• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 19

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 19


۱
آلہ نشر الصَّوت شرک کے عقیدہ پر کاری ضرب ہے
(فرمودہ ۷؍ جنوری ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’اُس خدا کا بے انتہا ء شکر ہے جس نے ہر زمانہ کے مطابق اپنے بندوں کیلئے سامان بہم پہنچائے ہیں۔ کبھی وہ زمانہ تھا کہ لوگوں کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ تک چل کر جانا بہت مشکل ہؤا کرتا تھا اور اس وجہ سے بہت بڑے اجتماع ہونے ناممکن تھے لیکن آج ریلوں، موٹروں، لاریوں، بسوں، ہوائی جہازوں اور عام بحری جہازوں کی ایجاد اور افراط کی وجہ سے ساری دُنیا کے لوگ بسہولت کثیر تعداد میں قلیل عرصہ میں ایک مقام پر جمع ہوسکتے ہیں اور اس وجہ سے موجودہ زمانہ میں کسی انسان کی یہ طاقت نہیں کہ وہ موجودہ زمانہ کے لحاظ سے عظیم الشان اجتماعات میں تقریر کرکے اپنی آواز تمام لوگوں تک پہنچاسکے۔
پس خدا نے جہاں اجتماع کے ذرائع بہم پہنچائے وہاں لوگوں تک آواز پہنچانے کا ذریعہ بھی اُس نے ایجاد کروادیا اور ہزاروں ہزار اور لاکھوں لاکھ شکر ہے اُس پروردگار کا جس نے اِس چھوٹی سی بستی میں جس کا چند سال پہلے کوئی نام بھی نہیں جانتا تھا اپنے مامور کو مبعوث فرما کر اپنے وعدوں کے مطابق اس کو ہر قسم کی سہولتوں سے متمتع فرمایا یہاں تک کہ ہم اب ہم اپنی اس مسجد میں بھی وہ آلات دیکھتے ہیں جو لاہور میں بھی لوگوں کو عام طور پر میسر نہیں ہیں۔ آج اِس آلہ کی وجہ سے اگر اس سے صحیح طور پر فائدہ اٹھایا جائے تو ایک ہی وقت میں لاکھوں آدمیوں تک بسہولت آواز پہنچائی جاسکتی ہے اور ابھی تو ابتداء ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اِس آلہ کی ترقی کہاں تک ہوگی۔ بالکل ممکن ہے اِس کو زیادہ وسعت دے کر ایسے ذرائع سے جو آج ہمارے علم میں بھی نہیں میلوں میل یا سینکڑوں میل تک آوازیں پہنچائی جاسکیں اور وائرلیس کے ذریعہ تو پہلے ہی ساری دنیا میں خبریں پہنچائی جاتی ہیں۔ پس اب وہ دن دور نہیںکہ ایک شخص اپنی جگہ پر بیٹھا ہؤا ساری دنیا میں درس و تدریس پر قادر ہوسکے گا۔ ابھی ہمارے حالات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے ، ابھی ہمارے پاس کافی سرمایہ نہیں اور ابھی علمی دِقتیں بھی ہمارے راستہ میں حائل ہیں لیکن اگر یہ تمام دِقتیں دُور ہوجائیں اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ ہمیں ترقی دے رہا ہے اور جس سُرعت سے ترقی دے رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریب زمانہ میں ہی تمام دِقتیں دُور ہوجائیں گی۔ تو بالکل ممکن ہے کہ قادیان میں قرآن اور حدیث کا درس دیا جارہا ہو اور جاوا کے لوگ اور امریکہ کے لوگ اور انگلستان کے لوگ اور فرانس کے لوگ اور جرمن کے لوگ اور آسٹریا کے لوگ اور ہنگری کے لوگ اور عرب کے لوگ اور مصر کے لوگ اور ایران کے لوگ اور اسی طرح اور تمام ممالک کے لوگ اپنی اپنی جگہ وائرلیس کے سیٹ لئے ہوئے وہ درس سن رہے ہوں۔ یہ نظارہ کیا ہی شاندار نظارہ ہوگا اور کتنے ہی عالیشان انقلاب کی یہ تمہید ہوگی کہ جس کا تصور کرکے بھی آج ہمارے دل مسرت و انبساط سے لبریز ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد میں آج اس آلہ کے لگائے جانے کی تقریب کے موقع پر سب سے بہتر مضمون یہی سمجھتا ہوں کہ میں شرک کے متعلق کچھ بیان کروں کیونکہ یہ آلہ بھی شرک کے موجبات میں سے بعض کو توڑنے کا باعث ہے۔
جو لوگ خداتعالیٰ کی توحید کے قائل نہیں یا جو لوگ بعض اور ذرائع کو بیچ میں لانا چاہتے ہیں، ان کے اس عقیدہ کی بنیاد اس امر پر ہے کہ ان کا دماغ یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھا کہ ایک ہستی ایسی بھی ہے جو سب دنیا کو دیکھ رہی اور سب لوگوں کی آوازوں کو سُن رہی ہے۔ پس وہ خیال کرتے تھے کہ بعض ایسے درمیانی واسطوں کی ضرورت ہے جن میں خدائی طاقتیں تقسیم ہوں اور جو اپنی اپنی جگہ اُس کی طاقتوں کو استعمال کررہے ہوں۔ اسلامی فلاسفروں نے بھی اِسی مقام پر آکر دھوکا کھایا ہے اور یورپین فلاسفر بھی اس دھوکا کا شکار ہوگئے اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ خداتعالیٰ کی طاقتوں کا اندازہ اپنی طاقتوں کے لحاظ سے کرتے تھے۔ اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۔۱؎ ان لوگوں نے خداتعالیٰ کی طاقتوں کا صحیح اندازہ نہیں لگایا بلکہ انسانی طاقتوں پر خداتعالیٰ کی طاقتوں کا قیاس کرلیا۔ جب انہوںنے دیکھا کہ انسان جب ایک طرف نگاہ کرتے ہیں تو دوسری طرف کی چیزیں انہیں نظر نہیں آتیں تو انہوں نے خیال کرلیا کہ خداتعالیٰ کی نظر بھی محدود ہے۔ پھر جب انسانوں نے دیکھا کہ ہم ہر جگہ کی آواز ایک وقت میں نہیں سُن سکتے تو خیال کرلیا کہ خداتعالیٰ بھی ہر جگہ کی آواز ایک وقت میں نہیں سُن سکتا۔
غرض انسانی طاقتوں پر خدائی طاقتوں کا جب انہوں نے قیاس کیا تو انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ خداتعالیٰ کے بعض شریک مقرر کریں۔ اسی خیال کے نتیجہ میں فلسفیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ کو کُلّی علم ہے جُزئی نہیں۔ یعنی اسے یہ تو پتہ ہے کہ انسان روٹی کھایا کرتا ہے مگر اسے یہ پتہ نہیں کہ زید اس وقت روٹی کھارہا ہے۔ اُسے یہ تو علم ہے کہ انسانوں کے گھر میں بچے پیدا ہؤا کرتے ہیں مگر اسے یہ علم نہیں کہ اِس وقت زید یا بکر کے گھر میں بچہ پیدا ہورہا ہے۔ مسلمانوں میں اس نہایت ہی گندے اور خبیث عقیدہ کو رائج کرنے والا ابن رشدہسپانوی ہؤا ہے۔ اس کی ذات عجیب قسم کے متضاد خیالات کا مجموعہ تھی۔ یہ بڑا فقیہہ بھی تھا اور اس نے فقہ کے متعلق بعض اچھی اچھی کتابیں لکھی ہیں۔ پھر قاضی بھی تھا اور ایک وسیع علاقہ پر اس کو قضاء کا اختیار تھا۔ گویا ایک قسم کا چیف جج تھا۔ پھر نمازیں بھی ادا کرلیا کرتا تھا بلکہ جب اس کے خلافِ اسلام عقائد کی وجہ سے بادشاہ نے اسے عُہدئہ قضاء سے برطرف کردیا اور مسلمانوں میں اس کے خلاف جوش پیدا ہؤا تو اُس وقت اُسے جو تکالیف پہنچیں اِن تکالیف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اور تکالیف کا مجھے اتنا رنج نہیں جتنا مجھے اِس بات کا ہے کہ میں جمعہ کے دن مسجد میں نماز پڑھنے گیا تو لوگوں نے مجھے مسجد سے نکال دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کو صرف رسمی نماز کی عادت نہیں تھی بلکہ وہ واقعی نماز کی اہمیت کو سمجھتا تھا۔ اب ایک طرف نماز کی اہمیت کو سمجھنا جس میں ہر شخص کو براہ راست خداتعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے اور جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ انسان یہ اقرار کرتا ہے کہ خداتعالیٰ ہر فرد کی آواز سنتا ہے اور دوسری طرف یہ کہنا کہ خداتعالیٰ کو کُلّی علم ہے جُزئی علم نہیں، اتنی متضاد باتیں ہیں کہ انہیں دیکھ کر حیرت آتی ہے اور دونوں میں سے ایک بات ضرور بناوٹ معلوم ہوتی ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ یہ دونوںباتیں اس کی اپنی کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ اگر اس کی اپنی کتابوں میں یہ باتیں موجود نہ ہوتیں تو ہم سمجھتے کہ ابن رشد کی طرف جو فلسفہ منسوب کیا جاتا ہے وہ غلط ہے۔ مگر ابن رشد کا فلسفہ بھی اس کی اپنی کتابوں میں پایا جاتا ہے اور دینداری کی باتیں بھی اس کی اپنی کتابوں میں موجود ہیں اور اس کی فقہ کی کتابیں آج تک مسلمانوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔
غرض وہ متضاد خیالات کا مجموعہ تھا اور اسی کا یہ فلسفہ تھا کہ خداتعالیٰ کو مخلوق کا کُلّی علم ہے جُزئی نہیں۔ یورپ کے موجودہ فلسفہ پر اس کے فلسفہ کا نہایت گہرا اثر ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا دادا یہودی سے مسلمان ہؤا تھا اور سپین اور فرانس کے یہودی علماء قومی تعلق کی وجہ سے اس کی کتابوں کا بہت درس دیا کرتے تھے اور چونکہ ابتداء میں علومِ جدیدہ کا رواج ہسپانیہ کے یہودیوں اور عیسائیوں کے ذریعہ سے ہؤا ہے، اس لئے سارے سپین میں اس کی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں اور سَو سال قبل تک بھی یورپ کی یونیورسٹیوں میں اس کی کتابیں پڑھائی جاتی رہی ہیں۔ اس لئے موجودہ فلسفہ بہت حد تک اس کے خیالات سے متأثر ہے۔
غرض یہ خیال کہ خداتعالیٰ ہر چیز کو نہیں جانتا اِس کی بنیاد اِسی امر پر ہے کہ انسان اپنی محدود طاقتوں سے خداتعالیٰ کی طاقتوں کا اندازہ لگاتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ جب انسان ہر چیز کو نہیں دیکھ سکتا، جب انسان تمام دنیا کی آوازوں کو نہیں سن سکتا، تو خدا کس طرح تمام چیزوں کو دیکھ سکتا اور تمام آوازوں کو سُن سکتا ہے اور اس طرح وہ سمجھتا ہے کہ خداتعالیٰ کا علم اور خداتعالیٰ کا دیکھنا اور خداتعالیٰ کا سُننا سب انسانوں کی طرح ہے اور جس طرح انسان کو درمیانی واسطوں کی ضرورت ہے اسی طرح خداتعالیٰ کو بھی درمیانی واسطوں کی ضرورت ہے۔ مگر آج دیکھو! وہ کمزور انسان جو خداتعالیٰ کی طاقتوں کو گِرارہے تھے انہیں خدانے کہا تم تو ہماری طاقتوں کا اندازہ نہیں لگاسکتے۔ آئو میں تمہاری اپنی طاقتوں کو اُبھارتا اور تمہیں بتاتا ہوں کہ تم اپنی آواز کو کہاں کہاں تک پہنچاسکتے ہو اور تم کتنے دُور دُور مقام کی آواز بخوبی سن سکتے ہو۔ چنانچہ اُس نے وائرلیس ایجاد کرواکے بتادیا کہ جب تمہارے جیسی ذلیل، ناپاک اور حقیر ہستی ساری دنیا کی آوازیں وائرلیس کے ذریعہ سُن سکتی اور ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچاسکتی ہے تو کیا وہ خدا جو تم کو پیدا کرنے والا ہے وہ تمہاری آوازیں نہیں سن سکتا۔ پس اسی فلسفہ کی تعلیم کے نتیجہ میں جن علوم نے ترقی کی، آج ان علوم کے ذریعہ جب انگلستان کا ایک ڈوم یا میراثی یا ایک گانے والی کنچنی جب ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچارہی ہوتی ہے تو فضا کی ہر حرکت اور آواز کی ہر جُنبش یورپ کے فلسفیوں پر قہقہے لگارہی ہوتی ہے اور کہتی ہے کہ کم بختو! اب بتائو کیا خدا ساری دنیا کی آوازیں نہیں سُن سکتا؟
اسی طرح اب دُوربینیں نکل چکی ہیں جن سے دُور دُور کی چیزیں دیکھی جاسکتی ہیں اور اب تو وائرلیس نے ترقی کرتے کرتے یہ صورت اختیار کرلی ہے کہ شکلیں بھی دُور دُور تک دکھادی جاتی ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ قریب زمانہ میں جرمن میں بیٹھا ہؤا شخص جب انگلستان کے ایک شخص سے گفتگو کررہا ہوگا تو نہ صرف اس کے الفاظ وہاں پہنچیں گے بلکہ ساتھ ہی اُس کی تصویر بھی آجائے گی اور یوں معلوم ہوگا گویا آمنے سامنے بیٹھ کر دونوں گفتگو کررہے ہیں۔ اِس وقت بھی یورپ کے بعض ممالک میں ریڈیو کی ایک دوسری قسم عمل کررہی ہے۔ جس میں آواز کے ساتھ وہاں کا نظارہ بھی آجاتا ہے مگر ابھی اس کا دائرہ عمل محدود ہے۔ سَو میل سے زیادہ ایسا نہیں کرسکتے۔
اس ایجاد کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ جب ترقی کرجائے گی تو دنیا بھر میں آواز کے ساتھ نظارے اور تصویریں بھی ایک ہی ساتھ پہنچائی جاسکیں گی۔ مثلاً انگلستان میں کوئی شاہی جلوس نکلا یا ولایت میں تاج پوشی کی تقریب ہوئی تو نہ صرف ہندوستان کے لوگ وہاں کے لوگوں کی آوازیں سُن سکیں گے بلکہ ساتھ کے ساتھ نظارہ بھی دیکھتے جائیں گے اور انہیں یوں معلوم ہوگا کہ گویا وہ لنڈن میں موجود ہیں۔ بادشاہ گزررہا ہے اور اس کے ساتھ فلاں فلاں تزک و احتشام کا سامان ہے۔ اس کے متعلق وہاں تجربے شروع ہوگئے ہیں اور پچاس سَو میل کے اندر اس قسم کے نظارے دکھائے جانے شروع ہوگئے ہیں۔ گویا آواز کے ساتھ نظارہ کا انتقال بھی شروع ہوگیا ہے اورآئندہ ہندوستان یا چین یا جاپان میں بیٹھا ہؤا شخص نہ صرف انگلستان کے لوگوں کی آوازیں سنے گا بلکہ وہاں کے نظارے بھی دیکھ سکے گا۔ وہ نہ صرف یہ سنے گا کہ فلاں شخص لیکچردے رہا ہے بلکہ اس شخص کو اور اس کے اردگرد بیٹھنے والوں کو بھی دیکھتا جائے گا اور دنیا تھوڑے ہی عرصہ میں اس قابل ہوجائے گی کہ نہ صرف لوگوں کی آوازیں سُنے بلکہ ان کی شکلیں بھی دیکھے اور ان کی حرکات کا بھی مشاہدہ کرے۔ پھر ٹیلیفون پر بھی اس قسم کے تجربے شروع ہوگئے ہیں کہ جب کوئی دو شخص ٹیلیفون پر آپس میں گفتگو کرنے لگیں تومعاً ان دونوںکی شکلیں بھی ایک دوسرے کے سامنے آجائیں۔ جب اس میں کامیابی ہوجائے گی تو اگر ایک شخص شملہ یا دہلی میں یا کلکتہ میں بیٹھا ہؤا قادیان کے ایک شخص سے گفتگو کرے گا تو ادھر وہ بات شروع کریں گے اور ادھر وہ ایک دوسرے کی شکل بھی دیکھنے لگ جائیں گے اور انہیں اس طرح معلوم ہوگا جس طرح وہ دونوں پاس پاس بیٹھے باتیں کررہے ہیں۔ تو وہ جو واہمہ پیدا ہوگیا تھا کہ خدا کس طرح ساری دنیا کو دیکھ سکتا ہے اور کس طرح ساری دنیا کی آوازیں سُن سکتا ہے، اِس ترقی نے اسے دُور کردیا اور بتادیا کہ جب معمولی انسان میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی قابلیت رکھی ہے کہ وہ اپنی آواز تمام دنیا کو سنا سکتا ہے اور دنیا کے دوسرے کنارے کے آدمی کی بات کو بآسانی سن سکتا ہے اور نہ صرف آواز سن سکتا ہے بلکہ اس کی شکل بھی دیکھ سکتا ہے، تو کیا خدائے ذُوالجلال وَالْقُدْرَۃ جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے وہ ہر چیز کو نہیں دیکھ سکتا اور ہر شخص کی آواز نہیں سن سکتا؟ اور جب وہ ہر چیز کو دیکھتا اور ہر شخص کی آواز سنتا ہے تو اس کیلئے کسی اور مددگار خدا کی کیا ضرورت رہی۔ وہ اکیلا ہی ساری دنیا پر حاوی ہے اور اکیلا ہی سب پر حکومت کررہا ہے۔ پس نشرالصوت کے آلہ نے شرک کے عقیدہ پر ایک کاری ضرب لگائی ہے۔ خصوصاً اس شرک کے عقیدہ پر جو فلسفیوں کا پیداکردہ ہے اور وہی درحقیقت علمی شرک ہے اور اس طرح وائرلیس اور لائوڈ سپیکر نے خداتعالیٰ کی طاقتوں کو محدود کرنے والے عقائد کو باطل کرکے رکھ دیا ہے۔
پس اس زمانہ میں جبکہ خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کردیئے ہیں جن سے خداتعالیٰ کی توحید دنیا میں قائم ہورہی ہے، مومن پر جو اُن زمانوں میں بھی موحد کہلاتا تھا جبکہ انسان کی عقل ابھی پورے طور پر تیز نہیں تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو نہیں سمجھ سکتا تھا بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہم سے پہلوں نے اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان رکھا جبکہ ان کے سامنے اس کی توحید کو ثابت کرنے والے وہ سامان نہ تھے جو آج ہمارے سامنے ہیں جبکہ وہ انسان کی طاقتوں کو نہایت ہی محدود دیکھتے تھے مگر آج ایتھر نے اور وائرلیس نے اور خوردبینوں نے اور دور بینوں نے انسان پر یہ بات ثابت کردی ہے کہ انسان جو ایک عاجز مخلوق ہے جس کی طاقتیں محدود ہیں جب ایک جگہ پر بیٹھا ہؤا ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچاسکتا ہے تو خداتعالیٰ کی طاقت اور قوت محدود کس طرح ہوگئی۔ پس اس زمانہ میں ہماری ذمہ داری بہت زیادہ ہے اور ہمارے فرائض نہایت نازک ہیں مگر افسوس ان پر جو دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے۔ خداتعالیٰ کا ایک نبی ہم میں آیا۔ اس کا ایک رسول ہم میں مبعوث ہوا اور اس کا ایک مامور ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر ابھی کچھ اندھے ایسے موجود ہیں جو خداتعالیٰ پر توکل کرنے کی بجائے انسانوں پربھروسہ رکھتے ہیں اور اس طرح اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ حقیقتاً خداتعالیٰ کے وحدہٗ لاشریک ہونے پر ایمان نہیں رکھتے۔
مجھے افسوس ہے کہ ابھی ہماری جماعت میں بھی ایک طبقہ ایسا ہے جس کی نگاہیں انسانوں پر اُٹھتی ہیں، جس کی نگاہیں اسباب پر جاتی ہیں اور جو انسانی طاقتوں اور قوتوں پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں اور جب بھی انہیں کوئی کام کرنا پڑتا ہے وہ انسانی طاقتوں میں اُلجھ کر رہ جاتے اور خداتعالیٰ کی طاقتوں کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ا س طرح وہ باوجود ایمان لانے کے بے ایمان رہتے ہیں، باوجود توحید کا دعویٰ کرنے کے شرک کی غاروں میں گرے رہتے ہیں حالانکہ دنیا میں کوئی بھی نبی ایسا نہیں آیا جس نے تمام اصلاحوں کے ساتھ ساتھ شرک کو دور کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔ حضرت آدمؑ آئے اور اپنے زمانہ کے لحاظ سے وہ کئی مقاصد لے کر آئے۔ انہوں نے دنیا کو متمدن بنایا اور نظام کی پابندی کی عادت ڈالی مگر توحید کو انہوں نے بھی قائم کیا۔ پھر حضرت نوحؑ آئے تو اُس وقت انسانی دماغ اور زیادہ ترقی کرچکا تھا اور اس نے صفاتِ الٰہیہ کا ادراک کرنا شروع کردیا تھا اور اس فکر میں ٹھوکر کھاکر اُس نے شرک کا عقیدہ اخذ کرلیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے بھی اپنی تعلیم میں توحید کی تعلیم کے علاوہ شرک کے خلاف بے انتہاء زور دیا اور روحانیت کی باریک راہیں بنی نوع انسان کو سکھائیں۔ پھر حضرت ابراہیمؑ آئے تو گو انہوں نے اور اصلاحات بھی کیں مگر شرک کے باریک حصوں کا انہوں نے بھی ردّ کیا کیونکہ آپ کے زمانہ میں شرک ایک فلسفی کا مضمون بن گیا تھا اور عقلوں پر فلسفہ کا غلبہ شروع ہوگیا تھا۔ پھر موسیٰؑ آئے تو وہ ایک ایسا تفصیلی ہدایت نامہ لائے جس کا تعلق سیاست، روحانیت اور تمدن تینوں سے تھا مگر توحید کی اہمیت انہوں نے بھی بتائی اور شرک سے بچنے کی لوگوں کو تعلیم دی۔ پھر حضرت عیسٰی ؑ آئے تو انہوں نے شریعت کی ظاہری پابندی کو قائم رکھتے ہوئے حقیقت کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی اورفرمایا کہ ظاہری پابندی تمہیں باطن کی اصلاح سے مستغنی نہیں کرسکتی۔ چنانچہ آپ نے ایک طرف جہاں موسوی احکام کو اپنی اصل شکل میں قائم کیا وہاں جو لوگ قشر کی اتباع کرنے والے تھے انہیں بتایا کہ اس ظاہر کا ایک باطن ہے اور اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو ظاہر *** بن جاتا ہے مگر اس کے ساتھ آپ نے شرک کو نہیں بھُلایا اور اس سے بچنے کی لوگوں کوہمیشہ نصیحت کی۔ پھر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم آئے اور آپ نے دنیا جہان کے مسئلے بیان کئے۔ آپ نے انسانوں کے آپس کے تعلقات پر روشنی ڈالی، آپ نے انسانوں کے اس تعلق پر روشنی ڈالی جو اس کا خدا سے ہوتا ہے، آپ نے مَردوں کے حقوق بیان کئے، آپ نے عورتوں کے حقوق بیان کئے، آپ نے بادشاہوں کے حقوق بیان کئے، آپ نے رعایا کے حقوق بیان کئے، آپ نے آقا کے حقوق بیان کئے، آپ نے نوکر کے حقوق بیان کئے، اسی طرح آپ نے وراثت کے مسئلے بیان کئے۔ تمدن کے مسئلے بیان کئے۔ معاشرت کے مسئلے بیان کئے۔ معاش کے مسئلے بیان کئے۔ غرض تمام مسائل آپ نے بیان کئے، مگر سب سے بلند اور سب سے بالا آپ کی تعلیم میں بھی یہی بات تھی کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔
پس یہ مسئلہ ہمارے مسئلوںکی جان ہے۔ یہ مسئلہ سارے مسئلوں کی رُوح ہے۔ یہ مسئلہ سارے مسئلوں کا مغز ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ قشر ہے، وہ چھلکے ہیں، وہ لوازمات ہیں، وہ ضمنی چیزیں ہیں۔ اصل جان اور روح اور مغز اور حقیقت توحید کا ہی مسئلہ ہے کیونکہ توحید ہی ہے جو خدا اور انسان میں محبت پیدا کرتی ہے اور جب تک یہ نہ ہو انسان کا ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔ جب تک انسان کی نظر کسی اور طرف بھی اُٹھتی رہتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے خداتعالیٰ کا کامل حُسن نہیں دیکھا کیونکہ حُسنِ کامل کی علامت یہ ہوتی ہے کہ انسان کی نظر اس کو دیکھ کر کسی اور طرف نہیں اُٹھتی۔ جب تک دنیا میں تمہیں اور بھی حسین نظر آئیں تم کبھی اِدھر دیکھو گے، کبھی اُدھر مگر جب تمہیں ایک ایسا حسین نظر آجائے گا جو اپنے حُسن میں کامل ہوگا تو پھر تمہاری نظریں وہیں جم جائیں گی اور کسی دوسرے کی طرف نہیں اُٹھیں گی۔ یہی معنے توحید کے ہیں۔ یعنی مومن کو اللہ تعالیٰ کا حُسن ایسے کامل رنگ میں نظر آجائے کہ اس کے بعد خواہ دنیا جہان کی خوبصورت چیزیں اس کے سامنے پیش کی جائیں وہ نفرت اور حقارت سے اُنہیں ٹھکرادے اور کہے کہ مجھے جو کچھ ملنا تھا مل گیا، مجھے کسی اور کی جستجو نہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے کھانے کا بھی محتاج بنایا ہے اور پینے کا بھی، سونے کا بھی اور جاگنے کا بھی، لیٹنے کا بھی اور چلنے پھرنے کا بھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں اور پائوں اور دوسرے تمام اعضاء میں لذت اور سرور کی ایک حِسّ رکھ دی ہے۔ چنانچہ اس کی زبان، اس کے کان، اس کے ہاتھ اور اس کے پائوںاور اس کے جسم کے ہر حصہ میں خداتعالیٰ نے لذت اور سرور کی حِسّ رکھی ہوئی ہے اور ان حِسّوں کے ذریعہ ہی وہ لاکھوں کروڑوں چیزوں سے لُطف اندوز ہوتا ہے اور آرام حاصل کرتا ہے۔ مگر توحید کا مقام یہ ہے کہ مومن ان ساری چیزوں کے باوجود خداتعالیٰ کی محبت میںسرشار رہتا ہے اور یہ مزے اور آرام اسے اللہ تعالیٰ کی محبت سے غافل نہیں کرسکتے۔ اور اگر ہم غور کریں تو حقیقتاً یہ تمام مزے اور لذتیں اور آرام اس لئے نہیں کہ یہ حقیقی لذتیں اور حقیقی آرام ہیں بلکہ اس لئے ہیں کہ یہ ہمارے لئے ایک امتحان اور آزمائش کا ذریعہ ہیں۔ خدا ہمارے لئے دنیا میں مزے دار چیزیں پیدا کرتا ہے اور ہماری زبان میں اس مزے کے چکھنے کی طاقت رکھتا ہے اور پھر کہتا ہے اب میں دیکھوں گا تم اس مزے میں ہی محو ہوجاتے ہو یا میری محبت کا بھی کچھ خیال رکھتے ہو۔ وہ دنیا میں حسین ترین نظارے اور حسین ترین شکلیں پیدا کرتا ہے اور انسان کو آنکھیں دیتا ہے کہ وہ ان حُسنوں کو دیکھے اور ان سے لذت حاصل کرے۔ اور پھر کہتا ہے اب میں دیکھوں گا کہ ان حُسنوں کو دیکھ کر بھی تمہیں میری محبت یاد رہتی ہے یا نہیں۔ ایک نابینا اگر کہتا ہے کہ خداتعالیٰ کے سوا مجھے کوئی حسین نظر نہیںآتا تو اس کی یہ تعریف کوئی زیادہ قیمت نہیں رکھتی کیونکہ اُس نے کب دُنیا کے حسین دیکھے کہ ان کو دیکھنے کے بعد وہ خداتعالیٰ کی محبت کو نہ بھُولا۔ ایک بہرا اگر کہتا ہے کہ خداتعالیٰ کی آواز سے بڑھ کر مجھے اَور کوئی شیریں آواز معلوم نہیں ہوتی جو محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ بلند ہوئی، تو اُس کی یہ تعریف کوئی زیادہ قیمت نہیں رکھتی کیونکہ کب اُس نے دنیا کی دلکش آوازیں سنیں کہ ان کے سننے کے باوجود وہ خداتعالیٰ کی آواز کا عاشق رہا۔ اگر وہ شخص جس کی زبان مفلوج ہے اور جو میٹھے کھٹے اور چٹپٹے کا فرق محسوس نہیں کرتی یہ کہتا ہے کہ مجھے حلال کھانے سے زیادہ اور کسی میں مزا محسوس نہیں ہوتا تو اُس کی یہ تعریف کوئی زیادہ قیمت نہیں رکھتی۔ مگر وہ جس کی زبان ذائقہ کو خوب پہچانتی ہے وہ اگر یہ کہتا ہے کہ مجھے حلال کھانے سے زیادہ اور کسی میں مزہ نہیں آتا اور خداتعالیٰ کی باتوں سے زیادہ حلاوت مجھے اور کسی چیز میں معلوم نہیں ہوتی۔ تو وہی کامل مؤحِّد ہے اور اسی کی تعریف صحیح تعریف کہلانے کی مستحق ہے۔
اسی طرح اگر کسی کے کان درست ہیں اور وہ لوگوں کی سُریلی اور دلکش آوازیں سنتے ہیں مگر باوجود اس کے وہ کہتا ہے کہ خداتعالیٰ کی وہ آواز جو مجھے اس کے کلام سے آتی ہے وہی سُریلی اور وہی دلکش معلوم ہوتی ہے تو وہی ہے جس کی محبت کامل ہے۔ اسی طرح وہ شخص جس کی آنکھیں دنیا کے تمام حسین نظارے دیکھتی ہیں وہ اگر تمام خوبصورتی اور حُسن دیکھنے کے باوجود خداتعالیٰ کی باتوں اور اس کے کلام میں ہی حُسن پاتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے دل میں خداتعالیٰ کی حقیقی محبت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ساری چیزیں پیدا کیں تا وہ دیکھے کہ ان کے ہوتے ہوئے بندے اس کی خوبصورتی اور اس کے حُسن کی کیا قدر کرتے ہیں۔ پس اگر خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جائو اور دنیا کے کاموں میں مشغول ہوجائو، جائو اور شادیاںکرو اور بچے پیدا کرو، جائو اور پیشے کرو، جائو اور حلال اور طیب رزق کھائو، اسی طرح اگر اس نے سُریلی اور دلکش آوازیں سننے کی اجازت دی ہے، عمدہ سے عمدہ خوشبوئیں سُونگھنے سے نہیں روکا، اچھے نظاروں کے دیکھنے کی ممانعت نہیں کی تو اسی لئے کہ وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم ان چیزوں کے حُسن میں خداتعالیٰ کا حُسن کیونکر دیکھتے ہیں اور یہ چیزیں ہمیں خداتعالیٰ کے قریب کردیتی ہیں یا اس کے قُرب کے راستہ سے دور پھینک دیتی ہیں۔
پس اے عزیزو! اپنے ایمان کی بنیاد توحیدِ کامل پر رکھو۔ انسانوں سے اپنی نظریں ہٹالو اور خدا اور صرف خدا پر اپنی نظریں رکھو۔ یاد رکھو انبیاء کے ابتدائی زمانوں میں نبیوں کی جماعتوں سے بڑھ کر مقہور، ذلیل اور حقیر اور کوئی جماعت نہیںہوتی۔ عالموں کی نظر میں اور جاہلوں کی نظر میں، امیروں کی نظر میں اور غریبوں کی نظر میں، بادشاہوں کی نظرمیں اور رعایا کی نظر میں، فلاسفروں کی نظر میں اور کُند ذہن اور بلید لوگوں کی نظر میںوہی سب سے زیادہ ذلیل اور حقیر ہوتے ہیں اور صرف خدا ان کا دوست ہوتا ہے۔ پس ایسی حالت میں جبکہ وہ اپنا صرف ایک ہی دوست رکھتے ہوں اگر اُس سے بھی ان کی نگاہیں ہٹ جائیں اور اُس کی بجائے انسانوں پروہ بھروسہ کرنے لگیں تو اس سے زیادہ ان کی بدقسمتی اورکیا ہوسکتی ہے۔ پس آئو کہ ہم خداتعالیٰ پر توکل کریں اور آئو کہ ہم اپنے خدا کو اپنا مقصود قرار دیں تا جس طرح ہماری زبانوں پر اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے اسی طرح ہمارے دلوں اور دماغوں پر بھی یہی نقش ہو کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ۔
اس کے بعد میں قادیان کی جماعت کو اور باہر کی جماعتوں کو بھی اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اب تحریک جدید کے وعدوں کی میعاد میں بہت تھوڑا وقت رہ گیا ہے۔ نومبر کے آخر میں مَیں نے یہ تحریک کی تھی اور اب جنوری ہے۔ گویا اس تحریک پر ڈیڑھ مہینہ کے قریب گزرچکا ہے اور ہماری طرف سے جو میعاد مقرر ہے اس میں بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ ہندوستان کے لوگوں کیلئے سوائے بنگال اور مدراس کے کہ وہاں غیرزبانیں بولی جاتی ہیں اور ان علاقوں میں اتنی جلد اس تحریک سے ہر شخص آگاہ نہیں ہوسکتا ۳۱؍ جنوری آخری تاریخ ہے لیکن چونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ بعض دوست ۳۱؍ جنوری کی شام کو اپنا وعدہ لکھوائیں اور وہ خط یکم فروری کو ڈالا جائے اس لئے جس خط پر یکم فروری کی مُہر ہوگی اُسے بھی لے لیا جائے گا لیکن اس کے بعد کوئی وعدہ قبول نہیں کیا جائے گا اور چونکہ اس میعاد میں اب بہت قلیل دن رہ گئے ہیں اس لئے دوستوں کو بہت جلد وعدے لکھوادینے چاہئیں۔ آج جنوری کی سات تاریخ ہے اور اِس مہینہ کے ۲۴ دن رہتے ہیں اور ۳۸۔۳۹ دن پہلے گزرچکے ہیں۔ گویا ساٹھ فیصدی سے زیادہ وقت گزرچکا ہے اور صرف چالیس فیصدی وقت باقی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اب تک اکثر جماعتوں نے اپنے وعدے نہیں بھجوائے اور ان جماعتوں میں بعض بڑی بڑی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ چند دن ہوئے دفتر کی طرف سے جو رپورٹ مجھے ملی تھی اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ صرف تیس فیصدی جماعتوں کے وعدے آئے ہیں اور ستّر فیصدی جماعتیں ابھی تک خاموش ہیں۔ قادیان میں سے اکثر وعدے اگرچہ آچکے ہیں مگر پھر بھی مکمل وعدے نہیں آئے۔ ابھی بعض محلے ایسے باقی ہیں جنہوں نے پوری کوشش نہیں کی۔ اسی طرح لجنہ اماء اللہ نے بھی پوری کوشش کرکے عورتوں سے وعدے نہیں لکھوائے لیکن پھر بھی ایک معقول رقم قادیان والوں کی طرف سے پیش ہوچکی ہے۔
جنہوں نے سُستی کی ہے اور ابھی تک اپنے وعدے نہیں بھجوائے ان کو مستثنیٰ کرتے ہوئے جو وعدے آچکے ہیں اور جنہوں نے اس تحریک میںحصہ لیا ہے انہو ں نے خداتعالیٰ کے فضل سے اخلاص کا نہایت ہی اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے۔ چنانچہ بہت سی جماعتوں نے اپنے تیسرے سال کے وعدہ سے بھی زیادہ چندہ دینے کا وعدہ کیا ہے اور بہت سے افراد ایسے ہیں جنہوں نے اپنے پہلے سال کے چندہ سے دوگنا بلکہ تگنا اور تیسرے سال سے بھی کچھ زیادہ چندہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں جو لوگ اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں شامل نہیں ہوسکے اور پیچھے رہ گئے ہیں ، ان میں سے بعض کی حالت نمایاں طور پر قابلِ اعتراض ہے۔ چنانچہ بعض دوست اس دفعہ جلسہ پر آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ نے چونکہ خود چندہ نہیں دیا اس لئے جب اس تحریک کا ان سے ذکر ہو تو وہ کہہ دیتے ہیں میاں یہ طَوعی چندہ ہے جس کی مرضی ہو اس میں حصہ لے اور جس کی مرضی ہو نہ لے۔ ایسے سیکرٹریوں اور پریذیڈنٹوں کو دیکھتے ہوئے میں نے پہلے سے دوستوں کو ہوشیار کردیا تھا او ربتادیا تھا کہ جب وہ اپنے کسی سیکرٹری کو سُست دیکھیں تو اس کی جگہ کسی اور کو تحریک جدید کا سیکرٹری مقرر کرلیں اور اپنے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ کی غفلت اور سُستی کی وجہ سے ثواب کے اس موقع کو نہ کھوئیں۔ پس جس جس جگہ کی جماعتوں کے سیکرٹریوں نے اپنے فرائض کی طرف کماحقہٗ توجہ نہیں کی انہیں چاہئے کہ وہ اگر دیکھیں کہ ان کے سیکرٹری اپنے فرائض کی ادائیگی میں سستی کررہے ہیں تو اُن کی بجائے کسی اور کو سیکرٹری مقرر کردیں اور اگر ساری جماعت میں سے کوئی ایک ہی دوست ایسا ہے جو چُست ہے تو وہی آگے آجائے اور اپنے آپ کو پریذیڈنٹ اور سیکرٹری تصور کرکے کام شروع کردے کیونکہ خداتعالیٰ کی دین بعض دفعہ ایسے رنگ میں آتی ہے کہ انسان کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔ ممکن ہے پہلے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ کو اللہ تعالیٰ ثواب سے محروم رکھنا چاہتا ہو اور اب اس نئے شخص کو ثواب کا موقع دینا چاہتا ہو۔ پس وہ پیچھے نہ رہے بلکہ آگے آئے اور اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی مجلس کا سیکرٹری سمجھ لے۔
میں نے پچھلے سالوں میں بتایا تھا کہ قربانی وہی ہے جو انتہاء تک پہنچے۔ پس یہ مت خیال کرو کہ فلاں شخص جس نے پہلے اتنا چندہ دیا تھا اُس نے چونکہ اس دفعہ چندہ نہیں لکھایا اس لئے ہم بھی اس کی تقلید کریں۔ بہت لوگ بظاہر بڑے نیک ہوتے ہیں مگر خداتعالیٰ کی نگاہ میں وہ گرجانے والے ہوتے ہیں اور بہت لوگ بظاہر کمزور اور بے حقیقت نظر آتے ہیں مگر خداتعالیٰ کی نظر میں وہ بڑے طاقتور ہوتے ہیں۔ پس ایسا نہ ہو کہ تم کہو جب فلاں شخص نے اِس کام کو نہیں کیا جو عُہدہ دار ہے تو ہم کیوں کریں۔ شاید خدا اب اسے گِرانے کا ارادہ رکھتا ہو اور تمہارے متعلق وہ یہ ارادہ رکھتا ہو کہ تمہیں اُٹھائے اور بلند کرے۔
پھر یہ امر اچھی طرح یاد رکھو کہ قربانی وہی ہے جو موت تک جاتی ہے۔ پس جو آخر تک ثابت قدم رہتا ہے وہی ثواب بھی پاتا ہے۔ اگرکوئی کہے کہ پھر نئے دَور کو سات سال تک محدود کیوں رکھا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قربانیاں کئی رنگ میں کرنی پڑتی ہیں۔ موجودہ سکیم کو میں نے سات سال کیلئے مقرر کیا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ بعض پیشگوئیوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۴۲ء یا ۱۹۴۴ء تک کا زمانہ ایسا ہے جس تک سلسلہ احمدیہ کی بعض موجودہ مشکلات جاری رہیں گی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایسے حالات بھی پیدا کردے گا کہ بعض قسم کے ابتلاء دور ہوجائیں گے اور اُس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے نشانات ظاہر ہوجائیں گے کہ جن کے نتیجہ میں بعض مقامات کی تبلیغی روکیں دُور ہوجائیں گی اور سلسلہ احمدیہ نہایت تیزی سے ترقی کرنے لگ جائے گا۔ پس میں نے چاہا کہ اس پیشگوئی کی جو آخری حد ہے یعنی ۱۹۴۴ء اُس وقت تک تحریک جدید کو لئے جائوں اور جماعت سے قربانیوں کا مطالبہ کرتا چلا جائوں تا آئندہ آنے والی مشکلات میں اسے ثبات حاصل ہو۔
پس آج میں پھر خصوصیت کے ساتھ تمام جماعتوں کو خواہ وہ بڑی جماعتیں ہیں یا چھوٹی قریب کی جماعتیں ہیں یا دور کی توجہ دلاتا ہوںکہ جلد سے جلد وہ اپنی لِسٹوں کو مکمل کرکے بھیج دیں۔ کیونکہ ہندوستان کی جماعتوں کیلئے جو آخری تاریخ مقرر ہے اس میں اب بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں اور کوشش کریں کہ اگروہ اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں شامل نہیں ہوسکے تو کم ازکم پھسڈّی ۲؎بھی نہ رہیں اور اپنے اخلاص سے کام لیتے ہوئے قربانیوں میںایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں۔ کیا یہ افسوس کی بات نہیں کہ ہندوستان سے باہر کی جماعتیں جن کو اپریل تک مُہلت حاصل ہے وہ تو اپنے وعدے بھجوارہی ہیں مگر ہندوستان کی کئی جماعتیں جو بغل میں بیٹھی ہوئی ہیں وہ بالکل خاموش ہیں اور انہوں نے وعدے بھجوانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اگر افریقہ کے لوگ اس قسم کی چُستی دکھاسکتے ہیں اور ایسی جگہوں سے اپنے وعدے اِس عرصہ میں بھیج سکتے ہیں جہاں سے خط بھی پندرہ دن میں پہنچتا ہے تو کیا یہ افسوس اور شکوہ کی بات نہ ہوگی کہ پنجاب اور ہندوستان کی جماعتوں کے عہدیدار سُستی دکھائیں اور وہ خاموشی سے بیٹھے رہیں۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۳۸ء تک انہیں مُہلت حاصل ہے مگر اس میعاد کے ابتدائی وقت میں شامل ہونے کی بجائے آخری وقت شامل ہونے کی کوشش کرنا بھی کوئی اچھی علامت نہیں۔ بے شک بہت جلدی بھی اچھی نہیں ہوتی اور ان لوگوں کو جو معمولی توجہ سے بیدا ر ہوسکتے ہیں ترک کردینا کوئی خوبی نہیں مگر اس کے یہ معنے بھی نہیں کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا رہے اور کہے کہ ابھی کافی وقت ہے۔ آخری تاریخ کو خط لکھ دیں گے۔ حیدر آباد کی جماعت کافی دور ہے مگر وہ بڑی جماعتوں میں سے ایک ہے۔ جنہوں نے بہت جلد اپنے وعدے بھجوادیئے ہیں۔ بیشک اس میں بھی بعض کمزور ہیں مگر ایسے بھی لوگ ہیں جو قربانی کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور وہاں سے جو چندہ آتا ہے وہ مقدار کے لحاظ سے بڑی بڑی جماعتوں کے چندوں کے برابر ہوتا ہے۔ وہاں سے یہاں پانچ دن میں خط آتا ہے۔ لیکن میری اس تحریک کے دسویں بارھویں دن حیدرآباد کی جماعت کے وعدوں کا بہت سا حصہ پہنچ چکا تھا۔
نومبر کے آخر میں مَیں نے یہ تحریک کی تھی اور ابھی اس تحریک پر دس بارہ روز نہیں گزرے تھے کہ اِس جماعت نے اپنے وعدہ کی لسٹ بھیج دی جو بہت حد تک مکمل تھی اور جو چند اَور دوست باقی رہتے تھے اُن کی لسٹ ۱۵۔۲۰ دسمبر تک پہنچ گئی۔ بلکہ پہلے انہوں نے بذریعہ تار اپنے وعدے بھجوائے اور پھر تفصیلی فہرستیں بعد میں بھیجیں۔ ان کی اِس سرگرمی اور اخلاص کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ پہلے سال انہوں نے چھتیس سَو روپیہ داخل کیا تھا مگر اس سال پہلے ۳۵ سَو کی لسٹ بھیجی اور اب تک چارہزار کی لسٹ بھجواچکے ہیں اور ابھی کہہ رہے ہیں کہ اَور وعدے بھی بجھوائیں گے۔ تواگر دُور کی جماعتیں اس عرصہ میں کام کرسکتی تھیں تو کیا وجہ ہے کہ قریب کی جماعتیں فہرست مکمل نہ کرسکیں اور اِس خیال میں بیٹھی رہیں کہ ابھی کافی وقت ہے۔ پس محض اس لئے سُستی کرنا کہ ۳۱؍ جنوری ۱۹۳۸ء تک ابھی کافی وقت ہے ایک خطرناک علامت ہے۔ جس کا نتیجہ بعض دفعہ یہ نکلتا ہے کہ انسان آخری وقت میں بھی شامل نہیں ہوسکتا اور ثواب حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو تین صحابی ایک جنگ سے پیچھے رہ گئے تھے وہ اس لئے پیچھے رہے تھے کہ پہلے وہ خیال کرتے رہے کہ ابھی کافی وقت ہے ہم تیاری کرلیں گے۔ مگر آخر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جہاد کیلئے چل پڑے اور چونکہ ان کی تیاری مکمل نہیں تھی اس لئے وہ محروم رہ گئے ۔۳؎ پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں وہ ہوشیار ہوجائیں اور اپنے اپنے وعدے جلد لکھ کر دفتر میں بھجوادیں اور جس جماعت کے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سیکرٹری سُست ہیں میں انہیں کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی طرف سے جو ثواب کے مواقع آتے ہیں وہ سیکرٹریوں اور پریذیڈنٹوں کیلئے نہیں ہوتے بلکہ ہر شخص کیلئے ہوتے ہیں۔ پس وہ اپنے آپ کو سلسلہ کے کاموں کا ذمہ دار سمجھتے ہوئے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ تصوّر کرلیں اور کام شروع کردیں۔ خداتعالیٰ کے نزدیک وہی سیکرٹری اور وہی پریذیڈنٹ ہوں گے۔پس تم دوسروں کے مونہوں کی طرف مت دیکھو ۔ تم اپنی زبان کو خدا کی زبان اور اپنے ہاتھوں کو خدا کا ہاتھ سمجھو تا اللہ تعالیٰ کی رحمت تم پر نازل ہو۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت سے شرک کو کُلّی طور پر دور کرکے توحیدِ کامل کا مقام ہمیں عطا کرے۔ ہمیں سچی قربانیوں کی توفیق دے اور ہم میں سے ہر شخص کا حوصلہ اتنا بڑھائے کہ وہ سمجھے کہ سلسلہ کی تمام ذمہ داریاں اُسی پر ہیں اور دوسروں کی سُستی ہماری چُستی کو دور کرنے والی نہ ہو بلکہ ہماری چستی دوسروں کی سُستی کو دور کرنے والی ہو۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ‘‘ (الفضل ۱۳؍ جنوری ۱۹۳۸ئ)
۱؎ الانعام: ۹۲
۲؎ پھسڈّی : پچھڑا ہؤا۔ شکست خوردہ۔ آخری۔ ناقص۔ کم درجہ
۳؎ بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک

۲
اسلامی شریعت کا قیام ہمارا اوّلین فرض ہے
(فرمودہ ۱۴؍ جنوری ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’جلسہ سالانہ پر اور اس سے پہلے جو خطبات میں نے بیان کئے ہیں ان میں مَیں تحریک جدید کے بعض حصوں کے متعلق بیان کرتا رہا ہوں اور آج دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ انسان جب تک خود اپنے سے دُشمنی نہ کرے اُس وقت تک کوئی اُس سے دشمنی نہیں کرسکتا۔ میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو شخص اپنا دشمن نہیں ہوتا، دنیا میں اُس کا کوئی دشمن نہیں ہوتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص سچے طور پر اپنے نفس کا خیرخواہ ہوتا ہے وہ لازماً باقی دنیا کا بھی خیرخواہ ہوتا ہے لیکن یہ بھی ایک لازمی بات ہے کہ جو شخص دنیا کا خیرخواہ ہوتا ہے دنیا ضرور اس سے دشمنی کرتی ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص اپنے نفس کا خیرخواہ ہو اور دنیا کا بدخواہ ہو اور پھر یہ بھی ممکن نہیں کہ کوئی شخص دنیا کا خیر خواہ ہو اور دنیا اُس کی بدخواہ نہ ہو۔ جو شخص بھی دنیا کی خیرخواہی کرے لازماً دنیا اس کی دشمن ہوتی ہے۔ اور جب میں نے یہ کہا کہ کوئی اُس سے دشمنی کر نہیں سکتا تو میری مراد اس سے یہ ہے کہ اس کے ساتھ دنیا کی دشمنی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ جس قدر انبیاء دنیا میں آئے ہیں وہ سب سے پہلے اپنے نفس کے خیرخواہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ اوّل المؤمنین رہے ہیں۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز سننے کے بعد معاً اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے سامنے پھینک دیا اورکہا کہ ہم اپنے آپ کو تیرے رستہ میں فنا کرکے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جب انہوں نے اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے رستہ میں فنا کرکے ہر قسم کے خطرات سے محفوظ کرلیا تو اپنی خیرخواہی کے بعد ان کے اندر یہ طاقت اور ہمت پیدا ہوگئی کہ وہ دنیا کی خیرخواہی کرسکیں۔ ایک شخص جو تیرنا سیکھتا ہے سب سے پہلے اپنی جان بچاتا ہے اور جو اپنی جان کو بچالیتا ہے وہی اس قابل ہوتا ہے کہ دوسروں کو بچاسکے۔ اگر وہ اپنی جان کو نہ بچاسکے تو کسی صورت میں بھی دوسروں کو بچانے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ مگر وہی تیرنے والا جو اپنی جان بچانے کے سامان پیدا کرکے دوسروں کی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے جب ایک ڈوبنے والے شخص کو بچانے کی کوشش کرتا ہے تو ڈوبنے والے کا مقدم کام یہ ہوتا ہے کہ اُسے ڈبوتا ہے اور یہ دنیا میں ایک عام قاعدہ ہے۔ ڈوبنے والے کے حواس چونکہ قائم نہیں ہوتے اس لئے اپنے آپ کو بچانے کیلئے وہ عقل کے ساتھ ہاتھ پیر نہیں مارتا بلکہ ہمیشہ ایسے رنگ میں ہاتھ پیر مارتا ہے کہ اسے بچانے والا بھی ساتھ ہی ڈوبنے لگے۔
مجھے ایک واقعہ بچپن کا یاد ہے۔ ایک دفعہ یہاں ڈھاب میں ایک کشتی اُلٹ جانے کی وجہ سے کچھ آدمی ڈبکیاں کھانے لگے۔ اُنہیں بچانے کیلئے کچھ اور آدمی کُودے لیکن ان کو ڈوبنے والوں نے پکڑ کر اس طرح ساتھ گھسیٹا کہ ان کے ناک اور منہ میں پانی پڑ نے کی وجہ سے وہ بھی خطرے میں پڑ گئے۔ اس پر کچھ اور لوگ کُودے اور قریباً اٹھارہ آدمی اس طرح ڈبکیاں کھانے لگے۔ آخر ایک اچھے تیراک نے بعض دوسرے ہلکے تیراکوں کو سہارا دے کر سانس دلایا اور پھر ان کی مدد سے اس طرح پکڑ پکڑ کر ڈوبنے والوں کو نکالنا شروع کیا کہ وہ اُن کو ساتھ نہ ڈبوسکیں۔ تو یہ لازمی بات ہے کہ جو شخص دوسرے کو بچانا چاہتا ہے، ڈوبنے والا اُسے ضرور ڈبونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے حواس چونکہ معطل ہوتے ہیں اس لئے وہ بچانے والے کو یا تو اپنا دشمن سمجھتا ہے یا اگر دوست بھی سمجھتا ہے تو ایسے رنگ میں اُس پر بوجھ ڈالتا ہے کہ وہ اُٹھا نہ سکے اور اس طرح اپنے ساتھ اسے بھی ڈبونے کی کوشش کرتا ہے۔ کثرت سے ایسی مثالیں ملتی ہیں او رہر مہینہ ہی اخبارات میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ شائع ہوتا ہے کہ ایک شخص ڈوبنے والے کو بچانے کے لئے گیا مگر خود ڈوب گیا اور ڈوبنے والا بچ گیا۔ پس یہ ایک عام قانون ہے جس سے دنیا آزاد نہیں ہوسکتی۔ یعنی جو اپنی ذات کا خیرخواہ نہیں وہ دنیا کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا اور جو دنیا کا خیرخواہ ہو ممکن نہیں کہ دنیا اس کی دشمن نہ ہو۔ ہاں الٰہی سلسلوں میں خداتعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ ایسی دشمنیاں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔
پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ جو شخص اپنا دشمن نہیں ہوتا دنیامیںکوئی اُس کا دشمن نہیں ہوتا تو میری مراد اس سے یہی ہے کہ اس کے دشمن اس کو نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ یہ مطلب نہیں کہ ان کے دشمن دنیا میں ہوتے نہیں۔ بیشک ان کے دشمنوںکو عارضی خوشیاں بھی کسی وقت نصیب ہوجاتی ہیں مگر حقیقی خوشی وہ کبھی حاصل نہیں کرسکتے اور کوئی واقعہ بھی جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسا پیش نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے دشمن ان کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہوں۔ عارضی طو رپر ان کو خوش ہونے کے موقعے مل سکتے ہیں۔ جب وہ خیال کرلیتے ہیں کہ اب ہم اس جماعت کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے مگر آخر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اپنی جماعت کی مدد کو بڑھتا اور اس کو بچالیتا ہے۔ پس اس قانون کے ماتحت حقیقی خیرخواہی انسان کی اپنے نفس سے یہی ہوگی کہ بنی نوع کی خدمت کرے اور خاص کر مذہبی میدان میں خدمت کرے اور جب وہ خدمت کرے گا تو لازماً لوگوں کی غلطیوں سے بھی ان کو آگاہ کرے گا اور وہ چونکہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں اس لئے ضرور اس کی مخالفت کریںگے اور اسے تباہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں آئے اور لوگوں کی اصلاح کیلئے کھڑے ہوئے لیکن جن کی اصلاح کیلئے وہ کھڑے ہوئے تھے اُنہوں نے ہی اُن کو تباہ کرنا چاہا۔ حضرت نوح علیہ السلام لوگوں کو بچانے کیلئے کھڑے ہوئے اور جن کو بچانے کیلئے وہ کھڑے ہوئے تھے انہوں نے ہی ان کو تباہ کرنا چاہا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جن لوگوں کو بچانے کیلئے کھڑے ہوئے اُنہی لوگوں نے ان کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے تو ان کو بھی ان لوگوں نے جن کو بچانے کیلئے وہ کھڑے ہوئے تھے تباہ کرنا چاہا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تا اپنی قوم کو ہلاکت سے بچائیں مگر اُن کی قوم نے ان کو ہلاک کرنا چاہا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا کو بچانے کیلئے کھڑے ہوئے مگر لوگ ان کے دشمن ہوگئے اور ہر ممکن طریق سے ان کو نقصان پہنچانا چاہا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ دشمن اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکے مگر اپنی طرف سے انہوں نے کوئی کوتاہی نہ کی مگر یہ سب باتیں تبھی ہوسکتی ہیں جب انسان پہلے اپنے نفس کا خیرخواہ ہو۔ اور جب تک وہ یہ نہ کرسکے کسی دوسرے کی اصلاح کے قابل ہی نہیں ہوسکتا۔ کسی نے کہا ہے
آنانکہ خود گم اند کُجا رہبری کنند
جو شخص خود گمراہ ہو وہ دوسروں کو کہاں ہدایت دے سکتا ہے۔ دوسرے کو راستہ وہی دکھاسکتا ہے جو پہلے خود تلاش کرے اور جو شخص دوسرے کو گمراہی سے بچانے کیلئے آگے بڑھے گا اُس کی مخالفت بھی ہوگی اور لوگ اُس کے دشمن بنیں گے۔ گو یہ الٰہی قانون ہے کہ ایسے لوگوں کو دشمنی نقصان نہیں پہنچاسکتی۔ مخالفوں کو عارضی طور پر خوش ہونے کا موقع تو مل سکتا ہے مگر حقیقی خوشی وہ کبھی حاصل نہیں کرسکتے۔
ہماری جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے کے بعد اس نکتہ کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ یعنی یہ کہ سب سے پہلے ان کو اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہئے اور اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ ان کے اندر طاقت پیدا کردے تو پھر کوشش کریں کہ دوسروں کو بچائیں اور اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ اس کے نتیجہ میں ان کی مخالفت لازمی طور پر ہوگی اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ان کے مخالف کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ بظاہر ان کو ذلّت اور رُسوائی بھی ہوسکتی ہے مگر انجام کار وہی کامیاب ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب آتھم کے متعلق پیشگوئی فرمائی اور اس کے بعد اس نے اپنے دل میں رجوع کیا اور اس وجہ سے میعاد مقررہ کے اندر اس کی موت نہ ہوئی تو لوگوں نے بڑی خوشیاں منائیں اور شور مچادیا کہ مرزاصاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی۔ اُس زمانہ میںریاست بہاولپور کے جو نواب تھے، اُن کے پیر چاچڑاں والے بزرگ تھے۔ ایک دن نواب صاحب کے دربار میں یہی ذکر ہورہا تھا کہ مرزاصاحب نے پیشگوئی کی تھی جو غلط نکلی اور اِس پر لوگوں نے ہنسی اُڑانی شروع کی اور آہستہ آہستہ اہل مجلس کی باتوں سے متأثر ہوکر نواب صاحب بھی اس ہنسی میں شامل ہوگئے۔ اُس وقت مجلس میں وہ بزرگ بھی بیٹھے تھے۔ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بہت عقیدت تھی اور انہوں نے حضور کو خط بھی لکھا تھا وہ پہلے تو خاموش رہے مگر جب دیکھا کہ نواب صاحب بھی ہنسی میں شریک ہوگئے ہیں تو اس لئے کہ وہ نواب صاحب کے پیر تھے اور سمجھتے تھے کہ مجھے ان کو اس طرح ڈانٹنے کا حق ہے، بڑے جوش سے فرمایا کہ آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ دنیا کے اندھوں کو یہ نظر آتا ہے کہ آتھم زندہ ہے مگر مجھے تو اس کی لاش سامنے پڑی ہوئی نظر آرہی ہے یعنی تم موت سے مراد ظاہری موت لیتے ہو اور یہ خیال نہیں کرتے کہ وہ موت کیا ہے یہ تو ہر انسان کو آتی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی سے خوف کھا کر جو آتھم نے توبہ کی اور رجوع کیا، وہ جذبات کی موت تھی اور ظاہری موت سے زیادہ سخت تھی۔ تو سلسلہ کی خدمت کرتے ہوئے بعض دفعہ ایسی بات پیدا ہوسکتی ہے جو بظاہر رُسوائی کا موجب ہو مگر عقلمند جانتے ہیں کہ دراصل وہ بھی دین کی نصرت کا موجب ہوتی ہے۔
پس سب سے مقدم بات تو یہ ہے کہ اپنے نفسوں کی اصلاح کرو اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور اِس طرح پھینک دو کہ اُس کی نصرت حاصل کرسکو اور اگر تم یہ کرلو تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیںنقصان نہیں پہنچاسکتی۔ مگر حالت یہ ہے کہ تم ہندو سے تو کہتے ہو کہ اسلام کی تعلیم افضل ہے مگر جب کوئی موقع پیدا ہوتا ہے تو تم جوش سے بھرجاتے ہو اور کہتے ہو کہ ایسے موقع پر اسلام کی تعلیم ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی اورجب یہ حالت ہو تو خداتعالیٰ کو تمہاری نصرت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ خداتعالیٰ اگر تمہاری مدد کرتا ہے تو اس لئے نہیں کہ اس جماعت میں جو لوگ ہیں وہ اسے بہت پسند ہیں بلکہ اس لئے کہ یہ جماعت دنیا میں اُن اصولوں کو قائم کرنے کیلئے کھڑی ہوئی ہے جنہیں قائم کرنا اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے۔ اگر تم میں یہ خصوصیت نہ ہو تو پھر تمہارے متعلق بھی وہی عام قانون ہوگا کہ ایک پر دو بھاری ہوتے ہیں۔ دور پر چار، سَوپر دوسَو، ہزار پر دوہزار اور لاکھ پر دو لاکھ۔ لیکن اگر تم خداتعالیٰ کے اصولوں سے اپنے آپ کو اس طرح وابستہ کرلو کہ تم میں اور ان میں کوئی فرق نہ رہے۔ تمہارے اندر توحید ایسی نہ ہو جیسی دنیا دار لوگوں میںہوتی ہے بلکہ ایسے موحّد بن جائو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم مجسم توحید ہوجائو اور تمہیں اور توحید کو جُدا نہ کیا جاسکے۔ تو پھر اللہ تعالیٰ ضرور تمہاری حفاظت کرے گا کیونکہ اس صورت میں تمہاری تباہی توحید کی تباہی کے مترادف ہوگی۔
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کسی چیز کے ساتھ برتن کو بھی بچایا جاتا ہے۔ کسی پیپے میں گھی یا شہد بھرا ہؤا ہو تو گو اُس کی قیمت دو چار آنے سے زیادہ نہیں ہوتی مگر اس گھی یا شہد کیلئے جو اس کے اندر ہے، انسان اس کی بھی حفاظت کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس میں سوراخ ہوگیا تو گھی یا شہد بہہ جائے گا۔ مٹی کی ایک پیالی جس کی قیمت دمڑی بھی نہیں ہوتی بلکہ کبھی تو چھوٹی پیالیاں پیسہ کی آٹھ آٹھ بِکا کرتی تھیں اس میں اگر ایک انسان اپنے کسی عزیز کیلئے دوائی لئے جارہا ہو اور اُس عزیزکی کمزور حالت کی وجہ سے دوا کے پہنچنے میں تأخیر کو مُہلک سمجھتا ہو، تو اس حالت میں اگر کوئی اس پیالی کو توڑنا چاہے تو وہ انسان اُسے بچانے کیلئے کتنی جدوجہد کرے گا۔ اگر وہ شخص کروڑ پتی بلکہ ارب پتی بھی ہے اور اس کے گھر میں چاندی کے برتنوں کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی تو بھی اس وقت وہ اس مٹی کی پیالی کو بچانے کیلئے جس کی قیمت کچھ بھی نہیں اپنی ساری جائیداد کو قربان کرنے کیلئے تیار ہوجائے گا۔ اس لئے نہیں کہ وہ مٹی کی پیالی اسے عزیز ہے بلکہ اس لئے کہ اس میں ایک ایسی چیز پڑی ہے جس کے ساتھ اس کے عزیز کی جان وابستہ ہے۔ وہ اسے بچانے کیلئے اس لئے جدوجہد نہیںکرے گاکہ وہ مٹی کی بنی ہوئی پیالی قیمتی شَے ہے بلکہ اس لئے کہ اس میں وہ دوا ہے جس کا فوراً اس کے عزیز کے پاس پہنچنا ضروری ہے۔ اسی طرح بے شک انسان خاک کا ایک پتلا ہے جو دنیا میں آتا اور چلا جاتا ہے اور اس لحاظ سے اس کی کوئی قیمت نہیں لیکن جب وہ اپنے اندر اُس تریاق کو بھرلیتا ہے جس سے دنیا نے زندہ رہنا ہے، اگر وہ اپنے اندر ایسی طاقت پیدا کرلیتا ہے جس سے دنیا میں نبوت قا ئم ہونی ہے اور جس سے دنیا میں صفاتِ الٰہیہ نے جاری ہونا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے اور وہ اس کی حفاظت کرتا اور دشمنوں کے ضرر سے اسے بچاتا ہے کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اب اگر یہ انسان ٹُوٹا تو اس کے ساتھ ہی نبوت کا روح افزا شربت بھی بہہ جاتا ہے،توحید کی زندگی بخش رُوح بھی ضائع ہوجاتی ہے، دنیا میں صفاتِ الٰہیہ کا ظہور بھی خطرہ میں پڑ جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ہر کوشش کرتا ہے اس کے بچانے کی تا وہ چیزیں محفوظ رہ سکیں جو اس کے اندر ہیں اور تاوہ دنیا میں قائم اور جاری ہوسکیں۔
جنگ بدر کے موقع پر جب لڑائی کی حالت ایسی خطرناک ہوگئی کہ یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ کفار مسلمانوں کو بالکل مٹادیں گے تورسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک علیحدہ مقام پر جاکر اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور کہا کہ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تیری ہدایت اور عبادت کو قائم رکھنے والا دنیا میں اِن چند ایک لوگوں کے سوا کوئی نہیں اور اگر یہ تباہ ہوگئے تو اور کوئی نہیں جو اسے قائم کرسکے اس لئے ان کی حفاظت فرما۔۱؎ آپ نے یہ نہیں کہا کہ یہ میرے رشتہ دار ہیں یا میرے عزیز دوست ہیں یا کوئی معززین ہیں یا کسی عام صداقت کیلئے کھڑے ہوئے ہیں کیونکہ ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی غیرمعمولی سلوک کی کوئی وجہ نہ تھی اور ان کی قیمت اتنی نہ بن سکتی تھی کہ ان کے لئے دوسروں پر عذاب نازل کیا جائے۔ ان کی قیمت بڑھانے والی صرف یہی ایک چیز تھی کہ ان کا مٹنا خدا کی توحید کا مٹنا ہے اور اُس کی عبادت کا مٹنا ہے۔ پس آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ابوبکرؓ میر اپیارا ہے، عمرؓ اور عثمانؓ میرے پیارے ہیں اور دوسرے صحابہ میرے پیارے اور عزیز ہیں۔ ان سب امور کو نظر انداز کرکے آپ نے یہ فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل میں معرفت کی شراب بھری ہے اوراگر یہ لوگ مٹ گئے تو پھر دنیا میں تیری توحید اور تیری عبادت کو قائم کرنے والا اور کوئی نہ ہوگا۔
پس جب انسان کے دل میں خداتعالیٰ کی معرفت بھر جائے تو وہ اسے ایسا پیارا ہوجاتا ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کی ذات کی خاطر نہیں بلکہ اس چیز کی خاطرجو اس کے دل میں بھری ہے۔ جس طرح انسان مٹی کی پیالی کی حفاظت کرتا ہے۔ اُس پیالی کیلئے نہیں بلکہ اس چیز کیلئے جو اس میں پڑی ہوئی ہے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ یہ سمجھتا ہے کہ اب یہ انسان محض خاک کا پتلا نہیں رہا بلکہ اب اس کے ساتھ میری توحید اور میری تعلیم وابستہ ہو گئی ہے اور اس کے اندر وہ چیز بھر گئی ہے جو دنیا کی نجات کیلئے ضروری ہے۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو سب سے پہلے تو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات کو پید اکریں اور اپنے آپ کو اس کی ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت اور مالکیتِ یومِ الدین کی صفات سے ایسا وابستہ کرلیں کہ وہ معمولی انسان نظر نہ آئیں بلکہ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، اُس کی رحمانیت و رحیمیت اور مالکیت یوم الدین کی صفات نظر آئیں اور اگر کوئی ان کو تباہ کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ کہے کہ ان پر حملہ کرنے والا دراصل میری ان صفات پر حملہ کرتا ہے۔ اگر یہ لوگ مٹ گئے تو اور کون ہے جو دنیا میں میری ان صفات کو قائم رکھے گا اس لئے وہ ان کی حفاظت کرتا ہے اور ان کا مقابلہ کرنے والوں کو ناکام کردیتا ہے۔
تحریک جدید کے دوسرے دَور کی تحریک سے میری غرض یہی ہے کہ ہم دنیا میں اسلامی تعلیم کو قائم کریں۔ اسلامی تعلیم اِس وقت مٹی ہوئی ہے اور ہم یہ کہہ کر اپنے دل کو خوش کرلیتے ہیں کہ اس کا قیام حکومت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ تعلق رکھنے والی باتیں بہت تھوڑی ہیں اور ان کا دائرہ بہت ہی محدود ہے۔ باقی زیادہ تر ایسی ہیں کہ ہم حکومت کے بغیر بھی ان کو رائج کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کی توحید اور عرفان کی خواہش دل میں رکھنا اور اس کیلئے جدوجہد کرنا، صفاتِ الٰہیہ کو اپنے اندر پیدا کرنا اور پھر ان کو دنیا میں رائج کرنا، قُربِ الٰہی کے حصول کی کوشش کرنا، امانت، دیانت، راستبازی وغیرہ وغیرہ سینکڑوں باتیں ہیں جن کا حکومت سے کوئی واسطہ نہیں۔ کیا اگر ہمارے پاس حکومت نہ ہو تو ہم نماز نہیں پڑھ سکتے، ذکر الٰہی نہیں کرسکتے اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کو پگھلا نہیں سکتے دیانت اور امانت کو قائم نہیں رکھ سکتے؟ سچ نہیںبول سکتے؟ یقینا یہ سب کچھ کرسکتے ہیں اور اس لئے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اسلام کی تعلیم بغیر حکومت کے قائم نہیں ہوسکتی۔ ان باتوں میں سے بعض ایسی ہیں جو انسان کی ذات سے وابستہ ہیں اور بعض ایسی ہیں جو نظام سے وابستہ ہیں اور نظام بغیر حکومت کے بھی قائم ہوسکتا ہے۔ دنیا میں کوئی سخت سے سخت حکومت بھی افراد کے نظام کو باطل نہیںکرسکتی۔ افراد کے معاملات میں زیادہ سے زیادہ دخل دینے والی حکومتیں جرمنی اوراٹلی کی ہی ہیں مگر ان میں بھی افراد کے نظام کو کلّی طور پر باطل نہیں کیا جارہا۔ لوگ اب بھی وہاں مجالس قائم کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ ملک کی اصلاح اور خدمتِ خلق بھی کرتے ہیں اور پھر ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی قوم کے ماتحت رکھا ہے کہ جس کی حکومت افراد کے نظام میں کم سے کم دخل دیتی ہے اس لئے نہیں کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں سے کوئی رعایت کرنا چاہتی ہے بلکہ اس لئے کہ ان کے ملک کا نظام ہی ایسا ہے اور انگریز قوم نے حکومت کیلئے اس بارہ میں اختیارات اور قوانین ہی ایسے رکھے ہیں۔ اگر ہم کسی اور ملک کے ماتحت ہوتے تو ہمیں نظام قائم کرنے کے متعلق اس قدر آزادی حاصل نہ ہوتی جتنی اب ہے اور اس صورت میں اسلامی تعلیم کو قائم کرنے کیلئے ہمارا دائرہ عمل بہت محدود ہوتا۔ لیکن اب ہمارا دائرہ کافی وسیع ہے۔ اٹلی اور جرمنی وغیرہ ممالک جہاں فسطائی اور ناٹسی اصول رائج ہیں وہاں حکومتیں افراد کے معاملات میں زیادہ سے زیادہ دخل دیتی ہیں لیکن انگریز قوم نے اپنی حکومت کو ایسے اختیارات ہی نہیں دیئے اور اس لئے برطانوی حکومت ایسے معاملات میں کم سے کم دخل دیتی ہے۔ میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑتا کہ دونوں میں سے کون سا اصل بہتر ہے۔ چاہے میرے نزدیک فسطائی یا ناٹسی اصول ہی نسبتاً زیادہ صحیح ہوںمگر بہرحال اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی حکومت کے ماتحت رکھا ہے کہ ہمارے لئے یہ موقع ہے کہ حکومت سے ٹکرائو کے بغیر اسلامی تعلیم کو جاری کرسکیں اور پھر نظام کے ذریعہ اسے طاقت دے سکیں اور اس سہولت کی موجودگی مَیں سمجھتا ہوں الٰہی حکمت کے بغیر نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جب کسی نبی کو مبعوث کرنا ہوتا ہے تو ہزاروں سال پہلے اس کیلئے تغیرات کرتا ہے اور اس طرح داغ بیل ڈالتا ہے کہ اسے اپنے کاموں میں سہولت حاصل ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ برطانوی حکومت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رحمت ہے۔۲؎ اس کے یہ معنے نہیں کہ انگریز قوم کے افراد بہت نیک اور اسلام کی تعلیم کے قریب ہیں۔ ان میں بھی ظالم، غاصب، فاسق، فاجر اور ہرقسم کا خبث رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور دوسری قوموں میں بھی۔ ان میں بھی اچھے لوگ ہیں اور دوسری قوموں میں بھی۔ جو چیز رحمت ہے وہ یہ ہے کہ یہ حکومت افراد کی آزادی میں بہت کم دخل دیتی ہے اور وہ جن معاملات میں دخل نہیں دیتی ان میں اسلام کی تعلیم کو قائم کرنے کا ہمارے لئے موقع ہے۔ پس یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ایسی قوم کو ہم پر حاکم مقرر کیا کہ جو افراد کے معاملات میں بہت کم دخل دیتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اگر ناٹسی یا فیسسٹ لوگ ہم پر حکمران ہوتے تو وہ دوسرے معاملات میںانگریزوں سے بھی اچھے ہوتے۔ ممکن ہے وہ اللہ تعالیٰ کا خوف ان سے زیادہ رکھنے والے اور زیادہ عدل کرنے والے ہوتے مگر انفرادی آزادی وہ اتنی نہ دیتے جتنی انگریزوں نے دی ہے۔ وہ اشخاص کے لحاظ سے تو اچھے ہوتے مگر سلسلہ کے لحاظ سے ہمارے لئے مُضر ہوتے اور اس کے یہ معنی ہوتے کہ جب تک اسلامی حکومت قائم نہ ہوجاتی اسلامی تعلیم کو قائم کرنے کا دائرہ ہمارے لئے بہت ہی محدود ہوتا اور اسلامی احکام میں سے بہت ہی تھوڑے ہوتے جن کو ہم قائم کرسکتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہی معنوں کے لحاظ سے انگریزی حکومت کو رحمت قرار دیا ہے اور اس قوم کی تعریف کی ہے۔ آپ کا یہ مطلب نہیں کہ انگریز انصاف زیادہ کرتے ہیںبلکہ ہوسکتا ہے کہ انصاف کے معاملہ میں کوئی دوسری حکومت اس سے اچھی ہو۔ قابلِ تعریف یہی ہے کہ اس قوم کے تمدن کا طریق یہ ہے کہ اس نے اپنی حکومت کو انفرادی معاملات میں دخل اندازی کے اختیارات نہیں دیئے۔
پس اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ جس ملک میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پیدا کرنا تھا وہاں ایسی قوم حاکم ہو جو لوگوں کے معاملات میں کم سے کم دخل دینے والی ہو۔ پس انگریزوں کی حکومت اس لئے قابلِ تعریف نہیں کہ اس کے افسر باقی سب حکومتوں سے انصاف زیادہ کرنے والے ہیں یا وہ اسلام کی تعلیم کے زیادہ قریب ہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ وہ افراد کے معاملات میں بہت ہی کم دخل دیتی ہے۔ ان کی خوبی مثبت قسم کی نہیں بلکہ منفی قسم کی ہے۔ پس جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی دوستوں کو توجہ دلائی تھی۔ انہیں چاہئے کہ ان حالات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ اسلامی تعلیم کو قائم کرنے کی کوشش کریں۔ یہ خیال کرکے بیٹھ رہنا بالکل نامناسب ہے کہ اسلامی تعلیم کا قیام اسلامی حکومت کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایسی باتیں تو سَو میں سے دس ہوں گی جو اسلامی حکومت سے تعلق رکھتی ہیں باقی نوے ایسی ہیںجو بغیر حکومت کے بھی قائم کی جاسکتی ہیں۔ نوے پر عمل کو اُس وقت تک ترک کرنا کہ دس پر عمل کرنے کا وقت آجائے، بیوقوفی ہے۔ جو شخص دس کی خاطر نوے ضائع کردیتا ہے اس کی مثال اس لڑکے کی ہے جسے اس کی ماں نے ایک پیسہ دیا تھا کہ بازار سے تیل خرید لائو۔ وہ گیا، دکاندار نے اپنے پیمانہ کو بھر کر اس کے کٹورے میں تیل ڈالا چونکہ کٹورا چھوٹا اور تیل کچھ زیادہ تھااس لئے تیل بچ گیا اور دکاندار نے کہا کہ یہ پھر کسی وقت لے جانا مگر لڑکے نے کہا کہ پھر کون آئے گا میں ابھی لے جاتا ہوں اور اس نے اپنا برتن اُلٹادیا اور اس کے پیندے پر جو چھوٹا سا خلا تھا اس میں باقی تیل ڈالنے کو کہا۔ اُلٹا کرنے سے کٹورے کے اندر جو تیل تھا وہ تو گر گیا۔ جب گھر پہنچا تو اس کی ماں نے کہا کہ کیا اتنا تھوڑا تیل دکاندار نے دیا ہے لڑکے نے کہا کہ نہیں، دوسری طرف بھی ہے اور یہ کہہ کر برتن سیدھا کردیا جس سے پیندے والا تیل بھی گر گیا۔
پس ہم بھی اگر دس باتوں کیلئے نوے کو ضائع کردیں تو ہماری مثال بھی اسی احمق کی سی ہوگی۔ ہم اس لڑکے کی مثال کو سنتے اور ہنستے ہیں مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو خود نوے کو دس کی خاطر ضائع نہیں کررہے ۔ اللہ تعالیٰ نے نوے فیصدی امور ہمارے اختیار میں دے دیئے ہیں اور ایسے حاکم دیئے ہیں جن کے ملک کا دستور یہ ہے کہ وہ انفرادی آزادی میںکم سے کم دخل دیتے ہیں۔ دنیامیں بعض حکومتیں ایسی ہیں جو افراد کے معاملہ میں زیادہ سے زیادہ دخل دیتی ہیں تا اصلاح ہو۔ وہ کہتی ہیں کہ جب ایک بات میں ملک کا فائدہ ہے تو کیوں لوگوں کو طاقت سے اس پر کاربند نہ کیا جائے۔ مگر بعض دوسری حکومتوں کا اصول یہ ہے کہ جب تک انفرادی معاملات میں کم سے کم دخل نہ دیا جائے ، افراد کی قوت قائم نہیں رہ سکتی اور ان کی ذہنی ترقی رُک جاتی ہے اور لوگ محض ایک مشین بن کر رہ جاتے ہیں اور انگریزوں کی قوم اس آخری اصول کی کاربند ہے۔اس کے برخلاف جرمن حکومت کا اصول یہ ہے کہ جب ایک بات مفید ہے تو اس بات کا انتظار کیوں کیا جائے کہ لوگ اس کے ذریعہ خود اپنی اصلاح کرلیں گے اور اپنے اپنے طور پر کوشش کرکے اس پر کاربندہوجائیں گے۔ کیوں نہ حکومت خود اسے قائم کردے اور جتنا چاہے دخل دے دے۔ اور اسلامی ترقی کیلئے ہندوستان میں زیادہ مفید وہی حکومت ہوسکتی تھی جو کم سے کم دخل دے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں انگریزی حکومت کو قائم کردیا۔ ہندوستان میں اس کے بجائے اگر کوئی اور حکومت ہوتی تو یہ تو ممکن تھا کہ ہندوستان دیگر لحاظ سے بہت ترقی کرتا۔ یہاں کی اقتصادی حالت اچھی ہوتی یا تجارت ترقی کرتی۔ یا یہ کہ آج ہندوستان میں زیادہ کارخانے ہیں، اس سے کئی گُنا زیادہ کارخانے ملک میں کھل جاتے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انگریزی حکومت نے دو سو سال میں ہندوستان میں اتنا کام نہیں کیا جتنا اٹلی نے دو سال کے عرصہ میں حبشہ میں کیا ہے۔ پس اگر کوئی اَور حکومت یہاں ہوتی تو ممکن ہے بعض اور لحاظ سے ہندوستان کو زیادہ ترقی حاصل ہوجاتی مگر قومی اور شخصی اصلاح کے کاموں میں وہ آزادی ہرگز نہ ملتی جو انگریزی حکومت کے ماتحت اُسے حاصل ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایسے سامان پیدا کردیئے ہیں کہ ہم اسلامی تعلیم کے قیام کے دائرہ کو بہت وسیع کرسکتے ہیں اور اگر ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھی ہم ان کو قائم نہ کریں تو یہ ایک بہت بڑی حماقت ہوگی۔
انگریزی حکومت میں پرائیویٹ مدرسے جاری کرنے کی اجازت ہے مگر جرمنی میں نہیں۔ وہاں سب کو سرکاری مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبورکیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے مُلک میں دینی تعلیم کا انتظام نہیں ہوسکتا۔ روس میں پادری شور مچارہے ہیں کہ ہمیں مذہبی تعلیم کی اجازت نہیں دی جاتی مگر حکومت کہتی ہے کہ بائبل کی تعلیم دینا کسی کیلئے روٹی کے سوال کو حل نہیں کرتا اس لئے ہم تم کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ ایک شخص کو ناکارہ بنادو۔ ایسی تعلیم جوان ہونے کے بعد دی جاسکتی ہے۔ ہمیں تو ایسے آدمی کی ضرورت ہے جو زیادہ سے زیادہ روپیہ تجارت اور صنعت و حرفت کے ذریعہ دوسرے ممالک سے کھینچ سکے۔ اب دیکھو اگر کوئی ایسی ہی حکومت یہاں ہوتی تو ہم نہ احمدیہ سکول جاری کرسکتے تھے اور نہ مبلغین کے لئے جامعہ احمدیہ کے ذریعہ تعلیم کا انتظام کرسکتے تھے۔ حکومت سب کو جبراً سرکاری سکولوں میں تعلیم دلاتی اور دینی تعلیم کیلئے کوئی موقع نہ رہتا۔ سوائے اس کے کہ گریجوایٹ بن جانے کے بعد پھر نوجوانوں کی دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جاتا لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان میں بھی یہ آزادی کب تک قائم رہے۔ اب یہاں مُلکی حکومت قائم ہورہی ہے اور بعض وزراء نے اپنی تقریروں میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے کہ پرائیویٹ مدرسے بند کردینے چاہئیں۔ پس پیشتر اس کے کہ وہ دن آئیں یا ان کے آنے میں ہم روک بننے کے اہل نہ رہ سکیں ہمیں اسلامی تعلیم کو اس طرح اپنے اندر قائم اور جاری کرلینا چاہئے کہ اگر دینی سکول توڑ بھی دیئے جائیں تو ہر احمدی اپنی جگہ پر پروفیسر اور فلاسفر ہو جو اپنے بچوں کو گھر میں وہی تعلیم دے جو ہم نے سکولوں میں دینی ہے۔ اس وقت جو بچے ہیں وہ اپنی مائوں سے اور باپوں سے اور بھائیوں بہنوں سے وہی باتیں سُنیں جو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منہ سے نکلی ہیں۔ اس طرح وہ وقت جو بچوں کو گھرمیں والدین کے پاس رہنے کیلئے ملتا ہے، اسی میں ان کی دینی تعلیم و تربیت ہوسکے گی۔ ماں باپ سے ملنے کا وقت بچوں کو سخت سے سخت حکومتوں کے ماتحت بھی ملتا ہے۔ حتّٰی کہ روس میں بھی جہاں بہت پابندیاں ہیں، والدین سے بچوں کو ملنے کی اجازت ہے۔ پس اگر کوئی ایسا وقت آبھی جائے جب دینی تعلیم کا انتظام حکومت ہمیں کرنے نہ دے۔ اُس وقت وہ وقت جو بچے والدین کے پاس گزاریں ان کی دینی تعلیم کو مکمل کرنے کا ذریعہ بن جائے۔
اس کے علاوہ علمُ النفس کا بھی ایک نکتہ ہے جسے ہم کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ جب کسی قوم کے اندر کوئی اچھی تعلیم قائم ہوجائے تو وہ بجائے خود ایک خاموش تبلیغ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اگر ہماری جماعت غلط خیالات پر مُصِر نہ رہے، قرآن کریم کی تعلیم کے متعلق یہ نہ کہے کہ وہ ہے تو بہت اچھی مگر اس سے ہر موقع پر گزارہ نہیں ہوسکتا بلکہ اسے ہر حال میں قائم کرے اور اس پر عمل کرے اور اس طرح دنیا کو اسے دیکھنے کا موقع دے۔ تو چونکہ وہ بہت اچھی تعلیم ہے دیکھنے والوں کے دل میں خودبخود یہ خیال پیدا ہوگا کہ ہمیں بھی اسے اختیار کرنا چاہئے۔
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں بعض چیزیں اخلاق کے لحاظ سے سخت مُضِر ہوتی ہیں، بعض صحت کے لحاظ سے مُضِر ہوتی ہیں مگر چونکہ وہ بظاہر اچھی نظر آتی ہیں اس لئے لوگ خودبخود انہیں اختیار کرتے جاتے ہیں۔ بھلا کوئی مبلغ کسی جگہ لوگوں کو یہ تلقین کرنے کیلئے گیا ہے کہ مانگ نکالا کرو مگر دیکھ لو ماں باپ بھی سمجھاتے ہیں، استاد بھی منع کرتے ہیں اورلوگ بھی کہتے رہتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے تمہیں مرد بنایا ہے یہ عورتوں والی ہیئت کیوں بناتے ہو مگر آجکل کے لڑکے ہیں کہ اس سے کسی صورت نہیں رُکتے۔ جس کے پاس کوئی اعلیٰ قسم کا تیل نہ ہو وہ بازار سے ایک پیسے کا کڑوا تیل ہی لے آئے گا اور ٹوٹی ہوئی کنگھی کے ساتھ ٹیڑھی مانگ نکال کر اس طرح اکڑ اکڑ کر چلے گا کہ گویا بادشاہ نے اُسے وزیر اعظم مقرر کردیا ہے۔ پھر کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ لیکچرار لیکچر دیتے پِھرتے ہوں کہ داڑھیاں مُنڈوائو۔ مگر جب ایک ہندوستانی نوجوان ایک انگریز کو دیکھتا ہے کہ ڈاڑھی منڈائے ہوئے اور پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈال کر پھررہا ہے تو وہ خودبخود چاہتا ہے کہ میں محمد ابراہیم نہ رہوں بلکہ ٹامسن ہوجائوں۔ کیونکہ وہ عزت والا ہے اور اس کی نقل کرنے سے میں بھی شاید عزت والا سمجھا جانے لگوں۔ اور اسے اگر سیفٹی ریزر نصیب نہ ہو تو وہ دیسی کُند اُسترے سے اپنی ٹھوڑی پر خواہ دس زخم کیوں نہ کرے لیکن بال ضرور نوچ ڈالے گا۔ تاوہ بھی مسٹر ٹامسن معلوم ہو کیونکہ اسے اس میں ایک خوبصورتی نظر آتی تھی۔ چونکہ اسے اپنی مرعوب شدہ آنکھوں سے وہ دیکھتا ہے۔ مسٹر ٹامسن خوبصورت نظر آتا ہے اس لئے جھَٹ اُس کی نقل کرتا ہے۔ سو تم اگر اسلام کی تعلیم کو عملی طور پر دنیا کے سامنے پیش کرو، خداتعالیٰ کی صفات کو پیش کرو توکیا تم سمجھتے ہو کہ لوگ انہیں اختیارنہ کریں گے اور تمہاری نقل نہ کرنے لگیں گے!
مجھے اِنہی دنوں یورپ سے ایک مبلّغ کی چِٹھی آئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میری ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جو روسی نظامِ حکومت کا قائل تھا اور خیال رکھتا تھا کہ اس کو قائم کئے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا لیکن میں نے جب اُس کے سامنے آپ کی کتاب احمدیت سے اسلامی نظامِ حکومت والا حصہ رکھا اور اُسے کہا کہ اِن دونوں کا مقابلہ کرو اور دیکھو کہ سوویٹ سکیم میں جو نقص ہیں وہ اس میں دور کردیئے گئے ہیں یا نہیں اور اس کی خوبیاں اس میں موجود ہیں یا نہیں؟ تو وہ کہنے لگا کہ ہاں اگر ایسی حکومت دنیا میں قائم ہوسکے تو پھر کسی اور کی ضرورت نہیں۔ اس دوست نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور لکھا ہے کہ میرے لئے ایسے خیالات کے آدمی سے ملاقات کا پہلا موقع تھا اور اسلام کی تعلیم نے جس طرح اس پر اثر کیا اس سے مجھے خیال ہؤا کہ یہ کس طرح دلوں کوموہ لینے والی تعلیم ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہم اسے دنیا کے سامنے پیش ہی نہیں کرتے۔ منہ سے تو کہتے ہیں کہ یہ تعلیم بہت اچھی ہے مگر چھوٹی چھوٹی باتوں میں کہ جو سب کو نظر آنے والی ہوتی ہیں عملی طور پر انہیں پیش نہیں کرسکتے۔ ہم میں سے بہت سے ہیں جن کو یہ بھی علم نہیں کہ ماں باپ اور بیٹوں کے باہمی تعلقات کے متعلق اسلام نے کیا تعلیم دی ہے۔ ہمسائیوں کے متعلق کیا تعلیم دی ہے، کون سے اصول ہیں جن کی پابندی ضروری رکھی ہے۔ مگر ان کی پابندی کا کبھی خیال بھی ہمارے دل میں نہیں آتا۔ منہ سے لَااِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ کہتے ہیں اور خیال کرلیتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا۔ ہماری مثال اُس کمزور ہندو کی ہے جس کا مذہب اسے صبح ہی صبح دریا پر نہانے کا حکم دیتا ہے۔ مگر سردی کی وجہ سے اس کے لئے چونکہ یہ مشکل ہوتا ہے اس لئے وہ پانی کی گڑوی اپنے سر کے اوپر پھینکتا ہے اور خود کُود کر آگے ہوجاتا ہے اور اس طرح اس کا بدن خشک ہی رہتا ہے۔ بعینہٖ یہی حالت ہماری ہے۔ ہم اسلامی تعلیم کی گڑوی اس طرح اوپر پھینک کر خود آگے چھلانگ لگا جاتے ہیں کہ اس کا کوئی چھینٹا بھی ہمارے اوپر نہیں گرتا اور اس کے باوجود دل میں خوش ہوتے ہیں کہ اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہیں۔
پس مَیں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ جلسہ سالانہ پر جس بات کا وعدہ انہوں نے کیا تھا اسے عملی رنگ میں پورا کریں۔ میں علماء سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اسلامی تمدن کا پوری طرح مطالعہ کریں اور قرآن کریم اور احادیث سے اس کے احکام کو اچھی طرح مستنبط کریں اور پھر دیکھیں کہ اس کا کونسا حصہ ایسا ہے جس پر ہم آج بھی عمل کرسکتے ہیں اور پھر اسے جماعت کے سامنے بار بار پیش کریںاور لوگوں کے دماغوں میں اسے اس طرح ٹھونسنے کی کوشش کریں کہ پھر وہ نکل ہی نہ سکے۔ ہم میں سے ہر فرد کو جس طرح یہ معلوم ہے کہ میں احمدی ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام راستباز ہیں اسی طرح ہر زمیندار احمدی تک کو یہ علم ہونا چاہئے کہ اُس کے بیوی بچوں کے اُس پر کیا حقوق ہیں اور ان کے متعلق اُس پر کیا ذمہ داریاں ہیں، زراعت کے متعلق، امانت و دیانت کے متعلق، لین دین کے متعلق، دوسروں سے سلوک کے متعلق اسلام نے کیا تعلیم دی ہے اوریہ چیزیں اسے اس طرح یاد ہوں کہ آپ ہی آپ اس کے منہ سے نکلتی جائیں اور اس کے اعمال سے ظاہر ہوتی رہیں اور اس کے اندر اس طرح راسخ ہوجائیں کہ ان کا نکالنا مشکل ہو۔ جو بات اچھی طرح دل میں گڑ جائے پھر اس کا نکالنا بہت مشکل ہوجاتاہے۔ کہتے ہیں کوئی شخص ہندو سے مسلمان ہؤا تھا، کسی مجلس میں بیٹھا۔ جس طرح مسلمانوں میں اچنبھے کی کوئی بات سن کر اگر وہ بُری ہو تو اَسْتَغْفِرُاللّٰہ اور اچھی ہو تو سُبْحَانَ اللّٰہ کہتے ہیں، اسی طرح ہندوئوں میں رام رام کہتے ہیں۔ اس مجلس میں کسی نے کوئی اچنبھے کی بات کہی تو اس کے منہ سے بے اختیار رام رام نکل گیا۔ کسی نے کہا مسلمان ہوکر بھی رام رام ہی کہتے ہو! تو اُس نے جواب دیا کہ میری زبان پر اللہ تعالیٰ کا لفظ تو آہستہ آہستہ ہی جاری ہوگا اور رام رام ذرا مشکل سے ہی نکلے گا۔ تو انسان کو جس بات کی عادت پڑ جائے اُس کا نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے اس لئے اگر ہماری جماعت باہمی تعاون کے ساتھ اس بات کے پیچھے پڑ جائے کہ اسلامی تعلیم کو رائج کرنا ہے اِس کے متعلق کتابیں لکھی جائیںاور سوال و جواب کے رنگ میں چھوٹے چھوٹے رسالے شائع کئے جائیں۔ جس طرح پکی روٹی یا اور اسی قسم کی پنجابی کتابیں موجود ہیں۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ ان میں کیا ہے لیکن بہرحال ایسی چھوٹی چھوٹی کتابیں جن میں سوال و جواب کی صورت میں اسلامی باتیں سکھائی گئی ہوں، تو ایسی کتب اس مقصد کے حصول کیلئے بہت مفید ہوسکتی ہیں اس لئے پنجابی میں، اردو میں، نظم میں، نثر میں ایسی باتیں لوگوں کے ذہن نشین کی جائیں کہ فلاں موقع پر کیا کرنا چاہئے، فلاں بات یوں کرنی چاہئے۔ غصہ کے وقت جو جذبات انسان کے ہوتے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا کرنا چاہئے۔ مثلاً رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر غصہ آجائے تو بیٹھ جائو، پھر بھی غصہ فرو نہ ہو تو ٹھنڈا پانی پیو، پھر بھی اگر غصہ دور نہ ہو تو وہاں سے ہٹ جائو۔۳؎ اب اگر یہ باتیں لوگوں کو اچھی طرح یاد کرادی جائیں تو روزمرہ کے وعظوں کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ سکتی۔ ناممکن ہے کہ ان سب باتوں پر انسان عمل کرے اور پھر بھی اس کا غصہ دور نہ ہو۔ ان سب باتوں کے کرنے کے دوران میں ضرور کسی نہ کسی نماز کا وقت آجائے گا اور اگر انسان نماز باترجمہ جانتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز کے وقت اس کا غصہ دور ہوجائے۔ پھر ایک صورت غصہ کی یہ ہوسکتی ہے کہ جس بات کے متعلق غصہ ہے وہ مستقل نقصان کا موجب ہوسکتی ہو اور ہو بھی میاں بیوی کے درمیان۔ اس حالت کے متعلق بتایا جائے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے مسلمان کو کیا کرنا چاہئے۔ مثلاً یہ کہ ایسے موقع پر اسلام کا حکم ہے کہ ۴؎ مقرر کرو۔ یہ ایک ایسا حکم ہے جس پر عمل کی ضرورت میرے خیال میں ہزاروں کو پیش آتی رہتی ہے مگر وہ اس پر عمل نہیں کرتے کیونکہ انہیں علم ہی نہیں ہوتا۔ لوگ کیا کرتے ۔ جب غصہ آیا جھٹ کہہ دیا طلاق۔ طلاق۔ طلاق۔ تین طلاق۔ دس طلاق۔ سَوطلاق۔ ہزار طلاق۔ تم میری ماںہو، بہن ہو۔ حالانکہ اس سے زیادہ بیہودہ بات کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔
ایک وقت میں تو تین طلاقیں جائز ہی نہیں ہیں۔ مگر لوگ اس طرح طلاق طلاق کہتے چلے جاتے ہیں کہ گویا اس عورت کو سوٹے لگ رہے ہیں اور انہیں وہ ذرائع معلوم ہی نہیں جو غصہ کو فرو کرنے کے ہیں۔ اور پھر انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ مستقل نقصان کی صورت میں اگر اس کا بیوی کے ساتھ ، بھائی بہن، ماں باپ یا ہمسایہ کے ساتھ جھگڑے سے تعلق ہو تو اس کے متعلق کیا کیا احکام ہیں حالانکہ اگر ان باتوں کا علم ہو تو انسان بہت سی پریشانیوں سے بچ سکتا ہے۔ پھر یہ پتہ نہیں کہ بیٹے کی جائیداد کے معاملہ میں ماں باپ کیلئے کیا حکم ہے۔ شریعت نے بیٹے کی جائیداد پر والدین کا اختیار نہیں رکھا۔ اولاد کو یہ اخلاقی تعلیم دی ہے کہ والدین کی خدمت کرے مگر یہ نہیں کہ جس طرح چاہیں اس کی جائیداد کو استعمال کرسکتے ہیں۔ اگر ماں باپ کو ایسا حق ہوتا تو ان کیلئے شریعت زکوٰۃ کو جائز نہ رکھتی کیونکہ اپنے مال کی زکوٰۃ اپنے لئے جائز نہیں۔ پھر بیٹے کی جائیداد میں باپ کیلئے شریعت نے ورثہ رکھا ہے اور انسان اپنے ہی مال کا وارث نہیں ہؤا کرتا۔
پھر نکاح کے متعلق باپ کی مرضی کو شریعت نے ایک حد تک ضروری رکھا ہے اور اگر اس کی مرضی کے خلاف ہو تو باپ کہہ سکتا ہے کہ بیوی کو طلاق دے دے۔ مگر شادی ہوجانے کی صورت میں وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ بیوی سے تعلق نہ رکھو یا اس سے علیحدہ رہو۔ اگر لوگوں کو شریعت کے احکام کاعلم ہو تو اب اگر وہ نو سَو ننانوے نافرمانیاں ہزار میں سے کرتے ہیں تو پھر یقینا ایک رہ جائے اور وہ بھی کبھی جوش کی حالت میں۔ جوش کی حالت میں کسی بات کا نظر انداز ہوجانا اور بات ہے لیکن عدمِ علم کی وجہ سے تو کئی احکام کی تعمیل سے انسان رہ جاتا ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ ان امور کی طرف ہماری جماعت کے دوستوں کی کوئی توجہ نہیں۔ نہ ذمہ دار افسر توجہ کرتے ہیں، نہ علمائ، نہ مدرّس اور نہ انجمن کے ناظر۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اصل غرض جو آپ کو الہام میں بتائی گئی یہی ہے کہ یُحْیِ الدِّیْنَ وَ یُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ ۵؎کہ وہ دین کو زندہ اور شریعت کو قائم کرے گا۔ پس ہمار افرض ہے کہ شریعت جو مٹ چکی ہے ، جو ہزاروں پردوں کے نیچے چھُپ گئی ہے ، مسلمانوں کے نہ عوام اس پر عمل پیرا ہیں اور نہ علماء بلکہ ان کا علم بھی کسی کو نہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے تو کہا تھا کہ فریسی جو کہتے ہیں وہ کرو۔ جو کرتے ہیں وہ نہ کرو۔۶؎ مگر اب تو یہ حالت ہے کہ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے اس لئے جو کہا جاتا ہے وہ بھی اسلام کے خلاف ہے اور جو کیا جاتا ہے وہ بھی خلاف۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہزاروں توہمات اور رسومات کے نیچے دبے ہوئے اسلامی آثار کو پھر نکالیں۔ انگریز لاکھوں من مٹی کو کھدواتے ہیں اور جب نیچے سے قدیم زمانہ کا ایک مٹی کا پیالہ بھی مل جاتاہے تو بہت خوش ہوتے ہیں اور پھُولے نہیں سماتے مگر ہماری تو ساری جائیدادیں ہی مٹی کے نیچے دفن ہیں۔ کیا ہمیں ان کے نکالنے کی کوئی فکر نہ کرنی چاہئے؟ شریعت کے ایسے ایسے مخفی خزانے زمین کے نیچے دفن ہیں کہ جن کی قیمت کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہوسکتا۔ انسانی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس کیلئے مفصّل ہدایات موجود نہ ہوں اور جو ایسی روشن نہ ہو کہ جنہیں دیکھ کر تیز سے تیز نظر والے انسان کی آنکھیں بھی چُندھیانہ جائیں۔ مگر یہ سب خزانے رسوم اور جہالتوں اور نسیان کی مٹی کے نیچے دفن ہیں اور ایک بے قیمت چیز کی طرح پڑے ہیں اور اُنہیں نکالنے کی طرف ہماری توجہ بالکل نہیں اور اس کام سے بالکل بے فکر ہیں۔
پس مَیں احباب جماعت کو ان کا عہد یاد دلاتا ہوں جو جلسہ سالانہ کے موقع پر انہوں نے کیاتھا اور یہ ہدایت کرتا ہوں کہ میرے اِس خطبہ کو ہر جگہ تمام دوستوں کو اکٹھا کرکے سنایا جائے اور ان سے پھر عہد لیا جائے کہ وہ اسلامی تمدن اور اس کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں گے۔ جلسہ سالانہ کی تقریر تو معلوم نہیں کب تک چھپے۔ گزشتہ سال کی تقریر بھی ابھی تک مجھے نہیں پہنچی اس لئے دوست کوشش کریں کہ یہ خطبہ ہر ایک احمدی تک پہنچ سکے۔ یوں بھی جلسہ سالانہ پر سب لوگ نہیں آسکتے۔ بہت سے احمدی ہیں جنہوں نے اِس تقریر کو نہیں سُنا۔ پھر قادیان کے بھی کئی احمدی ہیں جو انتظاماتِ جلسہ کی وجہ سے یہ تقریر نہیں سن سکے اس لئے قادیان کی سب مساجد میںبھی اس خطبہ کو بار بار پڑھ کر سنایا جائے اور جلسہ پر جو عہد لئے گئے تھے انہیں بھی دُہرایا جائے اور پھر جماعت سے وعدہ لیا جائے کہ وہ اس پر عمل کریں گے اور احیائے دین اور قیامِ شریعت کی بنیادوں کو مضبوط کریں گے۔ تا قلیل سے قلیل عرصہ میں وہ تمدن قائم ہوجائے جس کو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے اور جس کو قائم کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے۔ پس ہر جگہ یہ خطبہ سب دوستوں کو جمع کرکے سنایا جائے۔ قادیان میں بھی کئی مساجد میں نماز ہوتی ہے اس لئے یہاں بھی ہر مسجد میں اسے سنایا جائے اور دوبارہ سب سے وعدے لئے جائیں کہ وہ اس کی ہدایتوں کے مطابق عمل کریں گے۔ بیرونی جماعتوں میں کثرت سے ایسے لوگ ہیں جو جلسہ کے موقع پر نہیں آئے تھے اس لئے اس امر کی ضرورت ہے کہ اس خطبہ کو لوگوں تک پہنچایا جائے اور اسے سنا کر لوگوں سے اقرار لئے جائیں کہ وہ آئندہ اسلامی تمدن اور تہذیب کے مطابق عمل کریں گے۔ اور جہاں تک حکومت کا قانون ان کو اجازت دیتا ہے تمدنی، معاشی، معاشرتی اور دوسرے معاملات میں اسلامی تعلیم کو رائج کریں گے۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں۔ بعض چیزیں جو دل میں گڑ جاتی ہیں ان کا نکالنا مشکل ہوتا ہے اس لئے اس کام پر سخت جدوجہد کرنی ہوگی۔ مثلاً بددیانتی اور محنت نہ کرنے کا مرض ہے۔ یہ ایسا مرض ہے جو بہت ہی خطرناک اور بہت سے نقصانات کا موجب ہے اور یہ ہماری جماعت میں بھی پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ دوسروں سے بِلاوجہ روپیہ لے لیتے ہیں اور پھر ادا کرنے کے وقت ہنس کر کہہ دیتے ہیں کہ ضائع ہوگیا۔ بعض امانتیں رکھ لیں گے مگر پھر ادا نہیں کریں گے اور ان چیزوں کو دور کرنے کیلئے ہمارے دوستوں کو بہت سی لڑائی اپنے نفسوں سے اور دوسروں سے کرنی پڑے گی لیکن نتیجہ نہایت اچھا ہوگا کیونکہ اگر ہماری جماعت اپنی دیانت کا سکہ بٹھادے اور اس لحاظ سے اپنی شُہرت قائم کرلے تواقتصادی مشکلات کا خودبخود حل ہوسکتا ہے اس صورت میں لوگ خود آ آ کر ان کو روپیہ دیںگے۔
جب دہلی کا غدر ہؤا تو اس وقت دہلی میں حکیموں کا خاندان دیانت کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ اب میں نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے اپنا وہ معیار قائم رکھا ہؤا ہے یا نہیں۔ لیکن اُن دنوں میں اس لحاظ سے ان کی شُہرت بہت تھی اور ان کی بات بینک کی رسید سمجھی جاتی تھی۔ جب غدر ہؤا اُس زمانہ میں اس خاندان کے بڑے غالباً حکیم محمود خان صاحب تھے جو پٹیالہ کے شاہی خاندان کے طبیب تھے اور ریاست پٹیالہ کی فوجیں انگریزوں کی فوجوں سے مل کر باغیوں سے لڑ رہی تھیں۔ جب دلی فتح ہوئی تو ایسے موقعوں پر چونکہ لُوٹ مار ہوتی ہے اس لئے مہاراجہ پٹیالہ نے انگریز افسروں کو کہلا بھیجا کہ ہمارے حکیم صاحب کے مکان پر ایک گارد رہے گی تا ان کا مکان کوئی نہ لُوٹ سکے۔ چنانچہ پٹیالہ کی فوج کی گارد ان کے مکان پر پہرہ دینے لگی۔ لوگ اپنی جانیں بچانے کیلئے شہر سے بھاگ رہے تھے اور جاتے جاتے اپنے قیمتی اموال کی پوٹلیاں مَعَ اپنے پتہ وغیرہ کے ان کی ڈیوڑھی میں پھینک جاتے تھے۔ چونکہ گارد کی وجہ سے اندر جانا یا بات کرنا مشکل تھا اس لئے بھاگتے بھاگتے ڈیوڑھی میںپھینک جاتے تھے۔ میں نے اپنے ننھیال کے رشتہ داروں سے یہ باتیں سُنی ہیں کہ امن قائم ہونے پر جب لوگ واپس آئے تو ہر ایک کی امانت اُسے مل گئی۔ ملک میں بددیانتی عام ہونے کی وجہ سے یہ بات بہت ہی عجیب معلوم ہوتی ہے لیکن اگر دنیا میں اسلامی تعلیم قائم ہوتی اورمعیار اس کے مطابق ہوتا تو یہ کوئی غیرمعمولی بات نہ تھی۔پس اگر ہماری جماعت کے اندر امانت کی روح قائم ہوجائے تو پھر یہ سوال ہی باقی نہیں رہتا کہ روپیہ کہاں سے آئے ۔ میں مانتا ہوں کہ سب بددیانت نہیں ہیں لیکن جب سَو میں سے دس بددیانت ہوں تو باقیوں کی امانت بھی مشتبہ ہوجاتی ہے۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جو نظام کے ذریعہ سے ہی قائم کی جاسکتی ہیں، بغیر نظام کے نہیں۔ مثلاً اگر بددیانت کو سزا نہ دی جائے تو اس کا انسداد نہیں ہوسکتا۔ مگر اب کیا ہوتا ہے اگر کسی کے خلاف بددیانتی کی وجہ سے کارروائی کی جائے تو محلہ کے آدھے لوگ اس کی تائید میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور جب یہ حالت ہو تو کسی کو سبق کیسے مل سکتا ہے اور اس بدی کو کیسے مٹایاجاسکتا ہے۔
انگلستان کے تاجر اس بات میں مشہور ہیں کہ وہ دھوکا نہیں کرتے اور اس شُہرت کی وجہ سے وہ فائدہ بھی بہت اُٹھاتے ہیں۔ وہ امانت اور دیانت سے تجارت اس وجہ سے نہیں کرتے کہ وہ اس کو مذہباً اچھا سمجھتے ہیں بلکہ وہ جانتے ہیںکہ ان کو چھوڑنے سے ہماری تجارت کو نقصان پہنچے گا۔ مذہب کے وہ اتنے قائل نہیں ہوتے مگر تجارتی مفاد کے لئے اس حکم پر سختی سے عمل کرتے ہیں اس لئے تجارتی دنیا میں ان کی بات کو بہت پختہ سمجھا جاتا ہے۔ ان میں بھی بددیانت لوگ ہیں مگر بہت بڑی کثرت چونکہ دیانت سے کام کرنے والوں کی ہے اس لئے وہ اپنی قومی ساکھ کو قائم رکھ رہے ہیں۔ تو قومی دیانت سے ایسا اعتبارقائم ہوجاتا ہے کہ غیر قوموں کے لوگ بھی خود آآ کر روپیہ دیتے ہیں۔ مسلمانوں میں جب تک دیانت قائم تھی، تجارت کا یہی اصول تھا۔ جب تاجروں کا قافلہ روانہ ہونے لگتا تو لوگ خود آ آ کر روپیہ دے جاتے تھے۔ وہ لے آتے تھے اور پھر واپس جاکر منافع ان میں تقسیم کردیتے تھے۔ آج لوگ کہتے ہیں ہم تجارت کس طرح کریں حالانکہ اگر قومی دیانت قائم ہوجائے تو وہ لاکھوں روپیہ جو لوگوں کے گھروں میں پڑا ہے فوراً باہر آسکتا ہے۔ یہاں قادیان میںہی لوگوں کے پاس کافی روپیہ ہے۔ اگرچہ تنخواہیں اور آمدنیاں کم ہیں مگر ہم چونکہ کفایت سے گزارہ کرنا سکھاتے ہیں اور اسراف سے روکتے ہیں اس لئے لوگ کچھ نہ کچھ پس انداز کرلیتے ہیں۔ میںنے دیکھا ہے کہ جب کسی نفع مند سَودا کا موقع ہو تو لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ سفارش کریں یہ ہمیں حاصل ہوجائے اور کبھی ایسا نہیںہؤ اکہ کسی ایسے موقع پر باہر سے کسی کی طرف سے انتظار کرنا پڑے۔ اگر ایک ہزار کی جائیداد کے متعلق دس بھی ایسی درخواستیں آئیں تو اس سے یہ تو معلوم ہوسکتا ہے کہ ان دس لوگوں کے پاس دس ہزار روپیہ موجود ہے۔ پس اگر لوگوں کو یہ یقین ہوجائے کہ دوسروں کے ہاتھ میں جاکر ان کا روپیہ محفوظ رہے گا تو نہ صرف احمدی بلکہ دوسری قوموں کے لوگ بھی بخوشی اپنا روپیہ دے سکتے ہیں۔ مگر یہ بات انفرادی دیانت سے حاصل نہیں ہوسکتی، شُہرت ہمیشہ قومی دیانت ہی پکڑتی ہے اور اُسی وقت لوگ اپنا روپیہ دینے کیلئے تیار ہوسکتے ہیں جب یہ بات عام طور پر تسلیم کی جاچکی ہو کہ احمدی بددیانت نہیں ہوسکتا۔
میںبتاچکا ہوں کہ انگلستان کے تاجر اپنی اس دیانت کی وجہ سے تمام دنیا سے مال و دولت اکٹھی کرکے لے گئے ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ ان کے ساتھ معاملہ کرنے میں دھوکا کا خطرہ نہیں۔ اس لئے وہ سَودا دو پیسے گراں لے لے گا مگر لے گا انگلستان سے ہی۔ تو بعض باتیں بظاہر چھوٹی ہوتی ہیں مگروہ اقوام کی حالت کو بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ جس طرح دیانت قوم کی مالی حالت کو بہتر بنادیتی ہے اسی طرح بددیانتی سے نقصان پہنچتا ہے۔ ایک شخص جو ایک روپیہ کسی کا کھاجاتا ہے، وہ تو خیال کرتا ہے کہ میں نے ایک روپیہ کھایا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک نہیں ایک کروڑ بلکہ ایک ارب کھاتا ہے کیونکہ اس کے ایک روپیہ کھانے کے یہ معنے ہیں کہ قومی دیانت پر حرف آئے گا اور قومی دیانت کی شُہرت کی صورت میں دوسروں سے جو کروڑ ہا روپیہ حاصل کیا جاسکتا تھا وہ نہ مل سکے گا۔ کیونکہ اس کی بددیانتی سے قومی دیانت کے متعلق شکوک پیدا ہوجائیں گے۔
پس یہ معمولی باتیں نہیں ہیں اور نہ معمولی کوشش سے حاصل ہوسکتی ہیں۔ اور اگر تم انہیں اپنے اندر پیدا کرلو تو پھر حکومتیںبھی اور بادشاہتیں بھی تمہارے سامنے جُھکیں گی اور سمجھیں گی کہ ان سے ملنے میں فائدہ ہے۔ اسی طرح اگر تم سچائی کا معیار بلند قائم کرلو تو اگر ایک شخص تم پر الزام لگانے والا ہو تو سَو اس کی تردید کیلئے کھڑا ہوجائے گا اور کہے گا کہ ہرگز نہیں، احمدی جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ اخلاقی لحاظ سے اصولی صداقتیں چار ہیں۔ دیانت، صداقت، محنت اور قربانی۔ اور اگر یہ چار تم اپنے اندر پیدا کرلو تو یقینا تم کامیاب ہوسکتے ہو۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی انسان سے تعلق رکھنے والی ابتدائی صفات چار ہی ہیں اسی طرح یہ چار اصولی صداقتیں ہیں جن کے ماتحت سارے اخلاق آجاتے ہیں۔ میں اس مضمون کو زیادہ وضاحت سے بیان کرنا چاہتا تھا مگر اب چونکہ دیر ہوگئی ہے اس لئے اِسی پر بس کرتا ہوں۔‘‘ (الفضل ۲۱؍ جنوری ۱۹۳۸ئ)
۱؎ بخاری کتاب المغازی باب قصۃ غزوۃ بَدْرٍ
۲؎ تحفہ قیصریہ صفحہ ۳۱ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۲۸۳ (مفہوماً)
۳؎ ابو داؤد کتاب الادب باب مَایُقَالُ عِنْدَالْغَضَبِ
۴؎ النسائ: ۳۶
۵؎ تذکرہ صفحہ ۷۰ ایڈیشن چہارم
۶؎ متی باب ۲۳ آیت ۲،۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی ۱۸۸۷ء لندن (مفہوماً)

۳
متواتر اور مسلسل قربانیوں سے ہی خداتعالیٰ حاصل ہوتا ہے
(فرمودہ ۲۱؍ جنوری ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’پچھلے جمعہ کے بعد سے مجھے گلے کی تکلیف ہے اور اس وجہ سے میں بلند آواز سے نہیں بول سکتا۔ پس اپنی آواز دوسرے دوستوں کی وساطت سے پہنچاتا ہوں (تین دوست بلند آواز سے خطبہ کے الفاظ دُہرانے کیلئے مقرر کئے گئے تا حاضرین تک آواز پہنچاسکیں)۔
تحریک جدید کے دوسرے دَور کے مالی وعدے کا زمانہ اب چند دنوں میں ختم ہونے والا ہے۔ اور جیسا کہ میں اعلان کرچکا ہوں ۳۱؍ جنوری کے بعد ہندوستان کے اُن علاقوں کے جن میں اُردو بولی جاتی یا سمجھی جاتی ہے مزید وعدے وصول نہیں کئے جائیں گے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس خطبہ کے ذریعہ سے جو اس دَوران میں چھپ کر جماعت تک پہنچنے والے خطبوں میں سے آخری خطبہ ہوگا جماعت کو پھر ایک دفعہ ان کی مالی خدمات کے سلسلہ میں ذمہ داریوں اور دوسری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلادوں۔
خداتعالیٰ کے کام ہوکر رہیں گے اوربندوں کی سُستی یا غفلت ان میں کوئی حرج پیدا نہیں کرسکتی۔ وہ جو سُستی کرتا ہے خود اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو خداتعالیٰ کے فضلوں سے محروم کرتا ہے۔ خداتعالیٰ کا دین زید یا بکر کا محتاج نہیں۔ اگر زید یا بکر پہلی آواز دینے والوں میں سے بنیں تو خداتعالیٰ دوسرے ثواب کی پہلی آواز بھی انہی تک پہنچاتا ہے لیکن اگر وہ اس آواز کو نہ سُنیں اور اس کی طرف سے اپنے کان بہرے کرلیں تو پھر وہ اَور دوسرے شخصوں کو آگے لے آتا ہے تاکہ وہ اس کے دین کی خدمت کریں کہ خداتعالیٰ کی فوج میں تھک جانے والے اورملال پیدا کرنے والے اور ہتھیار پھینک دینے والے اور نتائج کے متعلق جلد بازی کرنے والے کبھی قبول نہیں ہوتے۔ تھوڑی سی قربانیوں کے بعد بڑی اُمنگوں کے ساتھ تو ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی بھی کھڑے ہوجاتے ہیں اور وقتی قربانی خواہ کتنی ہی عظیم الشان ہو، کمزور سے کمزور انسان بھی پیش کرنے کیلئے تیار ہوجاتا ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ تھوڑے سے وقت میں کسی اشتعال کے ماتحت یا جوش کے ماتحت بڑی سے بڑی قربانی کرنا کمزوروں ہی کا کام ہے اور طاقتور اور مضبوط ایمان والے وہی ہوتے ہیں جن کا قدم مضبوطی کے ساتھ ایسے مقام پر قائم ہوتا ہے کہ دن کے بعد دن اور ہفتے کے بعد ہفتہ اور مہینے کے بعد مہینہ اور سال کے بعد سال اوردسیوں سال کے بعد دسیوں سال مصائب اور قربانی کے گزرتے چلے جاتے ہیں لیکن ان کے دل میں اپنے آرام کی خاطر کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ منزلِ مقصود کب آنے والی ہے اور انہیں بیٹھنے کا موقع کب ملے گا۔ وہ اگر کبھی دعا کرتے ہیں اور مَتٰی نَصْرُاللّٰہِ ۱؎کہتے ہیں تو صرف اس لئے کہ خدا کا جلال ظاہر ہو ۔نہ اس لئے کہ ہماری قربانیوں کا زمانہ ختم ہو کیونکہ وہ جو خداتعالیٰ کے سچے شیدا ہوتے ہیں ان کی منزلِ مقصود کوئی دنیا کی کامیابی نہیں ہوتی بلکہ وصالِ الٰہی ان کامنزلِ مقصود ہوتا ہے اور وہ ہردم اور ہر لحظہ انہیںحاصل ہوتا چلا جاتا ہے۔ پس وہ یہ کبھی نہیں دیکھتے کہ ان کی مادی قربانیوں نے کیا مادی نتائج پیدا کئے ہیں اور وہ اپنے بوئے ہوئے درختوں کو اس لالچ سے نہیں دیکھتے کہ وہ ان کے ثمرات کھائیں گے بلکہ وہ انہیں چھوڑ دیتے ہیں دوسروں کیلئے کہ وہ ان کے ثمرات کھائیں اور وہ اپنی کوششوں کا ثمرہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہی کی صورت میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ کس نے قربانیاں کی ہیں اور کون قربانیاں کرسکتا ہے لیکن آپ کو ہم دیکھتے ہیں کہ اِنہی قربانیوں میں آپ اِس جہان سے گزرگئے اور اِس دنیا کی ترقیات کا زمانہ آپ کی زندگی میں نہیں آیا۔ قیصر اور کسریٰ کے خزانے جو اُن قربانیوں کے نتیجہ میں حاصل ہوئے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کی تھیں وہ جاکر حضرت عمر رضی اﷲعنہ کے زمانہ میںفتح ہوئے اور ان کا فائدہ زیادہ تر اُن لوگوں نے حاصل کیا جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر میں ابوجہل اور ابوسفیان کے لشکر میں شامل ہوکر مسلمانوں کا مقابلہ کرتے رہے تھے۔ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی آخری عمرمیں ایمان لائے اور فتوحات کے زمانہ میں تھوڑے سے عرصہ کیلئے لڑائیوں میں بھی شامل ہوئے اور پھر فتوحات میں حصہ دار بن کر ہر قسم کی راحت و آرام حاصل کرنے والے ہوگئے۔ اور وہ جنہوں نے قربانیاں کی تھیں اور جو آسمان سے اس بہشت کو کھینچ کر لائے تھے وہ اپنے خد اکے پاس مدتوں پہلے جاچکے تھے یا ان چیزوں سے مستغنی ہوکر اپنے رب کی یاد میں بیٹھے تھے یا خدمتِ خلق میں مشغول تھے۔ کیا عجیب نظارہ ہمیں نظر آتا ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مسجد میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعد معاویہ ہزاروں مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہوتے ہیں وہی معاویہ جو فتح مکہ تک برابر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف لڑتے رہے تھے اور کھڑے ہوکر مسلمانوں سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اے مسلمانو! تم جانتے ہو ہمارا خاندان عرب کے رئوساء میں سے ہے اور ہم لوگ اشرافِ قریش میں سے ہیں۔ پس آج مجھ سے زیادہ حکومت کا کون مستحق ہوسکتا ہے اور میرے بعد میرے بیٹے سے کون زیادہ مستحق ہوسکتا ہے۔۲؎ اُس وقت حضرت عبداللہ بن عمرؓ مسجد کے ایک کونہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ عبداللہ بن عمرؓ جن کو حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کی موجودگی میں صحابہؓ نے خلافت کا حق دار قرار دیا تھا اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے خواہش کی تھی کہ آپ اپنے بعد ان کو خلافت پر مقرر فرمائیں کیونکہ مسلمان زیادہ سہولت سے ان کے ہاتھ پر جمع ہوجائیں گے اور کسی قسم کے فتنے پیدا نہیں ہوسکیں گے لیکن حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا میں اس کی نیکی کو جانتا ہوں اور اس کے مقام کو پہچانتا ہوں لیکن یہ رسم میں نہیں ڈالنا چاہتا کہ ایک خلیفہ اپنے بعد اپنے بیٹے کو خلیفہ مقرر کردے اور خصوصاً جبکہ اکابر صحابہؓ زندہ موجود ہیں اس لئے میں اس کو مشورہ میں تو شامل رکھوں گا لیکن خلافت کا امیدوار قرار نہیں دوںگا۔۳؎ یہ عبداللہؓ بن عمرؓ اُس وقت مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے معاویہؓ کو یہ بات کہتے سنا تو وہ چادر جو میں نے اپنے پائوں کے گِرد لپیٹ رکھی تھی اس کے بندکھولے اور ارادہ کیا کہ کھڑا ہوکر کہوں کہ اے معاویہؓ !اِس مقام کا تجھ سے زیادہ حقدار وہ ہے جس کا باپ تیرے باپ کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہوکر لڑتا رہا ہے اور جو خود اسلامی لشکر میں تیرے اور تیرے باپ کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے اعلاء کیلئے جنگ کرتا رہاہے مگر پھر مجھے خیال آیا یہ دنیا کی چیزیں ان کیلئے رہنے دو اور اسلام میں ان باتوں کی وجہ سے فتنہ مت پیدا کرو اور میں پھر بیٹھ گیا اور معاویہؓ کے خلاف میں نے کوئی آواز نہ اُٹھائی ۔۴؎
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام کی خاطر قربانیاں کیں اور یا تو وہ ان کے دُنیوی ثمرات پیدا ہونے سے پہلے ہی فوت ہوگئے یا پھر ان کے زمانہ میں وہ ثمرات ظاہر ہوئے لیکن انہوں نے یا تو باوجود مقدرت کے ان ثمرات میں سے حصہ نہیں لیا اور یا پھر وہ ثمرات دوسروں کے ہاتھوں میں جاتے ہوئے دیکھے مگر اپنا حصہ خدا کی رضا میں سمجھ کر ان ثمرات کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں اور حقارت سے ان کو ٹھکرادیا۔ یہی لوگ ہیں جو ایمان کا سچا نمونہ دکھانے والے ہیں اور انہی کے نقشِ قدم پر چل کر انسان مؤمن کہلاسکتا ہے لیکن وہ شخص جو تھوڑی سی قربانی کرتا اور اس کے بعد تھک جاتا ہے اور اس امید میں لگ جاتا ہے کہ خدا کی طرف سے اس کیلئے کیا بدلہ آیا ہے اس کو خدا کی رحمتیں نہیں آتیں بلکہ اس کی بزعم خود قربانیاں خود اسی کے منہ پر ماری جاتی ہیں کیونکہ گو خدا قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے لیکن اس کا مطالبہ سائلوں کی طرح نہیں ہے۔ خدا کا مانگتے وقت ہاتھ نیچا نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہاتھ اوپر ہی ہوتا ہے۔ جس طرح حکومتیں لوگوں سے ٹیکس لیتی ہیں مگر وہ ذلّت کے ساتھ نہیں مانگتیں۔ خداتعالیٰ اس سے بھی زیادہ شان کے ساتھ مطالبہ کرتا ہے کیونکہ حکومتیں تو لوگوں کے روپیہ سے فائدہ اُٹھاتی ہیں مگر خداتعالیٰ بندوں کی قربانیوں سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اُٹھاتا بلکہ اس کا سارا فائدہ بندوں ہی کو پہنچتا ہے۔ جو عقلمندہوتے ہیں وہ تو کوشش کرتے ہیں کہ ہماری جسمانی قربانیوں کا روحانی فائدہ ہمیں مل جائے اور جو کم عقل ہوتے ہیں وہ جسمانی فائدے کی تلاش میں لگ جاتے ہیں اور قومی لحاظ سے وہ بھی ان کو مل ہی جاتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہؤا کہ خدا کا کوئی نبی آیا ہو اور جلد یا بدیر اس کی قوم میں حکومت نہ آگئی ہو۔ پس حکومتیں تو آتی ہیں اور دُنیوی فائدے تو پہنچتے ہی ہیں مگر دُنیوی فوائد سے زیادہ متمتع ہونے کی خواہش ان لوگوں کو ہوتی ہے جو روحانی فوائد کی قیمت نہیں جانتے لیکن دوسرے لوگ جن کو روحانی آنکھیں عطا ہوتی ہیں، وہ اپنے انعامات کو روحانی شکل میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پس وہ لوگ جو کہ قربانیوں میں تھک جاتے ہیں وہی لوگ ہیں جو کہ خداتعالیٰ سے سَودا کرنا چاہتے ہیں اور ان کی غرض خداتعالیٰ کی محبت نہیں ہوتی بلکہ دُنیوی فوائد ہوتے ہیں۔ جب کچھ عرصہ کی قربانیوں کے بعد وہ خیال کرتے ہیں کہ اب ہمیں دُنیوی انعامات مل جانے چاہئیں لیکن وہ انعامات حاصل نہیں ہوتے تو وہ تھک کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے قربانیوں میں جو حصہ لینا تھا لے لیا، اب ہمیں مزید قربانیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ وہ لوگ جو کل کی غذا کو آج کی غذا کیلئے کافی نہیں سمجھتے اور آج کے دن کیلئے نئی غذا کے طالب ہوتے ہیں بلکہ دن میں کئی کئی دفعہ کھانے اور پینے کی طرف رغبت کرتے ہیں۔ وہ کبھی نہیں کہتے کہ ہمارا کل کا کھانا اور کل کا پینا ہمارے آج کیلئے کافی ہوگیا ہے بلکہ وہ آج کل سے بھی زیادہ اچھے کھانے اور زیادہ شیریں پانی کی جستجو کرتے ہیں لیکن خدا کے دین کی قربانیوں کے موقع پر جو کہ انسان کیلئے روحانی غذا ہیں، وہ یہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ ہماری کل کی غذا آج کیلئے بھی کافی ہوگی اور آئندہ آنے والے دنوں میں بھی وہی ہماری طاقت کوبڑھاتی چلی جائے گی حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ جس طرح جسم کو بار بار غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کو بھی بار بار غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جب تک روح کو بار بار غذا نہ پہنچے جو بار بار کی قربانیوں اور متواتر قربانیوں کے ذریعہ سے پہنچ سکتی ہے، اُس وقت تک روحانی زندگی قائم نہیں رہ سکتی۔ اگر تم آج ظہر کے وقت بارہ (۱۲) رکعتیں پڑھ لو۔ اسی طرح عصر کے وقت بارہ پڑھ لو اور پھر مغرب کے وقت نَو پڑھ لو اور پھر عشاء کے وقت بارہ پڑھ لو اور دوسرے دن صبح چھ پڑھ لو اور یہ امید رکھو کہ آئندہ دو دن یہ پانچوں نمازیں تم چھوڑ سکتے ہو کیونکہ تم نے خدا کا حق وقت سے بھی پہلے ادا کردیا تو یہ مت سمجھو کہ یہ بات تمہارے ایمان کے بڑھانے کا موجب ہوگی بلکہ وہ سب سے پہلی نماز جسے تم اس وہم کی وجہ سے چھوڑ دو گے، تمہارے ایمان کو باطل کرنے والی ہوجائے گی اور تم یہ نہیں کہہ سکو گے کہ ہم نے تو یہ نماز پہلے ہی دن ادا کردی تھی۔ تم اگر پہلے دن فرض رکعتوں کے علاوہ سَو سَو رکعت بھی اَور پڑھ جائو تو دوسرے دن اپنے وقت پر نئے فرض ادا کرنے پڑیں گے۔ وہ سَورکعتیں سَورکعتوں کے قائم مقام تو الگ رہیں وہ دوسرے دن چار رکعتوں کے قائم مقام بھی نہیں ہوسکتیں، وہ دو رکعتوں کے قائم مقام بھی نہیں ہوسکتیں، وہ ایک رکعت کے قائم مقام بھی نہیں ہوسکتیں، وہ ایک سجدے کے قائم مقام بھی نہیں ہوسکتیں، وہ سجدہ کی ایک تسبیح کے قائم قام بھی نہیں ہوسکتیں۔ جس طرح کل کی کھائی ہوئی دس روٹیاں آج صبح کے وقت ناشتہ کے ایک لُقمہ کی کفایت بھی نہیں کرسکتیں اسی طرح وہ روحانی عبادتیں یا جسمانی قربانیاں جو انسان ماضی میں کرتا ہے اور ان پر توکل کرکے چاہتا ہے کہ مستقبل کی قربانیوں سے آزاد ہوجائے وہ اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتیں۔ وہ اگر ایسی بیوقوفی کرے گا تو یقینا اپنے آپ کو ہلاک کرنے والا ہوگا۔ وہ جو خدا کی جماعتوں میں داخل ہوتے ہیں خداتعالیٰ ہر آن انہیں اپنا چہرہ دکھانا چاہتاہے اور خداتعالیٰ اپنا چہرہ ہمیشہ قربانیوں کے آئینہ میں ہی دکھاتا ہے۔
میں نے گزشتہ سالوں میں کہا تھا کہ وہ شخص جو یہ خیال کرتا ہے کہ میں موت سے پہلے کسی وقت بھی قربانیوں سے آزاد ہوسکتا ہوں وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان کمزور ہے اور وہ خداتعالیٰ کی فوج کا سپاہی بننے کے قابل نہیں ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ جہاں جماعت کے ایک حصہ نے میری اس بات کو انہی معنوں میں سمجھا ہے جن معنوں میں کہ مَیں نے اسے بیان کیا تھا وہاں ایک حصہ جماعت کا ایسا ہے جس نے یہ خیال کیا کہ شاید میں یہ باتیں صرف اس وقت کیلئے اور ان قربانیوں کیلئے جوش پید اکرنے کی خاطرکہہ رہا ہوں جن کا اس وقت مطالبہ کیا گیا تھا اور وہ اپنے دلوں میں یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید ہماری تین سال کی قربانیاں جو صرف چند حقیر رقموں پر مشتمل تھیں، وہ زمین و آسمان کانقشہ بدل ڈالیں گی اور ان چند روپوں میں وہ کام ہوجائے گا جو تئیس سال کی ہرقسم کی قربانیوں کے بعد رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی کمان میں صحابہؓ کرسکے تھے۔ گویا ان لوگوں نے اپنے چند روپوں کی قربانی کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی رات اور دن کی جانکاہیوں اور قِسما قِسم کی مصیبتوں اور بے وطنیوں اور جائیدادوں کے چھینے جانے اور اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں اور اپنی بیویوں کے مارے جانے اور خود ان میں سے کئیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کئے جانے اور قسم قسم کے عذابوں سے مارے جانے اور سردیوں اور شدید گرمیوں میں کھانے اور پینے کے سامانوں کے بغیر بے آب و گیاہ جنگلوں میں سے بعض دفعہ بغیر سواری کے اور بعض دفعہ ننگے پائوں سفر کرنے اور پھر اپنے سے کئی کئی گُنا زیادہ تعداد والے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی قیمت کے برابر خیال کر رکھا تھا۔ شاید وہ اپنے روپوں کی قیمت اُس بڑھیا سے بھی زیادہ لگاتے تھے جو اپنی روئی کے گالوں سے یوسف ؑ کی خریداری کیلئے گئی تھی۔ کیونکہ اس نے تو یوسف ؑکو جو ابھی تک نبی نہیں تھے اور ایک غلام کی حیثیت سے پیش ہوئے تھے، اپنی تھوڑی سی پونجی کے ساتھ خریدنا چاہا تھا۔ مگر یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم جو تمام نبیوں کے سردار ہیں اور خاتم النبیّٖن ہیں، ان کی قربانیوں کی قیمت اپنی دو چار سال کی حقیر مالی قربانیوں کے مطابق لگانا چاہتے تھے لیکن یاد رکھو! ایسے لوگ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ دین کی فتح ان لوگوں کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ انہی کے ہاتھوں سے ہوتی ہے جو نتائج اور انجام سے غافل ہوکر صرف ایک ہی بات کو اپنے سامنے رکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنی موت تک ہم نے قربانیاں کرتے چلے جانا ہے اورہمارے آرام کا وقت وہی ہوگا جب کہ ہم اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے حقیقی مولا کی گود میں جا بیٹھیں گے۔
تم ایک چھوٹے سے بچے کو جس کو محاورے کے طور پر بھی نادان بچہ کہتے ہو، دنیا کی قیمتی سے قیمتی مٹھائیوں یا عُمدہ سے عُمدہ کھلونوں سے تھوڑی دیر کیلئے بہلاسکتے ہو لیکن اس بیوقوف اور نادان بچے کو بھی اپنی ماں کی یادسے ہمیشہ کیلئے غافل نہیں کرسکتے۔ بسااوقات وہ دُنیوی نعمتوں کے کھانے یا ان کے حُسن کے نظاروں کے دیکھنے سے ایک منٹ کیلئے یا چند منٹوں کیلئے اپنی ماں کی طرف سے خیال ہٹالے گا لیکن پھر اس کا خیال ادھر ہی چلا جائے گا اور اس کو حقیقی راحت تبھی نصیب ہوگی جب وہ اپنی ماں کی گود میں پہنچ جائے گا۔ پھر جبکہ ایک نادان بچے کا یہ حال ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ مؤمن جو دانائوں کا دانا ہوتا ہے اپنے خدا کے ملنے سے پہلے چَین پاجائے اور اسے آرام حاصل ہوجائے۔ اس کی راحت کی گھڑیاں اور اس کے آرام کی ساعتیں تو اُسی وقت سے شروع ہوتی ہیں جب وہ اپنے جسمِ خاکی کو اس دنیا میں چھوڑ کر اپنے رب کی طرف دیوانہ وار دَوڑتا ہؤا چلا جاتا ہے۔ جس طرح پرندہ شام کو لہلہاتے ہوئے کھیتوں اور للچانے والے دانوں کے ڈھیروں کو چھوڑ کر اڑتا ہؤا اپنے بسیرے کی طرف جاتا ہے، اسی طرح مؤمن کی روح موت کے وقت اپنے رب کی طرف بھاگتی ہے اور پیچھے مُڑکر بھی تو نہیں دیکھتی کہ میں نے اپنے پیچھے کیا چھوڑا ہے کیونکہ اس کی خوشیاں اس کے آگے ہوتی ہیں نہ کہ پیچھے۔
پس جو شخص چاہتا ہے کہ ایمان پیدا کرے، اُس کو اپنی لذت اور اپنی راحت خدا میں بنانی چاہئے اور یہ کبھی امید نہیں کرنی چاہئے کہ کوئی ایک قربانی یا دوسری قربانی اس کے حقوق کو ادا کردے گی کیونکہ حقوق قربانیوں سے ادا نہیں ہوتے بلکہ قربانیوں کے متواتر اور مستقل ارادوں سے ادا ہوتے ہیں۔ پس جو کچھ میں نے کہا تھا وہ کسی وقتی جوش دلانے کیلئے نہیں کہا تھا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایمان کی سلامتی کیلئے متواتر قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے اورموت سے پہلے کوشش کے چھوڑ دینے کا خیال اندرونی بے ایمانی کی علامت ہے اور ایسے شخص کیلئے خطرہ ہے کہ اگر آج اس کا ایمان سلامت ہے تو کل سلامت نہ رہے اور مرنے سے پہلے کسی وقت وہ ٹھوکر کھاجائے اور اپنے انعامات جو پہلی قربانیوں سے اس نے جمع کئے تھے، اس کی اس غفلت کی وجہ سے کسی اور مومن کو مل جائیں جو کہ پہلے ٹھوکر کھایا ہؤا تھا لیکن مرنے سے پہلے خدا کی طرف متوجہ ہوگیا کیونکہ نتائج انسان کی زندگی کے کاموں کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ انسان کے انجام کے مطابق ہوتے ہیں۔
یہ مت خیال کرو کہ یہ ظلم ہے کہ خدا انسان کی زندگی کے کاموں کو تو نظر انداز کردیتا ہے لیکن آخری گھڑیوں کے کاموں کو قبول کرلیتا ہے کیونکہ آخری گھڑی کی حالت درحقیقت پہلے کاموں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وہ جس کی پہلی زندگی اچھی نظر آتی ہے لیکن اس کا انجام خراب نظر آتا ہے اس کا انجام اسی لئے خراب ہوتا ہے کہ اس کی پہلی زندگی گو بظاہر خوشنما تھی لیکن خدا کی نگاہ میں وہ گندی تھی۔ تم کبھی بھی یہ امید نہیں کرسکتے کہ گوبر کی گولیوں پر کھانڈ چڑھا کر مریضوں کو شفا دے سکو یا بھوکوں کے پیٹ بھردو کیونکہ باہر کی کھانڈ اندر کے خُبث کا علاج نہیں ہوسکتی۔ پس وہ جس کا انجام خراب ہوتا ہے یا کمزور نظر آتا ہے وہ اسی لئے خراب ہوتا ہے اور اسی لئے کمزور ہوجاتا ہے کہ اس کی پہلی زندگی بناوٹی تھی اورمنافقانہ تھی اور خدائے علیم و خبیر جو دلوں کا بھید جاننے والا ہے اس نے نہ چاہا کہ یہ غیر مستحق حق والوں کا حق لے جائے۔ پس اس نے مرنے سے پہلے اگر یہ ایمان کے ضائع ہوجانے کا مستحق تھا تو اس کے ایمان کو ضائع کردیا اور اگر یہ ایمان کے کمزور ہونے کا مستحق تھا تو اس نے اس کے ایمان کو کمزور کردیا۔ یہی حال اس کا ہے جس کا نتیجہ اس کے برعکس ہوتا ہے ۔ یعنی اس کی پہلی زندگی تو خراب ہوتی ہے لیکن اس کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے انجام کو اس لئے اچھا نہیں کرتا کہ وہ بغیر کسی مقصد کے ایک شخص کے ساتھ رعایت کرنا چاہتا ہے بلکہ اس لئے اچھا کرتا ہے کہ اس دوسرے شخص کے اعمال یا اس کا ایمان گو بظاہر کمزور نظر آتا تھا لیکن اس کے دل کی گہرائیوںمیں کوئی ایسا جوہر ہی تھا، کوئی ایسی قابلیت چھپی ہوئی تھی، کوئی ایسی محبت کی ٹیس اُٹھ رہی تھی جس کو خداتعالیٰ نظر انداز نہیں کرسکتا تھا۔ پس اس نے اس کی موت کو پیچھے کردیا اور اس وقت تک ملکُ الْموت کو نہ آنے دیا جب تک اس کا مخفی جوہر ظاہر نہ ہوگیا اور اس کی چھپی ہوئی محبت عیاں نہ ہوگئی۔
پس خدا نے بِلاوجہ اس کی حالت کو نہیں بدلا بلکہ جو قابلیتیں اس کے اندر مخفی تھیں اور جو دردِمحبت اس کے اندرنہاں تھا اسی کو ظاہر کرکے انصاف قائم کیا ہے نہ کہ رعایت۔ پس انجام کے مطابق ہی خدا کے بدلے ملتے ہیں اور اسی طرح ہونا چاہئے۔ یہی انصاف ہے اور اسی میں عدل ہے اور یہی رحمت کا تقاضا ہے ۔ پس جس کو خداتعالیٰ توفیق دیتا ہے کہ اس کا قدم قربانیوں میں آگے ہی بڑھتا چلا جائے، خداکا فیصلہ اس کے ایمان پر مُہر لگاتا چلا جاتا ہے اور ہم اس کی اس ترقی کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیںکہ یہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ کر رہے گا لیکن وہ جو چلتا ہے اور کھڑا ہوجاتا ہے اور قربانی کرتا ہے اور پھر آسمان کی طرف بدلہ کیلئے نگاہ اٹھاتا ہے اور اپنی موت سے پہلے ہی اپنے پھل حاصل کرنا چاہتا ہے یا تھک کر بیٹھ جاتا ہے یا پہلے سے اس کا قدم سُست ہوجاتا ہے (جیسا کہ اس سال بعض جماعتوں اور بعض افراد کی حالت سے نظر آرہا ہے) اس کا پھل اس کا خدا نہیں بلکہ اس کی دنیا ہے۔ دنیا تو شاید اس کو مل جائے مگر خدا اس کو نہیں ملے گا اور کبھی نہیں ملے گا۔‘‘ (الفضل ۲۵؍ جنوری ۱۹۳۸ئ)
۱؎ البقرۃ: ۲۱۵
۲؎ طبقات ابن سعد جلد ۳ صفحہ ۱۸۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء
۳؎ تاریخ ابن اثیر جلد ۴ صفحہ ۶۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۴؎ طبقات ابن سعد جلد ۴ صفحہ ۱۸۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء

۴
قلوب کی فتح کیلئے اسلام کی عملی تعلیم کی پوری پابندی لازم ہے
(فرمودہ ۲۸؍ جنوری ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’قوموں کی ترقی کیلئے قومی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی ایک یا دو آدمی مل کر یہ کام نہیں کرسکتے۔ کیونکہ افراد کے اخلاق کی حفاظت قومی اخلاق سے ہوتی ہے۔ اگر قومی طور پر اخلاق درست نہ ہوں تو صرف چند لوگ ہی جو علیحدگی اور خلوت میں زندگیاں بسر کریں اپنے اخلاق کو بچاسکتے ہیں دوسرے نہیں اسی لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب قومی طور پر اخلاق میں بگاڑ پیدا ہو تو شہروں اور بستیوں کو چھوڑ کر پہاڑوں اور جنگلوں میں چلے جائو اور وہیں زندگی بسر کرو۔۱؎ اس کے معنے یہی ہیں کہ جب قومی اخلاق بگڑ جائیں تو افراد کے اخلاق درست نہیں رہ سکتے۔ اول تو اِردگِرد کے حالات کے اثر کی وجہ سے انسان کی طبیعت میں کمزوری پیدا ہوجاتی ہے اور اگر انسان اپنے اخلاق کو بیرونی اثرات سے بچابھی لے تو اس کے بیوی بچوں کے اخلاق تو بوجہ کمیِ علم یا کم عمری کی وجہ سے ضرور ہی خراب ہوجاتے ہیں اور ایسے حالات میں چونکہ خطرہ ہوتا ہے کہ نیکی کا بیج ہی ختم نہ ہوجائے اس لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بستیوں اور شہروںکو چھوڑ کر کسی علیحدہ جگہ میں بیٹھ جائو ، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں حالانکہ عام حالات میں آپ نے لوگوں سے ملنے جُلنے اور باہم تعلقات رکھنے کی تاکید فرمائی ہے مگر قومی اخلاق میں بگاڑ پیدا ہونے کی صورت میں خلوت کی زندگی بسر کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور ایسے ہی موقع کیلئے یہ حکم ہے کہ۲؎ جب خرابی عام ہوجائے تو انسان کو اپنے ایمان کے بچانے کی فکر کرنی چاہئے۔ اُس وقت اپنے ایمان کا بچانا ہی مقدم ہوتا ہے کیونکہ عام خرابیوں کو اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور مامورین ہی دور کرسکتے ہیں۔ اگر عام خرابی کی اصلاح کی افراد کوشش کریں تو اس کانتیجہ سوائے اس کے کچھ نہ ہوگا کہ وہ خود بھی ڈوب جائیں اس لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کبھی ایسا وقت آئے تو تم علیحدہ رہ کر اپنا ایمان بچائو۔
پس قومی اخلاق کی درستی ایک ایسی چیز ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر قوم میں جھوٹ عام ہو تو انسان خود خواہ کتنا ہی سچا کیوں نہ ہو اور وہ اس عام خرابی سے اپنے آ پ کو کتنا ہی کیوں نہ بچائے، اس کی اولاد ضرور جھوٹ بولنے لگ جائے گی کیونکہ بچے اپنے ساتھ کھیلنے والوں سے اخلاق سیکھتے ہیں۔ انہیں عمر اور تربیت کے لحاظ سے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے سے تو روکا نہیں جاسکتا۔ اگر انہیں گھروں میں بند کرکے رکھا جائے تو وہ سِل کا شکار ہوجائیں گے اور اگر آزادی دی جائے تو اخلاق خراب ہوں گے۔ گویا دونوں صورتوں میں خاندان کی موت ہی موت ہے۔ پس اس کی یہی صورت ہوسکتی ہے کہ قومی اخلاق کی درستی کیلئے کوشش کرکے انہیں بچایا جائے اور یہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہر ماں اور ہر باپ اپنی ذمہ داری کو سمجھے لیکن اگر یہ خیال کرلیا جائے کہ ہماری اولاد کی ذمہ داری ناظر تعلیم و تربیت پر ہے تو ایسی قوم آج بھی ڈوبی اور کل بھی ڈوبی۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ ۳؎ یعنی تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ اور اس کی تشریح آپ نے یوں فرمائی کہ گھر کا مالک راعی ہے اور اس کے بیوی بچوں کے متعلق اس سے سوال کیا جائے گا۔ پس قومی اخلاق کی درستی کیلئے ہر فرد کا اس حیثیت کو اچھی طرح سمجھ لینا کہ وہ راعی ہے اور اس کی رعیت کے متعلق اُس سے سوال کیا جائے گا بہت ضروری ہے اور تمام افراد کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے ایسی پود اور ایسی نسل پیش کریں جو سچائی اور دیانت کی پابند اور محنت سے کام کرنے والی ہو۔ اورجو شخص یہ احساس رکھتا ہے وہ ایسا سامان مہیا کرتا ہے کہ جس سے اخلاق درست ہوکر آئندہ نسلوں کی تربیت صحیح رنگ میں ہوسکے۔
تحریک جدید کے دوسرے دَور کے متعلق میں نے جو یہ کہا ہے کہ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ دنیا میں اسلامی اخلاق قائم کرسکیں، یہ بات بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ میں نے پچھلے سال بعض خطبات بیان کئے تھے جن میں بتایا تھا کہ زبانی دعوئوں سے ہم دنیا کو مرعوب نہیں کرسکتے۔ یہ کام عمل سے ہی ہوسکتا ہے۔ عقائد کے لحاظ سے ہم نے دنیا میں غلبہ حاصل کرلیا ہے مگر عملی لحاظ سے ابھی ایسا نہیں کرسکے۔ پس ہمیں سوچنا چاہئے کہ ابھی تک ہم ایسا کیوں نہیں کرسکے۔ اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ ایمان سے عادت کا گہرا تعلق نہیں ہوگا مگر عمل سے ہوتا ہے مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا مسئلہ ہے۔ اس سے عادت کا کوئی تعلق نہیں۔ جس دن کسی شخص کے دماغ میں یہ بات آجائے کہ آپ فوت ہوگئے ہیں، اس کے بعد اس پر عادت کے حملہ کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا کیونکہ خیالات کا تعلق عادت سے بہت ہی کم ہوتا ہے اور جب خیال کی اصلاح ہوجائے تو عادت خودبخود پیچھا چھوڑ دیتی ہے۔ مگر عمل کے ساتھ عادت کا بہت گہرا تعلق ہے اس لئے صرف عقائد کی اصلاح سے اعمال کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ ایک کمزور احمدی سے بھی جب کوئی غیراحمدی پوچھتا ہے کہ سنائو جی حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں یا زندہ ہیں؟ تو وہ یہی جواب دیتا ہے کہ فوت ہوگئے ہیں۔ جب کسی درمیانہ درجہ کے احمدی سے یہ سوال کرتا ہے تو وہ بھی یہی جواب دیتا ہے۔ کسی اعلیٰ درجہ کے احمدی سے سوال کرتا ہے تو وہ بھی یہی جواب دیتا ہے۔ کسی جاہل احمدی سے پوچھتا ہے تو وہ بھی یہی کہتا ہے اور کسی عالم سے پوچھتا ہے تو وہ بھی یہی بات قرآن کریم اور حدیث کی رو سے اسے سمجھاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں۔ مگر جب سچ کے بارہ میں وہ ایک احمدی سے ملتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیوں جی سچ بولنا چاہئے؟ تو وہ کہتا ہے ہاں ضرور چاہئے۔ خواہ کچھ ہو سچ بولنا ضروری ہے۔ پھر وہ کسی دوسرے احمدی سے ملتا اور پوچھتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ ہاں سچ بولنا تو چاہئے مگر ہمارے جیسے کمزوروں سے کہاں بولا جاتا ہے۔ پھر وہ کسی تیسرے احمدی سے ملتا اور یہی سوال کرتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ جی کہتے تو ہیںکہ سچ بولنا چاہئے مگر ہمیشہ سچ بولنے سے بھلا گزارہ ہوسکتا ہے۔ پھر وہ ایک اور سے ملتا ہے تو وہ بات شروع کرنے سے بھی پہلے کہتا ہے کہ تم میری خاطر یہ جھوٹ بول دو اور یہ کہو اور یہ گواہی دو۔ تو اس پر لازماً یہی اثر ہوگا کہ جس بات پر یہ خود عملی طور پر قائم نہیں ہیں اس کے صحیح ہونے کا میں کیسے یقین کرلوں اور وہ خیال کرتا ہے کہ جو کہتا ہے ہر حال میں سچ بولنا چاہئے اس کی بات کے صحیح ہونے کا کیا ثبوت ہے اور میں اس کی بات کو مان کر کیوںنقصان اٹھائوں جبکہ دوسرے لوگ اس کے خلاف رائے رکھتے ہیں اس لئے اس کی بات کا بھی جس نے ہر حال میں اسے سچ بولنے کی نصیحت کی اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
دیکھ لو عقائد کے بارہ میں جن باتوں پر ہماری جماعت مضبوطی سے قائم ہے ان میں ہمارے مقابل پر دوسرے لوگ بالکل گر گئے ہیں لیکن جن باتوں میں ہمارے علماء نے اختلاف کیا ہے وہ غیروںمیں پھیل نہیں سکیں۔ انہوں نے تو یہ سمجھا کہ ہم نے جدت پید اکی، نئی بات نکالی ہے۔ مگر یہ نہیں سوچا کہ اس جدّت سے انہوں نے احمدیت کی شوکت کو نقصان پہنچایا ہے اور ان کی اس جدّت کی وجہ سے وہ بات غیروں میں پھیل نہیں سکی۔ لیکن جن باتوں میں وہ متفق رہے ہیں وہ خوب پھیلی ہیں اور ایسی پھیلی ہیںکہ دشمنوں نے بھی ان کی مضبوطی کو تسلیم کرلیا ہے۔ اور گو وہ مخالفین کے ڈر کی وجہ سے انہیں عَلَی الْاِعْلاننہ مانیں مگر اپنی پرائیویٹ مجالس میں وہ اکثر ان کو تسلیم کرلیتے ہیں۔ مجھے ایک دوست نے جو اَب مخلص احمدی ہیں، جب وہ ابھی غیراحمدی تھے سنایا تھا کہ ایک دفعہ وہ صاحبزادہ سر عبدالقیوم صاحب کے پاس جو صوبہ سرحد میں پہلے وزیراعظم تھے اور حال میں فوت ہوئے ہیں بیٹھے تھے ۔ تو سر موصوف نے کہا کہ مرزا صاحب اپنے آپ کو نبی کہتے ہیں اس لئے ان کی بات تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ اگر وہ اپنے آپ کو مجدد منوائیں تو ماننے کو تیار ہیں۔ اس دوست نے جو خود بھی ایک بڑے عُہدہ پر ہیں اور انجینئر ہیں سنایا کہ میں نے ان سے کہا کہ واہ صاحبزادہ صاحب آپ یہ بات کیا کرتے ہیں۔ مَیں تو مرزاصاحب کو اگر نہیں مانتا تو اس لئے کہ میں سمجھتا ہوں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص آ ہی نہیں سکتا۔ قرآن کریم کے بعد ہمیں کسی اور الہام کی ضرورت نہیں لیکن اگر یہ مان لیا جائے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی شخص آسکتا ہے تو پھر یہ اعتراض کیسا بے معنٰی ہے کہ وہ نبی ہے یا کیا ہے۔ خداتعالیٰ جس کو بھیجے گا اس کا عُہدہ وہ مقرر کرے گا یا ہم کریں گے؟ جب انہوں نے یہ واقعہ مجھے سنایا اُس وقت تک وہ غیراحمدی ہی تھے اور اپنے عقائد پر پختہ تھے لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے ان کا دل کھول دیا اور وہ احمدی ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخلص احمدی ہیں۔
اب دیکھو وہ جس نتیجہ پر پہنچے وہ وُہ نہیں تھا جس پر شروع میں غیراحمدی پہنچے تھے۔ یہ تغیر ان کے اندر درحقیقت اُس مخفی اثر سے پیدا ہؤا جو احمدیوں کے دلائل کی وجہ سے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں پیدا ہو رہا تھا اور روزبروز پیدا ہوتا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عام طور پر نبوت کے مسئلہ میں ہی ہماری مخالفت زیادہ ہے۔ مگر اس میں بھی شک نہیں کہ تعلیم یافتہ طبقہ میں یہ خیال بھی پیدا ہورہا ہے بلکہ اس طبقہ کی مخالفت کی بنیاد ہی اب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی آہی نہیں سکتا کیونکہ اگر کوئی آسکتا ہے تو وہ نبی بھی ہوسکتا ہے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ کوئی آ ہی نہیں سکتا۔ مامور و مجدد یا نبی کا کوئی سوال ہی نہیں ہم کسی کی آمد کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ اور حقیقتاً عقلی طور پر یہی ایک پہلو ہے جو ان کے بچائو کا ہوسکتا ہے کیونکہ جب کوئی کہے کہ مرزا صاحب کا نبوت کا دعویٰ غلط ہے، وہ مجدد ہوسکتے ہیں تو ہماری طرف سے جھَٹ یہ جواب دیا جاتا ہے کہ کیا مجدد بھی جھوٹ بول سکتا ہے۔ اس پر ساری مجلس ہنس پڑتی ہے کہ اس نے کیسی پاگل پن کی بات کی کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ کوئی آسکتا ہے تو پھر یہ کہنا کہ جوآیا ہے اس کا نبوت کا دعویٰ غلط ہے، ایک بیہودہ بات ہے کیونکہ جو آئے گا وہ ضرور سچ بولے گا۔ اگر کوئی شخص یہ مان لے کہ حضرت مرزا صاحب خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں تو پھر آپ جو دعویٰ کریں وہ ماننا پڑے گا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’فتح اسلام‘‘ اور ’’توضیح مرام‘‘ کتابیں لکھیں تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا کوئی دوست ان میں سے کسی کتاب کا کوئی پروف لے گیا اور کہنے لگا کہ اب نورالدین مرزا صاحب کو چھوڑ دے گا کیونکہ اور تو خواہ کچھ ہو اسے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بہت محبت ہے اور مرزا صاحب نے اس میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ جب یہ کتاب میں نے سامنے رکھی وہ فوراً مرزا صاحب کو چھوڑدے گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ وہ شخص ایک جتھا بنا کر میرے پاس آیا۔ سب لوگ بیٹھ گئے۔ میں نے بھی سمجھا کہ آج کوئی خاص بات ہے جو یہ سب لوگ اکٹھے ہوکر آئے ہیں۔ آخر اُس نے جیب سے کاغذ نکالا اور کہا کہ آپ جو مرزا صاحب کو مانتے ہیں تو اسی لئے نا کہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تابع ہیں لیکن اگر وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف کوئی بات کہیں مثلاً یہ کہیں کہ وہ نبی ہیں تو پھر تو آپ ان کو نہیں مانیں گے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے فرمایا کہ نہیں میں نے مرزا صاحب کو خداتعالیٰ کی طرف سے مانا ہے اگر وہ کوئی ایسی بات کہیں گے جو میرے پہلے عقیدہ کے خلاف ہے تو میں یہ سمجھوں گا کہ میراپہلا عقیدہ غلط تھا اور جو بات مرزاصاحب کہتے ہیں وہ درست ہے۔ جب میں نے یہ مان لیا کہ مرزا صاحب خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں تو پھر ان کا حق ہے کہ وہ اپنے عقائد مجھ سے منوائیں۔ میرا حق نہیں کہ میں ان کواپنے عقائد کے تابع کروں۔ اس پر وہ شخص مایوس ہوکر اُٹھ کھڑا ہؤا اور بولا کہ بس جی چلو مولوی صاحب بہت آگے نکل چکے ہیں اور ان کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔
حق یہی ہے کہ جب یہ مان لیا جائے کہ کوئی شخص واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو پھر وہ جو بھی کہے اُسے ماننا پڑے گا۔ اور جسے خداتعالیٰ کی طرف سے کسی بات کے کہنے کا حق نہ ہو اُس کی چھوٹی سے چھوٹی بات کا بھی موازنہ کیا جائے گا۔ اصل سوال یہی ہے کہ جو شخص کھڑا ہے اُسے اللہ تعالیٰ نے کیا پوزیشن دی ہے۔ اگر تو یہ پوزیشن ہے کہ اس کی ہر بات مانی جائے تو پھر ہر بات ماننی پڑے گی۔ اگر یہ ہے کہ ایک خاص دائرہ میں اس کی بات ماننی چاہئے تو پھر اُس دائرہ میں اُس کی بات ماننی پڑے گی اور اگر یہ ہے کہ اُس کی کسی بات کا ماننا بھی ہمارے لئے ضروری نہیں تو پھر اس کی جس بات کو عقلِ سلیم تسلیم کرے گی وہ ہم مانیں گے باقی کو ردّ کردیں گے۔ غرض اب تعلیم یافتہ طبقہ غیراحمدیوں کا یہ سمجھتا جارہا ہے کہ نبوت کا مسئلہ اپنی ذات میں اہم مسئلہ نہیں اور وہ اس میں اپنی کمزوری کو تسلیم کرنے لگے ہیں اور ان کو یہ احساس ہورہا ہے کہ ہم جو عقائد پیش کرتے ہیں انہیں خاص اہمیت حاصل ہے اور اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے جواب کیلئے انہیں اب اپنے پہلے مقام کو بدلنا چاہئے۔ مگر عمل کے میدان میں ابھی یہ بات ہمیں حاصل نہیں ہوسکی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ عقائد میں ہمارا ہر شخص خواہ وہ مضبوط ہو یا کمزور، جاہل ہو یا عالم، چھوٹا ہو یابڑا، بوڑھا ہو یا جوان یا بچہ، مرد ہو یا عورت سب ایک ہی بات کہتے ہیں۔ مگر عملی باتوں میں آکر دوسرے لوگ دیکھتے ہیں کہ سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ لڑکیوں کو ورثہ میں حصہ دینے کا سوال آتا ہے تو ہم میں سے بعض کہہ دیتے ہیں کہ ہم لڑکیوں کو حصہ دے کر اپنی زمینیں خراب کرلیں تو دوسرے شخص پر بھی یہی اثر ہوتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم ایسی ہے جس سے نقصان کا اندیشہ ہے۔ یا جب سچ بولنے کا موقع آتا ہے تو ایک احمدی کہہ دیتا ہے کہ ’’جی سارے اے ہی کہندے ہندے نے۔ پر کدی سچ نال ہر ویلے گذارہ ہندا اے‘‘ یعنی منہ سے تو سچ بولنے کی تاکید ہر کوئی کردیتا ہے مگر کیا ہمیشہ سچ بولنے سے دنیا میں گزارہ چل سکتا ہے اس لئے سننے والا خیال کرتا ہے کہ جو کہتا ہے ضرور سچ بولنا چاہئے، ممکن ہے وہی غلطی پر ہو۔ میں اس کے پیچھے لگ کر کیوں خواہ مخواہ اپنانقصان کروں۔ شبہ سے ایمان اور یقین دوسرے کے دل میں پیدا نہیں ہوسکتا۔ یہ اُسی وقت ہوتا ہے جب اپنے دل میں بھی ایمان اور یقین ہو۔ اور جو شخص خود عمل نہیں کرتا اس کے معنے یہی ہیں کہ اس کے دل میں قرآن کریم پر ایمان نہیں۔
ایک دفعہ ایک آدمی میرے پاس آیا اور سوال کیا کہ قرآن کریم سے مرزا صاحب کی صداقت کا کوئی ثبوت پیش کریں۔ ایسے لوگ اکثر آتے رہتے ہیں مگر یہ جس کا میں ذکر کررہا ہوں سال دو سال کی بات ہے کہ میرے پاس آیا اور کہا کہ قرآن سے کوئی ثبوت دیں۔ میں نے کہا کہ سارا قرآن ہی آپ کی صداقت کا ثبوت ہے۔ اس نے کہا کہ آپ کوئی آیت پیش کریں۔ میں نے کہا کہ آپ کوئی آیت لے لیں۔ وہ کہنے لگا ۴؎اس سے ثابت کریں۔ میں نے کہا اس سے بھی ثابت ہے اور میں نے اسے بتایا کہ اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اس رنگ میں ثابت ہوتی ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسے لوگ تھے جو ایمان کا دعویٰ تو کرتے تھے مگر دراصل وہ مومن نہ تھے اور اگر محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسے لوگ تھے تو اب کیوں نہیں ہوسکتے۔ آپ لوگ یہی کہتے ہیں کہ جب قرآن کریم موجود ہے اور ہم سب ایمان لاچکے ہیں تو اب کسی اور کے آنے کی کیاضرورت ہے۔ مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ منہ سے کہنے کے باوجود مومن نہیں ہوتے۔ تو یا تو مسلمان قرآن کریم کی اس بات کا انکار کردیں یا پھر ماننا پڑے گاکہ محض منہ سے کہہ دینے کا کوئی اعتبار نہیں۔ اور اگر امت محمدیہ اسی طرح بگڑ جائے جس طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض لوگ تھے تو کیا ایسے لوگوں کے علاج کیلئے کوئی انتظام ہونا چاہئے یا نہیں؟ اور قرآن کریم کہتا ہے کہ ایسے لوگ ہوتے رہیں گے۔ پس صاف بات ہے کہ ان کے لئے معالج بھی آتے رہیں گے۔ میں نے جب یہ بات اس سے کہی کہ قرآن کریم کی جو آیت چاہو لے لو اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہوتی ہے تو اس یقین کے ساتھ کہی تھی کہ جب قرآن کریم نبوت کی تائید کرتا ہے تو ضرور اس کی ہرآیت سے نبی کی صداقت ثابت کی جاسکتی ہے اس لئے وہ جو آیت پڑھتا میں اسی سے ثابت کردیتا۔ وہ اگر ورثہ کی آیت پڑھتا تو بھی میں اسی سے ثابت کردیتا کیونکہ جو کلام نبوت کی تائید کرے گا اس سے ہر نبی کی صداقت ثابت ہوگی اس لئے میں نے جب یہ بات اس کے سامنے بیان کی تو مجھے اس میں کوئی شُبہ نہیں تھا اور میرے دل میں اس بات کا پورا پورا یقین تھا لیکن جب اپنے دل میں یقین نہ ہو تو بڑی سے بڑی بات بھی غیرمفید ہوگی۔
ہماری جماعت میں ایک بڑے مولوی تھے جو عالم تھے مگر بولنے میںوہ کچے تھے۔ میں نے خود بھی ان کو کئی مرتبہ گفتگو کرتے سنا۔ کوئی اعتراض کرتا تو وہ ہنس کر کہہ دیا کرتے تھے کہ ’’لے ہن اے اعتراض کردتا‘‘۔ یعنی لو اب یہ اعتراض کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب وفاتِ مسیح کیلئے تیس آیات پیش فرمائیں تو وہ بہت خوش ہوئے۔ ایک شخص سے ان کی وفات مسیح کے مسئلہ پر گفتگو ہوئی۔ اس نے پوچھا کہ کیا قرآن کریم کی کسی آیت سے بھی وفات مسیح کا ثبوت ملتا ہے، وہ کہنے لگے کسی ایک آیت سے کیا تیس آیات سے یہ ثابت ہے۔ اس نے کہا اچھا کوئی ایک پیش کریں۔ انہوں نے ایک آیت پیش کی۔ اس نے اس پر کوئی اعتراض کیا تو کہنے لگے اچھا اسے چھوڑو اَور لو اور دوسری آیت پیش کردی۔ اس نے اس پر بھی ایک اعتراض کردیا۔ تو کہنے لگے اچھا لو اَور آیت سن لو۔ اس طرح سب کی سب آیات ختم ہوگئیں اور وہ منہ دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ تو جب انسان خود یقین سے بات پیش نہ کرے دوسرے پر اس کا اثر نہیں ہوتا۔ یقین سے ہی سب کامیابی ہوتی ہے۔ دیکھو یقین تو کُتّے اور بِلّی کا بھی کام آجاتا ہے۔ کُتّا، بِلّی اور شیر وغیرہ وحشی جانور لڑتے بہت کم ہیں۔ صرف غوں غوں کر کے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ اور پھر ایک ڈر کر چلا جاتا ہے۔ وہ غوں غوں سے ایک دوسرے کے یقین کا پتہ لگا لیتے ہیں اور جو دوسرے کی غوں غوں کو زیادہ یقینی دیکھتا ہے وہ بھاگ جاتا ہے۔
تو طاقت ہمیشہ دل کے ایمان اور یقین سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے دلوں میں ایمان اور یقین پید اکریں۔ وہ پہلے یہ فیصلہ کرلیں کہ قرآن کریم نے جو تعلیم دی ہے وہ صحیح ہے یا نہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے سچ بولو۔ وہ یہ فیصلہ کرلیں کہ قرآن کریم نے یہ حکم دیاہے یا نہیں؟ اور آیا وہ ٹھیک ہے یا نہیں؟ پھر اگر ٹھیک ہے تو اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائیں اور اپنی اولادوں کے اندر بھی اسے قائم کریں۔ اسی طرح دیانت کا حکم ہے۔ وہ دیکھ لیں کہ قرآن کریم کا یہ حکم ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو پھر خود بھی اس پر عمل کریں اور اپنی اولادوں کے اندر بھی اسے پیدا کریں۔ اور اگر وہ اپنی اولادوں کی اصلاح کی طرف ہی توجہ کریں تو یہ چیزیں اگر ان کے اپنے اندر نہ بھی پیدا ہوسکیں تو بھی وہ اپنی اولادوں میں تو ضرور پیدا کرسکتے ہیں۔ اگر ان سے خود بوجہ اس کے کہ وہ غیراحمدیوں میں سے آئے ہیں کمزوری بھی ہے تو بھی وہ اپنے بچوں کو یہ باتیں ضرور سکھاسکتے ہیں۔ اور اگر وہ ایسا کردیں تو ہماری آئندہ نسل ضرور دنیا پر غالب آجائے گی اور سب کے دلوں کو موہ لے گی۔ یہ مضمون پہلے بھی میں نے ایک خطبہ میں شروع کیا تھا اور آج بھی اسے بیان کرنے کا ارادہ تھامگرمعلوم نہیں کہ کیا وجہ ہے کہ صبح سے مجھے دورانِ سر کی تکلیف ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہؤا کرتی تھی۔ مجھے بھی صبح سے سر میں چکروں کی تکلیف ہے اور زیادہ کھڑا نہیں ہوسکتا اس لئے لمبا خطبہ نہیں بیان کرسکتا۔ صرف یہ کہتا ہوں کہ جب تک ہماری جماعت اس بات کیلئے کھڑی نہ ہو کہ اسلام کی اصولی اور ابتدائی باتیں جن میں سے دو مَیں نے آج بھی بیان کی ہیں، اپنی اولادوں کے دلوں میں داخل کردے، اُس وقت تک کبھی احمدیت دنیا میں عملی طور پر قائم نہیں ہوسکے گی اور جب یہ باتیں پیدا ہوجائیں تو عملی مخالفت بھی خودبخود گرجائے گی۔
دیکھو ایک جانور کے محض یقین کے ساتھ غرانے سے اس کے مقابل کے جانور بھاگ جاتے ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ تمہارے دلوں کا یقین تمہارے مخالفوں کے دلوں پر اثر نہ کرے۔ جب تم اس یقین اور ایمان کو لے کر کھڑے ہوگے کہ اسلام کی تعلیم صحیح ہے اور تم نے اسے دنیا میں قائم کرکے رہنا ہے تو تمہارے مخالف یقینا دُم دبا کر بھاگ جائیں گے اور کہیں گے کہ اچھا پھر تم اس تعلیم کو قائم کرلو۔ اور جس دن تمہارے اپنے دلوں میں یقین پیدا ہوجائے گا دوسروں کے دلوں میں خودبخود تمہارے لئے قبولیت کا مادہ پیدا ہوجائے گا اور وہ مخالفت چھوڑ کر جس طرح عقائد میں تمہارے پیچھے چل پڑے ہیں، اعمال میں بھی چل پڑیں گے۔‘‘
(الفضل ۵؍ فروری ۱۹۳۸ئ)
۱؎ بخاری کتاب الرقاق باب اَلْعُزْلَۃُ رَاحَۃٌ مِنْ خُلاطِ السُّوئِ (مفہوماً)
۲؎ المائدۃ: ۱۰۵
۳؎ بخاری کتاب النکاح باب اَلْمرْئَ ۃُ رَاعِیَۃٌ فِیْ بَیْتِ زَوْجِھَا
۴؎ البقرۃ : ۹

۵
تحریک جدید کا دَورِ ثانی اور دوسری مدات
(فرمودہ ۴؍ فروری ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’تحریک جدید کے متعلق بعض دوستوں کی طرف سے مجھے خطوط موصول ہورہے ہیں کہ اس کی جو دوسری مدات تھیں آیا وہ اب تک جاری ہیں یانہیں سو مَیں اس بارے میں آج بعض باتیں کہنی چاہتا ہوں۔
سب سے اوّل تو یہ بات سوچنے والی ہے کہ اچھی بات آیا وقتی ہؤا کرتی ہے یا دائمی۔ کچھ باتیں صداقت کی ایسی ہوتی ہیں جو دائمی ہوتی ہیں۔ ان دائمی صداقتوں کو کبھی بھی ترک نہیں کیا جاسکتا اور اگر کسی وقت ان میں کسی قسم کی سہولت روا رکھی جائے تو وہ سہولت وقتی ہوگی اور جب کبھی تبدیلی ہوگی اس سہولت کے دور کرنے میں ہوگی نہ کہ اصل چیز کے دور کرنے میں۔ مثلاً رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے شروع کے زمانہ میں چونکہ عرب میں رواج تھا کہ لوگ گدھے کا گوشت بھی کھالیا کرتے تھے اس لئے آپ نے اس میں دخل نہ دیا لیکن بعد میں جاکر آپ نے اِس سے روک دیا۔۱؎ درحقیقت گدھا اپنی اخلاقی حالت کے لحاظ سے شروع سے ہی دوسرے ممنوع جانوروں سے مشابہت رکھتا تھا مگر وقتی ضرورتوں اور لوگوں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ نے ابتداء میں اس میں دخل نہ دیایا متعہ کے بارے میں آپ نے شروع میں کوئی حکم نہ دیا لیکن دوسرے وقت جاکر آپ نے اس سے منع فرمادیا۔۲؎ تو جو چیزیں اپنے اندر کوئی برائی یا عیب رکھتی ہیں، ان میں اگر کسی وقت کوئی سہولت دی جاتی ہے تو وہ سہولت عارضی ہوتی ہے، اصل حکم عارضی نہیں ہوتا۔ مثلاً تحریک جدید ہے اِس میں ایک ہدایت یہ تھی کہ سادہ زندگی بسر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اب یہ غور کرنا چاہئے کہ آیا سادہ زندگی اسلام کا کوئی اصل ہے یا ضرورت کے مطابق اس کی ہدایت دی جاتی ہے۔ اگر اصل اسلامی تعلیم یہ ہو کہ انسان کو خوب عیاشانہ طور پر زندگی بسر کرنی چاہئے تو سادہ زندگی کا حکم عارضی سمجھا جائے گا اور یہ سوال ہر وقت کیا جاسکے گا کہ اب اس ہدایت پر عمل ترک کردیا جائے یا نہ کیا جائے۔ لیکن اگر اسلام کی اصل تعلیم سادہ زندگی کی ہو تو پھر اس حکم کے متعلق یہ سوال نہیں ہوگا کہ یہ عارضی ہے اِسے واپس لے لیا جائے بلکہ یہ سوال ہو گا کہ اس حکم کو کامل طور پر جاری کرنے میں اگر کوئی روک تھی تو اس روک کو کب دُور کیا جائے گا۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اسلام نے بطور شریعت سادہ زندگی کی کوئی تعریف نہیں کی۔ اسلام نے بطور اصول یہ تو بتایا ہے کہ سادہ زندگی اختیار کرو مگر یہ تعریف نہیں کی کہ سادہ زندگی کس کو کہتے ہیں۔ پس یہ بحث تو کی جاسکتی ہے اور ہر وقت کی جاسکتی ہے کہ سادہ زندگی کی تعریف کیا ہے اور آیا فلاں احکام جو سادہ زندگی اختیار کرنے کے ضمن میں دیئے گئے ہیں وہ سادہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے۔ یا بعض افراد یا بعض قومیں آپس میں مل کر فیصلہ کرلیں کہ فلاں بات بھی سادہ زندگی کے اصول میں شامل کرلینی چاہئے لیکن اصولی طور پر اس بات پر بحث نہیں ہوسکتی کہ آیا سادہ زندگی اختیار کرنی چاہئے یا نہیں۔ کیونکہ یہ خالص اسلام کا حکم ہے اور قرآن کریم کی بیسیوں آیات اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بیسیوں احکام اس معاملہ میں موجود ہیں جو ہمارے لئے خضرِراہ اور ہدایت نامہ ہیں اور پھر ہماری عقل بھی ہماری اسی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ اگر ہم نے دنیا میں اس اسلامی تہذیب کو قائم کرنا ہے جو اس دنیا میں بھی اسی طرح بنی نوع انسان کیلئے بہشت کھینچ کر لاتی ہے جس طرح اگلے جہان میں بہشت ہے تو لازماً اس معاملہ میں آہستہ آہستہ ہمیں بعض اور قیود بھی بڑھانی پڑیں گی یہاں تک کہ اسلام کے منشاء کے مطابق سادہ زندگی کی روح دنیا میں قائم ہوجائے۔ بیشک ایک کھانا کھانا چاہئے یا زیادہ کی بھی اجازت ہو۔ یہ خود اپنی ذات میں پورے طور پر سادہ زندگی کے مفہوم کو ادا کرنے والے نہیں لیکن رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کی سنت سے یہی ثابت ہے کہ آپ ایک کھانا کھانے پر اکتفا کیا کرتے تھے۔ اِلَّا مَاشَائَ اﷲُ خاص دعوتوں یا عیدین کے موقع پر آپ نے ایک سے زائد کھانے کھالئے تو یہ اَور بات ہے۔ چنانچہ ان قیود سے عیدوں کو میں نے پہلے ہی مستثنیٰ کردیا تھا کیونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے جب یہ سوال پیش ہؤا تو آپ نے عیدین کے متعلق فرمایا یہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کیلئے کھانے پینے کے دن رکھے ہیں۔۳؎ تومیں نے سادہ طعام کے متعلق جو ہدایت دی تھی اس میں یہ اصول مقرر کیاتھا کہ عیدوں پر ایک سے زائد کھانا کھانے کی اجازت ہے۔ ہاںلوگوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق پھر بھی سادگی کو مدنظر رکھیں کیونکہ جب سادہ زندگی اصل کے طور پر ہے تو اس میں وسعت پیدا کرتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔
ہمارے پنجاب میں اچھی اچھی دعوتوں کے موقع پر صرف چار پانچ کھانوں پر لوگ کفایت کرتے ہیں لیکن انگریزوں میں جہازوں اور ہوٹلوں میںعام کھانے ہی سات آٹھ پکتے ہیں اور ان کے رات کے ڈنر میں تو پندرہ پندرہ سولہ سولہ کھانے ہوتے ہیں۔ گو وہ سارے پکے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ بعض کھانے چٹنیوں کی قسم کے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی بہت سے کھانے پکتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں ہمارے ہندوستان کے ہی بعض گوشوں میں مہمان نوازی کی تعریف یہ سمجھی جاتی ہے کہ تیس تیس، چالیس چالیس کھانے پکائے جائیں۔ مجھے اپنی عمر میں صرف ایک دفعہ ایسی دعوت میں شریک ہونے کا موقع ملا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے وقت کی بات ہے کہ ہم بعض دوست ایک وفد کی صورت میں ہندوستان کے مختلف مدارس دیکھنے کیلئے گئے۔ جب دورہ کرتے ہوئے ہم ایک شہرمیں پہنچے تو وہاں ایک پرانی وضع کے نہایت مخلص احمدی تھے۔ انہوں نے میرے آنے کی خوشی میں دعوت کی اور اس خیال سے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوں میرے اعزاز میں انہوں نے بہت سے کھانے پکائے۔ میں نے وہ کھانے گِنے تو نہیں مگر یہ مجھے یاد ہے کہ جو کھانے میرے دائیں بائیں رکھے گئے تھے وہ اتنے تھے کہ اگر میں اپنے دونوں ہاتھ پھیلا بھی دیتا تو وہ دائیں بائیں کی طشتریوں کو نہیں ڈھانپ سکتے تھے اور جو میرے سامنے کھانے پڑے تھے وہ اتنے زیادہ تھے کہ اگر میں لیٹ بھی جاتا تب بھی بعض کھانے دور رہ جاتے۔ میں نے جب اس قدر کھانے پکے ہوئے دیکھے تو ایک دوست سے میں نے کہا کہ یہ کیا بات ہے؟ اتنے کھانے انہوں نے کیوں تیار کئے ہیں؟ اس پر اس نے چپکے سے میرے کان میں کہا کہ آپ اس امر کا یہاں ذکر نہ کریں کیونکہ اس طرح ان کی دل شِکنی ہوگی۔ یہاں یہ رواج ہے کہ جب کسی کے اعزاز میں دعوت کی جاتی ہے تو خاص طور پر بہت زیادہ کھانے پکائے جاتے ہیں۔ پس جو کھانا آپ نے کھانا ہے کھالیں کچھ کہیں نہیں۔ اب یہ بھی دعوت کا ایک طریق ہے۔ تو زیادتی میںبھی سادگی کو مدنظر رکھا جاسکتا ہے کیونکہ ایک سے زائد کھانے کے معنے دو بھی ہوسکتے ہیں، تین بھی ہوسکتے ہیں، دس بھی ہوسکتے ہیں، بیس بھی۔ پس ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ سادگی اصل حکم ہے اور تَرَفُّہ ۴؎ایک عارضی اجازت، اور عارضی اجازت ہر حالت میں اصل حکم کے تابع رہنی چاہئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک امیر میرے پاس آیا اور کہنے لگا مولوی صاحب! ہاضمہ کی کوئی اچھی سی دوائی مجھے دیں تاکہ میں کھانا پیٹ بھر کر کھاسکوں۔ میری یہ حالت ہے کہ بس لقمہ دو لقمے کھاتا ہوں اور پیٹ بھر جاتا ہے۔ آپ فرماتے کہ ایک دن مجھے اس امیر کے دسترخوان پر جانے کا اتفاق ہؤا۔ میں نے دیکھا کہ کھانے کی چالیس پچاس طشتریاں اُس کے سامنے آئیں۔ اُس نے ہر تھالی میں سے ایک دو لقمے لئے اور چکھا کہ ان سب میں سے اچھا کھانا کون سا ہے۔ پھر دو چار کھانے جو اسے پسند آئے وہ اس نے الگ کرلئے اور ان میں سے تھوڑے تھوڑے لقمے لینے کے بعد کہنے لگا دیکھئے مولوی صاحب! اب بالکل کھایا نہیں جاتا۔ حضرت خلیفہ اوّل فرماتے تھے کہ میں نے اسے کہا یہ کوئی بیماری نہیں۔ کیونکہ جو چکھنے کے لقمے ہیں وہ بھی آپ کے معدہ میں ہی گئے ہیں اور اس سے زیادہ کوئی تندرست آدمی نہیں کھاسکتا۔
پس مَیں اس بارے میں جہاں پھر سادگی کی تاکید کرتا ہوں وہاں میں بعض دوستوں کی متواتر تحریک پردو اِستثناء بھی کردیتا ہوں ۔ ایک تو عیدوں کی طرح میںجمعہ کا استثناء بھی کرتا ہوں اور اُس دن ایک سے زائد کھانا کھانے کی لوگوں کو اجازت دیتا ہوں۔ مگر اِسی حدتک کہ اگر اس دن کوئی دوسرا کھانا کھالے تو جائز ہوگا۔ یہ نہیں کہ ضرور اُس دن ایک سے زائد کھانے پکائے جائیں اور اس استثناء سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اُس دن کئی کئی کھانے پکنے لگ جائیں۔ پس جمعہ کا میںاستثناء کرتا ہوں اور اُس دن دو کھانوں کی اجازت دیتا ہوں۔ کیونکہ جمعہ کے متعلق بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ ہماری عید ہے۔۵؎ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چُھٹیوں کے دنوں میں چونکہ رشتہ دار وغیرہ جمع ہوتے ہیں اور ان کی خاص طور پر خاطرمدارت کرنی پڑتی ہے اس لئے چھُٹی کے دن بھی اس قید کر اُڑادیا جائے۔ میرے لئے یہ سوال مشکل پیدا کررہا ہے کہ میں اتوار کو چھٹی قرار دوں یا جمعہ کو۔ کیونکہ اصل سوال یہ ہے کہ چونکہ چھُٹی کے دن رشتہ دار ایک دوسرے کے ہاں ملاقات کیلئے آتے ہیں اس لئے اس خوشی کے موقع پر کسی قدر خاطر مدارات کیلئے یہ اجازت ہونی چاہئے کہ ایک سے زائد کھانے پکائے جائیں۔ اب ایک طرف چونکہ سرکاری دفاتر میں اتوار کو چھُٹی ہوتی ہے اس لئے اس اجازت کے ماتحت اتوار کو مستثنیٰ کرنا چاہئے لیکن دوسری طرف رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جمعہ کیلئے عید کا لفظ فرمایا ہے اس لئے اس رخصت کا حقدار وہ دن ہے۔ اگر شریعت اور موجودہ حالات کا لحاظ رکھا جائے تو ہفتہ میں دو دن مستثنیٰ کرنے پڑتے ہیں لیکن ہفتہ میں دو دن کا استثناء بہت زیادہ ہے اور اس طرح سہولت بہت وسیع ہوجاتی ہے اس لئے مَیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قول کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ ہم چھُٹی کا دن جمعہ کو ہی قرار دیں۔ گو عملاً ہمارے ملک میں جمعہ کے دن چھُٹی نہیں ہوتی۔ لیکن زمیندار، تاجر اور جو لوگ ایسی جگہوں میںملازم ہیں جہاں جمعہ کے دن چھُٹی ملتی ہے اب بھی جمعہ کو چھُٹی کرتے ہیں اور کرسکتے ہیں۔ دوسرے لوگ جنہیں اتوار کو چھُٹی ملتی ہے وہ بھی اگر چاہیں تو اس بات کی عادت ڈال سکتے ہیں کہ اتوار کو اپنے آرام کا وقت رکھ لیں اورجمعہ کی شام کو اپنے کام کاج سے فارغ ہوکر اپنے رشتہ داروں سے مل لیں۔ گویا رشتہ داروں کی ملاقات کا وقت بجائے اتوار کے جمعہ کی شام کورکھا جائے۔ اس طرح جمعہ کے استثناء سے فائدہ اُٹھا کر وہ ان کی خاطر مدارات کیلئے ایک سے زائد کھانا تیار کرسکتے ہیں۔
غرض شرعی مسئلہ چونکہ جمعہ کی تائید میں ہے اس لئے میرا میلانِ طبع اسی طرف ہے کہ بجائے اتوار کے جمعہ کو مستثنیٰ کیا جائے۔ بعدمیں اگر دوست اس میں کوئی مشکلات دیکھیں تو وہ بتاسکتے ہیں اور اس پر ہر وقت غور کیا جاسکتا ہے۔ فی الْحال میں جمعہ کا استثناء کرتاہوں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر جمعہ کو ضرور ایک سے زائد کھانے پکائے جائیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ اگر کوئی ایسی تقریب ہو جب رشتہ دار یا دوست احباب جمع ہوں یا کوئی مہمان آئے ہوئے ہوں تو ان کی خاطر اگر دو کھانے پکالئے جائیں تو جائز ہوگا۔
اس استثناء کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے دوستوں نے شکایت کی ہے کہ ہمارے پنجاب اورہندوستان میں چاول نیم غذا ہے جس کا کبھی کبھی کھانا صحت کے لحاظ سے اور ملک کی آب وہوا کے لحاظ سے ضروری ہوتا ہے۔ مگر اس حکم سے کہ ایک کھانا کھایا جائے ہم چاول کوبالکل ترک کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کیونکہ صرف چاول کھانے کی عادت نہیں ہوتی اور روٹی سالن کے علاوہ اگر چاول کھائیں تو وہ دو کھانے ہوجاتے ہیں۔ پس ایک کھاناکھانے کی وجہ سے یہ جو دقت پیدا ہوگئی تھی کہ لوگ روٹی ہی کھاتے تھے چاول نہیں کھاسکتے تھے حالانکہ چاولوں کا کبھی کبھی کھانا ہماری مُلکی آب و ہوا کے لحاظ سے ضروری ہے اس استثناء سے اس کا ازالہ ہوجائے گا۔ اور وہ لوگ جو شکایت کیا کرتے ہیں کہ ایک کھانا کھانے کا حکم دے کر چاول کی غذا بالکل بند کردی گئی ہے انہیں اطمینان ہوجائے گا اور وہ جمعہ کے دن حسبِ خواہش روٹی کے علاوہ چاول بھی کھاسکیں گے۔
دوسرا استثناء جو مَیں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ دعوتوں کے موقع پر میں نے پہلے یہ شرط رکھی تھی کہ اگر اپنا ہی کوئی احمدی دوست مہمان ہو تو دسترخوان پر میزبان صرف ایک ہی کھانا کھائے۔ لیکن اگر کوئی غیرمہمان ہو تو اس کے ساتھ ایک سے زائد کھانے کھاسکتا ہے۔ اس کے متعلق بعض دوستوں نے شکایت کی ہے کہ یہ پابندی بہت مشکلات پیدا کرتی ہے کیونکہ جب مہمان وہ کھانے کھارہا ہو اور ہم صرف ایک ہی کھانا کھائیں تو یہ امر مہمان پر بہت شاق گزرتا ہے۔پس آئندہ کیلئے میں اس پابندی کو بھی دور کرتا ہوں اور اس امر کی اجازت دیتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا مہمان ہو جس کیلئے ایک سے زائد کھانے پکائے گئے ہوں تو اس صورت میں خود بھی دوکھانے کھانے جائز ہوں گے مگر شرط یہ ہے کہ کوئی غیرمہمان ہو۔ یہ نہ ہو کہ اپنے ہی رشتے دار بغیر کسی خاص تقریب کے اکٹھے ہوں اور ان کیلئے (جمعہ کے استثناء کے علاوہ) ایک سے زائد کھانے تیار کرلئے جائیں اور خود بھی دو دو کھانے کھالئے جائیں۔
غرض میری یہ اجازت اس حالت کے لئے ہے جب غیرلوگ مہمان ہوں یا اپنے عزیزوں کی خاص دعوت ہو۔ میں سمجھتا ہوں اس سے زیادہ کوئی اور سہولت دینا سوائے تکلف کے اور کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا۔ مثلاً اگر مہمان کیلئے تین چار کھانے پکائے جائیں تو میزبان کو مہمان کے ساتھ سب کھانے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اسے زیادہ سے زیادہ دو کھانے کھانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ اور اگر یہ ان کھانوں میں سے دو کھانے کھالے گا تو مہمان کو یہ اصرار نہیں ہوگا کہ ضرور تین کھانے کھائو۔ مہمان کی طرف سے اُسی وقت اصرار ہوتا ہے جب یہ صرف ایک کھانا کھاتا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں یہ عام دستور ہے کہ روٹی سالن ایک کھانا سمجھا جاتا ہے اور چاول دوسرا کھانا۔ اب جب یہ صرف روٹی سالن پر اکتفا کرتا ہے اور چاول نہیں کھاتا تو مہمان کو یہ بات چبھتی ہے لیکن اگر یہ روٹی سالن بھی کھالے اور چاول بھی کھالے تو مہمان یہ اصرار نہیں کرے گا کہ اب ضرور فلاں چیز بھی کھائو۔ کیونکہ وہ خیال کرے گا کہ جو چیز اسے پسند تھی اس نے کھالی اگر فلاں چیز یہ نہیں کھانا چاہتا تو نہ کھائے۔ پس چونکہ صرف روٹی سالن کھانے سے ایک امتیاز معلوم ہوتا ہے اور مہمان کو یہ بات چبھتی ہے اس لئے دوسرا کھانا کھانے کی بھی اجازت ہے۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں مہمان پر اس کا طریق عمل گراں نہیں گزرے گا کیونکہ جب مثلاً دسترخوان پر دو سالن ہوں گے اور یہ صرف ایک سالن استعمال کرے گا تو وہ خیال کرے گا کہ اس نے ایک سالن تو استعمال کرلیا دوسرا نہیں کیا تو نہ کرے۔ کیونکہ ایک سالن دوسرے سالن کا قائمقام ہوجاتا ہے لیکن چونکہ ہمارے ملک میں روٹی چاول کا قائمقام نہیں سمجھی جاتی اس لئے مہمان کو یہ امر چبھتا ہے کہ میزبان نے مثلاً خالی چاول کھائے ہیں یا صرف روٹی کھائی ہے اور اسے بھی دوسری اشیاء استعمال کرنے میں حجاب ہوتا ہے۔ ہاں ایک اور استثناء مَیں گزشتہ سالوں میں کرچکا ہوں وہ قائم ہے اور وہ رسمی یا حکام کی دعوتوں کے متعلق ہے۔ ایسی دعوتوں میں ایک سے زیادہ کھانے کھانا یا کھلانا جو مُلک کے رواج کے مطابق ضروری ہوں جائز رکھا گیا تھا اور اب بھی جائز ہے۔ بعض ملکوں میں جیسے بنگال اور بہار کے علاقے ہیں چاولوں کے ساتھ ایک پتلی دال پکاتے ہیں جس کی غرض محض چاولوں کو گِیلا کرنا ہوتی ہے۔ اس کی اجازت مَیں پچھلے دَور میں دے چکا ہوں اور اس دَور میں پھر اس کو دُہرادیتا ہوں کہ جن علاقوں میں یہ رواج ہے کہ تھوڑا سا خشک سالن وہ چاولوں کے ساتھ استعمال کرنے کیلئے الگ پکاتے ہیں اور ایک پتلی دال جو بالکل پانی کی طرح ہوتی ہے، الگ پکاتے ہیں تاکہ چاول گِیلے ہوکر آسانی سے ہضم ہوسکیں، انہیں پتلی دال استعمال کرنے کی اجازت ہے کیونکہ پتلی دال وہاں غذا نہیں سمجھی جاتی بلکہ غذا صرف خشک سالن اور چاول ہوتی ہے۔ یہ دال صرف اس لئے ملائی جاتی ہے تاکہ چاول گِیلے ہوجائیں اور انہیں نگلنے میں آسانی ہو۔ یہ استثناء اگرچہ مَیں نے پچھلے دَور میں کردیا تھا مگر اِس دَورمیں مَیں پھر اس کو دُہرادیتا ہوں۔ مگر یہ شرط ہے کہ وہ دال پتلی دال تک ہی محدود ہو۔ اگر اُس دال کو خود ایسا گاڑھا اور مرغّن بنالیا جائے کہ وہ سالن کا کام دے سکے توپھر اِس کی اجازت نہیں۔
خطوں میں تو مجھے یاد ہے لیکن یہ یاد نہیں کہ کسی خطبہ میں بھی مَیں بیان کرچکا ہوں یا نہیں کہ اچار اور چٹنی اگر سادہ ہو اور بطور مصالحہ یا ہاضوم کے اسے استعمال کیا جائے تو کھانے کے ساتھ اس کا استعمال جائز ہے لیکن بعض ملکوں میں چٹنی بھی سالن کا قائمقام سمجھی جاتی ہے۔ پس جب چٹنی میں بھی تکلّف کی کوئی صورت ہو اور سالن کے قائمقام سمجھی جاسکے تو پھر اس کے استعمال میں بھی احتیاط کرنی چاہئے۔ ہر شخص کا معاملہ خداتعالیٰ کے ساتھ ہے اور فائدہ اسی صورت میں پہنچ سکتا ہے جب انسان حُجت اور حیلہ سازی سے کام نہ لے۔ اگر چٹنی اور اچار صرف چٹنی اور اچار کی حد تک ہی ہو اور اس کے استعمال کی غرض یہ ہو کہ ہاضمہ درست ہو اور کھانا ہضم ہوجائے تو اس کا استعمال جائز ہے لیکن اگر وہ سالن کے قائمقام ہو تو پھر کسی دوسرے سالن کے ساتھ اس کا استعمال جائز نہیں۔ اور یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ بعض علاقے ایسے ہیں جہاں چٹنیاں ہی چٹنیاں بنا کر کھاتے ہیں، کوئی الگ سالن استعمال نہیں کرتے۔
ایک دفعہ جب مَیں شملہ میں تھا تو ایک رئیس میری ملاقات کیلئے آئے۔ اُن سے دورانِ گفتگو کہیں مَیں نے ذکر کردیا کہ سنا ہے آپ کے وطن میں کھانے اَور قسم کے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد مجھے اس بات کا کوئی خیال نہ رہا۔ اُنہوں نے میری دعوت کی۔ جب میں ان کے ہاں پہنچا تو مَیں نے دیکھا کہ چھوٹی چھوٹی پیالیاں آنی شروع ہوگئیں جن میں مختلف قسم کی چٹنیاں تھیں۔ میں نے ان چٹنیوں کو کچھ چکھا اور پھر چھوڑ دیا اور دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ اب میں یہ انتظار کرتا رہا کہ کھانا آئے تو میں کھائوں مگر کھانا کوئی نہ آیا۔ یہاں تک کہ گیارہ بج گئے اور ہم وہاں سے رُخصت ہوگئے۔ راستہ میں مَیں نے حافظ روشن علی صاحب مرحوم سے جو میرے ساتھ تھے پوچھا کہ کیا آج ہماری یہاں دعوت نہیں تھی؟ اور کیا ہمیں غلطی تو نہیں لگی کہ ہم دعوت کے خیال سے یہاں آگئے؟ وہ اتفاق سے اس علاقہ میں رہ چکے تھے۔ وہ کہنے لگے کھانا آیا جوتھا آپ نے نہیں کھایا؟ میں نے کہا کھانا کون سا آیا؟ کچھ چٹنیاں آئی تھیں وہ میں چکھ کر چھوڑتا گیا۔ کہنے لگے وہی تو کھانا تھا۔ میںنے کہا میں نے سمجھا کہ یہ صرف ہاضمہ کے تیز کرنے کیلئے چٹنیاں آرہی ہیں اور چونکہ مجھے کھانسی کی شکایت تھی میں چکھ کر چھوڑ دیتا تھا، کھاتا نہ تھا اور خیال کرتا تھا کہ اصل کھانا بعدمیں آئے گا۔ کہنے لگے یہی چٹنیاں جو انہوں نے بھجوائی تھیں کھانا تھیں۔ تو بعض علاقوں میں چٹنیاں بھی کھانا سمجھی جاتی ہیں جیسے میرے ساتھ واقعہ پیش آیا۔ یہاں تک کہ مجھے راستہ میں دریافت کرنا پڑا کہ آیا ہماری یہاں دعوت بھی تھی یا نہیں۔ اگر اِس قسم کی چٹنیاں ہوں تو پھر یہ بھی کھانے میںشمار ہوں گی اور ان میں بھی سادگی اور حد بندی کی ضرورت ہوگی۔
لباس کے متعلق بھی بعض دوستوں نے دریافت کیا ہے حالانکہ لباس کی سادگی نہایت ضروری چیز ہے۔ میں نے دیکھا ہے لباس میں سادگی نہ ہونے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ امیروں اور غریبوں میں ایک بیّن فرق ہے۔ امیر اپنے کپڑے سنبھالے بیٹھے رہتے ہیں اور ہر وقت انہیں یہ خیال رہتا ہے کہ کہیں کپڑے پر داغ نہ لگ جائے، کہیں میلا نہ ہوجائے اور اس طرح وہ غرباء سے پرے پرے رہتے ہیں۔ پس لباس میں سادگی نہایت ضروری ہے بلکہ میں یہاں تک کہوں گا کہ اگر کسی شخص کے پاس صرف ایک جوڑا ہے اور وہ اسے ایسی احتیاط سے رکھتا ہے کہ ہر وقت اسے یہ خیال رہتا ہے کہ کہیں اُس پر دھبہ نہ پڑ جائے ، کہیں اُس پر داغ نہ لگ جائے اور اس طرح غریبوں سے اس کے دل میں نفرت پیدا ہوتی ہے تو اس نے ہرگز تحریک جدید کے اس مطالبہ پر عمل نہیں کیا۔ اس کے مقابلہ میں اس شخص کو میں زیادہ سادہ کہوں گا جس کے پاس دو یا تین جوڑے کپڑوں کے ہیں اور وہ ان کے متعلق ایسی احتیاط نہیں کرتا جو امارت و غربت میں امتیاز پیدا کردیتی ہے۔ درحقیقت لباس میں ایسا تکلّف جو انسانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کا موجب ہو جائے، جوبنی نوع انسان میں کئی قسم کی جماعتیں پیدا کرنے کا محرک ہوجائے، سخت ناپسندیدہ اور فِتنے پیدا کرنے والا ہے۔ خواہ اس کے پاس ایک ہی جوڑا ہو یا دو ہوں۔ پس یہ ہدایت بھی کوئی وقتی ہدایت نہیں بلکہ مستقل ہدایت ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسانوں میں سے تفرقہ دور ہوتا ہے۔
عورتوں میں خصوصاً اعلیٰ لباس کی بہت پابندی ہوتی ہے اور اس میں ان کی طرف سے بڑے بڑے اسراف ہوجاتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض گھر عورتوں کے لباس اور زیور کی وجہ سے ہی برباد ہوگئے ہیں۔ انگریز اقتصادی لحاظ سے بہت بڑی محتاط قوم ہے مگر ان میں بھی عورتوں کے لباسوں کے اخراجات کی وجہ سے بڑے بڑے امراء تباہ ہوجاتے ہیں۔ عورت بازار میں جاتی اور مختلف فیشنوں کے جنون میں ماری جاتی ہے۔
میں نے ایک دفعہ ایک ولائتی اخبار میں لطیفہ پڑھا کہ فرانس میں جہاں فیشن کا سب سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے ایک عورت جو فیشن میں خاص طور پر مشہور تھی ایک دکان سے ایک ٹوپی خرید کر نکلی۔ اتفاق سے راستہ میں اُسے ایک فیشن کی ملکہ نظر آگئی۔ یورپ کے ہر مُلک میں چارپانچ ایسی عورتیں ہوتی ہیں جو فیشن کی ملکہ کہلاتی ہیں یعنی جولباس وہ پہنیں وہی فیشن سمجھا جاتا ہے۔ ان کے لباس کے خلاف اگر کوئی عورت لباس پہنے تو اس کا لباس فیشن کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ جب اس نے اس فیشن کی ملکہ کو دیکھا تو اسے معلوم ہؤا کہ اس نے اور قسم کی ٹوپی پہنی ہوئی ہے۔ یہ دیکھ کر اس نے وہ نئی ٹوپی جو اس نے ابھی خریدی تھی سر سے اُتار کر اپنی بغل کے نیچے دبالی تاکہ کوئی اُسے اس ٹوپی کے ساتھ نہ دیکھ لے۔ یہ فیشن پرستی جنون بھی ہے اور قومی اتحاد کو تباہ کرنے والی بھی۔
ہمارے مُلک میں بھی جو مغربی لباس پہننے والوں کی نقل کرتے ہیں انہیں دیکھ کر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ آدمی ہیں بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مشینیں ہیں جن پر کپڑے لپٹے ہوئے ہیں۔ ہر وقت اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے انہیں یہی خیال رہتا ہے کہ کپڑے کو شکن نہ پڑ جائے، اس پر داغ نہ لگ جائے ، اس میں سلوٹ نہ پڑ جائے۔ بھلا ایسے دماغ کو خدا کے ذکر کیلئے کہاں فُرصت مل سکتی ہے۔ دماغ نے تو آخر ایک ہی کام کرنا ہے۔ جسے اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے یہی خیال رہتا ہو کہ پتلون کو شِکن نہ پڑ جائے اس نے بھلا اَور کیا کام کرنا ہے۔ اس کے دماغ کا بہت سا وقت تو اپنے لباس کی درستی میں ہی لگ جاتا ہے۔ درحقیقت اسلام یہ چاہتا ہے کہ ہمارا دماغ اور تمام باتوں سے فارغ ہو اور یا تو وہ خدا کی یاد میں مشغول ہو یا بنی نوع انسان کی بہتری کی تدابیر سوچ رہا ہو۔ اور حق بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان باتوں میں ہمہ تن مشغول ہو تو اسے یہ موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ لباس کی درستی کی طرف توجہ کرے۔ میں نے دیکھا ہے کام کی کثرت کی وجہ سے کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ادھر میں کھانا کھارہا ہوتا ہوں اور اُدھر اخبار پڑھ رہا ہوتا ہوں۔ بیویاں کہتی بھی ہیں کہ اِس وقت اخبار نہ پڑھیں کھانا کھائیں مگر میں کہتا ہوں میرے پاس اَور کوئی وقت نہیں۔ پھر کئی دفعہ لوگ میرے پاس آتے ہیںاور کہتے ہیں آپ کے لباس میں یہ نقص ہے، وہ نقص ہے۔ مگر میںکہتا ہوں کہ مجھے تو اس بات کا احساس بھی نہیں۔ آپ کو معلوم نہیں کہ اس کا کیوں خیال ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہم نے دیکھا ہے گو مخالف اس پر ہنسی اُڑاتے اور یہ کہتے ہیں کہ آپ نَعُوْذُ بِاﷲ پاگل تھے مگر واقعہ یہ ہے کہ آپ کئی دفعہ بوٹ ٹیڑھا پہن لیتے، دایاں بوٹ بائیں پائوں میں اور بایاں بوٹ دائیں پائوں میں۔ وہ نادان نہیں جانتے کہ جس کا دماغ اَور باتوں کی طرف شدت سے لگا ہؤا ہو اُسے ان معمولی باتوں کی طرف توجہ کی فُرصت ہی کب مل سکتی ہے۔
اسی طرح کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ آپ بٹن اُوپر نیچے لگالیتے یعنی اوپر کا بٹن نچلے بٹن کے کاج میں اور نیچے کا بٹن اوپر کے بٹن کے کاج میں لگادیتے ۔ میرا بھی یہی حال ہے کہ دوسرے تیسرے دن بٹن اوپر نیچے ہو جاتے ہیں اور کوئی دوسرا بتاتا ہے تو درستی ہوتی ہے۔ گو بوٹ کے متعلق اب تک میرے ساتھ ایسا کبھی واقعہ نہیں ہؤا کہ بایاں بوٹ میں نے دائیں پائوں میں پہن لیا ہو اور دایاں بوٹ بائیںپائوں میں اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ میرے پائوں پر بھنوری ہے اور ڈاکٹر نے مجھے بچپن سے ہی بوٹ پہننے کی ہدایت کی ہوئی ہے۔ اور چونکہ بچپن سے ہی مجھے بوٹ پہننے کی عادت ہے اس لئے ایسا کبھی اتفاق نہیں ہؤا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ تو اکثر ایسا ہؤا کہ چلتے چلتے آپ کو ٹھوکر لگتی اور کوئی دوسرا دوست بتاتا کہ حضور نے گرگابی اُلٹی پہنی ہوئی ہے اور آخر آپ نے انگریزی جُوتی پہننی بالکل ترک کردی۔ تو انسانی دماغ جب ایک طرف سے فارغ ہو تبھی دوسرا کام کرسکتا ہے۔ اگر ہم اپنے دماغ کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف لگادیں تو اسلام کی ترقی کے کام ہم کب کرسکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کھانے اورلباس میں انسان کو سادگی کا حکم دیا تاکہ وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں اُلجھنے کی بجائے اہم امور کی طرف توجہ کرے۔پس لباس کے متعلق بھی میں سمجھتا ہوں کہ جو قیود میری طرف سے عائد کی گئی تھیں ان کا قائم رکھنا ضروری ہے۔
فیتوں کے متعلق بھی بعض دوستوں نے دریافت کیا ہے کہ آیا اس کے متعلق عورتوں پر جو پابندی عائد کی گئی تھی اُس کا وقت گزرگیا ہے یا ابھی جاری ہے؟ سو اِس کے متعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ پابندی بہرحال قائم ہے کیونکہ کپڑے خواہ کتنے گراں ہوں ایک لمبے عرصہ تک کام دے سکتے ہیں۔ مگر فیتے چونکہ لباس پر صرف ٹانکے جاتے ہیں اور ہر روز بدلے جاسکتے ہیں اس لئے ہر نئے فیشن کو دیکھ کر عورتیں ریجھ جاتی ہیں اور نیا فیتہ خرید کر پہلے فیتے کی جگہ لگالیتی ہیں اور میرا تجربہ ہے کہ کپڑوں پر اتنی قیمت نہیں لگتی جتنی کہ ایک فیشن پرست عورت کے فیتوں پر، کیونکہ فیتے بدلتے چلے جاتے ہیں۔ پس مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ میں اس میں تغیر کروں۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ ہمیں آہستہ آہستہ ابھی بعض اور قیدیں اِس بارہ میں بڑھانی پڑیں گی لیکن چونکہ میں ابھی تک ان امور کے متعلق غور کررہا ہوں اس لئے ابھی ان کا ذکر نہیں کرتا۔
زیورات کے متعلق میں یہ اجازت دے چُکا ہوں کہ شادی بیاہ کے موقع پر نیا زیور بنوانا جائز ہے۔ اس کے علاوہ کسی موقع پر نہیں اور درحقیقت زیور اپنی ذات میں کوئی ایسی چیز بھی نہیں کہ شادی کے بعد خاص طور پر بنوایا جائے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں خاص طور پر زیور بنوانے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ ہاں ٹُوٹے پھُوٹے زیور کی مرمت کی اجازت میں پہلے بھی دے چکا ہوں اور اب بھی وہ اجازت قائم ہے لیکن ٹُوٹے پھُوٹے زیور کے بنوانے کے یہ معنے نہیں کہ ایک زیور تُڑواکر دوسرا زیور بنوالیا جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ٹُوٹے ہوئے زیور کی محض مرمت کرائی جائے۔ مجھے معلوم ہے کہ عورتیں زیورات کو توڑ پھوڑ کر بعض دفعہ زیور کی قیمت سے بھی زیادہ اس پر خرچ کردیتی ہیں۔ پس توڑنے پھوڑنے کی مرمت سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ گلے کا زیور ہاتھ کا بنالیا جائے اور ہاتھ کا زیور گلے کا بلکہ اس سے مراد صرف ٹُوٹے ہوئے زیور کی معمولی مرمت ہے تاکہ وہ کام دے سکے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں گو زیور کیلئے سونا بھی کم ہوتا تھا مگر اس فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی زیور کا جس قدر رواج تھا کہا جاسکتا تھا کہ سونے کی نسبت سے بھی کم تھا۔ اُس وقت زیورات کی اتنی کمی تھی کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک بیوی کے متعلق آتا ہے کہ ان کا زیور محض یہ تھا کہ ان کے پاس ایک ہار تھا جو لونگوں اور بعض دوسرے خوشبودار بیجوں سے بنا ہؤا تھا اور وہ بھی کسی سے عاریتاً لیا ہؤا تھا۔ ہمارے ملک میں بھی زمیندار عورتیں کھوپرے کے ٹکڑوں اور خربوزوں کے بیجوں کے ہار بنالیتی ہیں۔ اسی طرح انہوں نے بھی خوشبو کے لئے مختلف قسم کے بیجوں اور رنگوں کو اکٹھا کرکے ایک ہار بنایا ہؤا تھا۔
درحقیقت زیور اقتصادی لحاظ سے ایک نہایت ہی مُضِر چیز ہے کیونکہ اس میں قوم کا روپیہ بغیر کسی فائدہ کے پھنس جاتا ہے اور دراصل یہی وہ سونا چاندی اکٹھا کرنا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جو لوگ سونا چاندی اکٹھا کرتے ہیں قیامت کے دن اس سونا چاندی کو گرم کرکے ان کے جسم پر داغ لگایا جائے گا۔ یوں قرآن مجید روپیہ رکھنے کی ممانعت نہیں کرتا۔ اگر روپیہ جمع کرنا منع ہوتا تو اسلام میں زکوٰۃ کا مسئلہ بھی نہ ہوتا۔ پس روپیہ جمع کرنا منع نہیں بلکہ ایسا روپیہ جمع کرنا منع ہے جو دنیا کو کوئی فائدہ نہ پہنچاسکے۔ ایک شخص کے پاس اگر دس لاکھ روپیہ ہو اور وہ تجارت پر لگاہؤا ہو تو پانچ دس سَو لوگ ایسے ہوں گے جو اس کے روپیہ سے فائدہ اُٹھارہے ہوں گے۔ پس بڑے تاجر کا روپیہ یا بڑے زمیندار کا روپیہ بند نہیں کہلاسکتا۔ مثلاً ایک زمیندار کے پاس اگر دوچار سَو ایکڑ زمین ہے تو چونکہ وہ اکیلا اس زمین میں ہل نہیں چلاسکے گا اس لئے لازماً وہ اور لوگوں کو نوکر رکھے گا اور اس طرح بارہ تیرہ آدمی بلکہ بہ شمولیت بیوی بچوں کے ساٹھ ستّر آدمی کا اس کی زمین سے گزارہ چلے گا اور تمام قوم کو فائدہ پہنچے گا۔ لیکن اگر وہ سَو دو سَو ایکڑ زمین کی بجائے اتنے روپیہ کا سونا خرید کر گھر میں رکھ لیتا ہے تو کسی ایک شخص کو بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ تو اپنے روپیہ کو ایسے استعمال میں نہ لانا جس کا دنیا کو فائدہ پہنچے، اسلام سخت ناپسند کرتا ہے اور ایسے لوگوں کو ہی قیامت کے دن سزا دینے کا خداتعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر کیا ہے۔ چونکہ زیورات کے ذریعہ بھی روپیہ بند ہوجاتا ہے اور قوم کے کام نہیں آتا اس لئے زیورات کی کثرت بھی ناپسندیدہ امر ہے۔ ہاں عورت کی اس کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ وہ زیور پسند کرتی ہے اور جس کا قرآن کریم نے بھی ۷؎ میں ذکر فرمایا ہے اسے تھوڑا سا زیور پہننے کی اجازت ہے۔ اسی طرح ریشم اللہ تعالیٰ نے مردوں کیلئے منع کیا ہے مگر عورتوں کیلئے اس کا پہننا جائز رکھا ہے۔ اس طرح اسلام نے عورت کا یہ حق تسلیم کیا ہے کہ وہ کچھ زیور پہن کر اور کچھ ریشمی لباس میں ملبوس ہوکر زیب و زینت کرسکتی ہے اس لئے میں نے یہ اجازت دی ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر کچھ زیور بنوالیا جائے لیکن اس کے بعد کسی نئے زیور کے بنوانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی سوائے خاص حالات اور اجازت کے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ٹُوٹے پھُوٹے زیور کی مرمت کرالی جائے کیونکہ زیورات مُلک کی تجارت اور زراعت اور صنعت و حرفت کی ترقی میںسخت روک ہیں اور اس طرح ملک کا کروڑوں روپیہ بغیر کسی فائدہ کے بند پڑا رہتا ہے اور کسی قومی یا مُلکی فائدہ کیلئے استعمال نہیں ہوسکتا۔ ایک عورت اگر اپنے پاس دس ہزار روپیہ کا زیور بھی رکھ لیتی ہے تو کسی کو اس سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن اگر وہ دس ہزار روپیہ تجارت میں لگادیتی ہے اور پندرہ بیس آدمی پرورش پاجاتے ہیں تو اس سے مُلک اور قوم کو بہت بڑا فائدہ پہنچے گا اور گو اس صورت میں اس کو بھی نفع ملے گا لیکن یہ نفع دوسروں کو نفع میں شامل کرکے ملے گا۔ اس لئے شریعت اس کی اجازت دے گی۔
تو اسلام روپیہ کے استعمال کی وہ صورت پسند کرتا ہے جسے لوگ استعمال کریں۔ وہ صورت پسند نہیں کرتا جس میں آنکھیں اسے دیکھ دیکھ کر لذت حاصل کریں مگر لوگ اس کے فائدہ سے محروم رہیں۔ پس زیورات کے بنوانے میں جس قدر احتیاط کی جاسکے وہ نہ صرف امارت و غربت کا امتیاز دور کرنے کیلئے، نہ صرف مذہبی احکام کی تعمیل کرنے کیلئے بلکہ اپنے ملک کو ترقی دینے کیلئے بھی نہایت ضروری ہے۔ پس یہ احکام ایسے نہیں جنہیں بدلنے کی ضرورت ہو۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ کسی وقت ان میں زیادہ سختی کی ضرورت پیش آجائے۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگرحکومت مسلمان ہو یا اسلامی احکام کے نفاذ کی اجازت اس کی طرف سے ہو تو ایسی کئی قیود لگانی پڑیں گی جن کے ماتحت افراد کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکے کیونکہ اسلام کا منشاء یہ ہے کہ دنیا کے ہر انسان کو کھانا ضرور مہیا ہو، پانی ضرور مہیا ہو، لباس ضرور مہیا ہو اور مکان ضرور مہیا ہو۔ اور جب بھی اسلام کا یہ مقصد پورا ہوگا لازماً امیروں کے ہاتھ سے دولت چھِنے گی کیونکہ اگردولت بعض لوگوں کے ہاتھ میں بے اندازہ طور پر چلی جائے تو حکوت سب کیلئے کھانا پینا، لباس اور مکان کس طرح مہیا کرسکتی ہے۔ پس جب بھی اسلامی حکومت قائم ہوئی اسے ضرور ایسے تغیرات کرنے پڑیں گے جن کے ماتحت ہر شخص کیلئے کھانا پینا کپڑا اور مکان مہیا ہوسکے گا۔ بلکہ اس زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے ایک اور چیز بھی اس میں شامل کرنی پڑے گی اور وہ علاج ہے۔ اس زمانہ میں بیماریوں کا علاج اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ میرے نزدیک علاج بھی حکوت کے ذمہ ہونا چاہئے اور پھر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے یہ بتایا ہے کہ تعلیم بھی اسی میں شامل ہے۔ چنانچہ بدر کے موقع پر جب کفار کے بہت سے قیدی آئے تو ان میں سے بعض پڑھے لکھے تھے۔ انہیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم مدینہ کے بچوں کو پڑھادو تو تمہاری طرف سے یہی فدیہ سمجھا جائے گا اور تمہیں اس کے بدلہ میں رہا کردیا جائے گا۔۸؎ تو تعلیم، علاج، کھانا، پینا، کپڑا اور مکان یہ دنیا کے تمام لوگوں کو میسر آنا چاہئے۔ اور اگر کوئی مُلک ایسا ہے جس میں ایک شخص تو اپنا علاج کراسکتا ہے مگر دوسرا بیماری سے ہر وقت کراہتا رہتا ہے، ایک شخص تو اپنے لئے کپڑے مہیا کرسکتا ہے مگر دوسرا سردیوں اور گرمیوں میں ننگے بدن پھرتا ہے، ایک شخص تو مکان میں رہتا ہے مگر دوسرے کو اپنا سر چھُپانے کیلئے ایک جھونپڑی بھی میسر نہیں تو وہ مُلک کبھی جنت نہیں کہلاسکتا بلکہ وہ دوزخ ہے۔ ہزاروں آدمی ہمارے مُلک میں ایسے ہیں جو بڈھے ہوجاتے ہیں، اُن کی بیوی پہلے فوت ہوچکی ہوتی ہے اور ان کا کوئی بچہ نہیں ہوتا جو ان کی خبرگیری کرے، وہ اکیلے اپنی کوٹھڑی میں دن رات پڑے رہتے ہیں، نہ اُنہیں روٹی دینے والا کوئی ہوتا ہے نہ اُنہیں پانی دینے والا کوئی ہوتا ہے، نہ اُن کی بلغم اٹھانے والا کوئی ہوتا ہے، نہ اُن کا علاج کرنے والا کوئی ہوتا ہے۔ یہ کتنے غضب اور کتنی *** کی بات ہے اُس قوم کیلئے جس قوم میں ایسے افراد موجود ہوں ۔ مگر یہ تمام باتیں اسلامی طریقِ عمل اختیار کرنے سے ہی دورہوسکتی ہیں، اس کے بغیر نہیں۔ اور اِس وقت لازمی طور پر اُن ٹیکسوں پر حکومت کا گزارہ نہیں ہوسکے گا جو ٹیکس حکومت کی طرف سے اب وصول کئے جاتے ہیں۔ پس اُس وقت اسلامی حکومت کو بعض نئے ٹیکس لگانے پڑیں گے اور امراء سے زیادہ روپیہ وصول کرنا پڑے گا جیسا کہ اسلامی اصول اس بارے میں موجود ہیں اور پھر اس روپیہ سے غرباء کی خبرگیری کرنی پڑے گی لیکن جب تک اسلامی حکومتیں قائم نہیں ہوتیں ہمیں اس مقصد کیلئے تیاری توکرنی چاہئے۔ ہمیں کیا پتہ کہ کب خداتعالیٰ حاکموں کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیر دے اور وہ دَوڑتے ہوئے اسلامی احکام کو دنیا میں قائم کرنے لگ جائیں۔ فرض کرو ایک دن ایسا آتا ہے جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ بھی اور وزراء بھی اور امراء بھی اور بڑے بڑے جرنیل بھی سب اسلام قبول کرنے کیلئے تیار ہیں تو بتائو کیا ہم اُس وقت تیاری کریں گے یا ہمیں آج سے ہی تیاری شروع کردینی چاہئے۔ پس ہمیں اس عظیم الشان مقصد کیلئے جس کو پورا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو قائم کیا ہے تیار رہنا چاہئے اور تجربہ سے ان احکام کی باریکیوں کو پہلے سے دریافت کر چھوڑنا چاہئے اور اپنی قربانیوں سے اسلام کے احکام کو عملی رنگ دیتے چلے جانا چاہئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بادشاہوں اور حاکموں کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیر دے اور پھر وہ اسلامی احکام کے اس حصہ کی تکمیل شروع کردے جس کی تکمیل کرنی اِس وقت ہمارے لئے ناممکن ہے۔
چندوں کی وصولی کا جو طریق موجودہ حالت میں ہم جماعتی طور پر اختیار کئے ہوئے ہیں وہ یقینا ایسا نہیں کہ اس سے وہ تمام ضرورتیں پوری ہوسکیں جن ضرورتوں کو پورا کرنا اسلامی حکومت کا فرض ہے۔ دوسرے موجودہ حالت میں ہمارا بہت سا روپیہ تبلیغ پر خرچ ہورہا ہے اور ہونا چاہئے۔ پس ان وجوہ سے ہم قادیان جیسی چھوٹی بستی میں بھی جہاں صرف چند ہزار نفوس ہیں، اس اسلامی طریق کو کہ ہر شخص کو کھانا، مکان اور لباس وغیرہ بہرحال میسر ہو جاری نہیں کرسکتے بلکہ ابھی تو ہماری یہ حالت ہے کہ ہم کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو جھٹ ایک منافق شور مچانے لگ جاتا ہے اور ہمارا کچھ روپیہ اس منافق کی آواز کو دبانے اور اس کے فتنے کو دور کرنے میں خرچ ہونے لگتا ہے۔ پس تحریک جدید کے یہ مطالبات ایسے نہیں جنہیں اب منسوخ کردیا جائے یا ایک عرصہ کے بعد منسوخ کردیا جائے۔ ہاں ان مطالبات میں تغیر ہوسکتا ہے کیونکہ تفصیلات کے متعلق اسلام نے ہر زمانہ کے اہلُ الرائے پر معاملہ کو چھوڑا ہے اوراجتہاد کی اجازت دی ہے۔ پس اجتہاد بدل بھی سکتا ہے لیکن اصول بہر حال یہی رہے گا جو تحریک جدید کے مطالبات میں ہے کہ سادہ زندگی اختیار کرو، سادہ کھانا کھائو، سادہ لباس پہنو اور آرائش و زیبائش کے سامانوں سے الگ ہوجائو۔ کیونکہ اسلام کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ ہمارا روپیہ زیورات وغیرہ کی صورت میں بند نہ ہو بلکہ قوم کے فائدہ کے کاموں پر لگا ہؤا ہو۔ اسلام کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ امیر اورغریب میں کوئی فرق نہ رہے، اسلام کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ ہم آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں، اسلام کا تقاضا ہم سے یہ ہے کہ ہماری ایک دوسرے سے ایسی محبت و اُلفت ہو کہ ہم ایک دوسرے سے پرے پرے نہ رہیں اور یہ نہ سمجھیں کہ ہم کچھ اَور چیز ہیں اور وہ کچھ اَور چیز ہے۔
مَیں ایک دفعہ گورداسپور کا فارم دیکھنے گیا۔ اس فارم کا جو افسر ہوتا ہے اس کا عُہدہ ڈپٹی کلکٹر کے برابر ہوتا ہے۔ اس افسر نے مجھے تمام فارم دکھایا لیکن میں نے دیکھا کہ سڑک پر چلتے چلتے جب زمیندار سامنے آجاتے تو وہ اسے فرشی سلام کرکے کُود کر ایک طرف ہوجاتے۔ تھوڑی دیر کے بعدمیں نے انہیں ہنس کر کہا کہ آپ کے صیغے کا کوئی فائدہ نہیں۔کہنے لگے کیوں؟ میں نے کہا جن زمینداروں کے فائدہ کیلئے آپ کام کررہے ہیں ان کی حالت تو یہ ہے کہ وہ آپ کو دور سے دیکھتے ہی کُود کر الگ ہوجاتے ہیں۔ بھلا ایسے لوگ آپ سے کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور آپ ان کو کیا فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد میںنے سرایڈورڈ میکلیگنکو جو اُس وقت گورنر پنجاب تھے چِٹھی لکھی کہ میں نے آپ کے ایک محکمہ کا اتفاقاً ملاحظہ کیا ہے جس کے ماتحت مجھ پر یہ اثر ہے کہ اس محکمہ کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر آپ زمینداروں کو فائدہ پہنچانے کی حقیقی خواہش رکھتے ہیں تو اس کا طریق صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ آپ چھوٹی چھوٹی تنخواہوں والے افسر مقرر کریں جو گائوں میں جائیں اور زمینداروں سے مل جُل کر کام کریں۔ انہیں ہل چلا کر بتائیں اور نئے طریقِ زراعت کی طرف ان کی طبائع کو مائل کریں۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ ایک بڑی تنخواہ والا افسر آپ نے مقرر کردیا ہے جس کی شکل دیکھتے ہی زمیندار کُود کر پرے ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے میری اِس تجویز کو بہت پسند کیا اور لکھا کہ میں اس پر غور کروں گا۔ چنانچہ اب چھوٹے چھوٹے افسر مقرر ہیں جو کھیت میں ہل چلا کر اور بیج بوکر زمینداروں کو دکھادیتے ہیں۔ گو اب بھی اس سے پورا فائدہ نہیں پہنچ رہا مگر بہرحال اب چھوٹے افسر بھی مقرر ہوگئے ہیں اور زمیندار آسانی سے ان سے فائدہ اُٹھاسکتے ہیں مگر اُس وقت صرف ڈپٹی ہی ڈپٹی ہوتا تھا کوئی چھوٹا افسر نہیں ہوتا تھا۔
غرض اسلام یہ چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان میں امتیا زکم ہو اور محبت اورمیل جول زیادہ ہو۔ ایک دفعہ ایک نہایت ہی غریب شخص نے میری دعوت کی۔ میں گیا۔ اُس بے چارہ کے پاس کوئی سامان نہ تھا۔ اُس نے ایک چارپائی بچھادی اور اُس پر مجھے بٹھا کر شوربا روٹی جو اسے میسر تھا اُس نے میرے سامنے رکھ دیا۔ اتفاق سے ایک باہر کے دوست بھی اُس وقت میرے ساتھ چل پڑے۔ جب میں کھانا کھا کر باہر نکلا تو وہ مجھ سے کہنے لگے کہ کیا آپ ایسے غریب کی دعوت بھی قبول کرلیا کرتے ہیں؟ میںنے کہا اگر میں اس غریب شخص کی دعوت کو قبول نہ کرتا اور انکار کردیتا تو آپ ہی یہ اعتراض کرنے والے ہوتے کہ یہ امیروں کی دعوت قبول کرلیتے ہیں، غریبوں کی دعوت قبول نہیں کرتے۔ مگر اب جبکہ میں نے دعوت قبول کرلی ہے تو آپ کے خیال نے یہ صورت اختیار کرلی ہے کہ ایسے غریب کے ہاں کھانا کھانا تو ظلم ہے۔ میں نے کہا اس کے ہاں کھانا کھانا ظلم نہیں تھا بلکہ انکار کرنا ظلم تھا۔ کیونکہ میرے انکار پر یہ ضرور محسوس کرتا کہ میں چونکہ غریب ہوں اس لئے انکار کیا گیا ہے۔ پس جو اعتراض اُس دوست نے کیا اُس کے بالکل اُلٹ اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ کوئی ایسی امارت نہ ہو جو غربت کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھے اور کوئی ایسی غربت نہ ہو جو غریب کیلئے وبالِ جان بن جائے۔ یہ خیال بہت دُور کا ہے۔ایسا ہی دور جیسے دنیا میں جنت کا خیال۔ مگر ایک دفعہ اسلام اس مقصد کو پورا کرچکا ہے اور اب دوسری دفعہ اس مقصد کو پورا ہونا ناممکن نہیں۔
پس ضرورت ہے کہ ہم اس عظیم الشان مقصد کیلئے داغ بیل ڈالیں اور اس عظیم الشان محل کی بنیادیں رکھ دیں جس کی تعمیر اسلام کا منشاء ہے۔ بیشک ہمارے لئے بہت بڑی دقتیں ہیں۔ ہم دوسروں کے محکوم ہیں اور ہمارے لئے ان کے قواعد کی پابندی لازمی ہے اور بعض دفعہ ہماری ایک نیک خواہش کا بھی وہ یہ مفہوم لے لیتے ہیں کہ گویا ہم بادشاہ بننا چاہتے ہیں حالانکہ ہم بادشاہ نہیں بلکہ خادم بننا چاہتے ہیں۔ لیکن بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے بھی لازمی ہے کہ کوئی قانون جاری کیا جائے۔ اس قانون کا نام بادشاہت کی خواہش رکھ لینا انتہائی نادانی اور ناواقفیت ہے۔ ہماری غرض صرف یہ ہے کہ ایسے اصول دنیا میں جاری کردیں جن کے ماتحت امارت و غربت کا امتیاز جاتا رہے اور بنی نوع انسان کو نہایت آرام سے خداتعالیٰ کے ذکر اور اپنی ترقی کیلئے جدوجہد کرنے کا موقع مل جائے۔ کئی چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق میری خواہش ہے کہ انہیں اِس وقت دور کردینا چاہئے مگر وہ چونکہ حکومت سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے انہیں دورنہیں کیا جاسکتا۔ اگر اسلامی حکومت ہوتی تو میں کہتا کہ ان باتوں کو ابھی دور کردو مگر چونکہ حکومت غیر ہے اس لئے محبت، پیاراورآہستگی کے ساتھ قدم آگے بڑھانا ضروری ہے اور اُس دن کا انتظار کرنا چاہئے جب اللہ تعالیٰ ہمارے حاکموں کے دلوں کو کھول دے۔ ورنہ ان احکام کی ضرورت آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح آج سے تیرہ سَو سال پہلے قائم تھی۔
سادہ زندگی کے متعلق آجکل ہمیں ایک اور نقطہ نگاہ سے بھی غور کرنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ یہ ایام سلسلہ کیلئے سخت نازک ہیں اور جماعت نے کئی قسم کے چندوں کے وعدے کئے ہیں جن کا اثر ایک دو سال تک رہے گا۔ پس اس لحاظ سے بھی یہ نہایت ہی ضروری امر ہے کہ سادہ زندگی اختیار کی جائے۔ اگر ایک باپ کا اپنے بچوں کے اخراجات پر یا خاوند کا اپنی بیوی کے زیورات پر اُسی طرح روپیہ خرچ ہورہا ہے جس طرح پہلے خرچ ہؤا کرتا تھا تو اسے دین کی خدمت کا موقع کس طرح مل سکتا ہے۔ اگر وہ زیورات پر روپیہ خرچ کرے گا تو دین کی خدمت سے محروم رہے گا اور اگر دین کیلئے روپیہ دے گا تو لازماً اسے سادہ زندگی اختیار کرنی پڑے گی اور بعض قیود اپنے اوپر عائد کرنی ہوں گی۔ پس اِس زمانہ میں ان مطالبات پر عمل کرنا بہت زیادہ ضروری ہے اور پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ میں جہاں تک سمجھتا ہوں جماعت کا ایک بڑا حصہ دیانت داری سے ان احکام پر عمل کرنے کی کوشش کررہا ہے امراء میں سے بھی اور غرباء میںسے بھی اور بعض سُست بھی ہیں۔ مجھے بعض امراء ایسے معلوم ہیں جنہوں نے سختی سے ان مطالبات پر عمل کیا ہے اور سادہ زندگی کے متعلق اپنے اوپر قیود عائد کی ہیں اور مجھے بعض غرباء ایسے معلوم ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ ایک کھانا کھانا یہ کون سی شریعت کا حکم ہے حالانکہ یہ محض ان کے فائدہ کی بات تھی اور پھر وہ تو پہلے ہی ایک کھانا کھایا کرتے تھے۔ انہیں تو چاہئے تھا اس مطالبہ کی تائید کرتے نہ کہ مخالفت۔ مگر انہوں نے مخالفت کی اور اس پر عمل نہ کیا۔ گویا ان لوگوں کی مثال جنہوں نے غرباء میں سے اِس مطالبہ پر عمل نہ کیا ویسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کسی شخص کے دوست کی کُتیا نے بچے دیئے۔ اسے معلوم ہؤا تو وہ اس کے پاس گیا اور کہنے لگا میں نے سنا ہے آپ کی کُتیا نے بچے دیئے ہیں۔ اگر آپ کو تکلیف نہ ہو تو ایک کُتیا کا بچہ مجھے دے دیں کیونکہ مجھے مکان کی نگرانی کیلئے اس کی ضرورت ہے۔ وہ کہنے لگا بھئی! بچے تو مَرگئے ہیں لیکن اگر زندہ بھی ہوتے تو میں تمہیں نہ دیتا۔ وہ کہنے لگا اب تو خدا نے بچے مار دیئے تھے یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اگر زندہ ہوتے تب بھی نہ دیتا۔ اسی طرح وہ غرباء تو پہلے ہی ایک کھانا کھاتے ہیں اگر وہ ایک کھانا کھانے کی ہدایت پراعتراض کریںتو ان کا اعتراض محض بیوقوفی ہے۔ انہیں تو چاہئے تھا کہ وہ امراء کے خلاف شور مچاتے اور کہتے کہ فلاں فلاں امیر اس پر عمل نہیں کرتا اور وہ ایک سے زائد کھانے کھاتا ہے۔ نہ یہ کہ وہ اس بات پر اعتراض کرتے جس میں خود انہی کا فائدہ ہے۔ اس کے مقابلہ میں مَیں ایسے امراء کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے بعض ہدایات پر عمل نہیں کیا اور ایسے غرباء کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے خاص قربانی کرکے بعض ہدایات پر عمل کیا ہے اورجنہیں مہینوں ایک کھانا کھانے کے بعد جب کسی وقت اتفاقی طو رپر دو کھانے ملے تو انہوںنے ایک کھانا ہی کھایا اور دوسرا کھانا چھوڑ دیا۔ ان کی قربانی یقینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت شاندار قربانی ہے اور وہ اس کے اجر سے محروم نہیں رہیں گے۔
یاد رکھو! اِس وقت ہمارے اِردگِرد اتنے ابتلائوں کے سامان ہیں کہ ہمیں سپاہیانہ طور پر زندگی بسر کرنی چاہئے اور اپنی تمام زندگی کو مختلف قسم کی قیود کے ماتحت لانا چاہئے۔ دنیا چاہتی ہے کہ احمدیت کو مٹا دے لیکن خدا یہ چاہتا ہے کہ احمدیت کو قائم کرے اور یقینا ویسا ہی ہوگا جیسا کہ خدا کا منشاء ہے۔ مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ تم سچے مسلمان بن کر اپنے اندر ایسی سادگی پیدا کرو جو تمہارے اندر مساوات پیدا کردے، جو تمہارے اندر اخلاقِ فاضلہ پیدا کردے، جو تمہارے اندر اُلفت و محبت پیدا کردے اور جو تمہارے اندر برادرانہ اخوت و تعلق پیدا کرنے کا موجب ہوجائے تا اس کے بعد ایک طرف سے اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہو تو دوسری طرف سے خود تمہارے اندر ایسی طاقت اور قوت پیدا ہوجائے کہ جو بھی تمہارے سامنے آئے اسے اپنے آگے سے بھگادو۔
دیکھو! پہلوان جب اپنے شاگردوں کو کشتی لڑنا سکھاتے ہیں تو گو ان کے شاگرد دس دس بیس بیس ہوتے ہیں مگر وہ اکیلے سب کو گِرا لیتے ہیں۔ اسی طرح اگر تم بھی مجاہدات کرو گے تو تمہارے اندر ایسی طاقتیں پیدا ہوجائیں گی کہ تم دس دس، بیس بیس دشمنوں کا مقابلہ کرسکو گے۔ جس طرح دُنیوی ریاضات کے نتیجہ میں ایک ایک جسم دس دس جسموں کو گِرالیتا ہے اسی طرح جب روحانی ریاضات کی جاتی ہیں تو اپنی اپنی ریاضت اور اپنے اپنے مجاہدہ کے مطابق کوئی روح دس بدروحوں کو گرالیتی ہے، کوئی بیس کو گرالیتی ہے، کوئی پچاس کو گرالیتی ہے، کوئی سَو کو گرالیتی ہے، کوئی ہزار کو گرالیتی ہے اور جب کسی قوم میں زبردست روحانی طاقت و قوت پیدا ہوجائے اُس وقت تعداد کا سوال بالکل اہمیت کھو بیٹھتا ہے۔ اُس وقت یہ نہیں پوچھا جاتا کہ دشمن ایک کے مقابل پر دس ہیںیا بیس بلکہ ایسی روحانی طاقت حاصل کرنے والی قوم کے تھوڑے سے آدمی ساری دنیا پر غالب آجاتے ہیں۔
مثل مشہور ہے کہ ایک دفعہ چوہوں نے مشورہ کیا کہ بلی کو پکڑ کر قید کردیا جائے۔ دس بیس نے کہا کہ ہم اُس کا کان پکڑ لیں گے، دس بیس نے کہا کہ ہم اُس کی دُم پکڑ لیں گے، دس بیس نے کہا ہم اُس کی ٹانگوں سے چمٹ جائیں گے، اس طرح سینکڑوں چوہے تیار ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ آج بلی آئی تو ہم اسے جانے نہیں دیں گے۔ یہ باتیں ہو ہی رہیں تھیں کہ ایک بُڈھے چوہے نے کہا تم سب کچھ پکڑ لو گے مگر یہ تو بتائو کہ اس کی میائوں کو کون پکڑے گا؟ اتفاقاً اُسی وقت ایک کونے میںسے ایک بِلّی کی آواز آئی جو وہاں چھُپی بیٹھی تھی۔ اُس نے میائوں جو کی تو تمام چوہے بھاگ کر اپنے اپنے بِلوں میں گھس گئے۔
غرض انسان کے اندر جب غیرمعمولی یقین پیدا ہوجائے تو دنیا اُس سے دبنے لگتی ہے اور یہ ایک صوفیانہ نکتہ ہے جو تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کے اندر ایک مَیں ہوتی ہے جب وہ مَیں پاک ہوجائے تو باقی تمام دنیا کی مَیں اُس کے آگے دَب جاتی ہے۔ اُس وقت جسموں اور تعداد کا کوئی سوال نہیں رہتا بلکہ جس طرح ایک شیر کے مقابلہ میں ہزاروں خرگوش کوئی حقیقت نہیں رکھتے اِسی طرح ایسی روحانی طاقت رکھنے والے انسان کے سامنے ہزاروں کیا لاکھوں نفوس بھی محض بے حقیقت ہوتے ہیں کیونکہ وہ روحانیت سے خالی ہوتے ہیں اور انہی لوگوں کو پیدا کرنا ہمارا مقصود ہے۔ ہماری اصل غرض نہ ایک کھانا کھاناہے، نہ سادہ کپڑا پہننا ہے، نہ یہ ہے نہ وہ بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہمارے اندر ایسی روحانی طاقت پیدا ہوجائے جس کے نتیجہ میں ہم میں اخوتِ اسلامی پیدا ہوجائے، ہم میں جُرأتِ اسلامی پیدا ہوجائے۔ اور جب وہ پیدا ہوگئی تو ایک طرف ہمارے اندر کوئی فتنہ پیدا نہیں ہوسکے گا اور دوسری طرف دشمن ہمیں دبا نہیں سکے گا کیونکہ ہمارے اندر قوتِ روحانی کا ایک چشمہ پھُوٹ رہا ہوگا اور چشمہ کبھی خشک نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ایک چشمہ سے تم جس قدر پانی نکالو وہ خشک نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے نیچے سے اور پانی نکل آتا ہے اسی طرح جو لوگ روحانی اور اخلاقی ورزشوں سے اپنے اندر قوت پیدا کرلیتے ہیں وہ روحانیات کا چشمہ بن جاتے ہیں۔ جب دشمن اس میں سے کچھ پانی چُرا کر لے جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب پانی ختم ہوگیا، اُس چشمہ کے نیچے سے اور پانی نکل آتا ہے اور وہ ہمیشہ ہی بھرا رہتاہے۔
پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ سادہ زندگی کی طرف متوجہ ہوں اور بجائے اِس کے کہ وہ ان قیود کو کم کرنے کی کوشش کریں انہیں چاہئے کہ وہ زیادہ تعہّد کے ساتھ ان مطالبات پر عمل کریں۔ بلکہ جن لوگوں نے گزشتہ سالوں میںان مطالبات پر عمل کرنے میں کوئی کوتاہی کی ہے اُنہیں بھی اِس طرف لانے کی کوشش کریں۔ تا اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی برکتیں نازل ہوں اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے راستے میں جو مشکلات حائل ہیں وہ دُور ہوجائیں اور خدا اور اس کے رسول کا جلال دنیا میں ظاہر ہو۔‘‘ (الفضل ۱۱؍ فروری ۱۹۳۸ئ)
۱؎ ،۲؎ بخاری کتاب النکاح باب نھیالنَّبِیُّ صلی اﷲ علیہ وسلم عَن نکاح الْمُتْعَۃِ اَخِیْرًا
۳؎ مسلم کتاب القیام باب تحریم صوم ایام التشریق(الخ)
۴؎ تَرَفُّہ: آسودگی۔ دولتمندی
۵؎ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۳۰۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۶؎
(التوبۃ:۳۵)
۷؎ الزخرف: ۱۹
۸؎ زرقانی جلد ۲ صفحہ ۳۲۴۔ حاشیہ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء

۶
جمعہ کے اجتماع میں دو سبق
(فرمودہ ۱۱؍ فروری ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے عید کے خطبہ میں بیان کیا تھاکہ عید اگر جمعہ کے دن ہو تو اگرچہ نماز ظہر ادا کرنی بھی جائز ہے مگر میں جمعہ ہی پڑھوں گا۔ جمعہ کا اجتماع بھی دراصل ایک عید ہی ہے اور اس میں دو سبق دیئے گئے ہیں۔ ایک تو قومی اتحاد کی طرف اس میں توجہ دلائی گئی ہے اور دوسرے تبلیغ کی طرف۔ خطبہ کیلئے جمعہ کی نماز میں ظہر کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے دو رکعت کی کمی کردی ہے اور اس طرح تبلیغ کی اہمیت بتادی ہے اور جمعہ کے اجتماع میں قومی اتحاد کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ دراصل حق کے مخالفین ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ صداقت کے ماننے والوں میں انتشار اور تفرقہ پیدا کردیں اور اس طرح انہیں بددل کرکے جماعت کی طاقت کو توڑ دیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے روز اجتماع کا حکم دے کر اتحاد کی اہمیت واضح کی ہے۔ جماعت احمدیہ کے مخالفین بھی ہمیشہ یہ کوشش کرتے آئے ہیں کہ جماعت میں تفرقہ پیدا کرکے اسے کمزور کریں اور اس کیلئے وہ کئی قسم کی افواہیں پھیلاتے رہتے ہیں۔ جب مستریوں نے فتنہ اُٹھایا تو وہ یہی کہتے تھے کہ جماعت کے تمام بڑے بڑے لوگ ہمارے ساتھ ہیں اور بہت جلد ظاہر ہونے والے ہیں۔ مگر اِس پر قریباً دس سال کا عرصہ گزرچکا ہے اور کوئی بھی ظاہر نہیں ہؤا۔
ان سے بھی پہلے بہائیوں کا فتنہ تھا۔ ان کی طرف سے بھی یہی آواز بلند کی جاتی تھی کہ تمام بڑے بڑے لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ حتیٰ کہ ایک دوست حکیم ابوطاہر صاحب نے جو تھوڑا ہی عرصہ ہؤا فوت ہوگئے ہیں اور جماعت احمدیہ کلکتہ کے امیر تھے اور اُس زمانہ میں یہاں آئے ہوئے تھے، سخت گھبراہٹ میں مجھے ایک خط لکھا کہ خدا کے واسطے ان لوگوں کے اخراج ازجماعت کا اعلان نہ کریں۔ میں نے بہت ہی معتبر ذریعہ سے سُنا ہے ( یہ معتبر ذرائع وہ خود بہائی خیالات کے دو تین آدمی ہی تھے جنہوں نے ان سے مل کر کہا اور انہوں نے بوجہ ناواقفی کے انہیں معتبر سمجھا) کہ جماعت کے کئی بڑے بڑے لوگ ان کے ساتھ ہی جماعت سے اخراج کا اعلان کرنے کو تیار ہیں بلکہ مجھے معتبر ذریعہ سے معلوم ہؤا ہے کہ حافظ روشن علی صاحب بھی اُسی وقت کہیں گے کہ میں بھی بہائی ہوں اور ان ہی کے ساتھ جاتا ہوں۔ میں نے ان کو جواب میں لکھاکہ حق کے معاملہ میں کسی سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اگر ساری جماعت کے لوگ بھی کہہ دیں کہ ہم جاتے ہیں تو میں کہوں گا کہ بے شک جائو۔ میرا اور آپ کا تعلق محبت کا ہی تعلق تھا اور اگر وہ قائم نہیں رہا تو جائو مگر ان کی یہ سب باتیں بالکل غلط ثابت ہوئیں۔ مَیں نے حافظ صاحب مرحوم سے اِس بات کا ذکر بھی نہیں کیا تھا۔ مگر انہوں نے بڑے زور سے ان لوگوں کو خارج کرنے کی حمایت کی اور بعد میں بھی بڑی مضبوطی کے ساتھ اس فتنہ کا مقابلہ کرتے رہے۔ اس فتنہ سے پہلے پیغامی فتنہ شروع ہؤا تھا۔ اس میں بھی بعینہٖ یہی قصہ گزرا تھا۔ یہ لوگ بھی جب الگ ہوئے تو یہی کہتے تھے کہ سب جماعت ہمارے ساتھ ہے اور بیعت کرنے والے تو چند ایک تنخواہ دار ملازم ہی ہیں یا قادیان کے دست نگر لوگ اور ایسی باتوں سے ان کی غرض یہی تھی کہ جماعت میں تفرقہ ڈال دیں اور جب یہ لوگ اس قسم کا پروپیگنڈا کررہے تھے ان کی اصلی حالت یہ تھی کہ ماسٹر عبدالحق صاحب مرحوم نے جو پہلے ان کے ساتھ تھے مگر بعد میں بیعت کرلی تھی، سنایا کہ میں اور مولوی صدرالدین صاحب اور ایک تیسرا شخص لالٹین لے کر تمام رات پھرتے رہے کہ اگر چالیس آدمی ہمیںمیسر آجائیں تو ایک اور خلیفہ بنادیںتا جماعت میںتفرقہ تو پیدا ہوجائے۔ مگر ہم دس بارہ سے زیادہ آدمیوں کو اِس کیلئے آمادہ نہ کرسکے بلکہ ہمارے اپنے آدمیوں نے بھی یہی کہا کہ یہ کیا پاکھنڈ بنایاجارہا ہے۔
اب مصری صاحب کا فتنہ ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ جماعت کے بہت سے لوگ تو دہریہ ہوگئے ہیں اور جو دہریت سے بچ گئے ہیں ان میں سے کئی بڑے بڑے لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ گویا جماعت تین حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ کچھ حصہ تو دہریہ ہوگیا ہے باقیوں میں سے مخلص اور سمجھدار طبقہ مصری صاحب کے ساتھ ہے اور بچے کھچے کچھ بیوقوف یا کچھ اہل غرض عقلمند یا ناواقف لوگ میرے ساتھ ہیں اور ایسی باتوں سے ان کا مقصد بھی یہی ہے کہ تا ہر شخص یہی سمجھے کہ جماعت اندر سے کھوکھلی ہوچکی ہے۔ اسی طرح احرار کا فتنہ اُٹھا تو روز اس قسم کی اطلاعات آتی تھیں کہ ہوشیار رہیے کہ آج اطلاع ملی ہے کہ احرار نے میاں بشیر احمد صاحب کو قابو کرلیا ہے، آج خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب نے مولوی عنایت اللہ کو خط لکھا ہے کہ میں بھی تمہارے ساتھ ہوں، آج چوہدری فتح محمد صاحب نے احرار کو پیغام بھیجا ہے کہ میں بھی خلیفہ سے بیزار اور تمہارے ساتھ ہوں۔ اسی طرح اب مصری صاحب کہہ رہے ہیں کہ فلاں شخص بھی ہمارے ساتھ ہے اور فلاں بھی اور اس سے ان کی غرض صرف یہ ہے کہ جماعت کے اندر فتنہ پیدا کیاجائے اور تفرقہ ڈالا جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شیطان اور اس کے دوست مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ڈراتے ہیں کہ تمہاری طاقت ٹُوٹ رہی ہے اور تم کمزور ہورہے ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ سبق دیا ہے کہ اگر تم دشمن پر فتح پانا چاہتے ہو تو اکٹھے ہوجائو اور ڈرو نہیں۔ ۱؎دشمن اگر زبردست ہے تو کیا، ہم نے تو اس کا مقابلہ نہیں کرنا، مقابلہ کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے۔ جماعت احمدیہ کا سہارا بندے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے اور اگراس کے گرنے کا خطرہ ہے تو خداتعالیٰ کو ڈرنا چاہئے جس کی یہ جماعت ہے ہماری تو ہے نہیں کہ ہم ڈریں۔ بندے کا کیا ہے وہ تو کپڑے جھاڑ کر پھر کھڑا ہوجائے گا۔ انسان کا فرض صرف یہ ہے کہ وہ دیانت داری کے ساتھ کوشش کرے۔ اس کے بعد اگر دشمن زبردست ہے اور اس وجہ سے جماعت کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مقابل پر بندوں کو کوئی کامیابی ہوسکے۔ انسان کی مثال اللہ تعالیٰ کے مقابل پر ایسی بھی نہیں جیسی بیل کے مقابلہ پر مچھر کی۔
کہتے ہیں کسی بیل کے سر پر مچھر آکر بیٹھ گیا بیل کو تو اس کا پتہ تک نہ لگا۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد مچھر کہنے لگا کہ بھائی !بیل تم بھی جانور ہو اور میں بھی جانور ہوں اس لئے تم سے ہمدردی رکھتا ہوں۔ اگر تم تھک گئے ہو تو مجھے بِلا تکلف بتادینا تا میں اُڑ جائوں۔ بیل نے جواب دیاکہ بھائی! مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ تم بیٹھے کب تھے۔ اس سے بھی بدتر حال اُس بندے کا ہے جو خداتعالیٰ کے مقابلے پر کھڑا ہوجاتا ہے۔ وہ مچھر کی طرح بھنبھناتا اور اس کے بندوں کو ڈنگ مارتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے میدان مارلیا۔ اور شروع میں بعض کمزور لوگ کچھ گھبراتے بھی ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ خبر نہیں اب کیا ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا کچھ بھی نہیں۔ چند دن کا ایک شغل ہوتا ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ خود ہی اُس زہر کا تریاق پیدا کردیتا ہے اور لوگوں کی طبائع میں سکون پیدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جب شیخ مصری صاحب الگ ہوئے تو بعض بڑے بڑے سمجھدار لوگ کہتے تھے کہ اب کیا ہوگا اور معلوم نہیں کتنے لوگ ان کے ساتھ جاملیں گے۔ لیکن اب سوائے چند اشخاص کے جو پہلے سے ہی دل میں ان سے ہمدردی رکھتے چلے آئے ہیں، کوئی نئی جماعت ان کے ہاتھ پر نہیں بنی اور اب تو بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس فتنہ کی طرف اس قدر توجہ کی ضرورت نہ تھی۔ یہ تو کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا۔ پس صداقت کے مقابلہ میں جھوٹ ٹھہرا نہیں کرتا اور غلبہ ہمیشہ حق کو ہی حاصل ہوتا ہے۔ ہم غیراحمدیوں، ہندئوں اور سکھوں میں سے کتنے آدمی جیت کر لائے ہیں۔ اگر پانچ سات ہم میںسے الگ ہوگئے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جو دوستوں کیلئے کسی افسردگی کا موجب ہو۔ فتح بہرحال احمدیت کی ہوگی۔
مَیںنے بچپن میں ایک خواب دیکھا تھا کہ مدرسہ احمدیہ والی گلی میں احمدیوں اور غیراحمدیوں میں کبڈی کا میچ ہورہا ہے۔ غیراحمدیوں کے سردار مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں۔ میری عمر اُس وقت گیارہ بارہ سال کی تھی اور میں نے مولوی محمد حسین صاحب کو دیکھا ہؤا نہیں تھا اور جب بعد میں دیکھا تو ان کی جسمانی وضع بالکل ویسی ہی پائی جیسی خواب میں دیکھی تھی۔ سفید انگرکھا ۲؎ پہنا ہؤا تھا اور پگڑی تھی۔ تو میں نے دیکھا کہ ایک طرف پانچ سات احمدی ہیں اور دوسری طرف سینکڑوں غیر احمدی ہیں۔ مگر ان کی طرف سے جوکبڈی کہتا ہؤا ادھر آتا ہے احمدی اسے پکڑ کر بٹھالیتے ہیں۔ کبڈی وہ ہے جسے پنجابی میں جپھل کہتے ہیں۔ پس جو غیراحمدی احمدیوں کی طرف آتا ہے احمدی اسے پکڑ لیتے ہیں اور جب اس کا دم ٹُوٹ جاتا ہے اسے ایک طرف بٹھادیتے ہیں۔ گویا انہوں نے اس شخص کو جیت لیا ہے۔ کبڈی کی کھیل کی اصطلاح میں اسے مرجانا کہتے ہیں۔ آہستہ آہستہ میں نے دیکھا مقابل کے سب آدمی ہی احمدیوںنے جیت لئے، صرف مولوی محمد حسین صاحب رہ گئے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ سب لوگ ادھر چلے گئے ہیں تو انہوں نے دیوارکی طرف منہ کر کے آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا اور حدِ فاصل لکیر کے پاس آکر آہستہ سے قدم اس طرف رکھ دیا اور کہا کہ اچھا جب سارے آگئے ہیں تو میں بھی آجاتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مولوی محمد حسین صاحب کے رجوع کرنے کے متعلق جو لکھا ہے اس کے مطابق مولوی صاحب نے آخری عمر میں اپنے رویہ میں تبدیلی کرلی تھی۔ اپنے لڑکے بھی یہاں تعلیم کیلئے بھیج دیئے تھے۔ مجھے بھی بٹالہ میں ایک دفعہ ملنے آئے تھے اگرچہ ندامت کی وجہ سے اس کمرے میں سے صرف گزرگئے اور مجھ سے کلام نہیں کیا۔ لیکن آئے اسی غرض سے تھے کہ مجھے ملیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ تحریر فرمایا ہے اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آخر میں مولوی صاحب جیسے کفرباز مولوی بھی توبہ کرلیں گے۔ کیونکہ اَئمہ سے مراد بعض دفعہ ان کے اتباع بھی ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ان کے مثیل لوگ بھی ہوتے ہیں۔ پس میری خواب کی تعبیر یہ ہوسکتی ہے کہ جس وقت غیراحمدی بکثرت جماعت میں داخل ہوجائیں گے اس وقت یہ مولوی لوگ بھی مونچھوں پر تائو دیتے ہوئے آئیں گے کہ ہم علماء تو پہلے ہی صداقت کو جانتے تھے۔ ہم تو اس لئے مخالفت کررہے تھے کہ تا لوگوں میں کچھ بیداری پیدا ہو۔
تو میں نے بتایا ہے کہ جمعہ کی غرض اتحاد کا قیام ہے۔ بعض نادان یہ خیال کرتے ہیں کہ سیاسی اتحاد صرف ان اقوام کیلئے ضروری ہوتا ہے جن کے ہاتھ میں حکومت ہو حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ بلکہ روحانی جماعتوں میں تو یہ زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ دوسری چیز جس میں جمعہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ تبلیغ ہے۔ اگر ہماری جماعت تبلیغ میں لگی رہے تو چند سالوں میں جماعت میں نمایاں ترقی ہوسکتی ہے۔ پھر اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ افرادِ جماعت کیلئے علمی ترقی کا موقع پیدا ہوتا رہتا ہے میں نے دیکھا ہے کہ قادیان کے لوگ چونکہ اکٹھے رہتے ہیں اور مخالفانہ اعتراضات سننے کا موقع ان کو نہیں ملتا اس لئے ان میں سے ایک طبقہ ایسا ہے کہ علمی لحاظ سے وہ بالکل کورے ہیں اور ان میں سے اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگوں کو وہ عام مسائل بھی معلوم نہیں جوباہر کے زمیندار جانتے ہیں۔ یہاں کے لوگ اپنی ملازمتوں یا تجارتوں میں ہی لگے رہتے ہیں اور چونکہ جمعہ کے روز خطبہ ہوجاتا ہے اور علماء موجود ہیں جو تبلیغ کیلئے باہر جاتے اور یہاں بھی لیکچر دیتے رہتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری طرف سے جب لڑنے والے موجود ہیں تو ہم کو کیا ضرورت ہے کہ مسائل سیکھیں۔ حالانکہ دین کی لڑائی میں کوئی کسی کی جگہ نہیں لڑ سکتا۔ دنیا کی لڑائی میں تو تنخواہ دار ملازم آقا کی جگہ لڑ سکتے ہیں مگر دین کے معاملہ میں نہیں۔ دین میں ہر ایک کیلئے ضروری ہے کہ تبلیغ کرے ورنہ وہ علم سے بھی کو را رہے گا اور۔۳؎ جو شخص اس دنیا میں اندھا ہے وہ اگلے جہاں میں بھی اندھا رہے گا۔ اگر کوئی شخص نورِ اسلام اور علمِ دین سے واقف نہیں تو وہ قیامت کے روز اندھا ہوگا۔
یاد رکھو کہ علم سے ہی نور پیدا ہوتا ہے اور خداتعالیٰ نے قرآن کریم کو نور فرمایا ہے۔۴؎ جس میں ۵؎اور فرقان ۶؎ ہے اور جسے نورِ ہدایت معلوم نہیں، اسلام کے غلبہ کے دلائل کا علم نہیں اسے خداتعالیٰ سے محبت کیسے پیدا ہوسکتی ہے اور جس کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت نہ ہو وہ اسے مل کیسے سکتا ہے۔ اور یہ قدرتی بات ہے کہ جو شخص تبلیغ کیلئے باہر نکلے گا اسے علمی مسائل کے متعلق کرید پیدا ہوگی اور علمِ دین کی طرف وہ زیادہ توجہ کرے گا۔ جو شخص جس پیشہ سے تعلق رکھتا ہے اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزوں کی طرف وہ زیادہ توجہ کرتا ہے۔ کوئی ترکھان اگر کسی جگہ سے گزررہا ہو اور کوئی گیلی پڑی ہوئی ہو تو اس کی نظر فوراً اس کی طرف جائے گی۔ کسی لوہار کو راستہ میں گھوڑے کا کوئی سم ہی گرا ہؤا ملے تو وہ اسے اٹھا کر رکھ لے گا۔ لیکن دوسرے لوگ گزریں تو ان کا خیال بھی اس طرف نہیں جائے گا۔ شہری لوگ کھیتوں میں سے گزرجائیں تو کچھ خیال نہ کریں گے لیکن ایک زمیندار گزرے تو وہ یہ سوچتا جائے گا کہ اس میں سے اتنے من گندم نکلے گی اور اس میں سے اتنے من کیونکہ یہ اس کا کام ہے اور اس کی طرف اس کی توجہ ہے۔ اسی طرح جب انسان تبلیغ کرنے لگے تو قدرتی طور پر اس کی توجہ تعلیم دین کی طرف ہوگی۔ کوئی اعتراض کرے یا نہ کرے وہ خودبخود سوچے گا اور اس طرح اس کا اپنا نورِ معرفت بڑھتا رہے گا اور پھر اس طرح خداتعالیٰ سے اس کی محبت ترقی کرے گی۔ پس جمعہ میں دوسرا سبق یہ سکھایا گیا ہے کہ تبلیغ کرو ۔ اس کاایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان کا اپنا علم بڑھتا ہے۔ بیسیوں مسائل ایسے ہیں کہ جو ہم مدرسہ میں پڑھتے تھے مگر باوجود یاد ہونے کے ان کو اچھی طرح نہیں سمجھتے تھے۔ مگر جب بعد میں پڑھانے کا موقع ملا اور بچوں نے یا دوسرے لوگوں نے ان کے متعلق سوالات کرنے شروع کئے تو ان کی سمجھ آئی۔ تو علم صرف پڑھنے سے نہیں بلکہ دوسروں کو پڑھانے اور سمجھانے سے آتا ہے۔
باہر کی جماعتوں کیلئے بھی یہ بات ضروری ہے مگر قادیان کے دوستوں کو بِالخصوص اس طرف توجہ کرنی چاہئے کیونکہ یہاں کے لوگوں میں علمی کمی بہت زیادہ ہے۔ جس طرح باہر کا کوئی احمدی زمیندار کُود کُود کر مولوی کے پاس جاتا اورکہتا ہے کہ آپ کہتے کیا ہیں؟ میرے ساتھ بات کریں۔ یہاں کے لوگ ایسا نہیں کرسکتے۔ یہاں کے کئی لوگ خلافت وغیرہ کے متعلق بعض مسائل دریافت کرتے رہتے ہیں لیکن باہر سے کبھی کسی نے ایسی باتیں نہیں پوچھیں کیونکہ یہاں نہ ان کو اعتراضات سننے کا موقع ملتا ہے اور نہ ان کے جواب معلوم کرنے کی طرف توجہ ہوتی ہے اس لئے ان کا علم نہیں بڑھتا۔ خدا کی قدرت ہے ہم قادیان والوں کے حصہ میں غیراحمدی مولوی بھی وہی آئے ہیں جو لٹھ مار ہیں اور دلائل وغیرہ کوئی نہیں دیتے۔ صرف یہی کہتے ہیںکہ احمدیوں کو مارو اور کُوٹو اور ہماری جماعت سے علمی بحث نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے علمی ترقی جماعت کی نہیں ہوتی۔پس میں قادیان کے دوستوں کو خصوصیت سے نصیحت کرتا ہوں کہ جمعہ سے سبق حاصل کریں اور تبلیغ کیلئے نکلیں اور ایسے لوگوں کو تبلیغ کریں کہ ان کا اپنا علم بھی بڑھے اور ان کے اندر سے عرفان اور پھر عرفان سے نور پیدا ہو۔ تبلیغ بجائے خود ایک تعلیمی مدرسہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات انسان کو خود توجہ نہیں ہوتی مگر جب کوئی اعتراض کرتا ہے تو پھر اسے توجہ پیدا ہوتی ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں جن کو عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ بلکہ ظاہری شریعت پر عمل کرنے میں وہ بعض کے نزدیک حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے بھی بہت زیادہ متشدد تھے۔ ان سے پہلے بادشاہوں میں سے ایک ولید بن عبدالملک تھا۔ اس کی تعلیم بہت خراب تھی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز اس سے کہا کرتے تھے کہ آپ کچھ صَرف نحو پڑھ لیں کیونکہ آپ کی بات بعض اوقات غلط ہوجاتی ہے مگر وہ پرواہ نہیں کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس کے دربار میں ایک اعرابی آیا اور شکایت کی کہ مجھ پر بہت ظلم ہؤا ہے ۔ میرا ایک داماد میرا حق مارتا ہے میرا انصاف کریں۔ عربی زبان میں لفظ ختن داماد اور خسر اور سالے وغیرہ کیلئے بولا جاتا ہے۔ یعنی وہ رشتے جو بیوی یا لڑکی کی طرف سے ہوں۔ ولید نے اُس سے پوچھا کہ مَنْ خَتَنَکَ؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے نام معلوم نہیں۔ قبیلہ کے کسی آدمی نے ایسا کیا ہے جسے میں جانتا نہیں۔ ولید نے کہا کہ یہ عجیب آدمی ہے۔ کہتا ہے کہ میرا انصاف کریں اور جب میں پوچھتا ہوں کہ تمہارا داماد کون ہے؟ تو کہتا ہے کہ نام معلوم نہیں۔ ولید نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی طرف دیکھا۔ انہوں نے اس اعرابی سے کہا کہ امیرالمؤمنین کہتے ہیں کہ مَنْ خَتَنُکَ؟ تو اُس نے فوراً جواب دیاکہ وہ باہر دروازہ پر کھڑا ہے۔ اِس پر ولید نے کہا کہ یہ کیا بات ہے؟ میں نے بھی اِس سے یہی سوال کیا تھا مگر اِس نے کہا پتہ نہیں اورآپ نے بھی یہی کہا ہے مگر اِس نے کہا وہ باہر کھڑا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ یہ وہی بات ہے جو میں آپ سے روز کہتا ہوں۔ آپ نے کہا تھا مَنْ خَتَنَکَ اور زبر کے ساتھ یہ فعل بن جاتا ہے جس کے معنی یہ ہوجاتے ہیں کہ تمہارا ختنہ کس نے کیا تھا؟ اور اِس کا جواب اِس نے یہ دیا کہ قبیلہ کا کوئی آدمی ہوگا جس نے میرا ختنہ کیا تھا مجھے اُس کا نام معلوم نہیں اور میں نے خَتَنُکَ پیش سے کہا ہے جو اِسم ہے اور اِس کے معنے ہیں کہ تیرا داماد کون ہے؟ تواِس نے صحیح جواب دیا۔ اِسی واقعہ کی وجہ سے ولید کو توجہ ہوگئی اور اُس نے کہا میں جب تک علم نہ سیکھ لوں نماز کیلئے دوسرا امام مقرر کروں گا خود نہیں پڑھائوں گا۔ تو دوسرے کی طرف سے جب اعتراض پیدا ہو تو انسان کو اپنی غلطیوں کی اصلاح کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ حضرت عمر پہلے سے کہتے رہتے تھے مگر توجہ نہ ہوتی تھی۔ جب غیر سے بات ہوئی اوراپنی کمزوری معلوم ہوئی اور شرمندگی اُٹھانی پڑی تو اس کو توجہ ہوئی۔
بیسیوں علوم ایسے ہوتے ہیں جن کا بحث مباحثہ کے بعد پتہ لگتا ہے اِس لئے دوستوں کو چاہئے کہ وہ تبلیغ کیلئے باہر نکلیں تا اِن کا اپنا علم بھی ترقی کرے اور جماعت بھی بڑھے۔ اللہ تعالیٰ ہماری سُستیوں کو دور کرکے ہم میں فرض شناسی کا مادہ پیدا کرے۔‘‘
(الفضل ۱۹؍ فروری ۱۹۳۸ئ)
۱؎ (اٰل عمران: ۱۷۶)
۲؎ انگرکھا: مردوں کے پہننے کا ایک لباس۔ قبا
۳؎ بنی اسرائیل: ۷۳
۴؎ (النسائ: ۱۷۵)
۵؎ ، ۶؎ (البقرۃ: ۱۸۶)

۷
کامیابی اسلامی اصول پر چلنے سے ہی حاصل ہوسکتی ہے
(فرمودہ ۱۸؍ فروری ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’ہر ایک کام کیلئے کوئی طریق مقرر ہوتا ہے جس طریق پر چلنے سے اس میں کامیابی حاصل کی جاتی ہے اور جب تک اس طریق کو استعمال نہ کیا جائے اپنی کامیابی کی امید رکھنا محض جہالت اور بیوقوفی ہوتا ہے کیونکہ جو شخص الٰہی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ اپنے آپ کو مجرم بنالیتا ہے اور مجرم کا یہ امید رکھنا کہ اس کے اس جُرم میںخدائی تائید حاصل ہوگی، نہ صرف کم عقلی اور حماقت کی بات ہے بلکہ گستاخی کی بات بھی ہے۔
دنیا میں جب قوموں کے اخلاق گرجاتے ہیں اور وہ دین اور روحانیت سے بالکل کوری ہوجاتی ہیں تب ان میں ایسے لوگ پیدا ہوجاتے ہیں جو خدا اور اس کی شریعت کو اپنے جرائم کی تائید میں استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔ مثلاً اب مسلمانوں میں ان کی تباہی اور تنزّل کے وقت ایسے لوگ ہیں جو مثلاً چوریوں کیلئے اپنے بزرگوں اور پیروں کے پاس تعویذ لینے جاتے ہیں اور ایسے پیر کہلانے والے موجود ہیں جو نہایت شوق سے چند آنے یا چند روپے لے کر ایسے تعویذ لکھ کر دے دیتے ہیں جن کی غرض یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کی مدد سے چور پکڑا نہ جائے گا اور وہ اپنی چوری کے فعل میں کامیاب ہوجائے گا۔ گویا وہ اللہ تعالیٰ کو نَعَوْذُ بِاﷲ چوروں کا سردار قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے ناجائز تعلقات کیلئے عاملوں اور پِیروں کے پاس تعویذ لینے جاتے ہیں اور ایسے پِیر اور عامل کہلانے والے موجود ہیں جو باوجود اپنی بدعملی کے عامل کہلاتے اور کچھ روپے لے کر ایسے تعویذ لکھ کر دے دیتے ہین جن کے نتیجہ میں کہا جاتا ہے کہ کسی شریف کی بہو بیٹی اس بدمعاش کے قابو میں آجائے گی۔ گویا وہ دلّالی کا ذلیل ترین پیشہ نَعُوْذُبِاﷲ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں۔ یہ قومی تباہی کی ایک علامت ہے۔ لیکن کوئی ترقی یافتہ اور سمجھدار قوم جو ترقی کے راستہ پر قدم مارنے والی ہواِس قسم کی بیوقوفیاں اور حماقتیں نہیں کریگی۔
مسلمانوں کی طرح ہندوئوں میں بھی یہ باتیں پائی جاتی ہیں اورایک قلیل حد تک عیسائیوں میں بھی یہ باتیں پائی جاتی ہیں اور یو ں تو ہر قوم میں ایسے آدمی پائے جاتے ہیں جو دوسری قوموں کے بزرگوں اور عاملوں یعنی بزرگ اور عامل کہلانے والوں کے پاس جاتے اور ان سے ایسے تعویذ اور ایسی تحریریں لکھواتے ہیں جن سے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ناجائز مطالب پورے ہوجائیں گے۔ ان خیالات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ واقعہ میں ایسے تعویذوں میں کوئی اثر ہے بلکہ یہ خیالات اس طریق کی برائی کو اور بھی واضح کردیتے ہیں۔ اگر اس قسم کے جرائم دنیا میں نہ ہوتے تو شاید کسی کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا کہ کیونکر کوئی شخص غلط طریق پر چلتے ہوئے یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں کامیاب ہوجائوں گا۔ مگر ان مثالوں سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعض لوگ غلط طریق پر چلتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ وہ کامیاب ہوجائیں گے بلکہ ان مثالوں سے یہ امر بھی واضح ہوتا ہے کہ بعض لوگ شرمناک جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے یہ امید رکھتے ہیں کہ نَعُوْذُبِاﷲِ خدا ان کی مدد کرے گا اور وہ ڈاکہ یا چوری یا کسی ناجائز تعلق میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن مومن ایسا کبھی خیال نہیں کرسکتا۔ ہمیں قرآن کریم سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر وہ انسان جو اپنے جرائم کی وجہ سے خداتعالیٰ کو ناراض نہیں کردیتا، اللہ تعالیٰ کاپیارا اور اس کی محبت کا نقطہ ہوتا ہے۔ مجرم بے شک اللہ تعالیٰ کو ناراض کردیتا ہے اور الٰہی تائید کو اپنے اوپر نازل ہونے سے ایک حد تک روک بھی دیتا ہے۔ مگر جو مجرم نہیں خواہ وہ سچے دین میں شامل ہو یا نہ ہو، وہ حقیقی مذہب کو ماننے والا ہو یا نہ ہو، محض شرافتِ نفس کی وجہ سے خدائی فضل کو ایک حد تک جذب کررہا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ سچے دین کو ماننے والا اللہ تعالیٰ کی زائد برکات اور اس کے زائد انعام حاصل کرلیتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ وہ شخص جو اخلاص سے اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے مگر سچائی ابھی اس تک نہیں پہنچی یا پہنچ تو گئی ہے مگر ابھی وہ اس کو پورے طور پر سمجھ نہیں سکا، ایسا انسان خداتعالیٰ کے فضلوں سے محروم نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنے رنگ میں خداتعالیٰ سے محبت کررہا ہوتا ہے اور اس سے تعلق جوڑنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے۔ بے شک وہ ان فوائد سے محروم رہ جائے گا جو خدائی قُرب سے ایک انسان کو حاصل ہوسکتے ہیں مگر یہ نہیں ہوگا کہ خداتعالیٰ اس پر اپنا غضب نازل کرے اور اس کی تباہی کے احکام نازل کرے۔
ایسے ہی واقعہ کی مثال میں نے کئی دفعہ سنائی ہے ۔ مثنوی رومی والوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ کسی جنگل میں سے گزررہے تھے کہ انہوں نے دیکھاایک گڈریا بیٹھا ہے اور عالَمِ بے خودی میں اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ اے اللہ! اگر تُو مجھے مل جائے تو میں تیرے پیروں میں سے کانٹے نکالا کروں، تیری گدڑی میں پیوند لگائوں، تیری جُوئیں نکالوں، تجھے مَل مَل کر نہلائوں، تُو تھک کر سوجائے تو میں تیرے پیر دبائوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ باتیں سُنیں تو انہوں نے اپنا عصا اُٹھایا اور اُسے زور سے مار کر کہا بے حیا! تجھے شرم نہیں آتی تو خدا کی ہتک کررہا ہے۔ وہ ڈر کے مارے بھاگا۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو الہام ہؤا کہ اے موسیٰ! تُو نے اپنے اس فعل سے ہمیں تکلیف دی ہے۔ یہ بندہ جو کچھ کہہ رہا تھا یہ کسی بغض اور دشمنی کی وجہ سے تو نہیں کہہ رہا تھا۔ یہ ہمارا ایک نادان بندہ تھا جس تک وہ علم نہیں پہنچا جو تجھ تک پہنچا ہے مگر اس کے دل میں محبت تھی اور وہ اپنے رنگ میں ہم سے اپنی محبت اور عشق کا اظہار کررہا تھا، تمہارا کیا حق تھا کہ تم اسے سرزنش کرتے۔ تمہارا زیادہ سے زیادہ یہ کام تھا کہ تم اسے سمجھاتے مگر مارنا اور غصے ہونا یہ تمہارا کام نہیں تھا۔ اس کہانی میں بھی یہی بات بیان کی گئی ہے کہ وہ شخص جس کے تعلقات خداتعالیٰ سے محبت پر مبنی ہوں، چاہے وہ غلط رنگ میں ہی اس سے محبت کا اظہار کررہا ہو، وہ اس کی ناراضگی کا مورد نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اپنے رنگ میں ایک نیک کام کررہا ہوتا ہے اور اس کی وہی ادا خداتعالیٰ کو پیاری معلوم ہوتی ہے۔ پس ایسا شخص اگر کوئی اور جرائم نہیں کررہا تو یقینا وہ اللہ تعالیٰ کا فضل جذب کرے گا اور آخر ایک دن ہدایت پاجائے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ۱؎کہ وہ لوگ جو ہمیں پانے کی کوشش کرتے ہیں اور جن کی نیت یہ ہوتی ہے کہ ہم تک پہنچ جائیں ہمیںاپنی ذات ہی کی قسم ہے کہ ہم اپنے قُرب کا راستہ ضرور دکھادیتے ہیں۔ یہ کتنی محبت اور شفقت کا کلام ہے اور کتنا یقینی ،قطعی اور حتمی وعدہ ہے۔۔ بندہ کا کام صرف کوشش کرنا ہے۔ ورنہ اپنے طور پر وہ کامل علم اسے کہاں حاصل ہوسکتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ ہمیں پالے۔ اس کا کام یہی ہے کہ کوشش کرے۔ پس جو لوگ کوشش کرتے ہیں وہ اپنی ذمہ داری کو ادا کردیتے ہیں۔ آگے یہ ہمارا کام ہوتا ہے کہ ہم انہیں صحیح علم دیں۔ چنانچہ فرماتا ہے جب بندے نے اپنا کام کرلیا تو کس طرح ممکن ہے کہ ہم جو قادر ہیں جو کامل ہیں اور جو ہر نقص اور عیب سے منزہ ہیں، اپنے فرض کو ادا نہ کریں۔ سو ہم اپنی ذات ہی کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ضرور ہم انہیں ان راستوں سے چلا کر لے آئیں گے جو ہم تک پہنچنے والے ہوں۔ کتنا شاندار وعدہ ہے اور انسانی قلب کی نیکی کا کتنا بڑا اعتراف ہے جو انسان کو پیدا کرنے والے رب نے کیا۔ تو انسان کی طرف سے اگر صحیح جدوجہد ہو تو بھی اگر نیک نیتی سے غلط رنگ میں جدوجہد ہو تو بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرلیتا ہے مگر جب صحیح جدوجہد نہ ہو اور انسان شرارت اور گستاخی کررہا ہو تو وہ کسی صورت میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب نہیں کرسکتا۔ خواہ وہ سچے مذہب میں شامل ہو یا جھوٹے مذہب میں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سچے مذہب میں ہوتے ہوئے ان راستوں کو اختیار نہیں کرتا جو اللہ تعالیٰ کے قُرب تک پہنچانے والے ہوں تو وہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے غضب کو زیادہ بھڑکاتا ہے کیونکہ اس نے علم رکھتے ہوئے نافرمانی کی اور جو غلط راستے پر تھا اس نے بے علمی میں نافرمانی کی اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جو شخص بے علمی میں نافرمانی کرے وہ کم مجرم ہے بہ نسبت اس شخص کے جو علم کے باوجود نا فرمانی کرتا ہے۔
اسی نکتہ کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کو اس موقع پر توجہ دلائی ہے۔ جہاں حج کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہؤا کرو اور جس کام کو کرنا چاہو کرو اس کیلئے وہ طریق استعمال کرو جو خداتعالیٰ نے اس کام کیلئے مقرر کئے ہیں۔۲؎ مثلاً گھر میں داخل ہونے کا سہل اور آسان طریق یہ ہے کہ دیواروں میں جو مَنَافِذْ یعنی دروازے بنائے جاتے ہیں ان کے ذریعہ انسان اندر داخل ہوجائے لیکن اگر کوئی شخص کسی کے گھر دروازہ میں سے داخل ہونے کی بجائے سیندھ لگانا شروع کردے اور کہے کہ میں سیندھ لگا کر اندر داخل ہوں گا تو گھر والے بھی شور مچائیں گے اور ہمسائے بھی شور مچائیں گے اور پولیس اسے گرفتار کرکے لے جائے گی۔ یا فرض کرو وہ اپنے گھر میں ہی دروازہ میں سے اندر داخل ہونے کی بجائے دیوار پھاند کر آجاتا ہے تو گو اس پر چوری کا الزام نہیں لگے گا اور نہ اسے دخلِ بے جا کا کوئی شخص مرتکب قرار دے گا مگر ہر دیکھنے والا اسے احمق اور بیوقوف کہے گا اور اسے عقل سے بالکل کورا قرار دے گا۔ تو جو چیز اپنی ہوتی ہے اور کسی اور کا اس میں دخل نہیں ہوتا اس میں بھی انسان اگر صحیح طریق کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے تو ہر شخص یا تو اسے احمق اور بیوقوف کہے گا یا بھانڈ اورمسخرہ قرار دے گا۔ مثلاً پانی پینے کا طریق یہ ہے کہ گلاس میں پانی بھرا جائے اور منہ لگا کر پی لیا جائے لیکن اگر کوئی شخص اس طرح پینے کی بجائے کُتّے کی طرح پانی کو زبان سے چاٹنے لگ جائے تو ہر شخص اسے ذلیل اور حقیر تصور کرے گا یا گلاس کے اوپر ہونٹ لگانے کی بجائے اگر وہ چاقو سے گلاس میں کسی اور جگہ سوراخ کرلے اور کہے کہ میں اس جگہ سے پانی پیوں گا یا پیندے میں سوراخ کرلے اور کہے کہ میں اوپر کی بجائے نیچے سے پانی پیوں گا تو کوئی اسے عقلمند قرار نہیں دے گا بلکہ ہر شخص اسے احمق اور بیوقوف کہے گا۔ انسان کا پاجامہ اور کُرتہ اس کی اپنی ملکیت ہوتا ہے لیکن اگر وہ پاجامے کو گردن میں ڈال لے اور کُرتے میں ٹانگیں ڈال دے تو کوئی نہیں کہے گا کہ چونکہ یہ اس کا اپنا کُرتہ اور اپنا پاجامہ ہے اس لئے اس کا حق ہے کہ جس طرح جی چاہے استعمال کرے ۔ ہر شخص کہے گا کہ گو کُرتہ اس کا ہے مگر لاتوں کیلئے نہیں اور گو پاجامہ بھی اسی کا ہے مگر گردن میں ڈالنے کیلئے نہیں اور اگر کوئی شخص کُرتہ اور پاجامہ کو اپنی ملکیت کے گھمنڈ میں اُلٹا پہن لے یعنی کُرتے کی جگہ پاجامہ اور پاجامے کی جگہ کُرتہ تو ہر شخص کہے گا کہ یا تو یہ پاگل ہے یا بھانڈ اور مسخرہ ہے کہ یہ صحیح طریقہ جو مقرر ہے وہ اختیار نہیں کرتا۔
تو محض کسی چیز کا مالک ہونا تمہیں اس کے استعمال میں بالکل آزاد نہیں کردیتا۔ تم اپنے گھر میں دروازہ سے داخل ہونے کی بجائے سیندھ لگانے لگ جائو یا دیوار پھاند کر اندر داخل ہوجائو یاتم اپنی روٹی بجائے منہ میں ڈالنے کے ناک میں ڈالنے لگ جائو یا پانی بجائے سیدھی طرح پینے کے اسے کُتّے کی طرح لق لق کرکے چاٹنے لگ جاؤ یا گلاس میں چاقو سے سوراخ کرکے یا اس کے پیندے کو توڑ کر وہاں منہ لگا کر پانی پینے لگ جائو۔ تو کیا تم سمجھتے ہو کہ چونکہ یہ چیزیں تمہاری ہیں اس لئے ان میں کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں۔ بے شک یہ چیزیں تمہاری ہی ہوں گی مگر باوجود اس کے کہ گھر تمہارا ہوگا، روٹی تمہاری ہوگی، پانی تمہارا ہوگا، گلاس تمہارا ہوگا، پھر بھی اگر غلط طریق اختیار کرتے ہو تو ہر شخص کا حق ہے کہ تمہیں پاگل اور بیوقوف سمجھے گا جس طرح اگر تم کسی کو دیکھو کہ وہ ایسا کررہا ہے تو تمہارا بھی حق ہے کہ اسے احمق قرار دو اور نہ صرف تمہارا یہ حق ہے بلکہ تم اس حق کو استعمال بھی کرو گے اور فوراً فیصلہ کردو گے کہ یا تو یہ احمق ہے یا بھانڈ اور شرارتی ہے۔ تو محض کسی چیز کو اپنا قرار دے کر اس کا غلط استعمال درست نہیں ہوتا اور جب چیز بھی اپنی نہ ہو تو اس کا غلط استعمال تو انسان کو اور زیادہ مجرم بنادیتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی کو دیکھے کہ وہ ننگے پائوں پھررہا ہے اور اسے ہمدردی کے طور پر اپنا بُوٹ یا جُوتی دے دے تو اگر وہ شخص بوٹ میں اپنا پیر بھی ڈالے اور ساتھ ہی چند لکڑی کے ٹکڑے اور پتھر کے ٹکڑے بھی ڈال لے تو ہر دیکھنے والا اسے بیوقوف اور احسان فراموش قرار دے گا اور کہے گا یہ کیسی بیہودگی ہے کہ اس نے تو اپنا بوٹ اسے پہننے کیلئے دیا اور اس نے اس میں لکڑی کے ٹکڑے بھی رکھ لئے تاکہ وہ جلدی پھٹے۔ پھر صرف دوسرے کی جوتی کو استعمال کرنے کا سوال نہیں۔ اگر یہ اپنی جُوتی بھی اسی طرح استعمال کرے گا تو بھی ہر دیکھنے والا اس پر ہنسے گا اور اسے احمق اور بیوقوف قرار دے گا۔اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے کرتہ اور پاجامہ کا غلط استعمال کرتا ہے یعنی کُرتے کی جگہ پاجامہ اور پاجامے کی جگہ کُرتہ ڈال لیتا ہے۔ تب بھی لوگ اسے بیوقوف کہیں گے اور اگر کسی دوسرے کے کُرتے اور پاجامے کے ساتھ یہ سلوک کرتا ہے تو لوگ اسے احمق بھی کہیں گے اور ساتھ ہی شرارتی بھی کہیں گے کہ اس نے بجائے دوسرے کا احسان مند ہونے کے اس کا کُرتہ پھاڑا اور اس کے پاجامے کا نقصان کیا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بندوں کو جو چیزیں دی ہیں وہ گو بندوں کی نظر آتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی ہیں۔ یہ آنکھیں جو ہم کو ملی ہیں ، یہ کان جو ہم کو ملے ہیں، یہ ہاتھ جو ہم کو ملے ہیں، یہ پائوں جو ہم کو ملے ہیں۔ اسی طرح وہ روپیہ، وہ علم، وہ فہم، وہ فراست اور وہ ذہن جو ہم کو ملا ہے یہ سب چیزیں خداتعالیٰ کی ہیں اور گو بظاہر یہ ہمارے قبضہ میں ہیں مگر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ چیزیں ہم نے بنائی ہیں۔ ہمارے پیدا ہونے سے لاکھوں سال پہلے یہ تمام چیزیں موجود تھیں جو پہلوں سے ہماری طرف منتقل ہوئیں اور ان کو ان سے پہلوں سے ملیں اور ان کو ان سے بھی پہلوں سے ملیں اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا گیا۔ پس یہ تمام نعمتیں ہماری تمہاری نہیں بلکہ خدا نے ہمیں دی ہیں اور پھر ان نعمتوں کے استعمال کے متعلق اس نے کچھ قوانین مقرر کئے ہیں اور بعض حدبندیاں مقرر کی ہیں کہ اس حد تک ان چیزوں کو اپنی ذات پر استعمال کرسکتے ہیں اور اس حدتک خداتعالیٰ کے دین کی خدمت یا بنی نوع انسان کی بہبودی کیلئے تمہیں استعمال کرنی چاہئیں۔ دنیا میں کئی ایسے لوگ ہیں جو اس ذمہ داری کو قبول کرلیتے ہیں اور کئی ایسے بھی ہیں جو قبول نہیں کرتے۔ جب خداتعالیٰ کی طرف سے دنیا میں کوئی مامور آتا ہے تو جو لوگ اسے نہیں مانتے وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ایک شخص نے کسی دوسرے کے پاس اپنی امانت رکھی مگر جب وہ امانت لینے کیلئے آیا تو اس نے کہہ دیا کہ میںامانت نہیں دیتا جائو اپنے گھر بیٹھو مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خداتعالیٰ کے مامور کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں ۔ وہ اقرار کرتے ہیں کہ انہیں جس قدر چیزیں ملی ہیں یہ ان کی نہیں بلکہ خداتعالیٰ کی ہیں مگر پھر وہ عہد شکنی کرتے ہیں اور دھوکہ بازی سے کام لیتے ہیں۔ ان کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی کے پاس مثلاً ہزار روپے امانت رکھے اور جب وہ روپیہ لینے کیلئے آئے تو یہ بڑے اکرام اور اجلال کے ساتھ پیش آئے، اپنی مسند پر اسے بٹھائے اور کہے آئیے تشریف لائیے۔ میں تو آپ کا ہی شب و روز انتظار کررہا تھا، شکر ہے کہ آپ آگئے اور میں امانت کے فرض سے سبکدوش ہؤا اور یہ کہہ کر وہ اندر جائے اور تھیلی میں بجائے روپیہ کے مٹی کی ٹھیکریاں بھر کر اس کے سامنے رکھ دے اور کہہ دے لیجئے یہ آپ کا ہزار روپیہ ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ اس کے صرف یہ کہہ دینے سے کہ میرے ذمہ آپ کی امانت ہے آئیے آپ اپنی امانت لے لیں، وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجائے گا چاہے تھیلی میں روپیہ کی بجائے ٹھیکریاں ہی بھر کر پیش کردے۔ اور کیا تم خیال کرتے ہو کہ جس نے اس کے پاس امانت رکھی تھی وہ بڑا خوش ہوگا اور کہے گا کہ اس نے روپیہ دینے کا اقرار تو کیا اور کوئی نہ کوئی چیز بھی مجھے دے دی۔ یقینا وہ کبھی خوش نہیں ہوگا بلکہ جب دیکھے گا کہ اس نے روپیہ کی بجائے ٹھیکریاں دی ہیں تو اس کا غصہ بھڑک اٹھے گا اور وہ کہے گا کہ تم نہ صرف خائن ہو بلکہ میری ہتک بھی کرتے ہو۔ اسی طرح وہ انسان جو خداتعالیٰ کے انبیاء کا انکار کرتے ہیں وہ تو ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے کسی کے پاس کوئی امانت رکھے اور وہ بعدمیں کسی دوسرے وقت اپنی امانت لینے جائے تو کہہ دے کہ مَیں نے آپ کا کچھ نہیں دینا۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے خدا کاکچھ نہیں دینا۔ اسی طرح وہ بھی مجرم ہوتے ہیں جو یہ تو مان لیتے ہیں کہ ہم نے خداتعالیٰ کا دینا ہے مگر کہتے ہیں ہمیں اس بات پر اعتبار نہیں کہ تمہیں خداتعالیٰ نے بھیجا ہے۔ جب خداتعالیٰ خود ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے امانت دے دیں گے۔ حالانکہ جب اس نے بندوں کے پاس امانت رکھی تھی اُسی وقت کہہ دیا تھا کہ میں خود یہ امانت لینے نہیں آئوں گا بلکہ میرے رسول آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ایسے لوگ بھی مجرم ہیں اور پھر ایسوں کے پاس اللہ تعالیٰ خود آتا ہے مگر اپنی امانت لینے کیلئے نہیں بلکہ انہیں تباہ کرنے کیلئے۔ چنانچہ فرمایا ۳؎کہ پھر اللہ تعالیٰ ان کے دروازوں پر اپنی امانت مانگنے نہیں آتا بلکہ ان کی بنیادوں اور جڑوں پر اپنے قہر کی بجلی گرانے آتا ہے۔ لیکن ان دو کے علاوہ ایک تیسری جماعت بھی ہوتی ہے جس وقت خداتعالیٰ کا کوئی پیغامبر آتا ہے وہ آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں سُبْحَانَ اللّٰہِ ہم پر امانت کا ایک زبردست بوجھ تھا او رہم تو اس بات کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ کوئی امانت لینے والا آئے تو اسے امانت سپرد کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔ سوخدا کا شکر ہے کہ آپ آگئے۔ یہ اقرار جو وہ کرتے ہیں اسی کا نام بیعت ہوتا ہے۔ چنانچہ بیعت کے یہی معنے ہیں کہ ہم نے تسلیم کرلیا کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ ہمارا نہیں بلکہ آپ کا ہے۔ جس طرح کسی کے نام پٹہ لکھ دیا جاتا ہے یا بعض لوگ کسی اور کو اپنا ایجنٹ بنادیتے ہیں اسی طرح بیعت ایک پٹہ اور ایک اقرار ہوتا ہے اس امر کا کہ ہماری ہر چیز کا مالک خدا ہے اور تم اس کے نمائندہ اور ایجنٹ ہو اور تم اس بات کا حق رکھتے ہو کہ جس وقت چاہو اپنی چیز کا ہم سے مطالبہ کرلو مگر جب انہی لوگوں سے امانت مانگی جاتی ہے تو وہ بجائے روپیہ اور قیمتی جواہر پیش کرنے کے ٹھیکریاں اور کوڑیاں اور اسی طرح کی اور ذلیل اور گندی چیزیں اسے چھپا کر دینا چاہتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ ہم لوگوں کے سامنے سُرخرو بھی ہوجائیں کہ ہم نے امانت ادا کردی اور چیز بھی ہمارے پاس رہے۔ مگر کون کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے امانت ادا کی، کون کہہ سکتا ہے کہ خدا ان کے اس فعل پر خوش ہوگا۔ یقینا خدا ان پر ناراض ہوگا بلکہ دوسروں سے زیادہ ناراض ہوگا اور کہے گا کہ تم سے جب میں نے امانت مانگی تو تم نے عملاً فریب کاری سے کام لیتے ہوئے چاہا کہ مجھے دھوکا دو۔ پس تم نے نہ صرف خیانت کی بلکہ ہمارے نمائندہ کی ہتک بھی کی ہے۔ تو یہ طریق کامیابی کا نہیں۔ یہ مکان میںاس کے دروازہ سے داخل ہونے کا طریق نہیں بلکہ سیندھ لگا کر اندر داخل ہونے کا طریق ہے۔ یہ ایسا ہی طریق ہے کہ جیسے کوئی کہے میں اندھیری رات میں ہزار مصیبتوں کے بعد بڑی محبت اور پیار سے فلاں کے مکان کے پاس آیا تھا اور چاہا تھا کہ سیندھ لگا کر اندر داخل ہوجائوں مگر اس نے چور چور کہہ کر مجھے پکڑوادیا۔ بھلا دنیا میں اس سے زیادہ اَور کیا اندھیر ہوگا کہ میں اتنی محبت سے آیا اور اس نے مجھے پولیس کے سپرد کردیا۔ ہر شخص اسے کہے گا کہ تُو دھوکا اور فریب سے کام لے رہا تھا اگرملنے کیلئے آیا تھا تو چاہئے تھا کہ دروازہ سے داخل ہوتا مگر جب تو دروازہ سے داخل نہیں ہؤا بلکہ تُونے سیندھ لگانی شروع کردی تو اس کا صاف یہ مطلب تھا کہ تو چاہتا تھا کہ اندھیری رات میں جو مال ملے اسے ہتھیالے۔ تو ایسا انسان مجرم ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غضب کو اپنے اوپر بھڑکاتا ہے جو صحیح طریق اختیار نہیںکرتا۔
اب میں اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت کے دوست غور کریں کہ ان میںسے ہر شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یا اگر اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھنے کا موقع نہیں ملا تو اس نے آپ کے خلفاء کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس امر کا اقرار کیا ہے کہ جو کچھ میرا ہے وہ میرا نہیں بلکہ خدا کا ہے۔ میں اس کی ملکیت کو تسلیم کرتا اور اس کے ایجنٹ اور مختار کے ہاتھ پر اقرار کرتا ہوں کہ اس کے دین کی خدمت کے لئے جس قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہوگی ان تمام قربانیوں میں حصہ لوں گا، اس کے تمام احکام کو قبول کروں گا، اسلام کے احیاء کیلئے ہمیشہ کوشاں رہوں گا اور اپنی اور اپنے رشتہ داروں کی تمام زندگی اسلام کی ترقی کیلئے لگادوںگا۔ اب آپ لوگ غور کریں کہ کیا واقعہ میں ہم میں سے ہر شخص اس امانت کو ادا کررہا ہے؟
ہم جب یہ کہتے ہیںکہ ہم احمدی ہیں تو ہماری مثال اُس امین کی سی ہوتی ہے جو کہتا ہے ہاں جی امانت میرے پاس ہے۔ آپ بخوشی لے لیں۔ مگر کیا کسی کا صرف منہ سے یہ الفاظ کہہ دینا اسے اپنے فرض سے سبکدوش کرسکتا ہے؟ جبکہ حقیقت یہ ہو کہ اس سے جب امانت طلب کی جائے تو وہ بجائے روپیہ دینے کے ٹھیکریاں اور ایسی ہی اور ردّی چیزیں جنہیںغلاظت لگی ہوئی ہو، پیش کرنے لگ جائے اور جبکہ واقعہ یہ ہو کہ بسا اوقات جس چیز کا نام وہ ایمان رکھتا ہے وہ منافقت ہوتی ہے، جس چیز کا نام وہ قربانی رکھتا ہے وہ ریاء ہوتی ہے اور جس چیز کا نام وہ حزم اور احتیاط رکھتا ہے وہ سُستی اور غفلت ہوتی ہے اور وہ ان ٹھیکریوں کو پیش کرکے چاہتا ہے کہ میری تعریف ہو۔ میرے متعلق یہ کہا جائے کہ یہ سلسلہ کا بڑا دیانتدار اور امین کارکن ہے اور اپنے فرائض کو خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کرنے والا سپاہی ہے حالانکہ ان باتوں سے کام نہیںچلتا۔ جب ایک معمولی عقل و فہم کا مالک انسان بھی ایسی باتوں سے دھوکا نہیںکھاسکتا تو خدائے عالم الْغیب ان باتوں سے کب دھوکا کھاسکتا ہے اور پھر انبیاء کی جماعتوں کا تو ایک مقررہ طریق ہوتا ہے۔ اس طریق سے اگر وہ بال بھر بھی اِدھر اُدھر ہوں تو کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ اور میں نے نہ ایک دفعہ بلکہ بارہا بتایا ہے کہ جب تک ہماری جماعت ان طریقوں پر نہیں چلے گی سلسلہ کی خدمت کبھی بھی وہ صحیح معنوں میں نہیں کرسکتی۔
ابھی تک ہمارا بہت سا نظام موجودہ زمانہ کے مغربی اثر سے متأثر اور اسی کے تابع ہے اور ہمارے زیادہ تر کام مغربی امور کی نقل ہیں۔ اسلامی اصول ابھی تک ہم اپنے نظام میں بھی جاری نہیں کرسکے۔ مثلاً تحریک جدید ہے۔ اس کے شروع ہی میں مَیں نے کہا تھا کہ اس میں ملازمتوں پر بنیاد نہیں رکھی جائے گی۔ چنانچہ اس اصل پر یہ کام ایک حد تک چلایا جارہا ہے اور اب تحریک جدید کے دوسرے دَور میں ان شرائط کو اور بھی مستحکم کردیا گیا ہے۔ مگر تحریک جدید سلسلہ کے شعبہ جات میں سے ایک بہت چھوٹا سا شعبہ ہے ۔ اس میں بے شک اور رنگ میں کام شروع ہے مگر سلسلہ کے باقی تمام کام ویسے ہی چل رہے ہیں جیسے یورپ میں انجمنیں چلا کرتی ہیں۔ تنخواہ دار ملازموں کا ایک لمباسلسلہ ہے۔ ان کے باقاعدہ گریڈ ہیں اور ان کو ہر سال ترقیاں ملتی ہیں حالانکہ انبیاء کی جماعتوں میں کوئی ایک مثال بھی اس قسم کی انجمنوں کی نہیں ملتی جن میں تنخواہ دار ملازم ہوں، ان کے باقاعدہ گریڈ ہوں اور ان میں تنخواہوں اور گریڈوں پر آپس میں بحثیں ہوتی ہوں۔ اگر ایک مثال بھی کسی زمانہ میں اس قسم کی مل سکے تو بے شک ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ طریق منہاجِ نبوت پر ہے لیکن اگر ایک مثال بھی ایسی نظر نہ آتی ہو تو سمجھنا پڑے گا کہ یہ ایک عارضی سہولت ہے جو کارکنوں کو دی گئی ۔ جیسے پچھلے سے پچھلے خطبہ جمعہ میں مَیں نے بیان کیا تھا کہ کچھ عارضی سہولتیں ہوتی ہیں جنہیں قانون نہیں کہا جاتا۔ وہ درمیانی زمانہ میں لوگوں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے دی جاتی ہیں اور انہیں مناسب وقت آنے پر دور بھی کیا جاسکتا ہے تاکہ اصل قانون جاری ہو۔
پس صدر انجمن احمدیہ کے تمام کاموں کا ڈھانچہ لوگوں کی عادات اور ان کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا اور ایک عارضی سہولت کے لئے اسے اختیار کیا گیا تھا ورنہ وہ منہاج نبوت پر مبنی نہیں۔ منہاج نبوت والا طریق وہی ہے جن میں تنخواہوں اور گریڈوں کا کوئی سوال نہ ہو بلکہ لوگوں سے قربانی کا مطالبہ ضرورت کے مطابق ہو اور ان کا گزارہ قربانیوں کے نتائج پر مبنی ہو۔ جیسے حضرت خالدؓ بن ولید حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی کمانڈر رہے، حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں بھی کمانڈر رہے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی کمانڈر رہے۔ مگراپنے کاموں کے لحاظ سے انہیں ترقیات نہیں ملتی تھیں بلکہ ان کاموں کے نتیجہ میں جو ترقیات ہوتی تھیں ان پر ان کی ترقی منحصر تھی یعنی اگر کسی جنگ میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بہت سامالِ غنیمت میسر آگیا تو وہ سب میںتقسیم ہوگیا اور ہر ایک کو کافی مال مل گیا اور اگر کسی جنگ میں کچھ حاصل نہیں ہؤا تو جیب خالی رہے اور کسی کو بھی کچھ نہ ملا بلکہ انہیں جنگ میںشامل ہونے کے اخراجات بھی گھر سے مہیا کرنے پڑے۔
بعض لوگ نادانی سے خیال کرتے ہیں کہ نبیو ں کی جماعتوں کو بیتُ المال سے کچھ نہیں ملتا۔ اگر انہیں کچھ نہیں ملے گا تو وہ کھائیں گے کہاں سے۔ حقیقت یہ ہے کہ نبیوں کی جماعتوں کو مال ملنا تاریخ سے ثابت ہے مگر اس طرح نہیں کہ ایک معیّن رقم ان کیلئے مقرر ہو بلکہ وہ جنگوں میں شامل ہوتے اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ انہیں حکومت کی طرف سے ایک پیسہ بھی نہ ملتا مثلاً وہ لڑائی کیلئے گئے تھے مگر جاتے ہی صلح ہوگئی اور اس طرح نہ صرف انہیں کوئی مال نہ ملا بلکہ آنے جانے کا خرچ اور جنگ کیلئے سامان مہیا کرنے کے اخراجات بھی خود برداشت کرنے پڑے اوربجائے حکومت سے کوئی امداد ملنے کے انہیں اپنے پاس سے روپیہ خرچ کرنا پڑا۔ اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کے مثلاً ہزار دو ہزار روپے خرچ ہوتے اور انہیں لاکھوں روپیہ مل جاتا۔ گویا اُجرت اور کام کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی تھی۔ کبھی وہ کام کرتے اور اس کام کا معاوضہ انہیں کچھ بھی نہ ملتا اور کبھی اتنا مل جاتا کہ وہ اسے دیکھ کر حیران ہوجاتے اور سوچتے کہ اب اسے رکھیںکہاں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں ہی بعض دفعہ اتنے اموال آئے ہیں کہ صحابہ کہتے ہیں ہمیں وہ اموال رکھنے کیلئے جگہ نہیں ملتی تھی اور بعض دفعہ بجائے کچھ ملنے کے انہیں اپنے گھر سے تمام خرچ پورا کرنا پڑتا۔ یہی منہاجِ نبوت ہے اور اسی طریق کو ہمیں اپنے صدر انجمن کے کارکنوں میں جلد یا بدیر جاری کرنا پڑے گا۔
میں نے یہ کبھی نہیں کہا اور نہ میں اس کا قائل ہوں جو بعض احمق لوگ کہا کرتے ہیں کہ نبیوں کی جماعتوں کوکچھ دیا جانا ثابت نہیں۔ اگر انہیں کچھ دیا جانا ثابت نہیں تو وہ کھاتے کہاں سے تھے۔ پس ملنے کا طریق تو تھا اور خود رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی جاری تھا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہی حکم ہے کہ جب غنیمتوںکے اموال آئیں تو انہیں تقسیم کردو۔۴؎ اور مختلف قسم کی تقسیمیں ہیں جو شریعت نے تجویز کی ہیں مگر وہ کام کے لحاظ سے نہیں ملتا تھا بلکہ یا تو اس میں گزارے کو مدنظر رکھا جاتا تھا یا نتائج کو مدنظر رکھا جاتا تھا یعنی اگر روپیہ میسر آگیا تو دے دیا اور اگر نہ آیا تو کچھ بھی نہ دیا۔ یہاں تک کہ تاریخوں میں آتا ہے کہ بعض دفعہ سونے کی تقسیم ترازوئوں سے ہوتی تھی۔ یعنی اتنی کثرت سے سونا اور دیگر اموال آگئے کہ انہیں گِن گِن کر دینے کی کوئی صورت ہی نہ رہی۔ پس اُس وقت تکڑ پر اشرفیاں تول تول کر سب میں برابر تقسیم کردی گئیں۔ مگر اس کے مقابلہ میں یہ بھی نظر آتا ہے کہ بعض دفعہ صحابہ کو اپنی سواریوں کا آپ انتظام کرنا پڑا، تلواریں اور نیزے خود خریدنے پڑے، آنے اور جانے کے اخراجات خود برداشت کرنے پڑے مگر جب جنگ سے واپس آئے تو انہیں ایک پیسہ کی امداد بھی نہیں دی گئی اور ان کا جو اندوختہ تھا وہ سب جنگ کے اخراجات میں صَرف ہوگیا۔ پھر نہ صرف یہ نظر آتا ہے کہ صحابہ نے بعض دفعہ اپنے گھر کا مال و اسباب بیچ کر جنگ کے اخراجات پورے کئے۔ بلکہ یہ بھی نظر آتا ہے کہ بعض دفعہ انہوں نے اپنی جائیدادیں بیچ کر دوسروں پر خرچ کردیں اور ان کیلئے تمام ضروریات مہیا کیں۔ چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ نے فرمایا کہ فلاں سفر پر ہماری فوج جانے والی ہے مگر مومنوں کے پاس کوئی چیز نہیں۔ کیا کوئی تم میں سے ہے جو ثواب حاصل کرے؟ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ یہ سنتے ہی اُٹھے اورآپ نے اپنا اندوختہ نکال کر وہ رقم مسلمانوں کے اخراجات کیلئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردی۔ رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے جب یہ دیکھا تو فرمایا عثمانؓ نے جنت خرید لی۔۵؎
اسی طرح ایک دفعہ ایک کنواں بِک رہا تھا۔ مسلمانوں کو چونکہ اُن دنوں پانی کی بہت تکلیف تھی اس لئے آپ نے اس موقع پر پھر فرمایا کوئی ہے جو ثواب حاصل کرے۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اﷲ! میں حاضر ہوں۔ چنانچہ آپ نے وہ کنواں خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کردیا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ عثمان نے جنت خرید لی۔۶؎ اسی طرح ایک اور موقع پر بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے متعلق یہی الفاظ کہے۔ غرض تین موقعے ایسے آئے ہیں جہاں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے متعلق فرمایا کہ انہوں نے جنت خرید لی ہے۔ گو مسلمانوں کی بدقسمتی یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جب وہ کسی شخص سے مخالفت کرتے ہیں تو اس کی مخالفت میں دوسرے بزرگوں پر بھی حملہ کردیتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص مجھ پر حملہ کرے گا اس کے حملہ کی زد تمام انبیاء پر پڑے گی۔ اسی طرح جو شخص ایک خلیفہ پر حملہ کرتا ہے وہ دراصل سارے خلفاء پر حملہ کرتا ہے۔ چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ قریب کے عرصہ میں مصری صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے جب فلاں فلاں غلطیاں کیں اور مسلمانوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ آپ خلافت سے دست بردار ہوجائیں تو گو انہوں نے الگ ہونے سے انکار کردیا مگر مسلمانوں نے تو بہرحال ایک رنگ میں انہیں معزول کر ہی دیا۔ گویا حضرت عثمانؓ اِسی بات کے مستحق تھے کہ خلافت سے معزول کئے جاتے حالانکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے متعلق بارہا یہ فرمایا ہے کہ انہوں نے جنت خرید لی اور وہ جنتی ہیں اور ایک دفعہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے دوبارہ بیعت لی اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ اُس وقت موجود نہ تھے تو آپ نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے میں اس کی طرف سے اپنے ہاتھ پر رکھتا ہوں۔ اس طرح آپ نے اپنے ہاتھ کو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ قرار دیا ۷؎ اور پھر ایک دفعہ آپ سے فرمایا اے عثمان! خداتعالیٰ تجھے ایک قمیص پہنائے گا۔ منافق چاہیں گے کہ وہ تیری اس قمیص کو اُتاردیں مگر تُو اُس قمیص کو اُتاریو نہیں۔۸؎ اب محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے یہ فرماتے ہیں کہ اُس قمیص کو نہ اُتارنا اور جو تم سے اس قمیص کے اُتارنے کا مطالبہ کریں گے وہ منافق ہوں گے۔ مگر مصری صاحب محض میری مخالفت میں آج یہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ سے عزل کا مطالبہ کرنے والے حق پر تھے اور غلطی پر حضرت عثمانؓ ہی تھے۔ یہ ویسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی پٹھان کنز پڑھ رہا تھا۔ اس میں اس نے یہ لکھا دیکھاکہ حرکت سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اس کے بعد ایک دن جب وہ حدیث کا سبق لے رہا تھا تو اتفاقاً یہ حدیث آگئی کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نما زپڑھ رہے تھے کہ آپ نے اپنے ایک نواسہ کو اُٹھالیا ۹؎ تو وہ یہ حدیث پڑھتے ہی کہنے لگا کہ خوہ محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا۔ اسی طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تو یہ فرماتے ہیں کہ خدا تجھے خلافت کی قمیص پہنائے گا اور تُو اس کا قائم کردہ خلیفہ ہوگا اور جو لوگ تجھ سے عزل کا مطالبہ کریں گے وہ منافق ہوں گے مگر مصری صاحب کہتے ہیں کہ نہیں وہ خدا کے قائم کردہ خلیفہ نہیں تھے اور جنہوں نے آپ سے عزل کا مطالبہ کیا وہی حق پر تھے۔ گویا محمد صلی اﷲعلیہ وسلم اور خداتعالیٰ کی بتائی ہوئی بات تو نَعَوْذُ بِاﷲجھوٹ ہوئی لیکن منافق جو کچھ کہہ رہے تھے وہ سچ تھا اور اصل مومن وہی تھے کیونکہ ان کے نزدیک خدا اور رسول کا کیا ہے وہ تو دو ہوئے اور منافق بہت سے تھے اور دو کی رائے اکثریت کے مقابلہ میں کمیٹیوں میں کہاں مانی جاتی ہے۔
تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قربانیاں آتی ہیں اور ان قربانیوں کے نتیجے کبھی مل جاتے ہیں اور کبھی نہیں ملتے۔ یہی صحابہ میں نظر آتا ہے اور یہی طریقِ عمل ہمیںاختیار کرنا پڑے گا۔ یہ طریق بالکل غلط ہے کہ نتیجہ خواہ نکلے یا نہ نکلے لوگوں کا جو حق مقرر ہے وہ انہیں دے دیا جائے۔ صدرانجمن احمدیہ کی بنیاد اب تک اس امر پر ہے کہ ہر شخص کا ایک حق مقرر ہے۔ خواہ چندہ جمع ہو یا نہ ہو، خواہ تھوڑا آئے یا بہت آئے۔ انہیں اپنا حق ضرور ملنا چاہئے۔ مگر یہ منہاجِ نبوت نہیں بلکہ منہاجِ مغرب ہے۔ مغرب کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب کسی نے اپنا کام کردیا تو اس کا اب یہ حق ہوگیا کہ وہ ہم سے اُجرت کا مطالبہ کرے حالانکہ یہ اصل بندوں کے لحاظ سے تو درست تسلیم کیا جاتا ہے مگر خداتعالیٰ کے لحاظ سے درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے کہ خدا ہر نیک کام کی جزا دینے والا ہے اور اگر کسی کو اس جہان میں بدلہ نہ ملے تو اگلے جہان میں مل کر رہے گا لیکن جو شخص اس بات کو مانتا ہے وہ گویا اس امر کا اقرار کرتا ہے کہ میرا معاملہ بندوں سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اگر بندوں کی طرف سے مجھے کچھ بھی نہ ملا تب بھی خدا میرے اجر کو ضائع نہیں کرے گا اور وہ اگلے جہان میں اپنی نعمتوں سے مجھے مالامال کردے گا۔ پس اس کیلئے کسی معیّن اُجرت کا ہونا بالکل بے معنی بات ہے۔ اگر ایک بادشاہ کا کوئی شخص ایک مہینہ تک کام کرے اور وہ دنیا میں اسے کام کی اُجرت نہ دے تو کیا وہ بادشاہ اس امر کی طاقت رکھتا ہے کہ اگلے جہان میں اسے اس کے کام کی جزاء دے۔ اگلے جہاں میں تو وہ خود مدد کیلئے دوڑتا پھرے گا، اسے کہاں دے گا۔پس اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ملازم کو اسی جہان میں اس کی مزدوری دے۔ لیکن جو لوگ ایک نبی کی جماعت میں داخل ہوں اور منہاجِ نبوت پر کام کررہے ہوں وہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر اس جہان میںانہیںکام کا معاوضہ نہ دیا گیا تو اگلے جہاں میں انہیں نہیں مل سکے گا۔ کیونکہ ان کا مالک خدا ہے اوراگر اس جہان میں انہیںاپنے کاموں کا بدلہ نہ ملا تو اگلے جہان میں بہتر سے بہتر بدلہ مل کر رہے گا پس مقررہ بدلہ ان لوگوں کے ذمہ ہوتا ہے جو دوسرے وقت میں بدلہ نہیں دے سکتے لیکن جو دوسرے وقت میں بھی بدلہ دے سکتا ہو بلکہ اگر اس جہان میں بدلہ نہ ملے تو اگلے جہان میں بھی دے سکتا ہو۔ اس کے مقابلہ میں کسی قسم کی شرط جائز نہیں ہوسکتی۔
پس ابھی ہمارے بہت سے کام منہاجِ مغرب پر ہیں منہاجِ نبوت پر نہیںہیں اور جب تک ہم اپنے ان کاموں کو منہاجِ نبوت پرنہیں لائیں گے، کامیابی کا منہ ہرگز نہیں دیکھ سکتے۔ اسی طرح یہ شرط کہ آنہ فی روپیہ چندہ مقرر ہے یا پانچ پیسے فی روپیہ، بالکل غلط ہے۔ مقرر تو ایک پیسہ بھی نہیں خواہ اس فقرہ سے فائدہ اُٹھا کر بعض لوگ کہہ دیں گے کہ دیکھو جب اب انہوں نے اقرار کرلیا ہے کہ مقرر ایک پیسہ بھی نہیں تو ہم زیادہ چندہ کیوں دیں، مگر حقیقت یہی ہے کہ خواہ ہم آنہ فی روپیہ چندہ کہیں یا پانچ پیسہ فی روپیہ مقرر کچھ بھی نہیں۔ مقرر سلسلہ کی ضروریات کے لحاظ سے ہے۔ اگر سلسلہ کی ضروریات یہ تقاضا کرتی ہوں کہ ہم آنہ یا پانچ پیسہ کی بجائے پورا روپیہ ہی سلسلہ کے حوالے کریں تو اُس وقت ہمارا یہی فرض ہے کہ ہم روپیہ دیں اور اگر پیسہ کی ضرورت ہو تو اس وقت پیسہ دینا پڑے گا۔ کوئی کہے کہ اس طرح روپیہ جمع کس طرح ہوسکتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دُنیوی گورنمنٹیں بے شک روپیہ جمع کرتی ہیں لیکن اسلامی گورنمنٹیں روپیہ جمع نہیں کیا کرتیں اور نہ ہمارا حق ہے کہ روپیہ جمع کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی زمانہ میں نقد روپیہ جمع کی صورت میں بہت کم نظر آتا تھا۔ گو کچھ جائیدادیں ضرور محفوظ کی گئی تھیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تو روپیہ رکھتے ہی نہیں تھے بلکہ جو کچھ آتا اسے تقسیم کردیتے تھے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم گھر میں روپیہ اس لئے جمع نہیں رکھتے تھے کہ آپ پر الزام نہ آئے مگر یہ غلط خیال ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے طریقِ عمل سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نہ صرف اپنے گھر میں روپیہ جمع نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ نے کوئی خزانہ بھی نہ بنایا ہؤا تھا۔ جس قدر روپیہ آتا وہ آپ تقسیم فرمادیتے اور سمجھتے تھے کہ جب اور ضرورت ہوگی تو اللہ تعالیٰ اور بھیج دے گا۔ یہ آپ کے توکّل کا اعلیٰ مقام تھا۔ ہر شخص یہ طریق اختیار نہیں کرسکتا مگر بہرحال منہاجِ نبوت یہی ہے کہ روپیہ جمع نہ ہو بلکہ خرچ ہوتا رہے۔
ایک دفعہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نماز پڑھا کر لوگوں کے کندھوں سے پھاندتے ہوئے جلدی جلدی گھر تشریف لے گئے ۔ صحابہ کچھ حیران سے ہوئے کہ اتنی جلدی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم گھر میں کیوں تشریف لے گئے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ پھر کسی کام کیلئے واپس آئے تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کچھ مال بھیجا تھا جو میں نے تقسیم کردیا۔ صرف دو دینار باقی تھے۔ میں نماز پڑھا کر جلدی جلدی گھر گیا اور مجھے خیال آیا کہ وہ اب تک کیوں پڑے ہیں چنانچہ میں اب انہیں تقسیم کرکے آیا ہوں۔۱۰؎ پس یہی نہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم گھر میں روپیہ جمع نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہؤا تھا کہ میں خزانہ سرکاری میں بھی روپیہ جمع نہیں کیا کروں گا۔ چنانچہ جس قدر روپیہ آتا آپ اُسی وقت تقسیم کردیتے۔ البتہ بعض اوقات کچھ رکھ بھی لیتے مگر بِالعموم آپ کا طریق یہی تھا کہ اپنے پاس کچھ نہ رکھتے۔ ہاں اگر کوئی عارضی ضرورت سامنے ہوتی تو کچھ رکھ لیتے مگر وہ بھی زیادہ عرصہ کیلئے نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں بھی یہی طریق جاری رہا۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں البتہ کچھ جمع کیا جاتا رہا مگر وہ بھی زیادہ تر اِس لئے کہ بعض بدّو اور دوسرے غرباء آجاتے تھے اور ان کیلئے آٹے، دانے، گھی، شہد اور نقدی وغیرہ کی ضرورت ہوتی تھی۔ پس کسی حد تک حضرت عمر رضی اﷲ عنہ یہ چیزیں جمع رکھتے تھے۔ وگرنہ عام طور پر جو مال آتا اسے آپ بھی تقسیم ہی کردیا کرتے تھے۔
غرض خلفاء کے زمانہ میں روپیہ جمع کرنے کا رواج ہمیں کہیں نظر نہیں آتا سوائے اس کے کہ بعض زمینیں جو فتوحات میں حاصل ہوئیں آئندہ ضرورتوں کیلئے محفوظ رکھ لی جاتی تھیں۔ اور نہ معیّن معاوضے لوگوں کوملا کرتے تھے۔ اگر حکومت کے پاس روپیہ زیادہ آجاتا تو لوگوں کو زیادہ دے دیا جاتا اور اگر تھوڑا آتا تو تھوڑا دے دیا جاتا۔ یہ طریق تھا جس پر اُس زمانہ میں کام ہوتا تھا اور یہی منہاجِ نبوت ہے۔ مگر یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کام کرنے والے کہیں کہ ہم معیّن معاوضے نہیں لیں گے بلکہ سلسلہ کو جس قدر آمد ہوگی اُس نسبت سے ہمیں جو کچھ دیا جائے گا اسے ہم بخوشی قبول کریںگے۔
غرض ہمارے بہت سے کاموں میںابھی تبدیلی کی ضرورت ہے اور وہ منہاجِ نبوت پر نہیں بلکہ منہاجِ مغرب پر قائم ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان حالات کو بدل دیں۔ اگر کوئی کہے جب یہ معاملہ اس قدر ضروری ہے تو اِس وقت تک چُپ کیوں رہے ہو یا کیوں ابھی تبدیلی نہیں کردیتے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس وجہ سے میرے بڑے خاموش رہے اسی وجہ سے میںبھی خاموش ہوں اور اصل بات یہ ہے کہ اسلام نے کاموں میں تبدیلی آہستہ آہستہ پسند کی ہے، فوری طور پر تبدیلی پسند نہیں کی لیکن بہرحال یہ کام خواہ آج ہو یا آج سے چند سال بعد ، ہوکر رہے گا اور ہمیں اپنے تمام کاموں کو اسلامی بنیاد پر لانا پڑے گا اور بڑوں اور چھوٹوں کے معاوضوں کے اس طریق کو مٹانا پڑے گا جو اِس وقت جاری ہے اور وہی راہِ عمل اختیار کرنا پڑے گا جو خالص اسلامی ہے اور جس کا اصول یہ ہے کہ خزانہ میں جس نسبت سے روپیہ آئے اُسی نسبت سے کام کرنے والوں میں تقسیم ہوتا رہے، خواہ انہیں تھوڑا ملے یا بہت۔ بالکل ممکن ہے ہم اپنے نظام کے بعض حصوں میں اس طریق کوجاری نہ کرسکیں۔ مثلاً مدرسہ ہے وہاں حکومت کی بعض پابندیوں کی وجہ سے اس امر کا امکان ہے کہ ہم یہ طریق اختیار نہ کرسکیں مگر جہاں اور جس حد تک سرکاری قانون ہمارے راستہ میں حائل نہیں ہوگا وہاں ہم اس بات پر مجبور ہوں گے کہ ایسے ہی لوگوں سے کام لیں جو اسلامی طریق پر چلنے کیلئے تیار ہوں اور اگر کوئی اس بات کیلئے تیار نہ ہؤا تو اسے کہہ دیا جائے گاکہ تم اپنے گزارہ کاکوئی اور انتظام کرلو۔
میں نے یہ جماعت کو اس لئے بتایا ہے تا جماعت کے دوست اس امر پر غور کریں اور کارکن بھی سوچیں کیونکہ جلد یا بدیر ہمیں یہ طریق اختیار کرنا پڑیگا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق عطا فرمائی تو میںاپنا پورا زور اس بات کیلئے لگائوں گا کہ ہمارا تمام نظام منہاجِ نبوت پر آجائے اور مغرب کے اصول کو جلد یا بدیر ہم بالکل ترک کردیں کیونکہ ہم کو اگر کامیابی ہوگی تو انہی اصول پر چل کر جو اسلام نے مقرر کئے ہیں نہ ان اصول پر چل کر جو مغرب نے تجویز کئے ہیں ۔ اور اگر ہم اپنے نظام اور اصول میں مغرب کے ہی شاگرد رہے اور عقیدہ میں ہم نے مغرب پر فتح حاصل کرلی تو ہم نے مغرب کو شکست بھی دی تو کیا شکست دی۔ حالانکہ ہماری جس قدر دشمنی ہے وہ مغربیت سے ہے نہ کہ مغرب کے آدمیوں سے۔ اور اگر مغربیت ہمارے اندر خود آگئی تو مغرب کو ہم نے کیا زک پہنچائی۔ آخر مغرب کے آدمی تو ہمارے دشمن نہیں وہ توہمارے بھائی ہیں۔ اگر آج مغرب کے لوگ مسلمان ہوجائیں توہم انہیں اپنے سر آنکھوں پر بٹھائیں۔ لیکن اگر ہم آدمیوں سے نفرت کرتے ہیں اور ان کے افعال سے محبت کرتے ہیں۔ مغربیت کو تو خود اختیار کرتے ہیں مگر مغرب کے باشندوں سے دور بھاگتے ہیں تو ہم نہ صرف مغربیت کا جبہ خود پہن لیتے ہیں بلکہ اسلام کی تعلیم کے خلاف بھی چلتے ہیں۔ کیونکہ اسلام آدمیوں سے عداوت جائز قرار نہیں دیتا بلکہ بُرے افعال سے عداوت پسند کرتا ہے۔ جب افغانستان میں ہمارے چند آدمی مارے گئے اور ہم نے حکومت کے اس فعل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو ہم نے اُسی وقت اس امر کی تصریح کردی تھی کہ ہماری امیر اور اس کے آدمیوں سے کوئی دشمنی نہیں ہمیں تو اس غلط عقیدہ سے دشمنی ہے جس کے مطابق انہوں نے ہمارے آدمیوں کو شہید کیا اور جسے اسلام کی تعلیم کے خلاف انہوں نے اختیار کررکھا ہے اور اگر کوئی سچے دل سے توبہ کرلے تو چاہے وہ کتنا بڑا دشمن ہو ہم اسے اپنا بھائی سمجھیں گے۔ آخر جو احمدی بنتے ہیں یہ کہاں سے آتے ہیں؟ یہ انہی لوگوں میں سے آتے ہیں جو احمدیت کے شدید مخالف ہوتے ہیں بلکہ ایسے ایسے شدید دشمن ہدایت پر آجاتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔
میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے ایک دفعہ بتایا کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں ایک دن احمدیہ چوک میں تیس چالیس آدمی باہر بورڈنگ کی طرف آرہے تھے اور پانچ سات آدمی لنگرخانہ کی طرف سے۔ جب وہ ایک دوسرے کے بالکل قریب پہنچے تو ٹھٹھک کر کھڑے ہوگئے اور حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ پھر معاً وہ آگے بڑھے اور ایک دوسرے سے گلے مل کر چیخیںمار کر رونے لگے۔ فرماتے تھے میں نے ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تو وہ جو زیادہ تعداد والے تھے انہوں نے بتایا کہ یہ پانچ سات آدمی ہمارے گائوں میں سب سے پہلے احمدی ہوئے جس پر ہم نے انہیں بڑی بڑی تکلیفیں پہنچائیں، یہاں تک کہ انہیں اپنے گائوں سے نکال دیا۔ پھر ہمیں کچھ معلوم نہیں ہؤا کہ یہ کہاں چلے گئے۔ ایک لمبے عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت دی اور ہم بھی احمدی ہوگئے۔ آج یہ پہلا موقع ہے کہ ہم نے ان کی شکل دیکھی۔ بس انہیں دیکھتے ہی ہمیں وہ تمام تکلیفیں یاد آگئیں جو ہم نے انہیں پہنچائیں اور بے اختیار ہمیں یہ تصور کرکے رونا آگیا کہ آخر ہم بھی وہیں آپہنچے جس جگہ یہ تھے۔ تو ایسے ایسے دشمن اگر سلسلہ میں داخل ہوسکتے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں تو آدمیوں کی عداوت سے زیادہ اور کون سی بیوقوفی ہوگی۔
میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ مجھے مولوی ثناء اللہ صاحب کی ذات سے بھی کبھی دشمنی نہیں ہوئی بلکہ بچپن میں جب مجھے کامل عرفان حاصل نہیں تھا میں بعض دفعہ حیران ہوکر کہا کرتا تھا کہ خدایا! کیا میرے اندر غیرت کم ہے کہ لوگ تو کہتے ہیں ہمیں مولوی ثناء اللہ پر بڑا غصہ آتا ہے مگر مجھے نہیں آتا۔ تو اللہ تعالیٰ اس بات کا گواہ ہے کہ اپنی ذات میںمجھے کسی شخص سے عداوت نہیں، نہ اپنے دشمن سے اور نہ سلسلہ کے کسی دشمن سے۔ افعال بے شک مجھے بُرے لگتے ہیں اور انہیں مٹادینے کو میرا جی چاہتا ہے مگر کسی انسان سے مجھے دشمنی نہیں ہوئی۔ حتّٰی کہ سلسلہ کے شدید ترین دشمنوں کی ذات سے بھی مجھے آج تک کبھی عداوت نہیں ہوئی حالانکہ اگر عداوت جائز ہوتی تو ان لوگوں سے ہوتی جو خدا اور اس کے رسول کے دشمن ہیں کیونکہ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو کم درجہ دے مگر خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں کو زیادہ بُرا جانے۔ مگر جب خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں کی ذات سے بھی مجھے کبھی عداوت نہیں ہوئی تو اپنے دشمنوں کی ذات سے مجھے کس طرح عداوت ہوسکتی ہے۔ یہ دل بے شک چاہتا ہے کہ ہمارے سلسلہ کے دشمن اپنے منصوبوں میں ناکام رہیں اور اللہ تعالیٰ یا تو انہیں ہدایت دے یا ان کی طاقتوں کو توڑ دے مگر یہ کہ ان کو اپنی ذات میں نقصان پہنچے یہ خواہش نہ کبھی پہلے میرے دل میں پیدا ہوئی اور نہ اب ہے۔ تو آدمیوں کی عداوت کوئی چیزنہیں۔ جس چیز کو مٹانا ہمارا فرض ہے وہ خلافِ اسلام عقائد اور طریقے ہیں جو دنیامیںجاری ہیں۔ اگر ہم ان عقائد اور ان طریقوں کو مٹانے کی بجائے آدمیوں کومٹانے لگ جائیں اور وہ اصول اور طریق خود اختیار کرلیں تو اس کی ایسی ہی مثال ہوگی جیسے کوئی بادام کے چھلکے رکھتا جائے اور مغز پھینکتا جائے۔ آدمی تو مغزہیں اور ان کے افعال وہ چھلکے ہیں جن کو دور کرنا ہمارا کام ہے۔ پس جس چیز کو مٹانا ہے اگر اسی کو ہم لے لیں اور جس کو رکھنا ہے اس کو مٹادیں تو اس میں کونسی عقلمندی ہوگی۔
پس میں اپنی جماعت کے دوستوں کوتوجہ دلاتا ہوں کہ اپنی قربانیوں پر غور کرو اور یاد رکھو کہ جو قربانیاں اِس وقت کی جارہی ہیں وہ ہرگز کافی نہیں ہیں۔ اسلام اور احمدیت کی ترقی کیلئے بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح میں صدرانجمن احمدیہ اور اس کے کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جس طریق پر وہ چل رہے ہیں وہ منہاجِ نبوت والا طریق نہیں اور اس پر چل کر انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہاںاگر وہ منہاجِ نبوت پر اپنے کاموں کی بنیاد رکھ لیں گے تو پھر کامیابی انہیں حاصل ہوجائے گی اور جلد یا بدیر ایسا ہوکر رہے گا ۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی نبی آئے اور اس کی جماعت کے نظام کا کوئی حصہ منہاجِ نبوت سے باہر رہ جائے۔ پس کیوں نہ جوچیز بعد میں آنی ہے اس کو ابھی لے لیا جائے اور جس امر کو سالوں بعد اختیار کرنا ہے اسے ابھی سے اختیار کرلیاجائے۔ اگر صدرانجمن احمدیہ اس طریق کو اختیار کرلے تو یقینا بہت جلد احمدیت کو کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ ورنہ مشکلات بڑھتی جائیں گی اور سلسلہ کی ترقی کے راستہ میں روکیں پیدا ہوتی چلی جائیں گی۔ پس میںدوستوں کو تحریک جدید کے اس حصہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری دشمنی ان تمام خیالات اور طریقوں سے ہے جو اسلام کے مخالف دنیا میں نظر آتے ہیں اور ان کو مٹانا اور دنیا سے ناپید کرنا ہمارا فرض ہے اس اصل اور طریق کے بعض حصے ہم مٹاچکے ہیں اور بعض مٹارہے ہیں اور بعض مٹانے والے ہیں۔ جو حصے ہم مٹاچکے ہیں ان کے متعلق ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیںکہ اس نے ہمیں اپنے فضل سے اس کی توفیق عطا فرمائی اور جو حصے ہم مٹارہے ہیں ان کے متعلق ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیںکہ وہ ہمیں اپنے مقصد میں کامیابی عطا فرمائے اور جو حصے ابھی باقی ہیں ان کے متعلق ہمیں سوچنا اور غور کرنا چاہئے تا جس قدر جلد ہوسکے انہیں مٹا کر اسلامی طریق پر ہم اپنے تمام نظام کو لے آئیں اور جس قدر انسانی سہارے نظر آتے ہیں انہیں دور کردیں تاہمارا سلسلہ کلّی طور پر منہاجِ نبوت کے رنگ میں رنگین ہوجائے اور جس قدر روکیں ہماری ترقی کے راستہ میں حائل ہیں وہ دور ہوجائیں۔ اے خداتُو ایسا ہی کر۔اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ‘‘ (الفضل ۲۶؍ فروری ۱۹۳۸ئ)
۱؎ العنکبوت: ۷۰
۲؎ (البقرۃ: ۱۹۰)
۳؎ النحل: ۲۷
۴؎ (الانفال: ۴۲)
۵؎ تا ۷؎ بخاری کتاب فضائل اَصْحَاب النَّبِیِّ صلی اﷲ علیہ وسلم باب مناقب
عثمان بن عفان (الخ)
۸؎ ابن ماجہ کتاب السنۃ باب فی فضائل اَصحاب رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم
۹؎ بخاری کتاب الصلوٰۃ باب اِذَاحَمَلَ جَارِیَۃً صَغِیْرَۃً …(مفہوماً)
۱۰؎ بخاری کتاب الزکوٰۃ باب مَنْ اَحَبَّ تَعْجِیْل الصدقَۃ مِنْ یَوْمِھَا

۸
صدرانجمن احمدیہ کے کارکنوں اور جماعت کے افراد سے خطاب
(فرمودہ ۲۵؍ فروری ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’آج نزلہ اور گلے میں خراش کی وجہ سے میں زیادہ بول نہیں سکتا علاوہ ازیں دائیں پائوں میں دردِ نقرس کا دَورہ ہوگیا ہے اس لئے زیادہ کھڑا بھی نہیں ہوسکتا۔ اس وجہ سے میں آج بہت ہی چھوٹا خطبہ کہنا چاہتا ہوں۔
میں نے پچھلے خطبہ میں دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ منہاجِ نبوت کے مطابق جو انتظام ہوتا ہے وہ اَور قسم کا ہوتا ہے اور مغربی اصول کے مطابق اَور قسم کا۔ منہاجِ نبوت کے مطابق جو انتظام ہوتا ہے اس میں نہ کام کرانے والے کوئی معاوضہ مقرر کرتے ہیں اورنہ کام میں مدد کرنے والے کوئی حد بندی لگاتے ہیں۔ منہاجِ نبوت کے مطابق نہ تو یہ شرط ہوتی ہے کہ کوئی شخص دین کی ضرورت کے و قت ایک پیسہ یا دھیلہ یا دمڑی فی روپیہ چندہ دے اور نہ یہ شرط ہوتی ہے کہ کوئی شخص چار پیسے یا چھ پیسے فی روپیہ چندہ دے بلکہ زکوٰۃ مقررہ اور مفروضہ اور صدقاتِ مقررہ کے بعد ہر انسان کا یہ فرض ہوتا ہے کہ اپنی طاقت اور اسلام اور سلسلہ کی ضرورت کے مطابق چندہ دے۔ اسی طرح جو لوگ کام کرتے ہیں ان کا معاوضہ مقررہ شرحوں پر نہیں ہوتا بلکہ حسبِ استطاعت سلسلہ بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے۔ کوئی شخص بھی اپنے گھر کا بجٹ بناتے ہوئے کبھی یہ فیصلہ نہیں کیا کرتا کہ میں اپنی بیوی بچوں کی بیماری پر اس قدر رقم خرچ کروں گا اس سے زیادہ خرچ کی اگر ضرورت پڑی تو انکار کردوں گا۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ اسلام کی خدمت کیلئے حدبندی کی جائے۔ اسی طرح کوئی زمیندار کبھی یہ نہیں کہتا کہ میں اپنی زمین پر محنت اس صورت میں ہی کرسکتا ہوں کہ جب دس روپیہ ماہوار مجھے معاوضہ ملے۔ بسا اوقات اس کی زمینداری نقصان پر جارہی ہوتی ہے اور وہ کہیں باہر جاکر زمین کی آمد سے زیادہ کماسکتا ہے مگر وہ اسے چھوڑتا نہیں ہر وقت جُتا رہتا ہے، بیل سے بھی زیادہ محنت کرتا ہے۔ صرف اسی وجہ سے کہ وہ سمجھتا ہے یہ میری زمین ہے۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم خداتعالیٰ کے ساتھ یہ شرط کریں کہ اگر ہمارا اتنا گریڈ ہو یا اتنی رقم دی جائے تو ہم کام کریں گے ورنہ نہیں۔ اسی طرح چندہ کی حد بندی خواہ وہ قلیل ہو یا کثیر غیریت پر دلالت کرتی ہے نہ کہ تعلق پر۔ اللہ تعالیٰ اور بندہ کا معاملہ آپس میں ایسا ہونا چاہئے کہ جو تمام تعلقات سے زیادہ مضبوط اور تمام قرابتوں سے زیادہ قُرب والا ہو۔ آقا او رملازم والا معاملہ نہیں ہونا چاہئے۔
مَیں نے گزشتہ خطبہ میںکارکنوں کے معاوضہ کے متعلق جو بات کہی مجھے خوشی ہے کہ اس پر کئی کارکنوں نے لبیک کہا ہے۔ بعض نے تو یہ لکھا ہے کہ ہم پہلے ہی صدر انجمن کے ساتھ اپنا تعلق ملازمت کا نہیں سمجھتے تھے اور بعض نے یہ کہ ہم نے اب فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ ہم انجمن کے ساتھ اپنا تعلق تنخواہوں یا گریڈوں والا نہیں رکھیں گے بلکہ جو کچھ بھی گزارہ کیلئے ہمیںدیا جائے گا اسے قبول کرلیں گے۔
اس کے مقابلہ میں مَیں جماعت سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ان کی ذمہ داری بھی اسی رنگ کی ہے۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ چندہ ایک آنہ فی روپیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کب مقرر کیا تھا یا پانچ پیسے کب مقرر کئے ہیں۔ دوسرا کہتا ہے کہ جب میں نے پانچ پیسہ فی روپیہ کی شرح سے چندہ دے دیا تو جب تک دوسرا جو بالکل نہیں دیتا اتنا ہی ادانہ کرے میری ذمہ داری نہیں بڑھ سکتی حالانکہ یہ طریق تو ؎
’’دیکھ لو سرکار اِس میں شرط یہ لکھی نہیں‘‘
والا ہے اور آقا اور ملازم والا تعلق ہے، مُحِبّاورمحبوب کا نہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ سے ہمارے تعلقات آقا و ملازم والے ہوں تو ہمیں بھی اس سے آقا والے سلوک کی ہی امید رکھنی چاہئے اور یہ امید نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ ؎۱ کے ماتحت ہم سے سلوک کرے گا۔ ہماری لاکھوں خطائیںاور گناہ ایک توبہ سے معاف کردے گا۔ کوئی آقا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم اس کا کروڑ روپیہ کانقصان کردو اور پھر یہ کہہ کر کہ اچھا جی معاف کردیں، اس سے معافی بھی لے لو لیکن کوئی انسان جو ساری عمر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتا رہتا ہے اگر مرنے سے کچھ دیر پہلے بھی سچی توبہ کرے اور اپنے اعمال پر ندامت کا اظہار کردے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیتا ہے۔ کوئی آقا اپنے ملازم کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں کرتا۔ یہ مُحِبّ اور محبوب والا معاملہ ہے مُحِبّاور محبوب دونوں کو یہ لَو لگی ہوتی ہے کہ ایک دوسرے سے مل جائیں، خواہ کسی طرح ملیں اور چاہے ان میں سے کسی کو دبنا ہی کیوںنہ پڑے۔ اس لئے جب انسان کسی وقت بھی یہ خواہش کرتا ہے کہ میں اپنے خدا سے ملنا چاہتا ہوں توخداتعالیٰ جھٹ اسے اپنے سینہ سے چمٹالیتا ہے۔ کوئی جرنیل کسی بادشاہ کا کوئی علاقہ دشمن کے ہاتھ بیچ دے اور پھر آ کر کہے کہ مجھے معاف کردیا جائے تو بادشاہ اسے کبھی معاف نہیں کرے گا بلکہ فوراً اسے پھانسی پر لٹکادے گا لیکن خداتعالیٰ کا بندہ کتنا بھی نقصان کرنے کے بعد جب خداتعالیٰ کے دربار میں پہنچتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اچھا تم سے جو نقصان ہؤا اس کا انتظام میں خود کرلوںگا اور تمہیں معاف کرتاہوں۔
پس جماعت کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے اور کارکنوں کو بھی۔ کارکنوں کو اپنے کام کی بنیاد اس امر پر نہ رکھنی چاہئے کہ ہم اتنی تنخواہ اور اتنا گریڈ لیںگے اور جماعت کو اپنے تعلقات کی بنیاد بھی اس امر پر نہ رکھنی چاہئے کہ ہم اتنے آنے یا اتنے پیسے چندہ دیں گے کیونکہ سوال آنوں یا پیسوں کا نہیں بلکہ ضرورت کا ہے۔ جب ضرورت کم ہو کم دیں اور جب زیادہ ہو زیادہ دیں۔
اس کے بعد میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ میںجماعت کی اصلاح کے متعلق بعض اَور باتوں پر بھی غور کررہا ہوں اورمیرا ارادہ ہے کہ انہیںمجلسِ شوریٰ میںپیش کروں اور احباب سے ان کے متعلق مشورہ لوں۔ ان باتوں میں سے بعض نتائج کے لحاظ سے اور بعض ضرورت کے لحاظ سے نہایت اہم ہیں۔ممکن ہے جماعت کے مشورہ کے ماتحت میںان میں کوئی تبدیلیاں بھی کروں لیکن بہرحال بعض نہایت اہم سوالات میرے سامنے ہیںجن کے متعلق میں مشورہ لینا چاہتا ہوں۔ اس کے متعلق دوستوںکو دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی توفیق دے اور جو نمائندے آئیں ان کو بھی۔ مجلس شوریٰ کے نمائندوں کے علاوہ میرے ساتھ تعلق کی بناء پر ہر شخص مجھے مشورہ دے سکتا ہے اور جب ایجنڈا شائع ہوجائے تو جو سمجھے کہ ان میںسے کسی امر کے متعلق وہ اپنے تجربہ یا علم کی بناء پر کوئی مشورہ دے سکتا ہے تو اسے چاہئے کہ دے دے۔ مجلس شوریٰ کے موقع پر تو میری حیثیت اس مجلس کے صدر کی بھی ہوتی ہے اور اُس وقت انہی سے مشورہ لے سکتا ہوں جو وہاں موجود ہوں، دوسروں سے نہیں لیکن وہاں سے باہر نکلتے ہی ہر احمدی کا تعلق مجھ سے ویسا ہی ہے جیسا کہ کسی نمائندہ کا اس لئے جو چاہے مجھے مشورہ دے سکتا ہے۔
میںسمجھتا ہوں ہمارے کاموں میں کئی قسم کی اصلاحوں کی ضرورت ہے۔ بعض مجبوریاں بھی درپیش ہیں جن کے ماتحت بعض کاموں کی شکلیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہماری مشکلات بڑھتی جائیں گی اور یا پھر ہماری کامیابی میں تأخیر ہوتی جائے گی۔ بعض باتیں اپنی ذات میں اچھی ہوتی ہیں مگر مجبوریاں انہیں چھُڑا دیتی ہیں اور بعض مفید ہوتی ہیں مگر ان پر عمل کا وقت نہیں آیا ہوتا۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ پر نگاہ رکھتے ہوئے اپنے کاموں میںآگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس سلسلہ میں اگر بعض کاموں کی صورت میں تبدیلی بھی کرنی پڑے تو کرنی چاہئے۔ نیکی ہمیشہ موقع کے مطابق ہوتی ہے۔ مثلاً روزہ بے شک ترقی کا موجب ہے لیکن جہاد کے موقع پر ایک دفعہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج بے روزہ روزہ داروں سے بڑھ گئے ؎۲ کیونکہ روزہ دار تو روزے کھول کر مُردوں کی طرح پڑ گئے اور جن کے روزے نہیں تھے انہوں نے خیمے وغیرہ لگائے، جانوروں کو باندھا، اُن کے لئے چارہ وغیرہ کا انتظام کیا اس پر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا آج بے روز روزہ داروں سے بڑھ گئے۔ پس ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے اور کوئی نیکی ایسی نہیں جو ہر وقت ضروری ہو سوائے محبت الٰہی کے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو کبھی بدل نہیں سکتی۔ باقی سب نیکیاں ایسی ہیں کہ ان میں تبدیلی کی صورتیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ نما زکسی وقت تو نہایت ہی ضروری چیز ہے مگر کسی وقت یہی گمراہی کا موجب ہوجاتی ہے۔ اسی طرح روزہ ہے، حج بھی اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے۔ مگر کسی وقت یہ بے ادبی کا موجب ہوجاتا ہے۔ صدقہ و خیرات نیکی ہے مگر کسی وقت یہی تباہی و بربادی کا موجب ہوجاتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۳؎ یعنی جو لوگ اس خیال سے نمازیں پڑھتے ہیں کہ لوگ دیکھ کر کہیںگے کہ یہ بڑے نمازی ہیں، ان کی نما زلعنتی نماز ہے اور وہ *** بن کر نمازی پر گرتی ہے۔ پھر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سورج نکلنے اور سورج ڈوبنے کے وقت جونماز پڑھتا ہے وہ شیطان ہے ۔۴؎ اسی طرح روزہ ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو عید کے روز روزہ رکھے وہ شیطان ہے۔ ۵؎گویا ایک دن ایسا آجاتا ہے جب کھانا پینا مقدم ہوجاتا ہے۔
اسی طرح حج کے متعلق ہے۔ اور عمرہ کے متعلق بھی کہ وہ زیارت مکہ مکرمہ ہے۔ مثلاً صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ کو مکہ والوں کے پاس بھیجا کہ انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ مسلمانوں کو عمرہ کرلینے دیں مگر مکہ والوں نے کہا کہ ہم محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم ) اور دوسرے مسلمانوں کو تو اجازت نہیں دے سکتے مگر آپ چونکہ آگئے ہیں اور ہمارے رشتہ دار اور مہمان ہیں اس لئے آپ کرسکتے ہیں لیکن حضرت عثمانؓ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں ہرگز اسے پسند نہیں کرتا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو تو ممانعت ہو اور میں عمرہ کرلوں ۔۶؎ اب دیکھو ان کیلئے عمرہ یعنی طواف بیت اللہ کا موقع تھا مگر آپ نے اس سے فائدہ اٹھانے سے انکار کردیا اور کہا کہ اگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نہیں کرسکتے تو میں بھی نہیںکرتا۔
پھر صدقہ و خیرات ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہوتے ہیں۔ یعنی وہ مُبذِّر جو مال و دولت لُٹاتے وقت یہ خیال ہی نہیں کرتے کہ وہ کس طرح اندھا دھند خرچ کررہے ہیں وہ صرف دینا ہی جانتے ہیں ان کو۷؎ فرمایا ہے۔ گویا یہ ثابت ہوگیا کہ نماز بھی شیطانی فعل بن سکتا ہے۔ روزہ بھی اور تبذیر بھی یعنی بے تحاشا خرچ کرنا، خواہ صدقہ کے طور پر ہی کیوں نہ دے دیا جائے۔ تو تین نیکیوں کے متعلق تو شریعت اور شارع کے صریح الفاظ سے ثابت ہوگیا کہ اگر بعض وقت وہ فرض ہیں تو دوسرے اوقات میں گناہ کا موجب ۔ حج کے متعلق صریح الفاظ میں مثال نہیں ملتی مگر ایسے مواقع ہوسکتے ہیں کہ اس کا ادا کرنا بھی گناہ ہوجاتا ہو۔ اور ایک بات تو ظاہر ہی ہے کہ حج کیلئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کچھ شرائط مقرر کی ہیں۔ اگر ان شرطوں کے بغیر کوئی حج کرے تو یقینا وہ شریعت کا حکم پورا کرنے والا نہ ہوگا۔ مثلاً آجکل ہی بعض بزرگ لوگ حج کیلئے جاتے ہیں، اس لئے کہ لوگ انہیں حاجی کہیں ورنہ ان کے اندر حج کے نتیجہ میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔ کہتے ہیں سردی کے موسم میں کوئی غریب اور اندھی بڑھیا گاڑی میں سفر کررہی تھی۔ اس کے پاس اوڑھنے کیلئے صرف ایک ہی چادر تھی۔ کسی نے اسے اُٹھالیا لیکن جب چادر کھِسکی تو وہ سمجھ گئی کہ کسی نے میری چادر اُٹھائی ہے اور کہنے لگی کہ بھائیا حاجیا۔ یعنی بھائی حاجی صاحب مجھ غریب اندھی کی چادر تو نہ اُٹھائیں۔ اٹھانے والے نے چادر تو آہستہ سے رکھ دی مگر کہا کہ مائی یہ بتائو تمہیں کیسے پتہ لگا کہ میں حاجی ہوں۔ اس بڑھیا نے کہا کہ اس قدر سخت سنگدلی کا کام سوائے حاجی کے کون کرسکتا ہے کہ مجھ ایسی غریب، اندھی بڑھیا کی اس قدر سخت سردی کے وقت چادر اٹھالے جائے۔ پھر میں نے اپنے کانوں سے سُنا اور آنکھوں سے دیکھا ہے کہ سورت ۸؎کا ایک حاجی منیٰ اور مکہ کے درمیان سفر کرتے وقت جو حج کا موقع ہوتا ہے اور جب سب حاجی لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَکَ لَبَّیْکَکہتے جارہے ہوتے ہیں، اردو کے نہایت گندے عشقیہ شعر پڑھ رہا تھا۔ واپسی کے وقت وہ اسی جہاز میں تھا جس میں مَیں سفر کررہا تھا۔ میں نے اسے پوچھا کہ آپ کو حج کی کیاضرورت پیش آئی تھی جبکہ آپ حج کے موقع پر عشقیہ شعر پڑھ رہے تھے۔ تو اس نے کہا کہ ہمارے پاس والی دکان کے بورڈ پر چونکہ حاجی کا لفظ لکھا ہے، وہاں خریدار بہت آتے ہیں۔میرے والد نے کہا کہ تم بھی حج کر آئو تا ہم بھی بورڈ پر لفظ حاجی لکھواسکیں اور ہمارا بھی سَودا زیادہ فروخت ہو۔ اس کی اپنی دینی حالت کا تو یہ حال تھا لیکن جب اسے علم ہؤا کہ میں احمدی ہوں تو میں نے خود اسے ایک دوسرے شخص سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں حیران ہوں ایسا شخص جہاز میں پھررہا ہے اور پھر بھی یہ جہاز غرق نہیں ہوتا۔ گویا اس کے نزدیک احمدیت ایسی بُغض والی چیز تھی کہ جس جہاز میں کوئی احمدی سوار ہو اللہ تعالیٰ کو چاہئے تھا کہ اسے غرق کردیتا۔ خواہ اس کے ساتھ ہزار اس کے ہم عقیدہ لوگ بھی غرق ہوجاتے۔ پس حج بھی بُری چیز ہوسکتی ہے اس لئے مومن کا کام ہے کہ مناسبِ موقع نیکیوں کی صورتوں میں تبدیلی کرتا رہے۔ ہاں جو چیز بدلنے والی نہیں وہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے۔ اس کے سوا نماز، روزہ ، حج، صدقہ خیرات، دیانت، امانت اورسچ سب کے استعمال کے مواقع میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ غیبت سچ ہی کا نام ہے مگر چونکہ یہ خداتعالیٰ کی محبت کیلئے نہیں ہوتی اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۹؎تم ایک شخص کو بعینہٖ وہی گالی جا کر سناتے ہو جو دوسرے نے تمہارے سامنے اسے دی تھی اور اس میں کوئی غلطی نہیں کرتے۔ تم کہتے ہو فلاں شخص نے کہا تھا کہ زید بڑا خبیث ہے۔ یہ چار الفاظ ہیں جن کے بیان کرنے میں کوئی بچہ بھی غلطی نہیں کرسکتا اور اس کا ایک ایک حرف یاد رکھ سکتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس قسم کا سچ بولنے والے پر اس کی *** نازل ہوتی ہے۔ یہ کیوں؟ اس لئے کہ اس موقع پر خداتعالیٰ کا حکم تھا کہ کچھ بھی نہ بولو۔ اس نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ جھوٹ بولو بلکہ یہ کہ چُپ رہو۔ چُپ رہنا اور بات ہے اور جھوٹ بولنا اَور ۔ تو ہر سچائی خداتعالیٰ کے رحم کو جذب کرنے کا موجب نہیں ہؤا کرتی بلکہ کئی سچائیاں جو فتنہ و فساد پیدا کرنے والی ہوں ان کا بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب اور اس کی *** کا مورد بنادیتا ہے۔
پس ضروری ہے کہ ہم اپنے کاموں کے متعلق غور کرتے رہیں اور ان میں مناسب تبدیلیوں کا خیال رکھیں۔ اس لئے احباب دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی کرے تا ہم صحیح رستہ پر پہنچنے کی بجائے کسی اور غلطی میں مبتلا نہ ہوجائیں۔اللہ تعالیٰ کی نصرت دعائوں سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ بے شک اسے اپنا سلسلہ بہت پیارا ہے اور جن کو وہ سلسلہ کے کام کیلئے کھڑا کرتاہے، ان کی مدد بھی کرتا ہے لیکن جب وہ اور اس کے ساتھی دعائوں میں لگ جائیں تو وہ اللہ تعالیٰ کو اور بھی زیادہ محبوب ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات بھی بہت پیاری ہے کہ میرے بندے مجھ سے مانگیں۔ آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ اگر بچہ ماں سے کوئی چیز مانگے نہیں تو وہ اپنے دل میں کُڑھتی ہے کہ میرا بچہ مجھ سے کبھی کوئی خواہش نہیں کرتا۔ ساٹھ ستر فی صدی مائیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب ان کا بچہ پہلے پہل ان سے کوئی مٹھائی یا پیسہ مانگتا ہے تو وہ اس قدر خوش ہوتی ہیں کہ گویا ساری دنیا کی بادشاہت انہیں حاصل ہوگئی۔
پس اللہ تعالیٰ اس بات سے بھی خوش ہوتا ہے کہ میرے بندے مجھ سے مانگیں اور جب اُس سے مانگا جائے تو اُس کا فضل بڑھ جاتا ہے اس لئے ہمیں خاص طور پر دعائیں کرنی چاہئیں کہ جماعت کو ترقی حاصل ہو اور اس کے فضل ہم پر بڑھتے جائیں‘‘۔
(الفضل ۲؍ مارچ ۱۹۳۸ئ)
۱؎ الاعراف: ۱۵۷
۲؎ مسلم کتاب الصیام باب اَجرالمُفْطر فِی السَّفَرِ(الخ)
۳؎ الماعون: ۵ تا ۷
۴؎ کنزالعمال جلد ۷ صفحہ ۴۱۷ مطبوعہ حلب ۱۹۷۱ء (مفہوماً)
۵؎
۶؎ سیرت ابن ھشام جلد ۳ صفحہ ۳۲۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۷؎ بنی اسرائیل: ۲۸
۸؎ سُوْرت: کسی زمانہ میں مغربی ہند کا مشہور تجارتی مرکز اور سفرِ حجاز کی سب سے بڑی بندرگاہ تھی اس وجہ سے اسے ’’باب المکہ‘‘ اور ’’بندرِ مبارک‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ ۱۷۹۷ء میں اس کی آبادی آٹھ لاکھ سے کم نہ تھی۔ یہ شہر ابتداء سے ہی پارسیوں کا خاص مرکز رہا ہے۔ مغلوں کے ماتحت بندر گاہ کے طور پر اِس شہر کو ترقی ہوئی۔ سترہویں، اٹھارہویں صدی میں بڑا تجارتی مرکز رہا۔ سترہویں صدی کے اواخر میں یہ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کا صدر مقام بن گیا تھا۔ (اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۱ صفحہ ۷۹۳ لاہور۔ ۱۹۸۷ئ)
۹؎ الھمزۃ: ۲

۹
رحم میں وسعت اختیار کرو
(فرمودہ ۴؍ مارچ ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’اللہ تعالیٰ کی جماعتیں یعنی حزبُ اللہ اور خدا کا گروہ جب کبھی دنیا میں قائم ہوتا ہے تو اس کو تمام دنیا سے ایک روحانی جنگ کرنی پڑتی ہے۔ لیکن روحانی جنگ سب سے پہلے انسان کو اپنے نفس سے کرنی ضروری ہوتی ہے کیونکہ ایسا شخص جس کا گھر دشمن کے قبضہ میں ہو وہ باہر جاکر نہیں لڑسکتا۔ جس کا کوئی مُلک ہی نہ ہو اس نے جنگ کیا کرنی ہے۔ اسی طرح جس شخص کے دل پر شیطانی قبضہ ہو اُس نے شیطانی مظاہر کا دنیا میں مقابلہ کیا کرنا ہے۔ آخر فوجوں کے رکھنے کیلئے یا ذخیروں کے رکھنے کیلئے یا گولہ وبارود رکھنے کیلئے یا اور سامانِ جنگ رکھنے کیلئے کوئی مُلک چاہئے بے مُلک تو کوئی فوج نہیں ہوتی۔ لازماً وہ فوج کہیں سے کھانا مہیا کرے گی، کہیں سے پانی مہیا کرے گی، کہیں سے سامانِ جنگ مہیا کرے گی، کہیں قلعے بنائے گی، کہیں سپاہیوں کیلئے بسیرے اور جگہیں بنائے گی، کہیں خندقیں کھودے گی اور کہیں گھوڑے کھڑے کرے گی اور اگرباقی ضرورتوں کو مدنظر نہ رکھا جائے تو بھی کم سے کم سپاہیوں کے ڈیروں کیلئے ہی ایک وسیع علاقہ کی ضرورت ہوگی مگر جس کا ملک ہی نہیں وہ یہ انتظام کس طرح کرسکتا ہے۔
اس اصل کے ماتحت روحانی فوج کیلئے بھی مُلک کی ضرورت ہؤا کرتی ہے مگر روحانی فوج کا مُلک انسان کا دل ہوتا ہے اور جس شخص کا دل اپنے قبضہ میں نہ ہو وہ روحانی معارف کی فوج کہاں رکھے گا اور اس کے قدم کس جگہ ٹِکیں گے۔ تم کہو گے زمین پر۔ مگر روحانی جنگ زمین پرنہیں لڑی جاتی بلکہ وہ جنگ دلوں میں کی جاتی ہے، وہ جنگ دماغوں میں کی جاتی ہے اور جو جنگ دلوں اور دماغوں میں کی جانی ہو وہاں روحانی ہتھیاروں کی ہی ضرورت ہوگی اور وہ روحانی ہتھیار تقویٰ و طہارت اور وہ معارف و علوم ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دل پر نازل ہوتے ہیں۔ اگر کسی شخص کا دل اور دماغ اپنا نہیں تو وہ ان چیزوں کو رکھے گا کہاں ؟پس روحانی جماعتوں کو اپنے دل اور اپنے دماغ کی صفائی کی طرف سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس شخص کا دماغ صاف نہیں اس کے افکار صاف نہیں ہوسکتے کیونکہ تدبر کا تعلق فکر کے ساتھ ہوتا ہے اور جس شخص کا دل صاف نہیں اس کا تقویٰ صاف نہیں ہوسکتا اور جس کا تقویٰ صاف نہیں اسے خداتعالیٰ کی نصرت اور تائید کبھی حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ جذبات کا اصل مقام دل ہے گو ان کا ظہور دماغ کے اعصاب کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔
سائنسدان اِس بات پر بحثیں کرتے چلے آئے ہیں کہ انسانی روح کا منبع درحقیقت دماغ ہے دل نہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ روح کی حقیقت کو نہیں پاسکے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ انسانی روح کا جیسا کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیموں اور رئویا و کشوف سے پتہ چلتا ہے دل سے تعلق ہے۔ ہاں دماغ چونکہ منبتِ ۱؎اعصاب ہے اس لئے قلبی علوم کو محسوس کرنا اور دل کے علومِ مخفیہ سے مستفیض ہونا اس کا کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حیات کا مقام دل کو قرار دیا ہے دماغ کو نہیں۔ اور روح کا سب سے گہرا تعلق اُسی عضو سے ہوسکتا ہے جو انسانی جسم میں سب سے اہم حیثیت رکھتا ہو اور جس کا کام سب سے نمایاں ہو اور وہ اہم کام دل کا ہی ہے دماغ کا نہیں۔ دل کی ایک سیکنڈ کی حرکت بند ہونے سے کلّی طور پر انسان پر موت وارد ہوجاتی ہے لیکن دماغ میں اگر کوئی فتور پیدا ہوجائے تو گو اس وجہ سے کہ دماغ کا کام علومِ قلبیہ کو محسوس کرناہے، علوم پردہ میں آجاتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ انسان پر موت بھی وارد ہوجائے۔ تو دماغ خادم ہے اور دل وہ اصل مرکز ہے جہاں اللہ تعالیٰ اپنے انوار نازل فرماتا ہے۔ خیر یہ تو ایک لمبی بحث ہے جس میں مَیں اس وقت نہیں پڑنا چاہتا۔ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایک مؤمن کیلئے اپنے دل اور دماغ کی صفائی نہایت ضروری ہوتی ہے۔ ایک شخص خواہ فلسفیوں کے تتبُّع میں تدبر اورتفکّر اور اخلاقِ فاضلہ کا تمام مدار دماغ پر ر کھے یا یہ کہے کہ انسانی عقل اور معرفت کا سرچشمہ دل ہے اور دماغ کو علوم اور معارف سے کچھ تعلق نہیں پھر خواہ وہ دل اور دماغ کی بجائے جذبات اور افکار کا لفظ استعمال کرے بہرحال کوئی بھی صورت ہو انسان کیلئے دو چیزوں کی صفائی نہایت ضروری ہے جن میں سے ایک فکر ہے اور دوسری جذبات ِلطیفہ۔ انسان کے گہرے جذبات یعنی جذبات کی حِسّ نہ کہ عارضی جذبے قلوب کی صفائی سے پیدا ہوتے ہیں اور افکار کی صفائی جسے عربی میں تنویر کہتے ہیں دماغ کی صفائی سے حاصل ہوتی ہے۔ تنویر اِس بات کو کہتے ہیں کہ انسان کے اندر ایسا نور پیدا ہوجائے کہ اسے ہمیشہ خیالِ صحیح پیدا ہو۔ فعلاً صحیح خیال کا پیدا ہونا تنویر نہیں بلکہ ایسے ملکہ کا پیدا ہوجانا کہ ہمیشہ صحیح خیالات ہی پیدا ہوتے رہیں تنویر ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے میں نے خود سُنا ہے۔ بعض دفعہ جب آپ سے کوئی فقہی مسئلہ پوچھا جاتا تو چونکہ یہ مسائل زیادہ تر انہی لوگوں کو یاد ہوتے ہیں جو ہر وقت اسی کام میں لگے رہتے ہیں۔ بسااوقات آپ فرمادیا کرتے کہ جائو مولوی نورالدین صاحب سے پوچھ لو یا مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کا نام لیتے کہ ان سے پوچھ لو یا مولوی سید محمد احسن صاحب کا نام لے کر فرماتے کہ ان سے پوچھ لو یا کسی اور مولوی کا نام لے لیتے اور بعض دفعہ جب آپ دیکھتے کہ اس مسئلہ کا کسی ایسے امر سے تعلق ہے جہاں بحیثیت مأمور آپ کیلئے دنیا کی راہنمائی کرنا ضروری ہے تو آپ خود مسئلہ بتادیتے۔ مگر جب کسی مسئلہ کا جدید اصلاح سے تعلق نہ ہوتا تو آپ فرمادیتے کہ فلاں مولوی صاحب سے پوچھ لیں اور اگر وہ مولوی صاحب مجلس میں ہی بیٹھے ہوئے ہوتے تو اُن سے فرماتے کہ مولوی صاحب یہ مسئلہ کس طرح ہے۔ مگر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ جب آپ کہتے کہ فلاں مولوی صاحب سے یہ مسئلہ دریافت کرلو تو ساتھ ہی آپ یہ بھی فرماتے کہ ہماری فطرت یہ کہتی ہے کہ یہ مسئلہ یوں ہونا چاہئے اور پھر فرماتے ہم نے تجربہ کیا ہے کہ باوجود اس کے کہ کوئی مسئلہ ہمیںمعلوم نہ ہو اُس کے متعلق جو آواز ہماری فطرت سے اُٹھے بعد میں وہ مسئلہ اسی رنگ میں حدیث اور سنت سے ثابت ہوتا ہے۔ یہ چیز ہے جو تنویر کہلاتی ہے۔ تو تنویر اس بات کو کہتے ہیں کہ انسانی دماغ میں جو خیالات بھی پیدا ہوں وہ درست ہوں۔ جس طرح ایک تندرستی تو یہ ہوتی ہے کہ انسان کہے میں اِس وقت تندرست ہوں۔ اور ایک تندرستی یہ ہوتی ہے کہ انسان آگے بھی تندرست رہے۔ تو تنویر وہ فکر کی درستی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ جو خیالات بھی پیدا ہوں درست ہی ہوں۔ تو روحانی ترقی کیلئے تنویرِ فکر ضروری ہوتی ہے۔ اسی طرح روحانی ترقی کیلئے تقویٰ اور طہارت کی ضرورت ہوتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو تنویر کے معنے دماغ کی نسبت سے ہیں وہی تقویٰ کے معنی دل کی نسبت سے ہیں۔ ہمارے لوگ عام طور پر غلطی سے نیکی اور تقویٰ کو ایک چیزسمجھ لیتے ہیں حالانکہ نیکی وہ نیک کام ہوتا ہے جو ہم کرچکے ہیں یا آئندہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر تقویٰ یہ ہے کہ انسان ایسے مقام پر کھڑا ہوجائے کہ اس کے اندر آئندہ جو جذبات بھی پیدا ہوں وہ نیک ہوں۔ تو افکار کیلئے تنویر اور جذبات کیلئے تقویٰ کالفظ استعمال کیا جاتا ہے اور جب کسی انسان کو تنویرِ افکاراور تقویٔ قلب حاصل ہوجائے تو وہ بدی کے حملہ سے بالکل محفوظ ہوجاتا ہے اور ایسا انسان اللہ تعالیٰ کے فضل کے نیچے آجاتا ہے۔
پس یہ دو چیزیں ہیں جن کی جماعت کو ضرورت ہے۔ ایک تو یہ کہ ہمارے خیالات صحیح ہوں اور ہمارے جذبات پاکیزہ ہوں۔ اور دوسری یہ کہ نہ صرف ہمارے خیالات صحیح ہوں بلکہ ہمارے اندر ایسا ملکہ پیدا ہوجائے کہ آئندہ جب بھی ہمیں کوئی خیال پیدا ہو وہ صحیح ہو اور نہ صرف ہمارے جذبات پاکیزہ ہوں بلکہ ہمارے اندر ایسا ملکہ پیدا ہوجائے کہ آئندہ جب بھی ہمارے اندر جذبات پیدا ہوں وہ پاکیزہ ہوں۔ اول امر کو تنویر کہتے ہیں اور دوسرے امر کو تقویٰ۔ چنانچہ خداتعالیٰ کی طرف سے کسی دماغ کو تنویر عطا کی جاتی ہے اور کسی کے دل میں ایسا مادہ تقویٰ پیدا کردیا جاتا ہے کہ باوجود کسی بات کو نہ جاننے کے وہ سمجھ جاتا ہے کہ شیطان اس موقع پر مجھے دھوکا دے رہا ہے۔
چند بزرگوں کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ وہ اکٹھے مل کر سفر کررہے تھے کہ راستہ میںایک شخص نے مہمان نوازی کے طور پر ان کی دعوت کی اور کھانا ان کے سامنے رکھا۔ جب وہ کھانا کھانے کیلئے بیٹھے تو معاً سب نے اپنے ہاتھ کھینچ لئے۔ جب انہوں نے ایک دوسرے سے پوچھا کہ آپ نے ہاتھ کیوں کھینچے ہیں؟ تو ہر ایک نے یہی کہا کہ یہ کھانا طیب معلوم نہیں ہوتا۔ آخر جس نے دعوت کی تھی اُسے بُلا کر انہوں نے پوچھا۔ تو مجھے اب اچھی طرح یاد نہیں اُس نے جانور کے متعلق یہ کہا کہ وہ مرگیا تھا اور میں نے اس کا گوشت حاصل کرلیا یا اَور کوئی ایسی ہی بات تھی اور اس طرح اس نے اقرار کیا کہ واقعہ میں یہ کھانا جائز نہیںتھا۔ آخر اس نے پوچھا کہ آپ لوگوں نے یہ کیونکر معلوم کرلیا کہ یہ کھانا ناجائز ہے؟ تو ان سب نے یہ جواب دیا کہ جب یہ کھانا ہمارے سامنے رکھا گیا تو ہمارے نفس میں اس کے کھانے کیلئے خاص طور پر رغبت پیدا ہوئی۔ جس سے ہم نے یہ سمجھا کہ یہ ضرور کوئی گناہ والی بات ہے تبھی ہمارا نفس اس قدر رغبت کا اظہار کررہا ہے۔ اب یہ ایک جذباتی امر ہے، افکار سے اس کا تعلق نہیں کیونکہ فکر ظاہری باتوں پر غور کرکے دلیل کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ تو جب انسان ایسے مقام پر کھڑا ہوجائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی خودبخود راہنمائی ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کو ایسی مخفی ہدایت ملتی ہے جسے الہام بھی نہیں کہہ سکتے اور جس کے متعلق ہم یہ بھی نہیںکہہ سکتے کہ وہ الہام سے جُدا امر ہے۔ الہام تو ہم اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ وہ لفظی الہام نہیں ہوتا اور عدمِ الہام ہم اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ وہ عملی الہام ہوتا ہے اور انسانی قلب پر اللہ تعالیٰ کا نور نازل ہوکر یہ بتادیتا ہے کہ معاملہ یوں ہے حالانکہ لفظوں میںیہ بات نہیں بتائی جاتی۔ بعض دفعہ جب اس سے بھی واضح رنگ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات بتائی جاتی ہے تو اسے کشف کہہ دیتے ہیں۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ بہت سے آدمی جب میرے سامنے آتے ہیں تو ان کے اندر سے مجھے ایسی شعاعیں نکلتی معلوم دیتی ہیں جن سے مجھے پتہ لگ جاتا ہے کہ ان کے اندر یہ یہ عیب ہے یا یہ یہ خوبی ہے۔ مگر یہ اجازت نہیں ہوتی کہ انہیں اس عیب سے مطلع کیا جائے۔ میں نے اپنے طور پر بھی دیکھا ہے کہ بعض دفعہ جب کوئی شخص مجھ سے ملتا ہے تو اس شخص کے قلب میں سے ایسی شعاعیں نکلتی دکھائی دیتی ہیں جن سے صاف طور پر اس کا اندرونہ کھل جاتا ہے اور معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے اندر کوئی کپٹ ۲؎ہے یا غصہ ہے یا محبت ہے۔
ایک دفعہ ایک دوست مجھ سے ملنے آئے۔ وہ نہایت ہی مخلص تھے۔ مگر مجھ پر اُس وقت اثر ایسا پڑا جس سے میں نے محسوس کیا کہ ان کے دل میں کوئی خرابی پیدا ہوچکی ہے۔ میں نے بعض دوستوں سے اس کا ذکر کیا کہ مجھے ایسا نظارہ نظر آیا ہے مگر انہوں نے اس دوست کی بڑی تعریف کی حالانکہ میرے ساتھ ایسا کئی دفعہ ہؤا ہے کہ ایک شخص مجھ سے ملنے آیا اور وہ حقیقت میں مخلص ہے تو میں نے محسوس کیا کہ میری روح میں سے کوئی چیز نکل رہی ہے اور اس کی روح میں سے بھی کوئی چیز نکل رہی ہے اور وہ آپس میں مل گئی ہیں۔ مگر جب دوسرا شخص مخلص نہ ہو تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ میری روح اس کی روح کو دھکا دے رہی ہے۔ اس طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ اس شخص کے دل میں جذباتِ تنافر پائے جاتے ہیں۔ مگر جب ارواح کا اتّصال ہوجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جذبات محبت پائے جاتے ہیں۔ پس وہ دوست بھی جب مجھ سے ملنے آئے تو میری فطرت نے محسوس کیا کہ ان کے اندر خرابی پیدا ہوچکی ہے حالانکہ وہ اُس وقت نہایت مخلص تھے۔ آخر سالہا سال کے بعد اس دوست کو ٹھوکر لگی اور پھر ان کے خیالات میں بھی کئی تبدیلیاںپیدا ہوگئیں۔ گویہ بات ابتلاء تک ہی رہی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں گمراہ ہونے سے بچالیا مگر بہرحال بات ظاہر ہوگئی اور ان کے اندر جو تنافر اور سلسلہ کے کاموں سے بے رغبتی کا جذبہ کام کررہا تھا وہ ظاہر ہوگیا۔
پس ایسا معاملہ میرے ساتھ بھی کئی دفعہ ہؤا ہے۔ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اکثر ایسا ہوتا تھا اور میرے ساتھ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ جب تک انسان اپنی فطرت کو آپ ظاہر نہیں کردیتا وہ اسے مجرم قرار نہیں دیتا اس لئے اس سنت کے ماتحت انبیاء اور ان کے اظلال کا بھی یہی طریق ہے کہ وہ اُس وقت تک کسی شخص کے اندرونی عیب کا کسی سے ذکر نہیں کرتے جب تک وہ اپنے عیب کو آپ ظاہر نہ کردے۔ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا اس بات سے ہی علم ہوسکتا ہے کہ ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اُسی وقت یہ جانتا ہے کہ بڑا ہوکر یہ مثلاً ڈاکو بنے گا۔ مگر خداتعالیٰ باوجود علم کے اُسے سزا نہیں دیتا۔ یا ایک شخص کے دل میں گناہ کے خیالات پیدا ہورہے ہوتے ہیں مگر خداتعالیٰ دل کے خیالات پر اُس وقت تک گرفت نہیں کرتا جب تک عمل سے ان خیالات کو وہ پورا کرنے کی کوشش نہ کرے۔ یہی حال اس کے مقربین کا بھی ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے کسی بندے کو دوسرے کا عیب بتاتا ہے تو ساتھ ہی یہ حکم بھی دے دیتا ہے کہ اس عیب کو ظاہر نہ کرو کیونکہ اُس وقت جب ایک شخص ظاہر میں نیک کہلاتا ہو اُس کی ظاہری نیک نامی کو برباد کرنا بھی گناہ ہوتا ہے۔
غرض ہماری جماعت کو دنیا کا روحانی ہتھیاروں سے مقابلہ کرنے کیلئے اپنے قلوب کی اصلاح کرنی چاہئے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگ غصہ اور جوش میں آجاتے ہیں۔ کئی ہیںجو امانت میں خیانت کرتے ہیں، کئی ہیں جو اپنی ذمہ داری کو صحیح رنگ میں ادا نہیںکرتے۔ یہ مثالیں جہاں غیراز جماعت لوگوں پر بُرا اثر ڈالتی ہیں وہاں اپنی جماعت کے بعض لوگ بھی ایسے لوگوں کو دیکھ کر عمل میں سُست ہوجاتے ہیں حالانکہ تم نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک شخص خودکشی کرے تو اسے دیکھ کر سارے لوگ خود کشی کرنے لگ جائیں مگر دنیا میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو دوسروں کو جب نیک اعمال میں سُستی کرتے دیکھتے ہیں تو خود بھی سُستی کرنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو دوسروں کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ اس گناہ کی نقل کریں بلکہ ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اس گناہ کو روکیں اور خود اس سے بچنے کی کوشش کریں۔ تم نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ جب ڈاکہ یا چوری کی وارداتیں لوگ سُنیں تو ڈاکہ اور چوری کو پسند کرنے لگ جائیں۔ پھر اگر ڈاکہ اور چوری جو تمدنی گناہ ہیں، اُنہیں دیکھ کر ڈاکہ اور چوری سے نفرت ہی پیدا ہوتی ہے، ان کی طرف رغبت پیدا نہیں ہوتی توجو اخلاقی اور مذہبی گناہ ہیں انہیں دیکھ کر بھی نفرت ہی پیدا ہونی چاہئے۔ اگر ایک ڈاکہ کی واردات سن کر سارے زمیندار یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ فلاں نے بہت بُرا کیا تو کسی کے متعلق یہ سن کر کہ وہ نمازیں نہیں پڑھتا ایک شخص کے دل پر یہ اثر ہونا کہ معلوم ہوتا ہے یہ معمولی بات ہے آئندہ میں بھی ایسا ہی کروں گا، محض حماقت اور نادانی ہے۔ پس بُری مثالوں سے اپنی قوتِ عمل کو کمزور نہیں ہونے دینا چاہئے اور نہ بُری باتوں کی تشہیر کرنی چاہئے کیونکہ اس طرح بدی دنیا میں کثرت سے پھیل جاتی ہے۔ یہی امر خداتعالیٰ نے سورئہ نور میں ۳؎ میںبیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ بُری باتوں کا مجالس میں تذکرہ نہیں کرنا چاہئے ورنہ لوگ عام طور پر ان باتوں میں مبتلا ہوجائیں گے۔
میں نے ابھی کہا ہے کہ دنیا میں لوگ کثرت سے ڈاکہ اور چوری وغیرہ بُرے افعال سے نفرت کرتے ہیں لیکن باوجود اس کے میں کہتا ہوں کہ اگر یہ واقعات بجائے شاذونادر ہونے کے کثرت سے ہونے لگ جائیں یا ان کا ذکر لوگوں میں کثرت سے ہونے لگے تو تھوڑے ہی دنوں میںتم دیکھو گے کہ ڈاکہ کی وارداتیں زیادہ ہونے لگیں ہیں جیسے گجرات، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ وغیرہ اضلاع میں کئی بڑے بڑے شریف نمازی اور تہجد گزار کہلانے والے دوسرے کی بھینس کھول کر گھر لے آئیں گے اور اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں کریں گے کہ انہوں نے کوئی بُرا کام کیا ہے۔ میرے ایک دفعہ گھوڑے چوری ہوگئے۔ توایک احمدی نے جو پہلے چوروں کے ساتھ مل کر چوریاں کیا کرتے تھے مجھے کہلا بھیجا کہ آ پ ہمیں اجازت دیں تو ہم سارے علاقہ کو سیدھا کردیتے ہیں۔ میں نے پیغامبر کو جواب دیا کہہ دینا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں توبہ کی توفیق عطا فرمائی ہے، اب یہی بہتر ہے کہ آپ اپنی توبہ پر قائم رہیں اور اس کو توڑنے کی کوشش نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اَور گھوڑے دے دے گا۔
غرض بعض علاقوں میں جانوروں کی چوری کی اتنی کثرت ہے کہ اسے اعلیٰ درجہ کا بہادری کا فن سمجھاجاتا ہے۔ مثلاً گجرات کے علاقہ میں ہی بعض اقوام میں پہلے یہ رواج ہؤا کرتا تھا گو اب شاید نہیں کہ بیٹے کو پگڑی نہیں پہناتے تھے جب تک وہ ایک چوری کی بھینس اپنی بہن کو لاکر نہ دے۔ لڑکا جب جوان ہوجاتا اور پگڑی اُس کے سر پر نہ ہوتی تو اپنے رشتہ دار اسے طعنے دیتے اور کہتے بے حیا! اتنا بڑا ہوگیا ہے مگر اب تک اس سے اتنا بھی نہیں ہوسکا کہ ایک بھینس چُرا کر اپنی بہن کو لادے اور اپنے سر پر پگڑی بندھوائے۔ اس طرح پر ہر نوجوان کو چوری پر مجبور کیا جاتا اور وہ بڑا ہوکر جانوروں کا چور بنتا۔
ہماری جماعت کے ایک مخلص احمدی ہیں بلکہ اب تو وہ ہجرت کرکے قادیان آئے ہوئے ہیں۔ جب وہ شروع شروع میں آئے تو ان کا ایک لڑکا ان کے ساتھ تھا جس کے سر پر پگڑی نہیں تھی۔ ہماری والدہ صاحبہ حضرت اماں جان نے گھر میں ان کی اہلیہ سے دریافت کیا کہ اس بچے کے سر پر پگڑی کیوں نہیں تو اس نے بتایا کہ جب یہ کسی کی بھینس چُرا کر اپنی بہن کو لاکر دے گا تب اس کے سر پر پگڑی باندھی جائے گی۔ کیونکہ یہ ہمارے علاقہ کا دستور ہے۔ گو وہ دوست ہمیشہ یہ واقعہ سُن کر شرمندہ ہؤا کرتے ہیں اور کہتے ہیںکہ یہ بات نہیں تھی میرے گھر والوں نے صرف ہنسی سے ایسا ذکر کیا تھا مگر بہرحال ان کے علاقہ میں یہ رواج تو تھا تبھی ان کی اہلیہ نے ذکر کیا۔ یہی بات ایک دفعہ ہمارے ناناجان حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے سُنی تو اس کا ان پر اتنا اثر ہؤا کہ ایک دفعہ جبکہ مجلس میں بعض اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے، برسبیلِ تذکرہ وہ کہنے لگے کہ گجرات کا ہر شخص چور ہوتا ہے۔ میرے ذہن میں اُس وقت یہ حکایت نہیں تھی۔ میں نے کہا یہ صحیح نہیں۔ ہر علاقہ میں نیک لوگ بھی ہوتے ہیں۔ کہنے لگے نہیں گجرات کا ہر شخص چور ہوتا ہے۔ میں نے کہا میر صاحب! آپ کی یہ بات درست نہیں۔ ہماری جماعت میں بھی اس علاقہ کے لوگ شامل ہیں اور وہ بڑے نیک ہیں۔ وہ میری اس بات پر بھی کہنے لگے خواہ کچھ ہو چور ضرور ہوں گے۔ میرا ذہن اُس وقت تک بھی اس قصہ کی طرف نہیں گیا اور میں نے چند دوستوں کے نام لئے کہ دیکھیں فلاں دوست کیسے نیک ہیں، فلاں دوست کیسے نیک ہیں۔ وہ کہنے لگے اگر وہ گجرات کے ہیں تو چور ضرر ہوں گے۔ اِس دوران میں چونکہ ایک مذاق کی صورت پیدا ہوگئی تھی اس لئے میں نے نام لے کر کہا کہ حافظ روشن علی صاحب گجرات کے علاقہ کے ہیں، کیا وہ بھی چور ہیں؟ میرے اس جواب پر میر صاحب کہنے لگے حافظ روشن علی صاحب گجرات کے ہیں؟ میں نے کہا ہاں۔ اس پر وہ پہلے تو ذرا رُک گئے پھر بولے اگر وہ گجرات کے ہیں تو وہ بھی چور ہوں گے۔ آخر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اتنے وثوق سے یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں۔ تو انہوں نے کہاکہ وہاں تو دستور ہے کہ بچہ کے سر پر اُس وقت تک پگڑی نہیں باندھتے جب تک وہ ایک بھینس چُرا کر گھر میں نہ لے آئے۔ اس تشریح سے غالباً گجرات کے دوستوں کے دل کی تکلیف جاتی رہے گی۔ ورنہ پہلے تو انہیں ان کی بات بُری ہی لگی ہوگی۔ اب یہ جو رسم ان علاقوں میں ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ ان اضلاع میںچونکہ ہر وقت جانوروں کی چوری کا ذکر ہوتا رہتا ہے اس لئے سارے علاقہ میں چوری کا رواج ہوگیا ہے۔ یوں اگر وہ سُنیں کہ کسی نے دوسرے کا روپیہ اُٹھالیا ہے تو وہ بھی بُرا مناتے ہیں لیکن جانوروں کی چوری کے ذکر پر ان کے دلوں میں کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اس کا ذکر ان میں عام ہے اور جس بدی کا ذکر عام ہوجائے وہ قوم کے افراد میں پھیل جاتی ہے۔ اسی طرح پٹھانوں میں قتل کا رواج ہے اور وہ اسے کوئی عیب نہیں سمجھتے کیونکہ ہر وقت ان میں قتل کا چرچا رہتا ہے۔
مثل مشہور ہے کہ کسی پٹھان کا لڑکا ایک ہندو سے پڑھتا تھا۔ ایک دن استاد کسی بات پر ناراض ہؤا تو لڑکے نے تلوار اُٹھالی اور چاہا کہ اسے قتل کردے۔ وہ ہندو آگے آگے بھاگا اور لڑکا پیچھے پیچھے۔ وہ بھاگتا جارہا تھاکہ رستہ میں اس لڑکے کا باپ مل گیا اس نے یہ سمجھتے ہوئے کہ باپ اسے روک لے گا کہا خان صاحب دیکھئے آپ کا لڑکا مجھے قتل کرنا چاہتا ہے اسے روکئے۔ اب خان صاحب بجائے اس کے کہ اپنے لڑکے کو روکتے اُس ہندو کو گالی دے کر کہنے لگے اوبنئے! کیا کررہا ہے میرے بیٹے کا پہلا وار ہے، یہ خالی نہ جائے۔ غرض جب اشاعتِ فحش ہو اور بدی کا ذکر عام طور پر لوگوں کی زبان پر ہو تو وہ بدی قوم میں پھیل جاتی ہے اسی لئے ہماری شریعت نے عیوب کا عام تذکرہ ممنوع قرار دیا ہے اور فرمایا ہے جو ہیں ان تک بات پہنچادو اور خود خاموش رہو۔ اگر ایسا نہ کیا جائے اور ہر شخص کو یہ اجازت ہو کہ وہ دوسرے کا جو عیب بھی سُنے اسے بیان کرتا پھرے تو اس کے نتیجہ میں قلوب میں سے بدی کا احساس مٹ جاتا ہے اور بُرائی پر دلیری پیدا ہوجاتی ہے۔ پس اسلام نے بدی کی اس جڑ کو مٹایا اور حکم دیا کہ تمہیں جب کوئی بُرائی معلوم ہو تو۴؎ کے پاس معاملہ پہنچائو جو سزا دینے کا بھی اختیار رکھتے ہیں اور تربیتِ نفوس اور اصلاحِ قلوب کیلئے اَور تدابیر بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ اسی طرح بدی کی تشہیر نہیںہوگی، قوم کا کریکٹر محفوظ رہے گا اور لوگوں کی اصلاح بھی ہوجائے گی۔
پس یاد رکھو کہ نیکی کی تشہیر اور بدی کا اخفا یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ قومیں اس سے بنتی اور قومیں اس سے بِگڑتی ہیں۔ جتنا تم اس بات کا زیادہ ذکر کرو گے کہ فلاں اتنی قربانی کرتا ہے، فلاں اس طرح نمازیں پڑھتا ہے، فلاں اس اہتمام سے روزے رکھتا ہے، اتنا ہی لوگوں کے دلوں میںدین کیلئے قربانی کرنے اور نمازیں پڑھنے اور روزے رکھنے کی خواہش پیدا ہوگی۔ اور جتنی تم اس بات کو شُہرت دو گے کہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں، وہ خیانت کرتے ہیں، وہ چوری کرتے ہیں، وہ ظلم کرتے ہیں، اتنا ہی لوگوں کو ان بدیوں کی طرف رغبت پیدا ہوگی اسی لئے قرآن کریم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ جب تم کسی کی نیکی دیکھو تو اسے خوب پھیلائو اور جب کسی کی بدی دیکھو تو اس پر پردہ ڈالو۔ ایک بلی بھی جب پاخانہ کرتی ہے تو اُس پر مٹی ڈال دیتی ہے پھر انسان کیلئے کس قدر ضروری ہے کہ وہ بدی کی تشہیر نہ کرے بلکہ اُس پر پردہ ڈالے اور اس کے ذکر سے اپنے آپ کو روکے۔ اگر اس ذکر سے اپنے آپ کو نہیں روکا جائے گا تو متعدی امراض کی طرح وہ بدی قوم کے دوسرے افراد میں سرایت کرے گی اور خود اس کا خاندان تو لازماً اس میں مبتلا ہوگا۔
تو بدیوں میں لوگوں کی نقل نہیں کرنی چاہئے بلکہ نیکیوں میں لوگوں کی نقل کرنی چاہئے اور ضمنی طور پر میں نے یہ بھی بتایا ہے کہ نیکیوں کی تشہیر ضروری ہوتی ہے اور بدیوں کا چھپانا ضروری ہوتا ہے۔ دیکھو باوجود اس بات کے کہ ریاء سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے پھر بھی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ۵؎ یعنی ریاء تو منع ہے لیکن اگر برسبیلِ تذکرہ بغیر اس کے کہ فخر ہو یا خیلاء اور تکبر ہو اگر کبھی تم اپنی نیکیوں کا ذکر کردیا کرو تو یہ اَور لوگوں کیلئے ہدایت کا موجب ہوسکتا ہے اور ایسا کرنا پسندیدہ امر ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق بھی آتا ہے کہ بعض دفعہ جب ضروریاتِ دینی کیلئے آپ صحابہ سے چندہ کا مطالبہ کرتے تو لوگوں کو تحریص دلانے کیلئے فرماتے کہ فلاں نے اتنا چندہ دیا ہے۔ اب کون ہے جو اُس سے سبقت لے جائے۔ اِس پر صحابہ نیکی میں مقابلہ کرتے اور ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرتے لیکن ایسا کبھی کبھار کرنا چاہئے جب ریاء اور نمائش نہ ہو یا تماشہ کی صورت نہ بن جائے۔ جیسے انجمنوں میں کیا جاتا ہے کہ ایک پنسل رکھ کر کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں یتیم کی پنسل ہے کتنے روپے کی لو گے؟ یہ تماشہ ہے اور اس قسم کا فعل کوئی پسندیدہ فعل نہیں سمجھا جاسکتا۔ لیکن اگر لوگوں کو نیکی کی تحریص و ترغیب دلانے کیلئے بعض دفعہ اپنی نیکی کا ذکر کردیا جائے تو نہ صرف یہ کہ یہ جائز ہے بلکہ بسا اوقات مفید ثابت ہوتا ہے۔
پس ہماری جماعت کو نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دشمن اگر گندے حملے کرتا ہے تو کرے۔ تمہیں اس کے مقابلہ میں گندے حملے کرنے کی کیا ضرورت ہے اور اگر تم بھی ویسا ہی گندہ حملہ کردو تویہ ویسی ہی مثال ہوگی جیسے کہتے ہیں کہ کسی بیوقوف کا کٹورہ کوئی نمبردار مانگ کر لے گیا پھر شاید وہ بھُول گیا یا اُس کا ارادہ ہی واپس کرنے کا نہ رہا۔ حتّٰی کہ کئی دن گزرگئے۔ ایک دن وہ بیوقوف اُس کے گھر چلا گیا اور دیکھا کہ وہ اس کے کٹورے میں ساگ کھارہا ہے۔ وہ کہنے لگا نمبردار! یہ کیسی بُری بات ہے کہ تم مجھ سے کٹورہ مانگ کر لائے اور چار پانچ مہینے ہوگئے مگر تم نے اب تک واپس نہیں کیا۔ پھر وہ اپنے آپ کو گالی دے کر کہنے لگا تم تو ساگ کھارہے ہو میں بھی اگر تمہارے کٹورے میں نجاست ڈال کرنہ کھائوں تو مجھے ایساایسا سمجھنا۔ اب کوئی اُس سے پوچھے کہ اگر تم نجاست ڈال کر کھائو گے تو تم ہی نقصان اُٹھائو گے، اس کا کیا ہوگا۔ تو بدی کے مقابلہ میں بدی کااستعمال کسی صورت میں جائز نہیں۔ دشمن ہر قسم کی شرارتیں کررہا ہے ا ور کرے گا۔ مگر تمہیں جہاں تک ہوسکے اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہئے اور نیکیوں میں بڑھتے چلے جانا چاہئے۔ آخر وہ گند جو ہمارا دشمن اُچھال رہا ہے ہم وہ گند اچھال کس طرح سکتے ہیں جب تک ہم بھی اس کی طرح سچ کو نہ چھوڑدیں۔ اور اگر ہم اس کا مقابلہ کرتے ہوئے سچ کو چھوڑ دیں اور جھوٹ کو اختیار کرلیں تو پھر تو وہی جیتا اور ہم ہارے۔یہی طریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی دشمنوں کا تھا اور یہی طریق پہلے انبیاء کے زمانہ میں مخالفین نے اختیار کیا۔ یہ تو منہاجِ نبوت ہے اور ناممکن ہے کہ دشمن جھوٹ اور فریب سے کام نہ لے۔
ابھی پچھلے ایام میں لاہور کے کالج کے جو طالب علم آئے تھے ان کے سامنے میں نے ایک تقریر کرتے ہوئے انہیں بتایا تھا کہ میرے خلاف ایک درخواست شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی طرف سے عدالت میں اِس مضمون کی دی گئی تھی کہ میں نے اپنے ایک خطبہ میں جماعت کے دوستوں کو کہا ہے کہ اپنے دشمنوں کو قتل کرو۔ حالانکہ بات کیا تھی؟ بات صرف اتنی تھی کہ انہوں نے میرے اس خطبہ میں سے ایک فقرہ کہیں سے لے لیا اور دوسرا کہیں سے۔ مثلاً ایک فقرہ اگر میں نے ایک جگہ کہا ہے تو اُس کو لے لیا۔ پھر دو چار کالم چھوڑ کر ایک اور فقرہ لے لیا اور ان دونوں کو ملا کر ایک نتیجہ قائم کرلیا اور کہہ دیا کہ جماعت کو قتل کرنے کی تحریک کی گئی ہے۔ حالانکہ اصل مضمون اس کے بالکل اُلٹ تھا۔ مثلاً میں نے جو کچھ خطبۂ جمعہ میں کہا اور آپ لوگوں میں سے اکثر نے سنا وہ یہ تھا کہ دنیا میں لوگ دو طریق سے کامیاب ہؤا کرتے ہیں۔ یا تو وہ دوسروں کو مار کر ان پر غالب آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے قومیں ایک دوسرے سے لڑائیاں کرتی اور مدمقابل کو زک پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور یا وہ ماریں کھاتے اور خاموش رہتے ہیں اور اس طرح ان کی مظلومیت ایک دن رنگ لاتی اور انہیں اپنے مقاصد میں کامیاب کرکے دکھادیتی ہے۔ پھر میں نے بتایا کہ گو دُنیوی طریق یہی ہے کہ دوسروں کو ما رکر ان پر غالب آنے کی کوشش کی جائے۔ اگر نبیوں کا طریق جو قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور جو انبیاء کی جماعتوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ماریں کھائیں اور خاموش رہیں، گالیاں سُنیں اور دم نہ ماریں۔ اب یہ جو میں نے کہا تھا کہ نبیوں کی جماعتوں والا طریق یہ ہے کہ تم ماریں کھائو اور خاموش رہو۔ اس کو تو انہوں نے حذف کردیا اور میرے اِس فقرہ کو لے لیا کہ کامیابی دشمن کو مار کر حاصل ہوتی ہے۔ حالانکہ میں نے وہاں صاف طور پر بتادیا تھا کہ یہ دُنیوی طریق ہے، انبیاء کا طریق نہیں ہے۔ مگر چونکہ تمام فقرات اگر وہ نقل کردیتے تو ان کا دعویٰ خود ہی باطل ہوجاتا اس لئے انہوں نے کوئی فقرہ کہیں سے لے لیا اور کوئی کہیں سے اور اس کا ایک مفہوم نکال کر کہہ دیا کہ اس میں اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کی تحریک کی گئی ہے۔ یہ ویسی ہی بات ہے جیسے ہم دورانِ گفتگو میںاگر یہ کہیں کہ فلاں چور یہ کہتا ہے کہ چوری کرو تو دوسرا اس فقرہ کے ابتدائی حصہ کو جس میں چور کی طرف بات منسوب کی گئی ہے حذف کرکے کہنا شروع کردے کہ یہ لوگوں کو کہتے پھرتے ہیں کہ چوری کرو اور اُس امر کو چھُپاڈالے کہ چور کا قول نقل کیا گیا تھا نہ کہ اپنی طرف سے بات کہی تھی۔
اسی قسم کے ایک شخص کے متعلق مشہور ہے کہ وہ نماز یں نہیں پڑھا کرتا تھا۔ ایک دن لوگوں نے اس سے دریافت کیا کہ بھئی نماز کیوں نہیں پڑھتے وہ کہنے لگا میں نماز کیا پڑھوں۔ قرآن کریم خود کہتا ہے کہ نماز نہ پڑھو۔ اُنہوں نے کہا کس جگہ؟ وہ کہنے لگا دیکھو قرآن میں صاف لکھا ہے ۶؎ نمازکے قریب بھی مت جائو۔ حالانکہ اس سے اگلا فقرہ ہے ۷؎ یعنی ایسی حالت میں نماز نہ پڑھو جبکہ تم مدہوش ہو۔ جیسے سخت نیند آئی ہوئی ہو یا غصہ میں ہو کیونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں انسان کچھ کا کچھ بکواس کرنے لگتا ہے اور ممکن ہے وہ دعا کرنے کی بجائے بددعا کرنے لگ جائے۔ مگریہ فقرہ چونکہ اس کے مفیدِ مطلب نہیں تھا اس لئے اس نے اسے چھوڑ دیا اور پہلا حصہ لے کر کہہ دیا کہ میں کیا کروں مجبور ہوں۔ اگر قرآن کاحکم نہ مانوں تو گنہگار ٹھہروں۔ لوگوں نے کہا اِس آیت کا ذرا اگلا حصہ بھی پڑھو۔ وہ کہنے لگا سارے قرآن پر کس نے عمل کیا ہے۔ کوئی کسی حصے پر عمل کرلیتا ہے اور کوئی کسی پر۔ میں اس حصے پر عمل کرتا ہوں تم دوسرے پر عمل کرلو۔ اسی طرح اپنے خطبہ میں وہ جو میں نے کہا تھا کہ بعض شریر اور مُفسد لوگ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے خلاف جیسا کہ اسے میں سمجھتاہوں ، چاہتے ہیں کہ تشدد اور سختی سے دشمن کا مقابلہ کریں وہ خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والے ہیں۔ انبیاء کی جماعتیں اسی صورت میں کامیاب ہؤا کرتی ہیں جب وہ وہی طریق اختیار کریں جو خدا نے ان کیلئے مقرر کیا ہے اور جو یہ ہے کہ وہ ماریں کھائیں اور چُپ رہیں۔ اس قسم کے تمام فقرات انہوں نے کاٹ دیئے اور دوسرے نامکمل فقرے لے کر شور مچادیا کہ انہوں نے ہمارے متعلق اپنی جماعت کو کہا ہے کہ انہیں مارو۔ اسی طرح اس خطبہ میں بھی میرا ایک فقرہ ہے اور کئی دوسرے خطبات میں بھی وہ فقرہ آتا ہے کہ دیکھو تم میں سے کئی ہیں جو معمولی باتوں پر اظہارِ غضب کرتے ہیں۔ میں کس طرح مان لوں کہ وہ غیرتمند ہیں۔ اگر وہ سچے ہیں تو دوسروں کو کیوں جوش دلاتے ہیں ، خود انہیںکوئی غیرت نہیں آتی اور وہ اسلام پر اپنی آنکھوں سے دشمن کی طرف سے حملے ہوتے دیکھتے ہیں اور گھروں میں خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔ اب اس کابھی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جائو اور دشمن سے لڑو بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ تم جماعت میں جوش پیدا کرتے ہو اور کہتے ہو کہ ہم اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ یہ جھوٹ ہے اگر ایسا ہوتا تودوسروں کو جوش نہ دلاتے خود اپنے عقیدہ کے مطابق لوگوں سے لڑتے۔ مگر انہوں نے اس فقرہ کا بھی یہ مفہوم لے لیا کہ گویا میں نے لوگوں سے یہ کہا ہے کہ تم لڑتے کیوں نہیں اور بے غیرت بن کر کیوں بیٹھے ہو۔ غرض کوئی فقرہ اس کالم سے اور کوئی اُس کالم سے ،کوئی اِس صفحہ سے اور کوئی دو چار صفحے چھوڑ کر اگلے صفحہ سے انہوں نے لے لیا اور اس طرحوالے فقرہ کی طرح انہوں نے بھی ایک مضمون تیار کرلیا۔ حالانکہ بعض جگہ میں نے اپنی بات نہیں بیان کی بلکہ دنیا کا عام طریق یا دشمن کا مقولہ بیان کیا ہے اور اگر اس طرح استدلال کرنا درست ہو تو قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ اے خدا! دشمنوں کے عمائد ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ تم ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو مت چھوڑو اور ان کی پرستش کئے چلے جائو ۔۸؎ اس کے ابتدائی الفاظ کو جن میں یہ بات کفار کے عمائد کی طرف منسوب کی گئی ہے حذف کرکے کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ حضرت نوحؑ نَعُوْذُ بِاﷲِ مشرک ہے۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں وُد اور سواع اور دوسرے معبودانِ باطلہ کی پرستش مت چھوڑو۔ مگر کیا کوئی بھی عقلمند اس استدلال کو درست قرار دے گا اسی طرح جن باتوں کی میں نے اس میں تردید کی ہے اور جنہیں اپنی تعلیم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف بتایا ہے اور کہا ہے کہ جو اِن کو نہیں چھوڑتا وہ قرآن کریم اور اسلام کی نافرمانی کرتا ہے۔ انہی باتوں کو انہوں نے میری طرف منسوب کردیا اور جن فقرات میں یہ باتیں دوسروں کی طرف بتائی گئی تھیں، اُنہیں اُڑادیا۔
اب اس کے مقابلہ میں اگر تم بھی کہو کہ ہم بھی یہی طریق اختیار کریںگے اور ہم بھی اسی طرح انہیں بدنام کریں گے تو بتائو اس کا فائدہ کیا ہؤا اور پھر تم کس طرح کہہ سکتے ہو کہ تم جیتے، جبکہ واقعہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن جیت گیا ہوگا کیونکہ شیطان کی تو غرض ہی یہی ہے کہ وہ تمہیں سچائی سے منحرف کرکے جھوٹ کے راستہ پر ڈال دے۔ پس اگر تم اسی کا تتبع کرکے جھوٹ کو اختیار کرلو تو بہرحال فتح تمہاری نہ ہوئی بلکہ تمہارے دشمن کی ہوئی۔ تمہارا کام تو یہ ہے کہ تم اپنے مقام پر مضبوطی سے کھڑے رہو اور دشمن کے مقابلہ میں بھی جھوٹ اور فریب سے کام نہ لو۔ دشمن اگر ان ہتھیاروں کو استعمال کرتا ہے تو بے شک کرے کیونکہ جب کسی انسان کا دل تقویٰ سے خالی ہوجاتا ہے اور بُغض اس کی بصیرت کے آگے دیوار بن کر حائل ہوجاتا ہے تو وہ عداوت اور دشمنی میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔
آج ہی میرے پاس ایک شکایت پہنچی ہے کہ مصری صاحب کے بعض ساتھی ایک جگہ کھڑے تھے کہ انہوں نے میری تصویر لے کر اس کی ایک آنکھ چاقو سے چھید دی اور اس کے نیچے رنجیت سنگھ کانام لکھ دیا اور ایسی جگہ پھینک دیا جہاں سے احمدی اسے اُٹھالیں۔ یہ شکایت پہنچانے والے دوستوں نے لکھا ہے کہ ہمیں یہ دیکھ کر سخت غصہ اور جوش آیا حالانکہ اِس میں جوش کی کون سی بات تھی۔ دشمن جب عداوت میںاندھا ہوجاتا ہے تو وہ اسی قسم کے ہتھیاروں پر اُترا کرتا ہے۔ پھر ہمارے لئے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ ہمارے بزرگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کو ایک دفعہ ’’زمیندار‘‘ نے لوگوں میں جوش پیداکرکے جُوتیاں مروائی تھیں۔ کچھ دن پہلے اُنہوں نے اس قسم کے مضمون لکھے کہ لوگوں میں اشتعال پیدا ہو۔ پھر ’’زمیندار‘‘ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر اپنے اخبار میں شائع کردی اور اس پر کئی طرح عوام اور جُہلاء نے تصویر کی ہتک کی۔ چنانچہ انارکلی لاہور میں عین سڑک کے درمیان ایک شخص نے تصویر چسپاں کردی تاکہ لوگوں کے پائوں اُس پر پڑیں۔ مگر کیا تم سمجھتے ہو اس کے مقابلہ میں ہمیں بھی یہی چاہئے کہ ہم ان کے باپ دادا کی تصویر لے کر اسے خراب کریں اور اگر ہم بھی ایسا ہی کریں تو اس کا سوائے اس کے اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ بدی اور گند دنیا میں پھیلے۔
پس اِن باتوں کی کبھی پرواہ نہ کرو اور نہ ان باتوں سے جوش اور اشتعال میں آئو۔ یہ دشمن کے پُرانے ہتھیار ہیں اور ہمیشہ انبیاء کی جماعتوں کے مقابلہ میں اس قسم کے ہتھیار وہ استعمال کرتا چلا آیا ہے۔ میں جب خطبہ پڑھتا ہوں تو گلے کی خرابی کی وجہ سے بعض دفعہ منہ میں دوا کی گولی رکھ لیتا ہوں یا بعض دفعہ پان کی گلوری منہ میں رکھ لیتا ہوں۔ چنانچہ پچھلے جمعہ بھی ایسا ہی ہؤا۔ اس پر مصری صاحب کے ایک چیلے نے ناظر امور عامہ کو گمنام چِٹھی لکھ دی اور لکھا کہ اچھے خلیفۃ المسیح ہیں اِدھر خطبہ پڑھتے ہیں اور اُدھر جگالی کرتے چلے جاتے ہیں۔ اب اس نے اس کا نام اگر جگالی رکھ دیا تو میرا کیا بِگڑا، اُسی کی زبان خراب ہوئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں ایک دفعہ ایک شخص آیا ۔ آپ نے اسے تبلیغ کرنی شروع کی تو باتوں باتوں میں آپ نے فرمایا قرآن میں یوں آتا ہے۔ پنجابی لہجہ میں چونکہ قؔ اچھی طرح ادا نہیں ہوسکتا اور عام طور پر لوگ قرآن کہتے ہوئے قاریوں کی طرح قؔ کی آواز گلے سے نہیں نکالتے بلکہ ایسی آواز ہوتی ہے جو قؔ اور کؔ کے درمیان درمیان ہوتی ہے ۔ آپ نے بھی قرآن کا لفظ اُس وقت معمولی طور پر ادا کردیا۔ اس پر وہ شخص کہنے لگا بڑے نبی بنے پھرتے ہیں، قرآن کا لفظ تو کہنا آتا نہیں اس کی تفسیر آپ نے کیا کرنی ہے۔ جونہی اس نے یہ فقرہ کہا حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید جو اُس مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اُنہوں نے اُسے تھپڑ مارنے کیلئے ہاتھ اُٹھایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معاً ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔ دوسری طرف مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بیٹھے تھے ،دوسرا ہاتھ انہوں نے پکڑ لیا۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر اسے تبلیغ کرنی شروع کردی۔ پھر آپ نے صاحبزادہ صاحب سے فرمایا کہ ان لوگوں کے پاس یہی ہتھیار ہیں۔ اگر ان ہتھیاروں سے بھی یہ کام نہ لیں تو بتلائیں اَور کیا کریں۔ اگر آپ یہی امید رکھتے ہیں کہ یہ بھی دلائل سے بات کریں اور صداقت کی باتیں ان کے منہ سے نکلیں تو پھر اللہ تعالیٰ کو مجھے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کا مجھے بھیجنا ہی بتارہا ہے کہ ان لوگوں کے پاس صداقت نہیں رہی۔ یہی اوچھے ہتھیار ان کے پاس ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ یہ ان ہتھیاروں کو بھی استعمال نہ کریں۔
پھر دشمنانِ احمدیت کے ایسے ایسے گندے خطوط میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام پڑھے ہیں کہ انہیں پڑھ کر جسم کا خون کھولنے لگتا تھا اور پھر یہ خطوط اتنی کثرت سے آپ کو پہنچتے کہ میں سمجھتا ہوں اتنی کثرت سے میرے نام بھی نہیں آتے ۔ میری طرف سال میں صرف چار پانچ خطوط ایسے آتے ہیں علاوہ ان کے جو بیرنگ آتے ہیں اور واپس کردیئے جاتے ہیں۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف ہر ہفتہ میں دو تین خط ایسے ضرور پہنچ جاتے تھے اور وہ اتنے گندے اور گالیوں سے پُر ہؤا کرتے تھے کہ انسان دیکھ کر حیران ہوجاتا۔ میں نے اتفاقاً اُن خطوط کو ایک دفعہ پڑھنا شروع کیا تو ابھی ایک دو خط ہی پڑھے تھے کہ میرے جسم کا خون کھولنے لگ گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا تو آپ فوراً تشریف لائے اور آپ نے خطوط کا وہ تھیلا میرے ہاتھ سے لے لیا اور فرمایا انہیں مت پڑھو۔ اِس قسم کے خطوط کے کئی تھیلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جمع ہوگئے تھے۔ لکڑی کا ایک بکس تھا جس میں آپ یہ تمام خطوط رکھتے چلے جاتے۔ کئی دفعہ آپ نے یہ خطوط جلائے بھی مگر پھر بہت سے جمع ہوجاتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہی تھیلوں کے متعلق اپنی کتب میں لکھا ہے کہ میرے پاس دشمنوں کی گالیوں کے کئی تھیلے جمع ہیں۔ پھر صرف ان میں گالیاں نہیں ہوتی تھیں بلکہ واقعات کے طور پر اتہامات اور ناجائز تعلقات کا ذکر ہوتا تھا۔ پس ایسی باتوں سے گھبرانا بہت نادانی کی بات ہے۔ یہ باتیں تو ہمارے تقویٰ کو مکمل کرنے کیلئے ظاہر ہوتی ہیں۔ ان میں ناراضگی اور جوش کی کون سی بات ہے۔ آخر برتن کے اندر جو کچھ ہوتا ہے وہی اس میں سے ٹپکتا ہے ۔ دشمن کے دل میں چونکہ گند ہے اس لئے گند ہی اس سے ظاہر ہوتا ہے لیکن ہمیں چاہئے کہ ہم نیکی و تقویٰ پر زیادہ سے زیادہ قائم ہوتے چلے جائیں اور اپنے اخلاق کو درست رکھیں۔ اگر دشمن کسی مجلس میں ہنسی اور تمسخر سے پیش آتا ہے تو تم اُس مجلس سے اُٹھ کر چلے آئو، یہی خدا کا حکم ہے جو اُس نے ہمیں دیا مگر بیہودہ غصہ اور ناواجب غضب کا اظہار بیوقوفی ہے۔ اگر اِس وقت جب کہ تم کمزور ہو اور تمہاری مثال دنیا کے مقابلہ میں بتیس دانتوں میں زبان کی سی ہے مخالفین کی حرکات پر تمہیں غصہ آتا ہے اور تم اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ سکتے تو یاد رکھو جب ہمیں بادشاہت حاصل ہوگی اُس وقت ہمارے آدمی دشمنوں پر سخت ظلم کرنے والے ہوں گے۔ پس آج ہی اپنے نفوس کو ایسا مارو ایسا مارو کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں یا تمہاری اولادوں کو بادشاہت دے تو تم ظلم کرنے والے نہ بنو اور تمہارے اخلاق اسلامی منہاج پر سُدھر چکے ہوں۔ اگر آج تم صبر سے بھی کام لیتے ہو تو دنیا کی نگاہ میں یہ کوئی خوبی نہیں کیونکہ کمزوری کے وقت ظلم کو برداشت کرلینا کوئی کمال نہیں ہوتا۔ دیکھو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا حضرت مسیح ناصری ؑسے مقابلہ کرتے ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی دلیل پیش کی ہے کہ مسیح ناصری کا حلم اپنے اندر کیا حقیقت رکھتا ہے جبکہ انہیں سختی کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اوران کی نیکی اپنے اندر کیا حقیقت رکھتی ہے جبکہ بدی کے مواقع ہی انہیں پیش نہیں آئے۔ ایک عنین اگر یہ کہے کہ میں بڑا عفیف ہوں، ایک اندھا اگر یہ کہے کہ میں نے کبھی بدنظری نہیں کی، ایک بہرا اگر یہ کہے کہ میں نے کبھی غیبت نہیں سُنی تویہ کوئی خوبی اور کمال نہیں۔ خوبی اور کمال یہ ہے کہ انسان مخالف حالات میں سے گزرے اور پھر اپنے زہد و اتقاء کا شاندار نمونہ دکھائے۔ پس ہمارا آجکل کے زمانہ میں جب کہ ہم کمزور ہیں اور ہمیں کوئی طاقت حاصل نہیں مظلوم ہونا اور تمام مظالم کو برداشت کرتے چلے جانا دنیا کی نگاہ میں کوئی خوبی نہیں۔ گو خدا کی نگاہ میں ہے کیونکہ جب ہم اسی کی رضاء کیلئے اپنے نفسوں کو مارتے اور جذبات کو دبادیتے ہیں تو یقینا اس کی نظر میں مقبول ہیں۔ مگر دنیا اس امر کو نہیں سمجھتی۔ وہ خیال کرتی ہے کہ چونکہ اِس وقت یہ کمزور ہیں اس لئے مظالم برداشت کرتے چلے جارہے ہیں جیسے ہر کمزور طاقتور کے مقابلہ میں جھُکا رہتا ہے۔ پس چونکہ دنیا ہمارے صبر کو کمزوری اور ہمارے عفو کو ضُعف پر محمول کرتی ہے اس لئے اس کا جواب یہی ہے کہ جب خدا ہماری جماعت کو طاقت دے تو اُس وقت بھی وہ عدل اور انصاف کے دامن کو نہ چھوڑے اور اپنے ہاتھ کو ظلم سے روکے اور اس طرح اپنے عمل سے بتادے کہ کمزوری اور طاقت ہر دو حالتوں میں محض خدا کیلئے اس نے ہر کام کیا۔
پس دشمنوں کے حملوں سے مت گھبرائو اور اس کی ناجائز تدابیر سے کبھی جوش میں نہ آئو۔ ایک چیونٹی کو بھی مارنے لگو تو وہ انسان کو کاٹتی ہے، پھر وہ تو انسان ہیں۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ تم ان کے عقائد کو باطل کررہے ، ان کی جمعیت کو ایک ایک کرکے اپنے ساتھ ملا رہے اور ان کو ان کے ہر حملہ میں ناکام و نامراد کررہے ہو اور وہ پھر بھی جوش میں نہ آئیں اور گالیوں کے رنگ میں اپنے دل کا بخار نہ نکالیں۔ انہیں صاف نظر آرہا ہے کہ خداتعالیٰ کی نصرت اور تائید ہماری جماعت کو حاصل ہے ،انہیں اپنی آنکھوں سے دکھائی دے رہا ہے کہ آسمان سے فرشتے ہماری تائید کیلئے اُتررہے ہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ گھٹتے جارہے ہیں اور ہم بڑھتے جارہے ہیں، اگر یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود وہ جوش میں نہ آئیں تو کیا کریں۔ ان کے پاس صداقت تو ہے نہیں۔ پس وہ گالیاں دیتے اور تہذیب سے گرے ہوئے افعال کا ارتکاب کرتے ہیں اور یہی چیزیں ان کے پاس ہیں۔ مگر تم چاہتے ہو وہ شکست بھی کھاتے جائیں اور بولیں بھی نہ۔
پس تم ان کو اپنا غصہ نکالنے دو اور اپنے اندر نیکی پید اکرو اور تقویٰ کی بھٹی میں اپنی تمام اندرونی آلائشوں کو جلادو تا آئندہ آنے والی نسلوں اور نئے احمدیوں پر تمہاری نیکی کا اثر ہو۔ چاہئے کہ تمہاری زبانیں کلماتِ محبت سے تر ہوں اور دشمن کی خیرخواہی بھی تمہارے دلوں میں مرکوز ہو۔ ہاں اس حد تک جو کم سے کم حد ہو تمہیں احتیاط بھی رکھنی چاہئے۔ مثلاً وہ لوگ جو منافقت کا نقاب اپنے چہرے پر اوڑھے رہیں اور جماعت کے اندر رہ کر جماعت کی بربادی کی کوشش کریں ان کی سازش کے ظاہر ہونے پر ضروری ہے کہ ان سے بول چال ممنوع قرار دی جائے۔ اگرکوئی سازش نہ کرے اور جماعت میں شامل رہ کر جماعت کے نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش نہ کرے تو اس سے بول چال ممنوع نہیں کی جاتی۔ یہ صرف ایسے شخص کو ہی سزا دی جاتی ہے جو منافقانہ رنگ اختیار کرتا ہے۔
کئی نادان ہیں جو کہہ دیتے ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ساری عمر میں ایک دفعہ بعض لوگوں کو یہ سزا دی تھی مگر تم تو ہمیشہ یہ سزا دیتے ہو۔ ان نادانوں کویہ معلوم نہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بادشاہت دی ہوئی تھی اور آپ اس سزا کے علاوہ اورسزائیں دینے کی بھی طاقت رکھتے تھے مگر ہمارے پاس یہی ایک سزا ہے۔ اگر ہم یہ سزا بھی نہ دیں تو اور کیا دیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تو مجرموں کو کوڑے لگانے کا حکم بھی دے دیتے تھے، آپ کے حکم سے سنگساری بھی کی گئی ہے، آپ نے بعض لوگوں کو مُلک سے جلاوطن بھی کیا ہے اور پھر ایک وقت میں آپ نے یہ بھی حکم دے دیا کہ فلاں فلاں شخص سے کوئی بات نہ کرے۔ پس جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اَور سزائیں دینے کا حق حاصل تھا تو جہاں آپ نے اَور سزائیں دیں وہاں ایک دفعہ یہ سزا بھی دے دی۔ مگر کیا ہم میں یہ طاقت ہے کہ ہم مجرموں کو شرعی سزا دیں؟ جب نہیں تو ہمارے پاس صرف ایک سزا کا اختیار باقی رہا اوروہ یہ کہ ہم بولنا چالنا منع کردیں۔ اگر اس سزا کو بھی ہم ترک کردیں تو اور کونسی سزا دیں۔ پس یہ سزا دینے پر ہم مجبور ہیں اور یہ نہیںکہا جاسکتا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تو عمر بھر میں ایک دفعہ یہ سزا دی تھی اور ہماری طرف سے متعدد مرتبہ دی گئی ہے۔ پھر یہ سزا جو ہماری طرف سے دی جاتی ہے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ دوسرے کا اندرونہ ظاہر ہوجائے۔ اگرتو اس کے دل میں سلسلہ کی محبت ہوتی ہے اور وہ جماعت سے جُدائی اپنی روح کیلئے ہلاکت کا باعث سمجھتا ہے تو جلد ہی اسے ہوش آجاتا ہے اور وہ توبہ کرلیتا ہے اور اگر اس کے دل میں بدی ہوتی ہے تو وہ بھی ظاہرہوجاتی ہے اورپھر اسے محسوس تک نہیں ہوتا کہ میں کن لوگوں سے کٹ کر کن لوگوں سے جاملا۔
میں نے دیکھا ہے بعض زمیندار جو اَن پڑھ ہوتے ہیںان میں سے اگر بعض کو کسی غلطی پرایسی سزا دی جاتی ہے تو سال بھر وہ روتے ہوئے گزار دیتے ہیںاور انہیں فوراً نظر آجاتا ہے کہ جماعت کے پاک لوگوں سے الگ ہو کر انہیں کس قسم کے لوگوں کی صُحبت میں بیٹھنا پڑگیا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب تین صحابہ کی ایک غلطی کی وجہ سے یہ حکم دیا کہ کوئی ان سے گفتگو نہ کرے تو ان میں سے ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ جب سزا کے آخری ایام تھے تو اُن دنوں ایک بادشاہ کی طرف سے مجھے خط ملا جس میں لکھا تھا کہ ہم نے سنا ہے تمہارے آقا نے تمہیںسخت سزا دی ہے۔ تم ہمارے پاس آجائو ہم ہر طرح تمہاری خاطر ومدارات کرنے کیلئے تیار ہیں۔ میں نے یہ خط دیکھتے ہی کہا کہ صُحبتِ صالح سے تو میں پہلے ہی محروم تھا، اب صحبتِ طالع میسر آنے لگی ہے اور یہ میرے لئے ایک امتحان کا وقت ہے۔ چنانچہ میں وہ خط لئے ایک بھٹی کے پاس گیا جس میں آگ جل رہی تھی اور جاتے ہی وہ خط اُس میں جھونک دیا اور چِٹھی دینے والے سے کہا کہ اپنے بادشاہ سے کہہ دینا کہ تمہارے خط کا یہ جواب ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ فعل ایسا پسند آیا کہ چند دنوں کے بعد ہی اس نے انہیں معاف کردیا۔ ۷؎
تو نیک آدمی فوراً سمجھ جاتا ہے کہ میں کن لوگوں سے الگ ہؤا ہوںا وراب کون سے لوگ میرے اِردگِرد ہیں مگر جس کے اندر بدی ہوتی ہے اسے بُروں کی صُحبت میں ہی لذت آنی شروع ہوجاتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو مصری صاحب کے دل میں اگر واقعہ میں سلسلہ کی محبت ہوتی اور احمدیت سے اخلاص رکھتے تو تھوڑے دنوں میں ہی وہ سمجھ جاتے کہ ایک پاک جماعت سے الگ ہوکر میںکس قماش کے انسانوں میں آملا ہوں۔ وہ اپنے آپ کو مصلح کہتے ہیں مگر کیا مصلحین کا بَدوں سے تعلق ہوتا ہے یا نیکوں سے۔ پھر کیوں ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اگر وہ نیک تھے تو چاہئے تھا کہ نیکوں سے ان کا تعلق ہوتا نہ کہ بَدوں اور آوارہ منش لوگوں سے۔ مگر ان کی حالت یہ ہے کہ وہ بسااوقات سلسلہ کے دشمنوں اور آوارہ منش لوگوں کی مجلس میںبیٹھے ہوئے ایسے خوش ہوتے ہیں کہ گویا خدا کی خاص تائید اُنہیںحاصل ہے اور اِس بات پر فخر کرتے ہیںکہ انہیںایسے لوگوں کی صُحبت حاصل ہوئی۔ صاف پتہ لگتا ہے کہ ان کے دل میں احمدیت سے محبت نہیں۔ ورنہ ایسے لوگوں کو اپنے اِردگِرد دیکھ کر چاہئے تھا کہ وہ روتے اور خداتعالیٰ کے حضور تضرع اور زاری کرتے اور کہتے خدایا! تُو نے کہاں سے نکال کر مجھے کہاں ڈال دیا۔ مگر وہ اس کا نام تائیدِ الٰہی اور نصرتِ ایزدی کہتے ہیں اور اس امر کو بھُول جاتے ہیں کہ اگر یہی تائیدِ ایزدی ہے تو یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی حاصل نہیں ہوئی۔ پس اگر وہ سوچتے تو یہی نشان ان کیلئے کافی تھا اور اس سے وہ اگر چاہتے تو فائدہ اُٹھاسکتے تھے۔
غرض یہ سزائیں جو بعض لوگوں کو دی جاتی ہیں یہ مجبوراً دی جاتی ہیں اور محدود طور پر دی جاتی ہیں۔ اور ہم سے اگر ہوسکے تو ہم تو چاہتے ہیں ان سزائوں کوبالکل ہی مٹادیں اور میں کئی دفعہ خود مصری صاحب کے بارہ میں ہی غور کرچکا ہوں کہ کیا کوئی ایسا طریق ہو سکتا ہے کہ خداتعالیٰ کی نظر میں ہی فتنہ و فساد کا مجرم بننے کے بغیر اس سزا کو ہی ان سے دور کردوں لیکن اب تک ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ مگر میں نے دیکھا ہے ہمارے دوست یہ امر سوچتے رہتے ہیں کہ کس طرح ان سزائوں کو بڑھادیں۔
یہ امر اچھی طرح یاد رکھو کہ جس طرح بے غیرتی ایک گناہ ہے اور اس کا مرتکب خداتعالیٰ کی ناراضگی کا مورِد بنتا ہے اسی طرح ظلم بھی ایک گناہ ہے اور اِس کا مرتکب بھی خداتعالیٰ کے حضوراپنے اعمال کا جواب دِہ ہے مگر تم میں سے بعض ایسے ہیں کہ غیرت کا مادہ اپنے اندر نہیں رکھتے۔ بٹالہ جائیں او رمصری صاحب یا ان کے ساتھی اُنہیں مل جائیں تو بڑے تپاک سے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْکہیں گے اور جب قادیان آئیں گے اور ان کے سامنے کوئی ان کا نام لے دے گا تو کہیں گے توبہ توبہ ایسے آدمی کا نام ہمارے پاس کیوں لیتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ہمیں ایسی رپورٹیں نہیں پہنچتیں۔ رپورٹیں پہنچتی ہیں مگر ہم بغیر کسی کارروائی کے رکھ دیتے ہیں کیونکہ سمجھتے ہیں کہ یہ فعل بے ایمانی کی وجہ سے نہیں بلکہ حماقت یا بُزدلی کی وجہ سے ہے۔
پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم بے غیرت مت بنو۔ مگر اس کے ساتھ ہی مَیں یہ بھی کہتا ہوں کہ تم ظالم بھی مت بنو۔ ایسا نہ ہو کہ ایک گڑھے سے نکلو اور دوسرے گڑھے میں گر جائو۔ ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ ہم فتنہ کو روکیں۔ کسی کی ذات کو نقصان پہنچانا اور اُسے بُرابھلا کہنا نہ پہلے ہمارے مدنظر رہا ہے نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہوگا کیونکہ دل دُکھانا اور دشمن کے متعلق سخت الفاظ کا استعمال کرنا مؤمن کا کام نہیں۔
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ مگر یاد رکھو اﷲ کے انبیاء مجسٹریٹ ہوتے ہیں اور مجسٹریٹ کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ چور کو چور اور سادھ کو سادھ کہے مگر تمہارا یہ حق نہیں کہ تم کسی کو چور یا ڈاکو کہو۔ پس تم اپنے مقا م کو سمجھو اور جو نبیوں کامقام ہے وہ انہی کے پاس رہنے دو۔ تم اگر دشمن کی طرف سے گالیاں سنتے اور جوش دلانے والے واقعات بھی دیکھتے ہو تو تمہارا کام یہ ہے کہ تم صبر کرو اور ساتھ ہی استغفار کرتے چلے جائو تا ایک طرف تمہارے دل پر بے غیرتی کا زنگ نہ لگے اور دوسری طرف ظالموں والا غصہ پیدا نہ ہو، یہی قرآن کریم کی تعلیم ہے۔ وہ تمہیںایسے مواقع پر استغفار کی تعلیم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جب تم دشمن کی دلآزار باتیں سنو تو استغفار کرو اور استغفار پڑھنے سے ایک طرف تم ظالم نہیں بنوگے اور دوسری طرف بے غیرت بھی نہیں بنو گے۔
پس دنیا کو اپنا نیک نمونہ دکھائو اور اپنی اولادوں کوبھی نیک بنانے کی کوشش کرو اور سزا کے معاملہ میں یہ امر یاد رکھو کہ اسے کم سے کم حد تک اور کم سے کم عرصہ کیلئے جاری کرو۔ ہاں اپنے رحم کو وسیع کرو اور اس حد تک کرتے چلے جائو جب تک رحم کرنا بے غیرتی کا موجب نہ ہوجائے مگر اس کے ساتھ ہی اس امر کو ملحوظ رکھو کہ نافرمانی کرنا بھی جُرم ہے۔ پس اگر کسی کے متعلق کسی سزا کا اعلان ہوتا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اس حکم کی تعمیل کرو کیونکہ جس کو خدا نے ایک کام کیلئے مقرر فرمایا ہے تمہارا کام نہیں کہ اُس کے احکام پر نکتہ چینی کرو۔ اور اگر تم اس کے احکام پر جرح کرو گے اور ان کی تعمیل میں کوتاہی سے کام لو گے تو تم نافرمان قرار پائو گے اور نافرمان بھی ظالم ہی ہوتا ہے۔ پس تم نہ تو نافرمانی کی حد تک جائو نہ بے غیرتی یا ظلم کی حد تک جائو بلکہ رحم کرو اور رحم میں وسعت اختیار کرو۔ کیونکہ خدا نے رحم کیلئے وسیع میدان بنایا ہے اور سزا کیلئے تنگ۔ وہ خود کہتا ہے ۹؎ پس بنی نوع انسان پر رحم زیادہ سے زیادہ ہو اور سزا کم سے کم۔ اس گُر کے ماتحت تم اپنے تمام کام لائو اور فرمانبرداری اور اطاعت اختیار کرو اور جب دشمن کی طرف سے کوئی بُری بات سنو تو دل میں استغفار کرو تا اللہ تعالیٰ تم کو بے غیرت ہونے سے بچائے اور اللہ تعالیٰ تم کو ظالم ہونے سے بھی محفوظ رکھے۔ ‘‘
(الفضل ۹؍ مارچ ۱۹۳۸ئ)
۱؎ منبت: جائے روئیدگی۔ بنیاد
۲؎ کپٹ: بُغض۔عداوت۔ دشمنی۔حسد
۳؎ النور: ۲۰ ۴؎ النسائ: ۸۴ ۵؎ الضُّحیٰ :۱۲
۶؎ ، ۷؎ النساء :۴۴
۸؎ (نوح:۲۴)
۹؎ الاعراف: ۱۵۷

۱۰
شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کی کذب بیانیوں کا ایک نمونہ
(فرمودہ ۱۱؍ مارچ ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’اللہ تعالیٰ مؤمنوں کے ایمان کی زیادتی کیلئے ہمیشہ ایسے سامان پیدا کرتا رہتا ہے جو اُن کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھتے اور اُن کے ایمانوں کو بڑھاتے رہتے ہیں۔ جو لوگ تو ظاہر او رباطن میں یکساں ہوتے ہیں اور ان کے دلوں کا ایمان ان کی زبانوں کے دعووں کے مطابق ہوتا ہے ایسے امور ان کے ایمان میں جِلا پیدا کرتے ہیں اور ان کی روحانیت کو ترقی دیتے ہیں لیکن جن کے دلوں میں ایمان ان کی زبانوں کے دعووں کے مطابق نہیں ہوتا اور ان کا ایمان زبان کی نوک تک ہی رہ جاتا ہے اور ان کے دل ویران ہوتے ہیں ان کیلئے وہی چیز ٹھوکر کا موجب ہوجاتی ہے۔
چونکہ یہ قدیم سے الٰہی سنت چلی آتی ہے کہ خدائی نشان، خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والی کتابیں، خداتعالیٰ کے مأمور اور مرسل اور خداتعالیٰ کے دین کی تائید اور مدد میں کھڑے ہونے والے انسان سب اپنے اندر یہ صفت رکھتے ہیں کہ۱؎ دنیا میں خداتعالیٰ کا کوئی ایسا مامور نہیں آیا جو بعض لوگوں کی ٹھوکر کا موجب نہ ہؤا ہو۔ خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی کتاب ایسی نہیں آئی جو بعض کی گمراہی کا موجب نہ ہوئی ہو۔ خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کیلئے کوئی شخص کھڑا نہیں ہؤا خواہ وہ مامور ہو یا غیرمامور، جو بعض لوگوں کی گمراہی کا موجب نہ ہؤا ہو، اسی طرح دنیا میں خداتعالیٰ کا کوئی مامور یا مرسل ایسا نہیں آیا جولوگوں کی ہدایت کا موجب نہ ہؤا ہو۔ کوئی کتاب ایسی نہیں آئی جس سے لوگوں نے ہدایت نہ پائی ہو۔ کوئی شخص خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کیلئے ایسا کھڑا نہیں ہؤا جس کے دل میں سچی تڑپ ہو اور خداتعالیٰ نے اس کی کوششوں میں برکت نہ ڈالی ہو۔ یہ دونوں دریا یکساں اور بیک وقت چلتے ہیں۔ لیکن ۲؎بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ہی دریا ہے جو کسی زمانہ میں خالص اسلام کے نام سے بہتا ہے ، کسی زمانہ میں عیسوی تعلیم کے نام سے بہتا ہے اور کسی زمانہ میں ابراہیم ؑ کی تعلیم کے نام سے بہتا ہے اور کسی زمانہ میں احمدیہ اسلام کے نام سے بہتا ہے۔ گو ہر زمانہ میںیہ دریا ایک نظر آیا ہے مگر دراصل اس کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک میٹھا اور ایک کڑوا۔ جو حصہ میٹھے پانی پر مشتمل ہوتا ہے وہ مؤمنوں کی جماعت ہوتی ہے اور جو کڑوے پرمشتمل ہوتا ہے وہ منافقوں کی جماعت ہوتی ہے اور ان دونوںکے درمیان ایک بہت ہی باریک پردہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ فرمایایعنی گو دنیا کو وہ دریا ایک ہی نظر آتا ہے مگر دراصل اس میں دو قسم کے پانی ہیں ایمان کا بھی اور نِفاق کا بھی۔ مؤمن کوشش کرتے ہیں کہ منافقوں کو سیدھا کریںاور راہِ راست پر لے آئیں مگر ان کی باتیں ان کو اور بھی گمراہ کرنے کا موجب ہوجاتی ہیں اور منافق کوشش کرتے ہیں کہ مؤمنوں کو گمراہ کریں۔ مگر ان کی تدبیریں مؤمنوں کے ایمان کو اَور بھی بڑھانے کا باعث ہوجاتی ہیں۔ سورئہ بقرہ میں خداتعالیٰ فرماتا ہے ۳؎یعنی اللہ تعالیٰ اپنے نشانوں سے منافقوں کے مرض کو بڑھاتا ہے۔ پھر سورئہ احزاب میںہے کہ منافقوں نے آکر مسلمانوں کو ڈرانا شروع کیا اور کہا کہ کُفر بہت ترقی کرگیا ہے اور کہ کافر چاروں طرف سے حملہ آور ہورہے ہیں اور اب ایسا وقت آگیا ہے کہ مسلمان بالکل تباہ ہوجائیں مگر یہ باتیں سُن کر اور کفار کا لشکر دیکھ کر بجائے اس کے کہ مؤمن ڈرتے ان کے ایمان اور بھی بڑھ گئے ۴؎ان امور نے مؤمنوں کے ایمان اور ان کی فرمانبرداری کو اور بھی بڑھادیا۔ غرض نشان ایک ہی ہوتا ہے مگر دو قسم کے لوگوں کیلئے وہ دو مختلف نتائج پیدا کرتا ہے۔ ایک فریق اس کی وجہ سے ایمان میںترقی کرتا ہے اور دوسرا نِفاق میں۔
غرض دنیا کی نگاہ میں گو الٰہی سلسلہ ایک دریا کی طرح بہتا ہؤا نظر آتا ہے اور سب دیکھنے والے اسے ایک ہی سمجھتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کی نظر میں وہ جدا جدا دریا ہوتے ہیں۔ کئی نادان کہتے ہیں کہ یہ دونوں فریق ایک ہی ہے اور ان میں کیا اختلاف ہے۔ مگر خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ نہیں ۔ وہ اصل میں بالکل الگ الگ ہیں اور ان کے درمیان خداتعالیٰ کی طرف سے ایک پردہ حائل ہے۔ منافق مؤمن کے حالات کونہیں پاسکتا اور مؤمن منافق کی ذلتوں سے حصہ نہیں لیتا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ ایسے نشان بھیجتا ہی رہتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اِس بات نے نشانات ظاہر کرنے سے نہیں روکا کہ دنیا میں جب بھی وہ ظاہر ہوئے ان کا انکار کیا گیا۔۵؎ یعنی ہمیں اس بات کے سوا نشان بھیجنے سے کس امر نے روکا ہے کہ جب پہلے زمانوں میں نشانات ظاہر ہوئے تولوگوںنے انہیں نہیں مانا۔ مطلب یہ کہ یہ روک کوئی روک نہ تھی اس لئے ہم پھر بھی نشانات بھیجتے ہی رہے کیونکہ نشانات تو ماننے والوں کے لئے ہوتے ہیں اور وہی لوگ خداتعالیٰ کی جماعت ہیں۔ سو جب نشانات ان کو فائدہ پہنچاتے ہیںتو دشمنوں کے انکار کی وجہ سے دوستوں کو فائدہ سے کیوں محروم کیا جائے۔ اِن نشانوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے نبیوں کی جماعتوں کی صداقت کے اظہار کیلئے مقرر کئے ہیں ایک یہ بھی ہے کہ جب بھی کوئی ان کا مقابلہ کرنے کیلئے کھڑ ا ہوتا ہے وہ جھوٹ کا ہتھیار ضرور استعمال کرتاہے اور بِالعموم ایسے لوگوں کے دعوئوں کی بنیاد جھوٹ اور فریب پر ہوتی ہے اور ان کے مقابلہ پر مؤمنوں کی بنیاد بِالعموم صداقت پر ہوتی ہے۔ بِالعموم میں نے اس لئے کہا کہ ان میں بھی بعض کمزور لوگ ہوتے ہیں جو مصائب کا مقابلہ نہیں کرسکتے اوربعض اوقات جھوٹ بول جاتے ہیں۔ مگر ان کاجھوٹ عارضی ہوتا ہے مستقل نہیں۔ مگر مقابلہ کرنے والوں کا جھوٹ مستقل ہوتا ہے اور وہ بھی عَلَی الْاِعلان اپنی قوم کی طرف سے ایسا جھوٹ بولتے ہیں کہ ہر شریف الطبع محسوس کرلیتا ہے کہ وہ ایسی خلاف بیانی کرتے ہیں جو مؤمن نہیں کرسکتے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ کیا تو دشمن نے کہا کہ آپ جھوٹے ہیں۔ حالانکہ اگر آپ نَعُوْذُ بِاﷲِ جھوٹے ہوتے تو سچ سے آپ کو مغلوب کرنا آسان تھا۔ اگر وہ دعوے جو آپ نے کئے قرآن کریم سے ثابت نہیںہوتے تھے تو آسان طریق یہ تھا کہ قرآن کریم یا احادیث صحیحہ سے ان کا غلط ہونا ثابت کردیا جاتا۔ پس دشمن کیلئے یہ راہ بالکل آسان تھی کہ وہ ان آیتوں اور حدیثوں کو پیش کرتا جو اِن دعوئوں کے خلاف تھیں مگر اس نے ایسا کرنے کے بجائے آپ کی طرف جھوٹے دعوے اور جھوٹے کام منسوب کئے۔ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ میں ایسا نبی نہیں ہوں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حلقۂ اطاعت سے باہر جائوں بلکہ میں آپ کے دین اور قرآن کریم کی اشاعت کیلئے مبعوث کیا گیا ہوں۔ لیکن دشمنوں نے لوگوں کو یہ بتایا کہ آپ نے نبوت کا دعویٰ کرکے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتک کی ہے یا پھر یہ کہ آپ نے فرمایا کہ حضرت مسیح ناصری ؑ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ مگر خدائی صفات جو آپ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں وہ آپ میں نہیں تھیں۔ اور اس پر دشمنوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ آپ نے حضرت مسیحؑ کی ہتک کی ہے۔ حالانکہ اگر آپ کا یہ دعویٰ غلط تھا کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی طرف ایسے معجزات منسوب کرنا جن سے شرک پیدا ہوتا ہے غلطی ہے تو اس کا ردّ آسان تھا او روہ اس طرح کہ قرآن کریم سے یہ ثابت کردیا جاتا کہ بندے مُردوں کو زندہ کرسکتے ہیں یا یہ کہ انبیاء کو ایسا علمِ غیب حاصل ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو ہے۔ مگر یہ آسان راہ اختیار کرنے کی بجائے دشمنوں نے آپ کی طرف ایسے دعوے منسوب کئے جوآپ نے نہیں کئے تھے اور آپ کی کتابوں سے حوالے کانٹ چھانٹ کر آپ کی طرف ایسی باتیں منسوب کیں جو دراصل آپ نے نہیں کہی تھیں۔ چنانچہ مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی نے ایک رسالہ لکھا اور گورنمنٹ کو بھجوایا جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ آپ گویا گورنمنٹ کے مخالف ہیں۔ اور اس میںآپ کی کتابوں سے بعض حوالے کانٹ چھانٹ کراور کوئی ٹکڑا عبارت کا کہیں سے لے کر اور کوئی کہیں سے درج کردیئے مگر آج اس کے برخلاف دشمن یہ کہتے ہیں کہ آپ گورنمنٹ کے خوشامدی تھے اور آپ کی کتابوں کی ایسی تیس الماریاں بھری پڑی ہیں جن میں آپ نے گورنمنٹ کی وفاداری کی تعلیم دی ہے اورگورنمنٹ کی خوشامد سکھائی ہے۔ گویا پہلے بغاوت کا حربہ استعمال کیا لیکن اب یہ دیکھ کر کہ وہ حربہ اب کارآمد نہیں ہوسکتا، کیونکہ لوگوں میں بیداری پیدا ہوچکی ہے اور قومی خیالات ترقی کررہے ہیں، تو یہ پہلو اختیار کرلیا کہ آپ خوشامدی تھے۔
تو یہ دونوں قسم کے اعتراضات کئے گئے حالانکہ ان دونوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا زمین و آسمان میں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ کیونکہ زمین آسمان تو ایک وقت میںموجود ہیں لیکن یہ باتیں تو بالکل متناقض ہیں۔ اگر کوئی شخص دشمن ہو تو وہ خوشامد نہیں کرسکتا اور اگر خوشامدی ہو تو دشمن نہیں ہوسکتا لیکن ان لوگوں کو تو دیانت سے تعلق نہ تھا۔ جب دیکھاکہ ملک میں بیداری ہے اور پبلک کو جوش دلانے سے فائدہ ہے تو کہہ دیا کہ آپ خوشامدی تھے۔ مگر جب پبلک گورنمنٹ کے خلاف نہ تھی اور یہ سمجھا جاتھا تھا کہ گورنمنٹ کو جماعت احمدیہ کے خلاف کرنے میں فائدہ ہے تو اُس وقت یہ کہہ دیاکہ آپ گورنمنٹ کے مخالف ہیں۔ غرض جب گورنمنٹ مضبوط تھی اور لوگوں میں قومی خیالات نہ پائے جاتے تھے اُس وقت گورنمنٹ کو آپ کے خلاف کرنا چاہا اور جب گورنمنٹ میں کمزوری پید اہوئی اور پبلک میں قومی خیالات ترقی کرنے لگے تو خوشامدی کہنا شروع کردیا۔ اور یہ کہ آپ کو حکومت نے ہی کھڑا کیا ہے۔ لیکن عقلمند جانتے ہیںکہ یہ دونوں باتیں غلط اور جھوٹ ہیں۔
اس زمانہ میں میرے متعلق بھی یہی طریق استعمال کیا گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب میرے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ گورنمنٹ کا خوشامدی ہے اور اب یہ کہا جاتا ہے کہ گورنمنٹ کا دشمن ہے۔ یہ بعینہٖ وہی بات ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پہلے مخالف اور بعد میں خوشامدی کہا گیا اور مجھے پہلے خوشامدی اور بعد میں مخالف کہا گیا۔ پہلے مجھے حکومت کا خوشامدی کہا جاتا تھا مگر بعد میں جب دیکھا کہ حکومت کے بعض افسر ہمارے دشمن ہیں تو مجھے حکومت کا دشمن کہنے لگے۔ اِس خیال سے کہ اس طرح بعض حکام بھی ان کے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔پھر ان فتنوں میں دیکھ لو جو مذہبی لحاظ سے اُٹھے ہیں کس طرح خلافِ واقعہ اور غلط حوالے پیش کئے جارہے ہیں۔ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ مسلمانوں میں خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ جب دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو اسلام پر عمل کریں گے حالانکہ جب وہ مستقل نبی ہیں تو وہ اپنے دین پر عمل کریں گے۔ یہ بنیاد قائم کرکے آپ لکھتے ہیں کہ اسلام کیلئے وہ کیسا مصیبت کا وقت ہوگا جب اس میں ایک ایسا نبی آئے گا کہ مسلمان تو مسجدوں کی طرف نماز پڑھنے جارہے ہوں اور وہ گرجا کی طرف جارہا ہو، مسلمان تو قرآن کی تلاوت کررہے ہوں اور وہ انجیل پڑھ رہا ہو۔ (مفہوم عبارت)۔پیغامی جب جماعت سے علیحدہ ہوئے تو انہوں نے اس حوالہ کو بگاڑ کر یوں شائع کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کیلئے وہ کیسا مصیبت کا وقت ہوگا جب ان میں ایک نبی آئے گا۔ انہوں نے ’’ایسا‘‘ کو کاٹ کر اس کی جگہ ’’ایک‘‘ لکھ دیا اور اس طرح اس کے یہ معنے کرلئے کہ اب کسی قسم کا بھی نبی نہیں آسکتا حالانکہ ’’ایسا‘‘ کا لفظ بتارہا ہے کہ ایک خاص قسم کے نبی کے متعلق آپ یہ فرمارہے ہیں۔ تو انہوں نے ’’ایسا‘‘کاٹ کر آرام سے اس کی جگہ ’’ایک ‘‘ کا لفظ لکھ دیا۔ ہر ایک شخص کے پاس کتاب نہیں ہوتی۔ پس انہوں نے سمجھا کہ اس طرح بہت سے لوگ دھوکا کھاتے چلے جائیں گے اَور حوالوں میں بھی ان کا یہی رویہ رہا ہے۔ ابتدائی کتب کے حوالے لوگوں کو دکھا دیتے ہیں اور آخری کتب کے حوالوں کو چھپالیتے ہیں۔
کل ہی ایک دوست ڈاکٹر عبدالغفور صاحب کی لاش یہاں لاکر دفن کی گئی ہے۔ جن دنوں وہ سلسلہ کے بارہ میں تحقیق کررہے تھے اُنہیں ڈلہوزی جانے کا اتفاق ہؤا۔ مولوی محمد علی صاحب بھی وہاں تھے۔ وہ ان سے ملنے گئے اور نبوت کے بارہ میں گفتگو شروع کی تاکہ اس مسئلہ کے بارہ میں بھی کوئی فیصلہ کرسکیں۔ انہوں نے بعض حوالے اپنے مطلب کے ڈاکٹر صاحب کو دکھائے۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب مرحوم بعض ہمارے دوستوں سے بھی حوالہ جات سُن چکے تھے۔ انہوں نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ ’’حقیقۃ الوحی‘‘ منگوائیں اور اس کی فلاں فلاں عبارت کو حل کریں۔ اس کے جواب میں جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے بعد میں ذکر کیا، مولوی صاحب نے جواب دیاکہ وہ کتاب میرے پاس یہاں نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ دوسری کتب موجود ہیں مگر صرف وہ کتاب نہیں ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تعزیراتِ ہند قرار دیا ہے۔اور ان پر اس امر کا خاص اثر ہؤا کہ ان کتب کو بھی یہ لوگ نہیں رکھتے جن سے ان کے عقیدوں کے خلاف ثبوت ملتا ہے۔ آخر انہوں نے ۱۹۳۵ء یا ۱۹۳۶ء میں میری بیعت کرلی۔ تو انسان کے مدنظر جب صداقت ہو تو سب قسم کی باتیں سامنے لانی چاہئیں۔ کوئی بات چھُپانے کی ضرورت نہیں مگر بعض لوگ چونکہ خاص مقاصد ان کے مدنظر ہوتے ہیں، جان بوجھ کر غلط حوالہ جات پیش کردیتے ہیں اور یہی ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ ان کے پاس دلائل کوئی نہیں ہیں ورنہ انہیں جھوٹ کی کیا ضرورت تھی۔
اب میں دیکھتا ہوں کہ مصری صاحب کے فتنہ میں بھی وہی طریق اختیار کیا جارہا ہے۔ صریح طور پر وہی باتیں پیش کی جارہی ہیں جن کے متعلق ہر عقلمند جانتا ہے کہ غلط ہیں۔ اور ایسے حوالے پیش کئے جارہے ہیں کہ اگر ایک بچہ کے سامنے بھی رکھ دیئے جائیںتو وہ کہے گا یہ غلط ہیں۔ کسی غیراحمدی کے سامنے دونوں حوالے رکھ دو اور یہ نہ بتائو کہ میرا کون سا ہے اور ان کا کون سا، اور اس سے پوچھو کہ کیا میرے الفاظ کا وہی مفہوم ہے جو وہ پیش کرتے ہیں۔ تو وہ فوراً کہہ دے گا کہ ہرگز نہیں۔ بالکل جھوٹ ہے۔
یہی فخرالدین صاحب اور عزیز احمد صاحب کا واقعہ ہے۔ اس مقدمہ میں ہائیکورٹ نے ایک فیصلہ کیا اور اس کی بناء پر ان لوگوںنے شور مچانا شروع کردیا کہ ہائیکورٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مرزا محمود احمد کے خطبات کے نتیجہ میںیہ قتل ہؤا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جس رنگ میں وہ فیصلہ کیا گیا اور جس رنگ میں اس کا استعمال ہؤا اس سے ہم بھی متأثر ہوئے تھے اور میں نے بھی ایک مضمون لکھا تھا کہ فیصلہ میں بعض ایسے الفاظ ہیں جن کے معنے بعض لوگوں کیلئے صاف نہیں۔ غرض اُس وقت ان الفاظ سے غلط مفہوم لینے کا امکان تھا اور اس وجہ سے غلط معنے کرنے والوں پریقینی طور پر بددیانتی کا الزام نہیںلگایا جاسکتا تھا۔ مگر اب جبکہ ہائیکورٹ کے فاضل ججوں نے اِس غلط فہمی کو دُور کردیا ہے اگر ان الفاظ کو اسی رنگ میں استعمال کیا جائے تو ہر شخص تسلیم کرے گاکہ یہ صاف بددیانتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو آسمان پر زندہ ماننا شرک ہے ۔۶؎ اس پر مخالف کہتے ہیں کہ ان تمام بزرگانِ سلف کو جو اس عقیدہ کے تھے آپ نے مشرک کہا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جب تک ایک مامور نے آکر اس غلطی کو واضح نہیں کیا اُس وقت تک یہ ایک نہایت مخفی شرک تھا جو صرف اجتہاد کی غلطی کہلاسکتا تھا اور ایسا عقیدہ رکھنا لوگوں کو گنہگار نہیں بناتا تھا کیونکہ لوگوں کی توجہ پھیری نہیں گئی تھی کہ یہ شرک ہے۔ لیکن مامور کی طرف سے اس کی وضاحت کے بعد ایسا عقیدہ رکھنا کھلا شرک بن گیا پس اب اس کا معتقد گنہگار کہلائے گا۔ پس پہلے بزرگ گنہگار نہیں تھے اور اس زمانہ کے لوگ گنہگار ہیں۔ اسی طرح جب تک ہائیکورٹ نے اپنے الفاظ کی وضاحت نہیں کی تھی اس قسم کا مفہوم لینا بددیانتی نہیں کہلاسکتا تھامگر اب کہ ججوں نے اپنے الفاظ کی وضاحت کردی ہے، وہ مفہوم لینا بددیانتی ہے۔ مگر ان لوگوں کی دیانت کا یہ حال ہے کہ وہ اب بھی یہی مفہوم لے رہے ہیں۔ ان کے ہمدرد اخبارات فیصلہ کو چھاپتے نہیں صرف یہ لکھ رہے ہیں کہ ہائیکورٹ نے درخواست مسترد کردی مگر یہ نہیں بتاتے کہ کیوں درخواست مسترد کی گئی۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے زید بکر کے پاس ایک ہزار روپیہ امانت کے طور پر رکھے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اس کے پاس جائے کہ میں نے جو ایک ہزار روپیہ آپ کے پاس امانت رکھا تھا وہ مجھے واپس دے دیں۔ اِس پر بکر جواب دے کہ مجھے آپ کاپیغام اس سے پہلے مل چکا ہے اور میں نے اسی وقت فلاں آدمی کے ہاتھ روپیہ آپ کے گھربھجوادیا ہے۔ اس پر زید بجائے گھر جاکر روپیہ وصول کرنے کے لوگوں میں شور مچادے کہ بکر میرا روپیہ دینے سے انکاری ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ الفاظ میں بکر یہی کہتا ہے کہ میں آپ کو روپیہ نہیں دیتا۔ مگر وہ یہ لفظ اس لئے نہیں کہتا کہ وہ امانت سے منکر ہے بلکہ اس لئے کہ وہ کہتا ہے کہ میں آپ کے آنے سے پہلے ہی روپیہ بھجواچکا ہوں۔ بعینہٖ اسی طرح ہائیکورٹ نے میری درخواست کو مسترد کیا ہے۔ یعنی انہوں نے میری اس درخواست کے جواب میں کہ آپ کے فلاں الفاظ کے لوگ یہ معنے کرتے ہیں کہ گویا میں نے اپنے خطبات میں جسمانی سزا کی طرف اشارہ کرکے قتل کی انگیخت کی ہے اور ایسا میں نے ہرگز نہیں کیا اس لئے ان الفاظ کی اصلاح کی جائے۔ یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم نے ایسا ہرگز نہیں کہا اور لوگ ہماری طرف غلط بات منسوب کرتے ہیں۔ پس جبکہ ہماری عبارت کا وہ مفہوم نہیں جو لوگ لیتے ہیں تو ہمیںکوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ ہم اپنے الفاظ کو بدلیں۔ پس درخواست مسترد ہے۔ ہر دیانتدار آدمی جانے گا کہ یہ ویسی ہی مثال ہے جو میں اوپر بیان کرچکا ہوں۔ یعنی بکر زید کو روپیہ دینے سے اس لئے انکار کرتا ہے کہ وہ پہلے ادا کرچکا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہائیکورٹ کے فاضل ججوں کیلئے میری درخواست کی منظوری کے متعلق دو ہی صورتیں ممکن تھیں۔ یا تو وہ کہتے کہ ہم خطبہ کا مطلب پہلے وہی سمجھتے تھے جو مصری اور ان کے ساتھیوں نے سمجھا لیکن اب ہم سمجھ گئے ہیں کہ ہم نے پہلے جوبات سمجھی تھی وہ غلط تھی اس لئے اپنے الفاظ کاٹ دیتے ہیں۔ اوردوسری صورت یہ تھی کہ وہ یہ کہتے کہ ہم نے وہ الزام آپ پر لگایا ہی نہیں جو آپ یا دوسرے خیال کرتے ہیں کہ ہم نے لگایا ہے۔پس چونکہ ہم نے ایسا کہا ہی نہیں اس لئے ہم اپنے الفاظ کو کاٹتے بھی نہیں۔ ظاہر ہے کہ مؤخرالذکر فیصلہ تو پہلی صورت سے بھی زیادہ ہمارے لئے مفید ہے کیونکہ اگر ججز پہلی صورت اختیار کرتے تو کوئی کہہ سکتا تھاکہ خطبہ کے الفاظ ایسے مشتبہہ تھے کہ ایک دفعہ تو ہائی کورٹ کے ججوں کو بھی غلطی لگ گئی مگر وہ تو کہتے ہیں کہ ہمیں تو پہلے بھی کوئی غلطی نہیں لگی۔ ہم پہلے بھی یہی سمجھتے تھے کہ ان الفاظ میں روحانی سزا کا ذکرہے اور اب بھی یہی سمجھتے ہیں۔ اور جب ہم نے پہلے بھی یہ نہیں سمجھا تو ہم کاٹیں کس بات کو۔ چنانچہ ان کا فیصلہ یہ ہے۔
’’یہ درخواست مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے اس غرض کیلئے دی گئی ہے کہ ہم نے فوجداری اپیل ۱۱۲ آف ۱۹۳۷ء کے فیصلہ میں جو ۳؍ جنوری ۱۹۳۸ء کو کیا گیاہے بعض ریمارکس ایسے کئے تھے جنہیں حذف کردیاجائے۔ مرافعہ گزار کے وکیل مسٹر سلیم نے ہماری توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی ہے کہ ہمارے فیصلہ کے آخری پیراگراف کے ایک فقرہ کا غلط مطلب لے کر اسے امام جماعت احمدیہ کے خلاف پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ وہ فقرہ یہ ہے ’’اگر ہم اپیل کنندہ کے وکیل کے اس استدلال کو قبول بھی کریںکہ خلیفہ صاحب کا سزا سے مقصد روحانی سزا تھا تو بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مذہبی راہنمائوں کے بعض پُرجوش پیروئوں کیلئے روحانی اورجسمانی سزا میں امتیاز کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بہرِنوع اِس مُلک میں ایسے مذہبی دیوانے موجود ہیں جو ایسی سزائوں کی تکمیل کیلئے اپنے آپ کو خدا کا آلۂ کار سمجھتے ہیں‘‘۔
کہا گیا ہے کہ خلیفہ صاحب کے مخالف اس فقرہ کا یہ مطلب لے رہے ہیں کہ خلیفہ صاحب کی اس تقریر میں جس کا ہم نے ذکر کیا تھا سزا سے روحانی سزا مراد نہیں بلکہ جسمانی سزا مراد تھی اور فی الحقیقت اس میں تشدد کی تلقین کی گئی تھی‘‘۔
اس کے بعد ججز کہتے ہیں کہ:
’’اس فقرہ کا یہ مفہوم درست نہیں۔ لیکن اس معاملہ کو اچھی طرح واضح کرنے کیلئے نیز خلیفہ صاحب کے متعلق انصاف کو ملحوظ رکھنے کیلئے (In Justice to کا یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ا س کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ صاحب کے متعلق انصاف کا تقاضا پور ا کرنے کیلئے) ہم یہ قرار دیتے ہیں کہ ہم نے وکیل کے اس بیان کو صحیح تسلیم کیا تھا کہ خلیفہ صاحب کی تقریر میں جسمانی طور پر نہیں بلکہ روحانی طور پر سزا کا ذکر تھا۔ ہم نے دراصل اِس مُلک میںاس قسم کی تقریروں کے متعلق اس خطرہ کا اظہار کیا تھا کہ کسی مذہبی راہنما کے پُرجوش پیرو ان دو قسم کی سزائوں میں مشکل سے تمیز کرسکتے ہیں‘‘۔
یعنی ہمارا واعظانہ رنگ تھا۔ اِس ملک میں لوگ عام طور پر جاہل ہیں اور عین ممکن ہے کہ کسی تقریر میں کسی مذہبی بزرگ کی مراد سزا سے روحانی ہو مگر اس کے جاہل مریدوں میںسے کوئی اس بات کو نہ سمجھ سکے اور وہ جسمانی سزا مراد لے لے۔پھر وہ لکھتے ہیں کہ:-
’’ہم اپنے فیصلہ کے کسی حصہ کو حذف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے (یعنی جب ہم نے وہ بات کہی ہی نہیں تو حذف کس کو کریں) لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے اس فیصلہ کو جس رنگ میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے پیش نظریہ ضروری ہے کہ آخری حصہ کے مفہوم کی ایسی تشریح کردی جائے کہ اس کا مطلب غلط نہ لیا جاسکے۔ چنانچہ اس غرض کے لئے ہمارا یہ فیصلہ فوجداری اپیل ۱۱۲ آف ۱۹۳۷ء کے متعلق ہمارے فیصلہ کے حصہ کے طور پر پڑھا جانا چاہئے۔ درخواست خارج کی جاتی ہے‘‘۔
گویا وہ قرار دیتے ہیں کہ آئندہ پہلے فیصلہ کو علیحدہ کوئی شائع نہیں کرسکتا بلکہ اسے ساتھ لگانا ضروری ہے تا ہر پڑھنے والا سمجھ سکے کہ ہمارا کیا مطلب ہے۔ اور وہ قرار دیتے ہیں کہ ہماری اس تشریح کے بغیر جو شائع کرے گا وہ مجرم ہوگا۔ یہ الفاظ کہ درخواست خارج کی جاتی ہے تو ٹیکنیکل اور اصطلاحی الفاظ ہیں اور ان کا مطلب یہ ہے کہ ہم سے کہا گیا ہے کہ ہم ان الفاظ کو منسوخ کردیں مگر ہم نے وہ الفاظ چونکہ کہے ہی نہیں اس لئے منسوخ کسے کریں۔ یہ بالکل وہی بات ہے کہ بکر زید سے کہتا ہے کہ میں تمہارا ایک ہزار روپیہ اس لئے نہیں دیتا کہ وہ میں تمہارے مکان پر بھجواچکا ہوں اور اب تک وہ پہنچ بھی چکا ہوگا۔ لیکن زید کہے کہ بکر بددیانت ہے۔ اسی طرح ججز کہتے ہیں کہ ہم درخواست کو مسترد کرتے ہیں۔ کیونکہ اس میں وہ بات حذف کرنے کو کہا گیا ہے جو ہم نے کہی ہی نہیں۔ اور دشمن جو کہتے ہیں کہ ہم نے یہ کہا ہے وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اور آئندہ کیلئے ہم یہ قرار دیتے ہیں کہ ہمارے اس فیصلہ کو بھی سابقہ فیصلہ کا جُز سمجھا جائے اور اِسے اُس کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے۔ لیکن یہ لوگ عوام کو صرف یہ سناتے ہیں کہ مرزا صاحب کی درخواست مسترد ہوگئی۔ ان کے حامی اخبارات بھی یہ بات لکھ رہے ہیں اور یہاں قادیان میں مصری صاحب اور ان کے ساتھی بھی یہ کہتے ہیں کہ اَلْحَمْدُ ِﷲِ درخواست مسترد ہوگئی۔ کیسی عجیب بات ہے۔ ہائیکورٹ کے جج تو یہ کہتے ہیں کہ مصری اور اس کے ساتھی جھوٹے ہیں۔ مگر یہ کہتے ہیں کہ اَلْحَمْدُ ِﷲِ درخواست مسترد ہوگئی۔ ہم تو دعا کرتے ہیں کہ ایسی اَلْحَمْدُ ِﷲِکہنے کی توفیق ان کو روز ملتی رہے۔ حکومت اور غیرحکومت کے لوگوں کی طرف سے روز ان کو جھوٹا کہا جائے اور یہ روز اَلْحَمْدُ ِﷲِکہتے رہیں۔
مصری صاحب نے اس فیصلہ کے الفاظ سے مراد جسمانی سزا ہی لی تھی۔ چنانچہ اسی بناء پر انہوں نے مجھ پر اعانتِ قتل کا مقدمہ بھی دائر کردیا۔ ان کی طرف سے مجھ پر تین مقدمات اعانتِ قتل کے دائر کئے گئے ہیں۔ پہلے ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کیا جو خارج کردیا گیا۔ پھر اس کی اپیل عدالت سیشن میں کی جسے عدالت سیشن نے بھی خارج کردیا اور لکھا کہ مستغیث کو چونکہ مرزا صاحب سے دشمنی ہے، اتنے عرصہ میں وہ جھوٹے گواہ تیار کرسکتا ہے۔ پھر ایک استغاثہ مجسٹریٹ علاقہ کی عدالت میں دائر کیا گیا جسے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے منگواکر خارج کردیا۔ ان باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دشمن جھوٹ بولنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ باقی صرف ایک فقرہ ایسا رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ ججوں نے لکھا ہے کہ احتیاط کرنی چاہئے۔ مگر اس سے دشمن کوئی فائدہ نہیں اُٹھاسکتا۔ مُلکی قانون کے نگران مُلک میں امن کے قیام کو مدنظر رکھتے ہوئے الزام دیئے بغیر اگر عام نصیحت کریں تو یہ ان کا حق ہے۔ جب وہ تسلیم کرتے ہیں کہ میں نے جسمانی سزا کا ذکر نہیں کیا تو اگر وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انہیں عام پبلک کے فائدہ کیلئے مجھے نہیں بلکہ سب مذہبی لیڈروں کو نصیحت کردینی چاہئے کہ ان کیلئے احتیاط ضروری ہے تو اس میں دشمن کیلئے خوشی کا کوئی موقع نہیں۔ آخر ہائیکورٹ کے جج یا حکومت کے بعض دوسرے افسر کسی موقع کے لحاظ سے اگر اظہار رائے کرنا چاہیں تو انہیں کون روک سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کسی تحریرکو پڑھ کر ایک احمدی تو کہہ دے گا کہ یہ بالکل او رحرف بحرف صحیح ہے لیکن جو شخص غیراحمدی ہے اور غیرمتعصب بھی ہے وہ کسی حصہ کوصحیح اور کسی کو غلط کہے گا۔ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُس نے ہتک کی؟ ہرگز نہیں۔ اِسی طرح ججوں کے یہ کہنے سے میری بھی کوئی ہتک نہیں ہوسکتی۔ سوال تو میری نیت اور ارادہ کا ہے۔ اس کو انہوں نے صاف کردیا ہے۔ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی جاہل اِس سے یہ مطلب لے لے اس لئے صرف مجھے نہیں بلکہ ہندوستان میں عام طور پر مذہبی لیڈروں کو احتیاط کرنی چاہئے۔ دشمن تو اِن الفاظ کی وجہ سے مجھ پر اعتراض کرتا ہے مگرمیں بتاتا ہوں کہ اس سے تو میری حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک اور مشابہت پوری ہوگئی ہے۔ جس طرح مجھ پرمصری نے اعانتِ قتل کا مقدمہ دائر کیا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی ایسا مقدمہ کیا گیا تھا۔ میری نسبت کہا گیا ہے کہ میں نے ایسی تقریر کی جس کے نتیجہ میں قتل ہؤا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت کہا گیا تھا کہ آپ نے ایک آدمی بھیجا ہے کہ فلاں شخص کو قتل کرآئو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مقدمہ کا ذکر اپنی کتاب ’’کتاب البریہ‘‘ میں کیا ہے اور اس کے آخر میں اس مقدمہ کی روئیداد اور پھر فیصلہ درج کردیا ہے اور اسے اپنا معجزہ اور انگریزی انصاف کا نمونہ قرار دیا ہے اور آج تک جماعت احمدیہ بھی اسے معجزہ کے طور پر شائع کرتی آئی ہے۔ اور جس افسر نے یہ فیصلہ کیا تھا اسے آج تک عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ولایت میںہمیشہ پارٹیوں پر اُسے بلایا جاتا ہے۔ اس فیصلہ کے آخر میں اس جج نے جسے انگریزی زمانے کا پیلاطوس بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کہا جاتا ہے، یہ الفاظ لکھے ہیں:
’’ہم اس موقع پر مرزا غلام احمد کو بذریعہ تحریری نوٹس کے جس کو انہوں نے خود پڑھ لیا اور اس پر دستخط کردیئے ہیں، باضابطہ طور پر متنبہہ کرتے ہیںکہ ان مطبوعہ دستاویزات سے جو شہادت میں پیش ہوئی ہیں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اشتعال اور غصہ دلانے والے رسالے شائع کئے ہیں۔ جن سے ان لوگوں کی ایذا متصور ہے۔ جن کے مذہبی خیالات اس کے مذہبی خیالات سے مختلف ہیں جو اثر کہ اس کی باتوں سے اس کے بے علم مُریدوں پر ہوگا اس کی ذمہ داری انہی پر ہی ہوگی اور ہم انہیں متنبہہ کرتے ہیں کہ جب تک وہ زیادہ ترمیانہ روی اختیار نہ کریں گے وہ قانون کی رو سے بچ نہیں سکتے۔ بلکہ اس کی زد کے اندر آجاتے ہیں‘‘۔ ۷؎
اس فیصلہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام معجزانہ قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ اس میں اصل الزام کو غلط قرار دیا گیا ہے۔ مگر دیکھ لو کہ اس فیصلہ میں ویسے ہی لفظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں لکھے گئے ہیں کہ جیسے مقدمہ بنام عزیز احمد میںمیری نسبت لکھے گئے ہیں۔ بلکہ مسٹر ڈگلس کے لفظ زیادہ سخت ہیں۔ کیپٹن ڈگلس نے بھی یہ لکھا ہے کہ بے علم مرید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے دھوکا کھاسکتے ہیں اس لئے آپ کو احتیاط کرنی چاہئے۔ اور ہائیکورٹ میں بھی عام واعظانہ رنگ میں یہ بات کہی ہے کہ مذہبی لیڈروں کو احتیاط کرنی چاہئے۔ ہاں الفاظ کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کیپٹن ڈگلس نے ہائیکورٹ کے ججوں سے زیادہ سخت لفظ استعمال کئے ہیں۔مگر پھر بھی مصری اور ان کے رفقاء خوش ہیں کہ مرزا محمود احمد کی ذلّت ہوگئی۔اس کی اپیل مسترد ہوگئی۔ اگریہ الفاظ سخت ہیں اور ان سے ہتک ہوتی ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں کیا اعتقاد رکھتے ہیں؟
پنجابی میں کہتے ہیں کہ ’’دھی اے نی میں تینوں کواں۔ نوہیںنی تُو کَن رکھ‘‘۔ یعنی ماں اپنے بیٹے کے ڈر کی وجہ سے کہ وہ لڑائی کرے گا اور بیوی کی مدد کرے گا بہو کو تو کچھ نہیں کہتی بلکہ گالیاں دیتے وقت اپنی لڑکی کومخاطب کرلیتی ہے اور دراصل اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بہو کو سنائے۔ میں سمجھتا ہوں یہی حال ان لوگوں کا ہے۔ اصل میں یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بدظن ہوچکے ہیں۔ مگر آپ کو براہ راست گالیاںدیں تو جماعت ان سے بدظن ہوجائے اس لئے یہ لوگ ایسے امور کو سامنے رکھ کر جن میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشابہت ہے، مجھے گالیاں دیتے ہیں اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دینے کیلئے راستہ صاف کرتے ہیں۔ اگر ان میں تقویٰ ہوتا تو وہ یہ غور کرتے کہ آخر اِس شخص کو ہر بات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیوں مشابہت حاصل ہورہی ہے اور سمجھتے ہیں کہ آخر کیا بات ہے کہ جو مجھ پر اعتراض کرتا ہے وہ مجبور ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی اعتراض کرے۔
مصری صاحب نے اپنے اشتہار ’’بڑا بول‘‘ میں میرے ان الفاظ کو کہ ’’مجھے یہ یقین ہے کہ جو شخص مجھے چھوڑتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑتا ہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑتا ہے وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو چھوڑتا ہے اور جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو چھوڑتا ہے وہ خداتعالیٰ کو چھوڑتا ہے‘‘، ’’بڑی تعلّی اور بڑا غلوّ‘‘ کہا ہے۔ مگر وہ دیکھ لیں کہ جو اعتراض وہ مجھ پر کرتے ہیں اس سے زیادہ سخت اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر پڑتا ہے یا نہیں۔ اور یہ امر اس الٰہی قانون کے ماتحت ہے کہ جب تم ایک صداقت پر حملہ کرو تو وہ حملہ ضرور دوسری صداقت پر بھی پڑھتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اگر اس قسم کے فقروں سے ذلّت ہوسکتی ہے جو ہائیکورٹ کے فیصلہ میں تھے تو مصری صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کیا کہتے ہیں۔ کیونکہ جو فقرے میرے متعلق لکھے گئے ہیں ان سے زیادہ سخت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق لکھے گئے ہیں۔
پس اس واقعہ سے تو میری حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشابہت ثابت ہوتی ہے نہ یہ کہ مجھ پر اعتراض پڑتا ہے۔ بلکہ عقلمند انسان کیلئے تو اس فیصلہ میں ایک سے زیادہ مشابہتیں ہیں۔
۱- وہ مشابہت ہے جو میں بتاچکا ہوں۔ یعنی ایک ہی قسم کے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اور میرے متعلق عدالت نے استعمال کئے ہیں۔
۲- حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی سازش قتل کا الزام لگایا گیا اور میرے متعلق بھی، اور اسی سلسلہ میں یہ الفاظ لکھے گئے۔
۳- جن مجسٹریٹ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اس قسم کے الفاظ استعمال کئے تھے ان کا نام کیپٹن ڈگلس تھا۔ اور جس بنچ نے میرے متعلق اس قسم کے لفظ استعمال کئے ہیں ان کا نام بھی سرڈگلس ہے۔
اب تم غور کرو کہ یہ باریک سے باریک مشابہتیں کون پید اکرارہا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ موسیٰ کی پیشگوئیاں جو تیرے حق میں پوری ہوری ہیں کیا تو مدین میں موجود تھا یا تو طُور پر موجود تھا کہ موسیٰ سے یہ باتیں تُونے کہلالیں۔۸؎ اسی طرح میں بھی کہتا ہوںکہ میںتو اُس وقت بچہ تھا۔ کیا میں نے مارٹن کلارک اور دوسرے پادریوں کو کہہ دیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایسا مقدمہ کریں، پھر کیا میں نے عبدالحمید کو اس قسم کا بیان دینے کیلئے تیار کرلیا تھا؟ اور پھر میں نے گورنمنٹ کو کہہ دیا کہ ڈگلس نام کے ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں اس کی سماعت کرائے؟ اور پھر کیا اب بھی میں نے یہ کوشش کی تھی کہ اس نام کے چیف جسٹس اس صوبہ میں آئیں اور وہ مقدمہ عزیز احمد کی سماعت خود کریں؟ پھر کیا میں نے ہی مصری صاحب سے کہا تھا کہ وہ مجھ پر قتل کا دعویٰ کردیں تاکہ میری مشابہت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ثابت ہوجائے؟ اگر یہ سب باتیں منصوبہ ہیں تو پھر مصری صاحب بھی اس میں شامل ہیں اور وہ مخالفت سے نہیں بلکہ جان بوجھ کر مجھ سے الگ ہوئے ہیں تاکہ وہ ایسی مشابہت کے سامان پیدا کریں۔
کہا جاسکتا ہے کہ جس مجسٹریت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا، ان کے نام کا آخری حصہ ڈگلس تھا۔ اور موجودہ چیف جسٹس کے نام کا یہ پہلا حصہ ہے اور یہ فرق ہے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ خداتعالیٰ نے اس کا علاج بھی کردیا ہے اور وہ یہ کہ جن صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا وہ مسٹر تھے اور چیف جسٹس صاحب نائٹ ۹؎ ہیں۔ اور انگریزی قوم کا دستور ہے کہ جو نائٹ نہ ہوں اُن کے نام کا آخری حصہ بولاجاتا ہے اور جو نائٹ ہوں اُن کے نام کا پہلا حصہ پکارا جاتا ہے۔ اس طر ح بولنے میں وہ صاحب کیپٹن ڈگلس کہلائیں گے اور چیف جسٹس صاحب سرڈگلس کہلائیں گے اور نام کی مشابہت بولنے کے ذریعے سے پوری طرح قائم رہے گی۔
غرض اس مقدمہ نے بھی میری حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشابہت ثابت کی ہے اوریہ امر دشمن کیلئے یقینا ذلت کا موجب ہے مگر ان سب باتوں کے باوجود مصری صاحب اور ان کے ساتھی یہی کہتے پھرتے ہیں کہ اپیل مسترد ہوگئی، بڑی ذلّت ہوئی حالانکہ یہ اِسترداد بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم کسی سے کہیں کہ معافی مانگو تم نے گالی دی ہے۔ تو وہ کہے کہ میں نے تو گالی دی ہی نہیں معافی کیسی مانگوں۔ اگر تو ہائیکورٹ کے جج کہتے ہیں کہ اس خطبہ میں سزا سے مراد جسمانی سزا ہی ہے مگر ہم اپنے الفاظ واپس نہیں لے سکتے پھر تو مصریوں کا اعتراض صحیح ہوسکتا تھا۔ مگر جب وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو یہ الفاظ کہے ہی نہیں تو پھر صرف یہ کہتے چلے جانا کہ درخواست مسترد ہوگئی، کس قدر دھوکا ہے۔ان لوگوں کی دیانتداری اور تقویٰ کا حال اور بہت سی باتوں سے بھی معلوم ہوسکتا ہے۔ مثلاً یہ کہ یہ لوگ واقعات کو بالکل غلط رنگ میں پیش کرتے ہیں اور چھپے ہوئے حوالہ جات کو پیش کرتے ہوئے بھی بددیانتی سے نہیں رُکتے۔ مثلاً شیخ مصری صاحب نے مجھ پر جو استغاثہ دائر کیا تھا اُس میں مجھ پر یہ الزام لگایا ہے کہ گویا میں نے خطبات کے ذریعہ سے قتل کی تحریک کی ہے اور ثبوتوں میںسے ایک ثبوت کے طور پر ۲۳؍ مئی ۱۹۳۷ء کے ایک خطبہ کو پیش کیا تھا اور لکھا تھا کہ مرزامحمود احمد نے اپنے اس خطبہ میں کہا ہے کہ ’’یاد رکھو دنیا میں قیامِ امن دو ذرائع سے ہوتا ہے یا اُس وقت جب مارکھانے کی طاقت انسان میں پیدا ہوجائے یا جب دوسرے کو مارنے کی طاقت انسان میں پیدا ہوجائے۔ درمیانی دوغلہ کوئی چیز نہیں۔ اگر اِن دونوں عقیدوں کے چالیس چالیس آدمی بھی میسر آجائیں تو ہم دنیا کو ڈرا سکتے ہیں۔ اگر چالیس آدمی ایسے میسر آجائیں جو مارکھانے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ دنیا کو ڈراسکتے ہیں اور اگر چالیس آدمی ایسے میسر آجائیں جو مارنے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ بھی دنیا کو ڈراسکتے ہیں۔ بہادر وہ ہے جو اگر مارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو مار کر پیچھے ہٹتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو دلیری سے سچ بولتا ہے اور اگر مارکھانے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر جوش میں نہیں آتا اور اپنے نفس کو شدید اشتعال کے وقتوں میں بھی قابو میں رکھتا ہے۔پس اگر تم جینا چاہتے ہو تو دونوں میں سے ایک اصل اختیار کرو۔
مَیں پھر ایک دفعہ کھول کھول کر بتادیتا ہوں کہ شریفانہ اور عقلمندانہ طریق دو ہی ہوتے ہیں۔ یا انسان کو مرناآتا ہو یا انسان کو مارنا آتا ہو۔ اگر کوئی انسان سمجھتا ہے کہ اس میں مارنے کی طاقت ہے تو میں اُس سے کہوں گا کہ اے بے شرم! تُو آگے کیوں نہیں جاتا اور اس منہ کو کیوں توڑنہیں دیتا جس منہ سے تُونے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دلوائی ہیں۔ گندے سے گندے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق کہے جاتے ہیں۔ تم خود دشمن سے وہ الفاظ کہلواتے ہو اور پھر تمہاری تگ و دَو یہیں تک آکر ختم ہوجاتی ہے کہ گورنمنٹ سے کہتے ہو وہ تمہاری مدد کرے۔ وہ تمہارے صبر کو بُزدلی پر محمول کریں گے۔ تمہارا گورنمنٹ کے پاس شکایت کرنا بالکل بے سود ہے‘‘۔
یہ الفاظ ہیں جو مصری صاحب نے میری طرف منسوب کئے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ میرا خطبہ ’’الفضل‘‘ ۵ ؍ جون ۱۹۳۷ء میں دس صفحات پر شائع ہؤا ہے اور انہوں نے اس دس صفحہ کے خطبہ میں سے یہ الفاظ کہیں کہیں سے کاٹ کرلکھ دیئے ہیں۔ میں اس خطبہ کا موضوع بتادیتا ہوں تا اس کے سمجھنے میں آسانی ہو۔ بات یہ ہے کہ یہاں آریوں کا ایک جلسہ ہؤا جس کے سلسلہ میں اُنہوں نے جلوس نکالا اور اُس میں’’ لیکھرام زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے۔ اس پرایک احمدی نے جو وہاں کھڑا تھا ’’مرزا غلام احمد زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے۔ اور بعض مقامی افسروں نے افسرانِ بالا کے پاس شکایت کی کہ احمدیوں نے اس موقع پر اشتعال انگیز رویہ اختیار کیا۔ میںاُس وقت سندھ میںتھا۔ میرے پاس ایک احمدی نے یہ شکایت لکھ کر بھیجی کہ مقامی پولیس والے ہمارے خلاف کیسی کیسی شرارتیں کررہے ہیں کہ ایک احمدی نے ’’مرزاغلام احمد زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا تھا مگر وہ یہ کہہ رہی ہے کہ اس نے ’’لیکھرام مُردہ باد‘‘ کہا تھا۔ اس پر میںنے سندھ سے واپس آکر یہ خطبہ پڑھا اور اس خطبہ کا مضمون یہ ہے کہ اس احمدی نے اگر’’ مرزاغلام احمد زندہ باد‘‘ کہا تو بھی غلطی کی اس لئے کہ اگر آریہ ہمارے کسی جلسہ میں آکر ’’لیکھرام زندہ باد‘‘ کہیں تو ہمیں اُس پر غصہ آئے گا یا نہیں؟ اِسی طرح ان کے جلوس کے موقع پر’’ مرزا غلام احمد زندہ باد‘‘ کہنا بھی ان کیلئے اشتعال کا موجب تھا۔ سو خطبہ کا مضمون تو یہ ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا ہے کہ جائو اور جاکر مخالفوں کو ماردو۔ غور کرو اِن دونوں باتوں میں کوئی بھی جوڑ ہے؟ مَیں توکہتا ہوں کہ اس احمدی کو ’’مرزا غلام احمد زندہ باد‘‘ بھی اس موقع پر نہیں کہنا چاہئے تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ میں نے تلقین کی ہے کہ جائو اور جاکر مخالفوں کو ماردو۔
اب دیکھو میرے الفاظ کس طرح کاٹے گئے ہیں۔ میری عبارت یوں ہے :
(مصری صاحب کے نقل کردہ حصہ کو خالی چھوڑ دیا گیا ہے اور جو حصہ انہوں نے جان بوجھ کر چھوڑ دیا ہے تاکہ لوگوں کو دھوکا لگے اُس کے نیچے لکیر کھینچ دی گئی ہے تا دوستوں کو معلوم ہوجائے کہ کس قدر خیانت سے کام لیا گیا ہے)۔
’’یاد رکھو دنیا میں قیامِ امن دو ذرائع سے ہوتا ہے یا اُس وقت جب مارکھانے کی طاقت انسان میں پیدا ہوجائے۔ یا جب دوسرے کو مارنے کی طاقت انسان میں پیدا ہو جائے۔ درمیانی دوغلہ کوئی چیزنہیں۔ اب جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم سے میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم میںمارکھانے کی طاقت ہونی چاہئے۔ بالکل ممکن ہے تم میں سے بعضوں کا خیال یہ ہو کہ ہم میں مارنے کی طاقت ہونی چاہئے۔ میںاسے غیرمعقول نہیں کہتا۔ ہاں غلط ضرور کہتا ہوں۔ یہ ضرور کہتا ہوں کہ اس نے قرآن کو نہیں سمجھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو نہیں سمجھا۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے مارنے کیلئے جو شرائط رکھی ہیں وہ اِس وقت ہمیں میسر نہیں۔ پس کم سے کم میں اسے شرارتی یا پاگل نہیں کہوں گا۔ میں زیادہ سے زیادہ یہی کہوں گا کہ اس کی ایک رائے ہے جو میری رائے سے مختلف ہے۔ لیکن تمہاری یہ حالت ہے کہ تم میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہئے اور پھر جب وہ ہماری تعلیم کے صریح خلاف کوئی ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے تو بھاگ کر ہمارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے بچانا، مجھے بچانا۔ آخر جماعت تمہیں کیوں بچائے۔ کیا تم نے جماعت کے نظام کی پابندی کی یا اپنے جذبات پر قابو رکھا اور اگر تم اس خیال کے قائل نہیں تھے تو پھر تمہیں ہمارے پاس بھاگ کر آنے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہیں چاہئے کہ تم دلیری دکھائو اور اپنے جُرم کا اقرار کرو۔
(اوپر کی نشان کردہ عبارت کو مصری صاحب نے چھوڑ دیا ہے اور اگلی عبارت اس کے ساتھ جوڑ دی ہے۔)
اگر اِن دونوں عقیدوں کے چالیس چالیس آدمی بھی میسر آجائیں جو مارکھانے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ دنیا کو ڈراسکتے ہیں۔ اور اگر چالیس آدمی ایسے میسر آجائیں جو مارنے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہوں تو وہ بھی دنیا کو ڈراسکتے ہیں۔
(اس کے آگے کی عبارت پھر انہوں نے چھوڑ دی ہے۔)
مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ جب تم میں سے بعض دشمن سے کوئی گالی سنتے ہیں تو ان کے منہ سے جھاگ بھرآتی ہے اور وہ کُود کر اس پر حملہ کردیتے ہیں۔ لیکن اُسی وقت ان کے پیر پیچھے پڑ رہے ہوتے ہیں۔ تم میں سے بعض تقریر کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ہم مرجائیں گے مگر سلسلہ کی ہتک برداشت نہیں کریںگے لیکن جب کوئی ان پر ہاتھ اٹھاتا ہے تو پھر اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں بھائیو کچھ روپے ہیں کہ جن سے مقدمہ لڑا جائے، کوئی وکیل ہے جو وکالت کرے۔ بھلا ایسے خنثوں ۱۰؎نے بھی کسی قوم کو فائدہ پہنچایا ہے۔
(اس کے بعد ذیل کی عبارت انہوں نے پہلی عبارت سے جوڑ دی ہے۔)
بہادر وہ ہے جو اگر مارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو مار کر پیچھے ہٹتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو دلیری سے سچ بولتا ہے اور اگر مارکھانے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر جوش میں نہیں آتا اور اپنے نفس کو شدیداشتعال کے وقتوں میں بھی قابو میں رکھتا ہے۔پس اگر تم جینا چاہتے ہو تو دونوں میں سے ایک اصل اختیار کرو۔
(اس کے بعد ذیل کی عبارت ہے جو مصری صاحب نے حذف کردی ہے۔ اس کو ساتھ ملا کر پڑھو اور دیکھو کہ یہ مصلح ہونے کا دعویٰ کرنے والا کس تقویٰ کا مالک ہے۔)
جو کچھ میں سمجھتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ میں سچ سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ بہادر بنو۔ مگر اس طرح کہ مارکھانے کی عادت ڈالو اور امام کے پیچھے ہوکر دشمن سے جنگ کرو۔ ہاں جب وہ کہے کہ اب لڑو، اُس وقت بے شک لڑو۔ لیکن جب تک تمہیںامام لڑائی کا حکم نہیں دیتا اُس وقت تک دشمن کو سزا دینے کا تمہیں اختیار نہیں۔ لاٹھی اور سوٹے سے نہیں بلکہ ایک ہلکا سا تھپڑ مارنا بھی تمہارے لئے جائز نہیں۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں تھپڑ تو الگ رہا ایک گلاب کے پھول سے بھی تمہیں دشمن کو اُس وقت تک مارنے کی اجازت نہیں جب تک امام تمہیں لڑائی کی اجازت نہ دے۔ لیکن اگر تمہارا یہ عقیدہ نہیںتب بھی مَیں شریف انسان تمہیںتب سمجھوںگا کہ اگر تمہارا یہ دعویٰ ہو کہ گالی دینے والے دشمن کو ضرور سزا دینی چاہئے اور تم اُس گالی دینے والے کے جواب میں سخت کلامی کرتے ہو اور اس سے جوش میں آکر وہ پھر اَور بدکلامی کرتا ہے تو پھر تم مٹ جائو اور اپنے آپ کو فنا کردو لیکن اُس منہ کو توڑ دو جس منہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے گالی نکلی تھی کیونکہ اُس کو خاموش کرانا تمہارا ہی فرض ہے کیونکہ تمہارے ہی فعل سے اُس نے مزید گالیاں دی ہیں۔ کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم ایک سخت بدلگام دشمن کا جواب دے کر اُس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دلواتے ہو اور پھر خاموشی سے گھروں میں بیٹھ رہتے ہو!! اگر تم میں رائی کے دانہ کے برابر بھی حیا ہے اور تمہارا سچ مچ یہ عقیدہ ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہئے تو پھر یا تو تم دنیا سے مٹ جائو یا گالیاں دینے والے کو مٹادو۔ مگر ایک طرف تم جوش اور بہادری کا دعویٰ کرتے ہو اور دوسری طرف بُزدلی اور دون ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہو۔ میں تو ایسے لوگوں کے متعلق یہی کہتا ہوں کہ وہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دلواتے ہیں اور وہ آپ سلسلہ کے دشمن اور خطرناک دشمن ہیں۔ اگر کسی کو مارنا پیٹنا جائز ہوتا تو میں کہتا کہ ایسے لوگوں کو بازار میں کھڑا کرکے خوب پیٹنا چاہئے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ گالیاں دِلواتے ہیں اور پھر مخلص اور احمدی کہلاتے پھرتے ہیں۔
(اس کے آگے کچھ عبارت اس مضمون کی تائید میں ہے جسے بخوفِ طوالت چھوڑا جاتا ہے۔ مصری صاحب نے اس سب عبارت کو اپنے مخصوص اغراض کی وجہ سے حذف کرکے ذیل کا فقرہ چُن کر پہلے بیان کردہ فقرہ سے جاملایا ہے)۔
پس میں پھر ایک دفعہ کھول کھول کر بتادیتا ہوں کہ شریفانہ اور عقلمندانہ طریق دو ہی ہوتے ہیں یا انسان کو مرنا آتا ہو یا انسان کو مارنا آتاہو۔
(اس کے بعد کے فقرات جو ان کے مضمون کے غلط ہونے کو روزِ روشن کی طرح ثابت کردیتے ہیں۔ انہوں نے پھر حذف کردیئے ہیں اور وہ یہ ہیں)
ہمارا طریقہ مرنے کا ہے، مارنے کانہیں۔ ہم کہتے ہیں ہمیں اللہ تعالیٰ نے ابھی اس مقام پر رکھا ہؤا ہے کہ مرجائو مگر اپنی زبان نہ کھولو۔ کیا تم نے جہاد پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظم نہیں پڑھی۔ اس میں کس وضاحت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتادیا ہے کہ اگر جہاد کا موقع ہوتا تو خداتعالیٰ تمہیںتلوار کیوںنہ دیتا۔ اُس کا تلوار نہ دینا بتاتا ہے کہ یہ تلوار سے جہاد کا موقع نہیں۔ اسی طرح اگرتمہارے لئے مارنے کا مقام ہوتا تو تمہیںاس منہ کے توڑنے کی طاقت اور اس کے سامان بھی ملتے، جس منہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ مگر تمہیں اس کی توفیق نہیں دی گئی اور سامان نہیں دیئے گئے۔ پس معلوم ہؤا کہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے یہی مقام مقدر کیا ہے کہ تم گالیاں سنو اور صبر کرو۔
(اوپر کی عبارت کو چھوڑ کر پھر مصری صاحب نے ذیل کا فقرہ چُن لیا ہے۔)
اور اگر کوئی انسان سمجھتا ہے کہ اس میں مارنے کی طاقت ہے تو میں اسے کہوںگا کہ اے بے شرم تُو آگے کیوں نہیں جاتا اور اُس منہ کو کیوں توڑ نہیں دیتا جس منہ سے تُونے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دلوائی ہیں۔ گندے سے گندے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق کہے جاتے ہیں۔ تم خود دشمن سے وہ الفاظ کہلواتے ہو پھر تمہاری تگ و دَو یہیں تک آکر ختم ہوجاتی ہے کہ گورنمنٹ سے کہتے ہو وہ تمہاری مدد کرے۔
(آگے ذیل کی عبارت پھر انہوں نے چھوڑ دی ہے۔)
گورنمنٹ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ تمہاری مدد کرے ۔ کیا اس کا اور تمہارا مذہب ایک ہے یا اس کی تمہاری سیاست ایک ہے؟ گورنمنٹ اگر ہمدردی کرے گی تو ان لوگوں کی جو تمہارے دشمن ہیں؟ کیونکہ وہ اکثریت میں ہیں اور تم اقلیت میں۔ اور گورنمنٹوں کو اکثریت کی خوشنودی کی ضرورت ہوتی ہے پس گورنمنٹ کو تم سے کس طرح ہمدردی ہوسکتی ہے۔ اُس کو تو اُسی وقت تک ہمدردی تمہارے ساتھ ہوسکتی ہے جب تک تم خاموش رہو اوردشمن کے مقابلہ میں صبر سے کام لو اور اس صورت میںبھی صرف شریف حاکم تمہاری مدد کریں گے اور کہیں گے انہوں نے ہمیں فتنہ و فساد سے بچالیا۔ مگر یہ خیال کرنا کہ گورنمنٹ اُس وقت مدد کرے جب دشمن تم کو گالیاں دے رہا ہو اور تم جواب میں اُسے گالیاں دے رہے ہو، نادانی ہے۔ اُس وقت اُس کی ہمدردی اکثریت کے ساتھ ہوگی۔ کیونکہ وہ جانتی ہے اقلیت کچھ نہیں کرسکتی۔ پس گورنمنٹ سے اسی صورت میں تم امداد کی توقع کرسکتے ہو جب خود قربانی کرکے لڑائی اور جھگڑے سے بچو۔ اور اُس وقت بھی صرف شریف افسر تم سے ہمدردی کریں گے اور کہیں گے کہ انہوں نے ہماری بات مان لی اور خاموش رہ کر اور صبر کر کے فتنہ و فساد کو بڑھنے نہ دیا۔ مگر رذیل حُکّام پھر بھی تمہارے ساتھ لڑیں گے اور کہیں گے کیا ہؤا اگر دشمن کا تھپڑ انہوں نے کھالیا۔ وہ زیادہ تھے اور یہ تھوڑے۔ اگر اکثریت سے ڈر کر تھپڑ کھالیا ہے تو یہ کوئی خوبی نہیں۔
(یہاں تک کی عبارت کو حذف کرکے مصری صاحب نے اگلا فقرہ نقل کردیا ہے۔)
پس وہ تمہارے صبر کو بُزدلی پر محمول کریں گے ۔
(اس کے بعد یہ فقرہ حذف کردیا ہے۔)
’’اور تمہاری خاموشی کو کمزوری کا نتیجہ قرار دیں گے پس‘‘
(اس کے بعد ذیل کا فقرہ نقل کردیا ہے۔)
’’تمہار اگورنمنٹ کے پاس شکایت کرنا فضول ہے‘‘۔
اب دیکھ لو میرے فقروں کو کس طرح توڑ مروڑ کر اور کانٹ چھانٹ کر کوئی ٹکڑا کہیں سے اور کوئی کہیں سے لے کر پیش کیا ہے اور پھر یہ شخص کہتا ہے کہ میں مصلح کی حیثیت سے کھڑا ہؤا ہوں۔
یاد رکھو دین کی اصلاح صرف وہی کرسکتا ہے جو سچائی کی مضبوط چٹان پر قائم ہو اور اس کی دیانت تو اِسی سے ظاہر ہے کہ میں تو کہتا ہوں کہ مارنا اور فساد کرنا قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے، احادیثِ صحیحہ کے خلاف ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف ہے، میری تعلیم کے خلاف ہے۔ لیکن جو اِس تعلیم کو غلط سمجھتا ہے وہ خود ذمہ دار ہے، وہ ہمارے ساتھ کیوں شامل ہے۔ یہ بالکل غیرشریفانہ بات ہے کہ وہ شامل تو ہم میں ہے مگر کام غیروں والے کرتا ہے اور کہ میری رائے تو یہی ہے لیکن اگر کوئی اس سے مخالف رائے رکھتا ہے تو اس کی ذمہ داری اسی پر ہونی چاہئے۔ جماعت اسے کیوں بچائے۔ کیا اس نے نظام کی پابندی کی ہے؟ پھر میں تو یہ کہتا ہوں کہ دنیا میں انسان کو شرافت اور سچائی اختیار کرنی چاہئے اور اگر وہ کسی کو مارنا چاہے تو ہمارے ساتھ شامل نہ رہے۔ ان لوگوں میں چلا جائے جو ایسا عقیدہ رکھتے ہیں۔ یہ دوغلہ پن ٹھیک نہیں کہ ملاتو رہے ہم میں اور کام وہ کرے جو ہم جائز نہیں سمجھتے۔ مگر یہ صاحب بیچ میں سے کئی کالم کے مضمون چھوڑ کرایسے رنگ میں بات کوپیش کرتے ہیں کہ گویا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ مخالفوں کو مارو اور ان کو فنا کردو۔ بے شک ایک جگہ میں نے کہا ہے کہ اگر ایسے چالیس آدمی میسر آجائیں تو ہم دنیا کو ڈراسکتے ہیں۔ لیکن یہ اردو کا محاورہ ہے کہ جب قانون بیان کرنا ہو تو اس موقع پر بھی ’’ہم‘‘ کا لفظ استعمال کردیتے ہیں۔انگریزی میں ایسے موقع پر ایک کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں۔ عربی میں یہ محاورہ ہے مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم‘‘ انصار یہ کہہ سکتے ہو کہ ہم نے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم ) کو اُس وقت پناہ دی جب اس کے وطن والوں نے اس کو نکال دیا مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں سے بعض منافق طبع یوں کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح ان الفاظ میں کہ اگر اِن دونوں عقیدوں کے چالیس چالیس آدمی بھی میسر آجائیں تو ہم دنیا کو ڈراسکتے ہیں ایک قانون بیان کیا گیا ہے۔ ایک قاتل یا ڈاکو اُٹھتا ہے تو تمام علاقے میں دہشت پیدا کردیتا ہے۔ اسی طرح میں نے یہ کہا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی ڈاکو بننا چاہتا ہے تو اُسے چاہئے کہ جاکر ڈاکوئوں میں شامل ہو۔ لیکن اگر ہمارے ساتھ رہنا ہے تو پھر مارکھائو۔ لیکن میرے ان الفاظ کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے اور اس سارے مضمون کو نظرانداز کرکے پھر ان الفاظ کو نقل کردیا ہے کہ ’’بہادر وہ ہے جو اگر مارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو مارکر پیچھے ہٹتا ہے‘‘۔ حالانکہ ان الفاظ میں تو میں نے انسانی فطرت کا ذکر کیا ہے۔ کیا دنیا میں ایسے لوگ نہیں گزرے؟ سکندر اورنپولین وغیرہ ایسے ہی لوگ تھے۔ ایمان سے باہر بھی تو بہادری کے اظہار کے ذرائع ہیں۔ اسی کا مَیں نے ذکر کیا ہے۔ ان الفاظ میں مؤمنوں کا میں نے ذکر نہیں کیا ۔ کہتے ہیں سکھ بڑے بہادر ہوتے ہیں۔ تو کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ سچے مؤمن ہوتے ہیں؟ یہ تو عام دُنیوی اخلاق ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
پھر میں نے کہا تھا کہ ’’اِن دونوں میں سے ایک اصل اختیار کرو۔ جو کچھ میں سمجھتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ میں سچ سمجھتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ ’’بہادر بنو مگر اس طرح کہ مارکھانے کی عادت ڈالو‘‘۔ اگر ان الفاظ کو وہ ساتھ نقل کردیتے تو میرا مطلب واضح ہوجاتا۔ اس لئے ان الفاظ کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے۔ اسی طرح میں نے تو لکھا تھا کہ ’’اگر تم جیتنا چاہتے ہو‘‘۔ مگر انہوں نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے کہ اگر تم جینا چاہتے ہو جس سے ان کی غرض یہ ہے کہ ذہن خالص احمدی نقطۂ نگاہ کی طرف پھِرے، عام قانون کی طرف لوگوں کی توجہ نہ ہو۔یہ مصری صاحب کا حال ہے۔ وہ اس طرح بددیانتی کے ساتھ میرے فقروں کوپیش کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ دعویٰ کرتے جاتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ اور جماعت احمدیہ کا ایک حصہ گندہ ہوگیا ہے اور مصری صاحب اس کی اصلاح کیلئے کھڑے ہوئے ہیں۔
ایک اور میرا فقرہ یہ ہے کہ ’’شریفانہ اور عقلمندانہ طریق دو ہی ہوتے ہیں۔ یا انسان کو مرنا آتا ہو۔ یا انسان کو مارنا آتا ہو‘‘۔ ان الفاظ کو تو نقل کردیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ کا فقرہ کہ ’’ہمارا طریقہ مرنے کا ہے‘‘ چھوڑ دیا ہے۔ اس سے آگے جاکر میں نے کہا ہے کہ ’’تم گالیاں سنو اور صبر کرو‘‘۔ اسے چھوڑ کر اس کا یہ حصہ درج کردیا ہے ’’اے بے شرم تُو آگے کیوں نہیں جاتا اوراُس منہ کو کیوں توڑ نہیں دیتا جس منہ سے تُونے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دلوائی ہیں‘‘۔ پھر اس سے آگے یہ فقرہ نقل کرکے کہ گورنمنٹ تمہاری مدد نہیں کرے گی، یہ فقرہ نقل کردیا ہے کہ وہ تمہارے صبر کو بُزدلی پر محمول کریں گے۔ حالانکہ یہ فقرہ گورنمنٹ کے متعلق نہیں۔ بلکہ جیسا کہ میں نے درمیان میں نقل کیا ہے۔ یہ فقرہ رذیل حکام کے متعلق ہے اور میں نے صاف فرق کیا ہے کہ گورنمنٹ کا شریف حصہ تمہاری قدر کرے گا۔ مگر رذیل حکام تمہارے صبر کو بھی بُزدلی قرار دیں گے۔
غرضیکہ ۱۲؎ کہنے والے کی طرح صرف کہیںکہیں سے کوئی کوئی ٹکڑا جو میرا عقیدہ نہیں بلکہ دوسرے کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے لیکن میری طرف منسوب کردیا گیا۔ اور جو میرا عقیدہ وہاں بیان ہے اسے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ دشمن جانتا ہے کہ وہ سچ سے میرے مقابلہ پر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ آخر مَیں بھی مصنّف ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے تصنیف کا کام کرتا آرہا ہوں۔ میں نے ۱۹۰۷ء میں مضمون لکھنے شروع کئے اور ایک دو مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی مجھ سے لکھوا کر اپنی طرف سے شائع کرائے۔ گویا آج اکتیس سال ہوئے کہ مَیں تصنیف کا کام کررہا ہوں۔ اس عرصہ میں مَیں نے سینکڑوں تقریریں کی ہیں اور درجنوں اشتہار اور رسالے بھی شائع کئے ہیں۔ کوئی ثابت تو کرے کہ میں نے بھی کبھی کوئی غلط حوالہ دیا ہے۔ میرے کسی حوالہ کو بڑے سے بڑے دشمن کے سامنے بھی رکھ دو پھر دیکھو کیا وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں نے کبھی کوئی حوالہ ارادتاً غلط پیش کیا ہے۔ مگر ان کو علیحدہ ہوئے ابھی ایک سال بھی پورا نہیں ہؤا کہ دیانت کا معیار اِس قدر گرگیا ہے اور پھر دعویٰ جماعت کی اصلاح کا ہے۔ تم کوئی ایک ہی مثال پیش کرو کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی اپنی جماعت کی اصلاح کیلئے کسی جھوٹے کو لیڈر بنا کر کھڑا کیا ہو۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ جب کوئی جماعت گندی ہوجائے اور خداتعالیٰ نے اُسے تباہ کرنے کا ارادہ کرلیا ہو تب وہ فاجروں سے بھی یہ کام لے لیتا ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے کوئی چار سَو سال بعد جب بغداد پر تباہی آئی تو بغداد کے لوگ ایک بزرگ کے پاس گئے اور کہا کہ آپ دعاکریں اللہ تعالیٰ اِس تباہی سے ہمیں بچالے۔ تو انہوں نے کہا میں دعا کیا کروں۔ میں تو جب بھی دعا کیلئے ہاتھ اُٹھاتا ہوں مجھے یہی آواز آتی ہے کہ یَااَیُّھَاالْکُفَّارُ اُقْتُلُوا الْفُجَّارَ یعنی اے کافرو! ان فاجروں کو تباہ کردو۔ پس یا تو وہ یہ فیصلہ کریں کہ وہ بے شک جھوٹے اور فریبی ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ احمدیت کو تباہ کرکے کوئی نیا دین قائم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اگر جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ احمدیت ایک صداقت ہے تو پھر اس کی اصلاح کیلئے کوئی جھوٹا کھڑا نہیں ہوسکتا۔
میری یہ تحریریں جن میں اس طرح کتربیونت ۱۳؎کی گئی ہے کوئی پوشیدہ باتیں نہیں ہیں بلکہ اخبار میں شائع شُدہ ہیں اور جو شخص اِن شائع شدہ تحریروں میں بھی بددیانتی سے کام لے سکتا ہے اس کی مثال اُس چور کی سی ہے جو لیمپ لے کر چوری کرنے جاتا ہے۔ یہ باتیں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری صداقت کا ایک نشان ہے۔ باریک علمی نکتے ہر شخص نہیں سمجھ سکتا۔ خلافت کا مسئلہ بالکل واضح ہے۔ مگر ممکن ہے کوئی شخص اس کو بھی اچھی طرح نہ سمجھ سکتا ہو۔ مگر کون ہے جو اِن باتوں کو بھی نہ سمجھ سکے اور یہ معلوم نہ کرسکے کہ میرے دشمن میرے مقابل پر کس طرح بددیانتی، جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہیں۔
پھر اس مقدمہ میں ایک اور نشان بھی ہے۔ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قتل کے مقدمہ کے متعلق رئویا ہوگئی تھی اسی طرح اس مقدمہ میں مجھے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رئویا ہوئی جو بالکل صحیح ثابت ہوئی۔ مجھے شیخ بشیر احمد صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ اس درخواست کے فیصلہ کیلئے جو تاریخ مقرر تھی وہ بدل گئی ہے۔ پھر اس کے بعد دوبارہ اطلاع دی کہ دوسری تاریخ جو مقرر تھی وہ بھی بدل گئی ہے ۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ تاریخوں کا بدلنا اچھا نہیں کیونکہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ اس عرصہ میں ججوں پر مخالف اثر ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ میں بہت حیران تھا کہ ہائیکورٹ کے جج تو بڑے پایہ کے لوگ ہوتے ہیں ان پر بیرونی اثر ڈالنا تو ناممکن ہے۔ مگر اس کی کوشش کرنا بھی بظاہر ناممکن ہے۔ پھر یہ رئویا کس طرح پورا ہوگا۔ مگر خداتعالیٰ نے اس کے بھی سامان پیدا کردیئے اور وہ اس طرح کہ ان لوگوں نے فخرالدین صاحب ملتانی کے لڑکے کی طرف سے ایک ٹریکٹ انگریزی میں شائع کراکے ججوں کو بھجوادیا اور اسے مظلوم قرار دے کران کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس ٹریکٹ میںمیرے حوالوں کو غلط طور پر کانٹ چھانٹ کر پیش کیا گیا ہے اور ظاہر کیا گیا ہے کہ گویا وہ لوگ بہت مظلوم ہیں او ر میاں فخرالدین کو میں نے مروادیا ہے۔ یہ ٹریکٹ علاوہ دوسرے لوگوں کے بہت سے ججوں کو بھی بھجوایا گیا اور اس طرح ججوں کے خیالات پر اثر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اِس منصوبہ کو بھی ناکام کیا اورججوں کو سچ تک پہنچنے کی توفیق دی اور اُنہوں نے صاف کہہ دیا کہ خطبہ میں ہرگز جسمانی سزا کی طرف کسی کو ترغیب نہیں دلائی گئی بلکہ روحانی سزا کا ذکر ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ یہ خطبہ جس کو غلط رنگ میں اور بگاڑ کر اِس طرح پیش کیا گیا ہے وہ فخرالدین صاحب کے جماعت سے اخراج سے بھی پہلے کا ہے۔ یہ خطبہ ۲۷؍ مئی کا ہے اور فخرالدین صاحب کا اخراج ۷؍ جون کو ہؤا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ یہ بھی میری صداقت کے نشان دکھارہا ہے۔ ان سے ایسے جھوٹ بُلوا کر یہ بتارہا ہے کہ جو لوگ اخبار میں شائع شُدہ تحریروں میں اس طرح بددیانتی سے کام لے رہے ہیں اورجھوٹ بول رہے ہیں وہ میری پرائیویٹ زندگی پر جو الزام لگاتے ہیں وہ کس حد تک قابل اعتبار ہوسکتے ہیں۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک دفعہ ایک یہودی آیا اورکہا کہ آپ نے میرا فلاں قرض دینا ہے ۔ اُس نے خیال کیا ہوگا کہ آپ کو یاد نہیں ہوگا اس لئے دوبارہ وصول کرلوں۔ یا ممکن ہے وہ واقعی بھُول گیا ہو۔ اس طرح کئی لوگ مجھ سے دوبارہ وصول کرلیتے ہیں۔ مگر جب آپ نے فرمایا کہ میں تو ادا کرچکا ہوں تو ایک صحابی نے کہا ہاں یَارَسُوْلَ اﷲ! میں گواہ ہوں کہ آپ نے ادا کردیا ہؤا ہے۔ اور جب اُس صحابی نے پورے وثوق سے گواہی دی تو اُس یہودی نے بھی کہا کہ ہاں مجھے یاد آگیا آپ ادا کرچکے ہیں۔ اُس کے جانے کے بعد رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُس صحابی سے پوچھا کہ تم تو اُس وقت موجود نہیں تھے، تمہیں کس طرح معلوم ہے کہ میں نے وہ قرض ادا کردیا ہؤا ہے؟ تو اُس صحابی نے کہا یَارَسُوْلَ اﷲ! آپ کہتے ہیں آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے حالانکہ اسے نہ ہم دیکھتے ہیں اور نہ کوئی اَور۔ اور ہم ایمان لے آتے ہیں اور اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا کہہ دیتے ہیں۔ تو پھر اس معمولی سی بات کے صحیح ہونے کی گواہی میں ہمیں کیا تامل ہوسکتا ہے۔۱۴؎ سچائی کی طرح یہی اصل جھوٹ پر بھی چسپاں ہوتا ہے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص اخبار میں چھَپے ہوئے خطبہ کے متعلق اس طرح دلیری کے ساتھ جھوٹ بول سکتا ہے، پوشیدہ زندگی کے متعلق اس کی بات کس طرح قابلِ اعتبار سمجھی جاسکتی ہے۔ پس یہ الٰہی فعل ہے جس سے وہ مؤمنوں کی مدد کرتا اوردشمنوں کی ذلّت کے سامان پید ا کرتا ہے۔
مصری صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کی اصلاح کریں گے حالانکہ اِس جماعت کو اُس عظیم الشان نبی نے قائم کیا ہے جس کی خبر حضرت نوحؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی ہے اور ایسے عظیم الشان نبی کی جماعت میں جبکہ ابھی اِس کے صحابہ اِس میں زندہ موجود ہیں، اگر فتور آجائے تو اِس کی اصلاح کیلئے جو شخص کھڑا ہو وہ تقویٰ اور دیانت کے لحاظ سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے دوسرے درجہ پر تو ضرور ہونا چاہئے۔ لیکن جو شخص چھَپی ہوئی تحریروں کو اس طرح بددیانتی سے پیش کرتا ہے، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر کیس چلا تو اس کا جھوٹ ظاہر ہوجائے گا اور ان فقروں کو جو میں نے دشمن کے منہ میں ڈالے تھے دیدہ دلیری کے ساتھ میری طرف منسوب کرتا ہے، تم اُس کے ایمان اور تقویٰ کا اندازہ بآسانی کرسکتے ہو۔ اور یہ وہ شخص ہے جو کہتا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی اصلاح کیلئے کھڑا ہؤا ہوں۔‘‘ (الفضل ۱۸؍ مارچ ۱۹۳۸ئ)
۱؎ البقرۃ: ۲۷ ۲؎ الرحمٰن: ۲۱ ۳؎ البقرۃ: ۱۱
۴؎ الاحزاب: ۲۳ ۵؎ بنی اسرائیل: ۶۰
۶؎ ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۴۵۰
۷؎ کتاب البریہ صفحہ۲۸۵، ۲۸۶۔ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۳۰۳، ۳۰۴
۸؎ (القصص:۴۶) (القصص: ۴۷)
۹؎ نائٹ: ( KNIGHT) ۔ وہ شخص جسے ذاتی طور پر سر کا خطاب دیا گیا ہو۔
‏ KNIGHT MARSHAL ، شاہی محل کا ایسا افسر جو امورِ قانونی سے تعلق
رکھتا تھا۔ (آکسفورڈ انگلش اُردو ڈکشنری)
۱۰؎ خنّثوں: خُنثٰی۔ ہیجڑہ
۱۱؎ بخاری کتاب مناقب الانصار باب مناقب الانصار رضی اﷲ عنھم (مفہوماً)
۱۲؎ النسائ: ۴۴
۱۳؎ کتربیونت: کانٹ چھانٹ۔ کمی بیشی
۱۴؎ ابو داؤد کتاب القضاء باب اِذَا علم الحاکم صدق شہادۃ الواحد
یجوزلہ ان یقضی بہٖ۔

۱۱
قربانیوں کے میدان میں کبھی سُست نہیں ہونا چاہئے
(فرمودہ ۱۸؍ مارچ ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے کئی دفعہ جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک جلالی ہوتے ہیں اور ایک جمالی۔ اس مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں اتنا زور دیا ہے اور اتنی وضاحت سے اس کو بیان فرمایا ہے کہ کوئی شخص بھی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں کو پڑھا ہو، اِس سے غافل نہیں رہ سکتا کہ انبیا ہمیشہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ انبیاء ہوتے ہیں جو جلالی رنگ میں آتے ہیں اور ایک وہ انبیاء ہوتے ہیں جو جمالی رنگ میں آتے ہیں۔ جو انبیاء جلالی رنگ میں آتے ہیں اُن کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کردیتا ہے کہ ان کی قوم کو دشمن سے لڑائیاں کرنی پڑتی ہیں۔ ان لڑائیوں میں فتوحات ہوتی ہیں اور اس طرح قریب ترین زمانہ میں اللہ تعالیٰ انہیں حکومت دے دیتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ تمام شرعی احکام کا نِفاذ کرکے دنیا میں شریعت کو عملی رنگ میں قائم کردیتے ہیں۔ مگر دوسری قسم کے انبیاء جو جمالی رنگ میں آتے ہیں ان کی بعثت سے پہلے چونکہ کسی جلالی نبی کے ذریعہ شریعت دنیا میں قائم ہوچکی ہوتی ہے، گو مرورِ زمانہ کی وجہ سے لوگ اُسے بھُول چکے ہوتے ہیں اس لئے یہ ضرورت نہیں ہوتی کہ شریعت کا قیام فوری طور پر عمل میں لایا جائے۔
پس اللہ تعالیٰ انہیں تدریجی رنگ میں ترقیات دیتا اور تدریجی رنگ میں ہی وہ شریعت کے احکام کا دنیا میں قیام کرتے ہیں۔ اور چونکہ دنیا جلالی قسم کے انبیاء سے یہ دھوکا کھاجاتی ہے کہ شاید اُنہوں نے تلوار کے زور سے اپنا مذہب پھیلایا ہے، اس لئے خداتعالیٰ اس اعتراض کو مٹانے کیلئے بعد میں جمالی انبیاء بھیجتا ہے جو تبلیغ کے ذریعہ وہی مذہب دنیا میں قائم کرتے ہیں۔ اس طرح جہاں ایک طرف ان کے ذریعہ خداتعالیٰ کی جمالی صفات دنیا میں ظاہر ہوتی ہیں ، وہاں ان سے پہلے جلالی نبی پر جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس نے تلوار کے زور سے اپنا مذہب پھیلایا، اس کا بھی دفعیہ ہوجاتا ہے۔
اب وہ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے تلوار کے زور سے اپنا مذہب دنیا میں قائم کیا اور لڑائی کے نتیجہ میں اپنی حکومت قائم کرکے یہود کو بامِ ترقی پر پہنچایا یا وہ جو حضرت کرشن ؑ پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے مخالفوں سے لڑائی کی اور انہیں تلوار سے ہلاک کرکے اپنے ساتھیوں کی حکومت ہندوستان میں قائم کردی یا وہ جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے تلوار کے زور سے عرب فتح کیا اور اسلام کو غلبہ و اقتدار حاصل ہؤا، ان کے سامنے جب یہ سوال رکھا جاتا ہے کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تلوار کے زور سے اپنا مذہب دنیا میں قائم کیا تھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خادموں میں سے ایک خادم اور آپ کی اُمت کے ایک نبی حضرت مسیح علیہ السلام نے بغیر تلوار چلائے کس طرح دینِ عیسوی دنیا میں قائم کردیا جو درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہی لایا ہؤا مذہب تھا۔ بعد میں لوگوں نے بگاڑ کر اُس کی اَور شکل بنادی، تو وہ سوائے خاموش رہنے کے اور کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ اس طرح ان کا اعتراض فوراً باطل ہوجاتا اور کوئی ہوش مند انسان یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ اعتراض محض قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے۔ ورنہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام بغیر تلوار چلائے لوگوں کو اپنا ہم خیال نہیںبناسکتے تھے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بغیر تلوار چلائے کس طرح لاکھوں کو اپنا ہم خیال بنالیا۔ اسی طرح اگر کرشن جی پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنا مذہب تلوار کے زور سے پھیلایا تو اِس کے جواب میں یہ بات پیش کی جاسکتی ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت رام چندر جی جو اُن کے بعد آئے اُنہوں نے صلح، محبت اور قربانی سے کام لیتے ہوئے اپنے مذہب کی اشاعت کی اور لوگوں نے انہیں قبول کیا۔ اگر حضرت رام چندر جی بغیر لڑائی اور تلوار اٹھائے اپنا مذہب دنیا میں پھیلاسکتے تھے تو کیا وجہ ہے کہ حضرت کرشن ؑ نہیں پھیلاسکتے تھے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم پر جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ نے اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا، اس اعتراض کا دفعیہ اب خداتعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ کرنا چاہتا ہے۔
دنیا کہتی ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے نَعُوْذُ بِاﷲِ مذہب پھیلانے کیلئے تلوار چلائی اورلوگوں نے تلوار کے ڈر سے آپ کو قبول کرلیا۔ مگر اب خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دنیا میں اس لئے بھیجا ہے تا آپ دلائل اور براہین کے ساتھ اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب پر غالب ثابت کریں اور اس طرح اللہ تعالیٰ ان معترضین کو یہ جواب دے کہ اگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک شاگرد، ایک خادم اور ایک غلام تبلیغ کے ذریعہ اسلام کو تمام دنیا میں پھیلاسکتا ہے تو کیا وہ آقا جس کی قوتِ قدسیہ نے ایسا عظیم الشان شاگرد پیدا کیا ہے، تبلیغ کے ذریعہ دین نہیں پھیلاسکتا تھا؟ یقینا وہ بھی تبلیغ کے ذریعہ اپنا دین پھیلاسکتا تھا مگر خداتعالیٰ کی حکمت نے اُس وقت جلال کا ظہور چاہا اور اُسی کی حکمت نے اب جمال کا ظہور دنیا میں فرمایا۔
پھر میں نے کئی دفعہ جماعت کے دوستوں کو خواہ وہ قادیان کے ہوں یا باہر کے اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جلالی رنگ کے زمانہ میں وہ ہمیشہ جلد جلد ایسی قربانیاں طلب کرتا ہے جن کا نتیجہ تھوڑے ہی دنوں میں ظاہر ہوجاتا ہے جیسے جان کی قربانی ہے۔ مگر جمالی زمانہ میں خداتعالیٰ آہستہ آہستہ قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے اور جیسا کہ میں نے کئی دفعہ بتایا ہے یہ قربانیاں جن کا مطالبہ آہستہ آہستہ کیا جاتا ہے کوئی کم قسم کی یا ادنیٰ قسم کی قربانیاں نہیں ہوتیں بلکہ بعض حالات میں پہلی قسم کی قربانیوں سے یہ زیادہ سخت ہوتی ہیں اور درحقیقت انسانی ایمان کی آزمائش ایسی ہی قربانیوں سے ہوتی ہے۔ کیونکہ اوّل تھوڑی قربانی سے دل پر دہشت طاری نہیں ہوتی اور بِالعموم انسان اس کے کرتے وقت پوری ہمت سے کام نہیں لیتا۔ بے شک جو مؤمن ہوتا ہے وہ باوجود اس کے کہ خطرہ نمایاں صورت میں اس کے سامنے نہیں ہوتا، قربانی کیلئے کھڑا ہوجاتا ہے۔ مگر جس کا ایمان کمزور ہوتا ہے وہ اس تسلی میں رہتا ہے کہ ابھی کوئی گھبراہٹ کا موقع نہیں اور اس طرح باوجود اپنے دل میں کسی قدر ایمان رکھنے کے وہ قربانی کے صحیح مقام پر کھڑا نہیں ہوتا اور دھوکا میں مبتلا رہتا ہے۔ مگر جہاں لڑائی ہورہی ہو، جہاں تلواریں چل رہی ہوں، جہاں کفار اپنی پوری طاقت سے مسلمانوں کو مٹانے کیلئے حملہ آور ہوں وہاں نفس انسان کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ وہاں جب کبھی دھوکا دے گا اس رنگ میں دے گا کہ اسلام کو چھوڑ و، اس میں شامل رہ کر تو مصائب ہی مصائب برداشت کرنے پڑتے ہیں مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ خطرہ کوئی نہیں۔ مثلاً جب کفارِ مکّہ کا لشکر آگیا اور مسلمانوں نے دیکھ لیا کہ ابوجہل یا ابوسفیان اس کا کمانڈر ہے اور ہزاروں آدمی اس لشکر میں شامل ہوکر مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے تیار ہیں تو اُس وقت کونسا کمزور سے کمزور مسلمان بھی کہہ سکتا تھا کہ کوئی خطرہ نہیں، یہ محض وہم ہے۔ لیکن اگر دشمن کا حملہ مخفی ہے یا ظاہری سامانِ حرب کی بجائے دلائل سے وہ اسلام کے قلعہ پر حملہ آور ہے یا مختلف رنگ کی سازشوں سے وہ اسلام کو کُچلنا چاہتا ہے یا منافقت کے ساتھ مسلمانوں میں شامل رہ کر اسلام کو ضُعف پہنچانا چاہتا ہے تو ان تمام صورتوں میں جب کہا جائے گا کہ آئو اور قربانی کرو تو بہت سے کمزور طبع لوگ یہ کہنے لگ جائیں گے کہ یونہی ڈرارہے ہیں دشمن کی طرف سے تو کوئی حملہ نظر نہیں آتا۔ پس اس وجہ سے یہ ابتلاء زیادہ خطرناک ہوتے ہیں اور اگر پہلی قسم کے ابتلاء میں بعض کمزور ایمان والے بچ بھی جاتے ہیں اور وہ خطرہ کو اپنے سامنے دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ قربانی کا وقت آگیا ہے تو دوسری قسم کے ابتلاء میں باوجود ایمان رکھنے کے بعض لوگ تباہ ہوجاتے ہیں کیونکہ جو قربانی کا وقت ہوتا ہے اسے وہ محض اس وجہ سے کہ دشمن کا حملہ مخفی ہوتا ہے کھو بیٹھتے ہیں۔
پھر دوسرا خطرہ جمالی زمانہ کی قربانیوں میں یہ ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ لمبی قربانیوں سے گھبراجاتے ہیں۔ کئی دفعہ میں نے مثالوں سے بھی اِس بات کو ثابت کیا ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ملیں گے جنہیں اگر یہ کہا جائے کہ جائو اور دشمن سے لڑ کر مرجائو تو وہ فوراً اپنی جان دینے کیلئے تیار ہوجائیں گے لیکن اگر روزانہ اُن سے تھوڑی تھوڑی قربانی کا مطالبہ کیا جائے تو وہ رہ جائیں گے اور قربانی میں ہچکچاہٹ محسوس کرنے لگ جائیں گے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت یہ خبر دی ہوئی ہے کہ جماعت پر ابتلاء پر ابتلاء آئیں گے اور آزمائش پر آزمائش ہوگی، یہاں تک کہ بہت سے لوگ جھڑ جائیں گے اور صرف وہی باقی رہ جائیں گے جو سچے مؤمن ہوں گے اور اُنہی کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ احمدیت کو فتح دے گا۔
بہت سے نادان ایسے ہیں جو میری نسبت اعتراض کرتے رہتے ہیں اور دنیا کا طریق بھی کچھ ایسا ہے کہ جو حاضر شخص ہوتا ہے اس پر اعتراض لوگ آسانی سے قبول کرلیتے ہیں کیونکہ کئی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو اسے لوگوں کے خلافِ منشاء کرنی پڑتی ہیں اور اس کا اُنہیں رنج ہوتا ہے۔ لیکن وہ شخص جو فوت ہو جاتا ہے لوگ اُس پر اعتراض بہت کم کیا کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اس نے دنیا میں جو کام کرنا تھا کرلیا۔ پس دنیا میں حاضر شخص پر الزام زیادہ قائم ہؤا کرتے ہیں اور وفات یافتہ لوگوں کی تعریف زیادہ کی جاتی ہے۔ چونکہ اس زمانہ میں ایک حصۂ جماعت کو منافقوں کے اثر کی وجہ سے مجھ پر اعتراض کرنے کی عادت ہوگئی ہے اِس لئے جب میری طرف سے قربانیوں کا مطالبہ ہوتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ اپنی طرف سے بات بنارہے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا لٹریچر موجود ہے، اسے پڑھو۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صاف طور پر لکھا ہے کہ میرے بعد ابتلاء پر ابتلاء آئیں گے اور اس حد تک آئیں گے کہ جماعت کاکمزور حصہ الگ ہوجائے گا مگر وہ جو آخر دم تک ثابت قدم رہیںگے خداتعالیٰ انہی کے ذریعہ قدرت ثانیہ کے بعض مظاہر کی ماتحتی میں احمدیت کو فتح دے گا۔ اب یا تو یہ سمجھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اس سازش میں میرے ساتھ شریک ہیں۔ جیسے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب اپنا دعویٰ لوگوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ موسیٰ ؑ نے میرے متعلق یہ یہ پیشگوئیاں کی ہیں تو مکہ کے نادانوں نے سمجھا کہ موسیٰؑ کوئی زمانۂ حال کا آدمی ہے جس سے مشورہ کرکے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم ) نے اپنے متعلق پیشگوئیاں کرالی ہیں اور اُنہیں لوگوں کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کیا تُو مدین میں موجود تھا یا طُور پر موجود تھا کہ موسیٰ سے تُو نے یہ باتیں کہلالیں؟ ۱؎اسی طرح میں بھی کہتا ہوں کہ اگر جو کچھ میں نے کہا وہ غلط ہے تو کیا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کہا تھا کہ آپ اپنی کتابوں میںیہ یہ باتیں لکھ جائیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف طور پر خداتعالیٰ سے خبر پاکر جماعت کو اطلاع دی تھی کہ ابتلاء آتے چلے جائیں گے، آتے چلے جائیںگے اور آتے چلے جائیں گے اور جماعت کے کمزور لوگ گرتے چلے جائیں گے، گرتے چلے جائیں گے اور گرتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ صرف صادقُ الْاِیمان لوگ باقی رہ جائیں گے اور انہی کے ہاتھ پر خداتعالیٰ احمدیت کو فتح دے گا۔
اب سوال صرف یہ ہے کہ صادقُ الْاِیمان کون ہو۔ اور میںسمجھتا ہوں ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے دل میں فیصلہ کرے کہ آیا وہ صادقُ الْاِیمان لوگوں میں شامل ہونا چاہتا ہے یا گرنے والوں میں۔ اگر ایک شخص یہی فیصلہ کرتا ہے کہ میں گرنے والے لوگوں میں شامل ہوں تو میں اُسے کہوں گا کہ تُو نے اب تک اس قدر قربانیاں کیوں کیں۔ تجھے تو چاہئے تھا کہ آج سے ایک عرصہ پہلے الگ ہوجاتا کیونکہ میں آج جماعت سے قربانیوں کا مطالبہ نہیں کررہا بلکہ ابتداء سے کرتا چلا آیا ہوں۔ اور اگر ہم میں سے ہر شخص یہ فیصلہ کرتا ہے کہ گرنے والا دوسرا ہو ، میں گرنے والا نہ بنوں تو اوّل تو کوشش ہماری یہی ہونی چاہئے کہ دوسروں کو بھی بچائیں اور کسی کو گرنے نہ دیں۔ لیکن چونکہ خدائی فیصلہ یہی ہے کہ کچھ لوگ گریں گے اِس لئے زید یا بکر کے گرنے کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیاں پوری ہوکر رہیں گی۔ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر اس کے وعدے نہیں ٹل سکتے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے خداتعالیٰ کے بہت سے نشانات کوپورا ہوتے دیکھا۔ نشان پرنشان اور معجزہ پر معجزہ ہمارے لئے ظاہر ہؤا ۔ ایسے ایسے حالات آئے جبکہ دُنیوی نقطۂ نگاہ سے یہی سمجھا جاتا تھا کہ سلسلہ تباہ ہوجائے گا مگر معاً خداتعالیٰ نے رنگ بدل دیا اور ایسے حالات پیدا کردیئے کہ وہ مصیبت اُڑ گئی اور سلسلہ کا وقار پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گیا اور منافق یہ کہنے لگ گئے کہ مصیبت تو کوئی تھی ہی نہیں، یہ محض بہانہ بنایا گیا تھا، یہی منافقوں کا طریق ہے۔ جب الٰہی سلسلوں پر کوئی مصیبت آتی ہے منافق کہتا ہے اب یہ تباہ ہوجائیں گے مگر جب ٹل جاتی ہے تو کہتا ہے مصیبت تو کوئی تھی ہی نہیں، یہ محض فریب کیا گیا تھا۔ گویا جب کوئی مصیبت موجود ہو تو وہ اُسے اِتنا بڑھاتا ہے، اتنا بڑھاتا ہے کہ اس کی کوئی حد ہی نہیں رہتی۔ اور جب ٹل جاتی ہے تو شروع میں تو وہ یہی کہتا ہے کہ ٹلی نہیں مگر جب بالکل ٹل جاتی ہے تو کہتا ہے مصیبت کوئی تھی ہی نہیں یونہی ڈرانے کیلئے ایک بات بنائی گئی تھی۔ چنانچہ دیکھ لو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ تینوں صورتیں بیان کی ہیں۔ فرماتا ہے احزاب کے موقع پر جب کفار کا لشکر مسلمانوں کے خلاف جمع ہوگیا تومنافقوں نے کہا اے اہل یثرب! ۲؎اب تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ تم ان کاکہاں مقابلہ کرسکتے ہو۔ گویا انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ مسلمان اب مارے جائیں گے اور ہم تو پہلے ہی یہ کہتے تھے کہ خواہ مخواہ دوسروں سے بحثیں کرتے پھرنا فضول بات ہے۔ ہم کوئی دوسروں کی ہدایت کے ٹھیکہ دار تھوڑے ہیں مگر مسلمانوں نے ہماری بات نہ مانی اور نتیجہ یہ ہؤا کہ سارے لوگ مل کر حملہ آور ہوگئے۔ اب انہیں پتہ لگے گا کہ اسلام کی تبلیغ کس طرح کیا کرتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے جب احزاب کو شکست دی تو منافق کہنے لگے شکست کوئی نہیں ہوئی۔ وہ تو صرف تھوڑی دیر کیلئے پیچھے ہٹے ہیں تاکہ دوبارہ جمعیت کو مضبوط کرکے حملہ کریں۔ تیسری کیفیت منافقوں کے قلوب کی ایک اور جنگ کے موقع کے ذکر میں بیان فرماتا ہے۔ فرماتا ہے منافق کہتے ہیں ۳؎ اگر ہم جانتے کہ لڑائی ہوگی تو ہم بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہوتے۔ مگر ہمارا تویہ خیال تھا کہ لڑائی کوئی ہے ہی نہیں، صرف خیالی خطرہ ہے (اِس آیت کے اَور معنے بھی ہیں۔ میں ان کی تردید نہیں کرتا۔ قرآن کریم ذومعانی ہے)۔ اِسی حالت کانقشہ سورئہ بقرہ میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے ۴؎ یعنی جب منافقوں سے کہا جاتا ہے کہ کفار سے ساز باز رکھ کر فساد پیدا نہ کرو۔ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کی کوشش کررہے ہیں۔ یعنی آپس کا اختلاف کوئی بڑا اختلاف نہیں صلح ناممکن نہیں ہے ہم کوشش کررہے ہیںکہ آپس میں صلح ہوجائے اورفساد دُور ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم غلط کہتے ہو۔ دنیا کا جھگڑا نہیں کہ صلح ہوجائے، یہ تو دینی اختلاف ہے جس میں سَودا نہیں ہوسکتا۔ پس اس ساز باز سے وہ فساد پیدا کررہے ہیں مگر ایمان نہیں، اس لئے محسوس نہیں کرتے۔ پھر فرماتا ہے جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح باقی لوگ ایمان لارہے ہیں تم بھی ایمان لائو تو کہتے ہیںکہ یہ تو بیوقوف ہیں۔ خواہ مخواہ لڑائی کرکے فساد کررہے ہیں، ہم بیوقوف کیوں بنیں۔ ہم جانتے ہیں کہ لڑائی کا موقع نہیں ہے، صلح ممکن ہے۔ فرماتا ہے افسوس کہ یہ لوگ جانتے نہیں ورنہ خود ان کا یہ قول بیوقوفی کا ہے۔ تویہ تینوںقسم کی حالتیں منافقوں کی طرف سے ظاہر ہوتی ہیں اور منافق ہمیشہ ایسے وسوسے پیدا کرتا رہتا ہے جن کے نتیجہ میں قوم کا قدم قربانیوں کے میدان میں سُست ہوجائے لیکن مومن کاقدم ہمیشہ آگے کی طرف اُٹھتا ہے اور وہ ہمیشہ اس امر کی کوشش کرتا ہے کہ اپنے وعدہ کو اور اُس عہد کو جو اس نے خداتعالیٰ سے کیا ہے پورا کرے۔ اِس دوران خواہ اسے مشکلات پیش آئیں یا راحت میسر ہو، دونوں اس کیلئے برابر ہوتی ہیں کیونکہ اس کی اصل خواہش یہ ہوتی ہے کہ میرا خدا مجھ سے راضی ہوجائے۔ اگر راحت آئے تو اس کی وجہ سے قربانیوں میں سُست نہیں ہوجاتا اور اگر تکلیف آئے تو گھبراتا نہیں بلکہ اپنے ایمان میں بڑھ جاتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۵؎یعنی مؤمن وہ ہیں کہ جب ان سے لوگ کہتے ہیں کہ سب قومیں تمہارے خلاف جمع ہوگئی ہیں اس لئے تم اب لوگوں سے ڈر کر نرم پڑ جائو۔ تو بجائے اس کے کہ وہ ڈریں یہ بات ان کو ایمان میں اَور بھی بڑھادیتی ہے اور وہ کہتے ہیں اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ سب سے بہتر کارساز ہے۔
غرض مصیبت آئے تو تب بھی مؤمن اپنے ایمان میں بڑھ جاتا ہے اور اگر راحت ملے تب بھی وہ غافل نہیں ہوتا کیونکہ ہر بات میں اسے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جب تک کسی شخص کے اندر یہ ایمان پیدا نہ ہو، جب تک سچے طور پر وہ یہ نہ سمجھے کہ اس کا کام جہاں ایک طرف اپنے نفس کی اصلاح کرنا ہے وہاں دوسری طرف تمام دنیا سے روحانی جنگ کرنا ہے اس وقت تک وہ خطرہ کی حالت میں ہوتا ہے اور اِس بات کا امکان ہوتا ہے کہ وہ اس مقام کو کھو بیٹھے جو اسے خداتعالیٰ کی طرف سے ملا ہے۔ گویا اس کی وہی مثال ہوجائے جو کسی شاعر نے اس طرح بیان کی ہے کہ ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
ایسے شخص کو نہ تو دنیا حاصل ہوتی ہے اور نہ دین حاصل ہوتا ہے۔ دنیا کو وہ ناراض کرلیتا ہے اِس ظاہری دین کی وجہ سے جو اس کے پاس ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کو ناراض کرلیتا ہے، اس باطنی گندگی کی وجہ سے جو اُس کے دل میں پائی جاتی ہے حالانکہ سنجیدگی اور ظاہر و باطن کی یکسانیت دنیا میں سب نیکیوں کی جڑ ہے۔ اگر کوئی کافر سنجیدہ نہیں تو وہ اس کافر سے بُرا ہے جو سنجیدہ ہے اور اگر کوئی مؤمن سنجیدہ نہیں تو نہ صرف وہ اس مؤمن سے بُرا ہے جو سنجیدہ ہے بلکہ سنجیدہ کافر سے بھی بُرا ہے۔ ایک شخص جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جھوٹا سمجھتا ہے وہ باوجود سچے طور پر آپ کو جھوٹا سمجھنے کے بُراہے۔ مگر بہرحال وہ اُس کافر سے اچھا ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جھوٹا بھی سمجھتا ہے اور مخفی طور پر مسلمانوں سے سمجھوتہ بھی کرنا چاہتا ہے۔ بظاہر وہ نرم مزاج نظر آتا ہے لیکن اصل میں وہ نرم نہیں۔ اسی طرح وہ مؤمن جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو سچا نبی سمجھتا ہے اور ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہتا ہے، وہ تو اعلیٰ درجہ کا انسان ہے لیکن وہ شخص جو مؤمن کہلاتا ہے مگر دشمنوں سے سا زباز بھی رکھتا ہے یا وعدہ کرتا اور پھر پورا نہیں کرتا یا کسی اَور رنگ میں اپنے ایمان کی کمزوری کا مظاہرہ کرتا ہے ، وہ اُس کافر سے بدتر ہے جو سنجیدگی سے اپنے کفرپر قائم ہے۔ کیونکہ گواسے غلطی لگی مگر وہ اپنے نقطۂ نگاہ سے سچائی پر تو قائم ہے۔ (سچائی سے مرادمیری اس جگہ حقیقی سچائی نہیں بلکہ وہ سچائی مراد ہے جس کو وہ سچا سمجھتا ہے) وہ تو خداتعالیٰ سے قیامت کے دن کہہ سکتا ہے کہ خدایا! مجھے دھوکا لگا میں سمجھتا رہا کہ میں سچے راستہ پر قائم ہوں حالانکہ یہ بات درست نہ تھی۔ مگر منافق کیا کہے گا۔ کیا وہ یہ کہے گا کہ میں نے تو سمجھا تھا کہ فلاں شخص خدا کا رسول ہے مگر میں نے اس کے احکام کی اطاعت نہ کی۔ یا وہ کافر کیا کہے گا جس نے کُفر کے باوجود اندرونی طور پر مسلمانوں سے فائدہ اُٹھانا چاہا۔ کیا وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے سچے دل سے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو جھوٹا سمجھا تھا خدا کہے گا اگر تُو سچے دل سے جھوٹا سمجھتا تھا تو اندرونی طور پر مسلمانوں سے ساز باز کیوں کرتا رہا؟
تو دنیا میں ساری نیکیوں کی جڑ سچائی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ سچے دل سے ایک بات پر قائم ہوں چاہے وہ غلط راستے پر ہی کیوں نہ ہوں اللہ تعالیٰ بِالآخر انہیں ضرور ہدایت دے دیتا ہے۔ وہ فرماتا ہے ۶؎وہ لوگ جو ہماری تلاش کرتے ہیں اور سچے دل سے ہماری جستجو میں لگ جاتے ہیں، ہم اپنی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم انہیں ضرور سیدھا راستہ دکھادیتے ہیں۔ اس میں کسی مذہب کی شرط نہیں،۔ چاہے کوئی ہندو ہو یا عیسائی ہو یا سکھ ہو۔ اگر کسی شخص کے دل میں سچے طور پر یہ تڑپ پائی جاتی ہے کہ اسے خدا مل جائے تو اسے خدا ضرور مل جاتا ہے اور عجیب عجیب رنگ میں وہ اس کی ہدایت کے سامان کردیتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے ہر سال کبھی کم اور کبھی زیادہ لیکن بہرحال اوسطاً آٹھ دس ایسے غیراحمدیوں کی چِٹھیاں مجھے آجاتی ہیں جو لکھتے ہیں کہ ہم پہلے احمدیت کے شدید مخالف تھے مگر اللہ تعالیٰ نے رئویاکے ذریعہ ہمیں بتایا کہ احمدیت سچی ہے اس لئے ہم توبہ کرتے ہوئے احمدیت میں داخل ہوتے ہیں۔ ابھی چند دن کی بات ہے ایک شخص کی چِٹھی مجھے آئی، وہ لکھتے ہیں کہ میں سلسلہ کا شدید مخالف تھا اور گندی سے گندی گالیاں احمدیوں کودیا کرتا تھا مگر اب مجھے رئویا میں بتایا گیا ہے کہ میں غلطی پر ہوں اس لئے میں سخت ڈرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ سلسلہ کے مزید حالات معلوم کروں۔
تو جو شخص سچے طور پر مخالفت بھی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی ہدایت کے سامان پیدا کردیتا ہے مگر شرط یہی ہے کہ سنجیدگی پائی جائے اور تمام کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے کئے جائیں۔ اگر کوئی سنجیدگی سے اللہ تعالیٰ کو پکارے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ظلمت میں رہے۔ خدا ایک نور ہے اور جب وہ مل جاتا ہے تو ظلمت کہیں نہیں رہتی۔
پس ہماری جماعت کو اپنے اندر سنجیدگی پیدا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کھول کھول کر بیان فرمایا ہے کہ ہر وہ قوم جویہ سمجھتی ہے کہ ہدایت اور نجات ہمارے ساتھ ہی وابستہ ہے، اس کی سچائی کی ایک ہی علامت ہوتی ہے اور وہ یہ کہ ۷؎وہ اگر اپنے دعویٰ میں سچی ہوتی ہیں تو اپنے اوپر موت وارد کرلیتی ہیں۔ جب دنیا میں ایسے نبی آتے ہیں جن کے ہاتھوں میں تلوار ہوتی ہے تو اس زمانہ میں موت کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اُٹھو اور اپنی جانیں لڑائیوں میں قربان کردو۔ مگر جب ایسے نبی آئیں جو تبلیغ کے ذریعہ اپنا مذہب پھیلاتے ہیں جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو اُس وقت موت سے مراد مختلف قسم کی قربانیاں ہوتی ہیں۔ جیسے مالی قربانیاں ہیں یا وقتی قربانیاں ہیں یا اوقات کی قربانیاں ہیںیا عزت و وجاہت کی قربانیاں ہیں۔ یا مثلاً یہ قربانی ہے کہ گالیاں سُنو اور خاموش رہو، ماریں کھائو اور ہاتھ نہ اُٹھائو۔ آخر گالیاں سُننا بھی موت سے کوئی کم قربانی نہیں۔ جن کے دلوں میں سچی محبت ہوتی ہے وہی جانتے ہیں کہ جب ان کے محبوب کو کوئی گالی دیتا ہے تو اُن کو کس قدر اذیت پہنچتی اور ان کیلئے یہ بات کتنے بڑے دکھ اور درد کا موجب ہوتی ہے۔ پس صرف دوسرے سے لڑ کر اپنی جان دے دینا موت نہیں بلکہ گالیاں سُن کر اپنے نفس کو قابو میں رکھنا بھی ایک موت ہے اور یہ پہلی موت سے ہرگز کم نہیں۔ جن لوگوں کے دلوں میں عشق ہوتا ہے وہی جانتے ہیں کہ ان کی کیا حالت ہوتی ہے۔ اُس وقت وہ اپنی جان دے دینے کو صبرکرنے کی نسبت بدرجہا آسان سمجھتے ہیں مگر بہرحال انہیں صبر کرنا ہی پڑتا ہے کیونکہ خداتعالیٰ کا حکم یہی ہوتا ہے کہ صبر کرو۔
مَیں نے مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوا کا واقعہ کئی دفعہ سنایا ہے۔ ایک دفعہ فساد کرانے کی غرض سے کسی نے یہاں یہ خبر مشہور کردی کہ نیرؔ صاحب مارے گئے ہیںاور پیر یوسف جو بھٹے والے ہیں ان کا اور ایک دو اَور احمدیوں کا نام لیا کہ وہ زخمی تڑپ رہے ہیں۔ نیرؔ صاحب اُن دنوں غالباً بورڈنگ میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ لڑکوں نے جونہی اِس خبر کو سُناوہ سٹکیں لے کر اس طرف کو اُٹھ دوڑے۔ میں اُس وقت اتفاقاً (حضرت اماں جان) کے دالان میں ٹہل رہا تھا۔ دَوڑنے کی آواز جو آئی تو میں یہ دیکھنے کیلئے کہ کیا ہؤا گلی کی طرف گیا اور دیکھا کہ لڑکے بے تحاشا دَوڑے چلے جارہے ہیں اور ان کے آگے آگے مولوی رحمت علی صاحب ہیں۔ میں نے مولوی صاحب کو آواز دی کہ ٹھہرو مگر مولوی صاحب نہ رُکے۔ اِس پر میں نے پھر آواز دی تو وہ ٹھہر گئے۔ میں نے کہا کیا ہؤاـ؟ وہ کہنے لگے حضور خبر آئی ہے کہ نیرؔ صاحب کو ہندوئوں نے ماردیا ہے اور بعض اور احمدی زخمی تڑپ رہے ہیں۔ میں نے کہا جب یہ خبر تمہارے پاس پہنچی تھی تو تمہارا فرض تھا کہ مجھ تک بات پہنچاتے۔ یہ تمہارا کام نہیں تھا کہ اُس طرف اُٹھ بھاگتے۔ میں اِس واقعہ کی تحقیقات کرائوں گا تم آگے مت جائو۔ اتفاقاً اُسی وقت قاضی عبداللہ صاحب اس طرف سے گزررہے تھے۔ میں نے انہیں بھیجا کہ جاکر پتہ لگائیں اور اُنہیں اطمینان دلا کر میں پھر کمرہ میں ٹہلنے لگا۔ تو اتنے میں پھر مجھے شور کی آواز آئی اور میں نے دیکھا کہ مولوی رحمت علی صاحب اور دوسرے لڑکے بے اختیار پھر دَوڑے چلے جارہے ہیں۔ میں نے آواز دی کہ مولوی صاحب ٹھہرو مگر اُنہوں نے میری آواز کو نہیں سنا۔ میں نے پھر کہا کہ ٹھہرو مگر وہ پھر بھی نہیں رُکے یہاں تک کہ وہ اُس موڑ سے کئی گز آگے نکل گئے جو میاں بشیر احمد صاحب کے مکان کے جنوبی کونے پر مسجد اقصیٰ کی طرف مُڑتا ہے۔ میںنے اُس وقت سمجھا کہ اب اگر ایک لحظہ بھی اور دیر ہوئی اوریہ موڑ سے دوسری طرف ہوگئے تو پھر میرا ان پر کوئی اختیار نہیں رہے گا اور انہوں نے جاتے ہی جو ہندو سامنے آیا اُس سے لڑنا شروع کردینا ہے۔ پس اُس وقت مجھے ایک ہی علاج نظر آیا اور میںنے مولوی صاحب کو آواز دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ایک قدم بھی آگے بڑھے تو میں آپ کو جماعت سے خارج کردوں گا۔ ایک مخلص احمدی کیلئے یہ الفاظ ایسے نہ تھے کہ ان کے بعدبھی وہ آگے بڑھ سکتا۔ میں نے دیکھا کہ مولوی صاحب رُک تو گئے مگر وہ تھر تھر کانپ رہے تھے، اُن کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور وہ کہہ رہے تھے حضور احمدی مارے گئے ہیں۔ میں نے کہا اس کے تم ذمہ دار نہیں ، میں ذمہ دار ہوں۔ میں یقینا سمجھتا ہوں کہ اگر میں مولوی رحمت علی صاحب کو اُس وقت یہ کہتا کہ جائیں اور گردن کٹوادیں تو وہ انشراحِ دل سے اس بات کیلئے تیار ہوجاتے لیکن میرا یہ حکم کہ اپنی جگہ پر کھڑے رہیںاور آگے مت بڑھیں، ان کیلئے موت سے بہت زیادہ سخت تھا لیکن جمالی زمانہ میں اِسی قسم کی قربانیاں کرنی ضروری ہوتی ہیں اور بغیر ان قربانیوں کے خداتعالیٰ کو خوش بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کوئی قربانی نہیں کہ خداتعالیٰ کہتا ہو کہ پیسہ دو اور ہم کہیں سر لے لو اور خدا کہے سر دو اور ہم کہیںپیسہ لے لو۔ اُس وقت اگر ہم اپنی ساری دولت بھی خداتعالیٰ کے راستہ میں لٹادیں گے تو وہ قبول نہیں ہوگی کیونکہ خداتعالیٰ جان کا مطالبہ کررہا ہوگا نہ کہ مال کا۔ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں خداتعالیٰ نے یہی کہا کہ تلواریں پکڑو اور دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان دے دو۔ چنانچہ وہ گئے اور قربان ہوگئے مگر یہ قربانی بھی ایک عرصہ کے بعد اُن سے مانگی گئی۔ پہلے انہیں بھی یہی کہا گیا تھا کہ صبر کرو اور دشمن کے مقابلہ میں ہاتھ مت اُٹھائو مگر دیکھو صبر کا امتحان کتنا شدید ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں ایک موقع بھی ایسا نظر نہیں آتا جبکہ صحابہؓ نے دشمنوں سے لڑائی کرنے سے انکار کردیا ہو مگر صبر کے مواقع میں سے ایک موقع ایسا ضرورنظر آتا ہے جبکہ وہ اپنے جذبات کونہ دباسکے۔
جنگ بدر کے موقع پر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بغیر مسلمانوں کو یہ بتانے کے کہ کوئی جنگ ہوگی، انہیں ساتھ لے کر مدینہ سے چل پڑے۔ بدر کے مقام کے قریب پہنچ کر آپ نے بتایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی ہے کہ ہم میں اور کفار میں ایک جنگ ہوگی۔ پس بتائو تمہاری کیا رائے ہے۔ اس پرمہاجرین کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اﷲ! رائے کیا ہوتی ہے۔ چلئے اور دشمن کا مقابلہ کیجئے ہم ہر وقت لڑنے کیلئے تیار ہیں مگر جب مہاجر خاموش ہوجاتے تو آپ پھر فرماتے اے لوگو مشورہ دو۔ اس پر پھر کوئی مہاجر کھڑا ہوتا اور وہ کہتا حضور ہم لڑنے کیلئے تیار ہیں۔ مگر جب وہ خاموش ہوجاتا تو آپ پھر فرماتے اے لوگو! مشورہ دو۔ آخرانصار سمجھ گئے کہ مشورہ دو سے مراد یہ ہے کہ ہم بولیں اور اپنی رائے پیش کریں۔ دراصل رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو انصار نے آپ سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ ہم مدینہ سے باہر آپ کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں، ہاں مدینہ کے اندر آپ کے ذمہ دار ہیں۔ پس چونکہ اس معاہدہ کے بعد انصار پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی اور وہ مدینہ سے باہر آپ کی مدد کرنے میں آزاد تھے اس لئے جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے باربار فرمایا کہ اے لوگو! مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اﷲ! کیا آپ ہم سے پوچھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ اس پر اس نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اﷲ! آپ کی مراد شاید اس معاہدہ سے ہے جو ہم نے اُس وقت کیا تھا جب آپ مدینہ تشریف لائے تھے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اﷲ! وہ معاہدہ اُس وقت کا تھا جب ہمیں آپ کی رسالت کا مقام معلوم نہیں تھا، ہم نے اس وقت نادانی سے یہ معاہدہ کیا، مگر یَارَسُوْلَ اﷲ! اب توہم آپ کے مقام کو خوب پہچان چکے ہیں اور اب سوال یہ نہیں کہ ہم نے کیا معاہدہ کیا بلکہ سوال یہ ہے کہ حضور کیا حکم دیتے ہیں۔ یَارَسُوْلَ اﷲ! چلئے جدھر چلتے ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو رَوندتا ہؤا نہ گزرے۔ پھر اس نے کہا یَارَسُوْلَ اﷲ! سامنے سمندر ہے اگر اس میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم اس کیلئے بھی تیار ہیں۔ ۸؎ یعنی کفار سے لڑائی کے وقت تو یہ خیال ہوسکتا ہے کہ شاید ہم فتح پاجائیں اور زندہ واپس آجائیں مگر ہم تو ایسی قربانی کرنے کیلئے بھی تیار ہیں جس میںموت ہی موت دکھائی دیتی ہے۔
ایک اَور صحابی کہتے ہیں میں سو لہ لڑائیوں میں شامل ہؤا۔ گیارہ بارہ لڑائیوں میں خود رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہؤا مگر باوجود اِس کے کہ میں اتنا بڑا ثواب حاصل کرچکا ہوں ، میرا جی چاہتا ہے کہ کاش! میرے منہ سے صرف وہ فقرہ نکلتا جو اس صحابی کے منہ سے نکلا اور لڑائیوں میں مَیں بے شک شامل نہ ہوتا کیونکہ اس ایک فقرے کا ثواب سولہ لڑائیوں کے ثواب سے میرے نزدیک زیادہ ہے۔۹؎
اب دیکھو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت میں اپنی جانیں قربان کیں اور اس قربانی کے پیش کرتے وقت انہوں نے ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی مگر اس کے مقابلہ میں صلح حدیبیہ کے موقع پر جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم عمرہ کیلئے گئے اور کفار نے روک لیا اور آپس میں بعض شرائط ہوئیں تو ان صلح کی شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی شخص مکہ سے بھاگ کر اور مسلمان ہوکر مسلمانوں کے پاس آئے گا تو اسے واپس کردیا جائے گا لیکن اگر کوئی مسلمان مرتد ہوکر مکہ والوں کے پاس جائے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ ابھی لکھا ہی جارہا تھا کہ ایک مسلمان مکہ سے بھاگ کر آپ کے پاس آیا اُس کا جسم بوجہ ان مظالم کے جو اس کے رشتہ دار اسلام لانے کی وجہ سے اس پر کرتے تھے زخموں سے چور تھا اُس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور پائوں میںبیڑیاں، اُسے دیکھ کر اسلامی لشکر میں ہمدردی کا ایک زبردست جذبہ پیدا ہوگیا۔ دوسری طرف کفار نے مطالبہ کیا کہ اِسے واپس کیا جائے۔ یہ دیکھ کر مسلمان اس بات کیلئے کھڑے ہوگئے کہ خواہ کچھ ہوجائے ہم اِسے جانے نہیں دیں گے اور اپنے ہاتھوں اسے موت کے منہ میں نہیں دھکیلیں گے۔ مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اب معاہدہ ہوچکا ہے اور اسے واپس کیا جائے گا، خدا کے رسول جھوٹ نہیں بولا کرتے۔ چنانچہ آپ نے اسے واپس کئے جانے کا حکم دیا ۱۰؎ اور مسلمانوںکے جذبات کو قربان کردیا۔ یہ نظارہ دیکھ کر مسلمانوں کو اتنی کوفت ہوئی کہ وہ مجنون سے ہوگئے۔ چنانچہ جب معاہدہ ہوچکا تورسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا قربانیاں کردو مگر اُس وقت ایک صحابی بھی قربانی کرنے کیلئے نہیں اُٹھا۔ حالانکہ ان میں ابوبکرؓ بھی موجود تھے، ان میں عمرؓ بھی موجود تھے، ان میں عثمانؓ بھی موجود تھے، ا ن میں علیؓ بھی موجود تھے۔ غرض وہ سب صحابہ ان میں موجود تھے جن میں سے مسلمانوں کا کوئی فرقہ کسی کو اور کوئی کسی کو بڑا قرار دیتا ہے مگر ان میں سے ایک بھی تو کھڑا نہیں ہؤا اور سب خاموش بیٹھے رہے۔ رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کی زندگی میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ آپ نے حکم دیا مگر صحابہ نے نافرمانی کی وجہ سے نہیں بلکہ وفورِ جذبات سے مجبور ہوکر اس کی تھوڑی دیر کیلئے تعمیل نہ کی۔ چونکہ یہ خفیف سی دیر بھی پہلی مثال تھی آپؐ اپنے خیمہ میں گئے اور اپنی ایک بیوی سے جو ساتھ تھیں فرمایامیں نے آج ایک ایسی بات دیکھی ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ انہوں نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اﷲ! کیا ہؤا؟ آپ نے فرمایا میںنے اپنے صحابہؓ میں کبھی اطاعت کے لحاظ سے کمی نہیں دیکھی مگر آج میں نے انہیں حکم دیا کہ قربانیاں کردو تو ان میں سے ایک بھی نہیں اٹھا۔ اُمّ الْمُوْمِنین فرمانے لگیں یَارَسُوْلَ اﷲ! آپ جانتے ہیں انہیں کیسا صدمہ ہؤا ہے۔ وہ اس صدمہ سے پاگل ہورہے ہیں آپ کسی سے بات نہ کریں اور خاموشی سے اپنی قربانی کر دیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب یہ نہایت ہی نیک مشورہ سنا تو آپ نے اسے پسند کیا اور خاموشی سے اپنی قربانی کے پاس گئے اور اُسے ذبح کردیا۔ اخلاص آخر اخلاص ہی ہوتا ہے۔ بے شک صبر کی آزمائش بڑی تلخ تھی اورایک لمحہ کیلئے صحابہؓ میں ہچکچاہٹ پیدا ہوئی مگر جب انہوں نے دیکھا کہ وہ شخص جس کے اشارہ پر وہ اپنی جانیں قربان کرتے رہے ہیں، جس کی تعلیم کے ماتحت انہوں نے نہ صرف اپنی زندگیوں کو بلکہ اپنے باپوں ، اپنی مائوں، اپنے بھائیوں اور اپنے بچوں کو قربان کردیا تھا، آج وہ اِس خاموشی سے بغیر اِس کے کہ ہم میں سے کسی کو اپنی مدد کیلئے بُلائے ، قربانی کرنے جارہا ہے تو یک دم اُن کے دل پگھل گئے اور بے اختیار دَوڑ دَوڑ کر انہوں نے اپنے جانور ذبح کرنے شروع کردیئے۔۱۱؎
اب دیکھ لو لڑائیوں کے موقع پر تو انہوں نے یہ کہا کہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور پھر اپنے عمل سے اس قول کو سچا ثابت کردکھایا مگر صبر کے مواقع میں سے ایک موقع ایسا آیا کہ ان کیلئے صبر کرنا مشکل ہوگیا اوررسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک حکم کی تعمیل کو انہوں نے ایک منٹ کیلئے پیچھے ڈال دیا۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ صحابہؓ نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نافرمانی کی کیونکہ انہوں نے اپنی قربانیوں سے ثابت کردیا ہے کہ وہ اطاعت میں درجۂ کمال رکھتے تھے۔ یہ صرف جذبہ اورجنون کی کیفیت تھی اور ایسی صورت تھی جیسے پیارا پیارے سے شاکی ہوتا ہے لیکن پھر بھی صحابہ کی اطاعت کے لحاظ سے یہ ایک غیرمعمولی بات تھی۔ تو دیکھو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں جان دینے کے موقع پر کبھی صحابہؓ نے ہچکچاہٹ ظاہر نہیں کی مگر صبر کے مواقع میں سے ایک موقع پر وہ بھی ایک منٹ کیلئے جذبات کی رَو میں بہہ گئے۔ تو صبر کوئی معمولی قربانی نہیں۔
ہماری جماعت میں کئی نادان ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہماری قربانیاں ویسی نہیں جیسی کہ صحابہؓ نے کیں۔ حالانکہ حق یہ ہے کہ اگر ہم دیانتداری اورخلوص سے قربانیاں کریں تو ہماری قربانیاں ان سے کسی صورت میں کم نہیں ہوں گی۔ ہم نے بہت لوگ دیکھے ہیں جب کوئی خاص اعلان کیا جاتا ہے تو وہ بعض دفعہ اپنی ساری جائیداد بیچ کر دین کے راستہ میں دے دیتے ہیں مگر پھر وہی لوگ آنہ فی روپیہ چندہ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اس لئے کہ متواتر لمبی قربانی انسان پر گراں گزرتی ہے مگر یکدم قربانی کرلینا آسان ہوتا ہے۔ پس یاد رکھوکا چیلنج خداتعالیٰ نے مسلمانوں کی طرف سے یہود کو دیا ہے اور فرمایا ہے کہ تمہارایہ دعویٰ کہ نجات تمہارے لئے ہی مخصوص ہے اگر درست ہے اور تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو جس طرح مسلمان ہر وقت موت کیلئے تیار رہتے ہیں اسی طرح تم بھی موت قبول کرکے دکھائو۔ یہ چیلنج آج بھی قائم ہے اور آج بھی خداتعالیٰ کی قائم کردہ جماعتیں اسی معیار کی رو سے اپنی صداقت دنیا کے سامنے پیش کرسکتی ہیں۔ آج ہماری جماعت کیلئے بھی جانی قربانیوں کازمانہ نہیں بلکہ مسلسل اور متواتر لمبی قربانیوں اور لمبی آزمائش کا زمانہ ہے جس میں دوسروں سے لڑنا نہیں پڑتا بلکہ دوسروں سے مار کھانی پڑتی ہے جس میں غنیمتیں نہیں ملتیںبلکہ اپنے اموال کی قربانی کرنی پڑتی ہے، جس میں انسان سے یکدم جائداد یا زمین چھوڑ دینے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا بلکہ یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ مثلاً اپنی زمین کے کام میں سے ہر روز ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے خدمتِ دین کیلئے وقف کرو۔یہ قربانی بھی کوئی کم قربانی نہیں مگر میں نے دیکھا ہے بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں صحابہؓ نے اپنی زمینیں اور جائدادیں خداتعالیٰ کیلئے چھوڑ دیں احمدیوں نے اس کے مقابلہ میں کیا کِیا؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یکدم زمین کا چھوڑ دینا آسان ہوتا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ ہر روز اپنے کام کے اوقات میں سے ایک گھنٹہ وقف کرو تو اِس پر عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ چیز کا اپنے پاس ہونا اور پھر آہستہ آہستہ اسے قربان کرتے جانا بڑا مشکل ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ چیز پاس ہی نہ رہے۔ ہزاروں واقعات دنیا میں ایسے ہوتے ہیں کہ کوئی کسی کا بچہ اُٹھا کر لے جاتا ہے، ایسی صورت میں ہزاروں کے متعلق سننے میں آتا ہے اور پانچ دس واقعات تو میرے سامنے بھی آئے اور میں نے خود ان بچوں کے والدین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر ہمارا بچہ مر جاتا تو ہمیں اتنا صدمہ نہ ہوتا جتنا اس کے گُم ہوجانے کا ہؤا ہے۔ اب دیکھو گُم ہوجانے کے بھی یہی معنے ہیں کہ وہ والدین سے الگ ہوگیا اور مرجانے کے بھی یہی معنے ہیں کہ وہ جُدا ہوگیا مگر بچہ جو مرجاتا ہے اس کے متعلق انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ گو وہ جُدا ہوگیا مگر اب دنیا کی تکالیف میں سے کسی تکلیف میں مبتلا نہیں مگر جو بچہ گُم ہوجاتا ہے اس کے متعلق والدین کو ہرروز قربانی کرنی پڑتی ہے اور ہر روز انہیں یہ خیال آتا ہے کہ نہ معلوم ہمارے بچے کا کیا حال ہے۔ کبھی خیال آتا ہے ممکن ہے وہ آج فاقے کررہا ہو، ممکن ہے وہ آج زمین پر سویا پڑا ہو، ممکن ہے وہ بیمار ہو اور کوئی اُس کو پوچھنے والا نہ ہو۔ پھر کبھی یہ خیال آتا ہے کہ شاید کوئی اسے گالیاں دے رہا ہو، شاید آج کوئی اسے ماررہا ہو غرض ہزاروں وسوسے ماں باپ کے دل میں اٹھتے ہیں اور ہر روز انہیں اپنے جذبات کی قربانی کرنی پڑتی ہے حالانکہ وہ اتنا صدمہ نہیں ہوتا جتنا اپنے بچے کی موت کا صدمہ ہوتا ہے مگر لوگ اِس بات کو پسند کرلیں گے کہ ان کی ساری اولاد یکدم مَرجائے بہ نسبت اس کے کہ وہ گُم ہوجائے حالانکہ یہ صدمہ تھوڑا ہے اور وہ بڑا۔ تو دائمی قربانی ہی اصل قربانی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آج تک کبھی کسی نبی کو اس طرح کھڑا نہیں کیا کہ اُسے پہلے ہی دن لڑائی کا حکم دے دیا ہو بلکہ جلالی انبیاء کی زندگیوں کا ابتدائی حصہ اسی قسم کی قربانیوں میں سے گزرتا ہے جس قسم کی قربانیوں میں سے جمالی انبیاء گزرتے ہیں اور یہ جلالی اور جمالی انبیاء میں فرق ہے۔ یعنی جمالی نبی شروع سے آخر تک جمالی رہتے ہیں مگر جلالی نبی شروع میں جمالی ہوتے ہیں بعدمیں جلالی بن جاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بیشک جلالی نبی تھے مگر کچھ مدت آپ بھی مصر میںتکلیفیں اُٹھاتے رہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب تک مکہ معظمہ میں رہے ویسی ہی تکلیفیں برداشت کرتے رہے جیسی ہمیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ پھر جب مدینہ میں گئے تو وہاں جاکر چند سال بعد آپ کی جلالی زندگی کا دَور شرع ہؤا۔ اس میں حکمت یہی ہے کہ جمالی رنگ کی مشکلات کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جہاں جلالی نبی بھی کھڑا کیا ہے وہاں جمالی رنگ کی قربانیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے کیونکہ ایمان کی آزمائش مسلسل اور لمبی قربانیوں سے ہوتی ہے۔ آخر سوچو کہ تیرہ سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں۔ اس عرصہ میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کو مکہ میں چلتے پھرتے گالیاں سُننی پڑتیں، لوگ مارتے، دُکھ دیتے، آوازے کَستے، راستوں میں کانٹے بچھادیتے، غلاظتیں پھینکتے، پتھروں پر گھسیٹتے، وطن سے بے وطن کرتے، غرض کونسی تکلیف تھی جو اُنہیں کفار نہ پہنچاتے۔ صحابہؓ کو بعض دفعہ غصہ بھی آتا اور وہ جوش کی حالت میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ فرماتے خدا نے مجھے لڑائی کا اِذن نہیں دیا۔ یہ لمبی تکالیف ۱۳ سال تک مکہ معظمہ میں آپ کو پہنچیں۔ پھر دو سال مدینہ کی زندگی کے بھی انہی تکلیفوں میں گزرے۔ گویا پندرہ سال تک جمالی رنگ کی تکالیف ان پر گزریں اور انہی تکالیف نے ان کے ایمانوں کو کامل کردیا۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بدر کے موقع پر صحابہ نے بڑی قربانیاں کیں۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اُحد کے موقع پر صحابہؓ نے بڑی قربانیاں کیں مگرمیں کہتا ہوں اور صحیح کہتا ہوں کہ بدر کے موقع پر وہ قربانیاں نہیں کرسکتے تھے اگر مکہ کی ساری زندگی اور مدینہ کی کچھ زندگی ان قربانیوں میں سے نہ گزرتی جو جمالی رنگ کی قربانیاں تھیں۔ بے شک ابوبکرؓ اور عمرؓ اور عثمانؓ اور علیؓ بڑے پایہ کے انسان تھے، بے شک کبار صحابہ اور اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مہاجر اور اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ انصار بڑی قربانیاں کرنے والے تھے، لیکن انہیں بدر اور احد اور دوسری جنگوں نے اس مقام تک نہیں پہنچایابلکہ انہیں مکہ اور مدینہ کی جمالی زندگی نے ان قربانیوں کی توفیق دی۔ اگر شروع میں ہی بدر اور احد کی جنگیں پیش آجاتیں اور صحابہ کو جمالی رنگ کی مشکلات میں سے نہ گزرنا پڑتا تو ابوبکرؓ ابوبکرؓ نہ بنتے، عمرؓ عمرؓ نہ بنتے، عثمانؓ عثمانؓ نہ بنتے اور علیؓ علیؓ نہ بنتے۔ پس بدر نتیجہ تھا اُس جمالی زندگی کا جو مکّہ و مدینہ میں گزری۔ اسی طرح اُحد اور دوسرے غزوات نتیجہ تھے اُس جمالی زندگی کا جو مکہ و مدینہ میں صحابہ پر آئی اور انہی تکلیفوں کے نتیجہ میں وہ بعد کی مشکلات میں بھی ثابت قدم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جلالی انبیاء کی زندگی کا ایک حصہ جمالی رنگ اپنے اندر رکھتا ہے۔ جلال آتا ہے بعض اَور حکمتوں کی وجہ سے اور جمال آتا ہے لوگوں کے ایمانوں کو مضبوط کرنے کیلئے۔ اور چونکہ ہر نبی کی بعثت کا اہم ترین مقصد لوگوں کے ایمانوں کو مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے ہر نبی جمال کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے۔ تم ایک نبی بھی ایسا نہیں دکھاسکتے جس کو خداتعالیٰ نے مقامِ نبوت پر کھڑا کرتے ہی حکم دے دیا ہو کہ جائو اور مخالفین سے جہاد کرو کیونکہ اگر اسی دن جہاد کا حکم دے دیا جاتا تو لوگوں کے ایمان مضبوط نہ ہوتے اور لمبی اور مسلسل تکالیف سے ان کے قلوب صیقل نہ ہوتے۔ مگر تم میں سے کتنے ہیں جو کہتے ہیں کہ کاش! ہم بدر یا اُحد یا احزاب کے موقع پر ہوتے اور اپنی جانیں خداتعالیٰ کے راستے میں قربان کردیتے اور اس امر کو بھُول جاتے ہیں کہ اصل قربانیوں کا میدان ان کیلئے بھی کھلا ہے اور آج بھی وہ اسی طرح قربانیاں کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرسکتے ہیںجس طرح صحابہ نے قربانیاں کیں۔ مگر تم میں سے کتنے ہیں جو قربانی کی اس خواہش کے باوجود قربانیوں میں اِستقلال دکھاتے ہیں۔ تم میں سے کتنے ہیں جو وعدے کرتے اور پھر اُنہیں جلد پورا کرنے کا فکر کرتے ہیں، تم میں سے کتنے ہیں جو میرے کسی خطبہ یا تقریر و تحریر کے محتاج نہیں حالانکہ اصل مؤمن وہی ہیں جو اِس بات کے محتاج نہیں کہ میں انہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائوں بلکہ میرے کسی خطبہ یا تقریر یا یاددہانی کے بغیر وہ ہر وقت قربانیوں کیلئے تیار رہتے ہیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں سُستی یا غفلت سے کام نہیں لیتے۔ ہاں وہ جو میری یاددہانیوں کے محتاج ہیں وہ بھی مؤمن ہیں مگر اوّل درجہ کے نہیں بلکہ دوسرے درجہ کے ۔ لیکن وہ جو غافل ہیں جو خداتعالیٰ کے دین کی مدد سے کنارہ کشی کررہے ہیں، جو مصائب کو دیکھتے اور ان کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور کہتے ہیں مصیبتوں کا زمانہ لمبا ہوگیا، ہم کب تک قربانیاں کرتے چلے جائیں، وہ وہ ہیں جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مُہر کردی۔ وہ اس قابل نہیں کہ اس جماعت میں رہ سکیں اور یقینا اگر وہ اپنے افعال سے توبہ نہیں کریں گے تو کسی وقت کوئی ایسی ٹھوکر کھائیں گے کہ ان کا رہا سہا ایمان بھی جاتا رہے گا اور خداتعالیٰ کے فضلوں سے بالکل محروم ہوجائیں گے۔وہ بظاہر اِس وقت مؤمن نظر آتے ہیں مگر ان کا ایمان اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہے، وہ حقیقتِ ایمان سے بے نصیب ہوچکے ہیں اور ایمان کی بشاشت ابھی انہیں حاصل نہیں ہوئی کیونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایمان کا ادنیٰ مقام یہ ہے کہ اگر انسان آگ میں بھی ڈالا جائے تو پرواہ نہ کرے۔۱۲؎ مگر وہ آگ تو کیا معمولی معمولی قربانیاں کرنے سے ہچکچاتے اور پھر کہتے ہیں کہ ہم مؤمن ہیں، پھر کہتے ہیں کہ ہم خدائی سلسلہ میں شامل ہیں۔
یاد رکھو خدائی سلسلے بندوں کی تعداد پر نہیں چلتے بلکہ ایمان اور اخلاص سے ترقی کرتے ہیں۔ تم اگر لاکھوں بھی ہوجائو مگر تمہارے دل میں وہ ایمان نہ ہو جو غیرمتزلزل ہو تو تم دنیا میں کوئی سچائی قائم نہیں کرسکتے۔ لیکن اگر تم ایمان اور اخلاص پرقائم ہوجائو تو پھر خواہ تم تھوڑے ہی ہو تم دنیا پر غالب آکر رہو گے کیونکہ جو خدا کے ہوجاتے ہیں ان کو کوئی زک نہیں پہنچاسکتا۔ پس میں دوستوں کو ایک دفعہ پھر اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اندر وہ مضبوط ایمان پیدا کرو جس کے بعد دشمن کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ میں اس جماعت کے ایک حصہ کو اپنے ساتھ شامل کرسکتا ہوں مگر اب کیا ہوتا ہے؟ اب ابتلاء پر ابتلاء آتا ہے اور ہر دفعہ دشمن یہ خیال کرتا ہے کہ یہ اب گر جائیں گے، یہ اب گرجائیں گے۔ گویا دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتا ہے کہ یہ سب منافق ہیں کیونکہ ابتلائوں کے وقت منافق گرتا ہے مؤمن نہیں گرتا لیکن اگر تم مضبوطی سے ایمان پر قائم ہوجائو تو دشمن اس قسم کی امید بھی نہ کرسکے اور تم تمام دنیا کو فتح کرلو۔
میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے اگر مجھے چالیس مومن مل جائیں تو میں تمام دنیا کو فتح کرلوں ۱۳؎اور یہ بالکل سچ ہے مگر ان چالیس مومنوں سے وہی مومن مراد ہیں جو اپنے نفوس کو خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کردیتے ہیں، جو مصائب و مشکلات پر صبر کرتے اور لمبی اورمسلسل قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں، وہ دشمن کی انگیخت سے برانگیختہ نہیں ہوتے۔ وہ مشکلات اور حوادث سے خوف نہیں کھاتے، وہ صبر کرتے اور قربانیاں کرتے چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے وعدے سچے ہیں اور وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ ان کی کوششوں کو ضائع نہیں کرے گا۔ کیا تم سمجھتے ہواگرتم کمزور اور بے بس ہو کر خداتعالیٰ پر یہ توکل اور اعتماد کرو تو خداتعالیٰ قادر ہوتے ہوئے تمہارے اعتماد کو ضائع کردے گا۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو تو اس سے زیادہ بے بنیاد اور غلط خیال اور کوئی نہیں ۔ آدم سے لے کر آج تک ہزاروں سال میں یا سائنسدانوں کے قول کے مطابق لاکھوں اور کروڑوں سال میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی نے صدقِ دل سے خداتعالیٰ پر اعتماد کیا ہو اور خداتعالیٰ نے اس کے اعتماد کو ضائع کردیا ہو لیکن ایسی ہزاروں نہیں لاکھوں مثالیں ملتی ہیں کہ خدا نے بندوں پر اعتماد کیا مگر بندوں نے اس سے غداری اور بے وفائی کی۔ پس یہ ناممکن ہے کہ تم خداتعالیٰ پر اعتماد کرو اور وہ تمہیں چھوڑ دے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ خود تمہارے دل میں کوئی گند پیدا ہوجائے اور تم اسے چھوڑ دو کیونکہ خدا بے وفا نہیں لیکن بندے بے وفا ہوسکتے ہیں۔
پس اگر حقیقی طور پر تم اس مقام پر کھڑا ہونا چاہتے ہو تو قربانیاں کرو اور کرتے چلے جائو اور یہ مت کہو کہ قربانیوں کا زمانہ لمبا ہوگیا۔ آج خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جمالی رنگ میں مبعوث فرما کر چاہا ہے کہ مسلسل اور متواتر قربانیوں سے تمہارے ایمانوں کو مضبوط کرے۔ اگر تم تھوڑی سی قربانی کرتے یا ایک عرصہ تک قربانیاں کرنے کے بعد اپنا قدم پیچھے ہٹالیتے ہو تو تمہاری مثال بالکل اُس شخص کی سی ہے جو چشمہ کے پاس پہنچ کر اُس سے پیاسا واپس لَوٹتا ہے اور اپنے آپ کو ہلاک کرلیتا ہے۔ اگر تم بھی ایک نبی پر ایمان لاکر ایسے ہی ٹھہرے تو تم سے زیادہ بدقسمت اور کون ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو جہاں اورنصائح فرمائی ہیں وہاں ایک نصیحت یہ بھی کی ہے کہ تم اُس عورت کی طرح مت بنو جو سُوت کاتا کرتی اور پھر اسے کاٹ کاٹ کر ضائع کردیا کرتی تھی۔ تم کبھی قربانیاں کرتے ہو اور ایک عرصہ تک کرتے رہتے ہو مگر جب ایسے مقام پر پہنچنے لگتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہونے کا وقت آپہنچتا ہے تو تم اپنا قدم پیچھے ہٹالیتے ہو اور اس طرح الٰہی فضلوں سے محروم ہوجاتے ہو۔
قرآن کریم میں اس عورت کا جو ذکر کیا گیا ہے یہ ایک مثال ہے جو خداتعالیٰ نے دی۔ چنانچہ اہلِ عرب کا یہ محاورہ ہے کہ جب وہ کسی شخص کے متعلق یہ کہنا چاہیں کہ اس نے کام کرتے کرتے بگاڑ دیا تو یوں کہتے ہیں کہ اس کی مثال اس عورت کی طرح ہے جو سُوت کاتتی اور پھر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتی تھی۔ لوگوں نے اس محاورہ کو ایک حکایت کا رنگ بھی دے دیا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ایک امیر عورت تھی جو خود بھی سُوت کاتتی اور دوسروں سے بھی کتواتی۔ جب بہت سا سُوت اس کے پاس اکٹھا ہوجاتا تو غرباء میں برابر تقسیم کرنے کیلئے سُوت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتی اور اس طرح ساری محنت ضائع کردیتی۔ بظاہر اپنی طرف سے وہ انصاف کرتی تھی اور کہتی تھی کہ میں کسی کو زیادہ اور کسی کو کم کیوں دوں۔ مگر اپنی حماقت سے اٹی بیچ میں سے کاٹ دیتی اور بالشت بھر کسی کو دے دیتی اور بالشت بھر کسی کو اِس طرح نہ غرباء کو فائدہ ہوتا، نہ اسے ثواب ہوتا۔ تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تم اس عورت کی طرح مت بنو۱۴؎جو سُوت کات کات کر بعد میں اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتی اور اپنی تمام محنت ضائع کردیتی۔
تم میں سے بھی بعض خدمتِ دین کرتے اور اپنی ہمت اور توفیق کے مطابق خداتعالیٰ کے سلسلہ کی مدد کرتے ہیں مگر پھر کسی گناہ کی وجہ سے یا سُستی اور غفلت اور بے ایمانی کی وجہ سے یا خداتعالیٰ پر بے اعتمادی کی وجہ سے ان قربانیوں کو ایسے وقت میں ضائع کردیتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات نازل ہونے کا وقت قریب ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو اور اس سے دعا کرو کہ وہ تمہیں کا مصداق نہ بنائے۔ تمہاری قربانیوں کو قبول فرمائے اور تمہیں توفیق عطا فرمائے کہ تم قربانیوں کے میدان میں آگے ہی آگے قدم اُٹھاتے چلے جائو۔ پھر قادیان والوں کو اور باہر کی جماعتوں کو بھی دعائیں کرنی چاہئیں کہ ہم اس طریق کو اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور اسلام اور احمدیت کو مضبوط کرنے والا ہو اور ان راہوں پر چلنے سے محفوظ رکھے جو اسلام اور احمدیت کیلئے مُضِر ہوں۔ ہماری غفلتوں کو معاف کرے، ہماری کوتاہیوں سے درگزر کرے اور ہمیں اپنے فضل سے ہدایت دے کر اپنی خوشنودی اور رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق دے۔ اٰمین‘‘
(الفضل ۲۳؍ مارچ ۱۹۳۸ئ)
۱؎ (القصص: ۴۶،۴۷)
۲؎ الاحزاب:۱۴ ۳؎ اٰل عمران: ۱۶۸ ۴؎ البقرۃ: ۱۲ تا ۱۴
۵؎ اٰل عمران: ۱۷۴ ۶؎ العنکبوت: ۷۰ ۷؎ الجمعۃ: ۷
۸؎ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۳۹۲ ، ۳۹۳۔ مطبوعہ قاہرہ ۱۹۶۴ء
۹؎ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۳۹۴ ، ۳۹۵ ۔ مطبوعہ قاہرہ ۱۹۶۴ء
۱۰؎ بخاری کتاب الصلح باب الصلح مَعَ الْمُشْرِکِیْن
۱۱؎ بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد (الخ)
۱۲؎ بخاری کتاب الایمان باب حلاوۃ الایمان
۱۳؎ ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۳۴۲۔ جدید ایڈیشن
۱۴؎ النحل : ۹۳

۱۲
ہر جگہ مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ قائم کی جائے
(فرمودہ یکم اپریل ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’خطبہ شروع کرنے سے پہلے میں اپنے ایک سابق خطبہ کے متعلق ایک تشریح کرنی چاہتا ہوں۔ غالباً گزشتہ خطبہ سے پہلے خطبہ میں مَیں نے مثال کے طور پر جلالی اور جمالی نبیوں کا بھی ذکر کرتے ہوئے کرشن ؑ جی اور رام چندر ؑ جی کا بھی ذکر کیا تھا اور میں نے ان دونوں کی ترتیب زمانی اِس رنگ میں بیان کی تھی کہ پہلے کرشن جی گزرے ہیں بعد میں رام چندر جی ہوئے ہیں۔ اس پر ایک دوست نے قادیان سے اور ایک دوست نے باہر سے مجھے لکھا ہے کہ ہندو عقائد کے رو سے یہ ترتیب غلط ہے کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ رام چندر جی پہلے ہوئے ہیں اور کرشن جی بعد میں۔ (بعدمیں مجھے معلوم ہؤا ہے کہ بعض ہندو جرائد نے بھی اِس پر اعتراض کیا ہے)۔ اس ترتیبِ زمانی سے تو یوں مجھے کوئی تعلق نہیں وہ پہلے ہوئے ہوں یا بعد میں۔ میں نے تو صرف جلالی اورجمالی نبیوں کے اوقات کے متعلق اور ان کی آمد کی غرض کے متعلق ایک مثال دی تھی۔ اگر یہ بات صحیح ہو یعنی عام طورپر ہندوئوں میں جو یہ خیال پایا جاتا ہے کہ رام چندر جی پہلے ہوئے ہیں اور کرشن جی بعد میں ۔ وہی درست ہو تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میری مثال کے افراد میں تبدیلی کی ضرورت ہوگی اور میری مثال یوں تبدیل ہو جائے گی کہ ویدوں کے دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں لڑائیوں کے متعلق بہت سے احکام پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ رگ وید تو ایسے احکام سے بھرا پڑا ہے۔
پس ویدوں کے زمانہ میںجو لڑائیوںکے احکام دیئے گئے ان سے جو یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی تھی کہ ویدوں کو تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے اس کے ازالہ کیلئے رام چندر جی آئے اور کرشن جی سے ہم ایک نیا دَور فرض کرلیں گے۔ بہرحال جلالی اورجمالی نبیوں کی ترتیب جو میرا اصل مقصود تھا اُس میں ان دو بزرگوں کے زمانہ کے مقدم و مؤخر ہوجانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے بعد مَیں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جب میں نے یہ اعتراض سُنا تو میں نے محسوس کیا کہ میںنے جو بات کہی تھی وہ قیاساً نہ کہی تھی بلکہ کسی سابق مطالعہ کے اثر کے ماتحت کہی تھی اور یہ کہ ضرور اس خیال کی بنیاد کسی تاریخی تحقیق پر مبنی تھی اور اس خیال سے میں نے بعض کتب خود دیکھیں اور بعض اَور دوستوں سے بھی مدد لی اور آخر وہ خیال میرا درست نکلا کہ میرے بیان کا مأخذ تاریخی کتب میں موجود ہے اور اس تحقیق کے نتیجہ میں مجھے معلوم ہؤا کہ موجودہ محققین میں سے بعض نے زبان کی بنیاد پر اور جغرافیائی واقعات پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ کرشن جی پہلے آئے ہیں اور رام چندر جی بعد میں۔ یہ نتیجہ انہوں نے دو قسم کی تحقیقات کے نتیجہ میں نکالا ہے۔ ان کے دعویٰ کی ایک تو اس امر پر بنیاد ہے کہ رام چندر جی کے متعلق جو لٹریچر ہے وہ ویدوں کے علوم کے جس دَور سے تعلق رکھتا ہے وہ بعد میں ہؤا ہے۔ شاید صحیح تلفظ مَیں اد انہ کرسکوں کیونکہ وہ ہندی لفظ ہے لیکن بہرحال اس کا نا م وہ سوتر رکھتے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سوتر قسم کا لٹریچر جو ویدوں کے متعلق ہے اور جو اختصار نویسی پر مشتمل ہے بعد کا ہے اور والمیک جو رامائن کے مصنف ہیں ان کا تعلق اسی لٹریچر سے ہے لیکن بیاس جی جو مہابھارت کے مصنف سمجھے جاتے ہیں ان کا تعلق اس لٹریچر سے ہے جو رزمیہ کہلاتا ہے اور تفصیل اور اطناب کی طرف مائل ہے۔ پس وہ کہتے ہیں کہ گو ہندو تاریخ کرشن جی کو بعد کا قرار دیتی ہے لیکن علمِ ادب کی زمانی قِسموں کے لحاظ سے چونکہ مہابھارت پہلے زمانہ کے علمِ ادب میں لکھی ہوئی ہے اور رامائن بعد کے زمانہ کی اورچونکہ اس زمانہ میں کتب پہلے لکھی نہ جاتی تھیں بلکہ عام گیتوں کے طور پر پہلے زبانوں پر جاری ہوتی تھیں اور پھر لکھی جاتی تھیں اس لئے نتیجہ نکلتا ہے کہ مہابھارت کے واقعات لوگوں میں پہلے مشہور تھے اور رامائن کے واقعات کا چرچا بعدمیں ہؤا۔ پس مہابھارت کے افراد پہلے گزرے ہیں اور رامائن کے افراد بعدمیں گزرے ہیں۔
اس تحقیق میں حصہ لینے والے صرف مغربی عیسائی مصنف ہی نہیں بلکہ ہندوستانی اورہندو محقّقین بھی ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر آئنگر اور رامیشور دت جیسے فاضل مصنفوں نے بھی اسی قسم کے نتائج نکالے ہیں۔ اِن دونوں ہندوستانی مصنفوں کی تحقیق کے مطابق مہابھارت کے واقعات کا زمانہ بارہ سو قبل مسیح تھا اور رامائن کے واقعات کا زمانہ ساڑھے سات سَو سے ایک ہزار قبل مسیح تک۔ جس کے معنی یہ ہوئے کہ دونوں واقعات میں وہ دو سَو سے ساڑھے چار سَو سال کا فاصلہ بتلاتے ہیں اور رامائن کے واقعات کو بعد میں اور مہا بھارت کے واقعات کو پہلے بتاتے ہیں جس کے دوسرے معنٰی یہ ہوئے کہ وہ کرشن جی کو مقدم سمجھتے ہیں اور رام چندر جی کو بعد میں سمجھتے ہیں۔
دوسری بات انہوں نے یہ پیش کی ہے کہ سنسکرت کے قدیم مصنف پانی نی کی تصنیف سے معلوم ہوتا ہے کہ مہابھارت کے واقعات اُس وقت تک ہوچکے تھے اور رامائن کے واقعات کا اُس وقت تک کوئی نام نہ تھا کیونکہ اس کی تصنیف سے مہابھارت کے واقعات کی طرف اشارہ ملتا ہے لیکن رامائن کے واقعات کا سُراغ نہیں ملتا۔ دوسرااصل بعض محققین نے جغرافیائی تحقیق کا بیان کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مہابھارت میں بعض جغرافیائی کوائف ایسے بیان ہیں جو پہلے کے ہیں اور رامائن کے جغرافیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساتویں صدی قبل مسیح کے زمانہ کے قریب کے زمانہ کے حالات بیان کررہی ہے۔ ایک اَور قرینہ بھی بعض لوگ بیان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ مہابھارت میں جن پانڈوئوں کا ذکر آتا ہے ، ان پانڈوئوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ زردقوم تھی اور زرد نسل چینی قومیں ہیں۔ اور کوروں کی قوم جو ہے یہ آرین نسل ہے گو مکسچر ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ شمالی ہند میں غیر آرین قوموں کی حکومتیں ابتدائی زمانہ میںتھیں۔ بعد میں آریوں نے ان کو دبالیا یا وہ آریوں سے مل گئیں یا فنا ہوگئیں لیکن رامائن کے زمانہ میں شمالی ہند کی آریائی قوموں کا جنوبی ہند کی غیرآریائی قوموں سے ملاپ ظاہر ہوتا ہے جو بعد کے زمانہ میں ہؤا۔ کیونکہ آریہ لوگ جنوبی ہند کی طرف اُس وقت بڑھے ہیں جب شمالی ہند پر وہ فتح پاچکے تھے۔ پس اس فرق کی وجہ سے بعض لوگ نتیجہ نکالتے ہیں کہ مہابھارت کے واقعات پہلے کے ہیں اور رامائن کے بعدکے۔
ایک مزید استدلال اس بارہ میں یہ پیش کیاجاتا ہے کہ مہابھارت کے ابتدائی دَور کے نسخوں میں پانڈوئوں کی مذمت کی گئی ہے اور کوروں کی تعریف کی گئی ہے کیونکہ اُس زمانہ میں آریہ قوم ابھی نئی نئی آئی تھی اور غیرقوموں کو شمالی ہندوستان سے نکال رہی تھی۔ اس دشمنی کی وجہ سے وہ غیرآریائی قوموں کو بہت بُرا سمجھتی تھی لیکن بعد کے زمانہ کے اضافوں میں یہ نقشہ اُلٹ گیا اور پانڈوئوں کی تعریف اور کوروں کی مذمت نظر آتی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ بعض غیرآرین نسلیں آرین نسلوں میں مل جُل گئیں اور اب ان کے فاتحین آرین نسل کے فاتحین کی طرح قابلِ تعریف ہوگئے اور ہارنے والے کورو قابلِ نفرت قرار پائے۔ میرا یہ منشاء نہیں کہ میںاِس کو ہندو قوم کے عام خیال پر ترجیح دوں۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اِس امر کے بارہ میں اختلاف ہے اور خود ہندومصنّفین نے اختلاف کیا ہے۔ مجھے اپنے مضمون کیلئے اِس اختلاف میں پڑنے یا اِس کا فیصلہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ کیونکہ کوئی بات بھی مان لی جائے میرے مضمون کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ میری غرض تاریخی ترتیب پیش کرنے کی نہیں تھی بلکہ جلالی اورجمالی انبیاء کے متعلق ایک مثال دینے کی تھی۔ اگر یہ صحیح ہے کہ رام چندر جی پہلے ہوئے ہیں تو پھر وہ مثال یوں بن جائے گی کہ ویدوں میں دشمنوں سے لڑائی کے متعلق جو تعلیم دی گئی ہے اس سے جب یہ غلط فہمی لوگوں کے دلوںمیں پیدا ہوگئی کہ وید تلوار کے زور سے پھیلائے گئے ہیں تو اس کے ازالہ کیلئے رام چندر جی آئے اور کرشن جی سے بعد میں ایک اَور سلسلہ شروع ہؤا اور اگر وہی ترتیب درست ہو جو میں نے بیان کی تھی تو مثال اپنی جگہ پر قائم رہے گی۔
اِس تحقیق کے دوران ایک اَور عجیب بات بھی معلوم ہوئی جسے تاریخی طور پر نہیں بلکہ ذوقی طور پر مَیںبیان کرتا ہوں اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی تھی کہ آپ حضرت کرشن ؑکے مثیل ہیں۔ اب اِس تحقیق کے دَوران میں معلوم ہؤا کہ پانڈو منگولین ریس یعنی مغل قوم میں سے تھے اور پُرانے ہندو لٹریچر میں ان کو زرد اقوام قرار دیا گیا تھا جو چینیوں کا نام ہے۔ اس لحاظ سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مشابہت ثابت ہے۔ کیونکہ آپ بھی منگولین ریس میں سے ہیں اور آپ کا خاندان مغلیہ خاندان ہے اور مغل سب چینی ہیں، گو اصل میں ہمارا سب کامنبع عرب ہے۔ صرف درمیانی عرصہ میں کسی قوم کے کسی دوسری جگہ زیادہ عرصہ رہنے سے اس کے خواص بدل جاتے ہیں۔ ورنہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ چونکہ عربی زبان اُمُّ الْاَلْسِنہ ہے، اس لئے انسانی نسل کا منبع بھی عرب ہی ہے۔
اس کے بعد مَیں آج کے خطبہ کے مضمون کی طرف آتا ہوں۔ میں نے متواتر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قوموںکی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیںہوسکتی۔ نئی نسلیںجب تک اُس دین اور اُن اصول کی حامل نہ ہوں جن کو خداتعالیٰ کی طرف سے اس کے نبی اور مامور دنیا میں قائم کرتے ہیں اُس وقت تک اس سلسلہ کا ترقی کی طرف کبھی بھی صحیح معنوںمیں قدم نہیں اُٹھ سکتا۔ بے شک ترقی ہوتی ہے مگر اس طرح کہ کبھی ترقی ہوئی اور کبھی رُک گئی، کبھی بڑھ گئے اور کبھی رخنہ واقع ہوگیا۔ اس طرح وہ الٰہی سلسلہ پہاڑوں کی طرح اونچانیچا ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن بہرحال رخنہ بُری چیز ہے کوئی اچھی چیز نہیں اور ہمیں اس کو جلدسے جلد دور کرنا چاہئے۔ مگر یہ رخنے آج ہم میں ہی پیدا نہیں ہوئے پہلی قوموں اور پہلے زمانوں میں بھی موجود تھے جن کو نظرانداز کرتے ہوئے بعض لوگ ہماری جماعت پر یہ اعتراض کردیا کرتے ہیں کہ اگر یہ الٰہی سلسلہ ہے تو اس میں فلاں نقص کیوں ہے حالانکہ یہ باتیں پہلے زمانوں میں بھی تھیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کے حقوق کی ہمیشہ حفاظت کیا کرتی تھیں اور بعض دفعہ جب کوئی عورت اپنے خاوند کی شکایت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لاتی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بڑے زور سے اس کی تائید کیا کرتیں اور بار بار فرماتیں کہ اس کے حقوق تلف ہورہے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ یہاں تک کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی بعض دفعہ فرماتے کہ عائشہؓ! تم تو عورتوں کی بڑے زور سے حمایت کرتی ہو۔
پھر دین کے کاموں میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بڑا حصہ لیتی تھیں۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ اعتکاف بیٹھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کا علم ہؤا تو انہوں نے اُسی وقت مسجد میں خیمہ جالگایا۔ باقی اُمہات المؤمنین نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے اپنے خیمے مسجد میں آکر لگادیئے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب مسجد میں تشریف لائے تو آپ کیا دیکھتے ہیں کہ جس طرح کہیں فوج اُتری ہوئی ہوتی ہے اُسی طرح مسجد میںخیمے لگے ہوئے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا یہ اُمہات المؤمنین کے خیمے ہیں جو اُنہوں نے معتکف ہونے کیلئے لگائے ہیں۔ آپ نے فرمایا اُٹھائو سب کو ۔ اگر یہ خیمے یہاں لگے رہے تو لوگوں کو نماز پڑھنے کی جگہ کہاں ملے گی۔۱؎ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوںکے حقوق کا ہمیشہ خاص خیال رکھا کرتی تھیں مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ہی آتا ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک موقع پر آپ نے فرمایا۔ اگر عورتوں کے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ویسے ہی حالات ظاہر ہوتے جیسے آج کل ظاہر ہیں تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیتے۔۲؎ اب یہ بالکل قریب زمانہ کی بات ہے۔ زیادہ سے زیادہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات پر تیس چالیس سال گزرے ہوں گے مگر آپ فرماتی ہیں کہ اگر آج سے چند سال پہلے یہ حالات ظاہر ہوتے تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم عورتوں کو مساجد میں آنے سے منع فرمادیتے اور آپ نے جو اجازت دے رکھی تھی اسے منسوخ فرمادیتے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض حدیثُ الْعہد عورتیں یا غیرقوموں کی عورتیں پردہ میں پوری احتیاط ملحوظ نہیں رکھتی ہوں گی اور لوگ اعتراض کرتے ہوں گے جس پر آپ نے یہ فرمایا۔ جیسے قادیان میں بھی بعض ایسی باتوں پر لوگ اعتراض کردیا کرتے ہیں مگر باوجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس اعتراض کے وہ زمانہ خیرُالْقرون ہی کہلاتا ہے کیونکہ انہوں نے اصلاحی پہلو سے یہ اعتراض کیا تھا۔ یہ نہیں کہا کہ قوم گندی ہوگئی۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اِن چیزوں کو قائم رکھا جائے بلکہ ہمیں ان امور کی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے اور وہ اصلاح اسی رنگ میں ہوسکتی ہے کہ نوجوانوں کو اِس امر کی تلقین کی جائے کہ وہ اپنے اندر ایسی روح پیدا کریں کہ اسلام اور احمدیت کا حقیقی مغز انہیںمیسر آجائے۔ اگر ان کے اندر اپنے طور پر یہ بات پیدا ہوجائے تو پھر کسی حُکم کی ضرورت نہیں رہتی۔ حُکم دینا کوئی ایسا اچھا نہیں ہوتا۔
دنیا میں بہترین مصلح وہی سمجھا جاتا ہے جو تربیت کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں ایسی روح پیدا کردیتا ہے کہ اس کا حکم ماننا لوگوں کیلئے آسان ہوجاتا ہے اور وہ اپنے دل پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم باقی الہامی کتب پر فضیلت رکھتا ہے اور الہامی کتابیں تو یہ کہتی ہیں کہ یہ کرو اور وہ کرو مگر قرآن یہ کہتا ہے کہ اِس لئے کرو، اِس لئے کرو ۔ گویا وہ خالی حکم نہیں دیتا بلکہ اس حکم پر عمل کرنے کی انسانی قلوب میںرغبت بھی پیدا کردیتا ہے۔ تو سمجھانا اور سمجھا کرقوم کے افراد کو ترقی کے میدان میں اپنے ساتھ لئے جانا یہ کامیابی کا ایک اہم گُر ہے اور قرآن کریم نے اس پر خاص زور دیا ہے۔ چنانچہ سورئہ لقمان ؑ میں حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کومخاطب کرکے جو نصیحتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک نصیحت یہ ہے کہ۳؎کہ تمہارے ساتھ چونکہ کمزور لوگ بھی ہوں گے اس لئے ایسی طرز پر چلنا کہ کمزور رہ نہ جائیں۔ بے شک تم آگے بڑھنے کی بھی کوشش کرو مگر اتنے تیز بھی نہ ہوجائو کہ کمزور طبائع بالکل رہ جائیں۔ دوسرے جب بھی تم کوئی حُکم دو محبت پیار اور سمجھا کر دو۔ اس طرح نہ کہو کہ ’’ہم یوں کہتے ہیں‘‘ بلکہ ایسے رنگ میں بات پیش کرو کہ لوگ اسے سمجھ سکیں اور وہ کہیں کہ اس کو تسلیم کرنے میں تو ہمارا اپنا فائدہ ہے۔کے یہی معنے ہیں۔ گویا میانہ روی اور پُرحکمت کلام یہ دو چیزیں مل کر قوم میں ترقی کی رُوح پیدا کیا کرتی ہیں۔ اور پُرحکمت کلام کا بہترین طریق یہ ہے کہ دوسروں میں ایسی روح پیدا کردی جائے کہ جب انہیں کوئی حکم دیا جائے تو سننے والے کہیں کہ یہی ہماری اپنی خواہش تھی۔ یہی وقت ہوتا ہے جب کسی قوم کا قدم ترقی کی طرف سُرعت کے ساتھ بڑھنا شروع ہوجاتا ہے مگر جب امام کچھ کہے اور ماموم کچھ سمجھے، امیر کوئی حکم دے اور مأمور اس سے کوئی مطلب لے اور سمجھنے اور سمجھانے کی کشمکش جاری رہے ۔ وہ حکم دے اور یہ کہے کہ مجھے پہلے اس کی غرض اور اس کا فائدہ سمجھادیجئے اور جب سمجھایا جائے تو کہے میری سمجھ میں نہیں آیا۔ تو ایسی صورت میں کبھی بھی قومی ترقی نہیں ہوتی۔ لیکن جب امیر اور مامور کے آپس میں ایسے تعلقات ہوں یا تربیتِ دماغی ایسے رنگ میں ہوچکی ہو کہ امیر جب کوئی حکم دے تو سب لوگ یہ سمجھیں کہ اس میں ہمارا فائدہ ہے اور یہی ہماری خواہش تھی، تو اُس وقت یقینا وہ ترقی کرجاتی ہے۔
ہمارے ملک میں مثل ہے کہ سَو سیانے اِکّو مت۔ یعنی اگر سو عقلمند ہوں تو وہ سب ایک ہی بات پر متفق ہوں گے۔ یہ نہیں ہوگا کہ کوئی کچھ کہے اور کوئی کچھ۔ اسی طرح اگر ہم ساری جماعت کو عقلمند بنادیں تو سب کی ایک ہی رائے ہو اور متحدہ عزم، متحدہ ارادے اور متحدہ کوششیں اپنے اندر جو اثر رکھتی ہیں وہ بہت وسیع ہوتے ہیں لیکن اگر امیر کی عقل تو تیز ہے لیکن مأمور کی نہیں، مأمور قدم قدم پر ٹھہر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے سمجھالیجئے ایسا نہ ہو کہ مجھے کوئی غلطی لگ جائے، تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس امیر کی کوششیں بارآور نہیں ہوتیں اور قوم کامیابی کا پھل کھانے سے محروم رہتی ہے۔ تو بہترین ذریعہ قومی ترقی کا یہ ہوتا ہے کہ ساروں کی عقل تیز کردی جائے۔ اِدھر اِنہیں حُکم ملے اور اُدھر طبائع اس پر عمل کرنے کیلئے پہلے ہی تیار ہوں اوروہ کہیں کہ ہم تو پہلے ہی اس کے منتظر تھے۔ حدیثوں میں ایسے بہت سے واقعات آتے ہیں کہ جب قرآنی احکام نازل ہوتے تو صحابہؓ کہتے ہم تو پہلے ہی ان احکام کے منتظر تھے۔ اِس کانتیجہ یہ ہوتا کہ وہ فوراً عمل کی طرف متوجہ ہوجاتے اور بحث اور غلط بحث سے بچ جاتے۔
پس ایسے ذرائع کو اختیار کرنا چاہئے جن سے قوم کے دماغ کی تربیت ہو اور خصوصاً نوجوانوں کے دماغ کی تربیت ہو کیونکہ زیادہ تر کاموںکی ذمہ داری آئندہ نوجوانوں پر ہی پڑنے والی ہوتی ہے۔ اگر نوجوانوں میں بُری باتیں پیدا ہو جائیں مثلاً نکمّے پن کی عادت پیدا ہوجائے یا سُستی کی عادت پیدا ہوجائے یا جھوٹ کی عادت پیدا ہوجائے تو یقینا آج نہیں تو کل وہ قوم تباہ ہوجائے گی ۔بِالخصوص جھوٹ تو ایسا خطرناک مرض ہے کہ یہ انسان کے ایمان کو جڑ سے اُکھیڑ دیتا ہے۔ بعض دفعہ پندرہ پندرہ سال تک ہم ایک شخص کے متعلق یہ سمجھتے رہتے ہیںکہ وہ بڑا بزرگ اور راستباز انسان ہے مگر پھر پتہ لگتا ہے کہ وہ بڑ اکذاب ہے۔ دیکھتا کچھ ہے اور بیان کچھ کرتا ہے۔ مگر یہ باتیں بچپن میں ہی پیدا ہوتی ہیں۔ پس نوجوانوں میں اگر اس قسم کی باتیں پیدا کردی جائیں اور ان کے اخلاق کو صحیح رنگ میں ڈھالا جائے تو یقینا قوم کی ترقی میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ مثلاً میں نے تحریک جدید جاری کی۔ اس میں اگر غور کرکے دیکھا جائے توکامیابی عورتوں اور بچوں کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اگر عورتیں اوربچے ہمارے ساتھ تعاون نہ کریں تو یقینا جماعت کا ایک حصہ اس پر عمل کرنے سے رہ جائے گا لیکن اگر عورتیں اور بچے اس میں شامل ہوں تو ہمارے کام میں بہت سہولت پیدا ہوسکتی ہے۔ مثلاً سادے کپڑے ہیں یا زیورات کی کمی ہے یا ایک خاص عرصہ تک زیور بالکل نہ بنوانا ہے اب جب تک عورتیں اس میں شریک نہ ہوں تو یہ سکیم کس طرح چل سکتی ہے ۔یا ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے اِس میں اگر بچے اور نوجوان شریک نہ ہوں تو یہ سکیم کس طرح چل سکتی ہے ۔ مثلاً نکمّا نہ رہنا ہے اب نکمّے پن کی عادت بچوں میں ہی ہوسکتی ہے، بڑے تو اپنی اپنی جگہ کام کررہے ہوتے ہیں اوران میں سے کئی آسودہ حال ہوتے ہیں لیکن ان کی نئی نسل یہ کہنا شروع کردیتی ہے کہ ہمارے ابا نواب، ہمارے ابّا فلانے، ہم فلاں کام کیوں کریں اِس میں ہماری ہتک ہے اور پھر تمام خرابیاں اسی سے پیدا ہوتی ہیں حالانکہ اگر ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی جائے اور ان کے قلوب پر اس کا نقش کردیا جائے کہ جو شخص کام کرتا ہے وہ عزت کا مستحق ہے اور جو کام نہیں کرتا بلکہ نکمّا رہتا ہے وہ اپنی قوم اور اپنے خاندان کیلئے عار اور ننگ کا موجب ہے اور یہ کہ معمولی دولتمند یا زمیندار تو الگ رہے اگر ایک بادشاہ یا شہنشاہ کا بیٹا بھی نکمّا رہتا ہے تو وہ بھی اپنی قوم اور اپنے خاندان کیلئے عار کا موجب ہے اور اس چمار کے بیٹے سے بدتر ہے جو کام کرتا ہے۔ تو یقینا اگلی نسل درست ہوسکتی ہے اور پھر وہ نسل اپنے سے اگلی نسل کو درست کرسکتی ہے اور وہ اپنے سے اگلی نسل کو۔ یہاں تک کہ یہ باتیں قومی کریکٹر میں شامل ہوجائیں اور ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوجائیں کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ جو باتیں قوم کی عادت بن جاتی ہیں وہ ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوجاتی ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عادت ایک لحاظ سے بُری ہے مگر اس میں بھی شُبہ نہیں کہ ایک لحاظ سے وہ اچھی بھی ہوتی ہے۔ جب کوئی قوم بیدار ہو اور اُس وقت وہ اپنے اندر اچھی عادتیں پیدا کرے تو اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ قوم سوجاتی ہے تو اُس کی عادت اُس کے ساتھ رہتی ہے اور اس طرح وہ نیکی ضائع نہیں جاتی بلکہ محفوظ رہتی ہے۔ چاہے وہ خود اس سے فائدہ نہ اُٹھائے بلکہ کوئی اور اس سے فائدہ اُٹھائے۔ اسی لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا میں تین قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ ایک کی مثال تو اُس کھیت کی سی ہوتی ہے جس میں پانی آتا ہے اور وہ اپنے اندر جذب کرلیتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں سے خوب کھیتی نکلتی ہے۔ اور ایک کی مثال اس زمین کی سی ہوتی ہے جس میں پانی آکر جمع تو ہوجاتا ہے مگر کھیتی نہیں اُگتی دوسرے لوگ اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اور ایک کی مثال اُس کنکریلی زمین کی سی ہوتی ہے جہاں پانی آتا ہے تو نہ اُس زمین میں جذب ہوتا ہے اور نہ اُس میں محفوظ رہتا ہے۔۴؎ اسی طرح انسان بھی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ ہوتے ہیں جو الٰہی نور اپنے اندر جذب کرتے ، اُس سے فائدہ اُٹھاتے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اور ایک ایسے ہوتے ہیں جو خود تو فائدہ نہیں اُٹھاتے مگر جس طرح بعض زمینوں میں پانی جمع ہوجاتا ہے اسی طرح عادت کے طور پر بعض نیک کام ان میں پائے جاتے ہیں اور اس کا گو اُنہیں کوئی فائدہ نہ پہنچے مگر کم از کم یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ وہ نیکی محفوظ رہتی ہے۔ مثلاً اگر باپ التزام کے ساتھ سوچ سمجھ کر نماز پڑھنے کا عادی ہے اور اس کا بیٹا نماز کا تارک ہے تو پوتا بہرحال نماز کا تارک ہوگاکیونکہ اُس نے اپنے باپ کو نماز پڑھتے کبھی نہیں دیکھا ہوگا لیکن اگر بیٹا نماز تو پڑھتا ہے مگر عادتاً پڑھتا ہے، دلی ذوق و شوق کے ساتھ نماز نہیں پڑھتا تو گو وہ اس فائدہ سے محروم رہے جو حقیقی نماز پڑنے والوں کو حاصل ہوتا ہے مگر نماز اس کے بیٹوں تک ضرور پہنچ جائے گی اور ممکن ہوگا کہ وہ اگلی نسل نماز سے حقیقی فائدہ حاصل کرلے۔ تو عادتاً جو نیکیاں پیدا ہوجائیں وہ بھی قوم کو فائدہ پہنچاتی ہیں اور گو عادت کی وجہ سے وہ قوم اس سے خود فائدہ نہ اُٹھائے مگر وہ نیکی راستہ میں برباد نہیں ہوجاتی بلکہ اگلے لوگوں تک پہنچ جاتی ہے اور ان میں سے جو فائدہ اٹھانے کے اہل ہوں وہ فائدہ اُٹھالیتے ہیں۔ اسی لئے جب کسی قوم میں تین چار نسلیں اچھی گزرجائیں اس کے معیاری اخلاق دنیا میں قائم رہتے ہیں مٹتے نہیں اوراگر ایک دو نسلوں میں ہی کمزوری آجائے تو وہ اخلاق راستہ میں ہی فنا ہوجاتے ہیں۔ پس اگر کئی اچھی نسلیں گزرجائیں اور ان میں نیکیاںعادت کے طور پر پیدا ہوجائیں تو گو کوئی زمانہ ایسا آجائے کہ وہ اصل نیکی کی روح سے محروم ہوجائے ۔ مگر چونکہ اس کا ظاہر باقی ہوگا اس لئے بعدمیںآنے والے اس سے پھر زندگی حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ نمونہ ان کے پاس موجود ہوگا۔
تو اولادوں کی درستی اور اصلاح اور نوجوانوں کی درستی اور اصلاح اور عورتوں کی درستی اور اصلاح یہ نہایت ہی ضروری چیز ہے۔ اگر دوست چاہتے ہیں کہ وہ تحریک جدید کو کامیاب بنائیںتو ان کے لئے ضروری ہے کہ جس طرح ہر جگہ لجنات اماء اللہ قائم ہیں اسی طرح ہر جگہ نوجوانوں کی انجمنیں قائم کریں۔ قادیان میں بعض نوجوانوں کے دل میں اس قسم کا خیال پیدا ہؤا تو انہوںنے مجھ سے اجازت حاصل کرتے ہوئے ایک مجلس خدام الاحمدیہ کے نام سے قائم کردی ہے۔ چونکہ ایک حد تک کام میں ایک دوسرے کے ذوق کا ملنا بھی ضروری ہوتا ہے اس لئے شروع میں مَیں نے انہیں اجازت دی ہے کہ وہ ہم ذوق لوگوں کو اپنے اندر شامل کریں لیکن میں نے انہیںیہ ہدایت بھی کی ہے کہ جہاں تک ان کیلئے ممکن ہو باقی لوگوں کو بھی اپنے اندر شامل کریں مگر میں نے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ نوجوانوں میں کام کرنے کی روح پیدا ہو یہ ہدایت کی ہے کہ جو لوگ جماعت میں تقریر و تحریر میں خاص مہارت حاصل کرچکے ہوں اُن کو اپنے اندر شامل نہ کیا جائے۔ جس کی وجہ سے بعض دوستوں کو غلط فہمی بھی ہوئی ہے۔ چنانچہ ہماری جماعت کے ایک مبلغ مجھ سے ملنے کیلئے آئے اور کہنے لگے کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں میں نے کہا میں تو ناراض نہیں، آپ کو یہ کیونکر وہم ہؤا کہ میں ناراض ہوں۔ وہ کہنے لگے مجھے معلوم ہؤا ہے کہ آپ نے مجلس خدام الاحمدیہ میں میری شمولیت کی اجازت نہیں دی۔ میںنے کہا یہ صرف آپ کا سوال نہیں جس قدر لوگ خاص مہارت رکھتے ہیں اُن سب کی شمولیت کی میں نے ممانعت کی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر بڑے آدمیوں کو بھی ان میںشامل ہونے کی اجازت دے دی جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ پریذیڈنٹ بھی انہی کو بنائیں گے، سیکرٹری بھی انہی کو بنائیں گے، مشورے بھی انہی کے قبول کریں گے اور اس طرح اپنی عقل سے کام نہ لینے کی وجہ سے وہ خود بُدھو کے بُدھو رہیں گے۔ مثلاً میں اگر کسی انجمن یا جلسہ میںشامل ہوں تو یہ قدرتی بات ہے کہ چونکہ جماعت کے اعتقاد کے مطابق خلیفۃ المسیح سے بڑا مقام اور کوئی نہیں، اس لئے وہ کہیں گے کہ خلیفۃ المسیح کو ہی پریذیڈنٹ بنایا جائے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ جو تربیت پریذیڈنٹی سے حاصل ہوتی ہے وہ بیچ میں ہی رہ جائے گی اور جماعت اس قسم کے تجربے سے محروم رہ جائے گی۔
پس میں نے خاص طور پر انہیں یہ ہدایت دی ہے کہ جن لوگوں کی شخصیتیں نمایاں ہوچکی ہیں اُن کو اپنے اندر شامل نہ کیا جائے تا انہیں خود کام کرنے کا موقع ملے۔ ہاں دوسرے درجہ یا تیسرے درجہ کے لوگوں کو شامل کیا جاسکتا ہے تا اُنہیں خود کام کرنے کی مشق ہو اور وہ قومی کاموں کوسمجھ سکیں اور اُنہیں سنبھال سکیں۔ چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ اِس وقت تک انہوں نے جو کام کیا ہے اچھا کیا ہے اور محنت سے کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں انہیں یہ اجازت دے دیتا کہ وہ پُرانے مبلغین مثلاً مولوی ابوالعطاء اللہ دتّا صاحب یا مولوی جلال الدین صاحب شمس اور اسی قسم کے دوسرے مبلغوں کو بھی اپنے اندر شامل کرلیں تو جو اشتہارات اِس وقت تک انہوں نے لکھے ہیں سب وہی لکھتے، وہی اعتراضات کے جوابات دیتے اور دوسرے نوجوانوں کو کچھ بھی پتہ نہ ہوتا کہ اعتراضات کا جواب کس طرح دیا جاتا ہے۔ پس میں نے انہیں ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے سے روک دیا۔ میں نے کہا تم مشورہ بے شک لو مگر جو کچھ لکھو وہ تم ہی لکھو تا تم کو اپنی ذمہ داری محسوس ہو۔ گو اِس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ شروع میں وہ بہت گھبرائے۔ اُنہوں نے اِدھر اُدھر سے کتابیں لیں اور پڑھیں، لوگوں سے دریافت کیا کہ فلاںبات کا کیا جواب دیں۔ مضمون لکھے اور بار بار کاٹے مگر جب مضمون تیار ہوگئے اور اُنہوں نے شائع کئے تو وہ نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے۔ اورمیں سمجھتا ہوں کہ وہ دوسرے مضمونوں سے دوسرے نمبر پر نہیں ہیں۔ گو ان کو ایک ایک مضمون لکھنے میں بعض دفعہ مہینہ مہینہ لگ گیا اورہمارے جیسا شخص جسے لکھنے کی مشق ہو شاید ویسا مضمون گھنٹے دو گھنٹے میں لکھ لیتا اور پھر کسی اور کی مدد کی ضرورت بھی نہ پڑتی مگر وہ دس بارہ آدمی ایک ایک مضمون کیلئے مہینہ مہینہ لگے رہے لیکن اِس کا فائدہ یہ ہؤا کہ جو اسلامی لٹریچر ان کی نظروں سے پوشیدہ تھا وہ ان کے سامنے آگیا اور دس بارہ نوجوانوں کو پڑھنا پڑا اور اس طرح ان کی معلومات میں بہت اضافہ ہؤا۔ تو اگر اس قسم کے علمی کام یہ انجمنیں کریں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلامی تاریخ کی کتب، اسلامی تفسیر کی کتابیں، حدیث کی کتابیں، فقہ کی کتابیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں اور اسی طرح اَور بہت سی کتابیں ان کے زیر نظر آجائیں گی اور انہیں اپنی ذات میںبہت بڑا علمی فائدہ ہوگا۔
دوسرا فائدہ جماعت کو اس قسم کی انجمنوں سے یہ پہنچے گا کہ اسے کئی نئے مصنف اور مؤلّف مل جائیں گے۔
تیسرا فائدہ یہ ہوگا یہ نوجوانوں میں اعتمادِ نفس پیدا ہوگا اور انہیں یہ خیال آئے گا کہ ہم بھی کسی کام کے اہل ہیں۔
اب اگر میں بڑے آدمیوں کو بھی انہیں اپنے اندر شامل کرنے کی اجازت دے دیتا تو یہ سارے فوائد جاتے رہتے۔ لیکن یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ تصنیف کا کام ہمیشہ نہیں ہوتا اور نہ ہر شخص کرسکتا ہے کیونکہ ہر شخص نہ عربی میں احادیث پڑھ سکتا ہے، نہ عربی میں تفسیریں دیکھ سکتا ہے، نہ عربی کتب کا مطالعہ کرسکتا ہے، پس اِن کیلئے اَور کاموں کی بھی ضرورت ہے۔ اورمیں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تحریک جدید کے اصول پر کام کرنے کی عادت ڈالیں۔ نوجوانوں کے اخلاق کی درستی کریں، ا نہیں اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی ترغیب دیں، سادہ زندگی بسر کرنے کی تلقین کریں۔ دینی علوم کے پڑھنے اور پڑھانے کی طرف توجہ کریں اور ان نوجوانوں کو اپنے ساتھ شامل کریں، جو واقع میں کام کرنے کا شوق رکھتے ہوں۔ بعض طبائع صرف چوہدری بننا چاہتی ہیں، کام کرنے کا شوق اُن میں نہیں ہوتا۔ ایسوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ لوگ صرف پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بننا چاہتے ہیں اور ان کا طریق یہ ہوتا ہے کہ جس دن پریذیڈنٹ یا سیکرٹری کے انتخاب کا سوال ہو فوراً آجائیں گے اور پھر کبھی شکل بھی نہیں دکھائیں گے لیکن جب دوبارہ انتخاب کا سوال ہو تو پھر اپنے پندرہ بیس چیلے لے کر آجائیں گے جنہیں پہلے سے یہ سکھادیں گے کہ ہمیں ووٹ دینا اور اس طرح پھر پریذیڈنٹ یا سیکرٹری بن جائیں گے اور خیال کریں گے کہ ان کی زندگی کا مقصد پورا ہوگیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک جگہ ایک مجلس قائم ہوئی تو اس میں بڑاتفرقہ پیدا ہوگیا۔ میں نے پوچھا کیا ہؤا؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپس میں خوب لڑائی ہوئی ہے۔ ایک کہتا ہے مَیں پریذیڈنٹ بنوں گا اور دوسرا کہتا ہے میں بنوں گا۔ آپ فرماتے تھے کہ میں نے کہا تم یُوں کیوں نہیں کرتے کہ ایک کو پریذیڈنٹ بنادو، دوسرے کا صدر نام رکھ دو، تیسرے کو مربی بنادو اور چوتھے کو چیئرمین قرار دے دو۔ وہ یہ سُن کر بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے اسی طرح کیا۔ ایک کے متعلق کہہ دیا کہ یہ مربی صاحب ہیں اور چپکے سے اس کے کان میں کہہ دیا کہ اجی مربی ہی سب سے بڑا ہوتا ہے صدر کی کیا حیثیت ہوتی ہے۔ پھر دوسرے کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ آپ ہیں صدر اور دیکھئے صدر ہی سب سے بڑا ہوتا ہے کیونکہ سب سے نمایاںجگہ اِسی کو ملتی ہے مربی کا کیا ہے وہ تو گھر بیٹھا رہتا ہے۔ پھر تیسرے کے پاس گئے اور کہنے لگے آپ ہمارے پریذیڈنٹ ہیں صدر تو مُلّائوں قُلْ اَعُوْذیوں کا لفظ ہے آپ موجودہ زمانہ کے روشن دماغ انسانوں کی طرف دیکھئے وہ اپنے میں سے بہترین شخص کو پریذیڈنٹ بناتے ہیں چنانچہ ہم آپ کو اپنا پریذیڈنٹ بناتے ہیں۔ پھر چوتھے کے پاس گئے اور کہنے لگے آپ ہمارے چیئر مین ہیں۔ چنانچہ سب خوش ہوگئے کیونکہ انہیں کام سے کوئی غرض نہ تھی۔ اُنہیں صرف اتنا شوق تھا کہ جب مثلاً کسی ڈپٹی کمشنر کو کوئی چِٹھی لکھنی پڑے تو نیچے لکھ دیا مربی مُسلم ایسوسی ایشن، دوسرے نے لکھ دیا چیئر مین مُسلم ایسوسی ایشن، تیسرے نے لکھ دیا صدر مُسلم ایسوسی ایشن، چوتھے نے لکھ دیا پریذیڈنٹ مُسلم ایسوسی ایشن، محض یہ بتانے کیلئے کہ ہم مسلمانوں کے سردار ہیں ورنہ کام کچھ نہیں کرتے۔ تو بعض لوگوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کے عُہدے لینے کیلئے مجالس میں شامل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ *** ہوتے ہیں اپنی قوم کیلئے اور *** ہوتے ہیں اپنے نفس کیلئے۔ وہ وہی ہیں جن کے متعلق خداتعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۵؎ریاء ہی ریاء ان میں ہوتی ہے کام کرنے کا شوق ان میں نہیں ہوتا۔ تو میں نے انہیں نصیحت کی ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنے اندر مت شامل کریں جو کام کرنے کیلئے تیار نہ ہوں بلکہ انہی کو اپنے اندر شامل کریں جویہ اقرار کریںکہ وہ بے قاعدگی کے ساتھ نہیں بلکہ باقاعدگی کے ساتھ کام کیا کریں گے۔ بے قاعدگی کے ساتھ کا م میں کبھی برکت نہیں ہوتی۔ اگر تھوڑا کام کیا جائے لیکن مسلسل کیا جائے تو وہ اس کام سے زیادہ بہتر ہوتا ہے جو زیادہ کیا جائے لیکن تواتر اور تسلسل کے ساتھ نہ کیاجائے۔
میں چاہتا ہوں کہ باہر کی جماعتیں بھی اپنی اپنی جگہ خدام الاحمدیہ نام کی مجالس قائم کریں۔ یہ ایسا ہی نام ہے جیسے لجنہ امائِ اللہ۔ لجنہ امائِ اللہ کا مطلب ہے اللہ کی لونڈیاں اور خدام الاحمدیہ سے مراد بھی یہی ہے کہ احمدیت کے خادم۔ یہ نام انہیں یہ بات بھی ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا کہ وہ خادم ہیں مخدوم نہیں۔ یہ جو بعض لوگوں کے دلوں میں خیال پایا جاتا ہے کہ کاش ہم کسی طرح لیڈر بن جائیں، یہ بیہودہ خیال ہوتا ہے۔ لیڈر بنانا خدا کا کام ہے او رجس کو خدا لیڈر بنانا چاہتا ہے اُسے پکڑ کر بنادیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں تحریر فرمایا ہے کہ:
’’میں پوشیدگی کے حُجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے۔ اُس نے گوشۂ تنہائی سے مجھے جبراً نکالا۔ میں نے چاہا کہ میں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں مگر اُس نے کہا کہ میں تجھے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ شُہرت دوں گا‘‘۔ ۶؎
پھر حضرت خلیفہ اوّل کو ہم نے دیکھا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں آپ ہمیشہ پیچھے ہٹ کر بیٹھا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آپ پر نظر پڑتی تو آپ فرماتے مولوی صاحب آگے آئیں اور آپ ذرا کھِسک کر آگے ہوجاتے۔ پھر دیکھتے تو فرماتے مولوی صاحب اَور آگے آئیں اور پھر آپ ذرا اَور آگے آجاتے۔ خود میرا بھی یہی حال تھا۔ جب حضرت خلیفہ اوّل کی وفات کا وقت قریب آیا اُس وقت میں نے یہ دیکھ کر کہ خلافت کیلئے بعض لوگ میرا نام لیتے ہیں اور بعض اس کے خلاف ہیں، یہ ارادہ کرلیا تھا کہ قادیان چھوڑ کر چلا جائوں تا جو فیصلہ ہونا ہو میرے بعد ہو مگر حالات ایسے پیدا ہوگئے کہ میں نہ جاسکا۔ پھر جب حضرت خلیفہ اول کی وفات ہوگئی تو اُس وقت میں نے اپنے دوستوں کو اِس بات پر تیارکرلیا کہ اگر اِس بات پر اختلاف ہو کہ خلیفہ کس جماعت میں سے ہو، تو ہم ان لوگوں میں سے (جو اَب غیرمبائع ہیں) کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلیں اور پھر میرے اصرار پر میرے تمام رشتہ داروں نے فیصلہ کیا کہ اگر وہ اس امر کو تسلیم کرلیں تو اول تو عام رائے لی جائے اور اگر اس سے وہ اختلاف کریں تو کسی ایسے آدمی پر اتفاق کرلیا جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو۔ اور اگر وہ یہ بھی قبول نہ کریں تو ان لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلی جائے اورمیں یہ فیصلہ کرکے خوش تھا کہ اب اختلاف سے جماعت محفوظ رہے گی۔ چنانچہ گزشتہ سال حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادی نے بھی حلفیہ بیان شائع کرایا تھا کہ میں نے حافظ صاحب کو اُنہی دنوں کہا تھا کہ ’’اگر مولوی محمد علی صاحب کو اللہ تعالیٰ خلیفہ بنادے تو میں اپنے تمام متعلقین کے ساتھ ان کی بیعت کرلوں گا‘‘ ۷؎ لیکن اللہ تعالیٰ نے دھکّا دے کر مجھے آگے کردیا۔ تو اللہ تعالیٰ جس کو بڑا بنانا چاہے وہ دنیا کے کسی کونہ میں پوشیدہ ہو، خداتعالیٰ اُس کو نکال کر آگے لے آتا ہے۔ کیونکہ خداتعالیٰ کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ اس کیلئے میں پھر حضرت لقمان ؑوالی مثال دیتا ہوں۔ حضرت لقمان ؑ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۸؎کہ اے میرے بیٹے! اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی کوئی چیز ہو اور وہ کسی پتھر میں پوشیدہ ہو یا آسمانوں اور زمین میں ہو تو اللہ تعالیٰ اُس کو نکال کر لے آئے گا۔ اِس کے معنے یہی ہیں کہ اگر تمہارے دل میں ایمان ہو تو خداتعالیٰ تمہیںخود اس کام پر مقرر کرے جس کے تم اہل ہو ۔ تمہیں خود کسی عُہدہ کی خواہش نہیں کرنی چاہئے۔ تو وہ لوگ جو خدمتِ خلق کو اپنا مقصود قرار دیتے ہیں وہی ہرقسم کی عزت کے مستحق ہیں۔ پھر اگر خداتعالیٰ تمہیں خود مخدوم بنانا چاہے تو ساری دنیا مل کر بھی اِس میں روک نہیں بن سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو خداتعالیٰ کے مسیح اورمأمور تھے اور پھر ایسے مأمور تھے جن کی تمام انبیاء نے خبر دی۔ اُن کا ذکر تو بڑی بات ہے۔ میں اپنے متعلق ہی شروع سے دیکھتا ہوں کہ مخالفتیں ہوتی ہیںاور اتنی شدید ہوتی ہیںکہ ہر دفعہ لوگ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب کی دفعہ یہ مخالفانہ ہوائیں سب کچھ اُڑا کر لے جائیں گی مگر پھر وہ اِس طرح بیٹھ جاتی ہیں جس طرح جھاگ بیٹھ جاتی ہے۔ تو جس کو اللہ تعالیٰ قائم کرنا چاہے اُس کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔
پس تمہیں اپنے دلوں میں سے ہرقسم کی نمود کاخیال مٹا کر کام کرنا چاہئے۔ بڑبولا ہونا کوئی خوبی کی بات نہیں ہوتی۔ حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ تیز کلامی میں مشغول ہیں۔ صحابہؓ چونکہ سادہ کلام کرنے کے عادی تھے اس لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ معمولی فقرہ فرمادیا کہ میں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو باتیں کرتے دیکھا ہے۔ آپ اس طرح تیز تیز باتیں نہیں کیا کرتے تھے۔ اب ایک نیک شخص اورمؤمن انسان کو یہ فقرہ بالکل کاٹ دینے والا ہے اور وہ اسی سے سمجھ سکتا ہے کہ کس رنگ میں گفتگو کرنی چاہئے۔
تو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ زبان کے رس میں ساری کامیابی ہے حالانکہ اصل چیز باتیں کرنا نہیں بلکہ کام کرنا ہے۔ مگر میں انہیں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں یعنی یہاں کی مجلس خدام الاحمدیہ کو بھی اور اُن مجالس خدام الاحمدیہ کو بھی جو میرے اس خطبہ کے نتیجہ میں قائم ہوں کہ وہ اس بات کو مدنظر رکھیں کہ اُن کا تعداد پر بھروسہ نہ ہو بلکہ کام کرنا ان کا مقصود ہو۔ یہ بات میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں لیکن آج مجھے اس طرف خاص توجہ اِس لئے ہوئی ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ کے ایک عُہدہ دار کی مجھے چِٹھی ملی ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے اس مجلس میں شامل ہونے سے انکار کردیا ہے اور بعض لوگ جو پہلے اِس میں شامل تھے وہ اب پیچھے ہٹ گئے ہیں حالانکہ اِس بات پر بجائے رنجیدہ ہونے کے انہیں خوش ہونا چاہئے تھا کیونکہ میری تعلیم یہی ہے کہ کام کرنے والے چاہئیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ محض تعداد بڑھانے کے شوق میں نااہلوں کو بھی شامل کرلیا جائے۔ ہم سے زیادہ تعداد شیعوں کی ہے اور ان سے بھی زیادہ حنفیوں کی ہے۔ پھر غیرمُسلموں کو جمع کیا جائے تو وہ مسلمان کہلانے والوں سے زیادہ ہیں۔ پس اگر تعداد کی زیادتی پر ہی مدار رکھا جائے تو پھر تو انسان کو باطل کی طرف جھکنا پڑتا ہے حالانکہ نیک کام ہمیشہ نیک بنیاد سے ہوتے ہیں۔ میں کہتا ہوںیہ سوال نہیں کہ تمہارے دس ممبر ہیں یا بیس یا پچاس یا سَو۔ اگر مجلس خدام الاحمدیہ کا ایک سیکرٹری یا پریذیڈنٹ ہی کسّی ہاتھ میں لے لے اور گلیوں کی صفائی کرتا پھرے یا لوگوں کو نماز کے لئے بُلائییا کوئی غریب بیوہ جس کے گھر سَودا لاکر دینے والا کوئی نہیں اسے سودا لا کر دے دیا کرے تو بے شک پہلے لوگ اسے پاگل کہیں گے مگر چنددنوں کے بعد اس سے باتیں کرنی شروع کردیں گے۔ پھر انہی میں سے بعض لوگ ایسے نکلیں گے جو کہیں گے کہ ہمیںاجازت دیں کہ ہم بھی آپ کے کام میں شریک ہوجائیں۔ اس طرح وہ ایک سے دو ہوں گے، دو سے چار ہوں گے اور بڑھتے بڑھتے ہزارو ں نہیں لاکھوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ تو نیک کام کرتے وقت کبھی یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ کتنے آدمی اِس میں شریک ہیں۔ اگر وہ کام جسے تم کرنا چاہتے ہو واقع میں نیک اور پسندیدہ ہے تو تھوڑے ہی دنوں میں تم ایک سے دس ہوجائو گے، پھر دس سے سَو بنو گے اور سَو سے ہزار ہوجائو گے کیونکہ نیک کام اثر کئے بغیر نہیں رہتا۔
آجکل یورپ میں ایک بہت بڑی انجمن ہے جس کی نہ صرف یورپ میں بلکہ سارے ایشیا میں شاخیں ہیں۔ روٹری کلب اس کا نام ہے اور لاکھوں اس کے ممبر ہیں۔ یہ کلب امریکہ سے شروع ہوئی تھی۔ پہلے اس میں صرف تین آدمی شامل تھے۔ لوگ ا ن سے مخول کرتے، انہیں پاگل اور احمق قرار دیتے مگر وہ خاموشی سے اپنے کام میں مشغول رہے یہاں تک کہ سال دوسال کے بعد سات آٹھ ممبر ہوگئے اور پھر تین چار سال کے بعد تو سینکڑوں تک نَوبت پہنچ گئی۔ اب اسے قائم ہوئے غالباً بیس پچیس سال گزرچکے ہیں اور اس کے لاکھوں ممبر یورپ اور ایشیا میں موجود ہیں۔ تو یہ خیال پیدا ہوجانا کہ ہماری مجلس میں کم آدمی شامل ہیں، زیادہ شامل ہونے چاہئیں، یہ بھی بتاتا ہے کہ مخفی طور پر دل میں شُہرت کی خواہش ہے ورنہ مقصد ہو تو تعداد کا خیال بھی دل میں نہ آئے اور میں تو سمجھتا ہوں بجائے اس کے کہ وہ تعداد بڑھانے کے شوق میں کام نہ کرنے والوں کو اپنے اندر شامل کریں جنہیں بعدمیں نکالنا پڑے، یہ زیادہ بہتر ہے کہ صرف کام کرنے والوں کو اپنے اندر شامل کیا جائے اور جو کام کرنے کا شوق نہیں رکھتے انہیں شامل نہ کیا جائے کیونکہ اندر سے گند کا نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن باہر سے گند نہ آنے دینا بہت آسان ہوتا ہے۔ پس ان کو اپنے نمونہ سے ایک نیک مثال قائم کرنی چاہئے پھر خودبخود نوجوانوں کے دلوں میں تحریک پیدا ہوگی اور وہ بھی ان کے کام میں شریک ہونے کی خواہش کریں گے کیونکہ وہ دیکھیں گے کہ باوجود کام کرنے کے یہ زندہ اور ہشاش بشاش ہیں پھر ہمارا کیا بگڑتا ہے اگر ہم بھی کام کریں اورنیک نامی حاصل کریں۔دنیا میں کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے اتنا وقت فلاں کام کیلئے دے دیا تو دوستوں سے گپیں ہانکنے کیلئے ہمارے پاس کوئی وقت نہیں رہے گا اور اس طرح ہماری ساری بشاشت اور زندہ دلی ماری جائے گی مگر جب وہ دیکھتے ہیں کہ کام کرنے والوں کے چہرے بھی ویسے ہی ہشاش بشاش ہیں اور پھر زائد بات یہ ہے کہ انہیں لوگوں میں نیک نامی حاصل ہے تو پھر وہ بھی سمجھتے ہیں کہ دوستوں میں بیٹھ کر دو دو چار چار گھنٹے گپیں ہانکنے کی نسبت یہ بہتر ہے کہ خدمت خلق کا کوئی کام کیاجائے۔
پس افراد کا ان کو کوئی خیال نہیں کرنا چاہئے۔ جو شخص ان کی مجلس میں شامل نہیں ہوتا اس کے متعلق انہیں کوئی شکوہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنا عملی نمونہ بہتر سے بہتر دکھانا چاہئے۔ اگر تم نوجوانوں کے لئے کامل نمونہ بن جائو تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ تم سے نہ ملیں۔ وہ اگر نہ ملیں تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ تمہارے نمونہ میں کوئی نقص ہے۔ یہا ں بھی اور باہر کی جماعتوں میں بھی کئی غرباء ہوتے ہیں، کئی بیمار ہوتے ہیں جنہیں کوئی دوائی لاکر دینے والا نہیں ہوتا، کئی بیوائیں ہوتی ہیں جنہیں سَودا سلف لاکر دینے والا کوئی نہیں ملتا۔ آخر یہ کتنی بے شرمی کی بات ہے کہ ایک شخص بازار میں کسی دکان پر یا اپنے کسی دوست کے مکان پر بیٹھ کر دو دو تین گھنٹے گپیں مارتا چلا جاتا ہے مگر جب اُسے کہا جاتا ہے کہ آئو اور خدمتِ خلق کیلئے تھوڑا سا وقت دو تو وہ کہنے لگ جاتا ہے کیا کروں، بڑا کام ہے، ذرا بھی فُرصت نہیں ملتی حالانکہ جس وقت وہ گپیں ماررہا ہوتا ہے، جب وہ اپنے نہایت قیمتی وقت کا خون کررہا ہوتا ہے اُس وقت اس کے محلہ میں ایک بیوہ عورت کے بچے بِلک بِلک کر رو رہے ہوتے ہیں اور اس کے پاس کوئی شخص نہیں ہوتا جو اسے آٹا لاکر دے یا دال لا کر دے۔ آخر یہ لوگ خدا کو کیا جواب دیں گے۔ کیا جس وقت وہ یہ کہیں گے کہ ہمارے پاس کوئی وقت نہیں تھا اُس وقت خدا یہ نہیں کہے گا کہ تیرے پاس دو گھنٹے گپیں ہانکنے کیلئے تو تھے مگر تجھے پندرہ منٹ کی فُرصت نہیں تھی کہ تو اس بیوہ کے بچوں کیلئے سَودا لاکر دے دیتا۔ تو تم اپنا عملی نمونہ جس وقت لوگوںکے سامنے پیش کرو گے یہ ناممکن ہے کہ لوگ تم میں شامل ہونے کی خواہش نہ کریں۔ یہ سلسلہ تو خدا کا ہے اور اس میں اس کے وہ بندے شامل ہیں جن کو خدا نے اپنی رضا کیلئے چُن لیا۔ میں کہتا ہوں ایک کافر سے کافر بھی نیک نمونہ دیکھ کر متأثر ہوئے بغیر نہیںرہ سکتا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے ایک استاد مولوی رحمت اللہ صاحب تھے جو بعد میں مدینہ چلے گئے۔ وہ بڑے نیک اور بزرگ تھے مگر عیسائی مذہب سے انہیں کوئی واقفیت نہ تھی۔ ایک دفعہ عیسائیوں کے ساتھ ان کا مباحثہ قرار پایا۔ ان کے مقابلہ میں جو پادری تھا وہ بڑا ہوشیار اور عالم تھا مگر یہ صرف قرآن اور حدیث جانتے تھے اور چونکہ دانا اور سمجھدار تھے اس لئے کہتے تھے کہ اگر میںنے قرآن اور حدیث کو اس کے سامنے پیش کیا تو وہ کہہ دے گا کہ میں ان کو نہیں مانتا ۔ دلیل ایسی چاہئے جسے یہ بھی تسلیم کرے اور وہ مجھے آتی نہیں ۔ آخر کہنے لگے لوگوںسے کیا کہنا ہے آئو خدا سے دعا کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے دعا کی رات کو گیارہ بجے کے قریب ان کے دروازے پر کسی نے دستک دی۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو ایک شخص جُبہ پہنے ہوئے اندر داخل ہؤا اور کہنے لگا صبح آپ کا فلاںپادری سے مباحثہ ہے، میں بھی پادری ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ توحید کے معاملہ میں آپ حق پر ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ بعض حوالے نوٹ کرلیں کیونکہ ممکن ہے ان حوالوں کا آپ کو علم نہ ہو۔ چنانچہ اُس نے تمام حوالے لکھوادیئے اور صبح جب مناظرہ ہؤا تو وہ پادری یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ انہیں تو کسی حوالے کا علم نہ تھا اب یہ کیا ہؤا کہ یہ کہیں یونانی کتب کے حوالے دے رہے ہیں تو کہیں عبرانی کتب کے حوالے پڑھ رہے ہیں، کہیں انگریزی کتب سے اقتباس پیش کررہے ہیں تو کہیں بائبل سے توحید کی تعلیم سنارہے ہیں۔ غرض انہوں نے زبردست بحث کی اور اس پادری کو سخت شکست اُٹھانی پڑی۔ اسی طرح روزانہ وہ رات کو آتا اور حوالے لکھاجاتا اور صبح آپ خوب دھڑلے سے پیش کرتے۔ بعدمیں یہ مباحثہ انہوں نے کتابی صورت میں بھی شائع کردیا اور مظاہر الحق اس کا نام رکھا۔ ہندوستان میں لوگوں نے اِس کتاب سے بڑا فائدہ اُٹھایا ہے۔ اب دیکھو اس پادری کی طبیعت پر حق کا اثر تھا۔ اُس نے جب دیکھا کہ آج حق مظلوم ہے تو اُس کی حمایت کا اُسے جوش آگیا اور اس نے کہا آج توحید کہیں شکست نہ کھاجائے۔ چنانچہ وہ رات کو آتا اور حوالے لکھاجاتا اور گو وہ لوگوں سے چھُپ کر آیا مگر بہرحال آتو گیا۔ تو جب کوئی شخص نیک کام کرنے کیلئے کھڑا ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ خودبخود لوگوں کے دلوں میں تحریک پیدا کردیتا ہے اور وہ اس کی تصدیق اور تائید کرنے لگ جاتے ہیں۔
پس قادیان کے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنا نیک نمونہ دکھائیں۔ خصوصیت سے میں مجلس خدام الاحمدیہ کے اس رکن کو مخاطب کرتا ہوں جس نے مجھے خط لکھا اور میں اسے کہتا ہوں کہ تم بھُول جائو اس امر کو کہ قادیان میں کوئی اَور شخص بھی ہے۔ تم سمجھو کہ صرف تم پر ہی اس کام کی ذمہ داری عائد ہے۔ کیونکہ وہ شخص ہرگز مؤمن نہیں ہوسکتا جو کہتا ہے کہ میری یہ ذمہ داری ہے اور فلاں کی یہ ذمہ داری ہے مؤمن وہ ہے جو سمجھتا ہے کہ صرف اور صرف میری ذمہ داری ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم تجھ سے پوچھیں گے کسی اور سے نہیں۔۹؎ مگر اس سے مراد بھی صرف رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نہیں بلکہ ہر مؤمن مراد ہے۔ اور خداتعالیٰ کہتا ہے کہ میں تم میں سے ہر شخص سے یہ سوال کروں گا کہ تم نے کیا کِیا۔
مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی ہے اپنے ایک فعل پر جو گو ایک بچگانہ فعل تھا مگر جس طرح بدر کے موقع پر ایک انصاری نے کہا تھاکہ یَا رَسُوْلَ اﷲ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے، دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہؤا نہ گزرے ۱۰؎اور اس صحابی کو اپنے اس فقرہ پر ناز تھا۔ اسی طرح مجھے بھی اپنے اس فعل پرناز ہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوئے تو چونکہ آپ کی وفات ایسے وقت میں ہوئی جبکہ ابھی بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئی تھیں اور چونکہ میں نے عین آپ کی وفات کے وقت دو آدمیوں کے منہ سے یہ فقرہ سنا کہ اب کیا ہوگا۔ عبدالحکیم کی پیشگوئی کے متعلق لوگ اعتراض کریں گے، محمدی بیگم والی پیشگوئی کے متعلق لوگ اعترض کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ تو ان باتوں کو سنتے ہی پہلا کام جو میں نے کیا وہ یہ تھا کہ میں خاموشی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاش مبارک کے پاس گیا اور سرہانے کی طرف کھڑے ہوکر میں نے خداتعالیٰ سے مخاطب ہوکر کہا اے خدا! میں تیرے مسیح کے سرہانے کھڑے ہوکر تیرے حضور یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی پھر گئی تو میں اِس دین اور اِس سلسلہ کی اشاعت کیلئے کھڑا رہوں گا جس کو تُونے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم کیا ہے۔ میری عمر اُس وقت انیس سال کی تھی اور انیس سال کی عمر میں بعض اَور لوگوں نے بھی بڑے بڑے کام کئے ہیں مگر وہ جنہوں نے اس عمر میں شاندار کام کئے ہیں وہ نہایت ہی شاذ ہوئے ہیں۔ کروڑوں میں سے کوئی ایک ایسا ہؤا ہے جس نے اپنی اس عمر میں کوئی شاندار کام کیا ہو بلکہ اربوں میں سے کوئی ایک ایسا ہؤا ہے اور مجھے فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر مجھے یہ فقرہ کہنے کا موقع دیا۔ تو مؤمن کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ سمجھے اصل ذمہ دار میں ہوں۔ جب کسی شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہوجائے کہ میں اور فلاں ذمہ دار ہیں وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان ضائع ہوگیا اور اس کے اندر منافقت آگئی۔
ہم میں سے ہر شخص سمجھتا اور سچے دل سے اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ احمدیت سچی ہے اوراسلام سچا مذہب ہے مگر کیا اگر فرض کرلیا جائے کہ کسی وقت سب لوگ فوت ہوجائیں یا مقطوع النسل ہوجائیں یا نَعُوْذُ بِاﷲِ مرتد ہوجائیں اور صرف اکیلا کوئی شخص باقی رہ جائے تو وہ اس کام کو چھوڑ دے گا۔ یقینا وہ اس کام کو کبھی نہیں چھوڑے گا بلکہ وہ سمجھے گا کہ اس کام کے کرنے کابہترین وقت یہی ہے کیونکہ جتنے تھوڑے لوگ ہوں گے اسی قدر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا سایہ زیادہ عمدگی سے ان پر پڑے گا۔ اگر ایک سیر بھر مصری سمندر میں ڈال دی جائے تو مٹھاس کا پتہ تک نہیں لگ سکتا لیکن اگر گلاس دو گلاس میں اتنی مصری ملادی جائے تو بہت زیادہ میٹھا ہوجائے گا۔ اسی طرح محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا سایہ جب ہزار دوہزار یا لاکھ دو لاکھ نفوس پر پڑے گا تو وہ پھیل جائے گا لیکن جب وہ ایک ہی شخص پر پڑے گا تو وہ مجسم محمد بن جائے گا۔ پس اگر ایک نیکی میں تمہیں اکیلے کام کرنے کا موقع ملتا ہے توتمہارا دل خوشی سے بلّیوں اُچھلنا چاہئے کیونکہ تم اس کام میں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ظلِّ کامل بنو گے اور دوسرا کوئی ایسا شخص نہیں ہوگا جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا سایہ لے رہا ہو۔
پس یہ وہم اپنے دلوں سے نکال دو کہ لوگ تمہارے ساتھ شامل نہیں ہوتے۔ تم اگر نیک کاموں میں سرگرمی سے مشغول ہوجائو تو میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ لوگوں پر اس کا اثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع کرسکتا ہے، سورج مغرب کی بجائے مشرق میں ڈوب سکتا ہے مگر یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی نیک کام کو جاری کیا جائے اور وہ ضائع ہوجائے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ تم نیک کام کرو اور خدا تمہیں قبولیت نہ دے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبل از وقت ہمیں بتادیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں جب کوئی شخص مقبول ہوجاتا ہے تو وہ اپنے فرشتوں کو پتہ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں بندہ میری نگاہ میں مقبول ہے پھر وہ اگلے فرشتوں کو بتاتے ہیں اور وہ اپنے سے اگلے فرشتوں کو فَیُوْضَعُ لَہُ الْقَبُوْلُ فِی الْاَرْضِ۱۱؎یہاں تک کہ دنیا کے لوگوں کے دلوں میں اس کی قبولیت پیدا کردی جاتی ہے مگر اس مقبولیت کا پیمانہ تمہارے دل کا اخلاص ہے تمہارے دل کا اخلاص جتنا زیادہ ہوگا اتنی ہی زیادہ یہ مقبولیت ہوگی اور تمہارے دل کا اخلاص جتنا کم ہوگا اتنی ہی کم یہ مقبولیت ہوگی۔
پس میں یہاں کی مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان کو بھی نصیحت کرتا ہوں اور اُن بیرونی جماعتوں کو بھی جن کے نوجوان اس مجلس کی نقل میں کام کرنے کو تیار ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے اس نیت سے کام کریں کہ صرف کام کرنے والے نوجوان اپنے اندر شامل کریں گے، تعداد بڑھانے کیلئے ہر شخص کو شامل نہیں کیا جائے گا ۔ اسی طرح جو تجربہ کار لیکچرار یا تجربہ کار لکھنے والے ہیں ان کو شروع میں اپنے اندر شامل نہ کیا جائے۔ بے شک نگرانی کیلئے کسی وقت ان سے مشورہ لے لیا جائے مگر انہیں اپنا ممبر نہ بنائیں تا وہ ان کے کام پر حاوی نہ ہوجائیں اور ان کی عقلیں ان کی عقلوں کے مقابلہ میں پَست نہ ہوجائیں۔
کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک بڑے درخت کے نیچے اگر ایک چھوٹا پودا لگادیا جائے تو چند ہی دنوں میں وہ سُوکھ جاتا ہے۔ اسی طرح جب بڑے لوگوں کو اپنے اندر شامل کیا جائے تو چھوٹوں کا ذہنی ارتقاء رُک جاتا ہے۔ مگر میں نے دیکھا ہے قادیان میں یہی مرض نہایت شدت سے پھیلا ہؤا ہے۔ کوئی جلسہ ہو، کوئی ٹی پارٹی ہو، کوئی دعوت ہو اس میں مجھے ضرور شامل کریں گے جس کا یقینا انہیں یہ نقصان پہنچتا ہے کہ انہیں خود اُٹھنے اور کام کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسا طریق بہت کم نظر آتا ہے اور گو صحابہؓ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بُلاتے بھی تھے مگر موقع کی حیثیت سے لیکن یہاں تو یہ حال ہے کہ جنازہ بھی خلیفۃ المسیح پڑھائیں، نکاح بھی خلیفۃ المسیح پڑھائیں، کوئی دعوت ہو تو اس میں بھی وہ ضرور شامل ہوں، کوئی ولیمہ ہو تو اس میں بھی ضرور شامل ہوں۔ اسی طرح مبلغ کے جانے کی تقریب ہو، تب وہ شامل ہوں اور آنے کی ہو تو تب بھی وہ شامل ہوں۔ غرض خلیفہ سے اتنے کاموں کی امید کی جاتی ہے کہ جن میں شامل ہونے کے بعد دین کی ترقی اور اس کے کاموں میں حصہ لینے کا اس کیلئے کوئی وقت ہی نہیں رہتا اور اس کا کام صرف اتنا ہی رہ جاتا ہے کہ دعوتیں کھائیں، مُلّانوں کی طرح پیٹ پر ہاتھ پھیرا ، ڈکار لیا اور سورہے۔ یہ ایک مرض ہے جس کے نتیجہ میں افراد کا ذہنی ارتقاء مارا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک بڑے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیںاور بڑے درخت کے نیچے جو پودے لگے ہوئے ہوں وہ نشوونما نہیں پاتے۔ پھر اس کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ جب کوئی اور تحریک کرتا ہے تو لوگ اُس کی بات پر کان نہیں دھرتے اور وہ میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے آپ اِس امر کے متعلق تحریک کریں۔ میں اُس وقت دل میں ہنستا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ سزا ہے جو ان لوگوں کو اس لئے مل رہی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو یہ عادت ڈال دی ہے کہ جب تک کوئی بات خلیفہ نہ کہے اُس کا ماننا کوئی ایسا ضروری نہیں ہوتا۔ حالانکہ دینی مشاغل اور قرآن کا درس و تدریس اور دوسرے ایسے ہی بیسیوں کام میں خلیفہ کے کہنے کی کیا ضرورت ہے یا کسی ناظر کے کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہر شخص کو اپنی اپنی جگہ دلی شوق سے یہ کام کرنے چاہئیں اوراگر وہ آجائیں تو سارا کام انہی کا دماغ کررہا ہوگا اور باقی لوگ خاموش بیٹھے رہیں گے اور اس کا نتیجہ قوم کیلئے مُہلک ہوگا۔ اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے۱۲؎ یعنی اے مومنو! تم بہت باتوں کے متعلق سوالات نہ کیا کرو کیونکہ اگر خدا ان باتوں کو بیان کرے گا تو تمہیں دُکھ پہنچے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ دُکھ کیوں پہنچے گا؟ کیا خدا کے احکام دُکھ دینے والے ہوتے ہیں؟ خدا کا تو ہر حُکم انسان کیلئے باعثِ رحمت ہے۔ پھر اس کا کیا مطلب ہے کہ اگر خدا نے ان باتوں کو بیان کیا تو تمہیں دُکھ پہنچے گا۔ بعض لوگ نادانی سے یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس کامطلب یہ ہے کہ اگر تم نے بار بار سوال کیا تو خدا ناراض ہوکر تمہیں کوئی سخت حکم دے دے گا۔ یعنی جب مثلاً یہ پوچھا کہ دو نمازیں پڑھنی چاہئیں یا پانچ؟ توخدا کہے گا اچھا تم نے تو یہ پوچھا ہے مَیں بطور سزا تمہیں کہتا ہوں کہ تم چھ نمازیں پڑھا کرو۔ مگر یہ بیوقوفی کی بات ہے خدا کوئی تھکنے والا وجود نہیں کہ ایک دو سوالوں سے وہ نَعُوْذُبِاﷲِ گھبراجائے اور اُکتا کر سخت حکم دینے شروع کردے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر تم ہر بات مجھ سے دریافت کرو گے اور اپنی عقلوں پر زور نہیں ڈالو گے تو تمہارے قوائے دماغیہ کمزور اور بیکار ہوجائیں گے کیونکہ جس عضو سے ایک عرصہ تک کام نہ لیا جائے وہ بیکار ہوجاتا ہے۔ ہاتھ سے کام نہ لیا جائے تو ہاتھ خشک ہوجاتا ہے، دماغ سے کام نہ لیا جائے تو دماغ کمزور ہوجاتا ہے۔ پس فرماتا ہے اگر تم ہم سے پوچھو گے تو گو ہم تمہیں وہ بات بتادیں گے مگر پھر تم فقیہہ نہیں رہو گے بلکہ نقّال بن جائو گے حالانکہ قوم کی ترقی کیلئے فقیہوں کا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ مگر وہ یہ بھی یاد رکھیں کہ کام تحریک جدیدکے اصول پر کریں۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ اَ لْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ ۱۳؎ تمہار اکام بے شک یہ ہے کہ تم دشمن سے لڑو مگر تمہارا فرض ہے کہ امام کے پیچھے ہوکر لڑو۔
پس کوئی نیا پروگرام بنانا تمہارے لئے جائز نہیں۔ پروگرام تحریک جدید کا ہی ہوگا اور تم تحریک جدید کے والنٹیرز ہو گے۔ تمہارا فرض ہوگا کہ تم اپنے ہاتھ سے کام کرو، تم سادہ زندگی بسرکرو، تم دین کی تعلیم دو، تم نمازوںکی پابندی کی نوجوانوں میں عادت پیدا کرو، تم تبلیغ کیلئے اوقات وقف کرو، اسی طرح باہر جو انجمنیں بنیں وہ بھی اسی رنگ میں کام کریں، مگر موجودہ حالات میں جس طرح قادیان کی لجنہ کو میں نے باہر کی لجنات پر ایک برتری اور فوقیت دی ہوئی ہے، اسی طرح میں اعلان کرتا ہوں کہ موجودہ حالات میں عارضی طور پر سال دو سال کیلئے قادیان کی مجلس خدام الاحمدیہ کی بیرونی جماعتوں کی مجالس خدام الاحمدیہ شاخیں ہوں گی۔ اور ان کا فرض ہوگا کہ اس انجمن کے ساتھ اپنی انجمنوں کا الحاق کریں اور اس انجمن کی اپنے آپ کو شاخ سمجھیں۔ اسی طرح ہر جگہ ان کا یہ کام ہوگا کہ وہ سلسلہ کا لٹریچر پڑھیں، نوجوانوں کو دینی اَسباق دیں مثلاً صبح کے وقت یا کسی اَور وقت ایک دوسرے کو پڑھایا جائے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھنے کیلئے کہا جائے اور پھر ان کا امتحان لیا جائے، اسی طرح وہ خدمتِ خلق کے کام کریں اور خدمتِ خلق کے کام میں یہ ضروری نہیں کہ مسلمان غریبوں اور مسکینوں اور بیوائوں کی خبرگیری کی جائے بلکہ اگر ایک ہندو یا سکھ یا عیسائی یا کسی اور مذہب کاپیرو کسی دُکھ میں مبتلا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اس کے دکھ کو دور کرنے میں حصہ لو۔ کہیں جلسے ہوں تو اپنے آپ کوخدمت کیلئے پیش کردو۔ میں نے اِسی قسم کے کاموں اور مقاصد کیلئے احمدیہ نیشنل لیگ کور قائم کرنے کی اجازت دی تھی۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ اس کا بہت سا وقت لیفٹ اور رائٹ میں ہی خرچ ہوگیا۔ وہ اپنے دائیں اوربائیں دیکھتے رہے مگر انہوں نے اپنے سامنے کبھی نہ دیکھا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے اس وقت تک کوئی مفید کام نہیں کیا۔ انہوں نے بھی بعض مفید کام کئے ہیں۔ خصوصاً جلسہ سالانہ کے موقع پر اور دوسرے اجتماعوں کے مواقع پر ان کا جو انتظام ہوتا ہے وہ بہت اچھا ہوتا ہے مگر قواعد کرنے۱۴؎ کے علاوہ یا بعض جسمانی خدمات کے علاوہ اور جن کاموں کی میں ان سے امید رکھتا تھا وہ پورا نہیں ہؤا (میرے پاس لیگ کور کی قواعد کرانے والے افسروں نے اپنے کام کی فہرست پیش کی ہے کہ وہ فلاں فلاں کام کرتے رہے ہیں۔ میں خطبہ میں ان کے کام کے اس حصہ کا خود ہی اعتراف کرچکا ہوں۔ میرا اظہارِ خیال قواعد سکھانے والوں کے مطابق نہیں۔ انہوں نے باقاعدگی سے کام کیا ہے اور اس کا مجھے اعتراف ہے۔ جو شکوہ میں نے کیا ہے وہ لیگ کا ہے کہ دوسری اغراض جو علاوہ قواعد کے تھیں وہ انہوں نے باوجود درجنوں دفعہ مجھ سے مشورہ لینے کے پوری نہیں کیں)۔ بہرحال میں امید کرتا ہوں کہ اگر نیشنل لیگ نے یہ مقصد پورا نہیں کیا تو اب مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان ہی اِس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے اور اپنی زندگی کو کارآمد بنائیں گے اور سلسلہ کے درد کو اپنا درد سمجھیں گے لیکن جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں مجلس خدام الاحمدیہ میں جو بھی شامل ہو وہ یہ اقرار کرے کہ میں آئندہ یہی سمجھوں گا کہ احمدیت کا ستون مَیں ہوں اور اگر مَیں ذرا بھی ہِلا اور میرے قدم ڈگمگائے تو میں یہ سمجھوں گا کہ احمدیت پر زد آگئی۔
حضرت طلحہؓ ایک بہت بڑے صحابی گزرے ہیں ان کا ایک ہاتھ لڑائی کے موقع پر شل ہوگیا تھا۔ بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو جنگیں ہوئیں ان میں سے کسی موقع پر ایک شخص نے طنزاً حضرت طلحہؓ کو لنجا کہہ دیا۔ حضرت طلحہؓ نے کہا تمہیں پتہ بھی ہے میں کس طرح لنجا ہؤا۔ پھر انہوں نے بتایا کہ احد کے موقع پر جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر کفار نے حملہ کردیا اور اسلامی لشکر پیچھے ہٹ گیا تو اُس وقت کفار نے یہ سمجھتے ہوئے کہ صرف محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم )کی ذات ہی ایک ایسا مرکز ہے جس کی وجہ سے تمام مسلمان مجتمع ہیں، آپ پر پتھر اور تیر برسانے شروع کردیئے۔ میں نے اُس وقت دیکھا کہ اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں کوئی تیر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے چہرئہ مبارک پر آکر نہ آلگے۔ چنانچہ میں نے اپنا بازو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے منہ کے آگے کردیا۔ کئی تیر آتے او رمیرے بازو پر پڑتے مگر میں اسے ذرا بھی نہ ہِلاتا یہاں تک کہ تیر پڑتے پڑتے میرا بازو شل ہوگیا۔ کسی نے پوچھا جب تیر پڑرہے تھے تو اُس وقت آپ کے منہ سے کبھی اُف کی آواز بھی نکلتی تھی یا نہیں کیونکہ ایسے موقع پر انسان بے تاب ہوجاتا اور درد سے کانپ اُٹھتا ہے۔ انہوں نے کہا میں اُف کس طرح کرتا جب انسان کے منہ سے اُف نکلتی ہے تو وہ کانپ جاتا ہے۔ پس میں ڈرتا تھا کہ اگر میں نے اُف کی تو ممکن ہے میرا ہاتھ کانپ جائے اور کوئی تیر رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کو جاکر لگ جائے اس لئے میں نے اُف بھی نہیں کی۔ ۱۵؎
دیکھو کتنا عظیم الشان سبق اس واقعہ میں پنہاں ہے۔ طلحہؓ جانتے تھے کہ آج محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے چہرئہ مبارک کی حفاظت میرا ہاتھ کررہا ہے۔ اگر میرے اس ہاتھ میں ذرا بھی حرکت ہوئی تو تیر نکل کر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو جالگے گا۔ پس انہوں نے اپنے ہاتھ کو نہیں ہِلایا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس ہاتھ کے پیچھے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا چہرہ ہے۔ اسی طرح اگر تم بھی اپنے اندر یہ احساس پیدا کرو، اگر تم بھی یہ سمجھنے لگو کہ ہمارے پیچھے اسلام کا چہرہ ہے اور اسلام اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم دو نہیں بلکہ ایک ہیں تو تم بھی ایک مضبوط چٹان کی طرح قائم ہوجائو اور تم بھی ہر وہ تیر جو اسلام کی طرف پھینکا جاتا ہے اپنے ہاتھوں اور سینوں پر لینے کیلئے تیار ہوجائو۔
پس یہ مت خیال کرو کہ تمہارے ممبر کم ہیں یا تم کمزور ہو بلکہ تم یہ سمجھو کہ ہم جو خادمِ احمدیت ہیں ہمارے پیچھے اسلام کا چہرہ ہے۔ تب بیشک تم کو خداتعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی طاقت ملے گی جس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکے گا ۔ پس تم اپنے عمل سے اپنے آپ کو مفید وجود بنائو۔ غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرو نہ صرف اپنے مذہب کے غریبوں اور مسکینوں کی بلکہ ہر قوم کے غریبوں اور بیکسوں کی۔ تا دنیا کو معلوم ہو کہ احمدی اخلاق کتنے بلند ہوتے ہیں۔ مشورہ دینے کے لحاظ سے میں ہر وقت تیار ہوں مگر میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم نمایاں شخصیتوں کو اپنا ممبر مت بنائو کیونکہ بڑے درخت کے نیچے اگر آئو گے توتمہاری اپنی شاخیں سُوکھ جائیںگے۔
اسی طرح سچائی کو اپنا معیار قرار دو۔ قواعد کے تیار کرنے میں مَیںانشاء اللہ تمہاری ہر طرح مدد کروں گا۔ سرِدست یہ نصیحت کرتا ہوں کہ تم ہر ممبر سے یہ اقرار لو کہ اگر وہ جھوٹ بولے گا اور اس کا جھوٹ ثابت ہوجائے گا تو وہ خوشی سے ہر سزا برداشت کرنے کیلئے تیار رہے گا۔ جب تم سچائی پر قائم ہوجائو گے، جب تم نمازوں میںباقاعدگی اختیار کرلو گے، جب تم دین کی خدمت کیلئے رات دن مشغول رہو گے، تب جان لینا کہ اب تمہارا قدم ایسے مقام پر ہے جس کے بعد کوئی گمراہی نہیں۔
اسی طرح تمہیں چاہئے کہ تم تحریک جدید کے متعلق میرے گزشتہ خطبات سے تمام ممبران کو واقف کرو اور ان سے کہو کہ وہ اَوروں کو واقف کریں۔ اور پھر ہر شخص اپنی ماں اور اپنی بہن اپنی بیوی اور اپنے بچوں کو ان سے واقف کرے۔ اسی طرح میں لجنات امائِ اللہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس رنگ میں کام کریں اور جہاں جہاں لجنہ ابھی تک قائم نہیں ہوئی وہاں کی عورتیں اپنے ہاں لجنہ امائِ اللہ قائم کریں اور وہ بھی اپنے آپ کو تحریک جدید کی والنٹیئرز سمجھیں اور اسلام کی ترقی کیلئے اپنی زندگی کو وقف قرار دیں۔
اگر تم یہ کام کرو تو گو دنیا میں تمہارا نام کوئی جانے یا نہ جانے (اور اِس دنیا کی زندگی کی حقیقت ہے ہی کیا ہے۔ چند سال کی زندگی ہے اور بس) مگر خدا تمہارا نام جانے گااور جس کا نام خدا جانتاہو اس سے زیادہ مبارک اور خوش قسمت اور کوئی نہیں ہوسکتا۔‘‘
(الفضل ۱۰؍ اپریل ۱۹۳۸ئ)
۱؎ بخاری کتاب الاعتکاف باب الاخبیۃ فی المسجد
۲؎ بخاری کتاب الاذان باب خروج النساء الی المساجد
۳؎ لقمان: ۲۰
۴؎ بخاری کتاب العلم باب فضل مَنْ تَعَلَّمَ وَعَلَّمَ
۵؎ الماعون: ۵ تا ۷
۶؎ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵۳ ۔ جدید ایڈیشن ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲
۷؎ الفضل ۶؍اگست ۱۹۳۷ء
۸؎ لقمان: ۱۷
۹؎ (النسائ: ۸۵)
۱۰؎ بخاری کتاب المغازی باب قصۃ غزوۃ بدرٍ
۱۱؎ بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکرالملائکۃ (الخ)
۱۲؎ المائدہ: ۱۰۲
۱۳؎ بخاری کتاب الجہاد باب یُقَاتَلُ مِنْ وَّ رائِ الامَام (الخ)
۱۴؎ قواعد کرنا: ورزش کرنا۔ جنگی کرتب کرنا۔
۱۵؎

۱۳
مجالس خدام الاحمدیہ کیلئے بعض ہدایات
(فرمودہ ۸؍ اپریل ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے گزشتہ جمعہ میں نوجوانوںکی تنظیم کے متعلق خطبہ پڑھا تھا آج اسی سلسہ میں بعض اَور باتیں کہنا چاہتا ہوں لیکن میرے ان خطبات کے یہ معنے نہیں کہ کسی خاص عمر کے آدمی خصوصیت کے ساتھ میرے مخاطب ہیں کیونکہ گو یہ صحیح ہے کہ نوجوان کی اصطلاح ایک خاص عمر کے آدمی کیلئے بولی جاتی ہے لیکن حقیقتاً انسان نوجوان عمر کے لحاظ سے نہیں بلکہ دل کے لحاظ سے ہوتا ہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ شخص جس کی عمر اٹھارہ سے چالیس سال ہے ضرور نوجوان ہو۔ بالکل ممکن ہے کہ اِس عمر کا انسان بوڑھا ہو اور اپنی طاقتوں کو ضائع کرچکا ہو اور یہ ضروری نہیں کہ چالیس سال سے زیادہ عمر کا آدمی ضرور ادھیڑ یا بوڑھا ہو۔ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص بظاہر بوڑھا یا ادھیڑ عمر کانظر آتا ہو لیکن اس کا دل خداتعالیٰ کے سلسلہ کی خدمت کیلئے نوجوانوں سے بھی زیادہ نوجوان ہو۔ حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ۶۳ سال کی عمر میںفوت ہوئے مگر کون کہہ سکتا ہے کہ ایک دن بھی آپ ؐپر بھی ایسا آیا جب آپ بوڑھے تھے۔ چالیس سال کی عمر میں جب آپ پر وحی نازل ہوئی آپ کے اندر جو جوانی تھی ہم یقین رکھتے ہیںکہ اس سے بہت زیادہ جوان آپ وفات کے وقت تھے کیونکہ ایمان انسان کی جوانی کو بڑھاتا ہے اور حوصلوں کو بلند کرتا ہے۔
پس گو ظاہری الفاظ میں میرے مخاطب نوجوان ہیں مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ جو لوگ عمر کے لحاظ سے اس حد سے آگے گزرچکے ہیں جسے جوانی کی حد کہا جاتا ہے، وہ میرے مخاطب نہیں ہیں۔ جن لوگوں کے دل جوان ہیں اور اپنے اندر سلسلہ کی خدمت کیلئے ایک جوش پاتے ہیں، ان کی عمر خواہ کتنی بھی کیوں نہ ہو وہ میرے ویسے ہی مخاطب ہیں جیسے چالیس سال سے کم عمر کے لوگ۔
مولوی عبداللہ صاحب غزنوی ایک مشہو ربزرگ پنجاب میں گزرے ہیں۔ وہ دراصل رہنے والے تو افغانستان کے تھے مگر حکومتِ افغانستان نے بوجہ ان کے اہل حدیث خیالات کے اُن کو مُلک سے نکال دیا تھا ان کی اولاد انہی کی پیشگوئی کے مطابق ہمارے سلسلہ کی شدید مخالف ہے مگر ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق بہت سے رئویا اور کشوف ہوئے تھے۔ گو وہ آپ کے دعویٰ سے قبل ہی فوت ہوگئے اور سلسلہ میں داخل نہ ہوسکے۔ ان کے متعلق ایک عجیب واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ بہت ہی ضعیف ہوچکے تھے اورمرض الموت میں مبتلا تھے کہ کوئی شخص اُن کے پاس آیا، اُن کی بزرگی کی وجہ سے لوگ ان سے اپنے ذاتی معاملات میں بھی مشورہ لے لیا کرتے تھے، جیسے آج ہم سے بھی لے لیتے ہیں۔ کوئی مرید ان کے پاس آیا اور کہا کہ میری لڑکی جوان ہے میں چاہتا ہوں کہ اس کی شادی کا کوئی انتظام ہوجائے۔ مولوی صاحب کے ساتھی جو اُس وقت وہاں موجود تھے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے چارپائی پر لیٹے لیٹے ہی فرمایا کہ میرے ساتھ ہی شادی کردو۔ بعض لوگ اس واقعہ کو ایک ہنسانے والاواقعہ خیال کرتے ہیں مگر یہ واقعہ ایسا نہیں ہر شخص اپنی نیت کے مطابق پھل پاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا دلی جوش ان کو یہ خیال بھی نہیںآنے دیتا تھا کہ وہ بوڑھے ہوچکے ہیں۔ باوجودیکہ ان کا جسم جواب دے چکا تھا مگر ایمان کی وجہ سے دین کی خدمت کیلئے جو روحانی قوت وہ اپنے اندر محسوس کرتے تھے اس کے ماتحت ان کو کبھی یہ خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ وہ بوڑھے ہوگئے ہیں۔ ایک صحابی کا واقعہ بھی اس سے مشابہہ ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ ہی ایک ایسے شخص ہیں جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خادم کہلاتے ہیں۔ ان کے سِوا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی خادم نہیں رکھا۔ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو حضرت انسؓ کی والدہ انہیں آپ کے پاس لائیں اور عرض کیا کہ یَارَسُوْ لَ اﷲ! مرد تو اور طرح خدمت کرکے ثواب حاصل کرتے ہیں مگر میں عورت ہوں اَور تو کچھ نہیں کرسکتی، یہ میرا لڑکا ہے جسے میں آپ کی خدمت کیلئے پیش کرتی ہوں، یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ ۱؎حضرت انسؓ کی عمر اُس وقت دس بارہ سال کی تھی اور وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات تک آپ کی خدمت کرتے رہے۔ ان کی وفات ایک سَو دس یا ایک سَو بیس سال کی عمر میں ہوئی۔ ۲؎یہ اختلاف اس وجہ سے ہے کہ اُس زمانہ میں پیدائش کی تاریخیں عام طور پر یاد نہیں رکھی جاتی تھیں۔ مسلمان چونکہ بہت بڑے مؤرخ تھے اس لئے وفات کی تاریخیں تو پوری طرح محفوظ ہوگئیں مگر پیدائش کی تاریخیں اسلام سے پہلے زمانہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے محفوظ نہیں ہوسکیں۔ حضرت انسؓ جب مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو بعض لوگ ان کی عیادت کیلئے گئے اور کہا کہ آپ حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی اور خادم ہیں ہمیں کوئی خدمت بتائیے۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ لوگ میری کیا خدمت کرسکتے ہیں ہاں اگر ہو سکے تو میری شادی کرادیں۔ میں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص بغیرشادی کے فوت ہوتا ہے وہ بطّال ہے، بطّال اسے کہتے ہیں جس کی عمر ضائع گئی، حضرت انسؓ کی بیوی ان سے کچھ ہی عرصہ پہلے فوت ہوئی تھیں اس لئے انہوں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ اگر میری شادی کرادو تو میں بطّال نہ کہلائوں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا مطلب تو یہ تھا کہ جو شخص اپنی زندگی بھر شادی نہیں کرتا اور اس کی اولاد نہیںہوتی وہ بطّال ہے کیونکہ اسلام نے رہبانیت کوناجائز رکھا ہے مگر حضرت انسؓ نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی لفظی بات کو پورا کرنے کیلئے یہ بھی پسند نہ کیا کہ چند دن کی عمر بھی بطّال گزاریں حالانکہ اُس وقت وہ عمر کی اس حد سے گزرچکے تھے جس میں بچے پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی دراصل ان کے دلی جوش کا نتیجہ تھا۔ دین کی خدمت کا جو احساس ان کے دل میں تھا اس کے ماتحت اگرچہ جسم جواب دے چکا تھامگر کام کی اُمنگ روح میں موجود تھی اور اسی کے ماتحت وہ بعض اوقات یہ بھُول جاتے تھے کہ ہم بوڑھے ہوچکے ہیں یا ہمارے جسم اب جواب دے چکے ہیں۔
پس عمر کوئی چیز نہیں بلکہ درحقیقت انسان کی اُمنگ اور حوصلہ ہوتا ہے جو خداتعالیٰ کے حضور اسے مقرب بنادیتا ہے اور جو اس کی کوششوں کو ہر زمانہ میں جاکر نوجوانوں سے آگے بڑھا دیتا ہے۔ پس ان خطبات میں اگرچہ بظاہر میرے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کی عمر چالیس سال سے کم ہے مگرحقیقتاً وہ لوگ بھی میرے مخاطب ہیں جن کی عمر خواہ کتنی ہو مگر خدمتِ دین میں وہ دوسروں سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور یہ لوگ ظاہری نوجوانوں سے زیادہ ثواب کے مستحق ہوتے ہیں۔ کیونکہ نوجوانوں کے تو جسم بھی کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں مگر ان کے جسم جواب دے چکے ہوتے ہیں اور ان کی مثال اُن غرباء کی ہوتی ہے جن کے پاس دولت نہیں ہوتی مگر چندوں کے وقت وہ دوسروںسے پیچھے رہنا گوارا نہیں کرتے۔ قرآن کریم میں اشارۃً ایک ایسے واقعہ کا ذکر آتا ہے جس کی تفصیلات احادیث سے یوں معلوم ہوتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے چندہ کی تحریک کی۔ ایک صحابی مجلس سے اُٹھے اور جاکر ایک کنویں پر کچھ کام کیا اور وہاں سے کچھ جَو مزدوری کے طور پر حاصل کرکے لائے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیئے۔ مختلف لوگ چندے لارہے تھے، کوئی سینکڑوں اور کوئی ہزاروں روپے مگر انہی میںیہ صحابی بھی وہ جَو لے کر آئے جو دونوں ہاتھوں میںتھے اور لاکر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیئے ۔ اس پر منافق ہنسے اور کہا کہ ان جوئوں سے دنیا فتح کی جائے گی۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ جَو خداتعالیٰ کے نزدیک ہزاروں روپوں سے زیادہ تھے کیونکہ اس کے پاس کچھ نہیں تھا مگر اس نے خیال کیا کہ میں دوسروں سے پیچھے کیوں رہوں۔ اپنے جسم سے کام لیا، مزدوری کی اور جو لا کر حاضر کردیا۔ یہی حال اُن بوڑھوں کا ہے جن کے جسم اگرچہ جواب دے چکے ہیں مگر دل جوان ہیں اوروہ یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ثواب میں پیچھے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ جوان ہی ہیں بلکہ جوانوں سے زیادہ ثواب کے مستحق ہیں۔ جس طرح غریب لوگ باوجود تھوڑی رقم دینے کے کئی زیادہ دینے والوں سے زیادہ ثواب کے مستحق ہوتے ہیں۔
اِس تمہید کے بعد میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں اور نوجوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی حالت کو سُدھارنے اور دین کی خدمت کیلئے تقویٰ اور سعی سے کام لینے کی طرف توجہ کریں۔ آج اسلام غربت میں ہے اور اگر آج کوئی جماعت اسے قائم نہ کرے تو تھوڑے عرصہ میں کوئی اِس کا نام لیوا بھی باقی نہ رہے گا۔ ہندو اور عیسائی تو اسے مٹانے میں لگے ہی ہوئے ہیں مگر مسلمان کہلانے والے بھی اصلاحات کے نام سے اس کی تعلیم کومٹانے کیلئے طرح طرح کی کوششیں کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کو جو قرآن کریم میں ہے، بدل دیں ایسے کئی بڑے بڑے مسلمان کہلانے والے موجود ہیں اور دوسرے مسلمان ان پر فخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ اسلام کی ترقی کے سامان کررہے ہیں حالانکہ یہ ترقی نہیں بلکہ تنزّل ہے اور ذلّت ہے۔ ایسے وقت میں ضرورت ہے ایک ایسی جماعت کی جو اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھر قائم کرے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے۔ ظاہری حالات کے لحاظ سے آپ کو ایسے وقت میں بھیجا گیا ہے کہ دنیا میں کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ دعویٰ عقل کے مطابق ہے۔ اسلام جس صورت میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم لائے مٹ چکا ہے اور ہر دنیا دار یہ سمجھتا ہے کہ پھر اسی صورت میں قائم نہیں کیا جاسکتا۔ آج ایک مسلمان بھی ایسا نہیں ملے گا جو دیانت داری سے یہ سمجھتا ہو کہ اسلامی پردہ پھر دنیا میں قائم کیا جاسکتا ہے اور غیر تو ایک منٹ کیلئے بھی یہ خیال دل میں نہیں لاسکتے۔ خود مجھے ایک بڑے سرکاری افسر نے نہایت ہی حیرت سے پوچھا کہ کیا آپ بھی یہی خیال کرتے ہیں کہ اسلامی پردہ اب دنیا میں قائم ہوسکتا ہے۔ اُس کا مطلب یہ تھا کہ میں تو آپ کو عقلمند سمجھتا ہوں کیا آپ بھی ایسی جہالت کی بات کے قائل ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ پردے سے زیادہ اہم امور ہیں جن میں تبدیلی کو ناممکن سمجھا جاتا تھا مگر ان میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ میں نے اس افسر سے کہا کہ آپ تو تاریخ دان ہیں کیا آپ کو ایسے امور معلوم ہیں یا نہیں کہ جن کے متعلق یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان میں تبدیلی نہیں ہوسکتی مگر آخر کار ہوگئی۔ اُس نے کہا ہاں ایسے امور تو ہیں۔ میںنے کہا کہ جب مثالیں موجود ہیں تو باقی صرف یقین کی بات رہ جاتی ہے۔ مجھے یہ یقین ہے کہ ایسا ہوکر رہے گا اور آ پ سمجھتے ہیں نہیں ہوسکتا۔ آج سے ۲۵ سال قبل کون کہہ سکتا تھا کہ یورپ میں ڈیماکریسی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ آج سے ۲۵ سال قبل یہ سمجھا جاتا تھا کہ تمام بادشاہتیں مٹ کر ان کی جگہ جمہوری سلطنتیں قائم ہوجائیں گی مگر آج عَلَی الْاِعلانجرمنی، اٹلی اور سپین میں ڈیماکریسی کی ہنسی اُڑائی جارہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کیسے بیوقوف وہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ڈیماکریسی کے ذریعہ کسی ملک کی ترقی ہوسکتی ہے۔ سارے افراد کہاں اتنے عقلمند ہوسکتے ہیں کہ ملکی ترقی کے وسائل کو سمجھ سکیں۔ صرف چند لوگ ہی ایسے ہوسکتے ہیں اور ان کے پیچھے چل کر ہی ترقی ہوسکتی ہے۔ انگلستان کے سیاستدانوں کی آج سے صرف ۲۵ سال قبل کی کتابیں پڑھو اُن میں اس خیال کا شائبہ بھی نہیں ملے گا جو آج دنیا میں قائم اور رائج ہے۔ ان کتابوں میں یہی ہے کہ ہم نے دنیا میں ڈیماکریسی کے اصول کو قائم کیا ہے اور آج ہم اس میں کامیاب ہوگئے ہیں اور دنیا میںیہی اصول غالب ہے۔ مگر آج ان میں سے کئی ایک کی تقریریں بھی شائع ہوچکی ہیں جن میں انہوں نے کہا ہے کہ آج سوائے انگلستان کے ڈیماکریسی کے اصول کہیں بھی قائم نہیں۔ کتنا بڑا فرق ہے، کتنا قلیل زمانہ اور کتنا وسیع تغیر ہے۔ پس اگر دنیا کے لوگوں کی کوششوں سے دنیا کے خیالات تبدیل ہوسکتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے کیوںنہیںہوسکتے۔ فرق صرف یقین اور ایمان کا ہے۔
لوگ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کے خیالات میںتبدیلی کا ذریعہ یونیورسٹیاں اور بڑے بڑے بارسوخ لیڈر ہیں اور وہی دنیا کے خیالات کو بدل سکتے ہیں مگر ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی مدد سے یہ تغیر ہوسکتے ہیں۔ تغیرات کے ہونے میں کسی کو شک نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اسلام کے مخالف کہتے ہیں کہ دنیا چونکہ ان باتوں کو ماننے کیلئے تیار نہیں اس لئے یہ تبدیلی نہیں ہوسکتی مگر ہم کہتے ہیں کہ چونکہ خدا تعالیٰ اس تبدیلی کا فیصلہ کرچکا ہے اس لئے یہ ہوکر رہے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جو ارشاد فرمایا وہ اِس زمانہ میں غیرممکن نظر آتا ہے۔ آج سارے کے سارے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام اپنی اصلی صورت میں دوبارہ قائم نہیں ہوسکتا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ہے کہ اسی صورت میں اسلام دوبارہ قائم کیا جائے گا۔ صرف اسلام کا نام قائم نہیں ہوگا بلکہ اس کی صورت بھی وہی ہوگی۔ آج ترکی اسلام کی تعلیم میں تمام تبدیلیوں کے بعد یہ کہتا ہے کہ مسلمان کامیاب ہوگئے، ایران تمام تغیرات کے باوجود مسلمانوں کی کامیابی کا دعویٰ کرتا ہے، ان ممالک میں سُود قائم کیا گیا ہے، پردہ اُڑادیا گیا ہے، قرآن کریم کو عربی میں پڑھنے سے روکا جاتا ہے ، عربی کریکٹر اور حروف کو مٹانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے، ایشیائی خصوصاً عربی لباس کو مٹانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے اور ان سب باتوں کے باوجود کہا یہ جاتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہماری فتح اسلام کی فتح ہے۔ حالانکہ ان ممالک کی فتح اسلام کی فتح نہیں کہی جاسکتی۔ انگریزوں کو اگر فتح ہو تو یہ کسی مذہب کی فتح نہیں بلکہ انگریز قوم کی فتح سمجھی جائے گی کیونکہ انگریز کسی مذہب کا نام نہیں مگر اسلام مذہب کا نام ہے۔ اگر وہ قائم نہیں ہوتا تو اسلام کی بہرحال شکست ہے اور فتح ان لوگوں کی ہوگی جو اپنے ملک میں ایک نیانظام قائم کریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کیلئے ایسی فتح کے مدعی نہیں۔ آپ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پھر اسلام کو فتح حاصل ہوگی اور ہم نے یہ فتح حاصل کرنی ہے مگر ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کام کی راہ میں کس قدر مشکلات حائل ہیں۔ ایک ایک قدم بڑھانا مشکل ہورہا ہے۔ بیرونی مخالفتوں کے علاوہ جماعت میں لوگوں کے اندر وسوسے پید اہورہے ہیں۔ کئی منافق ہیں جو فتنے پیدا کرتے رہتے ہیں۔ میں نے تحریک کی کہ لوگوں کو نبوت کے طریق پر لانا چاہئے اور اس پر میں یہ اعتراض سن رہا ہوں کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس طریق پر نہیں چلاتے تھے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ورثہ پر کوئی زور نہیں دیا اورجماعت میں اسے قائم نہیں کیا، تو کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ ہمیشہ کیلئے ورثہ کے حکم کو مٹادینا چاہئے۔ اسی طرح داڑھی رکھنے کا مسئلہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم تو نصیحت کردیتے ہیں جسے ہمارے ساتھ محبت ہوگی وہ خود رکھے گا۔ ہماری داڑھی ہے اور جو ہمارے ساتھ محبت کرے گا وہ خود رکھ لے گا۔ تو کیا اِس کے یہ معنے ہیں کہ اب ہمیں داڑھی رکھنے پر کوئی زور نہیں دینا چاہئے۔ میرے پیش کردہ اصول پر اگر اعتراض کیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ سوائے ان چند عقائد کے جن کے پھیلانے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں زور دیا گیا اور کسی بات کو جاری کرنا جائز نہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اس پیشگوئی کے ماتحت کہ جماعت کی ترقی آہستہ آہستہ ہوگی، ان باتوں کو بعد میں آنے والوں کیلئے چھوڑ دیا کیونکہ اُس وقت جماعت اتنی پھیلی ہوئی نہیں تھی اور کسی نظام کے ذریعہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرانا مشکل تھا۔ پس اگر اس اصل کو مان لیا جائے کہ جس بات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جبر سے کام نہیں لیا ہمیں بھی زور نہیں دینا چاہئے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جماعت احمدیہ کیلئے قرآن کریم پر عمل کرنا ضروری نہیں لیکن اگر یہ بات درست نہیں تو ماننا پڑے گا کہ ہر مناسب موقع پر اس کیلئے کوشش کی جاسکتی ہے۔ میر انظریہ یہ ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ اسلام کی تعلیم کو قائم کرنے کیلئے پوری کوشش کریں خواہ ۵۰ سال کا عرصہ کیوں نہ گزرچکا ہو اور معترض کا مقام یہ ہے کہ لوگ آزاد ہیں جس طرح چاہیں کریں۔ گویا اس کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ اسلام کا قیام اصل غرض نہیں، اصل غرض صرف یہ ہے کہ احمدی کہلایا جائے اور میرا یہ کہ اصل چیز صحیح اسلامی تعلیم کا قیام ہے صرف منہ سے احمدی کہلانا کوئی چیز نہیں۔
اس میںشُبہ نہیں کہ دُنیوی نقطۂ نگاہ سے اس کا اصول صحیح سمجھا جاسکتاہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اسلامی تعلیم کا قیام ناممکن ہے مگر میں اسے بالکل ممکن سمجھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ یہ ہوکر رہے گا۔ وہ اپنے ایمان کے مطابق بات کرتا اور مایوسی کا اظہار کرتا ہے اور میں اپنے ایمان کے مطابق امید پر قائم ہوں اور دراصل مقابلہ اس کی مایوسی اور میرے ایمان کا ہے۔ ایک طرف اس کی مایوسی ہے جو کہتی ہے کہ چھوڑ دو اِس کوشش کو، اس میں کامیابی نہیں اور دوسری طرف میرا ایمان کہتا ہے کہ یہ ہوسکتا ہے اور ضرور ہوکر رہے گا اس لئے ہمیں جلدی اسے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا اس کا ثواب ہمیں ہی ملے، دوسروں کو کیوں ملے۔ بعد میں آنے والوں کیلئے اللہ تعالیٰ ثواب حاصل کرنے کے اور سامان پیدا کردے گا اور اِس جدوجہد میں جسے میں شروع کرنا چاہتا ہوں کامیابی کیلئے بہترین وجود نوجوان ہی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً ورثہ کو ہی لے لو۔ والدین کی وفات کے بعد ورثہ انہی کے ہاتھ میں آنا ہے اور وہی اس کو تقسیم کرنے والے ہوں گے۔ وہ اگر چاہیں تو اپنی بہنوں اور مائوں کو حصہ دیں اور چاہیں تو نہ دیں۔ قانون ان پر کوئی جبر نہیں کرتا بلکہ قانون تھوڑا سا جبر اس رنگ میں کرتا ہے کہ وہ حصہ نہ دیں۔ اگر ہمارے نوجوان اس بات کیلئے تیار ہوجائیں اور کہیں کہ خواہ ہمارے لئے کچھ بچے یا نہ بچے اور خواہ ہم غریب ہوجائیں ہم ورثہ کو اسلام کی تعلیم کے مطابق ہی تقسیم کریں گے تو ہر شخص یہ تسلیم کرے گا کہ یہ جماعت ہے جس نے اسلام کی تعلیم کو عملاً دنیا میں قائم کردیا ہے۔ پس اگر ہمارے نوجوان اصلاح کرلیں اور اقرار کرلیں کہ جس طرح بھی ہو اسلام کی تعلیم کو قائم کریں گے تو مایوس لوگ خودبخود اپنی شکست کا اقرار کرلیں گے کیونکہ جب کوئی واقعہ ہوجائے تو پھر اعتراض خودبخود مٹ جاتے ہیں۔
جو لوگ بھی خداتعالیٰ کے دین کی مدد کرنے والے ہوں گے خداتعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ وہی کامیاب ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک شعر کرامات الصادقین میں ہے جس کاپہلا مصرعہ آپ فرماتے ہیں کہ الہامی ہے اور وہ یہ شعر ہے ؎
وَ اِنِّیْ اَنَا الرَّحْمٰنُ نَاصِرُ حِزْبِہٖ
وَ مَنْ کَانَ مِنْ حِزْبِیْ فَیُعْلٰی وَ یُنْصَرٗ۴؎
اس کا مطلب یہ ہے کہ میں رحمن ہوںجس کی دین اور بخشش اور رحمت سب پر وسیع ہے اورکافر و مؤمن میں کوئی فرق نہیں کرتی اورمیرے دین کے جو مخالف ہیں میری رحمت ان کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔ دیکھو سانس لینے کیلئے ہوا اور پانی اور روشنی کا سامان میں نے ان کیلئے بھی جو میرے دین کی مخالفت کرتے ہیں، ویسا ہی کیا ہؤا ہے جیسا مؤمنوں کیلئے کیونکہ میں رحمان ہوں۔ پھر یہ کوئی کیونکر خیال کرسکتا ہے کہ جو میرا ہوجائے میں اسے چھوڑدوں گا اور اس کی مدد پر کمربستہ نہیںہوں گا۔ گویا پہلے مصرعہ کا نتیجہ آگے بیان کیاہے کہ جو لوگ خداتعالیٰ کے حزب ہوجاتے ہیں اُنہیں غلبہ دیا جاتا ہے اور مدد کی جاتی ہے۔ پس جو بھی اللہ تعالیٰ کی جماعت میں داخل ہوجائے اُسے مدد ملنا یقینی ہے کیونکہ جو رحمن اپنے دین کے مخالفوں کو بھی فیض سے محروم نہیں رکھتا یہ کیونکر ممکن ہے کہ جو اس کا ہوجائے وہ اس کی مدد نہ کرے۔ وہ ماں جو غیر کے بچہ سے محبت کرتی اور پالتی ہے اپنے بچے کے ساتھ اس کی محبت کا اندازہ کرنا بالکل آسان ہے۔ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں غیر سے بھی حُسنِ سلوک کرتا ہوں۔ میرا سورج ہے وہ تم کو ہی نہیں بلکہ ہندوئوں اور سکھوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے بلکہ یہ تو پھر بھی خدا کے کسی نہ کسی رنگ میں قائل ہیں، دہریوں کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔ خداتعالیٰ کے بادل آتے ہیں مگر کیا کبھی تم نے دیکھا کہ وہ مؤمن کے کھیت کو تو سیراب کریں اور غیرمؤمنوں کے کھیتوں کو چھوڑ دیں۔ کیا کبھی یہ ہؤا ہے کہ اس کی ٹھنڈی ہوائیں تمہارے لئے تو ٹھنڈی اور آرام پہنچانے والی ہوں مگر کافروںکیلئے گرم لُو بن جائیں۔ وہ اسی طرح ان کو بھی لذت پہنچاتی ہیں جس طرح تمہیں۔ تو جو رحمن خدا ہے اور جس کے فضلوں کا سلسلہ اتنا وسیع ہے ، کیا تم خیال کرتے ہو کہ جو اُس کا ہوجائے وہ اُسے چھوڑ دے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اور الہام ہے جو دراصل پنجابی کا ایک پُرانا شعر ہے مگر آپ پر بھی الہاماً نازل ہؤا ہے اور وہ یہ کہ
جے تُوں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو ۵؎
یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کا ہوجائے اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو اُسی کا بنادیتا ہے اور ذرّہ ذرّہ کو اُس کی تائید میں لگا دیتا ہے۔ شرارتیں بھی ہوتی ہیں، مخالفتیں بھی ہوتی ہیں، فتنے بھی اُٹھتے ہیں مگر اُسے مٹانے کیلئے نہیں بلکہ اس کی عزت اور عظمت کو ظاہر کرنے کیلئے۔ ایک شخص اپنے گھر میں بیٹھا رہتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تباہ نہیں ہؤا۔ تو لوگ کہتے ہیں کہ تم پر کوئی آفت تو آئی نہیں تم تباہ نہ ہوئے توکون سے تعجب کی بات ہے۔ مگر ایک کو لوگ سمندر میں پھینکتے ہیں، آگ میں ڈالتے ہیں مگر وہ نہیں مَرتا تو دوسرے اس سے لازماً مرعوب ہوتے اور سمجھ لیتے ہیں کہ یہ کوئی غیرمعمولی آدمی ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو آگ میں نہیں جَلے۔ اور ہم سب کا یہاں موجود ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم آگ میں نہیں جَلائے گئے مگر کیا ہمارا نہ جلنا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نہ جلنا ایک ہی بات ہے۔ کیا اگر کوئی کہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیں جلایا تھا تو تم بھی اس کے جواب میں کہہ سکتے ہو کہ ہمیں بھی نہیں جلایا۔ ظاہر ہے کہ اِن دونوں باتوں میں کوئی نسبت ہی نہیں۔ تم کو آگ میں ڈالا ہی نہیں گیا مگر حضرت ابراہیم ؑکو آگ میں ڈالا گیا اور پھر وہ نہیں جلے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پرحملے ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان کو تباہی سے بچاتا ہے تا وہ کہہ سکیں کہ ان کو تباہ کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر وہ تباہ ہوئے نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دعویٰ کہ وہ آگ میں نہیں جلے ان کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے مگر تمہارا یہ کہنا کہ تم آگ میں نہیں جلے ایک پاگل کی بڑ سمجھی جائے گی کیونکہ تمہیں جلانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کیلئے بادشاہ اور رعایا سب نے اکٹھے ہوکر کوشش کی اور آپ کو آگ میں ڈال کر جلانا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے بارش نازل کرکے آگ کو بُجھادیا اور ایک ایسا نشان ظاہر کیا جس سے سب مخالف مرعوب ہوگئے اور انہوں نے اپنا ارادہ ہی چھوڑ دیا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تباہ کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر خداتعالیٰ نے آپ کو ہمیشہ محفوظ رکھا اور یہ آخری غلبہ ہی خداتعالیٰ کانشان ہوتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ خداتعالیٰ کے نیک بندوں کو وہ عظمت اور شان حاصل ہے جو دوسروں کو نہیں اور یہ مقام کسی سے مخصوص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ آئے اور اسے حاصل کرے۔
پس یہ خیال مت کرو کہ یہ مقام محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے مخصوص ہے۔ نبوت اَور چیز ہے اوریہ مقام اَور چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید حاصل کرنے کیلئے نبوت شرط نہیں بلکہ یہ کامل مؤمن کو حاصل ہوسکتی ہے۔ دیکھو حضرت امام حسین ؓنبی نہ تھے اور بظاہر ان کو یزید کے مقابلہ میں شکست بھی اٹھانی پڑی۔ یزید اُس وقت تمام عالَمِ اسلامی کا بادشاہ تھا اور اُس وقت چونکہ تمام متمدن دنیا پر اسلامی حکومت تھی اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ تمام دنیا کا بادشاہ تھا اس کے بعد بھی ایک عرصہ تک دنیا پر اُس کے رشتہ داروں کی حکومت رہی اور اُس وقت منبروں پر حضرت علیؓ اور آپ کے خاندان کو گالیاں دی جاتی تھیں، یزید کو اتنی بڑی حکومت حاصل تھی کہ آجکل کسی کو حاصل نہیں۔ آج انگریزوں کی سلطنت بہت بڑی سمجھی جاتی ہے مگر ذرا مقابلہ تو کریں بنو امیہ کی حکومت سے جن کے خاندان کا ایک فرد یزید بھی تھا۔ انگریزوں کی حکومت کو اس سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ فرانس سے شروع ہوکر سپین، مراکو، الجزائر، طرابلس اور مصر سے ہوتی ہوئی عرب، ہندوستان، چین، افغانستان، ایران، روس کے ایشیائی حصوں پر ایک طرف اور دوسری طرف ایشیائے کوچک سے ہوتے ہوئے یورپ کے کئی جزائر تک یہ حکومت پھیلی ہوئی تھی۔ اس قدر وسیع سلطنت آج تک کسی کوحاصل نہیں ہوئی۔ موجودہ زمانہ کی دس پندرہ سلطنتوں کو ملا کر اس کے برابر علاقہ بنتا ہے اور اتنی بڑی سلطنت کا ایک بادشاہ ہوتا تھا جن میں سے قریباً ہر ایک حضرت علیؓ اور آپ کے خاندان کو اپنا دشمن سمجھتا تھا اس لئے منبروں پر کھڑے ہوکر ان کو گالیاں دی جاتی تھیں۔ اُس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ ساری دنیا میں امام حسینؓ کی عزت پھر قائم ہوگی اور اُس وقت کوئی وہم بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یزید کو بھی لوگ گالیاں دیا کریں گے مگر آج نہ صرف تمام اس علاقہ میںجہاں امام حسینؓ کو گالیاں دی جاتی تھیں بلکہ دوسرے علاقوں میںبھی کیونکہ بعد میں اسلامی حکومت اور بھی وسیع ہوگئی تھی گو وہ ایک بادشاہ کے ماتحت نہ رہی سب جگہ یزید کو گالیاں دی جاتی ہیں اور حضرت امام حسینؓ کی عزت کی جاتی ہے۔ گو آپ نبی نہ تھے، صرف ایک برگزیدہ انسان تھے اور حق کی خاطر کھڑے ہوئے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی دی۔ بظاہر دشمن یہ سمجھتا ہوگا کہ اُس نے آپ کو شہید کردیا مگر آج اگریزید دنیا میں واپس آئے (اگرچہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت نہیں کہ مُردے دنیا میں واپس آئیں) تو کیا تم میںسے کوئی یہ خیال کرسکتا ہے کہ وہ یزید ہونے کو پسند کرے گا؟ جس دن حضرت امام حسینؓ شہید ہوئے وہ کس قدر غرور اور فخر کے ساتھ اپنے آپ کو دیکھتا ہوگا اور اپنی کامیابی پر کس قدر نازاں ہوگا لیکن آج اگر اُسے اختیار دیا جائے کہ وہ امام حسینؓ کی جگہ کھڑا ہونا چاہتا ہے یا یزید کی جگہ تو وہ بغیر ایک لمحہ کے توقّف کے کہہ اُٹھے گا کہ میں دس کروڑ دفعہ امام حسینؓ کی جگہ کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔ اوراگر حضرت امام حسینؓ سے کہا جائے کہ وہ یزید کی جگہ ہونا پسند کریں گے یا اپنی جگہ؟ تو وہ بغیر کسی لمحہ کے توقّف کے کہہ اُٹھیں گے کہ دس کروڑ دفعہ اُسی جگہ پر جہاں وہ پہلے کھڑے ہوئے تھے۔ کسی اَور سے فیصلہ کرانے کی ضرورت نہیں اگر یزید خود آئے تو اُس کا اپنا فیصلہ بھی یہی ہوگا۔
فرعون اپنے زمانۂ حکومت میں حضرت موسیٰ کو کیا سمجھتا ہوگا۔ وہ ہنستا اور کہتا تھا کہ یہ شخص پاگل ہے، اس کا دماغ خراب ہے۔ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے اپنی قوم کو مخاطب کرکے کہا کہ یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے مجنون ہے۶؎ لیکن اگر آج فرعون کی روح دوبارہ دنیا میں لائی جائے تو بتائو کیا وہ اسی تخت پر بیٹھنا پسند کرے گایا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ادنیٰ خادموں میں کھڑا ہونا۔ وہ بغیر ایک لمحہ کے سوچنے کے کہہ اٹھے گا کہ میں موسیٰ کے ادنیٰ ترین خادموں میں کھڑا ہونا زیادہ پسند کرتا ہوں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جن لوگوں نے پھانسی دی وہ افسر اور وہ مجسٹریٹ جس نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ شخص حکومت کا مخالف اور لائقِ تعزیر ہے اور وہ علماء جنہوں نے یہ کہا کہ یہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے، اگر آج انہیں دوبارہ دنیا میں لایا جائے اور پوچھا جائے کہ بقول ان کے وہ ذلیل ماچھی جو اُس وقت حضرت عیسیٰ کے ساتھ تھے، ان کے ساتھ کھڑا ہونا وہ زیادہ پسند کریں گے یا اس بات کو کہ ان کو روم کا شہنشاہ بنادیا جائے۔ تو وہ ایک منٹ کیلئے بھی غور کئے بغیر کہہ اُٹھیں گے کہ وہ ان ماچھیوں کی رفاقت کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ آج پیٹر اور یعقوب کے نام پر کروڑوں عیسائی جان دینے کیلئے تیار ہیں مگر اُس زمانہ کے گورنروں اور ڈپٹی کمشنروں کو کوئی جانتا بھی نہیں۔
پس تم میںسے بھی جو حزبُ اللہ میں اپنے آپ کو شامل کرلے گا اللہ تعالیٰ کی نصرت اس کی ویسی ہی مدد کرے گی۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ گھبراجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت کے بعض مجسٹریٹ جماعت کے خلاف بہت بُرے ریمارکس کرتے ہیں مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے ہی ریمارکس حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ عَلَیْھِمَا السلام کے زمانہ میں ہوتے تھے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسی باتیں کہی جاتی تھیں لیکن انہی بادشاہوں اور گورنروں اور افسروں کو اگر سَودوسَو سال بعد دنیا میںلایا جائے تو یہی کہیں گے کہ وہ باتیںسب جھوٹ تھیں اور ہمیں اس سلسلہ کی ادنیٰ خدمت ہی زیادہ پسند ہے۔ جھوٹ خواہ کسی بادشاہ کی زبان سے نکلے یا وزیر کی زبان سے، خواہ کسی وائسرائے کی زبان سے نکلے یا گورنر کی زبان سے آخر جھوٹ ہے اور جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ ظلم کبھی کسی کو عزت نہیں دے سکتا اس لئے اگر تم اپنے اندر سے ظلم کو نکال دو اور حزبُ اللہ میں داخل ہوجائو تو تمہیں کوئی خفیہ تدبیریں اور منصوبے جیسے آج بعض حکام کی مدد سے کئے جارہے ہیں نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ یہ سب جھاگ ہے اور جھاگ ہمیشہ مٹ جاتی ہے اور پانی قائم رہتا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ تم حزبُ اللہ بن جائو۔ اسلام اور اللہ تعالیٰ کی محبت، نیکی، سچائی، ہمت اپنے دلوں میں پیدا کرلو، دنیا کی بہتری کی کوشش میں لگ جائو اور بنی نوع کی خدمت کا شوق اپنے دلوں میں پید اکرو، اسلام کا کامل نمونہ بن جائو پھر خواہ دنیا تمہیں سانپ اور بچھو بلکہ پاخانہ اور پیشا ب سے بھی بدتر سمجھے تم کامیاب ہوگے اور خواہ کتنی طاقتور حکومتیں تمہیں مٹانا چاہیں وہ کامیاب نہیں ہوسکیں گے اور تم جو آج اس قدر کمزور سمجھے جاتے ہو تم ہی دنیا کے روحانی بادشاہ ہوگے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم کو دنیا کی بادشاہت مل جائے گی بلکہ میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ تم تحصیلدار بن جائو گے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ میں یہ بھی نہیں کہتا تم ایک کانسٹیبل ہی بن جائو گے۔ ظاہری حیثیت خواہ تمہاری چپڑاسی سے بھی بدتر ہو مگر دنیا پر قیامت نہیں آئے گی جب تک کہ تم کو بادشاہوں سے بڑا اور تم پر ظلم کرنے والوں کو ادنیٰ نوکروں سے بھی بدتر نہیں بنادیا جائے گا۔ قرآن کریم یہی بتاتا ہے کہ تم پر ظلم کرنے والوں کو جب تک ذلیل ترین وجودوں کی شکل میں اور تم کو معزز ترین صورت میں پیش نہ کیا جائے، قیامت قائم نہیں ہوگی۔ بے شک تم مرچکے ہوگے بلکہ تم میں سے بعض کی نسلیں بھی باقی نہ ہوں گی مگر نیک نامی کے مقابلہ میں نسلیں چیز ہی کیا ہیں۔
آج یہ بحث ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اولاد تھی یا نہیں۔ لیکن کیا ان کی اولاد نہ ہونے سے یا اگر تھی تو معلوم نہ ہونے سے ان کی عزت کو کوئی نقصان پہنچا ہے؟ ان کی زندگی میں روم کے بادشاہ کو شاید ان کا علم بھی نہ ہو مگر آج روم کی ہی حکومت نہیں بلکہ ویسی ہی بیسیوں اور حکومتیں ان کی روحانی بادشاہت کے ماتحت ہیں۔ اٹلی، جرمنی، فرانس، سپین، آسٹریا، ہنگری، پولینڈ، رومانیہ،بلغاریہ اور چیکوسلواکیہ سب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روحانی رعایا ہیں۔ اُس زمانہ میں رومی سلطنت کا ایک چپڑاسی بھی آکر کہتا کہ چلئے آپ کو بُلاتے ہیں تو آپ کی مجال نہ ہوسکتی تھی کہ انکار کریں۔ اُس وقت آپ کے مخالف آپ کو دکھ دینے کیلئے مشہور کیا کرتے تھے کہ آپ حکومت کے دشمن ہیں اور خود بادشاہ بننا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ آجکل ہمارے مخالف ہمارے خلاف شور کرتے ہیں۔ ایک دفعہ اس سلسلہ میں آپ سے سوال کیا گیا کہ کیا قیصر روم کو ٹیکس دینا جائز ہے؟ اس سوال سے غرض یہ تھی کہ اگر تو آپ کہیں گے کہ ٹیکس دینا جائز ہے تو یہودی کہہ سکیں گے کہ یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ کس طرح ہوسکتا ہے جو روم کو ٹیکس دینا جائز قرار دیتا ہے اور اگر کہیں گے کہ ٹیکس مت دو تو حکومت کا باغی قرار پائیں گے۔ آپ نے اِس سوال کا جواب ایک اور سوال سے دیا کہ روم کے سپاہی آپ لوگوں سے کیا مانگتے ہیں؟ اس کے جواب میں سوال کرنے والوں نے کہا کہ روپیہ مانگتے ہیں۔ اس پر آپ نے کہا کہ روپیہ پر کس کی تصویر ہے ؟ سوال کرنے والوں نے کہا کہ روم کے بادشاہ کی۔ اِس پر آپ نے فرمایا کہ جو چیز قیصر کی ہے وہ اُسے دو اور جو خدا کی ہے وہ خدا کو۔۷؎ اِس کا مطلب یہ ہے کہ میں تم سے فقط دین مانگتا ہوں ٹیکس بادشاہ کا حق ہے وہ اسے دو۔ یہی ہم کہتے ہیںکہ جو چیز انگریز کی ہے وہ اسے دو۔ انگریز ٹیکس مانگتا ہے جو اسے دینا چاہئے مگر ہم دل مانگتے ہیں۔ انگریز دل نہیں مانگتا اور مانگ بھی نہیں سکتا۔ جو تلوار روپیہ لیتی ہے وہ اس کے پاس ہے اور جو دل لیتی ہے وہ ہمارے پاس ہے۔
پس میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ حزبُ اللہ بنو پھر دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہیں کامیاب کرتی ہے۔ اب بھی تمہیں اس کی نصرت حاصل ہے مگر پھر خصوصی اور فردی نصرت حاصل ہوگی۔ آجکل کی نصرت کی مثال تو ویسی ہی ہے جیسے کسی کے گھر کو آگ لگے تو لوگ اُس کا سامان اُٹھا اُٹھا کر باہر نکالتے ہیں، عزت تو اس کی ہوتی ہے مگر ساتھ ہی اس کے نوکر کا سامان بھی باہر اُٹھالاتے ہیں۔ محلہ کے لوگ بھی پہنچ جاتے ہیں، فائر بریگیڈ بھی، پولیس بھی۔ فرض کرو مکان کسی گورنر یا ڈپٹی کمشنر کا ہو تو جس جوش سے لوگ اُس کا سامان نکالتے ہیں اُس جوش سے اگر اُس کے نوکر کے گھر میں آگ لگے تو کبھی نہ نکالیں گے۔ لیکن اُسی نوکر کا سامان جب آقا کے سامان کے ساتھ ملا ہؤا ہوتا ہے تو اس کو بھی احتیاط سے نکال لیا جاتا ہے لیکن یہ نکالنا طفیلی ہوتا ہے۔ اسی طرح اب بھی اللہ تعالیٰ تمہاری مدد تو کرتا ہے مگر یہ مدد طفیلی ہے لیکن اگر تم حزبُ اللہ میںداخل ہوجائو تو پھر تمہیں ذاتی نصرت بھی حاصل ہوگی اور طفیلی بھی۔ اِس وقت تمہاری نصرت اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ سمجھتا ہے کہ اس کی ذلت سے سلسلہ کی ذلت ہوگی مگر حزبُ اللہ میں داخل ہونے کے بعد اس لئے بھی نصرت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کہے گا اِس کی ذلت سے میری ذلّت ہوگی۔ اگر یہ بدنام ہؤا تو چونکہ یہ میرا دوست ہے اس لئے مجھ پر الزام آئے گا کہ میں نے دوست سے وفاداری نہیں کی۔
دیکھو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات میں کتنا عظیم الشان نشان دکھایا ہے۔ گو تم نے اُس زمانہ کو نہیں پایا مگر ہم نے اسے پایا اور دیکھا ہے۔ پس اِس قدر قریب زمانہ کے نشانات کو اپنے خیال کی آنکھوں سے دیکھنا تمہارے لئے کوئی زیادہ مشکل نہیں اَور نشانات جانے دو مسجد مبارک کو ہی دیکھو۔ مسجد مبارک میں ایک ستون مغرب سے مشرق کی طرف کھڑا ہے۔ اس کے شمال میں جو حصہ مسجد کا ہے یہ اس زمانہ کی مسجد تھی اور اُس میں نماز کے وقت کبھی ایک اور کبھی دو سطریں ہوتی تھیں۔ اس ٹکڑہ میں تین دیواریں ہوتی تھیں۔ ایک تو دو کھڑکیوں والی جگہ میںجہاں آجکل پہریدار کھڑا ہوتا ہے اس حصہ میں امام کھڑا ہؤا کرتا تھا۔ پھر جہاں اب ستون ہے وہاں ایک اور دیوار تھی اور ایک دروازہ تھا۔ اس حصہ میں صرف دو قطاریں نمازیوں کی کھڑی ہوسکتی تھیں اور فی قطار غالباً پانچ سات آدمی کھڑے ہوسکتے تھے۔ اُس حصہ میں اس وقت کبھی ایک قطار نمازیوں کی ہوتی تھی اور کبھی دو ہوتی تھیں۔ مجھے یاد ہے اس حصۂ مسجد سے نمازی بڑھے اور آخری یعنی تیسرے حصہ میں نمازی کھڑے ہوئے تو ہماری حیرت کی کوئی حد نہ رہی تھی۔ گویا جب پندرھواں یا سولہواں نمازی آیا تو ہم حیران ہوکر کہنے لگے کہ اب توبہت لوگ نمازمیںآتے ہیں۔ تم نے غالباً غور کرکے وہ جگہ نہیں دیکھی ہوگی مگر وہ ابھی تک موجود ہے، جائو اور دیکھو۔ صحابہ کا طریق تھا کہ وہ پرانی باتوں کو کبھی کبھی عملی رنگ میں قائم کرکے بھی دیکھا کرتے تھے اس لئے تم بھی جاکر دیکھو۔ اُس حصہ کو الگ کردو جہاں امام کھڑا ہوتا تھا اور پھر وہاں فرضی دیواریں قائم کرو اور پھر جو باقی جگہ بچے اس میں جو سطریں ہوں گی اُن کا تصور کرواور اس میں تیسری سطر قائم ہونے پر ہمیں جو حیرت ہوئی کہ کتنی بڑی کامیابی ہے اُس کا قیاس کرو اور پھر سوچو کہ خداتعالیٰ کے فضل جب نازل ہوں تو کیا سے کیا کردیتے ہیں۔
مجھے یاد ہے ہمارا ایک کچا کوٹھا ہوتا تھا اور بچپن میں کبھی کھیلنے کیلئے ہم اُس پر چڑھ جایا کرتے تھے۔ اُس پر چڑھنے کیلئے جن سیڑھیوں پر ہمیں چڑھنا پڑتا تھا وہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کے پاس سے چڑھتی تھیں۔ اُس وقت ہماری تائی صاحبہ جو بعد میں آکر احمدی بھی ہوگئیں، مجھے دیکھ کر کہا کرتی تھیں کہ ’’جیہوجیا کاں اوہو جئی کوکو‘‘۔ میںبوجہ اس کے کہ میری والدہ ہندوستانی ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ بچپن میں زیادہ علم نہیں ہوتا، اس پنجابی فقرہ کے معنے نہیں سمجھ سکتا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ میں نے اپنی والدہ صاحبہ سے اس کے متعلق پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جیسا کوّا ہوتا ہے ویسے ہی اس کے بچے ہوتے ہیں۔ کوّے سے مراد (نَعُوْذُبِاﷲِ) تمہارے ابّا ہیں اور کوکو سے مراد تم ہو۔ مگر پھر میں نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے کہ وہی تائی صاحبہ اگر میں کبھی ان کے ہاں جاتا تو بہت عزت سے پیش آتیں۔ میرے لئے گدّا بچھاتیں اور احترام سے بٹھاتیں اور ادب سے متوجہ ہوتیں۔ اور اگر میں کہتا کہ آپ کمزور ہیں،ضعیف ہیں ہِلیں نہیں یا کوئی تکلّف نہ کریں تو وہ کہتیں کہ آپ تومیرے پیر ہیں۔ گویا وہ زمانہ بھی دیکھا جب میں ’’کو کو‘‘ تھا اور وہ بھی جب میں پِیر بنا۔ اور اِن ساری چیزوں کو دیکھ کر تم سمجھ سکتے ہوکہ خدا تعالیٰ جب دنیا کو بدلنا چاہتا ہے تو کس طرح دل بدل دیتا ہے۔
پس ان انسانوں کو دیکھو اور اس سے فائدہ اٹھائو اور اپنے اندر وہ تبدیلی پیدا کرو کہ جو تمہیں خداتعالیٰ کا محبوب بنادے اور تم حزبُ اللہ میں داخل ہوجائو۔ مجھے افسوس ہے کہ تمہید میں ہی زیادہ وقت صَرف ہوگیا اور ابھی گھنٹی نے بتایا ہے کہ ساڑھے تین بج چکے ہیں۔ پس چونکہ تھوڑی دیر میں ہی عصر کا وقت ہوجائے گا اس لئے میں مضمون کو ختم نہیں کرسکتا۔ اگر خداتعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں اسے ختم کردوں گا لیکن اِس وقت پھر اختصار سے جماعت کے نوجوانوں کو خواہ وہ قادیان کے ہوں یا باہر کے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے دلوں میں ایک عزم اور ارادہ لے کر کھڑے ہوں کہ ہم نے خداتعالیٰ کو حاصل کرنا ہے اور اِس طرز پر اپنی زندگیاں گزاریں کہ ان کا وجود ہی خداتعالیٰ کا نشان بن جائے۔ یہ نہ ہو کہ صرف ان کی زبانیں نشانات بیان کریں بلکہ ایسا ہو کہ ان کے جسم بھی خداتعالیٰ کا نشان بن جائیں اور یہ کچھ بعید نہیں کیونکہ خداتعالیٰ نے ان کیلئے بھی اپنے فضلوں کے دروازے ویسے ہی کھلے رکھے ہیں جیسے ان سے پہلوںکیلئے کھولے گئے تھے۔‘‘ (الفضل ۱۳؍ اپریل ۱۹۳۸ئ)
۱؎ بخاری کتاب الدعوات باب قول اﷲ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی وَصَلِّ عَلَیْھِمْ
۲؎ اسد الغابۃ جلد ۱ صفحہ ۱۲۸، ۱۲۹۔ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۴ء
۳؎ بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ براء ۃ باب قوْلِہٖ اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ (الخ)
۴؎ کرامات الصادقین صفحہ ۴۴۔ روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۸۶
۵؎ تذکرہ صفحہ ۴۷۱ ۔ ایڈیشن چہارم
۶؎ (الشعرائ:۲۸)
۷؎ متی باب ۲۲ آیت ۲۱ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء

۱۴
نوجوانوں اور بچوں کی تربیت کا انتظام کیا جائے
(فرمودہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’خطبہ جمعہ شروع کرنے سے پہلے میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ چونکہ آج جمعہ کی نماز کے بعد ہماری مجلس شوریٰ کا اجلاس ہونے والا ہے اور درمیان میں اس کو ملتوی کرنا کام کیلئے نقصان دِہ ہوتا ہے اِس لئے جمعہ کی نماز کے ساتھ ہی عصر کی نماز بھی انشاء اللہ جمع کی جائے گی۔ اس کے بعد میں اپنے گزشتہ خطبات کے سلسلہ میں آج پھر کچھ باتیں کہنی چاہتا ہوں۔
گزشتہ خطبات میں مَیں نے مجالس خدام الاحمدیہ کے متعلق بعض باتیں کہی تھیں اور اِسی سلسلہ میں مَیں آج پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قومی نیکیوں کے تسلسل کے قیام کیلئے یہ ضروری ہے کہ اُس قوم کے بچوں کی تربیت ایسے ماحول اور ایسے رنگ میں ہو کہ وہ اُن اغراض اور مقاصد کو پورا کرنے کے اہل ثابت ہوں جن اغراض اور مقاصد کو لے کر وہ قوم کھڑی ہوئی ہو۔ جب تک کسی قوم کا کوئی خاص مقصداور مدعا نہیں ہوتا اُس وقت تک اس کیلئے صرف اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ اپنے نوجوانوں کو اس زمانہ کی ضرورت کے مطابق کوئی تعلیم دلادے یا عام علوم سے واقفیت بہم پہنچادے یا بعض پیشے انہیں سکھادے۔ جب کوئی قوم اتنا کام کرلیتی ہے تو وہ اپنے فرض سے سبکدوش سمجھی جاتی ہے۔ لیکن جب کوئی قوم ایک خاص مقصد اور مدعا لے کر کھڑی ہوئی ہو تو اُس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اُس مقصد اور مدعا کو نوجوانوں کے ذہنوں میں پورے طور پر داخل کرے اور ایسے رنگ میں ان کی عادات اور خصائل کو ڈھالے کہ وہ جب بھی کوئی کام کریں خواہ عادتاً کریں یا بغیر عادت کے کریں، وہ اُس جہت کی طرف جارہے ہوں جس جہت کی طرف اس قوم کے اغراض و مقاصد اسے لئے جارہے ہوں۔ جب تک کسی قوم کے نوجوان اس رنگ میں کام نہیں کرتے اُس وقت تک اسے ترقی حاصل نہیں ہوتی۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب تشریف لائے ہیں اُس وقت عرب کا کوئی مذہب نہیں تھا اِس وجہ سے جو بات بھی آپ بیان فرماتے وہ عربوں کیلئے نئی ہوتی اور اُن میں سے ہر شخص جو مسلمان ہوتا اِس بات کو ذہن میں رکھ کر مسلمان ہوتا تھا کہ پچھلی تمام باتیں اُس نے ترک کردینی ہیں۔ پس اُس زمانہ میں مسلمان ہونے کا مقصد اور مدعا آپ ہی آپ سامنے آجاتا تھا اورکوئی خاص زور دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی کیونکہ یکدفعہ ہر شخص یہ فیصلہ کرلیتا تھا کہ اسے اپنی گزشتہ تمام باتیں ترک کرنی پڑیں گی اور نئے مقاصد، نئی اغراض، نئی شریعت اور نئے احکام اس کے سامنے ہوں گے لیکن جب کوئی ایسا سلسلہ شروع ہوجس کی بنیاد پہلے مذہب پر ہو اور وہ خالص اصلاحی سلسلہ ہو تشریعی نہ ہو تو اس کیلئے اس مقام میں پہلی جماعتوں سے زیادہ دِقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بعض قسم کی دِقتیں پہلی جماعت کو زیادہ ہوتی ہیں مگر اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ بعض قسم کی دِقتیں اصلاحی سلسلہ کو زیادہ ہوتی ہیں۔ چنانچہ انہی دِقتوں میں سے ایک دِقّت یہ ہے کہ ایسے سلسلہ کے افراد کو اس سلسلہ کے مقاصد اور اغراض سمجھانے کیلئے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ جب نوجوانوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ تمہار ا دین کوئی نیا دین نہیں تو قدرتی طور پر ان کا ذہن یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ سوائے چند مستثنیات کے جن میں ہمارے آباء نے غلطی کی اور وہ اصل شریعت سے دُو رجاپڑے ہر پچھلی چیز کو ہم نے قائم کرنا ہے۔ اس وجہ سے ان کے ذہن میں کوئی امتیازی بات نہیں آتی اور وہ اس امر کے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ ہم میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے۔ لیکن جب نیا دین ہو یا پہلے دین کی بعض باتوں میں تغیر و تبدّل ہو تو وہ ہر قدم کے اُٹھاتے وقت یہ پوچھ لیتے ہیں کہ کیوں جی! یہ کام ہم نے اِس طرح کرنا ہے یااس طرح؟ حضرت مسیح ناصری ؑ کے زمانہ میں جب آپ کے متبعین کے دلوں میں فقیہوں اور فریسیوں کے متعلق یہ سوال پیدا ہؤا کہ ہم ان کی باتوں کو مانیں یا نہ مانیں اور اُنہوں نے حضرت مسیح ناصری ؑسے یہی سوال کیا تو چونکہ معلوم ہوتا ہے اُس زمانہ میں شریعت موسویہ میں لوگوں نے زیاہ تغیر نہیں کیا تھا، چند نئی باتیں تھیں جو حضرت مسیح ؑنے اپنے پہاڑی وعظ میں بتادیں اِس لئے حضرت مسیح نے فرمایا:-
’’فقیہہ اور فریسی موسیٰ کی گدّی پر بیٹھے ہیں۔ پس جو کچھ وہ تمہیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو لیکن ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں‘‘۔ ۱؎
گویا بدعقیدگی ان میں کم تھی اور بداعمالی زیادہ تھی۔ اسی لئے آپ نے یہ ہدایت کردی کہ جو کچھ فقیہی اور فریسی کہتے ہیں اُس پر بے شک عمل کرو مگر ان کے اعمال کی نقل نہ کرو۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے زمانہ کی حالت اُس زمانہ سے بالکل مختلف ہے۔ اس زمانہ میں مثلاً تورات میں بہت سے تغیرات کئے جاچکے تھے مگر باوجود تغیرات کے او رباوجود تحریف و الحاق کے یہودی اِس بات پر اصرار کرتے تھے کہ ہماری کتاب محفوظ ہے مگر ہمیں ایک ایسی قوم سے واسطہ پڑا ہے جو اس کے بالکل اُلٹ چلتی ہے یعنی تورات میں تو تبدیلی ہوچکی تھی اور یہودی قوم یہ اصرار کرتی تھی کہ اس میں تبدیلی نہیں ہوئی مگر قرآن جو کہ بالکل محفوظ ہے اس کے متعلق مسلمان کہتے ہیں کہ اس کی کئی آیتیں منسوخ ہیں۔ اب یہ کتنا عظیم الشان اختلاف ہے اُس زمانہ کے یہودیوں اور اِس زمانہ کے مسلمانوں میں۔ وہ باوجود کتاب کے بِگڑ جانے کے کہتے تھے کہ ہماری کتاب بالکل محفوظ ہے اور مسلمان باوجود اِس کے کہ خدا کہتا ہے کہ اِس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں اور اس کے ایک حرف اور ایک شعشہ کی تبدیلی بھی ناممکن ہے، مسلمان یہ کہتے ہیں کہ اس کی بہت سی آیتیں منسوخ ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ ان میں قرآنی احکام پر عمل کرنے کا جوش باقی نہیں رہا کیونکہ انہیں خداتعالیٰ کے کلام میں شک پیدا ہوگیا ۔اور جب کسی حکم کے متعلق شک پیدا ہوجاتا ہے تو جوشِ عمل باقی نہیں رہتا اور ہر آیت پر عمل کرتے وقت انسانی قلب میں یہ وسوسہ پیدا ہوجاتا ہے کہ ممکن ہے جس آیت پر مَیں عمل کر رہا ہوں یہ منسوخ ہی ہو۔ چنانچہ پانچ آیتوں سے لے کر چھ سَو آیتوں تک منسوخ قرار دی جاتی ہیں۔ یعنی بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ قرآن کریم کی پانچ آیتیں منسوخ ہیں اوربعض نے زیادہ۔ یہاں تک کہ بعض علماء نے منسوخ آیات کی تعداد چھ سَو تک پہنچادی ہے۔ اب چھ سَو آیتیں قرآن مجید کا ایک معتد بہ حصہ ہیں جن کو اگر الگ کرلیا جائے تو ایک خاصہ حصہ علیحدہ ہوجاتا ہے مگر مسلمانوں کو اس امر کی کوئی پرواہ نہیں۔ اِن کی کتابوں میں یہ باتیں لکھی ہوئی ہیں اور اب تک مسلمان ان کے قائل ہیں۔ شیعہ لوگوں نے گو اس رنگ میں قرآنی آیات کو منسوخ قرار نہیں دیا مگر انہوں نے ا تنا ضرور کہہ دیا ہے کہ قرآن کریم کے بعض حصے اُڑا لئے گئے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق اور اس کی صفات کے متعلق مسلمانوں میں بیسیوں غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ نہیں کہ شروع سے مسلمانوں میں یہ غلطیاں پائی جاتی تھیں بلکہ قریب کے زمانہ میں آکر مسلمانوں میں یہ غلطیاں پیدا ہوئی ہیں۔ ورنہ قرونِ اُولیٰ کا لٹریچر انہی عقائد کی تائید کرتا ہے جو آج ہماری طرف سے پیش کئے جاتے ہیں۔ سوائے اُس حصۂ قرآن کی تشریح کے جو اُس زمانہ سے تعلق نہیں رکھتا تھا بلکہ موجودہ زمانہ سے تعلق رکھتا ہے۔ قرآن کریم کے بعض حصے ایسے ہیں جو پہلے زمانہ سے تعلق رکھتے تھے اور بعض حصے ایسے ہیں جو خصوصیت سے اِس زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پس جو حصہ قرآن کریم کا پہلے زمانہ سے تعلق رکھتا تھا اُس میںقرونِ اُولیٰ کے صحابہ، آئمہ اور مجددین ہماری ہی تائید میں نظر آتے ہیں اور یہ تمام باتیں ان کی کتابوں میں اب تک موجود ہیں گو بدقسمتی سے مسلمان انہیں بھُول چکے ہیں۔
غرض اِس وقت نہ صرف مسلمانوں کے اعمال میں نقص ہے بلکہ ان کے عقائد اور ان کے خیالات بھی قابلِ اصلاح ہیں۔ ایسی حالت میں جب تک نوجوانوں میں بیداری پیدا نہ کی جائے اور انہیں یہ ہدایت نہ کی جائے کہ وہ اپنا قدم پھُونک پھُونک کر رکھیں اُس وقت تک ہم میںبھی بعض غلطیاں پیدا ہونے کا امکان ہے۔ ہم ہمیشہ کہتے رہتے ہیں اور یہی صحیح امر ہے کہ قرآن کریم میں تبدیلی ناممکن ہے۔ ہم صرف اُن غلطیوں کو دور کرنے کیلئے کھڑے ہوئے ہیں جومسلمانوں میں پائی جاتی ہیں اور چونکہ اِس رنگ میں انسان بعض دفعہ سُست بھی ہوتا ہے اس لئے اپنے کام کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں بہت زیادہ بیداری اور ہوشیاری کی ضرورت ہے۔
میں نے بتایا تھا کہ قوم کے نوجوانوں کے اندر اِس قسم کی بیداری اور ہوشیاری پید اکرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر جگہ مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی جائے اور اِس میں ایسے نوجوان شامل کئے جائیں جو عملی رنگ میں اپنی ایسی اصلاح کرنے کیلئے تیار ہوں کہ اُن کا وجود دوسروں کیلئے نمونہ بن جائے۔ علاوہ ازیں بعض اور بھی نقائص ہیں جو مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں اور جو زمانہ کی مخفی رَو یا ورثہ کے اثرات کے ماتحت ہماری جماعت کے بعض افراد میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ایسی مجالس کے قیام کی ایک غرض ان نقائص کو دور کرنا بھی ہوگی۔ مثلاً ہندوستانی ایک عرصہ سے غلامی کی زندگی بسر کرتے چلے آرہے ہیں اور میں نے بارہا بتایا ہے کہ غلامی کی زندگی اپنے ساتھ بعض نہایت ہی تلخ اور ناخوشگوار نتائج لاتی ہے۔ مثلاً غلامی کی ذہنیت جن لوگوں کے اندر پیدا ہوجائے وہ کبھی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتے۔ فاتح اقوام ہمیشہ اِس کوشش میں رہتی ہیں کہ غیرحکومتوں کے مقابلہ میں ہماری تجارت اعلیٰ ہو، غیرحکومتوں کے مقابلہ میں ہماری دفاعی کوششیں مضبوط ہوں، غیرحکومتوں کے مقابلہ میں ہمارا تعلیمی معیار زیادہ بلند ہو، غیرحکومتوں کے مقابلہ میں ہماری صنعت و حرفت نہایت بلند پایہ ہو۔ اِسی طرح اور بیسیوں باتیں ہیں جو اُن کے دلوں میں جوش پیدا کرتی رہتی ہیںا ور ہر سال ان باتوں پر جھگڑے رونما ہوتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میںقوم میں بیداری اور بلند خیالی پیدا ہوجاتی ہے۔ مگر غلام قوم کے معنے یہ ہیں کہ اس کی تمام جدوجہد صرف اِس امر پر آکر ختم ہوجاتی ہے کہ مزدوری کی اور پیٹ پال لیا یامدرسے گئے اور تعلیم حاصل کرلی۔ بظاہر یہ ایک آرام کی زندگی نظر آتی ہے مگر دماغی لحاظ سے قتلِ عامہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ تمام قوم کا ذہن مُردہ کردیا جاتا ہے اور وہ قوم مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس کی مثال بالکل اس طوطے کی سی ہوجاتی ہے جسے کئی سال تک پنجرے میں بند رکھنے کے بعد جب آزاد کیا جاتا ہے تو وہ اِدھر اُدھر پھُدک کر پھر پنجرے میں ہی آبیٹھتا ہے کیونکہ اُڑنے کی ہمت اس میں باقی نہیں رہتی۔ اسی طرح غلام قوموں میں سُستی اور غفلت کو امن اور آرام سمجھا جاتا ہے اور اُمنگوں کا فُقدان اس قوم میں اطمینان قرار پاتا ہے۔ جب ان میں سے کوئی شخص یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میں بڑے اطمینان کی زندگی بسر کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرا دل اُمنگوں سے بالکل خالی ہے ۔ اور جب وہ یہ کہتا ہے کہ دیکھو مجھے کیسا امن اور چین نصیب ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہرقسم کی جدوجہد اور ترقی کے راستے میرے لئے مسدود ہوچکے ہیں۔
غرض اِن عیوب اور نقائص کو دور کرنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے کیونکہ ہمیں جو تعلیم دی گئی ہے وہ انسانی اُمنگوں اورجذبات کو کُچلتی نہیں بلکہ انہیں بڑھاتی اور ترقی دیتی ہے۔ وہ تعلیم ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا نے کسی انسان کو غلام نہیں بنایا اور کوئی انسان کسی دوسرے کو غلام بنا بھی نہیں سکتا جب تک وہ خود غلام نہ بن جائے۔ اس تعلیم کے ماتحت ہمیں یہ یقین رکھنا چاہئے کہ ترقی کا جب کوئی ایک راستہ ہمارے لئے مسدود ہوجائے تو اللہ تعالیٰ بعض اَور راستے ہمارے لئے کھول دیتا ہے اور اگر ہم ان راستوں کو اختیار کریں تو بالکل ممکن ہے کہ جو آج ہم پر افسر ہیں وہ کل ہمارے غلام ہوجائیں۔ مثلاً انہی ذرائع میں سے ایک ذریعہ تبلیغ ہے یا اپنی اخلاقی برتری کا ثبوت مہیا کرنا ہے۔ دنیا میں اخلاقی برتری کے ہوتے ہوئے کبھی کوئی قوم غلام نہیں ہوسکتی۔ غلام قوم وہی ہوگی جو اخلاق میں بھی پَست ہوگی۔ ہمارے مُلک میں عام طور پر انگریزوں کو بُرا سمجھا جاتا ہے لیکن اگر اُن بعض خیالات اور عقائد کو مستثنیٰ کرکے جن میں ہمارا اور ان کا اختلاف ہے اور جن میں ہم اُنہیں غلطی پر سمجھتے ہیں، عملی رنگ میں ان کو دیکھا جائے تو ایک ہندوستانی اور انگریز میں زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ ایک انگریز کی کوشش، اُس کی جدوجہد، اُس کی قربانی اور اُس کا ایثار اتنا نمایاں ہوتا ہے کہ ایک ہندوستانی کی جدوجہد کی اس سے کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی۔ وہ یورپ سے چلتے اور ہندوستان میںآکر سالہا سال تک تبلیغ کرتے ہیں۔ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ یہ پادری کیا ہیں انگریزوں نے انہیں اپنے سیاسی غلبہ کے حصول کا ایک ذریعہ بنایا ہؤا ہے۔ پھر اگر ان کی تبلیغ کا ذکر آئے تو وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اجی! یہ ان کی تبلیغ اپنے فائدہ کیلئے ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ اپنے فائدہ کیلئے جو قربانیاں کرتے ہیں کیا اس قسم کی قربانیاں ایک ہندوستانی نہیں کرسکتا؟ وہ چالیس چالیس، پچاس پچاس بلکہ ساٹھ ساٹھ سال تک ہندوستان میں رہتے ہیں، یہیں بوڑھے ہوتے اور یہیں مرجاتے ہیں اور واپس جانے کا نام تک نہیں لیتے مگر ایک ہندوستانی یا تو آوارہ ہوکر گھر سے نکلے گا یا اگر آوارہ نہ ہوگا تو غیر مُلک میں جانے کے چند سال کے بعد ہی شور مچانا شروع کردے گا کہ مجھے واپس بُلالو۔ غرض یا تو آوارہ ہوکر گھر سے نکلتا ہے اور اگر آوارہ ہوکر گھر سے نہیںنکلتا تو غیرممالک میںہمیشہ بے کل رہتا اور واپسی کیلئے کوشش کرتا رہتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں یورپین قومیں آوارہ ہوکر اپنے ممالک سے نہیں نکلتیں۔ وہ کام کیلئے نکلتی ہیں اور پھر جب کسی دوسرے مُلک میں اپنا کام شروع کردیتی ہیں تو گھبراتی نہیں او رجو تکلیف بھی انہیں برداشت کرنی پڑے اُسے خوشی سے برداشت کرتی ہیں۔ مگر یہ نتیجہ ہے اُن کی آزادی اور حُریت کا اور ہمارے آدمیوں کی سُستی اور غفلت نتیجہ ہے ان کی غلام ذہنیت کا ۔ اگر یہ ذہنیت مِٹ جاتی اور وہ سمجھ لیتے کہ ترقی کا صرف ایک ہی ذریعہ نہیں ہوتا بلکہ اَور بھی بیسیوں ذرائع خداتعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہیں تو وہ سُستی اور غفلت میں مبتلا ہونے کی بجائے جدوجہد کرتے اور ایثار اور قربانی سے کام لیتے اور پھر دیکھتے کہ اس کے کیسے خوشگوار نتائج نکلتے ہیں۔ جیسے ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکا ہے جو یہ آوا زسنتے ہی کہ آئو اور خدمتِ دین کیلئے اپنی زندگی وقف کردو نہایت خوشی اور بشاشت کے ساتھ اپنی زندگی وقف کردیتا اور غیرممالک میں نکل جاتاہے۔ چنانچہ بعض تو بغیر کسی سرمایہ کے غیرممالک میں کام کررہے اور نہایت اچھا نمونہ دکھارہے ہیں۔
تو مجالس خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ نوجوانوں کے سامنے وہ مقاصد رکھے جائیں جن کے بغیر ان میں ارتقائی روح پیدا نہیں ہوسکتی اور جن کے بغیر جماعت کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اِس وقت ایک ذہنی آزادی عطا کی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ہم میں سے ہر شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ تھوڑے عرصہ کے اندر ہی (خواہ ہم اُس وقت تک زندہ رہیں یا نہ رہیں لیکن بہرحال وہ عرصہ غیرمعمولی طور پر لمبا نہیں ہوسکتا)ہمیں تمام دنیا پر نہ صرف عملی برتری حاصل ہوگی بلکہ سیاسی اور مذہبی برتری بھی حاصل ہوجائے گی۔ اب یہ خیال ایک منٹ کیلئے بھی کسی سچے احمدی کے دل میں غلامی کی روح پیدا نہیں کرسکتا۔ جب ہمارے سامنے بعض حکام آتے ہیں تو ہم اِس یقین اور وثوق کے ساتھ اُن سے ملاقات کرتے ہیں کہ کل یہ نہایت ہی عجز اور انکسار کے ساتھ ہم سے استمداد کررہے ہوں گے۔ ہم انگریزی قوم کو عارضی طور پر مسلمانوں پر غالب دیکھتے ہیں مگر مستقل طور پر اسے اسلام کا غلام بھی دیکھ رہے ہیں۔ ہماری مثال اِس وقت ایسی ہی ہے جیسے کوئی بڑا آدمی جب کسی چھوٹے آدمی کے ہاں بطور مہمان جاتا ہے تو کچھ عرصہ کیلئے وہ اُس کے قوانین کا پابند ہوتا ہے۔ جیسے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ خواہ کوئی کتنا بڑا آدمی ہو جب کسی دوسری جگہ جائے تو وہاں کے امام کے تابع ہوکر رہے خواہ وہ امام چھوٹا ہی ہو۔ ۲؎ اسی طرح جب گورنر کسی دَورہ پر جاتا ہے تو گو وہ بڑا ہوتا ہے مگر ڈپٹی کمشنر کی مرضی اور اُس کے بنائے ہوئے پروگرام کے ماتحت اُسے کام کرنا پڑتا ہے۔ حضرت عمرؓ جب شام میں گئے تو حضرت ابوعبیدہؓ جو وہاں کے امیر تھے اُنہوں نے دریافت کیا کہ آپ کا پروگرام کیا ہوگا؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا یہاں میرا پروگرام نہیں بلکہ تمہارا پروگرام ہوگا اور جو کچھ تم کہو گے اُسی طرح مَیں کروں گا۔ اب حضرت عمرؓ کا اُس وقت ایک قسم کی ماتحتی قبول کرلینا یہ معنے نہیں رکھتا کہ حضرت عمرؓ نے دوسرے کی غلامی پسند کرلی۔ عمرؓ بہرحال عمرؓ تھے۔ وہ حاکم تھے، روحانی بادشاہ تھے اور خلیفۂ وقت تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ اُن کے تابع تھے مگر تھوڑی دیر کیلئے حضرت عمرؓ نے بھی ان کی ماتحتی اختیار کرلی۔ اِسی طرح ہم جو دُنیوی احکام کوملتے ہیںتو اس رنگ میں ملتے ہیں کہ انہیں اِس وقت عارضی طو رپر ہم پر برتری حاصل ہے مگر ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ کل وہ ہمارے شاگرد ہوں گے اور ہر قسم کی ترقی کے حصول کے سبق وہ ہم سے سیکھیں گے۔اگر اس خیال کو ہم اپنی جماعت کے افراد کے ذہنوں میں پورے طور پر زندہ رکھیں اور اسے مضبوط کرتے چلے جائیں تو ایک منٹ کیلئے بھی ہماری جماعت کے نوجوانوں کے دلوں میں غلامی کا خیال پیدا نہیں ہوسکتا۔ جیسے اُس بالا افسر کے دل میں غلامی کا خیال پیدا نہیں ہوسکتا جو تھوڑی دیر کیلئے کسی چھوٹے افسر کے ہاں جاتا اور اس کے پروگرام کا پابند ہوجاتا ہے۔
پس جماعت کے تمام دوستوں کو چاہئے کہ اپنے اپنے ہاں نوجوانوں کو منظم کریں اور ان کی ایک مجلس بنا کر خدام الاحمدیہ اُس کا نام رکھیں اور اُنہیں سلسلہ کے وقار کے تحفظ اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کیلئے کام کرنے کی ترغیب دیں۔
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے اس امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی گو اتفاقی طور پر وقت زیادہ ہوجانے کی وجہ سے میں بعض باتیں بیان نہیں کرسکا تھا اور میں نے کہا تھا کہ اگلے خطبہ میں مَیں ان باتوں کو بیان کروں گا۔ اُس وقت میرے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ اگلے جمعہ کو تمام جماعتوں کے نمائندے آنے والے ہیں شاید آج اس مضمون کا کچھ حصہ رہ جانے میں یہی حکمت ہو کہ مَیں جماعت کے تمام دوستوں کو براہ راست اِس امر کی طرف توجہ دلائوں کیونکہ اخبار میں خطبہ کا پڑھ لینا اَور بات ہے اور زبان سے کوئی بات سننا اَور اثر رکھتا ہے۔ پس اب چونکہ تمام جماعتوں کے نمائندے یہاں آئے ہوئے ہیں اِس لئے میںان سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں میں جاکر نوجوانوں میں یہ تحریک کریں کہ وہ خدام الاحمدیہ نام کی مجالس قائم کریں۔ اِس مجلس کے قواعد مَیں تجویز کررہا ہوں اور بعض موٹے موٹے قواعد جو میں نے بتائے تھے وہ تو غالباً مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان نے شائع بھی کردیئے ہیں لیکن بہرحال تفصیلی قواعد انہیں پہنچ جائیںگے۔
اِس وقت اِس کے ایک اور حصہ کی طرف میںجماعت کے دوستوں کو بِالخصوص مرکزی مجلس خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں اور وہ یہ کہ نوجوانی میں بے شک خدمتِ دین کا کام کرنا اچھا ہوتا ہے کیونکہ ادھیڑ عمر میں بعض دفعہ انسان ان کاموں کے کرنے کی ہمت کھو بیٹھتا ہے مگر اس سے بھی بڑھ کر ایک اَور کام ہے اور وہ یہ کہ بچوں کے اندر بھی یہی جذبات اور یہی خیالات پیدا کئے جائیں کیونکہ بچپن میں ہی اخلاق کی داغ بیل پڑ جاتی ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض کاموں کی داغ بیل جوانی میں پڑتی ہے مگر اس میںبھی کوئی شبہ نہیں کہ بعض کاموں کی داغ بیل بچپن میں پڑتی ہے۔ جوانی میں جن کاموں کی داغ بیل پڑتی ہے وہ بِالعموم عملی ہوتے ہیں جن کے ذریعہ انسان کا ذہن بُرے اور بھلے کی تمیز کرلیتا ہے۔ مگر قومیں صرف بُرے اور بھلے کی تمیزسے ہی ترقی نہیں کیا کرتیں بلکہ قوم کی ترقی کیلئے اچھی عادتوں کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ بے شک عادت بعض لحاظ سے نقصاں رساں بھی ہوتی ہے مگر عادت درحقیقت قومی ترقی کا ایک ضروری حربہ بھی ہوتی ہے۔ کسی قوم کو نیک اخلاق کی عادت ڈال دو وہ خود بخود باقی اقوام پرغالب آنے لگ جائے گی اِسی طرح جب کسی قوم میں بد عادات پیدا ہو جائیں تو وہ خودبخودگرتی چلی جاتی ہے اور اگر اسے کسی بات کی بھی عادت نہ ڈالو تو اس قوم میںایک تزلزل رہے گا۔ کبھی اخلاقی رَو غالب آگئی تو وہ ترقی کرجائے گی اور اگر اخلاقی رَو دب گئی تو وہ گر جائے گی۔ تو اصل حقیقی چیز یہ ہے کہ اچھی عادت بھی ہو اور علم بھی ہو مگر یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب عادت کے زمانہ کی بھی اصلاح کی جائے اور علم کے زمانہ کی بھی اصلاح کی جائے۔ عادت کا زمانہ بچپن کا زمانہ ہوتا ہے اور علم کا زمانہ جوانی کا زمانہ ہوتا ہے۔ پس خدام الاحمدیہ کی ایک شاخ ایسی بھی کھولی جائے جس میں پانچ چھ سال عمر کے بچوں سے لے کر ۱۵،۱۶ سال کی عمر تک کے بچے شامل ہوسکیں۔ یا اگر کوئی اور حد بندی تجویز ہو تو اُس کے ماتحت بچوں کو شامل کیا جائے۔ بہرحال بچوں کی ایک الگ شاخ ہونی چاہئے اور ان کے الگ نگران مقرر ہونے چاہئیں مگر یہ امرمدنظر رکھنا چاہئے کہ ان بچوں کے نگران نوجوان نہ ہوں بلکہ بڑی عمر کے لوگ ہوں۔
پس خدام الاحمدیہ کو اس مقصد کے ماتحت اپنے اندر کچھ بوڑھے نوجوان بھی شامل کرنے چاہئیں یعنی ایسے لوگ جن کی عمریں گو زیادہ ہوں مگر ان کے دل جوان ہوں اور وہ خدمت دین کے لئے نہایت بشاشت اور خوشی سے کام کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ایسے لوگوں کے سپرد بچوں کی نگرانی کی جائے اور ان کے فرائض میں یہ امر داخل کیا جائے کہ وہ بچوں کو پنجوقتہ نمازوں میں باقاعدہ لائیں۔ سوال و جواب کے طور پر دینی اور مذہبی مسائل سمجھائیں، پریڈ کرائیں اور اسی طرح کے اَور کام ان سے لیں جن کے نتیجہ میں محنت کی عادت، سچ کی عادت اور نماز کی عادت ان میں پیدا ہو جائے۔ اگر یہ تین عادتیں ان میں پیدا کر دی جائیں تو یقینا جوانی میں ایسے بچے بہت کارآمد اور مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
پس بچوں میں محنت کی عادت پیدا کی جائے، سچ بولنے کی عادت پیدا کی جائے اور نمازوں کی باقاعدگی کی عادت پیدا کی جائے۔ نماز کے بغیر اسلام کوئی چیز نہیںاگر کوئی قوم چاہتی ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں میں اسلامی روح قائم رکھے تو اس کا فرض ہے کہ اپنی قوم کے ہر بچہ کو نماز کی عادت ڈالے۔ اسی طرح سچ کے بغیر اخلاق درست نہیں ہو سکتے۔ جس قوم میں سچ نہیں اس قوم میں اخلاقِ فاضلہ بھی نہیں اور محنت کی عادت کے بغیر سیاست اور تمدن کوئی چیز نہیں۔ جس قوم میں محنت کی عادت نہیں اس قوم میں سیاست اور تمدن بھی نہیں۔ گویا یہ تین معیار ہیں جن کے بغیر قومی ترقی نہیں ہوتی۔
پس خدام الاحمدیہ کے ارکان کو چاہئے کہ اپنی ایک شاخ بچوں کی بھی قائم کریں مگر ان کے نگران ایسے لوگ مقرر کریں جو کم سے کم چالیس سال کے ہوں اور بہتر ہوگا اگر وہ اس سے بھی زیادہ عمر کے ہوں اور اپنے اندر ہمت اور استقلال رکھتے ہوں، ان کے سپرد یہ کام کیا جائے کہ وہ بچوں کو اپنی نگرانی میں کھِلائیں، اُنہیں وقت ضائع کرنے سے بچائیں، نمازوں کیلئے باقاعدہ لے جائیں اور اخلاقِ فاضلہ ان میں پید اکریں۔ اور گو تفصیلی طور پر تمام اخلاق کا پیدا کرنا ہی ضروری ہے مگر یہ تین باتیں خاص طور پر ان میں پیدا کی جائیں۔ یعنی نمازوں کی باقاعدگی کی عادت، سچ کی عادت اور محنت کی عادت۔ باقی ہمارے مُلک میں بعض اَور بھی اخلاقی خرابیاں ہیں جن کا دُور کرنا ضروری ہے۔ مثلاً ہمارے مُلک میں گالی دینے کا عام طور پر رواج ہے اور اِس میں شرم و حیا سے کام نہیں لیا جاتا۔
مجھے یاد ہے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کو جب چوٹ لگی تو مرہم پٹی کرنے کیلئے ایک مخلص دوست مقرر تھے مگر اُن کی زبان پر بہن کی گالی بہت چڑھی ہوئی تھی۔ ایک دن جبکہ حضرت خلیفہ اول کے پاس ہم سب بیٹھے ہوئے تھے اور باہر سے بھی کچھ مہمان آئے ہوئے تھے ایک دوست نے برسبیلِ تذکرہ دریافت کیا کہ ابھی حضرت صاحب کا زخم اچھا نہیں ہؤا؟ اِس پر وہ بے اختیار زخم کو بہن کی گالی دے کر کہنے لگے یہ اچھا ہونے میں آتا ہی نہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل اُس وقت سامنے بیٹھے تھے اور باقی سب دوست بھی موجود تھے۔ اُن کے منہ سے جب اس مجلس میں یہ گالی نکلی تو ہم سب پر ایک سکتے کی حالت طاری ہوگئی مگر پھر ہم یہی سمجھ کر خاموش ہورہے کہ ان بیچاروں کو اِس گالی کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ تو گالی دینے کی عادت ہی جب کسی شخص میں پیدا ہوجاتی ہے اُس کا مٹانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اَور کئی قسم کی بُری عادتیں ہیں جو ہمارے ملک میںلوگوں کے اندر پائی جاتی ہیں۔ اِن عادتوں کومٹا کر ان کی جگہ اگر نیک عادتیں پیدا کردی جائیں تو لازماً قوم کی اصلاح ہوسکتی ہے۔
پس مجلس خدام الاحمدیہ کے ارکان کا صرف یہی فرض نہیں کہ وہ نوجوانوں کی اصلاح کریں بلکہ ان کا ایک فرض یہ بھی ہے کہ وہ بچوں کی اصلاحی شاخ الگ قائم کریں اور اس کے ذریعہ جو چھوٹی عمر کے بچے ہیں اُن کی تربیت کریں۔ میں اِس کیلئے بھی اِنْشَائَ اﷲُ تَعَالیٰ انہیں قواعد تیار کردوں گا۔ سرِدست جو تین باتیں میںنے بتائی ہیں ان پر انہیں عمل کرنا چاہئے۔ یعنی بچوں میں نماز کی عادت ، سچ کی عادت اور محنت کی عادت پیدا کرنی چاہئے۔ محنت کی عادت میںآوارگی سے بچنا خود آجاتا ہے۔میں امید کرتا ہوں کہ یہاں کی مجلس خدام الاحمدیہ بھی اوربیرونی جماعت کی مجالس بھی اِن اصول کے ماتحت اپنے کام کو محنت سے سرانجام دیں گی اور خدمتِ خلق کے کام کرنے میں کوئی عار نہیںسمجھیں گی۔
میں نے بارہا بتایا ہے کہ خدمتِ خلق کے کام میں جہاں تک ہوسکے وسعت اختیار کرنی چاہئے اور مذہب اور قوم کی حدبندی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر مصیبت زدہ کی مصیبت کو دور کرنا چاہئے خواہ وہ ہندو ہویا عیسائی ہو یا سکھ ۔ ہمارا خدا ربُ العالمین ہے اور جس طرح اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اُسی طرح اُس نے ہندوئوں ،سکھوں اور عیسائیوں کو بھی پیدا کیا ہے۔ پس اگر خدا ہمیںتوفیق دے تو ہمیں سب کی خدمت کرنی چاہئے۔ یہاں قادیان میں بعض مجبوریوں کی وجہ سے ہم عارضی طور پر ہندوئوں سے سَودا نہیں خریدتے مگر بیسیوں ہندو اور سکھ ہمارے پاس امداد کیلئے آتے رہتے ہیں اور ہم ہمیشہ ان کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ ایک دفعہ کانگریس کی ایک مشہور لیڈر یہاں آئیں اور انہوں نے کہا کہ یہاں کے ہندوئوں کو بہت تکلیف ہے۔ میں نے کہا میں ایسی بیسیوں مثالیں دے سکتا ہوں جب یہ ہندو میرے پاس آئے اور میں نے ان کی امداد کی اور ان پر بڑے سے بڑے احسان کئے۔ چنانچہ بعض واقعات میں نے اُنہیں بتائے بھی۔ وہ میری باتیں سُن کر حیران ہوگئیں اور کہنے لگیں یہ بات ہے میں نے کہاآپ ان سے پوچھ لیجئے کہ آیا فلاں فلاں مواقع پر میں نے ان کی مدد کی ہے یا نہیں؟ اور اب بھی میںان کے ساتھ موقع ملنے پر حُسنِ سلوک ہی کرتا ہوں مگر انہوں نے پھر ہندوئوں سے پوچھا نہیں شاید میری بات پرہی اعتماد کرلیا یا انہیں پوچھنے کا موقع نہ ملا۔
تو حُسنِ سلوک میںکسی مذہب کی قید نہیں ہونی چاہئے اور جو شخص بھی اس قسم کے حُسنِ سلوک میں مذہب کی قید لگاتا اور اپنے ہم مذہبوں کی خدمت کے کام کرنا تو ضروری سمجھتا ہے مگرغیرمذہب والوں کی خدمت کرنا ضروری نہیں سمجھتا وہ اپنا نقصان آپ کرتا ہے اور دنیا میں لڑائی جھگڑے کی روح پید اکرتا ہے۔ پھر جو تبلیغی جماعتیں ہوتی ہیں اُن کیلئے تو یہ بہت ہی ضروری ہوتا ہے کہ وہ ساری قوموں سے حُسنِ سلوک کریں اور کسی کو بھی اپنے دائرہ احسان سے باہر نہ نکالیں۔ تا تمام قومیں اُن کی مداح بنیں۔ پس وہ خدمتِ خلق کے کاموں میں مذہب و ملت کے امتیاز کے بغیر حصہ لیں اور جماعت کے جو اغراض اور مقاصد ہیں اُن کو ایسی وفاداری کے ساتھ لے کر کھڑے ہوجائیں کہ خداتعالیٰ کے راستہ میں ان کیلئے اپنی جان قربان کردینا کوئی دوبھر نہ ہو۔ جب کسی قوم کے نوجوانوں میں یہ روح پیدا ہوجائے کہ اپنے قومی اور مذہبی مقاصد کی تکمیل کیلئے جان دے دینا وہ بالکل آسان سمجھنے لگیں اُس وقت دنیا کی کوئی طاقت اُنہیں مار نہیں سکتی۔ جس چیز کومارا جاسکتا ہے وہ جسم ہے مگر جس شخص کی روح ایک خاص مقصد لے کر کھڑی ہوجائے اُس روح کو کوئی فنا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ بلکہ ایسی قوم کا اگر ایک شخص مرے تو اُس کی جگہ دس پیدا ہوجاتے ہیں۔
میں ہمیشہ یہ سمجھا کرتا ہوں کہ قصے کہانیوں میںجو یہ ذکر آتا ہے کہ فلاں نے ایک دیو مارا تو اس کے خون کے قطروں سے دس دیو اَور پیدا ہوگئے، یہ ذہنی قتل کے ناممکن ہونے کو ایک تمثیل کے رنگ میں بیان کیا گیا ہے اور اِس میں یہی بتایا گیا ہے کہ جب کسی قوم کے ذہن میں راسخ طور پر کوئی نیک عقیدہ پیدا ہوجائے اُس وقت اسے کوئی قتل نہیں کرسکتا۔ اور اگر اس قوم کے کسی فرد پر کوئی شخص ہاتھ اٹھاتا اور اُسے قتل کرتا ہے تو اُس کی موت ایسی شاندار ہوتی ہے کہ ہزاروں اس کے قائمقام پیدا ہوجاتے ہیں۔ دنیا میںہمیشہ یہ نظارہ نظر آیا ہے اور اب بھی یہ نظارہ نظر آسکتا ہے بشرطیکہ ہمارے نوجوان یہی روح اپنے اندر پیدا کریں۔ پھر نہ اِنہیں وطن میں کوئی نقصان پہنچاسکتا ہے اور نہ غیرمُلک میں ان کو کوئی مٹاسکتا ہے۔ کیونکہ وہ اِس روح کے نتیجہ میں وہی لوگ بن جائیں گے جن کو اِسی دنیا میں خداتعالیٰ ایسی زندگی دے دیتا ہے جس پر موت نہیں آتی اور ایسی حیات دے دیتا ہے جس پر فنا طاری نہیں ہوتی۔
چونکہ اب نماز کے بعد مجلسِ شوریٰ کا اجلاس ہونے والا ہے اِس لئے میں خطبہ کو اِسی پر ختم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے نوجوانوں کو فرض شناسی کی توفیق عطا فرمائے اور جماعت کے دوسرے افراد کے دلوں میں بھی ایسی روح پیدا کرے کہ وہ دوبارہ اُسی اسلام کو دنیا میں قائم کرکے دکھادیں جس اسلام کو آج سے تیرہ سَو سال پہلے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قائم فرمایا تھا۔‘‘ (الفضل ۲۲؍ اپریل ۱۹۳۸ئ)
۱؎ متی باب ۲۳ آیت ۲،۳۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن ۱۸۸۷ئ
۲؎ مسلم کتاب المساجد باب مَنْ اَحَقُّ بِالْاِمَامَۃِ

۱۵
۱۔ مجلس شوریٰ میں تنقید کے اصول
۲۔ جماعت احمدیہ اور حکام کے تعلقات
(فرمودہ ۲۲؍ اپریل ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’میرے سامنے ایک سوال اُٹھایا گیا ہے جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ مجھے جماعت کے سامنے اپنے خیالات کے اظہار کی ضرورت ہے تا جس جس حصہ میں کوئی نقص ہے اس کی اصلاح ہوسکے۔ مجھ سے کہا گیا ہے کہ مجلس شوریٰ کے موقع پر ناظروں کے کام پر جس رنگ میں تنقید کی جاتی ہے اس کے نتیجہ میں ناظروں کے کام میں رُکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور ان کا مقام جماعت کی نگاہ میں گِرجاتا ہے اور یہ کہ اِس تنقید کا موجب وہ تنقید ہوتی ہے جو کبھی میری طرف سے ناظروں کے کام پر کی جاتی ہے۔ میں اِس امر کو تسلیم کرتا ہوں کہ اگر وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں سلسلہ کے کام کی باگ ڈور ہو، اُن کی حیثیت اور مقام لوگوں کی نظروں سے گرادیا جائے اور لوگوں میں ان کی سُبکی کردی جائے تو کام میں دِقتیں ضرور پیدا ہوتی ہیں۔ اگر یہ امر واقعہ ہو کہ موجودہ حالات میں ناظروں کا مقام اور ان کی حیثیت اور ان کے عُہدے کا اعزاز اور اکرام کم ہوگیا ہو اور لوگوں کی نظروں میں ان کی عزت نہ رہی ہو تو اس میں شک نہیں کہ ان کو کام میں دِقتیں پیدا ہوسکتی ہیں اور ہونے کا خطرہ ہے لیکن میں سمجھتا ہوں اس سوال کے کئی حصے ہیں اور وہ الگ الگ توجہ کے محتاج ہیں ۔ پس میں انہیں علیحدہ علیحدہ لیتا ہوں۔
پہلا حصہ یہ ہے کہ خلیفۂ وقت کی تنقید خواہ وہ تربیت کیلئے ہو یا تأدیب کیلئے یا ہدایت کیلئے وہ شوریٰ کے دوسرے ممبروں کے دلوں میں تنقید کا ایسا مادہ پید اکردیتی ہے کہ جس کے نتیجہ میں تنقید حد سے زیادہ گزرجاتی ہے۔ جو لوگ دوسرے لوگوں سے مِلتے جُلتے رہتے ہیں اور قسم قسم کے لوگوں سے باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ میرے متعلق دونوں قسم کی شکایتیں سُنی جاتی ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ ہمیشہ ناظروں کی پیٹھ ٹھونکتے اور ان کی حفاظت کرتے ہیں جس کی وجہ سے جماعت کا نظام درست نہیں ہوسکتا۔ ذرا کسی نے کسی ناظر پر اعتراض کیا تو انہوں نے فوراً اسے گرفت شروع کردی۔ اور یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کی طرف سے ناظروں کا صحیح طور پر اعزاز قائم نہیں کیا جاتا اور ایسی تنقید ان کے کام پر کی جاتی ہے جس سے وہ لوگوں کی نظروں سے گرجائیں۔ اِن دونوں سوالوں کی موجودگی میں یہ ماننا پڑے گا کہ صداقت بہرحال تین میں سے ایک صورت میں ہے۔ یا تو پہلا اعتراض غلط ہوگا کہ یہ ناظروں کے مقابلہ میں جماعت کو زیادہ ڈانٹتے ہیں اور یا پھر یہ غلط ہوگا کہ جماعت کے مقابلہ میں ناظروں پر تنقید میں سختی کرتے ہیں۔ یا پھر یہ کہ دونوں ہی اعتراض غلط ہوں گے۔ یہ تین صورتیں ہی ممکن ہوسکتی ہیں ان کے سوا کوئی نہیں۔ لیکن ان تینوں صورتوں پر غور کرنے سے قبل یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خلیفہ کا مقام کیا ہے۔ مجلس شوریٰ ہو یا صدر انجمن احمدیہ، خلیفہ کامقام بہرحال دونوں کی سرداری کا ہے۔ انتظامی لحاظ سے وہ صدرانجمن کیلئے بھی رہنما ہے اور آئین سازی و بحث کی تعیین کے لحاظ سے وہ مجلس شوریٰ کے نمائندوں کیلئے بھی صدر اور رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ جماعت کی فوج کے اگر دو حصے تسلیم کرلئے جائیں تو وہ اِس کا بھی سردار ہے اور اُس کا بھی کمانڈر ہے اور دونوں کے نقائص کا وہ ذمہ دار ہے اور دونوں کی اصلاح اس کے ذمہ واجب ہے۔ اس لحاظ سے اس کیلئے یہ نہایت ضروری ہے کہ جب کبھی وہ اپنے خیال میں کسی حصہ میں کوئی نقص دیکھے تو اس کی اصلاح کرے۔ اپنے خیال میں مَیں نے اس لئے کہا ہے کہ انسان ہمیشہ غلطی کرسکتا ہے اور خلیفہ بھی غلطی کرسکتا ہے۔ میںنے کبھی اس عقیدہ کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی یہ اسلامی عقیدہ ہے کہ خلیفہ غلطی نہیں کرسکتا۔ اور بشری انتظام میں جب نبی بھی غلطی کرسکتا ہے تو خلیفہ کی کیا حیثیت ہے۔ پس یقینا خلیفہ بھی غلطی کرسکتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ امکان کیا ہے بلکہ یہ ہے کہ موقع کا تقاضا کیا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک باپ اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کے متعلق فیصلہ کرنے میں غلطی کرجائے لیکن کیا اس غلطی کے امکان کی وجہ سے اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کے متعلق انتظام کا اسے جو حق ہے وہ مارا جاتا ہے۔ ساری دنیا بِالْاتفاق اس بات کو مانتی ہے کہ باپ خواہ فیصلہ غلط کرے یا درست، اپنے لڑکے کی تعلیم و تربیت کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق بہرحال اُس کو ہے۔ یہی صورت خلیفہ کے بارہ میں ہے۔ اس کی نسبت غلطی کا امکان منسوب کرکے اس کی ذمہ داری کو اُڑایا نہیں جاسکتا لیکن یہ ادنیٰ تمثیل ہے۔ باپ اور خلیفہ کے مقام میں کئی فرق ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہماری شریعت کہتی ہے کہ خداتعالیٰ جسے خلیفہ بناتا ہے اُس سے ایسی اہم غلطی نہیں ہونے دیتا جو جماعت کیلئے نقصان کا موجب ہو۔ گویاعصمتِ کبریٰ تو بطور حق کے انبیاء کو حاصل ہوتی ہے لیکن عصمتِ صغریٰ خلفاء کو بھی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں وعدہ فرماتا ہے کہ جو کام خلفاء کریں گے اُس کے نتیجہ میں اسلام کا غلبہ لازمی ہوگا۔ ان کے فیصلوں میں جُزئی اور معمولی غلطیاں ہوسکتی ہیں، ادنیٰ کوتاہیاں ہوسکتی ہیں مگر انجام کار نتیجہ یہی ہوگا کہ اسلام کو غلبہ اور اس کے مخالفوں کوشکست ہوگی یہ خلافت کیلئے ایک معیار قائم کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۱؎دین کے معنے مذہب کے بھی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے بھی دیکھ لو خلفائے اربعہ کا ہی مذہب دنیا میں قائم ہؤا ہے۔ بے شک بعض علیحدہ فرقے بھی ہیں مگر وہ بہت اقلیت میں ہیں۔ اکثریت اسی دین پر قائم ہے جسے خلفائے اربعہ نے پھیلایا مگر دین کے معنے سیاست و حکومت کے بھی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ جس سیاست او رپالیسی کو وہ چلائیں گے اللہ تعالیٰ اسے ہی دنیا میں قائم کرے گا اور بوجہ اس کے کہ ان کو عصمتِ صغریٰ حاصل ہے، خداتعالیٰ کی پالیسی بھی وہی ہوگی۔ بے شک بولنے والے وہ ہوں گے، زبانیں انہی کی حرکت کریں گی، ہاتھ انہی کے چلیں گے اور پیچھے دماغ انہی کا کام کرے گا مگر دراصل ان سب کے پیچھے خداتعالیٰ ہوگا۔ کبھی ان سے جُزئیات میں غلطیاں ہوں گی، کبھی ان کے مشیر غلط مشورہ دیں گے۔ بعض دفعہ وہ اور ان کے مشیر دونوں غلطی کریںگے لیکن ان درمیانی روکوں سے گزر کر کامیابی انہیں ہی حاصل ہوگی ۔ جب تمام کڑیاں مل کر زنجیر بنیں گی وہ صحیح ہوگی اور ایسی مضبوط کہ کوئی اسے توڑ نہ سکے گا۔
پس اِس لحاظ سے خلیفۂ وقت کا یہ فرض ہے کہ جس حصہ میں بھی اسے غلطی نظر آئے اس کی اصلاح کرے۔ جہاں اس کا یہ فرض ہے کہ منتظمین اورکارکنوں کی پوزیشن قائم رکھے، وہاں یہ بھی ہے کہ جماعت کی عظمت اور اس کے مشورہ کے احترام کو بھی قائم رکھے۔ اگر جماعت کسی وقت کارکنوں کے حقوق پر حملہ کرے تو اس کاکام ہے کہ اسے پیچھے ہٹائے۔ اگر کبھی کارکن جماعت کے حقوق کو دبانا چاہیں تو خلیفہ کا فرض ہے کہ انہیں روک دے۔ مجلس شوریٰ کی گزشتہ رپورٹوں سے جو چھَپی ہوئی ہیں یہ بات پوری طرح ظاہر ہوتی ہے کہ میں نے متوازی طور پر ان دونوں باتوں کا خیال رکھا ہے۔ اگر ناظروں پر جماعت نے ناواجب اعتراض کئے ہیں تو میں نے سختی کے ساتھ اور بے پرواہ ہوکر ان کے اس فعل کی قباحت کی وضاحت کی ہے اور اگر کبھی ناظروں نے جماعت کو اس کے حق سے محروم کرنا چاہا ہے تو اُن کو بھی ڈانٹا ہے۔ یہ متوازی سلسلہ جو خداتعالیٰ نے جاری رکھا ہے، میں نے ہمیشہ اِس کا خیال رکھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اگر ایک طرف ناظروں کا احترام اور اعزاز جماعت کے دلوں میں پیدا کیا جائے تو دوسری طرف جماعت کی عظمت کو بھی قائم رکھا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اگر ایک حصہ کو چھوڑ دیا جائے تو دوسرے کی عظمت بھی قائم نہ رہ سکے گی۔ اور اگر دونوں کو چھوڑ دیا جائے تو باوجود نیک نیتی اور نیک ارادہ کے ایک حصہ دوسرے کو کھاجائے گا۔ اگر کارکنوں کے اعزاز اور احترام کا خیال نہ رکھا جائے تو نظام کا چلنا مشکل ہوجائے گا اور اگر جماعت کے حقوق کی حفاظت نہ کی جائے اور اس کی عظمت کو تباہ ہونے دیا جائے تو ایک ایسا آئین بن جائے گاجس میں خود رائی اور خودستائی غالب ہوگی اس لئے مَیں ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھتا ہوں کہ جس کی غلطی ہو اسے صفائی کے ساتھ کہہ دیا جائے۔ چنانچہ مجلس شوریٰ کی گزشتہ رپورٹوں سے یہ بات پوری طرح ظاہر ہوتی ہے کہ میںنے ناظروں کے اعزاز کو قائم کرنے کا پوری طرح خیال رکھا ہے۔ چنانچہ گزشتہ رپورٹوں سے ظاہر ہوگا کہ جب مجھے معلوم ہؤا کہ ناظر بعض جگہ گئے اور جماعت نے لاپروائی کا ثبوت دیا تو میں نے شوریٰ میں اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور بتایا کہ یہ طریق صحیح نہیں۔ جب بھی کوئی ناظر بحیثیت ناظر کسی جگہ جائے تو جماعت کا فرض ہے کہ اُس کا استقبال کرے اور اُس کا مناسب اعزاز کرے۔ چنانچہ اس کے بعد جماعت میں اس کا احساس پیدا ہؤا اور انہوں نے ناظروں کا مناسب اعزاز کیا۔ ابھی توہماری جماعت میںکوئی بڑے آدمی ہیں ہی نہیں لیکن بڑے سے بڑا آدمی بھی نظامِ سلسلہ کے لحاظ سے ناظروں کے ماتحت ہے اور جب بادشاہ ہمارے سلسلہ میں داخل ہوں تو وہ بھی ناظروں کے ماتحت ہوں گے۔ خواہ کوئی ان ناظروں میں سے کسی بادشاہ کی رعایا کا فرد ہی کیوں نہ ہو اور نظام سلسلہ کے لحاظ سے وہ اس کے ماتحت ہوگا اور اس کو اس کا ادب و احترام اسی طرح کرنا ہوگا جیسے ایک ماتحت افسر کا کرتا ہے۔ اس حقیقت کی موجودگی میں عقلاً یہ ممکن ہی کس طرح ہوسکتا ہے کہ قانون پر چلتے ہوئے کوئی شخص ناظروں کی سُبکی یا ہتک کا خیال بھی کرسکے۔
مگر اس کے مقابلہ میں جماعت کے بھی حقوق ہیں۔ مثلاً جب ناظروں سے کوئی ملے تو خواہ وہ چھوٹے سے چھوٹا کیوں نہ ہو ناظر کافرض ہے کہ اُس کا ادب اور احترام کرے اور اگر میرے پاس یہ شکایت پہنچے کہ کوئی ناظر کسی چھوٹے آدمی کامناسب ادب نہیں کرتا تو اُس وقت میں افرادِ جماعت کے ساتھ ہوں گا۔ یوں میرے پاس بعض شکایات آتی ہیں میں ان کی تحقیقات نہیں کراتا کیونکہ میں نصیحت کو تحقیقات سے بہتر سمجھتا ہوں پس نصیحت کردیتا ہوں لیکن بہرحال ناظروں کا فرض ہے کہ جو لوگ ان سے ملنے آئیں ان سے عزت و احترام سے پیش آئیں۔ میں خود بھی کوئی کونے میں بیٹھنے والا شخص نہیں ہوں۔ ہر روز دس پانچ بلکہ بیس تیس اشخاص مجھ سے ملنے آتے ہیں جن میں غریب سے غریب بلکہ سائل بھی ہوتے ہیں بلکہ اکثر سائل ہوتے ہیں لیکن مَیں جیسا اعزاز بڑے سے بڑے آدمی کا کرتا ہوں ویسا ہی چھوٹے سے چھوٹے کا بھی کرتا ہوں۔ مثلاً حکومت کے عُہدہ کے لحاظ سے ہماری ہندوستان کی جماعت میں چوہدری سرظفراللہ خان صاحب سب سے بڑے عہدہ دار ہیں لیکن ان کے آنے پر بھی میں ان کا استقبال اسی طرح کرتا ہوں جس طرح ایک غریب کے آنے پر ۔ اور مَیں اس بارہ میں چوہدری صاحب اور ایک غریب کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا۔ اِسی طرح چوہدری صاحب کو کھڑا ہوکر ملتا ہوں جس طرح ایک غریب آدمی کو اور پہلے اُسے بٹھا کر پھر خود بیٹھتا ہوں۔ بعض غریب اپنے اندازہ سے زمین پر بیٹھنا چاہتے ہیں مگر میں نہیں بیٹھنے دیتا اور اُن سے کہہ دیتا ہوں کہ جب تک آپ نہ بیٹھیں گے میں بھی کھڑا رہوں گا۔ بعض دفاتر کے چپڑاسی آتے ہیں اور وہ زمین پر بیٹھنا چاہتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ نہیں آپ چپڑاسی کی حیثیت سے نہیں بلکہ مجھے خلیفہ سمجھ کر ملنے آئے ہیں۔ غرضیکہ جب تک آنے والے کو نہ بٹھالوں میں خود نہیں بیٹھتا۔ مجھے ملنے والوں کی تعداد ہزاروں تک ہے مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس میںکبھی تخلّف ہؤاہو سوائے اس کے کہ میں بیمار ہوں یا کسی کام میںمشغول ہونے کی وجہ سے کبھی غلطی ہوجائے۔ ہاں جلسہ سالانہ کے ایام مستثنیٰ ہیں۔ اُن دنوں میں ملنے والے اس کثرت سے آتے ہیں کہ ہر ایک کیلئے اٹھنا مشکل ہوتا ہے۔ ہاں اُن دنوں میںبھی جب کوئی غیراحمدی آئے تو چونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ میری مشکلات کو نہیں سمجھ سکتا اس کیلئے کھڑا ہوجاتا ہوں۔ یا پھر اُن ایام میں جب ملاقات کا زور نہ ہو تو کھڑا ہوتا ہوں۔ یہ میرا اصول ہے اور میں سمجھتا ہوں ناظروں کوبھی ایسا کرنا چاہئے اور اگر اس کے خلاف کبھی شکایت آئے تو میں چاہتا ہوں کہ جس کے خلاف شکایت ہو، اُسے تنبیہہ کی جائے۔ جب تک یہ بات قائم نہ ہو اسلام کی روح قائم نہیں ہوسکتی۔
ذرا غور کرو کہ خلیفہ چھوڑ نبی کا بھی کیا حق ہے کہ وہ بندوں پر حکومت کرے۔ اگر ہم مذہب اور اسلام کی روح کو سمجھتے ہیں تو اس خدمت کی روح کو بھی سمجھنا چاہئے جس کیلئے ہم کھڑے کئے گئے ہیں۔ کیا ہمارے لئے یہ بات کم ہے کہ خداتعالیٰ نے ہم کو ایک رُتبہ دے دیا ہے۔ وہ ہمیں ایک چھوٹا سا دنیوی کام کرنے کو دیتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اپنا مقرب بنالیتا ہے۔ گویا اُجرت اس نے ادا کردی پھر ہمارا کیا حق ہے کہ دونوں جگہ سے اُجرت وصول کریں۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا مزدور بھی ہوتا ہے جو دو جگہ سے اپنی اُجرت وصول کرے۔ پس جب خداتعالیٰ ہمیں اس خدمت کی اُجرت ادا کرتا ہے تو بندوں سے کیوں لیں قرآن کریم میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تُو کہہ دے کہ میں تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا۔ ۲؎ یہ نہیں فرمایا کہ میں اُجرت مانگتا ہی نہیں بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے نہیں مانگتا۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ مجھے اُجرت خداتعالیٰ سے مل رہی ہے۔ پس میرا فرض ہے کہ میں اس بات کا خیال رکھوں کہ یہ اصل ہماری جماعت میں قائم ہو۔ اور اگر اس میں غلطی ہو او رمیرے پاس شکایت آئے تو میں اس بات کا خیال رکھوںگا کہ غریب سے غریب آدمی کا حق بھی مارا نہ جائے اور اس بات کا خیال نہیں رکھوں گا کہ اس کا حق دلانے میں ناظر کی ہتک ہوتی ہے۔ یہ خداتعالیٰ کاحق ہے جو بہرحال لیا جائے گا، خواہ اس میں کسی بڑے آدمی کی ہتک ہو یا چھوٹے کی۔لیکن اس کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کارکنوں کو جماعت میں ایک اعزاز حاصل ہے اور اگر کوئی فرد اسے نہیں سمجھتا یا ان کی طرف سے جو آواز اُٹھتی ہے اس پر کان نہیں دھرتا اور اپنی دُنیوی وجاہت کے باعث ناظر کو اپنے درجہ سے چھوٹا سمجھتا ہے تو یقینا وہ جماعت کا مخلص فرد نہیں۔ اُس کے اندر منافقت کی رگ ہے جو اگر آج نہیں تو کل ضرور پھُوٹے گی۔
پھر ناظروں کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ مجلس شوریٰ اپنے مقام کے لحاظ سے صدر انجمن پر غالب ہے۔ اس میں براہ راست اکثر جماعتوں کے نمائندے شریک ہوکر مشورہ دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ابھی بیرونی ممالک کی جماعتوںکے نمائندے شریک نہیں ہوسکتے لیکن جب ان میںبھی امراء داخل ہوجائیںگے یا جماعتیں زیادہ ہوجائیں گی اور وہ اپنے نمائندوں کے سفر خرچ برداشت کرسکیںگی اور سفر کی سہولتیں میسر ہوں گی۔ مثلاً ہوائی جہازوں کی آمدورفت شروع ہوجائے گی تو اُس وقت ان ممالک کے نمائندے بھی اس میں حصہ لے سکیں گے۔ پس مجلس شوریٰ جماعت کی عام رائے کو ظاہر کرنے والی مجلس ہے اور خلیفہ اس کا بھی صدر اور رہنما ہے۔ انبیاء کو بھی اللہ تعالیٰ نے مشورہ کا حکم دیا ہے اور خلافت کے متعلق تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَا خِلَافَۃَ اِلَّا بِالْمَشْوَرَۃِ ۳؎ خلیفہ کو یہ حق تو ہے کہ مشورہ لے کر ردّ کردے لیکن یہ نہیں کہ لے ہی نہیں۔ مشورہ لینا بہرحال ضروری ہے اور جب وہ مشورہ لیتا ہے تو قدرتی بات ہے کہ وہ اسے ردّ اسی صورت میں کرے گا کہ جب سمجھے گا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میری ذمہ داری کا یہی تقاضا ہے۔ اگر وہ شریف آدمی ہے اور جب اسے خداتعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ سمجھا جائے تو اس کی شرافت میں کیا شبہ ہوسکتا ہے تو وہ سوائے خاص حالات کے مشورہ کو ضرور مان لے گا۔ ہاں خاص صورتوں میں بوجہ اس کے کہ درحقیقت وہ خداتعالیٰ کا نمائندہ ہے اگر وہ سمجھے کہ اس بات کو ماننے سے دین کو یا اس کی شان و شوکت کو کوئی خاص نقصان پہنچتا ہے تو وہ اس مشورہ کو ردّ بھی کردے گا مگر اس اختیار کے باوجود اسلامی نظام مشورہ اور رائے عامہ کو بہت بڑی تقویت دیتا ہے اور وہ اس طرح کہ اتنے لوگوں کی رائے کو جو پبلک میںظاہر ہوچکی ہو کبھی کوئی شخص خواہ وہ کتنی بڑی حیثیت کا ہو معمولی طور پر ردّ کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ وہ کثرتِ رائے کو اُسی وقت ردّ کرسکتا ہے جب وہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی ذمہ داری کا یہی تقاضا ہے۔ یہ امر ظاہر ہے کہ اکیلے شخص کو یہ جرأت نہیں ہوسکتی کہ وہ کثرتِ رائے کو ردّ کردے۔ کثرتِ رائے کو ردّ یا تو پاگل کرسکتا ہے اور یا پھر وہ شخص جو سمجھتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی طاقت ہے جو اس کی بات کو منوالے گی۔ پس خلفاء اُسی وقت ایسی رائے کو ردّ کردیں گے جبکہ وہ خداتعالیٰ کی مدد کایقین رکھیں گے اور سمجھیں گے کہ ہم صرف خداتعالیٰ کے منشاء کو پورا کررہے ہیں اور جب وہ خدائی طاقت سے جماعت کے مشورہ کو ردّ کریں گے تو ان کی کامیابی یقینی ہوگی۔
غرض اسلام نے شوریٰ کے نظام سے خودسری اور خودرائی۴؎ کیلئے ایک بڑی روک پیدا کر دی ہے۔ پھر تربیت کے لحاظ سے بھی مشورہ ضروری ہے کیونکہ اگر مشورہ نہیں لیا جائے گا تو جماعت کے اہم امور کی طرف افراد جماعت کو توجہ نہیں ہوگی اس لئے بعد میںآنے والا خلیفہ بوجہ ناتجربہ کاری اور حالاتِ سلسلہ سے ناواقفیت کے بالکل بُدّھو ہوگا۔ یہ کسی کو کیا علم ہے کہ کون پہلے مرے گا اور کون بعد میں اور کس کے بعد کس نے خلیفہ ہونا ہے اس لئے یہ حکم شریعت نے دے دیا ہے کہ مشورہ ضرور لو تا جماعت کی تربیت ہوتی رہے اور جو بھی خلیفہ ہو وہ سیکھا سکھایا ہو اور نئے سرے سے اُس کو نہ سیکھنا پڑے۔ اس میں اور بھی بیسیوں حکمتیں ہیں مگر میںاِس وقت انہیں نہیں بیان کررہا ۔ مختصر یہ ہے کہ شوریٰ خداتعالیٰ کی طرف سے خاص حکمت کے ماتحت ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ۵؎گویا مشورہ والی انجمن کو قرآنی تائید حاصل ہے اور اس کا ذکر قرآن کریم میں کرکے اسے اہم قرار دے دیا ہے۔ گو قرآن کریم میں کارکنوں کا بھی ذکر ہے مگر شوریٰ کو ایک فضیلت دی گئی ہے اور جب جماعت کے مختلف افراد مل کر ایک مشورہ دیں اور خلیفہ اسے قبول کرلے تو وہ جماعت میں سب سے بڑی آواز ہے اور ہر خلیفہ کا فرض ہے کہ وہ دیکھے جس مشورہ کو اس نے قبول کیا ہے اس پر کارکن عمل کرتے ہیں یا نہیں اورکہ اس کی خلاف ورزی نہ ہو۔ یہ دو مختلف پہلو ہیں جنہیں نظر انداز کرنے کی وجہ سے دونوں فریق اعتراض کرتے ہیں۔ جب میں جماعت کے دوستوں کو ان کی غلطی کی وجہ سے سمجھاتا ہوں تو کہا جاتا ہے کہ ضمیر کی حریت کہاںگئی اورجب میں دیکھوں کہ ناظروں نے غلطی کی ہے اور اُن کو گرفت کروں تو بعض دفعہ اُن کو بھی شکوہ پیدا ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کام میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں مگر مجھ پر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا فرض ہے جسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کرسکتا اور دراصل خلافت کے معنی ہی یہ ہیں۔
دوسرا حصہ اس سوال کا یہ ہے کہ ناظروں پر تنقید خلیفہ کی تنقید کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مجھے اس کے تسلیم کرنے سے انکار ہے۔ اگر اسی مجلس شوریٰ کو لے لیا جائے تو جس حصہ پرمیں نے تنقید کی ہے اس پر میری تنقید سے پہلے بہت سی تنقید ہوچکی تھی اور میں نے جو تنقید کی وہ بعد میںتھی اور شوریٰ کے ممبر بہت سی تنقید پہلے کرچکے تھے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ ناظر تنقید سے گھبراتے کیوں ہیں؟ ان کا مقام وہ نہیں کہ تنقید سے بالا سمجھاجاتا ہو۔ ہر کارکن خلیفہ نہیں کہلاسکتا۔ میرے نزدیک اس بارہ میں جماعت اور ناظر دونوں پر ذمہ داری ہے ۔ جماعت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خیال رکھیں کہ ان میں سے جو لوگ سلسلہ کیلئے اپنی زندگیوں کو وقف کرکے بیٹھے ہوئے ہیں ان کا مناسب احترام کیا جائے اور ناظروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جماعت کی تنقید کو ایک مخلص بھائی کے مشورہ کے طور پر سُنیں کیونکہ ان کا مقام تنقید سے بالا نہیں ہے۔ پارلیمنٹوں میں تو وزراء کو جھاڑیں پڑتی ہیں جس کی حد نہیں مگر پھر بھی وزراء کے رُعب میں فرق نہیں آتا۔ یہاںتو میں روکنے والا ہوں، مگر وہاں کوئی روکنے والا نہیںہوتا۔ گالی گلوچ کوسپیکر روکتاہے ، سخت تنقید کو نہیں بلکہ اسے مُلک کی ترقی کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے پس اس تنقید سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ اگرتنقید کا کوئی پہلو غلط ہو تو ثابت کریں کہ وہ غلط ہے اور اگر وہ صحیح ہے تو بجائے گھبرانے کے اپنی اصلاح کریں۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا ثابت کرنا یا ردّ کرنا مشکل ہوتا ہے اور ان کی بنیاد ایسے باریک اصول پر ہوتی ہے کہ ان کی وجہ سے کوئی منطقی نتیجہ نکالنا قریباً ناممکن ہوتا ہے۔ مثلاً دو کمرے ایک سے ہوں اور یہ سوال ہو کہ ان میں سے کس میں بستر بچھانے چاہئیں اور کس کو بیٹھنے اُٹھنے کیلئے استعمال کرنا چاہئے تو یہ ایک ذَوقی سوال ہوگا لیکن دو شخص اگر اس پر بحث شروع کردیں کہ کیوں اس میں بستر بچھانا چاہئے اور دوسرے میں بیٹھنا اُٹھنا چاہئے تو یہ بحث خواہ مہینوں کرتے رہیںنتیجہ کچھ نہ ہوگا۔ تو اس قسم کی ذوقی باتوں کو چھوڑ کر باقی باتوں کو ثابت یا ردّ کیا جاسکتا ہے اوراگر اعتراض نامناسب رنگ میںہوگا تو یا تو وہ کسی معذور کی طرف سے ہوگا جو بوجہ بڑھاپے کے یا ناتجربہ کاری یا سادگی کے ایسا کرے گا اور اس صورت میں سب محسوس کرلیںگے کہ اس شخص کے الفاظ کی کوئی قیمت نہیں اور اس کو روکنا فضول ہوگا۔ ایسی بات پر صرف مسکرا کر یا استغفار کرکے گزرجانا ہی کافی ہوگا لیکن اگر ایسا نہ ہو تو مجلس شوریٰ کی رپورٹیں اِس پر گواہ ہیں کہ میں نے نامناسب رنگ میںاعتراض کرنے والوں کو ہمیشہ سختی سے روکا ہے اور جنہوں نے غلط تنقید کی ان کواس پر تنبیہہ کی ہے اور اگر آئندہ بھی ایسا ہوگا تو اِنْشَائَ اﷲُ روکوں گا۔ اگر ساری جماعت بھی غلط تنقید کرے گی تو اسے بھی روکوںگا اور خداتعالیٰ کے فضل سے ڈروں گا نہیں۔ اس قسم کا لحاظ میں نے کبھی نہیں کیا کہ غلط طریق اختیار کرنے پر کسی کو تنبیہہ نہ کروں۔ ہاںاِس وجہ سے چشم پوشی کرنا کہ کام کرنے والوںسے غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں، اَور بات ہے۔ ایسی چشم پوشی مَیں جماعت سے بھی کرتا ہوں اور کارکنوں سے بھی۔ ورنہ میں نہ جماعت سے ڈرتا ہوں اور نہ انجمن سے۔ اور جب بھی میں نے موقع دیکھا ہے جماعت کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلائی ہے اور انجمن کو بھی۔
اِس سوال کا تیسرا حصہ جو پہلے سے ملتا جلتا بھی ہے اور علیحدہ سوال بھی۔ وہ یہ ہے کہ تنقید ایسے رنگ میں کی جاتی ہے کہ جس سے ناظروں کی بے رُعبی ظاہر ہوتی ہے لیکن میںاس سے بھی متفق نہیں ہوں۔ جو لوگ خداتعالیٰ کے دین کے کام کیلئے کھڑے ہوں ان کی بے رُعبی نہیں ہو سکتی۔ جب تک جماعت میں اخلاص اور ایمان باقی ہے کوئی ان کی بے رُعبی نہیںکرسکتا۔ ان کے ہاتھ میں سلسلہ کا کام ہے۔ پس جو ان کی بے رُعبی کرے گا یہ سمجھ کر کرے گا کہ اس سے سلسلہ کی بے رُعبی ہوگی اور اس کیلئے کوئی مخلص مؤمن تیار نہیں ہوسکتا۔ ہاں بعض دفعہ بعض لوگ نادانی سے ایسا کرجاتے ہیں مثلاً اس دفعہ ہی سرگودھا کے ایک دوست نے نامناسب الفاظ استعمال کئے لیکن میں بھی اور دوسرے دوست بھی محسوس کررہے تھے کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ یہ باتیں نہیں کررہے۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ ان کی باتوں پر دوست بِالعموم مسکرارہے تھے اور سب یہ سمجھتے تھے کہ یہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں غلط کہہ رہے ہیں اور جوش میں انہیں اپنی زبان پر قابو نہیں رہا اور ظاہر ہے کہ ایسی بات کی تردید کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے۔ چنانچہ میں نے اس کی تردید نہ کی اور میں سمجھتا ہوں تردید نہ کرنے سے لوگوں نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ باتیں وزنی ہیں بلکہ غالب حصہ کو یہی یقین تھا کہ یہ تردید کے قابل ہی نہ تھیں۔ کیونکہ دوست خود اُن کی باتوں پر ہنس رہے تھے اور بعض کے ہنسنے کی آواز میں نے خود سُنی اور ہنسی کی وجہ یہ خیال تھا کہ انہوں نے کیا بے معنی نتیجہ نکالا ہے۔ اور جب جماعت پر ان کی بات کا اثر ہی نہ تھا اور سب سمجھ رہے تھے کہ یہ اپنی سادگی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے یہ باتیں کررہے ہیں تو ان کی تردید نہ کرنے سے نقصان کیا ہوسکتا تھا لیکن اس کے بِالمقابل اسی مجلس شوریٰ میں مَیں نے ایک مثال سنائی تھی کہ ایک انجمن نے جو کسی گائوں یا شہر کی انجمن نہ تھی بلکہ پراونشل انجمن تھی، مجھے لکھا کہ ہم نے صدر انجمن کو یہ بات لکھی ہے جو اگر اس نے نہ مانی تو اس کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے نہیں رہیں گے۔ میں نے انہیں لکھا کہ صدر انجمن جو کچھ کرتی ہے چونکہ وہ خلیفہ کے ماتحت ہے اس لئے خلیفہ بھی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے اور جب آپ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ کی بات نہ مانی گئی تو صدرانجمن کے ساتھ آپ کے تعلقات اچھے نہ رہ سکیںگے تو ساتھ ہی آپ نے یہ بھی سوچ لیا ہوگا کہ خلیفہ کے ساتھ بھی آپ کے تعلقات اچھے نہ رہیں گے اور اس صورت میں آپ کو نئی جماعت ہی بنانی پڑے گی، اِس جماعت میں آپ نہیںرہ سکیں گے۔ تو کیا کوئی سمجھ سکتا ہے کہ اس بات کے سننے کے بعد بھی کسی احمدی کے دل میں ناظروں کا رُعب مٹ سکتا ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ شوریٰ کے ممبروں نے ناظروں کے کام پر تنقید کو تو سُن لیا مگر یہ بات انہوں نے نہ سُنی ہوگی اور یہ بات جو میںنے ایک دو آدمیوں کو نہیں بلکہ ایک صوبہ کی انجمن کو لکھی تھی اس کے سننے کے بعد کس طرح ممکن ہے کہ ناظروں کا رُعب مٹ جائے۔
اس میں شُبہ نہیں کہ اس شوریٰ میں جرح زیادہ ہوئی ہے ۔ مگر ناظروں کو بھی ٹھنڈے دل کے ساتھ یہ سوچنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہؤا۔ ایسا اس وجہ سے نہیں ہؤا کہ میں نے بھی ان پر تنقید کی تھی۔ جب وہ چھپے گی تو ہر شخص دیکھ سکے گا کہ شوریٰ کے ممبروں نے جو جرح کی وہ میری تنقید کے نتیجہ میںنہ تھی اور حق بات یہ ہے کہ جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور جس کا مجھے شدید احساس ہے کہ ناظر شوریٰ کے فیصلوں پر پوری طرح عمل نہیں کرتے اور واقعات اس بات کو پوری طرح ثابت کرتے ہیں کہ وہ ان پر خاموشی سے گزرجاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کیا جاتا ہے کہ سال کے آخر پر ناظر اعلیٰ دوسری نظارتوں سے پوچھ لیتا ہے کہ ان فیصلوں کا کیا حال ہؤا۔ اور پھر یا تو یہ کہہ دیتا ہے کہ کوئی جواب نہیں ملا اور یا یہ کہ کوئی عمل نہیں ہؤا۔ میںیہ بھی مان لیتا ہوں کہ بعض فیصلے ناظروں کے نزدیک ناقابلِ عمل ہوتے ہیں مگر ایسے فیصلوں کو قانونی طور پر بدلوانا چاہئے۔ وہ ایسے فیصلوں کو میرے سامنے پیش کرکے مجھ سے بدلواسکتے ہیں۔ وہ میرے سامنے پیش کردیں میں اگر چاہوں تو دوسری شوریٰ بُلوالوں یا چاہوںتو خود ان فیصلوں کو ردّ کردوں۔ اور پھر اگر دوسری شوریٰ میںان پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ان پر اعتراض ہو تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ فیصلہ ردّ ہوچکا ہے۔ لیکن اگر وہ فیصلہ جُوں کا تُوں قائم رہے اور پھر وہ اس پر عمل نہ کریں تو جماعت کے اندر بے انتظامی اور خودرائی کی ایسی روح پیدا ہوتی ہے جس کی موجودگی میں ہرگز کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ اگر شوریٰ میں ایک فیصلہ ہوتا ہے تو ان کا فرض ہے کہ اس پر عمل کریں اور اگر وہ اس کوقابل عمل نہیں سمجھتے تو اس کو منسوخ کرائیں لیکن ایسے فیصلوں کی ایک کافی تعداد ہے جن پر کوئی عمل نہیں کیا جاتا۔ مثلاً اسی شوریٰ میںایک سوال پیدا ہؤا تھا جس سے جماعت میں جوش پیدا ہؤا۔ ۱۹۳۰ء کی شوریٰ میں فیصلہ ہؤا تھا کہ سلسلہ کے اموال پر وظائف کا جو بوجھ ہے اسے ہلکا کرنا چاہئے۔ یہ تو صحیح ہے کہ جس احمدی کے پاس روپیہ نہ ہو وہ مستحق ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے انجمن سے مدد مانگے اور اگر انجمن کے پاس ہو تو اس کا فرض ہے کہ مدد کرے مگر اس طرح مدد لینے والے کا یہ بھی فرض ہے کہ جب وہ مالدار ہوجائے تو پھر اسے ادا کرے۔ ۱۹۳۰ء کی شوریٰ میں یہ فیصلہ ہؤا تھا کہ آئندہ پانچ سال میں گزشتہ تعلیمی وظائف کی رقوم وصول کی جائیں اور پھر آئندہ اسی رقم میں سے وظائف دیئے جائیں، عام آمد سے امداد نہ کی جائے اور اس کیلئے ناظربیت المال کو ذمہ دار مقرر کیا گیا تھا۔ یہ پانچ سال ۱۹۳۵ء میں پورے ہوتے تھے اور ۱۹۳۵ء کے بعد وظائف اسی وصول شدہ رقم میں سے دیئے جانے چاہئیں تھے لیکن تین سال ہوچکے ہیں مگر وظائف برابر خزانہ سے ادا کئے جارہے ہیں۔ شوریٰ کے ممبروں میں سے ایک کو یہ بات یاد آئی اور اُس نے اعتراض کردیا کہ جب یہ فیصلہ ہؤا تھا تو اس پر کیا کارروائی کی گئی اور اب وظائف گزشتہ وظائف کی وصول شدہ رقم میں سے دیئے جاتے ہیں یا سلسلہ کے خزانہ پر ہی بوجھ ہے اور اگر ایسا ہے تو کیوں؟ اب ظاہر ہے کہ اگر اس تنقید کا دروازہ بند کردیا جائے تو سلسلہ کیوں تباہ نہ ہوگا اور اسے ناظروں کی بے رُعبیکے ڈر سے کیونکر روکا جاسکتا ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی ناظر نماز نہ پڑے اور ہم اسے کہیں تو کہا جائے کہ اس بات سے ناظروں کی بے رُعبیہوتی ہے لیکن میںکہوںگا کہ اس کے نہ کہنے سے سلسلہ کی بے رُعبی ہوتی ہے۔ پس یہ اعتراض روکا نہیں جاسکتا تھا اور اس کیلئے جواب دینا ضروری تھا۔
عام پارلیمنٹوں میں یہ قاعدہ ہے کہ وزراء بعض دفعہ کوئی ٹلاواں جواب دے دیتے ہیں تا اس پر مزید جرح نہ ہوسکے اور بات مخفی رہے لیکن یہاں یہ نہیںہوسکتا۔ بحیثیت خلیفہ میرا فرض ہے کہ صحیح جواب دلوائوں۔ پہلے اس سوال کے ایسے جواب دیئے گئے جو ٹالنے والے تھے مگر آخر اصل جواب دینا پڑا کہ اس فیصلہ پر عمل نہیں کیا گیا۔ اب اگر اس میں نظارتوں کی بے رُعبیہوئی تو اس کی ذمہ دار نظارت ہے۔ اگر اس قسم کی تنقید کو روک دیا جائے تو سلسلہ کا نظام ایسا گرجائے گا کہ اس کی کوئی قیمت نہ رہے گی۔
اس میں شک نہیں کہ بعض دفعہ شوریٰ بھی غلط فیصلے دیتی ہے۔ مثلاًاسی سال کی مجلس شوریٰ میں پہلے ایک مشورہ دیا گیا اور پھر اس کے خلاف دوسرا مشورہ دیا گیا جس کی طرف مجھے توجہ دلانی پڑی۔ تو ایسی غلطیاںمجلس شوریٰ بھی کرسکتی ہے، انجمن بھی کرسکتی ہے اور خلیفہ بھی کرسکتا ہے بلکہ بشریت سے تعلق رکھنے والے دائرہ کے اندر انبیاء بھی کرسکتے ہیں۔ جو بالکل غلطی نہیں کرسکتا وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر اس کے یہ معنی نہیںکہ شوریٰ کو تنقید کا جو حق ہے وہ ماردیا جائے۔ گو شوریٰ غلطی کرسکتی ہے مگر اس سے اس کا حق باطل نہیں کیا جاسکتا۔ اور ناظر بھی غلطی کرسکتے ہیں مگر ان کے دائرہ عمل میں ان کے ماتحتوں کا فرض ہے کہ ان کی اطاعت کریں۔ ہاں جو امور شریعت کے خلاف ہوں ان میں اطاعت نہیں ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ایک صحابی کو ایک چھوٹے سے لشکر کا سردار بنا کر بھیجا۔ راستہ میں انہوں نے کوئی بات کہی جس پر بعض صحابہ نے عمل نہ کیا ، اس پر وہ ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ مجھے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تم لوگوں پر امیر مقرر کیا ہے اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہؤا ہے کہ جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور جب میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا قائمقام ہوں تو تم نے میری نافرمانی کیوں کی؟ اس پر صحابہ نے کہا کہ ہم آپ کی اطاعت کریں گے۔ انہوں نے کہا اچھا میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ اطاعت کرتے ہو یا نہیں۔ چنانچہ انہوں نے آگ جلانے کا حکم دیا اور جب آگ جلنے لگی تو صحابہ سے کہا کہ اس میں کُود پڑو۔ بعض تو آمادہ ہوگئے مگر دوسروں نے اُن کو روکا اور کہا کہ اطاعت امورِ شرعی میں ہے ان کو تو شریعت کی واقفیت نہیں اس طرح آگ میں کُود کر جان دینا ناجائز ہے اور خداتعالیٰ کاحکم ہے کہ خودکشی نہیں کرنی چاہئے۔ جب یہ امر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہؤا تو آپ نے اس میں اُن لوگوں کی تائید کی جنہوں نے کہا تھا کہ آگ میں کُودنا جائز نہیں۔۶؎
پس میں جو کہتا ہوں کہ ناظر کے دائرہ عمل میں اس کی اطاعت کرنی چاہئے تو اس کا یہ مطلب نہیںکہ اگر کوئی ناظر کسی سے کہے کہ جھوٹ بولو تو اسے بولنا چاہئے۔ نظارت کے شعبہ میں جھوٹ بُلوانا شامل نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی ناظر کہے کہ کسی کو قتل کردو تو اس میں اس کی اطاعت جائز نہیں۔ اطاعت صرف شریعت کے محدود دائرہ میںضروری ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ غلطی ہر شخص کرسکتا ہے ممکن ہے کسی فیصلہ میں ناظر بھی غلطی کرے لیکن اس دائرہ میں اس کی غلطی کو بھی ماننا پڑے گا۔
پس خلیفہ کا فیصلہ مجلسِ شوریٰ اور نظارت کیلئے ماننا ضروری ہے۔ اسی طرح شوریٰ کے مشورہ کو سوائے استثنائی صورتوں کے تسلیم کرنا خلیفۂ وقت کیلئے ضروری ہے اور جس مشورہ کو خلیفۂ وقت نے بھی قبول کیا اور جسے شرعی احکام کے ماتحت عام حالتوں میں خلیفہ کو بھی قبول کرنا چاہئے یقینا نظارت اس کی پابند ہے خواہ وہ غلط ہی ہو۔ ہاں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کسی فیصلہ کی موجودگی میں وہ کام کو نہیں چلاسکتے تو ان کو چاہئے کہ اسے پیش کرکے وقت پرمنسوخ کرالیں لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ ہر شوریٰ میں کچھ نہ کچھ شور ضرور اُٹھتا ہے کہ فلاں فیصلہ پرعمل نہیں ہؤا، فلاں قانون کو نظرانداز کردیا گیا ہے، پھر ایسی باتوں پر کس طرح پردہ پڑ سکتا ہے۔ اور جب ایک نقص ظاہر ہو تومیرا فرض ہے کہ میں نظارت کو اس نقص کے دور کرنے کی طرف توجہ دلائوں کیونکہ میں صدرانجمن احمدیہ کا رہنما ہونے کی حیثیت میں خود بھی اس خلاف ورزی کا گو قانونی طور پر نہیں مگر اخلاقی طور پر ذمہ دار ہوجاتا ہوں۔ پس میرا فرض ہے کہ غلطی پر اس کی اصلاح کی طرف توجہ دلائوں۔
غرض ناظروں کا یہ فرض ہے کہ شوریٰ کے فیصلوں کی پابندی کریں یا پھر ان کو بدلوالیں لیکن جب تک وہ فیصلہ قائم ہے ناظروں کا اس پر عمل کرنا ویسا ہی ضروری ہے جیسا ان کے ماتحت کلرکوں اور دوسرے کارکنوں کا ان کے احکام پر۔ اگر ناظر اس طرح کریں تو بہت سے جھگڑے مٹ جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ صدر انجمن احمدیہ کا فرض ہونا چاہئے کہ ہر شوریٰ کے معاً بعد ایک میٹنگ کرکے دیکھے کہ کونسا فیصلہ کس نظارت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور پھر اسے ناظر متعلقہ کے سپرد کرے کہ اِس پر عمل ہو اور وقت مقرر کردیا جائے کہ اس کے اندر اندر اس فیصلہ کی تعمیل پوری طرح ہوجائے اور پھر اس مقررہ وقت پر دوسری میٹنگ کرکے دیکھے کہ عمل ہؤا ہے یا نہیں۔ اس طرح تنقید کا سلسلہ خودبخود بند ہوجائے گا اور اگر کوئی نمائندہ غلط تنقید کرے تو میرا فرض ہے کہ اسے روکوں۔ پھر بعض اوقات ناظر صحیح جواب پیش نہیں کرتے۔ اب کے ایک اعتراض بجٹ کے بروقت تیار نہ ہونے پر تھا۔ اس کا جواب صاف تھا جو آخر خانصاحب فرزند علی صاحب نے اشارۃً دیا مگر جب اس کے غلط جواب دیئے جارہے تھے تو میں چوہدری سر ظفراللہ خانصاحب سے کہہ رہا تھا کہ یہ صحیح جواب کیوں نہیں دیتے اس تأخیر کیلئے ذمہ وار تو میں ہوں۔ میں نے جب بجٹ کا بہت سا کام ہوچکا تھا یہ ہدایت بھجوائی تھی کہ اِس اِس طرح تخفیف کرکے بجٹ پھر تیار کیا جائے اور اس لئے تأخیر کی ذمہ داری کو قبول کرنے کیلئے مَیں تیار تھا۔ خانصاحب نے اسے بیان تو کیا مگر اشارۃً ہی۔ آخر میں نے بِالوضاحت یہ کہا کہ اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور نظارت کیلئے تو یہ امر قابلِ تعریف ہے کہ جب میں نے بڑھتے ہوئے اخراجات کو دیکھ کر اسے نئے سرے سے بجٹ تیار کرنے کو کہا تو اس نے دوبارہ محنت کی۔ ایسے حالات میں صحیح جواب اگر دے دیا جائے تو بھی تنقید کا دروازہ بند ہوجاتا ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ شوریٰ کے فیصلوں کی ناظر پوری طرح پابندی کریں۔ اگر کوئی رکاوٹ دیکھیں تو میرے سامنے پیش کریں۔ اگرمیں اسے منسوخ کردوںتو ان کی ذمہ داری ختم ہوجائے گی اور اگر اس کیلئے دوسری شوریٰ بُلوائوں تو بھی ان کی ذمہ داری ختم سمجھی جائے گی لیکن اگر ان صورتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو تو ان کا فرض ہے کہ جس طرح بھی ہوسکے عمل کریں۔ میںنے وظائف کے متعلق فیصلہ کی جو مثال دی ہے اس میں کوئی ایسا کام نہیں تھا جو کیا نہ جاسکتا ہو۔ ۱۹۳۵ء میں ناظر بیتُ المال کا فرض تھا کہ صورتِ حالات مجلسِ شوریٰ کے پیش کردیتے اور جتنی رقم جمع ہوتی اُس کے متعلق کہہ دیتے کہ اتنی رقم ہے صرف اسی میں سے وظائف دیئے جائیں یا خزانہ میں سے مدد لی جائے؟ یہ اتنا معمولی کام تھا کہ جس میں کسی محنت کی ضرورت نہ تھی۔ نہ کلرکوں کی اور نہ نائب ناظر کی امداد درکار تھی۔ میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ وظائف کے معاملہ میں شوریٰ کا رُحجان بند کرنے کی طرف نہیں ہوتا۔ جماعت کے دوست چونکہ عام طور پر غریب ہیں اس لئے کسی کا دوست ، کسی کا رشتہ دار ، کسی کا گائوں یا شہر اورکسی کا ضلع فائدہ اُٹھارہا ہوتا ہے اس لئے وہ ضرور یہی مشورہ دیتے کہ وظائف بند نہ کئے جائیں اور مزید روپیہ ان کیلئے منظور کردیا جاتا اور پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر جماعت کو علم ہوجاتا ہے کہ وصولی کم ہوئی ہے تو وہ ہوشیار ہوجاتی اور نادہندوں کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کرنے کامشورہ دیتی۔ بہرحال جو بھی ہوتا قانون کے مطابق ہوتا اور اس کیلئے کسی محنت کی ضرورت نہ تھی۔ صرف ایک دو منٹ میں معاملہ پیش ہی کردینا تھا کہ اتنا روپیہ وصول ہؤا ہے اور اتنے وظائف ہیں۔ اسی رقم سے وظائف دیئے جائیں یا مزید روپیہ خزانہ سے لیا جائے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے چونکہ ممبروں کا میلان وظائف جاری رکھنے کی طرف ہی ہوتا ہے اگر وہ اس طرح کرتے تو پھر بھی ہونا وہی تھا جو اَب ہؤا ہے مگر وہ جائز ہوتا اور یہ ناجائز ہے اور اس طرح مسلسل قانون ٹوٹتا رہا ہے۔ وظائف کو اُڑانے کا سوال جب بھی پیدا ہؤا ہے ننانوے فیصدی ممبروں نے یہی مشورہ دیا ہے کہ ہم مزید بوجھ اُٹھالیں گے مگر ان کو بند نہ کیا جائے۔ تو اس صورت میں بھی ہونا تو وہی تھا جو اَب ہؤا ۔ مگر اعتراض کی صورت نہ رہتی اور شوریٰ کے فیصلہ پر عمل ہوجاتا۔ اور جب شوریٰ انجمن کی حاکم ہے تو ناظروں کا فرض ہے کہ اس کی اطاعت کریں اور اس کے فیصلوں پر عمل کریں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ اس قسم کی تنقید سے جماعت کے کام میں رُوک پیدا ہوتی ہے مگر میں اس سے بھی متفق نہیں ہوں کیونکہ میں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتا ہوں کہ تنقید نامناسب رنگ میں نہ ہو اور اس قسم کی تنقید کرنے والوں کو میں سختی سے روکتا ہوں۔ مثلاً فیروزپور کے دو بھائی پہلے بہت تنقید کیا کرتے تھے مگر میں نے اُن کو سختی سے روکا اور اب میںنے دیکھا ہے کہ انہوں نے بہت اصلاح کرلی ہے اور بھی بعض لوگ سخت تنقید کیا کرتے تھے مگر میرے سختی سے روکنے کا یہ اثر ہے کہ اب اعتراضات بہت سلجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس سال کی شوریٰ میں ایک مثال ایسی ہے جو نامناسب تنقید کہلاسکتی ہے۔ مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے عام طور پر دوستوں نے اُسے ہنسی میں ٹال دیا اور تردید کے قابل نہیں سمجھا۔ یہ صاحب ایک لمبے عرصہ تک قادیان نہیں آئے جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ریل میں نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ شاید ایک دفعہ کوئی ٹکر ہوگئی تھی یا کیا ہؤا کہ انہوں نے ریل میں سوار ہونا ترک کردیا اور اِس وجہ سے کبھی قادیان بھی نہ آئے۔ اب دو تین سال سے وہ آنے لگے ہیں اوراب ان کے بڑھاپے کی عمر ہے پہلے چونکہ وہ آتے نہیں رہے اس لئے شوریٰ کی روایات سے انہیں پوری طرح واقفیت نہیں اس لئے وہ کسی وقت کوئی ایسی بات کردیتے ہیں جو شوریٰ کے قواعد کے خلاف ہوتی ہے۔ اِس امر کو سب دوست جانتے ہیں اس دفعہ نظارت کے متعلق بعض نامناسب الفاظ انہوں نے ہی کہے تھے اور میرا یہ اثر ہے کہ جماعت پر ان الفاظ کا کوئی اثر نہ تھا۔
۲۔ جماعت احمدیہ اور بعض حکام کے تعلقات
اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ سال جو واقعہ ہمارے ایک نوجوان کی نادانی سے سلسلہ کی تعلیمات کے صریح خلاف اور میرے متعدد خطبات اور تقریروں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ہوگیا تھا یعنی اس نے ایک شخص پر جو جماعت سے خارج ہوچکا تھا حملہ کردیا جس کے نتیجہ میں وہ مرگیا۔ اس کے ازالہ کیلئے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ اس کا کفارہ ادا کیا جائے اور وہ یہ کہ اب اگر ہم پر سختی بھی ہو تو ہم اسے ایک عرصہ تک خاموشی کے ساتھ برداشت کرتے جائیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اُس زمانہ میں اُس ضلع کے جو ڈپٹی کمشنر تھے اُن کو ہماری وجہ سے بہت شرمندگی اُٹھانی پڑی۔ وہ گورنمنٹ کو ہمیشہ یہ یقین دلاتے تھے کہ اس جماعت کی طرف سے کوئی اندیشہ قانون کو ہاتھ میں لینے کا نہیں ہوسکتا اور کہ میںاس بات کا ذمہ دار ہوں۔اور جب ہمارے ایک نوجوان نے اِس طرح غلطی کی تو اُن کو جو دکھ ہوسکتا تھا وہ ظاہر ہے اور اس لئے میں نے سمجھا کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم قربانی کرکے اُن کے اِس دکھ کو دور کردیں۔ چنانچہ بعض دفعہ جماعت کے حقوق تلف کئے جاتے رہے اور میںہمیشہ جماعت سے یہی کہتا رہا کہ اپنا حق جانے دو اس لئے کہ ہم میں سے ایک شخص نے ایک ایسی غلطی کی ہے جس کا کفارہ ضروری ہے۔ غلطی خواہ جماعت کا ایک فرد ہی کرے اس میں شک نہیں کہ ہم اس کے بداثر سے باہر نہیں رہ سکتے۔ یہ صحیح ہے کہ شرعی اور اخلاقی طور پر ہم اس کے ذمہ دار نہیں لیکن اس کا بُرا اثر ہم پر ضرور پڑے گا۔ کسی کا بیٹا بدمعاش ہو تو خداتعالیٰ کے حضور یا قانون کے نزدیک اس پر ذمہ داری نہیں لیکن بدنامی سے حصہ اسے ضرور ملے گا گو اس کے تعلق سے وہ کتنا ہی بری الذمہ کیوں نہ ہو۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس حرکت کے خلاف ہم نے انتہائی نفرت کااظہار کیا اورکرتے ہیں مگر باوجود اس کے بدنامی سے نہیں بچ سکتے اور اگر خدانخواستہ ہم میںسے پھر کوئی ایسی حرکت کرے گا تو اس کی بدنامی سے بھی سلسلہ کی بدنامی ضرور ہوگی۔ چاہے ہم لوگوں کو کتنا ہی یقین کیوں نہ دلائیں کہ ہم نے یہ کہا تھا اور وہ کہا تھا یہ گویا ایک جماعتی ورثہ ہوتا ہے جو ضرور مل کر رہتا ہے۔ ایک خاندان اگر نیک نام ہو تو اس کے کسی بدمعاش فرد پر بھی لوگ اعتبار کرلیتے ہیں لیکن اگر کوئی خاندان بدمعاش ہو تو اُس کے نیک فرد کا بھی کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ جب بدنامی آتی ہے تو جماعت کو بھی اس سے حصہ ملتا ہے جس طرح نیک نامی سے ملتا ہے۔ اس خیال کے ماتحت میں نے یہ رویہ اختیار کیا اور جماعت کو یہی مشورہ دیا کہ گورنمنٹ کی طرف سے اِن دنوں ہمارے ساتھ جو ناانصافیاں کی جائیں ان کو برداشت کرو اور اس طرح وہ موقع آنے دو جب ہماری مظلومیت بالکل واضح ہوجائے۔ اگر حکومت میرے اس طریق کی قدروقیمت کو سمجھتی تو بہت زیادہ امن قائم ہوجاتا کیونکہ میں نے اپنا رستہ چھوڑ کر اُس کی بات کو ماننے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا اور یہ اس لئے کیا تھا کہ ہمیں اس غلطی کا خمیازہ بھُگتنا چاہئے جو ہمارے ایک فرد سے ہوئی ہے۔ کانگرسیوں کی غلطی کی وجہ سے گاندھی جی چودہ روز کا بَرت رکھتے ہیں مگر ہم نے نو ماہ سے زیادہ عرصہ تک یہ بَرت رکھا ہے اور اتنا لمبا عرصہ تک ان تمام الزامات کو سُنا اور برداشت کیاہے جو ہم پر لگائے جاتے تھے لیکن بجائے اس کے کہ گورنمنٹ اس کی قدروقیمت کو سمجھتی اوراس کے مقابلہ میں ہمارے ساتھ صحیح تعاون کیلئے تیار ہوتی مجلسِ شوریٰ کے ایام میں بعض ایسے واقعات ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ نے ہماری اِس خاموشی اور برداشت کو بُزدلی پر محمول کیا ہے حالانکہ مؤمن کبھی بُزدل نہیں ہوتا۔ معمولی افسروں کی تو بات ہی جانے دو مجھے گورنر ان کونسل نے ایک ایسی چِٹھی لکھی تھی جو سراسر ناجائز تھی اور میں نے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ یہ بالکل ناجائز ہے۔ میں اس کی اطاعت تو کروں گا مگر حکومت کو اس کا بدلہ ضرور بھُگتنا پڑے گا۔ پس نہ تو میں بُزدل ہوں اورنہ جماعت کو بُزدل بنانا چاہتا ہوں۔ بلکہ صاف الفاظ میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ بزدل کا یہاں کام نہیں وہ ہمیں چھوڑ کر چلا جائے۔ ہمارے ساتھ وہی رہ سکتا ہے جو ہر وقت جان و مال کی قربانی کیلئے تیار ہو۔ یہ دین کا معاملہ ہے اور اس میں تمہیں اپنی جان کی قیمت اتنی بھی نہیں سمجھنی چاہئے جتنی ایک امیر آدمی کے نزدیک اُس کے پھٹے ہوئے کوٹ کی ہوسکتی ہے۔ اگرکوٹ لینے والا کوئی غریب اسے نہیں ملتا تو بھی وہ اسے گھر سے نکال کر باہر پھینک دیتا ہے تا اس کے گھر میں تو گند نہ رہے۔ پس مؤمن کو اپنی جان کی قیمت اتنی بھی نہیں سمجھنی چاہئے اور اگر خداتعالیٰ کے دین کیلئے اسے قربان کرنا پڑے تو ذرّہ بھر پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ اب بھی میرا ارادہ نہیں کہ کوئی ایسا طریق اختیار کیا جائے جو حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا موجب ہو لیکن میں اس کیلئے بھی تیار نہیں ہوں کہ حکومت کو ایسے طریق اختیار کرنے دوں جن سے جماعت کی ہتک اور ذلّت ہوتی ہے۔
میںنے دیکھا ہے کہ حکومت کے بعض افسر متواتر ہمارے خلاف ایسی کارروائیاں کررہے ہیں جو سراسر ناجائز ہیں۔ ہم ان کے بالا افسروں کو اس طرف توجہ دلاتے ہیںتو وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں اور کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ پولیس کے بعض آدمی ہمارے خلاف مسلسل اور متواتر جھوٹی رپورٹیں کرتے رہتے ہیں اور انہیں کوئی سزا نہیں دی جاتی اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت نے باعزت زندگی بسر کرنی ہے اور احمدیت کے جھنڈے کو بے داغ رکھنا ہے تو وہ اس ذلّت کو برداشت نہیں کرے گی۔ بے شک میں نے اعلان کیا ہؤا ہے اور ہماری تعلیم یہی ہے کہ ہم حکومت کے وفادار رہیں گے اور قانون شکنی نہیں کریں گے لیکن ایسے ذرائع ہیں کہ جن سے قانون کے اندر رہتے ہوئے بھی ہم اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتے ہیں اور ایسی بیسیوں تدابیر ہیں کہ قانون کی پوری پوری پابندی کرتے ہوئے بھی ہم ظالم حاکموں کے ظلم کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ پس میں جماعت کے نوجوانوں او ربوڑھوں اور مردوں اور عورتوں سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ سلسلہ کی عزت اور احترام کیلئے انہیں ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ ان کا حق ہے کہ مجھ سے مطالبہ کریں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حق ہے، رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا حق ہے، خداتعالیٰ کا حق ہے کہ مجھ سے مطالبہ کرے بلکہ میں کہوں گا کہ انسانیت کا بھی حق ہے کہ مجھ سے مطالبہ کرے کہ تم کو تو حکومت کے قوانین کی پابندی اور اس کی فرمانبرداری کاحکم تھا پھرتم نے کیوں اِس پر عمل نہ کیا۔ جماعت کی عزت کی حفاظت کیلئے میں جو کچھ کروں وہ جائز ہے اور اس کیلئے جس قسم کی قربانی کا میں مطالبہ کروں سلسلہ کے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ اسے پورا کرے اور جو اس سے دریغ کرے وہ ہرگز احمدی نہیں رہ سکتا۔
میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ تم میں سے بہت ایسے ہیںکہ جب انہیں کوئی شخص گالی دے تو وہ بھی جواب میں اسے گالی دیتے ہیں گویا ان کے نزدیک ان کے نفس کی عزت اتنی ہے کہ وہ معمولی ہتک کو بھی برداشت نہیں کرسکتے لیکن جب سلسلہ کی قربانی کا سوال پیش ہو تو وہ لوگ گھر میں بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ اپنے نفس کی خاطر تو ہر قسم کی جانی، مالی اور عزت و عظمت کی قربانی کیلئے تیار ہوجاتے ہیں لیکن سلسلہ کی عظمت کو قائم کرنے کا سوال اگر پیدا ہو تو کیوں اُن کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہونے لگتا ہے کہ یہ بڑی قربانی ہے۔ یاد رکھو خلافت قائم ہی ا س لئے ہوتی ہے کہ جماعت سے قربانیاں کرائی جائیں ورنہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ تو ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر بغیر خلافت کے بھی ادا کرسکتا ہے۔ خلافت کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ جب سلسلہ کیلئے مجموعی قربانی کا وقت آئے تو وہ کرائی جاسکے اور دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک یہ آواز بلندہوجائے اور ہر طرف سے یہ جواب آئے کہ ہم تیار ہیں۔اس کیلئے خواہ وطن چھوڑنے پڑیںاورخواہ جائیدادوں سے ہاتھ دھونا پڑے، مال قربان کرنا پڑے یا جان، کسی سے دریغ نہ کیا جائے۔
مَیںنے حکام کو ہمیشہ توجہ دلائی ہے کہ یہ یک طرفہ تعاون درست نہیں۔ اگر وہ ہم سے تعاون کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ہمارے احساسات کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ بے شک ہم تھوڑے ہیں لیکن اگر تھوڑوں کی حفاظت نہ کی جائے تو حکومتوں کا فائدہ ہی کیا ہے اور ان کی ضرورت کیا ہے۔ حکومتیں تو قائم ہی اس لئے ہوتی ہیں کہ تھوڑوں کی حفاظت کریں۔ بعض نادان افسر کہہ دیتے ہیں کہ تمہیں قادیان میں اکثریت حاصل ہے اس لئے ہم یہاں اقلیت کی حفاظت کرتے ہیں حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ اکثریت یا اقلیت کیلئے کبھی ایک ہی گائوں کو نہیںلیا جاتا بلکہ علاقہ کو دیکھا جاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر اِس تھانہ کو لیا جائے توہماری اکثریت ہے یا اقلیت؟ تھانہ کی آبادی دو لاکھ ہوگی جن میں احمدی صرف بارہ تیرہ ہزارہوںگے اور یہ نہایت کمزور اقلیت ہے چہ جائیکہ اسے اکثریت ظاہر کیا جائے۔ اکثریت یا اقلیت ہمیشہ علاقہ کے لحاظ سے ہوتی ہے گائوں کی کیا ہستی ہوتی ہے کہ اس سے اقلیت یا اکثریت کااندازہ کیا جائے۔ مگر افسوس ہے کہ بعض افسر ہمارے ساتھ یہ کہہ کر ناانصافی کرتے ہیں کہ تم اکثریت میں ہو لیکن اب ہم اس بات کوبرداشت نہیں کریں گے۔ میں وہ شخص ہوں جس نے کم سے کم تیس سال تک حکومت سے تعاون کیا ہے اور اس کیلئے ہرقسم کی ذاتی اور خاندانی اور جماعتی قربانیاں کی ہیں اور اس لئے مَیں کب یہ بات پسند کرسکتا ہوں کہ خواہ مخواہ حکومت سے لڑائی چِھڑ جائے لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ جس حکومت کی نظر اتنی کوتاہ اور کان اتنے بہرے ہوں کہ وہ کسی کی سالہا سال کی قربانیوں کو محض کسی اکثریت کو خوش کرنے کیلئے قربان کردے تو وہ بھی اِس بات کی حقدار نہیں کہ اس سے اس رنگ میںتعاون کیاجائے جس رنگ میں مَیں پہلے کرتا چلا آیا ہوں۔ تاہم چونکہ ہماری مذہبی تعلیم ہے کہ قانون شکنی نہ کرو اور قانونی حدود میں حکومت کے وفادار رہو، ہم اِس حد تک وفادار رہیں گے۔ لیکن میں جماعت کے دوستوںسے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنے دلوں میں اس بات کا فیصلہ کرلیں کہ اگر سلسلہ کی تذلیل کا یہ سلسلہ جاری رہا اور حکام بالا نے بھی اسے روکنے کی طرف توجہ نہ کی تو وہ اسے بند کرانے کیلئے جس قسم کی قربانیوں کا ان سے مطالبہ ہوگا ان کیلئے تیار رہیں گے۔ ہم پہلے ضلع کے حکام کو متوجہ کریں گے اور اگر وہ نہ مانے تو پھر حکامِ بالا کو توجہ دلائیں گے اور اگر انہوں نے بھی توجہ نہ کی تو قانون کے اندر رہتے ہوئے ہمیں جو ذرائع بھی اختیار کرنے پڑیں گے، کریں گے اور جو قربانیاں بھی ضروری ہوں گی اُن سے منہ نہ موڑیں گے۔ میں ہر احمدی سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس سے دریغ نہ کرے گا لیکن اگر کوئی میرے ساتھ شامل نہ ہو تب بھی میں چونکہ خداتعالیٰ کے سامنے سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں اس لئے میں خداتعالیٰ سے کہہ دوں گا اے میرے رب! میری اپنی جان حاضر ہے اور اسے تُو جس جگہ اور جس طرح چاہے سلسلہ کی عزت کی حفاظت کیلئے قربان کرنے کو تیار ہوں۔
اس کے علاوہ میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی طبیعتوں میں سے غصہ کو دور کرو اور مظلوم بنو۔ کسی کے ساتھ خواہ وہ کتنا کمزور سے کمزور کیوں نہ ہو، ظلم نہ کرو۔ اور یاد رکھو کہ کمزور کا مقابلہ کرنا بہادری نہیں۔ ہمارا مطالبہ حکومت سے ہے ورنہ افراد کے لحاظ سے تم قادیان کو اتنا امن والا مقام بنادو کہ یہاں ذلیل سے ذلیل آدمی بھی اپنے آپ کو معزز ترین وجود سمجھے اور اپنے آپ کو ہر لحاظ سے محفوظ محسوس کرے۔ کسی کی گالیوں سے غصہ میں نہ آئو، کوئی خواہ تمہارا کتنا نقصان کردے، خواہ تمہیں مارے مگر اسے برداشت کرو لیکن حکومت طاقتور ہے اس سے اس قسم کا سلوک برداشت نہ کرو۔ شریف آدمی وہ ہے جو اپنے تابع کی بے انصافی کو تو برداشت کرلیتا ہے مگر جو غالب ہو اُس سے اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہے۔ پس میں جہاں جماعت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اپنے نفسوں کو قربانیوںکیلئے تیار کرو وہاں یہ بھی کہتا ہوں کہ یہ مت سمجھو کہ تم تھوڑے ہو کیونکہ جو خداتعالیٰ کیلئے کھڑا ہووہ اکیلا بھی بہت ہوتا ہے۔ مجھے معلوم نہیں یہ واقعہ صحیح ہے یانہیں مگر تاریخی لحاظ سے گو صحیح نہ ہو لیکن واقعات کے لحاظ سے ضرور صحیح ہے۔ کہتے ہیںکہ نمرود بڑابادشاہ تھا مگر اُس کی ناک میں مچھر گھس گیا اور اندرگھر بنالیا اور اس سے اُس کی موت واقع ہوگئی۔ اس کے سر میں کھجلی ہوتی اور جُوتیاں مارتے تھے تو آرام ہوتا تھا۔ یہ صحیح ہو یا نہ ہو مگر کیا تم نہیں دیکھتے کہ کتنے پہلوانوں کو مچھر کاٹتا ہے اور وہ ملیریا میں مبتلا ہوکر مر جاتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ تو مچھروں سے بھی بڑے بڑوں کو نیچے گِرادیتا ہے۔
جماعت کے دوستوں کو میں نصیحت کرتا ہوںکہ مخالف اقوام کی طرف سے ہر قسم کی باتیں سن لو اور برداشت کرو لیکن حکومت سے مطالبہ کرو کہ ہمارے ساتھ جو سلوک وہ کرتی ہے وہی ہمارے مخالفوں سے کرے اور اپنے افسروں کو ایسے احکام صادر کرنے سے روکے جو محض حکومت جتانے کیلئے کئے جاتے ہیں اور جو انصاف کے بالکل خلاف ہوتے ہیں۔ ورنہ ہم ایسی باتوں کا ازالہ ضرور کرا کر چھوڑیں گے، خواہ عدالتوں کے ذریعہ سے کرائیں اور خواہ ایسی ایجی ٹیشن کے ذریعہ جس کی قانون اجازت دیتا ہے۔
میں پھر جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ سلسلہ کی عزت کے تحفظ کیلئے ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار ہوجائے۔ ہمت کرنے والا ہمت کرتا ہے تو اس میںکامیابی بھی ہوجاتی ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جماعت قادیان نے صوفی عبدالقدیر صاحب کی ماتحتی میں جن کو ملک میںکوئی خاص سیاسی یا تمدنی پوزیشن حاصل نہ تھی اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ اس طرح ہم ظلم برداشت نہیں کرسکتے اور حکومت کواتنے دن کی مُہلت دیتے ہیں کہ وہ اس عرصہ کے اندر اس کا ازالہ کردے ورنہ ہم اپنی قربانیوں کے ذریعہ اس کا ازالہ کرائیں گے۔ تو حکومت کا ایک خاص پیغامبر گورداسپور آیا اور وہاں سے راتوں رات حکومت کا جواب یہاں پہنچایا گیا کہ آپ کی شکایات پہنچ چکی ہیں اور ان کی طرف توجہ کی جارہی ہے۔ تو جب قوم قربانی کیلئے تیار ہوجائے تو حکومت بھی اُس کی بات ماننے پر مجبور ہوجاتی ہے کیونکہ حکومتیں پبلک کے ساتھ بگاڑ پیدا نہیں کیا کرتیں اگر وہ ایسا کریں تو چل نہیں سکتیں۔ اور جب کسی قوم کو خود اپنے حقوق کی حفاظت کا خیال نہ ہوتو حکومت بھی خاموش رہتی ہے۔ بعض اوقات حکومت کی نیت تو اچھی ہوتی ہے مگر وہ اس خیال سے کہ اکثریت کو بگاڑ کر فساد کیوں پیدا کریں، اقلیت کو تھپکا کر سُلانے کی کوشش کرتی ہے لیکن ہم یہ نہیں ہونے دیں گے۔ اسے یا تو ہمارا حق دینا پڑے گا یا کہنا پڑے گا کہ تم ہماری رعایا نہیں ہو۔ اس صورت میں پھر مذہب اور قانون کے ماتحت جو کچھ ہم سے اپنی عزت کی حفاظت کیلئے ہوسکے گا کریں گے۔
حکومتوں کو ہمیشہ یا تو انصاف دینا پڑتا ہے اور یا پھر وہ بدنام ہوجایا کرتی ہیں اور بدنامی حکومت کیلئے ہی نقصان کاموجب ہؤا کرتی ہے افراد کیلئے نہیں۔ ہم گو عدِم تعاون وغیرہ اصول کے قائل نہیں مگر قانون کے اندر رہتے ہوئے ایسے ذرائع اختیار کرسکتے ہیں کہ جن سے حکومت ہماری عزت کی حفاظت پر مجبور ہوجائے اوراپنی عزت کی حفاظت کیلئے ہماری عزت پر ہاتھ ڈالنا چھوڑ دے۔ ہماری جماعتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کونہ کونہ میں ہیں اور وہ ہر جگہ انگریزوں کی تعریف کرتی ہیں اورکہتی ہیں کہ مرکز والے کہتے ہیں کہ انگریزوں کی حکومت اچھی ہے۔ امریکہ، جرمنی، چین، جاپان، سماٹرا، جاوا وغیرہ ممالک میں ہماری جماعتیں ہیں اور اِس رنگ میں ہر جگہ ہی انگریزی حکومت کو ان سے فائدہ پہنچا ہے کیونکہ ہم انگریزوں کے انصاف کی تعریف کرتے تھے تو وہ بھی قدرتاً ان باتوں کو دُہراتے تھے لیکن حکومت کا یہ رویہ نہ بدلا تو لازماً آئندہ احمدیوں کے منہ پر کم سے کم ہندوستانی حکومت کی بُرائی ہوگی تعریف نہ ہوگی اور اِس کا اثر دوسرے مُلکوں پر بھی پڑے گا کیونکہ ہماری جماعت اس وقت سب دنیا میں خداتعالیٰ کے فضل سے پھیل چکی ہے اور اگر ہم اور کچھ بھی نہ کریں تو بھی صرف یہ امر حکومت کی بدیوں سے دنیا کو واقف کرنے کیلئے کافی ہوگا اور وہ اس سزا کی عظمت کو محسوس کرے گی۔ علاوہ ازیں ایک اَور صورت بھی ہے ۔ ہم اگر گزشتہ واقعات کو لکھ کر مُلک میں پھیلادیں اور لوگوں کو یہ بتائیں کہ اس اس طرح ہمارے خلاف ہمارے دشمن کارروائیاں کرتے رہے یا بعض حکام یا ماتحت اظہارِعداوت کرتے رہے ہیں لیکن باوجود وقت پر مقامی حکام کو توجہ دلانے کے اور پھر بالاحکام کو توجہ دلانے کے کوئی تدارک نہیں ہؤا۔ اس کے مقابلہ میں ہمارے بعض افراد پر دشمنوں نے غلط الزامات لگائے تو ان پر فوراً کارروائی کی گئی اور جواب طلبیاں یا قانونی کارروائیاں شروع ہوگئیں۔ جس سے ظاہر ہے کہ ہمارے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے اور ہمارے مخالفوں سے جنبہ داری کا برتائو کیا جاتا ہے تو یہی ترکیب حکومت کو ہوش میں لانے کیلئے کافی ہے بلکہ ساری دنیا تو کُجا اگر صرف ہندوستان بلکہ پنجاب میںہی ایسا کریں تو تمام انصاف پسند لوگ حکومت کوملامت کریں گے۔ دراصل انسانی فطرت کو اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ جب اس پر صحیح الزام لگایا جائے تو وہ ضرور شرمندہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غریب کو بچانے کیلئے یہ مادہ انسان کی فطرت میں رکھ دیا ہے کہ بڑے سے بڑے بادشاہ پر بھی جب سچا اعتراض کیا جاتا ہے تو وہ کانپ اُٹھتا ہے اور اس طرح غریب کے حق کی داد رسی ہوجاتی ہے تو ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے علاج حکام کی ضمیروں میں پوشیدہ طور پر رکھ دیا ہؤا ہے۔ ہمیں نہ فتنہ و فساد کی ضرورت ہے نہ عدِم تعاون کی۔
پچھلے دنوں جب حکومت کے بعض افسروں نے ہمارے متعلق یہ کہنا شروع کیا کہ یہ حکومت کے غدار ہیں تو ہم نے اس کے متعلق ولایت میں اُن پُرانے افسروں کے پاس ذکر کیا جو ہمیں جانتے اور ہم سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اِس پر پارلیمنٹ کے بعض ممبروں نے وزراء سے سوال کئے اور انہوںنے یہاں دریافت کرایا تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں ہم تو انہیں بڑا وفادار سمجھتے ہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے انسانی دماغ میں ایسا مادہ رکھا ہے کہ وہ غریب اور کمزور کی حفاظت پرمجبور ہوتا ہے۔ ضرورت صرف عقل سے کام کرنے کی ہوتی ہے اور اس بات کی کہ انسان اپنے نفس پر قابو رکھے اور اپنی مظلومیت کو ثابت کرسکے۔ اگر کوئی شخص کسی کو دس جُوتیاں مارتا ہے اور وہ اسے برداشت کرلیتا ہے لیکن جب وہ گیارہویں مارنے لگے تو یہ بھی ایک اُسے ماردے۔ تو جنہوں نے پہلاحال نہ دیکھا ہو اور بعد میں پہنچے ہوں وہ یہی کہیں گے کہ دونوں لڑ رہے تھے۔ وہ اسے مارتا تھا اور یہ اسے ۔ لیکن جو گیارہویں ضرب بھی برداشت کرلے اُس کے ساتھ ہر کوئی ہمدردی کا اظہار کرے گا اور کہے گا کہ اس نے ہاتھ نہیں اُٹھایا۔ پس یاد رکھو کہ مظلومیت اپنی ذات میں بڑا حملہ ہے اور یہ خود ظالم کا ہاتھ کاٹنے کیلئے کافی ہے۔ اگر تم میرے ساتھ ان دو باتوں میں تعاون کرو یعنی میری ہدایات پر عمل کرتے ہوئے قربانیوں کیلئے تیار ہوجائو اور انتہائی مظلومیت اور قانون کی اطاعت کو برداشت کرلو تو تمہاری عزت دنیا میں اِس طرح قائم ہوجائے گی کہ جو لوگ تمہیں ذلیل کرنا چاہتے ہیں وہ نامراد ہوں گے اور تم اپنی آنکھوں سے اُن کو شکست خوردہ اور میدان سے بھاگتے ہوئے دیکھ لو گے۔
پھر میری نصیحت تم کو یہی ہے کہ ایک طرف تو انتہائی قربانی کیلئے تیار ہوجائو اور دوسری طرف ظالم بننے کی بجائے مظلوم بنو۔ قادیان میں خواہ کسی قوم کا ایک ہی فرد رہتا ہو وہ یہی سمجھے کہ میں بہت بڑا ہوں اور یہ لوگ میرے سامنے حقیر ہیں۔ تم اپنے آپ کو بڑا مت سمجھو، تمہاری ابھی دُنیوی لحاظ سے ہستی ہی کیا ہے۔ سکھ صرف چالیس لاکھ ہیں لیکن حکومت ان سے ڈرتی ہے۔ احمدی اگر بیس لاکھ بھی ہوںتو ان کی عزت ظالم حکام سے بھی اور ظالم رعایا سے بھی محفوظ ہوجائے اور کسی کو جرأت نہ ہو کہ ان کو ترچھی نگاہ سے بھی دیکھ سکے لیکن ابھی جماعت بہت کم ہے جس کی وجہ سے جو حکام اخلاقی زور سے نہیں بلکہ پولیس کے زور سے حکومت کرنے کے عادی ہیں جماعت کے حقوق کو نظر انداز کردیتے ہیں لیکن اس قلیل جمعیت کے باوجود اگر جماعت میں سچی روح ہو تو یہ ممکن نہیں کہ حکومت کے افسر جماعت کو ڈرالیں۔ مؤمن کبھی کسی سے بھی نہیں ڈرتاہاں ایک صورت ہے جس سے حکومت اپنا مطلب پورا کرسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی وقت اس کے راستہ میں دِقتیں ہوں تو ہم کو حالات بتا کر ہم سے تعاون کی درخواست کرے۔ اس صورت میں بالکل ممکن ہے کہ ہم اپنے حقوق کو خود خوشی سے چھوڑ دیں۔ اگر توکوئی افسر ہمیں یوں کہے کہ ہم مانتے ہیں فلاں قوم نے یا فلاں شخص نے تم پر ظلم کیا ہے مگر چونکہ ہمارے لئے انتظام کرنا مشکل ہوگا اس لئے تم معاف کردو، تو ہم یقینا معاف کردیں گے لیکن اس کی بجائے وہ ظالم کے بچائو کیلئے دلائل دینے لگتے ہیںاور ہم پر اعتراض کرنے لگتے ہیں جسے برداشت کرنے کیلئے ہم تیار نہیں ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم مظلوم بھی ہوںاور حکام محض بُزدلی سے اور احرار یا دوسری قوموں سے ڈر کر ہمارے حقوق تلف کریںاور پھر اپنی اس کمزوری کو چھپانے کیلئے ہمیں ہی غلطی پرقرار دیں اور ہم اس کو برداشت کرلیں۔ ایسی صورت میں ہمارا فرض ہے کہ مُلکی قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے جو تدبیر بھی اِس سختی کو دور کرنے کیلئے اختیار کرسکیں کریں۔
غرض حکومت کو یا تو انصاف کرنا پڑے گا اور یا ہماری مظلومیت کو تسلیم کرکے ہم سے خواہش کرنی پڑے گی کہ ہم اُس کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اپنے حق کا مطالبہ نہ کریں لیکن اگر وہ ایسا نہ کریں تو میں جیسا کہ پہلے بھی کہہ آیا ہوں ہماری جماعت کو دو باتیں کرنی پڑیں گی۔ ایک تو یہ کہ وہ قربانی کیلئے تیار ہوجائے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے اخلاق کی اصلاح کرے اور قانون کی اطاعت پر پہلے سے بھی زیادہ کاربند ہو۔ انہیں چاہئے کہ وہ ہرقسم کے ظلم کو کُلّی طور پر چھوڑ دیں اور اپنے نفس کی عزت کا خیال دل سے نکال دیں۔ ان کی عزت محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت سے زیادہ نہیں۔ آپ پر مکہ میں جسے خداتعالیٰ نے امن والا شہر بنایا ہے اور جہاں تمام مشرک اور بُت پرست بھی آزادی کے ساتھ رہتے سہتے تھے، عین خانہ کعبہ میں جب آپ نماز پڑھ رہے تھے اور سجدہ میں تھے بعض شریر مخالفوں نے اونٹ کی گوبر سے بھری ہوئی اوجھڑی لاکر آپ کے سر پر رکھ دی۔۷؎ اِنہیں سوچنا چاہئے کہ کیا ہماری عزت محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی زیادہ ہے۔ اگر ہمارا آقا اور سردار ان باتوں کو برداشت کرلیتا تھا تو ہمیں اس سے کئی گُنا زیادہ مصائب برداشت کرنے چاہئیں۔ پس جب تمہاری ذلت ہو تو اسے برداشت کرو اورجب تم پر ظلم ہو تو خاموش رہو۔ ہاں صرف ایک بات کو مدنظر رکھو اور وہ یہ کہ جہاں سلسلہ کی عزت کا سوال ہو اُس وقت ہر جائز قربانی کرنے کیلئے تیار رہو۔ اور جب تم ان دو باتوں کے لئے تیار ہوجائوگے یعنی ظلم سہنے اور قربانی کرنے کیلئے تو یاد رکھو کہ یہ وہ موت ہوگی جس کے بعد پھر موت نہیں آیا کرتی۔‘‘ (الفضل ۲۷؍ اپریل ۱۹۳۸ئ)
۱؎ النور: ۵۶
۲؎ (الشوریٰ: ۲۴)
۳؎ کنز العمال جلد ۵ صفحہ ۶۴۸ مطبوعہ حلب ۱۹۷۱ء میں ’’لَا خِلَافَۃ اِلَّا عَنْ مَشْوَرَۃٍ ‘‘
کے الفاظ ہیں۔
۴؎ خودرائی: خودسری۔ سرکشی۔ اپنی مرضی کے مطابق کوئی کام کرنا۔
۵؎ الشوریٰ: ۳۹
۶؎ بخاری کتاب الاحکام باب السَّمْع وَالطَّاعَۃ لِلْأِ مَامِ (الخ)
۷؎ بخاری کتاب الصلٰوۃ باب الْمَرْأۃ تُطْرَح عنِ المصلیّٰ (الخ)

۱۶
منعم علیہ گروہ وہ ہے جو خداتعالیٰ کی صفات کو
دنیا میں جاری کرتاہے
(فرمودہ ۳؍ جون ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’سورئہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے مؤمن کو ایک ایسی دعا سکھلائی ہے جو کئی معنوں میںاپنی جلوہ گری کرتی اور قرآن کریم کے مطالب کی وسعت پر دلالت کرتی ہے۔ وہ دعا ہے ۱؎ کہ اے ہمارے ربّ! تُو ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ یعنی اُن لوگوں کا راستہ جن پر تُونے انعام نازل کیا۔ ادھر تو یہ دعا سکھائی گئی ہے دوسری طرف قرآن کریم فرماتا ہے کہ مؤمن کی دعا ردّ نہیں کی جاتی۔ چنانچہ سورئہ بقرہ میںجہاں روزوں کے فرض کرنے کا ذکر ہے وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے روزے فرض کئے ہیں تاکہ تم میں کامل تقویٰ پیدا ہو۔ یہ روزے خداتعالیٰ کے اس عہد کا نشان ہیں جو قرآن کریم کے نزول کے ذریعہ سے اس نے دنیا سے باندھا ہے۔(گویا حضرت ابراہیم ؑ کے عہد کا نشان ختنہ تھااور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہد کا نشان رمضان کے روزے ہیں اور امت محمدیہ ان دونوں عہدوں کی وارث بنائی گئی ہے اور اس میں ختنہ ابراہیمی عہد کے اجراء کی علامت ہے اور رمضان کے روزے محمدی عہد کے اجراء کی علامت ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمانا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہر عبادت کا ایک بدلہ ہے اور روزہ کا بدلہ میںخود ہوں۔ ۲؎ اس عہد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔) پس تم کو چاہئے کہ اس عہد کو پورا کرو اور ہمیشہ اس عہدِ ہدایت کی یاد میں اللہ تعالیٰ کی تکبیر بلند کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ کے حقیقی عبد ہونے کا ثبوت دو۔
پھر فرماتا ہے ۳؎ اور جب تجھ سے میرے بندے میری نسبت سوال کریں تو انہیں کہہ دے کہ میں جس نے تم سے یہ نیاعہد باندھا ہے تمہارے قریب ہی ہوں۔ اس عہد کے اندر آئے ہوئے ہر شخص کی جب وہ مجھے پکارے دعا کو مَیں سنتا ہوں۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میرے اس عہد میں کامل طور پر داخل ہوں اورمیری امداد پریقین رکھیں تاکہ انہیں رُشد و ہدایت کا راستہ مل جائے۔ اس عبارت سے ظاہرہے کہ جو بھی الٰہی عہد کے تابع ہوکر دعا کرتا ہے یا یوں کہو کہ قرآنی اصطلاح کے مطابق مؤمن کامل یا عبد ہوکر دعا کرتا ہے اس کی دعا ضرور سُنی جاتی ہے اور کبھی ضائع نہیںجاتی۔
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۴؎ یا (مجھے یہ تو بتائو کہ) وہ کون ہستی ہے جو سب طرف سے مایوس ہوکر دعا کرنے والے کی طرف جھکتی ہے اور اُس کی مصیبت کو ٹال دیتی ہے۔ یعنی ایسی ہستی اللہ ہی ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مضطر ہوتے ہیں اُن کی دعائیں سُنی جاتی ہیں۔ خواہ وہ ہندوہوں، خواہ عیسائی ہوں، خواہ سِکھ ہوں، خواہ پارسی ہوں اور خواہ دنیا کے کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ جب کبھی اضطرار کے ساتھ وہ خداتعالیٰ کی طرف توجہ کریں اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو سُن لیتا ہے۔ وجہ یہ کہ ان کی وہ حالت بھی درحقیقت ایمان کی حالت ہوتی ہے کیونکہ ایک مؤمن اور غیرمؤمن میںفرق یہی ہے کہ مؤمن خداتعالیٰ پر کامل ایمان رکھتا ہے اور غیرمؤمن خداتعالیٰ پر کامل ایمان نہیں رکھتا، ورنہ تھوڑا بہت ایمان ہر شخص میں پایا جاتا ہے حتّٰی کہ ایک دہریہ کے دل میں بھی ہوتا ہے ۔ چنانچہ دہریہ بھی کسی نہ کسی بالا طاقت کا ضرور اقرار کرتا ہے۔ پس اگر ایک مؤمن اور غیرمؤمن میں فرق ہے تو یہی کہ مؤمن خداتعالیٰ کو ایسی صورت میں دیکھتا ہے جس کے بعد اسے کوئی شک باقی نہیں رہتا۔ اور غیرمؤمن اسے ایسی صورت میں دیکھتا ہے جس کے ساتھ بہت سے شکوک وابستہ ہوتے ہیں۔ ورنہ تھوڑا بہت ایمان ہر ایک میں پایا جاتا ہے لیکن جب کافر پر بھی حالتِ اضطرار آتی ہے تو اس کا وہ شک جو خداتعالیٰ کی ہستی کے متعلق اس کے دل میں پایا جاتا ہے وقتی طور پر دور ہوجاتا ہے کیونکہ اضطرار کی مثال آگ کی سی ہے جس طرح آگ میں اگر تنکے ڈالے جائیں تو وہ جل جاتے ہیں، لکڑی ڈالی جائے تو وہ بھَسم ہوجاتی ہے اسی طرح اضطرار کی آگ شکوک وشبہات کے خس و خاشاک کو بالکل جلا کر راکھ کردیتی ہے۔ چنانچہ ایک غیرمؤمن کے دل میں اسی وقت اضطرار پیدا ہوتا ہے جب اس کے دیوی دیوتا اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں، جب اس کے اپنے گھڑے ہوئے خدا اسے بالکل ناکارہ اور بیکار نظر آتے ہیں، جب اس کے اپنے اختیار کئے ہوئے عقائد اسے غیرمکتفی دکھائی دیتے ہیں اور جبکہ ساری دنیا سے نگاہیں ہٹ کر صرف ایک خدا کی ذات اس کے سامنے ہوتی ہے اور وہ گڑگڑاتے اور روتے ہوئے خداتعالیٰ کے سامنے یہ کہہ کر گرجاتا ہے کہ اے خدا! میری مدد کر۔ جب یہ کیفیت کسی شخص کے اندر پیدا ہوجاتی ہے تو عارضی طور پر وہ اس وقت مؤمن ہوتا ہے اور خداتعالیٰ اس کی دعا کو قبول کرلیتا ہے۔ تو غیرمؤمن کیلئے مضطر کی شرط ہے۔ مگر مؤمن کیلئے محض ہونے کی شرط ہے۔ اور قطع نظر اس سے کہ اس پر اضطرار کی حالت وارد ہو یا نہ ہو اوروہ ہلاکت کے قریب پہنچے یا نہ پہنچے اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو سن لیتا ہے۔ تو میں مؤمن کی دعا کی طرف اشارہ ہے اور میںمؤمن اور کافر سب کی دعا کی طرف اشارہ ہے۔ اب جو خدا کافر اور مؤمن دونوں کی دعائیں سننے والا ہے، کافر کی اُس وقت جب وہ مضطر ہوکر بمنزلہ مؤمن ہوجاتا ہے اور مؤمن کی اُس وقت جب وہ شرعی قواعد کے مطابق خداتعالیٰ کے سامنے حاضر ہوتا ہے جیسا کہ کے لفظ میں ال کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے۔ تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ خود مؤمنوں کو ایک دعا سکھائے اور پھر اسے ردّ کردے۔ اب یہ جو فرمایا ہے کہخدایا! ہمیں سیدھا رستہ دکھا۔ ان لوگوں کا راہ جو منعم علیہم ہیں اور جن پر تیری نعمتیں نازل ہوئیں۔ اس سے دو باتیں نہایت واضح طور پر ثابت ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر مؤمن کو منعم علیہ بنانا چاہتا ہے۔ اپنے اپنے درجہ اور مقام کے مطابق کسی کو زیادہ اور کسی کو کم۔ جیسے سکولوں میںانعامات تقسیم ہوتے ہیں تو جماعت کے فرق کے لحاظ سے کسی کو تھوڑا انعام ملتا ہے اور کسی کو بہت۔ جو پرائمری میں اوّل رہتا ہے اسے بھی انعام ملتا ہے، جو مڈل میں اوّل رہتا ہے اسے بھی انعام ملتا ہے اور جو انٹرنس کے امتحان میں یونیورسٹی بھر میں اوّل نکلتا ہے اسے بھی انعام کے طور پر وظیفہ ملتا ہے۔ اور ایف اے اور بی اے میںاوّل رہنے والوںکو بھی وظائف ملتے ہیں۔ مگر سارے وظائف ایک مقدار کے نہیں ہوتے۔ پرائمری میں اوّل رہنے والے یا ضلع بھرمیں اوّل نکلنے والے کو جو وظیفہ ملتا ہے وہ پانچ سات روپے کا ہوتا ہے اور انعام میں اسے جو چیزیں ملتی ہیں وہ بھی دو چار روپے کی ہوتی ہیں۔ لیکن انٹرنس کے امتحان میں تمام یونیورسٹی میں اوّل رہنے والے کو بیس پچیس بلکہ تیس روپیہ تک کا وظیفہ مل جاتا ہے اور ایف اے اور بی اے میں جو اوّل نکلتے ہیں اُنہیں تو اس سے بھی زیادہ وظیفہ اور انعام ملتا ہے۔ تو گو منعم علیہ سارے ہی ہیں اس پر بھی انعام ہؤا جو پرائمری میں اوّل رہا اور اسے بھی انعام ملا جو بی اے میں اوّل رہا۔ مگر انعاموں میںفرق ہے۔ ایک کو اعلیٰ درجے کا انعام ملا اور ایک کو کم درجے کا۔ تو ایک بات اس دعا میں یہ بتائی گئی ہے کہ جو مؤمن ہوگا وہ ضرور منعم علیہ ہوگا ورنہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو یہ دعا کبھی نہ سکھائی جاتی۔
دوسری بات جس کا اس جگہ سے پتہ چلتا ہے یہ ہے کہ اس جگہ منعم علیہ کے لفظ سے دنیا کے عام انعام مراد نہیں۔ اوّل تو اس لئے کہ وہ ہر ایک کو نصیب ہیں۔ مثلاً آنکھیں اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہیں مگر کیا یہ انعام کافروں کو حاصل نہیں؟ کیا ہندوئوں کی آنکھیں نہیں؟ کیا سکھوں ، عیسائیوں اور دہریوں کی آنکھیں نہیں؟ یا کان اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں مگر کیا یہ کافروں کو نہیں ملے ہوئے؟ یا ہاتھ پائوں اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں مگر کیا کفار کے ہاتھ پائوں نہیں؟ یا دنیوی دولت ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے مگر کیا یہ نعمت ان کو میسر نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں اورمؤمنوں کی نسبت کافر ہزار درجے زیادہ امیر ہیں۔ یا اگر عمارتوں اور مکانوں کا ہونا اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے تو یہ نعمت بھی ان کو حاصل ہے بلکہ مؤمنوں سے زیادہ حاصل ہے۔ اسی طرح حکومت اور دبدبہ اور شوکت بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے بہت بڑی نعمتیں ہیں مگر بعض حالات میں جیسے آجکل کا زمانہ ہے یہ بھی مسلمانوں کی نسبت کفار کو زیادہ حاصل ہوتی ہیں۔ پس معلوم ہؤا کہ میں جن انعامات کا ذکر ہے وہ بعض مخصوص قسم کے انعامات ہیں جو صراطِ مستقیم کے ساتھ تخصیص رکھتے ہیں اور جب تک انسان صراطِ مستقیم پر قائم نہیں ہوتا وہ انعامات حاصل نہیں ہوتے۔ گویا دو قاعدے ہیں جو اس آیت سے ثابت ہوتے ہیں۔ اوّل یہ کہ ہر مؤمن کیلئے منعم علیہ ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ تسلیم کرنا کہ کوئی شخص مؤمن تو ہے مگر اسے صراطِ مستقیم نہیں مِلا بالکل غلط بات ہوگی۔ اور اس فقرہ کو اگر ہم سادہ اردو میں بیان کریں تو یوں بنے گاکہ فلاں شخص بڑا مؤمن ہے مگر اللہ تعالیٰ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اب کیا کوئی شخص مان سکتا ہے کہ کوئی شخص مؤمن بھی ہو اور خداتعالیٰ سے اس کا تعلق بھی نہ ہو۔ جب صراطِ مستقیم کے معنے اللہ تعالیٰ سے تعلق کے ہی ہیں تو یہ کہنا کہ فلاں مؤمن ہے مگر اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق نہیں، بیہودہ بات ہوگی۔ جو بھی مؤمن ہوگا خداتعالیٰ کے ساتھ اس کا ضرور تعلق ہوگا۔
پس میں درحقیقت حصولِ ایمان کے متعلق یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے خدا! ہمارے ایمان کو کامل کر اور ہمیں منعم علیہ گروہ میں شامل فرما۔ گویا منعم علیہ گروہ میں شامل ہونا ایمان کے کمال کی ایک علامت ہے اور ایمان کے کمال کے دوسرے معنے منعم علیہ گروہ میں شامل ہونے کے ہیں۔ پس ہر مؤمن اپنے اپنے درجہ کے مطابق منعم علیہ گروہ میں شامل ہے۔ دوسرے یہ کہ جو انعام اِس جگہ مذکور ہے وہ ایسا نہیں جیسے دُنیوی رُتبے یا جائدادیں ہوتی ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں مگر اس درجہ کی نہیں جس درجہ کی نعمتوں کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ دُنیوی نعمتیں اُن روحانی نعمتوں کی محض توابع ہیں۔ جیسے آقا کے ساتھ خادم ہوتے ہیں اسی طرح روحانی نعمتوں کے ساتھ یہ بطور خادم ہوتی ہیں۔ آخر جس انسان کو اللہ تعالیٰ جہاد کی توفیق دے گا اُسے دولت بھی بخشے گا، اُسے فتح بھی دے گا، اُسے مالِ غنیمت بھی عطا کرے گا۔ مگر یہ ادنیٰ چیزیں اُس کا مقصود نہیں ہوں گی، یہ ادنیٰ نعمتیں ہیں جو اُسے حاصل ہوں گی ورنہ اس کا مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہوگی جو بہت بڑی چیز ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک دوست دوسرے دوست کے ہاں بعض دفعہ ملاقات کیلئے چلا جاتا ہے تو وہ اس کی خاطر تواضع کیلئے اس کیلئے کھانا پکواتا ہے اور اگر امیر ہو تو کئی کئی قسم کے کھانے تیار کراتا ہے اور اگر غریب ہو تب بھی وہ اچھی سے اچھی چیز اس کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر یہ کھانا اس کا مقصود نہیں ہوگا بلکہ اس کا اصل مقصد دوست سے ملاقات کرنا ہوگا اور وہ چاہے گا کہ میں اپنے دوست کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کروں چاہے کھانا مجھے ملے یا نہ ملے۔ اسی طرح اس دنیا کی نعمتیں مؤمن کو مل تو جاتی ہیں مگر وہ اس کا مقصود نہیں ہوتیں۔ مقصود والا انعام بالکل اَور ہے۔
اب وہ انعام جو اس دعا کے نتیجہ میں مؤمن کو ملتا ہے وہ کچھ بھی ہو قرآن کریم انعامِ الٰہی کے متعلق یہ ہدایت دیتا ہے کہ ۔۵؎ تُواپنے رب کی نعمت کو لوگوں کے سامنے پیش کر۔ اپنے عمل سے بھی اور اپنے قول سے بھی کیونکہ تحدیث بِالنعمت کے لفظی معنے گو صرف اتنے ہی ہیں کہ نعمت کو بیان کرنا مگر عربی زبان کے محاورہ کے لحاظ سے تحدیث بِالنعمت کے معنی یہ ہیں کہ شکرگزاری کے طور پر عملی رنگ میں دنیا پر یہ ظاہر کرنا کہ میں اس نعمت کی واقعہ میں قدر کرتا ہوں کیونکہ تحدیث باب تفعیل سے ہے اور یہ باب معنوں میں کثرت و وسعت پیدا کردیتا ہے۔ چنانچہ کسی کو کوئی خاص اعزاز حاصل ہو یا بڑا انعام ملے تو وہ اس خوشی میںلوگوں کی دعوت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تحدیث بِالنعمت کے طو رپر یہ دعوت کررہا ہوں حالانکہ وہ اس وقت کھانا کھِلارہا ہوتا ہے کوئی تقریر نہیں کررہا ہوتا اور اگر بِالفرض وہ کھانا نہ کھلائے اور محض لوگوں کو بُلا کر یہ خبر سنادے کہ مجھے فلاں اعزاز حاصل ہؤا ہے تب بھی لفظی طور پر وہ تحدیث بِالنعمت کا مفہوم پورا کرسکتا ہے۔ لیکن محاورہ کے لحاظ سے تحدیث بِالنعمت کے جو معنے ہیں ان کو وہ پورا کرنے والا نہیں ہوگا۔ اگر کسی کو خان بہادر کا خطاب ملے اور وہ لوگوں کو اکٹھا کرکے ایک تقریر شروع کردے اور کہے لوگو مجھے خان بہادر کا خطاب ملا ہے اور میں آپ سب کو اس کی اطلاع دیتا ہوں تو لوگ اس کی بات سن کر ہنسیں گے اور کہیں گے میاں! اگر تم نے صرف اتنی بات بتانی تھی تو ہمیں اکٹھا کرنے کی کیا ضرورت تھی، ہم اخباروں میں ہی یہ خبر پڑھ سکتے تھے۔ لیکن اگر وہ اس خوشی میں اپنے دوستوں کی دعوت کرتا ہے اور انہیں کھانے یا چائے پر مدعو کرتا ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس نے تحدیث بِالنعمت کی یا کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہو تو لفظی طور پر تحدیث بِالنعمت کا مفہوم ادا کرنے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ لوگوں سے کہہ دے کہ میرے ہاں بیٹا پیدا ہؤا ہے لیکن محاورہ کے طور پر تحدیث بِالنعمت کا مفہوم اُس وقت تک ادا نہیں ہوگا جب تک وہ غریبوں کو کھانا نہ کھلائے یا انہیں کپڑے نہ پہنائے۔ ہاں جب وہ غریبوں کو کھانا کھلاتا یا ننگوں کو کپڑے پہناتا اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کا عملی رنگ میں شکریہ اد اکرتا ہے تب کہا جاسکتا ہے کہ اُس نے تحدیث بِالنعمت کی۔ تو کے صرف یہی معنے نہیں کہ تُو لوگوں سے یہ کہہ دے کہ مجھے فلاں انعام ملا اور گو لفظی طور پر یہ معنے بھی درست ہیں مگر محاورہ کے لحاظ سے درست نہیں کیونکہ محاورہ میں تحدیث بِالنعمت کے یہ معنے ہیں کہ منہ سے اقرار کرے اور عملاً کوئی ایسا فعل کرے جو اس بات پر دلالت کرے کہ اس نے واقع میں اس نعمت کی قدر کی ہے۔ پس کے یہ معنی ہیں کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نعمت نازل ہو اُس کا زبان سے اظہار کرو اور اُس کے شکریہ میں ایسے اعمال بجالائو جو دنیا کو فائدہ اور آرام پہنچانے والے ہوں۔ جب کوئی شخص اِن دونوں پہلوئوں کے لحاظ سے تحدیث بِالنعمت کرتا ہے تو اُس کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ اُس نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی قدر کی۔ اب ایک طرف اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مجھ سے انعام مانگو اور دوسری طرف اس کے سیاق و سباق سے اور قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ سے جو چیز مانگی جائے، بِالخصوص ایسی چیز جس کے مانگنے کا وہ خود حکم دے وہ انسان کو ضرور دیتا ہے۔پھر دوسری جگہ فرماتا ہے کہ تم اِس نعمت کا اظہار کرو جو تمہیں ملے اور شکر اور امتنان کا کوئی طریقہ اختیار کرو جس سے معلوم ہو کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کی قدر کرنے والے ہو۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مؤمن کو جو نعمت ملتی ہے اور جس کا اس آیت میں بھی ذکر کیا گیا ہے وہ کیا ہے؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ سب سے اعلیٰ نعمت جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے نبوت ہے اور اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو یہ سکھلایا ہے کہ تم ہمیشہ یہ دعا مانگتے رہو کہ اللہ تعالیٰ تم میں اپنی اِس نعمتِ نبوت کو قائم رکھے۔ اب نبی اپنی نعمت کی تحدیث کس طرح کرتے ہیں سو یہ ہر شخص جانتا ہے کہ نبی اپنی نعمت کی تحدیث اِس طرح کرتے ہیں کہ وہ دنیا کو الٰہی پیغام پہنچاتے چلے جاتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ لوگ اُنہیں دکھ دیں، اُن کا بائیکاٹ کریں، اُنہیں گالیاں دیں، اُنہیں ماریں یا اُنہیں پیٹیں وہ اپنی بات لوگوں کے کانوں میں ڈالتے چلے جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس نعمت کا عملی رنگ میں شکریہ یہی ہے کہ ہم تمام دنیا کے عذاب اپنے سر پر اٹھا لیں۔ پھر ان کی اُمتیں اُن کی تابع ہوکر ساری دنیا میں تبلیغِ دین کرتیں اورلوگوں کو صداقت کی طرف دعوت دیتی ہیں۔ وہ بھی بڑے بڑے دکھ اُٹھاتی ہیں اور ان پر بھی بڑے بڑے مصائب وارد ہوتے ہیں ۔ حتّٰی کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا پہلے انبیاء کی جماعتوں میں بعض لوگ ایسے گزرے ہیں جنہیں دشمنوں نے آروں سے چِیر ڈالا مگر انہوں نے اُف تک نہ کی۔۶؎
ہماری اپنی جماعت میں بھی اس رنگ کی تحدیث بِالنعمت کے بعض واقعات موجود ہیں۔ چنانچہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو جس وقت شہید کیا گیا ہے دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ اِدھر اُن پر پتھر پڑ رہے تھے اور اُدھر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرتے جارہے تھے کہ یااللہ! میری قوم نادانی سے یہ فعل کررہی ہے تُو اسے معاف کردے۔ یہ سچی تحدیث بِالنعمت ہے جو اُن سے ظاہر ہوئی کہ آخری وقت میں بھی ان کے دل میں یہی خیال آیا کہ میں نے جس عظیم الشان نعمت کو حاصل کیا ہے مجھے عذاب دینے والے اس سے محروم نہ رہیں اور چاہے وہ مجھے دُکھ دے رہے ہیں میں ان کے متعلق یہی دعا کروں کہ خدا انہیں معاف کرے اور انہیں احمدیت کی شناخت کی توفیق عطا کرے۔
غرض نبوت پہلا اور سب سے بڑا انعام ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندہ کو دیتا ہے۔ پھر اس سے اُتر کرقرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیقیت کا مقام ہے۔ جب انسان نبیوں کے نقشِ قدم پر چلتے چلتے اس قدر بلند مرتبہ حاصل کرلیتا ہے کہ خداتعالیٰ اس سے نبیوں والا سلوک شروع کردیتا ہے۔ وہ نبی نہیں ہوتے مگر خداتعالیٰ کی غیرت ان کیلئے ایسی ہی بھڑکتی ہے جیسے نبیوں کیلئے، وہ نبی نہیں ہوتے مگر اللہ تعالیٰ ان کی زبان پر اسی طرح صداقت جاری کرتا ہے جس طرح نبیوں کی زبان پر وہ کامل مظہر ہوجاتے ہیں اس مقام کا کہ ۔۷؎ جس چیز کو وہ کہہ دیں کہ یہ دین ہے خداتعالیٰ اُسی کو قائم کرتا ہے اور جس چیز کو دنیا دین کہہ رہی ہو خداتعالیٰ اسے مٹا کر رکھ دیتا ہے۔ درحقیقت یہ نبوت کا مقام ہی ہے کیونکہ نبی ہی ہیں جو دین کے قیام کیلئے بھیجے جاتے ہیں اور گو وہ نبی نہیں ہوتے مگر نبوت کے مقام کے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ گویا وہی ہوجاتے ہیں۔ جس طرح لوہا جب آگ میں ڈالا جائے تو آگ کی شکل اور گرمی اور خواص سب اپنے اندر لے لیتا ہے اسی طرح وہ انبیاء کے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ ان کی تمام خصوصیات کے ایک حد تک حامل ہوجاتے ہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ لوہا جب آگ میں ڈالا جائے تو گو وہ انگارہ نہیں بن جاتا مگر پھر بھی آگ کے تمام خواص ظاہر کرنے لگ جاتا ہے۔ وہ ویسے ہی جلاتا ہے جیسے آگ جلاتی ہے، وہ ویسا ہی گرمی پہنچاتا ہے جیسے آگ گرمی پہنچاتی ہے، وہ ویسی ہی شکل رکھتا ہے جیسی آگ کی شکل ہوتی ہے۔ غرض رنگ ، شکل اور خواص کے لحاظ سے اس میں اور آگ میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اسی طرح صدیق مقامِ نبوت کے اتنا قریب ہوجاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی باتوں کو نبیوں کی باتیں قرار دے دیتا ہے جس طرح نبیوں کی باتوں کو وہ اپنی باتیں قرار دیتا ہے۔
پھر تیسرا گروہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شُھَدَاء کا ہوتا ہے اور گو شُہَدَاء کیلئے خداتعالیٰ کی غیرت اتنی نہیں بھڑکتی جتنی صدیقوں کیلئے بھڑکتی ہے۔ پھر بھی وہ چلتے پھرتے خداتعالیٰ کے گواہ ہوتے ہیں اور دنیا میں اگر کسی نے چلتے پھرتے جنتی کو دیکھنا ہو تو ان کو دیکھ لے۔ اگر دنیا میں کسی نے خداتعالیٰ کے پیاروں کو دیکھنا ہو تو ان کو دیکھ لے۔ وہ خداتعالیٰ کی صفات کے ظہور کیلئے آئینہ کا رنگ رکھتے ہیں مگر ان میں اور صدیق میں ایک فرق ہوتا ہے۔ یعنی صدیق کی مثال تو ایک ایسے آئینہ کی ہے جس میں تصویر ثبت کردی گئی ہے جسے جب بھی دیکھو اس میں محبوب کے ہوبہو خدوخال نظر آئیں گے۔ آج دیکھو تو آج اور کل دیکھو تو کل۔ لیکن شہید کی مثال اُس آئینے کی طرح ہے جو گو بنایا اسی لئے گیا ہے کہ محبوب کا چہرہ اس میں نظر آئے مگر پھر بھی اس میں محبوب کی تصویر مستقل طور پر کندہ نہیں ہے۔ بایں ہمہ شیشہ اپنی ذات میں بھی ایک قیمتی اور مصفّٰی چیز ہوتا ہے۔ جب محبوب کا چہرہ اس میں نظر آرہا ہو تب بھی وہ قیمتی ہوتا ہے اور جب محبوب کا چہرہ اس میں نظر نہیں آرہا ہوتا تب بھی وہ قیمتی ہوتا ہے مگر بہرحال اس آئینہ میں محبوب کی تصویر دائمی طور پر ثبت نہیں کردی جاتی۔ ہاں اکثر اس میں محبوب کی شکل نظر آتی ہے کیونکہ شہید وہ آئینہ ہے جو ہروقت محبوب کے سامنے رکھا رہتا ہے۔ جیسے لوگ کام کی میز پر یا رہائش کے کمرہ میں آئینہ لگا دیتے ہیں۔ پس شہید کی مثال ایسے شیشے کی سی ہے جو قریباً ہر وقت سامنے رہتا ہے۔ یوں تو اس کے ہر دوسرے لحظہ کا عکس مختلف ہوتاہے لیکن بوجہ اس کے کہ وہ سامنے رکھنے کے لئے چُن لیا گیا ہے قریباً ہر وقت اس میں چہرے کا انعکاس پڑتا رہتا ہے۔
اس کے بعد چوتھا درجہ صالح کا ہے۔ صالح کے معنی ہیں قابلیت رکھنے والا انسان۔ یعنی بعض چیزیں اپنی ذات میںایک مقام تک نہیں پہنچی ہوتیں مگر ان میںاس مقام تک پہنچنے کی قابلیت ہوتی ہے۔ منطقیوں نے اسی بناء پر کہا ہے کہ بعض چیزیں کسی خاصہ کی بِالقُوّۃ مظہر ہوتی ہیں اور بعض بِالْفعل۔ یعنی بعض چیزیں تو وہ ہوتی ہیں جن میں کسی خاص قابلیت کے حصول کی قوت تو ہوتی ہے لیکن عملاً انہوں نے وہ قوت حاصل نہیں کی ہوئی ہوتی اور بعض وہ ہوتی ہیں جو عملاً بھی وہ قوت ظاہر کررہی ہوتی ہیں۔ شہید کا جو مقام ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے سامنے پڑا ہؤا شیشہ۔ کیونکہ شاہد کے معنے دیکھنے والے کے ہیں۔ گویا شہید ایک ایسا شیشہ ہے جو ہر وقت محبوب کے سامنے پڑا ہؤا ہے اور جب بھی کوئی شخص اس میں دیکھتا ہے اس میں محبوب کا چہرہ نظر آجاتا ہے۔ اور صالح کے معنے یہ ہیں کہ وہ ہر وقت سامنے پڑا ہؤا تو نہیں مگر اس میں ایسی قابلیت موجود ہے کہ جب بھی خداتعالیٰ اپنا چہرہ اس میں سے دکھانا چاہے وہ دوسروں کو دکھا سکتا ہے۔ گویا شہید اور صالح کے مقام میں وہی فرق ہے جو ان دو آئینوں میں ہے کہ ان میں سے ایک ہر وقت کمروں میں لٹکے رہتے ہیں اور دوسرے جیب یا ٹرنک میں رکھے رہتے ہیں۔ اب جو شیشہ کمرہ میں ہروقت سامنے ہوگا اس میں سے اکثر مکین کی صورت نظر آجائے گی کیونکہ مکین اکثر مکان میں ہی رہتا ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ کسی وقت اگر مکین وہاں نہ ہو تو وہ اس کی صور ت نہ دکھاسکے۔ اسی طرح شہید گو ہر وقت خداتعالیٰ کا چہرہ اپنے آئینہ قلب میںسے نہیں دکھاسکتا مگر چونکہ وہ اس جگہ پر ہوتا ہے جہاں اکثر محبوبِ حقیقی نے جلوہ گر رہنا ہے اس لئے اکثر اس کا چہرہ اس کیلئے آئینہ میں ظاہر ہوتا رہتا ہے لیکن صالحیت کا مقام وہ ہے جس میں چہرہ دکھانے کی قابلیت تو پیدا ہوجاتی ہے مگر اِس رُتبہ کو نہیں پہنچتا کہ ہر وقت سامنے رہے۔ وہ جب کبھی سامنے آجاتا ہے محبوب کا چہرہ دکھادیتا ہے اور جب ایک طرف ہوجاتا ہے تو محبوب کا چہرہ نہیںدکھاسکتا لیکن بہرحال اس میں شکل دکھانے کی قابلیت موجود رہتی ہے۔ اسی طرح جو شیشہ سامنے پڑا ہؤا ہو اس کے سامنے سے بھی کبھی انسان ایک طرف ہوجاتا ہے مگر غائب ہونے کا وقت بہت کم ہوتا ہے اور سامنے رہنے کا وقت بہت زیادہ۔ غرض صدیق، شہید، صالح ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں جن میں سے بعض کا مقام زیادہ اہم ہے اور بعض کا کم۔ صدیق وہ ہے جو اصل کی تصویر بن جاتا ہے اور جس کی حالت ؎
من تُو شدم تُو من شدی من تن شدم تُو جان شدی
تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تُو دیگری
کا مصداق ہوتی ہے۔ اسے سامنے رکھو تب بھی وہ وہی صورت دکھائے گا جو اصل کی ہے اور اگر اسے الگ لے جائو تب بھی وہ وہی صورت دکھائے گا۔ اگر ایک میل دور لے جائو تب بھی اور اگر ہزاروں میل پر ے جائو تب بھی تمہیںاصل اور تصویر کے نقوش میں کوئی فرق دکھائی نہیں دے گا۔ یہی حال صدیق کا ہوتا ہے اس میںمستقل طور پر رسول کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں اور اس کی ہوبہو وہی شکل ہوجاتی ہے جو نبی کی ہوتی ہے مگر اس کے برخلاف شہید اکثر اوقات میں نبوت کے نقوش کو پیش کرنے والا شیشہ ہے اور صالح وہ ہے جو نبوت کے نقوش تو دکھاتا ہے لیکن اس اظہار میں نمایاں وقفے پڑتے رہتے ہیں۔
یہ وہ چار انعامات ہیں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے۔ اور اس میںکوئی شبہ نہیں کہ زیادہ تر مقصود اس آیت میں یہی چار انعام ہیں۔ باقی سب انعامات ان کے تابع ہیںاور چونکہ ان چاروں انعامات سے باہر اور کوئی روحانی انعام نہیں ہوسکتا اس لئے مؤمن یا نبی ہوگا یا مؤمن صدیق ہوگا یا مؤمن شہید ہوگا یا مؤمن صالح ہوگا۔ اور اگر ان چاروں مقامات میں سے کوئی بھی مقام اسے حاصل نہ ہو تو وہ مؤمن نہیں ہوسکتا۔ ان ساروں کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ یہ منعم علیہم ہیں۔ اب جبکہ منعم علیہ گروہ کی تعیین ہوگئی تو سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے اپنے رب کی نعمت کی تحدیث کرو اور عملی طور پر ایسے کام بجالائو جن سے معلوم ہو کہ تمہیںواقع میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کی قدر ہے۔ پس معلوم ہؤا کہ ہر مؤمن کیلئے تحدیث بِالنعمت لازمی ہے اور چونکہ مؤمن بغیر انعام کے نہیں ہوسکتا اور اور نعمت بغیر تحدیث کے نہیں ہوسکتی اس لئے ہر مؤمن کیلئے تحدیث بِالنعمت ضروری ہے۔ دراصل ایمان کا مقام احسان کا مقام ہے اور مؤمن اور محسن ایک ہی چیز ہیں۔ کوئی مؤمن ایسا نہیں ہوسکتا جو محسن نہ ہو اور کوئی ایسا حقیقی محسن نہیں ہوسکتا جو مؤمن نہ ہو۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ جیسے ایمان کے مختلف مدارج ہیں اسی طرح احسان کے بھی مختلف مدارج ہیں۔ مگر بہرحال وہ شخص جس میں کامل درجہ پر ایمان پایا جائے گا اس میں کامل درجہ پر احسان بھی پایا جائے گا اور جس میں کم درجہ کا ایمان ہوگا اس میں کم درجہ کا احسان پایا جائے گا۔ اسی لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ محسن وہ ہے جو اس یقین اور وثوق کے ساتھ خداتعالیٰ کی عبادت کرتا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ اور اگر یہ یقین اسے حاصل نہ ہو توا س سے اُتر کر اس میں اتنا یقین ضرور ہوتا ہے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے۔۸؎ گویامحسن کی دوحالتوں میں سے ایک حالت ضرور ہوتی ہے یا تو اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جس وقت وہ نماز میں کھڑا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی شکل اس کے سامنے آجاتی ہے۔ جب وہ کہتا ہے تو یہ کہنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی تمام صفاتِ کاملہ کا نقشہ اس کے سامنے کھچ جاتا ہے اور اس کے انعامات اسے یاد آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ اور جب وہ کہتا ہے تو اس کیلئے اسے کہیںدُور جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی بلکہ اس کے دل میں بیٹھا ہؤا ہوتا ہے اور اس کی ربوبیت کے فیضان اس کے سامنے آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح جب وہ کہتا ہے تو اس کی صفت رحمانیت کی جلوہ گری سامنے آجاتی ہے۔ جب کہتا ہے تو اس کی رحیمیت کا نقشہ اس کی آنکھوں کے سامنے کھِچ جاتا ہے اور جب کہتا ہے تو اس کی مالکیت کا تصور اس کے جسم کے ذرہ ذرہ کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھُکادیتا ہے۔ گویا وہ صرف اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کے اسماء نہیں نکالتا بلکہ اپنی ذات میں اس کی ربوبیت ، رحمانیت، رحیمیت اور مالکیتِ کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس کی صفات کو جلوہ گر ہوتا ہؤا پاتا ہے۔ پس محسن کی یا تو یہ حالت ہوتی ہے اور یا پھر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے اُتر کر اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ جب وہ عبادت کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو گو وہ یہ نہیں سمجھتا کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے مگر بہرحال وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے۔ یہ ادنیٰ درجہ ہے جو انسان کو نیکی کے راستہ پر قائم رکھتا ہے کیونکہ جب اُسے یہ یقین ہوکہ میرا خدا مجھے دیکھ رہا ہے تو لازماً وہ سنبھال سنبھال کر قدم رکھتا ہے اور گناہوں کا آسانی سے شکار نہیں ہوتا۔
غرض محسنِ کامل ہونا تو بہت بڑی نعمت ہے لیکن دنیا میںادنیٰ محسن بھی ہوتے ہیں جیسے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِسی جگہ فرمادیا کہ اعلیٰ محسن تو وہ ہے جو خداتعالیٰ کی اس رنگ میں عبادت کرے کہ گویا وہ خداتعالیٰ کودیکھ رہا ہے اور احسان کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان یہ یقین رکھتے ہوئے عبادت کرے کہ خدا اُس کو دیکھ رہا ہے۔ اسی طرح مؤمنوں میں سے بھی بعض ادنیٰ درجہ کے ہوتے ہیں اور بعض اعلیٰ درجہ کے ہوتے ہیں مگر جو ادنیٰ ہیں وہ بھی خداتعالیٰ کی بارگاہ میں قبول کرلئے جاتے ہیں۔ کیونکہ مؤمن جس حالت میں بھی ہو خواہ ادنیٰ ہو یا اعلیٰ منعم علیہ گروہ سے باہر نہیں ہوتا۔ دنیا میں عام طور پر جنہیںہم تندرست کہا کرتے ہیں ان میںبھی کئی بیماریاںپائی جاتی ہیں مگر ہم انہیں بیمار نہیں کہتے اور نہ وہ خود یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کام کے قابل نہیں۔ بعض دفعہ ایک جرنیل ہوتا ہے مگر کسی ادنیٰ سی مرض میں مبتلا ہوتا ہے۔ ایک پہلوان ہوتا ہے اور وہ بھی کسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے مگر ان معمولی امراض سے پہلوان اپنی پہلوانی کے فن کو اور جرنیل اپنی فوج کی نگرانی کو ترک نہیں کردیا کرتا کیونکہ ان کی صحت کی زیادتی ان کی بیماری کی کمزوری پرغالب آئی ہوئی ہوتی ہے۔ اسی طرح مؤمنوں میں سے بھی کسی میں کوئی کمزوری ہوتی ہے اور کسی میں کوئی مگر ان کمزوریوں کی وجہ سے وہ منعم علیہ گروہ میں سے نہیں نکل جاتے کیونکہ اُن کی نیکیاں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ ان کی کمزوریاں بالکل چھُپ جاتی ہیں۔ بہرحال جبکہ ہر مؤمن منعم علیہ گروہ میں شامل ہے تو ہر مؤمن کیلئے تحدیث بِالنعمت بھی ضروری ہے اور تحدیث بِالنعمت یہی ہے کہ عملی رنگ میں دنیا کو فائدہ پہنچایا جائے اور جو کچھ بھی خداتعالیٰ دے اس سے دوسروں کو متمع کیا جائے۔ اگر دین ملے تو دوسروں تک دین پہنچایا جائے، اگر عرفان ملے تو عرفان دیا جائے، اگر علم ملے تو علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچایا جائے، غرض مؤمن کا مقام اللہ تعالیٰ نے محسن کا مقام رکھا ہے اور جب خداتعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اور ادھر یہ فرماتا ہے کہ ہر مؤمن منعم علیہ گروہ میں شامل ہے تو معلوم ہؤا کہ کوئی مؤمن ایسا نہیں جو محسن نہ ہو اور کوئی مؤمن ایسا نہیں جس کا یہ فرض نہ ہو کہ وہ دنیا کو اپنی تمام طاقتوں سے فائدہ نہ پہنچائے۔ اِس نقطۂ نگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری جماعت کو یہ امر سوچنا چاہئے کہ اس کے تمام کام بنی نوع انسان کو فوائد پہنچانے کیلئے ہیں یا اپنی ذات کو نفع پہنچانے کیلئے؟
میں نے جو خدام الاحمدیہ نام کی ایک مجلس قائم کی ہے اس کے ذریعہ اسی روح کو میں نے جماعت میں قائم کرنا چاہا ہے اور اس کے ہر رُکن کا یہ فرض قرار دیا ہے کہ وہ اپنی قوتوںکو ایسے رنگ میں استعمال کرے کہ اپنے فوائد کو وہ بالکل بھُلادے اور دوسروں کو نفع پہنچانا اپنا منتہی قرار دے دے۔ چنانچہ جہاںجہاںبھی اِس کے ماتحت کام کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسرے لوگ بھی اس سے متأثر ہوئے ہیں اور خود انہوں نے بھی اپنی روحانیت میں بہت بڑا فرق محسوس کیا ہوگا کیونکہ جب کوئی شخص ایک منٹ کیلئے بھی اپنے فوائد کو نظر انداز کرکے دوسرے کو فائدہ پہنچانے کے خیال سے کوئی کام کرتا ہے اُس ایک منٹ کیلئے وہ خداتعالیٰ کا مظہر بن جاتا ہے۔ کیونکہ خدا ہی ہے جو اپنے فائدہ کیلئے کوئی کام نہیں کرتا بلکہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے تمام کام کرتا ہے۔ وہ غنی ہے اور اِس بات سے بے نیاز ہے کہ اُسے کوئی فائدہ ہو۔ وہ جو بھی کام کرتاہے مخلوق کیلئے کرتا ہے۔ پس جس گھڑی بندہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جس کا فائدہ اُس کی ذات کو نہیں پہنچتا بلکہ دوسروں کو پہنچتا ہے تو اُس گھڑی میں وہ خدا نما آئینہ ہوتا ہے جس میں سے خداتعالیٰ کا چہرہ نظر آرہا ہوتا ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جو چیز ایک وقت انسان کے ساتھ وابستہ ہوگی وہ بعد میں بھی اپنا اثر دکھائے گی۔ دیکھو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم جمعہ کیلئے آئو تو اپنے کپڑوں کو خوشبو لگا کر آئو۔۹؎ اب خوشبو لگانا ایک منٹ کا کام ہے مگر وہ خوشبو بعد میںبھی گھنٹہ دو گھنٹے، ایک دن دو دن بلکہ ہفتہ ہفتہ تک جیسی جیسی قیمتی خوشبو ہوتی ہے قائم رہتی ہے۔ بارش برستی ہے اور وہ محدود وقت میں برستی ہے مگر اُس کی ٹھنڈک کا اثر دنوں چلا جاتا ہے۔ آگ جلتی ہے تو گو بعد میں بجھ بھی جاتی ہے مگر کمرے میں پھر بھی بہت دیر تک گرمی قائم رہتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی مؤمن خدانما ہوجاتا ہے اور وہ کوئی ایسا کام کرتا ہے جس میں وہ اپنے فائدے کو بالکل نظرانداز کردیتا اور محض دوسروں کو فائدہ پہنچانا اپنا منتہی قرار دے لیتا ہے تو اُس وقت وہ خداتعالیٰ کا مظہر بن ہوجاتا ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ عطر کا ایک چھِینٹا جب کپڑوں پر پڑے تو وہ کئی کئی دن تک انسانی دماغ کو معطر رکھے سورج چڑھے اور اس کے غروب ہونے کے بعد بھی زمین سے گرمی کی لپٹیں آتی رہیں۔ بارش برسے اور اس کے کئی کئی دن بعد بھی ٹھنڈک محسوس ہوتی رہے مگر خدا کسی جسم میں آئے اور اس کا اثر کام کے ختم ہوتے ہی غائب ہوجائے۔ اگر تم ایک منٹ کیلئے بھی خداتعالیٰ کامظہر بن جاتے ہو تو یقینا اس کے گھنٹوں بعد کی تمہاری حالت بھی خدا نما ہوگی اور تم ایک منٹ میں جو کام کرو گے اس کے بدلے کئی گھنٹوں کیلئے خداتعالیٰ کے مظہر بن جائو گے۔ اور اگر تم اس ایک منٹ کو ترقی دیتے چلے جائو تو پھر تم چوبیس گھنٹے ہی خداتعالیٰ کے مظہر بن سکتے ہو۔ چاہے دنیا کے نزدیک تم نے خدمتِ خلق کیلئے ایک یا دو گھنٹے وقت دیا ہو۔ جس طرح آگ بجھ جاتی ہے مگر کمرہ پھر بھی گرم رہتا ہے، بارش برس جاتی ہے مگر خنکی پھر بھی قائم رہتی ہے اسی طرح ہوتے ہوتے تمہاری یہ حالت ہوجائے گی کہ تمہارا گھنٹے دو گھنٹے کا کام اپنے اثرات کے لحاظ سے چوبیس گھنٹوں پر پھیل جائے گا اور پھر کل کا کام اس اثر کو اَور بڑھائے گا اور پرسوں کا کام اس اثر کو اَور ترقی دے گا یہاں تک کہ بالکل ممکن ہے بلکہ غالب ترین بات یہ ہے کہ تمہاری روحانیت اس قدر ترقی کرجائے اور تمہاری نیتیں اتنی صاف ہوجائیں کہ وہ دو گھنٹے کا کام نہ صرف تمہیں باقی بائیس گھنٹوں کیلئے خداتعالیٰ کا مظہر بنادے بلکہ جب دوسرا دن چڑھے تو اُس دن جو کام تم خداتعالیٰ کے نمونہ پر کرو صرف اُسی کی وجہ سے خداتعالیٰ کے مظہر نہ بنو بلکہ پہلے دن کی مظہر یت ابھی باقی ہو اور وہ دونوں مل کر تمہارے نور کو اَور بھی بڑھادیں اور ہوتے ہوتے ایک غیرمحدود ذخیرہ انعکاساتِ الٰہیہ کا تمہارے جسم میں جمع ہوجائے۔
آخر یہی وہ طریق ہے جس کے ماتحت کسی انسان کی تمام زندگی اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کہلاتی ہے۔ ورنہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس قسم کا بنایا ہے اس کے لحاظ سے ۲۴ گھنٹے وہ مسلسل اللہ تعالیٰ کا مظہر نہیں بن سکتا۔ آج تک کوئی نبی بھی ایسانہیں آیا جو سوتا نہ ہو، یا کھانا نہ کھا تا ہو، یاپانی نہ پیتا ہو، یا پاخانہ پیشاب نہ کرتا ہو، یا نہاتا دھوتا نہ ہو، یا بیوی بچوں کا فکر نہ کرتا ہو۔ یہ ساری ضروریات نبیوں کے ساتھ بھی لگی ہوئی تھیں پھر کیونکر خداتعالیٰ نے ان کی ہر حرکت اور ان کا ہر سکون اپنی راہ میں قرار دیااور کیونکر کہہ دیا کہ ان کا ہر کام میری رضا کیلئے ہے۔ اس کی تہہ میں دراصل وہی بات ہے جو میں نے بتائی ہے اور جس کی مثال میں مَیں نے بتایا ہے کہ عطرلگانے کے بعد تم گھنٹوں بلکہ دنوں تک اس کی خوشبو محسوس کرتے ہو۔ کمرہ میں آگ جلاتے ہو تو اس کے بجھنے کے بعد بھی اس کی گرمی محسوس کرتے ہو۔ اسی طرح انبیاء خداتعالیٰ کی محبت میں اس قدر محو ہوتے ہیںکہ جب وہ سوتے ہیں اُس وقت بھی ان پر یہی محویت طاری ہوتی ہے، جب اٹھتے ہیں اس وقت بھی یہی محویت ہوتی ہے، جب کھاتے ہیں اُس وقت بھی اور جب پیتے ہیں اُس وقت بھی، اِس طرح اُن کی نیند بھی خدا کیلئے ہوتی ہے اور اُن کی بیداری بھی ، اُن کا کھانا بھی خدا کے لئے ہوتا اور اُن کا پینا بھی۔ اسی طرح اُن کا اُٹھنا، اُن کا بیٹھنا ، اُن کا نہانا، اُن کا پیشاب پاخانہ کرنا سب خدا کیلئے ہوتاہے۔ وہ کام دنیا کو دنیا کے نظر آتے ہیں مگر خداتعالیٰ کی نگاہ میں وہ اُس کیلئے ہوتے ہیں کیونکہ اُن کاموں میں وہی خوشبو سمائی ہوئی ہوتی ہے جو خوشبو اُن کی زندگی کا اصل مقصود ہوتی ہے۔ تو جب محض ِﷲ کوئی شخص کام کرتا ہے اُس وقت اُس کی باقی گھڑیوں پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ پس مؤمن کو اپنے کاموں میں لِلّٰہیت کو کبھی نہیں بھُولنا چاہئے۔ خداتعالیٰ نے ہم کو ایک ایسے ماحول میں پیدا کیا ہے کہ ہمیں سزائیں بھی دینی پڑتی ہیں، ہمیں گرفتیں بھی کرنی پڑتی ہیں، ہمیں سیاستِ اسلام کو بھی قائم کرنا پڑتا ہے مگر باوجود اس کے چونکہ بندہ خداتعالیٰ کا ظل ہے اور خداتعالیٰ اپنے متعلق یہ فرماتا ہے کہ ۱۰؎اس لئے ہمیں معافیاں بھی دینی پڑتی ہیں، درگزر بھی کرنا پڑتا ہے اور چشم پوشیاں بھی کرنی پڑتی ہیں۔
کئی نادان ہیں جو ان باتوں کی وجہ سے دھوکا کھاجاتے ہیں۔ چنانچہ بعض تو وہ ہیں جو یہ کہتے رہتے ہیں کہ کیوں زیادہ سختی نہیں کی جاتی اور بعض وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ کیوں نرمی نہیں کی جاتی وہ یہ نہیںجانتے کہ ہم اس خدا کے مظہر ہیں جو نرمی بھی کرتا ہے اور سختی بھی۔ وہ مجرم کو اس کے کئے کی سزا بھی دیتا ہے اور کئی مجرموں کو معاف بھی کردیتا ہے۔ مؤمن تو خداتعالیٰ کا ظِلّ ہے ورنہ اپنی ذات میں مؤمن کوئی چیز نہیں، اپنی ذات میں نبی بھی کوئی چیز نہیں۔ نبی کی قیمت اسی لئے ہے کہ وہ خداتعالیٰ کا ظِل ہے، صدیق کی قیمت بھی اسی لئے ہے کہ وہ خداتعالیٰ کا ظِلّ ہے، شہید کی قیمت بھی اسی لئے ہے کہ وہ خداتعالیٰ کا ظِل ہے اورصالح کی قیمت بھی اسی لئے ہے کہ وہ خداتعالیٰ کا ظِل ہے۔ کوئی بڑا سایہ ہے اور کوئی چھوٹا۔ اپنی ذات میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جوحی ّ اور قیّوم ہے۔ جو پہلے بھی تھا، اب بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ باقی چیزیں آئیں اور فنا ہوگئیں، آئیں او رمٹ گئیں۔ ان کو اگر زندگی ملتی ہے جیسے مَابَعْدَالْمَوْت حیات دی جاتی ہے تو وہ خداتعالیٰ کے طفیل ملتی ہے۔ اپنی ذات میں ان کے اندر کوئی ایسی خوبی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ ابدی زندگی کے مستحق ہوں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک چھوٹا بچہ جو چل بھی نہیں سکتاہو سکتا ہے اسے ایک مضبوط انسان اپنی گود میں اُٹھالے اور بھاگ پڑے۔ اب بچہ یقینا اس جگہ نہیں ہوسکتا جہاں وہ ایک منٹ پہلے تھا۔ وہ اگر پہلے اس جگہ تھا تو ایک منٹ کے بعد پندرہ بیس گز دور چلاجائے گا پھر اور دور چلا جائے گا اور پھر بالکل نظروں سے اوجھل ہوجائے گا مگر وہ بچہ نہیں چل رہا بلکہ آدمی چل رہا ہے۔ اسی طرح جو حیاتِ ابدی مرنے کے بعد انسان کو ملتی ہے وہ انسان کی حیاتِ ابدی نہیں ہوتی بلکہ خداتعالیٰ کی حیاتِ ابدی ہوتی ہے۔ وہ انسان نہیں بڑھ رہا ہوتا بلکہ خدا بڑھ رہا ہوتا ہے۔ دنیا میںکون ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑے سے بڑا انسان ہو جو یہ کہہ سکے کہ وہ خداتعالیٰ کی مدد کے بغیر ایک سیکنڈ بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ ایک سیکنڈ کیا سیکنڈ کا اربواں حصہ بھی کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
پس مَابَعْدَالْمَوْت اگر انسان کو ابدی زندگی ملتی ہے تو محض اس لئے کہ وہ خداتعالیٰ کی گودمیں آجاتا ہے اور چونکہ خدا ہمیشہ کیلئے زندہ ہے ا س لئے وہ بھی ہمیشہ کیلئے زندہ ہوجاتا ہے۔ تو بندے کے تمام کام دراصل ظلّی ہوتے ہیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ اپنی شان میں یہ فرماتا ہے کہ تو لازماً بندوں کے کاموں میں بھی رحمت کا پہلووسیع ہونا چاہئے۔ اسی وجہ سے بندہ کسی مجرم کو بخشے گا اور کسی کی سزا کوکم کرے گا لیکن کسی مجرم کو وہ سزا بھی دے گا کیونکہ وہ صرف کا مظہر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیتِ یوم الدین کا بھی مظہر ہے۔ پس جس جس مقام پر وہ خداتعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے اس مقام کے مناسب حال وہ سلوک کرتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کیوں ایسا کام کرتا ہے جو کا کام ہے، اس لئے کہ جو اس کی مالکیت کا ظِلّ ہے وہ اس صفت میں اس کا مظہر نہ بنے تو کیا کرے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ سزا کے مقام پر صفت کا مظہر بنے، چشم پوشی یا احسان کے موقع پر صفتِ رحمانیت کا مظہر بنے، پرورش کے موقع پر صفتِ ربوبیت کا مظہر بنے اور انعامات کے موقع پر صفتِ رحیمیت کا مظہر بنے۔ ہاں اگر وہ ان صفات کے خلاف چلتا ہے تب بے شک اعتراض کیا جاسکتا ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ جب کی صفت کا ظہور ضروری ہوتا ہے تو یہ رحمانیت کی صفت ظاہر کرنے لگ جاتا ہے اور جب رحیمیت کی صفت جلوہ گری ضروری ہوتی ہے تو ربوبیت کا اظہار کرنے لگ جاتا ہے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ رحمن کیوں ہے، یہ رحیم کیوں ہے، یہ کیوں ہے اور یہ کیوں ہے۔ جس طرح خداتعالیٰ کسی موقع پر ہوتا ہے اور کسی موقع پر رحمن، کسی موقع پر رحیم ہوتا ہے اور کسی موقع پر۔یہی حال بندے کا ہے اسے بھی مختلف موقعوں پر مختلف صفات کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔ ہاں جو چیز اعتراض کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ خدا کسی کو معاف کررہا ہو اور یہ اسے سزا دینے کے درپے ہو۔ یا خدا سزا دینے کے درپے ہو اور یہ اسے معاف کررہا ہو۔ یہ قابلِ اعتراض بات ہے اور یہ نہیں ہونی چاہئے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کیوں کسی وقت سزا دی جاتی ہے اور کسی وقت معاف کردیاجاتا ہے۔
قرآن کریم میں دیکھ لو اللہ تعالیٰ ایک مقام پر فرماتا ہے کہ تم لوگوں کو معاف کیا کرو کیونکہ درگزر کرنا اور چشم پوشی سے کام لینا بڑی اچھی بات ہے۔ لیکن دوسری جگہ فرماتا ہے کہ جب فلاںقسم کے مجرموںکو سزا دی جارہی ہو تو یاد رکھو اگر اُس وقت تمہارے دل میں ذرا بھی رحم پیدا ہؤا تو تم اللہ تعالیٰ کو ناراض کرلو گے۔ اب ایک طرف اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ لوگوں کو معاف کرواور دوسری طرف یہ فرماتا ہے کہ دیکھنا تمہارے دل میں بھی رحم نہ آئے۔ رحم پیدا ہؤا اور تمہارا ایمان ضائع ہؤا۔ اب یہ تونہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ نَعُوْذُ بِاﷲِشقاوتِ قلبی کی تعلیم دیتا ہے۔ یا جب کہتا ہے کہ معاف کرو تو بُزدل بناتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا منشاء اس میں ہمیں یہ بتانا ہے کہ جب میں کہو ں کہ سزا دو تو تم سزا دو اور جب میں کہوں چھوڑ دو تو تم چھوڑ دو۔ جب میں رحمانیت کا جامہ پہن کر آئوں تو تم بھی رحمانیت کا جامہ پہن لو اور جب میں کا جامہ پہن کر آئوں تو تم بھی رحمانیت کا جامہ اتار کر مالکیتِ کا جامہ پہن لو۔ غرض جس جُبّہ میں بھی میںہوں وہی جُبّہ تمہارا ہو اور جو کچھ میں کروں وہی تم کرو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کئی دفعہ ایک مثال سنایا کرتے تھے جو بیسیوں دفعہ میں نے آپ کی زبان سے سُنی ہے۔ آپ فرماتے ہیں بندہ کا کام اسی رنگ میں رنگین ہوجانا ہے جو اسے خداتعالیٰ بخشتا ہے۔ پھر آپ مثال سناتے اور فرماتے کہتے ہیں کوئی راجہ تھا، ایک دفعہ اس کے سامنے بینگن کا سالن رکھا گیا جو بہت عمدگی سے تیار کیا گیا تھا اور اسے بہت پسند آیا۔ اس نے دربار میں اُس کی تعریف کی اور کہا کہ بینگن معلوم ہوتا ہے بہت اچھی ترکاری ہے۔ یہ سنتے ہی ایک درباری ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا حضور بینگن کے کیا کہنے ہیں اس میں یہ خوبیاں ہیں، اس میں وہ خوبیاں ہیں۔ چنانچہ جتنی تعریفیں طب میںبینگن کے متعلق لکھی تھیں وہ سب اس نے بیان کرڈالیں اور آخر میں کہنے لگا حضور! اس کی شکل بھی تو دیکھیں بالکل صوفی معلوم ہوتا ہے۔ جس طرح صوفیوں نے سبز عمامہ پہنا ہؤا ہوتاہے اور ان کا کالا جُبّہ ہوتا ہے اسی طرح اس کی شکل اور رنگ اور وضع سب صوفیوں کی سی ہے۔ خیر بادشاہ جو چند دن مسلسل بینگن کھاتا رہا تو اسے بواسیر ہوگئی۔ حکیموں نے کہا حضور! آپ نے بڑی بے احتیاطی کی، اتنے دن جو مسلسل آپ بینگن کھاتے رہے ہیں اسی وجہ سے آپ کو بواسیر ہوئی ہے۔ بادشاہ نے یہ سُن کر بینگن کھانے ترک کردیئے اور ایک دن دربارمیں باتوں باتوں میں کہنے لگا کہ بینگن بھی کچھ ایسی اچھی چیز نہیں ہوتے اس میں بھی کئی خرابیاں ہیں۔ یہ سُن کر وہی درباری کھڑ اہوگیا اور کہنے لگا حضور! بینگن بھی کوئی ترکاریوں میں سے ترکاری ہے۔ اس میںیہ مضرّت ہے، اس میںوہ مضرت ہے۔ چنانچہ طب میںبینگن کی جس قدر مضرتیں بیان کی گئی ہیں وہ سب اُس نے ذکر کردیں کیونکہ طب میں ہر چیز کے فوائد اور نقصانات دونوں بیان ہوتے ہیں پھر آخر میں کہنے لگا حضور! اس کی شکل بھی تو دیکھیں کیسی منحوس ہے۔ جس طرح چور کے ہاتھ منہ کالے کرکے پھانسی پر لٹکایا ہؤا ہوتا ہے اسی طرح یہ بیل سے لٹکا ہؤا ہوتا ہے۔ لوگوں نے اُسے کہا ارے! یہ کیا، اُس دن تو تُو بینگن کی اتنی تعریف کررہا تھا اور آج تو اس کی برائیاں بیان کررہا ہے۔ وہ کہنے لگا میں بینگن کا نوکر تھوڑا ہوں، میں تو راجہ کانوکر ہوں۔ آپ فرماتے جب لوگ ایسے آقائوں کی جو غلطیاں کرسکتے ہیں ایسی اطاعت کرتے ہیں تو ہم اُس آقا کی اتباع کیوں نہ کریں جو کبھی غلطی نہیں کرتا اور جس کا ہر رنگ باموقع اور ضروری ہوتا ہے۔ ہم تو وہی کریں گے جو خداتعالیٰ کہتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جب تک کسی انسان کو ایسی ہی وابستگی حاصل نہ ہو وہ کبھی نجات نہیں پاسکتا کیونکہ انسان غلطی کرسکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ غلطی نہیں کرسکتا۔ جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اِس وقت دن ہے تو ہم بھی کہتے ہیں کہ اس وقت دن ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ رات ہے تو ہم بھی کہتے ہیں کہ رات ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ نرمی کرو تو ہم بھی کہتے ہیں نرمی کرو اور جب وہ کہتا ہے سختی کرو تو ہم بھی کہتے ہیں سختی کرو۔ جب وہ کہتا ہے آگے بڑھو تو ہم بھی کہتے ہیں آگے بڑھو اور جب وہ کہتا ہے کہ پیچھے ہٹو تو ہم بھی کہتے ہیں کہ پیچھے ہٹو۔ نادان کہتے ہیں کہ تم اپنی باتوں کو بدلتے ہو حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نہیں بدلتے بلکہ وہی کچھ کہتے ہیں جو اُدھر سے ہمارے دل اور دماغ میں ڈالا جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے پاس سے کچھ کہیں تو ہم پر اعترض ہوسکتا ہے لیکن جب ہماری ہر حرکت اور ہمارا ہر سکون خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہو تو یقینا وہی بہتر ہو گا جو خدا کا منشاء ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جب لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ آپ نے پہلے حضرت مسیح ؑپر اپنی فضیلت صرف جُزئی قرار دی تھی مگر اب فرماتے ہیں کہ میں اپنی تمام شان میں اس سے بڑھ کر ہوں۔ تو آپ نے اس کے جواب میں یہی فرمایا کہ میں تو خدا تعالیٰ کی وحی کی پیروی کرنے والا ہوں۔ جب تک مجھے اُس سے علم نہ ہؤا مَیں وہی کہتا رہا جو اوائل میں مَیں نے کہا اور جب مجھے اُس کی طر ف سے علم ہؤا تو میں نے اُس کے مخالف کہا۔ میںانسان ہوں مجھے عالم الْغیب ہونے کا دعویٰ نہیں۔
تو نبی بھی جب تک خداتعالیٰ کی طرف سے آواز نہیں آتی ، قوم میں مروجہ خیالات کی پیروی کرتا ہے مگر جب خداتعالیٰ کی آواز آتی ہے تو وہ فوراً ان خیالات کو پھینک دیتا ہے۔ مثنوی رومی والے اسی امر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے بندوں کی مثال بانسری کی طرح ہوتی ہے۔ اب بانسری آپ تھوڑی بول رہی ہوتی ہے اس میں تو جو کچھ پھونکا جاتا ہے وہی وہ باہر نکال دیتی ہے۔ اسی طرح جو حقیقی مؤمن ہیں وہ بھی اپنے پاس سے کچھ نہیں کہتے بلکہ اپنے رب کی طرف دیکھتے ہیں۔ خدا جہاں اُنہیں بٹھاتا ہے وہ وہاں بیٹھ جاتے ہیں، جہاں کھڑا کرتا ہے وہاں کھڑے ہوجاتے ہیں، جو کہتا ہے وہ کہتے چلے جاتے ہیں اور جس سے روکتا ہے اس سے رُک جاتے ہیں۔ جب یہ رنگ کوئی شخص اختیار کرلے تب وہ واقع میںمؤمن کہلاسکتا ہے۔ ورنہ نہ ہر جگہ نرمی اچھی ہوتی ہے نہ ہر جگہ سختی۔ مؤمن صرف یہ دیکھتا ہے کہ خداتعالیٰ کے دین کا فائدہ کس میں ہے۔ اگر اس کے دین کا فائدہ سختی میں ہو تو وہ سختی کرتا ہے اوراگر اس کے دین کا فائدہ نرمی میں ہو تو وہ نرمی کرتا ہے۔ جب خدا اسے کہتا ہے کہ میرے دین کا فائدہ اِس وقت نرمی میں ہے تو وہ اتنا نرم بن جاتا ہے کہ پانی بھی اتنا نرم نہیں ہوتا اور جب وہ کہتا ہے کہ میرے دین کا فائدہ سختی میں ہے تو وہ اتنا سخت بن جاتا ہے کہ لوہا بھی اتنا سخت نہیں ہوتا۔ اس کی نہ سختی اصلی ہوتی ہے نہ نرمی اصلی ہوتی ہے اصل چیز تو وہ عشق اور محبتِ الٰہی ہوتی ہے جو اس کے دل میں مخفی ہوتی ہے اور جس کی وجہ سے وہ ہر وقت خداتعالیٰ کی آنکھ کی طرف دیکھتا رہتا ہے۔ جس سے اُس کی آنکھ پھرے اُس سے وہ بھی پھر جاتا ہے اورجس پر وہ رحمت کی نگاہ ڈالے اُس سے وہ بھی محبت کرنے لگ جاتا ہے۔ جب خدا کسی کو غضب کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو بغیر ایک منٹ کے تردّد کے وہ بھی اس پر غضبناک ہوجاتا ہے اور جب خدا کسی کو محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو بغیر ایک لمحہ کے توقّف کے وہ بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں جس کی اتباع کررہا ہوں وہ یہی کہتا ہے کہ فلاںغضب کا مستحق ہے اورفلاں رحمت کا۔ یہ وہ مقام ہے جس کے حصول کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے اور منعم علیہ گروہ وہ ہے جس کی دوسری جگہ یہ تشریح کی گئی ہے کہ اس میں نبی، صدیق، شہید اور صالح شامل ہیں۔ گویا منعم علیہ گروہ وہ ہے جو خداتعالیٰ کی صفات کو دنیا میں جاری کرتا ہے کیونکہ سب سے بڑی نعمت اس کی صفات کا آئینہ قلب میں منعکس ہونا ہی ہے۔ نبوت کیا ہے؟ وہ خداتعالیٰ کا ایک آئینہ ہے۔ صدیقیت کیا ہے؟ وہ بھی خداتعالیٰ کا ایک آئینہ ہے۔ شہادت کیا ہے؟ وہ بھی خداتعالیٰ کا ایک آئینہ ہے۔ اور صالحیت کیا ہے؟ وہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک آئینہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی مستقل آئینہ ہے، کوئی عارضی، کوئی چھوٹا اور کوئی بڑا۔ کوئی تھوڑی دیر کیلئے آئینہ اور کوئی زیادہ دیر کیلئے مگر بہرحال اپنی ذات میں وہ کچھ نہیں۔ وہ صرف خداتعالیٰ کا انعکاس ہیںاور اگر کا محبت کی زبان میں ہم ترجمہ کریں تو یوںہوگا کہ وہ لوگ جن کی طرف تُو نے منہ کرکے دیکھ لیا۔ اب جس آئینہ کی طرف محبوب منہ کرکے دیکھتا ہے اُس میںاُس کی شکل بھی آجاتی ہے۔ پس کے یہ معنے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے خداتعالیٰ کا چہرہ دیکھ لیا اور اُنہوں نے لوگوں سے یہ کہنا شروع کردیا کہ اگر تم خداتعالیٰ کی شکل دیکھنا چاہتے ہو تو ہمارے دل کے آئینہ میں اس کی شکل دیکھ لو۔ پس ان کا لوگوں کے ساتھ جو بھی معاملہ ہو خداتعالیٰ کی طرز پر ہوتا ہے۔ جب وہ کہتا ہے نرمی کرو تو وہ نرمی کرتے ہیں۔ جب کہتا ہے دلیری دکھائو تودلیری دکھاتے ہیں۔ جب کہتا ہے خاموش رہو تو خاموش ہوجاتے ہیں۔ جب کہتا ہے بولو تو بولتے ہیں۔ جب اس مقام کو کوئی جماعت حاصل کرلیتی ہے تو اس کے بعد خداتعالیٰ کاظہور اس کے ذریعہ ہونے لگتا ہے لیکن جو قوم اپنے آپ کو اس کا آئینہ نہیں بناتی اس میں اس کی شکل نظر نہیں آسکتی۔ کیا مٹی کے ڈھیلے لے کر تم لوگوں کو تصویریں دکھاسکتے ہو؟ مٹی کے ڈھیلوں میں تصویر نظر نہیں آتی بلکہ تصویر اُس وقت نظر آئے گی جب تمہارے پاس آئینہ ہوگا اور آئینہ بھی وہ جس کا محبوب کی طرف منہ ہو۔
پس تم اپنے آپ کو خدا نما آئینہ بنائو اورکے حکم کے مطابق تمام دنیا کو محبوب ازلی کے خوبصورت چہرہ سے روشناس کرو کیونکہ آئینہ صرف اپنے اندر ہی تصویر نہیں لیا کرتا بلکہ دوسروں کو بھی دکھا دیتا ہے۔ پس تم بھی ایسے بنو کہ تمہارے اندر خدائی نور نظر آئے اور تمہارے ذریعہ سے خداتعالیٰ کا منشاء ظاہر ہو۔ جب تم سختی کیلئے کھڑے ہو تو اس لئے مت کھڑے ہو کہ تمہارا نفس تمہیں کہتا ہے کہ تم سختی کرو بلکہ تم اس لئے سختی کرو کہ تمہارا خدا کہتا ہے میں مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہوں اور تمہارا فرض ہے کہ تم اِس صفت کے مظہر بنو۔ اسی طرح جب نرمی کیلئے کھڑے ہو تو اس لئے مت نرمی کرو کہ تمہارا نفس تمہیں نرمی کا مشورہ دیتا ہے بلکہ اس لئے نرمی کرو کہ تمہارا خدا کہتا ہے اور تمہارے خدا کا یہ حکم ہے کہ تم اس کی صفات اپنے اندر پیدا کرو۔ اسی طرح جب بنی نوع انسان سے شفقت اور احسان کے ساتھ پیش آئو تو اس لئے شفقت اور مروت مت کرو کہ ذاتی طور پر تمہارے دل میں شفقت کا خیال پیدا ہؤا ہے بلکہ اس لئے شفقت کرو کہ تمہارا خدا کہتا ہے کہ میں رحمن اور رحیم ہوں اور تمہارا فرض ہے کہ صفتِ رحمانیت اور رحیمیت کے مظہر بنو۔ اسی طرح جب تم بیکسوں اور غریبوں کی خبرگیری کرو، جب تم یتیموں کی پرورش کرو ، جب تم بیوائوں پر ترس کھائو تو ان کی خبرگیری اورپرورش اس لئے نہ کرو کہ تمہارے دل میں اس کا خیال پیدا ہوا ہے بلکہ اس لئے کرو کہ ربُّ العٰلمین خدا تمہارے سامنے جلوہ گر ہے اور تمہارا فرض ہے کہ اس کی ربوبیت کا جامہ پہن لو۔ غرض تم اُس وردی کے پہننے والے ہو جو تمہارا افسر پہنتا ہے۔ جس طرح بادشاہ جس قسم کی وردی پہنتا ہے اُسی کی نقل سپاہیوں کو پہنائی جاتی ہے۔ اسی طرح تمہارا بھی فرض ہے کہ تم اپنے ازلی اور ابدی بادشاہ کی طرف دیکھو اور جو اُس کا لباس ہو وہ پہنو۔ اور یاد رکھو کہ جس طرح وہ سپاہی جو بادشاہ کا مقرر کردہ لباس نہیں پہنتا اُس کا نام فوج میں سے کاٹ دیا جاتا ہے اسی طرح وہ شخص جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے آئینہ قلب میں منعکس نہیں کرتا اور نہ ان صفات کے مطابق اپنے معاملات رکھتا ہے، اُس کا نام اللہ تعالیٰ کے حضور مؤمنوں کی فہرست میں سے کاٹ دیا جاتا ہے۔‘‘ (الفضل ۱۰؍ جون ۱۹۳۸ئ)
۱؎ الفاتحۃ:۶،۷
۲؎ بخاری کتاب الصوم باب ھَلْ یَقُوْلُ اِنِّی صَائِمٌ اِذَا شُتِم
۳؎ البقرۃ: ۱۸۷ ۴؎ النمل: ۶۳ ۵؎ الضّحٰی: ۱۲
۶؎ بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الْأِسْلام
۷؎ النور: ۵۶
۸؎ بخاری کتاب الایمان باب سُئَوالِ جِبْریْلَ النَّبیَّ صلی اﷲ علیہ وسلم عن الایمان (الخ)
۹؎ بخاری کتاب الجمعۃ باب الطِّیْبُ لِلْجُمُعۃِ
۱۰؎ الاعراف: ۱۵۷

۱۷
یاجوج ماجوج کی حقیقت اور اسلامی تعلیم کا نِفاذ
(فرمودہ ۱۰؍ جون ۱۹۳۸ئ)
تشہّد،تعو ّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مسیح موعود ؑ کے زمانہ کے متعلق قرآن کریم میں یہ خبر دی گئی ہے اور احادیث میں بھی متواتر اور کثرت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ اُس وقت دو طاقتیں جو آپس میں ایک دوسرے کی مخالف ہوں گی ظاہر ہوں گی۔ ان میں سے ایک طاقت کا نام یاجوج رکھا گیا ہے اور دوسری طاقت کا نام ماجوج رکھا گیا ہے اور چونکہ بظاہر دو مخالف طاقتیں تیسری طاقت سے سمجھوتے کی کوشش کیا کرتی ہیں یعنی اگر تین طاقتیں دنیا میں ہوں تو دو مخالف طاقتیں ہمیشہ اُس سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور ہر ایک ان میں سے چاہتی ہے کہ اس کی ہمدردی ہمیں حاصل ہو اور اس کا تعاون ہمارے ساتھ ہو اور بظاہر انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اگر ایک علیحدہ گروہ ہیں تو مخالف طاقتوں میں سے کسی کی ہمدردی یا تعاون ہمیں حاصل ہوہی جائے گا اس لئے ہوسکتا تھا کہ مسیح موعود ؑکی جماعت بھی اِس وہم میں مبتلا ہوجاتی کہ شاید ان میں سے کسی ایک گروہ کا ہم سے تعاون ہوجائے گا۔ پس رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِس وہم کو دور کرنے اور اِس خیال کی تکذیب کرنے کیلئے پھر ان دونوں کا ایک مجموعی نام رکھ دیا اور وہ نام دجّال ہے اور اس طرح بتادیا کہ گو یاجوج اور ماجوج دونوں آپس میں مخالف ہوں گے لیکن اسلامی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ہی اس کے مخالف ہوں گے اور اسلامی تعلیم کی تائید کی اِن دونوں سے ہی امید نہ کی جاسکے گی سوائے اس کے کہ وہ بحیثیت جماعت یا انفرادی طور پر اپنے طریق کو چھوڑیں اور اسلام کے اصول کو کُلّیۃً اختیار کرلیں۔
اِس وقت تک گزشتہ زمانہ کو دیکھتے ہوئے عام طور پر ہماری جماعت میں بھی اور پہلی جوجماعتیں اس امر کی تحقیق میں لگی رہی ہیں ان میں بھی یہ خیال پایا جاتا تھا کہ یاجوج اور ماجوج درحقیقت دو مُلکوں کے نام ہیں لیکن خداتعالیٰ کی طرف سے جو پیشگوئیاں ہوتی ہیں ان کی پوری حقیقت وقت پر کھلا کرتی ہے۔ اب جو واقعات ظاہر ہورہے ہیں انہوں نے بتادیا ہے کہ یہ دو ملکوں کے نام نہیں بلکہ دو اصول کے نام ہیں۔ بے شک ممکن ہے یہ دو اصول خاص دو مُلکوں کے ذریعہ زیادہ نمایاں طور پر نظر آتے ہوں مگر حقیقتاً یہ کسی ایک مُلک سے تعلق نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ۱؎یعنی یہ دونوں گروہ دنیا کے ہر مقام پر مسلط ہونے کی کوشش کریں گے اور ہر ایک روک جو اُن کے راستہ میں آئے گی اُس پر چڑھنے اور اس پر غالب آنے کیلئے جدوجہد اور سعی عمل میں لائیں گے اور یہ بات اب بالکل نمایاں اور واضح طور پر نظر آگئی ہے۔ چنانچہ واقعات نے ظاہر کردیا ہے کہ یاجوج اور ماجوج دو اصول ہیں جو اِس زمانہ میں دنیا پر غالب آنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک اصل تو وہ ہے جو جمہوریت کو اس کے تمام عیوب سمیت دنیا میں ترقی دینے کی کوشش کررہا ہے اور دوسرا اصل وہ ہے جو قابلیت اور لیاقت کو ترقی دینا چاہتا ہے اور جمہوریت کی روح کو دبانا چاہتا ہے۔ یہ دواصول اِس وقت دنیا میں ایک دوسرے کے مقابلہ میں غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک اصل تو اِس بات کی جدوجہد میں مشغول ہے کہ افراد کی طاقت کو بڑھا کر دنیا میں غلبہ حاصل کیا جائے اور ایک اصول اس غرض کیلئے کوشاں ہے کہ اعلیٰ قابلیت کو رہنمائی کی باگ ڈور دے کر دنیا پر غلبہ حاصل کیا جائے۔ ان دونوں گروہوں نے دنیا پر کامل طور پر غلبہ حاصل کیا ہؤا ہے اور ساری دنیا اِن دو گروہوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی ہے۔ اسلام اِن دونوں کے خلاف اوراِن دونوں سے بالکل الگ ایک درمیانی راہ پیش کرتا ہے۔ وہ انفرادیت کو بھی نظرانداز نہیں کرتا اور چِیدہ افراد کی طاقتوں سے کام لینے کو بھی ناپسند نہیں کرتا۔ وہ یہ اجازت بھی نہیں دیتا کہ افراد کی حریت کو کُچل دیا جائے اوروہ یہ بھی اجازت نہیں دیتا کہ چِیدہ افراد کی قابلیت سے دنیا محروم کردی جائے۔
غرض اسلامی تعلیم کا دائرہ اپنی وسعت کے ساتھ اِن دونوں گروہوں پر حاوی ہے اوروہ دونوں کے درمیان ایک راستہ بتاتا ہے۔ چنانچہ اسلامی حکومت کا دارومدار اِن دونوں اصول کے بین بین تھا۔ ایک طرف وہ تسلیم کرتا ہے کہ سب انسانوں میں ذہنی مساوات نہیں۔ بعض دماغ زیادہ قابلیت رکھتے ہیں اور بعض کم، بعض زیادہ قربانیاں کرسکتے ہیں اور بعض کم، بعض زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں اور بعض کم۔ پس قوم کو زیادہ سمجھدار، زیادہ عقلمند اور زیادہ فہم و تدبر رکھنے والوں کی قابلیت سے محروم نہیں کردینا چاہئے مگر وہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ افراد کی مجموعی رائے بھی بڑی طاقت ہوتی ہے اور اس کو نظر اندا زکرنا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا بعض لوگ خیال کرتے ہیں اور نہ اسے نظر انداز کرنا انسانی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب ہی ہے۔
پس اسلام کا مقابلہ اِن دونوں اصول کے ساتھ ہے۔ وہ ان کے بھی خلا ف ہے جو افراد کو اتنا غلبہ دینا چاہتے ہیںکہ چِیدہ افراد سے لیاقت اور قابلیت کو دنیا سے مٹادینا چاہتے ہیں۔ اور وہ اس کے بھی مخالف ہیں کہ چند لائق افراد کے ہاتھ میں دنیا اس طرح دے دی جائے کہ قوم کی اکثریت کی رائے مٹادی جائے۔ پس جہاں تک دنیا کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے آئندہ دنیا میں اسلام کا مقابلہ یاجوج اور ماجوج سے اس رنگ میںہوگا کہ ایک طرف افراد کی حریت قائم کی جائے گی اور دوسری طرف چِیدہ افراد کی قابلیتوں سے فائدہ اٹھانے کا راستہ کھولا جائے ۔ مگر یہ اتنابڑا کام ہے کہ جو اسلام کی حامل یعنی جماعت احمدیہ کی موجودہ قوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانی نقطۂ نگاہ سے ناممکن نظر آتا ہے۔ اِن دونوں گروہوں کی پوری شوکت اگر کسی نے دیکھنی ہو تو وہ دنیا کی برتری حاصل کرنے کی کوشش کرنے والی مختلف جماعتوں کو دیکھ لے اور اسے معلوم ہوجائے گا کہ اِس وقت مذکورہ بالا دو اصول کُلّی طور پر دنیا کو تقسیم کئے ہوئے ہیں۔ آدھی دنیا ایک طرف ہے اور آدھی دوسری طرف۔ اور بیچ میں بے سامان و بیکس جماعت احمدیہ ہے جو اسلامی اصول کی حمایت میں کھڑی ہے۔پس اگر اسلامی اصول نے دنیا میں ترقی کرنی ہے تو ہمارے لئے ضروری ہوگا کہ ان دونوں طاقتوں کو ایک درمیانی نقطہ پر جمع کیا جائے اور پھراسلامی تعلیم کے ماتحت ان کو چلایا جائے مگر ایک ایسی جماعت جسے اپنے مرکز میں بھی امن حاصل نہیں، جسے چھوٹی چھوٹی اقلیتیں بھی دبانے اور ڈرانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں ، جس کی مثال اپنے مخالفین کے مقابلہ میں ایسی ہی ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان ہوتی ہے۔ وہ ان زبردست اور عظیم الشان طاقتوں کی اصلاح کرسکتی ہے یا نہیں۔ یہ ایک سوال ہے جو ہرشخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے اور بظاہر انسانی سامانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ امر بالکل ناممکن نظر آتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جب بھی کوئی کام لیا ہے ہمیشہ ایسے ہی وجودوںسے لیا ہے جو بظاہر دنیا میں بے کس نظر آتے تھے، بظاہر ذلیل اور حقیر نظر آتے تھے، بظاہر ناکارہ اور لغو دکھائی دیتے تھے مگر الٰہی تصرف سے ترقی کرکے وہ ایسی طاقت پکڑ گئے کہ دنیا ان کے کاموں سے حیران رہ گئی۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو جِدوجُہد شروع ہوئی کون کہہ سکتا تھا کہ وہ دنیا پر ایک دن غالب آکر رہے گی۔ فرانس کا ایک مشہور مصنف رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے ممکن ہے بعض امور محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم ) کی عظمت کے متعلق ہمیں شُبہ میں ڈال سکتے ہوں مگر ایک چیز ہے جو محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم ) اور آپ کے ساتھیوں میں مجھے نظر آتی ہے اور میں جب بھی اس پر غور کرتا ہوں محوِ حیرت ہوکر رہ جاتا ہوں اور وہ یہ کہ آج سے ساڑھے تیرہ سَو سال پہلے عرب کی سرزمین میںایک مسجد میںجس کی دیواریں گارے سے بنی ہوئی ہیں، جس کی چھت پر لکڑیاں نہیں بلکہ کھجور کی شاخیں پڑی ہوئی ہیں اور وہ اتنی کمزور ہے کہ ذرا بارش ہو تو پانی ٹپکنے لگ جاتا ہے۔ اُس میں چند آدمی جمع ہیں اور وہ ایسے ہیں کہ جن کے تن پر پورا لباس بھی نہیں۔ اگر بعض کے پاس پاجامے ہیں تو کُرتے نہیں، اگر کُرتے ہیں تو پاجامے نہیں اور اگر کسی کے پاس کُرتہ اور پاجامہ ہے تو اُس کے سر پر پگڑی نہیں۔ اور گر کسی کے پاس سر ڈھانکنے کیلئے پھٹی پُرانی پگڑی ہے تو اسے جُوتی میسر نہیں۔ پھر وہ اَن پڑھ ہیں، وہ جاہل ہیں، وہ دنیا کے کسی علم سے واقف نہیں۔ غرض میں اپنے خیال کی نگاہ میں جب اُن کو دیکھتا ہوں تو وہ مجھے چند غریب اور بے کس انسان نظر آتے ہیں۔ وہ ایک کچی مسجدمیں بیٹھے ہیں، وہ پورے لباس سے بھی عاری ہیں، وہ جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں اور سجدہ میں جھکتے ہیں تو بارش کی وجہ سے اُن کی پیشانی کیچڑ میں لَت پَت ہوجاتی ہے (یہ تمام باتیں احادیث میں لکھی ہوئی ہیں) مگر جب میںقریب ہوکر سنتا ہوں کہ آپس میں وہ کیا باتیں کررہے ہیں تو میرے کانوں میں یہ آواز آتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے یہ مشورہ کررہے ہیں کہ ہم کس طرح تمام دنیا کو فتح کرکے اسلام کو غالب کردیں۔ اور یہ ان کی باتیں جو پاگلوں کی بڑ معلوم ہوتی ہیں تھوڑے ہی عرصہ میں پوری بھی ہوجاتی ہیں۔ اور وہ واقع میں ساری دنیا پرغالب آ جاتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ جب میں یہ بات دیکھتا ہوںتو مجھے ماننا پڑتا ہے کہ محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم ) جو کچھ کہتے تھے اپنی طرف سے نہیں کہتے تھے بلکہ کوئی اور زبردست طاقت تھی جو اُن سے یہ باتیں کہلواتی تھی۔
آج جو ہماری حالت ہے یہ بظاہر اُس زمانہ سے اچھی نظر آتی ہے۔ ہماری یہ مسجد پختہ ہے، اس کے ستون سیمنٹ کے ہیں، اس کی چھت پر گارڈر پڑے ہوئے ہیں اور نمازیوں کے آرام کیلئے بڑے بڑے سائبان لگے ہوئے ہیں، غر ض اُس زمانہ سے بظاہر ہماری حالت مختلف ہے مگر جو ہمارے دشمنوں کی حالت ہے وہ بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں کی حالت سے مختلف ہے۔ اور اگر نسبت کے لحاظ سے غور کیا جائے تو ہر شخص کو یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ جو حالت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اور آپ کے صحابہؓ کی دشمنوں کے مقابلہ میں تھی وہی ہماری جماعت کی موجودہ زمانہ کے دشمنوں کے مقابلہ میں ہے کیونکہ دنیا میں ہمیشہ نسبت دیکھی جاتی ہے، تعداد نہیں دیکھی جاتی۔ اگر ایک روپیہ سے ایک شخص ایک سَو روپیہ کا مقابلہ کرتا ہے اور اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا شخص ایک سَو روپیہ سے دس ہزار کا مقابلہ کرتا ہے تو اِن دونوں کا معاملہ بالکل یکساں سمجھا جائے گا کیونکہ جو نسبت ہے وہ قائم ہے۔ یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ فلاں کے پاس ایک روپیہ تھا اور فلاں کے پاس ایک سَو۔ بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ اِس نے ایک سے سَو کا مقابلہ کیا اور اُس نے سَو سے دس ہزار کا۔ کیونکہ جو ایک اور سَو میں نسبت ہے وہی نسبت سَو اور دس ہزار میں ہے اور جب نسبت ایک ہے تو دونوں کی ایک ہی حالت ہوئی۔ پس اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بظاہر ہماری حالت اچھی نظر آتی ہے مگر اِس کے مقابلہ میں یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ احمدیت نے جن طاقتوں کا مقابلہ کرنا ہے اُن کی نسبت ہماری طاقت کے مقابلہ میں کیا ہے۔ بے شک ہماری مسجد کی چھت پختہ ہے، اس کا فرش بھی پختہ ہے اور اس میں لوگوں کے آرام کیلئے سائبان موجود ہیں مگر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے دشمنوں کے پاس بھی تو توپیں اور ہوائی جہاز نہیں تھے۔ پھر ان میں کوئی نظام نہیں تھا، اُس وقت سفر کی سہولتیں میسر نہیں تھی، تار، ٹیلیفون اور وائرلیس نہیں تھا۔ پھر اُن میں وہ فوجی نظام نہیں تھا جو آج ہے۔ اُن کا مالی نظام مضبوط نہیں تھا اور اِسی طرح کے اور بہت سے نقص اُن میں موجود تھے۔ پس بے شک رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلمانوں کی حالت بہت کمزور تھی اور اِس زمانہ میںہماری حالت بظاہر اچھی نظر آتی ہے مگر اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دشمن کی جس قدر اُس وقت طاقت تھی اُس سے بہت زیادہ آج ہمارا دشمن طاقتور ہے۔ حقیقتاً اگر غور کیا جائے اور اس بے بسی کو بھی دیکھا جائے کہ جماعت احمدیہ جس کے سپرد یہ عظیم الشان کام کیا گیا ہے وہ محکوم ہے جبکہ محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہؓ آزاد تھے، تو ماننا پڑتا ہے کہ اِس زمانہ کا کام اُس زمانہ سے کوئی کم مشکل نہیں بلکہ نسبت وہی قائم ہے جو پہلے تھی۔ لیکن باوجود اِس کے کہ اِس زمانہ کا کام ویسا ہی ناممکن نظر آتا ہے جیسے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں نظر آتا تھا۔ جس خدا نے اُس وقت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ میں تیری تعلیم کو تمام دنیا میں پھیلادوں گا، اُسی خدا نے آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ میں تجھے کامل غلبہ بخشوں گا اور تیرے تمام دشمنوں کو تیرے مقابلہ میں شکست دوں گا۔ اگر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ جو کام ہؤا تھا وہ انسانی کام تھا تو کہا جاسکتا ہے کہ اُس زمانہ میں اگر یہ کام ہو بھی گیا تھا تو آج اِس کا کوئی امکان نہیں کیونکہ آج انسانی طاقت بہت بڑھی ہوئی ہے لیکن اگر خدا نے وہ کام کیا تھا اور واقع میں اُسی نے کیا تھا تو جس خدا میں یہ طاقت تھی کہ وہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں کو زیر کرکے آپ کی تعلیم کو تمام دنیا میں پھیلادے، اُسی خدا میں آج بھی یہ طاقت ہے کہ وہ ہمارے دشمنوں کو زیر کرکے احمدیت کی تعلیم اکنافِ عالَم میں پھیلادے اور دنیا کے تمام ادیان پر اسلامی تعلیم کی برتری اور فوقیت عملی رنگ میں ثابت کردے۔ پس اِس غلبے کا امکان موجود ہے مگر موقع کی نزاکت اور اہمیت ایسی ہے کہ ہم میںسے ہر شخص کی توجہ اِس کام کی طرف مبذول ہونی چاہئے۔ اور جہاں تک میں سمجھتا ہوںہم میں سے کوئی شخص دیانتداری کے ساتھ احمدی نہیں کہلاسکتا جب تک وہ اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، سوتے اور جاگتے یہ مقصد اپنے سامنے نہیں رکھتا کہ اُس نے دنیا کے تمام تمدنوں کو مٹا کر اسلامی تمدن قائم کرنا ہے۔ اُس نے دنیا کے تمام اصول کو مٹا کر اسلامی اصول کا احیاء کرنا ہے اور اس نے اسلام کے بتائے ہوئے قوانین کے مطابق تمام دنیا کو ایک نئے رنگ میں ڈھالنا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی طرف مَیں ایک عرصہ سے جماعت کو توجہ دلارہا ہوں مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے دوست جب ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں تو وہ یہ سمجھ کر داخل ہوتے ہیں کہ صرف چند مسائل کا نئے رنگ میں سمجھنا احمدیت میں داخل ہونے کی غرض ہے۔ حالانکہ چند مسائل کا سمجھانا حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کی غرض نہیں۔ مسیح موعودؑ کی بعثت کی غرض اسلام اور احمدیت کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کرنا ہے۔ مسیح موعودؑ کے آنے کی یہ غرض نہیں کہ صرف تم اس پر ایمان لائو یا میں اُس پر ایمان لے آئوں، بلکہ میرا اور تمہارا ایمان کیا ساری دنیا کا ایمان لے آنا بھی مسیح موعودؑ کی بعثت کی غرض نہیں۔ پس میرے یا تمہارے ایمان لانے سے وہ غرض پوری نہیں ہوسکتی، وہ دس کروڑ افراد کے ایمان لانے سے بھی پوری نہیں ہوسکتی، وہ ایک ارب لوگوں کے ایمان لانے سے بھی پوری نہیں ہوسکتی، وہ ساری دنیا کے ایمان لانے سے بھی پوری نہیں ہوسکتی۔ اگر ساری دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لے آئے مگر وہ تبدیلی پیدا نہ ہو جس تبدیلی کو پیدا کرنا آپ کا حقیقی مقصد اور مدعا تھا تو یہ ہماری فتح کس طرح کہلاسکتی ہے۔ ہماری فتح تو اُسی وقت ہوگی جب وہ تبدیلی پیدا ہوگی جس تبدیلی کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ۔ پس جب بھی کوئی شخص احمدیت میں داخل ہوتا ہے، اسے یہ امر اپنے مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہماری غرض یہ ہے کہ ہم اسلامی تعلیم کو دنیا میں قائم کریں اور باقی تمام تعلیموں کو مٹا کر رکھ دیں۔ ہم نے یہ غرض کبھی نہیں چھُپائی۔ ہم حکومت کے وفادار ہیں اور جس حکومت کے ماتحت بھی رہیں گے اُس سے وفاداری کرنا نہیں چھوڑیں گے مگر اسلام کے غلبہ کی خواہش جو ہمارے دلوں میں ہے وہ مٹائی نہیں جاسکتی اورنہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ ہمارے ضمیر کی حریت کو سلب کرے مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ کام اتنا اہم ہے کہ اس کیلئے ہمیں بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلی اور کم درجہ کی قربانی یہ ہے کہ جماعت کے خیالات میں ایک تبدیلی پیدا کی جائے تا ہماری جماعت کے ہر بچے ، ہر بوڑھے، ہر مرد اور عورت کے دل میں پوری مضبوطی سے یہ بات گڑ جائے کہ اس کے سپرد کیا کام ہے۔ ہمارا ایک زمیندار جس وقت ہل چلا رہا ہو جب اس کے تن پر پورا کپڑا بھی نہ ہو، جب ایک معمولی تہبند اُس نے باندھا ہؤا ہو اُس وقت گو وہ ہل چلا رہا ہو مگر اُس کے دل میں یہ خیال موجزن ہونا چاہئے کہ وہ کونسا ذریعہ ہے جس کے ماتحت اسلام کا جھنڈا مَیںدنیا کے تمام لوگوں کے دلوں پر گاڑ سکتا ہوں۔ ہمارا ایک درزی جس وقت سُوئی چلا رہا ہو جس وقت اسے یہ معلوم نہ ہو کہ آج کی مزدوری میرے بیوی بچوں کے کھانے کیلئے کافی بھی ہوگی یا نہیں یہی خیالات اس کے دل میں بار بار اٹھنے چاہئیں کہ وہ کونسا ذریعہ ہے جس سے کام لیتے ہوئے اسلام تمام دنیا پر غالب آسکتاہے اور ادیانِ باطلہ شکست کھاسکتے ہیں۔ ہمارا ایک سقہ جس وقت مشک اُٹھائے جارہا ہو جب اس کے بوجھ کے نیچے اس کی کمر خم ہورہی ہو، اس کے دماغ میں یہی خیالات پیدا ہونے چاہئیں کہ وہ کون سے ذرائع ہیں جن سے کام لیتے ہوئے اسلام کو دنیا پر غالب کیا جاسکتا ہے۔ ہمارا ایک مزدور جس وقت من دو من بوجھ اُٹھائے جارہا ہو، جب گرمی کی شدت سے اس کا پسینہ بہہ رہا ہو، جب اس کا سر بوجھ کے مارے جھُکا جارہا ہو، اُس وقت بھی اس کے دماغ میں یہی خیالات اٹھنے چاہئیں کہ کن ذرائع سے کام لیتے ہوئے اسلامی تعلیم کا احیاء ہوسکتا ہے اور وہ کون سے طریق ہیںجن کے ماتحت اسلام کو تمام دنیا پر غالب کیاجاسکتا ہے۔ جب یہ کیفیت ہماری جماعت کے تمام دوست اپنے اندر پیدا کرلیں گے تو اس کے نتیجہ میں ان کے اندر ایسی روح پیدا ہوجائے گی کہ وہ آستانۂ الٰہی کی طرف تمام دنیا کو کھینچ کر لے آئیں گے اور جس قدر مخالف طاقتیں ہیں اُن کو کُچل کر رکھ دیں گے۔ مگر ہمارا کُچلنا تلواروں سے نہیں بلکہ تبلیغ کے ذریعہ ہوگا، ہمارا کچلنا تعلیم کے ذریعہ ہوگا، ہمارا کچلنا ترغیب کے ذریعہ ہوگا۔ ہم لوگوں کے خیالات میں تبدیلی پید اکریں گے اور اس کے بعد ان کے جسموں پر قبضہ کرلیںگے۔ یہ نہیں ہوگا کہ ان کے جسموں پر قبضہ کرکے ان کے خیالات میں تبدیلی پیدا کریں۔ اِسی کیلئے میں نے مختلف شکلوں میں بعض انجمنیں قائم کی ہیں مگر غرض صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ان خیالات کو دور کیا جائے جو اسلام کے خلاف دنیا میں پیدا ہوگئے ہیں۔ دنیا اِس وقت قسم قسم کے ظلموں کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ کوئی کسی فلسفہ کے ماتحت ظلم کررہا ہے اور کوئی کسی فلسفہ کے ماتحت مگر انسان کی حقیقی راحت کیلئے جو تعلیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھی اسے لوگوں نے بھُلارکھا ہے۔ پس یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اس تعلیم کو دنیا میں رائج کریں اور سب سے پہلے خود اس پر عمل کریں اور پھر دنیا کی بہتری کیلئے آہستہ آہستہ اُسے لوگوں میں رائج کریں۔
کئی باتیں بظاہر نہایت چھوٹی نظر آتی ہیں مگر دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کردیا کرتی ہیں ۔ پہلے لوگ انہیں سنتے ہیںتو ہنستے ہیں مگر بعد میں انہیں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ واقع میں یہ تعلیم نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے۔ اسی وجہ سے میں کچھ عرصہ سے جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلارہا ہوں کہ وہ اسلامی تمدن کے قوانین اپنے اندر جاری کریں تا دوسرے لوگ دیکھ کر اندازہ لگاسکیں کہ اسلامی تمدن کیسا بابرکت اور آرام دہ ہے۔ اس کے متعلق گزشتہ سال سے میں یہ کہتا چلا آرہا ہوں کہ ہمیں اپنی تجارتوں میں، اپنے لین دین کے معاملات میں اور اسی طرح اور تمدنی اور اقتصادی امورمیں اسلامی تعلیم کو ملحوظ رکھنا چاہئے کیونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس بارہ میں ایسی ہدایات دی ہیں کہ جن پر اگر عمل کیا جائے تو دنیا میں حقیقی امن قائم ہوسکتا ہے۔ بعض باتیں بظاہر معمولی نظر آتی ہیں مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب دنیا کی حکومتیں بھی ان کی طرف توجہ کررہی ہیں۔
تھوڑے ہی دن ہوئے اخبارات میں ایک خبر پڑھ کر مجھے خوشی بھی ہوئی اورافسوس بھی۔ خوشی تو اس لئے کہ وہ ایک اسلامی تعلیم ہے جس کا احیاء ہؤا ہے اور افسوس اس لئے کہ مسلمانوں نے اس بات کو اسلامی تعلیم سے نہ سیکھا بلکہ صدیوں تک مصیبتیں اُٹھانے اور تکالیف برداشت کرنے کے بعد یورپ سے سیکھا حالانکہ وہ تعلیم اسلام میں موجود ہے اور اسی نے سب سے پہلے اسے دنیاکے سامنے پیش کیا۔ وہ بات یہ ہے کہ ایک دو مہینے ہوئے ترکوں نے یہ قانون پاس کیا ہے کہ تمام اشیاء کا ایک ریٹ مقرر ہونا چاہئے تاکہ کوئی دکاندار سَودا مہنگا یا سَستا فروخت نہ کرسکے بلکہ جب بھی کوئی گاہک کسی دکان پر جائے اُسے مقررہ قیمت پر چیز مل جائے۔ اِس ضمن میں ہر دکاندار کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی دکان پر تمام چیزوں کی ایک لسٹ بنا کر لٹکادے اور ہر چیز کے آگے اس کا بھائو درج کرے تا تمام بازار میں چیز ایک قیمت پر ملے۔ یہ نہ ہو کہ کسی سے زیادہ قیمت وصول کرلی جائے اور کسی سے کم۔ اس کی وجہ انہوں نے یہی بتائی ہے کہ بیرونی مُلکوں کے لوگ جب ہمارے مُلک میں آتے ہیں تو ایک ہی چیز کسی جگہ انہیں کسی قیمت پر ملتی ہے اور کسی جگہ کسی قیمت پر۔ اگر کوئی ہوشیار گاہک ہو تو اُس سے کم قیمت لے لیتے ہیں اور اگر کوئی بیوقوف ہو تو اُس سے زیادہ پیسے وصول کرلیتے ہیں۔ پھر جب وہ دونوں آپس میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ یہ چیز کتنے کو خریدی ہے تو ایک کوئی قیمت بتاتاہے اور دوسرا کوئی۔ ایک کہتا ہے میںنے یہ چیز دو روپے کو خریدی ہے اور دوسرا اُسی چیز کے متعلق یہ کہتا ہے کہ میںنے بارہ آنے کو خریدی ہے۔ ایک کہتا ہے کہ میں نے فلاں چیز کے پندرہ روپے دیئے ہیں اور دوسرا کہتا ہے میں نے دس روپے دیئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کے اخلاق ان کی نگاہ میںگر جاتے ہیں اوروہ سمجھتے ہیں کہ تُرک جھوٹے ہوتے ہیں۔
یورپ میں ایک حد تک اس پر عمل کیاجاتا ہے مگر اس کے ہر مُلک میں نہیں بلکہ زیادہ تر انگلستان میں ہی اس پر عمل ہوتا ہے۔ ورنہ اور ممالک میں خواہ وہ یورپین ہی کیوں نہ ہوں قیمتوں کا گھٹنا اور بڑھنا ہمیشہ نظر آتا ہے۔ انگلستان میں بھی کسی حد تک ہی یہ بات پائی جاتی ہے مگر جو معزز دکاندار ہیں وہ ہمیشہ اپنی اشیاء کی ایک قیمت رکھتے ہیں اور بعض دکاندار تو اتنی سختی سے کام لیتے ہیں کہ اگر کوئی گاہک انہیں یہ کہے کہ قیمت ذرا گھٹادیں تو وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ ہماری دکان سے چلے جائیں۔ لیکن بہرحال ایشیا کی نسبت یورپ میںاس بات کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے کہ مقررہ قیمتوں پر چیزیں فروخت ہوں۔ مگر تعجب ہے کہ وہ مذہب جس نے اپنے ابتدائی زمانہ میں سے ہی لوگوں کو یہ تعلیم دی تھی اس کے ماننے والے اتنی بات بھی نہیںجانتے کہ یہ اصل میںاسلامی تعلیم ہے بلکہ وہ اسے یورپ کی خوبی خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ سے مدینۂ منورہ میںقیمتوں پر اسلامی حکومت تصرف رکھتی تھی۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ مدینہ کے بازار میں پھر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا ایک شخص حاطب بن ابی بلتعہالمصلّی نامی بازار میں دو بورے سُوکھے انگوروں کے رکھے بیٹھے تھے، حضرت عمرؓ نے ان سے بھائو دریافت کیا تو انہوں نے ایک درہم کے دو مُد بتائے۔ یہ بھائو بازار کے عام بھائو سے سستا تھا۔ اس پر آپ نے اُن کو حکم دیا کہ اپنے گھر جاکر فروخت کریں مگر بازار میں وہ اِس قدر سستے نرخ پر فروخت نہیں کرنے دیں گے کیونکہ اِس سے بازار کا بھائو خراب ہوتا ہے اورلوگوں کو بازار والوں پربدظنی پیدا ہوتی ہے۔۲؎ فقہاء نے اس پر بڑی بحثیں کی ہیں۔ بعض نے ایسی روایات بھی نقل کی ہیں کہ بعد میں حضرت عمرؓ نے اپنے اس خیال سے رجوع کرلیا تھا مگر بِالعموم فقہاء نے حضرت عمرؓ کی رائے کو ایک قابلِ عمل اصل کے طور پر تسلیم کیا ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ اسلامی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ریٹ مقرر کرے ورنہ قوم کے اخلاق اور دیانت میں فرق پڑ جائے گا۔ مگر یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اس جگہ اُنہی اشیاء کا ذکر ہے جو منڈی میں لائی جائیں۔ جو اشیاء منڈی میں نہیں لائی جاتیں اور انفرادی حیثیت رکھتی ہیں ان کا یہاں ذکر نہیں۔ پس جو چیزیں منڈی میں لائی جاتی ہیں اور فروخت کی جاتی ہیں ان کے متعلق اسلام کا یہ واضح حکم ہے کہ ایک ریٹ مقرر ہونا چاہئے تا کوئی دکاندار قیمت میںکمی بیشی نہ کرسکے۔ چنانچہ بعض آثار اور احادیث بھی فقہاء نے لکھی ہیں جن سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
اب دیکھو وہ خوبی جو آج تُرک یورپ سے نقل کرکے اپنے اندر پیدا کررہے ہیں وہ اسلام کے ابتدائی زمانہ سے موجود چلی آتی ہے مگر اس کو مسلمانوں نے بھلادیا اور سمجھ یہ لیا کہ یہ اچھی باتیں یورپ کی ایجاد کردہ ہیں۔ اسی طرح اور ہزارہا باتیں ہیں جن میں اسلام نے ابتداء سے صحیح تعلیم دی ہوئی ہے جن سے ایک طرف افراد کے حقوق کی حفاظت ہوتی ہے تو دوسری طرف اجتماعی حقوق کی نگرانی ہوتی ہے۔ وہ ایک درمیانی راستہ بنی نوع انسان کے سامنے پیش کرتا ہے اور کہتا ہے انفرادیت کا یہ حق نہیں کہ وہ اجتماعیت کو کچلے اور اجتماعیت کا یہ حق نہیں کہ وہ انفرادیت کو کچلے۔ مثلاً قرآن شریف حکم دیتا ہے کہ لین دین کا معاملہ ہو تو اسے لکھ لو۔ اب کتنے مسلمان ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں۔ مگر یورپین لوگ سب اس پر عمل کرتے ہیں اور یورپ والوں نے یہ خوبی سپین والوں سے سیکھی ہے جہاں کئی سو سال تک اسلامی حکومت قائم رہی۔ سپین میں جس قدر سودے ہوتے تھے وہ لکھے جاتے تھے اور پرانی اسلامی تاریخ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت سودے لکھے جاتے تھے، یہی قرآن کا حکم ہے۔ اگر اس حکم کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو بسااوقات بعد میں بڑے بڑے جھگڑے پیدا ہوجاتے ہیں۔ تو چھوٹی باتیں ہوں یا بڑی باتیں سب کی سب قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں مگر افسوس ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں نے انہیں ترک کردیا ہے۔ پس اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ان تمام باتوں کو دنیا میں رائج کریں کیونکہ کوئی بات ایسی نہیں جس کے متعلق اسلام میں کامل تعلیم موجود نہ ہو۔ ورثہ کے متعلق قرآن کریم میں احکام موجود ہیں، لین دین کے معاملات کے متعلق قرآن کریم میں احکام موجود ہیں، شادی بیاہ کے متعلق قرآن کریم میں احکام موجود ہیں، سیاسیات کے متعلق قرآن کریم میں احکام موجود ہیں، تعلیم و تربیت کے متعلق قرآن کریم میں احکام موجود ہیں، شاگرد کے استاد سے کیسے تعلقات ہوں، استاد کے شاگرد سے کیسے تعلقات ہوں، بادشاہ کا رعایا سے کیسا سلوک ہو اور رعایا کا بادشاہ سے کیسا سلوک ہو، ان تمام امور کے متعلق اسلام میں نہایت تفصیلی تعلیم موجود ہے اور کوئی شعبہ انسانی زندگی کا ایسا نہیں جس کے متعلق احکام موجود نہ ہوں۔ اگر ہم ان تمام احکام پر خود عمل کریں اور دوسروں میں انہیں رائج کریں تو دنیا پر اسلامی احکام کی خوبی خودبخود واضح ہوتی چلی جائے گی اور وہ ایک دن اس بات پر مجبور ہوجائے گی کہ اس طرف کُلّیۃً آجائے۔ ہم