• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 18

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 18


۱
اپنے مقصودکوہمیشہ اپنے سامنے رکھو
(فرمودہ یکم جنوری ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
مجھے پرسوں سے نزلہ اور کھانسی اور بخار کی شکایت ہے اس وجہ سے میں اونچی آواز سے بول نہیں سکتا اور دوسرے دوستوں کے ذریعہ سے اپنی آواز پہنچانے پر مجبور ہوں۔
آج کا جمعہ نئے سال کا پہلا جمعہ ہے اور پہلا دن بھی ہے۔ پس ہمیں اس جمعہ میں آئندہ کیلئے ایسے ارادے قائم کرنے چاہئیں جو اِس نئے سال میں ہمارے لئے چُستی اورمحنت کا سامان پیدا کرتے رہیں۔ بہت سے انسان اس لئے نیک کاموں سے محروم رہ جاتے ہیں کہ ان کے سامنے کوئی مقصود نہیں ہوتا اور وہ نہیں جانتے کہ اپنے فارغ اور زائد وقت کو کہاں صرف کریں اور اس وجہ سے جب کبھی ان کو فارغ وقت ملتا ہے وہ اسے سُستی میں ضائع کردیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے لئے نیک ارادوں کی ایک فہرست بنالے اور اسے اپنے ذہن میں رکھے تو اُسے فارغ اوقات میں اُن ارادوں کو پورا کرنے کی طرف تحریک ہوتی رہتی ہے اور وہ بہت سے ایسے کام کرلیتا ہے جن سے اس کا دوسرا بھائی جس نے پہلے سے اپنے لئے کوئی مقصود قرار دیا ہؤا نہیں ہوتا محروم رہ جاتا ہے۔
پس میں آج کے دن تمام دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے دلوں میں یہ پختہ عہد کرلیں کہ احمدیت کی طرف سے جو اُن کے سامنے مطالبہ پیش کیا گیا ہے وہ اُسے اپنی آنکھوں کے سامنے رکھیں گے اور اپنی زندگی کو اُس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ احمدیت کسی انجمن یا سوسائٹی کا نام نہیں ہے بلکہ وہ اسلام کا دوسرا نام ہے اور اسلام ایک وسیع تعلیم کے مجموعہ کا نام ہے جو مذہب کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور اخلاق کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور تمدن کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور سیاست کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور معاملاتِ باہمی کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور اقتصادیات کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور نفسیات کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور انسانی دماغ کے رُجحانات کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے اور انسانی جذبات کے اُتار چڑھائو کے متعلق بھی ہدایتیں دیتی ہے ۔ غرض آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کوئی بات ایسی نہیں جس کے متعلق اسلام کوئی نہ کوئی ہدایت نہ دیتا ہو۔ پھر جو شخص احمدیت کو قبول کرکے اِس امر پر خوش ہوجاتا ہے کہ مَیں وفاتِ مسیحؑ کا قائل ہوگیا ہوں یا آنے والے مسیحؑ پر ایمان لے آیا ہوںیا میں نماز یں باقاعدہ پڑھنے لگا ہوں یا میں روزے باقاعدہ رکھتا ہوں یا میں زکوٰۃ دیتا ہوں یا میں حج اگر مجھے توفیق ہے تو بجالاچکا ہوں اور یہ خیال کرتاہے کہ گویا اُس نے احمدیت پر عمل کرلیا تو اُس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص سمندر میں سے پانی کا ایک گلاس نکال لے اور خیال کرے کہ سمندر میرے قبضہ میں آگیا ہے۔ اگر صرف یہی پانچ سات مسائل اسلام کہلاتے ہیں تو اتنے بڑے قرآن کے نازل کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی یہ باتیں تو دو تین رکوع میں آسکتی تھیں۔ پس جو شخص ان احکام پر قانع ہوجاتا ہے وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی نسبت قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم کچھ حصۂ قرآن پرایمان لائے اورکچھ حصہ کا انکارکرتے ہو۔ ۱؎ آخر وہ وسیع تعلیمیں جو اللہ تعالیٰ نے توحید کے باریک مسائل کے متعلق قرآن کریم میں بیان فرمائی ہیں یا محبت ِالٰہی اور توکّل کے متعلق بیان فرمائی ہیں یا وہ تفصیلات جو اُس نے اخلاق کے متعلق بیان فرمائی ہیں یا تمدن یا سیاست یا اقتصادیات یا معاملات کے متعلق بیان فرمائی ہیں، اُن پر کون عمل کرے گا۔ کیا قرآن کریم کے یہ حصے بیکار پڑے رہیں گے؟ کیا ان کی طرف توجہ کرنے والے مسلمانوں سے باہر کوئی اور لوگ ہوں گے؟ پس جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ قرآنِ کریم کے تمام مطالب اور اس کی تمام تعلیمات کو زندہ کرے خواہ وہ مذہب اور عقیدہ کے متعلق ہوں یا اخلاق کے متعلق ہوں یا اصولِ تمدن اور سیاسیات کے متعلق ہوں یا اقتصادیات کے اور معاملات کے متعلق ہوں۔ کیونکہ دُنیا اِن سارے اُمور کے لئے پیاسی ہے اور بغیر اس معرفت کے پانی کے وہ زندہ نہیں رہ سکتی۔ خدا نے اِسی موت کو دیکھ کر اپنا مامور بھیجا ہے اور وہ امید رکھتا ہے کہ اس مامور کی جماعت زندگی کے ہر شعبہ میں اسلامی تعلیم کو قائم کرے گی اور جس حد تک اُسے عمل کرنے کا موقع ہے وہ خود عمل کرے گی اور جن امور پر اسے ابھی قبضہ اور تصرف حاصل نہیں ان کو اپنے اختیار میں لانے کی سعی اور کوشش کرے گی۔
یاد رکھو کہ سیاسیات اور اقتصادیات اور تمدنی اُمور حکومت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پس جب تک ہم اپنے نظام کو مضبوط نہ کریں اور تبلیغ اور تعلیم کے ذریعہ سے حکومتوں پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں، ہم اسلام کی ساری تعلیموں کوجاری نہیں کرسکتے۔ پس اِس پر خوش مت ہو کہ تلوار سے جہاد آجکل جائز نہیں یا یہ کہ دینی لڑائیاں بند کردی گئی ہیں۔ لڑائیاں بند نہیں کی گئیں، لڑائی کا طریقہ بدلا گیا ہے اور شاید موجودہ طریقہ پہلے طریق سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ تلوار سے ملک کا فتح کرنا آسان ہے لیکن دلیل سے دل کا فتح کرنا مشکل ہے۔
پس یہ مت خیال کرو کہ ہمارے لئے حکومتوں اور ملکوں کا فتح کرنا بند کردیا گیا ہے بلکہ ہمارے لئے بھی حکومتوں اور ملکوں کا فتح کرنا ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ کے لئے ضروری تھا صرف فرق ذریعے کا ہے۔ وہ لوہے کی تلوار سے یہ کام کرتے تھے اور ہمیں دلائل کی تلوار سے یہ کام کرنا ہوگا۔
پس آرام سے مت بیٹھو کہ تمہاری منزل بہت دُور ہے اور تمہارا کام بہت مشکل ہے اور تمہاری ذِمّہ واریاں بہت بھاری ہیں۔ تم ایک خطرناک صورتِ حالات میں سے گزررہے ہو کہ باوجود تمہاری کمزوری کے خداتعالیٰ نے تم پر وہ بوجھ لادا ہے کہ جس کے اُٹھانے سے زمین اور آسمان بھی کانپتے ہیں۔ دنیا کی حکومتیں صرف ایک ایک قوم سے لڑائی کے موقع پر خائف ہوجاتی ہیں اور انجام سے ڈرتی ہیں۔ لیکن آپ لوگوں کو خداتعالیٰ کا حکم ہے کہ قرآن کی تلوار لے کر دُنیا کی تمام حکومتوں پر ایک ہی وقت میں حملہ کردیں اور یا اِس میدان میں جان دے دیں یا اُن ملکوں کو خدا اور اس کے رسول کیلئے فتح کریں۔ پس چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف مت دیکھو اور اپنے مقصود کو اپنی نظروں کے سامنے رکھو۔ اور ہر احمدی خواہ کسی شعبۂ زندگی میں اپنے آپ کو مشغول پاتا ہو اُس کو اپنی کوششوں اور سعیوں کا مرجع صرف ایک ہی نقطہ رکھنا چاہئے کہ اُس نے دُنیا کو اسلام کیلئے فتح کرنا ہے۔ ہمارا ایک تاجر اپنی تجارت کے تمام کاموں میں اِسی امر کو مدنظر رکھے اور ایک صناع بھی اپنے تمام کاموں میں اِسی امرکو مدنظر رکھے اور ایک معلم بھی اپنی تعلیم میں اسی امر کو مدنظر رکھے اور ایک قاضی بھی اپنے فیصلوں میں اِسی امر کو مدنظر رکھے۔ غرض جس جس کام میں کوئی احمدی مشغول ہے وہ یہ یاد رکھے کہ اس کے کام کا آخری نتیجہ اِسی صورت میں ظاہر ہو کہ دُنیا، خدا اور اس کے رسو ل کیلئے فتح کرتا جائے۔ اگر ہمارے تمام دوست اس مقصود کو اپنے سامنے رکھیں تو اُن کو ذہنی طور پر اتنی بلندی حاصل ہو کہ جو دُنیا میں کسی قوم کو حاصل نہیں ہوئی۔ آج تو ان کی مثال ایک کنویں کے مینڈک کی سی ہے کہ ایک نہایت چھوٹی سی منزلِ مقصود ان کے سامنے ہے اور وُہ اتنا بھی تو نہیں جانتے کہ خداتعالیٰ نے کیا کام ان کے سپرد کیا ہے۔ حالانکہ کام کرنے سے پہلے خود کام کی مقدار کا جاننا ضروری ہوتا ہے۔ جیسا کہ میں شروع میں کہہ چکا ہوں کہ ان میں سے بعض چندہ دیتے ہیں اور خوش ہوجاتے ہیں اوربعض نمازیں پڑھتے ہیں اور خوش ہوجاتے ہیں اور بعض روزے رکھتے ہیں اور خوش ہو جاتے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ یہ تعلیمیں تو اسلامی تعلیم کے سمندر کا ایک قطرہ ہیں۔
پس چاہئے کہ ہمارے دوست سلسلہ کے قیام کی اہمیت کو سمجھیں اور اسلام کی وسیع تعلیم کو اپنے سامنے رکھیں اور دنیا میں جس قدر خرابیاں پیدا ہورہی ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کریں اور صرف ایک محدود خیال کے اندر اپنے آپ کو مقیّد نہ کریں۔ قرآن شریف میں بھی آتا ہے اور حدیث میں بھی آتا ہے کہ مومن کاادنیٰ بدلہ آسمان اور زمین ہوں گے۔ اب سوچو توسہی کہ آسمان اور زمین مومن کو مل کیونکر سکتے ہیں جب تک اس کے اعمال آسمان اور زمین پر پورے طور پر حاوی نہ ہوں۔ درحقیقت قرآن کریم اور حدیث کا یہی منشاء ہے کہ مومن کے خیالات اور اُس کے اعمال آسمان اور زمین کی تمام باتوں پر حاوی ہوتے ہیں اور چونکہ وہ آسمان اور زمین کی تمام چیزوں کی اصلاح کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے انعام میں اس کو آسمان اور زمین بخش دیتا ہے۔ ورنہ جو شخص زمین کی ایک بالشت کی اصلاح میں لگا رہے اُس کو حق ہی کہاں حاصل ہوسکتا ہے کہ آسمان اور زمین اسے بخش دیئے جائیں۔ وہ تو اس بالشت بھر زمین کا ہی حقدار ہوسکتا ہے۔ پس اگر تم چاہتے ہو کہ کامل مومن تصور کئے جائو اور خداتعالیٰ کے وعدہ کے مطابق زمین اور آسمان تمہیں انعام کے طور پر بخش دیئے جائیں تو زمین اور آسمان کی اصلاح کی طرف توجہ کرو اور اِس کا کوئی گوشہ باقی نہ رہے جس کی اصلاح کا ارادہ یا جس کی اصلاح کیلئے کوشش تمہاری نیتوں اور کوششوں سے باہر ہو۔ ہاں میں یہ مانتاہوں کہ بعض انسانوں کیلئے باوجود کوشش کے بعض کاموں کا پورا کرنا ناممکن ہوتا ہے لیکن ارادہ کرنا تو ناممکن نہیں ہوتا۔ پس عمل بے شک کُلّی طور پر آپ کے اختیار میں نہیں لیکن ارادہ تو کُلّی طور پر خداتعالیٰ نے آپ کے اختیار میں رکھا ہے۔
پس پہلے اُس چیز کو کریں جو خداتعالیٰ نے آپ کے اختیار میں رکھی ہے پھر امید رکھیں کہ خداتعالیٰ اس چیز کابھی اختیار آپ کو دے دے گا جو اُس نے اپنے قبضہ میں رکھی ہوئی تھی۔ کیونکہ جب خادم ایک کام کرلیتا ہے تو آقا اُسے دوسرا کام سپرد کردیتا ہے۔ پس ارادہ جو آپ کے اختیار میں ہے آپ اُس کی اصلاح کریں پھر خداتعالیٰ عمل کو جو آپ کے اختیار میں نہیں ہے خود درست کردے گا اور اُس کو بجالانے کی آپ کو طاقت دے گا۔
میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتاہوں کہ وہ ہماری جماعت کے اذہان میں روشنی پیدا کرے اور وہ محدودیت اور مقیدیت جو اِس وقت بہت سے لوگوں کے ذہنوں پر طاری ہے اللہ تعالیٰ اِس کی اصلاح فرمائے اور اسلام کی تعلیم کی وُسعت کے سمجھنے کی انہیں توفیق بخشے اور جس طرح خدا کی قدرت نے انہیں اِس زمانہ کا روحانی بادشاہ بنایا ہے، وہ خود بھی اپنی بادشاہت کو محسوس کرتے ہوئے روحانی عالَم کے تمام محکموں کے سمجھنے اور ان کو درست رکھنے کی کوشش کریں۔ اے خدا تُو ایسا ہی کر۔
(الفضل ۸؍ جنوری ۱۹۳۷ئ)
؎۱ اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ (البقرۃ: ۸۶)

۲
دُنیاایک بار پھر عظیم الشان جنگ کے ذریعہ قیامت کا نظارہ دیکھنے والی ہے
(فرمودہ ۸؍جنوری ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
انسانی عقل ایک ایسے مقام پرکھڑی رہتی ہے کہ جس سے ذرا اِدھر اُدھر ہوکر انسان تباہی و بربادی کے گڑھے میں گرجاتا ہے۔ گویا انسانی ارادہ ہر وقت پُل صراط پر رہتا ہے کہ جس کے اندر ذرا سا تغیر یا تبدیلی پیدا ہونے کی وجہ سے نہایت خطرناک نتائج نکل آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے اچھے سمجھدار اور معقول انسان ان غفلت کی گھڑیوںمیں جبکہ وہ عقل و فہم کو قابو میں نہیں رکھ سکتے، ایسی ایسی حرکات کے مرتکب ہوجاتے ہیں کہ دوسرے تو الگ رہے وہ خود بھی اپنی عقل کی گھڑیوں میں اپنے آپ کو ملامت کرتے ہیں اور اگر ان پر وہ ساعتیں ملامت کی نہ آئیں تو کم سے کم دنیا ان پر ہمیشہ کیلئے ملامت کرتی رہتی ہے۔ وہ جابر بادشاہ جنہوں نے اپنی طاقت کے اوقات میں کئی شہروں اور مُلکوں کیلئے قتل عام کے حکم دیئے تھے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتاہے کہ ان پر ندامت کے ساعات آئیں یا نہ آئیں، لیکن اس میں شبہ نہیں کہ تاریخ میں ان واقعات کو پڑھ کر سینکڑوں ہزاروں سال بعد بھی لوگ ان پر لعنتیں بھیجتے ہیں اور ان کے افعال کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ہلاکو خان ؎۱ نے جب بغداد تباہ کیا یا نادر شاہ ؎۲ نے جب دلی کے قتل عام کا حکم دیا اُس وقت کے حالات کے مطابق وہ یہی سمجھتے ہوں کہ دیکھو ہم کتنے طاقتور ہیں۔ لیکن ان کے بعد آنے والی نسلیں جن کی تعریف یا مذمت کوئی قیمت رکھتی ہے وہ بغداد کی تباہی یا دِلّی کے قتل عام کے حالات پڑھ کر جس نفرت و حقارت سے ان افعال کو دیکھتی ہیں اِس کا اندازہ اگر اُس وقت ہلاکو یا نادر شاہ کو ہوجاتا تو میں سمجھتا ہوں باوجود بڑے بڑے طاقتور بادشاہ ہونے کے وہ اِن افعال سے باز رہتے۔ وہ بیوقوف لوگ نہیں تھے، سمجھدار اور عقلمند لوگ تھے۔ ایک بیوقوف آدمی کس طرح ہزاروں لاکھوں کی کمان کر سکتا ہے اور کس طرح اتنے وسیع رقبوں پر حکمرانی کرسکتا ہے۔ ان کی فتوحات اور حکمرانیاں بتاتی ہیں کہ وہ سمجھدار تھے مگر یہ افعال بتاتے ہیں کہ اتنے سمجھدار لوگوں پر بھی کسی وقت کمزوری اور ضُعف کا وقت آجاتا ہے۔ تویہ جابر بادشاہ جنہوں نے بڑے بڑے رقبوں اور علاقوں پر حکومتیں کیں اپنے دوسرے اعمال سے عقل اور سمجھ کا ثبوت دیتے ہیں مگر ان سے ایسے افعال بھی سرزد ہوئے جنہیں دیکھ کر یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید وہ پاگل تھے۔
انسانی جان کی قیمت کتنی بڑی ہے۔ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ جس نے ایک شخص کو ماردیا اُس نے گویا سارے جہان کو ماردیا۔ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ؎۳ یعنی ایک شخص کے قاتل کی مثال ایسی ہی ہے جیسے وہ سارے جہان کا قاتل ہے اور اگر ایک شخص کاقتل ایسا بھیانک فعل ہے تو جنہوں نے شہروں میں قتلِ عام کردیا اورحکم دے دیا کہ گلیوں میں چلتا، بازاروں میں پھرتا یا دروازوں میں کھڑا جو شخص بھی ملے اُسے قتل کردیاجائے، وہ کتنے خوفناک جُرم کے مرتکب تھے۔مگر اس کے ارتکاب کی اُن کی عقلوں نے اجازت دی۔ حالانکہ وہ لوگ بڑے بڑے سمجھدار تھے۔ اِس زمانہ کے لوگ اپنے بزرگوں پر حرف گیری کے بڑے عادی ہیں۔ ایک بچہ بھی جب تاریخ میں اِن واقعات کو پڑھتاہے تو کہہ اُٹھتا ہے کہ وہ لوگ بڑے وحشی تھے، بڑے غیرمہذب اور بڑے غیرمتمدن تھے کیونکہ انہوں نے ہزاروں اشخاص کو مروا دیا اور دل میں ایک فخر محسوس کرتاہے کہ اسے خدا نے ایسے زمانہ میں پیدا کیا ہے یا اگر وہ خدا کا قائل نہیں تو اتفاقی طور پر وہ ایسے زمانہ میں پیدا ہؤا ہے جب کہ لوگ بہت مہذب اور بہت متمدن ہیں اور جبکہ ایسی حرکات کو بالکل ناجائز سمجھا جاتا ہے۔
مگر غور کرنا چاہئے کہ کیا یہ خیالات درست ہیں؟ کیا واقعہ میں آج انسان ایسا مہذب و متمدن ہوگیا ہے کہ انسانی جان کی قیمت بڑھ گئی ہے؟ جب ہم دیکھتے ہیں کہ بیسیوں ڈاکٹر اپنے گھروں کو چھوڑ کر غیرممالک کو جاتے ہیں اور اس لئے تکالیف اُٹھاتے ہیں کہ بیماروں کا علاج کریں۔ کوئی انگلستان کو چھوڑ کر چین چلا جاتا ہے، کوئی افریقہ کے جنگلوں میں مارا مارا پھر رہا ہے، کوئی ہندوستان میں آکر کوڑھیوں کے علاج میں مصروف ہے تو دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ آجکل کے لوگ بہت متمدن ہیں اور دوسرے کی جان لینے کی بجائے اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اگر اس کے بالمقابل ہم یہ دیکھیں کہ ہزاروں لوگ ایسی ایجادیں کرنے میں لگے ہوئے ہیںکہ جن کے ذریعہ ایک حملہ سے سینکڑوں ہزاروں لوگ مرجاتے ہیں یا عمر بھر کیلئے بیکار ہوجاتے ہیں تو عقل یہ تسلیم کرنے سے عاجز آجاتی ہے کہ بچانے والے افعال انسانیت اور تمدن کانتیجہ تھے۔ اگر اُس زمانہ کا انسان ترقی کرچکا ہوتا، زیادہ متمدن ہوچکا ہوتا، پہلوں سے زیادہ مہذب ہوتا، انسانیت کے زیادہ قریب ہوچکا ہوتا تو یہ کیونکر ممکن تھا کہ ایک بھائی تو ایک جان کو بچانے کیلئے اپنا وطن چھوڑتا اور دوسرا بھائی جس سے پہلے کو بھی پوری ہمدردی ہے اس لئے گھر سے نکلتا کہ نہتے اور کمزور ہزاروں انسانوں کو ایک ہی بم سے اُڑادے ۔ اگر تہذیب نے ترقی کی ہوتی تو لوگوں کا اکثر حصہ ہمیں ایسا نظر آتا جو ایسے جان لینے کے ذرائع کو حقارت کی نظر سے دیکھتا لیکن ہمیں نظر یہ آتا ہے کہ انسان کی جان لینے کیلئے اور ایسی ایجادیں کرنے کیلئے کہ کس طرح مخالف کو آسانی سے اپاہج اور بیکار کیا جاسکتا ہے، اتنے آدمی مصروف ہیں کہ جان بچانے کی فکر کرنے والے اتنے نہیں۔ پھر جو جان بچانے کی فکر میں ہیں ان کے دل بھی ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو جان لینے والی ایجادات کرنے میں منہمک ہیں۔ جب جرمنی سے جنگ ہورہی تھی کیا انگلستان کے وہ ڈاکٹر جو اپنی رحم دلی کا ثبوت دینے کیلئے ہندوستان میں کوڑھیوں کے علاج میں مصروف تھے یا ملیریا کے ازالہ کیلئے کام کررہے تھے، اُن کے دلوں سے ہر وقت یہ آواز نہیں اُٹھ رہی تھی کہ خدا ہمارے بھائی کو طاقت دے تا وہ زیادہ سے زیادہ جرمنوں کے سر کاٹ سکے اور کیا وہ درخواستیں نہیں کررہے تھے کہ انہیں بھی جنگ میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے تا وہ اپنے جان بچانے والے کام کو چھوڑ کر جان لینے کا کام کرکے راحت حاصل کرسکیں اور پھر کیا یہی حال آسٹرین اور جرمنوں کا بھی نہیں تھا؟ ہزاروں ڈاکٹر جو ہمیشہ مریضوں کو تسلی دیتے تھے کہ ہم ہر قربانی کرکے تمہاری جان بچائیں گے کیا اُس وقت سارا زور نہیںلگا رہے تھے کہ جس طرح بھی ہوسکے اپنے مخالفوں کی جانیں زیادہ سے زیادہ نکال سکیں۔ پس اِس نظارہ کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ انسان نے تہذیب و تمدن میں ترقی کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان نے تہذیب و تمدن میں نہیں بلکہ فریب اور دھوکا دینے میں، ظاہر داری میں اورجھوٹ میں ترقی کی ہے۔
ہلاکو لوگوں کو مرواتا تھا اور کہتا تھا کہ میں مارنے کیلئے آیا ہوں مگر آج کے ہلاکو جب مارتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم خدمت کیلئے آئے ہیں۔ نادر نے یہ کہہ کر قتل عام کرایا تھا کہ میں اسے جائز سمجھتا ہوں مگر اِس زمانہ کے کتنے نادر ہیں جو شہروں کو اُجاڑتے ہیںمگر کہتے ہیں کہ ہم اس قوم کی آزادی اور برتری کیلئے آئے ہیں۔ ذرا غور کرو نادر نے دِلّی میں جو قتلِ عام کیا اس کی کیا حقیقت تھی اس خونریزی کے مقابلہ میں جو ایبیسینیا میں اٹلی نے کی ہے۔ اَبی سینیا میں معمولی آدمی تو الگ رہے خود باشاہ بھی زہریلے بموں کے اثر سے بچ نہیں سکا اور سر سے پیر تک زخمی ہوگیا۔ اچھے اچھے سمجھدار آدمی ، مدبرین اور جرنیل پاگلوں کی طرح چیخیں مارتے پھرتے تھے۔ جتنی تباہی حبشہ میں اٹلی کی بمباری نے کی اتنی تو دِلّی میں نہیں ہوئی ہوگی۔ مگر نادر نے یہ ہرگز نہیں کہا تھا کہ میں دلی کی اصلاح کیلئے آیا ہوں بلکہ اس نے یہی کہا تھا کہ میں قتل کیلئے آیا ہوں۔ وہ قاتل بیشک تھا مگر جھوٹا نہیں تھا مگر آجکل کے قاتل اپنے فائدہ کیلئے غریبوں کی کھالیں اُدھیڑتے ہیں مگر کہتے یہ ہیں کہ ہم رفاہِ عام کررہے ہیں، ملک کی ترقی کیلئے آئے ہیں یہ لوگ پہلوں سے زیادہ قاتل ہیں اور پھر ساتھ جھوٹے بھی ہیں۔ اِن حالات میں ہماری جماعت (جماعت سے مراد وہ لوگ ہیں جو خداتعالیٰ کے نزدیک جماعت میں شامل ہیں وہ کنویں کے مینڈک نہیں۔ جو سمجھتے ہیں چندہ دے دینا اور نمازیں پڑھ چھوڑنا کافی ہے) کے وہ دوست جو قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہاموں پر غور کرتے ہیں اور جو جانتے ہیںکہ خداتعالیٰ کی جماعتیں دنیا کوبدلنے کیلئے آتی ہیں۔ جن میں سے ایک معمولی زمیندار جب اپنے کھیت میں ہل چلا رہا ہوتا ہے تویہ نہیں سوچتا کہ مجھے غلّہ کتنا آئے گا، بلکہ یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ امریکہ اورجاپان کی اصلاح کس طرح ہوگی۔ ایک درزی جب پاجامہ سی رہا ہوتا ہے تو اُس کا خیال اس طرف نہیں ہوتا کہ مجھے اس کی کتنی اُجرت ملے گی بلکہ وہ یہ خیال کررہا ہوتا کہ فلپائن اور امریکہ میں کس طرح پاک انقلاب پیدا کیا جاسکتا ہے۔ ایک بڑھئی جب لکڑی صاف کررہا ہوتا ہے تو یہ نہیں سوچتا کہ اس سے تیار شدہ میز یا کرسی کتنے میں بکے گی بلکہ یہ سوچ رہا ہوتاہے کہ دنیا کی اقتصادیات اور تہذیب و تمدن کی اصلاح کیلئے کیا ذرائع اختیار کرنے چاہئیں۔ یہ وہ جماعت ہے جو حقیقتاً خدا کی جماعت ہے کنویں کے وہ مینڈک جماعت نہیں جومحض اس لئے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کو بادشاہت نہیں دی، سمجھتے ہیں کہ دنیا سے ہمیں کیا سروکار اور ہمیں ان باتوں پر غور کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں اس دوسری قسم کے لوگوں کو مخاطب نہیں کرتا بلکہ اُن کو کرتا ہوں جو خدا کے نزدیک بھی جماعت میں شامل ہیں۔
بابر ؎۴ نے اپنے دشمنوں سے گیارہ مرتبہ شکست کھائی اور اس کے بعد وہ بیان کرتاہے کہ میں پاخانہ بیٹھاہؤا بھی ملکوں کی فتوحات کے متعلق سوچا کرتا تھا اور میری ترقی کا ذریعہ ہی یہ ہؤا کہ ایک مرتبہ پاخانہ بیٹھے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک چیونٹی ایک دانہ کو دیوار پر چڑھانا چاہتی ہے دانہ بڑا اور وہ چھوٹی تھی بار بار چڑھتی اور پھر گرجاتی تھی اور اسی طرح وہ بیس سے زیادہ بار گری لیکن آخرکار کامیاب ہوگئی۔ یہ دیکھ کر مجھے استنجے کی بھی ہوش نہ رہی اور میں نے خیال کیا کہ کیا میں اِس چیونٹی سے بھی گیا گزرا ہوں کہ گیارہ شکستوں سے ڈر جائوں۔ چنانچہ اُس نے پھر اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے کامیابی دی اور آج دُنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ پھر کیا ہماری جماعت کیلئے جسے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ فتوحات پر فتوحات دی ہیں اور جس نے شکست کانام بھی نہیں سنا، مناسب ہے کہ خیال کرے ہمیں دنیا سے کیا؟
ہمارے ایک غریب زمیندار کو جو دو یا چار کنال زمین پر گزر اوقات کرتا ہے، یہ ہرگز ہرگز خیال نہیں کرنا چاہئے کہ مجھے دُنیا کی سیاست سے کیا سروکار۔ ایک غریب تاجر جو چار یا چھ آنے یومیہ کماتا ہے اسے یہ خیال کرلینا مناسب نہیں کہ مجھے غیر ممالک میںپیدا ہونے والے انقلابات سے کیا واسطہ۔ اسی طرح ایک چھوٹے مدرّس کو جو الف۔ ب پڑھاتا ہے یہ ہرگز سمجھنا نہیں چاہئے کہ مجھے دُنیوی علوم سے کیا تعلق۔ اسی طرح ہمارے بڑھئی، درزی اور دھوبی کو یہ کبھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ میں جو کماتا ہوں اس میں سے حسبِ حیثیت چندہ دے دیتا ہوں مجھے اس سے کیا مطلب کہ دنیا کی اقتصادی حالت کیسی ہے۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اسے اسی لئے پیدا کیا گیا ہے کہ دُنیا کو الٹ دے۔
جو شخص بھی اس جماعت میں داخل ہوتا ہے وہ گویا اقرار کرتا ہے کہ اس جماعت کی ذمہ واریوں کو وہ قبول کرتا ہے۔ اور اگر ابھی وہ زمانہ نہیں آیا کہ وہ باہر نکلے تو کم سے کم اسے یہ خیال توکرنا چاہئے کہ وہ کس غرض کیلئے پیدا کیا گیاہے۔ کیا فوجی سپاہی ہرروز لڑائی کرتے ہیں؟ یاکیا پولیس والے ہر روز چوروں کو پکڑا کرتے ہیں؟ مگر کیا کبھی کسی سپاہی کے دل میں یہ خیال آسکتا ہے کہ میں لڑنے کیلئے نہیں ہوں؟ ایک پولیس مین خواہ دس سال تک کسی چور کو نہ پکڑ سکے اس کے مدنظر یہی ہوگا کہ جب بھی موقع ملے، اسے پکڑوں۔ اور اگر وہ بددیانت ہے تو یہ خیال آئے گاکہ روپیہ لے کر اسے چھوڑ دوں مگر روپیہ بھی تو اسی حالت میں لے گا جب اسے پکڑے گا۔ بہرحال چور کو پکڑنے کا خیال اس کے مدنظر ہوگا۔ ایک سپاہی کے سامنے بھی ہمیشہ لڑائی ہوگی۔ اگر وہ بہادر ہے تو وہ خیال کرے گا کہ اگر لڑائی ہوئی تو میں اپنے ملک کیلئے یوں جان قربان کردوں گا اور دشمن کو شکست دوں گا۔ اگر کم بہادر ہے تو وہ خیال کرے گا کہ خدا کرے لڑائی نہ ہو۔ کیونکہ اگر ہوئی تومجھے لڑنا پڑے گا۔ اور اگر وہ بُزدل ہے تو خیال کررہا ہوگا کہ اگرلڑائی ہوئی تو میں بھاگوں گا کس طرح۔ پس خواہ اپنی بہادری دکھانے کیلئے ہو خواہ لڑائی سے بچنے کیلئے اور خواہ بھاگنے کی تجاویز سوچنے کیلئے، بہرحال سپاہی کے مدنظر لڑائی ضروری ہوگی۔ اسی طرح تم میں سے خواہ کوئی بڑھئی ہے یا دھوبی یا جولاہا، معمولی زمیندار ہے یا ادنیٰ تاجر، اگر اپنا اپنا کام کرتے وقت اُس کے ذہن میں دُنیا کی اصلاح کی تجاویز نہیں آتیں تو گویا اُس نے اپنی پیدائش کی غرض نہیں سمجھی۔
میںتو حیران ہوتا ہوں کہ بعض دوست شکایت کرتے ہیں کہ الفضل میں سیاسی مضامین شائع ہوتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اگر وہ دنیا کی سیاسیات سے واقف نہیں ہوںگے تو اس کی اصلاح کیسے کریں گے۔ کیا سیاست قرآن کریم کا حصہ نہیں؟ ہاں اگر کوئی بات غلط شائع ہو تو اعتراض ہوسکتا ہے۔ ایک دوست کو شکایت ہے کہ جاپان کے حالات اخبار الفضل میںکیوں درج ہوتے ہیں۔ اور یہی لوگ ہیں جن کو میں کنویں کے مینڈک کہتا ہوں۔ فکر تو یہ ہونی چاہئے کہ جاپان کے حالات تو شائع ہوتے ہیں فلپائن کے کیوں نہیں ہوتے؟ روس کے کیوں نہیں ہوتے؟ یہ غم تمہیں کھائے جانا چاہئے کہ کیا یہی ہماری پہنچ ہے کہ ہمارے اخبارمیں صرف جاپان کے حالات ہی شائع ہوتے ہیں۔ ہمارے دوستوں کو اِس پر گلہ ہونا چاہئے کہ جو نہیں چھپا نہ کہ اُس پر جو چھپ رہا ہے۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ کیا جاپان کی اصلاح ہمارا فرض نہیں؟ اگر ہے تو اس کے حالات کا علم نہ ہوگا توہمارے دل میں اس کیلئے درد کس طرح پیدا ہوگا اور ہم اس کی اصلاح کس طرح کرسکتے ہیں۔
پس ہماری جماعت کو اپنے فرائض کو سمجھنا چاہئے اور یاد رکھنا چاہے کہ خداتعالیٰ نے ہمیں دنیا کی اصلاح کیلئے پیدا کیا ہے۔ خاص کر ایسے وقت میں جبکہ دنیا میں اِس قدر خرابیاںپیدا ہوچکی ہیں۔ کیا ایک طبیب کہہ سکتا ہے کہ لوگ آکر مجھے تنگ کرتے ہیں جو اپنی بیماریاں مجھے بتاتے ہیں؟ اگر وہ ان بیماریوں سے آگاہ نہ ہو تو علاج کس طرح کرسکتا ہے۔ اسی طرح جب تک تم دنیا کے حالات سے واقف نہ ہو اُس کی اصلاح کیسے کرسکتے ہو۔ ہم نے اپنے زور سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے فضل سے بہت بڑا کام کیا ہے۔ حیاتِ مسیح کے عقیدہ کو بدل دیا ہے، قرآن کریم کے نسخ کے خیالات کو بدل دیا ہے۔ عیسائی ممالک میں بائبل کے متعلق عیسائیوں کے خیالات میں تبدیلی پیدا کردی ہے مگرابھی یہ کام ایسا ہی ہے جیسے سمندر کے مقابلہ میں کنواں۔ ہمارا تعلق ساری دنیا سے ہے اس لئے ہمیں سوچنا چاہئے کہ دنیا کو ان مختلف بلائوں سے کس طرح نجات دلائی جاسکتی ہے جو اس پرنازل ہورہی ہیں۔ اگر اس خیال سے کہ ہمارے پاس طاقت نہیں بیٹھ جائیں تو کبھی کامیاب نہیںہوسکتے۔
ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک میراثی بیکار رہنے کا عادی تھا۔ اُس کی بیوی ہمیشہ اُسے کہتی کہ کوئی کام کرو مگر وہ جواب دیتا کہ کام ملتا نہیں۔ آخرجنگ شروع ہوئی اور لوگ بھرتی ہونے لگے۔ اُس کی بیوی نے کہا کہ جائو تم بھی فوج میں بھرتی ہوجائو۔ وہ کہنے لگا کہ بیویاں تو اپنے خاوندوں کی خیرخواہ ہوتی ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ تم میری دشمن ہو اور چاہتی ہو کہ میں لڑائی میں شامل ہوں اور مارا جائوں۔ اُس کی بیوی نے کچھ چنے لئے اور انہیں چکی میں پیسنے لگی۔ بعض اوقات چکی میںکسی جگہ آٹا جمع ہوجائے تو سل اونچی ہوجاتی ہے اس لئے بعض دانے ثابت ہی نکل آتے ہیں۔ میراثن نے اپنے خاوند کو بلایا اورکہا کہ دیکھو جسے خدا بچانا چاہے وہ چکی کے پاٹ میں سے بھی سلامت نکل آتا ہے اس لئے تم کیوں یہ خیال کرتے ہو کہ ضرور مارے جائو گے؟ اِس پر میراثی نے جواب دیاکہ ’’تُو مینوں دلیاں ہویاں وچہ ای سمجھ لے‘‘ یعنی تُومیرا شمار انہی دانوں میں کر جو پیسے جاچکے ہیں۔تو اس قسم کے خیال وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنا شمار پہلے ہی پسے ہوئوں میںکرلیتے ہیں۔
جنگ عظیم میں بعض انگریزی فوجوں کے آدمی وسط جرمنی میں جاکر قید ہوئے اورپھر ساری فوجوں اور حفاظتوں سے بچتے ہوئے بھاگے اور اپنے ملک میں سلامت پہنچ گئے۔ ایمڈن جرمنی کا ایک چھوٹا ساجہاز تھا جس نے مدراس پر آکر گولہ باری کی۔ ہندوستانی چونکہ جنگی فنون سے بالکل ناواقف ہیں اس لئے جب ایمڈن نے مدراس پر گولہ باری کی تو باوجودیکہ مدراس یہاں سے بارہ سَو میل دُور ہے، پنجاب کی عورتوں کے دل دھڑکنے لگے تھے۔ اس جہاز کو آسٹریلیا کے قریب جاکر انگریزی علاقہ میں اور انگریزی جزیرہ میں انگریزی فوجوں نے تباہ کیا۔ وہ ملک انگریزوں کا تھا۔ اس کے ایک طرف جاپان تھا جو انگریزوں سے ہمدردی رکھتا تھا دوسری طرف روس تھا جو خود جنگ میںشامل تھا مگر پھر بھی ایمڈن والوں کا ایک حصہ وہاں سے بھاگ کرنکل گیا اور کم سے کم ایک شخص تو جاپانی، انگریزی اور روسی فوجوں سے بچتا ہؤا جرمنی جا پہنچا اور پھر جنگ میںشریک ہوگیا جو ابھی جاری تھی۔ جس وقت جہاز تباہ ہوا وہ اگر پیشاب خطا کر کے بیٹھ جاتے توپکڑے جاتے مگر انہوںنے جرأت کی اور بچ کر نکل گئے۔ انہوں نے اپنے حیرت انگیز حالات بیان کئے ہیں کہ وہ کس طرح بچ کر نکل گئے اور پھر لڑائی میں شامل ہوگئے۔ فرانس اوراٹلی وغیرہ سب ممالک کے لوگوں نے ایسے کارنامے دکھائے۔ بعض قید ہوگئے اور سات سات سال قید رہے۔ اب بھی کئی قیدی ہیں جو جیل خانوں میں ہی مرجاتے ہیں مگر کئی ہیں جو دو چار ماہ بعد ہی بھاگ نکلتے ہیں۔ پس اگر انسان حوصلہ نہ ہارے تو سَو راہیںنکل آتی ہیں اور ہمارے لئے تو ایک راستہ بنا بنایا ہے ہم دعا توکرسکتے ہیں۔
میں اِس وقت جماعت کو اِس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اِس زمانہ میں پھر دنیا میں شدید تغیرات پیدا ہورہے ہیں اور عنقریب شدید لڑائی لڑی جانے والی ہے جو انگریزوں و جرمنوں کی گزشتہ جنگ سے بھی سخت ہوگی۔ یہ اِس وقت تک اِس وجہ سے رُکی ہوئی ہے کہ انگریز ابھی تیار نہیں۔ اگر تیار ہوتے تواٹلی نے جس وقت حبشہ پر حملہ کیا تھا اُسی وقت جنگ چھڑ جاتی۔جنگ عظیم کے بعد انگریز بیچارے تو صلح صلح پکارتے رہے اور یورپ کی دوسری قومیں اپنی فوجی طاقت کو بڑھاتی رہیں اوراب نتیجہ یہ ہے کہ اٹلی جو چھوٹا سا ملک ہے خم ٹھونک کر چیلنج دے رہا ہے اور انگریز خاموش ہیں۔ اس کی یہ وجہ نہیں کہ انگریز لڑنا نہیں چاہتے۔ بیشک انگریزوں میںبعض ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر جرمنی انگلستان پر بھی قبضہ کرے تو کیا ۔ایک اورلیبر لیڈر نے تو اِس قسم کی ایک تقریر حال میں ہی کی ہے مگر بعض ایسے بھی تھے جو محسوس کررہے تھے کہ ہماری ذلّت ہورہی ہے لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اگر لڑائی ہوئی تو اس سے بھی زیادہ ذلّت ہوگی۔ اُس وقت سے انگریز بھی برابر سامان جنگ بڑھارہے ہیں مگر جرمنی اور اٹلی بھی اب بہت سمجھدار ہورہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انگریز ۱۹۳۷ء کے آخر تک نہیں لڑسکتے اِس لئے جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ گو یہ بھی ممکن ہے کہ اگر بہت زیادہ مجبور کیا جائے تو برطانوی حکومت ۱۹۳۷ء میں ہی لڑ پڑے لیکن یوں حکومت کا پروگرام ۱۹۳۸ء میں پورا ہوگا ۔ ابی سینیا کے بعد اٹلی نے سپین میں سوال اُٹھادیا ہے۔ انگریزی اخبارات کے بیان کے مطابق اٹلی والوں کا ڈھنگ عجیب ہے۔ وہ ایک کام کرتے ہیں اور اس کے ساتھ صلح کی ہرمجلس میں بھی شریک ہوتے ہیں اورجب صلح کی تجاویز ان کے سامنے پیش کی جاتی ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ ہم سوچ کر جواب دیں گے۔ اس سوچنے کے دوران میںحملہ بھی جاری رکھتے ہیں اور جب وہ علاقہ فتح ہوجاتا ہے یا کام ختم ہوجاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو صلح پر تیار تھے مگر افسوس اب تووہ علاقہ فتح ہی ہوگیا اورپھر کسی اور جگہ پر اپنا رسوخ بڑھانے لگ جاتے ہیں۔ اور پھر جب انگریز اور فرانسیسی سوال اُٹھاتے ہیں توکہہ دیتے ہیں کہ یہ معاملہ ذرا پیچیدہ ہے سوچ سمجھ کر جواب دیں گے۔ ادھر برطانیہ اور فرانس بھی جانتے ہیں کہ اِس سوچنے کا کیا مطلب ہے مگر کر کچھ نہیں سکتے۔ مثلاً آجکل والنٹیئروں کا سوال ہے۔ اٹلی اورجرمنی سے برابر والنٹیئر سپین جارہے ہیں۔ انگریز اور فرانسیسی کہتے ہیں یہ ٹھیک نہیں۔ اٹلی او رجرمن والے کہتے ہیں کہ اچھا ہم غور کرکے جواب دیں گے۔ مگر ساتھ ہی ۲۲؍دسمبر ۱۹۳۶ء سے ۲؍جنوری ۱۹۳۷ء تک دس ہزار والنٹیئرز اٹلی سے اور دس ہزارجرمنی سے سپین پہنچ گئے ہیں۔ باغیوں نے ساٹھ ہزار کا مطالبہ کیا تھا۔ اگر یہ درست ہے تو غالباً جب ساٹھ ہزار آدمی پہنچ جائے گا پھریہ اقوام کہہ دیں گی کہ اچھا اب والنٹیئر روانہ نہ کئے جائیں۔
اگر غور کیا جائے تو اصل میں یہ قصور دونوں کا ہے۔ اٹلی والے دیکھتے ہیں کہ فرانس اور انگلستان کے پاس بہت سی نوآبادیات ہیں اور ہمارے پاس کوئی نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کوئی وجہ نہیں کہ یہ دوسرے ملکوں سے فائدہ اُٹھائیں اورہم نہ اُٹھائیں ۔ چونکہ انگلستان کے بعض مقتدر مصنف اور سیاست دان غلطی سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ہم ہندوستان کو تہذیب اور شائستگی سکھانے جاتے ہیں جو غلط بات ہے اور میں بار بار اس کے متعلق انگریز کو توجہ دلاچکا ہوں کہ اِس دلیل کا خود ان کو نقصان پہنچے گا۔ ان کو صاف کہنا چاہئے کہ ہندوستان کو اُس وقت کے رائج الوقت قوانین ملک بازی کے مطابق ہم نے لیا تھا اور اب ہم عدل اورانصاف سے اِس پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ انگریز سیاستدانوں کی اِس غلط دلیل سے اٹلی اورجرمنی فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بھی دوسرے مُلکوں کو تہذیب اور شائستگی سکھائیں گے چنانچہ اٹلی والوں نے یہی دلیل ابی سینیا کی جنگ کی تائید میں دی تھی۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک مدرّس دوسرے کو کس طرح منع کرسکتاہے کہ وہ علم نہ پڑھائے۔ اس دلیل کے نئے استعمال کا نتیجہ یہ ہؤا ہے کہ اب بعض قومیں صاف کہہ رہیں کہ رفاہِ عام نہیں ہم اپنے فائدہ کیلئے سب کچھ کررہے ہیں اور ہم اپنا فائدہ چھوڑنے کیلئے کسی صورت میں تیار نہیں ہیں۔ اب تو بعض انگریز مدبرین نے بھی صاف کہہ دیا ہے کہ ہم نے ہندوستان پر اپنے فائدہ کیلئے قبضہ کررکھا ہے مگر اٹلی والوں نے ان باتوں سے کانوں میں روئی ٹھونسی ہوئی ہے۔ وہ برابر یہی کہے جارہے ہیں کہ ہم بھی رفاہِ عام کے کاموں میں حصہ لیں گے اور ثواب میں شریک ہوں گے۔
پس غلطیاںدونوں طرف ہیں اور حالت وہی ہورہی ہے کہ ’’جوگی جوگی لڑیں اور کھپروں کا نقصان‘‘۔ جوگی آپس میں لڑنے لگے تو چھپروں کی چھتوں کو توڑ کر لکڑیاں اور سلیں ایک دوسرے کو مارنے کیلئے اُتار لیں۔ ان لڑائیوں کے نتیجہ میں وہ قومیں جن کے پاس لڑائی یا حفاظت کیلئے سامان نہیں ہیں، تباہ ہورہی ہیں۔ پس یہ صحیح نہیں کہ ہم ان باتوں سے بے دخل ہوسکتے ہیں۔ انگلستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ جس چیز سے اُسے نقصان پہنچے اس سے ہندوستان کو بھی پہنچے گا خواہ ہندوستانی انگریزوں سے بے تعلقی ہی ظاہر کریں۔ مثلاً اگر اٹلی والے ابی سینیا میں فوجی مرکز قائم کرکے ہندوستان پر حملہ کریں تو اِس سے ہندوستانی ہی مریںگے۔
پس ہمارے لئے خاص کر ان قوموں کیلئے جو انگریزوں سے تعلقات رکھتی ہیں بہت خطرات ہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ انگریز اِس جنگ سے باہر نہیں رہ سکتے۔ چین اور افغانستان وغیرہ ممالک ممکن ہے بچ جائیں مگر انگلستان کا اِن اثرات سے محفوظ رہنا محال ہے اِس لئے دوستوں کو خصوصیت سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ آئندہ جو سامان لڑائی یا فتنہ کے ہوں اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اور ہمارے ساتھ تعلق رکھنے والی اقوام کیلئے ان سے بچنے کے سامان بھی کردے۔ بیشک تم مسولینی ؎۵ کی طرح گھونسہ نہیں دکھاسکتے، ہٹلر ؎۶ کی طرح تلوار نہیں چمکاسکتے مگر دعائیں توکرسکتے ہو اورپھر اپنے آپ کو منظم کرسکتے ہو کیونکہ منظم قوم کو ہر ایک اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ انگریزوں کے بعض افراد سے ہمیں شکوہ ہے اور جب تک ازالہ نہ ہوجائے وہ دور نہیں ہوسکتا۔ مگر اس میں بھی شبہ نہیںکہ انگریز قوم کے ساتھ ہمارے تعلقات ایسے ہیں کہ اس کی تباہی کے بعد ہم نقصان سے نہیں بچ سکتے اس لئے یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انگریزوں کو ایسے رستہ پر چلائے جو انہیں تباہی کی طرف لے جانے والانہ ہو۔
پھر فرانس اور ترکی کا جھگڑا ہورہا ہے۔ شام کے بعض علاقے فرانس نے لے لئے تھے۔ پہلے اس نے وعدہ کیا تھا کہ بعدمیں ان کو چھوڑ دے گا مگر اب وہ انہیں چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔ تُرک ان علاقوںکو مانگ رہے ہیں اوربظاہر جنگ پر آمادہ لیکن حالات بظاہر ترکوں کے سخت خلاف ہیں۔ کیونکہ چند ماہ پہلے ترکوں کے سچے دوست صرف روسی تھے۔ جرمن بھی پہلے ان کے ساتھ تھے مگر اب چونکہ جرمنی کا اٹلی سے دوستانہ ہے اور اٹلی ترکی کے ایک علاقہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور ترکی سے اسے مخالفت ہوگئی ہے اس وجہ سے جرمنی بھی ترکی سے دور چلا گیا ہے۔ روس کا فرانس سے معاہدہ ہوچکا ہے اس لئے روس بھی اب ترکی کی مدد نہیں کرسکتا۔ پس اِس وقت ترکی کی حکومت بالکل بے یارومددگار ہے ہم یہاں دور بیٹھے ہوئے حالا ت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوسکتے مگر جہاں تک علم ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ترکی حکومت یہ کام سال بھر بعد شروع کرتی یا سال بھر پہلے کرتی تو زیادہ اچھا ہوتا۔ اگروہ حبشہ کی جنگ کے موقع پر کرتی یا پھر ۱۹۳۸ء میں کرتی توزیادہ فائدہ میں رہتی۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ بہرحال ترکی حکومت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر فرانس وہ علاقے واپس نہیں کرے گا یا لیگ کی معرفت کوئی مناسب سمجھوتا نہیں ہوگا تو ہم بزورِ شمشیر یہ علاقے لے لیں گے۔ تُرک ایک ایسی قوم ہے جس نے اسلام کے کئی پہلوئوں کو تَرک کردیا ہے مگر باوجود اس کے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی صدائیں اب بھی ان کی مسجدوں سے آتی ہیں، اب بھی ان کی نمازوں میں خدا تعالی کا کلام پڑھا جاتا ہے۔ اب بھی وہ سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ، اِنْشَائَ اللّٰہُ اور لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کہتے ہیں۔ اگر بعض باتوں میں وہ غلطی پر ہیں تو اسلام کی بعض باتوں پر وہ قائم بھی ہیں اِس لئے ان کے دُکھوں کو ہم نظرانداز نہیں کرسکتے۔ تمام اختلافات کے باوجود یہ ہو نہیں سکتا کہ تُرک دُکھ میں ہوں اور ایک مسلمان کہلانے والا تکلیف محسوس نہ کرے۔ اِس لئے ہمیںیہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ اگر تُرک بہرحال لڑائی پر ہی آمادہ ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور انہیں طاقت دے ۔ ان کی مثال یورپین حکومتوں میں ایسی ہی ہے جیسے بتیس دانتوں میںزبان کی۔ اور ایک بالشتیئے کی جو پہلوان سے لڑائی پر آمادہ ہو۔ اس لئے ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اوّل تو انہیں لڑائے سے بچائے اور اگر وہ لڑائی پر ہی آمادہ ہوں تو ان کی مدد کرے۔ ایک فرانسیسی محمد رسول اللہ ﷺ کا منکر ہے اور ترک قائل ہے۔ بیشک تُرک کی حکومت سے محمد رسول اللہ ﷺ کی پوری حکومت قائم نہ ہو لیکن ادھوری حکومت بھی بالکل نہ ہونے سے بہتر ہے۔ پس ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اگر لڑائی سے انہیں نقصان پہنچناہو تو اللہ تعالیٰ اس سے ان کو بچائے اور اگر اسی طرح ان کے حقوق حاصل ہوسکتے ہوں تو انہیں ہمت دے اور نہیں تو ہم ان کی دعا سے تو مدد کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ضرورت کے موقع پر چندے وغیرہ بھی دے سکتے ہیں مگر میں نے دیکھا ہے ہماری جماعت کے بعض کنویں کے مینڈک زلزلہ کے مصیبت زدگان کیلئے چندہ پربھی اعتراض کرتے تھے۔ گویا وہ اِس دنیا میں نہیں بلکہ کسی اور دنیا میں رہتے ہیں ایسے لوگ شاید اس خیال پر بھی نکتہ چین ہوں مگر مجھے ان کی پرواہ نہیں۔
پس یہ بالکل غلط ہے کہ دنیا سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہمارا ہی تو واسطہ دنیا سے ہے۔ جب خداتعالیٰ نے دنیا ہمیں دے دی ہے اور اس کا وعدہ ہے کہ میں دنیا دوسروں سے چھین کر تمہارے حوالے کردوں گا تو پھر اگرچہ اِس وقت وہ ہمارے قبضہ میں نہیں ہم اس سے کس طرح غافل رہ سکتے ہیں۔ ہمیں حضرت سلیمانؑ کے زمانہ کے ایک واقعہ سے سبق لینا چاہئے۔ کہتے ہیں ایک شخص کی دو بیویاں تھیں۔ دونوں کے ہاں لڑکے تولّد ہوئے اور وہ زچگی کے معاً بعد دور دراز مقام پر اپنے رشتہ داروں کے ہاں چلی گئیں ۔ کئی مہینوں کے بعد جب واپس آرہی تھیں توایک کے بچہ کو بھیڑیئے نے کھالیا۔ دوسری نے خیال کیا کہ اس کا خاوند اب اسے محبت نہیں کرے گا کیونکہ اس کے بچہ نہیں اس لئے اس نے یہ کہنا شروع کردیا کہ دوسری کے پاس جو لڑکا ہے وہ دراصل میرا ہے۔ یہ جھگڑا حضرت سلیمانؑ کے پاس پہنچا۔ آپ نے بچہ کو ہاتھ میں لے لیا اور کہا کہ اس امر کا فیصلہ مشکل ہے کہ دراصل یہ کس کا بچہ ہے میں اسے آدھا آدھا کرکے بانٹ دیتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے حکم دیا کہ چھری لائو اور چھری منگوا کر بچہ کے پیٹ پر رکھ دی گویا کاٹنے لگے ہیں۔ یہ دیکھ کر جس کا بچہ مرچکا تھا اُس نے کہا کہ یہ بالکل انصاف ہے پس آپ آدھا آدھا بانٹ دیں۔ اس نے خیال کیا کہ اس طرح اس کا بچہ بھی مر جائے گا اور ہم دونوں برابر ہوجائیں گی۔ مگر ماں کی مامتا جوش میں آئی اور اُس نے کہا حضور! بچہ دراصل اسی کا ہے میر انہیں آپ اسے ہی دے دیں۔ کیونکہ اُس نے خیال کیا کہ بچہ خواہ اس کے پاس ہی رہے مگربچ جائے۔ اِس سے سبق ملتا ہے کہ جس کی چیز ہو وہ اُس کی تباہی کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ پس جبکہ ہمارا خدا ہمیں کہتا ہے کہ زمین وآسمان تمہارے لئے ہیں۔ پھر وہ لوگ کتنے پاگل ہیں جو کہتے ہیں کہ مصیبت زدگانِ زلزلہ کے لئے چندہ مت کرو اور ان باتوں پر کہنے لگ جاتے ہیں کہ خلیفہ سیاسی کاموں میں حصہ لیتا ہے۔ اگر تمہیں ان کاموں میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں تو تم دنیا کی ملکیت سے دستبردار ہوچکے ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کا بیان ہے کہ آپ ایک دفعہ بیت الدعا میں دعا کررہے تھے اوپر مولوی صاحب نے اپنے لئے دعا کا کمرہ بنوایا ہؤا تھا۔ مولوی صاحب کہتے ہیں مجھے ایسی آواز نیچے سے آئی جس طرح کوئی عورت دردِ زِہ میں مبتلا ہو اور آہ و زاری کررہی ہو۔ میں نے کان لگا کر سنا تو معلوم ہؤا حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا کررہے ہیں اور یہ فقرہ بار بار آپ کی زبان پر آتا ہے کہ الٰہی! اگر مخلوق اسی طرح طاعون سے تباہ ہوتی گئی تو تیرے پیغاموں پر ایمان کون لائے گا؟ یہ ہے ہمارا امام مگر تم ہو کہ ہر نیکی کے کام پر بعض منافق شرارت سے اور بعض کمزور بیوقوفی سے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ یہ کام نہ کریں، ہماراکیا واسطہ ہے۔ حالانکہ دنیا سے واسطہ ہمارا ہی ہے۔ لوگ اگر ڈوبیں تو بچانا ہمارا فرض ہے، اگر قحط سے مریں تو کھلانا ہمارا فرض ہے، اگر لڑنے لگیں تو صلح کرانا ہمارا فرض ہے اور اگرلڑ پڑیں تو حقدار کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے اور اگر ابھی مادی طور پر ہم کچھ نہیں کرسکتے تو کم سے کم ہمیں دعا تو ضرور کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے۔ ہاں یہ یاد رکھوکہ جب تک امام نہ کہے کہ کیا دعا کرنی ہے اُس وقت تک یہی دعا کرتے رہو کہ الٰہی! جس میں تیرے دین اور اسلام کی خیر ہو وہی کردے۔
پس زمانہ سخت نازک ہے۔ پھر بھائی بھائی کا گلا کاٹنے کو تیار ہے۔ دنیا پھر ایک بار قیامت کا نظارہ دیکھنے کیلئے بیتاب ہے اور اگر ہمارے ہاتھوں میں نہیں تو ہمارے دل میں طاقت ضرور ہے اس لئے ہمیں اپنے قوی دل لے کر خداتعالیٰ کے پاس جانا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اِن لوگوں کو سمجھ دے اور وہ لڑائی سے بچ جائیں اور اگر لڑائی ہو تو غلبہ اُسے عطا کرے جس کا جیتنا اسلام کیلئے مفید ہو۔ اور اللہ تعالیٰ برطانوی حکومت کو بھی صحیح راستے پر چلنے کی توفیق دے اور اِسے ایسے نقصان سے بچائے جو سلسلہ اور اسلام کیلئے نقصان کا موجب ہو۔
پھر ہمیں تُرکوں کیلئے بھی دعا کرنی چاہئے آخر وہ اسلام کے نام لیوا ہیں۔ اگر لڑنا ان کیلئے مضر ہو تو اللہ تعالیٰ انہیں لڑائی سے بچالے۔ اور اگر مفید ہو تو ان کے ہاتھوں میں طاقت و قوت عطا کرے اور ان کے دشمنوں کے ہاتھوں کو شَل کردے تا یہ بہادر قوم جو سینکڑوں سال سے مسیحی دنیا کے تعصّب کا شکار ہورہی ہے ، اسلام کے نام کی وجہ سے مصیبت میںمبتلا نہ ہو۔
(الفضل ۲۳؍ جنوری ۱۹۳۷ئ)
؎۱ ہلاکو خان: اِس کا دور حکومت ۱۲۵۱ء تا ۱۲۶۴ء ہے۔ یہ ایران کے ایل خانی خاندان کا بانی اور چنگیز خان کا پوتا تھا۔ باپ کا نام تولی خان تھا۔ اس نے ایران کے مختلف حصوں کو یکجا کرکے ایران میں ایل خانی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اپنے بھائی منگوقآن کی ہدایت پر ۱۲۵۱ء میں اسمٰعیلیوں کے مشہور قلعہ الموت کو فتح کیا۔ ۱۲۵۸ء میں بغداد پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کیا اور لاکھوں افراد قتل کئے۔ موصل کے حکمران کو سفاکی سے قتل کیا۔
(اُردو جامع انسا ئیکلوپیڈیا جلد ۲، صفحہ ۱۸۵۷ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
؎۲ نادر شاہ (۱۶۸۸ء ۔ ۱۷۴۷ئ): ۱۷۳۶ء تا ۱۷۴۷ء شاہِ ایران رہا۔ یہ خاندان افشار کا بانی تھا۔ صفوی خاندان کی حکومت میں افغانوں اور ترکوں پر فتح حاصل کرکے طاقتور ہوگیا۔ صفوی خاندان کو ختم کرکے خود بادشاہ بن گیا۔ ۱۷۳۹ء کے کامیاب حملے میں ہندوستان سے بہت کچھ مال و متاعِ بالخصوص کوہِ نور ہیرا اور تخت طائوس اپنے ہمراہ لے گیا۔ اس کی فتوحات سے ایران کو بہت وسعت حاصل ہوگئی لیکن اس کے مرتے ہی شیرازہ بکھر گیا اور دولت لُٹ گئی یہاں تک کہ کوہِ نور بھی افغانستان پہنچ گیا۔ ہندوستان سے واپسی پر خیوا اوربخارا فتح کئے۔ کُردوں کی بغاوت فرو کرنے کے دوران افشار قبیلے کے ہاتھوں اپنے خیمے میں ہی مارا گیا۔
(اُردو جامع انسا ئیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۶۹۲ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
؎۳ المائدہ: ۳۳
؎۴ بابر: ظہیرالدین محمد بن عمر شیخ مرزا ۱۴؍ فروری ۱۴۸۳ء میں پیدا ہوئے۔ ۲۶ ؍ دسمبر ۱۵۳۰ء میں وفات پائی۔ باپ کی طرف سے تیموری اور ماں کی طرف سے چغتائی چنگیزی۔ ۸؍ جون ۱۴۹۴ء کو سوا گیارہ برس کی عمر میں بمقام فرغانہ تخت نشین ہوا۔ بابر کو دس برس تک فتح و شکست کے نشیب و فراز دیکھنے کے بعد وطن چھوڑنا پڑا۔ ۱۵۰۴ء میں بابر کابل پہنچ کر بادشاہ بن گیا۔ ۱۵۲۶ء میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی و آگرہ پر قابض ہوا۔ ۱۵۲۷ء میں راجپوتوں کو شکست دی۔ دوسری طرف سلطنت کی مشرقی سرحد بنگال تک پہنچادی۔ ۴۹برس کی عمر میں بمقام آگرہ وفات پائی اور اسے ’’باغِ بابر‘‘ کابل میں دفن کیا گیا۔
(اُردو جامع انسا ئیکلوپیڈیا جلد اوّل صفحہ ۱۹۷، مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
؎۵ مسولینی (Mussolini Benito)۔ اطالوی آمر۔ ایک لوہار کا بیٹا تھا۔ (پیدائش ۱۸۸۳ئ۔ وفات ۱۹۴۵ئ) اس نے ابتدائی برسوں میں ایک اُستاد اور صحافی کی حیثیت سے کام کیا۔ سوشلسٹ تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا اور ۱۹۰۵ء میں فوج میں بھرتی ہوا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اطالیہ کی جنگ میں مداخلت کی وکالت کی پاداش میں ۱۹۱۴ء میں سوشلسٹ تحریک سے نکال دیا گیا۔ ۱۹۱۹ء میں اس نے اپنی جماعت بنائی۔ اس نے سوشلسٹوں کے خلاف دہشت کا بازار گرم کردیا۔ اکتوبر ۱۹۲۲ء میں اس کو شاہِ اٹلی اور فوج نے وزیر اعظم کے عہدے پر نامزد کیا۔ ۱۹۲۵ء میں اس نے آمرانہ اختیارات سنبھال لئے۔ ۱۹۲۶ء میں تمام مخالف جماعتوں کو خلافِ قانون قرار دیا۔ ۳۶۔۱۹۳۵ء میں ایتھوپیا پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا۔ ۱۹۳۹ء میں البانیہ پر قبضہ کرلیا۔ ۱۹۴۰ء میں جنگ عظیم میں شامل ہوا۔ اتحادیوں کے سسلی پر قبضہ سے اس کی ساکھ ختم ہوگئی۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا۔ جلد ۲ صفحہ ۱۵۶۵۔ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
؎۶ ہٹلر (Hitler Adolf) (۱۸۸۹ء ۔ ۱۹۴۵ئ) جرمنی کا آمر مطلق۔ نازی پارٹی کا بانی اور رہنمائے اعظم۔ ایک آسٹروی عہدہ دار محصولات کا بیٹا تھا۔ میونخ میں تعلیم پائی ۔ ۱۹۰۷ء میں وی آنا چلا گیا۔ اس نے انتہائی غریبی میںدن گزارے۔ ۱۹۱۳ء میں وہ میونخ چلا گیا۔ پہلی عالمی جنگ میں فوج میں بھرتی ہوا۔ کارپورل بنا، شجاعت کا تمغہ آہنی صلیب (Iron Cross) حاصل کیا۔ جنگ کے بعد اس نے نازی مزدور پارٹی کی بنیاد رکھی۔ مارچ ۱۹۳۳ء میں اسے آمریت کے اختیارات سونپے گئے جس کے نتیجہ میں جرمنی پرنازیوں کی مطلق العنانی قائم ہوگئی۔ ہٹلر جرمنوں کی زندگی کے تمام شعبوں کا مختار بن گیا۔ ۱۹۳۴ء میں مخالفین کو کچل دیا۔ اس نے جرمنی کو دوسری عالمی جنگ کی راہ پر ڈالا۔ ۱۹۴۱ء میں روس کے محاذ پر اس نے جنگ کی کمان خود سنبھالی جس کا نتیجہ تباہی خیز ہوا۔ ۳۰؍ اپریل ۱۹۴۵ء میں جبکہ اتحادی فوجیں چاروں طرف سے بڑھتی چلی آرہی تھیں، ہٹلر نے ایوابرائون کے ساتھ چند گھنٹے پہلے شادی کرلی۔ برلن میں خود کشی کرلی۔
(اُردو جامع انسا ئیکلوپیڈیا ۔ جلد۲ صفحہ ۱۸۴۶ء مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)

۳
تحریک جدید اورجماعت احمدیہ
(فرمودہ ۱۵؍جنوری ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
سب سے پہلے تومَیں دوستوں کو اس امر کی نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جب ایسے کام پیش ہوں جن کیلئے جماعتی مدد کی ضرورت ہو تو اُس وقت دوستوں کو اپنے ذاتی کام اور ذاتی اغراض بالکل بُھلادینی چاہئیں۔ اِس وقت بھی ہمارے سامنے بعض ایسے کام ہیں جن کیلئے سینکڑوں آدمیوں کی ضرورت ہے اور آئندہ دو ہفتے نہایت ہی مشغول ہوتے نظر آتے ہیں۔ نظارتِ اعلیٰ کی طرف سے بورڈوں پر اعلان ہورہا ہے۔ لیکن اس اعلان کے علاوہ جو سائیکلسٹوں کے متعلق ہے ایسے افراد کی بھی ضرورت ہوگی جو سائیکل چلانا نہیں جانتے اور پیدل یا کسی اور سواری پر دوسری جگہ جاسکتے اور کام کرسکتے ہیں۔ ان کاموں کیلئے ایسے لوگوں کی فہرست مہیا کرنے کیلئے جو اس خدمت کیلئے اپنے آپ کو خوشی سے پیش کریں مَیں ہدایت کرتا ہوں کہ تمام مساجدمیں ایسے لوگوں کی لسٹیں تیار کرکے ناظر صاحب اعلیٰ کے پاس بھجوادی جائیں۔ پھر جس جس عرصہ اور جس جس مقام کیلئے نظارت اُنہیں کام پر لگانا چاہے اُس کی ہدایت کے مطابق اور اُن ذرائع کے ماتحت جو اِن کیلئے تجویز کئے جائیں، وہ چلے جائیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ وہ لوگ جو ہمیشہ اپنے آپ کو یہ کہہ کر پیش کیا کرتے ہیں کہ ہماری جانیں اور ہمارے مال آ پ کی خدمت کیلئے حاضر ہیں وہ اس موقع کو جوخداتعالیٰ نے انہیں دیا ہے رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
اس کے بعد میں دوستوں کو تحریک جدید کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں۔ قادیان میں اس دفعہ بوجہ اس کے کہ تحریک کچھ پیچھے ہوئی اور بوجہ اس کے کہ جلسے کا زور عین تحریک جدید کے زور کے زمانہ میں آیا، مردوں میں پورے طور پر اس تحریک کو مکمل نہیں کیا گیا اور عورتوں میں بھی اس وجہ سے کہ میری وہ بیوی جو لجنہ کی سیکرٹری ہیں بیمار ہیں اور کام نہیں کرسکیں، گزشتہ سالوں کے مقابلہ میں بہت کم کام ہؤا ہے۔ اس لئے میں پھر دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ قادیان کی جماعت بیرونی جماعتوں کیلئے ایک نمونہ اور اُسوہ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قادیان کی جماعت مالی تنگی کی وجہ سے اور تنخواہوں کے بروقت نہ ملنے کی وجہ سے دوسروں سے زیادہ تکلیف اور ابتلاء میں ہے مگر وہ لوگ جو سلسلہ احمدیہ کے قیامت کی اہمیت کو سمجھتے اور قادیان کے وجود کی برکات جانتے ہیں، وہ سمجھ سکتے ہیں کہ دینی خدمات کے لحاظ سے سب سے زیادہ ذمہ داری قادیان کے لوگوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔
خانۂ کعبہ کی حفاظت اور تطہیر ہر ایک مسلمان کے ذمہ ہے مگر قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُس نسل کو خاص طور پر مخاطب کیا گیا ہے جو مکہ میں رہنے والی تھی اور اُسے کہا گیا کہ تمہارے لئے خانۂ کعبہ کی تطہیر فرض مقرر کی جاتی ہے۔ چنانچہ فرمایا اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ ۱؎ گو طائف یعنی جو مکہ میں طواف کرنے والے تھے ان کے لئے بھی خانۂ کعبہ کی تطہیر ضروری تھی مگر خداتعالیٰ نے خصوصیت سے اُن لوگوں کومخاطب فرمایا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے مکہ میں رہتے تھے کیونکہ اُس وقت وہی نسل تھی دوسرے لوگ مکہ میں نہیں تھے ۔ اسی طرح جو لوگ قادیان میں رہتے ہیں یا کسی اور جگہ رہتے ہیں جس کو خداتعالیٰ نے مقدس قرار دیا یا جہاں کے لوگوں نے دوسروں سے زیادہ ذمہ داری اُٹھائی ہوئی ہوتی ہے وہاں کے رہنے والوں پر دوسروں سے زیادہ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ اور ان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ خواہ وہ بوجھ سے دوسروں سے زیادہ دبے ہوئے ہوں، پھر بھی وہ زیادہ قربانیاں کریں اور زیادہ ایثارکے نمونے دکھائیں۔ پس میں تمام مساجد کے ائمہ، پریذیڈنٹوںاور سیکرٹریوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جلد سے جلد چندہ تحریک جدید کے متعلق اپنے حلقوں کی فہرستیں مکمل کرکے دفتر میں بھجوادیں مگر اس کیلئے کسی پر جبر نہ کیا جائے بلکہ اُنہی لوگوں کانام لکھا جائے جو خوشی سے اپنے نام پیش کریں۔ میں باربار کہہ چکا ہوں کہ اس تحریک میں دوسرے پر جبرکرنا جائز نہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ کسی کے ذمہ کوئی رقم مقرر کردی جائے اور کہہ دیا جائے کہ اتنے روپوں کی ادائیگی اس پر فرض ہے۔ پس وہ بغیر لوگوں کومجبور کرنے کے اپنے اپنے حلقوں کی فہرستیں مکمل کرکے جلد سے جلد بھجوادیں۔ بعض محلوں نے غالباً فہرستیں مکمل کرلی ہوں گی مگر بعض محلے ابھی ایسے باقی ہیں جنہوں نے فہرستیں مکمل کرکے نہیں بھجوائیں۔ اِسی طرح میں لجنہ اماء اللہ کو پھر تحریک کرتا ہوں کہ جو کمیٹیاں صرف ایک آدمی پر مبنی ہوں اور وہ آدمی جب بیمار ہو تو کام رُک جائے وہ کمیٹیاں دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہؤا کرتیں۔ کامیاب ہونے والی وہی کمیٹیاں ہوتی ہیں جن کا انحصار آدمیوں پر نہیں ہوتا بلکہ ایک آدمی اگر مرجائے یا کام سے علیحدہ ہوجائے تو فوراً دوسرا آدمی اُس کی جگہ لینے کیلئے تیار ہوجائے۔ اور اگر دوسرا آدمی بھی مرجائے یا کام سے علیحدہ ہوجائے تو اُس کی جگہ لینے کیلئے ایک تیسرا آدمی تیار ہو۔ غرض زندہ قومیں اور محنت سے کام کرنے والے لوگ کسی ایک انسان سے اپنے آپ کو وابستہ نہیں رکھتے۔
صحابہؓ کو دیکھو جب رسول کریم ﷺ فوت ہوئے تو بعض صحابہؓ کو خیال آیا کہ اسلام کی اشاعت کا کام اب کس طرح چلے گا؟ اور بعض تو یہاں تک کہنے لگے کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ فوت ہوگئے ہوں ،وہ زندہ ہیں اور نہیں فوت ہوسکتے جب تک اسلام کامل طور پر دنیا میں نہ پھیل جائے۔ اُس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو مخاطب کرکے یہی کہا کہ اے مسلمانو! اسلام کا کام خداتعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُاللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ۔ یاد رکھو جو اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط رکھتا ہے اُسے یہ سن کر خوش ہوجانا چاہئے کہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے۔ محمد ﷺ گو فوت ہوگئے ہیں لیکن ہمارا خدا زندہ ہے اور وہ کبھی فوت نہیں ہوسکتا۔ وَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَاِنَّ مُحَمَّدًاقَدْ مَاتَ۲؎ لیکن جو اسلام سے اس لئے تعلق رکھتا تھا کہ گویا رسول کریم ﷺ کی وجہ سے ہی تمام زندگی ہے آپ فوت ہوئے تو یہ زندگی بھی جاتی رہے گی اُسے سن لینا چاہئے کہ رسول کریم ﷺ فوت ہوگئے اور اُس کا اسلام بھی ختم ہوگیا۔ تو انسانوں کے ساتھ کام کو وابستہ رکھنا بیوقوفی اور حماقت کی بات ہوتی ہے۔ آدمی پیدا ہوتے اور مرتے ہی رہتے ہیں مگر خداتعالی کے کام برابر چلتے چلے جاتے ہیں۔ اور دراصل ہر زمانہ میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نسبت لوگ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑے سیاستدان ہیں، ہر زمانہ میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نسبت لوگ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑے جرنیل ہیں۔ ہر زمانہ میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نسبت لوگ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑے ڈاکٹر یا حکیم ہیں یہ مسیح الزمان ہوگئے ہیں۔ مگر پھر وہ سیاستدان بھی مرتے چلے جاتے ہیں، وہ جرنیل بھی مرتے چلے جاتے ہیں، وہ ڈاکٹر اور حکیم بھی جو مسیح الزماں کہلاتے ہیں مرتے چلے جاتے ہیں مگر سیاستوں کے اُلجھے ہوئے مسائل پھر بھی حل ہوتے رہتے ہیں، فتوحات پھر بھی ہوتی رہتی ہیں، بیمار پھر بھی اچھے ہوتے رہتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہؤا کہ کسی بڑے سیاستدان کے مر جانے کے بعد سیاست کی پیچیدہ گُتھیاں سُلجھنے سے رہ جائیں یا کسی بڑے جرنیل کے مرجانے کے بعد لڑائی میں ہمیشہ شکست ہوتی چلی جائے یا کسی مسیح الزمان کے مرجانے کے بعد بیمار اچھے نہ ہوتے ہوں بلکہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک مسیح الزمان مرتا ہے تو دوسرا مسیح الزمان پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک بادشاہ مرتا ہے تو دوسرا بادشاہ پیدا ہوجاتا ہے ایک سیاستدان مرتا ہے تو دوسرا سیاستدان پیدا ہوجاتا ہے۔ صرف قوم میں بیداری اور اپنے فرض کو پورا کرنے کا احساس ہونا چاہئے۔ پس انسانوں پر اپنے کاموں کا انحصار نہیں رکھنا چاہئے۔ میں دیکھتا ہوں اسی نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے باہر کی جماعتوں کو بھی غلطی لگ رہی ہے۔ چنانچہ بعض جماعتوں کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری جو سُست ہوتے ہیں یا خود اُن کی مالی حالت ایسی اچھی نہیں ہوتی کہ اس تحریک میں حصہ لے سکیں وہ خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور ان کے خاموش بیٹھے رہنے کی وجہ سے ساری جماعت خاموش رہتی ہے اور نیک تحریکات میں حصہ لینے سے محروم رہتی ہے۔ لیکن جہاں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری چُست ہوں وہاں کی جماعت کے افراد کی لِسٹیں فوراً مکمل ہوکر پہنچ جاتی ہیں۔ چنانچہ اِسی چندہ تحریک جدید کے متعلق گزشتہ دنوں میں نے بعض جماعتوں کو نصیحت کی تھی کہ وہ جلد بازی میں نامکمل فہرستیں نہ بھیجیں۔ ان جماعتوں سے میری مراد وہی جماعتیں تھیں جو ہوشیاری اور تیزی میں ایک دوسرے سے بڑھنا چاہتی تھیں۔ چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ ان جماعتوں کے چندہ میں ۲۵ فیصدی کی زیادتی ہوئی ہے۔ لیکن اب وہ جماعتیں رہ گئی ہیں جن کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری سُست ہیں۔ دفتر والے کہتے ہیں کہ ہم نے انہیں تحریکیں بھیج دیں مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔
میں نے گزشتہ سال بھی بتایا تھا کہ جس جگہ کی جماعت کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری سُست ہوں وہ مرکز سے جو تحریکات جائیں یا تو انہیں پڑھتے ہی نہیں اور اگر پڑھیں تو چُھپادیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اگر جماعت کے دوسرے افراد کو بھی اِن تحریکات کا علم ہوگیا تو ہمارے حصہ نہ لینے کی وجہ سے ہمیں شرمندگی ہوگی۔ حالانکہ تحریک جدید کوئی جبری تحریک نہیں کہ اِس میں شرمندگی کا سوال ہو۔ مگر پھر بھی بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جو اپنی کمزوری کو چھپا کر جماعت کو بدنام کرنا چاہتی ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانہ میں بھی بعض دفعہ مَیں نے خود یکھا کہ پیکٹ کے پیکٹ قادیان سے باہر کی بعض جماعتوں کو بھیجے جاتے اور وہاں بند کے بند ہی پڑے رہتے۔ ایسی جماعتوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری کو گو پہلی دفعہ مخاطب کرلینا چاہئے مگر جب معلوم ہوجائے کہ وہ اپنے کام میں سُست ہیں تو پھر پریذیڈنٹ اور سیکرٹری کو چھوڑتے ہوئے جماعت کے جو دوسرے افراد ہوں ان کو مخاطب کیا جائے۔ چنانچہ اب بھی بعض مقامات سے جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ اُن میں یہی لکھا ہے کہ ہمارے پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں نے ہمیں کوئی تحریک نہیں کی ہمیں دوسرے ذرائع سے تحریک کا علم ہؤا اور اب ہم اس تحریک میں جو حصہ لے رہے ہیں یہ منفردانہ حصہ ہے۔ گویا ان پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کسی مکان کی بدررَوبند ہوجائے ۔ جب کسی مکان کی بدر رَو بند ہو جائے گی تو توپھر اس کے اندر جتنا پانی آئے گا اندر ہی رہے گا اور آہستہ آہستہ دیوار کو گِرادے گا۔
غرض پریذیڈنٹ اور سیکرٹری جو درمیانی واسطہ ہیں جب ان پر غفلت اور سُستی چھائی ہوئی ہوتی ہے تو جماعت کے دوسرے افراد پر بھی سُستی اور غفلت چھاجاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بسااوقات جو چُست لوگ ہوتے ہیں اُن کے دلوں پر بھی زنگ لگنا شروع ہوجاتا ہے اس لئے ایک طرف تو میں عہدیداروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جن پریذیڈنٹوں یا سیکرٹریوں نے انہیں جواب نہیں دیا اب دوبارہ وہ انہیں مخاطب نہ کریںبلکہ جماعت کے دوسرے افراد کو مخاطب کریں اور لکھیں کہ آپ کی جماعت کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری چونکہ خاموش ہیں اور انہوں نے اِس تحریک کا کوئی جواب نہیں دیا اس لئے ہم آپ کو مخاطب کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی اس امر کی تصریح کردیں کہ اس چندہ کیلئے ہرگز کسی کو مجبور نہ کیا جائے۔ ہاں تمہارا یہ فرض ہے کہ ہر مرد اور عورت تک یہ تحریک پہنچائو۔ اِس تحریک کے اغراض و مقاصد انہیں بتائو، اس کی اہمیت اور ضرورت ان کے ذہن نشین کرو اور پھر تمام حالات بتانے کے بعد ان سے پوچھو کہ آیا وہ اِس میں حصہ لے سکتے ہیں یا نہیں اگر کوئی شخص حصہ نہیں لے سکتا یا نہیں لیتا تو اس پر اصرار نہ کرو کہ تم اس میں ضرور حصہ لو۔ اور جو لوگ خوشی سے اپنا نام لکھائیں ان کے ناموں کی فہرست جلد سے جلد مکمل کرکے دفتر کو بھجوادی جائے۔ اِس کے ساتھ ہی میں جماعتوں کے افراد کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری سُست ہوں وہاں کی جماعت کے دوسرے افراد کو چاہئے کہ وہ اس کام کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ خداتعالیٰ کے کام پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں سے وابستہ نہیں ہوتے اور نہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کسی جماعت سے یہ پوچھے گا کہ تمہارا پریذیڈنٹ یا سیکرٹری کیسا تھا بلکہ وہ افراد سے پوچھے گا کہ تم کیسے تھے۔ اگر کسی جگہ کا پریذیڈنٹ یا سیکرٹری سُست ہوگا اور اُن کی سُستی کی وجہ سے جماعت کے لوگ تحریک میںحصہ لینے سے محروم رہیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف نہیں کرے گا بلکہ کہے گا کہ تم میں سے ہر شخص پریذیڈنٹ اورسیکرٹری تھا اور تمہارا فرض تھا کہ جب کوئی پریذیڈنٹ یا سیکرٹری سُستی میں مبتلا تھا تو تم خُود اس کی جگہ کام کرتے۔
پس جہاں جہاں میرا یہ خطبہ پہنچے اور جہاں جہاں جماعتوں کے پریذیڈنٹوں یا سیکرٹریوں نے تحریک جدید کو ہر مرد اور ہر عورت تک نہ پہنچایا ہو وہاں کی جماعت کے جس بندے کو بھی خداتعالیٰ توفیق دے وہی کام شروع کردے۔ خداتعالیٰ کے حضور وہی پریذیڈنٹ اور وہی سیکرٹری شمار کیا جائے گا۔ پھر جن جماعتوں پر سُستی چھائی ہوئی ہے وہاں کی قریب جماعتوں کو چاہئے کہ وہ ان کی سُستی کو دور کرنے کی کوشش کریں اور انہیں اس تحریک میں حصہ لینے پر آمادہ کریں۔ مثلاً اگر لاہور والے دیکھیں کہ قصور، امرتسر، شیخوپورہ یا فیروزپور کی جماعت چندوں کی ادائیگی میں سُستی دکھاتی ہے اور وہ اپنا کام کرکے وہاں جائیں تو وہ دُہرے بلکہ تہرے ثواب کے مستحق ہوں گے۔ یا شیخوپورہ، قصور، امرتسر اور فیروزپور کی جماعتوں کو معلوم ہو کہ لاہور اور گوجرانوالہ کی جماعتیں سُست ہیں اور وہ اپنی جماعت کے آدمی بھیج کر اُن کوچُست کریں تو یقینا وہ دُہرے بلکہ تہرے ثواب کے مستحق ہوں گے۔میرا اِس سے یہ مطلب نہیں کہ یہ جماعتیں سُستی کرتی ہیں میں نے صرف مثال کے طور پر چند نام لے دیئے ہیں۔ پس ہر جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنی جماعت سے قریب تر جماعت کو اگرسُستی اور غفلت میں مبتلا پائے تو اُس کی سُستی اور غفلت کو دور کرنے کی کوشش کرے۔
میں نے بارہا بتایا ہے کہ کوئی گھر اپنے ہمسایہ گھر کو آگ لگنے کے بعد محفوظ نہیں ہوتا۔ پھر جب رسول کریم ﷺ نے فرمادیا کہ تمام مومن آپس میں ایسے ہی ہیں جیسے ایک جسم کے مختلف اعضاء تو کیسے ممکن ہے کہ ایک عضو میں بیماری ہو اور باقی جسم اس بیماری کی وجہ سے تکلیف نہ اُٹھائے۔ اگر زید، بکر، عمر اور خالد ہاتھ،کان، ناک اور پائوں کی حیثیت رکھتے ہیں تو اسی طرح گوجرانوالہ ، شیخوپورہ، قصور، دہلی اور راولپنڈی کی جماعتیں بھی ہاتھ، پائوں، ناک، کان اور اُنگلیوں کی حیثیت رکھیں گی۔ پس یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ جسم کا پائوں یا ہاتھ یا کوئی اور عضو بیمار ہو اور سارا جسم اذیت نہ اُٹھائے۔ یقینا جو بیماری ایک جگہ ہے وہ اپنا اثردوسرے اعضاء پر بھی ڈالے گی۔ اسی لئے مومن کی صرف اِس بات پر تسلی نہیں ہوتی کہ فلاں کام میں نے کرلیا بلکہ وہ یہ بھی دیکھا کرتا ہے کہ آیا میرے دوسرے بھائی نے بھی وہ کام کیا ہے یا نہیں اور وہ تسلی سے نہیں بیٹھتا جب تک سارے لوگ وہی کام نہ کرلیں۔ اسی طرح کسی ایک جماعت کو اس بات پر مطمئن نہیں ہوجانا چاہئے کہ اُس نے تحریک جدید میں حصہ لے لیا۔ بلکہ اسے اُس وقت تک اطمینان کا سانس نہیں لینا چاہئے جب تک ساری جماعتیں اِس میں حصہ نہ لے لیں۔
پس میں تمام دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتاہوں کہ وہ جلد سے جلد وقتِ مقررہ کے اندر اپنی لسٹیں تیار کرکے بھجوادیں اور اگر انہوں نے اپنی لسٹیں مکمل کرلی ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اپنی ہمسایہ جماعتوں کی لسٹوں کومکمل کریں۔ اسی طرح جس شخص نے خود تو چندہ لکھوادیا ہے مگر اُس کے علم میں یہ بات ہو کہ جماعت میں بعض ایسے لوگ ابھی موجود ہیں جو اِس تحریک میں حصہ لے سکتے ہیں مگر انہوں نے حصہ نہیں لیا خواہ اپنی غفلت کی وجہ سے یا پریذیڈنٹ اور سیکرٹری کی سُستی کی وجہ سے تو وہ اخبار ’’الفضل ‘‘ کے وہ پرچے جن میں تحریک جدید کے متعلق خطبات چھپے ہیں لے لے اور خود ایسے دوستوں کے گھروں میں جاکر انہیں سنائے تاکہ اگر کسی نے اپنی بیماری کی وجہ سے نہ کہ معذوری کی وجہ سے چندہ تحریک جدید میں حصہ نہیں لیا تو وہ اب حصہ لے لے تا اس کی بیماری میں کمی آجائے اور اس کا بدن تندرست ہوجائے۔ کیونکہ جیساکہ میں بتاچکا ہوں تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں اور سب ایمانی جسم کا ایک حصہ ہیں۔
اِس کے بعد میں تحریک جدید کے ایک اور پہلو کے متعلق جس پر مولوی محمد علی صاحب نے گزشتہ ایام میں بعض اعتراضات کئے ہیں، کچھ کہنا چاہتا ہوں۔وہ پہلو تحریک جدید کے کارخانہ جات کا ہے جو بیکاروں اور یتیموں کو کام پر لگانے کے متعلق جاری کئے گئے ہیں۔ ان کارخانوں کے اجراء اور یتیموں اورغریبوں کو کام پر لگانے سے مولوی محمد علی صاحب کی رگِ حمیت اتنے جوش میں آئی ہے کہ ان کو یتیموں اور غریبوں کو کام سکھانا بے دینی نظر آنے لگ گئی ہے اور وہ کہتے ہیں اب قادیان میں دین کونسا باقی رہ گیا ہے۔ ان کے نزدیک جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم یتیموں اور بیکاروں کو کام سکھائیں گے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ عام دنیا داروں کی طرح لوہار، ترکھان اور موچی بن جائیں گے اس لئے وہ کہتے ہیں جب لوگ لوہار، ترکھان اور موچی بن جائیں گے تو دین کی اشاعت کون کرے گا اور محمد رسول اللہ ﷺ کا کلمہ پڑھانے اور لوگوں کو حلقہ بگوشِ اسلام بنانے والا کون رہے گا۔
میں سمجھتا ہوں اوّل تو یہ اعتراض اِس لحاظ سے غلط ہے کہ ان کے نزدیک ہم اپنی تبلیغ اور جدوجہد سے لوگوں کو محمد ﷺ سے دور کررہے اور اصل اسلام سے لوگوں کو منحرف کررہے ہیں۔ پس اگر وہ لوگ جو محمد ﷺ کے دین سے لوگوں کو پھیرنے والے ہوں، دُنیوی کاموں میں مشغول ہوجائیں تو اس میں انہی کا فائدہ ہے اور اس پر اُنہیں تکلیف محسوس ہونے کی بجائے خوشی منانی چاہئے تھی۔ کیونکہ اگر یہ صحیح ہے کہ ہماری تبلیغی کوششیں دینِ اسلام پر حملہ ہیں ختم نبوت کی تشریح جو ہماری طرف سے پیش کی جاتی ہے اس میں رسول کریم ﷺ کی ہتک ہے اور ہمارا لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنا انہیں اصل اسلام سے منحرف کرنا ہے تو پھر تو انہیں خوش ہونا چاہئے کہ اب اسلام کی ترقی کا ان کیلئے راستہ کُھل گیا ہے اور ہمارے دنیا میں مشغول ہوجانے کی وجہ سے اسلام پر جو پہلے حملے ہؤا کرتے تھے اور ختم نبوت کو مٹانے کی جو کوششیں پہلے کی جاتی تھیں وہ اب نہیں ہؤا کریں گی اور اب بجائے تبلیغ کے ہم ترکھانے اور لوہارے کے کام میں مشغول رہا کریں گے۔
پس ہمارے ان کارخانوں کے اجراء اور یتیموں اور بیکاروں کے کام پر لگ جانے سے اوّل تو انہیں خوش ہونا چاہئے تھا کہ اب ان کا راستہ صاف ہوگیا۔ لیکن تعجب یہ ہے کہ اس پُر انہیں تکلیف ہوئی۔ پس اوّل تو وہ ہمارے متعلق جو پُرانے زمانہ میں یہ کہا کرتے تھے کہ انہوں نے دین اسلام میں رخنہ ڈال دیا اور ان کی کوششوں نے لوگوں کو اسلام سے منحرف کردیا اس کے مدنظر اب ہمارے کارخانوں کے اجراء اور بقول ان کے دنیا میں مشغول ہوجانے پر ان کا اعتراض کرنا درست معلوم نہیں ہوتا بلکہ انہیں خوش ہونا چاہئے تھا کہ فکر دور ہوگیا اور اب اسلام پر ایک جماعت جو حملہ کررہی تھی اس میں کمی آنے کی امید ہوگئی۔ لیکن اگر حقیقت یہ نہیں بلکہ دل میں وہ یہی مانتے تھے کہ احمدی تبلیغِ اسلام کرتے ہیں صرف ظاہر میں وہ لوگوں کو دھوکا دینے اور ہماری طرف سے دنیا کو بدظن کرنے کیلئے کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ اسلام کے راستہ میں رُکاوٹیں ڈال رہے ہیں تو پھر بھی ان کا یہ اعتراض ان کے قلتِ تدبر اور دین اسلام سے ناواقفیت پر دلالت کرتا ہے۔ ان کا اعتراض یہ ہے کہ ان کارخانوں کے جاری کرنے کی وجہ سے قادیان کے لوگ بے دین ہوگئے ہیں اسلام سے غافل ہوگئے ہیں اور اشاعتِ اسلام کا کام انہوں نے چھوڑ دیا ہے۔ اس اعتراض پر میں جب بھی غور کرتا ہوں حیران ہوتا ہوں کہ کسی معقول انسان کی زبان پر یہ فقرہ آ کس طرح سکتا ہے۔ کیا کبھی بھی کوئی ایسی جماعت ہوئی ہے جس کے تمام افراد ہرقسم کے دُنیوی کاموں سے الگ ہوکر صرف اشاعتِ اسلام میں لگے ہوئے ہوں۔ یا کوئی ایسا انتظام ہؤا ہے جو دنیا کی اصلاح کے تمام کاموں سے جُدا ہوکر صرف تبلیغ میں لگا ہؤا ہو۔ ہر واقف کار آدمی جانتا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ رسول کریم ﷺ کے صحابہؓ بھی اپنی روٹی کمانے کیلئے کام کیا کرتے تھے اور خود رسول کریم ﷺ انہیں محنت سے روزی کمانے کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ ان میں تاجر بھی تھے، صناع بھی تھے، پیشہ ور بھی تھے، اہل حرفہ بھی تھے، ہرقسم کے لوگ تھے جو محنت کرتے تھے، مزدوری کرتے تھے اور اپنے پیٹ پالتے تھے اور اپنی آمد سے دین کی خدمت کرتے تھے۔ اور خود رسول کریم ﷺ نہ صرف یہ کہ ان کے اس طرح دُنیوی کاموں میں مشغول ہونے کو برا نہ مناتے تھے بلکہ اس طرح رزقِ حلال کمانے کو پسند فرماتے اور اس کی طرف انہیں رغبت دلاتے رہتے تھے۔ پھر اسلامی نظام صرف لوگوں کو کلمہ ہی نہیں پڑھاتا تھا بلکہ دُنیوی کام بھی سکھاتا تھا۔ چنانچہ رسول کریم ﷺنے بدرکے کفار قیدیوں میں سے بعض کیلئے آزادی کا فدیہ ہی یہ مقرر کیا تھا کہ مدینہ کے لڑکوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں۔ یہ ظاہر بات ہے کہ مکہ کے کفار سے آنحضرت ﷺ نے یہ تو کہا نہیں ہوگا کہ اسلام کے معارف لوگوں کو پڑھائو۔ وہ کمبخت جو خود اسلام نہ جانتے تھے مدینہ کے لوگوں کو اسلام کیا سکھاتے۔ اُن سے آخر یہی مطالبہ ہوگا کہ دُنیوی علوم اور ظاہری لکھنا پڑھنا سکھادیں۔ پس نظامِ اسلامی بھی اس قسم کے کاموں سے بے رغبتی نہیں برت سکا۔ ہم لوگ جن کی بے رغبتی کا ماتم کرنے کیلئے مولوی محمد علی صاحب کھڑے ہوئے ہیں، اس سے پہلے ہماری جماعت بھی تو ساری کی ساری دن رات اشاعتِ دین میں مشغول نہ رہتی تھی۔ کیا ہم میں ایسے لوگ موجود نہیں تھے جو اپنی روٹی کمانے کیلئے کالجوں میں پروفیسر یا سکولوں میں اساتذہ تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں تھے جو اپنی روٹی کمانے کیلئے لوہارے کا کام کیا کرتے تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں تھے جو اپنی روٹی کمانے کیلئے درزی کا کام کرتے تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں جو اپنی روٹی کمانے کیلئے ڈاکٹری کا پیشہ کرتے تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں جو اپنی روٹی کمانے کیلئے انجینئرنگ کا کام کرتے تھے؟ یا کیا ہم میں وہ لوگ موجود نہیں تھے جن میں سے کوئی اپنی روٹی کمانے کیلئے پٹوار کی ملازمت اختیار کئے ہوئے تھا، کوئی تحصیلدار تھا، کوئی ای۔اے ۔سی تھا، کوئی زمیندارہ پر گزارہ کرتا تھا؟ پھر کونسا معقول انسان ہے جو یہ کہہ سکے کہ ہم میں لاکھوں آدمی اپنی روٹی کمانے کیلئے مختلف کام کرتے رہے لیکن ہماری دین سے بھی بے رغبتی ثابت نہ ہوئی۔ لیکن جونہی سلسلہ نے یہ فیصلہ کیا کہ جماعت کے یتیم اور مسکین بچوں کو بھی مختلف پیشے سکھائے جائیں تاکہ وہ آوارہ نہ پِھریں اور بیروزگار رہ کر تکلیف نہ اُٹھائیں ہماری جماعت فوراً بے دین بے رغبت ہوگئی اور ہمارے دین کا ذخیرہ ختم ہوگیا۔ گویا جب تک ہم میں سے بعض اپنے نفس کیلئے روٹی کماتے رہے اُس وقت تک تو مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک ہم دین دار تھے لیکن جب ہم نے یہ کوشش شروع کی کہ ہم اپنے ہنر یتیموں اور مسکینوں کو بھی سکھائیں تو فوراً بقول مولوی محمد علی صاحب ہمارے ایمان کا دیوالیہ نکل گیا اور ہم دنیا میں مشغول ہوگئے اور وہ شکایت کرنے لگ گئے کہ اب قادیان میں دین کہا ں رہ گیا، اب تو بے دینی آگئی ہے۔ گویا ان کے نزدیک دینِ اسلام نام ہے یتیموں کو بُھوکا مارنے اور بیکاروں کو ہمیشہ بیکار رکھنے کا۔ اور جب کسی قوم میں یتیموں کو کام پر لگانے کا جذبہ پیدا ہوجائے یا بیکاری کو دور کرنے اور غریبوں کو ہُنر سکھانے کا اسے خیال آئے، اُسی دن سے وہ بے دین بن جائے گی۔ ایک زمیندار اگر سارا دن اپنے زمیندارہ کے کام میں لگا رہے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر وہ کسی غریب لڑکے کو زمیندارہ کا کام سکھادیتا ہے تو بے دین بن جاتا ہے۔ یہ دین کی ایک ایسی اصطلاح ہے کہ غالباً مولوی محمد علی صاحب ہی اِس کے موجد ہیں۔ نہ کسی عقلمند آدمی کو اس سے پہلے یہ اصطلاح سُوجھی ہے اور نہ شاید اب کسی عقلمند آدمی کی سمجھ میں یہ اصطلاح آئے۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب سے تعلق رکھنے والے لائل پور میں بعض کارخانہ دار ہیں جنہیں اپنی قسم کے کارخانہ والوں کا بادشاہ قرار دیا جاتا ہے۔ مولوی محمد علی صاحب ان سے چندے بھی وصول کرتے ہیں ان کی بڑی بڑی رقموں پر انہیں شاباش بھی دیتے ہیں مگر ان کے کارخانوں میں بے دینی کی کوئی علامت انہیں نظر نہیں آتی غالباً اس لئے کہ لائل پور کے لوگ اپنی ذات کیلئے کماتے ہیں۔
پس مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک اپنی ذات کیلئے کمانے میں کوئی حرج نہیں لیکن جب ہم کسی یتیم، غریب اور بے کس کیلئے کمائیں تو دین میں فتور آجاتا ہے۔ ہمارے کارخانے چونکہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے نہیں بلکہ ان کے قائم کرنے کی غرض یہ ہے کہ یتیموں اور بیوائوں کی خبر گیری کی جائے اور انہیں کام مہیا کرکے دیا جائے جس سے وہ اپنی روزی کماسکیں اس لئے ان کے نزدیک قادیان کی جماعت احمدیہ دین اسلام سے بالکل بے رغبت ہوتی چلی جاتی ہے اور اشاعتِ اسلام کا کام اس نے بند کررکھا ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر لطیفہ یہ ہے کہ انجمن اشاعتِ اسلام لاہور مربعے خریدتی اور انہیں اپنے استعمال میں لاتی ہے اور اس سے دین کی اشاعت میں فرق نہیں آتا۔ لیکن اگر غریب کو پیشہ سکھادیا جائے تو اس سے دین کی طرف سے پوری بے رغبتی ہوجاتی ہے اور اشاعتِ اسلام میں فوراً فرق آجاتا ہے۔ اگر مولوی محمد علی صاحب کتابیں لکھیں، انہیں بیچیں اور ان کی آمد اپنی ذات پر خرچ کریں تو یہ عین دین ہے۔ لیکن اگر میاں نذر محمد مستری غریبوں اور یتیموں کو کام سکھلائیں اور میری یا کسی اور کی نگرانی میں کام ہو تو یہ بے دینی ہے۔ گویا جب کارخانوں کی آمد یا کتابوں کی آمد یا بعض اور آمدنیاں مولوی محمد علی صاحب کے پاس جائیں تو یہ دین ہے لیکن جس دن وہ آمد کسی بیوہ کو ملنے لگے اُسی دن سے اشاعت اسلام کے کام میں رُکاوٹ پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہے۔ میں اگر کتابیں لکھ کرسلسلہ کو دے دوں اور اس کی آمد بھی سلسلہ کے مفاد کیلئے ہی خرچ ہو تو یہ میری غفلت اور بے ایمانی لیکن اگر مولوی محمد علی صاحب کتابیں لکھ کر خود نفع کمائیں تو یہ دین کی خدمت اور اسلام کی اشاعت۔لائل پور والے اگر کارخانے جاری کریں اور بڑی بڑی رقمیں مولوی محمد علی صاحب کو بھجوائیں تو یہ جائز لیکن اگرقادیان میں غرباء کیلئے کارخانے جاری کردیئے جائیں تو دین میں فرق آجاتا ہے، حالانکہ اسلام نام ہی ہے ہرقسم کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا۔ جیسا کہ میں اوپر اشارہ کرآیا ہوں بدر کی جنگ کے بعد جب قیدی آئے تو رسول کریم ﷺ نے اُن قیدیوں سے فرمایا کہ ہم تم سے کوئی فدیہ نہیں لیتے تم مدینہ کے بچوں کو پڑھادیا کرو۔ وہ قیدی آخر انہیں قرآن نہیں پڑھاتے تھے، یہی لکھنا پڑھنا سکھاتے تھے اور لکھنا پڑھنا بھی ویسا ہی کام ہے جیسے لوہارا یا ترکھانا۔ پھر اگر اپنے سکول جاری کرنے سے دین کی خدمت کا جذبہ کم نہیں ہوتا تو ترکھانے یا لوہارے کا کام سکھانے سے دین کی خدمت کا جذبہ کیوں کم ہوجاتا ہے۔ اس کا تویہ مطلب ہے کہ ہم اگر کسی کو الف ب پڑھائیں تو یہ دین کی اشاعت ہے اور اس سے اسلام میں کوئی فرق نہیں آسکتا لیکن اگر ہم کسی یتیم کو پیشہ سکھادیں تو اِس سے دین میں فرق آجاتا ہے۔
چند دن سے غیراحمدی اخباروں میں شائع ہورہا ہے کہ جرمن کی غیرمبائعین کی مسجد میں بعض دفعہ ٹکٹ کے ذریعہ سے داخلہ ہوتا ہے اس بارہ میں غیراحمدی اخباروں میں بار بار چیلنج شائع ہوتے رہے ہیں لیکن غیرمبائعین نے اِس کی کوئی تردید نہیں کی۔ پھر سوال یہ ہے کہ اگر ایک مذہبی لیکچر کے بدلہ میں پیسے وصول کرنے سے اشاعتِ اسلام میں فرق نہیں آتا تو بُوٹ یا کُرسی بنا کر اگر پیسے لئے جائیں اور وہ غرباء پر خرچ کئے جائیں یا اشاعتِ اسلام پر خرچ کئے جائیں تو اس سے اشاعت اسلام میں فرق کیوں آجاتا ہے۔
پھر یاد رکھو کہ اسلام نام ہے زندگی کے تمام شعبوں کو درست رکھنے کا۔ رسول کریم ﷺ نے یہاں تک فرمایا ہے کہ جو شخص سڑک پر چلتے ہوئے راستہ سے کنکر، پتھر اور کانٹے وغیرہ ہٹا کر ایک طرف کردیتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ثواب کا مستحق ہوتا ہے ۳ ؎۔ مگر اِس حدیث کو دیکھ کر کوئی نہیں کہتا کہ رسول کریم ﷺ نے لوگوں کو صفائیوں میں لگادیا اور اشاعتِ اسلام کی طرف سے ان کی توجہ کو پھرا لیا۔پھر رسول کریم ﷺ بعض دفعہ صحابہؓ کو حکم دیتے کہ کُتّے مارو۔ چونکہ آوارہ کُتّوں کی کثرت کی وجہ سے خدشہ ہوتا ہے کہ وہ دیوانے ہوجائیں اور لوگوں کو نقصان پہنچے اس لئے رسول کریم ﷺبعض دفعہ صحابہؓ کو کُتّے مارنے کا حکم دے دیتے مگر کبھی کسی نے نہیں کہا کہ اشاعتِ اسلام سے اس طرح لوگوں کی توجہ پھرالی گئی ہے۔ جو وقت کتوں کے مارنے پر صرف ہوگا وہی وقت تبلیغ میں کیوں نہ صَرف کریں۔ پھر حدیثوں میں اور صحیح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ صحابہ کو تیر اندازی اور نیزہ بازی کی مشق کراتے اور بعض دفعہ خود بھی اس میں شامل ہوتے۔ اگر یہی بات درست ہے کہ جماعت کے کسی فرد کو لوہارے یا ترکھانے کا کام سکھانے سے دین میں فرق آجاتا ہے تو کیوں یہ نہ سمجھا جائے کہ جتنی دیر رسول کریم ﷺ صحابہؓ کو نیزہ بازی یا تیر اندازی کراتے، اتنی دیر دین میں فرق آیا رہتا تھا۔ بلکہ بخاری میں تویہاں تک لکھا ہے کہ رسول کریم ﷺنے ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا، عائشہؓ!آ تُو بھی نیزہ بازی کے کرتب دیکھ۴؎، یہ نہیں کہا کہ میں تو نیزہ بازی کے کرتب دیکھتا ہوں اور تم ذرا تبلیغ کرآئو۔ پھر کیا مولوی محمد علی صاحب کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی چائے کی پارٹی یا دعوت میں کبھی شامل نہیں ہوئے؟ یا کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی دوست سے کبھی ملنے نہیں گئے یا کہہ سکتے ہیں کہ وہ کسی بیمار کی عیادت کیلئے کبھی نہیں گئے یا کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کہیں سیر کیلئے کبھی نہیں گئے اگر نہیں کہہ سکتے تو انہوں نے اِن وقتوں کو تبلیغِ اسلام میں کیوں صرف نہیں کیا اگر کسی دعوت میں کیک اور پیسٹری اُڑانے اور پلائو اور زردہ کھانے کے باوجود ان کی اشاعتِ اسلام میں فرق نہیں آتا تو چند یتیموں اور نادار بچوں کو نجاری یا آہن گری کا کام سکھلانے پر ہمارے دین میں کس طرح فرق آجاتا ہے اور ہم ان کی نگاہ میں کیوں بے دین بن جاتے ہیں۔ یہ تو اصل میں تُھوکھٹے والی بات ہے۔
ہر کام جو میں نے آج تک کیا اُس پر انہوں نے اعتراض کیا مگر پانچ دس سال کے بعد جب دیکھتے ہیں کہ ہمارا اعتراض لوگوں کو بھول گیا ہوگا تو وہی کام خود شروع کردیتے ہیں اورکہتے ہیں یہ ہے ہماری قوم کی ترقی جو اِس نے تھوڑی سی مدت میں کرلی۔ بلکہ ایک مدت کے بعد تو الفاظ بھی وہی لکھنے لگ جاتے ہیں جن پر پہلے اعتراض کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کا بڑا اعتراض یہ تھا کہ ہم لوگ خلافت کے قائل ہیں۔ مگر اب ایک دوست نے ان کا ایک خط بھجوایا ہے جو غیرعلاقہ کے کسی آدمی کو ان کی انجمن کے سیکرٹری نے لکھا اور جس میں مولوی محمد علی صاحب کے متعلق’’ حضرت خلیفۃ المسیح امیر ایدہ اللہ‘‘ کے الفاظ تحریر کئے ہیں۔ دیکھو! یا تو کبھی خلافت پر اعتراض کئے جاتے تھے یا اپنے خطوط پر چوری چُھپے مولوی محمد علی صاحب کے متعلق خلیفۃ المسیح لکھا جانے لگ گیا ہے۔ یہ خط جو غیرمبائعین کا پکڑا گیا ہے، اِس کے نیچے سیکرٹری کے طور پر غلام نبی مُسلم کا نام لکھا ہؤا ہے۔
غرض جو کام میں کرتا ہوں اس پر یہ لوگ پہلے اعتراض کرتے ہیں مگر پانچ دس سال کے بعد انہی کاموں کی نقل شروع کردیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب یہ کہتے تھے کہ وصیت میں کیا رکھا ہے، کیا اسی زمین میں داخل ہوکر انسان جنتی بن سکتا ہے، اس کے علاوہ جنتی نہیں بن سکتا۔ وہ زمانہ مَیں نہیں بُھول سکتا جب اِن لوگوں نے بہشتی مقبرہ کے پاس کچھ زمین خریدی تو کسی نے اِن سے پوچھا کہ آپ تو بہشتی مقبرہ پر اعتراض کیا کرتے تھے اور اب خود بہشتی مقبرہ کے طور پر ایک زمین خریدلی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ تو وہ کہنے لگے یہ اُلّوئوں کو تسلی دینے کیلئے خریدی گئی ہے یعنی بعض اُلّو ایسے بھی ہیں کہ جب تک بہشتی مقبرہ کے پاس قبروں کیلئے کوئی جگہ نہ ہو اُنہیں تسلی نہیں ہوتی۔ اس دوست نے وہ بات آگے بیان کی پھر اور لوگوں میں مشہور ہوئی یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ہماری جماعت میں پیغامیوں کے مقبرہ کا نام ہی اُلّوئوں کا مقبرہ ہوگیا۔ غرض انہوں نے وصیتوں پر تمسخر اُڑادیا، اپنی وصیتیں واپس لے لیں، حتیّٰ کہ مولوی محمد علی صاحب نے اپنی وصیت منسوخ کرائی۔ مگر آج بیس بائیس سال کے بعد اپنے جلسہ سالانہ میں مولوی محمد علی صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا میں اپنے گناہ کا نہایت ندامت کے ساتھ اقرار کرتے ہوئے اشاعت اسلام کیلئے وصیت کرتا ہوں گویا اب وصیت کرنا نیک کام بن گیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقرر کردہ بہشتی مقبرہ کیلئے وصیت کرنے والا ان الفاظ کا مستحق ہے جو انہوں نے کہے لیکن جو لاہور کی انجمن اشاعتِ اسلام کیلئے وصیت کرے وہ بڑی نیکی کا کام کرتا ہے۔
مجھے حیرت آتی ہے کہ ایک معقول انسان، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صُحبت میں رہنے والا انسان، اسلام پر کتابیں لکھنے والا انسان، ایک انجمن کا پریذیڈنٹ کہلانے والا انسان جس کے خطوں میں اب چوری چُھپے خلیفۃ المسیح کے الفاظ بھی لکھے جارہے ہیں، اُس نے یہ کیونکر کہہ دیا کہ چونکہ قادیان میں اب بعض ایسے کارخانے کُھل گئے ہیں جن میں یتیموں اور غریبوںکو کام کرنا سکھلایا جاتا ہے۔ اس لئے یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ قادیان کے لوگ بے دین ہوگئے۔ گویا جو بیوائوں کو بُھوکا رکھیں، جو یتیموں کو بُھوکا ماریں، جو غریبوں کو بُھوکا ماریں وہ تو دین دار مگر جو ان کی آسائش اور سہولت کیلئے کوئی کام نکالیں وہ بے ایمان اور اشاعتِ اسلام کے کام سے منحرف۔ مگر میں مولوی محمد علی صاحب سے یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ابھی زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ وہ خود اِسی قسم کے کام کرنے پر مجبور ہوں گے۔ یہ ایا م خواہ ان کی زندگی میں آئیں یا اِن کی اولادوں کی زندگی میں بہرحال زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ وہ خود اسی قسم کے کام کریں گے جس قسم کے کاموں پر وہ آج ہم پر اعتراض کررہے ہیں۔ وہ بیشک میرا یہ خطبہ اپنے اخبارمیں چھاپ دیں تا آئندہ نسلوں کیلئے سند رہے کہ میں نے یہ دعویٰ کیاہے کہ ایک دن ان کی انجمن یہی کام کرنے پرمجبور ہوگی۔ اگر یہ بات درست ثابت ہوئی تو اِن کی نافہمی ان کی نسلوں پر ثابت ہوگی اور اگر درست نہ نکلی تو میرا جھوٹ ثابت ہوگا۔
ایک دوسری صورت بھی میں ان کے سامنے پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اگر وہ یہ اعتراض دیانت داری سے کررہے ہیں تو وہ اپنی طرف سے چوکھٹوں میں یہ الفاظ لکھ کر شائع کردیں کہ اگر کبھی ہماری جماعت نے صنعتی مدرسے جاری کئے یا بیوائوں اور یتیموں کی خبرگیری کی اور انہیں کوئی ہُنر اور پیشہ سکھانے کے لئے کوشش کی تو یہ سخت بے دینی ہوگی پھر وہ خودبخود دیکھ لیں گے کہ اگلی نسلیں ان پر لعنتیں کرتی ہیں یا نہیںکرتیں۔ اور اگر وہ کہیں کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر اور بھی بیسیوں کام ہیں وہ تم کیوں نہیں کرتے یا اس سے پہلے کیوں ایسے کام جاری نہیں کئے تھے؟ تو اِس کاجواب یہ ہے کہ ہر کام کا وقت ہوتا ہے جب تک ہمارے آدمی تھوڑے تھے اور اُن کو کام پر لگانے کیلئے ایسے اخراجات اِسراف میں داخل تھے ہم نے یہ کام شروع نہیں کئے اورجب ہماری تعداد زیادہ ہوگئی اور بیکاری بڑھ گئی اور سکھانے کا خرچ اِسراف نہ رہا، ہم نے یہ کام جاری کردیئے۔ اب اگر ہمارے پاس مزید طاقت ہو تو ہم یقینا اور پیشے بھی سکھانے کیلئے جماعت میں کارخانے جاری کردیں گے۔ بلکہ اگر ہمارے اندر طاقت ہو تو میں تو اپنی جماعت کے افراد سے یہی کہوں گاکہ ہوسکے تو ہوائی جہاز بنانے سیکھو، جہاز بنانے سیکھو، کشتیاں بنانی سیکھو اور ان کے ذریعہ اگر غریبوں اور یتیموں کی امداد کرسکتے ہو تو کرو اور بیکاروں کو کام پر لگائو۔ کام کرنا بے دینی نہیں دین چھوڑ کر کام کرنا بے دینی ہوتا ہے یا اپنی آمد کو عیاشی پر خرچ کرنا بے دینی ہوتا ہے ورنہ کام کرنا جبکہ اس کے ساتھ دین کی محبت اور دین کیلئے قربانی شامل ہو خود دین ہے۔ پس ایسے کارخانے جاری کرنے میں کوئی حرج نہیں جن کے ذریعہ غرباء کی امداد کی جاسکے۔ ہاں اگر ہم کارخانے اس لئے جاری کریں کہ امراء اپنی دولت میں بڑھ جائیں تو یہ بیشک ناجائز کام ہوگا لیکن ہمارا مقصد تو ان کارخانوں کے اجراء سے دولتمندوں کو دولت میں بڑھانا نہیں بلکہ یہ ہے کہ یتیم اور غریب لڑکے ہُنر سیکھ جائیں اور وہ اپنی روزی خود کماسکیں۔ یا مثلاً لجنہ اماء اللہ کو ہم نے روپیہ دیا کہ غریب عورتوں کو اِس سے سُوت وغیرہ لے دے تاکہ وہ کام کریں اور اس کام کے بدلے میں انہیں ضروریات کیلئے مناسب معاوضہ دیا جائے تو اِس قسم کے کام نہ صرف یہ کہ ناجائز نہیں بلکہ عین دین ہیں اور قومی ترقی کیلئے ضروری ہیں۔ پھر ان کارخانوں کے اجراء سے جن میں یتیم بچوں کو ترکھانے اور لوہارے کا کام سکھایاجاتا ہے یہ بھی غرض ہے کہ ان بچوں کو ساتھ کے ساتھ دین کی تعلیم بھی ملے۔ چنانچہ ان صنعتی سکولوں میںدینیات کی تعلیم بھی شامل کی گئی ہے۔ پس یہ تو عین خیرخواہی اور اسلام ہے اور اگر ہم نے اب تک اس کام کو شروع نہیں کیا تھا تو اس لئے نہیں کہ ہمیں یہ کام پسند نہیں تھا بلکہ اس لئے کہ ہم میں طاقت نہیں تھی ۔اور جن کاموں کو ہم اب نہیں کررہے وہ بھی اس لئے نہیں چھوڑے ہوئے کہ ہم انہیں پسند نہیں کرتے بلکہ اس لئے چھوڑے ہوئے ہیں کہ ہم میں ان کے کرنے کی طاقت نہیں۔ اور ان کے سکھانے پر جو خرچ ہوگا وہ فائدہ سے زیادہ ہوگا۔ ہاں جیسا کہ میں نے بتایا ہے اگر ہم ایسے کارخانے جاری کریں جن کی غرض یہ ہو کہ امراء کی دولت بڑھتی چلی جائے تو یہ ناجائز ہوگا۔ لیکن یہ کارخانے تو محض غرباء کی ہمدری اور ان کی آئندہ زندگی کو سنوارنے کیلئے جاری کئے گئے ہیں اور یہ بہت بڑے ثواب کا موجب اور عین دینِ اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے۔ سارا قرآن کریم انہی باتوں سے بھرا پڑا ہے کہ غریبوں کی مدد کرو اور اُن کی ہمدردی اور خیرخواہی کرو۔ کیا دنیا میں ہزاروں دفعہ ہم ایسا نہیں کرتے کہ ہمارے سامنے کوئی غریب آتا ہے اور ہم اُسے پیسہ نکال کر دیتے ہیں۔ اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک غریب شخص کو پیسہ دے دینا تو دینداری اورنیکی ہو لیکن اگر ہم اسے کوئی پیشہ سکھادیں جس سے وہ ہمیشہ روٹی کھاسکے تو یہ ناجائز ہوجائے۔ ہمارے گھر میں اگر سال بھر کا غلہ پڑا ہؤا ہے اور غریب بُھوکا مررہا ہے تو یہ جائز لیکن اگر ہم غریب کو کوئی ایسا ہُنر سکھادیں جس سے وہ ہمیشہ کیلئے اپنی روزی آپ پیدا کرسکے تو یہ بے دینی بن جائے!!
اصل بات یہ ہے کہ یہ اعتراض محض حسد کا نتیجہ ہے اور اِس کی وجہ ان کی یہ جلن ہے کہ خود انہوں نے اس کام کو پہلے شروع کیوں نہیں کیا۔ اب چونکہ وہ ان کاموں کو خود ہم سے پہلے شروع نہیں کرسکے اس لئے حسد میں آکر ہمارے کاموں کوبے دینی پر محمول کرنے لگ گئے ہیں۔ لیکن پانچ دس سال نہیں گزریں گے کہ وہ خود یہی کام کرنے لگ جائیں گے اور اُس وقت اِس کا نام ایمانداری اور نہایت اعلیٰ درجہ کی اسلامی خدمت رکھیں گے اور اگر انہوںنے پانچ دس سال کے بعد کوئی ایسا کارخانہ جاری کردیا جو ہمارے ہاں نہ ہؤا تو پھر تو وہ ہمیشہ ہماری جماعت کے افراد پریہ طنز کرتے رہیں گے کہ دیکھا ہم کیسے منظم ہیں ہم نے وہ کارخانے جاری کررکھے ہیں جو تمہارے ہاں جاری ہی نہیں۔
پس یہ محض تھوکھٹّے والی بات ہے چونکہ انہوں نے آپ اس کام کو ابھی تک شروع نہیں کیا اس لئے یہ بات بُری ہوگئی۔ مگر مومن اعتراضات سے نہیں ڈرا کرتا۔ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ بیکار نہ رہے اور جماعت کا کام یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بیکاری اپنے اندر سے دور کرنے کی کوشش کرے۔ ہم اپنے اندر سے جتنی بیکاری اِس وقت معذوری کی وجہ سے دورنہیں کرسکتے اِس کے متعلق ہم خداتعالیٰ کے حضور بَری ہیں لیکن اگر ہم بیکاری کودور کرسکتے ہوں اور پھر اپنی غفلت کی وجہ سے بیکاری دورنہ کرسکیں تو یقینا ہم خداتعالیٰ کے حضور مجرم ہوں گے۔ کیونکہ مومن کا بیکار رہنا خداتعالیٰ کبھی پسند نہیں کرتا۔ لیکن چونکہ تمام لوگ صرف ایک ہی کام یعنی دین کی خدمت نہیں کرسکتے اس لئے ضروری ہے کہ ایک حصہ دنیا کے کاموں پر لگاہؤا ہو۔ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ تم سارے کے سارے دینِ کی خدمت کیلئے اپنے آپ کو وقف کرسکو اس لئے ہر جماعت میں سے کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو کُلّی طور پر دین کی خدمت کیلئے وقف ہوں اور جو باقی رہ جائیں وہ اپنے کام کے ساتھ ساتھ لوگوں کو تبلیغ کرتے جائیں۔ اگر کوئی ترکھان ہو تو وہ ترکھانے کے کام کے ساتھ تبلیغ بھی کرتا جائے اگر لوہار ہو تولوہارے کے کام کے ساتھ تبلیغ بھی کرتا جائے، اگر درزی ہو تو درزی کے کام کے ساتھ ہی تبلیغ بھی کرتا رہے اور اگر موچی ہو تو موچی کے کام کے ساتھ ہی تبلیغ بھی کرتا رہے۔
پس ساری جماعت کبھی بھی تبلیغ میں نہیں لگ سکتی اور اسلامی تعلیم یہی ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو کُلّی طور پر دین کیلئے وقف ہوں اور جو باقی ہوں وہ روپیہ کمائیں اور زائد وقت تبلیغِ اسلام پر صَرف کریں۔ اگر خداتعالیٰ ہمیں اِس کام میں جو ہم نے شروع کیا ہے کامیاب کردے تو غریبوں اور یتیموں کی کتنی بڑی مدد ہوسکتی ہے۔ اگر اِس کے نتیجہ میں سَو پچاس یتیم اور غریب بھی فاقہ زدگی سے بچ جائیں اور اپنی بچی ہوئی کمائی چندوں کیلئے دے دیں تو کتنی بڑی دین کی خدمت ہوگی۔ اگر ایک یتیم کو روٹی دے دینا بڑی خوبی کی بات ہے، اگر ایک یتیم کو پیسے دے دینا بڑی خوبی کی بات ہے توایک یتیم اور بیکس کو ہُنر سکھادینا جس سے وہ ساری عمر روٹی کماسکے کیوں نیکی کی بات نہیں۔ اور اگر کام سیکھ کر وہ اس قابل بن جائے کہ نہ صرف خود اپنا پیٹ پالے بلکہ چندہ بھی دے تو یہ اور بھی زیادہ اچھی بات ہے اور میں نے تو سکیم ہی ایسی رکھی ہے کہ دین سیکھنے کے کام بھی اس میں شامل ہیں۔ چنانچہ ان سکولوں میں قرآن شریف پڑھایا جاتا ہے اور دین کی بعض اور کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں تاکہ جب یہاں سے ترکھان نکلیں تو صرف ترکھان نہ ہوں بلکہ مولوی ترکھان ہوں اور یہاں سے لوہار نکلیں تو صرف لوہار نہ ہوں بلکہ مولوی لوہار ہوں اورموچی نکلیں تو صرف موچی نہ ہوں بلکہ مولوی موچی ہوں۔
پس یہ تو نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ والی بات ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ ساری عمر کیلئے روٹی کماسکتے ہیں بلکہ وہ دینی معلومات بھی رکھتے ہوں گے اور مخالفین کو تبلیغ بھی کرسکیں گے۔ ایسے مُفت کے مولوی مل جانا اور ایسے مُفت کے مولوی تیار کرنا دین کی سب سے بڑی خدمت ہے ۔ بھلا کونسی ایسی جماعت ہے جو ہماری جماعت کی طرح غریب ہو اور پھر وہ ہزاروں مبلّغ رکھ سکے۔ زیادہ سے زیادہ پچاس سَو کو ملازم رکھا جاسکتا ہے مگر تبلیغ کیلئے تو ہزاروں مبلغ چاہئیں اور وہ ہزاروں اسی طرح میسر آسکتے ہیں کہ پیشے سکھانے کے ساتھ ساتھ انہیں دین کی بھی واقفیت کرائی جائے تا جب وہ مسجد میںجائیں توواعظ بن جائیں، جلسوں میں جائیں تو مبلغ بن جائیں اور دُکان میں جائیں تولوہار اور ترکھان بن جائیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی آج دین کو ضرورت ہے۔ اگر یہ بے دینی ہے تو خدا کرے یہ بے دینی اور بھی ہمیں میسر آئے اور مولوی محمد علی صاحب دعا کریں کہ یہ بے دینی اُن کی قوم کو کبھی میسر نہ آئے۔
پس مَیں دوستوں کو مولوی محمد علی صاحب کے اِس اعتراض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے پھر کہتا ہوں کہ اپنے اندر سے بیکاری دُور کرو۔ ہم نے یہاں جو کام شروع کیا ہے وہ محدود پیمانہ پر شروع کیا ہے لیکن اگر مختلف پیشہ ور قربانی کریں اور وہ اپنے اپنے گائوں کے غریبوں ،یتیموں اور ناداروں کو اپنے ساتھ شامل کرکے انہیں پیشہ سکھا دیں یا کسی نادار بیوہ یا بیکار بوڑھے کے بچے کو لے لیں اور اُسے ہُنر سکھائیں اور ثواب کی نیت سے کام کے ساتھ ساتھ انہیں دین کی باتیں بھی سکھلاتے رہیںتو اس ذریعہ سے بھی وہ سلسلہ سے بیکاری دور کرکے بہت بڑا ثواب حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جن کے بچے اِس وقت بیکار ہیں وہ کوشش کرکے اگر اِنہیں کسی نہ کسی کام پر لگادیں تو یقینا سلسلہ اور اسلام کی وہ بہت بڑی مدد کرنے والے ہوں گے۔ ان کے اِس فعل کو جو شخص بے دینی قرار دے وہ آ پ اپنے دین کا پردہ چاک کرتا ہے لیکن وہ یقینا دیندار اور دین کی خدمت کرنے والے ہوں گے۔ پس اگر تمہارے اپنے بچے بیکار نہیں لیکن تمہیںکوئی ہُنر اور پیشہ آتا ہے تو تمہارا اُس ہُنر اور پیشہ کو اپنے اِردگرد کے یتیموں اور بیکاروں کو سکھانا بھی دین کی خدمت ہے اور اگر اس کے ساتھ تم انہیں دینی تعلیم بھی دیتے ہو تو یہ زیادہ ثواب کا موجب ہے۔ کیونکہ اس طرح وہ مبلغ بھی بن جائیں گے۔اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو۔
(الفضل ۱۹؍ فروری ۱۹۳۷ئ)
۱؎ البقرۃ: ۱۲۶
۲؎ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ووفاتہ
۳؎ بخاری کتاب المظالم باب من اخذ الغصن (الخ)
۴؎ بخاری کتاب الجہاد باب الدرق

۴
محنت اور قربانی کی عادت ڈالو
(فرمودہ ۲۲؍ جنوری ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
مَیں نے تحریک جدید میں خاص طور پر کام کرنے اورمحنت کرنے اور سادہ زندگی بسر کرنے کی تحریک کی تھی۔ دنیا میں بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا نسبتی پہلو غالب ہوتا ہے اس لئے ان کی حقیقت کا پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ اور بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن میں نسبت کا اصول اتنا زیادہ عمل نہیںکرتا اس لئے ان کا پتہ لگانا آسان ہوتا ہے۔ مثلاً روپیہ کی قربانی ہوتی ہے ایک شخص لکھ پتی اور ایک کنگال ہے۔ ان دونوں کی قربانیوں کا امتیاز اور فرق بہت مشکل ہے اور اسی طرح ان کے کھانے پینے اور پہننے کی ضرورتوں کے فرق کا پتہ لگانا بھی بڑا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ تکلیف صرف غذا کی کمی یا زیادتی سے نہیں ہوتی بلکہ عادت کے پورا ہونے یا نہ ہونے سے بھی ہوتی ہے۔ افیون کتنی چھوٹی سی چیز ہے۔ حُقہ کا دُھواں کتنا ہلکا پھلکا ہوتا ہے۔ سال بھر حقہ پینے سے جو دُھواں حاصل ہوتا ہے اُس کا وزن اتنا بھی نہیں ہوتا جتنا ایک وقت کے کھانے کا۔ بعض لوگ بھنگ کے عادی ہوتے ہیں مگر ظاہر ہے بھنگ کو غذا سے کیا نسبت، مگر ان چیزوں کے چھوڑنے کی تکلیف غذا سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ تم بغیر کسی زیادہ تکلیف کے دو وقت کا فاقہ کرسکتے ہو مگر ایک افیونی اس ذرا سی گولی کا دو وقت ناغہ نہیں کرسکتا۔ جو شخص حُقّے کا عادی ہے اس سے دریافت کروکہ روٹی نہ ملنے سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے یا حُقّہ نہ ملنے سے۔ وہ یہی جواب دے گا کہ وہ بُھوکا رہ سکتا ہے مگر حُقّہ کے بغیر نہیں۔ حالانکہ مادی لحاظ سے حُقّہ کا دُھواں بالکل ہلکا ہوتاہے اور روٹی بھاری ہوتی ہے۔ پھر روٹی کے ساتھ زندگی وابستہ ہے اور حُقّہ کی عادت جو ڈالے اسے ہی ہوتی ہے۔ افیون جو نہیں کھاتا اسے کوئی تکلیف نہیں دے سکتی مگر روٹی ہر انسان کیلئے ضروری ہے۔ مگر باوجود اس کے روٹی چھوڑنے سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی افیون، گانجہ، چرس، بھنگ، شراب، حُقّہ اور نسوار وغیرہ کو چھوڑنے سے ہوتی ہے۔ دنیا میںلوگ بُھوکے رہ کر اپنے بچوں کو کھانا دیتے ہیں مگر ایک نشہ کا عادی اپنے نشہ کی عادت کو پورا کرنے کیلئے اپنے بیوی بچوں کی بھوک کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا۔ ایک شخص بہ نسبت اپنے بچوں کے ایک وقت بُھوکا رہنے کے خود تین وقت بُھوکا رہنا زیادہ پسند کرے گا۔ مگر ایک افیونی یہ پسند کرے گاکہ اس کے بچے تین وقت فاقہ سے رہیں بہ نسبت اس کے کہ اُسے ایک وقت کی گولی نہ ملے۔ پس عادتوںکی قربانی بھی بڑی قربانی ہے مگر بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا۔ امراء کو جن کو کھانوں کی یا جن کپڑوں کے پہننے کی عادت ہوتی ہے، ان کیلئے ان کی قربانی بڑی چیز ہے لیکن دوسرا اسے دیکھ نہیں سکتا۔
ایک امیر دس جوڑے کپڑے استعمال کرنے کا عادی تھا اور اب اُس نے پانچ کرلئے ہیں۔ اس کے متعلق ایک دوسرا شخص بے شک کہے گاکہ اس کے دس جوڑے ہوتے تھے۔ بیشک اس نے پانچ کرلئے ہیں لیکن میرے دو ہی تھے اور دو ہی ہیں پس میری نسبت اس کے اب بھی تین زیادہ ہیں۔ مگر سوال تو عادت کا ہے۔ امیر کو دس کے استعمال کی عادت تھی جس میں اُس نے کمی کردی ہے اور یہ اپنی پہلی عادت پرہی قائم ہے۔ اگرچہ اس کے تین جوڑے اس کی نسبت اب بھی کم ہیں لیکن دو کی عادت ہونے کی وجہ سے یہ تکلیف نہیں محسوس کرتا جبکہ دس جوڑوں والا پانچ جوڑے کرکے تکلیف محسوس کررہاہے۔ میں نے حُقّہ، افیون، بھنگ، چرس اور نسوار وغیرہ کی مثال اِس لئے دی ہے کہ پنجاب میں غرباء عام طور پر حُقّہ کے عادی ہوتے ہیں اور سرحدی صوبہ افغانستان وغیرہ میں نسوار کے استعمال کا رواج زیادہ ہے۔ کوئی ناک کے ذریعہ اسے استعمال کرتاہے اور کوئی منہ میں ڈال کر اور ان مثالوں سے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ عادت کا چھوڑنا بھی بڑی قربانی ہے۔
تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ امیر کے پاس پانچ جوڑے زائد تھے ، کیا ہؤا اگر ا س نے کم کردیئے۔ کیا حُقّہ زائد نہیں؟ جس طرح اس کے پاس کپڑے زائد تھے اسی طرح حُقّہ بھی زائد ہے۔ زمیندار کے حُقّہ کی قیمت اس کے کپڑوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ جتنی مالیت کا وہ تمباکو جلاتا ہے اتنی کے کپڑے استعمال نہیں کرتا۔ وہ سردی سے ٹھٹھرتا پھرے گا، نمونیہ کی تکالیف اُٹھائے گا، اپنی صحت کو برباد کرے گا مگر حُقّہ نہیں چھوڑے گا۔ حُقّہ کی عادت کی زیادتی کی وجہ سے اس نے کپڑے کی عادت کو کم کردیا ہے۔
ہماری جماعت میں کم سے کم بیس ہزار لوگ ایسے ہوں گے جن کے حُقّوں کا خرچ ان کے چندوں سے زیادہ ہے۔ کم سے کم بیس ہزار زمیندار ایسے ہوں گے جن کا سالانہ چندہ روپیہ ڈیڑھ روپیہ بلکہ بارہ آنہ ہی ہوگا اور اِس قدر خرچ میں وہ سال بھر حُقّہ نہیں پی سکتے۔ اگر وہ دھیلا روز کا بھی تمباکو پیتے ہوں تو تین روپیہ سالانہ خرچ ہوتے ہیں مگر وہ کہیں نہ کہیں سے اس خرچ کو پورا کرتے ہیں کیونکہ وہ اس عادت کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔
پس اگر ہم عادت کا اندازہ کرسکتے تو صحیح نتیجہ معلوم ہوسکتا کہ کون سچی قربانی کرتا ہے اورکون نہیں۔ مگر اس کا اندازہ اللہ تعالیٰ ہی کرسکتا ہے کہ ایک فرد کو ایک چیز کے چھوڑنے سے کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ ہم تو صرف ظاہر کو ہی دیکھ سکتے ہیں اور ظاہر کی بناء پر بڑی غلطی بھی کرسکتے ہیں ۔ لیکن میں نے بتایا ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا اندازہ انسان زیادہ صحیح طور پر کرسکتا ہے اور ان میں سے پہلی چیز محنت اور کام ہے۔ امراء پر غرباء مالی قربانی کے سلسلہ میں طنز کرسکتے ہیں یا کہہ سکتے ہیں کہ گو وہ ایک کھانا کھانے لگ گئے ہیں لیکن وہ بھی نہایت پرتکلف ہوتا ہے اور ہم تو پہلے بھی روکھی روٹی کھالیتے تھے یا اچار کے ساتھ کھالیتے تھے اور اب بھی ہماری یہی حالت ہے۔ یا وہ پانچ جوڑے کپڑوں کے استعمال کرتے ہیں اور ہم ایک ہی۔ اس لئے کہ وہ اس عادت کی قیمت نہیںلگاسکتے جسے امراء نے تبدیل کیا ہے۔ جسے دس جوڑوں کے استعمال کی عادت تھی اس کااسے چھوڑ دینا ایسا ہی ہے جیسا حُقّہ پینے والے کا حُقّہ کو چھوڑ دینا۔ مگر عادت کی قربانی کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے امراء و غرباء جھگڑتے ہی رہتے ہیں۔ مگر وقت کی قربانی ایسی نہیں جس میں فرق کیا جاسکے۔
میں نے بارہا کہا ہے کہ بیکار مت رہو اور کام کرو اور اس میں امیر وغریب سب مساوی ہیں۔ بلکہ غریب کو جس کا پیٹ خالی ہے کام اور محنت کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ مگر میں نے دیکھا ہے کہ ایسے لوگ بھی چھ چھ گھنٹے حُقّہ پینے میں ہی گزار دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ جو لوگ اپنے چھ گھنٹے ضائع کردیتے ہیں اگر ان کے چھ گھنٹے ان کے مخالف نے ضائع کردیئے تو انہیں شکوہ کا کیا حق ہے۔ وہ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہم نے مزدوری کی مگر چھ آنے ہی ملے حالانکہ ہمارا گزارہ بارہ آنے میں ہوتا ہے۔ مگریہ نہیں سوچتے کہ اگر اپنی آدھی عمر وہ رائیگاں گنواتے ہیں تو چوتھائی۔ اگر دوسرے نے گنوادی تو اس پر کیا الزام۔ جتنا وقت وہ حُقّہ پینے اور فضول بکواس میں گزارتے ہیں اتنا اگر کام کرنے اورمحنت کرنے میں گزارتے تو تنگدستی نہ ہو۔ سیر کو جاتے ہوئے میں نے دیکھا ہے کہ جہاں کوئی اچھا کھیت ہوتا ہے وہ سکھوں کا ہوتا ہے اور جس کھیت کی فصل ناقص ہو وہ مسلمان کی ہوتی ہے۔ اور اب لمبے تجربہ کے بعد میں تو اچھی فصل کو دیکھ کر کہہ دیا کرتا ہو کہ یہ کسی سکھ کی ہوگی اور خراب فصل کو دیکھ کر کہہ دیا کرتا ہوں کہ کسی مسلمان کی ہوگی اور بالعموم یہ قیاس درست نکلتا ہے۔ سکھوں کو ایک نمایاں برتری تو یہ حاصل ہے کہ وہ حُقّہ نہیں پیتے اس لئے ان کا وقت بچ جاتا ہے۔ مگر مسلمان زمیندار تھوڑی دیر کام کرتے ہیں اور پھر یہ کہہ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ آئو حُقّہ پی لیں۔ حُقّہ کی عادت زمینداروں میں اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک زمیندار یہاں مہمان آیا۔ جب واپس گیا تو دوستوں نے اس سے پوچھا سنائو کیا دیکھا۔ اس نے جواب دیا کہ قادیان سے خدا بچائے، کوئی بھلا مانس وہاں رہ سکتا ہے؟ وہ بھی کوئی آدمیوں کے رہنے کی جگہ ہے۔ ہمارے دوست ڈرگئے کہ شاید قادیان میں کسی نے اس سے بدسلوکی کی یا مہمان خانہ میں کسی سے اس کی لڑائی ہوگئی ہے۔ اس لئے پوچھا کہ بتائو تو سہی ہوا کیا وہ سنانے لگا کہ میں یکہ میں دس بجے کے قریب وہاں پہنچا (اس زمانے میں یہاں ریل گاڑی نہیں تھی)۔ سفر کی تھکان تھی، میں نے خیال کیا کہ آرام سے بیٹھ کر حُقّہ پئیں۔ مگر آگ لینے گیا تو کسی نے کہا کہ حدیث کا درس ہونے لگا ہے۔ میں نے کہا نیا نیا آیا ہوں چلو چل کر درس سن لو پھر حُقّہ پیئوں گا۔ بارہ بجے وہاں سے واپس آیا تو روٹی کھاکر آگ لینے گیا معلوم ہوا کہ حضرت صاحب نماز کیلئے باہر آنیو الے ہیں اور زیارت کا موقعہ ہے اس لئے چھوڑ کر مسجد کو چلا گیا۔ وہاں سے واپس آیا آگ وغیرہ سلگائی حُقّہ تیار کیا گیا مگر ابھی دو چار ہی کش لگائے تھے کہ عصر کی نماز کو لوگ لے گئے۔ میں نے سوچا واپس آکر آرام سے پیئوں گا۔ مگر آتے ہی معلوم ہوا کہ مولوی صاحب بڑی مسجد میں قرآن کریم کا درس دیں گے۔ اس لئے ادھر جانا پڑا۔ واپس آیا تو مغرب کا وقت تھا۔ مغرب کی نماز کے بعد حضرت صاحب بیٹھ گئے اور میں بھی بیٹھا رہا۔ وہاں سے آیا تو خیال کیا کہ اب آرام سے حُقّہ پیئوں گا مگر آگ ہی سلگا رہا تھا کہ لوگوں نے کہا عشاء کی اذان ہوگئی ہے ، چلو نماز پڑھو۔ غرض سارا دن آرام سے حُقّہ پینے کا موقعہ نہیں ملا۔ اس لئے میں تو سویرے اُٹھتے ہی وہاں سے بھاگا او رمجھے یقین ہوگیا کہ یہ جگہ آدمیوں کے رہنے کی نہیں۔ اس مثال سے معلوم ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں میںوقت کو ضائع کرنے کا مرض کس حد تک پہنچ گیا ہے اور اس میں غریب اور امیر میں فرق نہیں۔ خواہ ضائع کرنے کے طریقوں میں فرق ہو مگر ضائع سب کرتے ہیں۔ سب ہی محنت سے جی چراتے ہیں او راس امر میں ہم دونوں میں کوئی امتیاز نہیں کرسکتے۔ دونوں وقت کی کوئی قیمت نہیں سمجھتے۔
کل ہی ایک نوجوان کو میں نے دیکھا جو مبلغین کلاس میں پڑھتا ہے۔ وہ پرسوں رات باہر سے جہاں اسے کسی کام پر بھیجا گیا تھا واپس آیا اورکل شام کو اس نے رپورٹ کی۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ آپ نے یہ اطلاع کل ہی واپسی پر کیوں نہ دی۔ تواس نے جواب دیا کہ میں نو بجے کی گاڑی سے آیا تھا اور خیال کیا کہ اب نو بج چکے ہیں ۔ اس نے خیال کیا کہ جس طرح نو بجے جانا اس کیلئے بڑی بات ہے، سب کیلئے اسی طرح ہے۔ اس نے چونکہ پہلے میاں بشیر احمد صاحب کو رپورٹ دینی تھی۔ میں نے پوچھا کہ پھر صبح میاں صاحب کو کیوں نہ ملے؟ توجواب دیاکہ میں آیا تھا مگر منتظمین نے ان سے ملایانہیں۔ اس لئے واپس چلا گیا اور اس طرح چار مرتبہ آیا مگر ملنے کا موقعہ نہ ملا ۔ میں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے چار مرتبہ اپنے آپ کو ملزم بنایا۔ اگر تم پکے مومن ہوتے تو اس وقت تک دہلیز نہ چھوڑتے جب تک مل کر کام نہ کرلیتے۔
آپ لوگوں کو اچھی طرح اس امر کا احساس ہونا چاہئے کہ جو اہم کام ہوتے ہیں، ان میں چاہے جان بھی چلی جائے ہلنانہیں چاہئے۔ اس میں امیر اور غریب کا کوئی سوال نہیں ، دونوں کیلئے اس کی پابندی ضروری ہے۔ مگرمیں نے دیکھا ہے کہ نہ امیر اس کے پابندہیں نہ غریب ۔ حالانکہ میں نے بار بار توجہ دلائی ہے۔ اچھی طرح یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کامیابیاں انہی لوگوں کو عطا کرتا ہے جو کام کے عادی ہوں۔ جیتنے والے محنتوں سے نہیں گھبرایا کرتے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا ۔ وَّالسّٰبِحَاتِ سَبْحًا۔۱؎ یعنی ہمیشہ کامیاب وہی ہوتے ہیں جو گرہ کشائی میں لگے رہتے ہیں۔ وہ چھوڑتے نہیں جب تک گرہ کو کھول نہیں لیتے اور کام کو پورانہیں کرلیتے اور پھر وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ کئی لوگ اس پر بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے آٹھ گھنٹے کام کیا ہے۔ حالانکہ وہ تو تندرست ہوتے ہیں اور میرے جیسے بیمار کو سال میں بہت دفعہ ۲۲۔۲۲ گھنٹے روزانہ کام کرنا پڑتا ہے۔ میں نے کئی دفعہ اپنے معترضین سے کہا ہے کہ میرے ساتھ دس دن اگر کام کرو تو تمہیں پتہ لگ جائے کہ کتنا کام کرنا پڑتا ہے۔ کام کا ہر ایک کو پتہ لگ جاتا ہے کیونکہ اس میں عادت کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ ایک امیر شخص یہ تو کہہ سکتا ہے کہ اَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّث ۲؎ میں مجھے اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ زیادہ کپڑے پہن لوں۔ مگر خدا نے یہ کہاں کہا ہے کہ وقت ضائع کرو۔ وقت ضائع کرنے کیلئے کوئی عذر نہیں پیش کیاجاسکتا۔ سوائے اس کے کہ کوئی شخص کہے مجھے اس کی عادت پڑ گئی ہے۔ مگر اس طرح تو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ خدا اور رسول کے انکار کی مجھے عادت ہو گئی ہے۔
میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید تمہیں اس وقت تک کامیاب نہیں کرسکتی جب تک رات دن ایک کرکے کام نہ کرو۔ اپنی راتوں اور دنوں پر قبضہ نہ کرلو اور ایسی عادت ڈال لو کہ جس کام کو اختیار کرو ایسی طرح کرو جس طرح ہمارے ملک میں کہتے ہیں تخت یا تختہ۔ جب تک یہ روح پیدا نہ ہو، جب تک کوئی شخص اپنے آپ کو فنا کرنے کیلئے تیار نہ ہو، اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ تم لاکھ ایڑیاں رگڑو مگر اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ جب تک اس طریق پر کام نہ کرو جو اللہ تعالیٰ نے کامیاب ہونے کیلئے مقرر کیا ہے۔ اس وقت بورڈنگ تحریک جدید کے لڑکے میرے سامنے بیٹھے ہیں ۔ میں ان کو بھی اور ان کے استادوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اس بورڈنگ کے قیام سے میری غرض یہی ہے کہ نوجوانوں میں محنت کی عادت پیدا ہو۔ تم بارہ گھنٹے بھی سوسکتے ہو مگر پانچ، چھ گھنٹے سوکر بھی گزارہ کرسکتے ہو۔
سالہاسال تک جب میری صحت اچھی تھی باوجود یکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل مجھے سختی سے منع کیا کرتے تھے، میںپانچ ساڑھے پانچ گھنٹے سے زیادہ نہیں سویا کرتا تھا۔ کئی دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ طبی نقطہ نگاہ سے میرا مشورہ ہے کہ سات گھنٹے سے کم نیندکی صورت میں آپ کی صحت ٹھیک نہیں رہ سکتی۔ مگرمیں پانچ ساڑھے پانچ گھنٹہ سے زیادہ نہیں سویا کرتا تھا۔ اب تو صحت اس قدر برداشت نہیں کرسکتی۔ مگر اب بھی سوائے بیماری کے سات گھنٹے میں کبھی نہیں سویا۔ بیماری میں تو بعض وقت آدمی دس گھنٹے بھی لیٹا رہتا ہے مگر ایسی حالت تو سال میں دو چار دفعہ ہی ہوتی ہے۔ عام حالات میں مَیں اب بھی چھ پونے چھ گھنٹے سوتا ہوں۔ گو سخت کام کے وقت اب بھی بعض دفعہ تین چار گھنٹوں پر اکتفاء کرنی پڑتی ہے۔
تو دنیا میں کامیابی محنت اور کام کرنے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ محنت کے بغیر نیکی کی مشق بھی نہیں ہوسکتی۔ بورڈنگ تحریک جدید کے قیام سے میری غرض یہی ہے کہ چند نوجوان ایسے پیدا ہوں جو محنت کے عادی ہوں اور پھر وہ بیج کا کام دیں اور ان کے ذریعہ ساری قوم میں یہ عادت پیدا کی جاسکے۔ اس لئے میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ محنت کی عادت ڈالو بیکاری کی عادت کو ترک کردو۔ فضول مجلسیں بنا کر گپیں ہانکنا اوربکواس کرنا چھوڑ دو ۔ حُقّہ اور دیگر ایسی لغو عادتوں میں وقت ضائع نہ کرو اور کوشش کرو کہ زیادہ سے زیادہ کام کرسکو۔
یاد رکھوکہ ہمارے لئے بہت نازک وقت آرہا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں نیا آئین نافذ ہورہا ہے جس کے نتیجہ میں انگریزی اثرملک سے کم ہوجائے گا اورتم جانتے ہو کہ دیہات میں اب بھی تمہارے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ جن لوگوں پر احمدیوں کے احسان ہوتے ہیں اور جو احمدیوں پر احسان کرتے ہیں اور باہم بہت اچھا سلوک ایک دوسرے سے کرتے ہیں، وہاں ایک مولوی آکر تقریر کردیتا ہے اور وہی لوگ بھڑک اٹھتے ہیں۔
پس ان حالات کے آنے سے پہلے اپنی اصلاح کرلو۔ محنت اور قربانی کی عادت ڈالو۔ ورنہ تمہاری حالت اس بھیڑ کی سی ہوگی جو ہر وقت بھیڑیئے کے رحم پر ہے۔ جب تک ہمت کوشش اور استقلال سے اپنے آپ کو شیروں میں تبدیل نہیں کرلیتے، اس وقت تک تم بھیڑیں ہو جن کی جانیں ہر وقت غیرمحفوظ ہیں۔ خداتعالیٰ نے تمہیں اختیار دے دیا ہے کہ اگر چاہو تو شیر بن جائو جو جنگل میں اکیلابھی محفوظ ہوتا ہے لیکن بھیڑیں دس بیس بھی غیر محفوظ ہوتی ہیں۔ پس اس کیلئے کوشش کرو اور دعائوں میں لگے رہو۔ میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں لغو عادتوں کو دور کرنے کی توفیق دے اور توفیق دے کہ تم محنتی اوربہت کام کرنے والے بن جائو۔ اپنے اوقات کو خداتعالیٰ کے دین کیلئے خرچ کرنے والے ہوجائو تا تھوڑے ہوکر بہتوں پر غلبہ حاصل کرنے والے بن سکو۔
(الفضل ۳؍ فروری ۱۹۳۷ئ)
۱؎ النّٰزعٰت: ۳،۴
۲؎ الضُّحٰی: ۱۲

۵
فتح و نصرت جماعت احمدیہ کیلئے مقدر ہے
(فرمودہ ۲۹؍ جنوری ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو بڑھانا چاہتا ہے تو اس کے خیالات اور افکار کو بھی بڑھادیتا ہے اورجب کسی قوم کو گھٹانا چاہتا ہے تو اس کے خیالات اور افکار کو بھی گرادیتا ہے۔ چنانچہ تمام قوموں کی حالت کو دیکھتے ہوئے ہم قطعی طور پر اس نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ کسی قوم کیتنزّلسے پہلے اس کے خیالات میںتنزّل پیدا ہوجاتا ہے اور کسی قوم کی ترقی سے پہلے اس کے خیالات میں ترقی پیدا ہوجاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی قومیں اور ذلیل قومیں معمولی معمولی باتوں پر تسلی پاجاتی ہیں مگر بڑھنے والی قومیں ہمیشہ اپنے حوصلوں کو بلند رکھا کرتی ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ یہاں ایک چوہڑا تھا جو اصطبل وغیرہ میں اور ہمارے گھر میں کام کرتا تھا۔ فرماتے تھے ایک دفعہ بچپن میں ہم نے کھیلتے ہوئے ہمجولیوں سے دریافت کرنا شروع کیا کہ تمہاری کیا خواہش ہے؟ پھر اسی بچپن کی عمر کے لحاظ سے اس سے بھی ہم نے دریافت کیا کہ تمہاری کیا خواہش ہے اور کس چیز کو سب سے زیادہ تمہارا دل چاہتا ہے اس نے جواب دیا کہ میرا دل اس بات کو چاہتا ہے کہ تھوڑا تھوڑا بخار چڑھا ہؤاہو، ہلکی ہلکی بارش ہورہی ہو، سردی کا موسم ہو، میں لحاف اوڑھے چارپائی پر لیٹاہؤاہوں اور دو تین سیر بھنے ہوئے چنے میرے سامنے رکھے ہوں اور میں انہیں ٹھونگتا جائوں یعنی ایک ایک کرکے کھاتا جائوں۔ یہ تھی اُس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش۔ کسی سننے والے نے کہا تم نے اس میں بخار کی شرط کیوں لگائی ہے؟ تو اس نے کہا اس لئے کہ پھر مجھے کوئی کام کیلئے نہیں بُلائے گا۔ کسی فارسی شاعر نے بھی کہا ہے کہ ؎
فکر ہر کس بقدرِ ہمت اوست
جتنی ہمت کسی فرد میں ہوتی ہے اتنے ہی بلند اس کے خیالات ہوتے ہیں۔
کچھ عرصہ کی بات ہے ایک دفعہ ایک ہندو دوست میرے ہم سفر تھے۔باتوں باتوں میں وہ مجھ سے کہنے لگے آپ تو قادیان کے بادشاہ ہوئے۔ میں نے کہا میں تو کوئی بادشاہ نہیں، بادشاہ تو انگریز ہیں۔ وہ کہنے لگا ہاں! مگر پھر بھی آپ کو وہاں ایک قسم کی بادشاہت حاصل ہے۔ میں نے کہا تو پھر اس میں قادیان کی کیا شرط ہے اس قسم کی بادشاہت تو مجھے ساری دنیا کی حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ فیصلہ فرماچکا ہے کہ احمدی جماعت کو دنیا میں بلندی، طاقت اور شوکت عطا فرمائے۔ وہ جب بھی حاصل ہو، ہوکر رہے گی۔ اس کی ابتداء چھوٹی نظر آتی ہوگی اور سنت اللہ کے مطابق ایسا ہی ہونا چاہئے مگر وہ چھوٹی چیز بڑی چیز کا ایسا ہی پیش خیمہ ہے جیسے ایک بیج ڈالا ہؤا آئندہ بہت سے دانوں کے اُگنے کا موجب ہوتا ہے۔
انگریزی حکومت اِس زمانہ میں فوج کے لحاظ سے سب سے چھوٹی سمجھی جاتی ہے باقی یورپین حکومتیں جو ہیں ان میں جبری بھرتی کا دستور ہے اور ہر نوجوان کو سال دو سال کے لئے فوج میں ضرور کام کرنا پڑتا ہے لیکن انگریزوں میں جبری بھرتی کا دستور نہیں بلکہ یہ لوگوں کو نوکر رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جرمن، اٹلی اورفرانس کی جہاں اسّی اسّی اور نوے نوے لاکھ فوج ہے وہاں انگریزی فوج تین لاکھ کے قریب ہے۔ گویا یہ بڑی سلطنتوں میںسے سب سے چھوٹی فوج رکھنے والی حکومت ہے۔ پھر ان کا کیا کہناہے جن کی فوجیں اسّی اسّی لاکھ اور نوے نوے لاکھ اور کروڑ کروڑ کی ہیں۔ مگر اس کے مقابلہ میں ذرا ان لوگوں کا بھی اندازہ کرو جو بدر کے موقع پر اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے نکلے تھے۔ وہ کُل ۳۱۳ آدمی تھے یہ فوج تھی جو کفار سے لڑنے کیلئے نکلی تھی،یہ فوج تھی جو ملک نے اپنا سارا زور صرف کرنے کے بعد مہیا کی تھی۔ ہم اِسے اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ دنیا کی سب جنگوں سے اِس کو بڑا سمجھتے ہیں مگر سرحدی قبائل کی معمولی معمولی جنگوں کے برابر بھی اس میں فوج نہیں تھی۔ کوئی انگریزی فوج کا جرنیل اگر اس لڑائی کو دیکھتا یا روسی فوج کا جرنیل اِس لڑائی کو دیکھتا۔ یا جرمن فوج کا جرنیل اس لڑائی کو دیکھتا تو شاید نہایت حقارت سیمُسکرا کر کہہ دیتا یہ بھی ایک بچوں کا کھیل ہے، بھلا تین سَو آدمی کی فوج بھی کوئی فوج ہؤا کرتی ہے۔ مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ تین سَو آدمی کی لڑائی دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی لڑائی تھی۔ وہی تین سَو بڑھ کرہزار ہوگئے اور ہزار بڑھ کر دو ہزار ہوگئے اور دو ہزار بڑھ کر دس ہزار ہو گئے اور دس ہزار بڑھ کر بیس ہزار ہوگئے اور بیس ہزار بڑھ کر ایک لاکھ ہوگئے اور ایک لاکھ پھر کروڑوں کروڑ بن کر ساری دنیا پر چھاگئے۔ اس کے دشمنوں کی مثال اُس پھیلے ہوئے بادل کی سی تھی جو سارے اُفق پر پھیلا ہؤاہو لیکن جس کا پانی نکل چکا ہو سب دنیا پر اس نے سایہ توکیا ہوا ہوتا ہے مگر برسنے کی قابلیت اس میں نہیں ہوتی۔ اور اس چھوٹے سے لشکر کی مثال اس چھوٹی سی کالی بدلی کی سی تھی جو شدید گرمی اور دیر تک بارش نہ ہونے کے بعد صبح ہی صبح اُفق پراُٹھتی ہے۔ بظاہر وہ چند گز کا ٹکڑا نظر آتا ہے لیکن پانچ دس منٹ کے اندر اندر اس طرح آسمان پرپھیل جاتا ہے کہ تمام دنیا پر سایہ کرنے کے بعد روئے زمین کو پانی سے بھر دیتا ہے۔ وہ پہلا بادل جو تمام دنیا پر چھایا ہؤا لیکن پانی سے خالی تھا ۔ ہوائیں آتیں اور اُسے اُڑا کر لے جاتی تھیں۔ لیکن دوسری چھوٹی سی بدلی جو ایک کونے سے اٹھتی ہوئی نظر آتی ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ یہ کچھ نہیں کرسکتی، سارے عالَم کو ڈھانک لیتی ہے اور تھوڑے ہی عرصہ میں زمین کوجل تھل کردیتی ہے۔
یہی حالت ہماری ہے بعض نادان ہم پر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ’’ کیا پدی اورکیا پدی کا شوربہ‘‘۔ یہ دنیا میں کیسی ایک قوم اُٹھ کھڑی ہوئی ہے اور بعض اپنے بیوقو ف بھی حیران ہوتے ہیں کہ ہم کو بھلا دنیا کی فتوحات سے کیا تعلق۔ حالانکہ ہمارے اندر کوئی ذرہ بھی ایمان کا باقی ہو تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ فتوحات کا تعلق ہم سے ہی ہے۔جنہیں خداتعالیٰ نے یہ کہا ہو کہ ہم تمہیں فتوحات دیں گے ان کا اگر فتوحات سے تعلق نہ ہوگا تو اور کس کا ہوگا۔ جس قوم کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہو کہ اِذَا جَآئَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا۱؎۔ جس کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہو کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے،۲؎ جس قوم کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہو کہ وہ دنیا پر چھا جائے گی اور باقی قومیںاُس کے مقابلہ میں بالکل چھوٹی چھوٹی رہ جائیں گی۔ اُس کے حوصلے اوراُس کی ہمتیں کتنی بلند ہونی چاہئیں، اُس کی قربانیاں کتنی بڑھی ہوئی ہونی چاہئیں اوراُس کا ایثار کتنا زیادہ ہونا چاہئے۔ دوسری قومیں جب قربانی کرتی ہیں تو وہ جانتی ہیں کہ ان کا مرنے والا سپاہی ان کی قوم کے کام نہیں آیا۔ مگر جس قوم کیلئے فتح و نصرت خداتعالیٰ کے حضور لکھی جاچکی ہو وہ جانتی ہے کہ مرنے والا سپاہی اس کے کام آگیا۔ گویا جیتنے والی قوم کی مثال اُس اینٹ کی سی ہے جو عمارت پر لگائی جاتی ہے اور ہارنے والی قوم کی مثال اُس اینٹ کی سی ہے جو سمندرمیں ڈبودی جاتی ہے۔ یہ سمندر میںڈوبتی اورگُھل جاتی ہے اور دنیا کی تعمیر کے کام میں نہیں آتی لیکن وہ دیوار پر لگتی اوراُسے پہلے سے بھی زیادہ اونچا کردیتی ہے۔ پس مومن کی قربانی ضائع نہیں ہوتی۔ وہ کم عقلوں کی نظرمیں شکست ہوتی ہے مگر حقیقت بین نگاہ میں وہ عظیم الشان فتح ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے ہر ایثار کے نتیجہ میں ایک نیا درخت پیدا کردیتا ہے۔ جیسے کھیت میں غلہ بونے والے زمیندار کو جب ایک بچہ دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے یہ زمیندار بیج ضائع کررہا ہے۔ مگر دنیا جانتی ہے کہ وہ بیج ضائع نہیں ہو رہا بلکہ وہ اُگے گا اور پہلے سے سینکڑوں گُنیزیادہ دانے پیدا کردے گا۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان پیشگوئیوں کے مطابق اپنے اعمال کوبنائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں پائی جاتی ہیں۔ میں نے دو تین سال سے متواتر توجہ دلائی ہے کہ دوستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پڑھتے رہنا چاہئے تا انہیں معلوم ہوتا رہے کہ ان کا کیا انجام مقدر ہے۔ بہت سے لوگ اپنے انجام سے ناواقف ہوتے ہیں اور ناواقف ہونے کی وجہ سے بہت سی سُستیاں اور غفلتیں کرجاتے ہیں۔ پس ان الہامات کو پڑھو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوئے ہیں۔ پھر دیکھو اور سوچو کہ خداتعالیٰ نے آپ لوگوں کیلئے کیا مقدر کیا ہؤا ہے اور پھر اپنے آپ کو اس درجہ پر لانے کی کوشش کرو جس درجہ کی خدا آپ سے امید کرتا ہے۔ کیا اس سے زیادہ بدقسمت شخص کوئی اور بھی ہوگا جو نور کے نیچے کھڑا ہو اور پھر بھی اُس کی آنکھوں کے سامنے تاریکی ہو۔ جس کے سامنے ہرقسم کی نعمتیںچُنی ہوئی ہوں اور اسے کھانے کی توفیق نہ ہو۔ یہی حال اُس شخص کا ہے، اُس بدقسمت شخص کا ہے جس کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پیشگوئیاں اور الہامات موجود ہیں جو آج سے پچاس سال پہلے ایسی حالت میں بیان کئے گئے تھے جب اس جماعت کانام و نشان بھی نہ تھا۔ پھر وہ ان پیشگوئیوں کو بڑی حد تک پوراہوتے دیکھتا ہے۔ مگر جو پیشگوئیاں پوری ہوچکیں انہی پر کھڑا ہوکر رہ جاتا ہے اور وہ پیشگوئیاں جو بہت زیادہ شاندار نتائج کی حامل ہیں انہیں نظر انداز کردیتا ہے۔ بُھول جاتا ہے، غافل ہوجاتا ہے اور کنویں کے مینڈک کی طرح اس تھوڑی سی چیز پر ہی قانع ہوجاتا ہے اور کہتا ہے جومِلنا تھا وہ مل چکا۔ بدقسمت ہے وہ انسان۔ کاش! اُس کی ماں اُسے نہ جنتی تا وہ خداتعالیٰ کی باتوں کا انکار کرنے والا نہ بنتا۔ (الفضل ۱۲؍ فروری ۱۹۳۷ئ)
۱؎ النصر: ۲،۳ ۲؎ تذکرہ صفحہ۱۰۔ ایڈیشن چہارم

۶
اپنے آپ کو نڈر اور صادق القول بنائو
(فرمودہ ۵؍ فروری ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
اللہ تعالی نے انسان کو اس دنیا میں پیدا کر کے کچھ تو اس کو قوتیں اور طاقتیں دی ہیںجن سے وہ کام کر سکتا ہے اور کچھ سامان مہیا فرمائے ہیںجو وہ استعمال کر سکتا ہے اور کچھ طریقے مقرر فرمائے ہیںجن کے ذریعہ سے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔مثلا اگر انسان کواُس نے کام کرنے کی طاقت دی ہے، سوچنے کے لئے دماغ دیا ہے،کام میںتنوع پیدا کرنے کے لئے مختلف قسم کے ذوق بخشے ہیںاور رغبت پیدا کرنے کے لئے مختلف قسم کی اُمنگیںاس کے دل میں پیدا کی ہیں۔غیرت پیدا کی ہے،جوش اور غضب پیدا کیا ہے،محبت پیدا کی ہے۔
اس کے بعد پھر اُس نے عورت اور مرد کا فرق رکھا ہے تا اِن طاقتوںکے استعمال کرنے کیلئے اُس کیلئے میدان کُھل جائے۔ بچے پیدا کئے ہیں،بھائی بہن اور دوسرے رشتہ دار بنائے ہیں۔ پھر اُس نے اس سے بھی زیادہ تنوع پید ا کرنے کیلئے حیوانات پیدا کئے ہیں۔ پھر اس کے کام کو اور وسیع کرنے کیلئے قسم قسم کے غلے، میوے، ترکاریاں، سبزیاں اور پھل پُھول وغیرہ پیدا کئے ہیں۔ پھر اس کی بادشاہت کو اور زیادہ وسیع کرنے کیلئے لکڑی، لوہا ، آگ اور پانی وغیرہ اشیاء بنائی ہیں جن پر انسان کا عمل وارد ہوتا ہے اور ان کے ذریعہ انسان نئی اشیاء بنا کر اپنے لئے نئی دنیا بناتا ہے۔ پھر فطرتِانسانی میں مدنیت کا مادہ رکھا ہے اور حکومت و اقتصادیات کے رستے کھولے ہیں۔ پھر سونا، چاندی اور جواہرات وغیرہ پیدا کئے ہیں جو اقتصادی دنیا کو بسانے کے سامان ہیں۔
گویا اللہ تعالیٰ نے ایک دنیا انسان کے اندر بنائی ہے جو باہر نکلنا چاہتی ہے اور ایک باہر بنائی ہے جو انسان کے اندر آنا چاہتی ہے۔ ایک طرف دل میں محبت کا جذبہ اور شہوت پیدا کی ہے تو دوسری طرف بیوی اور خاوند، بچے ، بہن بھائی، ماں باپ بنائے ہیں کہ بعض محبت کا اور بعض شہؤات کا محل بنتے ہیں۔ اور بعض کی محبت اور شہؤات کا یہ محل بنتا ہے۔ باہر کی دنیا اس کے اندر آنا چاہتی ہے اور اس کے اندر کی دنیا باہر جانا چاہتی ہے۔ اس کے اندر کی محبت بیوی بچوں اورماں باپ پر چھا جاتی ہے اور بیوی بچے، ماں باپ، بہن بھائی کہلانے و الے انسان جو اس کیلئے بیرونی دنیا تھی اس کے دل میں آکر بس جاتی ہے اور اس کیلئے ایک نیا عالَم تیار ہوتا ہے اور اس کیلئے اس دنیا میں وابستگی کا سامان پیدا ہوجاتا ہے۔
پھر جہاں انسان کے اندر بھوک رکھی ہے زبان کو مزے اور چکھنے کی خواہش دی ہے، لذت اور ذائقہ کا ذوق پیدا کیا ہے وہاں باہر مختلف قسم کے جانور اور قسم قسم کے مزوں والے گوشت بھی پیدا کئے ہیں۔ زبان کا چسکا اور پیٹ کی بھوک ان جانوروں پر چھا جاتی ہے اور وہ جانور گوشت بن کر اس کے پیٹ میں داخل ہوجاتے ہیں اور اس طرح یہ بیرونی دنیا پر غالب آجاتا ہے اور بیرونی دنیا اس کے اندر داخل ہوجاتی ہے اور اس طرح ایک نیا عَالَم پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح بھوک اور چکھنے کی خواہش قسم قسم کی سبزیوں پر چھا جاتی ہے اور دوسری طرف وہ تڑپ رہی ہوتی ہیں کہ کسی طرح انسان کے جسم میں داخل ہوجائیں اور اندر جاکر ایک نیا عَالَم پید اکردیتی ہیں۔ یہی حال پھلوں اور میووں کے متعلق ہے۔ پھر جہاں اس کی آنکھ کو ذوق نظارہ بخشا ہے ، جہاں ناک میں خوشبو سونگھنے کی طاقت رکھی ہے وہاں باہر خوبصورت نظارے اور رنگا رنگ کے پھول پیدا کئے ہیں اور نہایت خوشبودار مادے بنائے ہیں۔ آنکھ اور ناک کی حس جستجو کرتی ہوئی باہر آتی ہے او رباہر کی خوشبوئیں اور خوبصورتیاں اس کی ناک اور آنکھ میں گھس جاتی ہیں اور اس طرح پھر یہ ایک نیا عالَم پیدا ہوتا ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے ایک دنیا انسان کے اندر اور ایک اس کے باہر پیدا کی ہے مگر دونوں میں صحیح جوڑ پیدا کرنے کیلئے کچھ طریقے مقرر کئے ہیں۔ مثلاً یہ طریق مقرر کیا ہے کہ گوشت کھانے کیلئے جانورکو ذبح کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرلو تا جو خشونت اور سختی تمہارے دل میں دوسری جان کو مارنے سے پیدا ہوسکتی ہے وہ دور ہوجائے۔ تم ذبح کرنے سے پہلے خدا کا نام لے کر اقرار کرتے ہو کہ اس بکرے یا مرغ یا کبوتر کو ذبح کرنے کا تمہیں کوئی حق نہ تھا مگر جو اس جان کا مالک و خالق ہے اُس کے نام پر اور اُس کی اجازت سے تم ایسا کرتے ہو اور اُس کے دیئے ہوئے حق کو استعمال کرتے ہو اس لئے تم ظالم نہیں ہو۔ پھر کھانے کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ شروع کرنے سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ پڑھ لیا کرو۔ کیونکہ کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان میں گندہ خون یا تو ہوتا ہی نہیں یا بہت کم ہوتا ہے۔ مثلاً مچھلی میں خون بہت ہی کم ہوتا ہے جس کے نکالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سبزیوں اور ترکاریوں میں خون بالکل ہوتا ہی نہیں اس لئے کھانے سے قبل بِسْمِ اللّٰہِ پڑھنے کا حکم دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ تم اقرار کرتے ہو کہ تمہیں ان کے استعمال کا حق نہیں تھا مگر مالک کا حکم ہے۔ اس طرح انسان کے اخلاق سدھارنے کا حکم دے دیا اور تمہارے نفس میں سے جبر اور ظلم و تعدی کے خیالات کو دور کردیا۔ پھر یہ بھی بتادیا ہے کہ فلاں فلاں چیز کھائو اور فلاں فلاں نہ کھائو۔ کیونکہ ان میں سے بعض کے اندر بداخلاقیاں ہیں، بعض کے اندر بے دینی اور بے غیرتی ہے اور بعض میں زہر ہیں۔ اب جو شخص اس طریق پر خوراک استعمال کرتا ہے وہ فائدہ اُٹھالیتا ہے اور جو نہیں کرتا وہ نقصان اُٹھاتا ہے۔ پھر حقوق اور ملکیت کے ذرائع بھی بتادیئے ہیں۔ ایک ملکیت ورثہ سے ملتی ہے ایک محنت اور مزدوری سے بطور بدلہ اور جزا کے اور ایک ایسی چیز کے حصول کے ساتھ جس کا اور کوئی مالک نہیں جسے لقطہ کہتے ہیں یعنی بے مالک پڑی چیز کو پڑا پانا۔ یہی تین صورتیں ملکیت کی ہیں۔ آگے ورثہ دو قسم کا ہوتا ہے ۔ ایک جو ماں باپ یا رشتہ داروں سے ملتا ہے اور ایک تحفہ۔ ورثہ تحفہ کے معنوں میں بھی قرآن کریم میں استعمال ہؤا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ہم نے انسان کو اپنی نعمتوں کا وارث کیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اللہ تعالیٰ فوت ہوجاتا ہے اور انسان اس کے وارث ہوتے ہیں بلکہ اس کے معنی تحفہ کے ہیں۔ پس ملکیت دنیا میں تین طرح ہی قائم ہوتی ہے۔ اوّل ماں باپ یا بزرگوں سے ورثہ یا تحفہ کے طور پر یا محنت و مزدوری کے ذریعہ۔ اس کی ایک صورت وہ بھی ہے جو اَب تو نہیں مگر پہلے ہمارے ملک میں رواج تھا کہ ایک چیز کے بدلہ میں دوسری لے لی جاتی تھی۔ مثلاً ساگ پات کے بدلہ میں عورتیں دانے لے لیتی تھیں تو محنت مزدوری خواہ روپیہ کی صورت میں وصول کی جائے یا ادل بدل کی صورت میں، اس طرح بھی ملکیت قائم ہوجاتی ہے۔ تیسری صورت ملکیت کی لقطہ ہے یعنی کوئی ایسی چیز مل جائے جس کا انسانوں میں سے کوئی مالک نہ ملے ۔مثلاً کوئی قوم کسی ایسے جنگل میں جا پڑے جو کسی کی ملکیت نہ ہو تو وہ اس کی مالک ہوجائے گی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر جنگل میں کوئی بھیڑ اکیلی پھر رہی ہو جہاں بھیڑیئے بھی ہوں تو تم اُس کے مالک کو آواز دے کر اور تلاش کرنے کے بعد اُسے لے سکتے ہو آخر اسے بھیڑیئے نے ہی کھاجانا ہے۱؎۔ پس کیوں نہ تم ہی کھالو۔ تو دنیا میں یہ تینوں ذرائع جائز ملکیت کے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کو استعمال نہ کرے تو یا تو وہ مالک ہی نہ بن سکے گا یا پھر اُس کی ملکیت ناجائز ہوگی۔ جیسے کوئی چوری کرکے کسی کی چیز لے لے یا جبراً چھین لے۔
پس وراثت، محنت یا لقطہ کے سوایا تو انسان محروم رہے گا اور یا ناجائز طور پر مالک بنے گا۔ محروم کی مثال تو یہ ہے کہ کوئی انسان محنت نہ کرے اور ہاتھ پیر توڑ کر گھر میں پڑا رہے تو وہ ضرور فاقوں مرے گا۔ مگر جو خداتعالیٰ کے مقرر کردہ ذرائع استعمال کرے گا اُسے ملکیت حاصل ہوجائے گی۔ جائداد کا ورثہ میں ملنا انسان کے اپنے اختیارمیں نہیں۔ اسی طرح لقطہ بھی اس کے اختیار میں نہیںمگر محنت اس کے اختیار میں ہے اور محنت کرکے وہ ملکیت حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے سِوا اتفاقی طور پر ملے تو ملے ورنہ محروم ہی رہے گا اور اس کی مثال ایسی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے روٹی کھانے کیلئے منہ بنایا ہے اب اگر کوئی انسان عُمدہ پلائو پکا کر کان میں ڈالنے لگ جائے تو اُس کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ یا نہایت خوشبودار گلاب کا پھول لے کر اسے سونگھنے کی بجائے پائوں کے نیچے جراب کے اندر رکھ لے یا کسی عمدہ نظارہ کو دیکھنے کے بجائے اُس پر منہ مارنا شروع کردے یا کسی چیز کی ملائمت کو محسوس کرنے کیلئے اُس پر ناک رگڑنے لگے تو ایسا انسان احمق کہلانے کے علاوہ محروم بھی رہے گا۔
میں دیکھتا ہوں کہ تم میں سے بہت سے اِن باتوں کوسُنکر مُسکرائیں گے کہ ایسا بیوقوف کون ہوسکتا ہے۔ مگر تم میں سے بہت سے ہیں جو ایسے ہی بیوقوف ہیں۔ انسان کی عادت ہے کہ وہ دوسروں کی باتیں سُن کر اُن پر ہنستا ہے۔ مگر اُسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ معاملہ دراصل اُس کا اپنا ہی ہوتا ہے۔ مثال تو بُری ہے جنہوںنے یہ کام کیا اچھا نہ کیا لیکن مثال کے طور پر بیان کرتا ہوں۔ میں نے سنا ہے بعض لوگوں نے کسی اپنے دوست سے مذاق کیا اور چمگادڑ یا ایسا ہی کوئی جانور پکا کرکِھلادیا۔ اُسے معلوم تھا کہ ایسا گوشت پکایاگیا ہے مگر وہ سمجھتا تھا کہ یہ اُسے نہیں بلکہ دوسرے شخص کو دیا گیا ہے اس لئے وہ خود وہی گوشت کھاتا بھی جاتا تھا مگر یہ سمجھ کر کہ وہ ا ُس کے ساتھی کے آگے ہے، اُسے مذاق بھی کرتا جاتا تھا کہ کیسا اچھا اور لذیذ گوشت ہے، کیسا عمدہ پلائو ہے۔ حالانکہ جس چیز پر وہ اپنے ساتھی کو مذاق کرہا تھا وہ دراصل خود کھارہا تھا۔ تو دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو دوسرے کی بات پر ہنستے ہیں مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ وہ خود اس کے زیادہ مرتکب ہورہے ہیں۔
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اگر تم کسی شخص کو تصویر کو دیکھنے کے بجائے سُونگھتا ہؤا دیکھو اور آواز کو سننے کی بجائے اسے سونگھنے کی کوشش کرتا ہؤا پائو اور خوشبو کو سونگھنے کی بجائے دیکھنے کی کوشش کرتے دیکھو اور ملائمت کو زبان سے چکھنے کی کوشش میں پائو اور مٹھاس یا کھٹاس کا پتہ لگانے کیلئے ہاتھ کا استعمال کرتے دیکھو تو فوراً قہقہہ لگا کر کہہ دو گے کہ یہ شخص پاگل ہوگیا ہے۔ مگر کیا ہی عجیب بات ہے کہ تم میں سے اکثر اس چیز کو جسے وہ کسی کھانے والی یا سونگھنے والی یا دیکھنے والی چیز سے بہت زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں اور جس کیلئے کئی ایک نے اپنی جائدادیں چھوڑدی ہیں۔ ماں باپ، بھائی بہن اور رشتہ داروں کو ترک کردیا ہے اور وہ ظاہری قربانیاں جو انسان پر گراں گزرتی ہیں وہ اس چیز کی خواہش کو پورا کرنے کیلئے ان پر آسان ہوگئیں اور اس کے لئے ان کی قربانیوں نے ثابت کردیا ہے کہ اس کی قیمت ان کے دلوں میں بہت زیادہ ہے اوربظاہر وہ اس کے حصول کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں مگر پھر بھی وہ ان کو نہیں ملتی۔ لیکن وہ یہ معلوم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے کہ کیوں نہیں ملتی۔ خداتعالیٰ تو فرماتا ہے کہ مجھ سے مانگو تو میں دوں گا۔۲؎ مگر تم مانگتے بھی ہو، اس کیلئے قربانی کرتے بھی نظر آتے ہو مگر وہ ملتی نہیں اور اگر تم قرآن کریم، حدیث اور عقل و علم کے ماتحت غور کرو تو اس سوال کا ایک ہی جواب تمہیں ملے گا کہ تمہاری کوشش غلط طور پر ہورہی ہے۔
دنیا میں انسان کو ناکامی ہمیشہ یا تو اس لئے ہوتی ہے کہ اس کے اندر خواہش نہیں ہوتی یا اس لئے کہ وہ جدوجہد نہیں کرتا اور یا پھر اس لئے کہ وہ چیز ہی نہیں ہوتی۔ لیکن اگر یہ تینوں باتیں ہوں تو ناکامی کی صرف ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ جدوجہد غلط طور پر ہورہی ہے۔ جب پانی بھی موجود ہو، اُس پر قبضہ بھی ہو اور پیاس بھی لگی ہو تو پھر بھی اگر پیاس نہ بُجھے تو اس کے صاف معنے یہی ہوسکتے ہیں کہ جدوجہد غلط ہے۔ اور ممکن ہے پیاس بُجھانے کی کوشش کرنے والابجائے منہ میں پانی ڈالنے کے ناک یا کان میں ڈال رہا ہو۔ میں نے تم کو تحریک جدید کی شروع کی تحریکوں میں یہ بتایا تھا کہ صحیح مذہبی ترقی کیلئے سچائی ضروری چیز ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر کامل توکّل اور نڈر ہوجانا بھی بہت ہی ضروری ہے۔ اور میرے نقطہ نگاہ سے تو سچائی اور بے خوفی ایک ہی چیز ہے۔ جوبے خوف ہو وہ ضرور سچا ہوگا اور جو سچا ہو وہ ڈرنہیں سکتا۔ سچ کو چھوڑتا ہی انسان ڈر کی وجہ سے ہے خواہ وہ جان کا ڈر ہو یا مال کا یا عزت کا۔ جو انسان ڈرتا نہیں وہ جھوٹ کبھی نہیں بول سکتا اور جو جھوٹ نہیں بولتا وہ ضرور نڈر ہوگا۔ سچائی ہمیشہ امن کا موجب ہی نہیں ہؤا کرتی بلکہ بیسیوں مواقع ایسے آتے ہیں کہ سچائی مال و جان کیلئے ، وطن کیلئے، رشتہ داروں کیلئے اور عزت کیلئے خطرہ کا موجب ہوجاتی ہے اور جو اِن حالات میں سچائی پر قائم رہتا ہے، کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بُزدل ہے۔ سچائی اور بے خوفی اگرچہ دوعلیحدہ علیحدہ خلق ہیں مگر ان کا باہم چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جہاں سچ ہوگا وہیں بے خوفی ہوگی اورجہاں بے خوفی ہوگی وہیں سچ ہوگا۔
بے شک تم ایسی مثالیں پیش کرسکتے ہو کہ جن میں بظاہر بے خوفی ہے مگر سچ نہیں۔ لیکن اگر ذرا گہر اغور کرو تو معلوم ہوجائے گا کہ وہاں حقیقی بے خوفی نہ تھی۔ تہوّر تھا مگر جرأت نہ تھی۔ ڈاکو اور چور ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں، قاتل قتل کرنے کے بعد جھوٹ بولتے ہیں۔ بظاہر وہ بہادر نظر آتے ہیںلیکن اگر تم غور کرو تو درحقیقت وہ بہادر نہیں ہوتے، بزدل ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس میں کیا شک ہے کہ جب ایک ڈاکو یا قاتل ڈاکہ یا قتل سے انکار کررہا ہوتا ہے، اُس وقت وہ یقینا ڈر رہا ہوتا ہے۔ جب ایک ڈاکو کہتا ہے میںنے ڈاکہ نہیں مارا یا چور کہتا ہے میں نے چوری نہیں کی، یا قاتل قتل سے انکار کرتا ہے تو اسی لئے تو کرتا ہے کہ وہ ڈرتا ہے کہ میں پکڑا نہ جائوں اوراس صورت میں تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ وہ نڈر تھا۔ کیونکہ جب ڈرنے کا موقع آیا وہ ڈر گیا۔ پس گو بظاہر بعض مواقع پر یہ دونوں چیزیں اکٹھی نظر آتی ہیں مگر حقیقتاً یہ ظاہر بین نگاہ کی غلطی ہوتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ بے خوفی اورجھوٹ کبھی جمع نہیں ہوسکتے اور سچ اور بے خوفی کبھی جُدانہیں ہوسکتے۔
میں نے جماعت کے دوستوں کو نصیحت کی ہے کہ سچائی کی طرف زیادہ توجہ کریں مگر مجھے افسوس ہے کہ جو لوگ میرے مخاطب تھے اُنہوں نے ابھی تک اپنی اصلاح نہیں کی۔ یاد رکھو کہ سچ کے معنے یہی نہیں ہوتے کہ ہر بات دوسروں کو کہتے پھرو ،ایسا کرنا تو بعض دفعہ بے حیائی ہوجاتی ہے۔ سچ کے معنے یہ ہیں کہ جو کہو درست اور صحیح کہو۔ اگر تم کسی بات کو ظاہر کرنا نہیں چاہتے تو کہہ دو کہ میں یہ ظاہر نہیں کرسکتا لیکن جب کوئی بات بتادو تو پھر اس حقیقت کے مطابق بتائو جو خداتعالیٰ سکھاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص لڑنے کا عادی ہے اور جھوٹ بولنے کا بھی۔ وہ تم سے جھگڑتا ہے اورکہتا ہے کہ کیا میں جھوٹ بولتا ہوں۔ تو تم اگر اسے کہتے ہو کہ نہیں تم تو بڑے سچے آدمی ہو، تو تم جھوٹ بولتے ہو۔ اور اگر کہہ دو کہ ہاں واقعی تم جھوٹے ہو تو لڑائی ہوتی ہے اس لئے تم اسے کہہ سکتے ہو کہ سچ یا جھوٹ بولنا تمہارا اپنا فعل ہے اس لئے تم خود جان سکتے ہو کہ تم جھوٹ بولتے ہو یا سچ، میں اس کے متعلق کوئی رائے ظاہر نہیں کرسکتا اور اس طرح تم اس مرحلہ سے صاف نکل سکتے ہو بغیر جھوٹ بولنے اور بغیر فساد کرانے کے۔ پس سچ کے معنے یہ ہیں کہ جو کہو ٹھیک کہو اور جس چیز کے ظاہر کرنے کی تمہیں شریعت یا مصلحت اجازت نہیں دیتی اس کے متعلق تم صاف کہہ سکتے ہو کہ اس کے متعلق تمہیں پوچھنے کا کوئی حق نہیں۔ بعض جگہ انکاربھی انسان کو جھوٹ بُلوا دیتا ہے یا مصیبت میں پھنسادیتا ہے۔ بچے کھیلتے ہیں اور چُھپتے ہیں ۔ تلاش کرنے والا کسی سے پوچھتا ہے کہ کہاں چُھپے ہوئے ہیں؟ اس کے جواب کے دو ہی طریق ہیں کہ وہ کہہ دیتا ہے کہ میں نہیں بتاتا۔ پھر وہ پوچھتا ہے کہ فلاں جگہ ہیں۔ وہ کہتاہے کہ نہیں۔ پھر وہ پوچھتا ہے کہ اچھا فلاں جگہ ہیں؟ پھر بھی وہ کہہ دیتا ہے نہیں۔ پھر وہ تیسری جگہ کے متعلق پوچھتا ہے کہ وہاں ہیں؟وہ کہہ دیتا ہے نہیں۔ پھر وہ ایک جگہ کے متعلق پوچھتا ہے کہ کیا وہ وہاں ہیں ؟اور وہ خاموش ہوجاتا ہے تو پوچھنے والا سمجھ لیتا ہے کہ بس وہ اسی جگہ ہوں گے۔ پس نہ کہہ کر بھی تم ہاں کرسکتے ہو۔ ایک شخص کی تین جیبیں ہیں۔ ایک چیز کے متعلق وہ کہہ دیتا ہے کہ اس جیب میں نہیں۔ پھر دوسری کے متعلق کہتا ہے کہ اس میں بھی نہیں۔ اس پر بھی اگر دوسرا نہیں سمجھتا کہ وہ تیسری جیب میں ہے تو وہ بڑا ہی بیوقوف ہے۔
ایک قصہ مشہور ہے کہ دو بیوقوف کہیں جمع ہوگئے۔ ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگر تم یہ بتادو کہ میری جھولی میں کیا ہے تو میں ایک انڈا تم کو دے دوں گا۔ اور اگر یہ بتادو کہ کتنے ہیں تو دس کے دس ہی تمہیں دے دوں گا۔ آگے سننے والا بھی ویسا ہی تھا۔ اُس نے کہا کہ کوئی اتا پتا بتائو تو میں کچھ سمجھ سکتاہوں۔ یوں میں کوئی عالم الغیب نہیں ہو ںکہ سمجھ سکوں۔ اس پر پہلے نے کہا کہ کچھ زرد زرد اور کچھ سفید سفید چیز ا س کے اند رہے۔ اس کا مطلب انڈے کی زردی اور سفیدی سے تھا مگر دوسرے نے جھٹ جواب دیا کہ کچھ گاجریں اور کچھ مولیاں ہوں گی۔ توبسا اوقات انسان انکار بھی نہیں کرتا مگر بتا بھی جاتا ہے۔ گویازیادہ ’’نہیں‘‘ مل کر ایک ہا ں بن جاتی ہے۔ پس تم موقع پر ’’نہیں ‘‘اور’’ہاں ‘‘دونوں کے کہنے سے انکار کرسکتے ہو ۔ کیونکہ جس کو خداتعالیٰ نے پوچھنے کا حق نہیں دیا تمہارا حق ہے کہ اس کے سوال کا جواب نہ دو لیکن اگر جواب دو تو پھر سچا ہی جواب دو۔
میں نے کئی باربتایا ہے کہ سچ کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ مگر تم اپنے نفسوں کو ٹٹولو کہ کیا تم نے سچ بولنے کی عادت پید اکرلی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کئی لوگ میرے پاس آکر کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص نے اس اس طرح کہا۔ تو ہم نے آگے اس سے اس اس طرح بات بناکر جواب دے دیا۔ گویا وہ بے تکلفی سے میرے ہی سامنے اپنے جھوٹ کا اقرار کرجاتے ہیں اور میں خاموشی سے ان کا منہ دیکھتا رہتا ہوں۔ کیونکہ گو اُنہیں اپنے جھوٹ کے اظہار سے شرم نہیں آتی مگر مجھے یہ کہنے سے شرم آجاتی ہے کہ پھر تو آپ اقراری جھوٹے ہوئے۔ ہاں اپنے دل میں کہتا ہوں کہ میں اس بے شرم کو کیا کہوں۔
پس یاد رکھو کہ سچائی اور بے خوفی قومی ترقی کیلئے ضروری چیزیں ہیں۔ جس قوم میں ڈر ہے وہ کبھی نہیں جیت سکتی کیونکہ اس میں سچائی اور توکل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے سچائی اور بے خوفی کی عادت ڈالو اور یاد رکھو کہ کوئی انسان دنیا میں ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔ خدا اور اس کے دین کیلئے کسی انسان کی جان جانے کا موقع ہو لیکن وہ اپنی جان بچانے کی فکر کرے تو اسے کیا معلوم کہ آگے جاتے ہی خودبخود اس کی جان نکل جائے۔ ایک انسان کو شہادت کا موقع تو اللہ تعالیٰ دے مگر وہ اس سے بھاگے تو کیا معلوم کہ وہاں سے ہٹتے ہی اس کا ہارٹ فیل ہوجائے اور وہ مرجائے۔ خدا تو اسے ایک قیمتی چیز بنانا چاہے مگر وہ اس سے تو اپنے آپ کو بچالے لیکن آگے جاکر مُردہ گدھے کی طرح گِر پڑے۔ اسی طرح مالی قربانی کے متعلق بھی ہے۔ ہر شخص اپنی زندگی میں دیکھ سکتا ہے اور ہر ایک نے دیکھا ہے کہ کون کہہ سکتا ہے کہ اس کا روپیہ کبھی ضائع نہیں ہؤا۔ بسا اوقات خرید و فروخت میں نقصان ہوجاتا ہے، بعض اوقات کوئی جائداد تباہ ہوجاتی ہے اور بعض اوقات فصلیں خراب ہوجاتی ہیں اس لئے اگر موقع ملے تو کیوں نہ اپنے اموال کو خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کردیا جائے تا اللہ تعالیٰ کی رضا تو حاصل ہوجائے۔ ہندوستان میں مسلمان بادشاہ رہے ہیں۔ آج تک کنگال سہی، غریب سہی، بے کس اور بے بس سہی مگر یہ خیال تو دماغوں سے نہیں مٹ سکتا کہ دو چار سو سال قبل تمہارے باپ دادا بحیثیت قوم بادشاہ تھے۔ بحیثیت افراد نہ سہی آخر قوم میں سے ایک ہی بادشاہ ہوتا ہے۔ آج انگریزوں میں سے بھی ایک ہی بادشاہ ہے پھر بھی ساری قوم شاہی قوم سمجھی جاتی ہے۔ مگر مسلمانوں کی بادشاہت آج کہاں ہے۔ جب وہ مٹنے پر آئی تو کوئی چیز اسے نہ سنبھال سکی اور وہ اسی طرح مٹی تھی کہ جن کے پاس تھی وہ اپنی جانوں اور مالوں کی بہت بڑی قیمت سمجھنے لگے تھے۔
غدر کے واقعات میں لکھا ہے کہ زینت محل۳؎ جوبہادر شاہ ۴؎کی چہیتی بیوی تھی، وہ انگریزوں سے ملی ہوئی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کا لڑکا جو چھوٹا تھا اور رواج کے مطابق باپ کے بعد بادشاہ نہ ہوسکتا تھا انگریزوں کی مدد سے اسے بادشاہ بنوائے۔ ایک موقع پر باغیوں نے ایک ایسی جگہ توپ نصب کی کہ انگریزی فوج بالکل قابو آگئی۔ اسے سخت نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ انگریزوں نے زینت محل کو کہلا بھیجا کہ آج مدد کا وقت ہے۔ اُس نے جھٹ شور مچانا شروع کردیا کہ میرا دل دھڑکتا ہے اور اگر یہاں سے توپ چلائی گئی تو میں مرجائوں گی۔ بادشاہ نے بہت منت سماجت کی اور اُسے سمجھایا مگر وہ نہ مانی۔ ادھر بادشاہ بھی انہی لوگوں میں سے تھا جن کے نزدیک عورت کی قیمت حکومت سے زیادہ ہوتی ہے اس لئے اس نے توپ کو وہاں سے اٹھوادیا۔ زینت محل اس خوف کے اظہار میں جھوٹی تھی تو بھی اور اگرسچی تھی تو بھی، بہرحال باشاہ کے اس کی جان بچانے کا نتیجہ یہ ہؤا کہ اس کے اٹھارہ نوجوان شہزادوں کے سر خوان پوشوں میں رکھ کر اُس کے سامنے پیش کئے گئے اور پیش کرنے والے سروں کو سوٹیوں سے ہلا ہلا کر اُسے بتاتے تھے کہ یہ تمہارے فلاں شہزادے کا سر ہے اور یہ فلاں کا۔ اگر اس وقت بہادر شاہ نظام اور حکومت کے مقابلہ میں بیوی کی جان کی پرواہ نہ کرتا تو کون کہہ سکتا ہے کہ آج ہندوستان کا نقشہ کیا ہوتا۔
پس جو قومیں اپنی جان بچانا چاہتی ہیں وہی مرتی ہیں اور جو اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پر لئے پھرتی ہیں وہی ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ اسی طرح جو قومیں اپنے مال چھپاتی ہیں وہی لوٹی جاتی ہیں اور جو اپنے مال ہتھیلی پر لئے پھرتی ہیں ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ ہر ایک تم میں سے سمجھ سکتا ہے کہ کونسا زمیندار کماتا ہے۔ وہ جو اپنا غلہ اٹھا کر کھیت میں پھینک آتا ہے یا وہ جو گھڑوں اورمٹکوں میں اسے محفوظ رکھتا ہے۔ جو گھڑوں میںبند کرکے رکھا جاتا ہے اسے یا تو وہ خود کھالیتا ہے یا کیڑا کھاجاتا ہے۔ مگر جو کھیت میں ڈالا جاتا ہے باوجودیکہ لوگ اسے پائوں تلے روندتے ہیں، پرند اور چرند بھی اسے کھاتے ہیں مگر پھر بھی سینکڑوں گنا ہوکر گھر میں آتا ہے۔
پس اپنے آپ کو نڈر بنائو اگر تحریک جدید سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو، اور اپنے آپ کو صادق القول بنائو اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو۔ اگر تم نڈر ہوجائو تو دنیا تم سے ڈرے گی اور اگر تم صادق القول بن جائو تو منافق تم سے ڈریں گے۔ منافق اسی لئے دلیر ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے میرا دوست جھوٹ بول کر مجھے بچالے گا اور اگر تم یہ دونوں صفات اپنے اندر پیدا کرلو تو نہ بیرونی دشمن اور نہ اندرونی تم پر قابو پاسکتا ہے۔ لیکن اگر یہ باتیں تمہارے اندر پیدا نہیں ہوتیں تو تمہاری مثال اُس شخص کی ہوگی جو گلاب کی خوشبو کو دیکھنا چاہتا ہے،جو ترنم کی خوش آواز کو چُھونا چاہتا ہے۔ جو مخمل کی ملائمت کو چکھنا چاہتا ہے، تم ایسے شخص پر ہنستے ہو مگر یہ نہیں جانتے کہ تم خود ایسے ہی ہو۔ تم اسی دروازے سے داخل ہوکر ترقی کرسکتے ہو جو خدا نے کھولا ہے اور جسے خدا نے بند کیا ہے تم اسے نہیں کھول سکتے۔ اچھی طرح یاد رکھو کہ تم خدا کے کھولے ہوئے دروازے سے داخل ہوکر اوراُس کے بند کئے ہوئے دروازے سے مُڑکر ہی کامیاب ہوسکتے ہو۔ اگر تم اُس کے بندکئے ہوئے دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرو گے تو تمہارے لئے سوائے رونے اور دانت پیسنے کے کچھ نہ ہوگا اور اگراُس کے کھولے ہوئے دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرو گے تو بیشک اس میں تلواریں لٹک رہی ہیں، بھیانک نظارے اور خونخوار درندے ہیں مگر جونہی تم قدم رکھو گے وہ جادو کی طرح اُڑ جائیں گے۔ خداتعالیٰ نے اپنی جنت کو دوزخ کے نیچے چُھپایا ہے اور دوزخ کو دنیا کی جنت کے نیچے چھپایا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کی آیت وَ اِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھَا ۵؎کے یہی معنے کئے ہیں کہ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا جب تک وہ جہنم سے نہ گزرے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس میں صرف کفار کا ذکر ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس سے مراد سب انسان ہی لئے ہیں لیکن معنوں سے دوسرے مفسرین سے اختلاف کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ کافر اگلے جہاں کی جہنم سے گزر کر جنت میں داخل ہوتا ہے لیکن مومن اس دنیا کی جہنم سے گزر کر جنت میں داخل ہوتا ہے۔ اورکوئی مومن جنت میں نہیں جاسکتا جب تک وہ دوزخ میں سے نہ گزرے یعنی اس دوزخ سے جو اس دنیا میں ہے۔ پس یاد رکھو کہ ہر وہ شخص جو خدا کیلئے دوزخ میںکُودتا ہے وہ آنکھیں کھولے گا تو خداتعالیٰ کی گود میں ہوگا۔ وہ اپنے آپ کو مرنے کیلئے پیش کرے گا مگراُسے ابدی زندگی دی جائے گی۔ وہ اپنے آپ کومٹانے کیلئے آگے بڑھتا ہے مگر اسے بقاکا مقام حاصل ہوتا ہے۔یہی رستہ ہے جس پر چل کر تم کامیاب ہوسکتے ہو اور جو اس کے بغیر کسی اوررستہ پر چلنے کی کوشش کرتا ہے وہ پہاڑ سے ٹکراتا ہے۔ وہ اپنا سر تو چکنا چور کرلے گا مگر کامیابی کارستہ ہرگز نہیں پاسکے گا۔
(الفضل ۲۷؍ فروری ۱۹۳۷ئ)
۱؎ بخاری کتاب فی اللقطۃ باب ضالۃ الغنیم
۲؎ وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن:۶۰)
۳؎ زینت محل بیگم: (۱۸۱۷ئ۔۱۸۸۶ئ) صمصام الدولہ نواب احمد قلی خان بہادر کی صاحبزادی جس سے مغلوں کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ثانی نے مسند نشینی کے بعد شادی کی اسی کا بیٹا جواں بخت تھا بیگم کی کوشش تھی کہ جواں بخت ولی عہد قرار پائے مگر انگریزوں نے ایسا نہ ہونے دیا۔ بیگم بہادر شاہ کی رنگون جلاوطنی کے ساتھ زینت محل بیگم بھی جلاوطن ہوئیں بادشاہ کی وفات سے ۲۴ سال بعد وہیں وفات ہوئی اور بادشاہ کے پہلو میں تدفین ہوئی۔
(اُردو جامع انسا ئیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۷۱۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ئ)
۴؎ بہادر شاہ ظفر: (۱۷۷۵ئ۔ نومبر ۱۸۶۲ئ) ابوظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ۔ تخلص ظفر تھا۔ دلی کے آخری مغل تاجدار سالِ جلوس ۱۸۳۷ئ۔ تحریک آزادی ۱۸۵۷ء میں ماخوذ ہوئے اور جلاوطن کر کے رنگون بھیج دیئے گئے۔ قید میں ان سے بہت نامناسب سلوک ہوا۔ رنگون میں ہی انتقال ہوا۔ زمانہ ولی عہدی سے شعر گوئی کا شوق تھا۔ پہلے ذوق سے اور اس کے بعد غالب سے تلمذ رہا۔ ان کی تصانیف چار دیوان، شرح گلستان سعدی اور رسالہ سراج المعرفت ہیں۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۹۴۵ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ئ)
۵؎ مریم: ۷۲

۷
ربّ العٰلمین کے مظہر بنو
(فرمودہ ۱۹؍ مارچ ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
جیسا کہ رسول کریم ﷺ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی پیدائش کی غرض جو قرآن کریم میں عبودیت کا مقام حاصل کرنا بیان کی گئی ہے، اس کی تشریح دوسرے لفظوں میں تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہ۱؎ ہے یعنی انسان اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو اپنے اندر اختیار کرے اور اس کے ذریعہ سے خداتعالیٰ کی صفات ظاہر ہوں۔ اسی غرض کی طرف اشارہ کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ان چار جامع صفات کے ساتھ شروع کیا ہے جن کے ماتحت باقی سب صفات آجاتی ہیں اور وہ چار صفات یہ ہیں کہ:۔ اوّل خداتعالیٰ ہے۔
دوم وہ الرَّحْمٰن ہے۔
سوم وہ رَحِیْم ہے
اور چہارم وہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہے۔
یہ چار صفات بندے کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں تب جاکر وہ اپنے مقصد کو پورا کرنے والا قرار دیاجاسکتا ہے جس کو پورا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ یعنی اس کیلئے ضروری ہے کہ جس حد تک انسان رَبّ العٰلمین کی صفت کامظہر ہوسکتا ہے وہ اپنے آپ کو خداتعالیٰ کا ظلّ ثابت کرے اور جس حد تک انسان رحمانیت کا مظہر ہوسکتا ہے وہ اپنے آپ کو رحمانیت کا نمائندہ ثابت کرے اور جس حد تک انسان اَلرّ حِیْم کے جلوہ کو ظاہر کرسکتا ہے وہ رحیمیت کی روشنی کو دنیا میںپھیلائے اور جس حد تک وہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کا نمونہ قائم کرسکتا ہے وہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی شکل دنیا کو دکھائے۔ اور اگر ہم غور کریں تو یہی ذریعہ توحیدِ کامل کے قائم کرنے کا ہے کیونکہ شرک تو درحقیقت دوئی سے پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے کہ انسان کے سِوا دنیا کا ذرہ ذرہ خداتعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرتا اور اس کی سبوحیت کو بیان کررہا ہے پس اگر کوئی شرک کی چیز باقی رہ گئی تو وہ صرف انسان کا وجود ہی ہے۔ یہی چیز ہے جو کبھی خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں دوسرے خدا قرار دیتی ہے، کبھی خداتعالیٰ کی عبادت کا حق دوسری چیزوں کو دے دیتی ہے،کبھی خداتعالیٰ کے وجود کا ہی انکار کر بیٹھتی ہے۔ کبھی اس کی صفات میں نقائص پیدا کرتی ہے، کبھی بری چیزیں اس کی طرف منسوب کرنے لگ جاتی ہے۔ کبھی ان چیزوں کو خدا بنادیتی ہے جن کو خدا نے اس کے تابع بنایا ہے اور کبھی اپنے میں سے کسی آدمی کو خداتعالیٰ کی صفات دے دیتی ہے۔ باوجود ایک کمزور مخلوق ہونے کے یہ عجوبہ چیز خداتعالیٰ سے بھی بڑھ کر کام کرکے دکھانا چاہتی ہے۔ یعنی صفات کا وہ کامل ظہور جو خداتعالیٰ نے اپنے لئے مخصوص کردیا ہے، یہ ان کا خلعت بھی دوسرے لوگوں کو بخش دیتی ہے۔ گویا انسان کہلاتے ہوئے خدا گر بننا چاہتی ہے۔
اس مخلوق میں اگر فی الحقیقت خدائی صفات جلوہ گر ہوجائیں، اگر تمام انسان اپنے اندر ربوبیتِ عالَمین اور رحمانیت اور رحیمیت اور مالکیتِ یَوْمِ الّدِیْن کی صفات کا پرتو پید اکرلیں تو پھر دنیا میں سوائے خدا کے اور کونسی چیز باقی رہ جاتی ہے۔ انسانوں کے سِوا تو باقی چیزیں پہلے ہی سے خداتعالیٰ کی تسبیح کررہی ہیں۔ انسان ہی ہے جو اس میں رخنہ ڈالتا ہے اگر وہ بھی ان صفات کا حامل ہوجائے اور بجائے ایک علیحدہ وجود رکھنے کے صرف خداتعالیٰ کیلئے ایک آئینہ بن جائے جس میں دنیا خداتعالیٰ کی صورت دیکھے تو بتائو شرک کیلئے کونسی چیز باقی رہ جاتی ہے۔ سب جگہ پر خدا ہی خدا کا جلوہ نظر آجاتا ہے۔ خداتعالیٰ کے سِوا کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ یہی مقامِ توحید ہے جس کے قائم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کھڑا کیا ہے اور انہیں حکم دیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ خود توحید کے مقام پر کھڑے ہوں بلکہ دوسروں کو بھی اس مقام کی دعوت دیتے چلے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ توحید دنیامیں قائم ہوتی چلی جائے اور شرک مٹتا چلا جائے، نہ صرف زبانوں کے ذریعہ سے بلکہ اعمال کے ذریعہ سے بھی اور نہ صرف دعویٰ کے ساتھ بلکہ حقیقت کے ساتھ بھی۔
پس مومن کوہمیشہ ان چار صفات کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ آیا وہ کس حد تک ان صفات کا مظہر بننے میں کامیاب ہوسکا ہے۔ میں صرف پہلی صفت کو ہی اس وقت لیتا ہوں اور اس کے بھی صرف چند پہلو بیان کرکے اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ کیا واقعہ میں ربوبیتِ عالَمین کی صفت ان میں پید اہوچکی ہے۔ ربوبیتِ عالَمین میں جن باتوں کا اظہار کیا گیا ہے ان میں سے ایک دوام ہے۔ رَبِّ العٰلمینبتاتا ہے کہ وہ ربّ تھا اور ربّ ہے اور وہ ربّ رہے گا۔ جو چیز کسی وقت بھی ربوبیت میں ناغہ کرتی ہے وہ رَبِّ العٰلمین نہیں کہلاسکتی کیونکہ ناغہ کا وقت اُس کی ربوبیت سے خارج ہوجاتا ہے اور رَبِّ العٰلمین ہونے کیلئے یہ ضروری ہے کہ کوئی چیز اور کوئی وقت بھی اس کی ربوبیت سے خالی نہ ہو۔ پس رَبِّ العٰلمینکی صفت ہم کو اپنے اعمال میں دوام کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ اپنی ایک بیوی سے فرمایا کہ اچھی عبادت وہ ہے جو اَدْوَمُھَا ۲؎ ہو یعنی نیکیوں میں سے اور عبادتوں میں سے پائیدار ہو، جس میں ناغہ نہ کیا جائے اورجسے چھوڑا نہ جائے اورجو ہمیشہ کیلئے انسان کے اعمال کاجُزو ہوجائے۔ یہ درحقیقت رسول کریم ﷺ نے رَبِّ العٰلمین کی صفت کی ایک تشریح فرمائی اور متوجہ کیا کہ عبادت اور نیکی تبھی نیکی ہوسکتی ہے جبکہ انسان اُس کو دائمی طور پر اختیار کرے اور گویا اس طرح آپ نے ربوبیتِ عالمین کی صفت پید اکرنے کی طرف توجہ دلائی اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جس چیز کو انسان کبھی لے لیتا ہے اور کبھی چھوڑ دیتا ہے ہم کبھی تسلیم نہیں کرسکتے کہ وہ اس کو اچھا سمجھتا ہے ۔ کیونکہ اگر وہ اسے فی الحقیقت اچھا سمجھتا تو اسے چھوڑتا کیوں۔ جس وقت کیلئے وہ اسے اختیار کرتا ہے اس کے متعلق ہم خیال کرسکتے ہیں کہ وہ لوگوں کی نقل کررہا تھا یا ایک عارضی جذبہ کے نیچے اس کی روح دَب گئی تھی یا یہ کہ وہ نِفاق کے طور پر ایسا کام کررہا تھا ۔ لیکن جب کوئی شخص ایک چیز کو کلّی طور پر اختیار کرلیتا ہے اور اسے کبھی نہیں چھوڑتا تو اس چیز کے متعلق ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ یا تو اسے نیکی سمجھ کر اختیار کررہا ہے یا عادتوں کے ماتحت اس کے ظلم کاشکار ہورہا ہے اور اس کے مقابلہ کی اس میں طاقت نہیں ہے۔ غرض یا تو وہ اسے نیکی سمجھ کر اس سے محبت کرتا ہے یا اس چیز کا قیدی ہے کہ باوجود آزادی کی خواہش کے آزادنہیںہوسکتا اور یہ آخری بات ایسی نہیں کہ اس کا اس شخص یا دوسروں کو پتہ نہ لگ سکے۔
پس ربوبیتِ عالَمین انسان کی انہی صفات سے ظاہر ہوتی ہے جن کو وہ دائمی طور پر اختیار کرلیتا ہے اور جن میں وہ کبھی ناغہ نہیں ہونے دیتا۔ ایک شخص جو نماز کا پابند ہوتا ہے اگر وہ کبھی کبھی بیچ میں ناغہ کردے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ نماز کا پابند ہے اور اس نیکی کے ذریعہ ربوبیتِ عالمین کی صفت ظاہر کررہا ہے۔ یا مثلاً ایک شخص کسی کسی وقت غریبوں پر رحم کردیتا ہے اور کبھی اس بات کو چھوڑ بھی دیتا ہے، کبھی لوگوں کی مصیبتیں اُس کے دل میں درد پیدا کرتی ہیں اور کبھی وہ اس کے دل پر کوئی اثر نہیں ڈالتیں تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس نے ربوبیتِ عالَمین کی صفت ظاہر کی ہے۔ اس کے رحم کو ہم کمزوری سمجھیں گے اور نیکی قرار نہیں دیں گے۔ لیکن اگر ایک شخص ہمیشہ اپنے دل میں لوگوں کیلئے رحم محسوس کرتا ہے اور دوسروں کیلئے قربانی کی روح اس میں کبھی سرد نہیں ہوتی تو ہم سمجھیں گے کہ یہ شخص واقعہ میں نیک ہے اور رَبِّ العٰلمین کی صفت کا مظہر ہے۔ یا مثلاً ایک شخص ایک وقت میں دین کیلئے نکل کھڑا ہوتا ہے اور زمانہء جہاد میں جہاد کے ذریعہ اور زمانہء تبلیغ میں تبلیغ کے ذریعہ اپنی جان کو خداتعالیٰ کی راہ میں ہلکان کرنے کیلئے آمادہ رہتا ہے۔ کبھی تو اس کے اعمال میں ایک جوش اور فدائیت ظاہر ہوتی ہے اور کبھی وہ ان کاموں کو چھوڑ کر خاموشی سے اپنے گھر میں بیٹھ جاتا ہے۔ خداکی آواز بلند ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کے فرشتوں کی پکار اونچی ہوتی چلی جاتی ہے اوراُس کے بندوں کی ندائیں جَوّ کو بھر دیتی ہیں مگر اس کے دل میں کوئی حرکت ہی پیدا نہیں ہوتی۔ گویا اس کیلئے جہاد اور تبلیغ بے معنے الفاظ ہیں اور اس کو ان میں کوئی لذت ہی نہیں ملتی تو کس طرح ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے شخص نے جب جہاد کے وقت میں جہاد کیا تھا یا تبلیغِ عام کے وقت میں تبلیغ کی تھی اُس وقت اس نے یہ کام نیکی سمجھ کر کئے تھے۔ کیونکہ اگر واقعہ میں وہ انہیں نیکی سمجھتا تو اب کیوں خاموش رہتا اور کیوں اس کے دل میں آج وہی آوازیں سن کر پھر جوش نہ پیدا ہوجاتا۔ ہم تویہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ جس وقت اُس نے وہ کام کئے تھے کسی عارضی جوش یا خود غرضی یا کسی دھوکا کے ماتحت کئے تھے۔ لیکن اگر اس کے خلاف ایک دوسرا شخص ہر زمانہ اور ہر وقت اور ہر حالت میں جب خدا اور اس کے مقرر کردہ بندوں کی آواز سنتا ہے تو فوراً قربانی اور ایثار کیلئے کھڑا ہوجاتا ہے اور اگر جہاد کا وقت ہو تو امام کے آگے پیچھے ، دائیں بائیں لڑنے کیلئے تیار رہتا ہے۔ اور اگرتبلیغ کاوقت ہو تو نکل کھڑا ہوتا ہے۔ تو ایسے شخص کے متعلق ہم مجبور ہوں گے کہ ایمان رکھیں اور یقین کریں کہ وہ خداتعالیٰ کی صفت ربوبیتِ عالَمین کا مظہر ہے اور ہر زمانہ میں ہادی ہونا اُس کی روح کی غذا بن گیا ہے اور اسی طرح اور نیکیوں کا حال ہے کہ ان کے متعلق اگر استقلال کے ساتھ کوئی شخص قائم ہوتا ہے تو ہم اُس کوواقعہ میں نیک کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اگر استقلال کے ساتھ ان پر قائم نہیں ہوتا یا لوگوں کودھوکا دیتا ہے تو ایسا شخص ہرگز صفات الٰہیہ کا مظہر نہیں۔
پس ہمارے دوستوں کو دیکھنا چاہئے کہ کیا واقعہ میں انہوں نے اپنے نیک اعمال میں دوام حاصل کرلیاہے۔ اگر ایسا نہیںتو ان کیلئے خوف کا مقام ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی بہت سے کاموں میں ہماری جماعت نے دوام کا مقام حاصل نہیں کیا۔ ان کی مثال اُس سوئے ہوئے بچے کی طرح ہے جسے صبح کے وقت ایک متقی ماں نمازکیلئے جگادیتی ہے۔ جب اُس کی ماں اُس کو بستر پر بٹھادیتی ہے تو ماں کے سہارے وہ بیٹھ جاتا ہے لیکن پھر بیٹھا بیٹھا ہی سوجاتا ہے۔ جب ماں اس کو اس غفلت میں دیکھتی ہے تو پکڑ کر وضو کرنے کی جگہ پر لے جاتی ہے پھر وہاں جاکر بیٹھ جاتا ہے اور وہیں سوجاتا ہے۔ پھر ماں اُسے جھنجھوڑتی ہے اور وضو کراتی ہے ۔ وضو کرنے کے بعد جب جسم کے سُوکھنے کا یہ کچھ دیر انتظار کرتا ہے تو پھر سو جاتا ہے اور ماں پھر آکراُسے اُٹھاتی اور سنتیں پڑھواتی ہے اور پھراُسے نماز کیلئے باہر بھیج دیتی ہے۔ وہ مسجد میں پہنچتا اور نماز شروع کردیتا ہے مگر کبھی سجدہ میں سوجاتا ہے اور کبھی تشہّد میں۔ کبھی ساتھ والے نمازیوں کی حرکت سے اُس کی آنکھ کھل جاتی ہے اور کبھی وہ خوابِ غفلت میں پڑا ہی رہ جاتا ہے۔ خدا کی عبادت کرنے والے عبادت کرکے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں اور وہ بیچارا وہیں نیند کا شکار ہؤاپڑا رہتا ہے۔
بہت سے دوستوں کی حالت مَیں دیکھتا ہوں ایسی ہی ہے۔ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ نمازیںپڑھو تو وہ نمازوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ پھر جب کہا جاتا ہے چندے دو تو وہ چندے دینے لگ جاتے ہیں مگرنمازوں میں ڈھیلے ہوجاتے ہیں۔ پھر جب کہا جاتاہے کہ تبلیغ کرو تو وہ تبلیغ کرنے لگ جاتے ہیں مگر نمازوں اور چندوں میں سُست ہوجاتے ہیں۔ پھر جب کہا جاتا ہے روزے رکھو تو روزے رکھنے لگ جاتے ہیں مگر نمازوں اور چندوں اور تبلیغ میں سُستی آجاتی ہے۔ غرض جس طرح ایک چھوٹا بچہ ہر وقت سہارے کا محتاج ہوتا ہے اور اپنی توجہ صرف ایک ہی چیز کی طرف رکھ سکتا ہے ان کی توجہ محدود رہتی ہے اور پھر اس میں بھی سہارے کی محتاج۔
اگر تحریک جدید پر ہمارے دوست غو رکریں تو وہ اُنیس مسائل جو میں نے اس میں بیان کئے تھے ۔ اول تو وہ دیکھیں گے کہ ان کو سارے یاد بھی نہیں اور پھر وہ محسوس کریں گے کہ ان میں سے ایک ایک چیز کی طرف وہ ایک ایک وقت میں متوجہ رہے ہیں۔ جب چندے کا زورہؤا تو چندہ دینے لگے اور جب تبلیغ کا زور ہؤا تو تبلیغ میں مشغول ہوگئے اور جب دعا کی تحریک ہوئی تو دعائوں میں لگ گئے اور جب سادہ زندگی پر زور دیا گیا تو اُس کی طرف توجہ کرنی شروع کردی۔ جب ہاتھ سے کام کرنے پر زور دیا تو ہاتھ سے کام کرنے لگ گئے اور پھر آرام سے گھروں میں بیٹھ گئے۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس تحریک کی تکمیل تو اس کی چھ جہات کی تکمیل کے ساتھ ہی ہوسکتی تھی۔ اگر مکان کی ایک وقت میںایک ہی دیوار قائم رہے تو وہ مکان حفاظت کا کس طرح موجب ہوسکتا ہے۔ اگر انسان ایک طرف توجہ کرے اور دوسری کو چھوڑ دے تو اسکے یہی معنے ہوں گے کہ جب وہ اپنے مکان کی دوسری دیوار کو کھڑا کرے تو پہلی کو گرادے ۔ ایسا شخص کبھی بھی اپنے مکان کو مکمل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ وہ تو گراتا اور بناتا ہی رہے گا۔ نہ کبھی چھت پڑے گی اورنہ اس کامکان رہائش کے قابل ہوگا ۔ ایسا شخص تو بہت ہی قابلِ رحم ہے اور سب سے زیادہ رحم اسے اپنی جان پر آنا چاہئے۔ مگر کتنے ہیںجو اپنی جانوں پرر حم کرکے اپنے اندر یہ تبدیلی پیدا کرتے ہیں کہ نیکیوں میں دوام پید اکریں اور یہ نہ ہو کہ ایک کو اختیار کرتے وقت دوسری کو چھوڑ بیٹھیں۔
اسی طرح ربوبیتِ عالَمین میں ایک موٹی چیز ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توجہ کافر ومومن کی طرف یکساں ہے یعنی وہ عالَمِ کفار کی بھی پرورش کررہا ہے اور عالَمِ مومنین کی بھی پرورش کررہا ہے۔ گو عالَمِ مومنین کی پرورش عالَمِ کفارکی پرورش سے مختلف ہے مگر دونوں جگہ پر پرورش کا کام جاری ہے۔ کسی جگہ پر تو تبلیغ کے ذریعہ سے اس کی ربوبیت ظاہر ہوتی ہے لیکن کسی جگہ پر تربیت کے ذریعہ سے۔ کہیں وہ اِنذار کو ذریعہء ہدایت بناتا ہے تو کہیںانعام کو باعثِ ترقی بنادیتا ہے۔ غرض کسی کو ڈرا کر، کسی کی ہمت بلند کرکے ، کسی کو خوف دلا کر، کسی کو انعام اور عطیہ کے ساتھ وہ کھینچے ہوئے لئے چلا جاتا ہے اور یہی سبق مومن کو بھی حاصل کرنا چاہئے۔ اس کی توجہ کافر و مومن کیلئے یکساں ہونی چاہئے،گمراہ اور ہدایت یافتہ کیلئے یکساں ہونی چاہئے مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوستوں کو اس دِقت نظر سے ابھی وابستگی پیدا نہیں ہوئی۔ زیادہ تر اِن میں سے وہی ہیں جو غیروں میں تبلیغ تو کردیتے ہیں مگر اپنی جماعت کی تربیت کی طرف ان کی توجہ نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہؤا ہے کہ ہماری جماعت میں بعض نئے پیدا ہونے والے بچے سلسلہ کی تعلیموں اور سلسلہ کی اغراض سے بالکل ناواقف ہیں اور ان کا مذہب صرف ورثہ کا مذہب ہے اور وہ اسی طرح گمراہی کا شکار ہوسکتے ہیں جس طرح دوسرے فرقوں اور دوسری قوموں کے لوگ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ مومن اور کافر دونوں کی طرف یکساں اپنے فضل کو بڑھاتا ہے۔ گو جیسا کہ میں بتاچکا ہوں کہ فضل کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔
پس میںجماعت کے دوستوں کو اس امرکی طرف بھی توجہ دلاتاہوں کہ وہ تعلیم اورتربیت کو مدنظر رکھیں اور ہمیشہ ایک بھائی دوسرے کیلئے مشعلِ راہ بنارہے اور ماں اور باپ اپنے بچوں کی دینی تربیت ایسے طور پر کریں کہ آئندہ نسلیں اخلاص میں پچھلوں سے کم نہ ہوں بلکہ زیادہ ہوں اور نہ صرف اپنے بچوں کی خبرگیری کریں بلکہ اپنے ہمسایوں اور محلہ کے بچوں کی بھی خبر گیری رکھیں۔ کیونکہ کئی ماں باپ کمزور ہوتے ہیں اور وہ تربیت کر ہی نہیں سکتے اور کئی ماں باپ دوسرے کاموں میں ایسے مشغول ہوتے ہیں کہ وہ تربیت کیلئے وقت بھی نہیں نکال سکتے۔ پھر جبکہ اللہ تعالیٰ نے ربّ العٰلمین کی صفت کا ہم کومظہربنایا ہے تو پھر ہمارا فرض بھی تو ہے کہ ہم صرف اپنی نگاہ کو ایک محدود دائرہ یں مقیّدنہ رکھیں بلکہ ہماری نگاہ وسیع ہو اورہمارے ہمسایوں اورمحلے والوں کو بھی ہماری ان خوبیوں سے حصہ ملے جو خداتعالیٰ کے فضل سے ہمیں عطا ہوئی ہوں۔
اگر ہمارے دوست اِن دو نکتوں کو یاد رکھیں اور اپنی نیکیوں کو بے استقلالی کا شکار نہ ہونے دیں اور اپنی نظروں کو مقیّد ہونے سے بچائیں بلکہ جس طرح خداتعالیٰ کی صفات وسیع ہیں ان کی نیکیاں بھی وسیع ہوں تو یقینا ہماری جماعت ایک ایسے مقام پر کھڑی ہوجائے کہ جس کے بعد کوئی تنزّل نہیں او ر انہیں ایک ایسی فتح حاصل ہو جس کے بعد کوئی شکست نہیں۔ لیکن اگر یہی جگانے اور سونے کا ہی سلسلہ چلتا گیا تو انہیںیاد رکھنا چاہئے کہ یہ دنیا فانی ہے اور کبھی اس دنیا سے جگانے والے بھی اُٹھ جاتے ہیں۔ پھر وہ ایسے سوئیں گے کہ جاگنا مشکل ہوگا اور ایسی غفلت کا شکار ہوں گے کہ جس کے آخرمیں ہوشیاری کا پتہ نہ چلے گا۔ پس انہیں خداتعالیٰ کی سنتوں کو بُھولنا نہیں چاہئے اور اپنے اندر مومن والا استقلال اور مومن والی وُسعتِ نظر پید اکرنی چاہئے تا وہ خداتعالیٰ کا مظہر اپنی ذات میں ہوجائیں اور خداتعالیٰ براہ راست خود ان پر اپنی نگاہ ڈالے۔
میںنے خطبہ کے شروع میں مومن کی مثال ایک آئینہ سے دی تھی۔ یہ مجھے خداتعالیٰ ہی کی طرف سے ایک دفعہ رئویا میں سمجھائی گئی تھی۔ ایک دفعہ میں نے رئویا میں دیکھا کہ میں ایک مکان میں کھڑاہوں اور میرے سامنے حکیم غلام محمد صاحب مرحوم کھڑے ہیں۔ نظر تو وہی اکیلے آتے ہیں مگر خیال یہ ہے کہ بہت سے لوگ ہیں اور میں ان میں تقریر کررہا ہوں۔ میرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے اور اس کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہوں کہ دیکھو !ایک حسین انسان اپنے حسن کو آئینہ میںدیکھتا ہے اور اس آئینہ کو بڑا قیمتی سمجھتا ہے اور سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے اس کا حُسن اُسے نظر آتا ہے۔ لیکن اگر آئینہ میلا ہوجائے اور اس میںحُسن پوری طرح نظر نہ آئے تو پہلے تو مالک اُسے صاف کرکے کام چلاتا ہے لیکن اگر وہ زیادہ میلا ہوتا چلا جائے تو ایک دن پھر ایسا آجاتا ہے کہ اس میںمالک کی شکل اچھی طرح نظر نہیں آتی اور وہ سمجھتا ہے کہ اب یہ میرے لئے بیکار ہے اور وہ اُٹھا کراُسے پھینک دیتا ہے اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔ یہ کہہ کر میںنے شیشہ اُٹھایا اور زور سے زمین پرپھینک دیا اور وہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور اس کے ٹُوٹنے سے آواز پید اہوئی۔ میں نے کہا دیکھو! خداتعالیٰ بھی بندوں سے ایسا ہی سلوک کرتا ہے۔ جس طرح اس خراب اور گندے شیشے کے ٹوٹنے سے ہمارے دلوں کو رنج نہیں ہوتا اُسی طرح خداتعالیٰ بھی ایسے شخص کی پروا ہ نہیں کرتا جواُس کے حُسن اور چہرے کو دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔
پس میں جماعت کے احباب کو نصیحت کرتاہوں کہ اپنے آپ کو خداتعالیٰ کیلئے آئینہ بنائو۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے آئینے بھی میلے ہوجاتے ہیں، تم اپنے آپ کو صاف بھی کرتے رہو۔ بعض دفعہ صفائی دوسرے ہاتھ کی محتاج ہوتی ہے، انسان خود صفائی نہیں کرسکتا۔ ایسی صورتوں میں اپنے بھائی کی امداد کرو۔ اس کے متعلق بھی مجھے ایک رئویا یاد آیا ہے جو بچپن کے زمانہ کا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان دنوں زندہ تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اُس وقت میں سکول میں پڑھا کرتا تھا اور میں نے سکول ۱۹۰۵ء میں چھوڑا ہے۔ اس لحاظ سے یہ رئویا ۱۹۰۳ء یا ۱۹۰۴ء کا ہے جبکہ میری عمر قریباً پندرہ سولہ سال کی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ان کمروں میں سے ایک میں کہ جن میں مدرسہ احمدیہ کے لڑکے آجکل پڑھتے ہیں یعنی وہ کمرے کہ جو کنویںکے سامنے ہیں۔ ان میں سے درمیانی کمرہ میں ہم کچھ لوگ بیٹھے ہیں گو وہ آدمی جو نظر آتے ہیں تھوڑے ہیں مگر خیال ہے کہ یہاں ساری دنیا کے لوگ جمع ہیں۔ ماضی، حال اور مستقبل کے بھی۔ گویا وہ محشر کا دن ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی انتظارمیں ہیں کہ آئے حساب لے اور فیصلہ فرمائے۔ ایک میز لگی ہوئی ہے جس کے سامنے ایک کُرسی پڑی ہے اور چند فرشتے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ اتنے میں مَیں نے دیکھا کہ ایک نہایت حسین نوجوان اُس کُرسی پر آکر بیٹھ گیا اور رئویا میں مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ ہے اور ہم سب اس گھبراہٹ اور پریشانی میں حیران ہیں کہ کیا انجام ہوگا کہ اتنے میں اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کے سامنے کئے جانے کا حکم دیا اوراُس پر نگاہ ڈال کر فرمایا کہ اس شخص کو لے جائو اور جنت میں داخل کردو۔ پھر ایک شخص کو خداتعالیٰ نے آگے لانے کا حکم دیا جو بظاہر نہایت حسین اور خوبصورت نوجوان تھا۔ جب وہ سامنے لایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اُس کی طرف دیکھا مگراُس سے کوئی سوال نہیں کیا۔ گویا اس کی نظروں میں ہی سارے سوال ہوگئے۔ میں نے دیکھا کہ اس کا گوشت ، اس کی ہڈیاں اور اس کے تمام عضلے کھال کے اندر یوں نرم ہونے شروع ہوئے جیسے کوئی موم وغیرہ پگھل کر سیال ہوجاتی ہے۔ ہم نے محسوس کیا کہ اُس کی کھال کے نیچے کی ہر چیز پیپ بن گئی ہے اور وہ سر سے پیر تک پیپ کا تھیلا بن کر رہ گیا ہے۔ تب خداتعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ اسے لے جائو اور جہنم میں داخل کردو۔ اُس وقت میں نے ایک نہایت عجیب رحمت کا نظارہ دیکھا۔ فرشتوں نے جس وقت جنتی کو جنت میں داخل کیا تو دروازے کھول کر کِیا اورجنت کی ہؤائیں باہر والوں کو لگیں لیکن جس وقت دوزخی کو دوزخ میں داخل کیا تو دروازے کو نہایت تھوڑا سا کھولا اور آگے خود کھڑے ہو گئے اور اسے دھکیل کر اندر کرکے دروازہ فوراً ہی بند کردیا تا وہاں کی مسموم ہؤائیں دوسروں کونہ چھوئیں۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ خداتعالیٰ کھڑا ہوگیا اور فرمایا کہ اس وقت بس اتنا ہی حساب لینا تھا۔ ابھی حشر کادن نہیں آیا مگر شاید تم میں سے بعض لوگ اپنا انجام دیکھنا چاہتے ہوں۔ وہ اپنی پیٹھ کی طرف دیکھیں جس کی پیٹھ کی طرف کی دیوار کی کچھ اینٹیں پکی ہوئی ہوں گی وہ جنتی ہے اور جس کی کچی ہوں گی وہ دوزخی ہے۔ یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ چلا گیا اور ہم لوگ جو وہاں بیٹھے تھے خاموشی سے بیٹھے رہے۔ کسی کو یہ جُرأت نہ تھی کہ مُڑ کر پیٹھ کی طرف دیکھے۔ ہم بیٹھے رہے اور بیٹھے رہے اور بیٹھے رہے اور وقت گزرتا گیا، گزرتا گیا اورگزرتا گیا۔ جب ایک کافی عرصہ گزرگیا تو میرے دل میں ایک خیال پیداہؤا۔ میں نے دیکھا کہ میرے دائیں طرف حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل بیٹھے ہیں۔ میں ان کی طرف جھکا اور کہا کہ مجھ سے تو پیچھے مُڑ کر دیکھا نہیں جاتا۔ انہوں نے فرمایامیری بھی یہی حالت ہے۔ میں نے کہا مجھے ایک خیال آیا ہے میں آپ کی پیٹھ کے پیچھے دیکھتاہوں اور آپ میری پیٹھ کے پیچھے دیکھیں۔ اس پر انہوں نے میری پیٹھ کے پیچھے دیکھا اور میں نے اُن کی پیٹھ کے پیچھے اور ایک ہی وقت میں ہم دونوںچِلّائے کہ پیچھے اینٹیں پکّی ہیں اورجیسا کہ شدید خوشی کی حالت میں جب وہ شدید مایوسی کے بعد پیداہو انسان کے قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیںہمارے جسم ڈھیلے ہوکر زمین پر گرگئے اور میری آنکھ کُھل گئی۔
میں آج کہ اس پر قریباً ۳۳ سال گزرگئے ہیں اس نظارہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے اُسی طرح دیکھ رہا ہوں جس طرح کہ اُس وقت دیکھا تھا۔ یہ واقعات گہرے طور پر میرے دماغ میں منقش ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ اُس وقت کے جذبات آج کے جذبات نہیں ہوسکتے اور اُس وقت کی گھبراہٹ کا اندازہ تو آج لگایا ہی نہیں جاسکتا لیکن پھر بھی ظاہری نظارے بہت حد تک میرے دماغ میں مرسوم ہیں اور یہ رئویا میں نے اس لئے سنایا ہے کہ کبھی کبھی انسان اپنی پیٹھ کے پیچھے نہیں دیکھ سکتا اور شک و شبہ کی حالت میں پڑا رہتا ہے۔ اُس وقت بہترین تجویز یہی ہوتی ہے کہ تم اپنے بھائی کی پیٹھ کی طرف دیکھو اور وہ تمہاری پیٹھ کی طرف دیکھے۔ تم اس کی صفائی کرو اور وہ تمہاری صفائی کرے۔ یہ ایک بہترین طریق ہے اور کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ ۳؎کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے ۔ دیکھو جھوٹا دوست جھوٹ بول کر تم کو تباہ اور انجام سے بے فکر کردیتا ہے لیکن جب سچا دوست سچی بات تمہارے سامنے رکھتا ہے تو گو وہ گراں گزرتی ہے مگر تمہارے انجام کو درست کرنے والی ہوتی ہے اور تمہاری عاقبت کو ٹھیک کردیتی ہے۔
پس کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَکے یہی معنی نہیں کہ بزرگوں اور ولیوں کی تلاش کرو۔ وہ معنی بھی ہیں اور میں انکار نہیں کرتا مگریہ معنی بھی ہیں کہ قومی اِصلاح کیلئے اس کے ساتھ تعاون کیا کرو جو تمہارے اور تمہارے متعلقین کے عیوب سے تمہیں واقف کرے او رایسے دوست نہ چُنا کرو جو جھوٹ بول کر تمہیں دھوکے میں رکھیںیہاں تک کہ وقت آجائے اور خداتعالیٰ کے فرشتے تمہیں دوزخ میں دھکیل دیں اور تمہارے لئے توبہ کا وقت بھی نہ رہے۔اَلْعیَاذُ بِاللّٰہِ
(الفضل ۲۴ ؍ مارچ ۱۹۳۷ئ)
۱؎
۲؎ بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومۃ علی العمل۔
۳؎ التوبۃ: ۱۱۹

۸
سلسلہ احمدیہ میں نظامِ خلافت خداتعالیٰ کا قائم کردہ ہے
تئیس سالہ واقعات کی شہادت
(فرمودہ ۲۶ ؍ مارچ ۱۹۳۷ء )
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
آج سے ۲۳ سال قبل اس مقام پر اسی مسجد میں ہمارے سامنے ایک ایسا سوال پیش ہؤا تھا جو ہماری جماعت کیلئے زندگی اور موت کا سوال تھا۔ تاریخ آج کی نہ تھی لیکن مہینہ یہی تھا جبکہ جماعت کے مختلف نمائندوں اوراحباب کے سامنے یہ سوال اُٹھایا گیا تھا کہ آیا ہماری جماعت کا نظام اسلامی طریق کے مطابق خلافت کے ماتحت ہوگا یا مغربی طریق پر ایک انجمن کے ماتحت۔
میری عمر اُس وقت پچیس سال دو ماہ تھی۔ دُنیوی تجربہ کے لحاظ سے میں کوئی کام ایسا پیش نہیں کرسکتا تھااور نہیں کرسکتا کہ جس کی بناء پر یہ کہا جاسکے کہ مجھے دنیا کے کاموں کا کوئی تجربہ حاصل تھا۔ سلسلہ کے تمام کام ایک ایسی جماعت کے سپرد تھے جو اُس وقت نظامِ خلافت کی شدید مخالف تھی اور اس کا دعویٰ تھا کہ نظامِ جماعت ایک انجمن کے ماتحت چاہئے جس کے پریذیڈنٹ کو کسی قدر اختیارات تو دے دیئے جائیں لیکن وہ کثرتِ رائے کاپابند ہو اور خلافت کا نظام چونکہ اس زمانہ کے طریق اور اس زمانہ کی رَو کے خلاف ہے اور اس نظام میں بہت سے نقائص ہیں اس لئے اسے اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت ایک پریشانی ، گھبراہٹ اور صدمہ کے ماتحت ہوئی تھی اور ضروری نہیں کہ جماعت پھر اسی غلطی کا اعادہ کرے۔اس کے برخلاف میں اور بعض میرے احباب اس بات پر قائم تھے کہ خلافت شریعتِ اسلامیہ کا ایک اہم مسئلہ ہے اور یہ کہ بغیر خلافت کے صحیح طریق کے اختیار کرنے کے جماعت اور سلسلہ کو کوئی ترقی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہمارے متعلق کہاجاتا تھا کہ ہم لوگ صرف خلافت کے حصول کیلئے اس مسئلہ کو پیش کررہے تھے اور اپنی حکومت اور طاقت کے بڑھانے کا ذریعہ اسے بنارہے تھے۔ جب میں نے دیکھاکہ اس تائید کو ایک غلط رنگ دیا جاتا ہے اور غلط پیرایہ میں اسے پیش کیا جاتا ہے تو میں نے سمجھا کہ خدا تعالی ٰکے فیصلہ کوکسی ایسے امر سے نقصان نہیں پہنچنا چاہئے جس کا ازالہ ہمارے امکان میں ہو اور اس لئے میں نے مولوی محمد علی صاحب کو جو اُس وقت اس تحریک کے لیڈر تھے اس غرض سے بُلوایا تا ان کے ساتھ کوئی مناسب گفتگوکی جاسکے۔ اس مسجد کے دائیں جانب نواب محمد علی خان صاحب کامکان ہے جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے وفات پائی تھی اس کے ایک کمرہ میں مَیں نے مولوی محمد علی صاحب کو بُلوا کر کہا کہ خلافت کے متعلق کوئی جھگڑا پیش نہ کریں اوراپنے خیالات کو صرف اس حد تک محدود رکھیں کہ ایسا خلیفہ منتخب ہو جس کے ہاتھ میں جماعت کے مفاد محفوظ ہوں اور جو اسلام کی ترقی کی کوشش کرسکے۔ چونکہ صلح ایسے ہی امور میں ممکن ہوتی ہے جن میں قربانی ممکن ہو میں نے مولوی صاحب سے کہا جہاں تک ذاتیات کا سوال ہے میں اپنے جذبات کو آ پ کی خاطر قربان کرسکتا ہوں لیکن اگر اصول کا سوال آیا تو مجبوری ہوگی کیونکہ اصول کا ترک کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان یہی فرق ہے کہ ہم خلافت کو ایک مذہبی مسئلہ سمجھتے ہیں اور خلافت کے وجود کو ضروری قرار دیتے ہیں مگر آپ خلافت کے وجود کو ناجائز قرار نہیں دے سکتے کیونکہ ابھی ابھی ایک خلیفہ کی بیعت سے آپ کو آزادی ملی ہے اور چھ سال تک آپ نے بیعت کئے رکھی ہے اور جو چیز چھ سال تک جائز تھی وہ آئندہ بھی حرام نہیں ہوسکتی۔ آپ کی اور ہماری پوزیشن میں یہ ایک فرق ہے کہ آپ اگر اپنی بات کو چھوڑ دیں تو آپ کو وہی چیز اختیار کرنی پڑے گی جسے آپ نے آج تک اختیار کئے رکھا۔ لیکن ہم اگر اپنی بات چھوڑیں تو وہ چیز چھوڑنی پڑتی ہے جسے چھوڑنا ہمارے عقیدہ اور مذہب کے خلاف ہے اور جس کے خلاف ہم نے کبھی عمل نہیں کیا۔ پس انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ آپ وہ راہ اختیار کرلیں جو آپ نے آج تک اختیار کررکھی تھی اور ہمیں ہمارے مذہب اور اصول کے خلاف مجبور نہ کریں۔ باقی رہا یہ سوال کہ جماعت کی ترقی اور اسلام کے قیام کیلئے کون مفید ہوسکتا ہے،سو جس شخص پر آپ متفق ہوں گے اُسے ہی ہم خلیفہ مان لیں گے۔
کسی غیرجانبدار شخص کے سامنے اگر یہ باتیں پیش کردی جائیں تو وہ تسلیم کرے گا کہ میرا نقطہ نگاہ صحیح تھامگر مولوی صاحب یہی کہتے رہے کہ ہم کسی واجب الاطاعت خلیفہ کو ماننا ناجائز سمجھتے ہیں اور جب میں نے کہا کہ آپ لوگ حضرت خلیفہ اوّل کو چھ سال تک مانتے آئے ہیں تو کہا کہ ایک بزرگ سمجھ کر ہم نے ان کی بیعت کرلی تھی۔اس پر میں نے کہا کہ اب بھی کسی بزرگ کو خلیفہ مان لیں میں تیار ہوں کہ اُس کی بیعت کرلوں۔ مگر وہ کسی بات پر رضامند نہ ہوئے اور جب بحث لمبی ہوگئی تو طبائع میں سخت اشتعال پیدا ہوگیا کہ جماعت کسی فیصلہ پر کیوں نہیں پہنچتی۔ لوگوں نے کمرہ کا احاطہ کرلیا اور بعض نے دروازے کھٹکھٹانے شروع کردیئے اوراس میںاِتنی شدت پیدا ہوئی کہ بعض شیشے ٹوٹ گئے۔ جماعت کے افراد کہہ رہے تھے کہ باہر آکر فیصلہ کریں یا ہم خود فیصلہ کرلیں گے۔ اُس وقت میں نے پھر مولوی صاحب سے کہا کہ دیکھئے !یہ بہت نازک وقت ہے اور شدید تفرقہ کا خطرہ ہے میں آپ سے اسی چیز کا مطالبہ کرتا ہوں جو آپ آج تک خود کرتے آئے ہیں اور آپ اس چیز کا مطالبہ کرتے ہیںجو ہمارے نزدیک جائز ہی نہیں۔ آپ کے خدشات کا میں نے ازالہ کردیا ہے اس لئے آپ کے سامنے اب یہ سوال ہونا چاہئے کہ خلیفہ کون ہو؟یہ نہیں کہ خلیفہ ہونا نہیں چاہئے۔ لیکن اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کیوں اس قدر زور دے رہے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ لوگ کسے خلیفہ منتخب کریں گے۔ میں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں کہ کسے منتخب کریں گے لیکن میں خود اُس کی بیعت کرلوں گا جسے آپ چُنیں گے۔ اگر آ پ کا یہ خیال ہے کہ لوگ ہم میں سے کسی کو منتخب کریں گے تو جب میں آپ کے تجویز کردہ کی بیعت کرلوں گا تو پھر چونکہ خلافت کے مؤیّد میری بات مانتے ہیں مخالفت کا خدشہ ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ لیکن انہوں نے پھر یہی کہا کہ میں جانتا ہوں کہ آپ کیوں زور دے رہے ہیں۔ میں نے اُن سے کہا کہ میں اپنا دل چِیر کر آپ کو کس طرح دکھائوں۔ میں توجو قربانی میرے امکان میں ہے کرنے کیلئے تیار ہوں لیکن پھر بھی اگر آپ نہیں مانتے تو اختلاف کی ذمہ واری آپ پر ہوگی نہ کہ مجھ پر۔ یہ کہہ کر ہم وہاں سے اُٹھے اوراسی مسجدنور میں آگئے جہاں لوگ جمع تھے۔ بعض لوگوں کی رائے تھی کہ مولوی محمداحسن صاحب امروہوی کانام تجویز کریں اوراس کیلئے وہ تیار تھے۔ مگر ابھی وہ لوگ اُٹھ ہی رہے تھے کہ مولوی محمد احسن صاحب نے خود کھڑے ہوکر میرا نام تجویز کردیا۔اُس وقت جیسا کہ بعدمیںمعلوم ہؤا کیونکہ بہت گھبراہٹ اور شور تھا اور سارامجمع مجھے نظر بھی نہ آتا تھا مولوی محمد علی صاحب نے کچھ کہنا چاہا مگر لوگوںنے اُن کو روک دیا۔ میں نے بعد میں سنا کہ انہوں نے یہی کہنے کی کوشش کی تھی کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی خلیفہ ہو مگر ان لوگوں نے جو اُن کے قریب بیٹھے تھے ان سے کہہ دیا کہ ہم آپ کی بات سننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اس پر مولوی صاحب مجمع سے اُٹھ کر اپنی کوٹھی میں جہاں اب جامعہ احمدیہ ہے چلے گئے اور ان کے جانے کے بعد تمام جماعت کا رُحجان میری طرف ہوگیا۔ حالانکہ جیسا مجھے بعض دوستوں نے بعد میں بتایااُس وقت تک وہ اس کیلئے تیار تھے کہ مولوی صاحب کی بیعت کرلیں۔ خدا کی قدرت ہے مجھے بیعت کے الفاظ بھی یاد نہ تھے اورجب لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں تو چونکہ میں چاہتا تھا کہ ابھی ٹھہر جائیں شاید صلح کی کوئی صورت نکل آئے۔میں نے کہا کہ مجھے تو بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں ہیں لیکن مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ وہ اُٹھ کر میرے قریب آگئے اور کہا کہ مجھے بیعت کے الفاظ یاد ہیں میں کہتا جاتا ہوں آپ دُہراتے جائیں۔ میں نے اس پر بھی کچھ ہچکچاہٹ ظاہر کی لیکن لوگوںنے شور مچادیاکہ فوراً بیعت لی جائے۔ چونکہ میرا عقیدہ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے، میں نے سمجھ لیاکہ اب یہ خدائی فیصلہ ہے اورمیں نے بیعت لینی شروع کردی اوراُس وقت بیعت لی جبکہ جماعت پراگندگی کی حالت میں تھی،جبکہ تمام لیڈر مخالف تھے اور جب کہ وہ دھمکیاں دے رہے تھے کہ اگریہ طریق اختیار کیا گیا توہم اُسے کُچلنے کیلئے تمام ذرائع اختیار کریں گے۔
ماسٹر عبدالحق صاحب مرحوم جنہوں نے قرآن کریم کے پہلے پارہ کا ترجمہ انگریزی میں کیا تھا وہ پہلے ان لوگوں کے ساتھ تھے مگر بعدمیں بیعت میں شامل ہوگئے ۔ انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ یہاں سے جاکر مولوی صدردین صاحب نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جس پر چالیس مومن اتفاق کریں وہ بیعت لے سکتا ہے۔ (حالانکہ اس سے مراد جماعت میں شامل کرنے کی بیعت ہے (اطاعت کی نہیں) ہم یہ کیوں نہ کریں کہ چالیس لوگوں کو جمع کرکے سید عابد علی شاہ صاحب کو خلیفہ بنادیں تا لوگوں کی توجہ اِدھر سے ہٹ جائے۔ عابد علی شاہ صاحب کو الہامِ الٰہی کا دعویٰ تھا ۔اُن کا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں کوئی عُہدہ ملنے والا ہے چنانچہ انہوں نے عابد علی شاہ صاحب کو منوابھی لیا لیکن لالٹین لے کر وہ ساری رات دربدرپِھرتے رہے مگر انہیں چالیس آدمی بھی میسر نہ آئے۔ حالانکہ آبادی بہت کافی تھی اور ہزاروں اشخاص باہر سے بھی آئے ہوئے تھے۔ خدا کی قدرت ہے اگر ان کو چالیس آدمی مل جاتے تو ممکن ہے اُسی وقت خلافت کا ڈھونگ رچاتے۔ لیکن اتنے آدمی بھی نہ ملے اور ادھر عابد علی شاہ صاحب کو دوسرے دن رئویا ہؤا اور انہوں نے آکر میری بیعت کرلی واللّٰہُ اَعْلَمُ۔ یہ ان کی کوئی خیالی بات تھی یا اللہ تعالیٰ کا انہیں ہدایت دینے کا منشاء تھا۔ انہوں نے دوسرے روز آکر بیعت کرلی۔ لیکن پہلے چونکہ انہوں نے خلیفہ بننے کیلئے رضامندی کا اظہار کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی انہیں بڑی سخت سزا دی۔ بیعت کے کچھ عرصہ بعد وہ کہنے لگے کہ دراصل اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفہ منتخب کیا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کا خدا بھی عجیب ہے کبھی تو آپ کو خلیفہ مقرر کرتا ہے اور کبھی بیعت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ مگر وہ آہستہ آہستہ اس دعویٰ میں بڑھتے گئے اور آخر جماعت سے الگ ہوکر بیعت لینے لگ گئے۔ چند سالوں کے بعد جب طاعون پھیلی تو انہوں نے کہا کہ مجھے خداتعالیٰ نے بتایا ہے کہ میرا گھر طاعون سے محفوظ رہے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی یہی الہام تھا۔ مگر دیکھو دونوں میں کتنا فرق ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام کے شائع ہونے کے بعد پانچ سات سال تک قادیان میں طاعون پھیلتی رہی بلکہ اس محلہ میں جس میں آپ کا گھر تھا پھیلتی رہی اور ان گھروں میں پھیلتی رہی جو آپ کے مکان کے دائیں بائیں واقع تھے اور پھر معمولی حالت میں نہیںبلکہ ایسی شدید تھی کہ تین تین، چار چار اموات ان گھروں میںہوئیں مگر آپ کے مکان میں ایک چُوہا تک نہ مرا۔ لیکن سید عابدعلی صاحب کے الہام کے بعد نہ صرف یہ کہ ان کے گھر میں آنے والے بعض لوگ طاعون سے ہلاک ہوئے بلکہ وہ خود بھی اور اُن کی بیوی بھی اسی سال طاعون سے فوت ہوگئے۔ بیشک وہ ظاہری نماز روزہ کے پابند اور صوفی منش آدمی تھے مگر بعض لوگوں کے اندر ایک مخفی رنگ کا کِبر ہوتا ہے جو خداتعالیٰ کو پسند نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کو شیطان نیکی کی راہیں دکھا کر ہی قابو کرتا ہے اور بعد میں خداتعالیٰ کا سلوک یہ فیصلہ کردیتا ہے کہ الہام شیطانی تھا یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تو اِن کا تو یہ حال ہؤا۔
ادھر وہ لوگ جو اپنے آپ کو جماعت کا لیڈر اور رئیس سمجھتے تھے اور جن میں سے ایک نے اس سکول کی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جاتے ہیں لیکن دس سال نہیں گزریں گے کہ اس پر آریوں اور عیسائیوں کا قبضہ ہوگامگر آج ہم دیکھ رہے ہی کہ دس سال گزرے پھر دس سال گزرے اور پھر تیسرے دس سالوں میں سے بھی تین سال گزرگئے۔ مگر خداتعالیٰ کے فضل سے اس عمارت پر کسی عیسائی یا آریہ کا قبضہ نہیں بلکہ عیسائیوں اور آریوں کا مقابلہ کرنے والے احمدیوں کا ہی قبضہ ہے۔ اور جن احمدیوں کا قبضہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھتے اور طاقتور ہوتے جارہے ہیں اور وہ شخص جس نے اسی مسجدمیں کھڑے ہوکر یہ اعلان کرنا چاہا تھا کہ کوئی خلیفہ نہیں ہونا چاہئے اس سال ان کے اخبار میں اعلان کیا جارہا ہے کہ ہم اُس وقت تک ترقی نہیں کرسکتے جب تک کوئی واجبُ الْاطاعت خلیفہ مقرر نہ کریں اور ہمیں چاہئے کہ ہم مولوی محمد علی صاحب کو ایسا مان لیں۔ جس شخص کومیرے مقابلہ پر کھڑا کرنا چاہتے تھے وہ طاعون کا مارا ہؤا اپنے گائوں میں پڑا ہے اورجو لوگ میرے مقابل پر یہ کہہ رہے تھے کہ خلافت کی ضرورت ہی نہیں وہ آج ناکام ہوکر اس مسئلہ کی طرف آرہے ہیں اور ۲۳ سال بعد پھر اسی نکتہ کی طرف لَوٹتے ہیں۔ یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ صدرانجمن کا پریذیڈنٹ بھی ایسا ہونا چاہئے جو کم سے کم چالیس سال کی عمرکا ہو کیونکہ اس سے کم عمر میں عقل اور تجربہ پختہ نہیں ہوسکتا۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ۲۵ سال عمر والے کو تویہ نکتہ اسی وقت معلوم ہوگیا اور چالیس سال والے کو آج جبکہ وہ پینسٹھ سال کو پہنچ چکا ہے معلوم ہؤا۔ مگر کیا وہ سمجھتے ہیںکہ انسانوں کے بنائے ہوئے خلیفے بھی خلیفے ہوتے ہیں۔ ہمارا اور ان کا ایک اختلاف یہ بھی تھا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور اب شاید اللہ تعالیٰ انہیں یہ دکھانا چاہتا ہے کہ خلیفے وہی بناتا ہے۔ انسانوں کے بنانے سے کوئی واجب الاطاعت خلیفہ نہیں بن سکتا۔
دیکھو جماعت کتنے خطرات میں سے گزررہی ہے اور غورکرو ان کو دبانا کس انسان کی طاقت میں تھا۔ کم سے کم وہ انسان تو نہیں دباسکتا تھا جس کے متعلق دوست دشمن سب کی یہی رائے تھی کہ یہ ناتجربہ کار نوجوان ہے۔ پھر سوچو کہ اس قدر شدید خطرات کے باوجود کون جماعت کو ترقی پر لے گیا؟ کیا وہی خدا نہیں جس نے کہا ہؤا ہے کہ خلیفے ہم بناتے ہیں؟یہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا تقاضا ہے کہ وہ ہمیشہ کام ایسے ہی لوگوں سے لیتا ہے جنہیں دنیا نالائق سمجھتی ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کام کرنے والا کون ہوسکتا ہے ۔ نہ آپ سے پہلے کوئی ایسا تھا نہ اب تک ہؤا ہے اور نہ آئندہ ایسا ہوگا۔ مگر دنیا نے آپ کی جو قیمت سمجھی تھی وہ پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعہ بتادی تھی یعنی وہ پتھر جسے معمارو ں نے ردّ کردیا۔ بائبل میںیہ بتادیا گیا تھا کہ جو لوگ اپنے آپ کو کارخانۂ عالم کے انجینئر (ARCHITECT) سمجھتے ہیں اور دنیا کی عام اصلاح کے مدعی ہیں جب محمد رسول اللہ ﷺ کا جوہر اُن کے سامنے پیش کیا جائے گا تو وہ یہی کہیں گے کہ یہ ہمارے مطلب کانہیں، مگر دنیا کے قیام اور زینت کا موجب وہی بنا۔ پھر اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کام لیا۔ آج دشمن کہتے ہیںکہ آپ پاگل تھے مگر خدا کی شان دیکھو کہ اُس نے آپ سے کتنا کام لیا۔ سب نبیوں کو اُن کے مخالف پاگل کہتے آئے ہیں مگر ہم کہتے ہیں کہ بہت اچھا پاگل ہی سہی مگر ہمیں تو اُس شخص کی ضرورت ہے جو ہمیں خدا سے ملادے اور اسلام کو دنیا میں قائم کردے۔ اگر پاگل سے یہ امور سرزدہوں تو ہم نے فلسفیوں کو کیا کرناہے؟ بلکہ میں کہوں گا کہ لاکھوں فلسفیوں کو اُس کی جُوتی کی نوک پر قربان کیا جاسکتاہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کے ابتدائی زمانہ میں لوگ کہتے تھے کہ مرزا صاحب تو نَعَوْذُ بِاللّٰہِ جاہل ہیں۔ ساراکام تو ’’نورالدین‘‘ کرتا ہے۔ زمانہ گزرتا گیا گزرتا گیا اور گزرتا گیا۔ پھر کہا گیا کہ نہیں ہماری غلطی تھی نورالدین صرف مضامین بتاتاہے لکھنا اور بولنا نہیں جانتا۔ مرزا صاحب کی تحریر اور تقریر میں بجلیاں ہیںجس دن آپ فوت ہوئے یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ تب اللہ تعالیٰ نے نورالدین کو خلیفہ مقرر کیا جن کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ لکھنا اوربولنا نہیں جانتے۔اُس وقت تو لوگوں نے بیعت کرلی مگرزیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ بعض نے کہا یہ ستّرا بہتّرا ہے،لائی لگ ہے، کمزور طبیعت ہے اور اگراس مسئلہ کا فیصلہ اس کے زمانہ میں نہ کرایا گیا تو پھر نہ ہوسکے گا کیونکہ یہ تو ڈر جاتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے حضرت خلیفہ اوّل نے مسجد مبارک کے اوپر ان کو بلایا۔مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب کے علاوہ جماعت کے دوسرے دوست بھی بکثرت تھے۔ آپ نے فرمایا کہا جاتاہے کہ تمہارا کام صرف نمازیں پڑھانا، درس دینا اورنکاح پڑھانا ہے مگر میں نے کسی کو نہیں کہا تھا کہ میری بیعت کرو تم خوداس کی ضرورت سمجھ کر میرے پاس آئے۔ مجھے خلافت کی ضرورت نہ تھی لیکن جب دیکھا کہ میرا خدا مجھے بُلارہا ہے تومیں نے انکار مناسب نہ سمجھا۔ اب تم کہتے ہو کہ میری اطاعت تمہیں منظور نہیں۔ لیکن یاد رکھو اب میں خدا کا بنایا ہؤا خلیفہ ہوںاب تمہاری یہ باتیں مجھ پرکوئی اثر نہیں کرسکتیں۔ یاد رکھو خلفاء کے دشمن کا نام قرآن کریم نے ابلیس رکھا ہے۔ اگر تم میرے مقابل پر آئو گے تو ابلیس بن جائو گے آگے تمہاری مرضی ہے چاہے ابلیس بنو اور چاہے مومن۔ اس پرمیری آنکھوں نے ان لوگوں کے چہرے زرد دیکھے ہیں۔ جماعت میں اس قدر جوش تھا کہ میں خیال کرتاہوں کہ اگر حضرت خلیفہ اوّل نہ ہوتے تو لوگ شایداُن کوجان سے مارڈالتے۔ پھر میری آنکھوں نے وہ نظارہ بھی دیکھاہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے حکم سے مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب آگے بڑھے اور دوبارہ بیعت کی۔ گویا جسے وہ کہتے تھے کہ کمزور دل ہے خداتعالیٰ نے طاقتوروں کو اُس کے مقابل پر کھڑ اکیا،پھراُس کمزور دل سے اُن کو شکست دلوائی اور دنیا پر ظاہر کردیاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی اور حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں بھی وہ خود ہی کام کرنے والا تھا۔
پھر ان لوگوں نے کہا کہ بڈھا تجربہ کار اور خرانٹ تھا۔ تھا تو نرم دل مگر تجربہ کار اور عالم تھا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اُس شخص کو چُنا جو پرائمری میں بھی فیل ہوتا رہا تھا۔ جس نے کبھی کسی دینی مدرسہ میں بھی پڑھائی نہ کی تھی۔ صحت کمزور تھی اورعمر صرف ۲۵ سال تھی۔ جسے کبھی کوئی بڑا کام کرنے کا موقع نہ ملا تھا اور کوئی تجربہ کار نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ تم کہتے تھے نور الدین بڈھا،تجربہ کار اور علم والا تھا آئو ہم اب اس سے کام لے کر دکھاتے ہیں جو نہ عمر رسیدہ ہے اور نہ عالم۔ میرے خلاف تو سب سے بڑا اعتراض ہی یہ تھا کہ بچہ ہے ، ناتجربہ کار ہے۔ پھراس بچہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو جس طرح شکستیں دی ہیں اور جس طرح ہر میدان میں ذلیل کیا ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔ اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ نے اہم اسلامی مسائل کا فیصلہ میرے ذریعہ سے کرایا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ وہ کونسا مسئلہ ہے جو پوشیدہ تھا اور خدا نے میرے ذریعہ سے اسے صاف نہیں کرایا۔ کئی معارف چُھپے ہوئے موتیوں کی طرح پوشیدہ پڑے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ نکلوایا ہے۔ ایک طرف جماعت کی ترقی اور دوسری طرف اسلام کی ترقی کا کام اللہ تعالیٰ نے اس بچہ سے لیا اوراُن مطالب کا اظہار کیا جن سے دنیا فائدہ اُٹھارہی ہے اور اُٹھاتی رہے گی۔ مخالفوں نے کہا دراصل پیچھے اور لوگ کام کررہے ہیںاور بعض نے کہا کہ مولوی محمد احسن کا جماعت میں رسوخ تھا ان کے ساتھ ہونے کی وجہ سے یہ سب کارخانہ چل رہا ہے۔ اس کے بعد مولوی محمد احسن صاحب کو ایسا ابتلا آیا کہ وہ لاہور چلے گئے اور جاکر اعلان کیا کہ میں نے ہی اسے خلیفہ بنایا تھااور میں ہی اسے معزول کرتا ہوں۔ مگر خداتعالیٰ نے کہا کہ تم کون ہو خلیفہ بنانے والے؟ اورچونکہ تم نے ایسا دعویٰ کیا ہے اس لئے ہم تمہیں قوتِ عمل سے ہی محروم کرتے ہیں۔ چنانچہ اُن پر فالج گِراپھر وہ قادیان آئے اورمیرا ہاتھ پکڑ کر اور رو رو کر کہا کہ میرے بیوی بچوں نے مجھے گمراہ کیا ورنہ دل سے تو میں آپ پر ایمان رکھتا ہوں۔ سید حامد شاہ صاحب پُرانے آدمیوں میں سے تھے اور بہت کام کرنے والے، خداتعالیٰ کی حکمت ہے وہ جلد فوت ہوگئے اُن کو بھی پہلے ابتلا آیا تھا مگر جلد ہی اللہ تعالیٰ نے اُن کو ہدایت دے دی اور وہ بیعت میں شامل ہوگئے۔ ان کے علاوہ کچھ اور بھی ہیں جو ابتلا میں ہیں اوربجائے سلسلہ کی ترقی کا موجب ہونے کے وہ نِفاق کی بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ تا خداتعالیٰ کا جلال دنیا پر ظاہر ہو اور وہ بتادے کہ وہ خودکام کررہا ہے
میںنے پہلے بھی کئی بار کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں اور یہ ایک سچائی ہے جس کا اظہار کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری زبان یا قلم سے قرآن کریم کے جو معارف بیان کرائے ہیں یا جو اور کوئی کام مجھ سے لیا ہے مجھ سے زیادہ جھوٹا اور کوئی نہ ہوگا اگر میں کہوں کہ یہ میرا کام ہے۔ میں جب بھی بولنے کیلئے کھڑا ہؤا ہوں یا قلم پکڑا ہے میرا دماغ بالکل خالی ہوتا ہے۔ شایدسَومیں سے ایک آدھ دفعہ ہی ہو جب کوئی مضمون میرا سوچا ہؤا ہوتا ہے ورنہ میرا ذہن بالکل خالی ہوتا ہے او رمیں جانتا ہوں کہ سب کچھ اُسی کا ہے جس کا یہ سلسلہ ہے۔ اگرمیں اس پراِترائوں تو یہ جھوٹی بات ہوگی ہاں جو غلطی ہو وہ بے شک مجھ سے ہے۔ بھلا ایک انسان جو ظاہری علوم سے بالکل ناواقف اور بے بہر ہ ہو وہ ان باتوں کو کیسے نکال سکتاہے۔ جو شاید آئندہ صدیوں تک اسلام کی ترقی کیلئے بطور دلیل کام دیں گی جیسے تعزیراتِ ہند ہندوستان کے لئے کام دیتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ غیراحمدی بھی اُن دلائل کو استعمال کررہے ہیں جو میںنے پیش کئے ہیں۔تمدن کے متعلق اسلامی تعلیم یعنی ترکِ سُود، زکوٰۃ اور وراثت کا قیام یہ تین نکات والی سہ پہلو عمارت کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ پچھلی صدیوں میں کسی نے تیار کی ہو۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل اللہ تعالیٰ نے مجھے ہی توفیق دی ہے اور میں نے اِن مسائل کو بیان کیا ۔ پھر اور سینکڑوں مسائل ہیں جو خداتعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مجھے سکھائے۔
پس یہ سلسلہ خدا کا ہے آدمیوں کا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اسے بڑھائے گا ۔ انسانوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ صرف ایک بات ہے جسے تمہیں یاد رکھنا چاہئے۔ جب تک تمہارے اندر اطاعت اور فرمانبرداری رہے گی وہ نور تم کو ملتا رہے گا۔ لیکن جب اطاعت سے منہ موڑو گے اللہ تعالیٰ کہے گا کہ جائو اب توجوان ہوگئے ہو، اپنی جائداد سنبھالو۔ تب تم محسوس کرو گے کہ تم سے زیادہ کمزور اور کوئی نہیں۔
حضرت علیؓ کے بعد بھی مسلمانوں نے فتوحات حاصل کیں۔ ملک فتح کئے، علمی تمدن اور سیاسی غلبے پائے۔ مگر جو برکت ، جورُعب، جو دبدبہ او رجو شوکت حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ ، حضرت علیؓ رَضْوَانَ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ کے زمانہ میں تھی وہ تیرہ سُو سال میں پھر حاصل نہیں ہوئی۔اُس وقت تویوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ دنیا کے سر پر پائوں رکھ کر کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کوئی ہے جو ہمارے مقابل پر آئے۔ گویا خداتعالیٰ کے فرشتے اُن کے گِرد کھڑے پہرہ دے رہے تھے۔ حضرت علیؓ کے وقت میں بعض بدبختوں نے اختلاف کیا جس سے ایسا تفرقہ پیداہؤا کہ جو تیرہ سَو سال میں بھی نہیں مٹا۔ اب دوبارہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اتحاد کی بنیاد رکھی ہے اور آپ سے خداتعالیٰ نے دوبارہ وعدہ کیا ہے کہ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ۱؎ اور یہ رعب چلتا جائے گا۔ جب تک تم اس فیصلہ کا احترام کرو گے جو ۱۴؍مارچ ۱۹۱۴ء کو اس مسجد میں تم نے کیا تھا۔ لیکن جب اس میں تزلزل آیا اللہ تعالیٰ بھی اپنی نصرت کو کھینچ لے گا جو اُس نے اس مسجد میں تمہارے فیصلہ کے بعد نازل کی تھی۔ جب تک تم اس فیصلہ میں تبدیلی نہ کرو گے چونکہ اللہ تعالیٰ کا قانو ن ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِرُوْا مَابِاَنْفُسِھِمْ ۲؎ وہ بھی نصرت کو واپس نہیں لے گا۔ اُس وقت تک تمام حکومتیں اور تمام طاقتیں تم سے ڈریں گی اور ہر ترقی پر تمہارا قدم ہوگا۔ دنیا کی تمام اقوام تمہارے پیچھے چلنے میں فخر محسوس کریں گی اور تمہارا سر سب سے اونچا ہوگا۔ ابھی تو یہ ایک بیج ہے، ایک کونپل پھوٹی ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک مضبوط درخت بنے گا جس پر دنیا کے بڑے بڑے حاکم آرام کیلئے گھونسلے بنائیں گے۔ لیکن جس دن تم اس فیصلہ کوبُھول جائو گے خدا نہ کرے اُس دن کے تصور سے بھی دل کانپ اُٹھتا ہے جب تم کہو گے کہ خدا نے خلیفہ کیا بنانا ہے ہم خود بنائیں گے۔ تب فرشتے تبر لے کر آئیں گے کہ لو ہم اس درخت کو کاٹتے ہیں جسے خداتعالیٰ نے تمہارے لئے لگایا تھا مگر تم نے اس کی قدر نہ کی۔ اب تم اپنے باغ لگائو اور مزے اُڑائو۔ پچھلوں نے اس غلطی کا تجربہ کیاخدا نہ کرے کہ تم بھی کرو۔ لیکن خدانخواستہ اگر کبھی ایسی غلطی کی گئی تو دنیا دیکھ لے گی کہ تم صدیوں میں ایک درخت بھی نہ لگاسکو گے یہاں تک کہ خداتعالیٰ پھر کوئی مأمور مبعوث کرے۔
(الفضل ۳؍ اپریل ۱۹۳۷ئ)
۱؎ تذکرہ صفحہ۶۶۹۔ ایڈیشن چہارم
۲؎ الرعد: ۱۲

۹
شکر الٰہی اور انسدادِفِتن کیلئے روزے رکھے جائیں
(فرمودہ ۲ ؍ اپریل ۱۹۳۷ء )
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں پائوں کے درد کی و جہ سے آج جمعہ میں آتو نہیں سکتا تھا لیکن چونکہ اس دفعہ روزوں کے متعلق اور ششماہی جلسوں کے متعلق جن میں تحریک جدید کے بارہ میں احباب کو یاددہانیاں کرائی جاتی ہیں اور ان کو ان کے فرائض کی طرف جو انہوں نے خوشی سے اپنے نفس پر عائد کئے ہوئے ہیں توجہ دلائی جاتی ہے، ابھی تک میں تحریک نہیں کرسکا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ مختصر الفاظ میں ان امور کے متعلق اعلان کردوں تا کہ دیر ہوجانے کی وجہ سے بات اور زیادہ دُور نہ جا پڑے۔
روزوں کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پہلے سالوں میں ہم پیر اور جمعرات کے روزے رکھ چکے ہیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے بعض فتنے اپنے فضل سے دور کردیئے لیکن بعض فتنے ابھی باقی ہیں۔ اس لئے اس سال ہم پر دوہری ذمہ واری عائد ہوتی ہے اور ہمیں کچھ تو شکریہ کے روزے رکھنے چاہئیں اور کچھ بقیہ ابتلائوں کے دور ہونے کیلئے روزے رکھنے چاہئیں۔اس لئے اس سال میری تجویز یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ چالیس یابیالیس دنوں کے اندر ہم سات روزے پورے کریں ہم ایسا طریق اختیار کریں کہ جو رسول کریم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ وہ بھی ایک رنگ میں پورا ہوجائے اور ہمارے شکریہ کے بھی روزے ہوجائیں اور دعائوں کے بھی روزے ہوجائیں اس لئے اس سال میں نے یہ تجویز کی ہے کہ اپریل سے لے کر اکتوبر تک جو سات مہینے بنتے ہیںان میں ہم ہر مہینہ کے پہلے ہفتہ میں پیر کا اور ہر مہینہ کے آخری ہفتہ میں جمعرات کا روزہ رکھیں۔ اس طرح چودہ روزے ہوجائیں گے اور گو ہر ہفتہ کے پیر اور جمعرات کا روزہ نہیں ہوگا مگر ہر مہینہ میں ایک پیر اور ایک جمعرات کا روزہ ہوجائے گا اور ہماری دعائیں سات مہینوں میں پھیل جائیں گی۔ ان چودہ روزوں میں سے سات روزے تو شکریہ کے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بعض فتنے دور کردیئے اور سات روزے اُن ابتلائوں کیلئے ہوں گے جو ابھی قائم ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو دور کرے اور ان کے بداثرات سے ہماری جماعت کو محفوظ رکھے۔
وہ لوگ جن کی آنکھیں ہیں، جو واقعات کو دیکھ سکتے ہیں اور جن کی روحانی بینائی ماری ہوئی نہیں وہ جانتے ہیں کہ ہمارے گزشتہ سالوں کے روزے دنیا میں عظیم الشان تغیرات پید اکرنے والے ہوئے ہیں۔ اگر دنیا کی ۱۹۳۳ء اور ۱۹۳۴ء کی تاریخ انسان اپنے سامنے رکھے اور پھر ۱۹۳۵ء اور ۱۹۳۶ء کی تاریخ پر بھی نگاہ ڈالے تو وہ حیران ہوجائے گاکہ ان سالوں کی تاریخ میں کتنا عظیم الشان تغیر پیدا ہؤا ہے۔ ان دو سالوں میں اللہ تعالیٰ نے یکدم ایسے تغیرات پیدا کئے اور دشمنانِ احمدیت پر ایسی تباہی ڈالی اور احمدیت کی ترقی کے ایسے سامان کئے اور ہمارے مذہبی اور سیاسی دشمنوں کو مغلوب کرنے کیلئے ایسے فوق العادت نشانات دکھلائے جو بالکل غیرمعمولی اور حیرت ناک نظر آتے ہیں۔ مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ابھی ہمارے لئے فتنوں کا سلسلہ ختم نہیں ہؤا۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائوں کے نتیجہ میں احرار کے فتنہ کا سر کچل دیا اور سیاسی لحاظ سے وہ مردہ ہوگئے مگر مذہبی لحاظ سے وہ ابھی ڈینگیں مار رہے ہیں اور ان کے وہ زہریلے دانت جو ان کے فاسد عقائد کے سر میں پائے جاتے ہیں گو کند تو ہوگئے ہیں مگر ٹوٹے نہیں ۔ اسی وجہ سے ان کے کسی ایجنٹ نے بعض اخبارات میں اب یہ اعلان کرایا ہے کہ آئندہ احرار سیاسی کاموں سے اجتناب کریں گے اور خالص مذہبی کاموں تک اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھیں گے۔ غالباً اس کی وجہ یہی ہے کہ سیاسیات کے متعلق اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ایسی زک حاصل کرچکے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں اب اس میدان میں ان کیلئے کامیابی کا میسر آنا بالکل محال ہے۔ پس انہوں نے اپنی عقلوں سے کام لیتے ہوئے سمجھا ہے کہ دو جنگیں انہیںایک وقت میں نہیں لڑنی چاہئیں۔ کیونکہ جب وہ سیاسی میدان میں کودتے ہیں اور ساتھ ہی مذہبی میدان میں بھی تو سیاسی اور مذہبی دونوں قسم کے لوگ ان کے مخالف ہوجاتے ہیںاس لئے اب انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جن سے مذہبی مخالفت ہو اُنہی کے خلاف شور بپا کیا جائے تاکہ سیاسی لوگوں کی امداد اور ان کی تائید میسر رہے اور ساتھ ہی مذہب سے دلچسپی رکھنے والوں کا ایک حصہ بھی ان کی تائید میں کھڑا رہے۔ بیشک دنیوی نقطہ نگاہ سے یہ بات ٹھیک ہے مگر روحانی نقطۂ نگاہ سے یہ تجویز اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی معرفت ان کی قوم کو کہلوایا تھا کہ جائو اور اپنے ساتھیوں کو جمع کرو۔ یہاں بھی وہ اپنے ساتھیوں کو ہمارے خلاف جمع کرنے لگے ہیں ۔ کیونکہ جب وہ سیاسی اختلافات کو ترک کردیں گے اور خالص مذہبی اختلاف کا سوال رہ جائے گا تو سیاسی اور مذہبی دونوں قسم کے لوگ ان کی تائید میں کھڑے ہوجائیں گے۔ پس اگر وہ سیاسی نقطہ نگاہ سے یہ طریق اختیار کریں اور اس پروگرام پر عمل کریں جس کا اخبارات میں ذکر آیا ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیوی نقطہ نظر سے اُن کی پارٹی مضبوط ہوجائے گی ۔ کیونکہ پہلے وہ اپنی طاقت کا کچھ حصہ سیاست میں خرچ کرتے تھے اور کچھ مذہبی معاملات میں۔ لیکن اب ایک ہی طرف اپنی تمام طاقتوں کارُحجان رکھیں گے۔ گویا اَجْمِعُوْا اَمْرَکُمْ ۱؎ بھی ہوجائے گا۔ اب صرف ایک تیسرا حصہ باقی رہ جاتا ہے جو میں اُنہیں یاد دلادیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کے ذریعہ اُن کی قوم کو یہ بھی توجہ دلائی تھی کہ نہ صرف تم اپنے سارے شرکاء کو جمع کرو اورنہ صرف ایک خاص پالیسی اپنے لئے تجویز کرلو بلکہ تمہارے سامنے ایک تفصیلی پروگرام بھی ہونا چاہئے تا مقابلہ کا کوئی طریق باقی نہ رہ جائے۔ سو اگر یہ تیسری بات احرار کو یاد نہ ہو تو میں انہیں یاد دلاتا ہوں کہ قرآن کریم نے دُنیوی امور میں کامیابی حاصل کرنے کا تیسرا طریق یہ بتایا ہے کہ نہ صرف تمہارے سامنے ایک پالیسی ہو بلکہ ایک مفصّل پروگرام بھی ہونا چاہئے۔ جس پرکُلّی طور پر نظر ڈال کراور عواقب اور انجام سوچ کر دیکھ لو کہ اگر دشمن نے یُوں کیا تو ہم یُوں کریں گے۔ اور اگر ہماری تدابیر کواُس نے اس طرح باطل کیا توہم اس طرح کام کریں گے۔ گویا ضرر اور نقصان پہنچانے کے جس قدر طریق ممکن ہیں وہ سب سوچ رکھیں اور پھر چوتھی بات یہ بھی ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کے ذریعہ خداتعالیٰ نے کہلوائی کہ اچانک حملہ کردو اور ہمیں ذرہ بھر بھی ڈھیل نہ دوپھر دیکھو کہ کون کامیاب ہوتا ہے۔ میں بھی احرار سے وہی کہتا ہوں جو حضرت نوحؑ نے اپنی قوم سے کہا۔ مگر وہ یاد رکھیں وہ افراد کو نقصان پہنچاسکتے ہیں لیکن اس سلسلہ کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ ان کے تمام اتحاد ، ان کی تمام پالیسیاں اور ان کے تمام پروگرام ھَبَائً مَنْثُوْرًا ۲؎ ہوکر رہ جائیں گے اور انہیں اپنے مقصد میں ذرہ بھر بھی کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔
ممکن ہے وہ اس کے مقابلہ میں ایک دوسری پالیسی اختیار کریں جس کا گو ابھی ان کی پارٹی کی طرف سے اعلان نہیں ہؤا مگر مجھے اس کے آثار نظر آرہے ہیں۔ یعنی یہ کہ وہ فی الحال مذہبی جھگڑے چھوڑ دیں اور کانگرس کے ساتھ اتحاد کرلیں۔ ہماری کانگرس سے کوئی لڑائی نہیں۔ ملک کی آزادی کے متعلق اس کے جو مقاصد ہیں اس سے ہم پوری طرح متفق ہیں۔ گو اِن کے طریق کار اورہمارے طریق کار میں اختلاف ہے اور ہم کانگرس میں کام کرنے والوں کے ایثار اور ان کی قربانیوں کے بھی قائل ہیں۔ مگر وہ ہمیں معاف رکھیں، مذہبی معاملہ میں کسی کی رعایت نہیںکی جاسکتی۔ اگر احرار اس تدبیر کو بھی اختیار کریں اور وہ چاہیں کہ کانگرس سے مل کر جماعت احمدیہ کو کچل دیں تو گو یہ منظم پالیسی ہوگی لیکن جس طرح احرار کا حکومت سے اتحاد کامیاب نہیں ہؤا کانگرس سے ان کا اتحاد بھی کامیاب نہیں ہوگا اور یا تو یہ اتحاد ٹوٹ جائے گا اور کانگرس اِن کی خودغرضیوں پر آگاہ ہوکر اِن سے الگ ہوجائے گی یا پھر دونوں ہی تباہ ہوجائیں گے۔ اور میں سمجھتا ہوںاحرار جیسی بے اصول جماعت کسی جماعت سے اتحاد نہیں رکھ سکتی۔ میرا غالب گمان یہی ہے کہ جس طرح گورنمنٹ پر احرار کی حقیقت کھل گئی ہے اسی طرح کانگرس پر بھی یہ حقیقت کھل جائے گی کہ احرار ایک زرطلب جماعت ہے جس کا کوئی اصول نہیں، اس کے ارکان اپنی ذاتی ترقی اور جاہ کے بھوکے ہیںاس کے علاوہ ان کے سامنے کوئی مقصد نہیں ۔جس دن کانگرس پر یہ حقیقت ظاہر ہوگئی اُس دن وہ کانگرس کی امداد سے بھی محروم ہوجائیں گے جس طرح ان حکام کی امداد سے یہ محروم ہوچکے ہیں جو پہلے ان کی پیٹھ ٹھونکتے اور انہیں بڑی بڑی امیدیں دلاتے تھے۔ مگر یہ سب کچھ خدائی ہاتھوں سے ہوگا نہ کہ انسانی ہاتھوں سے۔ کیونکہ ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ایک کا دوسے مقابلہ ہوسکتا ہے، تین سے مقابلہ ہوسکتا ہے،د س بیس سے مقابلہ ہوسکتا ہے لیکن چند لاکھ کا کروڑوں سے کس طرح مقابلہ ہوسکتا ہے۔
پس ضروری ہے کہ جس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے ان عظیم الشان فضلوں کا شکر ادا کریں جو اس نے ہماری سابقہ دعائوں کو قبول کرکے نازل فرمائے وہاں ہم عاجزانہ اور منکسرانہ طور پر پھر اس سے دعا کریں کہ اے خدا! تیرے فضلوں نے ہمارے بہت سے مصائب کو ٹال دیا ہے لیکن بہت سے مصائب ابھی باقی ہیں،حکومت کی طرف سے بھی اور افراد کی طرف سے بھی، منظم پارٹیوں کی طرف سے بھی اور متفرق لوگوں کی طرف سے بھی۔ پس تُو آپ ہی ہم پر فضل فرما اورہماری عاجزانہ التجائوں کو سُن۔ ہمیں اپنے پاس سے وہ طاقت بخش جس سے ہم اسلام اور احمدیت کو تمام دنیا پر غالب کرسکیں اور ہمیں اس کی اشاعت کی توفیق دے۔ ہماری زبانوں میں اثر اور ہمارے دماغوں میں روشنی پیدا کر تا کہ ہم وہی باتیں کہیں اور سوچیں اور سمجھیں جن سے دنیا میں تیرا جلال ظاہر ہو۔ ہمارے دلوں میں جذب پیدا کر تاکہ ہم تیری محبت اور پیار کو بھی جذب کریں اور تیرے ان بندوں کو بھی تیرے دین کی طرف کھینچیں جو تجھ سے برگشتہ ہوکر دنیامیں بھٹک رہے ہیں۔ اے خدا جس طرح مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے، اسی طرح ہم تیری محبت اور تیرے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے والے ہوں اور ہم وہ نقطہ مرکزی ہوجائیں جس پر خدا او ربندہ آپس میں مل جاتے ہیں اور ہمارا دل وہ گھر بن جائے جس میں خدا اور انسان کی محبت جاگزیں ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے جو ہم پر سابقہ سالوں میں فضل نازل ہوئے ان کا شکر ادا ہونا گو محال ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ انسان کے معمولی شکر کو بھی قبول فرماتا اور اس کے عوض اپنی اور زیادہ برکات نازل کرتا ہے، اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم سات روزے اس کے احسانات کے شکر میں رکھیں۔ گویا اپریل سے لے کر اکتوبر تک چودہ روزے ہماری جماعت کے احباب کو رکھنے چاہئیں۔
چونکہ میری یہ تحریک باہر دیر سے پہنچ سکے گی اس لئے اُن جماعتوں کیلئے جن تک یہ تحریر دیر سے پہنچے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جس جس ہفتہ میں بھی انہیں اطلاع پہنچے، اُس ہفتہ کے پہلے پیر کے دن وہ پیر کا روزہ رکھ لیں اور دوسرا روزہ مہینہ کے آخری ہفتہ کی جمعرات کے دن رکھیں اور اگر بعض ایسے علاقے ہوں جہاں تحریک اس سے بھی دیر میں پہنچے تو وہ ایک روزہ تو اپریل کے آخری ہفتہ کی جمعرات کو رکھیں اور پھر اگلے مہینہ میں دو پیروں کے روزے رکھ لیں۔ ایک پہلے ہفتہ کے پیر کے دن اور ایک درمیانی ہفتہ کے پیر کے دن اور پھر چوتھا روزہ حسبِ معمول مہینہ کے آخری ہفتہ کی جمعرات کو رکھیں۔ لیکن اگر بعض لوگ ایسے ہوں کہ اُن کے ہاتھ سے اپریل کے آخری ہفتہ کی جمعرات کا روزہ بھی نکل جائے اور بعد میں انہیں اطلاع ہو تو وہ مئی کے مہینہ کے پہلے دو ہفتوں میں ہر پیر کے دن اور آخری دو ہفتوں میں ہر جمعرات کے دن روزہ رکھ لیں ۔اور اگر کوئی جماعت ایسی ہوکہ جسے دوسرے مہینہ میں بھی اطلاع نہ پہنچے تو وہ ان روزوں کو تیسرے مہینہ میں ڈال لے۔ بہرحال اکتوبر ہمارے روزوں کا آخری مہینہ ہوگا اور اس مہینہ تک ہمیں اپنے چودہ روزے ختم کردینے چاہئیں۔ اس کوشش کے ساتھ کہ سات روزے ہم پیر کے دن رکھیں اور سات جمعرات کے دن۔ اس کے بعدمیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ مئی کے دوسرے ہفتہ میں جو اتوار ۹ تاریخ کو ہے ۔ اُس دن تمام جماعتیں اپنے اپنے مقام پر تحریک جدید کے متعلق جلسے منعقد کریں اور کوشش کریں کہ ان جلسوں سے پہلے پہلے تحریک جدید کے چندوں کا معتدبہ حصہ ہندوستان کی جماعتوں کی طرف سے ادا ہوجائے۔
مجھے افسوس ہے کہ اس سال تحریک جدید کا چندہ جمع کرنے میں بہت سُستی دکھائی گئی ہے۔ گو پچھلے سال سے اس سال اس وقت تک دو تین ہزار کی زیادتی ہے ۔ چنانچہ پچھلے سال اس وقت تک غالباً ۳۱ ہزار روپیہ آیا تھا اور اس سال ۳۴ہزار آچکا ہے۔ مگر دراصل حساب کی روسے چالیس ہزار سے اوپر آجانا چاہئے تھا۔ بلکہ اس لئے کہ میں نے خاص طور پر یہ تحریک کی تھی کہ اس سال تحریک جدید کے چندے کے مصرف ایسے ہیں کہ پہلی ششماہی پر اس کا زیادہ اثر پڑے گا اور اکثر جماعتوں اور افراد نے یہ اقرار بھی کیا تھا کہ وہ اپریل، مئی تک اپنے اپنے وعدوں کی رقوم ادا کردیں گے اس لئے دراصل موعودہ رقوم کے لحاظ سے اس وقت تک ساٹھ ہزار روپیہ آجانا چاہئے تھا۔
میں جیسا کہ پہلے بھی بیان کرچکا ہوں بیرونی تبلیغ اور وقتی تبلیغ کے اخراجات کے سلسلہ میں جو کمی صدر انجمن احمدیہ کے بجٹ میں ہوتی ہے ، کیونکہ عملہ کے کثیر خرچ کی وجہ سے سائر کے لئے نسبتاً کم رقم بچتی ہے۔ اس کمی کو میں مستقل جائدادوں کے ذریعہ پورا کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ تحریک جدید کی بہت سی جائدادیں میں نے صدر انجمن احمدیہ کے نام پر خرید کی ہیں۔ ان جائدادوں کی قیمتوں کے لئے بھی ہمیں بہت بڑی رقوم کی ضرورت ہوگی۔ پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جنہوں نے اس تحریک میں کسی رقم کی ادائیگی کا وعدہ کیا ہے وہ اپنے وعدوں کو خصوصیت سے جلد پورا کریں۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ صدر انجمن احمدیہ کے مستقل چندوں میں سُستی کرکے اس طرف توجہ کی جائے۔ وہ چندے واجب ہیں اور تحریک جدید کا چندہ نفلی ہے اور گو نفل کے پورا کرنے کے متعلق بھی انسان پر بہت بڑی ذمہ واری عائد ہوتی ہے اور خداتعالیٰ کہتا ہے کہ جو بوجھ تم نے اپنی مرضی اورخوشی سے اپنے نفس کیلئے برداشت کیا تھا اُس کو کیوں نہیں اُٹھایا۔ لیکن بہرحال اس چندے کی وجہ سے صدرانجمن احمدیہ کے چندوں میں سُستی نہیں ہونی چاہئے۔ ان جلسوں میں جو تحریک جدید کے متعلق منعقد کئے جائیں گے، تحریک جدید کے تمام شعبوں اور اس کے تمام مطالبات پر تقریریں کی جائیں اور دوستوں میں ہوشیاری اور بیداری پیدا کی جائے۔ انہیں سادہ زندگی کے متعلق بھی توجہ دلائی جائے۔شادی بیاہ کے اخراجات میں کفایت کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی جائے۔ امانت فنڈ کی طرف بھی توجہ دلائی جائے۔ قادیان میں مکانات بنانے کی طرف بھی توجہ دلائی جائے۔شادی بیاہ کے اخراجات میں کفایت کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی جائے۔
بیکاری سے بچنے کی طرف بھی توجہ دلائی جائے۔ ہر چھوٹا بڑا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی جائے۔ وقف زندگی کی تحریک کی طرف بھی توجہ دلائی جائے۔ غیرممالک میں نکل جانے کی تحریک کی اہمیت بھی ان پر واضح کی جائے اور دعائوں سے کام لینے کی بھی تاکید کی جائے۔ غرض تحریک جدید کے جس قدر حصے ہیں اُن سب کی طرف جماعت کے احباب کو توجہ دلائی جائے اور چاہئے کہ وہ دوست جو اخلاص رکھتے ہیں آج ہی سے تحریک جدید کے متعلق میرے گزشتہ تمام خطبات نکال کر اپنے سامنے رکھ لیں اور ان کا خلاصہ اپنے الفاظ میں انفرادی اور اجتماعی طور پر دوستوں تک پہنچاناشروع کردیں اور ابھی سے تحریک جاری کردیں یہاں تک کہ جب جلسوں کا دن آئے تواُس دن تک جماعت کے خفتہ اصحاب بھی بیدار ہوچکے ہوں اور وہ تحریک جدید کے مطالبات میں عملی سرگرمی سے حصہ لینے کیلئے تیار ہوں۔
پھر اس سال چونکہ تحریک جدید کا تیسرا سال ختم ہورہا ہے اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ وہ ہماری ان تین سالہ قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اپنے فضل سے مزید قربانیوں کی توفیق دے۔
میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ عقائد کا اکثر حصہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم نے اپنے اشد معاندین سے بھی تسلیم کرالیا ہے اور دشمن بھی رفتہ رفتہ وہی عقائد اختیار کررہے ہیں جو ہمارے ہیں۔ لیکن عملی حصہ ہمارا کمزور ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی مانگنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں ایسی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اعمال کے لحاظ سے بھی دنیا کیلئے نمونہ ہوں اور ہم ساری دنیا پر ثابت کرسکیں کہ تمام مذاہب میں سے اسلام کی تعلیم ہی قابلِ عمل ہے۔ وہ ایک مضبوط چٹان ہے جسے کوئی ہلا نہیں سکتا۔ وہ ایک برسنے اور دنیا پر چھاجانے والا بادل ہے جس کی زد سے دنیا کی کوئی زمین نہیں بچ سکتی اور وہ سورج ہے جس کی شعاعیں ساری دنیا میں پھیل جاتی اور سوائے ان گھروں کے جن کے رہنے والوں نے اپنے ہاتھوں سے اُس کی کھڑکیاں اور دروازے بند کررکھے ہوں سب کو روشن کردیتی ہیں۔ حتیّٰ کہ باریک سوراخ بھی ہو تو وہاں اس کی روشنی پہنچ جاتی ہے۔ لیکن یہ تبھی ہوسکتا ہے جب ہم اپنے عملی نمونہ سے اسلامی تعلیم کی برتری ثابت کریں، خالی تقریریں کوئی اثر نہیں کرتیں۔
ایک انسان اگر تقریریں اسلامی تعلیم کی فضیلت پر کرتا ہے لیکن وہ یااُس کا ہمسایہ مغربی اثرات اور مغربی رَو میں بہا چلا جاتا ہے تو اس کی تقریروں کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا اور اُس کی کوششیں سب بیکار ہوجائیں گی۔ کوشش وہی کامیاب ہوتی ہے جو عملی رنگ میں کی جائے۔ کیونکہ اس کا دوسرے کے دل پر گہرا اثر ہوتا ہے اور دشمن بھی اسلامی تعلیم کی عظمت کا اظہار کرنے پر مجبورہوجاتا ہے۔ پس دعا ئوں میں اپنی توجہ اس طرف بھی مبذول کرو اور یاد رکھو کوئی دین کا قدم ایسا نہیں ہوسکتا جو تین سال کے بعد ہٹالیا جائے۔ یہ پہلا قدم ہے جو اُٹھایا گیا اور یہ پہلا زینہ ہے جس پر پائوں رکھا گیا اور اس کے بعد اور قدم اور زینے ہیں۔ پس کوئی دینی تحریک ایسی نہیںہوسکتی جو تین سال کے بعد ختم ہوجائے۔ ہاں اس کی شکلیں بدل جاتی ہیں۔ کبھی اُن حصوں پر زیادہ زور دیا جاتاہے جن پر پہلے کم دیاجاتا تھا اور کبھی ان حصوں پر کم زور دیا جاتا ہے جن پر پہلے زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ پھر کبھی اور انواع پر زور دیا جاتا ہے اور کبھی اور انواع پر۔ بہرحال دین کی ترقی کیلئے مومن کی کوشش اُس کی موت تک ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ دین کی ترقی کیلئے کوشش کسی قوم کی موت تک بھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ گو قوم مرجائے گی جس نے دین اور اصلاحِ عالم کیلئے جدوجہد چھوڑدی۔ لیکن اُس کی قبر پر خداتعالیٰ ایک اور قوم کا درخت اُگادے گا جو نئے سرے سے اور نئے جوش سے اس کام میں لگ جائے گی۔ یہی اُس کی قدیم سے سنت ہے اور یہی سنت دنیا کے آخر تک رہے گی۔
(الفضل ۹؍ اپریل ۱۹۳۷ئ)
۱؎ یونس : ۷۲ ۲؎ الفرقان: ۲۴

۱۰
رشتوں ناطوں کی مشکلات کا حل
(فرمودہ ۹ ؍ اپریل ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
مَیں پچھلے جمعہ کا خطبہ پڑھنے کی وجہ سے جاتے ہی پھر بیمار ہوگیا تھا جس کی وجہ سے آج تک باہر نہیں آسکا۔ آج بھی اِسی وجہ سے میں نے پائوں میں جونکیں لگوائی تھیں اور خطرہ ہے کہ اگر زیادہ کھڑا ہؤا تو ان کے زخموں سے پھر خون جاری ہوجائے گا۔ لیکن میں نے خیال کیا کہ اِن دنوں پانچوں نمازوں میں تو میں آ نہیں سکتا اس لئے کم سے کم جمعہ میں تو شریک ہونا چاہئے۔ پس اِس وقت میں کوئی لمبا خطبہ تو نہیں دے سکتا صرف اختصار کے ساتھ ایک تو یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کے جلسوں کیلئے میں نے جو ۹؍مئی ۱۹۳۷ء کی تاریخ مقرر کی تھی اب اسے بدلنا چاہتا ہوںکیونکہ اِس تاریخ کی بیرونی جماعتوں کو وقت پر اطلاع نہیں ہوسکتی اور وہ اچھی طرح جلسہ کی تیاری نہیں کرسکتیں۔ نیز مَیں خود بھی چند دن سفر پر جانے والا ہوں اور شاید میں بھی اِس تاریخ تک واپس قادیان نہ پہنچ سکوں۔ اس لئے اب میں ۳۰؍مئی تحریک جدید کے جلسوں کی تاریخ مقرر کرتا ہوں۔ اس دن اتوار ہوگا اورچُھٹّی کی وجہ سے سب دوست جلسوں میں حصہ لے سکیں گے۔
میں اُمید کرتاہوں کہ اُس وقت تک تمام جماعتوں کو اطلاع ہوجائے گی اوراِتنا وقت بھی مل جائے گا کہ وہ جلسوں کی تیاری کرسکیں۔ دفتر تحریک جدید کو چاہئے کہ جس وقت میرا یہ خطبہ اخبار میں چھپے فوراً ایک ایک پرچہ تمام بیرونی جماعتوں کو بذریعہ ہؤائی ڈاک ارسال کردے تااُن کو بھی کافی وقت جلسہ کی تیاری کیلئے مل جائے۔
اس کے بعدمیں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت میں رشتوں ناطوں کے متعلق بہت سی دقتیں پیش آرہی ہیں۔ یہ مضمون بہت لمبا ہے اور میں سمجھتا ہوں اِس وقت میں اس کے متعلق کما حقّہٗ بول نہیں سکتا۔ لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ مشکلات اس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ مجھے اس کے متعلق اجمالاً کچھ نہ کچھ باتیں ضرور کہہ دینی چاہئیں۔ تفصیلات اِنْشَائَ اللّٰہِ الْعَزِیْز اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو کسی آئندہ خطبہ میں بیان کردوں گا۔ اس مسئلہ پر جہاں تک میں نے غور کیا ہے ہمارے لئے اس میں چند ایک مشکلات ہیں۔ اوّل یہ کہ دوسرے مسلمانوں میں عام طور پر پرانے خاندانوں کی کثرت ہے۔ ان میں باہم بیسیوں رشتے ہوتے ہیں اور وہ ان کی وجہ سے ایک دوسرے کیلئے قربانی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ان حالات میں بعض اوقات رشتہ داریاں ایسے غریب لوگوں سے بھی ہوجاتی ہیں جن سے عام حالات میں نہیں ہوسکتیں۔ بعض جگہ بعض امراء اور نواب دیکھے گئے ہیں جنہوں نے بعض غریب لوگوں کو لڑکیاں دے رکھی ہیں محض اس لئے کہ ان کے ساتھ پرانی رشتہ داریاں تھیں اور اس وجہ سے وہ ان کو ممنون کرنا چاہتے تھے۔ یہ صورت بھی رشتہ داری کی مشکلات کو حل کرنے والی ہے اس لئے کہ امراء کو جب کوئی رشتہ اپنے سے بڑا یا اپنا ہم مرتبہ نہ ملے تو وہ غریب کو بھی لڑکی دے دیتے ہیں۔ مگر ہماری جماعت میں یہ دقت ہے کہ کسی خاندان کا ایک فرد احمدی ہوگیا، کسی کے دو اور کسی کے چار۔ نئے خاندان جن سے ان کا جوڑ ہوسکتا ہے یعنی احمدی ان کے ساتھ ایک دوسرے کا خونی تعلق کوئی نہیں ہوتا۔ پچھلے حالات میں اپنے خاندان کے اندر تو وہ کسی غریب کو بھی رشتہ دینے کیلئے تیار ہوسکتے تھے مگر یہاں آکر وہ ضرور اپنے سے بالا رشتہ ہی تلاش کرتے ہیں۔ وہ رشتہ داریوں کا تعلق یا آپس کا دبائو جن کی وجہ سے لڑکیوں کے حقوق محفوظ سمجھتے جاتے ہیں یہاں نہیں۔ اس لئے یہاں ایسی باتوں کا خیال کیا جاتا ہے جن کا عام طور پر خاندانی رشتوں کے وقت نہیں کیا جاتا۔
دوسری دقت یہ ہے کہ مختلف خاندانوں کے افراد جماعت میں داخل ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں ہزارہا قبائل اور بیسیوں اقوام ہیں اور اگر ساری دنیا کی اقوام کو لے لیا جائے تو وہ سینکڑوں ہزاروں ہوں گی۔ پس یہ جو ہزاروں قبائل اور سینکڑوں اقوام اس ملک میں آباد ہیں، ان سب میں سے تھوڑے تھوڑے لوگ جماعت میںداخل ہیں اور وہ بھی تمام ہندوستان میں پھیلے ہوئے ۔ اس وجہ سے ان میں باہم جوڑ ہونا مشکل ہوتا ہے اور ابھی تک ہماری جماعت اس مقام پر نہیں پہنچی کہ قومیت کی پابندیوں سے آزادی حاصل کرسکے۔ جب بھی رشتہ کا سوال پید اہوتا ہے یہی کہا جاتا ہے کہ ہم فیصلہ کرچکے ہیں کہ سیّدوں میں ہی رشتہ کریں گے یا ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم رشتہ جاٹوں میں کریں گے یا ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ ہم رشتہ راجپوتوں میں کریں گے یا قریشیوں میں کریں گے یا پٹھانوں میں کریں گے اور بہت ہی کم لوگ اس پابندی کو توڑنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ میں نے خود اپنی قوم کو چھوڑ دیاکیونکہ اول تو مغل جماعت احمدیہ میں بہت ہی کم داخل ہیں ۔ دوسرے ہمارا خاندان جو احمدیت میں قدرتاً ایک نمایاں حصہ رکھتا ہے۔ ہماری وہ لڑکیاں جو غیررشتہ داروں سے بیاہی گئی ہیں وہ سب غیرمغلوں سے ہی بیاہی گئی ہیں اس لئے ہم پر یہ اعتراض نہیں پڑتا۔ غرض اب تک ہماری جماعت کے اکثر افراد اسی مرض میں مبتلا ہیں کہ اپنی قوم میں ہی رشتہ ہو۔ اور یا پھر کسی ایسی قوم میں ہو جو ان کے خیال میں ان کی قوم کی ہم رُتبہ ہو۔ مگر چونکہ احمدیت میں قومیں ٹکڑے ٹکڑے ہوکر آئی ہیں، اس لئے مشکلات پیش آتی ہیں۔ فرض کرو لدھیانہ کا ایک پٹھان سلسلہ میں داخل ہؤا ہے، ایک پٹھان گجرات کا اور پانچ سات پشاور کے احمدی ہوگئے ہیں۔ اب فرض کرو پشاور کے دوست تو باہم رشتہ داریاں قائم کرلیتے ہیں۔ گجرات والا پٹھان کہتا ہے کہ چلو جب احمدی ہوگئے تو قومیت کی پابندی کیسی۔ اگر اپنی قوم میں رشتہ نہیں ملتا تو نہ سہی کسی اور قوم میں کرلیتے ہیں۔ اب لدھیانہ والا اکیلارہ گیا اگر وہ اپنی ضد پر قائم رہے گا تو یقینا مشکلات میں پھنسے گا۔
تیسری دقّت میں سمجھتا ہوں یہ ہے کہ ہماری جماعت میںاُمنگ بڑھانے کی جو تحریک کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ تم دنیا کے راہنما ہو، مصلح ہو، ہادی ہو، معلم ہو، دنیا کی تمام بادشاہتیں تمہارے قبضہ میں آئیں گی ، اس سے جو تو دیندار ہوتے ہیں اور روحانیت بھی ان میں غالب ہوتی ہے وہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ ہمیں قربانیاں زیادہ کرنی چاہئیں۔ لیکن جن لوگوں کو روحانیت کا اعلیٰ مقام حاصل نہیں ہوتا وہ ان باتوں کو سن کر کبر کی روح لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جب ہم اتنے بڑے ہیں تو اور بڑے لوگوں کے ساتھ رشتہ داریاں کرکے ہمیں اپنے آپ کو اور بھی بڑا بنانا چاہئے۔ چنانچہ اگر اپنی سَوروپیہ تنخواہ ہو تو لڑکی کیلئے ایسے خاوند کی خواہش کرتے ہیں جو ۳،۴ سو لینے والا ہو اور اگر خود ۳،۴ سو لے رہے ہوں تو پھر کم سے کم ایک ہزار والے کی جستجو کرتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو تو مخلص ہے وہ جب کوئی بڑا رشتہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا تو اُس کی آنکھیںکُھلتی ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ چلو جو رشتہ بھی ملتا ہے اسے غنیمت سمجھنا چاہئے اور آخر اسے وہی کرنا پڑتا ہے جو ایک میراثی نے کیا تھا۔
کہتے ہیں کسی میراثی نے خواب میں دیکھا کہ اسے کسی نے گائے انعام کے طور پر دی ہے۔ اسے لے کر جب وہ گھر کو چلنے لگا تو راستہ میںاُسے ایک شخص ملا جس نے اُسے کہا کہ یہ گائے میرے پاس فروخت کردو۔ میراثی نے کہا اچھا لائو تیس روپے۔ اُس نے کہا تم نے تو مُفت ہی لی ہے۔ تیس روپے کیسے چار آنے لے لو۔ میراثی نے کہا نہیں چار آنے تو نہیں البتہ ۲۵ روپے لے لوں گا۔ ادھر وہ چھ آنے تک بڑھا۔ حتیّٰ کہ ہوتے ہوتے میراثی پانچ روپے پر پہنچا اور دوسرا دو روپے تک بڑھا۔ اتنے میں میراثی کی آنکھ کھل گئی تو وہاں نہ گائے تھی نہ کوئی خریدار اور نہ روپیہ۔ اس پر میراثی نے جھٹ آنکھیں بند کرلیں اور ہاتھ بڑھا کر کہنے لگا اچھا ججمان لائو دو روپے ہی دے دو۔ تو جو مخلص ہوتے ہیں وہ جب دیکھتے ہیں کہ ان کے اس رویہ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یا لڑکی بیٹھی رہے گی یا پھر ہمیں دین چھوڑناپڑے گا تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس طریق کو اختیار کرنے میں ہم نے غلطی کی اور وہ جھٹ جیسا رشتہ ملے اُس پر راضی ہوجاتے ہیں۔ لیکن جو دنیا دار ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں جماعت میں نہیں ملتا نہ سہی باہر کرلیں گے اور شیطان باہر سے رشتہ اُنہیں دلا بھی دیتا ہے۔
چوتھی دقّت یہ ہے کہ ہماری جماعت میں تعلیم پر چونکہ زیادہ زور دیا جاتا ہے اس لئے دوستوں کو لڑکیوں کو تعلیم دلانے کی طرف بھی زیادہ توجہ ہے۔ خصوصاً قادیان میں تو لڑکیوں کی تعلیم پر بہت ہی زور دیا جارہا ہے اور ایک طبقہ تو اِس میں اِس قدر منہمک ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ وہ ایک وقت ایسا منہ کے بل گِرے گا کہ اس کے لئے چوٹوں کی برداشت مشکل ہوجائے گی۔ تعلیم لڑکیوں کو ایسے رنگ میں دلائی جاتی ہے کہ انہیں نوکری مل جائے۔ لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ جو لڑکی ملازم ہوگی وہ بیوی بھی بن سکتی ہے یا نہیں؟ جو لڑکی پشاور میں ملازم ہو اور لڑکا لکھنؤ میں اُن کے میاں بیوی والے تعلقات کیسے ہوں گے، ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ میرے نزدیک تو ایسی شادی محض ایک دکھاوا ہے۔ ایسی شادی کی ضرورت ہی کوئی نہیں۔ بہت ہی احمق ہوں گے جو اِن حالات میں شادی کریں گے۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری شریعت بغیر شادی کے رہنے کی اجازت ہی نہیں دیتی اور ایسی شادیاں صرف دکھاوے کی شادیاںہوتی ہیں اور شرعاً ایسے لوگ مجرم ہیں۔ پھر لڑکیوں کو جوں جوں تعلیم ملتی ہے ان کیلئے خاوندوں کا معیار بھی بڑھتا جاتا ہے۔ جب انٹرنس پاس ہو تو سَو ڈیڑھ سَو روپیہ تنخواہ کا گریجوایٹ تلاش کیا جاتا ہے۔ اگر ایف۔اے ہو تو اڑھائی تین سَو کا گریجوایٹ اور بی ۔اے پاس کرلینے کے بعد تو سات آٹھ سَو کا ای۔اے۔سی تلاش کیا جاتا ہے اور اگر لڑکی ایم۔اے ہو توولایت کا پاس شُدہ تلاش کیا جاتا ہے اور یہ نہیں خیال کیا جاتا کہ جماعت میں ایسے کتنے لوگ ہیں ۔
کئی لوگ شکایت کرتے ہیں کہ آپ ہماری طرف توجہ نہیں کرتے۔ ایسے لوگ مجھے بتائیں کہ آخر ہمارے گھروں میں بھی تو لڑکیاں ہیں۔ کیا جماعت کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ہم نے اپنے لئے چُن لیا ہے کہ انہیں شکایت پیدا ہوتی ہے۔ ہاں غیرمبائعین کے متعلق یہ شکایت ہو تو ہو۔ انہوں نے تو رشتوں کی خاطر بعض غیراحمدی اور بعض کمزور مبائع تک سمیٹ لئے ہیں۔ اس کے برخلاف ہم نے باوجود اس کے کہ چھوٹی بڑی لڑکیاں ملا کر ہمارے گھر میں چالیس کے قریب لڑکیاں ہیں،ان اعلیٰ تعلیم یافتوں میں سے یا اعلیٰ عہدیداروں میں سے کسی کو بھی اپنے لئے نہیں چُنا اور باقی جماعت کیلئے ان کو چھوڑ دیا ہے۔ اگر ایسے اعلیٰ تنخواہوں والے رشتے ہم نے سنبھال لئے ہوتے تو ہم پر اعتراض ہوسکتا تھا کہ اپنے رسوخ کی وجہ سے یہ رشتے خود سنبھال لئے ہیں اب ہم لوگ کیا کریں۔ لیکن جب معاملہ اس کے برخلاف ہے تو پھر مجھ پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے اور اگر جماعت میں دس بیس کی جگہ سَو دوسَو ولایت کے پاس شُدہ یا اعلیٰ تنخواہوں والے نوجوان نہیں تو اس میںمیرا کیا قصور ہے۔ یہ تو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اللہ تعالیٰ پر اعتراض پڑتاہے کہ اس نے آپ لوگوں کے مناسبِِ حال رشتے مہیا نہیں کئے۔ میرے بس میں نہ تو یہ ہے کہ ولایت بھجوا بھجوا کر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان پید اکروں اورنہ میرے اختیارمیں یہ ہے کہ جب کسی کی جوان لڑکی اتنی تعلیم حاصل کرجائے کہ اُس کیلئے ولایت پاس رشتہ ہی موزوں ہو تو میں لاہور، امرتسر یا کسی اور بڑے شہرمیںجائوں اور وہاں کے ولایت پاس ُہندوئوں ، سکھوں یا غیراحمدی مسلمانوں پر ہاتھ پھیروں اور کہوں کہ ہوجائو احمدی اور وہ احمدی ہوجائیں۔ اگر میں ایسا کرسکتا تو پھر بھی میرا قصور ہوسکتا تھا لیکن جب ایسا نہیں توپھر مجھ سے کیا شکایت ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ کئی وجوہ سے جماعت میں رشتوں ناطوں کی دقتّیںپیدا ہورہی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے متعلق تفصیلی ہدایات بلکہ راہنمائی کی ضرورت ہے۔ مگر اس وقت میں تفصیلات کے بیان کرنے کی طاقت اپنے آپ میں نہیں پاتا اِس لئے مختصراً جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان باتوں پر غور کرے اور سوچے کہ کیا دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی یہی راہ ہے کہ اگر تو کوئی بڑا اعلیٰ رشتہ مل جائے تو احمدیوں میں کرلیا جائے لیکن اگر نہ ملے تو غیراحمدیوں میں ہی سہی۔ ایسی تعلیم سے بہتر تھا کہ لڑکی کو تعلیم دلائی ہی نہ جاتی، یہ تو بالکل دنیاداری ہے۔ جو شخص ایسی تعلیم کو دین کہتا ہے وہ بالکل جھوٹا ہے۔ اگر وہ دین کو حقیقتاً مقدم کرنے والا ہوتا توخواہ لڑکی چھ سَو روپیہ تنخواہ کی حیثیت ہی رکھتی وہ کہتا کہ تعلیم تو ہم نے اللہ تعالیٰ کے لئے دلائی ہے اگر زیادہ تنخواہ کا رشتہ نہیں ملتا نہ سہی ، کسی تھوڑی تنخواہ والے سے ہی کردیتے ہیں۔ یا اگر سیّد نہیں ملتا تو مغل سے، راجپوت سے، پٹھان سے، جاٹ سے ہی سہی۔ یہ تو بے شک دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے لیکن جب رشتہ نہ ملے تو غیراحمدیوں میں کردینا خالصۃً دنیا داری ہے۔
بعض لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ فلاں عُہدہ دار سے ہمارا رشتہ کیوں نہیں کرادیا گیا۔ مگر یہ نہیں سوچتے کہ دو احمدیوں میں سے ایک کو ہم ترجیح کیوں دیں۔ ہم نوجوانوں کو یہ تو ضرور کہیں گے کہ احمدیوں میں شادی کرو اور مجبور کریں گے کہ غیراحمدیوں میں نہ کرو۔ مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں جگہ کرو اور فلاں جگہ نہ کرو۔ پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ آدمی کیلئے اگر دو رشتے ہوں ایک تعلیم یافتہ اور ایک غیرتعلیم یافتہ تو ہم اسے بھی یہ مشورہ دے سکتے ہیں کہ تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کرلو۔ کیونکہ اُس کیلئے اور جوڑ ملنا مشکل ہوگا اور قوم کی خاطر قربانی کرلو۔لیکن اگر دونوں تعلیم یافتہ ہوں تو پھر اِس خوف سے کہ ایک مُرتد ہوجائے گی ہم اسے اس کے ساتھ رشتہ کرنے پر مجبورنہیں کرسکتے۔ اگر ان میں سے ایک نے مُرتد ہونا ہی ہے تو ہم کیوں اُس کے ارتداد کی ذمہ واری اپنے اوپر لیں۔ یہ خداتعالیٰ کا کام ہے جسے وہ چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گمراہ کردے۔ اگر ہم اسے کہیں کہ الف سے شادی کرے کیونکہ اس کے مُرتد ہونے کا خطرہ ہے اور دراصل اللہ تعالیٰ کے علم میں ب نے مُرتد ہونا ہو تو اس کی ذمہ واری ہم پر ہوگی۔ اس لئے ہم اسے چھوڑ دیں گے کہ الف اور ب میں سے جس کے ساتھ مناسب سمجھے شادی کرے۔ ہاں اگر وہ مشورہ مانگے تو دے دیں گے۔ پھر خدا کی مشیّت میں جس کیلئے ہدایت ہے وہ اس کا انتظام کرادے گا۔ اور اگر الف اور ب دونوں کیلئے ہدایت مقدر ہے تو ایک کو وہ شادی کے ذریعہ ہدایت دے دے گا اور دوسری کو قربانی کراکے۔
پس میں جماعت کو متوجہ کرتا ہوں کہ وہ ان مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ماحول کو ایسے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرے کہ ایک دن ’’دین کو دنیا پر مقدم کروں گا‘‘ کا عہد اسے توڑنا نہ پڑے۔ میں قادیان والوں کو خصوصیت سے تنبیہہ کرتا ہوں کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ پانچ سات سال کے عرصہ میں ان کیلئے سخت مشکلات پیدا ہوں گی۔ لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ تعلیم حاصل کررہی ہیں اور تعلیم بھی ایسے رنگ میں دلائی جارہی ہے کہ وہ نوکریاں حاصل کرسکیں۔ اس کے نتیجہ میں یا خاندانوں کی بربادی ہوگی اور یا پھر ایسی شادیاں ہوں گی جن کا باہم نباہ نہ ہوسکے گا۔
کل میرے سامنے ایک واقعہ آیا ہے۔ ایک غریب ماں ہے جو محنت کرکے پیٹ پالتی ہے۔ اس کی لڑکی نے میں نے سنا ہے اُس سے صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ میرے معاملہ میں تم کوئی دخل نہ دو۔ سوچنا چاہئے کہ یہ باتیں کیوں پید اہورہی ہیں؟ صرف اس لئے کہ غلط تعلیم دی گئی۔ اگران کو قرآن شریف پڑھایا جاتا، حدیث پڑھائی جاتی توکیا یہ کم علم تھا؟ اگر اس علم کی طرف لگایا جائے تو اس میں بھی دس پندرہ سال لگ جاتے ہیں اور گویا وقت کے لحاظ سے ایم۔اے تک کی تعلیم ہوجاتی ہے۔ مگر کیا اس تعلیم کے نتیجہ میں ایسے خیالات پیدا ہوسکتے ہیں؟ پس یہ سب اس غلط تعلیم کانتیجہ ہے جسے یورپ نے پھیلایا ہے اوروہ لوگ اندھے ہیں جو اس کے پیچھے چل رہے ہیں اور پھر اعتراضات مجھ پر کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر تو ہم ان لڑکوں کو جو ولایت سے پاس کرکے آتے ہیں اپنے خاندان کی لڑکیوں کیلئے سنبھال لیتے تو البتہ یہ اعتراض کیا جاسکتا تھا کہ آپ سنبھال لیتے ہیں۔ ایسے لوگ جماعت میں پندرہ بیس سے زیادہ نہیں ہیں۔ اب ان پندرہ بیس میں سے اگر ایک بھی ہم لے لیتے تو پھر بھی کہا جاسکتا تھا۔ لیکن جب ایسا نہیں تومجھ پر الزام کیسا۔ میں پندرہ بیس کو چالیس پچاس تو بنا نہیں سکتا میں تو زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتا تھا کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی اپنے خاندان کی کسی لڑکی کیلئے نہ لیتا اور یہ میں نے کردیا۔ اب آگے جو بات خداتعالیٰ کے اختیار کی ہے وہ تومیں کرنے سے رہا۔ دراصل یہ اعتراض بھی مغربیت کے ماتحت ہے۔
مغربیت کا خلاصہ ہی یہ ہے کہ شور مچاتے رہو کہ ہم مظلوم ہیں۔ یورپ میں امراء کے پاس کروڑوں روپیہ ہے پھر بھی وہ شور مچاتے رہتے ہیں اور حکومت سے لڑتے رہتے ہیں کہ ٹیکس بہت زیادہ ہیں،ہم مرے جارہے ہیں۔ ہندوستان کا زمیندار ایک وقت بھی پیٹ بھر کر روٹی نہیں کھاسکتا لیکن وہاں کامزدور تین سَو روپیہ ماہؤار کمالیتا ہے جو یہاں کے ای۔اے۔سی کی تنخواہ ہے۔ مگر پھر بھی شور مچاتا رہے گا کہ بھوکے مرگئے۔ تومغربیت کا خلاصہ ہی یہ ہے کہ ہم مرگئے۔ آخر خداتعالیٰ ایک روز کہے گا کہ مرجائو۔ اب تم بھی اُن کی نقل کرتے ہو کہ ہم مرگئے مگر یہ نہیں سوچتے کہ کس کے فعل کی وجہ سے۔ اگر یہ مرنا اپنے ہی فعل سے ہے تو اس کا علاج کرو، توبہ کرو اور اِن باتوں کو دور کرو۔ اگر قومیت کی پابندی کی وجہ سے دقّت ہورہی ہے تو دیکھو جب دوسرے احمدی اسے ترک کرچکے ہیں تو تم بھی کردو۔ اگر تنخواہ کی کمی کی وجہ سے ہے تو دیکھو جب دوسرے احمدیوں نے اس کا خیال نہیں کیا تو تم بھی اسے چھوڑ دو۔ دیکھو میری ایک ہی لڑکی بیاہی گئی ہے اور اُس وقت لڑکا کوئی کام بھی نہ کرتا تھااور اب بھی وہ کام کرنے کی کوشش ہی کررہا ہے آمدن کی صورت نہیں پیدا ہوئی۔ بے شک تم کہہ سکتے ہو کہ وہ آپ کا عزیز ہے لیکن تم بھی اپنے غریب عزیزوں میں شادیاں کرلو اور اگر احمدی عزیز نہ ملیں تو پھر اس قربانی کو وسیع کرکے دوسرے احمدیوں سے جو بھی مل سکیں رشتے کرلو۔ میں نے اگر اپنے ایک ایسے عزیز کو جس کیلئے دُنیوی طور پر کوئی ترقی کا راستہ کُھلا نہ تھا چُنا ہے تو اِس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے ہی اگر دونوں فریق ہوں تو دوہری برکت ملے گی۔ دوسرے لوگ بھی اپنے احمدی عزیزوں میں شادی کریں تواِ س پر کوئی اعتراض نہیں ۔ سوال تو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب لوگ رشتوں کی دقّتوں کو دیکھ کر غیراحمدی عزیزوں کی طرف جُھکتے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے بہتر تھا کہ اگر ان کی خواہش کے مطابق رشتہ نہ ملتا تو اپنی خواہشوں کو قربان کرتے نہ کہ دین کو قربان کرتے۔
حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ مجھے تو اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حکم دیں تو چوہڑے سے بھی اپنی لڑکی کا رشتہ کرنے کو تیار ہوں۔ اِس کا مطلب یہی تھا کہ حضور کی تعلیم کے مطابق اگر ایسا کرناپڑے تو عُذر نہ ہوگا فرض کرو ایک وقت ایسا آئے کہ سیّدوں، مغلوں، پٹھانوں وغیرہ قوموں میں کوئی احمدی رشتہ نہ ملے تو اگر ایک چوہڑا احمدی ہی میسر ہو تو اس سے رشتہ کرنے میں کوئی عُذر نہ ہوگاکیونکہ بہرحال اسے دین حاصل ہے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے معنے ہی یہی ہیں کہ اگر کسی کو کوئی بی۔اے پاس رشتہ ملتا ہو تو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا یہ تقاضا نہیں کہ وہ اس کے ساتھ رشتہ نہ کرے۔ لیکن اگر نہ ملے تو اس کا فرض ہے کہ اپنی آنکھیں نیچی کرے اور خداتعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھنے کو اتنی اہمیت تو دے جتنی میراثی نے دو روپے کو دی تھی۔
اگر خداتعالیٰ سارے ہندو، مسلمانوں ، سکھوں اور عیسائیوںکو احمدی بنادے تو ہماری تو خواہش ہے کہ ایک غریب سے غریب اور کنگال سے کنگال احمدی کی لڑکی بھی کسی گورنر یا وائسرائے کے بیٹے سے بیاہی جائے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ اگر ایسا رشتہ نہ ملے تو کیا یہ بہترہے کہ کسی گورنر کے لڑکے کے ملنے کی امید میں لڑکی کو بٹھا رکھو یا یہ کہ جو رشتہ ملے کردو۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ لڑکی نہیں مانتی تو سوال یہ ہے کہ لڑکی کو اِس نہ ماننے کے مقام پر کس نے کھڑ اکیا ہے؟اگر ہم نے کیا ہے تو بیشک اس کی سزا ہمیں ملنی چاہئے۔ لیکن اگر اس کی ذمہ واری تم پر ہے تو پھر اس سزا کے مستحق تم خود ہو۔
یہ مضمون تو بہت وسیع ہے اور کئی باتیں اس کے متعلق بیان کرنے والی ہیں لیکن اتنا ہی کھڑا ہونے سے مَیں محسوس کرتا ہوں کہ پائوں میں سے خون رِسنے لگا ہے اس لئے اسی پر خطبہ کو ختم کرکے جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے ماحول کو بدلے ورنہ اس کیلئے ایک ایسی بَلا تیار ہورہی ہے جس سے بچنا بہت ہی مشکل ہوگا۔
(الفضل ۱۳؍ اپریل ۱۹۳۷ئ)

۱۱
عرشِ الٰہی کو ہِلادینے والی دعائیں
(فرمودہ ۱۶ ؍ اپریل ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں نے گزشتہ جمعہ اور اس سے پہلے جمعہ میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ تحریک جدید کے مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے علاوہ اکتوبر تک ہر مہینہ میں دو دو روزے بھی رکھیں یہاں تک کہ گزشتہ دو سالوں کے برابر ہمارے چودہ روزے ہوجائیں۔ ایک ہر مہینہ کے پہلے پیر کو اور دوسرا ہر مہینہ کی آخری جمعرات کو ۔اور یہ کہ اگر کسی شخص سے اس پیر کا جمعرات کا روزہ رہ جائے تو وہ اسی مہینہ کے کسی دوسرے پیر یا کسی دوسری جمعرات کو روزہ رکھ لے۔ اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو کسی اور دن کے روزہ سے ان روزوں کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔
اس کے علاوہ میں نے یہ بات بھی کہی تھی کہ مئی کے آخری ہفتہ کے اتوار کو ہر جماعت اپنے اپنے مقام پر جلسے منعقد کرے اور ان جلسوں میں تحریک جدید کے مطالبات کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی جائے۔
بظاہر عقلمند کہلانے والے لوگوں کی نگاہ میں ان مطالبات میں سے میرا ایک مطالبہ شاید بالکل بے معنی اور توہّم پرستی کا اظہار سمجھاجائے۔ کیونکہ اِس مادیت کے زمانہ میں دُعا کرنا اور پھر دعاسے کسی نتیجہ کی امید رکھنا نہایت بیوقوفی اور حماقت خیال کیا جاتا ہے۔ اور بہت سے لوگ جو دعائوںکے قائل ہیں اور دعائیں کرتے ہیں وہ بھی درحقیقت دعا کو ایک تمسخر سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دیتے اور ان میں سے ننانوے فیصدی بلکہ ہزار میں سے ۹۹۹ ایسے ہی ہوتے ہیں کہ اُن کی دعائیں ایک توہم ، ایک تخیل، ایک تمسخر، ایک تک بندی اور اندھیرے میں تیر چلانے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ ہزارہا دعائیں کرنے والے یا دوسروں کو اپنے لئے دعائوں کی تحریک کرنے والے ایسے ہی ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے ماں باپ یا دوسرے عزیز و اقارب سے دعا کا ذکر سنا ہؤا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے وہ دوسروں کو دعا کیلئے کہنا سوسائٹی کا ایک فیشن سمجھتے ہیں ۔ اور جونہی کسی دسرے سے ملتے ہیں بغیر دعا کی حقیقت کو سمجھنے کے کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے لئے بھی دعاکیجئے۔ ہزاروں آدمی احمدیوں، غیراحمدیوں بلکہ ہندوئوں اور سکھوں میں سے بھی جب مجھے ملتے ہیں تو جاتے ہوئے بے ساختہ کہہ دیتے ہیں ہمیں بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیئے مگر جب وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیئے تو میرا نفس محسوس کرتا ہے کہ ان کا دل دعائوں کی عظمت سے واقف نہیں۔ وہ زبان سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیئے۔ مگر ان کا دل کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ محض ان کو خوش کرنے کیلئے ہم کہہ رہے ہیں ورنہ دعا کوئی چیز نہیں اورنہ اسے کسی قسم کی اہمیت حاصل ہے۔ ہزاروں ہیں جو رسماً اسلام کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے یا رسماً ہندو مذہب کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے یا رسماً سکھ مذہب کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے دعائیں کرتے ہیں۔ کبھی ہاتھ اُٹھا کر، کبھی سر جُھکا کر، کبھی کھڑے ہوکر، کبھی بیٹھ کر، کبھی آگ کے آگے ہاتھ پھیلا کر، کبھی سمندرکی طرف منہ کرکے اور کبھی سورج کی طرف آنکھیں اٹھاکر۔ مگر جب دعا کے الفاظ اُن کی زبان پر جاری ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک عبادت ہے جو ہم بجالارہے ہیں۔ ایک فرض ہے جو ہم ادا کررہے ہیں۔ اور یہ کہ اس کے نتیجہ میں ہمیں کچھ نہ کچھ مل جائے گا لیکن انہیں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ دعا کی کیا حقیقت ہے اور دعا زمین و آسمان میں تغیر پیدا کرنے میں کس قدر عظیم الشان اثر رکھتی ہے۔ پس دنیا میں دعا کرنے والے بہت مل جائیں گے مگر دعائوں پریقین رکھنے والے اور دعائوں کی حقیقت سمجھنے والے بہت ہی کم لوگ ملیں گے۔
پھر وہ لوگ جودعا پریقین رکھتے ہیں ان میں بھی سنجیدہ طبقہ بہت کم نظر آتا ہے اور ان قلیل لوگوں میں سے کثیر حصہ ایسا ہوتا ہے جو دعا خداتعالیٰ سے ٹھیکہ کے طور پر کرتاہے۔ مجھے چونکہ سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے، ان لوگوں سے بھی جو دعائیں کرتے ہیں اور ان لوگوں سے بھی جو دوسروں کو اپنے لئے دعا کی تحریک کرتے ہیں اس لئے میں اپنے تجربہ کی بناء پر جانتا ہوں کہ ان میں سے اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں جو دعا خداتعالیٰ کا امتحان لینے اور یہ دیکھنے کیلئے کرتے ہیں کہ آیا خدا ہماری بات سنتا ہے یا نہیں سنتا۔ پس گو وہ ظاہراً دعائوں پر یقین رکھتے ہیں مگر ان کا یقین کسی یقین کی بنیاد پر نہیں بلکہ شک پر ہوتا ہے۔ جائو اور اپنے ہمسایوں اور اپنے دوستوں اور اپنے رشتہ داروں اور اپنے اِردگرد رہنے والے لوگوں سے پوچھ دیکھو کہ کیا آپ دعائیں کرتے ہیں ؟وہ یہی کہیں گے کہ بہت کیں بہت ہی کیں مگر آخر معلوم ہوا کہ خدا ہی کوئی نہیں جو دعائیں سنتا ہو یا کہیں گے کہ خدا بھی کوئی دعا نہیں سنتا۔ حالانکہ دعا کے معنے اس کامل تعلق، اس کامل محبت اور اُس کامل اخلاص کے ہیں جوبندہ کو خداتعالیٰ سے پید اہوجاتا ہے۔ پھر جب دعا اُس تعلق کا نام ہے جو بندہ کا اپنے رب سے ہوتا ہے تو کوئی شخص کس طرح کہہ سکتا ہے میں نے دعائیں کیںمگر ان کا کوئی فائدہ نہ دیکھا۔ کیا تم نے کبھی کسی آنکھوں والے انسان کو دیکھا ہے کہ وہ کہتا ہو میں نے سورج کو دیکھا ،بہت دیکھا اور بہت ہی دیکھا مگر آخر معلوم ہوا کہ سورج میں بھی روشنی نہیں۔ کیا تم نے کسی عورت سے ُسنا کہ وہ کہتی ہو میں نے آگیں جلائیں، بہت جلائیں اور بہت ہی جلائیں مگر آخر معلوم ہوا کہ آگ میں بھی گرمی نہیں۔ کیا تم نے کسی پیاسے کے منہ سے کبھی یہ کلمات سُنے ہیں کہ میں نے پانی پیا، بہت پیا اور بہت ہی پیا مگر آخر معلوم ہوا کہ پانی بھی پیاس نہیں بجھاتا۔ تم کیوں یہ فقرے لوگوں کی زبان سے نہیں سنتے۔ اِس لئے کہ جس شخص نے پانی کا تجربہ کیا وہ پانی کا انکار نہیں کرسکتا۔ جس نے سورج کو دیکھا وہ سورج کا انکار نہیں کرسکتا۔ اور جس نے آگ کو جلتے دیکھا وہ اُس کی گرمی کا انکار نہیں کرسکتا۔ پھر اگر دعا نام ہے اُس مقام کا جس مقام پر کھڑے ہوکر خداتعالیٰ سے انسان کا انتہائی تعلق پیدا ہوجاتا ہے تو کیا اِس سے زیادہ احمقانہ بات بھی کوئی ہوگی کہ کہا جائے میں نے دعائیں کیں، بہت کیں اور بہت ہی کیں مگر آخر معلوم ہوا کہ کوئی خدا نہیں جو دعائیں سُنے۔ کیا ان الفاظ کا مفہوم اگر سیدھی سادی عبارت میں بیان کیا جائے تو یہ نہیں ہوگا کہ ہم نے خدا سے دوستی کی،دوستی کی اور بہت ہی کی مگر آخر معلوم ہوا کہ خدا کوئی نہیں۔ اگر اُس نے دعا سے قبل خداتعالیٰ کو پالیا تھا جس کو دیکھتے ہوئے اُس نے اُس سے دوستی کی تھی اور اُس سے دعائیں کیں تو دعا کے قبول ہونے یا نہ ہونے سے اُسے اُس کے وجود میں شک کیونکر پیدا ہوگیا۔ اور اگراُس نے خداتعالیٰ کو پایا ہی نہیں تھا تو وہ کس طرح کہہ سکتا ہے میں نے خداتعالیٰ سے دوستی کی، دوستی کی اور بہت ہی دوستی کی۔
تو دعا کا اصل مقام وہی ہے جب بندہ اپنے خدا کو پالیتا ہے کیونکہ دعا اسی صورت میں کی جاسکتی ہے جب بندہ کا اپنے خدا کی ہستی اور اس کی قدرتوں پر کامل یقین ہو۔ جب تم دنیا میں ایک معّین اور مشخّص وجود کو آواز دیتے اور اسے اپنی طرف بُلاتے ہو تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ تم اُسے جانتے اور پہچانتے ہو۔ لیکن اگر ایک شخص کو تم دیکھو کہ وہ کہہ رہا ہو اے زید !آئو مجھ سے مصافحہ کرو اور میرے پاس بیٹھو اور پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ یہ کہے کہ زید تو دنیا میں ہے ہی نہیں تو تم ایسے شخص کو پاگل کہو گے یا نہیں؟کیونکہ اگر زید دنیا میں تھا ہی نہیں تو اس نے کس طرح کہہ دیا تھا کہ آئو زید مجھ سے مصافحہ کرو۔ تو وہ مقامِ تردّد جو ارہاص کا مقام کہلاتا ہے، جب انسان دعا کرتا ہے اور اُس کی دعا قبول کی جاتی ہے وہ اصل مقام نہیں بلکہ غیریت کا مقام ہے۔ وہ ایسا ہی ہے جیسے اندھیرے میں سے گزرنے والا شخص کسی کو پکارتا اور کہتا ہے او بھائی! میری مدد کرو۔ اُسے اُس وقت یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہاں کوئی بھائی ہے بھی یا نہیں۔ بلکہ وہ صرف اس لئے بھائی بھائی کہہ رہا ہوتا ہے کہ شاید کوئی بھائی ہو اور وہ مدد کیلئے آجائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ کبھی تو کوئی شخص اُس کی آواز سُن رہا ہوتا ہے اور وہ آواز سُن کر اُس کے پاس پہنچ جاتا ہے اور کبھی وہ یونہی اندھیرے میں سے آواز دیتے گزرجاتا ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو دعا کے مقام پر کھڑانہیں وہ اگر کہتا ہے اے خدا میری مدد کر تو اُس کی اِس دعا کی وہی کیفیت ہے جو اندھیرے میں سے گزرنے والے شخص کی پکار کی ہؤا کرتی ہے۔ اس کی دعا کے جواب میں بھی اگر خداتعالیٰ کی مدد اُس کی مصلحت کے ماتحت آجاتی ہے تو کہہ دیتا ہے خداتعالیٰ نے میری مدد کی اور بعض دفعہ یہ بھی نہیں کہتا بلکہ اتنا کہنا ہی کافی سمجھتا ہے کہ اتفاقِ حسنہ ایسا ہؤا کہ میرا کام بن گیا۔ لیکن اگر کبھی ایسا ہو کہ خداتعالیٰ کی مصلحت کے ماتحت اُس کی مدد اس کو نہ پہنچے تو یہ کہنا شروع کردیتا ہے کہ ہم نے بہت دیکھ لیا، خدا کا وجود ہی کوئی نہیں۔ حالانکہ اس نے دیکھا ہی کیا تھا۔ اگر وہ دیکھ لیتا تو انکار کس طرح کرتا۔ دیکھنے والا تو کبھی انکار نہیں کیا کرتا۔ ہاں اندھیرے والا کہہ سکتا ہے کہ مجھے کچھ نظر نہیں آیا۔ لیکن اس صورت میں بھی وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ کوئی خدا نہیں بلکہ وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں اندھیرے میں رہا اور مجھے اس کی مدد نہ پہنچی۔ ایک باپ اگر اپنے بچے کی کسی ضرورت کو بعض دفعہ پورا نہیں کرتا تو کیا بچہ کہہ سکتا ہے کہ میرا باپ کوئی نہیں یا اگر تمہاری ماں تمہاری کسی ضرورت کو پورا نہ کرے تو تم کہہ سکتے ہو کہ ہماری ماں ہی کوئی نہیں۔ تم یہ تو کہہ سکتے ہو کہ ہمارے باپ نے بھی ہماری خواہش پوری نہ کی، ہماری ماں نے بھی ہماری ضروریات کی طرف توجہ نہ کی مگر تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا باپ اور ہماری ماں کوئی نہیں۔ اسی طرح اگر کسی شخص کی دعا قبول نہ ہو تو وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ آہ! میرے خدانے بھی میری دعا نہ سنی۔ گو یہ بھی بے ادبی ہوگی ، گو یہ بھی گستاخی ہوگی، گو یہ بھی بے دینی ہوگی، مگر یہ معقول بے دینی ہوگی۔ لیکن وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ میری دعا نہیں سُنی گئی اِس لئے کوئی خدا ہی نہیں۔ اگر ایک شخص کسی کو آواز دیتا اور بُلاتا ہے لیکن وہ کسی مصلحت کے ماتحت نہیں آتا تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ جس کو میں نے بُلایا تھا وہ ایک فرضی وجود تھا، حقیقت میں اِس کا کوئی وجود نہیں۔ اسی طرح اگر دعا کے بعد کسی کی مرضی کے مطابق نتیجہ نہیں نکلتا تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے بہت دیکھ لیا خدا کا بھی کوئی پتہ نہیں چلا۔ اگر اس نے خداتعالیٰ کو دیکھ لیا تھا تو اُس کا انکار کس طرح کرسکتا ہے۔ اور اگر نہیں دیکھا تھا تو اس سے زیادہ جھوٹ اور کیا ہوگا کہ کہا جائے میں نے خدا کو دیکھاحالانکہ اس نے اسے نہیں دیکھا۔
تو جو لوگ دعائیں کرنے والے ہیں ان میں سے بھی ایک حصہ ایسا نکلے گا بلکہ ایک حصہ یقینا ایسا ہے جو اندھرے والی دعا کرتا اور اس کے بعد رؤیت والی دعا کا دعویٰ کرنے لگ جاتا ہے۔ گویا وہ اپنی نابینائی کو خدا کی طرف منسوب کرتے اور اس کی ہستی کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں۔ ان کی مثال اس نابینا کی سی ہوتی ہے جس سے کسی شخص نے سورج کا ذکرکیا تو وہ کہنے لگا سورج کی کیا دلیل ہے؟ اس نے کہا سورج کی دلیل روشنی ہے جس سے ہر چیز کا اصلی رنگ نظر آجاتا ہے، سفید چیز سفید نظر آتی ہے اور سیاہ چیز سیاہ۔ وہ نابینا کہنے لگا رنگوں کا فرق بھی تو بے دلیل بات ہے، دنیا میں کوئی رنگ نہیں۔ یہ بھی اپنی نابینائی کی وجہ سے خداتعالیٰ کی ہستی کا انکار کرتے اور اندھیرے میں ہوکر روشنی میں دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
پھر وہ جو دعائوں پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اُن کو بھی اگر دیکھا جائے تو ان میں کمزوروں کا ایک گروہ نظر آتا ہے۔ یعنی خدا انہیں دے دے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں، نہ دے تو ناراض ہوجاتے ہیں۔ گویا پہلا گروہ تو وہ تھا جس نے دعا کی اور اتفاق سے جو پہلی دعا اُس نے کی وہی قبول نہ ہوئی اور وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا منکر ہوگیا۔ اور یہ وہ گروہ ہے جو دعائیں کرتا رہااور خدا قبول کرتا رہا لیکن جونہی کوئی ایسی دعا آئی جسے خدا تعالیٰ نے اپنی مصلحت سے قبول نہ کیا تو یہ بھی کہنے لگ گیا کہ ہم نے دیکھ لیاخدا سے دعائیں کرنے کاکوئی فائدہ نہیں۔ حالانکہ ایسے لوگ اگر اپنے اردگرد کے طبیبوں اور ڈاکٹروں کو دیکھیں تو انہیں نظر آجائے کہ بڑے بڑے ڈاکٹر اور طبیب مریضوں کا علاج کرتے ہیں اور پھر علاج میں بُری طرح ناکام ہوتے ہیں مگر باوجود اس ناکامی کے لوگ پھر بھی ان کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں۔ وہ انہیں روپیہ بھی دیتے ہیں، ان سے دوائیں بھی لیتے ہیں۔ ان کے نخرے بھی برداشت کرتے ہیں اور کبھی انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ ہمارے دائیں بائیں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ انہی ڈاکٹروں اور طبیبوں نے بعض مریضوں کا علاج کیا اور وہ یا تو مرگئے یا اُن کی بیماری طُول پکڑ گئی۔ غرض علاج میں انہیں کئی جگہ ناکام دیکھنے کے باوجود لوگ اُن سے علاج کرائیں گے۔ اُنہیں فیسیں دیں گے اور اُن کی طرف دوڑے چلے جائیں گے۔ لیکن دعا جس پر کچھ بھی مال خرچ نہیں ہوتا ۔ وہ اگر قبول ہوجائے تو کہہ دیں گے خدا نے فضل کردیا۔ لیکن اگر کوئی دعا قبول نہ ہوتو کہہ دیں گے بس جی دیکھ لیا، دعا کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ ایسے لوگ درحقیقت خداتعالیٰ سے سَودا کرنیوالے ہوتے ہیں اور خداتعالیٰ کبھی سَودا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ بلکہ خدا تو الگ رہا خداتعالیٰ کے بندے بھی دوسروں سے سَودا نہیں کرتے۔
میرے پاس ہرسال بیسیوں درخواستیں اچھے اچھے تعلیم یافتہ ہندوئوں ، سکھوں اور مسلمانوں کی آتی رہتی ہیں جن میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ میں بی ۔اے ہوں، میں ایم۔اے ہوں، میں ای۔اے۔سی ہوں، میں فلاں معزز خاندان میں سے ہوں میرے دل پر اسلام کی حقیقت کُھل گئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ احمدیت میں داخل ہوجائوں لیکن آپ جانتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی میں احمدیت کی سخت مخالفت ہے پس اگر میں احمدی ہوجائوں تو آپ میری کیا امداد کریں گے؟ میں ہمیشہ ایسے لوگوں کو یہ لکھوایا کرتا ہوںکہ مالی امداد دینے والے دنیا میں اور بہت سے ہیں۔ اگر تم پر اسلام کی سچائی کُھل گئی ہے تو اِس بارہ میں تمہیں مجھ سے مشورہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں تم اس سچائی کا اظہار کرو اور اس کے بدلہ میں کسی مادی فائدہ کی امید مت رکھو۔ کیا تم نے کبھی سُنا کہ کوئی شخص کہہ رہا ہو میںنے فلاں لڑکی سے شادی کی تجویز کی ہے۔ وہ بہت نیک اور اچھے خاندان کی ہے اگر میں وہاں شادی کرلوں تو اے لوگو! تم مجھے کیا دو گے؟کیا تم نے کبھی سنا کہ کوئی شخص سخت پیاس کی حالت میں میلوں میل چکر کاٹ کر ایک چشمہ کے پاس پہنچے اور وہاں یہ کہنا شروع کردے کہ اے دوستو! بتائو اگر میں اس چشمہ سے اپنی تین دن کی پیاس بُجھالوں تو تم مجھے کیا دو گے؟ اگر ان چھوٹے چھوٹے فوائد کے حاصل ہونے پر بھی دنیا میں کوئی دوسرے سے ایسے بیہودہ سوال نہیں کرتا بلکہ اپنے مقصدمیں کامیاب ہوجانے کو ہی اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دیتا ہے تو خداتعالیٰ کی ملاقات اور اُس کے وصال کا راستہ میسر آجانے پر اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں اس راستہ پر چلا تو مجھے کیا دو گے؟تو وہ پاگل نہیں تو اور کون ہے۔
مذہب کے معنے تو اُس راستہ کے ہیں جو انسان کو خداتعالیٰ تک پہنچادے۔ پس اگر اس نے ایسا راستہ پالیا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اس نے خدا کو پالیا۔ پھر جب اس نے خدا کو پالیا ہے تو اس کا یہ کہنا کہ مجھے کیا دو گے، بیوقوفی اور حماقت ہے۔ جوشخص کچھ پالیتا ہے اس سے لوگ لیا کرتے ہیں یا وہ لوگوں سے لیتا ہے۔ کیا تم نے کبھی سنا کہ کوئی طالب علم آئے اور کہے اے بھائیو! میں امتحان میں پاس ہوگیا ہوں اب بتائو تم مجھے کیا کھلائو گے؟ جو لڑکا امتحان میں کامیاب ہوتا ہے وہ دوسروں سے مانگا نہیں کرتا بلکہ اُستاد اور ہم سبق دونوں اُس کے پاس جاتے اور کہتے ہیںہمیں مٹھائی کِھلائو کیونکہ تم کامیاب ہوئے ہو۔
پس اگر یہ سچ ہے کہ انہوںنے سچا مذہب پالیا ہے تو پھر دنیا کا حق ہے کہ وہ ان سے قربانی کا مطالبہ کرے۔ ان کا حق نہیں کہ وہ لوگوں سے اپنے لئے مانگیں۔ دیکھو محمد ﷺ نے اپنے خدا کو پالیا۔ پھر انہوں نے لوگوں سے کچھ مانگا نہیں بلکہ دنیا کی بھلائی کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت نوح علیہم السلام نے خداتعالیٰ کو پالیا پھر انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں کیا دو گے بلکہ انہوں نے کہا ہم نے پالیا ہے آئوہم تم کو بھی دیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب دور سے خداتعالیٰ کا نور آگ کی شکل میں دیکھا تو انہوں نے یہی کہا کہ ٹھہرو میں وہاں جاتا ہوں اور وہاں سے کوئی انگارا تمہارے لئے بھی لائوں گا۔ تو جو لوگ کچھ پالیتے ہیں وہ لوگوں سے یہ نہیں کہا کرتے کہ ہمیں کیا دو گے؟ بلکہ وہ کہتے ہیں ہم سے کیا قربانی لو گے۔ تومیں انہیں ہمیشہ یہ جواب دیا کرتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ پھر وہ سب کے سب خاموش ہوجاتے ہیںکیونکہ انہیں حقیقت میں خدا نہیں ملا ہوتا بلکہ وہ دنیا کے بُھوکے ہوتے ہیں اور چونکہ وہ چیز جس کی انہیں تلاش ہوتی ہے میرے پاس نہیں ہوتی اِس لئے وہ مایوس ہوکر کسی اور طرف کا رُخ کرلیتے ہیں۔
تو جب خداتعالیٰ کے بندے بھی سَودا کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے تو اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ لوگوں سے سَودا کرتا پھرے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کی طبیعت کے لوگ گرتے چلے جاتے ہیں اور آخر دعا کے مقا م پر وہی قائم رہتے ہیں جو اِس مقولہ پر عمل کرتے ہیں کہ ؎
جو منگے سو مر رہے مرے سو منگن جائے
یعنے مانگنا ایک قسم کی موت ہے لیکن اگر کوئی مانگنا ہی چاہے تو پھر وہ دروازہ سے ہِلے نہیں بلکہ بیٹھا رہے ،بیٹھا رہے اور بیٹھارہے یہاں تک کہ مرجائے۔ بیشک دُنیوی لحاظ سے اِس کے یہ معنے بھی ہیں کہ بندوں سے مانگنا موت ہوتاہے۔ لیکن روحانی لحاظ سے اس کے یہ معنی ہیں کہ دعا اُس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک انسان اپنے آپ پر ایک جسمانی موت وارد نہیں کرلیتا۔ وہ دعا کرتا ہے اور دعا میں اِس قدر محو ہوجاتا ہے اور اِتنے تضرع ، اِتنے درد ، اِتنے سوز ، اِتنے گریہ ، اِتنے قلق اور اِتنے اضطراب کے ساتھ دعا مانگتا ہے کہ وہ بُھول جاتا ہے اپنے ماحول کو ، وہ بُھول جاتا ہے اپنے گردوپیش رہنے والے لوگوں کو، وہ بُھول جاتا ہے اپنے عزیزوں ،دوستوں رشتہ داروںکو، وہ بُھول جاتا ہے اپنے بیوی بچوں کو اور وہ بُھول جاتا ہے اپنے آپ کو یہاں تک کہ سب کچھ بُھول کر وہ خدا کے پاس چلا جاتا اور اُس کے حضور اپنی حاجات پیش کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ ساری خیر خدا میں ہی ہے۔ تب جس طرح ایک پیاسا شدتِ پیاس سے دور سے چشمے کو دیکھ کر دَوڑ کر اُس کی طرف جاتا اور ضُعف و ناطاقتی کی وجہ سے چشمہ کے قریب جاکر گِرجاتا اور نہایت حریص اور للچائی ہوئی نگاہوں سے چشمہ کی طرف دیکھنا شروع کردیتا ہے کہ کاش! چشمہ حرکت میں آئے اور اس کے منہ میں خودبخود اُس کا پانی پہنچ جائے اسی طرح دعا کرنے والے کی کیفیت ہوتی ہے۔ وہ بھی بے حس ہوکر آستانہء الوہیت پر گرجاتا ہے اور اپنے رب کی طرف دیکھنا شروع کردیتا ہے۔ بے شک جسمانی چشمے ایسی حالتوں میں چل کر انسان کے پاس نہیں آتے مگر روحانی چشمے ایسی حالت میں خودبخود چل کر انسان کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۱؎۔ اے محمد ﷺ کوئی مانگنے والا ایسا بھی ہوگا جو دعائیں کرتا چلا جائے گا، کرتا چلا جائے گا اور کرتا چلا جائے گا یہاں تک کہ اُس کے پیر تھک جائیں گے، اُس کے ہاتھ شل ہوجائیں گے، اُس کا دماغ پریشان ہوجائے گا، اُس کے قویٰ مضمحل ہوجائیں گے اور وہ بے اختیار ہوکر کہے گا میرا خدا کہاں ہے؟ فرمایا اسے کہہ دو اِنِّیْ قَرِیْبٌمیں دوڑا ہی آرہا ہوں۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِجب بندہ ایسی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کو پکارتا چلا جاتا ہے جب وہ تھک جاتااور اُس کے قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں تو فرمایا ایسی حالت میں پھر وہ نہیں پکارتا بلکہ میں اُسے پکارنا شروع کردیتا ہوں۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ اُسے چاہئے کہ اب میری آواز کا جواب دے اور اُسے سُنے۔ گویا پہلے فقرہ میں تو یہ مضمون تھا کہ بندہ اللہ تعالیٰ کو بلاتا ہے اور اِس میں یہ بیان کیا کہ پھر خدا اپنے بندے کوبلاتا ہے اور جونہی اُس کی قوتیں رہ جاتی ہیں خدا خود دوڑ کر اُس کی طرف آتا اور اُس وقت وہ طالب اور بندہ مطلوب، خدا مُحبّ اور بندہ محبوب بن جاتاہے۔ یہ دعا کا مقام ایسا بلند مقام ہے جو زمین اور آسمان کو ہِلادیتا ہے۔ جہاں قبولیت اور عدمِ قبولیت کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ قبولیت ہوتی اور بہت ہوتی ہے مگر اس شخص کو اس کی کچھ پروا ہ نہیں ہوتی وہ صرف ایک ہی بات جانتا ہے اور وہ یہ کہ میرا کام یہ ہے کہ میں اپنے رب سے مانگتا رہوں۔
تم اگر سچی محبت کے انسانی نظائر پر ہی غور کرو تو تمہیں یہ مثال وہاں بھی نظر آجائے گی۔ ہاں حقیقت کی آنکھیں کھول کر دیکھو پھر تمہیں چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی عظیم الشان سبق پنہاں نظر آئیں گے۔ تم نے بچہ کو اپنی ماں سے چمٹتے کئی دفعہ دیکھا ہوگا۔ تم دیکھتے ہو کہ بچہ کی باہیں اس کی ماں کے گلے میں ہوتی ہیں، اُس کا سینہ اپنی ماں کے سینہ سے لگا ہوتا ہے اور وہ اپنی ماں سے اتنا زیادہ قریب ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ قریب ہونا ناممکن ہوتاہے۔ مگر پھر بھی وہ کہتا جاتا ہے کہ اماں! اماں۔ وہ کیوں اماں !اماں! کہہ رہا ہوتاہے حالانکہ وہ ماں کے پاس ہی ہوتاہے۔ وہ اسی لئے باوجودقریب ہونے کے اماں! اماں! کہتا ہے کہ ماں کو پکارنا اب اُس کی غذا بن گیا ہے اور اسی پکار میں اُس کی تمام راحت ہوتی ہے۔ یہی حال ایک سچے سالک کا بھی ہوتا ہے۔
جس شخص کو خداتعالیٰ سے حقیقی محبت ہوتی ہے وہ ضرورت کیلئے خدا تعالیٰ سے نہیں مانگتا بلکہ مانگنے کیلئے مانگتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہروقت خداتعالیٰ کا سائل ہی بنا رہے۔ تم نے اپنے گھروں میں اور خود اپنی ذات میں اِس بات کا کئی دفعہ تجربہ کیا ہوگا کہ جب کوئی فقیر تمہارے دروازے پر آتا اور کہتا ہے مجھے کچھ خیرات دو توتم اُسے کچھ دے دیتے ہو ۔ اس کے بعد وہ چلا جاتا ہے اور تم اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہو۔ لیکن اگر وہ نہ جائے اور دروازہ پر کھڑا رہے تو تم اُسے کہتے ہو اَب جاتے کیوں نہیں میں نے تمہیں خیرات دے دی ہے۔ یہی روحانی خلش اور یہی روحانی خوف ایک خدا کے مُحبّ کے دل میں بھی ہر وقت رہتا ہے کہ اگرمیری ایک ضرورت پوری ہوگئی اور دوسری دفعہ میں نے خداتعالیٰ سے نہ مانگا تو خداتعالیٰ کی طرف سے مجھے کہا جائے گا کہ اب کیوں کھڑے ہو، ہمارے دربار سے چلے جائو اور چونکہ اس کی اصل غرض مانگنا نہیں بلکہ اپنے محبوب کے دربار میںکھڑا رہنا ہوتی ہے اِس لئے وہ مانگتا ہے اور مانگتا چلا جاتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ اسے ضرورت ہوتی ہے بلکہ اس لئے کہ وہ خداتعالیٰ کا سائل بنا رہے اور اسے یہ نہ کہا جائے کہ اب چلے جائو، تمہاری ضرورت پوری ہوگئی۔ پس ہروقت ہی وہ کوئی نہ کوئی ضرورت پیش کرتا رہتا ہے تا ہر وقت اسے اللہ تعالیٰ کے دروازہ پر کھڑے رہنے کا حق حاصل رہے۔ یہ حقیقی محبت کا ایک نظارہ ہوتا ہے مگر لوگ اِس کو فلسفیانہ رنگ میں حل کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ایک جنس کو دوسری جنس سے ناپا نہیں جاسکتا۔ تم ہوا اور پانی کو اگر ترازو میں تولنا چاہو تو یہ تُل نہیں سکیں گے۔ اسی طرح عشق اور محبت کے جذبات کو تم فلسفہ کے ترازو میں نہیں تول سکتے اوراگر تولو گے تو یہ اس ترازو سے نکل بھاگیں گے۔ لیکن ہؤا کو اگر ان آلات سے تولو جو سائنس نے گیسوں کے متعلق ایجاد کئے ہیں تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ان چیزوں کا بھی وزن ہے اور ان میں بھی طاقت اور قوت ہے حتیٰ کہ سائنس نے یہ دریافت کیاہے کہ جب کسی چیز میں بالکل خلاء کردیا جائے تو ہؤا کا بیرونی دبائو اُس چیز کو توڑ دیتا ہے۔ گویا جس چیز کو ہم خالی سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ خالی نہیں ہوتی بلکہ اُس میں جو ہوا ہوتی ہے وہ ہمارے سامانوں کی حفاظت کررہی ہوتی ہے لیکن ہماری ظاہری نظر اس کو خالی کہہ دیتی ہے۔
دُعا ایک ایسا حربہ ہے جس کا مقابلہ کوئی چیز نہیں کرسکتی۔ اور دعا اظہارِ عشق کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں۔ شاید تم میں سے وہ لوگ جو بڑی عمر کے ہیں وہ اپنے بچپن کی باتیں بُھول چکے ہوں لیکن مجھے تو ابھی تک بہت سی باتیں یاد ہیں۔ مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے جب ہم چھوٹے چھوٹے بچے ہؤا کرتے تھے اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتے تھے’’ آئو اماں اماں کریے۔ آئو ابا ابا کریے‘‘(پنجابی)۔ اس کا مطلب کیا ہوتا تھا؟ شاید ایک فلسفی یہ نظارہ دیکھ کر کہے کہ بچے کیسے پاگل ہیں کہ ماں باپ کے پاس رہتے ہوئے اس قسم کے فقرے کہتے ہیں۔ مگر حقیقتاً وہ پاگل پن کا اظہار نہیں بلکہ اپنے بڑوں کو یہ نصیحت کرنا ہے کہ دیکھو ہمیں اپنی ماں سے محبت ہے اور ہم کہتے ہیں ’’آئو اماں اماں کریے‘‘۔ ہمیں اپنے باپ سے محبت ہے او رہم کہتے ہیں ’’آئو ابا ابا کریے‘‘۔ پھر جبکہ تمہیں دعویٰ ہے کہ تم اپنے باپ اور اپنی ماں سے بہت زیادہ خداتعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو کیا تمہارا فرض نہیں کہ تم اُس کو یاد کرو اور اُس کے اور زیادہ قریب ہونے کی کوشش کرو۔ جس وقت ایک فلسفی اپنے سامنے میز لگائے کُرسی پر بیٹھ کر نہایت ہی رعونت او رتکبر کے ساتھ یہ فقرے لکھتا ہے کہ کیسا ہی بیوقوفی کا وہ مذہب ہے جو یہ کہتا ہے کہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجائو اور کہو اے اللہ! اے اللہ!۔ بھلا ان الفاظ کے دہرانے سے اس کا کیا فائدہ اور خدا کا کیا فائدہ؟ اُسی وقت اُس کی میز کے نیچے اُس کابچہ اُسے بیوقوف بنا رہا اور اُس کی حماقت اُس پر ظاہر کررہا ہوتا ہے۔ جب وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کہتا ہے ابا ابا۔ اس طرح وہ جاہل اپنے علم کے گھمنڈ میں اسی فلسفہ کو ردّ کررہا ہوتا ہے جس فلسفہ کو اُس کا بچہ اپنے عمل سے ثابت کررہا ہوتا ہے۔ مگر چونکہ محبت کا فلسفہ عقل کے فلسفہ سے بالکل جُدا ہے اس لئے فلسفی اِس راز سے آگاہ نہیں ہوتا۔
غرض جب میں نے کہا کہ آئو ہم اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں تو میں نے ایک رسمی چیز تمہارے سامنے پیش نہیں کی بلکہ جب میں نے کہا کہ دعائیں کرو تو یہ جانتے ہوئے کہا کہ تم میں سے بہت ہیں جو عرشِ الٰہی کو ہِلادینے والی دعائیں نہیں کرتے۔ اور یہ جانتے ہوئے کہا ہے کہ دعا کوئی معمولی چیز نہیں۔ پس میں نے رسماً نہیں کہا، میں نے عادتاً نہیں کہا مگر میں نے یہ بھی جانتے ہوئے کہا ہے کہ دعا کیلئے ہزار، دس ہزار یا ایک لاکھ آدمیوں کی ضرورت نہیں۔ اگر لاکھوں کی جماعت میں سے دس آدمی بھی ایسے نکل آئیں جن کے دل حقیقی دعا کرنے والے ہوں تو وہ زمین اور آسمان کو ہلانے کیلئے کافی ہیں۔
رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ یتیم کی دعا عرش کو ہلادیتی ہے۲؎ اور رسول کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جماعت کی متحدہ دعا قبول کی جاتی ہے۳؎۔ پس جب میں نے کہا کہ آئو ہم دعا کریں تو اس وقت یہ دونوں باتیں مجھے نظر آرہی تھیں اور میں سمجھتا ہوں کہ میری مثال اُس شخص کی سی تھی جس کا دایاں بھی برکت والا ہو اور جس کا بایاں بھی برکت والا ہو۔ میں سمجھتا تھا اگر مجھے ایک جماعت مل گئی تو رسول کریم ﷺکا یہ قول بھی پورا ہو جائے گا کہ جماعت کی متحدہ دعا قبول کی جاتی ہے اور اگر مجھے کوئی ساتھی نہ ملا اور میں اکیلا رہا تو رسول کریم ﷺ کے اس دوسرے قول کی سچائی ثابت ہوجائے گی کہ یتیم کی دعا عرش کو ہلادیتی ہے۔ پس اگرمجھے جماعت حاصل ہوگئی تب بھی میرا مقصد پور اہوگیا اور اگرمیں اکیلا رہا تب بھی میرا مقصد مجھے حاصل ہوگیا کیونکہ رسول کریم ﷺنے ان دونوں حالتوں میں قبولیت دعا کی بشارت دی ہوئی ہے۔ جماعت ہونے کی صورت میں بھی اور یتیم ہونے کی صورت میں بھی۔ اور یتیم سے صرف وہی مراد نہیں جس کے ماں باپ نہ ہوں بلکہ جو بھی خداتعالیٰ کی راہ میں اکیلا رہ جائے وہ یتیم ہے اور جو اپنے ساتھی پالے وہ جماعت ہے۔ ہمارے خدا نے بھی قرآن مجید میں اس بات کا اظہار فرمایا ہے چنانچہ ایک نبی کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ ’’امۃ‘‘ تھا۴؎۔ یعنی ایک جماعت اس کو حاصل تھی اور ایک دوسرے نبی کے متعلق فرمایا کہ وہ لوگوں کو خداتعالیٰ کی طرف بُلاتا تو سب منتشر ہوجاتے اوروہ نبی اکیلا رہ جاتا۔ گویا ایک نبی وہ تھا جس نے جماعت بن کر خداتعالیٰ کی مدد حاصل کی اور دوسرا وہ تھا جس نے یتیم بن کر خداتعالیٰ کی نصرت حاصل کی۔
یہ مت خیال کرو کہ تم اِس وقت امن کی حالت میں ہو اور تمہیں دشمن کی طرف سے کسی حملے کا خوف نہیں۔ اپنے آپ کو امن کی حالت میں کہنا اور دشمن کے حملہ سے بے خوف ہوجانا حماقت ہوتی ہے۔ کیونکہ بسا اوقات جب انسان یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ مصیبت ٹل گئی وہ پہلے سے بھی زیادہ مصیبت کا شکار ہوجاتا ہے۔ گزشتہ سال حبشہ اور اٹلی والوں کے درمیان جو جنگ ہوئی اور جس میں حبشہ نے شکست کھائی اس کے متعلق جن محققین نے اِس نقطہ نگاہ سے غورکیا ہے کہ حبشہ والے کیوں ہارے؟حالانکہ ابتداء میں انہوں نے اٹلی کو خطرناک شکست دی تھی تو وہ اِسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ حبشہ والے ہارگئے کیونکہ انہوں نے یہ خیال کیا کہ ہم جیت گئے ہیں۔ گویا جب انہوں نے شروع میں اٹلی کی فوجوں کو شکست دے دی تو وہ مطمئن ہوکر بیٹھ گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ اٹلی نے حبشہ کو غافل پاکر پھر حملہ کردیا اور اُسے شکست دے دی۔
میں دیکھتا ہوں یہی حال اِس وقت ہماری جماعت کے افراد کا ہے۔ جب دشمن کا حملہ تھوڑی دیر کیلئے ہٹ جاتاہے تو وہ کہتے ہیں اب ہم بچ گئے۔ میں پوچھتا ہوں تم کیونکر سمجھتے ہو کہ اب ہم بچ گئے۔ کیا احرار سے ہمارا فیصلہ ہوگیا ہے یا کیا گورنمنٹ سے ہمارا تصفیہ ہوگیا ہے؟ اگر دشمن اس وقت خاموش ہوگیا ہے تو اُس کی خاموشی کے یہ معنے کس طرح ہوگئے کہ ہماری لڑائی ختم ہوگئی ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ انتظار کررہا ہو کہ تم سوجائو اور مطمئن ہوجائو تو پھر وہ تم پر حملہ کرے۔ پس جب تک ہماری گورنمنٹ سے باقاعدہ صلح نہیں ہوجاتی یا جب تک احرار سے ہمارا ایسا تصفیہ نہیں ہوجاتا جس کے بعد احرار کے لئے ہمارے مقابلہ میں سر اُٹھانا ناممکن ہوجائے، اُس وقت تک اگر ہماری جماعت میں سے ایک آدمی بھی خاموش ہوکر بیٹھ رہتا ہے تو اِس کے معنی سوائے اِس کے کچھ نہیں کہ وہ احمق اور بیوقوف ہے۔ یاد رکھو مومن کے دل پر جو زخم لگتے ہیں وہ کبھی مُندمل نہیں ہوتے اور اُس وقت تک ہرے رہتے ہیں جب تک دوسرے زخموں کے لگنے کا احتمال باقی رہتا ہے۔ حضرت نوحؑ کی لائی ہوئی تعلیم دنیا سے کیوں مٹ گئی؟ اِس لئے کہ ان زخموں کی یاد تازہ رکھنے والے لوگ مٹ گئے۔ حضرت موسیٰؑ کی لائی ہوئی تعلیم دنیا سے کیوں مٹ گئی۔ اس لئے کہ موسیٰؑ کو جو زخم لگے ان کی یاد تازہ رکھنے والے لوگ دنیا میں نہ رہے۔ تم کیوں کہتے ہو کہ محمد ﷺ خاتم النبّیٖن ہیں اور آپ کی لائی ہوئی تعلیم مٹ نہیں سکتی؟ اسی لئے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایسے لوگ ہمیشہ آتے رہیں گے جو اِن زخموں کو کُریدتے رہیں گے۔ اگر اس اُمت میں بھی زخم کریدنے والے نہ آتے تو آپ کی لائی ہوئی تعلیم بھی مٹ جاتی کیونکہ تعلیم کبھی کتابوں کے ذریعہ قائم نہیں رہتی بلکہ ماننے والوں کے ذریعہ قائم رہتی ہے۔ پس جبکہ خدا نے اپنی مصلحتوں کے ماتحت ہمارے ہاتھوں اور ہمارے پائوں کو باندھ رکھا ہے اور ہماری زبانوں کو اُس نے بند کیا ہؤا ہے۔ جب ایک طرف وہ یہ کہتا ہے کہ جائو اور حکومتِ وقت کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو اور دوسری طرف یہ حکم دیتا ہے کہ گالیاں سنو اور چُپ رہو۔ سوائے ایسے خاص حالات کے جن میں وہ دفاع کی اجازت دیتا ہے مگر اس صورت میں بھی اعتداء سے بچنے کی نصیحت کرتا ہے تو ان حالات میں ہمارے لئے سوائے اس کے اور کیا صورت رہ جاتی ہے کہ ہم خداتعالیٰ کے حضور دعا کریں اور اس سے کہیں اے ہمارے ہاتھوں کو روکنے والے اور اے ہماری زبانوں کو بند کرنے والے خدا! تُو آپ ہماری طرف سے اپنے ہاتھ اور اپنی زبان چلا۔ پھر کون کہہ سکتاہے کہ اُس کے ہاتھوں سے زیادہ طاقتور ہاتھ بھی دنیا میں کوئی ہے اور اُس کی زبان سے زیادہ مؤثر زبان بھی کوئی ہوسکتی ہے۔ تم نے خداتعالیٰ کی قدرت کے کئی نظارے پچھلے دو سالوں میں دیکھے۔ اب تیسرا سال جارہا ہے اگر تم اس سال پہلے دو سالوں سے بھی زیادہ خداتعالیٰ کی قدرت کے شاندار نظارے دیکھنا چاہتے ہو تو گزشتہ سالوں کے چالیس دنوں کے مقابلہ میں اِس سال سات ماہ تک مسلسل دعائیں کرو اور خصوصیت سے یہ دعا مانگتے رہو کہ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِم ۔ یعنی اے خدا! ہم دشمنوں کی گردنوں پر تیرے ہی ہتھیار چلانا چاہتے ہیں اور ان کے شرور اور فِتن سے تیری ہی حفاظت چاہتے ہیں۔ نحر اُس گڑھے کو کہتے ہیں جو اُس جگہ پر واقعہ ہو جہاں گردن اور سینہ باہم ملتے ہیں۔ یہیں سے بڑی رگیں سر کی طرف جاتیں اور دل سے دماغ کو خون پہنچاتی ہیں۔ سو نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ کے یہ معنے ہیں کہ اے خدا ان کا کُلّی طور پر استیصال کردے اور شرارت اس طرح نہ مٹاکہ وہ بار بار زندہ ہوتی رہے بلکہ اس طرح مٹا کہ وہ کبھی ظاہر نہ ہوسکے۔ پھر احرار کے علاوہ ہمارے اندر بعض منافق بھی پائے جاتے ہیں جن کا وجودہمارے لئے سخت مضر ہے۔ گزشتہ دنوں گورنمنٹ کے بعض حکام کی طرف سے ہم پر جو مظالم ہوئے ہیں ان کی وجہ سے منافقوں نے بھی گردنیں اُٹھالی ہیں۔ منافق ایک حد تک ہی چل سکتا ہے زیادہ نہیں چل سکتا۔ پھر وہ ڈرپوک اور بُزدل ہوتا ہے، اُس کے سارے کام مخفی ہوتے ہیں اور بسااوقات ایسی صورت ہوتی ہے کہ شریعت اجازت نہیں دیتی کہ اُسے ننگا کیا جائے۔ پس اس کے شر سے بچنے کا ذریعہ بھی دعائوں کے سِوا اور کوئی نہیں۔
پھر علاوہ ان واقعات کے جو ہمارے سامنے ہیں اُن عظیم الشان مقاصد کیلئے جن کو سرانجام دینے کیلئے سلسلہ احمدیہ قائم کیا گیا ہے اگر ہم خاص وقتوں میں دعائیں کریں تو یہ دعائیں ضرورت سے زیادہ نہیں بلکہ کم ہی رہیں گی۔ دنیا کا فتح کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ چاروں طرف لوگ ہمارے مخالف ہیں اور ہر جگہ ایسی روکیں پیدا کی جارہی ہیں جن کو دورکرنا انسانی طاقت سے بالا ہے اور جن مشکلات اور روکوں کو دور کرنے کیلئے خداتعالیٰ کی نصرت کے سِوا اور کوئی ہمارے کام نہیں آسکتا۔ پس آئو کہ ہم خداتعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان کاموں کے پورا کرنے میں ہماری امداد فرمائے جن کیلئے سلسلہ احمدیہ دنیا میں قائم ہؤا ہے۔ اور لوگوں کے قلوب کی اصلاح کرے بلکہ لوگوں کے قلوب کی اصلاح کا کیا ذکر ابھی ہمارے اپنے نفس ہی بہت بڑی اصلاح کے محتاج ہیں۔ پس خدا اپنے فضل سے ہمارے دلوں کی بھی اصلاح فرمائے، ہمیں اپنے نفس پر غالب آنے کی توفیق دے اور ہمیں وہ طاقتیں عطا فرمائے جن سے اس کے دین کا جلال ظاہر ہو اور اُس کا قُرب اور وصال ہمیں میسر ہو۔
غرض مت خیال کرو کہ یہ ایک رسمی بات ہے جو میں تمہارے سامنے پیش کررہا ہوں۔ یہ ایک نہایت ہی اہم مطالبہ ہے جس کو پورا کرنا جماعت کے ہر فرد کا فرض ہے۔ چاہئے کہ جماعتوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اپنی اپنی جماعتوں کو یہ مطالبہ یاد دلاتے رہیں اور روزوں کے متعلق بھی یاد دہانی کراتے رہیں۔ کیونکہ جو چیز بار بار سامنے آتی رہے اُس کی طرف دل متوجہ ہوجاتے ہیں اور کئی کمزور بھی جو پہلے حصہ لینے کیلئے تیار نہیں ہوتے حصہ لینے لگ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کی اسی نکتہ کی طرف راہبری کرتے ہوئے فرماتا ہے فَذَکِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّکْرٰی ۵؎ کہ تُولوگوں کو نصیحت کرتا چلا جا کیونکہ نصیحت بہت دفعہ فائدہ دے جایا کرتی ہے۔
پس میں کہتا ہوں کہ اِن دنوں کو خاموشی سے مت گزارو بلکہ روزے رکھو اور دعائیں کرو اور لوگوں سے کہو کہ وہ روزے رکھیں اور دعائیں کریں۔ جماعتوں کے پریذیڈنٹوں کو چاہئے کہ وہ مساجد میں بار بار لوگوں کو یاد دلاتے رہیں کہ ان ایام میں ان فِتنوں کے دور ہونے کیلئے دعائیں کی جائیں جو اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ ان مقاصد کیلئے دعائیں کی جائیں جو سلسلہ احمدیہ کے قیام سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور ان کمزوریوں کیلئے دعائیں کی جائیں جو خواہ ہم میں پائی جاتی ہیں یا دنیا کے اور افراد میں۔ تا اللہ تعالیٰ کے فضل ایسے رنگ میں نازل ہوں کہ وہ مصائب کے پہاڑ جو دشمنوں کی طرف سے ہمارے راستہ میں گِرائے گئے ہیں پاش پاش ہوجائیں اور ہمیں کامیابی ، ترقی، نیکی اور تقویٰ کے سامان زیادہ سے زیادہ عطا ہوں۔
پس دعا کے متعلق تمہاری کوشش اور ہمت دوسری کوششوں اور ہمتوں سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہونی چاہئے۔ کیونکہ یہ مطالبہ بھی دوسرے مطالبات سے کم نہیں بلکہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ پس روزوں کو یاد رکھو اور دوسروں کو یاد دلاتے رہو اور دعائوں کو یاد رکھو اور دوسروں کو دعائوں کیلئے کہتے رہو کیونکہ کام بہت بڑا ہے اور مشکلات بہت زیادہ۔ ہم کمزور اور بے بس ہیں۔ ہماری کمزوریاں ہم پر عیاں ہیں بلکہ ہم خود بھی اپنی کمزوریوں سے اتنے واقف نہیں جتنا ہمارا خدا ۔ پس ہم اُسی سے مدد طلب کرتے اور اُسی کی نصرت اور تائید اپنے ہر کام میں چاہتے ہیں۔
(الفضل ۲۴؍ اپریل ۱۹۳۷ئ)
۱؎ البقرۃ: ۱۸۷
۲؎
۳؎
۴؎ اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً… (النحل: ۱۲۱)
۵؎ الاعلٰی: ۱۰

۱۲
مومن خدا کیلئے کام کرتا ہے
(فرمودہ ۲۳؍اپریل ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
انسانی کمزوری ایسے موقع پر جاکر کھلتی ہے جبکہ وہ دیکھتے او رجانتے بوجھتے ہوئے ایک غلط اقدام کر بیٹھتا ہے اورخیال کرتا ہے کہ وہ نہایت ہی ہوشیار، چالاک اور دانا ہے حالانکہ وہ اپنے پائوں پر آپ کلہاڑی ماررہا ہوتا ہے۔ منافق کی حالت بالکل ایسی ہوتی ہے ۔ وہ خیال یہ کرتا ہے کہ میرے جیسا چالاک اور ہوشیار کوئی نہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کی بیوقوفی کو ظاہر کررہا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ منافقوں کے متعلق فرماتا ہے کہ جب اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ تم یہ کیا حرکتیں کرتے ہو؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ ۱؎۔ ہم تو صرف اصلاح کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلاَ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰـکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ ۲؎۔ خوب کان کھول کر سُن لو کہ یہی منافق فتنہ فساد پیدا کرنے والے لوگ ہیںہاں وہ اپنے فتنہ و فساد والے کاموں کی حقیقت کو سمجھتے نہیں۔ بسا اوقات وہ ایک فتنہ انگیز حرکت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کیا زد لگائی ہے۔ بسا اوقات خیال کرتے ہیں کہ کیا دھوکا دیا۔ بسا اوقات یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم نے کیسی تدابیر اختیار کررکھی ہیں کہ ہماری حقیقت کو کوئی معلوم نہیں کرسکتا۔ حالانکہ ان کی مثال اس اندھے اور سوجاکھے کی ہوتی ہے جن کے متعلق یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک اندھا اور سوجاکھا اکٹھے کھانے بیٹھے۔ سوجاکھے نے تو جس طرح انسان کھاتے ہیں کھانا شروع کردیا لیکن اندھے کو خیال ہؤا کہ یہ ضرور جلدی جلدی کھارہا ہوگا، اِس لئے اُس نے بھی جلدی جلدی ہاتھ مارنا شرو ع کیا۔ پھر اس کے دل میں خیال آیا کہ اس نے مجھے جلدی جلدی کھاتے دیکھ لیا ہے اِس لئے اب یہ اور بھی جلدی جلدی کھانے لگا ہوگا لہٰذا مجھے اور جلدی کھانا چاہئے اور اُس نے لُقمے آدھے ہی چبا چبا کر نگلنے شروع کئے۔ پھر اُسے خیال آیا کہ میری اِس حرکت کو بھی اس نے دیکھ تو لیا ہی ہے اس لئے ضرور اس نے کوئی اور تدبیر زیادہ سے زیادہ کھانے کی کرلی ہوگی اس لئے مجھے بھی اور زیادہ کھانا چاہئے اور اس نے دونوں ہاتھوں سے کھاناشروع کردیا۔ پھر اسے خیال آیا کہ اب آنکھوں والے نے بھی کوئی اور تدبیر نکال لی ہوگی اور اس کے مقابلہ میں اس نے ایک ہاتھ سے منہ میں اور دوسرے سے جھولی میں ڈالنا شروع کردیا۔ پھر خیال کیا کہ ضرور ہے اس کے مقابلہ میں بھی اس نے کوئی اورتجویز نکالی ہو اور چونکہ اس کے ذہن میںکوئی اور صورت نہ آسکی، اس نے تھالی کو اُٹھاتے ہوئے کہا کہ بس جی !اب یہ میر اہی حصہ ہے۔ حالانکہ آنکھوں والے نے اُسی وقت سے کھانے سے ہاتھ اٹھالیا تھا جب سے اندھے نے جلدی جلدی کھانا شروع کیا تھا اور اس دوران میں وہ دیکھتا رہا تھا کہ اندھا کیا کررہا ہے۔یہی حال منافقوں کا ہوتا ہے۔ مومن دیکھتا ہے کہ وہ کیا بیوقوفی کررہا ہے مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں کرتا۔ مگر منافق خیال کرتاہے کہ اب یہ تدبیریں کرتے ہوں گے اور اس کے مقابلہ میں مجھے یوں کرنا چاہئے۔ یہاں تک کہ خداتعالیٰ اس کے چہرے سے نقاب اُٹھادیتا ہے اور وہ تھالی اُٹھاکر کہتا ہے کہ یہ میرا حصہ ہے اور دنیا کو پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ منافق ہے۔ مومن اُس سے رعایت کرتا ہے اور منافق سمجھتا ہے یہ میری چالاکی ہے۔ مومن عفو سے کام لیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے میں نے ڈرادیا۔ مومن چشم پوشی کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے میں نے خوب دھوکا دیا۔
تمہارے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جن کے متعلق میں دس دس او رپندرہ پندرہ سال سے جانتا ہوں کہ وہ منافق ہیں۔ اتنے سالوں سے وہ جو جو کارروائیاں اور جو جو بکواس اِس سلسلہ کے اورمیرے خلا ف کرتے رہے ہیں میں جانتا اور سنتا ہوں مگر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بہت چالاک ہیں اور ہماری ان باتوں کاکسی کو علم بھی نہیں ہوسکتا اور اگر کبھی پتہ لگ جائے کہ ان کی کسی بات کا مجھے علم ہوگیا ہے اور میں خاموش رہوں تو سمجھتے ہیں کہ یہ ڈر گیا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مَیں اِن سے ڈرتا نہیں ہوں اور ان کے پاس ہے ہی کیا جس سے میں ڈروں۔ کیا ان کے پاس پیغامیوں سے زیادہ طاقت ہے؟اورجب میں ان پیغامیوں سے نہ ڈرا تو ان کی ذرّیت سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ پھر میرا خاموش رہنا عدمِ علم کی وجہ سے بھی نہیں ہوتا۔ مجھے ایک ایک بات کی رپورٹ پہنچتی ہے اور جن کے سامنے وہ باتیں کرتے ہیں وہ کون سے چُھپاتے ہیں۔ مثلاً پیغامی ہی ہیں وہ ایسے لوگوں کی باتوں کو کب چُھپاتے ہیں۔
پرسوں ہی ایک عزیز کا خط مجھے آیا۔ وہ مجھے لکھتے ہیں کہ میں ریل میں سوار تھا اور فلاںپیغامی بھی وہیں بیٹھے تھے ۔ اس پیغامی کو یہ معلوم نہ تھا کہ میں کون ہوںوہ کہنے لگا دیکھو قادیان کے فلاں فلاں آدمی کتنے مخلص سمجھے جاتے ہیں مگر ہم لوگ جب جاتے ہیں تو وہ ہم سے ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں ۔ اس عزیز کیلئے یہی بات اچنبھا تھی مگر میرے لئے نہیں۔ میں ان میں سے بعض کے متعلق دس دس سال سے جانتا ہوں ۔ بعض کے متعلق دو سال اور بعض کے متعلق ایک سال سے مجھے علم ہے۔ مگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی چالاکی سے گزارہ کررہے ہیں حالانکہ ان کا گزارہ صرف مومنانہ عفو اور درگزر سے ہے ورنہ خداتعالیٰ کے فضل سے مجھے آج سے دس سال ، چار سال ، دو سال ، ایک سال اور اگر وہ حدیث العہد ہیں تو چھ ماہ قبل بھی توفیق تھی کہ ان کوکان سے پکڑ کر باہر نکال دوں اور آج بھی اگر وہ پکڑے جائیں توقسمیں کھائیں گے کہ یہ سراسر اتہام ہے، بُہتان ہے۔ مگر اب وہ سمجھتے ہیں کہ بڑے بہادر ہیں اور میں ان سے ڈرتا ہوں یا وہ بڑے چالاک اور ہوشیارہیں اورمجھے ان کا علم نہیں۔ ان کی مثال اُس کبوتر کی سی ہے جس پر جب بلی حملہ کرتی ہے تو وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتا اور سمجھتا ہے کہ اب وہ مجھے دیکھ نہیں سکتی۔
یہاں ایک بیچارہ آدمی تھا جس کی عقل میں فتور آگیا تھا اور چونکہ ہم زمانۂ الہام کے بالکل قریب ہیں اس لئے احمدیوں میں سے اگر کسی کا دماغ خراب ہو تو وہ نبوت یا مأموریت کا دعویٰ کرتا ہے۔ جیسے رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بہت سے جھوٹے مدعیانِ نبوت کھڑے ہوئے تھے۔ آجکل غیراحمدی اعتراض کرتے ہیں کہ مدعیانِ نبوت و ماموریت احمدیوں میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔ مگر نادانوں کو نظر نہیں آتا کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی مسلمانوں میں سے ہی ایسے لوگ پید اہوتے تھے۔ یہ تو ہماری صداقت کی علامت ہے۔
قرآن کریم بتاتا ہے کہ جب بارش کا پانی اترتا ہے تو اچھے اور بُرے دونوں قسم کے پودے اس سے نشوو نما پاتے ہیں۔ اسی طرح جب الہام کا پانی اترتا ہے تو آسمانی ترقی کے متعلق جو حرصیں اور آرزوئیں ہوتی ہیں وہ دعوئوں کی شکل میں نمودار ہوتی ہیں۔ ایک ہی پانی سے انگور میٹھا اور حنظل کڑوا ہوتا ہے۔ اسی سے کھمب تریاقی صفت ہوتی ہے اور پدبہیڑا زہریلا۔ الٰہی کلام بھی پانی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ جِس پر گرتاہے اُس کی مخفی استعدادوں کو ظاہر کردیتا ہے۔ جس طرح بارش کا پانی جب انگور پر پڑتا ہے تو اسے زیادہ میٹھا کردیتا ہے اور کھٹے پر پڑتا ہے تو اسے زیادہ کھٹا بنادیتا ہے۔ وہ گیہوں پر گرتا ہے تو اسے زیادہ موٹا کرتا ہے اور جَو پر گرتا ہے تو اسے بھی موٹا کرتا ہے۔ وہ صرف نشوونما دیتا اور خفیہ طاقتوں کو بیدار کرتا ہے۔ جہاں خفیہ طاقتیں بُری ہوں وہاں وہ اُن کواُبھارتا ہے اور جہاں اچھی ہوں وہاں اُن کو اُبھارتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ قرآن کریم کا نتیجہ تھے۔ مگر کیا اس میں بھی کوئی شبہ ہے کہ ابوجہل بھی قرآن کریم کا ہی نتیجہ تھا۔ اگر قرآن کریم نے ایک طرف محمد رسول اللہ ﷺ کی طاقتوں کو اُبھار کر آپ کو خاتم النبیّٖن بنادیا تو دوسری طرف بُری طاقتوں کو اُبھارکر ابوالحکم کو ابوجہل بنادیا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم فرماتا ہے یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا۳؎۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن کریم بری باتیں سکھاتا ہے بلکہ یہ ہے کہ اِس کی مثال پانی کی ہے جو تھوہر کو بھی اور انگور کو بھی نشوو نما بخشتا ہے۔ پانی تو صاف ہوتا ہے مگر اس کا کام خفیہ طاقتوں کو بیدار کرنا ہوتا ہے جو اندر ہو وہ باہر آجاتا ہے ۔ اسی لئے قرآن کریم کا نام البیان بھی رکھا گیا ہے۴؎۔ کیونکہ وہ ظاہر کردیتا ہے ۔
تو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی ایسی مخفی طاقتوں والے لوگ مدعی بن کر کھڑے ہوئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی جن کے دلوںمیں مخفی کبر یا ریاء تھا ان پر جب الہام کا پانی گرا تو وہ دعوے کرنے لگے۔ اسی قسم کا ایک مریض یہاںپچھلے دنوں آیا تھا۔ میں نے سنا ہے بعض لوگ اس کی طرف منسوب کرکے باتیں میرے متعلق کہتے تھے جو مجھ تک پہنچتی تھیں۔ میں نے سمجھ لیا کہ ضرور کوئی بات ہے اور شاید یہی لوگ اُس کویوں کہتے ہیں۔ آخر اُس کا ایک بھائی میرے پاس آیا اور اُس نے بتایا کہ میں نے اسے کہا تھا کہ تمہارے دماغ میں نقص ہے تمہیں چاہئے کہ سوچو اور غور کرو اور ایسی باتیں نہ کرو ۔ تو اُس نے جواب دیا کہ تم تومجھے یہ کہتے ہو مگر قادیان کے بعض بڑے بڑے آدمی مجھے یوں کہتے ہیں کہ تمہیں کوئی جنون وغیرہ نہیں تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔ میں نے کہا اس نے ایک فلاں شخص کا نام لیا ہوگا اور اُس نے اقرار کیا کہ ہاں۔ دوسرا نام بھی میں لینا چاہتا تھا مگر اِخفاء سے کام لیا اور وہ اس نے خود ہی لے دیا۔ تب میں نے کہا کہ میں یہ نام لینا چاہتا تھا مگر مصلحتاً خاموش رہا تھاسو یہ نہیں کہ مجھے علم نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ تو اس لئے خاموش ہوجاتا ہوں کہ ثبوت اِس حد تک نہیں ہوتا کہ جس کی موجودگی میں شریعت گرفت کی اجازت دیتی ہے اور بعض دفعہ اِس لئے خاموش رہتا ہوں کہ شاید اللہ تعالیٰ ہدایت دے دے۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ منافق کو ہدایت بہت کم ملتی ہے مگر پھر بھی سَو میں سے دس ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جن کو ہدایت نصیب ہوگئی۔گو اب میری رائے یہی ہوتی جارہی ہے کہ منافقوں کو زیادہ ڈھیل دینا شاید اورمنافق پیدا کرنے کا موجب ہو۔ کیونکہ جب ایک منافق نکلتا ہے تو وہ کوئی نہ کوئی بیج چھوڑ جاتا ہے جو اپنے وقت پر پودا پیدا کرنا شروع کردیتا ہے۔ لیکن اس کا علاج میں اب تک نہیں سوچ سکا کہ شریعت جب تک سزا کی اجازت نہیں دیتی اُس وقت تک کیا کِیا جائے۔ کیونکہ ایسے ثبوت سے پہلے اگر سزا دی جائے تو ظلم کا راستہ کُھل جاتا ہے۔
بہرحال ایسے لوگ مجھ سے پوشیدہ نہیں ہوتے اور بعض اوقات اللہ تعالیٰ رئویا میں ان کی شکلیں بھی دکھادیتا ہے۔ ایک دفعہ میں اپنے بڑے گھرمیں تھا یعنی جہاں میری بڑی بیوی رہتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی صحن میںرہا کرتے تھے۔ مجھے نیچے گلی میں کچھ کھڑکا معلوم ہؤا اور ایسا القاء ہؤا کہ گویا نیچے منافقین ہیں۔ میں نے نالی کے سوراخ میں سے دیکھا تو معلوم ہؤا کہ کچھ لوگ دیواروں سے لگے کھڑے ہیں اور اندر جھانک کر کچھ دیکھنا چاہتے ہیں یا کان لگا کر سُننا چاہتے ہیں۔ جب اُنہیں معلوم ہؤاکہ میں دیکھ رہا ہوں تو وہ بھاگے ۔ وہ تعداد میں جہاں تک یاد ہے نو تھے۔بھاگتے ہوئے ان میں سے بعض کو میں نے پہچان بھی لیا اور ایک کا علم تو اب تک ہے۔ مگر بعض کے متعلق اللہ تعالیٰ نے عفو سے کام لیا اورمیں اُن کو دیکھ نہ سکا۔ بعضدفعہ اللہ تعالیٰ اس طرح بھی کرتا ہے کہ بعض دفعہ ایک شخص میرے سامنے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر اُس کا اندرونہ کھول دیتا ہے اور مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ اِس پر اِن دنوں نِفاق کی حالت طاری ہے۔ مگر میں خاموش رہتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ شاید اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دے دے۔ لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ منافقوں پر نصیحت کا اثر کم ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو ہوشیار اور ہم کو بیوقوف ، ہمیں مفسد اور اپنے آپ کو مصلح سمجھتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہماری نصیحت اُن پر کیا اثر کرسکتی ہے۔ پھر وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم ان سے ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر فِیْ الْواقعہ ہمارے متعلق علم ہے تو ہمیں نکالتے کیوں نہیں اور جب کسی منافق کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ چونکہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں وہ اپنے دل میں کہتے ہیں وہ کوئی اور بیوقوف ہوگا جس کا علم ہوگیا ہم ایسی ہوشیاری سے کام کرتے ہیں کہ ہمیں پکڑنا آسان نہیں۔
پس میں اُن سے نہیں بلکہ تم لوگوں سے جو مخلص ہو کہتا ہوں کہ غور کرو کیا منافق کوئی نئی قسم کا سر اور نئی قسم کا دل و دماغ لے کر آتا ہے؟ جسمانی لحاظ سے مومن اورمنافق میں کوئی فرق نہیں ہوتا بالکل باریک فرق ہے ُپلِ صراط کی طرح۔ جب انسان ایمان سے ذرا ادھر ہو تو منافق بن جاتا ہے۔ اچھی طرح یاد رکھو کہ جو شخص خداتعالیٰ کیلئے کام کرتا ہے وہ مومن ہے اور جس کے کام میں نفس کی ملونی ہے وہ منافق ہے۔ ایک شخص بہت عبادت گزار اور نیک کام کرنے والا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ خداتعالیٰ کی ڈیوڑھی پر پہنچ جاتا ہے مگر منافقت اُس کے دل کے پردوں میں چُھپی ہوئی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اُسے کوئی کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں نے بڑی خدمت کی مگرمیری کوئی قدر نہیں کی گئی اور اُس کی منافقت ظاہر ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی پہلی حالت میں بھی منافق تھا اور اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ وہ منافق ہے ۔ مگر پہلے اُس کا نفاق ایمان کے لباس میں چُھپا ہؤا تھا۔
رسول کریمﷺ کے زمانہ میں ایک جنگ میں ایک شخص بڑے جوش اور زورکے ساتھ اسلامی لشکر کی طرف سے لڑ رہا تھا۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس نے کسی جہنمی کو روئے زمین پر چلتے پھرتے دیکھنا ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔ صحابہ ؓ اِس بات کو سُن کرحیرت میں پڑ گئے اور بعض نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ اگر اتنی قربانی کرنے والابھی جہنمی ہے تو پھر ہمارا کیا حال ہوگا۔بعض نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کو غلط رپورٹیں پہنچائی گئی ہیں۔ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا افسوس ہے لوگ رسول کریمﷺ کی بات میں شک کرتے ہیںاور میں اس شخص کے ساتھ رہوں گا تا اس کاانجام دیکھ سکوں۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ رہے اور بیان کرتے ہیں کہ اس نے اِس قدر شدید لڑائی کی کہ دشمن کے چھّکے چُھڑادئیے۔ آخر وہ زخمی ہو کرگرا اور شدتِ درد سے کراہ رہا تھا۔ کئی صحابہ ؓ جو نہ جانتے تھے کہ رسول کریم ﷺ نے اس کے متعلق کیا فرمایاہے یا جانتے تو تھے مگر سمجھتے تھے کہ رسول کریمﷺ کو غلط رپورٹیں پہنچائی گئی ہیں، وہ آتے اور اُسے کہتے اَبْشِرْ ِبالْجَنّۃِ تمہیں جنت کی بشارت ہو۔ مگر وہ جواب دیتا کہ اَبْشِرُوْنِیْ بِالنَّارِ مجھے دوزخ کی خبر دو۔ اِس پر وہ صحابہ حیران ہوتے اور کہتے کہ یہ کیا کہہ رہے ہو تم نے اسلام کیلئے اتنی قربانیاںکی ہیں۔ مگر وہ جواب دیتا کہ میں نے اسلام کیلئے کوئی قربانی نہیں کی۔ اِن لوگوں نے میرے بعض رشتہ داروں کو مارا ہؤا تھا اور میں نے ان سے محض ان کا انتقام لیا ہے۔ گویا اُس نے اقرار کر لیا کہ رسول کریمﷺ نے اس کے متعلق جو فرمایا تھا وہ صحیح تھا۔ وہ خدا کیلئے نہیں لڑ رہا تھا اور اس نے خود اقرار کر لیاکہ میں جہنمی ہوں۔ ۵؎
اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کیلئے لڑنے والے اور جنتی کی مثال یہ ہے کہ غزوئہ خیبر میں حضرت علیؓ نے ایک بڑے جنگجو اور زبردست دشمن کو جب زمین پرگرا لیا اور اُسے مارنے لگے تو اُس نے آپ کے منہ پر تُھوک دیا۔ اس پر آپ فوراً الگ ہو کر کھڑے ہو گئے۔ اُس نے کہا آپ نے مجھے اس قدر کوشش سے گرا یا اور جب مجھے مارنے کا وقت آیا تو اُٹھ کر علیحدہ کھڑے ہو گئے۔ آپ پر میری تلوار نے تو کوئی اثر نہ کیا، یہ کیابات ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ جب میں تم سے لڑ رہا تھا تو تمہیں اسلام کا دشمن سمجھ کر لڑتا تھا لیکن جب تم نے مجھ پر تھوکا تو چونکہ مجھے یہ حرکت بُری معلوم ہوئی اور میرے دل میں بغض پیدا ہوگیا۔ میں نے سمجھا کہ اگر اب میں نے تمہیں ماراتو میں خدا کے نزدیک قاتل ٹھہروں گاکیونکہ میرا تم کو قتل کرنا اپنے غصہ کی وجہ سے ہوگا۔۶؎
تو جن لوگوں کے اندر نفاق ہوتا ہے ان کے دل کے اندر ایک چھوٹی سی رگ ہوتی ہے جو دھڑکتی رہتی اور موٹی ہوتی رہتی ہے۔وہ اس کے کان میںکہتی رہتی ہے کہ تُو بڑا آدمی ہے تُو نے بہت قربانیاں کی ہیں مگر تیری قدر نہیں کی جاتی۔ مگر مومن کے اندر ایک رگ ہوتی ہے۔ جو اُسے کہتی رہتی ہے کہ دیکھ تُو کتنا ذلیل تھا، کمزور تھا، بے سروسامان تھا مگر اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل ہے کہ اُس نے تجھے بھی خدمت کا موقع دے دیا۔ اور جب لوگ اُسے آگے کرتے ہیں تو وہ شرمندہ ہو کر جُھک جاتا اور کہتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ہی کیا جو کچھ کیا یہ میرا کام نہیں ہے۔ پھرلوگ مجھے کیوں آگے کرتے ہیں، میں نے تو کوئی کام نہیں کیا۔
پس مومن اور منافق میں نمایاں فرق یہی ہوتا ہے ورنہ منافق کے سر پر سینگ نہیں ہوتے۔ منافق اگر کوئی کام کرتا ہے تو اُسے خیال ہوتا ہے کہ میری قدر ہونی چاہیے مگر مومن کوئی کام کرے تو اس کی ندامت بڑھتی اور شرمندگی ترقی کرتی ہے۔ وہ جُوں جُوں اُونچا ہوتا ہے خدا کا جلال اسے زیادہ نظر آتا ہے مگر منافق اپنے آپ کو بڑا اورخدا کے جلال کو چھوٹا سمجھتا ہے ۔ منافق اورمومن کی مثال یوں سمجھ لو کہ دو شخص ہوائی جہاز میں بیٹھے ہیں۔ مومن اونچا ہوتا جاتا ہے اور اسے سورج بڑا اور زمین چھوٹی نظر آتی ہے مگر منافق نیچا ہوتا جاتااور اسے سورج چھوٹا اور زمین بڑی نظر آتی ہے۔ بس یہی فرق دونوں میں ہوتا ہے۔ ورنہ نمازیںمنافق بھی پڑھتا ہے اور مومن بھی۔ روزے دونوں رکھتے ہیں، حج دونوں کرتے ہیں، قرآن کریم کی تلاوت دونوں کرتے ہیں ،صدقہ و خیرات بھی دونوں کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ منافق کے اندر بڑائی اور کبر ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے میں ہی بڑا ہوں، وہ اپنی عزت چاہتا ہے ۔ لیکن مومن خدا کی عزت چاہتا ہے۔ خداتعالیٰ بھی منافق کی نظروں میں ہی اس کے نفس کو بڑا اور مومن کی نگاہ میں اس کے نفس کو چھوٹا کرکے دکھاتا ہے۔ خداتعالیٰ پرکامل ایمان روشنی ہے اور نفس ایک سیاہی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ دل پر ایک سیاہ داغ ہوتا ہے جو شخص نیک کام کرے اُس کی سیاہی گھٹتی اور سفیدی بڑھتی جاتی ہے حتیٰ کہ سارا دل اُس کا سفید ہوجاتا ہے۔ لیکن جو ریاء سے کام لیتا ہے اور کبر پسند ہوتا ہے، اُس کے دل کی سفیدی کم ہوتی اور سیاہی بڑھتی جاتی ہے حتیٰ کہ اس کاتمام دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ ۷؎ تم جو منافق نہیں ہو یہ مت سمجھو کہ تم نِفاق کے خطرہ سے محفوظ ہو۔ مسلمانوں پرزوال اِسی وجہ سے آیا کہ ان میں کروڑوں منافق بن گئے۔ وہ اسلام کا دعویٰ تو بے شک کرتے تھے مگر حقیقی محبت اسلام باقی نہیں رہی تھی۔ وہ اپنے نفسوں کو مقدم کرنے لگے اور اُن کے دِلوں میں عُجب اور کبر آگیا۔ ایسے لوگ اپنے آپ کو خواہ کتنا بڑا کیوں نہ سمجھیںاللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کشف ہے۔ آپ فرماتے ہیں مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ ایک بڑی لمبی نالی ہے جو کئی کوس تک چلی جاتی ہے اور اس نالی پر ہزارہا بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں۔ اس طرح پر کہ بھیڑوں کا سر نالی کے کنارہ پر ہے، اس غرض سے کہ تا ذبح کرتے وقت ان کا خون نالی میں پڑے اور باقی حصہ ان کے وجود کا نالی سے باہر ہے اور نالی شرقاً غرباً واقع ہے اور بھیڑوں کے سر نالی پر جنوب کی طرف رکھے گئے ہیں اور ہر ایک بھیڑ پر ایک قصاب بیٹھا ہے۔ اور ان تمام قصابوں کے ہاتھ میں ایک ایک چُھری ہے جو ہر ایک بھیڑ کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے گویا خداتعالیٰ کی اجازت کے منتظر ہیں اور میں اس میدان میںشمال کی طرف پھر رہا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ جو دراصل فرشتے ہیں، بھیڑوں کو ذبح کرنے کیلئے مستعد بیٹھے ہیں محض آسمانی اجازت کی انتظار ہے اور تب مَیں ان کے نزدیک گیا اور میں نے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَا ئُ کُمْ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پرواہ کیا رکھتا ہے۔ اگر تم اس کی پرستش نہ کرو اور اس کے حکموں کو نہ سنو اور میرا یہ کہنا ہی تھا کہ فرشتوں نے سمجھ لیا کہ ہمیں اجازت ہوگئی ۔ گویا میرے منہ کے لفظ خدا کے لفظ تھے۔ تب فرشتوں نے جو قصابوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے فِی الْفور اپنی بھیڑوں پر چُھریاں پھیر دیں اور چُھریوں کے لگنے سے بھیڑوں نے ایک دردناک طور پر تڑپنا شروع کیا۔ تب ان فرشتوں نے سختی سے ان بھیڑوں کی گردن کی تمام رگیں کاٹ دیں اور کہا کہ تم چیز کیا ہو گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔۸؎
جو شخص خود عجز اور انکساری دکھاتا ہے اور خدا کیلئے بڑی سے بڑی ذلت برداشت کرنے کیلئے تیار رہتا ہے، اُس کیلئے دنیا بھی موتی اور ہیرے بن جاتی ہے۔ مگر جو اپنے لئے دنیا کی طرف جھکتا اور بڑائی دکھاتا ہے وہ اس کیلئے گوہ بن جاتی ہے اس لئے کہ وہ خدا کا مال ہے اور جو خدا کا نہیں، خدا کے مال پر اس کاکوئی حق نہیں۔ دنیا اگر مومن کے پاس ہو تو وہ چونکہ خدا کا بندہ ہے وہ اس کیلئے حلال طیب بن جاتی ہے اور منافق کے پاس ہو تو چونکہ اس کیلئے حرام ہوتی ہے وہ اس کیلئے نجاست بن جاتی ہے کیونکہ وہ خدا کا مال ہے جس پر منافق کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ وہ ایک کو انسان بنادیتی ہے اور دوسرے کو گوہ کھانے والی بھیڑ۔ جب وہ سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں اُس وقت وہ گو ہ کھانے والی بھیڑ ہے اور جب اپنے نفس کو مٹادیتا ہے اُس وقت وہ خدا کا سپاہی بنتا ہے اور خداتعالیٰ اُس کے ہاتھ پائوں، آنکھ، کان، ناک ہوجاتا ہے۔ وہ خدا کا مظہرہے اِس لئے خدا کی چیزیں اُس کیلئے حلال اور طیب ہو جاتی ہیں لیکن جب وہ اپنا ایک الگ وجود بتاتا ہے تو وہ غیر ہوجاتا ہے اور غیر کو خداتعالیٰ کے مال پر کوئی حق نہیں۔
پس اپنے نفسوں کو ٹٹولو اور دیکھو کہ تمہاری قربانیاں اپنے نفس کیلئے تو نہیں۔ اگر تم کسی عزت کے طالب ہو، اگر معاوضہ کے خواہاں ہو تو تم گوہ کھانے والی بھیڑیں ہو۔ لیکن اگر تم نمازیں پڑھتے، چندے دیتے اور قومی کام کرتے ہو اور ہر کام کے بعد تم دیکھتے ہو کہ تمہارا نفس اور بھی چھوٹا ہوگیا ہے یہاں تک کہ ایک دن آتا ہے کہ تم اپنے آپ کو دیکھ ہی نہیں سکتے، تمہارا وجود مٹ جاتا ہے تو تم بیشک مومن ہو۔ بعض لوگ بڑے حیران ہوتے ہیں کہ فلاں شخص بڑا عالم ہے، نمازیں پڑھتا اور روزے رکھتا ہے وہ منافق کیسے ہوسکتا ہے۔ حالانکہ منافق اُسے نہیں کہتے جو نمازیں نہ پڑھے یا روزے نہ رکھے بلکہ منافق وہ ہے جو کام اپنے نفس کیلئے کرتا ہے اور پھر چیختا اور شور مچاتا ہے کہ میری قدر نہیں کی گئی ۔اگر کہو کہ کس طرح پتہ لگے کہ کوئی شخص ذاتی عزت کا خواہاں ہے تو اِس کا طریق آسان ہے۔ تم دیکھو کہ جب وہ ایک جماعت میں شامل ہے اور پھر اس پر اعتراض بھی کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ ذاتی عزت چاہتا ہے۔ دراصل جماعت میں خرابی نہیں۔ اگر فِی الْواقعہ جماعت میںخرابی ہوتی تو وہ اس میں شامل ہی کیوں رہتا۔ اگر جماعت کو ہی وہ بُرا سمجھتا ہے تو اس سے الگ کیوں نہیں ہوجاتا۔ شامل رہنے اور پھر اعتراض کرنے کامطلب یہی ہے کہ اگر میں لیڈر ہوتا تو پھر یہ جماعت اچھی تھی۔ اس کافعل ہی دلالت کرتاہے کہ وہ عزت کا بھوکا ہے اور اگر وہ کہتا ہے کہ مجھے عزت کی ضرورت نہیں تو وہ جھوٹ بولتا ہے۔ کیونکہ اُس کا عمل اُس کے قول کو ردّ کررہا ہوتا ہے۔ وہ یقینا عزت کا خواہشمند ہے اور یہی خواہش اسے ذلیل کرتی جاتی ہے۔
پس میں نے ایک کُھلا معیار بتادیا ہے۔اگر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری قربانی کی پرواہ نہیں کی گئی تو یاد رکھو کہ جس دن تمہارے اندر یہ خیال پیدا ہؤا اُسی دن سے تمہارے اندر نِفاق کی رگ پیدا ہوگئی۔ ایسے شخص کو میں منافق تو نہیں کہتا لیکن نفاق کی رگ اس میں ضرور ہے۔ کئی ہیں جو کسی سے لڑتے ہیں تو شکایت کرتے ہیں کہ جماعت ہماری مدد نہیں کرتی۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے سلسلہ کی کوئی خدمت کی تھی۔ لیکن اگر تم اسے خدا کا کام سمجھتے ہو تو پھر تمہارا کیا حق ہے کہ اس کے معاوضہ کی اُمید رکھو۔ کئی لوگوں کو اِس بات پر ابتلاء آجاتا ہے کہ فلاں شخص کو پریذیڈنٹ یا سیکرٹری یا امام الصلوٰۃ کیوں بنادیا گیا۔
میں نے یہ ایک ایسا معیار بتادیا ہے کہ اگر تم اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے نفسوں کو ٹٹولتے رہو تو نِفاق سے بچ سکتے ہو۔ جب تمہارے دل میں عُجب، بڑائی اور کبرپیدا ہو، جب یہ خیال پیدا ہو کہ تمہارے ساتھ، تمہاری اولاد کے ساتھ، تمہارے بھائیوں کے ساتھ اور دوستوں کے ساتھ ایسا کیوں کیاگیا تو سمجھ لو کہ یہ نِفاق ہے۔ جب اِس سلسلہ کو خدائی سلسلہ سمجھتے ہو اور جماعت میں کوئی نقص دیکھتے ہو تو سمجھ لو کہ خدا خود ذمہ دار ہے تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جو فعل بادشاہ کے سامنے ہؤا ہو کیا اُس کی طرف بادشاہ کو توجہ دلانے کی ضرورت ہوتی ہے ؟وہ اگر ضرورت سمجھے تو خود ہی دخل دیتا ہے۔ پس تم بھی یہی سمجھو کہ اگر کوئی بات دخل دینے کے قابل ہے تو ہمارا خدا زندہ ہے اور وہ سب کچھ دیکھتا ہے وہ خود دخل دے گا۔ اگر نہیں دیتا تو سمجھ لوکہ دخل دینے کی ضرورت نہ تھی۔ پس ایمان کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ یہ زندگی ہے کتنے دن کی۔ اگرکوئی شخص یہ چند روز بھی صبر کے ساتھ نہیں گزار سکتا تو وہ کس طرح توقع کرسکتاہے کہ اسے ایک نہ ختم ہونیو الی زندگی دے دی جائے۔ وہ اَنْ گنت سالوں کی زندگی حاصل کرنا چاہتا ہے مگر دو یا چار سال صبر سے نہیں گزارسکتا۔
میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر انسانی زندگی پانچ ، سات سَو بلکہ ہزار سال کی بھی ہوتی اور یہ تکالیف میں بسر ہوتی تو وہ تکالیف بھی آخرت کے آرام کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہ رکھتیں۔لیکن یہ زندگی تو ہے ہی بہت محدود۔ اس کی تکالیف اور بے عزتی کی حقیقت ہی کیا ہے اصل عزت خداتعالیٰ کے سلسلہ کی ہے۔اگر اس کیلئے ہمیں اپنی عزت کی قربانی کرنی پڑے تو ہمیں اپنی عزت اِسی میں سمجھنی چاہئے اور سلسلہ کیلئے ہر قربانی پیش کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ خصوصیت سے اِس وقت یہ بات میں نے اس لئے کہی ہے کہ چند دنوں میں دو رئویا ایسے ہوئے ہیں جو جماعت کو اس طرف توجہ دلانے والے ہیں۔
ایک رئویا تو ہمارے خاندان سے باہر کے ایک دوست نے دیکھا ہے۔ اس نے رئویا میں رسول کریم ﷺ کو دیکھا ہے۔ آپ لوگوں سے کچھ فرماتے ہیں جس کامطلب یہ ہے کہ دجالی فتنہ سے بچنے کی تم کو نصیحت کی گئی تھی۔ دوسرا رئویا میری ہمشیرہ نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک تخت پر کھڑے ہیں جو کانپ رہا ہے اور آپ لوگوں سے فرماتے ہیں کہ پندرہ بیس روز یہ دعا کرو رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا اور متفرق مقامات کے متفرق اشخاص کے یہ خواب بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے ایمانوں کو صدمہ سے بچانا چاہتا ہے اوربعض کے ایمانوں کو خطرہ سے محفوظ رکھنا چاہتاہے اور یہ تینوں مقام ایسے نہیں کہ ان کو غفلت سے گزاردیا جائے۔ اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ مومن اور منافق کا فرق دوستوں کو بتادوں۔ تا اگر وہ اپنے ایمانوں کو بچانا چاہیں تو بچالیں ورنہ ایمان اور نفاق میں بال سے بھی زیادہ باریک فرق ہے جسے انسان سمجھ بھی نہیں سکتا۔ خصوصاً اس زمانہ کیلئے تو پیشگوئیاں بھی بہت سی ہیں۔ مثلاً ایک پیشگوئی یہ ہے کہ یُمْسِیْ مُؤْمِنًا وَ یُصْبِحُ کَافِرًا۔۹؎ یعنی بعض انسان رات کو مومن ہونے کی حالت میں سوئے گا اور صبح اُٹھے گا تو کافر ہوگا۔ یہ زمانہ اِس قدر وساوس اور شُبہات کا ہے کہ ایمان کو بچانا بہت مشکل ہے۔ بیشک قرآن کریم نے اِس زمانہ کی نسبت فرمایا ہے کہ وَاِذَا اِِلْجَنَّۃُ اُزْلِفَت۱۰؎ جنت قریب کردی جائے گی۔ لیکن ساتھ ہی قرآن کریم سے اس زمانہ کا زمانۂ ابتلاء ہونا بھی ثابت ہے۔
پس یہ جو آزادی کا زمانہ ہے اِس میں ہر وقت تم نفاق کے دروازہ پر کھڑے ہو۔ تمہیں چاہئے کہ ہر وقت اپنے ایمان کی فکر کرتے رہو اور اس کا طریق بھی میں نے بتادیا ہے۔ اگر چاہو تو اس سے فائدہ اُٹھا کر اپنے ایمانوں کو بچاسکتے ہو ورنہ منافقت کا دروازہ بالکل قریب ہے اور ایک ہی دھکے میں تم اس کے اندر جاسکتے ہو۔
(الفضل ۲۸؍ اپریل ۱۹۳۷ئ)
۱؎ البقرۃ:۱۲ ۲؎ ا لبقرۃ: ۱۳ ۳؎ البقرۃ: ۲۷
۴؎ اٰلِ عمران: ۱۳۹ ۵؎ الرحمن: بخاری کتاب القدر باب العمل بالجواتیم (مفہوما)
۶؎
۷؎ ابن ماجہ کتاب الزھد۔ باب ذکر الذنوب
۸؎ تذکرہ صفحہ ۱۸،۱۹۔ ایڈیشن چہارم
۹؎ مسلم کتاب الایمان باب الحث علی المبادرۃ بالاعمال
۱۰؎ التکویر: ۱۴

۱۳
جھوٹ اور نِفاق کے تمام شعبوں سے پرہیز رکھنا چاہئے
(فرمودہ ۳۰؍اپریل ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
انسانی زندگی میں یہ عجیب بات نظر آتی ہے کہ ایک طرف تو انسان بڑے دعوے سے یہ بات پیش کرتا ہے کہ بھلا میں بیوقوف یا پاگل تھا کہ فلاں بات کرتا۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ جان بوجھ کر کوئی شخص غلط طریق اختیار نہیں کرتا۔ دوسری طرف وہی انسان بعض دفعہ غلط طریقہ اختیار کرتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ اُس کا طریق غلط ہے۔ کیونکہ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ بے بس تھا اور اس کا بس نہ چلتا تھا اس واسطے اس نے ایسا کیا۔ وہی آدمی ہوتا ہے ، وہی اُس کی طاقتیں ہوتی ہیں، وہی اس کے حالات ہوتے ہیں لیکن اُس کی زبان پر ایک وقت یہ فقرہ ہوتا ہے کہ کیا میں پاگل تھا کہ ایسا کرتا۔ اور پھر اُس کی زبان پر یہ فقرہ ہوتا ہے کہ وہ بے بس تھا اِس واسطے ایسا ہوگیا۔ اب ان دونوں باتوں میں سے ایک ضرور غلط ہوتی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں ہی غلط ہوں۔ جب وہ یہ کہتا تھا کہ اس کے بس میں نہ تھا حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اُس نے اپنے بس کو اور طاقت کو استعمال کرناپسند نہ کیا تھا۔ یا جب وہ یہ کہتا ہے کہ کیا میں پاگل تھا کہ ایسا کرتا، اُس وقت وہ اپنے علم کا غلط فائدہ اُٹھارہا ہوتا ہے۔ درحقیقت وہ جانتا ہے کہ میں نے ایسا کام کیا ہے لیکن اپنے سمجھدار ہونے کی چادر میں اپنے عیب کو چُھپانے لگ جاتا ہے۔ گویا وہ جب کہتا ہے کہ کیا میں پاگل تھااُس وقت بھی جھوٹ بولتا ہے اور جب کہتا ہے کہ میں بے بس تھااُس وقت بھی بے بس نہیں ہوتا ۔ جب ہم انسانی اعمال پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں باتیں غلط کہہ رہا ہوتا ہے۔ یا کم سے کم ایک آسان طریق اس کو مجرم بنانے کا یہ ہوتا ہے کہ اُس کے دعوے کو ہی اُس کے سامنے پیش کردیا جائے تو وہ شرمندہ ہوجاتا ہے۔
اب اسی سے پوچھنا چاہئے کہ فلاں موقع پر تو تم نے کہا تھا کہ کیا میں پاگل تھا یا بے بس تھا کہ ایسا کرتا اور اب کہتے ہو کہ بے بس تھا۔ ان دونوں میں سے کونسا دعویٰ صحیح تھا؟ اگر یہ فقرہ درست ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جب تک کہ اس کا علم اور عقل تسلی نہیں پائیں گے تو پھر یہ درست نہیں کہ وہ بعض افعال کے ارتکاب میں بے بس تھا۔ کیونکہ بے بس ہونے کے یہ معنے ہیں کہ یہ جانتا تو تھا لیکن رُک نہیں سکتا تھا۔ پس دونوں چیزیں ایک وقت میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ جو شخص ایمان اور عقل کے خلاف نہیں کرتا وہ بے بس نہیں ہوجاتا اور جو بے بس ہوجاتا ہے وہ اپنے ایمان اور عقل کے خلاف باتیں بھی کرلیتا ہے۔ جو کہتا ہے کہ میں بے بس تھا وہ اقرار کرتا ہے کہ میں کبھی علم، ایمان اور عقل کے خلاف بھی باتیں کرسکتا ہوں کیونکہ مجبور ہوجاتا ہوں۔ اور جو یہ کہتا ہے کہ وہ اپنی عقل اور ایمان کے خلاف بات نہیں کرسکتا اُس کا اپنے آپ کو بے بس کہنا جھوٹ ہوتا ہے۔ کیونکہ جب وہ اپنی مرضی کے خلاف کام نہ کرنے پر قادر ہے تو بے بس کس طرح ہوسکتا ہے۔ اصل میں یہ دو بہانے ہیں جن سے انسان اپنے جُرم کو چُھپاتا ہے۔ جب یہ خدا کے ، اپنے ملک کے اور اپنے نفس کے فرائض کو ادا نہیں کرتا لیکن ساتھ ہی سمجھتا ہے کہ کوئی میرا جُرم ثابت نہیں کرسکتا تو کہہ دیتا ہے کیا میں پاگل تھا کہ یہ کام کرتا اورجب وہ سمجھتا ہے کہ میرا جرم ناقابلِ انکار حد تک ثابت ہے اور میں بہانوں سے اسے چُھپا نہیں سکتا تو کہتا ہے کہ میں کیا کروں، میں بے بس تھا۔غرض دونوں عُذر مختلف جگہوں پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ جب جُرم ثابت ہو تو بے بس ہونے کا اور جب ثبوت مشکل ہو تو کہتا تھا کہ میںپاگل تھا کہ ایسا کرتا۔ ان دونوں عُذروں کی وجہ سے ہم سُستی اور غفلت میں روز بروز بڑھتے جاتے ہیں۔
رسول کریمﷺ کے پاس ایک شخص آیا جس میں کئی عیب تھے۔ اس نے آپ سے درخواست کی اور نجات کا طریق دریافت کیا۔اِس پر حضور ﷺ نے فرمایاکہ کچھ تم کوشش کرو کچھ میں دعا کرتا ہوں۔ تم یہ کرو کہ اپنے پانچ عیوب میں سے ایک کو چھوڑ دو۔اور میں دعا کروں گا جس کانتیجہ یہ ہو گا کہ خدا تمہیں باقیوں کے چھوڑنے کی بھی توفیق دے دے گا۔ اُس نے دریافت کیاکہ وہ کس کو چھوڑ دے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جھوٹ نہ بولو اور ساتھ ہی اسے فرمایا کہ وہ حضور ﷺ سے ملتا رہے۔ اُس شخص نے وعدہ کیا اور چلا گیا۔ کچھ عرصہ بعد جب اُس کے دل میں ایک عیب کے ارتکاب کی خواہش پیدا ہوئی تو جھٹ اسے خیال آیاکہ رسول کریمﷺ نے یا کسی دوست نے پوچھا تو کیا جواب دوں گا۔ لہٰذا اُس کا ارادہ ترک کر دیا۔کچھ وقفہ کے بعد دوسرے عیب کا خیال پیدا ہؤا۔ پھر جھٹ یہ امر سامنے آگیاکہ اگر رسول کریم ﷺ یا کسی دوست نے دریافت کیا تو کیا جواب دوں گا کیونکہ جھوٹ تو بولنا نہیں۔بِالآخر یہ فیصلہ کیا کہ اس عیب کا ارتکاب نہیں کروں گا۔ حتیٰ کہ چاروں عیبوں کے کرنے کا باری باری خیال پیدا ہؤا اور اِسی خیال کے آنے سے کہ اگر رسول کریم ﷺ نے یا کسی دوست نے پوچھا تو کیا جواب دوں گا، سب کا ارادہ ترک کردیا اور اُسی دن وہ اِن عیبوں سے محفوظ رہا۔ اِسی طرح کئی دن گزرگئے اور ہر روز اُس کی اِن عیوب سے بچنے کی طاقت بڑھتی گئی اور جب رسول کریمﷺ نے اُس کو بلایا تو اس نے حاضر ہوکر عرض کیا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اس خیال سے کہ کسی کے دریافت کرنے پر اپنے عیب کا اقرار کرتے ہوئے سچ بولنے میں شرمندگی ہوگی میں نے اِس وقت تک یہ عیب نہیں کئے اوراب میں پانچوں عیبوں کے چھوڑنے پر قادر ہوں۔ ۱؎ غرض جھوٹ کے چھوڑنے سے یہ طاقت اس کے اندر پیدا ہوگئی۔
یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے جُرم کو چھپاتا ہے یا دوسرے کو مرعوب کرنا چاہتا ہے تو جیسے عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب ان سے کسی ایسے امرکے متعلق دریافت کیا جائے جس میں ان کا قصور ہو تو جھٹ شور مچادیتی ہیں ، رونے لگ جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ان پر یونہی بدظنی کی جاتی ہے۔ یہی حالت چالاک مردوں کی بھی ہوتی ہے۔ وہ اِس بات کی طرف آتے ہی نہیں۔ یہ طریق ایسے لوگوں سے ہی ظاہر ہوتا ہے جو دل میں سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بُرا ہے لیکن سچ بولنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی۔ وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے ہیں تا کہ ان سے اس بارہ میں دریافت نہ کیاجائے لیکن جب اُن کو اس بات کے بتلانے پر مجبور کیا جائے تو آخر وہ جھوٹ بول دیتے ہیں ۔ بچوں کابھی قاعدہ ہے کہ جب ان سے کوئی بات دریافت کی جائے تو جھٹ وہ اور سوال شروع کردیتے ہیں۔ مثلاً اگر یہ دریافت کیا جائے کہ وہ کیوں مٹی میں کھیلتے رہے؟ تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ بُھوک لگی ہے۔ گویا وہ چاہتے ہیں کہ بات کو دوسری طرف پلٹا کر جُرم پر پردہ ڈال دیں۔
جب کوئی انسان یہ ارادہ کرے کہ اُس نے ہمت سے کام کرنا ہے اور اپنے فرائض کو سمجھنا ہے تو ایسے انسان کو جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیونکہ جو کام کرتا ہے اُسے بہانوں کی ضرورت نہیں ہؤا کرتی۔ اِس قسم کے عذرات کی عادت جرائم کی محبت سے پید اہوتی ہے اور انسان چاہتا ہے کہ ان جرائم میں روک نہ پیدا ہو۔ ہاں کچھ ایمان کی چاشنی بھی ہوتی ہے ۔ کیونکہ اگر ایمان کی چاشنی نہ ہو تو دھڑلے سے جھوٹ بولے۔ ایمان اس سے یہ کہتا ہے کہ اگر سچ بولنے سے بچ سکو تو فَبِہَا اور کفر کہتا ہے کہ نہ بچ سکو تو پھر جھوٹ ہی بول دو۔ ہمارے بعض آدمی چائے میں میٹھا اورنمک ڈال لیتے ہیں اور اس کانام سنگترہ چائے رکھتے ہیں۔ میں تو اسے منافق چائے کہا کرتا ہوں۔ ایسے لوگوں کی حالت بھی اس ملی ہوئی مٹھاس اورنمک کی سی ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ مرض ایسا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ احمدیوں کو چھوڑ کر باقی لوگوں میں ننانوے فیصدی پایا جاتا ہے۔ احمدی جو غیرتعلیم یافتہ ہیں ان میں بھی کثیر تعدادمیں پایا جاتا ہے۔ وہ اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہی چیز قومی تباہی کا موجب ہؤا کرتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو کامل بنانے کی کوشش نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ بغیر کامل بننے کے بری ہوجائیں۔ لیکن جب کوئی شخص اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ سچ بولے تو وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ اسے کہیں جھوٹ نہ بولنا پڑے وہ اپنے کیریکٹر کو مضبوط کرتا ہے اور اعزازی کاموں کو بھی خوب تندہی اور کوشش سے کرتا ہے۔ اپنی ہر غلطی کو محسوس کرکے اس پر پچھتاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ آئندہ وہ غلطی اس سے سرزد نہ ہو۔
جھوٹے انسان میں اصلاح کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی جو شخص کامل مومن بننا چاہے اُسے چاہئے کہ جھوٹ اور نفاق سے پرہیز کرے۔ اِس طرح اُس کے تمام عیوب اُس شخص کی طرح آپ ہی آپ دور ہوجائیں گے جو نبی کریم ﷺ کے پاس آیا تھا اور جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں۔
ایک آدمی کا ذکر ہے وہ بازار میں سے گزررہا تھا کہ کیچڑ میں اُس کا پائوں پھسلا تو اُس نے اپنی کمزوری پر پردہ ڈالنے کیلئے بہانہ بنایا اور اونچی آواز سے پکارا کہ ہائے جوانی!۔ لیکن جب اُس نے اِردگِرد دیکھا کہ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا تو اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے کہا جوانی میں تُو کونسا بہادر ہوتا تھا۔ محض ظاہری اخلاق والا انسان ایک اجنبی کو تو دھوکا دے سکتا ہے لیکن واقف کار کو دھوکا نہیں دے سکتا۔
ایک دفعہ ایسا ہؤا کہ میں نانا جان کے ساتھ ریل میں انٹر کلاس میں سفر کررہا تھا ۔ اُن کا طریق تبلیغ کا یہ ہوتا تھا کہ دنیا کے اخلاق کے بِگڑجانے کے واقعات بیان کرکے نصیحت کرتے اور بِالآخر ضرورت مصلح کی طرف آجاتے اور گفتگو اِس طور پر کرتے کہ مجلس پر چھاجاتے اورکسی کو یہ جُرأت نہ ہوتی کہ اُن کی تردید کرسکے یا بات کاٹ سکے۔ اُس وقت بھی انہوں نے اِس طریق پر باتیں شروع کیں۔ اِس پر ایک بوڑھے نے جو ہمارے پاس ہی بیٹھا تھا جھٹ کہنا شروع کردیا کہ ہاں حالات واقعی خراب ہیں اور خود تقریر کرنی شروع کردی اور اس زور شور سے کی کہ ساری مجلس پر سناٹا چھاگیا اور ہر ایک نے اُس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا۔ اس اثناء میں اُس نے جیل کے قیدیوں کی بے شمار مثالیں پیش کیں کیونکہ وہ داروغۂ جیل تھا۔ اتنے میں ٹکٹ کلکٹر اِس کمرہ میں داخل ہؤا۔ جب اُس نے اِس سے ٹکٹ طلب کیا تو اُس نے فوراً اِدھر اُدھر جیبوں میں تلاش کرنا شروع کردیا اور آخر کہہ دیا کہ ٹکٹ تو تھا معلوم نہیں کدھر گیا۔ مگر ٹکٹ کلکٹر وہاں نہ ٹلا اور اسے ٹکٹ نکالنا ہی پڑا جو تھرڈ کلاس کا تھا اِس پر بھولی سی شکل بنا کر کہنے لگا لیجئے ٹکٹ۔ میں جھوٹ تو نہیں کہتا تھا ۔ ٹکٹ کلکٹرنے کہا یہ تو تیسرے درجے کا ٹکٹ ہے اور آپ ڈیوڑھے میں بیٹھے ہیں۔ کہنے لگا اچھا؟ ڈیوڑھا کیا ہوتا ہے؟ گویا وہ یہ جانتا ہی نہیں تھا۔ پھر کہنے لگا کہ وہ درجہ کہاں ہے؟ پھربھولابنتے ہوئے ٹکٹ کلکٹر سے کہنے لگا کہ اچھا پھر میرا ٹرنک اُٹھالو اورمجھے وہاں لے چلو۔ اِس پر ٹکٹ کلکٹر نے خیال کیا کہ بوڑھا بالکل ناواقف ہے اور ایک قلی سے کہا کہ اس بوڑھے کا ٹرنک اُٹھائو اور تیسرے درجے میں بٹھادو۔اس شخص نے ٹکٹ کلکٹر کو دھوکا دے دیا لیکن ہم کو تو دھوکا نہ دے سکتا تھا۔ اِس قسم کا شخص ترقی نہیں کرسکتا کیونکہ اس کے نزدیک لوگوں کودھوکا دینے کا نام کمال ہوتا ہے۔
اگر کوئی شخص لوگوں میں دیانتدار مشہور ہوجائے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ اچھی بات ہے، میری خواہش پوری ہوگئی اب وہ مزید کوئی جدوجہد نہیں کرتا۔ اگر کسی کولوگ پارسا سمجھ لیں تو وہ سمجھتا ہے کہ بس اتنا ہی کافی ہے کیونکہ اس کے نزدیک ذلت سے محفوظ رہنا ہی اصل مقصود ہوتا ہے اور وہ اپنے لئے نیکی کا راستہ بند کرلیتاہے۔ حالانکہ چاہئے یہ کہ وہ خواہ لوگوں میں نیک نام مشہور نہ ہو خداتعالیٰ کی نگاہ میں نیک ہو۔ کیونکہ نیک نامی بڑی نہیں ہوتی بلکہ نیکی بڑی ہوتی ہے۔ اگر پچاس باتوں میں ایک شخص نیک نام پیدا کرے تو یہ کوئی قابل فخر امر نہیں ہے۔ لیکن اگر اسے پانچ نیکیاں حاصل ہوگئیں تو یہ افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ ۲؎ اگر کوئی شخص دوسروں کو بُھول کر اور صرف ہمیں یاد رکھ کر نیکیاں کرتا ہے تو خدا اس کی امداد کرتا ہے۔ لیکن جو محض نیک نام بننا چاہے خدا اُس کی امداد نہیں کرتا۔
پس حقیقی نیکی کی خواہش رکھنی چاہئے کہ خدا کی نظر میں انسان نیک ہے اور اگر ایسی کوشش نہ کرے گا تو اگرچہ لوگوں میں نیک نام ہوگا لیکن اُس کی بدیاں روز بروز بڑھتی چلی جائیں گی۔
(الفضل ۲۰؍ مئی ۱۹۳۷ئ)
۱؎
۲؎ العنکبوت: ۷۰

۱۴
اپنی تمام حرکات خلیفۂ وقت کے احکام کے تابع رکھو
(فرمودہ ۷؍ مئی ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
جو کچھ میں آج جمعہ میں بیان کرنا چاہتا ہوںشاید وہ اس اجتماع کے مناسبِ حال نہیں اور وہ وقت جو اِس وقت میرے پاس ہے وہ بھی اِس مضمون کیلئے کافی نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم میں سے بعضوں نے ریل کے ذریعہ واپس جانا ہے۔ مگر چونکہ سفرمیں میرے پاس اِتنا وقت نہیں ہے کہ مضمون کے ذریعہ قادیان کی جماعت اور بیرونی جماعتوں کو توجہ دلائوں اِس لئے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ خطبہ کے ذریعہ بیان کردوں اور زود نویس جہاں تک اِن سے ہوسکے خطبہ لکھ کر الفضل کو بھجوادیں تاکہ قادیان اور بیرونی جماعتوں کو اطلاع ہوجائے۔
جماعت کے دوستوں کو معلوم ہے کہ ایک عرصہ سے کچھ افراد قادیان میں ایسے آبسے ہیں جن کی غرض محض یہ ہے کہ جماعت میں فتنہ پیدا کریں اور انہوں نے قِسم قِسم کی تدابیر سے بعض مقامی ہندوئوں اور سکھوں کو بھی ملالیا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ قادیان کے سارے کے سارے ہندو اور سکھ اِس میں شامل ہیں۔ ان میں سے بعض اچھے بھی ہیںاور وہ ہم سے تعلقات بھی رکھتے ہیں اور ان کی ایسی حرکات پر اظہارِ ناپسندیدگی کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ ان کو اس بات سے بھی تقویت پہنچ گئی کہ ضلع کے بعض حکام کے مذہبی تعصّب یا سیاسی اختلاف یا کسی ذاتی کمزوری کی وجہ سے جو بعض طبائع میں پائی جاتی ہے اِن کو ایسی فضا میسر آگئی ہے کہ ایسے حکام کو اپنے ساتھ شامل کرکے جماعت کے راستے میں مشکلات پیدا کریں۔دو اڑھائی سال کے اختلاف کے بعد کسی قدر کمی پید اہوئی تھی لیکن مہینہ دو مہینہ سے اِس میں پھر کسی قدر حرکت معلوم ہوتی ہے۔
میں نے بارہا اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُّقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ ۱؎ امام کے بنانے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ڈھال کے طور پرہوتا ہے اور جماعت اس کے پیچھے لڑتی ہے۔ یہ جائز نہیں کہ جماعت کے لوگ خود لڑائی چھیڑ دیں۔ اعلانِ جنگ امام کا کام ہے اور وہ جس امر کے متعلق اعلان کرے جماعت اُس طرف متوجہ ہو۔ مگر کئی دوست نہیں سمجھتے اور جھٹ ہر امر پر اظہارِ خیال کرنے لگ جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات دشمن اس سے چڑ کر شدت سے گالیاں دینے لگ جاتا ہے اور چھوٹی سی بات بہت بڑی بن جاتی ہے اور پھر ساری جماعت اس میں ملوث ہوجاتی ہے۔
ایک عام آدمی جس کو خداتعالیٰ نے اختیار نہیں دیا ہوتا نہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ سلسلہ کی ضرورتیں کیا ہیں نہ اُس کو کسی سکیم کاپتہ ہوتا ہے، نہ دشمن کی چالوں کو سمجھتا ہے، نہ اسے یہ علم ہوتا ہے کہ طاقت کہاں کہاں خرچ کرنی ہے، نہ جماعت کی ضرورتیں اور ترقی کی سکیمیں اُس کے ذہن میں ہوتی ہیں، نہ اس کے علم میں ہوتا ہے کہ خلیفہ کی اس امر کے متعلق کیا تجویزیں ہیں کیونکہ اس کے پاس کوئی رپورٹیں نہیں پہنچتیں اور نہ حالات کا اُس کو علم ہوتا ہے۔ وہ اپنی حماقت سے ایک چِنگاری چھوڑدیتا یا دشمن کی لگائی ہوئی آگ کو اپنی پھونکوں سے روشن کردیتا ہے اور پھر ساری جماعت کو اسے بُجھانا پڑتا ہے۔ خلیفہ کو اپنی سکیمیں پیچھے ڈالنی پڑتی ہیں اور جماعت کی ساری طاقت اس شخص کی بھڑکائی ہوئی آگ کے بجھانے میں صرف ہوجاتی ہے۔
میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے امور میں قطعی طور پر امام کی اتباع کی جائے۔ اب کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو لوگ بیعت میں اقرار کریں کہ ہم آپ کی اطاعت کریں گے اور دوسری طرف اپنی جھوٹی عزت کا خیال کرتے ہوئے اور امام کے اعمال کی حکمت کو نہ سمجھتے ہوئے یہ خیال کریں کہ اگر امام گالی کا جواب نہیں دیتا تو اُس کی بے غیرتی ہے۔ حالانکہ امام خوب سمجھتا ہے کہ فلاں جگہ خاموش رہنا مناسب ہے یا جواب دینا اور وہی خوب سمجھتاہے کہ اس کا کیا جواب دیا جائے۔ ہر گالی جواب کے قابل نہیں ہوتی۔
بچپن میں لوگ ہمیں میاں صاحب اور قادیان کے محاورہ کے مطابق میاں جی بھی کہا کرتے تھے۔ پنجاب کے بعض دوسرے علاقوں میں میاں جی کو ملا بھی کہتے ہیں۔ پنجاب کی اردو ریڈروں میں لکھا ہؤا ہے کہ میاں جی گھوڑے پر سوار ہیں۔ اُستاد کو بھی میاں جی کہتے ہیں۔ بعض طالب علموں نے جو استادوں کے خلاف ہوتے ہیں انہوں نے ان کے متعلق بعض فقرے بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ جیسے ’’میاں جی سلام تہاڈی گھوڑی نوں لگام‘‘ اِسی طرح مجھے بھی بعض لڑکے چھیڑا کرتے۔عمر کے لحاظ سے بعض دفعہ مجھے اِس پر غصہ بھی آتا لیکن خاموش رہتا۔ ایک دفعہ میں گزررہا تھاکہ ایک لڑکے نے مجھے دیکھ کر یہ فقرہ کہا۔ اِس پر مجھے اشتعال آیا لیکن معاً خیال آیا کہ یہ بچے ہیں میرے اشتعال سے اِن کو کیا فائدہ۔ اگر میں نے اشتعال دکھایا تو یہی فقرہ دُہرایا جائے گا اور بچے یاد رکھیں گے اور ایسا کہہ کر بھاگ جایا کریں گے۔ پس میں نے اپنے نفس کو روکا حتیٰ کہ ایک دو دن کے بعد وہ بُھول گئے۔پس ہر گالی قابل جواب نہیں ہوتی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُوَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ ۲؎ کہ ان مشرکوں کی طرف سے گالیاں دی جائیں گی تُو ان کی طرف توجہ نہ کرنا اور تبلیغ کی طرف لگے رہنا تاایسا نہ ہو کہ اصل مقصود بُھول جائے اور ایسے کام کی طرف لگ جائو جس کا کچھ فائدہ نہیں۔ یہ ایک عظیم الشان اور اخلاقی فلسفہ ہے جو قرآن کریم نے پیش کیا کہ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ۔
یاد رکھنا چاہئے کہ مخالف دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو کوئی اہمیتِ ذاتی یا پوزیشن رکھتے ہیں ان کو صداقت کی جاذبیت دیکھ کر غصہ پیدا ہوتا ہے اور وہ سخت کلامی کرتے ہیں ۔اور ایک اوباش ہوتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں سخت الفاظ کہنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا ۔ کیونکہ اس کی تو عزت کوئی نہیں ، اس کی ایک گالی کے جواب میں اگر تم بھی گالی دو گے تو اِس کے جواب میں وہ پانچ دے گا اور تمہاری دس گالیوں کے مقابلہ میں پچاس دے گا پھر مقابلہ کیا رہا۔ وہ معزز شخص جس کے پیچھے ایک قوم ہوتی ہے اگر اُس کو اُس کی سخت کلامی کا جواب دیا جائے تو مفید ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اُس کے ساتھی اُس کو ملزم کریں گے اور اُس کو کہیں گے کہ غلطی تمہاری تھی، کیوں تم نے ابتداء کی اور وہ اپنی پردہ دری کے خوف سے چُپ ہوجائے گا۔ مگر اوباش کو کون بتلائے اور اسے کون سمجھائے۔ وہ بتلانے والے کو بھی دس بیس سُنادے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ استہزاء کرنے والوں کو جواب نہ دینا، ہم خود جواب دیں گے کیونکہ ہم تمہاری طرف سے ان لوگوں کے مقابلہ کیلئے کافی ہیں جو حقارت اور تذلیل کے ذریعہ مخالفت کرتے ہیں ایسے لوگوں کے مقابلہ میں تمہیں نہ ہمت ہے نہ طاقت نہ ہی دُنیوی ڈھنگ آتے ہیں۔ ان لوگوں کی اپنی کوئی عزت نہیں، وہ اس سے بڑھ کر گالیاں دیں گے اور بجائے اس کے کہ ان کے دل ٹھنڈے ہوں دشمن بدگوئی میں بڑھتا چلا جائے گا۔ ایسے انسان کی زبان کو لگام نہ عزت دے سکتی ہے نہ رُتبہ نہ شرافت۔ کیونکہ یہ باتیں اسے میسرنہیں ہوتیں۔ اگریہ چیزیں اسے حاصل ہوں تو جواب کی اہمیت اُس کی سمجھ میں آجاتی ہے کیونکہ وہ خیال کرتاہے کہ میری بھی عزت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلام کے بعض دشمنوں میں سے ایسے ہی بعض لوگوں کو جواب دیا جو مثلاً پادری تھے اور اپنی قوم میں معزز تھے۔ جبکہ وہ اسلام کے متعلق بدگوئی میں انتہا درجہ پر پہنچ گئے تا ان کو احساس ہو اور ان کی پوزیشن ان پر ظاہر ہوجائے۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے پاس ایک جماعت متفرق لوگوں کی گئی جنہوں نے ان کو کہا کہ اگر تم ایسی سختی نہ کرتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق تم کو ایسی باتیں نہ سننی پڑتیں۔ جس سے ان کو شرم محسوس ہوئی اور وہ رُک گئے۔ حتیٰ کہ بعضوں نے عَلَی الْاِعْلَان کہنا شروع کیا کہ کسی مذہب کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہئے۔ اِس کانتیجہ یہ ہؤا کہ آئندہ کیلئے رسول کریم ﷺ کے خلاف دشمنوں کی بدگوئی بہت حد تک رُک گئی۔ لیکن اگر آپ بعض اوباش عیسائیوں کے خلاف لکھتے تو کسی شریف نے اُن کو روکنا نہیں تھا نہ خود اُن کو اپنی عزت کا پاس ہوتا اور اِس طرح وہ گالیوں میں بڑھ جاتے۔ ایسے لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کبھی مخاطب نہیں کیا بلکہ ان کی نسبت فرمایا کہ ان کی گالیاں سن کر ان کو دعا دو۔
خداتعالیٰ بھی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِنَّا کَفَیْنٰـکَ الْمُسْتَھْزِئِ ِیْنَ ۳؎ کہ جو تمسخر کرتے ہیں ان میں علم اور عقل نہیں ہوتی ان کے جواب کی تم میں ہمت نہیں ہم ان کو خود جواب دیں گے۔ پس ایسے لوگوں کو مخاطب کرنا بے فائدہ ہے۔
اب قادیان کے ہندو مسلمانوں کی پوزیشن کیا ہے۔ وہ قوم میں معزز نہیں ۔ وہ اگر گالیاں دیں تو وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ کے مطابق ایسے مشرکین سے اعراض کرنا چاہئے۔ ایسے شخصوں کا مقابلہ کرنے والا درحقیقت پاگل ہے اور وہ خود زیادہ گالیاں دلاتا ہے بلکہ سلسلہ کا دشمن ہے کیونکہ آپ گالیاں دلاتا اور قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف عمل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے تم ان کے بڑوں کو گالیاںمت دو کہ پھر یہ بغیر علم کے تمہارے خداکو گالیاں دینے لگ جائیں گے۔ کیونکہ دشمنی کے ساتھ بعض دفعہ عقل بھی ماری جاتی ہے اورحملہ کرتے وقت صرف یہی احساس دل میں ہوتا ہے کہ دوسرے کے نقصان کی خاطر اگر اپنا نقصان بھی ہوجائے توکوئی پرواہ نہیں۔ بیسیوں لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ دوسرے کو نقصان پہنچانے کی خاطر اپنے مکان کو آگ لگادیتے ہیں تا کہ دوسرے کو مقدمہ میں پھنسادیں۔ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اپنے بیٹے کو ماردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں نے ماردیا۔ پس پاگلوں کو چھیڑنا خود پاگل پن ہے۔ ہماری جماعت کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو ایک امام کے تابع کیا ہے اور امام خوب سمجھتا ہے کہ کہاں جواب دینا مناسب ہے اور کہاں نہیں۔ ہر جگہ جواب دینے والے کی مثال کُتّے کی سی ہوتی ہے جو بغیر امتیاز کے بُھونکتا ہے۔ ایک شریف انسان کو بھی جواب دیتا ہے لیکن وہ یہ دیکھتا ہے کہ کس کو جواب دیا جائے اور کیا جواب دیا جائے۔
پس یہ امام کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون سے دشمنِ اسلام ایسے ہیں جن کو جواب دیاجائے او رکون سے دشمن ایسے ہیں جن کے اعتراضات سننے کے باوجود خاموشی اختیار کی جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی ایسے گالیاں دینے والے لوگ موجود تھے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُن کو کبھی جواب نہیں دیا۔ آخر جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے جواب دیا اور ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ کتاب لکھی۔ تو دیکھو ان میں سے کون باقی رہا۔ سب طاعون سے فنا ہوگئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خود جواب دیا۔ اس سے تم لوگ سمجھ سکتے ہو کہ اگر تمہارا جواب خدا کے حکم سے ہو تو اس کے نتیجہ میں بھی وہ بات پیدا ہوجائے۔ لیکن جب پیدا نہیں ہوتی تو معلوم ہؤا کہ تمہارا جواب خدا کے حکم کے خلاف ہے ورنہ چاہئے تھا کہ خدا کے فرشتے تمہاری مدد کرتے اور اس کا جواب دیتے۔ آسمان و زمین میں ایسے سامان پیدا ہوجاتے کہ وہ باتیں پوری ہوجائیں۔ اگر تم ان کو ذلیل و بے شرم کہتے تو خدا کے فرشتے بھی ان الفاظ کو دُہراتے اور ان کے دوست بھی انہیں ایسا ہی کہتے۔ لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تو معلوم ہؤا کہ تمہارے سخت الفاظ محض الفاظ ہی ہیں ان میں حقائق نہیں۔ اس کے مقابلہ میں رسول کریم ﷺ نے حقائق پیش کئے۔ دشمنوں نے آپ کو اَبْتَرُ کہا۔ رسول کریم ﷺ نے بھی اپنے دشمنوں کو ابتر کہا۔ ان کی اولادیں موجود تھیں لیکن خدا نے ایسے سامان پیدا کردیئے کہ بعضوں کی اولاد کو لڑائیوں میں ختم کردیا اور بعض رسول کریم ﷺ کی اولاد بن گئے اور ان لوگوں کی اولاد نہ رہے۔
پنجابی میں اَوتر بھی ابتر کو ہی کہتے ہیں۔ پنجابی عورتیں بھی یہ گالیاں دیتی ہیں کہ تم اَوتر ہوجائو۔ لیکن وہ محض گالی ہوتی ہے ۔ ان عورتوں کی اس گالی سے کسی کے بچے نہیں مرتے۔ لیکن رسول کریم ﷺ نے جن دشمنوں کو اَوتر کہا تو ان کی اولادیں واقعہ میں فنا ہوگئیں۔ پس معلوم ہؤا کہ رسول کریم ﷺ کا ابتر کہنا گالی نہ تھی بلکہ واقعہ تھا جو پورا ہؤا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض سخت اقوال سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے کیونکہ انہوں نے خدا کے حکم سے وہ الفاظ کہے اور زمین و آسمان ان کے ساتھ ہوگئے۔ میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت کے بعض لوگ جب جواب دینے کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور دشمن اس کے جواب میں اس سے بڑھ کر گالیاں دیتا ہے تو بے غیرت بن کر اپنے گھر میں بیٹھ جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کو چاہئے تھا کہ یا تو دشمن کا منہ بند کرتے یا گالی کا جواب دینے میں ابتداء نہ کرتے۔ پس میں جماعت کو نصیحت کرتاہوں کہ ان کے اخلاق دوسروں سے اعلیٰ ہونے چاہئیں۔ پیغامِ حق پہنچانا اخلاقِ فاضلہ پیدا کرکے دین و دنیا کی بہتری کی تجاویز سوچنا نیکی اور علم کی وسعت دینا اور دنیا کی تکالیف دور کرنا ان کا مقصود ہو، تاکہ جو خدا کامقصد سلسلہ احمدیہ کے قیام سے ہے وہ پوراہو۔
یہ سنت ہے کہ جب خدا کاکام بندہ اپنے ذمہ لے لیتا ہے تو خدا اسے چھوڑ دیتا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ ایک مجلس میں بیٹھے تھے۔ نبی کریم ﷺ بھی اس جگہ تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص آپ کو گالیاں دینے لگا۔ آپ خاموش رہے۔ جب اُس نے زیادہ سختی کی تو حضرت ابوبکرؓ نے بھی اُس کو جواب دیا۔ اس پر رسول کریم ﷺنے فرمایا جب تک آپ خاموش رہے، خدا کے فرشتے اسے جواب دیتے رہے ۔ لیکن جب آپ نے خود جواب دینا شروع کیا تو وہ چلے گئے۔۴؎ پس جس کام کو خدا نے اپنے ذمہ لیا ہؤاہوتاہے اگر بندہ اس میں دخل دے تو خدا اسے چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن اگر بندہ صبر کرے اور یقین رکھے کہ خداتعالیٰ جلد یا بدیر اس کا بدلہ لے لے گا تو خدا اس کا بدلہ لے لیتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کو مکہ میں ۱۳ سال تک اور پھر مدینہ میں جاکر بھی دشمن نے گالیاں دیں اور تنگ کیا۔ نہ صرف ایک دن نہ صرف ایک ماہ نہ صرف ایک سال بلکہ اِس وقت تک مخالفین آپ کو گالیاں دے رہے ہیں اور تورات کی پیشگوئی کے مطابق کہ حضرت اسماعیل جو رسول کریم ﷺ کے جدِّامجد تھے، ان کے خلاف ان کے بھائیوں کی تلوار ہمیشہ اُٹھی رہے گی۔ آپ کو لوگ ہمیشہ گالیاں دیتے رہتے ہیں لیکن خدا نے اس کا علاج اپنے ذمہ لے رکھا ہے اور اس سے بہتر علاج اس کا کیا ہوسکتا ہے کہ خداتعالیٰ ان لوگوں کو اسلام میں داخل کردے لیکن اسلام میں داخل کرنا ہمارے اختیار میں نہیں۔
مجھے ایک دفعہ ایک یہودی نے چِٹّھی لکھی کہ میں وہ شخص تھا کہ شاید ہی کسی کے دل میں میرے دل سے بڑھ کر محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق دشمنی ہو بلکہ رسول کریم ﷺ کا نام سنتے ہی مجھے اشتعال پیدا ہوجاتا تھا۔ لیکن آپ کے مبلغوں سے اسلام کی خوبیاں سن کر اب میری یہ حالت ہوگئی ہے کہ میں رات کو نہیں سوتا جب تک رسول کریم ﷺ پر درود نہ بھیج لوں۔ بھلا ہماری گالیوں سے سلسلہ کی کیا خدمت ہوسکتی ہے۔ اگر ہم دعا کریں کہ اے خدا! تیرا وعدہ اِنَّا کَفَیْنٰـکَ الْمُسْتَھْزِئِ ِیْنَ سچا ہے تُو آپ اس کا علاج کر اور اس وعدہ پر اعتماد رکھ کر چُپ رہیں تو خدا خود ہی انتظام کرے گا۔ اور اگر تم نے خود اِس میں دخل دینا شروع کردیا تو تم بیعت میں رخنہ ڈالنے والے، دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے وعدہ کو پس پشت ڈالنے والے اور سلسلہ کو بدنام کرنے والے ہوگے۔
رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ امام کی اطاعت کرو اور امام کے پیچھے ہوکر لڑو۔ پس لڑائی کا اعلان کرنا امام کا کام ہے تمہاری غرض محض اس کی اطاعت ہے۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اس تعلیم کو خود ہی ردّ کرنے والے ٹھہرو گے۔ دنیا میں بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے عظیم الشان لڑائیاں ہوجاتی ہیں۔ جیسے آسٹریا کے شہزادہ کے قتل سے عظیم الشان جنگ ہوئی جس میں دو کروڑسے زیادہ انسان قتل ہوئے۔ پس امام جب چاہے اعلانِ جنگ کرے جب چاہے چُپ رہے۔ لوگوں کو چاہئے کہ اس کے پیچھے رہیں اور خودبخود کوئی حرکت نہ کریں۔
پس میں پھر جماعت کو نصیحت کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کی طرف متوجہ ہوگی۔ میں مصلحت کو سمجھتا ہوں۔ ہر بات کی دلیل بیان کرنا امام کیلئے ضروری نہیں۔ جرنیل اور کمانڈر کے ہاتھ میں سارا راز ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کہاں اور کس طرح حملہ کیا جائے۔ اگر وہ راز کھول دے تو دشمن اس کا توڑ سوچ لے اور ساری سکیم باطل ہوجائے۔ اگر کوئی شخص سچے طور پر بیعت کرتا ہے اور اتباع کا اقرار کرتا ہے تو اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے اعتراض نہیں کرنا چاہئے ورنہ بیعت چھوڑ دے کیونکہ وہ منافق ہے۔ پس گالیوں کا جواب نہیں دینا چاہئے ورنہ آہستہ آہستہ بڑی لڑائی شروع ہوجائے گی اور پھر امام بھی مجبور ہوگا کہ اس میں شامل ہو اور اپنی طاقت ایسی جگہ خرچ کرے جہاں وہ مناسب نہیں سمجھتا۔ میں امید کرتا ہوں کہ دوست ان باتوں کی اہمیت کو سمجھیں گے۔
کوئی مومن اِس قدر بیو قوف نہیں ہوتا کہ اس کے غصے سے ساری جماعت کو نقصان پہنچے۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ اپنے نفس کوقابو میں رکھیں اور امام کے حکم کے منتظر رہیں۔ قرآن کریم میں جب لڑائی کا حکم آیا تو بعض لوگوں نے لڑنے سے انکار کردیا اورکہا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالاً لاَّاتَّبَعْنٰـکُمْ ۵؎ کہ اگر ہم جانتے کہ یہ لڑائی ہے تو ہم ضرور شامل ہوتے۔ مگر یہ تو خودکشی ہے اور یہ وہی لوگ تھے جو لڑائی کیلئے زیادہ شور مچاتے تھے۔ پس زیادہ شور مچانا بسا اوقات نِفاق کی علامت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ جماعت کو لڑائی میں ڈال کر آپ پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور بعض بالکل خاموش رہنے والے بعض دفعہ زیادہ مومن اوربہادر ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ خاموش طبیعت تھے لیکن لڑائی میں سب سے زیادہ خطرناک جگہ پر موجود رہتے تھے یعنی رسول کریم ﷺ کے ساتھ۔ کیونکہ لڑائی میں سب سے زیادہ خطرناک جگہ وہی ہوتی تھی جہا ں رسول کریم ﷺ ہوتے تھے۔ کیونکہ دشمن کا سارا زور وہیں ہوتا تھا اور لوگ کہتے تھے کہ یوں تو یہ بڈھا بہت نرم دل ہے لیکن لڑائی میں سب سے آگے رہتا ہے۔ پس خاموشی سے اخلاص میں فرق نہیں پڑتا بلکہ ممکن ہے جو زیادہ خاموش رہنے والا ہے خدا کے نزدیک زیادہ مخلص ہو اور وہ جو زیادہ شور مچانے والا ہے وہ منافق ہو۔ کیونکہ خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور وہ خوب سمجھتا ہے کہ مومن کون ہے اور منافق کون ہے۔
(الفضل ۱۳ ؍ مئی ۱۹۳۷ئ)
۱؎ بخاری کتاب الجہاد باب یقاتل من وراء الامام ویتقٰی بہٖ
۲؎ الحجر: ۹۵
۳؎ الحجر: ۹۶
۴؎ مسند احمد بن حنبل جلد۲ صفحہ۴۳۶ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۵؎ ال عمران: ۱۶۸

۱۵
انسان کو اپنے نفس کے محاسبہ میں لگے رہنا چاہئے
(فرمودہ ۲۱؍ مئی ۱۹۳۷ء بمقام کراچی) ۱؎
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
چونکہ میرے گلے میں تکلیف ہے اس لئے زیادہ بول نہیں سکتا مگر جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۲؎ کی دعا سکھائی ہے یہ دو باتوں پر دلالت کرتی ہے۔ اس کا ایک تعلق اعلیٰ مدارج کے لوگوں کے ساتھ ہے جسے یہاں اس طرح پر بیان کیا گیا ہے کہ جُوں جُوں کوئی انسان ترقی کرتا ہے اور کسی بڑے رُتبے پر پہنچنا چاہتا ہے وہ دعائیں کرتا جاتا ہے۔ مگر چونکہ تمام انسان ایک حالت پر نہیں ہوتے کوئی روحانیت کے اعلیٰ مقام پر ہوتا ہے تو کوئی اس جنگ میںمشغول ہوتا ہے جو شیطان کے ساتھ لڑی جارہی ہو۔ پس اگر قسمِ اوّل کو ملحوظ رکھتے ہوئے اِس آیت کے یہ معنے کئے جائیں کہ الٰہی! ہمیں اعلیٰ مقام تک پہنچادے تو یہ بے معنی فقرہ ہوتا کیونکہ ایسے شخص کے نزدیک اِس آیت کا مفہوم اُس وقت شروع ہوجاتا ہے جبکہ جملہ معلومہ مقامات ختم ہوجاتے ہیں۔ جب تک معلومہ مقامات موجود ہوتے ہیں اُس وقت تک مقصود اُس کے سامنے ہوتا ہے جس کیلئے وہ دعائیں کرتا ہے۔جب انسان اخلاق کو حاصل کرلیتا ہے جن کووہ جانتاہے اور ان علوم اور عرفان کی باتوں کو حاصل کرلیتا ہے جن کو لوگ علمی طور پرجانتے ہوتے ہیں تو وہ نام لے لے کر دعائیں کرتا ہے۔ لیکن جب وہ نہیں جانتا کہ اُس سے آگے کیا ہے تب وہ دعا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے خدا! جو کچھ مجھے نہیں معلوم وہ بھی دے۔
دوسرا مقام بعض انسانوں کا وہ ہوتا ہے جبکہ وہ شیطان سے لڑائی کررہا ہوتا ہے۔ اُس وقت اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ سے اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ خدایا! مجھے صراطِ مستقیم پر قائم رکھ۔ وہ ان خطرات کومحسوس کرتاہے جو اُسے روز پیش آتے ہیں۔ لہٰذا اِس دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ ہر وقت انسان کے ساتھ ایسی چیزیں لگی ہوئی ہیں جو اس کے ایمان ، تقویٰ، دین کی خدمت کی خواہش اور محبت الٰہی کو کم کررہی ہیں لہٰذا اسے ان سے محفوظ رہنے کیلئے دعا کی ضرورت ہے۔
بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اس بات میں مارے جاتے ہیں کہ وہ خیال کرلیتے ہیں کہ ان کو کوئی مستقل چیز مل گئی ہے۔ یا کم سے کم وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ان کو اطمینا ن کی حالت حاصل ہوگئی ہے اور وہ اپنی تمام جدوجہد چھوڑ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ جملہ خطرات سے محفوظ ہوگئے ہیں۔ حالانکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان بعض اوقات ایک بڑے مقام پر پہنچ کر بھی نیچے گرجاتا ہے۔ جیسے عبداللہ بن ابی کاتب وحی حضرت رسول کریم ﷺ کا ہی واقعہ ہے کہ آپ نے اسے اپنا سیکرٹری بنایا اور وحیِ الٰہی کے لکھنے کا کام سپرد کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اسے قابلِ اعتبار سمجھا تھا اور اسے متقی خیال فرماتے تھے۔ علاوہ ازیں اس کے ذاتی حالات بھی اس کی تائید کرتے تھے مگر دیکھ لو کہ کس حالت تک پہنچ گیا۔
اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کو ہی دیکھتے ہیں کہ آپ کے زمانے میں کئی ایمان لانے والے مقربین ایسے ہیں جو اَب آپ کے درجے کو کم کررہے ہیں۔ کئی ہیں جو دُنیوی عزت کی خاطر سلسلے کی عزت کا خیال نہیں کرتے۔ کئی ہیں جو غیراحمدی ہوگئے ہیں۔
تو اللہ تعالیٰ نے یہاں بتایا ہے کہ مومن کو ہمیشہ خدا کی طرف متوجہ رہنا چاہئے اور خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنے نفس کے محاسبہ میں لگے رہنا چاہئے کہ کہیں اس میں کوئی نقص تو نہیں پیدا ہوگیا۔ یہ بیشک درست ہے کہ اپنی غلطی کا اجمالی احساس تو ہر ایک کو ہوتا ہے لیکن تفصیلی احساس ہر ایک کو نہیں ہوتا۔ مگر صرف اجمالی احساس کوئی نفع نہیں پہنچاتا۔ اجمالی احساس یہ ہوتا ہے کہ جب انسان کسی درجہ پر پہنچ جاتا ہے تو سمجھتا ہے کہ وہ بہت کمزور ہے حالانکہ خود اس پر اس کے اس قول کاکوئی اثر نہیں ہوتا۔ عام طور پر یہ کہنا کہ کمزور ہوں ،گنہگار ہوں یہ فقرے تو متکبر اور کافر بھی کہتے ہیں۔ مثلاً جب کوئی ان کی تعریف کرے تو انکسار سے وہ بھی ایسے فقرے کہہ دیتے ہیں لیکن دل سے اسے محسوس نہیں کرتے۔ پس اجمالی نقص کا اظہار کوئی چیز نہیں کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس کا اظہار کرتے ہیں لیکن تفصیلی طور پر وہ اپنے آپ کو بے گناہ سمجھتے ہیں۔ جب وہ سچائی، فرمانبرداری ، امانت، دیانت میں سُستی کریں اور کوئی ان سے ہی سوال کرے تو جھٹ اپنے نفس کی حمایت کرتے ہیں او ربے عیب ہونے کے دلائل دے کر اپنے نفس کو بھی تسلی دے دیں گے۔ یوں چاہے سارا دن ان سے کہلوالو کہ وہ خطاکار ہیں، گنہگار ہیں لیکن دوسرے وقت میں وہی شخص عیب کرتاہے اور دریافت کرنے پر چڑتا ہے۔ اگر وہ بے عیب نہ تھا تو چڑا کیوں تھا۔ سوائے ایسے حالات کے کہ اس کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے کہا ہو کہ تو بے عیب ہے۔ اُس وقت اس کا چڑنا اپنے لئے نہیں ہوتا بلکہ خداتعالیٰ کیلئے ہوتا ہے اور وہ خدا کے حکم کی وجہ سے مقابلہ کرتا ہے۔ اگر انبیاء پر اعتراض کیا جاوے تو وہ اپنی ذات کے بچائو کے لئے ایسا نہیں کرتے کیونکہ اپنی ذات میں تو وہ اپنے آپ کو کمزور سمجھتے ہیں لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہوتا ہے کہ وہ بے عیب ہیں لہٰذا خداکو الزام سے بچانے کیلئے کہ اللہ تعالیٰ کا قول صحیح ہو نہ کہ اپنی ذات کے واسطے وہ اس کی تردید کرتے ہیں۔ جیسے حضرت رسول کریم ﷺ پر الزام لگانا حقیقتاً اُس ہستی پر الزام لگانا ہے جس نے کہا تھا کہ ہم نے تم کو چُن لیا اور اِسی لئے لوگ آپؐ کی حفاظت کرتے تھے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ آپ اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ خداکیلئے ایسا کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب تک خدا کی ذات کا سوال نہ تھا آپ نے ہر ایک حملہ برداشت کیا۔چنانچہ بادشاہ ہونے کی حیثیت میں مدینہ میں جب ایک یہودی نے آپ کو کہا یا محمد (حالانکہ ایک بڑے آدمی کااس طرح بلانا یقینا قابلِ اعتراض تھا) اِس پر صحابہ کو بہت طیش آیا اور قریب تھا کہ اُس کو سزا دیں۔ لیکن آپ نے تحمل سے فرمایا کہ اس نے ٹھیک کہا ہے ۔۳؎ کیا میرے ماں باپ نے میر انام محمد نہیں رکھا ہے؟ تم غصے کیوں ہوتے ہو؟ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں خداکے نام کا سوال نہ تھا بلکہ محض اپنی ذات کا سوال تھا وہاں آپ نے اپنی عزت کو پسند نہ فرمایا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ لاہور کی ایک گلی میں ایک شخص نے آپ کو دھکا دیا آپ گرگئے جس سے آپ کے ساتھی جوش میں آگئے اور قریب تھا کہ اُسے مارتے۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ اس نے اپنے جوش میں سچائی کی حمایت میں ایسا کیا ہے اِسے کچھ نہ کہو۔ پس انبیاء اپنے نفس کے سوال کی وجہ سے نہیں بولتے بلکہ خدا کی عزت کے قیام کیلئے بولتے ہیں۔ تو یہ نہیں خیال کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ ان میں اور عام لوگوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ وہ خدا کیلئے کرتے ہیں اور عام لوگ اپنے لئے کرتے ہیں۔ پس اگر کسی شخص کو یہ احساس پیدا ہوجائے کہ میں واقعہ میں کمزور ہوں تو ایسا انسان گمراہ ہو نہیں سکتا۔ انسان گمراہ اُس وقت ہوتا ہے جب وہ یقین رکھتا ہے کہ میں حق پر ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت معاویہ کی نماز کا واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ان سے ایک مرتبہ فجر کی نماز قضا ہوگئی لیکن وہ اِس غلطی کے نتیجے میں نیچے نہیں گِرے بلکہ ترقی کی۔ پس جو گناہ کا احساس کرتا ہے وہ گناہ سے بچتا ہے۔ جب گناہ کا احساس نہیں رہتا تو انسان معصیت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ پس مومن کو اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ پر غور کرنا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ وہ خطرات سے محفوظ نہیں ہؤا۔ صرف اُسی وقت محفوظ ہوسکتا ہے کہ جبکہ خدا کی آواز اُسے کہہ دے۔ پس انسان کو اپنے نفس کی کمزوری کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ ایسے شخص کیلئے روحانیت کے راستے کھل جاتے ہیں۔ جو ایسا نہیں کرتا اُس کیلئے روحانیت کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں اور ایسا انسان گمراہ ہوجاتا ہے۔
(ماخوذ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
۱؎ یہ غیر مطبوعہ خطبہ ہے۔
۲؎ الفاتحہ: ۶
۳؎

۱۶
امام اور ماموم کا مقام اور اس کے تقاضے
(فرمودہ ۲۸؍ مئی ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
غالباً دو جمعے گزرے ہیں کہ میں نے ایک خطبہ اپنے سفر کے دوران میں پڑھا تھا اور ہدایت کی تھی کہ اسے فوراً ’’الفضل‘‘ میں چھپنے کیلئے بھجوادیا جائے۔ کیونکہ وہ خطبہ موجودہ فِتنوں کے متعلق تھا اور گو وہ پڑھا سفر میں گیا تھا اور جو لوگ اُس وقت سامنے بیٹھے تھے ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی تھی جو قادیان میں نہیں رہتے تھے مگر اُس خطبہ کے پہلے مخاطب قادیان میں رہنے والے لوگ ہی تھے اور میں چاہتا تھا کہ جس قدر جلد ہوسکے اسے قادیان میں رہنے والے لوگوں تک پہنچادیا جائے تاکہ کم سے کم خداتعالیٰ کے سامنے مَیں بری الذمہ ہوسکوں اور اُسے کہہ سکوں کہ میں نے ان کے سامنے ہدایت اور راستی پیش کردی تھی۔ اگرباوجود میرے ہدایت پیش کردینے کے اُنہوں نے اِس پر عمل نہیں کیا تو اس کی ذمہ واری مجھ پر نہیں ان پر ہے۔
میں آج پھر اُسی مضمون کے متعلق آپ لوگوں سے کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوںاور نہ صرف آپ لوگوں سے بلکہ باہر کی جماعتوں سے بھی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اِس بات سے بری الذمہ ہوتا ہوں کہ میں نے وہ صداقت آپ لوگوں تک پہنچادی ہے جو میرے نزدیک اللہ تعالیٰ کا منشاء اور قرآنی تعلیم ہے۔ میں نے اُس خطبہ میں جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ جو جماعتیں منظم ہوتی ہیں اُن پر کچھ ذمہ واریاں عائد ہوتی ہیں اور کچھ شرائط کی پابندی کرنی ان کیلئے لازمی ہوتی ہے جن کے بغیر ان کے کام کبھی بھی صحیح طورپر نہیں چل سکتے۔اور سلسلہ کے متعلق میں نے کہا تھا کہ ان شرائط اور ذمہ واریوں میں سے ایک اہم شرط اور ذمہ واری یہ ہے کہ جب وہ ایک امام کے ہاتھ پر بیعت کرچکے اور اس کی اطاعت کا اقرار کرچکے تو پھر انہیں امام کے منہ کی طرف دیکھتے رہنا چاہئے کہ وہ کیا کہتا ہے اور اس کے قدم اُٹھانے کے بعد اپنا قدم اُٹھانا چاہئے۔ اور افراد کو کبھی بھی ایسے کاموں میں حصہ نہیں لینا چاہئے جن کے نتائج ساری جماعت پر آکر پڑتے ہوں کیونکہ پھر امام کی ضرورت اور حاجت ہی نہیں رہتی۔ اگر ایک شخص اپنے طور پر دوسری قوموں سے لڑائی مول لے لیتا ہے اور ایسا فتنہ یا جوش پیدا کردیتا ہے جس کے نتیجہ میں ساری جماعت مجبور ہوجاتی ہے کہ اس لڑائی میں شامل ہو تو اس کے متعلق یہی سمجھاجاسکتا ہے کہ اس نے امام اور خلیفہ کے منصب کو چھین لیا اور خود امام اور خلیفہ بن بیٹھا اور وہ فیصلہ جس کا اجرا ء خلیفہ اور امام کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے تھا خود ہی صادر کردیا۔ اگر ہر شخص کو یہ اجازت ہو تو تم ہی بتائو پھر امن کہاں رہ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں جماعت کے نظام کی مثال اُس ٹین کی سی ہوگی جو کُتّے کی دُم سے باندھ دیا جاتا ہے اور جدھر جاتا ہے ساتھ ساتھ ٹین بھی حرکت کرتا جاتا ہے۔
امام کا مقام تو یہ ہے کہ وہ حکم دے اور ماموم کا مقام یہ ہے کہ وہ پابندی کرے۔ لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت کے دوستوں نے باوجود بیعت کر لینے کے ابھی تک بیعت کا مفہوم نہیں سمجھا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بہت بڑی ذمہ واری جماعت کے علماء پر ہے۔ وہ خلافت اور اس کی اہمیت پر تقریریں کرنے سے ساکت رہتے ہیں اور ان کے لیکچر ہمیشہ اور اَور مضامین پر ہوتے ہیں۔ اس امر کے متعلق بہت ہی کم دلائل قرآن مجید یا احادیث یا عقل سے دیئے جائیں گے کہ خلافت سے وابستگی کتنی اہم چیزہے۔ وہ سمجھتے ہیں شاید لوگ ان مسائل کو جانتے ہی ہیں اس لئے ان مسائل پر زور دینے کی کیا ضرورت ہے حالانکہ یہی وہ خیال تھا جس نے پہلے مسلمانوں کو تباہ کردیا۔ گزشتہ علماء نے خیال کرلیا کہ توحید پر زور دینے کی کیا ضرورت ہے۔ بھلا کوئی مسلمان ایسا بھی ہوسکتا ہے جو توحید کو نہ مانے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ توحید اُن کے ہاتھ سے جاتی رہی۔ انہوں نے خیال کرلیا کہ رسالت پر ایمان لانے کی اہمیت واضح کرنے کی کیا حاجت ہے یہ تو ایک صاف اور واضح مسئلہ ہے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ رسالت پر ایمان بھی جاتا رہا۔ انہوں نے خیال کرلیا کہ نظام کی ضرورت پر زور دینے کی کیا ضرورت ہے سب کو معلوم ہی ہے کہ نظام میں سب برکت ہے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ ان کا نظام بھی ٹوٹ گیا۔ انہوں نے خیال کرلیا کہ نماز اور روزہ کی تاکید کرنے کی بار بار کیا ضرورت ہے سب لوگ نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ نمازوں میں بھی سُستی آگئی اور روزے بھی ہاتھ سے جاتے رہے۔ اسی طرح انہوں نے خیال کرلیا کہ حج کا مسئلہ بھی کوئی ایسا مسئلہ ہے جس سے کوئی ناواقف ہو اور نتیجہ یہ ہؤا کہ حج کے مسائل بھی لوگوں کے ذہن سے اُتر گئے اور استطاعت کے باوجود انہوں نے حج کرنا چھوڑ دیا۔ تو جب کسی قوم کے علماء یہ خیال کرلیتے ہیں کہ فلاں فلاں مسائل لوگ جانتے ہی ہیں اس قوم میں آہستہ آہستہ ان مسائل سے ناواقفیت پید اہونی شروع ہوجاتی ہے اور آخر اس نیکی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پس میں سمجھتا ہوں ایک حد تک اس کی ذمہ واری جماعت کے علماء پر ہے لیکن ایک حد تک اس کی ذمہ واری جماعت کے افراد پر بھی ہے۔ کیونکہ ان کے سامنے یہ مسائل بالکل تازہ ہیں اور وہ خلافت کی اہمیت سے پورے طور پر آگاہ کئے جاچکے ہیں اور گو آج اس پر بحثیں نہیں ہوتیں مگر آج سے بیس سال پہلے اس پر خوب بحثیں ہوچکی ہیں اور خود جماعت کے افراد اس میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ پھر آج وہ ان مسائل کو کیوں بُھول گئے ۔ میں نے اس امر کی طرف توجہ ان واقعات کی وجہ سے دلائی تھی جوقادیان میں حال ہی میں ظاہر ہوئے ۔
میں نے دیکھا ہے بعض لوگ فتنہ و فسادکی نیت سے کوئی بات چھیڑ دیتے ہیں اور ہماری جماعت کے دوست فوراً اس کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں اور وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ دشمن کی تو غرض ہی یہ تھی کہ وہ کوئی فتنہ و فساد پید اکرے اور انہیں زیر الزام لائے۔ ان کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جس کا دشمن اس کیلئے گڑھا کھودتااور اُس پر گھاس پھونس ڈال دیتا ہے۔ اور وہ اپنی بیوقوفی سے گھاس پر پائوں رکھتا اور گڑھے میں جاپڑتا ہے۔ بلکہ میں کہتا ہوں خیالی مثال کی کیا ضرورت ہے۔ شیر کے شکاریوں کی مثال لے لو جو پہلے زمانہ میں شیر کا شِکار اِس طرح کرتے تھے کہ گھاس کے نیچے بانس کی کھپچیوں کے اوپر خاص طور پر سریش تیار کرکے چپکادیتے اور گھاس پر بکرا باندھ دیتے۔ شیر خیال کرتا کہ بکرا میرا شکار ہے اور وہ اُس پر حملہ کردیتا۔ لیکن جب بکرے کے پاس پہنچتا تو کھپچیوں میں لپٹ جاتا۔ اسی طرح دشمن بعض دفعہ ایسی حرکات کرتا ہے جن کے ذریعہ وہ اپنے مخالف کو بُلاتا ہے کہ آئو اور مجھ پر حملہ کرو۔ عقلمند آدمی موقع کو خوب سمجھتا ہے اور وہ جانتاہے کہ حملے کا کونسا موقع ہے۔ لیکن نادان آدمی ان باتوں کو نہیں سمجھتا وہ حملہ کردیتا ہے اور کھپچیوں میں پھنس جاتا ہے۔ پھر شور مچاتا ہے کہ آئو آئو اور مجھے اس مصیبت سے بچائو۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کی آواز سُن کر دوچار آدمی اور دشمن پر حملہ کردیتے ہیں اور وہ بھی انہی کھپچیوں میں پھنس جاتے ہیں اور اسی طرح یہ معاملہ بڑھتا جاتا ہے۔
انگریزوں میں ایک کہانی مشہور ہے جو اسی قسم کے فتنوں پر چسپاں ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کسی کے پاس کوئی بطخ تھی۔ جب وہ کسی شخص پر ناراض ہوتا تو کسی طرح اُس کا ہاتھ بطخ کولگوادیتا۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ اس بطخ سے اُس کا ہاتھ چمٹ جاتا اور وہ چُھوٹ نہ سکتا۔یہ دیکھ کر اُس کے دوست اور رشتہ دار اُسے چُھڑانے کیلئے آتے اور جو بھی بطخ پرہاتھ ڈالتا اُس کے ساتھ چمٹا جاتا ۔ یہی حال ایسی لڑائی کا ہوتا ہے۔جب ایک شخص لڑائی میں شامل ہوتا اور دشمن کی گرفت میں آجاتا ہے تو شکوہ کرتا اور شور مچانے لگ جاتا ہے کہ میںجماعت کا ممبر ہوں، میری مدد کیوں نہیں کی جاتی۔ میرے ساتھ ہمدردی اور محبت کا سلوک کیوں نہیں کیا جاتا۔ اس شخص کو جواب تو یہ ملنا چاہئے کہ تمہارے ساتھ ہمدردی کیا کی جائے تم نے نظام کو توڑا اور سلسلہ کی ہتک کی۔ لڑائی کرنا امام کا کام تھا، تمہارا کام نہیں تھا۔ لیکن اُس کی آواز سُن کر کئی رحم دل یا یوں کہو کہ کمزور دل کہنا شروع کردیتے ہیں کہ آئو اس کی مدد کریں۔ چنانچہ وہ اس کی مدد کیلئے اس کے پیچھے جاتے ہیں اور وہی لڑائی جو پہلے ایک شخص کی تھی اب بیس آدمیوں کی لڑائی بن جاتی ہے اور پھر ایک کی بجائے بیس آوازیں اُٹھنی شروع ہوجاتی ہیں کہ آناآنا، بچانا بچانا۔ اس پر وہ لوگ بھی جو پہلے اس خیال سے خاموش ہوتے ہیں کہ یہ انفرادی فعل ہے اِس میں ہمیں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے، جوش سے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں اب ایک کا سوال نہیں، بیس کا سوا ل ہے اور وہ بھی لڑائی میں شامل ہوجاتے ہیں ۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اب لڑائی میں چالیس آدمی شامل ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ چالیس اپنے ساتھ اَوروں کو ملاتے اور ساٹھ بن جاتے ہیں۔ ساٹھ ایک سَو بیس کی کشش کا موجب بنتے ہیں اور ایک سَو بیس کے شو رمچانے پر دو سَو چالیس کی تعداد ہو جاتی ہے۔ یہ دو سَو چالیس پھر چار سَو اسّی ہوجاتے ہیں جو بڑھ کر نو سَو ساٹھ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ساری جماعت ایک معمولی وجہ سے ایسی لڑائی میں شامل ہوجاتی ہے جس کاکوئی بھی نتیجہ نہیں ہوتا اور دشمن دل میں ہنستا ہے کہ جو میری غرض تھی وہ پوری ہوگئی۔
ایک مشہور واقعہ پنجاب کے ایک رئیس کا ہے جو اِس مقام پر خوب چسپاں ہوتا ہے۔ پنجاب کے ایک مشہور راجہ گزرے ہیں جن کا نام لینے کی ضرورت نہیں ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ ان کے دربار میں دو پارٹیاں تھیں۔ ایک وزیر اعظم کی اور ایک اور وزیر کی اوریہ دونوں پارٹیاں روزانہ آپس میں لڑتیں او رراجہ کے پاس شکایتیں ہوتیں۔ ایک پارٹی دوسری پارٹی کے خلاف شکایت کرتی اور دوسری پہلی کے خلاف راجہ کے کان بھرتی اور ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی کہ راجہ صاحب ہمارے ساتھ مل جائیں اور دوسری پارٹی پر ناراض ہوجائیں۔ اِس لڑائی نے ترقی کرتے کرتے سخت بھیانک شکل اختیار کرلی۔ ایک دن ایک پارٹی نے تجویز کی کہ کوئی ایسا کام کرنا چاہئے جس سے مخالف پارٹی کو بالکل کُچل دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور یہ فیصلہ ہؤا کہ ایک رانی کو اپنے ساتھ ملایا جائے اور یہ مشہور کردیا جائے کہ اُس کے ہاں اولاد ہونے والی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایک رانی کواپنے ساتھ ملالیا اور اُسے کہہ دیا کہ عین وقت پر ہم تمہیں ایک بچہ لاکر دے دیں گے اِس سے راجہ کی نگاہ میں تمہاری عزت بھی قائم ہوجائے گی اور اس کے بعد گدی پر بیٹھنے کا بھی وہی حقدار ہوگا۔ جب یہ خبر عام لوگوں میں مشہور ہوگئی تو دوسرے فریق نے راجہ کے کان بھرنے شروع کردیئے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ مہارانی حاملہ نہیں بلکہ شرارت سے مخالف پارٹی نے اسے حاملہ مشہور کردیا ہے۔ اب مہاراجہ صاحب نے بیوی کی نگرانی شروع کردی اور کچھ عرصہ کے بعد انہیں پتہ لگا کہ یہ محض فریب کیا جارہا ہے، رانی حاملہ نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے گورنمنٹ کے پاس اس امر کے متعلق کوشش شروع کردی کہ جس بچہ کے متعلق مشہور کیا جارہا ہے کہ وہ پید اہونے والا ہے وہ میرا نہیں ہوگا اور نہ تخت کا وارث ہوگا۔ یہ بات دوسرے فریق پر بھی کُھل گئی اور انہوں نے مشورہ کیا کہ اب کوئی ایسی چال چلنی چاہئے جس کے نتیجہ میں ہماری سکیم فیل نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے مختلف لوگوں سے گورنمنٹ کے پاس چِٹھیاں لکھوانی شروع کردیں کہ مہاراجہ صاحب پاگل ہوگئے ہیں اور وہ گدی کا انتظام نہیں کرسکتے۔ ذرا ذرا سی بات پر لڑتے اور جوش میں آکر گالیاں دینے لگ جاتے ہیں اور ان کا غصہ حدِ اعتدال سے بالکل باہر نکل گیا ہے۔ مہاراجہ بیچارے کو پتہ بھی نہیں اور گورنمنٹ کے پاس شکایتیں ہورہی ہیں کہ مہاراجہ صاحب پاگل ہو گئے ہیں۔ پہلے چھوٹوں کی طرف سے گورنمنٹ کو لکھا گیا۔ پھر بڑے بڑے افسروں کی طرف سے اور پھر ان سے بھی بڑے عہدہ داروں کی طرف سے۔ جب شکایتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی اور بڑے بڑے افسروں نے خود مل کر بھی گورنمنٹ کے پاس شکایت کرنی شروع کردی تو گورنمنٹ کو خیال پیدا ہؤا کہ تحقیقات کرنی چاہئے۔ چنانچہ اس نے مخفی طور پر کمشنر کو بھجوایا کہ وہ مہاراجہ سے باتیں کرکے رپورٹ کرے کہ یہ شکایتیں کس حد تک صحیح ہیں اور یہ بھی کہہ دیا کہ ڈاکٹر کو بھی ساتھ لیتے جائو اور باتوں باتوں میں اندازہ کرکے رپورٹ کرو کہ ان شکایتوں میں کس حد تک معقولیت ہے۔ فریقِ مخالف جس نے شکایت کی تھی وہ چونکہ ہر تدبیر سے اپنی بات کو منوانا چاہتا تھا اس لئے اس نے سرکاری دفاتر میں بھی بعض آدمی خریدے ہوئے تھے۔ جس وقت کمشنر صاحب تحقیقات کیلئے جانے لگے، ان سرکاری آدمیوں نے اطلاع کردی کہ کمشنر صاحب آرہے ہیں۔ چنانچہ جونہی انہوں نے سمجھا کہ اب کمشنر صاحب کے آنے کا وقت بالکل قریب آپہنچا ہے اور ایک آدھ منٹ میں ہی وہ دربار میں داخل ہوجائیں گے۔ انہوں نے ایک چَوری جھلنے والے کو اشارہ کردیا جسے انہوں نے پہلے سے اپنے ساتھ ملایا ہؤا تھا اور اُس نے جُھک کر مہاراجہ کے کان میں دو تین گالیاں ماں اور بہن کی دے دیں۔ اب تم سمجھ سکتے ہو کہ مہاراجہ تخت پر بیٹھا ہؤا ہو ،دربار لگا ہؤا ہو اور چَوری جھلنے والا مہاراجہ کو اُس کے کان میں ماں کی گالیاں دے دے تو اُس کی کیا کیفیت ہوسکتی ہے۔ مہاراجہ جوش سے اُٹھا اور اس نے بے تحاشہ اُسے مارنا شروع کردیا۔ اب غصہ سے اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی اور وہ اسے ٹُھڈے پر ٹُھڈے مارتا چلاجارہا تھا کہ اتنے میں کمشنر صاحب اندر داخل ہوگئے اور وہ پارٹی کی پارٹی کھڑی ہوکر کہنے لگی ’’حضور! روز ساڈے نال اسے طرح ہوندا ہے‘‘۔ یعنی حضور! ہمارے ساتھ روزانہ یہی سلوک ہوتا ہے۔کمشنر صاحب کی رپورٹ پر گورنمنٹ نے فیصلہ کیا کہ مہاراجہ واقعہ میں حواس باختہ ہے نتیجہ یہ ہؤا کہ مہاراجہ صاحب کے اختیارات محدود کردیئے گئے اور وہ لڑکا جسے رانی نے گود میں ڈال لیا تھا اور جو ایک ملازم سرکار کا لڑکا تھا جسے بعد میں جج بنادیا گیا، جوان ہوکر گدی پر بٹھایا گیا اور خوش قسمتی سے نہایت شریف اور کامیاب راجہ ثابت ہورہا ہے۔
تو بعض دفعہ دشمن اس قسم کی چالاکی بھی کرتا ہے۔ سمجھنے والے تو بچ جاتے ہیں لیکن جو اندھا دھند کام کرنے والے ہوں وہ پھنس جاتے اور مصیبتوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام نے حکم دیا کہ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُّقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ ۱؎ کہ امام کو ہم نے تمہارے لئے ڈھال کے طور پر بنایا ہے۔ اگر اس کے پیچھے ہوکر لڑو گے تو زخموں سے بچ جائو گے۔ لیکن اگر آگے ہوکر حملہ کرو گے تو مارے جائو گے کیونکہ وہ خوب سمجھتا ہے کہ کیا حالات ہیں۔ کس وقت اعلانِ جنگ ہونا چاہئے اورکس وقت دشمن کے فریب سے بچنا چاہئے۔ کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں انسان تفصیل سے بیان نہیں کرسکتا۔
رسولِ کریم ﷺ کی مجلس میں بھی بعض دفعہ لوگ آتے اور گھنٹوں آپ سے مخفی باتیں کرتے۔ قرآن کریم میں اِسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے ھُوَ اُذُنٌ ۲؎ کہ منافق کہتے ہیں کہ محمد ﷺ تو کان ہی کان ہیں۔ ہر وقت لوگ آتے اور انہیں رپورٹیں پہنچاتے رہتے ہیں۔ تو رسول کریم ﷺ کو بھی کئی مخفی باتوں کا علم ہؤا کرتا تھا۔ بیسیوں دفعہ ایسا ہؤاکہ آپ فرماتے میرے پاس رپورٹ آئی ہے کہ آج فلاں جگہ یہ کام ہورہا ہے۔ تو امام کو وہ معلومات ہوتی ہیں جو اور لوگوں کونہیں ہوتیں۔ اس لئے وہ جانتا ہے کہ فلاں کام جو ہورہا ہے وہ کیوں ہورہا ہے اور کس طرح ہورہا ہے اور اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جماعت سے اُسی وقت لڑائی کرائی جائے جب لڑائی کا کوئی فائدہ ہو۔ ورنہ یہ تو نہیں کہ لڑائی کرنے میں تم مجھ سے زیادہ بہادر ہو۔
پچھلے دو سال میں مَیںنے ایک ہی وقت میں گورنمنٹ سے اور دوسرے مخالف اقوام سے لڑائی لڑی ہے یا نہیں۔ تم میں سے کئی لوگ تھے جو اُس وقت کہتے تھے کہ ہمیں کس مصیبت میں پھنسادیا۔ مگر میں جانتا تھا کہ وہ وقت لڑنے کا تھا۔ پس ہم لڑے اور خداتعالیٰ کے فضل سے ہم نے فتح پائی۔ لیکن اب جماعت کو ایک ایسے فتنہ میں مبتلا کیا جارہا ہے جس میں مَیں سمجھتا ہوں ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کو دکھادیں کہ ہم مظلوم اور ہمارا دشمن ظالم ہے اور شرارت کی تمام تر ذمہ واری ہمارے دشمن پرہے ہم پر نہیں۔ پس جبکہ ہم کو معلوم ہے کہ اِس لڑائی کی وجہ لڑائی نہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم نے پچھلے دنو ں جو حکومت پر یہ ثابت کردیا تھا کہ ہم ظالم نہیں بلکہ مظلوم ہیں اور ہمارا دشمن مظلوم نہیں بلکہ ظالم ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اس خیال کو مٹایا جائے اَوربعض اور ذرائع سے اپنی مظلومیت حکومت پر ظاہر کریں۔ اگر تم ذرا بھی سوچ سمجھ سے کام لو تو یہ موٹی بات تو تمہیں بھی نظر آسکتی ہے کہ قادیان میں بِلاوجہ فتنے مختلف شکلیں بدلتے رہتے ہیں۔ ایک وقت مسلمانوں کی طرف سے شور مچایا جاتا ہے اور پھر یک دم اس میں تغیر آجاتا ہے اور پولیس کی طرف سے شور اُٹھنا شروع ہوجاتا ہے۔ پھر یکدم یہ حالت بھی بدل جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری لڑائی نہ مسلمانوں سے ہے نہ پولیس سے بلکہ سکھوں سے ہے۔ پھر سکھوں سے لڑتے لڑتے یکدم تغیر آجاتا ہے اور سکھ تو بالکل خاموش ہوجاتے ہیں اور ہندو شور مچانا شروع کردیتے ہیں اور ان لڑائیوں میں سے کسی لڑائی کے پیدا کرنے میں بھی ہمارا دخل نہیں ہوتا۔ جس وقت مسلمان شور مچارہے ہوتے ہیں اُس وقت کوئی ایسی حرکت ہم نے نہیں کی ہوتی جو پندرہ بیس سال پہلے ہم نے نہ کی ہو۔ گویا کوئی تازہ حرکت ایسی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ہم سمجھیں کہ ان کا شور مچانا حق بجانب ہے۔ اسی طرح جب پولیس کی طرف سے شور مچایا جاتا ہے تو ہماری کوئی ایسی حرکت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ اشتعال میں آئے۔ پھر جب سکھ اور ہندو شور مچاتے ہیں اُس وقت بھی کوئی ایسا نیا فعل ہم سے صادر نہیں ہوتا جس کی وجہ سے سمجھا جائے کہ ان کا شور اور فتنہ و فساد کسی بنیاد پر ہے۔ پس کیا اس محاذ کی تبدیلی سے تمہاری سمجھ میں اتنی موٹی بات بھی نہیں آتی کہ یہ کسی سازش اور چالاکی کا نتیجہ ہے۔ اگر تم بات کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ تمہیں وسیع علم ہے اور نہ وسیع معلومات کے ذرائع تمہیں حاصل ہیں تو کم سے کم اتنی بات تو تمہیں سمجھ لینی چاہئے تھی کہ کیوں بِلا وجہ ایک وقت مسلمانوں کو جوش آتا ہے تو دوسرے وقت پولیس والوں کو ۔ کبھی سکھوں کوجوش آجاتا ہے تو کبھی ہندوئوں کو۔ کم سے کم اتنی موٹی بات تمہیں سمجھ لینی چاہئے تھی کہ یہ تغیرات جو پیدا ہوئے ان کا کوئی نہ کوئی سبب ہوگا ورنہ بِلاسبب تو یہ نہیں ہوسکتے اورجب یہ بِلاسبب نہیں ہو سکتے اور تمہیں ان کاسبب معلوم نہیں تو تم کیوں اندھیرے میں چھلانگ لگاتے اور سلسلہ کی بدنامی اور ہتک کا موجب بنتے ہو۔ یہ معاملات اُن لوگوں کے ہاتھ میں چھوڑ دو جو اِن تغیرات کا سبب جانتے اور اس کی وجہ کو خوب پہچانتے ہیں۔ وہ جب دیکھیں گے کہ سلسلہ کی عظمت لڑائی کرنے میں ہے تو اُس وقت وہ بغیر کسی قسم کے خطرہ کے لڑائی کریں گے اور اُس وقت تم میں سے وہ لوگ جو اِس وقت بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے اور کہتے ہیں ہم صبر نہیں کرسکتے، ہم دشمن سے لڑیں گے اور مرجائیں گے وہ لڑائی کرنے سے انکار کردیں گے اور کہیں گے کہ ہم ہلاکت کے منہ میں اپنے آپ کو نہیں ڈال سکتے۔ گویا جس وقت ہم کہتے ہیں ہمیں صلح رکھنی چاہئے اور بِلاوجہ دشمن سے لڑائی نہیں لڑنی چاہئے اُس وقت وہ بُزدل اور منافق جو اگر لڑائی ہو تو سب سے پہلے میدانِ جنگ سے بھاگ نکلیںگے ۔ کہتے ہیں ہم بے غیرت نہیں، ہم دشمن سے ضرور لڑیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں اب کسی نے لڑنا نہیں اور جب لڑائی ضروری ہوجائے تو کہہ دیتے ہیں صلح رکھنی چاہئے، آپس کے تعلقات کو خراب کرلینے سے کیا فائدہ۔
آخر کیا تم خیال کرتے ہو کہ ایک شخص کے ہاتھ پر تم بیعت کرتے ہو اور پھر یہ سمجھتے ہو کہ اس کے دل میں سلسلہ کے متعلق اتنی بھی غیرت نہیں جتنی تمہارے دلوں میں ہے۔ حالانکہ اس نے اپنی غیرت کا عملی ثبوت بھی تمہارے سامنے پیش کیا ہؤا ہے۔ میں ہمیشہ اس بات پر حیران ہوتا ہوں کہ جماعت کا بیشتر حصہ سچے مخلصوں اور باتیں بنانے والوں میں فرق کیوں نہیں کرتا۔ گزشتہ دو سال میں تم نے دیکھ لیا کہ وہ لوگ جو بڑھ بڑھ کر باتیں کرنیوالے تھے جب اُن پر مقدمے ہوئے تو انہوں نے کیسی بُزدلی اور دوں ہمتی دکھائی ۔ جماعت کا ان مقدموں اور سیاسی شرارتوں کے مقابلہ کیلئے تیس چالیس ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ روپیہ خرچ ہوچکا ہے۔ حالانکہ ان لوگوں کو سوچنا چاہئے تھا کہ ہماری حرکات سے اگر سلسلہ کیلئے مشکلات پیش آئیں گی اور سلسلہ کا روپیہ خرچ ہوگا تو اس کا کون ذمہ وارہوگا ۔اورپھر جب بعض حالات میں مقدمات چلائے گئے تو کیوں یہ لوگ گھبراگھبرا کر اچھے سے اچھے وکیلوں اور اچھے سے اچھے سامانوں کے طالب ہوئے۔ جن لوگوں کے افعال کی وجہ سے یہ صورتِ حالات پیدا ہوئی تھی انہیں چاہئے تھا کہ یا وہ خود مقدمہ چلاتے یا کانگرس والوں کی طرح ڈیفنس پیش کرنے سے انکار کردیتے اور قید ہوجاتے۔ مگر انہیں شرم نہیں آتی کہ کہتے تو وہ یہ تھے کہ ہم سلسلہ کیلئے اپنی جانیں قربان کردیں گے مگر جماعت کا پندرہ بیس ہزار روپیہ انہوں نے مقدمات پر خرچ کرادیا اور پھر بھی وہ مخلص کے مخلص بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض کے کھانوں اور سفر خرچ کے بل جاکر دیکھو تو تم کو تعجب ہوگا کہ یہ کیا ہؤا ہے۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ دشمن جھوٹ بول رہا تھا اور سلسلہ کو بدنام کرنے کیلئے جھوٹے مقدمات کر رہا تھا۔ ہم اِن کی مدد کیلئے مجبور تھے گو ہم جانتے تھے کہ بعض جگہ دشمن کو موقع دینے والے خود ہمارے اپنے آدمی تھے۔ اگر ہمارے آدمی میری تلقین کے مطابق صبر سے کام لیتے اور گالی کا جواب نہ دیتے تو اتنا فتنہ نہ بڑھتا۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر انہوں نے لڑائی کرنادین کیلئے ضروری ہی سمجھا تھا تو ان کا فرض تھا کہ یا مقدمہ کے تمام اخراجات خود برداشت کرتے اور کہتے کہ ہماری جماعت کی مالی حالت کمزور ہے، ہم اس پر اپنا بوجھ ڈالنا نہیں چاہتے اور یا جوابِ دعویٰ سے دستبردار ہو کر معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیتے۔ مگر یہ جماعت کاتیس چالیس ہزار روپیہ خرچ کرا دینے کے باوجود مخلص کے مخلص بنے پھرتے ہیں ( میں سب مقدمات کے بارہ میں نہیں کہتا۔ بعض مقدمات سلسلہ کی ضروریات کیلئے خود کئے گئے ہیں اور نہ سب آدمیوں کے متعلق کہتا ہوں جو ان میں مبتلا تھے ۔ مگر چونکہ اصل لوگوں کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا میں نے بات کو عام رکھا ہے تا کسی خاص شخص پر الزام نہ آ ئے اور اس نوٹ کے ذریعہ سے میں نے اس کا بھی ازالہ کر دیا ہے کہ نا کردہ گناہ لوگوں پر کوئی بد ظنی کرے )۔
میں پوچھتا ہوں بھلا گالیاں دینے یا بے فائدہ جوش دکھانے میں کونسی خوبی اور کمال ہے۔ کیا موچی دروازہ کے غنڈے گالیاں نہیں دیتے؟ اگر تم بھی دشمن کے جواب میں زبان سے گالیاں دیتے چلے جاتے ہو تو زیادہ سے زیادہ یہی کہا جائے گاکہ تم نے وہ کام کیا جو حق کے دشمن کر رہے ہیں مگر تمہاری اس حرکت کو قربانی قرار نہیں دیا جائے گا۔ قربانی وہ ہوتی ہے جسے عام آدمی پیش نہ کرسکے۔ مگر تقریر کیلئے کھڑے ہوجانا اوراس میں پندرہ بیس گالیاں دے دینا یہ تو ہر شخـص کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔ پس صرف اس لئے کہ کوئی شخص بڑھ چڑھ کر باتیں کرتا ہے،مخلص اور مومن نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ مخلص وہ ہے جو اس چیز کو پیش کرے جسے عام لوگ پیش کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ تم چلے جائو لاہور میں یا اور کسی شہر میں اور چلے جائو بد اخلاق نمائندگانِ مذاہب کی مجالس میں ،تمہیں یہی نظر آئے گا کہ جوشیلے اور فسادی لوگ ہمیشہ گالیاں دیتے،پتھر پھینکتے اور تالیاں پیٹتے ہیں۔ مگر مخلص وہ قربانی کرتے ہیں جو دوسرے نہیں کرتے۔ لاہور میں ہی جب کوئی فساد ہو، کمزور اخلاق کے لوگ ہمیشہ بڑھ بڑھ کر لاٹھی چلائیں گے۔ لیکن جب اسلام کیلئے مال کی قربانی کا سوال ہو تو پیچھے ہٹ جائیں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں ہمارا کام اتنا ہی ہے کہ ہم گالیاں دیں، لٹھ ماریں اورپھر پلائو زردہ کھائیں۔ پس گالیاں دینا تو کمزور طبع لوگوں کا کام ہے کامل مومنوں والا کام نہیں اور اگرواقعہ میں ان میں اخلاص ہوتا تو جن لوگوں پرمقدمہ چلایا گیا تھا وہ کہتے ہم جماعت کا ایک پیسہ بھی اِس پر خرچ نہیں ہونے دیں گے ہم نے اپنی ذمہ واری سے کام کیا ہے اور اب اِس بوجھ کو بھی یا خود برداشت کریں گے یا برداشت نہ کرسکنے کی صورت میں قید ہوجائیں گے۔جماعت کے پاس آگے ہی روپیہ کونسا زیادہ ہے ہم اس پرمزید اپنے مقدمات کا بوجھ کیوں ڈالیں۔ کیا یہ اتنی موٹی بات نہیں جو تمہاری سمجھ میں آسکے۔ تو تمہیں چاہئے کہ تم مخلص اور کمزور طبع انسانوں میں فرق کرو۔ میں انہیں منافق نہیں کہتا۔ بعض کمزور طبائع ہوتی ہیں ان کا دل ایسا کمزور ہوتا ہے کہ وہ نتائج کی برداشت نہیں کرسکتے۔ ہوتے مومن ہی ہیں مگر دل کی کمزوری کی وجہ سے نتائج برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے انہوں نے بھی بڑھ بڑھ کر باتیں کیں اورجماعت کو مزید مشکلات میں مبتلا کرادیا اور جب کبھی ان کی مدافعت کی غلط تدبیروں سے فساد اور بڑھ گیا اور اس کے نتائج کو برداشت کرنے کا وقت آیا تو کمزوری دکھادی او رمقدمہ لڑ کر اِس امر کی کوشش شروع کردی کہ ان کی بریت ہوجائے۔ حالانکہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دے گا میں ضرور اسے سزا دوں گا۔ تواگر اس کا یہ مقولہ صحیح ہے تو سزا دینے کے بعد اسے دلیری سے اپنے جُرم کا اقرار کرنا چاہئے اور اسے کہنا چاہئے مجھے جہاں چاہتے ہو لے جائو۔ میں نے اس کے منہ سے گالی سُنی اورمیں اسے برداشت نہیں کرسکا۔ فرض کرو کوئی شخص کہتا ہے کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دے گا میں اُسے جُوتی ماروں گا۔ اگر اسے ہماری تعلیم سے اتفاق نہیں تو جائے اور اُسے جوتی مارے اور پھر نتائج بُھگتنے کیلئے تیار ہے۔ مگر اِدھر تو وہ ہماری رائے سے اتفاق نہیں کرتا اُدھر جب دوسرے کو مار کر آتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے فعل کے جواب دہ تم ہو۔
یاد رکھو دنیا میں قیام امن دو ذرائع سے ہوتا ہے یا اُس وقت جب مار کھانے کی طاقت انسان میں پیدا ہوجائے یا جب دوسرے کو مارنے کی طاقت انسان میں پید اہوجائے، درمیانی دوغلہ کوئی چیز نہیں۔ اب جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم میں مار کھانے کی طاقت ہونی چاہئے۔بالکل ممکن ہے تم میں سے بعضوں کا یہ خیال ہو کہ ہم میں مارنے کی طاقت ہونی چاہئے۔ میں اِسے غیرمعقول نہیں کہتا ہاں غلط ضرور کہتاہوں۔ یہ ضرور کہتا ہوں کہ اُس نے قرآن کریم کو نہیں سمجھا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کو نہیں سمجھا کیونکہ خداتعالیٰ نے مارنے کیلئے جو شرائط رکھی ہیں وہ اِس وقت ہمیں میسر نہیں۔ پس کم سے کم میں اسے شرارتی یا پاگل نہیں کہوں گا میں زیادہ سے زیادہ یہی کہوں گا کہ اُس کی ایک رائے ہے جومیری رائے سے مختلف ہے۔ لیکن تمہاری یہ حالت ہے کہ تم میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہئے اورپھر جب وہ ہماری تعلیم کے صریح خلاف کوئی ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے تو بھاگ کر ہمارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے مجھے بچانا مجھے بچانا۔ آخر جماعت تمہیں کیوں بچائے؟ کیا تم نے جماعت کے نظام کی پابندی کی یا اپنے جذبات پر قابو رکھا ؟اور اگر تم اس خیال کے قائل نہیں تھے تو پھر تمہیں ہمارے پاس بھاگ کر آنے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہیں چاہئے کہ تم دلیری دکھائو اور اپنے جُرم کا اقرار کرو۔ اگر اِن دونوں عقیدوں کے چالیس چالیس آدمی بھی میسر آجائیں تو ہم دنیا کو ڈراسکتے ہیں۔ اگر چالیس آدمی ایسے مل جائیں جو مار کھانے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ دنیا کو ڈراسکتے ہیں اور اگر چالیس آدمی ایسے میسر آجائیں جو مارنے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ بھی دنیا کو ڈراسکتے ہیں۔ مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ جب تم میں سے بعض دشمن سے کوئی گالی سنتے ہیں تو ان کے منہ میں جھاگ بھر آتی ہے اور وہ کُود کراُس پر حملہ کردیتے ہیں۔ لیکن اُسی وقت ان کے پیر پیچھے کی طرف پڑرہے ہوتے ہیں۔ تم میں سے بعض تقریر کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مرجائیں گے مگر سلسلہ کی ہتک برداشت نہ کریں گے لیکن جب کوئی ان پر ہاتھ اُٹھاتا ہے تو پھر اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھائیو! کچھ روپے ہیں جن سے مقدمہ لڑا جائے، کوئی وکیل ہے جو وکالت کرے؟ بھلا ایسے خنثوں نے بھی کسی قوم کو فائدہ پہنچایا ہے؟ بہادر وہ ہے جو اگر مارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو مار کر پیچھے ہٹتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو دلیری سے سچ بولتا ہے۔ اور اگر مار کھانے کافیصلہ کرتا ہے تو پھر جوش میں نہیں آتا اور اپنے نفس کو شدید اشتعال کے وقتوں میں بھی قابو رکھتا ہے۔
پس اگر تم جیتنا چاہتے ہو تو دونوں میں سے ایک اصل اختیار کرو۔ جو کچھ میں سمجھتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ بہادر بنو مگر اس طرح کہ مار کھانے کی عادت ڈالو اور امام کے پیچھے ہوکر دشمن سے جنگ کرو۔ ہاںجب وہ کہے کہ اب لڑو اُس وقت بیشک لڑو۔ لیکن جب تک تمہیں امام لڑائی کا حکم نہیں دیتا اُس وقت تک دشمن کو سزا دینے کا تمہیں اختیار نہیں۔ لاٹھی اور سوٹے سے ہی نہیں بلکہ ایک ہلکا سا تھپڑ مارنا بھی تمہارے لئے جائز نہیں۔ بلکہ میں کہتا ہوں تھپڑ تو الگ رہا ایک گلاب کے پھول سے بھی تمہیں دشمن کو اُس وقت تک مارنے کی اجازت نہیں جب تک امام تمہیں لڑائی کی اجازت نہ دے۔لیکن اگر تمہارا یہ عقیدہ نہیں تب بھی میں شریف انسان تمہیں تب ہی سمجھوں گا کہ اگر تمہارا یہ دعویٰ ہو کہ گالی دینے والے دشمن کو ضرور سزا دینی چاہئے اور تم اُس گالی دینے والے کے جواب میں سخت کلامی کرتے ہو اور اُس سے جوش میں آکر وہ پھر اور بدکلامی کرتا ہے تو پھر تم مٹ جائو اور اپنے آپ کو فنا کردو لیکن اُس منہ کو توڑ دو جس منہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کیلئے گالی نکلی تھی۔ اُس کو خاموش کرانا تمہاراہی فرض ہے کیونکہ تمہارے ہی فعل سے اُس نے مزید گالیاں دی ہیں۔ کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم ایک سخت بدلگام دشمن کا جواب دے کر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دِلواتے ہو اور پھر خاموشی سے گھروں میں بیٹھ رہتے ہو!! اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی حیا ہے اور تمہارا سچ مچ یہ عقیدہ ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہئے تو پھر یا تم دنیا سے مٹ جائو یا گالیاں دینے والوں کومٹاڈالو۔ مگر ایک طرف تم جوش اور بہادری کا دعویٰ کرتے ہو اور دوسری طرف بُزدلی اور دون ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہو۔ میں تو ایسے لوگوں کے متعلق بھی یہی کہتا ہوں کہ وہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دلواتے ہیں اور وہ آپ سلسلہ کے دشمن اور خطرناک ہیں۔
اگر کسی کو مارنا پیٹنا جائز ہوتا تو میں توکہتا کہ ایسے لوگوں کو بازار میں کھڑا کرکے انہیں خوب پیٹنا چاہئے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آپ گالیاں دلواتے ہیں اور پھر مخلص اور احمدی کہلاتے پھرتے ہیں۔میں اِس موقع پر ان لوگوں کو بھی جو انہیں اعلیٰ مخلص سمجھتے ہیں کہتا ہوں کہ مومن بیوقوف نہیں ہوتا۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ گالیاں دینا کوئی بہادری ہے؟تم کسی چوہڑے کو دو روپے دے کر دیکھ لو وہ تم سے زیادہ گالیاں دے دے گا۔ پس تم بھی اگر گالیاں دیتے ہو تو زیادہ سے زیادہ چوڑھوں والا کام کرتے ہو۔ یہ کوئی ایسا پیچیدہ مسئلہ نہیں جو تمہیں سمجھ میں نہ آسکے۔ مگر میں متواتر تین سال سے سمجھارہا ہوں اور تم ابھی تک سمجھنے میں نہیں آتے۔ میرے سامنے کوئی آٹھ دس برس کابچہ لے آئو، میں یہ باتیں اُس کے سامنے دُہرادیتا ہوں تمہیں خودبخود معلوم ہوجائے گا کہ وہ بچہ میری بات کوکتنی جلدی سمجھ لیتا ہے مگر کیامیرے تین سالہ خطبات بھی تمہیں میرے منشاء سے آگاہ نہیں کرسکے۔
پس میں پھر ایک دفعہ کھول کھول کر بتادیتا ہوں کہ شریفانہ اور عقلمندانہ طریق دو ہی ہوتے ہیں۔ یا انسان کو مرنا آتا ہو یا انسان کو مارنا آتا ہو۔ ہمارا طریقہ مرنے کا ہے مارنے کا نہیں۔ ہم کہتے ہیں ہمیں اللہ تعالیٰ نے ابھی اِس مقام پر رکھا ہؤا ہے کہ مر جائو مگر اپنی زبان نہ کھولو۔ کیا تم نے جہاد پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظم نہیں پڑھی؟ اس میں کس وضاحت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتایا ہے کہ اگر جہاد کاموقع ہوتا توخداتعالیٰ تمہیں تلوار کیوں نہ دیتا۔ اُس کا تلوار نہ دینا بتاتا ہے کہ یہ تلوار سے جہاد کا موقع نہیں۔ اسی طرح اگر تمہارے لئے مارنے کامقام ہوتا تو تمہیں اس منہ کے توڑنے کی طاقت اور اس کے سامان بھی ملتے جس منہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ مگرتمہیں اِس کی توفیق نہیں دی گئی اوروہ سامان نہیں دیئے گئے۔ پس معلوم ہؤا کہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے یہی مقام مقدر کیا ہے کہ تم گالیاں سنو اور صبر کرو۔ اوراگر کوئی انسان سمجھتاہے کہ اس میں مارنے کی طاقت ہے تو میں اسے کہوں گا اے بے شرم !تُو آگے کیوں نہیں جاتا اور اُس منہ کو کیوں توڑ نہیں دیتا جس منہ سے تُو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دلوائی ہیں۔ گندے سے گندے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق کہے جاتے ہیں۔ تم خود دشمن سے وہ الفاظ کہلواتے ہو اورپھر تمہاری تگ و دو یہیں تک آکر ختم ہوجاتی ہے کہ گورنمنٹ سے کہتے ہو کہ وہ تمہاری مدد کرے۔ گورنمنٹ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ تمہاری مدد کرے۔ کیا اُس کا اور تمہارا مذہب ایک ہے؟ یا اس کی اور تمہاری سیاست ایک ہے؟ یا اس کا نظام تمہارے نظام سے ملتا ہے؟ پھر گورنمنٹ تمہاری کیوں مدد کرے۔ گورنمنٹ اگر ہمدردی کرے گی تو اُن لوگوں سے جو تمہارے دشمن ہیں کیونکہ وہ اکثریت میں ہیں اور تم اقلیت میں اور گورنمنٹوں کو اکثریت کی خوشنودی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس گورنمنٹ کو تم سے کس طرح ہمدردی ہوسکتی ہے۔ اُس کو تو اُسی وقت تک تمہارے ساتھ ہمدردی ہوسکتی ہے جب تک تم خاموش رہو اور دشمن کے مقابلہ میں صبر سے کام لو اور اِس صورت میں بھی صرف شریف حاکم تمہاری مدد کریں گے اور کہیں گے انہوں نے ہمیں فتنہ و فساد سے بچالیا۔ مگر یہ خیال کرنا کہ گورنمنٹ اُس وقت مدد کرے جب دشمن تم کو گالیاں دے رہا ہو اور تم جواب میں اُسے گالیاں دے رہے ہو نادانی ہے۔ اُس وقت اُس کی ہمدردی اکثریت کے ساتھ ہوگی کیونکہ وہ جانتی ہے اقلیت کچھ نہیں کرسکتی۔ پس گورنمنٹ سے اسی صورت میں تم امداد کی توقع کرسکتے ہو جب خود قربانی کرکے لڑائی اورجھگڑے سے بچو اور اُس وقت بھی صرف شریف افسر تم سے ہمدردی کریں گے اور کہیں گے کہ انہوں نے ہماری بات مان لی اور خاموش رہ کر اور صبر کرکے فتنہ و فساد کو بڑھنے نہ دیا مگر رذیل حکام پھر بھی تمہارے ساتھ لڑیں گے اور کہیں گے کیا ہؤا اگر دشمن کا تھپڑ اُنہوں نے کھالیا ۔ وہ زیادہ تھے اور یہ تھوڑے۔ اگر اکثریت سے ڈر کر تھپڑ کھالیاہے تو یہ کوئی خوبی نہیں۔ پس وہ تمہارے صبر کو بُزدلی پر محمول کریں گے اور تمہاری خاموشی کو کمزوری کا نتیجہ قرر دیں گے۔ پس تمہارا گورنمنٹ کے پاس شکایت کرنا بالکل بے سُود ہے اورمجھے تمہاری مثال ویسی ہی نظر آتی ہے جیسے پہلے زمانہ میں جب یہ معلوم نہ تھا کہ کشمیری فوج میں بھرتی ہونے کے قابل نہیں۔
ایک دفعہ سرحد پر لڑائی ہوئی اور حکومت انگریزی نے مہاراجہ صاحب جموں سے کہا کہ اپنی فوج میں سے ایک دستہ ہماری فوج کے ساتھ روانہ کردیں۔ اُنہوں نے ایک کشمیری دستہ کو تیار ہوجانے کاحکم دے دیا جب وہ تیار ہوگئے تو کشمیری افسرایک وفدکی صورت میں مہاراجہ صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے ہم نے اتنی مدت تک آپ کا نمک کھایا ہے ہمیں لڑائی سے ہرگز انکار نہیں،ہم ہروقت جانے کیلئے تیار ہیں صرف ایک ہماری عاجزانہ التماس ہے اوروہ یہ کہ سُنا ہے پٹھان سخت وحشی ہوتے ہیں آپ ہمارے ساتھ کچھ سپاہی کردیں جو ہماری جانوں کی حفاظت کریں۔ تم بھی خدا کے سپاہی کہلاتے ہو مگر انگریزی سپاہیوں کے پہرے میں کام کرنا چاہتے ہو۔ پھر تم سے زیادہ بے غیرت اور کون ہوسکتا ہے۔ اِس وقت تم سب اِس مثال کے سننے پر ہنس پڑے ہو مگر کیا تمہاری بھی یہی حالت نہیں۔ تم کہتے ہودشمن کامقابلہ کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہیں مگر انگریزی سپاہیوں کی حفاظت میں۔ اگر واقعہ میں تم خداتعالیٰ کے سپاہی ہو اور اُس کے دشمن کے مقابل پر کھڑے ہو تو پھر تمہیں کسی حفاظت کی ضرورت ہی کیا ہے۔ تم میرے بتائے ہوئے طریق کے ماتحت صبر اور شکر کرو پھر خداتعالیٰ کے سپاہی آپ تمہاری مدد کیلئے آسمان سے اُتریں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایک دفعہ ایک مقدمہ ہؤا ۔ جس مجسٹریٹ کے پاس وہ مقدمہ تھا اُس پر لاہور کے بعض آریوں نے سخت زور ڈالا کہ جس طرح بھی ہوسکے تم کسی نہ کسی طرح مرزا صاحب کو سزا دے دو اور اِس قدر اصرار کیا کہ آخر اس نے وعدہ کرلیا کہ میں کچھ نہ کچھ سزا انہیں ضرور دے دوں گا۔ ایک ہندو دوست جو اس مجلس میںموجود تھے انہوں نے یہ تمام حالات ایک احمدی وکیل کے پاس بیان کئے اور کہا کہ میں خود اس مجلس میں موجود تھا آریوں نے بہت اصرار کیا اور آخر مجسٹریٹ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ میں ضرور حضرت مرزا صاحب کوکچھ نہ کچھ سزا دے دوں گا۔ وہ احمدی وکیل گھبرائے ہوئے گورداسپور آئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اُن دنوں گورداسپور میں ہی تھے میں وہاں موجود نہیں تھا لیکن جو دوست وہاں موجود تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب اُس دوست نے آکر ذکر کیا کہ حضور! ہمیں کوئی فکر کرنا چاہئے اس مجسٹریٹ نے فیصلہ کردیا ہے کہ آپ کو ضرور سزا دے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُس کی طرف کوئی توجہ نہ فرمائی۔ آخر انہوں نے دوبارہ اور سہ بارہ یہی بات دُہرائی اور کچھ اور دوست بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے اور سب نے کہا کہ اب ضرور کوئی فکر کرنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اُس وقت لیٹے ہوئے تھے۔ آپ نے جب متواتر یہ بات سُنی تو آپ نے چارپائی سے سر اُٹھایا اور لیٹے لیٹے کُہنی پر ٹیک دے کربڑے جلال سے فرمایا وہ مجسٹریٹ ہوتا کیا چیز ہے وہ خدا کے شیرپرہاتھ ڈال کر تو دیکھے۔
پس کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر خدا تمہارے ساتھ ہو تو یہ مجسٹریٹ اور افسر اور پولیس کے آدمی تمہیں کچھ نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟کبھی نہیں۔ ہاں تمہیں اُس تعلیم پر عمل کرنا چاہئے جو خداتعالیٰ کے مامور نے تمہیں دی اور جو یہ ہے کہ ؎
گالیاں سن کردعا دو پا کے دُکھ آرام دو
کِبر کی عادت جو دیکھو تم دکھائو انکسار
اور جو تعلیم قرآن کریم میں خداتعالیٰ نے دی ہے کہ جب کسی مجلس میں خدا اور اُس کے رسول کو گالیاں دی جاتی ہوں تو وہاں سے اُٹھ کر چلے آئو اور بے غیرت مت بنو۔ مگر تمہاری غیرت کا یہ حال ہے کہ اِدھر ہم منع کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اُن کے جلسہ میں کوئی نہ جائے اور اُدھر تم میں سے کوئی کونوں میں چھپ کر ان کی تقریریں سنتا ہے، کوئی کسی ہمسایہ کے مکان پر چڑھ کر وہاں سے تقریریں سنتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے دل میں یہ گُدگُدی اُٹھ رہی ہوتی ہے کہ کسی طرح جائیں اور گالیاں سنیں۔ کیا تم نے کبھی مجھے بھی دیکھا کہ میں ان جلسوں میں گیا ہوں؟ پھر کیا تمہارے سینہ میں ہی دل ہے میرے سینہ میں نہیں۔ پھر تم کو کیوں شوق آتا ہے کہ جائو اور گالیاں سنو۔ اِسی وجہ سے کہ تمہارے دلوں میں غیرت نہیں اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ تمہارے دلوں میں غیرت نہیںتو اِس سے مراد وہی خاص لوگ ہیںجو بڑھ بڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور پھر قابلِ شرم بے غیرتی کا نمونہ دکھاتے ہیں ۔پس تمہارا گالیاں سننا بتاتا ہے کہ تمہارے دل مُردہ ہو چکے ہیں ۔تم بے ایمانی کے ساتھ ایمان کا جبہ پہن کر نکلے ہو اور تمہاری غرض محض تماش بینی ہے۔ ایسے لوگ اُس وقت بھی تماش بین ہوتے ہیں جب وہ ہماری مجلسوں میں شور مچارہے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عزت کی حفاظت ہونی چاہئے۔اور جب وہ اُس مجلس میں جاتے ہیں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دی جاتی ہیں تو وہاں بھی ان کی حیثیت ایک تماش بین کی سی ہوتی ہے اور یقینا ایسے لوگ اپنی قوم کیلئے عار اورننگ کا باعث ہوتے ہیں۔
پھر میں تمہیں کہتا ہوں تم اپنے آپ کو با غیرت کہتے ہو اور تم سمجھتے ہو کہ تم سلسلہ کیلئے قربانی دینے والے ہو مگر تمہارے پاس اِس الزام کا کیا جواب ہے کہ جب آریوں کا پروسیشن نکل رہا تھاتو تم میں سے ایک شخص نے مرزا غلام احمد زندہ باد کا نعرہ لگایا۔اس میں غیرت کا کونسا سوال تھا؟کیا دوسری قوموں کا حق نہیں کہ وہ بھی اپنے بزرگوں کے حق میں نعرے لگائیں ؟ تم کہتے ہو لوگ ہم پر جھوٹا الزام لگاتے ہیںکہ ہم میں سے کسی نے لیکھرام مُردہ بادکا نعرہ لگایا تھا۔ میں کہتا ہوںیہ درست ہے کہ تم میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا مگر تم انصافاًآپ ہی بتائو کہ جس وقت تمہارا پروسیشن نکل رہا ہو اور تم محمد زندہ باد کے نعرے لگارہے ہوتو اُس وقت اگر کوئی شخص ابوجہل زندہ باد کا نعرہ لگا دے تو تمہارے تن بدن میں آگ لگ جائے گی یا نہیں؟اگر لگ جائے گی تو تمہیں سمجھنا چاہئے کہ تمہارے دشمن کے سینہ میں بھی دل ہے۔ اور اُس کادل بھی اُس وقت دکھتا ہے جب تم اُس کے مظاہرہ کے وقت میں مرزا غلام احمد زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہو۔ پس تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے مُردہ باد نہیں کہا تھا،زندہ باد کہا تھا۔سوال یہ نہیں کہ تم نے کیا کہا بلکہ سوال یہ ہے کہ ایسے موقع پر زندہ باد کا نعرہ لگانا بھی دوسرے کو چڑانا اور اسے تکلیف دینا ہوتا ہے۔ جس وقت تم اپنا پروسیشن نکال رہے ہو اور سلسلہ کی تعریف میں نعرے لگا رہے ہو اُس وقت اگرکوئی شخص لیکھرام زندہ باد یا ثناء اللہ زندہ باد کا نعرہ لگا دے تو ایمان سے کہو کہ تمہیں غصہ آئے گا یا نہیں؟ آئے گااور ضرور آئے گا۔ پھر کیا تمہارے ہی سینہ میں دل ہیں اور تمہارے دشمن کے سینہ میں دل نہیں کہ تمہیں تو ایسے نعرے بُرے لگ سکتے ہیں مگر انہیں بُرے نہیں لگ سکتے ہیں۔میں تو حیران ہوتا ہوں جب میں یہ بحث سنتا ہوں کہ ہم نے مرزا غلام احمد زندہ باد کہا تھا۔ لیکھرام مُردہ باد تو نہیں کہا تھاحالانکہ سوال زندہ باد کہنے کانہیںبلکہ سوال یہ ہے کہ وہ زندہ باد کا نعرہ کس موقع پر لگایا تھا۔کیا وہ تمہارا جلسہ تھا؟اگر تم اپنے جلسہ میں اس قسم کانعرہ لگاتے تو یہ ایک معقول بات سمجھی جا سکتی تھی مگر غیر کے جلسہ یا جلوس میں نعرے لگاناصریح اشتعال دلانے والی حرکت تھی ۔پس یہ بحث ہی کیاہوئی کہ ہم نے لیکھرام مُردہ باد نہیں کہا، مرزا غلام احمد زندہ باد کہا۔اُس وقت مرزا غلام احمد زندہ باد کہنا بھی لیکھرام مُردہ باد کہنے کے مترادف تھا۔ یاد رکھو جب کوئی قوم اپنے کسی لیڈر کے اعزاز میںپروسیشن نکال رہی ہو تو اس وقت تمہارا کوئی حق نہیں کہ تم اُس میں دخل دو اور اگر تم اپنے لئے یہ بات جائز سمجھتے ہو تو پھر دشمن کا بھی حق ہوگا کہ وہ تمہارے پروسیشن میں لیکھرام زندہ باد کے نعرے لگائے۔ میں یہ مانتا ہوں کہ جن لوگوں نے یہ کہاکہ لیکھرام مُردہ بادکا نعرہ لگایا گیا تھا انہوں نے جھوٹ بولا۔ کیونکہ اِس وقت تک کوئی گواہی ایسی نہیںملی جس سے یہ الزام ثابت ہؤا ہو۔ علاوہ ازیں جب وہ شخص جس پر یہ الزام لگایا جاتا ہے قسم کھاکر کہہ چکا ہے کہ میں نے اِس قسم کا نعرہ نہیں لگایا تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اُس کی قسم کو تسلیم کریں۔ پس یہ جو کہا گیا کہ احمدیوں کی طرف سے لیکھرام مُردہ باد کا نعرہ لگایا گیا یہ جھوٹ کہا گیا اور اس میں کسی قسم کی سچائی نہیں۔ یہ کہنا کہ پولیس کی ڈائری میں یہ لکھاہؤا ہے یہ بھی کوئی معقول ثبوت نہیں۔ پولیس والے بیسیوں جھوٹ بول لیتے ہیں اور جب وہ انہی کے چٹے بٹے ہیں تو ان سے ہم سچائی کی توقع کس طرح رکھ سکتے ہیں۔ پھر جس شخص کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اُس نے لیکھرام مُردہ باد کا نعرہ لگایا جب وہ قسم کھاکر کہتا ہے کہ میں نے ایسا نعرہ نہیں لگایا تو اب اِس کے بعد تصفیہ کی صورت یہی رہ جاتی ہے کہ پولیس والے قسم اُٹھالیں کہ واقعہ میں لیکھرام مُردہ باد کا نعرہ لگایا گیا تھا پھر خدا خود فیصلہ کر دے گاکہ کس نے سچ بولا اور کس نے جھوٹ۔
پولیس کی ڈائریوں کا تو یہ حال ہے کہ گزشتہ سالوں میں جب یہ الزام لگایا گیا کہ احمدی لیکچراروں نے ڈپٹی کمشنر کو حرامزادہ کہا ہے تو پولیس کے جس آدمی نے یہ رپورٹ کی تھی اُسے جب کہا گیا کہ ڈپٹی کمشنر چھوڑ کسی کو بھی کسی احمدی لیکچرار نے حرامزادہ نہیں کہا پھر تم نے ایسا کیوں لکھا؟ تو وہ کہنے لگا یہ ایک راز کی بات ہے میں اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ پھر کم سے کم بیس فیصلے ہائی کورٹ کے مَیں ایسے پیش کرسکتاہوںجن میںیہ تسلیم کیا گیا ہے کہ پولیس والوں نے جھوٹ بولا۔ پس ہم کہتے ہیں یہ الزام بالکل جھوٹا ہے۔جس پر یہ الزام لگایا جاتاہے وہ قسم اور غلیظ قسم کھا کر اپنے کو بری ثابت کر چکا ہے ۔اور اگر یہ جھوٹی قسم ہے تواس کے مقابلے میں دوسرا شخص جسے یہ یقین ہے کہ واقعہ میں لیکھرام مُردہ باد کا نعرہ لگایا گیاکیوں ایسی ہی قسم نہیں کھالیتا۔پھر یہ بھی تو غور کرنا چاہئے کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ کسی مخالف نے خود اِس قسم کا نعرہ لگا دیاہو تاکہ فتنہ پیداہو جائے۔
پس قسمیہ طورپر اس بات کو بیان کردینے کے بعد کہ لیکھرام مُردہ باد کانعرہ نہیں لگایا گیا ہم اس امر کو تسلیم نہیں کرسکتے کہ یہ الزام درست ہے۔ ہاں ہم یہ ضرور کہیں گے کہ اس موقع پر مرزا غلام احمد زندہ باد کہنا بھی فتنہ پیدا کرنے کاموجب تھا۔ ہماری جماعت بھی اپنے جلوسوں میں زندہ باد کے نعرے لگایا کرتی ہے۔ ایسے مواقع پر اگر مقابل کا فریق بھی نعرے لگانا شروع کردے توفساد ہو گا یا نہیں ۔ پس میں تو ہر گز نہیں سمجھتا کہ جس چیز کو ہم اپنے لئے جائز نہیں سمجھتے وہ دوسروںکیلئے جائز سمجھیں۔ بحیثیت انسان ہونے کے ہندو بھی وہی حق رکھتے ہیںجو ہم رکھتے ہیں بلکہ سکھوںاور ہندوئوں کو جانے دو چوڑھوں کا بھی انسان ہونے کے لحاظ سے وہ حق ہے جو ایک مسلمان یا سکھ یا ہندو کاہے۔اورہمیں کوئی اختیار نہیں کہ ہم یہ کہیں کہ ہمیں تو فلاں حق حاصل ہے مگر ہندوئوں یا سکھوںیا چوڑھوں کو حاصل نہیں۔جو حق ہمیں حاصل ہو گا وہ دوسروں کوبھی حاصل ہوگا اور جو بات ہمیں بُری معلوم ہوتی ہو ہم کو چاہئے کہ دوسرے کے حق میں بھی اِس طرح نہ کریں۔ آج ہی اگر میں ایک میٹنگ کر کے لوگوں کے سامنے یہ بات پیش کروںکہ جب آپ لوگ کہتے ہیں’’ محمدؐ زندہ باد‘‘ یا’’ غلام احمد کی جے‘‘ تو کیا آپ اُس وقت برداشت کریں گے کہ آپ کے جلوس میں ہی مخالف ابوجہل زندہ باد یا لیکھرام زندہ باد کے نعرے لگائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ سَو فیصدی لوگ اشتعال میںآ جائیں گے اوروہ کہیں گے کہ ہم اپنے جلسہ یا جلوس میں اس قسم کے نعرے ہر گز نہیں سُنیں گے۔ پس اگرتم اپنے جلسوں اور جلوسوں میں ان نعروں کو سننے کیلئے تیار نہیں تو کیا تمہارا فرض نہیں کہ دوسروں کے جلسوں اور جلوسوں میں بھی تم اپنی زبانوں کوروکواور اپنے جذبات پر قابو رکھو۔
پھر ایک اورموٹی بات ہے جس کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے اور وہ یہ کہ تم میں سے ایک شخص ایک مُجرمانہ فعل کرتا ہے تو تم سب کو کیوں فکرپڑ جاتی ہے حالانکہ تمہارا فرض صرف اتناہے کہ تم مجرم کو مجرم قرار دے دو اور اس کے فعل سے اپنی بے تعلقی اور براء ت کا اظہار کر دو۔ آج ہندوستان میں جس قدر فسادات ہیں ان کی بڑ ی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص جُرم کرتا ہے اور اُس کی ساری قوم سمجھ لیتی ہے کہ شاید ہم پر الزام لگا ہے اور زخم کردہ قوم واقعہ میں بھی اس ساری قوم کو مجرم سمجھنے لگتی ہے۔ اگر تم بھی ایسا ہی کرو تو تم میں اور ان میں کیافرق رہ جائے۔ اگر کسی نے مرزا غلام احمد زندہ باد کا نعرہ لگایا تو بیشک یہ فقرہ بالکل سچ تھا مگر سچے فقرے بھی بعض دفعہ فتنہ وفساد کا موجب ہو جاتے ہیں۔ قرآن کریم میںہی آتا ہے،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ہمارے رسول !بعض منافق تیرے پاس آتے اور قسمیں کھاکھا کر کہتے ہیں کہ تُو اللہ تعالیٰ کا رسول ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیںکہ تُو اللہ کا رسول ہے مگر اے ہمارے رسول منافق اس وقت جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔پس بعض لوگوں کا رسول اللہ ﷺ کو رسول کہنا بھی جھوٹ تھا حالانکہ اس سے بڑھ کر سچی بات اور کیاہو سکتی ہے۔
اسی طرح حضرت علیؓ کے زمانہ میں کچھ لوگ تھے جنہوں نے ایک دفعہ کہا بادشاہت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے،۳؎ مسلمانوں کے کام باہمی مشورہ سے ہونے چاہئیں۔ حضرت علیؓ سے کسی نے یہ بات کہی تو آپ نے فرمایا کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِ اُرِیْدَ بِھَا الْبَاطِلُ۴؎ کہ یہ بات تو سچی ہے مگر اس سے فساد پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تو ہر سچی بات موقع و محل کو مدنظر رکھے بغیر بیان کرنی جائز نہیں ہوتی۔ میاں اوربیوی کے تعلقات سے زیادہ حلال اور کونسا تعلق ہو سکتا ہے مگر کیاجائز ہے کہ انسان مخصوص تعلقات کاذکر کرے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں اُس عورت پر اللہ تعالیٰ کی *** ہے جو اپنے خاوند کے پاس جاتی اور پھر باہر جاکر اُس کے متعلق باتیں کرتی ہے مگر کیا وہ سچ نہیں ہوتا۔
غرض سچائی کے اظہار کیلئے بھی شرائط ہوتی ہیں اور ان شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ہر شخص جس بات کو سچائی سمجھتا ہے وہ اس سچائی کے اظہار کا حق تو رکھتا ہے لیکن دشمن کی مجلس میں جب طبائع میں جوش ہو اُسے اس کے بیان کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ جب لوگ جلوس نکال رہے ہوتے ہیں اُس وقت ان کی ساری عقیدت جو اپنے پیشوائوں کے ساتھ وہ رکھتے ہیں پُھوٹ پُھوٹ کر نکل رہی ہوتی ہے۔ محرم میں جب شیعہ لوگ روتے پیٹتے ہیں، سُنی بھی شیعہ ہوجاتے اور ان میں سے اکثر ان میں شامل ہوجاتے ہیں۔ کسی عقلمند کا مقولہ ہے کہ مسلمان گیارہ مہینے سُنی رہتے ہیں اور بارہویں مہینہ سب شیعہ بن جاتے ہیں۔ درحقیقت یہ بات بالکل درست ہے۔ جس وقت شیعہ لوگ ’’یا حسین یا حسین‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں تو واقعاتِ کربلا کی یاد میں سُنیوں کی عقلوں پر بھی پردہ ڈال کر انہیں شیعہ بنادیتی ہے اور اپنی سُنیّت انہیں بھول جاتی اور شیعیت ان پر غالب آجاتی ہے۔ اسی طرح جس وقت ہندو یا سکھ جلوس نکال رہے ہوتے ہیں ان کی عقیدت کا جوش انتہاء تک پہنچا ہؤا ہوتا ہے۔ اُس وقت اگر کوئی مخالف اپنے عقیدہ کااظہار کرتا ہے تو گو وہ ایک سچائی ہی ہو مگر چونکہ اس سے دوسرے کی دل آزاری ہوتی ہے اس لئے وہ مجرم ہے اور اس کی جماعت کا کوئی حق نہیں کہ اس سے ہمدردی کرے۔
درحقیقت میں تو اب کچھ مدت سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ گورنمنٹ کو چاہئے کہ وہ تمام جلوسوں کو بند کردے۔ جلوسوں کی وجہ سے ہندوستان میں بڑے بڑے فساد ہوتے ہیں۔ جب جلوس نکلتا ہے تو یوںمعلوم ہوتا ہے کہ ایک آفت آگئی۔ اِدھر جلوس والوں میں جوش ہوتاہے اُدھر جلوس کو دیکھ کر مخالفوں کے دلوں میں غیظ و غضب بھڑک اُٹھتا ہے اور بسااوقات فساد اور کشت و خون تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ پس ہندوستان کے امن کی راہ میں جلوس ایک خطرناک روک ہیں اور گورنمنٹ کو چاہئے کہ وہ ان جلوسوں کو بند کردے۔ اگر گورنمنٹ جلوسوں کے متعلق کوئی ایسا عام فیصلہ صادر کردے کہ کسی کو بھی جلوس نکالنے کی اجازت نہ ہوگی تو میں اپنی جماعت کی طرف سے حکومت کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس کے خلاف نہ صرف کوئی پروٹسٹ نہیں کریں گے بلکہ حتّی الْاِمکان اس کی مدد کریں گے۔ کیونکہ اس زمانہ میں جلوس سخت فسادات کا موجب بنے ہوئے ہیں۔
پس تم میں سے جس شخص نے بھی یہ نعرہ لگایا اُس نے سخت غلطی کی اور ایک مجرمانہ فعل کا ارتکاب کیا۔ میں بتاچکا ہوں کہ یہ کوئی سوال نہیں کہ نعرہ کیا لگایا گیا اور میں تو یہاں کے لوگوں کے خطوں کو پڑھ پڑھ کر سفر میں حیران ہوتا رہا کہ یہ کیا لکھا ہوتا ہے کہ پولیس کا الزام غلط ہے۔ ایک شخص نے مرزا غلام احمد زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا، لیکھرام مُردہ باد کا نعرہ اس نے نہیں لگایا، مجھے ان دونوں فقرات میں فرق تو نظر آتا ہے مگر مجھے ان میں سے کسی کے جواز کی بھی دلیل نظر نہیں آتی۔ میرے نزدیک تو یہ کہنا کہ لیکھرام مُردہ باد ہم نے نہیں کہا مرزا غلام احمد زندہ باد ہم نے کہا۔ ویسی ہی بات ہے جیسے میری ایک بھانجی کو ایک اُستاد پڑھایا کرتا تھا۔ بچی بہت چھوٹی تھی۔ اُسے آداب کا کوئی پتہ نہ تھا۔ ایک دن اس نے کسی لڑکی کے منہ سے گدھی کا لفظ سنا اسے یہ لفظ بہت پسند آیا اور جب اُستاد اُسے پڑھانے آیا اور کسی بات پر ناراض ہؤا تو وہ کہنے لگی ’’ددھی‘‘ یعنی تُو گدھی ہے بوجہ زبان کے صاف نہ ہونے کے گدھی کی جگہ اُس نے ’’ددھی‘‘ کہا۔ اُستاد نے اس کے والد کے پاس شکایت کی کہ آپ کی لڑکی نے آج مجھے گدھی کہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اِس نے کہیں سے گدھی کا لفظ سنا ہے اور اب یہ گالی اس کی زبان پر چڑھ گئی ہے۔ باپ نے لڑکی کو بُلایا۔ چونکہ واقعہ تازہ ہی تھا اس لئے وہ سمجھ گئی کہ ضرور اِسی بات کی وجہ سے مجھے بلایا گیا ہے۔ وہ ڈرتی ڈرتی اور کانپتی کانپتی آئی اور کہنے لگی ددھی نہیں ددھا یعنی میں نے گدھی کہنے میں غلطی کی اصل میں مجھے گدھا کہنا چاہئے تھا۔ اُس نے سمجھا شاید غلطی اِس میں ہوئی ہے کہ میں نے مرد کو گدھی کہہ دیا حالانکہ اسے گدھا کہنا چاہئے تھا اور اسے یہ خیال ہی نہ آیا کہ مجھے ان میں سے ایک لفظ بھی نہیں کہنا چاہئے تھا۔ یہی مثال اس شخص پر صادق آتی ہے جس نے یہ حرکت کی ہے ۔اس موقع کے لحاظ سے یہ دونوں فقرے جو زیربحث ہیں نامناسب تھے اور نہیں کہنے چاہئیں تھے۔ پس تم اپنے جذبات کو روکنے کی عادت ڈالو اور لوگوں کے احساسات کا خیال رکھو۔ اب یہ ہوتا ہے کہ ہم انتہائی کوشش کرکے دشمن کو جب اس مقام پر لے آتے ہیں جہاں وہ مجرم ثابت ہونے والا ہوتا ہے اور اس کی سَو گالیاں پکڑ لیتے ہیں تو جھٹ تم میں سے ایک شخص کوئی سخت لفظ کہہ دیتا ہے اور خواہ وہ گالی نہ ہو محض ایک سخت لفط ہو حکومت ان کی سَو گالیوں کو پرے پھینک کر کہہ دیتی ہے کہ آپ کے آدمی نے بھی یہ گالی دی ہے۔ پس تمہارے اس ایک آدمی کی غلطی کی وجہ سے حکام ایک عرصہ تک یہی دُہراتے چلے جاتے ہیں کہ آپ کے آدمی نے بھی یہی بات کہی تھی اور اس طرح ہماری ساری سکیم تم میں سے ایک شخص جوش میں آکر تباہ کردیتا ہے اور جب بھی کوئی ایسا موقع آتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں اب ضرب لگانے کاوقت ہے، ہماری جماعت کا کوئی شخص اپنی بیوقوفی سے اُس ضرب کو اپنے اوپر لے لیتا اور بنی بنائی سکیم کو بگاڑ دیتا ہے۔
پس میں پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ میری یہ باتیں سمجھنی مشکل نہیں۔ تم میں سے جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ یہ باتیں مشکل ہیں اور جلدی سمجھ میں نہیں آسکتیں وہ کوئی آٹھ دس سال کا بچہ میرے سامنے لے آئے، میں اُسے یہ تمام باتیں سمجھا کر بتادیتا ہوں۔ پھر اتنی وضاحت کے بعد بھی اگرتم لوگ نہ سمجھو تو سوائے اس کے اور کیا معنے ہوں گے کہ تم چاہتے ہی نہیں کہ سمجھو اور میری باتوں پر عمل کرو۔ میں سوئے ہوئے کو تو جگا سکتاہوں مگر جوجاگ رہا ہو اور یونہی آنکھیں بند کرکے پڑا ہؤا ہو، اُسے کس طرح جگا سکتا ہوں۔ اس کے متعلق تو میرے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ میں خدا سے ہی کہوں کہ خدایا! مجھے اِس نادان دوست سے بچا کہ یہ میرے کام میں روک بنا ہؤا ہے۔
(الفضل ۵ ؍ جون ۱۹۳۷ئ)
۱؎ بخاری کتاب الجھاد باب یقاتل من وراء الامام ویتقٰی بہٖ
۲؎ التوبۃ: ۶۱
۳،۴؎ تاریخ ابن اثیر جلد۳ صفحہ۳۳۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء


۱۷
سب سے بڑا حربہ دُعاہے
(فرمودہ ۱۱؍ جون ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں تحریک جدید کے گزشتہ جلسہ کے موقع پر بوجہ بیماری کے شامل نہیںہوسکا تھا اور گو اب بھی اس بیماری کے اثر کے ماتحت میں اِس قابل نہیں ہوں کہ زیادہ بول سکوں بلکہ اس بیماری کے بعد اب تک یہ حالت ہے کہ اگر مجھے کھڑا ہونا پڑے تو سر میں ایسا شدید چکر آتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں شاید گرجائوں گا اس لئے صحت کے لحاظ سے زیادہ کھڑا ہونے کی طاقت اب بھی نہیں رکھتا مگر چونکہ اس وقت میں حصہ نہ لے سکا تھا اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس کی بجائے آج اختصار کے ساتھ کوئی بات کہہ دوں تا اس ثواب میں مَیں بھی شریک ہوسکو ں اور وہ بات جو میں کہنی چاہتا ہوں انہی روزوں اور دعائوں کے متعلق ہے جن کی تحریک کوئی دو ماہ ہوئے میں نے کی تھی۔
تحریک جدید کا اُنیسواں مطالبہ یہ ہے کہ دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں اور اِس کیلئے میں نے یہ طریق اختیار کررکھا ہے کہ ہر سال کچھ روزے رکھے جائیں اور دعائیں کی جائیں۔ اور یہ روزے جہاں تک ممکن ہو مقررہ دنوں میں ہی رکھے جائیں سوائے اِس کے کہ کوئی شخص بیمار ہو یا کوئی اوروجہ پیش آجائے۔ اِس دفعہ میری تجویزکے مطابق سات ماہ میں چودہ روزے مخلصینِ جماعت رکھیں گے اور رکھ رہے ہیں۔ میںنے نصیحت کی تھی اور اب پِھر اُسے دُہراتا ہوں کہ اِن دنوں میں دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان بعض فِتن کو جو خواہ احرار کی طرف سے ہوں یا بعض حکام کی طرف سے، اپنے فضل سے دور کردے۔
اس کے علاوہ ایک زائد بات جو میں کہنی چاہتا ہوں یہ ہے کہ دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو منافقین کا رنگ رکھتے ہیں یا تو ہدایت دے دے یا ان کو الگ کردے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری عاجزانہ دعائیں قبول ہورہی ہیں اور اب ایسے لوگ یا تو ظاہر ہوجائیں گے اور یا توبہ کرلیںگے۔ ہماری ذاتی خواہش تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو توبہ کی توفیق دے اور ہدایت نصیب کرے۔ لیکن اگر مشیتِ الٰہی یہی ہو کہ جہا ں بیرونی فِتنوں میں جماعت کی آزمائش ہوئی ہے اندرونی فِتنوں میں بھی ان کی آزمائش کرے اور منافقوں کو بھی زور لگانے کا موقع دے تو جو اس کی مرضی اور مشیت ہے ہم بھی اُسی پر رضامند ہیں۔ پس دوست خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں اور جن کیلئے ممکن ہو روزے رکھیں اور کوشش کریں کہ سوائے بیماری کے یا کسی اور وجہ سے انہی ایام میں رکھیں تا دعائیں کثیر تعداد میں ہوں اور اکٹھی آسمان کو جائیں۔
یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کا سلسلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آخری جنگ ہے جو اسلام کو دنیامیں دوبارہ قائم کرنے کیلئے لڑی جاری ہے۔ افتراء کی جتنی صورتیں انسانی ذہن میں آسکتی ہیں، فریب اور دغا کے جتنے طریق انسانی دماغ ایجاد کرسکتاہے اور گمراہ کرنے ورغلانے کیلئے شیطان جتنی تدابیر اختیار کرسکتا ہے وہ سب احمدیت کے خلاف اختیار کی گئیں اور اختیار کی جارہی ہیں۔ مگر باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس سلسلہ کی حفاظت کا وعدہ ہے جو پورا ہوکر رہے گا۔ نہ دشمنوں کی طاقت اس وعدہ کے پورا ہونے میں روک ہوسکتی ہے اور نہ ہمارے ضُعف یا کمزوری سے اس کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کی ترقی کے وعدے کئے تو یہ جانتے ہوئے کئے تھے کہ جماعت کتنی کمزور ہے اور اس علم کے ساتھ کئے تھے کہ ہمارے دشمن کتنے طاقتور ہیں۔ وہ عالم الغیب خدا جانتا تھا کہ اِس جماعت پر کتنے حملے ہونے والے ہیں اور کہ وہ ان کے دفاع کی کس قدر طاقت رکھتی ہے۔ مگر اس نے باوجود یہ جاننے کے کہ جماعت میں کتنی طاقت ہے اور کہ دشمن اسے نقصان پہنچانے کیلئے ہر وہ طریق اختیار کرے گا جو پہلے انبیاء کے سلسلوں کے مقابل پر اختیار کئے گئے، اس کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے جو پورا ہوکر رہے گا اور خدا کی نصرت تمام تاریکیوں کو پھاڑ کر اور اس کا نور ہزارہا بادلوں کو چیرتا ہؤا ظاہر ہوگا۔ دشمن کی تخویف ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکے گی اور اس کے تمام مکرو فریب ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچاسکیں گے۔ یہ خداتعالیٰ کا کلام ہے جو پورا ہوکر رہے گا۔ یہ کلام اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل کیا۔ پھر ہزاروں احمدیوں اور غیراحمدیوں پر اِس کی تصدیق کیلئے اس کا کلام نازل ہؤا۔ ہم اگر دعا کرتے ہیں تو اِس لئے نہیں کہ ہمیں خدا کی نصرت پر شبہ ہے بلکہ اس لئے کہ خداتعالیٰ کی نصرت جلد آئے تا اس میں ہمارا بھی ہاتھ ہو اور اللہ تعالیٰ اس میں شامل ہونے کا موقع ہمیں بھی عطا کردے۔
ہماری یہ دعائیں اِس خوف سے نہیں کہ دشمن ہمیں نقصان پہنچائے گا اور اِس شبہ سے نہیں کہ سلسلے کی ترقی کس طرح ہوگی بلکہ اس یقین کے ساتھ ہیں کہ ترقی ضرور ہوگی۔ پس آئو ہم سب مل کر وہ سب سے بڑا حربہ اور سب سے زبردست ہتھیار جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے استعمال کریں اور اپنی کمزوریوں کو اُس کے حضور پیش کرکے اُس کے فضلوں کو ڈھونڈیں تا وہ ہمارے دشمنوں کو زیر کردے اور سلسلہ کا مؤید و ناصر ہو اور ہر اس کمزوری کو جو جماعت میں پائی جاتی ہے دور کرے اور منافقین کو یا تو ہدایت دے اور یا انہیں ظاہر کردے تا سلسلہ کی ترقی کے راستہ میں ہرقسم کی روکیں دور ہوں۔ اسی طرح بیرونی دشمنوں کیلئے بھی ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو بھی ہدایت نصیب کرے اور اُن کی گالیوں کو دعائوں میں بدل دے اور اگر ان کے اعمال کو دیکھتے ہوئے وہ ان کی تباہی کا ہی فیصلہ کرچکا ہے تو پھر ہماری دعا یہ ہے کہ وہ ہمارے ہاتھوں سے تباہ ہوں اور ہماری زندگیوں میں ہوں تا ہم اس کے ثواب میں حصہ دار ہوسکیں۔
(الفضل ۱۹ ؍ جون ۱۹۳۷ئ)

۱۸
نماز باجماعت پڑھنے کی سخت تاکید
ولی کی رضامندی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوسکتا
چندوں کے متعلق ایک اعتراض کا جواب
(فرمودہ ۱۸؍ جون ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
دو تین سال ہوئے میں نے قادیان کی تنظیم مساجدکے مطابق کرنے کے متعلق بعض ہدایات دی تھیں اورمیری غرض اِس تنظیم سے یہ تھی کہ ایک تو نماز باجماعت جو اسلام کا نہایت ہی اہم اصل ہے اور جس کے بغیر انسان مومن ہی نہیں ہوسکتا اس کی طرف جماعت کو زیادہ توجہ ہوجائے۔ اور دوسرے لوگوں کا اجتماع خدا کے گھر میں پانچ اوقات میں ایسی طرز پر ہو کہ سلسلہ کے کارکن انہیں دین کے متعلق واقفیت بہم پہنچاتے ہوئے ضروری مسائل سے آگاہ رکھ سکیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں پہلے زمانہ کی نسبت تو اس انتظام کے بعد نماز باجماعت کی ادائیگی میں ترقی نظر آتی ہے لیکن جو دوسری غرض تھی کہ اس اجتماع کو دینی واقفیت اور تربیت کا ذریعہ بنایا جائے، مجھے اِس میں بہت سی کمی دکھائی دیتی ہے اور مساجد کے اجتماع سے محلے والے وہ فائدہ نہیں اُٹھاتے جو انہیں اُٹھانا چاہئے اور نہ وہ نفع حاصل کرتے ہیں جس نفع کا حاصل کرنا خداتعالیٰ کا منشاء ہے۔ بلکہ میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ گو پہلے زمانہ کی نسبت نمازباجماعت کی پابندی اب زیادہ ہے مگر جب میں نے ابتدا میں یہ ہدایت کی تھی تو جس زور و شور سے لوگ باجماعت نماز میں شامل ہؤا کرتے تھے وہ زورو شور مجھے اب نظر نہیں آتا۔ میں نے تاکید کی تھی کہ خصوصیت سے بچوں اور نوجوانوں کو مساجد میں لایا جائے۔ کیونکہ اِسی عمر میں انہیں باجماعت نماز کی عادت پڑ سکتی ہے۔ چنانچہ اس کے مطابق کثرت سے بچے اور نوجوان مساجد میں آتے اور چھوٹی مسجد کے متعلق تو مجھے معلوم ہے کہ وہ بالکُل پُر ہوجاتی تھی اور دوسرے حصہ مسجد میں بعض کو نماز پڑھنی پڑی تھی۔ مجھے یاد ہے اُس وقت نہایت کثرت سے بچے آتے مگر اب وہ شکلیں مجھے کم نظر آتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب لوگوں میں نماز باجماعت کی طرف سے غفلت ہوجاتی ہے اور نماز کے فوائد اُن کے کانوں تک نہیں پہنچتے تو آہستہ آہستہ لوگ ان مسائل سے غافل ہوجاتے ہیں اور دین میں بہت بڑا رخنہ واقعہ ہوجاتا ہے۔ حالانکہ نماز باجماعت کے کئی فائدے ہیں۔
اوّل تو نماز باجماعت کی پابندی سے اسلام اور ایمان مضبوط ہوتا ہے۔ گویا یہ پہلا فائدہ ہے جونماز باجماعت سے حاصل ہوتا ہے۔
دوسرے نماز باجماعت کی ادائیگی کے نتیجہ میں خداتعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے۔
تیسرے جماعت میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوتا ہے۔
چوتھے لوگوں کو ایک دوسرے کے حالات کا علم ہوتا رہتا ہے۔
پانچویں جب بغیر کسی خاص تحریک کے پانچ وقت اجتماع ہو تو اس اجتماع سے یہ فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے کہ ضروری مسائل سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے اور ان کی تعلیم و تربیت کیلئے ضروری تقاریر کرائی جائیں۔ ان فوائد میں سے آخری فائدہ ایسا ہے جو خود توجہ کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر توجہ نہ کی جائے تو یہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ مگر چونکہ ہماری جماعت نے پانچ وقتوں کے اجتماعات سے اِس لحاظ سے فائدہ اُٹھانے کی طرف توجہ نہیں کی اِس لئے میں دیکھتا ہوں کہ قادیان میں بعض دفعہ معمولی دینی مسائل سے بھی لوگ ناواقف رہتے ہیں۔
پس آج ایک تو مَیں تمام محلوں والوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے ہر ایک کو نماز باجماعت میں شامل ہونا چاہئے سوائے اس کے جو اتنی دور کام پر گیا ہؤا ہو کہ وہاں سے مسجد میں نماز باجماعت کیلئے نہ آسکتا ہو یا بیمار اور معذور ہو۔ اِس قسم کی مستثنیات ہمیشہ موجود ہوتی ہیں۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے بھی مستثنیات کا سلسلہ کیسا شروع کیا ہے۔ ہماری شریعت کا حکم ہے اگر انسان کھڑا ہوکر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ جائے۔ بیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر پڑھ لے اور اگر لیٹ کر اشاروں سے بھی نہ پڑھ سکے تو دل میں ہی پڑھ لے۔ پھر وضو کیلئے کس طرح مستثنیٰ مقرر کردیا کہ پانی سے وضو کرو اور اگر پانی نہ ملے تو تیمم کرلو۔ غرض ہر حالت کیلئے ہماری شریعت نے مستثنیات رکھی ہیں۔پس ہم یہ نہیں کہتے کہ خواہ کیسی ہی حالت ہو نماز کیلئے مسجد میں آنا چاہئے۔ ایک شخص بیمار ہو تو وہ بیماری کی حالت میں مسجد میں نہیں آسکتا۔ ایک شخص اپنے کاروبار کے لئے دو تین میل دور جاتا ہے تو اس کیلئے سوائے اِس کے کہ کوئی صورت نہیں کہ یا اکیلے نماز پڑھے یا کسی اور کو اپنے ساتھ شامل کرکے جماعت کرالے۔ تو ان مستثنیات کو علیحدہ کرکے کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت کے تمام دوست نماز باجماعت میں شامل ہوں۔
بعض افسر شکوہ کرتے ہیں کہ ہم لوگوں کو توجہ دلاتے ہیں مگر وہ پھر بھی نماز باجماعت کیلئے نہیں آتے۔ میرے نزدیک اتنی مایوسی کی حالت نہیں ہوتی جتنی وہ ظاہر کرتے ہیں۔ آخر جو شخص خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہے اُس کے سامنے اگر کھول کر بیان کیا جائے کہ اسلام نے نمازباجماعت کی کتنی تاکید کی ہے اور اس کے کیا کیا فوائد ہیں تومیں نہیں سمجھ سکتا کوئی شخص باجماعت نمازمیںشامل ہونے میں تأمّل کرے سوائے ایسے شخص کے جس کے ایمان میں خلل واقع ہوچکا ہو۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کو پورے طور پر سمجھایا نہیں جاتا۔ اس وجہ سے وہ چھوٹے چھوٹے حرج کے خوف سے نماز باجماعت میں شامل ہونے سے کوتاہی کرجاتے ہیں۔ لیکن اگر سلسلہ کے علماء اس طرف توجہ کریں اور وہ گھروں پر پہنچ کر لوگوں کو اِن مسائل سے آگاہ کریں تو میں سمجھتا ہوںبہت سے لوگوں کی اصلاح ہوجائے اور جو باوجود سمجھانے کے اپنی اصلاح نہیں کرے گا اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ مومن نہیں کیونکہ اس نے اپنے نِفاق پر خود مُہر لگادی۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جو نماز باجماعت کی پابندی نہیں کرتا وہ منافق ہے۱؎۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ جو لوگ عشاء اور فجر کی نمازوں میں نہیں آتے، میرا جی چاہتا ہے کہ ان کے گھروں کو آگ لگادوں۔۲؎ ظہر، عصر اور شام کی نمازوں میں زمیندار اپنے کھیتوں میں کام کررہے ہوتے ہیں یا کام ختم کرکے واپس آنے کی تیاری میں ہوتے ہیں اِس لئے اُس وقت سب مسلمانوں سے یہ امید کرنا کہ وہ مسجد میں آئیں ایک ناواجب مطالبہ ہے۔ اس لئے رسول کریم ﷺ نے ان نمازوں کا ذکر نہیں کیا ورنہ جماعت کے ساتھ تو سب نمازیں ہی ضروری ہیں۔پس اُس وقت ہمارا بھی ان سے یہی مطالبہ ہوگا کہ اگر وہ اکیلے ہیں تو اکیلے نماز پڑھ لیں اور اگر کوئی دوسرا مل سکے تو اُس سے مل کرجماعت کرالیں۔ لیکن عشاء اور فجر دو وقت ایسے ہیں جب لوگ بِالعموم اپنے گھروں پر ہوتے ہیں۔ زمینداروں میں سے ایک حصہ گو ایسا بھی ہوتا ہے جو فجر سے پہلے اپنے کھیتوں میں چلا جاتا ہے لیکن زیادہ تر گھروں پر ہی موجود ہوتے ہیں۔ پس چونکہ یہ ایسے وقت ہیں جن میں عُذر بہت کم اور شاذ ہوتا ہے اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ عشاء اور فجر کی نماز میں نہیں آتے، میراجی چاہتا ہے کہ اپنی جگہ کسی اور کو امام بنائوں جو لوگوں کونماز پڑھائے اور کچھ لوگ اپنے ساتھ لوں اور ان کے سروں پر لکڑیوں کے گٹھے رکھوادوں اور ان لوگوں کے مکانوں پر جاکر جو عشاء اور فجر کی نمازوں میں نہیں آتے آگ لگادوں اور انہیں گھروں سمیت جلا ڈالوں۔۳؎ دیکھو ہماری شریعت میں نماز باجماعت نہ پڑھنے کے متعلق کتنا شدید حکم ہے اور وہ بھی ایسے انسان کی طرف سے جو رحمِ مجسم تھا۔ جس نے شدید ترین دشمنوں سے عفو کا سلوک کیا۔ وہ سمجھتا ہے کہ جو لوگ نماز باجماعت میں شامل نہیں ہوتے وہ اس قابل ہیں کہ زندہ جلادیئے جائیں۔ کیونکہ ان میں انسانیت کا شائبہ تک باقی نہیں رہا۔ اگر شریعت کے یہ احکام لوگوں کو بتائے جائیں اور رسول کریم ﷺ کی احادیث سے انہیں مسائل سمجھا ئے جائیں تو میں سمجھتا ہوں جو مومن ہیں وہ اپنی اصلاح ضرور کرلیں گے۔
پس محلہ کے افسروں پر اس کی بہت بڑی ذمہ واری عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح سلسلہ کے علماء پر بھی بہت بڑی ذمہ واری عائد ہوتی ہے۔ اوّل تو ہر محلہ کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ ان لوگوں کو سمجھائیں جو نماز باجماعت میں شامل نہیں ہوتے اگر ان کے سمجھانے سے نہ سمجھیں تو سلسلہ کے علماء کو ان کے پاس لے جائیں اور سمجھانے کی کوشش کریں۔ اور اگر کوئی ایسا ہو جس کی پھر بھی اصلاح نہ ہو تو اُس کی شکایت میرے پاس کی جائے۔ لیکن میرے پاس شکایت کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اُس پر خود حجت تمام کرلو۔ یہ نہیں کہ مسجد میں وعظ کیا اور سمجھ لیا کہ ہمارا فرض ادا ہوگیا۔ بلکہ جو لوگ نہیں آتے ان کے گھروں پر پہنچ کر انہیں سمجھایا جائے ۔ اُن کی بیویوں اور بچوں کو بھی سمجھایا جائے تاکہ اگر ان میں سے کوئی غلطی کرے تو دوسرا اُسے ہوشیار کرسکے۔ اسی طرح چاہئے کہ علماء کو گھروں پرلے جایا جائے اوران کے ذریعہ سمجھایا جاوے اور اگر ان دو صورتوں کے بعد بھی کسی شخص کی اصلاح نہ ہو تو پھر مجھے لکھو۔ میں ایسے شخص کو سمجھانے کی کوشش کرو ںگا اور اگر وہ نہیں مانے گا تو میں سمجھوں گا ایسا شخص صرف نام کے طورپر احمدیت میں شامل ہے، دل اس کا احمدیت کی صداقت پر ایمان نہیں رکھتا۔ پھر ایسے لوگوں کا ہماری جماعت میں شامل رہنا زیادہ مُضِرّ ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ نکل جائیں۔
اِسی طرح نماز باجماعت کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے کا موقع مل جاتا ہے اورمیں سمجھتا ہوں ہر محلے والوں کو چاہئے کہ وہ ہفتہ میں ایک دفعہ علماء سلسلہ کو لے جایا کریں اور ان روزمرہ کام آنے والے مسائل کے متعلق جن کا جاننا ہر شخص کیلئے ضروری ہے، ان سے وعظ کرایا کریں۔ مثلاً جن محلوں میں تاجر زیادہ ہیں اُن میں تاجرانہ ایمانداری کے متعلق وعظ ہونے چاہئیں، جن میں زمیندار زیادہ ہیں ان میں انہی عیبوں کے متعلق لیکچر دلانے چاہئیں جن میں بِالعموم زمیندار مبتلا ہوتے ہیں۔ مثلاً لڑکیوں کو ورثہ نہ دینا، سودی قرض لینا اور اسی طرح کے اور معاملات جو عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اورمیں سمجھتا ہوں ہزاروں مسائل ایسے ہیں جن سے عوام الناس واقف نہیں ہوتے۔ بیشک جب وہ ان عیوب کا ارتکاب کریں گے ہم انہیں مجرم قرار دیں گے لیکن ان کا جُرم غفلت کی وجہ سے ہوگا شرارت کی وجہ سے نہیں۔ پس یہ ایک عظیم الشان فائدہ ہے جو نماز باجماعت سے حاصل ہوسکتاہے۔ لیکن نماز باجماعت کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے لوگ ان فوائد سے محروم رہتے ہیں اور وہ بعض دفعہ ایسی حرکات کے مرتکب ہوجاتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ میں قادیان میں دو تین سال سے ایسے حالات دیکھ رہا ہوں کہ اگر میری ہدایات کی پابندی کی جاتی اور محلوں میں علمائے سلسلہ کے وعظ ہوتے رہتے تو وہ واقعات یا تو بالکل نمودار نہ ہوتے یا اگر ہوتے تو بہت کم۔
ہمارے زمینداروں میں سکھوں کے ساتھ رہائش رکھنے کی وجہ سے مردو عورت کے تعلقات کے متعلق اسلامی تعلیم سے بہت حد تک غفلت پید اہوگئی ہے۔ سکھوں میں عام طور پر شادی کے طریق اسلامی طریق کے بالکل خلاف ہیں۔ مثلاً چادر ڈال دیتے ہیں یا اگر لڑکی راضی ہو تو ماں باپ کی مرضی کے بغیر اُس سے شادی کرلیتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی یہ رسوم مسلمانوں میں بھی پیدا ہوگئی ہیں۔ حالانکہ اسلام کی تعلیم اس کے بالکل اُلٹ ہے۔ اسلام میں عورت سے برابر کا سلوک کیاجاتا ہے۔ جیسے حق مردوں کے رکھے گئے ہیں اسی طرح عورت کے بھی رکھے گئے ہیں اور نکاح کے متعلق تو خصوصیت سے اسلام نے بعض قوانین مقرر کئے ہیں۔ جب تک ان قوانین کی پابندی نہ کی جائے اُس وقت تک انسان گناہ سے بچ نہیں سکتا۔ لیکن متواتر میرے پاس ایسے کیس آئے ہیں اور گو عام طور پر وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جن میں قادیان سے باہر رہنے والے لوگ مبتلا ہوتے ہیں یا بعض دفعہ قادیان کا کیس ہوتا ہے لیکن اس کی ابتدا باہر کی زندگی سے ہوئی ہوتی ہے لیکن بہرحال وہ قادیان کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور ایسے واقعات سُننے میں آتے ہیں کہ بعض لوگ عورتوں سے بغیر ان کے ماں باپ یا بھائیوں یا چچائوں کی رضامندی کے محض عورت کی رضامندی دیکھ کر شادی کرلیتے ہیں اور اسے بالکل جائز سمجھتے ہیں۔ چونکہ عام طور پر زمینداروں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ جب لڑکی بالغ ہوجائے اور کسی جگہ وہ اپنی رضامندی کا اظہار کردے تو ماں باپ یا بھائیوں یا چچوں کی رضامندی کی ضرورت نہیں رہتی اس لئے وہ ایسی لڑکیوں سے شادی کرلیتے ہیں اور انہیں اپنے گھروں میں بسالیتے ہیں حالانکہ اسلام نے ایسے نکاحوں کی ہرگز اجازت نہیں دی۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ لَا نِکَاحَ اِلاَّ بِوَلِیٍّ ۴؎ ولی کی رضامندی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوسکتا۔ اوّل ولی جو شریعت نے مقرر کیا باپ ہے، باپ نہ ہو تو پھر بھائی ولی ہیں اور اگر بھائی نہ ہوں تو چچے ولی ہیں۔ غرض قریب اور بعید کے جدی رشتے دار ایک دوسرے کے بعد ولی ہوتے چلے جاتے ہیں اور اگر کسی لڑکی کا باپ موجود ہو تو اُس کی اجازت کے بغیر سوائے مذہبی تبائن اور پھر قضا کی اجازت کے بغیر ہر گز نکاح جائز نہیں۔ اگر باپ نہ ہو تو بھائیوں کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں۔ اگر بھائی نہ ہوں تو چچوں کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں۔ ہاں اگر کوئی بھی جدی رشتہ دار موجود نہ ہو تو قاضی یا عدالت کی اجازت سے اُس لڑکی کا نکاح ہوسکتا ہے لیکن اس کے بغیر جو نکاح ہو اگر مسلمانوںنے کیا ہو تو اس کا نام اسلام نے نکاح نہیں بلکہ اُدھالا رکھا ہے۔
ابھی چند دن ہوئے میرے پاس ایک کیس آیا۔ چند غیراحمدی میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا ہماری لڑکی آپ کا ایک احمدی نکال کر لے آیا ہے۔ اوّل تو میرے لئے یہی سُننا سخت شرمندگی کا موجب تھا کہ ایک احمدی کسی کی لڑکی نکال لائے۔ لیکن جب ایسے واقعات ہوں تو سننے ہی پڑتے ہیں۔ میںنے بھی ان کے واقعات سُنے اور ناظر صاحب امور عامہ کو چِٹّھی لکھی کہ اس لڑکی اور لڑکے کا پتہ لگایا جائے کہ آیا وہ یہاں ہیں یا نہیں۔ تحقیق پر معلوم ہؤا کہ وہ لڑکی یہاںہے لیکن کسی گھر میں پوشیدہ ہے۔ پرسوں رات میں سوچکا تھا بارہ ایک بجے کا وقت تھا چونکہ ہم گیارہ بارہ بجے کے درمیان سوتے ہیں اس لئے گو بارہ بجے کے بعد کا وقت ہوگا کہ کسی نے آکر مجھے جگایا اور کہا کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب نے جو ناظر امور عامہ ہیں رُقعہ بھیجا ہے۔ میں نے وہ رُقعہ کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ لڑکی مل گئی ہے اور وہ فلاں گھر میں موجود ہے اور محلے والوں نے مکان پرپہرہ لگادیا ہے تا وہ کہیں نکل نہ جائے۔ اب آپ بتائیں کہ کیا کریں۔ میں نے انہیں لکھا کہ جن کے مکان میں وہ رہتی ہے ہمیں معلوم نہیں کہ انہیں سارے حالات کا علم ہے یا نہیں اس لئے آپ انہیں سمجھادیں کہ یہ شریعت کے خلاف بات ہے اور کسی غیر لڑکی کو اس طرح نکاح میں لے آنا ہرگز جائز نہیں چاہے وہ بالغ ہی کیوں نہ ہو۔پس آپ کو چاہئے کہ لڑکی رشتہ داروں کے سپرد کرادیں اور اگر وہ لڑ کی رشتہ داروں کے سپرد نہ کریںاور معاملہ پولیس کے سپرد ہو سکتا ہو تو پولیس کے پاس پہنچا دیا جائے اور انہیںہماری طرف سے اچھی طرح سے بتا دیا جائے کہ اسلامی شریعت کی رو سے یہ بات جائز نہیں۔
اس کے بعد مجھے رات کو کچھ معلوم نہیں ہؤا۔البتہ صبح کو ایک عورت میرے پاس آئی جو اُس لڑکے کی والدہ تھی جس پر یہ الزام لگا کہ اُس نے لڑکی نکالی۔مجھے کہنے لگی میرا خسر پُرانا احمدی تھااور اس نے احمدیت کی خاطر بڑ ی بڑ ی تکلیفیں اُٹھائیں۔اِس لڑ کی کے متعلق اس کے رشتہ داروں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ میرے لڑ کے سے بیاہ دیں گے لیکن بعد میں ان کی نیت بدل گئی اور انہوں نے رشتہ دینے سے انکار کر دیا۔لڑکی کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو وہ بھاگ کر قادیان آ گئی۔اس کے رشتہ دار اس کے پاس پہنچ گئے۔ہم نے انہیں کہا کہ اپنی لڑ کی بے شک لے جائومگر وہ لڑ کی گئی نہیں۔محلہ کے جو افسر تھے انہیں جب یہ معلوم ہؤا تو انہوں نے کہا تم قادیان سے چلے جائو۔چنانچہ ہم باہر گئے اور ایک جگہ اس لڑ کی سے نکاح پڑھوا کے واپس آگئے۔میں نے اُس عورت کو سمجھایا کہ دیکھوسوال یہ نہیںکہ تمہارے لڑکے نے اب اس لڑکی سے نکاح کر لیا ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ آیا شریعت نے اِس نکاح کی اجازت دی ہے یا نہیں۔میں نے کہا تم کہتی ہوکہ ہم نے احمدیت کی خاطر بڑ ی بڑ ی تکلیفیں اُٹھائیں۔اگریہ بات درست ہے تو تم خود ہی بتائو کہ تم اپنی اس حرکت سے اسلام اور احمدیت کی بدنامی کا موجب بن جائوتو کتنے افسوس کی بات ہو گی۔تمہاری تمام تکلیفیں جو تم نے احمدیت کی خاطر برداشت کیں رائیگاں چلی جائیں گی اور تمہاری عاقبت خراب ہو جائے گی۔وہ کہنے لگی لڑکی کہتی تھی کہ میں مر جائوں گی لیکن کسی اور جگہ نہیں جائوں گی۔میں نے کہا کہ اگر وہ مرتی تو اُس کا گُناہ اُس پر ہوتا،تم پر نہ ہوتا یا گورنمنٹ پر اس کی زمہ داری عائد ہوتی تمہارا کام یہی تھا کہ تُم اُسے رُخصت کردیتے اور کہہ دیتے کہ جب تک تمہارا ولی راضی نہ ہو جائے اُس وقت تک تم ہمارے ہاں نہ آ ئو۔پھر میں نے کہا کہ تمہارے لئے اب بھی یہی مناسب ہے کہ لڑکی واپس کردواورپھر اُس کے رشتہ داروں کی منت سماجت کروکہ اب تمہاری بھی ذِلّت ہے اور ہماری بھی ذِلّت ،بہتر ہے یہی نکاح قائم رکھا جائے۔اس کے بعد مجھے معلوم نہیںہؤا کہ کیاہؤا۔لیکن آج مجھے پھر ایک چٹھی ملی اور وہ چٹھی ان لوگوں کی طرف سے ہے جن کا اصل مکان ہے۔وہ شکایت کرتے ہیںکہ محلے والے انہیں دِق کرتے ہیںاور کہتے ہیں کہ لڑکی یہاں کیوں رہتی ہے۔جس سے میں سمجھتا ہوںکہ اس کا معاملہ ابھی تک تصفیہ نہیں ہؤا مجھے دوسرے ذرائع سے معلوم ہؤا ہے کہ یہ معاملہ پولیس کے دخل دینے والا نہیں۔لڑکی جوان ہے اور وہ مجسٹریٹ کے سامنے بیان دے چکی ہے کہ میں اسی لڑکے کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔لیکن خواہ مجسٹریٹ کے سامنے وہ لڑ کی جواب دے چکی ہوکسی مجسٹریٹ ،کسی قاضی اور کسی حکومت کے کہنے سے یہ نکاح جائز نہیں ہوسکتا۔
جس بات کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ناجائز قرار دیا ہے اگر اس بات کو ساری دنیا کی حکومتیں مل کر بھی جائز قرار دیں تو وہ جائز نہیں ہو سکتی۔ایک غیر احمدی کیلئے، ایک ہندو کیلئے اور ایک عیسائی کیلئے حکومت کا قانون تسلی کا موجب ہو سکتاہے۔کیونکہ غیر احمدیوں کے پاس گو ایک سچا مذہب ہے لیکن وہ اس کے احکام پر عمل نہیں کرتے ۔ قرآن مجید ان کے پاس ہے لیکن وہ اسے بھول چکے ہیں۔ عیسائی شریعت کو *** قرار دیتے ہیںاور ان کے ہاں شریعت دستور اور رسم و رواج کانام ہے۔ہندو بھی مذہب سے بیگانہ ہوچکے ہیںلیکن ہمارے ہاں معزز وہ ہے جو شریعت پر عمل کرتاہے اور اِسی شریعتِ اسلامی کودنیا میں صحیح طور پر قائم کرنااحمدیت کی غرض ہے۔اگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو بھیجا ہے اور واقعہ میں آ پ اُسی کی طرف سے ہیںتو ہماری شریعت یہی کہتی ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر سوائے ان مستثنیات کے جن کا استثنا ء خود شریعت نے رکھا ہے، کوئی نکاح جائز نہیںاور اگر ہوگا تو ناجائز نکاح ہوگااور ادھالا ہوگااورہمارا فرض ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو سمجھائیں اور اگر نہ سمجھیں تو ان سے قطع تعلق کر لیں۔
اِس قسم کے واقعات بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی ہوئے ہیں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک لڑکی نے جو، جوان تھی ایک شخص سے شادی کی خواہش کی مگر اس کے باپ نے نہ مانا۔وہ دونوں ننگل چلے گئے اورجا کر کسی مُلّانے سے نکاح پـڑھوا لیااور کہنا شروع کردیا کہ ان کی شادی ہو گئی ہے۔پھر وہ قادیان آگئے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو معلوم ہؤا توآپ نے ان دونوں کو قادیان سے نکال دیااور فرمایا یہ شریعت کے خلاف فعل ہے کہ محض لڑ کی کی رضامندی دیکھ کر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا جائے۔وہاںبھی لڑکی راضی تھی اور کہتی تھی کہ میںاس مرد سے شادی کروں گی لیکن چونکہ ولی کی اجازت کے بغیر انہوں نے نکاح پڑھوایااس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں قادیان سے نکال دیا۔ اسیطرح یہ جو نکاح ہؤا یہ بھی ناجائز ہے اور یہی وہ بات ہے جومیں نے اس مائی سے کہی۔میں نے اسے کہا دیکھو اِس وقت تمہارے بیٹے کو رشتہ مل رہا ہے اس لئے تم کہتی ہو جب لڑکی راضی ہے تو کسی ولی کی رضامندی کی کیا ضرورت ہے لیکن تمہاری بھی لڑکیاں ہیں اور اگر وہ بیاہی جاچکی ہیںتو ان کی بھی لڑکیاں ہوں گی کیا تم پسند کرتی ہو کہ ان میں سے کوئی لڑکی اسی طرح نکل کر کسی غیر مرد کے ساتھ چلی جائے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک مقام پرفرماتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ بدسلوکی نہ کرو۔۵؎ کیونکہ اگر آج کوئی یتیم ہے تو کل تمہارے گھر میں بھی یتیم بن سکتے ہیں۔ اسی طرح میں نے اسے کہا تم سوچواگر کل تمہاری بیٹی یا نواسی اُدھل کر چلی جائے تو کیا تم ٹھنڈے دل سے یہ کہنے کے لئے تیار ہوگی کہ ہم اس کے جانے پر خوش ہیں۔ کیا ہؤااگر ہم ناراض ہیں ۔وہ تو جس جگہ گئی اس جگہ جانے پر راضی تھی ۔اگر کوئی شریف گھرانہ اپنی لڑکیوں کے متعلق اس قسم کی بات برداشت نہیں کر سکتا تو دوسروں کی لڑکیوں کے متعلق بھی یہ بات برداشت نہیں کرنی چاہئے۔لیکن ہوتایہ ہے کہ اگر کسی اورکی لڑکی ولی کی رضامندی کے بغیر آجائے تو کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں،لڑکی کی مرضی یہی تھی۔اور جب ان کی اپنی لڑکی کسی ـغیر مرد کے ساتھ نکل جائے تو کہتے ہیں کہ اس بے حیا کا سر کاٹ دینا چاہئے۔جس سے معلوم ہؤا کہ نفس اندر سے انہیں بھی مجرم قرار دے رہاہوتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے ایک دفعہ ایک چور سے کہادیکھو تم لوگوں پر کتنا ظلم کرتے ہو۔ ان کی محنت تم جاکر چُرا لاتے ہو۔کیا تمہیں شرم نہیں آتی ؟ وہ کہنے لگاواہ مولوی صاحب !آپ نے بھی عجیب بات کہی بھلا ہمارے جیسی بھی کوئی شخص محنت کرتا ہے۔لوگ دن کو محنت کرتے ہیں اور ہم رات کو جب تمام لوگ آرام سے سوئے ہوئے ہوتے ہیں، روزی کمانے کیلئے نکلتے اوراپنی جان ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں کیا اس سے زیادہ بھی کوئی حلال کی روزی ہے؟آپ فرماتے ہیں میں نے سمجھا یہ اس طرح قابو نہیں آئے گاکسی اور طرح اسے سمجھانا چاہئے۔چنانچہ آپ نے اُس سے اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کردیںاور پوچھا تم چوری کس طرح کرتے ہو۔کہنے لگا چوری کیلئے پانچ آدمی ہونے ضروری ہیں۔ایک تو گھر کا راز دان ہوتا ہے وہ بتاتا ہے کہ فلاں فلاں جگہ سے راستہ ہے۔فلاں جگہ اِتنا مال پڑا ہے۔گھر والے باہر سوتے ہیں یا اندر ہوشیار رہتے ہیںیا غافل۔ پھر ایک سیندھ لگانے کا مشّاق ہوتا ہے۔ایک آدمی اندر جاتاہے ایک دُور کھڑا پہرہ دیتارہتا ہے اور ایک سنار ہوتا ہے۔ جب ہم زیور چُراکرلاتے ہیںتو اس کو سنار کے پاس لے جاتے ہیںوہ فوراً گلا دیتا ہے اور پھر کوئی پہچان بھی نہیں سکتا کہ کس کا زیور ہے۔آپ فرماتے تھے کہ میں نے اِس پر اُسے کہا۔ اگر وہ سنار کچھ سونا رکھ لے تو تم کیا کرو؟ تم کوئی نالش تو کر نہیںسکتے۔ وہ بڑے غصے سے کہنے لگا کیا وہ اتنا بے ایمان ہو جائے گاکہ ہم اُسے سونا دیں اور وہ رکھ لے؟ میں نے کہا تم ابھی تویہ کہ رہے تھے کہ اصل حلال روزی ہماری ہی ہے اور ابھی سنار کو سوناچُرانے پر تم بے ایمان بتا رہے ہو، یہ کیابات ہے۔تو اصل بات یہ ہے جب دوسروں کے مال کی چوری ہو تو انسان کہتا ہے یہ چوری نہیں کسب ہے اور جب اپنے مال کا سوال آجائے توکہنے لگ جاتا ہے کیا کوئی اتنا بھی بے ایمان ہو گیا ہے کہ ہمارا مال چرا لے۔تو شریعت نے اچھے بُرے فعل کے پہچاننے کا یہ ایک نہایت ہی آسان گُر بتا دیا ہے۔وہ کہتی ہے جب تم کسی سے کوئی معاملہ کرو تو یہ سوچ لیا کرو کہ اگر وہی معاملہ تم سے کیا جائے تو تم خوش ہو یاناراض ۔اسی طرح سوچ لو اگر تمہاری لڑکیاں کسی جگہ راضی ہوں اور تم ناراض اور پھر وہ تمہاری رضامندی کے خلاف گھر سے باہر جاکر کسی سے نکاح پڑ ھوالیںتو کیا تم ہنستے ہوئے لوگوں سے یہ ذکر کرو گے کہ آج ہماری لڑکی اپنی مرضی سے فلاں مرد کے ساتھ نکل گئی یا شرم محسوس کرو گے؟اگر تم اپنے متعلق اس قسم کے واقعات کو پسند کرواور کہو کہ خدا کرے کہ ہماری لڑ کیوں کے ساتھ بھی یہ واقعات پیش آئیں تب تو میں مان لوں گاکہ تمہاری فطرت اسے جائز قرار دیتی ہے لیکن اگر تم اس کیلئے تیار نہ ہو تو سمجھ لو کہ محمد ﷺ نے جو تعلیم دی ہے وہی پاک اور سچی تعلیم ہے اور اگر ہم اس بات کی اجازت دے دیںکہ جہاں لڑکی کا جی چاہے وہاں چلی جائے تو قوم کے اخلاق تباہ ہو جائیں۔حالانکہ ہمارا قیام لڑکیاں لینے کیلئے نہیں بلکہ روحانیت قائم کرنے کے لئے ہے۔اگر اس کے نتیجہ میں دس ہزار آدمی بھی ہم میں سے مرتد ہوتا ہو تو اس کا برداشت کرنا ہمارے لئے اس بات سے زیادہ آ سان ہے کہ ہم قومی اخلاق تباہ کرکے دس بیس ہزار لڑکیاں لے آئیں۔
پس میںپھر اس بات کو کھول کر خطبہ میں بیان کر دیتاہوں کہ ولی کی رضامندی کے بغیر لڑکی کی رضا مندی کوئی چیز نہیں۔ بے شک گورنمنٹ کا قانون اس بات کی اجازت دیتاہے کہ بالغ لڑکی جہاں چاہے شادی کرلے لیکن گورنمنٹ کا قانون سُود لینا بھی جائز سمجھتا ہے۔گورنمنٹ کا قانون سؤر کھانا بھی درست قرار دیتا ہے۔گورنمنٹ کا قانون شراب پینا بھی درست سمجھتا ہے۔مگر کیا اس وجہ سے گورنمنٹ کے قانون میں اس کی اجازت ہے ہمارے لئے سُود لینا یاسؤر کھانا یا شراب پینا جائز ہے؟پھر صرف اس وجہ سے کہ لڑ کی مجسٹریٹ کے سامنے بیان دے چکی ہے یہ نکاح کس طرح جائز سمجھا جاسکتا ہے۔ بیشک اِس فعل پرگورنمنٹ انہیں قید نہیں کرے گی۔ لیکن اگروہ اس فعل سے باز نہ آئے اور انہوں نے سچی توبہ نہ کی تو یاد رکھیں ان کے ہاں بھی بیٹیاں ہونے والی ہیںاور خدا کا قانون دنیا میں ایسا جاری ہے کہ اگر سچی توبہ نہ کی جائے تو کوئی گناہ بدلہ کے بغیر نہیں رہ سکتا اور اگراگلی نسل سے بدلہ نہ لیا جائے۔میں سمجھتا ہوں جن کی بیٹی بھاگی ہے دو چار پشت پہلے انہوں بھی کسی کی بیٹی کو بھگایا ہو گااور اب جو اس گناہ کے مرتکب ہوئے ہیںانہوں نے توبہ نہ کی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں سے انہیں بھی بدلہ مل جائے گا۔
پس بہتر ہے کہ وہ توبہ کریںاور اپنے اس فعل سے بازآ ئیں ۔ مگر توبہ یہ نہیںکہ تم کسی کا روپیہ اُٹھالو اور اُسے گھر میں رکھ لو،کسی کی بھینس چرا لواور اسے گھر میں رکھ کر صبح و شام اس کا دودھ پیئو۔کسی کے گھوڑے چُرا لو اور دن رات ان پر سواری کرواور منہ سے اَسْتَغْفِرُاللَّٰہَ اَسْتَغْفِرُاللَّٰہَ کہتے پھرویہ تمہارا اَسْتَغْفِرُاللَّٰہَ کہنا بالکل جھوٹا اور بناوٹی ہوگا۔اور خدا اُس وقت تک تمہاری توبہ قبول نہیں کرے گاجب تک تم وہ روپے،وہ بھینس اور وہ گھوڑے ان کے مالکوں کے حوالے نہ کرو ۔ہاں جب تم یہ چیزیں اصل مالکوں کو دے دیتے ہو اور پھر اَسْتَغْفِرُاللَّٰہَ کہتے ہو تو اس حالت میں تمہارا اَسْتَغْفِرُاللَّٰہَ کہنا قبول ہو سکتا ہے ورنہ اور کسی صورت میں توبہ قبول نہیںہو سکتی۔اسی طرح یہ لوگ جس عورت کو نکال کر لائے ہیں اسے واپس کر دیں اور سچی توبہ کریں تب تو اللہ تعالیٰ انہیں محفوظ رکھے گا۔ورنہ یاد رکھیںکسی نہ کسی رنگ میںبدلہ انہیں مل کر رہے گااور اللہ تعالیٰ انہیں ذِلّت پہنچا کر چھوڑے گا۔میں اس موقع پر دوسروں کونصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ جب وہ کسی سے معاملہ کیا کریںتو دیکھ لیا کریں کہ اگر ان کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہو تو وہ رنج محسوس کریں گے یا خوشی۔اگر تمہاری فطرت اپنے متعلق اس قسم کے واقعات کو نا پسند کرے تو دوسروں کے ساتھ بھی ویسا معاملہ نہ کرواوریہ یاد رکھو کہ تمہاری اپنی خواہشات پر خدا تعالیٰ کا قانون بہر حال مقدم ہے۔تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا استادمانا ہے۔اب یہ بھی کیاہؤا تم منہ سے تو کہتے ہو لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَللّٰہُ مَحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ مگر اعتقاد یہ رکھتے ہوکہ محمدﷺنے جوبات بھی کہی ہے وہ نَعُوْذُبِاللّٰہِ غلط ہے۔نمازوں کے متعلق حکم دیتے ہیںتو تم نمازیں نہیں پڑھتے، نکاحوں کے متعلق حکم دیتے ہیں کہ بغیر ولی کے نکاح جائز نہیں ہوتاتو تم یہ بات نہیں مانتے لیکن زبان سے دن رات کہتے جاتے ہو لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَللّٰہُ مَحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔جب انسان سچے دل سے کوئی بات کہتا ہے تو اس کے مطابق عمل بھی کرتاہے لیکن جب عمل کی نیت نہ ہو تو منہ سے کچھ اورکہتا ہے اور عمل سے کچھ اور ظاہرکرتاہے۔پس میں اِن تمام رُقعے لکھنے والو ں کو جو بار بارلکھتے ہیںکہ لڑکی کی مرضی اسی جگہ تھی ، عَلَی الْاِعْلَان سمجھا دیتاہوںکہ ولی کی مرضی کے بغیر ہماری شریعت کوئی نکاح تسلیم نہیںکرتی۔اور اگر ایسا کوئی نکاح ہو تو وہ نکاح نہیں ادھالا ہے۔میں امید کرتا ہوں کہ میرے یہ کہنے کے بعد اب وہ لوگ سمجھ گئے ہوں گے۔لیکن اگر اب بھی نہ سمجھیںتو میں ان کو بتادیتاہوں کہ ایسے لوگوں سے ہمیں کوئی ہمدردی نہیں جو اِس قسم کی عورتوں سے شادیاں کرتے ہیںبلکہ ہماری ہمدردی ان غیر احمدیوں اور ان سکھوں سے ہوگی جن کی بیٹیوں کو وہ اپنے گھر میں لے آتے ہیںچاہے وہ لڑ کیاں راضی ہی کیوں نہ ہوں۔
میں نے دیکھا ہے اس قسم کے نقائص کی وجہ سے بعض دفعہ عورت کو یہ سکھا دیا جاتاہے کہ تم کہہ دومیں احمدی ہوںاور فلاں شخص سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ تین چار سال ہوئے امرتسر سے ایک لڑکی یہاں آئی اور کہنے لگی میںاحمدیؐ ہوناچاہتی ہوں۔میرا باپ سلسلہ کا شدید مخالف ہے اور میںبرداشت نہیں کرسکتی کہ وہ سلسلہ کو گالیاں دے۔اب میں وہاں سے آ گئی ہوں آپ فلاں شخص سے میری شادی کرادیںمیں نے کہا اگر تم سچ مچ احمدی ہوئی ہوتو پہلے تم یہ اقرار کرو کہ تم اس شخص سے شادی نہیں کرو گی بلکہ کسی اور شریف انسان سے شادی کرو گی۔ورنہ اگر کسی خاص شخص کو تم معیّن کرتی ہوتو اس سے شادی کرنے کے معانی یہ ہیںکہ تم خدا اور اس کے رسول کے لئے احمدی نہیں ہوئی بلکہ اس شخص کے لئے احمدی بنی ہو۔ وہ کہنے لگی کہ سچی بات تو یہی ہے کہ میں اسی کی خاطر احمدی ہوئی ہوں۔میں نے کہا تو پھر میں اس شخص سے تمہاری شادی نہیں کرسکتا۔ آخر وہ یہاں سے چلی گئی اور اسی شخص کے پاس جا پہنچی۔ پھر اس سے اس نے شادی بھی کرلی لیکن نتیجہ یہ ہؤا کہ اس مردکا ایمان بھی خراب ہؤا اور چوری کے الزام میں وہ بعد میں قید بھی ہو گیا۔گویا نقد بہ نقد سزااُسے مل گئی۔اس نے دوسرے کی لڑ کی چرائی تھی خدا نے اُسے روپیہ کی چوری کے الزام میں ماخوذ کرادیااور وہ قید ہو گیااور احمدیت بھی اس کے ہاتھ سے جاتی رہی۔تو میں یہ بات واضح کردینا چاہتاہوں تا آئندہ ہماری جماعت میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔
اِس امر کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ لڑکی کی رضامندی محض کوئی چیز نہیں۔جو لڑکی اپنے ولی کی رضامندی کے بغیر کسی خاص شخص پر نظر رکھ کر اُس سے شاد ی کرلیتی ہے، اسی کانام ادھالا ہے۔اور میں سمجھتاہوں اگر کوئی غیر احمدی لڑکی اس طرح احمدیوں کے پاس آجائے اور وہ کسی خاص آدمی کو مد نظر رکھ کر اس سے شادی کرنے کیلئے آئے تو ہماری جماعت کے دوستوں کوکوشش کرنی چاہئے کہ ایسی شادی ہرگز نہ ہو ،تا ہماری جماعت میں ادھالے کی رسم نہ جاری ہو ۔ میںنے یہ مسئلہ اس لئے بتایا ہے تاکہ وہ لوگ جواس فعل کے ذمہ وار ہیںاور زمیندار بھی اچھی طرح سمجھ لیںکہ جہاں جہاںایسے واقعات رونما ہوں وہاں ان لوگوں سے ہمیں کوئی ہمدردی نہیںہوگی جو ولی کی رضامندی کے بغیر کسی لڑکی سے نکاح کر لیں۔ بلکہ ہماری ہمدردی ان لوگوں سے ہو گی جن کی لڑکیوں سے ایسا سلوک کیا گیا۔اگر ہماری جماعت نے اس طریق کار کو اختیار کیاتو وہ اخلاق قائم کرنے والے نہیں بلکہ اخلاق کو بگاڑنے والے ہوں گے۔ حالانکہ احمدیت اخلاق سنوارنے کیلئے آئی ہے اور میں جیسا کہ بتا چکا ہوںاس قسم کے واقعات کی ذمہ واری بہت حد تک محلوں کے عُہدے داروںپرعائد ہوتی ہے کہ وہ مساجد کے اجتماع سے صحیح فائدہ نہیں اُٹھاتے ۔اگر مساجد میںہمیشہ وعظ ہوتے رہیں لوگوں کو بتایا جائے کہ شادی بیاہ کے کیا مسائل ہیں۔ کونسی رسوم منع ہیں ۔ کون سے اخلاق احمدیت قائم کرنا چاہتی ہے اور کونسی بُری باتیں وہ دنیا سے دور کرنا چاہتی ہے۔تو محلے والے ان امورسے آگاہ ہوتے اور گھر والے کبھی یہ شور نہ مچاتے کہ جب لڑکی راضی ہے تو پھر اس نکاح میں کیا حرج ہے۔ان بیچاروں کو چونکہ یہ مسئلہ معلوم ہی نہ تھا۔اس لئے وہ اس کی تائید کرنے لگ گئے ۔اوریہ ایسی ہی بات ہے جیسے مسلمان کسی کے گھر سے سؤرکا گوشت چرا کر کھالے۔ تو وہ کہے میں نے سؤر کا گوشت چُرا کر نہیںکھایا مالک مکان کی اجازت لے کر کھایا ہے پھر مجھ پر کیوں ناراض ہوتے ہو۔حالانکہ مسلمانوں کا اعتراض اُس پر یہی نہیں ہوگا کہ تم نے سؤر کا گوشت چرا کر کھایا بلکہ ان کا اعتراض یہ بھی ہوگاکہ تم نے کھایا کیوں۔ اسی واقعہ کے متعلق میں نے دیکھا ہے کئی لوگ شور مچا رہے ہیںکہ جی اس کی مرضی تھی۔حالانکہ شریعت یہی کہتی ہے کہ اگر ولی کی اجاز ت نہ ہو تو لڑکی کی ایک مرضی نہیں ، ہزار مرضی نہیں،لاکھ مرضی ہوتب بھی کسی شخص کا اسے اپنے نکاح میں لانانکاح نہیں بلکہ ادھالاہے۔مگر دینی مسائل سے ناواقفیت کی حالت یہ ہے کہ وہ ادھالے کو بُرا سمجھتے ہیںمگر خیال کرتے ہیں جب ہم یہ کہہ دیں گے کہ لڑ کی کی مرضی یہی تھی تو بات صاف ہو جائے گی۔حالانکہ اس طرح بات صاف نہیں ہوتی بلکہ اور زیادہ پختہ ہو جاتی ہے۔
پس اگر ان مسائل سے لوگوں کو واقف رکھا جاتا تو نہ انہیں شرمندگی اُٹھانی پڑتی اور نہ ان جرائم کا ارتکاب وہ کرتے اور اگر باوجود علم کے وہ ایسے افعال کے مرتکب ہوتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ ہماری جماعت سے نکلومگر اب چونکہ لوگوں کو ان مسائل کا علم نہیںاس لئے یہی صورت ہے کہ ہم ان کو سمجھائیں اور انہیں ان مسائل سے واقف کریںپس میںپھر ہرمحلہ کے عہدے داروں کو توجہ دلاتاہوںکہ وہ اپنی اپنی مسجدوں کو آباد کریںاور محلہ میں کم سے کم ہفتہ میں ایک دفعہ سلسلہ کے کسی عالم سے شادی بیاہ ،معاملات اور اخلاق وغیرہ جیسے مسائل پر لیکچر دلائے جائیںتا جماعت کے لوگ اُس تعلیم سے فائدہ اُٹھا سکیںجو رسول کریم ﷺنے ایک اچھے شہری کے متعلق دی ہے۔
مثا ل کے طور پر ایک موٹی بات بیان کر دیتاہوں۔پرانے بازار کے آ گے جب نیا بازار بنا تو میں بہت خوش ہؤا کہ رسول کریمﷺ کی اُس تعلیم پرعمل ہونے لگا ہے کہ بازار چوڑے ہونے چاہئیں تا لوگوں اور سواریوں کو گزرنے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔لیکن اب مجھے کبھی بازار سے گزرنے کا اتفاق ہو تو میں دیکھتا ہوں کسی نے دو فٹ آ گے بڑھا کر تھڑا بنایاہؤاہے اور کسی نے تین فٹ۔پھر چھ مہینے کے بعد گزریں تو وہی تھڑے چارچار فٹ کے بن چکے ہوتے ہیں۔ اس طرح تھڑے بازار میں بن بن کر گزرنے کا راستہ پھر ذراسا رہ گیاہے حالانکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ راستے میں ذرا سی روک ڈالنے والے پر بھی فرشتے *** بھیجتے ہیں۔۶؎ جب ذرا سی روک کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کی رُکاوٹ برستی ہے تو راستے پر قبضہ کرنا کیسا *** کام ہے۔مگر لوگ یہ کام کرتے ہیںحالانکہ انہیں اگر رسول کریم ﷺ کے ارشادات کا علم ہوتاتو وہ کبھی اس طرح راستوں پر قبضہ نہ جماتے ۔اور اگر مساجدمیں ان امور کے متعلق باقاعدہ وعظ اور لیکچرہوتے رہتے تو بد عمل بھی اصلاح کر لیتے مگر اس معمولی سے حکم کی ناواقفیت کا نتیجہ یہ ہے کہ گلیوں میں چلے جائو تمہیں تھڑے بنے ہوئے نظر آئیں گے۔اور ہر شخص یہی چاہے گا کہ تھوڑا سا وہ آگے بڑھاہے تو تھوڑا سامیں بھی آگے بڑھ جائوں۔ان مسائل سے ناواقف رہنے کی وجہ سیمعلوم نہیں کتنی لعنتیں پڑتی رہتی ہوں گی۔پس جماعت کے ایمان کی مضبوطی کیلئے ضروری ہے کہ جماعت کو ان مسائل سے آگاہ کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ کونسے امور ایسے ہیں جو رسول کریم ﷺ نے پسند کئے اور کونسے امور ایسے ہیںجن پر آپ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔کِن باتوں کا آپ نے حکم دیا اور کِن باتوں سے آپ نے لوگوں کو منع فرمایا ۔
اس کے بعد ایک اور امر کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ کل مجھے ایک رُقعہ ملا ہے۔میں لکھنے والے کانام ظاہر نہیں کرتا ۔ اُس نے ایک شخص کی شکایت میرے پاس کی ہے لیکن ساتھ ہی لکھا ہے کہ مَیں ڈرتا ہوں اگر تحقیقات کی گئیں تو چونکہ یہ لوگ ہمارے افسر بنتے ہیں،اس لئے مجھے دق کریں گے اور اس طرح مجھے تکلیف ہو گی۔اس کے متعلق پہلے تو میں یہی نصیحت کرنی چاہتا ہوںکہ جو کام خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا جارہاہواُس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ہمیں اس کے نتیجہ میں تکلیف ہوگی۔ کیا جب رسول کریمﷺ کے صحابہؓ احد کی جنگ میں شامل ہوئے تھے تو وہ اپنے ساتھ یہ چِٹّھی لکھواکر لے گئے تھے کہ انہیںکوئی زخم نہیںلگے گا اور نہ ان میں سے کسی شخص کو دشمن مار سکے گا یا اس نیت سے گئے تھے کہ ہم خدا کیلئے لڑنے جارہے ہیں چاہے مارے جائیں، چاہے زخمی ہوں۔ اگر بعض افسر لوگوں کو تکلیف دیتے ہیں تو اس لئے دیتے ہیںکہ وہ جانتے ہیں دوسروں میں بُزدلی پائی جاتی ہے۔لیکن اگر تمہارے اندر بُزدلی نہیں اور تمہارا اپنے خدا پر ایمان ہے تو دنیا کا ظلم حقیقت ہی کیا رکھتاہے کہ اس کی وجہ سے انسان سچی بات کو چھپائے۔میں اپنی زندگی کی مثال پیش کرتا ہوں۔حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کے چھ سالہ عہدِخلافت میںمولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب انجمن پر قابض تھے۔ یہ بسااوقات خلیفۃ المسیح الاوّل کے خلاف باتیں کرتے۔اور جب وہ آپ کے لئے یا سلسلہ کے لئے نقصان دِہ ہوتیں تو میں آپ کو بتا دیتا۔اس پر چہ مگوئیاں بھی ہوتیں۔میرے خلاف منصوبے بھی ہوتے۔پھرمیں اکیلا تھا اور ان کا ایک جتھا تھامگر اس چھ سال کے عرصہ میں کبھی ایک منٹ کیلئے بھی مجھے یہ خیال نہیں آیا کہ میں ان باتوں کو چُھپائوں۔ پھر میں اگر وہ باتیں بتاتا تھا توا س لئے نہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل پر احسان جتائوں بلکہ اس لئے کہ میں اخلاق اور روحانیت کے قیام کیلئے ان باتوں کے انسداد کی ضرورت سمجھتا تھا۔ اس دوران میں بعض دفعہ ایسا بھی ہؤا کہ انہوں نے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کو میرے متعلق دھوکا اور فریب دیا اور آپ مجھ پر ناراض ہو گئے۔ لیکن میںپھر بھی اپنے فرض کی ادائیگی سے باز نہ آیا۔ ایک واقعہ مجھے اب تک یاد ہے۔حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل بیمار تھے جلسہ کے ایام تھے اور آپ کو جلسہ گاہ میں جانے کے لئے سواری کی ضرورت تھی ۔ آپ نے مجھے فرمایا تم نواب صاحب سے میرے لئے گاڑی منگوا دو میں ایک مصلحت سے خود گاڑی نہیںمنگوا سکتا ۔ خیر میں نے انہیںکہا اور فوراًگاڑی آگئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل اس میں بیٹھ کر جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے او ر آپ نے تقریر شروع کردی ۔ چونکہ عام طور پر آپ کی تقریر دو اڑھائی گھنٹہ کی ہؤاکرتی تھی اس لئے میں نے مولوی محمد علی صاحب سے پوچھا کہ گاڑی والا ٹھہرا رہے یا چلا جائے؟ وہ کہنے لگے تقریر لمبی ہوجائے گی اس لئے گاڑی والے کے ٹھہرنے کی ضرورت نہیںاسے بھجوا دیاجائے۔ جب تقریر ختم ہونے والی ہوئی تو گاڑی منگوا لی جائے گی۔ چنانچہ میں نے اسے کہہ دیاکہ چلے جاؤ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد آجانا وہ چلا گیا۔ اِدھر حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل نے ابھی چند منٹ ہی تقریر فرمائی تھی کہ آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور آپ نے فرمایا اب ہم چلتے ہیں گاڑی لائو ۔میں نے فوراًآ دمی دوڑایاکہ جلدی گاڑی لائی جائے مگر اسے آنے میں کچھ دیر لگی۔ اس پر حضرت خلیفہ اوّل کو ناراضگی پیدا ہوئی اور آپ پیدل ہی چل پڑے ۔مولوی محمد علی صاحب بھی ساتھ ساتھ تھے۔ راستہ میںآپ فرمانے لگے یہ کیسی سخت غلطی کی گئی ہے۔سب کو پتہ تھا میں بیمار ہوںمگر پھر بھی گاڑی کو نہیں ٹھہرایا گیا۔مولوی محمد علی صاحب بھی ہاں میں ہاںملاتے گئے اور کہنے لگے واقعہ میں ان سے سخت غلطی ہوئی ہے۔میں نے کہا حضور کی تقریر عام طور پر لمبی ہؤا کرتی ہے اس لئے میں نے سمجھاکہ ڈیڑھ دو گھنٹہ تقریر ہو گی اور گاڑی والے کو بھی میں نے اس عرصہ کے اندر آنے کو کہہ دیا تھا۔حضرت خلیفہ اوّل نے ناراضگی کے لہجہ میں فرمایا عذر تو ہر شخص کرلیتا ہے ہماری پنجابی میں مثل مشہور ہے، من ّ*** حُجتاںڈھیر، یعنی جب کسی کام کو انسان کا دل نہ چاہے تو وہ کئی عُذر بنا لیتا ہے۔میں یہ سُن کر خاموش رہااور میں نے یہ نہیںکہا کہ مولوی محمد علی صاحب جو اِس وقت ساری غلطی میرے سر ڈال رہے ہیں، انہوں نے ہی یہ مشورہ دیاتھااور انہی کے مشورہ پر گاڑی والے کو بھیجا گیا تھا۔
تو جب ہمارے کام محض خدا تعالیٰ کے لئے ہوں تو ان باتوں کی ہمیں پرواہ ہی کیا ہو سکتی ہے۔پس اس قسم کی باتوں سے ڈرنا اور کہناکہ جب تحقیقات ہوں گی تو افسر آئندہ ہمیں دِق کیا کریں گے، سخت کمزوری کی علامت ہے اور اِس بات کا ثبوت کہ ایسے شخص کو خدا تعالیٰ کی کامل معرفت حاصل نہیں۔اب جو باتیں اس نے لکھیں ہیں ان کے متعلق تحقیق تو میںبعد میں کروں گالیکن ان میں سے ایک بات ایسی ہے جس کے متعلق میں آج ہی کچھ کہنا چاہتاہوں کیونکہ ممکن ہے وہ بات کسی اور کے کان میں بھی ڈالی گئی ہو۔وہ یہ کہ کسی کہنے والے نے کہاکہ خلیفۃالمسیح نے جو تحریک جدید جاری کی ہے یہ اپنے لئے روپیہ جمع کرنے کیلئے جاری کی ہے اور انہوں نے اس ذریعہ سے جماعت سے بہت سا روپیہ اکٹھا کرلیا ہے۔ مجھ پر خلافت سے پہلے بھی کئی قسم کے اعتراضات ہوتے چلے آئے ہیں اور اب بھی کئی لوگ اعتراض کرتے ہیں اور بہت سے اعتراض ایسے ہوتے ہیں جو معترض پوشیدہ طور پر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شاید ان پرپردہ پڑا رہے مگر مالی معاملات میں شروع سے ہی مَیں نے ایسی احتیاط رکھی ہوئی ہے کہ شدید سے شدید دشمن کے سامنے بھی اعتراضات کو غلط ثابت کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً بعض لوگ مجھ کو ہدیہ کے طور پر رقم بھجواتے ہیں۔ ایسی رقوم کے متعلق بھی مَیں نے یہ اصل مقرر کیا ہؤا ہے کہ وہ پہلے محاسب کے دفتر میں درج ہوکر پھر میرے نام آتی ہیں تاکہ اگر کوئی اعتراض کرے تو دفتر کے رجسٹر کھول کر اس کے سامنے رکھ دئے جائیں کہ دیکھو کتنا روپیہ آیا ۔
اسی طرح تحریک جدید کے تمام اموال صدرانجمن احمدیہ کے رجسٹرات میں درج ہوتے اور خزانہ میں داخل ہوکر بلوں کے ذریعہ نکلتے ہیں۔ غرض تحریک جدید کے تمام روپیہ کے متعلق میرا انتظام یہی ہے کہ جو رقم بھی تحریک جدید کی خرچ ہو وہ پہلے صدر انجمن احمدیہ کی طرف منتقل ہو اور اس کی وساطت سے خرچ ہو اور اس سب کا تفصیلی حساب رکھا جاتا ہے۔ صرف ایک مد خاص ایسی ہے جس کے اخراجات مخفی ہوتے ہیں مگر میںاس کے متعلق بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ ان مخفی اخراجات کی مد میں سے جو بعض دفعہ خبررسانیوں اور ایسی ہی اور ضروریات پر جو ہر شخص کو بتائی نہیں جاسکتیں خرچ ہوتی ہیں۔ تین سال کے عرصہ میں صرف چار ہزار کے قریب روپیہ ایساہے جو میرے توسّط سے خرچ ہؤا ۔ اس کا باقی تمام روپیہ دفتر کی وساطت سے خرچ ہؤا ہے لیکن اس کے مقابلہ میں تین سال کے عرصہ میں چھ ہزار ایک سَو ستانوے روپیہ چندہ تحریک جدید میں مَیں نے اورمیری بیویوں اور بچوں نے دیا ہے۔ اور اس تین سال کے عرصہ میں آٹھ ہزار روپیہ کے قریب وہ چندہ ہے جو صدر انجمن احمدیہ کو دیاگیا یا جس کاوعدہ ہے۔ اب تم اس اعتراض کی معقولیت کو خود سمجھ لوکہ میں نے تحریک جدید اس لئے جاری کی کہ چار ہزار روپیہ لوں اور چودہ ہزار روپیہ اپنے پاس سے دے دوں؟ بھلا چار ہزار روپیہ کمانے کیلئے مجھے اتنی بڑی تحریک کی کیا ضرورت تھی۔ تحریک جدید کے رجسٹرات کُھلے ہیں۔ وہاں سے ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ چار ہزار کے لگ بھگ رقم میرے توسط سے خرچ ہوئی ہے۔ یہ نہیں کہ اس چار ہزار کا حساب نہیں۔ حساب اس کا بھی ہے مگر وہ مخفی ہے۔ اگر کوئی ایسا شخص ہو جسے آگے بات بیان کرنے کی عادت نہ ہو تو یہ حساب بھی اس شخص کو بتایا جاسکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ یہ چار ہزار روپیہ میںنے اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کیا تو جب یہ دیکھا جائے کہ اس عرصہ میں صرف تحریک جدید میں مَیں نے چونتیس سَو چورانوے روپے چندہ دیا ہے۔ پہلے سال سات سَو بیس دیا تھا۔ دوسرے سال ایک ہزار چونتیس روپیہ اور اس دفعہ سترہ سَو ساُٹھ روپیہ ۔ گویا چونتیس سَو چورانوے خالص میرا ذاتی چندہ ہے جو میں نے تحریک جدید میں دیا ۔ بیویوں بچوں کا چندہ ستائیس سَوروپیہ کے قریب اس سے الگ ہے۔ یہ کُل رقم چندہ کی میری اور میرے بیوی بچوں کی چھ ہزار ایک سَو ستاون بنتی ہے۔ اس کے مقابل پر چار ہزار کے قریب کی رقم میرے توسط سے خرچ ہوئی ہے اور گو حساب اس کاموجود ہے مگر عام حساب سے مخفی نہیں۔ لیکن کیا میرے چندہ کو دیکھ کر اور مجھ پر جو اعتراض کیا گیا ہے اُسے دیکھ کر کوئی بھی شخص کہہ سکتا ہے کہ تحریک جدید کے نام پر میںنے اپنے لئے روپیہ بٹورنے کی کوشش کی۔ اِس اعتراض کو درست تسلیم کرلینے کامطلب تو یہ ہؤا کہ میںنے چار ہزار کمانے کیلئے چھ ہزار ایک سَوستاون روپیہ خرچ کیا۔ پھر میں ان لوگوں کو جنہوں نے یہ اعتراض کیا کہتا ہوں کہ ہمارے سارے خاندان کا صرف تحریک جدید کا چندہ اس عرصہ کا بیس ہزار سات سَو پچانوے روپیہ بنتا ہے۔
اب اگر یہ درست ہے کہ ہم نے اس چندہ سے چارہزار روپیہ چُرالیا تو ایسی چوری یہ معترض خود کیوں نہیں کرتے۔ اس چوری میں مَیں ان کی مدد کرنے کیلئے تیار ہوں۔ وہ اکیس اکیس ہزار کی رقم دیتے جائیں اور چار چار ہزار کی تھیلیاں نکال کر ہم باہر رکھ دیں گے وہ انہیں چُرا کر لیتے جائیں اور خوب مزے اُڑائیں۔ پھر تین سال میں چار ہزار روپیہ لینے کے معنے یہ بنتے ہیں کہ میںنے قریباً سَوا سَو روپیہ ماہوار اس تحریک سے لیا مگر کیا تم سمجھتے ہو تم نے ایک ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت کی ہے جو سَوا سَو روپیہ ماہوار کھانے کیلئے ساری جماعت میں ایک شور پیدا کردیتا ہے۔ پس ایسا اعتراض کرنا اس کی ذلت نہیں تمہاری اپنی ذلّت ہے کہ تم نے ایک ایسے شخص کو اپنا امام چُنا جس نے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) سَوا سَو روپیہ ماہوار کھانے کیلئے اتنا بڑا ہنگامہ برپا کردیا۔ پھر رجسٹرات موجود ہیں وہ جاکر دیکھو تمہیں معلوم ہوگا کہ سَوا سَو روپیہ ماہوار سے زیادہ تو میں نے چند ہ ہی دیا ہے۔اب اگر اسی کا نام لوٹ ہے تو یہ لوٹ تم بھی شروع کردو ہمیں منظور ہے ۔تم بھی چار چار ہزار روپیہ لوٹ کرلیتے جائو اور اکیس اکیس ہزار روپیہ دیتے جائو۔ اگر معترض اسی طرح کرنے لگیں تو ہمیں فی ایسی چوری میں جو سترہ سترہ ہزار کا نفع ہوگا اور اگر ایک ہزار آدمی کا ہمیں ایسا مل جائے تو کئی لاکھ روپے سالانہ کی بچت ہوجائے ۔
میں نے جیسا کہ بتایا ہے اس الزام کی تحقیقات تو بعد میں کروں گا ممکن ہے یوں ہی دوسرے پر اتہام لگادیا گیا ہے اور اس نے یہ بات نہ کہی ہو۔ لیکن چونکہ ممکن ہے کہ کسی شخص کے دل میں ایسا خیال موجود ہو اور اس نے کسی سے اس کا ذکرکیا ہو اس لئے ایسے لوگوں کے پراپیگنڈا کو ردّ کرنے کیلئے میں نے بتایا ہے کہ تحریک جدید کا تمام روپیہ صدر انجمن احمدیہ کے خزانہ میں جاتا اور اسی کی معرفت خرچ ہوتا ہے اور وہ رقم جو خفیہ اخراجات کے لئے رکھی گئی ہے وہ البتہ میرے ذریعہ سے خرچ ہوتی ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے وہ ساری رقم تین سال میں چار ہزار کے لگ بھگ بنتی ہے۔ حالانکہ تین سالہ میراچندہ قریباً ساڑھے تین ہزار اور میرے بیوی بچوں کا ملا کر چھ ہزار ایک سَو ستاون کے قریب ہے اور اگر اپنے بھائیوں بہنوں اور دوسرے رشتہ داروں کا چندہ ملالیا جائے تو ہم نے ان تین سالوں میںاکیس ہزار کے قریب چندہ دیا ہے اور میرے ذمہ جو روپیہ آتا ہے وہ چار ہزار ہے۔ اب تم خود ہی اس اعتراض کی معقولیت سوچ لو کہ میں نے یہ تحریک جدید اس لئے جاری کی کہ میں نے چاہا کہ ہم اکیس ہزار دے کر سلسلہ کا چار ہزار روپیہ لوٹ لیں گے؟ اگر کہو کہ بیوی بچوں کا چندہ اس میں کیوں ملاتے ہو انہوں نے اپنے اخلاص سے الگ دیا تھا۔ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ بہرحال میں نے بھی تو ساڑھے تین ہزار چندہ دیا ہے۔ اب اگر میں نے چار ہزار روپیہ کھالیا ہے اور جو کچھ کام ہؤا ہے وہ سب معترضین کی توجہ سے ہوا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ چار ہزار میں نے کھایا اور ساڑھے تین ہزار دیا۔ یعنی تین سال میں مَیں نے پورے پانچ سَو روپے زائد وصول کئے جو سالانہ ایک سَو چھیاسٹھ روپے ہوتے ہیں اور ماہوا رکے حساب سے پونے چودہ روپے ماہوار بنتے ہیں۔ گویا تحریک جدید کے متعلق میں نے جس قدر خطبات پڑھے، جتنی تقریریں کیں، جتنی سکیمیں سوچیں، جتنا شور اور ہنگامہ برپا کیا وہ محض اس لئے تھا کہ کسی طرح میں پونے چودہ روپے ماہوار سلسلہ کے کھاجائوں۔ حالانکہ اگر میں خطبے اور تقریریں نہ کرتا اور صرف ایک کتاب لکھ دیتا تب بھی اس سے دُوگنی بلکہ چُوگنی رقم ماہوار کماسکتا تھا۔ مگر میں نے تو یہ بھی کبھی نہیں کیا اور کتابیں لکھ کر سلسلہ کو دے دیتا ہوں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں کماتا ہوں اور خدا نے مجھے عقل اور فہم دیا ہے۔ ابھی پچھلے سال میں نے تحریک جدید کا گیارہ ہزار روپیہ ایک نفع مند کام پر لگایا اور سات مہینوں میں دوہزار روپیہ نفع کا ان کو دلادیا۔ جو سال بھر میں تین ہزار بن جاتا ہے اور تیس فیصدی کے قریب نفع بنتا ہے۔ جب ایک شخص ان کو اس قدر کما کر دے سکتا ہے تو وہ خود بھی روپیہ کماسکتا ہے ۔اورمیں نے جیسا کہ بتایا ہے کہ کماتا ہوںمگر یہ اعتراض جو کیا گیا اس میں معقولیت کا شائبہ تک نہیں اور اس کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں بنتا کہ میں نے پونے چودہ روپے ماہانہ کیلئے یہ تمام پاکھنڈ مچایا ۔
غرض ان لوگوں کو جو اس قسم کے اخلاقی حملے کرتے ہیں میں بتادینا چاہتا ہوں کہ شاید وہ اس قسم کے اعتراضات سے کسی ناواقف کو دھوکا دے لیں مگر مالی معاملات کے متعلق میں جو بھی کام کرتا ہوں رجسٹروں کے ذریعہ کرتا ہوں۔ اِس لئے جب بھی کوئی شخص حملہ کرے اسے وہ رجسٹرات دکھائے جاسکتے ہیں۔ اور خداتعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ میرا ہی دینانکلے گا میرے ذمہ کسی کا کچھ نہیںنکلے گا۔ پس اس قسم کے حملہ کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب ان کے اعتراضات کی حقیقت لوگوں پرکھل گئی ان کیلئے سخت ذِلّت و رُسوائی ہوگی۔ باقی میں کبھی لوگوں کے پاس مانگنے نہیں گیا اور میں نے جب بھی کوئی تحریک کی ہے مرضی کی کی ہے۔ اگر کسی کا جی چاہتا ہے تو وہ میری تحریکات میںشامل ہو اور اگر نہیں چاہتا تو نہ ہو۔ لیکن اگر کوئی روپیہ دیتا اور پھر اعتراض کرتا ہے تو میں اُس شخص سے کہوں گا کہ تجھے کس نے کہا تھا کہ تُو روپیہ دے۔ میں تو اُس سے روپیہ مانگتا ہوں جو اگر مجھے دس کروڑ روپیہ بھی دے تو وہ یہ سمجھ کر دے کہ یہ روپیہ اس کے اپنے پاس اتنا محفوظ نہیں جتنا میرے پاس محفوظ ہے۔ میں تو کچھ عرصہ سے امانت بھی اپنے پاس نہیں رکھتا، صدر انجمن احمدیہ کے خزانہ میں رکھواتا ہوں۔ اسی طرح جس قدر چندے آتے ہیں صدر انجمن احمدیہ کے پاس جاتے ہیں۔ تحریک جدید کا روپیہ بھی اسی کے خزانہ میں ہے اور اسی کے ذریعہ خرچ ہوتا ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہؤا ہے کہ تحریک جدید کا روپیہ صدرانجمن میں نہیں جاتا، کہیں الگ چُھپا کر رکھ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ تحریک جدید کی تمام رقوم پہلے صدر انجمن احمدیہ کے خزانہ میں جاتی اور پھر بِلوں کے ذریعہ دفتروں میںجاتی ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مدِّخاص کے اخراجات عام لوگوں سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔ لیکن اس مد میں جو میرے ذریعہ سے خرچ ہؤا وہ تین سال میں صرف چار ہزار رپیہ کی رقم ہے اور اس کے مقابل پراکیس ہزار کی رقم ہمارا خاندان دے چکا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ان معترضوں کی وجہ سے مجھے ان حقائق کو ظاہر کرنا پڑا ورنہ مجھے تو دینی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔
میں آخر میں ان لوگوں کوجو یہ اعتراض کرتے ہیں بتادینا چاہتا ہوں کہ ان کا مجھ پر اِس قسم کے حملے کرنا کوئی معمولی بات نہیں وہ مجھ پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پر حملے کررہے ہیں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اور اُسی نے اپنی تائید اور نصرت کو ہمیشہ میرے شاملِ حال رکھا ہے اور سوائے ایک نابینا اور مادرزاد اندھے کے اور کوئی نہیں جو اِس بات سے انکار کرسکے کہ خدا نے ہمیشہ آسمان سے میری مدد کیلئے اپنے فرشتے نازل کئے ۔ پس تم اب بھی اعتراض کرکے دیکھ لو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ان اعتراضات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اس قسم کے اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی کئے گئے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جب کسی نے ایسا ہی اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا تم پر حرام ہے کہ آئندہ سلسلے کیلئے ایک حبہ بھی بھیجو۔ پھر دیکھو کہ خدا کے سلسلے کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ میں بھی ان لوگوں کو اسی طریق پر کہتا ہوں کہ تم پر حرام ہے کہ آئندہ ایک پیسہ بھی سلسلہ کی مدد کیلئے دو۔ اور گو میری عادت نہیں کہ میں سخت لفظ استعمال کروں مگرمیں کہتا ہوں کہ اگر تم میں ذرہ بھی شرافت باقی ہو تو اس کے بعد ایک دمڑی تک سلسلہ کیلئے نہ دو اور پھر دیکھو سلسلہ کا کام چلتا ہے یا نہیں چلتا۔ اللہ تعالیٰ غیب سے میری نصرت کا سامان پیدا فرمائے گا اور غیب سے ایسے لوگوں کو الہام کرے گا جو مخلص ہوں گے اور جو سلسلہ کیلئے اپنے اموال قربان کرنا اپنے لئے باعث فخر سمجھیں گے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے اسی مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مقبرہ میں دفن ہونے کے بارہ میںمیرے اہل و عیال کی نسبت خداتعالیٰ نے استثناء رکھا ہے اور وہ وصیت کے بغیر بہشتی مقبرہ میں داخل ہوں گے اور جوشخص اس پر اعتراض کرے گا وہ منافق ہوگا۔ اگر ہم لوگوں کا روپیہ کھانے والے ہوتے تو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ایک امتیازی نشان کیوں قائم فرماتا اور بغیر وصیت کے ہمیں مقبرہ بہشتی میں داخل ہونے کی کیوں اجازت دیتا۔
پس جو ہم پر حملہ کرتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرتا ہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرتا ہے وہ خدا پر حملہ کرتا ہے۔ مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ باغ میں گئے اور فرمایا مجھے یہاں چاندی کی بنی ہوئی قبریں دِکھلائی گئی ہیں اور ایک فرشتہ مجھے کہتا ہے کہ یہ تیری اور تیرے اہل و عیال کی قبریں ہیں اور اسی وجہ سے وہ قطعہ آپ کے خاندان کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔ گو یہ خواب اِس طرح چھپی ہوئی نہیں لیکن مجھے یاد ہے کہ آپ نے اسی طرح ذکر فرمایا۔ پس خدا نے ہماری قبریں بھی چاندی کی کرکے دکھادیں اور لوگوں کو بتادیا کہ تم تو کہتے ہو یہ اپنی زندگی میں لوگوں کا روپیہ کھاتے ہیں اور ہم تو ان کے مرنے کے بعد بھی لوگوں کو ان کے ذریعہ سے فیض پہنچائیں گے۔
پس اللہ تعالیٰ ہماری مٹی کو بھی چاندی بنارہا ہے اور تم اعتراضات سے اپنی چاندی کو بھی مٹی بنارہے ہو۔ چونکہ منافق عام طورپر پوشیدہ باتیں کرنے کا عادی ہوتا ہے اس لئے میں نے کُھلے طور پر ان باتوں پر روشنی ڈال دی ہے ورنہ مجھے اِس بات سے سخت شرم آتی ہے کہ میں خداتعالیٰ کیلئے کچھ چندہ دوں اور پھر کہتا پھروں کہ میں نے اتنا چندہ دیاہے۔ مگر چونکہ یہ ایک سوال اُٹھایا گیا تھا اس لئے مجھے مجبوراً بتانا پڑاکہ اگر اپنے تمام خاندان کا چندہ ملالیا جائے تو اس رقم سے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ میں نے کھالی، پانچ گُنا زیادہ رقم ہم چندہ میں دے چکے ہیں اور جو رقم صرف میرے اہل و عیال کی طرف سے خزانہ میں داخل ہوئی ہے، وہ بھی اس سے زیادہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ کوئی عقلمند یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ ہم نے پانچ گُنے زیادہ رقم اس لئے خرچ کی تا اس کا پانچواں حصہ کسی طرح کھاجائیں۔ پس ان لوگوں کو جو یہ اعتراض کرتے ہیں خداتعالیٰ کا خوف کرنا چاہئے اور اُس وقت سے پیشتر اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے جبکہ ان کا ایمان اُڑ جائے اور وہ دہریہ اور مرتد ہوکرمریں۔
(الفضل ۲ ؍ جولائی ۱۹۳۷ئ)
۱؎،۲،۳ ؎ بخاری کتاب الاذان باب فضل صلٰوۃ العشاء فی الجماعۃ
۴؎ دارقطنی کتاب النکاح جلد ۲صفحہ ۱۳۵مطبوعہ بیروت ۱۹۹۴ء
۵؎ فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَـلَا تَقْھَرْ (الْضُّحٰی: ۱۰)
۶؎ ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب المواضع التی نھی عن البول فیھا



۱۹
ہم ہی کامیاب ہوں گے اور ہمارا دشمن ذلیل و رُسوا ہوگا
(فرمودہ ۲۵؍ جون ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعدسورۃ بقرہ کے پہلے رکوع کی آیت وَاُولٰئِٓکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ تک کی تلاوت کرکے فرمایا:-
آخری زمانہ کے مصلح کی بعثت خداتعالیٰ کی نگاہوں میں ایسی اہم ہے کہ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر رسول کریم ﷺ کے زمانہ تک کے تمام انبیاء نے اس بعثت کی خبر دی ہے اور آسمانی صحیفوںکا اِس امر پر اتفاق ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں شیطان اور فرشتوں کی آخری جنگ ہوگی اور آخر اپنا سارا زور لگالینے کے بعد شیطان کا سر کُچلا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم کردی جائے گی۔
ایک مومن کا خواب اپنے اندر بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے، ایک مجدد کا خواب اپنے اندر ایک بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے، ایک نبی کا خواب اپنے اندر اس سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور دو تین نبیوں کے خواب تو اِس سے بھی زیادہ شان اور اہمیت رکھتے ہیں۔ مگر جس خبر پر تمام انبیاء متفق ہوں اور حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر خاتم النَّبیّٖن محمد مصطفی ﷺ کے زمانہ تک تمام انبیاء اس کی خبر دیتے چلے آرہے ہوں، وہ کتنی بڑی اہم ہوگی۔
حضرت نوحؑ کے زمانہ میں شیطان نے جس جس رنگ میں حضرت نوح علیہ السلام کا مقابلہ کیا، اُس کا ایک چھوٹا سا خلاصہ قرآن کریم میںموجو د ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے زمانہ میں شیطان نے جس جس رنگ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقابلہ کیا، اُس کا بھی ایک چھوٹا سا خلاصہ قرآن کریم میں موجود ہے۔ حضرت موسیٰؑ کے زمانہ میں شیطان نے جس جس رنگ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کیا اُس کا بھی ایک چھوٹا سا خلاصہ قرآن کریم میںموجو د ہے۔ حضرت دائودؑ اور حضرت سلیمانؑ کے زمانہ میں شیطان نے جس جس رنگ میں حضرت دائود ؑ اور حضرت سلیمانؑ کا مقابلہ کیا اُس کا بھی ایک چھوٹا سا خلاصہ قرآن کریم میںموجو د ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں شیطان نے جس جس رنگ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کیا اُس کا بھی ایک چھوٹا سا خلاصہ قرآن کریم میںموجو د ہے اور پھر محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں شیطان نے جس جس رنگ میں محمد ﷺ کا مقابلہ کیا اُس کا بھی ایک اِجمالی نقشہ قرآن کریم میں موجود ہے۔ ان میں سے ہر جنگ جو اپنے اپنے زمانہ میں ہوئی وہ انسان کا دِل دہلادینے کیلئے کافی ہے۔ مخالفت میں ایسے ایسے ذرائع کو استعمال کیا گیا اور ایسے ایسے طریق اختیار کئے گئے کہ مومنوں کیلئے زلزلہ آگیا اور لوگوں نے سمجھا اب یہ جماعت بالکل تباہ ہوجائے گی۔ مگر پھر خداتعالیٰ کی نصرت ظاہر ہوئی اور وہ طوفان اور وہ آندھیاں جن کے متعلق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ انبیاء علیہم السلام کی بنائی ہوئی عمارتوںکو زمین سے پیوست کردیں گی اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گی ہوا کی طرح اس عمارت سے ٹکرا کر اس طرح اُڑ گئیں جس طرح پانی کا بُلبلہ پھٹ جاتا ہے اور کسی کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ پھر جب ایک ایک جنگ میں شیطان نے اس طرح زور لگایا ہے تو کس طرح ممکن ہے کہ آخری جنگ میں وہ اپنے تمام ذرائع کو مجموعی طور پر استعمال نہ کرے۔ شیطان خود دنیامیں ظاہر نہیں ہوتا بلکہ انسانوں میں سے ہی بعض کو اپنا آلۂ کار بنا تا اور ان کے ذریعہ الٰہی جماعتوں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔
پس ضروری ہے کہ اِس زمانہ میں جو مسیح موعود کا زمانہ ہے شیطان کی طرف سے وہ تمام ہتھیار استعمال کئے جائیں جو نوحؑ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے، جو موسیٰؑ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے، جو لوطؑ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے، جو اسحقؑ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے، جو یعقوبؑ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے، جو یوسفؑ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے، جو دائودؑ اور سلیمانؑ اور الیسعؑ اور زکریاؑ اور یحیٰی اور دوسرے انبیاء کے زمانہ میں استعمال کئے گئے۔ جو عیسٰیؑ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے اور جو سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں استعمال کئے گئے۔ کیونکہ شیطان جانتا ہے کہ یہ اس کی آخری جنگ ہے اور اسی جنگ پر اس کی زندگی یا موت کا انحصار ہے۔ پس میں ان لوگوں کوجو میرے نقطۂ نگاہ میں مومن ہیں ( چونکہ ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو اپنے اپنے نقطۂ نگاہ میں مومن ہوں لیکن میرے نقطۂ نگاہ میںمومن نہ ہوں اس لئے اُن لوگوں سے میرا خطاب نہیں۔ کیونکہ وہ مجھ میں سے نہیں اور میں ان میں سے نہیں ۔ میں ذمہ وار صرف ان لوگوں کا ہوں جومیرے نقطۂ نگاہ میں مومن ہیں اور میرے نقطۂ نگاہ میں حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر سچا ایمان لائے ہوئے ہیں) کہتا ہوں کہ انہیں محسوس کرنا چاہئے کہ وہ تمام ہتھیار جو شیطان نے پہلے زمانوں میں استعمال کئے اُنہیں اِس زمانہ میں بھی استعمال کیا جائے گا اور ان کی آرزوئیں اور خواہشیں اسے ان ہتھیاروں کے استعمال سے باز نہیں رکھ سکتیں۔یہ خدائی خبر ہے جو تمام انبیاء نے دی اور ضروری ہے کہ پوری ہو۔ اگر یہ خبر پوری نہ ہو تو نوحؑ بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں، موسیٰؑ بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں، دائودؑ بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں، سلیمانؑ بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں، عیسیٰؑ بھی جھوٹے ماننے پڑتے ہیں۔ اور پھر راستبازوں کے راستباز اور سچوں کے سچے اور صادقوں کے سردار حضرت محمد ﷺ بھی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹے قرار پاتے ہیں اور کہنا پڑے گا کہ جو خبر انہوں نے دی وہ پوری نہ ہوئی۔ پس گو ہم میں سے ہر شخص کی خواہش یہی ہونی چاہئے اور ہے کہ شیطانی حملے کم ہوں مگر جو خداتعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی ہے وہ کبھی ٹل نہیں سکتی۔ یہی وجہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا حملے پر حملے ہوں گے اور ابتلا پر ابتلا آئیں گے اورآخر وہی راستباز ٹھہرے گا جو آخر تک اپنے ایمان پر قائم رہے گا اور اس کے اندر اِس قدر طاقت ہوگی کہ وہ شیطانی حملوں کامقابلہ کرسکے۔
پس اپنی جماعت کو یعنی ان مخلصین کو جو صرف منہ سے احمدی نہیں کہلاتے بلکہ واقعی سلسلہ سے انس رکھتے ہیں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انہیں فتنوں سے ڈرنا نہیں چاہئے۔ کئی لوگ سچے مومن ہوتے ہیں لیکن جب بھی کوئی فتنہ اُٹھتا ہے وہ گھبراجاتے ہیں اور کہتے ہیں اب کیاہوگا اور ہر فتنہ کے موقع پر جب بھی گھبراکر انہوںنے یہ کہا کہ اب کیا ہوگا میں نے انہیں کہا کہ یہی ہوگا کہ تم جیتے اور فتح کے جھنڈے اڑاتے ہوئے نکلو گے۔ زمین بدل سکتی ہے، آسمان بدل سکتا ہے، سمندر خشک ہوسکتے ہیں، پہاڑ اڑ سکتے ہیں مگر جو بات نہیں ٹل سکتی اور کبھی نہیں ٹل سکتی وہ یہ ہے کہ ہم ہی کامیاب ہوں گے اور ہمارا دشمن ہمیشہ ذلیل اور رسوا ہوگا۔ بظاہر حالات حملے کتنے ہی سخت ہوں، بظاہر حالات شیطانی طاقتیں کتنی ہی زبردست کیوں نہ ہوں یہ خدا کی تقدیر ہے جو پوری ہوکر رہے گی ؎
قضائے آسمانست ایں بہر حالت شود پیدا
یہ خدائی تقدیر ہے جو ہر حالت میں ظاہر ہوگی اور کوئی انسانی تدبیر اسے غلط قرار نہیں دے سکتی۔ ہوسکتا ہے کہ تم یا میں یا کوئی اور اس لڑائی میں رُخصت ہوجائیں یا رخصت کردئیے جائیں۔ مگر جس تعلیم پرہم قائم ہیں اور جن باتوں کو ہم دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں انہیں کسی قسم کی زک پہنچ جائے یا ان میں ضُعف اور کمزوری پیدا ہوجائے، یہ ناممکن اور بالکل ناممکن ہے۔
نوحؑ کا ذکر تو ہم کیا کریں، وہ ایک بہت بڑا اور خدا کا برگزیدہ رسول تھا۔ ابراہیمؑ کا ذکر ہم کیا کریں کہ وہ خدا کا بہت پیارا اور اُس کا برگزیدہ رسول تھا۔ موسیٰؑ کا ذکر ہم کیا کریں کہ وہ خدا کا ایک اولوالعزم نبی اور اس کا برگزیدہ بندہ تھا۔ عیسٰیؑ کا ذکر ہم کیا کریں کہ وہ خدا کا ایک بہت بڑا رسول تھا اور رسول اللہ ﷺ تو تمام نبیوں کے سردار تھے ان کی باتوں کا کیا کہنا ۔ خود ہمارے اندر خداتعالیٰ نے ایسے نشانات قائم کردئیے ہیں جن کو دیکھتے ہوئے ایک لمحہ کیلئے بھی ہم خداتعالیٰ کی باتوں کا انکار نہیں کرسکتے۔
میں ابھی سترہ سال کا تھا جو کھیلنے کودنے کی عمر ہوتی ہے کہ اس سترہ سال کی عمر میں خداتعالیٰ نے الہاماً میری زبان پر یہ کلمات جاری کئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ہاتھوں سے ایک کاپی پر لکھا لئے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ کہ وہ لوگ جو تیرے متبع ہوں گے اللہ تعالیٰ اُنہیںقیامت تک اُن لوگوں پر فوقیت اور غلبہ دے گا جو تیرے منکر ہوں گے۔ اس سترہ سال کی عمر میں کس کو معلوم تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات تک زندہ رہوں گا۔ پھر کون کہہ سکتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد سلسلہ کے متعلق کیا انتظام ہوگا۔ کیونکہ نبیوں کے زمانہ میں انبیاء کی محبت دلوں پر اِس قدر غالب ہوتی ہے کہ ان کی وفات کا خیال تک بھی دل میں نہیں لایا جاسکتا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کو خلیفہ بنایا اور جماعت میں سلسلۂ خلافت قائم کیا تو کون اس مخالفت کو دیکھ کر جو سلسلہ کے لیڈروں کی طرف سے کی جاتی تھی، جبکہ عَلَی الْاِعْلَان یہ کہا جاتا تھا کہ اس بڈھے کو مرنے دو اس کے بعد خلافت کے انتظام کو ہم باطل کرکے رکھ دیں گے، کہہ سکتا تھا کہ خلافت کا سلسلہ چلے گا اور پھر کون کہہ سکتا تھا کہ آپ کے بعد خلیفہ مَیں ہی بنوں گا کیونکہ میںاس بات کیلئے بالکل تیار تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے بعد خود مولوی محمد علی صاحب کی بیعت کرلوں تا جماعت میں تفرقہ پیدا نہ ہو۔
ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک پرانے صحابیؓ سے ملنے کیلئے گیا تو انہوں نے روتے ہوئے کہا مجھے خوب یاد ہے جب حضرت خلیفہ اوّل کے آخری ایام میں عظیم الشان فتنہ اُٹھا اور میں نے آپ سے گھبراہٹ کا اظہار کیا تو آپ نے مجھے کہا مولوی صاحب !گھبرائیں نہیں میں فتنہ پیدا ہونے نہ دوں گا۔ میں مولوی محمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں کی بیعت کرنے کیلئے تیارہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے ایسے سامان پیدا کردیئے کہ اُس نے مجھے جماعت کاخلیفہ بنادیا اور اُس دن اس اِلہام کی صداقت کی بنیاد پڑی۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ اور وہ لوگ جو تیرے متبع ہوں گے اُن لوگوں پر قیامت تک غالب رہیں گے جو تیرے منکر ہوں گے۔ پھر دیکھ لو دشمن کتنی بڑی طاقت لے کر اُٹھا اور اُس کا کیسا عبرتناک انجام ہؤا۔ اُس وقت کہا جاتا اور متواتر کہا جاتا تھا کہ یہ بچہ ہے اور ہم بڑی عمر کے ہیں۔ یہ جاہل ہے اور ہم عالمِ اور مفسرِ قرآن ہیں۔ یہ کمزور ہے اور ہمارے ہاتھوں میں سب طاقتیں ہیں۔ یہ نادار ہے اور ہمارے پاس روپیہ ہے۔ یہ بیوقوف ہے اور ہم عقلمند ہیں۔ یہ لوگوں کے قبضہ میں ہے اور ہم صاحبِ تدبیر ہیں ۔ غرض یہ تمام حملے ایک طرف تھے اور دوسری طرف ایک چھبیس سالہ نوجوان۔ بلکہ اُس وقت میری عمر چھبیس سال بھی پوری نہیں تھی، ۲۵ برس اور دو مہینہ کی عمر تھی۔ پس پچیس برس کا ایک نوجوان ایسی حالت میں کھڑا ہؤا جبکہ سلسلہ کے تمام بڑے بڑے لوگ دوسری طرف تھے۔ جب جماعت کا خزانہ بالکل خالی تھا صرف چند آنے کے پیسے اُس میں موجود تھے اور اُٹھارہ ہزار کا قرضہ صدرانجمن پر تھا۔ اُس وقت خداتعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا اور بتایا کہ کوئی نہیں جو خدا کے کاموں کو روک سکے اور فرمایا وَلَنُمَزِّقَنَّھُمْ ۔ اللہ تعالیٰ تیرے مخالفوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا اور ان کی جمعیت کو پراگندہ کردے گا۔ چنانچہ بعد میں رونما ہونے والے واقعات نے ظاہر کردیا کہ ایسا ہی ہؤا ۔
پس یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جس خدا نے سترہ سال کی عمر میں مجھے خبریں بتائیں اور پھر مخالف حالات میں ان باتوں کو پورا کرکے دکھادیا اور میری نصرت اور تائید کیلئے آسمان سے فرشتے اُتارے اُس خدا کے فضل سے مَیں کسی وقت مایوس ہوجائوں۔ میں تو ایک اکفر انسان ہوں گا۔ ایک نہایت ہی اشقیٰ انسان ہوں گا اگر ایک منٹ کیلئے بھی میں خداتعالیٰ کی نصرت اور اُس کی تائید کے متعلق شبہ کروں۔ سترہ سال کی عمرمیں خداتعالیٰ نے مجھے وہ الہام کیا اور آج میری عمر سے اَڑتالیسواں سال گزررہا ہے۔ اس گزشتہ تیس اکتیس سال کے عرصہ میں دنیا نے اِس الہام کی صداقت میں جو کچھ دیکھا وہ اتنا واضح اور اتنا مبرہن ۱؎ ہے کہ اس کے بعد خداتعالیٰ کی نصرت کے متعلق مجھے ایک منٹ کیلئے بھی شبہ نہیں ہوسکتا اور میں واضح سے واضح الفاظ میں دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کرنے کیلئے تیار ہوں کہ اگر ان مقابلوں میں مجھے زک پہنچ جائے یا میری قائم کی ہوئی باتیں فیل ہوجائیں تویقینا میں جھوٹا ہوں گا۔
پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے فتنے آنے ضروری ہیں اور بڑے بڑے فِتنے ہیں جن کا آنا مقدر ہے مگر تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ہدایت نامہ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں فرماتا ہے کہ جو لوگ کمزور دل ہوتے ہیں وہ فتنوں سے گھبراجاتے ہیں مگر یاد رکھنا چاہئے المّ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ فِیْہِ۔ ۲؎ تمہارے لئے فیصلہ کی ایک راہ ہم نے رکھی ہوئی ہے اور وہ خدا کی کتاب ہے۔ اس میں کوئی جھوٹی بات نہیں۔ انسانی بتائے ہوئے اصول جھوٹے ہوسکتے ہیں۔ انسانی بتائی ہوئی تدابیر غلط ہوسکتی ہیں مگر خدا کی کتاب لَارَیْبَ فِیْہِ ہے۔ کوئی مشکوک یا جھوٹی بات اِس میں نہیں۔پھر فرماتا ہے ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ۳؎ اگر تم خداتعالیٰ پر توکل کرنے اور اس کی طرف توجہ رکھنے والے ہو تو یہ کتاب تمہارے لئے ہدایت کا موجب ہوگی اور تمہیں سچے راستہ پر قائم کردے گی ہاں تمہارے لئے بھی ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ۴؎ اللہ تعالیٰ کی ذات پر تمہیں کامل یقین ہونا چاہئے۔ اگر یہ یقین تمہیں حاصل نہیں تو ہدایت بھی میسر نہیں آسکتی۔ دنیا کے جس قدر علوم ہیں وہ ایمان کے بغیر بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ ایک بڑا ڈاکٹر بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے۔ ایک بڑا وکیل بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے۔ ایک بڑا انجینئر بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے، ایک بڑا سیاستدان بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے، ایک بڑا ہیئت دان بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے، ایک بڑا بادشاہ بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے، ایک بڑا علم النفس کا ماہر بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے، ایک بڑا تاریخ دان بغیر ایمان کے ہوسکتا ہے مگر فرمایا قرآن کریم سے ہدایت انہی لوگوں کو حاصل ہوسکتی ہے جو متقی ہوں اور یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے مصداق ہوں۔ کوئی سیاستدان، کوئی ادیب، کوئی بیرسٹری، کوئی ڈاکٹراور کوئی انجینئر دُنیوی علوم کے ذریعہ خدائی ہدایت کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ پس متقیوں کیلئے ہی قرآنی ہدایت ہے دوسروں کیلئے نہیں۔ اور متقی وہ ہیں جو اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کا نمونہ ہوں۔ یعنی خداتعالیٰ پر کامل ایمان رکھیں اورمصائب و مشکلات سے نہ ڈریں بلکہ یقین رکھیں کہ جب ہم خداتعالیٰ کی رضا کیلئے ایک شخص پرایمان لے آئے ہیں تو خداتعالیٰ خود ہماری نصرت اور تائید کرے گا۔ وہ آپ مشکلات میں ہماری راہنمائی کرے گا اور قرآن ہماری تائید کیلئے اُٹھے گا۔
پھر فرمایا وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ ۵؎ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مغرور نہ ہو۔ یعنی یہ نہیں کہ چونکہ خداتعالیٰ نے ان سے اپنی نصرت اور مدد کا وعدہ کیا ہے اس لئے وہ اس وعدہ کی وجہ سے مغرور ہوجائیں بلکہ جیسے جیسے خداتعالیٰ کے وعدوں پر ان کا یقین بڑھتا جاتا ہے اُتنا ہی ان میں عجز، انکسار اور دعائوں کا مادہ بھی زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ ایک طرف ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو للکارتے ہیں اور کہتے ہیں کون ہے جو ہمارا بال بیکا کرسکے کیونکہ خدا نے اُن کو یہی کہا ہوتا ہے لیکن دوسری طرف جب وہ خداتعالیٰ کے حضور جُھکتے ہیں تو گریہ و زاری ان کا شیوہ ہوتا ہے اور کہتے ہیں اے خدا! تیری مدد کے بغیر ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ یہی وہ کیفیت ہے جو رسول کریم نے بدر کے موقع پر دکھائی۔ بدرکی جنگ کے شروع ہونے سے پہلے جب رسول کریم ﷺ مدینہ سے باہر نکلے تو آپ نے فرمایا مجھے خداتعالیٰ نے بتایا ہے کہ ہم کو فتح حاصل ہوگی اور دشمنوں کو شکست۔ بلکہ مدینہ سے نکلنے سے پہلے آپ کو بشارتیں ملنی شروع ہوگئیں اور آپ نے صحابہ سے کہنا شروع کردیا کہ گھبرائو نہیں خدا ہمارے ساتھ ہے۔ ہم اس کے فضل سے فتح پائیں گے اور ہمارا دشمن ناکام ہوگا۔ لیکن ادھر صحابہ کوآپ نے یہ خبریں دیں اور اُدھر جب جنگ شروع ہوئی تو آپ نے نہایت عجز اور انکسار کے ساتھ اس قدر گڑگڑا کر دعائیں مانگنی شروع کردیں کہ بعض صحابہؓ کو حیرت ہوئی اور انہوں نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ ایک طرف خدا کہتا ہے کہ ہمیں فتح حاصل ہوگی اور دوسری طرف آپ اس قدر رو رو کر دعائیں کررہے ہیں کہ گویا اس کا فتح کے متعلق کوئی وعدہ نہیں یہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا یہی مومن کامقام ہے کہ وہ خدا کے وعدوں کے ہوتے ہوئے اس کے حضور عجز اور انکسار سے کام لیتا ہے۔ ۶؎ پس فرمایا ۔ اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ متقی ایک طرف خداتعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور دوسری طرف اس کے حضور عجز و انکسار اور دعائوں کی طرف مائل رہتے ہیں۔ اس کے بعد ایک تیسری چیز کا ذکر کیا اور فرمایا وَمِمَّا رَزَقْـنٰـھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۷؎ دعائوں کے ساتھ ان کو وہ تمام تدابیر بھی اختیار کرنی چاہئیں جو خداتعالیٰ نے اس عالم اسباب میں پیدا کی ہیں۔
یہ بھی مومن کا کام ہے کہ وہ خیالی دعائوں سے کام نہیں لیتا بلکہ ظاہری تدابیر سے بھی کام لیتا ہے۔ کیونکہ اگر دعا کی جائے لیکن ظاہری تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو یہ خداتعالیٰ کا امتحان لینا ہوتاہے جو ایک مومن کی شان سے بعید ہے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بارہا اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے کہ وہ انسان جو خالی دعاکرتا اورتدبیر سے کام نہیں لیتا وہ خداتعالیٰ کا امتحان لیتا ہے اوریہ سخت گستاخی ہے جس کی اُس کو سزا ملتی ہے۔ پس مِمَّا رَزَقْـنٰـھُمْ یُنْفِقُوْنَ ان پر فرض ہوتا ہے کہ وہ تمام ذرائع کو خواہ وہ روحانی ہوں یا جسمانی استعمال کریں۔
پھر فرمایا وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُؤْقِنُوْنَ۔۸؎ اس سے پہلے وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ میںیہ بتایا تھا کہ جو کچھ مومنوں کو حاصل ہو وہ سب اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے اور تمام تدابیر سے کام لیتے ہیں اور اس آیت میں ان کو تدبیر بتاتا ہے یعنی یہ کہ وہ کن اصول پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کے متعلق فرمایا یہ ذرائع ان کو خداتعالیٰ کے الہاموں سے ملتے ہیں اور اس کیلئے سب سے پہلے وہ تیری وحی کو دیکھتے ہیں۔ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ اور پھر اس وحی پر غور کرتے ہیں جو تجھ سے پہلے نازل ہوچکی ہے اور اس کے بعد اگر خود ان پر کوئی وحی نازل ہوئی ہو یا کوئی خواب آیا ہو یا ان کے زمانہ کے کسی مُرسل پر وحی نازل ہوئی ہو جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اِس زمانہ میں وحی نازل ہوئی تو وہ اس وحی پر بھی غور کرتے ہیں اور اس طرح تینوں وحیوں میںیہ تلاش کرتے ہیں کہ ایسے مواقع پر ان کیلئے کیا ہدایات ہیں اور کن ذرائع کو انہیں اختیار کرنا چاہئے۔ اُوْلٰئِِٓکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ اُوْلٰـئِٓکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۹؎ فرماتا ہے جو لوگ اس قسم کے ہوں ان کیلئے قرآن کریم ہدایت کا موجب ہوجاتا ہے۔
اس رکوع کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ قرآن کریم متقیوں کیلئے ہدایت کا موجب ہے اور اس آیت میں یہ بتایا کہ جولوگ قرآن کریم کے اصول اور اس کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کرتے ہیں ان کو یہ ہدایت مل جاتی ہے اور خالی انہیں ہدایت ہی نہیںملتی بلکہ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ ہدایت سے ان کا اس طرح تعلق ہوجاتا ہے جس طرح گھوڑے پر انسان سوار ہوتا ہے۔ گویا اس کے بعد ہدایت سے ان کا عارضی تعلق نہیں رہتا بلکہ وہ ہدایت پر سوار کی طرح بیٹھ جاتے ہیں اور خدا کا کلام انہیں کامیابیوں کی طرف لئے چلا جاتا ہے۔ وَ اُولٰئِٓکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ اور یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ جولوگ خداتعالیٰ کے کلام پرعمل کرتے اور اس کی ہدایات کے مطابق کام کرتے ہیں ان کو کون ناکام کرسکتا ہے۔ وہ بہرحال کامیاب ہوتے ہیں اور کوئی طاقت انہیں ناکام نہیں بناسکتی۔
غرض ہمار ے لئے ہر جھگڑے کو دور کرنے کیلئے ایک چیز موجود ہے اور وہ خدا کا کلام ہے۔ ہم میں آپس میں اختلاف ہوسکتا ہے، ہم میں آپس میں تفرقہ ہوسکتاہے لیکن خداتعالیٰ کے کلام میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔ پس جس کے ساتھ قرآن ہے وہ سچا ہے اور جس کے ساتھ قرآن نہیں وہ جھوٹا ہے۔ اگر تمہارا میرے ساتھ تعلق ہے تو تم قرآن کی وجہ سے اور اگر میرا تمہارے ساتھ تعلق ہے تو قرآن کی وجہ سے اور اگر کوئی احمدی کہلاکر مقابلہ کیلئے نکلتا ہے تو قرآن کے ذریعہ ہی اس جھگڑے کا بھی فیصلہ ہوسکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا اُس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں اور آخری زمانہ میں امت محمدیہ کی اصلاح کیلئے تشریف لائیں گے۔ میں نے بارہا سنایا ہے کہ لدھیانہ کے ایک مولوی صاحب تھے انہوں نے حج بھی کیا ہؤا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی ان کا تعلق تھا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے بھی ملتے رہتے تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ پر زیادہ شور اُٹھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی نے سخت مخالفت کرنی شروع کردی تو انہوں نے خیال کیا کہ مرزا صاحب صوفی مزاج آدمی ہیں اورمولوی محمد حسین بٹالوی تیز طبیعت کے انسان ہیں۔ مرزا صاحب نے صوفیانہ رنگ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق کوئی بات کہی ہوگی جسے مولوی محمد حسین بٹالوی نے نہ سمجھا اور اس نے مخالفت شروع کردی ورنہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ مرزا صاحب قرآن کریم کے خلاف بات کہہ دیں۔ وہ بڑے نیک آدمی ہیں، قرآن کے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتے مولوی محمد حسین کو ضرور کوئی غلطی لگی ہوگی۔ چنانچہ اس کے بعد وہ قادیان آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ کیا یہ سچ ہے کہ آپ نے اعلان کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں یہ درست ہے۔ انہوں نے کہا آپ تو بزرگ آدمی ہیں کیا آپ کو معلوم نہیں کہ قرآن کریم کے خلاف کوئی بات کہنا سخت ناجائز ہے۔ جب قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت ہے تو آپ قرآن کے خلاف ان کی وفات پر کیوں زور دیتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اگر قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ثابت ہوجائے تو اور کیا چاہئے۔ میں فوراً اپنے اس دعویٰ کو واپس لینے کیلئے تیار ہوں اور میں کہہ دوں گا کہ میرا عقیدہ غلط ہے، دراصل قرآن کریم سے یہی ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ وہ کہنے لگا میں پہلے ہی کہتاتھا کہ حضرت مرزا صاحب بڑے نیک آدمی ہیں وہ کبھی غلط طریق اختیار نہیں کرتے۔ اب آپ یہ بتائیں کہ اگر میں آپ کے پاس قرآن کریم کی ایک سَو آیتیں ایسی لے آئوں جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت ہو تو کیا آپ ان کی حیات کے قائل ہوجائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا سَو آیتوں کا سوال نہیں قرآن کریم کی ایک آیت ہی حُجّت ہے۔ اگر آپ ایک آیت ہی ایسی لے آئیں جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت ہوتی ہو تو میں ان کی زندگی تسلیم کرلوں گا۔ اِس پر انہیں خیال آیاکہ شاید سَو آیتیں قرآن کریم سے ایسی نہ مل سکیں جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت ہو اس لئے پچاس آیتوں تک قائل کرلینا چاہئے اور کہنے لگے اگر سَو آیتیں نہ مل سکیں صرف پچاس آیتیں مل جائیں تو کیا پچاس آیتیں دیکھ کر آپ اپنے عقیدہ سے توبہ کرلیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا میں توپہلے کہہ چکا ہوں کہ سَو پچاس آیتوں کی قید کی کوئی ضرورت نہیں قرآن کریم کی ایک آیت بھی کافی ہے۔ خیر آہستہ آہستہ وہ دس آیتوں پر آگئے اور کہنے لگے کہ دس آیتیں تو میں ضرور لے آئوں گا۔ چنانچہ اِس گفتگو کے بعد وہ خوشی خوشی لاہور گئے۔ اُن دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل لاہور میں تھے مولوی محمد حسین بٹالوی بھی وہیں تھے اور آپس میں بڑی بحثیں ہورہی تھیں۔ مولوی محمد حسین بٹالوی یہ کہتے تھے کہ آؤ حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کا ہم حدیثوں کی رو سے فیصلہ کریں کیونکہ یہی قرآن کریم کی شارح ہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے کہ قرآن اصل چیز ہے ہمیں قرآن کریم کی رو سے آپ کے دعویٰ کو دیکھنا چاہئے۔ آخر بہت بڑی ردّو کد اور بحث مباحثہ کے بعدجب لوگوں میں بددلی اور بے اطمینانی پیدا ہونے لگی تو حضرت خلیفہ اوّلؓ نے کہہ دیا کہ اچھا ہم بخاری مان لیتے ہیں اسے تم اپنے دعوے میں پیش کرسکتے ہو۔ مولوی محمد حسین بٹالوی اِس پر بہت خوش تھے کہ میں نے کچھ تو اپنی بات منوالی۔ چنانچہ ایک مجلس میں بیٹھ کر وہ ڈینگیں ماررہے تھے کہ اتنے میں لدھیانہ والے مولوی نظام الدین صاحب بھی جا پہنچے اور کہنے لگے بس اب سب جھگڑوں کا فیصلہ ہوگیا۔ آپ بحث مباحثہ ایک طرف رکھئے اور مجھے دس آیتیں ایسی لکھ دیجئے جن سے یہ ثابت ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں۔ میں وہ آیتیں لے کر حضرت مرزا صاحب کے پاس جائوں گا اور انہیں یہیں آپ کے پاس لے آئوں گا اور آپ کے سامنے انہیں اپنے عقیدہ سے توبہ کرائوں گا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے کہا بات کیا ہے کچھ تفصیل تو بتائو۔ انہوںنے کہا اصل بات یہ ہے کہ مجھے آپ سے بھی عقیدت ہے اور حضرت مرزا صاحب سے بھی عقیدت ہے۔ میں یہ پہلے ہی سمجھتا تھا کہ حضرت مرزا صاحب نیک آدمی ہیں وہ قرآن کے خلاف کوئی بات نہیں کہہ سکتے۔ میں ان کے پاس گیا تھا اور میں نے انہیں کہا تھا کہ اگر قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت ہوجائے تو کیا آپ یہ دعویٰ چھوڑنے کیلئے تیار ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں؟ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ اگر قرآن کریم سے ایسا ثابت ہوجائے تو میں اپنے اس دعویٰ کو چھوڑنے کیلئے تیار ہوں اور وہ تو ایک آیت ہی کافی سمجھتے تھے مگر میں ان سے دس آیتوں کا وعدہ کر آیا ہوں پس آپ جلدی سے مجھے ایسی دس آیتیں لکھ دیں جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت ہوتی ہو، تاکہ میں انہیں جاکر دکھادوں۔ مولوی محمد حسین صاحب یہ گفتگو سُن کر بڑے جوش سے بول اُٹھے تجھ بیوقوف سے کس نے کہا تھا کہ تُو اِس بحث میں کُود پڑے۔ میں دو مہینے بحث کرکرکے انہیں حدیث کی طرف لایا تھا اور تو پھر قرآن کی طرف لے گیا۔ وہ آدمی نیک تھے یہ سُنتے ہی کہنے لگے مولوی صاحب !اچھا یہ بات ہے! اچھا! تو پھر جِدھر قرآن ہے اُدھر ہی میں ہوں۔ چنانچہ اس کے بعد وہ قادیان آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرلی۔
غرض قرآن ہمارے لئے حُجّت ہے اور جب قرآن کریم ہمارے لئے حجت ہو تو ہمیں کسی جھگڑے میں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر قرآن کریم ہمیں جھوٹا کہتا ہو توہمیں اس بات کا اقرار کرلینا چاہئے کہ ہم جھوٹے ہیں اور اگر قرآن کریم ہمیں سچا قرار دیتا ہو تو پھر کون ہے جو ہم پر فتح پاسکے۔ قرآن کریم کیلئے دنیا میںغلبہ مقدر ہے اور قرآن کریم کے پہلے رکوع میں ہی اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا انکشاف فرمایاہے کہ قرآن تو الگ رہا قرآن کریم پر عمل کرنے والے بھی مفلح ہیں۔ یعنی جس طرح قرآن کیلئے غلبہ مقدر ہے اسی طرح قرآن کریم پر عمل کرنے والوں کیلئے بھی غلبہ مقدر ہے۔ پس جو قرآنی ہتھیار چلاتا ہے وہی دشمن پر غالب رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُؤْقِنُوْنَ۔ یعنی صداقت کا راستہ تلاش کرنے کیلئے سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کیا کہتا ہے کیونکہ قرآنی الہام باقی تمام الہامات پر مقدم ہے۔ اس کے بعد اس کے سِوا دوسری وحیوں پرغور کرنا چاہئے کہ وہ کیا بتاتی ہیں۔ پس جس بات کی تائید قرآن کریم کی وحی اورپہلی اور پچھلی وحیاں کریں اس کے سچا ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ کسی انسان کی طاقت میں نہیں کہ وہ مثلاً حضرت موسیٰؑ کی زبان سے اپنی تائید میں ایک بات نکلوائے۔ حالانکہ وہ پیدا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دو ہزار سال بعد ہؤا ہو۔ یہی دلیل قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کی صداقت کے ثبوت میں بھی پیش کی گئی ہے اورکہا گیا ہے کہ اے محمد ! تیری بعثت کی خبر تو موسیٰ نے بھی اپنی کتاب میں دی ہے اگر تُو راستباز نہیں تو کیا تُو حضرت موسیٰ کے وقت میں بھی موجود تھا یا کیا حضرت موسیٰ تیرے زمانہ میں ہوئے ہیں کہ تُو نے ان سے مشورہ کرکے یہ پیشگوئی ان سے لکھوالی۔ جب یہ دونوں صورتیں نہیں تو صاف معلوم ہؤا کہ یہ خبر خداتعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی۔ تو قرآن کریم اور پہلی اور پچھلی وحیاں ایک مومن کیلئے مشعل راہ ہیں۔ جدھر یہ تینوں وحیاں لے جاتی ہوں گی وہی سچا راستہ ہوگا اور جس کے خلاف یہ تینوں وحیاں ہوں اُس کے جھوٹا ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوگا۔
پس اس اصل کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے کسی ذاتیت کا سوال درمیان میں حائل نہیں رہتا۔ اگر خدا کا کلام ہمارے خلاف پڑتا ہو تو اس میں کیا شبہ ہے کہ ہماری شکست یقینی ہے۔ لیکن اگر خدا کا کلام ہمارے ساتھ ہو تو چونکہ خدا کے کلام کے لئے فتح اور غلبہ مقدرہے اس لئے ہمارے لئے بھی فتح اور غلبہ مقدر ہے۔ پھر اسی صورت میں دشمن سے ڈرنے کے کوئی معنے ہی نہیں۔ ایک بچہ اگر کسی پہلوان پر حملہ کرے تو وہ پہلوان اس کے حملہ سے نہیں ڈرتا بلکہ سمجھتاہے کہ یہ میری ایک ٹھوکر کی مار ہے۔ اسی طرح جس کے ساتھ قرآن ہو، جس کے ساتھ اگلی پچھلی وحیاں ہوں اس کے ڈرنے اور خائف ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں۔
پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے ایمانوں کو دیکھیں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے خدا اور اس کے رسول کو سمجھ کر مانا ہے تو پھر انہیں فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کا خدا ان کے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ خدا ہو کون ہے جو اُس پر ہاتھ ڈال سکے۔ دنیا ٹل سکتی ہے لیکن خدا کی باتیں کبھی نہیں ٹلتیں۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے متعلق بھی خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اس وقت ایسے ایسے ابتلا آئے کہ مومنون کی بنیادیں ہل گئیں اور وہ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا ۱۰؎ کے مصداق بن گئے۔ ان کی ہستیوں پر ایک شدید زلزلہ آیا اور لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اے یثرب کے رہنے والو اب تمہاری شکست میں کوئی شبہ نہیں، اب تم یقینی طور پر مارے گئے۔مگر پھر وہی جو یہ کہتے تھے کہ تم مارے گئے بلوں میں چُھپتے پھرتے اور ایسے بھاگے کہ انہیں سرچھپانے کی جگہ نہ ملی۔
پس خداتعالیٰ کی باتوں پر یقین رکھو اور اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لوکہ ہمارا کوئی مقابلہ بھی نفسانیت کی وجہ سے نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارا مقابلہ اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہے اور اللہ تعالیٰ کیلئے جو مقابلہ ہو اس میں اگر ہماری شکست میں اللہ تعالیٰ کے دین کی فتح ہو تو ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ ہمیں شکست ہوئی اور اللہ تعالیٰ کے کلام کو فتح۔ لیکن اگر ہماری فتح میں اس کی فتح ہے تو پھر دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی ہماری فتح کو شکست میں تبدیل نہیں کرسکتی۔ میں تمہارے ایمانوں کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن جو ایمان خداتعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا ہے اور جو خبریں خدا تعالیٰ نے مجھے دیں اور اپنے وقت پر پوری ہوئیں ان کو دیکھتے ہوئے میں ایک لمحہ کیلئے بھی اس امر میں شک نہیں کرسکتاکہ کسی میدان میں خداتعالیٰ کے فضل سے مجھے شکست نہیں ہوسکتی ۔ میں نے خداتعالیٰ کی باتوں کا اتنا تجربہ کیا ہے کہ میں اس یقین پر پورے طور پر قائم ہوں اور یہ یقین مجھے آج حاصل نہیں ہؤا کہ لوگ کہیں چونکہ تمہارے ساتھ بہت لوگ ہیں اس لئے ان کو دیکھ کر یہ دعویٰ کیا جارہا ہے۔ میں نے اُس وقت بھی اپنے دشمنوں سے مقابلہ کیا جب میرے ساتھ بہت تھوڑے لوگ تھے اور اُس وقت بھی اپنے دشمنوں کا مقابلہ کیا جب میں اکیلا تھا اور کوئی میرے ساتھ نہ تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانہ میں لوگ مجھے ستاتے، دکھ دیتے، مجھ پر الزامات اور بُہتانات لگاتے اورکہتے کہ یہ خلافت کا مؤید اس لئے نہیں کہ سمجھتا ہے کہ خلافت کوئی ضروری چیز ہے بلکہ خلافت کا اس لئے مؤید ہے کہ خود خلیفہ بننا چاہتا ہے۔ میں ان تمام باتوں کو سنتا اور برداشت کرتا تھا اور خدا شاہد ہے کہ بسااوقات میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا بھی کی کہ خدایا !اگر میر ا وجود سلسلہ کیلئے کسی لحاظ سے مُضِرّ ہے اور میں کوئی ایسا کام کررہا ہوں جس سے سلسلہ کو نقصان پہنچنے والا ہے تو میرا وجود درمیان سے ہٹادے۔مگر باوجود میری ان دعائوں کے میرے خدا نے مجھے ہر میدان میں فتح دی۔پس یہ مت خیال کرو کہ کسی قسم کا حملہ چاہے وہ کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو تمہیں نقصان پہنچاسکتاہے۔ اگر تم سچے مومن ہو تو کوئی حملہ تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکتا اور دشمن خواہ کسی راہ سے آئے وہ دیکھے گاکہ خدا کے فرشتے ہماری راہ میں کھڑے ہیں اور ان کی تلواروں کا مقابلہ کرنے کی وہ اپنے اندر تاب نہیں رکھتا۔
آج ہی جب کہ میں تازہ فتنوں کے متعلق غور کررہا اور ان کے مقابلہ کی تجاویز سوچ رہا تھا تو خداتعالیٰ نے علوم کا ایک دریا مجھے عطا فرمایا اور ایسا وسیع علم دیا جو میرے وہم اور گمان میں بھی نہیں تھا اور میں سمجھتا ہوں اگر دشمن نے ہمارا مقابلہ کیا تو خداتعالیٰ کی کتاب اُس کے منہ پر ایسا تھپڑ مارے گی کہ اُس کے دانت توڑ کر رکھ دے گی اور وہی حملے جو وہ ہم پر کرنا چاہتا ہے، اُس کی اپنی ہلاکت اور بربادی کا موجب بن جائیں گے۔ لیکن مومن کبھی پہلے حملہ نہیں کرتا وہ انتظار کرتاہے کہ دشمن حملہ کرے ۔اور دشمن اپنے د ل میں یہ سمجھتا ہے کہ یہ بزدل ہے مگر وہ انتظار کرتا ہے اور انتظار کرتا چلاجاتا ہے تاکہ انتہائی کوشش جو اس کے ایمان کے بچائو کیلئے کی جاسکتی ہے وہ کرلی جائے اور اس کیلئے کسی قسم کے عُذر کا موقع باقی نہ رہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ اپنی حرکات سے باز نہ آئے تو اس کی ذمہ داری خود اس پر عائد ہوتی ہے کسی اور پر عائد نہیں ہوتی۔
پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں مطمئن ہوں اور ہر شخص جو تم میں سے سچا ایمان رکھتا ہے وہ دیکھے گا بلکہ ابھی تم میں سے اکثر لوگ زندہ ہوں گے کہ تم ان تمام فتنوں کو خس و خاشاک کی طرح اُڑتے دیکھو گے اور اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کی مدد سے سلسلہ احمدیہ ایک مضبوط چٹان پر قائم ہوجائے گا۔
(الفضل ۹ ؍ جولائی ۱۹۳۷ئ)
۱؎ مبرھن: دلیل سے ثابت کیا ہوا۔ ثابت۔ مضبوط
۲،۳؎ البقرۃ: ۲:۳ ۴؎ البقرۃ: ۴
۵؎ البقرۃ: ۴
۶؎ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۲۷۹مطبوعہ مصر ۱۹۳۶؁ء
۷؎ البقرۃ :۴
۸؎ البقرۃ :۵
۹؎ البقرۃ :۶
۱۰؎ الاحزاب :۱۲

۲۰
فتنوں کا دروازہ بند کرنے کے اصول
(فرمودہ ۲؍ جولائی ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
اِس وقت جو فتنہ جماعت کے سامنے ہے قدرتی طور پر جماعت کے دوستوں کی طبائع میں اس کے متعلق ہیجان ہے۔ بعض طبائع اپنے اخلاص اور تقویٰ کی وجہ سے اس بات پر حیران ہیں کہ یہ لوگ جو بظاہر احمدیت کی خدمت کر رہے تھے کس طرح احمدیت کے فوائد کے مخالف کھڑے ہو گئے اور کیونکر وہ اس ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے جس کی امید جماعت کے دوست ان پر رکھتے تھے۔بعض طبائع ہیں جو اس بات پر خوش ہیںکہ انہیں ان میں سے بعض کے حالات پہلے معلوم تھے اور ان کی بناء پر وہ یہ امید رکھتے تھے کہ کسی نہ کسی دن یہ لوگ ٹھوکر کھا جائیں گے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اس فکر اور خیال میں پڑے ہیں کہ ان لوگوں کو جماعت سے خارج کرنا دوسرے لوگوں کیلئے ٹھوکر کا موجب تو نہیں ہوگااور کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ان کے مقابلہ میں کچھ نرمی کی جاتی اور ان کو تو بہ کا موقع دیا جاتا۔
غرض مختلف قسم کے خیالات ہیں جو جماعت میں پائے جاتے ہیں لیکن زیادہ تر حصہ جماعت کا وہی ہے جو سمجھتا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کا اخراج بہر حال جماعت کیلئے مفید ہے اور یہ کہہ رہے ہیں کہ گو ان لوگوں نے جماعت کی امیدوں کے خلاف نمونہ دکھایا ہے مگر جب ان کا نمونہ ظاہر ہو گیا تو ان کے خلاف اس قسم کا سلو ک ضروری تھا اور اگر کوئی اور بھی ایسے لوگ ہوں تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے۔ جماعت کی طرف سے کثرت کے ساتھ اس قسم کے پیغام آئے ہیں کہ یہ وقت ہے کہ اگر اور کوئی ایسے لوگ ہوں تو ان کو بھی خارج کر دیا جائے اور اس پھوڑے کو لمبے عرصے تک نہ پکنے دیا جائے۔ جو لوگ ان لوگوں کی طرف سے بعض باتیں ایسی جانتے ہیںجو ان کی نگاہ میں انہیں سلسلہ کے مناسب حال قرار نہ دیتی تھیں، وہ اس نقطہ نگاہ سے مطمئن بھی ہیں کہ ہم پہلے ہی جانتے تھے یہ نکل جائیں گے۔تیسرا گروہ جو باوجود اخلاص کے بوجہ نرم طبیعت یا بوجہ اپنی منافقت کے ان سے ہمدردی رکھتا ہے یہ کہتا ہے کہ کیوں نہ ان کے ساتھ ایسا برتائو کیا گیا جس سے یہ نتیجہ نکلتا اور یہ لوگ رُک جاتے۔ ان میں سے ایک حصہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے، مخلص لوگوں کا ہے۔ وہ اپنی افتادِ طبیعت کی وجہ سے ایسے خیالات ظاہر کرنے پر مجبور ہے۔ بعض طبائع قدرتی طور پر ایسی نرم اور ڈرپوک ہوتی ہیں کہ وہ سمجھتی ہیں نہ معلوم کیا ہو جائے گا۔ بسااوقات ان کی یہ رائے بوجہ ناواقفیت کے ہوتی ہے۔وہ حالات کی اہمیت کو نہیں جانتے ہوتے۔ اور نہیں جانتے کہ سوائے اس رستہ کے جو اختیار کیا گیا کوئی اور باقی ہی نہ تھا۔ لیکن ایک حصہ ایسے لوگوں کا بھی ہوتا ہے جن کی طبیعت میں شبہ اور شک ہوتا ہے۔ وہ شک میں ہی پیدا ہوتے ہیں، شک میںہی جوان،اور پھر شک میںہی بوڑھے اور شک میں ہی مرجاتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر شادی کیلئے آپ سے مشورہ کرنا چاہیں اور جو حالات وہ بیان کریں ان سے پتہ لگے کہ سوائے شادی کرنے کے ان کے لئے کوئی چارہ کار ہی نہیں اور سوائے اس رشتہ کے جو اُن کے سامنے ہے اور کوئی رشتہ اُن کو مل ہی نہیں سکتا اور آپ کہہ دیں کہ بہت اچھا شادی کر لیں تو یہ فقرہ سنتے ہیں ان کی طبیعت بدل جائے گی اور وہ کہنا شروع کردیں گے کہ جی اس میں فلاں خطرہ بھی تو ہے، فلاں نقصان کا بھی تو احتمال ہے اور ان کی یہ باتیں سن کر اگر آپ خیال کریں کہ شاید میں نے ان کے حالات سمجھنے میں غلطی کی ہے اور وہ کہہ دیں کہ اچھا آپ وہاں شادی نہ کریںتو وہ معاً کہیں گے کہ جی!آپ نے میری یہ مجبوری تو سُنی ہی نہیں اور فلاں معذوری پر غور ہی نہیں کیا،ان کے ہوتے ہوئے میں رشتہ سے انکار کیونکر کر سکتا ہوں۔ گویا جب بھی آپ کوئی رائے ظاہر کریں وہ جھٹ اس کے اُلٹ ہو جائیں گے۔ خدا تعالیٰ نے ان کی طبیعت میں شک پیدا کیا ہوتاہے۔وہ شک میں ہی زندگی بسر کرتے اور شک میں ہی مر جاتے ہیںاور ایسی مشکوک طبائع کا کوئی علاج نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ ان کے لئے دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کمزور طبیعت کی وجہ سے ان کو ایمان سے محروم نہ کر دے۔ منافق طبع ان ایمانداروں کے پردے کے پیچھے لڑتے ہیںاور جب بعض مومن بھی ایسی باتیں کر رہے ہوتے ہیں کسی کو جرأت نہیں ہوتی کہ منافق کو ایسی باتوں کیلئے منافق کہہ سکے۔ یہ کمزور طبع لوگ گویا منافقوں کے امام ہوتے ہیں۔ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وََّرَاِئہٖ۱؎ منافق کیلئے یہ ڈھال کا کام دیتے ہیںاور ان کی وجہ سے کوئی کسی منافق پر اعتراض نہیں کر سکتا۔ یہ لوگ اپنی بدقسمتی کی وجہ سے منافق کیلئے ڈھال بن جاتے ہیں اور ہمیشہ یہی لوگ فتنوں کو لمبا کرنے کا موجب ہؤا کرتے ہیں۔ بظاہریہ نرم دل اور رحم دل مصلح سمجھے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ ان کی کمزوری ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے میں نے بار ہا سنا ہے اور سینکڑوںصحابہؓ ابھی ہم میں ایسے زندہ ہیںجنہوں نے سنا ہوگا کہ آپ فرمایا کرتے تھے بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ وہ اپنی طبیعت کی اُفتاد کی وجہ سے کوئی صحیح طریق اختیار نہیں کرسکتیں۔ باوجود اپنی نیک نیتی اور نیک ارادوں کے آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص تھا اُس نے کسی دوست سے کہا کہ میری لڑکی کیلئے کوئی رشتہ تلاش کرو۔ کچھ روز کے بعد اُس کا دوست آیا اور کہا میں نے موزوں رشتہ تلاش کر لیا ہے۔ اُس نے پوچھا لڑکے کی کیا تعریف ہے؟ وہ کہنے لگا لڑکا بڑا ہی شریف اور بھلا مانس ہے۔ اس نے کہا کوئی اور حالات اس کے بیان کرو ۔ اس نے جواب دیا بس جی اور حالات کیا ہیں، بے انتہا بھلا مانس ہے۔پھر اس نے کہا کہ کوئی اوربات اس کی بتائو۔ اس نے جواب دیا کہ اور کیا بتائوں بس کہہ جو دیا کہ وہ انتہا درجہ کا بھلا مانس ہے۔ اس پر لڑکی والے نے کہا میں اس سے رشتہ نہیں کر سکتا جس کی تعریف سوائے بھلا مانس ہونے کے اور ہے ہی نہیں۔ کل کو اگر کوئی میری لڑکی کو ہی لے جائے تو وہ اپنی بھلا مانسی میں ہی چُپکا بیٹھا رہے گا۔ تو بعض لوگ ایسے ہوتے ہیںکہ ان میں صرف بھلے مانسی ہی ہوتی ہے، غیرت اور دین کا جوش نہیں پایا جاتا۔وہ بوجہ نیک نیت ہونے کے مومن تو ضرور کہلاتے ہیںمگر ان کی بھلے مانسی خود ان کے لئے اور جماعت کیلئے بھی مُضِرّ پڑا کرتی ہے۔
ان مختلف الخیال لوگوں میں سے جن میں سے پہلے خیال کے لوگ جماعت میں بہت زیادہ ہیں اور جن کی طرف سے درخواستیں آرہی ہیں کہ ایسے لوگ اگر جماعت میںاور بھی ہوںتو ان کو بھی نکال دیا جائے، ان کو میں مطلع کرتا ہوں کہ میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب میں ایسے سب لوگوں کو جن کا جُرم ثابت ہو نکالتا جاؤں گا اب ان پر رحم کرنا جماعت کے ساتھ دشمنی ہے مگر ایسے لوگوں کے خلاف ثبوت ضرور چاہئے۔ وہ دوست جو مجھے ایسے مشورے لکھ کربھیجتے ہیںانہیں چاہئے کہ ایسے امور مجھ تک پہنچائیں۔ ثبوت کے بغیر میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتاکیونکہ شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ ساری برکت خداتعالیٰ اور رسول کریمﷺ کی اطاعت میں ہے۔ ہاں اگر مجھے ثبوت مل جائے تو امید ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے توفیق دے گا کہ اس کے اور اس کے رسول کیلئے نڈر ہو کر میں ان کو قربان کردوں اور ذرا بھی پرواہ نہ کروں۔
اس فتنہ کے متعلق جو تفاصیل ظاہر ہو رہی ہیں ان پر سلسلہ کے علماء تقریریں کر رہے اور مضامین لکھ رہے ہیں۔ یہ کام بھی اپنی ذات میں نہایت اہم ہے اور جماعت کے علماء کا فرض ہونا چاہئے کہ اس قسم کے فتنوں کی ہوا پاتے ہی مقابلے کے لئے تیار ہو جائیں۔ کیونکہ یہ سلسلہ نہ میرا ہے اور نہ ان کا ، یہ سلسلہ خدا کا سلسلہ ہے اور خدا کا ہونے کے لحاظ سے ہم سب کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کریں۔ اس کے خدائی سلسلہ ہونے کا ثبوت اس کثرت اور تواتر سے ہمارے سامنے آچکا ہے کہ وہ جس نے احمدیت کو سوچ سمجھ کر مانا ہے اپنے رشتہ داروں کی خاطر نہیں، یا وہ احمدی والدین کا غافل بچہ نہیں، اس کے سامنے اس کے لاکھوں ثبو ت ہیں کہ یہ خدائی سلسلہ ہے اور اسی کے ہاتھوں سے چل رہا ہے۔ انسانوں نے لاکھوں کوششیں اسے مٹانے کی کیں مگر خدا نے اسے مٹانے سے انکار کردیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے کہ یُرِیْدُوْنَ اَنْ لاَّ یَتِمَّ اَمْرُکَ وَاللّٰہُ یَأْبٰی اِلَّا اَنْ یُّتِمَّ اَمْرَکَ ۲؎ یعنی لوگ آئے اور چاہا کہ تیرے اس سلسلہ کو مٹادیں مگر خدا نے ان کی اس بات کو ماننے سے انکار کردیا اور وہ اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔ پس ہم نے اپنی جانوں میں، اپنے دوستوں میں، اپنے محلہ والوں ، گائوں والوں کی جانوں میں اور ساری دنیا کے نفوس میں اور زمین میں اور آسمان میں ایسے تواتر سے نشان دیکھے ہیں کہ شیطان ہی ان کا انکار کرسکتا ہے۔ یا پھر وہ ازلی نابینا جسے سچائی نظر ہی نہیں آسکتی۔ ہم نے صرف وہی نشان نہیں دیکھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ظاہر ہوئے بلکہ وہ بھی جو ہمارے لئے اور ہمارے دوستوں کیلئے ظاہر ہوئے ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے ہم کسی تردّد یا شک میں نہیں پڑ سکتے ہمیں جو فتح حاصل ہوئی ہے وہ اسی ایمان کی وجہ سے ہے جو ہمیں اپنے خدا پر حاصل ہے۔ دشمن اس چیز کیلئے لڑتا ہے جس پر اسے یقین نہیں لیکن ہم اُس چیز کیلئے لڑتے ہیں جو ہمیں سورج سے بھی زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب دشمن ہمارے ساتھ لڑنے لگتا ہے تو اُس کا دل کانپتا ہے مگر جب ہم لڑنے لگتے ہیں تو ایک مضبوط چٹان کی طرح قائم ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ اگر ہم اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے گرنے لگے تو خداتعالیٰ خود کھڑا کردے گا اور اُس کی تائید ہمیں قوت اور طاقت عطا کردے گی۔ بچہ اپنی ماں کی گود میں دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی دھمکی دیتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک اس کی ماں ہی سب سے بڑی ہوتی ہے اور ہم تو ہیں ہی اُس کی گود میں جس سے بڑا فی الواقعہ کوئی نہیں۔ پس ہم کس طرح کسی سے ڈر سکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے فضل اور رحم سے آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل زمین و آسمان ہماری خدمت کیلئے لگادیئے گئے ہیں اور کوئی دُنیوی چیز ہمیں نقصان نہیں پہنچاسکتی۔ دنیا میں سب سے زیادہ تباہ کن چیز آگ ہی ہے مگر خداتعالیٰ کے کلام میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ’’آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے‘‘۳؎۔ اس سے ظاہر ہے کہ آگ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہی نہیں بلکہ حضورؑ کے غلاموں کی بھی غلام ہے۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ صرف تُو ہی ابراہیمی نہیں بلکہ ابراہیمی نور تیری جماعت کے اندر بھی داخل کیا گیا ہے اور وہ بھی ظلی طور پر ابراہیم ہوگئی ہے۔
پھر یہ نشانات کاسلسلہ بند نہیں ہوگیا بلکہ اب بھی اس کثرت اور تواتر سے جاری ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ یہ فتنہ آج ظاہر ہؤا ہے مگر قبل از وقت دُور دراز علاقوں میں احمدیوں کو ایسی خوابیں آنی شروع ہوگئی تھیں۔ میں سندھ میں تھا کہ ڈیرہ دون یا منصوری سے ایک دوست کی چٹھی آئی جس میں ایک خواب درج تھی اُس دوست نے لکھا تھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ہیں تاکہ آپ کا لیکچر سُنیں۔ جس کے معنے یہ تھے کہ قریب کے زمانہ میں مجھے دینِ اسلام اور سلسلہ کی حفاظت کیلئے بولنا پڑے گا اور گویا اُس وقت اِن دونوں کی روحیں میری مدد کیلئے نازل ہوں گی۔
پھر ایک اور دوست کی سینکڑوں میل سے چِٹّھی آئی تھی ان کے رئویا کو میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا مگر تفصیلاً نہیں کیونکہ مصلحت نہ تھی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ میں نے دیکھا آنحضرت ﷺ ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ ہیں اور جماعت کے بعض دوست بھی ساتھ ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے سب کو کھڑا کیا اور فرمایا کیا میں نے جسّاسہ سے پناہ مانگنے کیلئے نہیں کہا تھا (جسّاسہ دجال ہی کا ایک نام ہے۴؎ جس کا احادیث میں ذکر ہے)۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ سب کہو ہاں آپ نے فرمایا تھا۔ جسّاسہ اسے کہتے ہیں جو تجسس کرکے عیب نکالتا ہے۔
پھر میں نے اپنے اپریل ۱۹۳۷ء کے خطبہ میںبھی بیان کیا تھا کہ میری ہمشیرہ عزیزہ مبارکہ بیگم صاحبہ نے ایک رئویا دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک تخت پر کھڑے ہیں جو کانپ رہا ہے اور آپ لوگوں سے فرمارہے ہیں کہ پندرہ بیس روز یہ دعا کرو رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔ کیا اس سے معلوم نہیں ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جماعت کے موجودہ طریق کو صحیح قرار دیتے ہیں اور بعض وہ لوگ جو جماعت کو دوسری طرف لے جانا چاہتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ کیونکہ آپ نے فرمایا کہ دعا کرو اے اللہ! ہمیں اس ہدایت پر قائم رکھ اور بہکانے والوں سے بچا۔
۴؍ جنوری ۱۹۳۵ء کے خطبہ میں مَیں نے اپنا ایک رئویا بیان کیا تھا جو ’’الفضل‘‘ میں چھپ چکا ہے اور جو اس طرح ہے کہ میں نے دیکھا ایک پہاڑی کی چوٹی ہے جس پر جماعت کے کچھ لوگ ہیں ۔ میری ایک بیوی اور بعض بچے بھی ہیں۔ وہاں جماعت کے سرکردہ لوگوں کی ایک جماعت ہے جو آپس میں کبڈی کھیلنے لگے ہیں۔ جب وہ کھیلنے لگے تو کسی نے مجھے کہا یا یونہی علم ہؤا کہ انہوں نے یہ شرط باندھی ہے کہ جو جیت جائے گا خلافت کے متعلق اُس کا خیال قائم کیا جائے گا۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس فقرہ کا مطلب یہ تھا کہ جیتنے والے جسے پیش کریں گے وہ خلیفہ ہوگا یا یہ کہ اگر وہ کہیں گے کہ کوئی خلیفہ نہ ہو تو کوئی بھی نہ ہوگا۔ بہرحال جب میں نے یہ بات سُنی تو میں ان لوگوں کی طرف گیا اور میں نے ان نشانوں کو جو کبڈی کھیلنے کیلئے بنائے جاتے ہیں مٹادیا اور کہا کہ میری اجازت کے بغیر کون یہ طریق اختیار کرسکتا ہے یہ بالکل ناجائز ہے اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس پر کچھ لوگ مجھ سے بحث کرنے لگے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ اکثریت پہلے صرف تلعّب کے طور پر یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ کون جیتتا ہے اور خلیفہ کی تعیین کرتا ہے مگر میرے دخل دینے پر پہلے جو لوگ خلافت کے مؤید تھے وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ گویا میرے روکنے کو انہوں نے اپنی ہتک سمجھا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ میرے ساتھ صرف تین چار آدمی رہ گئے اور دوسری طرف ڈیڑھ دو سَو ۔ اُس وقت میں سمجھتا ہوں کہ گویا احمدیوں کی حکومت ہے اور میں اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے خونریزی کے ڈر سے بھی میں پیچھے قدم نہیں ہٹاسکتا اس لئے آئو ہم ان پر حملہ کرتے ہیں۔ وہ مخلصین میرے ساتھ شامل ہوئے۔ مجھے یاد نہیں کہ ہمارے پاس کچھ ہتھیار تھے یا نہیں۔ بہرحال ہم نے ان پر حملہ کیا اور فریقِ مخالف کے کئی آدمی زخمی ہوگئے اور باقی بھاگ کر تہہ خانوں میں چھپ گئے۔ اب مجھے خیال پیدا ہؤا کہ یہ لوگ تو تہہ خانوں میں چُھپ گئے ہیں۔ ہم ان کا تعاقب بھی نہیں کرسکتے اور اگر یہاں کھڑے رہتے ہیں تو یہ لوگ کسی وقت موقع پاکر ہم پر حملہ کردیں گے اور چونکہ ہم تعداد میں تھوڑے ہیں، ہمیں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور اگر ہم یہاں سے جائیں تو یہ لوگ پُشت سے آکر ہم پر حملہ کردیں گے۔پس میں حیران ہوں کہ اب ہم کیا کریں۔ میری ایک بیوی بھی ساتھ ہیں اگرچہ یہ یاد نہیں کہ کونسی ہیں اور ایک چھوٹا لڑکا انور احمد بھی یاد ہے کہ ساتھ ہے میرے ساتھی ایک زخمی کو پکڑ کر لائے ہیں جسے میں پہچانتا ہوں اور جو اَب وفات یافتہ ہے اور بااثر لوگوں میں سے تھا۔ میں نے اسے کہا کہ تم نے یہ کیا غلط طریق اختیار کیا اور اپنی عاقبت خراب کرلی۔ مگر وہ ایسا زخمی ہے کہ مررہا ہے ۔ مجھے یہ درد اور گھبراہٹ ہے کہ اس نے یہ طریق کیوں اختیار کیا۔ مگر جواب میں اُس کی زبان لڑکھڑائی اور وہ گِرگیا۔ اتنے میں پہاڑی کے نیچے سے ایک شور کی آواز پیدا ہوئی اور ایسا معلوم ہؤا کہ تکبیر کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں۔ میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کیا شور ہے؟ تو اس نے بتایا کہ یہ جماعت کے غرباء ہیں۔ ان کو جب خبر ہوئی کہ آپ سے لڑائی ہورہی ہے تو وہ آپ کی مدد کیلئے آئے ہیں۔ میں خیال کرتا ہوں کہ جماعت تو ہمیشہ غرباء سے ہی ترقی کیا کرتی ہے۔ یہ خداکا فضل ہے کہ غرباء میرے ساتھ ہیں مگر تھوڑی دیر کے بعد تکبیر کے نعرے خاموش ہوگئے اور مجھے بتایا گیا کہ آنے والوں کے ساتھ فریب کیا گیا ہے۔ انہیں کسی نے اشارہ کردیا ہے کہ اب خطرہ نہیں اور وہ چلے گئے ہیں۔ مجھے کوئی مشورہ دیتا ہے کہ ہمارے ساتھ بچے ہیں اس لئے ہم تیز نہیں چل سکیں گے آپ نیچے جائیں آپ کو دیکھ کر لوگ اکٹھے ہوجائیں گے اور آپ اِس قابل ہوں گے کہ ہماری مدد کرسکیں۔ چنانچہ میں نیچے اُترتا ہوں اور غرباء میں سے مخلصین کی ایک جماعت کو دیکھتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ میں یہاں اس لئے آیا ہوں کہ تا مخلصین اکٹھے ہوجائیں۔ تم اوپر جائو اور عورتوں اور بچوں کو بہ حفاظت لے آئو۔ اس پر وہ جاتے ہیں اور اتنے میں میں دیکھتا ہوں کہ پہلے مرد اُترتے ہیں پھر عورتیں لیکن میرا لڑکا انور احمد نہیں آیا۔ پھر ایک شخص آیا اور میں نے اُسے کہا کہ انور احمد کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ وہ بھی آگیا ہے۔ پھر جماعت میں ایک بیداری اور جوش پیدا ہوتا ہے۔ چاروں طرف سے لوگ آتے ہیں۔ ان جمع ہونے و الے لوگوں میں سے شہر سیالکوٹ کے کچھ لوگوں کو پہچانا ہے۔ ان کے ساتھ کچھ وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو باغی تھے اورمیں انہیں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتحاد کے ذریعہ طاقت دی تھی۔ اگر تم ایسے فتنوں میں پڑے تو کمزور ہوکر ذلیل ہوجائو گے۔ کچھ لوگ مجھ سے بحث کرتے ہیں میں انہیں دلائل کی طرف لاتا ہوں اور یہ بھی کہتا ہوں کہ اس سے جماعت کا تو کچھ نہیں بگڑے گا البتہ اس کے وقار کو جو صدمہ پہنچے گا اس کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور تم ذمہ وار ہو گے۔ اس پر بعض لوگ کچھ نرم ہوتے ہیں مگر دوسرے پھر ان کو ورغلادیتے ہیں اور اسی بحث مباحثہ میں میری آنکھ کُھل جاتی ہے۔
تو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت اس فتنہ کی جو خلافت کے متعلق اٹھایا جانے والا تھا، اطلاع دے دی تھی۔ مگر یہ پُرانے خواب ہیں ۔ مَیں ایک تازہ خواب سناتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت ایک رنگ میں چل رہی ہے۔ مصری صاحب کے اعلان کے بعد پانچ دن کی بات ہے یعنی اتوار اور ہفتہ کی درمیانی شب کی کہ میںجاگ رہا تھا اور کُلّی طور پر بیدار تھا کہ یکدم ربودگی کی حالت طاری ہوئی اور الٰہی تصرف کے ماتحت کچھ فقرے میرے دماغ پر نازل ہونے شروع ہوئے۔ پہلے ایک دو تو جلدی گزرگئے مگر تیسرا یہ تھا کہ ’’آنحضرت ﷺ تشریف لائے‘‘ اور بے اختیار زبان سے نکلا ’’مبارک ہو، مبارک ہو‘‘ اور میرے دل پر یہ اثر ہے کہ یہ ’’مبارک ہو، مبارک ہو‘‘ میرے نفس کی طرف سے ہے اور پہلا حصہ الہامی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت کی رُوح اِس فتنہ کو دبانے کیلئے آرہی ہے۔ اس کے بعد میں سوگیا اور میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک دشمن نے مجھ پر حملہ کیا ہے اور میں نے اُس کا گلا گھونٹ دیا ہے اور وہ بیہوش ہوکر گر گیا ہے۔ یہ معلوم نہیں مرگیا ہے یا زندہ ہے ۔ پھر تیسرا نظارہ بدلا اور میں نے دیکھا کہ کوئی شخص ہمارے مکان میں گُھس آیا ہے اور میں اُسے پکڑنے کیلئے اُٹھا ہوں۔ مگر میری آنکھوں پرکنٹوپ پڑا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہ ہو وہ مجھ پر حملہ کردے کیونکہ میری آنکھوں پر توکنٹوپ ہے۔ اس پر میں نے کنٹوپ اُتارنا شروع کیا حتیٰ کہ میری آنکھیں بالکل ننگی ہوگئیں۔ مگر اتنے میں وہ بھاگ گیا۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ابھی کچھ مخفی مخالف ہیں اور ۱۹۳۵ء والے رئویا میں یہ دکھایا گیا تھا کہ بعض مخالف بِلوں میں چُھپ جائیں گے اور بعض کے زخمی ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ ظاہرہوجائیں گے۔ بہرحال وہ چُھپ جائیں یا ظاہر ہوں ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت کا وعدہ ہے۔ ہمارا خدا دیکھنے والا ہے وہ اگر چُھپیں بھی تو کہاں چُھپ سکتے ہیں۔ انہیں ظاہر کراکے یا تو وہ انہیں ہمارے ہاتھوں سے سزا دے گا یا اندر ہی اندر طاعون کے چُوہوں کی طرح انہیں ماردے گا اور کسی کو پتہ تک نہیں ہوگا۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ وہ اگر چاہے تو ان کے ایمانوں کو سلب کرلے،ا ن پر روحانی موت وارد کردے اور وہ خود ہی بیعت توڑنے کا اعلان کردیں یا ان کو ذلّت دے کر ضرر پہنچانے کے قابل ہی نہ رہنے دے۔ غرضیکہ وہ سب کچھ کرسکتا ہے۔
بہرحال یہ فتنہ ایک تو عارضی اور مقامی حیثیت رکھتا ہے جس کا مقابلہ ہمارے علماء کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کب تک ان کو کرنا پڑے گا۔ مگر ہر عارضی اور مقامی فساد کا ایک حصہ مستقل بھی ہوتا ہے۔ مثلاً کھانسی ہے جب بھی کسی کو کھانسی ہو یہ خیال نہیں کرلینا چاہئے کہ گلے کی سوزش سے ہے بلکہ بعض اوقات جسم کی بناوٹ میں ہی کوئی ایسا نقص ہوتا ہے جس سے کھانسی دورنہیں ہوتی۔ پس ہمیں غور کرنا چاہئے کہ اس فتنہ کا کوئی مستقل اور وسیع پہلو بھی ہے یا نہیں اور اگر کوئی ہو تو اس کا بھی علاج کرنا چاہئے۔ جس طرح کسی شخص کے مکان کی چھت ٹپکے تو اس کا عارضی علاج تو یہ ہے کہ نیچے بالٹیاں رکھ دی جائیں اور سامان وہاں سے ہٹالیا جائے یا پھر چھت پرمٹی ڈال دی جائے۔ مگر بعض اوقات بعض کڑیاں ہی گل چکی ہوتی ہیں اور چُوہوں نے چھت کے اندر ایسے سوراخ بنالئے ہوتے ہیں جو اوپر مٹی ڈالنے سے بند نہیں ہوسکتے اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ چھت کو درست کیا جائے۔ اسی طرح اس فتنہ کے متعلق بھی چاہئے کہ ہم وسیع نظر ڈالیں اور حقیقی مرض کو معلوم کرکے اس کا علاج کریں اور میں چاہتا ہوں کہ اس کاجو وسیع اور مستقل سبب ہوسکتا ہے اس پر بھی نظر ڈالوں تا جو مخلص دوست چاہتے ہیں کہ اس قسم کی خرابیاں پیدا نہ ہوں اس پر غور کرکے انہیں دور کرنے کیلئے تعاون کریں۔ شریعت کے کئی احکامات ایسے ہوتے ہیں جن کی تفاصیل سے لوگ ناواقف ہوتے ہیں اور ان پر جب عمل کرتے ہیں تو بعض دفعہ نقصان ہوتا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ شریعت کے احکام میں نقص ہے۔ ہمارا صرف یہی فرض نہیں کہ بتائیں شریعت کا یہ حکم ہے بلکہ یہ بھی فرض ہے کہ تفاصیل میں جائیں اور بتائیں کہ اور کیا احتیاطیں شریعت نے بتائی ہیں۔ اگر ان سے واقف نہ کریں تو لوگ اس حکم کو غلط سمجھیں گے اور شریعت پر ان کو حسن ظن نہ رہے گی۔ پس چیزوں کی حکمت کے ساتھ ان کی پیچیدگیاں بھی بیان کرنی ضروری ہیں اور علماء کا سب سے بڑا کام یہی ہے۔ قرآن کریم نے علماء کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ کُوْنُوْا رَبَّانِیّٖنَ ۵؎ یعنی تم کو مبلّغ اور عالم ہی نہیں بلکہ ربانی بننا چاہئے۔ یعنی ہر چیز کی ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک پیچیدگیاں ، خطرات ، اس کی خوبیاں اور نقصانات سب بیان کرو تا لوگوں کو روزِ روشن کی طرح معلوم ہوسکے کہ شریعت کا یہ منشا ہے۔ مثلاً قرآن کریم نے لین دین کے متعلق کھول کھول کر احکام بیان کئے ہیں مگر ہماری جماعت کے نوے فیصدی لوگ ان تمام تفاصیل سے واقف نہیں ہیں اور یہ علماء کا فرض ہے کہ ان کو واقف کریں تا وہ دیکھ سکیں کہ قرآن کریم کے خلاف عمل کررہے ہیں یا اس کے مطابق۔
پس ایسے فتنوں کے مستقل اور حقیقی اسباب کے متعلق میں جو کچھ بیان کروں گا جماعت کے علماء کو چاہئے کہ اسے اچھی طرح سمجھ لیں اور پھر اسے جماعت کے افراد کے اچھی طرح ذہن نشین کریں۔ یہ مت خیال کرو کہ میرے سامنے اِس وقت ہزاروں لوگ بیٹھے ہیں اورمیں جو کہوں گا اسے خود ہی سن لیں گے۔ ان میں سے کچھ تو سورہے ہیں۔ پھر یہ خیال مت کرو کہ جو جاگتے ہیں وہ سب سنتے ہیں۔ کئی ایک سوچ رہے ہوں گے کہ میں اپنے بیمار بچے کو چھوڑ کر آیا ہوں، خطبہ جلدی ختم ہو تو میں اسے جاکر دوائی دوں، کئی سوچتے ہوں گے کہ آج فلاں فصل کو گوڈی کرنی ہے یا فلاں کھیت میں ہل چلانا ہے یہاں سے جائوں تو جاکر یہ کام کروں۔پس یہاں مختلف خیالات کے لوگ آبیٹھے ہیں۔ پھر کافی لوگ ایسے ہیں جو جاگتے تو ہیں مگر روحانی طور پر سوتے ہیں۔ پھر جو توجہ سے سن بھی رہے ہیں وہ سب کے سب اس قابل نہیں کہ بات کو سمجھ سکیں یا توجہ دے سکیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ عورتوں میں لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کیا اور وفاتِ مسیح، آمدِ مسیح اور نبوت وغیرہ مسائل پر بہت سے لیکچر دیئے۔ مجھے یہ اس وقت یاد نہیں کہ یہ لیکچر روزانہ ہوتے تھے یا ہفتہ میں تین دن یا ہفتہ وار۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ آپ نے بہت سے لیکچر دئیے۔ ایک دن ایک عورت سے آپ نے دریافت فرمایا کہ تم لیکچروں میں شامل ہوتی ہو یا نہیں؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں شامل ہوتی ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ میںنے کیا بیان کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ بس یہی نماز روزہ کی باتیں ہوتی ہیں اور کیا۔ اِس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ سلسلہ بند کردیا۔ توبعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ وہ بات کو سُن کر بھی نہیں سمجھ سکتیں۔ وہ بڑی مخلص عورت تھی مگر جب آپ تقریر کرتے وہ’’ سُبْحَانَ اللّٰہِ ، واری جاواں، صدقے جاواں‘‘ ہی کرتی رہتی۔ وہ اپنے اخلاص میں یہی دیکھتی رہتی کہ خدا کا مسیح باتیں کررہا ہے۔ آگے یہ کہ بات کیا ہے اس کے متعلق جاننے کی اس نے کبھی کوشش ہی نہیں کی اور سمجھ لیا کہ بس روزے نماز کی باتیں ہی ہوں گی کوئی چوری وغیرہ کی باتیں توہوں گی نہیں۔ اس طرح مردوں میں بھی ایک حصہ ایسے لوگوں کا ہے جو میری باتوں پر سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ ہی کہتا رہتا ہے اور بجائے سمجھنے کے یہی کہتا جاتا ہے کہ کیا اچھی بات کی ہے، خلیفۃ المسیح جو ہوئے۔ ایسے لوگ محتاج ہوتے ہیں کہ انفرادی طور پر اُنہیں سامنے بٹھا کر بات ان کے ذہن نشین کرائی جائے۔ پھر سننے والوں میں ایک حصہ ’’سترے بہترے‘‘ لوگوں کا ہے جو بات کو سمجھ سکتے ہی نہیں۔ کچھ حصہ بچوں کا ہے جو ابھی اس عمر کو ہی نہیں پہنچے کہ سمجھ سکیں۔ ایک حصہ ایسے لوگوں کا ہے جو ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ سننے کے بعد بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ ایک حصہ ایسے لوگوں کا ہے جو بوجہ حافظہ کمزور ہونے کے مسجد سے نکلتے ہی بات کوبُھول جاتے ہیں۔ اگر آجکل کے لیکچروں میں شامل ہوتے ہیں تو باہر جاکر کہتے ہیں کہ میر صاحب نے بہت اچھا لیکچر دیا۔ کوئی پوچھے کیا تھا؟ تو کہیں گے یاد تونہیں مگر تھا بہت اعلیٰ۔ کوئی کہے گا کہ آپ کو اطلاع ملی ہوگی آج مولوی ابوالعطاء صاحب کا لیکچر بہت اعلیٰ تھا۔ آگے پوچھا جائے کیا تھا! تو بس جواب ہوگا کہ یاد نہیں۔ وہ مسجدسے نکلتے ہی بُھول جاتے ہیں۔ صرف ان کے دماغ پر اتنا اثر رہتا ہے کہ بات بڑی اچھی تھی۔ ایسے طبقہ کے سامنے جب تک دس بیس دفعہ ایک بات کو دُہرایا نہ جائے اُن کے ذہن نشین ہو ہی نہیں سکتی۔ ہمارے ہاں ایک خادمہ تھی وہ بڑی عمرمیں آئی تھی۔ حضرت اماں جان نے اُسے فرمایا کہ قرآن شریف پڑھا کرو۔ کہنے لگی مجھے یاد نہیں رہتا۔ آپ نے فرمایا کوشش کرو آخر اس نے پڑھنا شروع کیا۔ ایک آدھ جملہ سبق لیتی اور پھر اُسے سارا دن رٹتی رہتی۔ اس طرح دس پندرہ سال میں اس نے سیپارہ ڈیڑھ سیپارہ پڑھا۔ ایک دن ہم نے دیکھا کہ وہ کام کرتی جاتی تھی اور کہتی جاتی تھی کہ ’’جابھانوں آبہناں۔ جا بھانوں آبہنا‘‘ ۔ اُس سے دریافت کیاگیا کہ یہ کیا کہتی ہو؟ تو کہنے لگی قرآن شریف کا سبق یاد کرتی ہوں۔ اسے کہا گیا یہ تو قرآن شریف میں نہیں ہے۔ کہنے لگی ہے کیوں نہیں، مجھے فلاں عورت بتاکر گئی ہے اور جب پڑھانے والے سے پوچھا گیا تو اُس نے بتایا کہ میں تو اسے یَعْلَمُ مَابَیْنَ بتاآئی تھی۔
تو کئی دماغ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ سنتے کچھ ہیں اور یاد ان کو کچھ ہوتا ہے۔ ان کے متعلق یہ خیال کرلینا کہ خطبہ سن چکے ہیں، اس لئے علماء کی ذمہ داری پوری ہوچکی ہے غلط ہے۔ جب تک علماء جو خلیفہ کے بازو اور کان ہوتے ہیں، اُس کے ساتھ پورا پورا تعاون نہ کریں ان کا فرض اد انہیں ہوتا۔ علماء سے میری مراد صرف مبلغ ہی نہیں بلکہ وہ طبقہ بھی علما ء میں شامل ہے جو بات کو سمجھ سکتا اور یاد رکھ سکتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰؤُا ۶؎ کہ خدا سے ڈرنے والے علماء ہیں۔
پس ہر مومن جو دین کا درد اور سلسلہ سے اخلاص رکھتا ہے اور جو چاہتا ہے کہ خداتعالیٰ کا سلسلہ نیک نامی کے ساتھ دنیا میں قائم رہے اور اسلام کو وہی عزت پھر حاصل ہو جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہوئی تھی اور اس کام کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کوششیں باطل اور رائیگاں نہ جائیں اس کا فرض ہے کہ خلیفہ کے ساتھ دن رات تعاون کرکے اس کام میں لگ جائے کہ ذہنی طور پر بھی جماعت کی اصلاح ہوجائے۔ ایسے لوگوں کا فرض ہے کہ جس طرح شادی کے موقع پر لوگ اپنی جھولیاں پھیلادیتے ہیں کہ ان میں چھوہارے گریں اسی طرح جب خلیفہ جماعت کی اصلاح کیلئے کچھ کہے تو اسے لیں اور افراد جماعت کے سامنے اسے دُہرائیں اور دُہرائیں اور دُہرائیں حتیٰ کہ کُند ذہن سے کُند ذہن آدمی بھی سمجھ جائے اور دین پر صحیح طور پر چلنے کیلئے رستہ پالے۔ میں نے علماء کو پہلے بھی اس طرف توجہ دلائی تھی اور میں خوشی کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ ایک مثال ایسی ہے کہ جس نے اس طرف توجہ کی اور وہ مولوی ظہور حسین صاحب مولوی فاضل ہیں جو گرلز سکول میں پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے ان مسائل کو بار باراور عمدگی کے ساتھ طالبات کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
پس اس مضمون کے شروع کرنے سے قبل کہ اس قسم کے فتنوں کے وسیع اور مستقل اسباب کیا ہیں اور ان کا علاج کیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ صرف مبلغ ہی نہیں بلکہ ہر سمجھدار اور دیانت دار اور مومن جو سمجھنے سمجھانے کی قابلیت رکھتا ہے، اپنے آ پ کو تیار کرے کہ اسے سن کر اور سمجھ کر دوسروں کو سمجھائے۔ بعض چھوٹے چھوٹے اصول دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو انسانی اعمال پر بہت لمبا اثر ڈالتے ہیں۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہر فرد کا ہر فعل منفردانہ حیثیت رکھتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص چوری کرتا ہے تو لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس نے مال دیکھا اور لالچ میں آگیا۔ حالانکہ بسا اوقات وہ چوری نتیجہ ہوتی ہے ان اثرات کاجو بچپن یا جوانی میں پڑے ہوتے ہیں۔ وہ منفرد فعل نہیں ہوتا بلکہ بیماری ہوتی ہے جو اندر ہی اندر ترقی کررہی ہوتی ہے اور آخر ایک دن گرفتار کرا دیتی ہے۔ بعض لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔لوگ کہتے ہیں اسے عادت ہے یا بیچارا ایسی مصیبت میں گرفتار ہوچکا ہے کہ اس کے سِوا چارہ نہیں تھا۔ حالانکہ وہ ایسے اثر کے ماتحت جھوٹ بول رہا ہوتا ہے جو بچپن یا جوانی میں اس پر پڑا تھا۔ پس جب تک ہر مربی اس نکتہ کو نہ سمجھ لے کہ بعض اصول انسانی افکار کو بدل دیتے ہیں لاکھ سمجھائو دوسرے کی سمجھ میں بات آ ہی نہیں سکتی۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ انفرادی طور پر سمجھانا کسی کام نہیں آتا جب تک اس کے مطابق ماحول میں بھی تبدیلی نہ کی جائے۔ اس کے بغیر عارضی طور پر تو اصلاح ہوجاتی ہے مگر اس عارضی نصیحت کا اثر دور ہوتے ہی پھر وہی حالت ہوجاتی ہے۔ میں اس بات کو ایک مثا ل سے واضح کرتا ہوں۔ بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے ایک ہؤائی بندوق لے دی اور میں چند اور بچوں کے ساتھ موضع ناتھ پور کی طرف شکار کرنے چلا گیا۔ کھیتوں میں ایک سکھ لڑکا ہمیں ملا اور کہنے لگا یہ کیا ہے؟ ہم نے بتایا کہ بندوق ہے۔ وہ پوچھنے لگا اس سے کیا کرتے ہو؟ ہم نے بتایا کہ شکار مارتے ہیں۔ اس نے کہا کچھ مارا بھی ہے۔ ہم نے کہا ہاں ایک فاختہ ماری ہے۔ وہ کہنے لگا ہمارے گائوں میں چلو وہاں بہت سی فاختائیں ملیں گی جوبیریوں وغیرہ پربیٹھی رہتی ہیں۔ ہم نے اسے کہا کہ گائوں کے لوگ ناراض تو نہ ہوں گے؟ وہ کہنے لگا کہ نہیں ناراض کیوں ہوں گے تم لوگوں نے فاختہ ہی مارنی ہے ان کو اس سے کیا۔ خیر وہ ہمیں ساتھ لے کر گائوں میں پہنچا اور ایک درخت پر کچھ فاختائیں بیٹھی ہوئی دیکھ کر کہنے لگا کہ وہ ہیں مارو۔ میں نے بندوق چلائی اور غالباً ایک کو مار لیا۔ پھر وہ ہمیں آگے ایک اور درخت کے پاس لے گیا اس پر بھی فاختہ بیٹھی تھیں ۔ وہ کہنے لگا کہ لو اب ان کو مارو۔ اتنے میں ایک بڑھیا نکلی اور کہنے لگی کہ تم لوگوں کو شرم نہیں آتی جیو ہتیا۷؎ کرتے ہو۔ اور اپنے گائوں کے لڑکوں کو مخاطب کرکے کہنے لگی کہ تم بڑے بے شرم ہو جو دیکھتے ہو اور منع نہیں کرتے۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ وہی لڑکا جو ہمیں اپنے ساتھ لایا تھا فوراً بگڑ گیا اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں اور ہمیں کہنے لگا تم کیوں ہمارے گائوں میں شکار کرتے ہو؟ ہمیں ساتھ لانا اس کا ایک عارضی اثر کے ماتحت تھا مگر جیو ہتیا کی مخالفت ایک پرانا اثر تھا اور اس کے رونما ہوتے ہی وہ عارضی اثر بالکل زائل ہوگیا اور قطعاً بُھول گیا کہ خود ہمیں اپنے ساتھ لایا تھا۔ ہم آنے میں متأمل تھے کہ لوگ ناراض نہ ہوں مگر اس نے ہمیں یہ یقین دلایا تھا کہ نہیں کوئی نار اض نہیں ہوگا۔ تو بعض مسائل کا اثر دماغ پر بہت گہرا ہوتا ہے اور جب تک دماغ کی اصلاح اس کے مطابق نہ کی جائے یا پھر جب تک اس اصل کی غلطی اس پر پوری طرح واضح نہ کردی جائے منفرد اعمال میں انسان کی اصلاح ناممکن ہوتی ہے۔
فرض کرو ایک شخص چوری کرتاہے مگر کسی ایسے خیال کے ماتحت کہ وہ چوری کو جائز سمجھتا ہے۔ اب اس کے اس خیال کو ہم جب تک نہ توڑدیں وہ چوری نہیں چھوڑے گا۔ یا ایک شخص کے بیوی بچے بھوکے مررہے ہیں گائوں والے سنگدل ہیں اور اس کی کوئی مدد نہیں کرتے اس لئے وہ ان کی جان بچانے کیلئے چوری کرتا ہے اس کے چوری کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ وہ چوری کو جائز سمجھتا ہے بلکہ یہ ہے کہ اگر وہ چوری نہ کرے تو اس کے بیوی بچے بھوکوں مرجائیں۔ اب اگر اسے کہا جائے کہ چوری بُری چیز ہے،خدا اور رسول نے اس سے منع کیا ہے تو ممکن ہے عارضی طور پر اس پر کوئی اثر ہو لیکن جب وہ اپنے بیوی بچوں کو فاقے مرتا دیکھے گا چوری کیلئے تیار ہوجائے گا اور ہماری نصیحت بالکل رائیگاں جائے گی۔ کیونکہ ہم نے وہ اسباب تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی کہ وہ چوری کیوں کرتا ہے۔ اسے ہم دو طرح ہی چوری سے روک سکتے ہیں۔ اوّل تو اس طرح کہ اس پر ثابت کردیں کہ فاقوں سے مرجانا بہتر ہے بجائے اس کے کہ چوری یا بددیانتی کی جائے۔ یا پھر اس طرح کہ اس کے گھر روٹی بھیجنا شروع کردیں۔ جب تک ہم یہ نہ کریں گے وہ چوری نہیں چھوڑ سکتا۔ تو بعض اصول ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک ان کی اصلاح نہ کی جائے اور نقطۂ نگاہ کو نہ بدل دیا جائے اثر نہیں ہوسکتا۔ اور اگر ہو بھی تو عارضی ہوتا ہے جو کچھ روز کے بعد زائل ہوجاتا ہے۔
اب میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں کہ کس طرح بعض خیالی اصول انسانی اعمال پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہندو قوم میں بہت سے اختلاف ہیں۔ بعض فرقے ویدوں کو مانتے ہیں بعض نہیں۔ بعض گائے کا گوشت کھاتے ہیں بعض نہیں۔ بعض پرانوں۸؎ کومانتے ہیں اور بعض نہیں۔ بعض ذات پات کے قائل ہیں اور بعض نہیں۔ سادھوئوں کے بعض فرقے ذات پات کو نہیں مانتے۔ اسی طرح سادھوئوں کے بعض فرقے مُردہ کو جلاتے یا دریا میں پھینک دیتے ہیں اوربعض دفن کرتے ہیں۔ مگر ایک اصولی بات ان سب میں موجود ہے اور وہ یہ کہ خداتعالیٰ گناہ معاف نہیں کرسکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ گناہ خدا کا قرض ہیں جسے ادا کرکے ہی انسان نجات پاسکتا ہے اور چونکہ انسانی زندگی اتنی لمبی نہیں کہ سب قرض ادا ہوسکے اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ انسان جونیں بدلتا رہتا ہے اور جب تک خداتعالیٰ کا قرض اد انہیں ہوجاتا اسے نجات حاصل نہیں ہوسکتی۔ یہ خیال ان کے اندر بہت راسخ ہے اور اسے ہی تناسخ کہتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک فلسفہ ہے، ایک نظریہ ہے جسے عملی زندگی سے تعلق نہیں۔ لیکن اگر ہندو قوم کی عملی حالت دیکھی جائے تو وہ ساری کی ساری اسی نظریہ کے ماتحت ہے۔ ان میں سُود خوری اور پیچھے پڑ کر قرض وصول کرنا اسی کے نتیجہ میں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب خدا قرضہ معاف نہیں کرسکتا تو ہم کیونکر معاف کردیں اور جس طرح خداجونوں میں بھیجتا ہے اسی طرح باپ مرجائے تو بیٹے سے اور، بیٹے کے بعد پوتے سے وصول کرتے ہیں۔ تمام ہندو قوم کا ذہنی نظریہ اسی تناسخ کے عقیدہ کے ماتحت ہے۔ مسلمان چونکہ ہندوئوں سے کم میل جول رکھتے ہیں اس لئے بوجہ ناواقفیت سمجھتے ہیں کہ ہندو بخیل ہوتے ہیں، حالانکہ یہ بات نہیں۔ اخباروں کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ ہندو صدقہ و خیرات کے کاموں میں مسلمانوں سے کم نہیں۔ کنویں بنواتے اور دوسرے رفاہِ عام کے کام وہ بہت کرتے ہیں اور لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں۔ مگر ایک مقروض آتا ہے اور کہتا ہے کہ لالہ جی! میرے بیوی بچے بھوکے مررہے ہیں، مجھ پر رحم کریں اور پانچ روپیہ مجھے چھوڑ دیں مَیں ادا نہیں کرسکتا تو وہ انکار کردیتا ہے۔ مگر اس کا یہ انکار بخل کی وجہ سے نہیں ۔ اس کے ذہن میں یہ نظریہ ہے کہ خداتعالیٰ بہت دینے والا ہے ۔ اس نے ہمارے لئے سورج چاند پیدا کئے ہیں اور مُفت دے دیئے ہیں۔ وہ دیالو کرپالو ہے مگر قرضہ معاف نہیں کرسکتا، یہ انسان کو بہرحال ادا کرنا پڑے گا۔ اور یہی چیز اس کے کریکٹر میں داخل ہوگئی ہے۔ وہ لاکھوں روپیہ خرچ کردے گا مگرقرض پانچ روپیہ کا بھی معاف نہیں کرے گا۔ اسی نظریہ کے ماتحت ہندو قوم میں تجارتی ترقی ہوئی ہے ۔ وہ سختی سے قرض وصول کرتی ہے اور چونکہ بہت سے لوگ دے نہیں سکتے اس کا قرض پھیلتا ہے اور اس طرح ساری دنیا اس کی مقروض ہوتی جاتی ہے اور اس وجہ سے تجارت پر اس کا قبضہ ہوتا جارہا ہے۔
اس کے برعکس مسلمان قوم کا عمل یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان سے کوئی پیسہ مانگے تو وہ کہے گا کہ جاجا کام کر، ہم خود کھائیں یا تم جیسوں کو دیں۔لیکن اگر کسی پر قرض ہوگا تو قرض خواہ سے کہے گا چھوڑ دو جانے دو۔ وہ پیسہ دینے میں بخل کرے گا مگر قرض کے معاملہ میں نہیں بلکہ کہہ دے گا چھوڑو جانے دو، غریب آدمی ہے۔ کیونکہ اس کے ذہن میں بخشش کا اصل ،گھر کرچکا ہے۔ اور وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے۔ کوئی کتنا بڑا قصور کرے مسلمان کہہ دے گا جانے دو۔ اللہ تعالیٰ غفار ستار ہے۔ قوم تباہ ہوجائے، ملک اور جماعت تباہ ہوجائے، وہ غفار تُو، ستار تُو کی رٹ لگاتا جائے گا اوریہی کہتا رہے گاکہ بس جانے دو، معمولی بات ہے۔ تو تناسخ کے عقیدہ نے ہندو قوم کی عملی زندگی بدل دی ہے۔ آج ہندو قوم تجارت پر ظاہراً اور زراعت پر باطناً قابض ہے۔ ساہوکار زیادہ تر جینی ہیں اوریہی قوم تناسخ کی زیادہ سختی سے قائل ہے۔ ایسے جینی عام ہندوئوں سے بھی زیادہ سخی ہوتے ہیں اور اعداد و شمار اس پر شاہد ہیں مگر وصولی میں وہ دوسروں سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں ۔آپ غور کریں اسی قسم کا عقیدہ کسی اور قوم میں بھی پایا جاتا ہے یا نہیں اور اگر پایا جاتا ہے تو اس کی حالت کیا ہے۔ دنیا میں ایسی صرف ایک اور قوم ہے اور وہ یہودی قوم ہے۔ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ تیری آنکھ مروت نہ کرے کہ جان کا بدلہ جان ، آنکھ کا بدلہ آنکھ، دانت کابدلہ دانت، ہاتھ کا بدلہ ہاتھ، پائوں کابدلہ پائوں ہوگا۔ ۹؎
یعنی تمہارے لئے بدلہ لینا ضروری ہے۔ دیکھنا کبھی رحم نہ کرنا۔ چنانچہ ان کا کریکٹر بھی وہی ہے جو ہندوئوں کا ہے۔ بلکہ یہودیوں کی اس معاملہ میں سختی کے متعلق تو شیکسپیئر نے ایک ڈرامہ بھی لکھا ہے کہ ایک یہودی نے اپنے کسی مقروض سے لکھوایا ہؤا تھا کہ اگر بروقت روپیہ ادا نہ کیا گیا تو آدھ سیر گوشت تمہارے جسم سے کاٹ لوں گا۔ چنانچہ جب روپیہ اد انہ ہوسکا تو اس نے گوشت کاٹنے پراصرار کیا۔ مقروض کے رشتہ دار بہت روئے ،پیٹے اور منت خوشامد کی کہ اتنا ظلم نہ کرو۔ مگر اس نے ایک نہ مانی اور اپنی بات پر مُصِر رہا۔ آخر ایک عقلمندبیچ میں آگیا اور اس نے کہا کہ اچھا گوشت کاٹ لو مگر خون کا ایک قطرہ نہ گرے۔کیونکہ یہ تحریر میں نہیں ہے کہ خون بھی گرایا جائے گااور گوشت بھی آدھا سیر سے بال بھر کم و بیش نہ ہوگا اور چونکہ یہ باتیںاس کے بس میں نہ تھیں اسے دبنا پڑا۔ اب آجکل جس طرح ہمارے ہاں قرضہ بِل اور ساہوکارہ بل بن رہے ہیں، اسی یورپ میں یہودیوں سے سختی ہورہی ہے جرمنی نے یہودیوں کو اپنے ملک سے بالکل ہی نکال دیا ہے۔ انگلینڈ میںبھی ایک ایسی پارٹی بن گئی ہے جو اِن کے سخت خلاف ہے۔ اٹلی میں بھی ان پر سختی کی جارہی ہے۔ ہنگری اور بعض اور ممالک میں بھی یہی حالت ہے۔ سپین میں بھی ان پر سختی ہوئی ہے۔ کیونکہ جس طرح ہندوستان میں ساہوکار معاف نہیں کرسکتا اسی طرح یورپ میں یہودیوں کا حال ہے۔ اور اسی نظریہ کے ماتحت یہودی قوم بھی تجار ت میں ترقی کرگئی ہے۔ کیونکہ وہ بھی لین دین میں سختی کرتی ہے اور تجارت ایسی سختی سے ہی چل سکتی ہے خواہ یہ سختی بُری ہو۔
یہ دونوں قومیں جن کا نظریہ، یہ ہے کہ قرضہ معاف نہیں ہوسکتا دونوں نے تجارت میں ترقی کی ہے۔ ایک نے مغرب میں اور دوسرے نے مشرق میں اور دونوں کی ترقی اور تنزّل اس نظریہ کی طرف منسوب ہوتا ہے ۔ ہندوئوں نے اسی کی بدولت تجارت پر قبضہ کیا ہے اور اگر ان کے خلاف زمینداروں میں جوش ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے۔ اسی طرح یہود کا اگر یورپ کی سیاست پر قبضہ ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے اور اگر جرمن نے ان کوملک سے نکال دیا ہے تو اسی کے باعث۔ اب ان لوگوں سے لاکھ بحث کرو کہ سُود بُری چیز ہے،تجارت میں سختی نہیں کرنی چاہئے اور اس کیلئے لاکھ دلائل دو کبھی نہیں مانیں گے۔ لیکن جس دن ان کے یہ بات ذہن نشین کرادو کہ اللہ میاں بھی معاف کرتا ہے اور تم بھی معاف کرو تو فوراً ان کا نظریہ بدل جائے گا۔ یہی حال یہود کا ہے، جرمنی لاکھ مُکّے دکھائے جب تک وہ نظریہ نہ بدلے جو استثناء باب ۱۹ آیت۲۱ کے ذریعہ قائم کیا گیا ہے۔ اُس وقت تک ممکن نہی کہ یہودی سُود یا لین دین کے معاملہ میں سختی چھوڑدے۔ کیونکہ جو عقیدہ بچپن سے دل میں ڈالا جاتا ہے اس کا اثر لازمی طور پر چاہئے۔
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ جن حالات میں سے جماعت گزر رہی ہے وہ بعض اصول کے ماتحت ہیں یا انفرادی ہیں اور پھر اس کے مطابق جب ہم اصلاح کی کوشش کریں گے اور ذہنیتوں کو بدل ڈالیں گے تو پھر ایسے فتنوں کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند ہوجائے گا۔ کیونکہ جب پانی پیچھے سے ہی نہیں آئے گا تو اگلے سوراخ خودبخود بند ہوجائیں گے۔ اس لئے ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کون سے ایسے حالات ہیں جن کے ماتحت بعض لوگوں میں ایسی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں اور ان کو معلوم کرکے یا ان کی غلطی کو دور کریں۔ اگر ان کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے تو اس کی اصلاح کریں اور اگر وہ بات محرف و مبدل ہوچکی ہو تو بھی اسے ٹھیک کریں۔ یہ تمہید چونکہ بہت لمبی ہوگئی ہے اس لئے اس مضمون کو کہ کیا چیزیں ہیں جو اس قسم کے حالات پیدا کرتی ہیں اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے خطبہ میں بیان کروں گا۔
میں چاہتا ہوں کہ یہ باتیں اچھی طرح آپ لوگوں کے ذہن نشین کرادوں کہ وہ کیا کیاباتیں ہیں جو مسلمانوں اور ان سے نکلے ہوئے احمدیوں میں پیدا ہوکر ایسے فتنوں کاموجب ہوتی ہیںاور جب تک اہل علم اور سمجھدار افراد ان باتوں کو ایک ایک شخص کے ذہن نشین کرنے کیلئے تعاون نہ کریں اورکوٹ کوٹ کر ان کے دماغوں میں یہ باتیں داخل نہ کریں جسے انگریزی میں Hammering کہتے ہیں، اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ پس ان باتوں کو سن کر بار بار لوگوں کے سامنے دہُراؤ۔ یہاں تک کہ ایک کُودن۱۰؎ سے کودن شخص کے دماغ میں بھی یہ بات بیٹھ جائے۔ پھر جب یہ کریکٹر بن جائے گا تو ہر شخص ان سے فائدہ اٹھاسکے گا اور آئندہ نسلوں میں خود بخود یہ باتیں آتی جائیں گی کیونکہ یہی اصول ہیں جن کو بدلے بغیر ہم کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ ان کے بغیرجو اصلاح ہوگی عارضی ہوگی۔ لوگوں کومجھ پر اعتماد ہے کہ جب میں نے سمجھادیا تو لوگ سمجھ جاتے ہیں۔ مگر یہ درست نہیں ۔ سمجھنا ایسا آسان کام نہیں۔ ذہنیت میں تبدیلی بہت بڑی محنت چاہتی ہے۔ ہاں جب ذہنیت تبدیل ہوجائے تب بیشک حقیقی تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے اور ایک نسل ہی نہیں کئی نسلوں کی اصلاح ہوجاتی ہے اوریہ نیکی کا سلسلہ جاری رہتا ہے حتیٰ کہ جماعت میں پھر بگاڑ پیدا ہوجائے جسے خداتعالیٰ کا دوسرا مامور آکر دور کرے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بچوں کے دلوں میں بھی ان باتوں کو بٹھایا جائے۔ اسی غرض سے میں نے بورڈنگ تحریک جدید قائم کیا تھا کہ اخلاقِ فاضلہ بچوں کے اندر قائم کئے جائیں جو ماں باپ قائم نہیں کرسکتے۔ مگر افسوس ہے کہ اس بورڈنگ کے افسروں نے ابھی تک تقسیمِ عمل کافیصلہ ہی نہیں کیا اور وہ ابھی انہی باتوں میں پڑے ہوئے ہیں کہ سپرنٹنڈنٹ کے فرائض کیا ہیں اور ٹیوٹروں کے کیا۔
اصل کام کی طرف ابھی پوری توجہ نہیں ہوئی۔ میری غرض اس بورڈنگ کے قیام سے یہ ہے کہ اسلامی اخلاق کی تفاصیل بچوں کو سمجھائی جائیں۔ سچ کی تعریف بیان کرو۔ سچ بولنے میں کیا کیا مشکلات پیش آسکتی ہیں اور پھر شریعت نے ان کے کیا کیا علاج رکھے ہیں۔ یہ باتیں سکھائی جانی چاہئیں ورنہ صرف سچ بولنے کی تعلیم تو ہندو اور سِکھ بھی دیتے ہیں۔ اسی طرح سب کہتے ہیں کہ شرک نہ کرو۔ مگر اسلام بتاتا ہے کہ شرک ہوتا کیا ہے ، وہ کیونکر پیدا ہوتا ہے، کیونکر ترقی کرتا ہے اور کون کون سی مشکلات میں طبیعت اسے قبول کرنے کی طرف مائل ہوتی ہے اور پھر اس کے علاج کیا ہیں۔ جب اس طرح بچہ کے دل میں بات بٹھائی جائے تو وہ پھر نہیں نکل سکتی اور جب تک ہم اس طر ح نہ کریں کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی۔ پس اگر ہم موجودہ لوگوں اور آئندہ اولادوں کی درستی کرلیں تو ہمیشہ کیلئے اس قسم کے فتنوں کارستہ بند ہو سکتا ہے۔ ورنہ شکی طبائع کا وساوس کا شکار ہو جانے کا احتمال باقی رہے گا۔ مثلاً میں نے سنا ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ مصری صاحب نے لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کی وعید کے ساتھ لکھا ہے کہ میں نے یہ بات نہیں لکھی اس لئے ان کا یہ قول صحیح ہو گا۔ لیکن جب میر صاحب نے مصری صاحب کے الفاظ نقل کر کے لکھا اب کہو لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ تو وہ چپ ہوگئے اور ایسے لوگوں نے کہہ دیا کہ یہ ٹھیک ہے۔ گویا وہ خدا کے ساتھ نہیں *** کے ساتھ ہیں۔ اگر ان کا معیار یہی رہے تو دنیا میںکوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ دیکھنا تو یہ ہوتا ہے کہ یہ *** پڑتی کس پر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنے دشمنوں پر لعنتیں ڈالیںاور مخالفوں نے بھی۔تو اس صورت میں انہیں چاہئے کہ دونوں کی طرف ہو جائیں۔دیکھنے والی بات تو یہ ہوتی ہے کہ *** پڑی کس پر ہے۔*** ڈالنے کا کیا ہے۔ کیاابو جہل نے بدر کے دن نہیں کہا تھاکہ اے خدا! اگر محمدﷺ سچا ہے تو ہم پر پتھر برسا۔۱۱؎ اور محمد ﷺ نے بھی کفار پر *** ڈالی۔۱۲؎ اب دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ وہ کس پر پڑی۔ تو بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں ایسی ہیں جو دوستوں کے ذہن نشین کرنی ضروری ہیں۔ہمارے اکثر دوست صرف چند مسائل سے واقف ہیںمگر ان کی تفاصیل نہیں جانتے۔ پس اس موقع پر اس فتنہ کے متعلق میں بعض اصول بیان کروں گا۔ اور علماء اور سمجھدار لوگوں کو چاہئے کہ انہیں سمجھیں اور جماعت کے افراد کے قلوب میں ان کو داخل کریںحتیٰ کہ ہر ایک ہم میں سے قرآن کریم کے مطابق اور رسول کریمﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی اطاعت میں زندگی بسر کرنے والا ہو جائے او ر ہمارا جیناو مرنا اس کی اطاعت میںہو۔
(الفضل ۱۷؍ جولائی ۱۹۳۷ئ)
۱؎ بخاری کتاب الجہاد باب یقاتل من وراء الامام… الخ
۲؎ تذکرہ صفحہ ۴۶۶۔ ایڈیشن چہارم
۳؎ تذکرہ صفحہ۳۹۶۔ ایڈیشن چہارم
۴؎ مسلم کتاب الفتن باب قصۃ الجساسۃ
۵؎ اٰل عمران: ۸۰
۶؎ فاطر: ۲۹
۷؎ جیوہتیا:
۸؎ پرانوں: پُران کی جمع۔ ہندوؤں کی مذہبی کتابیں
۹؎ استثناء باب۹ ۱۔آیت ۲۱ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء
۱۰؎ کُودن: کُند ذہن
۱۱؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۸۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۲؎

۲۱
شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کا خلافِ تقویٰ رویہ
اور جھوٹے الزامات
(فرمودہ ۹؍ جولائی ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں نے گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں ایک مضمون بیان کرناشروع کیا تھا جس سے میری غرض یہ تھی کہ میںجماعت کو بتائوں کہ وہ موجبات کیا ہیںجو مختلف اوقات میں فتنے پیدا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں تا جماعت ان کا ازالہ کر کے جس حد تک انسانی کوششیں ان فتنوں کو رونما ہونے سے روک سکتی ہیں روکے اور پھر دعاؤںکے ذریعہ ان بقیہ حصوں کو روکنے کی کوشش کرے جو خدا تعالیٰ کے اختیار میںہیں۔ لیکن اس دوران میں بعض ایسی باتیں پیداہو گئی ہیں کہ جن کی وجہ سے مجھے خوف ہے کہ عارضی ضرورتوں کیلئے مجھے کچھ عرصہ کیلئے اس سلسلۂ مضمون کو معطل کرناپڑے گا سو اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو میں اس مضمون کو پھر کسی وقت بیان کروں گا۔
مجھے معلوم ہؤا ہے کہ مصری صاحب نے اس امر کا اظہار کیاہے کہ یہ جو اعلان کیا گیا ہے کہ ان کو جماعت سے خارج کیا جاتا ہے، یہ غلط ہے وہ تو خود ہی بیعت سے الگ ہوئے ہیں۔ اور یہ بھی میں نے سنا ہے کہ ایک صاحب نے کسی دوسرے دوست کے سامنے بیان کیا کہ مصری صاحب نے خط مجھے دکھایا تھا یا یہ کہا کہ مجھے اس کا مضمون بتایا تھا۔ اس خط میں تو انہوں نے آپ ہی بیعت توڑنے کا اظہار کیا تھاپھر یہ کہنا کہ انہیں جماعت سے الگ کیا جاتا ہے کیونکر درست ہو سکتا ہے۔
وہ شخص جن کے پاس انہوں نے اپنے خیالات کااظہار کیا انہوں نے مجھے تحریراً بھی اس امر کی اطلاع دے دی ہے۔ لیکن میں اس کے متعلق افسوس سے کہتا ہوں کہ اگر وہ بات جو مصری صاحب کی طرف منسوب کر کے مجھے پہنچائی گئی ہے کہ انہوں نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیاکہ میری نسبت کہا یہ جاتا ہے کہ میں جماعت سے نکالا گیا ہوں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مجھے نکالا نہیں گیابلکہ میں خود نکلا ہوں درست ہے،یا کسی اور دوست اور ہمدرد کا خیال ہے تو میرے لئے یہ بات سخت حیرت کا موجب ہے۔کیونکہ یہ تمام باتیں تحریروں میں آچکی ہیں، ز بانی نہیں۔پس اگر یہ باتیں درست ہیں تو بہت ہی قابلِ تعجب ہیں ۔ جو خط مصری صاحب نے مجھے لکھا وہ بھی میرے پاس موجود ہے اور جو میں نے اعلان کیا وہ بھی اخبار میں چھپ چکا ہے کوئی زبانی بات نہیں کہ جس میں ردّوبدل ہوسکے بلکہ دونوں چیزیں تحریری ہیں اور ان کی موجودگی میں کسی قسم کی غلط فہمی کا واقع ہوجانا بہت ہی بعید از عقل ہے۔ مصری صاحب نے مجھے تین خط میرے اعلان سے پہلے لکھے تھے۔ ان میں سے جو آخری خط انہوں نے لکھا اس میں یہ مضمون تھا کہ چوبیس گھنٹہ کے اندر اندر اگر فلاں امر نہ ہوجائے تومجھے اپنی بیعت سے خارج سمجھیں۔ یہ خط جسے اُن کا نوٹس سمجھنا چاہئے ایک لڑکا جو غالباً مدرسہ احمدیہ کا ہے میرے پاس لایا۔ مجھے اس کی شکل دیکھ کر شبہ ہؤا کہ وہ مصری صاحب کا لڑکا ہے مگر جب میں نے اس سے نام پوچھا تو معلوم ہؤا کہ وہ مصری صاحب کا لڑکا نہیں اس نے اپنا نام بشارت الرحمن یا بشارت احمد بتایاتھا، مجھے صحیح یاد نہیں۔ بہرحال اس کے نام میں بشارت کالفظ آتا یہ خط مجھے ظہر کی نماز کے بعد تین بجے کے قریب ملا۔اس کے اندر جو مضمون ہے وہ محفوظ ہے اور جب وقت آئے گا اس کے مضمون کو اِنْشَائَ اللّٰہ ظاہر کردیا جائے گا۔ ابھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا ظاہر کرنا ان کا کام ہے ہمارا نہیں۔ اس خط میں منجملہ اور باتوں کے ایک بات یہ لکھی تھی کہ اگر فلاں فلاں امور آپ چوبیس گھنٹے کے اندر نہ کردیں تو آپ مجھے اپنی جماعت سے علیحدہ سمجھیں۔ اب ہر اُردو دان جو معمولی عقل و سمجھ بھی رکھتا ہو جانتا ہے کہ جو شخص یہ لکھتا ہے کہ اگر چوبیس گھنٹے کے اندر اندر فلاں امور نہ ہوئے تو مجھے اپنی جماعت سے علیحدہ سمجھیں وہ دوسرے الفاظ میں یہ کہتا ہے کہ ۲۴ گھنٹوں کے ختم ہونے تک میں آپ کی جماعت میں ہی شامل ہوں۔ اگر ۲۴ گھنٹوں سے پہلے ہی وہ جماعت سے نکل چکا تھا تو پھر ۲۴ گھنٹوں کے بعد بیعت سے نکلنے کے کیا معنے تھے۔ جو شخص کسی معیّن وقت کا نوٹس دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہؤا تو فلاں وقت سے مجھے علیحدہ سمجھیں وہ دوسرے لفظوں میں یہ بھی اعلان کرتا ہے کہ اُس وقت تک میں آپ کی جماعت میں ہی شامل ہوں۔ اب یہ خط مجھے تین بجے ملا اور میرا جو اعلان شائع ہو اہے وہ دوسرے دن ساڑھے گیارہ بجے کے قریب لکھا گیا۔ گو اس قسم کا اعلان کرنے کے متعلق میں پہلے دن ہی جب مجھے وہ خط ملا فیصلہ کرچکا تھا لیکن پھر دل نے تسلیم نہ کیا کہ یونہی اعلان کردیا جائے بلکہ میں نے چاہا کہ اس بارہ میں استخارہ اور مشورہ کرلیا جائے۔ چنانچہ رات کو استخارہ کیا گیا اور پھر صبح دس بجے کے قریب مختلف دوستوں کو میں نے بُلایا اور ان سے مشورہ لیا۔ اس کے بعد ساڑھے گیارہ بجے کے قریب وہ اعلان لکھا گیا اور بارہ ساڑھے بارہ بجے بورڈ پر لکھ دیا گیا۔ غرض تین بجے جو خط مجھے ملا اُس کے مطابق دوسرے دن تین بجے تک مصری صاحب میری بیعت میں شامل تھے۔ جب ۲۴ گھنٹے ختم ہوجاتے تب وہ وقت شروع ہوتا جب اپنے نوٹس کے مطابق وہ جماعت سے الگ ہونے والے تھے۔ پس اگر اس نوٹس کے دوران میں مَیں مصری صاحب کو جماعت سے خارج کرنے کا اعلان کرتا تو بھی ان کا یہ اعتراض درست نہ ہوتا کہ نکلے تو ہم خود ہیں، یہ کس طرح کہتے ہیں کہ ہم نے نکالا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں نے ایسا اعلان بھی کوئی نہیں کیا۔ پس سارا اعتراض بنائے فَاسِد عَلَی الْفَاسِدِ کی قسم کاہے اور جس کسی نے بھی یہ کہا ہے کہ میں نے انہیں جماعت سے خارج کرنے کا اعلان کیاہے میں اسے انعام دینے کیلئے تیار ہوں اگر وہ میرے اعلان میں اس قسم کے الفاظ دکھادے۔ میری طرف سے اس بارہ میں جو اعلان ہؤا وہ یہ ہے:
’’مکرم شیخ صاحب! اَلسَّلَامُ عَلَیْکَمْ وَرَحَمَۃُ اللّٰہِ
آپ کے تین خط ملے۔ پہلے خط کا مضمون اس قدر گند ہ اور گالیوں سے پُر تھا کہ اس کے بعد آپ کی نسبت یہ خیال کرنا کہ آپ بیعت میں شامل ہیں اور جماعت احمدیہ میں داخل ہیں بالکل خلافِ عقل تھا۔ پس میں اس فکر میں تھا کہ آپ کو توجہ دلائوں کہ آپ خداتعالیٰ سے استخارہ کریں کہ اس عرصہ میں آپ کا دوسرا خط ملا جس میں فخرالدین ملتانی صاحب کی طرف سے معافی نامہ بھجوانے کا ذکر تھا۔ میں اس معافی نامہ کی انتظار میں رہا مگر وہ ایک غلطی کی وجہ سے میری نظر سے نہیں گزرا اور کل دس گیارہ بجے اس کا علم ہؤا اور اُسی وقت اُن کو اس کی اطلاع کردی گئی۔ اس کے چند گھنٹہ بعد آپ کا تیسرا خط ملا کہ اگر چوبیس گھنٹہ تک آپ کی تسلی نہ کی گئی تو آپ جماعت سے علیحدہ ہوجائیں گے۔ سو میں اس کا جواب بعد استخارہ لکھ رہا ہوں کہ آپ کا جماعت سے علیحدہ ہونا بے معنی ہے‘‘۔
دیکھ لو اس جگہ میں نے یہ نہیں لکھا کہ میں آپ کو جماعت سے علیحدہ کرتا ہوں بلکہ میں نے یہ لکھا ہے کہ ’’آپ کا جماعت سے علیحدہ ہونا بے معنی ہے۔‘‘ اور یہ بات خود ان کے خط سے ظاہر ہے۔ کیونکہ انہوں نے لکھا تھا کہ اگر چوبیس گھنٹہ تک ان کی تسلی نہ کی گئی تو انہیں جماعت سے علیحدہ سمجھا جائے۔ اس کے بعدمیں نے لکھا:۔
’’جب سے آپ کے دل میں وہ گند پید ا ہوا ہے جو آپ نے اپنے خطوں میں لکھا ہے آپ خداتعالیٰ کی نگاہ میں جماعت سے خارج ہیں‘‘۔
یعنی کسی کے خارج کرنے کا سوال ہی نہیں بلکہ آپ اپنے عمل سے خود جماعت سے علیحدہ ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی مسلمان کہے میں محمد ﷺ کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹا سمجھتا ہوں لیکن میں اُس وقت مسلمان ہی رہوں گا جب تک مسلمان مجھے اسلام سے خارج نہیں کرتے۔ حالانکہ اس امر میں کسی کے خارج کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ میں محمد ﷺ کو ( نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) جھوٹا سمجھتا ہوں تو جس دن سے وہ آپ کو جھوٹا سمجھنے لگے اُسی دن سے وہ اسلام سے الگ ہوجائے گا۔ میں نے بھی انہیں یہی لکھا کہ جب سے آپ کے دل میں گندے خیالات پید اہوئے ہیں ’’آپ خداتعالیٰ کی نگاہ میں جماعت سے خارج ہیں‘‘۔ کیونکہ خداعالم الغیب ہے وہی سمجھ سکتا ہے کہ آپ کے دل میں ایسے خیالات کب سے پیدا ہوئے۔ لیکن بہرحال جب سے وہ خیالات آپ کے دل میں آئے اُسی وقت سے آپ خداتعالیٰ کے نزدیک جماعت سے علیحدہ ہیں۔
اس کے آگے میرے اعلان کی عبارت یہ ہے
’’خداتعالیٰ اب بھی آپ کو توبہ کی توفیق دے۔ پھر جب سے آپ نے میرے خط میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے اُسی وقت سے آپ جماعت سے میری نگاہ میں بھی الگ ہیں‘‘۔
یعنی میں چونکہ بندہ ہوں اور مجھے علمِ غیب نہیں۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ کے دل میں کیا خیالات پیدا ہورہے ہیں لیکن جب سے مجھے ان خیالات کا علم ہؤا ہے ’’آپ جماعت سے میری نگاہ میں بھی الگ ہیں‘‘۔ یعنی آپ کو خارج کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ جب آپ کے خیالات ایسے ہوچکے ہیں کہ میری مریدی کا تعلق ان کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں تو آپ کو خارج کرنے کے کوئی معنے نہیں۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کہے میں آ پ کے عقائد کو تسلیم نہیں کرتا یا آپ کی بیعت میں رہنے کیلئے تیار نہیں اور ہم یہ کہیں کہ نہیں تم ایک دفعہ بیعت کرچکے ہو اب ہم تمہیں الگ نہیں ہونے دیں گے۔ ایمان کے معاملہ اور دُنیوی سَودوں میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ دُنیوی سَودوں میں تو ایک شخص جب اپنی چیز بیچ دیتا ہے تو پھر واپس نہیں لے سکتا۔ دوسرا کہتا ہے میں اتنی سائی ۱؎ دے چکا ہوں یا فلاں معاہدہ ہوچکا ہے اب تم اس معاہدہ سے نہیں پھرسکتے۔ لیکن دینی معاملات میں جب کوئی شخص کہے کہ میں نظامِ جماعت سے بیزار ہوں یا فلاں عقائد ترک کرتا ہوں تو وہ اُسی وقت الگ ہوجائے گا ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص کہے میں اسلام کو جھوٹا سمجھتا ہوں اور ہم کہیں کہ تم ایک دفعہ اس کی سچائی کا اقرارکرچکے ہو اس لئے اب ہم تجھے جھوٹا نہیں سمجھنے دیں گے۔
پس میں نے انہیں جو کچھ لکھا اس کا مطلب یہی تھا کہ چونکہ یہ دینی معاملہ ہے اور اس میں کسی پر کوئی جبر نہیں ہوسکتا آپ کے دل میں جب سے وہ گند پید اہؤا ہے خداتعالیٰ کی نگاہ میں اور جب سے آپ نے اسے مجھ پر ظاہر کیا ہے ’’آپ جماعت سے میری نگاہ میں بھی الگ ہیں۔ لیکن اگر آپ کو میری تحریرکی ہی ضرورت ہے تو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ آپ خداتعالیٰ کے نزدیک تو ان خیالات کے پیدا ہونے کے دن سے ہی جماعت احمدیہ سے خارج ہیں‘‘۔ یعنی جب آپ نے مجھے پہلا خط لکھا تھا اُس وقت سے نہیں بلکہ جب سے آپ کے دل میں وہ خیالات پیدا ہونے شروع ہوئے، آپ جماعت احمدیہ سے خارج ہیں۔ اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا ایک مولوی اورایک عالم کہلانے والے کیلئے کوئی مشکل ہو۔ انہیں بہرحال پہلے ہی سمجھ لینا چاہئے تھا کہ ا ب میری بیعت کوئی بیعت نہیں۔ لیکن وہ پہلا خط لکھتے ہیں اور اس کے بعد دوسرا خط لکھتے ہیں اورمیرے سامنے شرطیں پیش کئے جاتے ہیں اور پھر دوسرے کے بعد تیسرا خط لکھتے ہیں اور اس میں بھی شرطیں پیش کردیتے ہیں۔ جس کے سوائے اس کے اور کوئی معنے نہیں تھے کہ وہ میرے منہ سے کہلوانا چاہتے تھے کہ میں انہیں جماعت سے علیحدہ سمجھتا ہوں۔ اسی لئے میں نے لکھا کہ اگر آپ کو میری تحریر کی ہی ضرورت ہے تو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ آپ خداتعالیٰ کے نزدیک تو اُسی وقت سے جماعت سے خارج ہیں جب سے آپ کے دل میں یہ خیالات پیدا ہوئے۔ ’’اور ان خطوط کے بعد جو حال میں آپ نے مجھے لکھے ہیں میں بھی آپ کو جماعت سے خارج سمجھتا ہوں اور اس کا اعلان کرتا ہوں‘‘۔
اب میرے الفاظ کو غور سے پڑھو اور دیکھو کہ میں نے یہ نہیں لکھا کہ آپ کو میں جماعت سے خارج کرتا ہوں بلکہ یہ لکھا کہ آپ کو جماعت سے خارج سمجھتا ہوں اور اس کا اعلان کرتا ہوں۔ پس میں نے ان کے خروج کا صرف اعلان کیا ہے ورنہ وہ اُس وقت سے جماعت سے خارج تھے جب سے ان کے دل میں وہ خیالات پیدا ہوئے جن کا انہوں نے اپنے خطوط میں اظہار کیاہے۔ اور جیسا کہ میں بتاچکا ہوں یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا کسی کیلئے مشکل ہو۔ ایک شخص ہمارے پاس آئے اور کہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جھوٹے تھے، ان پر وحی خداتعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوتی تھی بلکہ افترا کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیا کرتے تھے اور پھر کہے خداکے فضل سے میں احمدی ہوں تو اُس کا یہ دعویٰ کس قدر جھوٹا ہوگا۔ اسی طرح ایک شخص جو جماعت کے امام اور خلیفہ کی نسبت ناپاک خیالات اپنے دل میں رکھتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میں جماعت میں شامل ہوں وہ اپنے دعویٰ میں یقینا جھوٹا ہے بلکہ وہ اُسی وقت سے جماعت سے علیحدہ ہے جب سے اس نے ایسے خیالات اپنے دل میں رکھنے شروع کئے۔ اب ایک طرف انہیں علم کا دعویٰ ہے اور دوسری طرف اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ جب وہ مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہتے ہیں کہ میں آپ کی بجائے کوئی اور خلیفہ جماعت سے منتخب کرائوں گا تو اس کے بعد ایک منٹ کیلئے بھی انہیں یہ خیال کس طرح پیدا ہوا کہ میں ابھی جماعت میں شامل ہوں۔ پس اس میں میرے نکالنے یا نہ نکالنے کا کوئی سوال نہیں۔ جب میری نسبت انہوں نے اس قسم کے خیالات ظاہر کرنے شروع کردیئے تو میری نگاہ میں وہ اُسی وقت میری بیعت سے نکل گئے تھے۔ اگرمحمد ﷺ اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہیں اور یقینا سچے ہیں تو جس وقت کوئی شخص کہے گا آپ جھوٹے ہیں وہ اُسی وقت ان کی نگاہ میں اور ہر مومن کی نگاہ میں مسلمان نہیں رہے گا۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے آ پ کو سچا سمجھتے ہیں اور وہ یقینا سچے ہیں تو جس وقت کوئی شخص کہے گا کہ آپ جھوٹے ہیں وہ اُسی وقت آپ کی نگاہ میں اور ہر مومن کی نگاہ میں احمدیت سے نکل جائے گا۔ اسی طرح اگر ایک امام اور خلیفہ اپنے آپ کوسچا سمجھتا ہے تو جس وقت کوئی شخص اس امام اور خلیفہ کی نسبت کہے گا کہ وہ خلافت کا اہل نہیں تو وہ اُسی وقت اس کی بیعت سے الگ ہوجائے گا۔ پس اوّل تو اس میں اعلان کرنے یا نہ کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا مجھے خود اعلان کرنے کی ضرورت نہ تھی لیکن جو اعلان میں نے کیا ہے اس کا بھی ہرگز وہ مفہوم نہیں جو کہا جاتا ہے۔ اعلان میں خارج کرنے کے الفاظ کہیں درج نہیں ہیں۔ میںنے انہیں صرف یہ لکھاہے کہ آپ یہ کیا کہتے ہیں کہ میں ۲۴ گھنٹے کے بعد آپ کی بیعت سے نکلوں گا آپ تو اُسی وقت سے جماعت سے علیحدہ ہیں جب سے آپ کے دل میں وہ خیالات پیدا ہوئے۔ پس جھوٹ مَیں نے نہیں بولا بلکہ جھوٹ اُن معترضین نے بولا ہے جنہوں نے یہ کہا کہ میں نے مصری صاحب کو جماعت سے خارج کرنے کا اعلان کیا ہے حالانکہ میں نے انہیں خارج نہیں کیا بلکہ ان کو جماعت سے خارج سمجھتے ہوئے ان کے خروج کا اعلان کیا ہے۔ اور اگر کوئی احمدی یہ کہے کہ مصری صاحب کو جماعت سے خارج کیا گیا ہے تو اس کے بھی یقینا یہی معنے ہیں، اس سے زیادہ نہیں۔ یہ طریقہ صرف اختصار سے بات کرنے کا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
غرض میری طرف سے صرف اس امر کا اظہار کیا گیا ہے کہ مصری صاحب جماعت سے دیر سے نکل چکے ہیں اور آپ کا اپنے گندے خیالات کے باوجود یہ کہنا کہ ابھی تک آپ جماعت سے نہیں نکلے درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ گزشتہ ایام میں منافقت کا پردہ اوڑھ کر ہمارے اندر شامل رہے ہیں اور یہ واقعہ میں بہت بڑی شرمناک بات ہے کہ ایک شخص درحقیقت جماعت سے نکلا ہوا ہو لیکن اس کے باوجود وہ سلسلہ کا تنخواہ دار کارکن ہو اور اپنی پوزیشن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے لوگوں میں پراگندگی پیدا کرنے کی کوشش کرے اور ان کے قلوب میں زہر بھرنا شروع کردے۔ اسی کا نام منافقت ہے اور یہی میں نے انہیں بتایا کہ خدا کے نزدیک تو آپ اُسی وقت سے جماعت سے خارج ہیں جب سے آپ کے دل میں یہ خیالات پیدا ہونے شروع ہوئے اور میرے نزدیک اسی وقت سے جب سے آپ نے ان خیالات کومجھ پر ظاہر کیا پس آپ یہ کیا کہتے ہیں کہ ۲۴ گھنٹے کے بعدمیں آپ کی بیعت سے نکلوں گا۔
دوسرے میں نے سُنا ہے کہ ان کے بعض ہم خیال یا ان سے ہمدردی رکھنے والے لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ مصری صاحب جماعت سے نکل گئے ہیں مصری صاحب جماعت سے نہیں نکلے انہوں نے صرف بیعت سے علیحدگی کا اظہار کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے خط میں بیعت سے علیحدگی کے ہی الفاظ ہیں جماعت سے الگ ہونے کے الفاظ نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ جماعت کسے کہتے ہیں۔ جماعت توکہتے ہی اسے ہیں کہ چند آدمی اکٹھے ہوں۔ اور وہ اکٹھے مذہبی اور روحانی لحاظ سے بیعت کے ذریعہ ہی ہوسکتے ہیں، کسی اور طرح نہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’پیغامِ صلح‘‘ میں غیراحمدیوں کے متعلق یہی تحریر فرمایا ہے کہ وہ پراگندہ طبع اور پراگندہ خیال ہیں۔ کسی ایسے لیڈر کے ماتحت وہ لوگ نہیںجو اِن کے نزدیک واجب الاطاعت ہو اور یہ کہ جماعت صرف میری ہی ہے جو ایک ہاتھ پرجمع ہے۔ توجماعت اور بیعت لازم و ملزوم ہیں اور دنیا میں وہ کون سا دستور ہے جس کے ماتحت جماعت تو ہو مگربیعت نہ ہو۔یہ الگ بات ہے کہ وہ بیعت روحانی ہو یا جسمانی۔ مگربہرحال کوئی جماعت بیعت کے بغیر قائم نہیں ہوسکتی۔ مثلاً حکومتیں بیعت نہیں لیتیں لیکن وہ اپنے افسروں سے اطاعت کیلئے قسمیں لیتی ہیں۔ اسی طرح بادشاہ اور پریذیڈنٹ لوگوں سے قسمیں لیتے ہیں کہ وہ ان کے فرمانبردار رہیں گے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہمارے نئے بادشاہ کی رسم تاجپوشی منائی گئی ہے اس موقع پر سب افسروں سے قسمیں لی گئی ہیں اور یہ قسمیں لینا بھی بیعت کی ایک قسم ہے ورنہ اگر بیعت نہ ہو یا قسم نہ ہو یا آپس میں کوئی عہدو پیمان نہ ہو تو وہ جماعت نہیں بلکہ افراد ہیں۔
جماعت کے معنے صرف یہ ہیں کہ وہ چند افراد جو ایک نظام کی پابندی کرنے والے ہوں اورکہتے ہوں کہ ہمیں جو بھی حکم ملے گا ہم اُس کی پابندی کریں گے۔ یہ اطاعت کا عہد ہمارے ہاں بیعت کے ذریعہ ہوتاہے۔ بعض قوموں میں اس کی ظاہری علامت قسم ہے اور بعض قوموں میں اور علامات ہیں۔ بہرحال جماعتیں کسی نہ کسی علامت کے ذریعہ اقرار کرتی ہیں کہ ہم حکومت یا نظام کی پابندی کریں گی۔ ان حالات میں جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں خلیفہ کی بیعت سے الگ ہوتا ہوں تو اس کے سوائے اس کے اور کوئی معنے نہیں کہ وہ جماعت احمدیہ کے اس نظام سے الگ ہوتاہے جس میں وہ پہلے شامل تھا اور یہی ہم کہتے ہیں۔ ہم جب کہتے ہیں کہ فلاں شخص جماعت سے نکل گیا تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ ہمارے نظام سے وہ الگ ہوگیا اور ہماری اطاعت کے عہد کو اس نے توڑ دیاہے۔ یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ پیغامیوں میں سے نکل گیا یا اگر مصری صاحب نے کوئی اپنا مخفی بیعت نامہ جاری کیا ہؤا ہے تو اس بیعت سے الگ ہوگیا ہے۔ ہم جب بھی یہ کہیں گے کہ فلاں شخص جماعت سے الگ ہوگیا تو اس کے نہ یہ معنے ہوں گے کہ وہ انگریزی حکومت سے نکل گیا نہ یہ معنے ہوں گے کہ وہ جرمنی حکومت سے نکل گیا۔ نہ یہ معنے ہوں گے کہ وہ پیغامیوں میں سے نکل گیا بلکہ اس کے صرف یہ معنے ہوں گے کہ وہ ہماری جماعت کے خلیفہ اور امام کی بیعت سے نکل گیا۔ یہی بات ہے جو میں اپنے خطبوں میں کئی دفعہ بیان کرچکا ہوں کہ جب کوئی شخص ہماری جماعت میں سے نکل جائے تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ احمدیت سے نکل گیا۔ چنانچہ میں نے اپنے بعض خطبوں میں بھی یہ بیان کیا ہؤا ہے کہ احمدیت سے نکالنا میرا کام نہیں۔ ہاں جماعت سے نکالنا میرا اختیار ہے اور یہ کہ جب تک کوئی شخص اپنے آپ کو احمدی کہے گا ہم بہرحال اسے احمدی کہیں گے بشرطیکہ کوئی وجہ اس میں ایسی نہ پائی جائے جو مذہباً اسے احمدیت سے نکال دیتی ہو۔ پھر میں نے یہاں تک کہا ہو اہے کہ احمدیت سے نکالنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی کام نہیں بلکہ اپنے مذہب سے خارج کرنا کسی نبی کا بھی کام نہیں۔ مذہب سے خدا ہی نکال سکتا ہے، نبی بھی نہیں نکال سکتا۔ پس جماعت سے نکالا جانا ایک اصطلاح ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ شخص ہمارے نظام سے الگ ہوگیا۔ باقی یہ کہ اس کے بعد اس کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی ایمان رہا ہے یا نہیں، اس کے متعلق فیصلہ کرنا ہمارا کام نہیں حتیٰ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی کام نہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی احمدیت سے اُسے ہی خارج سمجھیں گے جو وہ امور کرے جن کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے انسان کے مذہب سے خارج ہوجانے کا فیصلہ فرمایا ہو۔ ہم بھی ایسے ہی شخص کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ وہ احمدیت سے نکل گیا ہے ۔اور جب ہم کسی شخص کو جماعت سے خارج کرتے ہیں تو اس کے معنے صرف یہ ہوتے ہیں کہ نظامِ سلسلہ سے اس کے خروج کے متعلق ہم اعلان کرتے ہیں۔ اگر جماعت سے الگ ہونے کے بعد وہ احمدیت ترک نہ کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر کامل ایمان رکھیں تو ہم کون ہیں جو انہیں احمدیت سے نکال سکیں۔
پس مصری صاحب کا یہ اعتراض کہ میں نے تو کہا تھا میں آپ کی بیعت سے الگ ہوتا ہوں اور میرے متعلق کہا یہ جارہا ہے کہ میں جماعت سے الگ ہوگیا ہوں ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص کہے میں نے فلاں شخص کو اپنی چاردیواری سے نکلنے کو کہا تھا ، گھر سے نکلنے کیلئے تو نہیں کہا تھا۔ جب چاردیواری کانام ہی گھر ہے تو جب کوئی شخص چاردیواری میں سے نگل گیا وہ گھر میں سے بھی نکل گیا۔ اسی طرح جماعت جب نام ہے اُس نظام کا جو بیعت کے ذریعہ قائم ہے تو جب ایک شخص بیعت سے نکل گیا تو اُسی وقت وہ جماعت سے بھی علیحدہ ہوگیا۔ ہاں اگر وہ اپنی جماعت بنالیں جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نیا خلیفہ بنانا چاہتے ہیں تو انہیں خوارج کی جماعت میں شامل سمجھ لیاجائے گا۔ ہماری جماعت سے تو وہ یقینا نکل چکے ہیں۔ ہاں اگر خدانخواستہ جماعت احمدیہ کسی وقت سب کی سب ان کے ساتھ شامل ہوجائے تو پھر چونکہ اور کوئی جماعت نہیں رہے گی اس لئے انہی کی جماعت جماعت کہلاسکے گی۔ لیکن اگر خداتعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت قائم رہے اورجیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے یہ جماعت بہرحال صداقت پرقائم رہے گی اور بڑھے گی اوربڑھتی چلی جائے گی اور اس کے تمام دشمن ناکام و نامراد رہیں گے تو ان کا یہ کہنا کہ میں بیعت سے نکلا ہوں جماعت سے نہیں نکلا، اس سے زیادہ بیوقوفی اور حماقت کی بات اور کم ہی ہوگی۔
خود رسول کریم ﷺ کی احادیث سے ثابت ہے کہ آپ نے اسلام اورجماعت میں فرق کیا ہے۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ پر ایمان لانا اسلام پر ایمان لانا ہے اور جو شخص آپ پر ایمان نہیں لاتا وہ مومن نہیں کہلاسکتا۔ لیکن آپ فرماتے ہیں مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا فَلَیْسَ مِنَّا ۲؎کہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہوا وہ ہم میں سے نہیں۔ اب یہاں رسول کریم ﷺ نے دو چیزیں علیحدہ علیحدہ بیان فرمائی ہیں۔ ایک اسلام اور ایک جماعت۔ اگر فَلَیْسَ مِنَّا سے مراد صرف جماعت ہی لی جائے تویہ کہنا کہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہؤا وہ جماعت سے علیحدہ ہوگیا، بے معنی فقرہ ہوجاتا ہے۔ جو شخص جماعت سے بالشت بھر الگ ہوجائے وہ بہرحال الگ ہوجاتا ہے اس کیلئے فَلَیْسَ مِنَّا کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کہا جائے کہ جو مرگیا سو مرگیا۔ جو مرجاتا ہے وہ بہرحال مرجاتا ہے۔ اس کیلئے ’’سومرگیا‘‘ کہنا بے معنی ہے۔ یا کہاجائے جس نے روٹی کھالی سو کھالی۔ جو سوگیا سو سوگیا۔ جس طرح ان فقروں کا کوئی مفہوم نہیں۔ اسی طرح اگر فَلَیْسَ مِنَّا کے یہی معنے سمجھے جائیں کہ وہ جماعت سے الگ ہوگیا تو فقرہ یُوں بن جاتا ہے کہ جو جماعت سے الگ ہوگیا وہ جماعت سے الگ ہوگیا ۔ لیکن میں جیساکہ بتاچکا ہوں یہ بے معنی فقرہ ہوجاتا ہے۔
پس حقیقتاً اس کے معنے یہی ہیں کہ وہ شخص جو جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کاوجود ایمانیات میں شامل ہے سے علیحدہ ہوتا ہے۔ پس جماعت اور اسلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ الگ بیان کیا ہے مگر ساتھ ہی فرمادیا کہ جماعت سے الگ ہونا کوئی معمولی بات نہیں کیونکہ جو شخص جماعت سے الگ ہوتا ہے اس کے اسلام میں بھی رخنہ پڑ جاتا ہے اوروہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی جُدا ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ اسلام تمدنی مذہب ہے اور اس کے بہت سے احکام ایسے ہیں جو جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور اگر کوئی شخص جماعت سے الگ ہوجائے تو وہ ان احکام کی پابندی نہیں کرسکتا۔ یہی دیکھ لو اس زمانہ میں ہمیں حکم ہے کہ ہم احمدیت کی تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچائیں۔ اب یہ تبلیغ ایک جماعت ہونے کی وجہ سے ہم کررہے ہیں مگر یہ تین آدمی جو ہم سے الگ ہوئے ہیں کونسی تبلیغ کررہے ہیں۔ پس یہ ان کاموں سے محروم ہوگئے ہیں جو بحیثیت جماعت کئے جاتے ہیں اورجن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے۔ اسی طرح اور بیسیوں کام ہیں جو جماعت سے الگ ہوکر نہیں کئے جاسکتے اور وہ ان تمام کاموں کے ثواب سے محروم رہیں گے۔ پس جب انسان جماعت سے الگ ہوتا ہے تو بیسیوں نیکی کے کاموں سے وہ محروم ہوجاتا ہے۔ بیشک جو انفرادی کام ہوں وہ الگ بھی کرسکتا ہے مگر جو جماعتی کام ہوں اور جن میں ایک جتھے اور نظام کی ضرورت ہووہ بغیر جماعت کے نہیں کئے جاسکتے۔ مثلاً نماز وہ الگ پڑھ سکتے ہیں، زکوٰۃ وہ الگ دے سکتے ہیں، گو زکوٰۃ کی تقسیم جس رنگ میں اسلام چاہتا ہے وہ انفرادی طور پر نہیں کرسکتے کیونکہ اس کیلئے بھی ایک جماعت اورنظام کی ضرورت ہے۔ اسی طرح وہ اکیلے اکیلے جہاد نہیں کرسکتے بلکہ جہاد فی سبیل اللہ کیلئے بھی ایک جماعت اور نظام کی ضرورت ہے ۔ تعلیم و تربیت بھی جماعت سے تعلق رکھتی ہے۔ ۔ تبلیغ بھی جماعت کے ذریعہ ہوسکتی ہے اوریہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ جب بھی کوئی شخص جماعت سے الگ ہوتا ہے وہ ان کاموں میں حصہ لینے سے محروم ہوجاتا ہے اوراس طرح نہ صرف وہ جماعت سے الگ ہوتا ہے بلکہ اس کے اسلام میں بھی رخنہ پڑ جاتا ہے۔ اس کیلئے موقع تھا کہ وہ جماعت کے ساتھ شامل ہوکر خداتعالیٰ کے احکام کی بجاآوری میں حصہ لیتا مگر اس نے الگ ہوکر ثواب کے دروازہ کو اپنے ہاتھ سے اپنے اوپر بند کرلیا۔ اب جب سے یہ تینوں آدمی الگ ہوئے ہیں اور ان کے دلوں کا گند ظاہر ہؤا ہے اُس وقت سے ہماری طرف سے جو تبلیغ بیرونِ ہند اور اندرونِ ہند میں ہورہی ہے اس کا ثواب ان لوگوں کو تو پہنچتا ہے جو ہماری جماعت میں شامل ہیں مگر ان کو نہیں پہنچ سکتا جو جماعت سے الگ ہوگئے ہیں۔ پس وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں لندن میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں بوڈا پسٹ ۳؎ میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں امریکہ میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں جاپان میںہوئی، وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں چین میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں فلسطین میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں شام اورمصر میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں گولڈکوسٹ اور نائیجیریا میں ہوئی، وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میںمشرقی افریقہ ،ماریشس،سیلون اور سٹریٹ سیٹلمنٹس میں ہوئی،وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں جاوا اور سماٹرا میں ہوئی اور وہ تبلیغ جو اِس زمانہ میں روم اور یوگوسلاویہ میںہوئی ان تمام تبلیغوں کے ثواب میں ہر وہ شخص حصہ دار ہے جو ہماری جماعت میں شامل ہے مگر یہ تین شخص اس تبلیغ کے ثواب میں شریک نہیں۔ پس جو ثواب جماعت کے ساتھ تعلق رکھتاہے وہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب انسان جماعت کے ساتھ شامل ہو۔ لیکن جب کوئی جماعت سے الگ ہوجاتا ہے تو وہ ان نیکیوں اور ثواب کے ان تمام کاموں سے محروم ہوجاتا ہے۔ اور اس طرح اس کے اسلام میں بھی رخنہ واقع ہوجاتا ہے۔ اسی لئے رسول کریم ﷺنے فرمایا مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا فَلَیْسَ مِنَّا جو شخص بالشت بھر بھی جماعت سے الگ ہوا اُس کے اسلام میں رخنہ پیداہوجاتا ہے اور وہ ہمارا نہیں رہتا۔ اور جب رسول کریم ﷺ یہ فرماتے ہیں کہ وہ ہمارا نہیں رہتا تو ہمارے سے مراد آپ کی یقینا اسلام ہے یعنی اس کے نتیجہ میں اس کے اسلام میں بھی رخنہ پڑجاتا ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ مصری صاحب اور ان کے ساتھیوں نے جو قدم اٹھایا تھا وہ ایسا اہم تھا کہ اس کے بعد چاہئے تھا وہ خشیت اللہ سے لبریز ہوجاتے ، توبہ و استغفار میں لگ جاتے، دعائوں سے کام لیتے اور اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرکے اس کی مدد چاہتے۔ مگر مجھے تعجب اور افسوس ہے کہ بجائے اس کے کہ ان کے دلوں میں خشیت اللہ پیدا ہوتی وہ ایسے کاموں میں لگ گئے جو عام نیکی اور تقویٰ کے بھی خلاف ہیں اور اس قسم کے غلط واقعات شائع کررہے ہیں کہ جسے کوئی ایماندار شخص جائز نہیں سمجھ سکتا۔ چنانچہ جماعت اور اس کے نظام پر وہ بے بنیاد الزام لگارہے ہیں اور جب ان سے دریافت کیا جاتا ہے کہ اس کا کیا ثبوت ہے تو وہ کوئی ثبوت پیش نہیں کرتے۔ مثلاً شروع میں ہی انہوں نے کہہ دیا کہ جماعت کے اندر ایک بہت بڑ ابگاڑ پیدا ہوچکا ہے جو ’’بہت سے لوگوں کو دہریت کی طرف لے جاچکا ہے او ربُہتوں کو لے جانے والا ہے‘‘۔ اب یہ کتنا بڑا اتہام ہے جوجماعت احمدیہ پر لگایا گیا۔ دہریہ کے معنے یہ ہیں کہ ایسا شخص جو خداتعالیٰ کی ذات کا منکر ہے۔ اگر مصری صاحب کے منہ پر انہیںجاکر کوئی شخص بے ایمان کہہ دے تو وہ شور مچادیں گے یا نہیں؟ اگر مصری صاحب کو کوئی منافق کہہ دے تو وہ کہیں گے یا نہیں کہ مجھے گالیاں دی جارہی ہیں۔ اگر مصری صاحب کے متعلق کوئی شخص کہہ دے کہ وہ وفاتِ مسیح کے قائل نہیں رہے تو وہ اس شور سے آسمان سر پر اُٹھالیں گے کہ نہیں کہ دیکھو یہ جماعت تقویٰ سے کس قدر گرگئی ۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ میں وفاتِ مسیح کا قائل نہیں حالانکہ میں قائل ہوں۔ اسی طرح اگر کوئی کہہ دے کہ مصری صاحب نماز پڑھنے کے قائل نہیں تو وہ جھٹ شور مچادیں گے اور کہیں گے دیکھا یہ کیسے بُرے لوگ ہیں مجھ پر سراسر جھوٹا الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نمازوں کا قائل نہیں رہا حالانکہ میں قائل ہوں۔ غرض جو جو تفصیلاتِ عقائد یا جُزئیاتِ اعمالِ صالحہ ہیں ان میں سے کسی ایک کے متعلق ہی یہ کہنے پر کہ وہ اس کے قائل نہیں رہے وہ طیش میں آجائیں گے۔ مگر جماعت احمدیہ کے متعلق سراسر جھوٹے اور بے بنیاد الزام شائع کرنے اور اس کی طرف بالکل غلط باتیں منسوب کرنے کے باوجود بھی وہ یہ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو ان کی باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے اور طیش میں نہیں آنا چاہئے ۔ ان کو یہ جھوٹی خبر اور بے بنیاد خبر سن کر تو سخت تکلیف ہوئی کہ مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نے لاہورمیں کہا ہے کہ مصری صاحب کو اس لئے ٹھوکرلگی کہ انہوں نے اپنی لڑکی خاندانِ نبوت میں رشتہ کیلئے پیش کی تھی، مگر رشتہ نہ لیا گیا۔ حالانکہ مولوی غلام رسول صاحب راجیکی اس بات سے انکار کرتے اور لکھتے ہیں کہ ’’میں نے یہ الفاظ ہرگز نہیں کہے شیخ صاحب نے بے احتیاطی سے کام لیتے ہوئے میری نسبت غلط طور پر راوی کی غلط بیانی کی بنا ء پر کہہ دیئے ہیں جو محض تہمت اور بُہتان ہے‘‘۔ لیکن میرا تقویٰ دیکھو میںنے مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کو لکھوایاکہ بعض دفعہ انسان بات کہہ کر بُھول بھی جاتا ہے آپ اچھی طرح سوچ لیں اورجماعت سے بھی دریافت کرلیں کہ ان میں سے کسی شخص کے سامنے آپ نے یہ بات تو نہیں کہی مگر انہوں نے پھر بھی یہی لکھا کہ میں نے کسی شخص کے سامنے یہ بات نہیں کہی۔
پس انہیں اپنے متعلق ایک چھوٹی سی بات سُن کر توطیش آگیا اور فوراً ایک اشتہار شائع کردیا۔ مگر جماعت احمدیہ جو خداتعالیٰ کی آخری جماعت ہے ، جو خداتعالیٰ کے آخری مامور کوماننے والی جماعت ہے، جو اصحاب الصفہ کی جماعت ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہاماً فرماتا ہے کہ تجھے کیا معلوم یہ پاکباز غریب جو تیری جماعت میں شامل ہیں ان کی خداتعالیٰ کے نزدیک کیا شان ہے وہ اس جماعت کے متعلق یہ نہیں کہتے وہ نماز کی منکر ہے، یہ نہیں کہتے وہ روزے کی منکر ہے ،یہ نہیں کہتے وہ حج کی منکر ہے، یہ نہیں کہتے وہ زکوٰۃ کی منکر ہے، یہ نہیں کہتے وہ دیانت و امانت کی منکر ہے، یہ نہیں کہتے وہ مسیح موعود کی منکر ہے یہ نہیں کہتے وہ محمد ﷺ کی منکر ہے، یہ نہیں کہتے وہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْھِمَا السلام کی منکر ہے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ خداتعالیٰ ہی کی منکر ہے۔ کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِم۴؎ بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلی ۔ اب کیا یہ معمولی بات ہے جو انہوں نے کہی کہ بہت سے لوگ جماعت احمدیہ میں سے دہریہ ہوچکے ہیں اور بہت سے دہریہ ہونے کی تیاری کررہے ہیں۔ کیا یہ ایک معمولی سا الزام ہے کہ اس پر ہم خاموش ہوکر بیٹھ جائیں اور اس کے خلاف اظہارِ نفرت نہ کریں یا ان سے اس الزام کا ثبوت طلب نہ کریں۔ مگر باوجود اس کے کہ ان سے بار بار یہ مطالبہ کیا جاچکا ہے کہ وہ ان لوگو ں کو جو جماعت میں سے دہریہ ہوچکے ہیں ہمارے سامنے پیش کریں اور ان کے نام بتائیں وہ بالکل خاموش ہیں۔ ان کی بیٹی کی شادی کا معاملہ آجائے تو وہ اشتہار دینے لگ جاتے ہیں مگر دوسروں کے ایمان پر وہ تبر چلارہے ہیں۔انہیں نہ صرف تمام صداقتوں کے منکر بلکہ خدا تعالیٰ کامنکر قرار دے رہے ہیں اور پھر جب ان سے دریافت کیا جاتا ہے تو وہ خاموش ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ کیا یہی تقویٰ اور دیانت ہے ؟اور کیا ان کی پوتی کا دودھ اس سے زیادہ قیمتی ہے جتنا جماعت کے ایمان کا معاملہ قیمتی ہے۔ کیا پہرے کا سوال زیادہ قابل ذکر ہے او رجماعت کے دہریہ ہونے کا سوال قابلِ ذکر نہیں؟ کیا ان کے گھر میں کسی کا دُوربین سے دیکھ لینا زیادہ قابلِ توجہ فعل ہے اور جماعت کے ایمان کا سوال قابلِ توجہ نہیں؟ مگر وہ کہتے ہیں چھوڑدو اس سوال کو کہ جماعت دہریہ ہوگئی ہے یانہیں، آئو ان باتوں کا فیصلہ کریں کہ ان کی پوتی کا دودھ کس نے بند کیا۔ کیونکہ ان کی خاموشی کے سوا اس کے اور کچھ معنے نہیں کہ وہ اپنے عمل سے بتارہے ہیں کہ اس سوال کوجانے دو او ران باتوں کی طرف توجہ کرو جو میں نے پیش کیں۔ آخر جب کوئی دوسرے پر اتنا بڑا الزام لگاتا ہے تو کیسی بے ایمانی ہے کہ اس الزام کو ثابت نہیں کیا جاتا اور معمولی معمولی باتوں کو پیش کیاجاتا ہے۔ وہ ان لوگوں پر جو خداتعالیٰ کو دیکھ کر ایمان لائے جو دنیا میںایمان قائم کرنے کیلئے کھڑے ہوئے یہ الزام لگاتے اور نہایت ہی جھوٹا اور ناپاک بُہتان باندھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر دہریہ ہوچکے ہیں اور بہت سے دہریہ ہونے کی تیاری کررہے ہیں۔ مگر جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ اس ناپاک الزام کو ثابت کریں تو کہتے ہیں اس سوال کو رہنے دو اور آئو اس بات پر ٹھنڈے دل سے غور کرو کہ میری پوتی کا دودھ کس نے بند کیا۔ اس سے زیادہ بیوقوفی اور حماقت اور کیا ہوگی ۔وہ ایک گھر کو آگ لگاتے ہیں اور کہتے ہیں اس آگ کو نہ بجھاؤ آؤ اور یہ دیکھو کہ میرا سگریٹ کس نے جلایا۔ وہ ایک کو قتل کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس قتل کی کیا تحقیق کرنی ہے مجھے آج چھینکیں آئی ہیں ان چھینکوں کے آنے کی وجہ دریافت کرو۔ وہ ایسا خطرناک الزام جماعت پر لگاتے ہیں کہ جس الزام سے بڑھ کر اور کوئی الزام نہیں ہوسکتا، وہ جماعت کے سینہ میں ناسور ڈالتے اور پھر کہتے ہیں جماعت ٹھنڈے دل سے غور کرے اوربتائے کہ وہ چھوٹی چھوٹی تکلیفیں انہیں کیوںپہنچیں۔ یہ بھی جھوٹ ہے کہ انہیں وہ تکلیفیں پہنچیں۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ اتنا بڑا الزام لگانے کے بعد ان کا یہ خیال کرناکہ پہلے ان امور کی تو تحقیق ہو اور جماعت پر دہریت کا الزام لگا کر وہ خاموش ہوجائیں یا تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ خود دہریہ ہیں اور اس الزام کی حقیقت کو نہیں سمجھتے او ریا یہ کہ ان کے دماغ میں نقص ہے۔ بہرحال ایک مومن جو اپنے ایمان کی قدرکوجانتا اورجو حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی قیمت کو پہچانتاہے وہ تو کبھی اس الزام کو سُن کر خاموش نہیں ہوسکتا اور وہ تو اس کے ثبوت کا ان سے مطالبہ کرتا رہے گا کیونکہ یہ الزام کسی فرد پر نہیںبلکہ خداتعالیٰ کی مقدس جماعت پر ہے اور سچ یہ ہے کہ اگر یہ الزام ان کا درست ہو تو حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت ہی مشکوک ہوجاتی ہے۔ پس ایک سچا احمدی اس الزام کے بعد تسلّی نہیں پاسکتا جب تک اسے دو رنہ کرلے اورمصری صاحب کو جھوٹا نہ ثابت کرے۔
بہرحال وہ خواہ خاموش رہیں مگر میں ان کے دوسرے الزامات کے متعلق بھی خاموش نہیں رہنا چاہتا۔ مصری صاحب لکھتے ہیں کہ ان کے گھر کی ناکہ بندی کی گئی ہے، ضرویاتِ زندگی کے حصول میں روکیں پیدا کی جارہی ہیں، دُکانداروں کو سَودا دینے سے روکا جاتا ہے، بھنگن کو کام کرنے سے منع کیا گیا ہے، غیراحمدی مزدوروں کو کام کرنے سے روکا گیا ہے، اُن کی پوتی کا دودھ بند کیا گیا ہے، غیراحمدی ملازمہ کو گھر میں کام کرنے سے منع کیا جاتا ہے اور یہ کہ جب وہ باہر نکلتے ہیں تو ان پر چند لونڈے مسلّط ہوتے ہیں جو اِن کے ساتھ ساتھ پھرتے ہیں۔ پھر ۴ جولائی کو ۱۵،۱۶ نوجوان جو لاٹھیوں اور ہاکیوں سے مسلح تھے آئے اور ا ن کے گھر کی ناکہ بندی کرلی اور گھر کو دُور بین لگا کر اندر سے دیکھا۔ یہ وہ الزامات ہیں جو جماعت احمدیہ کے خلاف انہوںنے شائع کیے ۔ میں سمجھتا ہوں ان حالات میں جبکہ وہ ہماری جماعت پر یہ خطرناک الزام لگارہے ہیں کہ یہ جماعت دہریہ ہوگئی اور وہ ہمارے مطالبات کا جواب تک دینے کیلئے تیار نہیں ان کا کوئی حق نہیں کہ وہ ہم سے اپنی تکلیفوں کے متعلق تحقیقات کا مطالبہ کریں۔ ہماری جماعت لاکھوں کی جماعت ہے۔ لیکن اگر اس کو تسلیم نہ کیا جائے تو گورنمنٹ کی مردم شماری کے رُو سے ہی ۱۹۳۰ء میں صرف پنجاب میں ہماری جماعت چھپن ہزار تھی جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سارے ہندوستان میں کم از کم ہماری جماعت ایک لاکھ ہے۔ اب ایک لاکھ میں بہت سے لوگوں کے دہریہ ہوجانے کا مطلب تو یہ ہے کہ پچاس ساٹھ ہزار ایسے لوگ ہیں جو دہریہ ہوچکے ہیں۔ لیکن اگر پچاس ساٹھ ہزار نہ سہی تو کم از کم دو چار ہزار ایسے لوگ ضرور ہونے چاہئیں جو دہریہ ہوچکے ہوں۔ کیونکہ اگر خالی بہت کا لفظ استعمال کیاجائے تو اور بات ہوتی ہے اور ضروری نہیں ہوتا کہ اس سے ہزاروں لوگ مراد ہوں لیکن جب ایک ایسی جماعت کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا جائے گا جو کئی لاکھ افراد پر مشتمل ہے تو اس سے یقینا ہزاروں لوگ ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ ہمارے اندازہ میں ہماری جماعت کی تعداد دس لاکھ ہے۔ گولڈ کوسٹ میں ہی گورنمنٹ کی مردم شماری کے مطابق ہمارے چوبیس ہزار احمدی ہیں۔ پس اگر گولڈکوسٹ میں چوبیس ہزار احمدی ہوسکتے ہیں تو یقینا ساری دنیا کے احمدی دس لاکھ سے کسی صورت میں کم نہیں۔لیکن اگر دس لاکھ نہ مانو اور صرف ایک لاکھ لے لو تب بھی پچاس ساٹھ ہزار اور کم از کم دوچار ہزار ایسے لوگ ضرور ہونے چاہئیں جو ان کے نقطۂ نگاہ میں دہریہ ہوچکے ہیں۔ لیکن اتنا بڑا الزام لگانے کے بعد جب ان سے دریافت کیا جاتا ہے کہ ان تمام لوگوںکے نام بتائیں تو خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ جس سے ہر حق پسند انسان یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہے کہ انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے اور دیانت کو ترک کرتے ہوئے صرف جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب جبکہ ان سے مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے یونہی لوگوں کے نام لینے شروع کردیئے تو وہ ہم پر نالشیں کریں گے، مقدمے چلائیں گے اور کہیں گے انہوں نے ہماری عزت پر حملہ کردیا۔ ورنہ اگر سچ مچ جماعت میں سے اکثر لوگ دہریہ ہوچکے ہوتے تو کیا ان کے نام بتانے میں انہیں کوئی ڈر ہوسکتا تھا؟ اگر میاں فخرالدین اور عبدالعزیز کو جو باوجود ایک عرصہ سے شکوک و شبہات پیدا ہونے کے ظاہر ہونے کی جرأت نہیں کرسکے ڈر نہیں آیا تو جو لوگ دہریہ ہوچکے ہوں انہیں کس بات سے ڈرآسکتا ہے۔ مگر واقعہ یہی ہے کہ انہوںنے جماعت پر جھوٹا الزام لگایا اور اب اس ڈر کے مارے نام نہیں بتاتے کہ اگرکسی کا نام لیں گے تو پھنس جائیں گے۔ لیکن ایک طرف اس قدر خاموشی اور دوسری طرف یہ شور مچائے جارہے ہیں کہ ان کی پوتی کا دودھ بند کردیاگیا۔ حالانکہ قادیان میں جتنی گائیں ، بھینسیں احمدیوں کے پاس ہیں اس سے دُگنی، تگنی گائیں بھینسیں غیراحمدیوں، ہندوئوں اور سکھوں کے پاس ہیں۔ پس جو چیز نہایت آسانی سے انہیں قادیان سے میسر آسکتی ہے بلکہ اگر کئی من دودھ چاہیں تو بھی انہیں مل سکتا ہے وہ اس کی تحقیقات تو کرانا چاہتے ہیں مگر جماعت پر اتنا بڑا حملہ کرکے اس کی تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھتے۔
اب جو واقعات انہوں نے مظالم کے نام سے شائع کئے ہیں، میرے نزدیک ان کے متعلق تحقیق کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ ان کا کوئی حق نہ تھا کہ وہ جماعت پر اتنا بڑا اتہام لگا کر جماعت سے ہی کہتے کہ وہ ان کی تکلیفوں کے متعلق تحقیق کرے۔ انہوں نے جماعت کے دلوں میں ایک آگ لگادی ہے، ان کے سینوں میں یہ کہہ کر ناسور ڈا ل دیئے ہیں کہ جماعت کا اکثر حصہ دہریہ ہوگیا ہے۔ مگر دوسروں کے گھروں کو آگ لگا کر انہیں بلاتے اور کہتے ہیں آئو اور میرے چولہے میں پانی ڈالو۔ پس اس الزام کے بعد ہرگز ان کا کوئی حق نہ تھا کہ میں تحقیقات کرتا اور دریافت کرتا کہ مصری صاحب جو کچھ کہہ رہے تھے وہ کہاں تک درست ہے۔ مگر جب میرے پاس رپورٹ پہنچی تو میں نے تَرَحُّمًا ناظر صاحب امور عامہ کو بلایا اور انہیں کہا کہ وہ تحقیقات کریں اور رپورٹ کریں کہ ان واقعات میں کس حد تک اصلیت ہے۔ اور اگر کسی کی غلطی معلوم ہو تو اُس کا معاملہ پیش کریں۔ اس پر انہوں نے مصری صاحب کو چِٹّھی لکھی کہ آپ اُن مزدوروں کے نام بتائیں جنہیں کام کرنے سے روکا گیا اور اُن دُکانداروں کے نام بتائیں جنہوں نے سَودا دینے سے انکار کیا تا اس کے متعلق تحقیقات کی جائے اور اگر کسی شخص کا قصور ثابت ہو تو اسے مناسب سزا دی جائے۔ اس کا جو جواب مصری صاحب نے دیا اس کے متعلق میں نے ہدایت کردی تھی کہ وہ تمام مساجد میں سنادیا جائے۔ اور میں بھی تفصیل سے ابھی اس کا ذکر کروں گا۔ فِی الْحال میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ مصری صاحب نے نام پیش کرنے سے انکار کردیا۔ آخر مجبوراً ناظر صاحب امور عامہ کو خود تحقیقات کرنی پڑی اور انہوں نے تحقیق کرکے جو رپورٹ کی وہ یہ ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ان کے گھر کی ناکہ بندی کی گئی یہ بالکل غلط ہے۔ ناکہ بندی کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ نہ گھر سے کسی شخص کو نکلنے دیا جائے اورنہ باہر سے کسی شخص کو گھرمیں داخل ہونے دیا جائے۔ مصری کہلا کر اگر اب وہ اردو بھول گئے ہوں اور ناکہ بندی کی جو اصطلاح ہے اس کے معنے اُن کے ذہن سے اُتر گئے ہوں تو یہ اور بات ہے لیکن یہ بات معمولی علم رکھنے والا انسان بھی جانتا ہے کہ ناکہ بندی کسے کہتے ہیں۔ یہاں پولیس کے سپاہی موجود ہیں ان سے دریافت کیا جاسکتا ہے کہ ناکہ بندی کسے کہتے ہیں۔ ہر شخص کہے گاکہ ناکہ بندی اسی کا نام ہے کہ نہ کسی کو گھر کے اندر جانے دیا جائے اور نہ کسی کو گھر سے باہر نکلنے دیا جائے۔ اب اگر یہ صحیح ہے کہ ان کی ناکہ بندی کی گئی تو ان کا یہ اگلا فقرہ کس طرح درست ہے کہ ’’میرے اوپر چند لونڈے مسلط کئے ہوئے ہیں کہ جدھر میں جائوں وہ سایہ کی طرح میرے پیچھے آئیں‘‘۔
جب ان کے مکان کی ناکہ بندی کی جاچکی ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ گھر سے باہر کس طرح آجاتے ہیں اور اگر واقعہ میں ناکہ بندی ہے تو میاں فخر الدین اور حکیم عبدالعزیز ان کے مکان پرکس طرح پہنچ جاتے ہیں۔ ناکہ بندی کی صورت میں تو کوئی شخص مکان کے اندر داخل نہیں ہوسکتا اورنہ باہر نکل سکتا ہے۔ ہاں اس سے ہمیں انکار نہیں کہ بعض پہرہ دار امور عامہ نے یہ دیکھنے کیلئے مقرر کئے ہوئے ہیں کہ وہ منافقین جن کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ہیں، کون کون ہیں۔ یہی وہ بات ہے جس کا انہیں دراصل شکوہ ہے اور کہتے ہیں ہمارے دوستوں کو ہم سے ملنے کیوں نہیں دیتے۔ حالانکہ کوئی شخص ایسا نہیں جو یہ کہہ سکے کہ میں ان سے ملنے جارہا تھا مگرمجھے ملنے سے روک دیا گیا۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ جانے والے جائیں تا ہمیں پتہ لگے کہ کون لوگ دل سے ان کے ساتھ ہیں اورہمیں دھوکا دے رہے ہیں تا انہیں بھی ہم جماعت سے نکال دیں۔ پس ہماری غرض یہ نہیں کہ کوئی شخص ان سے بات نہ کرے بلکہ ہماری غرض یہ ہے کہ اگر کوئی ان سے بات کرنے والا ہے تو اس کا ہمیں علم ہوجائے اور وہ ہمارے اندر سے نکل جائے۔
پس ہمارے آدمی پہرہ پر اس لئے مقررنہیں کہ کسی کو روکیں بلکہ اس لئے مقرر ہیں کہ جب کوئی وہاں جائے تو اس کی خدمت میں یہ عرض کردیں کہ اب آپ یہیں تشریف رکھیں ہمارے ساتھ آپ کا کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح اگرمصری صاحب کی حرکات کی کوئی شخص نگرانی کرتا ہے تو یقینا اس لئے کہ اسے معلوم ہوجائے کہ مصری صاحب کس کس شخص کے ہاں جاتے ہیں تا جماعت ان لوگوں سے درخواست کرے کہ منافقت کی کیا ضرورت ہے تم دلیری سے ان کے ساتھ شامل ہوجائو۔ اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جو قانوناً، اخلاقاً یا مذہباً معیوب اور ناروا ہو۔ ہر مذہبی جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی جماعت کے لوگوں کی نگرانی کرے اور ہم بھی ان کی اسی لئے نگرانی کرتے ہیں تا ہمارے اندر وہی رہے جو ہمارا ہم خیال ہو اور جو ہمارا ہم خیال نہیں وہ ہم سے علیحدہ ہوجائے۔ یہ حق ہر مذہبی جماعت کو حاصل ہے اور اسی حق کا ہم استعمال کررہے ہیں۔ اس کا نام ناکہ بندی رکھنا بتاتا ہے کہ مصری صاحب گویا اس ملک کے باشندے ہی نہیں اور وہ عربی ہی جانتے ہیں، اُردو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ پس جو پہرہ ہے وہ مصری صاحب پر نہیں بلکہ اپنے لوگوں پر ہے، یہ دیکھنے کیلئے کہ ان سے کون ملتا ہے۔ پس پہرہ دار اس لئے کھڑے نہیں کئے گئے کہ مصری صاحب کسی سے نہ ملیں بلکہ اس لئے کھڑے کئے گئے ہیں کہ جو ہماری جماعت میں سے ان سے ملتا ہو اُس کا پتہ لگائیں ۔اور یہ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ اپنے مکانوں اور گھروں میں بیٹھ کر دوسروں کو دیکھے۔ کیا مصری صاحب اگر اپنے گھر بیٹھ کر کسی کو دیکھیں تو ہم انہیں روک سکتے ہیں؟ اگراسی قسم کے تمسخر کو ہم بھی کام میں لانے والے ہوتے تو ہم شور مچادیتے کہ مصری صاحب اور ان کے دوست برآمدہ میں بیٹھے رہتے اور ہمارے آدمیوں کی نقل و حرکت کا پتہ لگاتے رہتے ہیں۔ کیونکہ جس طرح ہمارے آدمی انہیں دیکھتے ہیں اسی طرح وہ ہمارے آدمیوں کو دیکھتے ہیں ان دونوں میں فرق کونسا ہے۔ اگر ہمارے آدمیوں کا دیکھنا منع ہے تو ان کے آدمیوں کا ہمارے آدمیوں کو دیکھنا بھی منع ہونا چاہئے اور کیا لوگ ہنسیں گے نہیں اگر ناظر صاحب امور عامہ ایک بڑا سا اشتہار شائع کردیں جس پر موٹے حروف میں لکھا ہؤا ہو کہ مصری صاحب کے تازہ مظالم اور نیچے یہ درج ہو کہ مصری صاحب اور فخرالدین اور عبدالعزیز اپنے مکان کے برآمدہ میں بیٹھ کر ہمارے آدمیوں کو دیکھتے اور ہر وقت ان کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں پھر اسی رنگ میں ان کا شور مچانا کیا حقیقت رکھتا ہے۔ جس طرح ہمارے آدمی انہیں دیکھتے ہیں اسی طرح ان کے آدمی ہمارے آدمیوں کو دیکھتے ہیں۔ اس میں حرج کی کونسی بات ہے۔
پھر یہ کہنا کہ ضروریاتِ زندگی کے حصول میں روکیں ڈالی جارہی ہیں یہ بھی بالکل غلط ہے۔ میرا حکم تھا کہ جو چیزیں ضروریاتِ زندگی میں سے ہیں ان کے حصول میں ہرگز روکیں نہ ڈالی جائیں اور یہی محکمہ کی رپورٹ ہے کہ ضروریاتِ زندگی کے حصول میں کوئی روک نہیں ڈالی گئی۔ علاوہ ازیں یہ امر قابلِ غور ہے کہ جس قدر احمدیوں کی یہاں دُکانیں ہیں قریباً اتنی ہی دکانیں سکھوں ، ہندوئوں اور غیراحمدیوں کی ہیں اور وہ ان سے ہر وقت اشیاء خرید سکتے ہیں۔ اگر کہیں کہ ہم سکھوں اور ہندوئوں سے نہیں خرید سکتے تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان سے خریدنے کی ممانعت کا باعث جماعت کا ایک باہمی سمجھوتہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حکم اِس بارہ میں کوئی نہیں ہے۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ حکم ہوتا تب تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم اس حکم کی خلاف ورزی کس طرح کرسکتے ہیں۔ مگر جب کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حکم ہی نہیں بلکہ میرا حکم ہے جو بعض فسادات کے رونما ہونے پرجماعت کے مشورہ سے صرف ان لوگوں کو جو خود اس کا عہد باندھنے کا اقرار کرتے تھے دیا گیا تو مصری صاحب کیلئے اس کی تعمیل ضروری نہیں۔ وہ تومیری بیعت میں سے نکل گئے اور تمام عہدوپیمان جو انہوںنے مجھ سے کئے تھے ان سے آزاد ہوگئے۔ اب وہ بالکل آزاد ہیں اور ہندوئوں اور سکھوں سے چیزیں خرید سکتے ہیں۔ پھران کا یہ شور مچانا کس طرح حق بجانب سمجھا جاسکتا ہے کہ قادیان میں انہیں ضروریاتِ زندگی تک حاصل نہیں ہوتیں۔ ہاں اگر وہ اسی پر اصرار کریںکہ ہم نے ضرور احمدی دُکانداروں سے سَودا خریدنا ہے تو یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی ہمارا شدید مخالف دھوپ کے وقت دوسرے مکانات کو چھوڑ کر ہماری ڈیوڑھی میں آبیٹھے اور اصرار کرے کہ میںنے اسی ڈیوڑھی میں بیٹھنا ہے۔ ہر شخص اس بھلے مانس سے کہے گا کہ کیا تجھے اس ڈیوڑھی کے سِوا کہیں سایہ نظر نہیں آتا۔ اگر او ربھی سائے کی جگہیں ہیں تو سب جگہوں کو چھوڑ کر اس ڈیوڑھی میں آنے کا مطلب سوائے فساد کے اور کیا ہے۔ اسی طرح جب آٹا غیروں سے مل جاتا ہے، گوشت غیروں سے مل جاتا ہے، کپڑا غیروں سے مل جاتا ہے، کھانے پینے کی تمام چیزیں غیروں سے مل جاتی ہیں تو آخر کچھ نہ کچھ بھید تو ہے جو تم ان سب کو چھوڑ کر ایک احمدی سے سودا خریدنا چاہتے ہو۔ پس ان کی کوئی ضرورت ایسی نہیں جو یہاں غیروں کے ذریعہ پوری نہ ہوسکتی ہو۔ غیراحمدی مزدور یہاں کثرت سے ملتے ہیں، لوہار اور ترکھان احمدیوں کے علاوہ سکھوں اور ہندوئوں میں بھی موجود ہیں، دودھ دینے والے کثرت سے مل سکتے ہیں بلکہ جتنی گائیں اور بھینسیں سکھوں، ہندوئوں اور غیر احمدیوں کے پاس ہیں اس سے آدھی بھی احمدیوں کے پاس نہیں پھر ان کا یہ شور مچانا کہ ضروریاتِ زندگی ان تک پہنچنے سے روک لی گئیں ہیں کس قدر جھوٹ اور دُوراز حقیقت بات ہے۔ ایک دوست نے یہاں چند دن ہوئے تقریر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ صرف احمدیہ لٹریچر ایسی چیز ہے جو غیراحمدیوں یا ہندوئوں اور سکھوں سے نہیں مل سکتا۔ مگر یہ لٹریچر خود میاں فخرالدین صاحب کے گھر میں بکثرت موجود ہے۔ میں کہتاہوں کہ ممکن ہے وہ کہیں کہ ہمیں کوئی یونانی طبیب چاہئے ہم ڈاکٹروں سے علاج نہیں کراتے۔ اور غالباً غیراحمدیوں یا سکھوں اور ہندوئوں میں یہاں کوئی یونانی طبیب نہیں۔ مگر اس ضرورت کیلئے بھی انہیں احمدی طبیبوں کی ضرورت نہیں یونانی طبیب خود ان کے پاس حکیم عبدالعزیز موجود ہے۔ اسی طرح شاید وہ یہ کہیں کہ ہم اپنے بچوں کو دینیات پڑھاناچاہتے ہیں مگر یہاں ہندوئوں، سکھوں اور غیراحمدیوں میں کوئی ایسا آدمی نہیں جو دینیات پڑھاسکے۔ سو اس ضرورت کیلئے بھی انہیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں خود مصری صاحب موجود ہیں وہ دینیات پڑھاسکتے ہیں۔ غرض احمدیہ لٹریچر غیراحمدیوں اور سکھوں اور ہندوئوں کے پاس نہیں مل سکتا وہ میاں فخرالدین صاحب کے پاس موجود ہے۔ دیسی طبیب یہاں غیراحمدیوں اور سکھوں اور ہندوئوں میں کوئی نہیں یا کم ازکم جہاں تک مجھے علم ہے کوئی نہیں لیکن وہ ان کے پاس حکیم عبدالعزیز کی صورت میں موجود ہے۔ اسی طرح ممکن ہے دینیات پڑھانے و الا انہیں اور کوئی نظر آئے لیکن ان کی یہ ضرورت بھی خود اپنے اندر سے پوری ہوسکتی ہے یعنی مصری صاحب یہ کام کرسکتے ہیں۔
پس صرف تین چیزیں ایسی تھیں جو یہاں انہیں غیروں سے نہیں مل سکتی تھیں مگر یہ تینوں چیزیں خود ان کے پاس موجود ہیں۔ طبیب ان کا اپنا ہے۔ احمدیہ لٹریچر ان کے پاس ہے اور دینیات کا مدرس ان میں موجود ہے گویا وہ Self-Contained ہیں پھر انہیں شکوہ کس بات کاہے۔ اگر باوجود اس کے وہ ہماری جماعت کے کسی فردکی دُکان سے سَودا خریدنا چاہتے اور اس پر اصرار کرتے ہیں تو یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے ہمارا کوئی دشمن کہے کہ میں دھوپ سے بچنا چاہتا ہوں اور اس کیلئے سب گھر چھوڑ کر تمہاری ہی ڈیوڑھی میں آکر بیٹھوں گا۔ ہر شخص اس خریدو فروخت کو دیکھ کر کہے گا کہ کسی خاص احمدی دکاندار سے سَودا خریدنے پر اصرار کرنا بھید سے خالی نہیں۔ اور وہ بھید سوائے اس کے کیا ہوسکتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں اپنے ہم خیال لوگوں کی خفیہ پارٹی بناتے جائیں۔ چنانچہ اشتہار میں بھی انہوں نے لکھا ہے کہ مجھ سے لوگوں کو ملنے نہیں دیا جاتا تا کہ کوئی شخص مجھ سے مل کر اصل حقیقت سے واقف نہ ہو جائے۔ حالانکہ اصل حقیقت سے وہ اشتہاروں سے واقف کرسکتے ہیں اور کررہے ہیں۔ پس ان کا اصل شکوہ یہ نہیں کہ دُکانداروں سے سَودا دینے سے کسی نے منع کیا ہے یا ضروریاتِ زندگی کے حصول سے وہ محروم ہوگئے ہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اس طریق پر ان لوگوں سے جو ابھی خفیہ ہیں اپنی ملاقات کا راستہ کھولیں اور ایک خفیہ جماعت قائم کریں۔
پھر انہوں نے الزام لگایا ہے کہ بھنگن کو اُن کے گھر کام کرنے سے روک دیا گیا۔ اس کے متعلق ناظر صاحب امور عامہ نے سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ کو بُلایا اور اس کے ذریعہ بھنگن کے خاوند کو بلایا گیا اور پھر بھنگن کو بُلا کر سب کی موجودگی میں پوچھا گیا کہ تجھے کس نے کام کرنے سے روکا تھا؟ تو اس نے ایک لڑکے کا نام لیا کہ اس نے مجھے روکا تھا۔ اب وہ لڑکا کوئی افسر نہ تھا کہ اس کے روکنے پر وہ رُک جاتی۔ وہ ناظر نہ تھا، وہ خلیفہ نہ تھا، وہ محض ایک لڑکا تھا۔ اس کے منع کرنے سے اُس کا رُک جانا اول تو خود غلطی ہے دوسرے اس لڑکے کو بُلا کر جب دریافت کیا گیا تو اُس نے بتایا کہ میں نے اسے روکا نہیں تھا میں نے اسے یہ کہا تھا کہ کیا تم اب تک ان کا کام کرتی ہو؟ بیشک یہ فقرہ ایسا تھا جس سے یہ استنباط ہوسکتا تھا کہ اسے یہاں کام نہیں کرنا چاہئے مگر یہ کسی ذمہ دار کا حکم نہیں تھا کہ وہ رُک جاتی بلکہ صرف ایک طالب علم کے جوش کا اظہار تھا۔ پس اگر وہ رُکی ہوگی تو اپنی مرضی سے یا مصری صاحب کے روک دینے کی وجہ سے۔ چنانچہ ہمیں معلوم ہؤا ہے کہ باوجود اس کے کہ بعض دکانداروں کو انہیں سَودا دینے کی اجازت ہے پھر بھی وہ انہیں سَودا نہیں دیتے کیونکہ ان کی ایمانی غیرت یہ برداشت نہیں کرتی کہ ایسے شخص کو سودا دیں جو خلافت سے غداری کا مرتکب ہؤا ہے۔ لیکن باوجود اس کے اگر کوئی دکاندار انہیںکوئی ایسا سَودا نہ دے جس کے متعلق مجھے یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ وہ قادیان میں کسی اورجگہ سے نہیں مل سکتا تھا تو یقینا میں ایسے دکاندار کو سزا دوں گا۔ پس ان کا تمام غیراحمدیوں، سکھوں اور ہندوئوں کو چھوڑ کر صرف احمدی دُکانداروں سے سَودا کرنے کی کوشش کرنا سوائے اِس کے کوئی معنے نہیں رکھتا کہ وہ ان میں سے کسی منافق کے ذریعہ سے دوسرے ان لوگوں سے جن کے بارہ میں انہیں دعویٰ ہے کہ ہمارے ساتھ ہیں تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ پوشیدہ لوگ اگر کوئی ہیںتو ظاہر ہوجائیں۔
اسی طرح وہ کہتے ہیں مزدوروں کو کام کرنے سے روکا گیا۔ لیکن ناظر صاحب امور عامہ کی رپورٹ یہ ہے کہ انہیں تحقیق کے باوجود اس میں صداقت معلوم نہیں ہوئی۔ اسی طرح کہتے ہیں میری پوتی کا دودھ بند کردیا گیا۔ اس کے متعلق ناظر صاحب نے انہیں لکھا کہ آپ بتائیں آپ کے ہاں کون عورت دودھ لایا کرتی تھی تاہم اس سے دریافت کرسکیں کہ اسے دودھ دینے سے کس نے روکا۔ مگر انہوں نے اس عورت کا نام بتانے سے انکار کردیاہے۔ ہاں میر محمد اسحق صاحب نے بیان کیا ہے کہ جو عورت ان کے گھر دودھ دیتی ہے اس سے معلوم ہؤا ہے کہ وہی مصری صاحب کے ہاں دودھ دیتی رہی ہے اور وہ کہتی ہے کہ مجھے کسی نے دودھ دینے سے نہیں روکا بلکہ ایک دوست نے بتایا ہے کہ وہ اب تک انہیں دودھ دیتی ہے۔غیراحمدی ملازمہ کو کام سے روکنا بھی ہماری تحقیق میں بالکل غلط ہے۔ بایں ہمہ میں سمجھتا ہوںاگر یہ ثابت ہوجائے کہ کسی شخص نے غیراحمدی ملازمہ کو ان کے ہاں کام کرنے سے روکا تو میں یقینا اسے سزادوں گا کیونکہ غیراحمدیوں کو روکنے کا ہمیں کوئی حق نہیں مگر اس کیلئے ثبوت چاہئے جو ابھی تک میرے سامنے پیش نہیں ہؤا۔
یہ کہناکہ ’’میرے اوپر چند لونڈے مسلط کئے ہوئے ہیں کہ جدھر میں جائوں وہ سایہ کی طرح میرے پیچھے جائیں‘‘۔ اس کے متعلق دریافت طلب امر یہ ہے کہ ’’مسلط‘‘ کے کیا معنے ہیں۔ کیا وہ ڈنڈے مارتے ہیں یا گالیاں دیتے ہیں یا کہیں جانے نہیں دیتے؟ اگر کچھ بھی نہیں کرتے صرف انہیں دیکھتے ہیں تو دیکھنے پر انہیں کیا اعتراض ہے۔ کیا مصری صاحب انہیں نہیں دیکھتے؟ اگر تو وہ شیخ صاحب کو کہیں جانے سے روکیں تب تو وہ اعتراض کرسکتے ہیں کہ مجھے چلنے پھرنے بھی نہیں دیاجاتا لیکن جبکہ وہ آزاد ہیں، وہ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں تو محض دیکھنے سے انہیں کیوںتکلیف ہوتی ہے۔ مگر اس بارہ میں بھی میں نے امور عامہ کو نصیحت کی ہے کہ کوئی شخص ایسی حرکت نہ کرے جو فی الواقعہ تکلیف کا موجب ہو اور میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ اس بارہ میں زیادہ احتیاط سے کام لیا جائے گا۔
غرض جو لوگ مقرر ہیںوہ اس لئے مقرر نہیں کہ شیخ صاحب کو کوئی تکلیف ہو بلکہ اس لئے مقرر ہیں کہ تا وہ لوگ جو بقول شیخ صاحب اور ان کے ساتھیوں کے ظاہر میں ہمارے ساتھ ہیں اور باطن میں ان کے ساتھ، منافقت کو ترک کرکے ظاہر ہوجائیں اور کُھلے بندوں شیخ صاحب کے ساتھ جاملیں اور ہمیں دھوکے میں نہ رکھیں کہ یہ تقویٰ کے خلاف ہے۔ ہم تو خود ان لوگوں کو ان کی طرف بھیج رہے ہیں پھر نہ معلوم شیخ صاحب اور وہ لوگ کیوں خواہ مخواہ ناراض ہیں۔ آخر فخر الدین ان سے ملتا ہے یا نہیں؟ پھر کیا کبھی ہم نے اس کے ملنے پر اعتراض کیا؟ یا عبدالعزیز ان سے ملتا ہے تو ہم نے کبھی اعتراض کیا؟ اسی طرح اگر کوئی اور ان سے ملنا چاہتا ہے تو وہ بھی آزاد ہے ہم صرف اسے کہہ دیں گے کہ اب ہمارے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں تم انہی کے پاس رہو۔
وہ کہتے ہیں کہ ۴ جولائی کو پندرہ سولہ نوجوان جن کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور ہاکیاں تھیں ان کے مکان کی ناکہ بندی کرنے کیلئے آموجود ہوئے۔ ان میں سے چند ایک اس مکان میں جو ان کے مکان کے قریب جانبِ شمال نیا بنا ہے، چلے گئے اور اس کے ایک حصہ پر چڑھ کر جہاں سے ان کے مکان کی بے پردگی ہوسکتی ہے دُوربین کے ساتھ مکان کے کمروں پر نظر ڈالنے لگ گئے۔ اس کے متعلق تحقیقات کرکے ناظر صاحب امور عامہ نے یہ رپورٹ کی ہے کہ اُس دن صرف چار طالب علم مقرر تھے اور ان کے نام یہ ہیں۔ عبدالرشید، عبدالشکور ، محمد حنیف، ناصر احمد ۔ میں نے نام اس لئے لے دیئے ہیں کہ اگر کسی دوست کو شبہ ہو تو وہ ان لڑکوں سے حالات دریافت کرکے حقیقت معلوم کرلے۔
پھر یہ کہنا کہ پندرہ سولہ نوجوان مسلح ہوکر وہاں گئے کیسا خلافِ واقعہ بیان ہے۔ باقی رہا یہ کہ ان کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور ہاکیاںتھیں سو یہ کوئی قابلِ اعتراض امر نہیں۔ میں نے آج لاٹھیاں رکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ میں ۱۹۲۷ء سے لوگوں سے کہہ رہا ہوں کہ وہ اپنے ہاتھوں میں لاٹھی رکھا کریں۔ پس لاٹھی رکھنا ہرگز مسلح ہونے کی کوئی علامت نہیں اور اگر لاٹھی رکھنا مسلح ہونا ہے تو بالکل ممکن ہے کل میں سوٹی لے کر اس طرف سیر کو نکلوں تو وہ کہہ دیں یہ مسلح ہوکر مجھ پر حملہ کرنے کیلئے آئے ہیں۔ اس طرح تو کل اگر ہم میں سے کوئی جُوتی پہنے پھر رہا ہوگا تو کہہ دیں گے یہ ہمیں جُوتیاں مارنے آئے ہیں۔ پھر اگر کسی دن ہمارے نوجوان وہاں سے پگڑیاں باندھے گزریں توکہہ دیں گے کہ یہ پگڑیوں کے کوڑے بنا کر ہمیں ماریں گے یا یہ کہہ دیں گے کہ یہ پگڑیوں کے رسّے بنا کر ہمارے گلوں کو گھونٹ دیں گے۔ بلکہ ممکن ہے اگر کوئی ہم میں سے کوٹ پہن کر اُدھر جانکلے تو وہ یہ شبہ کرنے لگیں کہ یہ کوٹ اس نے اس لئے پہنا ہے تا اسے مروڑ کر کوڑا بنائے اور ہمیں مارے۔ اس طرح تو اصل علاج ان کی تکلیف کا یہی ہوسکتا ہے کہ ہمارے آدمی اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں ۔ پس لاٹھی رکھنا ہرگز مسلح ہونا نہیں بلکہ ہماری جماعت میں بھی اور دوسرے لوگوں میں بھی اس کا عام رواج ہے اور میں نے یہ اعلان کیا ہؤا ہے کہ جماعت کے مخلص احباب کوشش کریں کہ وہ اپنے ہاتھ میں لاٹھی رکھا کریں۔ مسلح ہونے کے معنے تو یہ ہیں کہ ان کے ہاتھ میں تلواریں ہوتیں یا بندوقیں اُٹھائے ہوئے ہوتے تب ہم بیشک کہہ سکتے کہ وہ مسلح تھے لیکن ہاتھ میں سوٹی ہونا تو مسلح ہونے کی کوئی علامت نہیں۔ اور اگر وہ محض کسی کے ہاتھ میں سونٹا دیکھ کر اتنی جلدی بدظنی پر اُتر سکتے ہیں تو ممکن ہے کل اگر کوئی شخص کلہاڑی لے کر صبح مسواک کاٹنے کیلئے کسی سڑک پر سے نکلے تو وہ یہ شور مچانے لگ جائیں کہ یہ شخص مجھ پر حملہ کرنے کی نیت سے گھر سے نکلا ہے۔ اگر اسی طرح بدظنی کا سلسلہ دراز کیا جائے تو دنیا پاگل ہوجائے ۔ اور یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے تاریخوں میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دفعہ مدینہ میں بعض کفار آئے۔ انہوں نے دھوکا و فریب سے کام لیتے ہوئے آپ سے کہا کہ ہماری ساری قوم اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ آپ ہمارے ساتھ چند آدمی بھیج دیں جو ہمیں اسلام سکھائیں۔ آپ نے چند صحابہؓ ان کے ہمراہ بھیج دیئے۔ جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو ان کفار نے اور بہت سے کفار اپنے ساتھ شامل کرکے ان کا محاصرہ کرلیا اورلڑائی شروع کردی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ سوائے دو کے باقی تمام صحابہؓ شہید ہوگئے۔۵؎ پھر ان دونوں کو وہ مکہ میں لے گئے اور قریش نے گرفتار کرنے والوں کو انعام دے کر انہی کو قید کرلیا۔ اسلام میں چونکہ زیر ناف بالوں کی صفائی کاحکم ہے اس لئے ان میں سے ایک صحابی نے ایک دن کسی سے اُسترا مانگا۔ ابھی اُسترا ان کے ہاتھ میںہی تھا کہ گھر والوں کا بچہ کھیلتا ہؤا ان کے پاس چلا گیا۔ انہوں نے پیار سے اسے اپنے زانو پر بٹھالیا۔ بچے کی ماں نے جب یہ دیکھا کہ اس صحابہ کے ایک ہاتھ میں اُسترا ہے اور زانو پر ہی بچہ بٹھایا ہؤا ہے تو وہ چیخیں مارکر کہنے لگی خدا کے واسطے میرے بچہ پر رحم کرو اور اسے قتل نہ کرو۔۶؎ حالانکہ انہوں نے استرا صفائی کیلئے لیا تھا۔ قتل کرنے کیلئے نہیں لیا تھا۔ تو اس قسم کی بدظنیاں اگر انسان کرے تو ان کی کوئی حد ہی نہیں ہوسکتی۔
باقی رہا یہ کہ ان کا گھر دُوربین سے دیکھا گیا اس بارہ میں امور عامہ کی رپورٹ یہ ہے کہ جس مکان اور جس جگہ سے دیکھنے کا الزام ہے وہ درست نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہرہ دار لڑکوں میں سے ایک اپنے گھر سے دُور بین لایاہؤا تھا مگر وہ بند تھی اُس نے کھولی نہیں اور ان کے گھر کے اندر جہاں سے نظر پڑسکتی ہے وہ اس مکان کی ایک دیوار ہے جس پرکسی لڑکے کا چڑھنا ثابت نہیں ہؤا۔ ہاں امور عامہ کی تحقیق یہ ہے کہ قاضی عبدالمجید صاحب امرتسری کے مکان سے بعض دفعہ دُوربین سے دیکھا گیا ہے لیکن اس مکان کے سامنے مصری صاحب کا زنانہ حصہ نہیں بلکہ مردانہ برآمدہ ہے اور اس جگہ کے لوگ ہر چلنے پھرنے والے کو نظر آتے ہیں۔ چونکہ قاضی صاحب کا مکان فاصلہ پر ہے اس لئے شکل پہچاننے کیلئے اس مردانہ حصہ کو بعض لوگوں نے دُوربین سے دیکھا ہے۔ اب جو دُور بین کو جانتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ جو چیز بغیر دُوربین کے دیکھنی جائز ہو ، دور بین سے اس کا دیکھنا اسے کوئی ناجائز شکل نہیں دے دیتا۔ پس یہ کہنا کہ بڑا غضب ہوگیا دُوربین سے مکان دیکھ لیا بیوقوفی ہے۔ ہاں اگر زنانہ میں نظر پڑے تو یہ یقینا بُرا فعل ہوگا اور اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کسی نے اس طرح کیا ہے تو میں اسے یقینا سزا دوں گا ۔ مگر جیسا کہ میں بتاچکا ہوں امور عامہ کی رپورٹ کے مطابق دُور بین سے گھر میں نہیں دیکھا گیابلکہ مردانہ حصہ جو برلبِ سڑک ہے دیکھا گیا۔
یاد رکھنا چاہئے کہ مصری صاحب سے سلوک کے متعلق اعلان میری اجازت بلکہ ہدایت کے ماتحت عمل میں لایا گیا ہے۔ اسی طرح ان کے گھر کے اِردگِرد جو آدمی مقرر کئے گئے ہیں وہ مجھ سے اجازت لے کر مقرر کئے گئے ہیں۔ پس ان دونوں امور کی ذمہ داری اِس حد تک مجھ پر ہے جس حد تک میں نے ان کا حکم دیا ہے یا ان کی اجازت دی ہے۔ ہاں عملی تفصیلات امور عامہ اپنے طور پر طے کرتاہے۔ سَودا سَلف کے معاملہ میں میری ہدایت یہ تھی کہ جو ضروریاتِ زندگی سکھوں، ہندوئوں اور غیراحمدی دکانداروں سے میسر آسکتی ہوں ، وہ احمدی دُکان داروں کی طرف سے نہ دی جائیں لیکن جو ان سے نہ مل سکتی ہوں وہ ضرور دی جائیں۔ اصل بات یہ ہے کہ گزشتہ احراری فسادات کے تجربہ سے یہ امر ظاہر ہے کہ احمدیوں سے سَودا خریدنے میں ہمارے مخالفین کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ وہ ان سے سَودا خریدیں بلکہ وہ کمزور طبع دُکانداروں کو اپنے ساتھ ملاتے اور ان کے ذریعہ اپنے تعلقات دوسرے منافق طبع لوگوں سے قائم کرتے ہیں اور اس لحاظ سے ہمارا فرض ہے کہ جن دکانداروں کے متعلق ہمیں شبہ ہو کہ وہ ان کے دلال بن سکتے ہیں ان دکانداروںکو نگرانی میں رکھیں۔ یوں ان پر کوئی جبر نہیں کرتا وہ دکاندار اگر چاہیں تو الگ ہوسکتے ہیں پھر وہ کسی قاعدہ کے پابند نہ ہوں گے۔ پس جماعت نے ایسا ہی انتظام کیا ہے اور حکم دے دیا ہے کہ اگر کوئی ایسی چیز جو ہندوئوں ، سکھوں اور غیراحمدیوں سے نہ مل سکتی ہو انہیں احمدی دکانداروں سے خریدنی پڑے تو احمدی دکاندار محکمہ کی اجازت سے انہیں سَودا دیں تا ایسے لوگوں سے وہ نہ مل سکیں جو ہمارے اندر رہ کر ہم سے دشمنی کرتے ہیں۔ اگر وہ ہمارے اندر سے نکل جائیں تو ہمیں ان کے متعلق کوئی شکوہ نہیں ہوگا لیکن جب وہ ہمارے اندر رہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی تدابیر کو ناکام کریں اور فتنہ کو جس حد تک روک سکتے ہیں روکیں۔ اور چونکہ احمدی دکانداروں سے سودا خریدنے میں ان کی یہی غرض مخفی تھی جو میں نے بیان کی ہے اور وہ ہمارے انتظام کے ماتحت پوری نہ ہوسکی اس لئے انہوں نے یہ شور مچادیا کہ احمدی دکانداروں کو سَودا دینے سے روکا جاتا ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ پھر یہ بھی تو سوچو کہ جو لوگ اتنی بدظنی کرسکتے ہیں کہ بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے یہ کہتے جاتے ہیں کہ فلاں نے یہ ظلم کیا اور فلاں نے یہ۔ ان سے یہ کوئی تعجب کی بات ہے کہ وہ کسی احمدی دکاندار سے دودھ لے جائیں اور اتفاقاً اس دن ان کے کسی بچہ کو ذرا سا قراقر ۷؎ ہوجائے تو وہ یہ شورمچادیں کہ دودھ میں زہر ملا کردیا گیا ہے۔ یا کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی احمدی دُکاندار سے مٹھائی لے جائیں اور اتفاقاً اُسی دن ان کے پیٹ میں بھی درد ہو تو وہ یہ شور مچانا شروع کردیں کہ ہمیں مٹھائی میں زہر ملا کر دیا گیا ہے۔ پس چونکہ وہ بدظنی میں حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں اس لئے جھگڑے سے بچنے کیلئے خود ان کیلئے یہ بہتر طریق تھا کہ وہ علیحدہ رہتے اور غیروں کی دُکانوں سے سَودامنگواتے تا انہیں کسی قسم کا شکوہ پیدا نہ ہوتا مگر جب ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اب بھی باوجود یکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہؤا یہ کہتے ہیں کہ میرے خلاف جماعت کو بھڑکادیا گیا ہے اور مجھے خطرہ ہے کہ میری جان و مال پر کسی وقت حملہ ہوجائے تو ان حالات میں ان کا احمدی دکانداروں سے ہی سَودا خریدنے پر اصرار کرنا جماعت کو بعض الزامات کے نیچے لاناہے۔ چنانچہ وہ اپنے اس خط میں جو ناظر صاحب امور عامہ کے جواب میں انہوں نے لکھا تحریر کرتے ہیں ’’پہرہ داروں پر مجھے کوئی رنج نہیں ان کو ملزم گرداننا غلطی ہے وہ تو ان کاموں کو کارِ ثواب سمجھ کر کررہے ہیں۔ عوام کو مذہب کی آڑ میں بھڑکانے والا ان تمام افعال کا ذمہ دار ہوتا ہے جو عوام اس کے بھڑکنے کے نتیجہ میں مشتعل ہوکر کرتے ہیں ان کے لیڈر جس فعل کو مذہبی فعل قرار دے دیں اس فعل کو وہ عین ثواب اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیتے ہیں۔ دوسرے لوگوں پر مخفی ہو تو ہو لیکن ایک ناظر پر تو یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی‘‘۔ ان الفاظ میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میرے خلاف مذہب کی آڑ میں جماعت کو بھڑکا دیا گیا ہے اور اگر اس سے مشتعل ہوکر کسی نے مجھ پر حملہ کردیا تو اس کی ذمہ داری اسی پر ہوگی جو عوام کے جذبات کو بھڑکارہا ہے۔
پس جب اس قدر وہ جماعت احمدیہ کے افراد سے بدظن ہوچکے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ افرادِ جماعت سے ان کی جان محفوظ نہیں تو اگر ہماری طرف سے یہ اجازت ہوجائے کہ احمدی دکاندار انہیں سودا دے دیا کریں تو کیا وہ الزامات نہیں لگاسکتے کہ مجھے دودھ میں زہر ملا کر دیا گیاہے، مٹھائی میں سنکھیا ڈال دیا گیا ہے اور آٹے میں زہر ملادیا گیا ہے تاکہ اس کے کھانے سے میں ہلاک ہوجائوں۔ یہ وہ نتیجہ نہیں جو فرضی ہو بلکہ ان کے خط سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’آخر میں یہ بات بھی مَیں کھول کر بتادینا چاہتا ہوں کہ جو کارروائیاں آپ میرے خلاف کررہے ہیں ان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شاید کسی دن میرے یا میرے اہل و عیال کی جان و مال پر حملہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہؤا تو اس کی ذمہ داری خود خلیفہ صاحب اور ان کے کارکنوں پر ہوگی کیونکہ عوام کے اندر جو نفرت اور اشتعال میرے خلاف میری طرف بے بنیاد اور غلط باتیں منسوب کرکے پید اکیا جارہا ہے، اس کے اصل محرک یا بانی یہی وجود ہیں۔ پس اگر خود خلیفہ صاحب کی طرف سے اس بارہ میں مجھے تسلی نہ دلائی گئی تو میں مجبور ہوں گا کہ گزشتہ تمام واقعات کو حکام کے سامنے رکھ کر ان سے اپنی جان و مال کی حفاظت کا مطالبہ کروں اور ان کے علم میں لے آئوں کہ اگر مجھے یا میرے اہل و عیال کو کوئی جانی یا مالی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ داری جناب خلیفہ صاحب اور ان کے کارکنوں پر ہوگی‘‘۔
اس خط سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے ذہن میں آئندہ ایسے الزام لگانے کی تیاری کررہے ہیں کیونکہ قادیان کے تمام لوگ جانتے ہیں کہ انہیں یہاں کوئی تکلیف نہیں اور وہ آزادی سے اکیلے گلیوں میں چلتے پھرتے ہیں بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے تک آزادی سے پھرتے ہیں۔ پس جب حالات یہ ہوں تو کیا یہ احتیاط کرنا ہمارے لئے ضروری نہیں کہ جب سَودا انہیں دوسرے دکانداروں سے مل سکتا ہے ہم احمدی دکانداروں کو اس مصیبت میں پڑنے سے بچائیں اور جماعت کو الزام سے بچانے کی کوش کریں۔ اور کیا ہم یہ شک نہ کریں کہ وہ احمدی دکانداروں سے سَودا خریدنے پر اس لئے اصرار کرتے ہیں تا کوئی الزام لگا کر فساد کھڑا کریں اور جماعت کو مشکلات میں ڈالیں۔
پھر خط میں صاف طو رپرلکھا ہے کہ خواہ جماعت کے کسی فرد کی طرف سے کوئی حرکت سرزد ہوئی اس کا ذمہ وار خلیفہ ہوگا۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ آٹا تو انہیں چوہدری حاکم دین دے لیکن اگر اس آٹے کے کھانے سے انہیں پیٹ درد ہوجائے یا اسہال آجائیں تو اس کی ذمہ واری خلیفہ پر ہو۔ کیا اس قسم کی دماغی حالت کو دیکھتے ہوئے میرا فرض نہیں تھا کہ میں اپنی عزت کی حفاظت اور بچائو کیلئے کہہ دوں کہ کوئی احمدی دکاندار انہیں سَودا نہ دے تا ایسا نہ ہو کہ کل وہ مجھ پر کوئی الزام لگادیں اور انہیں شور مچانے کا موقع مل جائے۔ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ حالات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ’’شاید کسی دن میرے یا میرے اہل و عیال کی جان و مال پر حملہ ہوجائے‘‘ اور پھر صاف طور پر لکھتے ہیں کہ جب ایسا حملہ ہؤا تو اس کا ذمہ وار وہ شخص نہیں ہوگا جس نے حملہ کیا بلکہ خلیفہ ہوگا۔ جس شخص کا دماغ اپنی جگہ سے اس قدر ہل چکا ہو کیا وہ کل کو نہیں کہہ سکتا کہ مجھے زہر دیا گیا ہے، مجھے آٹے میں اور مٹھائی میں اور گھی میں اور دودھ میں سنکھیا ملا کر دیا گیاہے۔ جب وہ کہتے ہیںکہ عوام میرے خلاف اتنے بھڑک چکے ہیں کہ اب میری جان اور میرا مال ان سے محفوظ نہیں تو کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ان حالات میں وہ انہی لوگوں سے سَودا خریدنے کی کوشش کریں گے جن سے انہیں خوف ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ ان سے سودا خریدنے کی کوشش کریںتو یا تو ان کی نیت فساد کی ہوگی یا ثابت ہو گا کہ وہ الزام افترا کے طور پر لگاتے ہیں اور جان بوجھ کر لگاتے ہیں۔پس اگر ان کا الزام درست ہے تو اس صورت میں تو انہیں احمدیوں سے دُور بھاگنا چاہئے۔
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمیں مصری صاحب وغیرہ سے قطع تعلق کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ جماعت کے لوگ جانتے ہیں کہ جب ہم کسی شخص کو جماعت سے خارج کرتے ہیںتو ہر ایک سے قطع تعلق نہیںکرتے بلکہ بعض باوجود اس کے کہ ہماری جماعت سے خارج ہو چکے ہوتے ہیں لوگ ان سے ملتے رہتے ہیں لیکن بعض سے ہم بالکل قطع تعلق کر لیتے ہیںاور بعض سے ایک حد تک قطع تعلق کرتے ہیں۔قادیان سے باہر جو لوگ جماعت سے خارج کئے جاتے ہیں ان سے بِالعموم ملنا جُلنا منع ہوتاہے۔ مگر قادیان میں ہی بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو جماعت سے خارج ہیں مگر لوگ ان سے ملتے ہیں۔ تو یہ جو مقاطعہ کیا جاتا ہے اور لوگوں کو ملنے سے روکا جاتا ہے یہ ایسے ہی مقامات پر کیا جاتا ہے جہاں یہ ثابت ہو جائے کہ اس شخص نے جماعت کے خلاف خفیہ کارروائیاں کیں۔پس جو لوگ خفیہ کارروائیاں کرتے ہیں اور ان کے کاموں میں سازش کا دخل ہوتا ہے ان سے قطع تعلق کا حکم دیا جاتا ہے ۔ لیکن وہ شخص جس کا فعل انفرادی حیثیت رکھتا ہو اُس کے متعلق سلسلہ کبھی ایسا حکم نہیںدیتا۔ غرض قطع تعلق کا اعلان انہی لوگوں کے متعلق کیاجاتا ہے جن کے فعل میں سازش پائی جاتی ہواور یہ ثابت ہو کہ وہ خفیہ طور پر لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر جماعت میں فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جیسے ۱۹۲۴ء میں بعض لوگوں کے بہائی ہونے پر ہم نے ان کے ساتھ تعلقات قطع کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ ان کے متعلق یہ ثابت ہو گیا تھا کہ وہ ظاہر میں ہمارے ہم خیال تھے مگر اندر اندر لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے تھے۔ چنانچہ دو تین آدمی انہوں نے اپنے ساتھ ملا بھی لئے تھے۔ اسی طرح ہماری اور سزائوں میں بھی فرق ہے۔ مثلاً بعض کو جماعت سے خارج نہیںکیا جاتا صرف اُن سے مقاطعہ کا حکم دیا جاتا ہے جیسے درد صاحب جب لندن گئے اور اُس موقع پر بعض لڑکوں نے خلافِ شریعت حرکات کیں تو اُن سے بولنا منع کر دیاگیا تھا مگر انہیں جماعت سے خارج نہیں کیاگیا اور اس قسم کا مقاطعہ قرآن کریم سے بھی ثابت ہے۔چنانچہ وہ لوگ جن کا وَ عَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا۸؎ میںذکر کیا گیاہے ان سے بولنا رسول کریم ﷺ نے منع کر دیا تھا۔ غرض نہ بولنے کی سزا اخراج ازجماعت سے لازم ملزوم نہیں۔ یہ اُسی وقت سزا دی جاتی ہے جب اختلاف کی تہہ میں خفیہ سازشیں کام کر رہی ہوں۔ اب مصری صاحب نے مجھے جو خطوط لکھے ہیں ان میں صاف طور پر اقرار کیا ہے کہ وہ لوگوں سے مل مل کر میرے خلاف مواد جمع کرتے رہے ہیں اور کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ کیس فخر دین کے متعلق چلایاجاتا ہے اور نوٹس مصر ی صاحب دے کر بیعت سے الگ ہو جاتے ہیں۔ ادھر مصری صاحب الگ ہوتے ہیں تو حکیم عبدالعزیز کہتا ہے میری بیعت بھی فسخ سمجھیں۔ صاف پتہ لگتا ہے کہ اندر ہی اندر کوئی سازش تھی جس کی وجہ سے جب ایک شخص جماعت سے الگ ہؤا تو دوسروں نے بھی الگ ہونا ضروری سمجھا۔ پھر کیا وہ باتیں جن کی وجہ سے وہ ایک عرصہ سے میرے پیچھے نماز بھی نہیں پڑتے تھے انہیںاُسی وقت معلوم ہوئیں جب میاں فخر دین ملتانی جماعت سے الگ ہوئے۔ اگر نہیں بلکہ وہ باتیں پہلے بھی انہیںمعلوم تھیں تو سوال یہ ہے کہ وہ ان کے نکلنے تک خاموش کیوں رہے اور کیوں جب تک میاں فخر دین ملتانی جماعت سے خارج نہیں ہوئے انہوں نے ان خیالات کا اظہار نہیں کیا۔ اس سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں میں اندر ہی اندر کوئی معاہدہ تھا اور جب ان میں سے ایک شخص جماعت سے نکل گیا تودوسروں نے سمجھا اب اگر ہم بھی بیعت سے الگ نہ ہونگے تو یہ غداری ہوگی۔ اگر انہیں کوئی ایسی ہی باتیں معلوم تھیں جن کی وجہ سے ان کے لئے ضروری تھا کہ وہ بیعت کا عہد فسخ کردیتے تو اس سے بہت پہلے وہ اپنے عہد کو فسخ کر چکتے لیکن ان تینوں کا ایک ہی موقع پر ظاہر ہونا بتاتاہے کہ اندر ہی اندر ان تینوں میں کوئی کھچڑی پک رہی تھی۔ جب اس حد تک انہوں نے سازشیں کیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مرنے جینے کا اقرار کر لیا اور جماعت کو تفرقہ میں ڈال دینا چاہاتو ہمارا حق تھا کہ ان کے جماعت سے الگ ہونے کا اعلان کر کے جماعت کے لوگوں کو ان سے ملنے کی ممانعت کر دیتے تاوہ اپنا زہر نہ پھیلا سکیں اور تا اگر ان کا کوئی اور ہم خیال ابھی ہم میںموجود ہو تو وہ ظاہر ہو جائے اور اسے بھی ہم اپنے اندر سے نکال کر ان کے ساتھ شامل کر دیں۔
مجھے افسوس ہے کہ مصری صاحب کا طریق بالکل مستریوں کے طریق سے مِلتا جُلتا ہے۔ انہوں نے بھی مفروضہ مظالم کا شور مچا دیا تھا اور پھر ثبوت پیش کرنے سے انکار کر دیاتھا اور کہا تھا کہ اس کی ذمہ داری کسی اور پر نہیںصرف خلیفہ پر ہے۔ یہ بھی شور مچا رہے ہیں کہ ہم پر ظلم ہو رہا ہے مگر بتاتے نہیں کہ ان پر کون ظلم کر رہاہے۔ہاں اتنا ضرور کہے جاتے ہیں کہ یہ سب ظلم خلیفہ کرا رہا ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں آئو ہم ان امور کی جنہیں تم مظالم کہتے ہو تحقیق کریں مگر وہ اس کیلئے بھی تیار نہیں ہوتے۔ نہ یہ بتاتے ہیں کہ کس نے ان کے مزدوروں کو روکا ، نہ یہ بتاتے ہیں کہ کس نے سودا دینے سے انکار کیا۔ ہاں کہتے ہیں ہم اتنا بتائے دیتے ہیں کہ یہ سب ظلم خلیفہ کروا رہاہے جس سے ان کا منشاء یہ ہے کہ جماعت کے جو منافقین ہیںوہ یہ سن کر شور مچا دیں کہ ہاں واقعی بڑا ظلم ہورہا ہے۔ حالانکہ اگر ان کا منشاء یہ تھا کہ ان کی شکایات دور ہوں تو انہیںچاہئے تھا کہ ہمیںوہ لوگ بتاتے جن سے انہیںشکوہ پیدا ہؤا مگر جب وہ بتاتے ہی نہیں تو اصلاح کس طرح ہو۔
ابھی تھوڑے دن ہوئے میرے پاس ایک غیر احمدی دوست تشریف لائے اور کہنے لگے آپ ان کی شکایات کا ازالہ کیوں نہیں کرتے؟ میں نے کہا میں نے تو نظارت امور عامہ کو ہدایت کی تھی کہ ان سے دریافت کرے کہ کس نے انہیں تکالیف پہنچائیں اور اس نے انہیں چِٹّھی بھی لکھی مگر انہوں نے بتانے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ کہنے لگے پھر کیا ہؤا، آپ خود پتہ لگا لیں کہ کس کس نے انہیں سَودا دینے یا دودھ دینے سے انکار کیاہے۔ میں نے کہا آپ ذرا سوچیںمجھے کیامعلوم ہے کہ مصری صاحب کے ہاں کونسی عورت دودھ دینے جایا کرتی ہے۔ کیا مجھے روزانہ اطلاع ملا کرتی ہے کہ آج انہوں نے مائی عمراں سے سیر بھر دودھ لیا اور کل کسی مائی گھسیٹی سے ۔ ان باتوں کا ہمیںکیا پتہ لگ سکتا ہے جب تک وہ خود ہی نہ بتائیں کہ انہیں کونسی عورت دودھ دیاکرتی تھی تا کہ ہم اس سے دریافت کر سکیں کہ اسے کس نے روکا۔ اب قادیان میں دس ہزار آبادی ہے اور مجھے کوئی علم نہیں ہو سکتا کہ ہر شخص دودھ کس سے لیتا ہے، گوشت کہاں سے خریدتا ہے اور سبزی کس سے لیتا ہے۔ کیا آپ کا یہ مطلب ہے کہ جس دن مجھے رپورٹ ملے کہ مصری ـصاحب کے ہاں آج دودھ نہیںپہنچا اُس دن میں ڈھنڈورا پِٹوانا شروع کر دوں کہ مصری صاحب کے ہاں کونسی عورت دودھ دینے جایا کرتی تھی ۔ اور جب مجھے معلوم ہوکہ فلاں عورت تھی تو اس سے وجہ دریافت کروں کہ وہ آج کیوں نہیں گئی۔ یہ سن کر وہ کہنے لگے بیشک ان باتوں کے بتانے کی ذمہ داری تو خود مصری صاحب پر عائد ہوتی ہے۔ میں نے کہا یہی بات ہم پیش کر رہے ہیں کہ اگر شکایات کو انہوں نے نیک نیتی سے پیش کیا تھا تو ان کا فرض تھا کہ وہ بتاتے ہمارے ہاں فلاں فلاں عورت دودھ دے جایا کرتی تھی مگر اُسے اب فلاں نے روک دیاہے۔مگر وہ یہ باتیں تو بتاتے نہیں اور یونہی کہتے پھرتے ہیں کہ میری پوتی کا دودھ بند کر دیا گیا۔ ہمیںکیا معلوم کہ ان کی پوتی کو کون عورت دودھ دیا کرتی تھی۔ ہمسائیوں کو پھر بھی بعض باتیں معلوم ہوسکتی ہیں مگر وہ بھی ہر بات کا علم نہیں رکھ سکتے۔ مثلاً آج ہی جو چیزیں میں نے دکان سے منگوائی ہیں ان کی اگر لسٹ سنائوں تو دکاندار تو بتاسکتے ہیں کہ فلاں فلاں چیز ان کے ہاں سے آئی لیکن جو چیزیں عورتیں گھروں میں لاتی ہیں ان کا کسی کو کیا پتہ ہوسکتا ہے۔ اب اگر کوئی عورت ہمارے گھر میں کدّو دے گئی ہو اورمیں دریافت کروں بتاؤ ہمارے ہاں کون عورت کدو دے گئی ہے اور وہ ننگل کی تھی یا بھینی کی تو کیا آپ لوگ جو اِس وقت جمعہ کے لئے جمع ہیں اِس کا جواب دے سکیں گے؟ یہ تو میرے گھر کے لوگوں کا کام ہوگا کہ وہ بتائیں کہ فلاں عورت آج کدو دے گئی ہے۔ اسی طرح یہ مصری صاحب کا کام ہے کہ وہ بتائیں کہ کس سے دودھ لیا کرتے تھے تا اس سے دریافت کرکے ان کی شکایت کی حقیقت معلوم کی جاسکے۔ مگر جب وہ بتاتے ہی نہیں اور شور مچائے جاتے ہیں تو ہر شخص بآسانی اندازہ لگاسکتا ہے کہ اس شور مچانے سے ان کی کیا غرض ہے۔ خیر میری یہ باتیں اس دوست کی سمجھ میں آگئیں اور انہوں نے تسلیم کیا کہ واقعہ میں یہ محض لوگوں کو اشتعال دلانے کیلئے کارروائی کی جارہی ہے، نیک نیتی پر مبنی نہیں۔ بعینہٖ یہی طریق مستریوں کا تھا وہ بھی شور مچاتے کہ ہم پر ظلم کیا جارہا ہے مگر جب دریافت کیا جاتا کہ کون کررہا ہے تو کہتے یہ تونہیں بتاسکتے، ہاں اس کی ذمہ واری خلیفہ پر ہے۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ رات کے وقت میاں عبدالوہاب صاحب عمر میرے پاس آئے اور کہنے لگے محمد امین خان اور زاہد کی لڑائی ہوگئی ہے اور زاہد کو مارا ہے۔ میں نے اُسی وقت زاہد کی طرف آدمی دوڑایا اور کہا کہ اسے میرے پاس بُلا لاؤ تا میں اس سے لڑائی کا حال دریافت کروں۔ جب وہ آدمی اسے بلانے کیلئے گیا تو اس نے بتایا کہ فضل کریم، عبدالکریم اور زاہد تینوں گھر میں بیٹھے تھے۔ میں نے جب کہا کہ حضرت صاحب آپ کو بُلاتے ہیں تا تحقیق کی جائے اور جس کا قصور ثابت ہو اُسے سزا دی جائے تو وہ کہنے لگے جائو جائو ہم تحقیقات نہیں کراتے۔ ہمیں پتہ ہے کہ کس حرامزادے نے یہ کام کیا ہے۔ آپ ہی کام کراتے ہیں اور آپ ہی اس کی تحقیق کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہی جواب ہے جو مصری صاحب نے ہمیں دیا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اِنہوں نے حرامزادے کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ چنانچہ لکھتے ہیں ’’آپ لوگوں پر اس تحریر کے ذریعہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کو گویا ان مظالم کا علم ہی نہیں جو مجھ پر آپ لوگوں کی طرف سے کئے جارہے ہیں اور گویا آپ تھرڈ پرسن (Third Person) ہیں۔ مظالم کرنے والا کوئی اور ہے۔ اگر آپ بُرا نہ مانیں تو میں مؤمنانہ صداقت سے کام لیتا ہؤا یہ عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ جو مظالم مجھ پر کئے جارہے ہیں یا آئندہ کئے جائیں گے، ان سب کی ذمہ داری خود خلیفہ صاحب اور ان کے رفقاء کار پر ہے‘‘۔
پھر لکھتے ہیں ۔
’’چونکہ میرے نزدیک میرے گھر کا دودھ بند کرانے والے، میرے مزدوروں کو رُکوانے والے، میرے گھر کی بے پردگی کرانے والے، میرے گھر کی بھنگن کو بند کرانے والے،دکانداروں کو مجھے اور میرے بچوں کو سَودا دینے سے منع کرنے والے، میرے مکان کی ناکہ بندی کرانے والے، مجھے ذلیل کرانے کی کوشش کرنے والے، میرے ساتھ میرے دوستوں، عزیزوں کو ملنے سے روکنے والے درحقیقت خود خلیفہ صاحب اور ان کے ناظر صاحبان ہیں اس لئے میں ان کی تحقیق سے مطمئن نہیں ہوسکتا اور نہ موجودہ حالات میں مجھے ان سے کسی انصاف کی توقع ہے اور نہ ملزم کو جج بنایا جاسکتا ہے۔ میں اپنے دلائل یا اُس آزاد کمیشن کے سامنے رکھوں گا جو جماعت کی طرف سے مقرر ہو یا اگر جماعت نے توجہ نہ کی تو حکام کے سامنے رکھوں گا‘‘۔
میں اس کے جواب میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہہ سکتاجو ایسے ہی تلخ موقعوں پر کہا جاتا ہے کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ مصری صاحب بھی اگر ہمت رکھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ قسم کھاکر کہہ دیں کہ یہ تمام مظالم جن کے متعلق ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ان پر ہوئے میری ہی انگیخت اور علم سے ہوئے ہیں اور یہ کہ اگر وہ اس بات میں جھوٹے ہوں تو لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کی وعید کے مورد بنیں پھر اللہ تعالیٰ خودبخود فیصلہ کردے گا کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ بول کر حق کو چھپارہا ہے۔
میں جیسا کہ بتاچکا ہوں ہم نے ان سے کہا کہ وہ ان لوگوں کے نام بتائیں جن کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مظالم کئے مگر وہ ان کے نام تک بتانے کیلئے تیار نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس پردہ داری سے ان کی غرض کیا ہے۔ اگر وہ سچے تھے تو ان لوگوں کے نام لے دیتے اس صورت میں بہت حد تک یہ معاملہ صاف ہوجاتا۔ مثلاً اگر وہ کہہ دیتے کہ میاں محمد یوسف صاحب شیر فروش نے دودھ دینے سے انکار کردیا تھا تو ہم ان سے دریافت کرتے اور اگر وہ انکار کردیتے اور کہتے کہ میں نے ہرگز دودھ دینے سے انکار نہیں کیا تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ڈر کر اس نے جھوٹ بول دیا ۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہوجاتا کہ اس کے بعد میاں محمد یوسف صاحب سے دوسرا آدمی ملتا، پھر تیسرا ملتا پھر چوتھا اورجب ہر ایک کے سامنے وہ یہی بیان دیتے کہ مجھے کسی نے نہیں روکا تو معلوم ہوجاتا کہ مصری صاحب جھوٹ بول رہے ہیں۔ اور اگر کسی کے پاس کہہ دیتے کہ اصل میں تو مجھے روکا گیا تھا لیکن میں نے ڈر کے مارے یہ بات نہیں کی تو لوگ سمجھ جاتے کہ ناظر صاحب امور عامہ نے اپنے اعلان میں جھوٹ سے کام لیا۔ پس یقینا اگر شیخ صاحب لوگوں کے نام بتادیتے تو انہیں فائدہ ہوتا اور لوگ ان لوگوں سے مل مل کر اور کرید کرید کر حالات دریافت کرکے حقیقت تک پہنچ جاتے ۔ اس صورت میں انہیں لوگوں کے پاس جاکر اپنی شکایات پہنچانے کی ضرورت نہ رہتی خود بخود لوگ شیر فروشوں اور آرد فروشوں ۹؎ سے مل کر دریافت کرلیتے کہ بات کیا ہوئی۔ مگر انہوں نے یہ طریق اختیار نہیں کیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصد محض اشتعال دلانا اور احمدیوں سے سودا لے کر انہیں کسی نہ کسی الزام کے نیچے لانا ہے۔
ابھی چند دن ہوئے میرے علم میں یہ بات لائی گئی کہ میاں فخر دین نے فلاں احمدی قصاب سے گوشت لیا ہے۔ ناظر (امور عامہ) نے اس قصاب سے جواب طلبی کی اور اُسے جرمانہ کیا۔ مجھے جب معلوم ہؤا تو میں نے ناظر صاحب کو روکا اور میں نے کہا جرمانہ جانے دیں، آپ صرف نگرانی کریں۔ باقی اس ہدایت کی لفظی پابندی کا تعہد نہ کریں، حالانکہ یہ جُرمانہ بالکل جائز تھا کیونکہ جب غیر احمدی قصاب موجود ہیں اور وہ اس سے گوشت خریدسکتا ہے تو احمدی قصاب سے گوشت خریدنے کے کیا معنے ہیں۔ اگر غیراحمدی قصاب جھٹکا کرتے تب تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم جھٹکا نہیں کھاسکتے، ہمیں حلال گوشت چاہئے۔ لیکن جب وہ بھی اسی طرح حلال کرتے ہیں جس طرح احمدی، تو پھر کیوں وہ غیراحمدی قصاب سے گوشت نہیں لے سکتے۔ پس چونکہ مصری صاحب ہمیں ان لوگوں کے نام نہیں بتاتے اس لئے ہم یہ کہنے پرمجبور ہیں کہ وہ غلط بیانی کررہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر میں نے کسی کا نام لے دیا تو اس سے دریافت کرنے پر پتہ لگ جائے گا کہ میں نے غلط بیانی کی ہے۔ اس لئے وہ ان کے نام چھپاتے ہیں اور تحقیقات سے بھی اسی لئے گریز کرتے ہیں تا حقیقت نہ کھل جائے اور تا جو کمزور دل لوگ ہیں وہ اس شور سے یہ نتیجہ نکالیں کہ کچھ نہ کچھ ظلم تو ہؤا ہی ہوگا جس کی بناء پر یہ شور مچایا گیا ہے۔ دنیا میں بعض کمزور دل ہوتے ہیں اور ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب بھی کوئی شور مچائے خواہ اُس کا شور کس قدر بے بنیاد باتوں پر مبنی ہو وہ یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ بات تو ضرور ہوئی ہوگی۔ بغیر کسی بنیاد کے بات تونہیں اُٹھائی جاسکتی اور بعض کمزور ایمان ہوتے ہیں وہ بھی اسی رو میں بہہ جاتے اور یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی بات تو ضرور ہوئی ہوگی۔ چنانچہ ایک مولوی صاحب کے متعلق مجھے معلوم ہؤا ہے کہ انہوں نے بھی ایک دوست کے سامنے ذکر کیا کہ شیخ مصری صاحب نے جن مظالم کا ذکر کیا ہے، ان میں کوئی بات تو ضرور ہوگی۔ دراصل جب بھی کوئی شخص کمزور ہو خواہ اس کی کمزوری ایمانی ہو یا جسمانی ، اس کے دل میں ایسے خیالات پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ اور یہی طبائع ہوتی ہیں جو منافقین کا اثر قبول کرلیتی ہیں اور انہی لوگوں کی طبائع کو دیکھ کر وہ جھوٹ بولنے میں دلیر ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جماعت میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو ہمارے شور مچانے کو ضرور کسی نہ کسی حقیقت پر محمول کریں گے اور کسی حد تک ہمارے پروپیگنڈا سے متأثر ہوجائیں گے۔
جب لوطؑ کے متعلق لوگوں نے یہ کہا کہ انہوں نے اپنی بیٹیاں زنا کیلئے کفار کے سامنے پیش کردی تھیں، جب نوحؑ کے متعلق لوگوں نے کہاکہ انہوں نے اپنی لڑکیوں سے بدکاری کی، جب حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہماالسلام پر لوگوں نے بُہتان لگائے اور کہا کہ وہ لوگوں کامال کھاتے اور حرام کاری میں مبتلا رہتے ہیں تو انہوں نے ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے یہ باتیں کیں جو اپنی کمزوریٗ طبع کی وجہ سے یہ خیال کرتے تھے کہ دشمن جو بات کہہ رہا ہے اُن کی تہہ میں کچھ نہ کچھ بات ضرور ہوگی اورمیں جانتا ہوں کہ اسی قسم کی کمزور طبائع کو اُکسانے کا وہ ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن بہرحال اگر وہ حق پر تھے تو انہیں چاہئے تھا کہ نام بتاتے لیکن جب وہ نام بتانے کیلئے تیار نہیں تو ہم یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے اور غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ مگر باوجود اس کے کہ مظالم کے متعلق ان کے جس قدر الزامات ہیں وہ بالکل غلط ہیں اور امورعامہ کی تحقیقات کی رو سے بھی درست ثابت نہیں ہوئے لیکن پھر بھی میرا ارادہ ہے کہ جھوٹے کو اس کے گھر تک پہنچانے کیلئے باہر کی جماعتوں سے ایک کمیشن مقرر کروں جو یہ تحقیقات کرے کہ کیا امور عامہ نے جو میرے پاس رپورٹ کی ہے وہ غلط ہے اور کیا فی الواقعہ محکمہ والوں نے ضروریاتِ زندگی کے حصول سے جو دوسری جگہ سے بآسانی میسر نہیں آسکتی تھیں ان لوگوں کومحروم کرنے کی کوشش کی ہے؟ یا اور کسی طرح کوئی ناواجب دکھ دیا ہے یا واقعہ میں ان کے غیراحمدی مزدوروں کو کام کرنے سے منع کیاگیا اور کیا واقعہ میں دُوربین سے ان کے مکان کے زنانہ حصہ کو دیکھا گیا؟ مگر اس موقع پر میں جماعت کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سچائی کو اختیار کرے اور جھوٹ بول کر اپنے ایمان کو تباہ نہ کرے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت طبائع میں اشتعال ہے مگر یاد رکھو اشتعال کی حالت میں بھی کبھی کوئی ایسا کام نہ کرو جو تقویٰ کے خلاف ہو۔
میں ایسے شخص کو ہرگز احمدی نہیں سمجھ سکتا جو یہ کہتا ہو کہ یہ جماعت بِگڑ گئی اور اس کی اکثریت خراب اور گندی ہوگئی اور میں اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت پر عمل کرنے والا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب ڈاکٹر عبدالحکیم نے لکھا کہ آپ کی جماعت میںسوائے حضر ت مولوی نورالدین صاحب کے اور کوئی نیک اور خدارسیدہ انسان نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے لکھا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ جماعت صحابہ کی جماعت ہے اور اس میں ہزاروں ایسے بندے موجود ہیں جن کی پیشانیوں پر وہی نور چمک رہا تھا جو صحابہؓ کی پیشانیوں پر تھا۔ پس باوجود اس بات کے جاننے کے کہ یہ جماعت صحابہؓ کی جماعت ہے میں سمجھتا ہوں کہ بوجہ عدمِ علم یا عدمِ تربیت دانستہ طور پر نہیں بلکہ نادانستہ طور پر ممکن ہے کسی سے کوئی کمزوری سرزد ہوجائے اور بعض دفعہ کچھ لوگ جو منافق ہوتے ہیں خود ہی کوئی شرارت کھڑی کردیتے ہیں۔ اور پھر کچھ لوگ حالات سے ناواقف ہوتے ہیں وہ اپنی ناواقفیت کی وجہ سے ٹھوکر کھاجاتے ہیں۔ لیکن بہرحال میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ یہ جماعت صداقت پر قائم ہے اور اس کی اکثریت نیک اور متقی لوگوں پرمشتمل ہے۔ پھر بھی چونکہ ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ کمزور لوگ ہوتے ہیں اور وہ غلطی کرسکتے ہیں اس لئے میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ایسے ہی اشتعال کے موقع پر انسان کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے۔ پس اپنے ایمانوں کو درست رکھو اور کبھی کوئی ایسی حرکت نہ کرو جو اسلام اور شریعت کے خلاف ہو۔ تم کو اِس بات کا احساس ہو یا نہ ہو لیکن میرے دل میں خلافت کی ایک بکری کی مینگن کے برابر بھی قیمت نہیں ہوسکتی اگر اس کی تائید کیلئے جھوٹ اور فریب سے کام لیا جائے۔ خلافت اُسی وقت تک قابلِ قدر ہے جب تک صداقت کی تلوار سے اس پر حملہ آوروں کامقابلہ کیا جائے اور انصاف کے تیروں سے اس کی حفاظت کی جائے۔
پس یاد رکھو کہ خواہ کیسی ہی حالت پیش آئے تم عدل و انصاف کو نہ چھوڑو اور جو سچائی ہو اسے اختیار کرو تا دشمن کو تمہارے متعلق کسی قسم کے اعتراض کا موقع نہ ملے۔ اور یاد رکھو کہ اگر کوئی شخص تمہیں جھوٹ بولنے کی ترغیب دیتا ہے تو خواہ وہ ناظر ہی کیوںنہ ہو تم فوراً اُس کی رپورٹ میرے پاس کرو کیونکہ ہمارے پاس ایمان کے سِوا اور کوئی چیز نہیں، ہم کنگال اور خالی ہاتھ ہیں۔ اگر ایمان کی دولت بھی ہمارے ہاتھ میں نہ رہی اور اگر ہم نے اسے بھی چھوڑ دیا تو پھر ہماری جماعت کی حالت وہی ہوگی جو کسی شاعر نے یوں کھینچی ہے کہ ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
پس صداقت اور انصاف سے کام لو اور غیرت، قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کرو۔ مگر یاد رکھو تم نے ظلم نہیں کرنا اور جھوٹ نہیں بولنا اور اگر کوئی شخص تمہیں ظلم کرنے یا جھوٹ بولنے کی تعلیم دیتا ہے تمہیں کہتا ہے جائو اور اپنے دشمن کو مار آؤ یا جاؤ اور اُسے پِیٹو، تو تم فوراً سمجھ جاؤ کہ تمہارے سامنے ایمان کا جُبّہ پہنے ایک شیطان کھڑا ہے اور تم فوراً سمجھ لو کہ وہ میری نافرمانی کرنے والا اور میری اطاعت سے منہ موڑنے والا انسان ہے۔ تم فوراً میرے پاس آئو اور ایسے شخص کی شکایت کرو اور اس گندے وجود کو کاٹنے کی جلد تر کوشش کرو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ باقی قوم کو بھی گندہ کردے۔
اس کے بعد میں مصری صاحب کے ایک تازہ خط کا ذکر کرتا ہوں جو انہوں نے حال ہی میں مجھے لکھا ہے اور جس سے ا ن کی دماغی اور علمی کیفیت بے نقاب ہورہی ہے۔ اس خط کا پہلا جملہ یہ ہے ’’آپ بڑے خوش ہوں گے کہ کس طرح آپ نے اپنی چالاکی اورہوشیاری کے ساتھ جماعت کی مخالفت کی رَو اپنے وجود سے ہٹا کر میری طرف پھیر دی ہے اور آپ مطمئن ہوگئے ہوں گے کہ ریزولیوشنز اور خطوط کی بھرمار نے آپ کی پوزیشن کو محفوظ کردیا ہے اور میں بھی خوش ہوں کہ آپ نے اپنی کامیابی کی بنیاد محض دنیاداروں کی طرح چالاکیوں وغیرہ پر رکھی ہے اللہ تعالیٰ کی خشیت اور تقویٰ کو قریب بھی نہیں آنے دیا‘‘۔
پھر لکھتے ہیں:-
’’کاش! آپ ملک غلام فرید صاحب کے خواب سے ہی فائدہ اٹھاتے ۔ وہ خواب کیسا واضح ہے کس طرح اس میں آپ کی موجودہ چالاکی کا نقشہ کھینچا گیا ہے جس سے کام لے کر آپ نے جماعت کو میرے خلاف بھڑکادیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اِس میں میری کامیابی کی بھی بشارت ہے جس پر آپ نے غور نہیں کیا۔ شروع ہی میں آپ کو بتادیا گیا ہے کہ جو آواز میں آپ کے خلاف اُٹھاؤں گا، اُس کو جماعت دیکھے گی مگر بُرا نہیں منائے گی اور پھر ساتھ ہی مجھے خواب میں دائیں طرف دِکھلایا گیا ہے اور آپ کو بائیں طرف۔ اب سورۃ الواقعہ میں اصحاب الشمال کا حال پڑھ لیں۔ وہاں صاف لکھا ہے اِنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُتْرَفِیْنَ - وَ کَانُوْا یُصِرُّوْنَ عَلَی الْحِنْثِ الْعَظِیْمِ۱۰؎ اب دیکھیں کیا یہ دونوں حالتیں آپ میں نہیں پائی جاتیں؟ کیا آپ اپنے مال، اقتدار ،وسائل پر اِترا نہیں رہے؟ اور کیا اپنے عظیم الشان مَیْل عَنِ اَلْحَقِّ اِلَی الْبَاطِلِ پر اصرار نہیں کررہے‘‘۔
یہ وہ خط ہے جو شیخ مصری صاحب نے مجھے لکھا اور جس سے ظاہر ہے کہ ان کی علمیت کس حد تک ہے۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ایک شخص علم کا دعویٰ کرتا ہے مگر اسے اتنی موٹی بات بھی معلوم نہیں کہ کن اصول پر خواب کی تعبیر کی جاتی ہے۔ اب جو خواب ملک غلام فرید صاحب نے دیکھا اور جس کے متعلق مصری صاحب یہ کہتے ہیں کہ کاش !آپ نے اس پر غور کیا ہوتا وہ یہ ہے ملک صاحب لکھتے ہیں:-
’’میں نے دیکھا کہ سالانہ جلسہ کا موقع ہے حضور سٹیج پر کھڑے تقریر فرمارہے ہیں۔ آپ کے دائیں طرف شیخ عبدالرحمن صاحب مصری بیٹھے ہوئے ہیں اور جُوں جُوں حضور تقریر فرماتے ہیں وہ آپ کا منہ چڑارہے ہیں۔ سٹیج پر جو دوسرے لوگ بیٹھے ہیں ان میں سے بعض مصری صاحب کی اِس حرکت کو دیکھ بھی رہے ہیں۔ اتنے میں حضور نے تقریر ختم کی اور مصری صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے اور حضور سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ خواب میں مجھے ایسا معلوم ہؤا کہ حضور کو معلوم ہے اور دوسرے دوستوں کو بھی معلوم ہے کہ مصری صاحب کیا کہیں گے۔ لیکن حضور نے پھر بھی ان کو اجازت دے دی کہ آپ کہہ لیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک اچھا خاصہ لمبا چوڑا کاغذ کا ٹکڑا ہے اُس کو انہوں نے پڑھنا شروع کردیا۔ اُس میں لکھا ہؤا تھا کہ ’’ان وجوہات کی وجہ سے میں جماعت سے علیحدہ ہورہا ہوں بعینہٖ یہ الفاظ انہو ں نے کہے اور اس کاغذ سے وہ وجوہات پڑھ رہے ہیں۔ اُس وقت کوئی بات جو انہوں نے پڑھی مجھے یاد نہیں۔ ابھی وہ کھڑے ہوئے اپنا کاغذ پڑھ ہی رہے تھے کہ حضور کُرسی سے اُٹھ کر روانہ ہوگئے اور دوسرے دوست بھی ساتھ ہی چلے گئے اور مصری صاحب کو چھوڑ گئے۔ پھر معلوم نہیں ہؤا کہ مصری صاحب کا کیا حشر ہؤا‘‘۔
اب وہ کہتے ہیں دیکھو! اس خواب سے میری کیسی زبردست تائید ہوتی ہے حالانکہ اس خواب میں صاف بتایا گیا ہے کہ مصری صاحب منہ چِڑا رہے ہیں اور منہ چِڑانا کوئی خوبی کی بات نہیں بلکہ غیرمومنانہ فعل ہے۔ مگر وہ اِس امر کو قطعاً نظر انداز کرتے ہوئے کہتے ہیں صاف لکھا ہے میں منہ چِڑارہا ہوں اور جماعت مجھے کچھ نہیں کہتی اور یہی میری کامیابی کی بشارت ہے۔ گویا منہ چِڑانا خاص مؤمنوں کی علامت ہے جو شیخ صاحب میں پائی جاتی ہے۔ حالانکہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ تالیاں پیٹنے اور سیٹیاں بجانے والے بھی مؤمن نہیں۔ پھر جو شخص دوسرے کا منہ چِڑاتا ہے وہ کس طرح مومن سمجھا جاسکتا ہے۔ پھر خواب میں جو یہ دکھایا گیا کہ ’’سٹیج پر جو دوسرے لوگ بیٹھے ہیں ان میں سے بعض مصری صاحب کی اس حرکت کو دیکھ بھی رہے ہیں‘‘۔ یہ حصہ صاف طور پر بتاتا ہے کہ باوجود ان کی طرف سے ایسی حرکات صادر ہونے کے جن سے طبائع میں اشتعال پیدا ہو جماعت صبر سے کام لے گی اور انہیں کچھ نہیں کہے گی۔ وہ دیکھے گی کہ مصری صاحب کیا کررہے ہیں۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ گند ظاہر کرتے چلے جائیں گے جماعت ان پر کوئی ظلم نہیں کرے گی۔ یہ وہ امر ہے جو خواب میں پہلے سے بتایا گیا اور جس سے لازماً یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اب جو اپنے مظالم کا وہ ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں یہ جھوٹا ہے۔ اگر یہ خواب ان کا تسلیم شدہ خواب نہ ہوتا تب تو اس خواب کے مضامین ان پر حُجت نہیں ہوسکتے تھے مگر جب وہ اس خواب کو سچا تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ خواب میرے حالات پر چسپاں ہورہی ہے تو خواب تو یہ بتاتی ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ گندی حرکات کے مرتکب ہوں گے، جماعت احمدیہ کے مومن اپنے نفوس پر قابو رکھیں گے اورانہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ مگر وہ جھوٹ بولتے ہوئے جماعت پر یہ الزام لگارہے ہیں کہ اس نے ان پر کئی مظالم ڈھائے حالانکہ خواب بتارہی ہے کہ ظلم جماعت کی طرف سے نہیں ہوگا بلکہ مصری صاحب کی طرف سے ہوگا۔
پھر وہ لکھتے ہیں اس میں میری کامیابی کی بھی بشارت ہے جس پر آپ نے غور نہیں کیا۔ حالانکہ خواب میں یہ دکھایا گیاہے کہ ساری جماعت میرے ساتھ آگئی اور مصری صاحب اکیلے پیچھے رہ گئے۔ پس جب ساری جماعت خواب میں میرے ساتھ آگئی تو معلوم ہؤا کہ جماعت ان کے ساتھ نہیں اور نہ اس میں ان کی کسی کامیابی کی بشارت ہے۔ بلکہ یہ ان کے تنزّل اور ادبار کی خبر ہے اور پہلے سے بتادیا گیا ہے کہ ان کا کیا انجام ہوگا۔ غرض جیسا کہ پہلے سے بتادیا گیا تھا انہوں نے منہ چِڑایا مگر اس کے ساتھ ہی ملک غلام فرید صاحب کے خواب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتراض کو بھی دور کردیا اور بتادیا کہ باوجود اس کے کہ مصری صاحب منہ چِڑائیں گے جماعت ان کا سختی سے جواب نہیں دے گی۔ پس ان کا اس خواب کو سچا تسلیم کرتے ہوئے یہ شور مچانا کہ مجھ پر ظلم کیا گیا بالکل جھوٹ اور بُہتان ثابت ہوتا ہے۔ پھر یہ کہنا کہ چونکہ دائیں طرف مصری صاحب کو دیکھا گیا ہے اور بائیں طرف مجھ کو اس لئے ان کا اصحاب الیمن میں شمار ہوگیا اور میرا اصحاب الشمال میں۔ یہ اتنی احمقانہ بات ہے کہ اس سے زیادہ حماقت کی بات اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ خواب میں جب بھی کوئی شخص دو آدمیوں کو دیکھے گا۔ لازماً ان میں سے ایک دائیں طرف ہوگا اور دوسرا بائیں طرف۔ اگر خواب میں کوئی شخص دیکھے کہ اس کے ماں باپ اس سے ملنے آرہے ہیں تو یہ ضروری امر ہے کہ ان میں سے ایک دائیں طرف ہو گا اور دوسرا بائیں طرف۔ اب اگر باپ دائیں طرف ہو تو کیا یہ سمجھا جائے گا کہ باپ جنتی ہے اور ماں دوزخی ۔ اور اگر ماں دائیں طرف ہو تو کیا یہ سمجھا جائے گا کہ ماں جنتی ہے اور باپ دوزخی۔ پھر اگر کوئی شخص خواب میں ایک مجمع دیکھے تولازماً کچھ لوگ دائیں طرف ہوں گے اور کچھ بائیں طرف۔ پھر کیا یہ کہا جاسکے گا کہ ان میں سے آدھے جنتی ہیں اور آدھے دوزخی۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس سے زیادہ علمِ تعبیر سے ناواقفیت اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ انسان اتنی معمولی بات کو بھی نہ سمجھے کہ دایاں اور بایاں ایک نسبتی امر ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جب بھی دو شخص خواب میں دیکھے جائیں ان میں سے ایک دائیں طرف ہوگا اور دوسرا بائیں طرف اور جو چیز لازمی ہو اُس کی تعبیر نہیں کی جاتی۔ مثلاً یہ توہوسکتا ہے کہ انسان اگرکسی کا صرف ایک پیر دیکھے تو اُس کی تعبیر کرے سر دیکھے تو اُس کی تعبیر کرے لیکن اگر کوئی خواب میں ایک آدمی دیکھے تو اس وقت یہ نہیں کہیں گے کہ اُس کے سر کی بھی تعبیر کرو اور ہاتھ کی بھی تعبیر کرو اور پائوں کی بھی تعبیر کرو۔ ایسی حالت میں تو اگر کوئی خاص نظارہ ہو تو صرف اسی کی تعبیر کی جائے گی۔ عام چیزوں کی جن کا تعلق انسان کے ساتھ لازمی ہے ان کی تعبیر نہیں کی جائے گی۔ اگر اس امر کو مدنظر نہ رکھا جائے اور محض خواب میں دو شخصوں کو آتے دیکھ کر جن میں سے ضروری ہے کہ ایک دائیں طر ف ہو اور دوسرا بائیں طرف یہ نتیجہ نکالا جائے کہ ایک جنتی ہے اور دوسرا دوزخی تو اس صورت میں اگر کوئی خواب میں دیکھے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام آرہے ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام مثلاً دائیں طرف ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام بائیں طرف تو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ کہنا پڑے گاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جنتی ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوزخی، کیونکہ یہ شیخ صاحب کی بیان کردہ تعبیر ہے۔ مگر کیا کوئی بھی عقلمند اس تعبیر کو ماننے کیلئے تیار ہوسکتا ہے ؟اور کیا اس سے زیادہ کوئی احمقانہ بات بھی اور کوئی ہوگی؟ اگر دائیں اوربائیں میں نمایاں فاصلہ ہو تب بیشک دائیں کی بھی الگ تعبیر ہوتی ہے اور بائیں کی بھی الگ ۔ مثلاً کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ ایک جماعت دائیں طرف بیٹھی اور دوسری جماعت کچھ فاصلہ پر بائیں طرف ، تو اس وقت ہم کہہ سکتے ہیں کہ کچھ لوگ اصحاب الیمین ہیں اور کچھ لوگ اصحاب الشمال۔ لیکن جب سب لوگ اکٹھے بیٹھے ہوں اُس وقت یہ کہناکہ ایک حصہ اصحاب الشمال میں سے ہے اور دوسرا اصحاب الیمین میں سے اور اس لئے کچھ دوزخی ہیں اور کچھ جنتی، احمقانہ بات ہے۔پھر دائیں بائیں کا جو مفہوم مصری صاحب بتاتے ہیں وہ بھی درست نہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب امام کے ساتھ ایک مقتدی ہو تو وہ اُس کے دائیں طرف کھڑا ہو جس کے یہ معنے ہیں کہ مقتدی دائیں طرف ہو اور امام بائیں طرف۔ کیا اس کے یہ معنے ہوں گے کہ شریعت کے مطابق امام ہمیشہ ادنیٰ درجہ کا ہوتا ہے اور مقتدی اعلیٰ درجہ کا؟
اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اس نے مصری صاحب کے اعتراض کا قلع قمع خود ملک غلام فرید صاحب کی ہی ایک اور خواب سے کر چھوڑا ہے جو مصری صاحب کی تسلیم کردہ خواب سے پہلے کی خواب ہے۔ انہوں نے ۷؍ مئی کو ڈیرہ دون سے جہاں وہ تبدیلی آب و ہؤا کیلئے گئے ہوئے تھے مجھے ایک خط لکھا جو ۸ ؍مئی کو قادیان پہنچا اور قادیان سے ہوتے ہوئے ۱۲؍ مئی کو مجھے سندھ میں ملا۔ اس خط میں ملک غلام فرید صاحب لکھتے ہیں :
سیّدی! حضرت امیرالمومنین اَیَّدَکُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ
پچھلے دنوں میں نے ایک عجیب خواب دیکھا جو حضور کی خدمت میں عرض ہے۔ میں نے دیکھا کہ حضرت (اماں جان) کے اُس کمرہ میں جس میں بیت الدعا واقع ہے، پانچ کرسیوں پر آنحضرت ﷺ ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت نواب صاحب، حضرت میر محمد اسماعیل صاحب اور حضرت مرزا بشیراحمد صاحب بیٹھے ہیں۔ مجھے اب ان کرسیوں کی ترتیب یاد نہیں رہی۔ صرف اتنا یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف بیٹھے ہیں۔ اس طرح پر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منہ بالکل قبلہ کی طرف ہے اور آنحضرت ﷺ کا کچھ منہ قبلہ کی طرف اور کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف۔ باہر صحن میں بہت سے لوگ جمع ہیں۔ میں اپنے متعلق کہہ نہیں سکتا کہ میں بھی اُس کمرہ سے باہر ہوں یا اندر ہوں لیکن غالباً باہر ہی ہوں لیکن اندر بیٹھنے والے بابرکت وجودوں کے بالکل ہی قریب کہ مجھے سب کچھ ان کا نظر آرہا ہے۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کُرسی کے پاس ہی (ایسا یاد ہے کہ بالکل ساتھ ملا ہؤا) دائیں بازو پر کھڑا ہوں۔لیکن حضرت صاحب کا چہرہ مجھے نظر نہیں آتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سارا لباس سفید ہے یہاں تک کہ کوٹ بھی لٹھے کا سفید پہنا ہؤا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی پگڑی ہرے رنگ کی ہے اور آنحضور ﷺ کی ڈاڑھی مبارک کا رنگ ایسا ہے جیسے حضور یعنی آپؑ کی ڈاڑھی کا۔ جبکہ اُس کو مہندی لگائے آٹھ دس دن گزرچکے ہوں اور آنحضرت ﷺ کی ڈاڑھی کا قد بھی آپؑ کی داڑھی کے قد کے برابر ہے گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی بالکل حضور کی ڈاڑھی جیسی ہے۔ خواب میں ایسا معلوم ہؤا ہے کہ آپ کسی دوسرے کمرہ میں کسی تقریر کی تیاری میں مشغول ہیں اور کوئی بہت بڑی تقریب ہے جس پر آپ نے تقریر کرنی ہے اور آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس تقریر کے سننے کی خاطر تشریف لائے ہوئے ہیں اور صحن میں جو بہت سے لوگ ہیں وہ بھی اسی لئے آئے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضور کے روحانی مراتب میں بہت بہت ترقی دے اور مجھے حضور کا سچا اور پکا خادم بنائے اور ہمیشہ حضور کے دامن کے ساتھ وابستہ رکھے‘‘۔
اِس خواب میں ملک غلام فرید صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آنحضرت ﷺ کے بائیں طرف بیٹھے دیکھا ہے اور صاف طور پر لکھا ہے کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت ﷺ کے بائیں طرف بیٹھے ہیں‘‘۔ اب یہاں اگر وہی تعبیر لگائی جائے جو مصری صاحب نے کی تو نَعُوْذُبِاللّٰہِ کہنا پڑے گا کہ رسول کریم ﷺ کو ’’خواب میں دائیں طرف دکھلایا گیا ہے اور آپؑ کو بائیں طرف۔ اب سورۃ الواقعہ میں اصحاب الشمال کا حال پڑھ لیں وہاں صاف لکھا ہے وَاِنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُتْرَفِیْنَ - وَ کَانُوْا یُصِرُّوْنَ عَلَی الْحِنْثِ الْعَظِیْمِ۔ کیا ایسی گندی اور ناپاک تعبیر جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جہنمی قرار دینا پڑے اِس قابل ہوسکتی ہے کہ اسے صحیح تصور کیا جائے۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ تعبیر کس قدر غلط ہے ۔ اس تعبیر کو اگر درست سمجھا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ جہنمی ماننا پڑتاہے۔ کیونکہ ملک غلام فرید صاحب نے انہیں آنحضرت ﷺ کے بائیں طرف دیکھا۔ مگر ہم میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں جو ایسی گندی اور ناپاک تعبیر اس خواب کی کرسکے۔ پس ان کی یہ تعبیر ان کے نفس کا اختراع ہے۔ حقیقت سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں۔
پھر وہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ خواب میں ان کے متعلق بیّن طور پر بتایا گیا ہے کہ وہ منہ چِڑارہے ہیں اب کیا منہ چِڑانا مؤمنانہ شیوہ ہے؟ جب نہیں تو انہیں خود اپنے ایمان کا فکر کرنا چاہئے اور بجائے اس کے کہ دوسروں کو سمجھائیں انہیں خود سوچنا چاہئے کہ ان کا انجام خواب سے کیا ظاہر ہورہا ہے۔ اگر ان میں کچھ بھی عقل و فہم ہوتی تو وہ اپنے آپ کو دائیں طرف اور مجھے بائیں طرف خواب میں معلوم کرکے اس نتیجہ پر پہنچتے کہ دائیں طرف ہونے سے یہ مراد ہے کہ وہ میرے احسانات کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم صدقہ کرو تو دائیں طرف سے شروع کرو۔۱۱؎ پس اس خواب کے یہ معنے تھے کہ میں نے اس شخص سے کئی دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ حُسنِ سلوک کیا اور متواتر اس سے احسانات کئے مگر یہ ایسا احسان فراموش نکلا کہ میرے حُسنِ سلوک کے باوجود میر امنہ چِڑاتا رہا۔ پس ان کے دائیں طرف ہونے میں ان کی کوئی فضیلت نہیں بلکہ انہیں میرے احسانات کا زیر بار دکھایا گیا ہے۔ چنانچہ اس کی مثال حدیثوں سے بھی ملتی ہے۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں مجلس میں دودھ پیش کیا گیا۔ آپ نے اس میں سے کچھ تھوڑا سا دودھ پینے کے بعد اپنے دائیں بائیں دیکھا۔ حضرت ابوبکرؓ اُس وقت آپ کے بائیں طرف تھے اور آپ کے دائیں طرف ایک نوجوان لڑکا بیٹھا تھا۔ آپ نے اُس لڑکے کی طرف دیکھا اور فرمایا میرے اس تحفہ پر حق تمہارا ہی ہے کیونکہ تم دائیں طرف ہو مگر کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں یہ دودھ ابوبکرؓ کو دے دوں؟ وہ لڑکا کہنے لگا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ میں اپنا حق چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔ ۱۲؎
اس مثال کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے خواب پر غور کرو تمہیں معلوم ہوگا کہ خواب میں جو کچھ بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ میں نے مصری صاحب سے ہمیشہ دائیں والا سلوک کیا مگر یہ میرا منہ چڑاتے رہے۔ مصری صاحب کا یہ کہنا کہ خواب میں بتایا گیا ہے کہ میری کارروائیوں کو جماعت دیکھے گی اور بُرا نہیں منائے گی، بتاتاہے کہ میں کامیاب ہوں گا ، صریح غلط بیانی ہے۔ خواب کے الفاظ یہ ہیں ’’سٹیج پر جو دوسرے لوگ بیٹھے ہیں ان میں سے بعض مصری صاحب کی اس حرکت کو بھی دیکھ رہے ہیں‘‘۔ اس بعض کے لفظ کو اُڑادینا مصری صاحب کی اس ذہنیت کو آشکارا کرتا ہے جو اِن میں اب جماعت سے علیحدہ ہوکر پید اہوگئی ہے۔ ہم تو خود تسلیم کرتے ہیں کہ بعض لوگ ان کے ہم خیال ہیں لیکن بعض کا لفظ اُڑا کر جماعت کا لفظ اختیار کرنا اور اس سے کامیابی کا نتیجہ نکالنا دھوکا نہیں تو اور کیا ہے۔ خواب میں صاف بتایا گیا ہے کہ جماعت کی اکثریت میرے ساتھ ہے تبھی تو جب میں اُٹھا تو وہ ساتھ اُٹھ کر چلے آئے ورنہ وہ مجھے چھوڑ کر مصری صاحب کے ساتھ رہتے اور سب کے سب مل کر گیدڑوں کی طرح منہ چِڑانے لگتے۔
درحقیقت انہوں نے اس خواب کی جو تعبیر کی ہے اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا علم محض سطحی ہے تعبیر کے علم سے انہیں کوئی مناسبت نہیں۔ کیونکہ تعبیر ایک روحانی علم ہے اور وہ روحانی کوچہ سے بالکل ناآشنا ہوچکے ہیں اور مجھ پر اعتراض کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کررہے ہیں۔ جو دوسری خواب میں نے ملک صاحب کی بتائی اس میں رسول کریم ﷺ کی ریش مبارک ملک صاحب کو بالکل میری ڈاڑھی کے مطابق اور ہم شکل دکھائی گئی ہے۔ جس میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ جو مجھ پر حملہ کرے گا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حملہ کرے گا۔ کیا مصری صاحب یا ان کے ساتھی اس سے فائدہ اُٹھائیں گے؟
پھر یہی ملک غلام فرید صاحب اپنے اس خط میں لکھتے ہیں ’’ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مسجد مبارک کی وہ چھوٹی کھڑکی جو بیت الفکر میں کھلتی ہے اور جس میں سے ہوکر خدا کے مسیح پاک مسجدمیں تشریف لایا کرتے تھے، اُس کے پاس آپ کھڑے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھنا ہو وہ اِس کھڑکی میں سے گزرجائے۔ لوگ ایک ایک کرکے اندر جارہے ہیں۔ میں بھی اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آپ ہی اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں خواب میں حیران ہوتا ہوں کہ ان کو تو (یعنی حضور کو) میں باہر کھڑکی کے پاس چھوڑ کر آیا ہوں اور اندر بھی خود ہی بیٹھے ہیں‘‘۔
اِس خواب نے بتادیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اور میرا حال ایک ہی ہے اورجو اعتراض مجھ پر کیا جاتا ہے وہی اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی عائد ہوتاہے۔ پس چونکہ اللہ تعالیٰ یہ جانتا تھا کہ ایک اعتراض محمود پر یہ پڑنے والا ہے کہ خواب میں اسے بائیں طرف دکھایا گیا ہے جو اس کے اصحاب الشمال میں سے ہونے کا ثبوت ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی بائیں طرف دکھادیا اور اس طرح اعتراض کرنے والوں پر ظاہر کردیا کہ اگر تم اپنے علمِ تعبیر کو صحیح قرار دو گے اور اگر ایسی ناپاک اور گندی تعبیر کرنے سے باز نہیں آئو گے تو یاد رکھو تمہیں محمود پر حملہ کرنے کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جہنمی قرار دینا پڑے گا۔ اب یہ تمہارے اختیار میں ہے کہ چاہو تو صحیح راستہ اختیار کرو اور چاہو توٹیڑھا راستہ اختیارکرکے اپنے آپ کو ابدی ہلاکت میں ڈال لو۔
(الفضل ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۳۷ئ)
۱؎ سائی: وہ تھوڑی سی رقم جو معاملہ طے ہو جانے کے بعد پیشگی دی جائے۔
۲؎ مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین … الخ
۳؎ بوڈاپسٹ(BUDAPEST): ہنگری کا دارالحکومت۔ یہاں پہلے دو رومی شہر آباد تھے جنہیں تاتاریوں نے تباہ کر دیا۔ پہلی عالمی جنگ تک یورپ میں غلّے کی اہم منڈی تھا۔ جنگ کے بعد بعض صنعتوں کے فروغ سے یورپ کا ایک نفیس شہر بن گیا۔ دوسری عالمی جنگ میں اس کا ۷۵ فیصد حصہ تباہ ہو گیا۔
(اُردو جامع انسا ئیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۲۶۷۔ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ئ)
۴؎ الہکف: ۶
۵؎،۶ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع (الخ)
۷؎ قراقر: پپٹ بولنا
۸؎ التوبۃ: ۱۱۸
۹؎ آرد فروش: آٹا بیچنے والا
۱۰؎ الواقعۃ: ۴۶،۴۷
۱۱؎ ،۱۲؎ بخاری کتاب المساقاۃ باب من رأی صدقۃ الماء (مفہوماً)

۲۲
شیخ عبدالرحمن مصری کے ایک اشتہار کاجواب
(فرمودہ ۱۶؍ جولائی ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
کل مجھے ایک اشتہار ملا ہے جو شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی طرف سے شائع ہؤا ہے۔ اس میں جماعت احمدیہ کو خطاب کیا ہے اور اس اشتہار کی ابتدا قرآن کریم کی ایک آیت سے کرتے ہیں جو یہ ہے وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰ نُ قَوْمٍ عَلٰی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۱؎ یعنی کسی قوم کی دشمنی اور عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے اور نہ اُکسائے کہ تم عدل کو چھوڑ دو۔ چاہئے کہ عدل کرو یہ تقویٰ کے بہت قریب ہے۔
اس کے بعد جماعت احمدیہ سے گلہ کیا ہے کہ کیوں بغیر تحقیق کے شیخ صاحب کے خلاف اس نے ریزولیوشنز پاس کرنے شروع کردیئے ہیں۔ جماعت کے دوستوں کو چاہئے تھا پہلے تحقیقات کرتے اور پھر کوئی رائے قائم کرتے۔ اور پھر بتایا کہ جماعت کو دھوکا دیا گیا ہے کہ گویا مصری صاحب اپنے اثر و رسوخ کی بناء پر خلیفہ کو دھمکی دیتے ہیں اور اس طرح جماعت میں اشتعال پیدا کردیا گیا ہے اور ان کو مرتد، منافق، فاسق، فتنہ پرداز، بدباطن وغیرہ الفاظ سے یاد کیا جانے لگا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ میں نے بڑائی کا کوئی دعویٰ نہیں کیا میرے تینوں خطوط اس قسم کے دعویٰ سے خالی ہیں بلکہ میرے خطوط میں تو عجز و انکسار کا اظہار ہے۔ اور پھر اپنے وہ الفاظ نقل کئے ہیں جو الفضل میں درج ہوچکے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان سے غلط نتیجہ نکالا گیا ہے۔ میں نے ان الفاظ میں اپنی کسی شان کا اظہارنہیں کیا بلکہ عاجزی کا اظہار کیا ہے۔ اور پھر وہی شکایت کرتے ہیں جس کا ازالہ میں پچھلے خطبہ میں کرچکا ہوں۔ یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ میں نے لکھا تھا کہ میں جماعت سے علیحدہ ہوجائوں گا۔ حالانکہ میں نے جماعت سے نہیں بلکہ بیعت سے الگ ہونے کا لکھا تھا۔ اور پھر اس امر پر بحث کرتے ہیں کہ بیعت سے خارج ہونا جماعت سے خارج ہونا نہیں اور اس کی مثال یہ دیتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے چھ ماہ تک حضرت ابوبکرؓ کی بیعت نہیں کی تھی۔ مگر کون کہہ سکتا ہے کہ اُس وقت وہ مسلمان نہیں رہے تھے۔ اسی طرح بعض اور صحابہ کی مثالیں دی ہیں۔ پھر جماعت سے اپیل کرتے ہیں کہ یہ پُرفریب طریقہ خلیفہ نے اس لئے اختیار کیا ہے کہ لوگوں کی توجہ مصری صاحب کی طرف نہ ہوسکے اور جماعت ان کے براہین پر غور نہ کرے۔ اور پھر لکھتے ہیں کہ صحیح طریق یہ تھا کہ جب میں نے الزام لگائے تھے تو خلیفہ کو لازم تھا کہ ایک آزاد کمیشن بٹھاتے مگر اس کی بجائے جماعت سے میرے اخراج کا اعلان کردیا گیا۔پھر کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا طریق یہ تھا کہ جب انہیں کوئی شکایت ہوتی وہ خلیفہ کے پاس جاتے اور اپنی شکایات پیش کرتے اور خلیفہ عَلَی الْاِعْلَان اپنی غلطی کا اعتراف کرتا اور آئندہ کیلئے اس سے رجوع کرتا تھا۔ اور پھر آخر میں یہی لکھتے ہیں کہ ایک آزاد کمیشن مقرر ہونا چاہئے جو تحقیقات کرے اور اپیل کرتے ہیں کہ دوستو! اُٹھو اور مومنانہ جُرأت سے کام لو، اِس میں خلیفہ کی اجازت کی ضرورت نہیں۔
یہ خلاصہ ہے ان کے اشتہار کا اور جنہوں نے پڑھا ہے، پڑھا ہی ہوگا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس سارے اشتہار میں یا اس سے کسی پہلے اشتہار میں یہ نہیں بتایا کہ مَیں الزام کیا لگاتا ہوں۔ یہ تو ہے کہ اُٹھو، دوڑو، فکر کرو، سب ہی کچھ کرومگر الزام تم خود ہی دریافت کرو اور تحقیقات بھی خود ہی کرو۔ کیا کوئی عقلمند مصری صاحب کی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ وہ کہتے ہیں میں الزام تو ایسے لگاتا ہوں کہ جن کی موجودگی میں انسان بیعت میں نہیںرہ سکتا اور انہی کی وجہ سے میں جماعت سے نکل گیا ہوں مگر میں ان کا ذکر نہیں کرتا، تم لوگ خود ان الزامات کی تحقیق کرو۔ میں الزام خود نہیں بتائوں گا تمہیں چاہئے کہ خود تلاش کرو۔ بھلا کون ایسا پاگل ہوگا کہ الزام لگانے والا تو کوئی بیان نہیں دیتا، کوئی ثبوت نہیں دیتا اور یہ خود سب باتوں کی تحقیقات کرتا پھرے۔ تحقیقات کرنا تو انسانی فطرت میں داخل ہے۔ ہر انسان جج ہے۔ جب وہ کوئی بات سنتاہے تو اس کی تحقیقات میں لگ جاتا ہے، اس کی کوئی نہ کوئی بناء قائم کرتا ہے اور پھر اس کے متعلق کوئی نہ کوئی فیصلہ کرتا ہے اور یہ روز مرہ ہوتا ہے۔ ہر انسان کے دماغ میں اللہ تعالیٰ نے ایک جج بٹھادیا ہے مگر مصری صاحب کا طریق بالکل نرالا ہے جو حضرت آدمؑ سے لے کر آج تک کسی نے اختیار نہ کیا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ الزام بھی خود ہی دریافت کرو اور تحقیقات بھی خود ہی کرو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ الزامات بیان کرتے وقت ان کو کوئی معیّن کہانی بیان کرنی پڑے گی۔ ممکن ہے اعتراضات کی بوچھاڑ ہو تو پھر اس کہانی میں کسی تبدیلی کی ضرورت پیش آئے۔ یا اس کو بالکل چھوڑ دینا مناسب ہو یا جو گواہ پیش کرنے ہوں و ہ میسر نہ ہوں یا ان میں تبدیلی کی ضرورت ہو یا ان پر کوئی اعتراض ہو یا حملہ قرآنی تعلیم کے خلاف ہو۔ تو انہوں نے آسان راہ یہ سوچی کہ میں صرف یہ شور مچاتا رہوں کہ کچھ الزام ہیں، کچھ الزام ہیں۔ جماعت تحقیق کرے تاکہ لوگ اپنے طور پر جو الزام معلوم کریں اگر وہ ان کو غلط ثابت کردیںتو میں کہہ دوں کہ میں نے تو یہ الزام نہیں لگائے، یہ تو آپ خود لگارہے ہیں۔ یا تفصیلات جرح میں غلط ثابت کردی جائیںتو میں کہہ دوں کہ میں نے تو یہ نہیں کہا تھا اور پھر اپنے مطلب کے مطابق تفصیلات گھڑلوں۔ حالانکہ جو لوگ ان کے ساتھ متفق ہیں وہ برابر لوگوں سے کہے جارہے ہیں کہ ہمیں الزامات معلوم ہیں اور خفیہ پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ دور دراز کے پیغامی بھی نہایت گندہ پروپیگنڈا کررہے ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے سامنے انہیں وہ باتیں بیان کرنے سے ہچکچاہٹ ہے جن باتوں کو وہ میاں ملتانی اورمیاں عبدالعزیز اور اَور پیغامیوں سے مزے لے لے کر بیان کررہے ہیں وہ مبائعین سے کیوں نہیں کہتے، وہاں خالی تحقیق کی تکرار کیوں کررہے ہیں۔ غرض مصری صاحب کی یہ حرکت ایک ایسی حرکت ہے کہ دنیا کا کوئی معقول آدمی اسے سمجھ نہیں سکتا۔ میں نے دنیا میں عجیب عجیب لوگ دیکھے ہیں مگر ایسا شخص کوئی نہیں دیکھا ۔
ایک دفعہ ایک عورت میرے پاس آئی اورکہنے لگی کہ آپ نے اتنے محکمے بنائے ہوئے ہیں قضا ہے، امور عامہ ہے، لوکل کمیٹی ہے مگر میرا مقدمہ اتنی مدت سے دائر ہے، اس کا کوئی فیصلہ نہیں کرتا۔ میں نے کہا تم تسلی رکھو میں اس کی تحقیقات کرائوں گا۔ چنانچہ میں نے دریافت کیا تو معلوم ہؤا کہ اس کے مقدمہ کا فیصلہ ہوچکا ہواہے،وہ جب پھر آئی تو میں نے کہا کہ تمہارا فیصلہ تو ہو چکا ہے شکایت کس بات کی ہے۔ تو کہنے لگی کہ وہ بھی کوئی فیصلہ ہے، وہ تو میرے خلاف ہے، فیصلہ کرنا ہے تو سیدھی طرح کیا جائے یہ کیا فیصلہ ہے کہ مجھے کہہ دیا تم غلطی پرہو۔ تو میں نے دنیا میں ایسے ایسے بیوقوف بھی دیکھے ہیں مگر ایسا بیوقوف کوئی نہیں دیکھا کہ جو کہے کہ الزامات میں لگاتا ہوں مگر انہیں میں بیان نہیں کرتا تم خود ہی معلوم کرو اور پھر خود ہی تحقیقات کرو۔ یہ عقل و خرد سے کُلّی طور پر آزاد نظریہ میں نے صرف مصری صاحب سے ہی سنا ہے۔آخر کوئی تو وجہ ہے جو وہ اپنے عائد کردہ الزامات کو بیان نہیں کرتے۔ یا تو وہ قانون کی گرفت سے ڈرتے ہیں یا اخلاق سے اور یا پھر شریعت سے۔ وہ لوگوں کو تو کہتے ہیں کہ بے خوف ہوجائو مگر خود ڈرتے ہیں۔ اور جب بے خوف ہوجانے کا وعظ کرنے والا خود بے خوف نہ ہو تو دوسرے کس طرح ہوسکتے ہیں۔
انگریزوں میں ایک قصہ مشہور ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی اور سالی کے ساتھ تماشہ دیکھنے گیا۔ مگر جاتے ہوئے گھر کا دروازہ بند کرنا بُھول گیا۔ واپسی پر دروازہ کُھلا دیکھا تو خیال کیا کہ کسی نے بعد میں کھولا ہے اور سمجھا کہ ضرور کوئی چور اندر چُھپا بیٹھا ہے۔ مغربی تمدن میں یہ بات داخل ہے کہ عورت کو اعزاز کا مقام دینے کیلئے دعوت وغیرہ کے موقع پر پہلے اسے اندر داخل کرتے ہیں اور پھر خود ہوتے ہیں۔ اب یہ تینوں ڈرتے تھے اس لئے باہر ہی کھڑے ہوگئے۔ مرد ڈرتا تھا کہ اگر میں پہلے داخل ہؤا تو ایسا نہ ہو کہ اندھیرے میں چور مجھ پر حملہ کردے اس لئے پیچھے ہٹ کر کہنے لگا Ladies First یعنی عورتیں پہلے داخل ہوں اور اس طرح اپنی طرف سے اخلاق کا اظہار کیا حالانکہ وہ بُزدلی کا اظہار کررہا تھا۔ جب اُس نے یہ کہا تو اُس کی سالی جھٹ بولی میں تو جاکر پولیس میں پہلے اطلاع دیتی ہوں اور دراصل اس کا مقصد یہ تھا کہ میں یہاں سے بھاگوں۔ اس کی بہن کہنے لگی کہ یہ تو کبھی نہیں ہوسکتا کہ میں اس وقت تمہیں اکیلی جانے دوں میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی اور وہ بھی اس کے ساتھ چل پڑی۔ مرد نے یہ دیکھا تو جھٹ بول اُٹھا کہ بیشک چور کا معاملہ بہت اہم ہے مگر تم دونوں کا اکیلے جانا اس سے بھی زیادہ اہم ہے اور یہ کہہ کر وہ خود بھی ان کے ساتھ چل پڑا۔ یہی حال شیخ مصری صاحب کا ہے۔ عجیب بات ہے کہ یہ شخص عَلَی الْاِعْلَان الزام لگاتا ہے، اس وقت تک چھ اشتہار شائع کرچکا ہے اور دستی اشتہار ملائے جائیں تو سترہ اٹھارہ بن جاتے ہیں اور شور مچارہا ہے کہ لوگو! ظلم ہوگیا میں نے بیعت چھوڑ دی۔ مگر اس سوال کا جواب کہ کیوں؟ میں نہیں دیتا تم خود تحقیقات کرو۔ حالانکہ جو الزام لگاتا ہے اس کا فرض ہے کہ بتائے اور ثبوت پیش کرے۔ نہ یہ کہ جس پر الزام لگایا جاتا ہے وہ تلاش کرتا پھرے۔ ایک شخص کسی کے کان میں کہہ دے کہ تُو چور ہے اور پھر کہے کہ یہ بتاتا کیوں نہیں کہ میں نے اس پر کیا الزام لگایا ہے تو یہ الزام لگانے والے کا کام ہوتا ہے کہ بتائے کیا الزام ہے اور اس کے کیا ثبوت ہیں۔ مگر مصری صاحب ساری دنیا کو تحقیقات کیلئے بلاتے ہیں مگر کہتے یہ ہیں کہ میں بتاتا کچھ نہیں یہ بھی تم خود ہی معلوم کرو کہ الزام کیا ہیں۔
یہ کہنا بھی درست نہیں کہ کمیشن بٹھایا جائے تو ثبوت پیش کروں گا۔ کیونکہ اگر ان کو یہ امید ہے کہ جماعت خلیفہ پر کمیشن بٹھائے گی تو اس کیلئے بھی تو ان کو کوئی الزام معلوم ہوگا۔ کوئی ابتدائی ثبوت ملیں گے تو اسے ایسی تحریک ہوسکتی ہے بغیر اس کے کس طرح ہوسکتی ہے۔ آخر ایک جماعت کو بے ایمان بنانا کوئی ایسا آسان امر تو نہیں کہ مصری صاحب کہیں گے کہ چھوڑدو خلیفہ کو اور وہ چھوڑ دیں گے۔ اگر جماعت احمدیہ کے ایمان سے مصری صاحب کو اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے واقفیت نہیں تو انسانی فطرت سے تو کچھ آگاہی ہونی چاہئے۔ مومن تو الگ رہے کافر بھی محض یہ سن کر اپنے پیاروں کونہیں چھوڑ دیتے کہ ان پر کوئی الزام لگایا گیا ہے۔ پس اگر مصری صاحب دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت کوئی کمیشن بٹھائے گی تو بھی انہیں الزام اور بعض ثبوت دے کر جماعت میں یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی کہ فی الواقع معاملہ اہم ہے۔ لیکن اگر وہ خود ان الزامات کو پیش کرنا بے حیائی خیال کرتے ہیں تو دوسرے ان کی جگہ پر کیوں بے حیابنیں۔یا اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت پر تو ان باتوں کا اثر نہ ہوگا۔ میں احرار اور پیغامیوں میں پروپیگنڈا کروں تو پھر انہیں یہ جھوٹ کا ڈھونگ نہیں رچانا چاہئے تھا اور کھلے طور پر اپنے نئے دوستوں میں شامل ہوجانا چاہئے تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں ان باتوں کی شُہرت نہ ہو اور جماعت کی بدنامی نہ ہو۔ مگر لطیفہ یہ ہے کہ یہ اشتہارات احرار اور پیغامیوں کے ذریعہ چھپتے اور تقسیم ہوتے ہیں۔
پھر میں نے اخبار ’’احسان‘‘ میں ایک نوٹ پڑھا جو اسی مضمون پر مشتمل ہے جو مصری صاحب کے خطوں سے ملتا جلتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ’’احسان‘‘ میں یہ نوٹ کیسے چھپا۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کے تعلقات ان لوگوں سے ہیں اور انہی کی شہ پر یہ کھڑے ہیں اور ساری دنیا میں ان کے اشتہار پہنچے ہیں مگر ابھی ان کو ڈر ہے کہ جماعت کی بدنامی نہ ہو۔
فخرالدین صاحب نے ایک اشتہار دیا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ اس کے اخراج کے متعلق جو تقریر میں نے کی تھی، اس موقع پر بہت سے ہندو او رسکھ بھی موجود تھے۔ اوریہ کہ جب میں نے اس کے متعلق کم بخت وغیرہ لفظ استعمال کئے تو وہ شرم سے پانی پانی ہؤا جاتا تھا اور خیال کررہا تھا کہ یہ لوگ احمدی نہیںیہ کیا خیال کرتے ہوں گے کہ احمدیوں کے خلیفہ کے اخلاق ایسے ہیں۔ انہیں میرے کسی موقع پر کم بخت کا لفظ چند ہندوئوں اور سکھوں کے سامنے کہہ دینے سے تو شرم آتی تھی کہ احمدیت بدنام ہوجائے گی لیکن وہ اس بات کو چھپوا کر سارے ہندوستان میں شائع کرتے ہیں اور اس میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ شرم کا اظہار صرف طعن کے طور پر ہے اور یہ بالکل جھوٹ ہے کہ انہیں احمدیت کے بدنام ہونے کا ڈر تھا۔ ورنہ جس امر کا چھ سات آدمیوں کے سامنے بیان ہونا قابلِ شرم تھا وہ اسے لاکھوں کے سامنے پیش کرنے پر کس طرح راضی ہوگئے۔ مگر اللہ تعالیٰ کا تصرف دیکھو کہ اس نے اس اشتہار میں ان کو ملزم بنادیا ہے۔ میری نسبت تو یہ لکھتے ہیں کہ چند ہندوئوں او رسکھوں کے سامنے میں نے انہیں اور ان کے بعض ساتھیوں کو کم بخت کہا مگر لکھتے ہیں کہ مجھے شرم آتی تھی یہ ہندو اور سکھ کم بخت اپنے دل میں کیا کہتے ہوں گے۔ پھر کم بخت کا لفظ سیاہی سے مٹایا ہے مگر چھپا ہؤا کہاں مٹتا ہے۔ اب اگر ان صاحب کو واقعہ میں اس پر شرم محسوس ہورہی تھی تو اول اسے چھاپا کیوں ؟او رپھر خود اپنے ہی قلم سے ہندوئوں اور سکھوں کی نسبت جن کا کوئی قصور نہ تھا کم بخت کا لفظ ان کے قلم سے نکل گیا؟ کس قدر عجیب بات ہے کہ پانچ دس ہندوئوں سے تو انہیں شرم آرہی تھی مگر اشتہارشائع کرکے اس کو ساری دنیا میں پھیلادیتے ہیں اور شرم نہیں آتی اور سمجھتے ہیں کہ اب کوئی حرج نہیں۔ دنیا میں بیوقوفی کے قصے جو مشہور ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ کسی بیوقوف نے یہ ڈھنڈورا پٹوایا تھا کہ ہم سے فلاں بیہودہ حرکت ہوگئی ہے مہربانی کرکے کوئی کسی کو بتائے نہیں۔ یہی حال میاں فخرالدین صاحب کا ہے۔ اگر پانچ چھ ہندوئوں تک اس لفظ کے پہنچ جانے سے انہیں شرم آرہی تھی تو اشتہار شائع کرکے سارے ملک میں اس کی اشاعت کرتے ہوئے شرم کیوں نہ آئی۔ پس یا تو شرم کا دعویٰ جھوٹا ہے یا پھر وہ ویسے ہی عقلمند ہیں جیسا کہ مذکورہ بالا قصہ والا شخص عقلمند تھا۔
اس کے بعد میں مصری صاحب کے اشتہار میں درج شُدہ باتوں میں سے بعض کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ جماعت نے بِلا تحقیق میرے خلاف جذبۂ نفرت کا اظہار کردیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ بات درست ہے یا نہیں کہ مصری صاحب نے اپنے خطوں میں لکھا ہے کہ اگر مجھ سے فلاں بات نہ کی جائے تو میں جماعت سے نکل جائوں گا۔ اور جب وہ مانتے ہیں کہ یہ درست ہے تو ظاہر ہے کہ یہ کوئی دُنیوی معاملہ تو ہونہیں سکتا تھا۔ جیسے مثلاً کسی سکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر کئے جانے کا فیصلہ ہو۔ یہ بات تو ایسی ہی ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے وہ بیعت میں رہ ہی نہیں سکتے تھے۔ پس انہوں نے اپنے اقرار سے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ انہوں نے خلیفۂ وقت پر کوئی شدید ترین الزام لگائے ہیں۔ اور جب یہ امر ان کا مسلّمہ ہے تو وہ کس طرح یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ جو لوگ مجھے سچا سمجھتے ہیں وہ ان سے اظہارِ نفرت نہ کریں گے۔ انہوں نے اگرچہ تاحال وہ الزام بیان نہیں کئے بلکہ مجھے بھی تفصیلاً نہیں لکھے اشارات ہیں جن کے پیچھے خدا جانے کیا تفصیلات ہیں۔ مگر یہ تو وہ تسلیم کرچکے ہیں کہ وہ ایسے الزام ہیں کہ ان کے بعد وہ بیعت میں نہیں رہ سکتے۔ اس لئے یقینا وہ معمولی نہیں بلکہ خطرناک سے خطرناک ہوں گے۔ اس کے بعد وہ کس طرح توقع کرسکتے ہیں کہ وہ دوست جو مجھ سے مخلصانہ تعلق رکھتے ہیں، ان سے اظہارِ نفرت نہ کریں۔ جب وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ میں ایسے الزام لگاتا ہوں کہ جن کی موجودگی میں بیعت میں رہ ہی نہیں سکتا تو اس سے زیادہ تحقیق کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ایک غیرآدمی جسے مجھ سے اخلاص نہ ہو ایسے الزامات کو اور رنگ میں لے گا مگر جو شخص مجھے سچا سمجھتا ہے جب تک وہ دلائل کے ساتھ اسے اپنا ہم خیال نہ بنالیں وہ اگر سُنے گا کہ جسے وہ سچا اور راستباز سمجھتا ہے، اس پر کوئی شخص ایسے ایسے الزام لگاتا ہے وہ فوراً الزام لگانے والے کو جھوٹا کہے گا اور اس کا یہ کہنا بِلا تحقیق نہیں ہوگا کیونکہ اُس نے جب مجھے مانا تھا تو تحقیق کرکے مانا تھا۔ پس جو شخص اس پہلی تحقیق کے خلاف کہے گا اور مجھ پر الزام لگائے گا وہ اسے جھوٹا کہنے پر مجبور ہوگا۔
رسول کریم ﷺ کے پاس ایک یہودی آیا اورکہا کہ آپ نے میرے اتنے روپے دینے ہیں وہ اب تک دیئے نہیں۔ آپ نے فرمایا میں تو دے چکا ہوں۔ اس نے کہا نہیں۔ اس پر آپ سوچنے لگے کہ اس پر واقعہ کو کس طرح ثابت کروں۔ ایک صحابی نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! آپ نے روپے دے دیئے تھے۔ اس صحابی نے چونکہ دلیری اور وثوق سے کہا کہ آپ نے روپے دے دیئے تھے اوریہودی چونکہ جھوٹا تھا ، گھبراگیا اور اس نے مان لیا کہ ہاں آپ نے روپے دے دیئے تھے، مجھے یاد آگیا پہلے میں بُھول گیا تھا اور اُٹھ کر چلا گیا۔ رسول کریم ﷺ نے اس صحابی سے پوچھا کہ تمہیں کس طرح معلوم ہے کہ میں نے روپے دے دیئے تھے، تم تو وہاں نہیں تھے۔ اس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! آپ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے مجھ سے یہ کہا ہے او رہم مان لیتے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہوچکا ہے کہ آپ راستباز ہیں، تو پھر اس معاملہ میں آپ کی بات کے صحیح ہونے میں شک کس طرح ہوسکتا تھا۔ آپ نے فرمایا آئندہ اس شخص کی ایک کے بجائے دو گواہیاں سمجھی جائیں۔ ۲؎
اب دیکھو اس صحابی نے بغیر موجود ہونے کے رسول کریم ﷺ کی بات کی شہادت دی اور رسول کریم ﷺ نے سرزنش کی جگہ اس کی تعریف کی۔ گو اس میں کوئی شک نہیں کہ اصولِ شہادت کے مطابق اگر یہودی مصر رہتا تو آپ اس کی شہادت کو تسلیم نہ فرماتے مگر وہ جھوٹا تھا گھبراگیا اور دعویٰ ترک کردیا۔ مگر اتنا تو ثابت ہؤا کہ جب ایک شخص نے پہلے اس امر کی تحقیق کرلی ہو تو اس کے خلاف جو بات وہ سُنے اُس کا پہلا حق یہی ہوتا ہے کہ اسے ردّ کردے۔ پس اصل سوال اس جگہ یہ ہے کہ مذہبی معاملہ میں کیا انسان بے دیکھے اور بغیر سوچے سمجھے ہی مان لیا کرتا ہے؟ اگرنہیں توجماعت کافعل قابلِ اعتراض کیونکر ہؤا۔ انہوں نے میری خلافت کو بلکہ خلافت موعودہ کو اگر دلائل اور براہین سے مانا ہے تو شیخ صاحب یا اور کسی شخص کے دعویٰ کو وہ قابلِ قبول کس طرح سمجھ سکتے ہیں۔ جماعت کے لوگوں کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ ہم نے سوچ سمجھ کر ایک شخص کو امام مانا ہے۔ جو اس کی نفی کرتا ہے ہم اپنی پہلی تحقیق کے مطابق اسے سچا نہیں سمجھتے۔ شیخ صاحب کانقطہ نگاہ یہ ہے کہ جو میں کہتا ہوں اُس کو وزن دو اور اس کی تحقیق کرو۔ آخر یہ دُنیوی دعویٰ تو ہے نہیں کہ اس کی لازماً تحقیق کی جائے دینی دعویٰ ہے جس کی تحقیق جماعت پہلے کرچکی ہے اور اس کی بناء پر وہ مجھے خلیفہ مان چکی ہے اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہاموں کا مورد مان چکی ہے۔ اس تحقیق کے خلاف جو شخص بات کرتا ہے جب تک وہ اپنا دعویٰ ثابت نہ کردے، جماعت مجبورہے کہ اسے جھوٹا سمجھے۔ آخر یہ کس طرح ہوسکتاہے کہ جماعت اپنے ایمان کو مصری صاحب کے ہاتھ میں دے دے اور اپنی تحقیق کو مصری صاحب کی تحقیق کے تابع کردے۔
حضرت خلیفہ اوّل کو یہ لوگ بھی اور ہم بھی خلیفہ مانتے ہیں۔ ان کی زندگی میں ہم عملاً مانتے تھے اور اب ایماناً مانتے ہیں۔ اب اگر کوئی آکر کہے کہ حضرت خلیفہ اوّل نے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹ بولا تھا تو کیا ہمارا فرض ہے کہ فوراً تحقیقات کرنے لگ جائیں؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ ہم نے جب آپ کو مانا تھا تو تحقیقات کرکے ہی مانا تھا اور اب الزام لگانے والے کو ہم جھوٹا کہیں گے۔ ہاں جب وہ دلائل کے ساتھ ہمیں اپنا ہم خیال بنالے تو اسے سچا کہہ سکتے ہیں ورنہ جھوٹا ہی کہیں گے اور اس کا یہ کہنا کہ مجھے بِلاتحقیق جھوٹا کہاجاتا ہے، غلط ہے۔ کیا جماعت بغیر تحقیق ہی میری بیعت میں شامل ہوگئی تھی اور ہر سال جوہزاروں لوگ شامل ہوتے ہیں بغیر تحقیق کے ہی ہوجاتے ہیں۔ جب انہوں نے تحقیق کرلی تو اب جو شخص مجھ پر کوئی الزام لگائے میرے ماننے والے اسے جھوٹا یا فاسق یا منافق کہہ دیںتو یہ بِلا تحقیق نہیں ہوگا۔ ہاں جب وہ اپنی بات کو ثابت کرکے کسی کو اپنا ہم خیال بنالے تو پھر اس کا معاملہ دوسرا ہوگا۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ ادھر تو مصری صاحب مانتے ہیں کہ انہوں نے مجھ پر ایسے الزام لگائے ہیں جن کی وجہ سے مَیں خلیفہ نہیں رہ سکتا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جماعت میں بہت لوگ دہریہ ہوگئے ہیں اور بہت ہورہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اپنے متعلق مرتد یا منافق یا فاسق کے الفاظ بھی انہیں گوارا نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دہریہ بڑی گالی ہے یا منافق اور فاسق وغیرہ؟ وہ اپنا حق تو سمجھتے ہیں کہ جماعت کے بہت سے حصہ کو دہریہ قرار دیں اور بہت سے حصہ کو دہریت کی طرف مائل بتائیں۔ مگر اس کے جواب میں اگر جماعت کہے کہ تمہاری اپنی بینائی میں فرق آگیا ہے اور تم خود مرتد، منافق اور فاسق ہوچکے ہو اور تمہیں اچھی چیز بھی بُری نظر آنے لگی ہے تو وہ اس کو برداشت نہیں کرسکتے۔
ڈاکٹر عبدالحکیم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کولکھا تھا کہ سوائے مولوی نورالدین صاحب کے باقی سب جماعت گندی ہے اور کوئی ان میں سے اعلیٰ نمونہ پر نہیں پہنچا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ آئو تحقیقات کریں بلکہ آ پ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ میری جماعت بالکل ٹھیک ہے اور اگر اس میں تمہیں کوئی عیب نظر آتا ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ تم خود عیب دار ہو اس لئے میں تمہیں جماعت سے خارج کرتا ہوں۔ بیشک میں خود بھی بعض اوقات جماعت کو توجہ دلاتاہوں کہ بعض دوستوں میں کمزوریاں ہیں اور انہیں چاہئے کہ ان کو دور کریں مگر بعض دوستوں میں کمزوریوں کا ہونا اور بات ہے اور بہت سے لوگوں کا دہریہ ہونا اور۔ دہریت کے بعد باقی کیا رہ جاتا ہے۔ پس بعض احباب میں ایسی عملی کمزوریوں کے باوجود جو ایمان کے ہوتے ہوئے بھی پائی جاسکتی ہیں یہ کہنا کہ دہریت جماعت کے اندر پیدا ہوچکی ہے، اتنی بڑی گالی اور اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس سے زیادہ ظلم اور بڑی گالی ہو ہی نہیں سکتی۔ معلوم ہوتا ہے شاید خود ان کے دل میں ایمان نہ تھا ورنہ وہ دہریت کو اتنی معمولی بات نہ سمجھتے۔ مگر عجیب بات ہے کہ وہ فاسق اورمنافق کے الفاظ کو تو بڑی گالی سمجھتے ہیں مگر دوسروں کیلئے دہریہ کا لفظ بِلا تکلف استعمال کرتے ہیں۔ اس کے معنی یہی ہیں کہ ان کے نزدیک دہریت بالکل معمولی چیز ہے۔ ایک مسلمان کو کہو کہ تم تناسخ کے قائل ہو تو وہ اسے بڑی گالی سمجھے گا۔ لیکن اگر کسی ہندو کو کہو تو وہ بُرا نہیں منائے گا کیونکہ وہ اس کا قائل ہے۔ اسی طرح ان کا دوسروں کو اِس بے تکلفی سے دہریہ کہنے کا مطلب یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں دہریت کوئی بُری چیز نہیں۔ تو شیخ صاحب خود تو جماعت کو دہریہ کہتے ہیں مگر یہ بھی کہتے ہیں کہ تمہیں کوئی حق نہیں کہ مجھے منافق یا فاسق کہو۔ اگر وہ کہیں کہ میں نے ساری جماعت کو تو نہیں کہا مگر جب وہ کہتے ہیں بہت سارے دہریہ ہوچکے ہیں تو جو باقی رہ گئے وہ کیا ہوئے۔ جب جماعت کے اندر ایک گندی رَو پید اہوچکی ہو توپھر اچھا کون رہ سکتا ہے۔ عبدالحکیم نے بھی تو ساری جماعت کے متعلق یہ نہیں کہا تھا اس نے بھی یہی کہا تھا کہ مولوی صاحب کامل مومن ہیں اور مصری صاحب بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک کامل تو وہ خود، فخرالدین صاحب اور حکیم عبدالعزیز ہیں اور باقی جماعت ابھی ضلالت پر ہی قائم ہے۔ ایک شخص جماعت سے نکلتا اور جماعت پر اور خلیفہ پر اتہام لگاتا اورپھر کہتا ہے کہ مجھے جھوٹا نہ کہو بلکہ خلیفہ کو بُرا کہو، میں نہیں سمجھتا ایک عقلمند کی عقل اور مُحب کی محبت پر اس سے زیادہ حملہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے جماعت پر دہریت کا الزام لگایا۔ مولوی ابوالعطاء صاحب نے انہیں چیلنج دیا کہ سَو ایسے لوگوں کے نام جو دہریہ ہوگئے ہوں اور سَوان کے جو دہریت کی طرف جارہے ہوں بتادیں اور باوجود اس چیلنج کے کئی بار دُہرائے جانے کے وہ ایسے نام پیش نہیں کرتے۔ تو ہم انہیں جھوٹا نہیں تو اور کیا کہیں گے۔
اب میں بتاتا ہوں کہ شریعت کا حکم یہ ہے کہ الزام لگانے والا ثبوت دے۔ شریعت اُس کا جس پر الزام لگایا جائے، ساتھ دیتی ہے اور ثبوت کا بار الزام لگانے والے پر ڈالتی ہے۔ یہ نہیں کہتی کہ ثبوت لوگ تلاش کرتے پھریں۔ مثلاً کوئی شخص زید یا بکر کے پاس آئے اورکہے کہ فلاں شخص حرامزادہ ہے اورجب آگے سے کہا جائے کہ ثبوت لائو تو کہے کہ میں نے بتادیا، اب ثبوت تم خود تلاش کرتے پھرو۔ ایسے موقع پر مومنوں کو تو شریعت کا یہ حکم ہے کہ فوراً کہہ دیں سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَلَوْلَا اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْرًا وَ قَالُوْا ھٰذَا اِفْکٌ مُّبِیْنٌ۳؎۔ پھر فرمایا وَلَوْلَا اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَّایَکُوْنُُ لَنَا اَنْ نَتَکَلَّمَ بِھٰذَا سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ۔ ۴؎ یعنی جب کوئی شخص دوسرے مومن کے متعلق کوئی عیب کی بات کہے تو وہ آگے سے فوراً جواب دے کہ سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ۔ اے میرے ربّ! تُو پاک ہے اور یہ بہت بڑا بہتان ہے۔
پھر فرمایا کیوں نہ مومنوں نے اِفک کا الزام سنتے ہی کہہ دیا کہ یہ بہت بڑا جھوٹ بنایا گیا ہے۔ اور جب یہ کہا جائے کہ یہ بڑا جھوٹ بنایا گیا ہے توکیا اس کے یہ معنے نہیں کہ اس الزام کا لگانے والا جھوٹا ہے۔ تو اب بتاؤ کہ جب قرآنی تعلیم کے مطابق کوئی شخص ایسے موقع پر کہے کہ یہ الزام لگانے والا جھوٹا ہے تو وہ آگے سے یہ کہہ سکتا ہے کہ کس قدر ظلم ہے۔ مجھے بِلا تحقیق ہی جھوٹا کہہ دیا گیا ہے۔ مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی شان یہی ہے کہ فوراً کہہ دے ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ۔ اور یہ اگلے کا فرض ہے کہ دلیل لائے۔ مگر یہاں دلیل لانا تو الگ رہا الزام تک بیان نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ قرآن کریم نے صاف طور پر یہ اصول بتایا ہے کہ دلیل اور ثبوت الزام لگانے والے کے ذمہ ہے۔ اسے چاہئے کہ اپنے ثبوت پیش کرے اور پھر اگر وہ شریعت کے مطابق ہوں تو مومن مان لے۔ اور اگر کوئی دلائل بیان نہیں کرتا تو قرآن کریم صاف کہتا ہے کہ تم کہہ دو ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ یعنی یہ شخص جھوٹ بھی معمولی نہیں بول رہا بلکہ کَذّاب ہے۔ کاذب خالی بُہتان کا ترجمہ ہے اور بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ کا ترجمہ کذاب ہے۔
قرآن کریم کی یہ تعلیم ہی ہے جو دنیا میں امن قائم رکھ سکتی ہے ورنہ کسی شریف آدمی کی عزت محفوظ نہیں۔ فرض کرو کوئی شخص شیخ صاحب کی بیوی یا بیٹی پر کوئی الزام لگائے تو کیا وہ اُس کے ہاتھ چُومیں گے اور کہیں گے جَزَاکَ اللُّٰہُ آپ نے بہت اچھا کیا جو مجھے بتادیا میں اس کی تحقیقات کروں گا۔ کیا جن لوگوں نے حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا پر الزام لگایا رسول کریم ﷺ نے اُن کو بلا کر اپنے پاس بٹھایا اور کہا کہ تم لوگوں نے بڑا احسان کیا ہے؟ یا یہ کیا کہ آپ منبرپر تشریف لائے اور فرمایا کہ ایک شخص نے میرے اہل کے متعلق مجھے بہت دکھ پہنچایا ہے، کون ہے جو میری مدد کرے۔ اس پر قبیلہ اوس کے ایک شخص نے کہا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اگر وہ ہمارے قبیلہ میں سے ہے تو ہم اس کو سزا دیں گے اور اس کا مقابلہ کریں گے۔۵؎ آپ نے یہ تونہیں کیا تھا کہ الزام لگانے والے پر دستِ شفقت پھیرا اور کہا ہو کہ اچھا میں تحقیق کروں گا۔ تو قرآن کریم کا یہی فیصلہ ہے کہ ایسی بات سنتے ہی کہہ دوکہ ھٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ اور یہ حکم تو ایک معمولی مومن کے متعلق ہے اور خلیفہ سے تو بیعت کا بھی تعلق ہوتا ہے۔ اگر یہ لوگ کسی ادنیٰ مومن پر بھی کوئی الزام لگاتے تو شریعت کا یہی حکم ہے کہ مومن سنتے ہی کہہ دے کہ یہ شخص کَذّاب ہے۔
شیخ مصری صاحب کہتے ہیں کہ مجھے دو سال سے ان باتوں کا علم تھا اورپھر کہتے ہیں کہ مجھے منافق نہ کہو مگر سوال یہ ہے کہ منافق کسے کہتے ہیں؟وہی جو ظاہراً جماعت کے ساتھ شامل ہو مگر اندر سے مخالف ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں دو سال سے علم تھا کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ میری بیعت کی جائے۔ مگر پھر بھی جماعت میں شامل تھے اور اِسی کو منافق کہتے ہیں۔ منافق صرف دینی امور میں ہی نہیں دُنیوی امور میں بھی کوئی شخص منافق ہوسکتا ہے۔جو شخص کسی کارخانہ میں ملازم ہے اور تنخواہ لیتا ہے اور پھر اس کارخانہ کے راز بھی دوسروں کو بتاتا ہے، اسے بھی ہم منافق ہی کہیں گے۔ منافق وہ نہیں ہوتا جو اسلام سے نکل جائے بلکہ منافق جماعت کے اندر شامل ہوتاہے اور شامل ہوتے ہوئے مخالفت کرتا ہے۔ تو مصری صاحب اپنی منافقت کا اقرار کرتے ہیں مگر پھر بھی چاہتے ہیں کہ جماعت منافق کو منافق نہ کہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ دو سال سے مجھے ان باتوں کا علم تھا۔ اور منافق کیلئے کسی معیاد کی شرط نہیں خواہ کسی کے خیالات بگڑ جائیں اور وہ دو روز ہی ان کو چُھپا کر اس جماعت سے فائدہ اُٹھاتا رہے وہ منافق ہے۔اور خیالاگ بگڑنے کی صورت میں اس کا فرض ہے کہ اُسی وقت فیصلہ کرے۔ یا توتسلی کرلے اور یا پھر جماعت سے الگ ہوجائے۔ مگر جو شخص یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کی حالت دو سال سے ایسی تھی اور ہماری تحقیقات یہ ہے کہ ان کی یہ حالت اس سے بھی بہت پُرانی تھی مگر چونکہ ہماری تحقیقات تابع ہے ان الزامات کے اس لئے جب وہ ان کو ظاہر کریں گے اُسی وقت ہم بھی کریں گے۔
پھر مصری صاحب لکھتے ہیں کہ ’’آپ اس بھائی کو جو محض آپ لوگوں کو ایک خطرناک ظلم سے جس سے آپ میں سے اکثر بے خبر ہیں کے پنجہ سے چُھڑانے کیلئے اپنی عزت، اپنا مال، اپنی سبیلِ معاش، اپنا آرام، اپنے اہل و عیال کا آرام، اپنے عزیز بچوں کی تعلیم سب کچھ قربان کرکے نکلا ہے‘‘۔ گویا تمہیں ایسا گندہ خلیفہ ملا ہؤا تھا جو جماعت کو تباہ کررہا اور دہریت کی طرف لے جارہا تھا۔ میں نے تمہاری خیرخواہی کی اور تمہاری خاطر اس قدر قربانی کی اور پھر تم میرے دشمن ہوگئے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانے والوں نے قربانی نہ کی تھی۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُھَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا۔۶؎ حضرت عائشہؓ پر الزام لگانے کی وجہ سے تین اشخاص کوکوڑے لگے تھے جن میں سے ایک حسان بن ثابت تھے جو آنحضرت ﷺ کا شاعرِ اعظم تھا اور ایک مسطح تھا جو حضرت عائشہؓ کا چچا اور حضرت ابوبکرؓ کا خالہ زاد بھائی تھا۔ وہ اس قدر غریب آدمی تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کے گھر میں ہی رہتا ، وہیں کھانا کھاتا اور آپ ہی اس کیلئے کپڑے بنواتے تھے اور ایک اَور عورت ان کے ساتھ تھی ان تینوں کو سزا ہوئی تھی۷؎۔ توکیاکوئی کہہ سکتا تھا کہ ان کونقصان کا کوئی احتمال نہ تھا کون نہیں جانتاکہ عداوتوں اور دشمنیوں کی وجہ سے لوگ خود نقصان اٹھا کر بھی دوسروں کو ذلیل کرتے ہیں۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان کو نقصان کا کوئی احتمال نہ تھا۔ کون نہیں جانتا کہ عداوتوں اور دشمنیوں کی وجہ سے لوگ خود نقصان اُٹھا کر بھی دوسروں کو ذلیل کرتے ہیں۔ کیا مصری صاحب کی قربانی حسان اور مسطح سے زیادہ ہے؟ خود قرآن کریم گواہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے قسم کھائی تھی کہ اب میں مسطح کی مدد نہیں کروں گا۔۸؎ مگر چونکہ یہ جرم حکم قرآنی کے نازل ہونے سے پہلے کا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا۔ وہ تومعذور تھے مگر تیرہ سَو سال تک یہ قرآنی حکم سننے کے بعد جو مجرم بنے وہ کس طرح اپنی بریت کرسکتا ہے۔ جو قربانی مصری صاحب نے کی ہے اس سے بڑھ کر مسطح نے کی تھی۔ اس کے کھانے اور کپڑے تک کا کوئی انتظام نہ تھا حتیٰ کہ اس کے پاس رہنے کیلئے کوئی مکان تک نہ تھا وہ بدری صحابی بھی تھا۔ پس ا س سے بڑھ کر مصری صاحب میں کون سی چیز ہے۔ اسی طرح حسان بھی صحابی تھے اور شاعر اسلام تھے۔ کیا یہ لوگ سمجھتے تھے کہ جب ہم حضرت عائشہؓ پر الزام لگائیں گے تو ہماری بڑی عزت ہوگی اور حضرت ابوبکرؓ بُلاکر ہمارا وظیفہ مقرر کردیں گے؟ نہیں بلکہ انہیں خوب علم تھا کہ کس قدر مشکلات کا سامنا ہوگا۔ مسطح اچھی طرح جانتا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ روٹی کپڑا بند کردیں گے اورمکان سے بھی نکال دیں گے اور حسّان پر تو ایک صحابی نے تلوار سے حملہ کردیا تھا او رایک دوسرے صحابی نے بچایا کہ سزا دینا رسول کریم ﷺ کا کام ہے تمہارا نہیں۔ جس طرح کہ آج میں شریعت کا واسطہ دے کر احباب جماعت کو روکتا رہتا ہوںکہ دیکھنا جماعت کو بدنام نہ کرنا۔ یہ لوگ ہمارے محلوں میں جاتے اور احمدیوں کے مکانوں کے اندر اشتہار پھینک کر آتے ہیں اور اس طرح اشتعال دلاتے ہیں۔ ان کی طرف سے فساد انگیزی میں کوئی کسر باقی نہیں۔ یہ میری اس تعلیم کی وجہ سے ہی ہے کہ اپنے جوشوں کو قابو میں رکھو اور کوئی ایسی حرکت نہ کرو جس سے احمدیت بدنام ہو۔ یہ لوگ یہاں اس قدر اشتعال انگیزی کے باوجود امن سے رہ رہے ہیں ان دنوں ان کی زندگیوں کی ایک ایک گھڑی میرے احسان کے نیچے ہے۔ میں ہی ہوں جو خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت کی طبائع کو ٹھنڈا کرتا ہوں اورمیری ہی متواتر ہدایات کی وجہ سے لوگ اپنے جوشوں کو دبائے ہوئے ہیں۔ ورنہ کسی ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی کے متعلق بھی کوئی اس قسم کی باتیں کرسکتا ہے؟
مستریوں نے جب اس قسم کے الزام لگائے تو میں نے اُن کو بُلایا تھا اور دریافت کیا تھا کہ سنا ہے تم ایسی باتیں کرتے ہو۔ پہلے تو بیٹا کہنے لگا کہ نہیں میں نے تو آپ کے متعلق یہ خواب دیکھا تھا، بھلامیں ایسی باتیں کرسکتا ہوں؟ اور باپ نے کہا کہ یہ تو مجھے سمجھاتا رہتا ہے مگر آہستہ آہستہ انہوں نے اقرار کرلیا۔ اس پر میں نے انہیں کہا کہ جانے دو اِس بات کو کہ مَیں خلیفہ ہوں، جانے دو احمدیت کے جتھے کو۔ تم جانتے ہو فلاں شخص نماز نہیں پڑھتا اور فلاں شخص شراب پیتا ہے اور ان کی حیثیت گائوں میں وہ نہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے حاصل ہے مگر تمہاری جرأت ہے کہ بازار میں جاکر کہو کہ فلاں شخص شراب پیتا ہے یا فلاں شخص نماز نہیں پڑھتا؟ تم ہرگز یہ جرأت نہیں کرسکتے کیونکہ تمہیں معلوم ہے کہ اگر ایسا کہا تو اس قدر جُوتے پڑیں گے کہ سر پر ایک بال نہیں رہے گا۔ پھر قادیان میں مجھے جو مالکانہ حیثیت حاصل ہے اسے بھی جانے دو۔ تم کسی گائوں میں دو گھمائوں ملکیت رکھنے والے کسی شخص کے متعلق ہرگز ایسی باتیں کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے اور اس طرح گویا تم اپنے فعل سے شہادت دیتے ہو کہ مَیں شریف ہوں اور پُرامن ہوں۔ ورنہ جو باتیں تم میرے متعلق کہتے ہوان کا سوواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی کسی اور کے متعلق تم نہیں کہہ سکتے۔ اور اب یہی بات میں اِن لوگوں سے کہتا ہوں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جماعت کے ۸۰ فیصدی لوگ ہمارے ساتھ ہیں مگرمیں کہتا ہوں کہ اسّی فیصدی نہیں نوے پچانوے بلکہ ننانوے فیصدی سہی بلکہ ۴؍۳۔۹۹ فی صدی سہی۔ قادیان میں اِس وقت آٹھ ہزار احمدی ہیں۔ ان میں سے ۴؍۳۔۹۹ فی صدی بھی اگر ان کے ساتھ ہوں اور صرف ۲۴ ہی میرے ساتھ۔ مگر کیا جس کے واسطے ۲۴ آدمی بھی جان دینے کو تیار ہوں اُس کے متعلق کوئی ایسی باتیں کرسکتا ہے؟ بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ جس کے ساتھ ایک بھی آدمی نہ ہو اُس کے متعلق بھی کوئی نہیں کہہ سکتا۔ کیا دنیا میں لوگ اشتعال میں آکر خود بدلہ نہیں لے لیتے؟ آخر ہم لوگ ایسے خاندان سے تو تعلق نہیں رکھتے جس نے کبھی لڑائی میں ہاتھ نہ ڈالا ہو۔
ہمارے خاندان کی تاریخ جنگی تاریخ ہے اور اب بھی ہمارا فوج کے ساتھ تعلق ہے۔میں نے خود میرزا شریف احمد صاحب کو فوج میں داخل کرایا ہے اور اب ان کا ایک لڑکا فوج میں شامل ہو رہا ہے۔ہمارے تایا صاحب نے غدر کے موقع پر جنگ میں نمایاں حصہ لیا۔ہمارے دادا فوجی جرنیل تھے۔ دلی کے بادشاہوں کی چِٹّھیاں ہمارے پاس محفوظ ہیںجن میں اس امر کا اعتراف ہے کہ ہمارا خاندان ہی تھا جس نے سکھوںکے زمانہ میںاسلام کی حفاظت کے لئے قربانیاںکیں۔پس اِن کا مجھ پر حملہ اس لئے نہیں کہ میں بُزدل ہوں یا میرا خاندان جرأت نہیں رکھتابلکہ صرف اس لئے ہے کہ یہ جانتے ہیںکہ ان کی شرارتوں کا جواب میں شرارت سے نہیں دوں گا اور صبر سے اِن کے ظلموں اور شرارتوں کو برداشت کروں گا۔ ایسے لوگ اور کسی پر اعتراض نہیں کرتے، صرف مجھ پرہی کرتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ مجھ پر اعتراض کریں گے اورمیں اِن کی حفاظت کروں گا۔ وہ مجھے گالیاں دیں گے اور میں اِس امر کا خاص خیال رکھوں گا کہ انہیں کوئی تکلیف اوردُکھ نہ پہنچے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ وہ دوسروں پر حملہ نہیں کرتے۔
مؤمن ربانی ہوتا ہے۔ پہلے وہ چھوٹی اصلاح شروع کرتا ہے۔ بیسیوں عیوب ان کے اِردگِرد موجود ہیں ان کے گھروں میں اور ان کے دوستوں میں پائے جاتے ہیں یہ لوگ کیوں ان کی اصلاح کیلئے کھڑے نہیں ہوتے؟ کیوں ان کے متعلق اشتہار شائع نہیں کرتے؟ مجھ پر ان کا حملہ بتاتا ہے کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ میں پُرامن ہوں ورنہ دنیا میں کسی ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی پر بھی کوئی شخص اس طرح حملہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوسکتا جس طرح مجھ پر حملہ کیا جاتا ہے۔ گویا میں اس وسیع دنیا میں ایک ہی یتیم اور بے کس ہوں جس کی عزت پر حملہ کرنا کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔ مگر دشمن نادان ہے، بیشک بظاہر مَیں ایک ہی یتیم ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ گو انسان مجھے چھوڑ دیں مگر خداتعالیٰ مجھے نہیں چھوڑے گا۔ میں نے اِس دنیا میں ان لوگوں سے جو میری محبت کا دم بھرتے تھے، ظلم پر ظلم دیکھے ہیں مگر ایک ہے جس نے مجھے کبھی نہیں چھوڑا اور اُسی کے منہ کیلئے میں یہ سب ظلم برداشت کررہا ہوں۔ یہ خلافت میرے لئے پھانسی سے کم ثابت نہیں ہوئی۔ لوگوں نے مجھے تختۂ دار پر کھینچا اور فخر کرنے لگے کہ انہوں نے مجھے تخت بخش دیا ہے مگر میرے خدا نے مجھے کہا کہ یہ تُو سب کچھ برداشت کر اور اُف نہ کر کیونکہ تیرے دکھ میرے لئے ہیں نہ کہ بندوں کیلئے۔ پس جن کیلئے تیرے دُکھ نہیں تیرا حق نہیں کہ ان سے صلہ کا امیدوار ہو۔ تیرا کام بندوں کیلئے بغیر اُجرت کے ہے مگر تُو بے اُجرت نہیں چھوڑا جائے گا۔ میں خود تیرے زخموں پرمرہم رکھوں گا اور تیری ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑدوں گا۔ انسانوں نے بیشک تیرے ساتھ ظلم کیا ہے مگر کیا میری محبت اس ظلم کا کافی سے زیادہ بدلہ نہیں؟ اور کیا میری محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کے سوا تجھے اور کسی چیز کی خواہش ہوسکتی ہے؟ میرے رب کی یہی آواز ہے جس نے تاریکی کے وقتوں میں میرا ساتھ دیا ہے اور جب میرا دل بیٹھنے کو ہوتا تھا تو اُس نے میرے دل کو سہارا دیا ہے ورنہ مجھ پر ہزاروں گھڑیاں آئی ہیں کہ موت مجھے حیات سے زیادہ عزیز تھی اور قبر کا کونہ گھر کے کمروں سے مجھے زیادہ پیارا تھا۔
میں باتوں باتوں میں دور نکل گیا ۔ میں ذکر یہ کررہا تھا کہ حسان او رمسطح بھی اپنا نقصان کرکے کھڑے ہوئے تھے۔ ان کی روٹیاں اور کپڑے، ان کے مکان ، ان کی عزتیں، غرضیکہ ہر چیز خطرہ میں تھی۔ تو کیا اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ حضرت عائشہؓ پر ان کا الزام صحیح تھا؟ اگر یہ دلیل کوئی قیمت رکھتی ہے کہ انہوں نے اپنا نقصان کرکے یہ فتنہ شروع کیا ہے اس لئے وہ جو کہتے ہیں صحیح ہے تو میں کہتا ہوں کہ پہلوں نے بھی نقصان اُٹھا کر ہی ایسا کیا تھا مگر ان کے متعلق قرآن کریم کا صاف حکم ہے کہ وہ کذاب تھے۔ پس ان لوگوں کو کونسی زائد پوزیشن حاصل ہے کہ ان کو کذاب نہ کہاجائے۔ پھر یہ بھی درست نہیں کہ مصری صاحب نے کوئی قربانی کی ہے۔ انہوں نے پہلا خط فخر دین صاحب کے اخراج کے بعد لکھا ہے۔ اگر وہ کسی قربانی کیلئے تیار تھے تو چاہئے تھا کہ پہلے لکھتے۔ لیکن جب دیکھا کہ پارٹی ٹوٹنے لگی ہے تو خط میں مجھے دھمکی دی کہ فخر دین صاحب کو معافی دے دو ورنہ پردے فاش ہوجائیں گے۔ وہ سمجھتے تھے کہ میں ڈرجائوں گا اورمعاف کردوں گا۔ تو اس خط سے ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ ڈرا کر فخر دین صاحب کیلئے معافی حاصل کی جائے۔ یہ بھی کوئی قربانی ہے کہ کوئی شخص کسی سے آکر کہے کہ یہ کام کردو ورنہ تمہارا گھر لُوٹا جائے گا۔ پہلے خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ فخردین صاحب کو معاف کردیں ورنہ بڑی بدنامی ہوگی۔ تو یہ خط کسی قربانی کیلئے نہیں بلکہ فائدہ اُٹھانے کیلئے لکھا گیا ہے۔ یہ اس غرض سے لکھا گیا تھا کہ ان کا جو دوست جماعت سے باہر کردیاگیا ہے اُسے پھر شامل کرلیا جائے۔ پس یہ خط فائدہ اٹھانے کیلئے لکھا گیا تھا نہ کہ کسی قربانی کیلئے۔ اگر یہ فخر دین صاحب کی خاطر نہیں لکھا گیا تھا تو جب وہ کہتے ہیں ان باتوں کا دوسال سے مجھے علم تھا تو فخردین صاحب کے اخراج کا انتظار کیوں کرتے رہے۔ اس مرحلہ پر خط لکھنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ ان کے مزعومہ اعتراضات کا اظہار خود الزامات کا باعث نہ تھا بلکہ میاں فخر دین صاحب کو بچانے کیلئے تھا۔ مصری صاحب بتائیں تو سہی کہ فخردین صاحب کے اخراج کے بعد کونسے ایسے نئے حالات پیدا ہوگئے تھے جن کی وجہ سے وہ مجبور ہوگئے کہ وہ ان الزامات کا اظہار کریں۔ اگر تو کوئی نئے حالات پیدا ہوگئے ہوتے تو ہم سمجھ لیتے کہ یہ خط ان حالات کی وجہ سے لکھا گیا لیکن ایسا نہیں ہے۔ پس واقعہ یہی ہے کہ اگر فخر دین صاحب جماعت میں رہتے تو باوجود مصری صاحب کو میرے مزعومہ عیوب کا علم ہونے کے وہ بھی جماعت میں رہتے اور میاں فخر دین صاحب بھی اور میاں عبدالعزیز بھی ۔ گویا میرے عیوب مستقل وجود نہیں رکھتے وہ صرف فخر دین صاحب کے اخراج کے ساتھ مل کر مکمل ہوتے ہیں۔ پس اس سے صاف ثابت ہے کہ ان خطوط کے لکھنے کا محرک پارٹی کے ٹوٹنے کا خدشہ یا غصہ تھا۔
تیسرے خط میں شیخ صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے معلوم ہوچکا ہے اب آپ سے نرمی کرنا سلسلہ کے ساتھ غداری ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ دو سال تک یہ مسئلہ کیوں نہ سُوجھا۔۱۳ روز کے اندر اندر ہی یہ رموز اِن پر کُھلے، دو سال پہلے کیوں نہ کھلے۔ اِس الزاموں والے خط میں بعض جگہ تو الزام نمایاں ہیں گو مجمل اور تشنہء تفصیل اور بعض جگہ یہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ وہ کہتے کیا ہیں۔ ان دونوں طریقوں سے صاف پتہ لگتا ہے کہ پہلا خط اِس غرض سے تھا کہ دھمکیوں سے ڈر کر مَیں اِن کی بات مان لوں اور وہ جو چاہیں مجھ سے کراسکیں۔ جیسے دلی میں بادشاہ گر ہوتے تھے یہ خلیفہ گر بننا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ظاہر میں تومَیں لیکن باطن میں وہ خلیفہ ہوں۔ مگرا نہیں کیا معلوم کہ خدا او ر انسان کے بنائے ہوئے خلفاء میں کیا فرق ہوتا ہے۔ خدا کا بنایا ہؤا خلیفہ کبھی کسی سے نہیں ڈرتا۔ کیا میں اس بات سے ڈر جائوں گا کہ لوگ مرتد ہو جائیں گے؟ جس کے لئے ارتداد مقدر ہے وہ کل کی بجائے بیشک آج ہی مرتد ہو جائے، مجھے کیا فکر ہے۔میں جب جانتا ہوں کہ میں خدا کا بنایا ہؤا خلیفہ ہوں تو خواہ ایک آدمی بھی میرے ساتھ نہ ہو تو بھی مجھے کیا ڈر ہے۔جب خدا تعالیٰ خود مجھے تسلیاں دیتا ہے تو میں انسانوں سے کیوں ڈروں۔ادھر یہ لوگ مجھے ڈراتے اور اُدھر خدا تعالیٰ مجھے تسلیاں دیتا ہے ۔اِن چند روز میں اس کثرت سے مجھے الہام اور رؤیا ہوئے ہیں کہ گزشتہ دو سال میں اتنے نہ ہوئے ہوں گے۔ ابھی چند روز ہوئے کہ مجھے الہام ہؤا جو اپنے اندر دعا کا رنگ رکھتا ہے اوروہ یہ ہے کہ ـ’’ اے خدا! میں چاروں طرف سے مشکلات میں گھرا ہوا ہوں تُو میری مدد فرما ‘‘ ۔اور پھر اس کے تین چار روز بعد الہام ہؤا جو گویا اس کا جواب ہے کہ ’’ میں تیری مشکلات کو دُور کروں گا اور تھوڑے ہی دنوں میں تیرے دشمنوں کو تباہ کر دوں گا‘‘۔ آخری الفاظ ’’تباہ کر دوں گا‘‘یا ’’برباد کروں گا‘‘یا ’’مٹا دوںگا ‘‘تھے، صحیح طور پر یاد نہیں رہے۔ تو جب خدا تعالیٰ خود مجھے تسلیاں دیتا ہے تو میں بندوں سے کیوں ڈروں۔ اور کیا ان واقعات کے بعد میں کسی بندے پر اعتماد کر سکتا ہوں ؟ شیخ عبدالرحمن مصری میرے بچپن کے دوست تھے مگر آج ان کے اقرار کے بموجب وہ دو سال سے میرے خلاف مواد جمع کر رہے تھے مگر ہماری تازہ تحقیق کے مطابق اس سے بھی بہت پہلے سے کینہ دل میں چھپائے بیٹھے تھے۔ پھر میں کسی انسان پر کس طرح بھروسہ کر سکتا ہوں ۔
فتح مکہ کے بعد رسول کریم ﷺ نے پانچ اشخاص کے متعلق حکم دیا تھاکہ جہاں بھی ملیں مار دیئے جائیں۔ ان میں سے ایک ہندہ بھی تھی مگر وہ چادر اوڑھ کر دوسری عورتوں کے ساتھ بیعت کرنے آگئی۔ رسول کریمﷺ نے جب بیعت لیتے لیتے کہاکہ کہو ہم شرک نہ کریں گی تو چونکہ وہ بڑی دلیر عورت تھی اس سے نہ رہا گیا۔ کہنے لگی کیاہم لوگ ایسے ہی بیوقوف ہیں کہ اب بھی شرک کریں گے ۔ آپ اکیلے تھے اور ہم سارے تھے، ہم نے مخالفت کی مگر آپ ہم میں سے ایک ایک کر کے سب کو چھین کر لے گئے آخر آپ جیتے اور ہم ہارے کیا اس کے بعد بھی ہم شرک کر سکتے ہیں ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کون ہے؟ ہندہ؟ ۔ مطلب یہ تھا کہ میں نے تو اس کے قتل کا حکم دیا تھا ۔ وہ کہنے لگی کہ اب تو میں مسلمان ہو چکی ہوں اب آپ مجھے نئے گناہ پر سزا دے سکتے ہیں پُرانے پر نہیں ، وہ معاف ہو گئے۔۹؎ یہی حال میرا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار انسانوں کی کمزوری پر آگاہ کر دیاہے پھر کیامیں اب بھی بندوں پر بھروسہ کر سکتا ہوں۔ میں نہ آدمیوں سے خوش ہوں او ر نہ ان کے ریزو لیوشنز سے ۔ میں تو صرف اس لئے خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مخالفوں کی طرح سارے سانپ لاکر رکھ دیں میرے خدا کاسانپ ان سب کو نگل جائے گا۔ اگر ایک شخص بھی تم میں سے میرے ساتھ نہ رہے تو بھی مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ کیونکہ میرا خدا مجھ سے کہتا ہے کہ میں تیرا ساتھ دوں گا پھر مجھے کسی اورکی کیا ضرورت ہے۔
اِنہی دنوں میں مَیں نے ایک رئویا دیکھا ہے وہ بھی مخالفوں کے تباہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک درختوں کا چھوٹا سا جنگل ہے جس میں کچھ درخت ہیں اور کچھ کُھلا میدان ہے اور تین چارپائیاں پڑی ہیں۔ دو شرقاً غرباً اور ایک شمالاً جنوباً۔ ان میں سے ایک پر میں بیٹھا ہوں اور ایک پر ایک بچہ اور ایک عورت بیٹھے ہیں۔ وہ عورت اگرچہ محرم معلوم ہوتی ہے مگر اُس وقت اُس کانام ذہن میںنہیں آتا ۔ میں نے یکدم دیکھا کہ بھورے رنگ کا ایک سانپ جو قریباً ڈیڑھ گز لمبا ہے چارپائی کے نیچے سے نکلا ہے۔میرے پاس چھوٹی سی سوٹی ہے میں نے دَوڑکر اُسے مارا، سوٹی اُس کی کمر میں لگی اور وہ دوٹکڑے ہو گیا۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دو مونہی ہے اور اُس کی دُم اور سر دونوں ہی میںزندگی کے آثارمعلوم ہوتے ہیں(جیسا کہ عوام میں مشہور ہے کہ دو مونہی سانپ میں دو زندگیاں ہوتی ہیں سر کی طرف بھی اور دُم کی طرف بھی) مگر اب اس میں بھاگنے اور حملہ کرنے کی طاقت نہیں رہی۔ وہ کھسکتا ہے۔ عورت اس کے پاس آئی مگر بچہ وہیں بیٹھا رہا۔ وہ لکڑی کے ساتھ اُسے ہِلاتی ہے۔ میں بھی ایک سرا ہِلارہا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ وہ سانپ چھوٹا ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ڈیڑھ بالشت کے قریب رہ گیا اور ساتھ ہی پتلا بھی ہوتا گیا۔ پھر دائیں طرف ایک درخت کے نیچے آگ جلتی ہوئی نظر آئی۔ میں نے اس عورت سے کہا کہ اِس کا ایک ٹکڑا لکڑی سے تُم اٹھاؤ اور ایک میں اُٹھاتا ہوں اور اسے آگ میں ڈال دیں تا جل جائے۔ میں نے تو ایک ٹکڑا آگ میں ڈال کر اوپر بوجھ رکھ دیا اور وہ جل کر راکھ ہوگیا۔ دوسرا حصہ جو اس عورت کو میں سمجھتا ہوں ہماری رشتہ دار ہے مگر خیال نہیں کہ کون ہے، آگ میں ڈالنے کیلئے کہا تھا وہ اس نے پھینکا تو بجائے آگ کے وسط میں گرنے کے آگ کے آخری حصہ میں جاگرا۔ اس پر میں کہتا ہوں کہ یہ آگے نکل نہ جائے اس لئے میں نے ایک اینٹ اُٹھا کر اُس کے اوپر پھینک دی تا وہ اچھی طرح جل جائے پھر اُسے آگ لگ گئی اور وہ جل گیا۔ مگر اس کا سر ایک چھوٹی انگلی کی اوپر کی پور کے برابر آگ سے نکل کر جھاڑی کی جڑ کی طرف چلا گیا۔ میں اسے بھی مارنا چاہتا ہوں مگر وہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے۔ اب اس کی یہ تعبیر بھی ہوسکتی ہے کہ اس فِتنہ کا تھوڑا سا حصہ باقی رہ جائے گا اور یہ بھی کہ بالکل تباہ ہوجائے گا۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ سانپ جب زخمی ہوجائے تو پھر بچ نہیں سکتا۔پس اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ یہ اِس طرح ذلیل ہوں گے کہ کوئی اثر ان کا جماعت میں نہ رہے گا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے کچھ لوگ ذلیل ہوکر مخفی مخفی جماعت میں شامل رہیں جس طرح رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بعض منافق رہ گئے تھے۔ جنہوں نے بعد میں بہت سی گندی روایات تاریخِ اسلامی میں داخل کردیں یہ بھی اندر رہ کر فتنہ پیدا کرتے رہیں۔ پس میں نہ بندوں پر اعتماد کرتا ہوں اور نہ ریزولیوشنز پر۔ میرا بھروسہ تو اپنے خدا پر ہے۔
میں بتارہا تھا کہ یہ بالکل غلط ہے کہ مصری صاحب نے کوئی قربانی کی ہے۔ پہلے انہوں نے مجھے ڈرا کر فائدہ حاصل کرنا چاہا اور اِسی کوشش میں جب اِن کا اندرونہ ظاہر ہوگیا تو وہ سمجھ گئے کہ اب تو مجھے نکال ہی دیں گے۔ اس لئے خود ہی لکھ دیا کہ اگر چوبیس گھنٹے تک میری تسلی نہ کی گئی تو میں جماعت سے علیحدہ ہوجائوں گا۔ حالانکہ پہلے خط میں صاف لکھا تھا کہ فخردین صاحب کو معاف کردو توبدنامی سے بچ جاؤ گے۔بیشک انہوں نے ایک جواری کی طرح ایک ہی دفعہ بازی لگادی تھی کہ اگر ڈر گئے تو ہم ساری عمر کیلئے سر پر سوار ہوجائیں گے اور اگر نہ ڈرے تو جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ڈر سے محفوظ رکھا اور وہ چونکہ اپنے اندرونہ کو ظاہر کرچکے تھے اور سمجھتے تھے کہ اب ہم جماعت میں نہیں رہ سکتے اس لئے آخری خط میں نوٹس دے دیا۔
اِسی قسم کا ایک خط مجھے ایک عورت نے ایک دفعہ لکھا تھا جو یہیں قادیان میں رہتی ہے۔ ان کے خاوند یہاں کارکن ہیں۔ بیوی کو شکایت پیدا ہوئی کہ یہاں کام زیادہ ہے اور دیر تک ان کا خاوند گھر پر نہیں آسکتا۔ اس غصہ میں مجھے لکھا کہ میں نے اپنے خاوند کو کہا ہے کہ یہاں کی نوکری چھوڑ کر باہر چلے چلو لیکن وہ نہیں مانتے اس لئے اب آپ کو لکھتی ہوں کہ انہیں مجبور کریں کہ یہاں سے استعفیٰ دے کر باہر چلیں۔ اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو پھر یاد رکھیں کہ میں اب زندگی سے تنگ آگئی ہوں میں آپ کا مقابلہ کروں گی اور مجھے آپ کے بہت سے راز معلوم ہوگئے ہیں۔ آپ مجھے مستریوں کی طرح نہ سمجھیں وہ کمزور تھے مگر میرے ساتھ بڑے بڑے آدمی ہیں۔ میں نے صرف اُس کے خاوند کو اس خط کا علم دے دیا اور کچھ نہ کیا۔ وہ تو عورت تھی اور میں نے اس کی ان باتوں کو پاگلانہ باتیں سمجھ کر کچھ بھی نہیں کہا۔ مگر مصری صاحب تو تعلیم یافتہ آدمی ہیں ہیڈ ماسٹر تھے، معزز عُہدوں پر رہ چکے تھے، مصری کہلاتے تھے ، کوئی نادان عورت تو نہ تھے۔ انہوں نے پھر کیسے خیال کرلیا کہ میں ان باتوں سے ڈر جائوں گا۔
ان کا تیسرا خط بعد میں آیا۔ اس سے پہلے میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب کو میں ان کے خط کا بتا چکا تھا ۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ کیا کوئی صورت نہیں کہ جس سے معافی ہوجائے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں یہی سو چ رہا ہوں۔ مگر انہوں نے کوئی رستہ بھی میرے لئے نہیں چھوڑا اورمیرے لئے کوئی اور چارہ کار رہنے ہی نہیں دیا سوائے اس کے کہ میں بے غیرت بنوں۔ بہرحال وہ سمجھدار آدمی تھے اور جانتے تھے کہ ان خطوط کے بعد معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا اور چونکہ انہیں اچھی طرح علم تھا کہ اس حرکت کی وجہ سے ضرور نکالا جاؤں گا اس لئے انہوں نے سوچا کہ میں خود ہی کیوں نہ یہ بات لکھ دوں تا لہو لگا کر شہیدوں میں تو مل جائوں او ریہ تو کہہ سکوں کہ میں نے قربانی کی ہے۔ ان کی مثال تو ایسی ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی کے مکان پر جاکر قبضہ کرلے اور سامان وغیرہ اکٹھا کرلے کہ اتنے میں جب گھر والے دس بارہ آدمی آکر اسے پکڑیں تو کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑا ہو اور کہہ دے کہ اچھا میں قبضہ چھوڑتا ہوں۔ اور پھر دعویٰ کرے کہ میں نے بڑی قربانی کی ہے۔ وہ اپنے عمل کے خمیازہ میں جماعت سے نکلے ہیں، اس میں قربانی کونسی ہے۔ قربانی تو جب تھی کہ پہلے ہی خط میں یہ لکھتے مگر اُس میں تو صرف اس پر زور ہے کہ فخردین کو معاف کردیں او رمیری جو بدنامی آپ کرچکے ہیں اس کا ازالہ کریں۔ بلکہ ایک جگہ تو صرف یہی مطالبہ ہے کہ فخردین صاحب کو معاف کردیں۔ اس میں قربانی کی کونسی بات ہے۔ ہاں جب وہ اپنا اندرونہ ظاہر کرچکے اور انہیں اچھی طرح علم ہوگیا کہ اب جماعت میں مجھے نہیں رہنے دیا جائے گا تو تیسرے خط میں یہ فقرہ لکھ دیا کہ میں بیعت سے علیحدہ ہوجائوں گا۔
مجھے افسوس ہے کہ باقی مضامین کے متعلق میں آج کچھ بیان نہیں کرسکا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو پھر کبھی باقی باتوں کے متعلق بیان کردوں گا۔ بہرحال یہ بالکل غلط ہے کہ انہوں نے کوئی قربانی کی ۔ انہوں نے سَودا کرنا چاہا اور جواری کی طرح بازی لگادی مگر ہارگئے۔ وہ مجھے نہ ڈراسکے تو کہا اچھا میں جماعت سے نکلتا ہوں۔ ورنہ نہ ان پر کوئی ظلم ہؤا اور نہ انہوں نے کوئی قربانی کی۔ بلکہ انہوں نے خود ظلم کیا ہے کہ جماعت کے امام پر درندوں کی طرح حملہ کیا اور خدا کی مقدس جماعت کو دہریہ کہا ۔ اس کے مقابلہ میں جماعت نے ان کو جو کچھ کہا وہ اس سے بہت کم ہے۔
(الفضل ۳۰ ؍ جولائی ۱۹۳۷ئ)
۱؎ المائدۃ: ۹
۲؎ ابوداؤد کتاب القضاء باب اذا علم الحاکم صدق شہادۃ الواحد (الخ)
۳؎ النور :۱۳ ۴؎ النور :۱۷
۵؎ بخاری کتاب التفسیر باب لولا اذ سمعتموہٗ… الخ
۶؎ النور :۲۳
۷؎
۸؎


۲۳
جو شخص خلافت کی مخالفت کرتا ہے
وہ اسلام کی عملی زندگی پر تبر چلاتا ہے
(فرمودہ ۲۳؍ جولائی ۱۹۳۷ء )
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میں آج بہت زیادہ دیر سے آسکا ہوں جس کی وجہ یہ ہے کہ کل مجھے شدید سردرد کا دورہ ہؤا اور اس کی وجہ سے میں رات بھر جاگتا رہا۔ صبح اُٹھ کر میں نے برومائیڈ پیا اور تھوڑی دیر کے لئے سوگیا۔ پھر میں دفترمیں آیا اور کچھ دوست جو مجھ سے ملنے آئے ہوئے تھے، اُن سے ملا۔ اس کے بعد چونکہ بعض حوالے تاریخی کتب سے میں نے نکالنے تھے اِس لئے وہ حوالہ جات تلاش کرتا رہا اور ان سے ایسے وقت میں فارغ ہؤا جبکہ غسل اور کھانے کے بعد نماز کو بہت دیر ہوجاتی تھی۔ چنانچہ میں نے جلدی جلدی ان دونوں کاموں سے فراغت پائی مگر پھر دیر ہوگئی۔
اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میںنے پچھلے جمعہ کے خطبہ میں مصری صاحب کے بعض ان اعتراضات کے جوابات دیئے تھے جو انہوں نے اپنے ایک اشتہار میں شائع کئے ہیں اور وہ اعتراض دو تھے۔ ایک تو یہ کہ جماعت نے بغیر تحقیق کئے انہیں گالیاں دی ہیں اور دوسرا یہ کہ جماعت نے ایک ایسے آدمی کو گالیاں دی ہیں جس نے جماعت کے مفاد کیلئے قربانی کی ہے۔ میں نے بتایا تھا کہ ان کی یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ جماعت نے ان کو کوئی گالیاں نہیں دیں بلکہ انہوں نے جماعت کو گالیاں دیں اور جماعت نے جو کچھ جواباً کہا وہ اس سے بہت کم ہے جو انہوں نے ہمارے متعلق کہا۔ اسی طرح ان کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ میں نے جماعت کیلئے قربانی کی۔ وہ حالات سے مجبورہوگئے تھے اس لئے وہ ہم سے علیحدہ ہوئے ورنہ انہوں نے پہلاخط جو مجھے لکھا اس سے ان کا مقصد ہرگز جماعت سے علیحدگی نہیں تھا بلکہ مجھے ڈرانا اور بعض باتیں مجھ سے منوانا تھا۔ لیکن جب ان کی وہ غرض پوری نہ ہوئی اور انہوں نے دیکھا کہ اب میرا اندرونہ بھی ظاہر ہوچکا ہے جس کے بعدمیرا اس جماعت میں رہنا ناممکن ہے تو انہوں نے خود ہی اپنے تیسرے خط میں جماعت سے علیحدہ ہونے کا وقت مقرر کردیا۔
اسی اشتہار میں انہوں نے ایک بات یہ بھی لکھی ہے کہ میرے متعلق کہا یہ جاتا ہے کہ میں جماعت سے الگ ہوگیا ہوں حالانکہ میں جماعت سے الگ نہیں ہؤا، صرف بیعت سے الگ ہؤا ہوں۔ میں نے اس سوال کے اصولی حصہ کا جواب پہلے دے دیا ہے بلکہ ان کے اشتہار کے شائع ہونے سے بھی پہلے میرے ایک خطبہ میں ان کے اس اعتراض کا جواب آچکا ہے اور وہ خطبہ آج کے الفضل میں چھپ بھی گیا ہے۔ آج میں ان کے بعض اُن دلائل کا جواب دینا چاہتا ہوں جو انہوں نے اس بارہ میں اپنے اشتہار میں دیئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’میں اس جگہ بعض دوستوں کے اس خیال کے متعلق بھی کہ خلیفہ سے علیحدگی جماعت سے علیحدگی کے ہی مترادف ہے کچھ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ بات بالکل غلط ہے کہ جو شخص خلیفہ کی بیعت نہیں کرتا یا بیعت سے علیحدگی اختیار کرتا ہے وہ اصل سلسلہ سے بھی الگ ہوجاتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے حضرت ابوبکرؓ کی چھ ماہ تک بیعت نہیں کی تھی تو کیا کوئی ان کے متعلق یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ وہ اُس وقت تک اسلام سے خارج تھے؟ حضرت علیؓ کی بیعت مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ نے نہیں کی تھی تو کیا وہ سب اسلام سے خارج تھے؟ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے حضرت علیؓ کی بیعت نہیں کی تھی تو کیا انہیں اسلام سے خارج سمجھتے ہو؟ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ جیسے جلیل القدر صحابہ نے حضرت علیؓ کی بیعت کرلینے کے بعد بیعت کو فسخ کرلیا مگر کوئی ہے جو جرأت کرکے انہیں اسلام سے خارج قرار دے۔ دوستو! یہ خیال کسی مصلحت کے ماتحت آج پیدا کیاجارہا ہے ورنہ قرآن کریم ، احادیث نبوی، عمل صحابہ کرام میں اِس کا نام و نشان بھی نہیں ملتا‘‘۔
یہ گویا انہوں نے اِس بات کی تائید میں اپنی طرف سے دلائل دیئے ہیں کہ میں خلیفہ کی بیعت سے الگ ہؤا ہوں جماعت سے الگ نہیں ہؤا۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ مصری صاحب نے اس جگہ دیدہ دانستہ غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ مجھے ہرگز یہ امید نہیں تھی کہ باوجود اس تمام مخالفت کے جو انہوں نے اختیار کی ہے، باوجود اس تمام عِناد کے جو انہوں نے ظاہر کیاہے اور باوجود اس شدید دشمنی کے جس کے وہ مرتکب ہوئے ہیں، وہ احمدیت سے اتنے بے بہرہ ہوجائیں گے کہ چند دنوں کے اندر ہی اندر دیدہ دانستہ خلاف بیانی کے مرتکب ہونے لگ جائیں گے۔ چنانچہ میں ابھی ثابت کردوں گا اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایسا ثابت کر دوں گاکہ ایک جاہل سے جاہل اوراَنْ پڑھ سے اَنْ پڑھ انسان بھی یقینی طورپر سمجھ جائے گا کہ مصری صاحب نے قطعی طور پر جان بوجھ کر غلط بیانی سے کام لیا ہے۔
میرے اعلان کامضمون یہ تھا کہ مصری