربدی دل سے تعلق رکھتی ہے جس طرح اگر کوئی شخص خداتعالیٰ کی راہ میں اخلاص سے ایک پیسہ دیتا اور وہ یہ امید رکھتا ہے کہ یہ ایک پیسہ امیر آدمی کے ایک لاکھ روپیہ سے کم نہ سمجھاجائے اور وہ اخلاص سے ایک پیسہ دے کر سمجھتا ہے کہ اُس نے لاکھ روپیہ دینے والے جیسی قربانی کی اور اِسی طرح اگر کوئی شخص پانچ فیصدی ٹھگی کرتا ہے تو وہ بھی ٹھگ ہے اور جو ہزارواں حصہ کی ٹھگی کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی ٹھگ ہے۔ جس طرح نیکی کی جزاء نیت پر ہے اسی طرح بدی کی سزا بھی نیت پر ہے۔ جس طرح خداتعالیٰ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی راہ میں ایک غریب شخص نے اخلاص سے ایک پیسہ دیا اور دوسرے امیر نے ایک لاکھ روپیہ دیا بلکہ وہ اخلاص دیکھتا اور اس کے مطابق جزاء دیتا ہے اسی طرح خداتعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ ایک نے پانچ فیصدی ٹھگی کی اور دوسرے نے آدھ فیصدی بلکہ وہ کہے گا کہ دونوں نے ٹھگی کی۔ پانچ فیصدی ٹھگی کرنے والے نے بھی ٹھگی کی اور ہزارواں حصہ ٹھگی کرنے والے نے بھی ٹھگی کی۔ تقدّس اور نجاست کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور جس طرح زیادہ نیکی بھی نیکی اور تھوڑی نیکی بھی نیکی سمجھی جاتی ہے اسی طرح زیادہ بدی بھی بدی اور تھوڑی بدی بھی بدی سمجھی جاتی ہے۔ ممکن ہے یہاں کے دُکاندار خود اِس قسم کی حرکات نہ کرتے ہوں اور باہر سے بے احتیاطی سے اسی قسم کا ناقص مال لاتے ہوں لیکن اس صورت میں بھی وہ بری نہیں ہوسکتے کیونکہ اگر کوئی شخص جاتا ہے اور رہٹ والے سے گندہ آٹا لاتا ہے تو یہ اسی کا قصور ہے۔ اگر گندہ آٹا تھا تو یہ کیوں لایا۔ اسے چاہئے تھا نہ لاتا اور اگر یہ ناقص مال سمجھ کر سَستا لے آیا ہے تو معلوم ہؤاکہ یہ بِلا واسطہ فائدہ اُٹھاتا ہے۔ مثلاً دوسری جگہ سے اچھا آٹا خریدتا تو اس کے ایک سَو ایک روپے خرچ ہوتے لیکن جس رہٹ والے سے اس نے خریدا اسے سَو روپے دینے پڑے تو اس صورت میں بھی یہ ٹھگ ہے کیونکہ یہ دوسرے کی ٹھگی میں شریک ہوتا ہے۔ پس اگر اس قسم کی ٹھگی یہ خود نہیں کرتا بلکہ باہر سے ناقص سَودا لاتا اور بیچتا ہے تو بھی یہ ویسا ہی ٹھگ ہے جیسے اپنے ہاتھ سے آٹے میں مٹی ملانے والا۔ ولایت میں کئی چور ایسے ہیں جو یتیم بچوں کی پرورش کرتے اور پھر ان کے ذریعہ چوریاں کرواتے ہیں۔ کیا تم سمجھتے ہو وہ یتیم بچوں کے ذریعہ چوریاں کروانے کی وجہ سے کم چور ہیں اور اگر خود چوری کرتے تو زیادہ چور ثابت ہوتے؟ وہ ویسے ہی چور ہیں جیسے اپنے ہاتھ سے چوریاں کرنے والے۔ اسی طرح جب تم رہٹ والے سے ناقص آٹا لاتے اور یہ سمجھتے ہو کہ وہ خراب ہے تو تم بھی ویسے ہی مُجرم ہو جیسے اپنے ہاتھ سے آٹے میں مٹی یا ریت ملانے والا۔ جب تم امرتسر کی منڈی سے مصری اور آٹا وغیرہ خرید کرلاتے ہو تو کیا وجہ ہے تمہیں وہ مٹی کے دانے نظر نہیں آتے جو ہمیں نظر آتے ہیں۔ آخر خراب سَودا لانے کی یہی وجہ ہے کہ وہ تمہیں سَستا مل جاتا ہے پھر تم کیوں ویسے ہی فریبی نہیں جیسے وہ جو اپنے ہاتھ سے مصری اور آٹا مٹی ڈال کرخراب کرتے ہیں۔ کئی لوگ بظاہر دیانتدار بھی ہوتے ہیں اور وہ مٹی نہیں ملاتے لیکن جب گیہوں کو صاف کرنے کیلئے زمین پرپھیلاتے ہیں تو پھر انہیں سمیٹتے وقت جب جھاڑو دیں گے تو پائو یا سیر کے قریب اس میں مٹی بھی ملادیں گے اور اپنی طرف سے یہ سمجھیں گے کہ ہم تو بڑے دیانتدار ہیں مگر وہ بھی دیانتدار نہیں کیونکہ وہ ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں لوگوں سے دھوکا اور فریب ہوجاتا ہے۔ پس میں دونوں فریق کو نصیحت کرتاہوں کہ وہ اسلامی طریق اختیار کریں۔ خریداروں کو بھی چاہئے کہ وہ دھوکا سے دُکانداروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں اور دُکانداروں کو بھی چاہئے کہ وہ گاہکوں کو فریب سے گندی چیزیں نہ دیں۔ اسی طرح نوکروں کو بھی چاہئے کہ وہ دیانتداری سے اپنے فرائض ادا کریں اور نوکررکھنے والوں کو بھی چاہئے کہ وہ ان سے ناجائز سختی نہ کریں اور نہ ان کے حقوق تلف کریں۔ اور اگر تم دیانتداری اختیار کرو تو یقینا اس سے تمہیں نقصان نہیں ہوگا بلکہ اس کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ ہمارے مُلک کا عام اخلاقی معیار بہت بلند ہوجائے گا اور دین کواس ذریعہ سے جومدد پہنچے گی وہ مزید برآں ہے۔ پس گزشتہ واقعہ کے متعلق میں دُکانداروں کے اُس حصہ کوجس نے سٹرائک کی، تنبیہہ کرتا ہوں اور آئندہ کیلئے انہیں بتادیتا ہوں کہ ہم اِس قسم کی حرکت برداشت نہیں کرسکتے۔ ہمارا طریق اسلامی ہے او رہم اسلامی طریق ہی دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں لاکھوں آدمیوں کی ضرورت نہیں بلکہ اخلاص ، محبت اور دین پر عمل کرنے والے آدمیوں کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنا سب کچھ اسلام کیلئے قربان کردینا اپنے لئے باعثِ فخر سمجھیں اور اگر اِس روح کے رکھنے والے دس آدمی بھی ہوں تو یقینا ان دس آدمیوں کے ذریعہ ہی دنیا فتح ہوگی اور کوئی طاقت ان کی فتح میں روک بن کر حائل نہیں ہوسکے گی۔ وہ لاکھوں آدمی ہمیں کام نہیں دے سکتے جو اسلامی زندگی کو اختیار کرنے اور اس کے مطابق اپنے جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کیلئے تیار نہیں بلکہ اخلاص رکھنے اور اسلام کے مطابق اپنی عملی زندگیاں بنانے والے آدمی ہمیں کام دے سکتے ہیں۔ اگر آدمیوں کی کثرت اسلام کو غلبہ دے سکتی تو کروڑوں مسلمان کہلانے والے دنیا میں موجود تھے وہ کیوں اسلام کو دنیا پر غالب نہ کردیتے۔ مگر خداتعالیٰ نے ان کو چھوڑ کر ایک چھوٹی سی جماعت کو اس لئے دوبارہ دنیا میں کھڑا کیا ہے تا کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً ؎۱ کا نشان دنیا پرظاہر کرے اور بتائے کہ کئی چھوٹی جماعتیں ہوتی ہیں مگر خداتعالیٰ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ بڑی بڑی جماعتوں کو مغلوب کرلیتی ہیں۔
(الفضل ۱۸ ؍ مارچ ۱۹۳۶ئ)
؎۱ البقرۃ: ۲۵۰


۹
آئو ہم پھر خداتعالیٰ کے حضور چِلاّئیں اور اپنے
آنسوئوں سے اپنی سجدہ گاہ کو تر کردیں
(فرمودہ ۲۰؍ مار چ ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں اپنے گزشتہ خطبات میں اس امر کا ذکرکرچکا ہوں کہ نہ تو وہ مخالفت ہمارے رستہ سے پوری طرح ہٹی ہے جو سلسلہ احمدیہ کو نقصان پہنچانے کیلئے بعض دشمنانِ سلسلہ کی سازش سے شروع کی گئی تھی اور نہ ایسے حالات ہی پیدا ہوئے ہیں کہ جن کے ماتحت ہم یہ کہہ سکیں کہ قریب عرصہ میں وہ مخالفتیں خود بخود دب جائیں گی یا بیٹھ جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشان بے شک ظاہر ہوئے ہیں اور اس کی تائید ہمیں حاصل ہوئی ہے مگر وہ ایسی صورت میں ہے کہ ابھی دشمن اس سے مرعوب نہیں ہؤا گویا وہ پہلی رات کا چاندہے جسے تیز نظر والوں نے تو دیکھ لیا مگر کمزور نظر والے ابھی محروم ہیں۔روحانی آنکھ کو تو وہ تائید و نصرت نظر آرہی ہے مگر جن کی روحانیت مُردہ ہے انہیں وہ تائید و نصرت نظر نہیں آرہی اس لئے اس سے عبرت پکڑنے کیلئے وہ ابھی تیارنہیں ہیں اور فائدہ اُٹھانے کیلئے آمادہ نظر نہیں آتے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان تمام سامانوں کو اور ان تمام ذرائع کو اور ان تمام تدابیرکو اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی کیلئے اور اس کے مخالفوں کی شرارتوں کو دور کرنے کیلئے عطا فرمائی ہیں اور اپنی طرف سے جدوجہد، سعی اور کوشش میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ آنے دیں کیونکہ روحانی سلسلوں کے تمام امور کی بنیاد دو ہی چیزوں پر ہوتی ہے ایک طرف بندے کی انتہائی کوشش اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا انتہائی فضل۔ روحانی سلسلے چونکہ کمزور جماعتوں سے چلائے جاتے ہیں ، ان کے افراد بہت تھوڑے ہوتے ہیں، ان کے پاس سامان نہایت ہی کم ہوتا ہے، دُنیوی طور پر ان سامانوں اور ان افراد سے کامیابی کا منہ دیکھنا مشکل ہوتا ہے اس لئے جو کمی اس کوشش او رسامانوں کی قِلّت اور افراد کی کمی کی وجہ سے رہ جاتی ہے اسے اللہ تعالیٰ کا فضل پورا کردیتا ہے۔
پس یہ دو چیزیں مل کر ہمیشہ روحانی جماعتوں کی کامیابی کا موجب ہوتی ہیں اور یہی ہماری کامیابی کا موجب ہوسکتی ہیں۔ ایک طرف خداتعالیٰ کاہم سے تقاضا ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ اُس کے قدموں میں لا ڈالیں اور اُس کے دین کیلئے قربان کردیں اور دوسری طرف اُس کاوعدہ ہے کہ باقی کمی وہ اپنے فضل سے پوری کردے گا۔ خداتعالیٰ تو وعدوں کا سچا ہے اس کی کوئی بات غلط نہیں ہوسکتی۔ پس اگر کوئی نقص ہو اور نتائج صحیح نہ نکلیں، اگر کامیابی کے آنے میں دیر لگے تو قطعی طور پر ایک ہی نتیجہ اِس سے نکل سکتا ہے کہ جس حد تک ہم سعی کرسکتے تھے اُس حد تک ہم نے سعی نہیں کی۔ اگر خدانخواسہ ہمیں ناکامی حاصل ہو تو سوائے تین باتوں کے کوئی چوتھی بات نہیں ہوسکتی۔ یا تو یہ کہ ہم نے اپنا فرض اد اکرنے میں کوتاہی کی یا یہ کہ خداتعالیٰ نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں کوتاہی کی اور یا یہ کہ جس سلسلہ کو ہم روحانی سمجھتے تھے وہ روحانی نہیں تھا بلکہ دُنیوی تھاخداتعالیٰ کی طرف سے اُس کی نصرت کاکوئی وعدہ نہ تھا۔ پس یہ تین پہلو ہی اس کی ناکامی کے ہوسکتے ہیں چوتھا کوئی نہیں۔
اوّل یہ کہ یہ سلسلہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے اس میں تو ہمارے لئے کسی شک کی گنجائش ہی نہیں۔
دوم یہ کہ خداتعالیٰ اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح اد اکرنے والا ہے اس میں بھی ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا۔ پس اگر کوئی بات باقی رہ جاتی ہے تو یہی کہ کوتاہی ہم سے ہوئی ہے اور ہماری غلطیوں سے کامیابی میں دیر ہوگئی اور مخالفتوں میں ترقی ہوگئی۔
پس ہمارا فرض ہے کہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اور اپنے فرائض کو یاد رکھتے ہوئے ان تمام تدابیر کو اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ نے اسلام اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ترقی کیلئے فرمائی ہیں اور جیسا کہ میں نے بتایا تھا ان میں سے بہت بڑی تدبیر دعا اور انابت الی اللہ کی ہے۔ دُنیوی سامان اور دُنیوی تدابیر جہاں جاکر رہ جاتی ہیں، جہاں پہنچ کر وہ بیکار ثابت ہوتی ہیں، جہاں وہ بعض وقت مضحکہ خیز بن جاتی ہیں وہاں صرف دعا ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جو آسمان سے فرشتوں کی فوج لے آتا ہے اور زمینی روکوں کو دور کرکے شرارت کو ملیامیٹ کردیتا ہے۔ میںنے بتایا ہے کہ بعض دفعہ ظاہری تدابیر مضحکہ خیز نظر آتی ہیں اس سے میری مراد یہ ہے کہ الٰہی سلسلوں کے افراد کے پاس جو سامان ہوتا ہے وہ نہایت قلیل او رکام نہایت عظیم الشان ہوتا ہے ۔ ظاہر بین نگاہ میں وہ تدابیر اور سامان ہیچ ہوتے ہیں اور کام کے مقابلہ میں ان کی کوئی حقیقت معلوم نہیں ہوتی۔ دیکھنے والا ظاہربین خیال کرتا ہے کہ یہ لوگ حماقت کی بات کررہے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح کہتے ہیں کہ ایک پرندہ رات کو لاتیں آسمان کی طرف کرکے سوتا ہے کہا جاتا ہے کہ جب دوسرے پرندوں نے اُس سے دریافت کیا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ تو اُس نے کہا شاید رات کو جب ساری دنیا سوئی ہوئی ہوتی ہے آسمان گِر پڑے میں لاتیں اِس لئے اوپر کرتا ہوں کہ اُسے سہارا دے کر روک لوں تا دنیا نیچے آکر تباہ نہ ہوجائے۔ یہ ایک مثال بنائی گئی ہے اسی قسم کی مضحکہ خیز صورتوں میں جیسی میں نے بیان کی ہے۔ جب کام بہت بڑا ہو، طاقت بہت کم ہو اور بوجھ بہت زیادہ اُس وقت جو تھوڑی سی طاقت والابڑا بوجھ اُٹھانے کو تیار ہوجاتا ہے دنیا کی نظر میں اُس کی یہ حرکت مضحکہ خیز ہوتی ہے لیکن جس وقت کوئی ایسا انسان جس کے پیچھے ایمان، قربانی اور ایثار کی روح کام کررہی ہو اپنی طاقت سے بہت زیادہ بوجھ اُٹھانے کیلئے آگے بڑھتا ہے تو وہ نظّارہ ایک سمجھ دار انسان کیلئے رقّت انگیز ہوتا ہے مضحکہ خیز نہیں ہوتا۔ ایک مجنون اور پاگل، احمق اور بیوقوف جب وہی کام کرتاہے تووہ مضحکہ خیز ہوتا ہے لیکن جب مؤمن بہادر اور جری مؤمن خداتعالیٰ کے نام پر ہر چیز قربان کردینے کا ارادہ رکھنے والا مؤمن آگے بڑھتا ہے تو دیکھنے والوں کوہنسی نہیں آتی بلکہ ان کے دل درد سے پُر ہوجاتے اورآنکھیں آنسوئوں سے بھر جاتی ہیں۔
بدر کے موقع پر ایک ہزار تجربہ کار سپاہی جن پرعرب کی قوم کو فخر تھا، جن پر مکہ کے لوگ ناز کرتے تھے، جن کوقریش کا قیمتی سرمایہ کہا جاتاتھا، جو صنادیدِ عرب کہلاتے تھے، جو اہلِ عرب کی بڑی سے بڑی مجلسوں میں مسند پر بیٹھنے والے تھے، تجربہ کار اور پورے سازوسامان کے ساتھ اِس ارادہ سے آئے کہ محمد ﷺ اور اس کے صحابہ کو آج ان کے بلند و بالا دعاوی کی وجہ سے پوری طرح سزا دے کر جائیں گے۔ جس وقت اُن کے مقابلہ میں وہ ۳۱۳ لوگ جن میں سے بعض تلوار چلانا بھی نہ جانتے تھے، کئی ایسے تھے جن کے پاس تلواریں تھی ہی نہیں ، جن میں سے اکثر کے پاس سواریاں بھی نہ تھیں، کھڑے ہوئے تو ظاہری نگاہ میں اُن کا یہ فعل مضحکہ خیز تھا اور کہنے والوں نے کہہ بھی دیا کہ جائو اپنے گھروں کو چلے جائو تم ہمارے بھائی ہو اور ہم اپنے بھائیوں کے خون سے زمین کو رنگنا نہیں چاہتے لیکن دوسری طرف ان تیز نظرلوگوں نے جو گو اسلام سے محروم تھے مگر ظاہری عقل سے حصہ وافر رکھتے تھے اندازہ کرلیا تھا کہ یہ معمولی لوگ نہیں ہیں۔ اہلِ عرب نے اپنے ایک تجربہ کار جرنیل کو اسلامی سپاہ کا جائزہ لینے کیلئے بھیجا اُس نے واپس آکر اُن کو جو جواب دیا وہ بتاتا ہے کہ وہ شخص بہت گہری نظر والاتھا اُس نے آکر کہا کہ آدمی تو ان کے تین سَو کے لگ بھگ ہیں لیکن اے قوم کے سردارو! میں تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ ان سے لڑائی نہ کرو کیونکہ میںنے گھوڑوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں ؎۱ ۔ مجھے ان کے چہروں سے نظر آتا ہے کہ یا تو وہ ہمارے خون سے آج اِس میدان کو رنگ دیں گے اور یا ایک ایک کرکے محمد (ﷺ) پر جان دے دیں گے۔ اگر تم ہر گھر میں ماتم بپا دیکھنا نہیں چاہتے تو آج واپس چلے جائو ورنہ یہ خیال مت کرو کہ مسلمان پیٹھ دکھا کر بھاگ جائیں گے۔
یہ مقابلہ بھی ایک ظاہربین نگاہ کیلئے اُسی طرح مضحکہ خیز تھا جیسے اُحد کا ، اُس دن منافقوں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھاکہ اگر ہم جانتے کہ لڑائی ہوگی تو ضرور جاتے مگر یہ تو صریحاً بیوقوفی کی بات تھی۔ کُجا مکّہ کے تجربہ کار اور بہادر اورکُجا یہ تھوڑے سے سپاہی۔ بدر کی جنگ دنیا داروں کی نگاہ میں اس سے بھی زیادہ غیرمساوی مقابلہ کی تھی اور اس لئے اُن کی نگاہ میں مضحکہ خیز لیکن اُس دن بھی واقعات نے بتادیا کہ انسانی تدابیر جہاں جاکر رہ جاتی ہیں وہاں الٰہی نصرت غیرمعمولی سامان کامیابیوں کے پید اکردیتی ہے۔ مکّہ والوں نے جلدی کرکے اُس جگہ پر قابو پالیا جو اُن کے نزدیک لڑائی کیلئے زیادہ مفید ہوسکتی تھی۔ وہ زمین مضبوط تھی جس پر پائوں زیادہ مضبوطی سے رکھا جاسکتا تھا مگر مسلمانوں کیلئے جو جگہ خالی تھی وہ ریتلی تھی جس میں عام حالات میں قدم جمانا مشکل تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کردیئے جنہوں نے حالات کوبالکل بدل دیا۔ بادل برسے جس سے سخت زمین پھِسلنی ہوگئی اور ریتلی جگہ ٹھوس بن گئی۔ وہی زمین جو دھوپ میں سخت اور آرام دہ تھی بارش کے بعد پھِسلنی ہوگئی اور ریتلی بارش کے بعد مضبوط ہوگئی پھر اُدھر سے اللہ تعالیٰ نے آندھی چلادی جس طرف مسلمانوں کی پیٹھیں تھیں اِس وجہ سے گردو غبار اور کنکرکفار کی آنکھوں میں پڑتے تھے اور ان کے زور سے چلائے ہوئے تِیر بھی مسلمانوں تک نہ پہنچتے تھے مگر مسلمانوں کا کمزور سے کمزور تِیر بھی ان تک جا پہنچتا تھا۔ مسلمان دشمن کو دیکھتے تھے مگر وہ انہیں بوجہ آنکھوں میں گردوغُبار پڑنے کے اچھی طرح نہ دیکھ سکتے تھے۔ یہ سب سامان اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ورنہ نہ بادل انسان کے اختیار میں ہیں اورنہ ہوائیں بندہ کے قبضہ میں۔
اسی طرح جنگِ احزاب کے موقع پر جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے منافق مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے تھے کہ یہ مسلمان تو کہا کرتے تھے کہ دنیا کی بادشاہت ہمیں مل جائے گی آج ان کی عورتوں کیلئے پاخانہ پھرنے کی جگہ بھی نہیں رہی۔ کہاں گئے ان کے وہ دعاوی ۔ اس جنگ میں دس ہزار کفّار کا لشکر مسلمانوں کے مقابل پر تھا اور سارے عرب قبائل جمع ہوکر آئے تھے اُدھر یہودیوں نے مدینہ میں بغاوت کردی تھی اُس وقت سوائے اس کے کہ مسلمان خندق بنالیتے ان کے بچائو کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ چنانچہ حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ خندق کھودیں اور جب وہ خندق کھود رہے تھے تو ایک پتھر ایسا آیا جو ٹوٹنے میں نہ آتا تھا۔ رسول کریم ﷺ کو اطلاع دی گئی آپ وہاں تشریف لائے اورجب زور سے کدال مارا تو پتھر میں سے آگ نکلی اور آپ نے زور سے نعرہ تکبیر بلندکیا صحابہ نے بھی نعرہ لگایا۔ پھر کدال مارا تو پھر آگ نکلی اور آپ نے پھر نعرئہ تکبیر بلند کیا اور صحابہ نے بھی آپ کی تقلید کی۔ تیسری دفعہ کدال مارا تو پھر آگ نکلی اور آپ نے پھر زور سے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا اور صحابہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ جب وہ پتھر ٹُوٹ گیا تو آپ نے صحابہ سے دریافت کیا کہ تم نے نعرے کیوں لگائے ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ آپ نے لگائے تھے ا س لئے ہم نے بھی لگائے۔ آپ نے فرمایا ہاں میںنے تین بار نعرہ تکبیر بلند کیا جس کی وجہ یہ تھی کہ جب پہلی دفعہ پتھر میں سے آگ نکلی تومیں نے اُس شعلہ میں یہ نظّارہ دیکھا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں قیصر کے قلعے تباہ ہوگئے ہیں۔ دوسرے شعلہ میں مجھے کسریٰ کے قلعوں کی تباہی کا نظّارہ دکھائی دیا اور تیسرے میں حمیر کے قلعے بھی سرنگوں نظر آئے ؎۲ ۔ اُس وقت بھی منافقوں نے ہنسی اُڑائی اور کہا کہ جان بچانے کیلئے خندق کھود رہے ہیں او رمدینہ سے باہر نکل نہیں سکتے مگر خواب دیکھ رہے ہیں قیصروکسریٰ کے محلات کے۔ گویا وہ زمانہ مسلمانوں کیلئے اِس قدر مشکلات کا زمانہ تھا کہ منافق جو بُزدل ہوتے ہیں وہ بھی دلیری سے ان پر ہنسی کرنے لگ گئے تھے۔ قرآن کریم نے بھی غزوئہ احزاب یا خندق کا نظّارہ بیان کرکے بتایا ہے کہ اُس وقت مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ گویا وہ زلزلہ میں مبتلاء ہیںاور زمین اپنی فراخی کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی تھی ؎ ۳ ۔
بظاہر اس زبردست لشکر کے مقابل پر صحابہ کا زور نہیں چلتا تھا مگر پندرہ روز کے بعد آدھی رات کے وقت رسول کریم ﷺ نے آواز دی اور فرمایا کوئی ہے؟ مگر کسی نے جواب نہ دیا۔ ایک صحابی نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا تم نہیں کوئی اور ۔ پھر فرمایا کوئی جاگتا ہے؟ مگر کوئی نہ بولا۔ اُسی صحابی نے پھر کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! میںحاضر ہوں مگر آپ نے پھر فرمایا تم نہیں کوئی اور۔ اور پھر تیسری دفعہ آواز دی مگر پھر بھی کوئی نہ بولا اور پھر اُسی نے آواز دی اور آپ نے فرمایا کہ جا ئو دیکھو مجھے اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی ہے کہ کفار کا لشکر تتربتر ہوگیا ہے۔ وہ صحابی باہر نکلے تو دیکھا کہ سب میدان خالی پڑا ہے، نہ غنیم کا کوئی خیمہ تھا اور نہ سامان۔ ایک اور صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں اُس وقت جاگتا تھا مگر سردی شدید تھی اور کپڑے ناکافی تھے اور سردی کی وجہ سے باوجود جاگنے کے منہ سے بات نہ نکلتی تھی ۔
کفار کے بھاگنے کا واقعہ یہ ہے کہ ایک عرب سردار کی آگ بُجھ گئی، اہل عرب اس بات کو منحوس خیال کرتے تھے، اِس نحوست کے دُور کرنے کیلئے اس قبیلہ نے اپنے رواج کے مطابق یہ طریق تجویز کیا کہ رات کے وقت اپنے خیمے وہاں سے اُٹھا کر چند میل کے فاصلے پر لے جا کر لگائیں اور اگلے روز پھر وہیں آلگائیں اور جب رات کو چپکے سے انہوں نے خیمے اُکھاڑنے شروع کئے تو ساتھ والوں نے خیال کیا کہ شکست ہوگئی ہے اور یہ لوگ بھاگ رہے ہیں انہوں نے بھی فوراً اپنے خیمے اُٹھانے شروع کردیئے۔ ان کو دیکھ کر ان کے پاس والوں نے بھی ایسا ہی کیا حتّٰی کہ ابوسفیان کو جو اس لشکر کا سپہ سالار تھا خبر ہوئی تو اُس نے خیال کیا کہ مسلمانوں نے شب خون مارا ہے اِس لئے یہاں سے جلدی بھاگنا چاہئے۔ چنانچہ وہ اِس قدر گھبرایا کہ اونٹ کو کھولے بغیر اُس پر سوار ہوکر اُسے مارنے لگ گیا مگر وہ چلتا کس طرح۔ آخر اس کے کسی ساتھی نے اُس پر اُس کی غلطی کو واضح کیا۔ یہ الٰہی نصرت تھی جس نے اُس وقت جب انسانی تدابیر بیکار ہوچکی تھیں آسمان سے نازل ہوکر رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو نجات دی۔ پس آسمانی نصرت اُسی وقت آتی ہے جب ساری تدابیر انتہاء کو پہنچ کر ختم ہوجاتی ہیں اور کامیابی کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتیں۔ جب وہ دنیا دار نگاہوں میں مضحکہ خیز او رروحانی نظروالوں کیلئے رقّت انگیز ہوجاتی ہیں اُس وقت خداتعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلتے ہیں مگر اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ بندہ چِلّائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں محبت کا بہترین مظاہرہ وہی ہوتا ہے جو ماں کو اپنے بیٹے سے ہوتا ہے۔ بسا اوقات ماں کی چھاتیوں میں دودھ خشک ہوجاتا ہے مگر جب بچہ روتا ہے تو دودھ اُتر آتا ہے۔ پس جس طرح بچے کے روئے بغیر ماں کی چھاتیوں میں دودھ نہیں اُترسکتا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی رحمت کو بندہ کے رونے اور چِلّانے سے وابستہ کردیا ہے۔ جب بندہ چِلّاتا ہے تو رحمت کا دودھ اُترنا شروع ہوتا ہے اس لئے جیسا کہ میںنے بتایاتھا ہمیں چاہئے کہ اپنی طرف سے انتہائی کوشش کریں مگر وہ کوشش نہیں جو منافق مراد لیا کرتے ہیں اور ا س کے بعد جس حد تک زیادہ سے زیادہ دعائوں کو لے جاسکتے ہیںلے جائیں۔ پچھلے سال میںنے سات روزے مقرر کئے تھے مگر چونکہ فتنہ ابھی جاری ہے، شرارت کا سلسلہ بند نہیں ہؤا، مخالفوں نے اللہ تعالیٰ کی تنبیہہ سے عبرت حاصل نہیں کی اور گزشتہ عذاب سے اپنی اصلاح نہیں کی اس لئے آئو ہم پھر خداتعالیٰ کے حضور چِلّائیں۔ تا جس طرح بچہ کے رونے سے ماں کی چھاتیوں سے دودھ اُتر آتا ہے آسمان سے ہمارے ربّ کی نصرت نازل ہو اور وہ روکیں اور مشکلیں جو ہمارے رستہ میں ہیں دور ہوجائیں۔ بعض مشکلات ایسی ہیں جن کا دور کرنا ہمارے اختیار میں نہیں۔ ہم دشمن کی زبان کو بند نہیں کرسکتے اور اُس کے قلم کو نہیں روک سکتے۔ اُن کی زبان اور قلم سے وہ کچھ نکلتا رہتا ہے جسے سننے اور پڑھنے کی ہمیں تاب نہیں۔ ہم نے بارہا حکومت کو توجہ دلائی ہے مگر اُس کے کان ہماری بات سننے سے بہرے ہیں۔ وہی باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہی جاتی ہیں اگر کسی اور کے متعلق کہی جاتیں تو مُلک میں آگ لگ جاتی ۔ مگر وہ باتیں متواتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہی جاتی ہیں لیکن کہنے والوں کی کوئی گرفت نہیں کی جاتی۔ حتّٰی کہ ہمیں تو یہاں تک رپورٹ پہنچی ہے کہ بعض مخالفوں کے حلقوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمیں افسروںنے یقین دلایا ہے کہ احمدیوں کے خلاف جو چاہو لکھو کوئی گرفت نہ ہوگی۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ بات ساری حکومت کی طرف سے نہیں ایک یا دو افسروں پر یہ الزام ہے گو ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ ان کے متعلق بھی صحیح ہے یا غلط، مگر واقعات طبیعت کو اِس کی صحت کی طرف مائل ضرور کرتے ہیں کیونکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق متواتر ایسی باتیں کہی جاتی ہیں جو اگر کسی اور کے متعلق ایک دفعہ بھی کہی جاتیں تو حکومت کبھی خاموش نہ رہتی تو اِس کی کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ کم سے کم سَو مرتبہ اخباروں میں آپ کو کذّاب یا دجّال یا شرابی کہا گیا ہے۔ اگر کم سے کم سَو دفعہ مَیں ایسی گالیاں نہ دکھاسکوں تو حکومت بے شک میری بات نہ مانے لیکن اگر سَو سے زیادہ دفعہ دشمنوں کے اخباروں میں یہ باتیں چھپی ہوں تو ذمہ دار افسروں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اِس ساری غفلت کا جواب انہیں خداتعالیٰ کے سامنے دینا ہوگا اور دنیا کی نگاہوں میں بھی وہ قابلِ ملامت ٹھہریں گے۔ ہم ایک طرف انگریز ی قانون کے الفاظ چھاپیں گے اور دوسری طرف وہ گالیاں جو احراری اخباروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی جاتی ہیں اور برطانوی پبلک سے اپیل کریں گے کہ اس طرح اس کے اچھے نام کو اس کے نوکربدنام کررہے ہیں اور انصاف کا خون کیا جارہا ہے۔ ہم ایک طرف دنیاکو ان مظالم سے مطلع کریں گے تو دوسری طرف اپنے ربّ سے اپیل کریں گے یہاں تک کہ اس ظلم کے ذمہ دار حکام چکّی کے دو پاٹوں کے درمیان آجائیں گے۔ ایک طرف خدا کی *** ان پر برسے گی اور دوسری طرف شریف الطبع انسان خواہ کسی قوم اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ان کے افعال پر اظہارِ نفرت و ملامت کریں گے۔ میں ہرگز نہیں مان سکتا کہ اگر ہمارے اخباروں میںیہی الفاظ یسوع کے متعلق استعمال کئے جائیں ، اگر انہیں دجّال لکھا جائے یا یہ لکھا جائے کہ ناصرہ کا رہنے والاایک شرابی، تو گورنمنٹ کی رگِ حمیت جوش میں نہ آئے۔ اگر یہی الفاظ ان اقوام کے بزرگوں کے متعلق استعمال کئے جائیں جو احرار کی پیٹھ ٹھونک رہی ہیں ، اگر یہ سکھ گوروئوں کے متعلق لکھے جائیں، ہندو رشیوں، سنّیوں کے متعلق لکھے جائیں اور ان لوگوں کے علما ء کے متعلق بولے جائیں جو اپنے آپ کو اکثریت میں بتاتے ہیں تو ہندوستان میں آگ نہ لگ جائے اور حکومت کا قانون حرکت میں نہ آئے لیکن یہ الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق روز استعمال کئے جاتے ہیں اور حکومت بار بار توجہ دلائے جانے کے باوجود خاموش ہے۔ ہمارا صرف ایک ہی قصور ہے اور وہ یہ کہ ہم تھوڑے ہیں اور حکومت کے وفادار ہیں اس لئے ہماری طرف سے بار بار توجہ دلائے جانے کے باوجود حکومت ٹس سے مَس نہیں ہوتی۔ اگر میں کم سے کم سَو ایسے حوالے دکھاسکوں جن میں سے ایک بھی اگر کسی قوم کے پیشوا کے متعلق استعمال کیا جاتا تو مُلک میں آگ لگ جاتی تو کوئی قوم ہمارے صبر اور امن پسندی پر حرف نہیں لاسکتی مگر حکومت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم بھی وہی الفاظ دوسروں کے متعلق دُہرائیں اور جب ہم ایسا کریں تو اس کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ ہم پر اعتراض کرے۔ اور اگر وہ ہم پر اعتراض کرے گی تو آنے والے مؤرّخ ہمیں حق بجانب قرار دیں گے حکومت کو نہیں۔ اگر یہ باتیں جائز ہیں اور جیسا کہ حکومت نے اپنے فعل سے بتادیا ہے جائز ہیں تو ایسا ہی رویہ اختیار کرنے پر اُسے کوئی حق نہیں ہوگا کہ ہم سے باز پُرس کرے۔ ہم حکومت سے کسی فائدہ کی توقع نہیں رکھتے بلکہ صرف یہی کہتے ہیں کہ
مرا ز خیر تو امید نیست بد مرساں
یعنی مجھے تجھ سے کسی بھلائی کی امید نہیں مگر کم سے کم یہ کر کہ نقصا ن تو نہ پہنچا۔
ہمیں ایک لمبے تجربہ کی بناء پر یہ امید ہی نہیں رہی کہ حکومت پنجاب کا وہ عملہ جس کے سپرد اِن امور کا تصفیہ ہے ہمارے احساسات کا احترام کرے گی مگر اب احمدی نوجوان اِس جائز بدلہ کے لینے کیلئے بیتاب ہورہے ہیں اور نیشنل لیگ مَیں سنتا ہوں کہ اپنا پروگرام مکمل کرچکی ہے اور اگر وہ ایسا کرے تو چونکہ حکومت اپنے فعل سے بانیانِ مذاہب اور ہادیانِ طریقت کے متعلق ایسے الفاظ کا استعمال جائز قرار دے چکی ہے کوئی وجہ نہیں کہ میں اپنے نوجوانوں کو اس فعل سے روکوں۔ یہ وہ اخلاق ہیں جن کی صحت پر تمام قوموں کے نمائندوں کی مُہر ثبت ہوچکی ہے اور حکومت نے بھی اسے اپنے عمل سے حدودِ قانون کے اندر قرار دے دیا ہے۔ پس اب میرا فرض نہیں کہ خود دخل دوں میں پہلے ان باتوں سے روکتا تھا مگر افسوس کہ میرے اخلاق سے ناجائز فائدہ اٹھایا گیا مگر یہ سب باتیں دُنیوی تدابیر ہیں اگرجماعت ایسا کرے تو وہ صرف الزامی جواب دے گی مگر اِس فعل سے ان باتوں کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔ بِلا شُبہ ہم میں سے کمزور دلوں کی اِس سے تسلی بھی ہوجائے گی مگر حقیقی روحانیت سے مَس رکھنے والے ان باتوں سے تسلی نہیں پاسکتے۔ جب تک وہ زبانیں کھلی ہیں جن پر یہ الفاظ جاری ہوتے ہیں، جب تک وہ ہاتھ حرکت کرتے ہیں جو ایسی باتیں لکھتے ہیں، جب تک وہ دماغ موجود ہیں جن میں یہ خیالات دَوڑتے ہیں، جب تک وہ دل باقی ہیں جن میںایسے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور جب تک دوبارہ ان باتوں کے کہے یا لکھے جانے کا امکان ہے اُس وقت تک کوئی احمدی چین کا سانس نہیں لے سکتا مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان کا ہٹانا ہمارے اختیار میں نہیں یہ خدا کے اختیار میں ہی ہے اور وہ دونوں طرح ان باتوں کو دور کرسکتا ہے۔ وہی دل جو آج نفرت سے بھرے ہوئے ہیں ان میں محبت کے جذبات پیدا کرکے بھی ہٹاسکتا ہے اور ایسے لوگوں کو تباہ اور اُن کے گھروں کو ویران کرکے بھی ہٹاسکتا ہے۔ حکومت ہمارے ہاتھوں کو پکڑ سکتی ہے مگر وہ خدا کے ہاتھوں کو کس طرح پکڑ سکتی ہے جن ہاتھوں میں وہ خود بھی ایک قیدی کی طرح ہے۔ ہماری فوجیں زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر ہیں حکومت توپیں بنواتی ہے جن کے گولے ۱۵ میل تک مار کرسکتے ہیں مگر ہم وہ توپیں تیار کریں گے جو عرش سے گولہ پھینکتی اور فرش پر رہنے والوں کو ملیامیٹ کردیتی ہیں۔ گورنمنٹ کی گرفت صرف اُن لوگوں تک ہے جو اُس کی حکومت کے ماتحت ہیں مگر ہم وہ وارنٹ جاری کرائیں گے جن سے دنیا کے بادشاہ بھی گرفتار کئے جاسکتے ہیں۔ ہم نے ایک لمبے عرصہ تک اِن باتوں کو سنا او رصبر کیا، دیکھا اور خاموش رہے، ہم نے التجائیں کیں مگر انہیں ٹھُکرادیا گیا، ہم نے عرضیں کیں مگر ان پرکان نہیں دھرے گئے لیکن جب تک وہ تحریریں موجود ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شرابی کہا گیا اور دجّال لکھا گیا اور جب تک حکومت ان کا بدلہ نہیں لیتی ہم کبھی چپ نہ ہوں گے اور جو ہم نہ کرسکیں گے وہ خداتعالیٰ کرے گا جہاں ہمارے ہاتھ روکے جائیں گے وہاں فرشتے کام کریں گے۔ زمین پر امن قائم نہیں ہوگا جب تک ہمارے دلوں میں امن قائم نہیں ہوتا، آسمان تِیر اندازی بندنہیں کرے گا جب تک ہمارے قلوب پر اِن تِیروں کا چلایا جانا ختم نہ ہوگا۔
پس پھر آئو کہ سات روزے رکھیں جواگلے ہفتہ سے شروع کرکے ہر پیر کے دن رکھے جائیں اور چونکہ نفلی روزے سفر میں بھی رکھے جاسکتے ہیں اس لئے جو سفر میں ہوں وہ بھی رکھیںاور اگر کوئی مسافر یا بیمار ہونے کی وجہ سے پیر کے دن روزہ نہ رکھ سکے تو وہ جمعرات کے دن رکھے اور اس طرح چالیس دنوں میں یہ ختم کئے جائیں اور ان دنوں میں مل کر بھی اور انفرادی طور پر بھی ایسی دعائیں کی جائیں جو عرشِ الٰہی کو ہِلا دیں تا خداتعالیٰ اپنی فوجوںکو حکم دے کہ سازوسامان سے تیار ہوجائو او رجائو کہ دنیا کے پردہ پر میرے کچھ مظلوم بندے ہیں انہیں کمزور سمجھ کر کچھ طاقتور حُکّام اور اکثریت کے نمائندے ان پر ظلم کررہے ہیں، ان کے دل غم سے بھرے ہوئے ہیں اور آنکھیں اشکوں سے پُر ہیں وہ تھوڑے ہیں اور بے کس، دنیا کے پردہ پر کوئی ان کا وا لی نہیں، ہر قوم ان سے اس لئے دشمنی کر رہی ہے کہ انہوں نے میری آواز کیوں سُنی اورمیری پُکارپر لَبَّیْکَکیوں کہا میں ان کی آواز سنوں گا اور ان کی پکار کو بیکار نہیں جانے دوں گا۔ بے شک دنیاداروں کی نگاہ میں وہ بیکس ہیں مگر انہیں کیا معلوم کہ میں ان کا والی ہوں اور میں ان کا حامی ہوں تم جائو اور ان کے مخالفوں کو دنیا سے مِٹادو خواہ دلوں میں تبدیلی پیدا کرکے اور ہدایت بخش کر یا ضد کی صورت میں ان کے گھروں پر میری *** برسا کر اور میرا عذاب نازل کرکے۔
پس جھک جائو اور دعا کرو اور پھر جھک جائو اور دعا کرو پھر جھک جائو اور دعا کرو یہاں تک کہ عرشِ الٰہی سے تمہاری امداد کا حکم نازل ہوجائے۔ خداتعالیٰ کے ایک مقدس کو اور رسول کریم ﷺکے نائب کو اتنی گندی گالیاں دی گئی ہیں اور ایسے ناپاک الفاظ سے اسے یاد کیا گیا ہے کہ یہ دنیا اب مؤمن کے رہنے کے قابل نہیں جب تک خد اکا ہاتھ اسے پھر پاک نہ کرے۔ یہ ناپاک ملک خد اکے قہر کو بُلارہا ہے اور یہ گندے لوگ اُس کے غضب کو بھڑکارہے ہیں ہم نے ان کا کیا قصور کیا تھا کہ ہم پر یہ ظلم ہورہے ہیں۔ ہم ہمیشہ حکومت کے وفادار رہے ہیں اور اب بھی وفادار ہیں، ہم ہمیشہ بنی نوع انسان کے خیرخواہ رہے ہیں اور اب بھی خیرخواہ ہیں مگر ہم کیا کریں کہ ہماری طاقت سے زیادہ ہم پربوجھ ڈالا جارہا ہے اور ظلم کا طوفان تھمنے میں آتاہی نہیں ۔ کاش! یہ لوگ ہمیں قتل کردیتے مگر ہمارے آقا کو گالیاں نہ دیتے، کاش! حکومت ہمیں پھانسی کے تختہ پر لٹکادیتی لیکن ان ناقابلِ برداشت گالیوں کو جو ہمیں نہیں بلکہ ہمارے جان و دل سے پیارے ہادی کو دی جاتی ہیں بند کرادیتی۔ اگر حکومت کو خداتعالیٰ نے باطنی آنکھیں دی ہوتیں تو وہ اِس خون کودیکھ سکتی جو ہمارے دلوں سے بہہ رہا ہے۔ وہ اُس خون کا بدلہ لیتی ہے جو چمڑے سے بہایاجاتا ہے پھر کیوں وہ اِس خون کا بدلہ نہیں لیتی جو دل سے بہایا جاتا ہے۔ اب اِس دکھ کی ساعت میں جب کہ خداتعالیٰ ہمیں خود بدلہ لینے سے منع کرتا ہے ہم اِس کے سوا کیا کرسکتے ہیں کہ اُس کے حضور میں گِرجائیں اور اپنے آنسوئوں سے اپنی سجدہ گاہ کو تر کردیںاور التجا کریں کہ اے ہمارے خدا! اے ہمارے آقا! اے بے کسوں کے والی! اے مظلوموں کے حامی! تیری یہ دنیا ظلم اور جور سے ناپاک ہوگئی ہے اپنے فرشتوں کو بھیج کہ توبہ کے پانی یا عذاب کی آگ سے اِس کو پاک کریں کہ اب اِس دنیا میں ایک ایک دن کی رہائش ہمارے لئے عذاب ہے۔ تیرا وعدہ تھا کہ تُو اسے ہمارے لئے جنت بنائے گا۔ اے سچے وعدوں والے! تیری رحمت کا دامن پکڑ کر تجھے تیرے ہی جلال کی قسم دیتے ہوئے ہم تجھ سے ہی التجاء کرتے ہیں کہ ہمارے زخمی دلوں پر ہمدردی کا مرہم لگا اور اِس دنیا کو جو ہمارے لئے خاردار جنگل بن گئی ہے اپنی محبت کا گلزار بنادے اور ہمیں وہ تقویٰ بخش جس سے تیرا نہ ختم ہونے والا وِصال ہمیں حاصل ہو، اور وہ ہمت بخش کہ جس سے تیرے رُوٹھے ہوئے بندوں کوہم منا کر واپس لائیں۔ اے آقا! تجھ میں سب طاقتیں ہیں اور ہم میں کچھ بھی نہیں ۔پھر تیرا در نہ کھٹکھٹائیں تو کہاں جائیں۔ تجھ سے نہ مانگیں تو کِس سے مانگیں۔ رحم کر، رحم کر ، رحم کر کہ تُو اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ہے اور ہم تیرے دروازے کے ابدی بھکاری ہیں۔ آمِیْنَ یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ۔
(الفضل ۲۷؍ مارچ ۱۹۳۶ئ)
؎۱ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۱۶ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
؎۲ السیرۃ الحلبیہ جلد ۲ صفحہ ۳۳۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
؎۳ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالاً شَدِیْدًا (الاحزاب: ۱۲)



۰ ۱
خطرات سے پُر اوقات میں حکومت کی بہترین خدمات
سرانجام دینے کا صلہ جماعت احمدیہ کو کیا مل رہا ہے؟
(فرمودہ ۲۷؍ مارچ ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں آج ایک نہایت اہم معاملہ کے متعلق خطبہ کہنا چاہتا ہوں اور چونکہ اس پر بولنے کیلئے مجھے زیادہ وقت چاہئے تھا اِس لئے مَیں نے اعلان کرادیا تھا کہ دوست ساڑھے بارہ بجے مسجد میں پہنچ جائیں۔ گو میں خود ایک بج کرچار پانچ منٹ پر پہنچا ہوں لیکن میری غرض دیر کرنے سے یہ تھی کہ بعض دفعہ جب تمام لوگ وقت پر نہ آئیں تو دوسروں کا انتظار کرناپڑتا ہے اس لئے میں دانستہ کچھ دیر کرکے آیا ہوں تا سب لوگ جمع ہوجائیں اورخطبہ سننے میں شریک ہوسکیں۔ گو مجھے یہاں آکر یہ محسوس ہؤا ہے کہ غالباً دوست وقت کے قریب قریب ہی مسجد پہنچ چکے تھے اور اس احتیاط کی ضرورت نہ تھی۔
میں سب سے پہلے تو تمہیدی طور پر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت ایک امن پسند جماعت ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے کھڑا ہی اس لئے کیا ہے کہ ہم دنیا میں امن ، صلح اور محبت قائم کریں۔ چنانچہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ناموں میں سے ایک نام خداتعالیٰ نے ’’سلامتی کا شہزادہ‘‘ رکھا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اِس نام کی وجہ سے ہماری جماعت کبھی بھی اُن کاموں کو اختیار نہیں کرسکتی جو فتنہ اور فساد کا موجب ہوں۔ پھر اِس امن پسندی کی طرف متوجہ کرنے کیلئے ہمارے پاس بعض اور قوی وجوہ بھی موجود ہیں جن کے ماتحت امن شِکنی ہمارے لئے کسی صورت میں جائز نہیں۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ ہماری مذہبی تعلیم یہ ہے کہ کسی حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے اُس کے خلاف فتنہ و فساد کھڑا کرنا جائز نہیں۔ہم نے اِس مسئلہ کی وجہ سے بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھائی ہیں۔ ہمارے اپنے بھائیوں نے اِس مسئلہ کی وجہ سے ہمیں کافر قرار دیا بلکہ آدم حریت و آزادی کا پیغام دینے کا مدعی ڈاکٹر اقبال بھی ہمارے خلاف یہ الزام لگاتا ہے کہ ہم جہاد کے خلاف تعلیم دے کر مسلمانوں کو کمزور کرنے کا موجب ہیںاور دوستی کے پردہ میں ان سے دشمنی کرتے ہیں۔ پس ہمارے اس عیب اور گناہ کی تصدیق پُرانے علماء نے بھی کردی اور جدید فلسفیوں نے بھی کردی گویا مغرب اور مشرق دونوں جمع ہوگئے ہمیں مُجرم قرار دینے کیلئے، اِس بناء پر اور اس گناہ کی وجہ سے کہ کیوں ہم نے مسلمانوں کو امن پسندی کی تعلیم دی ہے۔ قوم کی مخالفت کوئی معمولی مخالفت نہیں ہوتی۔ نہ صرف اس میں ہرقسم کاجسمانی دُکھ انسان کو برداشت کرناپڑتا ہے بلکہ دل کا دُکھ بھی اس کے ساتھ شریک ہوتا ہے۔ اسلام بے شک انسان کو بہادربنادیتا ہے، اسلام بے شک انسان کے دل میںجرأت پیدا کردیتا ہے لیکن اسلام انسان کے جذبا ت کو مارتانہیں بلکہ انہیں اُبھارتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ خواہ کوئی بھی حق کی مخالفت کرے، اپنے ہوں یا غیر، مؤمن ان کی پرواہ نہیں کرتا مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ کسی فعل کی وجہ سے خواہ وہ حق کی حمایت ہی کیوں نہ ہو اگروہ اپنے عزیزوں، اپنے رشتہ داروں، اپنے ہمسایوں اور اپنے ہم قوموں سے علیحدگی اختیار کرے تو طبعی طور پر اسے صدمہ ضرور ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ پس یہ کوئی کھیل نہ تھا جو ہم کھیلے اور یہ کوئی معمولی بات نہ تھی کہ ہم نے تمام مسلمانوں کو اپنا اس لئے دشمن بنالیا کہ ہم فتنہ و فساد کے خلاف تعلیم ان میں پھیلاتے ہیں مگر یہ دُکھ ہم نے اُٹھایا، یہ تکلیف ہم نے سہی، یہ مصیبت ہم نے برداشت کی لیکن حق کو نہیں چھوڑا بلکہ ہم ہمیشہ امن پسندی کی تعلیم لوگوں کو دیتے رہے۔ حکومت کے ریکارڈ اس کے گواہ ہیں، حکومت کے اعلانات اس کے گواہ ہیں اور حکومت کی چِٹھیاں اس کی گواہ ہیں۔ پس مذہب کی حکومت سب سے بڑی حکومت ہے اور اس کے حکم کے ماتحت ہم مجبور ہیں خواہ ہم میں سے بعض کا دل نہ بھی چاہے، خواہ بعض ہم میں سے جوش کی حالت میں اپنی عقل و خرد کوچھوڑ کریہ ارادہ بھی کرلیں کہ حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں، کہ اس ارادہ کو عمل کا جامہ نہ پہنائیں۔
دوسری بات جو ہمیں پُرامن رہنے پر مجبور کرتی ہے وہ ہمارے اوردوسری رعایا کے تعلقات ہیں۔ پہلی وجہ میں حکومت کے اور ہمارے تعلقات تھے جن میںمذہب نے ہمیں پابندِامن کردیا ہے لیکن دوسری وجہ وہ احکام ہیں جو رعایا اور رعایا کے آپس کے تعلقات کے متعلق ہیں ان احکام میں بھی آپس میں محبت اور پیار سے رہنے کی تعلیم دی گئی ہے لیکن ان کے علاوہ ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم امن شِکنی نہیں کرسکتے کیونکہ علاوہ مذہبی تعلیم کے مصلحتیں اور ضرورتیں بھی ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم امن شِکنی نہ کریں۔ یعنی اگر ہم میں سے کوئی کمزور شخص مذہب کی حکومت سے کسی وقت انکار بھی کردے تو وہ ضرورتاً اس بات پر مجبور ہے کہ امن شِکنی نہ کرے اور وہ ضرورت یہ ہے کہ ہم ایک تبلیغی جماعت ہیں۔ ہم نے اپنا یہ فرض مقرر کیا ہؤا ہے اور دوسروں کوہم اس بات کی عادت ڈالتے ہیں کہ وہ جائیں اور غیراحمدیوں کوتبلیغ کریں۔ ہم مسلمانوں کو بھی تبلیغ کرتے ہیں، ہم ہندوئوں کوبھی تبلیغ کرتے ہیں، ہم سکھوں کو بھی تبلیغ کرتے ہیں، ہم عیسائیوں کو بھی تبلیغ کرتے ہیں اور اسی طرح ہر اُس قوم کوہم تبلیغ کرتے ہیں جوہمارے سامنے آجاتی ہے۔ اب ایک تبلیغی جماعت کیلئے یہ بالکل ناممکن ہے کہ وہ لوگوں سے لڑے کیونکہ اگر وہ لڑے تو تبلیغ نہیںکرسکے گی۔ اگر ہم اپنے افعال کی وجہ سے مسلمانوں کو برانگیختہ کردیں، اگر ہم اپنے افعال کی وجہ سے ہندوئوں کو برانگیختہ کردیں ،اگر ہم اپنے افعال کی وجہ سے سکھوں کو برانگیختہ کردیں اور اگر ہم اپنے افعال کی وجہ سے عیسائیوں کوبرانگیختہ کردیں تو بتائو تبلیغی میدان ہمارے لئے کونسا رہ جاتا ہے۔ پس اگر ہم میں سے کوئی شخص اس مذہبی حکم کا قائل نہ بھی ہو تو تبلیغی ضرورتوں کی وجہ سے وہ اس بات کیلئے مجبورہے کہ غیرجماعتوں سے اچھے تعلقات رکھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو اس کی خلاف ورزی کرنے والا نہیں۔ ہر قوم میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی اور بُرے لوگوں کو روکنا کوئی آسان بات نہیں۔ ہماری جماعت میں بھی بعض لوگ ایسے ہیں جو بعض دفعہ تقریروں کے ذریعہ یا تحریروں کے ذریعہ سخت کلامی کرتے ہیں مگر وہ سخت کلامی یا تو کسی انتہائی غفلت کی حالت میں ہوتی ہے یا عادتاً ہوتی ہے۔ اور جو شخص عادتاً سخت کلامی کرتاہے وہ بھی اپنی عادت کی وجہ سے نہ مذہب کو یاد رکھ سکتا ہے نہ مصلحتوں اور ضرورتوں کو ۔ یا بعض دفعہ منافق سخت کلامی کرتے ہیں اور ان کی اصل غرض جماعت کو بدنام کرناہوتی ہے۔
پس ہمیشہ یہ تین قسم کے لوگ ہی جماعت میں سے سختی کرتے ہیں لیکن ہمارا رویہ ان کے متعلق ہمیشہ یہ رہا ہے کہ ہم ان کی باتوں پر گرفت کرتے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر غفلت سے سخت کلامی ہو تو تب بھی ہم گرفت کرتے اور اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور اگر عادتاً سخت کلامی ہو تب بھی ہم گرفت کرتے اور اصلاح کی کوشش کرتے ہیںاور اگر کوئی منافقت سے کرے تب بھی اسے سمجھایا جاتا یا اخباروالوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ کیوں ایسے لوگوں کے مضامین شائع کرتے ہیں جن کی اصل غرض ہم پرالزام قائم کرنا ہے ان استثنائی صورتوں کے علاوہ ہماری جماعت کا عام رویہ یہ ہے کہ ہم دوسری قوموں کے متعلق ادب اور احترام کے مقام پر کھڑے ہوں او رہم کہتے ہیں کہ کسی دوسری قوم کادل نہیں دُکھانا چاہئے۔ ہمارے ہاں کثرت سے ایسی مثالیں موجودہیں جبکہ دوسروں کے ہاں ایک بھی مثال موجود نہیں کہ جب ہم میں سے کسی نے غیراقوام کے متعلق سخت کلامی کی تو ہم نے اُسے ڈانٹا اور سزا دی۔ اِس وقت تک تین رسالوں کو مَیں اِس جُرم میں ضبط کرچکاہوں اور کئی دفعہ اخبارات والوں کو ڈانٹ چکا ہوں بلکہ اخباروں میں اس کا ذکر بھی آچکا ہے اور میں سمجھتا ہوں کوئی دوسری قوم اپنے میں سے ایک بھی ایسی مثال پیش نہیں کرسکتی بلکہ دوسری قوموں میں جب کسی سے غلطی ہوجاتی ہے تو وہ ہمیشہ اُس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔
گزشتہ پندرہ بیس سال کی تاریخ دنیا میں موجود ہے اس پر غور کرکے دیکھ لوجب کسی اور قوم کے کسی فرد نے اِس قسم کی غلطی کی یعنی غیرمذاہب والوں کے متعلق سخت کلامی کی تو آیا اُس قوم کے لوگوں نے بحیثیت قوم اس کے متعلق اظہارِ ناراضگی کیا؟ اِس میں شبہ نہیں کہ بعض افراد یا بعض شہروں نے ان پر اپنی ناراضگی اور نفرت کا اظہارکیا مگر وہ بحیثیت جماعت نہ تھا بلکہ بحیثیت افراد تھا۔ اگر سارے ہندوستان کے ہندوئوں میں سے کسی ایک شہر کے ہندوئوں نے کسی ہندو کے فعل پر اظہارِ نفرت کردیا یا کروڑوں مسلمانوں میں کوئی ایک شخص ایسا کھڑا ہؤا جس نے کسی مسلمان کی سختی کے خلاف آواز بلند کردی تو یہ جماعت کافعل نہیں کہلاسکتا بلکہ افراد کافعل ہے۔ لیکن ہماری طرف سے ہمیشہ ایسی سختی کے خلاف جو قوموںمیں تنافر پیدا کرنے والی ہو مِنْ حَیْثُ الْقَوْم آواز اُٹھائی جارہی ہے۔چنانچہ یا خلیفۂ وقت کی طرف سے اس کے خلاف اعلان ہوتا ہے یا صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے اس کے خلاف اعلان ہوتا ہے جن کا اعلان ساری جماعت کا اعلان سمجھا جاتا ہے۔زید اگر اعلان کرتا ہے کہ فلاں نے غلطی کی تو بکرکہہ دیتا ہے کہ میں اِس غلطی کوتسلیم نہیں کرتا۔ اِس کے مقابلہ میں جماعت کا امام جب اعلان کرے کہ فلاں شخص نے غلطی کی تو کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے غلطی نہیںکی گویایہ نفرت کا اظہار ساری جماعت کی طرف سے ہوتا ہے۔
پس اس معاملہ میں جوطریق اختیار کیا ہے اگر باقی جماعتیں بھی وہی طریق اختیار کرتیں تو کبھی ہندوستان میں فساد نہ ہوتے۔ مثلاً اگر ایک ہندو کے قلم سے کسی غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کے بزرگوں کے متعلق نازیبا کلمات لکھے گئے ہوں اور ساری ہندو قوم اس سے نفرت کا اظہار کرے تو آئندہ نہ اُسے یہ جرأت رہے کہ وہ مسلمانوں کے متعلق دلآزار کلمات استعمال کرے اور نہ اس کی اس حرکت سے مسلمانوں کے دلوں میں کوئی غصہ رہے۔ اسی طرح اگر مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسی حرکت ہو کہ ان میں سے کوئی فرد کسی دوسری قوم مثلاً ہندوئوں کے بزرگوں کی ہتک کردے اور پھر یہ بات مسلمانوں کے علم میں لائی جائے اور وہ اس کے خلاف اظہارِ نفرت کردیں تو اس مسلمان کی بھی اصلاح ہوجائے اور ہندوئوں کا غصہ بھی بالکل فرو ہوجائے کیونکہ آخرجب کوئی مسلمان یا ہندو ایک کتاب لکھتا ہے تو اس کی غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ لوگ اسے خریدیں اور پڑھیں لیکن جب وہ یہ دیکھیں کہ غیروںنے تو اسے خریدنا نہیں کیونکہ اس میں ان کے خلاف سخت الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور اپنے اس پر اظہارِ نفرت کررہے ہیں تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت بند ہوجاتی ہے اور آئندہ کیلئے اسے یہ حوصلہ نہیں رہتا کہ وہ کوئی منافرت انگیز تحریر شائع کرے۔ چنانچہ بعض مسلمانوں کی طرف سے مذہب کے متعلق جب بعض ایسی کتابیں لکھی گئیں جو قابلِ اعتراض تھیں اورمسلمانوں نے ان کے خلاف آواز اُٹھائی تو ان مصنفین نے خود اپنے ہاتھ سے وہ کتابیں جلادیں۔ اِس کی مشہور مثال مولوی نذیر احمد دہلوی کی کتاب اُمّہات الاُمہ ہے۔ جب یہ پہلی دفعہ چھپی اور مسلمانوں نے ا س کے خلا ف شور مچایا تو اِس کے مصنف نے خود اِسے جلادیا۔ اب پھر دوبارہ چھپی تو مسلمانوں کے آواز اُٹھانے پراُسے چھاپنے والوں نے جلادیا۔ تو اگر قوم متفقہ طور پر کسی کی سخت کلامی کے خلاف اظہارِ نفرت کرے تو مصنفین کویہ جرأت ہی نہیں رہتی کہ وہ دوسروں کے متعلق دلآزار کلمات استعمال کریں۔ کتابیں لکھنے والے مالدار نہیں ہوتے بلکہ اکثر غریب ہوتے ہیں اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ کتاب چھپوا کرانہیں مالی لحاظ سے بھی گھاٹا رہا اوردوسری طرف نہ قوم میں عزت رہی نہ غیروں پر اثر رہا تو وہ اپنی غلطی کا اقرار کرلیتے ہیں اور اس طریق کو بالکل چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر یہی طریق ہندو اختیار کرتے، اگر یہی طریق عیسائی اختیار کرتے اور اگر یہی طریق دوسری اقوام اختیار کرتیں تو نہ کسی قانون کی ضرورت تھی نہ حکومت کے انتظام کی ضرورت تھی ، نہ بدنظمی پیدا ہوتی، نہ بدمزگی واقع ہوتی، نہ شور اور فساد پیدا ہوتا، سب بھائی بھائی بن کررہتے اور فتنہ و فساد سے مجتنب رہتے۔ لیکن چونکہ دوسرے مذاہب اور دوسری اقوام کی طرف سے یہ طریق اختیار نہیں کیا جاتا اس لئے آپس میں بُغض اور کینہ بھی ترقی کرتا رہتا ہے لیکن ہماری جماعت ہمیشہ امن کے قیام کیلئے اس قسم کی حرکات پر سختی سے نوٹس لیتی ہے اور ان کے انسداد کی پوری کوشش کرتی ہے۔
پھر تبلیغی ضرورتوں کے علاوہ ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جو قرآن مجیدمیں موجود ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر خاص زور دیا ہے کہ دنیا کی تمام قوموں کے بزرگ خداتعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلاَّ خَلاَ فِیْھَا نَذِیْرٌ ؎۱ ۔ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس میں خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی نذیرنہ آیاہو۔ اس تعلیم کے بعد کس طرح ممکن ہے کہ ہم دوسری اقوام کے بزرگوں کو بُرا بھلا کہہ سکیں۔ چونکہ رسول کریم ﷺ کے بعد اسلام کے باہر کوئی نبی نہیں آسکتا تھا اس لئے صرف سکھوں کا سوال رہ جاتا تھا ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتادیا کہ ان کے بانی حضرت باوا نانک صاحب ایک مسلم بزرگ تھے اور جو بزرگ اور ولی اللہ ہو اُس کے خلاف کوئی احمدی اپنی زبان کس طرح کھول سکتا ہے۔ جب ہم حضرت باوا نانک رحمۃ اللہ علیہ کو ایک ولی اللہ تسلیم کرتے ہیں تو ان پر الزام لگانے اور ان کی عیب شماری کرنے کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کے دوست بھی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ بُرے ہوتے ہیں اور چونکہ بُروں کے دوست بھی بُرے ہؤا کرتے ہیں اس لئے حضرت باوا نانک صاحب کی عیب شماری کرنے کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرتے ہیں۔ پس اس تعلیم کے ماتحت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ہم مجبور ہیں کہ گو حضرت باوا صاحب کونبی نہ سمجھیں مگر ولی اللہ اور خدارسیدہ انسان ہونے کی حیثیت میں ان کا ادب اوراحترام کریں اور کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کریں جواِن کی شان کے خلاف ہو۔پس اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلاَّ خَلاَ فِیْھَا نَذِیْرٌ سے ایک ہی قوم باہر رہ جاتی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس قوم کے بانی کے متعلق بھی ثابت کردیا کہ وہ ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے او راس طرح ان کے متعلق بھی ادب اور احترام کے جذبات رکھنے پرہم مجبور ہیںمگر کسی قوم کے ایسے لیڈر جونہ نبی ہیں نہ ولی ان کے متعلق بھی ہماری شریعت یہ حکم دیتی ہے کہ ہم انہیں بُرا بھلا نہ کہیں اور اگر ہم ان کو گالیاں دیں تو ہم خود اس بات کے محرّک بنتے ہیں کہ وہ ہمارے بزرگوں کوگالیاں دیں۔ رسول کریم ﷺ نے اس کا ایک نہایت ہی لطیف مثال میں ذکرفرمایا ۔
آپ نے ایک دفعہ صحابہؓ سے کہا بہت ہی ملعون ہے وہ شخص جو اپنی ماں کو گالی دے ۔ صحابہؓ نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کوئی شخص اپنی ماں کوکس طرح گالی دے سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا جب کوئی شخص کسی دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے اور وہ جواب میں اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو گویا یہ اپنی ماں کو آپ گالی دیتا ہے ؎۲ ۔
تو ہمارے مذہب کی تعلیم یہ ہے کہ بانیانِ مذاہب کے علاوہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے تھے جن لوگوں کو تم نبی اور رسول یا خد ارسیدہ نہیں سمجھتے ان کابھی احترام کرو اور انہیں گالیاں مت دو۔ بے شک جائز تنقید کا دروازہ کھُلا ہے ان کی غلطیوں کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں، ان کے سامنے اچھی بات پیش کرنے کی ممانعت نہیں کیونکہ اگر اس کی اجازت نہ ہو تو تبلیغ نہیں ہوسکتی۔ لیکن سخت الفاظ کی اجازت نہیں سوائے اس کے کہ جوابی رنگ میں ہوں اور میں بارہا بتاچکاہوں اور اِس خطبہ کے شروع میں بھی اشارہ کرچکا ہوں کہ ہم نے عملاً ان باتوں کو کرکے دکھادیا ہے۔ حکومت کے بارے میں کیسے کیسے خطرناک حالات میں سے ہم گزرے ہیں مگر کس صفائی کے ساتھ۔ نہ صرف حکومت کے خلاف کسی قسم کی بغاوت میں حصہ لینے سے ہم نے اپنے آپ کو بچایا بلکہ دوسروں کو بھی محفوظ رکھا۔ آج اگر حکومت بھول گئی ہو تو بھول جائے کیونکہ بعض لوگوں کاحافظہ خراب ہوتا ہے اور وہ باتوں کو پوری طرح یاد نہیں رکھ سکتے مگر اب بھی قریباً وہ سب افسر موجود ہیں جو ۱۹۱۴ء کی لڑائی کے ایام میں موجود تھے وہ تھوڑی دیر کیلئے اپنے مخالف جذبات کو دبا کر اُن دنوں کویاد کریں جب ۱۹۱۴ء میں لڑائی شروع تھی اور سوچیں کہ ۱۹۱۴ء میں ان کے قلب کی کیا کیفیت تھی اور کس طرح وہ وفاداری کے بھوکے نظر آتے تھے۔ اُس دن کس طرح حقیر سے حقیر انسان بھی جو ان کی مدد کیلئے ہاتھ بڑھاتا تھا اُسے ادب اور احترام کے مقا م پر بٹھانے کیلئے تیار ہوجاتے تھے۔
۱۹۱۴ء کا انگریز کس طرح اپنے ملک کی عزت کو خطرے میں گھرا ہؤا پاتا تھا اُس دن بیشک کہنے کو اخبارات میں یہ اعلان ہوتے رہتے تھے کہ ہم بالکل محفوظ ہیں اور ہماری طاقت دشمن کی طاقت سے بہت زیادہ ہے لیکن انگلستان کے بڑے بڑے جرنیلوں نے تو اب کتابیںلکھ کر اصل حالات کو طشت ازبام کردیا ہے اور ان میں اُن تمام واقعات کا ذکرہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ چار سال انگلستان والوں کیلئے عذاب کے سال تھے۔ کئی مواقع ایسے آئے جب انگلستان یہ محسوس کرتا تھا کہ آج وہ اپنی آزادی کوکھودینے کیلئے بالکل تیار بیٹھا ہے۔ انگلستان کے لیڈر یہ محسوس کرتے تھے کہ قوم کی عزت اِس وقت اتنے خطرے میں ہے کہ بالکل ممکن ہے کہ وہ اسے ہمیشہ کیلئے کھو بیٹھیں ۔ یہ خطرناک دن آئے اور اُن دنوں میں چھوٹی سے چھوٹی امداد کے بھی وہ محتاج ہوئے۔ اُن دنوں پر غور کرکے اور ان واقعات کی یاد تازہ کرکے حکومت کے افسر سمجھ سکتے ہیں کہ ہماری جماعت نے کس جرأت ، کس دلیری، کس بہادری او رکس مردانگی کے ساتھ مخالف حالات میں حکومتِ انگریزی کی مدد کی لیکن کیا ہم نے اس کا کوئی بھی بدلہ لیا؟ ہم نے اس کا ایک شمہ بھر بھی بدلہ نہیں لیا اور نہ لینا چاہتے ہیں۔ مگر کیاہم یہ حق نہیں رکھتے کہ کہیں کہ ہمیں وہ برطانوی انصاف دیا جائے جس پر برطانوی انصاف کی امید میں ہماری جماعت نے جانیں دیں۔ پھر جنگ میں جب فتح ہوئی تو کوئی سر بنا کوئی نواب بنا، کسی کو مربعے ملے، کسی کو نوکریاں ملیں اور کسی نے کسی طرح کااعزاز حاصل کیا اور کسی نے کسی طرح کا۔ مگر کیا ہم نے بھی کوئی بحیثیت جماعت گورنمنٹ سے کوئی مطالبہ کیا؟ یا کیا ہمیں بھی گورنمنٹ کی طرف سے کوئی معاوضہ دیا گیا؟ اس میں شبہ نہیں کہ بعض افراد سے حکومت نے اچھا سلوک کیا مگر ہماری خدمات دو طرح کی تھیں۔ ایک وہ خدمات جومِنْ حَیْثُ الْاَفْرَادتھیں اور ایک وہ خدمات تھیں جومِنْ حَیْثُ الْجَمَاعَت تھیں۔ جو خدمات مِنْ حَیْثُ الْاَفْرَادتھیں ان میں بے شک بعض احمدیوں کو گورنمنٹ نے اعزاز دیا اُسی طرح جس طرح کہ اس نے اور لوگوں کو اعزاز دیا لیکن ہزارو ں احمدی ایسے تھے جنہوں نے مرکز کے ذریعہ حکومت کیلئے قربانیاں کیں اور ان کی قربانیوں کاکوئی صلہ گورنمنٹ نے نہ ان احمدیوں کو دیا اور نہ مرکز کو دیا۔نہ مرکز کی یہ خواہش تھی کہ اسے صلہ ملے اور نہ اب خواہش ہے کہ اسے صلہ دیا جائے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان قربانیوں کا صِلہ وہ بھی نہیں ہو سکتا جو آج ہمیں دیاجارہا ہے۔ کسی وقت انگریز بیلجیئم پر حملہ کرنے کی وجہ سے جرمن سے حقارت کرتے تھے اورکہتے کہ اس نے بیلجیئم کے پُرانے معاہدہ کو توڑ دیا اور اسے سکریپ آف پیپر کی حیثیت بھی نہ دی۔
میں ان حکّام سے جو اِس وقت پنجاب میں مقررہیں کہتا ہوںکہ وہ بیسیوں چِٹھّیاں جو ہماری خدمات، وفاداری اور امن پسندی کے متعلق برطانوی حکّام کی ہمارے پاس موجود ہیں سکریپ آف پیپر کی حیثیت رکھتی ہیں؟ بے شک ہم ان کے بدلے کسی انعام کے طالب نہیں مگر ہم اِس بات کے طالب ضرور ہیں کہ ہمیں امن دیا جائے مگر افسوس کہ وہ امن ہمیں نہیںدیاجارہا۔
پھر خلافت کاجب جھگڑا ہؤا اُس وقت بھی انگریزوں کو خطرناک مشکلات درپیش تھیں۔ جنگ کے بعد انگریز کمزوری محسوس کررہے تھے جنگ کے دنوں میں سوشلسٹ اس ہیجان کی وجہ سے جو ملک میں پیداہوگیا تھا دب گئے تھے لیکن جنگ کے بعد ان کی طاقتیں معاً اُبھر آئیں اِدھر آپس میں دل پھٹ چکے تھے اور لُوٹ کے حصوں کو اُڑانے کا شوق ایک دوسرے کے حقوق کو تلف کرنے پر آمادہ کررہا تھا۔ ۱۹۱۹،۱۹۲۰ء کا فرانس وہ فرانس نہیں تھا جو ۱۹۱۴ء کا تھا، ۱۹۱۹،۱۹۲۰ء کا بیلجیئم وہ بیلجیئم نہیں تھا جو ۱۹۱۴ء کا تھا، ۱۹۱۹ئ،۱۹۲۰ء کا اٹلی وہ اٹلی نہ تھا جو ۱۹۱۴ء یا ۱۹۱۵ء کا تھا کیونکہ وہ ایک سال بعد جنگ میں شامل ہؤا ۔ اسی طرح امریکہ ۱۹۱۹ء میں وہ امریکہ نہ تھا جو ۱۹۱۸ء کے شروع میں تھا، دلوں میں بُعد پیدا ہوچکا تھا، لُوٹ کے شوق میں ایک دوسرے کے حقوق کو پامال کیا جارہا تھا اور ایک دوسرے کے خلاف سخت شکایتیںپیداہوچکی تھیں۔ پھر لڑائی کے بعد قدرتی طور پر جو ری ایکشن یعنی ردّعمل ہوتا ہے اس کی وجہ سے خود اپنی رعایا میں بھی بے چینی او ربددلی پیدا ہوگئی تھی۔ اس وقت انگریزی حکومت کی کمزوری اس امر سے بآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ تباہ شدہ روس جس کا ملک تفرقہ اور فساد سے بھرا ہؤا تھا، جس کے اندر کوئی نظام نہ تھا، جس کے پاس کوئی طاقت نہ تھی اُس کے چند مزدورلیڈر جو نہ جنگ سے واقف تھے نہ سیاست سے آگاہ انہوںنے آرچنچل کے مقا م پر انگریزی فوجوں کو بُری طرح دِق کیا یہاں تک کہ انگریزوں کواپنی فوجیں واپس بُلا لینی پڑیں۔ اسی زمانہ میں تُرک وہ تُرک جن کاملک تقسیم ہوچکا تھا ، وہ تُرک جن کا بادشاہ قیدیوں کی طرح تھا، وہ تُرک جن کے توپخانے اتحادیوں کے قبضہ میں تھے، وہ شکست خوردہ تُرک اپنے سینے تان کر انگریزی اور فرانسیسی فوجوں کے سامنے آکھڑے ہوئے اور آخرلارڈ کرزن کے ذریعہ ایک معاہدہ ہونے کے بعد انگریزی فوجوں کو واپس آنا پڑا۔ انگریز اُس وقت سازوسامان میں کمزور نہ تھے، دولت میں کمزور نہ تھے لیکن انہیں نظر آرہاتھا کہ آج چاروں طرف پھُوٹ ہے اور ہمارا ساتھ دینے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ اُس زمانہ میں وہ ہندوستان جس میں تینتیس کروڑ کی آبادی ہے اس کے باشندوں میں ایک سِرے سے لے کر دوسرے سرے تک حکومتِ انگریزی کے خلاف آگ لگ چکی تھی، ہندو سوراجیہ کا مطالبہ کرتے تھے، مسلمان خلافت کا شور مچارہے تھے اور کوئی جماعت مِنْ حَیْثُ الْجَمَاعَت انگریزوں کے ساتھ نہ تھی ایسے خطرے کے وقت میں جب اپنے اور پرائے سب گھبرارہے تھے سوائے جماعت احمدیہ کے اور کونسی جماعت تھی جس نے مِنْ حَیْثُ الْجَمَاعَت انگریزں کا ساتھ دیا؟
مجھے یاد ہے کہ جب رولٹ ایکٹ پر شور اُٹھا تو میںنے اپنی جماعت کے لوگوں کواِردگِرد کے دیہات میں بھیجا کہ وہ وہاں کے رئوساء اور بڑے بڑے لوگوں کو اکٹھا کرکے قادیان میں لائیں تامیں انہیں نصیحت کروں کہ وہ اس فتنہ وفساد میں حصہ نہ لیں۔بعض خود غرض لوگ ہم میں اور سکھوں میں ہمیشہ لڑائی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بعض پُرانے اوربڈّھے سکھ جو ہمارے خاندان کی پُرانی روایات اور ان کے اثر سے واقف تھے انہوں نے یہ نہ سمجھتے ہوئے کہ میں انہیں کیوں بُلارہا ہوں مجھے کہلا بھیجا کہ ہم ضرور آئیں گے اور اگر آپ اس موقع پر اپنے خاندان کی پُرانی عظمت قائم کرنا چاہیںتو ہم آپ کا پورا ساتھ دیں گے۔ اُس وقت انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کا جذبہ اس قدر ترقی کرچکا تھا کہ قریب کے گائوں ’’ٹھیکری والا‘‘ سے جو بالکل جاہل گائوں ہے ایک کثیر تعداد پستولوں کی پکڑی گئی تھی کچھ لوگ وہاں پستولوں سے چاند ماری کی مشق بھی کیا کرتے تھے جب یہ رئوساء آئے اور میں نے مسجدمیں جمع کرکے انہیں نصیحت کی کہ آپ انگریزوں کے خلاف شورش میں حصہ نہ لیں تو وہ بھُوکے بھیڑیئے کی طرح ہمارے آدمیوں سے لڑتے تھے مگر ہم نے انہیں سمجھا سمجھا کر اور منتیں کرکے اِس ارادہ سے انہیں باز رکھا اور علاقہ میں شورش پید انہ ہونے دی۔ پھر یہاں ہی نہیں سارے پنجاب میں ہم نے لوگوں کوبھیجا اور امن قائم کیا۔ وہ وقت ایسا خطرناک تھا کہ اگر ذرا آگ لگ جاتی تو انگریز مصنف یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حکومتِ انگریزی کو شدید صدمہ پہنچتا۔ اُس موقع پر ہم نے گالیاں سُنیں، ماریں کھائیں لیکن حکومت سے غدّاری نہیں کی بلکہ پورے امن سے رہے اور دوسروں کوامن سے رہنے کی تلقین کی۔ کیا اِس کا وہی صِلہ ہے جو آج ہمیں دیا جارہا ہے؟ ہمارے جذبات اُس وقت دوسرے مسلمانوں سے کم نہیں تھے۔ خلافت تُرکیہ کے گو ہم قائل نہیں مگر اسلامی حکومتوں کی ترقی کی اُمنگیں ہمارے دلوں میں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ ہیں بلکہ ہم نے تو کبھی اِس بات سے انکار نہیں کیا کہ اسلامی حکومت کے قیام کے سب سے زیادہ خواب ہمیں ہی آتے ہیں اور خواب آنا تو لوگ وہم سمجھتے ہیں ہمیں تو الہام ہوتے ہیں کہ اسلامی حکومتیں دنیا میں قائم کی جائیں گی پس ہمیں کتنادُکھ ہوتا تھا یہ دیکھ کر کہ انگریزی حکومت ہم ہی سے قربانیاں لینے کے بعد تُرکوں کے ٹکڑے ٹکڑے کررہی ہے۔ ہمارے دل بھی زخمی تھے اور ہمارے دلوں سے بھی یہ دیکھ کرخون بہہ رہا تھا کہ صرف ایک قابلِ ذکر اسلامی حکومت دنیا میں باقی تھی مگر افسوس کہ اسے بھی ٹکڑے ٹکڑے کیا جارہا ہے لیکن باوجود اس کے کہ ہمارے جذبات سے کھیلا گیا ہم نے امن قائم رکھنے کی پوری کوشش کی اور کسی ایسی حرکت کو پسند نہ کیا جس سے حکومت کیلئے مشکلات پید اہوں۔
میرے جذبات کی شدت کا ثبوت اِس سے مل سکتا ہے کہ میں نے انہی دنوں مسلمانوں کے سامنے یہ بات پیش کی تھی کہ اگر آپ لوگ پُرامن طریق سے کوشش کریں اور اِس پرزور نہ دیں کہ تُرکوں کابادشاہ سب مسلمانوں کا خلیفہ ہے صرف یہ کہیں کہ اکثر مسلمان ان کوخلیفہ تسلیم کرتے ہیں لیکن باقی مسلمان بھی ان کو واجبُ ال￿اِحترام تسلیم کرتے ہیں تو میں پچاس ہزار روپیہ اور اپنے تمام بیرونی مبلّغ آپ کو اِس غرض کیلئے دینے پر تیار ہوں کہ وہ تُرکوں کی حمایت میں پروپیگنڈا کریں۔ آج ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑھی ہوئی ہے اور اس کی مالی حالت پہلے سے اچھی ہے لیکن ۱۹۱۹ء میں تو بہت ہی کمزور حالت تھی۔ اُس زمانہ کے پچا س ہزار روپے آجکل کے تین چار لاکھ کے برابر ہیں مگر مسلمانوں نے میری تجویز منظور نہ کی اور گاندھی جی کے نان کوآپریشن کے مشورہ کوقبول کرلیا۔ لیکن اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مجھے حکومتِ تُرکیہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا کتنا شدید صدمہ تھا مگر باوجود ان جذبات کے میں نے امن کا طریق اختیارکیا اور اس وجہ سے مجھے مسلمانوں سے گالیاں بھی سننی پڑیں۔ آج لوگ کہتے ہیں کہ آپ کا مشورہ صحیح تھا اور باوجود اس کے کہ مسلمان لیڈروں کے ہاتھ میں میرا ٹریکٹ پہنچا اور وہ خط بھی جس میں تجاویز تھیں مگر وہ کہتے ہیں کہ ہمیں یاد نہیں کہ آپ کی طرف سے ہمیں کوئی ٹریکٹ اورخط ملا ہو۔ اگر ٹریکٹ اور خط پہنچ جاتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ہم آپ کامشورہ قبول نہ کرتے۔
یہ زمانہ گزراتو اِس کے بعد بھی بیسیوں مواقع ایسے پیش آئے کہ اگر دوسری جماعتوں کو وہی مواقع پیش آتے تو وہ کبھی صبر سے کام نہ لیتیں اور ضرور خون ریزی تک نَوبت پہنچ جاتی۔ مثلاً شہید گنج کے موقع پر جامع مسجد میں پولیس اندر داخل ہونے سے گھبراتی ہے۔ مسلمانوں کا ڈکٹیٹر عَلَی الْاِعْلَان تقریریں کرتا ہے اور سپاہی ڈرتے ہیں کہ ہم مسجد میں کس طرح جائیں وہ مسلمانوں کا مقدس مقام ہے لیکن ہمارے مقدس مقام میں دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ کیا گیا۔ گورنمنٹ دوسری اقوام کے مقدس مقامات میں بھی تو ایک مرتبہ دفعہ ۱۴۴ کانفاذ کرکے دیکھے اسے پتہ لگ جائے گا کہ وہاں خونریزی ہوتی ہے یانہیں؟ مگر ہم نے ان تمام باتوں کوبرداشت کیا اور میں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو سختی سے روک کر اُن کے دلوں کا خون کردیا اِس لئے کہ ہماری جماعت کی یہ روایت قائم رہے کہ ہم امن پسند ہیں۔ پھر ان تمام حالتوں میں ہمارا رویہ جہاں ایک طرف حکومت کیلئے پُر امن رہا وہاں ملک سے بھی دوستانہ رہا۔
بنگال میں انارکسٹ انگریزوں کے خون سے کھیل رہے تھے میں نے اپنے خرچ پر انارکِسٹوں کی اصلاح کیلئے وفد بھیجے اور ان کا نہایت مفید اثر ہؤا اور اب جو بنگال میں کام کرنے والے مسلمان موجود ہیں ان کے متعلق تحقیق کرکے دیکھ لیا جائے کہ اب ان کے کیا خیالات ہیں اور ایک دو سال پہلے ان کے خیالات کیا تھے۔ ہمارے مبلّغوں کی اُس وقت کی رپورٹوں سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح انہیں سمجھا بُجھا کر درست کیاگیا اور ان کے خیالات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ خود حکومت کے انگریز افسروں سے پُوچھا جاسکتا ہے کہ ہم نے کِن حالات میں انارکسٹوں کی اصلاح کا کام کیا۔ جو حالت اُس وقت انگریز افسروں کی تھی اُس کاپتہ اِس سے لگ سکتا ہے کہ ہمارا ایک آدمی جو انارکسٹوں کی اصلاح کیلئے مقرر تھا وہ ایک دفعہ ایک مشہور ضلع کے انگریز ڈپٹی کمشنر سے ملنے گیا۔ ابھی ایک منٹ ہی اُسے بات کرتے گزرا تھا کہ یکدم وہ یہ سن کر حیران رہ گیا کہ وہ انگریز ڈپٹی کمشنر اُس سے کہہ رہاہے ’’ہینڈز اپ‘‘۔ یعنی ہاتھ کھڑے کردو۔ یہ الفاظ عموماً اُس وقت کہے جاتے ہیں جب کوئی چور، ڈاکو یاقاتل سامنے آجائے اور یہ خیال ہو کہ وہ حملہ کردے گا اُس وقت فوراً پستول دکھا کر اور ہینڈز اپ کہہ کرتلاشی لی جاتی ہے۔ اس بے چارے نے بھی حیران ہوکرہاتھ اونچے کردیئے اور ڈپٹی کمشنر نے پستول سامنے رکھ کر اُس کی تلاشی لینی شروع کردی۔ جب تلاشی کے بعد کوئی چیز نہ نکلی تو اُس نے پوچھا آپ نے تلاشی کیوں لی تھی؟ وہ کہنے لگامیں نے سمجھا تم کوئی انارکسٹ ہو۔ بعد میں دوسرے موقع پر ایک اور انگریز افسر جو فوج میں کرنیل تھا اسے اپنے ساتھ لے کر ڈپٹی کمشنر کے پاس گیا اور بتایا کہ یہ توبغاوت کے مٹانے کیلئے یہاں کام کررہا تھا آپ اس سے گھبرا کیوں گئے۔
یہ زیادہ دور کی بات نہیں قریب کے عرصہ میں یہ واقعات ہؤا کرتے تھے مگر ہم نے ان واقعات کو دُور کرنے کی کوشش کی اور خداتعالیٰ کے فضل سے بہت حد تک کامیاب ہوئے۔ اس کے ساتھ ہمارا رویہ اپنے ملک کے ساتھ ہمدردانہ رہا کیونکہ ہم نے مُجرم نہیں پکڑوائے بلکہ ان کی کی اصلاح کی کوشش کی او رجب ہمیں معلوم ہوا کہ کوئی شخص باغیانیہ خیالات رکھتا ہے تو ہم نے اُس کے خیالات کودور کیا ہے۔ چنانچہ کئی انارکسٹ تھے جنہوں نے ہماری کوششوں کی وجہ سے اپنے خیالات کو بدل دیا۔ ہماری جماعت میں بھی بعض لوگ موجود جو پہلے انتہا پسند تھے مگر سمجھانے کے بعد اُن کی اصلاح ہوگئی اور وہ جماعت میںشامل ہوگئے۔ پھر ایسے بھی لوگ ہیں جو اگرچہ ہماری جماعت میں شامل نہیں مگر اس قسم کے خیالات سے انہوںنے ہماری وجہ سے توبہ کرلی۔ تو ہمارا جہاں یہ طریق ہے کہ ہم ملک سے فتنہ و فساد دور کرتے ہیں وہاں ہمارا یہ کبھی طریق نہیں ہؤا کہ ہم مجرموں کے نام گورنمنٹ پر ظاہرکریں اور انہیں پکڑوانے کی کوشش کریں۔ سارے سلسلۂ خدمات میں صرف ایک شخص کانا م ہم نے گورنمنٹ کے سامنے پیش کیا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ وہ ہندوستان میں نہیں تھا بلکہ ہندوستان سے باہر کسی اور ملک میں تھا اور ہم اس کو سمجھا نہیں سکتے تھے۔ وہ حکومتِ انگریزی کے خلاف ایک بہت بڑی سازش کررہا تھا جب اس کے نا م سے حکومت کو اطلاع دی گئی تو پہلے فارن سیکرٹری نے اپنی بے بسی کا اقرار کیا لیکن آخر اس حکومت کی معرفت جس میں وہ رہتا تھا اُسے وہاں سے نکال دیا گیا جہاں سے وہ حکومت کو نقصان پہنچاسکتا تھا۔
غرض ہم نے حکومتِ برطانیہ کی مدد کے ساتھ اس امر کا بھی ہمیشہ خیال رکھا ہے کہ اپنے اہلِ ملک کی بھی خیرخواہی کریں اور کبھی جاسوسی کا کام نہیں کیا۔ جس شخص کامَیں نے ذکرکیا ہے کہ اُس کا معاملہ استثنائی ہے اس کے بارہ میں بھی ہم اس لئے مجبور ہوگئے کہ ہم اس کو سمجھا نہیں سکتے تھے ورنہ ہمارا یہ اصول ہے کہ اصلاح کی کوشش کرتے ہیں نہ کہ نقصان پہنچانے کی۔
یہ چند مثالیں ان بہت سی خدمات کی ہیں جوہم نے حکومت کے فائدہ کیلئے کی ہیں مگر نہ تو حکومت نے ہماری قدر کی اور نہ قوم نے ہماری قدر کی حالانکہ نہ ہم نے کبھی ملک سے غدّاری کی اور نہ حکومت کے کسی حکم کی خلاف ورزی کی اور نہ اس کے خلاف بغاوت کا راستہ اختیار کیا مگرباوجود اس کے حکومت نے بھی ہمیں بُرا سمجھا اور قوم نے بھی۔ پس ہر منصف مزاج انسان اگر انصاف سے دیکھے تو اسے ہماری امن پسندی کے جذبات کا قائل ہونا پڑتا ہے لیکن افسوس ہے کہ ہمیں گزشتہ دو سال کے عرصہ سے نہایت ہی تلخ تجربہ ہورہا ہے اور کسی ایسے قصور کی وجہ سے جس کا ہمیں علم نہیں ہمارے خلاف بعض حُکّام کارروائیاں کررہے ہیں۔ہم نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح پتہ لگے ہمارا جُرم کیاہے مگر ہمیں جُرم کاپتہ نہیں لگا اس لئے کہ جب حکومت کے افسروںسے ملاقات کی جاتی اور اُن سے دریافت کیاجاتا ہے تو ہ کہہ دیتے ہیں ہم تو ناراض نہیں۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ جب وہ ناراض نہیں تو یہ کارروائیاں کیوں ہورہی ہیں؟
پھر بعض باتیں جو لوگ بناتے ہیں وہ اتنی مضحکہ خیز ہیں کہ انہیں ماننے کیلئے طبیعت تیار ہی نہیں ہوتی۔ مثلاً پچھلے دنوں لاہور کے ایک اخبار میں دہلی کے ایک نامہ نگار کا ایک مضمون چھپا تھا کہ ہِزایکسی لینسی گورنر پنجاب احمدیوں سے اِس لئے ناراض ہیں کہ ان کے تقرر سے پہلے احمدیوں نے سرہنری کریک کے متعلق گورنر بننے کی کوشش کی اور ان کیلئے پنجاب میں لوگوں سے دستخط لئے۔ یہ اتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ اس کو ناراضگی کی وجہ قرار دینے کیلئے دل تیار نہیں کیونکہ اگر آپس میں اختلاف ہو بھی جائیں تویہ ہم تسلیم نہیں کرسکتے کہ اختلاف کے بعد دوسرے کی ذہانت اور قوتِ فکر بھی کم ہوجاتی ہے۔ پس اوّل تو کوئی فہیم انسان اسے ماننے کیلئے تیار ہی نہیںہوسکتا لیکن جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ واقعات اس کے بالکل اُلٹ ہیں جو ظاہر کئے گئے ہیں تو اس بات کا مضحکہ خیز ہونا او ربھی زیادہ نمایاں صورت اختیار کرلیتا ہے۔
میں نے اِس واقعہ کا کبھی اظہار نہیں کیا کیونکہ اس کے نتیجہ میں بعض لوگوں پرحرف آتا ہے لیکن اب جبکہ ایک اخبار میں یہ واقعہ چَھپ چکا ہے میں مجبور ہوں کہ اس واقعہ کو بیان کروں۔ واقعہ یہ ہے کہ دو تین جگہ سے مجھے اطلاع ملی کہ بعض لوگ جن کے نام میں ظاہر کرنا نہیں چاہتا منٹگمری، امرتسر اور ایک اور ضلع کے لوگوں سے سرہنری کریک کی تائید میں دستخط کرارہے ہیں تا ایک میموریل بھیجا جائے کہ آئندہ گورنر سر ہنری کریک کو مقرر کیا جائے۔ سرہنری کریک ان افسروں میں سے ہیں جن کو ہماری جماعت سے بہت قریب کے زمانہ سے تعلق پیدا ہؤا ہے۔ پہلے پہل شملہ میں ۱۹۳۱ء میں میری ان سے ملاقات ہوئی۔ جب تک وہ پنجاب میں رہے میں نے ہمیشہ انہیں ایک صاف گو دوست پایا اور جب کبھی ان سے کوئی کام پیش آیا مجھے نہیں یاد کہ انہوں نے ہمیں کبھی مایوس کیا ہو۔ جاتی دفعہ انہوں نے مجھے جو چِٹھی لکھی اُس میں انہوںنے صاف طور پر تسلیم کیا کہ جماعت احمدیہ کی وفاداری اور امن پسندی کا اُن کے دل پر گہرا اثر ہے اور یہ امر ان کی تمام عمر کے تجربہ سے ثابت شُدہ ہے، مگر سر ہنری کریک سے بھی پہلے ہم موجودہ گورنر صاحب کو جانتے تھے ان کے تعلقات بھی ہمارے ساتھ دوستانہ تھے۔ جب یہ پنجاب میں لاہور کے ڈپٹی کمشنر تھے اُس وقت بھی ہمارے ان سے اچھے تعلقات تھے۔ گورنمنٹ آف انڈیا میں گئے تب بھی ہم نے انہیں کبھی اپنا بدخواہ نہیں پایا ایسی صورت میں افراد کو مدنظر رکھتے ہوئے ادھر ذہن منتقل ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ ہم ایک کی تائید کرتے اور دوسرے کی مخالفت۔ لیکن ایک بات ایسی تھی جس کی وجہ سے اس میں دخل دینا ہمارے لئے ضروری تھا اور وہ یہ کہ اِس وقت بڑے بڑے انگریز افسروں کے متعلق ہندوستان کے لوگوں کے دلوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ وہ جنبہ داری نہیں کرتے اور نہ اِن میں پارٹیاں ہوتی ہیں۔ اب اگر دستخطوں کا مرض پھیل جاتا تو پنجاب کے زمیندار طبقہ کے دل میںیہ احساس پیدا ہوجاتا کہ انگریزوں میں بھی پارٹیاں ہوتی ہیں اور وہ بھی انصاف اور عدل کے ماتحت تقرریاں نہیں کرتے بلکہ ان میں بھی ایک دوسرے کی طرفداری کی جاتی ہے اور اس طرح انگریزی حکومت کو پنجاب میں اتنا نقصان پہنچتا کہ کانگرس بھی اتنا نقصان حکومت کونہیں پہنچاسکی کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان پر انگریزوں کی فوجیں حکومت نہیں کررہیں بلکہ انگریزوں کا رُعب حکومت کررہا ہے۔ اور انگریزی فوجوں کے متعلق تو وہی حقیقت درست ہے جو ایک کانگرسی نے کہی کہ ۳۳کروڑ ہندوستانی تو تھُوک تھُوک کر سپاہیوں کو بہا سکتے ہیں۔ اور واقعہ میں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر لوگ مرنے کیلئے تیار ہوجائیں تو ۳۳ کروڑ اتنی بڑی تعداد ہے کہ وہ انگریزی فوجوں کا بخوبی مقابلہ کرسکتی ہے مگر وہ مرنے کیلئے تیار نہیں اور اس لئے تیار نہیں کہ انگریزوں کا دلوں پر رُعب ہے۔ پس انگریزی حکومت کی تقویت فوجوں کے ذریعہ نہیں بلکہ اس کے قومی کیریکٹر، انصاف اور رُعب کی وجہ سے ہے اور یہ چیز ایسی ہے کہ باوجود انگریزوں کو زبان سے گالیاں دینے کے جب اس قوم کی مخالفت کا وقت آتا ہے لوگ یہ کہہ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ خبر نہیں دوسری حکومت اِس سے اچھی ملے یا نہ ملے۔ جس دن یہ خیال لوگوں کے دلوں سے اُٹھ گیا، جس دن یہ رُعب لوگوں کے قلوب سے جاتا رہاکہ انگریزی حکومت کا انصاف اور قومی کیریکٹر مضبوط ہے اُس دن نہ انگریزوں کی توپیں کام آئیں گے نہ فوجیں کام آئیں گی بلکہ انہیں اپنا بوریا بستر باندھ کر اپنے ملک کو جانا پڑے گا۔
جرمنی سے بھی توپیں وغیرہ لے کر اس کو بے دست و پا کردیا گیا تھا یہاں تک کہ تنہا بیلجیئم بھی اسے گھور لیتا تھا مگر آج یورپ کی آدھی طاقتیں ایک طرف جرمنی کو تیوری چڑھا کر دیکھتیں اور دوسری طرف چھلانگ لگا کر دو قدم پیچھے ہٹ جاتی ہیں کہ کہیں جرمن تھپڑ نہ ماردے۔ بالکل اسی طرح جس طرح بلیاں آپس میں لڑتی ہیں پہلے ایک بلی غر غر کرتی ہے پھر چھلانگ لگا کر پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ جرمن بھی نہتا تھا مگر جب اس قوم کے افراد نے کہا ہم اب ذلّت برداشت نہیں کرسکتے اور اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ عمل میں نکل کھڑے ہوئے تو انگریزوں اور فرانسیسیوں کی توپیں دھری کی دھری رہ گئیں اور انہوں نے خود توپیں اور بندوقیں بنا کر دکھادیں۔
پس قوم جس دن تیار ہوجاتی ہے اُس دن کوئی طاقت اُس کے ارادوں میں مزاحم نہیں ہوسکتی اور قوم کے تیار ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس قوم کے افراد جو فوجوں میں ہوں وہ بھی خلاف ہوجائیں، جو عہدوں پر ہوں وہ بھی خلاف ہوجائیں اور سب مل کر مقابلہ کریں ایسی صورت میں تھوڑی سی انگریزی فوج بھلا کیا کرسکتی ہے۔ لیکن کیوں لوگ انگریزوں کا مقابلہ نہیں کرتے؟ اس لئے کہ وہ دلوں میں سمجھتے ہیںانگریز انصاف کو پسند کرتے ہیں۔ یہ لوگوں کا یقین ہے کہ جو انگریزی حکومت کو تقویت دے رہا ہے ورنہ انگریزوں کی فوجیں ان کی حکومت کو تقویت نہیں دے رہے۔ پس اگر دستخطوں کی وباء تمام پنجاب میں پھیل جاتی تو انگریزی دبدبہ پر ایک کاری ضرب لگتی اور لوگ یہ سمجھتے کہ انگریزوں میں بھی تفرقہ ہے وہ بھی جتھہ بازی کے مُرتکب ہیں اور ان میں بھی انصاف قائم کرنے کی روح نہیں رہی۔ میںنے جب اِس خبر کو سنا تو مجھے سخت رنج ہؤا ۔ میں جانتا تھا کہ سرہنری کریک ایک نہایت ہی شریف انسان ہیں اور ان کا اس فعل میں دخل نہیں ہوسکتا یہ صرف بعض لوگوں کی چالاکی ہے جو اس طرح اپنی مقبولیت پید اکرنا چاہتے ہیں اس لئے میں نے اس خبر کے معلوم ہونے پردرد صاحب کوسرہنری کریک کے پاس بھیجا اور اُن کوکہلابھیجا کہ آپ ہمارے دوست ہیں اور آپ کی مدد کرنا قدرتی طور پر ہمیں مرغوب ہے لیکن پنجاب کے بعض حلقوں میں ایک ایسا کام ہورہا ہے جس سے آپ کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا مگر آپ کی قوم کو نقصان پہنچے گا کیونکہ آخر لوگوں کے دستخطوں پر تو حکومت نے گورنر کا انتخاب نہیں کرنا لیکن اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کوعلم بھی نہ ہوگا اور انگریزوں کا رُعب پنجاب سے مٹ جائے گا کیونکہ عوام یہ خیال کریں گے کہ انگریزوں کے بڑے بڑے آدمی بھی آپس میں لڑتے ہیں۔ اگر آپ کہیں تو ہم اس تحریک کو روکیں اور اسے دبانے کی کوشش کریں۔ میں جانتا تھا کہ پنجاب کے بعض لوگوں کا یہ فعل سرہنری کریک کے منشاء کے خلاف ہے بلکہ اس کاانہیں علم بھی نہیں ہوگا چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔ انہوں نے کہا مجھے اِس بات کا کچھ علم نہیں اور میں آپ کا احسان مندہوں گا اگر آپ ان لوگوں کا مقابلہ کریں اورانہیں روکیں۔ چنانچہ مختلف جگہوں پر ہم نے آدمی مقرر کئے اور انہوں نے لوگوں کو سمجھایا جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ یہ تحریک دب گئی کیونکہ عموماً ایسی تحریکات چلانے والے کمزور دل کے لوگ ہؤا کرتے ہیں اور جونہی انہیں معلوم ہو کہ ان کاراز فاش ہونے والا ہے وہ دب جاتے ہیں۔ یہ واقعہ ہے جوہؤا ۔ اِس کے ہوتے ہوئے میں یہ کسی طرح تسلیم نہیں کرسکتا کہ ہز ایکسی لینسی گورنر پنجاب پر اس بات کا کوئی اثر ہو یہ بالکل بچوں کی سی بات ہے اور خطبہ میں مَیں نے اس لئے اس واقعہ کا ذکر کردیا ہے کہ سرہنری کریک بھی اِس واقعہ کوپڑھ لیں اور گواہ رہیں کہ میں نے اس واقعہ کو صحیح طور پر پیش کیا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ درد صاحب نے مجھے جو کچھ آکر بتایا اُس میں کوئی غلطی نہ تھی ممکن ہے جو لوگ سرہنری کریک کی تائید میں دستخط کررہے تھے انہوںنے جب دیکھا ہو کہ ان کی سازش کا راز فاش ہوگیا ہے تو انہوں نے ہمارا نام لے دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ احمدی دستخط لے رہے تھے۔ اِس کو میں ماننے کیلئے تیار ہوں لیکن اس امر کو تسلیم کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں کہ ہزایکسی لینسی گورنر پنجاب پر اِس کا کوئی اثر ہو۔ پس واقعہ جو ہے وہ اس کے بالکل اُلٹ ہے جو بیان کیا جاتا ہے۔ ہم نے سرہنری کریک کی تائید میں دستخط نہیں کروائے بلکہ اُن دستخطوں کو رُکوایا اور سرہنری کریک تک بات پہنچائی کیونکہ یہ محض بعض لوگوں کی چالبازی تھی جو چاہتے تھے کہ اپنے لئے ترقی کی کوئی راہ نکالیں مگر انہوں نے اپنی ترقی کے شوق میں یہ نہ سوچا کہ وہ انگریزی حکومت کی جڑوں پرتبر رکھ رہے ہیں۔ پس میں آج اِس راز کوکھول دیتا ہوں لیکن ساتھ ہی یہ کہہ دیتا ہوں کہ میں یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ ہزایکسی لینسی کی طبیعت پر اِس واقعہ کا کسی رنگ میں کوئی اثر ہو۔ پھر کیا بات ہے او رکس جگہ سے یہ امر شروع ہؤا ہے اس کا ہمیں آج تک علم نہیں ہوسکا۔ بعض لوگ بتاتے ہیں کہ پنجاب گورنمنٹ سے شروع ہؤا اور نیچے آیا، بعض لوگ کہتے ہیں کہ نیچے سے شروع ہؤا اور اوپر گیا، اوربعض یہ کہتے ہیں کہ گورنمنٹ آف انڈیا سے نیچے آیا مگر بہرحال کہیں سے یہ بات شروع ہوئی نتیجہ یہ ہے کہ متواتر ایسی تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ جماعت کا امن برباد کیاجائے او راس کی طاقت کو توڑا جائے۔
یہ تو میں بارہا بتاچکا ہوں کہ ہماری جماعت کو توڑنے کی کسی میں ہمت نہیں۔ یہ وہ کونے کاپتھر ہے کہ جو اِس پر گِرا وہ بھی ٹوٹا اور جس پر یہ گِرا وہ بھی چِکناچُور ہوا۔ اگر حکومت کے کسی افسر کا یہ خیال ہے کہ وہ احمدیت کومٹاسکتا ہے تو یہ بالکل ناممکن بات ہے۔ وہ افسر مجھ کونقصان پہنچاسکتے ہیں، جماعت کے ہر شخص کو فرداً فرداً نقصان پہنچاسکتے ہیں، حتّٰی کہ وہ ہمیں مار بھی سکتے ہیں۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پرلٹکائے گئے اور حضرت زکریا علیہ السلام قتل کئے گئے تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں حکومت قتل نہیں کرسکتی یا نقصان نہیں پہنچاسکتی۔ خداتعالیٰ نے حکومت کو جو طاقتیں دی ہیں ان کے ماتحت وہ ایسا کام کرسکتی ہے، چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز، مگر جماعت میرا نام نہیں، جماعت زید کانام نہیں،جماعت بکرکا نام نہیں بلکہ جماعت اُس تعلیم کانام ہے جسے زید، بکر، عمر، خالد کسی کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں پھیلانا ہے۔ اِس چیز کو مٹانے کی کسی میں طاقت نہیں اور عقلمندانسان تو اتنی سی بات سے ہی اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ مٹنے والی تحریکیں ہمیشہ ہی ایک جگہ محدود ہوتی ہیں۔ اگر ہم پنجاب میں محدود ہوتے تو صرف پنجاب میں محدود ہونے کی وجہ سے کوئی خیال کرسکتا تھا کہ وہ ہمیں مٹادے گا مگر ہم تو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پھر پنجاب کے حُکّام دُنیوی اصول کے ماتحت بھی کس طرح خیال کرسکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو وہ مٹاسکتے ہیں۔
رسول کریم ﷺ نے صحابہ کوایک دفعہ مردم شُماری کا حکم دیا۔ مردم شُماری کی گئی تو پتہ چلا کہ سات سَو مسلمان ہیں۔ اس پر صحابہؓ نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!آپ نے کیوں مردم شماری کرائی؟ کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ اب ہمیں کوئی مٹاسکتا ہے۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اب تو ہم سات سَو ہوگئے ہیں ؎۲ ۔ پس ہم تو ان لوگوں کے جانشین ہیں جو سات سَو ہوکر سمجھتے تھے کہ دنیا کی کوئی طاقت انہیں مٹا نہیں سکتی۔ گورنمنٹ تسلیم کرتی ہے کہ پچھلی مردم شماری میں جماعت احمدیہ کی تعدد صرف پنجاب میں ۵۶ہزار تھی۔ جب ہماری تعداد اس کی اپنی تسلیم شُدہ تعداد کے مطابق صرف پنجاب میں ۵۶ہزار تھی تو ہم تو ان لوگوں کی اولاد ہیں جو سات سَو ہوکر مٹنے کانام نہیں لیتے تھے پھر ہم ۵۶ ہزار ہوکر کس طرح خوف کھاسکتے ہیں۔
کوفہ کے لوگ ہمیشہ جھگڑتے رہتے تھے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ان کے روز روز کے جھگڑے سن کر کہا اب میں ان پرایک ایسا گورنر مقرر کروں گاجو انہیں سیدھا کردے گا۔ چنانچہ انہوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کو بھیجا جو اُنیس سال کے تھے جب کوفہ والوں کو پتہ لگا کہ ایک اُنیس سالہ نوجوان ان کا گورنر بن کر آیاہے تو انہوں نے تجویز کیا کہ آئو اس سے کوئی تمسخر کریں۔ چنانچہ بڑے بڑے آدمی جبے پہن کر اس سے ملنے کیلئے گئے اور سوال کیا جناب کی عمر؟ جب رسول کریم ﷺ نے اسامہ کوایک بہت بڑا جیش دے کر جس میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی شامل تھے لڑائی کیلئے بھیجا تھا اُس وقت اُن کی عمر اٹھارہ سال کی تھی، جب کوفہ والوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے پوچھا جناب کی عمر ؟ تو انہوں نے جواب دیا۔ میری عمر پوچھتے ہو؟ جس وقت رسول کریم ﷺ نے اُسامہ کو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا افسر بنا کر بھیجا تھا اُس وقت جو عمر اسامہ کی تھی اُس سے ایک سال زیادہ ہے۔
میں بھی ان لوگوں سے یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ صحابہ کرام نے جب سمجھا تھا کہ اب ہم سات سَو ہوگئے ہیں ہمیں اب کون تباہ کرسکتا ہے تو صحابہ کی اُس وقت کی تعداد سے اب ہم کم سے کم دو سَو گُنے زیادہ ہیں اور ہم محدود نہیں قادیان میں، ہم محدود نہیں پنجاب میں، ہم محدود نہیں یو۔پی میں، ہم محدود نہیں ہندوستان میں بلکہ ہم افغانستان میں بھی ہیں، ہم روس میں بھی ہیں، ہم چین میں بھی ہیں، ہم جاپان میں بھی ہیں، ہم سماٹرا میں بھی ہیں، ہم جاوا میں بھی ہیں، ہم سٹریٹ سیٹلمینٹس میں بھی ہیں، ہم امریکہ میں بھی ہیں، ہم افریقہ میں بھی ہیں، ہم یورپ میں بھی ہیں، ہم بِلادِ عربیہ میں بھی ہیں، اِسی طرح ہم مشرق میں بھی ہیں اور مغرب میں بھی اور دنیا میں خدا کے فضل سے ہم روزبروز بڑھ رہے ہیں۔ پس ہمارے بیج کو کوئی ایک حکومت کوئی دو حکومتیں بلکہ کوئی تین حکومتیں مل کر بھی تباہ نہیں کرسکتیں اور نہ ان کا متفقہ عزم دُنیوی طو رپر ہمیں نقصان پہنچاسکتاہے اور الٰہی طو رپر تو ہم یقینا محفوظ ہیں اور اُس خدا کے ہاتھ میں ہیں جس پر کوئی تلوار نہیں چلاسکتا۔
غرض میں سمجھ ہی نہیں سکا کہ ہمارے خلاف یہ کیوں شورش ہے اور اس کی تہہ میں کونسی بات کام کررہی ہے اور چونکہ میں ہز ایکسی لینسی کا ذکر کررہا ہوں اس لئے اِ س دَوران مَیں ایک اور بات بھی بیان کردینی چاہتاہوں۔ پچھلے سال کے آخر میں اتفاقی طور پر ہمارا یک جگہ اجتماع ہوگیا اور ہزایکسی لینسی کی مہربانی سے ان سے مجھے ملاقات کا موقع مل گیا۔ اُن کی گفتگو کا جو اثر اُس وقت میرے دل پر تھا وہ یہ ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں پر کامل اعتماد رکھتے ہیں اور وہ یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ ہمارے ساتھ بددیانتی کا سلوک ہوتا ہے۔ دوسری طرف میری طبیعت پر یہ اثر بھی تھا کہ وہ پوری نیک نیتی کے ساتھ جماعت احمدیہ اور حکومت میں جو اختلاف واقع ہوگیاہے اسے مٹانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ ذاتی رویہ ان کا نہایت ہی شریفانہ اور ان کے عہدہ کے بالکل مناسبِ حال تھا۔ پس گو میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب تک ان کا نقطۂ نگاہ اپنے ماتحتوں کے متعلق نہ بدلے ہم کسی متفقہ اصول پر نہیں پہنچ سکتے لیکن یہ ضرور ہے کہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم موجودہ حالات کی ذمہ داری کی ابتداء ان کی طرف منسوب کریں۔ پس میرا فرض ہے کہ میں اپنے شکوک و شبہات کو اِدھر اُدھر پھیروں اور ان کا کوئی اور سبب معلوم کروں۔ اس ملاقات کے بعد خطبہ میں مَیں نے اعلان کردیا تھا کہ بعض حالات ایسے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت میں ایک تغیر ہے۔ چنانچہ اس کے بعد کچھ افسر بھی تبدیل کئے گئے اور کچھ لوکل افسر جو قادیان میں شورشیں برپا کررہے تھے ان میں بھی کمی واقع ہوگئی اور میرا خیال ہے، میں نہیں جانتا وہ صحیح ہے یا نہیں کہ اس گفتگو کے نتیجہ میں ہزایکسی لینسی نے مناسب سمجھا کہ اپنے افسروں کو یہ ہدایت کردیں کہ یہ اثر نہیں پیداہونا چاہئے کہ حکومتِ پنجاب احمدیوں کو تکلیف دینا چاہتی ہے۔ غرض حکومت میں تبدیلی شروع ہوئی اور میں نے فراخدلی سے اس تبدیلی کا اعلان کردیا۔ اگر یہ حالات قائم رہتے تو ممکن ہے وہ ناخوشگوار باتیں جو حکومت اور ہمارے درمیان تھیں جاتی رہتیں اور ممکن ہے ہم پھر اس مقام پر آجاتے کہ اطمینان اور سکون کے ساتھ ملک کی خدمت میں حصہ لے سکتے اور حکومت کی بھی مدد کرسکتے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ خاموشی اور سکون زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہا او رکئی تبدیلیاں ظہور میں آنے لگیں۔ چنانچہ پہلی تبدیلی جو یکدم نظر آئی وہ یہ تھی کہ ریتی چھلہ کی زمین کے متعلق حکومت کی طرف سے مقدمہ چلادیا گیا حالانکہ عام حالات میں جب ایک شخص کہتا ہے کہ میرا حق ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ میرا حق ہے تو اس کا علاج یہی ہؤا کرتا ہے کہ جس کا قبضہ ہو اُس کے خلاف دوسرا فریق مقدمہ دائر کردیتا ہے یہی طریق یہاں اختیار کیا جانا چاہئے تھا لیکن کیا یہ گیاکہ حکومت نے اپنے خرچ سے ایک غیرمعروف قانون کے ماتحت ہمارے خلاف فوجداری مقدمہ کھڑا کردیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس زمین کوہماری قرار دیاجائے اورنہ یہ کہتا ہوں کہ ہمارے مخالف کی قرار دیا جاتا کیونکہ حق کا فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے اور عدالت میں مقدمہ پیش ہے مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ حکومت کا یہ فعل یقینا انصاف کے خلاف تھا کہ وہ عدالت میں اپنے خرچ سے ہمارے خلاف مقدمہ کھڑا کرتی۔ بے شک خاص حالات میں حکومت خاص طریق عمل کی بھی محتاج ہوتی ہے مگر یہاں وہ حالات پیدا نہ تھے۔ بہرحال یہ مقدمہ عدالت میں ہے اور وہی فیصلہ کرے گی اور چونکہ قانون ہمیں اس کے متعلق کچھ کہنے سے روکتا ہے اس لئے ہم اس کے متعلق کچھ بیان نہیں کرسکتے۔ ہاں مقدمہ کا چلانا ایک ایگزیکٹو عمل ہے۔ ایک مجسٹریٹ بھی جب مقدمہ چلائے تو ایگزیکٹو حیثیت میں ہی چلائے گا۔ جیسے ڈپٹی کمشنر جب کوئی مقدمہ پیش کرے گا تو بحیثیت ڈپٹی کمشنر پیش کرے گا لیکن جب مقدمہ سنے گا تو بحیثیت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سنے گا۔ پس میرے نزدیک اس مقدمہ کے چلانے کی ذمہ داری حکومت پر ہے نہ کہ عدالت پر۔ اورمیرے نزدیک احسن طریق یہ تھاکہ دونوں فریق کو چھوڑ دیا جاتا کہ ان میں سے جو چاہے عدالت میں چلا جائے مگر حکومت یکدم سرکاری خرچ پر مقدمہ چلوادیتی ہے اور اس زمین کے متعلق مقدمہ چلادیتی ہے جس کے متعلق پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر نے جس کانام میں نہیں لیتا چوہدری ظفراللہ خانصاحب سے ایک ملاقات کے موقع پر کہا کہ میں نے اس زمین کے کاغذات منگوا کر دیکھے ہیں اور ایک لمبے عرصہ تک ان کا مطالعہ کیا ہے اگر مجھ پر ثابت ہوجاتا کہ یہ زمین احمدیوں کی نہیں تو میں ضرور دیواریں گروادیتا۔ اسی طرح ایک افسر نے مجھ سے کہا کہ پہلے ہمیں غلط رپورٹ پہنچی تھی بعد میں ہمیں معلوم ہؤا کہ وہ دو زمینیں جن کے متعلق جھگڑا ہے وہ آپ کی ہیں۔ ان دوباتوں کے بعد جب یکدم سرکاری طور پر مقدمہ چلایا جائے تو ہمیں حیرت و استعجاب کا لاحق ہونا ایک لازمی امر ہے اور ہمیں تعجب ہے کہ اس قدر علم حاصل کرلینے کے بعد کون سی ایسی نئی بات پیدا ہوئی کہ یہ کارروائیاں ہونے لگیں۔ مجھے نہیں معلوم یہ مقدمہ چلانے کا حکم پنجاب کے کسی افسر نے دیا یا ضلع کے کسی افسر نے کہا۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ ظاہر کرے ۔ اگر وہ ظاہر کرے تو پتہ لگ سکتا ہے نہیں تو ہمیں کیا معلوم ہوسکتا ہے کہ کس کے کہنے پر یہ مقدمہ چلایا گیا۔ ہم تو یہی سمجھ سکتے ہیں کہ ایک غیرمعمولی تغیر حکومت میں پیدا ہؤا اور جب ہم اس کے ساتھ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ چارپانچ مہینہ خاموش رہنے کے بعد اِدھر مقدمہ شروع ہؤا اُدھر اِس نیت سے دو احراری آگئے کہ وہ ریتی چھلہ کے احاطہ کے دروازوں میں سے گزریں گے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دیواریں تو چار پانچ ماہ سے بنی ہوئی تھیںان چار پانچ مہینوں میں قادیان والوں کو تو وہاں سے گزرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی لیکن پانچ مہینہ کے بعد جب حکومت نے مقدمہ چلادیا تو یکدم دو احراریوں کو وہاں سے خاص طور پر گزرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ کیا اس کا صاف طور پر یہ مطلب نہیں کہ بعض افسروں نے مقدمہ میں اپنے ہاتھ مضبوط کرنے کیلئے اشارہ کرکے ان دو آدمیوں کو بھجوایا تھا کیونکہ اس دفعہ کے ماتحت جس کے ماتحت مقدمہ چلایا گیا ہے فساد کا خطرہ بھی ضروری ہے۔ پس پانچ مہینے پہلے تو کسی قسم کا جھگڑا پیدا نہ ہؤا لیکن جب گورنمنٹ نے مقدمہ کھڑا کردیا تو کسی ایسے افسر نے جسے اس بات سے دلچسپی تھی کہ مقدمہ ضرور جیتا جائے اشارہ کردیا کہ دو احراری چلے جائیں اور زبردستی دروازوں میں داخل ہوں اس کے بعد جب احراری یہاں پہنچتے ہیں تو ہماری حیرت کی کوئی حد نہیں رہتی جب ہم دیکھتے ہیں کہ پولیس جب گرفتار کرتی ہے تو احرار کے ساتھ ان لوگوں کو بھی گرفتار کرلیتی ہے جو مالکِ زمین کی طرف سے حفاظت پر کھڑے ہوئے تھے حالانکہ ہائی کورٹ کے قریب کے فیصلے موجود ہیں بلکہ موجودہ چیف جسٹس جو نہایت ہی سمجھدار انسان ہیں جنہوں نے برطانوی انصاف کی دھاک بٹھادی ہے او رجن کے مخالف بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایک دیانتدار انسان ہیں اور انصاف کی خواہش رکھتے ہیں انہوں نے کئی فیصلوں میں لکھا ہے کہ جب کوئی شخص اپنی مقبوضہ یا مملوکہ چیز کی حفاظت کررہا ہو تو اس حفاظت میںاگر وہ حملہ آور کا شدید مقابلہ بھی کرے تو وہ مجرم نہیں۔ ایک اور جج نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ اگر ایک شخص کسی دوسرے کا حق چھیننے کیلئے ا س سے لڑے اور دوسرامار ہی کھاتا رہے اس کا سختی سے مقابلہ نہ کرے تو خودحفاظتی کا قانون گورنمنٹ نے کیوں بنایا ہے؟ پس ہمارے آدمی اپنے ایک حق کی حفاظت کررہے تھے اور احراری بے جا طور پر اس حق کو چھیننا چاہتے تھے مگر پولیس نے نہ صرف احراریوں کو گرفتار کیا بلکہ حفاظت کرنے اور پہرہ دینے والوں کو بھی گرفتار کرلیا۔
کوئی شخص سوال کرسکتا ہے کہ آپ بے شک اس زمین پر اپنا حق جتاتے ہیں لیکن گورنمنٹ تو اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ وہ آپ کا حق ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ہمارا اعتراض حق کی بناء پر نہیں اس کا فیصلہ تو عدالت میں ہوگا۔ ہمارا اعتراض تو یہ ہے کہ جب ہمارے خلاف مقدمہ کھڑا کیا گیا ہے تو اس امر کو تسلیم کرلیا گیا ہے کہ اس زمین پر اس وقت ہمارا قبضہ ہے ورنہ اگر ہمارا قبضہ تسلیم نہیں تو ہمارے خلاف مقدمہ کرنے کی وجہ کیا ہے۔ پس جب ہمارا قبضہ تسلیم کرلیا گیا ہے تو جب تک عدالت ہمارے قبضہ کونہ تڑوائے سرکاری محکموں کو ہمارے ساتھ وہی سلوک کرنا ہوگا جو ایک جائز قابض کے ساتھ کیا جاتا ہے او رعدالت کے فیصلہ تک پولیس اور حکومت کا فرض تھا کہ اس احاطہ میں داخل ہونے والوں کے خلاف کارروائی کرتی اور ہمارے آدمیوں کی مدد کرتی۔ ہاں اگر عدالت فیصلہ کردیتی کہ یہ احمدیوں کا حق نہیں تو اس کے بعد اس کا فرض تھا کہ ہمارے مخالفوں کی حفاظت کرتی۔ مگرجب تک عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا اور معاملہ عدالت میں زیرغور تھا اُس وقت تک حکومت خود مقدمہ چلا کر یہ تسلیم کرچکی تھی کہ اس زمین پر احمدیوں کا قبضہ ہے او رجس قبضہ کو حکومت تسلیم کرچکی تھی اس قبضہ کی حفاظت کرنے والوں کو پکڑنا ایک ایسی بات ہے جس کے سمجھنے سے ہم قاصر ہیں اور نہ کوئی اور اسے سمجھ سکتا ہے۔
یہ تبدیلی حکومت کے رویہ میں کیوں ہوئی؟ چاہے لوکل حُکّام کی وجہ سے ہوئی یا اوپر کے حُکّام میں سے کسی نے یہ خیال کیا کہ لوکل حُکّام تو ڈھیلے ہوگئے ہیں میں ہی کوئی تماشہ کروں۔ بہرحال اس میں کوئی راز ہے جو ہماری سخت دل شکنی کاباعث ہے اور یہ بات ہمیں بتاتی ہے کہ حکومت سے قریب کے زمانہ میں ہمیں کسی اچھی تبدیلی کی امیدنہیں ہوسکتی۔
مجھے یہ شبہ کہ اس معاملہ میں حکومت کے بعض افسروں کا دخل ہے اس لئے بھی ہے کہ ان دو احراریوں کے یہاں آنے سے تین دن پہلے احرار کے دفتر سے مجھے رپورٹ ملی کہ ایک شخص جس کا نام زید رکھ لو دوسرے شخص کے پاس جس کا نام بکر رکھ لو گیا اور اسے کہا کہ آپ فلاں شخص کو خط لکھ دیجئے کہ فلاں دن دو آدمی یہاں ضرور بھیج دے اور فلاں شخص سے بھی مَیں مل چکا ہوںاور وہ فلاں شخص حکومت کا ایک افسر تھا۔ اس کے تیسرے دن دو احراری آجاتے ہیں اور ریتی چھلہ کے دروازوں میں سے گزرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو اشاروں میں بات ہوئی تھی وہ اسی واقعہ کے متعلق تھی اورچونکہ اس رپورٹ میں ایک افسر کا نام بھی آتا تھا اس لئے ہمیں تسلیم کرناپڑتا ہے کہ کسی افسر کی اس میں انگیخت ہے۔ ہم یہ بات بالاافسروں کے پاس ثابت نہیں کرسکتے کیونکہ یہ بات اشاروں میں ہوئی تھی، نہ ہم اپنے انفارمر کا پتہ دے سکتے ہیں، نہ خبررسانی کے طریق کی اسے اطلاع دے سکتے ہیں کیونکہ ممکن ہے وہ اسے جھوٹ کہہ دیں گو وقوعہ کی پہلے سے خبر دے دینا جھوٹ نہیں بلکہ علم غیب ثابت کرتا ہے۔
اس سے کچھ عرصہ پہلے ایک اور واقعہ ہوا جو ہمارے لئے حیرت کا موجب ہؤا اور وہ یہ کہ ولایت سے ایک سیاح ہندوستان میں آیا۔ اس کے بعض احمدیوں سے گہرے تعلقات تھے چنانچہ اِسی بناء پر لاہور سے روانگی کے بعد وہ بعض احمدیوں کے ہاں بطور مہمان ٹھہرا مگر ہمیں معلوم ہؤا ہے کہ لاہورمیں حکومتِ پنجاب کے بعض افسروں نے ہماری جماعت کے خلاف اس کے کان بھرے اور اِسی وجہ سے اگرچہ وہ قادیان آنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر بغیر قادیان آئے واپس چلا گیا۔ لاہور سے روانگی کے بعد اور بعض احمدیوں کا مہمان ٹھہرنے کے بعد وہ اپنے فعل پر پچھتایا اور اُس نے ایک خط میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا اور لکھا کہ روزبروز میرا افسوس بڑھ رہا ہے کہ میں نے اس بارہ میں غلطی کی ہے۔ اِس واقعہ سے پتہ لگتاہے کہ حکومت پنجاب کے افسروں کے کم سے کم ایک حصہ کے قلوب میں احمدیوں کے متعلق جو منافرت تھی وہ ابھی دُور نہیں ہوئی۔
تیسری مثال یہ ہے کہ پرسوں اترسوں مجھے ایک ایسے دوست کی روایت پہنچی ہے جو ہماری جماعت میں شامل نہیں مگر چونکہ وہ لاہور میں ایک اعلیٰ عہدہ پر رہے ہیں اس لئے گورنمنٹ کے بعض افسروں سے ان کے اچھے تعلقات ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک احمدی دوست کو بتایا ہے کہ ایک ذمہ دار افسر نے اپنے دفتر میں یہ نوٹ کروایا ہے کہ مرزا صاحب کے دو بیٹے آئی۔ سی ۔ایس کے امتحان کیلئے ولایت گئے ہوئے ہیں اگر وہ پاس ہوکر آجائیں تو انہیں پنجاب میں نہ لگایا جائے۔ یہ خبر اگر صحیح ہے تو بتاتی ہے کہ حکومت کے افسروں کے دلوں میں ابھی تک تبدیلی پیدا نہیں ہوئی اور نچلے افسروں کے جھوٹوں کوسچ تسلیم کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اِس میں میرے نزدیک کئی باتیں قابلِ اعتراض ہیں۔
الف: وہ لڑکے ابھی تعلیم حاصل کررہے ہیں او رامتحان میں پاس ہی نہیں ہوئے۔ پس ابھی سے یہ نوٹ کرنا کہ جب وہ پاس ہوکر آئیں تو انہیں پنجاب میں نہ رکھا جائے اور اس طرح اپنے بُغض کا اظہار کرنا نہایت ہی گِری ہوئی بات ہے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان سے نوکری کرانا ہی نہ چاہے اور ممکن ہے وہ پاس ہی نہ ہوں ہمیں اللہ تعالیٰ کی مشیت کا کیا علم ہے۔ پس انہیں اُس وقت تک انتظار کرنا چاہئے تھا جب تک وہ پاس ہوکر یہاں نہ پہنچ جاتے مگر پہلے سے ہی پیش بندی کے لئے تیار ہوجانا ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کسی نے اپنے دوست سے کہا تھا میاں! تمہاری کُتیا نے سنا ہے بچے دیئے ہیں اور وہ بہت اچھے ہیں ایک بچہ ہمیں بھی دو۔ وہ کہنے لگا بچے تو دیئے تھے مگر وہ مرگئے لیکن اگر وہ زندہ رہتے تب بھی میں تمہیں نہ دیتا۔ وہ کہنے لگا اب تو مرچکے تھے تمہیں یہ کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی کہ اگر زندہ ہوتے تب بھی نہ دیتا۔ اسی طرح ابھی تو وہ موقع آیاہی نہیں اور یہ
ع آب نہ دیدہ موزہ کشیدہ
کے مطابق پہلے ہی اس کیلئے تیاریاں کررہے ہیں۔ پس اگر یہ بات صحیح ہے تو اس افسر نے سیاستاً بھی ایک بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور خوامخواہ دلوں کو حکومت سے پھیرنے کی کوشش کی ہے۔
دوسرے یہ صحیح نہیں کہ میرے دو بیٹے ولایت آئی۔سی۔ایس کی تعلیم کیلئے گئے ہوئے ہیں۔ جو اِس غرض سے گئے ہیں وہ میرے بھتیجے ہیں۔ میرا صرف ایک بیٹا انگلستان میں تعلیم پارہا ہے مگر وہ اس نوکری کیلئے نہیں گیا بلکہ اس کی عمر بھی اسے اس عُہدے کے قابل نہیں رکھتی۔ پہلے میں نے اُسے قرآن مجید حفظ کرایا، پھر مولوی فاضل تک تعلیم دلائی، پھر انگریزی علوم پڑھائے۔ ایسا طالب علم کہاں اس عمر کے اندر تعلیم ختم کرسکتا ہے جونوکری کیلئے ضروری ہے۔ پس وہ ولایت کسی نوکری کیلئے نہیں گیا بلکہ علم کی زیادتی کیلئے گیاہے۔ باقی رہے میرے بھتیجے سو میرے تعلق کااگر میرے بھتیجوں پر یہ اثر پڑے کہ انہیں سرکاری ملازمت میں نہ لیاجائے تویہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ گورنمنٹ یہ نوٹس شائع کردے کہ آئندہ جماعت احمدیہ کے افراد کو سرکاری ملازمتوں میں نہ لیا جائے۔ مگر حکومت کا یہ اعلان نہ کرنا اور اس وجہ سے کہ اسے مجھ سے کسی قسم کی شکایت ہے میرے بھتیجوں کے مستقبل پر اثر ڈالنا یہ امران افسران کے کسی زیادہ اچھے اخلاق پر دلالت نہیں کرتا۔ حالانکہ حکومتیں بھی اخلاق کی ویسی ہی پابند ہوتی ہیں جیسی رعایا۔ اگر خداتعالیٰ نے انہیں کامیاب کردیا تو پھر پنجاب کیا او ریو۔پی کیا او ربنگال کیا او ربمبئی کیا جو تعلیم کیلئے انگلستان جاسکتے ہیں وہ ملازمت کیلئے پنجاب سے باہر بھی رہ سکتے ہیں لیکن اگر وہ پنجاب میں لگ جائیں تو حکومت کو مطمئن رہنا چاہئے کہ ان کی وجہ سے برٹش امپائر کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ آخر آئی۔سی۔ ایس حکومتِ ہند کے کامرس ممبر سے زیادہ باحیثیت نہیں ہوتے۔ پھر جب ظفراللہ خان کی موجودگی میں برطانوی حکومت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تو ان دو لڑکوں کی موجودگی میں اسے کیا نقصان پہنچ جائے گا۔ دراصل اِس قسم کی باتیں صرف دلوں میں میل پیدا کردیتی ہیں اس کے علاوہ اور کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتیں۔ پھر اس قسم کی باتوں کایہ واضح مطلب ہے کہ گورنمنٹ کہتی ہے کہ غیراحمدیوں کو لے لو، سکھوں کو لے لو، عیسائیوں کو لے لو، کانگرسی خاندانوں کے بچوں کو لے لو، انتہاء پسند خاندانوں کے لڑکوں کو لے لو مگر احمدیوں کو نہ لو۔ گویا وہ احمدیوں کو حکومت کے مخالف گروہوں سے بھی بدتر سمجھتی ہے لیکن حکومت تسلی رکھے میرے بیٹے اگر میرے نقشِ قدم پر چلنے والے ہوئے تو ان کا فرض ہوگاکہ وہ کبھی انگریزوں کی نوکری نہ کریں۔
میں نے اپنے جتنے لڑکوں کوتعلیم دلائی ہے اُن میں سے کسی کے متعلق یہ مدّنظر نہیں رکھا کہ اسے نوکری کرائی جائے۔ صرف ایک لڑکا ایسا ہے جسے میں نے ڈاکٹری پڑھوائی ہے اور ممکن ہے ایک دو اور کو بھی کوئی ایسا ہی علم پڑھائوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ علوم بھی سلسلہ کی خدمات کیلئے ضروری ہیں۔ ایسے بچوں کو اگر تجربہ وسیع کرنے کیلئے تھوڑی مدت کیلئے نوکری کرنی پڑی تو وہ بھی جائز ہوسکتی ہے کیونکہ ڈاکٹری کیلئے ضروری ہے کہ مریض ہوں اور ان کا علا ج کرکے تجربہ کو وسیع کیا جائے او رپرائیویٹ پریکٹس میں ابتدا میں کافی مریض مہیا نہیں ہوسکتے اس لئے اگر اس مقصد کیلئے ایک دو سال انگریزوں کی ملازمت کرلی جائے تا تجربہ ہوجائے تو یہ ملازمت نہیں بلکہ تعلیم کا زمانہ ہی کہلائے گا۔ ورنہ نوکری تو ایسی چیز ہے کہ میں اس کا نام سُن کر بھی گھبراتا ہوں اور میرے خداتعالیٰ سے جو تعلقات ہیں اور جس نگاہ سے میںنے اپنے تعلقات کو ہمیشہ دیکھا ہے اس کی رو سے تو میری حیثیت ایک غلام کی ہے اور اسلام کا یہ مسئلہ ہے کہ غلام کے بچے بھی غلام ہی ہوتے ہیں۔ پس جس نقطۂ نگاہ سے میں نے اپنے ربّ کو دیکھا ہے اگر اسی نقطۂ نگاہ سے میرے بچے بھی اپنے ربّ کو دیکھیں گے تو وہ اور جا کہاں سکتے ہیں۔ غلام تو اُسی دروازہ پر رہتا ہے جہاں اس کا آقاہو۔
یہ خبر تو مجھے پرسوں ملی ہے مگر سات آٹھ دن ہوئے میرے بعض بچوں نے جب پرائمری پاس کی تو وہ آپس میں آئندہ پڑھائی کے متعلق باتیں کررہے تھے۔ میں نے اِس خیال سے کہ ان کے دل کے ارادوں کا جائزہ لوں ایک چھوٹے بچے کو بلایا اور اس سے پوچھا بولو انگریز کی نوکری اچھی ہے یا اللہ تعالیٰ کی؟ وہ کہنے لگا خدا کی۔ میں نے کہا اگر خداتعالیٰ کی نوکری اچھی ہے تو وہ پھر مدرسہ احمدیہ میں داخل ہونے سے مل سکتی ہے۔ تو باوجود انگریزی حکومت کاادب و احترام دل میں رکھنے کے ، باوجود اس سے تعاون کرنے کے اور باوجود اس عقیدہ میں دشمنوں کی طرف سے شدید مخالفتیں برداشت کرنے کے انگریزوں کی ملازمت اپنی اولاد کیلئے مَیں پسند نہیں کرتا بلکہ میں یہی پسند کرتا ہوں کہ جس دروازہ کی غلامی مجھے نصیب ہوئی ہے خداتعالیٰ اسی دروازہ کی غلامی میری اولاد کو نصیب کرے کیونکہ دوسرا آقا تبدیل کرنا ہماری غیرتیں برداشت نہیں کرسکتیں۔ ممکن ہے میرے بچوں میں سے سب ایک رنگ میں سلسلہ کی خدمات نہ کرسکیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری اولاد زیادہ ہے۔ اس صورت میں انگریز کی نوکری سے میں یہ زیادہ پسند کروں گا کہ وہ تجارت کرلیں، یا زراعت کرلیں، یا کوئی اور پیشہ اختیار کرلیں ان کاموں میں انسان کوبہت حد تک آزادی رہتی ہے اور وہ خدمتِ سلسلہ کیلئے کافی وقت نکال سکتا ہے۔ نوکریوں میں لوگ آزاد نہیں ہوتے۔ ان پر سَو پابندیاں عائد ہوتی ہیں پھر اقلیتوں کیلئے تو اور زیادہ مشکلات ہوتی ہیں۔ زبردست قومیں تبلیغ بھی کرلیں تو انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔
میں شملہ میں ایک دفعہ گیا وہاں گورنمنٹ کے ایک ممبرنے جلسہ کیا، راجہ رام موہن رائے صاحب کی برسی تھی، اس جلسہ میں انہوں نے برہموسماج کی خوبیاں بڑے زور سے بیان کیں، گورنمنٹ کے کئی وزراء اس میں شامل ہوئے مگر ان سے کسی نے نہ پوچھا کہ وہ اس جلسہ میں کیوں شامل ہوئے ۔ اس کے مقابلہ میں رسول کریم ﷺ کی مدح و تعریف میں جب جلسے ہوتے ہیں تو جو احمدی ملازم ان میں شامل ہوتے ہیں ہیں ان میں سے بعض سے چھ چھ مہینے جواب طلبیاں ہوتی رہتی ہیں کہ تم کیوں جلسہ میں شامل ہوئے؟تو طاقتور اور کمزور میں بہت بڑا فرق ہوتاہے اور جو عمل طاقتور اپنی طاقت کے گھمنڈ میں کرجاتا ہے وہی عمل غریب اور کمزور کیلئے کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
مثل مشہور ہے کہتے ہیں ایک بھیڑیا اور بکری کا بچہ کسی نالے میں سے پانی پی رہے تھے، بھیڑیا اوپر کی طرف تھا اوربکری کا بچہ پانی کے بہائو کی طرف۔ بھیڑیئے نے جب بکری کے بچے کا نرم نرم گوشت دیکھا تو چاہا کہ اُس کا گوشت کھائے اور اُس کی نرم نرم ہڈیاں چبائے۔ یہ سوچ کر اُس نے بکری کے بچے سے کہا نالائق! تجھے شرم نہیں آتی میںپانی پی رہا ہوں اور تو پانی کو گدلا کررہا ہے۔ وہ کہنے لگا آپ اوپر کی طرف ہیں اور میں نیچے کی طرف، بھلا آپ کا پانی میرے پینے کی وجہ سے گدلا کیونکر ہوسکتا ہے۔ بھیڑیئے نے جونہی یہ جواب سنا جھٹ کُود کر اُس کا گوشت نوچ لیا اور کہنے لگا گستاخ! آگے سے جواب دیتا ہے۔ یہ تو تمثیلی زبان میں ایک بات کہی گئی ہے۔انگریزی قوم میں بھی اسی قسم کا ایک لطیفہ مشہور ہے۔ کہتے ہیں ایک افسر سپاہیوں کو پریڈ کرارہا تھا کسی سپاہی پر وہ ناراض تھا مگر اس پر گرفت کا اسے کوئی موقع نہیں ملتا تھا۔ پریڈ کراتے کراتے کہنے لگا سپاہی نمبر۱۳ تمہارا قدم ٹھیک نہیں۔ وہ کہنے لگا حضور! میرا قدم ٹھیک ہے افسر نے یہ جواب سن کر کہا سارجنٹ نمبر۱۳ کو گرفتار کرلو یہ آگے سے جواب دیتاہے۔
تو اقلیتوں کیلئے یہ بات ہؤا ہی کرتی ہے کہ ان کے حقوق کو آسانی سے دبالیا جاتا ہے اور ان پر سختی اور تشدّد کیا جاتا ہے۔ پس اقلیتوں کیلئے سرکاری ملازمتوں میں تبلیغ کرنے میں بہت سی مشکلات ہوتی ہیں۔ انہیں ہروقت خوف رہتا ہے کہ کہیں افسر جواب طلبی نہ کریں اس لئے کیوں ہم وہ کام نہ کریںجن میں انسان اپنی روزی بھی کماسکتا ہے اور خداتعالیٰ کے دین کی خدمت بھی کرسکتا ہے۔ ایک دُکاندار اپنی دُکانداری کے کام سے جب فارغ ہوجاتا ہے تو باقی وقت اُسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، اسی طرح تاجر یا صناع اپنی تجارت اور صنعت و حرفت کا کام آزادی سے کرتے ہوئے دین کی خدمت بھی کرسکتا ہے۔ پس میرے بچوں کے متعلق جن افسروں کو ابھی سے مشکلات نظر آرہی ہیں انہیں بے چینی کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے میری امیدوں اور خواہشوں کو پورا کیا تو وہ ان کے دروازوں پر کبھی نوکری مانگنے نہیں آئیں گے ۔
چوتھا امر ڈاک خانہ کا رویہ ہے یہ بھی قریب کے عرصہ سے جاری ہے۔ ڈاک خانہ میں پہلے ایک احمدی افسر ہؤا کرتا تھا پھر حکومت نے اُسے بدل دیا او رچونکہ تبدیلیوں کے متعلق گورنمنٹ کاقانون ہے اس لئے ہم نے کوئی بُرا نہ مانا اور اُس احمدی سے دریافت کیا کہ جو شخص آپ کی جگہ آرہا ہے وہ کیسا ہے؟ انہوں نے کہا میں اِسے جانتا ہوں وہ ایک شریف آدمی ہے اور اس سے کسی قسم کا خطرہ کا خیال نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ خود مَیں نے جماعت کے کارکنوں کو ہدایات دیںکہ تم لوگ اس سے پورا پورا تعاون کرنے کی کوشش کرو۔ اس سے پہلے ایک اور احمدی کلرک ڈاک خانہ سے بدلا جاچکا تھا اور اس طرح سب ایک ڈھب کے آدمی ڈاک خانہ میں مقرر کردیئے گئے اس تبدیلی کو ہم نے خوشی سے قبول کیا اور میں نے سلسلہ کے افسروں کو تعاون کی ہدایت کی اور کہا مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ شخص شریف ہے مگر اس عملہ کی تبدیلی کانتیجہ کیا ہوتا ہے۔
اوّل تو وہی شخص جس نے تعریف کی تھی اسی کے خلاف آرٹیکل لکھے جانے لگے اور اخبارات میں شائع کرائے جاتے گویا انہوں نے تو یہ سلوک کیا کہ آنے والے کی تعریف کی اور کہا کہ اس سے اچھا سلوک رکھا جائے وہ شریف آدمی ہے لیکن انہوں نے اس سے یہ سلوک کیا کہ اس کے خلاف اخباروں میں مضامین لکھے۔ پھر میرے ساتھ جس نے یہ تاکید کی تھی کہ اچھا سلوک کیا جائے یہ معاملہ کیا گیا کہ میں نے ایک دوائی منگوائی وہ دوائی ابھی مجھے نہیں پہنچی تھی اور نہ اس کے متعلق خط ملا تھاکہ ایک رپورٹر نے احرار کے دفتر سے مجھے اطلاع دی کہ آج فلاں شخص یہ بیان کر رہا تھا کہ میں نے احرار کے اخبار میں یہ مضمون بھیجا ہے کہ یہاں ایسی ایسی دوائیوں کا پارسل آیا ہے۔ میں حیران ہؤا کہ یہ اطلاع انہیں کیونکر مل گئی کیونکہ ابھی تک پارسل کی اطلاع مجھے بھی نہ ملی تھی۔ زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ اس میں قیمتوں کا بھی ذکر تھا اور ایک دوا کا نام بھی صحیح تھا۔ یہ رپورٹ میرے پاس صبح ۹ بجے قریب پہنچی اور بارہ بجے کے قریب ڈاک والا وہ پارسل میرے نام لایا ۔ میں نے اُسی وقت پارسل لے کر دفتر کے ایک آدمی کو اس رپورٹ پرنشان لگا کر جو مجھے صبح پہنچی تھی ڈاک خانہ میں بھیجا کہ انہیں رپورٹ کا اتنا حصہ پڑھا آئو او رکہہ آئو کہ پارسل ہمیں بعد میں پہنچا ہے لیکن یہ اطلاع پہلے پہنچی تھی جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تم لوگوں میں سے کوئی احرار کے دفتر میں اطلاعات دیتا رہتا ہے۔ اس پر پوسٹ ماسٹر صاحب نے کہلا بھیجا کہ مَیں اس واقعہ کی تحقیق کروںگا۔ وہ آدمی واپس آیا تو اُسی وقت دفتر سے ایک اخبار مجھے بھیجا گیا ’’احسان‘‘ تھا یا ’’مجاہد‘‘ مجھے صحیح یاد نہیں میں نے جب اُسے کھولا تو اُس میں پارسل کا ذکر بھی چھپا ہوا دیکھا چنانچہ وہ پرچہ بھی میں نے انہیں بھجوادیا۔ اب اِس کے صاف طور پر یہ معنی ہیں کہ ڈاک خانہ کا عملہ پارسلوں اور خطوط کی اطلاعات احرار تک پہنچاتا ہے اور انہیں خبریں بہم پہنچاتا رہتا ہے۔ ہم نے اس بارہ میں شکایت کی لیکن اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہؤابلکہ جو افسر تحقیق پر مقرر ہؤااُس کا رویہ نہایت افسوسناک رہا ہے اور وہ مجرموں سے بھی زیادہ جُرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ ہمیں صرف یہ جواب ملا ہے کہ یہ جو خبر نکلی ہے لاہور سے نکلی ہے قادیان کے ڈاکخانے سے نہیں نکلی اور دلیل یہ دی گئی ہے کہ یہ اخبار سولہ تاریخ کا ہے اور جو پارسل قادیان میں سولہ کو پہنچا ہے اس میں سولہ کی خبر نہیں چھپ سکتی ۔ بظاہر یہ ایک معقول بات معلوم ہوتی ہے لیکن ہے جھوٹ۔ اس لئے کہ خبر سترہ کے اخبار میں چھپی تھی اور سترہ کی مُہر لگی ہوئی ہمارے پاس موجود ہے سولہ کو پارسل قادیان پہنچا سترہ کو دوپہر کے وقت تقسیم ہوا ۔ سولہ کو بٹالہ سے فون کے ذریعہ سے خبر بھجوائی جاسکتی تھی جیسا کہ احرار ان دنوں میں کرتے رہے ہیں اور شام کو چھپ کر سترہ کو اخبار قادیان پہنچ سکتا تھا۔ ۱۷کی مُہر اس خبار پر خود ڈاکخانہ کی لگی ہوئی موجود ہے مگر افسروں کو دھوکا دینے کیلئے ماتحت عملہ اسے سولہ قرار دے دیتا ہے مگر اس کے علاوہ ایک قطعی ثبوت ہمارے پاس ایسا موجود ہے جس سے یہ بالکل واضح ہوجاتاہے کہ یہ بات لاہور سے نہیں نکلی۔ اگر گورنمنٹ نے اس معاملہ میں تحقیق کی تو اس کے سامنے وہ یقینی اور قطعی ثبوت پیش کردیا جائے گا۔ اب تک میں نے اس کو ظاہر نہیں کیا لیکن اگر گورنمنٹ تحقیق کرے گی تو وہ یقینی اور قطعی ثبوت میں اس کے سامنے پیش کردوں گا ۔ اِس موقع پر میں اس کی تفصیل بتائے بغیر صرف اِس قدر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس رپورٹ کاایک حصہ غلط ہے اگر وہ لاہور سے کسی کی رپورٹ ہوتی اور دُکان سے بات نکلتی تو وہ غلطی نہ ہوتی جو اس رپورٹ میں موجود ہے۔ آخر مجھ سے تو کوئی شخص یہ امید نہیں کرسکتا کہ میں بخاری کو مُسلم یا مُسلم کوبخاری کہہ دوں۔ یہ تو وہی کہہ سکتا ہے جس کو حدیث کا علم نہ ہو۔ پس رپورٹ کے ایک حصہ میں ایسی خطرناک غلطی ہے جو یقینی طور پر اِس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا منبع دُکان والے نہیں جو اپنی دوائوں سے خود ہی ناواقف نہیں ہوسکتے پھر ہمارے پاس اس بات کا قطعی ثبوت موجود ہے کہ ڈاک خانہ کے آدمی احراری ایجنٹوں کے پاس بیٹھتے ہیں۔ ہمارے پاس اس بات کے بھی گواہ موجود ہیں کہ ڈاکخانہ کے آدمیوں نے کہا کہ انہیں ڈاکخانہ کے افسروں نے یقین دلایا ہے کہ احمدیوں کی شکایتوں پر انہیں کوئی تبدیل نہیں کرسکتا اور یہ کہ گورنمنٹ کا منشاء ہے کہ احمدی یہاںنہ رکھے جائیں۔
پھر ایک قطعی ثبوت اس بات کا کہ اِس تمام رویہ میں گورنمنٹ کے بعض افسروں کا ہاتھ کام کررہا ہے یہ ہے کہ خانصاحب فرزند علی صاحب جب ایک افسر سے ملے تو اُس نے کہا کیا آپ سمجھتے ہیں ہم آزاد ہیں ہم بھی بعض باتوں کی وجہ سے مجبور ہیں۔ جس کا صاف یہ مطلب تھا کہ گویا اس کو اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ تبدیلیاں نہ کی جائیں۔ حکومتِ پنجاب ایسی کسی ہدایت کے دینے سے انکار کرتی ہے لیکن اوپر کے واقعہ کی موجودگی میں ہم مجبور ہیں کہ تسلیم کریں کہ کسی لوکل افسر نے جھوٹ بولتے ہوئے ڈاک خانہ کے بعض افسروں کو دھوکا دیا ہے۔
میں گزشتہ ماہ میں سندھ گیا تھا اس سفرمیں میری ڈاک کاجو حال ہؤا وہ یہ ہے کہ جن خطوط پر ۳،۴ اور ۵ تاریخ کی قادیا ن کی مہریں لگی ہوئی تھیں وہ مجھے ۱۱ تاریخ کو ملے حالانکہ ۹ تاریخ کے خطوط بھی مجھے ۱۱ کو ملے۔ ان ۳،۴ اور پانچ تاریخ والے خطوط پر کسی اور جگہ کی مُہر نہیں۔ بعض خطوط ایسے بھی تھے جو غلطی سے کسی اور جگہ چلے گئے لیکن اُن پران دوسرے ڈاک خانوں کی مہُریں تھیں جہاں وہ گئے لیکن اِن خطوط پر کسی اور جگہ کی مُہر نہ تھی جو صاف طور پر اس با ت کا ثبوت ہے کہ ان خطوط کو روکا گیا تھا اور پھر کئی دن کے بعد انہیں روانہ کیا گیا۔ اسی طرح الفضل کو دِق کیا جار ہاہے اور متواتر اس کے پرچے لیٹ کئے جاتے ہیں یا بعض دفعہ پرچے خریداروں کو پہنچتے ہی نہیں۔ اسی طرح جوابی کارڈ غلط مُہر یںلگا کر بعض دفعہ خط لکھنے والوں کو واپس کردیئے جاتے ہیں۔
یہ کارروائیاں ہورہی ہیں اور ان کی طرف متواتر افسروں کومتوجہ کیا جاتا ہے مگر اب تک کوئی توجہ نہیں کی گئی اور جب بار بار توجہ دلانے کے باوجود ایک افسر نے کچھ کہا تو یہ کہا کہ میں آزاد تھوڑا ہوں۔جس کے معنے یہ تھے کہ اگر قادیان میں ایک بکری کی پیٹ میں بھی دردہوتا ہے تو اس کی اطلاع اوپر جاتی ہے اور وہاں کے اشارہ سے اس بارہ میں کوئی کارروائی کی جاتی ہے۔ اب حال میں خان صاحب فرزند علی صاحب، چوہدری اسداللہ خان صاحب اور پیر اکبر علی صاحب پوسٹ ماسٹر جنرل سے ملے ہیں اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ میں اس طرف توجہ کروں گا۔ اگر یہ وعدے پورے ہوجائیں جیسا کہ آثار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ذمہ دار حُکّام اِ س دفعہ حقیقت کو پاچکے ہیں اور حالات کی اصلاح کرنے پر تیار ہیں تو ہماری شکایات کا یہ حصہ ختم ہوجائے گا اور ہم باوجود گزشتہ تکالیف کے یقینا اس محکمہ کے افسروں کے ممنون ہوں گے مگر آئندہ تو جو کچھ ہوگا ہوگا۔
جب ہم گزشتہ دو سالوں پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ تمام احمدیوں کو یہاں سے بدل دیا گیا ہے تو ہمار اشبہ اور بھی قوی ہوجاتاہے۔ ریلوے میں ایک احمدی تھا اُسے بھی تبدیل کردیاگیا، ڈاک خانہ میں دو احمدی تھے انہیں تبدیل کردیاگیا، پولیس میں دو احمدی تھے انہیں تبدیل کردیا گیا، ایک نائب پٹواری احمدی تھا اُسے تبدیل کردیاگیا، ایک پٹواری کے متعلق شُبہ تھا کہ وہ احمدی ہے اسے بھی یہاں سے بدل دیا گیا، بجلی والے جن کی آمد کا ۹۰ فیصدی احمدیوں پر انحصار ہے کسی احمدی کو ملازم نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ ہمیں سرکار والا مدار کا حکم نہیں کہ کسی احمدی کو ملازم رکھیں۔ چنانچہ اِس وقت کسی محکمہ میں کوئی بھی اعلیٰ ملازمت والا احمدی نہیں۔ اور پولیس میں تو غریب کانسٹیبلوں تک کو تبدیل کردیا گیا ہے تو اِن حالات کو دیکھ کر ہمارے دلوں میں ایک منظم کوشش کا شُبہ پیداہونا قدرتی اور لازمی امر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ’’حُسنِ اتفاق‘‘ ہے لیکن اگر یہ حُسنِ اتفاق ہے تو کیا یہ حُسنِ اتفاق دنیا میں کہیں اور بھی پایا جاتا ہے؟اِس حُسنِ اتفاق کے ماتحت کوئی کوشش تو کرے کہ کسی جگہ سے سب کے سب مسلمان نکل جائیں یا ہندوئوں کو الگ کردیا جائے۔ پس ہم ہرگز یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں اور نہ دنیا کا کوئی عقلمند یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوگا کہ یہ حُسنِ اتفاق ہے۔ یہ حُسنِ اتفاق نہیں بلکہ سُوئے تدبیر ہے۔ ان چیزوں کے ذریعہ دنیا میں کبھی آپس میں محبتیں قائم نہیں رہتیں اور حکومتیں کبھی محبت کے بغیر دنیا میں قائم نہیں رہتیں۔ آخر کب تک ہم ان باتوں کو دیکھتے چلے جائیں گے اور ہمارے دلوں میں محبت کے جذبات قائم رہیں گے۔ یقینا اس کی بہت بڑی ذمہ داری گورنمنٹ پر ہے اورجب کہ گورنمنٹ ان اخباروں اور رسالوں کو ضبط کرتی ہے جن کے ذریعہ سے سَو دوسَو یا چارسَو آدمیوں کے قلوب کو مجروح کیا جاتا ہے تو کیوں اس کے بعض افسر ایسا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں جس سے ایسی منافرت پھیلتی ہے کہ اکثر اخبار والے اس کا ہزارواں حصہ بھی منافرت نہیں پیدا کرسکتے۔
پانچویں مثال جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کے بعض افسر جماعت احمدیہ کو خوامخواہ دِق کرنے کی کوشش کررہے ہیں کَل کا ایک واقعہ ہے جو بٹالہ میں ہؤا۔ کَل بٹالہ میں ایک ریکروٹنگ افسر آیا تھا اُس کے سامنے ہمارے احمدی نوجوان بھی پیش ہوئے۔ میں نے مولوی عبدالمغنی خان صاحب ناظر بیت المال کو ان کے ساتھ بٹالہ بھیجا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب تمام نوجوان پیش ہوئے تو ایک ہندوستانی افسر وہاں یہ کہتا جارہا تھا کہ مرزائی الگ ہوجائیں یہ مسلمانوں کی بھرتی ہے یہاںمسلمانوں کے سِوا اور لوگ نہیں لئے جائیں گے۔ اس پر ایک دوسرے مسلمان افسر نے کہا کہ جماعت احمدیہ کا مخالف تو میں بھی ہوں مگر میں گولی وہاں چلایا کرتا ہوں جہاں لگ جاتی ہے تم شاید ناواقف ہو تمہیں علم نہیں یہ گورنمنٹ میں بہت رسوخ رکھنے والے ہیں اگر تم انہیں یہاں بھرتی نہیں ہونے دو گے تو یہ اور جگہ بھرتی ہو جائیں گے۔ یہ گفتگو تو مولوی عبدالمغنی صاحب نے سُنی ۔ اس کے علاوہ ایک اور احمدی دوست نے جوبٹالہ کے ہی ہیں اور وہاں کے ایک رئیس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں سنا کہ ایک ہندو افسر انگریز افسر سے کہہ رہا تھا صاحب! یہاں مرزائیوں کی بھرتی نہیں کرنی۔ اُس نے پوچھا مرزائی کیا ہوتے ہیں؟ وہ کہنے لگا یہ مسلمانوں میں ایسا ہی فرقہ ہے جیسے ہمارے ہاں آریہ سماجی ہیں۔ مسلمان بھی ان کومسلمان نہیں سمجھتے بلکہ کافر سمجھتے ہیں۔ وہ انگریز کہنے لگا یہ مرزائی اپنے آپ کوکیا کہتے ہیں؟ وہ کہنے لگا کہتے تو اپنے آپ کو مسلمان ہی ہیں۔ وہ کہنے لگا جب یہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو پھر تو ہمارے لئے یہ بڑی مشکل ہے کہ ہم ان کوبھرتی نہ کریں۔ وہ کہنے لگا نہ صاحب! حکومت کا بھی یہی منشاء ہے کہ کم سے کم گورداسپور کے ضلع میں مرزائی بھرتی نہ کئے جائیں۔ چنانچہ مولوی عبدالمغنی خان صاحب جب بعد میں اس انگریز افسر سے ملے تو اس نے خاص طور پر سوال کیاکہ آپ مرزائی یا احمدی کیوں کہلاتے ہیں؟ آپ لوگ مسلمان ہیں یا نہیں؟ آپ میں اور دوسرے مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کوئی جماعت پنجاب میں ایسی ہے چاہے وہ حکومت کے سیکرٹری ہوں، چاہے ماتحت ارکان ہوں جو اندر ہی اندر لوگوں کے قلوب پر ہماری جماعت کے خلاف اثر ڈال رہے ہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ حکومت کی ملازمتوں کے دروازے احمدیوں پر بند ہوجائیں۔
میں آج صاف طور پر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہم حکومت کی نوکریوں کے محتاج نہیں مگر حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ کھلے طو رپر اعلان کردے کہ آئندہ احمدیوں کو سرکاری ملازمتوں میں نہیں لیا جائے گا۔ کچھ افسر کچھ کہتے رہیں اور کچھ افسر کچھ کرتے رہیں یہ بے اصولی بات ہے۔ میں تو آگے ہی اپنی جماعت کے لوگوں سے کہتا رہتا ہوں کہ چھوڑو اِن نوکریوں کو او رجائو دنیا میں خداتعالیٰ کی نوکری کرو، تجارت کرو، زراعت کرو، صنعت و حرفت میں ترقی کرو اور اس طرح جہاں اپنی روزی کمائو وہاں خداتعالیٰ کا نام بھی دنیا میں پھیلائو۔ اگر گورنمنٹ اعلان کردے تو جیسا کہ کہتے ہیں ’’بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹُوٹا ‘‘مَیں ذاتی طور پر اِس ظلم کو بھی جماعت کیلئے ایک مبارک فال ہی سمجھوں گا۔ میں تو پہلے ہی لوگوں سے کہہ رہا ہوں کہ وہ غیرملکوں میں نکل جائیں۔ بھوکے رہیں، پیاسے رہیں، ننگے رہیں آخر اللہ تعالیٰ ان کی ترقی کے راستے کھول دے گا اور قومی کریکٹر بھی مضبوط ہوگا مگر گورنمنٹ کا فرض ہے کہ وہ کھل کر ایک دفعہ ہم سے کہہ دے کہ تم آئندہ باغی سمجھے جائو گے۔ تااگر پھر جنگ شروع ہو تو کوئی افسر یہ نہ کہنا شروع کردے کہ لائو اپنے احمدیوں کوملک کی خدمت کیلئے پیش کرو۔ مصیبت کے وقت اگر گورنمنٹ نے ہمیں بُلانا ہے تو اب آرام میں بھی ہمارے حقوق ہمیں دے اور اگر مصیبت کے وقت اس نے ہمیں نہیں بُلانا تو پھر بے شک ہم اب بھی اپنے حقوق کا اس سے مطالبہ نہیں کرتے۔ جوں جوں ہماری جماعت بڑھتی اور ترقی کرتی چلی جائے حکومت نئے افراد کو غیرفوجی قرار دیتی جائے یا کہتی جائے کہ تمام سرکاری ملازمتیں انہیں نہیں مل سکتیں ۔ ہم سے پہلوں نے تو اس سے بہت زیادہ قربانیاں کی ہیں پھر ہمارے لئے اس میں گھبراہٹ کی کونسی بات ہوسکتی ہے۔
رسول کریم ﷺ کے پاس ایک دفعہ صحابہؓ نے شکایت کی کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ہم پر کفار کی طرف سے پیہم مظالم ہونے لگ گئے ہیں آپ ان کیلئے بددعا کریں۔ رسول کریم ﷺ نے جواب دیا کہ تم سے پہلے لوگوں کو اس سے بہت زیادہ تکلیفیں پہنچی، وہ سر سے لے کر پیر تک آروں سے چِیر دیئے گئے مگر انہوں نے اُف نہ کی تم بھی صبر کرو اور ان تکلیفوں سے نہ گھبرائو ؎۳ ۔ پس صحابہؓ کو رسول کریم ﷺ یہ کہہ سکتے تھے کہ انہوں نے وہ تکلیفیںبرداشت نہیں کیں جوپہلی اُمتوں نے برداشت کیں تو ہماری جماعت نے تو ابھی صحابہؓ جیسی قربانیاں بھی نہیں کیں پھر ہم کیوں گھبراجائیں۔ ہم توکہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا جو منشاء ہے وہ ہوجائے لیکن گورنمنٹ کیلئے ضروری ہے کہ وہ جو کچھ کہنا چاہتی ہے صفائی سے کہہ دے۔ یہ کوئی صحیح طریق نہیں کہ حُکّام میں سے ایک فریق کچھ کہتا جائے اور دوسرا پوشیدہ طور پر کچھ اور کہتا جائے۔ جس حکومت کے افسروں میں ہی اتفاق نہ ہو اُس کونقصان پہنچنا لازمی ہے۔ پس اگر حکومت چاہتی ہے تو صاف طور پر کہہ دے کہ آئندہ ملازمتیں احمدیوں کو نہیں ملیں گی تو سوائے ان ملازمتوں کے جو امتحانوں کے ذریعہ سے ملتی ہیں ہم دوسری ملازمتوں کیلئے حکومت کے پاس نہیں جائیں گے اور میں ذمّہ لیتا ہوں کہ ہماری جماعت اس پر کوئی شور نہیں مچائے گی اور نہ ہم گورنمنٹ کی نسبت اپنے دل میں کوئی بُغض رکھیں گے مگر پوشیدہ اور مخفی کارروائیوں سے ہمارے دلوں کو ضرور تکلیف ہوتی ہے۔
چھٹی مثال عید گاہ کا واقعہ ہے جس میں ہمارے آدمی زمین ہموار کرنے کیلئے گئے تو پولیس نے کُدالیں اور ٹوکریاں چھین کر انہیں گرفتار کرنا شروع کردیا اور کیمرے والوں کے کیمرے چھین لئے۔ اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ عدالت میں ہماری طرف سے درخواست دی گئی کہ ہمیں کیمرے واپس دیئے جائیں کیونکہ اس موقع کے جو فوٹو لئے گئے تھے وہ ہمیں حق بجانب ثابت کرتے ہیں۔ مجسٹریٹ نے ہماری درخواست سن کر فیصلہ کیا کہ اگلی تاریخ پر اس کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا لیکن جب اگلی تاریخ آتی ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے اپنے طور پر انہیں ڈویلپ کرایا تھا مگر فلم اندر سے خالی نکلے حالانکہ اگر وہ ہمیں کیمرے واپس کرنا نہیں چاہتے تھے تو ان کا فرض تھا کہ وہ پہلی تاریخ پر ہی فیصلہ کردیتے کہ ہم نہیں دیتے تا ہمیں ان کے ارادوں کا علم ہوجاتا اور ہم اپنے حق کے حصول کیلئے ہائی کورٹ میں اپیل کرسکتے مگر ہمیں تویہ کہا گیا کہ اگلی تاریخ کو اِس درخواست کا فیصلہ کیا جائے گا اور درمیان میں انہیں خودبخود ڈویلپ کرالیا گیا او رکہہ دیا گیا کہ وہ اندر سے خالی نکلے حالانکہ فلم کا خالی کرنا کیا مشکل ہوتا ہے ذرا دُھوپ لگادی تو تصویر اُڑ جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ مقدمہ ایک دوسرے مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہؤااور پولیس کی طرف سے دو سِکھ گواہ پیش ہوئے۔ ان کی گواہی ایسی تھی کہ خیال کیاجاسکتا تھا کہ شاید عدالت کے دل پر اس گواہی کی وجہ سے احمدیوں کے حق میں اثر پڑے گا اس پر حاکم ضلع نے مسل خود طلب کرلی۔ چنانچہ جب مقدمہ کی سماعت میں دیر ہوئی اور ہمارے آدمیوں نے وجہ پوچھی تو عدالت نے بتایا کہ مسل ضلع میں منگوالی گئی ہے۔ اس کے بعد معلوم ہؤاکہ حاکم ضلع نے ان گواہوں کو اپنے پاس طلب کیا اور زبردست افواہ ہے کہ ان سے ایک افسر نے کہا کہ ہم نے معتبر ذریعہ سے سنا ہے کہ تم کو احمدیوں کے خلیفہ نے بُلا کرپچاس روپے دے کر گواہی سے پھِرا لیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب وہ گواہ بالا افسروں کے سامنے پیش ہوئے تو ایک پولیس کے افسر نے انہیں علیحدگی میں کہا کہ تم کہہ دو کہ خلیفہ صاحب نے پچاس روپیہ ہمیں رشوت دے کر کہا تھا کہ اِس رنگ میں گواہی دو اس طرح تم لوگ تکلیف سے بچ جائو گے۔
میرا پہلا جواب تو س کے متعلق یہ ہے کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کہ جھوٹے پر خداتعالیٰ کی *** ہو اور دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر مجھے ذرا بھی اس واقعہ کی تصدیق ہوگئی تو میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی مدد سے اِس فریب کو ظاہر کرکے چھوڑوں گا جو اس کے پس پردہ کام کررہا ہے۔ اس قسم کی تلقین کی صرف یہ غرض ہوسکتی ہے کہ مجھے بدنام کیا جائے مگر وہ یاد رکھیں وہ مجھے بدنام نہیں کرسکتے کیونکہ جن لوگوں کا مجھ سے تعلق ہے وہ مجھے جانتے ہیں، وہ میرے حالات اور خصائل سے واقف ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر سارے برٹش انڈیا کے افسر مل کر بھی ایک بات کہیں اور اس کے مقابلہ میں مَیں ایک بات کہوں تو سچی وہی بات ہو گی جو میں کہوں گا۔ پھر قادیان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ بات بالکل جھوٹ ہے۔ میں نے ان سِکھ گواہوں کے کَل ہی نام سنے ہیں اور میں نے آج تک انہیںکبھی دیکھا نہیں اورنہ یاد ہے کہ وہ کبھی مجھ سے ملے ہوں مگر کیا وہ ان چالبازیوں سے صداقت پر پردہ ڈال سکتے ہیں؟ اِدھر دوران مقدمہ میں ہی ڈپٹی کمشنر صاحب کا مسل منگوالینا، اُدھر ایک افسر کا یہ بات کہنا کہ جماعت احمدیہ کے قلوب میں افسروں کے متعلق شکوک پید اکرنے کیلئے بہت کافی ہے۔ آخر ایک مقدمہ جب عدالت میں چل رہا ہو تو پہلے عدالت کو اس کا موقع ملنا چاہئے کہ وہ فیصلہ کرے کہ آیا گواہوں نے جھوٹ بولا ہے یا پولیس نے جھوٹ بولا ہے؟ یہ کیاکہ عدالت کے فیصلہ سے پہلے ہی ایگزیکٹو دخل اندازی کرنی شروع کردے اور بعض افسر اپنا بُغض نکالنا شروع کردیں۔ میں نہیں جانتا اس معاملہ میں انگریزی حکومت کا کیا دستور ہے لیکن چار پانچ دن ہوئے حکومتِ پنجاب کے ہوم سیکرٹری نے کونسل میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم عدالت کے معاملات میں کبھی دخل نہیں دیتے۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر عدالت کے معاملات میں دخل نہیں دیا جاتا تو اِس کے کیا معنے ہیں کہ ایک مقدمہ ایک عدالت میں چل رہا ہے اور فیصلہ سے پہلے ہی اس کی مسل منگوالی جاتی ہے اور گواہوں کوبھی بلایا جاتا اور ان پر اثر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر اس سے مقصد میری بدنامی ہے تو وہ ہو نہیں سکتی۔ باقی مجھے بھی اس کا علاج کرنا آتا ہے اور میں اس کوشش کیلئے مجبور ہوں گا کہ اگر یہ بات سچ ہے تو یا حکومت مجھ پرمقدمہ چلائے یا مجھے اور اُس افسر کو جس نے یہ حرکت کی ہے قَسم کھِلائے۔ خداتعالیٰ نے ہمیں وہ عقلیں دی ہیں جن کے ماتحت قانون کے اندر رہتے ہوئے ہم گورنمنٹ کو مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی صفائی پیش کرے۔ یہ ہمارا رحم ہے جو ہم نے ابھی تک اس قِسم کی کوشش شروع نہیں کی ورنہ نہ ہم قید سے ڈرتے ہیں نہ پھانسیوں سے کیونکہ مؤمن سے بڑھ کر اور کوئی بہادر نہیں ہوتا۔ ممکن ہے گورنمنٹ بعض حالات میں ہمیں مجرم سمجھ لے اور قید کردے مگر جب ہم سے بالا لوگ قید ہوچکے ہیں توہمیں قید سے کیا ڈر ہوسکتا ہے۔ بلکہ اگر حکومت کے بعض افسر ایسے حالات اختراع کردیں جن کے نتیجہ میں پھانسی کی سزا ملتی ہو تو بھی ہم کو کیا خوف ہوسکتا ہے کیونکہ ہم سے بالا لوگ بھی لٹکائے جاچکے ہیں۔ مؤمن جانتا ہے کہ جس وقت خداتعالیٰ نے اُسے اُٹھانا ہوگا اُٹھا لے گا اور وہ اُسی وقت اُٹھائے گا جب وہ کام ہوجائے گا جو اُس نے اپنے بندہ سے لینا تھا اور جب کام ہوچکے تو پھر مؤمن کو اپنی موت سے کیا ڈر ہوسکتا ہے۔ ہم جب دنیا میں ایسی آگ لگاجائیں جوکُفر اور شرک کو خس و خاشاک کی طرح جلا کر راکھ کردے، جب ہم دنیا میں وہ آگ لگادیں جو شیطنت کو بھسم کردے تو اس کے بعد اگر ہم دنیا سے اُٹھالئے جاتے ہیں تو اس میں کیاحرج ہے۔ دنیا میں کون ایسا انسان ہے جو ہمیشہ رہا۔ ہمارا منشاء توشیطان کی عمارت کو ایک آگ لگانا ہے جب وہ آگ لگ جائے تو پھر خدا تعالیٰ کی مشیت چاہے قید کی صورت میں آجائے یا پھانسی کی صورت میں، خواہ معمولی موت کی صورت میں، ہمیں اس سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جوکام ہمارے سپرد کیا گیا تھا وہ ختم ہوگیا۔
ساتویں بات یہ ہے کہ احرار برابر گالیوں میں بڑھتے چلے جارہے ہیں اور حکومت کی طرف سے ان کے روکنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ میں اس موقع پر یہ ذکرکردینا بھی مناسب سمجھتا ہوںکہ چوہدری اسداللہ خان صاحب نے پنجاب کونسل میں بعض تقریریں کیں ا س پر ایک گورنمنٹ افسر نے چوہدری صاحب کو مخاطب کرکے کہا گورنمنٹ تو آپ کی دوست ہے مگر آپ اور پیر اکبر علی صاحب اس کے خلاف تقریریں کرکے خواہ مخواہ اسے دشمن بنارہے ہیں۔ چوہدری صاحب نے تو جو جواب دیا ہوگا دیا ہوگا میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ دوستی کی کوئی علامت بھی تو ہؤا کرتی ہے۔ دوست تو ہم ہیں کہ باوجود اِس قدر اشتعال انگیز حالات کے ہم نے حکومت کے خلاف کوئی حرکت نہیں کی۔ میں نے ایک سکیم بھی سوچی تھی اور میں امید کرتا ہوں کہ اس سکیم کے ماتحت حکومت کومجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے رویہ پر نظرثانی کرے مگر جب حکومت نے کسی قدر ہماری تسلی کی کوشش کی تو میں نے دیانتداری سے اس سکیم کو نظر انداز کردیا۔ شہید گنج کے موقع پر خاص طور پر اس میں حصہ لے سکتے تھے مگر ایک طرف یہ دیکھ کر کہ ہمارے حصہ لینے سے مسلمان شور مچائیں گے اور اس طرح ان میں کمزوری پیدا ہوگی اور دوسری طرف گورنمنٹ کو خوامخواہ مصیبت میں پھنسانے سے احتراز کرتے ہوئے ہم نے اس میں حصہ نہ لیا مگر گورنمنٹ نے پھر بھی ہم پرالزام لگادیا۔ پس اگر دوستی سے پچھلے چند دنوں کی خاموشی مراد ہے تو شاید یہ اعتراض درست ہو لیکن اگر دوستی کے معنی صلح اورمحبت کے ہیں توپھر یہ صحیح نہیں کہ گورنمنٹ ہماری دوست ہے۔ ہم اب بھی تیار ہیں کہ بہت سی باتوں کو معاف کردیں، ہم اب بھی تیار ہیں کہ بہت سی باتوں کو بھُول جائیں مگر کچھ باتیں ایسی ضرور ہیں جن میں گورنمنٹ کو ہماری مرضی کا پور اکرنا ضروری ہے۔ جیسے گالیوں کا سلسلہ ہے کہ اسے بند کرنا گورنمنٹ کا فرض ہے یا جماعت احمدیہ سے ناواجب اور ناروا سلوک کرنے والے افسروں کوبدلنا ہے یہ بھی گورنمنٹ کافرض ہے اور اس کا کام ہے کہ وہ انہیں تبدیل کرے مگر اس رنگ میں کہ ہماری براء ت ثابت ہو اور آئندہ کسی کو ویسی حرکات کی جرأت نہ ہو کیونکہ دوستی کی کوئی علامت آخر گورنمنٹ بھی تو ظاہر کرے۔
ہم تو ہمیشہ سے امن پسند ہیں اور چاہتے ہیں کہ تفرقہ و فساد نہ ہو۔ ہمیں نہ مسلمانوں سے دشمنی ہے نہ ہندوئوں، سکھوں اور عیسائیوں سے، ہم ہر ایک کے دوست بن کررہنا چاہتے ہیں مگر کوئی امن سے رہنے بھی تو دے۔ لیکن باوجود ہماری طرف سے امن پر قائم رہنے کے اگر حکومت رویہ نہ بدلے تو میں اسے کہوں گا کہ فتنہ کو کم سے کم حلقہ میں محدود کرنے کیلئے اسے چاہئے کہ جماعت پر یہ بات کھول دے کہ اقتصادی طور پر اسے حکومت سے کوئی فائدہ اُٹھانے کاحق حاصل نہ ہوگا۔ اس سے بھی بہت سی تلخی دور ہوجائے گی کیونکہ امید کے بعد ناامیدی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے لیکن جب کوئی سمجھ لے کہ میرا کوئی حق نہیں تو اس کا شکوہ بھی کم ہوجاتا ہے۔ اسے چاہئے کہ یہ اعلان کردے کہ آئندہ سرکاری ملازمتوں میں احمدیوں کو نہیں لیا جائے گا۔ ہماری جماعت کے لوگوں کو ایسے اعلان سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں۔ لاکھوں تدبیریں ہیں جو اختیار کی جاسکتی ہیں۔ اگر ملازمتوں کے دروازے گورنمنٹ بند کرے تو ہمارے نوجوان تجارت وغیرہ کی طرف متوجہ ہونے پرمجبور ہوں گے۔
اِس وقت دو نہایت زبردست حکومتیں ہندوستان میں اپنے تعلقات وسیع کرنے کیلئے کوششیں کررہی ہیں اور وہ غیرمعمولی مدد دینے کیلئے بھی تیار ہیں۔ مثلاً وہ اس بات پر تیارہیں کہ تجارتی مال دیں مگر اس کے بدلہ میں روپیہ نہ لیں بلکہ ہندوستانی مال مثلاً گیہوں لے لیں یا کپاس لے لیں اس طرح تجارت میں بہت کچھ سہولت پیدا ہوگئی ہے۔بے شک ابتدا میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے تکلیف ہوگی مگر خطرات میں پڑے بغیر انسانی اخلاق میں مضبوطی نہیں پیدا ہوتی۔ عقلمند اِن تکلیفوں کو بھی خداتعالیٰ کی رحمت سمجھا کرتے ہیں۔ اگر اس تجربہ میں ہمارے نوجوان کامیاب ہوگئے تو وہ اپنی روزی کمانے کے ساتھ ساتھ ان افسروں کو بھی سزا دے دیں گے جو ہمیں ناحق دُکھ دیتے ہیں کیونکہ اِسی طرح لاکھوں کی تجارت انگلستان کے ہاتھ سے نکل کردوسری قوموں کے ہاتھ میں چلی جائے گی بلکہ میں کہتا ہوں کہ دوسری قوموں سے تجارتی تعلق پیدا کرنے سے بھی زیادہ مفید یہ ہے کہ خود صنعت و حرفت کی طرف ہماری جماعت توجہ کرے تا کہ ہرقسم کے سیاسی اثر سے محفوظ ہوجائے۔ گزشتہ جدوجہد کے زمانہ میں یہ امر ثابت ہوگیا ہے کہ زمیندار افسروں سے زیادہ مرعوب ہوتا ہے بہ نسبت تاجروں کے۔ پس تجارت اور صنعت و حرفت کی طرف ہماری جماعت کو زیادہ توجہ چاہئے تاکہ کسی کی محتاجی باقی ہی نہ رہے۔ خود صنعت و حرفت کی طرف توجہ کریں اورتجارت غیرملکوں سے بڑھانے کی کوشش کریں جو قانوناً جائزفعل ہے۔ کوئی قانون ہمیں اس بات پرمجبور نہیں کرتا کہ ہم ضرور انگریزی مال لیں۔ بے شک ہم بائیکاٹ کے مخالف ہیں مگر بغیر بائیکاٹ کئے کے کوئی دوسرا طریق اختیار کرنا تو منع نہیں۔ اگر ہم ایسا کرنے لگیں توکانگرس بھی ہمارے ساتھ شامل ہوجائے گی۔ کانگرس میں اِس وقت کوئی تنظیم نہیں اگر ہم ایک تنظیم کے ساتھ یہ کام کرنے لگیں تو ہزاروں ہندو اور سِکھ ہم سے مل جائیں گے اور قانون شکنی کا خیال لوگ بھُلادیں گے اور اس طرح بِالواسطہ طور پر بھی حکومت کی ایک خدمت کردیں گے اور ساتھ ہی قانون کے اندر رہتے ہوئے خود نفع کماتے ہوئے ہم اپنے حقوق بھی حاصل کرسکیں گے اور یہ صرف ایک ہی طریق نہیں ایسے بیسیوں طریق ہیں جن سے جماعتیں اپنے آپ کو ملازمتوں سے آزاد کرسکتی ہیں۔ جب ملازمتوں کے راستے بندہوںتو خودبخود ہماری جماعت کے دماغ دوسری راہوں کی دریافت اور ان پر چلنے کی طرف متوجہ ہوں گے۔ مگر ہم صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے اور خوامخواہ حکومت کیلئے مشکلات پیدا نہیں کریں گے اور کوشش کریں گے کہ چند افسروں کی وجہ سے حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے کاموجب نہ بنیں مگر جو سلوک ہم سے کیاجارہا ہے نہایت تکلیف دہ ہے اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ آخر کب تک ہم ان باتوں کوبرداشت کرتے چلے جائیں گے، کب تک ہم اپنے امن کوبرباد ہوتا دیکھیں گے یقینا ایک وقت آئے گا جب مجبور ہوکر ہمیںان ذرائع کو اختیار کرنا پڑے گا جو ہمیں ان تکالیف سے بچائیں۔ اس لئے میں ایک دفعہ پھر حکومت کوتوجہ دلاتا ہوں کہ وہ اب بھی اپنے رویہ پر غور کرے۔ ہم اس بات پر تیار ہیں کہ اس سے صلح کرلیں مگر اس کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ بڑی بڑی باتوں میں ہماری شکایتوں کو دور کرے۔
آج حکومت اپنے آپ کو ہماری مدد سے مستغنی سمجھتی ہے مگر میں اُس نگاہ سے دیکھ رہا ہوں جس نگاہ سے وہ نہیں دیکھ رہی کہ حکومت کو پھر مشکلات پیش آنے والی ہیں اور آسمان سے خداتعالیٰ یہ ثابت کردے گا کہ کَل کو یہی حکومت پھر ہماری مدد کی محتاج ہوگی۔ پھر کَل کے افسر ہمیں کہیں گے کہ آئوہماری مدد کرو اور پچھلے افسروں کے رویہ کو نظرانداز کردو مگر میں انہیں بتادینا چاہتا ہوں کہ اگر آج انہوںنے ہماری شکایات کو دور کرنے کی کوشش نہ کی تو کَل ان کا ہمیں اپنی مدد کیلئے بلانا بیکار ثابت ہوگا اور ہم قانون شِکنی سے بچتے ہوئے اپنی جماعت کی معیشت کیلئے دوسرے ذرائع اِنْشَائَ اللّٰہُ نکالیں گے جن کو اختیار کرکے ہم حکومت کی مہربانیوں سے آزاد ہوجائیں گے۔ مگر ہم چھپ کر کوئی کام نہیں کریں گے بلکہ کھلے بندوں کریں گے، عَلَی الْاِعْلَان کریں گے اور حکومت کے قانون کے اندر رہ کر کریں گے یہاں تک کہ انگریزوں کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان باتوں میں کوئی حرج نہیں اور اگر وہ ہم کوان ذرائع کے اختیار کرنے سے روکیں توملک میں بھی شورش برپا ہوجائے گی اور دنیا میں بھی ان کی بدنامی ہوگی۔ انگریزی فطرت کو ہم جانتے ہیں وہ کھلی بے انصافی کو کبھی برداشت نہیں کرسکتی۔ پس ہم اس سے یہ امید نہیںکرسکتے کہ وہ خود ہی قانون بنائے اور ان کے اندر رہ کرکام کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرکے بے انصاف بن جائے۔
پس میں پھر ایک طرف حکومت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ انصاف سے کام لے اور ان فتنہ انگیزیوں کو روکنے کی طرف متوجہ ہو اور دوسری طرف جماعت سے بھی کہتا ہوں کہ وہ زیادہ تر نوکریوں کی طرف توجہ نہ کرے بلکہ تجارت، زراعت اور صنعت و حرفت کے کاموں کو اختیار کرے۔ مگربعض بیوقوف ایسے ہیں جو اَب تک مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ فلاں افسر کے پاس ہماری سفارش کردیں۔ نہ معلوم وہ لوگ میرے خطبے پڑھتے ہیں یانہیں پڑھتے، اور اگر پڑھتے ہیں تو سمجھتے کیوں نہیں۔ مَیں متواتر جماعت کو بتارہا ہوں کہ حکومت کے بعض افسر ہمارے امن کوبرباد کررہے ہیں، وہ ہماری کسی بات پر کان نہیں دھرتے بلکہ ہمیں نقصان پہنچانے اور ہماری طاقت کو توڑنے کی کوشش کررہے ہیں مگر وہ احمق مجھے لکھتے ہیں کہ ہماری سفارش کردیں۔ میںنے تم کو وہ راستہ بتادیا ہے جس پر تم اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہو اور وہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے حضور گِرو اور اس سے دعائیں کرو۔ جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ اِس پیر سے روزے رکھو مگر معلوم نہیں تمہیں کیا عادت ہوگئی ہے کہ تم خداتعالیٰ کی بجائے بندوں کے پاس جانا پسند کرتے ہو۔
میں تمہیں نوکریوں سے منع نہیں کرتا بے شک تم اچھی سے اچھی ملازمت کیلئے کوشش کرو لیکن یہ سمجھ لو کہ سب لوگوں کو نوکریاں نہیں مل سکتیں اس لئے علاج یہی ہے کہ تم اپنا رزق خدا سے مانگو۔ وہ معمولی معمولی کاموں میں بھی بعض دفعہ اتنی ترقی دے دیتا ہے کہ لوگ رشک کی نگاہوں سے دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ پس تم قربانیوں کیلئے تیار ہوجائو اور اِس بات پر آمادہ رہو کہ اگر تمہیں بھُوکا رہناپڑے، پیاسا رہنا پڑے، ننگا رہنا پڑے تب بھی تم ان تکالیف کو برداشت کرو گے۔ جب یہ روح پیدا کرو گے تو اللہ تعالیٰ غیب سے خودبخود تمہارے لئے کئی رستے کھول دے گا۔
تام چینی کے برتن جس شخص نے بنائے ہیں وہ پہلے نواب تھا لاکھوں روپیہ کامالک تھا مگر جب اس نے یہ کام شروع کیا تو اپناسارا روپیہ اُس نے خرچ کردیا مگر پھربھی کامیاب نہ ہؤا۔ اِس کے بعد اُس نے بیوی کے زیور بیچنے شروع کردیئے، وہ روپیہ ختم ہؤا تو دوستوں اور رشتہ داروں سے قرض لے کرکام کرنا شروع کردیا، جب بالکل اُس کی آخری نوبت پہنچ گئی تو بیس سال کی محنت، تلاش اورجستجو کے بعد وہ تام چینی کے برتن بنانے میں کامیاب ہوا اور اس کے بعد اسی کام سے وہ کروڑ پتی ہوگیا۔
پس صنعت و حرفت کرو اور اپنی ہمتوں کوبلند کرو۔ تجارت اور صنعت و حرفت کے ذریعہ اس قدر آمد ہوتی ہے کہ نوکریوں میں اتنی آمد نہیں ہوتی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نوکریاں نہ کرو۔ جب تک حکومت روک نہیںدیتی اُس وقت تک بے شک نوکریاں کرو لیکن روک دے تو گھبرائو نہیں بلکہ کہہ دو
ملکِ خدا تنگ نیست پائے گدا لنگ نیست
خداتعالیٰ نے دنیا کو نہایت وسیع بنایا ہے۔ ایک جگہ اگر راستہ بند ہو تو وہ دوسری جگہ رزق کا راستہ کھول دیتا ہے اور ہمارا رزق تو خداتعالیٰ کے عرش پر موجود ہے اور اُسی نے ہمیں دینا ہے۔ پس اُسی سے مانگو اور دعائیں کرو۔ میں نے کوشش کی ہے کہ محبت، پیار، نرمی اور دلائل سے حکومت پر تمام باتیں واضح کردوں لیکن اگر باوجود اِس کے حکومت ہماری شکایتوں کو دور کرنے کیلئے تیار نہ ہو تو دنیا گواہ رہے کہ ہم نے امن قائم کرنے اور حکومت سے تعاون کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے لیکن حکومت نے ہماری طرف محبت کاہاتھ نہیں بڑھایا۔ اس کے بعد بھی اگرچہ مَیں کوشش کروں گا کہ ہماری طرف سے حکومت کے ساتھ تعاون ہو لیکن اگر اُس حد تک تعاون نہ ہو سکے جس حد تک کہ ہم پہلے تعاون کرتے تھے تو آئندہ آنے والے افسروں کایہ حق نہیں ہوگا کہ وہ ہم سے سوال کریں کہ تم کیوں اب گزشتہ کی طرح تعاون نہیں کرتے کیونکہ آخر پچھلے لوگ پہلوں کے ہی وارث ہؤاکرتے ہیں۔
(الفضل ۴؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
؎۱ فاطر: ۲۵
؎۲ مسلم کتاب الایمان باب جواز الاستسرار بالایمان للخائف
؎۳ بخاری کتاب المناقب باب علَامَات النبوۃ فی الاسلام

۱ ۱
عجز و انکسارسے دعائیں کر و اور اپنی اصلاح میں لگ جائو
(فرمودہ ۳؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اس ہفتہ سے وہ روزوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جس کے متعلق دو تین ہفتے ہوئے میں نے جماعت کے دوستوں کوہدایت کی تھی اب آئندہ ہفتہ میں اِنْشَائَ اللّٰہُ دوسرا روزہ آئے گا اور اس طرح سات ہفتوں میںخدا کے فضل سے اور اس کی مدد کے ساتھ وہ دعا کا پروگرام ختم ہوگا جس کے متعلق میں اعلان کرچکا ہوں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ؎۱ ۔ مؤمن کوجب کبھی وہ مشکلات میں مبتلاء ہو تو صبر اور نماز و دعا سے مدد طلب کرنی چاہئے۔ صبر کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ انسان ان مصائب اور مشکلات اور اذیتوں کو برداشت کرے جو اللہ تعالیٰ کی مشیّت کے ماتحت اس کے مخالفوں کی طرف سے اسے پہنچ رہی ہوں لیکن صبر کے معنے روزہ کے بھی ہیں، صبر رُک رہنے کانام ہے اور صوم بھی رُک رہنے کانام ہے دونوں لفظ ہم معنی ہیں جس طرح انسان مصائب اور مشکلات کے موقع پر گھبراہٹ سے رُکا رہتا ہے اسی طرح روزہ میں کھانے پینے سے رُکا رہتا ہے۔ پس صبر کے معنے جہاں تکالیف کی برداشت کے ہیں وہاں اس کے معنے روزہ کے بھی ہیں بلکہ صبر روزہ کا زیادہ ہم معنی ہے بہ نسبت اذیتوں او رمشکلات کو برداشت کرنے کے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر عمل کی کوئی جزاء ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ کی جزاء میں خود ہوں ؎۲ یعنی بجائے اس کے کہ روزہ کا انعام مخلوقات میں سے کسی چیز کے ذریعہ دیا جائے اللہ تعالیٰ کی رضا کے ذریعہ سے اس کی جزاء ملتی ہے۔ پس ایسے کام جو خالص مذہبی ہوں اور جن کے نتیجہ میں انسان کی ایک ہی غرض ہو یعنی رضائے الٰہی ان کے حصول اور تکمیل کیلئے بہترین صبر روزہ ہی ہوسکتا ہے کیونکہ روزہ درحقیقت ایک زائد چیز بن جاتا ہے۔
اذیت اور تکلیف دینے والے بعض نعمتوں سے محروم کردیتے ہیں تکلیف اور اذیت کے معنی سوائے اس کے کیا ہیں کہ بعض چیزیں جن کی انسان کو خواہش ہوتی ہے اس سے چھین لی جاتی ہیں مثلاً انسان عزت چاہتا ہے مگر اسے گالیاں دی جاتی ہیں، انسان اپنے بزرگوں کا حترام چاہتا ہے مگر مخالف ان پر جھوٹے الزام لگا کر اور توہین کرکے اس کی راحت چھین لیتاہے، یا جھوٹے مقدمات بنا کر قید کرادیتا ہے، زمین یا مکان لے لیتا ہے، مارپیٹ کر کے جسم کا سکون اور آرام لے لیتاہے غرض تکلیف اور اذیت کے یہی معنے ہیں کہ انسان کی کوئی چیز خواہ وہ جسمانی ہو یا روحانی یا معنوی دوسرا اسے چھین لیتا ہے اور مؤمن کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اس پر بے تابی کا اظہار نہ کرے خواہ اس سے اس کی جان و مال، عزت، آبرو، سکون، آرام سب کچھ چھین لیا جائے اسے چاہئے کہ خدا پر توکل کرکے وقت گزارے۔
اور روزہ کیا ہے انسان خداکیلئے اپنی مرضی سے کچھ چیزیں چھوڑ دیتاہے کھانا پینا چھوڑ دیتاہے، میاں بیوی کے تعلقات ترک کردیتا ہے، رات کو جاگنے والا نہ بھی ہو تو نیند ترک کرتا ہے، اپنی زبان، آنکھوں ،کانوں وغیرہ کی زیادہ حفاظت کرتا ہے کیونکہ اخلاق کی پوری نگرانی کے بغیر روزہ مکمل نہیں ہوسکتا۔ پس جب انسان کسی مصیبت میں مبتلاء ہوتاہے یعنی دشمن اور مخالف اس کی بعض پسندیدہ چیزوں کو اس سے چھین لیتے ہیں تو بندہ خداتعالیٰ کیلئے روزہ رکھتا ہے گویا دوسرے لفظوں میں وہ اللہ تعالیٰ سے کہتا ہے کہ یہ چیزیں کیا ہیں جو مجھ سے چھینی گئی ہیں میں تو تیری خاطر اپنی خوشی سے اور بھی چیزیں چھوڑنے کو تیار ہوں۔ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی تجھ سے کُرتہ مانگے تو اسے چادر بھی دے دے ؎ ۳ ، اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی آگے کردے ؎ ۴ ۔ ممکن ہے آپ نے یہی مضمون بیان فرمایا ہو جو میں بیان کررہا ہوں اور عیسائیوں نے اسے غلط سمجھا ہو۔ روزہ رکھنا گویا یہ کہنا ہے کہ خدایا! تیرے عشق میں کونسی چیز ہے جو میں چھوڑنہیں سکتا اگر تیری مشیّت مجھ سے ایک چیز چھڑاتی ہے تومیں خوشی سے دوسری بھی چھوڑ دیتا ہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ دشمن سے کہتا ہے کہ اس کا کُرتہ چھین لے تو وہ کہتا ہے کہ خدایا! میں تیری خاطر چادر بھی پیش کرتا ہوں، اگر اللہ تعالیٰ دشمن کو اس پر مسلط کرتا ہے کہ گالیاں دے کر اسے کانوں کا عذاب دے تو وہ کہتا ہے میں ز بان اور پیٹ کا عذاب بھی اپنے اوپر لیتا ہوں یعنی بھوکا رہوں گا اور اس طرح جو تکالیف اسے جبری پہنچتی ہیں وہ بھی اس کی ان طَوعی اور رضائی تکالیف کی وجہ سے طَوعی ہی بن جاتی ہیں اور اس کیلئے ثواب کا موجب ہوجاتی ہیں۔ عام لوگ جانتے ہیں اور یہ صرف لطیفہ ہی نہیں بلکہ تجارب سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ لیٹ یا بیٹھ جانے والے انسان پر شیر حملہ نہیں کرتا اور شیر تو کجا کتے کے سامنے بھی اگر کوئی شخص بیٹھ جائے تو وہ اسے نہیں کاٹتا اور کون عقلمند یہ سمجھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میں شیر جتنی مروت بھی نہیں۔ اس لئے جب دشمن حملہ آور ہو اور ہم بجائے جزع فزع کرنے کے خداتعالیٰ کے حضور بیٹھ جائیں اور کہیں کہ ہم تو باقی چیزیں بھی تیرے حوالے کرنے کیلئے تیار ہیں تو یہ ہو نہیں سکتاکہ خداتعالیٰ اس غضب کو روک نہ دے۔ شریف فطرت انسان بھی اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ جو اس کے سامنے لیٹ جائے اس پر حملہ کرے کجا یہ کہ شریف فطرت کو پید اکرنے والا ایسا کرسکے۔
بچپن کی ایک بات مجھے یاد ہے کہ ہم نے ایک کشتی خریدی تھی جو ڈھاب میں پڑی رہتی تھی بعض دفعہ بعض لوگ بغیر اجازت اسے لے جاتے اور اس سے ایسا سلوک کرتے جس سے کہ وہ جلدی خراب ہونے لگی۔ اس میں پانی کثرت سے آنے لگا۔ کبھی اسے اُلٹا دیتے، کبھی ڈبودیتے۔ میں نے بعض ساتھ کھیلنے والے لڑکوں سے کہا کہ تم تاڑ رکھو او رجب کوئی اسے لے جائے تو مجھے بتائو۔ چند روز کے بعد گائوں کے بعض لڑکے اسے لے گئے اور خراب کرناشروع کردیا، ایک لڑکے نے مجھے آکر اطلاع دی میں جلدی سے گیااور دیکھا کہ بعض لڑکے اسے منجدھار میں لے جاکر پانی اُچھا ل رہے ہیں۔ میں نے انہیں آواز دی کہ کشتی ادھر لے آئو۔ ان میں سے کچھ تو تیر کر بھاگ گئے اور کچھ کشتی کو لے آئے مگر وہ کنارے پر اُتر کر وہ بھی بھاگنے لگے۔ میں نے ان میں سے ایک قصاب لڑکے کو پکڑ لیا اور مارنے کیلئے ہاتھ اٹھایا لیکن جب تھپڑ مارنے کیلئے ہاتھ کو نیچے لارہا تھا تو اُس نے جھٹ اپنا جسم ڈھیلا کرکے کلّہ میری طرف کردیااور کہنے لگا لو جی مارلو۔ اُس کا یہ کہنا تھا کہ میرا ہاتھ وہیں گِرگیااور غصہ جاتا رہا بلکہ میں اپنے نفس میں اپنے آپ کو چھوٹا محسوس کرنے لگا کہ میں ایسی چھوٹی بات پر اسے مارنے لگا تھا۔ پس اگر انسانی فطرت ایسے موقع پر اتنی بلند پروازی سے کام لے سکتی ہے تو وہ عظیم الشان ہستی جس کے خزانوں میں کمی نہیں، جس کے فضلوں کی حدبندی نہیں اس کے غضب یا امتحان لینے کے موقع پر اگر انسان اپنے آپ کو اس کے آگے گِرادے تو جو تبدیلی اُس کی صفات میں پید اہوتی ہے انسان ا س کیفیت کا اندازہ ہی نہیں کرسکتا۔
اللہ تعالیٰ کا سلوک اپنے بندوں سے جس محبت کا ہے اس کا اندازہ وہی لگاسکتے ہیں جنہیں اس کی محبت کاتجربہ کرنے کا موقع ملا ہو۔ مجھے یاد ہے میں چھوٹا بچہ تھا جب میں نے رئویا میں ایک چھ سات یا آٹھ برس کی عمر کا بچہ جو نہایت خوبصورت اور نہایت عمدہ سفید لباس پہنے ہوئے تھا دیکھا۔ ساتھ ہی میں نے دیکھا کہ ایک سنگ مَرمَر کا چبوترہ ہے جس کے اِردگِرد ایک دو سیڑھیاں بھی ہیں وہ امرتسر کے اس چبوترے سے ملتا جُلتا ہے جس پر کوئین وکٹوریا کا بُت نصب ہے میں نے دیکھا کہ وہ بچہ ان سیڑھیوں پر کھڑا ہوکر چبوترے پر جھکا ہؤا ہے جس طرح کوئی کسی بزرگ سے دعا اور برکت لینے کیلئے جھکتا ہے اور مجھے یوں معلوم ہؤاکہ گویا آسمان پر کوئی چیز ہے جس سے وہ برکت لینا چاہتا ہے اس پر میں نے اوپر نگاہ ڈالی تو معلوم ہوا کہ آسمان پھٹ گیا ہے اور اس میں سے کوئی پروں والی چیز نیچے آرہی ہے اور مجھے خیال ہؤاکہ یہ حضرت مریم ہیں اور بچہ حضرت عیسیٰؑ ہیں ۔ حضرت مریم ایسے رنگین لباس میں ملبوس تھیں کہ جو دنیا میں نظر نہیں آتے اور انہوں نے چبوترے پر پہنچ کر اپنے پر بچہ پر پھیلادیئے اور جب وہ اس پر جھک گئیں تو آواز آئی کہ Love Creates Love یعنی محبت محبت پیدا کرتی ہے یعنی جب ایک طرف محبت پیدا ہوتی ہے تو دوسری طرف خودبخود ہونے لگتی ہے۔ یہ صداقت جو مجھے رئویا میں دکھائی گئی تما م کائنات میں نظر آتی ہے اورجو حُسن مخلوق میں نظر آتا ہے کس طرح ممکن ہے کہ اس ہستی میں نہ ہو جو محبت کی خالق ہے۔
اِسی کا ہم معنی ایک اور نظارہ مجھے اِس وقت یاد آگیا ہے کچھ عرصہ کی بات ہے کہ ایک مشکل مجھے پیش آئی جس کیلئے میں نے دعا کی مگر اُس کی قبولیت میں کچھ دیر ہوگئی۔ اُس وقت میں نے اپنے دل میں نیت کی کہ کچھ دن میں زمین پرسوئوں گا اور اس طرح زیادہ انکسار کے ساتھ دعا کرسکوں گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو زیادہ سُرعت سے جذب کرسکوں گا چنانچہ میں زمین پر بستر کرکے لیٹ گیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھاکہ اللہ تعالیٰ ایک عورت کی شکل میں آیا اس کے ہاتھ میں ایک سبز شاخ ہے جس کے سرے پر کچھ پتے بھی موجود ہیں او رجس طرح ماں بعض اوقات بچہ پر بظاہر غصہ کا اظہار کررہی ہوتی ہے مگر حقیقتاً وہ محبت کا اظہار کرتی ہے اسی طرح وہ چھڑی پکڑ کر مجھے کہتا ہے کہ اُٹھ کر چارپائی پر لیٹتا ہے یا نہیں؟ مجھے یاد نہیں کہ چھڑی ماردی ہے یا نہیں لیکن رئویا میں مَیں نے دیکھا کہ اس کے ایسا کہنے پر میں کود کر چارپائی پر جاپڑا۔ اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی اورمیں نے دیکھا کہ میں واقع میں بھی کُود کر چارپائی کی طر ف جارہا تھا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اس طرح محبت کے ساتھ مجھے بتایا کہ تمہارا زمین پر لیٹنا مجھے شاق گزرتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کی محبت کا اندازہ وہی لوگ لگاسکتے ہیں جنہوں نے ایسا نقشہ دیکھا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کے مقابلہ میں ماں باپ، بیوی ، خاوند، بہن، بھائی،دوست احباب غرضیکہ دنیا کی سب محبتیں ہیچ ہوتی ہیں اور کوئی بھی عقل یہ تسلیم نہیں کرسکتی کہ جس نے محبت پیدا کی اس کے مقابلہ میں کوئی محبت ٹھہر سکتی ہے۔پس اگر مصیبت اور تکلیف کے ایام میں مؤمن اپنی مرضی سے اور تکالیف اپنے اوپر ڈال لے تو اللہ تعالیٰ کی غیرت معاً بھڑک اُٹھتی ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ بندہ اس کی محبت اور عشق میں اتنا گداز ہے کہ تکالیف پر بجائے شکوہ اور گلہ کرنے کے اور ان پر رنجیدہ ہونے کے خودبخود اَور بوجھ اپنے اوپر ڈالنے کیلئے تیار ہوگیا ہے تو معاً اس کی تکالیف کو دور کرکے اس کی محبت کی قربانی کو قبول کرلیتا ہے اس لئے اس موقع پر روز ہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی چیز ہے اور اس کا اندازہ روحانی لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ پس اس ہتھیار کو معمولی نہ سمجھو دنیا میںلوگ بھوکے رہ کرکمزور ہوجاتے ہیں مگر خداتعالیٰ نے ہمیں وہ نسخہ بتایاہے کہ بھوکے رہ کرہم طاقتور ہوسکتے ہیں۔ مؤمن جب فاقہ کرتا ہے تو اسے ایسی طاقت حاصل ہوتی ہے کہ جس کے مقابل پربڑی بڑی طاقتیں ہیچ ہوتی ہیں۔
یاد رکھنا چاہئے کہ روحانی دنیا بالکل نرالی ہے اور یہاںبعض باتیں دوسری دنیا کی نسبت عجیب ہوتی ہیں۔ فرعون جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابل پردلائل سے شکست کھاکر عاجز آگیا تو اُس نے تمسخر کا طریق اختیا ر کیا اور وزراء سے کہا کہ اونچا محل تیارکرائو۔ لَعَلِّیْ اَطَّلِعَ اِلٰی اِلٰہِ مُوْسٰی ؎۵ ۔ اس طرح میں موسیٰ کے خدا کو دیکھ آئوں مگر دیکھو! خداتعالیٰ بھی کیا لطیفہ کرتا ہے اُس نے اُسے سمندر میں غرق کیا اور اس طرح بتادیا کہ آسمان پر جانے والا تُو کون ہے؟ میں تجھے زمین سے نیچے لے جاکر اپنی شکل دکھاتا ہوں۔ مگر مؤمن جب زمین پر جھکتا ہے، سجدہ کرتاہے اور کہتا ہے کہ میں کیا کروں جو آسمان پر نگاہ ڈالوں اورخدا کے حسین چہرے کو دیکھ سکوں جب وہ اپنے سر کونیچے لے جاتا ہے تو خداتعالیٰ اُسے اوپر اُٹھاتا ہے۔فرعون اوپر جاکر خداتعالیٰ کو دیکھنا چاہتا تھا مگر خدا تعالیٰ نے اسے تحت الثرٰی میں پہنچایا لیکن مؤمن نیچے جاتا اور تذلل اختیار کرتا ہے مگر خداتعالیٰ اسے اُوپر اٹھاتا ہے۔ سورہ نور میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں مؤمن کے گھر کو اونچا کرتا ہوں بلکہ اس کے طفیل اس کے خاندان کو بھی اوپر اُٹھاتا ہوں ؎۶ ۔ اس کے بالمقابل جو بڑائی اور تکبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے نیچے گراتا ہے۔
پس روحانی دنیا کے معاملات بالکل نرالے ہوتے ہیں تم یہ خیال مت کرو کہ روزہ معمولی چیز ہے ہماری لڑائی روحانی ہے اس لئے اس میں روحانی ہتھیار ہی کام آسکتے ہیں۔ جہاں لوہے کی تلواروں سے لڑائی ہو وہاں تو لوہے کی تلوار ہی کام آسکتی ہے مگر جب لڑائی روحانی ہو تو دل کو کاٹنے کیلئے روحانی تلوار کی ضررت ہوتی ہے اور روحانی تلوار کوتیز کرنے کیلئے پتھر کی سان کی ضرورت نہیں بلکہ روزہ کی سان کی ضرورت ہے۔ اِس عالم میں کوئی چیز جتنی موٹی ہو اُتنی بھاری ہوتی ہے مگر روحانی عالم میں کوئی چیز جتنی باریک ہو اُتنی ہی زیادہ وزنی ہوتی ہے۔ اس دنیا میں موٹائی وزن بڑھاتی ہے مگر روحانی عالم میں باریکی وزن کو بڑھاتی ہے۔پس اِس ہتھیار کومعمولی مت سمجھو اور ان دنوں کو غفلت میں مت گزرنے دو۔ ہفتہ میں ہم ایک دن روزہ رکھیں گے اور سات دن دعائیں کریں گے دعائیں خواہ انفرادی طور پر کی جائیں خواہ جماعتیں مل کر دعا کرنے کا انتظام کریں یعنی ایک مقررہ وقت پر سب دوست جمع ہوکر دعاکریں۔
اس کے متعلق میں ایک بات اور کہہ دینا چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ کا طریق بندوں سے مختلف ہوتا ہے اس کا غضب بھی رحمت کے ساتھ مخلوط ہوتا ہے بندہ کو جب دوسرے پر غصہ آتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اسے پیس ڈالے اور مٹا دے مگر خداتعالیٰ کا غضب جب نازل ہورہا ہو اُس وقت بھی اُس کے مدنظر یہی ہوتا ہے کہ اگر ہوسکے تو بچایاجائے۔
حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق روایات میں یہ واقعہ بیان ہؤا ہے جو معلوم نہیں پوری طرح صحیح ہے یا نہیں مگر اس کے بعض حصوں کی تصدیق قرآن کریم سے بھی ہوتی ہے۔ لکھا ہے کہ جب ان کی قوم پر سے عذاب ٹل گیا اور انہیں عذاب کی کوئی خبر نہ ملی بلکہ راہ گزروں سے یہ سنا کہ نینوا کے لوگ بالکل خیریت سے ہیں تو انہوںنے یہ سمجھ کرکہ عذاب نہ آنے کی وجہ سے اُن کی قوم ان کو جھوٹا کہے گی ملک کو چھوڑ کر کہیں چلے جانے کا فیصلہ کرلیا۔ ادھر ان کی قوم توبہ کرچکی اور ان کی آمد کا بے صبری سے انتظارکررہی تھی کہ تا ان پر ایمان لاکران کے حکموں کے مطابق زندگی بسر کرے مگر حضرت یونس ان حالات سے بے خبر تھے۔ پس وہ ملک چھوڑ دینے کے خیال سے وہاں سے چل پڑے اور ایک جہاز پر سوار ہوگئے تاکہ کہیں دور نکل جائیں مگر اللہ تعالیٰ کی مشیّت سے وہ جہاز میں سوار تھے ایک شدید طوفان آیا اور لوگوں نے رائج الوقت خیالات کے مطابق سمجھا کہ کوئی غلام بھاگ کر جہاز میںسوار ہؤاہے جس کی وجہ سے طوفان آیا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے اُن کی گفتگو سنی تو کہا کہ وہ غلام میں ہی ہوں جو اپنے آقا سے بھاگ آیا ہوں یعنی انہوں نے خیال کیاکہ میرے چلے آنے کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند کیا ہے اور اس سبب سے یہ طوفان آیا ہے۔ لوگوں نے ان کی بات کو قبول نہ کیا لیکن جب فیصلہ کرنے کیلئے قرعہ ڈالا تو انہی کانام نکلا آخر لوگوں نے اُن کو سمندرمیں پھینک دیا جہاں اُنہیں ایک بڑی مچھلی نگل گئی اور آپ تین دن اس کے پیٹ میں رہے لیکن اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے ماتحت زندہ رہے۔ تین دن کے بعد مچھلی نے آپ کو اُگل دیا۔ جس جگہ پر اس نے آپ کو اگلا تھا وہاںایک بیل اُگ آئی یا پہلے سے اُگی ہوئی تھی اس کے سایہ میں آپ پناہ لے کرلیٹ گئے۔ آپ مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے نہایت کمزور ہورہے تھے اس لئے نڈھال ہوکر سایہ میں پڑے رہے آپ کو طاقت آرہی تھی کہ یکدم کیا دیکھتے ہیں کہ وہ بیل جس کے سایہ میں آپ لیٹے ہوئے تھے اسے ایک کیڑے نے کاٹ دیا ہے جس کی وجہ سے وہ خشک ہو کرگر گئی۔ آپ کو اس کا بڑا صدمہ ہؤا کیونکہ اس سے آپ کو بہت آرام ملا تھا اور آپ کے منہ سے بے اختیار بددعا نکلی کہ خدا اس کیڑے کو تباہ کرے جس نے اس بیل کو کاٹ دیا ہے مگر چونکہ یہ سب کچھ آپ کو سبق دینے کیلئے ہورہا تھا اللہ تعالیٰ نے معاً آپ کو الہام کیا کہ اے یونس! یہ بیل تیری لگائی ہوئی نہ تھی صرف تجھے اس سے عارضی تعلق پیدا ہوا تھا مگر اس کے کٹ جانے پرتجھے اس قدر رنج ہؤاتُو سوچ کہ جس قوم کی تباہی تُو چاہتا تھا وہ تو میری پیدا کردہ تھی کیا اسے تباہ کرتے ہوئے مجھے رنج نہ ہوتا؟ پھر اگر ان کے توبہ کرنے پر میں نے ان کو بخش دیا تو تجھے کیوں رنج ہؤا۔
اس قصہ کی تفصیلات میں خواہ کچھ غلطی ہو لیکن اس کے اکثر اجزاء کی قرآن کریم تصدیق کرتا ہے۔ پس اس میں جو سبق نکلتا ہے وہ درست ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے غضب میں بھی رحم ملا ہؤاہوتا ہے وہ خود بھی فرماتا ہے کہ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ ؎۷ میری رحمت ہر دوسری شَے پر غالب ہے۔ گویا جس طرح کونین پر میٹھا چڑھادیا جاتا ہے تا آسانی سے کھائی جاسکے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے غضب پر رحمت کی شکر چڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ مؤمن کو بھی اللہ تعالیٰ کا طریق اختیار کرنا چاہئے یعنی اگر ہم کسی کے متعلق دعا کریں کہ وہ تباہ ہوجائے تو اس لئے نہیں کہ اس سے ہمیں تکلیف پہنچی ہے بلکہ اس لئے کہ خداتعالیٰ کی تعلیم کے پھیلنے میں وہ روک بنتا ہے ذاتی عداوت ہرگز نہ ہونی چاہئے۔ اگر ہم واقعہ میں اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں تو ہمارے اندر وہی صفات ہونی چاہئیں جو ہمارے ربّ میں ہیں۔ بے شک ہمارے مخالفین میں عیوب ہیں مگر مؤمن کو ثواب زیادہ نظر آتا ہے۔ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ آپ ایک جگہ سے گزررہے تھے کہ رستہ میں کُتّا مرا ہؤا پڑا تھا۔ حواریوں نے ناکوں کے آگے رومال رکھ لئے، تھوکنا شروع کردیا اور کہنے لگے کہ مُردار سے کس قدر تعفّن اُٹھ رہا ہے۔ لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کھڑے ہوگئے اور فرمایا دیکھو! اس کے دانت کتنے سفیدہیں۔
سو دشمن اگرچہ ہماری مخالفت کرتا ہے مگر ہم اس کی مخالفت کے باوجود دو بلکہ تین پہلوئوں کونظر انداز نہیں کرسکتے۔
ایک یہ کہ اکثر لوگ ایسے ہیں جو دیانتداری کے ماتحت یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے دین سے پھر گئے ہیں اس لئے وہ ہماری اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ گویا وہ ہماری مخالفت خیرخواہی سے متأثر ہوکر کرتے ہیں اس لئے ہم ان کی نیت کو نہیں بھلاسکتے۔ اکثر لوگ غلطی خوردہ ہوتے ہیں وہ ہماری مخالفت کرتے وقت سمجھتے ہیں کہ دین کو قائم کررہے ہیں اوروہ ہمیں مٹاکر اسلام کو قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ اگرچہ وہ شرارت کرتے ہیں اور ہم ان کو غلطی پر سمجھتے ہیں مگر ان کے خیالات پر بھی نیکی کا غلبہ ہوتا ہے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ انبیاء کے مخالفوں کے ذریعہ ان کے ماننے والوں کو دکھ پہنچاتا ہے تا ان کی نیکی اور مخالفوں کی بدی ظاہر ہوجائے۔ گویا اللہ تعالیٰ ایک طرف مؤمنوں کا امتحان لیتا اور دوسری طرف ان کے مخالفوں کی بُرائیوں کو ظاہر کرتا ہے پس ان کی طرف سے جو مخالفت ہوتی ہے اس میں ایک حصہ جبر کا بھی ہوتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ ان تکالیف کا موجب کچھ ہمارا اپنا قصور بھی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم کو پاک کرے۔ ہم میں سے اگر کوئی بدمعاملہ ہو تو دشمن سمجھتے ہیں کہ یہ سب ٹھگ ہیں، کوئی جھوٹ بولتا ہے تو مخالف کہتے ہیں کہ یہ سب جھوٹے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس طرح ہماری کمزریوں کو دور کرے۔
یہ بات بھی ایسی ہے جسے ہم نظرانداز نہیں کرسکتے اور ان تین باتوں کی موجودگی میں ہمارا فرض ہے کہ پہلے مخالفوں کیلئے دعا اور پھر بدعا کریں۔ پہلا کام ہمارا یہ ہے کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہہ کر بیت الدعا کے اوپر ایک کمرہ اپنے لئے بنوایا تھا کہ وہ بھی اس میں دعا کیا کریں گے۔ آپ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ میں اس میںدعا کررہا تھا کہ مجھے نیچے سے اس طرح کی آواز آئی جیسے کوئی عورت دردِ زہ سے بیتاب ہوکر روتی ہے۔ وہ کہتے ہیں میں نے کان لگا کر سنا تو معلوم ہؤاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہایت زاری سے دعا کررہے ہیں۔ وہ طاعون کے دن تھے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب فرماتے ہیں کہ انہوںنے سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کہہ رہے تھے الٰہی! اگر یہ قوم طاعون سے ہلاک ہوگئی تو مجھ پر ایمان کون لائے گا؟
یہ ہمارے سردار کا رویہ ہے پس ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم ڈوبنے والے کو بچائیں اور مرنے والے کو زندہ کرنے کی کوشش کریں۔ غیظ و غضب سے اتنے متاثر مت ہو کہ یہی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کا بیڑا غرق کردے بلکہ پہلے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور بچا لے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ سب انسان ایک آدم کی اولاد ہیں مگر لوگوں نے اس برادری کو بھلادیا اس لئے غیریت پیدا ہوگئی اگر تم اس کا خیال رکھو تو پھر یہ احساس بھی تمہیں ہوجائے گا کہ اپنے بھائیوں کو کون مرواتا ہے۔
مکّہ کے کفار مسلمانوں کے کتنے دشمن تھے مگر اس برادری کا خیال ان پر بھی غالب تھا۔ چنانچہ بدر کے دن بعض نے کہہ دیا کہ مسلمان بھی تمہارے بھائی ہیں ان کوکیسے مارو گے؟ گویا شدید دشمنی کے باوجود محبت کا جوش غالب آگیا۔ پس اگر ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور ساری دنیا ایک برادری ہے تو ہمارا فرض ہے کہ مخالفت کرنے والوں کودعائوں کے تیروں سے ماریں۔ یہ چیز اچھی نہیں کہ ہم بددعائوں سے اپنے بھائیوں کے خون کریں۔ ذاتی جوش میں ہمیں یہ نہ کہنا چاہئے کہ خدایا! ان پر وبال نازل کر بلکہ یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے خدا ہم ان کی بہتری ہی چاہتے ہیں تباہی نہیں۔ ہم خود بھی کمزور تھے مگر تیرے فضل نے ہمیں ڈھانپ لیا تیری رحمت اتنی وسیع ہے کہ اس سے باہر کوئی چیز نہیں پس اگر تُو ان کو بھی ڈھانپ لے اور ہدایت دے دے تو اس سے زیادہ ہماری خوش قسمتی کیا ہوسکتی ہے لیکن اگر تیری حکمت بعض کو اس کا اہل نہیں سمجھتی اور ان کو فنا کرنے میں ہی بہتری ہے تو گو یہ بات ہمارے لئے رنج کا موجب ہوگی مگر ان کو ہمارے رستہ سے اس طرح ہٹادے کہ اسلام کی ترقی میں ان کا وجود روک نہ رہے۔ یہ طریق ہے جوہمیں اختیار کرنا چاہئے یہ دعا بھی ہے اور بددعا بھی۔ یہ دعا ہے اس لئے مَیں کہہ سکتاہوں کہ مؤمن بددعا کبھی نہیں کرتا اور یہ بددعا ہے اس لئے کہہ سکتاہوں کہ مؤمن کبھی کبھی بددعا بھی کرلیتا ہے۔ یہ چیز دونوں کے بین بین ہے اور دعا کی طرف بددعا کی نسبت زیادہ جھکی ہوئی ہے کیونکہ اس میں پہلے ہدایت کی دعا ہے۔ ہاں یہ بھی ہے کہ اگر ہدایت مقدر نہ ہوتو پھر خدا ان کوہمارے رستہ سے ہٹادے تا دین کی ترقی میں روک نہ ہوں۔ پس ہمارا غضب خدا کے لئے چاہئے اور اگر ہم اس طرح دعا کریں تو یقینا یہ غضب خدا کیلئے ہوگا لیکن اگر ہم کہیں کہ خدا ان کوماردے تو اس سے ذاتی غصہ ظاہر ہوتا ہے۔ پس ان دنوں میں اس رنگ میں دعائیں کرو جو میں نے اوپر بتایا ہے اور اس کے ساتھ جماعت کی اصلاح کیلئے بھی دعائیں کرو کیونکہ اگر یہ لوگ تباہ بھی ہوگئے اور ہم نے ان کی جگہ لے لی تو اس کا کیا فائدہ۔ ایک جھوٹے اورفریبی کو ہلاک کروا کر اگر دوسرا جھوٹا اور فریبی جگہ لے لے تو اس میں کوئی خوبی کی بات نہیں۔ اگر ہم خدا تعالیٰ کیلئے ان کی تباہی چاہتے ہیں تو یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ ہم ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے نہ ہوں۔ خدا ہمیں رحم دل، متقی اور دیانتدار بنائے، ہم احسان کرنے والے ہوں کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو ایک سیاہی کو مٹا کر دوسری لگالینے سے دنیا کو کیا فائدہ ہوسکتاہے۔ پس اس بات کیلئے خصوصیت سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ جماعت کاروحانی معیار بلند کردے۔ ابھی کئی لوگ جماعت میں ایسے ہیں کہ جن میںاور غیروں میں مجھے کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ جھوٹ، خیانت، ظلم، حق تلفی سے انہیں گریز نہیں۔ وہ دوستوں کیلئے جھوٹ بول دیتے ہیں اوربندہ کی دوستی کیلئے خدا کی دوستی کو قربان کردیتے ہیں اور اگر یہ چیزیں قائم رہیں تو خداتعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ موجودہ نقشہ کوتباہ کردے بلکہ ہمارے مخالف ہم سے زیادہ ہیں اور اگر دونوں ایک ہی قسم کے ہوں تو پھر زیادہ تعداد والوں کا زیادہ حق ہے کہ انہیں قائم رکھا جائے۔
سو ان دنوں میں خداتعالیٰ سے بہت دعائیں کرو اور عجز و انکسار سے اس کے حضور جھک جائو۔ نہ صرف پیر کے دن بلکہ ہر روز دعائیں کو۔ جہاں امام ایسا نہ ہو جونمازوں میں تلاوت کے ساتھ دعائیں پڑھ سکے وہاں دوسرے وقت میں مل کر دعا کا انتظام کرلو اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو علیحدہ علیحدہ دعائیں کرو مگر کوئی دن ایسا نہ گزرے جب دعا نمایاں شکل میں سامنے نہ آچکی ہو اوراگر اس طریق سے دعائیں کی جائیں تو مجھے یقین ہے کہ ہر گز خالی نہ جائیں گی۔ پچھلے سال اس کا تجربہ ہم کرچکے ہیں اِدھر دعا کے ایام کا خاتمہ ہؤا اور اُدھر کوئٹہ میں زلزلہ آیا او رپھر مسلسل تباہیاں آتی رہیں تا کہ دشمن کوبیدار کردیں مگر افسوس کہ اس سے کسی نے فائدہ نہیں اُٹھایا۔ اور مجھے یقین ہے کہ اگر آپ لوگ یہ دن غفلت میں نہ گزاریں گے اور عاجزانہ طور پر خدا کے حضور جھکیں گے تو اللہ تعالیٰ دو نشانوں میں سے ایک ضرور دکھائے گا۔ یا تو وہ ان کو ہدایت دے دے گا یا انہیں ہلاک کردے گا دونوں میں سے ایک بات ضرور ہوکر رہے گی۔ اللہ تعالیٰ رحمت کا نشان دکھائے یا غضب کا اگر تمام احمدی عجز اور انکسار سے دعائوں میں لگے رہیںتو دشمن کے حالات کے مطابق ان دونوںباتوں میں سے ایک کو ضرور معیّن کراکر رہیں گے۔اگر وہ نیکی کی طرف جھکے گا تو رحمت کا نشان ظاہرہوگا او راگر ضد میں بڑھے گا تو غضب کا۔
پس آئو اس رحمت کے دروازہ میں جوخدا نے کھولا ہے داخل ہوجائو جو سوائے تمہارے کسی کو میسر نہیں۔ آج اجابت دعا کے دروازے صرف تمہارے لئے ہی کھولے گئے ہیں اور کسی کیلئے نہیں، قبولیت کے فرشتے تمہارے لئے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیںمگر دوسروں کیلئے ان کی مٹھیاں بند ہیں۔ اس طاقت اور قوت کو حقیر مت سمجھو جو خداتعالیٰ نے تمہیںدی ہے۔ آسمان سے تمہاری کامیابی کے احکام جاری ہوچکے ہیں۔ اگرہمت اور استقلال سے کام لو گے، خدا کے حضور عجز اور انکسار سے جھک جائو گے تو وہ تمہیں توفیق دے گا کہ اپنے آسمانی باپ کا ورثہ حاصل کرسکو لیکن اگر سُستی اور غفلت کرو گے تو اس میں کیا شبہ ہے کہ خالی منہ سے نکلی ہوئی دعائیں قبول نہیں ہؤاکرتیں۔اللہ تعالیٰ کے حضور وہی دعا قبول ہوتی ہے جو دل کے خون سے لکھی جائے زبان کی آواز قبول نہیں ہوتی بلکہ دل کے خون کی تحریر قبول ہوتی ہے۔ اگر دعائوں کے ساتھ دل کے خون کے چھینٹے دو گے تو کامیابی کے رستے کھل جائیں گے ورنہ جوبرکتیں تمہارے لئے مقدر ہیں وہ انتظار کریں گی جب تک کہ تم ان کے قابل نہ ہوجائو۔ انہیں لینا تمہارے اختیار میں ہے چاہے جلد حاصل کرلو اور چاہے ملتوی کرالو۔
(الفضل ۱۱؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
؎۱ البقرۃ: ۴۶
؎۲ بخاری کتاب الصوم باب فی فضل الصوم
؎۳ متی باب ۵ آیت ۴۰۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء
؎۴ متی باب ۵ آیت ۳۹ ۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء
؎۵ القصص: ۳۹
؎۶ فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ (النور: ۳۷)
؎۷ الاعراف: ۱۵۷




۲ ۱
اپنے نفوس کی اصلاح کی طرف توجہ کرو اور خداتعالیٰ
کی خشیت اور اس کی محبت پید اکرو
(فرمودہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
انسانی زندگی کے مختلف دَور ہوتے ہیں۔ کچھ ان حالات کے لحاظ سے جو انسان پر گزرتے ہیں اور کچھ اُس علم کے لحاظ سے جو اُسے حاصل ہوتا ہے۔ یعنی کبھی تو وہ ایسے حالات میں سے گزررہا ہوتا ہے جو اُس کی ترقی کاموجب ہوتے ہیں اورکبھی ایسے حالات میں سے گزررہا ہوتا ہے جواس کے تنزل کا موجب ہوتے ہیں۔ پھر کبھی وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں ایسے حالات میں سے گزررہا ہوں جومیرے لئے ترقی کاسامان اپنے اندر رکھتے ہیں اور کبھی وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں ایسے حالات میں سے گزررہا ہوں جومیرے لئے تنزّل کا سامان اپنے اندر رکھتے ہیں لیکن حقیقتاً اس کا خیال درست نہیں ہوتا۔ اس حالت میں جب وہ گھبراہٹ کا اظہار کررہا ہوتا ہے اس کیلئے خوشی اور مسرت کامقام ہوتا ہے اور جب خوشی کا اظہار کررہا ہوتا ہے اس کیلئے گھبرانے اور رونے کا مقام ہوتا ہے۔
مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ اونچا کررہا ہوتا ہے لیکن بظاہر انہیں اپنے سامنے مشکلات نظر آتی ہیں۔ مؤمنوں اور کفار کا مقابلہ بھی اِسی طرح کا ہوتا ہے۔ دونوں کی حالتیں درحقیقت عدمِ علم کی وجہ سے ہوتی ہیں اور وہ ان سے گھبرارہے ہوتے ہیں لیکن ان کی گھبراہٹ باموقع نہیں ہوتی اور دشمنوں کو اللہ تعالیٰ نیچا کررہا ہوتا ہے جبکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انسان کی ترقی اور بلندی کے سامان ہورہے ہیں وہ خوش ہورہے ہوتے ہیں لیکن ان کی خوشی بھی باموقع اور بامحل نہیں ہوتی۔ ہر ایک کو ان میں سے اللہ تعالیٰ غفلت میں رکھ رہا ہوتا ہے یہاں تک کہ فیصلہ کا وقت آجاتا ہے اور دونوں فریق اپنی اپنی جگہ حیران رہ جاتے ہیں۔ وہ جو اس خیال میںدَوڑا چلا جارہا تھا کہ مجھے تخت پربٹھایا جانے والا ہے وہ یک لخت دیکھتا ہے کہ وہ پھانسی کے تختے پر کھڑا ہے اور جسے یہ خیال تھا کہ اُسے پھانسی کے تختہ کی طرف لے جایا جارہا ہے وہ یکدم دیکھتا ہے کہ اُسے تختِ شاہی پر بٹھادیاگیا ہے۔ وہ انکشاف کاوقت عجیب وقت ہوتا ہے اِس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کوایسے حالات میں سے گزرنے کا موقع ملتا ہے ورنہ ایسے غیرمعمولی حالات ہوتے ہیں کہ بعد میں آنے والی نسلیں بھی ان کو نہیں سمجھ سکتیں۔
آج سے اُنیس سَو سال پہلے جب یہودی حضرت مسیح علیہ السلام کوصلیب پر لٹکارہے تھے اُس وقت ان کے دلوں میں جو خوشی تھی آج اُس کا کون اندازہ کرسکتاہے۔ پھر اس وقت حضرت مسیح کے حواریوں کی جو کیفیت تھی اس کا بھی آج کون اندازہ لگاسکتا ہے۔ جو گھبراہٹ اُس وقت حواریوں میں پیدا ہوئی وہ اِس بات سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ وہ غریب لوگ جو تلوار چلانا جانتے ہی نہ تھے بغیر اس خیال کے کہ ان کے اس فعل کا نتیجہ کیاہوگا ان میں سے ایک نے جس کانام پطرس تھا تلوار نکال لی اور شاہی فوجیوں سے لڑنے کیلئے تیار ہوگیا۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے اسے منع کیا اور کہا اِس سے کیا فائدہ؟ پھر دوسرا اثر پطرس پر یہ پڑا کہ اُس نے حضرت مسیح پر *** بھیجی اور کہا میں اسے جانتا ہی نہیں۔ گویا پہلا اثر تویہ ہؤا کہ وہ بے محل لڑائی کیلئے تیار ہوگیا اور دوسرا اثر یہ ہؤا کہ اس نے بِلاوجہ اپنے آقا اور اُستاد کاانکار کردیا۔ خود حضرت مسیح کے قلب کی جو کیفیت تھی وہ اِس سے معلوم ہوسکتی ہے کہ وہی مسیح جن کے پاس ایک دفعہ اُن کی والدہ اور بھائی جب ملنے کیلئے آئے تو لوگوں نے اطلاع دی آپ کی ماں اوربھائی باہر کھڑے ہیں اور وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں حضرت مسیح علیہ السلام نے کہا کون ہے میرا بھائی، کون ہے میری ماں۔ لیکن دوسرے وقت کی ان کی قلبی کیفیت یہ تھی کہ جب اُن کو صلیب پر لٹکایا گیا اور انہوں نے ہجوم میں اپنی ماں کو کھڑے دیکھا تو ایک حواری کو اشارہ کرکے انہوں نے اپنے پاس بلایا جب وہ پاس پہنچ گیا تو انہوں نے اُس کو کہا کہ تم جانتے ہو یہ عورت کون کھڑی ہے؟ دیکھو! یہ تمہاری ماں ہے اور اے عورت! یہ تیرا بیٹا ہے جس کے صاف طور پر یہ معنی تھے کہ وہ ظاہری حالات کے لحاظ سے یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ان کا آخری وقت قریب ہے اور یہ کہ اب ان کافرض ہے کہ وہ اپنی ماں کی حفاظت اور اس کی تسلی کا کوئی انتظام کریں۔ پس انہوں نے اپنے ایک حواری کو پاس بلا کر کہہ دیا کہ تیرا فرض ہے کہ تُو اسے اپنی ماں سمجھے اور اے ماں! تُو اس کو میری جگہ بمنزلہ اپنے بیٹے کے سمجھنا۔ اُس وقت یہودی کتنے خوش تھے اور حواری کتنے رنجیدہ تھے مگر ان کو کیا علم تھا ان حالات کا جوبعد میں پیش آنے و الے تھے ۔ آج انیس سَو سال گزر گئے مگر کہیں بھی یہود کو آرام کی جگہ نہیں ملتی۔ ہر مُلک ان کیلئے تنگ ہورہا ہے آخری ملک ان کے آرام کا انگلستان تھا مگر اب انگلستان میں بھی ان پر حملے شروع ہوگئے ہیں۔ اُنیس سَوسال کا عرصہ کتنا لمبا ہوتا ہے لوگ سَو سال کے بعد اپنے باپ دادوں کو بھول جاتے ہیں لیکن حضرت مسیح کو دُکھ دینے والے آج انیس سَو سال کے بعد بھی وہ دُکھ اٹھارہے ہیں جن کی نظیر اور کسی قوم میں نہیں مل سکتی اور وہ مسیح جسے کانٹوں کا تاج پہنایا گیا اُس کی وہ عزت ہوئی کہ خدا اپنے عرش سے اُس کی تعریف کرتا اور قرآن مجید میں نہایت اعزاز کے ساتھ اس کا ذکر کرتا ہے اور عیسائی اس کی محبت میں اتنا غلوّ کرتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ وہ خد اکا اکلوتا بیٹا ہے جو عرش پر اس کے دائیں ہاتھ بیٹھا ہے۔ جو پھانسی پر لٹکانے والے تھے اُنہیں دنیا میں کوئی ٹھکانا نہیں تھا مگر جسے پھانسی پر لٹکایا گیا تھا اسے عرش پر بٹھادیا گیا۔ پس اُس وقت کے جو یہود اور حواریوں کے جذبات تھے آج اُن کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا اسی طرح جو آج یہود اور حضرت مسیح کے ماننے و الوں کے جذبات ہیں ان کا پہلے لوگ بھی اندازہ نہیں کرسکتے تھے۔ کیا ان یہودیوں کے باپ دادے یہ اندازہ کرسکتے تھے کہ ہمارے اِس فعل کے نتیجہ میں کتنے ہزار سال تک ہماری اولادوں پر اللہ تعالیٰ کی *** برستی چلی جائے گی؟ اور کیا حضرت مسیح کے حواری یہ خیال کرسکتے تھے کہ ان کی اس قربانی کے نتیجہ میں باوجود اس کے کہ ان کی اولادیں دین کی مخالف ہوجائیں گی، باوجود اس کے کہ وہ دین میں ابتری پھیلانے والی بن جائیں گی پھر بھی خداتعالیٰ کے فضل کوجذب کرتی چلی جائیں گی؟
پس ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ بھی ایک نبی کی جماعت ہے اور اس سے بھی اِس وقت وہی معاملہ ہورہا ہے جوپہلوں سے ہؤاجس طرح پہلوں کو خداتعالیٰ نے ہمیشہ اندھیرے میں رکھا یہاں تک کہ ایک دن اندھیرا دور ہوگیا اور خداتعالیٰ نے اپنے فیصلہ کا اعلان کردیا اسی طرح ضروری ہے کہ ہمیں بھی اندھیرے میں رکھا جائے یہاں تک کہ اس اندھیرے کو دور کردینے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوجائے۔
مصائب کا آنا ضروری ہے، ابتلائوں کا آنا ضروری ہے، تکالیف کا آنا ضروری ہے، یہ سب چیزیں معمولی ہیں اور ان کی کوئی پرواہ نہیں کی جاسکتی۔ جس چیز کی پرواہ ہونی چاہئے وہ یہ ہے کہ یہ مصائب اور ابتلاء ایمانی نہ ہوں کیونکہ جہاں جسمانی مشکلات انسان کے درجہ کو بلند کرتی ہیں وہاں ایمانی مشکلات اس کے درجہ کو گِرادیتی ہیں۔ پس مؤمن کو ان مشکلات سے نہیں ڈرنا چاہئے جو دنیا کی طرف سے آتی ہیں بلکہ اسے ان مشکلات کا فکر کرنا چاہئے جو اس کے نفس کی طرف سے آتی ہیں مگر بہت لوگ ہیں جوان مشکلات کی طرف نگاہ نہیں دَوڑاتے جو انسانی نفس سے پیدا ہوتی ہیں مگر وہ ان مشکلات پر نظر رکھتے ہیں جودوسروں کی طرف سے آتی ہیں حالانکہ وہ مشکلات جو دوسروں کی طرف سے آئیں کھاد کی طرح ہوتی ہیں اور وہ مشکلات جو انسانی نفس کی طرف سے آئیں ایسی ہوتی ہیں جیسے جڑ پر تبر رکھ دیا جائے۔ پس چاہئے کہ ہر شخص جو روحانیت کی قدر کرتا ہے وہ ان مشکلات اور ظلموں کی طرف توجہ کرے جو نفس کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں وہ ظلم اصلی ظلم ہوتے ہیں اور وہ ظلم حقیقی خطرے کا موجب ہوتے ہیں کیونکہ بالکل ممکن ہے ان کے نتیجہ میں ہمارا ایک بھائی عرش سے فرش پر پھینک دیاجائے مگر جو دنیا کی طرف سے مصیبتیں آتی ہیں وہ ایسی ہوتی ہیں کہ انسان کو فرش سے عرش پر لے جاتی ہیں۔ پس بجائے اس کے کہ تم اپنی توجہ ان مشکلات کی طرف پھیرو جو بندے پید اکررہے ہیں میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ زیادہ تر اپنے قلوب کا مطالعہ کرے اور اپنے ایمانوں کو دیکھتی رہے۔
رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں شیطان انسان کے خون کے ساتھ چلتا ہے ؎۱ ۔جس طرح خون میں پیداہ شُدہ زہر کا انسان کو علم بھی نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس کی ہلاکت کا سامان مکمل ہوجاتا ہے اسی طرح شیطان انسان پر قبضہ کررہا ہوتا ہے مگر اسے پتہ بھی نہیں لگتا یہاں تک کہ ایک دن وہ ہلاک ہوجاتا ہے۔ دنیا میں بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جو کئی کئی دن پہلے سے انسانی جسم پر اثر ڈالنا شروع کردیتی ہیں جیسے ہیضہ ہے، چیچک ہے ، انفلوئنزا ہے، محرقہ ہے، طاعون ہے یہ مرضیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک دن، کوئی تین دن، کوئی سات دن اور کوئی پندرہ دن پہلے سے اثر ڈالنا شروع کردیتی ہے مگر اس اثر کا علم نہیں ہوتا یہاںتک کہ خون کے ذریعہ وہ زہر تمام جسم میں سرایت کرجاتا ہے اور اُس وقت بیماری کا علم ہوتا ہے جب بیماری جسم پر اپنا قبضہ جمالیتی ہے اور انسان کیلئے اس سے بھاگنے کا کوئی موقع باتی نہیں رہتا۔ شیطان بھی ان راہوں سے آتا ہے جن راہوں کا انسان کوعلم نہیں ہوتا اور جب ہوتا ہے تواُس وقت ہوتا ہے بلکہ یوں کہو کہ اُس کے ساتھیوں کو علم ہوتا ہے جب شیطان اس پر پوری طرح قبضہ جمالیتا ہے۔ چونکہ دنیوی بیماریوں اور روحانی بیماریوں میں یہ فرق ہوتا ہے کہ دُنیوی بیمار خود بھی محسوس کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بیمار ہوں لیکن روحانی بیمار یہ سمجھتا ہے کہ میں اچھا ہوں اور مجھے بیمار کہنے والے غلطی خوردہ ہیں۔ گویا اُسے ایک قسم کا جنون ہوتا ہے۔ جس طرح پاگل سمجھتا ہے کہ میں پاگل نہیں بلکہ دوسرے لوگ پاگل ہیں اسی طرح وہ سمجھتا ہے کہ میں بیمار نہیں بلکہ مجھے بیمار کہنے والے خود بیمار ہیں۔ تو یوں سمجھنا چاہئے کہ جب شیطان انسان پر قبضہ کرلے تو اس کے دوستوں کومعلوم ہوجاتا ہے کہ یہ بیمار ہے مگر خود اپنے متعلق یہ سمجھتا ہے کہ میں بالکل اچھا ہوں۔
پس ہماری جماعت کو اپنے نفس کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ ہر شخص جوتکبر کرتا ہے اور اپنے آ پ کو محفوظ اور مصئون سمجھتا ہے وہ سمجھے کہ وہ موت کی طرف جارہا ہے۔ مؤمن کبھی بھی خداتعالیٰ کی خشیت اور اس کے خوف سے خالی نہیں ہؤا۔ رسول کریم ﷺ کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ جب رات کو اُٹھتے تو اتنے عجز اور انکسار سے دعائیں کرتے کہ صحابہ کہتے ہیں کہ بعض دفعہ ہمیں رحم آجاتا ؎۲ ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ رسول کریم ﷺ سے عرض کیاکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب کچھ معاف کردیا ہے آپ کی نجات تو اعمال سے ہوگی آ پ نے فرمایا عائشہ میری نجات بھی خداتعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے ؎۳ ۔
پس جب رسول کریم ﷺ کی یہ حالت تھی تو اور کون ہے جویہ کہہ سکے کہ میں خداتعالیٰ کے ابتلاء اور اس کی آزمائشوں سے بچ گیا ہوں۔ بعض صحابہ کہتے ہیں کہ ہم جب رسول کریم ﷺ کو دعائیں کرتے دیکھتے تو ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ ایک ہنڈیا جوش سے اُبل رہی ہے۔ پس اپنے نفوس کی اصلاح کی طرف توجہ کرو اور تقویٰ و طہارت پیدا کرو اور مت سمجھو کہ تم نیک کام کررہے ہو کیونکہ نیک سے نیک کام میں بھی بے ایمانی پیدا ہوسکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ نہ معلوم کیا بات ہے کہ آجکل لوگ حج کرکے آتے ہیں تو ان کے قلوب میں آگے سے زیادہ رعونت اور بدی پیداہوچکی ہوتی ہے یہ نقص اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ حج کے مفہوم کو نہیں سمجھتے اور بجائے روحانی لحاظ سے کوئی فائدہ اُٹھانے کے محض حاجی بن جانے کی وجہ سے تکبر کرنے لگ جاتے ہیں۔ اِس کے ساتھ ہی آپ ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک بُڑھیا سردی کے دنوں میںرات کے وقت اسٹیشن پر تنہا بیٹھی تھی کہ کسی نے اُس کی چادر اُٹھالی جب اسے سردی لگی اور اُس نے چادر اوڑھنی چاہی تو اسے گم پایا۔ یہ دیکھ کر وہ آواز دے کر کہنے لگی ’’بھائی حاجیا! میری تے اکو چادر سی میں پالے مر جاواں گی۔ تُو ایہہ تے مینوں واپس کردے‘‘۔ یعنی بھائی حاجی! میری تو ایک ہی چادر تھی اِس کی مجھے ضرورت ہے وہ مجھے واپس کردے۔ یہ سن کر جس نے چادر اُٹھائی تھی شرمندہ ہؤا اور اس نے اُس کی چادر اس کے پاس رکھ دی مگر ساتھ ہی اُ س نے پوچھا تجھے یہ پتہ کس طرح لگا کہ چادر چُرانے والا کوئی حاجی ہے؟ وہ کہنے لگی کہ اس زمانہ میں اس قدر سنگدلی حاجی ہی کرتے ہیں۔
پس یہ مت خیال کرو کہ ہم نیک کاموں میں لگے ہوئے ہیں ، یہ مت خیال کرو کہ ہم نیک ارادے رکھتے ہیں کتنا ہی نیک کام انسان کررہا ہو اس میں سے بدی پیدا ہوسکتی ہے اور کتنا ہی نیک ارادہ انسان رکھتاہو وہ اس کے ایمان کو بگاڑ سکتا ہے کیونکہ ایمان ہمارے اعمال کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے رحم کے نتیجہ میں آتا ہے۔ پس تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے رحم پر نگاہ رکھو اور تمہاری نظر ہمیشہ اُس کے ہاتھوں کی طرف اُٹھے کیونکہ وہ سوالی جو یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دروازہ سے اُٹھنے کے بعد میرے لئے اور کوئی دروازہ نہیں کھل سکتا وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرلیتا ہے۔ پس تمہاری نگاہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف اُٹھنی چاہئے جب تک تم اپنی نگاہ اس کی طرف رکھو گے تم محفوظ رہو گے کیونکہ جس کی خداتعالیٰ کی طرف نگاہ اُٹھ رہی ہو اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا مگر جونہی نظر کسی اور کی طرف پھیری جائے اور انسان اس کے دروازہ سے قدم اٹھالے پھر خواہ کتنے ہی نیک ارادے رکھے اور کتنے ہی اچھے کام کرے اس کا کہیں ٹھکانہ نہیں رہتا بلکہ وہ شیطان کی بغل میں ہی جاکر بیٹھتا ہے۔
(الفضل ۱۸ ؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
؎۱ بخاری کتاب الادب باب التکبیر والتسبیح (الخ)
؎۲ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الفتح باب لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ (الخ)
؎۳ بخاری کتاب الادب باب القصد والمداومۃ علی العمل


۱۳
مسٹر کھوسلہ سیشن جج گورداسپور کا فیصلہ اورجماعت احمدیہ
ہم حضرت مسیح موعودؑ کی ہتک کے ازالہ کیلئے اپنے
خون کا آخری قطرہ تک بہادینے کیلئے تیار ہیں
(فرمودہ ۱۷؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں پہلے تو جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ شایدپھر کوئی ابتلاء آنے والاہے کیونکہ میں نے آج رئویا دیکھا ہے کہ میں ایک گھر میں ہوں جو قادیان کا ہی ہے وہاں بہت سے احمدی مرد اورعورتیں جمع ہیں۔ عورتیں ایک طرف ہیں غالباً برقعہ وغیرہ پہن کر بیٹھی ہیں یا اوٹ ہے میں نے اس طرف دیکھانہیں لیکن ایک طرف مرد ہیں اور ایک طرف عورتیں۔ چوہدری مظفرالدین صاحب جو کچھ عرصہ پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے ہیں اور اب بنگال میں مبلغ ہوکر گئے ہیں وہ اور ایک اور آدمی گھبراکر کھڑے ہوئے جلدی جلدی بلند آوا زسے میری توجہ کوایک طرف پھیرانا چاہتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ دیکھئے کیاہے۔ وہ دیکھئے کیا ہے۔ وہاں ایک چوہیا دَوڑی جارہی ہے ۔ لوگ اُسے ماررہے ہیں اور میری توجہ اس طرف ہے لیکن چوہدری صاحب اور ان کا ایک ساتھی مجھے دوسری طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں اور آوازیں دے رہے ہیں۔ ان کے توجہ دلانے پر میں نے اس طرف دیکھا تو ایسا معلوم ہؤا کہ ایک جگہ دیوار شق ہے اور ایک چوہیا وہاں سر کے بل لٹکی ہوئی ہے اسے دکھا کر چوہدری مظفرالدین صاحب جلدی جلدی مجھ سے پوچھ رہے ہیں ۔ حضور یہ طاعون سے مَری ہے یا کسی اور طرح سے۔ حضور یہ طاعون سے مری ہے یا کسی اور طرح سے۔ اسے دیکھ کر میں یہی سمجھتا ہوں کہ یہ طاعون سے ہی مری ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری بڑی بیوی بھی وہیں ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ چلو گھر چلیں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ اس گھر کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسے طاعون سے محفوظ رکھوں گا اس لئے موجودہ جگہ سے جہاں طاعون کے آثار پیدا ہوچکے ہیں ہمارا اس گھر میں جانا وحی الٰہی کی بے حرمتی کا موجب تو نہ ہوگا اور میرے دل میں خیال گزرتا ہے کہ کیوں نہ سات دن کسی کھلے میدان میں باہر رہ کر پھر گھر جائیں۔ میں اسی خیال میں تھاکہ آنکھ کھل گئی۔ اور چوہدری صاحب جب مجھے وہ مری ہوئی چوہیا دکھارہے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اور بھی بہت سے چوہے مرے پڑے ہیں۔ چوہے سے مراد منافق بھی ہوتا ہے او رطاعون بھی۔ پس اس خواب کا اشارہ کسی ایسے فتنہ کی طرف بھی ہوسکتا ہے جو گھبراہٹ کا موجب ہو یا منافقوں سے ہمارا مقابلہ آپڑے اور اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کردے اور اس سے مراد طاعون بھی ہوسکتا ہے اور ممکن ہے اس سال طاعون زیادہ زور سے پھوٹے یا آئندہ زمانہ میں پھر اس کا شدت سے ظہور ہو۔ اسی سال ایک دشمن نے اعتراض کیا ہے کہ مرزا صاحب نے تو لکھا تھا کہ طاعون بند نہ ہوگی اب طاعون کہاں ہے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں یہ فرمایا ہے کہ بندنہ ہو گی وہاں بھی اس کے خاص معنی ہیں اور جہاںفرمایا ہے بندہوگی وہاں بھی اس کے خاص معنی ہیں۔ دراصل اللہ تعالیٰ عذاب لانے کے پیش خیمہ کے طور پر ایسے اعتراضات کرایا کرتا ہے جیسے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَـفَسَقُوْا فِیْھَا ؎۱ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو انگیخت کی جاتی ہے کہ وہ اس کے عذاب کو بھڑکا دیں۔ پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ دعائیں کریں کہ اگر کوئی ایسا فتنہ مقدر ہو تو اللہ تعالیٰ جماعت کو اس سے بچائے اور منافقوں کاوبال ان پر ہی پڑے اور اگر اس سے مراد طاعون ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس سے بھی ہمیں محفوظ رکھے اور جیسا نمایاں سلوک ہمارے ساتھ پہلے کرتا رہا ہے ویسا ہی اب بھی کرے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ۔
اس کے بعد میں ایک نہایت ضروری امر کی طرف جماعت کوبالعموم اور نیشنل لیگ اور حکومت کو بالخصوص توجہ دلاتا ہوں۔مجھے افسوس ہے کہ وقت کا صحیح اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے میں ایسے وقت میں غسل کیلئے گیا کہ جمعہ کیلئے آنے میں دیرہوگئی اور یہ مضمون کسی قدر طوالت چاہتا ہے مگر چونکہ اس کا جلد سے جلد بیان کردینا ضروری ہے او رگرمی کا موسم شروع ہوجانے کی وجہ سے نماز کا وقت بھی لمبا ہوگیا ہے اس لئے مَیں اسے بیان کردیتا ہوں۔ یہ امر مسٹر کھوسلہ کا فیصلہ ہے۔ ہمارے دوستوں کو معلوم ہے کہ مولوی عطاء اللہ صاحب کے خلاف حکومت نے مقدمہ چلایا تھا اور پہلے مجسٹریٹ کی طرف سے ان کو کچھ سزا بھی دی گئی تھی۔ ان کی طرف سے سیشن کورٹ میں اپیل کی گئی اور وہاں ان کی سزا صرف نام کے طور پر رہ گئی اور سیشن جج نے ایسا فیصلہ کیا جس سے ہماری جماعت کے دل سخت مجروح ہوئے، مجروح ہیں اورمجروح رہیں گے۔ اس کے خلاف ہماری طرف سے ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی جس پر جماعت کا قریباً پندرہ ہزار روپیہ خرچ ہوگیا۔ ہائیکورٹ کے جج نے اپنے فیصلہ میں قریباً ان تمام شکایات کو جو ہم نے پیش کی تھیں درست تسلیم کیا اور ان میں اصلاح کی لیکن بعض باتوں کے متعلق اس نے لکھا کہ چونکہ حکومت کی طرف سے سزا بڑھانے کی درخواست نہیں کی گئی اس لئے قانون مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں واقعات میں جائوں اور میں مجبور ہوں کہ جس حد تک سختی یا سخت الفاظ کے استعمال کا سوال ہے یا ایسے امور کا سوال ہے جو عدالت کی کارروائی سے تعلق نہیں رکھتے صرف اسی حد تک اپنے فیصلہ کومحدود رکھوں۔ اس کانتیجہ یہ ہؤا کہ بعض واقعات جو ہماری انتہائی دل شکنی کا موجب ہیں بلکہ ہمارے مذہب پر حملہ ہیں وہ بغیر جواب کے رہ گئے اور جماعت ایسے حالات میں مبتلاء کردی گئی کہ اس کیلئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ عدالت سے باہر ان کا فیصلہ کرے یاکرائے۔ نیشنل لیگ نے اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور مجھے معلوم ہؤا ہے کہ نیشنل لیگ کے بعض ممبر اس فیصلہ کے متعلق رائے زنی کررہے ہیں ایک چَھپا ہوا ٹریکٹ بھی مجھے ملا ہے اور اگرچہ اُسے پڑھنے کا موقع مجھے تاحال نہیں ملا لیکن جواطلاعات مجھے ملی تھیں ان کی بناء پر نیز ٹائٹل کو دیکھ کر میں سمجھتا ہوں اس میں بھی یہی مضمون ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نیشنل لیگ کے صدر اس بارہ میں حکومت سے گفت و شنید کررہے ہیں۔ نیشنل لیگ کے قیام کی اجازت دیتے ہوئے جب جماعت سے چاروں طرف سے یہ آواز آرہی تھی کہ ایک ایسی مجلس قائم کرنے کی اجازت دی جائے جو ان سیاسی امور میں حصہ لے سکے جن میں جماعت احمدیہ حصہ نہیں لے سکتی۔ اس وقت منجملہ دیگر شرائط کے ایک شرط مَیں نے یہ بھی رکھی تھی کہ سلسلہ کے وقار اور اس کی روایات کو کسی صورت میں بھی پسِ پشت نہ ڈالا جائے، اسلامی تعلیم کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے اور حکومت وقت کا کوئی قانون نہ توڑا جائے۔ میں نے تین ضروری شرائط رکھے تھے اور بتایا تھا کہ ان کے ماتحت لیگ اپنی ذمہ داری پر کام کرے ہاں مناسب مشورہ مجھ سے لے سکتی ہے اور یا جب میں خود مناسب سمجھوں دخل دے سکتا ہوں۔
اب میں سمجھتا ہوں کہ ایسا موقع آیا ہے کہ مجھے خود دخل دینا چاہئے اور چونکہ اس کاتعلق لیگ کے ہزاروں ممبروں کے ساتھ بلکہ تمام جماعت کے ساتھ اور ایک حصہ کا تعلق حکومت کے ساتھ بھی ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ خطبہ میں یہ امر بیان کردوں تا سب کو علم ہوجائے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جبکہ نیشنل لیگ کے صدر حکومت سے گفت و شنید کررہے تھے تو ممبروں کو رائے زنی نہ کرنی چاہئے تھی۔ میرے نزدیک انسان کو ہمیشہ ایک خاص پالیسی کو مدّنظر رکھ کر کام کرنا چاہئے۔ میں مانتاہوں کہ جو رائے زنی کی جارہی ہے وہ آئینی طریق کے اندر ہے مگر آئینی طریق بھی دو قِسم کے ہوتے ہیں۔ بعض ایسے کہ ایک وقت میں دونوں کو استعمال کیا جاسکتا ہے اور پھر بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو آگے پیچھے کرنا پڑتا ہے۔ اور جب ایک طرف اپنی براء ت کی خواہش حکومت سے کی جارہی ہو تو دوسری طرف ایسے طریق اختیارکرنا جس سے اپنے طور پر براء ت کرنے کا ارادہ ظاہر ہوتا ہو کچھ ایسا درست نہیں معلوم ہوتا۔ جب حکومت سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ سلسلہ کے نقصان کی تلافی کرے تو چاہئے تھا کہ پہلے اس سے جواب لے لیا جاتا اور پھر اگر ضرورت باقی رہتی تو خود کوئی قدم اٹھایا جاتا۔ دونوں کو ایک وقت میں جمع کردینا میرے نزدیک مناسب نہیں تھا اور میری ذاتی رائے ہے کہ اس بارہ میں ممبروں نے غلطی کی ہے اور اگر لیگ نے ایسا کرنے کی اجازت دی ہے تو اس نے بھی عقلاً غلطی کی ہے۔ یا تو اسے حکومت کو مخاطب ہی نہ کرنا چاہئے تھا اور جب مخاطب کیا گیا توپہلے اس سے فیصلہ کرانا چاہئے تھا اور یا پھر یہ کہہ دینا چاہئے کہ آپ تو فیصلہ کرتے نہیں اور خواہ مخواہ دیر لگاتے چلے جاتے ہیں اس لئے ہم اب خود سلسلہ کی عزت کو بچانے کی کوشش پر مجبور ہیں۔ میرے نزدیک ان تینوں صورتوں میں سے ایک نہ ایک کا اختیار کرنا ضروری تھا۔ یا تو حکومت کو مخاطب ہی نہ کیاجاتا یا اسے مخاطب کیا جاتا اور اس سے فیصلہ کرایا جاتا۔ اور اگر وہ ایسا رویہ اختیار کرتی جس کے نتیجہ میں وقت ضائع ہوتا ہو تو اس سے کہہ دیا جاتا کہ آپ چونکہ دیر کرتے جاتے ہیں اس لئے ہم خود اس معاملہ کواپنے ہاتھ میں لیتے ہیں آپ اب کچھ کریں یا نہ کریں۔
میری یہ بھی رائے ہے کہ نیشنل لیگ نے حکومت سے گفت و شنید کرنے میں بلا وجہ سُستی سے کام لیا ہے۔ مجھے سخت افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے ذمہ دار لوگ اس ذمہ داری کو پوری طرح نہیں سمجھتے جو اِن پر ہے۔ غالباً نو ماہ یا شاید سال کاعرصہ ہی ہوچکا ہے کہ میں نے صدر انجمن احمدیہ کو توجہ دلائی تھی کہ وہ حکومت سے تصفیہ کرے کہ کیا وہ تحقیقاتی کمیشن کے ذریعہ موجودہ شورش کے ایام کے واقعات میں ہماری، بعض افسروں کی اور احرار کی ذمہ داری کا فیصلہ کرنے کی طرف مائل ہے یا نہیں اور اگر وہ مائل نہ ہو تو پھر ایسے طریق اختیار کئے جائیں جو قانونی اور شرعی حدود کے اندر ہوں اور جن سے سلسلہ کے وقار کوقائم کیا جاسکے۔ لیکن ابھی وہ مرحلہ گورنمنٹ آف انڈیا تک پہنچا ہے حالانکہ اس حد تک زیادہ سے زیادہ چار مہینہ میں پہنچ جانا چاہئے تھا۔ پہلے تو کئی ہفتے چھوٹے چھوٹے ڈرافٹ کرنے میں لگ گئے، پھر کئی ماہ جواب کاانتظار کیا جاتا رہا حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ دو ہفتہ کے بعد ریمائنڈر دے دیا جاتا اور پھر دو ہفتہ کے بعد بھی اگر جواب نہ ملتا تو سمجھ لیا جاتا کہ جواب نہیں آئے گا اوردوسرا قدم اٹھایا جاتا۔ اب مرحلہ وزیرہند کاہے اور اس میں بھی بِلاوجہ دیر ہورہی ہے۔ یہ ایک سچائی ہے جسے زمیندار بھی جانتے ہیں کہ لوہا گرم ہی کوٹا جاسکتا ہے۔ جس کی صلاح لوہا کوٹنے کی ہو اور وہ اُس کے ٹھنڈ اہونے کا انتظار کرے اسے کوئی عقلمندنہیں کہہ سکتا یہ عام قاعدہ ہے کہ جب کسی شکوہ پر لمبا عرصہ گزرجائے تو بالاافسر خیال کرلیتے ہیں کہ لوگوں کا غصہ دور ہوچکا ہے اب اس معاملہ میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے۔ گویا ہمارے صدر انجمن کے کارکنوں نے بالا افسروں کو یہ کہنے کا موقع دے دیا ہے کہ اب گڑے مردے کیوں اکھاڑیں۔ جس وقت کوئی کسی کا گلا دبارہا ہو اور ابھی دم باقی ہو تو ہر ایک اس کی مدد کو پہنچتا ہے کہ شاید بچ جائے مگر جب وہ مرچکا ہو تو لوگوں کو جلدی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ پس جس ذہنی حالت میں حکومت کے بالاافسر دخل دیا کرتے ہیں اسے خود ہمارے کارکنوں نے اپنی سستی سے دور کردیا ہے اگر صدرانجمن ایسے وقت میں وائسرائے تک پہنچتی جبکہ واقعات ابھی تازہ ہی تھے تو دس فیصدی امکان ضرور تھا کہ وہ دخل دے دیتے لیکن وہ ایسے وقت میں ان کے پاس پہنچے جبکہ حکامِ بالا درست سمجھتے ہیں کہ لوہا ٹھنڈا ہوچکا ہے اور جب معاملہ وزیرہند تک پہنچے گا تو ان کیلئے بھی یہ کہنے کا موقعہ ہوگا کہ میں تو غیرمعمولی حالات میں دخل دیا کرتا ہوں اب ان باتوں پر بہت عرصہ گزر چکا ہے اور میرے لئے دخل دینے کی کوئی وجہ نہیں۔
نیشنل لیگ نے بھی اسی قسم کی سستی سے کام لیا ہے غالباً نومبر میں ہائی کورٹ میں فیصلہ ہؤا تھا اسے زیادہ سے زیادہ دسمبر تک حکومت سے گفت و شنید ختم کرلینی چاہئے تھے اور پھر جنوری میں اپنی کارروائی شروع کردینی چاہئے تھے۔ لیگ کی اسی سستی کانتیجہ ہے کہ ایک افسر نے کہہ دیا کہ جب اتنی دیر تم لوگ خاموش رہے تو اب کیا ضرورت اس سوال کو اٹھانے کی ہے۔ گو یہ جواب غلط ہے اور دلائل سے اس کی غلطی کو ثابت کیا جاسکتا ہے مگر فطرتِ انسانی کی اس کمزوری کو کیا کِیا جائے کہ وہ ایسے موقع پر بہانے ڈھونڈتی ہے۔ کوئی شخص جب مشکل میں پھنس جاتا ہے اور وہ مذہبی آدمی نہ ہو تو وہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس مشکل سے پیچھا چھڑائے اور حکومت کے افسروں کا قول اور فعل ایسا ہی ہے لیکن یہ کہنے کاموقعہ ان کو میرے نزدیک لیگ نے ہی دیا ہے ۔ میرے نزدیک ہائی کورٹ کے فیصلہ کے پندرہ روز کے اندر اندر حکومت کو مخاطب کرلینا چاہئے تھا اور اگر پہلی چٹھی کا جواب نہ آتا تو اتنے ہی عرصہ کے بعد دوسری لکھی جاتی۔یہ تو بے شک نہیں لکھنا چاہئے تھا کہ فلاں تاریخ تک ایسا کرو ورنہ ہم اس اس طرح کریں گے کیونکہ یہ ایک قسم کا چیلنج ہے اور حکومت کو چیلنج دینا عقل اور ادب کے خلاف ہے وہ اسے دھمکی سمجھتی ہے اور جس کے ہاتھ میں سونٹا ہو وہ دھمکی سے جلدی غصہ میں آجایا کرتا ہے اور جلدی ہتک محسوس کرنے لگ جاتا ہے۔
دنیا میں بہت جلد اپنی ہتک دو قسم کے لوگ محسوس کرنے لگتے ہیں یا تو طاقت ور جو سمجھتے ہیں ہم اپنا اعزاز کراسکتے ہیں اور یا پھر بہت کمزور۔ پس حکومت کو یہ تو نہیں کہنا چاہئے تھا کہ فلاں تاریخ تک فیصلہ کردو کیونکہ اس سے وہ غصّہ میں آکر کہہ دیتی کہ اچھا جائو جو کرنا ہو کرلو لیکن یہی بات لکھنے کا ایک اور طریق ضرور ہے اور جب مطالبہ معقول ہو تو بغیر دھمکی کے بھی یہ بات لکھی جاسکتی ہے۔ اس موقع پر ہماری پوزیشن یہ تھی کہ احراری اس فیصلہ کو شائع کررہے تھے جس کے بعض حصوں کے متعلق ہائی کورٹ نے سخت ریمارکس دیئے ہیں بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ ایسے فیصلوں سے جس منافرت کودور کرنا مقصود ہوتا ہے وہ اور بھی بڑھ جاتی ہے اور کہ اس میں بعض باتیں واقعہ میں احمدیوں کو تکلیف دینے والی ہیں اور عدالتی دماغ کے ماتحت نہیں لکھی گئیں۔ ا ب اس فیصلہ کے ماتحت حکومت کو تسلیم کرنا پڑ ے گا کہ مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کی اشاعت سے جماعت احمدیہ کوناجائز طور پر دکھ پہنچ رہا ہے اور بلا وجہ نقصان پہنچایاجارہا ہے ایسا دکھ اور ایسا نقصان جس کا جائز طور پر پہنچانا کسی کا حق نہیں اور ہماری پوزیشن ہائی کورٹ کے فیصلہ سے واضح تھی کہ اب لیگ والے اسے حکومت کے پیش کرکے کہہ سکتے تھے کہ پندرہ یا بیس روز ہوئے ہم آپ کو توجہ دلاچکے ہیں ہائیکورٹ کا فیصلہ آپ کے سامنے ہے ہم قانون شکنی نہیں کرنا چاہتے ہمارا دشمن قانون شکنی کررہا ہے اور اس فیصلہ کو شائع کررہا ہے جو ہائی کورٹ سے ردّ کیاجاچکا ہے اور آپ تاخیر کرکے ہم پر اس کے حملہ میں اس کی مدد کررہے ہیں اور ہمارے ہاتھ روک کر ہمارے دکھ کو بڑھارہے ہیں آپ کی طرف سے جتنی دیر ہوگی اتنا ہی آئین کی خلاف ورزی کرنے والے لوگ آئین کے پابند لوگوں کو بِلا وجہ تکلیف پہنچاتے چلے جائیں گے اس لئے آپ جلد از جلد اس کا فیصلہ کریں ورنہ ۱۵ یا ۲۰ روز کے بعد ہم یہ سمجھ لیں گے کہ آپ اس بارہ میں کچھ نہیں کرنا چاہتے اور پھر خود اپنی حفاظت کیلئے کوئی مناسب قدم قانون کی حدود کے اندر اٹھائیں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ بعض دفعہ صدر نیشنل لیگ نے ان معاملات میں مجھ سے مشورہ مانگا ہے مگر میں اس بارہ میں مشورہ دینے سے گریز کرتا رہا ہوں کیونکہ میں چاہتا تھا کہ خود اس کو غور کرنے اور سوچنے سمجھنے کا موقعہ ملے۔ چنانچہ ایک دفعہ میںنے انہیں ایک انگریزی کی ضرب المثل بھی سنائی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض بڑی عمرکے آدمی بھی چاہتے ہیں کہ انہیں بچوں کی طرح چمچوں سے غذا دی جائے۔ کام کی قابلیت نفس پر بوجھ ڈالنے سے ہی پیدا ہوتی ہے اس لئے میںنے مشورہ دینا مناسب نہ سمجھا لیکن اب کہ کارروائی شروع ہوچکی ہے میں چاہتا ہوں کہ اپنا مشورہ بیان کردوں۔ پس میری رائے یہ ہے کہ اگر اس قسم کی چٹھی کے بعد بھی جس کا میں نے ذکر کیا ہے حکومت توجہ نہ کرتی تو پھر لیگ مجاز تھی کہ وہ جو چاہتی کرتی اور اس کا ٹھیک وقت جنوری میں تھا اور اب اپریل میں اسے شروع کرنے کے معنے یہ ہیں گویا تین ماہ کا قیمتی وقت ضائع کردیا گیا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ کارروائی شروع ہی بے موقعہ کی گئی ہے کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے اب تک بھی تو حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا اور لیگ والوں نے یہ بھی نہیں کیا کہ قطعی طور پر حکومت سے کہہ دیا ہو کہ ہم اب خود جواب دینے لگے ہیں۔
ان حالات میں عقلاً یہ بات اچھی نہیں معلوم دیتی اور جو بات عقلاً بھلی معلوم نہ دے وہ طبائع پر اچھا اثرنہیں ڈالتی مثلاً اگر کوئی شخص کسی عدالت میں مقدمہ دائر کرکے اس کے فیصلہ سے قبل ہی اپیل دائر کردے تو اسے کوئی بھی معقول نہیں کہے گا اس لئے میرے نزدیک یہی مناسب ہے کہ اب بھی حکومت پر زور دے کر اس سے جواب لیا جائے یا اسے کہہ دیا جائے کہ چونکہ حکومت بلاوجہ دیر کررہی ہے ہم اس کے فیصلہ کا اب انتظار نہیں کرسکتے اور اس وقت تک اپنے طور پر کوئی طریق اختیار نہ کیا جائے۔
اس کے بعد میں وہ سوال لیتا ہوں جو حکومت اور پبلک کے دل میں بھی پیدا ہورہا ہے اور جو میرے نزدیک واقعی ایسا ہے کہ اس کا جواب دیاجائے اور وہ سوال یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد بھی کیا اس کی ضرورت رہ جاتی ہے کہ حکومت کوئی مزید کارروائی کرے جبکہ ہمارے لئے یہ راستہ کھلا ہے کہ اس فیصلہ کوشائع کریں تو حکومت کی طرف سے کسی کارروائی کی کیا ضرورت ہے۔ یہ سوال بظاہر نظر معقول ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ہائی کورٹ کے فیصلہ کی موجودگی میں بھی ہم مسٹر کھوسلہ کے خلاف کوئی کارروائی کرنا چاہیں تو اس کی کوئی معقول وجہ ہونی چاہئے اور ہمیں اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے کہ اس کے بعد ہمارے لئے کیا مشکل باقی رہ جاتی ہے۔ اس سوال کا جواب میں آج کے خطبہ میں دینا چاہتا ہوں۔ اس میں شبہ نہیں کہ مزید کارروائی کی ضرورت ہے اور ہائی کورٹ کا فیصلہ ہمارے شکوہ، ہمارے دکھ اور ہمارے نقصان کو دور کرنے کیلئے کافی نہیں اور اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد بھی پہلا فیصلہ برابر شائع کیا جارہا ہے اور حکومت اسے نہیں روکتی۔ جن لوگوں تک وہ فیصلہ پہنچتا ہے قدرتی طور پر ان کے دلوں میں کچھ خیالات پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان کے ذریعہ اور لوگوں میں بھی پھیلتے ہیں پھر ہر شخص جس تک یہ فیصلہ پہنچتا ہے ضروری نہیں کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی اُسے مل سکے۔ اب حکومت بتائے کہ اس حالت کا علاج ہمارے پاس کیا ہے۔ اگر حکومت اُسے ہائی کورٹ کے فیصلہ کے معاً بعد ضبط کرلیتی تو ہم کہتے کہ آئندہ نقصان کا تو انسداد ہوگیا اور گزشتہ پر اس حصہ کے متعلق ہم صبر کرلیتے۔ مگر جب وہ فیصلہ برابر شائع ہورہا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کوغلط رنگ میں احرار اخباروں میں شائع کرتے ہیں اور حکومت اس پر کوئی نوٹس نہیں لیتی۔ ہائیکورٹ کے جج نے لکھا ہے کہ میں واقعات میں نہیں جاسکتا کیونکہ حکومت نے سزا بڑھانے کی درخواست نہیں کی اور میں نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ عدالت نے اپنے رستہ سے ہٹ کر اور بے تعلق باتیں فیصلہ میں لکھ کرجماعت احمدیہ کی دل شکنی تو نہیں کی اور اسی اصل کے مطابق اس نے لکھا ہے کہ مجھے اس سے بحث نہیں۔ یعنی میں قانوناً اس بحث میں نہیں پڑ سکتا کہ مرزا صاحب شراب پیتے تھے یا نہیں مگر یہ بات ضرور ہے کہ عدالت کو ایسے الفاظ لکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ مجھے چونکہ قانون اجازت نہیں دیتا کہ واقعات کی بحث میں پڑوں اس لئے میں اس بات کی صحت یا عدمِ صحت کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن احراری اخبار لکھتے ہیں کہ ہائی کورٹ کے جج نے تسلیم کرلیا ہے کہ مرزاصاحب شراب پیتے تھے ۔ ہاں یہ لکھا ہے کہ اُسے ضرورت نہیں کہ وہ اس بحث میں پڑے۔ ایک ہیڈنگ یہی تھا کہ مرزا صاحب شراب پیتے تھے۔ اور بھی کئی مواقع پر اسے غلط رنگ میں پیش کیا گیاگویا پہلے ضرر کو اور بھی خطرناک کردیا گیا ہے اورحیرانی کی بات یہ ہے کہ حکومت کا وہ محکمہ جو چوہدری سرظفراللہ خان صاحب کے خلاف ہر اخبار کا ہر اقتباس حکومت تک پہنچاتا تھا وہ اس موقع پر کیوں سوتا رہا اور یہ اقتباس اس نے حکومت تک کیوں نہ پہنچائے اور اگر پہنچادیئے تو حکومت کیوں خاموش رہی۔ کیا اُسے نظر نہ آتا تھا کہ جس چیز کا ازالہ ہائی کورٹ نے کرنا چاہا تھا اُسے اور پختہ کیاجارہا ہے اور ظاہر ہے کہ ان حالات کی موجودگی میں اگر جماعت احمدیہ اپنی زبان سے کچھ کہنے کی ضرورت سمجھے تو اس کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی۔ دوسری بات یہ ہے کہ جج نے تسلیم کیا ہے کہ حکومت نے سزا کی زیادتی کی درخواست نہیں کی اس لئے میں واقعات میں نہیں پڑ سکتا۔ ہوسکتا ہے کہ ایک جج واقعات سے غلط نتائج اخذ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صحیح نتائج اخذ کرے اور ان کی صحت، عدمِ صحت کے سوال کوہائی کورٹ اسی وقت زیر بحث لاسکتا ہے جب زیادتیٔ سزا کی درخواست ہو۔ ورنہ قانوناً اس پر بحث نہیں ہوسکتی اور یہ درخواست پبلک کی طرف سے نہیں ہؤا کرتی۔ یا تو فریقین میں سے کسی فریق کی طرف سے ہوسکتی ہے اور یا پھر حکومت کی طرف سے اور اس مقدمہ میں تو دوسرا فریق ہی حکومت تھی اس لئے ہماری طرف سے تو یہ درخواست کسی صورت میں بھی نہ ہوسکتی تھی۔ واقعات پربحث کرانا یا تو حکومت کے ہاتھ میں تھا یا مولوی عطاء اللہ صاحب کے ہاتھ میں۔ ظاہرہے کہ مولوی عطاء اللہ صاحب کو ایسی درخواست کرنے کی کیا ضرورت تھی اس لئے ایسا سوال اُٹھانے والی صرف حکومت ہی رہ جاتی تھی اور اس نے اٹھایا نہیں۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جج نے لکھ دیا کہ واقعات کی صحت یا عدمِ صحت کے سوال میں مَیں نہیں جاسکتا اور اس وجہ سے مسٹرکھوسلہ کے فیصلہ کا ایک حصہ ایسا رہ گیاجو واقعات کے صحیح یا غلط ہونے سے تعلق رکھتا ہے اور اس حصہ میں سلسلہ احمدیہ اور اس کے مقدس بانی علیہ السلام پر حملے ہیں۔
اب میں حکومت سے پوچھتا ہوں کہ وہ مجھے بتادے کہ ان کا ردّ جماعت کس طرح کرے اگر اس کے ردّ کی کوئی صورت ہمارے اختیارمیں تھی تو حکومت ہمیں وہ قانون بتادے جس سے ہم ایسا کرسکتے تھے۔ پھر وہ کہہ سکتی ہے کہ تمہارے لئے قانون نے یہ راستہ کھولا ہوا تھا مگر تم نے اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ اس پر ہم اپنی غلطی کو تسلیم کرلیں گے لیکن جب صرف حکومت ہی اس سوال کو اٹھاسکتی تھی اور اس نے نہیں اٹھایا تو ذمہ داری یقینا اس پر ہے اب وہ ہمیں بتائے کہ جومشکل اس نے ہمارے لئے پید اکردی ہے اس کا علاج ہمارے پاس کیا ہے؟ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک بالا افسر نے ایک احمدی سے کہاکہ ناظر امور عامہ نے حکومت کے لیگل ریممبرر(Legal Rememberer) سے کہا تھا کہ ہم سزا کی زیادتی نہیں چاہتے اس لئے ایسی درخواست نہ دیئے جانے کی ذمہ داری جماعت پر ہے۔ میں یہ تونہیں جانتا کہ ناظر امور عامہ نے ایسا کہا تھایا نہیں اس کے متعلق میں نے اب تک ان سے دریافت نہیں کیا لیکن اگر یہ کہا بھی تھا تو بھی میں سمجھتاہوں حکومت کا جواب درست نہیں۔ سزا کی زیادتی نہ چاہنا اور سزا کی زیادتی کی درخواست دینے کی ضرورت نہ سمجھنا ان دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اگرناظر صاحب امور عامہ نے یہ کہا بھی ہو کہ ہم سزا کی زیادتی نہیں چاہتے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ان کا یہ مطلب تھا کہ فیصلہ میں بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر جو الزام لگائے گئے ہیں ان کوبھی ہم دورکرانا نہیں چاہتے اور اس بارہ میں آپ کی ہتک کے ازالہ کی خواہش نہیں رکھتے۔ کوئی عقلمند یہ باور نہیں کرسکتا کہ خانصاحب نے ایسی بات کہی ہو بلکہ کسی احمدی بچہ نے بھی یہ بات کہی ہو ہم تو اس ہتک کو دور کرانے کیلئے اپنے خون کا آخری قطرہ بہادینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں اور یہ خیال کرنا کہ ناظر صاحب امورعامہ نے یہ کہا ہو گاکہ سزا میں زیادتی نہ ہو بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہتک اگر ہوتی ہے توبیشک ہو بالکل خلاف عقل بات ہے۔اگر ہم نے شرافت کی وجہ سے یہ کہا کہ ہم سزا میں زیادتی نہیں چاہتے تو کیا اس شرافت کا نقصان ہمیں پہنچنا چاہئے تھا۔اگر ہم حکومت کو مشکلات سے بچانے کے لئے قربانی کرنے کو تیار تھے تو کیا اس کا یہی فرض تھاکہ ہماری مشکلات میں اضافہ کر دیتی اور ہمیں پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیتی۔اور ان باتوں کا باقی رہنا تو ہمارے لئے پھانسی سے بھی زیادہ ہے اگر ہم نے کہاتھاکہ سزا میں اضافہ نہ ہوتو جماعت احمدیہ حکومت سے لڑتی نہیں رہے گی تو اس کا یہ مطلب کس طرح ہوگیا کہ ہم پر جواعتراض کئے گئے ہیں ہم انہیںبھی دور کرانا نہیں چاہتے۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ درخواست دیتی کہ سزا بڑھائی جائے اور سرکاری وکیل کہہ دیتا کہ یہ درخواست رسمی طور پر اس لئے دی گئی ہے کہ واقعات پر بحث کی جائے ورنہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ سزا میں کوئی حقیقی اضافہ ہو یہ باتیں روز ہائی کورٹ میں ہوتی ہیں اوریہ ضروری نہیں کہ اس طرح نگرانی کرنے میں ہائی کورٹ ضرور سزا میں اضافہ کردے ایسے موقعہ پر جج مدعی کی خواہش کے مطابق واقعات کا فیصلہ کردیتا اور سزا نہیں بڑھاتا۔ کیا حکومت کو اس بات کا علم نہیں تھا جس نے یہ قانون بنائے ہیں۔ پس اگر خانصاحب نے وہ بات کہی ہے تو یہ بتانے کیلئے جماعت احمدیہ حکومت کوکسی مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتی اور مولوی عطاء اللہ صاحب سے بھی اسے کوئی بغض نہیں۔ یہ ہماری شرافت تھی جسے پھانسی کا پھندا بنا کرحکومت ہمارے گلے میں ڈالنا چاہتی ہے اور ہماری نیکیوں کا خمیازہ بھگتنے پر ہمیں مجبور کیا جارہا ہے حکومت کا فرض ہے کہ ہماری مشکلات کو سمجھے اس کے بغیر وہ کسی صحیح نتیجہ پرنہیں پہنچ سکتی۔
جماعت احمدیہ ہمیشہ امن پسند رہی ہے اور اب بھی اس نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ہر حال میں امن پسند رہے گی جس رنگ میں جماعت کے مقدس بانی علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دوسرے بزرگوں پرحملے کئے جاتے ہیں جیسی گندی گالیاں دی جاتی ہیں کیا بالکل ویسی ہی باتوں پر دوسری قوموں نے خون نہیں کئے۔ ہم بزدل نہیں مگر خداتعالیٰ نے ہمارے ہاتھ روکے ہوئے ہیں اگر دس بیس احمدی دس بیس احراریوں کومار دیتے ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ حکومت فوراً توجہ نہ کرتی مگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی امن پسندی کی تعلیم کو زندہ رکھا اور میں بار بار خطبات میں جماعت کو توجہ دلاتا رہا کہ کسی کے بہکاوے میں نہ آنا اور امن پسندی کا سبق بھول نہ جانا۔ حالانکہ یہ میرا فرض تو نہ تھا۔ حکومت کو اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا چاہئے تھا۔ ہم بھی سب کچھ کرسکتے تھے مگر نہیں کیا۔ قادیان میں ہمیں گالیاں دی گئیں بلکہ مارا بھی گیا، میرے بھائی پر ایک فقیر کے لڑکے نے حملہ کیا اور احرار نے کرایا، بمبئی میں ایک احمدی بچے کی لاش کو دفن کرنے سے روک دیا گیا، بریلی میں اپنی خرید کردہ زمین پر نئی بنی ہوئی مسجد کو گرانے کی کوشش کی گئی، احرار سے تعلق رکھنے والے بعض لوگوں نے مسجد کے پاس ایک مکان کرایہ پر اس نیت سے لیا کہ اس کی چھت پر سے مسجد کی چھت پر جایا جاسکے اور اسے نقصان پہنچایا جاسکے اور صاف لفظوں میں احمدیہ مسجد کے گرانے کا فتویٰ بھی شائع کیا گیا جو ہمارے پاس موجود ہے۔ ابھی بھیرہ میں ایک احمدی کو مار مار کر اس کی کھوپڑی توڑدی گئی پہلے تو ڈاکٹر اس کی زندگی سے مایوس تھے مگر اب اطلاع آئی ہے کہ زندگی کی کچھ امید ہوگئی ہے اور اس حملہ کی کوئی دنیوی وجہ نہیں تھی بلکہ محض مذہبی اختلاف اس کا موجب تھا۔ پھر چوہدری اسداللہ خان صاحب پر ریل میں حملہ کیا گیا اللہ تعالیٰ نے انہیں بچالیا۔ سرہانہ دوسری طرف تھا اور خنجر لاتوں کے درمیان پھنس گیا ورنہ اگر سر اس کی طرف ہوتا تو خنجر سینہ میں اُترجاتا۔ اس تمام اشتعال انگیزی کے باوجود کیا حکومت سمجھتی ہے کہ ہمارے سینوں میں دلوں کی بجائے پتھر ہیں ہمارے سینوں میں بھی ویسے ہی دل ہیں جیسے ہمارے دشمنوں کے سینوں میں مگر فرق صرف یہ ہے کہ ان کے دلوں میں حکومت کا خوف ہے او رہمارے دلوں میں خدا کا۔ اگر ہمیں اللہ تعالیٰ کا ڈر نہ ہوتا تو ہم ہندوستان کو راس کماری سے لے کرہمالیہ تک خون سے بھرسکتے تھے لیکن ہم نے نہ صرف یہ کہ اسے ناپسند کیا بلکہ اپنی جماعت کو یہ سبق یاد کراتے رہے کہ ایسے افعال ناجائز ہیں ہمارے اس نیک کام کے عوض میں حکومت نے ہمارے ساتھ کیا نیک سلوک کیا یہی کہ چونکہ انہوں نے ہمارے رستہ میں روکیں پیدا نہیں کیں اس لئے ان کے دل دکھنے دو۔ مگر اسے یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے ہاتھ تو خدا نے باندھ رکھے ہیں لیکن کاش وہ کل کے مؤرخوں کے ہاتھ اور قلم سے نکلنے والے الفاظ کو دیکھ سکتی۔ حکومتیں ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتیں کیا کوئی حکومت ہے جو ہمیشہ قائم رہی ہو؟ کیا روم کی حکومت اپنے عروج کے زمانہ میں یہ خیال کرسکتی تھی کہ وہ کبھی تباہ ہوجائے گی، قسطنطنیہ کی حکومت یہ سمجھ سکتی تھی کہ کوئی وقت آئے گا جب وہ مٹ جائے گی، کیاایران کا کیانی خاندان کبھی یہ وہم کرسکتاتھا کہ ایک زمانہ میں ان کا نام لینے والا بھی کوئی نہ ہوگا، مصر کے فراعنہ کبھی اس کا تصور کرسکتے تھے کہ ان کی جگہ دوسری حکومتیں آجائیں گی، اہل مصر تو شاید انگلستان کانام بھی نہ جانتے ہوں جس نے خدیو ؎۲ کے ذریعہ وہاں حکومت کرنی تھی۔ وہ فرانس کے نام سے بھی ناآشنا تھے۔ لیکن نپولین نے ان کا تمام ملک تہ و بالا کردیا۔ پھر کیا انگریز خیال کرسکتے ہیں کہ ان کی حکومت ہمیشہ رہے گی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ کل تک بھی قائم رہے یا سال تک رہے گی یا ایک صدی تک، بہرحال کوئی حکومت ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی ہے۔ اس کے انصاف کا نام قائم رہ جاتا ہے۔ رومی حکومت مٹ گئی مگر اس کا ایک ظلم اور ایک انصاف آج تک قائم ہے۔ رومی حکومت کا یہ ظلم ہمیشہ یاد رہے گا کہ اس نے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو بے گناہ صلیب پر لٹکادیا اور پیلاطوس کا یہ انصاف بھی ہمیشہ یاد رہے گا کہ باوجود یکہ اسے دھمکی دی گئی کہ بادشاہ کے حضور اس کی رپورٹ کی جائے گی۔ اس نے پانی منگوا کر ہاتھ دھوئے اور کہہ دیا کہ میں مسیح کو بالکل بے گناہ سمجھتا ہوں۔ پیلاطوس کا یہ انصاف اور حکومتِ روم کایہ ظلم دونوں باتیںنہیں مٹیں مگر حکومت روم مٹ چکی ہے۔ موجودہ انگریزی افسر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہمیشہ رہیں گے، ان کی نسلیں بھی ہمیشہ نہیں رہیں گی، حکومت بھی ہمیشہ نہیں رہے گی مگر ان کے افعال باقی رہ جائیں گے۔ آج اگر وہ انصاف کریں گے تو لوگ کہیں گے کہ انگریزی حکومت بڑی اچھی تھی اس نے اقلیت سے انصاف کیا اور اکثریت کی پرواہ نہ کی لیکن اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو آئندہ مؤرخ یہی لکھیں گے کہ وہ انصاف کے دعوے تو بہت کرتی تھی مگر جب وقت آیا تو افسوس کہ وہ فیل ہوگئی۔ کچھ مظلوم لوگ تھے جو انصاف کا مطالبہ کرتے تھے مگر حکومت نے انہیں انصاف نہ دیا۔ وہ دیکھتی رہی اور ان کے دلوںپر خنجر مارے گئے، وہ دیکھتی رہی اور ان کے سروں پرآرے چلائے گئے اورحکومت نے کوئی نوٹس نہ لیا اور صرف اس وجہ سے خاموش رہی کہ اکثریت رکھنے والے لوگ ناراض نہ ہوجائیں۔ صرف یہ چیزیں باقی رہ جائیں گی اور اس بات سے خود انگریز حکام ان کے وزراء اور پارلیمنٹ کے ممبر بھی انکار نہیں کر سکتے کہ انگریزی حکومت ہمیشہ نہیں رہے گی۔ پس ہم بے شک امن پسند ہیں قانون کا احترام کرتے ہیں، عدالتوں اور ججوں کی عزت قائم کرنے کے ہمیشہ قائل رہے ہیں۔ میرے خطبات دیکھ لئے جائیں میں ہمیشہ یہی نصیحت کرتا رہا ہوں اور اب بھی ہمارا یہی مسلک ہے لیکن اس کاکیا علاج ہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی ہماری پوری طرح تسلی نہیں کرتا۔ اگر ہائیکورٹ میں واقعات زیربحث آجاتے تو خواہ کچھ فیصلہ ہوتا ہم خاموش ہوجاتے اور خیال کرلیتے ہیں کہ آخری عدالت تک پہنچ گئے ہیں۔ اس صورت میں حالات کو ماننے کیلئے تیار تھے کہ آخر کہیں پہنچ کر تو خاموش ہونا ہی تھا۔ اور اب بھی جس حصہ کافیصلہ ہائی کورٹ نے کیا ہے ہم عملاً اس کی عزت کررہے ہیں حالانکہ اس سے بھی ہماری تسلی نہیں ہوئی لیکن جس حصہ کے زیر بحث لانے میں حکومت روک بن گئی ہے اس کے متعلق ہماری شکایت کے ازالہ کی کیا صورت ہے۔ پس گو ہم امن پسند ہیں قانون و عدالت کا احترام ضروری سمجھتے ہیںمگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ جس قربانی کا کسی سے مطالبہ کیا جاتا ہے اس کی ایک حد ہونی چاہئے۔ جس شخص کا ایک پیسہ ضائع ہورہا ہو وہ ہم سے امید کرسکتاہے کہ ہم اپنا دھیلا ضائع کرکے اس کا پیسہ بچالیں اور یہ خیال کرلیں کہ وہ غریب آدمی ہے اس کا پیسہ ضائع نہ ہو بلکہ وہ امید کرسکتا ہے کہ ہم اپنا پیسہ ضائع کرکے بھی اس کاپیسہ بچالیں گے۔ حتّٰی کہ دو پیسہ، آنہ، دوآنہ بلکہ روپیہ تک ضائع کرکے اس کا پیسہ بچالیں کیونکہ اس غریب کا پیسہ بہت قیمتی ہے۔ مگر وہ اگر یہ مطالبہ کرے کہ فلاں شخص کے پاس دس کروڑ کی جائداد ہے وہ اسے برباد کرکے میرا پیسہ بچالے تو یہ دانشمندانہ مطالبہ نہیں کہلائے گا۔ پس ہم گو قربانی کے قائل ہیں۔ حکومت، عدالت اور قانون کے ادب اور احترام کے قائل ہیں مگر ہرعقلمندیہ تسلیم کرے گا کہ قربانی نسبتی ہوتی ہے۔ قربانی کے وقت ہمیشہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کون سی چیز بڑی ہے جس کیلئے قربانی کی ضرورت ہے یا خود وہ چیز جس کی قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ حکومت ہم سے فرمانبرداری کا مطالبہ کرتی ہے اور ہم اس مطالبہ کو جائز سمجھتے ہیں اور اس کی خاطر دوسروں سے ہمیشہ لڑتے رہے، گالیاں سنتے اور ماریں کھاتے رہے، حکومت کی فرمانبرداری کی وجہ سے ہمارے خلاف فتوے دیئے گئے مگر ہم پھر بھی یہی کہتے رہے ہیں اور اب بھی ہمارا یہی مسلک ہے کہ حکومتِ وقت کی فرمانبرداری کرنی چاہئے۔ مگر جہاں حکومت ہزاروں باتوں میں ہم سے فرمانبرداری کی توقع رکھتی ہے وہاں کیا وہ یہ امید بھی کرسکتی ہے کہ وہ ہم سے کہے کہ نماز چھوڑ دو تو ہم اس کی فرمانبرداری کریں۔ اگر و ہ ایسا مطالبہ کرے تو ہم فوراً اسے جواب دیں گے کہ آپ کاملک آپ کو مبارک ہو ہم جاتے ہیں اور اگرجانے بھی نہ دے گی تو پھر ہمیں اس سے جہاد کی اجازت ہوگی اور ہم ظاہراً یا خفیہ طور پر جس طرح ممکن ہوگا اسے نقصان پہنچائیں گے اور یہ ایسی صورت ہے کہ حکومت بھی اس کی معقولیت کا انکار نہیں کرسکتی۔ کسی وائسرائے، کسی گورنر اور کسی وزیر کے سامنے اُسے رکھ دو وہ تسلیم کرے گا کہ حکومت کو مذہب میں دخل نہیں دینا چاہئے۔ سو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت کی فرمانبرداری ضروری ہے مگر یہ نہیں کہ وہ مذہب میں دست اندازی کرے تو پھر بھی ہم اس کی فرمانبرداری کرتے جائیں۔ وہ کہے عیسائی ہوجائو تو ہم عیسائی ہوجائیں۔ اگر کوئی حکومت مسلمانوں کو عیسائی ہونے پر مجبور کرے تو یقینا مسلمانوں کاحق ہوگا کہ وہ اس کا مقابلہ کریں خواہ زندہ رہیں یا مرجائیں مگر ایسے حکم کو کسی صورت میں نہ مانیں۔ اگر میرا یہ خیال غلط ہے تو کوئی بڑے سے بڑا افسر اس کے غلط ہونے کا اعلان کردے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ کوئی ایسا اعلان نہیں کرے گا کیونکہ اس سے سب متفق ہیں۔ پس قربانی کے وقت ہمیشہ دیکھا جائے گا کہ کتنی قربانی چاہی جاتی ہے اور جس کیلئے چاہی جاتی ہے اس کی کیا قیمت ہے۔ اگر شخصی تذلیل کا سوال ہو اور کسی فیصلہ میں کسی شخص کو جھوٹا کہاگیا ہو تو اُسے گوارا کیا جاسکتا ہے اور اگر ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد بھی اُسے جھوٹا ہی قرار دیاجائے تو جو لوگ جانتے ہیں کہ وہ سچا ہے وہ بھی اُسے یہی مشورہ دیں گے کہ اب خاموش ہو رہو۔ آخر جج بھی آدمی ہے اور کہیں جاکر یہ جھگڑا ختم ہونا ہی تھا تمہارے دوست جانتے ہیں کہ تم سچے ہو لیکن اگر تذلیل انسان کی نہیں بلکہ مذہب کی ہو اور مذہب بھی وہ جو لوگوںکو بلاتا ہے کہ آئو اور مجھے قبول کرو۔ تو دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ انفرادی تذلیل پر باوجود اس شخص کے سچا ہونے کے ہم زور ڈال سکتے ہیں کہ ذلت برداشت کرلو لیکن مذہب کی تذلیل اگر عدالت کرتی ہے تو اس کی حالت جداگانہ ہے۔ پھر اگر وہ تذلیل اس مذہب کے ماننے والوں کے کسی فعل کی وجہ سے ہو توکہہ سکتے ہیں کہ تمہارا اپنا قصور ہے۔ اگر ہم کوئی مقدمہ عدالت میں لے جاتے ہیں مگر اس مقدمہ میں تو ہم نہ مدعی ہیں نہ مدعاعلیہ ہمیں اپنی بریت پیش کرنے کا بھی موقعہ نہ تھا۔ قانون ہمیں اس سے بالکل بے دخل رکھتاہے مگر فیصلہ کاسارا زور ہمارے خلاف ہے ۔ پس اس کی ذمہ داری بھی ہم پر نہیں بلکہ حکومت پر ہے یا مولوی عطاء اللہ صاحب پر۔ اور اس کے نتیجہ میں اگر کوئی ضرر کسی کو پہنچتا ہے تو ان دونوں میں سے ہی کسی کو پہنچنا چاہئے ہم کیوںخواہ مخواہ اس کا شکار ہوں۔ اس فیصلہ میں ایسے امور زیر بحث لائے گئے ہیں کہ ہائی کورٹ نے صاف کہاہے کہ ان کا زیر بحث لانا ناجائز تھا۔ ہمیںاس سے بحث نہیں کہ ایسا دیانتداری سے کیاگیایا بددیانتی سے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کا اثر ہم پر کیوں پڑے۔ اپیل کی اجازت دینے کے معنے ہی یہ ہیں کہ عدالتوں کا فیصلہ غلط بھی ہوسکتا ہے۔ اگر جج کیلئے غلطی کا امکان نہ ہوتا تو اپیل کے کوئی معنے ہی نہ تھے۔ لیکن عقلاً یا انصافاً بھی اگرکوئی عدالت ایسا فیصلہ کرے جو دانستہ یا نادانستہ طور پر مدعی اور مدعاعلیہ کو چھوڑ کر ایک ایسی جماعت یامذہب پر اثر انداز ہو جو تبلیغی ہو تو اسے کیا کرنا چاہئے۔
یہ سوال ہے جس کا جواب میں حکومت سے دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ حکومت جب ہمیں کہتی ہے کہ مت بولو تو اسے یہ بھی بتانا چاہئے کہ ہم کیا کریں۔وہ بتادے کہ تمہارے لئے فلاں رستہ کھلا ہے یایہی کہہ دے کہ کوئی راستہ کھلا نہیں مگر تم پھر بھی صبر کرو۔ میں اس سے پوچھتا ہوں کہ وہ ان دونوں باتوں میں سے ہمیں کیاکہتی ہے۔ دو ہی باتیں ہیں۔ یا تو رستہ بتادے یا یہ کہہ دے کہ خواہ تم کو کس قدرنقصان پہنچے خاموش رہو۔ جوبھی جواب وہ دینا چاہتی ہے دے تا کہ ہم اس پر غور کریں لیکن صبر کرنے کے متعلق اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل سکتا کیونکہ یہ سخت نامعقول بات ہے کہ کسی سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ خواہ تمہارے مذہب پر کس قدر سخت حملہ ہوا ہو، خواہ تمہاری تبلیغ رک گئی ہو تم خاموش رہو۔ پس اس کیلئے ایک ہی جواب ممکن ہے جو یہ ہے کہ وہ ہمیں بتائے کہ تمہارے لئے قانون نے فلاں رستہ کھلا چھوڑا ہے۔ اگر وہ کوئی ایسا رستہ بتائے جس کے ذریعہ سے خود جواب دیئے بغیر عدالت کے ذریعہ سے فیصلہ کرایاجاسکتا ہو۔ تو میں نیشنل لیگ کومجبور کروں گا کہ اُسی رستہ کو اختیار کرے اور اگر کوئی ایسا رستہ نہیں تو حکومت بتادے کہ ہم کیا کریں۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں صبرکرنے کامشورہ حکومت نہیں دے سکتی۔ یہ فیصلہ ایک لاکھ کی تعدادمیں شائع کیا جاچکاہے۔ اردو انگریزی میں ہندستان، انگلستان اور بعض دوسرے غیرممالک مثلاً افریقہ اور اسلامی ممالک میں بھی بکثر ت تقسیم کیا گیا ممکن ہے اور بھی بعض ایسے علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہو جن کے نام ہم کومعلوم نہیں۔ انگلستان کے متعلق تو خود احرار کے ایک اخبار میں لکھا تھا کہ جب مسٹر گابا وہاں گئے تو انہوں نے اس کی ایک کاپی وزیرہند کو دی تھی۔ اب فرض کرو ہم کسی کے پاس تبلیغ کیلئے جاتے ہیں اور وہ آگے سے پوچھتا ہے کہ کیا تم مسلمان ہو اور اقرار کرنے کی صورت میں دریافت کرتا ہے کہ کیا شراب اسلام میں حلال ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ نہیں حرام ہے۔ تو وہ کہتا ہے کہ تمہارے نبی اور مامور بھی تو شراب پیتے تھے ۔جب ہم کہتے ہیں کہ یہ درست نہیں تو وہ آگے سے کہہ دیتا ہے کہ کیوں نہیں مسٹر کھوسلہ نے ایسا لکھا ہے۔ عدالت کا فیصلہ ہے یہ کوئی احراریوں کا الزام تو نہیں اوربھی ایسے بیسیوں سوال پیدا ہوسکتے ہیں۔ اب ان سوالوں کے جواب میں ہمارے لئے دو ہی رستے کھلے ہیں۔ یا تو کہہ دیں کہ ہمارا سلسلہ واقعہ میں جھوٹا ہے اور ہم آپ کے ہاتھ پر توبہ ہی کرنے آئے ہیں او ریا یہ کہ یہ الزام جھوٹ ہے اور اس کا یہ ثبوت ہے۔ اب حکومت ہمیں بتادے کہ ان دونوں باتوں میں سے وہ کونسا جواب ہم سے چاہتی ہے اور یا پھر کوئی تیسرا جواب بتادے۔ جھگڑا تو وہاں ہوتا ہے جہاں کوئی ضد کرے مگر میں تو حکومت سے ہی سوال کرتاہوں حکومت خود ہی ہمیں اس مصیبت سے بچنے کا ذریعہ بتادے۔ آخر یہ تو ہم کہہ نہیں سکتے کہ چونکہ یہ امور عدالت کے فیصلہ میں آگئے ہیں سلسلہ احمدیہ جھوٹا ہے۔ آخر ہم یہی کرسکتے ہیں کہ کتب و رسائل کے ذریعہ سے ان امور کی تردید کریں جو اس فیصلہ میں ہماری طرف منسوب کئے گئے ہیں لیکن اگر یہ طریق حکومت کے نزدیک معیوب ہے تو پھر وہ خود ہی کوئی علاج ہمیں بتائے۔ اگر وہ صبر کی تلقین کرتی ہے تو کس رنگ میں صبر چاہتی ہے۔ کیا ہم یہ کہیں کہ واقعات تو صحیح ہیں اور احمدیت جھوٹی ہے مگر باوجود اس کے ہم احمدیت کونہیں چھوڑ سکتے۔ یا ہم اس رنگ میں صبر کریں کہ جب کوئی اس فیصلے کاحوالہ دے تو اسے کہہ دیں کہ ہم توبہ کرتے ہیں۔ اگر اس کے سوا بھی صبر کا کوئی طریق ہے تو وہ ہمیں بتادیا جائے۔ جلدی نہیں اپنے مشیروں اور وکیلوں، ججوں سے پوچھ کر بتادے کہ یہ طریق تمہارے لئے کھلا ہے ۔ حکومت ہمارے اس سوال پردیانتداری سے غور کرے کہ اگر کسی مذہب کی یہ پوزیشن ہو تو کیا وہ امید کرسکتی ہے کہ اس کی غلطی کی عزت رکھ لی جائے اور صبر کیاجائے۔ کیا وہ یہ کہہ سکتی ہے کہ آپ ہمارے دوست ہیں ہماری اس غلطی کو نباہنے کیلئے اپنا مذہب چھوڑ دو۔ موجودہ پوزیشن میں وہ اس بات کے سوا ہم سے کیا امید رکھ سکتی ہے لیکن اس بات سے زیادہ غیرمعقول بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ بے شک بعض لوگ ایسا مطالبہ بھی کرلیا کرتے ہیں لیکن ہم حکومت سے ایسی امیدنہیںکرسکتے۔ مجھے ایسے مطالبہ کے متعلق ایک واقعہ معلوم ہے اس واقعہ کا راوی بھی زندہ ہے اور جس کے متعلق ہے وہ بھی زندہ ہے اور دونوں اپنے اپنے محکموں کے چوٹی کے افسر ہیں اس لئے میں ان کے نام نہیں لیتا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک کالج کے پرنسپل نے ایک شخص کی سفارش کی کہ اُسے پروفیسری کے عہدہ پر رکھ لیا جائے۔ جب وہ سفارش ایک بالا افسر کے پاس پہنچی تو اس نے کہا یہ مناسب نہیں کہ آپ ایک ہی آدمی کا نام بھیجتے ہیں دو تین نام بھیجیں تا میرا اختیار بھی تو ثابت ہو کہ میں جس کو ان میں سے چاہوں رکھ سکتا ہوں گو میںکروں گا وہی جو آپ کہیں گے۔ اس پر پرنسپل نے بالا افسر کا اختیار ثابت کرنے کیلئے ایک اور شخص کا نام بھی لکھ دیا مگر ساتھ ہی لکھ دیا کہ یہ اس علم سے واقف نہیں۔ آپ نے چونکہ لکھا ہے کہ دوسرا نام چاہئے اورمیرے پاس کوئی اور آدمی ہے نہیں اس لئے یہ نام بھیجتا ہوں۔ اب یہ دوسرا آدمی چونکہ اس بالا افسر کا ہم مذہب تھا اس نے حکم دیا کہ اسے رکھ لیا جائے۔ اس پر پرنسپل نے اس سے بھی ایک بالا افسر کے پاس شکایت کی کہ آپ نگران اعلیٰ ہیں یہ کس قدر عجیب بات ہے ۔ میں نے جس شخص کی سفارش کی تھی وہ انگلینڈ کا تعلیم یافتہ اور بطورنائب پروفیسر پہلے سے کام کرتا تھا۔ میرا اس سے وعدہ بھی تھا کہ جگہ نکلنے پر تم کورکھا جائے گا مگر اس کی بجائے ایسے شخص کو مقرر کردیا گیا جو اس علم سے بھی ناواقف ہے۔ اس پراس بالا افسر نے جیسا کہ سرکاری افسروں کا قاعدہ ہے پرنسپل سے تو یہی کہاکہ یہ معاملہ میرے پاس لانے والا نہیں اعلیٰ افسر سے کہیں ۔ اور اُدھر اس افسر سے کہا کہ یہ کیا بیوقوفی تم نے کی ہے خیر میں نے تمہاری عزت رکھ لی ہے اور تمہارے ہی پاس معاملہ کو بھیجا ہے خود ہی سلجھالو۔ اب پرنسپل تقرر کرنیو الے افسر کے پاس پہنچا کہ حضرت یہ کیا معاملہ ہے اور آپ نے یہ کیا کردیا۔ اس پر اس نے پگڑی اتار کر اس کے پائوں پر رکھ دی کہ میں پرانے فیشن کا آدمی ہوں مجھے ان باتوں کا کیا پتہ ہے اب میری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اس پر پرنسپل بے بس ہوگیا اور اس نے کہا کہ اچھا جس طرح ہوگا میں کام چلالوں گا۔ یہ بات ایک نہایت ہی ذمہ دار افسر نے جو ہزاروں روپیہ تنخواہ لے رہا ہے مجھ سے بیان کی تھی۔ مگر وہاں تو اس نے پگڑی رکھ کر اپنی عزت بچالی مگر یہاں تو عزت بچانے کی کوئی صورت ہی نہیں۔ پھر ہم نے خود یہ حالات پیدا نہیں کئے۔ اگر ہمارا اختیار ہوتا تو کبھی بھی ایسی حالت پیدا نہ ہونے دیتے جس سے حکومت کو مشکلات کا سامنا ہو مگر خود اس نے ایسے حالات پید اکئے ہیں اس لئے اب نباہنابھی اسی کا کام ہے۔ اس کی وضاحت کیلئے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔یہ حکومت عیسائی ہے اس لئے اس کے گھر کی مثال ہی دیتا ہوں۔ ہمارے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہی مقام ہے جو موسوی سلسلہ میں حضرت عیسیٰؑ کا ہے بلکہ ہمارے نزدیک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درجہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی بڑا ہے۔ وہ اگر اُسے صحیح نہیں سمجھتے تو نہ سمجھیں۔ ہمارا عقیدہ ان پر اور ان کا ہم پرہرگز حجت نہیں لیکن اس بات کو تو یورپین مصنفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ احمدیوں کے نزدیک مرزا صاحب کا درجہ وہی ہے جو عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسیٰؑ کا ہے اور جس طرح آج ہم پرمقدمے کئے جاتے ہیں اسی طرح حضرت عیسیٰؑ پر بھی ہوتے تھے۔ انجیل کو اٹھا کردیکھ لو ان پر بھی حکومت سے بغاوت کاالزام لگایا جاتا تھا۔ ایک مقدمہ ان پر دائر ہوا اور حکومت نے ان کیلئے پھانسی کی سزا تجویز کی اور انہیں پھانسی پر لٹکا بھی دیا گیا۔ عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق وہ فوت ہوگئے لیکن ہمارے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انہیں بچالیا۔ اس مقدمہ کو آج انیس سو سال گزرچکے ہیں اور اس عرصہ میں اس فیصلہ کے ردّ میں سینکڑوں کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ اگر حکومت کے افسر مذہبی آدمی نہیں تو وہ برٹش میوزیم سے اس کے متعلق دریافت کریں کہ اس موضوع پر کتنی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور آج تک لکھی جارہی ہیں۔ ابھی ایک کتاب مجھے ملی جو ایک شخص ریورنڈ اے ۔ جے ۔ واکرؔ ((Rev. A.J. Walker نے لکھی ہے اور اس کا نام ہے Why Jesus was Crucified۔ اس نے واقعات اور گواہیوں پر بحث کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی براء ت ثابت کرے۔ انگریز لوگ کہا کرتے ہیں کہ مشرقی مذہب کے دیوانے ہوتے ہیں۔ تو کیا یہ عجیب بات نہیں کہ مغرب کے مہذب لوگ جو نفس کو قابو میں رکھنے کادعویٰ کرتے ہیں وہ تو انیس سَو سال گزرنے کے بعد بھی اس مقدمہ کا ردّ لکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور ہم مشرق کے مذہبی دیوانوں کو تازہ حملہ کا ردّ لکھنے سے بھی روکا جاتا ہے اور پھر ہم پر تو لوگ اعتراض کرتے ہیں اور ہمیں تبلیغ اور سلسلہ کی عزت کے بچائو کیلئے جواب کی ضرورت ہے۔ عیسائیوں کو تو اس کی ضرورت بھی کوئی نہیں ۔ ان کی چونکہ حکومت ہے اور حکومت کو ہر کوئی سلام کرتا ہے اس لئے حضرت عیسیٰؑ کی بھی لوگ عام طور پر عزت کرتے ہیں۔ حتّٰی کہ گاندھی جی جنہوں نے یونہی رسول کریم ﷺ کی تعلیم پر دو چار لکد ؎۳ رسید کر دیئے تھے اور کہہ دیا تھا کہ اسلام تلوار کے استعمال کی تعلیم دے کر غلطی کا مرتکب ہوا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کے متعلق انہوں نے بھی لکھ دیا کہ ان کی تعلیم محبت سے بھری ہوئی ہے۔ تو جس کا کھائیے اُسی کا گائیے کے مصداق حضرت عیسیٰؑ پر تو اعتراض بھی کوئی نہیں کرتا اس لئے ان کی تعلیم کی حفاظت کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ دل میں خواہ کچھ ہو ظاہراً طور پر ان کی عزت ہی کی جاتی ہے کیونکہ ان کے ماننے والوں کی حکومت ہے مگر مشکلات تو ہمارے لئے ہیں۔ آج جس طرح یہ بات فیشن میں داخل سمجھی جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توہین کی جائے۔ پس حضرت عیسیٰؑ جن کی عزت پہلے ہی محفوظ ہے اگر ان کے متعلق فیصلہ کا ردّ لکھنے کی انیس سَو چھتیس سال بعد بھی ضرورت ہے تو بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق ۱۹۳۵ء میں صادر شدہ فیصلہ کی تردید کی ۱۹۳۶ء میں ضرورت کیوں نہیں؟ حکومت بتائے کہ عیسائیوں کے بڑے بڑے پادری اور عالم فاضل آج تک بھی ایسی کتابیں کیوں لکھتے ہیں۔ کیا وہ پاگل ہوگئے ہیں۔ اس کی ضرورت یہ ہے کہ آج بھی کوئی نہ کوئی اعتراض کر ہی بیٹھتا ہے۔ پس یہ ایک ایسا سوال ہے کہ شاید انیس سو سال بعد بھی اس کے ردّ کی ضرورت باقی رہے۔ پس اس سوال کی اہمیت کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن باوجود اس کے حکومت کو مشکلات سے بچانے کیلئے گو میں نیشنل لیگ کے کام میں عام طور پر دخل نہیں دیا کرتا میں اس امر کیلئے تیار ہوں کہ اگر حکومت مجھے کوئی ایسا طریق بتادے جس پر چل کر ہم اس فیصلہ کے ضرر کودور کرسکیں تو میں تردید و تنقید کے سلسلہ کوحُکماً روک دوں۔
میرا خیال ہے کہ اگر حکومت ٹھنڈے دل سے غور کرے اور جھوٹا وقار اس کے دامنگیر نہ ہو تو وہ اس سوال کو حل کرسکتی ہے او رمیرے نزدیک اس کے دو طریق ہیں۔ اوّل تو یہ کہ اس فیصلہ کو ضبط کرلے اس میں عدالت کی ہتک نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی اشاعت سے چونکہ فساد ہوتا ہے اس لئے ضبط کرلیا گیا اور حکومت کو جب خود کوئی ضرورت پیش آئے تو وہ ایسا کرلیتی ہے۔ ابھی کچھ عرصہ ہوا اسمبلی میں ایک ممبر نے تقریر کی جو اسمبلی کے رسالہ میں شائع بھی ہوئی وہاں سے اُسے ایک اخبار نے نقل کردیا تو اُس سے ضمانت لے لی گئی اور جب اُس نے یہ ڈیفنس پیش کیا کہ حکومت نے خود اسے شائع کیا تھا تو اُسے جواب دیا گیا کہ حکومت کے رسالہ میں بے شک وہ شائع ہوئی لیکن تم کو ایسا کرنے کا اختیار نہ تھا۔ پس جب اپنے دل پر چوٹ لگنے پر حکومت نے یہ طریق اختیار کیا تو وہ دوسروں کیلئے بھی یہی تدبیر اختیار کرسکتی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر حکومت دوسروں کی چوٹوں کو بھی اپنی ہی سمجھے تو سب جھگڑے مٹ جائیں مشکل یہ ہے کہ اپنی چوٹ پر تو وہ حد سے زیادہ بھنّا اُٹھتی ہے مگر دوسرے پر ایسا موقعہ آنے پر کہتی ہے کہ جانے دو۔ اگر وہ اپنے دل میں ایسی تبدیلی کرے کہ ہر چوٹ کو اپنے دل پر محسوس کرے تو ملک میں بالکل امن و امان ہو جائے۔ پس حکومت اس کا فیصلہ دو طرح کرسکتی ہے ایک تو اس فیصلہ کو ضبط کرلے اور دوسرے جماعت احمدیہ کو اجازت دے کہ اس کا جواب کتاب کی صورت میں لکھ دیا جائے جس میں واقعات کی صحیح صورت پر بحث کرکے جواب دیا جائے اور اس میں عدالت کی شخصیت پر بحث نہ ہو پھر جس جگہ بھی اعتراض ہوگا وہاں کے احمدی اس کتاب میں سے دیکھ کر جواب دے دیں گے۔ اس کے بعد میں نیشنل لیگ والوں کوحکم دے دوں گا کہ وہ آئندہ اس بارہ میں کچھ نہ کرے۔ یہ دو تجویزیں میں نے بہت غور سے سوچی ہیں اور ان پر راضی ہوجانے میں بھی میں نے بہت قربانی کی ہے اور حکومت اگر میری طرح قربانی نہیں بلکہ صرف انصاف کرنے کیلئے تیار ہو تو یہ قضیہ نامرضیہ جو حکومت اور ہمارے دونوں کیلئے مشکلات کا موجب ہوسکتا ہے مٹ جائے گا۔ لیکن اگر حکومت ان دونوں تجویزوں کو نہ مانے تو پھر وہ اپنی طرف سے کوئی تجویز بتادے میں اس پر غور کروں گا لیکن اس کا فرض ہے کہ وہ یا تو میری تجویز مان لے اور یا پھر اپنی طرف سے کوئی ایسی تجویز بتائے جس سے اس فیصلہ کا ضرور دور ہوسکے اور اگر اس کی تجویز معقول ہوئی تو میں اس کو ضرور مان لوں گا۔ لیکن اگر کوئی صورت نہ ہو اور حکومت نہ تو خود کوئی تجویز بتائے اور میری پیش کردہ تجویز کے متعلق بھی کہے کہ تم تورعایا کے ایک فرد ہو تم ایسی تجویزیں پیش کرنے والے کون ہو تو پھر اس کا کوئی علاج میرے پاس نہیں اللہ تعالیٰ کے پاس ہی ہے۔ میر اصرف یہ کام تھا کہ ایک اچھے شہری کی حیثیت سے امن کی بہتر صورت پیش کردوں اور ساتھ یہ بھی کہہ دوں کہ اگر حکومت کوئی اور تجویز بتادے تو میں اپنی بات چھوڑ دوں گا لیکن اگر حکومت دونوں میںسے کوئی بات بھی نہ کرے تو پھر میں یہی کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت ہی ایسی ہے اور ملک کا امن برباد ہونے والا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے فساد مقدر ہو تو ادھر رعایا میں سے بعض لوگوں کے دماغ میں نقص پیدا ہوجاتا ہے اور ادھر حکومت اپنے رویہ کوبدلنے کیلئے تیار نہیں ہوتی اس لئے صرف یہی تدبیر باقی رہ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں او رکہیں کہ ہم تو امن چاہتے ہیں مگر جن رستوں کوکھولنا ہمارے اختیارمیں نہیں، انہیں تُو خود ہی کھول دے اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم سلسلہ کی روایات کو بھی قائم رکھ سکیں، قانون کا احترام بھی نہ چھوڑیں اور اس خدا کے پیارے کی عزت بھی قائم کرسکیں جس کی عزت قائم کرنے کیلئے ہم میں سے ہر ایک اپنی اور اپنے تمام خاندان کی عزت قربان کردینا سب سے بڑی عزت سمجھتا ہے۔
(الفضل ۲۴؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
؎۱ بنی اسرائیل: ۱۷
؎۲ خدیو: بادشاہ ۔ انیسویں صدی میں مصر کے بادشاہوں کا لقب
؎۳ لکد: لات۔ ٹھوکر۔ دولَتّی









۱۴
سُستیاں ترک کرو طالبِ آرام نہ ہو
(فرمودہ۲۴؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کی ۔
یٰٓاَیُّھَاالْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰـبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا وَ یَنْقَلِبُ اِلٰٓی اَہْلِہٖ مَسْرُوْرًاوَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰـبَہٗ وَرَائَ ظَہْرِہٖ فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثَبُوْرًا وَّ یَصْلٰی سَعِیْرًا اِنَّہٗ کَانَ فِیْٓ اَہْلِہٖ مَسْرُوْرًا اِنَّہٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ یَّحُوْرَ بَلٰٓی اِنَّ رَبَّہٗ کَانَ بِہٖ بَصِیْرًا ؎ ۱ ۔
اس کے بعد فرمایا :-
دنیا کی اصلاح کوئی ایسی معمولی بات نہیں کہ بغیر خاص توجہ اور خاص تدابیر کے پایۂ تکمیل تک پہنچ سکے مگر عجیب بات یہ ہے کہ انسان ہر چیز کیلئے کسی توجہ کی ضرورت محسوس کرتا ہے مگر نہیں کرتا تو بنی نوع انسان کی اصلاح کی طرف توجہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور اس طرح جو سب سے قیمتی چیز ہے وہ سب سے زیادہ نظر انداز کی جاتی ہے۔زمیندار ایک بھینس رکھتا ہے یا ایک گھوڑی رکھتا ہے۔ تم اس کے گھر میں تھوڑی دیر جاکر دیکھ لو تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ اپنے دن کا کافی حصہ گھوڑی یا بھینس کی خبرگیری میں صرف کرتا ہے۔ اس کے پاس تھوڑی سی زمین ہوتی ہے مگر اس کی نگہداشت کیلئے کافی عرصہ صرف کرتا ہے لیکن تم چوبیس گھنٹے ایک زمیندار کے گھر میں رہ کر اگر یہ معلوم کرنا چاہو کہ وہ کتنا وقت اپنے بچے کی اصلاح میں صرف کرتا ہے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ ایک منٹ بھی صرف نہیں کرتا۔اس کی گھوڑی یا بھینس اس کے وقت کا گھنٹہ دو گھنٹے لے لیتی ہے، اس کی کھیتی اس کے و قت سے آٹھ دس گھنٹے لے لیتی ہے اور اس کی توجہ کو اپنی طرف پھیرلیتی ہے مگر اس کا بیٹا جو اس کی سب سے زیادہ قیمتی جائداد ہے اس پر وہ ایک منٹ بھی صرف نہیں کرتا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسانی حیثیت کو لوگ نہیں سمجھتے۔ سب چیزوں کی درستی کیلئے لوگ کوشش کریں گے، مالوں کی درستی کیلئے کوشش کریں گے، صنعت و حرفت کی درستی کیلئے کوشش کریں گے، تجارت کی درستی کیلئے کوشش کریں گے، زراعت کی درستی کیلئے کوشش کریں گے لیکن قومی اخلاق کی درستی کیلئے کوشش نہیں کریں گے۔ ہمارے سامنے کانگرس کی وہ جدوجہد موجود ہے جو اس نے ملک کی آزادی کیلئے کی۔ کانگرس کے دشمن بھی یہ تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرسکتے کہ کانگرس کی کوششوں میں سے بعض نہایت شاندار اور اعلیٰ درجہ کی تھیں۔ اس سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ کانگرس نے لوگوں میں ذہنی بیداری پید اکی اور حبِّ وطن کا جذبہ قلوب میں موجزن کیا۔ پھر کوئی شخص اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے ملک کا بیشتر حصہ بزدل تھا کانگرس والوں نے ان میں دلیری پیداکی اور انہیں نڈر بنایا۔ غرض ان خوبیوں کا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا مگر جو کچھ انہوں نے کیا اس سارے کا خلاصہ یہ تھا کہ ملک کو آزادی مل جائے، ملک انگریزوں کے اثر سے محفوظ ہوجائے اور ملک کی عزت دنیا میں قائم ہوجائے لیکن اس جدوجہد اور اس کوشش میں بعض باتیں انہوں نے یا ان کے دوستوں نے ایسی بھی اختیار کیں جو اور زیادہ غلامی کا طوق لوگوں کے گلے میں ڈالنے والی ثابت ہوئیں۔ یعنی بعض اخلاقی غلطیاں ایسی ہوئیں جن سے حریت کی روح تو پیدا ہوئی لیکن دوسری طرف اور زیادہ غلامی کی روح پید اہوگئی۔ مثلاً یہی مسئلہ جو نان کوآپریشن کا ہے گو جس مقصد کیلئے استعمال کیا گیا وہ اچھا تھا مگر یہ ذریعہ نہایت گندہ تھا۔ اگر نان کوآپریشن کے اصول ہم صحیح تسلیم کرلیں تو اس کے معنے یہ بنیں گے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کی کبھی اطاعت نہ کرے اور اپنی مرضی ہمیشہ منوانے کی کوشش کرے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نوجوانوں کے اخلاق میں بگاڑ پیدا ہوگیا اور وہی حملے جو کبھی گورنمنٹ کے خلاف کئے جاتے تھے کانگرس کے خلاف شروع ہوگئے۔ ستیہ گرہ۲؎ کو ہی لے لیا جائے یہ کبھی گاندھی جی کے خلاف شروع کی گئی ، کبھی کانگرس کے خلاف اس لئے کی گئی کہ وہ اچھوتوں کی خبرگیری اور ان کے حقوق کی تائید کیوں کرتی ہے،کبھی کسی یونیورسٹی کے خلاف شروع کی گئی ، کبھی پروفیسروں کے خلاف شروع کردی گئی اور کبھی اپنے ماں باپ کے خلاف ہی ستیہ گرہ ہونے لگی۔ گویا ستیہ گرہ ایک غلط اصل کی وجہ سے دنیا کی بدترین استیہ گرہ ہوگئی یعنی بجائے سچائی کی تائید کے جھوٹ کی تائید اس سے ہونے لگی۔ پس اخلاقی طور پر اس تحریک نے لوگوں کو بہت نقصان پہنچایا ۔ اسی طرح کانگرس کی تحریک کے نتیجہ میں گو خود کانگرس والے اس کے بانی نہیں ہوئے مگر بہرحال اس کے نتیجہ میں ٹیررازم یعنی دہشت انگیزی اور قتل کی تحریک شروع ہوئی گویا نوجوانوں کی اخلاقی طور پر موت واقع ہوگئی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ کانگرس والوں نے اس بات کی تو قیمت سمجھی کہ جسم غلامی سے آزاد ہونے چاہئیں مگرانہوں نے اس بات کی کوئی قیمت نہ سمجھی کہ ذہن بھی غلامی سے آزاد ہونے چاہئیں کیونکہ اخلاق کی قیمت ان کے نزدیک معمولی تھی مگر جسموں کی قیمت بہت زیادہ تھی اوریہ مرض کانگرس والوں سے خصوصیت نہیںرکھتا تمام دنیا میں یہ مرض پھیلا ہوا ہے یہی حالت ان ممالک کی بھی ہے جو آجکل ترقی یافتہ سمجھے جاتے ہیں۔ کیا انگلستان، کیا فرانس، کیا جرمنی اور کیا امریکہ سب کے نزدیک انسانوں کی اخلاقی حالت خواہ کتنی ہی خراب کیوںنہ ہو انہیں اس کی چنداں پرواہ نہیںہوگی لیکن جسمانی حالت گرنے کی انہیں فوراً فکر شروع ہوجائے گی۔ اگر ان کے ملک کے سکّہ کی قیمت گرتی ہے تو وہ گھبراجاتے ہیں لیکن اگر ان کے نوجوانوں کے اخلاق گرجائیں تو اس کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی۔ اگر ان کاشلنگ بارہ پنس کی بجائے گیارہ پنس کاہوجائے تو وہ گھبراجاتے ہیں لیکن اگر ان کے ملک میںجؤابازی عام ہوجائے، شراب خوری زیادہ ہوجائے، فواحش کی کثرت ہوجائے تو اس کی انہیں اتنی فکر نہیںہوتی یا جھوٹ، دغا اور فریب پھیل جائے تو اس کی انہیں فکر نہیں ہوگی لیکن شلنگ کابارہ پنس کی جگہ گیارہ پنس کا ہوجانا ان کے ہاں بہت بڑی اہمیت رکھے گا۔ تو درحقیقت تمام انسان سوائے ان لوگوں کے جو مذہبی اثر کے نیچے ہوتے اور انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کے تابع ہوتے ہیں قومی اخلاق کی طرف توجہ نہیں کرتے لیکن مال و دولت کے بڑھانے کی طرف زیادہ توجہ کرتے ہیں جس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی تمام تر کوششیں ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ؎۳ کا مصداق بن کر رہ جاتی ہیں۔ ان کی ساری کوششیں دنیا کے معاملات میں ہی صرف ہوجاتی ہیں دین کے معاملات میں خرچ نہیں ہوتیں۔ مگر ان سے اُتر کر ایک اور گروہ بھی ہے یا یہ کہنا چاہئے کہ ان سے بدتر ایک اور گروہ ہے جس کی کوششیں کہیں بھی خرچ نہیں ہوتیں گویا وہ نکمّے وجود ہوتے ہیں اور میں سمجھتاہوں اس وقت ایشائیوں کی زیادہ تر حالت ایسی ہی ہے۔ یورپ کے لوگوں کے متعلق تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۔ ان کی تمام تر کوششیں دنیا پر صرف ہوگئیں لیکن ایشیائیوں کا ننانوے فیصدی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ حصہ ایسا ہے جس کی کوششیں کہیں بھی خرچ نہیں ہوتیں وہ صرف آرام کرناجانتے ہیں اور کام سے اتناگھبراتے ہیں گویا موت ہے اور ان کی پوری کوشش اس امر پر صرف ہوتی ہے کہ کسی طرح کام سے چھٹ سکیں اور پھر اگر کوئی کام ان کے سپرد کیا جائے تو وہ کبھی اسے وقت پر پورا نہیں کریں گے اور نہ یہ کوشش کریں گے کہ اس کام میں ترقی ہو حالانکہ انسانی پیدائش اس دنیا میں ہے ہی اسی لئے کہ وہ محنت کریں۔
یہ جو میں نے اس وقت آیات پڑھی ہیں ان کا سارا مضمون تو وقت کی قلت کی وجہ سے میں بیان نہیں کرسکتا مگر ان میں اسی مضمون پر زور دیاگیا ہے جو میں اس وقت بیان کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰٓاَیُّھَاالْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ اے انسان! تجھے کدح کرنی پڑے گی اپنے ربّ تک پہنچنے کیلئے۔ کدح کے معنی ہیں شدیدمحنت۔ ایسی محنت جس سے انسان کا جسم کمزور ہونا شروع ہوجائے جسے ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ ہڈیاں گھل گئیں۔ یہ حالت جب انسان کی ہوجائے تو اس کے متعلق کہیں گے اس نے کدح کی۔ کدح کے اصلی معنی کسی چیز کااندر داخل ہوجانا ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں کَدَحَ رَأْسَہٗ بِالْمُشْطِ اس نے کنگھی کے ساتھ اپنے بالوں کو درست کیا۔ چونکہ کنگھی انسان کے بالوں میں داخل ہوجاتی ہے اس لئے اس کے متعلق کدح کالفظ استعمال کیا گیا۔ اسی طرح کہتے ہیں کَدَحَ وَجْھَہٗ اس نے منہ پر ناخن مارے اوروہ ناخن جلد کے اندر گھس گئے تو کدح اس محنت کو کہتے ہیں جس کا اثر جسم سے اتر کر انسان کے اندر چلا جاتا ہے اور محنت شاقہ کی وجہ سے اس کی ہڈیاں گھلنے لگ جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰٓاَیُّھَاالْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ اے انسان! تجھے اتنی محنت کرنی پڑے گی اتنی محنت کرنی پڑے گی کہ اس محنت کی وجہ سے تیری ہڈیاں گھل جائیں تب کہیں تیرے ربّ کی ملاقات تجھے نصیب ہوگی پھر جب ایسا انسان وہاں پہنچے گا تو اس بات کی علامت کیلئے کہ اس کی کدح سچی تھی اور اس کی محنت پوری اتری خداتعالیٰ اس کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دے گا۔ دائیں ہاتھ سے مراد کام کرنے والا ہاتھ ہے دنیا کا اکثر حصہ چاہے وہ مسلمان ہو یا نہ ہو دائیں ہاتھ سے کام کرتا ہے بعض لوگ بے شک لیفٹ ہینڈڈ (Left Handed) یعنی بائیںہاتھ سے کام کرنے والے بھی ہوتے ہیںمگر وہ نہایت قلیل ہوتے ہیں اکثر دائیں ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔ خط لکھیں گے تو دائیں ہاتھ سے ، کوئی چیز کاٹیں گے تو دائیں ہاتھ سے، ضرب لگائیں گے تو دائیں ہاتھ سے، اسلام نے تو دائیں ہاتھ سے کام کرنے کو مذہب کاجزو قرا ردیا ہے مگر عملی طور پر ساری دنیا میں یہ بات پائی جاتی ہے اور ملک کا ملک کم از کم میرے علم میں کوئی ایسا نہیں جہاں بائیں ہاتھ سے کام کیا جاتا ہو۔ افراد بے شک کرتے ہیں مگر وہ قلیل ہوتے ہیں پھر بائیں ہاتھ سے کام کرنا ان کی کوئی خوبی نہیں بلکہ نقص سمجھا جاتا ہے۔ تو دایاں ہاتھ عمل پر دلالت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ وہ عملی لوگ ہوں گے اور محنت اور کوشش سے کام کرنے والے ہوں گے اس لئے اللہ تعالیٰ ان کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دے گا مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے دنیا میں کوئی عمل نہ کیا ہوگا اور ان کی یہ عادت ہوگی کہ جب ان کے سامنے کوئی کام آیا انہوں نے اسے اپنی پیٹھ پیچھے ڈال دیا۔ جیسا کہ کہتے ہیں آج کا کام کل پر ڈال دینا۔ دنیا میں یہ عام دستور ہے کہ جو کام انسان نے کرنا ہو اسے اپنے سامنے رکھ لیتا ہے مگر جو نہ کرنا ہو اسے ایک طرف کردیتا ہے اس کے مطابق چونکہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے پاس جب کام آتا تو وہ اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال دیتے اور اس طرح ان کی پیٹھوں کے پیچھے کاموں کا ایک ذخیرہ جمع رہتا اس لئے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰـبَہٗ وَرَآئَ ظَہْرِہٖ چونکہ وہ اپنی پیٹھ کے پیچھے کام رکھنے کے عادی تھے اس لئے ان کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے رکھا جائے گا۔ فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثَبُوْرًا اس وقت جس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے رکھا جائے گا یہ شور مچانے لگ جائے گاکہ میں تو مارا گیا۔ یہ سست اور کاہل آدمی کی مثال ہے کہ وہ بجائے کام کو اپنے سامنے رکھنے اور اسے پورا کرنے کی کوشش کرنے کے ہمیشہ اسے تاخیر میں ڈالتا اور اسے بھلانے کی کوشش کرتا ہے لیکن دیانت دار اور مؤمن انسان ہمیشہ اُسے سامنے رکھتا اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی مناسبت کے لحاظ سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس شخص کو جو عملی زندگی بسر کرنے والا ہو دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دے گا مگر جو سُست اور کاہل ہوگا اور کام کو اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال دینے کا عادی ہوگا اس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے رکھا جائے گا گویا جس نگاہ سے اس نے دنیا میں اپنے کام کو دیکھنے کی کوشش نہ کی اسی طرح اس کا اعمال نامہ بھی ایسا گندہ ہوگا کہ وہ اسے دیکھنے کیلئے قوتِ برداشت اپنے اندر نہ رکھے گا اور اسی لئے اسے پیٹھ کے پیچھے رکھاجائے گا۔
میں نے متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ سستی اور غفلت بہت بڑی *** ہے اور ہمیں اس *** کوبہت جلد اپنے آپ سے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر ہم اس کو دور نہیں کرسکتے تو ہمیں کم از کم اپنی اولادوں سے تو اس کو دورکرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ڈاکٹروں نے اس بات پر بحثیں کی ہیں کہ ایشیائی لوگ سُست کیوں ہوتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ چونکہ ایشیاء میں ملیریا زیادہ ہوتا ہے اس لئے ملیریا کی وجہ سے ایشیاء والے سُستی کا شکار رہتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں یہ بات غلط ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملیریا سُستی پید اکرتاہے اور جب ملیریا کا انسانی جسم پر اثر ہونے لگے تو بخار چڑھنے سے کئی دن پہلے ہی انسان کاکام کرنے کو جی نہیں چاہتا اور پھر بخار کی حالت میں بھی جمائیاں آتی ہیں، اعضاء شکنی ہوتی ہے اور پژمردگی سی چھائی رہتی ہے۔ پس یہ صحیح ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایشیاء میں ملیریا نہایت سخت ہوتا ہے لیکن اسی ایشیاء میں وہ لوگ بھی ہوئے ہیں جنہوںنے دنیا میں اتنے مہتم بِالشان او رحیرت انگیز کام کئے ہیں کہ دنیا ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ چنانچہ اسی ایشیاء میں رسول کریم ﷺ ہوئے ہیں جن کی زندگی پر جب اس لحاظ سے غور کیا جائے کہ وہ کیسی محنتی زندگی تھی تو ہمیں اس میں محنت کا ایسا اعلیٰ نمونہ نظر آتا ہے کہ اُسے دیکھ کرحیرت آجاتی ہے۔
دنیا میں ایک شخص جرنیل ہوتا ہے اور وہ جرنیلی کے کاموں میں ہی تھکا رہتا ہے، کوئی استاد ہوتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ سکول کا کام اتنا زیادہ ہے کہ دماغ تھک جاتا اور جسم چُور چُور ہوجاتا ہے ، ایک جج ہوتا ہے اور وہ یہ شور مچاتا رہتا ہے کہ ججی کا کام اتنا زیادہ ہے کہ میری طاقتِ برداشت سے بڑھ کر ہے، ایک وکیل ہوتا ہے اور وہ یہ شکوہ کرتا رہتا ہے کہ وکالت کا کام اتنا بھاری ہے کہ مجھے اس سے ہوش ہی نہیں آتا، ایک میونسپل کمیٹی کا پریذیڈنٹ ہوتا ہے اور وہ اس امر کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ اتنا زیادہ کام ہے کہ میں سمجھ ہی نہیں سکتا اسے کس طرح کروں ،ایک لیجسلیٹواسمبلی کا سیکرٹری ہوتا ہے اور وہ کہتا رہتا ہے کہ قانون سازی کا کام اتنا بھاری ہے کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس سے کس طرح عہدہ برآ ہوں۔ غرض ایک ایک کام انسان کی کمر توڑدینے کیلئے کافی ہے مگر محمد ﷺ کی زندگی میں یہ سارے کام بلکہ ان کے علاوہ اور بھی بیسیوں کام ہمیں ایک جگہ اکٹھے نظر آتے ہیں۔ محمد ﷺ معلّم بھی تھے کیونکہ آپ لوگوں کو دین پڑھاتے اور رات دن پڑھاتے، محمد ﷺ جج بھی تھے کیونکہ آپ لوگوں کے جھگڑوں کا تصفیہ کرتے، محمد ﷺ پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی کے فرائض بھی سرانجام دیتے کیونکہ بلدیہ کے حقو ق کی نگرانی و صفائی کی نگہداشت اور چیزوں کے بھائو کا خیال رکھنا یہ سب کام آپ کرتے ، پھر رسول کریم ﷺ مقنّن بھی تھے کیونکہ آپ قرآن کریم کے احکام کے ماتحت لوگوں کو قانون کی تفصیلات بتاتے اور ان کا نفاذ کرتے، اسی طرح رسول کریم ﷺ جرنیل بھی تھے کیونکہ آپ لڑائیوں میں شامل ہوتے او رمسلمانوں کی جنگ میں راہبری فرماتے، رسول کریم ﷺ بادشاہ بھی تھے کیونکہ آپ تمام قسم کے ملکی اور قومی انتظامات کا خیال رکھتے، پھر اس کے علاوہ اور بھی بیسیوں کام تھے جو رسول کریم ﷺ کے سپرد تھے مگر آپ یہ سب کام کرتے اور اسی علاقہ میں رہ کر کرتے جس میں رہنے والوں کی سستی کی دلیل بعض ڈاکٹر یہ پیش کرتے ہیں کہ یہ ملیریا زدہ علاقہ ہے۔ آخر آپ بھی تو ایشیاء کے ہی رہنے والے تھے یورپ کے رہنے والے تو نہ تھے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہمیں اپنی صحت کی درستی کا خیال رکھنا چاہئے اور ملیریا کو اس بات کا موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ ہماری تندرستی برباد کرے مگر ملیریا بھی تو بعض کمزوریوں کی وجہ سے ہی آتا ہے یا روحانی کمزوریاں ملیریا کا شکار بنادیتی ہیں یا جسمانی سستیاں ملیریا کا شکار بنادیتی ہیں یا امنگوں کی کمی ملیریا کا شکار بنادیتی ہے۔ دنیا میں امنگ بھی بہت حد تک بیماریوں کامقابلہ کرتی ہے۔ بے شک بداحتیاطی او ربدپرہیزی بھی بیماری لانے کا باعث بنتی ہے مگر امنگیں بیماری کو دبا لیتی ہیں لیکن وہ جوپہلے ہی اپنے ہتھیار ڈال چکا ہو او رکہے کہ ’’آ بیل مجھے مار‘‘ اور بیماریوںکے مقابلہ کی تاب اپنے اندر نہ رکھتاہو اس پر بیماری بہت جلد غلبہ پالیتی ہے۔ لیکن وہ جو اپنی امنگوں کو زندہ رکھتا، اپنی قوتِ ارادی کو مضبوط کرتا اور اپنے حوصلہ کو بلند رکھتا ہے بیماری اس پر غلبہ نہیں پاسکتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی کی حکومت تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ اگر بیماری اس پر حکومت کرنا چاہے تو وہ اس کی حکومت سے بھی انکار کردیتا ہے۔ پس میں تسلیم کرتا ہوں کہ بیماری کا علاج ہونا چاہئے مگرمیں یہ ہرگز تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ یہ سست اور نکمّا بنانے کا کافی سبب ہے۔ ایسے ہی حالات میں رسول کریم ﷺ نے جس محنت اورمشقت کا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے آپ کے متبعین میں سے کسی کو یہ جرأت نہیں ہوسکتی کہ وہ کہے کہ ملیریا کا ہمارے ملک میں پایا جانا ہمارے ملک کی سُستی اور غفلت کیلئے کافی عذر ہے۔ ہم جب رسول کریم ﷺ کی زندگی دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے آپ آدھی رات کے بعد اٹھ بیٹھتے اور عبادت شروع کردیتے ہیں۔ اسی عبادت کے دورا ن میں فجر کی اذان ہوتی ہے اور آپ کو نماز کیلئے اطلاع ملتی ہے رسول کریم ﷺ نما زپڑھانے چلے جاتے ہیں۔ نما زپڑھا کر آپ مسجد میں ہی بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں جس کو کوئی ضرورت اوراحتیاج ہو وہ بیان کرے۔ اس پر پہلے جن جن لوگوں کورات کو کوئی خواب آیا ہوتا وہ بیان کرتے اور آپ تعبیریں بتاتے، اس کے بعد جنہیں کوئی دوسری حاجتیں ہوتیں وہ آپ کے سامنے اپنی حاجات بیان کرتے اور آپ مناسب مشورے دیتے۔ پھر صحابہ کو آپ قرآن کی تعلیم دیتے بعض کو حفظ کراتے اور بعض کو معانی بتاتے پھر مقدمات والے آجاتے اور آپ ان کے جھگڑوں کو سنتے اور فیصلہ کرتے۔ مقدمات سننے کے بعد ظہر کا وقت آجاتا ہے اور آپ کھانا کھانے اندر تشریف لے جاتے ہیں اس کے بعد ظہر کی نماز ادا کرنے کیلئے نکلتے ہیں۔ ظہر کی نماز کے بعد پھر وہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، درس و تدریس ہوتا ہے، اسلامی ضروریات پر مشورے ہوتے ہیں، قانون کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں، افتاء کا کام کیا جاتا ہے اسی میں عصر کا وقت آجاتا ہے اور آپ عصر کی نماز پڑھانے کھڑے ہوجاتے ہیں پھر یا تو نصائح کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے یا فوجی مشقیں ہونے لگتی ہیں کیونکہ بالعموم عصر کے بعد رسول کریم ﷺ صحابہ سے فوجی مشقیں کراتے کہیں تیر اندازی ہوتی، کہیں کشتی ہوتی، کہیں گھڑدوڑ ہوتی اسی طرح بِالعموم ظہر سے پہلے اور اشراق کے بعد رسول کریم ﷺ بازار تشریف لے جاتے اور بھائو وغیرہ معلوم کرتے اور دیکھتے کہ کہیں دکاندار دھوکا تو نہیں کررہے یا لوگ دکانداروں پر تو ظلم نہیں کررہے اور عصر کے بعد وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع ہوتا یا صحابہ کو فوجی مشقیں کرائی جاتیں اور انہیں جنگ کیلئے تیار کیا جاتا ۔ گویا اس وقت رسول کریم ﷺ جرنیل کے فرائض سرانجام دیتے پھر مغرب کی نماز پڑھا کرکھانا کھاکر آپ مسجدمیں آجاتے اور مجلس لگ جاتی پھر عشاء تک یا تو مقدمات کے تصفیے ہوتے یا شکایات سنی جاتی ہیں یا تعلیم دی جاتی ہے اسی دوران میں عشاء کی نماز کا وقت آجاتا ہے اور عشاء کی نماز پڑھ کر اور نوافل سے فارغ ہوکر آپ سوجاتے اور آدھی رات کے بعد پھر اٹھ بیٹھتے اور اسی کام کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ غرض اس زندگی میں ایک منٹ بھی تو ایسا نہیں آتا جسے ہمارے ہاں گپیں ہانکنے کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے اور نہایت قیمتی وقت محض بکواس میں ضائع کردیا جاتا ہے کہ فلاں کا یہ حال ہے اور فلاں کا یہ ۔ اور اصل کام کی طرف توجہ نہیں کی جاتی اسی وقت کے اندر رسول کریم ﷺاپنی بیویوں کے حقوق بھی اداکرتے تھے اور اتنی توجہ سے ادا کرتے تھے کہ ہر بیوی سمجھتی تھی کہ سب سے زیادہ میں ہی آپ کی توجہ کے نیچے ہوں۔ پھر بیوی بھی ایک نہیں آپ کی نو بیویاں تھیں او رنو بیویوں کے ہوتے ہوئے ایک بیوی بھی یہ خیال نہیں کرتی تھی کہ میری طرف توجہ نہیں کی جاتی۔چنانچہ عصر کی نماز کے بعد رسول کریم ﷺکا معمول تھا کہ آپ ساری بیویوں کے گھروں میںایک چکر لگاتے اور ان سے ان کی ضرورتیں دریافت فرماتے۔ پھر بعض دفعہ خانگی کاموں میں آپ ان کی مدد بھی فرمادیتے اس کام کے علاوہ جو میں نے بیان کئے ہیں او ربھی بیسیوں کام ہیں جو رسول کریم ﷺ سرانجام دیتے ہیں۔ پس آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو فارغ ہو مگر آپ بھی اسی ملیریا والے ملک کے رہنے والے تھے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہم دیکھتے ہیں جو آپ کے ظلّ تھے۔ مجھے یا د ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کام کی یہ حالت ہوتی کہ ہم جب سوتے تو آپ کو کام کرتے دیکھتے اور جب آنکھ کھلتی تب بھی آپ کوکام کرتے دیکھتے اور باوجود اتنی محنت اور مشقت برداشت کرنے کے جو دوست آپ کی کتابوں کے پروف پڑھنے میں شامل ہوتے آپ ان کے کام کی اس قدر‘ قدر فرماتے کہ اگر عشاء کے وقت بھی کوئی آواز دیتا کہ حضور میں پروف لے آیا ہوں تو آپ چارپائی سے اُٹھ کر دروازہ تک جاتے ہوئے راستہ میں کئی دفعہ فرماتے جزاک اللّٰہ۔ آپ کو بڑی تکلیف ہوئی جزاک اللّٰہ۔ آپ کو بڑی تکلیف ہوئی۔ حالانکہ وہ کام اس کام کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہوتا تھا جو آپ خود کرتے تھے۔ غرض اس قدر کام کرنے کی عادت ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں دیکھی ہے کہ اس کی وجہ سے ہمیں حیرت آتی۔ بیماری کی وجہ سے بعض دفعہ آپ کو ٹہلنا پڑتا مگر اس حالت میں بھی آپ کام کرتے جاتے۔سیر کیلئے تشریف لے جاتے تو راستہ میں بھی مسائل کا ذکر کرتے اور سوالات کے جوابات دیتے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس ملیریا زدہ علاقہ کے تھے بلکہ حق یہ ہے کہ دنیا میں جتنے عظیم الشان کام کرنے والے انسان ہوئے ہیں وہ سب اسی ملیریا والے ملک میں ہوئے ہیں کیونکہ اکثر معروف انبیاء ایشیاء میں ہوئے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اسی ملیریا زدہ علاقہ کے تھے، حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اسی ملیریا زدہ علاقہ کے تھے اور حضرت دائود علیہ السلام بھی اسی ملیریا زدہ علاقہ کے تھے اور حضرت عیسیٰؑ علیہ السلام بھی اسی ملیریا زدہ علاقہ کے تھے بلکہ حضرت کرشنؑ ، حضرت رام چندرؑ اور حضرت زرتشت بھی اسی علاقہ کے رہنے والے تھے۔ تو اس میں کوئی شبہ نہیں ہمیں اپنی صحتوں کو درست کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے مگر مغرب کے کسی ڈاکٹر کا کوئی فقرہ سن کر اس کے پیچھے چل پڑنا بھی تو نادانی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل ملیریا وہ ہے جو دل سے پیداہوتا ہے اگر دل کا ملیریا دور نہ ہو تو خواہ ظاہری طور پر انسان ملیریا زدہ علاقہ میں نہ ہو پھر بھی سست اور کاہل رہ سکتاہے۔ چنانچہ یورپ میں بھی سست لوگ ہیں حالانکہ وہاں ملیریا نہیں۔ بڑے بڑے امراء ہوتے ہیں اور انہوں نے اپنا کام یہی سمجھا ہوا ہوتا ہے کہ اچھی اچھی غذائیں کھائیں، شرابیں پئیں اور تاش کھیلیں ان کو کونسا ملیریا ہوتا ہے۔
پس حقیقت یہ ہے کہ دل کا ملیریا ہی انسان کو سست اور غافل کردیتا ہے اور سستی اور غفلت ایسی چیز ہے کہ وہ قوم کو تباہ کردیتی ، اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے انسان کو محروم کردیتی اور نجات سے دور پھینک دیتی ہے۔ میں نے بار بار جماعت کوتوجہ دلائی ہے کہ وہ سستی اور غفلت کو چھوڑے مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا۔ مائیں اپنے بچوں کو سست رکھنا پسند کرتی ہیں مگر یہ پسند نہیں کرتیں کہ ان پر کام کابوجھ پڑے، باپ اپنے بچوں کو سست رکھنا پسند کرتے ہیں مگر یہ پسند نہیں کرتے کہ انہیں کام کی عادت ڈالی جائے اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کام نہ کرنے کی عادت ان میں پیدا ہوجاتی ہے اور اس عادت کا دور ہونا پھر بہت مشکل ہوجا تا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ کوئی شخص ہندو تھا جو بعد میں مسلمان ہوگیا ایک دن کسی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ کوئی لطیفہ کی بات ہوئی اس پر وہ جھٹ کہنے لگا رام رام۔ رام رام۔ کسی نے کہا یہ کیا بات ہے تم تو مسلمان ہو تمہیں رام رام کی بجائے اللہ اللہ کہنا چاہئے تھا۔ وہ کہنے لگا اللہ اللہ داخل ہوتے ہی داخل ہوگا اور رام رام نکلتے ہی نکلے گا ۔ پرانی عادت پڑی ہوئی ہے اس لئے زبان سے رام رام ہی نکل جاتا ہے۔ تو سُستیاں اور غفلتیں اگر کسی قوم میں عادت کے طور پر داخل ہوجائیں تو اس قوم کو کم از کم یہ چاہئے کہ اپنی اولادوں کو اس *** سے بچائے مگر مجھے افسوس ہے کہ اب تک اپنی اولادوں کو سُستی اور غفلت سے بچانے کی طرف جماعت نے کوئی خاص توجہ نہیں کی۔ اس تحریک میں مائیں روک بنتی ہیں، اس تحریک میں باپ روک بنتے ہیں، اس تحریک میں استاد روک بنتے ہیں حالانکہ اگر ماں باپ اور استاد بچوں کی نگرانی کرکے سستی اور غفلت کی عادت اگلی نسل سے دور کردیں تو ان کا یہ کام جہاد اعظم کے برابر حیثیت رکھے گا مگر مجھے افسوس ہے کہ اب تک یہ کام کرنے والے ہمیں میسر نہیں آئے حالانکہ ہمیں ایسے کارکنوں کی ضرورت ہے جنہیں کام میں لذت آئے اور جو وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا ؎۴ کا مصداق ہوں کہ جب کسی کام میں ہاتھ ڈالیں اس میں غرق ہوجائیں اور غرق ہوکر اس میں سے موتی نکال لائیں۔ مجھے تعجب ہوا کہ کل ہی میںنے ایک کام کیلئے ایک دفتر کو تاکید کی اور کہا کہ چونکہ وہ اس کام میں کئی مہینوں سے سستی کرتے چلے آئے ہیں اس لئے اب وہ یہ کام ختم کرکے دفتر بند کریں چاہے دو دن انہیں رات دن دفتر کھلا رکھنا پڑے۔ اس کے جواب میں رات کے تین بجے مجھے ایک افسر کا رقعہ ملا جسے پڑھ کر ہنسی بھی آئی اور رونا بھی۔ ہنستی تو اس لئے کہ اس نے لکھا فلاں شخص بھی میرے ساتھ مل کرکام کررہا ہے اسے تین بجے اٹھنے کی اجازت دی جائے حالانکہ اسی کی غفلت کے نتیجہ میں کام خراب ہوا تھا مگر ذکر اس رنگ میں کیا گیا گویا اس کا کام کرنا بہت بڑا احسان ہے اور رونا مجھے اس لئے آیا کہ میںنے کہا تھا چاہے دو دن انہیں دن رات دفتر کھلا رکھنا پڑے کھلا رکھیں اور اس کام کو ختم کریں مگر مجھے لکھا گیا اب تو تین بج چکے ہیں اب ہم میں سے بعض کو جانے کی اجازت دی جائے۔ وہ تو نوجوان ہیں اور اس لحاظ سے انہیں کام زیادہ کرنا چاہئے مگر میری تو عمر ان سے زیادہ ہے صحت بھی کمزور ہے لیکن سال میں بیسیوں دن ایسے آتے ہیں جب رات کے تین تین چار چار بجے تک مجھے کام کرنا پڑتا ہے مگر انہیں یہی بات اچنبھا معلوم ہوئی کہ ایک دن انہیں رات کے تین بجے تک کام کرنا پڑا اوراس کے بعد انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ کام چھوڑنے کی اجازت لیں گویا ان کے نزدیک تین بجے کے بعد اگر کام کیا جائے تو موت ہی آجاتی ہے۔ حالانکہ بیسیوں دن سال میں مجھ پر ایسے آتے ہیں جب مجھے چار چار بجے تک بیٹھ کر کام ختم کرنا پڑتا ہے اور اس میں بعض دفعہ میں اپنی بیویوں کو بھی شامل کرلیتا ہوں۔ ابھی آٹھ دن ہوئے رات کے وقت سخت گرمی تھی اور میں پسینہ میں شرابور تھا میری بیوی بھی بیمار تھیں مگر میں نے انہیں کہا کہ تم زائد رقعے پڑھ کر مجھے دیتی جائو اور بتاتی جائو کہ اس میں کیا لکھا ہے کیونکہ کام بہت سا اکٹھا ہوگیا ہے۔ چنانچہ ہم دونوں نے بیٹھ کر رات کے تین بجے تک کام ختم کیا اور سوتے ہوئے قریباًچار بج گئے۔ یہ بات بتاتی ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں کو ابھی کا م کرنے کی عادت نہیں ورنہ اگر کام کرنے کی عادت ہو تو تین بجے تک کام کرنے کو اہمیت دینا تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص تنکا اٹھا کر ناچتا پھرے کہ میں نے کتنا بوجھ اٹھایا ہؤا ہے۔ ایسی کئی راتیں مجھ پر گزری ہیں جن میں مجھے صبح کی نما زتک کام کرنا پڑا ہے کئی کتابیں میں نے ایسی لکھی ہیں جن میں بعض دوسرے دوست بھی میرے شریک تھے اور ہم صبح تک کام کرتے چلے گئے صبح کی نماز پڑھ کر پھر بیٹھ گئے اوررات تک کام کرتے رہے۔ پس کام کرنے سے گھبرانا ایک ایسی بات ہے جو میری سمجھ سے بالا ہے حالانکہ میری غرض تحریک جدید اور ان صیغوں کے قائم کرنے سے ہے ہی یہ کہ لوگوں کو کام کرنے کی عادت ڈالی جائے اورنئی پود اتنا کام کرنے کی عادی ہو کہ وہ سمجھے ہی نہ کہ کام ہوتا کیا ہے۔ یہی *** تو میں دور کرنا چاہتا ہوں کہ اب چھ بج چکے ہیں، اب سات بج چکے ہیں، اب دس بج چکے اور ہمیں دفتر بند کرکے چلے جانا چاہئے کیونکہ یہ نہیں دیکھا جائے گاکہ دس بج چکے ہیں یانہیں بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ کا م ختم کرلیا گیا ہے یا نہیں یا کام ختم ہونا ناممکن تو نہیں ہوگیا۔میں یہ مانتا ہوں کہ انسانی طاقت کی حد ہے مگر جو اس حد سے پہلے ہی رہ جاتے ہیں وہ کسی تعریف کے مستحق نہیںسمجھے جاتے۔کام کرنیوالے لوگ تو جب انہیں کوئی ضروری کام لاحق ہو دو دو راتیں مسلسل جاگنا بھی کوئی بڑی بات نہیں سمجھتے اور درحقیقت کام کرنے والا آدمی اگر کام کرکے تھوڑا سا سوجائے تو پھر دوبارہ اس کے کام کرنے کی ویسی ہی طاقت پیدا ہوجاتی ہے جیسے پہلے ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں جب کوئی ضروری کام آپڑے ہوسکتا ہے کہ ایک سوجائے اور دوسرا کام کرتا رہے پھر دوسرا سوجائے اور پہلا کام کرنے لگے گویا باری باری وہ کام کرتے رہیں اسی طرح کام بھی ہوجاتا ہے اور تھکان بھی محسوس نہیں ہوتی۔ مگر جب تک یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ ہم نے کام ختم کرنا ہے وقت نہیں دیکھنا اس وقت تک کاموں میں تعویق ہوتی چلی جائے گی۔ یہی وجہ ہے جو کام چوبیس گھنٹے میں ہوسکتاہے ہمارے آدمی اس پر ہفتہ ہفتہ لگادیتے ہیں اور پھر بھی بعض دفعہ احسن صورت میں نہیں ہوتا۔
پس میں اس مر کو اس لئے خطبہ میں بیان کردیتا ہوں کہ ایک طرف جماعت کو میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس معاملہ میں اس کے تعاون کی ضرورت ہے۔ جو بچے گھروں پہ رہتے ہیں ان کے متعلق والدین کا فرض ہے کہ وہ انہیں کام پر لگائیں اورمحنت اور مشقت کی انہیں عادت ڈالیں۔ مثل مشہور ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ اگر نوجوانوںکا ایک حصہ ایسا ہو جو سست کاہل اور غافل ہو تو انہیں دیکھ کر دسرے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ پس انہیں جفاکش اور محنتی بنائو اور اگر بیماریاں ان کی سستی کاباعث ہیں توان کا علاج کرو لیکن اگر بیماری کوئی نہ ہو اور انسان پھر بھی کاہل اور غافل ہو اور کام سے جی چرانے لگے تو ایسا انسان اپنے ملک کیلئے عار اور مذہب کیلئے ننگ کاموجب ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی میں صدر انجمن کے دوسرے کارکنوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ اس معاملہ میں تعہّد سے کام لیں اور محنت سے کام کرنے کی عادت ڈالیں۔ ممکن ہے میری غلطی ہو لیکن میرا اندازہ ہے کہ ہم میں سے سب سے زیادہ محنت سے کام کرنے والے لوگ بھی اپنی طاقت سے تیسرا حصہ کام کرتے ہیں اور جب اپنے میں سے سب سے زیادہ محنتی لوگوں کے متعلق میں یہ سمجھتا ہوں تو دوسرے لوگ سمجھتے ہیں ان کے کام کی ان کی طاقت کے مقابلہ میں کیا نسبت ہوگی۔ بہرحال میرا یہ اندازہ ہے کہ ہم میں سے محنتی شخص بھی اپنی طاقت سے تیسرا حصہ کام کرتا ہے۔ کچھ تو اس طرح کہ وہ ہوشیاری سے کام نہیں لیتا اور آدھ گھنٹے کا کام گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ میں کرتا ہے اور کچھ اس طرح کہ جتنا وقت کام کیلئے دینا چاہئے اتنا وقت وہ نہیں دیتا اور اگر کارکن وقت بھی زیادہ دیں اور چُستی سے بھی کام لیں تو میں سمجھتا ہوں موجودہ نسبت سے وہ تین گنے زیادہ کام کرسکتے ہیں۔ اب خیال کرو اس وقت جتنے سلسلہ کے کارکن ہیں اگر وہ اس تعداد سے تین گنے زیادہ ہوجائیں تو کتنا کام ہونے لگے۔ لیکن اگر ہمارے موجودہ کارکن ہی اپنے دل میں زیادہ کام کرنے کا پختہ ارادہ کرلیں اور اس کے مطابق عمل کریں تو وہی صورت اب بھی پیدا ہوسکتی ہے اور دنیا کو بہت زیادہ کام دکھاسکتے ہیں۔ کتنی ہی تبلیغ بڑھ سکتی ہے، کتنی ہی تصنیف بڑھ سکتی ہے اور کتنی ہی تربیت بڑھ سکتی ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ تو کدح چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انسان اتنی محنت کرے اتنی محنت کرے کہ اس کے جسم میں ہزال ۵؎پیداہوجائے۔ یہ مت خیال کرو کہ جس قوم کے افراد میں ہزال آجائے گا وہ تباہ ہو جائے گی۔ یہ یورپین لوگوں کاخیال ہے جس کی اسلام تائید نہیں کرتا۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ جس ہزال کے ساتھ اخلاص ہو وہ ہزال انسانی حوصلہ کو بڑھادیتا ہے او راسے کمزور نہیں رہنے دیتا۔ جب خلافت کا جھگڑا ہؤا اُس وقت ہمارے ایک دوست جو ایم۔ اے ہیں اوربنگال کے رہنے والے ہیں خواجہ کمال الدین صاحب کے بہت مداح تھے وہ خلافت کے منکر نہیں تھے مگر کہتے تھے کہ خلافت کے اہل خواجہ صاحب ہیں میں نہیں۔ مجھ سے چونکہ وہ ذاتی طور پر واقف تھے اور جانتے تھے کہ میری صحت ہمیشہ کمزور رہتی ہے لیکن ان کا یہ خیال تھا کہ ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف انہوں نے توجہ کی تو الہام ہؤا ’’بادشاہی را نشاید پیلتن‘‘ کہ بادشاہی کیلئے ہاتھی جیسا جسم نہیں چاہئے۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے میری بیعت کرلی اور بھی الہام انہیں ہوئے تھے مگر ایک الہام یہ تھا۔ تو ہزال جس کے ساتھ ایمان ہو وہ انسان کو خراب نہیں کرتا ایسا انسان کشتی میں بے شک ہار سکتا ہے مگر اپنے فن میں نہیں ہارتا۔ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بڑے بیٹے تھے ا ور اپنے تقویٰ و طہارت اور خدمت دین کی وجہ سے بہت مشہور ہیں دبلے پتلے تھے مگر لڑائی کے کامیاب جرنیلوں میں سے ایک جرنیل سمجھے جاتے تھے۔ ایک دفعہ کفار کے ایک مشہور جرنیل سے ان کا مقابلہ ہوگیا وہ آدمی تھا ذہین اُس نے سوچا میں تلوار میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکوں گا یہ دبلا پتلا اور پھرتیلے جسم کا آدمی ہے تلوار کے وار میں کامیاب ہوجائے گا اس لئے اس نے دائو کھیل کر ان کی کمر پر ہاتھ ڈال دیا اور جس طرح تنکا اُٹھایا جاتا ہے اسی طرح اُس نے اُنہیں اٹھا کر زمین پرپھینکا اور ان کے سینہ پر بیٹھ کرتلوار اٹھائی کہ ان کی گردن کاٹ دے۔ اتنے میں پیچھے سے ایک شخص نے جو اسلام سے مرتد ہوکر عیسائیوں میں شامل ہوچکا تھا تلوار سے اس کافر کی گردن اُڑادی اور اس کا سر کاٹ کر مسلمانوں کے لشکرمیں لے آیا۔ اسلامی لشکر یہ دیکھ کرحیران رہ گیااور لوگوں نے کہا تُو تو مرتد تھا تُو نے اپنے جرنیل کو کس طرح ماردیا؟ وہ کہنے لگا ارتداد کے بعد ہمیشہ میرے دل میں ندامت پیدا ہوتی اور میں اپنی حالت پر افسوس کرتا لیکن ساتھ ہی میں کہتا مجھ سے اتنا بڑا قصور ہوا ہے اب میری توبہ کہاں قبول ہوسکتی ہے یہاں تک کہ یہ دن آیاا ور آج جب عبدالرحمن بن ابی بکر کو اُس نے گرایا اور تلوار سے گردن کاٹنے لگا تو مجھے چونکہ اُن کی نیکی اور تقویٰ کا حال معلوم تھا میرے دل میں یکدم جوش آیا کہ کمبخت آج اگر تُونے دین کی خدمت نہ کی تو اور کونسا دن ہوگا جب تُو دین کی خدمت کرے گا دیکھ! اسلام کاایک درخشندہ ستارہ غائب ہونے لگا ہے تُوکیوں آگے نہیں بڑھتا۔ یہ خیال جونہی میرے دل میں آیا میں نے جھٹ تلوار نکال کر اس کافر کی گردن اڑادی اور ساتھ ہی خیال آیا کہ اب میری توبہ بھی قبول ہوجائے گی۔ تو حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر جسمانی طور پر ہزال رکھتے تھے مگر اپنے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے ایک کامیاب جرنیل سمجھتے جاتے تھے۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور جرنیل تھے مگر دُبلے پتلے اور چھوٹے قد کے آدمی تھی۔ چنانچہ ایک ضرب المثل ہے کہ کُلُّ قَصِیْرٍ فِتْنَۃٌ اِلاَّ عَلِیٌّ ۔ ہر چھوٹا قد رکھنے والا انسان فتنہ ہوتا ہے۔ یعنی بڑا متفنّی ہوتا ہے مگر حضرت علیؓ باوجود چھوٹا قد رکھنے کے ایسے نہیں تھے۔ اور حضرت عمرؓ کے متعلق کہتے ہیں کہ کُلُّ طَوِیْلِ اَحْمَقٌ اِلاَّ عُمَرُ ہر لمبا انسان احمق ہوتاہے مگر حضرت عمرؓ باوجود لمبا ہونے کے ایسے نہ تھے۔ یہ تو ایک مثال ہے او رعام طور پر ایسا ہو بھی جاتا ہے کیونکہ بعض قدوں کے ساتھ بعض باتیں وابستہ ہوتی ہیں لیکن اس سے یہ ضرور معلوم ہوجاتاہے کہ حضرت علیؓ جو ایک مشہور جرنیل تھے دبلے پتلے اور چھوٹے قد کے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ تم اپنے جسموں کی حفاظت کرکے اور بنائو سنگھار کرکے خداتعالیٰ کو حاصل نہیں کرسکتے بلکہ جب محنتیں او رمشقتیں تمہارے جسم کے اندر داخل ہوکر تمہیں گھائل کردیں اور تم میں ہزال نظر آنے لگے اس وقت تم خداتعالیٰ کے حضور پہنچو گے اور تمہارے دائیں ہاتھ میں تمہارے اعمال کاکاغذ دیاجائے گا اور کہا جائے گا اب تمہیں محنتوں کا ثمر ملنے والا ہے جائو بہشت میں داخل ہوجائو۔مگر یہ نہیں کہ بہشت میں آرام مل جائے گا بلکہ بہشت میں بھی کام کرنا پڑے گا۔ آرام کا لفظ اس جگہ ان معنوں کے لحاظ سے میں نے استعمال کیا ہے جو عام طور پر اس کے لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی کام نہ ہو اورہاتھ پر ہاتھ دھر کرانسان بیٹھا رہے اس قسم کا آرام بہشت میں بھی نہیں۔ چنانچہ قرآن کریم سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ بہشت کام کی جگہ ہے اور جولوگ یہ سمجھتے ہیںکہ بہشت میں نکمّا بیٹھا رہنا ہوگا وہ غلط سمجھتے ہیں۔ غرض انسان کیلئے آرام اور حقیقی راحت کام میں ہی ہوتی ہے نکمّے پن میں نہیں ہوتی او رمیں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو محنت اور مشقّت سے کام کرنے کی عادت ڈالیں ورنہ میرے ساتھ ان کا گذارہ نہیں ہوسکتا۔ میں نے ایک عرصہ تک سلسلہ کے دفاتر میں دخل نہیں دیا اور جب میرے پاس لوگ شکایات لاتے تو میں انہیں کہتا کہ متعلقہ دفاتر میں جائو۔ اس سے میری غرض یہ تھی کہ جماعت کو سلسلہ کے نظام کی پابندی کی عادت ڈالی جائے اور میں سمجھتا ہوں نہایت نیک نیتی سے میں نے ایسا کیا اور اب بھی سمجھتاہوں کہ میں نے جوکچھ کیاوہی صحیح طریق عمل تھا لیکن میں سمجھتا ہوں اب وقت آگیا ہے کہ میں کارکنوں کی سستی اور غفلت دور کرنے کیلئے ان کے کاموں میں دخل دوں۔ خصوصاً تحریک جدید کے کارکنوں کو یہ امر مدنظررکھناچاہئے کہ میں ان کے متعلق ہرگز کسی قسم کالحاظ کرنے کیلئے تیار نہیں۔ میرے لئے یہ بہتر ہے کہ ایک کو جواب دے دوں بجائے اس کے کہ اس کی سستی اور غفلت کا سَو یا دو سَو لوگوں پر اثر پڑے۔ اسی طرح اگر ایک مبلغ محنت سے کام نہیں لیتا تو وہ ہزاروںجاہلوں کو ہلاک کرنے کا موجب بنتا ہے۔ پس بہتر ہے کہ اس کو الگ کردیا جائے بجائے اس کے کہ ہزاروں جانوں کی ہلاکت برداشت کی جائے۔ اسی طرح اگر ایک مدرس طالب علموں کا فکر نہیں کرتا، ایک افسر اپنے ماتحتوں کی نگرانی نہیں کرتا تو یہ زیادہ بہتر ہے کہ اس کو الگ کردیا جائے اور وہ ہزاروں جانیں جو اس کی وجہ سے نقصان اٹھارہی ہیں انہیں بچالیا جائے۔ لیکن اگر میری یہ کوشش محدود ہو تحریک جدید کے کارکنوں تک یا محدود ہو سلسلہ کے افسروں او رکارکنوں تک یا قادیان کے لوگوں تک تو بھی اس کا کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا کیونکہ وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ پس زیادہ تر میرے مخاطب جماعت کے وہ لوگ ہیں جوباہر رہتے ہیں اور جواپنے گھروں پر اپنے بچوں کو رکھتے ہیں۔ ایسے بچے بہت بڑی تعداد میں ہیں اور میں اپنی جماعت سے امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو محنت سے کام کرنے کی عادت ڈالے گی یہاں تک کہ ان کاکوئی منٹ ایسا نہ ہو جو فارغ ہو اور جسے وہ فضول ضائع کرسکیں۔ یاد رکھو جس قوم کو ذلّت اور رسوائی پہنچ رہی ہو اس قوم کے موٹے جسم اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتے، جس جسم پر جوتے پڑ رہے ہوں اس جسم کی موٹائی اسے کیا فائدہ دے سکتی ہے۔ پس ایک ذلیل اور رسواشدہ قوم کے گوشت کوئی قابل قدر گوشت نہیں ہوتے۔ کتّے کی بوٹیاں بھی کوئی بوٹیاں ہوتی ہیں ہاں دُبلے پتلے دُنبے کا گوشت موٹے کُتے کے گوشت سے زیادہ قیمت رکھتا ہے۔ پس تم اپنی اولادوں کو اگر کتّوں جیسا بنائو گے تو ان کی بوٹیاں سوائے اس کے کسی کام نہیں آئیں گی کہ چیلیں اور کوّے انہیں کھا جائیں لیکن اگر اخلاق سکھا کر تم انہیں دُنبے جیسا قیمتی وجود بنائو گے تو وہ دُبلے پتلے ہونے کے باوجود بھی روحانی اور اخلاقی دنیا میں زیادہ قیمت پائیں گے۔
مجھے افسوس ہے ایک عرصہ سے عورتوں کاجمعہ کیلئے آنا رُک چکا ہے۔ جس وقت انہیں روکا گیا اُس وقت تو مصلحت تھی مگر اب وہ مصلحت ختم ہوچکی ہے۔ میرے کئی خطبات ایسے ہوتے ہیں جنہیں اگر عورتیں بھی سنیں تو ان کا زیادہ شاندار نتیجہ نکل سکتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں آئندہ عورتوں کیلئے بھی خطبہ سننے کا انتظام کردیا جائے گا۔دراصل بچوں کو سست بنانے میں عورتوں کا بہت حد تک دخل ہوتا ہے اگر اس قسم کے خطبات وہ سنیں تو گو عورتیں تعلیم میں بہت پیچھے ہیں مگر اخلاص سے کام لے کر وہ بہت سے نقائص کا ازالہ کرسکتی ہیں۔ قادیان کی ایک عورت تھوڑے ہی دن ہوئے میرے پاس آئی اور کہنے لگی میں کہتی ہوں میں اپنے بچہ کو مبلّغ بنائو ں گی اور میرا خاوند کہتا ہے کہ اُسے دنیا کاکوئی پیشہ سکھانا ہے آپ اس کا فیصلہ کریں میں نے کہا یہ تمہارا خانگی جھگڑا ہے اس میں مَیں دخل نہیں دے سکتا لیکن ایک بات میں تمہیں بتادیتا ہوں اور وہ یہ کہ تمہارا اثر تمہارے بچے پرزیادہ ہے تم اپنی باتیں اُس کے کانوں میں ڈالتی رہو اور ہمت نہ ہارو۔ تم دیکھو گی کہ اس کے نتیجہ میں ایک دن تمہارے خاوند کی باتیں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور تمہارا بچہ مبلّغ بن جائے گا کیونکہ بچے پر ماں کا اثر باپ سے زیادہ ہوتا ہے اور تمہارا ارادہ تو نیک ہے اس کا اثر کیوںنہ ہوگا۔ تو اگر عورتوں کیلئے خطبہ سننے کا انتظام کردیا جائے تو اس کا بھی بہت کچھ فائدہ ہوسکتاہے لیکن بہرحال جب تک عورتیں خطبہ نہیں سنتیں مردوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری کوسمجھیں اور نہ صرف اپنی اولادوں کو بلکہ اپنے بھائیوں کی اولادوں اور اپنے ہمسائیوں کے بچے کو بھی محنتی او رجفاکش بنانے کی کوشش کریں اور یاد رکھیں کہ خداتعالیٰ کا وصال کدح کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ جب انسان کدح کرتا ہے تو نفس دُبلا ہونا اور روح موٹی ہونی شروع ہوجاتی ہے لیکن کدح کے بغیر نفس موٹا ہوجاتا اور روح دُبلی ہوجاتی ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور ہر قِسم کی سُستیاں، عجز اورکسل اس سے دور فرمادے اور اپنے فضل سے اسے محنت، مشقت اور جفاکشی سے کام کرنے کی عادت ڈالے اور اس کدح کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہمارا ربّ ہمیں مل سکتا ہے۔(الفضل ۳۰؍ اپریل ۱۹۳۶ئ)
؎۱ الانشقاق: ۷ تا ۱۶
؎۲ ستیہ گرہ: حکومت کے خلاف پُرامن تحریک
؎۳ الکہف: ۱۰۵ ؎۴ النّٰزعٰت: ۲
؎۵ ہُزال : دُبلا ہونا۔ لاغری۔ دُبلا پن (لغت فارسی)

۱۵
اگر چالیس مؤمن بھی متوکل اور وفادار ہوں
تو وہ ساری دنیا فتح کرسکتے ہیں
(فرمودہ یکم مئی ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
انسانی اخلاق میں بعض باتیں ایسی پائی جاتی ہیں جوقلوب پر اثر کرنے کے لحاظ سے دوسرے اخلاق سے زیادہ مؤثر اور زیادہ حرکت پیداکرنے والی ہوتی ہیں۔ گو عام حالات میں یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ ہر شخص بعض خاص قسم کی باتوں سے متاثرہوتا ہے، کئی آدمی سچائی کی بات سن کر زیادہ متاثر ہوتے ہیں، کئی آدمی دیانت کا واقعہ سن کر زیادہ اثر قبول کرتے ہیں، کئی ایسے ہوتے ہیں کہ جو انصاف کی واردات سنتے ہیں تو قلب میں زیادہ تاثیر پیداہوجاتی ہے، پھر کئی ایسے ہوتے ہیں کہ بہادری کے واقعہ میں زیادہ متاثر ہوتے ہیں، کچھ وفاداری کے واقعات سے زیادہ اثر قبول کرتے ہیں، کچھ لوگ وسعت حوصلہ اور کچھ نرمی سے متاثر ہوتے ہیں۔ غرضیکہ انسانی طبائع مختلف ہیں اور وہ اپنے اپنے رجحان اور اپنے اپنے ادراک کے مطابق واقعات سے اثر قبول کرتی ہیں۔ زلزلہ کے ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کچھ دنوں کیلئے باغ میں رہائش اختیار کرلی تھی چونکہ الہاموں سے اَور زلزلوں کا پتہ چلتا تھا اس لئے آپ کا خیال تھا کہ ایسا نہ ہو وہ قریب میں آنے والے ہوں۔ ان ایام کی بات ہے کہ ایک جگہ پر مختلف جھونپڑیاں بنائی گئی تھیں۔ جن میں مختلف دوست رہتے تھے۔ ایک جھونپڑی میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم رہتے تھے اور ان کے ساتھ والی جھونپڑی میں ایک اور دوست رہتے تھے۔ مولوی صاحب کی طبیعت میں سخت تیزی تھی اور اس دوست کی طبیعت میں بہت نرمی تھی وہ شہر میں بھی مولوی صاحب کے پڑوس میں ہی رہا کرتے تھے مگر وہاں جھونپڑیاں بہت ہی پاس پاس ہوگئیں۔ اس دوست کے بچوں کو رونے کی بہت عادت تھی ادھر مولوی صاحب کی طبیعت بہت نازک تھی وہاں بہت زیادہ قریب رہنے کی وجہ سے بچوں کا شور سنتے سنتے مولوی صاحب سخت تنگ آگئے ۔ ایک دن آپ نے اس دوست کو بلایا اور کہا کہ مجھے آپ پر سخت تعجب آتا ہے اور میں حیران ہوں کہ آپ کس طرح کے آدمی ہیں میں نے گھر پر بھی دیکھا ہے کہ آپ کے ہاں سے شور اور اودھم مچانے کی آوازیں برابر آتی رہتی ہیں مگر وہاں تو کچھ فاصلہ تھا اور اب تو جھونپڑیاں زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے میں بالکل برداشت نہیںکرسکتا اور میرا دل چاہتاہے کہ میں باہر آکر ان بچوں کو خوب ماروں اور آپ پر مجھے سخت تعجب ہے کہ آپ پاس رہتے ہیں اور ان کوکچھ نہیں کہتے۔ یہ سن کر اس دوست نے کہا کہ مولوی صاحب مجھے بھی آپ پر سخت تعجب ہے کہ وہ میرے پاس شور کرتے ہیں اورمیں سمجھتا ہوں یہ نادان ہیں بچوں کا کام ہی شور کرنا ہوتا ہے باوجود اس قدر قریب ہونے کے مجھے کوئی غصہ اور جوش نہیں آتا اور میں حیران ہوں کہ آپ کو اس قدر دور بیٹھے ہوئے کیوں اس قدر جوش آتا ہے۔ گویا مختلف طبائع نے ایک ہی واقعہ سے الگ الگ اثر قبول کیا۔ ایک نے یہ اثر قبول کیا کہ ان بچوں کو سزا دینی چاہئے اور ایک نے یہ کہ بچوں کا یہی کام ہے یہ نادان ہیں اور ان کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنی چاہئے یہ اثر اتنا نمایاں تھاکہ ہر ایک کو دوسرے پر تعجب آتا تھا۔ مولوی صاحب اس بات پر حیران تھے کہ وہ دوست اس قدر شور کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں اور وہ ان پر حیران تھے کہ ان کویہ خیال کیسے پیدا ہوا کہ بچوں کو سزا دینی چاہئے۔ پس لوگ عام طور پر خاص خاص جذبات سے خاص خاص اثر قبول کرتے ہیں بلکہ بعض دفعہ تو ایک ہی واقعہ سے مختلف اثر قبول کرتے ہیں اور یہ تفاوت مختلف حالات میں گھٹتا اور بڑھتا جاتا ہے۔ مگر باوجود اس کے اس میں شبہ نہیںکہ بعض اخلاق دنیا پر گہرا اثر ڈالتے ہیں اور لوگوں کو خاص طور پر اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں اور ایسے اخلاق میں سے بہادری اور وفاداری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ دنیا کا اکثر حصہ ان دو اخلاق سے نہایت ہی متأثر ہوتا ہے اور انسان جب اس قسم کے واقعات سنتا ہے تو یوںمعلوم ہوتا ہے کہ گویا اس کے قلب میں بھی ویسے ہی خیالات پیدا ہورہے ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ میں بھی اسی طرح کی بہادری اور جرأت دکھائوں۔ یہ دونوں اخلاق اس قسم کے ہیں کہ دوسروں سے زیادہ اثر پیدا کرتے ہیں اس میں بھی خاص وجہ ہے مگر میں اس وقت یہ بحث کرنے کیلئے کھڑا نہیںہوا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس وقت میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ اخلاق ضرور زیادہ اثر ڈالتے ہیں اور طبائع جب ایسے واقعات دیکھیں تو ضرور متاثر ہوتی ہیں خواہ وہ دشمن سے ہی کیوں نہ سرزد ہوں۔ ایک دشمن بھی اگر بہادری دکھاتا ہے تو دوسرا دشمن اس سے ضرور متاثر ہوتا ہے ایک دشمن بھی اگر وفاداری کا نمونہ پیش کرتا ہے تو دوسرا اُس سے ضرور اثر پذیر ہوتا ہے اور اگر دوست بھی بزدلی دکھاتا ہے یا کسی غیر سے بھی بے وفائی کا اظہار کرتا ہے تو باوجود دوست ہونے کے اس کا یہ فعل دوسرے دوست کے دل پر گراں گزرتاہے۔ پس یہ دو اخلاق جو نہایت گہرے طور پر انسانی فطرت پر مؤثر ہوتے ہیں ان کی اہمیت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا اور اصل بات تو یہ ہے کہ ایمان سے ان کا بہت گہرا تعلق ہے ۔ کوئی شخص بغیر بہادری کے متوکل نہیں ہوسکتا اورکوئی بغیروفاداری کے کامل الایمان نہیں ہوسکتا۔ متوکل کے معنی یہ ہیں کہ وہ خدا پر بھروسہ رکھتا اور دنیا کی کسی چیز کو حقیقی قرار نہیں دیتا اور بزدلی کے یہ معنی ہیں کہ وہ کسی چیز کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔ پس توکّل او ربہادری اور ایمان وفاداری قریباً مترادف الفاظ ہیں بیوفا شخص ایماندار نہیں ہوسکتا اور بزدل متوکل نہیں ہوسکتا۔ کوئی شخص جتنا جتنا زیادہ توکل میں کمال حاصل کرتا چلا جائے اتنا ہی زیادہ بہادر ہوتا جائے گا اور جتنا کسی کے اندر ایمان بڑھتا جائے وہ اتنا ہی وفادار ہوتا جائے گا۔ درحقیقت توکل نام ہے مذہبی بہادری کا اور ایمان نام ہے مذہبی وفاداری کا۔ جب مذہب اور وفاداری جمع ہوجائیں تو اسے ایمان کہتے ہیں اور جب مذہب اور بہادری جمع ہوجائیں تو اسے توکّل کہتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کی زندگیوں میں یہ دونوں باتیں نہایت نمایاں ہیں اور ان سے پہلے انبیاء کی زندگیوں میں بھی جن کی تاریخ کسی حد تک محفوظ ہے یہ دونوں باتیں نمایاں نظر آتی ہیں۔ ایمان کے ساتھ ساتھ وفاداری اور بہادری بھی ترقی کرتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ وفاداری اور بہادری کے ایسے اعلیٰ معیار پر پہنچ چکے تھے کہ اس سے اوپرکوئی معیار نظر نہیں آتا۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس سے اوپر کوئی معیار ہے نہیں لیکن ہماری کمزور نظر اس سے اوپر دیکھ نہیں سکتی ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب بچے تھے اور یتیم بچے ان کا چچا ان کو پال رہا تھا ان کو جس وقت ساری قوم نے شرک کیلئے مجبور کیا جسے ان کی فطرت قبول کرنے کیلئے تیار نہ تھی ان کے چچا اور چچازاد بھائیوں نے ان کو مشورہ دیا کہ ہم پروہت ؎۱ ہیں اور ہمارا گزارا ہی اس پر ہے اگر آپ نے بتوں کی پرستش نہ کی تو ہمارا رزق بندہوجائے گا۔ اُس وقت اس نہایت ہی چھوٹی عمر کے بچے نے دلیری سے یہ جواب دیا کہ جن بتوں کو انسان اپنے ہاتھ سے گھڑتا ہے ان کو میں ہرگز سجدہ نہیں کرسکتا۔اس جواب کا اندازہ ہر شخص نہیں کرسکتا صرف وہی کرسکتا ہے جسے قربانی کرنے کاموقع ملاہو۔
آج جبکہ ایک منظم حکومت ہندوستان میں موجود ہے اور میں یہ تونہیں کہہ سکتا کہ ظلم ہوتا نہیں کیونکہ ہمیںخود ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن اکثر حکام انصاف کی کوشش ضرور کرتے ہیں ایک قانون موجود ہے جو چاہتا ہے کہ انصاف ہو گو ظالم اپنے ظلم کیلئے اس میں سے رستے نکال لیتے ہیں لیکن پھر بھی ظلم حد کے اندر رہتا ہے اس پُر امن زمانہ میں بھی میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگوں پرجب صداقت کھل جاتی ہے تو وہ مجھے لکھتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان یا احمدی ہوجائیں تو ہمارے گزارہ کی کیا صورت ہوگی؟ ہمارے ساتھ ہمدردی کی کیا صورت ہوگی؟ آج جب احمدیت کو قبول کرنے میں کوئی خاص تکالیف نہیںسوائے معمولی تکالیف کے اچھے اچھے تعلیم یافتہ، بڑی عمر کے اور بیوی بچوں والے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہمدردی کی کیا صورت ہوگی؟ گزارہ کا کیا انتظام ہوگا؟ لیکن حضرت ابراہیم جویتیم ہونے کی وجہ سے پہلے پہلے ہی شکستہ دل تھے اور جن کا پہلے ہی کوئی ٹھکانہ نہ تھا اپنے چچا کے ہاں اور اس کی مہربانی سے پرورش پارہے تھے وہ اپنے دل سے یہ سوال نہیں کرتے کہ اب گزارہ کی کیا صورت ہوگی بلکہ بِلا سوچے بہادرانہ طور پر یہ جواب دیتے ہیں کہ جن بتوں کو انسان خود گھڑتے ہیں اُن کو میں سجدہ نہیں کرسکتا۔
بعینہٖ اسی قسم کا واقعہ رسول کریم ﷺ کو پیش آیا جب ایک لمبے عرصہ تک آ پ نے شرک کے خلاف تعلیم دی اور ایک لمبی کوشش کے بعد اہلِ مکہ آپ کو اور آپ کے صحابہ کو دوبارہ اپنے دین میں شامل کرلینے سے مایوس ہوگئے تو مکہ کے رئوساء آپ کے چچا ابوطالب کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کی خاطر ہم اب تک آپ کے بھتیجے سے نرمی کرتے رہے ہیں مگر ہمارے سایہ کے نیچے رہتے ہوئے اس نوجوان نے ہمارے معبودوں کو بہت بُری طرح ذلیل کیاہے ہم اس پر سختی کرسکتے تھے مگر ہمیں آپ کالحاظ تھا اس لئے اس سے وہ سلوک نہ کیا جس کا وہ مستحق تھا مگر اب یہ بات ہمارے لئے ناقابلِ برداشت ہوگئی ہے اور ہم یہ آخری پیغام لے کر آپ کے پاس آئے ہیں کہ آپ اسے سمجھائیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ اپنی تعلیم پیش نہ کرے بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے معبودوں پر سختی سے حملہ نہ کرے اور تبلیغ میں نرمی کا پہلو رکھے اور اگر وہ آپ کے کہنے سے اتنا بھی کرنے کیلئے تیار نہ ہو تو آپ اس سے قطع تعلق کرلیں اور ہم پر اس کا معاملہ چھوڑ دیں اگر آپ اس کیلئے تیار نہیں ہیں تو گو ہمارے دلوں میں آپ کا ادب بہت ہے اور آپ کے خاندان کو فضیلت حاصل ہے لیکن اب معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ ہم صبر نہیں کرسکتے اور آپ سے بھی ہمیں مجبوراً قطع تعلق کرنا پڑے گا۔ ابوطالب مؤمن نہ تھے اور ایمان کے بعد جس بہادری سے انسان کاتعلق ہوجاتا ہے اس سے محروم تھے وہ رئیس تھے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ریاست سے ہاتھ دھوبیٹھنے کاخطرہ تھا۔ سارا مکہ اُن کوسلام کرتا تھا اور اب ان کے سامنے جو صورتِ حالات تھی اس کا نتیجہ یہ ہوسکتا تھا کہ کوئی اُن کو منہ بھی نہ لگاتا اور یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس قسم کی عزتوں کیلئے لوگ بڑی بڑی قربانیاں بھی کردیتے ہیں اور ایک ایک سلام کیلئے مرا کرتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل سنایا کرتے تھے کہ جب آپ تعلیم سے فارغ ہوکر نئے نئے بھیرہ میں آئے تو بعض مولویوں نے شور مچانا شروع کردیا کہ یہ وہابی ہیں اور بعض نے آپ کے خلاف کفر کے فتوے کی تحریک شروع کی۔ اُس وقت اس علاقہ میں ایک معزز پیر صاحب تھے جن کابھیرہ اور نواح میں بہت اثر تھا اور فتویٰ کفر شائع کرانے والے ان کے پاس بھی گئے کہ دستخط کردیں۔ باقی مولویوں سے تو حضرت خلیفہ اوّل کے دوست نہ ڈرتے تھے مگر ان پیر صاحب کے متعلق انہیں ضرور خیال تھا کہ اگر یہ بھی مولویوں کے ساتھ مل گئے تو فساد بڑھ جائے گا اس لئے آ پ کے دوستوں میں سے ایک زیرک دوست پیر صاحب کے پاس پہنچے اور کہا کہ سنا ہے مولوی لوگ آپ سے فتویٰ لینے آئے تھے۔ پیرصاحب نے کہا ہاں آئے تھے اور جو باتیں وہ کہتے ہیں ٹھیک ہیں اورمیرا ارادہ ہے کہ فتویٰ دے دوں۔ اس پر اس دوست نے کہا کہ آپ تو پیر ہیں اور سب نے آپ کو سلام کرنا ہے نوردین خواہ کچھ ہو آپ کوسلام تو ضرور کرتا ہے اور اگر آپ نے فتویٰ دے دیا تو وہ اور ان کے دوست آئندہ آپ کو سلام نہیں کریں گے۔اس پر پیر صاحب گھبراگئے اور کہا کہ بھلا ہم پیروں کا فتووں سے کیا تعلق ہے آپ مولوی صاحب سے کہہ دیں کہ سلام نہ چھوڑیں۔ اس دوست نے آکرحضرت خلیفہ اوّل سے کہا کہ میں اس طرح کر آیا ہوں اور اب پیر صاحب چاہیں گے کہ آپ اُن کو سلام کریں۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا کیا حرج ہے کردیں گے۔ چنانچہ وہ دوست پھر پیر صاحب کے پاس گئے اور پیر صاحب سے کہا کہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ پیر صاحب بڑے آدمی ہیں ہم ان کو سلام کیوں نہ کریں گے۔ اس پر پیر صاحب بہت خوش ہوئے اورکہنے لگے کہ اچھا ہم فلاںروز اس طرف سے گزریں گے مولوی صاحب سے کہنا کہ ضرور سلام کریں۔ چنانچہ پیر صاحب حضرت مولوی صاحب کے مطب کے سامنے سے گزرے اور حضرت مولوی صاحب نے اپنے دوستوں سمیت باہر نکل کر اُن کو سلام کیا۔ پیر صاحب نے گھوڑا کھڑا کرلیا اور حضرت مولوی صاحب سے باتیں کرنے لگے کہ دیکھو! ہمارے پاس مولوی لوگ فتوے کیلئے آئے تھے مگر ہم نے انکار کردیا کہ ہم کو ان باتوں سے کیا تعلق ہے ہمیں سب نے سلام کرنا ہوتا ہے۔ یہ واقعہ شہر میں پھیل گیا اور پیر صاحب کے مرید اس تحریک سے الگ ہوگئے اور مخالفت کا زور ٹوٹ گیا۔ غرض ابوطالب کیلئے یہ بڑا امتحان تھا وہ سارے شہر میں مکرم سمجھے جاتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب اُن کی عزت جاتی رہے گی انہوں نے رسول کریم ﷺکو بلوا یا او رکہا کہ اے میرے بھتیجے! میں سمجھتا ہوں کہ تُو جو کرتا ہے سچ سمجھ کر کرتا ہے اور میں نے بھی ہمیشہ تیری مدد کی ہے اور تجھے دشمنوں سے بچایا ہے مگر اب میری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں اور کہا ہے کہ یا تو اپنے بھتیجے سے کہو کہ تبلیغ میں نرمی کرے اور یا پھر اس سے قطع تعلق کرلو اور اگر میںایسا نہ کروں تو قوم میرے ساتھ قطع تعلق کرلے گی اور تُو جانتا ہے کہ قوم کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے اب تُو بتا تیری کیا رائے ہے؟ رسول کریم ﷺ نے جس وقت یہ بات سنی آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ نے فرمایا اے میرے چچا! میرے دل میں آپ کا بڑا ادب ہے مگر سچائی کے مقابلہ میں مَیں آپ کی بات ماننے کو تیار نہیں ہوں اگر دشمن میری دائیں طرف سورج اور بائیں طرف چاند لاکر کھڑا کردیں تو بھی میں تبلیغ میں نرمی نہیں کروں گا اور توحید کی اشاعت سے باز نہیں رہوں گا ؎۲ ۔ میں آپ کیلئے ہر قربانی کرنے کو تیار ہوں لیکن یہ بات آپ کی نہیں مان سکتا آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں اور اپنی قوم سے صلح کرلیں میرے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے۔ اس پر باوجود اِس کے کہ ابوطالب کیلئے قوم کا چھوڑنا مشکل تھا اِس دلیرانہ جواب کو سُن کر ان پر یہ اثر ہؤا کہ انہوں نے کہا کہ اگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو بے شک چھوڑ دے میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔
ابوطالب کے اس جواب کی اہمیت کا پورا اندازہ وہ لوگ نہیں کرسکتے جو تاریخ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ایک اور واقعہ کو نہیں جانتے جس سے ابوطالب کی قلبی کیفیت کا پتہ چلتا اور یہ معلوم ہوتا کہ انہیں اپنی قوم سے کتنی محبت تھی۔ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو چونکہ رسول کریم ﷺ کو اُن سے بہت ہی محبت تھی اُن کی قربانیوں اور حُسنِ سلوک کی وجہ سے ، اس لئے آپ کو سخت دُکھ تھا کہ آپ مسلمان ہوئے بغیر مررہے ہیں۔ آپ کبھی ان کے دائیں جاتے او رکبھی بائیں اور کہتے کہ اے چچا! اب موت کا وقت قریب ہے لااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہہ دیجئے مگر ابوطالب خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ آخر رسول کریم ﷺ نے بہت اصرار کیا آپ پر رقت طاری تھی اور آپ بار بار کہتے تھے کہ اے چچا! ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیں تاکہ میں خدا کے حضور کہہ سکو کہ آپ نے اسلام قبول کرلیا تھا لیکن ابوطالب نے آخر میں یہی جواب دیاکہ میں اپنی قوم کے دین کو نہیں چھوڑ سکتا۔ گویا ان کو اپنی قوم سے اتنی محبت تھی کہ وہ اس کے بغیر جنت میں بھی جانانہ چاہتے تھے۔ اسی قوم سے اس قدر شدید محبت رکھنے والے شخص پر رسول کریم ﷺ کے بہادرانہ جواب کا یہ اثر ہؤاکہ اُس نے کہہ دیا کہ اچھا اگر قوم مجھے چھوڑتی ہے تو چھوڑ دے میں آپ کو نہیں چھوڑوںگا ؎۳ ۔
غرض ایسے واقعات کو دیکھ کر دوست تو کیا دشمن بھی متأثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکتا اور ہر شخص خواہ ا س کے دل میں کتنا عِناد بھی کیوں نہ ہو ان واقعات کو سن کر سرجھکالیتا ہے اور ایسے بہادر کی عظمت کے اقرار پر مجبور ہوجاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ایسے بیسیوں نہیں سینکڑوں واقعات موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ بہادری کے ایسے بلند مقام پرتھے کہ اس سے اوپر خیال بھی نہیں کیاجاسکتا ۔ یہ بہادری کہاںسے پیدا ہوئی؟ یہ توکّل ہی سے تھی۔ دنیادار جسے بہادری کہتے ہیں مذہبی لوگ اسے توکّل کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ فرق صرف یہی ہے کہ بہادری کے لفظ سے یہ معلوم نہیں ہوتا یہ چیز کہاں سے آئی اور توکّل کا لفظ بتادیتاہے کہ اس قسم کی بہادری اعلیٰ مقصد سے پید اہوتی ہے۔ توکّل کے یہی معنی ہیں کہ خدا کے مقابلہ میں انسان ہر چیز کی قربانی کیلئے تیار ہو گویا توکّل کا لفظ بہادری کے اسباب و وجوہ اور اس کامنبع بھی بتادیتا ہے اور بہادری و توکّل میں صرف یہی فرق ہے ورنہ دونوں چیزیں ایک ہی ہیں۔ اسی بہادری کو ہم رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ میں بھی دیکھتے ہیں اور صحابہ میں ہی نہیں بلکہ صحابیات میں بھی ہمیں یہ چیز نظر آتی ہے اور نہ صرف عورتوں بلکہ بچوں میں بھی موجود ہے۔ آج وہ زمانہ آیا ہے کہ لوگ اسلام اور ایمان کیلئے قربانی سے بچنے کیلئے عذر اور بہانے تلاش کرتے ہیں اور وقت آنے پر کہتے ہیں کہ ہمیں یہ دقّت ہے وہ روک ہے لیکن رسول کریم ﷺ کی قوتِ قدسیہ کے ماتحت مسلمانوں میں قربانی کا وہ جذبہ پیدا ہوچکا تھا کہ مرد اور بالغ عورتیں تو الگ رہیں بچے بھی اسی جذبہ سے سرشار نظر آتے تھے یہاں تک کہ بدر کی جنگ کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو بلایا تاکہ ان میں سے ان لوگوں کا انتخاب کریں جو جنگ کے قابل ہوں۔ اُس وقت ایک لڑکے کے متعلق آتا ہے دوسرے صحابہ اور وہ خود بھی بیان کرتا ہے کہ جس وقت وہ لوگ کھڑے ہوئے وہ بھی اس جوش میں کہ اسلام کی خاطر جان قربان کرنے کا موقع ملے اُن میں کھڑا ہوگیا مگر چونکہ قد چھوٹا تھا دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں چھوٹا معلوم ہوتا تھا اس وجہ سے خطرہ تھا کہ شاید منتخب نہ ہوسکے اس لئے وہ اپنی انگلیوں کے بل کھڑا ہوگیا اور ایڑیاں اوپر اُٹھالیں تا قد اونچا معلوم ہو اور چھاتی تان لی تا کمزور نہ سمجھا جائے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ پندرہ سال سے کم عمر کا کوئی لڑکا نہ لیا جائے اور جب آپ انتخاب کرتے ہوئے اس کے پاس پہنچے تو فرمایا کہ یہ بچہ ہے اسے کس نے کھڑا کردیا ہے اسے ہٹادو۔ مگر آج ایسا ہوتا تو شاید ایسا بچہ خوشی سے اُچھلنے لگتا کہ میں بچ گیا لیکن جب اُس بچہ کو الگ کیا گیا تو وہ اتنا رویا اتنا رویا کہ رسول کریم ﷺ کورحم آگیا اور آپ نے فرمایا اچھا اسے لے لیا جائے ؎۴ ۔
پھر اُس زمانہ کی عورتوں کا یہ حال تھا کہ ایک عورت آپ کے پاس آئی اور کہا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!قرآن کریم کس کیلئے ہے؟ آپ نے فرمایا سب انسانوں کیلئے۔ اس نے عرض کیا کیا عورتوں کیلئے بھی؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ اس پر اس نے کہا کہ پھر جہاد کے حکم پر عورتوں کو کیوں عمل کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ مرد جاکر جانیں قربان کرتے ہیں اور عورتیں اس ثواب سے محروم رہتی ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایاکہ مجھے مردوں کو لے جانے کا ہی حکم ہے مگر اُس عورت نے بہت اصرار کیا کہ میں زخمیوں کی مرہم پٹی کروں گی آپ نے فرمایا کہ اسے لے لیا جائے ؎۵ اور حکم دیاکہ جب بھی مالِ غنیمت آئے اس عورت کو بھی مردوں کے مساوی حصہ دیاجایا کرے کیونکہ اس نے انکار کیا کہ یہ اس وقت گھر میں بیٹھی رہے جبکہ مرد اپنی جانیں قربان کررہے ہوں۔ غرضیکہ مرد کیااور عورت کیا سب نے اپنی قربانی سے یہ بات دکھادی کہ ایمان نے ان کے اندر ایسی جرأت پیدا کردی تھی کہ جس کی مثال دوسری قوموں میں نہیں ملتی۔ یہ چیز گو ایمان سے بہت شاندار ہوجاتی ہے مگر غیرمؤمنوں میں بھی اس کا فقدان نہیں ہوتا۔ ایمان اگرچہ اسے صیقل کردیتا ہے مگر غیر دیندار اقوام میں بھی یہ پائی ضرور جاتی ہے۔
گزشتہ ایام میں ترک دین سے بالکل بے بہرہ ہوچکے تھے گو کہلاتے مسلمان تھے اور اب تو دین سے بہت ہی دور چلے گئے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے شریف قو م شریف جذبات سے عاری نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ گزشتہ جنگ عظیم میں ہم قریباً مہینہ بھر یہ خبر پڑھتے رہے کہ ایک جانباز تُرک سپاہی ایک پہاڑی پر کھڑا ہوکر دشمن کو سخت نقصان پہنچاتا ہے اور پھر غائب ہوجاتا ہے پکڑا نہیں جاتا۔ آخر ایک دن وہ پکڑا گیا تومعلوم ہؤاکہ وہ ایک تُرک عورت تھی اور پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ مرد جب لڑنے کیلئے آئے تو میں نے یہ درست نہ سمجھا کہ میں گھر میں بیٹھی رہوں چنانچہ میں اکیلی ہی چلی آئی اور اس پہاڑی پر بیٹھ کر جب بھی مجھے موقع ملتا قوم کا بدلہ لیتی رہی۔ تو یہ بہادری کے جذبات دین سے باہر بھی ملتے ہیں او ربعض اوقات وہ بھی بہت شاندار ہوتے ہیں گو اتنے نہیں جتنے ایمان اور توکل کے ساتھ۔
میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ جب یونان سے ترکوں کی جنگ ہوئی تو یورپین قومیں منصوبہ بازیاں کرتی رہیں۔ ان کا خیال تھا کہ یونانی دروں کے قلعے فتح کرنے آسان نہیں اور جب تک تُرک اُن تک پہنچیں گے وہ اپنے اندر اتحاد پید اکرکے بیچ میں آکُودیں گی اور پھرترکوں کو ذلّت کی صلح پرمجبور کردیں گی۔ تُرک بھی اس بات سے ناواقف نہ تھے۔ اس لئے انہوںنے اپنے جرنیلوں کوحکم دے رکھا تھا کہ جس قدر جلد ممکن ہو دروں کے قلعے فتح کرلئے جائیں۔ ایک پہاڑی قلعہ کو فتح کرنے پرایک ترک جرنیل مامور تھا اور اسے حکم تھا کہ دو یا تین ہفتہ کے اندر اندر اسے فتح کرے۔ اُس نے متواتر حملے کئے مگر ناکام رہا آخر ایک دن اُس نے سپاہیوں کو بُلا کر کہا کہ یہ معمولی لڑائی کا سوال نہیں بلکہ ہماری قوم کی زندگی اور موت کا سوال ہے اس لئے ہمیں اس بات سے بے پروا ہوکر کہ ہم میں سے کون جیتا رہتا او رکون مرتا ہے کل حملہ کرنا چاہئے اور اس نیت سے کرنا چاہئے کہ یا تو سب کے سب مرجائیں گے اور یا کل شام تک قلعہ میں ہوں گے ۔سب نے اِس کا اقرار کیا اور اگلے روز وہ سپاہیوں کو لے کر قلعہ کی طرف بڑھا۔ وہ دیوانہ وار اوپر چڑھتے جارہے تھے جب نصف فاصلہ طے کرچکے تو اس کرنیل کے گولی لگی اور وہیں گِرگیا اس کے ساتھی اسے اُٹھانے کیلئے آگے بڑھے مگر اس نے کہا تم کو خداکی قسم ہے مجھے کوئی مت چھوئے اگر تم قلعہ کو فتح کرسکو تو اس کے اندر مجھے دفن کردینا ورنہ میری لاش کو کُتّوں کے آگے ڈال دینا۔ یہ بات سن کر سپاہی جو اس کی شفقت اور محبت کی وجہ سے اس کے گرویدہ تھے دیوانہ وار آگے بڑھے اور شام سے پہلے پہلے قلعہ کو فتح کرلیا۔ تو یہ جذبات ہر قوم میں اور ہر حالت میں پائے جاتے ہیں حتّٰی کہ بُزدل قوموں میں بھی انفرادی طور پر اس کی مثالیں مل جاتی ہیں اور تباہ شدہ قوموں میں بھی ملتی ہیں۔
جب جنگ بلقان ہوئی تو میں اس کے تفصیلی حالات سے واقف رہنے کیلئے بعض انگریزی اخبار پڑھا کرتا تھا۔ یونان کے ساتھ مختلف قومیں مل کر تُرکوں پر حملہ آور تھیں جب سالونیکا پر حملہ ہؤا تو ترکوں کے بعض غدار افسروں کی وجہ سے ترکوں کوشکست ہوئی۔ اس کے متعلق میں نے لندن کے ایک اخبار میں پڑھا۔ نامہ نگار نے ایک لیفٹیننٹ کانقشہ کھینچا تھا جب غدار افسروں نے فوج کو پیچھے ہٹنے کاحکم دیا تو اُس نے اِس بات پر زور دیاکہ ہمیں ہرگز پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔ اس پر اعلیٰ افسر نے اسے جھڑک کرکہا کہ تم بیوقوف ہو اور افسروں کی حکم عدولی کرتے ہو اور فوج کو واپس ہونے کا حکم دے دیا۔ نامہ نگار نے لکھا ہے کہ اُس پر میں نے وہ نظارہ دیکھا کہ گو میں غیرجانبدار تھا میری آنکھیں پرنم ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ جب سپاہی پیچھے ہٹنے لگے تو اُس لیفٹیننٹ نے تلوار پھینک دی اور ایک پتھر پر بیٹھ کر چیخیں مار کر رونے لگا اور اس کے کندھے شدتِ گریہ سے یوں حرکت کرتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کے سینہ میں انگیٹھی جل رہی ہے ۔ تو بہادری کے جذبات ہمیشہ دشمن سے بھی بڑائی کا اقرار کرالیا کرتے ہیں اور ایمان کے ساتھ تو بہادری اتنی بڑھ جاتی ہے کہ انسان حیران ہوتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے دنیا میں بُزدلی کیسے رہ سکتی ہے۔ پس مؤمن کو اپنا ایمان پرکھنے کے وقت یہ دیکھنا چاہئے کہ کس حد تک اس کے دل میں جذبۂ جرأت و بہادری ہے اورکس حد تک جذبۂ وفاداری ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں کھانے پینے کا بڑا شوق ہے۔ دوست جب ملتے ہیں تو سوال کرتے ہیں کہ کیا کھلائو گے، کیا پلائو گے اور جب کھانے لگتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ کھانے پینے کیلئے ہی وہ پیداہوئے تھے لیکن یہی لوگ جب ان کے گھروں میں کوئی موت ہوجاتی ہے جب ان کا کوئی عزیز ان سے رخصت ہوجاتا ہے کھانے پینے کی لذت اور خواہش کئی دنوں تک ان کے دل سے جاتی رہتی ہے۔ جب لُقمہ منہ میں ڈالتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ حلق میں پھنستا ہے کوئی چیز خواہ کتنی شیریں کیوں نہ ہو تلخ معلوم ہوتی ہے باوجود اس کے کہ لذیذ کھانا منہ میں اور شیریں پانی پیٹ میں جاتا ہے پیٹ اورمنہ اسے ردّ کرتے ہیں اور لذت کی بجائے تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ایسے ایام میں جبکہ اس سے بہت زیادہ مصیبتیں اسلام کیلئے موجود ہوتی ہیں، جب دین پر بڑی بڑی آفتیں نازل ہوچکی ہوتی ہیں ایسی مصیبتیں اور آفتیں کہ ان کے مقابلہ میں گھروں کی مصیبتیں بالکل ہیچ ہوتی ہیں ہمارے حالات میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔ ہمارے منہ بدستور کھانوں سے لذت اندوز ہوتے ہیں اور پیٹ اسی طرح ٹھنڈے پانی کی اشتہاء محسوس کرتے ہیں اور دن میں کسی وقت بھی یہ خیال پید انہیں ہوتا کہ اسلام کیلئے اس قدر مصائب کے ہوتے ہوئے ہم اس آرام اور سکھ کے مستحق نہیں ہیں اور جب دن میں کسی وقت ہم پر یہ حالت طاری نہیں ہوتی تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے قلوب اس محبت سے آشنا ہیں جوحقیقی محبت کہلاتی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک واقعہ میں نے کئی بار سنایا ہے رسول کریم ﷺ کی وفات کے کئی سال بعد جب ایران سے چکیاں آئیں او رعمدہ آٹا ملنے لگا تو سب سے پہلے جو آٹا تیار ہؤا وہ تحفۃً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیش کیا گیا اور جب ا س کا پھلکا تیار ہوکر آپ کے سامنے آیا تو آپ نے جب ایک لقمہ لے کر منہ میں رکھا تو آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو گرنے لگے۔ ایک سہیلی پاس بیٹھی تھی اُس نے کہا کہ بی بی! یہ تو بڑا نرم پھلکا ہے آپ اسے کھاتے ہوئے روتی کیوں ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اس کی نرمی ہی میرے لئے رونے کا باعث ہے ۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں چکیاں نہ تھیں پتھروں پر کوٹ کوٹ کر ہم آٹا بناتے تھے اور رسول کریم ﷺکو وہی آٹا کھانے کو ملتا تھا۔ بڑھاپے کی عمر میں اور اضمحلال کے وقت بھی آپ یہی کھاتے تھے اور اس پھلکے کی نرمی کومحسوس کرکے میرے دل میں حسرت پید اہوئی کہ کاش! رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایسا آٹا ہوتا تو میں اس کی روٹیاں پکا کر آپ کوکھلاتی ؎۶ ۔
ذرا غور کرو نرم آٹا کون سی چیز ہے جسے آج قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ آج تو کنگال بھی اس کی قدر نہیں کرتے اور ان کوبھی آج اس سے بہت بہتر آٹا ملتا ہے جوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ملا تھا۔ آج تو رولرملوں کے آٹے غریب سے غریب لوگ کھاتے ہیں اور انہیں محسوس بھی نہیں ہوتا کہ یہ کوئی نعمت ہے۔ اب نعمتوں نے اس آٹے سے بہت زیادہ ترقی کرلی ہے مگر کیا کبھی کسی کے دل میں یہ خیال آیا ہے کہ اسلام کے مصائب کی موجودگی میںان کا استعمال مناسب نہیں۔ ہم کہتے ہیں ہم اسلام کے سپاہی ہیں، محمد ﷺ کے فدائی ہیں، ہم کہتے ہیں کہ ہم خدا کے نام پر جانیں قربان کرنے والے ہیں مگر کیا ہمارے گلوں میں وہ نعمتیں کبھی پھنستی ہیں؟ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خدا اور اس کے دین کی ہتک دنیا میں ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کی توہین کرنے والے موجود ہیں مگر کیا دین کی اس انتہائی بے بسی کے باعث ہمارے گلوں میں بھی وہ نعمتیں پھنستی ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کھانے کا ڈھنگ بالکل نرالا تھا میںنے کسی اور کو اس طرح کھاتے نہیں دیکھا آپ پھلکے سے پہلے ایک ٹکڑا علیحدہ کرلیتے اور پھر لقمہ بنانے سے پہلے آپ اُنگلیوں سے اُس کے ریزے بناتے جاتے اور منہ سے سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہتے جاتے اور پھر ان میں سے ایک چھوٹا سا ریزہ لے کر سالن سے چھو کرمنہ میں ڈالتے۔ یہ آپ کی عادت ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ دیکھنے والے تعجب کرتے اور بعض لوگ تو خیال کرتے تھے کہ شاید آپ روٹی میں سے حلال ذرّے تلاش کررہے ہیں لیکن دراصل اس کی وجہ یہی جذبہ ہوتا تھا کہ ہم کھانا کھارہے ہیں اور خدا کا دین مصائب سے تڑپ رہا ہے۔ ہر لقمہ آپ کے گلے میں پھنستا تھا اور سُبْحَانَ اللّٰہ سُبْحَانَ اللّٰہکہہ کر آپ گویا اللہ تعالیٰ کے حضور معذرت کرتے تھے کہ تونے یہ چیز ہمارے ساتھ لگادی ہے ورنہ دین کی مصیبت کے وقت ہمارے لئے یہ ہرگز جائز نہ تھا۔ وہ غذا بھی ایک مجاہدہ معلوم ہوتا تھا، یہ ایک لڑائی ہوتی تھی ان لطیف اور نفیس جذبات کے درمیان جو اسلام اور دین کی تائید کیلئے اُٹھ رہے ہوتے اور ان مطالبات کے درمیان جو خداتعالیٰ کی طرف سے قانونِ قدرت کے پورا کرنے کیلئے قائم کئے گئے تھے مگر ہم جو رسول کریم ﷺ کی امت اور صحابہ کا نمونہ ہونے کے مدعی ہیں کیا یہ ہمارا فرض نہیں کہ وہی جرأت اور دلیری اپنے اندر پیدا کریں جو صحابہ کے اندر تھی۔ آج قربانی پر اُبھارنے کی بجائے اُسے روکنے والے آپ کو ملیں گے اور بہادری کے جذبات پید اکرنے کی بجائے بعض لوگ اس پر ہنستے ہیں مگر مؤمن ہنسی اور تمسخر کی کوئی پرواہ نہیں کیا کرتا وہ دنیا سے اندھا ہوتا ہے، اُس کی بینائی صرف خد اکو دیکھتی ہے، ا س کے دل کی نظریں بلند او رظاہری آنکھیں جھکی ہوئی ہوتی ہیں، اس کے نیکی کے کام کھلے ہوئے مگر بدی کے بندہوتے ہیں وہ خداتعالیٰ کیلئے ہر قربانی کرنے کو عزت سمجھتا ہے اسے کامیابی سمجھتا ہے اور اسی کو نجات خیال کرتا ہے اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رستہ میں انسان کا قربان ہونا سب سے بڑی عزت ہے۔ گو یہ لڑائی کا زمانہ نہیں مگر قربانیوں سے خالی نہیں۔ بے شک آج ہمیں عَلَی الْاِعْلَانقتل نہیں کیاجاتا مگر احمدیت کیلئے آج بھی ہزاروں قسم کی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں۔ ہمارا بائیکاٹ کیا جاتاہے، گالیاں دی جاتی ہیں، مارا پیٹا جاتا ہے اور جب تک جماعت میں سے ایک ایسا حصہ کھڑا نہ ہو جو بہادری اور وفاداری کا وہ نمونہ دکھائے جو دشمن کوبھی کھینچ لیتاہے اُس وقت تک کامیابی کے قریب نہیں پہنچ سکتے۔
بعض لوگ یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ ہمارے دائیں ہاتھ والا کیا کرتا ہے اوربائیں ہاتھ والا کیا کرتا ہے اور یہ نہیں دیکھتے کہ ہم خود کیا کررہے ہیں۔ ہمیں اس سے کیا غرض کہ دائیں ہاتھ والا کیا کرتاہے اور بائیں ہاتھ والا وفادار ہے یا نہیں۔ کیااگر ساری دنیا مرتد ہوجائے اور صرف ایک مؤمن رہے تو وہ اس لئے جان دینے سے دریغ کرے گا کہ اور کوئی اس کے ساتھ نہیں۔ جن مواقع پر آنحضرت ﷺ نے اپنی جان کو خطرات میں ڈالا کیا یہ دیکھ کر ڈالا تھا کہ آپ کے دائیں کون ہے اور بائیں کون او رکس حد تک آپ کی مدد کریں گے؟ کیا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا تو یہ دیکھا تھا کہ میرے مؤید اور حامی کون کون ہیں؟
ایک دفعہ ایک مولوی صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اعتقاد رکھتے تھے یہاںآئے او رآپ سے کہنے لگے کہ آپ نے غلطی کی مولوی لوگ ضدی ہوتے ہیں جب آپ نے دعویٰ کیا تو انہوں نے سمجھا کہ یہ شخص ہم سے بڑا ہوگیا ہے اس لئے مخالفت شروع کردی۔ اگر آپ دعوے سے پہلے علماء کو بُلاتے، اُن کی دعوت کرتے اور پھر پوچھتے کہ اسلام پر جو اِس قدر مصیبت کے ایام ہیں آپ لوگوںنے کبھی غور کیا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں او راس سے عیسائیوں کو اسلام کے خلاف بہت تقویت حاصل ہوتی ہے۔ آپ صاحبان اس کا کوئی حل سوچیں تو وہ ضرور کہتے کہ آپ ہی اس کا کوئی حل سوچئے۔ اس پر آپ کہہ دیتے کہ اگر ہم کہہ دیں کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے ہیں تو اس مشکل سے نجات حاصل ہوسکتی ہے او روہ ضرور کہہ دیتے کہ ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے سُبْحَانَ اللّٰہِ کیا نکتہ نکالا ہے۔ پھر آپ کہتے کہ ایک مشکل یہ ہے کہ جب ہم ان کی وفات کااعلان کریں گے تو عیسائی کہیں گے کہ احادیث میں تو ان کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی ہے اس کا بھی کوئی جواب ہونا چاہئے وہ ضرور پھر یہی کہتے کہ اس کا بھی کوئی جواب آپ ہی فرمائیں تو آپ کہہ دیتے کہ اس کا علاج یہی ہے کہ ہم کہہ دیں آنے والا اِسی اُمت میں سے ہوگا۔ اس پر پھر وہ یہی کہتے کہ سُبْحَانَ اللّٰہ کیا اچھی بات نکالی ہے۔ پھر آپ کہتے کہ اب صرف ان کا ایک اعتراض رہ جاتا ہے کہ جب سب علامتیں پوری ہوچکی ہیں تو آنے والا کہاں ہے؟ آپ لوگ رسول کریم ﷺ کی گدی پر بیٹھے ہیں اپنے میں سے کسی کے متعلق فیصلہ کردیں کہ وہ مثیلِ مسیح ہے تا عیسائیوں کے اس اعتراض کا جواب بھی ہوجائے اور اسلام کو ترقی نصیب ہو۔ مولوی تو چونکہ سخت حاسد ہوتے ہیں وہ کیا مجال جو اپنے میں سے کسی کومان لیتے ضرور یہی کہتے کہ آپ سے بہتر کوئی شخص نہیں۔ یہ سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ اگر انسانی منصوبہ ہوتا تو میں ضرور ایسا ہی کرتا مگر مجھے تو میرے خدا نے جو کہامیں نے لوگوںکو سنادیا۔ یہی حال انبیاء کی امتوں کا ہوتا ہے وہ جب صداقت کو لے کر کھڑی ہوتی ہیں تویہ نہیں دیکھا کرتیں کہ ہمارے دائیں کون ہے اور بائیں کون ہے وہ صداقت کو لے کر دنیا میں آتی ہیں اور لوگ خواہ اُن کو ماریں ،پیٹیں، قتل کردیں بلکہ قیمہ کردیں، جلادیں، ڈبودیں پیچھے نہیں ہٹتیں۔ پس یہ جذبہ اگر ہمارے نوجوانوں میں او رجماعت میں پید اہو تو پھر وہ لوگ ہم میں سے پیدا ہوں گے جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر چالیس مؤمن مجھے مل جائیں تو مَیں دنیا کوفتح کرسکتا ہوں ؎۷ ۔
خوب یاد رکھو بُزدل لاکھوں بھی دنیا کو نفع نہیں دے سکتے، بے وفا کروڑوں کسی کام کے نہیں مگر متوکل اور وفادار چالیس بھی ہوں تو دنیا کو فتح کرسکتے ہیں۔ تم سوچو کہ آخر تمہارے اس مقام کوحاصل کرنے میں کیا روک ہے؟ کیا صرف یہی نہیں کہ تم سمجھتے ہو ہم یہ مقام کس طرح حاصل کرسکتے ہیں؟ مگر یاد رکھو کہ تم خدا کے سوتیلے بیٹے نہیں ہو۔ ابوبکرؓکو خد اپر اس سے زیادہ حق نہیں تھا جو تمہیں ہے، عمرؓ کو اس سے زیادہ خداتعالیٰ پر حق نہیں تھا جو تمہیں ہے، عثمانؓ اور علیؓ کو اللہ تعالیٰ پر اس سے زیادہ حق نہیں تھا جوتمہیں ہے۔ اگر تم آج یہ ارادہ کر لو کہ ہم بھی توکل کے مقام پر کھڑے ہوکر اپنے ربّ سے ایسا رشتہ پیدا کریں گے کہ اس کے مقابلہ میں کسی چیز کی پرواہ نہ رکھیں گے تو وہی جو ابوبکرؓ کوملا تمہیں مل سکتا ہے، جو عمرؓ کوملا تمہیں مل سکتا ہے، جو عثمانؓ اور علیؓ کو ملا تم حاصل کرسکتے ہو صرف عزم اورارادہ کی دیر ہے۔ صرف کُودنا اور چھلانگ لگانی ہے اورپھر دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ پس تم میں سے جو ہمت والے ہوں وہ یہ عزم کرلیں۔ خد اکے قُرب کی خواہش تم میں سے جو رکھتے ہیں میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا بہت قریب ہے اتنا قریب ہے اتنا قریب ہے کہ اگر کوئی نابینا کی طرح آنکھیں بند کرکے ہاتھ پھیلادے تو اسے چھو سکتا ہے اور اسے چھوکر ایسا نور حاصل کرسکتا ہے جس کے بعد تمام اندھیرے دور ہوجاتے ہیں اور ایسی طاقت حاصل کرسکتا ہے جس کے حاصل ہونے پر شیطان کی تمام طاقتیں مٹ جاتی ہیں۔
(الفضل ۷؍ مئی ۱۹۳۶ئ)
؎۱ پروہت: خاندانی برہمن جو تمام خاندان کی پوجا پاٹ، موت اور بیاہ کی رسوم ادا کرتا ہے۔
؎۲ سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۲۸۵ ۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۴ء
؎۳ سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۲۸۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۴ء
؎۴ اسد الغابۃ جلد ۴ صفحہ ۱۴۸ ، مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
؎۵
؎۶
؎۷ ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۳۴۲۔ جدید ایڈیشن

۱۶
دشمنانِ احمدیت کی حیاسوز کذب بیانیاں
(فرمودہ ۸؍ مئی ۱۹۳۶ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
جب کبھی دنیا میں سچائی ظاہر ہوتی ہے تو جھوٹ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے کھڑا ہوجاتا ہے۔ اضداد ہمیشہ ہی ایک دوسرے کی طرف ایک کشش رکھتی ہیں۔جھوٹ کے مٹانے کیلئے سچائی آجاتی ہے اور سچائی کا مقابلہ کرنے کیلئے جھوٹ آجاتا ہے اور یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کبھی رحمانی طاقتوں اور شیطانی طاقتوں میں صلح ہوسکے۔ ہمیشہ ہی رحمانی طاقتیں شیطان کا زور توڑنے کیلئے دنیا میں پیدا ہوتی رہیں گی اور ہمیشہ ہی شیطانی طاقتیں سچائی کا مقابلہ کرنے کیلئے دنیا میں کھڑی ہوتی رہیں گی اور یہی معیار درحقیقت کسی روحانی جماعت کی صداقت کاہوتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں جھوٹ استعمال کیا جاتا ہے۔
اس زمانہ کو جو ایک دو سال سے شروع ہے یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں دو جھوٹ جمع ہوگئے ہیں ایک طرف مخالفینِ صداقت کا جھوٹ ہے اور دوسری طرف منافقین کاجھوٹ ہے۔ اس قسم کے دو جھوٹ بہت کم جمع ہؤا کرتے ہیں ورنہ عام طور پر لوگوں کو ایک ایک جھوٹ کا مقابلہ کرناپڑتا ہے۔ کبھی انہیں مخالفوں کے جھوٹ کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور کبھی انہیں منافقوں کے جھوٹ کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جبکہ یہ دونوں جھوٹ جمع ہوجاتے ہیں جیسے رسول کریم ﷺ کو مدینہ منورہ کی ابتدائی زندگی میں ان دونوں جھوٹوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ آپ کو اہلِ مکہ کا بھی مقابلہ کرنا پڑا اور پھر آپ کو مدینہ میں جو منافقین کا گروہ تھا اس کا بھی مقابلہ کرنا پڑا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید اور نصرت کرکے بتادیا کہ خداتعالیٰ جن کی مدد پر ہو اُن کے خلاف خواہ دشمن کی کتنی بڑی طاقتیں جمع ہوجائیں ذرّہ بھر بھی نقصان نہیں پہنچاسکتیں بلکہ وہ ابدی زندگی پاتے اور مرکر بھی زندہ رہنے والے ہوتے ہیں پس ان کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔ انسان کیا نقصان پہنچاسکتے ہیں یہی کہ وہ ماردیں، یہی کہ وہ جائدادیں چھین لیں، یہی کہ وہ مارپیٹ لیں، یہی کہ وہ گالیاں دیں اور اس طرح جذبات و احساسات کو صدمہ پہنچائیں مگر یہ سب عارضی چیزیں ہیں جن کی مؤمن پروا نہیں کرسکتا کیونکہ مؤمن کی جنت دائمی ہوتی ہے اور یہ عارضی نقصان ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی باغ کی شاخ تراشی کی جائے۔ شاخ تراشی کے بعد درخت برباد نہیں ہوجاتے بلکہ وہ بڑھتے اور زیادہ پھل لاتے ہیں۔ اسی طرح مؤمن کو جب دُنیوی طور پر کوئی نقصان پہنچاتا ہے تو وہ اس کی تباہی کا موجب نہیں ہوتا بلکہ اس کی ترقی کا موجب بن جاتا ہے۔
رسول کریم ﷺ کو کفار نے اگر گالیاں دیں، آپؐ کی عزت و آبرو پر حملہ کیا، وطن سے نکالا اور قسم قسم کی نہ صرف ایذائیں دیں بلکہ ایذائیں ایجاد کیں تو کیا اس سے اشاعتِ اسلام میں کوئی روک واقع ہوگئی؟ اسی طرح حضرت امام حسینؓ کے مقابلہ میں یزیدی طاقتوں نے گو اتنی قوت پکڑی کہ انہوں نے آپ کو شہیدکردیا لیکن یزید آج بھی یزید ہے اور امام حسینؓ آج بھی امام حسینؓ کہلاتے ہیں۔ ان کا نام لیتے وقت لوگ انہیں امام کہتے اور ان کی بادشاہت آج بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن یزید کی بادشاہت ایسی مِٹی کہ آج کوئی اپنے بچوں کانام یزید رکھنے کیلئے تیار نہیں۔ یزید کیسا اچھا نام ہے اس کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ بڑھاتا ہی چلا جائے۔ ہمارے پنجاب میں لوگ اپنے بچوں کا نام اللہ ودھایا رکھتے ہیں جس کا عربی زبان میں اگر ہم ترجمہ کریں تو یزید ہی ہوگا مگر کوئی شخص اپنے بچہ کا یزید نام رکھنے کیلئے تیار نہیں ہوگا اللہ ودھایا نام رکھ لیں گے۔ تو یہ نام باوجود اس کے کہ اس کے معنے بہت اچھے تھے بالکل ذلیل ہوگیا اور آج اس نام سے کوئی شخص اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کوموسوم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اگر کوئی یہ نام رکھتابھی ہے تو اس کے ساتھ کوئی لفظ بڑھادیتا ہے جیسے بایزید مگر صرف یزید کا لفظ مسلمانوں میں بالکل متروک ہے۔ اس کے مقابلہ میں گِنا جائے تو کتنے ہیں جو حسین کہلاتے ہیں۔ اگر تعداد معلوم کی جائے تو حسین نام رکھنے والے لاکھوں نکل آئیں گے اور ہر زمانہ میں نکل آئیں گے پھر وہ سارے کے سارے سوائے خوارج کے نام لیں گے تو امام حسینؓ ہی کہیں گے اور حضرت کہہ کے ہی پکاریں گے۔ تو کسی مخالف کی مخالفت دنیا میں روحانیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ہاں مخالفت کرنے والا تھوڑی دیر کیلئے اپنے دل کو خوش ضرور کرلیتا ے۔
میں نے کہا ہے اِس زمانہ میں ہمارے خلاف دونوں قسم کے مخالف کھڑے ہیں اور جھوٹ بول رہے ہیں۔ وہ لوگ بھی جھوٹ کے ہتھیار سے حملہ کررہے ہیں جو بیرونی دشمن ہیں اور وہ بھی جو اندرونی دشمن یعنی منافق ہیں۔ منافق جب کبھی دیکھتا ہے کہ جماعت پر باہر سے حملہ ہورہا ہے تو وہ اپنا سر اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ اس زمانہ میں ہماری جماعت کی شدت سے مخالفت ہورہی ہے اس لئے کئی منافقین نے جو پہلے دبے ہوئے تھے آج سر اُٹھانا شروع کردیا ہے اور وہ اپنی تنظیم کی فکر میں لگ گئے ہیں لیکن منافق کی تنظیم کوئی تنظیم نہیں ہؤ اکرتی اور نہ مخالف کا حملہ روحانی جماعتوں کیلئے کوئی نقصان رساں حملہ سمجھا جاسکتا ہے۔
جھوٹ تو ہمارے دشمنوں کی طرف سے ہمیشہ بولا ہی جاتا ہے اور اگر ان کے جھوٹوں کو گِنا جائے تو ان کا شمار ناممکن ہو لیکن بعض دفعہ تو وہ ایسا کھلا جھوٹ بولتے ہیں کہ حیرت آجاتی ہے کہ دشمن جب جھوٹ بولنے پر آجائے تو وہ کس طرح سَو فیصدی جھوٹ بول جاتا ہے۔ جب انسان خود سچائی کا پابند ہو تو خیال کرتا ہے کہ کوئی شخص آخر کتنا جھوٹ بول سکتا ہے، پانچ، دس، پندرہ یا بیس فیصدی، اس سے زیادہ جھوٹ وہ کیا بولے گا۔ چنانچہ میرا اپنا یہی خیال تھا میں سمجھا کرتا تھا کہ کوئی آخر کتنا جھوٹ بول سکتاہے۔ اگر اس نے سَو باتیں بیان کی ہیں تو ممکن ہے کہ ان میں سے پانچ جھوٹ ہوں اور پچانوے سچ۔ یا دس جھوٹ ہوں اور نوّے سچ، اس سے بڑھ کر تو جھوٹ بول نہیں سکتا لیکن جب آہستہ آہستہ میرا تجربہ بڑھا تو مجھے معلوم ہؤ ا کہ پچاس ساٹھ فیصدی جھوٹ بھی لوگ بول لیا کرتے ہیں اور اب اِس نئی جنگ میں جو احرار سے شروع ہے مجھے پتہ لگا کہ ہمارے دشمنوں کی طرف سے سَوفیصدی جھوٹ بولا جاتا ہے بلکہ اگر ان کے امکان میں ہوتا کہ سَو فیصدی سے بھی زیادہ جھوٹ بول سکتے تو وہ ضرور زیادہ جھوٹ بولنے کی کوشش کرتے۔ پھر ایسا کھلا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ جس کا پہچاننا کسی کیلئے مشکل ہی نہیں ہوتا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ وہ جھوٹ ہے مگر وہ اسے بیان کرتے اور کھلے بندوں بیان کرتے ہیں حالانکہ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہر شخص جو حالات سے معمولی واقفیت بھی رکھتا ہو سمجھ سکتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے۔ مثلاً ابھی پچھلے چند دنوں میں ان مخالفوں کی طرف سے ایسے ایسے جھوٹ بولے گئے ہیں جو سرتا پا جھوٹ ہیں اور جن میں ایک فیصدی سچائی بھی نہیں پائی جاتی۔ پھر جھوٹ بھی ایسی دلیری سے بولے گئے ہیں کہ یہ نہیں کہا گیا یہ سنی سنائی باتیں ہیں بلکہ یہ کہا گیا کہ یہ ہماری آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی باتیں ہیں۔
مثلاً پچھلے دس بیس دن کے اندر اندر احرار کی طرف سے جو جھوٹ بولے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ احمدیوں کے خلیفہ کی جوان بیٹیاں قادیان میں غیروں کے گھروں سے چندہ مانگتی پھرتی ہیں۔ اب جھوٹ بنانے کو تو انہوں نے بنالیا مگر یہ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ اتنا کھلا جھوٹ ہے کہ قادیان کا کوئی شخص اسے صحیح تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوگا۔ قادیان کی آبادی اِس وقت آٹھ دس ہزار افراد پر مشتمل ہے، ان میں ہندو بھی ہیں، سکھ بھی ہیں، غیراحمدی بھی اور قریباً آٹھ ہزار احمدی ہیں اتنی بڑی جماعت کے سامنے انہوں نے یہ جھوٹ بول دیا اور اس کا نام مذہبی خدمت رکھ دیا۔ پھر خاص طور پر اس بات پر زور دیا گیا کہ لڑکیاں جوان ہیں تا ایسا نہ ہو کہ کوئی خیال کرے کہ شاید احمدیوں کے خلیفہ کی چھوٹی عمر کی بیٹیاں مانگتی پھرتی ہیں۔
اس قسم کا جھوٹ بول کردشمن یہ خیال کرلیتا ہے کہ قادیان کے لوگ اگر سمجھ بھی گئے کہ یہ جھوٹ ہے تو باقی دنیا تو حالات سے واقف نہیں وہ تو اسے درست مان لے گی۔ مثلاً لاہور کے لوگوں کو کیاپتہ ہے کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ، افتراء ہے یا امر واقعہ ؟اور چونکہ اکثر ان میں سے ہمارے مخالف ہیں اس لئے ضروری ہے کہ وہ کہیں یہ سچ ہے۔ اسی طرح گورداسپور کے لوگوں کو کیا پتہ، امرتسر کے لوگوں کو کیا پتہ، پشاور کے لوگوں کو کیا پتہ کہ یہ افتراء ہے یا نہیں وہ لازماً ان باتوں کو سچ سمجھیں گے اور اس طرح جماعت سے نفرت پیداہوگی۔ مگر یہ جو نظریہ ہے کہ اگر قادیان کے لوگوں نے اسے جھوٹ سمجھ لیا تو کیا ہؤا باہر کے لوگ تو اسے افتراء نہیں سمجھیں گے اس سے اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کا افتراء کرنے والے اپنی قوم کامعیارِ عقل بہت چھوٹا تسلیم کرتے ہیں اور اس طرح انہوں نے ہماری ہی ہتک نہیں کی بلکہ اپنی قوم کی ہتک بھی کی ہے اور انہوں نے یہ جھوٹ بول کر تسلیم کرلیا ہے کہ ان کے بھائی بند اور ہم قوم گائودی ؎۱ اور احمق ہیں وہ جو کچھ کہیں گے وہ اُسے مان لیں گے خواہ وہ بات معقولیت سے کس قدر دور ہو او رکبھی اس پر غور نہیں کریں گے۔ مگر کیا تعجب کی بات نہیں کہ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ قادیان کے لوگوں کو کنگال کردیا ، ان کا تمام مال، ان کی تمام املاک لوٹ لیں، وہ فاقوں مررہے ہیں اور ان کا کوئی پُرسانِ حال نہیں اور دوسری طرف جب ان کی تمام دولت میرے پاس آجاتی ہے اور میں انہیں اچھی لوٹ لیتا ہوں تو میری جوان بیٹیاں ان کے گھروں پر مانگنے جاتی ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے کہ مال و دولت لُٹا دینے کی وجہ سے قادیان کے لوگ کنگال ہوگئے ہیں اور ان کی دولت میں نے لُوٹ لی ہے تو پھر میری لڑکیوں کے متعلق یہ کہنا کہ وہ ان کنگالوں کے گھروں پر مانگنے جاتے ہیں صریح طور پر خلافِ عقل بات نہیں تو اور کیا ہے۔
ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ کوئی میراثی تھا اس کے گھر رات کو چور آیا اس نے کمرے میں اِدھر اُدھر تلاش کی مگر کوئی چیزنہ ملی۔ جب سب طرف سے مایوس ہوگیا اور اُسے یہ ڈر بھی پیدا ہؤا کہ کوئی جاگ نہ اُٹھے اور میں پکڑا جائوں تو اس نے جلدی جلدی مکان میں گھومنا شروع کیا۔ اتفاقاً ایک جگہ روشندان میں سے چھن چھن کر چاندنی پڑ رہی تھی اُس نے سمجھا کہ یہ آٹا ہے جلدی میں اُس نے زمین پر چادر پھیلادی مگر جب چاندنی کو آٹا سمجھ کر سمیٹنا چاہا تو اس کے دونوں ہاتھ خالی کے خالی آپس میں مل گئے۔ اِسی دوران میں اتفاقاً میراثی کی آنکھ بھی کھل چکی تھی اور وہ سب نظارہ بستر پر لیٹے ہوئے دیکھ رہا تھا جب اس چور نے آٹا سمجھ کر اسے اکٹھا کرنا چاہا اور دونوں ہاتھ خالی مل گئے تو میراثی ہنس کر کہنے لگا ’’ججمان ایتھے تے دن نوں کچھ نہیں لبھدا تُو رات نوں کی لبھدا ہیں‘‘۔ یعنی میرے آقا! اس گھر میں تو دن کو بھی کچھ نظر نہیں آتا آپ رات کو یہاں کیا تلاش کررہے ہیں۔ تو ایک طرف احرار کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ میں نے لوگوں کو لوٹ لیا اور ان کے مال ہضم کرلئے کنگال اور فقیر بنادیا وہ بھوکے مرتے ہیں مگر انہیں کوئی نہیں پوچھتا اور دوسری طرف کہا جاتا ہے میری جوان بیٹیاں قادیان میں گھر گھر لوگوں سے مانگتی پھرتی ہیں حالانکہ جب بقول ان کے میں نے تو لوگوں کو لوٹ لیا ہے پھر میری بیٹیاں ان کنگالوں کے گھروں میں کچھ مانگنے کس طرح جاسکتی ہیں ۔ مگر اس تضاد اور اختلاف کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ان کا مقصد محض جھوٹ بولنا ہے ایک جگہ ایک رنگ میں جھوٹ بول دیا اور دوسری جگہ دوسرے رنگ میں۔ گویا وہ سمجھتے ہیں کہ احرار اتنے احمق ہیں کہ وہ ان دونوں جھوٹوں کو جو آپس میں بالکل متضاد ہیں صحیح ماننے کیلئے تیار ہوجائیں گے۔ اس جھوٹ کو بھی وہ درست سمجھیں گے کہ میری جوان بیٹیاں لوگوں کے گھروں پر مانگنے جاتی ہیں اور اِس جھوٹ کو بھی صحیح قرار دیں گے کہ میں لوگوں کو لُوٹ لُوٹ کر کنگال بناچکا ہوں اور عقل و سمجھ سے کام لے کر ذرہ بھر بھی نہیں سوچیں گے کہ اگر یہ سچ ہے کہ میں لوگوں کو لوٹ لوٹ کر بہت بڑا امیر بن چکا ہوں تو پھر یہ جھوٹ ہے کہ میری جوان بیٹیاں قادیان میں ٹکڑا سے محتاج لوگوں کے گھروں پر مانگنے جاتی ہیں اور اگر یہ صحیح ہے کہ میری جوان بیٹیاں لوگوں کے گھروں پر مانگنے جاتی ہیں تو پھر یہ جھوٹ ہے کہ میں نے قادیان کے لوگوں کو لوٹ لوٹ کر انہیں کنگال بنادیا ہے مگر وہ اس فرق کونہیں سوچیں گے اور بِلا سوچے سمجھے ان دونوں جھوٹوں کو صحیح تسلیم کرلیں گے۔ جو جماعت ایسی گدھی اور احمق ہوجائے یا جس کے لیڈر اسے اتنا احمق اور بیوقوف سمجھتے ہوں اُس نے دنیا میں کام کیا کرنا ہے اور کونسی خدمتِ دین کرسکتی ہے وہ تو آج بھی تباہ ہوئی اور کل بھی تباہ ہوئی۔
پھر اس کے بعد دوسرا جھوٹ بولا گیا ہے کیونکہ آخر چند دنوں کے بعد اخبار میں کوئی اور دلچسپ خبر بھی توہونی چاہئے تھی کہ اب لوگوں سے خلیفہ کی بیٹیاں مانگ مانگ کر چونکہ تھک گئی ہیں اور کچھ وصول نہیں ہوتا اس لئے انہوںنے اپنی بیویوں کوہدایت کی ہے کہ وہ لوگوں کے گھروں پر مانگنے کیلئے جایا کریں۔ چنانچہ احرار کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ احمدیوں کے خلیفہ نے اپنی چاروں بیویاں بلائیں اور ان سے کہا کہ پہلے تو میں تمہارے سنگھار پر تم سے محبت کیا کرتا تھا مگر اب لوگوں کے گھروں سے مانگنے پر تم سے محبت کیا کروں گا اور جتنا جتنا زیادہ کوئی بیوی مانگ کر لائے گی اتنی ہی زیادہ میری محبت اُسے حاصل ہوگی۔لکھا ہے کہ جب میری بیویوں نے یہ بات سُنی تو انہوں نے کہا کہ اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا۔ ہم آپ کے حکم کی تعمیل میں لوگوں کے گھروں سے مانگ کرلایا کریں گی۔مگر جو میری چوتھی بیوی ہیں ان کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے انکار کیا اور کہا میں تو ہرگز گھروں پرجانے اور لوگوں سے مانگنے کیلئے تیار نہیں اور چونکہ اس جواب کا باقی بیویوں پر اثر پڑا ہے اس لئے اب سکیمیں سوچی جارہی ہیں کہ اُس بیوی کو کس طرح سزا دی جائے تاکہ وہ بھی باقی بیویوں کی طرح مانگنے پرتیار ہوجائے گویا یہ خبر پہلی خبر کا تتمہ ہے۔ ان اخباروں کے وہ خریدار جو اتنے احمق اور بیوقوف ہیں کہ جو بات ان کے سامنے بیان کی جائے خواہ وہ کتنی ہی جھوٹ اور خلافِ واقعہ ہو اُسے ماننے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں ان کیلئے کچھ تعجب نہیں کہ اخبار والے آئندہ یہ خبر بھی لکھ دیں کہ چونکہ بیویوں کے ذریعہ مانگنے پر بھی یہ معاملہ ختم نہیں ہؤا اس لئے اب احمدیوں کے خلیفہ نے اپنے مرید لے کر قادیان کے تمام احراریوں کے گھروں پر حملہ کردیا ہے اور تمام مال و متاع لُوٹ کر گھروں سمیت انہیں صفحۂ دنیا سے غائب کردیا ہے۔ ا س کے چند دن بعد یہ خبر دے دیں کہ امرتسر کے فلاں فلاں محلے غائب ہوگئے ہیں اور انہیں احمدیوں کا خلیفہ اُٹھا کر قادیان لے گیا ہے۔ پھر لکھ دیں کہ لاہور سب کا سب غائب ہوگیا ہے اور سناگیا ہے کہ قادیانی جماعت کا خلیفہ اُسے اپنی جیب میں ڈال کرلے گیا ہے۔ او راس کے بعد شائع کردیں کہ فلاں صوبہ بالکل مفقود ہے اور شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ صوبہ بھی احمدیوں کے خلیفہ نے اپنے مریدوں کی معرفت قادیان اُٹھوا منگوایا ہے۔ احرار نے اپنے چیلوں کو اس قدر احمق بنادیا ہے کہ کچھ تعجب نہیں ان کے چیلے ایسی خرافات کو بھی تسلیم کرلیں ۔ بے شک پہلے بھی انبیاء علیہم السلام کے زمانہ میں شیطان نے جھوٹ بولا ہے مگر تاریخ سے معلوم نہیں ہوتا کہ کبھی اتنا نڈر ہوکر شیطان نے جھوٹ بولا ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان اب یہ سمجھتا ہے کہ احرار کے ذریعہ سے شیطانوں کی ایک وسیع جماعت پید اہوگئی ہے اس لئے اب میں جو چاہو ں کہوں وہ اسے درست تسلیم کرلیں گے۔ پس چونکہ شیطان کے نزدیک اب ان مخالفوں میں کوئی آدمی نہیں رہا سب شیطان ہوگئے ہیں اسی لئے وہ اس قدر کھلا جھوٹ بولنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور اخباروں میں چھاپنا شروع کردیتے ہیں۔
پھر انہی دنوں ہماری مجلس شوریٰ کی کارروائیوں کا ان اخبارات میں ذکر چھپتا رہا ہے مگر جو دوست مجلس میں شامل تھے وہ اگر ان باتوں کو سُنیں تو حیران ہوجائیں کہ یہ کس مجلسِ شوریٰ کا ذکر ہورہا ہے وہ تو یہی سمجھیں کہ یہ کوئی نرالی مجلسِ شوریٰ ہے جس مجلسِ شوریٰ میں ہم شامل تھے اس کا یہ ذکر نہیں۔ مثلاً ان کے نزدیک اس مجلسِ شوریٰ میں مَیں نے کئی گھنٹے اپنی تقریر میں میر قاسم علی صاحب کی خبر لی حالانکہ مجلسِ شوریٰ میں اُن کا نام تک نہیں آیا۔ اسی طرح بعض واقعات اس میں بیان کئے گئے ہیں کہ بیرونی جماعتوں کو اس اِس رنگ میں ڈانٹ پڑی حالانکہ مجلسِ شوریٰ میں اس رنگ میں کوئی ذکر تک نہیں آیا تھا۔
پھر گزشتہ ایام سے برابر ایک تسلسل ایسی فہرستوں کا چلا آتا ہے جن میں مرتدین کے نام لکھے ہوئے ہوتے ہیں مگر جب ان کے متعلق تحقیق کی جاتی ہے توکچھ تو واقعہ میں ایسے لوگ ثابت ہوتے ہیں جو لوگوں کے بہکائے یا ڈرائے سے احمدیت چھوڑ بیٹھتے ہیں مگر یہ بہت قلیل تعداد ہوتی ہے زیادہ تر ایسے ہی ہوتے ہیں کہ جب ہم ان کے متعلق تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فلاں تو عرصہ سے ہماری جماعت کا سخت مخالف ہے اس نے کبھی احمدیت قبول ہی نہیں کی۔ اس کے ارتداد کا اعلان کیسا، پھر فلاں کو جماعت سے خارج ہوئے مثلاً سال دو سال ہوگئے ہیں آج اُس کے مرتد ہونے کا اعلان کیا معنے رکھتا ہے، پھر بعض نام ایسے احمدیوں کے بھی ہوتے ہیں جو نہایت مخلص ہوتے ہیں مگر ان کی طر ف افتراء کے طور پر یہ بات منسوب کردی جاتی ہے کہ انہوں نے احمدیت سے ارتداد کیا۔ آج ہی میں نے الفضل میں ایک شخص کا اعلان پڑھا ہے وہ کہتا ہے میرا نام بھی احراریوں نے مرتدین میں شائع کردیا ہے حالانکہ مَیں خدا کے فضل سے مخلص احمدی ہوں۔ یہ جھوٹ گویا اس قسم کے جھوٹوں میں سے ہے جس میں قدرے سچائی بھی ہوتی ہے یعنی کچھ واقعہ میں مرتد ہوگئے ہوتے ہیں لیکن اکثر نام ایسے ہی لوگوں کے ہوتے ہیں جو یا تو ہماری جماعت کے سخت مخالف ہوتے ہیں یا جماعت سے ایک عرصہ سے خارج ہوچکے ہوتے ہیں یا پھر مخلص احمدی ہوتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے جو بھی چندہ کی تحریک ہوتی ہے ا س کے متعلق ’’احسان‘‘ اور ’’مجاہد‘‘ میں چھاپ دیا جاتا ہے کہ یہ تحریک اس لئے کی گئی ہے کہ مرزا محمود کو فلاں ضرورت پیش آئی تھی اس کیلئے روپیہ درکار تھا اس لئے چندہ کی تحریک کردی گئی۔
پھر اس ضمن میں ان احرار کا ایک چہیتا مضمون ہے۔ یعنی وہ ان تمام رقوم کو ایک استانی کی خاطر قرار دیتے ہیں جو قادیان صرف ایک دن کیلئے آئی تھی او ریہ دیکھنے آئی تھی کہ وہ یہاں رہ کر کام کرسکتی ہے یا نہیں اور یہ دیکھ کر کہ اس کی لڑکیوں کی تعلیم کا یہاں انتظام نہ ہوسکے گا واپس چلی گئی تھی۔ اب جو بھی چندہ کی تحریک ہو وہ اُس کی خاطر سمجھی جاتی ہے اور اس طرح احرا رکے نزدیک اب تک لاکھوں روپیہ اس کیلئے جماعت سے لیا جاچکا ہے۔ ساٹھ ہزار قرض کی جو تحریک کی گئی تھی وہ بھی ان کے نزدیک اسی کیلئے کی گئی تھی۔ پھر اور بھی جو تحریکیں ہوتی ہیں وہ اسی کیلئے سمجھی جاتی ہیں۔ غرض صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے کوئی تحریک ہو وہ انہی اغراض کیلئے سمجھی جاتی ہے حالانکہ ان نادانوں کو معلوم نہیں کہ صدرانجمن احمدیہ کا ایک ایک پیسہ رجسٹروںمیں درج ہوتا ہے۔ انہوں نے غالباً صدر انجمن احمدیہ کی وصولی چندہ کو اپنے چندوں کی طرح سمجھا ہؤ اہے۔ ان کا طریق تو یہ ہے کہ مثلاً مولوی عطاء اللہ صاحب کھڑے ہوگئے اور اُنہوں نے لوگوں سے کہنا شروع کردیا کہ چندہ لائو ہم زردہ کھائیں گے، ہم پلائو کھائیں گے، ہم فرسٹ اور سیکنڈ کلاس میں سفر کریں گے مگر حساب نہیں دیں گے۔ لوگوں نے سمجھا بھلا یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم چندہ کا حساب مانگیں تو یہ نہ دیں یہ دل لگی کررہے ہیں۔ انہوں نے چندہ دے دیا مگر بعدمیں جب لوگوں نے حساب مانگا تو کہہ دیا ہم نے نہیں کہا تھا کہ ہم چندہ لیں گے مگر حساب نہیں دیں گے۔ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ ہم چندہ لے کر پلائو زردہ کھائیں گے اور فرسٹ اور سیکنڈ کلاس میں سفر کریں گے، موٹروں پر سوار ہوں گے مگر حساب نہیں دیں گے اب تم حساب کس طرح لے سکتے ہو۔ پس انہوں نے خیال کیا کہ شاید ہمارے چندے بھی ان کے چندوں کی طرح آتے اور ذاتی ضروریات میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے چندے تو ایسی احتیاط سے رجسٹروں میں درج کئے جاتے ہیں کہ بعض دفعہ چند پیسوں کیلئے دو دو تین مہینہ تک رجسٹروں کی پڑتال کی جاتی اور حساب کی چھان بین ہوتی رہتی ہے۔ لکھنے والا لکھتا ہے کہ میں نے فلاں دن اتنا چندہ بھیجا مجھے مقامی رسید مل گئی ہے مگر مرکزی حساب میں درج نہیں ہؤا۔ یا ڈاک خانہ کی طرف سے تو روپوں کے پہنچنے کی رسید مل گئی مگر دفتر کی طرف سے نہیں ملی اِس پر دفاتر کی معرفت تحقیق کرائی جاتی ہے اور جب چندہ بھیجنے والے کی تسلی نہ ہو تو وہ مجھے لکھتے ہیں اور میں تحقیقات کرتاہوں اور اُس وقت تک نہیں چھوڑتا جب تک حساب صاف نہ ہوجائے اور جو اُلجھن پیدا ہوئی ہو وہ دُور نہ ہوجائے ۔ تو چونکہ وہ ہمارے حالات کو نہیں جانتے اس لئے اپنے اوپر قیاس کرلیتے ہیں۔
ان کی مثال بالکل اس زمیندار کی سی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کے قریب چند نوجوان بیٹھے آپس میں باتیں کررہے تھے کہ ملکہ وکٹوریہ کیا کھاتی ہوگی؟ وہ چونکہ شہروں میں بھی پھر چکے تھے اس لئے ان میں سے کوئی کہتا پلائو کھاتی ہوگی، کوئی کہتا زردہ کھاتی ہوگی، کوئی کہتا متنجن کھاتی ہوگی، اسی طرح ہر ایک نے جس چیز کو وہ زیادہ پسند کرتا تھا اس کا نام لے کر کہنا شروع کردیا کہ ملکہ وکٹوریہ یہ کھاتی ہوگی۔ یہ باتیں سن سن کر وہ زمیندار تنگ آگیا کہنے لگا ۔ہوں!ہوں! تم سب بیوقوف ہو بھلا یہ بھی کوئی کھانے کی چیزیں ہیں۔اصل بات مَیں تمہیں بتا تاہوں۔ ملکہ نے دو کوٹھڑیاں گڑ سے بھر رکھی ہوں گی وہ ٹہلتی ٹہلتی اُدھر جاتی ہوگی تو گڑ کی بھیلی منہ میں ڈال لیتی ہوگی پھر دوسری طرف جاتی ہوگی تو دوسری کوٹھڑی سے گڑ کی بھیلی نکال کر منہ میں ڈال لیتی ہوگی۔ وہ چونکہ گڑ کھانے کا عادی تھا اس لئے اس نے سمجھ لیا کہ ملکہ بھی گڑ ہی کھاتی ہوگی۔ اِسی طرح چونکہ احرار کو خود لوگوں سے چندے وصول کرکے کھانے کی عادت ہے اس لئے وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی یہی کچھ ہوتا ہوگا۔
چنانچہ پندرہ بیس سال کی بات ہے کہ ایک دفعہ ایک اخبار میں چھپا تھا کہ قادیان میں جب لوگوں کے منی آرڈر پہنچتے ہیں تو سب لوگ مسجد میں جمع ہوجاتے ہیں اور شور مچانا شروع کردیتے ہیں کہ لانا ہمارا حصہ کہاں ہے؟ ہر ایک کا روپیہ میں کچھ حصہ مقرر ہوتا ہے۔ مثلاً میرا دوآنے فی روپیہ حصہ ہؤا، مولوی شیر علی صاحب کا روپیہ میں سے دو پیسے، مفتی محمد صادق صاحب کا دو پیسے، مولوی غلام رسول راجیکی صاحب کے دو پیسے، مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے دو پیسے ہوئے۔ جس وقت منی آرڈر پہنچتے ہیں سب دَوڑ پڑتے ہیں اورمسجد میں اکٹھے ہوکر روپیہ کوآپس میں بانٹ کر اپنے اپنے گھر لے جاتے ہیں۔
اب ہم تو اپنے دل میں اِن خبروں کو پڑھ کر یا تو ہنس دیتے ہیں یا ہمیں درد پیداہوتا ہے کہ انسان جب شرافت سے عاری ہوجاتا ہے تو کس طرح کُتّے اور سؤر جتنی بھی نیکی اس میں باقی نہیں رہتی۔ کُتّے اور سؤر میں پھر بھی کچھ حیا ہوتی ہے مگر ایسے صریح جھوٹ بولنے والوں میں تو اتنی بھی حیا نہیں رہی جتنے کُتّے اور سؤر میں پائی جاتی ہے۔پھر کبھی حیرت آجاتی ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کا انسانیت پر کوئی ایسا غضب نازل ہونے والا ہے کہ یہ کمبخت صفحۂ ہستی سے بالکل مٹادیا جائے گا اور اس کا سچائی سے کوئی واسطہ نہ رہے گا۔
پھر تھوڑے ہی دن ہوئے احرار کے ایک اخبار میں ایک اور خبر شائع ہوئی اور لطیفہ یہ ہے کہ ایک ہی اخبار میں ایک ہی صفحہ پر دو متضاد خبریں درج کردی گئیں۔ ان دونوں میں ذکر تھا کہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب قادیان میں آئے اور میری اُن سے گفتگو ہوئی۔ایک خبر میں تو اس گفتگو کو خواب کے رنگ میں بیان کیا گیا تھا اور ایک میں نامہ نگار کی طرف سے وہ گفتگو بیان کی گئی تھی۔ مگر ایک میں تو لکھا تھا کہ میں نے چوہدری ظفراللہ خان صاحب کو خوب ڈانٹا اور دوسری میں یہ لکھا تھا کہ چوہدری صاحب نے مجھے خوب ڈانٹا۔ ایک میں تو مَیں انہیں ڈانٹتا ہوں کہ آپ کچھ بھی نہیں کرتے وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کا ممبر آپ کو کیوں بنایا گیا تھا جب آپ ہماری مشکلات کو دور کرنے کیلئے کوئی علاج نہیں کرتے۔ اور دوسری میں وہ مجھے ڈانٹتے ہیں کہ میں تدبیریں کرکے تھک جاتاہوں مگر تم اپنی بیوقوفی سے کام خراب کردیتے ہو۔ میں سمجھتا ہوں یہ خبریں جس نے لکھیں وہ کوئی معمولی نامہ نگار نہ تھا کیونکہ میری ملاقات کے وقت ملنے والے احمدی کے سِوا اور میرے سِوا دوسرا کوئی شخص وہاں موجود نہیں ہوتا۔ صرف جب غیرشخص ملنے والا ہو تو دفتر کا کوئی آدمی یا کوئی اور دوست وہاں موجود ہوتے ہیں کسی احمدی کی ملاقات کے وقت ایسانہیں کیا جاتا۔ پس جبکہ وہ بالکل الگ کمرہ تھا جس میں گفتگو ہوئی اور اُس وقت اور کوئی تیسرا آدمی پاس موجود نہ تھا تو میں سمجھتا ہوںکہ یہ نامہ نگار آدمی نہیں تھا بلکہ یہ تو چھپکلی تھایا مکھی یا چیونٹی تھا یا کوئی سنپولیا تھا جو کسی بدر رو ؎۲ میں چھپا بیٹھا تھا بہر حال وہ انسان نہیں ہوسکتا۔ یا پھر یہ تسلیم کرنا پڑتا کہ احرار کو کوئی ایسا طلسم آگیا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ مکھی بن کر میری پگڑی پر یا چوہدری صاحب کے کوٹ پر بیٹھ جاتے ہیں لیکن خبر بھی نہیں ہوتی کہ کمرہ میں کوئی اور آدمی ہے اور ہم راز کی باتیں کررہے ہوتے ہیں مگر ’’مجاہد‘‘ اور ’’احسان‘‘ کا نامہ نگار مکھی بنا خو دہمارے کپڑوں پر بیٹھا ہؤاہوتا ہے اور ہنس ہنس کر کہتا جاتا ہے کہ آج ان کا راز خوب معلوم ہؤااور پھر بعد میں شائع کردیتا ہے۔
غرض کوئی احمق یہ نہیں سوچتا کہ وہ نامہ نگار کہ جس نے وہ خبر لکھی اس وقت بیٹھا کہاں تھا اور اس نے وہ گفتگو سنی کس طرح سے جو میرے اور چوہدری صاحب کے درمیان ہوئی۔ خواہ اس کا کوئی موضوع ہو وہ ’’احسان‘‘ یا ’’مجاہد‘‘ کے نامہ نگار کو معلوم کس طرح ہوگئی جبکہ گفتگو جس وقت ہوئی اُس وقت کمرہ میں اَور کوئی آدمی نہ تھا۔ اور یہ طریق صرف چوہدری صاحب سے مخصوص نہیں جماعت کے وہ ہزاروں دوست جو سال بھر میں مجھ سے ملتے ہیں جانتے ہیں کہ وہ اکیلے ملتے ہیں سوائے اِس کے کہ وہ خود کسی دوسرے دوست کو ساتھ لے آئیں۔ یا سوائے مشتبہہ لوگوں کے کہ ان کی گفتگو کے وقت کسی گواہ کا موجود رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح چوہدری صاحب مجھ سے جب ملتے ہیں علیحدگی میں ملتے ہیں اُس وقت اور کوئی پاس نہیں ہوتا۔ ہاں اگر مشترکہ امور پر گفتگو ہو تو اُس وقت جماعت کے اور دوست بھی ہوتے ہیں اور چوہدری صاحب بھی۔ پس ایسی پرائیویٹ گفتگو کی خبر ’’احسان‘‘ یا ’’مجاہد‘‘ کو کس طرح ہوسکتی ہے سوائے اِس کے کہ میں یہ سمجھوں کہ ’’احسان‘‘ اور ’’مجاہد‘‘ کا نامہ نگار اس وقت سنپولیا بنا ہوا کسی بدررو میں بیٹھا تھا یا مکھی بن کر کرسی پر بیٹھا تھا یا چھپکلی بن کر روشندان میں موجود تھا اور اس نے ہماری باتیں سن کر ’’احسان‘‘ اور ’’مجاہد‘‘ میں شائع کرادیں۔ پس اگر کوئی ایسا طلسم ان کے ہاتھ میں آگیا ہے تو یہ اور بات ہے۔ ورنہ سوائے اس کے کیا سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ شیطان کے چیلے ہیں جو ساری دنیا کو اُلّو بنارہے ہیں۔ اِن جھوٹوں کا صرف ایک علاج ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ اُجرت ہم دینے کیلئے تیار ہیں ’’مجاہد‘‘ اور ’’احسان‘‘ والے جب اس قسم کی کوئی خبر شائع کریں تو اس کے آخر میں یہ لکھ دیا کریں۔
لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ
اس طرح جتنی رپورٹیں وہ ہمارے متعلق شائع کریں ان کے بعد لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کے الفاظ بھی لکھ دیا کریں اور ان الفاظ کی قیمت مناسب اشتہاری ریٹ پر وہ ہم سے لے لیا کریں۔ میری طرف سے انہیں کھلی اجازت ہے کہ وہ ان رپورٹوں اور اطلاعات کو درج کرنے کے بعد ہر رپورٹ کے نیچے لکھ دیا کریں کہ جماعت احمدیہ کاجواب اس رپورٹ کے متعلق یہ ہے لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَکہ اور صرف اتنے حصے کی اُجرت کا بل بنا کر مجھے بھیج دیا کریں میں انہیں روپیہ ادا کردوں گا۔ اِس صورت میں ہمارے نزدیک یہی جواب کافی ہوجائے گا اور پھر انہیں یہ بھی فائدہ ہوگا کہ انہیں پیسے مل جائیں گے۔ غرض اس طرح انہیں خبر کی خبر مل جائے گی، اخبار بھی دلچسپ رہے گا اور ہم سے پیسے بھی وصول کرسکیں گے جس کے ذریعہ ممکن ہے وہ اپنے نامہ نگاروں کا گھر بھر سکیں۔
مخالفین کے اِن جھوٹوں کے ساتھ کچھ منافق بھی کھڑے ہوگئے ہیں اور یہ بھی ایک جماعت پید اہوگئی ہے جن میں سے تو کچھ قادیان میں رہ کر اور کچھ اخباروں والوں سے مل کر فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ابھی تین چار دن ہوئے ایک دوست نے ایک خط بھیجا ہے جس میں لکھا ہے کہ بعض بڑے بڑے بزرگ کہتے ہیں (نہ معلوم وہ کون سے بزرگ ہیں) کہ خلیفہ صاحب کی بیویاں سفر میں ہمیشہ فرسٹ کلاس ہوٹلوں میں ٹھہرا کرتی ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سوائے ایک دفعہ کے وہ فرسٹ کلاس چھوڑ کبھی تھرڈ کلاس ہوٹلوں میں بھی نہیں ٹھہریں۔ وہ استثناء ۱۹۱۸ء کے شروع کا ہے اُس وقت میں سخت بیمار ہؤاتھا او رڈاکٹروںنے سمندر پر جانے کا مشورہ دیا تھا اُس وقت بمبئی جاتے ہوئے میرے ساتھ ناصر احمد کی والدہ اور امۃ الحئی مرحومہ تھیں اُس وقت دہلی میں کسی احمدی کا مکان ہمارے قافلہ کو رکھنے کے قابل نہ تھا اس لئے کارونیشن ہوٹل میں جو ایک معمولی ہندوستانی ہوٹل ہے ہماری رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔اس کے سِوا کبھی میری کوئی بیوی میری یاد اورمیرے علم میں کسی فرسٹ یا سیکنڈ یا تھرڈ کلاس ہوٹل میں نہیں ٹھہری۔بیویاں تو الگ رہیںمیں خود بھی ایک دفعہ کے سِوا کسی فرسٹ کلاس ہوٹل میں نہیں ٹہرامگر وہ بھی تبلیغی ضرورتوں کے لئے قیام تھا۔یہ واقعہ سفرِ لنڈن کا ہے جس کے دوران میں بڑے آدمیوں کی ملاقات کے خیال سے میں پیرس میں بعض ساتھیوں سمیت ایسے ہوٹل میں ٹھہرا تھا جسے فرسٹ کلاس ہوٹل کہا جاسکتا ہے مگر وہاں بھی جن کمروں میں ہم ٹھہرے تھے فرسٹ کلاس کمرے نہ تھے بلکہ تھرڈ کلاس کمرے تھے۔ اس کے علاوہ باقی جس قسم کے ہوٹلوں میں ہم ٹھہرے اور جس قسم کا ہم نے کھاناکھایا ان میں سے ایک ہوٹل کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اُس کا کھانا کھاکر مجھے آٹھ دن دست لگے رہے تھے۔ پس ساری عمر میں مجھے اس فرسٹ کلاس ہوٹل میں ٹھہرنا یاد ہے اور وہ بھی تبلیغی ضرورتوں کیلئے تھا باقی کبھی فرسٹ کلاس ہوٹل میں مَیں نہیں ٹھہرا اور نہ کبھی میری بیویاں۔ سوائے ۱۹۱۸ء کے فرسٹ چھوڑ تھرڈ کلاس ہوٹل میں ٹھہریں۔ بہر حال کسی ہوٹل کو فرسٹ اور سیکنڈ کلاس ہوٹل سمجھنا بھی اپنی اپنی نگاہ پر منحصر ہوتا ہے اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ اس دوست نے جھوٹ بولا ہے ممکن ہے انہوں نے دہلی والاواقعہ کسی سے سن کر ہی یہ بات کہہ دی ہو۔ یا پھر ممکن ہے معمولی ہوٹل کو بھی وہ اپنی نگاہ میں فرسٹ اور سیکنڈ کلاس ہوٹل سمجھتے ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ کوئی چوڑھا لاہور کے پاس سے گزررہا تھا اس نے دیکھا ہزاروں آدمی رورہے ہیں۔ وہ حیران ہوکر پوچھنے لگا کیابات ہے؟ لوگوںنے بتایا رنجیت سنگھ مرگیا ہے۔ وہ کہنے لگا میں نے سمجھا خبر نہیں کیا بات ہوگئی ہے جب باپو جیہے (یعنی والد جیسے) مرگئے تو رنجیت سنگھ بیچارہ کون سے حساب میں تھا۔ گویا اُس چوڑھے نے اپنے باپ کو فرسٹ کلاس آدمی سمجھا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کو تھرڈ کلاس ۔پس یہ اپنی اپنی سمجھ کی بات ہوتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کہنے والے نے یہ بات جھوٹ کہی یا فریب کیا ممکن ہے انہوں نے میرے دہلی میں ٹھہرنے کا واقعہ سنا ہو اور اسی کو انہوں نے فرسٹ کلاس ہوٹل میں ٹھہرنا قرار دے لیا ہو مگر جس نیت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے وہ بے شک منافقت والی ہے۔
پھر مشہور کیاجاتا ہے کہ قادیان میں بہت سے منافق رہتے ہیں اور بڑی بڑی میٹنگیں کرتے رہتے ہیں چنانچہ ان میٹنگوں کی خبریں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں اور وہ ایسی دلچسپ ہوتی ہیں کہ ان کو پڑھ کر الف لیلہ کاسا لُطف آتا ہے۔ تقریریں یہ ہوتی ہیں کہ اپنی جانیں قربان کردو اور بہادری و جرأت کا نمونہ دکھائو مگر بتایا یہ جاتا ہے کہ وہ چھپ کر سڑکوں سے دور بیٹھے باتیں کررہے تھے تا جماعت احمدیہ کاکوئی جاسوس ان کی نقل و حرکت کو معلوم نہ کرے اور ان کی باتوں کاپتہ نہ لگائے۔ ادھر تو اتنی بہادری کے دعوے کئے جاتے ہیں کہ کہا جاتا ہے اپنی جانیں قربان کردو اور دوسری طرف اتنا اِخفاء کیا جاتا ہے کہ کوشش کی جاتی ہے ہمارا کوئی آدمی ان کی باتیں نہ سن لے۔
منافقوں کی یہ بہادری ایسی ہی بہادری ہے جیسے چوہوں کے متعلق قصہ مشہور ہے کہ انہوں نے ایک روز مل کرمشورہ کیا کہ بلّی ہمیں روز مارجاتی ہے اس کا کوئی علاج کرنا چاہئے۔ چنانچہ انہوںنے بیٹھ کر طے کیا کہ بلّی کا مقابلہ کرنا چاہئے اس پر فیصلہ ہؤا کہ چوہوں کو اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کرنا چاہئے۔ چنانچہ بڑی بڑی تقریریں ہوئیں اور مطالبہ کیا گیا کہ کون ہے جو اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کرتا ہے اس پر بڑے بڑے چوہے اُٹھے ۔ پچاس ساٹھ نے کہا کہ اب کی دفعہ بلی آئی تو ہم اُس کی دُم پکڑ لیں گے، پچاس ساٹھ چوہوں نے کہا کہ ہم اُس کا دایاں کان پکڑ لیں گے، پچاس ساٹھ نے کہا کہ ہم اُس کابایاں کان پکڑلیں گے سَودو سَو نے کہا کہ ہم اس کی گردن پکڑلیں گے، سَو دوسَو نے کہا کہ ہم اس کی ٹانگوں سے چمٹ جائیں گے، غرض اسی طرح سینکڑوں چوہوں نے اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کردیا اور کہا کہ ہم بلّی کو پکڑ لیں گے او راسے جانے نہ دیں گے۔ جب چوہے یہ تقریریں کررہے اور قربانی کیلئے اپنے آ پ کوپیش کررہے تھے تو گوشہ سے میائوں کی آواز آئی یہ سنتے ہی سب چوہے بھاگ گئے۔ کسی نے کہا بھاگے کہاں جارہے ہو؟ تم نے تو کہا تھا ہم بلّی کا کان پکڑلیں گے، اُس کی گردن پکڑ لیں گے، اُس کی دُم سے چمٹ جائیں گے اور اُسے مارڈالیں گے اب بھاگتے کیوں ہو؟ وہ کہنے لگے سب کچھ طے ہوگیا تھا مگر میائوں پکڑنے کا تو کسی نے وعدہ نہیں کیا تھا۔ یہی حال منافقین کا ہے وہ بھی جانیں قربان کرنے کا اعلان کرتے ہیں مگر میائوں سے بھاگ جاتے ہیں اور اتنی جرأت نہیں کرتے کہ ہمارے کسی آدمی کے کان کو اپنے قریب آنے دیں۔ ہاں زبان سے یہ دعوے بھی کئے چلے جاتے ہیں کہ ہم جانیں قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔
میں ا س سے انکار نہیں کرتا کہ قادیان میں منافق ہیں او ریقینا وہ منافقانہ چالیں چلتے ہیں لیکن یہ جو کہا جاتا ہے کہ وہ میٹنگ کرتے ہیں اور قادیان کے اکثر افراد منافق ہیں یہ محض جھوٹ اور افتراء ہوتا ہے۔ نہ کوئی میٹنگ ہوتی ہے نہ اور ایسی بات ہوتی ہے لیکن ان کی غرض اس قسم کی خبروں سے یہ ہوتی ہے کہ اس قسم کی میٹنگوں کی خبریں پڑھ کر لوگ گھبراجائیں گے اور کہیں گے اَللّٰہُ اَکْبَرُ نہ معلوم اب کیا ہونے والا ہے۔ پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یونہی نام لے دیتے ہیں۔ مثلاً گزشتہ دنوں میں ایک شخص نے کہا کہ اب میں مرزائیوں کو بتادوں گا کہ میرے اخبار میں چوہدری فتح محمد صاحب اور خان صاحب فرزند علی خود مضامین بھجوایا کرتے تھے اور میں تو ان کے چربے نکال کر اخبار میں دے دوں گا مگر کیا کچھ بھی نہ۔
اسی طرح جب شروع شروع میں شکایات کا یہ سلسلہ شروع ہؤا تو ہر ایک کے متعلق میرے پاس کوئی نہ کوئی خبر پہنچتی تھی اور کوئی ایسا نہ تھا جس کی منافقت کی اطلاع انہوں نے میرے پاس نہ بھجوائی ہو۔ میرے بھائیوں کے متعلق کہا گیا کہ وہ منافق ہیں، میرے بیٹوں کے متعلق کہا گیا کہ وہ منافق ہیں، میری بیویوں کے متعلق کہاگیا کہ وہ منافق ہیں، سلسلہ کے تمام ناظروں، سلسلہ کے قریباً تمام افسروں اور ان تمام کارکنوں کے متعلق جن کی کچھ بھی سلسلہ کی خدمات تھیں مجھے لکھا گیا کہ وہ منافق ہیں اور اس رنگ میں اطلاع دی جاتی کہ گویا ایک قیمتی راز ہے جو میرے پاس پہنچایا جارہا ہے۔ کئی لوگ جنہیں اِن باتوں میں سے انفرادی طور پر کسی کے متعلق کوئی اطلاع پہنچتی تو وہ دوڑتے ہوئے میرے پاس آتے اور کہتے کہ فلاں کے متعلق اطلاع ملی ہے کہ وہ منافق ہے۔ میں کہتا جانے دو تمہارے متعلق بھی منافقت کی اطلاع میرے پاس پہنچی ہوئی ہے۔ اس سے منافقوں کی غرض یہ ہؤاکرتی تھی کہ شاید میں ان کی چالوں میں آجائوں گا اور سب کو منافق تسلیم کرلوں گا حالانکہ یہ ہتھکنڈے تو شیطان کے حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے شروع ہیں اور جس نے قرآن مجید پڑھا ہؤاہو وہ آدم کے وقت کی بات سے آج دھوکا نہیں کھاسکتا۔ میں گو آدم کے وقت میںنہیں تھا مگر قرآن کریم کے ذریعہ مَیں آدم کے وقت میں بھی تھا ۔ میں پیدا بعدمیں ہؤامگر قرآن کریم کے ذریعہ مَیں نوحؑ کے ساتھ بھی تھا، میں ابراہیمؑ کے ساتھ بھی تھا، میں موسیٰؑ کے ساتھ بھی تھا، میں دائودؑ کے ساتھ بھی تھا، میں سلیمانؑ کے ساتھ بھی تھا، میں عیسیٰؑ کے ساتھ بھی تھا اور میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ بھی تھا۔ میںنے سب مخالفوں کو دیکھا ہے اور میں کہتاہوں کہ یہ اپنی اِن چالوں کی و جہ سے جو انہوں نے پہلے انبیاء کے وقت اختیار کیں مجھے دھوکا نہیں دے سکتے۔ ہاں میں منافقوں کو جانتاہوں اور بیسیوں منافقوں کو جانتا ہوں۔ ان کو جانتا ہوں اس الٰہی علم کے ذریعہ سے جو مجھے عطا کیا گیا، ان کوجانتاہوںان کشوف اور رئویا کے ذریعہ سے جومجھے دکھائے گئے ۔ پھر کئی ہیں جن کو علمِ ادراک کے ذریعہ جانتا ہوں۔ ایک شخص میرے ساتھ بات کرتا ہے اور میری روح اس کی روح سے ٹکرا کر معلوم کرلیتی ہے کہ یہ منافق کی روح ہے۔ پھر کئی ہیں جن کو ایسی شہادتوں سے جانتا ہوں جو معقول ہوتی ہیں اور قرآنی اصول کے مطابق صحیح ہوتی ہیں۔ اس کے سِوا جتنی باتیں بیان کی جاتی ہیں میں جانتا ہوں کہ وہ غلط ہیں۔ پس میں ان باتوں سے کیوں ڈروں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان اپنے اولیاء کو ڈرایا کرتا ہے ؎۳ ۔ پس جبکہ شیطان اپنے اولیاء کو ڈراتاہے تو میں شیطان اور اس کے چیلوں سے کیوں ڈروں۔ پس بے شک قادیان میں منافق ہیں اور باہر بھی منافق ہیں جویہاں سے بھاگ کر گئے ہیں اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ بعض بڑے بڑے مخلص بن کر دوسروں کو بہکاتے ہیں اور پھر جب گرفت کی جائے تو دلائل بھی دیتے ہیں جیسا عبداللہ بن ابی بن سلول اوردوسرے منافقین کاحال تھا۔ مگر قرآن مجید نے منافقین کی پہچان کیلئے بعض معیار بھی بتادیئے ہیں اور وہ اتنے کھلے معیار ہیں کہ ہر شخص ان کے ذریعہ منافق کا علم حاصل کرسکتاہے۔ مگر لوگ عموماً اپنے جذبات کے تابع رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ منافقین کو نہیں دیکھ سکتے ورنہ اگر وہ اپنے آپ کو قرآن مجید کے تابع کرلیں تو انہیں ایسا نور مل جائے جس کی مدد سے وہ مؤمنوں اور منافقوں میں تمیز کرسکیں لیکن چونکہ وہ جذبات کے تابع رہتے ہیں قرآن مجیدکے تابع اپنے آپ کو نہیں کرتے اس لئے وہ اُس نور سے محروم رہتے ہیں جس سے منافقوں کو پہچانا جاسکتا ہے۔ پس میرے لئے منافقوں کو پہچاننا ایسا ہی آسان ہے جیسے زرد اور سرخ رنگ کامعلوم کرنا اس لئے کہ قرآن مجید نے وہ اصول اور گُربتادیئے ہیں جن سے منافقین کو پہچانا جاسکتا ہے۔
قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ شخص جو مؤمنوں کی مصیبت پر خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے دیکھا! میںنے نہیں کہا تھا اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا وہ منافق ہے۔ قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ شخص منافق ہے جو قسمیں بہت کھاتا ہے، قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ لوگ جو مخلصین پر اعتراض کرتے اور مخالفین کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں وہ منافق ہیں، قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ وہ شخص جو قربانی کے وقت پیچھے ہٹ جاتا اور لوگوں کو بھی ہٹانے کی کوشش کرتا ہے اور عذر تراشنے اور بہانے بنانے لگ جاتا ہے وہ منافق ہے، قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جو شخص اپنی پرائیویٹ مجالس میں نظام پراعتراض کرے اورکہے کہ قربانیوں سے جماعت تباہ ہوتی جارہی ہے وہ منافق ہے، غرض کئی علامتیں ہیں جو قرآن کریم نے ہمیں بتائیں ۔ اگر کبھی منافقوں کے متعلق میںنے کوئی مضمون بیان کیا تو اس میں بہت سی علامتوں کا ذکر کروں گا مگر یہ موٹی موٹی باتیں ہیں اور ان سے اسی طرح منافقوں کو پہچانا جاسکتا ہے جس طرح روزِ روشن میں انسان ہر چیز کو دیکھ سکتا ہے۔ مگر وہ لوگ جوجذبات کے تابع ہوں جن کے دوست میں اگر کوئی عیب ہو تو وہ انہیں نظر نہ آئے لیکن اگر ان کا کوئی دشمن ہو تو فوراً وہ عیب انہیں اس میں نظر آنے لگے ۔ ان کی نگاہوں سے منافق پوشیدہ رہتے ہیں صرف وہی منافقین کو پہچان سکتے ہیں جو ہرقِسم کے بُغض ، کینہ ، حسد اور تمام اندرونی آلائشوں سے صاف ہوں۔ تب انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور ملتا ہے اور وہ نگاہ عطا کی جاتی ہے جس سے وہ منافقوں کو پہچان لیتے ہیں۔
ان ہی منافقوں میں سے ایک نے یہ خبر میرے متعلق شائع کی ہے وہ مجھے چیلنج دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میاں صاحب ذرا ثابت تو کریں کہ جب سے وہ خلیفہ ہوئے ہیں انہوںنے جمعہ کے سِوا کوئی نمازمسجد میں پڑھی ہو۔ اس امر کو اس شخص نے اس رنگ میں پیش کیا ہے کہ ناواقف سمجھے کہ اتنا جھوٹ تو کوئی بول نہیں سکتا ضرور یہ بات سچ ہوگی لیکن ہر قادیان کا رہنے والا اور اکثر لوگ جوباہر سے آتے رہتے ہیں جانتے ہیں کہ اس شخص نے اوّل درجہ کا افتراء کیا ہے ۔ ایسا افتراء کہ خود اس کا باپ اس کے برخلاف اس امر پر مباہلہ کرنے کو تیار ہوگا۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کے نزدیک مجھے اس قدرجادو آتا ہے کہ جب آپ لوگ صبح کی نماز میں آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میںنماز پڑھانے کیلئے مسجدمیں آیا ہوں تو دراصل وہ میں نہیں ہوتا صرف آپ لوگوں کوغلط فہمی ہوجاتی ہے، اِسی طرح ظہر کے وقت جب آپ لوگ آتے ہیں اورمجھے نماز پڑھاتے ہوئے دیکھتے ہیں تب بھی میرا جادو قائم ہوتا ہے اور آ پ یہ سمجھتے ہیں کہ میں آپ کونماز پڑھارہاہوں حالانکہ حقیقت میں مَیں اُس وقت گھر بیٹھا ہؤا ہوتا ہوں، پھر عصر کی نماز میں جب آپ لوگ آتے ہیں اورمجھے نماز پڑھاتے دیکھتے ہیں تو یہ بھی ایک جادو ہوتاہے، یہی حال مغرب اور عشاء کا ہوتاہے آپ لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ میں آپ کونماز پڑھارہاہوں حالانکہ اس منافق کے قول کے مطابق میں اُس وقت گھر بیٹھا ہوتا ہوں۔ یہ جادو غالباً احرار کی طرف سے ہی ہوتا ہوگا ہمیں تو اِس قِسم کا جادو نہیں آتا۔ ہاں ان کے سیکرٹری مسٹر مظہر علی اظہر ہیں اور ان کے ہاں ایسا جادو پایا جاتا ہے۔ مظہر علی صاحب اظہر شیعہ ہیں اور شیعوں کی نہایت ہی معتبر کتاب کافی میں لکھا ہے کہ ان کے امام صاحب نے ایک دفعہ کہا سوائے شیعوں کے جتنے لوگ ہیں سب حرامزادے ہیں۔ کسی نے کہا وہ حرامزادے کس طرح ہوگئے؟ روز لوگوں کے نکاح ہوتے ہیں اور ان نکاحوں کے بعد بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے امام صاحب کہنے لگے تمہیں پتہ نہیں یہ سب دھوکے کی بات ہے اصل بات یہ ہے کہ جس وقت کوئی سُنّی یا مجوسی یا عیسائی اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے تو شیطان اس کی گردن پکڑ کر اسے الگ کر دیتا ہے اور خود اُس کا ہم شکل بن کر اس کی بیوی سے ہم صحبت ہوجاتا ہے بیوی سمجھتی ہے کہ میرا خاوند مجھ سے ہم بستر ہے مگر ہوتا دراصل شیطان ہے اس طرح شیعوں کے سِوا جس قدر لوگوں کی اولاد ہوتی ہے سب ولدالزنا ہوتی ہے۔ پس اگر احرار کے ہاں کوئی ایسا تماشہ دکھا یاجاتا تو تعجب کی بات نہ تھی اور اسے سچ سمجھا جاسکتا تھا مگر ہمارے ہاں تو ایسی کوئی چیز نہیں۔
بعض منافقوں نے یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ خود مغربیت کے خلاف تعلیم دیتے ہیں مگر اپنی بیٹیوں کو انگریزی پڑھاتے ہیں اور اس کے لئے استانی رکھی ہوئی ہے۔ حالانکہ جہاں میں نے مغربیت کے خلاف تقریر کی تھی وہیں اس بات کا جواب بھی دے دیا گیا تھا پھر لڑکیوں کیلئے استانی رکھنے کا سوال تو دُور کا ہے اس سے زیادہ نمایاں ایک اور بات موجود ہے اور وہ یہ کہ میرا بیٹا انگلستان میں انگریزی کی تعلیم حاصل کررہا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ نمایاں مثال یہ ہے کہ میں نے خود انگریزی پڑھنے کی کوشش کی ہے اور انگریزی زبان کا لٹریچر منگوا کرپڑھتا رہتا ہوں لیکن اس کی وجہ جیسا کہ میں پہلے بھی بتاچکا ہوں یہ ہے کہ مغربیت کسی مٹی کے ڈھیر کا نام نہیں جسے پیر مار کر ہم نے مٹانا ہے بلکہ مغربیت اُن آدمیوں کی طرزِ معاشرت اور طرزِ تمدن کانام ہے جو انگریزی بولتے اور فرانسیسی وغیرہ زبانیں بھی استعمال میں لاتے ہیں۔ا س مغربیت کو کس طرح مٹایا جاسکتا ہے جب تک ہم خود انہی کی زبانوں میں مہارت پید اکرکے انہیں اس کے نقائص نہ بتائیں اور انہیں اسلام کی تعلیم نہ پہنچائیں۔ پس جب میں نے کہا تھا کہ مغربیت کو کچل دو تو سوچنا چاہئے کہ میرا اس سے کیا مطلب تھا۔ اگر تو میرا یہ مطلب تھاکہ مغربیت کے دِلدادوں کو زہر دے کر ماردو تو پھر تو سوال ہوسکتا تھا کہ جب انہیں مارنا ہے تو پھر ان کی زبانیں سیکھنے کا کیا مطلب۔ اور اگر میرا مطلب یہ تھا کہ اہلِ مغرب کو مسلمان بنا کر مغربیت کو کچلو تو پھر یہ فرض کس طرح ادا ہوسکتاہے جب تک ہمارے مرد اور ہماری عورتیں انگریزی زبان نہ سیکھیں اور ان تک اپنے خیالات پہنچانے کے قابل نہ بن جائیں۔ میں نے تو کئی دفعہ اس بات پر زور دیا ہے کہ عورتوں کی تعلیم میں یہ نقص ہے بلکہ لڑکوں کی تعلیم میں بھی یہ نقص تھا جس کا انگریزی کے متعلق تو ازالہ ہوگیا ہے مگر عربی کے متعلق ابھی وہ نقص موجود ہے کہ ہمارے ہاں صرف لفظ رٹائے جاتے ہیں اس زبان میں بولنانہیں سکھایا جاتا۔ بڑے بڑے مولوی بھی جب عربی میں بات کریں گے تو رہ جائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل بے شک ہماری جماعت میں وہ لوگ بھی ہیں جو عربی کے ماہر ہیں اور کچھ ہماری جماعت کا وہ حصہ ہے جوعربی ممالک میں رہنے کی وجہ سے عربی زبان میں اچھی طرح گفتگو کرسکتا ہے لیکن باقی مسلمانوں میں سے بڑے بڑے تعلیم یافتہ اشخاص بھی نَعَمْ اور لَا سے آگے نہیں چل سکتے اور نہ اپنے خیالات کا عربی میں اظہار کرسکتے ہیں۔ سرمارتے چلے جائیں گے اور کسی بات پر لَا اور کسی پر نَعَمْ کہہ دیں گے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکیں گے حالانکہ وہ عالم ہوتے ہیں اور واقعہ میں بڑے بڑے عالم ہوتے ہیں۔ اگر وہ کسی ادب کی کتاب پر حاشیہ لکھنے بیٹھیں تو ایسا زبردست حاشیہ لکھیں کہ عربوں اور مصریوں کو حیران کردیں گے لیکن چونکہ انہیں عربی میں باتیں کرنے کی مشق نہیں ہوتی اس لئے اگر کسی سے عربی میں گفتگو کرنے کاموقع آئے تو وہ پسینہ پسینہ ہوجاتے ہیں حالانکہ علم سیکھنے سے غرض یہی ہوتی ہے کہ اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ہماری لڑکیوں کی انگریزی کی تعلیم میں یہ نقص خاص طور پر موجود ہے لڑکوں کی تعلیم میں بھی ہے مگر لڑکیوں کی تعلیم میں یہ نقص بہت زیادہ ہے زبانیں سکھائی جاتی ہیں مگربولنا نہیں سکھایا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی ایف۔اے تک تعلیم پالیتی ہے، بی۔ اے ہوجاتی ہے لیکن جب اُس سے بات کرو تو اُس کی زبان پر Yes اور No کے الفاظ تک نہیں آسکتے۔ یہ نقص تعلیم میں اس لئے واقعہ ہے کہ لڑکیوں او رلڑکوں کو انگریزی اور عربی میں بولنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی مشق نہیں کرائی جاتی حالانکہ جن لوگوں کو بولنے کی مشق ہو وہ تھوڑی سی تعلیم حاصل کرکے بھی اپنے مَافی الضمیر کا بخوبی اظہار کرنے لگ جاتے ہیں۔غرض انگریزی تعلیم حاصل کرنا مغربیت کا اثر قبول کرنا نہیں بلکہ مغربیت کے کچلنے کا یہ ذریعہ ہے اور اس چیز کو ہم جس قدر جلد حاصل کرسکیں حاصل کرنا چاہئے ہاں یہ احتیاط ضروری ہے کہ ہماری لڑکیاں مغربی اثرقبول نہ کریں۔ مگر زبان دانی کیلئے اگر ہم کوئی ایسا انتظام کریں جس سے ہمارے لڑکے اور لڑکیاں عربی اور انگریزی میں بخوبی گفتگو کرسکیں تو یہ بجائے قابلِ اعتراض امر ہونے کے مستحسن امر ہوگا۔ میں تو اس فکر میں ہوں کہ کچھ اور انتظام کرکے چار پانچ ہوشیار لڑکے مصراور عرب میں بھجوائوں تا وہاں سے وہ زبان سیکھ کر آئیں اور پھر ایک بورڈنگ بنادیا جائے جس میں ان کی زیرنگرانی لڑکوں کوعربی میں ہی گفتگو کرنے کی اجازت ہو۔ تا جب وہ تعلیم سے فارغ ہوں تو عربی میں عمدگی سے تقریریں کرنے والے ہوں۔ بھلا عربی یا انگریزی میں جب تک کوئی انسان تقریر نہیں کرسکتا اور اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرسکتا اُس وقت تک اُس زبان کے سیکھنے کا فائدہ کیاہوسکتا ہے۔ خالی کتابیں پڑھ لیناتبلیغ میں مفیدنہیں۔ ہوسکتا ہے ہماری جماعت میں اس وقت صرف چند ہی لوگ ہیں جوعربی میں تقریریں کرسکتے ہیں اور وہ بھی اس لئے کہ وہ کچھ عرصہ تک غیر ممالک میں رہ چکے ہیں۔ مثلاً ولی اللہ شاہ صاحب ہوئے، یا شیخ عبدالرحمن صاحب مصری ہیں کہ وہ مصر میں رہ آئے ہیں، مولوی جلال الدین صاحب شمّس ہیں، مولوی اللہ دتہ صاحب ہیں، ان کے بعد اللہ اللہ خیر صلاً۔ کسی نے دو چار فقرے بول لئے یا ایک دو علماء نے ہمت کرکے خود عربی میں بولنے کی مشق پیدا کرلی تو یہ اور بات ہے ہر شخص ایسی ہمت نہیں کرسکتا۔ بعض ایسی ہمت والے ہوتے ہیں کہ خواہ مکمل سامان انہیں حاصل نہ ہوں پھر بھی وہ اپنی دھن میں لگے رہتے ہیں اور کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن نوّے فیصدی عموماً ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں کہ جب تک سامان ان کیلئے میسر نہ ہوں اُس وقت تک وہ کوئی کمال حاصل نہیں کرسکتے۔پس میں تو انگریزی اور عربی دونوں کے متعلق اس فکر میں ہوں کہ اس طرح سکھائی جائیں کہ انسان اپنے تمام خیالات کا ان میں اظہار کرسکے اور لڑکوں اورلڑکیوں دونوں کے متعلق میری یہ سکیم ہے جب خداتعالیٰ توفیق دے گا یہ بات پوری ہوجائے گی۔
غرض ایک طرف منافقین کی یہ چالیں ہیں اور دوسری طرف دشمن کی مخالفانہ چالیں ہیں لیکن میں سب کو بتادینا چاہتاہوں کہ اوّل تو جاننے والے جانتے ہیں کہ ان باتوں میں سے سوائے دو باتوں کے جن میں کچھ کچھ سچائی کی ملونی پائی جاتی ہے باقی سب باتیں ایسی ہی جھوٹی ہیں جیسے پنجابی میں کہتے ہیں ’’نرا لُون ہی گنہیا ‘‘ہے اس قسم کے جھوٹ روحانی جماعتوں کے متعلق بجائے بداثر پیدا کرنے کے ہمیشہ انہیں فائدہ پہنچایا کرتے ہیں کیونکہ لوگ خود سمجھ جاتے ہیں کہ یہ جھوٹ بولا جارہا ہے۔ لیکن میں تو ان چیزوں پر انحصار ہی نہیں رکھتا میں جانتا ہوں کہ جب میں جماعت کی اصلاح کیلئے کوئی قدم اُٹھائوں کمزور اور منافق لوگ چیخنے لگ جاتے ہیں۔ پس دنیوی نقطہ نگاہ سے میں سمجھتا ہوں میں اپنے راستہ میں کانٹے بورہا ہوں۔مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مؤمن بغیرکانٹوں پر چلے منزلِ مقصود پر نہیں پہنچا کرتا۔
ہماری جماعت لاکھوں کی ہے یا ہزاروں کی ، مؤمنوں کی ہے یا منافقوں کی، مخلصوں کی ہے یا کمزوروں اور متردّدوں کی، اسے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن جماعت کی خواہ کوئی تعداد ہو، جماعت کی خواہ کوئی حالت ہو میں یہ جانتا ہوں اور اُس وقت سے مجھے اس کا علم دیا گیا تھا جب مجھے ابھی یہ بھی پتہ نہ تھا کہ خلافت کیا چیز ہوتی ہے۔ جب مجھے اس بات کا بھی علم نہ تھا کہ خلافت کے مقام پر ایک زمانہ میں مجھے کھڑا کیاجائے گا، جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام زندہ تھے اور میری عمر پندرہ سولہ سال کی تھی، مجھے اُس وقت ہی بتادیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایک ایسے مقام پرکھڑا کرے گا جس کی لوگ سخت مخالفت کریں گے مگر قیامت تک میرے ماننے والے میرے منکروں پر غالب رہیں گے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا اور نہایت ہی زوردار الفاظ میں فرمایاکہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وہ لوگ جو تیری اتباع کریں گے وہ تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رہیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں مجھے یہ الہام ہؤا تھا او راُس وقت میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہے کیونکہ میں نہیںسمجھ سکتاتھا کہ لوگ میری مخالفت کریں گے اور میرے ساتھ تعلق رکھنے والے مخالفوں اور موافقوں کے گروہوں میںتقسیم ہوجائیں گے مگر آج میں سمجھتا ہوں دوسرے الہاموں اور کشوف اور رئویا کی وجہ سے اور ان حالات کی وجہ سے جو میرے پیش آرہے ہیں کہ یہ الہام میرے متعلق ہے۔ خداتعالیٰ نے مجھے ایسے مقام پر کھڑا کیا کہ دنیا اس کی مخالفت کیلئے آگئی۔ بیرونی مخالف بھی مخالفت کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور منافق بھی اپنے سروں کو اُٹھا کر یہ سمجھنے لگ گئے کہ اب ان کی کامیابی کا وقت آگیا لیکن میں ان سب کو حضرت نوحؑ کے الفاظ میں کہتا ہوں کہ جائو اور تم سب کے سب مل جائو اور سب مل کر اور اکٹھے ہوکرمجھ پر حملہ کرو اور تم مجھے کوئی ڈھیل نہ دو اور مجھے تباہ کرنے اور مٹانے کیلئے متحد ہوجائو پھر بھی یاد رکھو خدا تمہیں ذلیل اور رُسوا کرے گا، تمہیں شکست پر شکست دے گا اور وہ مجھے اپنے مقصدمیں کامیاب کرے گا۔
میں اپنی مشکلات کو سمجھتا ہوں، میں بلائوں اور آفات کو سمجھتاہوں، میں راستہ کے مصائب اور بھیانک نظاروں کو سمجھتا ہوں مگر میں جانتا ہوں کہ جس کام کو میں نے اپنے سامنے رکھا ہے اِس جیسا عظیم الشان کام اپنے سامنے رکھنے کے بعد انسان کیلئے دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو فتح کا جھنڈا اُڑاتا ہؤا گھر کو لَوٹے یا اِسی کوشش میں اپنی جان اپنے خدا کے سپرد کردے اِس کے سِوا اور کوئی چیزنہیں جسے وہ قبول کرسکے اور میں نے بھی سوچ کر اور سمجھ کر اور تمام حالات کو جانتے ہوئے اپنا قدم اُٹھایاہے۔ پس تم میں سے وہ منافق جو اپنے آپ کو بڑ انمازی سمجھتے اور مسجدوں میں آآکر گریہ و زاری کرتے ہیں، تم میں سے وہ منافق جو اپنے آپ کو بڑا عاقل او ردانا سمجھتے ہیں، تم میں سے وہ منافق جو اپنے آپ کو بڑا مدبر سمجھتے ہیں، تم میں سے وہ منافق جو اپنے آپ کو بڑا بہادر سمجھتے ہیں، تم میں سے وہ منافق جو اپنے آپ کوبڑا چالاک سمجھتے ہیں، وہ اپنی چالاکیوں اور اپنی تدبیروں اور اپنے اثروں اوراپنے علموں اور اپنے ظاہری تقویٰ اور لسّانی اور اپنی ہر اُس چیز کو لے کر جو انہیں حاصل ہے میر امقابلہ کریں پھر دیکھ لیں کہ نہ ان کی خفیہ تدبیریں انہیں کام دیں گی اور نہ ان کی ظاہری تدبیریں انہیں کوئی فائدہ پہنچاسکیں گی بلکہ ذلّت اور شکست انہیں نصیب ہوگی۔ اسی طرح میں بیرونی دشمنوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ بھی بے شک زور لگالیں اور سلسلہ احمدیہ کومٹانے کیلئے انتہائی جدوجہد صرف کرلیں وہ بھی دیکھیں گے کہ ناکامی و نامرادی ان کے حصہ میں آئے گی اور سلسلہ احمدیہ کو وہ ذرّہ بھر بھی نقصان نہیں پہنچاسکیں گے۔
میں نے اس وقت وہ بات پیش کردی ہے جس سے جھوٹ اور سچ کاپرکھنا بالکل آسان ہوجاتا ہے۔ میرا مستقبل میرے ہاتھ میں نہیں بلکہ میرے خدا کے ہاتھ میں ہے۔ میں اپنی کمزوریوں کو بھی سمجھتا ہوں، اپنی کوتاہیوں کو بھی جانتا ہوں مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جس کام کو لے کر میں کھڑا ہؤا ہوں اِس کے کرنے میں مَیںنے کبھی کوتاہی نہیں کی، میں نے اسلام سے کبھی غداری نہیں کی، میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی احساس میرے دل میں کام کرتا رہا ہے کہ احمدیت اور اسلام کی ترقی کیلئے اپنی ہر چیز قربان کردینی چاہئے، یہ کام میں نے ہمیشہ کیا، ہمیشہ کرتا ہوں اور اِنْشَائَ اللّٰہُ ہمیشہ کرتا چلا جائوں گا۔ میں جانتاہوں اس مقصد کی برکت کو اور میں جانتا ہوں کہ اِس وابستگی کی وجہ سے یہ ممکن ہی نہیں کہ میر اکوئی دشمن مجھ پرغالب آسکے۔ پس خواہ جھوٹ کے ذریعہ ہمارے بیرونی دشمن ہمیں نقصان پہنچانا چاہیں اور خواہ جھوٹ کے ذریعہ اندرونی منافق ہمیں نقصان پہنچانا چاہیں دونوں کو خداتعالیٰ ناکام رکھے گا اور کبھی ان کی آرزوئیں پوری نہیں کرے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا مخالف جھوٹ بولنے والا ہے پھر ہم کیونکر سمجھ لیں کہ وہ سچائی پر غالب آسکتا ہے۔ یہ بُزدل اورمنافق ہمیشہ خفیہ منصوبوں سے کام لیتے ہیں مگر جن کا حوصلہ اتنا پست ہو کہ وہ اس انسان کے سامنے بھی اپنا مَافی الضمیر بیان نہ کرسکیں جسے خداتعالیٰ نے نہ تلوار دی ہے نہ ظاہری حکومت، انہوں نے دنیا میں اور کیا کام کرناہے۔
رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جو منافقین تھے وہ تو باوجود تلوار کا زمانہ ہونے کے بعض دفعہ بول پڑتے تھے مگر آج کل کے منافق تو منافقوں کے بھی منافق ہیں۔جیسے کہتے ہیں ’’گوہ درگوہ کُتّے کا گوہ‘‘ ۔ کُتّا پاخانہ کھاتا ہے اور کُتّے کا پاخانہ تو پاخانے کا پاخانہ ہوتاہے۔ ایسے ذلیل اور ناپاک وجودوں کوکب خداتعالیٰ اپنی مقدس فتح سے برکت دے سکتا ہے۔ ان کا دنیا میں بھی منہ کالا ہوگا او راگلے جہان میں بھی منہ کالا ہوگا۔
ہاں بعض باتیں لطیفہ کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور انہیں دیکھ کر ضرور افسوس ہوتاہے۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ ان منافقین میں سے ایک ایسا منافق بھی ہے جو اس ملک کا رہنے والا ہے جس نے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید جیسا نیک انسان جو حضرت ابوبکرؓ کی مانند تھا ہمیں عطا کیا مگر افسوس اسی ملک نے اِس وقت ایک مسیلمہ کذّاب بھی پیدا کردیا ہے۔ گویااس ملک نے ایک ہماری طرف گوہر پھینکا اور ایک اُس نے زہر پھینکی۔ افغانستان نے ہمیں ایک صدیق دیا اور ایک ہمیں مسیلمہ کذّاب دیا۔ اس میں بھی شاید کوئی خدائی مصلحت ہوتی ہے کہ ہر قوم میں کوئی نہ کوئی نظربٹّو ہوتا ہے تا اس قوم کے لوگ تکبر نہ کرنے لگ جائیں اورفخر اور خیلاء ۴؎کے خیالات میں مبتلاء نہ ہوجائیں۔ کہتے ہیں مور کے پائوں نہایت بدصورت ہوتے ہیں جب وہ ناچ رہا ہوتا ہے اور اپنے پروں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہورہا ہوتا ہے تو اچانک اُس کی نظر اپنے پائوں پر پڑ جاتی ہے اور وہ ناچنا بند کردیتا ہے۔ خداتعالیٰ بھی شاید اِسی لئے قوموں میں بعض باعثِ ننگ وجود بناتا ہے تا وہ جب اپنی قوم کے بعض ممتاز افراد کو دیکھ کر خوش ہورہے ہوں تو اپنے پائوں پر کوڑھ کی حالت کو دیکھ کرتکبّر میں مبتلاء ہونے سے محفوظ رہیں۔ یہی افغانستان کی حالت ہے اس نے بھی ایک صدیق پید اکیا اور ایک مسیلمہ کذّاب پید اکیا مگر بہرحال ان فتنوں کے مقابلہ کی ہمیں فکرکرنی چاہئے تا وہ جو خداتعالیٰ کے وعدے ہیں پورے ہوں اور دشمن اپنی تمام تدابیر میں خائب و خاسر رہے۔ اسی لئے میں نے جماعت سے کہا ہے کہ وہ دعائیں کرے اور اللہ تعالیٰ سے التجاء کرے کہ وہ خود اِن مشکلات و مصائب کوہٹائے۔
اس ہفتہ کا روز ہ آخری روزہ ہوگا جن کو توفیق ملے گی وہ تو اس دن دعا کریں گے ہی مگر میں جماعت کونصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس کے بعد بھی دُعائوں میں لگی رہے اور بیرونی دشمنوں کے جھوٹوں اور کذب بیانیوں کو دیکھتے ہوئے اور دوسری طرف منافقین کی قبیح حرکات کو مدّنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتی رہے کہ وہ ہمارا مالک اور آقا بیرونی دشمنوں کے حملوں سے بھی ہماری جماعت کو محفوظ رکھے اور اندرونی منافقین کی فتنہ آرائیوں سے بھی ہماری جماعت کو بچائے اور دونوں قسم کے دشمنوں کو تباہ و برباد کرکے ہمارے راستہ سے ہٹادے یا انہیں ہدایت دے کر ہمارابھائی بنادے۔
پس دعائیں کرو اور خاص طور پر دعائیں کرو مگر دعا کے پہلو کو ہمیشہ بددعا کے پہلو پر غالب رکھو۔ میں نے تجربہ کیا ہے آج ہماری جماعت میں بیسیوں ایسے مخلص ہیں جو چاریا پانچ یا دس سال پہلے منافق تھے اور بیسیوں ایسے ہیں جو آج سے دس یابیس سال پہلے ہماری جماعت کے شدیدمخالف تھے مگر آج وہ نہایت مخلص احمدی ہیں۔ اس لئے پہلے ہمیشہ یہی دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دشمنوں کو ہدایت دے اور اگر ہدایت کا قبول کرنا ان کیلئے مقدر نہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں تباہ کرے تا احمدیت کا بول بالا ہو اور شیطان اور اس کی ذرّیت کا منہ کالا ہو۔
(الفضل ۱۶؍ مئی ۱۹۳۶ئ)
؎۱ گائودی: بیوقوف ۔ احمق
؎۲ بَدَر￿ رَو: نالی ۔ گندہ پانی بہانے کی نالی۔ پانی باہر جا نے کا راستہ
؎۳ اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطَانُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَائَ ہٗ (آل عمران: ۱۷۶)
؎۴ خَی￿لَائ: خود پسندی ۔ غرور

۱۷
تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق جماعت کو انتباہ
(فرمودہ ۱۵؍مئی ۱۹۳۶ئ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورہ ابراہیم کی آیت وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِھِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِنْ اَرْضِنَا اَوْ لَتَعُوْدَنَّ فِیْ مِلَّتِنَا فَاَوْحٰٓی اِلَیْھِمْ رَبُّھُمْ لَنُھْلِکَنَّ الظّٰلِمِیْنَ ؎۱ تلاوت کی اور پھر فرمایا:-
میں نے بار بار جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنے آپ کوان مشکلات اور ابتلائوں کیلئے تیار کریں جو مستقبل میں ان کا انتظار کررے ہیں مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آرام یا آرام تو نہیں کہنا چاہئے آرام طلبی جو موجودہ طرزِ رہائش کی وجہ سے خصوصاً ہندوستانیوں میں پید اہورہی ہے اِس کی وجہ سے اکثر دوست اس بات کی جو میں کہتاہوں اہمیت کونہیں سمجھتے اور اپنے اندر تغیر پیداکرنے کیلئے آمادہ و تیار نظر نہیںآتے۔ میں اپنی جماعت کے متعلق یہ تونہیں سمجھتا کہ ایسا ہو لیکن بعض دفعہ بدقسمتی سے انسان کی آنکھیں ایسی بند ہو جاتی ہیں کہ وہ نتائج اور انجام سے غافل ہوجاتا ہے یہاں تک کہ مصیبت آکر اُسے پکڑ لیتی ہے۔ ہزاروں بادشاہتیں اور حکومتیں اسی طرح تباہ ہوگئیں کہ ان بادشاہتوں اور حکومتوں والے اپنے خیال میں اس یقین اور اطمینان سے بیٹھے رہے کہ کوئی دشمن ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ہندوستان میں انگریزوں کا تسلّط اسی رنگ میں ہؤا۔ یہاں کے حکمرانوں کوانہوں نے آپس میں لڑادیا اور ان میں سے ہر ایک یہی سمجھتا رہا کہ ہم اپنے دشمن کو مار رہے ہیں اور کسی نے بھی یہ خیال نہ کیا کہ اپنے آپ کومار رہے ہیں۔
ایک انگریز مصنف نے لکھا کہ ہندوستان کو ہم نے فتح نہیں کیا بلکہ ہندوستانیوں نے ہندوستان کوہمارے لئے فتح کیا۔ سارے ہندوستان میں صرف ایک شخص تھا جس نے اس حقیقت کو سمجھا اور دوسروں کو اُکسایا اور ہوشیار کیا مگر کسی نے اس کی بات نہ سنی اور اس کی آوا