خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 20
۱
ہر احمدی نئے احمدی بنانے کا وعدہ کرے
(فرمودہ ۶؍جنوری۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’نزلہ اور کھانسی کی تکلیف کی وجہ سے مَیں خود تو آواز نہیں پہنچا سکتا۔ مُمکن ہے لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ پہنچ جائے۔
مجھے آج ’’الفضل‘‘ میں یہ دیکھ کر بہت تعجب بھی ہؤا، حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی ہؤا مسلمانوں کی حالت پر کہ وہ یہاں تک گر گئی ہے کہ اخبار ’’اہلحدیث‘‘ میں لکھا ہے کہ قادیانیوں کا خلیفہ خطبۂ جمعہ میں ہمیشہ سورۂ فاتحہ پڑھ کر لیکچر شروع کر دیتا ہے جس پر بہت زیادہ وقت لگتا ہے۔
’’اہلحدیث ‘‘ کو یاد رکھنا چاہئے کہ سورۂ فاتحہ تو ہماری جماعت کا خاص نشان ہے اﷲ تعالیٰ نے پُرانی کُتب میں یہ ایک پیشگوئی رکھی ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں سات مُہروں والی ایک کتاب کے راز ظاہر کئے جائیں گے جس کا نام فتوحہ ہو گا۔ یعنی سات آیتوں کی سورۃ کی حقیقت کھولی جائے گی جس کا نام فاتحہ ہو گا۔۱؎ پس اِس لحاظ سے سورۂ فاتحہ کے ساتھ ہمارا خاص تعلق ہے لیکن اگر یہ نہ بھی ہو تو بھی سورۂ فاتحہ ایک ایسی دُعا پر مُشتمل ہے کہ اِس کے بغیر ایک مومن کا کام تو چل سکتا ہی نہیں۔ اگر وقت کو بچانا ہو تو پھر تقریر کرنے کی ہی کیا ضرورت ہے خاموشی ہی کیوں نہ اختیار کی جائے۔ یا پھر اختصار ہی اگر ضروری ہو تو یہ زیادہ مناسب ہو گا کہ تقریر کو چھوٹا کر لیا جائے بجائے اِس کے کہ اِس دُعا سے آنکھیں بند کر لی جائیں اور اِسے چھوڑ دیا جائے جو ہمارے توکّل اور ایمان کی بنیاد ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس مجلس میں اﷲ تعالیٰ کا ذکر نہ ہو وہ نا مبارک اور ناکام مجلس ہے۔۲؎ علاوہ ازیں جو شخص ہر وقت اﷲ تعالیٰ سے ہدایت طلب نہیں کرتا اُس کے ہر وقت گڑھے میں گرنے کا امکان ہے اور ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ غلطی نہ کر جائے۔ اِس میں شُبہ نہیں کہ دُعا مانگنے والا بھی غلطی کر سکتا ہے اور اِس کا قدم بھی غلط رستہ پر اُٹھ سکتا ہے۔ مگر ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اِمکان کس کے لئے زیادہ ہے۔ دُنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ دوائیاں کھانے والے بھی مرتے ہیں مگر کیا اِس سے لوگ دوائیوں کا کھانا چھوڑ دیتے ہیں؟ جس طرح کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ دوائی اپنا اثر نہیں کرتی اُسی طرح بعض موقعوں پر دُعا بھی قبول نہیں ہوتی۔ لیکن بہرحال جس طرح صحت کی ضمانت اُسے حاصل ہوتی ہے جس نے دوائی کا استعمال کیا اُسی طرح کامیابی کی ضمانت اُسے حاصل ہو سکتی ہے جو دُعا کرتا ہے۔ ہم اس دُعا کے ساتھ اپنے کاموں کو شروع کرتے ہیں لیکن مولوی ثناء اﷲ صاحب ایسا نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک اِس سے وقت ضائع ہوتا ہے۔ اب دونوں کے کاموں کے نتائج بھی ظاہر ہیں۔ ہم سورۂ فاتحہ پڑھ کر وقت ضائع کر دیتے ہیں اور مولوی صاحب اِس وقت کو بچا لیتے ہیں۔ اب دیکھنا چاہئے کہ دونوں کے کاموں کے نتائج کیا ہیں؟ ہم سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے ساتھ وقت ضائع کر کے بھی کامیاب ہو رہے ہیں اور مولوی صاحب وقت ضائع نہیں کرتے مگر ناکام ہو رہے ہیں۔ جس سے ظاہر ہے کہ یہ وقت کا ضیاع ہمیں مہنگا نہیں پڑتا بلکہ مفید ہے۔
پس اگر وہ چاہتے ہیں کہ اِس فضلِ الٰہی کو دیکھنے کے باوجود ہم اِن باتوں کو چھوڑ کر اُن کے ساتھ ہو جائیں تو اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہم اتنے بے وقوف نہیں ہیں۔
اِس کے بعد مَیں دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہو ںکہ جیسا کہ مَیں نے اِس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر تحریک کی تھی ہر احمدی یہ ذمّہ لے کہ سال بھر میں کم سے کم ایک دو نئے احمدی ضرور بنائے گا۔ یہ تحریک اِس سے پہلے بھی میری طرف سے ہوتی رہی ہے لیکن چونکہ پہلے کبھی اِسے معیّن صورت میں پیش نہیں کیا گیا اِس لئے جماعت کے دوستوں نے بھی اِس سے فائدہ نہیں اُٹھایا اور اِسے ایک کان سے سُن کر دوسرے سے نکال دیتے رہے ہیں۔ خصوصاً قادیان کے لوگوں نے تو اِسے لطیفہ سے زیادہ وُقعت کبھی نہیں دی۔ اِس لئے مَیں چاہتا ہوں کہ اب اِسے منظّم صورت دی جائے اور دوست بھی منظم طور پر وعدے پیش کریں۔ اِن وعدوں کا پورا ہونا یا نہ ہونا تو سال کے بعد دیکھا جائے گا لیکن آج ہمیں یہ تو معلوم ہو جانا چاہئے کہ جماعت کے دوستوں کی کیا نیّتیںاور کیا ارادے ہیں۔ جب کوئی شخص صحیح طور پر وعدہ کرتا اور پھر اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُسے اِس وعدہ کو پورا کرنے کی توفیق بھی مل جاتی ہے لیکن جب کوئی شخص کسی تحریک کو محض وعظ کے رنگ میں سنتا ہے تو پھر اِس سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا کیونکہ اِس صورت میں وہ یا تو اِسے کسی دوسرے وقت کے لئے اُٹھا رکھتا ہے یا پھر یہ خیال کر لیتا ہے کہ یہ تحریک دوسروں کے لئے ہے میرے لئے نہیں اور دونوں صورتوں میں ناکام رہتا ہے۔ اگر وہ اِسے دوسروں کے لئے سمجھتا ہے تو بھی خود اِس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا اور اگر اِسے کسی دوسرے وقت پر اُٹھا رکھتا ہے تو بھی ناکام رہتا ہے۔ اِس لئے آج اِس تحریک کو معیّن صورت دینے کے لئے مَیں اعلان کرتا ہوں کہ سب سے پہلے قادیان کے مختلف محلوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹریان ایک ہفتہ کے اندر اندر تمام بالغ مردوں یعنی پندرہ سال سے زیادہ عمر کے احمدیوں کی فہرستیں تیار کر دیں جن میں یہ درج ہو کہ وہ سال میں کتنے لوگوں کو احمدی بنانے کی کوشش کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ تعداد معیّن کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ خواہ کوئی ہزار احمدی بنالے مگر ہم تو اقل ترین تعداد معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اِس طرح معیّن کرنے سے کام کرنے والے کا حوصلہ بھی قائم ہوتا ہے اور پھر اِس سے ہر شخص کے اخلاص کی حقیقت بھی معلوم ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص یونہی بہت سی تعداد لکھوا دیتا ہے جس کے لئے دورانِ سال میں کوئی کوشش نہیں کرتا تو اُس کے متعلق لوگوں کو علم ہو جائے گا کہ وہ یونہی بڑ مارنے والا ہے، دین سے اُسے کوئی غرض نہیں۔ پس اِس صورت میں ہم کو بھی لوگوں کے اخلاص کی حقیقت کا پتہ لگ سکے گا اور خود لوگوں کو بھی اپنے اخلاص کی حقیقت کا علم ہوسکے گا اور اِس طرح تعداد معیّن کرنے سے کام کرنے والوں کو بھی یہ خیال رہے گا کہ اُنہوں نے کتنا کام کرنا ہے اور وہ یہ بھی سوچ سکیں گے کہ وہ اتنی تعداد پوری کرنے کے لئے کہاں کہاں تبلیغ کر سکتے ہیں۔
پس قادیان کے عُہدیدار ایک ہفتہ کے اندر اندر ایسی فہرستیں تیار کر کے بھجوا دیں اور باہر کی جماعتیں ۲۸؍فروری یعنی فروری کے آخر تک ایسی لسٹیں بھجوا دیں٭ کہ ہر احمدی اِس اِس تعداد میں نئے احمدی بنانے کی کوشش کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور پھر ہر سہ ماہی کے بعد یہ اطلاع بھی دیتے رہیں کہ یہ کوششیں کس حد تک کامیاب ہو رہی ہیں۔
قادیان میں انتظام زیادہ ہے۔ یہ ایک ہی شہر ہے پھر یہاں کے لوگوں کے لئے اچھا نمونہ پیش کرنا بھی ضروری ہے۔ اِس لئے وہ ایک ہفتہ تک ایسی لسٹیں مکمل کریں۔ ہندوستان کی جماعتوں کے لئے مَیں نے قریباً دو ماہ کا وقت رکھا ہے اور ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے لئے قریباً تین ماہ رکھتا ہوں یعنی ۱۰؍اپریل تک دو تین ہفتہ میں ان کو اطلاع پہنچ جائے گی۔ دوتین ہفتہ جواب آنے کے لئے اور ایک ماہ فہرستیں تیار کرنے کے لئے۔ دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ احمدیت کی اشاعت نہ صرف اِس لئے ضروری ہے کہ خُدا کے دین کی اشاعت ہو بلکہ لوگوں کی اپنی تربیت کے لئے بھی یہ بہت ضروری ہے۔ جب وُہ تبلیغ کے لئے باہر نکلیں گے، دوسروں کے پاس جائیں گے تو اِن پر اعتراض ہوں گے۔ لوگ احمدیوں کے عیوب بیان کریں گے اور ممکن ہے اِن میں سے کوئی عیب خود اُن کے اپنے اندر پایا جاتا ہو۔ اِس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ اپنی اصلاح کی کوشش کریں گے، اپنے علوم بڑھانے کی جدوجہد کریں گے اور سلسلہ کی تعلیم کو سیکھنے کی سعی کریں گے اور اِس طرح یہ تحریک تبلیغ اور تربیت دونوں لحاظ سے مفید ثابت ہو گی۔ پس پندرہ سال سے اوپر عمر کے تمام نوجوانوں، ادھیڑ عمر والوں اور بوڑھوں کی فہرستیں تیار کی جائیں اور بتایا جائے کہ اُنہوں نے کِس کِس قدر احمدی سال میں بنانے کی کوشش کرنے کا وعدہ کیا ہے؟ اور کس کس مقام کے لوگوں کو مدّنظر رکھا ہے؟ اِس سال میں اِس تحریک کو صرف مردوں کے لئے ہی رکھتا ہوں۔ عورتیں بھی اگر چاہیں تو اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کرنے کے لئے اپنے نام لکھوا سکتی ہیں مگر اِن کے لئے یہ تحریک لازمی نہیں بلکہ اختیاری ہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ جب انسان ہمت اور ارادہ کر لیتا ہے تو اﷲ تعالیٰ ضرور اِسے کامیابی عطا کرتا ہے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر مَیں نے عام رنگ میں یہ تحریک کی تھی اور اگرچہ یہ تحریک
باقاعدہ نہ تھی مگر بعض لوگوں کی بیعت کے خطوط بعض دوست بھجوا رہے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ہم نے
٭ چونکہ خطبہ دیر سے شائع ہو رہا ہے۔ اِس مدت کو ۸؍مارچ تک بڑھا دیتا ہوں۔
وعدہ کیا تھا کہ ضرور نئے احمدی بنائیں گے۔ چنانچہ ان وعدوں کے مطابق یہ بیعت کے خطوط بھجوا رہے ہیں۔ اِسی طرح اگر سب دوست توجہ کریں اور ہمت کریں تو یہ کوئی مُشکل کام نہیں مگر جب یہ خیال کر لیا جائے کہ یہ دوسرے کا فرض ہے ہمارا نہیں تو پھر کامیابی کی کوئی صورت نہیں۔
قادیان کے جو لوگ اپنے نام لکھوائیں تو چونکہ یہاں دوسرے لوگ بہت تھوڑے ہیں اِس لئے وہ ساتھ ہی یہ ضرور لکھوائیں کہ کِس کِس گاؤں میں سے وہ احمدی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اِس سے ایک تو ہمیں یہ پتہ لگ جائے گا کہ کون کون سے گاؤں دوستوں کے مدّنظر ہیں اور پھر پروگرام بناتے وقت ہم یہ بھی دیکھ سکیں گے کہ کسی جگہ ضرورت سے زیادہ لوگوں کا وقت ضائع نہ ہواور کام کو تقسیم کرنے کا اندازہ بھی کیا جاسکے گا اور اِس میں بہت سہولت رہے گی۔ اِس لئے مَیں نے یہ رکھا ہے کہ دوست تعداد کے ساتھ جگہیں بھی بتادیں ۔ ہاں اگر کوئی خاص جگہ کسی کے ذہن میں نہ ہو تو وہ کہہ سکتا ہے کہ مَیں عام طور پر کوشش کروں گا یا مثلاً تصنیف کا کام کرنے والے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا حلقہ اثر زیادہ وسیع ہو گا۔ کیونکہ ہمیں براہِ راست لوگوں کے ساتھ ملنے جُلنے کا موقع نہیں ملتا۔
مبلغین کے دورہ کے احمدی شمار نہیں کئے جائیں گے کیونکہ وہ ان کے نہیں بلکہ سلسلہ کے ہیں ان کا فرض ہو گا کہ وہ اپنی رخصت حاصل کر کے جس کا انہیں حق ہو تبلیغ کے لئے جائیں اور پھر اِس عرصہ میں احمدی بنا کر اپنا وعدہ پورا کریں۔ اگر اُن کے دَورہ کے احمدیوں کو اُن کے وعدہ میں شمار کر لیا جائے تو یہ بالکل بے معنے بات ہو گی۔ کیونکہ اِس کے یہ معنے ہوں گے کہ مختلف مقامات کے احمدی لوگوں کو تیار کرتے رہیں لیکن ہمارا ایک مبلّغ وہاں جاکر ایک آخری تحریک کے بعد ان سے بیعت کا خط لکھادے اور کہہ دے کہ دیکھو! مَیں نے پچاس احمدی بنائے ہیں۔ ایسے احمدیوں پر اُن کا کوئی حق نہیں۔ بلکہ یہ اُن جماعتوں کا حق ہے جو اُن کو تیار کرتی ہیں۔ مبلّغ تو ایسے موقع پر صرف پوسٹ آفس کے افسر کا کام کرتے ہیں کہ بیعت کے خطوط لے کر بھجوا دیتے ہیں۔ اِس لئے ان کو اپنے حق کی رخصت لے کر اپنے وعدے پورے کرنے چاہئیں۔
مَیں اُمید کرتا ہوں کہ اگر صحیح طریق پر جماعت نے اِس طرف توجہ کی تو عنقریب نیک نتائج پیدا ہوں گے۔ ہندوستان میں بھی اور ہندوستان سے باہر بھی اور اگر اِس طرح ہر سال باقاعدہ کوشش کی جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے قریبی عرصہ میں ہی نمایاں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ اِس وقت تک تو چونکہ معیّن طور پر کام نہیں ہؤا اِس لئے دوستوں نے بھی بے توجہی کی ہے مگر مَیں اُمید کرتا ہوں کہ اب یہ کام معیّن صورت میں شروع کیا جارہا ہے۔ قادیان کے دوست بھی اور باہر کے دوست بھی اِس کی اہمیت کا احساس کریں گے اور جلد از جلد اپنے وعدے بھجوائیں گے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص اپنے وعدہ کو پورا کر سکے۔ بعض ایسے بھی ہوں گے جو اسے ٹھیک طرح پورا نہ کر سکیں گے مگر بعض ایسے بھی ہوں گے جو وعدہ سے زیادہ احمدی بنا سکیں گے اور عین مُمکن ہے کہ بعض ایسے دوست جنہوں نے ایک یا دو کا وعدہ کیا ہو اﷲ تعالیٰ ان کو دس بیس احمدی بنانے کی توفیق دے دے۔ یہ خُدا تعالیٰ کی دین ہے۔ جیسی کسی کی نِیّت ہو وَیسا ہی اﷲ تعالیٰ اِس پر فضل کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص زیادہ کوشش کرے تو اﷲ تعالیٰ اِسے کامیابی بھی زیادہ عطا کرتا ہے۔
تبلیغ کے لئے نفسیات کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ بہت سے لوگ تبلیغ کرتے وقت دوسرے کے خیالات کا احساس نہیں رکھتے اور اندھا دُھند باتیں کرتے جاتے ہیں۔ ان کی مثال اُس نابینا شخص کی ہوتی ہے جو لٹھ لے کر دُشمن پر حملہ کرنے کے لئے سیدھا چلتا جاتا ہے۔ کمرہ کے اندر جو لوگ ہوتے ہیں وہ ایک کونہ میں کھڑے ہوتے ہیں اور نابینا اپنے سامنے لٹھ گھماتا رہتا ہے۔ اِسی طرح یہ لوگ بغیر سوچے سمجھے تبلیغ کرتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات وفاتِ مسیح کا مسئلہ ہی رَٹتے جاتے ہیں۔ حالانکہ اگلا شخص اِس کا پہلے ہی قائل ہوتا ہے اور کبھی یہ ختم نبوت کے دلائل دیتے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ اگلا خدا تعالیٰ کی ہستی کا بھی قائل نہیں ہوتا یہ اِس بحث میں پڑے رہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد نبی آسکتا ہے۔ حالانکہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی نبی نہیں مانتا۔
پس ہمیشہ مخاطب کے دماغ کو پڑھ کر بات کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مخاطب کے حالات کا مطالعہ کرنے اور اِس کی بات کو سمجھنے کے بغیر تبلیغ کرنا لغو بات ہے۔ غیب کا علم صرف اﷲ تعالیٰ ہی کو ہے باقی کوئی نبی ہو، خلیفہ ہو، ولی ہو یا کوئی مومن، متقی ہو ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے کے حالات پہلے معلوم کرے اور پھر تبلیغ کرے۔ بسا اوقات لوگ دِلی عقائد ڈر کی وجہ سے بیان ہی نہیں کرتے مثلاً مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہونے والا حتی الوسع کبھی یہ بات نہیں کہے گا کہ مَیں خُدا تعالیٰ کو نہیں مانتا۔ بظاہر وہ مسلمان نظر آئے گا۔ سُبْحَانَ اللّٰہ اور اَلْحَمْدُ ِﷲ بھی کہے گا مگر دل میں اﷲ تعالیٰ کی ہستی کا بھی قائل نہ ہو گا۔ ایسے لوگوں کے ساتھ پہلے بات چیت کر کے اِن کا اندرونہ معلوم کرنا چاہئے مثلاً ان کے ساتھ احمدیت کا ذکر شروع کیا اور کہا کہ یہ ہے تو صداقت مگر کئی لوگ اِس کو اِس واسطے نہیں مانتے کہ اِن کا خُدا تعالیٰ پر ایمان ہی نہیں ہوتا۔ پھر کئی اِس واسطے نہیں مانتے کہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد کسی نبی کی آمد کے قائل نہیں۔ کسی کو جماعت کے بعض کاموں پر اعتراض ہے، اِس لئے نہیں مانتا۔ پھر کئی سیاسی لحاظ سے اِس جماعت کو مُضِر سمجھتے ہیں اِس لئے صداقت کو قبول نہیں کرتے اور اِس طرح باتیں کرکے پہلے اِس کا اندرونہ معلوم کرنا چاہئے اور پھر اِس کا مرض معلوم کرکے علاج کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اِس طرح صحیح طریق پر تبلیغ کرنی چاہئے۔
پھر جو لوگ اَن پڑھ ہیں اور زیادہ علمی باتیں نہیں جانتے وہ جہاں تک خود بات چیت کرسکتے ہیں کریں اور پھر زیرِ تبلیغ اشخاص کو قادیان لے آئیں اور یہاں کسی عالِم سے ملائیں۔ اِس کے بعد اگر وہ لوگ احمدی ہوںگے تو یہ انہی کا کام سمجھا جائے گا۔ اِس عالِم کا نہیں جس نے ان کی تسلی کی۔ علماء کا کام وہ سمجھا جائے گا جو وہ رخصت کے ایام میں خاص پروگرام کے ماتحت کریں گے اور جس میں ابتدا بھی ان کی طرف سے ہو گی۔
مَیں اُمید کرتا ہوں کہ قادیان کے عُہدہ دار ایسی فہرستیں مکمل کر کے ایک ہفتہ کے اندر اندر بھجوا دیںگے۔ ایک قسم کی فہرستیں میں پہلے بنوا چُکا ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ پانچ سال سے اُوپر عمر کے تینتیسسَو احمدی مرد یہاں ہیں اور اِس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پندرہ سال سے بڑی عمر کے قریباً پچیس سَو مرد ہوں گے۔ پھر مدارس والے طالب علموں کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔ اِن کے علاوہ ننگل، بھینی، کھارا، بسرا وغیرہ دیہات ہیں جو اوپر کی فہرست میں شامل نہیں ان کو بھی اگر شامل کر لیا جائے تو چار پانچ ہزار بالغ احمدی مرد قادیان اور اِس کے نواحی میں ہوں گے اور اگر یہ سب اپنا فرض ادا کریں تو ایک سال میں تیس چالیس ہزار نئے احمدی اِسی علاقہ میں بن سکتے ہیں کیونکہ ہر احمدی دو نئے احمدی بنائے تو صرف قادیان کے گردنَو دس ہزار نیااحمدی ہو جاتا ہے۔ ان کے بیوی بچوں کو شامل کیا جائے تو تعداد تیس چالیس ہزار تک جاپہنچتی ہے۔ ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ توجہ سے کام کیا جائے اور محبت و پیار اور سنجیدگی سے تبلیغ کی جائے، تا محنت رائیگاں نہ جائے۔ تمسخر اور استہزا سے پرہیز کرنا چاہئے۔ آج کل تمسخر اوراِستہزا کی عادت بہت ہو گئی ہے اور لوگ ہنسی مذاق میں بات کے اثر کو ضائع کر دیتے ہیں۔ ہنسی مذاق بھی ایک حد تک اچھا ہوتا ہے مگر یہ تو کھانے میں نمک کے طور پر ہو سکتا ہے۔ کھانے میں نمک تواچھا ہوتا ہے مگر نمک کی روٹی پکا کر نہیں کھائی جاسکتی۔ زیادہ ہنسی مذاق روحانی کمزوری اور تبلیغ میں روک کا موجب ہوتا ہے۔ اِس لئے تبلیغ سنجیدگی سے کرنی چاہئے۔ مجھے بعض غیرلوگوں نے یہ اطلاع دی ہے کہ بعض احمدی تبلیغ کو جاتے ہیں تو راستہ میں شکار کرتے ہیں۔ اِس میں شُبہ نہیں کہ رستہ میں اگر شکار کر لیں تو یہ ناجائز نہیں مگر دیکھنے والوں پر اِس کا یہ اثر ضرور ہوتا ہے کہ یہ لوگ دراصل شکار کوآئے ہیں اور تبلیغ ایک بہانہ ہے۔ اگر وہ سنجیدگی سے تبلیغ کریں اور کوئی اور کام خواہ وہ کتنا ہی بے ضرر ہو نہ کریں تو بہت زیادہ اثر ہو سکتا ہے۔ بعض لوگ نہر پر چلے جاتے ہیں کہ وہاں سے جو لوگ گزریں گے ان کو تبلیغ کریں گے۔ وہاں وہ خود نہاتے اور کھاتے پیتے بھی ہیں اور گو ساتھ تبلیغ بھی کریں مگر دیکھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ اُنہوں نے ٹرپ کیا ہے اور سنجیدگی چاہتی تھی کہ وہ کوئی اور کام جس کا تعلق ان کی خواہشات و لذّت سے ہوتا نہ کرتے تو دیکھنے والوں پر ضرور زیادہ اثر پڑتا۔
مَیں اُمید کرتاہوں کہ قادیان کے دوست خصوصاً اور باہر کے عموماً محنت، جانفشانی اور دُعاؤں کے ساتھ اِس کام میں لگ جائیں گے اور معیّن صورت میں کوشش کریں گے اور پھر معینہ میعاد کے اندر فہرستیں مکمل کر کے بھجوا دیں گے۔‘‘ (الفضل ۲۴؍جنوری ۱۹۳۹ئ)
۱؎ مکاشفہ باب ۱۰ آیت ۱ تا ۴۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ئ
۲؎ ترمذی ابواب الدعوات باب ماجاء فی القوم یجلسون و لا یذکرون اﷲ۔
۲
۱۹۳۹ء ،۱۹۴۰ء مالی لحاظ سے امتحان کے سال
اور عظیم الشان برکات کے موجب ہیں
(فرمودہ ۲۰؍جنوری۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مجھے تاحال کھانسی کی شکایت ہے۔ گو آگے سے کسی قدر کمی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے مَیں خطبہ پڑھانے کے لئے آگیا ہوں لیکن ابھی اتنا آرام نہیں آیا کہ مَیں متواتر بول سکوں یا یہ کہ میری آواز بلند ہو سکے۔
میں پہلے تو تحریک جدید کے چندہ کے متعلق دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اب وعدوں کی میعاد ختم ہونے کے قریب آرہی ہے لیکن بہت سی جماعتیں ابھی ایسی ہیں جنہوں نے ابھی تک جوابات نہیں دیئے۔ گو جن جماعتوں کے جواب آئے ہیں یا جن دوستوں نے اِس چندہ میں شمولیت اختیار کی ہے اُنہوں نے گزشتہ سالوں سے زیادہ حصہ لیا ہے لیکن پھر بھی ابھی تین سَو کے قریب جماعتیں ایسی ہیں جن کی طرف سے جوابات موصول نہیں ہوئے۔ گو یہ اِطلاعات آرہی ہیں کہ وہ فہرستیں تیار کر رہی ہیں اور جلد ہی تیار ہونے کے بعد بھیج دیں گی۔ اِسی طرح قادیان میں بھی محلہ جات کی فہرستیں ابھی مکمل نہیں ہوئیں۔
جیسا کہ مَیں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چُکا ہوں قادیان کے لوگوں کے لئے خصوصاً اور بیرونجات کے لوگوں کے لئے عموماً ۱۹۳۹ء اور ۱۹۴۰ء مالی لحاظ سے امتحان کے سال معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اِس میں اتنی چندہ کی تحریکیں ہوئی ہیں کہ شائد اِس سے پہلے جماعت میں کبھی بھی اتنی تحریکیں نہیں ہوئیں۔ ماہانہ چندوں کی باقاعدہ ادائیگی بلکہ ان میں زیادتی کا اعلان مرکزسلسلہ کی طرف سے کیا جاچُکا ہے اور بہت سے دوست اِس میں زیادتی کی طرف مائل ہیں گو بہت سے سُست بھی ہیں۔
اِسی طرح تحریکِ جدید کا چندہ علاوہ ان ماہانہ چندوں کے ہے۔ پھر جماعت نے اپنی مرضی سے ایک خلافت فنڈ کھولا ہے جس کا زور بھی اِسی سال پر پڑنا ہے۔ اِس کے علاوہ اﷲ تعالیٰ نے ایک امتحان کی یہ صورت بھی پیدا کر دی ہے کہ مہینوں مہینے گزر چکے ہیں مگر بارش نہیں ہوئی۔ ہماری جماعت کا اسّی فیصدی حصّہ زمینداروں کا ہے اور زمینداروں کے لئے یہ ایّام بڑے ہی ابتلاکے ایّام ہیں۔ اُن کی خریف کی آمدنیاں صفر کے برابر رہی ہیں۔ سوائے ان کے جن کی زمینیں نہری علاقوں میں ہیں۔ اِسی طرح اُن کی فصلِ ربیع بھی تباہ ہوتی نظر آتی ہے اور اگر خداتعالیٰ کا فضل بارش کی صورت میں نازل نہ ہو تو اِس کی صورت بھی بہت خطرناک ہے۔
مَیں چونکہ خود زمیندار ہوں اِس لئے مَیں زمینداروں کی اِس حالت کو خوب سمجھتا ہوں۔ شہری لوگ اِس بات کا اندازہ نہیں کر سکتے کہ زمینداروں کی پچھلی فصل کیسے گزری ہے اور آگے اُن کے لئے کِس قسم کے خطرات ہیں۔ میری اپنی ایک جگہ اڑتالیس ایکڑ زمین کاشت تھی اوردوکنویں بھی اس میں تھے مگر کل آمد اسّی روپے ہوئی ہے اور اِسی آمد میں سے ہی سرکاری لگان بھی ادا کرنا ہے جو سُنا گیا ہے کہ سَو سے بھی زائد ہے۔ حالانکہ کنوئیں بھی اِس زمین میں ہیں اور مَیں سمجھتا ہوں اگر اِس زمین میں یہ دو کنوئیں نہ ہوتے تو کل آمد چار آنے یا دو آنے فی ایکڑ بنتی۔
تو بارانی زمینوں والے آج کل نہایت خطرناک حالت میں ہیں۔ گورداسپور ،سیالکوٹ اور گجرات کا علاقہ جہاں ہماری جماعتیں زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہیں بارانی علاقہ ہے۔ اِس کے مقابلہ میں لائل پور اور سرگودھا گو چندہ کے لحاظ سے ان ضلعوں سے بڑھ جائیں یا جلسہ سالانہ پر ان علاقوں کے لوگ زیادہ تعداد میں آجائیں کیونکہ نہری علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے زمینداروں کی مالی حالت عموماً اچھی ہے مگر اصل جماعت کا پھیلاؤ گورداسپور، سیالکوٹ، ہوشیارپور، جالندھر اور گجرات کے ضلعوں میں ہے۔ یہ گویا پانچ ضلعے ہیں جہاں جماعت اچھی خاصی تعداد میں پھیلی ہوئی ہے۔ باقی اضلاع جس قدر ہیں وہ ان سے اُترکر ہیں۔
اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اَور بھی ایسے اضلاع ہیں جہاں احمدی معقول تعداد میں پائے جاتے ہیں مثلاً شیخوپورہ اور گوجرانوالہ۔ یہاں اچھی جماعتیں ہیں مگر بہرحال یہ اِن پانچ ضلعوں سے اتر کر ہی ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جماعت کے افراد کی کثرت جالندھر میں بھی نہیں۔ صرف جالندھر کے اتنے حصہ میں ہماری جماعت کے لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں جو ہوشیار پور سے ملتا ہے۔ اِس لحاظ سے جماعت کا اصل پھیلاؤ ہوشیار پور میں ہی ہے جالندھر میں نہیں۔ گویا گورداسپور، ہوشیارپور، گجرات اور سیالکوٹ یہ چار ضلعے ایسے ہیں جہاں ہماری جماعتیں کثرت سے پائی جاتی ہیں اور یہ چاروں ضلعے ایسے ہیں جن کے زمینداروں کا تمام تر انحصار بارش پر ہے اور اب ایک لمبے عرصہ تک بارش نہ ہونے کی وجہ سے مالی طور پر ان کی حالت اتنی خطرناک ہے کہ انسان یہ بھی نہیں سمجھ سکتا کہ وہ روٹی کہاں سے کھا رہے ہیں۔ گویا جہاں اور کئی قسم کے ابتلا تھے وہاں ایک آسمانی ابتلا بھی آگیا۔ بعض دفعہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کا امتحان لینا چاہتا ہے اور وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ میرا بندہ کس قدر برداشت کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہے۔ جب انسان اِس ابتلا کو برداشت کر لیتا ہے اور دنیا پر ظاہر کر دیتا ہے کہ اِس کی محبت اپنے رب سے اور اِس کا ایمان اپنے خدا پر اتنا مضبوط ہے کہ وہ کسی ابتلا سے نہیں ٹوٹ سکتا تو اﷲ تعالیٰ کے فضل اِس پر بارش کی طرح برسنے لگ جاتے ہیں۔ گویا ابتلا کی مثال ایسی ہی ہے جیسے مائیں بعض دفعہ اپنے بچے کو ڈراتی ہیں اور جب وہ ڈر کر رونے لگتا ہے تو اسے گلے سے لپٹا کر آپ بھی رونے لگ جاتی ہیں۔
مؤمن کے ابتلا کی بھی ایسی ہی مثال ہے۔ بعض دفعہ اﷲ تعالیٰ اپنے مومن بندے کو ڈراتا ہے مگر جب وہ ابتلاؤں سے گھبراتا نہیں بلکہ قربانی کرتا چلا جاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو اِسی طرح اپنے گلے سے لپٹا لیتا ہے جس طرح ماں اپنے بچے کو گلے سے لپٹا لیتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی محبت اپنے بندہ سے اتنی شدید اور اتنی عظیم الشان ہوتی ہے کہ انسانی محبتیں اِس کے مقابلہ میں کوئی ہستی ہی نہیں رکھتیں بلکہ جس نے خدا تعالیٰ کی محبت کو نہیں دیکھا صرف انسانی محبت کو ہی دیکھا ہے وہ اِس کی محبت کا قیاس بھی نہیں کر سکتا۔ تو یہ ابتلا اپنے اندر ایک عظیم الشان برکت رکھتاہے۔ بشرطیکہ جماعت اِس امتحان میں پوری اُترے۔ مَیں نے بتایا ہے کہ اِس سال کے ابتلا کا اثر صرف اِس سال تک ہی محدود نہیں بلکہ اگلا سال بھی اِس کے اندر شامل ہے۔ کیونکہ ایک سال کا اثر لازماً دوسرے سال پر پڑتا ہے ۔ جو لوگ ایک سال بہت زیادہ قربانیاں کریں اُنہیں دوسرے سال بھی قربانی میں دقّتیں محسوس ہوتی ہیں اور کہیں تیسرے سال جاکر اُن کا اثر دُور ہوتا ہے۔ تو علاوہ اِن ابتلاؤں کے جو جماعتی نظام کے ماتحت ہیں یا اپنی مرضی کے مطابق اختیار کئے گئے ہیں خدا تعالیٰ نے بھی اپنا حصّہ ابتلاؤں میں شامل کر دیا ہے۔ گویا یہ ابتلا چارگوشوں کا ابتلا ہے اور نہایت ہی مکمل اور لطیف ابتلا ہے۔
چندہ عام جو ہے یہ جماعت کی طرف سے چندہ ہے یعنی ایک جماعتی اور نظامی فیصلہ کے ماتحت لوگ چندہ دیتے ہیں اور یہ جماعت کے افراد کی ایک آزمائش ہے۔ جماعت کہتی ہے آؤ ہم اپنے اندر شامل ہونے والوں کی آزمائش کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کہاں تک قُربانی کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔
تحریکِ جدید خود خلیفہ کی طرف سے ہے۔ گویا دُوسری آزمائش خلیفہ کی طرف سے شروع ہے اور اِس نے کہا ہے کہ آؤ میں بھی اِس سال جماعت کی آزمائش کروں۔ خلافت جوبلی کی تحریک نہ جماعت کی طرف سے ہے اور نہ خلیفہ کی طرف سے۔ بعض دوستوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہؤا اور جماعت کے باقی دوستوں نے اِس خیال کے ساتھ اتفاق کا اظہار کر دیا۔ پس یہ ایک ایسی تحریک ہے جس میں ہر شخص اپنا آپ امتحان لیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ کس قدر قُربانی کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہے۔ غرض ہماری جماعت کے تمام دوستوں نے اپنے آپ کو انفرادی طور پر اِس امتحان کے لئے پیش کر دیا۔ اُنہوں نے کہا ہمارا امتحان نظام سلسلہ نے بھی لیا، ہمارا امتحان خلیفہ نے بھی لیا۔ آؤ ہم آپ بھی اپنا امتحان لیں۔ تب اﷲ تعالیٰ نے عرش سے کہا ہم بھی اِس امتحان میں اپنی طرف سے ایک سوال ڈال دیتے ہیں۔ پس یہ کیسا عظیم الشان ابتلا ہے جو اِس سال ہماری جماعت پر آیا ہے۔ خُدا نے بھی ہماری جماعت کا ایک امتحان لیا ہے، خلیفہ نے بھی جماعت کا ایک امتحان لیا ہے، نظام سلسلہ نے بھی جماعت کا ایک امتحان لیا ہے اور ہر فرد نے بھی انفرادی طور پر اپنا اپنا امتحان لیا ہے۔گویا چاروں گوشے جو تکمیل کے لئے ضروری ہیں وہ اِس امتحان میں پائے جاتے ہیں۔ آخر انسان کے تعلقات کی کیا نوعیت ہے۔ اِس کے چار ہی قسم کے تعلقات ہوتے ہیں یا اِس کا اپنے نفس کے ساتھ تعلق ہوتا ہے یا دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے یا روحانی یا جسمانی حاکم سے اِس کا تعلق ہوتا ہے اور یا پھر خداتعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے۔ اِس سال یہ چاروں ہی ابتلا آگئے۔
جماعتی امتحان بھی جاری ہے، خلیفہ کا امتحان بھی جاری ہے، خود اپنے نفس کے امتحان کے لئے بھی جماعت کے ہر فرد نے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے۔ صرف اﷲ تعالیٰ کا ایک امتحان رہتا تھا سو یہ تینوں ابتلا دیکھ کر اﷲ تعالیٰ نے کہا آؤ ہم بھی اُن کے سامنے ایک امتحانی پرچہ رکھ دیتے ہیں۔ پس اِس نے بھی جماعت کا ایک امتحان لیا اور اِس طرح ہمارے امتحان کے چار پرچے ہو گئے۔ اب وہ شخص جو اِن چاروں پرچوں میں پاس ہو جائے اُس سے زیادہ خوش نصیب اور کون شخص ہو سکتا ہے؟
پس آج ہماری جماعت میں سے ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ جماعتی امتحان میں بھی کامیاب ہو، خلیفہ کے امتحان میں بھی کامیاب ہو، نفس کے محاسبہ کے امتحان میں بھی کامیاب ہو اور خُدا تعالیٰ کے امتحان میں بھی کامیاب ہو۔ بے شک یہ امتحان سخت ہے۔
ایک نہیں چار امتحان ہیں لیکن پھر اِن چاروں امتحانوں کے بعد کوئی قسم امتحان کی باقی نہیں رہ جاتی۔ الٰہی امتحان بھی اِس سال ہو رہا ہے، ملّی امتحان بھی اِس سال ہو رہا ہے، ذاتی امتحان بھی اِس سال ہو رہا ہے اور خلیفہ کی طرف سے بھی امتحان اِس سال ہو رہا ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا یہ دو سال مالی لحاظ سے بہت سخت ہیں اور آثار بتاتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اِن کو اور بھی زیادہ سخت کر دیا ہے مگر خُدا تعالیٰ کے امتحان کی شمولیت بڑی برکتیں رکھتی ہے۔ دُنیا میں بھی بعض لوگ جب کسی امتحان میں شامل ہو جائیں تو بعد میں اُن کی ترقی کے بڑے بڑے سامان پیدا ہو جاتے ہیں اور کئی خرابیاں برکتوں کا موجب بن جاتی ہیں۔ جب جنگِ عظیم ہوئی ہے اُس وقت انگریزوں اور فرانسیسیوں کی فتح کے آثار جب جرمن حکومت نے دیکھے تو اُنہوں نے بے تحاشا امریکن جہازوں پر حملے کر دیئے جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ آخر امریکہ بھی لڑائی میں کُود پڑا۔ بعد میںلوگوں کو جرمن والوں کی اِس چالاکی کا علم ہؤا کہ اُنہوں نے کیوں امریکن جہازوں پر حملے کئے تھے۔
اصل بات یہ ہے کہ جرمن والوں نے یہ سمجھا کہ فرانسیسیوں اور انگریزوں سے ہمارے پشتینی ۱؎جھگڑے چلے آتے ہیں اور یہ بقول پنجابی زمینداروں کے ہمارے ’’بنّے‘‘ کے شریک ہیں۔ اگر صرف یہی لڑائی میں شامل رہے تو یہ صلح کے وقت اتنی کڑی شرطیں رکھیں گے کہ ہمیں پیس ڈالیں گے لیکن اگر اِس جنگ میں امریکہ بھی شامل ہو گیا تو امریکہ کو چونکہ ہم سے نہ کوئی شراکت ہے اور نہ کوئی پُرانی دُشمنی، اِس کے علاوہ ایک کروڑ کے قریب وہاں جرمن بھی رہتے ہیں جن کا امریکہ والوں پر اثر ہے اِس لئے اگر وہ جنگ میں شامل ہو گیا تو صُلح میں بھی لازماً شامل ہو گا اور جب وہ صلح میں شامل ہو گا تو وہ صلح کے وقت اتنی کڑی شرائط نہیں رکھنے دے گا اور وہ ضرور کچھ نہ کچھ نرمی کرے گا۔ چنانچہ واقع میں ایسا ہی ہؤا۔ اِس جنگ میں امریکہ کی شمولیت کی وجہ سے صلح کے وقت بہت نرم شرطیں طَے ہوئیں۔ ورنہ پہلے ان کے جو کچھ ارادے تھے اُس کا پتہ اِس امر سے لگ سکتا ہے کہ مسٹر لائڈ جارج نے ایک تقریر میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہم سیب کو اتنا نچوڑیں گے کہ اِس کے بیج بھی چیخ اُٹھیں گے۔ یعنی ہم جرمنی کو اتنا ذلیل کریں گے اور اِس سے اتنا روپیہ وصول کریں گے کہ اس کی ہڈیاں کھوکھلی کر دیں گے۔ تو بندوں کے ابتلاؤں کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے ابتلا کا شامل ہو جاناایک بہت بڑی برکت کا پیش خیمہ ہے کیونکہ بندوں کو دوسرے بندوں پر رحم آئے یا نہ آئے۔ کیونکہ کِسی انسان کو کیا پتہ کہ دُوسرے کو کیا تکلیف ہے اور اِس نے کِن مخالف حالات میں قربانی کی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کو ضرور رحم آجاتا ہے کیونکہ وہ عالم الغیب ہے اور وہ جب کوئی ابتلا اپنے بندوں پر وارد کرتا ہے تو ساتھ ساتھ عالِم الغیب ہونے کی وجہ سے اُن کے حالات بھی دیکھتا جاتا ہے اور جب اُسے رحم آتا ہے تو وہ اگلی پچھلی تمام کسریں نکال دیتا ہے۔ جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں ایک بادشاہ کو یہ خواب دکھایا گیا کہ سات سال قحط پڑے گا مگر جب سات سال گزر جائیں گے تو اﷲ تعالیٰ کو رحم آئے گا اور وہ پچھلے سارے نقصانات پورے کر دے گا۔۲؎ تو اگر صرف بندوں کے امتحان ہوتے تو وہ تم کو بدلہ نہیں دے سکتے تھے۔ مثلاً جماعت چندوں کے مقابلہ میں تمہیں کیا دے سکتی ہے؟ یا مَیں تحریک جدید کے بدلہ میں تمہیں کیا دے سکتا ہوں؟ یا خلافت جوبلی فنڈ میں حصہ لینے کی وجہ سے وہ لوگ تمہیں کیا بدلہ دے سکتے ہیں جنہوں نے یہ تحریک کی۔ انسانوں میں سے کوئی ان چیزوں کا بدلہ نہیں دے سکتا۔
پس جب کوئی انسان اِس کا بدلہ نہیں دے سکتا تو اﷲ تعالیٰ نے خود اپنا حصّہ اِس میں ڈال دیا اور خدا تعالیٰ جب لیا کرتا ہے تو وہ دیا بھی کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے کہا جماعت پر اِس وقت تین ابتلا ہیں۔ آؤ میں بھی اِن ابتلاؤں میں اپنی طرف سے ایک اورابتلا کا اضافہ کر کے شامل ہوجاؤں تاکہ اِن کی قُربانیاں بے بدلہ کے نہ رہیں اور میری طرف سے اِنہیں اتنا کثیر بدلہ مل جائے جو باقی کی تین قربانیوں کے بدلہ پر بھی حاوی ہو جائیں۔
پس گو بظاہر قحط کے آثار نہایت خطرناک نظر آتے ہیں مگر روحانی نقطۂ نگاہ سے اِس میں بہت بڑی برکات پوشیدہ ہیں اور اب جماعت کے ابتلا ایسے نہیں رہے جو بے بدلہ کے رہ جائیں۔ اب خدا خود اِس امتحان میں شامل ہو گیا ہے اور جب خدا کسی امتحان میں شامل ہو جائے تو رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ ۳؎کے مطابق ابتلاؤں کا انجام رحمت ہی ہؤا کرتا ہے۔
چونکہ میرا گلا بیٹھتا چلا جارہا ہے اِس لئے میں کوئی اور بات نہیں کر سکتا ورنہ ایک دو باتیں اَور بھی مَیں نے کہنی تھیں۔ اب میں اِسی پر اپنے خطبہ کو ختم کرتا ہوں اور اﷲ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے ہمیں کسی ایسے ابتلا میں نہ ڈالے جو ہماری تباہی کا موجب ہو بلکہ ہمارے سارے ابتلا خواہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں یا خلیفہ کی طرف سے، نظام کی طرف سے ہوں یا افراد کی طرف سے۔ جماعت کی بہتری اور اس کی ترقی کا موجب ہوں اور وہ نہ صرف ہمیں روحانی اور ایمانی برکات کا وارث بنانے والے ہوں بلکہ مالی اور جسمانی طور پر بھی ہر قسم کے فوائد سے ہمیں متمتع کرنے والے ہوں اور ہماری قُربانیاں اُس بیج کی طرح ہوں جو بہتر سے بہتر ہوتا ہے، بہتر سے بہتر زمین میں ڈالا جاتا ہے اور بہتر سے بہتر کوشش اور محنت کے بعد صحیح موسم میں اچھے سے اچھا پانی لے کر پیدا ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ ان قربانیوں کے بدلہ میں اگر ہمیں انعامات عطا فرمائے تو ہمیں توفیق بخشے کہ ہم اِس کے احسانات کی شکرگزاری کرتے ہوئے اِن نعمتوں کو بھی اِس کے راستہ میں قربان کر دیں اور اپنے ایمان کا دنیا کو زیادہ سے زیادہ بہتر نمونہ دکھائیں۔‘‘ (الفضل ۸؍فروری ۱۹۳۹ئ)
۱؎ پشتینی : موروثی ، خاندانی، قدیمی
۲؎
(یوسف: ۴۴)
۳؎ الاعراف : ۱۵۷
۳
تبلیغِ احمدیت کے متعلق اوقات وقف کرنے کا مطالبہ
(فرمودہ ۲۷؍جنوری۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے پچھلے سے پچھلے جمعہ میں قادیان کی جماعت کو تبلیغ احمدیت کے لئے اپنے آپ کو بطور والنٹیر پیش کرنے کی تحریک کی تھی اور اِس کے مطابق واقفین کی لسٹیں میرے پاس پہنچ گئی ہیں۔ مَیں نے تحریک جدید اور نظارت دعوت و تبلیغ کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ وہ پہلے ایسے علاقوں کے لئے جہاں تبلیغ کے لئے خاص طور پر ضرورت ہے آدمی چُن لیں اور پھر بقیہ لوگوں کو اِن علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دے دیں جن کو وہ خود ترجیح دیتے ہیں۔
تبلیغ ایک ایسا ضروری فرض ہے کہ جو الٰہی جماعتوں کے ابتدائی زمانہ میں سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے کیونکہ وہ پروگرام جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے الٰہی جماعتوں کو دیا جاتا ہے اُس کو تفصیلی طور پر پورا کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ بعض علاقوں یا مُلکوں میں اس جماعت کی اکثریت ہو۔ خالی شہروں کی اکثریت کافی نہیں ہوتی۔ بلکہ وسیع علاقوں اور مُلکوں میں ہی وہ احکام نافذ کئے جاسکتے ہیں جو سوسائٹی کے ساتھ بحیثیت جماعت تعلق رکھتے ہیں۔
پس اسلام کی وہ تشریح جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں ملی ہے اور اسلام کا وہ دور جو دُنیا میں آج سے تیرہ سَو سال قبل گزرا ہے اِس تشریح پر عمل اور اِس دَور کا قیام اِسی صورت میں مُمکن ہے کہ جبکہ ہم وسیع علاقہ میں اپنی اکثریت پیدا کرلیں اور پھر باہمی اتحاد اور فیصلہ کے ساتھ اِس قانون اور شریعت کو رائج کریں جس کو اسلام نے ہم میں رائج کرنا چاہاہے۔ افراد کی کثرت اگر وہ مختلف ممالک میں پھیلے ہوں گو مالی لحاظ سے اور سیاسی لحاظ سے مفید ہو سکتی ہے مگر اجرائے قانون کے لحاظ سے مفید نہیں ہو سکتی۔ اگر دس کروڑ افراد ساری دُنیا میں پھیلے ہوئے ہوں تو وہ اجرائے قانون کے لحاظ سے اتنے مفید نہیں ہو سکتے جتنے ایک کروڑ اگر ایک جگہ جمع ہوں۔
پس قرآن کریم کی تعلیم کو عملی صورت میں کسی علاقے میں ظاہر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی وسیع علاقہ ایسا ہو جہاں جماعت احمدیہ کُلّی طور پر موجود ہو یا بہت بڑی اکثریت رکھتی ہو اور یہ غرض پوری نہیں ہو سکتی جب تک کہ منظم صورت میں تبلیغ نہ کی جائے۔ مختلف علاقے لے لئے جائیں اور اِن میں منظم طور پر پورے زور کے ساتھ تبلیغ کی جائے یہاں تک کہ وہ علاقہ ظاہر ہو جائے جسے اﷲتعالیٰ نے اِس سعادت کے لئے مقدر فرمایا ہو۔
مجھے افسوس ہے کہ ابھی ہماری جماعت نے اِس ذمّہ داری کو پورے طور پر نہیں سمجھا اور مجھے بہت ہی زیادہ افسوس ہے کہ اِس بارہ میں سب سے زیادہ غفلت قادیان کے لوگوں کی ہے جہاں اور خدمات میں قادیان کی جماعت دوسروں سے بڑھی ہوئی ہے وہاں تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے میں یہ سب سے پیچھے ہے۔ امن نے ان کے دماغوں میں غلط اطمینان پیدا کر دیا ہے۔ شائد کوئی کہے کہ یہاں امن کہاں ہے۔ روز احرار کی طرف سے فتنے پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن فتنہ کا ہونا اور چیز ہے اور قلبی اطمینان اور ہے۔ جہاں ایک احمدی دس مخالفوں میں گھِرا ہو وہاں فتنہ اس کے دل میں یہ خلش پیدا کر سکتا ہے کہ شاید میں تباہ نہ ہو جاؤں ۔ مگر جہاں دس بھلے مانسوں میں ایک شرارت کرنے والا ہو وہاں نفس مطمئن ہوتا ہے اور گو تکلیف ہو مگر یہ گھبراہٹ نہیں ہوتی کہ میں تباہ ہو سکتا ہوں۔ یہی حال قادیان اور باہر کے فتنوں کا ہے۔ باہر کے فتنے خواہ کتنے تھوڑے ہوں چونکہ وہ اکثریت کی طرف سے ہوتے ہیں۔ جماعت کے لوگوں میں ایک قسم کی بے اطمینانی ہوتی ہے مگر قادیان کے فتنے خواہ کتنے بڑے کیوں نہ ہوں جماعت کے دلوں میں یہ اطمینان ہوتا ہے کہ ہم یہاں طاقت اور تعداد کے لحاظ سے زیادہ ہیں۔ یہ اطمینان کی صورت ایسی ہے جو نظر انداز نہیں کی جاسکتی اور مجھے افسوس ہے کہ اس نے قادیان کی جماعت کے دماغوں میں امن کا غلط خیال پیدا کر دیا ہے اور جماعت کی مثال اُس کبوتر کی سی ہے جس پرجب بلّی حملہ کرتی ہے تو وہ آنکھیں بند کر لیتا اور خیال کر لیتا ہے کہ اب بلّی مجھے دیکھ نہیں سکتی اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ایک چھوٹے سے قصبہ میں ان کی اکثریت ہونے سے حقیقی امن قائم نہیں ہو سکتا اور اگر ہو بھی جائے تو سوال یہ ہے کہ کیا اُنہوں نے احمدیت اپنے امن کے لئے اختیار کی ہے؟ جس کی جدوجہد اپنے نفس کے لئے امن پر ختم ہو جاتی ہے اس نے احمدیت کو نفس کے لئے ہی اختیار کیا ہے اگر دین کے لئے اختیار کیا ہوتا تو اپنے نفس کے لئے آرام حاصل کرنے پر اس کی جدوجہد ختم نہ ہو جاتی۔ ہمارا امن تو دین کے لئے امن پر منحصر ہے۔ اگر دین کے لئے امن نہیں تو ہمارے امن کے کیا معنی؟ اگر دنیا میں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے امن نہیں تو قادیان میں اگر ہم طاقتور بھی ہوں یہاں کوئی بھی فتنہ کرنے والا آدمی باقی نہ رہے، احراری فتنے بھی مٹ جائیں تو کیا فائدہ؟ اس کے معنی زیادہ سے زیادہ یہ ہوں گے کہ ہمیں نجات حاصل ہو گئی مگر یہ نجات تو غیر احمدی ہونے کی صورت میں ہمیں پہلے ہی حاصل تھی۔ یہ سب فتنے تو پیدا ہی اِس لئے ہوئے تھے کہ ہم نے احمدیت کو قبول کیا تھا اور ہم نے تو احمدیت اِس لئے قبول کی تھی کہ چاہے ہمارے لئے فتنہ پیدا ہو مگر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے امن حاصل ہو جائے۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ساری دنیا میں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے امن قائم ہو جائے۔ کم سے کم شروع میں ایسا ایک علاقہ ہی ہو جہاں آپ کی تعلیم کو زندہ کر کے جاری کیا جاسکے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو آپ کے جھنڈے تلے لے آئیں اور اگر ہم کسی وقت اِس لئے کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں کہ جس علاقہ میں ہم رہتے ہیں اِس میں امن قائم ہو گیا ہے تو یہ ہمارے ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔ جہاں دوسری اکثر اچھی باتوں میں قادیان کے لوگ اچھا نمونہ دکھانے کے عادی ہیں، یہاں کے احمدیوں کی اکثریت چندہ باقاعدہ ادا کرتی ہے، دین سیکھنے کی طرف بھی وہ زیادہ توجہ کرتے ہیں اور وعظ وغیرہ شوق سے سُنتے ہیں اِسی طرح اور کئی خوبیاں اِن میں ہیں وہاں مجھے سخت افسوس ہے کہ تبلیغ کے معاملہ میں وہ دوسروں سے بہت پیچھے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چند کارکنوں کو چھوڑکر اِس نیکی کے خانوں میں باقی لوگوں کے لئے صفر لکھا ہؤا ہے۔ اگر قادیان کے لوگ اپنی ذمّہ داری کو سمجھتے، اُن میں حقیقی بیداری پیدا ہوتی اور وہ سمجھتے کہ احمدیت کو اﷲ تعالیٰ نے کیوں قائم کیا ہے تو آج تک لاکھوں آدمی قادیان اور اِس کے اِردگِرد احمدی ہو چکے ہوتے۔ ایک یادو لوگوں کو ہر سال احمدی بنا لینا کوئی مُشکل کام نہیں اور اتنے بنا لئے جائیں تو آپ غور کر سکتے ہیں کہ دس سال میں ہی جماعت کتنی ترقی کر سکتی ہے۔ آپ لوگ اندازہ کر لیں کہ آج سے آٹھ سال قبل قادیان میں احمدیوں کی تعداد باون سَو کے قریب تھی۔ اگر اِس میں سے چالیس فیصدی مردتبلیغ کرنے کے قابل سمجھ لئے جائیں تو وہ دو ہزار ہوتے ہیں اور اگر یہ دو ہزار احمدی اپنی ذمّہ داری کو محسوس کرتے اور ایک ایک احمدی ہی اور بناتے تو ۱۹۳۱ء میں یہ چار ہزار ہو جاتے اور اگر پھر وہ بھی ایک ایک اور بناتے تو ۱۹۳۲ء میں آٹھ ہزار ہو جاتے اور اگر یہ بھی محنت کے ساتھ کام کرتے تو ۱۹۳۳ء میں یہ تعداد ۱۶ ہزار ہو جاتی اور اگر وہ اِسی محنت کو قائم رکھتے تو ۱۹۳۴ء میں بتیس ہزار اور ۱۹۳۵ء میں چونسٹھ ہزار ۱۹۳۷ء میں ۱۲۸۰۰۰ اور ۱۹۳۸ء میں ۲۵۶۰۰۰ ہو جاتے۔ پھر اگر اِن کے بیوی بچوں کو ساتھ شامل کر لیا جائے تو جماعت کئی لاکھ کی ہو سکتی تھی۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ شیخ چلی والی باتیں ہیں اور یہ وہی بات ہے جسے خیالی پلاؤپکانا کہتے ہیں مگر حقیقتاً یہ بات نہیں۔ جن لوگوں نے اپنی ذمّہ داری کو سمجھا ہے اُنہوں نے عملاً ایسا کر کے دکھا دیا ہے۔
صحابہ کرام کی جدوجہد سے پچاس سال کے عرصہ میں تین کروڑ مسلمان بن چکے تھے اور سپین کے ساحلوں سے لے کر چین کی حدود تک بلکہ تمام معلومہ دُنیا میں اسلام کا پیغام پہنچ چُکا تھا اور اُس وقت کی متمدن دُنیا کے اسّی فیصدی علاقہ پر اِن کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ پس یہ باتیں ناممکن نہیں ہیں۔ بشرطیکہ لوگ اپنی ذمّہ داریوں کو سمجھیں اور جو شخص احمدی ہو جائے وہ سمجھ لے کہ میں کوئی نئی مخلوق ہو گیا ہوں۔ اگر وہ صرف یہ خیال کرتا ہے کہ میں نے چند عقائد بدل لئے ہیں باقی میں ویسا کا ویسا ہی زمیندار ہوں، ویسا ہی لوہار یا ترکھان ہوں جیسا پہلے تھا تو وہ کیا تبدیلی اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے۔ ہاں اگر وہ خیال کرتا ہے کہ مَیں کوئی نئی جنس ہو گیا ہوں، نئی مخلوق بن گیا ہوں، خدا تعالیٰ کی آواز بن گیا ہوں تو دیکھو اﷲ تعالیٰ اِسے کتنی ہمت، قوت اور حوصلہ عطاکردیتا ہے۔ مَیں اُمید کرتا ہوں کہ آئندہ قادیان کے لوگ خصوصاً اپنی سُستی کو دُور کر کے عملی طور پر اپنے اخلاص اور ایمان کا ثبوت دیں گے۔ صرف نام لکھوا دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ضروری ہے کہ نام لکھوانے کے پیچھے ایک مضبوط ارادہ، عزم اور ہمت ہو۔ پختہ عزم اور مضبوط ارادہ کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور اِس نیّت کے ساتھ کہ خود بھی احمدی بننا ہے اور دوسروں کو بھی بنانا ہے۔ اِس صورت میں تمہیں لازماً احمدیت کو سیکھنا پڑے گا، اپنے اعمال درست کرنے پڑیں گے اور اِس طرح ایک طرف تمہارا اپنا ایمان اور اخلاق ترقی کرے گا اور دوسری طرف جماعت ترقی کرے گی اور تم ایسے الٰہی فضل مشاہدہ کرو گے جو روحانیت کے ساتھ ہی تعلق رکھتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے والوں کی کوئی حد بندی نہیں ہو سکتی بلکہ اِس کے دربار میں سب کے لئے گنجائش ہے۔ دنیوی حکومتیں تو کچھ آدمی ملازم رکھ کر کہہ دیتی ہیں کہ اور گنجائش نہیں لیکن اﷲ تعالیٰ کی درباری خواہ ساری دُنیا ہو جائے اور اُسے ساری دنیا کو بھی معجزے دکھانا پڑیں اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آسکتی۔ پس چاہئے کہ ہم میں سے ہر فرد کوشش کرے کہ اﷲ تعالیٰ کے معجزوں کا مورد ہو۔ یہ نہ ہو کہ تم میں سے ایک غریب زمیندار کو بھی دیکھ کر لوگ انگلیاں اُٹھائیں اور کہیں کہ یہ بے کَس ہے جو سلوک چاہو اِس کے ساتھ کر لو بلکہ یہ ہو کہ اگر کوئی احمدی کہیں اکیلا ہو تو لوگ اِس کی طرف انگلیاں اُٹھائیں اور کہیں کہ یہ اکیلا ہے مگر اِسے چھیڑنا نہیں کیونکہ اِس کو تکلیف دینے سے خدا تعالیٰ کا قہر نازل ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کے دربار میں جتنے لوگ چاہیں یہ مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ وہاں ساری دُنیا کے لوگوں کے لئے گنجائش ہے بغیراِس کے کہ اِس میں کوئی کمی ہو۔
پس اِس ایمان پر تسلی نہ پا جاؤ جس پر تمہاری عقلیں تسلی پاتی ہیں بلکہ وہ اخلاق دکھاؤ کہ جس سے خدا تعالیٰ کے پیارے بن جاؤ اور خوب یاد رکھو کہ اِس کے لئے علم کی ضرورت نہیں، روپے کی ضرورت نہیں، طاقت کی ضرورت نہیں، بلکہ صرف نیّت کی ضرورت ہے اور اِس عزم کی ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ کی حکومت تمہارے دلوں پر ہو۔ دل کی پاکیزگی اور صفائی اور رُوح کے فرمانبردار ہونے کی ضرورت ہے۔
اِس کے بعد میں بیرونی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد از جلد واقفین کی فہرستیں تیار کر کے بھجوادیں تا ان کے علاقوں میں بھی تبلیغ کے نظام کو مکمل کیا جائے۔ شروع میں کام کرنے والوں کے لئے بے شک دقّتیں ہوں گی لیکن اگر ہمت اور ارادہ ہو تو مُشکلات خودبخود دُور ہو جایا کرتی ہیں۔
۱۹۲۳ء میں جب ملکانوں کا فتنہ شروع ہؤا اُس وقت جماعت کے اندر ایک جُوش پیدا ہؤا اور سینکڑوں احمدیوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ پھر اُنہوں نے وہاں جاکر تبلیغ کی اور ثواب بھی حاصل کئے مگر انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ان کے کاروبار بھی ویسے ہی رہے جیسے پہلے تھے، نوکریاں بھی ویسی ہی رہیں اور اِس موقع پر جن لوگوں نے جی چُرایا کئی دفعہ ان کو خیال آتا ہو گا کہ کاش ہم بھی ثواب حاصل کر لیتے۔ غور کرو یہ کتنا عظیم الشان کارنامہ تھا کہ ایک مٹھی بھر جماعت کا مقابلہ تمام ہندوقوم کے ساتھ تھا اور یہ کتنا شاندار نتیجہ تھا کہ جب اس جماعت کے کام کی وجہ سے ہندوؤں کے لئے مُشکلات پیدا ہوئیں اور ادھر ہندو مسلم اختلاف وسیع ہونے لگا تو گاندھی جی نے بَرت رکھا اور کہا کہ جب تک ہندو مسلمانوں میں صلح نہ ہو میں بَرت نہیں کھولوں گا۔ پھر وہ کیا عجیب وقت تھا کہ دہلی میں ہندوستان کے بڑے بڑے ہندو مُسلم لیڈر جمع ہوئے کہ صلح کی تجویز کریں مگر جن کو بُلایا گیا ان میں جماعت احمدیہ کا نام ہی نہ تھا۔ یہی شیخ عبدالرحمن مصری جو اِس وقت ہماری مخالفت میں حصّہ لے رہے ہیں، یہ گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہا کہ ہمارا تو نام ہی نہیں۔ ان کو توجہ دلانی چاہئے۔ مَیں نے کہا کہ مجھے تو توجہ دلانے کی ضرورت نہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ خود توجہ کرنے پر مجبور ہوں گے اور دوسرے ہی روز حکیم اجمل خان صاحب اور ڈاکٹر انصاری صاحب کا تار میرے نام آیا کہ اپنے نمائندے جلد بھیجئے صلح کے کام میں تاخیر ہو رہی ہے۔ بات یہ ہوئی کہ جب ہندو مسلم لیڈر صلح کے لئے بیٹھے تو شردھانند صاحب نے کہاکہ لڑائی تو احمدیوں کے ساتھ جاری ہے کیونکہ تبلیغ وہی کررہے ہیں۔ یہاں اُن کے نمائندے ہی نہیں ہیں تو صلح کی بات چیت کِس سے کی جائے۔ آخر وہ لوگ جنہوں نے پہلے کِبر اختیار کیا اور کہا تھا کہ احمدیوں کو بُلانے کی کیا ضرورت ہے، مجبور ہو گئے کہ مجھ سے تار کے ذریعہ نمائندے بھجوانے کی درخواست کریں اور جب ہمارے نمائندے جانے لگے تو میں نے ان سے کہا کہ وہاں جو گفتگو ہو گی وہ میں ابھی سے بتا دیتا ہوں۔ آریہ سماجی کہیں گے کہ چونکہ گاندھی جی نے بَرت رکھا ہؤا ہے ہمیں چاہئے کہ ان کا بَرت کھلوانے کے لئے باہم صلح کرلیں اور وہ اِس طرح کہ ہم بھی وہاں اپنا کام بند کر دیتے ہیں اور آپ بھی کریں۔ بظاہر یہ خوشنما تجویز ہے اِس سے مسلمان نمائندے اِسے قبول کرنے کے لئے فوراً تیار ہو جائیں گے مگر تم کہنا کہ آپ لوگوں نے ہمارے گھر پر قبضہ کر لیا ہے اور اِس وقت اب صلح کرنے میں آپ کو فائدہ ہے مگر ہمارا سراسر نقصان ہے۔ ملکانے مسلمان تھے۔ ان میں سے آپ لوگ بیس ہزار کو مرتد کر چکے ہیں اور اب صلح کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ ان سب کو کلمہ پڑھوا دو۔ ورنہ اِس وقت تک ہمیں تبلیغ کی اجازت ہونی چاہئے جب تک ان کو مسلمان نہ بنا لیں۔ اس کے بعد اگر باقی مسلمان کہیں گے تو ہم بھی وہاں کام بند کر دیں گے اور کہیں اور کام شروع کر دیں گے۔
جب ہمارے نمائندے وہاں پہنچے تو بعینہٖ ایسی ہی صورت وہاں پیش آئی۔ سوامی شردھانند صاحب نے کہا کہ گاندھی جی کو ممنون کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم بھی وہاں کام بند کر دیں اور مسلمان بھی بند کر دیں۔ اِس پر میرے نمائندوں نے کہا کہ آریہ بیس ہزار مسلمانوں کو اپنے ساتھ مِلا چکے ہیں اور ہم تو ان کے پیچھے محض اصلاح کے لئے گئے ہیں۔ صلح مساوی شرائط پر ہی ہو سکتی ہے۔
اِس لئے یہ وہ بیس ہزار آدمی واپس کر دیں اور یا پھر ہمیں اتنی دیر وہاں کام کرنے کی اجازت ہو جب تک کہ ہم اتنے آدمیوںکو مسلمان نہ بنا لیں ورنہ مساوات نہیں قائم ہو سکتی۔ ہم فی الحال وہاں کام کریں گے اور جب ان لوگوں کو اسلام میں داخل کر لیں گے جو مرتد ہو چکے ہیں تو چونکہ یہ لوگ احمدی نہیں، عام سُنّی ہیں اِس لئے اگر مسلمانوں نے چاہا ہم اِس طریق کی تبلیغ وہاں بند کر دیں گے اور اپنے کام کے لئے دوسرا علاقہ چُن لیں گے۔ اِس جواب کو سُن کر مسلمانوں کے نمائندوں نے کہا کہ احمدی ہمیشہ فساد ہی کرتے رہے ہیں۔ اِن کی نیّت ہی یہ ہے کہ مُلک میں امن نہ ہو۔ چلو ہم صلح کرتے ہیں۔ یہ مٹھی بھر جماعت کیا کر سکتی ہے، ان کو شور مچانے دو۔ مگر سوامی شردھانند صاحب نے کہا کہ تم لوگوں کا تو کوئی آدمی وہاں ہے ہی نہیں۔ تمہارے ساتھ مَیں صلح کیا کروں۔ جب تک احمدیوں کے ساتھ صلح نہ ہو صلح نہیں ہو سکتی اور اِس طرح ان بے شرم علماء کو جو مَلکانوں کے ارتداد پر اپنی رضا کی مُہر لگانے کو تیار ہو گئے تھے منہ کی کھانی پڑی اور وہ اپنی ذلّت و رسوائی دیکھ کر خاموش ہو گئے۔ ہمارا مطالبہ تو آریہ منظور کرہی نہیں سکتے تھے اور اِس طرح یہ صلح بیچ ہی میں رہ گئی اور ہم نے کہا کہ ہم اِس وقت تک اِس میدان کو نہیں چھوڑیں گے جب تک اتنے لوگوں کو واپس نہیں لے آتے۔ آخر وہ جوش کے دن گزر گئے۔ ہمارے مبلغ بھی واپس آگئے مگر ایک دو آدمی ہم نے اب تک وہاں رکھے ہوئے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں وہاں کامیابی ہو رہی ہے۔ چنانچہ کچھ ہی عرصہ ہؤا فتح پور قصبہ جو ساندھن کے پاس ہے اور پہلے سارا کا سارا مرتد ہو چُکا تھا اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مبلّغوں کی تبلیغ سے پندرہ سال بعد پھر اسلام میں داخل ہو گیا ہے اور آریہ لوگ اپنا بوریا بستر وہاں سے اُٹھا کر چل دیئے ہیں۔
دیکھو کتنی طاقتور قوم سے مقابلہ تھا۔ اُس وقت ہندو امراء کہہ رہے تھے کہ ہم کروڑوں روپیہ اِس کام پر لگا دیں گے اور یہاں تک کہتے تھے کہ ایک ایک آدمی کے بدلے ہزار ہزار روپیہ دیں گے۔ دولت اور طاقت کا سر نیچا ہؤا اور مٹھی بھر جماعت کو فتح حاصل ہوئی اور یہ نتیجہ تھا اُس قربانی کا جو جماعت نے دکھائی۔ اس وقت ایک قربانی کی رَو تھی جو جماعت میں چل رہی تھی۔ آج تک اس علاقہ میں بعض واقعات اس زمانہ کے مشہور ہیں بلکہ میرے گزشتہ سفر میں بھی بعض لوگ ملے جنہوں نے مندرجہ ذیل واقعہ کا ذکر کیا کہ وہاں ایک گاؤں سب کا سب آریہ ہو چکا تھا صرف ایک عورت مائی جمیا تھی جو مرتد نہ ہوئی تھی۔ اس کے لڑکے بھی آریہ ہو گئے تھے۔ آریوں نے کہا کہ اِس کا بائیکاٹ کیا جائے تو پھر یہ آریہ بنے گی۔ آخر اِس کا بائیکاٹ ہؤا حتّٰی کہ اس کے لڑکوں نے اس کے حصّہ کی فصل کو بھی کاٹنے سے انکار کر دیا۔ اِس وقت شاید چوہدری نصراﷲ خان صاحب یا خان بہادر شیخ محمد حسین صاحب ریٹائرڈ سیشن جج علی گڑھ والے وہاں انچارج تھے۔ مائی جمیا ان کے پاس آئی اور کہا کہ میں نے مزدوروں سے اپنی فصل کٹوانے کی کوشش کی ہے مگر وہ بھی نہیں کاٹتے اور کہتے ہیں کہ شُدھی کرو اؤ تو کاٹیں گے نہیں تو جاؤ مولویوں سے کٹواؤ۔ ہمارے آدمی بوجہ تعلیم یافتہ ہونے کے وہاں مولوی کہلاتے تھے۔ اِس لئے اُنہوں نے بطور طنز کہا کہ جاؤ مولویوں سے کٹواؤ۔ ان کا خیال تھا کہ یہ لوگ اِس کام میں اِس کی کیا مدد کر سکیں گے؟ مائی جمیا نے کہا کہ میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ بے شک کھیت خراب ہو جائے پرواہ نہیں مگر میں شُدھ نہیں ہوں گی۔ جو دوست وہاں انچارج تھے اُنہوں نے مجھے اطلاع دی اور میں نے انہیں لکھا کہ بے شک آریوں نے جو کچھ کہا ہے ویسا ہی ہو گا اور مولوی ہی اس کے کھیت کو کاٹیں گے۔ آپ اپنے تعلیم یافتہ آدمیوں کو لے کر جائیں اور اس کا کھیت کاٹیں۔ چنانچہ کئی گریجوایٹ اور سرکاری ملازم، سرکاری خطاب یافتہ لوگ وہاں گئے اور جاکر کھیت کاٹ دیا۔ ان کے ہاتھ لہو لہان ہو گئے، چھالے پڑ گئے مگر اِس علاقہ کے لوگوں پر اِ س بات کا اتنا اثر ہؤا کہ اِسی دن سے آریوں نے سمجھ لیا کہ اِس جماعت کا مقابلہ آسان نہیں۔ اِس علاقہ کے رؤساء اب بھی اِس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گو اِس پر پندرہ سال گزر گئے مگر اِس کا اثر دلوں سے محو نہیں ہؤا۔ اور وہ آج بھی اقرار کرتے ہیں کہ یہ احمدیوں کا ہی کام تھا، مسلمانوں میں سے کوئی اور جماعت ایسا نہیں کر سکتی۔ وہی روح اگر آج بھی پیدا ہو تو اِس سے شاندرا نتائج ظاہر ہو سکتے ہیں کیونکہ آج جماعت اُس وقت سے کئی گُنا زیادہ ہے۔ تین چار گُنا سے بھی زیادہ ہے۔ صرف ضرورت ارادہ کی ہے اور اخلاص کی۔ پس میں بیرونی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمّہ داری کو سمجھیں اور ہر بالغ مرد (عورتوں کو میں ابھی مجبور نہیں کرتا۔ گو وہ اپنی خدمات پیش کریں تو شکریہ کے ساتھ قبول کی جائیں گی مگر ان کی یہ خدمت طوعی ہو گی) لیکن ہر بالغ مرد احمدی سے میں اُمید کرتا ہوں کہ وہ اپنا وقت اِس کام کے لئے دے گا اور یہ ذمّہ داری لے گا کہ خواہ کتنا وقت کیوں نہ دینا پڑے وہ ایک دو یا تین یا ان سے زیادہ احمدی سال میں ضرور بنائے گا۔ پس تمام جماعتیں ایسی فہرستیں تیار کر کے جلد بھجوادیں تا ان کے لئے کام کی سکیم بنا دی جائے اور اگر اِس سکیم کی اہمیت کو مدّنظر رکھا جائے تو چند سال میں ہی ہندوستان کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ احمدیوں میں زیادہ تر اَن پڑھ لوگ ہیں۔ یعنی زمیندار طبقہ زیادہ ہے۔ یوں نسبتی لحاظ سے تو احمدیوں میں تعلیم زیادہ ہے مگر باہر کے جلسوں میں تعلیم یافتہ لوگ آتے ہیں اور ہمارے زمیندار آتے ہیں۔ ان کے عوام نہیں سُنتے مگر ہمارے عوام دوسروں کی نسبت زیادہ سُنتے ہیں۔ گویا ہمارے مخاطبین میں زیادہ تر عوام ہوتے اور دوسروں کے جلسوں کی نسبت ہمارے جلسوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کم ہوتا ہے۔ اِس لئے وہ سیاسی لحاظ سے بات کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی طور پر اسلام اِس وقت نہایت نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ایسے نازک دَور سے کہ اگر اِس وقت اِس کی حفاظت کے لئے کوئی جماعت کھڑی نہ ہو گی تو اِس کے مِٹ جانے میں کوئی شُبہ نہیں۔ یوں تو مسلمان بیشک دنیا میں رہیں گے مگر نام کے مسلمانوں سے اسلام کو کیا فائدہ؟ قرآن دُنیا میں اِس لئے نہیں آیا تھا کہ اسے جز دانوں میں بند کر کے رکھا جائے اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم دُنیا میں اِس لئے نہیں آئے تھے کہ لوگ مُنہ سے آپ کو خدا کا رسول تسلیم کر لیں بلکہ اِس لئے آئے تھے کہ خدا تعالیٰ کی تعلیم کو دُنیا میں قائم کریں۔ اگر یہ نہیں تو مسلمانوں کا وجود تعداد میںخواہ کتنا کیوں نہ بڑھ جائے بے فائدہ ہے۔ سفید چیز کو کالا کر دینے سے وہ کالی نہیں ہو جاتی اور کالی کو سفید کہہ دینے سے وہ سفید نہیں ہو جاتی۔ اِسی طرح جس کا دل کافر ہو اُس کا نام مسلمان ہونے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اِس نازک موقع پرایک جماعت احمدیہ ہی ہے جس سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمّہ داری کو سمجھتے ہوئے مقابلہ کے میدان میں آگے آئے گی اور جلد اسلام کے حقیقی پیروؤں کی اتنی تعداد پیدا کر لے گی کہ جو دُنیا کا مقابلہ آسانی سے کر سکے۔ گو باہر سے بھی اطلاعات آنی شروع ہو گئی ہیں مگر اِس کے لئے آخری تاریخ ۸؍مارچ مقرر ہے۔٭ دعوۃ و تبلیغ کو چاہئے جس طرح تحریک جدید کا عملہ محنت کر کے سب جماعتوں سے وعدہ لکھوا چُکا ہے وہ بھی خاص زور دے کر فہرستیں مکمل کریں اور سلسلہ کے اخبار اِس کام میں ان کی پوری مدد کریں اور اِس لحاظ سے وقت بہت کم ہے اِس لئے میں پھر دوستوں کو توجّہ دلاتا ہوں کہ اِس سے بہت زیادہ جدوجہد کی ضرورت ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ قادیان سے فہرستیں آچکی ہیں اور ان کو بہت جلد تحریک جدید اور نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے ان کے فرائض سے مطلع کر دیا جائے گا اور میں ہر ایک احمدی سے اُمید رکھتا ہوں کہ وہ پوری محنت، ہمت اور کوشش سے کام کرے گا اور اس سال کے آخر تک ہر وہ شخص جو کوتاہی کرے گا میں مجبور ہوں گا یہ قرار دینے پر کہ اُس نے احمدیت کا اچھا نمونہ نہیں دکھایا اور کہ وہ محض نام کا احمدی ہے حقیقتاً ہمارے ساتھ شامل نہیں۔
اِس کے بعد مَیں قادیان کے دوستوں کو بھی اور باہر والوں کو بھی تحریک جدید کے مالی حصّہ
٭ یہ خطبہ دیر سے چھپ رہا ہے اِس لئے میں ہندوستان کے لئے ۸؍اپریل کی تاریخ مقرر کر
دیتا ہوں۔
کی طرف متوجہ کرتا ہوں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ دس فروری کے بعد کوئی وعدے قبول نہیں کئے جائیں گے۔ مَیں نے کل دفتر سے لسٹ منگوائی تھی اور مجھے افسوس ہے کہ قادیان میں بھی ابھی بہت سے ایسے دوست ہیں جنہوں نے توجّہ نہیں کی وہ ایسے نہیں کہ ہم خیال کریں کہ مالی مُشکلات کی وجہ سے حصّہ نہیں لے سکے بلکہ ایسے ہیں کہ جو کسی نہ کسی صورت میں حصّہ لے سکتے ہیں۔ باہر کی بعض بڑی جماعتوں کی فہرستیں بھی تاحال نہیں آئیں۔ جیسا کہ دفتر کی اطلاعات سے معلوم ہؤا ہے مَیں جانتا ہوں کہ وعدوں کا زور آخری دنوںمیں بہت ہوتا ہے۔ جو مخلص ہیں وہ تو پہلے دنوں میں ہی توجّہ کرتے ہیں پھر درمیان میں رَو کم ہو جاتی ہے اور پھرجب آخری دن ہوتے ہیں تو پھر رَو تیز ہو جاتی ہے کیونکہ دوستوں کو خیال ہوتا ہے کہ اب وقت ختم ہونے کو ہے مگر ان کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ دس فروری کے بعد یا باہر کے جس خط پر گیارہ فروری کے بعد کی مُہر ہو گی ایسا کوئی وعدہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی سے ثابت ہے کہ اﷲ تعالیٰ ایک جماعت خدمت کرنے والوں کی تیار کرنا چاہتا ہے اور کئی لوگوں کے خوابوں سے اِس کی تائید ہو چکی ہے۔ سینکڑوں لوگوں کو اس کے متعلق الہامات ہو چکے ہیں تو پھر پیچھے رہنا کس قدر بد نصیبی ہے۔
پس ہر ایک شخص جو تھوڑا بہت بھی حصّہ لے سکتا ہے مگر نہیں لیتا اس کی بد قسمتی میں کوئی شُبہ نہیں۔ کئی لوگ محض اِس لئے ہچکچاتے ہیں کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ پہلے ہم نے زیادہ حصّہ لیا تھا اب کم کس طرح لیں۔ حالانکہ شرائط کے مطابق ایسا کرنا جائز ہے۔ اِس سے زیادہ حماقت اور کیا ہو سکتی ہے کہ جو شخص سابقون میں شامل نہ ہو سکے وہ دوسرے درجہ میںبھی نہ ہو۔ ایسا خیال کرنا نادانی اور ثواب کی ہتک ہے۔ ثواب خواہ کتنا ہی تھوڑا کیوں نہ ہو ضرور حاصل کرنا چاہئے۔ اگر کسی نے پچھلے سال سَو روپیہ دیا مگر اِس سال وہ سمجھتا ہے کہ مَیں پانچ ہی دے سکتا ہوں اور اِس لئے چندہ لکھوانے سے رُکتا ہے کہ اِس سے میری ہتک ہو گی تو وہ عزّت کو ثواب پر مقدم کرتا ہے۔ حالانکہ ثواب کو عزّت پر مقدم کرنا چاہئے۔ اگر تو وہ واقعی معذور ہے تو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اِس کے پانچ بھی پانچ سَو کے برابر ہیں اور اگر وہ معذور نہیں تو جو درجہ وہ ایمان کا اپنے لئے تجویز کرتا ہے اُسی کے مطابق اﷲ تعالیٰ سے اَجر پائے گا۔
پس قادیان کے دوستوں کو بھی اور باہر والوں کو بھی میں پھر ایک دفعہ متوجّہ کرتا ہوں کہ بہت تھوڑے دن باقی رہ گئے ہیں۔ بعد میں بیسیوں لوگ خطوط لکھتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی، معاف کر دیں اور وعدہ قبول کر لیں۔ حالانکہ جب ہم نے ایک قانون بنا دیا تو معافی کے کیامعنے؟ پس جنہوں نے بعد میں معافی مانگنی ہے وہ ابھی ہوشیار ہو جائیں۔
اِس سال چونکہ اِس سکیم کی پوری پوری وضاحت کر دی گئی ہے اِس لئے آئندہ کوئی نیا وعدہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ سوائے اُن کے جو ثابت کر دیں گے کہ وہ نئے احمدی ہوئے ہیں یا بیکار تھے۔ مثلاً کوئی اب طالبعلم ہے اور اگلے سال کام پر لگے یا جن کو اِس تحریک کا پہلے علم نہیں ہؤا تھا۔ بیسیوں ایسے لوگ ہیں جو اِس سال لکھتے ہیں کہ پہلے ہم نے حصّہ نہیں لیا تھا مگر اب اِس سکیم کی اہمیت ہم پر واضح ہو گئی ہے اِس لئے شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اِس سال تو مَیں نے ایسے لوگوں کو اجازت دے دی ہے مگر آئندہ سال نہیں دی جائے گی کیونکہ اب اِس کی پوری وضاحت کر چُکا ہوں۔ سوائے ان کے جو ثابت کر دیں گے کہ وہ نئے احمدی ہوئے ہیں یا پہلے کوئی آمد نہ رکھتے تھے یا اُن کو اس تحریک کا علم ہی نہیں ہؤا، ایسے لوگوں کے سوا کسی احمدی کا وعدہ قبول نہ کیا جائے گا۔ خواہ وہ کتنی مِنّتیںکیوں نہ کرے۔ جو اِس سال شامل ہو گا وہی آئندہ شامل ہو سکے گا کیونکہ وہی اِس قابل ہے کہ اُس کا نام تاریخ میں محفوظ رہے۔
پس یہ آخری اعلان ہے جس سے دوستوں کو پورا فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ ممکن ہے بعض جماعتوں کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ سُستی کر رہے ہوں اور دوست سمجھتے ہوں کہ ہمارے وعدے پہنچ چکے ہیں۔ دفتر کو چاہئے کہ ایسے مقامات پر کئی لوگوں کو اطلاع بھیج دے کہ ان کے وعدے تاحال نہیں پہنچے۔ اور جن کو وعدوں کی منظوری کی اطلاع دفترسے نہیں پہنچی ان کو بھی چاہئے کہ اچھی طرح اطمینان کر لیں۔ ایسا نہ ہو کہ رہ جائیں۔ ابھی وقت ہے کہ وہ اصلاح کرا لیں۔ لیکن اگر انہوں نے نہ کرائی تو پھر یہ عذر نہیں سُنا جائے گا کہ ہم نے تو وعدہ بھیج دیا تھا سیکرٹری یا پریذیڈنٹ پر ذمہ داری ہے۔یہ تحریک چونکہ طوعی ہے اِس لئے ہر فرد براہ راست ذمّہ دار ہے۔
پس ہر فرد کو یہ اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ صرف انہی کے وعدے قبول کئے جائیں گے جو وقت پر پہنچا دیں گے۔ اگر کسی جماعت کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ سُستی کرتے ہیں تو دوستوں کو چاہئے کہ خود براہ راست وعدے بھیج دیں اور اگر اُنہوں نے خود بھی نہ بھیجے تو ہم یہی سمجھیں گے کہ عُہدیداران کی سُستی میں وہ خود شامل ہیں۔٭‘‘ (الفضل ۳؍مارچ ۱۹۳۹ئ)
٭ خطبہ تاریخ گزرنے کے بعد شائع ہو رہا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے
مخلصین غیر معمولی اخلاص کا ثبوت دے چکے ہیں اور وعدے گزشتہ سال سے بڑھ گئے ہیں۔ اَلْحَمْدُﷲِ عَلٰی ذَالِکَ۔ مَیں اِس خطبہ کی شرائط میں اِس قدر اصلاح کرتا ہوں کہ جنہوں نے سیکرٹریوں سے وعدہ لکھنے کو کہا اور اُنہوں نے وعدہ نہ بھجوایا اگر وہ بعد میں اِس کا علم ہونے پر نام لکھوانا چاہیں تو لکھوا سکتے ہیں۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ چونکہ اب دس سالہ میعاد مقرر ہے اور حقیقی طور پر الٰہی فوج کے سپاہی وہی کہلا سکتے ہیں جو دسوں سال حصّہ لیتے رہے ہیں۔ اِس لئے جن لوگوں نے سابق میں معافی لے لی تھی وہ اگر ان کامل سپاہیوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو انہیں گزشتہ رقوم بھی ادا کرنی چاہئیں ورنہ وہ دس سالہ قربانی کرنے والوں میں شامل نہیں ہو سکتے۔ ہاں اپنی قربانی کے مطابق ثواب ضرور حاصل کر لیں گے۔ پس جنہوں نے کسی سابق سال کا چندہ نہیں دیا یا معافی لے لی تھی اور اب وہ دس سالہ سکیم میں شامل ہونے کی تڑپ رکھتے ہیں انہیں اب گزشتہ کی تلافی کر لینی چاہئے۔ ہاں ان کی سابقہ رقوم کی ادائیگی کے لئے محکمہ مناسب سہولت دے سکتا ہے جس کا فیصلہ وہ محکمہ سے بذریعہ خط و کتابت کرلیں۔
۴
مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اﷲ
قائم کرنے کی غرض و غایت
(فرمودہ ۳؍فروری ۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے پہلے بھی متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ قوموں کی کامیابی کے لئے کسی ایک نسل کی درستی کافی نہیں ہوتی۔ جو پروگرام بہت لمبے ہوتے ہیں وہ اُسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جبکہ متواتر کئی نسلیں ان کو پورا کرنے میں لگی رہیں۔ جتنا وقت ان کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہو اگر اُتنا وقت ان کو پورا کرنے کے لئے نہ دیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ کسی صورت میں مکمل نہ ہوسکتے اور اگر وہ مکمل نہ ہوں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ پہلوں نے اِس پروگرام کی تکمیل کے لئے جو محنتیں ، کوششیں اور قُربانیاں کی ہیں وہ بھی سب رائیگاں گئیں۔ مثلاً ایک جھونپڑا ہے اُس کے بنانے کے لئے مہینہ کا وقت درکار ہے۔ اب اگر کوئی شخص پندرہ دن کام کر کے اُسے چھوڑ دیتا ہے تو یہ لازمی بات ہے کہ وہ جھونپڑا نامکمل رہے گا اور رفتہ رفتہ بالکل خراب ہو جائے گا۔ اِسی طرح اگر ایک مکان ہے جس کی تعمیر کے لئے تین مہینوں کی ضرورت ہے۔ اگراس پر کوئی شخص مہینہ ڈیڑھ مہینہ خرچ کر کے چھوڑ دیتا ہے تو وہ بھی کبھی مکمل نہیں ہو سکتا اور گو پہلے آدمی سے اس نے زیادہ وقت صرف کیا ہو گا۔ مگر جس کام کے لئے وہ کھڑا ہؤا تھا وہ چونکہ تین مہینے کا تھا اِس لئے باوجود ڈیڑھ مہینہ خرچ کرنے کے وہ ناکام رہے گا۔ اِس کے مقابلہ میں اگر ایک بہت بڑا محل ہے جو دو تین سال میں تیار ہو سکتا ہے تو اس پر اگر کوئی شخص سال بھی خرچ کردیتا ہے تو نتیجہ اچھا نہیں نکل سکتا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ پہلے کا جب مہینہ میں کام ختم ہو سکتا تھا اور دوسرے کا تین مہینہ میں تو مَیں سال بھر کام کر کے بھی اپنے کام کو کیوں ختم نہیں کر سکتا۔ اِس لئے کہ جو کام اِس نے شروع کیا تھا وہ تین سال کی مدّت چاہتا تھا۔اگر یہ سال یا دو سال لگاتا بھی ہے اور پھر کام کو چھوڑ دیتا ہے تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ اِس نے اپنے دو سال ضائع کردیئے۔ پھر بعض کام ایسے ہوتے ہیں جو تکمیل کے لئے پندرہ بیس بلکہ تیس سال چاہتے ہیں۔ اگر بیس تیس سال میں تکمیل کو پہنچنے والا کام کوئی شخص پندرہ سال کرتا اور پھر اسے چھوڑ دیتا ہے تو وہ کام یقینا خراب ہو جائے گا کیونکہ اِس کام کے لئے بیس یا تیس سال کی ضرورت تھی۔ اِسی طرح بعض کام ایسے ہوتے ہیں جو سینکڑوں سال چاہتے ہیں۔ اگر ان سینکڑوں سال چاہنے والے کاموں کو کوئی شخص پچاس، ساٹھ یا سَو سال کر کے چھوڑ دے تو لازماً وہ خراب ہو جائیں گے۔
اﷲ تعالیٰ نے ہمیں یہ نکتہ سکھانے کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ بعض چیزوں کی تکمیل وقت کے ساتھ مقیّد ہوتی ہے اپنے کاموں کے لئے بھی مختلف اوقات مقرر کر دیئے ہیں۔ بعض نادان اعتراض کیا کرتے ہیں کہ جب خدا ۱؎ کہنے والا ہے تو اِس کے لئے یہ کیا مُشکل ہے کہ وہ ایک سیکنڈ میں تمام کام کرے۔ یہ درست ہے کہ خدا اگر چاہے تو ایک سیکنڈ میں ہی تمام کام کرے لیکن اگر خدا ایک سیکنڈ میں تمام کام کر دیتا تو انسان میں استقلال کا مادہ پیدا نہ ہوتا اور اِس کے سامنے کوئی ایسی مثال نہ ہوتی جس سے وہ سمجھ سکتا کہ استقلال کیا چیز ہے۔ مگر اﷲ تعالیٰ کو دیکھو کوئی کام ایسا ہے جو وہ بیس اکیس دن میں کرتا ہے۔ مثلاً مُرغی کے بچے پیدا کرنے کے لئے تین ہفتے کافی ہوتے ہیں۔ پھر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کو وہ چھ مہینے میں کرتا ہے۔ جیسے بکری کا بچہ ہے اِس کے پیدا کرنے میں اﷲ تعالیٰ چھ مہینے لگا دیتا ہے۔ پھر کچھ کام ایسے ہیں جن کو وہ نو مہینے میں کرتا ہے۔ جیسے انسان کا بچہ ہے اِس کام کو وہ نو مہینے میں کرتا ہے۔ پھر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو سال چاہتے ہیں۔ جیسے گھوڑی کا بچہ ہے کہ وہ سال میں پیدا ہوتا ہے۔ پھر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو پانچ دس بلکہ بعض بیس سال میں مکمل ہوتے ہیں۔ جیسے پھلدار درخت ہیں کوئی اِن میں سے تین چار سال میں پھل دیتا ہے کوئی سات سال میں پھل دیتا ہے ، کوئی دس سال میں پھل دیتا ہے، کوئی پندرہ سال میں پھل دیتا ہے۔ گویا یہ کام خدا تعالیٰ کئی سالوں میں جاکر کرتا ہے۔ اِسی طرح وہ اپنے اوقات کی لمبائی کو بڑھاتا چلا گیا ہے یہاں تک کہ بعض کام اﷲ تعالیٰ لاکھوں سالوں میں کرتا ہے۔ جیسے پتھر کا کوئلہ ہے۔ پہلے عام طور پر لوگ پتھر کے کوئلہ سے واقف نہیں ہوتے تھے مگر اب تو دیہات میں بھی مشینیں لگ جانے کی وجہ سے گاؤں کے لوگ بھی پتھر کے کوئلہ سے واقف ہو گئے ہیں اور چونکہ پتھر کے کوئلہ کے استعمال میں خرچ کی کفایت ہوتی ہے اِس لئے کئی لوگ پتھر کا کوئلہ استعمال کرنے لگ گئے ہیں۔ اب یہ پتھر کا کوئلہ انہی درختوں سے بنا ہے جن کی لکڑیاں کاٹ کاٹ کر جلائی جاتی ہیں مگر یونہی نہیں بلکہ کئی لاکھ سال تک یہ درخت زمین میں دفن رہے اور کئی لاکھ سال تک زمین میں دفن رہنے کے بعد یہ درخت پتھر کے کوئلہ کی شکل میں بدل گئے۔ تو اﷲ تعالیٰ نے پتھر کا کوئلہ بنانے کے لئے کئی لاکھ سال لگا دیئے۔ اِس میں اﷲ تعالیٰ نے درحقیقت یہی بتایا ہے کہ وقت کی لمبائی یا چھوٹائی بھی چیزوں کی خوبصورتی اور عُمدگی کے لئے ضروری ہے۔ طب ہی کو دیکھو بعض اعلیٰ ادویہ ایسی ہیں کہ ان کے اجزاء بالعموم وہی ہیں جو ہمیشہ استعمال میں آتے رہتے ہیں لیکن ان کو کچھ عرصہ تک دفن کرنے کی وجہ سے ان ادویہ کی حالت ہی بدل جاتی ہے۔ مثلاً برشعشا ایک دوائی ہے جو نزلہ کے لئے نہایت مفید ہے۔ اب اگر برشعشا کے اجزاء کو ملا کر فوری طور پر استعمال کر لیا جائے تو وہ کوئی نفع نہیں دیں گے۔ برشعشا کا پورا نفع انسان کو اِسی صورت میں حاصل ہو گاجبکہ اسے چالیس دن تک غلّہ میں دفن رکھا جائے۔ اب دوائیں وہی ہوں گی جو چالیس دن پہلے ہوںگی مگر جو نفع چالیس دن غلّہ میں دفن کرنے کے بعد حاصل ہو گا وہ پہلے حاصل نہیں ہو گا۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ کیا حماقت ہے۔ جب دوائیں وہی ہیں تو مزید چالیس دن غلّہ میں دبانے سے کیا فائدہ؟ سو اصل بات یہ ہے وقت اپنی ذات میں بعض چیزوں کا ضروری جزو ہے۔ جب تک دواؤں کے ساتھ وقت کو نہ ملایا جائے دوا اچھی نہیں بنے گی۔ پس صرف دوائیں نہیں بلکہ دوائیں مع وقت اِس کا جزو بنتی ہیں۔ پھر بعض دوائیں ایسی ہیں جنہیں چھ ماہ کے لئے دفن کرنا پڑتا ہے اور اگر اُنہیں چھ ماہ بند کر کے نہ رکھا جائے تو کبھی فائدہ نہیں دیتیں۔ اِسی طرح بعض دوائیں سال سال اور بعض دو دو سال کے بعد کھانے کے قابل بنتی ہیں۔ وہی اجزا اگر اِسی وقت باہم ملا کر کھا لو تو ایسا فائدہ نہیں دیں گے لیکن اگر دو سال کے بعد کھاؤ تو تریاق بن جائیں گے۔تو بعض دوائیں اکیلی فائدہ نہیں دیتیں بلکہ وقت بھی اُن کے ساتھ شامل کیا جاتا ہے اور ایسی ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں اشیاء ہیں جن کا وقت خود ایک اہم جزو ہوتا ہے۔ کوئی نئی چیز ان میں داخل نہیں کی جاتی۔ صرف وقت ان کے ساتھ شامل کر لیا جاتا ہے اور وہ کچھ سے کچھ ہو جاتی ہیں اور جب وقت شامل نہیں ہوتا تو وہ مفید نہیں ہوتیں۔ یہی حال اﷲ تعالیٰ کی تعلیمات کا ہے۔ اِس کی بعض تعلیمیں بھی تبھی پختہ ہوتی ہیں اور تبھی اِن کا قوام عُمدہ اور اعلیٰ ہوتا ہے جب متواتر کئی نسلیں ان کو اختیار کرتی چلی جائیں۔ جب مسلسل کئی نسلیں ان تعلیموں پر عمل کرتی چلی جاتی ہیں تب وہ ایک نئی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور دُنیا کے لئے حیرت انگیز طور پر مفید بن جاتی ہیں۔ خصوصاً جو جماعت اور جو نظام جمالی رنگ میں ہو یعنی عیسوی سلسلہ کے اصول کے مطابق وہ ایک لمبے عرصہ کے بعد پختہ ہوتا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ دو دو تین تین سَو سال کے بعد اِسے پختگی حاصل ہوتی ہے۔ گویا اِس کی مثال ان اعلیٰ درجہ کی معجونوں یا برشعشا کی قسم کی دواؤں کی سی ہوتی ہے جو ایک ایسے عرصہ کے بعد اپنی خوبی ظاہر کرتی ہیں۔
ہمارا سلسلہ بھی عیسوی سلسلہ ہے اور اِس کی خوبیاں بھی تبھی ظاہر ہو سکتی ہیں جب ایک لمبے عرصہ تک انتظار کیا جائے۔ جس طرح بعض دواؤں کو ایک لمبے عرصہ تک دفن رکھ کر انہیں مفید بننے کا موقع دیا جاتا ہے اور اگر یہ موقع نہ دیا جائے تو اِس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ہم عمداً اِس دوائی کو خراب کرتے ہیں۔ اِسی طرح ضروری ہوتا ہے کہ جمالی تعلیموں کے نیک نتائج کا بھی لمبے عرصہ تک انتظار کیا جائے۔ مگر دواؤں میں سے تو کوئی دوائی زمین میں دفن کی جاتی ہے، کوئی جَو میں دفن کی جاتی ہے، کوئی گیہوں میں دفن کی جاتی ہے۔ مگر جمالی تعلیم ایک لمبے عرصہ تک اپنے دلوں میں دفن کی جاتی ہے۔ جب ایک لمبے عرصہ تک اِس تعلیم کو اپنے دلوں میں جگہ دی جائے تو یہ اعلیٰ درجہ کی معجون بن جاتی ہے۔ ایسی معجون جو تریاق ہوتی ہے اور جو مُردہ کو بھی زندہ کر دیتی ہے۔
پس قانونِ قدرت کا یہ نکتہ ہمیں بھُلا نہیں دینا چاہئے۔ نادانی کی وجہ سے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب اجزاء وہی ہیں تو وقت کی کیا ضرورت ہے۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے قانونِ قدرت میں ایسی کئی مثالیں رکھ دی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض چیزوں کے لئے وقت کی لمبائی بھی ایک جُزو ہوتی ہے۔ اِسی لئے میں نے جماعت میں مجلس خدام الاحمدیہ کی بُنیاد رکھی ہے۔ میری غرض اِس مجلس کے قیام سے یہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے دلوں میں دفن ہے اُسے ہوا نہ لگ جائے بلکہ وہ اِسی طرح نسلاً بعد نسلٍ دلوں میں دفن ہوتی چلی جائے۔ آج وہ ہمارے دلوں میں دفن ہے تو کل وہ ہماری اولاد کے دلوں میں دفن ہو اور پرسوں اُن کی اولاد کے دلوں میں۔ یہاں تک کہ یہ تعلیم ہم سے وابستہ ہو جائے اور ہمارے دلوں کے ساتھ چمٹ جائے اور ایسی صورت اختیار کر لے جو دُنیا کے لئے مفید اور بابرکت ہو۔ اگر ایک یا دو نسلوں تک ہی یہ تعلیم محدود رہی توکبھی ایسا پختہ رنگ نہ دے گی جس کی اِس سے توقع کی جاتی ہے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر مجالس خدام الاحمدیہ کا جو اجتماع ہؤا تھا اس میں مَیں نے خدام الاحمدیہ کو خصوصاً اور باقی جماعت کو عموماً اِس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ اِس کام میں خدام الاحمدیہ کی مدد کی جائے۔ پھر جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی مَیں نے دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ اِس جماعت کی مالی امداد کرنا یہ بھی ایک ثواب کا کام ہے۔ اور جن کو اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی ہوئی ہے اُن کا فرض ہے کہ وہ تھوڑی بہت جس قدر بھی مدد کر سکتے ہوں ضرور کریں تاکہ خدام الاحمدیہ عمدگی اور سہولت کے ساتھ اپنا کام کر سکیں۔ کئی نادان ہیں جو اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ انگریزوں کے فلاں کام تو خوب چلتے ہیں مگر ہمارے کام اِس طرح نہیں چلتے اور وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ ان کے کام کے تسلسل کے پیچھیباقاعدہ دفتر ہوتے ہیں، باقاعدہ کام کرنے والے ہوتے ہیں، باقاعدہ خط و کتابت، سفر اور اجتماعات وغیرہ کے لئے روپیہ ہوتا ہے اور جب سب چیزیں انہیں میسّر ہوں تو اُن کے کام کیوں نہ چلیں۔ مگر ہمارے ہاں نہ سرمایہ ہوتا ہے، نہ پورے وقت کے ایسے کارکن ہوتے ہیں جو تجربہ کارہوں اور نہ عام ضروریات کے لئے روپیہ ہوتا ہے اور پھر اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ لوگ متواتر کام نہیں کرتے۔
جب نیشنل لیگ قائم ہوئی تو اُس وقت بھی مَیں نے انہیں یہ نصیحت کی تھی کہ اب تو تم جوش میں یہ خیال کر لو گے کہ ہم سارا کام خود ہی کر لیں گے مگر کاموں کو جب بڑھایا جائے تو ضروری ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے مستقل عملہ ہو جو رات دن کام کرتا رہے تاکہ تسلسل قائم رہے۔ مگر انہوں نے میری بات کو اچھی طرح نہ سمجھااور نتیجہ یہ ہؤا کہ ان کے کام میں خرابی پیدا ہو گئی۔ قادیان میں اگر نیشنل لیگ کور کا کام کچھ لمبا چلا ہے تو اِس کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں ایک مستقل آدمی مقرر ہے جس کا فرض یہی ہے کہ وہ نیشنل لیگ کور کا کام کرے اور چونکہ مستقل طور پر یہ کام اس کے سپرد ہے اِس لئے لازماً اِسے اپنی توجہ اُس کام کی طرف رکھنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں نیشنل لیگ کور زیادہ کامیاب رہی ہے۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ ہر جگہ مستقل آدمی نہیں رکھے جاسکتے لیکن اگر بعض سرکل اور دائرے مقرر کردیئے جاتے اور ان میں نیشنل لیگ کے آدمی دَورہ کرتے رہتے تو یقینا ان کی کوششوں کے بہت زیادہ شاندار نتائج نکلتے مگر انہوں نے چونکہ اِس پہلو کو نظر انداز کر دیا اور اپنی قربانی اور ایثار پر حد سے زیادہ انحصار کر لیا اِس لئے ان کے کام میں خرابی واقع ہو گئی۔ حالانکہ بعض چیزیں اخلاص سے نہیں بلکہ نظام سے تعلق رکھتی ہیں اور جب تک نظام کی پابندی نہ ہو اُس وقت تک کامیابی نہیں ہوتی۔
تو مذہبی تعلیموں کی اشاعت کے لئے خصوصاً عیسوی نقش پر آنے والی اور جمالی رنگ اپنے اندر رکھنے والی تعلیموں کے لئے ایک لمبے عرصہ تک مسلسل اور متواتر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تسلسل تبھی قائم رہ سکتا ہے جب آئندہ اولادوں کی اصلاح کی جائے۔ جس شخص کے دل میں اخلاص پیدا ہو جائے وہ تو اپنی موت تک اِس راستہ کو نہیں چھوڑتا اور چاہے اُس کی گردن پر تلوار رکھ دی جائے وہ اپنی اولاد کی اصلاح کے خیال سے غافل نہیں رہتا۔ ہاں جب مر جائے تو پھر وہ اپنی اولاد کی اصلاح کا ذمّہ دار نہیں۔ ذمّہ داری صرف زندگی تک عائد ہوتی ہے۔ ورنہ جس دن کوئی شخص مر جائے اسی دن وہ اپنی ذمہ داری سے سُبکدوش ہو جاتا ہے اَور تو اَور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو خدا تعالیٰ کے ایک نبی ہیں اُن سے بھی قیامت کے دن جب اﷲ تعالیٰ پوچھے گا کہ کیا تُو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کا شریک ٹھہرایا جائے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہی جواب دیں گے کہ حضور جب تک مَیںزندہ رہا لوگوں کا ذمّہ دار رہا لیکن جب آپ نے مجھے وفات دے دی تو پھر مجھے کیا پتہ کہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔۲؎ اب دیکھو!حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک نبی ہیں مگر موت کے بعد لوگوںمیں کسی خرابی کے پیدا ہونے کی اُن پر بھی ذمہ داری نہیں لیکن اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد اُن کا کوئی مثیل کھڑا ہو جاتا جو لوگوں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جاتا یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کام اُن کے حواریوں کی اولادوں کی طرف منتقل ہو جاتا تو یقینا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی اِس قدر خرابی رونما نہ ہوتی جس قدر کہ خرابی رونما ہوئی۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اگر اسلا م میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی تو اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں میں سے آپ کو ایسی اولادیں عطا کی تھیں جنہوں نے اپنے باپ دادا کے کام کو سنبھال لیا اور وہ سلسلہ چلتا چلا گیا۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا اور یہی وعدہ ہے جو درحقیقت آپ کی سب سے بڑی فضیلت ہے کہ ۳؎ کہ ہم نے ہی اِس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ہمیشہ اِس کی حفاظت کریں گے اور تمہاری اولادوں میں سے ہی ایسے لوگ کھڑے کر دیں گے جو اسلام کے گرتے ہوئے جھنڈے کو سنبھال لیں گے اور اسلام کو ترقی اور عروج کی منزلوں تک لے جائیں گے۔ یہی وعدہ ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر عظمت اوربڑائی ثابت کرتا ہے۔ انبیاء سابقین کے کاموں کے تسلسل کے قیام کا کوئی ذریعہ نہیں تھا مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے نہ صرف خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا کہ قریب کے زمانہ میں تیری جماعت دین کی خدمت کرے گی بلکہ یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر آئندہ بھی کوئی خرابی پیدا ہو گئی تو تیری روحانی اولاد میں سے ہم کسی شخص کو کھڑا کر دیں گے اور وہ پھر تیری عظمت کو دُنیا میں قائم کر دے گا۔۴؎ چنانچہ اِس زمانہ میں جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو لوگوں نے بالکل بھُلا دیا، جب تعلیم اسلام سے وہ کوسوں دور جا پڑے، جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اولاد کہلانے والے اپنے آبائی مذہب کی تحقیر و تذلیل پر اُتر آئے تو مسلمانوں میں سے ہی ایک شخص کو اﷲ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا روحانی بیٹا قرار دے کر کھڑا کر دیا اور اُس نے پھر اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ قائم کر دیا۔ اب اگر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کی حفاظت کا یہ سامان نہ ہوتا اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت نہ ہوتی تو آج اسلام کی کونسی چیز باقی رہ گئی تھی؟ مگر اِس کامل تباہی میں سے زندگی کے آثار کس طرح پیدا ہوئے؟ اِسی طرح پیدا ہوئے کہ اﷲ تعالیٰ نے اُمتِ محمدیہ میں سے ایک شخص کو کھڑا کیا اور اُسے وہ تمام قوتیں دیں جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک روحانی بیٹے میں موجود ہونی چاہئیں۔ وہ آیا اور اُس نے اسلام کو اِس رنگ میں مذاہبِ عالم پر غالب اور برتر ثابت کیا کہ اب بجائے بڑھاپے کے اِس میں جوانی کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں اور دُنیا اِن جوانی کے آثار کو محسوس کر رہی ہے۔ کُجا تو وہ زمانہ تھا کہ لوگ کہتے تھے اب اسلام مٹا کہ مٹا اور کُجا یہ زمانہ ہے کہ اب لوگ تسلیم کررہے ہیں کہ اسلام حملہ آور ہو رہا ہے اور وہ مذاہب عالَم کی طرف بڑھتا چلا آرہا ہے۔
ہٹلر جو جرمنی کا ڈکٹیٹر ہے اُس نے کئی سال ہوئے جبکہ ابھی وہ برسرِ اقتدار نہیں آیا تھا ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ہے ’’میری جدوجہد‘‘ اِس کتاب میں اُس نے اپنے اغراض اور اپنی کوششوں کے مقاصد بیان کئے ہیں۔ یہ ایک نہایت عجیب اور لطیف کتاب ہے۔ مَیں مدت سے اِس کی تلاش میں تھا مگر مجھے ملتی نہ تھی۔ اب تو دو تین سال سے یہ کتاب ہندوستان میں آئی ہوئی ہے مگر اتفاق یہ ہے کہ یہ کتاب مجھے نہ ملی۔ اب کے جو مَیں لاہور گیا تو یہ کتاب مجھے مل گئی اور مَیں نے اسے پڑھا۔ مجھے اِس کتاب کے ایک فقرہ سے گو وہ حقیقت کو ذہن میں رکھ کر لکھا گیا معلوم نہیں ہوتا، مجھے بہت ہی مزہ آیا۔ کیونکہ اِس میں احمدیت کی طاقت کا اقرار کیا گیا ہے۔ ہِٹلر اِس کتاب میں عیسائیوں کے متعلق لکھتا ہے کہ وہ سخت غلط راستہ پر چل رہے ہیں اور وہ حکومتوں کو اِس بات پر مجبور کر رہے ہیں کہ وہ گرجاؤں کے معاملہ میں دخل دیں کیونکہ گرجا کے ارباب عقل سے کام نہیں لے رہے اور خواہ مخواہ حکومتوں کے معاملات میں دخل دے رہے ہیں۔ وہ لکھتا ہے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مذہب کو سیاست کا ہتھیار کیوں بنایا گیا ہے اور بجائے اِس کے کہ وہ مذہب کو مذہب کی حدود میں رکھتے اُنہوں نے اِسے سیاسی قوت کے حصول کا ایک ذریعہ بنالیا ہے اور انہی اغراض کے ماتحت لاکھوں مشنری ایشیا اور افریقہ میں پھیلا رکھے ہیں تاکہ ان کو سیاسی اقتدار حاصل ہو اور اس امر کا خیال نہیں کیا جاتا کہ کروڑوں عیسائی خود یورپ میں دہریہ ہیں۔ اِس سے صاف معلوم ہوتا ہے انہیں سچے مذہب کی اشاعت کی فکر نہیں بلکہ سیاسی طاقت کے حصول کی فکر ہے۔ اگر انہیں یہی خواہش ہوتی کہ لوگوں کو سچے مذہب کا راستہ بتایا جائے تو انہیں چاہئے تھا کہ بجائے غیروں کے وہ اپنوں کی فکر کرتے۔ مگر وہ اپنوں کی تو فکر نہیں کرتے اور دوسروں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مذہب ان کے مدّنظر نہیں۔ پھر اِس کے ساتھ ہی وہ لکھتا ہے کہ گویہ ایشیا اور افریقہ میں اپنا مذہب پھیلانے کی جدوجہد کر رہے ہیں مگر ایشیا اور افریقہ میں بھی ان کی کوششیں ناکام ہورہی ہیں کیونکہ وہاں مسلمان مشنری لوگوں کو اسلام میں واپس لا رہے ہیں اور عیسائی مشنریوں سے زیادہ کامیاب ہیں۔ اب وہ مشنری جو اسلام کی صحیح خدمت کر رہے ہیں اور عیسائیوں کا مقابلہ کر کے لوگوں کو پھر اسلام میں واپس لا رہے ہیں سوائے احمدیوں کے اَور کون ہیں؟
پس اِس فقرہ میں گو احمدیہ جماعت اس کے ذہن میںنہیں پھر بھی اُس نے جماعت احمدیہ کی طاقت کا اقرار کیا ہے اور وہ لکھتا ہے کہ ایشیا اور افریقہ میں جو لوگ اسلام کو پھیلا رہے اور لوگوں کو پھر اسلام میں واپس لا رہے ہیں اُن کی جدوجہد کے مقابل پر مسیحی مشنری ناکام ہو رہے ہیں۔ تو حق یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ظہور کے بعد جو تسلسل اسلام میں اﷲ تعالیٰ نے قائم کر دیا ہے اُس کا دنیا کے قلوب پر نہایت گہرا اثر ہے۔ یا تو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اسلام مٹا اور یا اب یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسلام میں دوبارہ زندگی پیدا ہو گئی ہے اور وہ پھر دوسرے مذاہب کا مقابلہ کرنے لگ گیا ہے۔ اِس عظیم الشان تغیّر پر جہاں ہمارا حق ہے کہ ہم خوش ہوں وہاں ہمیں یہ امر بھی کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ اگر ہم نے اِس تسلسل کو قائم نہ رکھا تو یہ ہماری موت کی علامت ہوگی۔ پس ضروری ہے کہ ہم اِس تسلسل کو قائم رکھیں۔ مصلح انبیاء ہمیشہ فاصلہ فاصلہ پر آیا کرتے ہیں اور یہ کام ان کی اُمتوں کا ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولادوں کی اصلاح کریں اور ان کے دلوں میں انبیاء کی تعلیمات کو مضبوطی سے گاڑ دیں اور اِس طرح مذہب کی طاقت کو بڑھاتے چلے جائیں۔ ایک لمبے عرصہ کے بعد جب عالمگیر تنزل ہو جائے تو اس وقت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مصلح نبی مبعوث ہؤا کرتا ہے اِس سے پہلے نہیں۔ہمارا جو زمانہ ہے یہ بھی ایسا نہیں کہ اِس میں جلدی ہی کوئی اور نبی مبعوث ہو۔ ہم اﷲ تعالیٰ کی طاقتوں کو محدود نہیں کرتے۔ اِس سے یہ کوئی بعید بات بھی نہیں کہ وہ کسی اَور نبی کو بھیج دے لیکن بظاہر یہ ایسا زمانہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس میں جماعت کو ایک نئے نبی کی قیادت میں کام کرنے کی بجائے خلفاء موعود وغیر موعود کی قیادت کے ماتحت کام کرنا ہو گا۔
پس ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں تک اسلام کی تعلیم کو محفوظ رکھتا چلا جائے اور درحقیقت اِسی غرض کے لئے مَیں نے خدام الاحمدیہ کی انجمن قائم کی ہے تا جماعت کو یہ احساس ہو کہ اولاد کی تربیت ان کا اہم ترین فرض ہے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ نکتہ ایسے اعلیٰ طور پر بیان فرمایا ہے کہ اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ یہ امر ہر شخص جانتا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی اصلاح میں سے مقدم اصلاح لڑکیوں کی ہوتی ہے کیونکہ وہ آئندہ نسل کی مائیں بننے والی ہوتی ہیں اور ان کا اثر اپنی اولاد پر بہت بھاری ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو قوم عورتوں کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتی اُس قوم کے مردوں کی بھی اصلاح نہیں ہوتی اور جو قوم مردوں اور عورتوں دونوں کی اصلاح کی فکر کرتی ہے وہی خطرات سے بالکل محفوظ ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِس نکتہ کو کیا ہی لطیف پیرایہ میں بیان فرمایا ہے۔ آپ ایک دفعہ مجلس میں بیٹھے تھے، صحابہ ؓ آپ کے گرد حلقہ باندھے تھے۔ آپ نے فرمایا جس مسلمان کے گھر تین لڑکیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرے تو اُس مسلمان کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جنت واجب ہو جاتی ہے۔۵؎ اب بظاہر کوئی ایسا شخص جو قومی ترقی کے اصول سے ناواقف ہو کہہ سکتا ہے کہ یہ کونسی بات ہے۔ بھلا تین لڑکیوں کی اصلاح سے جنت مل سکتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ تین لڑکیوں کی تربیت کوئی ایسی اہم بات نہیں حالانکہ جو شخص تین لڑکیوں کی اچھی تربیت کرتا ہے وہ صرف تین کی ہی تربیت نہیں کرتا بلکہ ہزاروں لاکھوں اسلام کے خادم پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ وہ لڑکیاں اچھے لڑکے پیدا کرنے کا موجب بنیں گی اور وہ لڑکے اسلام کے لئے اچھے قربانی کرنے والے ثابت ہوں گے۔ آجکل لوگوں کی یہ عادت ہے کہ وہ ایک کان سے بات سُنتے اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔ مگر صحابہ ؓ پر اﷲ تعالیٰ بے انتہا کرم نازل فرمائے اُن میں یہ ایک ایسی خوبی تھی کہ اِسے دیکھ کر دل عش عش کر اُٹھتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے چھوٹے سے چھوٹے فقرہ کی بھی بڑی قدر کرتے تھے۔ اب یہی روایت جو مَیں نے بیان کی ہے اِس زمانہ کے لوگ اسے سُنیں تو اکثر ایک کان سے سُن کر دوسرے سے باہر نکال دیں گے۔ گویا کوئی بات ہی نہیں ہوئی بلکہ ممکن ہے بعض یہ اعتراض شروع کر دیں کہ بھلا تین لڑکیوں کا جنت سے کیا تعلق؟ اور جو اِس حدیث سے لذّت بھی پائیں گے، وہ اِس کی حقیقت پر غور نہیں کریں گے۔ مگر صحابہ ؓ جو اِس بات کے مُشتاق رہا کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی چھوٹی سے چھوٹی بات سے بھی فائدہ اُٹھائیں اُنہوں نے جب یہ بات سُنی تو وہ جن کی تین لڑکیاں تھیں وہ اِس خوشی سے بیتاب ہو گئے کہ ان کی اچھی تربیت کر کے جنت کے حق دار بن جائیں گے۔ مگر وہ جن کی تین لڑکیاں نہیں تھیں بلکہ دو تھیں اُن کے چہروں پر افسردگی چھا گئی اور اُنہوں نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اﷲ! اگر کسی کی دو لڑکیاں ہوں ۔ آپ نے فرمایا اگر کسی کی دو لڑکیاں ہوں اور وہ اِن دونوں کی اچھی تربیت کرے تو اُس کے لئے بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جنت واجب ہو جاتی ہے۔۶؎ جب آپ ؐ نے یہ بات فرمائی تو وہ لوگ جن کی صرف ایک لڑکی تھی وہ افسردہ اور مغموم ہو گئے اور اُنہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اﷲ! اگر کسی کی دو لڑکیاں نہ ہوں بلکہ صرف ایک لڑکی ہو تو وہ کیا کرے۔ آپ ؐ نے فرمایا اگر کسی کی ایک ہی لڑکی ہو اور وہ اُسے اچھی تعلیم دے اور اُس کی اچھی تربیت کرے تو اُس کے لئے بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جنت واجب ہو جاتی ہے۔۷؎ گویا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِس حدیث کے ذریعہ یہ نکتہ ہم کو بتایا کہ قومی نیکیوں کے تسلسل کو قائم رکھنا انسان کو جنت کا مستحق بنا دیتا ہے۔ کیونکہ جو قومی تسلسل قائم رکھتا ہے وہ دُنیا میں ہی ایک جنت پیدا کرتا ہے اور یہی قرآن کریم نے بتلایا ہے کہ جسے اِس دنیا میں جنت ملی اُسے ہی اگلے جہان میں جنت ملے گی۔۸؎ جو اِس جہان میں اندھا رہا وہ اگلے جہان میں بھی اندھا رہے گا۔ ۹؎اور جو اِس جہان میں آنکھوں والا ہے وہی اگلے جہان میں بھی بینا آنکھوں والا ہے۔تو جو شخص اپنی لڑکی کی اچھی تربیت کرتا ہے اُس میں دین کی محبت پیدا کرتا ہے اور اُسے خدا تعالیٰ کے احکام کا فرمانبردار بناتا ہے وہ ایک لڑکی کی تربیت نہیں کرتا بلکہ ہزاروں نیک اور پاک خاندان پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پس چونکہ وہ دُنیا میں نیکی کا ایک محل تیار کرتا ہے اِس لئے اﷲ تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ چونکہ اِس نے اسلام کے مکان کی حفاظت کا سامان مہیّا کیا ہے اِس لئے مَیں بھی قیامت کے دن اِس کے لئے ایک عُمدہ محل تیار کروں گا۔ تو اپنی اولادوں کی مسلسل تربیت کو جاری رکھنا ایک اہم سوال ہے اور لڑکوں اور لڑکیوں میں سے لڑکیوں کی تربیت کا سوال زیادہ اہمیت رکھتا ہے مگر چونکہ لڑکیوں نے نوکریاں نہیں کرنی ہوتیں اِس لئے بالعموم لوگ اُن کی تعلیم و تربیت سے غافل رہتے ہیں یا اگر توجہ بھی کرتے ہیں تو زیادہ توجہ نہیں کرتے حالانکہ انہی لڑکیوں نے آئندہ نسلوں کی ماں بننا ہوتا ہے اور چونکہ یہ کل کو مائیں بننے والی ہوتی ہیں اِس لئے ضروری ہوتا ہے کہ اِن کی تعلیم و تربیت کی طرف زیادہ توجہ کی جائے۔ اگر مائیں درست ہوں گی تو لڑکے آپ ہی درست ہو جائیں گے اور اگر ماؤں کی اصلاح نہ ہو گی تو لڑکوں کی بھی اصلاح نہیں ہو گی۔ اِسی ضرورت کو مدّنظر رکھتے ہوئے مَیں نے مدرسہ بنات کی تعلیم کے متعلق خاص طور پر زور دیا تھا اور مَیں نے کہا تھا کہ اِس کے نصاب کو بدل دینا چاہئے اور لڑکیوں کو ایسی تعلیم دینی چاہئے جس کے نتیجہ میں اِن میں قومی روح پیدا ہو اور اسلام کی محبت اِن کے قلوب میں موجزن ہو۔ شروع شروع میں تو کچھ لوگوں نے میری مخالفت کی یا ان کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا چاہئے کہ اُنہوں نے اِسے پسند نہ کیا اور کئی سال تک مجلس شوریٰ کے پروگرام سے یہ معاملہ پیچھے ہٹتا چلا گیا مگر آخر جب مَیں نے زیادہ زور دیا تو اس وقت جماعت میں یہ احساس پیدا ہؤا کہ مدرسۂ بنات میں اصلاح ہونی چاہئے۔ چنانچہ وہ اصلاح کی گئی اور اس کا نہایت ہی خوشگوار نتیجہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اب نظر آنے لگ گیا ہے اور لڑکیوں میں دینی تعلیم بہت حد تک ترقی کر گئی ہے بلکہ بعض دفعہ لڑکیوں کے مضامین دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے کیونکہ وہ بہت سے لڑکوں کے مضامین سے بھی اچھے ہوتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور کارکنان نے میری اِس سکیم کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف اپنی زیادہ سے زیادہ توجّہ مبذول رکھی تو اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اِس کے نہایت ہی خوشکن نتائج پیدا ہوں گے لیکن ابھی تک یہ تعلیم قادیان تک ہی محدود ہے اور بیرونجات کی احمدی لڑکیاں اِس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتیں۔ اِس کے لئے ضروری ہے کہ قادیان میں لڑکیوں کے لئے جلد سے جلد ایک بورڈنگ ہاؤس قائم کیا جائے جس میں بیرونجات کی لڑکیاں آکر ٹھہرسکیں اور وہ مدرسہ بنات سے دینی تعلیم حاصل کر سکیں۔ دوسرے یہ بھی ضروری ہے کہ اِس مدرسہ کی بیرونجات میں شاخیں کھولی جائیں تاکہ اُن میں بھی انہی اصول پر تعلیم کا سلسلہ جاری ہو جن اصول پر قادیان میں جاری ہے تاکہ وہ اچھی مائیں بنیں اور اچھی نسلیں پیدا کر کے ان کی احمدیت کے نقطۂ نگاہ سے پرورش کر سکیں۔ اِسی طرح لڑکوں کی تربیت کے لئے مَیں نے مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے یہ جماعت اچھا کام کر رہی ہے گو اتنا اچھا نہیں جتنا قومی وسعت کے لحاظ سے ضروری ہے بلکہ اِس کا سینکڑواں حصّہ بھی نہیں۔
ابھی سینکڑوں ایسی جماعتیں ہیں جہاں مجالس خدام الاحمدیہ قائم نہیں اور سینکڑوں کام ہیں جو ابھی اُنہوں نے کرنے ہیں، ابھی تک صرف بیسیوں جماعتیں بنی ہیں اور وہ بھی پوری طرح کام نہیں کر رہیں اور جو کر رہی ہیں وہ اپنے کام کی اہمیت کو نہیں سمجھیں۔ درحقیقت اِس وقت تک صرف دس پندرہ جماعتیں ہی ہیں جو اچھا کام کر رہی ہیں لیکن بہرحال اِس کام کی بنیاد پڑ گئی ہے اور جب کسی کام کی بنیاد پڑ جائے تو ضرورت پر اسے زیادہ وسیع بھی کیا جاسکتا ہے۔
مَیں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی اور اب پھر جماعتوں کے پریذیڈنٹوں، سیکرٹریوں اور دوسرے تمام افراد کو توجّہ دلاتا ہوں کہ وہ خدام الاحمدیہ کے ساتھ تعاون کریں اور نوجوانوں کو اِس بات پر مجبور کریں کہ وہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہوں۔ اِسی طرح ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اِس میں داخل کریں تا اُن کی اچھی تربیت ہو۔ جب تک ماں باپ اور جماعتوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اِس طرف توجّہ نہیں کریں گے، جب تک وہ خدام الاحمدیہ کو کوئی اور چیز سمجھیں گے اور اپنے آپ کو کوئی اور چیز سمجھیں گے اس وقت تک پوری کامیابی نہیں ہو سکتی۔ پس ضروری ہے کہ ماں باپ بھی اپنی ذمّہ داری کو سمجھیں اور جماعتیں بھی اپنے فرض کو سمجھیں اور جو لوگ اِس میں داخل نہیں انہیں مجبور کریں کہ وہ اِس میں داخل ہوں اور جو داخل ہو چکے ہیں ان کی نگرانی کریں کہ آیا وہ پروگرام کے مطابق عمل کرتے ہیں یا نہیں؟
عورتوں کی تربیت کے لحاظ سے مَیں نے اِس کی دوسری شاخ لجنہ اماء اﷲ کے نام سے قائم کی ہوئی ہے۔ یہ لجنہ صرف دو جگہ اچھا کام کر رہی ہے ایک قادیان میں دوسرے سیالکوٹ میں۔ قادیان میں لجنہ کا زیادہ تر کام جلسے کرانا سلسلہ کے کاموں سے عورتوں کو واقف رکھنا، صنعت و حرفت کی طرف غریب عورتوں کو متوجہ کرنا اور انہیں کام پر لگانا ہے۔ یہ کام گو آہستہ آہستہ ہو رہا ہے لیکن اگر استقلال اور ہمت سے اِس کام کو جاری رکھا گیا تو مَیں اُمید کرتا ہوں کہ وہ بیواؤں اور یتامیٰ کا مسئلہ حل کرنے میں کسی دن کامیاب ہو جائیں گی۔ لجنہ کے اِس کام میں تاجروں کی امداد کی بھی ضرورت ہے۔ انہیں چاہئے کہ لجنہ جو چیزیں بنوائے وہ انہیں بیچ دیا کریں۔ اِس میں ان کا بھی فائدہ ہو گا کیونکہ آخر وہ نفع ہی پر بیچیں گے اور غرباء کا بھی فائدہ ہے کہ ان کے گزارہ کی صورت ہوتی رہے گی۔ مَیں چاہتا ہوں کہ اس کام کو اتنا وسیع کیا جائے کہ نہ صرف قادیان میں بلکہ بیرونی جماعتوں میں بھی کوئی بیوہ اور غریب عورت ایسی نہ رہے جو کام نہ ملنے کی وجہ سے بھوکی رہتی ہو۔ ہمارے مُلک میں یہ ایک بہت بڑا عیب ہے کہ وہ بھوکا رہنا پسند کریں گے مگر کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جس کی اصلاح ہونی چاہئے اور یہ اصلاح اِسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ہر شخص یہ عہد کرے کہ وہ مانگ کرنہیں کھائے گابلکہ کما کر کھائے گا۔ اگر کوئی شخص کام کو عیب سمجھتا اور پھر بھوکا رہتا ہے تو اس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں لیکن اگر ایک شخص کام کے لئے تیار ہو لیکن بوجہ کام نہ ملنے کے وہ بھوکا رہتا ہو تو یہ جماعت اور قوم پر ایک خطرناک الزام اور اِس کی بہت بڑی ہتک اور سُبکی ہے۔ پس کام مہیّا کرنا جماعتوں کے ذمّہ ہے لیکن جو لوگ کام نہ کریں اور سُستی کر کے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالیں ان کی ذمہ داری جماعت پر نہیں بلکہ ان کے اپنے نفسوں پر ہے کہ اُنہوں نے باوجود کام ملنے کے محض نفس کے کَسل کی وجہ سے کام کرنا پسند نہ کیا اور بھوکا رہنا گوارا کر لیا۔
میرا پروگرام یہ ہے کہ لجنہ کا کام جب یہاں کامیاب ہو جائے تو باہر بھی اِسے جاری کیا جائے یہاں تک کہ کوئی بیوہ اور یتیم عورت ایسی نہ رہے جو خود کام کر کے اپنی روزی نہ کماتی ہو۔ اِس جدوجہد میں اگر ہم کامیاب ہو جائیں تو پھر انہی لوگوں کا بار جماعت پر رہ جائے گا جو بالکل ناکارہ ہیں۔ جیسے اندھے ہوئے یا لُولے اور اپاہج ہوئے۔گو ہر اندھا ناکارہ نہیں ہوتا بلکہ کئی اندھے بھی بڑے بڑے کام کر سکتے ہیں۔ بہرحال جس حد تک اندھوں وغیرہ کے لئے بھی کام مہیّا ہو سکتا ہو اس حد تک ہمیں ان کے لئے بھی کام مہیا کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ وہ خود کام کر کے کھائیں مگر اِس معاملہ میں محلّوں کے پریذیڈنٹوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اگر محلّوں کے پریذیڈنٹ مختلف مقررین سے اپنے اپنے محلہ میں وقتاً فوقتاً ایسے لیکچر دلاتے رہاکریں کہ نکمّا بیٹھ کر کھانا نہایت غلط طریق ہے۔ کام کر کے کھانا چاہئے اور کسی کا م کو اپنے لئے عار نہیں سمجھنا چاہئے۔ تو اُمید ہے کہ لوگوں کی ذہنیت بہت کچھ تبدیل ہو جائے۔ مَیں نے دیکھا ہے قادیان میں بھی ایک اچھا خاصا طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جنہیں جب کوئی کام دیا جاتا ہے توکہتے ہیں کہ اِس کام کے کرنے میں ہماری ہتک ہے۔ حالانکہ ہتک کام کے کرنے میں نہیں بلکہ نکمّا بیٹھ کر کھانے میں ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ لوگوں سے مانگ کر کھانا ایک *** ہے۔ایک دفعہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے کچھ مانگا (بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم کسی غیر سے تھوڑا مانگتے ہیں۔ ہم تو سلسلہ سے مانگتے ہیں۔ اِس کا جواب اِسی واقعہ میں آجاتا ہے۔ جو مَیں بیان کرنے لگا ہوں کیونکہ اِس نے بھی کسی غیر سے نہیں بلکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے مانگا تھا) آپ نے اِسے کچھ دے دیا۔ وہ لے کر کہنے لگا یَارَسُوْلَ اﷲ! کچھ اَور دیجئے۔ آپ نے پھر اِسے کچھ دے دیا۔ وہ پھر کہنے لگا۔ یَارَسُوْلَ اﷲ! کچھ اَور دیجئے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُسے فرمایا کیا مَیں تم کو کوئی ایسی بات نہ بتاؤں جو تمہارے اِس مانگنے سے بہت زیادہ بہتر ہے؟ اس نے کہا کیوں نہیں یَارَسُوْلَ اﷲ فرمائیے کیا بات ہے۔ آپ نے فرمایا سوال کرنا خدا تعالیٰ کو پسند نہیں۔ تم کوشش کرو کہ تمہیں کوئی کام مل جائے اور کام کر کے کھاؤ۔ یہ دوسروں سے مانگنے اور سوال کرنے کی عادت چھوڑ دو۔ اِس نے کہا یَارَسُوْلَ اﷲ! مَیں نے آج سے یہ عادت چھوڑ دی۔۱۰؎ چنانچہ واقع میں پھر اِس نے اِس عادت کو بالکل چھوڑ دیا اور یہاں تک اِس نے استقلال دکھایا کہ جب اسلامی فتوحات ہوئیں اور مسلمانوں کے پاس بہت سا مال آیا اور سب کے وظائف مقرر کئے گئے تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسے بلوایا اور کہا یہ تمہارا حصہ ہے تم اِسے لے لو۔ وہ کہنے لگا مَیں نہیں لیتا مَیں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے یہ اقرار کیا تھا کہ مَیں ہمیشہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاؤں گا۔ سو اِس اقرار کی وجہ سے مَیں یہ مال نہیں لے سکتا کیونکہ یہ میرے ہاتھ کی کمائی نہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا یہ تمہارا حصّہ ہے، اِس کے لینے میں کوئی حرج نہیں۔ وہ کہنے لگا خواہ کچھ ہو مَیں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے اقرار کیا ہؤا ہے کہ مَیں بغیر محنت کئے کوئی مال نہیں لوں گا۔ مَیں اب اِس اقرار کو مرتے دم تک پورا کرنا چاہتا ہوں اور یہ مال نہیں لے سکتا۔ دوسرے سال حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ نے پھر اِسے بُلایا اور فرمایا کہ یہ تمہارا حصّہ ہے اِسے لے لو۔ مگر اِس نے پھر کہا مَیں نہیں لوں گا۔ مَیں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے اقرار کیا ہؤا ہے کہ مَیں محنت کر کے مال کھاؤں گا۔ یونہی مُفت میں کسی جگہ سے مال نہیں لوں گا۔ تیسرے سال اُنہوں نے پھر اُس کا حصّہ دینا چاہا مگر اُس نے پھر انکار کر دیا۔ پھرحضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ فوت ہو گئے تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ خلیفہ ہوئے۔ اُنہوں نے بھی ایک دفعہ اُسے بُلایا اور کہا یہ تمہارا حصّہ ہے لے لو۔ وہ کہنے لگا مَیں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے عہد کیا تھا کہ مَیں کبھی سوال نہیں کروں گا اور ہمیشہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاؤں گا یہ مال میرے ہاتھ کی کمائی نہیں اِس لئے مَیں اِسے نہیں لے سکتا اور مَیں ارادہ رکھتا ہوں کہ اپنی موت تک اِس اقرار کو نباہتا چلا جاؤں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے بہت اصرار کیا مگر وہ انکار کرتا چلا گیا۔ آخر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا اے مسلمانو! مَیں خدا کے حضور بری الذّمہ ہوں۔ مَیں اِس کا حصّہ اِسے دیتا ہوں مگر یہ خود نہیں لیتا۔ ۱۱؎
اِسی صحابی کے متعلق یہ ذکر آتا ہے کہ ایک جنگ میں یہ گھوڑے پر سوار تھے کہ اچانک اُن کا کوڑا اِس کے ہاتھ سے گر گیا۔ ایک اَور شخص جو پیادہ تھا اُس نے جلدی سے کوڑا اُٹھا کر اُنہیں دینا چاہا تو اُنہوں نے کہا اے شخص! مَیں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کہ تو اِس کوڑے کو ہاتھ نہ لگائیو کیونکہ مَیں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ اقرار کیا ہؤا ہے کہ مَیں کسی سے سوال نہیں کروں گا اور خود اپنا کام کروں گا۔ چنانچہ عین جنگ کی حالت میں وہ اپنے گھوڑے سے اُترے اور کوڑے کو اُٹھا کر پھر اِس پر سوار ہو گئے۔ ۱۲؎
تو لوگوں کو بتانا چاہئے کہ مانگ کر کھانا ایک بہت بڑا عیب ہے تاکہ اِس نقص کی اصلاح ہو۔ بعض نادان اِس موقع پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم غرباء کی مدد سے گریز کرتے ہیں حالانکہ یہاں گریز کا کوئی سوال ہی نہیں۔ ہمارے پاس حکومت تو ہے نہیں کہ جبراً لوگوں پر ٹیکس عائد کرکے اپنے خزانے بھر لیں اور پھر اِنہیں لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو ذمّہ داریاں خلفائے اوّل پر عائد تھیں وہ ہم پر نہیں۔ اُن کے پاس اموال قانونی طور پر آتے تھے مگر ہمارے پاس اِس رنگ میں اموال نہیں آتے بلکہ ایسے اموال حکومتِ ہند کے خزانہ میں جاتے ہیں۔ پس ہم مجبور ہیں کہ مال کی تقسیم میں احتیاط سے کام لیں لیکن اگر بالفرض اِس رنگ میں اموال آتے بھی ہوں تو سوال یہ ہے کہ کیا مَیں نے وہ مال کھا لینا ہے؟ اِس مال نے تو بہرحال سلسلہ پر خرچ ہونا ہے تو مجھے اِس بات کا کیا شوق ہے کہ مَیں زید کو دُوں اور بکر کو نہ دوں یا مجھے اِس سے کیا ہے کہ وہ روپیہ ریویو آف ریلیجنز پر خرچ ہوتا ہے یا کسی غریب شخص پر خرچ ہوتا ہے۔ اگر اسلام کا فائدہ اِس میں ہے کہ سلسلہ کا روپیہ ایک غریب کو مل جائے تو اِس میں مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ میری غرض تو اِس قسم کی نصائح سے یہ ہے کہ ہماری جماعت کے اخلاق بلند ہو جائیں اور اِس میں عزّتِ نفس کا مادہ پیدا ہو جائے اور لوگ یہ سمجھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے نفس کو بھی کوئی شرف بخشا ہؤا ہے اور اِن کا فرض ہے کہ وہ اِس کی قدر و قیمت کو سمجھتے ہوئے بِلا وجہ اِس کی تحقیر نہ کریں۔یہ رُوح ہے جو مَیں جماعت میں پیدا کرنا چاہتا ہوں اور یہی وہ تعلیم ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی۔
پسیہ روپیہ مجھے تو نہیں ملتا کہ مجھے یہ فکر ہو کہ فلاں کو نہ ملے اور فلاں کو مل جائے۔ اگر یہ روپیہ مجھے ملتا تو کسی کو بد ظنی کا موقع مل سکتا تھا اور وہ خیال کر سکتا تھا کہ شاید مَیں نے اپنے ذاتی فائدہ کے لئے دوسروں کو اِس سے محروم کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ مگر جب یہ روپیہ میرے پاس نہیں آتا نہ میری ضروریات پر خرچ ہوتا ہے تو مجھے اِس میں ذاتی دلچسپی کیا ہو سکتی ہے؟
پس مجھے ذاتی دلچسپی اِس میں کوئی نہیں ہاں اتنی دلچسپی ضرور ہے کہ مَیں چاہتا ہوں جماعت کے اخلاق بہت بُلند ہوں اور وہ دوسروں سے مانگنے کی عادت ترک کر دیں۔ پس پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کو چاہئے کہ وہ جماعت کے دوستوں کے سامنے یہ مسائل واضح کرتے رہا کریں۔ مَیں نے دیکھا ہے اِسی نقص کی وجہ سے کہ لوگوں کو مسائل بتائے نہیں جاتے۔ قادیان میں مردوں اور عورتوں کو بِلا وجہ سوال کرنے کی عادت ہے اور بجائے کام کرنے کے وہ مانگ کر کھا لینا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں حالانکہ ہمیشہ کام کر کے کھانے کی عادت ڈالنی چاہئے اور یہی عادت ہے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ ہاں جہاں کام نہ ملتا ہو وہاں کام مہیّا کرنا پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کا کام ہے لیکن جب کام مل جائے تو پھر اِس کے کرنے میں کوئی عذر نہیں ہونا چاہئے۔
پس کام مہیا کرنا ہمارا کام ہے۔ گو پھر حکومت نہ ہونے کی وجہ سے ہم پوری طرح اِس فرض کو سر انجام نہیں دے سکتے مگر پھر بھی ہمارا فرض ہے کہ جس حد تک ہم کام مہیا کر سکتے ہوں اُس حد تک جماعت کے دوستوں کے لئے کام مہیّا کریں۔ مَیں نے بتایا ہے کہ لجنہ اِس سلسلہ میں عورتوں کے متعلق مفید کام کر رہی ہے اور مَیں چاہتا ہوں کہ آہستہ آہستہ مجلس خدام الاحمدیہ بھی یہ کام اپنے لائحہ عمل میں شامل کر لے اور بے کار مَردوں کے متعلق اِن کا یہ فرض ہو کہ وہ ان کے لئے کام مہیا کریں۔ بظاہر یہ کام مُشکل ہے لیکن اگر وہ سمجھ سے کام لیں گے اور غور کرنے کی عادت ڈالیں گے تو وہ کئی ایسی سکیمیں بنا سکیں گے جن کے ماتحت بیکاروں کو کام پر لگایا جاسکے گا۔ جب اِس قسم کے بے کار لوگ کام پر لگ جائیں گے تو اِس سے نہ صرف بے کاروں کو فائدہ پہنچے گا بلکہ سلسلہ کو بھی مالی لحاظ سے فائدہ پہنچے گا کیونکہ وہ چندے دیں گے اور اِس طرح سلسلہ کو مضبوطی حاصل ہو گی۔
پس یہ اِس شخص کا ہی نہیں بلکہ سلسلہ کا بھی فائدہ ہے۔ یہ ایک اہم کام ہے جس کی طرف جماعتوں کے پریذیڈنٹوں، سیکرٹریوں اور مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبران کو توجّہ کرنی چاہئے۔ اِسی طرح مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبران کو چاہئے کہ وہ ایک پروگرام بنا کر اِس کے ماتحت کام کیا کریں۔ یونہی بغیر سوچے سمجھے کام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ وہ اب بھی ہاتھ سے کام کرتے ہیں مگر وہ کام کسی پروگرام کے مطابق نہیں ہوتا۔ حالانکہ جس طرح بجٹ تیار کئے جاتے ہیں اِسی طرح انہیں اپنے کام کے پروگرام وضع کرنے چاہئیں مثلاً ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے اِس بارہ میں یونہی بغیر پروگرام کے اِدھر اُدھر کام کرتے پھرنے کی بجائے اگر وہ کسی ایک سڑک کو لے لیں اور اپنے پروگرام میں یہ بات شامل کر لیں کہ اُنہوں نے اِس سڑک پر بھرتی ڈال کر اِسے ہموار کرنا اور اِس کے گڑھوں کو پُر کرنا ہے یا اِسی طرح کا کوئی اَور کام اپنے ذمہ لے لیں اور اِسے وقت معیّن کے اندر مکمل کریں تو یہ بہت عُمدہ نتیجہ پیدا کرے گا بہ نسبت اِس کے کہ بغیر ایک معیّن پروگرام کے وہ کام کرتے جائیں۔ مگر یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ بھرتی کے کیا معنے ہیں۔ گزشتہ سال جلسہ سالانہ پر چوہدری ظفراﷲ خان صاحب آئے تو اُنہوں نے مجلس خدام الاحمدیہ کے اراکین سے کہا کہ اب کی دفعہ جب کام کرو تو مجھے بھی بُلالینا۔ چنانچہ اُنہوں نے اِنہیں بُلالیا اور وہ بھی ہاتھ سے کام کرتے رہے مگر چوہدری صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کے ساتھ مل کر کام کرنے میں مجھے معلوم ہؤا کہ ان کے کام میں ایک نقص بھی ہے اور وہ یہ کہ سڑک پر جب وہ مٹی ڈال رہے تھے تو سڑک کے پاس ہی ایک گڑھا کھود کر وہاں سے مٹی لے آتے تھے۔ مَیں نے انہیں کہا کہ اِس کا تو یہ مطلب ہے کہ آج آپ سڑک کے گڑھے پُر کریں اور کل آپ اُن گڑھوں کو پُر کرنے لگ جائیں جو اِس سڑک پر مٹی ڈالنے کے لئے آپ نے کھودلئے ہیں۔ تو یہ ایک نقص ہے جو خدا م الاحمدیہ کے کام میں ہے اور اِسے دور کرنا چاہئے مگر اِس کے علاوہ ضروری بات یہ ہے کہ وہ ایک سڑک یا ایک گلی لے لیں اور اِس کی صفائی اور مرمّت اِس حد تک کریں کہ اِس سڑک یا گلی میں کوئی نقص نہ رہے۔ مثلاً وہ ایک سڑک کو درست کرنا چاہتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ انجینئروں سے مشورہ لیں اور ان سے پوچھیں کہ یہ سڑک کس طرح درست ہو سکتی ہے۔ پھر جو طریق وہ بتائیں اور جو نقشہ انجینئر تجویز کریں اُس کے مطابق وہ اِس سڑک کی درستی کریں اور چھ مہینے یا سال جتنا وقت بھی اِس پر صرف ہو اتنا وقت اِس پر صرف کیا جائے اوراِس سڑک کو انجینئر کے بتائے ہوئے نقشہ کے مطابق درست کیا جائے مگر اب یہ ہوتا ہے کہ چند مٹی کی ٹوکریاں ایک گڑھے میں ڈال دی جاتی ہیں اور چند دوسرے گڑھے میں اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ کوئی کام ہؤا ہے۔ پس پہلی ہدایت تو یہ ہے کہ کوئی ایک کام شروع کیا جائے اور اُسے ایسا مکمل کیا جائے کہ کوئی انجینئر بھی اِس میں نقص نہ نکال سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مَیں نے دیکھا ہے کہ دوسرے آدمیوں سے کوئی کام نہیں لیا جاتا حالانکہ خدام الاحمدیہ کے کام کرنے کے یہ معنی نہیں کہ دوسروں کے لئے اِس میں حصّہ لینا ممنوع ہے۔ جو لوگ میرے خطبات سُنا کرتے ہیں وہ اِس بات کو جانتے ہیں کہ مَیں نے امور عامہ کو بار بار ہاتھ سے کام کرنے کے پروگرام کی طرف توجہ دلائی ہے۔ بلکہ بعض دفعہ مَیں نے اتنی سختی سے کام لیا ہے کہ مَیں سمجھتا ہوں اگر اِن میں ذرا بھی حِس ہوتی تو وہ اِس کام کی طرف ضروری توجہ کرتے۔ مگر سال گزر گیا اور ابھی تک وہ ایسی نیند سوئے پڑے ہیں کہ اُٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ امور عامہ کی غفلت کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ہم لوگ جن کا دل چاہتا ہے کہ رفاہِ عام کے کاموں میں حصّہ لیں اِس سے محروم رہتے ہیں اور کوئی کام نہیں کر سکتے۔ پس چونکہ امور عامہ سویا پڑا ہے اِس لئے مَیں مجلس خدام الاحمدیہ کو توجّہ دلاتا ہوں کہ وہ صرف ممبران سے ہی کام نہ لیا کریں بلکہ بعض دنوں میں وہ عام اعلان کر کے باقی جماعت کے دوستوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا کریں بلکہ وہ کام کرنے کے لئے مجھے بھی بُلا لیا کریں۔ آخر اگر ہاتھ سے کام کرنا ثواب ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم دوسروں کو تو کہیں کہ اِس ثواب میں حصّہ لیں مگر خود اِس ثواب میں شامل نہ ہوں۔ یہ تو منافقت ہو گی کہ ہم دوسروں کو تو کہیں کہ فلاں کام بڑا اچھا ہے مگر خود گھر میں بیٹھ رہیں۔ ہاں اگراِس کام سے زیادہ بہتر اور زیادہ ضروری کام ہم کوئی کر رہے ہوں تو اِس صورت میں بے شک اِس کام میں حصّہ نہ لینا حرج کی بات نہیں لیکن اگر اَور کوئی ایسا ضروری کام نہ ہو تو میرے نزدیک اِس وقت ہر چھوٹے بڑے کو اِس کام میں حصّہ لینا چاہئے اور مَیں چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کے ممبران اپنے کام میں ہمیں بھی شمولیت کا موقع دیں اور یہ مَیں اِس لئے کہہ رہاہوں کہ امور عامہ سویا ہؤا ہے اور اُسے اِس طرف کوئی توجہ نہیں۔ میرے نزدیک مجلس خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ مہینہ دو مہینہ میں ایک دن ایسا مقرر کر دیں جس میں ساری جماعت کو شمولیت کی دعوت دیں بلکہ میرے نزدیک شاید یہ زیادہ مناسب ہو گا کہ بجائے ایک گھنٹہ کام کرنے کے سارا دن کام کے لئے رکھا جائے۔ ایک گھنٹہ کا تجربہ کوئی ایسا مفید ثابت نہیں ہؤا۔
پس آئندہ کے لئے بجائے ایک گھنٹہ کے سارا دن رکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ مہینہ دو مہینہ میں ایک دن تمام لوگ اِس کام میں شریک ہوں بلکہ میرے نزدیک لوگوں کی سہولت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ زیادہ مناسب ہو گا کہ دو مہینہ میں ہی ایک دن ایسا رکھا جائے جس میں تمام لوگ صبح سے شام تک اپنے ہاتھ سے کام کریں۔ اِس طرح سال میں چھ دن بن جاتے ہیں۔ اِس کے لئے یا تو جمعہ کا دن رکھ لیا جائے کہ اِس دن دفاتر میں چھٹی ہوتی ہے اور یا پھر آخری جمعرات کا دن رکھا جائے کہ اُس دن بھی مدرسوں اور دفتروں وغیرہ میں چھٹی ہوتی ہے۔ تاجروں کے لئے تو کوئی مُشکل ہے ہی نہیں، وہ ہر دن چھٹی کر سکتے ہیں۔ پس دو مہینہ میں ایک دن ایسا مقرر کیا جائے اور اُس میں سارا دن کام کیا جائے شاید سارا دن کام کرنا نتائج کے لحاظ سے زیادہ مُفید ثابت ہو۔ اِس طرح سال میں چھ دن بن جاتے ہیں اور اگر ایک دن میں ایک ہزار آدمی بھی صبح سے لے کر شام تک کام کریں تو چھ ہزار مزدور کا کام بن جاتا ہے اور چھ ہزار مزدور کا کام کوئی معمولی کام نہیں ہوتا بلکہ بہت اہم اور شاندار ہوتا ہے۔ بلکہ میرے نزدیک قادیان میں ہاتھ سے کام کرنے والے کم از کم چار ہزار افراد ہیں اور اگر چار ہزار کی نسبت رکھی جائے توچوبیس ہزار مزدور بن جاتے ہیں اور چوبیس ہزار مزدوروں کا کام اگر ایک پروگرام کے ماتحت ہو تو بہت بڑا تغیر پیدا کر سکتا ہے۔ بے شک ہم لوگ جو کام کے عادی نہیں مزدوروں جتنا کام نہیں کر سکتے لیکن اگر ہم مزدوروں کے کام کا دسواں حصّہ بھی کریں تو اِس کے یہ معنی ہوں گے کہ سال میں اڑھائی ہزار مزدوروں نے کام کیا اور اڑھائی ہزار مزدوروں کا کام بھی کوئی معمولی کام نہیں ہوتا۔ اگر چھ آنے ہر مزدور کی یومیہ اُجرت فرض کی جائے تو قریباً ایک ہزار روپے کا کام ہم سال میں صرف چھ دن دے کر کر سکتے ہیں۔
پس خدام الاحمدیہ کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کا کام صرف اپنے تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہئے بلکہ بعض کام جن میں ساری جماعت کی شمولیت مُفید نتائج پیدا کر سکتی ہو ان میں ساری جماعت کو شمولیت کا موقع دینا چاہئے۔
پس قادیان کے خدام الاحمدیہ کو توجّہ دلاتا ہوں کہ وہ سال میں چھ دن ایسے مقرر کریں جن میں یہاں کی تمام جماعت کو کام کرنے کی دعوت دی جائے بلکہ مناسب یہی ہو گا کہ وہ ابتدا میں چھ دن ہی رکھیں اور جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں دو مہینہ میں ایک دن کام کر لینا کوئی بڑی بات نہیں۔آخری جمعرات ہو تو اُس دن عام اعلان کر دیا جائے کہ آٹھ دس سال کے بچوں سے لے کر اُن بوڑھوں تک جو چل پھر سکتے اور کام کاج کر سکتے ہیں، فلاں جگہ جمع ہو جائیں ان سے فلاں کام لیا جائے گا۔ پھر پہلے سے پروگرام بنایا ہؤا ہو کہ فلاں سڑک پر کام کرنا ہے، فلاں جگہ سے مٹی لینی ہے، اتنی بھرتی ڈالنی ہے، اِس اِس ہدایت کو مدّ نظر رکھنا ہے اور جماعت کے انجینئر اِس تمام کام کے نگران ہوں اور ان کا منظور کردہ نقشہ لوگوں کے سامنے ہو اور اِس کے مطابق سب کو کام کرنے کی ہدایت دی جائے۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر پہلے سے ایک سکیم مرتّب کر لی جائے تو آسانی سے بہت بڑا کام ہو سکتا ہے۔ غرض سکیم اور نقشے پہلے تیار کر لیں اور اُس دن جس طرح فوج پریڈ کرتی ہے اِسی طرح ہر شخص حکم ملنے پر اپنے اپنے حلقہ کے ماتحت پریڈ پر آجائے۔ دیکھو قیامت کے دن بھی اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن اور کافر اپنے اپنے لیڈروں کے پیچھے آئیں گے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ اُس دن ہر نبی اپنا اپنا جھنڈا اُٹھائے ہوئے ہوگا اور ہر نبی کے ساتھ اُس کی اُمت ہو گی۔یہ نہیں ہو گا کہ قیامت کے دن شور پڑا ہؤا ہو اورکوئی کدھر جارہا ہو اور کوئی کدھر بلکہ ہر شخص اپنے اپنے لیڈر کے جھنڈے کے نیچے ہو گا۔ اِس میں درحقیقت اﷲ تعالیٰ نے یہی بتایا ہے کہ جب بہت بڑے اجتماع ہوں تو اس وقت حلقوں اور دائروں کا مقرر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً ہر محلہ والے اپنے اپنے محلہ کے پریذیڈنٹ یا کسی اَور افسر کی ہدایات کے ماتحت کام کریں یا لوگوں کے حلقوں کی کوئی اور تقسیم ہو سکتی ہو تو وہ کر لی جائے۔ بہرحال ہر شخص کسی نہ کسی حلقہ میں ہو اور کام شروع کرنے سے دو دن پہلے ہر شخص کو بتا دیا جائے کہ تم نے فلاں حلقہ میں فلاں کام کرنا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اِس طریق پر اگر کام کیا جائے تو ایک تو لوگوں کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہو جائے گی دوسرے اِس مشترکہ جدوجہد کے نتیجہ میں کوئی مُفید کام بھی ہو جائے گا۔ اب دارالرحمت ، دارالفضل اور دوسرے محلوں کو دیکھ لو اُن کی گلیاں کس قدر گندی ہیں۔ پھر اُن محلّوں میں کئی گڑھے ہیں، اونچی نیچی جگہیں ہیں اور جب بارش ہوتی ہے تو ان گڑھوں میں پانی جمع ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں نہ صرف ملیریا اور ٹائیفائڈ پھیلتا ہے بلکہ بعض دفعہ انسانی جانیں بھی تلف ہو جاتی ہیں۔
تھوڑا ہی عرصہ ہؤا ایک خطرناک حادثہ یہاں ہؤا اور وہ یہ کہ حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی کی آخری بیوی کا اکلوتا لڑکا ایسے ہی ایک پانی سے بھرے ہوئے گڑھے میں گر کر ڈوب گیا۔ یہ ہماری غفلتوں کا ہی نتیجہ ہے اگر ہم غفلت نہ کرتے اور گڑھوں کو اب تک پُر کردیتے تو یہ واقعہ کیوں ہوتا؟ کہا جاتا ہے کہ جس زمین میں یہ واقعہ ہؤا ہے اِس میں ہندوؤں کا بھی دخل ہے لیکن اگر اِس کے گرد دیوار ہی بنا دی جاتی تب بھی یہ واقعہ نہ ہوتا اور اِس ایک واقعہ کے بعد اب یہ کب اطمینان ہو گیا ہے کہ آئندہ ایسا واقعہ کوئی نہیں ہو گا مگر اِس دن تو جس نے یہ واقعہ سُنا افسوس کر دیا لیکن دوسرے ہی دن اثر جاتا رہا اور یہ خیال بھی نہ رہا کہ ہمیں اِس قسم کے گڑھوں کو پُر کرنے کا فکر کرنا چاہئے تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ اِسی طرح پانی کی گندگی کی وجہ سے ہر سال ملیریا آتا ہے اور دس دس پندرہ پندرہ دن ایک شخص بیمار رہتا ہے۔ ملیریا کی بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ گڑھوں میں پانی جمع رہتا ہے اور اِس کی سڑاند کی وجہ سے مچھر پیدا ہو جاتے ہیں جو انسانوں کو کاٹتے اور ملیریا میں مُبتلا کر دیتے ہیں۔ اِس بخار کی وجہ سے لوگ پندرہ پندرہ دن تک بیمار رہتے ہیں اور اگر دس دن بھی ایک شخص کے بیمار رہنے کی اوسط فرض کر لی جائے اور ایک گھر کے پانچ افراد ہوں تو سال میں ان کے پچاس دن محض ملیریا کی وجہ سے ضائع چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ چھ دن بھی کوشش کرتے تو ملیریا کو جڑ سے نابود کردیتے مگر لوگ دوائیوں پر پیسے الگ خرچ کرتے ہیں، تکلیف الگ اُٹھاتے ہیں، طاقتیں الگ ضائع کرتے ہیں، عمریں الگ کم ہوتی ہیں، موتیں الگ ہوتی ہیں اور پھر سال میں پچاس دن بھی ان کے ضائع چلے جاتے ہیں۔ مگر تھوڑا سا وقت خرچ کر کے قبل از وقت ان باتوں کا علاج نہیں کرتے۔ وہ کام جو مَیں بتاتا ہوں اگر دوست کرنے لگ جائیں تو ان کی صحتیں بھی درست رہیں گی، ان کے پیسے بھی بچیں گے، ان کے محلّوں کی شکل و صورت بھی اچھی ہو جائے گی، ان کا نیک اثر بھی لوگ قبول کریں گے اور ان کے پچاس دن بھی بچ جائیں گے۔ گویا خدا بھی راضی ہو جائے گا، لوگ بھی تعریف کریں گے اور خود بھی فائدہ اُٹھائیں گے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لوگ اس بات کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ وہ عدمِ صفائی کی وجہ سے جانی قُربانیاں بھی کرتے ہیں، اپنے بیوی بچوں کو بھی تکلیف میں ڈالتے ہیں اور اپنے روپیہ کو بھی برباد کرتے ہیں مگر اِس آسان سادہ اور صحت بخش طریق کو اختیار کرنے کے لئے شوق سے تیار نہیں ہوتے۔ حالانکہ ملیریا ایسا خطرناک اثر انسانی طبیعت پر چھوڑ جاتا ہے کہ وہ بچے جو ملیریازدہ ہوتے ہیں جب بڑے ہوتے ہیں تو ان کے دل بالکل مُردہ ہوتے ہیں، ان کی اُمنگیں کوتاہ ہوتی ہیں اور ان کے خیالات نہایت پَست ہوتے ہیں اور جوان ہونے سے پہلے ہی وہ بوڑھے ہو چکے ہوتے ہیں حالانکہ اِس کا علاج ان کے بس میں ہوتا ہے اور وہ اگر چاہیں تو آسانی سے ملیریا کا قلع قمع کر سکتے ہیں۔ یہی حال صفائی کا ہے۔ ہمارے مُلک کے لوگ گندگی اور غلاظت کو دور کرنے کا خیال تو نہیں کرتے مگر بیماری کے ذریعہ اپنے اوقات اور اپنے اموال اور اپنی صحت کی بربادی قبول کر لیتے ہیں۔ ٹائیفائڈ ہمیشہ اُس گند اور پاخانہ کی وجہ سے پھیلتا ہے جو گلیوں میں جمع رہتا ہے اور جس میں ایسے مریضوں کے پاخانے بھی شامل ہوتے ہیں۔ وہ پاخانہ پہلے تو گلیوں میں ہوتا ہے پھر جب بارش ہوتی ہے تو زمین میں جذب ہو جاتا ہے اور پھر کنوؤں کے پانی میں مل کر لوگوں کے پینے میں استعمال ہونے لگتا ہے اور اِس طرح تمام شہر میں ٹائیفائڈ پھیل جاتا ہے۔ قادیان کی نئی آبادی نہایت کھلے مقامات میں ہے اور بڑے بڑے شہروں کی آبادی کے مقابلہ میں نہایت پُر فضا اور صحت بخش ہے اور اگر ظاہری حالت کو دیکھا جائے تو یہاں کے لوگوں کی صحت بہت اعلیٰ ہونی چاہئے مگر واقعہ یہ ہے کہ یہاں ٹائیفائڈ بڑی کثرت سے ہوتا ہے۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ وہ پاخانہ اور گندجو گلیوں میں جمع ہوتا ہے، بارش کے دنوں میں زمین کے اندر جذب ہو جاتا ہے اور پھر کنوؤں کے پانی میں مل کر لوگوں کو مرض میں مُبتلا کر دیتا ہے۔ پس ہم لوگ بِلا وجہ قُربانی کرتے ہیں اور بِلا وجہ بیماریوں پر روپیہ ضائع کرتے اور پھر پچاس دنوں کا ضیاع بھی کرتے ہیں مگر وہ طریق اختیار نہیں کرتے جس میں خدا تعالیٰ کی بھی خوشنودی ہے اور اپنا فائدہ بھی ہے۔ اگر خدام الاحمدیہ کے ممبران یہ کام کریں اور پوری تندہی اور محنت کے ساتھ اِس طرف توجہ کریں تو مَیں سمجھتا ہوں ایک سال کے اندر ہی وہ قادیان میں ایسا عظیم الشان تغیر پیدا کر سکتے ہیں کہ جلسہ سالانہ پر آنے والے لوگ حیران ہو جائیں اور وہ کہیں کہ یہ قادیان پہلا قادیان نہیں۔ اور پھر ایک سال کے بعد ہی وہ دیکھیں گے کہ بیماریاں بھی مٹ گئی ہیں، لوگوں کی صحتیں بھی درست ہو گئی ہیں اور ان کا روپیہ بھی بچ گیا ہے۔ یوں تو بیماریاں دُنیا میں رہتی ہی ہیں کیونکہ بعض کمزور طبع لوگ ہوتے ہیں جو امراض کا جلد شکار ہو جاتے ہیں لیکن کم سے کم لوگ ان بیماریوں سے بچ سکتے ہیں جو وبائی صورت میں ایک مُہلک رنگ اختیار کر لیتی ہیں۔
یہ مَیں نے ایک مثال دی ہے ورنہ اصل مضمون میں یہ بیان کر رہا تھا کہ سلسلہ کے ہر محکمہ کو کام ایک پروگرام کے ماتحت کرنا چاہئے تا ہر وقت وہ آنکھوں کے سامنے رہے اور اِس کے پورا کرنے کا خیال رہے ورنہ دن بہت نازک آرہے ہیں اور اگر اس وقت اپنی اصلاح کی طرف توجّہ نہ کی گئی تو پھر اصلاح کا وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اگر اﷲ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو مَیں اِس مضمون کو اگلے جمعہ میں بیان کروں گا۔ سرِ دست مَیں اصولی طور پر بتا دیتا ہوں کہ دُنیا میں ایک سخت نازک زمانہ اور لڑائیوں اور فسادات کے خطرے ہر روز بڑھتے چلے جارہے ہیں اور اِس بات کا امکان ہے کہ اِس سال کے اندر اندر ہی کوئی ایسی خطرناک لڑائی چھڑ جائے جس سے دُنیا کی آبادی نصف سے بھی کم رہ جائے۔ ایسے ایسے تباہیوں کے سامان پیدا ہو چکے ہیں کہ اِن کا ذکر سُن کر حیرت آتی ہے۔ تم اِن تباہی کے سامانوں کا صرف اِس امر سے ہی اندازہ لگاسکتے ہو کہ پہلے امریکہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اگر کوئی جنگ ہوئی تو ہم اِس میں حصّہ نہیں لیں گے کیونکہ ہم بالکل الگ ہیں اور بہت بڑے فاصلہ پر ہیں۔ ہم پر اِس جنگ کا کیا اثر ہو سکتا ہے؟ امریکہ یورپ سے چار ہزار میل دُور ہے۔ پس امریکہ والے سمجھتے تھے کہ ہمیں اِس جنگ سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے مگر اب سامانِ حرب میں جو ترقی ہوئی ہے اور نئی نئی قسم کے ہوائی جہاز بنے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے امریکہ کے پریذیڈنٹ نے بھی اعلان کر دیا ہے اور آج کے اخبارات میں ہی وہ اعلان چھپا ہے کہ آج محاذِ جنگ اتنا بدل چُکا ہے کہ امریکہ کو الگ سمجھنا بالکل بیوقوفی ہے۔ آج ہماری سرحد امریکہ پر نہیں بلکہ فرانس پر ہے اور ہم بھی اِسی طرح جنگ کے خطرہ میں ہیں جس طرح یورپ کی دوسری طاقتیں۔ (اِس کی مُبہم الفاظ میں تردید ہوئی ہے مگر وہ تردید قانونی ہے حقیقی نہیں۔) ایسے ایسے ہوائی جہاز ایجاد ہو چکے ہیں کہ بالکل ممکن ہے کہ صبح کے وقت جرمنی سے ایک ہوائی جہاز اُڑے اور شام کے وقت امریکہ پر لاکھوں بم برسا کر واپس آجائے۔
ساڑھے چار سَو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُڑنے والے ہوائی جہاز ایجاد ہو چکے ہیں۔ ہندوستان جرمنی سے ساڑھے پانچ ہزار میل دور ہے۔ اگر چار سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُڑنے والا ہوائی جہاز جرمنی سے چلے تو ایک ہزار میل وہ اڑھائی گھنٹے میں طے کر سکتا ہے۔ اِس کے معنے یہ بنے کہ چودہ گھنٹے کے اندر اندر جرمنی سے ہوائی جہاز چل کر ہندوستان پر بمباری کرسکتا اور یہاں کے لوگوں کو تباہ کر سکتا ہے بلکہ اب تو جرمنی سے بھی چلنے کی ضرورت نہیں۔ اٹلی جرمنی کے ساتھ ہے اور ایبے سینیا اٹلی کے قبضہ میں ہے اور ایبے سینیا سے ہندوستان دو ہزار میل کے فاصلہ پر ہے۔ گویا ابی سینیا سے ایک ہوائی جہاز پانچ گھنٹے میں ہندوستان آسکتا اور پانچ گھنٹے یہاں گولہ باری کر کے شام کا کھانا اِس کے چلانے والے ایبے سینیا میں واپس جاکر کھا سکتے ہیں۔ غرض ایسے ایسے خطرناک سامان جنگ تیار ہو چکے ہیں کہ انسان ان کا ذکر سُن کر دنگ رہ جاتا ہے۔ کئی لوگ غلط فہمی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ایسے خطرناک سامان ایجاد ہو چکے ہوتے تو موجودہ جنگوں میں جو آجکل ہو رہی ہیں کیوں وہ ظاہر نہ ہو جاتے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سامان تو ایجاد ہو چکے ہیں مگر ان جنگوں میں انہوں نے اِن سامانوں کو ظاہر نہیں کیا۔ وہ سمجھتے ہیں اگر ہم نے ابھی سے اِن سامانوں کو ظاہر کر دیا تو لوگوں کو یہ پتہ لگ جائے گا کہ ہمارے پاس کیاکیا سامان ہیں اور وہ اِن کا علاج سوچ لیں گے۔ پس وہ اِن سامانوں کو ابھی چھُپائے بیٹھے ہیں اور اندر ہی اندر اور زیادہ سامان تیار کئے جارہے ہیں۔ بعض انجینئروں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اُنہوں نے ایسی ایجادیں کر لی ہیں کہ خاص قسم کی شعاعوں کے ذریعہ وہ ہزاروں میل سے شہروں کو دیکھ سکیں گے اور پھر ہزاروں میل کے فاصلہ سے ہی بجلی کی شعاعیں پھینک کر ان کو برباد کر دیں گے۔ معلوم نہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں اور لوگوں کو ڈرانے کے لئے ایسا کہتے ہیں یا اِس میں کچھ سچائی بھی ہے مگر اِن کا دعویٰ یہ ضرور ہے کہ اُنہوں نے ایسی شعاعیں ایجاد کر لی ہیں جن کی مدد سے وہ ہزاروں میل پر بیٹھے ہی شہروں کو برباد کر سکیں گے۔ ایسے نازک اوقات میں قوموں کا خاموشی سے بیٹھا رہنا بہت بڑی بیوقوفی ہوتی ہے۔ پس سب کو اِس نازک وقت کے آنے سے قبل ہوشیار ہو جانا چاہئے۔
مَیں اِس موقع پر یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ گزشتہ سالوں میں گورنمنٹ پنجاب کے بعض افسروں سے ہمارا جو اختلاف ہؤا تھا اُس کو مدّنظر رکھتے ہوئے بعض لوگوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ اگر جنگ ہو جائے تو اُس وقت ہماری جماعت کا کیا رویّہ ہو گا اور آیا وہ حکومت برطانیہ کا ساتھ دے گی یا نہیں؟ مَیں نے جو بات اُن دوستوں کو پرائیویٹ طور پر بتائی تھی اُس کا آج اعلان بھی کر دیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ ہمارا جھگڑا حکومت برطانیہ کے ساتھ نہیں تھا بلکہ حکومت پنجاب کے بعض نادان افسروں اور درحقیقت حکومتِ برطانیہ کے دُشمن افسروں کے ساتھ تھا۔ پس اگر جنگ ہو جائے (گو ہم چاہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اِس خطرناک جنگ سے دنیا کو بچالے) تو اُس وقت ہماری کامل تائید حکومت برطانیہ کے ساتھ ہو گی کیونکہ ہمارا حکومتِ برطانیہ کے ساتھ کوئی جھگڑا نہ تھا بلکہ حکومت پنجاب کے بعض افسروں کے ساتھ تھا۔ پچھلے دنوں لارڈ ہیلی نے بھی جو پنجاب کے گورنر رہ چکے ہیں اور ہماری جماعت کے بھی دوست ہیں ایک تقریر میں کہا تھا کہ جماعت احمدیہ کو یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اِس کی لڑائی ہمارے ساتھ نہیں بلکہ اگر ہے تو حکومت پنجاب کے بعض افسروں کے ساتھ ہے اور مَیں بھی اِن کے اِس خیال سے متفق ہوں۔ حقیقت یہی ہے کہ حکومت انگریزی کے ساتھ ہمارا کوئی جھگڑا نہیں بلکہ جب حکومت پنجاب کے بعض افسروں کے ساتھ ہمارا جھگڑا شروع ہؤا تھا تو اُس وقت برطانوی حکومت نے ہماری تائید میں پنجاب گورنمنٹ پر زور دیا اور اِسے لکھا کہ جماعت احمدیہ کی شکایات کا ازالہ ہونا چاہئے۔ انگلستان میں جو ہمارے مبلّغ ہیں وہ بھی نہایت خوش ہیں اور انہیں حکومت کی طرف سے کسی قسم کی تکلیف نہیں۔ پس ایسے معاملات میں جہاں برطانوی ایمپائر کا سوال آجائے ہمارے مقامی جھگڑے قطعاً کوئی روک نہیں بن سکتے اور اگر جنگ ہو گئی تو ہم پورے طور پر حکومت برطانیہ کے ساتھ تعاون کریں گے بلکہ پہلے سے زیادہ تعاون کریں گے۔ پس اگر کسی کے دل میں یہ شُبہ ہو کہ ایسے موقع پر ہماری جماعت کا کیا رویہ ہو گا تو اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری جماعت کا یہی رویہ ہو گا کہ وہ حکومت برطانیہ کی تائید کرے گی۔ درحقیقت یہ سخت تھُڑ دلی اور تنگ دلی ہوتی ہے کہ انسان مقامی جھگڑوں کو بڑھا کر وسیع کر دے۔ ہماری اگر حکومت پنجاب کے چند افسروں کے ساتھ لڑائی ہو تو اِس کی وجہ سے ہم اِن عظیم الشان فوائد کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو حکومت برطانیہ کی وجہ سے اِس حکومت کے ماتحت رہنے والے لوگوں کو حاصل ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کانگرسی بھی اپنے دل میں یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی وقت جنگ کا خطرہ ہؤا اور اُنہوں نے دیکھا کہ حکومت کی رسّی برطانیہ کے ہاتھ سے جارہی ہے تو وہ بھی حکومت برطانیہ کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور ہوں گے اور واقعہ یہ ہے کہ اگر کسی حکومت کے ماتحت رہنے کا سوال ہو تو اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ انگریزوں کی حفاظت ہمارے مُلک کے لئے بہت بڑی رحمت کا باعث ثابت ہوئی ہے۔
مگر یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری جماعت ایک بین الاقوامی جماعت ہے۔ کچھ اٹلی کے ماتحت ہیں، کچھ جرمنی کے ماتحت ہیں کچھ امریکہ کے ماتحت ہیں، کچھ برطانیہ کے ماتحت ہیں۔ پس مَیں جو اعلان کر رہا ہوں یہ اپنی جماعت کے صرف اُسی حصّہ کے متعلق اعلان ہے جو برطانوی حکومت کے ماتحت رہتا ہے۔ ہماری جماعت کا ایسا تمام حصّہ حکومتِ برطانیہ کی مدد کرے گا اور ہم ہرگزاِس لڑائی جھگڑے کی پرواہ نہیں کریں گے جو بعض مقامی افسروں کے ساتھ ہمارا چل رہا ہے کیونکہ یہ جنگ مقامی نہیں بلکہ نہایت وسیع اثرات رکھنے والی ہو گی اور وہ شخص سخت احمق ہوتا ہے جو ایک چھوٹی بات کی وجہ سے بڑی بات میں بھی حصّہ نہ لے بلکہ مَیں تو سمجھتا ہوں اب ہمارے پاس حکومتِ برطانیہ کی مدد کے اِس سے بہت زیادہ سامان ہیں جتنے ۱۹۱۴ء میں ہمارے پاس سامان تھے اور اگر جنگ چھِڑ گئی تو مَیں جماعت کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہمارا فرض ہو گا ہم برطانوی حکومت کے ساتھ پورے طور پر تعاون کریں اور ہر قُربانی کر کے اپنے آپ کو ایک اچھا شہری ثابت کریں تاکہ وہ برکت جوتبلیغ میں سہولت کی وجہ سے ہمیں حاصل ہے وہ جاتی نہ رہے۔ بیسیوں ممالک ایسے ہیں جن میں تبلیغ کے راستہ میں سخت مُشکلات حائل ہیں صرف برطانوی حکومت ہی ایسی ہے جس کی طرف سے تبلیغ پر کوئی پابندی عائد نہیں۔ اِس لئے نہیں کہ برطانوی حکومت دل میں مسلمان ہے بلکہ اِس لئے کہ اُس کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ وہ مذہب کے معاملہ میں دخل دینا نہیں چاہتی۔ پس ہماری دوستی کی خاطر نہیں بلکہ اپنے مقررہ اصول کی وجہ سے انگریزوں نے تبلیغِ مذہب کے متعلق کسی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی اور نہ کسی قسم کی پابندی وہ عائد کرنا چاہتے ہیں اور یہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے جو حکومتِ برطانیہ کی وجہ سے مختلف مذاہب کو حاصل ہے۔ ایک ہندو بھی آزادی سے تبلیغ کر سکتا ہے، ایک عیسائی بھی آزادی سے تبلیغ کر سکتا ہے، ایک سکھ بھی آزادی سے تبلیغ کر سکتا ہے اور ایک مسلمان بھی آزادی سے تبلیغ کر سکتا ہے۔ پس چونکہ حکومت برطانیہ کی وجہ سے تبلیغ کا دروازہ کھلا ہے اور یہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے جو مذہبی جماعتوں کو حاصل ہے اِس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم حتّی المقدور مصیبت پر اِس کی مدد کریں اور اپنے تمام ذرائع کو استعمال میں لاکر اِس کے ساتھ تعاون کریں۔ بعض لوگ نادانی سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے ساتھ حکومتِ برطانیہ خاص طور پر مراعات کیا کرتی ہے۔ یہ بالکل جھوٹ ہے اور کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ ہمیں اُن فوائد سے زیادہ کوئی فائدہ حاصل ہؤا ہو جو ہندوؤں ، سکھوں، عیسائیوں اور دوسرے مذاہب والوں کو حکومتِ برطانیہ کے زیر سایہ حاصل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے اندر خدا تعالیٰ نے شکر گزاری کا مادہ رکھا ہے اور اُن کا دل اِس نے سیاہ کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری ناک بیشک کٹ جائے مگر دُشمن پر کسی طرح الزام آجائے اور ہم کہتے ہیں کہ ہماری ناک بھی نہ کٹے اور حکومت کے احسانات کی ناشکرگزاری بھی نہ ہو۔ اِس لئے وہ باوجود فائدہ اُٹھانے کے حکومت کی بغاوت کرتے ہیں مگر ہم جب فائدہ اُٹھاتے ہیں تو حکومت کی تعریف بھی کر دیتے ہیں۔ پس فرق صرف شکر گزاری اور ناشکرگزاری کے جذبات کا ہے۔ ورنہ کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ انگریزی حکومت نے ہمیں کوئی ایسا فائدہ پہنچایا ہو جو ہندوؤں کو نہ پہنچا ہو یا سکھوں کو نہ پہنچا ہو یا یہودیوں کو نہ پہنچا ہو۔ جو سلوک حکومتِ برطانیہ دوسروں کے ساتھ کرتی ہے وہی ہم سے کرتی ہے بلکہ اُن کے ساتھ کچھ زیادہ ہی سلوک کرتی ہے کیونکہ وہ اکثریت میں ہیں اور ہم اقلیت ہیں اور طبعاً اکثریت کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ بہرحال چونکہ حکومتِ برطانیہ نے ہمیں تبلیغ کی عام اجازت دے رکھی ہے اور ایک مذہبی جماعت ہونے کی وجہ سے اِس اجازت کا ہمیں بہت بڑا فائدہ ہے اِس لئے ہم ہرقُربانی کر کے بھی حکومت کا ساتھ دیں گے تاکہ ہماری اِس تبلیغ کی آزادی میں کوئی روک واقع نہ ہو اور اگر یہ جنگ میری زندگی میں ہوئی تو یقینا میں اپنا پورا زور اِس بات پر صَرف کروں گا کہ جس حدتک جماعت احمدیہ اِس نظام کے قیام کے لئے قُربانی کر سکتی ہے اُس حد تک قُربانی کر کے دکھائے تاکہ وہ امن جو تبلیغ کے راستہ میں ہمیں حاصل ہے اِس میں کوئی خلل نہ آئے۔ ہم بے شک اِ س الزام کو ردّ کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ انگریزوں کی ایجنٹ ہے۔ ہم انگریزوں کے ایجنٹ کس طرح ہو سکتے ہیں جب کہ ہم اٹلی میں بھی رہتے ہیں، امریکہ میں بھی رہتے ہیں، چین میں بھی رہتے ہیں، جاپان میں بھی رہتے ہیں اور مصر، شام اور فلسطین وغیرہ میں بھی رہتے ہیںاور ہر جگہ کے احمدی وہاں کی حکومتوں کے ساتھ کامل تعاون کرتے اور ان کے احکام کی اِسی طرح اطاعت اور فرمانبرداری کرتے ہیں جس طرح ہم حکومتِ برطانیہ کی یہاں اطاعت کرتے ہیں۔ ہم یہ کبھی پسند نہیں کر سکتے کہ جرمنی کے ماتحت رہنے والے احمدی جرمنی کی غدّاری کریں یا اٹلی کے ماتحت رہنے والے احمدی اٹلی کی غدّاری کریں یا امریکہ کے ماتحت رہنے والے احمدی امریکہ کی غدّاری کریں۔ ہم ہر جگہ کے احمدیوں کو یہی ہدایت کریں گے کہ وہ اپنی اپنی حکومتوں کے احکام کے تابع رہیں اور جب تک وہ دن نہیں آتا کہ ہر حکومت کے ماتحت رہنے والے احمدی اپنی اپنی حکومتوں کو اِس بات پر مجبور کر سکیں کہ وہ لڑائی نہ کریں اور صلح کے ساتھ رہیں تو اُس وقت تک جس نظام کے ماتحت بھی ہماری جماعت کے افراد رہتے ہوں اُن کا فرض ہے کہ اُس نظام کی اطاعت کریں اور اِسی رنگ میں ہم حکومت برطانیہ کی ہر وقت اطاعت کرتے اور ہر وقت اِس کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ پس ہم انگریزوں کے ایجنٹ نہیں بلکہ ہم اپنی مذہبی تعلیم کی وجہ سے اِس بات پر مجبور ہیں کہ جس حکومت کے ماتحت رہتے ہوں اُس کے احکام کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کریں۔ خواہ وہ حکومت انگریزوں کی ہو اور خواہ اٹلی اور جرمنی والوں کی ہو۔
جب حکومتِ پنجاب کے بعض افسروں کے ساتھ جھگڑا شروع ہؤا تھا اُسی وقت مَیں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ جب مصیبت کا کوئی وقت آیا اُس وقت ہم دکھا دیں گے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کی جو ہماری پالیسی ہے یہ دکھاوے کی نہیں اور نہ کسی دُنیوی غرض کے ماتحت ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے ماتحت ہم حکومت کی اطاعت کرتے ہیں اور چونکہ اب خطرات روز بروز بڑھ رہے ہیں اور اِس بات کا امکان ہے کہ جلدی کوئی جنگ ہو جائے اِس لئے ۱۹۳۴ء میں مَیں نے جو اعلان کیا تھا اُس کے مطابق مَیں آج پھر یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اِس جنگ کے موقع پر ہم جو برطانوی حکومت کے ماتحت رہتے ہیں ہمارا تعاون حکومتِ برطانیہ کے ساتھ ہو گا اور ہم اپنے عمل سے دُنیا پر یہ بات ثابت کر دیں گے کہ ہمارا حکومتِ برطانیہ سے تعاون کسی خوشامد یا لالچ کی وجہ سے نہیں بلکہ مذہبی تعلیم کی وجہ سے ہے کیونکہ اِس وقت اِس کے نمائندے پنجاب میں ہم سے نہایت کمینہ اور ذلیل سلوک کر رہے ہیں جس کی موجودگی میں اگر ہم اِس حکومت سے دُشمنی بھی کریں تو دُنیا کا کوئی اعتراض ہم پر نہیں ہو سکتا لیکن ہم بتانا چاہتے ہیں کہ ہم نے اِس وقت بھی حکومت کی اطاعت کی جب اِس کے شائستہ اور مہذب اور دیانتدار افسروں نے ہم کو لوگوں کے ظلم سے بچایا اور اُس وقت بھی اِس کے ساتھ تعاون کیا جب کہ اِس کے بعض افسروں نے ہمیں اپنے مذہبی مرکز میں دِق کیا اور ہمارے دُشمنوں کو چاروں طرف سے جمع کر کے ہم پر چڑھا لائے اور اُنہوں نے چاہا کہ اپنی طاقت اور اپنے جتھے کے زور سے ہم کو کُچل دیں اور ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں اور انشاء اﷲ ثابت کر دیں گے کہ ہمارا یہ معاملہ کسی دُنیوی غرض کے لئے نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاق اور مذہبی اصول کی پابندی کی وجہ سے ہے۔
مگر اِس کے یہ معنے نہ ہوں گے کہ ہم اپنے حقوق کو بھُول جائیں۔ مَیں احمدیت کی عزّت کی خاطر مقامی افسروں سے اگر وہ اپنے بُرے رویّہ کو ترک نہ کریں گے برابر لڑتا رہوں گا اور جب تک احمدیہ جماعت کی عزّت کو قائم نہ کر لوں گا ان سے صلح نہ کروں گا کیونکہ میرے نزدیک احمدیہ جماعت کی عزّت برطانیہ کی عزّت سے بہت زیادہ ہے اور جو افسر یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنی طاقت کے ساتھ جماعت احمدیہ کو ڈرا لیں گے وہ ایک دن ذلیل ہو کر اپنی غلطی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے۔ مَیں احسان کے ساتھ اِن سے بدلہ لوں گا اور خود اِن کی قوم سے اِن کے خلاف ملامت کا اظہار کروا کے چھوڑ وں گا اِنْشَائَ اﷲُ تَعَالیٰ۔
وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ الَّذِیْ ھُوَ مِرْفَقِیْ وَ مُؤَیِّدِیْ وَ نَاصِرِیْ۔‘‘
(الفضل ۱۷؍فروری ۱۹۳۹ئ)
۱؎ البقرہ: ۱۱۸
۲؎
…(المائدۃ:۱۱۷،۱۱۸)
۳؎ الحجر:۱۰
۴؎ بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الجمعۃ باب قولہٖ و اٰخرین منھم… (الخ)
۵؎ ابو داؤد کتاب الادب باب فی فضل من عال یتامٰی
۶؎ ، ۷؎ ترمذی ابواب البروالصلۃ باب ما جاء فی النفقۃ علی البنات
۸؎ (الرحمٰن :۴۷)
۹؎ (بنی اسرائیل:۷۳)
۱۰؎ ، ۱۱؎ بخاری کتاب الزکوٰۃ باب الاستعفاف عن المسألۃ
۱۲؎ ابن ماجہ کتاب الزکٰوۃ باب کراھیۃ الْمسئلۃ
۵
جماعت میں قومی اور ملّی روح پیدا کریں
تعلیمِ دین پھیلائیںاور جسمانی و دماغی آوارگی کو روکیں۔
(فرمودہ ۱۰؍فروری۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے پچھلے خطبہ میں اِس امر کا ذکر کیا تھا کہ خدام الاحمدیہ جیسی جماعت کا وجود ایک نہایت ہی ضروری اور اہم کام ہے اور نوجوانوں کی درستی اور اصلاح اور اِن کا نیک کاموں میں تسلسل ایک ایسی بات ہے جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مَیں نے بتایا تھا کہ مستورات کی اصلاح کے لئے لجنہ اماء اﷲ کا قیام اور مردوں کی اصلاح کے لئے خدام الاحمدیہ کا قیام گویا دونوں ہی قومی تحریک کے دو بازو ہیں اور تربیت کی تکمیل کے لئے نہایت ضروری امور میں سے ہیں۔ مَیں نے خدام الاحمدیہ کو توجّہ دلائی تھی کہ اُن کو اپنے کام ایک پروگرام کے ماتحت کرنے چاہئیں۔ یہ نہیں کہ بغیر پروگرام کے کام کرتے رہیں کیونکہ اِس طرح بغیر پروگرام کے کام کرنے سے چنداں فائدہ نہیں ہوتا۔
آج مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کو اپنے قریب مستقبل میں اور بعید میں بھی بعض باتیں اپنے پروگرام میں شامل کرنی چاہئیں۔ ممکن ہے ان کے سوا بعد میں بعض اور باتیں بھی شامل ہوتی جائیں لیکن مستقبل قریب میں اِنہیں مندرجہ ذیل باتوں پر خاص توجہ کرنی چاہئے۔ اِن میں سے بعض تو ایسی ہیں کہ وہ ہمیشہ ہی اِن کے کام کے ساتھ وابستہ رہنی چاہئیں اور بعض ایسی ہیں جو مختلف زمانوں میں مختلف شکلیں بدل سکتی ہیں۔ ان کے فرائض میں سے پہلا فرض یہ ہونا چاہئے کہ اپنے ممبروں میں قومی رُوح پیدا کریں۔
’’قوم‘‘ کا لفظ آجکل اتنا بد نام ہو چُکا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اِس سے چِڑ جایا کرتے تھے۔ جب کوئی شخص آپ کے سامنے کہتا کہ ’’ہماری قوم‘’ تو آپ فرماتے کہ ’’ہماری قوم‘‘ کیا ہوتی ہے؟ ’’ہمارا مذہب‘‘ کہنا چاہئے لیکن درحقیقت بات یہ ہے کہ جہاں یہ لفظ نسلی امتیاز پر دلالت کرتا ہے وہاں مذہبی امتیاز پر بھی دلالت کرتا ہے۔۔ چنانچہ خود قرآن کریم میں بھی اِس کی مثال موجود ہے۔ جیسا کہ فرمایا ۱؎ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا اعتراض بوجہ اِس غلط استعمال کے تھا جو آجکل اِس لفظ کا ہو رہا ہے اور جب کسی لفظ کا اِس طرح غلط استعمال عام ہو جائے تو بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب قوم کا لفظ نسلی یا سیاسی جتّھے کے معنوں میں استعمال ہونے لگے اور مذہب کا جتھہ اِس سے مُراد نہ ہو تو اِس کا یہ استعمال قابلِ اعتراض ہے کیونکہ دُنیا میں اسلام کی غرض یہ ہے کہ تمام سیاسی، نسلی اور اقتصادی جتھّوں کو مٹا دے اور بنی نوع انسان میں ایک عام اخوّت کی تعلیم رائج کرے۔ پس اِس لفظ کے غلط استعمال کی وجہ سے اگر کبھی اِس لفظ کو استعمال سے خارج کردیا جائے تو یہ کوئی بُری بات نہیں لیکن اپنے وسیع معنوں میں یہ لفظ بُرا نہیں۔
غرض خدام الاحمدیہ کو یاد رکھنا چاہئے کہ قومی اور ملی رُوح کا پیدا کرنا ان کے ابتدائی اصول میں سے ہے۔ اِس سال جلسہ سالانہ پر میں نے جو تقریر کی تھی اِس میں بتایا تھا کہ نبوت کی پہلی غرض ملّی رُوح کا پیدا کرنا تھا۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کی نبوت اور شریعت کا مرکزی نقطہ ملّی روح کا پیدا کرنا ہی تھا۔ اُس وقت لوگ گناہ سے واقِف نہ تھے اور نہ ہی ثواب کی زیادہ راہیں ابھی تک کھلی تھیں۔
اُس وقت حضرت آدم کی نبوت کی غرض یہی تھی کہ تعاون کی روح جو ایک حد تک اُبھر چکی تھی اُسے مکمل کریں اور اِس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملی رُوح کا سبق وہ سبق ہے جو ہمارے پہلے روحانی باپ نے دیا اور سب سے پہلا الہام جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہؤا وہ ملّی رُوح کے لئے ہی تھا۔ یعنی یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ ۲؎ اے آدم تُو اور تیرے ساتھی جنت میں رہو یعنی اکٹھے مل کر تعاون کے ساتھ رہو اور ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہ کرو۔زَوج کے معنی بیوی کے بھی ہوتے ہیں۔ ۳؎ مگر ساتھی کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ۴؎ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں جہاں یہ لفظ بیوی کے معنوں میں استعمال ہؤا ہے وہاں کئی الہام ایسے ہیں جن میں یہ جماعت کے معنوں میں آیاہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات دراصل قران کریم کی تفسیر ہیں اور الفاظِ قرآنی کے جو معنی اِس زمانہ میں مخفی تھے اﷲ تعالیٰ نے آپ کے الہامات میں اِن کا استعمال کر کے وہ معانی ظاہر فرما دیئے ہیں اور اگر کوئی شخص آپ کے الہامات کا مطالعہ کرتا ہے تو قرآن کریم کی تفسیر میں اُس کا علم بہت وسیع ہو سکتا ہے اور آپ کے الہاموں میں زَوج کا لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہؤا ہے۔ کہیں اِس کے معنی بیوی کے ہیں اور کہیں مخلص جماعت کے اور زَوج کے معنوں میں یہ امتیاز معلوم کرنے کے بعد جب اِسے قرآن کریم کی اِس آیت پر چسپاں کریں تو وسیع مطالب کھل جاتے ہیں۔ غرض یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃ کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ آدم اور اُس کی بیوی جنت میں رہیں۔ مگر اِس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ آدم اور اُس کے مخلص صحابی ایک جگہ مل کر رہیں اور محبت سے رہیں۔ تعاون کا مفہوم جنت کے لفظ سے نکلتا ہے۔ جنت کی تشریح اسلام نے یہ کی ہے کہ دلوں سے کینہ و بُغض نکال دیا جائے گا اور جب یہ حکم ہو کہ جنت میں رہو تو اِس کے یہ معنی ہوں گے کہ اپنی زندگی میں جنت کی کیفیات پیدا کرو اور باہم تعاون کے ساتھ رہو۔ ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ سے بچو، جماعتی نظام کو نمایاں کرو اور شخصی وجود کو اِس کے تابع رکھو اور دراصل اِس کے بغیر حقیقی تعاون کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ حقیقی تعاون کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ انسان شخصی آزادی کو قُربان کر دے۔ دو شخص اکٹھے چل رہے ہیں۔ ایک تیز چلنے والا ہے اور دوسرا کمزور۔ اب دونوں کے اکٹھا چلنے کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ تیز چلنے والا اپنی رفتار کو کم کردے اور آہستہ چلنے لگے کیونکہ کمزور تو تیز نہیں چل سکتا۔ ایک بوڑھا جو لاٹھی ٹیک کر چلتا ہے اور ایک تیز چلنے والا نوجوان اکٹھے چلیں اور بوڑھا یہ اُمید رکھے کہ نوجوان آہستہ چلے اور نوجوان یہ کہ بوڑھا تیز چلے تا دونوں اکٹھے چل سکیں تو تم سمجھ سکتے ہو کہ دونوں میں سے کس کی اُمید جائز سمجھی جائے گی۔ یقینا بوڑھے کی کیونکہ بوڑھا اگر کوشش بھی کرے تو بھی تیز نہیں چل سکتا لیکن نوجوان آہستہ چل سکتا ہے اور اگر چاہے تو اپنی رفتار کو سُست کر کے بوڑھے کو ساتھ لے جاسکتا ہے اور اِس لئے دونوں میں سے وہی مطالبہ صحیح ہو سکتا ہے جو ممکن ہے۔ نوجوان اگر یہ مطالبہ کرے کہ بوڑھا تیز چل کر اِس کے ساتھ ملے تو اِس کا یہ مطالبہ بے وقوفی کا مطالبہ سمجھا جائے گا کیونکہ تیزچلنا بوڑھے کے لئے ممکن ہی نہیں۔ ہاں وہ خود تیز چلنے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی آہستہ چل سکتا ہے لیکن جب یہ ایسا کرتا ہے تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ اپنی آزادی پر قید لگاتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے اِسے طاقت دی ہے کہ چار پانچ میل ایک گھنٹہ میں طے کر جائے مگر چونکہ اِس کا ساتھی بوڑھا ہے اور پون میل سے زیادہ نہیں چل سکتا اِس لئے یہ بھی اپنی رفتار اِتنی ہی کر لیتا ہے اور اتنا ہی چلتا ہے۔ اِس کا اتنی کم رفتار سے چلنا اس کی اپنی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اِس وجہ سے ہے کہ اپنے بوڑھے اور کمزور ساتھی کو بھی ساتھ لے جاسکے اور یہی حقیقی تعاون ہے کہ انسان کو اختیار اور طاقت حاصل ہو، رُتبہ حاصل ہو، روپیہ موجود ہو مگر وہ اُن کے متعلق اپنے اختیارات پر خود قیدیں لگا دے۔ روپیہ خرچ کرنے کے لئے موجود ہو مگر کم خرچ کرے یا اُسے دوسروں کے لئے خرچ کرنے لگے۔موجود ہونے کے باوجود کم خرچ کرنے کی مثال روزہ ہے اور دوسروں کی خاطر خرچ کرنے کی مثال صدقہ ہے۔ روزہ میں کم خرچ کیا جاتا ہے۔ ایک امیر آدمی بھی سب کچھ موجود ہونے کے باوجود اپنی شکل غریبوں کی سی بناتا ہے۔ دراصل سحری کی غرض یہی ہے کہ انسان جو بھی کھاتا ہے چوری چھُپے کھاتا ہے اور جب لوگوں کے سامنے آتا ہے تو ایسی حالت میں کہ اِس کے چہرہ سے فاقہ کشی اور غربت کے آثار ہویدا ہوتے ہیں اور اِس طرح وہ جسے کھانے کو ملتا ہے اور وہ بھی جسے نہیں ملتا سب یکساں نظر آتے ہیں۔ جو کچھ کھانا ہوتا ہے وہ سحری کے وقت ہی کھا لیا جاتا ہے اور ایک دوسرے کے سامنے آنے کے وقت سب کی شکلیں غربت ظاہر کر رہی ہوتی ہیں۔ حج کی بھی یہی صورت ہے سب کے لئے حکم ہے کہ ایک چادر لپیٹ لو اور اِس طرح لباس میں سب تکلفّات، کوٹ، صدری، قمیص، بنیان وغیرہ اُڑ گئیں۔ پھر اِس چادر کی سلائی کو بھی روک دیا کیونکہ سب فیشن دراصل سلائی سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ صرف ایک کپڑاپہننے کی اجازت ہے اور سب کے لئے یہی حکم ہے۔ اِس طرح ہماری شریعت نے دونوں رنگ رکھے ہیں۔ کہیں تو کم خرچ کرنے کو کہا ہے اور کہیں دوسروں کے لئے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔ روپیہ موجود ہے مگر انسان اس کا استعمال نہیں کر سکتا اِس لئے کہ اپنے غریب یا نادار بھائی کے مشابہہ نظر آسکے۔ یا چیز موجود ہے مگر اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دوسرے کو دے دو اور اِسی کا نام ملّی روح ہے۔ یعنی اپنی طاقتوں کو اور ذرائع کو مقیّد اور محدود کر دیا جائے اور اِس ملّی روح کے کمال کا نقطہ یہ ہے کہ انسان کے اندر یہ بات پیدا ہو جائے کہ جہاں میری ذات کا مفاد میری قوم کے مفاد سے ٹکرائے وہاں قومی مفاد کو مقدّم کروں گا اور اپنی ذات کو نظر انداز کردوں گا اور جب کسی جماعت میں یہ بات پیدا ہو جائے تو وہ کسی سے ہارتی نہیں۔ صحابہ کرام ؓکی حالت ہمارے سامنے ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کے لئے صحابہ جو قُربانیاں کرتے تھے وہ بھی دراصل اسلام کے لئے ہی تھیں کیونکہ وہ آپ کو اسلام کا مکمل نمونہ خیال کرتے تھے اور اِس لئے آپ کے مقابلہ میں اپنی شخصیتوں کو بالکل نظر انداز کر دیتے تھے۔مذہبی جماعتوں میں تو رُوح بہت بڑی ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دُنیوی قوموں میں بھی جب یہ بات پیدا ہو جائے تو وہ بہت ترقی کر جاتی ہیں۔ آج کل دیکھ لو انگلستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی یہ موضوع زیر بحث آتا رہتا ہے کہ عورت کا کام کیا ہے؟ بڑے بڑے لوگ ہمیشہ اِس پر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں مگر کیا مجال جو کوئی یہ کہنے کی جرأت کر سکے کہ عورت کا کام یہ ہے کہ وہ گھر کی چاردیواری میں بیٹھے۔ اگر کوئی شخص ایسی بات کہہ دے تو ایک طرف عورتیں اِس کے پیچھے پڑ جائیں گی کہ یہ ہماری آزادی کا دُشمن ہے اور دوسری طرف اخبارات میں مرد اُسے غیر مہذب اور غیر متمدن کہیں گے لیکن جرمنی میں ہٹلر نے کہہ دیا کہ عورت کا کام یہ ہے کہ اپنے گھر میں بیٹھے اور سب نے اِسے تسلیم کر لیا۔ جو بات یہاں ہندوستان میں جو ایک غلام مُلک ہے کہنے کی کوئی جُرأت نہیں کرتا وہ ایک آزاد مُلک میں کہی گئی اور سب نے اِسے بِلاچُون و چرا تسلیم کر لیا۔ حالانکہ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ یورپ میں اِس کا سمجھنا بِالکل ناممکن ہے کہ عورت گھر میں کس طرح رہ سکتی ہے مگر ہٹلر نے جو حکم دیا اُسے سب نے تسلیم کیا اور عمل کیا۔ اگرچہ کوئی ایسا طبقہ ہو سکتا ہے جو دل سے اِس خیال کے ساتھ متفق نہ ہو مگر یہ جُرأت کسی کو نہیں ہوئی کہ مقابلہ پر آئے۔ یہاں بڑے بڑے شہروں مثلاً لاہور، دہلی شملہ میں آئے دن عورت مرد کی مساوات کا شور رہتا ہے۔ مساوات کے یوں تو سب ہی قائل ہیں مگر یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ مساوات ہے کس معاملہ میں؟ حضرت خلیفہ اوّل سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ جموں میں ایک جج اِسی موضوع پر اُن سے بحث کرنے لگا کہ مرد عورت میں مساوات ہونی ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پچھلی مرتبہ آپ کی بیوی کے لڑکا ہؤا تھا اب کے آپ کے ہونا چاہئے۔ یہ جواب سُن کر وہ کہنے لگا کہ مَیں نے سُنا ہؤا تھا مولوی بد تہذیب ہوتے ہیں مگر مَیں آپ کو ایسا نہ سمجھتا تھا لیکن اب معلوم ہؤا کہ آپ بھی ایسے ہی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اِس میں بد تہذیبی کی کوئی بات نہیں۔ مَیں نے تو ایک مثال دی تھی اور آپ کو بتایا تھا کہ جب فطرت نے دونوں کو الگ الگ کاموں کے لئے پیدا کیا ہے تو اِس مساوات کے شور سے کیا فائدہ؟ تھی تو یہ سچائی مگر ایسے ننگے طور پر پیش کی گئی کہ اُسے بُری لگی اور شائد اُس کے حالات کے لحاظ سے حضرت خلیفہ اوّل کے لئے اِس کے سِوا چارہ نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مساوات بے شک ہے مگر دونوں کے کام الگ الگ ہیں۔ اِس بات کو پیش کرنے کی کسی کو جُرأت نہیں ہوتی کیونکہ قومی رُوح موجود نہیں۔ ہر شخص اپنی ذات کو دیکھتا ہے۔ اگر عورتوں کے لئے یہ قُربانی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں تو مرد کے لئے بھی اِس کے مقابلہ میں یہ بات ہے کہ میدانِ جنگ میں جاکر سر کٹوائے لیکن چونکہ قومی اور ملّی رُوح موجود نہیں اِس لئے اِن باتوں کو کوئی پیش کرنے کی جُرأت نہیں کرتا۔
پس خدام الاحمدیہ اِس بات کو اپنے پروگرام میں خاص طور پر ملحوظ رکھیں کہ قومی اور ملّی روح کا پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اصولی طور پر ہر ایک سے یہ اقرار لیا جائے اور اِسے بار بار دُہرایا جائے۔ محض اقرار کافی نہیں ہوتا بلکہ بار بار دُہرانا اشد ضروری ہوتا ہے۔ آج علم النّفس کے ماہر اِس بات پر بڑا زور دیتے ہیں کہ دوہرانے سے بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جاتی ہے لیکن اِن کی یہ بات جب مَیں پڑھتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح آج سے چودہ سَو سال قبل اسلام نے اِسی بات کو پیش کیا ہے۔ اسلام ہی ہے جس نے نہایت مختصر الفاظ میں مذہب کا خلاصہ پیش کر دیا۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْ لُ اﷲِ کیا ہے؟ یہ اسلامی تعلیم کا خلاصہ ہے اور جب مَیں علم النفس کا یہ مسئلہ پڑھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ یہ لوگ آج تحقیقاتیں کر رہے ہیں۔ ہِٹلرآج کہتا ہے لیکن محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے چودہ سَو سال قبل یہ نکتہ بتا دیا تھا۔ ہٹلر نے اپنی تصنیف میں لکھا ہے کہ مَیں نے قومی ترقی کے ذرائع پر بڑا غور کیا اور آخر مَیں اِس نتیجہ پر پہنچا کہ قومی ترقی کے اسباب کو تھوڑے سے تھوڑے لفظوں میں بیان کرنا چاہئے جو بار بار لوگوں کے سامنے آتے رہیں اور وہ انہیں بار بار دُہراتے رہیں۔ اِس طرح وہ انسانی دماغ میں جذب ہو جائیں گے لیکن اسلام میں یہ بات پہلے ہی سے موجود ہے۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْ لُ اﷲِکیا ہے؟ یہ اسلام کی تعلیم کا خلاصہ ہے۔ اِسے نمازوں میں اذانوں میں، اسلام لانے کے وقت غرضیکہ بار بار دُہرانے کا حکم ہے اور اِس طرح بار بار جو چیز دُہرائی جائے وہ زیادہ سے زیادہ پختہ وہ جاتی ہے۔
پس خدام الاحمدیہ کو بھی چاہئے کہ اِن کو چھوٹے سے چھوٹے فقروں میں لائیں اور پھر ہر میٹنگ کے موقع پر بار بار اِن کو دُہرایا جائے۔ مثلاً یہ فقرہ ہو سکتا ہے کہ مَیں اپنی جان کی اسلامی اور ملّی فوائد کے مقابلہ میں کوئی پرواہ نہیں کروں گا۔ جب کوئی مجلس ہو ہر شخص باری باری پہلے اِسے دُہرائے اور پھر کام شروع ہو۔ اِسی طرح جب ختم ہو تو بھی اِسے دُہرایا جائے اور اِس طریق سے یہ بات دماغ میں جذب ہو سکتی ہے۔ بعض نادان خیال کر لیتے ہیں کہ قواعد میں کوئی بات رکھ دینا ہی کافی ہوتا ہے اور اِس طرح وہ دل میں داخل ہو جاتی ہے۔ حالانکہ یہ بات فطرت انسانی کے بالکل خلاف ہے۔ اگر ایسا ہو سکتا تو اسلام کی تعلیم کے خلاصہ کے بار بار دُہرائے جانے کا حکم دینے کی کیا ضرورت تھی؟
پس اِس قسم کا کوئی فقرہ بنایا جائے اور ایسا انتظام کیا جائے کہ وہ بار بار دُہرایا جاتا رہے مثلاًیہ کہ میں جماعتی اور ملّی ضرورتوں کے مقابلے میں اپنی جان و مال اور کسی چیز کی کوئی پروا نہ کروں گا۔ اور پھر ایسا انتظام ہو کہ اِسے بار بار دُہرایا جائے۔ ایسے فقروں کو بار بار دُہرانے سے ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ذہنیتوں میں ایسی تبدیلی ہو جائے گی کہ بعض اوقات مخلصوں میں بھی بغاوت کا جو مادہ پیدا ہو جاتا ہے اُس کا احتمال نہیں رہے گا۔ دیکھو اسلام نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْ لُ اﷲِکو بار بار دُہرانے کا جو حکم دیا ہے اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ کبھی کوئی مسلمان یہ نہیں کہے گا کہ مَیں خدا کو نہیں مانتا یا میں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو نہیں مانتا۔ آپ کو کئی ایسے مسلمان ملیں گے جو کہہ دیں گے کہ جاؤ مَیں روزہ نہیں رکھتا، مَیں نماز نہیں پڑھتا مگر ایسا کوئی شخص جو اپنے آپ کو مسلمان بھی سمجھتا ہو نہیں ملے گا جو کہے کہ مَیں خدا کو نہیں مانتا یا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہیں مانتا۔ اِس لئے کہ نماز اور روزہ کی تعلیم بار بار اِس کے سامنے دُہرائی نہیں گئی مگر لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْ لُ اﷲِ بار بار دُہرایا جاتا رہا ہے۔ پس خدام الاحمدیہ انفرادی رُوح کی ملّی روح پر قُربان کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے تمام ذرائع استعمال کریں اور اِس کے لئے کوئی موزوں فقرہ بھی بنایا جائے جو کام شروع کرتے وقت بھی اور ختم کرتے وقت بھی دُہرایا جائے اور نعرے بھی لگائے جائیں لیکن ایک بات کا خیال رکھا جائے کہ قومی رُوح توحیدِ باری کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔اِس لئے ایسے فقرہ میں توحید کا اقرار بھی ہو اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کا بھی اور پھر وہ چھوٹا بھی ہو اور ہر موقع پر اُسے باربار دُہرانے کا انتظام بھی کیا جائے۔ پھر جب بھی کوئی جماعتی تحریک ہو وہ اپنے نوجوانوں کا جائزہ لیتے رہیں کہ اِس میں اُنہوں نے کیا حصّہ لیا ہے۔ سب اپنے اپنے ہاں کام کریں مگر ان سب سے رپورٹ لی جائے کہ کیا کیا ہے؟ اِس طرح بھی کام کرنے کی ایک رَو پیدا ہوتی ہے اور پہلے جو غفلت کر رہے ہوتے ہیں اُن کوبھی توجّہ پیدا ہو جاتی ہے۔
دوسری بات جو اُنہیں اپنے پروگرام میں شامل کرنی چاہئے وہ اسلامی تعلیم سے واقفیت پیدا کرنا ہے۔ یہ ایک مذہبی انجمن ہے سیاسی نہیں اور اِس لئے اصل پروگرام یہی ہے باقی چیزیں تو ہم حالات اور ضروریات کے مطابق لے لیتے یا ملتوی کر دیتے ہیں لیکن ہمارا اصل پروگرام تو وہی ہے جو قرآن کریم میں ہے۔ لجنہ اماء اﷲ ہو، مجلس انصار ہو، خدام الاحمدیہ ہو، نیشنل لیگ ہو، غرض کہ ہماری کوئی انجمن ہو اس کا پروگرام قرآن کریم ہی ہے اور جب ہر ایک احمدی یہی سمجھتا ہے کہ قرآن کریم میں سب ہدایات دے دی گئی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی مُضِرّنہیں تو اس کے سِوا اَور کوئی پروگرام ہو ہی کیا سکتا ہے؟ حقیقت یہی ہے کہ اصل پرگرام تو وہی ہے۔ اِس میں سے حالات اور اپنی ضروریات کے مطابق بعض چیزوں پر زور دے دیا جاتا ہے لیکن جب روزے رکھے جا رہے ہوں تو اُس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ حج منسوخ ہو گیا بلکہ چونکہ وہ دن روزوں کے ہوتے ہیں اس لئے روزے رکھے جاتے ہیں۔ جب ہم کوئی پروگرام تجویز کرتے ہیں تو اِس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ اِس وقت یہ امراض پیدا ہو گئے ہیں اور اِن کے لئے یہ قرآنی نسخے ہم استعمال کرتے ہیں اور یہ اِسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ سارا پروگرام سامنے ہواور اِس میں سے حالات کے مطابق باتیں لے لی جائیں لیکن اگر سارا پروگرام سامنے نہ ہو تو اس کا ایک نَقص یہ ہو گا کہ صرف چند باتوں کو دین سمجھ لیا جائے گا۔
پس خدام الاحمدیہ کا اہم فرض یہ ہے کہ اپنے ممبروں میں قرآن کریم باترجمہ پڑھنے اور پڑھانے کا انتظام کریں اور چونکہ وہ خدام الاحمدیہ ہیں صرف اپنی خدمت کے لئے ان کا وجود نہیں۔ اِس لئے جماعت کے اندر قرآن کریم کی تعلیم کو رائج کرنا اِن کے پروگرام کا خاص حصّہ ہونا چاہئے۔ تیسری بات جو اِن کے پروگرام میں ہونی چاہئے وہ آوارگی کا مٹانا ہے۔ آوارگی بچپن میں پیدا ہوتی ہے اور یہ سب بیماریوں کی جڑ ہوتی ہے اِس کی بڑی ذمّہ داری والدین اور استادوں پر ہوتی ہے۔ وہ چونکہ احتیاط نہیں کرتے اِس لئے بچے اِس میں مُبتلا ہو جاتے ہیں۔ دیکھو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِس کے مٹانے کے لئے کتنا انتظام کیا ہے کہ فرمایا بچے کے پیدا ہوتے ہی اِس کے کان میں اذان اور تکبیر کہی جائے۵؎ اور اِس طرح عمل سے بتا دیا کہ بچہ کی تربیت چھوٹی عمر سے شروع ہونی چاہئے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ بچوں کو مساجد اور عیدگاہوں میں ساتھ لے جانا چاہئے۔۶؎ خود آپ کا اپنا طریق بھی یہی تھا۔ آجکل تو یہ حالت ہے کہ سترہ اٹھارہ سال کے نوجوان بھی بیہودہ حرکت کریں تو والدین کہہ دیتے ہیں کہ ابھی ’’نیانا‘‘ یعنی کم عمر ہے لیکن ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عباسؓ حدیثیں سُناتے ہیں جبکہ اُن کی عمر صرف تیرہ سال کی ہے۔ امام مالک کے درس میں امام شافعی شریک ہونے کے لئے گئے اُن کے درس میں بیٹھنے کے لئے یہ ضروری شرط تھی کہ طالبعلم قلم دوات لے کر بیٹھے اور جو کچھ وہ بتائیں نوٹ کرتا جائے۔امام شافعی کی عمر اُس وقت صرف نو سال کی تھی۔ امام مالکؒ ۸؎نے اِنہیں بیٹھے دیکھا تو کہا بچے تم کیوں بیٹھے ہو؟ امام شافعی نے جواب دیا کہ درس میں شامل ہونے کے لئے آیا ہوں۔ آپ نے پوچھا کہ اب تک کیاپڑھا ہے؟ اُنہوں نے بتایا کہ یہ یہ پڑھ چُکا ہوں۔ اِس پر امام مالکؒ نے کہا کہ تم بہت کچھ پڑھ چکے ہو مگر میرے درس میں بیٹھنے کا یہ طریق نہیں۔ یہاں تو قلم دوات لے کر بیٹھنا چاہئے۔ امام شافعی نے کہا کہ مَیں کل بھی بیٹھا تھا آپ دوسرے طلباء سے مقابلہ کرالیں۔ امام صاحب نے سوال کیا اور اُنہوں نے ٹھیک جواب دیا۔ امام صاحب کی عادت تھی کہ اگلے روز نوٹوں کو سُنتے اور کوئی غلطی ہوتی تو اُس کی اصلاح کر دیتے تھے۔ اس دن جو اُنہوں نے گزشتہ نوٹ سُننے شروع کئے تو جب پڑھنے والا غلطی کرتا امام شافعی جھٹ اس کو ٹوک دیتے کہ امام صاحب نے یوں نہیں بلکہ یوں فرمایا تھا۔ چنانچہ امام مالک نے اُن کو بغیر قلم دوات کے اپنے درس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی حالانکہ اَور کسی کو اِس کی اجازت نہ تھی۔ یہ بات کیوں تھی؟ اِس لئے کہ ماں باپ نے شروع میں ہی اِن کو علم کے حصول میں لگا دیا تھا مگر ہمارا ’’نیانا پن‘‘ یعنی بچپن اٹھارہ بیس سال تک نہیں جاتا۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مُلک میں عمر کے دو ہی حصّے سمجھے جاتے ہیں۔ ایک وہ جب بچہ سمجھا جاتا ہے اور ایک وہ جب وہ بے کار بوڑھا ہوتا ہے اور اِس طرح کام کا کوئی وقت آتا ہی نہیں۔ ایک دفعہ ایک عورت جس کی عمر کوئی پینسٹھ سال کی ہو گی مجھ سے کوئی بات کر رہی تھی اور بار بار کہتی تھی کہ ’’ساڈے یتیماں تے رحم کرو‘‘ یعنی ہم یتیموں پر رحم کریں۔ یہ کوئی پانچ سات سال کی بات ہے اور اِس وقت اِس کی عمر ۶۵ سال کی ہو گی تو گویا ہمارے ہاں یا تو آدمی بچہ ہوتا ہے اور یا پِیرفرتوت جسے پنجابی میں سترا بہترا کہتے ہیں۔ یہ بہت حماقت کی بات ہے کہ بچوں کو چھوٹا سمجھ کر انہیں آوارہ ہونے دیا جائے۔ اگر بچوں سے صحیح طور پر کام لیا جائے تو وہ کبھی آوارہ ہو ہی نہیں سکتے۔ اگر انہیں گلیوں اور بازاروں میں آوارہ پھرنے کی بجائے مجلسوں میں بٹھایا جائے تو بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ میری تعلیم کچھ بھی نہ تھی لیکن یہ بات تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں جا بیٹھتا تھا، حضرت خلیفۂ اوّل کی مجلس میں چلا جاتا تھا، کھیلا بھی کرتا تھا ۔ مجھے شکار کا شوق تھا، فٹ بال بھی کھیل لیتا تھا لیکن گلیوں میں بیکار نہیں پھرتا تھا بلکہ اُس وقت مجلسوں میں بیٹھتا تھا اور اِس کا نتیجہ یہ تھا کہ بڑی بڑی کتابیں پڑھنے والوں سے میرا علم خدا تعالیٰ کے فضل سے زیادہ تھا۔ علم گدھوں کی طرح کتابیں لاد لینے سے نہیں آجاتا۔ آوارگی کو دور کرنے سے علم بڑھتا ہے اور ذہن میں تیزی پیدا ہوتی ہے۔
پس اَساتذہ ،افسران تعلیم اور خدام الاحمدیہ کا یہ فرض ہے کہ بچوں سے آوارگی کو دُور کریں یہ آوارگی کا ہی اثر ہے کہ اِدھر ہم نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں اور اُدھر گلی میں بچے گالیاں بک رہے ہوتے ہیں۔ اگر تو وہ نماز ہی نہیں پڑھتے تو دُہرے مُجرم ہیں۔ نہیں تو یہی جُرم کافی ہے، فحش گالیاں ماں بہن کی وہ بکتے ہیں اور کسی شریف آدمی کو خیال نہیں آتا کہ اُن کو روکے۔ مسجدمبارک کے سامنے کھیلنے والے بچے ۹۰،۹۵ فیصدی احمدیوں کے بچے ہی ہو سکتے ہیں۔ تھوڑے سے غیروں کے بھی ہوتے ہوں گے مگر مَیں نے اپنے کانوں سے سُنا ہے احمدیوں کے بچے گالیاں دے رہے ہوتے ہیں اور اُن کے ماں باپ اور اساتذہ کو احساس تک نہیں ہوتا کہ اُن کی اصلاح کریں۔ پھر مَیں نے دیکھا ہے مدرسہ احمدیہ کے طلباء گلیوں میں سے گزرتے ہیں تو گاتے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ وقار کے سخت خلاف ہے اور اِس کے یہ معنے ہیں کہ شرم و حیا جو دین کا حصّہ ہے بالکل جاتی رہی ہے۔ پھر مَیں نے دیکھا ہے نوجوان ایک دوسرے کی گردن میں باہیں اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلے جارہے ہیں۔ حالانکہ یہ سب باتیں وقار کے خلاف ہیں۔ مجھے یاد ہے میرا ایک دوست تھا بچپن میں ایک دفعہ ہم دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے بیٹھے تھے کہ حضرت خلیفہ اوّل نے دیکھا۔ میری تو آپ بہت عزّت کیا کرتے تھے اِس لئے مجھے تو کچھ نہ کہا لیکن اُس کو اِس قدر ڈانٹا کہ مجھے بھی سبق حاصل ہو گیا۔ ہمارے مُلک میں کہتے ہیں کہ ’’تی اے نی مَیں تینوں کہاں نُو ایں نی تُوں کَن رکھ‘‘۔ یعنی بات تو مَیں اپنی لڑکی سے کہتی ہوں مگر بہو اِسے غور سے سُنے۔ اِسی طرح حضرت خلیفہ اوّل نے اُسے ڈانٹا مگر مجھے بھی سبق ہو گیا کہ یہ بری بات ہے۔
مَیں نے دیکھا ہے کہ نوجوانوں کو اسلامی آداب سکھانے کی طرف توجہ ہی نہیں کی جاتی۔ نوجوان بے تکلفّانہ ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں ڈالے پھر رہے ہوتے ہیں حتّٰی کہ میرے سامنے بھی ایسا کرنے میں انہیں کوئی باک نہیں ہوتا۔ کیونکہ اُن کو یہ احساس ہی نہیں کہ یہ کوئی بُری بات ہے۔ اِن کے ماں باپ اور اَساتذہ نے اِن کی اصلاح کی طرف کبھی کوئی توجہ ہی نہیں کی۔ حالانکہ یہ چیزیں انسانی زندگی پربہت گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کی بچپن میں تربیت کا اب تک مجھ پر اثر ہے اور جب وہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیار اُن کے لئے دل سے دُعا نکلتی ہے۔ ایک دفعہ میں ایک لڑکے کے کندھے پر کُہنی ٹیک کر کھڑا تھا کہ ماسٹر قادر بخش صاحب نے جو مولوی عبدالرحیم صاحب دردؔ کے والد تھے اِس سے منع کیا اور کہا کہ یہ بہت بُری بات ہے۔ اُس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہو گی لیکن وہ نقشہ جب بھی میرے سامنے آتا ہے اُن کے لئے دِل سے دُعا نکلتی ہے۔
اِسی طرح ایک صوبیدار صاحب مُراد آباد کے رہنے والے تھے اُن کی ایک بات بھی مجھے یاد ہے۔ ہماری والدہ چونکہ دلّی کی ہیں اور دلّی بلکہ لکھنؤ میں بھی ’’تم‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ بزرگوں کو بے شک آپ کہتے ہیں لیکن ہماری والدہ کے کوئی بزرگ چونکہ یہاں تھے نہیں کہ ہم اِن سے ’’آپ‘‘ کہہ کر کسی کو مخاطب کرنا بھی سیکھ سکتے۔ اِس لئے مَیں دس گیارہ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ’’تم‘‘ ہی کہا کرتا تھا۔ اﷲ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے اور ان کے مدارج بلند کرے۔ صوبیدار محمد ایوب خان صاحب مُراد آباد کے رہنے والے تھے۔ گورداسپور میں مقدمہ تھا اور مَیں نے بات کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تم کہہ دیا۔ وہ صوبیدار صاحب مجھے الگ لے گئے اور کہا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ہیں اور ہمارے لئے محلِّ ادب ہیں لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ ’’تم‘‘ کا لفظ برابر والوں کے لئے بولا جاتا ہے بزرگوں کے لئے نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے اِس کا استعمال مَیں بالکل برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ پہلا سبق تھا جو اُنہوں نے اِس بارہ میں مجھے دیا۔ پس بڑوں کا فرض ہے کہ چھوٹوں کو یہ آداب سکھائیں۔ اگر ایک ہی شخص کہے تو ان پر اثر نہیں ہوتا۔ بچے سمجھتے ہیں یہ ضدی سا آدمی ہے یونہی ایسی باتیں کرتا رہتا ہے۔ اگر باپ کہے اور ماں نہ کہے تو سمجھتے ہیں باپ ظالم ہے۔ اگر یہ اچھی بات ہوتی تو ماں کیوں نہ کہتی۔ اگر ماں باپ کہیں اور اُستاد نہ کہے تو سمجھتے ہیں اگر یہ اچھی بات ہوتی تو اُستاد کیوں نہ کہتا اور اگر اُستاد بھی کہے اور دوسرا کوئی نہ کہے تو سمجھتے ہیں اگر یہ اچھی بات ہوتی تو کوئی دوسرا شخص کیوں نہ کہتا لیکن اگر ماں باپ بھی کہیں، اُستاد بھی کہیں اور دوسرے لوگ بھی کہتے رہیں تو وہ بات ضرور دِل میں راسخ ہو جاتی ہے۔
ایک چھوٹا سا ادب خطبہ کو توجہ سے سُننا ہے اور مَیں کئی بار اِس کی طرف توجہ بھی دِلا چُکا ہوں مگر مَیں نے دیکھا ہے لوگ برابر باتیں اور اشارے کرتے رہتے ہیں اور اَساتذہ یا دوسرے لوگ کوئی اخلاقی دباؤ نہیں ڈالتے کہ جس سے اصلاح ہو۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ عادت ہمیشہ ہی چلتی چلی جاتی ہے۔ ایک دفعہ مَیں نے دیکھا مَیں خطبہ پڑھ رہا تھا۔ ایک شخص کو مَیں قریباً پندرہ منٹ تک دیکھتا رہا کہ وہ اپنے ایک بعد میں آنے والے دوست کو برابر اشارے کرتا رہا کہ آگے آجاؤ۔ اگر بچپن میں ماں باپ یا اُستاد یا دوسرے لوگ اُسے یہ بتاتے کہ یہ ناجائز ہے اور کہ جب تمہاری اپنی ہدایت کا سوال پیدا ہو جائے تو دوسرے کو گمراہی سے بچانے کا موقع نہیں ہوتا تو وہ اِس گناہ کا مُرتکب نہ ہوتا۔ یہ اِس جوش کی وجہ سے کہ دوست آگے آجائے اور خطبہ سُن لے اُسے اشارے کرتا تھا لیکن وہ شرم کی وجہ سے آگے نہ بڑھتا تھا اور اگر یہ مسئلہ بچپن سے ہی اِس کے ذہن نشین ہوتا تو کبھی دوسری طرف اِس کی نظر ہی خطبہ کے دوران میں نہ اُٹھتی اور اِس طرح کسی کو اشارے کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا اور یہ دوسرے کی ہدایت کے جوش میں خود گمراہی کا مُرتکب نہ ہوتا۔ یہ تربیت سے تعلق رکھنے والے مسائل ہیں اور اِن سے آوارگی دور ہوتی ہے۔ پھر بچہ کو بر وقت کسی نہ کسی کا م میں لگائے رکھنا چاہئے۔ مَیں کھیل کو بھی کام ہی سمجھتا ہوں یہ کوئی آوارگی نہیں۔ آوارگی میرے نزدیک فارغ اور بیکار بیٹھنے کا نام ہے یا اِس چیز کا کہ بانہوں میں بانہیں ڈال لیں اور گلیوں میں پھرتے رہے۔ اِس بات کا اچھی طرح خیال رکھنا چاہئے کہ بچے یا پڑھیں یا کھیلیں یا کھائیں اور یا سوئیں، کھیل آوارگی نہیں۔ اِس لئے اگر وہ دس گھنٹے بھی کھیلتے ہیں تو کھیلنے دو۔ اِس سے ان کا جسم مضبوط ہو گا اور آوارگی بھی پیدا نہ ہو گی۔ پس کھیلنا بھی ایک کام ہے جس طرح کھانا اور سونا بھی کام ہے مگر خالی بیٹھنا اور باتیں کرتے رہنا آوارگی ہے۔ اِس لئے خدام الاحمدیہ کو کوشش کرنی چاہئے کہ جماعت کے بچوں میں یہ آوارگی پیدا نہ ہو۔ کسی کو یونہی پھرتے دیکھیں تو اِس سے پوچھیں کہ کیوں پھر رہا ہے۔ اگر باز نہ آئے تو محلہ کے پریذیڈنٹ کو رپورٹ کریں اور ان سب باتوں کے لئے اصول وضع کریں جن کے ماتحت کام ہو۔ مَیں نے دیکھا ہے کئی لوگ گھنٹوں دکانوں پر بیٹھے فضول باتیں کرتے رہتے ہیں حالانکہ اگر اُسی وقت کو وہ تبلیغ میں صرف کریں تو کئی لوگوں کو احمدی بنا سکتے ہیں لیکن فضول وقت ضائع کر دیتے ہیں اور اگر کام کے لئے پوچھا جائے تو کہہ دیتے ہیں کہ فُرصت نہیں۔ حالانکہ اگر فُرصت نہیں ہوتی تو دکانوں پر کس طرح بیٹھے باتیں کرتے رہتے ہیں؟ ایک اَور ذریعہ اصلاح کا یہ بھی ہے کہ بیٹھ کر علمی اور دینی باتیں کی جائیں۔اچھے انداز میں گفتگو کرنا بھی ایک خاص فن ہے۔ ایسی مجلسوں میں علمی اور دینی باتیں ہوں لیکن بحث مباحثہ نہ ہو۔ اس چیز کو بھی مَیں آوارگی سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک یہ بات سب سے زیادہ دل پر زنگ لگانے والی ہے۔ مباحثہ کرنے والوں کے مدّنظر تقویٰ نہیں بلکہ مدّمقابل کو چُپ کرنا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مَیں ہمیشہ مباحثات سے بچتا ہوں اور میری تو یہ عادت ہے کہ اگر کوئی مباحثانہ رنگ میں سوال کرے تو ابتدا میں ایسا جواب دیتا ہوں کہ کئی لوگوں نے کہا ہے کہ اُنہوں نے کسی سوال پر پہلے پہل میرا جواب سُن کر یہ خیال کیا کہ شائد میں جواب نہیں دے سکتا اور دراصل ٹالنے کی کوشش کرتا ہوں مگر جب کوئی پیچھے ہی پڑجائے تو مَیں جواب کی ضرورت محسوس کرتا ہوں اور پھر خداتعالیٰ کے فضل سے ایساجواب دیتا ہوں کہ وہ بھی اپنی غلطی محسوس کر لیتا ہے۔ یاد رکھو سچائی کے لئے کسی بحث کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مَیں نے ہمیشہ ایسی باتوں سے روکا ہے۔ ڈیبیٹنگ کلبیں بھی میرے نزدیک آوارگی کی ایک شاخ ہے اور مَیں اِس سے ہمیشہ روکتا رہتا ہوں لیکن یہ چیز بھی کچھ ایسی راسِخ ہو چکی ہے کہ برابر جاری ہے حالانکہ اِس سے دل پر سخت زنگ لگ جاتا ہے۔ ایک شخص کسی چیز کو مانتا نہیں مگر اِس کی تائید میں دلائل دیتا جاتا ہے تو اِس سے دِل پر زنگ لگنا لازمی امر ہے۔ مجھے ایک واقعہ یاد ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طریق ایمان کو خراب کرنے والا ہے۔ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سُنایا کہ مولوی بشیر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت مؤیِّد اور مَیں مخالف تھا۔ مولوی بشیر صاحب ہمیشہ دوسروں کو براہین احمدیہ پڑھنے کی تلقین کرتے اور کہا کرتے تھے کہ یہ شخص مجدد ہے۔ آخر مَیں نے ان سے کہا کہ آؤ مباحثہ کر لیتے ہیں مگر آپ تو چونکہ مؤیِّد ہیں، آپ مخالفانہ نقطۂ نگاہ سے کتابیں پڑھیں اور مَیں مخالف ہوں اِس لئے موافقانہ نقطہ نگاہ سے پڑھوں گا۔ سات آٹھ دن کتابوں کے مطالعہ کے لئے مقرر ہو گئے اور دونوں نے کتابوں کا مطالعہ کیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ مَیں جو مخالف تھا احمدی ہو گیا اور وہ جو قریب تھے بالکل دُور چلے گئے۔ اِن کی سمجھ میں بات آگئی اور اِن کے دل سے ایمان جاتا رہا۔ تو علم النفس کے رو سے ڈیبیٹس کرنا سخت مُضِر ہے اور بعض اوقات سخت نقصان کا موجب ہو جاتا ہے۔ یہ ایسے باریک مسائل ہیں جن کو سمجھنے کی ہر مدرِّس اہلیت نہیں رکھتا۔ ابھی تھوڑا عرصہ ہؤا یہاں ایک ڈیبیٹ ہوئی اور جس کی شکایت مجھ تک بھی پہنچی تھی اِس میں اِس امر پر بحث تھی کہ ہندوستان کے لئے مخلوط انتخاب چاہئے یا جُداگانہ؟ حالانکہ مَیں اِس کے متعلق اپنی رائے ظاہر کر چکا ہوں اور یہ سُوئِ ادبی ہے کہ اِس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ مَیں ایک امر کے متعلق اپنی رائے ظاہر کر چُکا ہوں پھر اِس کو زیر بحث لایا جائے۔ جن امور میں خدا تعالیٰ یا اُس کے رسول یا اُس کے خلفاء اظہار رائے کر چکے ہوں ان کے متعلق بحث کرنا گستاخی اور بے ادبی میں داخل ہے۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ تو محض کھیل ہے لیکن کیا کوئی کھیل کے طور پر اپنے باپ کے سر میں جوتیاں مار سکتا ہے۔ تو ڈیبیٹس سے زیادہ حماقت کی کوئی بات نہیں۔ ہر احمدی وفاتِ مسیح کا قائل ہے مگر ڈیبیٹ کے لئے بعض حیاتِ مسیح کے دلائل دینے لگتے ہیں۔ مَیں تو ایسے شخص سے یہی کہوں گا کہ بے حیا خدا تعالیٰ نے تجھے ایمان دیا تھا مگر تو کُفر کی چادر اوڑھنا چاہتا ہے۔ پس یہ ڈیبیٹس بھی آوارگی میں داخل ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ نے تمہیں یہ توفیق دی ہے کہ حق بات کو تم نے مان لیا تو اُس کا شکریہ ادا کرو نہ کہ خواہ مخواہ اُس کی تردید کرو۔ بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ اِس سے عقل بڑھتی ہے لیکن اِس عقل کے بڑھانے کو کیا کرنا ہے جس سے ایمان جاتا رہے۔ دونوں باتوں کا موازنہ کرنا چاہئے۔ اگر ساری دُنیا کی عقل مل جائے اور ایمان کے پہاڑ میں سے ایک ذرّہ بھی کم ہو جائے تو اِس عقل کو کیا کرنا ہے۔ یہ کوئی نفع نہیں بلکہ سراسر خُسران اور تباہی ہے۔ پس یہ بھی آوارگی میں داخل ہے اور مَیں نے کئی دفعہ اِس سے روکا ہے۔ مگر پھر بھی ڈیبیٹس ہوتی رہتی ہیں۔ جس طرح کوڑی کو خارش ہوتی ہے اور وہ رہ نہیں سکتا اِسی طرح اِن لوگوں کو بھی کچھ ایسی خارش ہوتی ہے کہ جب تک ڈیبیٹ نہ کرالیں چین نہیں آتا اور پھر دینی اور مذہبی مسائل کے متعلق بھی ڈیبیٹیں ہوتی رہتی ہیں۔ حالانکہ وہ تمام مسائل جن کی صداقتوں کے ہم قائل ہیں یا جن میں سلسلہ اظہار رائے کر چُکا ہے ان پر بحث کرنا دماغی آوارگی ہے اور حقیقی ذہانت کے لئے سخت مُضِر ہے۔ مَیں نے سَو دفعہ بتایا ہے کہ اگر اِس کی بجائے یہ کیا جائے کہ دوست اپنی اپنی جگہ مطالعہ کر کے آئیں اور پھر ایک مجلس میں جمع ہو کر یہ بتائیں کہ فلاں مخالف نے یہ اعتراض کیا ہے۔ بجائے اِس کے کہ یہ کہیں کہ مَیں یہ اعتراض فلاں مسئلہ پر کرتا ہوں۔ اگر مولوی ثناء اﷲ صاحب یا مولوی ابراہیم صاحب یا کسی اور مخالف کے اعتراض پیش کئے جائیں اور پھر سب مل کر جواب دیں اور خود اعتراض پیش کرنے والا بھی جواب دے تو یہ طریق بہت مُفید ہو سکتا ہے مگر ایسا نہیں کیا جاتا بلکہ ڈیبیٹوں کو ضروری سمجھا جاتا ہے اور انگریزوں کی نقل کی جاتی ہے کہ ’’ہاؤس‘‘ یہ کہتا ہے۔ ہماری مجلس شوریٰ میں بھی یہ ’’ہاؤس‘‘ کا لفظ داخل ہو گیا تھا مگر مَیں نے تنبیہہ کی اِس پر وہاں سے تو نکل گیا ہے مگر مدرسوں میں رواج پکڑ رہا ہے۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ اِس طرح کہنے سے اِس بات میں کون سا سُرخاب کا پر لگ جاتاہے۔۷؎ سیدھی طرح کیوں نہیں کہہ دیا جاتا کہ جماعت کی یہ رائے ہے۔ اِس کے یہ معنے ہیں کہ دماغ کو کُفر کی کاسہ لیسی میں لذّت اور سرور حاصل ہوتا ہے۔
پس خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ اِس قسم کی آوارگیوں کو خواہ وہ دماغی ہوں یا جسمانی روکیں اور دُور کریں۔ کھیلنا آوارگی میں داخل نہیں۔ ایک دفعہ مجھے رؤیا میں بتایا گیا ایک شخص نے خواب میں ہی مجھے کہا کہ فلاں شخص ورزش کر کے وقت ضائع کرتا ہے اور مَیں رؤیا میں ہی اِسے جواب دیتا ہوں کہ یہ وقت کا ضیاع نہیں۔ جب کوئی اپنے قویٰ کا خیال نہیں رکھتا تو دینی خدمات میں پوری طرح حصّہ نہیں لے سکتا۔ اِس میں اﷲ تعالیٰ نے مجھے سبق دیا تھا کیونکہ مجھے ورزش کا خیال نہیں تھا تو ورزش بھی کام ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مونگریاں اور مُگدَر پھیرا کرتے تھے۔ بلکہ وفات سے سال دو سال قبل مجھے فرمایا کہ کہیں سے مونگریاں تلاش کرو جسم میں کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ مَیں نے کسی سے لا کر دیں اور آپ کچھ دن انہیں پھیراتے رہے بلکہ مجھے بھی بتاتے تھے کہ اِس اِس رنگ میں اگر پھیری جائیں تو زیادہ مُفید ہیں۔ پس ورزش انسان کے کاموں کا حصّہ ہے۔ ہاں گلیوں میں بے کار پھرنا، بے کار بیٹھے باتیں کرنا اور بحثیں کرنا آوارگی ہے اور ان کا انسداد خدام الاحمدیہ کا فرض ہے۔ اگر تم لوگ دُنیا کو وعظ کرتے پھرو لیکن احمدی بچے آوارہ پھرتے رہیں تو تمہاری سب کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ پس تمہارا فرض ہے کہ ان باتوں کو روکو، دکانوں پر بیٹھ کر وقت ضائع کرنے والوں کو منع کرو اور کوئی نہ مانے تو اُس کے ماں باپ ، اُستادوں کو اور محلہ کے افسروں کو رپورٹ کرو کہ فلاں شخص آوارہ پھرتا یا فارغ بیٹھ کر وقت ضائع کرتا ہے۔ پہلے پہل لوگ تمہیں گالیاں دیں گے، بُرا بھلا کہیں گے اور کہیں گے کہ آگئے ہیں خدائی فوجدار اور طنزیہ رنگ میں کہیں گے کہ بس پکے احمدی تو یہ ہیں ہم تو یونہی ہیں لیکن آخر وہ اپنی اصلاح پر مجبور ہوں گے اور پھر تمہیں دُعائیں دیں گے۔ جیساکہ مَیں نے بتایا ہے جن لوگوں نے میری تربیت میں حصّہ لیا اور کوئی اچھی بات بتائی جب بھی وہ یادآتی ہے میرے دل سے اُن کے لئے دُعا نکلتی ہے۔ پس آوارگی کو مٹانا بھی خدام الاحمدیہ کے فرائض میں سے ہے۔ اب چونکہ دیر ہو گئی ہے اِس لئے باقی باتیں پھر بیان کروں گا۔‘‘
(الفضل ۱۱؍مارچ ۱۹۳۹ئ)
۱؎ الفرقان: ۳۱ ۲؎ البقرہ: ۳۶ ، الاعراف: ۲۰
۳؎ المنجد عربی اُردو صفحہ ۴۴۶ مطبوعہ کراچی ۱۹۹۴ء
۴؎ المنجد عربی اُردو صفحہ ۴۴۶ مطبوعہ کراچی ۱۹۹۴ء
۵؎ ابو داؤد کتاب الادب باب فی المولود یُؤذن فی اُذنِہ (مفہوماً)
۶؎ ابو داؤد کتاب الصلٰوۃ باب مَتٰی یُؤْ مَرُالْغُلامُ بالصلٰوۃ میں عید گاہوں کا ذکرنہیں۔
۷؎ ایک آبی پرندہ جسے عربی میں نخام ، فارسی میں خرچال اور ہندی میں چکوا چکوی کہتے ہیں۔ رنگ سُرخ ہوتا ہے جو رات کو اپنی مادہ سے جُدا رہتا ہے۔ ایک دوسرے کو پکارتا ہے اور اِس کی آواز کے پیچھے جاتا ہے مگر ملاقات سے محروم اور مضطرب رہتا ہے۔ ’’سرخاب کا پر لگ جانا‘‘ ایک محاورہ ہے جو دولت پر غرور اور متکبر ہونے یا شان و شوکت میں کسی کو برابر نہ سمجھنے پر بولا جاتا ہے۔ (فرہنگ آصفیہ)
۶
خدّام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے اندر
قومی ، تجارتی اور اخلاقی دیانت پیدا کریں
(فرمودہ ۱۷؍فروری۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’میرا آج کا خُطبہ بھی گزشتہ دو خطبات کے سلسلہ میں ہی ہے۔ مگر پیشتر اِس کے کہ مَیں اصل مضمون کو شروع کروں مَیں قادیان کے خدام الاحمدیہ کو اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ مختلف مساجد کے مؤذِّنوں کی اذانیں دُرست کرائیں۔ بعض جگہ پر بِلا وجہ مؤذن عربی عبارت کا ایسا ستیاناس کر دیتے ہیں کہ واقف آدمی کے کانوں پر وہ بہت ہی گِراں گزرتا ہے۔ مَیں نے کئی دفعہ اِس طرف توجّہ دلائی ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک اِس طرف توجّہ ہوئی نہیں۔ جن حروف کا ادا کرنا ہمارے لئے مُشکل ہے اُن کے متعلق ایک پنجابی سے یہ اُمید رکھنا کہ وہ اہلِ عرب کے لہجہ کو ادا کرے بِالکل غلط ہے اور مَیں اِس پر زور نہیں دیتا۔ مَیں صرف اِس حصّہ کی درستی کا مُطالبہ کرتا ہوں جس حصّہ کی درستی ہمارے اختیار میں ہے اور باوجود اختیار میں ہونے کے اُس کی درستی کی طرف توجّہ نہیں کی جاتی۔ تو خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ اپنے میں سے پانچ سات نوجوانوں کو جو عربی تعلیم سے واقف ہوں اذان کے الفاظ اچھی طرح واقفیت کرا دیں، اِس کے بعد مختلف مساجد میں (اورکوشش کرنی چاہئے کہ یہ لوگ ایسے ہی ہوں جن کا تعلق مختلف مساجد سے ہو)ان کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ جو باقاعدہ مؤذن ہیں ان کی اذانوں کی اصلاح کریں اور دوسرے لوگ بھی جو باقاعدہ مؤذن نہیں اگر اُن کی کوئی غلطی دیکھیں تو انہیں ٹوک دیا کریں تاکہ انہیں اپنی اصلاح کا خیال پیدا ہو۔ مثلاً ابھی جو اذان ہوئی ہے اِس میں مؤذن نے حَیَّ کے بعد اتنا لمبا الف استعمال کیا ہے جو نہ تو جائز ہے اور نہ ہی اِس کی کوئی ضرورت ہوتی ہے مگر عام پنجابی لہجہ یہی طریق اختیار کرتا ہے اور پنجابی مؤذن حَیَّ نہیں بلکہ حَیَّا کہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے شائد اِس طرح آخر میں الف زائد کر دینے اور اِسے لمبا کر دینے سے آواز اونچی ہو جاتی ہے حالانکہ عرب لوگ بھی اذان دیتے ہیں اور وہ بغیر حَیَّا کہنے کے کام چلا لیتے ہیں۔ بایں ہمہ اُن کی آوازیں اتنی بلند ہوتی ہیں اور اُن کی اذان میں اپنی ذات میں ایسی مسرّت انگیز آواز کی حامل ہوتی ہے کہ وہ ایک شیریں راگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ مکّہ مکرمہ میں چونکہ مؤذّن مقرر کئے جاتے ہیں اور مَیں نے دیکھا ہے اذان دیتے وقت اُن کی آوازیں اتنی دلکش اور لطیف ہوتی ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسان اِس آواز کے ساتھ ہی زمین سے اُٹھ کر آسمان کی طرف جارہا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ اِس لفظ کی خوبصورتی الِف چھوڑ دینے میں ہے اِس کے استعمال کرنے میں نہیں۔ اور جب الف اِس لفظ میں ہے ہی نہیں تو اِس کے استعمال کرنے کے کوئی معنی ہی نہیں ہو سکتے۔ پس اگر وہ آئندہ کے لئے حَیَّ کے بعد الف استعمال نہ کریں تو مَیں سمجھتا ہوں ان کی اذان پہلے سے بہت زیادہ خوبصورت ہو جائے۔ اِسی طرح اور بھی بہت سے نقائص ہیں جو ہمارے پنجاب میں بوجہ عربی زبان کی ناواقفیت کے اصرار سے چلتے چلے جاتے ہیں اور مَیں خدّام الاحمدیہ کو توجّہ دلاتا ہوں کہ وہ اِس نقص کی اصلاح کی کوشش کریں۔
اِس کے بعد مَیں آج کے مضمون کو لیتا ہوں۔ گزشتہ خُطبہ میں مَیں نے خدّام الاحمدیہ کے مقاصد میں سے تین ضروری مقاصد کو لیا تھا اور بتایا تھا کہ ان کی طرف خصوصیت سے ان ایّام میں انہیں توجّہ کرنی چاہئے اور وہ یہ تھے۔
اوّل۔ انہیں اپنے ممبروں کے اندر اور دوسری جماعت کے اندر بھی قومی رُوح پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جماعتی کاموں کے لئے قُربانی کا مادہ پیدا کرنا چاہئے۔ یہ پہلا مقصد ہے جو اِنہیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔
دوسری بات مَیں نے یہ کہی تھی کہ اسلامی تعلیم سے واقفیت پیدا کی جائے۔
تیسری بات مَیں نے یہ کہی تھی کہ آوارگی اور بیکاری کا ازالہ کیا جائے۔
اب مَیں چوتھی بات بیان کرتا ہوں جو یہ ہے کہ اچھے اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
اچھے اخلاق میں سے مَیں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے بہترین اخلاق جن کا پیدا کرنا کسی قوم کی زندگی کے لئے نہایت ضروری ہے وہ سچ اور دیانت ہیں۔ اَور بھی بہت سے اخلاق ہیں مگر سچ اور دیانت نہایت اہمیت رکھنے والے اخلاق ہیں۔ جس قوم میں سچ پیدا ہو جائے اور جس قوم میں دیانت آجائے وہ قوم نہ کبھی ذلیل ہو سکتی ہے اور نہ کبھی غلام بنائی جاسکتی ہے۔ سچائی اور دیانت دونوں کا فقدان ہی کسی قوم کو ذلیل بناتا اور اُن دونوں کا فقدان ہی کسی قوم کو غلام بناتا ہے۔ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ ہندوستان کی غلامی کا ہمیشہ رونا روتا رہتا ہے لیکن اگر تم غور سے دیکھو تو تمہیں معلوم ہو کہ ہندوستان کی غلامی کا موجب انہی دو چیزوں کا فقدان ہے۔ تم ہندوستان کی تاریخ کو پڑھ جاؤ اتنے بڑے وسیع مُلک کا انگریزوں کے ماتحت آجانا محض بد دیانتی کی وجہ سے تھا۔ انگریزی فوجیں جو شروع زمانہ میں بعض دفعہ سینکڑوں کی تعداد سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں کبھی ہندوستان پر غالب نہیں آسکتی تھیں اگر ہندوستانیوں میں دیانت پائی جاتی۔ بعض دفعہ تو تاریخ پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ ساری بات ہی جھوٹی ہے اور عقل تسلیم نہیں کرتی کہ مدراس کے ایک چھوٹے سے علاقہ میں اقامت پذیر چند سَو انگریز ہندوستان کی بڑی بڑی طاقتوں اور حکومتوں کو زیر کرتے چلے جائیں۔ عقل اِس کے باور کرنے سے انکار کرتی ہے کیونکہ انسانی فطرت اِس حد تک اخلاق کی گراوٹ کو تسلیم کرنا برداشت نہیں کرتی جس قسم کی گراوٹ اِس زمانہ میں ہندوستانیوں میں پائی جاتی تھی۔ کسی جگہ پر تو شہزادوں کو رشوت دے دی جاتی ہے کہ اگر تم اپنے باپ یا بھائی سے بغاوت کرو تو ہم تم کو اِس کی جگہ گدّی پر بٹھادیں گے اور وہ بد دیانت اور ذلیل انسان اِس رشوت کو قبول کر لیتے ہیں۔
کسی جگہ وزراء کو یہ اُمید دلا دی جاتی ہے کہ ہم تمہاری ایک ریاست قائم کر دیں گے یا تم کواُس ریاست کا قبضہ دے دیں گے یا اَور کوئی بڑا عُہدہ دے دیں گے اور وہ ننگِ انسانیت اِس رشوت کو قبول کر لیتے ہیں اور انہی چالبازیوں کے ساتھ اور انہی رشوتوں کے ذریعہ یورپین اقوام جو نہایت قلیل تعداد میں ہندوستان میں آئیں، ہندوستان کے ایک گوشہ سے بھرے ہوئے بادل کی طرح بڑھنا شروع کر دیتی ہیں اور سارے مُلک پر چھا جاتی ہیں۔ مرہٹوں کی طاقت یا نظام حیدر آباد کی طاقت کے مقابلہ میں مدر اس میں انگریزوں کی دسویں حصّہ کے برابر بھی طاقت نہیں تھی۔ اِسی طرح سراج الدولہ کی طاقت کے مقابلہ میں بنگال میں انگریزوں کی طاقت دسویں حصّہ کے برابر بھی نہ تھی مگر باوجود اِس کے مقابلہ میں وہ ہار جاتے ہیں اور انگریز جیت جاتے ہیں۔ اِس تمام فتح اور شکست کی تہہ میں ایک ہی وجہ نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ بڑے بڑے وزراء اور افسر یا رشوت خور تھے یا وہ کسی اور لالچ میں آجاتے تھے۔ اگر یہ بددیانتی نہ ہوتی تو کبھی ہندوستان پر انگریزی حکومت قائم نہ ہو سکتی لیکن اِس بد دیانتی کی موجودگی میں اگر انگریزی حکومت نہ ہوتی تو فرانسیسی حکومت ہوتی۔ اگر فرانسیسی حکومت نہ ہوتی تو پُرتگیزی حکومت ہوتی، اگر پُرتگیزی حکومت نہ ہوتی تو کوئی اور حکومت ہوتی۔ بہرحال یہ مُلک اِس قابل نہ تھا کہ اپنا بوجھ آپ اُٹھا سکتا۔
بد دیانتی کے بوجھ نے اِن لوگوں کی کمریں خَم کر دی تھیں اور لالچ کے مارے اِن لوگوں کو ایسا جھُکا دیا تھا کہ وہ شریف لوگوں میں سیدھا چلنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ وہ شکار تھے دُنیا کا۔ اگر انگریز نہ آتے تو کوئی اَور آتا۔ بہرحال وہ خود اپنی حکومت سنبھالنے کے ناقابل تھے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک سب جگہ بد دیانتی پائی جاتی تھی۔ پھر وسطِ ہند میں آکر لکھنؤ اور اِس کے بعد دہلی میں جو کچھ ہؤا وہ بھی اِسی بد دیانتی کا کرشمہ ہے۔ غدر کی بغاوت جب ہوئی تو اُس وقت ہندوستانیوں نے چاہا کہ اپنے آپ کو انگریزوں کے تسلّط سے آزاد کر لیں اور ایسے کئی مواقع آئے جبکہ دہلی کی حکومت غالب آنے کے بِالکل قریب تھی لیکن خود مُلک کے اندرونی غدّاروں اور بد دیانتوں نے اِن مواقع کو ضائع کر دیا۔
یہ مشہور تاریخ واقعہ ہے کہ ایک موقع پر انگریزی فوج پر نہایت آسانی کے ساتھ گولہ باری کی جاسکتی تھی۔ مَیں نے خُود دہلی میں وہ موقع دیکھا ہے مگر زینت محل جو بادشاہ کی چہیتی ملکہ تھی اور اُسے کہا تھا کہ اگر تم ہمارا ساتھ دو گی تو تمہارے بیٹے کو تخت مل جائے گا۔ جب دہلی کے فوجی افسروں نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ قلعہ پر توپیں رکھ کر چلادی جائیں اور بادشاہ نے بھی اِن کے مشورہ کو قبول کر لیا تو انگریزی فوج کی طرف سے زینت محل کو پیغام پہنچا کہ اگر تم نے اِس موقع پر توپیں چلنے دیں تو تمہاری تمام اُمیدیں ہوا ہو جائیں گی۔ تِریا چرِتّر ۱؎تو ہمارے مُلک میں مشہور ہی ہے۔ جب بادشاہ نے توپیں چلانے کا حکم دیا تو بیگم کو بناوٹی طور پر غش پر غش آنے لگ گئے اور اُس نے بادشاہ سے کہا کہ توپ کی آواز سے میرا دل دہل جاتا ہے۔ اگر آپ نے توپوں کا چلنا بند نہ کیا تو مَیں مر جاؤں گی۔ پس خدا کے لئے توپوں کا چلنا بند کرائیں اور اگر توپیں چلانا ضروری ہی ہیں تو اپنے ہاتھ سے پہلے مجھے قتل کر دیں تاکہ مَیں اِن کی آواز نہ سُن سکوں۔ بادشاہ بھی دھوکے میں آگئے اور گولہ باری کا حکم منسوخ کر دیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ ایک ہی مقام جہاں سے کامیابی کے ساتھ انگریزی فوجوں پر حملہ ہو سکتا تھا اُس پر سے گولہ باری بند کر دی گئی اور انگریزی فوجیں غالب آگئیں۔ خود بادشاہ کا وزیر اعظم اندر سے انگریزوں کے ساتھ ملا ہؤا تھا اور انگریزوں کو باقاعدہ اندرونی خبریں پہنچتی رہتی تھیں۔
اودھ کی حکومت بھی اِسی طرح تباہ ہوئی وہاں کے لوگوں کا تمام روپیہ کلکتہ کے انگریزی بینک میں جمع تھا۔ جب انگریزوں نے اِس علاقہ پر حملہ کیا تو اُنہوں نے لوگوں کو کہلا بھیجا کہ اگر تم نے ذرا بھی ہمارے خلاف آواز اُٹھائی یا مقابلہ کیا تو تمہارا تمام روپیہ ضبط کر لیا جائے گا۔ جب تک ان کے روپے جمع نہیں تھے اُس وقت تک تو انہیں یہ لالچ دیا گیا کہ اگر تم اپنے روپے ہمارے بنک میں جمع کرو گے تو تمہیں بہت کچھ سُود ملے گا اور جب روپیہ جمع ہو گیا اور اودھ پر اُنہوں نے حملہ کی تیاری کی تو سب کو نوٹس دے دیا کہ اگر تم نے ہمارا مقابلہ کیا تو سب روپیہ ضبط کر لیا جائے گا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جب انگریزی فوج اندر داخل ہوئی تو ایک شخص بھی اُن کے مقابلہ کے لئے کھڑا نہ ہؤا۔
اب اِس میں بھلا انگریزوں یا کسی اَور قوم کا کیا قصور ہے؟ یہ خود اپنی قوم کا قصور ہے کہ لوگ اپنے اخلاق کی اصلاح کی طرف توجّہ نہیں کرتے۔ جب کبھی ہندوستان میں کانگرس کا شور بُلند ہؤا ہے مَیں نے ہمیشہ انہیں یہی کہا ہے کہ تم اُس وقت تک حکومت نہیں کر سکتے جب تک لوگوں کے اندر بد دیانتی پائی جاتی ہے۔ ہاں اگر قومی طور پر تم دیانت کو لوگوں کے اندر قائم کردو تو پھر مَیں اِس بات کا ذمّہ دار ہوں کہ انگریز آپ ہی آپ تم سے صلح کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے۔ اب بھی دیکھ لو کیا ہو رہا ہے۔ گو کئی صوبوں میں کانگرسی وزارتیں قائم ہو چکی ہیں مگرانہی صوبوں میں خطرناک طور پر رشوتیں چل رہی ہیں اور اب تو گاندھی جی نے بھی اپنے اخبارمیں لکھا ہے کہ بعض واقعات میرے سامنے ایسے آئے ہیں جن سے یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔
تو جب تک کسی قوم میں دیانت نہیں اُس وقت تک نہ اُس قوم میں حکومت رہ سکتی ہے نہ وہ حکومت لے سکتی ہے اور اگر بالفرض وہ کبھی اپنی کثرتِ تعداد کی بِناء پر حکومت لے بھی لے تو وہ حکومت کو سنبھال نہیں سکتی مگر یہ چیز صرف حکومت سے تعلق نہیں رکھتی کہ یہ کہا جائے کہ آپ حکومتوں کی بات لے بیٹھے ہیں جماعت احمدیہ کی بات کیوں نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ طاقت اور جتّھا حکومتوں سے ہی وابستہ نہیں ہوتا بلکہ قوموں سے بھی وابستہ ہوتا ہے اور بعض قومیں تو تلوار سے جیتتی ہیں اور بعض نظام اور تبلیغ سے جیتتی ہیں۔ ہماری جماعت تلوار سے جیتنے والی نہیں بلکہ نظام اور تبلیغ سے جیتنے والی ہے اور نظام اور تبلیغ سے جیتنے والی جماعتوں کو دیانت کی اُن جماعتوں سے بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کہ جن قوموں کے پاس تلوار ہو وہ تو بد دیانتوں کا تلوار سے سر اُڑا سکتی ہیں مگر جن کے پاس تلوار نہ ہو اُنہیں بد دیانتی بہت زیادہ نقصان پہنچایا کرتی ہے کیونکہ اُن کے پاس بد دیانتوں کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ انگریزوں میں یا فرانسیسیوں میں یا جرمنوں میں جب کوئی شخص غدّاری کرتا ہے تو انگریز، فرانسیسی اور جرمن اِس پر مقدمہ کرتے اور مجرم ثابت ہونے پر اُسے مار ڈالتے ہیں مگر جن کے پاس حکومت نہیں ہوتی اور جو تلوار سے کامیاب نہیں ہونا چاہتے بلکہ نظام اور تبلیغ سے کامیاب ہونا چاہتے ہیں اُن میں جب کوئی غدّار پیدا ہو جاتا ہے تو وہ اُس کا سوائے اِس کے اَور کیا علاج کر سکتے ہیں کہ دلائل سے اُس کا مقابلہ کریں۔ مگر اِس رنگ میں مقابلہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ غدّار شور مچاتا رہتا ہے اور اِس کو دیکھ کر بعض اور لوگ بھی جن کی فطرت میں غدّاری کا مادہ ہوتا ہے یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ ان کے پاس طاقت تو ہے نہیں چلو ہم بھی ذرا شور مچادیں۔ چنانچہ وہ بھی جماعت کو بد نام کرنے لگ جاتے ہیں۔ اِس قسم کے مفاسد کو دور کرنے کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ غدّاری کا قلع قمع اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک قوم میں ایسی رُوح پیدا نہ ہو کہ اس کا ہر فرد موت کو غدّاری پر ترجیح دے اور وہ کہیں کہ ہم مر جائیں گے مگر غداری نہیں کریں گے۔ یہ بددیانتی کبھی انفرادی ہوتی ہے اور کبھی قومی۔ انفرادی بد دیانتی اقتصادیات کو بِالکل تباہ کر دیتی ہے۔ مَیں جب کشمیر گیا تو مجھے معلوم ہؤا کشمیر کے تاجروں کی صرف چاندی کے کام کی ایک کروڑ روپیہ کی تجارت یورپ والوں سے تھی۔ اب ایک کروڑ روپیہ کی تجارت کے یہ معنی ہیں کہ بیس پچیس لاکھ روپیہ انہیں بطور منافع حاصل ہوتا تھا کام کی مزدوری الگ تھی لیکن مجھے بتایا گیا کہ اب یہ تجارت سولہ لاکھ روپیہ تک رہ گئی ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ کے لوگ کہتے ہیں یہاں کے مال کا کوئی معیار نہیں کبھی کوئی چیز بھیج دیتے ہیں اور کبھی کوئی۔ کبھی تو نہایت اعلیٰ مال روانہ کریں گے اور کبھی اِس میں کھوٹ ملا دیں گے۔ حالانکہ اگر وہ دیانتداری سے کام کرتے تو آج وہ ایک کروڑ کی تجارت تین چار کروڑ روپیہ تک پہنچی ہوئی ہوتی۔ پہلے زمانہ میں تو تجارتیں بہت کم تھیں۔ تجارت میں زیادتی اِسی زمانہ میں ہوئی ہے۔ پھر اگر اُس زمانہ میں جبکہ تجارت کا رواج بہت کم تھا ان کی ایک کروڑ روپیہ کی تجارت ہو سکتی تھی تو لازماً اب وہ تجارت تین چار کروڑ روپیہ کی ہو جاتی مگر بجائے اِس کے کہ ان کی تجارت تین چار کروڑ روپیہ تک ترقی کرتی اور کروڑ ڈیڑھ کروڑ روپیہ انہیں نفع حاصل ہوتا پہلی تجارت بھی گر گئی اور وہ ایک کروڑ سے اُتر کر سولہ لاکھ روپیہ تک آگئی۔ اگر وہ تھوڑے سے نفع کی خاطر بد دیانتی کر کے اپنے کام کو نقصان نہ پہنچاتے تو نتیجہ یہ ہوتا کہ ان کی یہ تجارت خوب چلتی مگر چونکہ اُنہوں نے بد دیانتی کی اِس لئے تجارت میں نقصان ہو گیا تو انفرادی اعتبار بھی دیانت سے ہی قائم رہتا ہے۔ انگریزوں کو ہی دیکھ لو اُن کے کئی لوگ دُشمن ہیں مگر وہ دُشمن بھی یہ اقرار کرتے ہیں کہ تجارت کے معاملہ میں انگریزوں پر زیادہ اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ وہ اتنا اعتبار جرمنوں پر نہیں کریں گے، وہ اتنا اعتبار جاپانیوں پر نہیں کریں گے جتنا اعتبار وہ انگریزوں پر کریں گے کیونکہ انگریزوں نے دیانتداری کے نتیجہ میں اعتماد پیدا کر لیا ہے۔ میں نے دیکھا ہے جاپانیوں پر بھی لوگ زیادہ اعتبار نہیں کرتے اور جاپان سے تجارت کرنے والوں کے ہمیشہ دیوالے نکلتے رہتے ہیں۔ مَیں نے ایک دفعہ کلکتہ کے چند تاجروں سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے جاپانی تجارت کرنے والے دیوالے کیوں نکالتے رہتے ہیں تو اُنہوں نے بتایا کہ جاپانی تاجر عجیب قسم کی حرکت کرتے ہیں وہ پہلے اپنی ایک چیز کی ایک رقم معیّن کر کے اطلاع دے دیتے ہیں مثلاً وہ بوٹ بناتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ اِس کی قیمت ایک روپیہ فی جوڑا ہے۔ اب اتنا سستا بوٹ دیکھ کر بڑے بڑے تاجر اُنہیں آرڈر دے دیتے ہیں۔ کوئی ایک لاکھ کا آرڈر دے دیتا ہے، کوئی دو لاکھ کا آرڈر دے دیتا ہے، کوئی تین لاکھ کا آرڈر دے دیتا ہے اور کوئی چار لاکھ کا آرڈر دے دیتا ہے۔ ابھی وہ مال پہنچتا نہیں کہ اطلاع آجاتی ہے اب اِسی بوٹ کے بارہ آنے ہو گئے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ تاجر جنہوں نے پہلی دفعہ مال نہیں منگوایا تھا کئی لاکھ کا آرڈر دے دیتے ہیں مگر اُن کا مال بھی ابھی اُن تک نہیں پہنچتا کہ اطلاع آجاتی ہے اِس بوٹ کی قیمت آٹھ آنے ہو گئی ہے اِس قدر سستا بوٹ دیکھ کر پھر اَور لوگ انہیں آرڈر دے دیتے ہیں۔ اب گو اِس طرح ان کا مال زیادہ بِک جاتا ہے مگر وہ پہلا تاجر جس نے پانچ لاکھ روپیہ کا مال منگوایا تھا اُس کو اڑھائی لاکھ کا نقصان ہو جاتا ہے اور اِس طرح آئندہ کے لئے وہ جاپانی تاجروں سے مال منگوانے میں بہت زیادہ احتیاط سے کام لینے لگتا ہے۔ گو چیزوں کے زیادہ سستا ہونے اور اُن کی زیادہ بِکری ہو جانے کی وجہ سے جاپانی تاجروں کو ابھی یہ محسوس نہیں ہؤا کہ وہ ایک غلط راستہ پر چل رہے ہیں مگر انجام کار ایسی عادت مُفید ثابت نہیں ہوتی اور وہ نقصان پہنچا کر رہتی ہے۔ گو جاپانی مال میں بد دیانتی نہیں کرتے مگر چونکہ وہ قیمتوں کو بڑھاتے گھٹاتے رہتے ہیں اِس لئے گو ابھی اپنی چیزوں کو زیادہ سستا فروخت کرنے کی وجہ سے انہیں نقصان نہیں پہنچا مگر جب بھی برابر کی قیمت کا سوال آجاتا ہے اُس وقت واقف تاجر انگریزی مال کو جاپانی مال پر ترجیح دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جاپانی ٹھگی کر لیتے ہیں مگر انگریز ٹھگی نہیں کرتے۔ انگریزوں سے اُتر کر امریکہ اور جرمنی کے لوگ ہیں اور اُن سے اُتر کر اَور ممالک کے لوگ۔ مگر ہندوستانی تجارت میں اتنا خطرناک طور پر بدنام ہے کہ کوئی قوم اِس پر اعتبار نہیں کرتی۔ مکّہ مکرمہ میں سب سے زیادہ حج کے لئے جانے والے ہندوستانی ہی ہوتے ہیں مگر جانتے ہو وہاں ہندوستانی کا کیا نام ہے؟ وہاں ہندوستانی کو بَطّال کہا جاتا ہے یعنی وہ سخت جھوٹا اور بد دیانت ہوتا ہے۔ جب بھی کسی ہندوستانی کا ذکر ان کے سامنے آجائے گا وہ کہیں گے ’’ہندی بطّال‘‘ یعنی ہندوستانی سخت جھوٹا اور دھوکے باز اور چور ہوتا ہے۔ وہ جاوی پر اعتبار کرلیںگے، وہ چینی پر اعتبار کر لیں گے، وہ افغان پر اعتبار کر لیں گے، وہ مصری پر اعتبار کر لیں گے، وہ ایرانی پر اعتبار کر لیں گے، وہ روسی پر اعتبار کر لیں گے مگر جس وقت کسی ہندوستانی کا سوال ان کے سامنے آئے گا وہ کہیں گے ہندی بَطّال، ہندی بڑا جھوٹا اور چور ہوتا ہے۔
ہندوستانی ہی سب سے زیادہ مکّہ مکرمہ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے۔ ہندوستانی ہی مقامات مقدسہ کی حفاظت میں سب سے زیادہ حصّہ لیتا ہے اور ہندوستانی ہی سب کے آگے رہنے کی کوشش کرتاہے مگر وہاں کے لوگوں پر اِس نے کیا اثر ڈالا ہے یہی کہ ہندی بَطّال۔ اگر اِن کے اخلاق اچھے ہوتے تو جس طرح انہوں نے باہر کے لوگوں کے لئے قُربانیاں کی تھیں اُسی طرح کوئی ان کے لئے بھی تو قربانی کرتا۔ مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ تُرکوں کی خلافت پر حملہ ہوتا ہے تو ہندوستانی مسلمان اس کی حفاظت کے لئے آگے بڑھتے ہیں، مصر پر انگریزوں کے دانت تیز ہوتے ہیں تو ہندوستان کے مسلمان اِس کے مقابلہ کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیتے ہیں، افغانستان پر حملہ ہوتا ہے تو ہندوستانی مسلمان مضطرب ہو جاتے ہیں، ایران خطرہ میں ہوتا ہے تو ہندوستانی مسلمان چیخ اُٹھتے ہیں۔ گویا دُنیا جہاں کا درد ہندوستان کے مسلمان کے سینہ میں ہے اور جہاں کہیں کسی مسلمان کو تکلیف پہنچتی ہے وہ اِس کے اثر سے مضطرب اور بے چین ہو جاتا ہے مگر جب ہندوستان کے مسلمانوں پر کوئی مصیبت آتی ہے تو مصر کے لیڈر بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان بڑے احمق ہیں جب اُنہیں آزادی مل رہی ہے تو وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر کام کیوں نہیں کرتے، ترک بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان بڑے احمق ہیں انہیں عقلمندی کے ساتھ کام کرنا نہیں آتا، ایرانی بھی کہتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان بیوقوف ہیں اور افغانی بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان عقل و سمجھ سے عاری ہیں۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ اِن کے کیریکٹر کا بُرا اثر اِن لوگوں کے دلوں پر ہے اور اِسی کیریکٹر کے بد اثر کی وجہ سے وہ ان کی قُربانی کی بھی قدر نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی قُربانی بھی اِن کی کمزوری کی حالت ہے جس طرح ایک کمزور انسان بعض دفعہ جوش میں آجاتا ہے مگر اُس کا جوش کسی نیکی کی وجہ سے نہیں بلکہ طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے اِسی طرح وہ خیال کرتے ہیں کہ ہندوستان کے مُسلمانوں کی قُربانی بھی کسی نیکی کی وجہ سے نہیں بلکہ کمزوری کی وجہ سے ہے۔ اگر یہاں کے آٹھ کروڑ مسلمانوں کے اندر صحیح اخلاق ہوتے تو یہ آٹھ کروڑ مسلمان بھی ہندوستان کو بچا سکتا تھا۔ بلکہ آٹھ کروڑ کیا اگر چار کروڑ با اخلاق مسلمان بھی ہندوستان میں موجود ہوتا تو کوئی غیر حکومت اِس ملک کی طرف اپنی آنکھ نہیں اُٹھا سکتی تھی۔ بھلا چار کروڑ مسلمانوں کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتے تھے چند ہزار انگریز یا چند ہزار فرانسیسی یا پُرتگیزی۔ پھر چار کروڑ ہی نہیں اگر دو کروڑ دیانت دار مسلمان بھی ہندوستان میں موجود ہوتے تب بھی یہ مُلک دوسروں کا غلام نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر اُس وقت مسلمانوں کی حکومت میں دو کروڑ ایسے مسلمان موجود ہوتے جو اپنی جانیں قُربان کرنے کے لئے تیار ہوتے تو کس کی طاقت تھی کہ وہ ہندوستان کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھ سکتا۔ بلکہ مَیں کہتا ہوں اگر ایک کروڑ بھی دیانتدار مسلمان ہوتا، ایک کروڑ نہیں پچاس لاکھ ہی ہوتے، پچاس لاکھ نہیں پچیس لاکھ ہی ہوتے، پچیس لاکھ نہیں بارہ لاکھ ہی دیانتدار مسلمان موجود ہوتے تو بھی آج ہمارے مُلک کی وہ حالت نہ ہوتی جو نظر آرہی ہے۔
بارہ لاکھ دیانتدار مسلمانوں کی موجودکی کے معنے یہ تھے کہ ایک لاکھ جاں نثار سپاہی میسّر آسکتا تھا اور اگر ایک لاکھ جان نثار سپاہی اُس وقت موجود ہوتا تو انگریزوں اور فرانسیسیوں کی مجموعی طاقت بھی اُن کا مقابلہ نہ کر سکتی۔ کسی مُلک کی آبادی کے آٹھ فیصدی حصّہ کا سپاہی ہونامعمولی بات ہے۔ جو جنگی قومیں ہوتی ہیں اُن میں بعض دفعہ سولہ فیصدی تک سپاہی ہوتے ہیں اور جب انتہائی خطرہ کا وقت آتا ہے تو تیس بلکہ چالیس فیصدی آبادی بھی لڑائی کے لئے تیار ہوجاتی ہے۔ بہرحال کسی مُک کا جو ادنیٰ سے ادنیٰ فوجی معیار ہے اگر وہی ہمارے مُلک میں قائم ہوتا تو بارہ لاکھ مسلمانوں میں سے ایک لاکھ سپاہی ضرور مل جاتا اور اعلیٰ معیار کے رُو سے پونے پانچ لاکھ مسلمان انگریزوں کے مقابلہ کے لئے تیار ہوتے۔ اب اگر اتنی بڑی تعداد ہندوستان میں موجود ہوتی تو کونسی قوم تھی جو ہندوستان کو فتح کر سکتی۔ یقینا نہ انگریز ہندوستان کو فتح کر سکتے نہ فرانسیسی اِسے فتح کرنے کی طاقت رکھتے اور نہ پرتگیزی اسے فتح کرنے کی طاقت رکھتے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت صرف چند ہزار یا چند سو ایسے لوگ تھے جو دیانتدار تھے اور جو مُلک کے لئے قُربانی کرنے کی رُوح اپنے اندر رکھتے تھے۔ باقی جس قدر تھے وہ ٹھگ تھے، وہ فریبی تھے، وہ دھوکے باز تھے، وہ رشوت خور تھے، وہ نمک ّ*** کرتے تھے اور غیروں سے رشوتیں لے لے کر اپنے مُلک کی حکومت کو آپ تباہ و برباد کرنے کے درپے ہو رہے تھے۔
کیا ہی بد قسمت وہ مُلک ہے جس میں ۳۳ کروڑ کی آبادی ہو مگر مُلک کی خاطر چار پانچ ہزار آدمی بھی اِس میں وفادار نہ ہو۔ اِس سے زیادہ بد قسمتی کی مثال اَور کیا ہو سکتی ہے؟ پھر مُلک کو جانے دو عقل کے ساتھ تو اُنہوں نے اپنے ساتھ بھی وفادار ی نہیں کی۔ حکومت تو گئی ہی تھی، تجارت کیوں گئی؟ مگر اِن کے ہاتھ سے تجارت کا نکل جانا بھی بتاتا ہے کہ یہ اپنے نفس اور اپنی ذات کے بھی وفادار نہیں۔ اگر اِن میں اپنے نفس کے ساتھ وفاداری کا ہی مادہ ہوتا تو اِن کے ہاتھ سے تجارت کبھی نہ جاتی۔ تو بد دیانتی ایسی چیز ہے جو قوموں اور افراد دونوں کو تباہ کر دیتی ہے مگر جس قوم میں دیانت آجائے اُسے ہر جگہ عزّت حاصل ہوتی ہے اور کوئی اُسے ذلیل نہیں کر سکتا۔
اِسی طرح انفرادی دیانت جب کسی قوم میں پیدا ہو جاتی ہے تو وہ اقتصادی طور پر بڑھتی چلی جاتی ہے مگر یہ انفرادی دیانت دو قسم کی ہوتی ہے ایک تجارتی دیانت اور ایک اخلاقی دیانت۔ جن قوموں میں اخلاقی دیانت نہ ہو مگرتجارتی دیانت ہو وہ بھی نہیں گرتیں۔ چنانچہ ہندوؤں کو ہی دیکھ لو بنیے ہیں اخلاقی دیانت نہیں مگر تجارتی دیانت ہے اور اِس وجہ سے وہ تجارت میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے، یہودیوں میں بھی اخلاقی دیانت نہیں لیکن تجارتی دیانت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِن کی تجارت روز بروز بڑھ رہی ہے اِسی طرح جس قوم میں اخلاقی دیانت پیدا ہو جائے اُس کا اخلاقی طور پر دوسروں کے قلوب پر سکّہ بیٹھ جاتا ہے اور اِس قوم کے افراد جہاں جاتے ہیں لوگ ان سے مشورہ لیتے اور ان کی باتوں پر اپنے کاموں کا انحصار رکھتے ہیں لیکن جس قوم میں قومی دیانت بھی ہو، تجارتی دیانت بھی ہو اور اخلاقی دیانت بھی ہو وہ قوم تو ایک پہاڑ ہوتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ہمالیہ پہاڑ کو اُڑایا جاسکے مگر یہ ممکن نہیں کہ اِس قوم کو برباد کیا جاسکے۔ ایسی قوم نہ صرف خود محفوظ ہوتی ہے بلکہ اور لوگوں کی حفاظت کا بھی موجب ہوتی ہے اور اِس کے ذریعہ اور قومیں حوادث اور مصائب سے بچائی جاتی ہیں اور وہ دُنیا کے لئے ایک تعویذ ہو جاتی ہے۔
پس میں خدام الاحمدیہ سے کہتا ہوں کہ یہ تینوں قسم کی دیانتیں تم لوگوں کے اندر پیدا کرو۔ جس کا ذریعہ تمہارے پاس موجود ہے کیونکہ نوجوانوں کی باگ تمہارے ہاتھ میں دی گئی ہے۔ تم نوجوانوں میں قومی دیانت بھی پیدا کرو، تم نوجوانوں میں تجارتی دیانت بھی پیدا کرو اور تم نوجوانوں میں اخلاقی دیانت بھی پیداکرو۔ تجارتی دیانت کے معنے صرف تجارت اور لین دین کے معاملات میں ہی دیانت دارانہ رویّہ اختیار کرنے کے نہیں بلکہ نوکری بھی اِسی میں شامل ہے کیونکہ نوکر اپنا وقت دوسرے کو دیتا ہے۔
پس جس طرح ہر تاجر کا فرض ہے کہ وہ تجارت میں دیانتداری سے کام لے اُسی طرح ہرملازم کا بھی فرض ہے کہ وہ دیانتداری کے ساتھ کام کرے۔دیانتدار نوکر کی ہر کوئی قدر کرتا اور اُسے بُلا بُلا کر رکھتا ہے لیکن اگر کسی کے متعلق ثابت ہو جائے کہ وہ دیانتداری کے ساتھ کام نہیں کرتا تو اُس کی قدر دلوں سے اُٹھ جاتی ہے۔
پس قومی دیانت، تجارتی دیانت اور اخلاقی دیانت اپنے اندر پیدا کرو۔ اخلاقی دیانت کے معنے یہ ہیں کہ باوجود اِس کے کہ اپنے قول کی پَچ کرنے پر تم کو نقصان پہنچتا ہو۔ اپنے قول کی پَچ کرتے ہوئے نقصان اُٹھا کر بھی اپنے قول کو پورا کرو اور اُسے ضائع نہ ہونے دو۔
ایک قصّہ مشہور ہے جو گو ہماری ہی قوم کا ہے مگر افسوس ہے کہ ہماری روائتیں بھی ہمارے ذریعہ محفوظ نہیں بلکہ انگریزوں کے ذریعہ محفوظ ہیں۔ جب ہم مدرسہ میں پڑھا کرتے تھے اُس وقت ریڈروں میں ایک یوسف ہسپانوی کا قصّہ آتا تھا جو اخلاقی دیانت کی بہترین مثال ہے۔ یوسف سپین کا ایک مشہور تاجر اور رئیس تھا۔ ایک دفعہ کسی شخص نے اُس کے اکلوتے لڑکے کو قتل کر دیا۔ یوسف کو اُس کا علم نہیں تھا کہ اُس کا لڑکا مارا گیا ہے۔ پولیس اُس قاتل کے پیچھے بھاگی اور وہ قاتل آگے آگے بھاگا۔ دوڑتے دوڑتے وہ شخص اُسی مکان کے اندر آگیا جہاں یوسف رہتا تھا اور اُس سے کہنے لگا کہ مجھے پناہ دو پولیس میرے تعاقب میں آرہی ہے۔ اُسے معلوم نہ تھا کہ مَیں نے اِسی شخص کے بیٹے کو قتل کیا ہے اور یوسف کو بھی معلوم نہ تھا کہ یہ میرے بیٹے کا قاتل ہے۔ عربوں کا یہ ایک خاص قومی کیریکٹر ہے کہ جب اُن کے گھر میں کوئی شخص آکر اُن سے پناہ کا طلب گار ہو تو وہ انکار نہیں کر سکتے اور اُسے ضرور پناہ دے دیتے ہیں۔ یوسف نے بھی کہا کہ بہت اچھا تم میری پناہ میں ہو۔ تھوڑی دیر کے بعد پولیس والے آئے اور اُنہوں نے پوچھا کہ یہاں کوئی شخص دوڑتے دوڑتے آیا ہے؟ وہ ایک شخص کا قاتل ہے اور ہم اُسے گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ یوسف نے کہا یہاں تو کوئی نہیں۔ دراصل یوسف نے اُسے اِدھر اُدھر کہیں کھسکا دیا تھا۔ اِس طرح اُس نے اپنی بات بھی سچی کر لی اور واقعہ بھی ظاہر نہ ہونے دیا۔ چنانچہ پولیس واپس چلی گئی تھوڑی دیر گزری تھی کہ نوکر اس کے لڑکے کی لاش اُٹھا کر پہنچ گئے اور اُنہوں نے کہا کہ اِسے ابھی کسی شخص نے قتل کر دیا ہے۔ وہ اپنے لڑکے کی لاش دیکھتے ہی ساری حقیقت سمجھ گیا اور بھانپ گیا کہ جس شخص کو مَیں نے پناہ دی ہے وہی میرے لڑکے کا قاتل ہے مگر اُس کے اندر کوئی لغزش پیدا نہ ہوئی اور اُس نے پھر بھی پولیس کو یہ نہ بتایا کہ جس شخص نے میرے بیٹے کو قتل کیا ہے اُسے میں نے فلاں جگہ چھپا رکھا ہے۔ جب لوگ اِدھر اُدھر ہو گئے تو وہ اُس شخص کے پاس گیا اور اُسے کہا کہ جس شخص کو تم نے مارا ہے وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے مگر چونکہ مَیں تمہیں پناہ دینے کا وعدہ کر چُکا ہوں اِس لئے مَیں تجھے کچھ نہیں کہتا بلکہ مَیں خود تجھے بھاگنے کا سامان دیتا ہوں۔ یہ میری اونٹنی لے اور یہ سامان اِس پر لاد اور یہاں سے کسی دُوسری طرف کو نکل جا۔ چنانچہ وہ اونٹنی پر سوار ہؤا اور بھاگ کر کسی اور علاقہ کی طرف نکل گیا یہ اخلاقی دیانت ہے۔ اس میں اِس کا اپناکوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان تھا مگر چونکہ وہ قول دے چُکا تھا اور اس میں کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی بھی نہیں تھی اِس لئے اس نے اپنا قول نہ چھوڑا اور گو دوسرے شخص نے اس کے اکلوتے بیٹے کو مار دیا تھا مگر پھر بھی اِس کی جان کو بچا دیا۔
تو فردی دیانت بھی نہایت اہم ہوتی اور دلوں کو ہِلا دیتی ہے۔ اِسی طرح ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں ایک شخص قتل کے جرم میں پکڑا گیا۔ اُس نے کہا کہ مجھے کچھ مُہلت دیجئے کیونکہ میرے پاس بعض یتامیٰ کی امانتیں ہیں اور مَیں چاہتا ہوں کہ گھر جاکر وہ امانتیں انہیں واپس کر دوں۔ وہ ایک بدوی تھا اور بدویوں کا پکڑنا نہایت مُشکل ہوتا ہے کیونکہ سینکڑوں میل کا صحرا ہوتا ہے جس میں وہ رہتے ہیں اور آج اگر یہاں ہوتے ہیں تو کل وہاں، کوئی ایک مقام اُن کا ہوتا نہیں کہ وہاں سے انہیں تلاش کیا جاسکے اور اگر ہاتھ سے نکل جائیں تو پھر اُن کا ڈھونڈنا بہت مُشکل ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ تم کوئی ضمانت دو تو ہم تمہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ بغیر ضمانت کے ہم تمہیں چھوڑ نہیں سکتے۔ اِس نے اِدھر اُدھر نظردوڑائی تو ایک صحابی کی طرف جو ابو ذرؓیا ابو الدردائؓ تھے، مجھے اِس وقت صحیح نام یاد نہیں، اشارہ کر کے کہا یہ میرے ضامن ہیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ ضمانت دیتے ہیں؟ اُنہوں نے کہا ہاں مَیں اِس کی ضمانت دیتا ہوں۔ اب ایک قاتل کی ضمانت دینے کے معنے یہ تھے کہ اگر وہ مقررہ وقت پر نہ پہنچے تو مجھے مار ڈالنا۔ اُن کی ضمانت پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اُسے چھوڑ دیا اور وہ چلا گیا۔ جب وہ دن آیا جو اُس کی سزا کے لئے مقرر تھا تو لوگ اُس بدوی کا انتظار کرنے لگے کہ کب آتا ہے مگر وقت گزرتا جائے اور اُس کی آمد کا کوئی پتہ نہ لگے۔ آخر اِس صحابی کے دوستوں کے دلوں میں تشویش پیدا ہوئی اور اُنہوں نے اُس سے پوچھا کہ آپ جانتے بھی ہیں وہ ہے کون؟ اُنہوں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں وہ کون تھا۔ وہ کہنے لگے تو پھر آپ نے ضمانت کیوں دی؟ اُنہوں نے کہا اُس نے جو مجھ پر اعتبار کیا تھا تو مَیں اُس پر کیوں اعتبار نہ کرتا۔ خیر اُن کے دوستوں کے دلوں میں بڑی بے چینی پیدا ہو گئی کہ نہ معلوم اب کیا ہو گا۔ مگر جب عین وہ وقت پہنچا جو اُس کی سزا کے لئے مقرر تھا تو لوگوں نے دیکھا کہ دُور سے ایک غبار اُڑتا چلا آرہا ہے سب لوگوں کی آنکھیں اُس طرف لگ گئیں۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ اُنہوں نے دیکھا ایک سوار نہایت تیزی سے گھوڑا دوڑاتا چلا آرہا ہے۔ یہاں تک کہ گھوڑے کا پیٹ زمین سے لگ رہا ہے۔ جب وہ قریب پہنچا تو اُدھر وہ گھوڑے سے اُترا اور اِدھر اِس گھوڑے نے دم دے دیا اور مر گیا۔ یہ سوار وہی شخص تھا جس کی اِس صحابی نے ضمانت دی تھی۔ وہ کہنے لگا میرے پاس امانتیں کچھ زیادہ تھیں اُن کو واپس کرنے میں مجھے دیر ہو گئی اور مَیں اپنے گھوڑے کو مارتا اور اُسے نہایت تیزی سے دوڑاتا ہؤا یہاں پہنچا تاکہ میرے ضامن کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔۲؎
تو دیانت ایسی چیز ہے کہ باوجود اس کے ان واقعات پر سینکڑوں سال گزر گئے آج بھی ہم اِن واقعات کو پڑھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اِس گناہ سے بھری ہوئی دُنیا میں نہیں بلکہ ایک ایسی جنت میں ہیں جو خوبیاں ہی خوبیاں اپنے اندر رکھتی ہے۔ حالانکہ یہ انفرادی واقعات ہیں کروڑوں اور اربوں میں سے کسی ایک انسان کا واقعہ ہے مگر یہ ایک واقعہ بھی انسانیت کو اتنا خوبصورت کر کے دکھا دیتا ہے کہ دُنیا کے سارے گناہ نگاہوں سے پوشیدہ ہوجاتے ہیں۔ اِسی طرح تجارتی دیانت کی بھی ہمارے آباء میں مثالیں پائی جاتی ہیں چنانچہ تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص گھوڑے کو فروخت کرنے کے لئے بازار میں لایا اور اُس نے کہا کہ اِس کی پانچ سو درہم قیمت ہے۔ ایک صحابی نے اُس گھوڑے کو دیکھا اور اُسے پسند کیا اور کہا کہ مَیں یہ گھوڑا لیتا ہوں مگر اِس کی قیمت میں پانچ سَو نہیں بلکہ دو ہزار درہم دوں گا کیونکہ یہ گھوڑا نہایت اعلیٰ قسم کا ہے اور اِس کی قیمت اتنی تھوڑی نہیں جتنی تم بتاتے ہو۔ اِس پر گھوڑا بیچنے والا اصرار کرنے لگا کہ مَیں پانچ سَو درہم لوں گا اور گھوڑا خریدنے والا اصرار کرنے لگا کہ مَیں دو ہزار درہم دوں گا۔ ایک کہتا کہ اے شخص تجھے گھوڑے کی پہچان نہیں یہ گھوڑا زیادہ قیمت کا ہے اور دوسرا کہتا کہ مَیں صدقہ لینا نہیں چاہتا۔ مَیں اپنے گھوڑے کو جانتا ہوں اِس کی قیمت پانچ سَو درہم ہی ہے۔ ۳؎ اِس کے کتنا اُلٹ نظارہ آج دُنیا میں نظر آتا ہے۔ وہاں تو یہ تھا کہ چیز خریدنے والا قیمت بڑھاتا تھا اور چیز بیچنے والا قیمت گراتا تھا اور یہاں یہ حال ہے کہ دو دو آنے کی چیز بعض دفعہ دس دس روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔ بمبئی میں مَیں نے اِن دو سفروں میں جو حال ہی میں مَیں نے کئے ہیں نہیں دیکھا لیکن آج سے ۱۵، ۲۰ سال پہلے میں نے جو سفر کئے تھے اُن میں دو دفعہ خود میرے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ ہؤا۔ بمبئی میں چونکہ عام طور پر نَووارد لوگ آتے رہتے ہیں اور وہ قلموں کی شناخت کا مادہ اپنے اندر نہیں رکھتے اس لئے بعض لوگوں نے وہاں یہ طریق اختیار کیا ہؤا ہے کہ جب کسی اجنبی شخص کو دیکھیں گے اُسے آملیں گے اور کہیں گے کہ مَیں مسافر ہوں فلاں جگہ جانا چاہتا ہوں مگر کرایہ کم ہو گیا ہے، میرے پاس یہ قلم ہے اِس کی پندرہ روپے قیمت ہے مگر آپ دس روپے ہی دے دیں تو میرا کرایہ بن جائے گا۔ اب وہ قلم چھ سات پیسے کا ہوتا ہے مگر بعض دفعہ کوئی ایسا اناڑی بھی انہیں مل جاتا ہے جو اِس ملمّعکو دیکھ کر جو ٹِین کے خول پر چڑھا ہؤا ہوتا ہے سمجھتا ہے کہ یہ سَودا بڑا سستا ہے اور وہ دس روپے پر اِس سے قلم لے لیتا ہے حالانکہ وہ پانچ سات پیسے کا قلم ہوتا ہے۔ پھر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو جھگڑا شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قیمت زیادہ ہے ذرا کم کرو۔ اِس طرح وہ دس روپے سے نو روپے پر آتا ہے، پھر نو سے آٹھ پر، آٹھ سے سات پر، ساتھ سے چھ پر، چھ سے پانچ پر، پانچ سے چار پر حتّٰی کہ بعض دفعہ وہی قلم جس کی قیمت وہ پہلے پندرہ روپے بتلاتے ہیں چھ سات آنے پر دے دیتے ہیں اور لینے والا سمجھتا ہے کہ مَیں نے خوب لُوٹا۔ حالانکہ پھر بھی وہی شخص انہیں لُوٹ کر لے گیا ہوتا ہے کیونکہ وہ قلم چند پیسوں کا ہوتا ہے اور وہ کئی آنے بٹور لیتا ہے۔ خود میرے ساتھ بھی ایک دفعہ ایسا ہی ہؤا مگر مجھے چونکہ بعض دوستوں نے یہ بات بتا دی تھی اِس لئے مَیں نے فوراً کہہ دیا کہ مجھے ضرورت نہیں۔ مگر وہ کہنے لگا دس نہ سہی نو ہی دے دیں، نو نہ سہی آٹھ ہی دے دیں، آٹھ نہ سہی سات ہی دے دیں، سات نہ سہی چھ ہی دے دیں، اچھا پانچ روپے ہی دے دیں۔ جب مَیں نے کہا مَیں کہہ چُکا ہوں کہ مجھے اِس کی ضرورت نہیں تو کہنے لگا اچھا چار ہی دے دیجئے، تین ہی دے دیجئے، دو ہی دے دیجئے ،چلئے ایک روپیہ ہی دے دیں۔ پھر وہ اُس سے بھی نیچے اُترا اور کہنے لگا آٹھ آنے ہی دے دیں، سات آنے ہی دے دیں، چلو چھ آنے ہی دے دیں۔ مگر مَیں نے کہا جب مَیں نے کہہ دیا ہے کہ مَیں نے نہیں لینا تو مَیں چھ آنے بھی کیوں دوں؟ اِسی طرح کشمیر میں مَیں نے دیکھا ہے وہاں لوگ مُشک کا نافہ لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اِس کے اندر ایک تولہ مُشک ہے اور اِس کی اصل قیمت بتیس روپے ہے مگر چونکہ ہمیں روپے کی سخت ضرورت ہے اِس لئے ہم آپ کو چوبیس پچیس روپے میں نافہ دے سکتے ہیں۔ پھر وہی نافہ جس کی وہ پچیس روپے قیمت بتاتے ہیں بعض دفعہ آٹھ آنہ میں بھی دے دیتے ہیں اور جب تم آٹھ آنہ میں مُشک کا نافہ لے کر یہ سمجھتے ہو کہ دُنیا کے سب سے بڑے ماہر تاجر تم ہو کیونکہ تم نے ایک شخص سے مُشک کا نافہ آٹھ آنے میں لے لیا تو اس وقت بھی تم دھوکا خوردہ ہوتے ہو کیونکہ جب اسے کھول کر دیکھا جاتا ہے تو اِس میں سے کبوتر کے جمے ہوئے خون کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا اور تمہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ بڑے ماہر تم نہیں بلکہ بڑاٹھگ وہی تھا جو تمہیں لُوٹ کر لے گیا۔ وہ نافہ کے باہر تھوڑی سی مُشک مل دیتے ہیں اور اندر کبوتر کا خون بھر دیتے ہیں۔ کبوتر کے خون کی بعض دوائیوں سے بالکل مُشک کی سی شکل ہو جاتی ہے اور ناواقف آدمی سمجھتا ہے کہ آج مَیں نے بڑا سستا سودا کیا ۔ مَیں نے آٹھ آنہ میں مُشک کا نافہ خرید لیا۔ حالانکہ اس میں صرف کبوتر کا خون ہوتا ہے اور کبوتر کے خون کی قیمت تو ایک پیسہ بھی نہیں ہوتی۔
پھر قومی دیانت کو لے لو۔ یا تو یہ حال ہے کہ کم سے کم آٹھ کروڑ مسلمان ہندوستان میں موجود ہیں اور چند سَو انگریز اِس مُلک پر قبضہ کر لیتے ہیں اور یا یہ حال نظر آتا ہے کہ بدر کے میدان میں عرب کا ایک ہزار نہایت تجربہ کار سپاہی مکّہ کی طرف سے لڑنے آتا ہے اُن کے مقابلہ میں صرف ۳۱۳ آدمی ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جنہوں نے کبھی تلوار چلائی ہی نہیں اور دو تو ان میں پندرہ پندرہ سال کے لڑکے ہیں اور سپاہی کہلانے کے مستحق صرف دو سَو کے قریب آدمی ہیں اور یہ بھی کوئی بڑے پائے کے سپاہی نہ تھے سوائے چند کے مثلاً حضرت حمزہؓ، حضرت علی ؓ ، حضرت ابوبکر ؓ، حضرت عمر ؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیر ؓ۔ یہ ایسے خاندانوں میں سے تھے جن میں بچپن سے ہی فنونِ جنگ سکھائے جاتے تھے اور یہی چند آدمی تھے جو خاص طور پر ماہرِفن سمجھے جاتے تھے باقی سب معمولی سپاہی تھے۔ مگر مکّہ کی طرف سے آنے والے لشکر میں ایک ایک آدمی ایسا تھا جو ہزار ہزار پر بھاری سمجھا جاتا تھا اور وہ تمام کے تمام فنونِ جنگ میں نہایت ماہر تھے۔ جب مسلمانوں اور کفار کا لشکر آمنے سامنے ہؤا تو اُس وقت کسی نے سوال پیدا کر دیا کہ اِس لڑائی کا فائدہ کیا ہے؟ وہ تھوڑے سے آدمی ہیں اور ہیں بھی قریباً سب مکّہ کے۔ انصاری اِس جنگ میں بہت ہی کم ہیں۔ پس یہ سب ہمارے بھائی بند ہیں اگر ہم مارے گئے تب بھی اور اگر یہ مارے گئے تب بھی دونوں صورتوں میں مکّہ میں ماتم ہو جائے گا۔ اِس کی بات کو تو لوگوں نے نہ سُنا مگر اُنہوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو یہ پتہ لگانے کے لئے بھیجا کہ مسلمان کتنے ہیں اور ان کے سازوسامان کا کیا حال ہے؟ معلوم ہوتا ہے وہ آدمی نہایت ہی ہوشیار تھا۔ جب وہ آیا تو اُس نے پہلے تو وہ جگہ دیکھی جہاں مسلمانوں کا کھانا تیار ہو رہا تھا۔ پھر اُس نے سواریوں کا اندازہ لگایا اور واپس جاکر کہا کہ میرا اندازہ یہ ہے کہ مسلمان تین سَو، سَوا تین سَو کے قریب ہیں۔ یہ کیسا صحیح اندازہ تھا جو اُس نے لگایا۔ مسلمان واقعہ میں ۳۱۳ ہی تھے مگر اُس نے کہا اے میرے بھائیو! میرا مشورہ یہ ہے کہ تم لڑائی کا خیال چھوڑ دو۔ ابوجہل یہ سُن کر جوش میں آگیا اور اُس نے کہا کیوں ڈر گئے؟ وہ کہنے لگا مَیں ڈر گیا ہوں یا نہیں اِس کا پتہ تو میدانِ جنگ میں لگ جائے گا مگر مَیں یہ مشورہ تمہیں اِس لئے دے رہا ہوں کہ مَیں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر آدمیوں کو چڑھے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ مَیں نے موتیں دیکھی ہیں جو اُن اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار تھیں۔ اِن میں سے ہر شخص اِس نیّت اور اِس ارادے کے ساتھ آیا ہؤا ہے کہ مَیں مِٹ جاؤں گا مگر ناکام و نامراد واپس نہیں جاؤں گا۔ اِن میں سے ہر شخص کا چہرہ بتا رہا ہے کہ وہ سب کے سب یا تو خود فنا ہو جائیں گے یا تم کو فنا کر دیں گے۔ پس یہ مت خیال کرو کہ یہ لڑائی ویسی ہی ہو گی جیسے عام لڑائیاں ہوتی ہیں بلکہ ایک نہایت ہی اہم اور فیصلہ کُن جنگ ہو گی اور یا تو وہ تمہیں فنا کر دیں گے اور اگر وہ تمہیں فنا نہ کر سکے تو وہ خود سب کے سب ڈھیر ہو جائیں گے مگر میدانِ جنگ سے اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے اور ایسی قوم کو دبانا ہی مُشکل ہوتا ہے جس کا ہر فرد مرنے کے لئے تیار ہو۔۴؎
یہ کیسا شاندار فقرہ ہے جو اُس کی زبان سے نِکلا کہ مسلمانوں میں سے ہر شخص اپنے گھر سے اِسی نیت اور اِسی ارادہ کے ساتھ نِکلا ہے کہ مَیں فتح یا موت میں سے ایک چیز کو حاصل کئے بغیر واپس نہیں لوٹوں گا۔ کیا مختصر سے فقرہ میں اُس نے اِن تمام قلبی جذبات کا اظہار کر دیا ہے جو مسلمانوں کے قلوب میں موجزن ہو رہے تھے۔ یہ فقرہ اِن تاریخی فقرات میں سے ہے جو ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہیں کہ اے میرے بھائیو! مَیں نے آدمی نہیں دیکھے بلکہ موتیں دیکھی ہیں جو اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار تھیں۔
پھر دیکھ لو وہی ہؤا جو اُس نے کہا تھا۔ وہ واقع میں موتیں بن کر ظاہر ہوئے یا تو وہ مَر گئے یا اُنہوں نے کفار کو مار دیا جن کے لئے موت مقدر تھی وہ تو مر گئے اور جن کے لئے موت مقدر نہیں تھی اُنہوں نے مکّہ والوں کا ایسا تہس نہس کیا کہ مکّہ کے ہر گلی کوچہ میں ماتم برپا ہو گیا۔
ہزار آدمی کا ایک ایسے شہر میں سے نکل کر لڑائی کے لئے تیار ہو جانا جس میں دس پندرہ ہزار آدمی رہتے ہوں معمولی بات نہیں۔ ہر بارہ آدمی کے پیچھے ایک آدمی کا مارا جانا یا زخمی ہونا کوئی کم صدمے والی بات نہیں ہوتی لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ جو آدمی مارے گئے وہ چوٹی کے آدمی تھے تو ہم اور بھی زیادہ آسانی کے ساتھ اِس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مکّہ والوں کی کیا حالت ہوئی ہو گی؟ اِن مارے جانے والے لیڈروں میں سے ایک ایک آدمی ایسا تھا جس پر ہزاروں کا گزارہ تھا۔ ابو جہل عتبہ اور شیبہ یہ سب مکّہ کے لیڈر تھے۔ بیسیوں ان کے نوکر تھے، بیسیوں ان کے غلام تھے، بیسیوں ان کی تجارت پر کام کرتے تھے اور بیسیوں کی حفاظت کے یہ ذمّہ دار تھے۔ پس ان میں سے ایک ایک آدمی تہائی یا چوتھائی شہر کا ذمّہ دار تھا اور اِس ایک آدمی کا مرنا صرف اِس کے رشتہ داروں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہزاروں اَور لوگوں کے لئے بھی ماتم کا موجب تھا۔ اِس جنگ میں شکست کھانے کے بعد مکّہ والوں کی ایسی دردناک کیفیت ہو گئی کہ اُنہوں نے سمجھا اگر آج ماتم کیا گیا تو مکّہ کی تمام عزت خاک میں مل جائے گی۔ پس عرب کے ان لیڈروں نے جو زندہ تھے آپس میں مشورہ کر کے فیصلہ کر دیا کہ کوئی شخص بدر کے مقتولین کا ماتم نہ کرے اور اگر کوئی شخص ماتم کرے تو اُسے قوم سے نکال دیا جائے، اُس کا بائیکاٹ کیا جائے اور اُس پر جرمانہ کیا جائے۔ عرب ایک قبائلی قوم ہے اور جو قبائلی قومیں ہیں اُن میں قومی روح انتہاء درجہ کی شدید ہوتی ہے۔ پس اِس حکم کی خلاف ورزی اِن کے لئے ناممکن تھی۔ مائیں اپنے کلیجوں پر سِل رکھ کر، باپ اپنے دلوں کو مسُوس کر اور بچے اپنی زبانوں کو دانتوں تلے دبا کر بیٹھ گئے اور اُن کے لبوں سے آہ بھی نہیں نکلتی تھی کیونکہ ان کی قوم کا یہ فیصلہ تھا کہ آج رونا نہیں تا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور اُس کے ساتھی خوش نہ ہوں اور وہ یہ نہ کہیں کہ دیکھا ہم نے مکّہ والوں کو کیسی شکست دی۔ مگر دل تو جل رہے تھے، سینوں میں سے تو شعلے نکل رہے تھے، جِگر تو ٹکڑے ٹکڑے ہو رہے تھے۔ وہ دروازے بند کر کے تاریک گوشوں میں بیٹھتے اور دبی ہوئی آواز کے ساتھ روتے تا کسی کو یہ پتہ نہ لگے کہ وہ رو رہا ہے مگر یہ رونا ان کی تسلی کا موجب نہیں تھا کیونکہ انسان غم کے وقت دوسرے سے تسلی چاہتا ہے۔ بیوی چاہتی ہے کہ خاوند مجھ سے دُکھ درد کرے اور خاوند چاہتا ہے کہ بیوی مجھ سے دُکھ درد کرے، باپ چاہتا ہے کہ بیٹا میرے غم میں حصّہ لے اور بیٹا چاہتا ہے کہ باپ میرے غم میں حصّہ لے۔ اِسی طرح ہمسایہ چاہتا ہے کہ ہمسایہ والے میرا غم بٹائیں اور اگر کوئی ایسا ماتم ہو جائے جس کا اثر سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں پر ہو تو اس وقت سب لوگ چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کریں اور اس طرح اپنے دُکھ درد کو کم کریں۔ پس تنہائی کے گوشوں میں ان کا بیٹھ کر رونا ان کی تسلّی کا موجب نہیں تھا۔ مہینہ گزر گیا اور برابر یہ حکم نافذ رہا۔ اِس عرصہ میں وہ آگ جو اُنہوں نے اپنے سینہ میں دبارکھی تھی سُلگتی رہی آخر مہینہ کے بعد ایک دن ایک مسافر وہاں سے گزرا اُس کی ایک اونٹنی تھی جو راہ میں ہی مر گئی۔ وہ اُس اونٹنی کے غم میں چیخیں مار کر روتا جا رہا تھا اور کہتا جارہا تھا ہائے میری اونٹنی مر گئی، ہائے میری اونٹنی مر گئی۔ تب مکّہ کا ایک بوڑھا شخص جو اپنے مکان کے دروازے بند کر کے اندر بیٹھا ہؤا تھا اُس نے اپنے مکان کے دروازے کھول دیئے اور بازار میں آکر زور زور سے اُس نے پیٹنا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ اِس شخص کو اپنی اونٹنی پر رونے کی تو اجازت ہے مگر میرے تین جوان بیٹے مارے گئے اور مجھے رونے کی اجازت نہیں دی جاتی یہ ایک نعرہ تھا جو اُس نے لگایا جس نے مکّہ میں ایک شعلہ کا کام دیا۔ اِس کے بعد نہ کسی کو قانون کا خیال رہا، نہ قوم اور برادری سے اخراج کی دھمکی کا خیال رہا، معاً مکّہ کے گھروں کے تمام دروازے کھل گئے اور چوکوں اور بازاروں میں عورتیں اور بچے پیٹنے لگ گئے۔۵؎ یہ وہ موتیں تھیں جو ۳۱۳ جانباز صحابہ کی شکلوں میں ظاہر ہوئیں۔ جب ایک مَلَکُ الموت ساری دُنیا کی جان نکال لیتا ہے تو اگر انسان بھی مَلَکُ الموت کا نمائندہ بن جائے اور کہے کہ مَیں مر جاؤں گا مگر اپنے کام سے نہیں ہٹوں گا تو اُسے کون مار سکتا ہے۔ اسلام ظلم کی اجازت نہیں دیتا، اسلام قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا مگر اسلام اِس معاملہ میں کوئی استثنیٰ نہیں کرتا کہ اگر کوئی مسلمان ڈر کر یا غدّاری سے کام لے کر میدانِ جنگ سے بھاگ آئے تو سوائے جہنم کے اُس کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲ پڑھنے والا ہو گا، وہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ کہنے والا ہو گا، وہ نمازیں پڑھنے والا ہوگا اور زکوٰۃ دینے والا ہو گا، وہ سارے ہی احکامِ اسلام کی پابندی کرنے والا ہو گا مگر خدا اُسے فرمائے گا کہ تمہارا ٹھکانا دوزخ کے سوا اَور کہیں نہیں کیونکہ تم قومی غدّاری کے مجرم ہو۔ تو قومی غدّاری ایک نہایت ہی خطرناک جُرم ہے۔ صحابہ ؓ کو ہی دیکھ لو اُنہوں نے قومی دیانت کا کیسا شاندار نمونہ دکھایا۔ ایسا اعلیٰ نمونہ کہ شدید ترین دُشمن بھی ان کی اِس خوبی کا اعتراف کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا پر غالب آئے اور یہی وہ چیز ہے جسے ہم اپنے اندر پیدا کر کے دُنیا پرغلبہ حاصل کر سکتے ہیں۔ یقینا یاد رکھو جو قوم مرنے مارنے پر تُلی ہوئی ہو اُسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ اگر اِس پر کوئی حملہ بھی کرے تو مٹتی نہیں بلکہ اُبھرتی ہے اور گرتی نہیں بلکہ ترقی کرتی ہے۔
تو تمہارا ایک کام یہ ہے کہ تم نوجوانوں میں قومی دیانت پیدا کرو۔ اِسی طرح ان میں تجارتی دیانت پیدا کرو یا زیادہ وسیع لفظ اگر استعمال کیا جائے تو اِس کے لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ تم معاملاتی دیانت پیدا کرو اور اخلاقی دیانت کے پیدا کرنے سے بھی غافل نہ ہو۔
اگر تم بار بار نوجوانوں کو یہ سبق دو، اگر تم دیکھتے رہو کہ تم میں سے کسی میں دیانت کا فقدان تو نہیں ہو رہا اور اگر تم اپنے دوستوں، اپنے ہمسایوں، اپنے رشتہ داروں، اپنے اہلِ محلہ اور اہلِ شہر میں یہ روح پیدا کرنے کی کوشش کرو تو یقینا تم ایک ایسا کام کرتے ہو جو احمدیت کو زندگی بخشنے والا ہے۔
باقی رہا سچ، سو سچ بھی ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے بغیر دُنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ سارے فساد اور لڑائی جھگڑے محض جھوٹ سے پیدا ہوتے ہیں۔ لوگوں کو اگر ایک دوسرے پر اعتبار نہیں آتا یا تعلّقات میں کشیدگی ہوتی ہے تو محض اِس لئے کہ وہ سچ نہیں بولتے مگر جس کی سچائی پر لوگوں کو یقین ہو اُس کے متعلق وہ ایسی باتیں بھی ماننے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں جن باتوں کو وہ کسی دوسری صورت میں تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا، وہ معلوم ہوتا ہے کوئی موٹی عقل کا آدمی تھا جس نے اسلام پر غور کیا مگر اسلام کی صداقت اُس پر کسی طرح منکشف نہ ہوئی مگر پھر اُس کے دل میں شُبہ بھی پیدا ہو جاتا کہ اگر اسلام سچا ہی ہؤا تو مَیں خدا تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا؟ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم چونکہ صدوق مشہور تھے اور ہر شخص اِس بات کو تسلیم کرتا تھا کہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے اِس لئے اُس نے فیصلہ کیا کہ اِس امر کا بھی آپ سے ہی فیصلہ کرائے اور اُسی شخص سے جو مدعی ہے دریافت کرے کہ کیا وہ اپنے دعوے میں سچا ہے یا نہیں؟ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جو شخص مُدعی ہے اُسی سے وہ پوچھنے آتا ہے کہ کیا آپ واقع میں مُدعی ہیں یا یونہی کہہ رہے ہیں؟ وہ چونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کا قائل نہیں تھا اِس لئے اُس نے آتے ہی کہا کہ اے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) مَیں تجھ سے ایک سوال کرتا ہوں تُو خدا کی قسم کھا کر مجھے اُس کا جواب دے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا جو بات تم دریافت کرنا چاہتے ہو دریافت کرو۔ اُس نے کہا آپ خدا کی قسم کھا کر بتائیں کہ کیا آپ نے جو دعویٰ کیا ہے یہ خدا کے حکم کے مطابق کیا ہے اور کیا واقع میں خدا نے آپ کو رسول بنایا ہے؟ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے خدا نے ہی رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اُس نے کہا اگر یہ بات ہے تو ہاتھ لائیے مَیں ابھی آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں۔۶؎ اب مُدعی وہی ہے اُس کے سچ اور جھوٹ پر بحث ہے مگر چونکہ دُنیوی زندگی میں وہ آپ کی سچائی کا قائل تھا اِس لئے اُس نے اپنی آخرت بھی آپ کے سپرد کر دی اور فیصلہ کر لیا کہ جب یہ دنیوی معاملات میں جھوٹ نہیں بولتا تو یہ ممکن ہی نہیں کہ دینی معاملات میں جھوٹ بولے۔
تو سچائی ایک ایسی چیز ہے کہ وہ انسان کے رُعب کو قائم کر دیتی ہے۔ تم اگر سچ بولو اور نوجوانوں کو سچ بولنے کی ہمیشہ تلقین کرتے رہو تو تمہارا ایک ایک فرد ہزاروں کے برابر سمجھا جائے گا۔ لوگ تبلیغ کرتے اور بعض دفعہ شکایت کرتے ہیں کہ اِس تبلیغ کا اثر نہیں ہوتا لیکن اگر سچائی کامل طور پر ہماری جماعت میں پھیل جائے اور لوگ بھی یہ محسوس کرنے لگ جائیں کہ اِس جماعت کا کوئی فرد جھوٹ نہیں بولتا تو چاہے آج کے لوگ نہ مانیں مگر ان کی اولادیں اِس بات پر مجبور ہوں گی کہ احمدیت کی صداقت کو تسلیم کریں کیونکہ جب ان کی اولاد یں سُنیں گی کہ فلاں شخص تھا تو بڑا سچا مگر ہمیشہ جھوٹ کی طرف لوگوں کو بُلاتا رہا تو وہ حیران ہوں گی اور یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں گی کہ جنہوں نے اِن لوگوں کو غلط عقائد میں مُبتلا سمجھا اُنہوں نے غلطی کی۔
تو نوجوانوں کو سچ بولنے کی عادت ڈالو اور خدّامِ احمدیہ کے ہر ممبر سے یہ اقرار لو کہ وہ سچ بولے گااگر وہ کسی وقت سچ نہ بولے تو تم خود اِسے سزا دو۔ مَیں نے بار ہا جماعت کو توجّہ دلائی ہے کہ یہ طوعی نظام ہے اور طَوعی نظام والے کو سزا دینے کا بھی اختیار ہوتا ہے۔پس اگر تم سزا دو تو تمہیں کوئی قانون اس سے نہیں روکتا۔قانون تمہیں اس بات سے روکتا ہے کہ تم جبراً کسی کو سزا دو لیکن جو شخص آپ ایک نظام میں شامل ہوتا اور آپ کہتا ہے کہ مجھے بیشک سزا دے لو اُسے سزا دینے میں کوئی قانونی روک نہیں۔ بیشک بعض قسم کی سزائیں ایسی ہیں جنہیں قانون نے روک دیا ہے۔ مثلاً قتل ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے بھی کہے کہ مجھے قتل کر لو تو دوسرا شخص اُسے قتل نہیں کر سکتا۔ یہ صرف حکومت کا ہی کام ہے کہ وہ مُجرم کو قتل کی سزا دے لیکن اِس سے اُتر کر جو معمولی سزائیں ہیں وہ طُوعی نظام میں دی جاسکتی ہیں۔ مدرِّس روز لڑکوں کو پیٹتے ہیں مگر کوئی قانون انہیں اس سے نہیں روکتا۔ اِس لئے کہ طالبعلم اپنی مرضی سے سکول میں جاتا اور وہ اپنی مرضی سے ایک نظام کا اپنے آپ کو پابند بناتا ہے۔ پس جب وہ اپنی خوشی اور مرضی سے ایک نظام کو قبول کرتا ہے تو اُس کا فرض ہے کہ سزا کو بھی برداشت کرے۔ پس تم اپنے اندر اُسی شخص کو شامل کرو جو تمہارے نظام کی پابندی کرنے کے لئے تیار ہو اور جب کوئی شخص اِس اقرار کے بعد تمہارے نظام میں شریک ہوتا ہے اور پھر کسی عہد کی خلاف ورزی کرتا ہے تو تمہارا اختیار ہے کہ تم اُسے سزا دو۔ پس اگر کوئی جھوٹ بولے تو تم خود اُسے سزا دواور جس طرح مُرغی اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے اُسی طرح تم سچائی کی حفاظت کرو۔ مُرغی کس قدر کمزور جانور ہے لیکن جب اُس کے بچوں پر کوئی بلّی یا کُتّا حملہ کر دے تو وہ بلّی اور کُتّا کا بھی مقابلہ کر لیتی ہے۔ پس جس طرح وہ اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے اُسی طرح تم سچ کی حفاظت کرو اور کوشش کرو کہ تمہاراہرممبر سچا ہو اور سچائی میں تمہارا نام اِس قدر روشن ہو جائے کہ خدّام الاحمدیہ کا ممبر ہونا ہی اِس بات کی ضمانت ہو کہ کہنے والے نے جو کچھ کہا ہے وہ صحیح ہے اور جب بھی لوگ ایسے شخص کے مُنہ سے کوئی روایت سُنیں وہ کہیں کہ یہ روایت غلط نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اِس کا بیان کرنے والا خدّام الاحمدیہ کا ممبر ہے۔ جب تم اِس مقام کو حاصل کر لو گے تو تمہاری تبلیغ کا اثر اتنا وسیع ہوجائے گا کہ اِس کی کوئی حد ہی نہیں اور تم ہزاروں عیوب قوم میں سے دُور کرنے کے قابل ہوجاؤ گے۔ پس دیانت اور سچائی کو خاص طور پر اخلاقِ فاضلہ میں سے چُن لو اور بھی بہت سے ضروری اخلاق ہیں مگر اِن دو اخلاق کو مَیں نے خصوصیت کے ساتھ چُنا ہے۔ اِن کو ہمیشہ انپے مدّنظر رکھو اور اِن کے علاوہ بھی جس قدر نیک اخلاق ہیں وہ اپنے اندر پیدا کرو۔ مثلاً اعلیٰ اخلاق میں سے ایک ظلم نہ کرنا ہے مگر چونکہ خدّام الاحمدیہ کے اساسی اصول میں خدمتِ خلق بھی شامل ہے اِس لئے میں نے علیحدہ اِس کو بیان نہیں کیا کیونکہ وہ شخص جس کا فرض یہ ہو کہ وہ دوسروں کی خدمت کرے وہ کسی پر ظلم نہیں کر سکتا۔ پس مَیں نے اِس کو اِسی لئے چھوڑ دیا ہے کہ یہ بات تمہارے نام اور تمہارے اساسی اصول کے اندر شامل ہے لیکن بہرحال اور جس قدر اچھے اخلاق ہیں وہ سب اپنے اندر پیدا کرو۔ انسان اگر تلاش کرے تو اُسے بیسیوں اخلاق معلوم ہوسکتے ہیں لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے یہ دو اہم اخلاق ہیں جن کا اپنے اندر پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ ایک دیانت اور دوسرا سچ۔
ان کے علاوہ ایک اَور بھی اہم خلق ہے مگر اِس کا ذکر انشاء اﷲ پھر کروں گا۔ بہرحال اخلاقِ فاضلہ میں سے سچ اور دیانت کو اپنے اندر پیدا کرنے کی خاص طور پر کوشش کرو اگر تم ان دو اخلاق کو جماعت کے اندر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاؤ تو تم جماعت کی اتنی بڑی خدمت کرتے ہو کہ اِس کی قیمت کوئی انسان نہیں لگا سکتا۔ صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات ہی جو عالم الغیب ہے اور جو وسیع سے وسیع گہرائیوں کو ناپ سکتی ہے تمہاری اِس خدمت کا اندازہ لگا سکتی اور تمہیں بڑے سے بڑا بدلہ دے سکتی ہے۔
چونکہ اب وقت زیادہ ہو گیا ہے اِس لئے مَیں اِسی بات کے بیان پر اکتفا کرتا ہوں۔‘‘
(الفضل ۱۵؍مارچ ۱۹۳۹ئ)
۱؎ تِریا چرتّر (چلتّر) : عورتوں کے مکروفریب
۲؎ ارشیف ملتقی اھل الحدیث جز ۱ صفحہ ۶۱۴۳ ، موسوعۃخطب المنبر جز ۱
صفحہ ۱۳۵ شاملہ C.D
۳؎
۴؎ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۲۷۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۵؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد ۲ صفحہ ۲۰۰، ۲۰۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء (مفہوماً)
۶؎
۷
جماعت کے افراد میں ہاتھ سے کام کرنے کی
عادت پیدا کی جائے
(فرمودہ ۲۴؍فروری۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’خدّام الاحمدیہ کے مقاصد میں سے چار کے متعلق مَیں اِس وقت تک توجّہ دِلا چُکا ہوں اور آج پانچویں امر کے متعلق توجّہ دلاتا ہوں اور وہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے۔ یہ معاملہ بظاہر چھوٹا سا نظر آتا ہے لیکن دراصل یہ اپنے اندر اتنے فوائد اور اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ اِس کا اندازہ الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا۔ دراصل دُنیا کی اقتصادی حالت اور اخلاقی حالت اور اِس کے نتیجہ میں مذہبی حالت جو ہے اِس پر علاوہ دینی مسائل کے جو چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں اُن میں سے یہ مسئلہ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے۔ اقتصادی اور اخلاقی حالت کی تباہی بہت کچھ مبنی ہے اِن دو باتوں پر کہ دُنیا میں بعض لوگ کام کرنا چاہتے ہیں اور ان کو کام ملتا نہیں اور بعض ایسے لوگ ہیں کہ انہیں کام کرنے کے مواقع میسّر ہیں مگر وہ کام کرتے نہیں۔ یہ تمام آجکل کی لڑائیاں ، یہ بالشوازم، یہ فیسی ازم کی تحریکیں، سوشلزم اور کیپٹلزم کے دُنیا پر حملے یہ سب درحقیقت اِسی چھوٹے سے نقطہ کے اِرد گِرد گھوم رہے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں انسان ہیں جو چاہتے ہیں کہ کام کریں مگر اِنہیں کام میسّر نہیں آتا اور لاکھوں کروڑوں انسان ایسے ہیں جو کام کر سکتے ہیں مگر کرتے نہیں۔ جو لوگ کام کرنا چاہتے ہیں مگر اُنہیں ملتا نہیں اِس کی بنیاد بھی درحقیقت اِسی مسئلہ پر ہے کہ کچھ لوگ دُنیا میں ایسے ہیں کہ جو کام کر سکتے ہیں اُنہیں مواقع میسّر ہیں مگر وہ کرتے نہیں۔ یہ لوگ آگے پھر دو گروہوں میں تقسیم شُدہ ہیں۔ ایک وہ جن کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ باقی دُنیا کو ہماری خدمت کرنی چاہئے اور ہم گویا ایک ایسا وجود ہیں جو دُنیا سے خدمت لینے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ یہ گروہ فطرتی طور پر اِس ہتھیار کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اِسے لوگوں سے زیادہ سے زیادہ خدمت لینے کے قابل کر دے اور وہ دولت ہے۔ جب انسان یہ سمجھے کہ اِس کی عزت اور امن و راحت کا انحصار دولت پر ہے تو وہ لازمی طور پر اپنی دولت کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ایک طبعی چیز ہے۔ ہم اِس اصول کو غلط کہہ سکتے ہیں کہ دُنیا میں دولت سے عزت اور راحت حاصل ہوتی ہے مگر یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ جو شخص یہ سمجھتا ہے وہ اُسے بڑھانے میں غلطی کرتا ہے۔ وہ اپنے نقطۂ نگاہ سے بِالکل صحیح کرتا ہے۔ مومن یہ سمجھتا ہے کہ اِس کی ساری عزت خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں ہے اور کیا ہم اِسے روکیں گے کہ یہ تعلق نہ بڑھا، یا اگر وہ یہ کوشش کرے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ غیر طبعی فعل کرتا ہے۔ جب اِس کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام عزّتیں اور رحمتیں خدا تعالیٰ سے تعلق کے ساتھ وابستہ ہیں تو وہ قدرتی طور پر کوشش کرے گا کہ اِس تعلق کو بڑھائے۔ اِسی طرح جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اِس کی ساری عزت اور راحت و امن دولت میں ہے تو ضرور ہے کہ وہ دولت کو بڑھانے کی کوشش کرے گا اور اِس کی اِس کوشش پر ہم کوئی اعتراض نہیں کر سکتے کیونکہ یہ طبعی تقاضا ہے۔ ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اِس کا یہ خیال غلط ہے کہ ساری عزّت اور راحت دولت سے وابستہ ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے دولت میں اضافہ کی کوشش کرنا غیر طبعی فعل ہے۔ جس طرح ہم اِس شخص کو جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ عزّت اور راحت تعلق بِاﷲ میں ہے اِس سے باز نہیں رکھ سکتے کہ وہ خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھائے۔ دُنیا میں ہزاروں لاکھوں انبیاء آئے ہیں جن کی زندگی کا دارومدار اور انحصار ہی تعلق باﷲ پر ہوتا ہے اور پھر اِن کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کا اِسی تعلیم پر یقین ہوتا ہے۔ لوگوں نے کِس طرح کوششیں کیں کہ اِن کو اِس راستہ سے ہٹا دیں مگر کیا اُنہوں نے اِس کو چھوڑا؟ اِن کو طرح طرح کے عذاب دیئے گئے، دُکھ پہنچائے گئے مگراُنہوں نے اپنا راستہ نہ چھوڑا کیونکہ ان کا یہی عقیدہ تھا کہ تمام عزّت اور راحت اِسی سے ہے۔ اِس طرح جس شخص کو یہ یقین ہو کہ اُس کی ساری عزّت و راحت دولت جمع کرنے میں ہے خواہ کتنی کوشش کی جائے وہ دولت جمع کرنا کبھی نہیں چھوڑے گا۔
دوسری طرف جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو اِس میں دولت کمانے سے منع نہیں کیاگیا۔ قرآن کریم میں مومن اور خالص مومنوں کے لئے بعض احکام ہیں اور اِن میں ڈھیروں ڈھیر مال کا ذکر ہے۔ چنانچہ حکم ہے کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو ڈھیروں ڈھیر مال بھی دیا ہو تب بھی یہ جائز نہیں کہ طلاق دیتے وقت اُسے واپس لے ۱؎ اور ظاہر ہے کہ ڈھیروں ڈھیر مال کسی کے پاس ہو گا تو دے گا نہیں تو کہاں سے دے گا؟ کنگال آدمی ڈھیروں ڈھیر مال کہاں سے دے سکتا ہے؟ اگر دولت کمانا منع ہوتا تو ایسی مثالیں بھی قرآن کریم میں نہ ہوتیں۔ پھرقرآن کریم میں زکوٰۃ کا حکم ہے جو مال پر ہی دی جاتی ہے۔ پھر تقسیم ورثہ کا حکم ہے۔ اگر دولت کمانا جائز نہ ہوتا تو پھر تقسیم ورثہ کا حکم ہی نہ ہوتا اور اِسی طرح صدقہ خیرات کے حکم بھی قرآن کریم میں نہ ہوتے اگر یہ احکام یونہی تھے تو یہ کیوں نہ بتایا کہ اگر کسی کے گھر میں شراب کا مَٹکا ہو تو اُسے یوں تقسیم کیا جائے یا یہ کہ کسی مسلمان کے گھر میں سُؤر کا گوشت ہو تو اُسے یوں تقسیم کیا جائے۔ پس اگر دولت کمانا اسلام میں منع ہوتا تو ایسے احکام بھی نہ ہوتے۔ اسلام نے دولت کمانے سے منع نہیں کیا بلکہ جس چیز کو منع کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اِس دولت کو محفوظ کر کے ایسے رنگ میں رکھ لیتا ہے کہ دُنیا کو اِس کے فائدہ سے محروم کرتا ہے۔ روپیہ کو بنکوں میں جمع رکھا جاتا ہے یا خزانوں میں دفن کر دیا جاتا ہے اور اِس طرح خود تو اِس سے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے مگر وہ دولت دوسروں کے کام نہیں آسکتی۔ جس چیز سے اسلام روکتا ہے وہ یہ ہے کہ اِس طرح دولت کو محفوظ نہ کر لو کہ دوسرے اِس کے فائدہ سے محروم رہ جائیں اور یہ کہ سُود نہ لو کیونکہ اِس سے دولت چند لوگوں کے ہاتھوں میں جمع ہو جاتی ہے اور باقی لوگ محروم رہ جاتے ہیں۔ جس دولت سے دُنیا کو فائدہ پہنچے اِس سے اسلام نے نہیں روکا، جس کا فائدہ صرف مالک کو ہو اُس سے روکتا ہے۔ جو لوگ سُود پر روپیہ لیتے ہیں لوگ اُن کو کروڑوں روپیہ دے دیتے ہیں کہ نفع ملے گا۔ اِسی طرح وہ روپیہ سمیٹ لیتے ہیں اور روپیہ چند ہاتھوں میں جمع ہو جاتا ہے۔ پہلے تو لوگ ان کو اِس لئے روپیہ دیتے ہیں کہ سُود ملے گا لیکن آخر کار اِن کے دستِ نگر ہو جاتے ہیں اور اِس طرح جو روپیہ جمع کرتے ہیں وہ کوشش کرتے ہیں کہ روپیہ جمع کرتے چلے جائیں تا دوسروں سے غلامی کروا سکیں اور خدمت کراسکیں۔ اِس چیز سے قرآن کریم نے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں قیامت کے دن اِسے جلا کر اِن کے بدن کو داغ دیا جائے گا۔۲؎ اِس سونا چاندی سے مُراد استعمال والا سونا چاندی نہیں جو جائز طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں زکوٰۃ کا حکم ہے اور حدیثوں میں یہ تفاصیل بیان کی گئی ہیں کہ اتنے سونے اور اتنی چاندی پر اتنی زکوٰۃ دینی چاہئے۔ اگر سونا چاندی پاس رکھنا ہی منع ہوتا تو اُس پر زکوٰۃ کے کوئی معنے ہی نہ تھے۔ کیا شراب پر بھی کوئی زکوٰۃ ہے؟ تو یہ درمیانی رستہ ہے جو اسلام نے بتایا ہے اور ایسی دولت سے منع کیا ہے جس کے فائدہ سے دوسرے لوگ محروم رہ جائیں۔ جو لوگ اِس طرح دولت جمع کرتے ہیں وہ آرام طلب ہو جاتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہاتھ سے کام نہیں کرتے۔ اِن کے مدّنظر ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اِن کے پاس روپیہ ہو تو لوگوں سے کام لیں۔ خود چار پائی پر بیٹھے ہیں اور دوسرے کو حکم دیتے ہیں کہ پاخانہ میں لوٹا رکھ آؤ اور اِس قدر نکمّے ہو جاتے ہیں کہ پاخانہ سے واپس آتے ہوئے لوٹا وہیں چھوڑ آتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ او کمبخت کہاں گیا جا لوٹا اُٹھا لا۔ اِن کو کوئی کام کرنا نصیب ہی نہیں ہوتا اور چونکہ اِن کو دوسروں سے کام لینے کی عادت ہو جاتی ہے اِس لئے یہی لوگ ہیں جو دُنیا میں غلامی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں بلکہ اِن کا وجود غلامی کا منبع ہوتا ہے اور دُنیا میں اِن کے ذریعہ غلامی اِس طرح پھیلتی ہے جس طرح طاعون کے کیڑوں سے طاعون پھیلتی ہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ دُنیا کی حالت ایسی رہے کہ اِس میں ایک طبقہ ایسے لوگوں کا رہے جو اِن کی خدمت کرتے رہیں اور وہ اِس کے لئے کوشش بھی کرتے رہتے ہیں جس طرح حکومت کو گھوڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اِس کے لئے وہ زمینداروں کو مربعے دیتی ہے کہ گھوڑے پالیں اِسی طرح جو لوگ اِس بات کے عادی ہوتے ہیں کہ ہاتھ سے کام نہ کریں یا بعض کاموں میں اپنی ہتک سمجھیں وہ لازماً کوشش کرتے ہیں کہ دُنیا کا کچھ حصّہ غریب رہے اور اِن کی خدمت کرتا رہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر دُنیا کی حالت اچھی ہو جائے تو وہ کام کس سے لیں گے۔ یہ باریک باتیں شاید زمینداروں کی سمجھ میں نہ آسکیں اِس لئے مَیں اِسے ایک موٹی مثال سے واضح کر دیتا ہوں جس سے ہر شخص اِس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ ایک دفعہ مجھے اطلاع ملی کہ شکر گڑھ کی تحصیل میں بعض ادنیٰ اقوم ہیں جن کو آریہ ہندو بنا رہے ہیں اور مجھے اطلاع ملی کہ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اگر مسلمان ہم کو اپنے ساتھ ملا لیں تو ہم مسلمان ہو جائیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہندو ہو کر بھی ہماری حالت اچھی نہ ہو گی۔ کئی پیغام مجھے آئے اور مَیں نے ایک دو مبلّغ وہاں بھیج دیئے کہ جاکر اِن میں تبلیغ کریں اور پھر ہم اِن کے لئے انتظام کرنے کی کوشش کریں گے۔ پہلے پہل تو مجھے رپورٹ ملتی رہی کہ وہاں بڑا اچھا کام ہو رہا ہے اور اُمید ہے کہ سینکڑوں ہزاروں لوگ اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔ مگر دس بارہ روز کے بعد یہ رپورٹیں آنی شروع ہو ئیں کہ سخت مخالفت ہو رہی ہے اور ہمارے مبلّغوں کو لوگ اپنے گاؤں میں ٹھہرنے تک نہیں دیتے۔ یہ رپورٹیں سُن کر مجھے بہت حیرانی ہوئی کیونکہ وہ سارا علاقہ مسلمانوں کا ہے اور مجھے اُمید تھی کہ مسلمان ضرور مددکریں گے لیکن مجھے بتایا گیا کہ اِس علاقہ کے ذیلدار نے جو مسلمان ہے سب کام چھوڑ چھاڑ کر ہماری مخالفت شروع کر رکھی ہے اور بعض نمبرداروں کو ساتھ لے کر وہ ہمارے آدمیوں کے پیچھے پیچھے پھرتا اور ہر گاؤں میں پہنچ کر لوگوں سے کہتا ہے کہ اِن کو یہاں ٹکنے نہ دو اور اِس کی وجہ وہ یہ بتاتا ہے کہ اگر اُنہوں نے ان لوگوں کو مسلمان بنا لیا تو پھر ہمارے جو جانور مر جایا کریں گے اُنہیں کون اُٹھا کرلے جایا کرے گا اور اُن کی کھالیں کون اُتارا کرے گا؟ اگر ان لوگوں میں یہ عادت نہ ہوتی کہ ایک خاص قسم کے کام نہیں کرنے تو اِن کو اِس مخالفت کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ تو بعض قسم کے کام کرنا امراء اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔ زمینداروں میں بھی یہ عادت ہے کہ وہ بعض خاص قسم کے کام خود کرنا ہتک سمجھتے ہیں اور اِن کو کمیوں کے کام سمجھتے ہیں۔ اِن کمیوں کی اصلاح کا سوال جب بھی پیدا ہو گا زمیندار فوراً لڑائی پر آمادہ ہو جائیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اِس طرح ہمارے کام رُک جائیں گے۔
جب قادیان میں چوہڑوں کو اسلا م میں داخل کرنے کا سوال پیدا ہؤا تو میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی کہ بعض احمدیوں نے مجھ سے کہا کہ اگر یہ لوگ مسلمان ہو گئے تو ہمارے گھروں کی صفائی کون کرے گا؟ یہ دقّت ان کو صرف اِس وجہ سے نظر آئی کہ ان کو ایک خاص قسم کا کام کرنے کی عادت نہ تھی اور جسے بِالکل ہی کام کرنے کی عادت نہ ہو اُسے غصّہ آئے گا۔ جب وہ یہ محسوس کرے گا کہ اب اِس کی خدمت کرنے والے نہیں رہیں گے۔ اگر زمینداروں کو یہ عادت ہوتی کہ اپنے مُردہ جانوروں کو خود ہی باہر پھینک دیں تو شکر گڑھ کی تحصیل کے زمیندار ہماری مخالفت نہ کرتے۔ تو میرا مطلب یہ ہے کہ ایک تو کام کرنے کی عادت پیدا کی جائے اور دوسرے کسی کام کو ذلیل نہ سمجھا جائے۔ ہاں نوکر رکھ لینا اَور بات ہے۔ اگر کسی کا کام زیادہ ہو جسے وہ خود نہ کر سکتا ہو تو وہ کسی کو مددگار کے طور پر رکھ سکتا ہے۔ بعض بڑے زمیندار بھی اپنے ساتھ ہالی رکھ لیتے ہیں لیکن اِس کے یہ معنے نہیں کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے ہل نہیں چلاتے۔ وہ خود بھی چلاتے ہیں اِس لئے ان کو یہ فکر نہیں ہوتا کہ اگر ہالی نہ رہے تو وہ کیا کریں گے۔ کیونکہ وہ خود بھی ہل چلانے میں عار نہیںسمجھتے لیکن جن کاموں کو لوگ اپنے لئے عار سمجھتے ہیں اُن کے کرنے والوں کی اصلاح کا اگر سوال پیدا ہو تو وہ ضرور ناراض ہوتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اِس کے بعد یہ ہتک والا کام ہمیں خود کرنا پڑے گا اور اِس لئے جب میں کہتا ہوں کہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے تو اِس میں دونوں باتیں شامل ہیں یعنی یہ بھی اِس میں شامل ہے کہ کسی کام کو اپنے لئے عار نہ سمجھا جائے۔ یوں تو سارے ہی لوگ ہاتھ سے کام کرتے ہیں مَیں جو لکھتا ہوں یہ بھی ہاتھ سے ہی کام ہے۔ کیا ہاتھ سے نہیں تو زبان سے لکھا جاتا ہے؟
پس ہاتھ سے کام کرنے کو جب مَیں کہتا ہوں تو اُس کے معنے یہ ہیں کہ وہ عام کام جن کو دُنیا میں عام طور پر بُرا سمجھا جاتا ہے اُن کو بھی کرنے کی عادت ڈالی جائے۔ مثلاً مٹی ڈھونا یا ٹوکری اُٹھانا ہے ،کہی چلانا ہے۔ اَوسط طبقہ اور امیر طبقہ کے لوگ یہ کام اگر کبھی کبھی کریں تو یہ ہاتھ سے کام کرنا ہو گا ورنہ یوں تو سب ہی ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔ یہ کام ہمارے جیسے لوگوں کے لئے ہیں کیونکہ ہمیں اِن کی عادت نہیں۔ اگر ہم نے اِس کی طرف توجّہ نہ کی تو ہو سکتا ہے کہ ہماری عادتیں ایسی خراب ہو جائیں یا اگر ہماری نہ ہوں تو ہماری اولادوں کی عادتیں ایسی خراب ہو جائیں کہ وہ اُن کو بُرا سمجھنے لگیں اور پھر کوشش کریں کہ دُنیا میں ایسے لوگ باقی رہیں جو ایسے کام کیا کریں اور اِسی کا نام غلامی ہے۔
پس جائز کام کرنے کی عادت ہر شخص کو ہونی چاہئے تا کسی کام کے متعلق یہ خیال نہ ہو کہ یہ بُرا ہے۔ ہمارے مُلک کی ذہنیت ایسی بُری ہے کہ عام طور پر لوگ لوہار ، ترکھان وغیرہ کو کمیں سمجھتے ہیں اور جس طرح یہ لوہار، ترکھان اور چوہڑوں کو ذلیل سمجھتے ہیں اِسی طرح دوسرے لوگ اِن کو ذلیل سمجھتے ہیں۔ اگر کسی شخص کا لڑکا پولیس یا فوج میں سپاہی ہو جائے اور سترہ روپیہ ماہوار تنخواہ پانے لگے تو اِس پر بہت خوشی کی جاتی ہے لیکن اگر وہ پچاس ساٹھ روپیہ ماہوار کمانے والا ترکھان یا لوہار بن جائے تو تمام قوم روئے گی کہ اِس نے ہماری ناک کاٹ ڈالی کیونکہ اِسے کمیوں کا کام سمجھا جاتا ہے۔ تو میرا مطلب یہ ہے کہ اِس قسم کے کاموں کی جماعت میں عادت ڈالی جائے۔ ایک طرف تو کام کرنے کی عادت ہو اور دوسری طرف ایسے کاموں کو عیب نہ سمجھنے کی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جماعت کا کوئی طبقہ ایسا نہیں رہے گا کہ جو کسی حالت میں بھی یہ کوشش کرے کہ دُنیا میں ضرور کوئی نہ کوئی حصّہ غلام رہے اور اگر کبھی اِس کی اصلاح کا سوال پیدا ہو تو اِس میں روک بنے۔ جیسے جب یہاں چوہڑوں کو داخلِ اسلام کرنے کا سوال پیدا ہؤا تو بعض لوگ گھبرانے لگے تھے۔ جماعت کے کچھ لوگ بڑھئی بنیں، کچھ لوہار بنیں، کچھ ملازمتیں کریں غرضیکہ کوئی خاص کام کسی سے منسوب نہ ہو، تا وہ ذلیل نہ سمجھا جائے۔ اِس تحریک سے دو ضروری فوائد حاصل ہوں گے: ایک تو نکمّا پن دُور ہو گا اور دوسرے غلامی کو قائم رکھنے والی رُوح کبھی پیدا نہ ہو گی۔ یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ فلاں کام بُرا ہے اور فلاں اچھا ہے۔ بُرا کام کوئی نہ کرے اور اچھا چھوٹے بڑے سب کریں۔ بُرا کام مثلاً چوری ہے،یہ کوئی بھی نہ کرے اور جو اچھے ہیں اُن میں سے کسی کو عار نہ سمجھا جائے تا اُس کے کرنے والے ذلیل نہ سمجھے جائیں اور جب دُنیا میں یہ مادہ پیدا ہو جائے کہ کام کرنا ہے اور نکمّا نہیں رہنا اور کسی کام کو ذلیل نہیں سمجھنا تو اِس طرح کوئی طبقہ ایسا نہیں رہے گا جو دُنیا میں غلامی چاہتا ہو۔ اِسی لئے مَیں نے کوشش کی تھی کہ ملازموں کی تنخواہیں بڑھ جائیں تا لوگ ملازم کم رکھیں اور اپنے کام خود کریں۔
اب تو یہ حالت ہے کہ نوکر دو چار روپے میں مل جاتے ہیں اِس لئے ذرا کِسی کے پاس پیسے ہوتے ہیں تو جھَٹ وہ نوکر رکھ لیتا ہے اور اِس طرح اِس میں سُستی اور غفلت پیدا ہو جاتی ہے۔ ہمارے مُلک میں یہ سُستی اور غفلت اِس حد تک ترقی کر گئی ہے کہ معمولی لوگ بھی اپنااسباب اُٹھانا ہتک سمجھتے ہیں حالانکہ ولایت میں بڑے بڑے لکھ پتی خود اپنے اسباب اُٹھالیتے ہیں۔ جب مَیں ولایت میں گیا تو میرے ساتھی باوجودیکہ غرباء کے طبقہ میں سے ہی تھے امراء تو ہم میں ہیں ہی نہیں سب غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنا اسباب اُٹھانے سے گھبراتے تھے۔ جب مَیں فرانس میں سے گزرا تو امریکہ کے کچھ لوگ میرے ہم سفر تھے وہ دس بارہ آدمی تھے جو یورپ کی سیر کرنے کے لئے آئے تھے۔ ان کے تموّل کا اندازہ اِس سے ہو سکتا ہے کہ وہ ایسے ہوٹلوں میں ٹھہرتے تھے جہاں پندرہ بیس روپیہ روزانہ فی کَس خرچ ہوتا ہے اور اِس طرح میرا اندازہ ہے کہ اُن کا کھانے پینے کا خرچ چار پانچ ہزار روپیہ ماہوار ہو گا، کرائے الگ تھے۔ وہ فرسٹ کلاس میں سفر کرتے تھے اور اِس طرح پندرہ بیس ہزار روپیہ ان کا کرایوں وغیرہ پر بھی خرچ ہؤا ہو گا اور اِس طرح میرا اندازہ ہے کہ ان کا کل خرچ ساٹھ ستّر ہزار روپیہ ہؤا ہو گا جس سے ان کے تموّل کا حال معلوم ہو سکتا ہے لیکن جب وہ گاڑی سے اُترے تو مَیں نے دیکھا کہ ان میں سے ہر ایک دو دو تین تین گٹھڑیاں اور بکس اُٹھائے جا رہا ہے مگر ہمارے دوستوں کی یہ حالت تھی کہ مجھے تو اُنہوں نے کہہ دیا کہ آپ چلئے ہم اسباب لاتے ہیں۔ مَیں ان کی باتوں میں آگیا اور آگے چلا آیا مگر بہت دیر ہو گئی اور کوئی نہ آیا۔ جہاز کے افسر نے بھی مجھے کہا کہ آپ سوار ہوں جہاز بِالکل روانہ ہونے کے لئے تیار ہے مگر مَیں نے کہا کہ ابھی تو میرے ساتھی اور اسباب نہیں آیا۔ آخر مَیں واپس آیا اور وجہ دریافت کی تو معلوم ہؤا کہ اسباب اُٹھانے کے لئے قُلی نہیں ملتے اور ہمارے دوست حیران تھے کہ کیا کریں؟ اِس وقت اتفاقاً کچھ آدمیوں کا انتظام سٹیشن والوں نے کر دیا اور کچھ سامان ہمارے بعض دوستوں نے اُٹھایا اور اِس طرح جہاز پر پہنچے۔ جب ہم لنڈن پہنچے تو دوسرے روز ہی مجھے معلوم ہؤا کہ ہماری پارٹی میں اختلاف ہے۔ بعض چہروں سے بھی ناراضگی کے آثار دکھائی دیتے تھے۔ مَیں نے تحقیقات کی کہ اِس کی وجہ کیا ہے تو معلوم ہؤا کہ جب گاڑی سے اُترے تو یہ سوال پیدا ہؤا کہ سامان مکان کی چھت پر پہنچانے کے لئے قُلیوں کی ضرورت ہے مگر قلی ملتے نہیں۔ چوہدری سر ظفراﷲ خان صاحب اُن دنوں وہاں تھے اور ہمارے ساتھ ہی ٹھہرے تھے اور مکان کے انتظام کے لئے پہلے سے مکان میں آگئے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ جب اُنہوں نے یہ حال دیکھا تو اپنے ایک جرمن معززدوست کے ساتھ مل کر اُنہوں نے اسباب اوپر پہنچانا شروع کیا جس پر بعض اَور دوست بھی شامل ہو گئے اور چونکہ چودہری صاحب نے ملامت کی کہ آپ لوگ خود کیوں اسباب نہیںاُٹھاتے؟ بعض ساتھیوں نے اِسے بُرا منایا اور رنجش پیدا ہوئی۔ جن صاحب کو یہ امر سب سے زیادہ بُرا لگا وہ ہماری جماعت کے تازہ باغیوں کے سردار صاحب تھے لیکن یورپ کے لوگ اِس بات میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ وہاں بھی ایسے لوگ ہیں جو دوسروں سے کام لیتے ہیں مگرسفر وغیرہ کے مواقع پر اسباب اُٹھانے میں وہ بھی تأمل نہیں کرتے۔ غرض کام نہ کرنے کی عادت انسان کو بہت خراب کرتی ہے۔ کسی مُلک میں جو مثالیں بنی ہوئی ہوتی ہیں وہ دراصل اِس مُلک کی حالت پر دلالت کرتی ہیں اور قوم کا کیریکٹر اِن میں بیان ہوتا ہے۔ ہمارے مُلک میں یہ مشہور ہے کہ کوئی سپاہی سفر پر جارہا تھا کہ اُسے آوازیں آنی شروع ہوئیں کہ میاں سپاہی! ذرا اِدھر آنا اور جلدی آنا بڑا ضروری کام ہے۔ وہ ایک ضروری کام سے جارہا تھا اور پچاس ساٹھ گز کے فاصلہ سے اُسے یہ آواز آرہی تھی مگر خیر وہ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ دو آدمی لیٹے ہوئے ہیں ان میں سے ایک اِسے کہنے لگا کہ میاں سپاہی یہ میری چھاتی پر بیر پڑا ہے اُسے اُٹھا کر میرے مُنہ میں ڈال دو۔ یہ سُن کر اُسے بہت غصّہ آیا اور اُس نے اسے گالیاں دیں اور کہا کہ تُو بڑانالائق ہے مَیں ضروری سفر پر جارہا تھا تم نے مجھے پچاس ساٹھ گز کے فاصلہ سے بُلایا۔ تمہاری چھاتی پر بیر تھا جسے تم خود اُٹھا کر کھا سکتے تھے تم کوئی لولے لنگڑے تو نہ تھے کہ مجھے اتنی دور سے بُلایا۔ اِس پر دوسرے شخص نے کہا کہ میاں سپاہی جانے دو کیوں اِتنا غصّہ کرتے ہو۔ یہ شخص تو ہے ہی ایسا۔ یہ کسی کام کا نہیں اور اِس قابل نہیں کہ اِس کی اصلاح ہو سکے۔ اِس کی سُستی کی تو یہ حالت ہے کہ ساری رات کُتّا میرا مُنہ چاٹتا رہا اور اِس سے اتنا نہ ہو سکا کہ اِسے ہشت ہی کر دے۔ اِس مثال میں ہمارے مُلک کی بے عملی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اِس میں شک نہیں کہ ہر مُلک میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں مگر یہاں بہت زیادہ ہیں یہاں جو کام کرنے والے ہیں وہ بھی سُست ہیں۔ مَیں نے کئی دفعہ سُنایا ہے کہ یہاں جو مزدور اینٹیں اُٹھاتے ہیں وہ اِس طرح ہاتھ لگاتے ہیں کہ گویا وہ انڈے ہیں آہستہ آہستہ اُٹھاتے ہیں اور پھر اُٹھاتے اور رکھتے وقت کمرسیدھی کرتے ہیں۔ پھر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کہتے ہیں کہ لاؤ ذرا حُقّہ کے تو دو کَش لگالیں لیکن ولائت میں مَیں نے دیکھا ہے کہ حالت ہی اَور ہے۔ حافظ روشن علی صاحب مرحوم کو مَیں نے ایک دفعہ توجہ دلائی اُنہوں نے کہا کہ میرا بھی خیال اِسی طرف تھا ۔ گویا ایک ہی وقت دونوں کو اِس طرف توجہ ہوئی۔ حافظ صاحب نے کہا کہ اِن لوگوں کو دیکھ کر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کام کررہے ہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آگ لگی ہوئی ہے اور یہ اِسے بجھا رہے ہیں کوئی سستی ان میں نظر نہیں آتی۔ ایک دفعہ ہم گھر میں بیٹھے تھے کھڑکی کھلی ہوئی تھی کہ گلی میں چند عورتیں نظر آئیں جو لباس سے آسودہ حال معلوم ہوتی تھیں مگر نہایت جلدی جلدی چل رہی تھیں مَیں نے حافظ صاحب سے کہا کہ ان کو کیا ہو گیا ہے؟ حافظ صاحب ذہین آدمی تھے سمجھ گئے اور کہنے لگے کہ مَیں نے یہاں کسی کو چلتے دیکھا ہی نہیں سب لوگ یہاں دوڑتے ہیں۔ غرض وہاں کے لوگ ہر کام ایسی مُستعدی سے کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے لیکن ہمارے مُلک میں جدھر دیکھو سخت غفلت اور سُستی چھائی ہوئی ہے۔ کسی کو چلتے دیکھو تو سُستی کی ایسی *** ہے کہ چاہتا ہے ہر قدم پر کیلے کی طرح گڑ جائے یہاں جو کام کرنے والے ہیں وہ بھی گویا نکمّے ہی ہیں اور جو سُست ہیں اور کام کرتے ہی نہیں ان سے تو اﷲکی پناہ۔ ان کی حالت تو وہی ہے کہ بیر اُٹھا کر مُنہ میں نہیں ڈال سکتے بلکہ اِس سے بھی بڑھ کر اِس کے ساتھی کی جس نے کہا تھا کہ ساری رات کُتّا میرا مُنہ چاٹتا رہا اور اِس نے ہشت تک نہ کی۔ کمبخت تُو نے آپ ہی کیوں نہ ہشت کہہ دیا؟ حضرت خلیفہ ٔ اوّل ایک شخص کے متعلق سُنایا کرتے تھے ۔ وہ ایک گاؤں کا رہنے والا اور اچھا مخلص احمدی تھا۔ زمین وغیرہ اچھی تھی اور باپ نے کچھ روپیہ بھی چھوڑا تھا۔ وہ یہاں آیا اور شہری لوگوں سے اُس کے تعلقات ہوئے تو دماغ بگڑ گیا اور لگا روپیہ اُڑانے۔ جس کے نتیجہ میں روپیہ میں کمی آنے لگی۔ حضرت خلیفہ اوّل نے ایک دفعہ اُسے کام کرنے کی طرف توجہ دلائی تو اُس نے کہا کہ میری تو یہ حالت ہے کہ اگر لاہور جاؤں اور میرے پاس کوئی ٹرنک یا اسباب نہ ہو تو اپنا رومال قلی کو پکڑا دیتا ہوں تا دیکھنے والے یہ تو سمجھیں کہ کوئی شریف آدمی جارہا ہے۔ شریف بننا کوئی آسان کام تو نہیں۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ اُس نے اپنی ساری دولت لُٹا دی اور آخرلڑکیوں کو ساتھ لے کر عیسائی ہو گیا۔ اِس کی لڑکیاں بھی اب عیسائی ہیں۔ گویا ان میں سے بعض دل میں سمجھتی ہوں کہ عیسائیت سچا مذہب نہیں مگر بہرحال وہ عیسائی ہیں۔ تو کام کرنے کی عادت ڈالنا نہایت ہی اہم چیز ہے اور اِسے جماعت کے اندر پیدا کرنا نہایت ضروری ہے تا جو لوگ سُست ہیں وہ بھی چُست ہو جائیں اور ایسا تو کوئی بھی نہ رہے جو کام کرنے کو عیب سمجھتا ہو۔ جب تک ہم یہ احساس نہ مٹا دیں کہ بعض کام ذلیل ہیں اور اِن کو کرنا ہتک ہے یا یہ کہ ہاتھ سے کما کر کھانا ذلت ہے اُس وقت تک ہم دُنیا سے غلامی کو نہیں مِٹا سکتے۔ لوہار، بڑھئی، دھوبی، نائی غرضیکہ کسی کا کام ذلیل نہیں۔ یہ سارے کام دراصل لوگ خود کرتے ہیں۔ ہر شخص تزئین کرتا ہے، اپنی داڑھی اور مونچھوں کی صفائی کرتا ہے۔ یہی حجام کا کام ہے۔ بچہ پیشاب کر دے تو امیر غریب ہر ایک اِسے دھوتا ہے جو دھوبی کا کام ہے تو یہ سب کام انسان کسی نہ کسی رنگ میں خود کرتا ہے مگر اِس طرح کہ کسی کو پتہ نہ لگے اور خود بھی محسوس نہ کرے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وہ ایسے رنگ میں کرے کہ وہ سمجھتا ہو کہ گو یہ کام بُرا سمجھا جاتا ہے مگر دراصل بُرا نہیں اور اس کے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہر انسان اپنی طہارت کرتا ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہی چوہڑوں والا کام ہے اور جب تک کوئی شخص یہ چوہڑوں والا کام نہ کرے لوگ اِسے پاگل سمجھتے ہیں اور اِس سے زیادہ غلیظ اور کوئی ہوتا نہیں تو جب تک ایسے تمام کام کرنے کی عادت نہ ہو اِن کے کرنے والوں کی اصلاح بُری لگتی ہے۔ جیسے یہاں چوہڑوں کی اصلاح پر بعض لوگوں کو گھبراہٹ ہوئی تھی۔ حالانکہ مکّہ اور مدینہ میں کوئی چوہڑے نہ ہوتے تھے۔ آخر وہاں گزارہ ہوتا ہی تھا اور اب تو ولایت میں بلکہ ہندوستان میں بمبئی اور کلکتہ وغیرہ میں بھی ایسے پاخانے بنادیئے گئے ہیں کہ چوہڑوں کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ لاہور میں بھی اِس کا انتظام زیر تجویز ہے۔ پاخانہ میں جاؤ تو نلکے لگے ہوئے ہیں، فارغ ہونے کے بعد نلکا کھول دو۔ زمین کے نیچے سرنگیں بنی ہوئی ہیں جن میں سے پاخانہ بہہ کر جنگل میں چلا جاتا ہے اور وہاں کھاد کے کام آتا ہے۔ بہرحال کسی جماعت کا یہ خیال کرنا کہ اِس کے بعض افراد گندے ہیں اور بعض اچھے ہیں ایسا ذلیل خیال ہے کہ اِس سے زیادہ ذلیل اور نہیں ہو سکتا۔ اگر واقعی کسی کے اندر گند ہے تو اِس کی اصلاح کرنی چاہئے لیکن اگر وہ اچھے ہیں تو ان سے نفرت کرنا اپنے اوپر اور اپنی قوم کے اوپر ظلم ہے۔
چونکہ اپنے اپنے طور پر ہاتھ سے کام کرنے کی نگرانی نہیں ہو سکتی اِس لئے مَیں نے تحریک کی تھی کہ قومی طور پر یہ کام کیا جائے اور سڑکیں بنائی اور نالیاں درست کی جائیں تانگرانی ہو سکے اور دوسروں کو بھی تحریک ہو۔ اِس کے سوا بھی اِس میں کئی فائدے ہیں مثلاً جس قوم میں یہ عادت پیدا ہو جائے اُس کی اقتصادی حالت اچھی ہو جائے گی، اِس سے سوال کی عادت دُور ہو جائے گی، اِس کے افراد میں سُستی نہیں پیدا ہو گی۔ پھر جن لوگوں کی اقتصادی حالت اچھی ہو گی وہ چندے بھی زیادہ دے سکیں گے، بچوں کو تعلیم دِلا سکیں گے اور اِس طرح اِن کی اخلاقی حالت درست ہو گی تو اِس کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں۔ مگر سب سے اہم امر یہ ہے کہ اِس سے مذہب کو تقویت ہوتی ہے اور دُنیا سے غلامی مٹتی ہے۔ جب تک دُنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کو ہاتھ سے کام کرنے کی عادت نہیں وہ کوشش کریں گے کہ ایسے لوگ دُنیا میں موجود رہیں جو اِن کی خدمت کرتے رہیں اور دُنیا ترقی نہ کرے۔ میری غرض یہ ہے کہ اِس کام کو نہایت اہمیت دی جائے اور پورے اہتمام سے شروع کیا جائے۔ افسوس ہے کہ اِس وقت تک کوئی مستعدی نہیں دکھائی گئی۔ یہاں بھی خدّام الاحمدیہ کو یہ کام شروع کر دینا چاہئے اور پھر دوسرے گاؤں اور شہروں میں بھی شروع ہونا چاہئے۔ گاؤں کے لوگوں کو صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ گاؤں میں بہت گند ہوتا ہے اور گاؤں کا تو کیا کہنا مجھے خود کئی لوگوں نے یہ طعنے دئے ہیں کہ سب سے زیادہ گند یہاں احمدیہ چوک میں ہوتا ہے۔ چوہدری ظفراﷲ خان صاحب اپنے ساتھ بعض انگریز دوستوں کو یہاں لاتے رہے ہیں، وہ سب اِس بات کی تو تعریف کرتے ہیں کہ محلے بہت اچھے ہیں، سڑکیں چوڑی ہیں مگر صفائی نہ ہونے کی شکایت وہ بھی کرتے ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ رستہ سے کانٹا ہٹا دینا بھی نیکی ہے ۳؎ اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو رستہ پر پاخانہ پھرتا ہے اُس پر *** ہوتی ہے ۴؎ مگر شاید لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ راستہ پر پاخانہ کرنا ہی *** کا موجب ہے گھر میں سے خواہ دس آدمیوں کا پاخانہ اُٹھا کر گلی میں پھینک دو یہ کوئی بُری بات نہیں۔ مَیں پوچھتا ہوں کیا قادیان کی کوئی بھی گلی ہے جو صاف رہتی ہو؟ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے گلی میں پاخانہ بیٹھنے سے کیوں منع فرمایا ہے؟ اِس لئے کہ اِس سے گندگی پھیلتی ہے، وبائیں اور بیماریاں پھیلتی ہیں۔ آپ نے ایک کے پاخانہ کرنے کو منع فرمایا ہے مگر تم ہو کہ دس کا پاخانہ گلی میں پھینک دیتے ہو اور پھر سمجھتے ہو کہ اِس سے تم پر کوئی *** نہیں پڑتی۔ پھر مَیں نے دیکھا ہے جانور ذبح کر کے بال و پَر ،اوجھڑیاں اور ان کا پاخانہ وغیرہ سب گلی میں پھینک دیا جاتا ہے۔ مُرغیاں آکر اِن کو نوچتی ہیں، آنت توڑ کر الگ کر لیتی ہیں اور پاخانہ الگ ہو جاتا ہے اِس پر پھر مکھیاں بیٹھ کر دوسری کھانے کی چیزوں پر آکر بیٹھتی ہیں اور وہی پھر آٹے اور کھانے کی چیزوں پر بیٹھتی ہیں۔ پھر لوگ اِسے کھا کر پاخانہ کرتے ہیں اور پھر اِس پر مکھیاں بیٹھتی ہیں اور جس طرح بادل سمندر سے بنتے اور پھر پانی بن کر سمندر میں چلے جاتے ہیںاِسی طرح اِس گندگی کا بھی حال ہے۔ بعض لوگ تو ایسے احمق ہیں کہ وہ گندہ رہنے کو نیکی سمجھتے ہیںاور کہتے ہیں کہ یہ صفائیاں کرنا انگریزوں کا کام ہے ہم مومن اور مخلص ہیں ہمیں اِن باتوں سے کیا؟ وہ مومن مخلص اِسے سمجھتے ہیں جو زیادہ گندہ ہو۔ زمانہ کتنا بدل جاتا ہے۔ مَیں سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی کے حالات ایک تاریخ کی کتاب میں پڑھ رہا تھا گو اِس زمانہ میں مسلمانوں میں تنزل کے آثار شروع ہو گئے تھے مگر پھر بھی میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب مَیں نے دیکھا کہ اِس میں صفحوں کے صفحے اِس موضوع پر لکھے ہوئے ہیں کہ ایک یورپین عیسائی اور شامی مسلمان میں کیا فرق ہے؟ اور فرق یہ بتائے گئے ہیں کہ مسلمان صاف ستھرا ہوتا ہے اِس کا بدن اور اِس کے کپڑے اور مکان صاف ہوتا ہے لیکن یورپین گندہ ہوتا ہے اِس کے بال اور ناخن بڑھے ہوئے ہوتے ہیں، اِس کا بدن اور لباس غلیظ ہوتا ہے۔ یہ اُس زمانہ کے مسلمانوں کی حالت تھی مگر آج کیا ہے؟ آج ایشیا کا مسلمان غلیظ اور یورپین عیسائی صاف ستھرا ہوتا ہے۔ پھر وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ عجیب بات یہ ہے کہ عیسائیوں کو سمجھاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں تصوّف یہی ہے اور بعینہٖ آج یہ حالت مسلمانوں کی ہے۔ آج مسلمان ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ وہی چیزیں جو عیسائیوں میں تھیں آج اِن میں آگئی ہیں اور جو ان میں تھیں وہ عیسائیوں میں چلی گئی ہیں۔ بالکل اُلٹ معاملہ ہو گیا ہے۔ جس طرح بچے کھیلتے ہیں اور ایک دوسرے کی پیٹھ پر سوار ہو جاتا ہے۔ جو نیچے ہوتا ہے وہ کہتا ہے میرے کوٹھے کون چڑھی؟ یعنی میرے مکان کی چھت پر کون چڑھا ہے۔ اوپر والا جواب دیتا ہے کانٹو۔ نیچے والا کہتا ہے اُتر کانٹو میں چڑھاں۔ یعنے کانٹو اُترو اب میری باری چڑھنے کی ہے۔ اس پر جو گھوڑا تھا وہ سوار ہو جاتا ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں یوروپین عیسائیوں اور ایشیائی مسلمانوں میں بِالکل ایسا ہی کھیل کھیلا گیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب کہا جاتا تھا کون غلیظ ہے؟ تو جواب ملتا تھا عیسائی اور جب کہا جاتا تھا کون صاف ہے؟ تو جواب ملتا تھا مسلمان۔ مگر آج جب کہا جاتا ہے کون صاف ہے؟ تو جواب ملتا ہے عیسائی۔ اورجب کہا جاتا ہے کون غلیظ ہے؟ تو جواب ملتا ہے مسلمان۔ مگر اِس تجویز پر عمل کر کے ہر جگہ کے احمدی اِس حالت کے برعکس نقشہ دکھا سکتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ابھی یہاں بھی عمل شروع نہیں ہؤا۔ خدّام الاحمدیہ کو چاہئے کہ اِس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لیں اور دوسروں کو سمجھائیں اور عملاً کام کریں۔ مَیں نے جو اعلان عملی کام کے متعلق کیا تھا مجھے معلوم ہؤا ہے کہ خدّام الاحمدیہ اِس سے غافل نہیں ہیں۔ جو کام اِن کے سپرد کیا گیا تھا اُس کے لئے انجینئروں کے مشورے کی ضرورت ہے جو لیا جارہا ہے اور اِس کے بعد کام شروع کر دیا جائے گا مگر اِن کا صرف یہی کام نہیں بلکہ اَور بھی کئی کام ہیں۔ جب تک یہ شروع نہیں ہوتا وہ یہ دیکھیں کہ لوگ گلیوں میں گند نہ پھینکیں اور اگر کوئی پھینکے تو سب مل کر اُسے اُٹھائیں۔ تھوڑی سی محنت سے صفائی کی حالت اچھی ہو سکتی ہے۔ گاؤں میں رہنے والے احمدیوں کو بھی صفائی کی طرف خاص توجہ چاہئے۔ مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض زمیندار عورتیں بیعت کے لئے آتی ہیں کسی کے بچہ نے فرش پر پاخانہ کر دیا تو اُس نے ہاتھ سے اُٹھا کر جھولی میں ڈال لیا اور سمجھ لیا کہ بس صفائی ہو گئی۔ اِن کے جانے کے بعد ہم اِسے دھوتے ہیں لیکن وہ اپنی طرف سے سمجھ لیتی ہیں کہ بس صفائی ہو چکی۔ یہ حالت مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے اور ایک دفعہ نہیں بیسیوں دفعہ۔ اب غور تو کرو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جو فرماتے ہیں کہ رستہ میں پاخانہ کرنے والے پر خدا کی *** ہوتی ہے۔ کیا وہ اِس نظّارہ کو برداشت کر سکتے تھے۔ پھر یہی نہیں مَیں نے بعض زمیندار عورتوں کو اپنے دوپٹہ سے بچہ کی طہارت کرتے دیکھا ہے۔ وہ یہ سمجھ لیتی ہیں کہ بس بچہ کی صفائی ہو گئی اور یہ خیال بھی نہیں کرتیں کہ بچہ کا پاخانہ اپنے سر پر رکھ رہی ہیں۔ ہمارے مُلک میں گندگی کا مفہوم ہی بِالکل بدل گیا ہے اور یہ ہاتھ سے کام نہ کرنے کا ہی نتیجہ ہے۔ یہ سب کَسل اور سُستی ہے کہ کون اُٹھے اور کون دھوئے اور کون صفائی کرتا پھرے؟
مَیں نے خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی تھی کہ وہ اِس کام کو خاص طور پر شروع کریں اور اب بھی جب تک وہ سکیم نہ بنے ہر محلہ کے ممبر ذمہ دار سمجھے جائیں اِس محلہ کی صفائی کے۔ پہلے لوگوں کو منع کرو اور سمجھاؤ کہ گلی میں گندگی نہ پھینکیں اور اگر وہ پھر بھی باز نہ آئیں تو پھر خود جا کر اُٹھائیں۔ جب وہ خود اُٹھائیں گے تو پھینکنے والوں کو بھی شرم آئے گی اور جب عورتیں دیکھیں گی کہ وہ جو گندگلی میں پھینکتی ہیں وہ ان کے باپ یا بھائی یا بیٹے کو اُٹھانی پڑتی ہے تو وہ سمجھیں گی یہ بُرا کام ہے اور وہ اِس سے باز رہیں گی۔ لوگ ہزار یا پانچ سو یا کم و بیش روپیہ لگا کر مکان بنا لیتے ہیں مگریہ نہیں کرتے کہ چند فٹ کا ایک چھوٹا سا گڑھا گلی میں بنوا لیں اور اِس گلی کے سب مکانوں والے اِسی میں گندی چیزیں پھینکیں اور پھر صفائی کرنے والے آکر وہیں سے لے جائیں۔ یورپ میں مَیں نے دیکھا ہے سب سڑکوں پر ایسے گڑھے ہوتے ہیں جن کے اوپر ڈھکنے پڑے رہتے ہیں۔ لوگ اِس میں گندی چیزیں پھینک جاتے ہیں اور سرکاری آدمی آکر اُٹھاتے جاتے ہیں۔ اگر یہ طریق یہاں بھی اختیار کر لیا جائے تو بہت مُفید ہو گا۔ اگر ہر گلی والے صفائی کے خیال سے ایسا گڑھا بنوائیں تو اِس پر زیادہ سے زیادہ چار پانچ روپیہ خرچ ہو گا اور میرے نزدیک پانچ چھ سال تک کام دے سکتا ہے۔ اِس کے بعد بھی اگر مرمت کی ضرورت پیش آئے تو اِس پر روپیہ دو روپیہ سے زیادہ خرچ نہ ہو گا اور اگر گلی میں دس گھر ہوں تو آٹھ آٹھ آنہ ہر ایک کے حصّہ میں آئیں گے اور پھر اِس خرچ کو پانچ سال پر لے جایا جائے تو سات پیسے فی سال کا خرچ ہو گا۔ اگر اِس خرچ سے صفائی کی حالت اچھی ہو جائے تو کتنا سستا ہے۔ اِس سے انسان آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی *** سے بھی بچ سکتا ہے۔ اِس قسم کی صفائی اگر سب جگہ جاری کی جائے تو یہ ایک بڑی نیکی ہو گی۔ دیہات میں بھی اِس کی طرف توجّہ کی جانی چاہئے وہاں لوگ گندگی کو رُوڑی کے نام سے محفوظ رکھتے ہیں۔ حالانکہ گورنمنٹ کی طرف سے بار ہا اِس حقیقت کا اعلان کیا گیا ہے کہ اِس طرح کھاد کا مُفید حصّہ ضائع ہو جاتا ہے۔ نوشادر وغیرہ کے جو اجزاء اِس میں ہوتے ہیں وہ سب اُڑ جاتے ہیں۔ کھاد تبھی اچھی ہو سکتی ہے جب زمین میں دفن ہو، ننگی رہنے سے سورج کی شعاعوں کی وجہ سے اِس کی طاقت کا مادہ اُڑ جاتا ہے۔ اِس لئے اچھی کھاد وہ ہے جو زمین میں دفن رہے۔ تو جو رُوڑیاں دیہات میں رکھی جاتی ہیں وہ گند ہوتا ہے کھاد نہیں۔ پھر اِس میں رُوڑی کے علاوہ زمینداروں کے مدّنظر ایک اور سوال اُپلوں کا ہوتا ہے جو وہ جلاتے ہیں حالانکہ یہ کتنی غلیظ بات ہے کہ پاخانہ سے روٹی پکائی جائے۔ مانا کہ وہ پاخانہ جانور کا ہے مگر کیا جانور کا پاخانہ کھانے کے لئے کوئی تیار ہو سکتا ہے؟ اِس پر رکھ کر پھُلکے سینکتے ہیں اور پھر انہیں کھاتے ہیں۔ بائیبل میں یہود کی سزا کے متعلق آتا ہے تم انسان کے پاخانہ سے روٹی پکا کر کھاؤ گے۔۵؎ گو وہاں انسانی پاخانہ کا ذکر گندی شے ہے۔ خواہ نسبتاً کم ہو اِس سے روٹی پکانی بھی یقینا ایک سزا ہے۔ مگر دیہات میں اِس کی آگ جلائی جاتی ہے اور اِس سے کھانا پکایا جاتا ہے حالانکہ اگر درخت لگانے کی عادت ڈالی جائے تو یہ کئی لحاظ سے مُفید ہو۔ جلانے کے لئے لکڑی بھی مل جائے، سایہ بھی ہو اور پھر ایسے درخت لگائے جاسکتے ہیں جن کا فائدہ بھی ہو۔ مثلاً شہتوت کے درخت ہیں ان پر اگر ریشم کے کیڑے چھوڑ دیئے جائیں تو ایک ایک درخت پر دس روپیہ کا ریشم تیار ہو سکتا ہے اور اگر دو چار درخت ہی اِس کے لگا لئے جائیں تو گھر والوں کے کپڑے ہی اِس کی آمد سے تیار ہو سکتے ہیں اور لکڑی بھی جلانے کے لئے کافی مل سکے گی۔ پھر جس جگہ درخت ہوں وہاں بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں اور جہاں درخت نہ ہوں وہاں بارش کم ہوتی ہے اور جب ہو تو مٹی بہہ بہہ کر وہ جگہ نشیب بن جاتی ہے۔ غرضیکہ بیسیوں فوائد ہیں مگر اُپلوں کے استعمال کی وجہ سے زمیندار ان سے محروم رہتے ہیں۔ اِس کی وجہ سے درخت کی ضرورت بہت کم محسوس کی جاتی ہے۔ اِس لئے لوگ لگاتے ہی نہیں صرف ہَل وغیرہ کے لئے لکڑی کی ضرورت اُن کو پیش آتی ہے۔ باقی کھانا وغیرہ گوبر سے پکا لیتے ہیں۔
ہاتھ سے کام میں جو صفائی کا حصّہ ہوتا ہے اِس کے ضمن میں مَیں نے یہ مثال دی ہے۔ اِس تحریک کو عام کرنا چاہئے اور ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ اِسے اِس طرح پھیلائیں کہ اِس کا اثر نمایاں طور پر نظر آنے لگے۔ کوئی کام اِس وقت تک مُفید نہیں ہو سکتا جب تک قوم پر اِس کا اثر نہ ہو۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دودھ پینے کے لئے دیا۔ اُس نے پیا تو آپ نے فرمایا اور پیو اُس نے اَور پیا تو آپ نے فرمایا اَور پیو، اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اﷲ! اب تو میرے مساموں میں سے دودھ بہنے لگا ہے۔۶؎ آپ کا مطلب یہ تھا کہ خدا تعالیٰ جو نعمت دے اُس کے آثار چہرہ پر ظاہر ہونے چاہئیں۔ پس ہمارے سب کام اِس رنگ میں ہونے چاہئیں کہ اِن کا اثر ظاہر ہو جائے۔
مَیں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ مَیں اِس صفائی کا بھی قائل نہیں ہوں جیسی بعض انگریز کرتے ہیں کہ ذرا سا دھبہ کپڑا میں لگ گیا تو اُسے اُتار دیا یا جیسا کہ آجکل کے بعض نوجوان کرتے ہیں کہ بالوں کو برش کرتے رہے۔ کئی کئی گھنٹے بالوں اور چہرہ کی صفائی میں لگا دیتے ہیں۔ میرا مطلب صرف اِس صفائی سے ہے جو صحت پر اثر ڈالتی ہے۔ یہ کوئی صفائی نہیں کہ داڑھی اور مونچھوں کو مونڈھتے اور بالوں کو کنگھی اور برش کرتے رہتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اِس عورت کی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ یہ صفائی نہیں بلکہ لغویت اور بے ہودگی ہے۔ ہاں جہاں گندگی اور غلاظت ہو اُسے دور کرنا چاہئے۔ اگر اِس سنگار کا نام صفائی ہے تو پھر تو لندن کے چند کروڑ پتی ہی صفائی رکھ سکیں گے۔ جو یو ڈی کولون پانی میں ڈال کر نہاتے ہیں۔ اگر ہمارے غریب زمیندار ایسی صفائی رکھنے لگیں تو ہر سال ایک گھماؤں زمین بیچ کر نہانے کا ہی انتظام کر سکتے ہیں مگر یہ کوئی صفائی نہیں بلکہ تعیّش ہے۔ وہ صفائی جو اسلام چاہتا ہے یہ ہے کہ گند نظر نہ آئے اور صحت خراب نہ ہو۔ پھر بعض لوگ ایسے صفائی پسند ہوتے ہیں کہ مصافحہ بھی کسی سے نہیں کرتے کہ اِس طرح کیڑے لگ جاتے ہیں۔ یہ بھی صفائی نہیں بلکہ جنون ہے۔ ایسی صفائی جو اخلاق کو تباہ کر دے جائز نہیں۔ بعض لوگ کسی کے ساتھ برتن میں کھانا نہیں کھاتے یہ بھی ان کے نزدیک صفائی ہے مگر ایسی صفائی سے اسلام منع کرتا ہے۔ جو صفائی اُخوت اور محبت میں روک ہو وہ بے دینی ہے۔ پس ہر کام کے وقت اُس کی خوبی اور بُرائی کا موازنہ کر کے دیکھنا چاہئے اور مصافحہ کرنے سے اگر فرض کرو کوئی بیمار بھی ہو جائے یا سال میں آٹھ دس آدمی اِس طرح مر بھی جائیں تو اس محبت اور پیار کے مقابلہ میں جو اِس سے پیدا ہوتا ہے اور ان دوستیوں کے مقابلہ میں جو اِس سے قائم ہوتی ہیں اِس کی حقیقت ہی کیا ہے؟ اگر محبت کے ذریعہ لاکھوں آدمی بچیں اور آٹھ دس مر بھی جائیں تو کیا ہے؟ دیکھنا تو یہ چاہئے کہ نقصان زیادہ ہے یا فائدہ؟ اور جو چیز زیادہ ہو اُس کا خیال رکھنا چاہئے۔ کیونکہ ہر بڑی چیز کے لئے چھوٹی قُربانی ہوتی ہے۔ پس ایسی صفائی جس سے تعیّش اور وقت کا ضیاع ہو یا جو محبت میں روک ہو اُسے مٹانا چاہئے۔ ہندوؤں میں یہ صفائی ہوتی ہے کہ بیوی ایک پتہ لے کر الگ بیٹھ جاتی ہے اور خاوند الگ اور برہمن ہر ایک کی طرف کتّے کی طرح روٹی پھینکتا جاتا ہے۔ مجھے بھی ایک دفعہ ایک ایسی دعوت کھانے کا اتفاق ہؤا جو آریہ پرتی ندھی سبھا کے مرکز میں تھی۔ سب کے آگے علیحدہ علیحدہ پتے اور ان پر کچوریاں وغیرہ رکھ دی گئیں۔ یہاں تک تو خیر تھی لیکن اِس کے بعد کی ذلّت کو کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔ رسوئیا ۷؎آکر دروازہ میں کھڑا ہو گیا اور پوچھنے لگا کہ کس کو کتنی کچوریاں چاہئیں۔ دو چاہئیں ایک یا پونی یا آدھی یا پاؤ؟ اتنی احتیاط تھی کہ جسے پاؤ کی ضرورت ہے اُسے آدھی نہ چلی جائے تا باقی پاؤ ضائع نہ ہو اور پھر وہ وہیں سے ہر ایک کے آگے جتنی وہ مانگتا پھینک دیتا تھا اور نشانہ اُس کا واقعی قابل تعریف تھا۔ مَیں نے تو کہہ دیا کہ مجھے تو کوئی ضرورت نہیں۔ تو جس صفائی سے وقت ضائع ہو یا محبت میں فرق آئے یا انسانی تعلّقات میں فرق آئے وہ جائز نہیں اور یہ پہلو مَیں نے اِس لئے واضح کر دیا ہے کہ کوئی غُلو میں اِس طرف نہ نکل جائے اور تیل، کنگھی ،چوٹی اور سرمہ کے استعمال کو ہی صفائی نہ سمجھ لیا جائے۔ یہ صفائی نہیں ہے۔‘‘
(الفضل ۱۷؍مارچ ۱۹۳۹ئ)
۱-
(النسائ:۲۱)
۲-
(التوبہ :۳۴،۳۵)
۳- بخاری کتاب المظالم باب مَنْ أَخَذَ الْغُصْنَ (الخ)
۴- مسلم کتاب الطہارۃ باب النَّھْیُ عَنِ التَّخَلِی فِی الطُّرُقِ (الخ)
۵- حزقی ایل باب ۴ آیت ۱۲ تا ۱۵۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء
۶- بخاری کتاب الرِّقاق باب کَیْفَ کَانَ عَیْشُ النَّبِیّ صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ اَصْحَابِہٖ
۷- رسوئیا: باورچی ۔ کھانا پکانے والا۔ برہمن
۸
خدّام الاحمدیہ نوجوانوں میں
ذہانت پیدا کرنے کی کوشش کریں
(فرمودہ ۳؍مارچ۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’آج مَیں خدّام الاحمدیہ کو اُن کے بعض اَور فرائض کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اِس وقت تک مَیں :-
۱- قومی رُوح کا اپنے اندر پیدا کرنا جماعتی کاموں میں دِلی شوق کے ساتھ حصّہ لے کر ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہنا اور تنظیم کا مادہ اپنے اندر پیدا کرنا۔
۲- اسلامی تعلیم سے واقفیت۔
۳- آوارگی اور بیکاری کا ازالہ۔
۴- اچھے اخلاق خصوصاً سچ اور دیانت کا پیدا کرنا ۔
۵- ہاتھ سے کام کرنا۔
اِن پانچ امور کی طرف اِنہیں توجہ دِلا چُکا ہوں۔ آج میں اِسی سلسلہ میں ایک اَور ضروری امر کی طرف اِنہیں توجہ دلاتا ہوں جو میرے نزدیک نہایت ہی اہم ہے مگر اِس کی طرف توجہ بہت ہی کم کی جاتی ہے۔ مجھے اِن لوگوں کے ساتھ کام کرنے کے بعد جن سے کام کرنے کا موقع مِلا ہے اور وہ جو ان بھی ہیں اور بوڑھے بھی، وہ پڑھے لکھے بھی ہیں اور اَن پڑھ بھی۔ ہندوستانیوں کے متعلق ایک نہایت ہی تلخ تجربہ ہؤا ہے جو ہمیشہ میرے دل پر ایک پتھر کی طرح بوجھ ڈالے رکھتا ہے اور وہ یہ کہ ایک لمبے عرصہ کی غلامی کے بعد ہندوستانی عقل اور ذہانت کو بالکل کھوچکے ہیں۔ وہ جب بھی کوئی کام کریں گے اُس کے اندر حماقت اور بیوقوفی ضرور ہوگی۔ اِلا مَا شَائَ اﷲُ۔ چند لوگ اگر مستثنیٰ ہوں تو اور بات ہے لیکن ایسے لوگ بھی ایک فیصدی سے زیادہ ہیں۔ اب سَو میں سے ایک کی آبادی سَو کا بوجھ کس طرح اُٹھا سکتی ہے۔ اگر سَو میں سے ساٹھ ستّر آدمی فرض شناس اور ذہین ہوں تو وہ بقیہ تیس چالیس کا بوجھ اُٹھا سکتے ہیں لیکن جس مُلک کے سَو آدمیوں میں سے ننانوے ذہانت سے عاری ہوں اور سَو میں سے صرف ایک شخص ذہین ہو تو اُس کے متعلق جس قدر بھی مایوسی ہو کم ہے۔ کوئی کام دے دیا جائے اُس میں ضرور کچھ نہ کچھ حماقت اور بیوقوفی دکھانا ہندوستانی شاید اپنے لئے ضروری سمجھتا ہے اور جب وہ بیوقوفی کرتا ہے اور اُسے سمجھایا جاتا ہے کہ وہ ایسی بیوقوفی نہ کیا کرے تو وہ اِس سے اُلٹا نتیجہ نکالتا ہے اور جو اُسے تعلیم دی جائے اُسے وہ ہمیشہ اپنے لئے گالی اور ہتک سمجھتا ہے اور جس طرح بچھو نیش لگاتا ہے اُسی طرح وہ اِس نصیحت کے بدلے دوسرے کو نیش لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ایک نہایت ہی تلخ بات ہے جو میرے تجربہ میں آئی ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے ایک عزیز نوجوان نے مجھ سے ذکر کیا کہ فوج میں جہاں کہیں مخلص احمدی دیکھے گئے ہیں وہ ہمیشہ دوسروں سے زیادہ ہوشیار ہوتے ہیں اور اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ سچا ایمان اور سچا اخلاص ذہانت ضرور پیدا کر دیتا ہے کیونکہ عدم ذہانت دراصل توجہ کی کمی کا نام ہے اور کامل توجہ کا نام ہی ذہانت ہے۔ جب انسان کسی امر کی طرف کامل توجہ کرتا ہے تو اُس کے چاروں کونے اُس کے سامنے آجاتے ہیں مگر جب کبھی وہ پوری توجہ نہیں کرتا اُس کے کئی گوشے اُس کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ چار پانچ ہندوستانی اکٹھے سفر کر رہے ہوں اور اُن کے سامنے کوئی معاملہ پیش آجائے تو وہ کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگ جائیں گے۔ ایک کہے گا یوں کرنا چاہئے، دوسرا کہے گا یوں نہیں ووں کرنا چاہئے۔ اب وقت گزر رہا ہے کام خراب ہو رہا ہے مگر وہ بیوقوفی کی بحثیں کرتے رہیں گے۔ کبھی اِن کے دماغ میں یہ بات نہیں آئے گی کہ اِس بحث سے زیادہ حماقت کی بات اور کوئی نہیں۔ تم اپنے میں سے ایک شخص کو آگے کرو اور اس کے فیصلہ کو تسلیم کرلو مگر یہ حماقت یہاں تک بڑھی ہوئی ہے کہ جس شخص کے فیصلہ کو وہ تسلیم کرنے کا دعویٰ بھی کریں گے اُس کے فیصلوں پر بھی جھَٹ اعتراض کر دیں گے اور اگر اعتراض نہیں کریں گے تو کم از کم اِس کے معاملات میں دخل دینے کی ضرور کوشش کریں گے۔ مَیں خلیفہ ہوں اور جماعت میری اطاعت کا اقرار کئے ہوئے ہے مگر میرا قریباً نوّے فیصدی تجربہ ہے کہ جب بھی مَیں کوئی کام کرنے لگوں ہر شخص مجھے مشورہ دینے لگ جاتا ہے۔ اب ساری سکیم سوچی ہوئی میرے ذہن میں موجود ہوتی ہے مگر وہ خواہ مخواہ دخل دے کر کام کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ وہی احمقانہ عادت ہے جو تمام ہندوستانیوں کے اندر پائی جاتی ہے کہ وہ کبھی بھی صحیح لیڈری کو تسلیم نہیں کریں گے۔ بھلا ایک شخص جو لڑائی کے لئے لوگوں کو جمع کر کے لے جارہا ہو دُشمن سر پر کھڑا ہو اور حالت ایسی ہو کہ ایک لمحہ کا ضیاع بھی سخت نقصان پہنچانے والا ہو اس وقت اگر تم راستہ روک کر کھڑے ہو جاؤ اور اِسے مشورہ دینے لگ جاؤ تو اِس کا سوائے اِس کے اور کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ تم اپنے لوگوں کو تباہ کرانا چاہتے ہو۔ پس یہ مشورہ نہیں بلکہ اپنی حماقت اور نادانی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ کسی بیمار کے پاس دو ہندوستانی ڈاکٹر چلے جائیں وہ بجائے اِس کے کہ متفقہ طور پر اِس کے لئے کوئی علاج تجویز کریں آپس میں لڑنا شروع کر دیں گے۔ وہ کہے گا یہ دوا دینی چاہئے، یہ کہے گا وہ دوا دینی چاہئے۔ بیمار مر رہا ہو گا اور یہ آپس میں بحث کر رہے ہوں گے۔ غرض کبھی بھی ضرورت اور محل کے موقع پر وہ اِس امر کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے کہ اپنے میں سے ایک شخص کو آگے کر دیں اور جو کچھ وہ کہے اِس کے مطابق کام کریں۔ استثنائی طور پر اگر بعض دفعہ کوئی لطیف بات کسی کو سوجھ جائے تو اِس کے بتانے میں کوئی حرج نہیں ہوتا مگر ہندوستانی ذہنیت یہ ہے کہ وہ ہر بات میں خواہ مخواہ دخل دیں گے اور بجائے کسی کی صحیح لیڈری پر اعتماد کرنے کے اپنی بات پر زور دیتے چلے جائیں گے اور کہیں گے کہ یوں کرنا چاہئے۔ خواہ ان کی بات کس قدر ہی احمقانہ کیوں نہ ہو اور خواہ اس شخص کی سکیم سے وہ کتنے ہی ناواقف کیوں نہ ہوں۔ تو یہ مادہ ہندوستانیوں کے دلوں میں نہایت ہی گہرے طور پر راسخ ہو چُکا ہے اور چونکہ اکثر احمدی ہندوستانی ہیں وہ بھی ایک حد تک اِس مرض میں مُبتلا ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا فضلہے کہ میرے دل میں کبھی مایوسی پیدا نہیں ہوئی لیکن اگر کبھی میرے دل میں مایوسی کے مشابہہ کوئی کیفیت پیدا ہوئی ہے تو وہ اِسی حالت پر ہوئی ہے جو ہندوستانیوں میں عام طور پر پائی جاتی ہے اور جس سے احمدی بھی مستثنیٰ نہیں کہ وہ چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی کبھی نظام کے مطالبہ کو پورا نہیں کر سکتے۔
مَیں نے ہمیشہ سفروں میں دیکھا ہے باوجود اِس کے کہ عملہ کے ۷،۸ آدمی ساتھ ہوتے ہیں اور معمولی سَو پچاس کے لگ بھگ چیزیں ہوتی ہیں۔ وہ ضرور کچھ نہ کچھ سامان پھینک کر آجاتے ہیں اور جب پوچھا جاتا ہے تو ایک کہتا ہے مَیں نے سمجھا تھا اِس کا دوسرے نے خیال رکھا ہو گا اور دوسرا کہتا ہے مَیں نے سمجھا تھا اِس کا خیال فلاں نے رکھا ہو گا۔ یہ عجیب نادانی ہے کہ ہر شخص دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ جب تم اتنا کام بھی نہیں کر سکتے تو تم ساری دُنیا کو کہاں سنبھال سکو گے؟ مگر اِس کی وجہ محض بے توجہی ہے اور پھر مَیں نے دیکھا ہے جب انہیں نصیحت کی جائے تو وہ ایک دوسری نادانی کے مُرتکب ہو جاتے ہیں اور خیال کرنے لگتے ہیں کہ شاید اپنے نقصان کی وجہ سے انہیں غصّہ چڑھا ہؤا ہے حالانکہ مجھے غصّہ ان کی ذہانت کے فقدان پر آرہا ہوتا ہے۔
ہماری جماعت میں ایک شخص ہؤا کرتا تھا اب تو وہ مر گیا ہے اور مرا بھی بُری حالت میں ہے۔ اِس نے ایک دفعہ کچھ اَور دوستوں سمیت میرے پہرے کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا۔ مَیں خود تو کسی کو پہرہ کے لئے نہیں کہتا لیکن جب کوئی پہرہ کے لئے اپنی خوشی سے آجائے تو اُسے روکتا بھی نہیں۔ اِس وقت ہم نہر پر گئے ہوئے تھے اور ہمارا خیمہ ایک طرف لگا ہؤا تھا اُس نے کہا کہ ہم آپ کا پہرہ دیں گے۔ گرمیوں کے دن تھے مجھے تھکان محسوس ہوئی اور مَیں خیمہ میں جاکر سَو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب مَیں اُٹھا تو مَیں نے گھر والوں سے دریافت کیا کہ خیمہ میں جو میری چھتری لٹک رہی تھی وہ کہاں گئی؟ اُنہوں نے کہا کہ ہم لوگ تو باہر گئے ہوئے تھے اور ابھی واپس آئے ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں کہ کون لے گیا۔ خادمہ سے دریافت کیا تو وہ کہنے لگی کہ ایک آدمی خیمہ کے پاس آیا تھا اور اُس نے کہا تھا کہ حضرت صاحب کی چھتری دے دو چنانچہ مَیں نے چھتری اُٹھا کر اُسے دے دی۔ مَیں نے جب باہر جا کر دریافت کیا تو ہر ایک شخص نے لا علمی ظاہر کی کہ ہمیں نہیں معلوم کون خیمہ کے پاس گیا اور چھتری مانگ کر لے گیا۔ غرض کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون شحص تھا؟ کوئی چور تھا یا کوئی دُشمن تھا جو صرف یہ بتانے کے لئے اندر آیا تھا کہ تمہارے پہروں کی کوئی حقیقت نہیں۔ کیونکہ ایسے شخص کو چھتری لینے سے کیا حاصل ہو سکتا تھا۔ اِس کی غرض محض یہ بتانا ہو گی کہ تم اتنے غافل ہو کہ مَیں تمہارے گھر کے اندر داخل ہو کر ایک چیز اُٹھا سکتا ہوں۔ اگر کسی مصلحت یا اخلاق کی وجہ سے مَیں نے تم پر حملہ نہیں کیا تو اَور بات ہے ورنہ مَیں اندر ضرور داخل ہو گیا ہوں اور تمہاری ایک چیز بھی اُٹھا کر لے آیا ہوں مگر تمہیں اِس کی خبر تک نہیں ہوئی۔ بہرحال مجھے جب یہ بات معلوم ہوئی تو مَیں نے اِس پر اظہارِ ناراضگی کیا اور کہا کہ ایسے پہرے کا فائدہ کیا ہے؟ اِس پر وہی آدمی جس کا مَیں نے ذکر کیا ہے کہنے لگا کہ اگر مجھے پتہ لگ جائے کہ آپ نے وہ چھتری کہاں سے خریدی تھی تو مَیں ویسی ہی چھتری خرید کر آپ کی خدمت میں پیش کر دوں۔
اب دیکھو یہ کتنی کمینہ اور ذلیل ذہنیت تھی اِس شخص کی کہ اِس نے میری ناراضگی کی حقیقت کو سمجھنے کی تو کوشش نہ کی اور یہ سمجھا کہ میری ناراضگی چھتری کے نقصان کی وجہ سے ہے۔ حالانکہ میری ناراضگی کی وجہ تو یہ تھی کہ جب تم ایک ذمہ داری کا کام لیتے ہو تو تمہارا فرض ہے کہ اِس کام کو پُوری تندہی اور خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دو اور اگر تم وہ کام نہیں کر سکتے تو تمہارا اِس کی بجاآوری کے لئے ذمہ داری قبول کرنا حماقت ہے مگر اِس نے سمجھا کہ میری خفگی اِس لئے ہے کہ میری چھتری گُم ہو گئی ہے اور وہ کہنے لگا کہ اگر مجھے پتہ لگ جائے کہ آپ نے چھتری کہاں سے خریدی تھی تو مَیں ویسی ہی چھتری خرید کر آپ کو دے دوں۔ اب یہ اتنی کمینہ ذہنیت ہے کہ مجھے اِس کا خیال کر کے اب بھی پسینہ آجاتا ہے اور مَیں حیران ہوتا ہوں کہ کیا اِتنا ذلیل اور کمینہ انسان بھی کوئی ہو سکتا ہے۔ وہ احمدی تھا گو بعد میں عملاً مرتد ہو گیا مگر بہرحال وہ کہلاتا احمدی تھا۔
تو ہندوستانیوں میں یہ ایک نہایت ہی احمقانہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ کبھی بھی چاروں طرف نگاہ نہیں ڈالیں گے۔ مَیں اگر مثالیں دوں تو چونکہ بہت سے لوگوں پر زد پڑتی ہے اِس لئے فوراًپتہ لگ جائے گا کہ یہ فلاں کی بات ہو رہی ہے اور یہ فلاں کی۔ پس میں مثالیں نہیں دیتا۔ یہ جو مثال مَیں نے پیش کی ہے یہ بہت ہی پُرانی ہے اور وہ آدمی خاص عملے کا بھی نہ تھا اور اب تو وہ مَر چُکا ہے۔ اِس لئے مَیں نے یہ مثال دے دی ورنہ مَیں اِس مہینہ کی دس بیس ایسی مثالیں دے سکتا ہوں جو نہایت ہی احمقانہ ہیں اور جن کو مَیں اگر بیان کروں تو تم میں سے ہر شخص انہیں سُن کر ہنسے گا لیکن جب خود تمہارے سپرد وہی کام کیا جائے گا تو تم بھی وہی حماقت کرو گے جو دوسروں نے کی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں ذہانت کی کوئی قیمت نہیں سمجھی جاتی۔ ہمارے سکولوں اور کالجوں میں طالب علموں کی ذہانت کی ترقی کے لئے قطعی طور پر کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ اُستاد اور پروفیسر محض کتابیں پڑھا دیتے ہیں اور طالب علموں کو الفاظ رٹا دیتے ہیں لیکن خالی لفظوں کو لے کر کسی نے کیا کرنا ہے۔ اگر ایک پڑھا لکھا شخص ہو لیکن ذہین نہ ہو تو اِس سے بہت زیادہ کام وہ شخص کر سکتا ہے جو گو پڑھا ہؤا نہ ہو مگر ذہین ہو۔
کیا ہٹلر جرمنی کا سب سے زیادہ پڑھا ہؤا شخص ہے؟ کیا مسولینی اٹلی کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ انسان ہے؟ کیا اتا ترک ٹرکی کا سب سے زیادہ عالم تھا؟ کیا لینن رَشْیا کا سب سے زیادہ پڑھا ہؤا شخص تھا؟ یہ سارے ہی اپنی اپنی جگہ معمولی تعلیم حاصل کئے ہوئے تھے۔ مسولینی کی تعلیم مڈل تک ہے، ہٹلر کی تعلیم انٹرنس جتنی ہے۔ اتاترک گو ایک کالج میں پڑھا مگر وہ نہایت ہی چھوٹے درجہ کا کالج تھا اور اِس کی تعلیم بھی انٹرنس جتنی ہے مگر کیا چیز ہے جس نے ہٹلر، مسولینی، اتاترک اور لینن کو اپنے ملکوں کا لیڈر بنا دیا۔ وہ ذہانت ہے جس نے اِن لوگوں کو اپنے مُلک کا لیڈر بنایا، علم نہیں۔ جب علم والے اپنی کتابوں پر نگاہ ڈالے بیٹھے تھے اُس وقت یہ لوگ ساری دُنیا پر نگاہ ڈالے ہوئے انسانی فطرت کی گہرائیوں کے مطالعہ میں مشغول تھے اور آخر وہاں سے وہ اپنی قوم کی مُراد کا وہ موتی لے آئے جس کے لئے وہ بے تابانہ جستجو کر رہے تھے۔ پس ذہانت بالکل اَور چیز ہے اور عِلم اَور چیز۔ عِلم بھی اچھی چیز ہے مگر ذہانت کے بغیر عِلم کسی کام کا نہیں ہوتا۔
مَیں نے بتایا ہے کہ مَیں اِس کے متعلق مثالیں نہیں دے سکتا کیونکہ مَیں اگر مثالیں دوںتو وہ لوگ بِالکل ننگے ہو جائیں جن کے وہ واقعات ہیں اور سب کو اِن کا پتہ لگ جائے۔ اِس لئے مَیں بعض پُرانے لوگوں کے قصّے یا لطائف بیان کر دیتا ہوں جن سے ذہانت اور علم کا فرق ظاہرہو سکتا ہے۔
کہتے ہیں کوئی بادشاہ تھا اُس نے اپنے مُلک کے ایک مشہور جوتشی کو بُلایا اور اپنا لڑکا اُس کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ اِسے علمِ جوتش سکھا دو۔ چنانچہ وہ اُسے لے گیا اور مدّت تک سکھاتا رہا۔ جب اُس نے تمام علم اُسے سکھا دیا تو وہ بادشاہ کے پاس اسے لایا اور کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت مَیں نے جوتش کا تمام علم اِسے پڑھا دیا ہے اب آپ چاہیں تو اِس کا امتحان لے لیں۔ بادشاہ نے اپنی انگوٹھی کا نگینہ اپنے ہاتھ میں چھپا کر لڑکے سے پوچھا کہ تم علمِ جوتش سے بتاؤ کہ میرے ہاتھ میں کیا ہے؟ لڑکے نے حساب لگایا اور کہا چکّی کا پاٹ۔ بادشاہ نے اِس جوتشی کی طرف دیکھا اور کہا تم نے اسے کیا پڑھایا ہے؟ وہ کہنے لگا حضور! چکی کا پاٹ بھی پتھر کا ہوتا ہے اور نگینہ بھی پتھر کا ہے۔ پس میرا علم تو صحیح ہے باقی اگر آپ کے لڑکے میں ذہانت نہ ہو اور وہ اتنی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ چکی کا پاٹ ہاتھ میں نہیں آسکتا تو مَیں کیا کر سکتا ہوں؟ میرا علم تو بالکل صحیح ہے۔
اِسی طرح مَیں نے یہ لطیفہ کئی دفعہ سُنایا ہے جو دراصل حضرت خلیفۂ اوّل سے مَیں نے سُنا ہؤا ہے کہ کوئی لڑکا تھا اُسے گاؤں کے بعض بڑے بڑے لوگوں نے کسی دوسرے علاقہ میں طِب پڑھنے کے لئے بھیجا۔ کیونکہ اِن کے ہاں کوئی طبیب نہیں تھا۔ اُنہوں نے خیال کیا کہ اگر یہ لڑکا طب پڑھ گیا تو ہماری ضرورت پوری ہو جائے گی اور آئے روز جو ہمیں طبیب کے نہ ہونے کی وجہ سے تکلیف رہتی ہے یہ رفع ہو جائے گی۔ وہ لڑکا دوسرے علاقہ کے ایک مشہور طبیب کے پاس پہنچا اور کہنے لگا مجھے اپنے علاقہ کے رؤسا نے آپ کے پاس طب پڑھنے کے لئے بھیجا ہے کیونکہ ہمارے ہاں کوئی طبیب نہیں۔ وہ کہنے لگا بڑی اچھی بات ہے اِس سے زیادہ نیکی کا کام اور کیا ہو سکتا ہے ؟ طب سے خدمت خلق ہوتی ہے اور لوگوں کو نفع پہنچتا ہے۔ پس یہ بہت ہی ثواب کا کام ہے تم میرے پاس رہو مَیں تمہیں تمام طب سکھا دوں گا چنانچہ وہ اُن کے پاس رہنے لگ گیا۔ دوسرے ہی دن وہ کسی مریض کو دیکھنے کے لئے چلے گئے اور اُنہوں نے اِس لڑکے کو اپنے ساتھ لے لیا۔ جب مریض کے پاس پہنچے تو وہ اُس کے پاس بیٹھ گئے، نبض دیکھی، حالات پوچھے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ آپ نے کل کہیں چنے تو نہیں کھائے؟ وہ کہنے لگا ہاں کچھ چنے کھائے تھے۔ وہ کہنے لگے آپ کا معدہ کمزور ہے ایسی ثقیل چیز آپ کو ہضم نہیں ہوسکتی پیٹ کا درد اِسی وجہ سے ہے۔ آپ ایسی چیزیں نہ کھایا کریں۔ پھر ایک نسخہ لکھ کر اُسے دے دیا اور واپس آگئے۔ جب گھر پہ پہنچے تو لڑکا کہنے لگا کہ مجھے اجازت دیجئے مَیں اب واپس جانا چاہتا ہوں۔ وہ کہنے لگے ہیں! اتنی جلدی تم طب پڑھنے کے لئے آئے تھے۔ وہ کہنے لگا بس طب مَیں نے سیکھ لی ہے۔ ذہین آدمی کے لئے تو کوئی دِقّت ہی نہیں ہوتی۔ وہ کہنے لگے مَیں نے تو تمہیں ابھی ایک سبق بھی نہیں دیا۔ تم نے طب کہاں سے سیکھ لی؟ وہ کہنے لگا ذہین شخص کو بھلا سبقوں کی کیا ضرورت ہے؟ مَیں خدا کے فضل سے ذہین ہوں مَیں نے تمام طب سیکھ لی ہے۔ اُنہوں نے بہتیرا سمجھایا کہ یہاں رہو اور مُجھ سے باقاعدہ طب پڑھو مگر وہ نہ مانا اور واپس آگیا۔ لوگ اُسے دیکھ کر بڑے متعجب ہوئے اور کہنے لگے اتنی جلدی آگئے؟ وہ کہنے لگا ذہین آدمی کے لئے طب سیکھنا کوئی مُشکل امر نہیں۔ مَیں تو جاتے ہی تمام طب سیکھ گیا۔ خیر اُنہی دنوں کوئی رئیس بیمار ہو گیا اور اُس نے اُس لڑکے کو علاج کے لئے بُلایا یہ گیا نبض دیکھی ، حالات پوچھے اور پھر کہنے لگا آپ رئیس آدمی ہیں بھلا آپ کو ایسی چیزیں کہاں ہضم ہو سکتی ہیں۔ اچھا بتائیے کیا آپ نے کل گھوڑے کی زین تو نہیں کھائی ؟ وہ کہنے لگا کیسی نامعقول باتیں کرتے ہو گھوڑے کی زین بھی کوئی کھایا کرتا ہے؟ وہ کہنے لگا آپ مانیں یا نہ مانیں کھائی آپ نے گھوڑے کی زین ہی ہے۔ نوکروں نے جو دیکھا کہ یہ ہمارے آقا کی ہتک کر رہا ہے تو اُنہوں نے اُسے خوب پیٹا۔ وہ مار کھاتاجائے اور کہتا جائے کہ تشخیص تو مَیں نے ٹھیک کی ہے۔ اب تم میری بات نہ مانو تو مَیں کیا کروں؟ آخر اُنہوں نے پوچھا تیرا اِس سے مطلب کیا ہے؟ اِس نے جواب دیا کہ بات یہ ہے کہ جس طبیب سے مَیں نے طب سیکھی ہے وہ ایک دن مجھے ساتھ لے کر ایک مریض دیکھنے کے لئے گئے مَیں اِن کی حرکات کو خوب تاڑتا رہا۔ مَیں نے دیکھا کہ حکیم صاحب نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی اور چند چنے کے دانے جو چار پائی کے نیچے گرے ہوئے تھے وہ اُٹھالئے اور پہلے تو اِن دانوں سے کھیلتے رہے پھر مریض سے کہنے لگے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے چنے کھائے ہیں اور اِس نے اقرار کیا کہ واقع میں مَیں نے چنے کھائے ہیں۔ مَیں اِس سے فوراً سمجھ گیا کہ جب کسی مریض کو دیکھنے کے لئے جانا پڑے تو جاتے ہی اس کی چار پائی کے نیچے نظرڈالنی چاہئے اور جو چیز اس کی چار پائی کے نیچے ہو اُس کے متعلق یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کے کھانے سے مریض بیمار ہؤا ہے۔ اب مَیں جو یہاں آیا تو آتے ہی مَیں نے ان کی چار پائی کے نیچے نظر ڈالی تو مجھے گھوڑے کی زین نظر آئی۔ پس مَیں سمجھ گیا کہ یہ گھوڑے کی زین کھا کر ہی بیمار ہوئے ہیں۔
اب دیکھو جس چیز کا نام اِس نے ذہانت رکھا ہؤا تھا وہ ذہانت نہیں تھی بلکہ حماقت اور بیوقوفی تھی اور گو اِس مثال پر تم سب ہنس پڑے ہو مگر اِس قسم کی بیوقوفیاں تم بھی کرتے رہتے ہو اِلا مَاشَائَ اﷲُ۔ جیسے مَیں نے بتایا ہے سَو میں سے ایک ممکن ہے ذہین ہو لیکن سَو میں سے ننانوے یقینا ذہانت سے عاری ہوتے ہیں۔
ہندوستان کی ۳۳ کروڑ آبادی ہے اور سَو میں سے ایک کے ذہین ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اِس مُلک میں صرف ۳۳ لاکھ آدمی ذہین ہیں۔ اب ۳۳ لاکھ بھلا ۳۳ کروڑ کا بوجھ کس طرح اُٹھا سکتا ہے؟ گو مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک فیصدی کی نسبت بھی خاص ہوشیار جماعتوں میں پائی جاتی ہو گی۔ عام جماعتوں میں ایک فیصدی کی نسبت بھی نہیں اور اِس کا احساس مجھے اِسی وقت ہؤا ہے۔ کیونکہ جب میں نے ۳۳ کروڑ کا سواں حصّہ ۳۳ لاکھ نکالا تو میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ یہ اندازہ غلط ہے کیونکہ ہندوستان میں ہر گز ۳۳ لاکھ ذہین آدمی نہیں ہیں۔ اگر اتنے ذہین آدمی ہوتے تو اِس مُلک کی کایا پلٹ جاتی۔ ممکن ہے ہماری جماعت میں جسے ہر وقت علمی باتیں سُنائی جاتی ہیں ایک فیصدی کی نسبت سے ذہین آدمیوں کا وجود پایا جاتا ہو لیکن اور جماعتوں میں ایک فیصدی کی نسبت بھی نہیں۔ وہ کبھی بات کو چاروں گوشوں سے نہیں دیکھیں گے اور ہمیشہ غلط نتیجہ پر پہنچیں گے۔
ابھی پچھلے سفر میں جب مَیں کراچی گیا تو وہاں بغداد سے ہماری جماعت کے ایک دوست میرے پاس آئے اور اُنہوں نے کھجوروں کا ایک بکس پیش کیا اور کہا کہ یہ کھجوریں بغداد کی جماعت نے بھجوائی ہیں۔ ہم کراچی میں ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اور اس کے دو کمرے کرایہ پر ہم نے لئے ہوئے تھے۔ ایک مردانہ تھا، ایک زنانہ۔ مَیں نے وہ کھجوروں کا بکس اسی جگہ رکھوا دیا جہاں باقی اسباب پڑا تھا اور پھر مجھے اِس کا خیال بھی نہ رہا۔ جب ہم بمبئی پہنچے تومیری ہمشیرہ نے کسی موقع پر کھانا کھانے کے بعد کہا کہ اِس وقت کچھ میٹھے کو جی چاہتا ہے۔ مَیں چونکہ کھجوروں کا ان سے ذکر کرچُکا تھا اِس لئے اُنہوں نے پوچھا کہ وہ کھجوریں کہاں گئیں۔ اس پر مجھے ان کا خیال آیا اور مَیں نے اپنے ہمراہیوں سے پوچھا کہ وہ کھجوروں کا بکس کہاں گیا؟ جن صاحب سے پوچھا تھا اُنہوں نے جواب دیا کہ ایک بکس تو ہمارے کمرہ میں ضرور تھا مگر چونکہ ہم قادیان سے وہ بکس نہیں لے گئے تھے اِس لئے مَیں نے اور میرے ہمراہی نے وہ بکس اسباب سے الگ کر کے رکھ دیا کہ شاید کسی اَور کا ہو۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ یہ بکس بغداد کی جماعت کی طرف سے بطور تحفہ آیا تھا اور میں نے اسباب میں رکھوا دیا تھا۔ جب کمرہ ہمارا تھا اور اسباب بھی ہمارا تھا تو آپ لوگوں کو یہ کیونکر خیال ہؤا کہ اِسے الگ نکال کر رکھ دیں کسی اَور کا ہوگا۔ آخر دوسرے کسی شخص کو یہ خیال کیونکر پیدا ہو سکتا تھا کہ وہ اپنا اسباب اُٹھا کر ہمارے کمرہ میں آکر رکھ جائے۔ لوگ تو دوسروں کا اسباب اُٹھایا کرتے ہیں۔ اپنا اسباب دوسرے کے گھر میں تو کوئی آکر رکھ کر جاتا نہیں۔ اس پر اُنہوں نے کہاکہ ہم نے سمجھا کہ کسی احمدی کا بکس ہو گا۔ مَیں نے کہا اگر یہ خیال تھا تب بھی اُسے ساتھ رکھنا چاہئے تھا کیونکہ اِس وقت ہم تو وہ کمرہ خالی کر رہے تھے اور احمدی ہماری وجہ سے ہی وہاں آتے تھے۔ وہاں اسے چھوڑ دینے کے یہ معنی تھے کہ اپنے بھائی کا اسباب ضائع ہونے دیا جائے کیونکہ کمرہ خالی کر دینے کے بعد کون اس کی حفاظت کر سکتا تھا؟ اِس صورت میں بھی آپ کا فرض تھا کہ بکس ساتھ رکھ لیتے اور جب ساحل سمندر پر دوست رخصت کرنے کے لئے آتے تو اُن سے پوچھتے کہ اگر کسی دوست کا یہ سامان رہ گیا ہو تو وہ لے لیں مگر سب سے مقدّم یہ امر تھا کہ مجھ سے پوچھتے کہ یہ زائد سامان کیسا ہے؟ کوئی چیز یہاں سے تو نہیں خریدی۔ اس کو سُن کر وہ دونوں دوست جن کے ذمّہ سامان کی حفاظت تھی مُسکرا پڑے کہ یہ خیال ہی نہیں آیا۔ اب یہ کتنی بڑی سادگی ہے۔ ایک کمرہ کرایہ پر لیا جاتا ہے۔ اِس میں اپنا تمام اسباب رکھا جاتا ہے مگر روانگی کے وقت ایک بکس اسی جگہ چھوڑ دیا جاتا ہے اور سالارِ کارواں سے پوچھا تک نہیں جاتا کہ یہ صندوق بھی ہمارا ہی ہے یا کسی اَور کا؟ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ مَیں نے خود کوئی وہاں سے سَودا منگوایا ہو؟ اور اسے اِس صندوق میں بند کردیا گیا ہو مگر محض اِس لئے اِسے چھوڑ دیا گیا کہ قادیان سے چلتے وقت ہم اِس صندوق کو اپنے ہمراہ نہیں لائے تھے اور یہ خیال ہی نہیں آیا کہ دریافت تو کر لیا جائے یہ صندوق ہے کس کا؟
اگر وہ ذہانت سے کام لیتے تو اُنہیں چاہئے تھا کہ وہ اُس صندوق کو بھی اُٹھاتے اور مجھ سے پوچھتے کہ یہ کس کا ہے؟ جب وہ میرے کمرہ میں پڑا ہؤا تھا تو بہرحال میرا ہی ہو سکتا تھا۔ اگر وہ مسافروں کا وہاں سامان ہوتا تب تو شُبہ ہو سکتا تھا کہ یہ سامان شاید میرا ہے یا اس کا مگر جب ان کمروں میں ہم ہی ہم تھے تو کسی کی عقل ماری ہوئی تھی کہ وہ اپنا اسباب اُٹھا کر ہمارے کمرہ میں رکھ دے یا گھر سے ٹرنک لا کر ہمارے ٹرنکوں میں مِلا دے۔ پھر وہ کہنے لگے ہم نے سمجھا شاید یہ جماعت والوں کا اسباب ہے۔ حالانکہ اوّل تو ہم ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اور وہاں جماعت کا سامان کسی طرح نہیں آسکتا تھا لیکن اگر بالفرض ان کے نزدیک یہ کسی جماعت کے دوست کا ہی صندوق تھا تو بہرحال انہیں یہ تو سمجھنا چاہئے تھا کہ اب ہم نے دوبارہ اِس ہوٹل کے کمرہ میں نہیں آنا۔ پس انہیں چاہئے تھا وہ اِس صورت میں بھی اُس صندوق کو اُٹھاتے اور جہاز تک لا کر دریافت کرتے کہ یہ کس احمدی کا صندوق ہے؟ اِس طرح بات بھی کھل جاتی اور چیز بھی ضائع نہ ہوتی کیونکہ اگر بالفرض وہ کسی احمدی بھائی کا سامان ہوتا تو بھی اُس کی حفاظت ہمارے ذمہ تھی کیونکہ وہ ہمارے کمرہ میں تھا اور انہیں چاہئے تھا کہ دونوں صورتوں میں وہ اسباب اُٹھاتے اور ساتھ لے جاتے مگر جب مَیں نے ناراضگی کا اظہار کیا تو کہنے لگے خیال ہی نہیں آیا اور یہی جواب ہے جو ہر ہندوستانی غلطی کے موقع پر دیا کرتا ہے اور جب اِس سے بھی زیادہ ناراضگی کا اظہار کیا جائے تو دوسرا قدم وہ یہ اُٹھاتا ہے کہ کہہ دیتا ہے غلطی ہو گئی معاف کردیجئے۔
مَیں چاہتا ہوں کہ خدّام الاحمدیہ اپنے کام میں اِس امر کو بھی مدّ نظر رکھیں اور نوجوانوں کے ذہنوں کو تیز کریں۔
ہم نے بچپن میں جو سب سے پہلی انجمن بنائی تھی اُس کا نام تشحیذ الاذہان تھا۔ یعنی ذہنوں کو تیز کرنے کی انجمن۔ اِس کے نام کا تصور کر کے بھی میرا ایمان تازہ ہو جاتا اور میرا دل خوشی سے بھر جاتا ہے کہ انبیاء کے ذہن کیسے تیز ہوتے ہیں اور کس طرح وہ معمولی باتوں میں بڑے بڑے اہم نقائص کی اصلاح کی طرف توجہ دلا دیتے ہیں کہ آج ایک وسیع تجربہ کے بعد جو بات مجھ پرظاہر ہوئی ہے اُس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہایت سادگی کے ساتھ صرف دو لفظوںمیں توجہ دلادی تھی کیونکہ جب ہم نے ایک انجمن بنانے کا ارادہ کیا تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اِس کا کوئی نام تجویز فرمائیں توآپ نے اِس انجمن کا نام ’’تشحیذ الاذہان‘‘ تجویز فرمایا یعنی ذہنوں کو تیز کرنا۔رسالہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ بعد میں اِسی وجہ سے اِس نام پر جاری ہؤا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انجمن کا نام ’’تشحیذ الاذہان‘‘ رکھا تھا اور چونکہ اِسی انجمن نے یہ رسالہ جاری کیا اِس لئے اِس کا نام بھی ’’تشحیذ الاذہان‘‘ رکھ دیا گیا۔
پس ہماری انجمن کا نام ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’تشحیذ الاذہان‘‘ رکھا تھا۔ یعنی وہ انجمن جس کے ممبران کا یہ فرض ہے کہ وہ ذہنوں کو تیز کریں اور درحقیقت بچپن میں ہی ذہن تیز ہو سکتے ہیں اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اِس لحاظ سے بہت بڑی ذمّہ داری اُستادوں پر عائد ہوتی ہے مگر افسوس ہے کہ ہم اپنے بچوں کے بہت سے اوقات کتابوں میں ضائع کر دیتے ہیں اور وہ حقیقی فائدہ جس سے قوم ترقی کرتی ہے اِس کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ہمارا فرض ہے کہ ہماری کھیلیں اِس رنگ کی ہوں جن سے ہمارے ذہن تیز ہوں، ہماری تعلیم اِس رنگ کی ہو جس سے ہمارے ذہن تیز ہوں، ہماری انجمنوں کے کام اِس رنگ کے ہوں جن سے ہمارے ذہن تیز ہوں اور یہ چیز علم سے بھی مقدم ہونی چاہئے کیونکہ تھوڑے علم سے انسان نجات پاسکتا ہے لیکن ذہن کے کُند ہونے کی وجہ سے خواہ انسان کے پاس کتنا بڑا علم ہو نجات سے محروم رہ جاتا ہے۔
ہم یورپین قوموں کو دیکھتے ہیں ایک لمبے تجربہ کی وجہ سے اُن میں ذہانت کا نہایت بُلند معیار قائم ہے حالانکہ وہ شراب نوش قومیں ہیں، وہ سُور کھاتی ہیں مگر باوجود شراب نوش اور مُردارخوار ہونے کے اُن کے ذہن نہایت تیز ہوتے ہیں کیونکہ ایک وسیع تجربہ نے اُن کے دماغوں میں نہایت صفائی پیدا کر دی ہے۔
پچھلے دنوں جب جنگ کا خطرہ پیدا ہؤا تو انگریز مدبرین نے ہر طرح کی کوشش کر کے اِس جنگ کو روکا مگر جیسا کہ بعد میں معلوم ہؤا اِس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ لڑائی میں کُود نا پسند نہیں کرتے تھے یا بزدلی اس کی محرک تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے سارے مُلک کے انتظام پر نگاہ ڈالی اور اُنہوں نے محسوس کیا کہ ابھی ہمارے اندر کئی قسم کی خامیاں ہیں اور اگر ہم اِس وقت لڑ پڑے تو ہماری شکست کا خطرہ ہے۔ پس وہ بزدلی یا بے غیرتی کی وجہ سے پیچھے نہیں ہٹے جیسا کہ غلطی سے سمجھا جاتا ہے بلکہ اُنہوں نے جب اپنے انتظام پر نگاہ دوڑائی تو اُنہیں اپنے انتظام میں بعض نقائص اور خلل نظر آئے اور اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ اِس وقت لڑنا ٹھیک نہیں۔ بے شک اِن کے پاس جنگ کا سامان بھی کم تھا مگر جیسا کہ بعض مدبرین نے کہا ہے اگر جنگ میں وہ کُود پڑتے تو وقت پر تمام سامان مہیا کیا جاسکتا تھا مگر اُنہوں نے سمجھا کہ اگر ہم نے تمام سامان مہیا بھی کر لیا تب بھی ہمارا نظام ابھی ایسا مکمل نہیں کہ ہم اِس سامان سے پورا فائدہ اُٹھا سکیں۔
پس اُنہوں نے دانائی سے کام لے کر جنگ کے خطرہ کو دُور کر دیا لیکن اگر کوئی ایشیائی ہوتا تو وہ ایسے موقع پر سوائے اِس کے اَور کچھ نہ کہتا کہ غیرت، غیرت، کود پڑو اور مر جاؤ۔ حالانکہ قوم کا صرف مرجانا ہی کام نہیں ہوتا بلکہ فتح پانا بھی کام ہوتا ہے۔
تو ہمارے نوجوانوں کو ذہین بننا چاہئے اور اُن کی نظر وسیع ہونی چاہئے۔ وہ جب بھی کوئی کام کریں اُنہیں چاہئے کہ اِس کے سارے پہلوؤں کو سوچ لیں اور کوئی بات بھی ایسی نہ رہے جس کی طرف اُنہوں نے توجہ نہ کی ہو۔ یہی نقص ہے جس کی وجہ سے مَیں نے دیکھا ہے کہ روحانیات میں بھی ہمارے آدمی بعض دفعہ فیل ہو جاتے ہیں اور وہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں مگر ہمیں خدا تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں ہوتی حالانکہ مَیں نے بار ہابتایا ہے کہ صرف نمازیں پڑھنے سے خدا تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا نہیں ہو سکتی اور نہ اُس کا قُرب انسان کو حاصل ہو سکتا ہے۔ حقیقی دین تو ایک مکمل عمارت کا نام ہے مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم مکمل عمارت کا فائدہ صرف ایک دیوار سے حاصل کرنا چاہتے ہو۔ تم خود ہی بتاؤ، اگر کسی قلعہ کی تین دیواریں توڑ دی جائیں اور صرف ایک دیوار باقی رہنے دی جائے تو کیا اُس دیوار کی وجہ سے اُس قلعہ کے اندر رہنے والا محفوظ رہ سکتا ہے یقینا جب تک اُس کی چاروں دیواریں مکمل نہیں ہوں گی اُس وقت تک اُس قلعہ کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ اِسی طرح اﷲ تعالیٰ کا قُرب محض نمازوں کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اور جس قدر احکامِ اسلام ہیں اُن سب پر عمل کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ اگر تم نمازیں تو پڑھتے ہو لیکن تم میں جھوٹ کی عادت ہے یا نمازیں تو پڑھتے ہو مگر روزے نہیں رکھتے یا روزے تو رکھتے ہو مگر زکوٰۃ نہیں دیتے یا زکوٰۃ تو دیتے ہو مگر مالدار ہونے کے باوجود اور سفر کی سہولت ہونے کے باوجود حج نہیں کرتے یا تم نمازیں بھی پڑھتے ہو، روزے بھی رکھتے ہو، حج بھی کرتے ہو مگر کسی غریب کا مال ظالمانہ طور پر کھا جاتے ہوتو تمہارا یہ اُمید کرنا کہ تمہاری نمازیں، تمہارے روزے اور تمہارا حج تمہیں فائدہ دے نادانی ہے۔ کیونکہ تم اپنی روحانی عمارت کو چاروں گوشوں سے مکمل نہیں کرتے۔ تم اگر ایک طرف پچاس فٹ چوڑی دیوار بھی کھڑی کر دیتے ہو تو وہ تمہیں فائدہ نہیں پہنچا سکتی لیکن اگر تم چار انچ کی دیوار چاروں طرف بنا کر اُس پر چھت ڈال لو تو وہ عمارت تمہیں سردی گرمی سے محفوظ رکھ سکتی اور خطرات سے بچا سکتی ہے بلکہ چار انچ موٹی دیوار کیا اگر تم سرکنڈے لے کر اُن کا ایک جھونپڑا بنا لو یا بانس کی تیلیوں سے ایک جھونپڑی بنا لو تو گو وہ مضبوط نہیں ہو گی مگر تم اُس میں امن سے رہ سکو گے۔ تم سَو فٹ چوڑی صرف ایک دیوار کھڑی کر کے فائدہ حاصل نہیں کر سکتے لیکن اگر تم آدھ انچ کی سرکنڈے کی دیواریں چاروں طرف کھڑی کر دو جیسا کہ عام طور پر بیٹ کے علاقہ میں زمیندار لوگ بناتے ہیں تو تم اِس سے وہ تمام فائدے اُٹھا لو گے جو ایک مکمل عمارت سے اُٹھائے جاسکتے ہیں کیونکہ تم اِس جھونپڑی میں وہ تمام شرائط پوری کر دو گے جو ایک مکان کی تعمیر کے لئے ضروری ہیں۔ تم اِس میں رات کو سو بھی سکو گے، تم سردی سے بھی بچ سکو گے، تم بارش سے بھی محفوظ رہو گے اور چوروں سے بھی بچ رہو گے کیونکہ چور آخر ان سرکنڈوں کو توڑ کر اندر داخل ہو گا اور جب وہ اندر داخل ہونے کے لئے سرکنڈے توڑے گا تو تمہاری آنکھ کھل سکتی اور تم اُس کا مقابلہ کر سکتے ہو۔ اِسی طرح تم اِس جھونپڑی میں بیٹھ کر پردہ قائم رکھ سکتے ہو اور اگر میاں بیوی اندر بیٹھے اِختلاط کر رہے ہوں تو کوئی اُن پر نظر نہیں ڈال سکتا لیکن اِس کی بجائے اگر تم سَو فٹ چوڑی دیوار ایک طرف کھڑی کر دو اور باقی اطراف کو خالی رہنے دو تو تمہیں اِن فوائد میں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اِس طرح اگر تم نمازیں پڑھتے ہو اور اِس قدر تعہّد اور احتیاط کے ساتھ پڑھتے ہو کہ ایک نماز کا بھی ناغہ نہیں ہونے دیتے لیکن تم روزوں میں سُست ہو یا اگر روزوں میں تو اِس قدر چُست ہو کہ سال میں سے چھ مہینے روزے رکھتے ہو مگر زکوٰۃ نہیں دیتے یا زکوٰۃ میں تو چُست ہو مگر صدقہ خیرات دینے میں سُست ہو یا صدقہ و خیرات دینے میں تواِس قدر چُست ہو کہ اپنا سارا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں غریبوں اور مسکینوں کو دے دیتے ہو لیکن جھوٹ بول لیتے ہو تو تمہاری مثال اس شخص کی سی ہے جو صرف ایک طرف دیوار کھڑی کر کے اِس سے پورے مکان کا فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے لیکن اِس کے مقابلہ میں اگر تم تھوڑا سا مال صدقہ و خیرات کر دیتے ہو اور زیادہ صدقہ نہیں کرتے، نمازیں صرف پانچ وقت کی پڑھتے ہو، نوافل اور تہجد ادا نہیں کرتے، رمضان کے صرف تیس روزے رکھتے ہو لیکن نفلی روزوں کے رکھنے کا خیال نہیں کرتے، صدقہ و خیرات میں بھی کچھ ایسے دلیر نہیں لیکن تھوڑا بہت دے دیتے ہویا کم سے کم اگر زکوٰۃ تم پر فرض ہو تو تم اِس کی ادائیگی میں تساہل سے کام نہیں لیتے تو تم یقینا اﷲ تعالیٰ کا قُرب حاصل کر لو گے کیونکہ گو تم نے محل تیار نہیں کیا مگر تم نے سرکنڈوں کی دیواریں بنا کر ایک چھت ڈال لی ہے اور اِس وجہ سے تم اِس بات کے مستحق ہو گئے ہو کہ تم مکان کا فائدہ حاصل کر لو۔ یہی وہ چیز ہے جس کو ذہانت کہتے ہیں یعنی اپنے علم کو ایسے طرز پر کام میں لانا اور اِس سے فائدہ اُٹھانا کہ انسان کی چاروں طرف نگاہ رہے اور کوئی گوشہ اِس کی نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے اِسی ذہانت کا یہ کرشمہ ہے کہ جب کسی ذہین آدمی سے بات کی جائے تو وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ بات مجھ سے کیوں کہی جارہی ہے؟ کہنے والے کا مقصد کیا ہے؟ کن حالات میں یہ مجھ سے بات کر رہا ہے؟ اِس میں کہنے والے کا کیا فائدہ ہے اور میرا اِس میں کوئی فائدہ ہے یا نقصان؟ اورکیوں میرے ساتھ بات کی جارہی ہے؟ اِس کا کیا مقصد اور کیا مُدعا ہے؟ مگر دوسراآدمی بیوقوفی کر کے کچھ کا کچھ نتیجہ نکال لیتا ہے۔ پس ذہین وہ شخص ہے جو چاروں گوشوں پر نگاہ رکھے مگر وہ جو صرف علم کی حد تک محدود رہتا ہے اور بات کی تہہ تک نہیں پہنچتا اُسے ہم ذہین نہیں کہہ سکتے۔ جیسا کہ مَیں نے اپنے بعض سفروں کا حال بیان کیا ہے اب اگر میرے ساتھ سفر کرنے والے ذہین ہوتے تو وہ کہتے کہ ہمیں کوئی ایسا پہلو اختیار نہیں کرنا چاہئے جو بعد میں کسی خِفّت اور بد نامی کا موجب ہو اور انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ جب سفروں میں چیزوں کے گُم ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے تو وہ ایسا طریق اختیار کریں جس سے کسی قسم کی غلطی نہ ہو۔
انگریزوں نے اِسی ذہانت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ریکارڈ اور سٹیٹسٹکس کا طریق ایجاد کیا ہے۔ اگر ریکارڈ نہ ہو تو گزشتہ امور سے فائدہ اُٹھانے میں سخت دقت پیش آتی ہے۔ اب سب دُنیا میں دفتر موجود تھے، رجسٹر موجود تھے، خطوط موجود تھے، کاغذات موجود تھے مگر ریکارڈ اور سٹیٹسٹکس( STATISTICS) نہ رکھے جاتے تھے۔ انگریزوں نے جب ان چیزوں کو دیکھا تو اُنہوں نے ذہنی طور پر فیصلہ کیا کہ اپنے کاموں سے تجارت حاصل کرنے کے لئے کوئی طریق ایجاد کیا جائے۔ چنانچہ اُنہوں نے ریکارڈ رکھنے اور سٹیٹسٹکس کا طریق ایجاد کیا۔ گویا علم موجود تھا مگر لوگ ذہانت سے کام نہ لینے کی وجہ سے اِس کی حفاظت سے غافل تھے۔ انگریزوں نے اِسی علم کو ذہانت سے کام لیتے ہوئے اپنے تجربوں سے فائدہ اُٹھانے کا ایک ذریعہ نکال لیا۔ اِسی طرح روزانہ ہمارے مشاہدہ میں بات آتی ہے کہ دو شخص ہیں دونوں کے پاس کتابیں ہیں مگر ایک نے اِن کتابوں کا انڈیکس بنایا ہؤا ہوتا ہے اور دوسرے نے انڈیکس نہیں بنایا ہوتا۔ اب وہ جس نے انڈیکس بنایا ہؤا ہوتا ہے وہ اپنی ذہانت کی وجہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا لیتا ہے مگر دوسرا عدم ذہانت کی وجہ سے باوجود اِس کے کہ علم اُس کے پاس بھی موجود ہے اِس طرح فائدہ نہیں اُٹھا سکتا جس طرح ذہین شخص اُٹھاتا ہے۔
تو نوجوانوں کو ذہین بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ ہم اِنہیں ذہین کس طرح بنا سکتے ہیں؟ کئی ہیں جو سخت کُند ذہن ہوتے ہیں اور انہیں ہزار بار بھی کوئی بات سمجھائی جائے تو وہ اُن کی سمجھ میں نہیں آتی، پھر سب کو ہم کس طرح ذہین بنا سکتے ہیں؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ گو انسانی طاقتیں محدود ہیں مگر جس قسم کی قوتیں اﷲ تعالیٰ نے انسانی دماغ میں رکھی ہوئی ہیں وہ ایسی ہیں کہ محنت اور دباؤ سے وہ تیز ہو جاتی ہیں اور عقل اور فطانت کی جنس تھوڑی بہت اﷲ تعالیٰ نے ہر دماغ میں رکھی ہوئی ہے سوائے اس کے جو پاگل ہو۔ اور ایسا شخص ہزاروں میں سے کوئی ایک ہوتا ہے۔ باقی جس قدر اوسط دماغ رکھنے والے انسان ہیں اُن کے اندر ہر قسم کا مادہ موجود ہوتا ہے، وہ ذہانت بھی رکھتے ہیں، وہ فطانت بھی رکھتے ہیں، وہ عقل بھی رکھتے ہیں، وہ فکر بھی رکھتے ہیں، وہ علم بھی رکھتے ہیں، وہ شعور بھی رکھتے ہیں، وہ احساس بھی رکھتے ہیں اور جب کوئی شخص اُن قوتوں کو ترقی دینا چاہے تو وہ ترقی دے سکتا ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ انتہادرجہ کا فطین نہ بنے، وہ انتہا درجہ کا ذکی نہ بنے، وہ انتہا درجہ کا ذہین نہ بنے ، وہ انتہا درجہ کا حسّاس نہ بنے، وہ انتہا درجہ کا باشعور نہ بنے، وہ انتہا درجہ کا فقیہہ نہ بنے، وہ انتہا درجہ کا مُفکر نہ بنے مگر وہ ایک اوسط درجہ کا فطین، ایک اوسط درجہ کا ذہین اور ایک اوسط درجہ کا مُفکر اور فقیہہ بن سکتا ہے اگر کوشش کرے۔
پس خدّام الاحمدیہ کا کام اِس طرز پر ہونا چاہئے کہ نوجوانوں میں ذہانت پیدا ہو ممکن ہے وہ کہیں ہمیں یہ باتیں نہیں آتیں اور ہم سمجھ نہیں سکتے کہ کس طرح اِس کام کو چلائیں۔ سو وہ میرے پاس آئیں اور مجھ سے مشورہ لیں مجھے اﷲ تعالیٰ کے فضل سے یہ تمام باتیں آتی ہیں۔ مَیں اُنہیں باتیں بتاؤں گا آگے عمل کرنا اُن کا کام ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر وہ میری باتوں پر عمل کریں تو نوجوانوں میں بہت جلد ذہانت پیدا ہو سکتی ہے۔ ذہانت دراصل نتیجہ ہے کامل توجہ کا۔ اگر ہم کامل توجہ کی عادت ڈال لیں تو لازماً ہمارے اندر ذہانت پیدا ہو گی اور یہ ذہانت پھر ایک مقام پر ٹھہر نہیں جاتی بلکہ ترقی کرتی رہتی ہے۔ مَیں نے اِسی اصول کو مدّ نظر رکھتے ہوئے خدّام الاحمدیہ کے کارکنان کو نصیحت کی ہے کہ اگر اُن میں سے کوئی اپنے فرائض کی بجاآوری میں غفلت سے کام لیتا ہے تو اُسے سزا دو کیونکہ توجہ پیدا کرنے کے مختلف سامانوں میں سے ایک سامان ڈر بھی ہے۔ یعنی انسان کو یہ خیال ہو کہ اگر میں ناکام رہا تو مجھے سزا ملے گی۔ یورپین لوگوں میں ذہانت کی ترقی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ مجرم کو سزا دینے میں سخت سنگدل ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ جب کسی سے کوئی قصور سرزد ہو اور اُسے سزا دی جائے تو وہ اپنے قصور کے ازالہ کے لئے صرف اتنا کافی سمجھتا ہے کہ پیسے کے دسویں حصّہ کا کاغذ لیا اور پیسے کی بیسویں حصّہ کی سیاہی اور لکھ دیا حضور میری توبہ! میرا قصور معاف فرمائیں۔ آپ سے زیادہ رحیم بھلا کون ہو سکتا ہے۔ آپ رحیم کریم، اﷲ کے نمائندے ہیں اور اگر چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اُسے جواب نہ دیا جائے کہ اچھا تمہیں معاف کر دیا گیا ہے تو تمام معززین کی چٹھیوں پر چٹھیاں آنی شروع ہو جائیں گی کہ فلاں شخص بڑا پشیمان ہے، وہ اب توبہ کرتا ہے، اُسے معاف کیا جائے۔ تم اِس قسم کا تمسخر کسی زندہ قوم میں نہیں دیکھ سکتے۔ تم چلے جاؤ انگلستان میں، تم چلے جاؤ جرمنی میں ، تم چلے جاؤ امریکہ میں، تم چلے جاؤ اٹلی میں، تم چلے جاؤ فرانس میں تم کسی ایک جگہ بھی ایسا تمسخر ہوتے نہیں دیکھو گے۔ تم سَو میں سے ایک احمق بھی ایسا نہیں دیکھو گے جو قصور کے بعد کاغذ اور قلم دوات لے کے بیٹھ جائے اور معافی کی درخواست لکھنا شروع کر دے اور تم کوئی ایسا احمق نہیں دیکھو گے جو ایسے شخص کی سفارش کرے مگر ہمارے ہندوستان میں یہ عام بات ہے اور یہ مرض اِس قدر بڑھا ہوا ہے کہ اِس کے نتیجہ میں عجیب عجیب نظارے بعض دفعہ دیکھنے میں آئے ہیں۔ چنانچہ اِس سلسلہ میں ایک امر کا میرے دل پر بہت گہرا اثر ہے۔ جب تشحیذ الاذہان کی انجمن قائم ہوئی تو اس وقت ہم میں سے ایک شخص سے ایک غلطی ہوئی اُس نے بعد میں توبہ بھی کی، قربانی بھی کی اور نقصان بھی اُٹھایا مگر اُس وقت اُس سے غلطی ہو گئی، اُس شخص کے اخلاص کا تم اِس سے اندازہ کر لو کہ وہ ایک معقول تنخواہ چھوڑ کر یہاں صرف دس روپیہ ماہوار پر ہماری انجمن میں ملازم ہو گیا تھا۔ یہ شخص ہماری انجمن کے ابتدائی ممبروں سے تھا۔ ضمناً میں یہ بتا دیتا ہوں کہ جس وقت مَیں نے یہ انجمن قائم کی تھی اُس وقت ہم صرف سات لڑکوں نے اِسے اپنے خرچ پر جاری کیا تھا۔ اِس وقت تحریک جدید کے ایک سو چالیس لڑکے ہیں مگر وہ اُن سات جیسا کام کر کے بھی نہیں دکھا سکتے۔ ہم کل سات لڑکے تھے مگر ہم نے دس روپیہ ماہوار کا ایک نوکر بھی رکھا ہؤاتھا۔ ہماری مالی حالت اُس وقت جو کچھ تھی اُس کا اندازہ اِس سے لگ سکتا ہے کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے تین روپیہ ماہوار وظیفہ مِلا کرتا تھا جو قلم دوات کا غذ اور دوسری ضروریات پر مَیں خرچ کیا کرتا ۔ مگر اِن تین روپوں میں سے بھی مَیں ایک روپیہ ماہوار اِس انجمن پر خرچ کرتا تھا۔ اِسی طرح باقی لڑکوں کا حال تھا۔ اِسی سرمایہ سے آہستہ آہستہ ہم نے رسالہ جاری کیا اور چونکہ رسالہ پر ہم خود محنت کیا کرتے تھے اِس لئے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اچھا سرمایہ جمع ہو گیا اور ہمارا کام عُمدگی سے چلنے لگا اور ہم نے کام کی سہولت کے لئے دس روپیہ ماہوار پر ایک آدمی رکھنے کا فیصلہ کیا اور اِس دوست نے اپنے آپ کو اِس کام کے لئے پیش کر دیا۔ وہ آدمی بہت نیک تھا، غریبوں کی مدد کیا کرتا، رفاہِ عام کے کاموں میں حصّہ لیتا اور نماز روزہ کا بھی پابند تھا مگر بعض دفعہ آدمی سے کوئی کوتاہی ہو ہی جاتی ہے اِس سے بھی ایک دفعہ یہ کوتاہی ہوئی کہ انجمن کا کچھ روپیہ اس نے اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کر لیااور خیال کر لیا کہ اگلی تنخواہوں سے آہستہ آہستہ ادا کر دوں گا۔ اِس امر کا جب ہمیں علم ہؤا تو یہ معاملہ ہماری کمیٹی میں پیش ہؤا۔ اُس وقت ہم میں سے کچھ کالج کے سٹوڈنٹس بھی تھے کیونکہ ہم سات لڑکوں میں سے کچھ انٹرنس پاس کر کے جلدی ہی کالج میں داخل ہو گئے تھے۔ جب یہ معاملہ ہماری کمیٹی میں پیش ہؤا تو جو کالج کے سٹوڈنٹ تھے اُنہوں نے اِس امر پر زور دینا شروع کیا کہ اِس شخص کو سخت سزا دینی چاہئے کیونکہ اِس نے بد دیانتی کی ہے اور اِسے بد دیانتی کے جُرم میں علیحدہ کر دینا چاہئے۔ مَیں نے اِس کے مقابلہ میں کہا کہ اِس میں کوئی شُبہ نہیں اِس شخص سے قانونی بد دیانتی ضرور ہوئی ہے لیکن فیصلہ کرتے وقت ہمیں یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ اِس شخص کا ماحول کیا ہے اور آیا اُس سے جو بد دیانتی سرزد ہوئی ہے یہ ناسمجھی کی وجہ سے سرزد ہوئی ہے یا شرارت کی وجہ سے سرزد ہوئی ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ بد دیانتی اس نے شرارت کے طور پر کی اور انجمن کو نقصان پہنچانے کے لئے کی ہے تو اُسے واقع میں سخت سزا ملنی چاہئے لیکن اگر یہ ثابت ہو کہ اس نے شرارتاً ایسا نہیں کیا محض غفلت کی وجہ سے اِس نے ایسا کیا ہے اور یہ خیال کر کے کچھ روپیہ خرچ کر لیا ہے کہ اگلی تنخواہ میں سے دے دوں گا تو گو بد دیانتی یہ بھی ہے مگر یہ شرارت والی بد دیانتی سے مختلف ہے اور ہمیں سزا میں نرمی کرنی چاہئے۔ چنانچہ مَیں نے کہا اِس شخص نے ہماری خاطر ایک اچھی نوکری چھوڑی اور یقینا وہ نوکری جو ہماری ہے یہ اِس کی پہلی نوکری کا قائمقام نہیں ہوسکتی۔ پس جب اِس کی ہماری خاطر قُربانی ثابت ہے تو گو اِس کا فعل بد دیانتی ہی قرار دیا جائے مگر یقینا وہ اِس حد تک نہیں جس حد تک شرارتی بد دیانتی ہوتی ہے۔ ہمارے ساتھیوں میں سے ایک دوست یہ تمام تقریریں سُنتے رہے اور خاموشی سے بیٹھے رہے اور اُنہوں نے اِس میںکوئی دخل نہ دیا مگر جب بحث لمبی ہو گئی تو وہ جُوش سے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ لوگ کیا بیوقوفی کی باتیں کر رہے ہیں؟ نہ کالج والوں کی بات میری سمجھ میں آتی ہے اور نہ (میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) اِن کی۔ یہ دونوں کہتے ہیں کہ اِس شخص نے بد دیانتی کی۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک فریق کہتا ہے اِس نے شرارت والی بد دیانتی کی اور دوسرا کہتا ہے یہ نادانی کی بد دیانتی ہے، ایک کہتا ہے سزا زیادہ دینی چاہئے اور دوسرا کہتا ہے سزا نرم دینی چاہئے۔ مگر دونوں اِس کو بد دیانت قرار دیتے اور اِس کے فعل کو قابلِ سزا قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ بات دونوں کی غلط ہے اور خواہ مخواہ اِس مجلس میں بُلا کر ہمارا وقت ضائع کیا گیا ہے۔ آپ لوگ مجھے یہ بتائیں کہ یہ جو مجلس ’’تشحیذ الاذہان‘’ کا روپیہ ہے یہ آپ کا ہے یا خدا کا؟ ہم نے کہا خدا کا۔ وہ کہنے لگے جب خدا کا ہے تو اگر خدا کے بندے نے کچھ روپیہ لے لیا تو تم ہو کون جو اُسے بد دیانت اور خائن قرار دو۔ ہم نے اِس پر اُنہیں بہتیرا سمجھایا اور دلیلیں دیں کہ آپ کی یہ بات درست نہیں مگر وہ یہی کہتے چلے گئے کہ مال بھی خدا کا اور بندہ بھی خدا کا میری سمجھ میں تو اَور کوئی بات آتی ہی نہیں۔ ہم نے کہا اِس کا تو یہ مطلب ہے کہ دینی خزانہ میں سے جو روپیہ کسی کے ہاتھ آئے وہ اُٹھا کر چلتا بنے۔ مثلاً صدر انجمن احمدیہ میں مال آتا ہے تو محاسب صاحب سیف اُٹھا کر گھر لے جائیں اور کہیں خدا کا مال اور خدا کا بندہ۔ جب مال خدا کا ہے تو میرا اِسے اپنے نفس پر خرچ کرنا کہاں گناہ ہؤا؟ اور جب ہم اُنہیں پکڑیں تو وہ کہیں اچھا بتاؤ تم نے خدا کی خاطر مال دیا تھا یا نہیں؟ اور جب ہم کہیں کہ ہاں دیا تھا تو وہ کہیں کہ بس پھر میں بھی اُس کا بندہ ہوں اور خدا کا بندہ خدا کا مال لے جا رہا ہے۔ وہ کہنے لگے اگر کوئی لے جاتا ہے تو لے جائے ہمیں اِس میں دخل نہیں دینا چاہئے۔ ہم نے اُنہیں بہت ہی سمجھایا مگر یہ مسئلہ کچھ اِس طرح اُن کے دماغ میں مرکوز تھا کہ آخر تک ہماری بات اُن کی سمجھ میں نہ آئی کیونکہ وہ ایسے معاملات میں سزا کے قائل ہی نہ تھے۔ اِس واقعہ سے تم سمجھ سکتے ہو کہ ایسے معاملات میں ہماری ذہنیتیں کس قسم کی ہو رہی ہیں؟ حالانکہ حق یہ ہے کہ سزا ذہن کو تیز کرتی ہے اور جس طرح دُنیوی انتظامات میں سزا دینا ضروری ہے اور اِس سے قوم میں ایسا احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ لوگ غلطی سے حتّی الوسع بچنے لگ جاتے ہیں اور ذہن تیز ہو جاتے ہیں ہمارے ملک میں عام طور پر یہ خیال کرتے ہیں کہ سزا دینا ایک ظلم ہے اور جن لوگوں سے غلطی ہوتی ہے خصوصاً جبکہ وہ اعزازی کارکن ہوں وہ اور اُن کے دوست خیال کرتے ہیں کہ ایسے موقع پر صرف اظہارِ ندامت کافی ہونا چاہئے لیکن اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے کاموں میں اپنے دماغوں کو پوری طرح نہیں لڑاتے اور آہستہ آہستہ قوم کے ذہن کُند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اگر وہ اِن کاموں میں سزا کو ضروری قرار دیتے تو ضرور احتیاط سے کام کرنے کے عادی ہو جاتے اور ذہن تیز ہوتے جاتے۔
مَیں نے دیکھا ہے کہ جب کسی سے غلطی ہو اور اُسے سزا دینے کی تجویز ہو تو بڑے بڑے لوگ فوراً اِس کی سفارشیں لے کر میرے پاس پہنچ جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اﷲ تعالیٰ سے زیادہ کون رحیم ہے۔ مگر وہ بھی ایسے موقع پر سزا دیتا ہے۔ ذرا غور تو کرو اگر یہ اصول درست ہو اور قیامت کے دن بھی ایسا ہی ہو تو قرآن کریم میں جو کچھ آخرت کے متعلق آیا ہے وہ کس طرح مضحکہ انگیز طور پر ایک تماشہ بن جائے مثلاً اگر فرعون کو سزا ملنے لگے اور حضرت موسیٰ کے ساتھی کھڑے ہو کر کہیں کہ حضور اِس سے غلطی ہو گئی ہے اب یہ معافی طلب کرتا ہے اِسے اب معاف کر دیا جائے تو کیا خدا تعالیٰ اُسے معاف کر دے گا؟ اور کیا اِس قسم کی معافی اُس روحانیت کی تکمیل کا موجب ہو گی جو اﷲ تعالیٰ پیدا کرنا چاہتا ہے؟ یا مثلاً جب ابو جہل کو سزا ملنے لگے تو رقعوں کا ڈھیر خدا تعالیٰ کے سامنے لگ جائے اور پندرہ بیس محضر نامے پیش ہو جائیں جن پر لوگوں کی طرف سے یہ درخواست ہو کہ اِسے معاف کیا جائے تو کیا خدا تعالیٰ اُسے معاف کر دے گا؟ اگر اِس قسم کے رقعے آنے لگیں تو پھر تو خدا تعالیٰ کہے گا جب سب فیصلے تم نے خود ہی کرنے ہیں تو میں کس لئے یہاں بیٹھا ہوں؟ اُٹھاؤ دوزخ اور سب کو معاف کرو۔ پس اگر خدا تعالیٰ کا کسی کو سزا دینا ظلم نہیں اور کسی کا کوئی حق نہیں کہ اُس کے سامنے سفارش کرے تو کیا مَیں یا تم خدا تعالیٰ سے زیادہ رحم اپنے اندر کھتے ہیں کہ ہم سزا کو ایک بَلا اور عذاب تصوّر کرتے ہیں۔ یہ یقینا دماغ کی کمزوری اَور ذہانت کی کمی کی علامت ہے اور یہ یقینا اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہم سمجھتے ہی نہیں کہ سزا کیوں مقرر کی گئی ہے؟ سزا ایک بہت بڑے فائدہ کی چیز ہے۔ سزا بنی نوع انسان کے لئے ایک رحمت کا خزانہ ہے۔ اگر یہ فائدہ کی چیز نہ ہوتی تو ہمارا خدا کبھی نہ بنتا۔ ہمارا خدا کبھی قہار نہ بنتا، وہ صرف رحیم اور کریم ہی ہوتا۔ مگر وہ رحیم اور کریم ہی نہیں بلکہ شَدِیْدُالْعِقَاب اور شَدِیْدُ الْبَطْش بھی ہے۔ پھر کیا تم سمجھتے ہو کہ صرف میں منصف ہوں یا تم منصف ہو لیکن ہمارا خدا ظالم ہے۔ کیونکہ وہ بنی نوع انسان کو سزا بھی دیتا ہے۔ اِس سے زیادہ بے حیائی کا عقیدہ اور کون سا ہو سکتا ہے اور اِس سے زیادہ بے ہودہ بات اَور کیا ہو سکتی ہے؟ پس یقینا مجرم کو سزا دینا ضروری ہے۔ یقینا سزا کے بعد قوم ترقی کرتی ہے اور یقینا سزا کے بغیر صحیح ذہانت پیدا نہیں ہوتی۔ جب کسی کو علم ہو کہ اگر مَیں نے فلاں کام خراب کیا تو مجھے سزا ملے گی تو وہ اپنے دماغ پر زور ڈال کر ہوش سے کام کرے گا تاکہ اُسے سزا نہ ملے اور جب وہ ہوش سے کام لے گا تو وہ سزا سے بھی بچ جائے گا اور اُس کا ذہن بھی تیز ہو جائے گا۔
اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ ذہانت پیدا کرنے کا پہلا ذریعہ محبت ہے۔ چنانچہ دیکھ لو ماں کس طرح ہر وقت اپنے بچہ کی فکر رکھتی ہے۔ اِس کا یہ فکر ہی اس کی ذہانت کا موجب ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اِس کی ذہانت محدود ہوتی ہے اور ذہین شخص کی ذہانت وسیع ہوتی ہے۔ ورنہ بیوقوف شخص بھی بعض دفعہ ایسے معاملہ میں آکر بڑا ذہین بن جاتا ہے جس میں اس کا ذاتی فائدہ ہوتا ہے لیکن وہ ذہین نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ اُس کی ذہانت محدود اور وقتی ہوتی ہے اِسی طرح ماں بھی اپنے بچہ کے متعلق بڑی ذہانت سے کام لیتی ہے اور اُس کی ہر ضرورت کا فکر رکھتی ہے لیکن اس کی یہ ذہانت محدود ہوتی ہے۔ بہرحال ذہانت یا محبت سے پیدا ہوتی ہے یا خوف سے پیدا ہوتی ہے۔ خوف کے وقت بھی انسانی ذہن خوب تیز ہو جاتا ہے یا پھر تجربہ سے انسانی ذہن تیز ہو جاتا ہے۔ یہی چند امور ہیں جن کا ذہانت کے پیدا کرنے میں بہت بڑا دخل ہے مگر جو محدود ذہانت ہو اُس کا کسی خاص پہلو میں تو فائدہ ہو سکتا ہے مگر باقی امور میں نہیں۔ ایسا شخص گو اپنے فائدہ یا اپنے بچے کے فائدہ کے لئے بڑی ذہانت کا ثبوت دے گا مگر قوم کے لئے وہ مفید نہیں ہوگا کیونکہ اُس کی ذہانت محدود ہے۔ انہی محدود ذہینوں میں سے مَیں نے ماں کو پیش کیا ہے۔ وہ عام طور پر اپنے بچہ کے متعلق ایسی ایسی فکریں رکھتی ہے کہ دوسرے حالات میں ویسی فکریں انسان کو نہیں سوجھ سکتیں۔ وہ بعض دفعہ اپنے بچہ کے متعلق اتنا سوچتی ہے کہ کہتی ہے مَیں دس سال کے بعد یہ کروں گی اور وہ کروں گی تو اِس ذہانت کی محرک محبت ہے۔ اِسی طرح کبھی خوف ذہانت کا مُحرک ہو جاتا ہے۔ مَیں اِس وقت جس ذہانت کی طرف توجہ دلا رہا ہوںوہ عام ذہانت ہے۔ محبت بیشک پہلی چیز ہے جو ذہانت پیدا کرتی ہے مگر یہ محبت تو ایمان پہلے ہی پیدا کررہا ہے اور خصوصاً جب قومی کاموں میں نوجوان حصّہ لیں گے اور قومی روح اپنے اندر پیدا کریں گے جس کا پیدا کرنا میں ان کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد قرار دے چُکا ہوں تو لازماً محبت بھی پیدا ہو گی اور محبت کے نتیجہ میں جو ذہانت پیدا ہوتی ہے وہ بھی ان میں رونما ہو گی مگر دوسرا حصّہ ذہانت کا سزا سے مکمل ہوتا ہے۔ اِسی لئے مَیں نے فیصلہ کیا ہے کہ خدّام الاحمدیہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ہر ممبر سے یہ اقرار لیں کہ اگر اِس نے اپنے مفوضہ فرض کی ادائیگی میں غفلت یا کوتاہی سے کام لیا تو وہ ہر سزا برداشت کرنے کے لئے تیار رہے گا اور خدّام الاحمدیہ کے ممبران کا فرض ہے کہ وہ خود اس کے لئے سزا تجویز کریں۔ اگر وہ سزا بھگتنے کے لئے تیار نہ ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ خدّام الاحمدیہ میں شامل رہنے کے قابل نہیں اور اگر وہ سزا بھگت لے گا تو یقینا وہ اگلی دفعہ پہلے سے زیادہ اچھا کام کرے گا۔ اگر کوئی اِس پر معترض ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ کیوں سزا دی جاتی ہے؟ تو اُسے کہنا چاہئے کہ کیوں اُس نے محبت کے جذبہ کے ماتحت پہلے ہی کام ٹھیک نہ کیا؟ اگر وہ محبتِ کامل سے کام لیتا تو اُس کے کام میں کوئی خرابی پیدا نہ ہوتی اور اُسے سزا بھی نہ ملتی مگر جب محبت والا ذریعہ اُس نے چھوڑ دیا اور محبت کی کتاب سے اُس نے سبق نہیں لیا تو اب ضروری ہے کہ اُسے سزا کی کتاب سے سبق دیا جائے۔ بہرحال اگر وہ سبق قیمتی ہے جس کے سیکھنے کے لئے وہ اِس مجلس میں شامل ہؤا تھا تو جو جائز ذریعہ بھی اُس کے لئے اختیار کیا جائے وہ اچھا ہے اور اگر سبق اچھا نہیں تو پھر اِس کے لئے کسی قُربانی کی ضرورت نہیں خواہ وہ کِس قدر معمولی اور حقیر کیوں نہ ہو۔ تو خدّام الاحمدیہ کو نوجوانوں کے اندر ذہانت پیدا کرنی چاہئے۔ مَیں ذہانت پیدا کرنے کے ذرائع بتانے کے لئے ہر وقت تیار ہوں صرف ایک بات ہے جس کے لئے انہیں تیار رہنا چاہئے اور وہ یہ کہ جب کسی سے کوئی قصور سرزدہو تو وہ اِس کی سزا برداشت کرنے کے لئے ہر وقت آمادہ رہے کیونکہ اِس کے بغیر کبھی ذہانت پیدا نہیں ہو سکتی۔ جب یہ ذہانت کسی انسان کے اندر پیدا ہو جائے تو پھر اِس کا علم اور زیادہ ترقی کرتاہے اور جب انسان بہت زیادہ ذہین ہو جاتا ہے تو اُس کا علمِ لَدُنی بڑھنے لگتا ہے۔ کتابی علم صرف کتابیں پڑھنے سے بڑھتا ہے مگر لدنی علم ذہانت سے بڑھتا ہے۔ جس طرح ذہین آدمی اگلے شخص کی ہر بات سے صحیح نتیجہ نکالتا ہے اُسی طرح جس شخص کا ذہانت کے بعد علمِ لَدُنی بڑھنے لگتا ہے وہ خداتعالیٰ کے ارادہ اور اُس کے منشاء کو اِس کی صفات سے پہچان جاتا ہے۔ وہ زمین کو دیکھ کر ، وہ آسمان پر نظر دوڑا کر، وہ پہاڑوں کی طرف نگاہ اُٹھا کر، وہ ذرّے ذرّے اور پات پات کو دیکھ کر فوراً تاڑ جاتا ہے کہ الٰہی منشا کیا ہے اور رفتہ رفتہ ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اُس کی دُعائیں بہت زیادہ قبول ہونے لگتی ہیں اور گو خدا تعالیٰ کے لئے تو اُس لفظ کا استعمال مناسب نہیں مگر انسانی حالت کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا مزاج دان ہو جاتا ہے جس طرح وہ شخص جو کسی دوسرے کا مزاج دان ہوتا ہے اِس سے بہت جلد اپنی بات منوا لیتا ہے۔ اِسی طرح یہ بھی خدا تعالیٰ کا مزاج دان ہو جانے کی وجہ سے اُس سے وہ باتیں منوا لیتا ہے جو دوسرے لوگ منوا نہیں سکتے۔
دیکھو! مَیں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ دُعا کرتے وقت صفات الٰہیہ کو مدّنظر رکھنا چاہئے اور جس قسم کی دُعا کی جائے اُس قسم کی صفاتِ الٰہیہ کو جُنبش میں لانے کی کوشش کی جائے مگر مَیں نے ایک شخص کو ایک دفعہ دیکھا وہ دُعا کر رہا تھا، اِس قدر سوز اور اِس قدر تضرع سے کہ اُس کے آنسو بہہ رہے تھے اور اُس کا جسم کانپ رہا تھا مگر وہ دُعا یہ کر رہا تھا کہ اے رحیم وکریم تو میرے فلاں دُشمن کو تباہ کر دے۔ اب بتاؤ رحیم و کریم کسی دُشمن کو کیوں تباہ کرنے لگا وہ تو جب بھی یہ سُنے گا کہ اے رحیم و کریم فلاں دُشمن کو ہلاک کر دے تو وہ کہے گا کہ مَیں تو رحیم و کریم ہوں مَیں اُسے معاف کرتا ہوں۔ تو اِس قسم کی دُعا مانگنا اﷲ تعالیٰ کی مزاج دانی کے خلاف ہے کہ خدا کی اِس صفت کو حرکت میں لانا جو لوگوں پر رحم کرنے والی ہے اور کہنا یہ کہ وہ دوسرے کو عذاب دے۔ کیا جب کسی نے کسی دوسرے شخص کے بچہ کو باپ سے سزا دلوانی ہو تو وہ اُس سے جاکر یہ کہا کرتا ہے کہ آپ کے بچے نے فلاں قصور کیا ہے اُسے سزا دیں یا وہ یہ کہا کرتا ہے کہ اپنے پیارے بچے کو تھپڑ مار دیں وہ تو جب کہے گا کہ اے مہربان باپ اپنے پیارے بچے کو تھپڑ مار دیں تو اُس کا باپ بجائے اُسے مارنے کے اُسے پیار کرنے لگ جائے گا کیونکہ اُس نے پیار کے جذبہ کو برانگیختہ کرنے والے الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ تو ذہانت کی وجہ سے ہی انسان دُنیا میں ترقی کرتا ہے۔ ذہانت کی وجہ سے ہی انسان اِس مقام پر پہنچتا ہے جب اُس کی دُعائیں دوسروں کی نسبت زیادہ قبول ہونے لگتی ہیں اور ذہانت کی وجہ سے ہی اگر ہم انسانی اصطلاح استعمال کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کا مزاج دان ہو جاتا ہے اور اِس طرح وہ ہر روز اپنے علم اور اپنے عرفان میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی مَیں ایک اور بات کہہ دینا چاہتا ہوں مگر مَیں اِسے لمبا نہیں کروں گا بلکہ مختصر الفاظ میں ہی اِس کی طرف توجّہ دلا دیتا ہوں اور وہ یہ کہ خدّام الاحمدیہ کا ساتواں فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اندر استقلال پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ استقلال اِس بات کو کہا جاتا ہے کہ کسی کام کی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے انسان برابر اپنے کام میں لگا رہے۔ بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمارے سپرد جو کام کیا گیا ہے ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیوںہمارے سپرد کیا گیا ہے؟ حالانکہ استقلال کے معنے ہی یہ ہیں کہ انسان جس کام پر مقرر کیاجائے خواہ اُس کام کی غرض اِس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے اُسے کرتا چلا جائے۔ اِس مادہ کو بھی خدام الاحمدیہ مختلف تجارب سے بڑھا سکتے ہیں مثلاً روزانہ یا ہفتہ وار خدّام الاحمدیہ کی حاضری لیں اور جو نہ آئیں یا کبھی آجائیں اور کبھی نہ آئیں اُن کے نام نوٹ کریں اور سمجھ لیں کہ اُن میں استقلال کا مادہ نہیں۔ پھر ان غیر مستقل مزاج ممبروں کو توجّہ دلاؤ کہ اپنے نقص کو رفع کریں اور اپنے اندر استقلال پیدا کریں اور جب دیکھیں کہ وہ پھر بھی توجہ نہیں کرتے تو اپنے افسروں کے پاس ان کی شکایت کریں۔ وہاں بھی اگر اصلاح نہ ہو تو پھر ان سے اعلیٰ افسروں کے پاس اور پھر اُن سے اعلیٰ افسروں کے پاس یہاں تک کہ ہوتے ہوتے خلیفۂ وقت کے سامنے بھی ان کے ناموں کو رکھا جاسکتا ہے مگر ضروری ہے کہ پہلے خود اِن کا علاج سوچا جائے اور اِن سے عدمِ استقلال کا مرض دور کرنے کے لئے کوئی مناسب تجویز کی جائے مثلاً ایک علاج یہی ہو سکتا ہے کہ روزانہ کوئی کام انہیں کرنے کے لئے دیا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ وہ باقاعدہ اس کام کو کرتے ہیں یا نہیں؟ یہ ضروری ہے کہ وہ کام ایسا ہو جو سب کو نظر آتا ہو خواہ کتنا ہی حقیر نظر آنے والا کیوں نہ ہو۔ مثلاً یہ کام بھی ہو سکتا ہے کہ اسے کہہ دیا جائے کہ روزانہ دس بجے اپنے گھر سے باہر نکل کر پانچ منٹ اپنے مکان کا پہرہ دے۔ بظاہر یہ ایک بیوقوفی کی بات دکھائی دے گی مگر تمہیں تجربہ کے بعد معلوم ہو جائے گا کہ اِس بظاہر بیوقوفی والی بات پر عمل کرنے کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ اِس میں استقلال کی عادت پیدا ہو جائے گی اور درحقیقت کسی ایک کام کا بھی باقاعدگی کے ساتھ کرنا انسان کے اندر استقلال کا مادہ پیدا کر دیتا ہے۔ ہم پانچ وقت جو روزانہ نمازیں پڑھتے ہیں یہ بھی استقلال پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ اِسی لئے مَیں کہا کرتا ہوں کہ جس نے ایک نماز بھی چھوڑی اُس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے سب نمازیں چھوڑ دیں مگر جو شخص پانچوں وقت کی نمازیں باقاعدہ پڑھنے کا عادی ہے اُس کی طبیعت میں ایک حد تک ضروری استقلال پایا جاتا ہے مگر جو شخص دس سال کے بعد بھی ایک نماز چھوڑ دیتا ہے وہ عدمِ استقلال کا مریض ہے۔ پس اپنے اندر استقلال پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ چاہے کسی چھوٹی سی چھوٹی بات پر مداومت کے ذریعہ کیوں نہ ہو۔ تم کہہ سکتے ہو کہ جب کوئی شخص نماز پڑھتا ہے تو ہمیں کوئی اور ایسا کام اِس کے سپرد کرنے کی کیا ضرورت ہے جو استقلال پیدا کرنے والا ہو مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ تم اس کی نمازوں کی نگرانی نہیں کر سکتے لیکن جو کام تم اس کے سپرد کرو گے اُس کی نگرانی تم ضرور کروگے۔ پھر ممکن ہے وہ نمازیں پڑھتا ہی نہ ہو یا پانچ میں سے تین نمازیں پڑھتا ہو اور دو چھوڑ دیتا ہو یا چار پڑھتا ہو اور ایک چھوڑ دیتا ہو یا مہینہ میں سے کوئی ایک نماز چھوڑ دیتا ہو تو اِس بات کا تمہیں پتہ نہیں لگ سکتا کہ وہ نمازوں میں باقاعدہ ہے یا نہیں کیونکہ وہ ذاتی عبادت ہے اور ذاتی عبادت کی دوسرا شخص مکمل نگرانی نہیں کر سکتا لیکن وہ حکم جو تم خود دوسرے کو دو گے اُس کی نگرانی بھی کرو گے اور اِس طرح اس کے اندر استقلال کا مادہ پیدا ہوتا چلا جائے گا۔ مَیں اِس کے لئے بھی مناسب قواعد تجویز کر کے خدّام الاحمدیہ کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوں۔ انہیں چاہئے کہ وہ ان تمام باتوں کو جو خطبات میں مَیں نے بیان کی ہیں بار بار لیکچروں کے ذریعہ خدّام الاحمدیہ کے سامنے دُہراتے رہیں۔ کبھی دیکھا کہ کوئی شخص استقلال اپنے اندر نہیں رکھتا تو اس کو استقلال پر لیکچر دینے کے لئے کہہ دیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اِس کے نفس میں شرمندگی پیدا ہو گی اور وہ آئندہ کے لئے اِس نقص کو دُور کرنے کی کوشش کرے گا یا دوسرے لوگ جن کی زبانوں میں اﷲ تعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے ان سے لیکچر دلائے جائیں۔ پس لیکچروں کے ذریعہ سے، حاضری لگانے کے ذریعہ سے، اپنی سوسائٹی میں بار بار ایسے ریزولیوشنز پاس کرنے کے ذریعہ سے نگرانی کے ذریعہ اور ایسے کام دینے کے ذریعہ سے جن کو روزانہ باقاعدگی کے ساتھ کرنا پڑے نوجوانوں کے اندر استقلال کا مادہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور مَیں خدّام الاحمدیہ کو اِس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں۔ مَیں باوجود اِس کے کہ کئی خطبات پڑھ چُکا ہوں ابھی تک وہ باتیں ختم نہیں ہوئیں جو خدّام الاحمدیہ کے میں ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں۔ اب تک مَیں سات فرائض کی طرف خدّام الاحمدیہ کو توجہ دِلا چُکا ہوں اور دو باتیں ابھی رہتی ہیں انہیں اِنْشَائَ اﷲ تَعَالٰی اگلے جمعہ مَیں بیان کروں گا۔ اب مَیں خدّام الاحمدیہ سے صرف اِس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ باتیں تو بہت کچھ بیان ہو چکی ہیں اب انہیں کوئی عملی قدم بھی اُٹھانا چاہئے۔ میرا خیال تھا کہ مَیں جلدی ہی تمام باتیں بیان کر لوں گا مگر خطبے بہت لمبے ہو گئے ہیں ۔ اِن خطبوں کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ بعض دفعہ پچھلی باتیں انسان بھُول جاتا ہے اور جب اِن کی طرف توجہ کرتا ہے تو پہلی باتیں اِن کے ذہن سے اُترجاتی ہیں۔ پس اب جس قدر جلدی ہو سکے کام کو عملی رنگ میں شروع کر دینا چاہئے کیونکہ تازہ بتازہ علم انسان جلد استعمال کر لیتا ہے اور جس قدر پُرانا ہو جائے اتنا ہی اس پر عمل کرنا مُشکل دکھائی دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ آپ لوگوں کا مدد گار ہو۔‘‘ (الفضل ۳؍مارچ ۱۹۳۹ئ)
۱؎ سٹیٹسٹکس ( STATISTICS ) : فن اعداد و شمار ، شماریات
۹
ورزش کے شُعبہ کو مفید سے مفید تر بنایا جائے
اور ہر چھوٹے بڑے احمدی کو لکھنا پڑھنا سکھایا جائے
(فرمودہ ۱۰؍مارچ۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’آج مَیں اپنے گزشتہ خطبات کے سلسلہ میں خدّام الاحمدیہ کے قریب کے پروگرام کے متعلق دو اَور ضروری امور بیان کرتا ہوں۔ سات امر میں پہلے بیان کر چُکا ہوں۔ آٹھواں امر یہ ہے کہ انسانی صحت دماغ پر خاص اثر کرتی ہے۔ ہزاروں کام دُنیا کے ایسے ہیں جو صحتِ جسمانی سے تعلق رکھتے ہیں گو وہ دین کا حصّہ نہیں۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ خالص دماغی کا م انسان چارپائی پر لیٹے ہوئے بھی کر سکتا ہے لیکن بعض قسم کی صحت کی خرابی دماغ کے اندر بھی خرابی پیدا کر دیتی ہے۔ ہر انسان ایسا نہیں ہوتا کہ بیماری کی حالت میں بھی اُس کا دماغ کام کر رہا ہو۔ یہ ایک باریک مضمون ہے اور اِس کے بیان کا یہاں موقع نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو حقیقی صحت ہوتی ہے وہ جسم کے اعضاء کی بیماریوں کے ساتھ اتنا تعلق نہیں رکھتی جس قدر کہ اُس کی اندرونی طاقتوں کے ساتھ۔ انسانی جسم کی طاقت دو قسم کی ہوتی ہے ایک اعضاء کی ظاہری بیماری اور ایک جسم کی قوتِ برداشت یا حقیقی صحت۔ کبھی کبھی یہ قوتِ برداشت قدرتی طور پر اتنی زبردست ہوتی ہے کہ ظاہری بیماریاں آکر بھی اِسے توڑ نہیں سکتیں۔ ایسی صورت میں انسانی دماغ ہرحالت میں کام کر سکتا ہے۔ مگر بعض حالات میں قوتِ برداشت بھی کمزور ہوتی ہے اور ظاہری عوارض بھی لگے ہوتے ہیں ایسا انسان بیماری کے ساتھ دماغی قابلیت بھی کھوتا چلا جاتا ہے۔ عام قانون یہی ہے کہ جو اوسط درجہ کی قوت برداشت کا انسان ہو اُس کی خرابیٔ صحت کے ساتھ دماغ پر بُرا اثر ضرور پڑتا ہے۔ کم سے کم سُستی، کسل اور ہمت کی کمی ضرور پیدا ہو جاتی ہے اور کسل، سُستی اور ہمت کی کمی بھی ایسے امور ہیں کہ اگر کسی قوم میں پیدا ہو جائیں تو خطرناک نتائج ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ یہ بات ظاہر ہی ہے کہ خواہ قوتِ برداشت کیسی ہو بیماری میں انسان بعض کام نہیں کر سکتا مثلاً اگر نظر کمزور ہو تو خواہ دماغی قابلیت کتنی ہی زبردست کیوں نہ ہو انسان لڑائی کے قابل نہیں ہوتا اور وہ فوج میں بھرتی کے لئے موزوں نہیں سمجھا جاتا کیونکہ فوج کے لئے جس قسم کی قوت کی ضرورت ہے وہ اُسے حاصل نہیں ہوتی اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا خصوصاً بچپن میں لحاظ رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ورزشوں کی عادت جو ڈالی جاتی ہے وہ اِسی لئے ہوتی ہے کہ انسان کے جسم میں چُستی اور پھرتی پیدا ہو اور اُس کے اعضاء درست رہیں اور اس کی ہمت بڑھے۔ ورزش سے پسینہ آتا ہے جس سے بہت سے زہر دور ہوتے ہیں اور اِس لئے ورزش کو نظر انداز کر کے کُلّی طور پر بچہ کو دماغی کا م میں لگانا دماغ کو کمزور کرنے کا موجب ہوتا ہے۔ بچپن میں کھیل کُود اور ورزش انسان کی فطرت میں اِسی لئے رکھی گئی ہے تا کہ اُس کی جسمانی قوتِ برداشت بڑھ جائے۔ اِسی لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اَلصَّبِیُّ صَبِیٌّ وَ لَوْ کَانَ نَبِیًّا یعنی بچہ بچہ ہی ہے خواہ وہ آئندہ نبی ہونے والا ہو۔بے شک وہ چند سالوں کے بعد نبی بن جائے گا مگر بچپن کی حالت میں اُس کی خواہشات ضرور ایسی ہی ہوں گی جو بچپن سے مناسبت رکھتی ہوں گی۔ وہ کھیلے گا بھی، کُودے گا بھی اور اُن تمام حالات سے گزرے گا جن میں سے بچے عام طور پر گزرتے ہیں۔ بچپن کی حالت کے لئے جو لوازم مخصوص ہیں کوئی بچہ خواہ بڑا ہو کر نبی ہونے والا ہو وہ بھی اُن میں سے ضرور گزرے گا اور اُس کی یہ حالت بعد کی زندگی میں اُس کے لئے کسی اعتراض کا موجب نہیں ہو سکتی۔ پس اِس عمر میں ورزش کے ذریعہ بچہ کی تربیت اشد ضروری ہوتی ہے اور اُسے کلی طور پر دماغی کام میں لگا دینا خطرناک ہوتا ہے۔ اِس زمانہ میں اُس کی صحیح تربیت کا طریق وہی ہے جو اُسے کھیل کُود سکھائے۔ پہلے تو جب وہ بہت چھوٹا ہو کہانیوں کے ذریعہ اس کی تربیت ضروری ہوتی ہے۔ بڑے آدمی کے لئے تو خالی وعظ کافی ہوتا ہے لیکن بچپن میں دلچسپی قائم رکھنے کے لئے کہانیاں ضروری ہوتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ کہانیاں جھوٹی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں کہانیاں سُنایا کرتے تھے کبھی حضرت یوسف ؑ کا قصّہ بیان فرماتے، کبھی حضرت نوح ؑ کا قصّہ سُناتے اور کبھی حضرت موسیٰ ؑکا واقعہ بیان فرماتے مگر ہمارے لئے وہ کہانیاں ہی ہوتی تھیں گو وہ تھے سچے واقعات۔ ایک حاسد و محسود کا قصہ الف لیلیٰ میں ہے وہ بھی سُنایا کرتے تھے۔ وہ سچا ہے یا جھوٹا بہرحال اِس میں ایک مُفید سبق ہے۔ اِسی طرح ہم نے کئی ضربُ ا لْاَمثال جو کہانیوں سے تعلق رکھتی ہیں آپ سے سُنی ہیں۔ پس بچپن میں تعلیم کا بہترین ذریعہ کہانیاں ہیں گو بعض کہانیاں بے معنی اور بے ہودہ ہوتی ہیں مگر مُفید اخلاق سکھانے والی اور سبق آموز کہانیاں بھی ہیں اور جب بچہ کی عمر بہت چھوٹی ہو تو اِس طریق پر اُسے تعلیم دی جاتی ہے۔ پھر جب وہ ذرا ترقی کرے تو اس کے لئے تعلیم و تربیت کی بہترین چیز کھیلیں ہیں۔ کتابوں کے ساتھ جن چیزوں کا علم دیا جاتا ہے کھیلوں سے عملی طور پر وہی تعلیم دی جاتی ہے مگر کہانیوں کا زمانہ کھیل سے نیچے کا زمانہ ہے لیکن کوئی عقلمند کبھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے بچوں کو کہانیاں سُنانا کہانیاں بتانا کلی طورپرکسی جاہل کے سپرد کر دیا جائے یا بچوں ہی کے سپرد کر دیا جائے بلکہ اِس کام پر ہر قوم کے بڑے بڑے ماہرین فن لگے رہتے ہیں۔ دُنیا کے بہترین مصنّف جو لاکھوں روپے سالانہ کماتے ہیں وہ کہانیاں ہی لکھتے ہیں گو اب بہت سی کہانیاں بڑے لوگوں کو مدّنظر رکھ کر لکھی جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کہانیاں اگر بڑے لوگوں کے لئے ہوں تو وہ بھی بچپن ہی سے تعلق رکھتی ہیں کیونکہ درحقیقت وہ انسان کی بچپن کی حالت سے ہی تعلق رکھتی ہیں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان پر بڑی عمر میں بھی بچپن کے زمانہ کے دَورے آتے رہتے ہیں اور اُسی وقت وہ کہانیوں کی طرف راغب ہوتا ہے یعنی اُس کا دماغ تھک کر سنجیدہ اور مُشکل طریق پر دُنیا سے سبق حاصل کرنے کے قابل نہیں رہتا اور اس وقت وہ چاہتا ہے کہ کہانیوں کے ذریعہ سے دُنیا کے تجارب اور علوم حاصل کرے۔
پس وہ بھی بچپن کے مشابہ ایک حالت ہے اور اِس کام کے لئے قوموں کے بہترین دماغ لگے رہتے ہیں اور یہ کافی نہیں سمجھا جاتا کہ کم علم اور جاہل لوگ اِس کام کو کریں لیکن تعجب ہے کہ اِس کے بعد کے زمانہ کی تعلیم کے انتظام کے لئے جو کھیل کا زمانہ ہے اور جس میں کھیل کے ذریعہ علم کا سکھانا ضروری ہوتا ہے اور اِس عمر کے لئے جب بچہ علم کی سب سے مضبوط بنیاد قائم کر رہا ہوتا ہے ایسے جاہلوں پر بچوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے جو انسانی فطرت کا مطالعہ کرنے کی قابلیت ہی نہیں رکھتے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنے بچہ کے لئے جب وہ بہت چھوٹی عمر کا ہو اعلیٰ درجہ کے درزی سے سوٹ سلوائے مگر جب وہ بڑا ہو کر سوسائٹی میں ملنے جلنے لگے تو اُس کے کپڑے کسی گاؤں کی درزن سے سلوائے حالانکہ چھوٹا بچہ تو جیسے بھی کپڑے پہن لے کوئی حرج نہیں ہوتا لیکن بڑا ہو کر کپڑوں کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ بعض پابندیاں بڑے آدمیوںکے لباس کے لئے قانون کی طرف سے ہوتی ہیں، بعض اصولِ صحت کی طرف سے اور بعض سوسائٹی کی طرف سے اور وہ اُن کا خیال رکھنے کے لئے مجبور ہوتا ہے مگر کِس قدر عجیب بات ہو گی کہ اس زمانہ کا لباس تو کسی اناڑی کے سپرد کر دیا جائے مگر جب وہ بہت چھوٹا بچہ ہو تو اُس کے لئے اعلیٰ درجہ کے درزی سے سوٹ سلوائے جائیں۔ بچپن کے زمانہ میں پہلا زمانہ وہ ہوتا ہے جب بچے کوکہانیوں کے ذریعہ دلچسپی پیدا کی جاتی اور تعلیم دی جاتی ہے۔ اِس زمانہ کے متعلق دُنیا کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کی دماغی قابلیت رکھنے والوں کے سپرد یہ کام ہونا چاہئے اور اِس بات کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے اور اِس بات کو نہایت ضروری اور مناسب سمجھتے ہیں کہ کہانیوں کو ایسے رنگ میں بچہ کے سامنے پیش کیا جائے کہ جس سے وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکے اُسے ایسی کہانیاں سُنائی جائیں جو اُس کے اخلاق کو بُلند ، نظر کو وسیع اور اس کے اندرہمت پیدا کرنے والی ہوں اور اُس کے اندر قومی ہمدردی کا مادہ پیدا کریں مگر اِس کے بعد کا زمانہ جو زیادہ اہم ہوتا ہے اور جو کھیل کُود کا زمانہ ہے۔ حیرت ہے کہ بنی نوع نے اِس کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس ہی نہیں کیا کہ وہ بھی اِسی طرح اعلیٰ درجہ کے لوگوں کی نگرانی میں ہونا چاہئے۔ کہانیوں کے متعلق تو یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ کے دماغوں اور فاضل لوگوں کی تیار کردہ ہوں اور ایسے رنگ کی ہوں کہ جس سے بچوں کو فائدہ پہنچے مگر کھیل کے زمانہ کا کوئی خیال ہی نہیں رکھاجاتا اور یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ کھیل کُود بچوں کا کام ہے بڑوں کا اِس میں دلچسپی لینا مناسب نہیں۔ حالانکہ اگر کھیل کُود بچوں کا کام ہے تو کہانیاں بھی تو بچوں سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔ پھر جب ابتدائی عمر کی کھیل یعنی کہانیوں کے متعلق احتیاط کی جاتی ہے تو کیوں بڑی عمر کی کھیل میں اِس سے زیادہ احتیاط نہ برتی جائے اِس زمانہ میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ تو کہانیوں کے زمانہ سے بہت زیادہ اہم ہے۔
پس مَیں خدّام الاحمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ بچوں کے کھیل کُود کے زمانہ کو وہ زیادہ سے زیادہ مُفید بنانے کی کوشش کریں اور کوشش کریں کہ کھیلیں ایسی ہوں کہ جو نہ صرف جسمانی قوتوں کو بلکہ ذہنی قوتوں کو بھی فائدہ پہنچانے والی ہوں اور آئندہ زندگی میں بھی بچہ اِن سے فائدہ اُٹھا سکے۔ اِن میں تین باتوں کا خیال رکھا جائے۔ ایک تو جسم کو فائدہ پہنچے، دوسرے ذہن کو فائدہ پہنچے اور تیسرے وہ آئندہ زندگی میں ان کے کام آسکیں۔ جس کھیل میں یہ تینوں باتیں ہوں گی وہ کھیل کھیل ہی نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم بھی ہو گی اور وہ طالب علم کے لئے ایسی ہی ضروری ہو گی جیسی کتابیں۔ جب مَیں یہ کہتا ہوں کہ کھیلیں ایسی ہوں جو ذہنی تربیت کے لئے مُفید ہوں تو میرا مطلب یہ ہے کہ اِن کے ساتھ بچوں کی دلچسپی بھی قائم رہے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ایک فلسفہ بن جائے اور بچوں کو زبردستی کھلانی پڑیں۔ ایسی کھیل ذہنی نشوونما کا موجب نہیں ہو سکتی اور نہ ہی جسم اِس سے پورا فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ مَیں نے بار ہا اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ یہ کام نہایت آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور ورزش کے شُعبہ کو مُفید بلکہ مُفید ترین بنایا جاسکتا ہے بشرطیکہ اِس میں تین باتوں کا خیال رکھا جائے۔ ایک تو یہ کہ وہ آئندہ زندگی میں بھی مُفید ثابت ہونے والی ہوں نہ صرف بچپن میں بلکہ بڑے ہو کر بھی فائدہ دینے والی ہوں۔ بچپن میں کھیل کا جو فائدہ ہوتا ہے وہ بھی حاصل ہو، جسم بھی مضبوط ہو اور ذہن بھی ترقی کرے۔ بچپن میں جو کہانیاں بچوں کو سُنائی جاتی ہیں اُن کا مقصد ایک تو یہ ہوتا ہے کہ بچہ شور نہ کرے اور ماں باپ کا وقت ضائع نہ کرے لیکن اگر وہ کہانیاں ایسی ہوں جو آئندہ زندگی میں بھی فائدہ دیں تو یہ کتنی اچھی بات ہے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں کہانیاں سُنایا کرتے تھے۔ کہانیاں سُنانے کا جو فائدہ اس وقت ہوتا ہے وہ بھی ان سے حاصل ہوتا تھا۔ اگر اُس وقت آپ وہ کہانیاں نہ سُناتے تو پھر ہم شور مچاتے اور آپ کا م نہ کر سکتے۔ پس یہ ضروری ہوتا کہ ہمیں کہانیاں سُنا کر چُپ کرایا جاتا اور یہی وجہ تھی کہ رات کے وقت ہماری دلچسپی کو قائم رکھنے کے لئے آپ بھی جب فارغ ہوں کہانیاں سُنایا کرتے تھے۔ تاہم سو جائیں اور آپ کام کر سکیں۔ بچہ کو کیا پتہ ہوتا ہے کہ اِس کے ماں باپ کتنا بڑا کام کر رہے ہیں۔ اُسے تو اگر دلچسپی کا سامان مہیا نہ کیا جائے تو وہ شور کرتا ہے اور کہانی سُنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچے سوجاتے ہیں اور ماں باپ عُمدگی سے کام کر سکتے ہیں اور کہانیوں کی یہ ضرورت ایسی ہے جسے سب نے تسلیم کیا ہے گو وہ عارضی ضرورت ہوتی ہے اُس وقت اِس کا فائدہ صرف اتنا ہوتا ہے کہ بچہ کو ایسی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ محو ہو کر سو جاتا ہے۔ ماں باپ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمارا وقت ضائع نہ ہو اِس لئے وہ اُسے لٹا کر کہانیاں سُناتے ہیں یا اُن میں سے ایک اسے سلاتا ہے اور دوسرا کام میں لگا رہتا ہے یا پھر ایک سُناتا ہے اور باقی خاندان آرام سے کام کرتا ہے اگر اِس وقت فضول اور لغو کہانیاں بھی سُنائی جائیں تو یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے مگر ہم اِس پر خوش نہیں ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ایسی کہانیاں اُسے سنائیں کہ اُس وقت بھی فائدہ ہو یعنی ہمارا وقت بچ جائے اور پھر وہ آئندہ عمر میں بھی اُسے فائدہ پہنچائیں اور جب کہانیوں کے متعلق یہ کوشش کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کھیل کے معاملہ میں بچوں کو یونہی چھوڑ دیں کہ جس طرح چاہیں کھیلیں۔ اگر یہ طریق کھیلوں کے متعلق درست ہے تو کہانیوں کے متعلق کیوں اِسے اختیار نہیں کیا جاتا اور کیوں نہیں بچوں کو چھوڑ دیا جاتا کہ جیسی بھی کہانیاں ہوں سُن لیں۔ جب کہانیوں کے متعلق ہمارا یہ نظریہ ہے کہ وہ ایسی ہوں جو اُسے سُلا بھی دیں اور عُمدہ باتیں بھی سکھائیں تو کھیلوں کے متعلق یہی نظریہ کیوں پیش نظر نہ رکھا جائے کیوں نہ بچوں کو ایسی کھیلیں کھلائی جائیں جن سے اُن کا جسم بھی مضبوط ہو، ذہن بھی ترقی کرے اور پھر وہ آئندہ زندگی کے لئے سبق آموز بھی ہوں۔ مثلاً مَیں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی بتایا تھا کہ تیرنا ہے یہ کھیل کی کھیل ہے اِس میں مقابلے کرائے جائیں تو بہت دلچسپی پیدا ہو سکتی ہے، غوطہ زنی میں لوگ مقابلے کرتے ہیں اور ایسی دلچسپی پیدا ہوتی ہے کہ مقابلہ کرنے والے اس وقت یہی سمجھتے ہیں کہ گویا زندگی کا مقصد یہی ہے۔بچوں کے لئے تیرنا بھی ایسی ہی دلچسپی کا موجب ہو سکتا ہے جیسا فٹ بال، کرکٹ یا ہاکی وغیرہ اور پھر یہ ان کے لئے آئندہ زندگی میں مُفید بھی ہو سکتا ہے۔ کبھی کشتی میں آدمی سفر کر رہا ہو، کشتی ڈوب جائے تو وہ اپنی جان بچا سکتا ہے یا کنارے پر بیٹھا کوئی کام کر رہا ہو اور کوئی ڈوبنے لگے تو اُسے بچا سکتا ہے۔ تو تیرنا صرف اس زمانہ کے لئے کھیل ہی نہیں بلکہ آئندہ زندگی میں اسے فائدہ دینے والی چیز ہے۔ وہ بحری فوج میں آسانی سے داخل ہو سکتا ہے، جہاز رانی میں اِس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ گویا یہ تمام عمر میں اِسے فائدہ پہنچانے والا ہُنر ہے اور اِس لئے ایسی کھیل کی بجائے جو صرف بچپن میں کھیل کے ہی کام آئے یہ ایک ایسی کھیل ہے جو ساری عمر اس کے کام آسکتی ہے۔ اِسی طرح تیراندازی ہے، غلیل چلانا ہے اِس سے ورزش بھی ہوتی ہے، بچے شکار کے لئے باہر جاتے ہیں اور دور نکل جاتے ہیں اور اِس طرح تازہ ہوا بھی کھاتے ہیں۔ بدن بھی مضبوط ہوتا ہے، غلیل چلانے سے جسم میں طاقت آتی ہے۔ اِس کے مقابلے کرائے جاسکتے ہیں کہ کون زیادہ دور تیر پھینکتا ہے یا غلیلہ پھینک سکتا ہے۔ غلیل جتنی زیادہ سخت ہو مگر لچکنے والی ہو اُتنا ہی غلیلہ زیادہ دُور جاتا ہے۔ مگر اِس لچکانے کے لئے طاقت ضروری ہوتی ہے جتنا کوئی زیادہ مضبوط ہو اُتنا ہی زیادہ دُور غلیلہ پھینک سکتا ہے کیونکہ وہ اتنا ہی غلیل کو زیادہ کھینچ کر لچکا سکتا ہے۔ یہ چیز ورزش کا بھی موجب ہے۔ شکار کے لئے زیادہ چلنا پڑتا ہے، تازہ ہوا کھانے کا بھی موقع ملتا ہے اور پھر یہ ساری عمر کام آتی ہے۔ غلیل چلانے والا بندوق کا نشانہ بندوق پکڑتے ہی سیکھ سکتا ہے۔ ہم بچپن میں غلیل چلایا کرتے تھے اور مجھے یاد نہیں کہ کسی نے کبھی مجھے بندوق کا نشانہ سکھایا ہو۔ پہلی دفعہ شیخ عبدالرحیم صاحب کہیں سے بندوق مانگ کر لائے۔ مَیں اُس وقت بہت چھوٹا تھا اور وہ پہلا نشانہ تھا اُنہوںنے پیچھے سے پکڑ رکھا اور مَیں نے بندوق چلائی۔ گو مَیں خود بھی گر پڑا مگر جس جانور کا نشانہ کیا تھا وہ بھی گر گیا۔ اِدھر میں گرا اور اُدھر وہ۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ جو سپاہیوں میں بھرتی ہوتے ہیں وہ مدتوں اِس وجہ سے افسروں کی جھڑکیاں کھاتے ہیں کہ ٹھیک نشانہ نہیں کر سکتے اور اِس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ بچپن میں کوئی ایسا کام نہیں کیا ہوتا کہ نشانہ کی مشق ہو سکے۔ اگر بچپن میں تیر یا غلیلہ چلانے کی مشق ہو تو جب بھی بندوق چلانے لگیں فوراً نشانہ درست ہو سکتا ہے اور پھر اِس سے بچپن میں صحت بھی درست ہو سکتی ہے۔ اچھی ہوا سے تروتازگی بھی حاصل کر سکتے ہیں، ذہنوں میں بھی روشنی پیدا ہو سکتی ہے اور پھر بڑے ہو کر یہی کھیل ان کے لئے ایک ہُنر ثابت ہوسکتا ہے۔ اِسی طرح دوڑنا ہے جو اپنی ذات میں بہت دلچسپ کھیل ہے اِس کے بھی مقابلے کرائے جاتے ہیں جن سے لاتوں کو بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ لوگ ایسی ورزشیں کرتے ہیں کہ جن سے جسم کا ایک حصّہ تو مضبوط ہوتا ہے مگر باقی کمزور ہو جاتے ہیں لیکن دوڑنا لاتوں کے لئے بھی مُفید ہے اور پیٹ کے لئے بھی۔ جو لوگ دوڑنے کے عادی ہوں اُن کا پیٹ نہیں بڑھتا۔ یہ کھیل بھی ہے اور آئندہ زندگی میںبھی بڑے کام کی چیز ہے۔ اگر انسان سپاہی ہو تو دُشمن کے تعاقب کے لئے یا اگر کسی وقت پیچھے ہٹنا پڑے تو اپنی جان بچانے کے کام آسکتا ہے۔ آئے دن ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ چور مال لے کر بھاگ جاتے ہیں کیونکہ اُن کو بھاگنے کی مشق ہوتی ہے مگر گاؤں والے ہانپتے ہوئے پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ اُن کو مشق نہیں ہوتی۔ اگر بھاگنے کی مشق ہو تو چوروں کو پکڑ سکتے ہیں۔ اِسی طرح بیسیوں مواقع زندگی میں ایسے آتے ہیں کہ اگر انسان کو بھاگنے کی مشق ہو تو کام سُدھر جاتے ہیں۔ اِسی طرح اَور بیسیوں ایسی کھیلیں ہیں جو مُفید ہو سکتی ہیں۔ دو تین روز ہوئے بورڈنگ ہائی سکول میں ایک جلسہ ہؤا تھا جس میں مَیں نے ایسی کھیلیں تفصیل سے بیان کی تھیں جن سے ذہنی ترقی کا کام لیا جاسکتا ہے اور وہ کھیلوں کا کام بھی دے سکتی ہیں اور پھر آئندہ زندگی میں بھی مُفید ہو سکتی ہیں۔ اِس وقت مَیں وہ ساری تو بیان نہیں کر سکتا صرف مثال کے طور پر چند ایک بیان کر دیتا ہوں مثلاً مَیں نے بتایا تھا کہ ہمارے مُلک میں بعض ایسی کھیلیں ہیں جو ذہنی ترقی کے لئے مُفید ہو سکتی ہیں مگر اُن سے پورا فائدہ نہیں اُٹھایا جاتا۔ بچپن میں ایک کھیل یہ کھیلی جاتی ہے کہ ایک بچہ آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتا ہے۔ لاتیں لمبی کر لیتا ہے، ایک اس کے پیچھے بیٹھ کر اِس کی آنکھوں پرہاتھ رکھ دیتا ہے پھر ایک ایک کر کے دوسرے لڑکے اُس کی ٹانگوں پر سے گزرتے ہیں اور پیچھے بیٹھنے والا پوچھتا ہے کہ کون گزرا؟ اُسے اجازت نہیں ہوتی کہ گزرنے والے کے جسم کو ہاتھ لگائے۔ صرف لباس کی آواز سے وہ پہچانتا ہے کہ کون گزرا؟ اگر وہ ٹھیک بتا دے تو کامیاب سمجھا جاتا ہے اور دوسرا ہار جاتا ہے۔ اِس کھیل سے شنوائی کی طاقت اور توجہ کا مادہ بڑھتا ہے۔ یہ کھیل چھوٹے بچوں کی ہے مگر اِسے بنانے والے نے اِس میں بہت حکمت رکھی ہے جس کے کان عادی ہو جائیں کہ کپڑے کی آواز سے آدمی کو پہچان لے یا خیال سے معلوم کرے کہ کون گزرا ہے تو وہ پولیس اور سکاؤٹ میں کتنا مُفید ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسا شخص اگر پولیس میں جائے گا تو یقینا بہت ترقی کرے گا۔ پھر ایک کھیل یہ ہوتا ہے کہ پیچھے سے آکر آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا جس کی آنکھیں اِس طرح بند کر دی جائیں اُس کا حق ہوتا ہے کہ پہچانے اور ہاتھ کو ہاتھ لگا کر پہچانے۔ اِس طرح ہاتھوں کے لمس سے پہچاننے کی مشق ہوتی ہے۔ یہ کھیل رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی بہت بد صورت اور کریہہ المنظر تھے، قد چھوٹا تھا اور جسم پر بال بڑے بڑے تھے۔ ایک دفعہ وہ بازار میں مزدوری کر رہے تھے پسینہ بہہ رہا تھا اور گرمی کی وجہ سے سخت گھبرائے ہوئے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی لڑ پڑیں گے۔ پیچھے سے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم آئے۔ آپ کو اُن کی حالت پر رحم آیا اور اُن کی دلجوئی کرنا چاہی اور اُن کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے جس کے معنے یہ تھے کہ بتاؤ کون ہے؟ اُنہوں نے ہاتھ پر ہاتھ پھیرا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا جسم بہت نرم تھا اِس لئے وہ پہچان گئے اور مذاق کے لئے آپ کے جسمِ مُبارک کے ساتھ اپنا پسینہ والا جسم ملنے لگے اور کہا یَارَسُوْلَ اﷲ! مَیں نے پہچان لیا ہے۔۱؎
یہ کھیل بھی درحقیقت اپنے اندر ایک عُمدہ مشق رکھتی ہے۔ بشرطیکہ بچوں کو عُمدگی سے کھِلائی جائے اور کوشش کی جائے کہ پورا پورا فائدہ حاصل ہو۔ یہ کھیلیں ایسی ہیں کہ ان سے اتنی مشق ہو جاتی ہے کہ انسان بڑے بڑے کمالات ظاہر کر سکتا ہے۔ مَیں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے کہ امریکہ کی ایک قوم ہے جسے ریڈ انڈین یعنی سُرخ ہندوستانی کہا جاتا ہے کیونکہ جب یورپ والے پہلے پہل امریکہ گئے تو اُن کا خیال تھا کہ ہندوستان یہی ہے بعد میں معلوم ہؤا کہ ہندوستان اور ہے۔ ان لوگوں کا رنگ سُرخی مائل ہوتا ہے اِس لئے اِن کو ریڈ اِنڈین کہتے ہیں۔ اُنہوں نے کانوں کی مشق میں بہت کمال حاصل کیا ہوتا ہے۔ لوگ پہلے زمانہ میں اِن کو مزدوری پر جنگلوں میں راہنمائی کے لئے لے جاتے تھے یا جب چور یا ڈاکو لوٹ مار کر کے بھاگتے تھے تو اِن میں سے کسی کو لالچ دے کر ساتھ لے جاتے تھے اور جنگل میں چھُپ جاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ زمین پر کان لگا کر دو تین میل کے فاصلہ پر سے بتا دیتے تھے کہ گھوڑے فلاں جہت سے دوڑے آرہے ہیں اور یہ کوئی معجزہ نہیں نہ ہی وہ کوئی غیر معمولی انسان ہوتے ہیں بلکہ یہ صرف مشق کی بات ہے۔ اِس قوم نے کانوں کی مشق سے ایسے اصول دریافت کر لئے ہیں کہ ایسی باتیں معلوم کر لیتے ہیں جو دوسروں کو معلوم نہیں ہو سکتیں اور اِس طرح چوریا ڈاکو اِن کی اطلاع پر وہاں سے بھاگ کر دوسری جگہ جا چھُپتے۔ اگر آنکھوں سے دیکھ کر چھُپنے کی کوشش کی جائے تو بچنا محال ہو جاتا ہے کیونکہ سوار پکڑ سکتے ہیں مگر جب وہ تین میل کے فاصلہ پر سے ہی اطلاع مل جائے تو اُن کے وہاں پہنچنے تک وہ آگے نکل کر جاسکتے ہیں۔ اِس طرح زبان، ناک ، ہاتھ اور کان کی مشق بہت کام آنے والی چیزیں ہیں۔ ان سے ذہانت میں بھی ترقی ہوتی ہے۔ ذہانت حواسِ خمسہ کی تیزی کا نام ہے اور حواس کی تیزی کے لئے ایسی کھیلیں ایجاد کی جا سکتی ہیں بلکہ ہمارے بزرگوں نے ایجاد کی ہوئی ہیں۔ جو کھیل کی کھیل ہیں اور آئندہ زندگی کے فوائد بھی اُن میں مخفی ہیں۔خدّام الاحمدیہ کو چاہئے کو اِس بات کو اپنی سکیم میں شامل کر یں اور جماعت میں اِن کو رائج کریں۔
مَیں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی کہا تھا کہ جماعت ورزش جسمانی کی طرف خاص طور پر زور دے اور اب مَیں یہ کام بھی خدّام الاحمدیہ کے سپرد کرتا ہوں کیونکہ یہ نوجوانوں سے تعلق رکھتا ہے۔ پس خدّام الاحمدیہ اِسے قادیان میں بھی اور باہر بھی شروع کریں۔ مجھ سے مشورہ کرکے وہ ایسی سکیمیں تیار کر سکتے ہیں کہ جن کے ذریعہ ایسی کھیلیں جماعت میں جاری کی جاسکیں جو آئندہ زندگی میں کام آنے والی ہوں۔
نویں بات جس کی طرف میں خدّام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں وہ علم کا عام کرنا ہے۔ مَیں پہلے اِن کو توجہ دِلا چُکا ہوں کہ اِن کا فرض ہے کہ علم سیکھیں لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کسی شخص کا نیکی حاصل کرنا اُسے بچا نہیں سکتا جب تک اُس کے ارد گرد بھی نیکی نہ ہو۔ آپ اپنے بچے کو کتنا سچ بولنے کی عادت کیوں نہ ڈالیں وہ کبھی سچا نہیں ہو سکتا جب تک اُس کے محلہ میں دوسرے بچے جھوٹ بولتے ہیں۔ پس ان کا اپنا علم حاصل کر لینا کام نہیں آسکتا جب تک کہ دوسروں میں تعلیم کی اشاعت نہ کریں۔ کچھ عرصہ سے مَیں نے ان کے سپرد یہ کام کیا ہؤا ہے کہ قادیان میں کوئی اَن پڑھ نہ رہے اور جب یہاں یہ کام ہو جائے گا تو پھر باہر بھی اِسے شروع کیا جائے گا۔ اِنہوں نے کچھ عرصہ سے اِس کے متعلق کوئی رپورٹ مجھے نہیں بھیجی۔ اِس لئے مَیں نہیں کہہ سکتا کہ یہ کام ہو رہا ہے یا نہیں۔ یہ کام اتنا اہم تھا کہ اِن کو یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ اِس کے متعلق ہفتہ واری رپورٹ ضروری ہے مگر آج مَیں یہ کام پھر خصوصیت کے ساتھ اِن کے سپرد کرتا ہوں اور ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ اِسے پہلے یہاں شروع کریں اور پھر باہر۔ اور کوشش کریں کہ سال دو سال کے عرصہ میں کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو پڑھا ہؤا نہ ہو۔ خواہ احمدی عورت ہو یا مرد ، بچہ ہو یا بوڑھا سب پڑھے ہوئے ہونے چاہئیں۔ اِس کے لئے چھوٹے سے چھوٹا معیار مقرر کر لیا جائے اور پھر اِس کے مطابق سب کو تعلیم دی جائے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک علم عام نہ ہو جماعت پورا فائدہ نہیں اُٹھا سکتی۔ اِس زمانہ میں علم کتابی ہو گیا ہے مگر پہلے زمانہ میں زبانی ہوتا تھا۔ پہلے زمانہ میں علم کانوں کے ذریعہ سکھایا جاتا تھا مگر اب کتابوں کے ذریعہ۔ اِس لئے خدّام الاحمدیہ کو کوشش کرنی چاہئے کہ ہر احمدی لکھنا پڑھنا سیکھ جائے۔ عربوں میں زبانی حفظ کرنے کا رواج تھا اور اِس کا یہاں تک اثر ہے کہ صرف و نحو کی بعض کتابیں وہ ہر طالب علم کو حفظ کراتے ہیں۔ پُرانے زمانہ میں علماء کے لئے قرآن کریم کو حفظ کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا، حدیثوں کو یاد کرنا محدّثین کے لئے ضروری ہوتا، شاعروں میں شعر زبانی یاد کرنے کا رواج تھا، صرفی نحوی صرف و نحو کی کتابیں یاد کرتے تھے۔ فقہاء فقہی کتابیں حفظ کرتے تھے مگر آج کل تو قرآن کریم کا حفظ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ کتابیں عام ہیں جب ضرورت ہوئی دیکھ لیا مگر اُس زمانہ میں کتابیں عام نہ تھیں اِس لئے حفظ کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اس زمانہ میں کتاب لکھنا یا پڑھنا موجبِ عار سمجھا جاتا تھا اور اِس کے یہ معنی سمجھے جاتے تھے کہ حافظہ کمزور ہے۔ وہ شاعر، شاعرہی نہیں سمجھا جاتا تھا جس کے شعر لکھے جائیں۔ اِس کے یہ معنے ہوتے تھے کہ گویا اس کی قوم نے اس کی قدر نہیں کی۔ اگر قوم قدر کرتی تو اس کے شعر حفظ کرتی۔ اِسی واسطے جو بڑے بڑے شُعراء ہوتے تھے ان کے ساتھ ایسے لوگ رہتے تھے جو اُن کے شعر حفظ کرتے۔ ان کو راویہ کہاجاتا تھا اور توجہ اور مشق سے حافظے اتنے تیز ہو جاتے تھے کہ بعض کو لاکھ لاکھ، دو دو لاکھ اور تین تین لاکھ شعر زبانی یاد ہوتے تھے۔ ایران کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک بادشاہ تھا اُس زمانہ میں وہاں عربی کا زیادہ رواج تھا۔ اسلامی ممالک میں زیادہ تر یہی زبان رائج ہوتی تھی۔ بادشاہ کو سخاوت کی عادت تھی۔ شعراء آتے شعر سُناتے اور بڑے بڑے انعام پاتے تھے۔ وزیر نے اس سے کہا کہ شعراء تو اِس طرح لُوٹ کر لے جائیں گے اور خزانہ میں کمی آجائے گی۔ اِس لئے آپ ہر ایک کو انعام نہ دیا کریں بلکہ قید لگا دیں کہ صرف اُسی شاعر کو انعام دوں گا جو کم سے کم ایک لاکھ شعر سنا سکتا ہو۔ بادشاہ نے یہ مان لیا اور اعلان ہو گیا کہ جب تک کسی شاعر کو کم سے کم ایک لاکھ شعر یاد نہ ہو وہ دربار شاہی میں بار یابی حاصل نہ کر سکے گا۔ اب لاکھ شعر کا یاد کرنا ہر ایک کے لئے تو مُشکل ہے کسی کو پانچ ہزار، دس ہزار یاد ہوتے، کسی کو بیس ہزار، کسی کو تیس یا چالیس ہزار اور اِس اعلان کا نتیجہ یہ ہؤا کہ عام اُدباء اور شعراء کو موقع نہیں مل سکتا تھا اور وہ بھوکے مرنے لگے۔ ان کو خیال آیا کہ اِس طرح تومُلک کے علم ادب کو نقصان پہنچے گا اِس زمانہ میں وہاں ایک بہت بڑے اور مشہور ادیب تھے۔ سب اکٹھے ہو کر اُن کے پاس پہنچے اور کہا کہ اِس سے مُلک کے علم ادب کو بہت نقصان پہنچے گا اِس لئے آپ بادشاہ سے ملیں اور اِس بات پر آمادہ کریں کہ ایک لاکھ کی تعداد میں کمی کر دے۔ وہ بالکل الگ تھلگ رہتے تھے۔ بادشاہ نے ان کو بعض دفعہ بلوایا بھی تھا مگر اُنہوں نے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ اپنی ذات میں اپنے آپ کو ادب کا بادشاہ سمجھتے تھے مگر یہ چونکہ ایک ادبی خدمت تھی اِس لئے وہ بادشاہ سے ملنے کے لئے تیار ہو گئے۔ چنانچہ وہ گئے اور اطلاع کرائی۔ دربانوں نے نام پوچھا مگر اُنہوں نے نام بتانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ایک شاعر ملنا چاہتا ہے۔ دربانوں نے کہا کہ شاعروں کے لئے یہ شرط ہے کہ انہیں کم سے کم ایک لاکھ شعر یاد ہونا چاہئے پہلے درباری امتحان لیں گے اور اگر کوئی ایک لاکھ شعر سُنا سکے تو اُسے باریابی کا موقع دیا جائے گا ورنہ نہیں۔ اُنہوں نے پیغامبر سے کہا کہ جاکر بادشاہ سے پوچھو کہ وہ کون سے ایک لاکھ شعر سُننا چاہتا ہے؟ اسلام کے زمانہ کے یا زمانۂ جاہلیت کے؟ مردوں کے یا عورتوں کے؟ مَیں ہر قسم کے ایک ایک لاکھ شعر سُنانے کو تیار ہوں۔ جب بادشاہ کو یہ اطلاع پہنچی تو وہ سمجھ گیا۔ اِنہی کا نام لیا اور کہا کہ وہی ہوں گے۔ ننگے پاؤں بھاگ آیا اور کہا کہ فرمائیے کیا خدمت ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ کے اِس حکم سے مُلک پر یہ ظلم ہورہا ہے کہ اِس کے ادب کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اِس شرط کے ہوتے ہوئے کوئی خاص شاعر ہی باریاب ہو سکتا ہے اور جو اتنا بڑا ادیب ہو اُسے آپ کی مدد کی کیا احتیاج ہو سکتی ہے اور وہ دربارمیں کیوں آئے گا؟ اِسے تو گھر بیٹھے ہی روزی ملے گی اِس لئے اِسے منسوخ کر دیں۔ بادشاہ نے کہا بہت اچھا مَیں اِسے منسوخ کرتا ہوں اور جب یہ شرط لگائی تھی تو میرا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ شاید آپ اِسے منسوخ کرانے کے لئے آئیں۔ تو حافظہ پر زور دینے کی وجہ سے پُرانے زمانہ میں ایسے ایسے لوگ بھی ہوتے تھے جو لاکھوں شعر زبانی یاد رکھتے تھے۔ کہتے ہیں امام شافعی نے پانچ سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کر لیا تھا۔ بوجہ حافظہ پر عام طور پر زور دینے کے اِس زمانہ میں لوگوں کے حافظے بہت تیز ہوتے تھے۔ ایک دو دفعہ ہی بات سُن کر یاد کر لیتے تھے مگر اب کتابوں کے عام ہو جانے کی وجہ سے حافظہ کی تیزی کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اِس لئے خدّام الاحمدیہ کو ضمنی طور پر اِس طرف بھی توجہ دینی چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک قوم کی عام رغبت اِس طرف نہ ہو ایک دو کی کوشش سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ پہلے زمانہ میں حافظہ کے ذریعہ لوگ عالم ہوتے تھے مگر آجکل کتابیں پڑھنے سے ہوتے ہیں۔ اِس لئے جماعت کے ہر فرد کو کچھ نہ کچھ لکھنا پڑھنا آنا چاہئے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اِس کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ بدر کی جنگ میں جو کفار قید ہوئے ان میں سے جو فدیہ ادا نہ کر سکتے تھے آپ نے اُن کے لئے یہ شرط لگائی کہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں اورجب اُنہوںنے سکھا دیا تو اُن کو چھوڑ دیا ۲؎ تو خدّام الاحمدیہ کے تعلیم کے عام کرنے کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے۔ اگر وہ یہ کر لیں تو جماعت کے اخلاق بھی بُلند ہو سکتے ہیں، پڑھنا آتا ہو تو وہ حضرت صاحب کی کُتب بھی پڑھ سکیں گے، دینی کُتب کا مطالعہ کریں گے، تصوف کی کوئی کتاب پڑھیں گے اور اُن کا وقت بھی ضائع نہ ہو گا۔ کتابیں پڑھنے سے ان کا ذہن صیقل ہو گا اور پھر اخلاق بُلند ہوں گے۔
یہ نو چیزیں ہیں جو مَیں خدّام الاحمدیہ کے لئے پیش کرتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ ان کو خصوصیت سے سامنے رکھ کر وہ کام کریں گے اور ان کو اپنا قریبی مقصد قرار دیں گے اور پھر اِس کے حصول کے لئے پوری پوری کوشش کریں گے۔ اِس کے ساتھ کچھ اور مضامین بھی ہیں مگر اب چونکہ کافی وقت ہو گیا ہے اِس لئے اِسی پربس کرتا ہوں۔
اِسی ہفتہ میں خدّام الاحمدیہ کی طرف سے مجھے ایک درخواست آئی تھی کہ وہ تفصیلی ہدایات کے لئے مجھے ملنا چاہتے ہیں وہ مل کر مجھ سے ہدایات لے سکتے ہیں۔
عملی سکیم اور کام کرنے کا طریق یہ ایک علیحدہ مضمون ہے جو صرف اُن سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ اِس لئے جب وہ ملیں گے تو اُن کے سامنے ہی اِسے بیان کروں گا۔ مَیں اُمید کرتا ہوں کہ وہ استقلال اور ہمت سے کام کریں گے اور ایسے رنگ میں کریں گے کہ ساری جماعت کو شامل کر سکیں اور مَیں نے اِسی غرض سے یہ خطبات پڑھے ہیں۔ چند افرادکی حیثیت ایسی نہیں ہوتی کہ ان کے لئے اتنے خطبے پڑھے جائیں اِس لئے اِن کو ایسے رنگ میں کام کرنا چاہئے کہ وہ ساری جماعت پر حاوی ہو اور مستقل حیثیت اختیار کر سکے۔‘‘ (الفضل ۲۸؍مارچ ۱۹۳۹ئ)
۱؎ شمائل الترمذی باب مَا جاء فِی صِفَۃِ مزاحِ رَسُوْلِ اﷲ صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
۲؎ زرقانی جلد ۲ صفحہ ۳۲۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء
۱۰
خدّام الاحمدیہ کا قیام اُس فوج کی روحانی ٹریننگ ہے
جس نے احمدیت کے مخالفین کا مقابلہ کرنا ہے
(فرمودہ ۱۷؍مارچ۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے خدّام الاحمدیہ کو گزشتہ پانچ چھ خطبات میں ایسے امُور کی طرف توجہ دلائی ہے جن کی طرف توجہ کر کے وہ جماعت کے لوگوں میں بیداری اور دینداری پیداکر سکتے ہیں اور نوجوانوں کا گروہ ہی ایک ایسا گروہ ہے جس کی زندگی پر قومی زندگی کا انحصار ہوتا ہے کیونکہ کسی اگلی پود کا درست ہونا قومی عمر کو نہایت لمبے عرصہ تک پھیلادیتا ہے۔ مثلاً اگر انسان کی اوسط عمر ساٹھ سال سمجھی جائے اور نوجوانوں کی جماعت درست ہو جائے تو اُس کے معنے یہ ہوں گے کہ اگر نوجوانوں کو بیس سال کا بھی فرض کر لیا جائے تو اِس قوم کی عمر مزید چالیس سال تک لمبی ہو سکتی ہے۔ ایک ساٹھ سالہ بوڑھے کی درستی صرف ایک یا دو سال تک قوم کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، ایک پچاس سالہ عمر والے انسان کی درستی اوسطاً دس سال تک قوم کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، ایک چالیس سالہ شخص کی درستی اندازاً بیس سال تک قوم کو فائدہ پہنچا سکتی ہے اور تیس سالہ عمر والے کی درستی قوم کو اندازاً تیس سال تک فائدہ پہنچا سکتی ہے لیکن اگر بیس سالہ نوجوانوں کی درستی کر دی جائے تو وہ چالیس سال تک قوم کو فائدہ پہنچا سکتے اور اس کی خصوصیات اور روایات کو قائم رکھ سکتے ہیں اور چالیس سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں ہوتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چونکہ انسان کی اوسطاً عمر ساٹھ ستّر سال کے درمیان ہے اور اِدھر دس گیارہ سال کا لڑکا جوانی کے قریب پہنچ جاتاہے۔ اِس لئے درحقیقت اگر نوجوانوں کی درستی کر لی جائے تو وہ چالیس سال ہی نہیں بلکہ پچاس سے ساٹھ سال تک قوم کی حفاظت کا موجب بن جاتے ہیں اور پچاس ساٹھ سال تک کسی قوم کو نشوونما کا موقع مل جانا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔ اگر وہ قوم ہمت والی ہو، اگر وہ مُشکلات اور مصائب سے گھبرانے والی نہ ہو، اگر خدا کے وعدے اور اُس کی نصرتیں اُس کے ساتھ ہوں اور اگر اُس قوم کے نوجوان اور بوڑھے درست ہوں اور اُن کا اخلاقی اور مذہبی معیار بہت بُلند ہو تو وہ پچاس ساٹھ سال کے اندر اندر تمام دُنیا پر چھا جانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
درحقیقت اُتار چڑھاؤ ہی ہے جو قوموں کو نقصان پہنچایا کرتا اور اُن کی ترقیات کو روک دیتا ہے یعنی ایک وقت تو وہ جُوش میں آجاتی اور بڑے زور شور سے کام شروع کر دیتی ہیں مگر دوسرے وقت گر جاتی ہیں۔ ایک وقت تو اُن کی ہمتیں نہایت بُلند ہوتی ہیں اور وہ مردانہ وار مصائب کے مقابلہ کا تہیّہ کر کے ترقی کی طرف بڑھنا شروع کر دیتی ہیں مگر دوسرے وقت بالکل دَب جاتی اور پَستی کی طرف گرنا شروع کر دیتی ہیں۔ ایسی صورت میں اس قوم کی پَستی کا زمانہ اس کے اِن فوائد کو کمزور کر دیتا ہے جو اس نے اپنی ترقی کے ایّام میں حاصل کئے ہوتے ہیں مگر جب تمام قوم کا قدم یکساں طور پر آگے کی طرف بڑھتا چلا جارہا ہو تو پچاس ساٹھ سال دُنیا بھر میں تغیّر پیدا کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ پس نوجوانوں کو درست کرنے اور اُن کے اخلاق کو سُدھارنے سے جماعت کو عظیم الشان فائدہ پہنچ سکتا ہے اور مَیں خدّام الاحمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اُنہیں اپنے کام کی عظمت کبھی بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے۔ خدّام الاحمدیہ دوسری انجمنوں کی طرح ایک انجمن ہے۔ وہ ہر گز اِس قابل نہیں کہ انہیں اِس میں شامل رکھا جائے۔ اِسی طرح وہ ممبر جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایک کمیٹی بنا کر سلسلہ کی خدمت کا جزوی طور پر کچھ کام کریں گے وہ بھی اپنے کام کی اہمیت اور اُس کی عظمت سے بالکل نا واقف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی قوم کے نوجوانوں کی درستی ہی اصل کام ہؤا کرتا ہے اور یہی کام ہے جو قوموں کی ترقی کے راستہ میں مُمِد اور معاون ہؤا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر ابتدائے زمانہ میں ایمان لانے والے زیادہ تر نوجوان ہی ہوتے ہیں کیونکہ اﷲ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ بوڑھے بوڑھے اِس کے سلسلہ میں شامل ہوں اور چند روز خدمت کر کے وہ وفات پا جائیں اور سلسلہ کی تعلیم کو آئندہ نسلوں تک پہنچانے والے کوئی نہ رہیں۔ پس وہ بوڑھوں کی بجائے زیادہ تر نوجوانوں کو اپنے سلسلہ میں شامل کرتا ہے اور نوجوانوں کی جماعت کو ہی نبی کی تربیت میں رکھ کر درست کرتا ہے تاکہ وہ نبی کی وفات کے بعد ایک لمبے عرصہ تک اِس کے لائے ہوئے نور کو دُنیا میں پھیلا سکیں اور اِس کی تعلیم کی اشاعت اور ترویج میں حصّہ لے سکیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم جب مبعوث ہوئے تو آپ کے مُقرب ترین صحابہ قریباً سارے ہی ایسے تھے جو عمر میں آپ سے چھوٹے تھے۔ حضرت ابو بکرؓ آپ سے اڑھائی سال عمر میں چھوٹے تھے، حضرت عمر ؓ آپ سے ساڑھے آٹھ سال عمر میں چھوٹے تھے اور حضرت علیؓ آپ سے ۲۹ سال عمر میں چھوٹے تھے۔ اِسی طرح حضرت عثمان ؓ ، حضرت طلحہ ؓ اور حضرت زبیر ؓبھی ۲۰ سال سے لے کر ۲۵ سال تک آپ سے عمر میں چھوٹے تھے۔ یہ نوجوانوں کی جماعت تھی جو آپ پر ایمان لائی اور اِس جوانی کے ایمان کی وجہ سے ہی مسلمانوں کی جماعت کو یہ فائدہ پہنچا کہ چونکہ یہ ایک لمبے عرصہ تک رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی تربیت میں رہے تھے اور پھر ان کی عمریں چھوٹی تھیں اِس لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد بھی یہ لوگ ایک عرصۂ دراز تک لوگوں کوفیض پہنچاتے رہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم دعویٰ نبوت کے بعد ۲۳ سال کے قریب زندہ رہے ہیں۔ اب اگر ساٹھ سالہ بوڑھے ہی آپ پر ایمان لاتے اور نوجوان طبقہ اِس میں شامل نہ ہوتا تو نتیجہ یہ ہوتا کہ اِن میں سے اکثر مکّہ میں ہی وفات پا جاتے اور مدینہ کے لوگوں کے لئے نئی ٹریننگ شروع کرنی پڑتی کیونکہ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ پہنچتے تو پہلی تمام جماعت ختم ہو چکی ہوتی اور آپ کو ضرورت محسوس ہوتی کہ ایک اور جماعت تیار کریں جو اسلام کی باتوں کو سمجھے اور آپ کے نمونہ کو دیکھ کر وہی نمونہ دوسروں کو اختیار کرنے کی تلقین کرے۔ اگر ایسا ہوتا تو اسلام کے لئے کس قدر مُشکلات ہوتیں مگر اﷲ تعالیٰ نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اِس لئے ایسا انتظام فرمایا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم جب مکّہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو بجائے کسی نئی جماعت کی ٹریننگ کے وہی نوجوان جو مکّہ میں آپ پر ایمان لائے تھے اِس قابل ہو چکے تھے کہ فوجوں کی کمان اپنے ہاتھ میں لیں۔ چنانچہ گیارہ سال کا علیؓ مدینہ پہنچتے وقت چوبیس سال کا جوان تھا اور ۱۷ سال کا زبیر مدینہ جاتے وقت تیس سال کا جوان تھا۔ یہی حال باقی نوجوان صحابہ ؓ کا بھی تھا۔ کوئی ان میں سے تیس سال کا تھا، کوئی چونتیس سال کا تھا اور کوئی پینتیس سال کا تھا۔ پس بجائے اِس کے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو نئے سرے سے ایک جماعت بنانی پڑتی جب آپ مدینہ میں پہنچے اور کام وسیع ہو گیا تو آپ کو انہی نوجوانوں میں سے بہت سے مدرِّس مل گئے جنہوں نے مکّہ میں آپ سے سبق حاصل کیا تھا اور پھر اَور دس سال تک مدینہ میں بھی انہیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شاگردی میں رہنے کا موقع مل گیا اور جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو اُس وقت چوبیس سال کا علیؓ چونتیس سال کا جوان تھا اور ابھی ایک لمبا عرصہ کا م کا اُن کے سامنے پڑا تھا۔ اِسی طرح وہ زبیر ؓ جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لاتے وقت ۱۷ سال کا تھا وہ اُس وقت چالیس سال کا جوان تھا تو یہ نوجوانوں کی ایک ایسی جماعت تھی کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں باوجود ۲۳ سال آپ کے ساتھ کام کرنے کے جب آپ فوت ہوئے تو ابھی اُن کے سامنے ان کی زندگی کے بیس تیس سال کا م کرنے کے لئے پڑے تھے اور پھر ہر ایک نے آپ کی وفات کے بعد اپنی اپنی عمر کے مطابق کام کیا۔ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اڑھائی سال کام کرنے کا موقع مِلا، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد ساڑھے آٹھ سال کام کرنے کا موقع مِلا اور حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد بیس سال کام کرنے کا موقع مِلا اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد چھبیس سال کام کرنے کا موقع مِلا۔ یہی حال طلحہ ؓ اور زبیر ؓکا بھی ہؤا۔ حتّٰی کہ بعض صحابہ اِس قسم کے بھی تھے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد پچاس پچاس سال تک زندہ رہے اور بعض ایسے بھی تھے گو اُن کی تعداد بہت کم ہے کہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد ستّر ، اسّی سال زندہ رہے۔ یہ نتیجہ تھا اِس بات کا کہ نوجوانوں کے دلوں میں اﷲ تعالیٰ نے ہدایت ڈالی اور وہی نوجوان درست ہو کر ایک لمبی عمر تک خدمتِ اسلام کرتے رہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم جب مدینہ پہنچے تو اُس وقت حضرت انسؓ کی عمر کل دس سال کی تھی۔ دس سال وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے اور جب بیس سال کے ہوئے تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم وفات پاگئے مگر خود حضرت انس ؓ کی وفات ایک سَو دس سال میں جاکر ہوئی۔۱؎ گویا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے نوّے سال بعد تک انہیں لوگوں کو اسلام کی تعلیم سکھانے کا موقع مِلا۔ بوجہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے وقت بہت نوجوان ہونے اور بہت لمبی عمر پانے کے یہ سب سے آخر میں فوت ہونے والے صحابی تھے۔ اب دیکھ لو اﷲ تعالیٰ نے اِس سلسلہ کو کہاں تک ممتد کر دیا مگر بہرحال اِس سلسلہ کا امتداد نوجوانوں کے ذریعہ ہی ہؤا۔ اگر ستّر اسّی سال کے بوڑھے ہی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لاتے تو وہ کہاں کام کر سکتے تھے۔ اوّل تو اُن کی حالتوں کا سُدھرنا ہی مُشکل تھا اور اگر وہ درست بھی ہو جاتے تو اُن میں سے اکثر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں ہی فوت ہو جاتے اور اگر چند لوگ زندہ بھی رہتے تو پانچ سات سال کے بعد وہ بھی ختم ہوجاتے اور جماعت میں کوئی ایسا شخص نہ رہتا جو اسلام کی تعلیم سے پوری طرح واقف و آگاہ ہوتا۔
پس ابتدائی زمانہ میں نوجوانوں کا اسلام میں داخل ہونا اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت تھی اور یہی وہ تدبیر تھی جس کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ نے دُشمن کا مقابلہ کیا اور اُس نے نوجوانوں کی ایک ایسی جماعت تیار کر دی جس نے آپ کی شاگردی میں رہ کر آپ سے تعلیم حاصل کی حتّٰی کہ بعض نے تو اپنا بچپن آپ کی نگرانی میں ہی گزارا۔ جیسے حضرت علی رضی اﷲ عنہ ہیں کہ وہ گیارہ سال کی عمر میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔ اِس طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد بھی ایک لمبے عرصہ تک آپ کا تربیت یافتہ گروہ دُنیا میں موجود رہا اور اِس نے اپنی تعلیم اور تربیت سے ایک اور نئی اور اعلیٰ درجہ کی جماعت پیدا کر دی جو ان کی وفات کے بعد اسلام کے جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں تھامے رہی۔
پس خدّام الاحمدیہ کا کام کوئی معمولی کام نہیں۔ یہ نہایت ہی اہمیت رکھنے والا کام ہے اور درحقیقت خدّام الاحمدیہ میں داخل ہونا اور اِس کے مقررہ قواعد کے ماتحت کام کرنا ایک اسلامی فوج تیار کرنا ہے۔ مگر ہماری فوج وہ نہیں جس کے ہاتھوں میں بندوقیں یا تلواریں ہوں بلکہ ہماری فوج وہ ہے جس نے دلائل سے دُنیا پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔ ہماری تلواریں اور ہماری بندوقیں وہ دلائل ہیں جو احمدیت کی صداقت کے متعلق ہماری طرف سے پیش کئے جاتے ہیں، ہماری بندوقیں اور ہماری تلواریں وہ دعائیں ہیں جو ترقیٔ احمدیت کے متعلق ہم ہر وقت مانگتے رہتے ہیں اور ہماری بندوقیں اور ہماری تلواریں وہ اخلاقِ فاضلہ ہیں جو ہم سے صادر ہوتے ہیں۔
پس دلائل، مذہبی دُعائیں اور اخلاقِ فاضلہ یہی ہماری توپیں اور یہی ہماری تلواریں ہیں۔ اِنہی توپوں اور انہی تلواروں سے ہم نے دُنیا کے تمام ادیان کو فتح کر کے اسلام کا پرچم لہرانا اور اُن پر غلبہ وا قتدار حاصل کرنا ہے اور اگر نوجوانوں میں یہ مُہم جاری رہی تو ہم اﷲ تعالیٰ کے فضل سے بہت جلد ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی مسلّح فوج تیار کر لیں گے جس کے مقابلہ میں کوئی دُشمن نہیں ٹھہر سکے گا اور واقع میں اگر ہماری جماعت کے نوجوان مذہب کی تعلیم سے واقف ہو جائیں، اگر وہ اِن دلائل سے واقف ہو جائیں جو غیر مذاہب کے مقابلہ میں ہماری طرف سے پیش کئے جاتے ہیں اور اگر وہ دُعاؤں سے کام لیں تو دُنیا کا کون سا انسان ہے جو اِن کے مقابلہ میں ٹھہر سکتا ہو۔
بچپن سے مَیں نے مباحثات کے میدان میں قدم رکھا ہؤا ہے۔ گو مجھے اِس قسم کے مباحثات سے نفرت ہے جو مولوی کیا کرتے ہیں مگر دوسروں سے علمی تبادلۂ خیالات مَیں بچپن کے زمانہ سے کرتا چلا آرہا ہوں۔ پس اِس بارے میں میرا پینتیس سالہ تجربہ یہ ہے کہ مَیں نے آج تک دُنیا میں ایک انسان بھی ایسانہیں دیکھا جو کوئی ایسی بات پیش کر سکے جو قرآنی اور احمدی تعلیم کے مقابلہ میں معقول بھی قرار دی جاسکے۔ ہر مذہب کے پیروؤں سے میں نے باتیں کیں اور ہر قسم کے علوم رکھنے والوں سے میری گفتگوئیں ہوئیں مگر اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ایسا ہؤا کہ یا تو ان کے اپنے ساتھیوں نے اقرار کیا کہ ہمارے آدمی کو جواب نہیں آیا اور یا اُنہوں نے کہا کہ ہمارے آدمی نے تعصب اختیار کر لیا ہے۔ ورنہ آپ کے مقابلہ میں جو بات پیش کی جارہی ہے یہ کوئی معقول نہیں۔ دُنیا کا کوئی اعتراض ایسا نہیں جو قرآن مجید پر پڑتا ہو اور اِس کا کافی اور شافی جواب ہمارے پاس موجود نہ ہو یا اﷲ تعالیٰ خود ایسے موقعوں پر مجھے جواب سمجھا نہ دیتا ہو بلکہ مَیں نے دیکھا ہے بعض دفعہ اﷲ تعالیٰ ایسے سوالوں کے جواب بھی سمجھا دیتا ہے جو درحقیقت خارج از ضرورت ہوتے ہیں اور جنہیں پیش کرنا کوئی معقولیت نہیں ہوتی۔ دُنیا میں ایسی کئی باتیں ہوتی ہیں جن کا دریافت کرنا کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا۔ اب اگر کوئی شخص ایسا سوال کرے اور اس کا جواب نہ دیا جائے تو اِس میں کوئی حرج نہیں ہو گا۔ مثلاً اگر کوئی پوچھے کہ ظہر کی چار رکعتیں کیوں مقرر ہیں اور مغرب کی تین کیوں؟ اِسی طرح عشاء کی چار رکعتیں کیوں ہیں اور فجر کی دو کیوں؟ تو اِس بات کا جواب دینا ہمارے لئے کوئی ضروری نہیں۔ اگر ہم نماز پڑھنے والے کا خدا تعالیٰ سے تعلق ثابت کر سکتے ہیں، اگر ہم نماز کے متعلق یہ دلائل سے ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ روحانی ترقی کا صحیح ذریعہ ہے تو اس کے بعد کسی کا یہ کہنا کہ مغرب کی تین رکعتیں کیوں ہیں اور فجر کی دو کیوں یا ظہر، عصر اور عشاء کی فرض نماز کی چار چار رکعتیں کیوں ہیں ایک غیر ضروری سوال ہے۔ خدا تعالیٰ کی ان رکعتوں کے مقرر کرنے میں باریک درباریک حکمتیں ہیں جو ضروری نہیں کہ انسان کی سمجھ میں آسکیں اور اس کا ان حکمتوں کی دریافت کے پیچھے پڑنا نادانی ہے۔ اِس کا کام صرف یہ ہے کہ جب اِس پر یہ بات کھل گئی ہے کہ نماز پڑھنا خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور اِس کے نتیجے میں اﷲ تعالیٰ کا قُرب حاصل ہوتا ہے تو وہ نماز پڑھے۔ اُسے اِس سے کیا کہ تین رکعتیں کیوں ہیں اور چار کیوں؟
مَیں نے پہلے بھی ایک دفعہ بتایا تھا کہ ایک دفعہ میں باہر سفر میں تھا کہ میرے لئے ایک دوائی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ قریب ہی ہسپتال تھا ڈاکٹر حشمت اﷲ صاحب وہاں دوا لینے گئے۔ سِول سرجن صاحب جو اُس وقت ہسپتال میں موجود تھے اُنہوں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ انہیں ہسپتال میں لے آئیں۔ میری مدّت سے یہ خواہش ہے کہ اِنہیں دیکھوں۔ اِس طرح مَیں اپنی خواہش کو بھی پورا کر سکوں گا اور انہیں دیکھ کر کوئی نسخہ بھی تجویز کر دوں گا۔ چنانچہ مَیں گیا اور اُس نے دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب کو ایک نسخہ لکھوایا۔ اِس میں صرف تین دوائیں پڑتی تھیں۔ ایک ٹنکچر نکس وامیکا تھی، دوسرا سوڈا بائیکارب اور تیسری دوائی مجھے یاد نہیں رہی۔ اُس نے کہا یہ نسخہ ہے جو تیار کر کے انہیں استعمال کرایا جائے۔ پھر وہ ڈاکٹر حشمت اﷲ صاحب کی طرف مخاطب ہؤا اور ان سے کہنے لگا مَیں نے فلاں دوائی کے اتنے قطرے لکھے ہیں اور فلاں دوائی کی مقدار اتنے گرین(GRAIN) لکھی ہے۔ مَیں بوڑھا ہونے کو آگیا ہوں اور چند مہینوں میں ریٹائر ہونے والا ہوں مَیں نہیں بتا سکتا کہ ایک دوا کے اتنے قطروں میں کیا حکمت ہے اور دوسری دوا کے اتنے گرین (GRAIN) ہونے میں کیا حکمت ہے مگر یہ یاد رکھیئے کہ اگر آپ میرے نسخہ سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں تو قطروں اور گرینوں میں کوئی فرق نہ کیجئے۔ یہ نسبت اگر قائم رہے گی تو نسخہ فائدہ دے گا اور اگر آپ نے نسبت قائم نہ رکھی تو پھر مَیں اِس نسخہ کے مُفید ہونے کا ذمہ دار نہیں۔ آپ اگر پوچھیں کہ اِن دواؤں کی مختلف نسبتوں میں کیا حکمت ہے تو یہ مَیں بتا نہیں سکتا مگر میرا ہمیشہ کا تجربہ ہے کہ یہی نسبت اگر اِس نسخہ میں قائم رکھی جائے تو فائدہ ہوتا ہے ورنہ نہیں ہوتا۔ اب اِس نسخہ کی دواؤں کے اور اِن کی نسبت میں کوئی حکمت ضرور تھی اور اُس ڈاکٹر کا وسیع تجربہ یہی بتا رہا تھا کہ اگر اِس نسبت کو قائم رکھا جائے تو فائدہ ہوتا ہے اور اگر قائم نہ رکھا جائے تو فائدہ نہیں ہوتا مگر وہ بتا نہیں سکتا تھا کہ اِس میں کیا حکمت ہے اور اُس نے ڈاکٹر صاحب کو بار بار کہا کہ اِس نسخہ کے اجزاء کے اَوزان میں کمی بیشی نہ ہوکیونکہ اِسی نسبت سے ہزاروں لوگوں نے فائدہ اُٹھایا ہے اور اگر اِس نسبت کو قائم نہ رکھا جائے تو فائدہ نہیں ہوتا۔ اِسی طرح اﷲ تعالیٰ کی بعض باتوں کی حکمت انسانی سمجھ میں نہیں آتی مگر بہرحال جب ان باتوں کے فوائد ظاہر ہوں تو انسان حکمت معلوم کرنے کے جنون میں فائدہ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا ہی لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ تم نے کبھی کسی باپ کو نہیں دیکھا ہو گا جس کی اپنے بیٹے سے اِس لئے محبت کم ہو گئی ہو کہ اُسے معلوم نہیں اس کی تِلی کہاں ہے اور اس کا معدہ کہاں ہے اور اس کا جگر کہاں ہے اور اس کے پھیپھڑے کہاں ہیں؟ ہزاروں لاکھوں زمیندار ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ انسان کا دل کہاں ہوتا ہے اور اُس کا گردہ، جگر ، معدہ اور پھیپھڑے کہاں ہوتے ہیں؟ شاید تم میں سے کئی اپنے دل میں کہتے ہوں گے کہ یہ کونسی بڑی بات ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ دل کہاں ہوتا ہے اور جگر کہاں ہوتا ہے اور تلی کہاں ہوتی ہے اور معدہ کہاں ہوتا ہے؟ مگر مَیں تمہیں بتاؤں اگر تم کسی ڈاکٹر کے سامنے کہو کہ جگر یہاں ہوتا ہے اور معدہ یہاں تو وہ فوراً تمہیں بتا دے گا کہ تم غلط سمجھتے ہو۔ پھر اِن لوگوں کو جانے دو جو جانتے ہی نہیں کہ معدہ تلی، جگر، گردہ اور پھیپھڑے وغیرہ کہاں ہوتے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمیں اِن باتوں کا علم ہے مَیں نے دیکھا ہے اِن میں سے دس میں سے نو ہمیشہ انتڑیوں کی جگہ کو معدہ سمجھتے ہیں یعنی جو قولن کی بڑی انتڑی ہوتی ہے ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ ہمیشہ اُسی کو معدہ سمجھتا ہے اور دل میں یہ خیال کر کے خوش رہتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ڈاکٹری مَیں بھی جانتا ہوں وہ ہمیشہ انتڑیوں کی جگہ کو معدہ سمجھتا ہے اور ہاتھ لگا کر کہتا ہے کہ میرے معدے میں درد ہو رہا ہے حالانکہ وہ درد معدہ میں نہیں بلکہ انتڑی میں ہوتا ہے۔ تو تعلیم یافتہ طبقہ کو بھی صحیح طور پر اِن اعضاء کا علم نہیں ہوتا۔ کُجا یہ کہ غیر تعلیم یافتہ طبقہ کو اِن باتوں کا علم ہو مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ کیا تم نے کبھی دیکھا کہ اِس علم کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ کہہ دے کہ مَیں اس وقت تک اپنے بیٹے سے محبت نہیں کر سکتا جب تک اِس کا پیٹ چاک کر کے یہ دیکھ نہ لوں کہ اس کا معدہ کہاں ہے اور جگر کہاں ہے اور تلی کہاں ہے اور پھیپھڑے کہاں ہیں؟ پھر جب اپنے بیٹے کے متعلق انسان ایسی بحثوں میں نہیں پڑتا تو خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق وہ کیوں اپریشن کرنا چاہتا ہے اور کیوں یہ خیال کرتا ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق میرا فلاں فلاں سوال حل نہ ہو جائے اُس وقت تک میرا دل اِس سے محبت نہیں کر سکتا۔ اگر خداتعالیٰ کے بے شمار احسانات انسانوں پر ثابت ہو جائیں، اگر یہ واضح ہو جائے کہ انسان کو ہرلمحہ خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کی رضا کی ضرورت ہے، اگر اس کے قُرب کی راہیں انسان پر کھل جائیں، اگر عرفان اور محبتِ الٰہی کی ضرورت انسان پر واضح ہو جائے اور اگر یہ بات کھل جائے کہ ہر انسان اِس بات کا محتاج ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے تو پھر انسان کو اِس سے کیا کہ خدا ازلی ابدی کیونکر ہو گیا؟ وہ غیر محدود کس طرح ہو گیا؟ اُس نے نیست سے ہست کس طرح کر دیا؟ تم اِن باتوں کو چھوڑ دو کہ ان کا محبت الٰہی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ کسی انسان کی یہ طاقت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے بے انتہاء اندرونی اَسرار کو معلوم کر سکے تو ہر بات کی حکمت سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ محبت کے لئے صرف اِس قدر معرفت ضروری ہے کہ انسان کو وہ محاسن اور خوبیاں معلوم ہو جائیں جو اس کے محبوب کے اندر ہوں۔ اُسے اِس بات کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ یہ بھی دیکھے کہ اِس کے محبوب کا جگر کہاں ہے اور معدہ اور گردے اور پھیپھڑے کہاں ہیں؟ مگر پھر بھی بعض دفعہ اﷲ تعالیٰ ایسی باتوں کی حکمتیں سمجھا دیتا ہے جن کی حکمتیں معلوم کرنے کی محبت اور معرفت کے لئے ضرورت نہیں ہوتی اور نہ اِن حکمتوں کا اِس سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔
تھوڑے ہی دن ہوئے ایک دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ مغرب کی فرض نماز کی تین رکعتیں کیوں مقرر ہیں اور اِن رکعتوں کی تعداد تین مقرر کرنے میں کیا حکمت ہے؟ مَیں چونکہ بعض خطبات اور خطوط وغیرہ میں نماز کی رکعتوں کی حکمت کے متعلق وقتاً فوقتاً بعض باتیں بیان کر چُکا ہوں اِس لئے مَیں نے انہیں کہا کہ بعض دوستوں کے خطوں کے جوابات اور خطبوں وغیرہ میں ایسی باتیں چھپ چکی ہیں آپ اگر معلوم کرنا چاہیں تو انہیں تلاش کر کے دیکھ لیں۔
وہ ایک دعوت کا موقع تھا جب یہ سوال میرے سامنے پیش ہؤا اور پھر اِس کے بعد اور باتیں شروع ہو گئیں اور اِس سوال کا خیال میرے ذہن سے بالکل جاتا رہا۔ اِس کے بعد ایک دن گزرا، پھر دوسرا دن گزرا اور پھر تیسرا دن شروع ہو گیا۔ تیسرے دن مغرب کی نماز کے بعدسُنتیں پڑھ کر مَیں تشہد میں بیٹھا تھا اور سلام پھیرنے کے قریب تھا کہ یکدم اﷲ تعالیٰ نے مغرب کی نماز کی تین رکعتیں مقرر کرنے کی ایک جدید حکمت میرے دل میں ڈال دی اور عین سلام پھیرنے کے قریب جس طرح بجلی کی رَو جسم میں سرایت کر جاتی ہے اُسی طرح وہ علم میرے دل پر نازل ہؤا اور وہ یہ تھا کہ نمازیں اﷲ تعالیٰ نے دو قسم کی بنائی ہیں۔ کچھ فرض نمازوں کا تو وہ حصّہ جو دن میں ادا کیا جاتا ہے اور کچھ فرض نمازوں کا وہ حصّہ ہے جو رات کے وقت ادا کیا جاتا ہے۔ کیونکہ دن اور رات کی نمازوں کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ بنی نوع انسان کو اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے کہ انہیں خوشی کی حالت میں بھی اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہئے اور مصیبتوں کے وقت میں بھی اس کی عبادت میں مشغول رہنا چاہئے۔ ترقی کے زمانہ میں بھی اس کی طرف جھکنا چاہئے اور تنزل کے زمانہ میں بھی اِس کے دروازہ پر گرا رہنا چاہئے تو اِس حکمت کے پیش نظر اﷲ تعالیٰ نے اپنی عبادت کو دو حصّوں میں منقسم کر دیا اور ایک حصّہ تو دن میں رکھا اور دوسرا حصّہ رات میں۔ اِس طرح پانچ نمازیں چوبیس گھنٹوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں اور تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد انسان کو نماز پڑھنی پڑتی ہے۔ دوسری طرف ہمیں اﷲ تعالیٰ کا یہ قانون نظر آتا ہے کہ وہ طاق چیزوں کو پسند کرتا ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ طاق چیزوں کو پسند کرتا ہے وہ خود بھی ایک ہے اور دوسری اشیاء کے متعلق بھی وہ یہی پسند کرتا ہے کہ وہ طاق ہوں۔۲؎ چنانچہ یہ حکمت ہمیں ہر جگہ نظر آتی ہے مگر یہ ایک الگ اور وسیع مضمون ہے جس کو اِس وقت بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تمام قانونِ قدرت میں اﷲ تعالیٰ نے طاق کو قائم رکھا ہے اور اس کے ہر قانون پر طاق حاوی ہے۔
قرآن کریم کے محاوروں اور سول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے محاوروں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سات کے عدد کو تکمیل کے ساتھ خاص طور پر تعلق ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے دُنیا کو سات دن میں بنایا۔اِسی طرح انسان کی روحانی ترقیات کے سات زمانے ہیں۔ پھر آسمانوں کے لئے بھی قرآن کریم میں سَبْعَ سَمٰوات ۳؎کے الفاظ آتے ہیں اور یہ طاق کا عدد ہے۔ تو طاق کا عدد اﷲ تعالیٰ کے حضور خاص حکمت رکھتا ہے اور اِس کا مظاہرہ ہم تمام قانونِ قدرت میں دیکھتے ہیں۔
اب اِس قانون کے مطابق اگر فرض نمازوں کی رکعات کو جمع کرو تو وہ طاق ہی بنتی ہیں۔ چنانچہ ظہر کی چار ،عصر کی چار، مغرب کی تین، عشاء کی چار اور فجر کی دو۔ کُل ۱۷ رکعات ہوتی ہیں اور اِس طرح فرض نماز کی رکعتوں میں بھی اﷲ تعالیٰ نے طاق کی نسبت کو قائم رکھا ہے۔
پس چونکہ اﷲ تعالیٰ کے تمام کاموں میں طاق مدّنظر رکھا گیا ہے اِس لئے پانچ نمازوں میں سے ایک فرض نماز کی رکعتیں تین کر دی گئیں تاکہ طاق کے متعلق اﷲ تعالیٰ کا جو قانون ہے وہ نمازوں میں بھی آجائے۔ اِسی طرح وتروں کی نماز کو طاق اِس لئے بنایا گیا ہے کہ نوافل بھی طاق ہو جائیںاور اِسی وجہ سے وتروں کو معمولی سنتوں سے زیادہ وقعت دے دی گئی ہے تاکہ مسلمان انہیں ضرور ادا کرے اور اِس کے نوافل طاق ہو جایا کریں اور یہی وجہ ہے کہ وتروں کے سوا اور کوئی نفل طاق نہیں ہوتا۔ تا دو طاق مل کر جفت نہ ہو جائیں اور یہی حکمت ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اگر کبھی عشاء کے وقت وتر پڑھ لیتے تو تہجد کے وقت ایک رکعت پڑھ کر انہیں جفت کر دیتے ۴؎تاکہ تہجد کے آخر میں آپ وتر پڑھ سکیں اور اِن کے پڑھنے سے نوافل جفت نہ ہو جائیں۔
اب اِس پر سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ مغرب کی نماز کی ہی تین رکعتیں کیوں مقرر کی گئی ہیں؟ کسی اور نماز کی تین رکعتیں کیوں مقرر نہیں کر دی گئیں؟ تو اﷲ تعالیٰ نے مجھے اِس سوال کا بھی جواب سمجھایا اور وہ یہ کہ دن کی نمازوں کی رکعات ہیں آٹھ اور رات کی فرض نمازوں کی رکعات ہیں نَو۔ چنانچہ دیکھ لو! مغرب کی تین، عشاء کی چار اور فجر کی دو کُل ۹ رکعت بنتی ہیں۔ چونکہ مغرب کی نماز سورج ڈوبنے کے بعد پڑھی جاتی ہے اور فجر کی نماز سورج نکلنے سے پہلے پڑھی جاتی ہے اِس لئے یہ دونوں نمازیں بھی دراصل رات کی ہی نمازیں ہیں اور ان نمازوں کی ایک رکعت زیادہ کرنے میں ایک حکمت یہ ہے کہ انسان کو تکلیفوں اور مصیبتوں کے وقت میں اﷲ تعالیٰ کی طرف زیادہ جھکنا چاہئے تاکہ وہ اِس کے فضلوں کو جذب کر سکے۔ اِسی لئے دن کے وقت اﷲ تعالیٰ نے آٹھ رکعات نماز کی رکھیں اور رات کے وقت نَو۔ باقی رہا مقام کا سوال کہ اﷲ تعالیٰ نے یہ ایک رکعت کی زیادتی مغرب میں کیوں کی ہے؟ کسی اور نماز میں کیوں نہیں کر دی؟ تو اِس کا جواب بھی اﷲ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا اور وہ یہ کہ صبح کے وقت اﷲ تعالیٰ کے فرشتے خاص طور پر نازل ہوتے ہیں کیونکہ وہ اﷲ تعالیٰ کو بندوں کی تلاوتِ قرآن کی خبر دیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جب انسان سو کر اُٹھتا ہے تو اُس وقت اُس کی زندگی کا ایک نیا دَور شروع ہوتا ہے اور نئے دَور کے ابتداء کے وقت ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنے اندر بُلند ارادے پیدا کرے اور کہے کہ مَیں یوں کروں گا، مَیں ووں کروں گا اور یہ تمام باتیں چونکہ قرآن کریم میں موجود ہیں اِس لئے جب سو کر اُٹھنے کے بعد انسان کی زندگی کا نیا دَور شروع ہوتا ہے اُسے اِس کے روحانی پروگرام کی طرف توجہ دلانے کے لئے اسلام نے اس وقت قرآن کریم کی لمبی تلاوت مقرر کر دی اور حکم دیا کہ فجر کی نماز میں قرآن کریم کی لمبی تلاوت کی جائے اور چونکہ خدا تعالیٰ کا معاملہ احکام میں یُسر کا ہے عسر کا نہیں اِس لئے فجر کی نماز اس نے باقی تمام نمازوں سے چھوٹی کر دی تاکہ لمبی تلاوت کی جاسکے۔ پس فجر کی نماز کو تو اس نے چھوٹا کیا لیکن تلاوتِ قرآن کو لمبا کر دیا۔ کیونکہ اس وقت اِس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ قرآن کریم کے مضامین بار بار سامنے آئیں۔ پس فجر کی نماز کو چھوٹا کرنا ضروری تھا تا تلاوت کو لمباکیا جاسکے۔ یہ نماز درحقیقت عصر کی نماز کے مقابل پر ہے اور ظاہر میں اِس کے عدد کو عصر کے ساتھ اِس طرح بھی مشابہت ہوجاتی ہے کہ عصر کے ساتھ کوئی سُنت مؤکّدہ نہیں ہیں اور صبح کے ساتھ دو سنتیں ایسی ہیں جو عام مؤکّدہ ہیں۔ اِس طرح صبح کی رکعتیں بھی چار ہو جاتی ہیں اور عصر کی بھی چار ہوتی ہیں۔ اس کے مقابل پر عشاء کی نماز ظہر کے مقابل پر ہے اور اِس میں دو سنتیں اور تین وتر لازمی ہیں۔ وتر کی رکعت نکال دی جائے تو چار نوافل ہو جاتے ہیں۔ یہ ظہر کی دو دو سنتیں فرض کر کے ظہر کی سُنتوں کے برابر ہو جاتی ہیں لیکن اگر چھ یا آٹھ سنتیں قرار دی جائیں تو پھر یہ کم رہ جاتی ہیں لیکن جب دیکھا جائے کہ اِس کے بعد تہجد پر زور دیا گیا ہے تو ظہر کے نوافل کی کمی کا ازالہ اِس سے ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں وتروں کے بعد بھی دو نفل رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خاص تعہّد سے بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔۵؎ اِس سے بھی ظہر اور عشاء کی رکعات برابر ہو جاتی ہیں مگر یہ ایک وسیع مضمون ہے۔ مَیں نے اشارۃً اس کی طرف توجہ دلائی ہے۔
غرض عشاء کی نماز جو عصر کی نماز کے مقابلہ میں تھی اِس میں کسی زیادتی کی گنجائش نہیں تھی۔ صرف مغرب کی نماز ہی رہتی تھی جسے طاق بنانے کے لئے اِس میں ایک رکعت کی زیادتی کی جاسکتی تھی۔ اِسی حکمت کے ماتحت خدا تعالیٰ نے مغرب کی نماز کی تین رکعتیں مقرر کر دیں کیونکہ کسی نماز کا تین رکعت پر مشتمل ہونا نمازوں کے طاق بنانے کے لئے ضروری تھا اور اِدھر ضروری تھا کہ یہ زیادتی رات کی نمازوں میں کی جائے۔ یہ جتانے کے لئے کہ مصیبت کے وقت انسان کو اﷲ تعالیٰ کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے مگر رات کی نمازوں میں سے فجر میں یہ زیادتی نہیں کی جاسکتی تھی کیونکہ وہاں لمبی تلاوت قرآن کا حکم دے دیا گیا تھا۔ عشاء کی نماز میں بھی یہ زیادتی نہیں ہو سکتی تھی صرف مغرب کی نماز رہتی تھی۔ سو خُدا نے مغرب کی نماز میں مسلمانوں کو تین رکعت پڑھنے کا حکم دے دیا۔ اب بظاہر اِس حکمت کے بتانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ ایسا معاملہ ہے جس پر اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا کہنا چاہئے نہ یہ کہ تفصیلات میں پڑ کر انسان باریک در باریک حکمتیں معلوم کرنے کی کوشش کرے اور اگر ایسی ہی باتوں میں انسان مصروف ہو جائے تو کہہ سکتا ہے کہ پہلے رکوع کیوں رکھا اور سجدہ بعد میں کیوں رکھا؟کیوں نہ سجدہ پہلے رکھ دیا اور رکوع بعد میں؟ اور گو اِس میں بھی حکمتیں ہیں مگر تمہارا کا م یہ نہیں کہ تم اِن باتوں میں اپنا وقت ضائع کرو۔ تمہیں جب رکوع کرنے کو کہا جاتا ہے تو تم رکوع کرو، جب سجدہ کرنے کو کہا جاتا ہے تو سجدہ کرو۔ تم پر جب نماز کی حقیقت منکشف ہو چکی ہے تو تمہارا یہ کام ہے کہ جس طرح خدا نے نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے اِسی طرح تم نمازیں پڑھو نہ یہ کہ چھوٹی چھوٹی بات کی حکمت دریافت کرنے کے پیچھے لگ جاؤ۔ تو ضروری نہیں ہوتا کہ اِن باتوں کی حکمتیں سمجھائی جائیں ۔ مگر بعض دفعہ اﷲ تعالیٰ سمجھا بھی دیتا ہے اور اِس طرح قرآنی علوم کھولتا رہتا ہے۔
بہرحال مباحثات کے باب میں میرا وسیع تجربہ یہ ہے کہ قرآنی علوم ایسے ہیں کہ ان کا مقابلہ کوئی دُشمن نہیں کرسکتا۔ اگر ہماری جماعت کے نوجوان اِن قرآنی علوم کو سیکھ لیں تو جو دلائل اور براہین کی لڑائی ہے اس میں کوئی بڑے سے بڑا لشکر بھی ان کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا۔دوسری چیز عمل ہے۔ اگر نوجوان اخلاقِ فاضلہ سیکھ لیں اور پھر عملی طور پر بھی ان کا قدم ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتا چلا جائے تو دُنیا کیا بڑے بڑے دینوں پر بھی وہ غالب آسکتے ہیں۔ تیسری چیز سامانوں کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کامیابی سے محروم رہ جاتا ہے۔ اِس کے لئے مَیں نے دُعا کا طریق بتایا ہے تاکہ اﷲ تعالیٰ کے فضل نازل ہوں اور ہمارے سامانوں کی کمی کو پورا کر دیں اور یقینا اگر ہماری جماعت کے نوجوان نہ صرف دلائل سے کام لینے والے ہوں ، نہ صرف اخلاقِ فاضلہ کے مالک ہوں بلکہ دُعاؤں سے بھی کام لینے کے عادی ہوں تو ان کے مقابلہ میں کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی۔
مَیں نے خدّام الاحمدیہ کے سامنے ایک پروگرام پیش کر دیا ہے اور مَیں انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اِن باتوں کو یاد رکھیں جو مَیں نے بیان کی ہیں اور ہمیشہ اپنے آپ کو قومی اور مُلکی خدمات کے لئے تیار رکھیں۔ دُنیا میں قریب ترین عرصہ میں عظیم الشان تغیرات رونما ہونے والے ہیں اور درحقیقت تحریک جدید ایک ہنگامی چیز کے طور پر میرے ذہن میں آئی تھی اور جب مَیں نے اِس تحریک کا اعلان کیا ہے اُس وقت خود مجھے بھی اِس تحریک کی کئی حکمتوں کا علم نہیں تھا۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ ایک نیّت اور ارادہ کے ساتھ مَیں نے یہ سکیم جماعت کے سامنے پیش کی تھی کیونکہ واقعہ یہ تھا کہ جماعت کی اُن دنوں حکومت کے بعض افسروں کی طرف سے شدید ہتک کی گئی تھی اور سلسلہ کا وقار خطرے میں پڑ گیا تھا۔ پس مَیں نے چاہا کہ جماعت کو اِس خطرے سے بچاؤں مگر بعض اوقات اﷲ تعالیٰ کی رحمت انسانی قلب پر تصرف کرتی اور روح القدس اُس کے تمام ارادوں اور کاموں پر حاوی ہو جاتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں میری زندگی میں بھی یہ ایسا ہی واقعہ تھا۔ جبکہ روح القدس میرے دل پر اُترا اور وہ میرے دماغ پر ایسا حاوی ہو گیا کہ مجھے یوں محسوس ہؤا گویا اس نے مجھے ڈھانک لیا ہے اور ایک نئی سکیم، ایک دُنیا میں تغیر پیدا کر دینے والی سکیم میرے دل میں نازل کردی اَور مَیں دیکھتا ہوں کہ میری تحریک جدید کے اعلان سے پہلے کی زندگی اور بعد کی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ قرآنی نکتے مجھ پر پہلے بھی کھلتے تھے اور اب بھی کھُلتے ہیں مگر پہلے کوئی معیّن سکیم میرے سامنے نہیں تھی جس کے قدم قدم کے نتیجہ سے مَیں واقف ہوں اور مَیں کہہ سکوں کہ اِس اِس رنگ میں ہماری جماعت ترقی کرے گی مگر اب میری حالت ایسی ہی ہے کہ جس طرح انجینئر ایک عمارت بناتا اور اسے یہ علم ہوتا ہے کہ یہ عمارت کب ختم ہو گی، اِس میں کہاں کہاں طاقچے رکھے جائیں گے؟ کتنی کھڑکیاں ہوں گی، کتنے دروازے ہوں گے؟ کتنی اونچائی پر چھت پڑے گی؟ اِسی طرح دنیا کی اسلامی فتح کی منزلیں اپنی بہت سی تفاصیل اور مُشکلات کے ساتھ میرے سامنے ہیں۔ دُشمنوں کی بہت سی تدبیریں میرے سامنے بے نقاب ہیں۔ اِس کی کوششوں کا مجھے علم ہے اور یہ تمام امور ایک وسیع تفصیل کے ساتھ میرے آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ تب مَیں نے سمجھا کہ یہ واقعہ اور فساد خدا تعالیٰ کی خاص حکمت نے کھڑا کیا تھا تا وہ ہماری نظروں کو اُس عظیم الشان مقصد کی طرف پھرا دے جس کے لئے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا۔ پس پہلے میں صرف اِن باتوں پر ایمان رکھتا تھا مگر اب مَیں صرف ایمان ہی نہیں رکھتا بلکہ مَیں تمام باتوں کو دیکھ رہا ہوں۔ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ کو کس رنگ میں نقصان پہنچایا جائے گا؟ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ پر کیا کیا حملہ کیا جائے گا؟ اور مَیں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری طرف سے ان حملوں کا کیا جواب دیا جائے گا۔ ایک ایک چیز کا اجمالی علم میرے ذہن میں موجود ہے اور اِسی کا ایک حصّہ خدّام الاحمدیہ ہیں اور درحقیقت یہ روحانی ٹریننگ اور روحانی تعلیم و تربیت ہے اُس فوج کی جس فوج نے احمدیت کے دُشمنوں سے مقابلہ میں جنگ کرنی ہے، جس نے احمدیت کے جھنڈے کو فتح اور کامیابی کے ساتھ دُشمن کے مقام پر گاڑنا ہے۔ بے شک وہ لوگ جو ان باتوں سے واقف نہیں وہ میری اِن باتوں کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ہر شخص قبل از وقت اِن باتوں کو نہیں سمجھ سکتا۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی دین ہے جو وہ اپنے کسی بندے کو دیتا ہے۔ مَیں خود بھی اس وقت تک اِن باتوں کو نہیں سمجھا تھا جب تک اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر ان امور کا انکشاف نہ کیا۔ پس تم اِن باتوں کو نہیں سمجھ سکتے اور بیشک تم کہہ سکتے ہو کہ ہمیں تو کوئی بات نظر نہیں آتی لیکن مجھے تمام باتیں نظر آرہی ہیں۔ آج نوجوانوں کی ٹریننگ اور ان کی تربیت کا زمانہ ہے اَور ٹریننگ کا زمانہ خاموشی کا زمانہ ہوتا ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو رہا مگر جب قوم تربیت پاکر عمل کے میدان میں نکل کھڑی ہوتی ہے تو دُنیا انجام دیکھنے لگ جاتی ہے۔ درحقیقت ایک ایسی زندہ قوم جو ایک ہاتھ کے اُٹھنے پر اُٹھے اورایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جائے دُنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا کرتی ہے اور یہ چیز ہماری جماعت میں ابھی پیدا نہیں ہوئی۔ ہماری جماعت میں قربانیوں کا مادہ بہت کچھ ہے مگر ابھی یہ جذبہ اُن کے اندر اپنے کمال کو نہیں پہنچا کہ جونہی ان کے کانوں میں خلیفۂ وقت کی طرف سے کوئی آواز آئے اُس وقت جماعت کو یہ محسوس نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہو کہ فرشتوں نے ان کو اُٹھا لیا ہے اور صورِ اسرافیل اُن کے سامنے پھُونکا جا رہا ہے۔ جب آواز آئے کہ بیٹھو تو اُس وقت انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہو کہ فرشتوں کا تصرف ان پر ہو رہا ہے اور وہ ایسی سواریاں ہیں جن پر فرشتے سوار ہیں۔ جب وہ کہے بیٹھ جاؤ تو سب بیٹھ جائیں، جب کہے کھڑے ہو جاؤ تو سب کھڑے ہو جائیں۔ جس دن یہ روح ہماری جماعت میں پیدا ہو جائے گی اُس دن جس طرح بازچڑیا پر حملہ کرتا اور اُسے توڑمروڑ کر رکھ دیتا ہے اِسی طرح احمدیت اپنے شکار پر گرے گی اور تمام دنیا کے ممالک چڑیا کی طرح اِس کے پنجہ میں آجائیں گے اور دُنیا میں اِسلام کا پرچم پھر نئے سرے سے لہرانے لگ جائے گا۔‘‘(الفضل ۷؍اپریل ۱۹۳۹ئ)
۱؎ اسد الغابۃ جلد ۱ صفحہ ۱۲۸ مطبوعہ ریاض ۱۳۸۴ ھ
۲؎ بخاری کتاب الدعوات باب ﷲ مائۃ اسم
۳؎ البقرۃ : ۳۰
۴؎ مصنَّف ابن ابی شیبۃ کتاب الصلٰوۃ باب فی الرجل یوتِرُ ثم یقوم بعد ذٰلک۔
کے مطابق روایات سے حضرت عثمان ؓ ، حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ اور حضرت سعد بن مالک ؓ کے متعلق
ثابت ہے کہ وہ اسی طرح کیا کرتے تھے۔
۵؎ السنن الکبری بیہقی کتاب الصلٰوۃ باب فی الرکعتین بعدالوتر۔
۱۱
مومن کو ہمیشہ جھوٹے وعدوں سے بچنا چاہئے کہ
یہ قوم کی تباہی کا موجب ہوتے ہیں
(فرمودہ ۷؍اپریل۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’جسمانی نشوونما اور روحانی نشوونما میں ایک عجیب فرق نظر آتا ہے جس کی طرف بہت ہی کم لوگوں نے توجّہ کی ہے اور وہ یہ ہے کہ جسمانی نشوونما کی ابتدا میں انسان کا ذہن زیادہ تر اپنی طاقت اور قوت کی طرف جاتا ہے اور جوں جوں انسانی جسم میں طاقت اور قوت پیدا ہوتی ہے اور وہ ہوش سنبھالتا ہے اُس کی نظر نہایت ہی محدود ہوتی چلی جاتی ہے یا محدود ہوتی ہے اور وہ اپنی طاقتوں اور قوتوں پر ایسا گھمنڈ رکھتا ہے کہ خیال کرتا ہے دُنیا کا ہر کام میری ہی مرضی اور منشاء کے ماتحت ہوتا ہے۔ پھر جب انسانی جسم کی نشوونما کا وقت ختم ہونے کو ہوتا ہے۔ اضمحلال اور کمزوری پیدا ہونے لگتی ہے اس کی نظر اپنے سوا دوسری چیزوں پر بھی پڑنے لگتی ہے۔ اس کے دماغ میں ایک تبدیلی پیدا ہوتی ہے جسے لوگ تجربہ کہتے ہیں اِس تجربہ کے ماتحت آہستہ آہستہ اسے دوسری قوتوں اور طاقتوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے دُنیا میں تغیرات صرف میرے یا میرے دوستوں کے ذریعہ ہی نہیں ہو رہے بلکہ اِس کے اسباب اور بھی ہیں جو بعض دفعہ نظر بھی نہیں آتے مگر دُنیا کے تغیرات پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں اور آخر جب آہستہ آہستہ انسان کی طاقتیں بالکل ہی کمزور ہو جاتی ہیں اور اُس کا جسم ڈھل جاتا ہے وہ کمزور ہو جاتا ہے، بے طاقت ہو جاتا ہے تو پھر اُس کی نگاہ دُنیوی اسباب سے ہٹ کر اُن باریک اسباب کی طرف متوجہ ہوتی ہے جو کہ اُس کی زندگی میں تغیر پیدا کرنے والے ہوتے ہیں یا کم سے کم وہ خیال کرتا ہے کہ اُن تغیرات میں اِن کا دخل ہے بلکہ بعض اوقات تو وہ سمجھنے لگتا ہے کہ دُنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس میں انسان کا کوئی دخل ہی نہیں بلکہ ایک بالا ہستی سب کچھ انسان سے کرا رہی ہے۔ اِس کے مقابلہ میں رُوحانی نشوونما میں ایک عجیب فرق ہے۔ وہ قومیں جن کے اندر روحانیت ہوتی ہے اور جو دُنیا کی روحانیت کا سبق دینے کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کھڑی کی جاتی ہیں اُن کے اندر جوانی میں وہ چیز پیدا ہوتی ہے جو جسمانی نشوونما میں بڑھاپے میں ہوتی ہے۔ ان کے اندر انکسار بڑھا ہؤا ہوتا ہے اور اُن کی نگاہیں ہمیشہ بالا ہستی کی طرف اُٹھتی ہیں اور اُن کو یقین ہوتا ہے کہ وہی اِس کارخانے کو چلانے والا ہے۔ جوانی کا جوش ان کے اندر خود رائی اور خود پسندی پیدا کرنے کے بجائے خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کی طرف توجہ پیداکرتاہے اور یہ ایسا نمایاں فرق ہے جو دُنیا میں ہر جگہ اور ہر زمانہ میں ہمیں نظر آتا ہے۔ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ جسمانی نشوونما میں جوانی میں انسان کی نگاہیں کس طرح اپنی جسمانی طاقتوں تک ہی محدود ہوتی ہیں اور پھر بڑھاپے کے ساتھ کس طرح دماغ میں وہ تجربہ پیدا ہوتا ہے جو بیرونی اثرات اور تاثیروں کی طرف اسے متوجہ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ انسان کی طاقت کچھ بھی نہیں۔ تم روزانہ نوجوانوں اور بوڑھوں کو باتیں کرتے سُنتے ہو ۔ایک فریق کہتا ہے کہ مَیں یوں ماروں گا، کوٹوں گا، یہ کردوں گا وہ کر دوں گا مگر دوسرا کہتا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے دُنیا میں مل کر رہنا چاہئے، اِتنا جُوش نہیں دکھانا چاہئے۔ ہر جگہ ، ہر گھر، ہر خاندان، ہر حکومت اور ہر جتھے میں یہ باتیں نظر آتی ہیں۔ جوانوں کے دل میں یہ خیالات ہوتے ہیں کہ دُنیا میں کوئی ہمارے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا۔ بسا اوقات مقابل کی طاقتوں کو وہ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں حالانکہ انہیں حقیقی طاقت حاصل نہیں ہوتی۔ مجرم کس لئے حکومتوں سے ٹکراتے ہیں؟ اِسی لئے کہ ان کی نگاہیں اپنے سے اوپر جاتی ہی نہیں نہ وہ پولیس کی پرواہ کرتے ہیں، نہ مجسٹریٹ کی اور نہ حکومت کے دوسرے اداروں اور اُس کی فوجوں کی۔ وہ جُوش میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا مقابلہ کون کر سکتا ہے؟ ایک جنون کی حالت اُن کے اندر پیدا ہوتی ہے ۔ اُن کے اندر جب جوانی کے آثار پیدا ہوتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری طاقت ساری دُنیا کو تباہ کر دے گی لیکن جب جوانی کی یہ حالت نہیں رہتی تو ہوش آتا ہے اور وہ پچھتاتے ہیں۔ لوگ آپس میں لڑتے ہیں ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں۔ کوئی روکتا ہے تو کہتے ہیں کہ نہیں ہمیں چھوڑ دو ہم مریں گے یا ماردیں گے لیکن جب کوئی قتل ہو جاتا ہے اور مقدمات بنتے ہیں تو پھر وکیلوں کے آگے ناک رگڑتے ہیں، جائدادیں فروخت کر کے مقدمات کی پیروی پر لگا دیتے ہیں۔ جس وقت کوئی ایسا شخص لڑنے کے لئے جارہا ہوتا ہے اُس وقت اُس کی دماغی کیفیت اَور ہوتی ہے مگر جب پکڑا جاتا ہے اُس وقت اَور ہوتی ہے۔ لڑائی کے وقت تو وہ کہتا ہے کہ مَیں کسی کی پروا نہیں کرتا۔ وہ کس قدر غصّہ کے ساتھ ہر نصیحت کو ٹھکرا دیتا ہے لیکن جب پکڑا جاتا اور حوالات میں بند ہوتا ہے تو پھر بے انتہا مِنّت سماجت کرتا اور پوچھتا ہے کیوں وکیل صاحب مَیں بچ جاؤں گا؟ وہ رشتہ داروں کی مِنتیں اور خوشامدیں کرتا ہے اور اُن سے کہتا ہے کہ جھوٹے گواہ بناؤ اور جس طرح بھی ہو سکے مجھے بچاؤ۔ دیکھو! اِن دونوں کیفیات میں کتنا فرق ہے۔
تو جسمانی نشوونما میں بڑھاپے کے وقت جو کیفیت ہوتی ہے وہ روحانی نشوونمامیں جوانی کی حالت میں ہوتی ہے۔ روحانی جماعت پر جب جوانی کی حالت ہو اُس وقت اس میں زیادہ انکسار ہوتا ہے اور جب اس میں اضمحلال پیدا ہو اُس وقت اس کے اندر خود پسندی اور خود رائی پیدا ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت کو دیکھ لو، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جماعت کو دیکھ لو، رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہ کو دیکھ لو، سب کی یہی حالت تھی۔ جب وہ اپنے انبیاء کی صحبت میں اپنے اندر وہ قوتیں پیدا کر رہے تھے جن سے وہ دنیاکو کھا جانے والے تھے اُس وقت ان میں غیظ و غضب کے بجائے انکسار اور فروتنی پائی جاتی تھی جو جسمانی نشوونما کے وقت میں نہیں پائی جاتی۔ وہ خدا تعالیٰ سے ڈرتے تھے اورخیال کرتے تھے کہ نہ معلوم انجام کیا ہونے والا ہے۔ انہیں خدا تعالیٰ کے وعدوں پر اعتبار تھا مگر یہ ان میں تکبر اور بڑائی پیدا نہ کرتا تھابلکہ اِس کی وجہ سے اُن کی قربانیاں بڑھتی تھیں، اُن کی زبانیں زیادہ دعوے نہیں کرتی تھیں اور اُن کے دل نڈر نہیں تھے بلکہ خدا تعالیٰ کے خوف سے بھرے ہوئے تھے اور یہی ثبوت تھا اِس بات کا کہ وہ خدا تعالیٰ کی جماعت تھے۔ جسمانی جوانی کے وقت انسان دوسری طاقتوں کو بھُول جاتاہے اور متکبر اور خود پسند ہو جاتا ہے لیکن روحانی طاقت جتنی بڑھتی ہے اُتنا ہی زیادہ انکسار بڑھتا ہے۔ روحانیت کی جوانی عرفان سے وابستہ ہوتی ہے اِس لئے وہ انسان کے اندر انکسار کو بڑھاتی ہے۔ اِس کا تجربہ جوانی میں بڑھتا ہے مگر جسمانی نشوونما کا تجربہ بڑھاپے میں بڑھتا ہے۔ روحانیت میں وہ کیفیتیں جوانی میں پیدا ہوتی ہیں جو جسمانیت میں بڑھاپے میں ہوتی ہیں۔ جسمانی طور پر جو شخص جوان ہو اُس کے اندر خود پسندی اور تکبر پیدا ہوتا ہے لیکن روحانی طور پر جو جماعت بوڑھی ہو جائے اُس کے اندر یہ کیفیتیں پیدا ہوتی ہیں۔ جسمانی طور پر جو کمزور ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ دُنیا میں اور اثرات بھی ہیں جو دُنیا میں کام کر رہے ہیں۔ کوئی بالا طاقت ہے جو کام کر رہی ہے اور دُنیا میں جو نتائج پیدا ہو رہے ہیں وہ صرف میرے کاموں سے ہی نہیں اِس میں میرے دوستوں بلکہ دُشمنوں کا بھی دخل ہے۔ اِس میں اتفاقات کا بھی خواہ وہ صحیح ہوں یا غلط دخل ہے، سورج اور چاند کے اثرات کا بھی دخل ہے، ماحول کا بھی اثر ہے، حکومت کا بھی اثر ہے لیکن جوان اِن سب باتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جو مَیں چاہوں گا وہی ہوجائے گا مگر روحانی سلسلوں کی حالت اِس سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ جوانی کے وقت میں ان کی نظریں وسیع ہوتی ہیں۔ خدا تعالیٰ پر ان کا توکّل بڑھا ہؤا ہوتا ہے، انہیں اپنی قوتوں کا صحیح اندازہ ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری کوششوں سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ دُنیا میں جو تغیر پیدا ہوسکتے ہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہو سکتے ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کی حالت ایسی انکساری کی تھی کہ اُن کے نفس بالکل مرے ہوئے تھے لیکن جب یزید کے وقت میں ان کے اندر اضمحلال کے اثرات پیدا ہوئے تو اُن کے مُنہ سے ایسے ایسے اقوال سُننے میں آئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی روحانی جماعتوں میں بھی ایسے دَورے ہوتے ہیں مگر وہ عارضی ہوتے ہیں۔ مکّہ کے لوگ اسلام میں نئے نئے داخل ہوئے تھے اِس لئے اُن پر ابھی روحانی لحاظ سے جوانی نہ آئی تھی اور وہ اِس سے کورے تھے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو جنگ پیش آگئی اُنہوں نے کہا کہ ہم بھی اِس میں شریک ہوں گے اور بتائیں گے کہ ہم کیسے بہادر ہیں لیکن جب جنگ شروع ہوئی اور دُشمن نے دو طرف سے تیر برسانے شروع کئے تو وہ سرپر پاؤں رکھ کر ایسے بھاگے کہ اُن کو پتہ ہی نہ رہا کہ کدھر جا رہے ہیں؟ اُن کے بھاگنے کی وجہ سے صحابہ کے اونٹ اور گھوڑے بھی ڈر کر ایسے بھاگے کہ بے قابو ہو گئے اور اِس لئے صحابہ بھی بغیر ارادہ کے بھاگنے لگے۔ ۱؎ یہ نظارہ اﷲ تعالیٰ نے اِس لئے دکھایا کہ تا بتائے کہ روحانی جوانی اور بڑھاپے میں کیا فرق ہے؟ نئے داخل ہونے والوں میں بَڑ مارنے کی عادت تھی مگر صحابہ میں یہ بات نہ تھی۔ مُنہ کی بکواس اُن لوگوں میں ہوتی ہے جن میں روحانی جوانی نہیں ہوتی۔ ایسے ہی لوگوں میں اپنی طاقت پر گھمنڈ اور غرور ہوتا ہے۔
پس ہماری جماعت میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اِس معیار کے مطابق اپنی ایمانی حالت کا اندازہ کر سکتا ہے جو دیکھے کہ اس کے اندر غرور اور تکبّر ہے، وہ سمجھ لے کہ اُس کی روحانیت کمزور ہے اور اُس پر بڑھاپے کی کیفیت ہے۔ بڑھاپے میں عقل خراب ہو جاتی ہے، جسمانیت میں بعض اوقات ایسے بوڑھے لوگ بھی جن کے ہاتھ رعشہ سے کانپ رہے ہوتے ہیں، طاقت بالکل جواب دے چکی ہوتی ہے مگر غصّہ آتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم بتا دیں گے، ہڈیاں چبالیں گے۔ حالانکہ ان سے کھڑا بھی نہیں ہؤا جاتا ۔ یہ جنون کی حالت ہے جس کے اندر یہ حالت پیدا ہو وہ سمجھ لے کہ اُس کے اندر روحانی زندگی باقی نہیں۔جس کے اندر زندگی موجود ہو وہ کام کیا کرتا ہے، زبانی دعوے نہیں کیا کرتا۔ اس کے اندر انکسار ہوتا ہے وہ اپنی طاقت اور اُس کی حدود کو سمجھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ جو کچھ کرنا ہے اﷲ تعالیٰ نے ہی کرنا ہے میرے اندر جو طاقت ہے وہ بھی دراصل اﷲ تعالیٰ کی طاقت کا انعکاس ہے۔ کیا پتہ ہے کہ اگر مَیں کام کرنے لگوں تو اﷲ تعالیٰ اپنا مُنہ مجھ سے پھیر لے اور مَیں اُس کے مقابل نہ رہوں۔ اِس لئے وہ کبھی گھمنڈ اور غرور نہیں کرتا کیونکہ گھمنڈ اپنی چیز پر ہوتا ہے لیکن جو سمجھتا ہے کہ جو کچھ ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ گھمنڈ کیسے کر سکتا ہے؟
پس مومن کو ہمیشہ جھوٹے وعدوں سے بچنا چاہئے کہ یہ قوم کی تباہی کا موجب ہوتے ہیں۔ اِن کی وجہ سے بسا اوقات قوم ایسا اقدام کر بیٹھتی ہے کہ جو اِس کی طاقت سے باہر ہوتا ہے۔ ایسے لوگ ہمیشہ کام کو خراب کرنے والے ہوتے ہیں۔ مَیں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ مجلس شوریٰ کے موقع پر یا جب میں تحریک جدید کا اعلان کرتا ہوں تو بعض لوگ ایسے وعدے کر دیتے ہیں اورایسے ایسے دعوے کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔
ایک دفعہ مجلس شوریٰ میں ایک شخص نے تقریر کی کہ جماعت میں فلاں فلاں کمزوریاں پائی جاتی ہیں ہمیں ان کا اِس اِس طرح مقابلہ کرنا چاہئے۔ ہمیں یہ کرنا چاہئے، وہ کرنا چاہئے۔ اُس وقت اس جماعت کے جس کا وہ فرد تھا ایک بزرگ وہاں بیٹھے تھے اُس شخص کے بعض سوالات تھے جن کے متعلق مَیں نے اس بزرگ سے پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ اس شخص نے چھ سال سے کوئی چندہ نہیں دیا۔
تو ایسے دعوے ایمانی کمزوری کی علامت ہوتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل طب کے متعلق ایک لطیفہ سُنایا کرتے تھے کہ ایک مشہور طبیب کے پاس ایک دفعہ ایک بوڑھا شخص آیا اور اُس نے کہا کہ مجھے کھانسی کی شکایت ہے۔ وہ شخص بہت بوڑھا تھا۔ ایسا بوڑھا جسے گور کے کنارے کہا جاتا ہے۔ طبیب نے اُسے کہا کہ آپ کی یہ کھانسی عمر کا تقاضا ہے کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اب اُس کی کھانسی کے علاج کا وقت نہیں۔ اِس پر اُس نے کہا کہ کچھ حرارت بھی رہتی ہے۔ طبیب نے کہا یہ بھی تقاضائے عمر ہے۔ اُس نے کہا کہ قبض بھی رہتی ہے۔ طبیب نے کہا کہ یہ بھی عمر کا تقاضا ہے۔ پھر اُس نے کہا کہ مجھے کھانا نہیں ہضم ہوتا اور اِس پر بھی طبیب نے یہی کہا کہ یہ بھی عمر کا تقاضا ہے۔ اِس نے کہا نیند نہیں آتی اور طبیب نے پھر یہی کہا کہ یہ بھی عمر کا تقاضا ہے۔ اس نے اِسی طرح پانچ سات بیماریاں بتائیں اور طبیب نے ہر ایک کے متعلق یہی جواب دیا۔ اِس پر بوڑھا بے تحاشا گالیاں دینے لگا اور کہنے لگا کہ بڑے طبیب بنے پھرتے ہو طبیب عقلمند تھا اُس نے اُن گالیوں پر بھی یہی جواب دیا کہ یہ بھی تقاضائے عمر ہے۔ تو اِس قسم کی حالتیں انسانی کمزوری کی دلیل ہوتی ہیں۔ مُنہ کے دعوے اپنے اندر کوئی خوبی نہیں رکھتے۔ ایسے دعوؤں سے بسااوقات لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ بڑا مفید وجود ہے لیکن یہ صحیح نہیں۔ حقیقتاً ایسے دعوے کمزوری کی علامت ہوتے ہیں طاقت کی علامت نہیں۔ اِس بوڑھے کا حکیم کو گالیاں دینا اِس کی کسی طاقت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ بڑھاپے کی کمزوری کی وجہ سے تھا۔ روحانی جماعتوں میں جو لوگ ایسے دعوے کرتے ہیں اُن میں بھی روحانی طور پر بڑھاپا ہوتا ہے یا پھر اُن پر جوانی آئی ہی نہیں ہوتی۔ وہ ہمیشہ بچے ہی رہتے ہیں۔ بعض لوگ ہمیشہ بچّے ہی رہتے ہیں اور اُن پر جوانی آتی ہی نہیں اوربعض بوڑھے ہو چکے ہوتے ہیں اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے ۲؎کی دُعا سکھائی ہے کہ یا اﷲ روحانی جوانی آنے کے بعد پھر بڑھاپا نہ آئے۔ کیونکہ جو اچھے دن دیکھ چُکا ہو اُس کے لئے خرابی کے دن بہت تکلیف کا موجب ہوتے ہیں۔ اِسی طرح خدا تعالیٰ سے ایک دفعہ تعلق ہونے کے بعد اِس سے دوری بہت زیادہ افسوس کا موجب ہوتی ہے۔ مجھے جماعت کے ایک آدمی کا علم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت اچھا مخلص تھا اور قربانی کا بھی اِسے موقعہ مِلا مگر اِس کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی شامت مقدر تھی اور اِس نے آخری زمانہ میں چندہ بلکہ نمازیں بھی چھوڑ دیں اور اگر کوئی نصیحت کرتا تو کہتا کہ ہم نے بڑی قُربانیاں کی ہیں اب کوئی ضرورت نہیں۔ تو یہ رُوحانی بڑھاپا ہوتا ہے اور زبانی دعوے کرنے والے دراصل اپنی روحانی کمزوری کا اظہار کرتے ہیں۔ مومن جو کچھ مُنہ سے کہتا ہے اُس سے زیادہ کر کے دکھاتا ہے مگر مَیں نے دیکھا ہے کہ مجلس شوریٰ یا تحریک جدید میں بعض لوگ بڑی بڑی باتیں بناتے ہیں مگر بعد میں ایسے خاموش ہو جاتے ہیں کہ کوئی وجہ بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ بعض تو بے شک اخلاص سے جو قُربانی کرنی ہوتی ہے کر دیتے ہیں اور جو وعدہ کرتے ہیں اُس کے ایسے پابند ہوتے ہیں کہ یا ددہانی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی لیکن بعض زبانی دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن انہیں پورا نہیں کرتے۔
پس مومن کو چاہئے کہ اپنے نفس کا مطالعہ کرتا رہے اگر تو اُس کے زبانی دعوے زیادہ ہیں اور عمل سُست ہے تو وہ سمجھ لے کہ روحانی بڑھاپا شروع ہو چکا ہے یا جوانی آئی ہی نہیں اور ایسے لوگ یاد رکھیں کہ وہ جماعت کی طاقت کا موجب نہیں ہوتے بلکہ اُس کی کمزوری کا موجب ہوتے ہیں۔ ہر سال مجلس شوریٰ اور تحریک جدید کے اعلان کے موقع پر مَیں نے تجربہ کیا ہے کہ کچھ لوگ زبانی دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر عمل میں بہت کمزوری دکھاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے دعووں کی وجہ سے بسا اوقات اندازے غلط ہو جاتے ہیں۔مجلس شوریٰ جب ختم ہوتی ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب تمام مالی مُشکلات دُور ہو جائیں گی مگر اُن کے جانے کے بعد کچھ پتہ ہی نہیں رہتا کہ وہ وعدے کہاں گئے؟ اور وعدے کرنے والے کہاں گئے؟ اِسی طرح تحریک جدید میں مَیں دیکھتا ہوں ایک بڑا حصّہ تو بے شک اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے لیکن ایک حصّہ ایسا بھی ہے جو اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرتا اور وعدہ کرنے کے بعد ایسا خاموش ہو جاتا ہے کہ گویا اُس نے کوئی وعدہ کیا ہی نہ تھا اور جب مَیں سیکرٹریوں سے پوچھتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ دس دس خط لکھے ہیں لیکن کسی کا جواب نہیں آیا۔ جب مَیں دوبارہ اعلان کرتا ہوں تو پھر ان کی چِٹھیاں آنے لگتی ہیں کہ ہمارا وعدہ قبو ل کر لیا جائے اور گزشتہ وعدوں کے متعلق بعض تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے کسی نے مانگا ہی نہیں یا بعض کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں کسی نے یاد نہیں کرایا، بعض کہتے ہیں کہ پچھلی مرتبہ بڑی غلطی ہو گئی اب ہم پچھلا بھی پورا کریں گے اور اِس سال کا بھی۔ حالانکہ جب مَیں کہتا ہوں کہ جو چاہے وعدہ کرے اور جو چاہے نہ کرے تو خواہ مخواہ گنہگار بننے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر وہ وعدہ کرتے وقت تو کہتے ہیں کہ اگر یہ قبول نہ کیا گیا تو ہم صدمہ سے ہی مَر جائیں گے اور اِس قدر اِصرار کرتے ہیں کہ ہم بھی دھوکے میں آجاتے ہیں اور خیال کر لیتے ہیں کہ شاید اِن کے اندر ندامت پیدا ہو چکی ہے مگر اگلے سال پھر وہی حالت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ ساری زندگی وعدہ کرنے میں ہی سمجھتے ہیں ان کے پورا کرنے میں نہیں۔ تو مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ صرف وعدے کرنا اور جُوش دکھانا روحانی بڑھاپے کی علامت ہے یا اِس امر کی کہ ان پر جوانی آئی ہی نہیں بلکہ بچپن ہی کا زمانہ لمبا ہو رہا ہے اور اِس حالت پر ان کو خوش نہیں ہونا چاہئے۔قُربانی کے مطالبہ پر ان کے اندر ایک جوش پیدا ہوتا ہے اور وعدے کر لیتے ہیں مگر پورا کرنے کے وقت کئی مُشکلات اُن کے سامنے آجاتی ہیں۔ یہ خطرناک علامت ہے اور اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بیمار ہیں انہیں چاہئے کہ اپنا علاج کریں ورنہ ایسے گڑھے میں گریں گے کہ جہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہو گی اور اگرچہ ان کی طبیعت میں جوش تو آتا ہے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ایسی بات کہنی چاہئے جسے پورا کر سکیں اور پھر جب وعدہ کر لیتے ہیں تو خواہ کیسی مُشکلات پیش آئیں اُسے پورا کر کے چھوڑتے ہیں۔ تو سمجھ لیں کہ ان کے اندر روحانیت موجود ہے جسے بڑھانے سے وہ اِس مقام پر پہنچ سکتے ہیں کہ جہاں پہنچ کر انسان کا اﷲ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو سکتا ہے۔
اِس سال مَیں جماعت کو خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں آج مجلس شوریٰ کا آغاز ہو گا اور انہیںیہ بات مدّ نظر رکھنی چاہئے کہ جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چُکا ہوں یہ ایک دو سال جماعت پر خاص بوجھ کے ہیں۔ اِس لئے دوستوں کو خاص طور پر قُربانی کرنی چاہئے اور اِس کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ عورتوں اور بچوں میں جلسے کئے جائیں اور اُن کو سلسلہ کی ضروریات اور مُشکلات بتا کر اپنا ہم خیال بنایا جائے کیونکہ جب تک وہ ہم خیال نہ ہوں گے دوست اپنے وعدے پورے اور اپنے فرض ادا نہیں کر سکیں گے۔ مجھے سخت تعجب ہے کہ گو تحریک جدید کا یہ دَور نہایت اہم تھا اور ایک ایسا دَور تھا جس میں نئی زندگی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اور اِس مضمون کو مَیں نے اچھی طرح واضح کر دیا تھا مگر میرے تعجب کی کوئی حد نہ رہی جب مَیں نے دیکھا کہ وعدوں پر چار ماہ گزرنے کے باوجود اب تک صرف سولہ ہزار روپیہ وصول ہؤا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ صرف چار ہزار روپیہ ماہوار آرہا ہے حالانکہ وعدے ایک لاکھ چھبیس ہزار کے ہیں اور ابھی بیرونی ممالک کے وعدے آئے نہیں جنہیں مِلا کر اُمید ہے کہ ایک لاکھ تیس ہزار کے وعدے ہوجائیں گے مگر اِس وقت تک وصول صرف سولہ ہزار ہؤا ہے حالانکہ سال کا تیسرا حصّہ گزر چُکا ہے۔ مجھے معلوم ہؤا ہے کہ جماعتیں کہتی ہیں کہ اِس وقت خلافت جوبلی فنڈ اور بجٹ پورا کرنے کی طرف متوجہ ہیں مگر جب مَیں نے بجٹ کے اعداد و شمار منگوا کر دیکھے تو معلوم ہؤا کہ ۳۰؍مارچ کو ختم ہونے والے ہفتہ میں ساڑھے تین ہزار کی آمدہوئی ہے جس میں گزشتہ سال کی نسبت تین ساڑھے تین ہزار کی کمی ہے اور جوبلی فنڈ میں گزشتہ ماہ میں صرف پانچ ہزار کی آمد ہوئی ہے اور اِس میں سے اگر وہ تین ہزار نکال دیئے جائیں جو چندہ میں سے کم ہیں تو گویا جوبلی فنڈ کی وصولی دو ہزار کی رہ جاتی ہے اور اِسے اگر تحریک جدید کی آمد میں کمی کے مقابلہ پر رکھا جائے تو اِس کے یہ معنی ہوں گے کہ جماعت نے آٹھ دس ہزار روپیہ کم دیا ہے اور کہہ یہ دیا کہ ہم وصولی کر رہے ہیں اور کام میں لگے ہوئے ہیں لیکن کام یہ کیا ہے کہ ایک مدّ میں کمی کر کے دوسری میں دے دیا۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص ایک جیب سے نکال کر دوسری میں ڈال دے۔
مَیں نے آج سے چار سال پہلے بھی یہ بتایا تھا کہ عورتوں اور بچوں کی مدد کے بغیر یہ قُربانی نہیں کی جاسکتی۔ جب تک وہ کفایت شعاری اور سادہ زندگی کا وعدہ نہ کریں کبھی کامیابی نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے اٹھنّی میں سے روپیہ نکالنے کا تو کوئی گُر نہیں بنایا۔ آٹھ آنہ میں سے آٹھ آنہ خرچ کر کے بھی کوئی شخص اگر یہ چاہے کہ دو آنہ کسی اور کو بھی دے دے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کسی کو دو آنے دینے والا جب تک اپنے خرچ میں کمی کر کے اُسے چھ آنہ پر نہیں لے آتا اپنے وعدہ کو پورا نہیں کر سکتا اور آٹھ آنہ میں سے آٹھ آنہ ہی خرچ کرنے کے بعد بھی جو کسی کو دو آنہ دینے کا وعدہ کرتا ہے وہ جھوٹا اور فریبی ہے مخلص نہیں۔ وہ خدا تعالیٰ کو بھی اور سلسلہ کو بھی دھوکا دیتا ہے۔ پس قُربانی کے لئے یہ امر اشد ضروری ہے کہ عورتوں اور بچوں کو اپنا ہم خیال بنایا جائے۔ مَیں نے اِس امر کی طرف کئی بار توجہ دلائی ہے مگر افسوس کہ اِس طرف توجہ نہیں کی گئی بلکہ ان کو یہ تحریک پہنچائی ہی نہیں گئی۔ حتّٰی کہ اِس سال ایک اچھی بڑی اور مخلص جماعت کی عورتوں نے حلفیہ بیان کیا کہ پچھلے سالوں میں ہمارے مردوں نے ہمیں بتایا ہی نہیں کہ ایسی تحریک جاری ہے۔ یہ اچھی بڑی جماعت ہے اور سَو ڈیڑھ سَو افراد پر مشتمل ہے مگر اِس کی عورتوں نے حلفاً بیان کیا ہے کہ انہیں اِس تحریک سے آگاہ ہی نہیں کیا گیا۔ تو جو لوگ ایسے سُست ہوں وہ کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں؟ کامیابی اِسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ عورتیں اور بچے ہمارے ہم خیال ہوں۔ جب تک ہمیں پیچھے کھینچنے والی کوئی چیز ہے ہم آگے کس طرح جاسکتے ہیں۔ ہم جب آگے قدم اُٹھائیں گے ہمارے بیوی بچے پیچھے سے کھینچیں گے کہ اِدھر آؤ مگر افسوس ہے کہ میری اِس تجویز پر عمل نہیں کیا گیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے دوست ایسی گھبراہٹ میں ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ اگر وہ وعدے کریںتو مُشکل ہے اور نہ کریں تو مُشکل ہے۔ حالانکہ یہ سب باتیں مَیں نے شروع میں ہی بتا دی تھیں اور اِس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے بتائی تھیں کہ آئندہ ہمارے لئے قُربانیوں کا وقت آنے والا ہے اور اِسی لئے مَیں نے امانت کی بھی تحریک کی تھی اور جن لوگوں نے اِس پر عمل کیا ۔ وہ اپنے وعدے اچھی طرح پورے کر سکے ہیں۔ مَیں جانتا ہوں کہ ایک غریب دوست نے جن کی آمد بارہ چودہ روپیہ ماہوار سے زیادہ نہیں سَو روپیہ چندہ دے دیا اور یہ اس طرح کہ وہ ہر ماہ تین روپیہ امانت فنڈ میں جمع کراتے گئے اور اِس طرح چار سال میں سَو سے اوپر روپیہ جمع کر لیا اور اب بھی کئی لوگ جو امانت فنڈ میں روپیہ جمع کراتے رہے چندے آسانی سے ادا کرنے کے قابل ہو گئے ہیں جبکہ ان سے کئی گُنا زیادہ تنخواہیں پانے اور آمد رکھنے والے ابھی اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہیں۔ کئی دوستوں نے مجھے لکھا ہے کہ ہم دس دس اور پندرہ پندرہ سال سے مکان بنانا چاہتے تھے مگر نہ بناسکے تھے لیکن اب اِس تحریک کے ذریعہ مکان بنانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ تو چندوں کی ادائیگی میں آسانیوں کے علاوہ اِس کے اور بھی فوائد تھے لیکن دوستوں نے اِس کی طرف پوری توجہ نہیں کی اور خیال کر لیا کہ وقت پر کچھ نہ کچھ انتظام ہو ہی جائے گا اور خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی صورت پیدا کر دے گا لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ بھی اُنہی کی مدد کرتا ہے جو خود اپنی مدد کرتے ہیں۔ جو تلعُّب کرتا ہے خدا تعالیٰ اُس کی مدد کبھی نہیں کرتا۔ پس مَیں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ غلط وعدے نہ کیا کریں اور دوسرے آج کا کام کَل پر کبھی نہ چھوڑا کریں۔ یہ نہایت ہی خطرناک بات ہے۔ بعض لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ کل کر دیں گے مگر وہ کل کبھی نہیں آتا اور چندہ ادا ہی نہیں ہوتا۔ ابھی پچھلے سال کے وعدوں میں سے بارہ ہزار کے قریب قابلِ ادا ہیں۔ حالانکہ مارچ ختم ہوچُکا ہے اور اپریل شروع ہے اور یہ بقایا معافیوں کو نکال کر ہے۔ نیز ان وعدوں کو نکال کر جن کے کرنے والے فوت ہو چکے ہیں۔ ورنہ یہ رقم بہت بڑھ جاتی ہے۔ جس رفتار سے اب گزشتہ سال کے وعدے پورے ہو رہے ہیں اس سے تو دو تین سال میں بھی یہ بقایا پورا ہونا مُشکل ہے۔ آجکل گزشتہ بقایا کی آمد دس پندرہ روپیہ روزانہ کی ہے اور کسی دن کچھ بھی نہیں ہوتی۔ اِس حساب سے یہ وعدے دو تین سال میں بھی پورے ہونے مُشکل ہیں اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ آخر میں ادا کر دیں گے حالانکہ بقایا ہمیشہ ان لوگوں کے ذمہ ہی رہتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ آخر میں دے دیں گے۔ مَیں نے یہ واقعہ پہلے بھی کئی دفعہ سُنایا ہے کہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک جنگ پر جانے کا اعلان فرمایا تو ایک صحابی نے جو مالدار تھے خیال کیا کہ مَیں مالدار ہوں تیاری جب چاہوں گا کر لوں گا۔ آخر کوچ کا دن آگیا اور اُنہوں نے دیکھا کہ سامان تیار نہیں تو پھر دل کو تسلی دے لی کہ مَیں کل تیاری کر کے جاملوں گا مگر دوسرے دن اور مُشکل پیش آگئی اور بات تیسرے دن پر جاپڑی۔ تیسرے دن تیارہؤا تو اُدھر آنے والے قافلوں سے معلوم ہؤا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کئی کئی منزلوں کا کوچ کرتے ہوئے دور تک نکل گئے ہیں اور اب آپ سے ملنا نا ممکن ہے اور وہ سفر سے رہ گئے اور اِس وجہ سے وہ اِس سزا کے مستحق ہوئے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں غیر معمولی تھی۔ یعنی اِن کا مقاطعہ ہؤا۔ حتّٰی کہ ان کی بیوی کو بھی ان سے کلام کرنے کی ممانعت کر دی گئی۔ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو جواب طلبی کے لئے اُن کو بُلایا۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے میرے نفس نے مجھے دھوکا دینا چاہا اور مَیں نے خیال کیا کہ کوئی بہانہ بنا دوں مگر جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس گیا تو اُن لوگوں سے جو پہلے سے وہاں موجود تھے دریافت کیا کہ مجھ سے پہلے کن کن لوگوں کی جواب طلبی ہوچکی ہے؟ اُنہوں نے بتایا کہ فلاں فلاں کی۔ اُنہوں نے پوچھا کہ پھر اُن سے کیا سلوک ہؤا ہے ؟ اُنہوں نے بتایا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن میں سے دو کو تو ٹھہرا لیا اور فرمایا ہے کہ تمہارا فیصلہ بعد میں ہو گا اور باقیوں کے لئے ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگی ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمہیں معاف کرے۔ وہ صحابی کہتے ہیں کہ جن کو ٹھہرایا گیا تھا وہ مومن تھے اور جن سے فرمایا کہ جاؤ اﷲ تعالیٰ تمہیں معاف کرے وہ منافق تھے۔ اِس پر مَیں نے کہا کہ خواہ کوئی سزا ملے مَیں اپنے آپ کو منافقوں میں شامل نہیں کروں گا۔ اِس لئے مَیں نے جاکر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور اقرار کر لیا کہ میرا قصور ہے اور مجھ سے سُستی ہوئی۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے بھی فرمایا کہ ٹھہرو تمہارا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ پھر آپ نے مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ کوئی شخص ان سے کلام نہ کرے۔ پھر کچھ دنوں کے بعد اس حُکم کو اَور بھی سخت کر دیا اور فرمایا کہ ان کی بیویاں بھی اِن سے کلام نہ کریں اور ظاہر ہے کہ ایک ایسے شہر میں جہاں مسلمان ہی مسلمان بستے تھے یہ سزا کتنی بڑی سزا تھی۔ مدینہ میں یہودی بھی تھے مگر اُن کی بستیاں مدینہ سے کچھ فاصلہ پر الگ تھیں۔ یہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ مَیں اپنے ایک رشتہ دار کے پاس گیا جو میرا چچیرا بھائی تھا اور ہماری باہمی محبت بہت زیادہ تھی حتّٰی کہ کھانا بھی اکٹھا ہی کھایا کرتے تھے۔ مَیں اُن کے پاس گیا وہ باغ میں کام کر رہے تھے۔ مَیں وہاں گیا اور جا کر کہا کہ مجھے جو سزا ملی ہے وہ تو ملی ہی ہے مگر تم یہ تو جانتے ہی ہو کہ مَیں منافق نہیں ہوں اور جو کچھ ہؤا ہے غلطی سے ہؤا ہے لیکن بجائے اِس کے کہ وہ مجھے کوئی جواب دیتا اُس نے آسمان کی طرف مُنہ اُٹھا کر کہا اﷲ اور اُس کا رسول بہتر جانتا ہے۔ یہ دیکھ کر مجھ پر ایک جنون کی سی کیفیت طاری ہو گئی اور مَیں وہاں سے چلا آیا۔ دروازہ کی طرف جانے کا بھی خیال نہ رہا اور دیوار سے کُود کر ہی باہر آگیا اور شہر کی طرف آیا۔ ابھی شہر میں داخل ہو رہا تھا کہ ایک شخص نے کسی اجنبی کو میری طرف اشارہ کر کے بتایا وہ اجنبی میرے پاس آیا اور مجھے ایک خط دیا۔ مَیں نے کھولا تو وہ غسّان قبیلہ کے بادشاہ کا تھا اور اُس میں لکھا تھا کہ تم اپنی قوم کے بڑے معزز آدمی ہو اور مَیں نے سُنا ہے کہ تمہارے سردار محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم)نے تمہارے ساتھ بُرا سلوک کیا ہے اور بے عزتی کی ہے۔ دراصل وہ شریفوں سے سلوک کرنا جانتے ہی نہیں تم میرے پاس آجاؤ اور یہاں تمہاری شان کے مطابق تم سے سلوک کیا جائے گا۔ مَیں نے اپنے نفس سے کہا کہ یہ شیطان کی طرف سے آخری امتحان ہے۔ پاس ایک تنور جل رہا تھا مَیں نے وہ خط اُس میں ڈال دیا اور اُس سے کہاکہ جاکر اپنے آقا سے کہہ دینا کہ تمہارے خط کا یہ جواب ہے۔ ان کی شاید یہی ادا اﷲ تعالیٰ کو پسند آگئی، رات کو سوئے، سویرے اُٹھے، نماز پڑھنے گئے اور پڑھ کر واپس آگئے۔ ان سے کوئی بولتا تو تھا نہیں اِس لئے نماز کے بعد مسجد میں بیٹھنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ رات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو الہام ہؤا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان تینوں کی سزا معاف کر دی۔ فجر کی نماز کے بعد آپ بیٹھ گئے اور اِن تین سزا یافتوں کے متعلق دریافت فرمایا کہ کیا وہ موجود ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ فلاں ہے اور فلاں نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ رات مجھے اﷲ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اِن تینوں کو اس نے معاف کر دیا۔ یہ سُنتے ہی ایک شخص گھوڑے پر سوار ہو کر اِن کی طرف دوڑ پڑا کہ خوشخبری سُنائے مگر ایک اور زیادہ ہوشیار نِکلا۔ پاس ہی ایک ٹیلہ تھا اُس نے اُس پر چڑھ کر زور سے آواز دی کہ مالک تم کو اﷲ تعالیٰ نے معاف کر دیا۔۳؎ ان کی غلطی منافقت کی وجہ سے نہ تھی اِس لئے توبہ بھی ایسی کی کہ کہا مجھ سے یہ غلطی مال کی زیادتی کی وجہ سے ہوئی تھی اِس لئے اﷲ تعالیٰ مجھے معاف کرے گا۔ مَیں اپنا سارا مال اس کی راہ میں دے دوں گا اور اِس دیانت کے ساتھ اِس وعدہ کو نباہا کہ جب معافی کی آواز آئی تو آپ نے کہا کہ مَیں یہ خوشخبری سُنانے والے کو کپڑوں کا ایک جوڑا تحفہ کے طور پر دوں گا۔ جیسا کہ ہمارے مُلک میں کہتے ہیں کہ مُنہ میٹھا کراؤں گا مگر بعد میں خیال آیا کہ مَیں نے تو سارا مال خداتعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرنے کا وعدہ کیا ہؤا ہے۔ اِس لئے اِسے کپڑوں کا جوڑا کسی دوست سے قرض لے کر دیا اور کہا کہ مَیں دوبارہ کما کر یہ قرض ادا کر دوں گا لیکن اپنے سابق مال میں سے نہ دیا کیونکہ وہ سب کا سب خدا تعالیٰ کی راہ میں دے چکے تھے۔ تو ان کو یہ سزا محض اِس لئے برداشت کرنی پڑی کہ اُنہوں نے خیال کر لیا کہ مَیں کل چلا جاؤں گا۔ اگر وہ پہلے ہی دن چلے جاتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا بلکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رضا اور ثواب حاصل کر سکتے توبہت سے لوگ اِس لئے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ خیال کر لیتے ہیں کہ کل کر لیں گے۔ حالانکہ کون کہہ سکتا ہے کہ کل موقع ملے یا نہ ملے۔ اِس لئے جب بھی موقع ملے فوراً اِس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ پس مَیں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وعدے سوچ کر کیا کریں اورجب وعدہ کیا کریں تو اُس کے پورا کرنے میں دیر نہ کیا کریں۔ نماز کے بعد اب وہ شوریٰ میں بیٹھیں گے پھر بجٹ پیش ہو گا اور پھر کئی کہیں گے کہ یہ کیا مُشکل ہے؟ مگر اِس کے بعد وہ چُپ چاپ گھروں کو چلے جائیں گے اور اِس کے پورا کرنے کے لئے کوئی حقیقی جدوجہد نہ کریں گے۔
اِس کے علاوہ تحریک جدید کے متعلق بھی مَیں پھر توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اِس سے سلسلہ کی ترقی اور اشاعت کی ایک عظیم الشان بنیاد رکھی جا رہی ہے اور جو اِس میں حصّہ لیں گے وہ ہمیشہ کے لئے عظیم الشان ثواب کے مستحق ہوں گے۔ اِس لئے اِس کے وعدوں کو بھی پورا کریں لیکن یہ یاد رکھیں کہ جب تک عورتوں اور بچوں کو ساتھ نہ ملایا جائے گا قُربانی مُشکل ہے۔ اِس لئے ضرورت ہے کہ اِن کو بھی واقف کیا جائے تا وہ تمہارا ہاتھ بٹاسکیں اور ہر فرد کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جلد از جلد وعدہ پورا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کل پر ڈال دیا جائے اور اِس طرح یہ کبھی بھی پورا نہ ہو سکے۔ نیت اور ارادہ کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ہو تو پھر شوریٰ بھی بابرکت ہو سکتی ہے اور تحریک جدید بھی مُفید نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ مومن کی نیت خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کا موجب ہوتی ہے۔ پس دل میں پختہ ارادہ کر لو کہ اﷲ تعالیٰ مومن کے ارادوں کے پورا ہونے کے سامان خود بخود کر دیتا ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک دفعہ ایک مقدمہ پیش ہؤا۔ ایک عورت سے دوسری کا دانت ٹوٹ گیا تھا جس سے دانٹ ٹوٹا وہ ایک مخلص اور قُربانی کرنے والی عورت تھی۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی سفارش کی اور دوسرے شخص سے جو اپنی پھوپھی کی طرف سے پیروی کر رہا تھا فرمایا کہ اِسے معاف کر دو۔ مگر اِس نے کہا کہ یَارَسُوْلَ اﷲ! ہماری پھوپھی کا دانت توڑا گیا ہے ہم صبر نہیں کر سکتے جب تک توڑنے والی کا دانت نہ توڑا جائے۔ ہاں اگر آپ حکم دیں تو علیحدہ بات ہے ہم مان لیں گے مگر آپ نے فرمایا کہ نہیں مَیں حکم نہیں دیتا۔ یہ بات سُن کر دوسری عورت کا بھتیجا جو اُس کی طرف سے پیروی کر رہا تھا جوش میں آگیا اور کہنے لگا خدا کی قسم میری پھوپھی کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ اس کے مُنہ سے یہ الفاظ ایسے جُوش، یقین اور توکل کے ساتھ نکلے کہ دوسرے فریق کے دل میں گھر کر گئے۔ وہ کانپ گئے اور کہا یَارَسُوْلَ اﷲ! ہم معاف کرتے ہیں۔ یہ الفاظ کہنے والا غریب آدمی تھا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کے بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، کپڑے پھٹے ہوتے ہیں، جسم گرد آلود ہوتا ہے مگر جب وہ خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کوئی بات کہہ دیں تو خدا تعالیٰ اسے ضرور پورا کر دیتا ہے ۴؎تو دیکھو یہ کتنا بڑا تصرف ہے کہ جو بات وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سفارش سے ماننے پر آمادہ نہ ہوئے وہ اُس کے مُنہ سے یہ الفاظ نکلنے پر کہ خدا کی قسم میری پھوپھی کا دانت نہیں توڑا جائے گا مان گئے۔ نہ معلوم یہ الفاظ کس توکل اور اﷲ تعالیٰ سے تعلق کی بنا پر اور یقین کے ساتھ کہے گئے ہوں گے کہ اﷲ تعالیٰ کی غیرت بھی جوش میں آگئی اور اُس نے کہا کہ جب میرے بندے نے میری قسم کھاکر کہا ہے کہ میری پھوپھی کا دانت نہیں توڑا جائے گا تو مَیں بھی یہی کہتا ہوں کہ نہیں توڑا جائے گا اور جب خدا تعالیٰ کوئی بات کہے تو کس کی طاقت ہے کہ انکار کرے۔ اِس لئے دوسرے فریق نے بھی کہہ دیا کہ مَیں نے معاف کیا۔ تو مومن کی نیت بہت بڑی چیز ہے۔ پس اگر تم مومن ہو تو ایک پختہ عزم اور ارادہ اپنے اندر پیدا کرو پھر دیکھو گے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایسا فضل نازل ہو گا کہ تمام مُشکلات خود بخود دُور ہو جائیں گی۔ تمہارے ارادوں کو پورا کرنے کے لئے یا تو وہ نئے سامان پیدا کر دے گا یا پھر تمہارے حوصلے بڑھا دے گا اور تمہارا مقصد دونوں طرح حل ہو جائے گا۔ ایک بھوکے شخص کی تکلیف دور کرنے کے دو ہی علاج ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ اُس کی بھوک اُڑا دی جائے اور دوسرے یہ کہ اُسے کھانا دے دیا جائے۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا آخری سال تھا یا آپ کے بعد خلافت اولیٰ کا کوئی رمضان تھا۔ بہرحال موسم کی گرمی کے سبب یا اِس لئے کہ مَیں سحری کے وقت پانی نہ پی سکا تھا مجھے ایک روزہ میں شدید پیاس محسوس ہوئی تھی کہ مجھے خوف ہؤا کہ مَیں بے ہوش ہو جاؤں گا اور دن غروب ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ مَیں نڈھال ہو کر ایک چار پائی پر گر پڑا اور مَیں نے کشف میں دیکھا کہ کسی نے میرے مُنہ میں پان ڈالا ہے۔ مَیں نے اُسے چوسا تو سب پیاس جاتی رہی۔ چنانچہ جب وہ حالت جاتی رہی تو مَیں نے دیکھا کہ پیاس کا نام و نشان بھی نہ باقی رہا تھا۔ تواﷲ تعالیٰ نے اِس طریق سے میری پیاس بجھا دی اور جب پیاس بُجھ جائے تو پانی پینے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ غرض تو یہ ہوتی ہے کہ ضرورت پوری کر دی جائے خواہ مناسب سامان مہیا کر کے ہو خواہ اِس سے استغناء کی حالت پیدا کر کے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک شخص نے لکھا کہ دُعا کریں فلاں عورت کے ساتھ میرا نکاح ہو جائے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم دُعا کریں گے مگر نکاح کی کوئی شرط نہیں، خواہ نکاح ہو جائے خواہ اُس سے نفرت پیدا ہو جائے۔ آپ نے دُعا کی اور چند روز بعد اُس نے لکھا کہ میرے دل میں اُس سے نفرت پیداہو گئی ہے۔ اِسی طرح مجھے بھی ایک شخص نے ایسا لکھا تھا اور مَیں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سُنت میں اُسے یہی جواب دیا اور اُس نے مجھے بعد میں اطلاع دی کہ اُس کے دل سے اُس کا خیال جاتا رہا۔ پس اﷲ تعالیٰ دونوں صورتوں میں مدد کر دیتا ہے۔
پس اپنے اندر ایک پُختہ عزم پیدا کر لو اور جھوٹے وعدوں سے بچو کہ یہ یا تو روحانی بڑھاپے اور یا پھر بچپن کی علامت ہوتے ہیں۔ روحانی جوانی کے وقت انسان کے اندر انکسار، فروتنی، توکل اور معرفت پیدا ہوتی ہے اور وہ کبھی مُنہ سے ایسی بات نہیں نکالتا جسے پورا کرنے کا اُس کے دل میں عزم نہ ہو اور جب وہ کوئی بات کردیتا ہے تو ایسی پُختہ کرتا ہے کہ چاہے ہمالیہ پہاڑ اُڑ جائے مگر اُس کی بات نہیں بدلتی۔‘‘ (الفضل ۱۵؍اپریل ۱۹۳۹ئ)
۱؎ سیرت ابن ہشام جلد ۴ صفحہ ۸۴، ۸۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ئ
۲؎ الفاتحہ : ۷
۳؎ بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک
۴؎ بخاری کتاب الصلح باب الصُّلْحُ فِی الدِّیَّۃِ
۱۲
قادیان میں کوئی مرد یا عورت اَن پڑھ نہ رہے
کتابی علم کے ساتھ کوئی نہ کوئی پیشہ بھی سیکھنا چاہئے
(فرمودہ ۲۱؍اپریل۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے خدّام الاحمدیہ کے متعلق جو خطبات پڑھے تھے اُن میں ایک بات مَیں نے یہ بیان کی تھی کہ تعلیم کو عام کیا جائے۔ اِس بارہ میں مَیں نے خدّام الاحمدیہ کو کچھ عرصہ پہلے بعض ہدایات دی تھیں اور مجھے بتایا گیا ہے کہ قادیان کے دو محلّوں میں کام شروع ہے مگر مَیں چاہتا ہوں کہ یہ کام ساری قادیان میں شروع کر دیا جائے۔ دو محلّوں میں دو ماہ تک کام کرنے سے خدّام الاحمدیہ کو اِس کا تجربہ ہو چُکا ہو گا اور قادیان میں اتنے پڑھے ہوئے لوگ موجود ہیں کہ اگر یہاں کے تمام اَن پڑھوں کی تعلیم کا ہم انتظام کریں تو یہ کوئی مُشکل کام نہیں ہو گا۔ مُشکل وہاں ہوتی ہے جہاں پڑھانے والے کم اور پڑھنے والے زیادہ ہوں مگر یہاں پڑھنے والے پڑھانے والوں کا دسواں حصّہ ہیں۔ مَیں نے یہاں کے اَن پڑھوں کا جو اندازہ کرایا ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک ایک اَن پڑھ احمدی کو پڑھانے کے لئے نو نو آدمی موجود ہیں اور اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ اِن میں سے ایک حصّہ پڑھانے کے قابل نہیں کیونکہ اُن میں بچے بھی ہیں اور نوجوان بھی جن کو پڑھانے کا تجربہ نہیں ہوتا تب بھی اِس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ ایک ایک اَن پڑھ کو پڑھانے کے لئے ایک ایک آدمی بڑی آسانی سے میسّر آسکتا ہے اور ایسی صورت میں انتظار کی صرف ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ جس محکمہ کے سپرد یہ کام کیا جائے اُسے تجربہ نہ ہو مگر مَیں سمجھتا ہوں خدّام الاحمدیہ کے لئے دو تین ماہ کا تجربہ کافی ہو گا اور اِس لئے اب کوئی وجہ نہیں کہ ہم اِس کام میں تأخیر کریں۔
پس آج مَیں اعلان کرتا ہوں کہ خدّام الاحمدیہ تین دن کے اندر اندر میرے سامنے ایک سکیم پیش کرے کہ کس طرح قادیان کے سب محلوں میں ایک ہی وقت میں تعلیم کو عام کیا جاسکتا ہے؟ جیسا کہ مَیں بتا چُکا ہوں تعلیم سے میرا مقصد یہ ہے کہ قرآن ناظرہ پڑھنا آتا ہو اور لکھ پڑھ سکے اور دستخط کر سکے یعنی تھوڑا بہت لکھنا آجائے اور یہ کوئی مُشکل بات نہیں لیکن جہاں مَیں خدّام الاحمدیہ کے سپرد مَردوں کی تعلیم کا کام کرتا ہوں وہاں مَیں لجنہ کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اِس سکیم کو عورتوں میں رائج کریں اور کوشش کریں کہ ہر عورت لکھنا پڑھنا سیکھ جائے اور اِس کام میں انہیں جس قسم کی مدد کی بھی ضرورت ہو گی وہ ہم مہیا کریں گے جہاں عورتوں میں تعلیم اتنی عام ہے کہ اَن پڑھ عورتوں کو پڑھانے کے لئے انہیں مَردوں کی امداد کی ضرورت نہیں ہو گی۔ البتہ انتظامی لحاظ سے ان کو ضرورت ہو سکتی ہے جو ہم مہیاکر دیں گے لیکن اگر تعلیم کے لئے بھی ان کو ضرورت محسوس ہو تو ایسے معمَّر اور قابلِ اعتماد مردوں کا انتظام کیا جاسکتا ہے جو پس پردہ تعلیم دے سکیں مگر مَیں سمجھتا ہوں اِس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
پس مَیں خدّام الاحمدیہ کے سامنے یہ بات رکھتا ہوں کہ وہ کسی ایسی سکیم پر غور کریں جس سے تین ماہ کے اندر اندر تمام مَردوں کو تعلیم دینے کا مقصد پورا ہو سکے۔٭ اپریل کے باقی دن اگر تیاری کے لئے بھی سمجھ لئے جائیں تو مئی، جون، جولائی تین ماہ کام کے لئے ہو سکتے ہیں۔ وہ مجھے بتائیں کہ کوئی ایسی کوشش کی جاسکتی ہے یا نہیں کہ جس سے یکم اگست کو قادیان میں کوئی ایک مَرد اور کوئی عورت بھی اَن پڑھ نظر نہ آئے۔ ٭٭
جیسا کہ مَیں بتا چُکا ہوں عورتوں کی ذمّہ داری اِن پر نہیں بلکہ لجنہ پر ہے۔ اِن کے ذمہ مردوں اور دس سال سے زیادہ عمر کے بچوں کی تعلیم ہے اوروہ کوشش کریں کہ یکم اگست٭ کو کوئی مَرد اور دس سال کی عمر کا بچہ اَن پڑھ نہ رہے۔ یکم اگست ٭٭کو ہم قادیان کا عام امتحان لیں گے اور مَیں خود اِس کی نگرانی کروں گا۔ اگست *کے پہلے ہفتہ میں باری باری سب کا امتحان ہو گا اور اِن کو ثابت کرنا ہو گا کہ یہاں کوئی اَن پڑھ باقی نہیں۔ ممکن ہے بعض آدمی اِس وقت میں پڑھنا نہ سیکھ سکیں اور ایسے لوگوں سے ہم درخواست کریں گے کہ وہ پندرہ بیس روز یا مہینہ اپنا کام چھوڑکر پڑھائی میں لگے رہیں اور پڑھائی کے مقابلہ میں یہ کوئی بڑی قُربانی نہیں بلکہ بہت فائدہ بخش ہے۔ قُربانی تو دراصل پڑھانے والے کرتے ہیں پڑھنے والوں کا اپنا فائدہ ہے۔ اِس لئے جو لوگ سمجھیں کہ وہ اِس عرصہ میں لکھنا پڑھنا نہ سیکھ سکیں گے اُن کو چاہئے کہ وہ کچھ وقت اِس کے لئے وقف کر دیں اور اِس عرصہ میں کوئی اَور کام نہ کریں۔ مجھے اِس وجہ سے جلدی ہے کہ مَیں چاہتا ہوں کہ قادیان سے فارغ ہو کر ہم گاؤں کی طرف توجہ کریں۔ وہاں کام زیادہ مُشکل ہو گا کیونکہ وہاں پڑھنے والے زیادہ اور پڑھانے والے کم ہوں گے اور ضرورت ہو گی کہ ہم قادیان سے پڑھانے والے لے جاکر اِردگرد کے دیہات میں تعلیم عام کریں اور اگر ہم دو سال میں بھی اِس امر میں کامیاب ہو جائیں کہ اس وقت تک جو لوگ احمدی ہو چکے ہوں اُن میں کوئی اَن پڑھ نہ رہے۔ تو یہ ایک ایسا شاندار کام ہو گا کہ جس کی مثال ہندوستان میں نہ مل سکے گی۔ آجکل ہندوستان میں تعلیم عام کرنے کا چرچا ہو رہا ہے اور کانگرس وغیرہ ادارے بھی اِس کی طرف متوجہ ہیں۔ پہلے ہماری جماعت تعلیمی لحاظ سے سب سے آگے تھی لیکن اب چونکہ دوسرے لوگوں میں بھی تعلیم کو عام کرنے پر بہت زور دیا جارہا ہے اِس لئے خطرہ ہے کہ وہ آگے نہ نکل جائیں اور وہ مقام جو سالہاسال سے اﷲ تعالیٰ نے ہم کو عطا کر رکھا ہے وہ ہم سے چھینا نہ جائے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ ہم اِس معاملہ میں بھی دوسروں سے آگے ہی رہیں۔ کئی سال ہوئے مَیں نے تحقیقات کرائی تھی تو معلوم ہؤا کہ قادیان میں پڑھنے کے قابل لڑکیاں سوفیصدی لکھ پڑھ سکتی ہیں۔ مگر اب جو تحقیقات کرائی تو چونکہ یہاں باہر سے آکر لوگ آباد ہوتے رہتے ہیں اِس لئے اب کئی لڑکیاں اَن پڑھ موجود ہیں۔ پہلے مَرد یہاں پچاسی فیصدی تعلیم یافتہ تھے مگراب نوّے فیصدی ہیں گویا مَردوں کی تعلیم کے لحاظ سے ہم نے ترقی کی ہے لیکن لڑکیوں کی تعلیم کے لحاظ سے تنزّل ہے۔ پہلے یہاں کوئی اَن پڑھ لڑکی نہ تھی مگر اب ہیں اور مَیں چاہتا ہوں کہ ایک طرف تو ہم لڑکیوں کی تعلیم کی طرف متوجہ ہوں اور دوسری طرف مَردوں کی تعلیم کی طرف۔ اور کوشش کریں کہ دونوں سوفیصدی تعلیم یافتہ ہو جائیں۔ پہلے ہندوستا ن میں دوسرے لوگوں میں صرف دس، پندرہ یا بیس فیصدی لوگ تعلیم یافتہ تھے مگر ہمارے اسّی نوّے فیصدی تھے اب دوسروں کو تعلیم دینے کی طرف بہت توجہ کی جارہی ہے اور اگر وہ سوفیصدی تعلیم یافتہ ہوجائیں اور ہم میں جو کمی تھی وہ بدستور رہے تو یہ کتنے افسوس کی بات ہو گی۔ مومن کے اندر اﷲ تعالیٰ نے جو غیرت پیدا کی ہے وہ اِس امر کی مقتضی ہے کہ ہم سوفیصدی تعلیم والی تحریک میں پہلے نمبر پر رہیں جس طرح پہلے تھے اور کوشش کریں کہ دوسری قومیں ہم سے آگے نہ بڑھ سکیں لیکن اِس تحریک میں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک وہ لوگ ہماری مدد نہ کریں جو اَن پڑھ ہیں۔ اگر وہ خود کوتاہی کریں تو اِس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا اور مَیں نے خطبہ میں اِس کے لئے اپیل کرنے کی ضرورت اِسی لئے سمجھی ہے کہ تا سب دوستوں کو علم ہو جائے کہ ہمیں تعلیم عام کرنے کی نئی جدوجہد میں بھی اپنے پہلے مقام کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور چاہئے کہ سارے ہندوستان میں ہم لوگ ہی پہلے ہوں جن میں سو فیصدی تعلیم ہو۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری جماعت تبلیغی جماعت ہے۔ دوسری قوموں میں جب ایک دفعہ سو فیصدی تعلیم ہوجائے گی تو اِن میں نئے اَن پڑھ داخل نہیں ہوں گے۔ آئندہ انہیں صرف بچوں کی تعلیم کا انتظام کرنا ہو گا مگر ہمارے اندر ہر وقت نئے لوگ آتے رہیں گے۔ وہ اگر ایک دفعہ سَو فیصدی تعلیم کر دیں تو اِن کے لئے پھر اِس میعاد کو قائم رکھنا بہت آسان ہو گا مگر ہمارے اندر دوسری قوموں میں سے جو اَن پڑھ آتے رہیں گے اُن کے لئے ہمیشہ فکر رکھنی پڑے گی لیکن یہ چیز ہمارے لئے کسی گھبراہٹ کا موجب نہیں ہونی چاہئے۔ اِس لئے کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کو جو قوتِ عملیہ حاصل ہے گو ہمیں اِس پر تسلی نہیںلیکن وہ دوسروں سے بہت زیادہ ہے اور اُس کی موجودگی میں یہ کوئی ایسا بوجھ نہیں جو ہم اُٹھا نہ سکیں اِس کام میں جماعت کے دوسرے تجربہ کار لوگوں سے مدد لی جاسکتی ہے۔ گو چونکہ اِس کی ابتدا خدّام الاحمدیہ نے کی ہے اِس لئے مَیں چاہتا ہوں کہ اِسے ختم کر نے کا سہرا بھی اِنہی کے سر ہو مگر جماعت کے تجربہ کار لوگوں کو چاہئے کہ اِن کو مدد دیں اور مختلف علاقے مختلف لوگوں کے سپرد کر دیئے جائیں۔ مثلاً حلقہ مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ وغیرہ مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر میرمحمداسحاق صاحب کے سپرد کیا جاسکتا ہے وہ اِس معاملہ میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور کئی مرتبہ مجھ سے اِس کے متعلق گفتگو بھی کر چکے ہیں۔
اِسی طرح بعض علاقے مولوی ابو العطاء صاحب کے سپرد کئے جاسکتے ہیں اور بھی تجربہ کار لوگوں کے سپرد مختلف حلقے کر کے اِن کو کام کرنے کے لئے کارندے دے دیئے جائیں تو یہ کام سہولت سے ہو سکتا ہے۔
اِس کے علاوہ ایک زائد بات بھی میرے خیال میں ہے میرے خیال میں خالی پڑھنا لکھنا کافی نہیں بلکہ کتابی تعلیم کی نسبت عملی تعلیم کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور اِسی لئے مَیں نے تحریک جدید میں یہ بات بھی رکھی تھی کہ کوئی شخص بے ہُنر نہ رہے۔ ہر احمدی کو کوئی نہ کوئی پیشہ آنا چاہئے اور اِس لئے مَیں صرف لفظی تعلیم پر بس نہیں کروں گا بلکہ کوشش کروں گا کہ ہر فرد کوئی نہ کوئی پیشہ جانتا ہو، کوئی نجاری ، کوئی لوہار کا کام، کوئی موچی کا کام، کوئی کپڑا بُننا اور کوئی معماری وغیرہ جانتا ہو۔ غرضیکہ ہر شخص کوئی نہ کوئی پیشہ اور فن جانتاہو۔
اِسی طرح بعض اَور باتیں جو عملی زندگی میں کام آنے والی ہیں وہ بھی سیکھنی چاہئیں۔ مَیں انہیں کھیلیں نہیں بلکہ کام ہی سمجھتا ہوں مثلاً گھوڑے کی سواری، تیرنا، کشتی چلانا اور تیر اندازی وغیرہ ہیں۔ ہر احمدی کوشش کرے کہ اِن میں سے کوئی نہ کوئی کام سیکھے اور ہو سکے تو سب سیکھے۔
حضرت خلیفۂ اوّل کئی بار یہ واقعہ سُنایا کرتے تھے اور اُن سے سُن کر مَیں نے بھی کئی دفعہ سُنایا ہے کہ حضرت اسماعیل شہید ایک دفعہ دہلی سے اپنے پیر حضرت سیّد احمد بریلوی صاحب سے جو افغانستان کی سرحد پر سکھوں کے ساتھ لڑنے کی تیاری کر رہے تھے ملنے کے لئے جارہے تھے۔ جب وہ اٹک پہنچے تو اُنہیں بتایا گیا کہ یہاں ایک سکھ ایسا اچھا تیراک ہے کہ کوئی اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اُنہوں نے پوچھا کہ کیا کوئی مسلمان بھی اِس کا مقابلہ نہیں کر سکتا؟ اُنہیں بتایا گیا کہ نہیں۔ یہ سُن کر باوجودیکہ وہ ایک نہایت اہم کام پر جا رہے تھے وہیں ٹھہر گئے، تیرنے کی مشق کی، اس سِکھ سے مقابلہ کیا اور پھر اُسے شکست دے کر آگے بڑھے۔ یہ ایمانی غیرت ہے۔ پہلے مسلمان یہ گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی شخص کسی فن میں بھی ان سے آگے بڑھ جائے لیکن اب تو یہ حالت ہے کہ جب مسلمان کسی کو اپنے سے آگے بڑھتا ہؤا دیکھتے ہیں تو بجائے اِس کے کہ اِن میں کوئی غیرت پیدا ہو وہ کندھے ہلاتے ہوئے گزر جاتے ہیں کہ ہمیں کیا۔ مومن میں یہ غیرت ہونی چاہئے کہ کسی فن میں بھی کوئی اس سے آگے نہ بڑھنے پائے۔
پس ہر احمدی کو کوئی نہ کوئی پیشہ اور فن ضرور سیکھنا چاہئے اور اِس کے لئے جماعت کے پیشہ ور دوست اپنے نام لکھوائیں کہ وہ کس حد تک اپنا کام دوسروں کو سکھا سکتے ہیں اِس سکیم کو عملی صورت دینے کے لئے مَیں بعد میں کمیٹیاں مقرر کر دوں گا۔ میرا مطلب یہ ہے کہ یہ پیشے اِس حد تک ہر شخص کو آجائیں کہ وہ اپنے گھر میں بطور شغل اِن کو کر سکے اور پھر انہیں ترقی دے سکے۔ جب کوئی پیشہ معمولی طور پر آجائے تو پھر رغبت سے اِسے بڑی ترقی دی جاسکتی ہے۔ پیشوں کے علاوہ بعض فنون بھی ایسے ہیں جو سیکھنے چاہئیں۔ جنگِ عظیم کے زمانہ میں ولایت میں ایک شخص بارکر نامی تھا اِس کے متعلق بہت شور پڑا کہ وہ ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑ دیتا ہے۔ وہاں یہ بات خلافِ قانون ہے کہ کوئی شخص بغیر سرٹیفکیٹ حاصل کئے سرجری کا پیشہ اختیار کرے۔ اِس لئے اِس پر مقدمہ چلایا گیا مگر سینکڑوں فوجیوں نے شہادتیں دیں کہ اِس شخص نے ہماری ایسی ہڈیاں جوڑ دی ہیں جن کو ڈاکٹر لا علاج قرار دے چکے تھے۔ آخر گورنمنٹ کو اُسے سرٹیفکیٹ دینا پڑا۔ یہاں قادیان میں بھی بعض لوگ ایسے فن جانتے ہیں اور باہر بھی ہیں۔ بعض نائی یا اَور لوگ ہیں جو ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑ دیتے ہیں یا بڑے بڑے خراب زخم اچھے کر دیتے ہیں۔ مجھے خود یاد ہے بچپن میں میرے پاؤں میں ایک دفعہ سخت چوٹ لگی تھی اور وہاں کبھی کبھی شدید درد ہوتا تھا۔ یہاں ایک دوست کی بیوی کو یہ فن آتا تھا کہ ایسی چوٹوں کا علاج کر سکے۔ ایک دفعہ میاں بیوی میں جھگڑا ہؤا اور بیوی میرے پاس شکایت لے کر آئی کہ میرا خاوند مجھے اِس کام سے روکتا ہے اور کہتا ہے کہ غیر مَردوں کی چوٹوں پر مالش وغیرہ نہیں کرنے دوں گا یہ ناجائز ہے ۔ مَیں نے کہا کہ یہ بات تو صحیح نہیں۔ احادیث سے تو ثابت ہے کہ صحابہ میں عورتیں ہی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔۱؎ اِس وقت تو مجھے خیال نہ آیا مگر بعد میں جب ایک دفعہ اِس درد کا حملہ ہؤا تو مَیں نے پتہ کرایا وہ عورت تو فوت ہو چکی تھی مگر مجھے بتایا گیا کہ اس نے اپنی لڑکی کو وہ فن سکھایا ہؤا ہے۔ مَیں نے اُسے بلواکر پاؤں پر مالش کرائی۔ اِس نے کہہ دیا تھا کہ پہلے یہاں وَرم ہو جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔ دو تین روز تو بہت ورم رہا پھر آرام آگیا اور اب دس سال کے قریب ہو چکے ہیں وہاں درد نہیں ہؤا حالانکہ پہلے مَیں ہمیشہ علاج کرتا رہتا تھا۔ کئی مرہمیں لگا چُکا تھا اور آیوڈین وغیرہ بھی لگاتا رہتا تھا۔ تو یہ فن جسے ہڈی ٹھیک کرنا کہتے ہیں کئی لوگ جانتے ہیں۔ یہ مجھے معلوم نہیں کہ طبی اصطلاح میں اِسے کیا کہا جاتا ہے مگر بعض اَن پڑھ لوگ اِس کے ایسے ماہر ہوتے ہیں کہ ڈاکٹروں سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ بعض نائیوں کے پاس ایسی مرہمیں ہیں کہ جن سے ڈاکٹروں کے لاعلاج زخم اچھے ہو جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک دفعہ ایک شخص نے لکھا کہ میری لات پر ایک زخم ہے اور ڈاکٹر کہتے ہیں کہ لات کٹوانی پڑے گی۔ حضور نے اُسے لکھا کہ بعض جراح بھی اپنے فن میں بڑے ماہر ہوتے ہیں اور خطرناک زخم اچھے کر دیتے ہیں۔ آپ کٹوانے سے پیشتر کسی جراح سے بھی علاج کرا کر دیکھ لیں۔ بعد میں اس دوست نے لکھا کہ مَیں نے ایک نائی کو دکھایا تھا جو اس علاقہ میں جراحی کے لئے مشہور تھا۔ اِس نے علاج کیا اور اب مَیں اچھا ہوں اور ڈاکٹر بھی اِس پر حیران ہیں تو ایسے فنون ابھی زندہ ہیں۔ سیّد احمد نور صاحب کابلی کے ناک پر زخم تھا اُنہوں نے کئی علاج کرائے، لاہور کے میو ہسپتال میں گئے، ایکسرے کرا کر علاج کرایا مگر زخم اَور بھی خراب ہوتا گیا۔ آخر وہ پشاور گئے اور وہاں ایک نائی سے علاج کرایا۔ اس نے صرف تین روز دوائی استعمال کرائی اور زخم اچھا ہو گیا۔ تو اب بھی ایسے ماہرینِ فن موجود ہیں جن کو ایسے ایسے پیشے آتے ہیں کہ اگر انہیں زندہ رکھا جائے تو ان سے آگے کئی نئے پیشے جاری ہو سکتے ہیں لیکن ان کے جاننے والے چونکہ انہیں زندہ رکھنے کی کوشش نہیں کرتے اِس لئے وہ ترقی نہیں کر رہے۔ اگر ان کی طرف لوگوں کو توجہ ہو تو اُن سے آگے کئی فنون نکل سکتے ہیں۔ مثلاً یہی ہڈیوں کا ٹھیک کرنا ہے پہلوان اور نائی اِسے جانتے ہیں اور اِس سے پرانی دردوں اور ٹیڑھی ہڈیوں کو درست کیا جاسکتا ہے۔ اِسے سیکھ کر پھیلانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پُرانے زمانہ میں لوگ ان پیشوں کے اظہار میں بہت بخل سے کام لیتے تھے اور کوئی کسی کو بتاتا نہ تھا اِس لئے وہ مِٹ گئے۔ یورپ والے ایسا نہیں کرتے بلکہ اپنے فن عام کر دیتے ہیں اِس سے وہ روپیہ بھی زیادہ کما سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سُنایا کرتے تھے کہ ایک نائی تھا جسے ایسی مرہم کا علم تھا جس سے بڑے بڑے خراب زخم اچھے ہو جاتے تھے۔ لوگ دُور دُور سے اُس کے پاس علاج کرانے کے لئے آتے تھے۔ اُس کا بیٹا اِس کا نسخہ پوچھتا تو وہ جواب دیتا کہ اِس کے جاننے والے دُنیا میں دو نہیں ہونے چاہئیں۔ آخر وہ بوڑھاہو گیا سخت بیمار ہؤا تو اُس کے بیٹے نے کہا کہ اب تو بتا دیں وہ کہنے لگا کہ اچھا اگر تم سمجھتے ہو مَیں مرنے لگا ہوں تو بتا دیتا ہوں مگر پھر کہنے لگا کہ کیا پتہ مَیں اچھا ہی ہو جاؤں اور اِس لئے پھر بتانے سے رُک گیا۔ چند گھنٹوں بعد اُس کی جان نکل گئی اور اُس کا بیٹا اِس فن سے محروم رہ گیا۔ وہ آرام سے بیٹھا تھا اور مطمئن تھا کہ گھر میں فن موجود ہے لیکن وہ اِس کے کسی کام نہ آسکا۔ تو بخل ترقی کا نہیں بلکہ ذلت و رسوائی کا موجب ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ خاندانوں کی تباہی کا موجب ہو جاتا ہے تو ان پیشوں اور فنون کا سکھانا مضر نہیں بلکہ مفید ہے۔ اِس سے علم ترقی کرتا ہے اور مَیں چاہتا ہوں کہ یہ فنون خصوصاً مُردہ فنون کو ترقی دی جائے۔ بچپن میں ہم بعض باتیں بڑی بوڑھیوںسے سُنتے تھے اور خود چونکہ انگریزی طرز کی تعلیم حاصل کر تے تھے اِس لئے سمجھتے تھے کہ یہ غلط باتیں ہیں۔ مثلاً یہ کہ بنگال میں اِتنی باریک ململ تیار ہوتی تھی کہ سارا تھان انگوٹھی میں سے گزرجاتا تھا۔ اِسی طرح اَور بھی نہایت اعلیٰ کپڑے تیار ہوتے تھے۔ ہم سمجھتے تھے کہ یہ باتیں مُلکی غیرت کی وجہ سے ہیں مگر جب ادھورا علم مکمل ہؤا تو پتہ لگا کہ وہ سب باتیں صحیح تھیں۔ مَیں نے ایک انگریز کی کتاب پڑھی ہے جس میں اُس نے گورنروں اور سرکاری افسروں کی رپورٹوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ بنگال میں بہت سی ایسی صنعتیں تھیں جنہیں انگریزوں نے مٹا دیا یہاں کا تیارکردہ سامان ولایت کے تاجر لے جاتے تھے اور انگلستان کے امراء کے تعیُّش کا سامان یہاں سے جاتا تھا بلکہ جب مَیں نے زیادہ تحقیق کی تو معلوم ہؤا کہ انگریزوں کے کپڑوں کے نام بھی ایشیائی ہیں مثلاً ململ کو انگریزی میں Muslin کہتے ہیں۔ یہ لفظ دراصل موصلین ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اُس زمانہ میں ہندوستان کی تمام تجارت عرب کے رستہ ہوتی تھی اور عربوں کے ہاتھ میں تھی جیسے آجکل انگلستان کے ہاتھ میں ہے۔ بعض چیزوں کے متعلق ہم پہلے سمجھتے تھے کہ وہ انگریز بناتے ہیں مگر جب جنگ شروع ہوئی اور وہ آنی بند ہو گئیں تو ہم حیران ہوتے تھے کہ یہ کیوں نہیں آتیں حالانکہ وہ انگلستان میں تیار ہوتی ہیں مگر بعد میں معلوم ہؤا کہ وہ دراصل انگلستان میں نہیں بلکہ جرمنی اور بیلجیئم میں بنتی تھیں۔ خصوصاً بعض دوائیاں ایسی تھیں جو جرمنی میں بنتی تھیں۔ ہندوستان میں چالیس ہزار تھان بڑا مشہور ہے یہ بیلجیئممیں بنتا ہے۔ انگریزتاجر وہاں سے لاکر ہندوستان میں بیچتے تھے اور لوگ سمجھتے تھے کہ انگلستان میں ہی بنتے ہیں۔ غرض جنگ کے دنوں میں جب ایسی اشیاء آنی بند ہوئیں یا کم ہو گئیں تو معلوم ہؤا کہ یہ دوسرے مُلکوں کی تھیں۔ اِسی طرح پُرانے زمانہ میں تجارت عربوں کے ہاتھ میں تھی۔ وہ ہندوستان سے خرید کر لے جاتے تھے اور پھر مختلف ممالک میں پہنچاتے تھے۔ اِسی طرح ایک مشہور کپڑا ڈمَسکس ہے۔ یہ دراصل دمشق سے جاتا تھا۔ ایک اور کپڑا ٹَفٹ ہے یہ دراصل طافتہ ہے۔ گویا تمام مشہور کپڑوں کے نام یا تو عربی شہروں یا عربی الفاظ سے اخذ کردہ ہیں مگر آج ہمیں یہ خیال تک بھی نہیں آتا کہ یہ چیزیں ہماری ہیں اور یہاں سے جاتی تھیں۔ اِس زمانہ میں تمام تجارت عربوں اور ایرانیوں کے ہاتھ میں تھی مگر ایشیائیوں کے بخل کی وجہ سے یہ یورپ کے ہاتھ میں چلی گئی۔ یورپ میں ایک آدمی کوئی چھوٹی سی چیز لیتا ہے اور اُسے ایسی طرح پھیلاتا ہے کہ ہر شخص اُسے خریدنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ یہ بچوں اور بیماروں کے لئے جوغذائیں ولایت سے آتی ہیں جیسے بیلنس فوڈ وغیرہ یہ یہی جَو اور جوار کا آٹا وغیرہ ہیں۔ کسی شخص کو علم ہو گیا اس نے خوبصورت ڈبوں میں بند کیا لیبل لگائے، ساری دُنیا میں اشتہار دیا اور اِس طرح فائدہ اُٹھایا لیکن ہمارے مُلک میں اگر کسی کو علم ہوتا تو وہ اگر اس کی ذات تک نہیں تو اُس کے خاندان تک محدود رہتا یا زیادہ سے زیادہ اس گاؤں تک محدود رہتا مگر وہ لوگ اپنے علم کو عام کر دیتے ہیں۔ جرمنی میں تو یہ قانون ہے کہ ہر دوائی کے ساتھ نسخہ بھی لکھ دیا جائے۔ اُنہوں نے ایسا قانون بنایا ہؤا ہے کہ کِسی نئی دوا کا دریافت کرنے والا ہی چند سالوں تک اِسے تیار کر سکتا ہے۔ اِس عرصہ میں اگر کوئی اَور تیار کرے تو اُسے سزا دی جاتی ہے۔ اِس عرصہ کے بعد جس کا جی چاہے تیار کرے اور اِس طرح دریافت کرنے والے کو بھی کافی فائدہ پہنچ جاتا ہے اور علم بھی محدود نہیں رہتا۔ وہ لوگ چھپاتے نہیں بلکہ عام کرتے ہیں اور یہی اُن کی کامیابی کا راز ہے۔ یہی مرہمیں جو یہاں کے نائیوں کے پاس ہیں اگر اُن لوگوں کے پاس ہوتیں تو وہ اِس سے لاکھوں کروڑوں روپیہ کماتے اور اُن کی اشاعت بھی کر دیتے۔ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے لاکھوں روپوں کے کارخانے جاری کر لیتے ہیں۔ کونین ہی ہے یہ جزائر بحرالہند یا اُن کے قریب کے علاقوں میں پیدا ہوتی ہے۔ وہاں کے لوگ اِس کے درخت سے بیماریوں کا علاج تو کرتے تھے مگر کوئی تجارتی فائدہ نہ اُٹھا سکتے تھے۔ وہاں کوئی انگریز ڈاکٹر آیا اُسے علم ہؤا تو اُس نے پہلے اِس سے ٹنکچر سنکونا تیار کی اور پھر کسی اَور نے کونین بنالی اور اِس طرح اِس صنعت نے اِس حد تک ترقی کی کہ اب وہ لوگ جن کے پاس سے یہ جاتی ہے وہ بھی یورپ سے ہی خریدتے ہیں۔ اگر وہ خود اِس کام کو جاری کرتے اور اُسے وسعت دینے کا خیال کرتے تو خود فائدہ اُٹھا سکتے تھے۔ تو جو قومیں پیشوں کے اظہار میں بخل سے کام نہیں لیتیں وہ غالب ہو جاتی ہیں اور اُن میں سے ایسے ماہر پیدا ہو جاتے ہیں کہ گو لوگ جانتے ہیں کہ یہ کام کس طرح کیا جاتا ہے مگر وہ اُن سے ہی کراتے ہیں کیونکہ فائدہ خالی علم سے نہیں ہوتا بلکہ مہارت سے ہوتا ہے۔
پس مَیں صرف یہ نہیں کہتا کہ کتابی علم عام کئے جائیں بلکہ حِرفہ اور فنون کی تعلیم کو بھی عام کیا جائے۔ یہ صرف غرباء کے لئے ہی نہیں بلکہ امراء کے لئے بھی مفید ہیں۔ پھر اِس لحاظ سے بھی یہ مفید ہوتی ہیں کہ بعض اوقات بڑے بڑے لوگوں کی بھی نوکریاں چھُوٹ جاتی ہیں۔ چار پانسو بلکہ ہزار ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پانے والے RETRENCHMENT۲؎ کی وجہ سے بے کار ہو جاتے ہیں یا اُن پر کوئی الزام لگتا ہے اور وہ برخاست ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر کوئی فن آتا ہو تو وہ تجارت وغیرہ شروع کر کے گزارہ کر سکتے ہیں لیکن کتابی علم والا صرف نوکری ہی کر سکتا ہے اور اِس وجہ سے جب وہ چھوٹ جائے تو گھر میں بیٹھ کر تمام اندوختہ کھا لیتا ہے اور پھر بچے بھی خراب ہوتے ہیں اور خود بھی آخری عمر میں تکلیف اُٹھاتا ہے۔
پس میری تجویز یہ ہے کہ پہلے تو تین ماہ٭کے عرصہ میں سب کو کتابی تعلیم دے دی جائے اِس کے بعد حِرفہ کی طرف توجہ کی جائے اور جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ مجھے لکھیں کہ وہ کیا کیا پیشے جانتے ہیں اور کتنے لوگوں کو کتنے عرصہ میں سکھا سکتے ہیں اور کیا کیا انتظامات ضروری ہیں؟ مَیں چاہتا ہوں کہ سب لوگ کوئی نہ کوئی پیشہ سیکھ جائیں۔ کوئی نجاری، کوئی معماری اور کوئی لوہار کا کام اور کوئی موچی کا کام۔ یہ کام اتنے اتنے سیکھ لئے جائیں کہ گھر میں بطور شغل اختیار کئے جاسکیں اور اگر کوئی مہارت پیدا کرے تو وہ اختیار بھی کر سکے۔ اِس سے قومی رنگ میں بھی کئی فوائد ہو سکتے ہیں مثلاً اگر موچی کا کام آتا ہو تو ایک دن مقرر کر کے غرباء کے لئے جوتے تیار کئے جاسکتے ہیں۔ چمڑا جماعت کی طرف سے دے دیا جائے اور سب بیٹھ کر جوتے تیار کردیں یا معمار ، نجار اور لوہار وغیرہ مل کر ایک دن کسی غریب کا مکان بنا دیں۔ یہ خدمت ہو گی جس سے ثواب حاصل ہو گا اور غریب کا مکان بھی بغیر خرچ کے تیار ہو جائے گا۔ یہ اِسی صورت میں ممکن ہے کہ اِن پیشوں کو عام کر دیا جائے ورنہ اگر پیشہ ور ایسا کرنے لگیں تو وہ سارا سال مُفت ہی کرتے رہیں گے جس طرح سب مل کر مٹی ڈالتے ہیں اِسی طرح سب مل کر کسی غریب کا مکان بنا دیں ۔ ماہر اور کاریگر معمار اور نجار وغیرہ نگرانی کرتے رہیں اور دوسرے کام کریں۔ اِس طرح قومی عمارتیں بھی تیار ہو سکتی ہیں۔
پس مَیں کتابی تعلیم سے زیادہ عملی تعلیم کی وسعت چاہتا ہوں۔ بے شک کتابی علم مُفید ہے مگر اِس سے بڑھ کر فنون اور پیشوں کا علم مُفید ہے اور اِس سے قوم کا اقتصادی معیار بُلند ہوتاہے۔
مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ خدّام الاحمدیہ تین دن کے اندر اندر ایسی سکیم پیش کردیں گے کہ جس سے تین ماہ ٭کے اندر اندر قادیان میں کوئی شخص اَن پڑھ نہ رہے اور ایک ہفتہ کے اندر اندر وہ لوگ جو پیشے اور فنون جانتے ہیں مجھے اطلاع دے دیں گے کہ وہ کیا کیا پیشے جانتے اور کتنے کتنے لوگوں کو سکھا سکتے ہیں؟
بعض فن ایسے ہیں جنہیں عام لوگ جانتے بھی نہیں۔ ہم تو یہ عام معمار، نجار، لوہار، موچی وغیرہ کے پیشوں کو ہی جانتے ہیں۔ اِس کے علاوہ بھی بہت سے پیشے ہیں جو ہم نہیں جانتے۔
مَیں نے ایک دفعہ پتہ کرایا تھا تو معلوم ہؤا کہ ایک دوست کلاہ بنانا جانتے ہیں اور جو دوست ایسے پیشے اور فنون جانتے ہوں وہ بھی مجھے اطلاع دیں۔ اگر ان کو جاری کر دیا جائے تو کئی لوگوں کے گزارہ کی صورت پیدا ہو سکتی ہے اور کئی ایک کی آمد میں ترقی ہو سکتی ہے۔
پس جِسیکوئی پیشہ آتا ہو وہ مجھے اطلاع دے تا دوسروں کو سکھانے کا انتظام کیا جاسکے۔
مَیں تو چاہتا ہوں کہ مدرسوں میں بھی ایسے فنون سکھانے کا انتظام کیا جائے اور طالب علم جب ہمارے مدرسہ سے انٹرنس پاس کر کے نکلے تو وہ صرف انٹرنس پاس نہ ہو بلکہ موچی، معمار یا لوہار بھی ہو اور اگر یہ سکیم کامیاب ہو جائے تو جماعت کی اقتصادی حالت میں بہت اصلاح ہوسکتی ہے اور اِس کے علاوہ ایسے نوجوانوں کے لئے بھی کام کا انتخاب کرتے وقت وسیع میدان ہو سکتا ہے۔ اب تو انٹرنس پاس کرنے والے نوجوان کے لئے دائرہ بہت محدود ہے وہ صرف کلرکی ہی کر سکتا ہے مگر کوئی پیشہ جاننے کی صورت میں یہ دائرہ بہت وسیع ہو گا۔ مثلاً لوہار کا کام جاننے والا انٹرنس پاس ریلوے میں آسانی کے ساتھ فورمین ہو سکتا ہے اور اڑھائی تین سو روپیہ ماہوار تک تنخواہ پا سکتا ہے مگر کلرک پندرہ بیس سال کی ملازمت کے بعد بمشکل پچہتر روپیہ تک پہنچتا ہے۔تعلیم یافتہ پیشہ ور کے لئے ترقی کا بہت موقع ہوتا ہے سندھ میں مجھے ایک شخص نے جو وہاں اسسٹنٹ انجینئر تھے سُنایا کہ مَیں لوہار ہوں۔ اُن میں یہ خوبی تھی کہ وہ اپنی گزشتہ حالت کو چھُپاتے نہ تھے۔ بعض لوگ بہت چھُپاتے ہیں۔ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ مَیں پہلے بیس تیس کا مستری تھا لیکن جس وقت مَیں انہیں مِلا ہوں وہ خان بہادر اور اسسٹنٹ انجینئر تھے اور اُنہوں نے لوہار کے کام سے ہی ترقی کی تھی۔ محنتی آدمی تھے، رات دن محنت کرنے والے اور خطرہ سے نہ ڈرنے والے تھے۔ اُنہوں نے سُنایا کہ ایک دفعہ دریائے سندھ کا پُل ٹوٹنے لگا، اِس زور سے طغیانی آئی کہ سب لوگ بھاگ گئے۔ اِس کے ایک حصّہ کی نگرانی میرے سپرد تھی۔ مَیں نے سمجھا کہ میری ملازمت کا سارا ریکارڈ آج تباہ ہو جائے گا۔ مَیں نے سوچا کہ اگر مَیں خود پیچھے رہا تو کوئی آگے نہ بڑھے گا اِس لئے مَیں خود پانی میں کُود پڑا اور ساتھیوں سے کہا کہ کم بختو بھاگتے کہاں ہو؟ اور کچھ نہیں تو مٹی کے بورے بھر بھر کر ہی میرے آگے ڈالتے جاؤ۔ چنانچہ وہ ساری رات مٹی ڈالتے رہے نتیجہ یہ ہؤا کہ صبح کے وقت وہ شگاف بند ہو گیا اور اس طرح مُلک بھی تباہی سے بچ گیا اور بیراج پر جو کروڑوں روپیہ خرچ ہو چُکا تھا وہ بھی ضائع ہونے سے بچ گیا۔ اِن کی اِس خدمت کی گورنمنٹ نے بہت قدر کی۔ وائسرائے نے بھی خوشنودی کی چِٹھی بھجوائی۔ خان بہادر بنا دیا گیا اور عُہدہ میں بھی ترقی ہوئی۔ تو محنت کرنے والا انسان ہمیشہ ترقی کر کے بڑھتا جاتا ہے۔ ولایت میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اِسی طرح ترقی کی ہے۔ ایڈیسن جس نے فونو گراف ایجاد کیا ہے وہ پہلے ایک کارخانہ میں چِٹھیاں پہنچانے پر ملازم تھا مگر اُسے محنت کی عادت تھی۔ جب وہ ایک چٹھی پہنچا کر آتا تو دوسرا آرڈر ملنے تک بیٹھا سائنس کے تجربے کرتا رہتا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جب وہ جوانی کو پہنچا تو سائنس سے بخوبی واقف ہو چُکا تھا اور مرنے تک اُس نے ایک ہزار ایک ایجادات کیں اور ہر کارہ سے کروڑ پتی ہو کر مرا۔ ایسے واقعات ہزار ہا ہیں کہ لوگ معمولی مزدور کی حیثیت سے ترقی کر کے بڑے آدمی بن گئے جس کی وجہ یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی تعلیم کو جاری رکھا لیکن ہمارے مُلک میں یہ ذہنیت ہے کہ لوہار ترکھان وغیرہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں تعلیم کی کیا ضرورت ہے؟ اور تعلیم حاصل کرنے والے خیال کرتے ہیں کہ ہمیں کوئی پیشہ سیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ حالانکہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی مُمِد ہیں اور مُفید ہیں لیکن یہاں جو شخص پڑھے وہ کہتا ہے مَیں لوہار یا بڑھئی کیوں بنوں اور جو لوہار یا بڑھئی ہو وہ کہتا ہے کہ مَیں پڑھوں کیوں؟ حالانکہ جو پیشہ ور تعلیم یافتہ ہو وہ روپیہ ڈیڑھ روپیہ روزانہ کمانے کے بجائے چار پانچ روپے کما سکتا ہے اور تعلیم یافتہ آدمی اگر پیشہ جانتا ہو تو وہ بھی زیادہ ترقی کر سکتا ہے۔ پس طالب علموں کے لئے بھی میرا ارادہ ہے کہ ان کو پیشے سکھانے کا انتظام کیا جائے۔ گواِس کے متعلق ابھی کوئی سکیم میرے ذہن میں نہیں کہ جس سے تعلیم کو نقصان پہنچائے بغیر یہ کام سکھائے جاسکیں اور مَیں سمجھتا ہوں اگر جماعت اِس میں کامیاب ہو جائے تو پہلا لڑکا جسے نوکری ملے وہ ہمارے سکول کا طالب علم ہو گا اور ملازم رکھنے والوں کی نظر انتخاب سب سے پہلے اِسی سکول سے پڑھ کر نکلنے والوں پر پڑے گی۔
پس پیشہ ور احباب اپنے اپنے نام اور پیشے مجھے لکھیں کہ جو دوسروں کو سکھا سکتے ہیں اور خدّام الاحمدیہ تین دن کے اندر اندر مجھے اطلاع دے کہ تعلیم کو عام کرنے کے لئے ان کی کیا سکیم ہے؟ اور اِسی طرح لجنہ دو ہفتہ کے اندر ایسی سکیم پیش کرے کہ جس سے قادیان کی ہر عورت کو تعلیم یافتہ بنایا جاسکے۔‘‘ (الفضل ۲۹؍اپریل ۱۹۳۹ئ)
۱؎ ابو داؤد کتاب الجہاد باب فِی النساء یَغْزُوْنَ
۲؎ RETRENCHMENT: The Reduce the amount of cost یعنی مہنگائی کی وجہ سے تنخواہ/آمد اتنی کم ہو جانا کہ گزارہ نہ ہو سکے۔ معاشی مشکلات کی وجہ سے کوئی ادارہ اپنے ملازمین کو تنخواہ نہ دے سکنے کی وجہ سے اُن کو فارغ کر دے اور اُن کی ضرورتیں پوری نہ ہو سکیں۔
۱۳
قادیان میں کسی احمدی کو اَن پڑھ نہ رہنے دیا جائے
(فرمودہ ۲۸؍اپریل۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے گزشتہ ہفتہ میں قادیان کی تعلیم کا کام خدّام الاحمدیہ کے سُپرد کیا تھا اور مَیں نے انہیں نصیحت کی تھی کہ وہ اِس کام کو اپنے سے باہر جو تجربہ کار لوگ ہیںاُن کی مدد سے شروع کریںاور تین دن کے اندر اندر لسٹ بنا کر میرے سامنے پیش کر دیں۔ چنانچہ اِس کے مطابق خدّام الاحمدیہ نے تین دن کے اندر اندر لسٹ بنا کر میرے سامنے پیش کر دی جس کے دوسرے دن بُلا کر مَیں نے اُن سے بھی اور میر محمد اسحاق صاحب اور مولوی ابو العطاء صاحب سے بھی مشورہ کر کے ایک سکیم تجویز کر دی۔ وہ سکیم یہ تجویز ہوئی ہے کہ ہر احمدی مرد جو دس سال سے اوپر ہے اُسے ایک تو قرآن پڑھنا آتا ہو، دوسرے نماز باترجمہ آتی ہو، تیسرے وہ اُردو پڑھ اور لکھ سکتا ہو اور چوتھے سَو تک کے ہندسے اُسے آتے ہوں۔ غور کرنے کے بعد یہ بھی فیصلہ ہؤا کہ تین مہینہ میں یہ کورس ختم نہیں ہو گا اِس لئے تین ماہ کی بجائے چھ مہینے تجویز کئے گئے اور ساتھ ہی چار امتحان بھی تجویز کئے گئے ہیں۔ چنانچہ پہلا امتحان یکم جون کو ، دوسرا یکم جولائی کو، تیسرا یکم ستمبر کواور چوتھا یکم نومبر کو ہو گا۔ پڑھانے والوں کی تعداد خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر محلہ میں کافی ہے سوائے دارُالصحت کے۔ اور دارُالصحت ہی ایک ایسا محلہ ہے جو اپنے اندر ایک خصوصیت رکھتا اورہماری بہت زیادہ توجہ چاہتا ہے۔ یہ قومیں جو ہندو تہذیب و تمدن کے ماتحت کسی وقت سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے اچھوت قرار دی گئی تھیں درحقیقت مُلک کی قدیم باشندہ ہیں اور آرین نسلوں کے آنے سے پہلے ہندوستان میں حکومت کرتی رہی ہیں۔
چنانچہ جغرافیہ والے ان کو ڈریویڈینز ( DRAVADIANS) کہتے ہیں۔ یہ لوگ سیاسی طور پر کسی زمانہ میں مغلوب ہوئے پھر ذلیل سے ذلیل تر ہوتے چلے گئے۔ پہلے حکومت گئی ،پھر تجارت گئی، پھر صنعت و حرفت گئی، پھر علم گیا، پھر عزت گئی گویا وہ ساری چیزیں جو دنیا میں انسان کی عزت اور ترقی کے لئے اﷲ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہیں ان سے یہ محروم ہو گئیں اور سینکڑوں نہیں ہزاروں سالوں سے محروم چلی آتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے کہ ’’کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے‘‘ ۱؎ اور مَیں سمجھتا ہوں اِس الہام میں اِس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ قومیں جو ادنیٰ کہلاتی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ان کو ادنیٰ حالت سے نکال کر ترقی کی طرف لے جایا جائے گا۔ آج سیاسی طور پر دُنیا میں ایسے حالات پیدا ہیں کہ ہندو اور مسلمان دونوں یہ چاہتے ہیں کہ ان قوموں کو وہ اپنے اندر شامل کریں مگر ان کو شامل کرنا محض سیاسی ہے اور اِن کی غرض صرف اتنی ہی ہے کہ یہ لوگ آئندہ ہندو یا مسلمان کہلائیں اور اپنے ووٹ ان کو دے دیں اور اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ جو قوم جس کے ساتھ شامل ہو گئی اپنے ووٹ بھی اسی کو دے گی مگر میرے نزدیک اِن سے صرف اتنی ہی ہمدردی کرنا کہ ان کا نیا نام رکھ دیا جائے اور ان کے ووٹوں سے خود فائدہ اُٹھا لیا جائے نہایت کمینہ اور اخلاق سے گری ہوئی بات ہے۔ اگر ہم اِن قوموں کو حقیقی فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اِن میں تعلیم پھیلائیں، اِن میں پیشوں کی ترویج کریں، انہیں صنعت و حِرفت کے کام سکھائیں۔ یہاں تک کہ ان کا معیارِ زندگی بلند ہو جائے، ان کا معیارِ عقل بلند ہو جائے، اِن کا معیارِ علم بلند ہو جائے۔ مَیں نہیںسمجھ سکتا کہ سانسی، چوڑھے اور بھیل قوم کے افراد جو ذلیل سمجھے جاتے ہیں یا بعض اَور قومیں جو اِس ملک میں ادنیٰ اور حقیر سمجھی جاتی ہیں اگر اُن میں تعلیم آجائے، اگر اُن میں سے بھی بی۔اے اور ایم۔اے بننا شروع ہو جائیں ، اگر وہ بھی مولوی فاضل کی ڈگریاں حاصل کر لیں، اگر وہ بھی مساجد کے منبر پر کھڑے ہو کر وعظ کریں، اگر اُن کی زبان سے بھی ایسی باتیں نکلیں جنہیں سُن کر پُرانی نسلوں کے مسلمان واہ واہ اور سبحان اﷲ کہیں اگر وہ بھی مدرسوں کی کرسیوں پر بیٹھیں، اگر وہ بھی کالج کے پروفیسر بنیں، اگر وہ بھی اپنی قوم کے لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم دلائیں تو وہ اِس ذلت کے نام کو اپنے ساتھ رہنے دیں گے یقینا یہ نام پیچھے رہ جائے گا اور وہ قوم ترقی کی منزلوں کی طرف بڑی سُرعت سے قدم بڑھاتی ہوئی چلی جائے گی۔
پس ہماری جماعت کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ اپنے لوگوں کو صرف نام کا مسلمان نہ بنائے بلکہ ان کے لئے علمی، اخلاقی، تمدنی اور اقتصادی ترقی کے سامان مہیا کرے کیونکہ سب سے زیادہ تعلیم کے یہی لوگ مستحق ہیں اور سب سے زیادہ مجبور بھی یہی ہیں۔ اِن میں اتنے لکھے پڑھے لوگ نہیں کہ یہ دوسروں کی مدد کے بغیر اپنی قوم کے افراد کو پڑھا سکیں۔ پس ہمیں سب سے پہلے ان کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ خدّام الاحمدیہ کی طرف سے مجھے بتایا گیا ہے کہ ان کے زیادہ قریب دارالرحمت والے ہیں اور وہ محلہ دارالرحمت کے رہنے والوں سے خواہش کر رہے ہیں کہ وہ اِس معاملہ میں اِن کی مدد کریں اور دارالصحت والوں کو پڑھائیں۔ مَیں بھی اِس موقع پر دارالرحمت کے لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں بلکہ مَیں سمجھتا ہوں دارالرحمت کے لوگوں کی تخصیص کی اِس میں ضرورت نہیں۔ یہ ایک ثواب کا کام ہے اور ثواب کے کام کے لئے دور سے بھی لوگ آسکتے ہیں۔ پس دوسرے محلوں سے بھی جو دوست یہ ثواب حاصل کرنا چاہتے ہوں اُنہیں چاہئے کہ وہ اپنی خدمات پیش کر کے یہ عظیم الشان ثواب حاصل کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اِس پیشگوئی کو پورا کرنے والے بن جائیں کہ ’’کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے‘‘ یہ قومیں نام کے لحاظ سے بیشک آزاد ہیں مگر حقیقتاً غلام ہیں اور غلاموں کو آزاد کرانا مومنوں کے عظیم الشان فرائض میں سے ایک فرض ہے۔
پس مَیں خدّام الاحمدیہ کو بھی توجہ دلاتا ہوں اور جماعت کے دوسرے دوستوں کو بھی کہ وہ اِس محلہ کی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ کریں مگر اس تعلیم کے علاوہ جو دوسری تعلیم ہے یعنی اعلیٰ مذہبی اور دُنیوی تعلیم اِس کی طرف بھی ہمیں توجہ کرنی چاہئے اور مَیں اِس کے لئے صدر انجمن احمدیہ کوتوجہ دلاتا ہوں کہ وہ بعض خاص وظیفے ایسے مقرر کرے جن سے اِس قوم کے لڑکوں کو زیادہ اعلیٰ تعلیم دلائی جاسکے۔ خالی پڑھنا لکھنا سکھا دینا کافی نہیں بلکہ اِس قوم کی مجموعی حالت کو درست کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان میں اعلیٰ تعلیم رائج کی جائے۔ جب ان لوگوں میں سے بعض نوجوان ایف اے اور بی اے ہو جائیں گے، بعض مذہبی لحاظ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیں گے اور وہ اپنے گھر کے افراد اور اپنی قوم کے افراد پر اثر ڈالیں گے تو لازماً ان کی حالت پہلے سے بہت سُدھر جائے گی، وہ اپنے گھروں کو اچھا بنائیں گے، وہ ان میں صفائی کا زیادہ خیال رکھیں گے، وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں گے اور اس طرح قوم کا علمی، عقلی اور تمدنی معیار بہت بُلند ہو جائے گا مگر یہ کام خدّام الاحمدیہ کا نہیں۔ مَیں اِس کے متعلق صدر انجمن احمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اِن کے لئے بعض وظائف مقرر کرے اور اگر اِس سال زیادہ وظائف مقرر نہ کئے جاسکیں تو کم از کم ایک وظیفہ اِس سال دارالصحت کے کسی بچے کو تعلیم دلانے کے لئے ضرور جاری کر دینا چاہئے۔ چاہے اُس بچے کو بورڈنگ میں ہی رکھنا پڑے تاکہ اُس کا اخلاقی معیار بھی بُلند ہو اور اُس کی ذہنی ترقی بھی ہو۔
پس وہ ایک سے تجربہ شروع کریں اور جوں جوں اِس میں کامیابی ہوتی چلی جائے ان وظائف کو زیادہ کرتے چلے جائیں۔ اگر صدر انجمن احمدیہ یہ کام شروع کر دے تو تھوڑے عرصہ میں ہی عظیم الشان تغیر پیدا ہو سکتا ہے اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو مَیں سمجھتا ہوں یہ بہت بڑی کمینگی ہو گی کہ ہم نام میں تو ان لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیں مگر ان خوبیوں میں شامل نہ کریں جو قومی طور پر خدا تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہیں۔
پھر مَیں اُن تمام لوگوں سے خواہش کرتا ہوں جن کے متعلق ہمیں یہ معلوم ہؤا ہے کہ وہ پڑھے ہوئے نہیں کہ وہ اِس کام میں حصّہ لیں اور ہماری مدد کریں۔ یہ محض ان کے فائدہ کی سکیم ہے جو جاری کی گئی ہے۔ اگر اِن کے اوقات کا حرج بھی ہو تو وہ اِس حرج کو گوارا کر کے اپنی تعلیم مکمل کر لیں۔ چھ مہینے انسان کی زندگی میں سے کوئی بڑا عرصہ نہیں۔ لوگ ہر سال دو دو تین تین مہینوں کے لئے تبدیلی ٔ آب و ہوا کے لئے باہر چلے جاتے ہیں اور اِس عرصہ میں لازماً اُن کے کاموں کو نقصان پہنچتا ہے مگر وہ کوئی پروا نہیں کرتے۔ قادیان سے ہی ہر سال پانچ سات آدمی گرمی کے ایّام میں کشمیر یا پالم پور چلے جاتے ہیںاور وہ اِس عرصہ میں جب تک باہر رہتے ہیں کوئی خاص کام نہیں کرتے۔ اگر اُن کی یہاں تجارت ہوتی ہے تو تجارت چھوڑ جاتے ہیں، ملازمت ہوتی ہے تو رخصت لے لیتے ہیں، بہرحال وہ تفریح طبع کے لئے اوقات نکال لیتے ہیں اور یہاں تو روزانہ صرف ایک یا دو گھنٹے وقت صَرف کرنا ہے جس میں کوئی مُشکل بات نہیں۔ ہاں ممکن ہے کہ بعض کا ذہن ایسا تیز نہ ہو اور انہیں پندرہ بیس دن اِس کام کے لئے کلیۃً اپنے آپ کو فارغ کرنا پڑے۔ اِس صورت میں انہیں پندرہ بیس دنوں کے لئے اپنے آپ کو فارغ بھی کرنا پڑے گا اور مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شخص ایسا ہو جو اپنی عمر میں سے پندرہ بیس دن اِس کام کے لئے فارغ نہ کر سکے جس میں نہ صرف اس کا اپنا فائدہ ہے بلکہ اسلام اور احمدیت کا بھی فائدہ ہے۔
پس سب کو چاہئے کہ اِس کام کو اپنا کام سمجھ کر اور سلسلہ کا کام سمجھ کر کریں اور اگر اِس کام کے لئے انہیں اپنے وقت کی قربانی کرنی پڑے تو شوق اور خوشی کے ساتھ یہ قربانی کریں جب ان میں تعلیم آجائے گی تو لازماً وہ اپنے بچوں کو زیادہ تعلیم دلائیں گے اور پھر تعلیم کی قدر بھی انہیں معلوم ہو جائے گی۔ مثلاً نماز با ترجمہ ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اِس کے بغیر عبادت میں کبھی لذّت نہیں آسکتی۔ مَیں نے دیکھا ہے یورپ کے لوگ اکثر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اُس نماز کا فائدہ کیا جس میں محض الفاظ رٹے جاتے ہیں اور کہنے والے کو یہ پتہ تک نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ یہ اعتراض ہے تو غلط مگر اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ نماز کا پورا فائدہ بغیر ترجمہ کے حاصل نہیں ہو سکتا اور اگر ہم اِس سوال کا جواب دیں تو صرف دو طرح ہی دے سکتے ہیں۔ یاتو ہم یہ کہیں کہ باوجود ترجمہ نہ جاننے کے نماز سے ہم پورا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور یا یہ کہیں کہ یہ بالکل غلط بات ہے کہ مسلمان نماز کا ترجمہ نہیں جانتے۔مسلمانوں میں سے ہر شخص نماز کا ترجمہ جانتا ہے اور اِس وجہ سے وہ نماز سے پورا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ انہی دو جوابوں سے ہم دُشمن کو خاموش کرا سکتے ہیں مگر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ دونوں جواب بالکل غلط ہیں۔ ہم ہر گز نہیں کہہ سکتے کہ ترجمہ کا کوئی فائدہ نہیں اور بغیر اِس کا علم رکھنے کے بھی نماز سے پورا فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے اور ہم یہ جواب بھی قطعاً نہیں دے سکتے کہ ہر مسلمان نماز کا ترجمہ جانتا ہے کیونکہ یہ بھی قطعی طور پر غلط ہے۔
پس دُشمن کے اعتراض سے بچنے کے لئے ہمارے لئے ایک ہی راستہ کھلا ہے اور وہ یہ کہ سب مسلمانوں کو نماز کا ترجمہ سکھا دیں۔ پھر دُشمن کا اعتراض بھی باطل ہو جائے گا اور ہماری قوم کی مذہبی اور علمی حالت بھی ترقی کر جائے گی اور کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ ہم ایک ایسا کام کرتے ہیں جس کا فائدہ ہمیں اتنا بھی نہیں پہنچتا جتنا فائدہ وہ قومیں اُٹھا رہی ہیں جو اصل زبان کی بجائے اِس کا ترجمہ نماز میں پڑھنے کی عادی ہیں۔ یورپین قوموں میں جس قدر دُعائیں اور عبادت کے کلمات رائج ہیں وہ اصل زبان میں نہیں بلکہ اُن کا ترجمہ ہے۔ اصل زبان عبرانی تھی مگر بعد میں اِس کا یونانی میں ترجمہ ہؤا اور اس سے انگلستان والوں نے انگریزی میں ترجمہ کر لیا، جرمنی والوں نے جرمن میں ترجمہ کر لیا، فرانس والوں نے فرانسیسی زبان میں ترجمہ کر لیا اور روس والوں نے روسی زبان میں ترجمہ کر لیا۔ اِس طرح گو اصل زبان اُن کے سامنے نہیں آتی مگر وہ اِس کا مطلب اور مفہوم خوب سمجھتے ہیں مگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ عربی زبان میں ہی نماز ہونی چاہئے پنجابی یا اُردو یا کسی اَور زبان میں نماز جائز نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اگر ایک پنجابی آدمی جو عربی نہیں جانتا نماز میں کھڑے ہو کر یوں نماز دُہراتا ہے کہ ’’مَیں اس اﷲ کا ناں لیکے نماز شروع کردا ہاں۔ جو بڑی مہربانیاں تے احسان کرن والا ہے۔ مَیں اس اﷲ دی تعریف کردا ہاں جیہڑا رب ہے سارے جہاناں دا، جیہڑا بڑا مہربان تے رحیم ہے۔‘‘تو فوراً اس کے دماغ میں ایک مضمون پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں جُوش مارنے لگ جاتی ہے لیکن اگر وہ کہتا ہے ۲؎اور وہ نہیں جانتا کہ کے کیا معنے ہیں تو اُس کا دماغ بالکل خالی رہتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ نامعلوم کیا چیز ہے؟ اور نا معلوم کسے کہتے ہیں؟ پھر جب وہ کہتا ہے ۳؎تو پھر حیران ہوتا ہے کہ حمد کیا ہوئی؟ اور کے کیا معنے ہوئے ؟ اِسی طرح جب وہ کہتا ہے ۴؎تو وہ یہ نہیں جانتا کہ کے کیا معنے ہیں؟ بے شک اُسے یہ تو خیال آئے گا کہ یہ جو کچھ مَیں کہہ رہا ہوں میرے مذہب کی تعلیم ہے اور مَیں ان الفاظ کے ذریعہ اﷲتعالیٰ کی عبادت کر رہا ہوں مگر اِس نماز کا جو علمی فائدہ ہے وہ اُسے حاصل نہیں ہو گا لیکن اگر جیسا کہ بائیبل کی دُعاؤں کا ترجمہ عیسائی کرلیتے ہیں وہ کہنے کی بجائے یہ کہے کہ اے میرے رب مَیں تیری ہی عبادت کرداں ہاں اور تیرے کولوں ہی مدد منگدا ہاں، تو اِس وقت وہ ایک ربودگی کی حالت میں ہو گا اور جب وہ یہ کہہ رہا ہو گا کہ خدایا مَیں تیرے کولوں ہی مدد منگداہاں تیرے سوا مینوں مدد دینے والا ہور کوئی نہیں، تو خود ہی سوچ لو اِس پر کتنی رقت طاری ہو گی؟ اور کس قدر اﷲ تعالیٰ کی خشیت اِس کے دل میں موجزن ہو گی لیکن اگر وہ عربی الفاظ کا مفہوم نہیں جانتا تو اِس کے لئے ایسا ہی ہو گا جیسے پتھر اُٹھا کر کسی کو مار دیا۔ پس ہر مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اسے نماز کا ترجمہ آتا ہو ورنہ ہم نماز سے وہ فائدہ ہر گز نہیں اُٹھا سکتے جو عیسائی وغیرہ اُٹھا رہے ہیں کیونکہ وہ ترجمہ کی وجہ سے اپنی زبان میں اپنی دعاؤں کا مطلب خوب سمجھتے ہیں مگر مسلمان عربی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے نماز کے مفہوم کو نہیں سمجھ سکتے۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں نماز پڑھنے کے باوجود اتنی روحانیت نہیں ہوتی جتنی روحانیت بعض جھوٹے مذاہب کے پیروؤں میں دکھائی دیتی ہے اِس لئے کہ وہ اپنی روزانہ عبادت کے کلمات ان زبانوں میں ادا کرتے ہیں جن کو وہ سمجھتے ہیں مثلاً سِکھ ہیں ان کا گرنتھ ایسی زبان میں ہے جس کو وہ سمجھتے ہیں۔ اب ایک سِکھ جب گرنتھ کا کوئی شعر پڑھ رہا ہوتا ہے تو اس کا دل جوش اور محبت سے بھرا ہؤا ہوتا ہے لیکن ایک مسلمان جو قرآن کا ترجمہ نہیں جانتا وہ بعض دفعہ عبارتوں کی عبارتیں پڑھ جاتا ہے اور اس کے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ کوئی منتر کر رہا ہے لیکن اگر وہ قرآن کے معنی سمجھنے لگ جائے تو اس کے اندر بھی ویسا ہی جوش پیدا ہو جائے جیسے سکھوں اور عیسائیوں میں پایا جاتا ہے بلکہ چونکہ اس کی تعلیم زیادہ اعلیٰ ہے اس لئے اِس کے اندر ان سے زیادہ جوش پیدا ہو گا، اس کا علم ان سے زیادہ بڑھے گا اور اس کا عرفان ان کے عرفان سے بہت اعلیٰ ہو گا لیکن جب یہ معنی نہیں جانتا تو دوسرے سے اس کا علم اور عرفان کم نہیں ہوتا بلکہ ہوتا ہی نہیں۔ پس دو باتوں میں سے ایک بات ہمیں ضرور کرنی پڑے گی یا تو ہمارے لئے ضروری ہوگا کہ ہم اپنے میں سے ہر شخص کو نماز کا ترجمہ سکھا دیں تاکہ وہ نماز کی برکات سے مستفیض ہو یا ہمیں اسلام کی بتائی ہوئی عربی دُعائیں اور قرآن کریم کی عبارتیں چھوڑنی پڑیں گی اور ان کی بجائے اُردو یا پنجابی میں نمازیں ڈھالنی پڑیں گی اور ہمیں کہنا پڑے گا کہ بجائے عربی کے پنجابی اور اُردو کے کلمات پڑھ لئے جائیں مگر یہ دوسری چیز بڑی خرابیاں پیدا کرنے والی ہے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اِس طریق سے افراد کو فائدہ ہوتا ہے مگر قومیں اس سے بالکل تباہ ہو جاتی ہیں اور ترجمے بدلتے بدلتے کہیں کے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ آخر وہ ترجمے ہی تھے جن کی وجہ سے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بجائے خدا تعالیٰ کا برگزیدہ رسول تسلیم کرنے کے خدا اور خدا کا بیٹا بنا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہرزبان میں بعض ایسے محاورے ہوتے ہیں جن کا دوسری زبان میں اگر لفظی ترجمہ کیا جائے تو مفہوم بالکل بدل جاتا ہے۔ اب یہ ایک عبرانی محاورہ ہے کہ جب کسی کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہا جائے تو اس کے معنی خدا تعالیٰ کے پیارے کے ہوتے ہیں۔ جب تک عیسائی عبرانی سے تعلق رکھتے رہے جہاں اس قسم کا کوئی فقرہ آتا وہ فوراً سمجھ جاتے کہ اس کے معنی خدا تعالیٰ کے پیارے کے ہیں مگر جب یونانی میں انجیل کا ترجمہ ہؤا تو ترجمہ کرنے والوں نے اس محاورہ کا ترجمہ بجائے خدا کے پیارے کے خدا کے بیٹے کردیا اور نتیجہ یہ ہؤا کہ بعد میں آنے والے عیسائیوں نے یہ سمجھ لیا کہ حضرت مسیح سچ مُچ خداتعالیٰ کے بیٹے تھے۔ اس خرابی کو اِس امر سے اَور بھی مدد ملی کہ یونانی لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ حضرت مسیح (سچ مُچ اس کے بیٹے) کا سابق مذہب ایسا تھا کہ اس میں بعض لوگوں کو خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دیاجاتا تھا۔
پس اُنہوں نے حضرت مسیح کے متعلق جب یہ لکھا ہؤا دیکھا کہ وہ خدا کے بیٹے تھے تو اُنہوں نے کچھ اپنے پُرانے عقائد کی بناء پر اور کچھ لفظی غلطی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انہیں حقیقی معنوں میں خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دے دیا۔ اب اگر اصل کتاب عبرانی میں ہی رہتی تو چونکہ عبرانی محاورہ میں اس کے معنی پیارے کے ہیں اس لئے ان الفاظ سے کسی کو دھوکا نہ لگتا اور نہ شرک کا عقیدہ پھیلتا۔ اسی طرح ہندوؤں میں اوتار کا لفظ ہے یہ بھی ہندوؤں کا ایک محاورہ ہے لیکن اگر اس کا اُردو یا پنجابی میں ہم لفظی ترجمہ کریں تو اس کے معنی یقینا نبی کے نہیں رہ سکتے بلکہ ایسے معنی بن جاتے ہیں جس میں خدا تعالیٰ کے نزول اور حلول کو بعض اجسام میں تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ تو تراجم کا ایک بہت بڑا نقص یہ ہے کہ زمانہ کے تغیرات کے ساتھ ساتھ مذاہب میں بھی تغیر آجاتا ہے اور عقائد تک بدل جاتے ہیں اور اس کی وجہ جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں یہ ہے کہ بعض محاورے ایک مُلک میں ہوتے ہیں مگر دوسرے میں نہیں۔ اُردو میں ہی محاورہ ہے کہتے ہیں فلاں شخص کی آنکھ بیٹھ گئی۔ اب جب بھی کوئی شخص یہ محاورہ سُنتا ہے وہ ہر گز یہ خیال نہیں کرتا کہ کسی شخص کی آنکھ کے پیر اور گھٹنے تھے اور وہ ان گھٹنوں کو تہہ کر کے زمین پر بیٹھ گئی بلکہ آنکھ بیٹھنے کے معنی ہر اُردو دان یہی سمجھتا ہے کہ آنکھ ضائع ہو گئی لیکن اگر اِس محاورہ کا انگریزی میں ہم لفظی ترجمہ کریں تو یا تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ ہم پاگل ہو گئے یا یہ کہیں گے کہ یہ ان کا کوئی خاص عقیدہ ہو گا مثلاً اگر ہم اس کی آنکھ بیٹھ گئی کا ترجمہ انگریزی میں یہ کریں کہ ہز آئی سیٹ (His eye sat) تو لوگ یا تو یہ سمجھیں گے کہ یہ ان کا عقیدہ معلوم ہوتا ہے کہ آنکھیں آدمی ہوتی ہیں اور وہ بیٹھ بھی جایا کرتی ہیںیا یہ کہیں گے کہ کہنے والے پاگل ہیں ان کے اندر اتنی بھی عقل نہیں کہ یہ سمجھ سکیں آنکھیں بیٹھا نہیں کرتیں مگر اُردو جاننے والا کوئی شخص اِس غلطی میں مُبتلا نہیں ہو گا وہ یہ فقرہ سُنتے ہی کہہ دے گا کہ اِس کے معنے یہ ہیں کہ آنکھ جاتی رہی۔تو ترجمے میں مفہوم چونکہ کچھ کا کچھ بدل جاتا ہے اِس لئے اصل کو نظر انداز کر کے ترجمہ رائج کر دینا مذہب کو بگاڑ دینے کا موجب ہو جاتا ہے۔
پس خالی ترجمے پر ایسی صورت میں انحصار رکھنا جبکہ اصل الفاظ ساتھ نہ ہوں ایک نہایت خطرناک بات ہے اور خالی اصل الفاظ کو رٹنا جب کہ اِس کا ترجمہ انسان کو نہ آتا ہو یہ بھی کوئی مُفید بات نہیں۔ مکمل فائدہ انسان کو اِسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جبکہ اُسے عربی بھی آتی ہو اور اِس عربی کا ترجمہ بھی آتا ہو۔ جب وہ قرآن کو عربی میں پڑھے اور اپنی زبان میں اِس کا مطلب سمجھے، نماز کو عربی میں ادا کرے اور ساتھ ہی نماز کا مفہوم بھی سمجھتا جائے اور ذکر الٰہی بھی عربی میں کرے مگر ذکرِ الٰہی کے ساتھ ساتھ اِس کے مطالب سے بھی آگاہ ہوتا چلا جائے ۔ اگر ہم اپنی اِس کوشش میں کامیاب ہو جائیں تو دُشمن کا اعتراض بھی جاتا رہتا ہے اور قوم کو فائدہ بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ اِس صورت میں ہم دشمن سے کہہ سکتے ہیں کہ تمہارا یہ اعتراض کہ مسلمان محض الفاظ کو رٹتے ہیں حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتے درست نہیں۔ کیونکہ ہم میں سے ہر شخص نماز کا ترجمہ جانتا ہے اور جو کچھ وہ نماز میں کہہ رہا ہوتا ہے اُس کے مفہوم کو وہ خوب سمجھ رہا ہوتا ہے اِس کے مقابلہ میں صرف ترجمے سے تم کو دھوکا لگ سکتا ہے مگر ہمیں اِس قسم کا کوئی دھوکا نہیں لگ سکتا کیونکہ اصل زبان بھی قائم رہتی ہے اور اگر ترجمہ میں کوئی غلطی ہو تو اصل زبان کو دیکھ کر اِس غلطی کو دُور کیا جاسکتا ہے۔
پس عربی زبان کا رواج خواہ نماز میں ہو، خواہ تلاوت قرآن میں مذہب کو اِس کی اصل صورت میں قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے اور نماز اور قرآن کے ترجمے کا رواج روحانیت کے قیام کے لئے ضروری ہے۔ اگر ہم خالی ترجمہ لے لیں تو علم بے شک بڑھتا رہے گا لیکن مذہب گھٹ جائے گا اور اگر خالی لفظ لے لیں تو مذہب بے شک محفوظ رہے گا مگر علم گھٹ جائے گا۔ کامل فائدہ تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب مذہب بھی محفوظ ہو اور علم بھی قائم ہو اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب لفظ بھی قائم رہیں اور ان کا ترجمہ بھی انسان کو آتا ہو۔ جب یہ دونوں چیزیں حاصل ہو جائیں تو مذہب اور اہل مذہب دونوں محفوظ ہو جاتے ہیں اور ان لوگوں کا نہ تو وہ قومیں مقابلہ کر سکتی ہیں جو ترجمہ ہی ترجمہ جانتی ہیں اصل الفاظ کو بھُلا بیٹھی ہیں اور نہ وہ قومیں مقابلہ کر سکتی ہیں جو اصل الفاظ کو تو رٹتی رہتی ہیں مگر معانی اور مفہوم سے بے خبر ہوتی ہیں۔
غرض یہ ایک اہم سوال ہے جس کا خیال رکھنا ہمارے لئے ضروری ہے اور مَیں اُمید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اِس کی طرف خاص طور پر توجہ رکھیں گے۔ جب وہ یہ قدم اُٹھا لیں گے اور نماز باترجمہ سیکھ جائیں گے تو بہت سے مخلصین کو اﷲ تعالیٰ سارا قرآن باترجمہ پڑھنے کی توفیق دے دے گا کیونکہ انسان جب نیکی کے راستہ میں ایک قدم اُٹھاتا ہے تو ہمیشہ اُسے دوسرا قدم اُٹھانے کی بھی توفیق دی جاتی ہے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں ہم پڑھ ہی نہیں سکتے۔ مَیں ایسے دوستوں سے کہتا ہوں کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے جو اُن کے دل میں پیدا ہؤا ہے بے شک اِس قسم کی بات کہنے والے پانچ دس سے زیادہ آدمی نہیں مگر مَیں کہتا ہوں زندہ قوموں میں ایک آدمی بھی ایسی غلطی میں مُبتلا نہیں ہونا چاہئے۔
یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ دوسرا تو اپنے کام کا حرج کر کے پڑھانے آتا ہے مگر پڑھنے والا کہتا ہے کہ مجھے اِس کی ضرورت نہیں یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی سرد مُلک کا رہنے والا شخص جیٹھ ہاڑ کے دنوں میں سخت دھوپ میں بیٹھا ہؤا تھا اور پاس ہی مکانات تھے قریب سے کوئی شخص گزرا تو اُس نے کہا میاں تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ سایہ میں کیوں نہیں بیٹھ جاتے؟ یہ سُن کر اُس نے ہاتھ پھیلا دیئے اور کہا مَیں بیٹھ تو جاتا ہوں مگر تم مجھے دو گے کیا؟ یہ بھی ایسی ہی حماقت ہے۔ پڑھنے میں آخر تمہارا ور تمہاری نسلوں کا فائدہ ہے کسی اَور کا اِس میں کیا فائدہ ہے؟ جب تم پڑھ جاؤ گے تو تم اِس بات پرتیار ہو جاؤ گے کہ اپنی آئندہ نسلوں کو تعلیم دلاؤ اور اگر تم انہیں تعلیم نہ بھی دلاؤ گے تب بھی وہ کہیں گے کہ ہمارا باپ اتنا پڑھا ہؤا تھا ہمیں بھی اِس قدر ضرور تعلیم حاصل کرنی چاہئے اِس طرح علم کا تسلسل قائم رہے گا اور جن نقائص کی طرف لوگ انہیں توجہ دلائیں گے اُن کو دُور کرنے کے لئے وہ تیار رہیں گے۔
پس مَیں اُمید کرتا ہوں کہ ہم میں سے ایک آدمی بھی ایسا نہیں ہو گا جو یہ کہے کہ مَیں پڑھنا نہیں چاہتا اور اگر کوئی شخص ایسا کہتا ہے تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ اس کا ذہن بالکل مُردہ ہے اور یہ حالت ہمارے اندر نہیں ہونی چاہئے۔
مَیں چونکہ لاہور سے ابھی آرہا ہوں اور مسجد میں پونے تین بجے کے قریب پہنچا ہوں اِس لئے مَیں اِس سے زیادہ خطبہ نہیں پڑھ سکتا مگر مَیں اُمید کرتا ہوں کہ دوست اِس قدر مضمون سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اِس پر جوش سے عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ مَیں نے ایک تو یہ کہا ہے کہ دارالصحت والوں کو پڑھانے کے لئے دوستوں کی خدمات کی ضرورت ہے۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ اِس غرض کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں ۔ دوسرے مَیں نے تعلیم و تربیت والوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ اِس سال کم سے کم ایک وظیفہ دارالصحت کے کسی بچہ کو تعلیم دلانے کے لئے جاری کر دیں اور جب تک اُسے اعلیٰ تعلیم حاصل نہ ہو جائے اُس وقت تک یہ وظیفہ جاری رکھیں۔
پھر مَیں نے نماز کا ترجمہ اور قرآن ناظرہ پڑھانے کے متعلق اپنی سکیم کا ذکر کیا ہے اور مَیں نے توجہ دلائی ہے کہ جنہوں نے اپنے آپ کو پڑھانے کے لئے پیش کیا ہے وہ ہمت اور استقلال سے پڑھائیں اور جنہوں نے پڑھنا ہے وہ بھی استقلال سے پڑھیں کیونکہ اِسی پر اُن کی روحانیت کا دارومدار ہے۔ اِسی طرح مَیں نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ وہ نہیں پڑھ سکتے یااپنی پڑھائی کے لئے وہ وقت نہیں نکال سکتے اُنہیں اپنی ضد چھوڑ دینی چاہئے اور خداتعالیٰ پر توکل کر کے اِس کام کو شروع کر دینا چاہئے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا حافظہ کمزور ہے تو اپنی طرف سے وہ بہرحال کام شروع کر دیں خدا اُن کی مدد کرے گا اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں اور بہت سے دُنیوی کام ہیں اور اگر وہ اِس طرف توجہ کریں گے تو اُن کاموں کو نقصان پہنچے گا تو بھی انہیں چاہئے کہ وہ خدا پر توکل کر یں اور اُس کی مدد پر بھروسہ رکھتے ہوئے یہ کام شروع کر دیں یہ ایک نیک کام ہے اِس میں کسی کو پیچھے نہیں رہنا چاہئے۔‘‘
(الفضل ۴؍مئی ۱۹۳۹ئ)
۱؎ تذکرہ صفحہ ۳۵۹ ۔ ایڈیشن چہارم
۲؎ الفاتحہ: ۱ ۳؎ الفاتحہ :۲ ۴؎ الفاتحہ : ۵
۱۴
مساجد کی توسیع کے متعلق چندہ کا اعلان
تحریک جدید کے وعدے جلد پورے کئے جائیں
(فرمودہ ۵؍مئی۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’آج مَیں صدر انجمن احمدیہ اور جماعت کو دو امور کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اِن میں سے ایک کا تعلق صدر انجمن احمدیہ سے ہے اِس لئے مَیں نے اِس کا نام لیا ہے۔ دوسرے کا تعلق جماعت سے ہے اور پہلے کا جماعت سے بھی ہے۔ پہلا امر جس کا تعلق دونوں سے ہے وہ ہماری مساجد کی توسیع کا سوال ہے۔ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ جب سے گرمی تیز ہوئی ہے مسجد کا ایک گوشہ سائبان نہ ہونے کی وجہ سے خالی پڑا رہتا ہے۔ دُھوپ کی وجہ سے لوگ وہاں بیٹھ نہیں سکتے۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اسلام جس قسم کی مشقت کی برداشت کی عادت پیدا کرنا چاہتا ہے اور صحابہ جن حالات سے گزرتے تھے ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس خالی جگہ میں نہ بیٹھ سکنا اسلام کے معیار کے مطابق نہیں۔ عرب کے شمالی حصّہ میں گو سردی بھی پڑتی ہے مگر بالعموم وہاں شدید گرمی پڑتی ہے، ایسی شدید کہ لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے مگر اِس کے باوجود صحابہ مسجدنبوی کے کھلے صحن میں آکر نمازیں پڑھتے تھے۔ ایسی کڑکتی دھوپ میں جو یہاں سے زیادہ تیز ہوتی تھی اور ایسی گرمی میں جو یہاں سے زیادہ شدید ہوتی تھی صحابہ آکر بغیر کسی سائبان کے کھلے صحن میں نماز پڑھتے تھے۔ سوائے ان چند ایک کے جن کو چھت کے نیچے جگہ مل جاتی تھی باقی سب کے سب کھلے میدان میں دھوپ میں کھڑے ہوتے تھے اور صحن میں اِس قدر کنکر ہوتے تھے کہ صحابہ ؓ کا بیان ہے ہم چار پانچ بار ہاتھ مارتے تھے تب بھی سجدہ کے لئے جگہ صاف نہ ہوتی تھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ دیکھا تو فرمایا کہ تین بار تک تم ہاتھ مار سکتے ہو اِس سے زیادہ مرتبہ نہیں اور اِس معیار کے مطابق تو صدر انجمن احمدیہ اور منتظمین کہہ سکتے ہیں کہ یہاں تو دھوپ اور گرمی نہیں ہوتی اِس لئے بغیر سائبان کے اگر بیٹھنا پڑے تو کیا حرج ہے لیکن ہرزمانہ کے حالات مختلف ہوتے ہیں اور پھر جب باقی لوگ سائبان کے نیچے بیٹھے ہوں تو دوسروں کو بھی دُھوپ میں بیٹھنے میں تأمل ہوتا ہے۔ ہاں اگر سائبان بالکل ہی ہٹا دیں اور اُسی قسم کے حالات سے گزریں جن میں سے صحابہ گزرتے تھے تو یہ جواب صحیح ہو سکتا ہے لیکن جب کچھ لوگ تو آرام سے بیٹھے ہوں تو بعض سے یہ توقع رکھنا کہ وہ دُھوپ میں ہی بیٹھ جائیں ٹھیک نہیں۔ اِس میں شُبہ نہیں کہ جن کو سائبان میں جگہ نہیں ملتی اُن کو یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ تمہیں کس نے کہا تھا کہ پہلے نہ آؤ؟ اگر پہلے آجاتے تو ضرور اچھی جگہ مل جاتی اور یہ جواب بھی معقول ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جب انسان کے اندر کمزوری ہو تو ایسے موقع پر اس کا نفس اسے یہ جواب نہیں دیتا کہ دھوپ میں بیٹھنے کی ذمہ داری مجھ پر ہی ہے۔ اگر پہلے آجاتا تو سایہ میں جگہ مل جاتی اور چونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص نماز کے لئے پہلے آتا اور امام کے انتظار میں بیٹھتا ہے اُسے ثواب ملتا ہے۔ ۱؎ ثواب بھی حاصل کر سکتا اور اس طرح ظاہری آرام کے ساتھ ثواب بھی حاصل ہوتا مگر ہر انسان کا نفس اتنا مکمل نہیں ہوتا کہ اس کے دماغ کو صحیح مشورہ دے اور صحیح راہ پر چلائے۔ اِس لئے بالعموم انسانی دماغ غلط راہ پر لگاتا ہے اور یہی سمجھتاہے کہ میں کیوں تکلیف اُٹھاؤں ؟ اِس لئے جہاں اتنے سائبان بنوائے گئے ہیں وہاں اِس خالی جگہ کے لئے بھی بنوائے جاسکتے تھے بلکہ لاہور سے تو دو تین روز میں خریدے جاسکتے تھے اوراگر تیار نہ ملتے تو ہفتہ دو ہفتہ میں تیار کرائے جاسکتے تھے مگر مجھے افسوس ہے اس کی طرف توجہ نہیں کی گئی۔
اِس کے علاوہ ایک اَور سوال بھی ہے اور وہ مسجد مبارک کا ہے اِس کی توسیع کے لئے زمین خریدی جاچکی ہے مگر باوجود اِس کے کہ اِس پر دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اِس کی توسیع کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی پھر مسجد اقصیٰ کی موجودہ وسعت کے باوجود اگر اِس خالی جگہ میں سائبان بھی ہوں تو بھی مَیں سمجھتا ہوں یہ ابھی ناکافی ہے۔ سردیوں کے دنوں میں جب سب جگہ لوگ بیٹھے ہوتے تھے مَیں نے دیکھا ہے کہ پھر بھی بعض لوگ گلیوں میں کھڑے ہوتے تھے جس کے معنی یہ ہیں کہ ابھی اِس کی وسعت کی آواز بُلند ہو رہی ہے۔ اِس کے علاوہ عورتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں وہ جمعہ کے ثواب سے بالکل محروم رہتی ہیں۔ ایک عرصہ سے وہ جمعہ اور خطبہ سے محروم رہتی ہیں اب لاؤڈ سپیکر لگ جانے کی وجہ سے وہ اُم طاہر کے صحن میں جمع ہو کر شامل ہو جاتی ہیں لیکن مسجد میں آکر نماز پڑھنا جو ثواب رکھتا ہے وہ کسی کے گھر میں بیٹھ کر پڑھنے سے بہت زیادہ ہے۔ پس میرے نزدیک مسجد اقصیٰ میں توسیع کی بھی ابھی ضرورت ہے اور مسجد مبارک کی بھی۔ اِسی لئے کچھ عرصہ ہؤا مَیں نے تحریک کی تھی اگر صدر انجمن احمدیہ اور ذمہ دار افسر اِس پر توجہ کرتے اور اپنی ذمہ داری کو سمجھتے تو اب تک یہ کام ہو چُکا ہوتا۔ مَیں نے جب اِس کے متعلق خطبہ پڑھا تو باوجود یکہ مَیں نے کہہ دیا تھا کہ اِس تحریک میں دس روپیہ سے زیادہ کسی سے نہیں لیا جائے گا پھر بھی ایک عورت نے اپنی دو سو روپیہ کے قریب مالیت کی چوڑیاں اِس فنڈ میں داخل کرنے کے لئے مجھے بھیج دیں جو مَیں نے بہ زور واپس کیں اور کہا کہ آپ اِس میں دس روپیہ تک ہی دے سکتی ہیں اس خطبہ کے بعد طبائع میں ایک جوش پیدا ہؤا تھا باہر سے بھی اِس کے متعلق مجھے کئی خطوط آئے تھے اور مَیں سمجھتا ہوں اگر صدر انجمن احمدیہ کام کرتی تو اِس خطبہ کا افراد پر اِس قدر اثر تھا کہ اب تک یہ کام ہو چُکا ہوتا لیکن اِس نے نہ تو اِس آواز کو سب کے کانوں تک پہنچانے کی ضرورت سمجھی نہ اپنی کوئی ذمہ داری محسوس کی، نہ اِس کے متعلق کوئی ریزولیوشن پاس کیا اور نہ بیت المال نے اِس تحریک سے فائدہ اُٹھایا۔ اُنہوں نے بس خطبہ سُنا اور مُسکرا کر چل دیئے اور سمجھ لیا کہ تحریک ہو چکی۔ حالانکہ ہر تحریک کامیابی کے لئے پروپیگنڈا چاہتی ہے۔ ضروری ہوتا ہے کہ لوگوں تک اِسے پہنچایا جائے اور وصولی کا انتظام کیا جائے۔ آواز کان میں پڑی اور سُن کر چلے گئے یہ علامت تو قرآن کریم نے منافقوں کی بتائی ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کوئی بات فرماتے تو مومن اُسے سُن کر ذہن نشین کر لیتے تھے اور عمل پر مستعد ہو جاتے تھے لیکن منافق باہر نکلتے ہی کہتے تھے کہ مَا ذَا قَالَ انِفاً ۲؎ابھی ابھی یہ کیا کہہ رہے تھے ؟ ہماری جماعت اِس بات کی دعویدار ہے کہ وہ خلافت کا احترام کرتی ہے اگر یہ صحیح ہے تو سب سے زیادہ احترام مرکزی انجمن کی طرف سے ظاہر ہونا چاہئے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہی سب سے زیادہ میری ہدایات کو نظر انداز کرتی ہے۔ اِس کی مثال بالکل ’’من چہ سرائم و طنبورۂ من چہ مے سرائد‘‘ والی ہے۔ طنبورہ کچھ اور کہتا ہے اور بجانے والا کچھ اور بجاتا ہے اور اِس کے باوجود ناظر شکایت کرتے ہیں کہ آپ پبلک میں ہمارے خلاف ریمارکس کرتے ہیں اِس سے پبلک میں ہماری عزت قائم نہیں ہوتی مگر مَیں کہتا ہوں کہ خالی عزت کس کام کی جس سے اسلام کو کچھ فائدہ نہ پہنچے۔ تم لوگ اپنے طریق کو بدلو پھر خودبخود تمہاری عزت قائم ہو جائے گی جب تک تم اُس ہستی سے اپنے آپ کو وابستہ نہیں کرتے جسے اﷲ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اور (امام)بنایا ہے مَیں کتنا ہی کیوں نہ کہوں لوگ تمہاری عزت نہیں کریں گے کیونکہ عزت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور خدا تعالیٰ اس شخص کی عزت کس طرح کر سکتا ہے جو اس کے مقرر کردہ خلیفہ کی عزت نہیں کرتا۔ جب تک آپ لوگ گوش بَر آواز نہیں رہتے اور یہ خیال نہیں رکھتے کہ کیا آواز (امام) کی طرف سے آئی ہے اور پھر اِس پر عمل کرنے کے لئے مستعدی سے دوڑ نہیں پڑتے اُس وقت تک آپ لاکھ سرپٹکیں اپنی عزت قائم نہیں کر سکتے۔ جس دن آپ لوگ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں گے اسی دن لوگوں میں بھی آپ کی عزت قائم ہو جائے گی۔
اب کہ صدر انجمن احمدیہ اِس کام میں ناکام ہو چکی ہے مَیں اِسے جہاں تک قادیان اور اِس کے گردونواح کے دیہات کا تعلق ہے خدام الاحمدیہ کے سپرد کرتا ہوں اور نیشنل لیگ سے بھی خواہش کرتا ہوں کہ وہ اِس کام میں اِس کی مدد کرے۔ گو ایسی باتیں اِس کے پروگرام میں شامل نہیں لیکن رفاہِ عامہ کا کام کرنا اِس کا فرض ہے۔ پس نیشنل لیگ والے بھی اپنی خدمات اِن کے سپرد کر دیں اور وہ تین دن کے اندر اندر ساری قادیان، بھینی، کھارا، ننگل، احمد آباد اور قادرآباد سے وصولی کے لئے حلقے مقرر کر کے آنے والی جمعرات کے روز ہر احمدی گھر کے تمام مرد و عورت اور بچہ سے ایک آنہ فی کس کے حساب سے توسیع مساجد کے لئے چندہ وصول کریں۔ بچوں کی طرف سے ان کے ماں باپ ادا کریں۔ اِس سے زیادہ جو دینا چاہے بیشک دے لیکن دس روپیہ سے زیادہ کسی سے نہ لیا جائے۔ ایک آنہ سے کم کسی سے نہ لیا جائے اور دس روپیہ سے زیادہ۔ اور جو لوگ ایک آنہ بھی نہ دے سکیں ان کی طرف سے وہ لوگ ادا کریں جو دس روپے سے زیادہ دینا چاہتے ہیں۔ ہم تو کسی سے دس روپیہ سے زیادہ نہیں لیں گے لیکن جو زیادہ دینا چاہیں وہ اپنے غریب بھائیوں کی طرف سے دے دیں یہ بھی ثواب حاصل کرنے کا ایک طریق ہے۔ اِس طرح جو غریب نہیں دے سکتا اُسے بھی ثواب مل جائے گا اور ان کو خدا تعالیٰ کے بندہ کا دل رکھنے کا ثواب بھی مل جائے گا۔
پس جو لوگ گھر کے ہر فرد کی طرف سے ایک آنہ دے سکیں وہ دے دیں مگر جو زیادہ دینا چاہیں وہ دس روپیہ تک دے سکتے ہیں اور جو اِس سے بھی زیادہ دینا چاہیں وہ اپنے غریب بھائیوں کی طرف سے دے دیں۔ جو لوگ ایک آنہ بھی نہ دے سکیں ان کی بھی ایک فہرست بنا لی جائے اور پھر جو زیادہ دینا چاہیں وہ ایسے لوگوں کی طرف سے دے دیں۔ قادیان اور اس کے اردگرد کی احمدی آبادی دس بارہ ہزار ہے۔ ضروری نہیں کہ اُن میں سے ہر شخص ایک آنہ ہی دے بہت سے ایسے ہیں جو زیادہ دیں گے جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے میرے خطبہ کو سُن کر ایک عورت نے دو سو روپیہ کا زیور دے دیا تھا۔ بعض مردوں نے بھی اصرار کیا تھا کہ ان سے دس روپیہ سے زیادہ منظور کیا جائے اور باہر سے بھی بعض نے دس روپیہ سے زیادہ بھیج دئے تھے اور جب اُن کو لکھا گیا کہ اِس تحریک میں دس روپیہ سے زیادہ نہیں لئے جاسکتے تو اُنہوں نے لکھا کہ ہمارے خاندان کے اتنے افراد ہیں ان کی طرف سے محسوب کر لیا جائے تو مَیں سمجھتا ہوں جماعت میں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے جوش ہے ان مقامات مقدسہ کی وسعت میں حصّہ لینے کا جنہیں اﷲ تعالیٰ نے دُنیا کے لئے دائمی برکات کا موجب بنایا ہے۔ جماعت ان کی قدر و منزلت کو بخوبی سمجھتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ اس تحریک میں اپنے حوصلہ اور ہمت کے مطابق ضرور حصّہ لے گی۔ پس قادیان اور ملحقہ جماعتوں سے آئندہ جمعرات کے روز چندہ اکٹھا کیا جائے اور باہر کی جماعتوں سے بھی، خدام الاحمدیہ ، انصار اﷲ یا دوسرے لوگ کوشش کریں پہلے اپنی اپنی جماعت کے تمام افراد کا اچھی طرح جائزہ لے لیں اور پھر ایک ہی دن سب جماعت نکل کھڑی ہو اور ہر ایک سے کم سے کم ایک آنہ وصول کرے حتّٰی کہ بچوں سے بھی لیا جائے خواہ کوئی بچہ ایک دن، ایک گھنٹہ یا ایک سیکنڈ کا ہی کیوں نہ ہو اُس کے والدین اُس کی طرف سے بھی ادا کریں اور جو ایک آنہ بھی نہ دے سکتے ہوں اُن کی طرف سے دوسرے جو زیادہ دینا چاہتے ہوں دے دیں۔ جو آسودہ حال لوگ خواہش رکھتے ہوں کہ زیادہ دیں اُنہیں اِس قانون سے تو مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا ہاں وہ اپنے غریب بھائیوں کی طرف سے دے سکتے ہیں۔
پس قادیان، ننگل، بھینی، کھارا، احمد آباد، قادر آباد میں سے اگلی جمعرات کو چندہ وصول کیا جائے۔ اِس کام کے لئے وفد مقرر کر دیئے جائیں۔
ایک وفد تو وصولی کے لئے ہو اور دوسرا یہ دیکھنے کے لئے کہ وصولی صحیح طور پر ہو گئی ہے اور جو نہ دے سکے اُسے چھوڑیں نہیں بلکہ اُس کا نام بھی ضرور لکھ لیں اور ساتھ لکھ دیں کہ غربت کی وجہ سے نہیں دے سکا یا نہیں دینا چاہتا۔ تاہم اس کی طرف سے ادا کرا دیں اور اِس طرح وہ لوگ بھی جو نہیں دے سکتے یا جنہوں نے نہیں دیا ثواب سے محروم نہ رہ جائیں۔ جس شخص کو توفیق ہے اور وہ نہیں دیتا وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور اگر ہم اس کی طرف سے دے دیں گے تو اﷲ تعالیٰ اس کا گناہ معاف کر کے آئندہ اسے نیکی کے کام میں شامل ہونے کی توفیق دے دے گا۔ پس جو نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا دونوں کے نام لکھ لئے جائیں اور ہم کوشش کریں گے کہ دوسروں کی طرف سے وہ کسر پوری ہو جائے اور ان کا خانہ خالی نہ رہے۔
یہ تو مساجد کے متعلق پہلی بات تھی دوسرا امر جو خالص جماعت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ تحریک جدید کا چندہ ہے اِس کے اعلان پر چھ ماہ گزر چکے ہیں نومبر، دسمبر، جنوری، فروری، مارچ، اپریل۔ اِس وقت تک ایک لاکھ چھبیس ہزار سے زیادہ کے وعدے آچکے ہیں اور ہندوستان سے باہر کی جماعتیں ابھی باقی ہیں۔ خیال ہے کہ کُل وعدے ایک لاکھ اُنتیس،تیس ہزار کے ہو جائیں گے اس چھ ماہ کے عرصہ میں اگر باہر کے چندے نکال بھی دیئے جائیں تو ایک لاکھ دس ہزار کے قریب ہندوستان کے وعدے ہوں گے جس میں سے نصف یعنی پچپنہزار کے قریب اب تک وصول ہو جانا چاہئے تھا مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اِس وقت تک صرف چوبیس ہزار کے قریب روپیہ آیا ہے۔ جو گویا وعدوں کا پانچواں حصّہ ہے حالانکہ چھ ماہ گزر چکے ہیں اگر مجھے معلوم ہوتا کہ جوبلی فنڈ میں چندے دینے کی وجہ سے یہ تاخیر ہو رہی ہے تو مَیں سمجھتا یہ معمولی بات ہے کسی کا پہلے وصول ہو گیا اور کسی کا بعد میں مگر افسوس یہ ہے کہ جوبلی فنڈ کا چندہ بھی اِس رفتار سے وصول نہیں ہو رہا کہ سمجھا جائے وہ تحریک جدید کے چندوں کی وصولی کے رستہ میں روک بن رہا ہے البتہ صدر انجمن احمدیہ کے چندہ میں گزشتہ دو ماہ میں خوشکن زیادتی ہوئی ہے جس میں شوریٰ کے مقرر کردہ چندہ سے دو ہزار روپیہ زائد آیا ہے۔ چندہ عام اور حصّہ آمد کی رقم دو لاکھ تیس ہزار تھی مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے دو لاکھ بتیس ہزار پانچ یا چھ سَو وصول ہؤا ہے۔ گویا جماعت نے چندہ عام اور وصایا کی طرف زیادہ توجہ کی ہے اور یہ بتاتا ہے کہ جوں جوں بچے جوان ہوتے اور بے کار کام حاصل کرتے ہیں اور آمد رکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے جماعت کا قدم ترقی کی طرف اُٹھ رہا ہے اور اگر یہی حالت رہی تو اسراف سے بچنے کے لئے جو مَیں نے ہدایات دی ہیں ان پر عمل کرتے ہوئے مالی لحاظ سے جو دقتیں اس وقت در پیش ہیں وہ دُور ہو جائیں گی مگر صدر انجمن احمدیہ کے چندوں میں یہ اتنی ترقی نہیں جتنی کمی تحریک جدید کے چندوں میں ہے۔ یہ کمی دراصل اِس وجہ سے ہوتی ہے کہ انسان سمجھتا ہے کل دے دوں گا۔ یہ بھی نفس کا دھوکا ہوتا ہے۔ انسان سمجھتا ہے آج نہیں کل دے دیں گے اور کل کہہ دیتا ہے کہ پرسوں دے دیں گے۔ پھر بعض اوقات وہ سمجھتا ہے یہ بھی دینا ہے اور وہ بھی دینا ہے اور وہ گھبرا کر بجائے اِس کے کہ کوشش کو زیادہ کرے ہمت ہار بیٹھتا ہے اور جب بوجھ زیادہ ہو جاتا ہے تو وہ پھر بالکل ہی کوشش چھوڑ دیتا ہے۔ پنجابی کی ایک ضرب المثل ہے جس کے صحیح معنی تو مَیں نہیں جانتا مگر مفہوم سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ چڑھیا سَوتے لتھا بھو۔ بھو کے لفظی معنی تو میں نہیں جانتا لیکن اِس کامطلب میرے نزدیک یہ ہے کہ جب کسی انسان پر سَو روپیہ قرض ہو جاتا ہے تو وہ بے باک ہو جاتا ہے اور قرضے کا خوف جاتا رہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے سَو کون ادا کرے جب تک دس بیس یا تیس چالیس قرض ہو وہ جدوجہد کرتا ہے کہ اُتر جائے مگر جب سَو ہو جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ اب یہ اُترنا تو ہے نہیں جانے دو کیا کوشش کرنی ہے تو بعض کمزور طبع لوگ جب ان پر زیادہ بوجھ ہو جائے تو بجائے اِس کے کہ ذمہ داریاں ادا کرنے کی زیادہ جدوجہد کریں چپ بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک بزدل انسان کے نقطۂ نگاہ سے تو ممکن ہے یہ حالت تسلی بخش ہو لیکن یہ ایسی بات ہے جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا اور سمجھتا ہے کہ اب مَیں چونکہ اسے دیکھ نہیں سکتا اِس لئے میرے واسطے کوئی خطرہ بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جدوجہد کرنے والے کے لئے اگر ایک فی صدی امکان بھی باقی ہو تو وہ اِس سے فائدہ اُٹھاتا ہے نناوے فیصدی امکانات تباہی کے ہوں اور ایک بچاؤ کا ہو تو بھی وہ ضرور کوشش کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ممکن ہے یہی ایک میرے لئے مقدر ہو اور مَیں بچ جاؤں۔
مَیں نے بتایا تھا کہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے ذرائع کی طرف بھی توجہ کرنا ضروری ہے اور جب تک ہم عورتوں اور بچوں کو ساتھ نہ ملائیں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ عورتیں اور بچے ہی ہیں جن کی محبت کی وجہ سے انسان اپنے اوپر بوجھ اُٹھانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ بچہ جب بِلبَلا کر ایک چیز کی خواہش کر رہا ہو تو انسان کا دل رنجیدہ ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ چاہے مجھ پر بوجھ ہی کیوں نہ ہو جائے اس کی خواہش پوری کر دوں یا اگر بیوی اصرار کے ساتھ کسی چیز کی خواہش کرے تو مرد کہتا ہے کہ چلو اِس کا دل کیا دکھانا ہے۔ یہ تعلق چونکہ محبت کے ہوتے ہیں اِس لئے یہ مردوں پر زیادہ بوجھ کا باعث ہو جاتے ہیں۔ یورپ میں تو ایسا نہیں ہوتا وہاں تو بوجھ کلبوں اور شرابوں کی وجہ سے ہوتا ہے وہاں تو لوگ شادیاں کرتے ہی نہیں لیکن ہمارے مُلک میں لوگ زیادہ تر بیوی بچوں کی وجہ سے زیرِ بار ہوتے ہیں۔ اِس لئے جب تک وہ مدد نہ کریں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ بعض اوقات ایک انسان نیک ہوتا ہے اور سچی خواہش رکھتا ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے لیکن اِس کی بیوی اتنی سخت اور شَدِیْدُ الْبَطْش ہوتی ہے کہ وہ سمجھتا ہے اگر مَیں نے روپیہ اِس کے کہنے کے مطابق خرچ نہ کیا تو وہ لڑائی دنگا کرے گی اور اِس طرح میری بے عزتی بھی ہو گی۔ تو بچوں کی محبت اور عورتوں سے بعض ڈر اور بعض محبت کی وجہ سے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکتے لیکن مَیں نے بتایا تھا کہ ہماری عورتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے اخلاص میں اتنی بڑھی ہوئی ہیں کہ بہت ہی کم ایسی ہیں کہ اگر ان کے سامنے دین کی ضرورت کو رکھا جائے تو وہ تعاون کرنے اور ہاتھ بٹانے کے لئے تیار نہ ہوں۔ سینکڑوں عورتیں ایسی ہیں جو مردوں سے بھی زیادہ دین کا جوش رکھتی ہیں اور ایسی بھی ہیں جو مردوں کو مجبور کرتی ہیں کہ اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ دوسری قوموں میں ایسی مثالیں بہت ہی کم ہیں۔ کئی سال ہوئے مَیں نے تحریک کی تھی کہ عورتوں کو تحریک کی جائے کہ وہ چندوں کی وصولی میں مدد کریں۔ اِس پر ایک جماعت نے لکھا کہ ان کے ہاں ایک دوست تھے جو بہت سُست تھے وہاں کے دوستوں نے جاکر ان کی بیوی سے کہا کہ اِس دین کے کام میں آپ ہماری مدد کریں اِس دوست نے جب تنخواہ لاکر بیوی کو دی تو اُس نے پوچھا کہ آپ چندہ دے آئے ہیں اُس نے جواب دیا کہ نہیں چندہ تو نہیں دیا سیکرٹری مِلا نہیں تھا پھر دے دوں گا مگر بیوی نے کہا کہ مَیں تو ایسے مال کو ہاتھ لگانے کے لئے تیار نہیں ہوں جس میں سے خدا تعالیٰ کا حق ادا نہ کیا گیا ہو۔ مَیں تو نہ اِس سے کھانا پکاؤں گی اور نہ کسی اَور کام میں صَرف کروں گی۔ مرد نے کہا کہ چندہ میں صبح دے دوں گا اِس وقت دیر ہو چکی ہے رکھو مگر بیوی نے کہا کہ پہلے چندہ ادا کرآؤ پھر مَیں ہاتھ لگاؤں گی اور اگر اِس وقت جاکر ادا نہیں کرسکتے تو ابھی اپنے ہی پاس رکھو۔ اِس پر وہ شخص اُسی وقت گیا اور جاکر سیکرٹری سے کہا کہ پتہ نہیں تم لوگوں نے کیا جادو کر دیا ہے کہ میری بیوی تو روپیہ کو ہاتھ نہیں لگاتی اور کہتی ہے کہ جب تک چندہ ادا نہ ہو مَیں اِسے خرچ ہی نہیں کروں گی۔ اُسی وقت چندہ ادا کیا اور کہا کہ آئندہ تنخواہ کے ملنے کے دن ہی مجھ سے چندہ لے لیا کرو تا گھر میں جھگڑا نہ ہو۔ تو وہ عورت تھی مگر مرد سے زیادہ ہمت اور جُوش رکھتی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اِس مرد کے دل میں دینے کی خواہش تو ہو مگر چونکہ خرچ بیوی کرتی تھی اِس لئے وہ ڈرتا ہو کہ کہیں گھر میں جھگڑا نہ ہو اور جب اسے معلوم ہو گیا کہ اِس کی بیوی کی بھی یہی خواہش ہے تو اُس نے بھی آگے قدم بڑھا لیا ہو۔ تو ہماری عورتوں میں خداتعالیٰ کے فضل سے ایسا اخلاص اور جوش موجود ہے کہ اگر ان کو دین کی ضرورت سے آگاہ کردیا جائے تو ساٹھ فیصدی ان میں سے تعاون کے لئے تیار ہو جائیں گی اور جب ان کو معلوم ہو گا کہ ان کے مرد اس لئے چندے ادا نہیں کر سکتے کہ گھر کے اخراجات زیادہ ہیں تو وہ ان کو کم کر کے مدد کریں گی۔ اِس کے لئے مَیں نے ایک تجویز یہ کی ہے کہ مَیں عورتوں کے نام ایک چِٹھی لکھوں گا جو ہر عورت کو بھیجی جائے گی اور اِس میں ان کو تحریک کی جائے گی کہ وعدہ کریں کہ وہ ہماری مدد کریں گی اور اقتصادی کفایت کر کے اور اپنے خاوندوں کو یاد دلا کر انہیں ذمہ داریوں کے ادا کرنے کے قابل بنا دیں گی اور جو عورتیں یہ وعدہ کریں وہ اپنے دستخط کر کے بھیج دیں ممکن ہے اِس تحریک میں پہلے پہل زیادہ کامیابی نہ ہو لیکن اگر مسلسل جاری رکھا جائے تو عورتوں میں ایسی بیداری پیدا ہو جائے گی اور وہ ایسی ہوشیار ہو جائیں گی کہ پھر یاد دہانی کی بھی ضرورت نہ رہے گی اَور ایسی عورتوں کی گود میں پرورش پانے والی اولاد بھی ایسی مخلص اور دین دار ہو گی کہ جو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر پوری طرح ادا کرے گی۔ اِس وقت تک ہماری طرف سے عورتوں میں بیداری پیدا کرنے کی پوری پوری جدوجہد نہیں ہوئی۔ ایک طرف تو یورپ نے ان کے اندر ایسی بیداری پیدا کر دی ہے کہ وہ سارا دن اِدھر اُدھر پھرتی اور ناچتی ہیں اور رات کو جب مرد تھکا ہؤا آتا ہے تو انہیں اِس کا علم ہی نہیں ہوتا اور وہ بھی شراب پی کر سو جاتا ہے۔ اُنہوں نے عورتوں کو ایسا بیدار کیا ہے کہ ان کی نیند ہی اُڑ چکی ہے اور خود سو گئے ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں کہ ان کی بیداری کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ حالانکہ اسلام نے عورتوں کو خاص احکام اور ذمہ داریاں دی ہیں اور پھر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے کام لیا ہے۔ دُنیا اس وقت دو ضدّوں کی طرف جارہی ہے۔ یورپ نے تو ان کو ایسا بیدار کر دیا ہے کہ موت کے قریب پہنچا دیا ہے۔ کیونکہ جب نیند نہ آئے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور ہم نے ان کو ایسا سُلایا ہے کہ دیکھنے والا سمجھتا ہے شاید وہ مر چکی ہیں۔ ہم نے ان کی طاقتوں سے کام لینا بالکل ہی چھوڑ دیا ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خَیْرُ الْاُمُوْرِ اَوْسَطُھَا ۳؎ اور قرآن کریم میں بھی امتِ مسلمہ کو امتِ وُسطیٰ ۴؎کہا گیا ہے۔ پس ہمارا قدم بھی درمیانی رستہ پر ہونا چاہئے۔ نہ تو اتنی آزادی دے دیں کہ ہر قسم کی قیود کو چھوڑ دیں اور نہ ایسی پابندیاں عائد کر دیں کہ گردنوں میں طوق و اغلال اور پاؤں میں زنجیر و سلاسل ڈال دیں بلکہ چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ قیود اور پابندیوں کا ان کو پابند بناتے ہوئے زیادہ سے زیادہ آزادی دیں تا مرد اور عورتیں دونوں اپنے اپنے حلقہ میں مفید کام کر سکیں کیونکہ جب تک عورتوں میں بیداری اور دینی جوش نہ ہو ہم خود بھی پورے طور پر بیدار ہو کر کام نہیں کر سکتے۔ مرد کا کام گھر سے باہر ہی سہی اور عورت کاگھر میں لیکن جب مرد دیکھے کہ گھر میں اس کی بیوی بیمار اور بے ہوش پڑی ہے تو وہ باہر جا کیسے سکتا ہے مگر جب گھر میں بیوی تندرست اور ہوش میں ہو تو وہ آزادی کے ساتھ باہر جائے گا اور شوق سے ہرکام کرے گا۔ اِسی طرح اگر مردوں کو یہ معلوم ہو کہ ہماری بیویاں ہوشیار ہیں تووہ یہ نہیں سوچیں گے کہ ہم اگر کوئی کام کر کے گھر گئے تو بیوی لڑے گی بلکہ ہمارے ساتھ شریک ہوگی تو وہ خوش دلی سے کام کریں گے۔ صحابہ کی عورتیں اِسی رنگ میں دینی امور میں تعاون کرتی تھیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک مقرب صحابی تھے دینی خدمات کا اُن کو بہت شوق تھا اور ہمیشہ اِس سلسلہ میں اِدھر اُدھر بھیجے جاتے تھے۔ ایک موقع پر اُن کا بیٹا بیمار تھا لیکن اُنہیں کوئی دینی کام پیش آگیا اور وہ اُسے بیمار ہی چھوڑ کر صبح گھر سے نکل گئے بعد میں لڑکا فوت ہو گیا۔ وہ شام کو گھر آئے۔ ہمارے زمانہ کی کوئی عورت ہوتی تو آتے ہی ایک دو ہتڑ خاوند کے رسید کرتی اور ایک اپنے آپ کو مارتی کہ کمبخت تجھے کچھ پتہ ہی نہیں بچہ کا کیا حال ہے اور یا پھر برقعہ اوڑھ کر نکل کھڑی ہوتی کہ مَیں ایسے منحوس گھر میں رہوں گی ہی نہیں مگر اِس عورت کا خاوند جب گھر آیا تو جانتے ہو اُس نے کیا کیا؟ اُس نے آگے بڑھ کر استقبال کیا، ہنسی خوشی کھانا کھلایا اور جب خاوند نے پوچھا کہ بچہ کا کیا حال ہے؟ تو کہا کہ پہلے سے اچھا ہے کیونکہ وہ فوت ہو چُکا تھا اور تکلیف کی حالت سے نکل چُکا تھا۔ جب مرد کھانا کھا چُکا تو اُس نے چار پائیاں بچھائیں، بستر کئے اور جب سونے لگے تو کہا کہ اگر محلہ کی کوئی عورت میرے پاس کوئی امانت چھوڑ جائے اور پھر کچھ عرصہ بعد آکر واپس مانگے تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟ خاوند نے کہا کہ یہ کیا بے ہودہ سوال ہے؟ امانت امانت والے کے حوالہ کرنی چاہئے اور کیا کرنا چاہئے؟ تب اُس نے کہا کہ اچھا ہمارے پاس بھی اﷲ تعالیٰ کی ایک امانت تھی جو اُس نے واپس لے لی ہے۔ ۵؎اِس کی بجائے اگر وہ روتی پیٹتی تو ممکن تھا اگلے روز خاوند کی توجہ ہی خدمتِ دین سے ہٹ جاتی اور وہ کہتا کہ خدمت تو کی مگر گھر میں چَین نہیں اب کچھ توجہ گھر کی طرف بھی کرنی چاہئے مگر اُس نے ایسا نمونہ پیش کیا کہ اُس کا یہی خیال ہؤا ہو گا کہ مَیں جتنی بھی خدمت کروں کوئی ڈر نہیں۔ گھر میں ایک محافظ موجود ہے۔ پس عورتیں اگر اندرونی ذمہ داریاں برداشت کریں تو مرد آزادی کے ساتھ باہر جاسکتا اور خدمت کر سکتا ہے اور عورتوں میں بیداری اور دینی روح کا پیدا کرنا اشد ضروری ہے۔ وہ مرد کبھی کامل نہیں ہو سکتا جس کی بیوی اُس کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہو لیکن ایک کمزور بھی زیادہ قُربانی کر سکتا ہے اگر اُس کی بیوی اُس کا ہاتھ بٹانے والی اور دل بڑھانے والی ہو اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اس کے لئے مَیں نے تجویز کی ہے کہ عورتوں کے نام ایک خط لکھوں اور وہ وعدہ کریں کہ دینی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں وہ اپنے خاوندوں کے ساتھ تعاون کریں گی اور اِس کے ساتھ مَیں یہ بھی چاہتا ہوں کہ لجنہ اماء اﷲ یا جہاں لجنہ نہ ہو وہاں مرد جلسے کر کے ان کو توجہ دلائیں اور بتائیں کہ اب وقت آچُکا ہے کہ جماعت کے دونوں حصّے مضبوط ہو کر دین کی خدمت میں لگ جائیں۔
مَیں اﷲ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں عورتوں کی بیداری کی اہم ذمہ داری صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق دے جو اس کے اور اس کے رسول کے منشاء کے مطابق ہو اور ایک طرف تو ہماری عورتوں میں بیداری اور کام کی روح پیدا ہو اور دوسری طرف وہ مغربی آزادی بلکہ مادرپدر آزادی سے محفوظ رہیں اور ہمارے مرد اور ہماری عورتیں دونوں ہی اِس کے منشاء کو پورا کرنے والے ہوں۔‘‘ (الفضل ۱۳؍مئی ۱۹۳۹ئ)
۱؎ بخاری کتاب الاذان باب مَنْ جَلَسَ فِی الْمَسْجِدِ یَنْتَظِرُ الصَّلٰوۃَ (الخ)
۲؎ محمد :۱۷
۳؎ تذکرۃ الموضوعات الفتنصفحہ ۱۸۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۵ء میں الفاظ ’’اَوْ سَاطُھَا‘‘ ہیں۔
۴؎ (البقرۃ :۱۴۴)
۵؎ مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب فضائل ابو طلحۃ الأنصاری
۱۵
نماز باجماعت کی ادائیگی کی اہمیت
(فرمودہ ۱۲؍مئی۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’نیکیوں میں ترقی اور تنزّل بتدریج ہؤا کرتا ہے۔ جب کوئی شخص نیکی کے میدان میں ترقی کرتا ہے تو آہستہ آہستہ کرتا ہے اور جب تنزّل کرنے لگتا ہے تو اُس وقت بھی آہستہ آہستہ کرتا ہے نہ یکدم ترقی کرتا ہے نہ یکدم تنزّل میں گر جاتا ہے۔ چھوٹا چھوٹا فرق ہوتا ہے جو بتدریج بڑھتے بڑھتے بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ انسان بعض دفعہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کر رہا ہوتا ہے اور اُسے معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ ترقی کر رہا ہے مگر ایک دن کیا دیکھتا ہے کہ وہ ترقی کے میدان میں بہت آگے نکل چُکا ہے۔ اِسی طرح وہ بعض دفعہ بظاہر معمولی باتوں کو نظر انداز کر رہا ہوتا ہے کہ یکدم اسے معلوم ہوتا ہے وہ بہت نیچے گر گیا ہے۔ ہمارے مُلک میں ایک لطیفہ مشہور ہے۔ کہتے ہیں کوئی شخص تھا اُس کو یہ خیال ہو گیا کہ وہ بہت بڑا پہلوان ہے آہستہ آہستہ یہ خیال اُس پر غالب آگیا اور وہ سمجھنے لگ گیا کہ مَیں دُنیا کا سب سے بڑا بہادر اور طاقت ور انسان ہوں اور کوئی شخص بہادری اور جرأت میں میرا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اِس پر اُسے خیال آیا کہ اپنی بہادری کا کوئی نشان بھی قائم کرنا چاہئے۔ چنانچہ اُس نے خود بھی سوچا اور اپنے دوستوں سے بھی مشورہ لیا کہ وہ کونسی چیز ہے جس کے ذریعہ بہادری کا نشان قائم کیا جاسکتا ہے۔ آخر اُس کو معلوم ہؤا کہ جانوروں میں سے شیر ایک ایسا جانور ہے جس کو لوگ بہادری کی مثال میں بیان کیا کرتے ہیں۔
پس اس نے فیصلہ کیا کہ مجھے شیر کی شکل اپنے جسم پر گدوانی چاہئے۔ یہ فیصلہ کر کے وہ کسی گودنے والے کے پاس گیا اور اُسے شیر کی شکل گودنے کو کہا۔ گودنے والے نے جب رنگ بھرنے کے لئے سوئی ماری تو اُسے درد محسوس ہؤا اور پوچھنے لگا میاں کیا کرنے لگے ہو؟ اُس نے کہا شیر گودنے لگا ہوں۔ اِس پر اُس نے دریافت کیا کہ شیر کا کونسا حصّہ؟ نائی نے کہا شیر کا دایاں کان گودنے لگا ہوں اُس نے پوچھا کہ اچھا یہ بتاؤ اگر شیر کا دایاں کان نہ ہو تو شیر رہتا ہے یا نہیں؟ نائی نے کہا رہتا تو شیر ہی ہے اِس پر اُس نے کہا اچھا پھر دایاں کان چھوڑ دو اور آگے چلو۔ جب نائی نے بایاں کان گودنے کے لئے سوئی ماری تو پھر اُس کو درد محسوس ہؤا اور اُس نے پھر پوچھا میاں اب کیا گودنے لگے ہو؟ اُس نے کہا اب بایاں کان گودنے لگا ہوں۔ وہ کہنے لگا اچھا یہ بتاؤ اگر شیر کا بایاں کان نہ ہو تو شیر رہتا ہے یا نہیں؟ نائی نے جواب دیا کہ رہتا تو شیر ہی ہے اِس پر اُس نے کہا اچھا اِس کو بھی چھوڑو اور آگے چلو۔ اِس کے بعد جب نائی نے دُم بنانے کے لئے سوئی ماری تو پھر وہ کہنے لگا اب کیا بنانے لگے ہو؟ گودنے والے نے کہا دُم ۔ کہنے لگا اچھا یہ بتاؤ اگر کسی شیر کی دُم نہ ہو تو وہ شیر رہتا ہے یا نہیں؟ نائی نے کہا رہتا تو شیر ہی ہے۔ کہنے لگا اچھا پھر اِس کو بھی چھوڑو اور آگے چلو۔ اِس طرح اِس نے چار پانچ مرتبہ جو کیا تو نائی سوئی رکھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ایک دو چیزوں کے نہ ہونے سے تو شیر رہ سکتاہے لیکن سب چیزوں کے نہ ہونے سے تو شیر کا کچھ بھی نہیں رہتا۔
بظاہر یہ ایک مضحکہ خیز مثال معلوم ہوتی ہے لیکن درحقیقت یہ نہایت سبق آموز حکایت ہے اور یہ نصیحت اپنے اندر پنہاں رکھتی ہے کہ تھوڑا تھوڑا چھوڑنے سے سب کچھ چھوٹ جاتا ہے اور کچھ بھی ہاتھ میں نہیں رہتا۔
اسلام کے نہایت ہی اہم اور مہتم بِالشّان اصول میں سے ایک اصل نماز باجماعت ادا کرنا ہے اور یہ ایک بہت بڑا حُکم ہے۔ ایک پہاڑ ہے نیکی کا جس طرح پہاڑ کی بُلند چوٹیوں کے آنے سے قبل کئی چھوٹی چھوٹی چوٹیاں آتی ہیں پہلے چھوٹے چھوٹے ٹیلے آتے ہیں پھر اُن سے اونچے ٹیلے پھر اُن سے اونچے پھر جھاڑیوں والے ٹیلے آنے شروع ہو جاتے ہیں پھر پہاڑ آنے شروع ہوتے ہیں اُس کے بعد چِیڑودیار کے بلند و بالا درختوں والی اونچی پہاڑیاں آتی ہیں اور آخر میں برف سے ڈھکی ہوئی نہایت اونچی پہاڑیوں پر یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے۔ ان بُلند چوٹیوں کے بعد پہاڑ پھر نیچا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ سب سے اونچے پہاڑ کے بعد اس سے چھوٹا اور اس کے بعد اِس سے چھوٹا پہاڑ آتا ہے پھر ٹیلے آتے ہیں پھر ناہموار زمین آتی ہے اور اس کے بعد ہموار زمین آنی شروع ہو جاتی ہے۔ اِسی طرح نماز کا بھی حال ہے یہ بھی ایک پہاڑ ہے جو انسان کو نیکی کی بُلند ترین چوٹی تک پہنچاتا ہے۔ اب یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ اِس پہاڑ کی چوٹی پر انسان بغیر ابتدائی مراحل طے کئے پہنچ جائے؟ یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے اِس کے متعلق بعض احکام دیئے۔ مثلاً سب سے پہلے اذان دیئے جانے کا حکم ہے اِس کے بعد وضو کیا جاتا ہے اور پھر سُنتیں پڑھی جاتی ہیں اِس کے بعد فرض آتے ہیں جو پہاڑ کی چوٹی کے مقابل پر ہیں۔ فرضوں کے بعد پھر سُنتیں ادا کی جاتی ہیں اور تب انسان کو نماز سے فراغت حاصل ہوتی ہے۔ اِس کے علاوہ ذکرِ الٰہی بھی ہے جو نماز سے پہلے اور نماز کے بعد کیا جاتا ہے اور جو بہت ہی ضروری چیز ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ذکر الٰہی انسان کے لئے بہت بڑی برکات کا موجب ہوتا ہے اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے وہ ایسا ہی ہے گویا جہاد میں مشغول ہے ۱؎ لیکن آجکل کے احمق نام نہاد تعلیم یافتہ نوجوانوں کے نزدیک مسجد میں نماز کے انتظار کے لئے بیٹھنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے حالانکہ وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ اگر انسان کی پیدائش کی غرض حصول دُنیا ہی تھی تو نماز کے لئے وقت خرچ کرنا بھی تو وقت ضائع کرنا ہے۔ وقت ضائع کرنے والی چیز خواہ کم ہو یا زیادہ ایک ہی بات ہے۔ اب یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ جو شخص مثلاً پچیس منٹ نماز کے انتظار میں بیٹھے وہ تو وقت ضائع کرنے والا ہو لیکن دوسرا شخص جو دس منٹ نماز میں خرچ کرے وہ وقت ضائع کرنے والا نہ ہو۔ کوئی عقلمند اور سمجھدار آدمی اِس کیلے کو نہیں کھائے گا جو سڑا ہؤا اور گندا ہو بلکہ وہ اُسے پھینک دے گا یہ نہیں ہو گا کہ وہ کچھ حصّہ کھائے اور باقی کے متعلق کہہ دے کہ مَیں یہ نہیں کھاتا یا ایک خربوزہ جس میں کیڑے پڑے ہوئے ہوں اور جس میں سے بد بو آرہی ہو اُس کے متعلق وہ یہ کبھی نہیں کرے گا کہ اُس کی پانچ چھ کیڑوں والی پھانکیں تو کھالے اور باقی پھینک دے اور کہے کہ مَیں گندا خربوزہ نہیں کھا سکتا وہ یقینا چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا بھی ایسے خربوزے کا کھانے کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ کُجا یہ کہ وہ زیادہ حصّہ کھا لے اور تھوڑا چھوڑ دے۔ پس یہ احمقانہ خیال ہے کہ نماز کے انتظار میں بیٹھنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ نقص بعض احمدیوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ وہ نماز تو پڑھتے ہیں لیکن ذکرِ الٰہی کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور نماز پڑھنے کے لئے وہ ایسی ہی مسجد کی تلاش کرتے ہیں جس میں نماز جلدی پڑھائی جاتی ہو اور پھر امام ایسا ڈھونڈتے ہیں جو دو تین ٹھونگیں مار کر نماز پڑھا دے اور مقتدیوں کو جلد فارغ کر دے اور ان کو زیادہ وقت نماز کے لئے صرف نہ کرنا پڑے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز اپنے اپنے محلہ کی مسجد میں ادا کرو۔ ۲؎ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا اُس وقت یہ بے حکمت سا نظر آتا تھا لیکن انبیاء علیہم السلام کی فراست غیر معمولی طور پر تیز ہوتی ہے اور وہ انسانی نفس کی تمام کمزوریوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے احکام دیتے ہیں۔ چنانچہ موجودہ زمانہ کے نقائص کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اِس حُکم میں ایک بہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ جب تم اپنے محلہ کی مسجد چھوڑ کر دوسری جگہ جاتے ہو تو دراصل آرام طلبی کے لئے جاتے ہو کیونکہ تمہیں خیال ہوتا ہے کہ وہاں نماز جلدی ہو جائے گی۔ تم جانتے ہو کہ وہاں امام کس قسم کی نمازپڑھاتا ہے اور تم اپنے محلہ میں نماز اِس لئے نہیں پڑھتے کہ تم جانتے ہو وہاں تم کو انتظار کرنا پڑے گا اور نماز بھی ادا کرنی ہو گی۔
پس یہ ایک نہایت ہی پُر حکمت حُکم ہے جس کی حکمت اب نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہے۔ پھر بعض لوگ ایسی مسجد میں جاکر نماز پڑھتے ہیں جہاں بچوں کو نماز پڑھائی جاتی ہے چونکہ اِس جگہ نماز گھنٹی بجنے کے ساتھ ہوتی ہے اور بچوں کے لئے جلدی پڑھا دی جاتی ہے اِس لئے وہ بھی اِسی مسجد میں جاکر نماز پڑھتے ہیں لیکن محلہ کی مسجد میں چونکہ انہیں انتظار کرنا پڑتا ہے اِس لئے وہ محلہ کی مساجد میں نماز نہیں پڑھتے۔ حالانکہ امام کا انتظار اور ذکرِ الٰہی میں مشغول رہنا یہ بہت بڑی نیکیاں ہیں اور یہی نیکیاں انسان کو نیکیوں کے پہاڑ کی چوٹی تک پہنچاتی ہیں۔ اگر اِس پہاڑ تک پہنچنے کے لئے ابتدائی نیکیوں کی ضرورت نہ ہوتی جو ٹیلوں وغیرہ سے مشابہت رکھتی ہیں تو نماز کے لئے اذان کیوں دی جاتی؟ پھر امام کے انتظار کا کیوں حُکم دیا جاتا جس میں ذکر الٰہی کیا جاتا ہے اور پھر سُنتیں پڑھنے کا حُکم کیوں دیا جاتا ؟ اِسی طرح نماز باجماعت کا حکم کس لئے دیاجاتا؟ یہ سب احکام اِسی لئے ہیں کہ انسان ان پر عمل کرتے ہوئے آہستہ آہستہ نیکی کے بُلند پہاڑ پر چڑھے مگر جو شخص بغیر اِن بلندیوں کو عبور کرنے کے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھنا چاہتا ہے وہ احمق اور نادان ہے وہ نہیں جانتا کہ اﷲ تعالیٰ نے روحانی ترقی کے لئے کونسے اصول اور ذرائع مقرر کئے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دین کی تکمیل کے لئے ان تمام ذرائع کا استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے جو اِس کو حاصل کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کے حاصل کئے بغیر دین کی تکمیل قطعاً نہیں ہو سکتی۔ یہی مغربی تہذیب سے متاثر نوجوان جو ہر بات میں وجہ اور حکمت تلاش کرنے کے عادی ہیں اُن کو دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی جگہ ڈنر پر جانا ہوتا ہے تو کالے کوٹ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں کبھی کسی سے پوچھتے ہیں کبھی کسی سے اور اگر کالا کوٹ نہ ملے تو وہ اسے اپنے لئے سخت ذلت کا باعث سمجھتے ہیں۔ اب بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ کالے کوٹ کا ڈنر کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ کیا کالے کوٹ کے ساتھ روٹی کاٹنی ہوتی ہے یا پھل کاٹنے ہوتے ہیں یا ہڈی چبانے کا کام لینا ہوتا ہے؟ لیکن باوجود اِس بات کے کالے کوٹ کے ساتھ ڈنر کا کوئی تعلق نہیں وہ کالاکوٹ پہننا ضروری سمجھتے ہیں مگر اسلام کے حُکموں پر اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں حُکم کیوں ہے فلاں کیوں ہے؟ وضو کرنے کی حکمت ان کی سمجھ میں نہیں آتی، نماز سے پہلے ذکرِ الٰہی کرنے کی حکمت ان کی سمجھ میں نہیں آتی اور وہ گھبرا جاتے ہیں لیکن ڈنر کے لئے کالا کوٹ یا سوٹ کے ساتھ ٹائی پہننے یا بوٹ کے ساتھ جراب پہننے کی حکمت سمجھنے کی انہیں کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ خیال رکھتے ہیں کہ پتلون میں کوئی کریز (CREASE) نہ پڑے اور وہ بغیر اِس کی حکمت سمجھنے کے اِس کو ضروری سمجھتے ہیں غرض شیطان کی پیدا کی ہوئی تمام پابندیوں کو اختیار کرتے اور اس کی پیدا کردہ یک جہتی کے لئے کوشاں رہتے ہیں مگر خدا کی مقرر کردہ پابندیوں کی مخالفت کرتے ہیں اور اِس کی یک جہتی کی تدبیروں کو لغو قرار دیتے ہیں۔ اِسی طرح بعض لوگ ایسے ہیں جو اپنی دکانوں میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب تکبیر ہو تو نماز میں جا شامل ہوں۔ ایسی ہی ایک دکان فخرالدین ملتانی کی تھی جو اِس قسم کے لوگوں کا اڈّا تھا اِس جگہ بڑے بڑے لوگ جو معزز سمجھے جاتے ہیں بیٹھے رہتے تھے اور اِس انتظار میں رہتے تھے کہ کب تکبیر ہو تو مسجد میں جائیں۔ اب گو اِس دکان کے نہ ہونے کی وجہ سے اِس میں ایک حد تک کمی آگئی ہے مگر پھر بھی بعض لوگ ابھی تک ایسا کرتے ہیں اور تکبیر پر ہی مسجد میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے خاندان کے بعض افراد میں بھی یہ سُستی آگئی ہے اور ہمارے گھر کے بعض بچے بھی اِس مرض میں مُبتلا ہیں۔ مَیں نے ان کے متعلق دیکھا ہے کہ جب مَیں مسجد میں آتا ہوں تو وہ شاذ ہی مجھے یہاں نظر آتے ہیں بلکہ گھر میں سُنتیں پڑھ کر انتظار کرتے رہتے ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ مَیں گھر میں سے ہو کر مسجد میں چلا گیا ہوں تو اُس وقت وہ دوڑتے ہوئے نماز میں آشامل ہوتے ہیں۔ آج تو ان کو بیشک یہ سہولت میسّر ہے مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ مَیں ہمیشہ رہنے والی ہستی نہیں، ہمیشہ رہنے والی ہستی تو حیّ و قیوم خُدا ہی کی ہے۔ میرے بعد جو خلیفہ ہو گا کون کہہ سکتا ہے کہ وہ کِس گھر کا فرد ہو گا؟ اُس وقت اِنہیں کیونکر علم ہو گا کہ امام مسجد میں نماز کے لئے آگیا ہے۔ اُس وقت ان کو جو تیس تیس سال سے عادت پڑی ہوئی ہو گی وہ کیسے دُور ہو گی؟ اور وہ کیسے باجماعت نماز ادا کریں گے؟ اگر اِس وقت اِنہوں نے اپنی حالت کی اصلاح نہ کی تو پہلے ان کی جماعت کی پہلی رکعت جاتی رہے گی پھر دوسری رکعت جاتی رہے گی پھر تیسری رکعت جاتی رہے گی اور آہستہ آہستہ وہ باجماعت نماز ادا کرنے سے ہی محروم ہو جائیں گے اور خیال کرلیں گے کہ چلو گھر پر ہی نماز پڑھ لیں اور بعد میں ممکن ہے وہ گھر میں بھی نماز پڑھنا چھوڑ دیں۔ مَیں ان کو اِس حدیث کے مطابق کہ کسی کا نقص لوگوں کے سامنے بیان نہیں کرنا چاہئے ۔اشاروں میں توجہ دلا چُکا ہوں لیکن جب ان پر میرے اشاروں کا کوئی اثر نہیں ہؤا تو مَیں نے ضروری سمجھا کہ اب زیادہ وضاحت سے کام لے کر ان کو توجہ دلاؤں تاکہ وہ اپنی اِس غفلت کی عادت کو ترک کر دیں۔ جو لوگ گھروں میں نماز پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں وہ آہستہ آہستہ نماز پڑھنا باکل چھوڑ دیتے ہیں۔ چنانچہ مَیں نے آج تک کبھی نہیں دیکھا کہ گھر پر نماز پڑھنے والا کوئی شخص ہمیشہ نماز کا پابند رہا ہو وہ بالآخر نماز کا تارک ہی ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی نماز رسمی ہوتی ہے محبت اور ایمانی روح اس میں نہیں ہوتی وہ پہلے توگھر میں نماز پڑھتا رہتا ہے مگر جس دن کسی عقلمند اور سمجھدار آدمی سے اس کی ملاقات ہو (مَیں نے عقلمند کا لفظ اِس لئے استعمال کیا ہے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک عقلمند وہی ہوتا ہے جو نماز کو بے فائدہ سمجھے اور اسلام کی عائد کردہ پابندیوں کو بُرا قرار دے) اور وہ کہے کہ میاں اِس نماز کا تم کو کیا فائدہ؟ تو اِسی روز سے وہ نماز پڑھنا چھوڑ دے گا اور کہے گا کہ واقع میں اِس نماز کا کوئی فائدہ نہیں حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ وہ نماز جس کا اُسے کوئی فائدہ نظر نہیں آیا وہ اِس کی اپنی بنائی ہوئی نماز تھی۔ خدا کی نماز تو وہ پڑھتا ہی نہیں تھا۔ اگر وہ خدا کی نماز پڑھتا اور ان شرائط کے ساتھ ادا کرتا جو اس کے لئے مقرر ہیں تو اِس کا اُسے فائدہ بھی پہنچتا اِس کے بغیر اس کی نماز محض ایک رسم تھی جس میں ایمان نہیں تھا اور نہ وہ رُوح اِس کے اندر تھی جس رُوح کا نماز کے اندر پایا جانا ضروری ہے۔ نماز اپنی ان قیود اور پابندیوں کے ساتھ جو اﷲ اور اُس کے رسُول نے مقرر کی ہیں ایک حسین ترین چیز ہے لیکن اگر کسی حسین کی ناک کاٹ دی جائے آنکھ پھوڑ دی جائے گالوں پر نشان لگا دیئے جائیں اور کان کاٹ لئے جائیں تو کون شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ وہی حسین ہے۔ یہی حال نماز کا ہے کہ نماز اپنی تمام قیود اور پابندیوں کے ساتھ ایک انتہا درجہ کی خوبصورت چیز ہے مگر جب ہم اپنی غفلت اور نادانی کی وجہ سے اِس کو چھانٹتے چلے جائیں تو وہ بے فائدہ اور لغو چیز بن جاتی ہے اور ایسی نماز کبھی بابرکت نہیں ہو سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ لوگ نماز اِس طرح پڑھتے ہیں جس طرح مرغ ٹھونگے مار کر دانے چُگتا ہے ایسی نماز یقینا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی بلکہ بعض دفعہ ایسی نماز *** کا موجب بن جاتی ہے جیسے قرآن کریم میں ہی اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ۳؎کہ نماز گرفت ہے مگر کن کے لئے ہے ۴؎ ان کے لئے جن کی نماز قشر رہ جاتی ہے جس کے اندر مغز نہیںہوتا جو اس کو کاٹ کر اور اس کی شکل کو بگاڑ کر ادا کرتے ہیں۔ انسان تبھی اِس *** سے بچ سکتا ہے جب وہ نماز کو اس کی قیود اور پابندیوں کے ساتھ ادا کرے اور پھر اِس سے فائدہ اُٹھائے لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو بجائے ثواب کے ایک *** مول لیتا ہے اور اگر وہ ضد کی وجہ سے کہتا ہے کہ ہاں فائدہ ہے اور درحقیقت اُسے فائدہ کوئی نہیں ہوتا تو اس وقت وہ جھوٹا بھی ہوتا ہے اور *** بھی کیونکہ وہ خدا اور رسول اور اپنے مذہب کو عملی طور پر جھوٹا کہتا ہے۔ ہاں اگر وہ نماز کو ان قیود اور پابندیوں کے ساتھ ادا کرتا ہے جو خدا اور رسول نے مقرر کی ہیں تو اس کو اس کا ضرور فائدہ ہوتا ہے اور اس کے دل پر خدا تعالیٰ کی محبت غلبہ کر لیتی ہے بلکہ نماز سے بھی پہلے جب یہ ذکر الٰہی کرتااور نماز کے لئے انتظام کرتا اور سُنتیں وغیرہ پڑھتا ہے تو اس وقت اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ دست در کار دل بایار۔ دیکھو نماز کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی کی دعوت کرے اور کہے کہ کھانا اکٹھا نہیں کھایا جائے گا ہر شخص اپنا برتن بھجوا دے اِس میں کھانا ڈلوا دیا جائے گا، اب جو شخص برتن لے کر جائے گا اُسے کھانا مل جائے گا مگر جو برتن لے کر نہیں جائے گا وہ محروم رہے گا۔ اِسی طرح نماز کیا ہے؟ نماز ایک روحانی کھانے کی تقسیم کا وقت ہے جو شخص اس وقت برتن لے کر جائے گا وہ اُس میں کھانا ڈلوا لائے گا مگر جو خالی ہاتھ جائے گا اُس کو وہاں سے خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑے گا کیونکہ وہ برتن لے کر ہی نہیں گیا۔ گو جانے میں وہ برتن لے جانے والوں کے برابر ہی رہا لیکن ان کو تو کھانا مل جائے گا جن کے پاس برتن ہوں گے مگر اُس کو کچھ نہیں ملے گا کیونکہ اس کے پاس برتن نہیں تھا یا پھر فرض کرو یہ برتن تو لے جاتا ہے مگر پاخانہ سے بھرا ہؤا ہے جیسے پاخانہ کا پاٹ اُٹھا کر کوئی لے جائے تو اُس میں جو کھانا ہی ڈالا جائے گا وہ کھانے کے قابل نہیں ہو گا بلکہ پھینک دینے کے قابل ہو گا۔
ایک لطیفہ مشہور ہے کہتے ہیں کوئی لڑکا اپنے مُلّا اُستاد کے لئے گھر سے کھیر لے کر گیا چونکہ اس کے گھر سے کھیر چھوڑ پہلے کبھی باسی روٹی بھی نہیں آئی تھی اِس لئے اُستاد بہت ہی حیران ہؤا اور اُس نے لڑکے سے دریافت کیا کہ بیٹا آج تیری ماں کو کھیر بھیجنے کا خیال کیسے آگیا؟ اس نے جواب دیا کہ مُلّا جی بات دراصل یہ ہے کہ اماں نے کھیر پکائی تھی اِس میں کُتّا مُنہ ڈال گیا اِس پر ماں مجھے کہنے لگی کہ جا مُلّا جی کو دے آ۔ اُس کو یہ سُن کر سخت غصّہ آیا اور اُس نے برتن زمین پر دے مارا جو گرتے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور کہنے لگا کمبخت کیا کُتّے کا جھوٹا میرے لئے ہی رکھا تھا؟ لڑکے نے جب دیکھا کہ برتن ٹوٹ گیا ہے تو وہ رونے لگ گیا اُس پر مُلّا نے کہا کہ تو روتا کیوں ہے؟ برتن میں کُتّا مُنہ ڈال گیا تھا اور وہ کھانے کے لئے استعمال کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ لڑکا کہنے لگا مجھے ڈر ہے کہ گھر جاؤں گا تو اماں خفا ہو گی کیونکہ یہ برتن جس میں مَیں کھیر ڈال کر لایا تھا اِس میں میری ماں چھوٹے بھائی کو پیشاب کرایا کرتی تھی اب چونکہ یہ برتن ٹوٹ گیا ہے اِس لئے وہ ناراض ہو گی۔ یہی حال بغیرقیود اور شرائط کے نماز ادا کرنے کا ہے۔ حقیقی نماز تو بندے اور خُدا میں تعلق قائم کرتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ نماز کو اُن تمام آداب کے ساتھ ادا کیا جائے جو خدا اور اُس کے رسُول نے اس کی ادائیگی کے لئے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان شرائط کو پوری طرح ملحوظ نہیں رکھتا تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کھانا لینے کے لئے گندا برتن لے جائے اور اگر وہ کسی امر کی بھی نگہداشت نہیں رکھتا جیسے بعض لوگ نہ ذکرِ الٰہی کرتے ہیں نہ سُنتیں پڑھتے ہیں اور نماز کے لئے انتظار کرنے کو تضیعِ اوقات سمجھتے ہیں۔ ان کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جو کھانا لینے کے لئے تو جائے مگر برتن اس کے پاس نہ ہو دونوں صورتوں میں دعوت کا فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا کیونکہ جو نماز بھی ان قیود کے بغیر پڑھی جائے گی وہ گندے برتن میں چیز ڈلوانے کے مترادف ہو گی اور اِس قسم کی نماز پڑھنے والے کو نماز کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ نماز کے وقت محبتِ الٰہی کی غذا تقسیم ہو رہی ہوتی ہے اور اس کو وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو نہ صرف برتن لے کر جائے بلکہ پاک اور صاف برتن لے کر اس کے حضور حاضر ہو۔
پس مَیں دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں خصوصاً اپنے خاندان کے بعض بچوں کو (شاید ان میں سے بعض بچوں کو یہ بُرا لگے اور طبعاً بُرا محسوس بھی ہوتا ہے اِسی لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ سلم نے فرمایا ہے کہ جب کسی کو کوئی نصیحت کرنی ہو تو علیحدگی میں کرو ۵؎مگر چونکہ مَیںان لوگوں کو الگ بھی سمجھا چُکا ہوں اور مَیں دیکھتا ہوں کہ میرے اِس سمجھانے کا کوئی خاطرخواہ اثر اُن پر نہیں ہؤا اِس لئے مَیں نے چاہا کہ اب ان کا نام لے کر اِس بات کو بیان کردوں۔)یہ بات یاد رکھو کہ موجودہ تہذیب اور تعلیم ان چیزوں کو حقیر کر کے دکھاتی ہے مگر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے وہ اپنی چیزوں کو حقیر کر کے نہیں دکھاتی۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں مگر ان کے خلاف چلتے ہوئے ان کی جان نکلتی ہے۔ جیسے مَیں نے بتایا ہے کہ ڈنر کے موقع پر ہر شخص کے لئے کالاکوٹ پہن کر جانا ضروری سمجھا جاتا ہے اور وہ اِس بات کو بڑی مصیبت اور ہتک سمجھتے ہیں کہ ان کی مجلس میں کوئی ایسا شخص شریک ہو جائے جس نے کالا کوٹ پہنا ہؤا نہ ہو۔
ایک دعوت مجھے بھی اِس وقت یاد آگئی وہ بھی ڈنر تھا جس میں شمولیت کے لئے مجھے بُلایا گیا۔ مَیں نے کہلا بھیجا کہ مَیں ڈنر کے موقع پر کالاکوٹ نہیں پہن سکتا اب وہ ایک طرف دعوت میں مجھے شریک بھی کرنا چاہتے تھے اور دوسری طرف ان کے لئے یہ بھی بڑی بھاری مصیبت تھی کہ مَیں ایسی حالت میں شامل ہوں جبکہ مَیں نے کالاکوٹ پہنا ہؤا نہ ہو اور اس طرح ان کی ذلّت و رُسوائی ہو۔ تنگ آکر اُنہوں نے یہ فیصلہ کر دیا کہ کوئی شخص کالاکوٹ پہن کر نہ آئے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ بڑی ذلت کی بات ہو گی کہ اَور لوگوں کے تو کالے کوٹ ہوں گے اور ان کا کالاکوٹ نہیں ہو گا تو اُنہوں نے سرے سے یہ قید ہی اُڑا دی محض اِس لئے کہ یہ محسوس نہ ہو کہ قانون ٹوٹ گیا ہے اور اُنہوں نے کسی شرط کی خلاف ورزی کی ہے۔
پھر یورپین لوگوں نے خود اپنے اوپر کئی قسم کی قیود عائد کر رکھی ہیں چنانچہ امریکہ کے ایک رسالہ میں مَیں نے ایک دفعہ ایک مضمون پڑھا وہاں مَرد عورت ناچتے ہیں اور اِس میں کوئی شرم اور حیا محسوس نہیں کی جاتی۔ غیر عورت کا غیر مَرد کے ساتھ ناچ یورپ میں بالکل جائز ہے مگر اُنہوں نے یہ شرط رکھی ہوئی ہے کہ اس ناچ میں تین اُنگلی کا مرد اور عورت کے درمیان فرق رہنا چاہئے۔ اب مَرد اور عورت ناچتے چلے جائیں گے اور اُسے بالکل جائز اور درست سمجھیں گے لیکن ساتھ ہی یہ ضروری ہو گا کہ ان میں تین اُنگل کا فرق رہے۔ اگر تین انگل سے کم فرق ہوجائے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ درست نہیں۔ اِس مضمون میں یورپین لوگوں کے اِس طریق عمل پر مضمون نویس نے جو ہمارے نقطۂ نگاہ میں تو سمجھدار تھا مگر اپنی قوم کے نزدیک بیوقوف اور احمق تھا بڑی ہنسی اُڑائی اور لکھا کہ یہ تین انگل کا کونسا فرق ہے جس میں زور دیا جاتا ہے اور وجہ کیا ہے کہ تین اُنگلی کا فرق ہو تو تہذیب قائم رہتی ہے اور اگر اڑھائی اُنگلی کا فرق ہو جائے تو تہذیب اُڑ جاتی ہے مگر ان میں یہ ایک قاعدہ ہے۔ وہ اِس کی پابندی کرتے ہیں اور ہر شخص خیال کرتا ہے کہ یہ بڑا اہم معاملہ ہے۔ اِسی طرح تیرہ کا عدد انگریزوں میں منحوس سمجھا جاتا ہے کیونکہ حضرت مسیح ؑ کے بارہ حواری تھے اور تیرھویں آپ خود تھے لیکن پھر انہی میں سے ایک نے حضرت مسیح کو چند روپوں کے بدلے گرفتار کرادیا۔ بس اُس وقت سے تیرہ کا عدد انگریزوں میں منحوس سمجھا جاتا ہے۔ ان میں بڑے بڑے فلاسفر، بڑے بڑے پروفیسر، بڑے بڑے مدبر، بڑے بڑے سائنسدان اور بڑے بڑے عقلمند اور دانا لوگ ہیں مگر جہاں تیرہ کا اجتماع دیکھیں گے ان کے چہرے زرد پڑجائیں گے اور کوشش کریں گے کہ کسی طرح اِس دعوت سے بھاگ جائیں جس میں تیرہ آدمی جمع ہیں اور یا تو وہ تلاش کر کے کسی چودھویں آدمی کو اپنے اندر شامل کر لیں گے اور اگر کسی چودھویں کو شامل نہ کر سکیں تو ایک ان میں سے ضرور کھِسک جائے گا تاکہ تیرہ کی نحوست اُن پر نہ آئے۔
ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ کسی دعوت میں تیرہ انگریز شریک ہوگئے۔ اب ان میں سے ہرایک نے چاہا کہ مَیں اِس دعوت سے کسی طرح کھِسک جاؤں تاکہ بارہ پیچھے رہ جائیں اورنحوست جاتی رہے۔ لیکن چونکہ وہ یہ بات کھلے طور پر کہہ نہیں سکتے تھے اِس لئے ہر ایک نے اپنے اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیا کہ مَیں اِس مجلس سے کھِسک جاؤں گا۔ چنانچہ ایک ایک کر کے سب اِس مجلس سے اُٹھ گئے اور صرف میزبان ہی پیچھے رہ گیا مہمان کوئی نہ رہا۔ تو یہ لوگ اوّل درجہ کی احمقانہ باتوں کے پیچھے چلتے ہیں مگر جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی احکام نازل ہوں تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ اِس میں یہ شرط ہے، وہ قید ہے، فلاں پابندی ہے اور فلاں سختی ہے۔ حالانکہ وہ خود دُنیوی امُور میں ان پابندیوں سے بہت زیادہ خطرناک پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ پس یاد رکھو نماز باجماعت اسلام کے اہم اصول میں سے ایک اصل ہے جو شخص بغیر بیماری اور بغیر کسی ایسی تکلیف کے نماز چھوڑتا ہے جس میں اس کا نماز باجماعت سے محروم رہنا مجبوری قرار دی جا سکے وہ نماز کو عمداً ضائع کرتا ہے اور جو قوم نماز ضائع کر دیتی ہے وہ اﷲ تعالیٰ کے فضل کو کبھی حاصل نہیں کر سکتی۔‘‘ (الفضل ۲۰؍مئی ۱۹۳۹ئ)
۱؎ کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۳۲۳ ۔ مطبوعہ حلب ۱۹۷۱ئ
۲؎
۳؎ الماعون :۵ ۴؎ الماعون :۶
۵؎
۱۶
توسیع مساجد کے لئے چندہ کی تحریک
اور قادیان سے ناخواندگی کو دُور کرنے کی سکیم
(فرمودہ ۱۹؍مئی۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے گزشتہ سے گزشتہ خطبہ جمعہ میں مساجد احمدیہ کے لئے چندہ کا اعلان کیا تھا اور خدام الاحمدیہ کے یہ کام سپرد کیا تھا۔ قادیان میں اُنہوں نے چندہ جمع کرنے کی تو کوشش کی ہے مگر اتفاقاً ان کی ایک لسٹ جو ہمارے گھر میں پہنچی اُسے دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ گو وہ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں اور میرے خطبات کا مضمون بھی واضح تھا یہ چندہ ایسی نادانی سے جمع کیا گیا ہے کہ تحریک کو ہی ضائع کر دیاہے۔ اتفاقاً ان کی ایک لسٹ میرے ہاتھ آگئی جو کسی آدمی نے ہمارے ہاں بھجوائی تھی اِس میں ہر ایک کے نام کے آگے ایک ایک آنہ لکھا تھا حالانکہ مَیں نے یہ کہا تھا کہ ایک آنہ سے لے کر دس روپیہ تک اِس میں دیا جاسکتا ہے مگر ان لوگوں نے غالباً نادانی اور ناتجربہ کاری سے یہ خیال کر لیا کہ خطبہ تو ہر ایک شخص کو یاد ہی ہو گا اور پھر جس کا ارادہ زیادہ دینے کا ہو گا وہ زیادہ دے دے گا۔ ان کی پہلی غلطی تو یہ تھی کہ انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ خطبہ سب کو یاد ہی ہو گا اور دوسری یہ کہ انہوں نے خیال کر لیا کہ جس نے زیادہ دینا ہو گا خود ہی دے دے گا۔ ان کا یہ خیال انسانی فطرت سے ناواقفی کی دلیل ہے۔ جب کسی سے ایک آنہ مانگا جائے تو اُس سے یہ امید رکھنا کہ وہ خود بخود دس روپے دے دے گا انسانی فطرت سے ناواقفی ہے۔ شاید سَو میں سے ایک آدمی ایسا ہو گا کہ جو ایک آنہ مانگنے پر بھی دس روپیہ دے دے مگر ننانوے ایسے ہوں گے جو کہیں گے کہ اچھالے لو ایک آنہ اور ان کی اِس نادانی کا نتیجہ یہ ہؤا ہے کہ سوائے دو چار آدمیوں کے باقی سب نے ایک ایک آنہ ہی دیا ہے۔ حالانکہ جس روز مَیں نے تحریک کی تھی قادیان میں ہی کئی لوگ بیس بیس اور تیس تیس روپیہ دینے کے لئے تیار تھے بلکہ بعض تو سَوسَو دینے پر آمادہ تھے اور جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا ایک عورت نے اپنی دو سَو روپیہ کی چوڑیاں دے دی تھیں اور اصرار کے باوجود واپس نہیں لیتی تھیں مگر چندہ میں سب نے ایک ایک آنہ ہی دیا ہے۔ جب وہ فہرست ہمارے گھر پہنچی تو مَیں نے کہا کہ تمہارا وعدہ دس روپیہ کا تھا اِس ایک ایک آنہ سے دھوکا نہ کھانا۔
دوسری غفلت انہوں نے یہ کی کہ بارہ ایک بجے تک مجھ سے کوئی چندہ لینے نہ آیا آخر مَیں نے خود ہی دفتر والوں کو بُلا کر دس روپے بھجوائے اور ساتھ کہا کہ ان کو ملامت کی جائے کہ جب مجھ سے کوئی مانگنے کے لئے نہیں آیا تو مَیں کس طرح سمجھ سکتا ہوں کہ دوسروں سے مانگا گیا ہو گا۔
پس اِس کام میں خدام الاحمدیہ کا طریقِ عمل ناپسندیدہ ہے گو اُنہوں نے چندہ تو کیا ہے مگر معلوم ہوتا ہے دل سے کام نہیں کیا۔ یہ ان کا پہلا کام ہے جو میرے سامنے آیا ہے اور افسوس ہے کہ یہی صحیح طور پر نہیں ہؤا۔ اِس لئے آئندہ مجھے ان کی بہت سی رپورٹوں پر ڈسکاؤنٹ لگانا پڑے گا۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ باہر کی جماعتیں اِس غلطی کا ارتکاب نہیں کریں گی۔ چاہئے کہ ہرگھر کے افراد کی فہرست تیار کر لی جائے اور پھر کہا جائے کہ آپ اتنے کَس ہیں اور ایک آنہ سے لے کر دس روپیہ فی کس تک چندہ میں دے سکتے ہیں۔ اب آپ اپنے نام کے آگے لکھ دیں کہ کتنا دیں گے اِس طرح تو لوگ زیادہ بھی دینے کے لئے آمادہ ہو سکتے ہیں لیکن جب مانگا ہی ایک آنہ جائے اور پہلے ہی سب کے آگے ایک آنہ لکھ کر بھیج دیا جائے تو ہر شخص یہی کہے گا کہ جب سلسلہ کی طرف سے مانگا ہی ایک آنہ گیا ہے تو مَیں زیادہ کیوں دوں؟ مَیں نے تو دس روپیہ یعنی ایک سو ساٹھ آنہ تک کی تحریک کی تھی مگر انہوں نے ایک آنہ کر دیا اور اِس طرح گویامیری نصیحت کا ایک سو انسٹھ حصّہ تلف کر دیا اور صرف ایک حصّہ پر عمل کیا۔ پس مَیں بیرونی جماعتوں کو ہوشیار کرتا ہوں کہ وہ ایسی نادانی کا ارتکاب نہ کریں بلکہ چاہئے کہ ہر فرد جماعت سے دریافت کریں کہ وہ کتنا چندہ دے گا؟ ایک آنہ سے لے کر ایک سو ساٹھ آنہ تک کوئی جتنا چاہے دے سکتا ہے اِسی طرح اس حد تک وہ اپنے اور اپنے بیوی بچوں کی طرف سے بھی چندہ دے سکتا ہے پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنی طرف سے مثلاً دس روپے بیوی کی طرف سے پانچ اور بچوں کی طرف سے چار چار آنہ دے دے۔ غرض یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنا زیادہ اور بیوی بچوں کا کم چندہ دے دے۔ بہرحال جب ایک آنہ سے لے کر دس روپے تک کی تحریک تھی تو خدّام الاحمدیہ کا فرض تھا کہ لوگوں کو موقع دیتے کہ کوئی جتنا چاہے لکھوا دے انہیں خود ہی ایک آنہ چندہ لکھ کر لوگوں کو نہیں بھجوانا چاہئے تھا لیکن انہوں نے خود تو ہر ایک کے نام کے آگے ایک آنہ لکھ دیا اور پھر امید یہ رکھی کہ لوگ زیادہ دے دیں گے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ عام طور پر لوگوں نے ایک ایک آنہ ہی دیا ہے۔ مَیں نے یہ چندہ کی لسٹ دیکھی ہے اِس سے مَیں اندازہ کرتا ہوں کہ زیادہ دینے والے پانچ سات سے زیادہ نہیں ہیں۔ حالانکہ میری تجویز پر اگر عمل کیا جاتا تو کئی گُنا زیادہ چندہ ہو سکتا تھا اور میرا اندازہ ہے کہ وہ پچاس ساٹھ آدمی جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار مجھ پر کیا تھا ان سے ہی ایک ہزار تک وصول ہو سکتا تھا۔ گو ہم نے ان لوگوں سے زیادہ چندہ لیا نہیں تھا مگر پھر بھی لوگوں کے خیالات کا تو علم ہو سکتا ہے لیکن خدّام الاحمدیہ نے سب کے نام کے آگے ایک ایک آنہ لکھ کر گویا اِس تحریک کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی یا یوں کہو کہ خالی ہڈی رہنے دی مگر اِس میں سے مغز نکال دیا۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کئی بار توجہ دلائی ہے مجھے افسوس ہے کہ جماعت کا نوجوان طبقہ عقل و ذہانت سے بہت کم کام لیتا ہے اور انسانی فطرت کا بہت کم مطالعہ کرتا ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں جب موقع ملے گپیں مارتے رہتے ہیں اور غور وفکر کی عادت نہیں ڈالتے اور زیادہ گپیں مارنے اور باتیں کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سوچ نہیں سکتے کیونکہ جب زبان بولتی ہے تو دماغ کام نہیں کر سکتا۔ اسلام نے ذکرِ الٰہی کا حُکم اسی لئے دیا ہے کہ جب انسان خاموش ہو تو دماغ کام کرتا ہے۔ جس وقت انسان باتیں کر رہا ہو اُس وقت اس کے مدّنظر یہ بات ہوتی ہے کہ سُننے والوں کے لئے زیادہ سے زیادہ دلچسپی کا سامان ہو۔ اِس لئے دماغ کو سوچنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی لیکن ذکرِ الٰہی کے وقت چونکہ لوگوں کی طرف توجہ نہیں ہوتی اِس لئے دماغ کو سوچنے کی طرف توجہ ہوتی ہے اور ذہن ترقی کرتا ہے۔ تو زیادہ باتیں کرنا فکر کی عادت کو کم کرتا ہے اور ہمارے نوجوان چونکہ یا تو باتیں کرتے ہیں اور یا پھر سوتے اور کھاتے ہیں اِس لئے دماغ کی طاقت کو بڑھانے کا ان کو بہت کم موقع ملتا ہے اور انسانی فطرت کا گہرا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔ وہ اِس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ کس طرح کسی کو نیکی کی تحریک کرنا زیادہ مُفید ہو سکتا ہے؟ کس طرح انسانی ذہن کو سلسلہ کی ضروریات کی طرف زیادہ سے زیادہ متوجہ کیا جاسکتا ہے؟ کس طرح اصلاح کے لئے آسانی سے تیار کیا جاسکتا ہے؟ وہ صرف باتیں ہی کرنا جانتے ہیں اور باتیں کرنے سے ہی سمجھ لیتے ہیں کہ کام ہو جائے گا۔ حالانکہ دُنیا میں کام باتیں کرنے والے نہیں بلکہ سوچنے والوں نے کیا ہے۔ پس ذکرِ الٰہی کی عادت، مراقبہ اور فکر سے کام لینا انسانی دماغ کو طاقت دینے اور کام میں خوبصورتی پیدا کرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ سوچنے اور فکر کرنے سے کام میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ دیکھو وہ بھی معمارہی تھے جنہوں نے تاج محل کا روضہ تعمیر کیااور وہ بھی معمار ہی ہیں جنہوں نے دارالصحت کے مکان بنائے ہیں اُنہوں نے بھی اینٹ پر اینٹ رکھی اور اِنہوں نے بھی مگر ایک نے فکر سے کام لے کر تحسینِ عمل پیدا کی اور تاج محل بنا دیا اور دوسرے نے غور وفکر سے کام نہ لے کر اپنے کام کو خوبیوں سے عاری کر دیا۔ کام تو دونوں کا ایک ہی ہے مگر ایک نے فکر سے کام لے کر اِس میں خوبصورتی پیدا کی اور دوسرے نے ایسا نہ کیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ دونوں کے کاموں میں اتنا ہی فرق ہو گیا جتنا دارالصحت کے مکانات اور تاج محل میں ہے۔ ایک نے ایسا مکان بنایا کہ اگر مُفت بھی رہنے کو دیا جائے تو انسان پسند نہیں کرے گا کہ اِس میں رہے لیکن دوسرے نے اِس میں ایسی خوبصورتی پیدا کی کہ اگر صرف دیکھنے کے لئے پانچ دس روپے ٹکٹ ہو تو لوگ شوق سے دیکھیں گے۔ بعض لوگ یورپ اور امریکہ سے اِسے دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ وہاں وہ رہ نہیں سکتے صرف دس پندرہ منٹ پھرتے ہیں یا ایک دو فوٹو لے لیتے ہیں مگر صرف اس کے لئے وہ ہزار ہا روپیہ خرچ کرتے ہیں کہ تاج محل کو نگاہ بھر کر دیکھ سکیں۔ تو یہ حُسنِ کار کا نتیجہ ہے۔ معمار نے فکر کر کے اِس ترتیب سے اینٹیں رکھیں کہ دیکھنے والوں کو آنکھوں کی لذت اور دل کا سرور حاصل ہوتا ہے۔ یہ کام بھی معمار کا ہی ہے اور دوسرا بھی معمار کا ہی ہے۔ جس کے پاس سے انسان چپ چاپ گزر جاتا ہے اور اسے خیال بھی نہیں ہوتا کہ اِسے دیکھے۔ ہر فن کا یہی حال ہے۔ کاتب ہیں جو کتابت کرتے ہیں ان کی انگلیاں بھی ویسی ہی ہیں جیسی دوسرے لوگوں کی لیکن وہ اتنا خوبصورت لکھتے ہیں کہ خواہ مخواہ پڑھنے کو دل چاہتا ہے مگربعض دوسرے لوگ ایسا گندا لکھتے ہیں کہ ہزار کوشش کے باوجود نہیں پڑھا جاتا۔ اِس کی وجہ صرف یہی ہے کہ کاتب لکھتے وقت سوچتا ہے ہر لفظ اور ہر نقطہ کو دیکھتا ہے کہ یہ مجھے اچھا لگتا ہے یا نہیں۔ اگر میری آنکھوں کو اچھا نہیں لگتا تو پڑھنے والوں کو کیونکر اچھا لگے گا وہ ہر لفظ پر غور کر کے اِس میں ایک حُسن پیدا کرتا ہے۔ دِلّی کے ایک کاتب میر پنجہ کش گزرے ہیں جن کا ہر حرف ایک روپیہ قیمت پاتا تھا وہ اگر کسی فقیر پر مہربان ہوتے تو اسے ایک حرف لکھ دیتے تھے کسی کو ب کسی کو ت کسی کو ج اور فقیر اِسے لے جاکر جامع مسجد کے نیچے بیچ دیتے تھے۔ لوگ بڑے شوق سے ایک ایک حرف ایک ایک روپیہ میں خرید کر گھروں میں بطور زینت لگاتے تھے اور پھر ایسے بھی لکھنے والے دُنیا میں موجود ہیں کہ جن کا خط دیکھ کر ہی سر میں درد شروع ہو جاتا ہے اور یہ بھی پتہ نہیں لگتا کہ یہ کسی آدمی نے لکھا ہے یا کوئی کیڑا سیاہی میں سے گزرگیا ہے۔ لاکھ سر پٹکو وہ پڑھا ہی نہیں جاتا بلکہ درد سر سے بھی بڑھ کر زحمت اُٹھانی پڑتی ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض خطوط ایسے آتے ہیں کہ گھنٹوں لگے رہتے ہیں پھر بھی کچھ پتہ نہیں لگتا پہلے میں پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں پھر دفتر والوں سے کہتا ہوں کہ اِس کا مطلب نکالو اور پھر بعض اوقات سارے زور لگاتے ہیں مگر لفظ پڑھا نہیں جاتا۔ اگرچہ لکھنے والے نے اپنی طرف سے بڑی محنت سے لکھا ہوتا ہے۔
تو کوئی چیز دُنیا میں ایسی نہیں کہ جسے حسنِ تفکر سے تزئین حاصل نہ ہو اور خدّام الاحمدیہ نے اس کام میں جو غلطی کی ہے وہ بھی اِسی وجہ سے ہے کہ انہوں نے حُسنِ تفکر سے کام نہیں لیا اور مَیں اِس بات کو پبلک میں بیان نہ کرتا اگر بیرونی جماعتوں سے بھی ایسی ہی غلطی کا ڈر نہ ہوتا اور اگر اِس واقعہ سے نصیحت کا کام نہ لینا ہوتا۔ مَیں نے خدّام الاحمدیہ کو پہلے بھی نصیحت کی تھی کہ ذہانت پیدا کریں اور پھر مرکزی مجلس کو تو سب سے زیادہ اِس کا ثبوت دینا چاہئے لیکن اِس کام میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی عہدیداروں نے دخل ہی نہیں دیا محلّہ والوں پر ہی چھوڑ دیا ہے۔
اِس موقع پر مَیں پھر اِن کو توجہ دلاتا ہوں کہ ذہانت اور عقل سے کام لینا انتہائی قومی ضرورتوں میں سے ہے اِس لئے ذہانت کو تیز کریں اور جب ذہانت پیدا ہو جائے اور عقل تیز ہو تو ہزار ہا نئے رستے نکل سکتے ہیں۔ دُنیا میں کئی قومیں ہیں اور سب کے ایک ہی جیسے ہاتھ اور مُنہ اور آنکھیں وغیرہ ہیں مگر بعض ان میں سے حاکم ہیں اور بعض محکوم ۔ حاکم وہی ہیں جو ذہانت سے کام لیتی ہیں۔ شدّتِ ذہانت ایک ایسی طاقت ہے جو قو م کو غالب کر دیتی ہے اور جب اِس کے ساتھ قوتِ عملیہ بھی شامل ہو جائے تو ایسی قوم کا دُنیا کی حاکم بن جانا یقینی ہو جاتا ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے ہندوستانی ہمیشہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ انگریز صرف چار کروڑ ہیں اور چھ ہزار میل سے آکر ہمارے مُلک پر حکومت کر رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ انگریزوں کو اِس کی توفیق کیسے ملی؟ آخر کوئی چیز تو ان میں ایسی تھی جس کی وجہ سے انہیں یہ فضیلت حاصل ہوئی۔ یونہی تو اﷲ تعالیٰ ایک قوم کی آزادی چھین کر دوسری کو اس کا حاکم نہیں بنادیتا۔ آخر اِس کی وجہ ہونی چاہئے۔ ہندوستانی سپاہی ہمیشہ برطانوی سپاہیوں کو بُرا بھلا کہتے اور گالیاں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ بُزدل ہوتے ہیں۔ ہمارے برابر لڑائی نہیں لڑ سکتے۔ صوبوں کے گورنر اور دوسرے افسر بھی ہندوستانی سپاہیوں کی تعریف میں بڑی دھواں دھار تقریریں کرتے اور کہتے ہیں کہ وہ بہت وفادار ہوتے ہیں، بہادر ہوتے ہیں اور بے شک وہ تنخواہ لیتے اور لڑتے ہیں اور مرتے بھی ہیں لیکن ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر گورا سپاہیوں کو گالیاں دیتے ہیں اور یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ جنگ کے موقع پر صابن پی لیتے ہیں تا بیمار ہو جائیں اور لڑائی میں شریک ہونے سے بچ جائیں مگر ہم دلیری کے ساتھ لڑتے ہیں۔ یہ باتیں ہمیشہ سے سُننے میں آتی ہیں اور ہم بھی بچپن میں یہ سُنا کرتے تھے اور آج تک سُن رہے ہیں مگر مَیں نے جونہی ہوش سنبھالا یعنی دس گیارہ سال کی عمر سے ہی یہ سوال کرنا شروع کر دیا کہ اگر وہ ایسے ہی بُزدل ہیں تو تم پر حکومت کس طرح کرتے ہیں؟ ان کے اندر کونسی ایسی خاص بات ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے مُلک پر قابض ہیں؟
اصل بات یہ ہے کہ وہ بُزدل ہوں یا کچھ ہوں اِس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے اندر ذہانت ضرور موجود ہے اور یہ بھی ایک قسم کی بہادری ہے۔ دُنیا میں مختلف قسم کی بہادریاں ہیں اور مُشکل وقت پڑنے پر نہ گھبرانا اور اِس کے حل کا کوئی نہ کوئی رستہ تلاش کر لینا یہ بھی ایک قسم کی بہادری ہے۔ پھر ہندوستانی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہمارا مُلک اتنا وسیع ہے یہاں سب چیزیں بکثرت پیدا ہوتی ہیں۔ غلہ اور کپاس وغیرہ خام اشیاء انگریز یہیں سے لے جاتے ہیں اور پھر ان سے مختلف چیزیں تیار کر کے ہمیں کو لُوٹتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ان کو اِس طرح لوٹنے کی طاقت کیسے حاصل ہوئی؟ یہ تو ہؤا نہیں کہ فرشتوں نے آکر ہندوستانیوں کے ہاتھ پیر باندھ کر انہیں انگریزوں کے آگے پھینک دیا ہو یا اگر فرشتوں سے ایسی بات منسوب نہ کی جاسکے تو شیطانوں نے ہندوستان فتح کر کے انگریزوں کے حوالے کر دیا ہو۔ ہندوستان نہ فرشتوں نے حوالے کیا اور نہ شیطانوں نے بلکہ انگریزوں نے خود اسے حاصل کیا اور ہم یہ مان لیتے ہیں کہ انہوں نے لڑائی سے اسے فتح نہیں کیا مگر عقل سے تو کیا ہے۔ انہوں نے عقل سے ہی اپنی فوقیت اور برتری ثابت کر دی اور اس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ گو ہمارے ہاتھ سے ان کا ہاتھ اچھا نہیں مگر ہمارے دماغ سے ان کا دماغ ضرور اچھا ہے۔ یہ بھی ایک زبردست فضیلت ہے۔ ہندوستانی کہتے ہیں کہ انگریز چالاکی سے جیت جاتے ہیں مگر چالاکی کیا ہے؟ ذہن کی تیزی کا نام چالاکی ہے اور ہاتھ کی تیزی زیادہ اچھی ہے یا ذہن کی؟ ایک شخص اچھا گورنر ہے مُلک کو قابو رکھ سکتا ہے، مقدمات کا اچھا فیصلہ کر سکتا ہے اور ایک شخص اچھا دبا سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں میں سے کس کی قیمت زیادہ ہو گی؟ اچھے گورنر، اچھے فلاسفر، اچھے جج کی یا اچھے دبانے والے کی؟ اگر تو دبانے والا زیادہ قیمتی وجود ہے تو بے شک ہم کہہ سکتے ہیں کہ انگریز اچھی تلوار نہیں چلا سکتے اِس لئے ہم ان سے افضل ہیں لیکن اگر دماغی قابلیت کی قیمت زیادہ ہے تو جب ہم کہتے ہیں کہ انگریز کا ہاتھ ہمارے ہاتھ سے اچھا نہیں اور پھر یہ حقیقت ہے کہ وہ ہمارے حاکم ہیں تو اِس کے صاف معنے یہ ہیں کہ ہم ان کی ایسی فضیلت کا اعتراف کرتے ہیں جو وہ خود بھی بیان نہیں کرتے مگر تم یہ کہہ کر کہ انگریز بُزدل ہیں بہت خوش ہوتے ہو کہ انگریزوں پر حملہ کر دیا۔ حالانکہ جب تم یہ کہتے ہو کہ فلاں قوم لڑائی میں اچھی ہے مگر ذہین نہیں تو یہ بہت کم تعریف ہے لیکن جب یہ کہتے ہو کہ لڑائی میں اچھی نہیں مگر ذہین بہت ہے تو اِس کی بہت زیادہ تعریف کرتے ہو۔ اگر کوئی کہے کہ فلاں شخص کے ساتھ پچاس ساٹھ آدمی تھے وہ ان کو لے کر میرے مکان پر آیا مجھے باندھ دیا اور مال اسباب لے کر چلا گیا تو اِس میں گھر والے کی کوئی ذلّت نہیں اور جس نے لُوٹا اُس کی کوئی عزت اور خوبی نہیں سوائے اِس کے کہ اِس کے ساتھ ایک جتھا تھا لیکن اگر وہ اِس طرح کہے کہ میرے ساتھ پچاس ساٹھ آدمی تھے اور وہ اکیلا تھا مگر چالاکی کے ساتھ ہمیں شکست دے گیا تو اِس میں حملہ آور کی عزت ہو گی ذلت نہیں۔ اِسی طرح انگریزوں کا بہت تھوڑی تعداد کے باوجود ہندوستان کو فتح کر لینا ان کی ذہانت کا ثبوت ہے اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ غیرمعمولی ذہانت نے ہی انگریزوں کو غلبہ دلوایا ہے اور اب یہی جرمنی کو آگے بڑھا رہی ہے۔ اِسی کی وجہ سے جاپان ترقی کر رہا ہے اور اِسی کے طفیل تُرکوں نے ترقی کی۔ ان میں ایک ذہین آدمی اﷲ تعالیٰ نے پیدا کیا جس نے تمام قوم کو اوپر اُٹھادیا تو ذہانت قومی ترقی کے لئے بہت ضروری چیز ہے۔ اِس لئے ہر کام سوچ اور فکر سے کرنا چاہئے اور سوچ لینا چاہئے کہ کس طرح کسی کام سے زیادہ بہتر اور مفید نتائج پیدا ہو سکتے ہیں؟
دوسری بات جس کی طرف مَیں توجہ دلانا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ مَیں نے قادیان میں ناخواندگی کو دُور کرنے کی تحریک کی تھی جو رپورٹیں اِس کے متعلق مجھے پہنچی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ پڑھنے سے گریز کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے پڑھ کر کیا نوکریاں کرنی ہیں؟ خدّام الاحمدیہ کو ایسی باتوں سے گھبرانا نہیں چاہئے دُنیا میں کبھی کوئی ایسی سکیم نہیں ہوئی جسے سب کے سب لوگ قبول کر لیں۔ کچھ نہ کچھ مخالف ضرور ہوتے ہیں اور اِس تحریک میں تھوڑی سی مخالفت برکت کاموجب ہوتی ہے۔ حضرت خلیفۂ اوّل سُنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے ایک نیک تحریک کی کچھ روز کے بعد آپ اس سے ملے تو دریافت کیا کہ کیا اس تحریک کو کامیابی ہو رہی ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں کئی لوگوں کی طرف سے اس کی پسندیدگی کے خطوط آرہے ہیں لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی برکت والی تحریک نہیں۔ آپ نے پوچھا کہ کیوں؟ تو اُس نے کہا کہ کسی نے اِس کی مخالفت نہیں کی۔ حالانکہ خداتعالیٰ کی طرف سے جو بھی باتیں ہوتی ہیں ان کے پیش کرنے والوں کو لوگ گالیاں دیتے ہیں۔ تھوڑے دنوں کے بعد وہ شخص آپ کو پھر ملا اور کہنے لگا کہ اب مَیں اِس تحریک کو بابرکت سمجھتا ہوں کیونکہ مغلّظات سے بھرا ہؤا ایک خط آیا ہے۔ تو کسی نیک تحریک میں مخالفت برکت کا موجب ہوتی ہے اور اس تحریک کی جو مخالفت ہوئی ہے یہ ثبوت ہے اِس امر کا کہ جماعت میں مرض پیدا ہو رہا ہے جس کے علاج کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے اور وقت پر مرض کا علم ہو جانا بھی برکت ہے۔ کیونکہ اِس صورت میں علاج ممکن ہوتا ہے۔ بہت سی بیماریوں کا علاج اِس لئے نہیں ہو سکتا کہ بروقت علم نہیں ہوتا اور اِس مخالفت کا پیدا ہونا ہمیں اِس طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہمیں زیادہ محنت اور کوشش سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پس خدّام الاحمدیہ بجائے اِس مخالفت سے گھبرانے کے زیادہ شوق اور محنت سے کام کریں۔ ایسے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کریں، پہلے محلوں کے ممبر سمجھائیں اگر اُن کا اثر نہ ہو تو عہدہ دار ایسے لوگوں کے پاس جائیں یہ بھی بے اثر ہو تو دوسرے بزرگوں کے وفد خدّام الاحمدیہ والے لے جائیں جو ان لوگوں کو سمجھائیں اور ان کو چھوڑیں نہیں جب تک کہ قائل نہ کر لیں۔ اگر اپنے آدمیوں کو بھی ہم قائل نہیں کر سکتے تو اِس کے یہ معنی ہیں کہ ہم اپنی کمزوری کا خود اعتراف کرتے ہیں۔ کمزور لوگ ہر وقت اور ہر زمانہ میں ہوتے ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں بھی منافق لوگ موجود تھے۔ پھر بعض لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو چھوڑ دینا چاہئے لیکن یہ بھی صحیح نہیں۔ کمزوروں کو دیکھ کر گھبرانا غلطی ہے مگر اِس بات پر مطمئن ہو جانا کہ ایسے لوگ ہر زمانہ میں ہوتے ہیں اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں بھی تھے اِس سے بھی بڑی غلطی ہے اگر پہلے سلسلوں میں کمزور لوگ رہے ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی تو ہے کہ اِس زمانہ کے بزرگوں نے کبھی ان کے وجود کو اطمینان کے ساتھ گوارا نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ان کی اصلاح میں لگے رہتے تھے اِسی طرح ہمیں بھی اِس کوشش میں لگے رہنا چاہئے کہ وہ بچ جائیں۔
پس تعلیمی سکیم کی مخالفت سے خدّام الاحمدیہ کو گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ مخالفوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پہلے خدّام خود سمجھائیں اگر اس کا اثر نہ ہو تو پھر پریذیڈنٹ اور سیکرٹری وغیرہ ان کے پاس جائیں اور سمجھائیں۔ اِس سے بھی فائدہ نہ ہو تو سلسلہ کے دوسرے بزرگ جائیں اور پھر بھی اگر نتیجہ خاطر خواہ نہ پیدا ہو تو مجھے لکھا جائے کیونکہ اتنی کوشش کے باوجود بھی جس کی اصلاح نہ ہو اس کی نسبت سمجھنا چاہئے کہ اس کی بیماری اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ جماعت سے الگ کیا جانے کے قابل ہے۔ پس مخالفت کی وجہ سے مایوس نہیں ہونا چاہئے اور نہ اِس بات سے مطمئن ہونا چاہئے کہ کمزوروں کا وجود لازمی ہے۔ بے شک ان کا وجود لازمی ہے مگر ان کی اصلاح کی کوشش اِس سے بھی زیادہ ضروری اور لازمی ہے۔‘‘ (الفضل ۲۴؍مئی ۱۹۳۹ئ)
۱۷
قادیان میں احرار کی تبلیغی کانفرنس اور حکومت
سورۂ فاتحہ سے ایک اَور رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت
(فرمودہ ۹؍جون۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مجھے قادیان سے دورانِ سفر میں برابر اطلاعیں ملتی رہی ہیں کہ قریب ہی احرار قادیان میں ایک اور جلسہ کرنے والے ہیں اور یہ کہ جماعت کے وہ افراد جن تک یہ خبریں پہنچ رہی ہیں ان میں ایک ہیجان اور بے چینی پیدا ہے۔ احرار کے جلسہ کے کئی پہلو ہیں۔ ایک تو یہ ہے جو مجھے حیرت میں ڈال رہا ہے کہ چند سال پہلے یعنی قریباً چار ساڑھے چار سال قبل ۱۹۳۴ء میں بھی احرار کی طرف سے ایک جلسہ یہاں منعقد کیا گیا تھا وہ جلسہ جس رنگ میں ہؤا اور اس کے جو نتائج پیدا ہوئے وہ گورنمنٹ کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتے اور پوشیدہ نہیں ہیں کیونکہ وہ سارا معاملہ اسی کے ساتھ تعلق رکھتا تھا بلکہ جیسا کہ بعد کے واقعات سے معلوم ہؤا اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کا بہت سا دخل اس جلسہ کے انعقاد میں تھا اور اسی کے اثر کے ماتحت زمین وغیرہ حاصل کی گئی تھی۔ جس وقت اُس جلسہ کے انعقاد کا اعلان ہؤا ہم نے گورنمنٹ پر یہ واضح کر دیا تھا کہ یہ جلسہ تبلیغی نہیں ہے بلکہ محض جماعت احمدیہ کو مرعوب کرنے کی غرض سے ہے اور ایک سیاسی رنگ رکھتا ہے اور اس جماعت کے مرکز میں جو اِس کے نزدیک بہت مقدس جگہ ہے باہر سے جتھوں کو لا کر ڈال دینا اور مظاہرے کرنا کسی صورت میں بھی اچھے نتائج پیدا نہیں کر سکتا مگر گورنمنٹ نے یہی جواب دیا کہ یہ تبلیغی جلسہ ہے اِس لئے ہم اسے نہیں روک سکتے لیکن جب وہ منعقد ہؤا تو مقامی افسروں کے اپنے رویّہ سے معلوم ہو گیا کہ وہ اسے تبلیغی جلسہ قرار دنہیں دیتے تھے۔ اِس لئے کہ سرکاری افسروں نے ہم سے اقرار لیا کہ احمدی اِس جلسہ میں نہ جائیں اور یہ ظاہر ہے کہ قادیان میں اب قریباً نوّے فیصدی جماعت احمدیہ کے افراد ہی آباد ہیں اور جس جگہ ایک جماعت کی کثرت ہو وہاں تبلیغ کی غرض صرف یہی ہو سکتی ہے کہ دوسرے کو اپنے خیالات پیش کرکے اپنا ہم خیال بنایا جائے لیکن جن لوگوں کو جلسہ کرنے والے تبلیغ کر سکتے تھے ان کو افسروں نے وہاں جانے سے روک دیا۔ پس اِس جلسہ کو تبلیغی جلسہ قرار دینا محض عناد اور ضد تھا۔ اِس معاملہ میں اتنا تعہّد کیا گیا کہ ستکوہا کا ایک احمدی جو راستہ پر سے گزر کر اپنے گاؤں کو جارہا تھا اُسے پولیس کے آدمی گرفتار کر کے سپرنٹنڈنٹ پولیس کے پاس لے گئے کہ یہ احمدی اس رستہ سے گزر رہا تھا جس کے قریب احرار جلسہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ رستوں پر گزرنا کوئی جُرم نہیں خصوصاً جن کا رستہ وہی ہو۔ پھر اِس جلسہ کے دوران میں اِس قدر سختی کی گئی کہ حُکم دے دیا گیا کہ احمدی اپنا لٹریچر ان دنوں میں تقسیم نہ کریں اور اِسے اِس انتہاء تک پہنچایا گیا کہ ایک تھانیدار نے خود پہرہ داروں کے داروغہ کو بھیج کر بعض ٹریکٹ منگوائے چونکہ کہا گیا تھا کہ پولیس مانگتی ہے اس نے دے دیئے جس پر وہ ٹریکٹ سپرنٹنڈنٹ کے سامنے پیش کئے گئے کہ دیکھئے یہ ٹریکٹ احمدی تقسیم کرتے ہیں اور جب ان کو اصل حقیقت بتائی گئی تو اِسے سُن کر بھی اُنہوں نے یہ کہا کہ خواہ پولیس والے مانگنے آئے تھے انہیں یہ ٹریکٹ نہیں دینے چاہئیں تھے۔ اِس کے بعد گورنمنٹ کی طرف سے مقدمہ چلایا گیا اور اِس بارہ میں حکومت کو جو رویّہ اختیار کرنا پڑا اِس سے بھی ثابت ہو گیا کہ ان کے نزدیک یہ جلسہ تبلیغی نہیں تھا بلکہ محض فتنہ و فساد کی غرض سے تھا مگر اِس کے انعقاد سے قبل گورنمنٹ کی طرف سے ہمیشہ یہی کہا جاتا رہا کہ یہ تبلیغی جلسہ ہے ہم اِسے کس طرح روک سکتے ہیں لیکن بعد میں سر ایمرسن گورنر پنجاب خود مان گئے کہ یہ تبلیغی جلسہ نہیں تھا اور کہ آئندہ ایسا جلسہ نہیں ہو گا۔ گویا گورنمنٹ کے نقطۂ نگاہ سے سب سے بڑا افسر یعنی گورنر خود اقرار کر چُکا ہے کہ یہ جلسہ تبلیغی نہیں تھا اور کہ آئندہ ایسا جلسہ قادیان میں ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اب اگر باوجود اِس اقرار کے ایسا جلسہ ہو تو اِس سے سمجھا جائے گا کہ گورنمنٹ برطانیہ کے کسی بڑے سے بڑے افسر کی زبان کا بھی کوئی اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔کہا جاسکتا ہے کہ سرایمرسن آئندہ کے لئے کوئی وعدہ نہیں کر سکتے تھے لیکن یہ سوال تو ہر گورنر کے متعلق ہو سکتا ہے۔ موجودہ گورنر بھی آئندہ کے لئے کوئی وعدہ نہیں کر سکتے اور ان کے بعد آنے والا بھی اگر اِس عذر کو درست تسلیم کیا جائے تو آئندہ کسی کو سرکاری حکام سے بات چیت کرتے وقت یقین نہیں ہو سکتا کہ وہ جو بات کر رہا ہے اُس کا کوئی مفید نتیجہ نکلے گا اور لوگ گورنر جیسے جلیل القدر عُہدہ پر فائز حاکم کے متعلق بھی مجبور ہوں گے کہ ان کے وعدہ کو بھی تسلیم نہ کریں کیونکہ خوف ہو گا کہ دوسراگورنر بِلاحالات کی تبدیلی کے پہلے گورنر کی بات کو ردّ کر دے گا۔ پس اگر اِس جلسہ کی اجازت دے دی گئی تو ہم جن کے ساتھ یہ گفتگوئیں ہوئیں مجبور ہوں گے یہ کہنے پر کہ پنجاب میں گورنمنٹ برطانیہ کے سب سے بڑے نمائندہ نے جو وعدہ ہم سے کیا تھا اُسے موجودہ گورنمنٹ نے توڑ دیا ہے۔
دوسرا نقطۂ نگاہ جو ہے وہ تبلیغی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ جلسہ تبلیغ کے لئے کیا گیا جیسا کہ احراری اعلان کرتے ہیں۔ اگر یہ واقعی تبلیغی ہے تو پھر اِس میں شمولیت سے ہمیں نہیں روکا جاسکتا۔ یہ عجیب دوغلی بات ہے کہ ایک طرف تو کہتے ہیں احمدی یہاں نہ آئیں اور دوسری طرف یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم نے قادیان کو فتح کر لیا ہے جن کو مرعوب کرنے یا تبلیغ کرنے کے لئے یہاں جلسہ کیا جاتا ہے ان کو تو روک دیا جاتا ہے کہ وہاں نہ جائیں اور پھر ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ احمدی مقابلہ پر نہیں آئے۔ ایسی صورت میں یہ ہر گز جائز نہیں ہو گا کہ ہمیں شمولیت سے روکا جائے اور پھر اگر کوئی ہمیں چیلنج دے تو ہر گز کسی کا حق نہیں ہو گا کہ ہمیں اِس کے قبول کرنے سے روکے۔ اگر کوئی لیکچرار ہمیں کوئی چیلنج دے گا تو ہمارا حق ہو گا کہ کھڑے ہو کر اِسے قبول کرلیں اور اِس کا جواب دیں۔ اگر گورنمنٹ اِس میں دخل دے گی اور ہمیں روکے گی تو آج اپنی طاقت سے وہ بے شک ہمیں روک دے لیکن تاریخ ضروراِس بات کو محفوظ کرے گی کہ اس زمانہ کے افسر دیانت دار نہیں تھے اور حکومت کا نظام صحیح طور پر چلانے والے نہیں تھے۔ کمزور کو زور سے چُپ کرالینا اور بات ہے مگر انصاف اور ہے۔ اِس کی ایک دلچسپ مثال ہمارے مُلک میں مشہور ہے کہ ایک بھیڑیا کسی نالے پر پانی پی رہا تھا اور کچھ فاصلہ پر کوئی بکری بھی پانی پی رہی تھی۔ بھیڑیے نے چاہا کہ اُسے کھا جائے اور اس کے لئے اس نے کوئی بہانہ تلاش کرنا چاہا وہ اوپر کی طرف تھا اور بکری نیچے کی طرف آخر اُسے اَور کوئی بہانہ نہ مِلا تو اُس نے بکری سے ڈانٹ کرکہا کہ ہمارا پینے کا پانی کیوں گدلا کر رہی ہو بکری نے عاجزی سے جواب دیا کہ مَیں تو نیچے کی طرف ہوں آپ کے ذریعہ گدلا ہو کر پانی میری طرف آرہا ہے نہ کہ میری طرف سے گدلاہوکرآپ کی طرف جارہا ہے۔ اِس پر بھیڑیے کو اور تو کوئی بہانہ نہ سوجھا اِس نے کہا کہ گستاخ ، بے حیا سامنے بولتی ہے اور اِسے چیر پھاڑ کر کھا گیا۔ اِس میں شُبہ نہیں کہ گورنمنٹ کے پاس فوج ہے، پولیس ہے، مجسٹریٹ ہیں، جیل خانے ہیں، وہ جسے چاہے پکڑ کر قید کر سکتی ہے مگر جس چیز پر اس کا قبضہ نہیں وہ بے انصافی کو انصاف قرار دینا ہے۔ بڑے بڑے بادشاہ دُنیا میں گزرے ہیں ہمارے وزراء اور افسروں سے بہت بڑے لیکن آج تاریخ ان کے کاموں پر سختی سے فیصلہ لکھ رہی ہے۔ سکولوں کے مدرّس اور کالجوں کے پروفیسر کس طرح دیدہ دلیری سے آج اورنگزیب پر اعتراض کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ اتنا بڑا بادشاہ تھا کہ ان مصنّفوں کی حیثیت اِس کے مقابلہ میں ایسی بھی نہیں جیسی کہ ایک نمبردار کے مقابلہ میں چوہڑے کی ہوتی ہے مگر وہ زمانہ گزر گیا اور بعد میں آنے والوں میں سے بعض نے اِس کے افعال کو ظالمانہ اور بعض نے منصفانہ کہا۔ اِس پر بہت بحثیں ہوئیں اور آج ہندو مؤرخ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اورنگزیب پر جو الزام لگائے جاتے ہیں ان میں سے اکثر غلط ہیں مگر بعض بادشاہوں کے متعلق تحقیقات صحیح تھی اور اس بات کو دُنیا نے آہستہ آہستہ تسلیم کر لیا اور آج روم کے بادشاہ نیرو اور ہلاکو خان کو ظالم قرار دیا جارہا ہے۔ وہ ایک دو افراد تھے مگر ان کی وجہ سے ساری قوم بدنام ہوئی۔
پس انصاف کا تقاضا تو یہی ہے کہ اگر جلسہ ہو اور خالص تبلیغی ہو تو احمدیوں کو ایسے تبلیغی جلسہ میں جانے سے نہ روکا جائے اور اگر کوئی ہمیں چیلنج دے تو احمدی اِسے قبول کر لیں اور حکومت کی طرف سے انہیں اسے قبول کرنے سے ہر گز نہ روکا جائے لیکن اگر روکا گیا جیسا کہ پچھلی مرتبہ کیا گیا تھا تو ایسا کرنے والے تاریخی طور پر ظالم قرار پائیں گے اور ان کا اِس وقت کا زور اور طاقت ان کی قوم کو بدنامی سے نہ بچا سکے گی۔ اُس زمانہ میں جب پہلی دفعہ یہاں جلسہ ہؤا جو ڈپٹی کمشنر تھا حکومت اس کی ہر بات کی تصدیق کرتی تھی اور ہر موقع پر یہی جواب دیتی تھی کہ ہمارامقامی افسر یُوں کہتا ہے مگر تھوڑے دنوں کے بعد اسے اقرار کرنا پڑا کہ وہ غلطی پر تھی۔ مَیں منالی میں تھا کہ مجھے گورنر کی چٹھی ملی کہ مَیں آپ سے باتیں کرنا چاہتا ہوں آپ مجھے ملیں۔ مَیں مِلا اور متواتر چار گھنٹہ گفتگوہوئی مجھے انہوں نے کہا کہ آپ ناراض کیوں ہیں؟ اور کس سے آپ کو شکایت ہے؟ مَیں نے کہا کہ پہلے تو آپ سے شکایت ہے۔ انہیں یہ اُمید نہ تھی کہ مَیں کہوں گا آپ سے شکایت ہے۔ اِس کے بعد گفتگو ہوتی رہی اور جب ہوتے ہوتے مَیں نے ڈپٹی کمشنر کے متعلق واقعات پیش کئے تو کئی جگہ اُنہیں تسلیم کرنا پڑا کہ اس نے غلطی کی ہے۔ مَیں نے کہا یہ عجیب بات ہے کہ پہلے تو آپ اِس کی ہر بات تسلیم کرتے گئے اور اب مانتے ہیں کہ بعض دفعہ اسے غلط فہمی ہوگئی اور بعض دفعہ حکومتِ بَالا نے اُسے مجبور کر دیا۔ اڑھائی سال کے بعد اِس ضلع میں ایک اَور ڈپٹی کمشنر مسٹر اِنزآئے ان کی یہ خواہش تھی کہ مَیں گورنمنٹ سے جماعت احمدیہ کی صلح کراؤں۔ وہ قادیان میں آئے اور مجھ سے ملے۔ بڑی لمبی چوڑی گفتگو ہوئی اور بعض باتیں اُن سے طے ہوئیں مثلاً ایک یہ کہ وہ پُرانا ریکارڈ نکال کر دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ جماعت احمدیہ کی غلطی تھی یا حُکام ضلع کی؟ اُنہوں نے پہلے تو کہا تھا کہ یہ اتنا بڑا طومار ہے کہ اِس کا پڑھنا مُشکل ہے مگر جب مَیں نے کہا کہ بہرحال آپ اسے دیکھیں اور ان واقعات کے متعلق اپنی رائے قائم کریں اس کے بغیر ہماری تسلی نہیں ہو سکتی تو اُنہوں نے وعدہ کیا کہ آہستہ آہستہ وہ ان مِسلوں کو پڑھیں گے۔ بعض حالات کی وجہ سے ان کو جلد یہ ضلع چھوڑنا پڑا مگر ہمارے ایک ذمّہ دار افسران کے جانے سے پہلے جب ان سے ملے تو انہوں نے ان سے کہا کہ مَیں نے اِس وقت تک تین چار کیس پڑھے ہیں ان کے متعلق میری رائے یہی ہے کہ اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر کی غلطی تھی اور آپ حق پر تھے۔ افسوس ہے کہ وہ زیادہ دیر اِس ضلع میں نہ ٹھہر سکے ورنہ اُنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ مَیں باقی کاغذات بھی پڑھ کر اپنی رائے دوں گا۔ تو سرکاری حکام نے ہی بعد میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کی تردید کی مگر اُس زمانہ میں حکومت اُس کی ہر بات کو صحیح تسلیم کرتی تھی اِس قسم کی غلطی کی ایک اَور موٹی مثال ہے اُس وقت کی پنجاب گورنمنٹ کے بعض افسروں نے یہ مشہور کر دیا تھا کہ احمدی فساد کرتے ہیں مگر جب گورنمنٹ برطانیہ کی طرف سے اِس سے دریافت کیا گیا کہ احمدیوں پر یہ الزام کس بناء پر لگایا جاتا ہے؟ تو اُنہوں نے نہایت صفائی کے ساتھ جواب دیا کہ نہیں ہم تو احمدیوں کو بڑا وفادار سمجھتے ہیں اور وہ جو کہتے تھے کہ ہم احمدیوں کو فسادی سمجھتے ہیں اُنہوں نے ہی جب یہ کہا کہ ہم تو اُنہیں بہت اچھا سمجھتے ہیں تو ہم نے اپنے دل میں کہا کہ یہ بڑے جھوٹے آدمی ہیں۔ اِس بارہ میں یاد رکھنا چاہئے کہ اِس قسم کا مخفی سرکلر جو جاری ہؤا تھا اُس وقت کے گورنر سر ایمرسن صاحب نے مجھ سے بھی کہا اور دوسرے سلسلہ کے نمائندوں سے بھی کہا کہ اِس کا انہیں کوئی علم نہیں اور مَیں کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ ان کی بات کو غلط قرار دوں۔ اِس لئے ماننا پڑتا ہے کہ یہ سرکلر کسی ماتحت افسر کا تھا۔ ہمیں اس سرکلر کا علم اِس طرح ہؤا کہ ایک ڈپٹی کمشنر نے ہمارے ایک دوست کو جو اس کا بھی دوست تھا اس کی اطلاع دے دی کہ ایسی چِٹھی آئی ہے کہ جماعت احمدیہ اب خراب ہو گئی ہے۔ اِس کا خیال رکھا جائے مگر جب ہم نے گورنمنٹ سے اِس بارہ میں دریافت کیا تو اُس نے انکار کر دیا کہ ایسا کوئی سرکلر نہیں گیا مگر خدا تعالیٰ جب پکڑتا ہے تو ایسا پکڑتا ہے کہ کوئی جواب نہیں بَن پڑتا۔ اس نے ہمارے لئے یہ سامان کر دیا کہ راولپنڈی کے ایک تھانہ کی پولیس کا ایک ہیڈکانسٹیبل ایک احمدیہ جماعت کے ہاں گیا اور کہا کہ جن لوگوں نے قادیان جانا ہے (یہ جلسہ کا موقع تھا) وہ اپنے نام لکھوائیں۔ حکومت کی طرف سے یہ ہدایت آئی ہے کہ جو لوگ قادیان جانا چاہیں اُن کی نگرانی کی جائے۔ (گویا جس طرح چوہڑوں اور سانسیوں کی نگرانی کی جاتی ہے اس طرح قادیان آنے والے احمدیوں کی نگرانی کا فیصلہ کیا گیا تھا) اس جماعت نے مجھے اِس کی اطلاع دی اور ہم نے حکومت کو لکھا کہ اب بتاؤ اِس کا کیا جواب ہے؟ مگر اِس کا کوئی جواب اس کے پاس نہ تھا وہ صرف یہ کہتے رہے کہ ہم نے کوئی ایسا آرڈر نہیں دیا اور آخر میں کہا کہ آپ اِس معاملہ پر زیادہ زور نہ دیں اور بات ختم کر دیں۔ ہم نے اِس بارہ میں ضلع میں بھی تحقیق کی اور معلوم ہؤا کہ اِس تھانہ میں خفیہ آرڈر آیا تھا۔ تھانیدار اتفاق سے چھُٹی پر تھا اور حوالدار انچارج تھا وہ شراب کا عادی تھا اور نشہ کی حالت میں تھا، ہدایت پر کانفیڈنشل لکھا ہؤا تھا لیکن اُس نے نشہ کی حالت میں اِس کا خیال نہ کیا اور جھٹ پروانہ لے کر وہاں جا پہنچا آخر جب ہم نے بار بار اِس کا جواب مانگا تو چیف سیکرٹری نے کہا کہ بس اب اِس بات کو چھوڑ دیں، زیادہ تنگ نہ کریں اور اب اِس سوال کا جواب نہ مانگیں۔ تو اﷲ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ہماری ایسی مدد فرمائی کہ بار بار حکومت کو اپنی غلطی تسلیم کرنی پڑی۔ خود گورنرانِ کونسل کی چٹھی میرے پاس محفوظ ہے اور اگر یہ جلسہ ہؤا تو شاید مجھے اسے شائع کرنا پڑے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح بعض ذمہ دار افسروں نے اِس موقع پر صریح جھوٹ سے کام لیا تھا کہ ایک چِٹھی میں تو لکھا ہے کہ آپ کی فلاں چِٹھی کی وجہ سے یہ کارروائی کی گئی تھی اور دس دن کے بعد ایک اَور چِٹھی آئی کہ اگر آپ کی فلاں چِٹھی کا ہمیں پتہ ہوتا تو ایسا نہ کیا جاتا۔ تو یہ واقعات ایسے ہیں جن سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس زمانہ میں گورنمنٹ کو دھوکا دیا گیا اور اسے بھی اس دھوکا کی وجہ سے اپنے افسروں پر اعتبار کرکے بعض ایسی باتیں کہنی پڑیں جو غلط تھیں اور جن کی وجہ سے بعد میں اسے ندامت اُٹھانی پڑی۔ انہی دنوں میں پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس چھٹی پر ولایت گئے ہوئے تھے۔ مَیں نے دردؔ صاحب کو لکھا کہ آپ اِن سے ملیں اور پوچھیں کہ یہ کیا باتیں آپ لوگ کر رہے ہیں؟ قادیان کا جلسہ اور اِس موقع پر امام جماعت احمدیہ کو نوٹس آخر کس عقلمندی کا نتیجہ تھا؟ درد صاحب ان سے ملے تو اُنہوں نے بتایا کہ اصل میں ہمیں دھوکا دیا گیا تھا۔ پہلے ڈپٹی کمشنر نے چیف سیکرٹری کو فون کیا کہ احمدی لوگوں کو باہر سے بُلوا رہے ہیں اور ضرور فساد ہو جائے گا۔ اِس پر گورنر نے سی۔آئی۔ڈی سے دریافت کیا اس کے پاس آپ کی وہ چِٹھی پہنچ چکی تھی جس میں لکھا تھا کہ لوگوں کو باہر سے بلانے والی چِٹھی منسوخ کر دی گئی ہے۔ آئی۔جی نے دردؔ صاحب سے بیان کیا کہ سی۔آئی۔ڈی والوں نے وہ چِٹھی مِسل کے ساتھ شامل کر دی مگر جو افسر وہ مِسل دینے کے لئے آیا وہ زبانی یہ کہہ گیا کہ احمدیوں نے آدمی بلوانے والی چِٹھی کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا۔ حکومت نے اِس مسل کو دیکھے بغیر اِس افسر کی زبان پر اعتبار کر کے نوٹس جاری کر دیا بعد میں جب آپ نے احتجاج کیا اور اِس چِٹھی کو دیکھا گیا تو اس میں یہ لکھا ہؤا تھا کہ پہلی چٹھی منسوخ کر دی گئی ہے۔ اس زمانہ میں بعض افسروں نے ہمیں بھی اور حکومت کو بھی دھوکا دینا چاہا۔ ہمارے تو وہ مخالف تھے اِس لئے دینا ہی تھا اور ہم ان کے دھوکا میں آئے بھی نہیں لیکن مُشکل گورنمنٹ کے لئے تھی۔ ایک طرف تو وہ ان دھوکا دینے والے افسروں کی حفاظت کرنا چاہتی تھی اور دوسری طرف ان کے جھوٹوں کی وجہ سے اسے ندامت اُٹھانی پڑتی تھی اور وہ ایسی مصیبت میں مُبتلا تھی کہ کوئی جواب نہ بن پڑتا تھا اور اب اگر جلسہ ہو تو معلوم نہیں حکومت اب کیا جواب دے سکے گی؟ اس وقت کے لئے تو یہ جواب تھا کہ ایسے افسر تھے جو غلط رپورٹیں کرتے تھے اور اس لئے اس نے کہہ دیا کہ ہمیں دھوکا دیا گیا مگر اِس دفعہ اگر جلسہ ہو تو ہم کیا سمجھیں گے جب ایک دفعہ اِس جلسہ کا تجربہ ہو چُکا او راِس کے فسادات ظاہر ہو چکے، نتائج کا علم ہو چُکا اور گورنمنٹ کو اپنی غلطی کو تسلیم بھی کرنا پڑا اور سب سے بڑے افسر نے خود یہ وعدہ کیا کہ آئندہ یہاں اِس قسم کا جلسہ نہیں ہو گا تو اگر اب یہ ہو تو لازماً اِس کے یہ معنی ہوں گے کہ اب حکومت دیدہ دانستہ اِس رائے پر چل رہی ہے جس پر چار سال قبل اس نے غلطی سے قدم مارا تھا۔ اُس وقت کی غلطی کو تو ماتحت افسروں کی دھوکا دہی کی طرف منسوب کر دیا گیا تھا اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ اس نے دیدہ دانستہ ایسا کیا لیکن اگر اب ہو تو اس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ وہ دیدہ دانستہ فساد چاہتی ہے۔ مجھے گورنمنٹ کی طرف سے ابھی کوئی اطلاع نہیں ملی کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ آیا یہ جلسہ ہونے دے گی یا نہیں؟ ٭لیکن میں حیرت میں ہوں کہ جیسا کہ مَیں نے سُنا ہے بعض مقامی حُکام نے کہا ہے کہ اِسے روکنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اگر یہ جلسہ ہو تو گورنمنٹ کیا جواب دے گی ہم کو اور دوسرے شرفاء کو؟
تیسرا نقطۂ نگاہ اِس کے متعلق ہماری جماعت کے لحاظ سے ہے اگر تو یہ تبلیغی جلسہ ہے تو ہمارے لئے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں اگر کوئی تبلیغ کے لئے آتا ہے تو بیشک آئے وہ ہمیں تبلیغ کرے ہم اُسے کریں گے اور اگر وہ تبلیغ کی حد تک محدود رہیں تو یقینا ان کا آنا آخر کار ہمارے لئے مُفید ہو گا۔ ہمارے پاس سچائیاں ہیں اور موٹی سے موٹی دلیلیں ایسی ہیں جن سے ان کے اعتراضات ہوا میں اُڑ جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اﷲ تعالیٰ نے ایسے ثبوت اور براہین عطا کئے ہیں اور ایسے نشانات آپ کی تائید کے ظاہر فرمائے ہیں کہ ہم یہ خیال بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی دُشمن ہمارے خیالات کو مشتبہ یا مشوَّش کر سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص ان تقریروں سے مشوَّش ہو سکتا ہے تو ان کے معنے یہ ہیں کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درجہ کو سمجھا ہی نہیں۔ پس ان تقریروں سے کسی احمدی کو گھبرانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور ان کی تردید نہایت معمولی دلائل سے ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص دن کو کہہ دے کہ رات ہے تو ہر شخص آسمان کو دیکھے گا اور کہہ دے گا کہ یہ غلط کہتا ہے۔ ہے تو یہ ایک لغو سا لطیفہ مگر نقشہ اِس میں اچھا کھینچا گیا ہے۔ کہتے ہیں کسی کو گانجا کھانے یا پینے کی عادت تھی مجھے پتہ نہیں اِسے کھاتے ہیں یا پیتے ہیں۔ ایک دن موسم اچھا تھا اور وہ اپنے دل میں سرور اور لذت محسوس کر رہا تھا۔ وہ اس دکاندار کے پاس گیا جس سے گانجا لیا کرتا تھا اور اُسے کہا کہ دیکھو مَیں دس بارہ سال سے تمہارا خریدار ہوں اور تم جانتے ہو تم گانجا اچھا دو یا بُرا مَیں نے کبھی شکایت نہیں کی لیکن آج مَیں تم سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ ایسا اچھا گانجا دو کہ جس سے بہت ہی نشہ ہو۔ آج میرا دل سرور چاہتا ہے۔ دکاندار نے گانجا دیا جسے اُس نے استعمال کیا اُس کے بعد وہ حمام میں گیا اور وہاں غسل کیا اور اُسے بہت غصّہ آیا کہ مجھے دکاندار نے میری تاکید کے باوجود ایسا گانجا دیا کہ جس سے کوئی نشہ نہیں ہؤا۔ چنانچہ وہ دکاندار کے پاس گیا اور کہا کہ مَیں نے تمہیں پُرانا خریدار ہونے کا واسطہ دے کر سوال کیا تھا اور اتنی تاکید کی تھی مگر پھر بھی تم نے ایسا گانجا دیا کہ جس سے کوئی نشہ نہیں ہؤا۔ دکاندار نے جواب دیا کہ میری زبان کا تو تمہیں اعتبار نہیں ہو گا اِس لئے مَیں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ ذرا سر جھُکا کر اپنے جسم کو دیکھو نشہ ہؤا ہے یا نہیں۔ اُس نے دیکھا تو معلوم ہؤا کہ نشہ کی حالت میں وہ حمام سے ننگا ہی نِکل آیا ہے اور جب اُس نے نگاہ ڈالی تو شرمندہ ہو کر وہاں سے بھاگا۔ تو سچائی پر کون پردہ ڈال سکتا ہے؟ کوئی ہزار باتیں بنائے صداقت کو نہیں چھپا سکتا۔
اِسی سفرِ سندھ میں ایک دن کسی بات پر مجھے سخت تکلیف اور رنج تھا اور سارا دن میری طبیعت پر اُس کا اثررہا۔ شدید گھبراہٹ تھی، رات کو مَیں نے بہت دُعا کی اور جب سویا تو ایک رؤیا دیکھا۔ مَیں نے دیکھا کہ جیسے مَیں کسی غیر مُلک میں ہوں اور وہاں سے دوسرے مُلک کو واپسی کا سفر اختیار کرنے والا ہوں۔ میرے ساتھ خاندان کی بعض مستورات بھی ہیں اور بعض مَرد بھی۔ خواب میں مَیں سمجھتا ہوں جیسا کہ مَیں انگلستان میں ہوں اور فرانس سے ہو کر مشرق کی طرف آرہا ہوں ہم ریل پر سوار ہونے کے لئے پیدل جا رہے ہیں۔ ریل کے سفر کے بعد جہازپر چڑھنے کا خیال ہے۔ چلتے ہوئے ہم ایک خوبصورت چوک میں پہنچے جہاں ایک عالیشان مکان ہے اور اُس کا مالک کوئی انگریز ہے۔ مجھے کسی نے آکر کہا کہ اُس کا مالک اور اُس کی بیوی آپ سے چند منٹ بات کرنا چاہتے ہیں اگر آپ تھوڑی سی تکلیف فرما کر وہاں چلیں تو بہت اچھا ہو۔ مَیں نے اُس سے ملنا منظور کر لیا اور مَیں بھی اور میرے ساتھ کی مستورات بھی اُس مکان میں گئیں۔ عورتیں جاکر اُس کی بیوی کے پاس بیٹھ گئیں اور باتیں کرنے لگیں اور مَیں اُس آدمی کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔ مختلف علمی باتیں ہوتی رہیں۔ گفتگو کوئی مذہبی نہیں تھی بلکہ علمی تھی۔ مثلاً یہ کہ مستشرقین یعنی عربی دان انگریز کون کون سے ہیں؟ نیز بعض تمدنی تحقیقاتوں کے متعلق باتیں ہوتی رہیں۔ باتوںباتوں میں اُس نے عبدالمحییٖ عرب کا ذکر کیا اور کہا کہ اُس نے فلاں انگریز کو عربی پڑھائی ہے۔ مَیں نے کہا کہ مَیں عبدالمحییٖ کو جانتا ہوں وہ بوجہ عرب ہونے کے خراب شُدہ عربی بول لیتے ہیں مگر عربی کے کوئی عالم نہیں ہیں۔ اس نے کہا کہ خیر کتاب پڑھانا کیا مُشکل ہوتا ہے؟ لغت کی کتابیں دیکھ کر پڑھایا جاسکتا ہے جب وہاں سے چلنے لگے ہیں تو مَیں اپنے دل میں ڈرا ہوں کہ اُس کی بیوی اب مُجھ سے مصافحہ کرے گی اور مَیں اُسے کہتا ہوں کہ آپ بُرا نہ منائیں ہمارا مذہبی حکم ہے کہ عورتوں سے مصافحہ جائز نہیں۔ یہ سُن کر اُس کے چہرہ پر تو تغیر پیدا ہؤا مگر اُس نے جواب دیا کہ اگر آپ کے مذہب کا یہ حُکم ہے تو پھر بُرا منانے کی کیا بات ہے؟ اور پھر اس خیال سے کہ مجھے یہ خیال نہ ہو کہ اُس نے بُرا منایا ہے اُس نے ہنس کر کہا کہ اﷲ تعالیٰ آپ کے اِس سفر کو کامیاب کرے۔ مَیں وہاں سے چلا اور مستورات کے ساتھ نیچے آیا ہوں تو بعض دوست نیچے کھڑے ہیں جن میں میر محمد اسمٰعیل صاحب اور دردؔ صاحب بھی ہیں۔ مَیں ان سے بات چیت کرتا اور کہتا ہوں کہ اب ہمیں چلنا چاہئے مگر وہ کہتے ہیں کہ شاید آپ کو خیال نہیں رہا کہ بڑی دیر ہو گئی ہے۔ رات کے دس بج چکے ہیں اور اب تو گاڑی جاچکی ہو گی۔ پھر وہ مجھے پوچھتے ہیں کہ آپ نے کھانا کھالیا؟ مَیں کہتا ہوں کہ نہیں ابھی کھانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اہلِ خانہ نے بعض مہمانوں کو دو چار مرتبہ پیغام بھیجا تھا کہ آجاؤ تا کھانا کھاسکیں اِس لئے ہمارا خیال تھا کہ آپ بھی کھا چکے ہیں۔ مَیں نے کہاممکن ہے اِس کا خیال ہو کہ وہ آجائیں تو کھا لیں مگر نہ وہ مہمان آئے اور نہ کھانا کھلایا گیا۔ پھر مَیں کہتا ہوں کہ اب کیا کِیا جائے؟ اور وہ کہتے ہیں کہ ہوائی جہاز میں جاکر جہاز کو پکڑ سکتے ہیںمگر مَیں کہتا ہوں کہ اس میں خرچ بہت زیادہ ہو گا کل کیوں نہ چلے جائیں؟ اُس وقت خواب میں مَیں محسوس کرتا ہوں کہ گویا ہم مصر میں ہیں اور حج کے لئے جارہے ہیں۔ میری یہ بات سُن کر غالباً دردؔ صاحب نے کہا کہ ہمارا بھی یہی خیال تھا کہ کل چلے جائیں تو اچھا رہے گا۔ اِس پرمَیں نے کہا کہ ہمیں ایک دن مل گیا ہے کیوں نہ قاہرہ مستورات کو دکھا لیں؟ گویا اس وقت ہم کسی ساحلِ بحر کے شہر میں ہیں۔ اُنہوں نے میری اس رائے کی تصدیق کی ہے مگر معاً مجھے خیال آیا کہ قاہرہ تو مَیں نے دیکھا ہؤا ہے (اور واقعی دیکھا ہؤا ہے)اسکندریہ نہیں دیکھا وہاں چلے چلیں۔ مستورات نے تو نہ قاہرہ دیکھا ہے اور نہ اسکندریہ اِس لئے ان کے واسطے تو برابر ہے خواہ کہیں چلے جائیں۔ بہرحال اس وقت میں وہ ایک ہی شہر دیکھ سکتی ہیں مگر مجھے اسکندریہ دیکھنے کا موقع مل جائے گا اس پر مولوی ابوالعطاء صاحب جو اس وقت سامنے بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں کہتے ہیں کہ مجھے بھی یہی خیال آرہا تھا کہ آپ سے کہوں کہ آپ اسکندریہ ہو آئیں۔ اتنے میں ذوالفقار علی خان صاحب نظر آئے اور وہ کہتے ہیں کہ یہاں کے تجار کے بعض لیڈر جو گویا ان کی مجلس اعلیٰ کے ممبر ہیں آپ سے ملنا چاہتے ہیں، ایک دو منٹ ہی لیں گے۔ مَیں کہتا ہوں کہ وقت بہت ہو گیا ہے ابھی ہم نے کھانا بھی نہیں کھایا اور صبح روانہ ہونا ہے مگر خیر آپ ان کو لے آئیں۔ چنانچہ وہ لے آئے اور ایک نیم دائرہ کی صورت میں کھڑے ہو گئے۔ ان میں بعض ترکی لباس میں ہیں اور بعض عربی میں ہیں ان سے مصافحہ کرتا ہوں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ جہاں ہم ہیں وہاں سنگ مرمر کا اچھا فرش ہے اِس پرکپڑے بچھا دیئے گئے اور ہم اِس پر بیٹھ گئے۔ مَیں ان سے کہتا ہوں کہ ہمیں ہندوستان میں عربی میں گفتگو کرنے کی مشق نہیں ہوتی اس لئے اگر مَیں آہستہ آہستہ بات کروں تو آپ گھبرائیں نہیں۔ آپ کا جواب بہرحال آجائے گا۔ اِس پر ان میں سے ایک نے نہایت خطرناک بگڑی ہوئی گنواری عربی زبان میں کوئی بات کی مَیں نے اُسے کہا کہ ہم تو قرآن کریم کی زبان ہی جانتے ہیں آپ لوگوں کی بگڑی ہوئی زبان نہیں سمجھتے۔ بلکہ ہم میں سے بعض تو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی عربی عربی ہی نہیں اِس پر ایک شخص ان میں سے کہتا ہے کہ ہاں ہماری زبان بہت خراب ہو گئی ہے اور قرآنی زبان سے بہت دُور جاچکی ہے۔ اِس کے بعد ان میں سے ایک شخص جس نے ترکی لباس پہنا ہؤا ہے مجھے کہتا ہے کہ کیا مَیں انگریزی میں گفتگو کروں؟ اس کے بعد کوئی وجہ تو مجھے معلوم نہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس جگہ کو چھوڑ کر تھوڑے فاصلہ پر ہی دوسری جگہ پر جا بیٹھے ہیں۔ اس جگہ کی تبدیلی کی کوئی وجہ مجھے معلوم نہیں۔ شاید اندھیرا تھا اور ہم روشنی میں آنا چاہتے تھے خیر اس جگہ ان لوگوں میں سے ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عربی پر اعتراض کرنے شروع کئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ یہ شخص مامور کس طرح ہوسکتا ہے؟ اِس وقت مجھے یہ احساس ہے کہ ان میں سے ایک شخص احمدیت سے متاثر ہو چُکا ہے اور یہ لوگ اِس لئے نہیں آئے کہ خود تحقیق کریں بلکہ اُن کی غرض یہ ہے کہ اُسے خراب کریں اور ان میں سے ایک ہنس کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب لُجۃ النور یا شاید کسی اَور کتاب کا نام لیتا اور کہتا ہے کہ وہ کتاب ہو تو ہم اس میں سے حوالہ پڑھ کر بھی سُنا سکتے ہیں۔ ان کے سوال کے جواب میں مَیں نے عربی زبان میں جواب دینا شروع کیا اور اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایک اہلِ زبان قادر ہوتا ہے مَیں بے تکلفی سے عربی زبان میں باتیں کر رہا ہوں اور کوئی حجاب معلوم نہیں ہوتا۔ مَیں نے ان سے کہا کہ اعتراض تو ہر بڑی سے بڑی سچائی پربھی ہو سکتا ہے کوئی ایسی صداقت نہیں جس پر لوگوں نے اعتراض نہ کئے ہوں اور یہ سوال بے شک آپ کے نزدیک وقیع ہوں مگر مَیں تو اس وقت چند منٹ سے زیادہ آپ لوگوں کو نہیں دے سکتا۔ ہم نے ابھی کھانا بھی نہیں کھایا اور پھر صبح اسکندریہ جانا ہے اور وہاں سے واپس آکر حج کے لئے روانہ ہونا ہے۔ اگر دو چار منٹ میں مَیں آپ کے سوالات کا جواب دوں تو اوّل تو آپ کی تسلی نہیں ہو سکے گی اور اگر ہو بھی جائے تو آپ کہیں گے ابھی فلاں سوال رہ گیا اور اگر مَیں ان کا جواب نہ دوں گا تو آپ کہیں گے آتا نہیں تھا۔ پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان پر اَور اعتراض پڑتے ہوں پھر ان کا جواب دینا ضروری ہو گا اور اتنا وقت میرے پاس نہیں۔ اس کا حل مَیں ایک آسان ترکیب سے کر دیتا ہوں ہر صداقت کے متعلق کچھ گُر ہوتے ہیں جن سے اس کو پرکھا جاسکتا ہے۔ پس قرآن کریم نے جو گُر بیان کئے ہیں اگر تو ان کے رو سے یہ ثابت ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ سچا ہے تو پھر اعتراضات کا یہ مطلب ہو گا کہ ہمارے خیال کی غلطی ہے کیونکہ قرآن کریم غلط نہیں ہو سکتا اور اگر ان گُروں کے رو سے آپ سچے ثابت نہ ہوں تو خواہ ایک بھی اعتراض آپ پر نہ پڑے آپ جھوٹے ہوں گے۔ پھر مَیں ان سے کہتا ہوں کہ مَیں آپ لوگوں کو قرآن کریم کا ایک گُر بتاہوں جو سورۂ فاتحہ میں بیان ہے اور یہ بیان کرنے سے پہلے مَیں نے جو فقرے کہے وہ مجھے ابھی تک یاد ہیں۔ مَیں نے کہا کہ وہ گُر ایسی سورۃ میں بیان کیا گیا ہے جو قرآن کریم کی ابتدا میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ایک ہے اور جسے نماز کی ہر رکعت میں پڑھا جاتا ہے اور وہ سورۂ فاتحہ ہے۔ اس کے بعد مَیں نے سورۂ فاتحہ پڑھی اور کہا کہ اِس سورۃ میں اﷲ تعالیٰ نے تین گروہ بیان کئے ہیں ، اور اور بتایا ہے کہ دُنیا میں یا تو وہ لوگ ہیں جن پر اﷲ تعالیٰ کے انعام نازل ہوئے یا جن پر اس کا غضب بھڑکا اوریا ضَآلَ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے راستہ کو چھوڑ دیا اور بندوں کو خدا کی جگہ دے دی۔
غرض یہ تین گروہ ہی قرآن کریم نے بیان کئے ہیں منعم علیہ، مغضوب اور ضال۔ اگر تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام منعم علیہ گروہ میں شامل ہیں تو خواہ ان پر کتنے اعتراض ہوں آپ جھوٹے نہیں ہو سکتے اور اگر مغضوب یا ضال میں سے ہیں تو پھر خواہ ایک بھی اعتراض نہ ہو آپ سچے نہیں ہو سکتے۔ یہ ایک چھوٹا سا نکتہ ہے جس کے ماتحت ہم دیکھ لیتے ہیں کہ آپ کس گروہ میں ہیں۔ مَیں جس وقت یہ تقریر کر رہا ہوں تو مَیں نے دیکھا کہ مصریوں میں سے ایک شخص اس طرح سَر ہلا رہا ہے کہ گویا اس سے متاثر ہے اس پر اُس کے ساتھی ڈرے ہیں اور اُنہوں نے خیال کیا کہ پہلے جو شخص متاثر تھا ہم تو اُسے بگاڑنے کے لئے آئے تھے مگر اب تو یہ ڈر ہے کہ اِسے بگاڑنے کے بجائے اور بھی متاثر نہ ہو جائیں۔ اِس لئے جو اشد مخالف ہیں وہ ہنس کر کہتے ہیں کہ اجی ان باتوں سے کیا ہوتا ہے؟ آپ اصل سوال کا جواب دیں۔ مَیں پھر کہتا ہوں کہ سوالات تو ہزاروں ہیں اگر مَیں آپ کے اس سوال کا جواب دوں تو اوّل تو اتنے تنگ وقت میں آپ کی تسلی ممکن نہیں اور اگر ہو بھی جائے تو باقی سوال رہ جائیں گے اور آپ کو ہدایت کا موقع نہیں مل سکے گا اگر آپ کو اپنی ہدایت مقصود ہے تو آپ یہ طریق کیوں اختیار نہیں کرتے؟ یہ کہہ کر میں اس شخص کی طرف دیکھتا ہوں جس کے متعلق مجھے خیال ہے کہ اس کے دل میں ہدایت ہے اور جسے بگاڑنے کے لئے وہ لوگ گفتگو کرنے آئے ہیں اور اس کے چہرہ کو دیکھ کر اندازہ کرتا ہوں کہ یہ شخص بھی کہیں یہ نتیجہ تو نہیں نکال رہا کہ مَیں بات ٹال رہا ہوں لیکن مَیں نے دیکھا کہ اس کے چہرہ پر یقین اور سرور کے آثار ہیں۔ جب اس کی نظر میری نظر سے ملی تو اس نے ہاتھ اُٹھا کر کہا کہ اچھا آپ سورۂ فاتحہ پڑھ کر دُعا کریں اور مَیں دُعا شروع کرتا ہوں۔ وہ لوگ بھی میرے ساتھ دُعا میں شریک ہوتے ہیں مگر کچھ دیر کے بعد ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ مَیں نے جب دُعا ختم کی تو وہ شخص میرے سامنے آیا اور اپنا سر زمین پر اس طرح رکھ کر کہ ایک کلّہ نیچے اور دوسرا اوپر کی طرف ہے زمین پر لیٹ گیا۔ وہ رو رہا ہے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر پھیرتا ہے گویا برکت حاصل کر رہا ہے۔ اِس پر میری آنکھ کھل گئی۔
مجھے یاد نہیں کہ سورۂ فاتحہ کا یہ مضمون مَیں نے پہلے کبھی بیان کیا ہو۔ یہ ایک قرآنی نکتہ ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ ہم نے بنالیا ہے۔ ایسی موٹی دلیل ہے کہ کوئی شخص سچائی سے گریز نہیں کرسکتا۔ تین ہی گروہ اﷲ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں۔ کوئی مغضوب اور ضال اور منعم علیہ نہیں ہو سکتا اور کوئی آیت قرآن کریم کی ایسی نہیں جو ثابت کرے کہ خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور افترا کرنے والا مغضوب اور ضال نہیں ہوتا اور اس پر خدا تعالیٰ خوش ہو سکتا ہے۔ یہ ایسا زبردست نکتہ ہے کہ کہیں پیش کرو اس کا کوئی جواب کسی سے نہیں بن پڑے گا۔ اس کے علاوہ سینکڑوں ایسے نکتے ہیں کہ جن کو سامنے رکھ کر اگر حضرت مرزا صاحب کو جھوٹا کہا جائے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی اور قرآن کریم کو بھی جھوٹا کہنا پڑتا ہے اور سینکڑوں ایسے نکتے ہیں کہ جن کو سامنے رکھ کر اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور قرآن کریم کو سچا تسلیم کیا جاہے تو مجبوراً حضرت مرزا صاحب کو سچا ماننا پڑتا ہے۔ پس ایسے جلسوں سے ہمیں کیا گھبراہٹ ہو سکتی ہے؟ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں ایسے دلائل دیئے ہیں اور ہمارے ہاتھ میں ایسا زندہ قرآن دیا ہے کہ ہمارے دلوں میں کوئی شُبہ پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر ان سب باتوں کے علاوہ تازہ الہام اور رویا و کشوف ہیں جن کی جماعت میں اتنی کثرت ہے کہ کوئی شخص انکار کر ہی نہیں سکتا اور ان باتوں کی موجودگی میں احرار کا جلسہ ہمارے لئے کسی گھبراہٹ کا موجب نہیں ہو سکتا۔ باقی رہ گیا سوال رُعب کا تو یاد رکھو کہ تم زندہ خُدا کی جماعت ہو۔ بے شک تم میں کمزور بھی ہیں بعض ایسے بھی ہیں جو جھوٹ بول لیتے ہیں، بعض ایسے بھی ہیں جو مَیں نے سُنا ہے کہ پولیس کے ایجنٹ ہیں، بعض ایسے بھی ہیں جوچوریاں بھی کر لیتے ہیں مگر ایسے لوگ جماعت کا حصّہ نہیں ہیں ان کا احمدی کہلانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی بھیڑیا بھیڑ کی کھال پہن لے۔ ایسے خبیث الطبع لوگ احمدیت سے دور ہیں۔ احمدی وہی ہیں جو سچائی پر قائم ہیں جو اپنے اخلاص، تقویٰ اور رضائِ الٰہی کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ ایسی پاکبازوں کی جماعت کو دُنیا میں کوئی ڈرا نہیں سکتا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر ؓ غارِ ثور میں موجود تھے کہ دُشمن سر پر پہنچ گیا اور کھوج لگانے والے نے کہا کہ یا تو آپ اِس غار میں ہیں اور یا آسمان پر چلے گئے ہیں اس سے آگے نہیں گئے۔ حضرت ابو بکر ؓ اِس موقع پر گھبراتے ہیں مگر آپ فرماتے ہیں لَا تَحْزَنْ اِنَّ اﷲَ مَعَنَا ابو بکر ڈرو نہیں اﷲ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔۱؎ پس ان بزدلوں، بد گہروں اور شریر النفسوں کو چھوڑ کر جو احمدیت کی ہتک کرنے والے اور اپنے بُرے نمونہ سے اِسے بدنام کرنے والے ہیں۔ مخلصین سے میں کہتا ہوں کہ ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں اﷲ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ یہ احراری اور گورنمنٹ کے وہ عہدیدار جن کے دلوں میں ہمارا بُغض ہے بلکہ اگر کسی وقت دُنیا کی ساری گورنمنٹیں بھی اکٹھی ہو کر آئیں تو احمدیت کا بال بیکا نہیں کر سکتیں وہ طاقتیں اور حکومتیں خود تباہ ہو جائیں گی مگر احمدیت کامیاب اور مظفر و منصور ہو کر رہے گی۔‘‘
اِس کے بعد حضور نے نماز پڑھائی اور سلام پھیرنے کے ساتھ ہی فرمایا کہ سب دوست اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہیںاور فرمایا کہ:-
’’ نماز کے اختتام کے موقع پر اﷲ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ خواب میں جو دلیل بیان کرنے لگا تھا اور جس کے بیان کرنے سے خواب والے معترضین نے مجھے روک دیا تھا وہ مَیں اب اختصار کے ساتھ بیان کردوں۔
وہ دلیل یہ ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب سورۃ فاتحہ بہت دفعہ سکھائی تو متواتر سکھانے پر ایک دفعہ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ کون ہیں؟ اور ضَآلّ کون؟ آپ نے فرمایا کہ سے مراد یہودی اور ضَآلّ سے مراد نصاریٰ ہیں۔۲؎ اب دیکھو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دونوں کی تشریح فرما دی۔ یہودیت اپنی ذات میں کوئی بُری چیز نہیں۔ یہودی حضرت موسیٰ ؑکی قوم ہیں اور آپ کے لائے ہوئے مذہب پر چلنے والے۔ وہ ان خرابیوں کی وجہ سے قرار پائے جو بعد میں ان میں پیدا ہوئیں اور ان خرابیوں میں سے سب سے بڑی جو قرآن کریم نے بیان فرمائی وہ یہ ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا اور ضَآلّ کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اُنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خُدابنا دیا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریح کے مطابق یہ گروہ کون بنتے ہیں؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو کام تو بہت نمایاں ہیں ایک یہ کہ آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اور دوسرا یہ کہ حضرت مسیح ناصری ؑ فوت ہو چکے ہیں اور ان کی طرف جو ایسے معجزے منسوب کئے جاتے ہیں جو الوہیت کی شان رکھتے ہیں وہ غلط ہیں اور یہ دونوں کام آپ کو زمرہ وضَآلّ سے باہر ثابت کرتے ہیں۔ کیونکہ تو وہ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح ؑ کا انکار کیا اور آپ نے تو خود مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور سب سے پہلے اس دعویٰ پر ایمان لائے اور ضَآلّ وہ ہیں جو حضرت عیسیٰ ؑکی طرف خُدائی صفات منسوب کرتے ہیں اور آپ نے حضرت عیسیٰ کی خدائی کی گویا ٹانگ توڑ دی ہے۔ کیپٹن ڈگلس (جو اَب کرنیل ہیں) جب اِس ضلع کے ڈپٹی کمشنر ہو کر آئے تو چونکہ وہ متعصب عیسائی تھے اُنہوں نے یہاں آتے ہی کہا کہ یہ شخص ہمارے خدا کو مارتا ہے اِسے کوئی کچھ نہیں کہتا۔ گو بعد میں اﷲ تعالیٰ نے ان کو ہدایت دی اور اُنہوں نے حضرت مسیح موعود کے ایک مقدمہ میں جو ایک پادری کی طرف سے تھا اعلیٰ انصاف سے کام لیا اور اب تک اس نشان کا خود ذکر دوسروں سے کرتے رہتے ہیں۔ تو آپ نے الوہیت مسیح پر ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ خود عیسائی بھی اِس کو تسلیم کرتے ہیں۔ اِسی سال کا ایک لطیفہ ہے کہ ہماری لاہور کی جماعت نے انگریزی میں ایک ٹریکٹ شائع کیا جس میں حضرت مسیح کی قبر کا فوٹو اور حالات درج تھے۔ وہ ٹریکٹ ایک دوست انگریزوں میں تقسیم کررہے تھے کہ ایک دس بارہ سال کی لڑکی آواز سُن کر ٹریکٹ لینے کے لئے اپنے گھر سے باہر آگئی اور ٹریکٹ لے کر جب اُسے دیکھا تو زور سے چھلانگ لگائی اور زور سے چِلّا کر کہا۔ ابّا امّاں ہمارا خدا مر گیا یہ اس کی قبر ہے تو جس شخص نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کر کے الوہیت مسیح کے عقیدہ کو باطل ثابت کر دیا ہے وہ ضَآلّ کس طرح ہو سکتا ہے؟ اور جو خودمدعیٔ مسیحیت ہو وہ میں سے کس طرح ہو سکتا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ دونوں کارنامے آپ کو قطعی طور پر اور ضَآلّ کے زمرہ سے باہر نکالتے ہیں۔ اب تیسری بات کی رہ گئی سو اس بارہ میں یاد رکھنا چاہئے کہ آپ نے شروع میں ہی اﷲ تعالیٰ سے یہ الہام پایا کہ ’’دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی کو دُنیا پر ظاہر کر دے گا۔‘‘ ۳؎ ایک اکیلا شخص جو بالکل گمنام تھا یہ دعویٰ کرتا ہے اور آج اس کے نام کی برکت سے اس گاؤں کو جس کے متعلق خود حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ یہ ایک کور دیہہ تھا۔ اتنی ترقی ہوئی ہے کہ آج یہاں جمعہ کی نماز میں اتنے لوگ ہیں کہ بہت کم شہروں میں ہوتے ہوں گے۔ ہندوستان میں ایک لاکھ سے زیادہ آبادی رکھنے والے شہر پچاس سے زیادہ ہیں اور ہزاروں کی آبادی والے تو سینکڑوں ہیں مگر ان شہروں میں سے سوائے تین چار ایسے شہروں کے جن کی آبادی دو تین لاکھ سے زیادہ ہے کسی جگہ بھی اتنے آدمی جمعہ کے لئے ایک مسجد میں جمع نہیںہوتے جتنے قادیان میں ہوتے ہیں اور پھر یہ سب کے سب باہر سے آئے ہوئے ہیں۔ اِلَّا مَا شَائَ اﷲ۔ کوئی صوبہ سندھ کا ہے، کوئی بمبئی کا اور کوئی سرحد کا ۔ پھر پنجاب کے مختلف حصوں کے لوگ ہیں، عرب ، سماٹری جاوی اور افریقی ہر قوم کے آدمی موجود ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اِس پیشگوئی کو پورا کر رہے ہیں کہ جس میں اﷲ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ ’’میں تیری تبلیغ کودُنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ ۴؎ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ حَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۵؎یعنی اب وقت آگیا ہے کہ خدا تیری مدد کرے اور تجھے لوگوں میں معروف کرے اور آج اِس گاؤں کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ احراری سارے پنجاب کو چھوڑ کر یہاں جلسہ کے لئے آتے ہیں اور جیسا کہ اخبار الفضل میں ان کے ایک مولوی کی تقریر چھپی تھی اُس نے کہا کہ اگر مکّہ پر بھی حملہ ہو تو بھی مَیں قادیان میں رہنا زیادہ ضروری سمجھوں گا۔ گویا ایک اکیلا شخص جس نے دعویٰ کیا تھا آج اتنا طاقتور ہو چُکا ہے کہ بعض مولوی کہلانے والے مکّہ کو خطرہ میں چھوڑ دینا آسان سمجھتے ہیں مگر بقول ان کے قادیان کے فتنہ کے مدّ نظر وہ اِس حالت میں بھی قادیان کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے۔ یہ دُشمن کی گھبراہٹ ہی ثابت کررہی ہے کہ آپ کو کس قدر قوت حاصل ہو چکی ہے۔ یہاں احرار کی طرف سے جلسہ کے انعقاد کی کوشش ہی اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ہیں اور دُشمن اور ضَآلّ کے زمرہ میں شامل ہے۔ حضرت مسیح کے منکر ہیں اور یہ لوگ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکارکرتے ہیں۔ یہ کوئی بات نہیں کہ جھوٹا سمجھ کر انکار کرتے ہیں۔ یہودی بھی تو حضرت مسیح علیہ السلام کو جھوٹا سمجھ کر ہی انکار کرتے ہیں اور ضَآلّ حضرت عیسیٰ کی طرف خدائی صفات منسوب کرتے ہیں اور یہ بھی آپ کی طرف خدائی صفات منسوب کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح پرندے پیدا کرتے تھے اور غیب کی خبریں بتا دیتے تھے اور اب تک آسمان پر بغیر کھانے پینے کے زندہ ہیں اور مردہ زندہ کیا کرتے تھے اور یہ سب خدائی صفات ہیں جو یہ آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ باقی رہا یہ امر کہ یہ حضرت عیسیٰ کو خدا کہتے نہیں یہ کوئی بات نہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے جرمنی کا ایک بادشاہ ولیم تھا۔ اُس کا ایک سفید رنگ کا گھوڑا تھا جس سے اُسے بے حد رغبت تھی وہ ایک دفعہ بیمار ہو گیا۔ بادشاہ نے ڈاکٹروں اور درباریوں کو بُلایا اور حُکم دیا کہ اس کا علاج کرو، اگر یہ مَر گیا تو مَیں تم کو قتل کر دوں گا۔ اُنہوں نے بہت کوشش کی لیکن آخر گھوڑا مَر گیا۔ اب سب حیران تھے کہ بادشاہ کو خبر کون دے؟ اس نے کہا ہؤا تھا کہ جس نے مجھے اِس کی موت کی خبر سب سے پہلے دی اُسے فوراً قتل کر دوں گا اور اگر نہ دی تو سب کو مروا دوں گا۔ سب مشورہ کرنے لگے کہ کس کو بھیجا جائے؟ اِس کا ایک چہیتا نوکر تھا سب نے اُسے تجویز کیا اور اُسے کہا کہ تم جاؤ اور کسی ایسے انداز میں بات کرو کہ جس سے سب کی جانیں بچ جائیں۔ وہ بہت زیرک آدمی تھا جب بادشاہ کے سامنے پہنچا تو اُس نے پوچھا گھوڑے کا کیا حال ہے؟ نوکر نے جواب دیا کہ حضور بالکل آرام میں ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ کیا حالت ہے؟ اُس نے کہا حضور آنکھیں بند ہیں، آرام سے لیٹا ہے، حتّٰی کہ دُم تک بھی نہیں ہلاتا کامل سکون کی حالت ہے نہ اُس کا پیٹ ہلتا ہے اور نہ سینہ۔ بادشاہ نے یہ سُن کر کہا کہ اِس کے معنے ہیں کہ وہ مَرگیا۔ اُس نے کہا حضور یہ الفاظ مَیں نے نہیں کہے حضور ہی نے کہے ہیں۔ تو یہی حال ان لوگوں کا ہے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام پرندے پیدا کرتے تھے، اندھوں کو آنکھیں بخشتے تھے، مردے زندہ کیا کرتے تھے، غیب کی باتیں جانتے تھے، اُنیس سَو سال سے آسمان پر بغیر کھانے کے زندہ بیٹھے ہیں مگر ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ خدا تھے یہ تو عیسائی کہتے ہیں۔ گویا جس امر کو اپنے عقیدہ سے ثابت کر رہے ہیں مُنہ سے اُس کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ مُنہ کا انکار ان کو ضَآلّ ہونے سے نہیں بچا سکتا اور پھر ان کا عمل بتاتا ہے کہ وہ ایک مدعیٔ مسیحیت کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں جس کی وجہ سے اگر وہ سچا ہے تو یہ قرار پاتے ہیں۔ پھر ان کا قادیان پر اس قدر حملے کرتے رہنا اِس بات کی دلیل ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب جیت گئے۔
پس ان امور سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ اور ضَآلّ کے گروہ میں ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام منعم علیہ گروہ ہیں۔‘‘ (الفضل ۱۶؍جون ۱۹۳۹ئ)
۱؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد ۲ صفحہ ۴۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ئ
۲؎ ترمذی ابواب تفسیر القران تفسیر سورۃ فاتحۃ الکتاب
۳؎ تذکرہ صفحہ ۱۰۴ ۔ ایڈیشن چہارم
۴؎ تذکرہ صفحہ ۳۱۲ ۔ ایڈیشن چہارم
۵؎ تذکرہ صفحہ ۶۶ ۔ ایڈیشن چہارم
۱۸
اَن پڑھ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں
اور پڑھے ہوئے دوسروں کو پڑھائیں
(فرمودہ ۲۳؍جون۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مجھے کچھ عرصہ سے نقرس کی تکلیف ہے جس کی وجہ سے مَیں پچھلا جمعہ نہیں پڑھاسکا تھا اور دل میں یہ خواہش تھی کہ یہ جمعہ خود پڑھاؤں۔ اِسی لئے دو دن پہلے مَیں نے باہر نکلنا شروع کردیا تھا کیونکہ بعض دفعہ جب نقرس کے دَورے کا آخر ہوتا ہے تو آہستہ چلنے پھرنے سے فائدہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ دو سال ہوئے جب مجھے اِس درد کا پہلا دَورہ ہؤا تو اُس وقت آخری حصّہ دَورہ میں چلنے پھرنے سے مجھے آرام آگیا تھا مگر اِس دفعہ یا تو کوئی بد پرہیزی ہو گئی یا یہ دورے کا آخری حصّہ نہیں تھا کہ دو دن باہر نکلنے کے سبب سے کل شام کو پھر مجھے نقرس کی تکلیف ہو گئی۔ ورم بھی ہو گیا اور بخار بھی شروع ہو گیا مگر چونکہ مَیں نے یہ تکلیف جمعہ کے لئے اُٹھائی تھی اِس لئے مَیں نے اپنے دل میں کہا کہ اب مجھے اِس کا بدلہ لے لینا چاہئے اور باوجود تکلیف کے جمعہ خود ہی پڑھانا چاہئے بعد میں جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
مَیں اِس وجہ سے کہ ورم کی وجہ سے زیادہ دیر کھڑا نہیں ہو سکتا اور اِس وجہ سے بھی کہ درد کی وجہ سے مَیں اپنی توجہ پوری طرح قائم نہیں رکھ سکتا اختصار کے ساتھ ایک ایسے امر کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کے متعلق قادیان کی جماعت کوشش کر رہی ہے اور جس کے نمونہ کو دیکھتے ہوئے باہر کی جماعتوں نے ابھی کوشش کرنی ہے اور وہ تعلیم عامہ کا سوال ہے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے تعلیم کو اتنا ضروری قرار دیا ہے کہ مکّہ کے لوگ جن میں پڑھنا لکھنا عیب سمجھا جاتا تھا اُنہیں بھی آپ نے آہستہ آہستہ تعلیم کی طرف متوجہ کر دیا۔ مکّہ کے لوگوں میں پڑھنا لکھنا اِس قدر عیب سمجھا جاتا تھا کہ جب ان میں سے کسی شخص کو کوئی کہتا کہ تم پڑھے ہوئے ہو؟ تو وہ جواب میں کہتا کہ کیا تمہارے خیال میں مَیں شریف خاندان میں سے نہیں ہوں۔ گویا شرافت کا معیار ان میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ انسان پڑھا ہؤا نہ ہو۔ ان میں سے وہی لوگ تعلیم کی طرف توجہ کیا کرتے تھے جنہیں سرکاری کام کے لئے لکھنا پڑھنا سیکھنا پڑتا تھا۔ چنانچہ ہر بڑے خاندان میں سے چند افراد کو چُن لیا جاتا تھا اور انہیں لکھنا پڑھنا سکھا کر ان کے سپرد اِس قسم کا کام کیا جاتا جس میں تحریر کی ضرورت ہوتی مثلاً رؤساء کی باہمی خط و کتابت ہوئی یا تجارتی معاہدات ہوئے یا لڑائیوں کے متعلق قانون اور ہدایتیں ہوئیں یا کعبہ کے متعلق کوئی بات تحریر میں لانی ہوئی یا شہر کے متعلق کسی قسم کے قانون کا نفاذ کرنا ضروی ہؤا تو جن خاندانوں کے سپرد یہ کام ہؤا کرتا تھا وہ اپنے میں سے ایک ایک دو دو کو ان کاموں کے لئے معمولی تعلیم دلا دیتے تھے۔ اس قسم کے چند لوگوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے باقی تمام لوگ فخریہ کہا کرتے تھے کہ چونکہ ہم پڑھے ہوئے نہیں اِس لئے ہم شریف ہیں۔ ایسی قوم میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پیدا ہوئے اور انہیں لوگوں کے درمیان آپ نے پرورش پائی جس کے نتیجہ کے طور پر ظاہری حالات کے لحاظ سے آپ کے نزدیک علم کی کوئی قدر نہیں ہونی چاہئے تھی مگر چونکہ آپ کے تمام کام اﷲ تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت تھے اِس لئے آپ نے اِس بارہ میں بھی رائج الوقت خیالات کے خلاف قدم اُٹھایا اور صحابہ کو بار بار لکھنے پڑھنے کی تاکید کی۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو تعلیم کا اِس قدر فکر تھا کہ بدر کے موقع پرجو کفار قید ہوکر آئے باوجود اس بات کے کہ وہ اسلام کے شدید ترین دُشمن تھے، باوجود اِس بات کے کہ وہ وہی لوگ تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف تمام عرب میں دُشمنی کی آگ بھڑکائی اور باوجودیکہ اُس وقت کے تمدن کے لحاظ سے یہ بالکل جائز ہوتا اگر آپ ان تمام کفار کو قتل کر کے اُس شورش کا خاتمہ کر دیتے جو اسلام کے خلاف جاری تھی۔ آپ نے ان سے کہا کہ اگر تم چاہو تو اپنے جُرم کے بدلہ میں جرمانہ ادا کر دو اور آزاد ہو جاؤ۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے مومنوں کو یہی حُکم دیا ہے کہ قیدیوں کے متعلق دو ہی صورتیں ہیں۔ ۱؎ یا تو تم انہیں احسان کر کے چھوڑ دو یا فدیہ لے کر رہا کر دو ان دوباتوں میں سے تم کو اختیار ہے جسے چاہو اختیار کر لو۔ کوئی تیسرا طریق تمہارے لئے جائز نہیں۔اِس پر آپ نے ان قیدیوں سے فرمایا اگر تم چاہو تو تم فدیہ دے کر چھوٹ سکتے ہو مگر فرمایا ایک اور صورت بھی ہے جس کے نتیجہ میں تمہارا روپیہ بھی تمہارے گھر میں رہے گا اور تم اپنے فدیہ سے بھی سبکدوش سمجھے جاؤ گے اور وہ یہ کہ تم میں سے ہرپڑھا لکھا شخص مدینہ میں دس دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے۔۲؎ یہ تعلیم پرائمری جتنی بھی نہیں تھی بلکہ معمولی نوشت خواندتھی۔ چنانچہ بہت سے کفّار نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی اِس بات کو مان لیا اور وہ مدینہ میں رہ کر بچوں اور بڑوں کو پڑھاتے رہے اور جب اُنہوں نے لکھنا پڑھنا سکھا دیا تو وہ رہا کر دیئے گئے۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ کفّار کا اِس پر چھ مہینے سے لے کر ڈیڑھ دو سال کا عرصہ لگا۔ اِس دوران میں ان کا کھانا اور کپڑا مسلمانوں کے ذمّہ رہا۔ گویا انہیں تنخواہ بھی ملتی رہی، اُن کا روپیہ بھی گھر میں رہا اور اُن کی طرف سے فدیہ بھی ادا ہوگیا۔
تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تعلیم کو اس قدر اہم قرار دیا ہے کہ آپ نے مسلمانوں کو تعلیم دلانے کے لئے کافروں کو اپنے گھروں میں رکھ لیا۔ حالانکہ بالکل ممکن تھا مسلمانوں میں شامل رہنے کی وجہ سے انہیں مسلمانوں کی بعض کمزوریوں کا علم ہو جاتا، ان کے سامانِ حرب کی کمی کا انہیں پتہ چل جاتا، ان کی تعداد کی قلت انہیں معلوم ہو جاتی اور اس طرح بعد میں وہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا دیتے مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ آپ نے ڈیڑھ دو سال تک کفّار کو اپنے اندر رکھا اور چاہا کہ مسلمان لکھنا پڑھنا سیکھ لیں خواہ بعد میں کفّار کی طرف سے بعض نقصانات ہی کیوں نہ پہنچ جائیں۔
تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے جس چیز کی اتنی قیمت قرار دی ہے اگر ہم اِس چیزکی کم قیمت قرار دیں تو دراصل ہم اس محبت کی کمی کا اقرار کرتے ہیں جو ہمیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات سے ہونی چاہئے۔ صحابہ کو تو ہر بات میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اقتدا کرنے کا اِس قدر شوق تھا کہ ایک دفعہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ ایک جگہ پیشاب کرنے کے لئے بیٹھ گئے۔ چونکہ تھوڑے ہی فاصلہ پر پڑاؤ آنے والا تھا اِس لئے کسی نے ان سے کہا کہ آپ نے خواہ مخواہ قافلے کو روکا اور وقت ضائع ہؤا۔ جب تھوڑی ہی دیر میں پڑاؤ آنے والا تھا تو آپ کو چاہئے تھا کہ وہاں پہنچ کر حوائج سے فارغ ہوتے۔ دوسرے اگر آپ نے قافلہ کو روکنا ہی تھا تو فلاں جگہ بھی تو اوٹ تھی آپ وہاں کیوں نہ بیٹھ گئے؟ اتنی دُور جاکر آپ کیوں بیٹھے؟ حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ نے جواب دیا خدا کی قسم مجھے پیشاب تو نہیں آیا تھا بات دراصل یہ ہے کہ مَیں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایک دفعہ اِسی جگہ پیشاب کے لئے بیٹھتے دیکھا تھا۔ پس مَیں نے چاہا کہ آپ کی سُنت میں مَیں بھی اِس جگہ تھوڑی دیر کے لئے بیٹھ جاؤں۔۳؎ تو اُن کا رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہر حرکت کی اقتداء میں خواہ وہ طبعی ہی کیوں نہ ہو وہ ایک لذت اور سرور محسوس کرتے تھے۔ کُجا یہ کہ وہ احکام جو شرعی اور قومی حیثیت رکھتے ہیں ان میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی اقتداء نہ کی جائے۔ ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ ہر مسلمان پڑھا لکھا ہؤا کرتا تھا اور عیسائی اپنے متعلق اِس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ ہم اَن پڑھ ہیں چنانچہ مسلمانوں کی پُرانی تاریخیں پڑھ کر حیرت آتی ہے کہ اب زمانہ میں کس قدر اُلٹ انقلاب پیدا ہو گیا ہے۔ اُن تاریخوں میں جہاں عیسائیوں کا ذکر آتا ہے وہاں لکھا ہؤا ہے کہ عیسائی وہ ہوتا ہے جو اَن پڑھ ہو، جس کے کپڑے نہایت غلیظ ہوں، جس کے جسم سے بد بو آتی ہو، جس نے نہ کبھی غسل کیا ہو نہ خوشبو لگائی ہو، اس کے بال بڑھے ہوئے ہوں، ان میں جوئیں پڑی ہوئی ہوں اور ناخنوں میں بھی میل جمی ہوئی ہو اور مسلمان وہ ہوتا ہے جو پڑھا لکھا ہو، صاف ستھرا ہو، غسل باقاعدہ کرتا ہو، بال کٹے ہوئے ہوں، ناخن ترشوائے ہوئے ہوں، کپڑے صاف اور دُھلے ہوئے ہوں اور خوشبو لگی ہوئی ہو مگر آج اس کے بالکل اُلٹ نظارہ نظر آتا ہے۔ چنانچہ جتنی باتیں اُس وقت عیسائیوں میں پائی جاتی تھیں وہ آج مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں اور جتنی باتیں مسلمانوں میں پائی جاتی تھیں وہ آج عیسائیوں میں پائی جاتی ہیں۔
مَیں نے اِس کے متعلق جو کتاب پڑھی ہے وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے سات سو سال بعد کی لکھی ہوئی ہے۔ اگر اُس وقت کا مصنف آج دُنیا میں آجائے اور ہمارے مُلک میں پھرے تو وہ دیکھتے ہی کہنے لگ جائے گا کہ یہ عیسائیوں کا مُلک ہے اور اگر وہ عیسائیوں کے مُلک میں پھرے تو ان کو دیکھتے ہی کہنے لگ جائے گا کہ یہ مسلمانوں کا مُلک ہے کیونکہ جونقائص اُس وقت عیسائیوں میں پائے جاتے تھے وہ آج مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں اور جو خوبیاں اُس وقت مسلمانوں میں پائی جاتی تھیں وہ آج عیسائیوں میں پائی جاتی ہیں۔
تو مَیں نے خدّام الاحمدیہ کے سپرد یہ کام کیا تھا کہ وہ اَن پڑھوں کو پڑھائیں اور ان کی تعلیم کا انتظام کریں۔ مجھے معلوم ہؤا ہے کہ بعض دوست اخلاص سے تعلیم میں حصّہ لے رہے اور شوق اور تندہی سے اَن پڑھوں کو پڑھا رہے ہیں اور پڑھنے والے بھی دلچسپی سے پڑھ رہے ہیں مگر اس کے مقابلہ میں بعض ایسے لوگ بھی معلوم ہوئے ہیں جو پڑھنے سے جی چُراتے ہیں اور بعض وہ لوگ بھی معلوم ہوئے ہیں جو پڑھانے میں حصّہ نہیں لے رہے۔ حتّٰی کہ بعض محلّوں کے پریذیڈنٹ بھی اِس بارہ میں خدّام الاحمدیہ کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔ اُنہوں نے مجھے ریکارڈ بھجوایا ہے جس کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض محلّوں کے پریذیڈنٹوں کو توجہ دلائی گئی مگر اُنہوں نے پرواہ ہی نہیں کی اور بعضوں نے تو جواب تک دینے کی ضرورت نہیں سمجھی حالانکہ اگر وہ کام نہیں کر سکتے تو ان کا دیانتداری کے ساتھ یہ فرض ہے کہ وہ اپنا کام دوسروں کے سپرد کر دیں اور خود پریذیڈنٹی سے الگ ہو جائیں سلسلہ کے عُہدے نام کے لئے نہیں بلکہ خدمت کے لئے ہوتے ہیں اور جتنا زیادہ کوئی شخص کام کرتا ہے اسی قدر زیادہ وہ عزت کا مستحق سمجھا جاتا ہے اور جتنا کوئی شخص کم کام کرتا ہے اُسی قدر اس کی عزت دلوں میں سے کم ہو جاتی ہے۔ پس مجھے تعجب بھی ہؤا اور افسوس بھی کہ بعض محلّوں کے پریذیڈنٹوں نے اپنی ذمہ داری کو قطعاً نہیں سمجھا اور باوجود اِس بات کے کہ جس امر کی طرف انہیں خدّام الاحمدیہ کی طرف سے توجہ دلائی گئی تھی وہ ان کے محلہ کے فائدہ کی تھی پھر بھی اُنہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ اُن کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی ٹھنڈے ملک کا رہنے والا جیٹھ ہاڑ کے دنوں میں دھوپ میں بیٹھا تھا اور قریب ہی اِس کے سایہ تھا۔ کسی راہ گزر نے اُسے کہا کہ میاں دھوپ میں کیوں بیٹھے ہو سائے میں کیوں نہیں آجاتے؟ وہ کہنے لگا سائے میں بیٹھ تو جاؤں مگر مجھے دو گے کیا؟ آخروہ محلہ کے پریذیڈنٹ ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے محلہ والوں کی تکالیف کو دُور کریں اور اُن کی ترقی کا کوئی سامان اگر اُن کے امکان میں ہو تو اُسے ان کے لئے مہیا کریں کیونکہ پریذیڈنٹ بننے کی غرض خدمت کرنا ہے نہ کہ ایک نام اور عُہدے کو حاصل کر کے بیٹھ رہنا۔
پس جب خدّام الاحمدیہ کے ممبر اُن کے پاس آئے تھے اور اُنہوں نے کہا تھا کہ ہم اپنے آپ کو ثواب کے لئے آپ کے محلہ کے لوگوں کی خدمت کے لئے پیش کرتے ہیں تو ان کو چاہئے تھا کہ وہ ان کے ممنونِ احسان ہوتے اور سمجھتے کہ یہ ہمارا کام تھا جو خدّام الاحمدیہ سر انجام دینے لگے ہیں مگر بجائے اس کے کہ وہ ان کے ساتھ تعاون کرتے اُنہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب خدّام الاحمدیہ ہم پر حکومت جتانے لگ گئے ہیں۔ گویا ان کی مثال بالکل اُس ٹھنڈے مُلک والے آدمی کی سی ہے جسے کہا گیا کہ تو سائے میں آجا تو وہ کہنے لگا مجھے دو گے کیا؟ خدّام الاحمدیہ نے بھی کہا کہ آئیے ہم آپ کی خدمت کرتے ہیں اور محض اِس لئے کہ ہمیں اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ اَن پڑھوں کی تعلیم کا انتظام کر دیتے ہیں۔ ہم خود تعلیم دلائیں گے خود معلمین کی نگرانی کریں گے اور انہیں سکھا پڑھا کر آپ کے حوالے کر دیں گے مگر بعض پریذیڈنٹوں نے یہ کیا کہ انہیں جواب تک نہیں دیا۔ گویا اُنہوں نے اپنے عمل سے کہہ دیاکہ ہمارا اِس بات سے کوئی تعلق نہیں۔ تو جہاں مخلصین نے اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اخلاص کا ثبوت دیا ہے وہاں بعض نے غفلت اور سُستی بھی دکھائی ہے۔ چنانچہ بعض کو جب لوگ پڑھانے کے لئے جاتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے پڑھ کے کیا لینا ہے؟ کیا پڑھنے کے بعد نوکری مل جائے گی؟ یہ ویسا ہی جواب ہے جیسے نماز کے متعلق بعض نادان مسلمان دیا کرتے تھے۔ اب تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل مسلمانوں میںبیداری پیدا ہو چکی ہے اور وہ نماز روزہ کی اہمیت کو سمجھنے لگ گئے ہیں مگر آپ کی بعثت سے پہلے جب انہیں نماز پڑھنے کے لئے کہا جاتا تو وہ جواب میں کہا کرتے کہ نماز پڑھ کر ہم نے کیا لینا ہے؟ کیا نماز پڑھنے سے روٹی مل جائے گی؟ یاکپڑا مل جائے گا یا روپیہ پیسہ مل جائے گا؟ گویا نماز کا بدلہ وہ روٹی اور کپڑے کی شکل میں ڈھونڈا کرتے تھے۔ اِسی قسم کا جواب اب بعض احمدیوں نے دے دیا ہے کہ ہم نے پڑھ کر کیا لینا ہے؟کیا پڑھ کر نوکریاں مل جائیں گی؟ حالانکہ صرف نوکری ہی انسان کے لئے قیمتی شے نہیں بلکہ عقل اور فہم و فراست کی تیزی اِس سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔ اگر کسی کو ذہنی ارتقاء حاصل ہو جائے، اس کا علم بڑھ جائے، اس کی عقل تیز ہو جائے اور اس کے فہم و فراست میں زیادتی ہو جائے تو کیا یہ کوئی کم فائدہ ہے؟ روپیہ تو ایک ادنیٰ سے ادنیٰ چیز ہے اور پھر روپیہ بھی وہی شخص کماتا ہے جو عالم و ذہین ہو۔ آخر وجہ کیا ہے کہ ایک شخص کروڑوں کروڑ روپیہ کما لیتا ہے اور دوسرابھوکوں مرتا ہے۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ ایک میں علم و فہم کی زیادتی ہوتی ہے اور دوسرے میں علم و فہم نہیں ہوتا۔ پس علم بذاتِ خود ایک نہایت قیمتی اور مُفید چیز ہے۔ پھر جو شخص علم والا ہو گا وہ اگر فوج میں جائے گا تو اعلیٰ جرنیل بن جائے گا، طب سیکھے گا تو اعلیٰ درجہ کا طبیبِ حاذق بن جائے گا، قانون سیکھے گا تو اعلیٰ درجہ کا بیرسٹر بن جائے گا۔ گویا علم اُسے ہر میدان میں ترقی بخش دے گا تو روپیہ سے کسی چیز کی قیمت لگانا نہایت ادنیٰ اور گِرا ہؤا تخیل ہے۔علم اپنی ذات میں ایک نہایت قیمتی چیز ہے خواہ اس کے بعد کسی کو روپیہ حاصل ہو یا نہ ہو۔ دُنیا میں جس قدر ادنیٰ اقوام ہیں یہ کیوں ادنیٰ اقوام کہلاتی ہیں؟ اِسی لئے کہ ان میں علم نہیں۔ اگر وہ بھی علوم سیکھ لیں تو اچھوت ، ہریجن اور چوہڑے چمار کے الفاظ ہی متروک ہو جائیں اور ان کے ماضی پر ایسا پردہ پڑ جائے کہ کسی کو معلوم تک نہ ہو کہ وہ بھی کبھی چوہڑے چمار رہ چکے ہیں۔ ہمیشہ نیچ اقوام جب ترقی کرتی ہیں تو رفتہ رفتہ وہ دوسری قوموں میں ملنا شروع ہو جاتی ہیں اور اس طرح وہ نئی قوموں کا حصّہ بن کر ایک نئی شکل اختیار کر لیتی ہیں جو ان کی پہلی شکل کے مقابلہ میں بدرجہا بہتر ہوتی ہے جس طرح پانی دودھ میں مل جاتا ہے اور انسان یہ شناخت نہیں کر سکتا کہ دودھ میں پانی مِلا ہؤا ہے یا نہیں یا جس طرح پھل اور سبزیاں جب انسان کھاتا ہے تو وہ انسان کا جُزو بن جاتی ہیں اِسی طرح وہ قومیں دوسری قوموں میں مل کر ان کا ایک حصّہ اور جزو بن جاتی ہیں۔ کہیں دوسری قوم کے لڑکوں سے ان کی لڑکیاں بیاہی جاتی ہیں، کہیں جب لوگ ان کو علم اور تقویٰ میں بڑھا ہؤا دیکھتے ہیں تو وہ اپنی لڑکیاں انہیں دے دیتے ہیں اور اِس طرح جب آپس میں رشتے ناطے ہونے لگتے ہیں تو جیسے دودھ میں شکر مل جاتی ہے اسی طرح قومیں آپس میں مل جاتی ہیں اور ادنیٰ اور اعلیٰ کا امتیاز جاتا رہتا ہے مگر اِس کا پہلا قدم تعلیم ہی ہے۔ جب تک تعلیم نہ ہو نہ عقل بڑھتی ہے نہ ذہن میں تیزی پیدا ہوتی ہے، نہ فہم و فراست میں زیادتی ہوتی ہے، نہ اُٹھنے بیٹھنے کے آداب معلوم ہوتے ہیں، نہ گفتگو کا طریق معلوم ہوتا ہے، نہ بڑوں سے ملنے کا سلیقہ آتا ہے، نہ چھوٹوں سے سلوک کرنا آتا ہے مگر جب انسان تعلیم حاصل کرلے تو ان تمام باتوں میں وہ ہوشیار ہو جاتا ہے اور گو بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں مگر قلوب پر ان کا نہایت گہرا اثر پڑتا ہے۔ جب انسان تعلیم حاصل کر لے تو تعلیم سے اسے گفتگو اور نشست برخاست کے وہ تمام آداب معلوم ہوجاتے ہیں جو شرفاء میں رائج ہیں۔
مرزا مظہر جان جاناں ایک بزرگ گزرے ہیں۔ ایک دفعہ ان سے ملنے کے لئے بادشاہ آیا اُس کے ساتھ اس کا وزیر بھی تھا۔ وزیر کو پیاس جو لگی تو اُس نے صراحی سے جو پاس ہی پڑی ہوئی تھی پانی لیا اور پی کر صراحی پر آبخورہ بجائے سیدھا رکھنے کے لا پرواہی سے ذرا ٹیڑھا رکھ دیا۔ وہ اتنی نازک طبیعت کے تھے کہ اسے برداشت نہ کر سکے اور بادشاہ کی طرف دیکھ کر کہنے لگے اسے کس بے وقوف نے وزیر بنایا ہے؟ اِسے تو کوزہ بھی سیدھا رکھنا نہیں آتا۔ گویابادشاہ پر بھی چوٹ کر گئے اور وزیر کو بھی انہوں نے ملامت کر دی۔ تو اُٹھنے بیٹھنے اور کام کاج کرنے کے طریق طبائع پر بڑا اثر ڈالتے ہیں۔ ایک ہی کا م ہوتا ہے جسے ایک تو خوب سلیقہ اور ہوشیاری کے ساتھ سر انجام دیتا ہے مگر دوسرا ایسے بھونڈے طریق سے کرتا ہے کہ اس سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ تو آداب اور طریق بات کو کہیں کا کہیں پہنچا دیتے ہیں اور یہ اصول صرف اہم باتوں سے مخصوص نہیں۔ چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی جب کوئی شخص عقلمندی سے کام لیتا ہے تو اس کا وہ کام نہایت خوبصورت دکھائی دیتا ہے لیکن جب دوسرا اُسے تہذیب و تمدن کے اصول کے مطابق سر انجام نہیں دیتا تو وہ بدصورت نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر چائے کو دیکھ لو انگریز بھی چائے پیتے ہیں اور ہندوستانی بھی مگر انگریزوں میں یہ رواج ہے کہ وہ چائے پیتے وقت ہونٹوں کی آواز نہیں نکالتے لیکن ہندوستانی جہاں چائے پی رہے ہوں قریباً سب چائے پیتے وقت یہ آواز نکال رہے ہوں گے۔ اس فرق کی وجہ نہایت ہی معمولی ہے اور وہ یہ کہ ہندوستانی چائے پیتے وقت زیادہ گھونٹ لے لیتا ہے مگر انگریز چھوٹے چھوٹے گھونٹ پیتا ہے اور اِس طرح آواز پیدا نہیں ہوتی لیکن باوجود اِس کے کہ ایک معمولی بات ہے انگریزوں کی مجلس میں کوئی چائے پیتے وقت آواز نکالے تو سب کنکھیوں سے اُسے دیکھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ وحشی کہاں سے آگیا؟ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی اِس قسم کے کئی آداب سکھائے ہیں مثلاً آپ نے فرمایا کھانا اطمینان اور وقار سے کھاؤ،۴؎ دائیں ہاتھ سے کھاؤ، ۵؎ بائیں ہاتھ سے نہ کھاؤ۔ اِسی طرح اِدھر اُدھر سے کھانا نہ کھاؤ بلکہ ہمیشہ اپنے آگے سے کھانا شروع کرو اور کھانا اِس طرح نہ کھاؤ گویاتمہیں اِس کی شدید حرص ہے۔۶؎ اب دائیں ہاتھ یا بائیں ہاتھ سے کھانا کھانے میں کیا فرق ہے؟ کوئی بہت زیادہ فرق نہیں۔ دائیں سے نہ کھایا بائیں سے کھا لیا یا اس میں کیا حرج ہے اگر کسی نے سامنے سے لقمہ لینے کی بجائے اِدھر اُدھر سے کھانا کھانا شروع کر دیا کیا ان آداب کو اگر ملحوظ نہ رکھا جائے تو ہیضہ ہو جاتا ہے؟ یا کھانا زہر والا بن جاتا ہے؟ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جس طرح ایک شخص کا پیٹ بھر تا ہے اسی طرح دوسرے کا پیٹ بھر جاتا ہے۔ تم کوئی ایسی دلیل نہیں دے سکتے جس سے تم یہ واضح کر سکو کہ اس میں یہ فائدہ ہے اور اس میں وہ۔ صرف یہ ایک تہذیب کی علامت ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے مقرر فرمائی۔ بے شک ان میں فوائد بھی ہیں مگر وہ اتنے باریک ہیں کہ ہر شخص ان کو سمجھ نہیں سکتا لیکن ان پر عمل کرنے سے ایک تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا متبع بن جاتا ہے اور دوسرا جو عمل نہیں کرتا وہ نافرمان بن جاتا ہے۔ اِسی طرح یہ سوال کہ لقمہ دوانگلیوں سے لینا چاہئے یا تین یا چار سے اِس میں بھی سُنت کے حوالوں سے بڑی بھاری فرق نظر آتا ہے بلکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ ہر مُلک میں مُنہ میں لقمہ ڈالنے کا الگ الگ رواج ہے۔ کوئی سامنے سے مُنہ میں ڈالتا ہے اور کوئی پہلو سے۔ جولوگ سامنے سے لقمہ ڈالتے ہیں۔ وہ جب ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جو پہلو سے لقمہ ڈال رہے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں یہ کیسے بد تہذیب ہیں اِنہیں مُنہ میں لقمہ ڈالنا بھی نہیں آتا اور جو لوگ پہلو سے لقمہ ڈالنے کے عادی ہیں وہ جب ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جو سامنے سے لقمہ ڈالتے ہیں تو انہیں تہذیب و تمدن سے ناآشنا قرار دینے لگ جاتے ہیں۔
تو ان باتوں پر رسم و رواج کا بڑا اثر ہوتا ہے مگر جہاں شریعت کی پسندیدگی کا سوال بھی پیدا ہو جائے وہاں اس کی اہمیت کا انکار کرنا سخت بیوقوفی ہوتی ہے کیونکہ شریعت کی تمام باتوں میں حکمت ہوتی ہے چاہے وہ حکمت کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے تو یہ سب باتیں تعلیم سے آتی ہیں اور تعلیم کے نتیجہ میں ہی صحیح تمدن پیدا ہوتا ہے سوائے اس کے کہ اﷲ تعالیٰ غیب سے کسی کو علم دے دے۔ سو اگر کوئی شخص ایسا ہو تو پھر اِسے کسی دُنیوی اُستاد سے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ جیسے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم تھے کہ آپ نے کسی انسان سے علم نہیں سیکھا مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ لوگ کہنا شروع کر دیں کہ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پڑھے ہوئے نہیں تھے تو ہم کیوں تعلیم حاصل کریں؟ اگر کوئی شخص ایسا کہتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرح تم بھی یہ دعویٰ کرو کہ تمہارے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ تمہیں خود پڑھائے گا تو ہم تمہیں کبھی لوگوں سے پڑھنے کے لئے نہ کہیں گے اور سمجھ لیں گے کہ جس طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے تمام علوم سکھادیئے تھے اُسی طرح وہ تمہیں تمام علوم سکھا دے گا۔ اِس صورت میں اگر تم خدّام الاحمدیہ کو یہ جواب دو کہ ہم تمہارے مقرر کردہ اُستادوں سے نہیں پڑھتے۔ ہمارے ساتھ خُدا کا یہ وعدہ ہے کہ وہ آپ ہمیں پڑھائے گا تو ہم تمہارے اِس عُذر کو تسلیم کر لیں گے اور کہیں گے کہ واقع میں تمہیں کسی انسان سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تم کو جو اُستاد مِلا ہے اُس سے بڑا اور کوئی اُستاد ہے ہی نہیں لیکن جب خُدا تعالیٰ کا تمہارے ساتھ کوئی وعدہ نہیں اور تم نقل محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی کرنا چاہتے ہو جن کو خدا نے تمام علوم سکھائے تو تمہاری مثال بالکل وہی بن جاتی ہے کہ کوّا ہنس کی چال چلا اور اپنی بھی بھُول گیا۔ تم بھی اپنی چال چھوڑ دیتے ہو اور محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس بات میں نقل کرتے ہو جس میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان پر امتیاز بخشا ہے۔ پس تم دونوں طرف سے ناکام رہتے ہو نہ تم اپنی کوشش سے کسی علم کو حاصل کرتے ہو اور نہ خُدا تمہیں علم دیتا ہے کیونکہ اس کا تمہارے ساتھ کوئی وعدہ نہیں ہوتا۔
پس یاد رکھو ایسے معاملات میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی نقل کرنا نادانی اور حماقت ہے اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اَن پڑھ تھے مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اَن پڑھ ہونے کے یہ معنے نہیں کہ آپ کو کوئی علم نہیں آتا تھا بلکہ صرف یہ معنے ہیں کہ آپ نے کسی انسان سے علم نہیں پڑھا۔ ورنہ وہ کون سا علم ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو حاصل نہیں تھا اور کونسی وہ نئی بات ہے جس کی مذہب و اخلاق کے لئے ضرورت ہو اور جسے آج تحقیق جدید نے پیش کیا ہو اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیم میں وہ پہلے سے موجود نہ ہو۔
ہم بیسیوں صدی میں پیدا ہوئے ہیں اس زمانہ میں ہوئے ہیں جو علم کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ کتابیں ہمارے مطالعہ میں آتی ہیں جو علوم کے لحاظ سے چوٹی کی کتب سمجھی جاتی ہیں اور وہ لوگ ہمارے دائیں بائیں ہیں جن کا مشغلہ ہر وقت علم پڑھنا اور دوسروں کو پڑھانا ہی ہے مگر میں نے تو آج تک نہ کوئی ایسی کتاب دیکھی اور نہ مجھے کوئی ایسا آدمی ملا جس نے مجھے کوئی ایسی بات بتائی ہو جو قرآن کریم کی تعلیم سے بڑھ کر ہو یا قرآن کریم کی کسی غلطی کو ظاہر کر رہی ہو یا کم از کم قرآن کریم کی تعلیم کے برابر ہی ہو تو محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو خدا تعالیٰ نے وہ علم بخشا ہے جس کے سامنے تمام علوم ہیچ ہیں۔
چودھویں صدی علمی ترقی کے لحاظ سے ایک ممتاز صدی ہے اِس میں بڑے بڑے علوم نکلے، بڑی بڑی ایجادیں ہوئیں اور بڑے بڑے سائنس کے عقدے حل ہوئے مگر یہ تمام علوم محمدصلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے علم کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکے۔ تو ان امور میں محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی نقل کرنا محض نادانی اور حماقت ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا آپ سے ایک امتیازی سلوک تھا اور اِس امتیازی سلوک میں کوئی دوسرا آپ کا شریک نہیں ہو سکتا۔ اِسی طرح اگر کسی دوسرے سے خداتعالیٰ کسی اور امتیازی سلوک کا وعدہ کر دے تو اِس سلوک میں بھی کوئی اور اس کا شریک نہیں ہو سکتا۔
کہتے ہیں ایک بزرگ تھے جو توکّل کر کے گھر میں بیٹھے رہتے تھے روزی کمانے کے لئے کوئی کام نہیں کیا کرتے تھے جو کچھ خدا انہیں بھیج دیتا وہ کھالیتے۔ جب لوگ انہیں کہتے کہ آپ سارا دن بے کار رہتے ہیں یہ ٹھیک بات نہیں آپ کو چاہئے کہ آپ اپنی روزی کے لئے جدوجہد کریں تو وہ کہا کرتے کہ مَیں اﷲ تعالیٰ کا مہمان ہوں اور مہمان کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ خود روٹی پکائے۔ اﷲ تعالیٰ مجھے روٹی بھیج دیتا ہے اور مَیں کھا لیتا ہوں۔ بعض لوگ جو اِن کی حقیقت کو نہیں سمجھتے تھے وہ خیال کرتے کہ شاید سُستی کی وجہ سے وہ کام نہیں کرتے۔ آخر لوگوں نے اُن کے ایک دوست کو جو خود بھی ولی اﷲ تھے تحریک کی کہ آپ انہیں سمجھائیں کہ یہ اپنی زندگی برباد نہ کریں اور کچھ کما کر کھایا کریں سارا دن توکّل کر کے بیٹھ رہنا اور جدوجہد نہ کرنا یہ اچھی بات نہیں۔ چنانچہ انہوں نے اِس بزرگ کو کہلا بھیجا کہ آپ اپنی زندگی کیوں رائیگاں کھو رہے ہیں؟ بہتر ہے کہ آپ کوئی شغل اختیار کریں اور روزانہ تھوڑا بہت کام کر لیا کریں۔ جو کمائیں اس سے اپنا گزارہ کیا کریں۔ اُنہوں نے جواب میں پیغام بھیجا کہ مَیں اﷲ تعالیٰ کا مہمان ہوں اور میرے لئے یہ بالکل ناجائز امر ہے کہ مَیں کوئی کام کروں۔ جب معمولی رئیس کے گھر میں بھی اگر کوئی مہمان ٹھہرے تو وہ یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اُس کا مہمان اپنا کھانا اپنے لئے خود تیار کرے تو مَیں بھی اگر کھانا پکانے لگوں تو میری اِس حرکت کو خدا کب پسند کرے گا؟ وہ یقینا ناراض ہو گا اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی برداشت کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ وہ بھی ذہین آدمی تھے اُنہوں نے جب یہ بات سُنی تو کہلا بھیجا کہ آپ بیشک مہمان ہوں گے مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ مہمانی تین دن ہوتی ہے اِس کے بعد کوئی مہمانی نہیں اور اگر کوئی مہمان بنا رہتا ہے تو وہ دراصل سوال کرتا ہے۔۷؎ پس آپ اگر مہمان بھی تھے تو آپ کی مہمانی کب کی ختم ہو چکی ہے اور اب تو آپ سائل ہیں۔ ان کو چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ مل چُکا تھا کہ مَیں خود تیرا متکفّل ہوں تجھے اپنے لئے کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں اِس لئے جب ان کے پاس یہ پیغام پہنچا تو اُنہوں نے پیغام پہنچانے والے سے کہا کہ میرے بھائی سے کہہ دینا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان سر آنکھوں پر مگر مَیں جس کے گھر کا مہمان ہوں اُس کا ایک دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔ پس پہلے مجھے تین ہزار سال تک مہمان بنے رہنے دو اِس کے بعد اگر میری مہمانی کے ایّام بڑھ گئے تو بیشک اعتراض کرنا۔
اب جس شخص کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا اُس نے تو یہ دعویٰ کر دیا مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ واقعہ سُن کر تم بھی کام کرنا چھوڑ دو اور کہہ دو کہ جب اُس بزرگ کو اﷲ تعالیٰ بغیر کام کاج کئے روزی پہنچا دیتا تھا تو ہمیں کیوں نہیں پہنچائے گا؟ اِسی طرح بے شک محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے نہیں پڑھا اور آخر عمر تک نہیں پڑھا (بعض مؤرخ لکھتے ہیں کہ آخری عمر میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا مگر میری تحقیق یہی ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے آخر عمر تک لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا) مگر اِس لئے کہ خُدا نے خود آپ کو تمام علوم سکھا دیئے تھے اور آپ کو اس امر کی ضرورت نہیں تھی کہ اور لوگوں کی شاگردی اختیار کریں لیکن اور کسی شخص کے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں۔ پس دوسروں کا اِس امر میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی نقل کرنا بالکل بے معنی بات ہے۔ بیشک ہمیں یہ حُکم ہے کہ ہم رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی کامل فرمانبرداری کریں مگر اُنہی امور میں جو شرعی اور تمدنی ہیں لیکن وہ جو شرعی اور تمدنی امور نہیں بلکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کے ساتھ وہ امور مخصوص ہیں ان میں اگر کوئی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی نقل کرتا ہے تو وہ حد درجہ کی گستاخی اور بے ادبی کرتا ہے مثلاً رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کاطریق تھا کہ آپ نمازیں پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے، زکوٰۃ دیتے تھے اور حج کرتے تھے۔ ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم نمازیں بھی پڑھیں، ہم روزے بھی رکھیں، ہم زکوٰۃ بھی دیں اور اگر ہم میں استطاعت ہو تو ہم حج بھی کریں مگر ہمارے لئے یہ جائز نہیں کہ ہم نَو بیویاں کریں کیونکہ یہ امر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے مخصوص تھا اور جو شخص اِس مخصوص امتیاز میں بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی نقل کرتا ہے وہ اوّل درجہ کا گستاخ ہے اور اپنے عمل سے اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی گرفت اس پر نازل ہو۔ تو اﷲ تعالیٰ نے الگ الگ قسم کے احکام دیئے ہوئے ہیں جو نقل والے ہیں وہ اَور ہیں اور جو نقل والے نہیں وہ اَور ہیں۔ اور لوگوں سے علم نہ سیکھنا بھی انہی امور میں سے ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے مختص تھا اور جس میں کوئی دوسرا آپ کی نقل نہیں کر سکتا۔ پس مَیں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جو لوگ پڑھے ہوئے نہیں وہ علم حاصل کرنے کی طرف توجہ کریں اور جن کو خدا تعالیٰ نے علم دیا ہؤا ہے وہ دوسروں کو پڑھائیں۔ اِس وقت علم حاصل کرنے کا خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایک نہایت ہی اعلیٰ موقع عطا کیا ہؤا ہے۔ اگر کسی شخص نے اپنی غفلت سے اِس موقع کو کھو دیا تو اُس کی بد قسمتی میں کوئی شُبہ نہیں ہو گا۔ دوسری قوموں میں یہ بات بھلا کہاں پائی جاتی ہے کہ ان میں سے علم والے اپنے اوقات کی قربانی کر کے دوسروں کو پڑھائیں۔ علم سیکھنا اور علم سکھانا بڑی برکت کا موجب ہوتا ہے۔ اگر ہمای جماعت اِس موقع کو کھو دے تو یہ ایسا ہی ہو گا جیسے بادشاہ کسی کو خِلعت دے اور وہ اُسے پھاڑ کر پھینک دے۔ جو شخص خِلعت کی قدر نہیں کرتا اُسے آئندہ کے لئے خِلعت دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ اِسی طرح اﷲ تعالیٰ جب ثواب کے مواقع پیدا کرتا ہے تو جو لوگ اِن مواقع کی قدر نہیں کرتے وہ ثواب سے محروم رکھے جاتے ہیں۔ یہ دن بڑی برکتوں اور رحمتوں کے دن ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ہماری جماعت کو حاصل ہیں۔ دوسری قوموں کو یہ قُربانیوں اور ثواب کے موقعے حاصل نہیں۔ صرف ہماری جماعت ہی ہے جسے مالی ، جانی، وقتی، ملی اور علمی قُربانیوں کے پے در پے مواقع ملتے چلے جاتے ہیں اور دراصل یہی وہ خزانے ہیں جن کے متعلق رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسیح موعود خزانے لُٹائے گا مگر لوگ قبول نہیں کریں گے۔۸؎ اس پیشگوئی سے مراد مسیح موعود کی جماعت نہیں بلکہ عام لوگ ہیں اور مطلب یہ ہے کہ وہ خزانے ایسے نہیں جن سے روٹی ملے بلکہ ایسے ہوں گے جو لوگوں کو روحانی برکات سے مالا مال کر دیں گے اور جو مالی اور جانی قُربانی کا لوگوں سے مطالبہ کریں گے مگر لوگ انہیں قبول نہیں کریں گے۔ یہاں لوگوں سے مراد آپ کے مرید نہیں بلکہ غیر لوگ ہیں اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ ان کو ردّ کر دیں گے مگر وہ لوگ جو آپ کا حصّہ اور آپ کی جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے آپ کا جزو ہوں گے وہ قبول کریں گے اور ہر قسم کی قُربانیوں میں حصّہ لے کر روحانی خزانوں سے مالا مال ہو جائیں گے۔
غرض یہ اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی رحمت کے نزول کے ایّام میں ان دنوں کی قدر کرو اور انہیں رائیگاں کھو کر اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ خلعت کی بے حُرمتی مت کرو۔ اگر آج ان ثواب کے موقعوں سے تم فائدہ نہیں اُٹھاؤ گے تو یاد رکھو یہ زمانہ گزر جائے گا اور پھر نہ ثواب کے یہ مواقع پیدا ہوں گے اور نہ لوگوں کو قُربانیوں کی ضرورت محسوس ہو گی۔ ہر قسم کے سامان حکومت کی طرف سے میسر ہوں گے، مدرسے جاری ہوں گے، یونیورسٹیاں قائم ہوں گی اور ہر اَن پڑھ شخص کو تعلیم دلانے کا حکومت خود انتظام کر رہی ہو گی۔ اُس وقت اگر تم کسی کو کہو گے کہ آؤ میں تمہیں پرائمری تک تعلیم دلا دوں تو وہ کہے گا تم بیوقوف ہوئے ہو جب سرکاری طور پر ایم اے کی تعلیم حاصل کرنے کا انتظام ہے تو مجھے تمہارا ممنونِ احسان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر اب کیسا مبارک زمانہ ہے کہ اگر کوئی شخص صرف دستخط کرنا جانتا ہے تو وہ دوسرے کو دستخط کرنا سکھا کر ہی ثواب حاصل کر سکتا ہے اور جسے اُردو کے دو حرف آتے ہیں وہ دوسرے کو دو حرف پڑھا کر ہی معلِّم بن سکتا ہے اور معلم کوئی معمولی عُہدہنہیں بلکہ بہت بڑا عُہدہ ہے لیکن آج یہ عُہدہ صرف دو حرف پڑھا کر مل سکتا ہے اور ہر شخص کی زبان سے وہ معلِّم اور اُستاد کہلا سکتا ہے۔ پس اِس نہایت ہی قیمتی اور ثواب کے موقع کو ہاتھ سے جانے دینا سخت نادانی کی بات ہے۔‘‘
(الفضل ۳۰؍جون ۱۹۳۹ئ)
۱؎ محمد : ۵
۲؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد ۲ صفحہ ۴۵۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۳؎
۴؎ بخاری کتاب الاطعمۃ باب التَّسمِیَۃُ علی الطعام
۵؎ بخاری کتاب الاطعمۃ باب التَّسمِیَۃُ علی الطعام و الأکل بِالیمین
۶؎ بخاری کتاب الاطعمۃ باب الأکل ممایلیہ
۷؎ سنن ابو داؤد کتاب الاطعمۃ باب ما جاء فِی الضِیافۃ
۸؎ صحیح بخاری کتاب البیوع باب قتل الخنزیر
۱۹
تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق جلسے کئے جائیں
(فرمودہ ۳۰؍جون ۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے تحریک جدید کے متعلق گزشتہ سال بھی اس زمانہ میں ایک جلسہ مقرر کیا تھا اور اس سال پھر مَیں اس کے متعلق ایک جلسہ کا اعلان کرنا چاہتا ہوں اور اس کے لئے ۱۵؍اگست ۱۹۳۹ء کی تاریخ مقرر کرتا ہوں۔۱؎ جیسا کہ مَیں نے پہلی دفعہ بیان کیا تھا ایسے جلسوں کو کامیاب بنانے کے لئے پہلے مختلف محلّوں میں اور مختلف مقامات پر چھوٹے چھوٹے جلسے کرنے ضروری ہیں اور ایسے کم سے کم تین جلسے ہونے چاہئیں۔ ایک عورتوں کا، ایک نوجوانوں کا اور ایک بڑی عمر کے آدمیوں کا۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ تینوں جلسے اس طرح ہوں کہ ایک طبقہ کو دوسرے طبقہ کے جلسہ میں شریک ہونے کی اجازت نہ ہو بلکہ ہر جلسہ میں دوسرے لوگ بھی شامل ہوں۔ مثلاًنوجوانوں کے جلسہ میں یا بڑوں کے جلسہ میں علماء کی جو تقریریں ہوں اگر پس پردہ عورتیں بھی ان کو سُن سکیں تو یہ نا مناسب نہیں بلکہ پسندیدہ ہے لیکن چونکہ ہر طبقہ کے لئے اس کے حالات کو دیکھتے ہوئے بعض مخصوص خیالات کا سُننا اور سُنوانا ضروری ہوتا ہے اس لئے علیحدہ علیحدہ جلسوں کی تجویز مَیں نے کی ہے اور ان جلسوں کے آخر میں ۱۵؍اگست کو ایک بڑا جلسہ ہو جس میں سب مرد، عورتیں، جوان، بچے، بوڑھے شریک ہوں بلکہ شہر کے علاوہ علاقہ کے احمدی بھی شامل ہوں اور اس تحریک سے پوری طرح آگاہ ہوں۔
مَیں یہ بھی اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ بہت سے دوستوں کے وعدے تھے کہ وہ جون یا جولائی تک اپنے وعدے پورے کر دیں گے اس کے لئے سب جماعتیں تحریک کریں کہ سب وعدے ۱۵؍اگست تک ادا ہو جائیں تا وہ ثواب میں چھ ماہ آگے بڑھ جائیں۔ آخر جو رقم دینی ہے وہ دینی ہی ہے اور جو وقت پر یا وقت سے پہلے ادا کر دے وہ ثواب کا زیادہ مستحق ہوجاتا ہے۔ مَیں نے کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ جو لوگ اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ آخری وقت پر وعدہ پورا کر دیں گے وہ کبھی اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ وہ بالعموم ناکام رہتے ہیں اور ان کے کاموں میں سُستی پیدا ہو جاتی ہے جس طرح وہ لوگ جو اس انتظار میں رہتے ہیں کہ آخری وقت پر نماز ادا کر لیں گے۔ بسا اوقات محروم رہ جاتے ہیں وہ انتظارہی کرتے رہتے ہیں اور سورج چڑھ آتا ہے یا عصر کا وقت ہوتا ہے تو سورج غروب ہو جاتا ہے۔ پس کوشش کرنی چاہئے کہ نیکی کو وقت پر ادا کیا جائے اور نیکی کے معاملہ میں تعجیلسے کام لیا جائے ۔ مَیں نے بارہا وہ مثال دی ہے کہ جب ایک مخلص صحابی باوجود تیاریٔ جنگ کی طاقت رکھنے کے اِس خیال سے تاخیر کرتے رہے کہ بعد میں تیاری کر لوں گا لیکن بعد میں ایسے مواقع پیش آگئے کہ نہ کر سکے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جہاد کے ثواب سے الگ محروم رہے اور خدا اور رسُول کی ناراضگی کے مورد علیحدہ ہوئے حتّٰی کہ ایسے تین صحابہ کا رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حُکم سے بائیکاٹ کیا گیا۔ ان کے عزیز ترین دوستوں نے ان کا بائیکاٹ کر دیا بلکہ بعض کی بیویوں نے بھی بائیکاٹ کر دیا اور مسلمانوں کا ان سے بات چیت کرنا تو الگ رہا وہ ان کے متعلق کوئی اشارہ کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے ۲؎اور یہ سب کچھ اس وجہ سے ہؤا کہ انہوں نے نیکی کرنے میں سُستی سے کام لیا حالانکہ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس سامان موجود تھا مگر صرف سُستی سے کام لیا اور کہا کہ مَیں تیاری کر لوں گا۔ سب سامان میرے پاس موجود ہے تو جب کوئی شخص نیکی میں تاخیر کرتا ہے تو اگر اس کے اندر کبر اور خودپسندی کا مادہ پیدا ہو جائے تو بعد میں اﷲ تعالیٰ اسے ثواب سے بھی محروم کر دیتا ہے اوراگر یہ نہ بھی ہو تو بھی کم سے کم ثواب کے اتنے دن تو گئے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے رستہ میں خرچ کرتے اور اُسے قرض دیتے ہیں خدا تعالیٰ ان کو بڑھا کر ہی واپس کرتا ہے۔۳؎ یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے اور اسے زیادہ نہ ملے جس طرح کھیت میں بیج ڈالا جاتا ہے تو اس کے ایک ایک دانے سے ستّر ستّر دانے نکلتے ہیں اسی طرح جو شخص دین کی راہ میں قُربانی کرتا ہے اُسے ایک ایک کے ستّر ستّر بلکہ اس سے بھی زیادہ ملتے ہیں ۴؎مگر بعض نادان اس اُمیدمیں رہتے ہیں کہ انہیں ایک کے ستّر اسی دُنیا میں مل جائیں حالانکہ اس دُنیا کی نعماء کی اُخروی نعمتوں کے مقابلہ میں کوئی بھی حیثیت نہیں۔ اگر یہاں ایک کے ستّر بلکہ سات سَو بھی مل جائیں تو وہ اتنے مُفید نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کا اثر محدود ہو گا۔ اگر انسان کی اوسط عمر ستّر سال بھی فرض کرلی جائے جو اس زمانہ میں ناممکن ہے۔ ہندوستان میں اوسط عمر تیس بلکہ ۲۷ سال سمجھی جاتی ہے لیکن اگر بفرض محال ستّر سال بھی تسلیم کر لی جائے تو یہ عرصہ اس لمبے اور غیر محدود عرصہ کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں جو موت کے بعد شروع ہوتا ہے۔ یہاں یہ نعمتیں کس کام آسکتی ہیں اور اس محدود عرصہ میں ان سے کیا فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے اِس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی شخص سے کہا جائے کہ تمہیں اس پڑاؤ پر آرام مل سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب تم منزل مقصود پر پہنچ جاؤ تو تمہارے اور تمہارے بیوی بچوں کے لئے عمر بھر کے واسطے آرام کا انتظام ہو جائے۔ ان دونوں میں سے تمہیں کونسا آرام پسند ہے تو ہر معقول انسان منزل پر پہنچ کر عمر بھر کے آرام کو ترجیح دے گا اور جب انسان کو ایک ایسی زندگی کے دَور سے گزرنا ہے جس کے متعلق قرآن کریم نے خَالِداً اور اَبَداً کے الفاظ استعمال کئے ہیں تو ایسی ابدی اور خلود کی زندگی کے آرام پر اس چند روزہ زندگی کے آرام کو ترجیح دینا نادانی نہیں تو اور کیا ہے مگر پھر بھی بعض نادان قُربانی کرنے کے بعد یہ اُمید رکھتے ہیں کہ انہیں اسی زندگی میں مالی صورت میں نفع ملے اور جب وہ اس سے محروم رہتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ثواب کے کاموں سے بھی محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ ایسی چیز کو بدلہ قرار دیتے ہیں جو دراصل بدلہ نہیں ہوتا۔ حقیقت یہی ہے کہ اگر کسی عاقل کے سامنے یہ بات رکھی جائے کہ وہ اس چند روزہ زندگی کے بدلہ کو پسند کرتا ہے یا آخرت کے غیرمحدود انعامات کو تو وہ ضرور آخرت کے انعامات کو ترجیح دے گا۔ جو لوگ اس دنیا کے بدلہ کو ترجیح دیتے ہیں اُن کی مثال عقل کے معاملہ میں اس میراثی کی ہے جو کسی واعظ کا وعظ سُننے کے لئے چلا گیا۔ واعظ یہ کہہ رہا تھا کہ نماز پڑھنی چاہئے۔ اُس نے یہ بات سُنی تو واعظ سے کہا کہ آپ نے وعظ تو بڑا کیا ہے مگر یہ تو بتاؤ کہ اگر نماز پڑھیں تو کیا ملے گا؟ واعظ کو جلدی میں اَور تو کوئی جواب نہ سوجھا اُس نے کہہ دیا کہ نماز پڑھنے سے نور ملتا ہے۔ اس پر اس نے نماز شروع کر دی اور چار نمازیں پڑھیں۔ صبح کی نماز کے وقت سردی بہت تھی۔ اس نے سوچا کہ واعظ نے کوئی تیمم کا مسئلہ بھی بیان کیا تھا سو اِس وقت میں تیمم کر کے ہی نماز پڑھ لیتا ہوں۔ اس نے تیمم کے لئے ہاتھ مارا تو اتفاقاً اس کے ہاتھ توے پر پڑے اور اس نے وہی مُنہ اور ہاتھ پر پھیر لئے اور یہ پانچ نمازیں پڑھنے کے بعد اس نے خیال کیا کہ اب مجھے نور مل گیا ہو گا۔ ذرا روشنی ہوئی تواس نے اپنی بیوی کو جگایا اور کہا کہ دیکھو کوئی نور آیا ہے یا نہیں ؟ بیوی نے اس کے چہرے کودیکھا تو کہا یہ تو مَیں جانتی نہیں کہ نور کیا ہوتا ہے ہاں اگر وہ کوئی کالی کالی چیز ہوتی ہے تو پھر تو بہت ہے۔ میراثی نے اپنے ہاتھو ںکو دیکھا اور وہ چونکہ براہ راست توے پر پڑے تھے اس لئے وہ بہت زیادہ سیاہ تھے اس نے کہا کہ اگر تو نور کالا ہی ہوتا ہے تو پھر تو گھٹائیں باندھ کر آیا ہے۔ یہی مثال ان لوگوں کی ہوتی ہے جو خدا کی راہ میں قُربانی کر کے اسی دُنیا میں بدلہ کے منتظر رہتے ہیں۔ وہ پانچ نمازیں پڑھنے کے بعد توقع رکھتے ہیں کہ ان کے چہرہ پر نور کے آثار ظاہر ہوں اور یہ خیال نہیں کرتے کہ اس دُنیا میں تو کسی نہ کسی طرح گزارا ہو ہی جاتا ہے مگر وہ غیر محدود زندگی جہاں تمام رشتے ناطے ٹوٹ جاتے ہیں ماں کو بیٹے سے اور بیٹے کو ماں سے، بیوی کو خاوند سے ، خاوند کو بیوی سے، بھائی کو بھائی سے اور بہن کو بہن سے کسی مدد کی اُمید نہیں ہو سکتی۔ وہاں کس طرح کام چلے گا جب ہر انسان خوف سے لرز رہا ہو گا۔ وہ وقت ایسا ہو گا جب کوئی کسی کا ساتھ نہ دے گا۔ اس وقت انسان کہے گا کہ کاش! کوئی چیز میرے خزانہ میں ہوتی اور آج میرے کام آتی۔ جب انسان ترساں ولرزاں ہو گا، گھبرایا ہؤا ہو گا ایسے وقت میں اگر خدا تعالیٰ کے فرشتے آکر کسی سے کہیں کہ یہ زادِ راہ تمہارے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے تو یہ انعام زیادہ ہے یا یہ کہ یہاں دین کی راہ میں خرچ کئے ہوئے مال کے بدلہ میں ایک ایک کے ستّر سترّ مل جائیں۔ ہماری جماعت کے جو لوگ چندہ دیتے ہیں اس کی اوسط تین روپے فی کس بنتی ہے جسے ستّر سے ضرب دی جائے تو دو سَو دس روپیہ سال کے ہوتے ہیں اور سترہ روپیہ چند آنے ماہوار ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی بڑا مال نہیں۔ بمبئی اور کلکتہ میں ایسے ایسے ہندوستانی موجود ہیں جو لاکھ لاکھ اور دو دو لاکھ روپیہ ماہوار کماتے ہیں حالانکہ ہندوستان ایک گرا ہؤا مُلک ہے۔ اس کے مقابلہ میں سترہ روپیہ کی حیثیت ہی کیا ہے لیکن اگر اس معمولی سی رقم کی بجائے وہ چیز مل جائے جس کی قیمت کا اندازہ ہی نہیں ہو سکتا اور ایسی تکلیف کے وقت میںملے جب کہ ہر شخص ایک مصیبت میں مُبتلا ہو گا اور کہے گا کہ کاش میری دولت کا چوتھا حصّہ لے لیا جائے، کاش نصف لے لیا جائے بلکہ ساری دولت میری لے لی جائے اور اس انعام میں سے مجھے کچھ حصّہ مل جائے تو غور کرو یہ کتنا بڑا انعام ہے۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے روز کافر کہیں گے کہ کاش ہماری ساری دولت لے لی جائے اور ہمیں کوئی ثواب بے شک نہ ملے مگر اس عذاب سے نجات مل جائے ۵؎اور جن لوگوں کو ایک معمولی سی قُربانی کے بدلہ میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس ثواب کا وعدہ ہے وہ اگر اس پر اس دُنیا کے معمولی نفع کو ترجیح دیں تو ان کی نادانی میں کیا شک ہے مگر کئی ایسے نادان ہیں جو معمولی سی قُربانی کرنے کے بعد چاہتے ہیں کہ اسی دُنیا میں ان کو نفع پہنچے اور جب نہیں پہنچتا تو سمجھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ دھوکا ہؤا۔ ہم سے قُربانی کرالی گئی مگر بدلہ کوئی نہیں مِلا۔ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ استاد نے مجھ سے چار روپیہ فیس تو لے لی مگر اس کے عوض مجھے دیا کچھ نہیں اور یہ نہیں سمجھتا کہ اس نے جو علم سکھایا ہے وہ چار کروڑ روپیہ سے بھی زیادہ قیمتی ہے جو طالب علم فیس کے بدلہ میں اُمید رکھتا ہے کہ اسے استاد کی طرف سے روپیہ ملے گا وہ کبھی خوش نہیں ہو سکتا اور اطمینان حاصل نہیں کر سکتا لیکن جو یہ سمجھتا ہے کہ اس فیس کے بدلہ میں جو روپے ملتے ہیں وہ جیب میں نہیں بلکہ دل میں ڈالے جاتے ہیں۔ وہ شوق سے علم حاصل کرتا ہے اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کہ دُنیا میں جو نفع حاصل ہوتا ہے وہ اس نفع کے مقابلہ میں جو آخرت میں ملتا ہے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔
پھر دُنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بینک کو قبل از وقت ادائیگی کر دیتا ہے تو اسے ڈسکاؤنٹ ملتا ہے مثلاً اگر ۳۰ ؍جولائی کو رقم واجب الادا ہے اور وہ ۳۰؍جون کو ہی ادا کر دیتا ہے تو بینک اسے آٹھ آنے یا چار آنے سینکڑہ ڈسکاؤنٹ کے بھیج دے گا۔ گویا اسے قبل از وقت ادائیگی کا منافع دے گا۔ یہی حال اﷲ تعالیٰ کا ہے جو شخص بروقت اور جلدی اپنا وعدہ پورا کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کا ڈسکاؤنٹ اس کو ضرور دیتا ہے۔ اگر بینک اپنے محدود مال کے ساتھ ڈسکاؤنٹ ادا کرتا ہے تو یہ کیونکر قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص وقت سے پہلے اپنا وعدہ پورا کرے تو اﷲ تعالیٰ اسے ڈسکاؤنٹ نہیں دے گا۔ وہ دے گا اور ضرور دے گا مگر وہ چاندی یا سونے کے سکّے میں نہیں ہو گا بلکہ نُور اور برکت کی صورت میں ہو گا۔
حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے پاس لوگ گئے اور کہا کہ رو م کا بادشاہ ہم سے جزیہ مانگتا ہے۔ دیں یا نہ دیں؟ ان کا مقصد اس سوال سے فتنہ پیدا کرنا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر آپ کہیں گے کہ نہ دو تو ان کو شرارت کا موقع مل جائے گا اور کہہ سکیںگے کہ یہ حکومت کا باغی ہے اور اگر کہیں گے کہ دے دو تو پھر کہہ سکیں گے کہ تم جو کہتے ہو کہ مَیں خدا تعالیٰ کا نبی اور یہود کا بادشاہ ہوں یہ کیونکر صحیح ہے۔ اپنی طرف سے انہوں نے بڑی چالاکی کی اور سمجھا کہ اس طرح آپ پکڑے جائیں گے مگر آپ نے کہا کہ قیصر کیا مانگتا ہے؟ اُنہوں نے سکّہ نکال کر دکھایا کہ یہ مانگتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے اس وقت بھی سکّہ پر بادشاہ وقت کا کوئی نشان ضرور ہوتا ہو گا۔ آپ نے اس سکّہ پر قیصر کی تصویر یا نشان دیکھا تو فرمایا یہ قیصر کا ہے اس لئے اُسے دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو ۶؎یعنی یہ روپیہ تو بنا ہؤا ہی قیصر کا ہے یہ اسے دو اور اﷲ تعالیٰ کا ٹیکس اطاعت کا ہے وہ اُسے دو۔اﷲ تعالیٰ کے سکّے اور ہیں اور وہ انہی میں بدلہ ادا کرتا ہے۔ ہاں یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ اپنے بندوں کی مشکلات کو دیکھ کر کبھی دُنیوی نفع بھی ان کو دے دیتا ہے اور اس دُنیا میں بھی فضل کر دیتا ہے۔ جیسا کہ ہزار ہا احمدیوں نے اس کا تجربہ کیا ہے۔
حضرت خلیفہ اوّل سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں مکّہ میں تھا اور کچھ روپیہ کی ضرورت پیش آئی۔ اُس وقت آپ طالب علم تھے۔ طالب علموں کی ضروریات بھی محدود ہوتی ہیں چنانچہ اُس وقت آپ کو دس پندرہ روپیہ کی ہی ضرورت تھی آپ فرماتے تھے کہ مَیں نے دل میں کہا کہ کسی سے مانگوں گا نہیں اور مصلّٰی بچھا کر نماز پڑھنے لگ گیا۔ نماز کے بعد جب مصلّٰی اُٹھا کر چلنے لگا تو دیکھا کہ مصلّٰی کے نیچے ایک پونڈ پڑا ہؤا تھا۔ اب چاہے وہ پہلے ہی وہاں پڑا ہؤا ہو، چاہے اس وقت کسی کی جیب سے اُچھل کر وہاں جاپڑا ہو اور چاہے فرشتوں نے رکھ دیا ہو۔ بہرحال اﷲ تعالیٰ نے آپ کی مُشکلات کو دیکھ کر اس رنگ میں آپ کی مدد فرمادی۔
مَیں نے اپنا ایک واقعہ بھی کئی دفعہ سُنایا ہے۔ ایک دفعہ مَیں سفر پر تھا اور کسی روحانی تحریک کے ماتحت جس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں مَیں نے خیال کیا کہ یہاں ایک روپیہ مجھے ملے۔ ہم لوگ چلے جارہے تھے اور بعض احمدی میرے ساتھ تھے۔ سامنے ایک گاؤں تھا اور کچھ لوگ کھڑے نظر آرہے تھے۔ میرے ساتھیوں نے بتایا کہ اس گاؤں کا نمبردار شدید مخالف ہے اور وہی اپنے ساتھیوں سمیت کھڑا ہے۔ یہ لوگ احمدیوں کو مارتے ہیں حتّٰی کہ اپنے گاؤں میں سے کسی احمدی کو گزرنے بھی نہیں دیتے۔ میرے بعض ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ گاؤں کے باہرباہر چلنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ کوئی گالی گلوچ کریں۔ ابھی یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ گاؤں نزدیک آگیا جب مَیں اس نمبردار کے مکان کے قریب پہنچا تو وہ دوڑ کر آگے آیا اور ایک روپیہ پیش کیا۔ پہلے اﷲ تعالیٰ نے جماعت کو سبق دلانے کے لئے ایک بات میرے دل میں پیدا کی اور اپنی محبت کا تجربہ کرانے کے لئے میرے مُنہ سے سوال کرا دیا کہ روپیہ ملے اور دوسری طرف جماعت کے دوستوں کو اس کا احساس کرایا کہ یہ دشمنوں کا گاؤں ہے اور پھر اس نشان کو اسی گاؤں کے سب سے بڑے مخالف کے ذریعہ پورا کرا دیا۔ یہ خدا تعالیٰ کا ایک نشان تھا اور اس نے بتایا کہ ہم جبچاہیں اور جہاں سے چاہیں دلوا سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب آپ باغ میں فروکش تھے ایک دفعہ آپ نے جبکہ مَیں بھی پاس تھا والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ آجکل مالی تنگی بہت ہے لنگر خانہ کا خرچ بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ میراخیال ہے کہ بعض دوستوں سے قرض لیا جائے۔ اسی روز جب آپ ظہر یا جمعہ کی نماز کے لئے باہر گئے اور پھر نماز کے بعد واپس تشریف لائے تو فرمایا کہ ایک غریب آدمی جس کے کپڑے بھی پھٹے ہوئے تھے اس نے میرے ہاتھ میں ایک پوٹلی دی تھی اس کے کپڑے اتنے پھٹے ہوئے اور بوسیدہ تھے کہ مَیں نے سمجھا اس پوٹلی میں چند پیسے ہوں گے لیکن دراصل اس میں سوا دو سَو روپے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ابھی میرے دل میں قرضہ لینے کا خیال تھا مگر خدا تعالیٰ نے خود ہی ضرورت کو پورا کر دیا تو بعض اوقات اﷲ تعالیٰ دُنیا میں بھی بندوں کی ضرورتوں کے لئے روپیہ مہیا کر دیتا ہے۔
چند سال ہوئے مجھے ایک مکان کی تعمیر کے لئے روپیہ کی ضرورت پیش آئی۔ مَیں نے اندازہ کرایا تو مکان کے لئے اور اس وقت کی بعض اَور ضروریات کے لئے دس ہزار روپیہ درکار تھا۔ مَیں نے خیال کیا کہ جائداد کا کوئی حصّہ بیچ دوں یا کسی سے قرض لوں۔ اتنے میں ایک دوست کی چِٹھی آئی کہ مَیں چھ ہزار وپیہ بھیجتا ہوں اس کے بعد چار ہزار باقی رہ گیا۔ ایک تحصیلدار دوست نے لکھا کہ مَیں نے خواب دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہمیں دس ہزار روپیہ کی ضرورت تھی۔ اس میں سے چھ ہزار تو مہیا ہو گیا ہے باقی چار ہزار تم بھیج دو۔ مجھے تو اس کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آیا اگر آپ کو کوئی ذاتی ضرورت یا سلسلہ کے لئے درپیش ہو تو میرے پاس چار ہزار روپیہ جمع ہے مَیں بھیج دوں۔ مَیں نے انہیں لکھا کہ واقعی صورت تو ایسی ہے۔ بعینہٖ اسی طرح ہؤا ہے۔ گویا ضرورت مجھے تھی لیکن اﷲ تعالیٰ نے میرے مُنہ سے کہلوانے کی بجائے اس دوست کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مُنہ سے کہلوادیا۔ نہ اسے علم تھا کہ مجھے دس ہزار کی ضرورت ہے اور یہ کہ اس میں سے کسی نے چھ ہزار بھیج دیا اور اب صرف چار ہزار باقی ہے اور نہ مجھے علم تھا کہ اس کے پاس روپیہ ہے مگر اﷲ تعالیٰ نے اس کے لئے خود ہی تمام انتظام فرما دیا۔ تو بعض اوقات ایسے مواقع اﷲ تعالیٰ خود ہی بہم پہنچا دیتا ہے۔ اس کے خاص بندوں کے لئے یہ صورت عام ہوتی ہے اور عام بندوں کے لئے شاذ کے طور پر لیکن سب ہی کے لئے حقیقی نصرت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے جو روحانی طور پر آتی ہے۔ وہ اس دُنیا میں معرفت کے رنگ میں اور آخرت میں روحانی نصرت کی صورت میں آتی ہے ۔ گو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا میں بھی بدلے ملتے ہیں مگر وہ اصل بدلہ کے مقابلہ میں بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ اکثر حصّہ اگلے جہان میں ہی ملتا ہے اور اگلے جہان کے بدلہ کی قیمت وہی جانتا ہے جو اسے سمجھتا ہے دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ نادان کی نگاہ میں وہ حقیر چیز ہے مگر جو اس کی قیمت کو سمجھتے ہیں ان کے نزدیک اس سے زیادہ قیمتی چیز اور کوئی نہیں ہوتی۔ یہی صحابہ جن کا مَیں نے ذکر کیا ہے کہ جنگ میں شامل ہونے سے رہ گئے تھے ان میں سے ایک جنہیں مالی توفیق تو تھی مگر شامل نہ ہوئے تھے ان کے نزدیک رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ناراضگی کے مقابلہ میں دولت کی کوئی قیمت باقی نہ رہ گئی تھی اور اُنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اﷲ تعالیٰ مجھے معاف کر دے تو مَیں اپنی ساری دولت خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دوں گا اور جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی معافی کا اعلان فرمایا تو اُنہوں نے سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا۔ حتّٰی کہ تن کے کپڑے بھی دے دیئے اور خود قرض لے کر اَور کپڑے بنوا کر پہنے۔۷؎رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی خوشنودی کے مقابلہ میں ان کے نزدیک ساری دولت کی کوئی حقیقت نہ تھی۔
پس مَیں تحریک کرتا ہوں کہ دوست کوشش کریں کہ وقت سے پہلے تحریک جدید کے وعدے پورے ہو جائیں۔ پھر اس کے دوسرے حصوں کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے کہ وہ بھی بہت اہم اور ضروری ہیں اور قومی کیرکٹر کو بنانے میں بہت ممد ہیں۔ مثلاً ایک ہی کھانا کھانا سوائے دعوت کے موقع کے یا جمعہ یا عیدین کے موقع کے۔ تو جن حدود کے ساتھ اس کے دوسرے حصّے مشروط ہیں ان کو بھی پورا کرنے کی طرف جماعت کو توجہ دلانی ضروری ہے۔ اس تحریک کے دوسرے حصوں میں ایک کھانا کھانا اتنا اہم حصّہ ہے کہ اس پر عمل کرنے والے جانتے ہیں کہ یہ اپنے اندر کس قدر وسیع فوائد رکھتا ہے۔ یا درکھنا چاہئے کہ بعض چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی نہایت اہم اثر پیدا کرنے والی ہوتی ہیں۔ جب کانگرسیوں پر مقدمات دائر ہونے لگے اور گاندھی جی بھی گرفتار ہوئے تو اُنہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ اپنا کوئی ڈیفنس پیش نہیں کریں گے اور سب کانگرسیوں کو ایسا ہی کرنا چاہئے۔ عام لوگوں حتّٰی کہ انگریزوں نے بھی سمجھا کہ وہ ضد کرتے ہیں حالانکہ یہ ضد نہ تھی بلکہ اتنی چھوٹی سی بات اپنے اندر بہت سے فوائد رکھتی تھی لیکن میرا خیال ہے بہت سے کانگرسیوں نے بھی اسے نہیں سمجھا ہو گا۔ بات یہ تھی کہ اگر دفاع کی اجازت ہوتی تو گاندھی جی کے لئے تو مُلک کے بہترین وکلاء مثلاً سر سپرہ اور مسٹر جیکر وغیرہ سب جمع ہو جاتے لیکن جو غرباء گرفتار ہوتے ان کے دفاع کے لئے کوئی نہ جاتا۔ گاندھی جی نے خیال کیا کہ اس طرح بے چینی پیدا ہو گی اور غرباء خیال کریں گے کہ بڑے بڑے لوگوں کے لئے تو اس قدر انتظامات اور سامان مہیا ہو جاتے ہیں مگر غرباء کو کوئی نہیں پوچھتا اور اگر سب کے لئے بڑے بڑے وکلاء پیش ہونا بھی چاہتے تو نہ ہو سکتے۔ مقدمات تو سارے مُلک میں چل رہے تھے وہ ہر جگہ کس طرح پیش ہو سکتے تھے اور اس طرح ان کی خواہش اور ارادہ کے باوجود شکوہ کا موقع باقی رہتا۔ گو وہ شکوہ کتنا ہی غیر معقول اور خلافِ عقل کیوں نہ ہوتا مگر لوگ یہی کہتے کہ غرباء کو کوئی نہیں پوچھتا اور کثیراخراجات کے باوجود شکایت باقی رہتی۔
ہم نے یہاں اپنے مقدمات میں دفاع کی اجازت دی تھی اور گو ہم نے غلطی نہیں کی بلکہ مصلحتاً ایسا کیا تھا مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ اس پر ہمارا کتنا روپیہ خرچ ہوتا رہا ہے۔ کسی میں سَو کسی میں دو سَو اور کسی میں چار سَو روپیہ خرچ ہوتا رہا ہے۔ ہر مقدمہ میں کئی کئی گواہ پیش ہوتے ہیں کئی کئی پیشیاں ہوتی ہیں لیکن اگر ہم دفاع پیش نہ کرتے تو ایک بھی پیسہ خرچ نہ ہوتا۔ پیش ہوتے اور کہہ دیتے کہ جو کرنا ہے کر لو۔ گاندھی جی نے بھی یہی کیا اور اس سے سارے مُلک میں شور مچ گیا۔ عام لوگوں نے خیال کیا کہ بائیکاٹ کے لئے ایسا کیا ہے حالانکہ ان کی غرض یہ تھی کہ چھوٹے بڑے اور امیر و غریب کا کوئی سوال نہ پیدا ہو اور روپیہ نہ خرچ ہو۔ ہزاروں لاکھوں مقدمات تھے اگر روپیہ خرچ کیا جاتا تو بے شمار خرچ ہو جاتا اور پھر مُلک میں بیداری بھی پیدا نہ ہوتی۔
اِسی طرح کھدّر پوشی ہے۔ یہ بھی ایسی ہی باتوں میں سے ایک ہے۔ کوئی کہے کہ اگر کھدّر مُفید ہے اور یہ بھی سادہ کپڑوں کی تحریک کا حصّہ ہے تو تم اس تحریک پر کیوں عمل نہیں کرتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا قانون اَور ہے اور ہماری شریعت اَور ہے۔ گاندھی جی نے وہ تحریک کی جو ان کے خیال کے مطابق مُلک کے لئے مُفید ہو سکتی تھی اور مَیں نے جو تحریک کی وہ اسلام اور سلسلہ کے فائدہ کو مدّ نظر رکھ کر کی ہے۔ اس لئے ہماری تجاویز میں فرق لازمی ہے۔ میرے مدّنظر اسلام کی شوکت اور سلسلہ کی ترقی ہے اور گاندھی جی کے نزدیک ہندوستان کی ترقی ہے۔ دونوں کا علاج علیحدہ علیحدہ ہے۔ مَیں نے ایک کھانا کھانے، سادہ کپڑے پہننے اور ہاتھ سے محنت کرنے کی جو تحریک کی ہے یہ کوئی چھوٹی باتیں نہیں ہیں۔ یہ اپنے اندر اس قدر فوائد رکھتی ہیں کہ ہر ایک پر اگر مفصل تقریر کی جائے تو سینکڑوں گھنٹے کی جاسکتی ہے اور اگر جماعت ان کو مدّنظر رکھے تو قریب ترین عرصہ میں حیرت انگیز انقلاب پیدا ہو سکتا ہے اور جماعت اس پر جتنا عمل کرتی ہے اس کے اثرات بھی مشاہدہ کر رہی ہے۔ مجھے کئی رپورٹیں آتی رہتی ہیں کہ دوسرے لوگ بھی اسے اختیار کر رہے ہیں ، کئی غیر احمدی امراء کے گھرانوں کی عورتیں ان تحریکات کو اپنے ہاں رائج کر رہی ہیں اور اسے بہت پسند کرتی ہیں۔
پچھلے دنوں جب چیف جسٹس صاحب یہاں تشریف لائے تو اُنہوں نے اس تحریک کا ذکر سُن کر بہت پسند کیا اور کہا کہ آپ کو چاہئے تھا میرے لئے بھی ایک کھانا تیار کراتے ۔ مَیں نے کہا مجھے آپ کی عادات کا علم نہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ مَیں تو سادگی کو بہت پسند کرتا ہوں۔ تو یہ تعلیم اتنی مفید ہے کہ غیروں کو بھی اس کے فوائد نظر آرہے ہیں اور ہندوؤں ، سکھوں، عیسائیوں، ایشیائیوں اور غیر ایشیائیوں سب کی توجہ خود بخود اس طرف مبذول ہوتی جارہی ہے مگر تجربہ سے یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ لوگ زیادہ کھانے چھوڑنے کے لئے تیار ہیں، سادہ کپڑے بھی پہن سکتے ہیں مگر سینما چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ میری ہمشیرہ شملہ گئیں تو اُنہوں نے سُنایا کہ بعض امراء کی عورتیں اس تحریک کو بہت پسند کرتی ہیںمگر صرف یہ کہتی ہیں کہ سینما چھوڑنا مشکل ہے۔ تو عام طور پر لوگوں میں یہ تحریک شروع ہے۔ حتّٰی کہ مختلف کمیٹیوں اور مجلسوں میں یہ سوال آنا شروع ہو گیا ہے لیکن افسوس ہے کہ جماعت نے ابھی اسے سمجھنے اور اس پر پورے طور پر عمل کرنے کی طرف توجہ نہیں کی۔ دراصل کامل فرمانبرداری کامل علم سے پیدا ہوتی ہے اس لئے ان جلسوں میں واعظ اچھی طرح لوگوں کو اس کے فوائد سے آگاہ کریں اور کھول کھول کر سمجھائیں اور کوشش کریں کہ ہر سال کی تقریروں میں نئے نئے مضامین اور نئے نئے مسائل پیدا ہوں۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ پچھلی باتیں بیان نہ کی جائیں اور ان کو نظر انداز کر دیا جائے۔ ان باتوں کو چھوڑنا خود کشی کے مترادف ہے۔ ان کو بھی ضرور بیان کیا جائے اور ان کے علاوہ نئے مضامین پیدا کئے جائیں۔ نئے مضامین سے نئی روح پیدا ہوتی ہے اس لئے دونوں کو مدّ نظر رکھنا چاہئے۔ یعنی نئے مضامین بھی اور پُرانے بھی بیان کئے جائیں۔
مَیں اُمید کرتا ہوں کہ تمام جماعتیں خصوصاً قادیان کی جماعت کہ یہ جگہ سلسلہ کا مرکز اور خدا تعالیٰ کے رسول کی تخت گاہ ہے اور اس لحاظ سے ان کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔ اپنے فرائض کو پوری طرح محسوس کریں گی۔ قادیان والوں کو دوسروں کے لئے نمونہ بننا چاہئے اور خود علم حاصل کرنا اور دوسروں کو سکھانا چاہئے اور پھر اس تحریک پر عمل کرنے میں بھی ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ باہر والے ان سے سبق حاصل کریں۔ نیک نمونہ کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ آج ہی لاہور سے چلنے کے وقت ایک خاتون مجھ سے ملنے آئیں وہ پنجاب کے ایک سابق لیڈر کی والدہ ہیں۔ وہ کہنے لگیں کہ میرا بیٹا ایک دوبار قادیان ہو آیا ہے اور واپس آکر مجھ سے کہا کہ قادیان کا آسمان بھی اَور ہے اور زمین بھی اَور، وہاں کے آدمی بھی اَور ہیں۔ایک دفعہ اُنہوں نے کسی سے یہ ذکر بھی کیا کہ مَیں تو چاہتا ہوں کہ قادیان میں مکان بنا لوں۔ یہ شخص پہلے ایک بڑے عُہدہ پر ملازم تھے۔ اب ریٹائر ہو چکے ہیں اور مشہور لیڈر ہیں۔ تو نیک نمونہ کا اثر انسان پر ضرور ہوتا ہے۔ نیکی، دیانتداری اور راستبازی کو دیکھ کر ہر شخص یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ انسان ہی اَور ہیں اور جس نے یہ جماعت بنائی ہے وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ پس مَیں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس وقت کی اہمیت کو سمجھو۔ جو فسادات دُنیا میں پیدا ہونے والے ہیں اور جو تباہیاں آنے والی ہیں پیشتر اس کے کہ وہ آئیں اپنے محل کو محفوظ اور دیواروں کو مکمل کر لو تاجب شیطان اس محل پر حملہ کرنا چاہے تو اس سے پہلے ہی اس کے دروازے لگ چکے ہوںاور دیواریں مکمل ہو چکی ہوں۔‘‘ (الفضل ۱۱؍جولائی ۱۹۳۹ئ)
۱؎ جمعہ میں اعلان ۳۰ جولائی کا کیا تھا مگر اس تاریخ کو دعوت و تبلیغ کا مقرر کردہ جلسہ تھا اس
لئے تاریخ بدل دی گئی۔
۲؎ بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک و قول اﷲ عزوجل
و علی الثلاثۃ الذین خلفوا
۳؎ (البقرۃ : ۲۴۶)
۴؎ تفسیر الخازن زیر آیت
(البقرۃ :۲۶۲)
۵؎ المائدۃ :۳۷
۶؎ لوقا باب ۲۰ آیت ۳۸ تا ۴۳ مطبوعہ ۱۸۸۰ء
۷؎ بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک و قول اﷲ عزوجل
و علی الثلاثۃ الذین خلفوا
۱
ہر احمدی نئے احمدی بنانے کا وعدہ کرے
(فرمودہ ۶؍جنوری۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’نزلہ اور کھانسی کی تکلیف کی وجہ سے مَیں خود تو آواز نہیں پہنچا سکتا۔ مُمکن ہے لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ پہنچ جائے۔
مجھے آج ’’الفضل‘‘ میں یہ دیکھ کر بہت تعجب بھی ہؤا، حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی ہؤا مسلمانوں کی حالت پر کہ وہ یہاں تک گر گئی ہے کہ اخبار ’’اہلحدیث‘‘ میں لکھا ہے کہ قادیانیوں کا خلیفہ خطبۂ جمعہ میں ہمیشہ سورۂ فاتحہ پڑھ کر لیکچر شروع کر دیتا ہے جس پر بہت زیادہ وقت لگتا ہے۔
’’اہلحدیث ‘‘ کو یاد رکھنا چاہئے کہ سورۂ فاتحہ تو ہماری جماعت کا خاص نشان ہے اﷲ تعالیٰ نے پُرانی کُتب میں یہ ایک پیشگوئی رکھی ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں سات مُہروں والی ایک کتاب کے راز ظاہر کئے جائیں گے جس کا نام فتوحہ ہو گا۔ یعنی سات آیتوں کی سورۃ کی حقیقت کھولی جائے گی جس کا نام فاتحہ ہو گا۔۱؎ پس اِس لحاظ سے سورۂ فاتحہ کے ساتھ ہمارا خاص تعلق ہے لیکن اگر یہ نہ بھی ہو تو بھی سورۂ فاتحہ ایک ایسی دُعا پر مُشتمل ہے کہ اِس کے بغیر ایک مومن کا کام تو چل سکتا ہی نہیں۔ اگر وقت کو بچانا ہو تو پھر تقریر کرنے کی ہی کیا ضرورت ہے خاموشی ہی کیوں نہ اختیار کی جائے۔ یا پھر اختصار ہی اگر ضروری ہو تو یہ زیادہ مناسب ہو گا کہ تقریر کو چھوٹا کر لیا جائے بجائے اِس کے کہ اِس دُعا سے آنکھیں بند کر لی جائیں اور اِسے چھوڑ دیا جائے جو ہمارے توکّل اور ایمان کی بنیاد ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس مجلس میں اﷲ تعالیٰ کا ذکر نہ ہو وہ نا مبارک اور ناکام مجلس ہے۔۲؎ علاوہ ازیں جو شخص ہر وقت اﷲ تعالیٰ سے ہدایت طلب نہیں کرتا اُس کے ہر وقت گڑھے میں گرنے کا امکان ہے اور ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ غلطی نہ کر جائے۔ اِس میں شُبہ نہیں کہ دُعا مانگنے والا بھی غلطی کر سکتا ہے اور اِس کا قدم بھی غلط رستہ پر اُٹھ سکتا ہے۔ مگر ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اِمکان کس کے لئے زیادہ ہے۔ دُنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ دوائیاں کھانے والے بھی مرتے ہیں مگر کیا اِس سے لوگ دوائیوں کا کھانا چھوڑ دیتے ہیں؟ جس طرح کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ دوائی اپنا اثر نہیں کرتی اُسی طرح بعض موقعوں پر دُعا بھی قبول نہیں ہوتی۔ لیکن بہرحال جس طرح صحت کی ضمانت اُسے حاصل ہوتی ہے جس نے دوائی کا استعمال کیا اُسی طرح کامیابی کی ضمانت اُسے حاصل ہو سکتی ہے جو دُعا کرتا ہے۔ ہم اس دُعا کے ساتھ اپنے کاموں کو شروع کرتے ہیں لیکن مولوی ثناء اﷲ صاحب ایسا نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک اِس سے وقت ضائع ہوتا ہے۔ اب دونوں کے کاموں کے نتائج بھی ظاہر ہیں۔ ہم سورۂ فاتحہ پڑھ کر وقت ضائع کر دیتے ہیں اور مولوی صاحب اِس وقت کو بچا لیتے ہیں۔ اب دیکھنا چاہئے کہ دونوں کے کاموں کے نتائج کیا ہیں؟ ہم سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے ساتھ وقت ضائع کر کے بھی کامیاب ہو رہے ہیں اور مولوی صاحب وقت ضائع نہیں کرتے مگر ناکام ہو رہے ہیں۔ جس سے ظاہر ہے کہ یہ وقت کا ضیاع ہمیں مہنگا نہیں پڑتا بلکہ مفید ہے۔
پس اگر وہ چاہتے ہیں کہ اِس فضلِ الٰہی کو دیکھنے کے باوجود ہم اِن باتوں کو چھوڑ کر اُن کے ساتھ ہو جائیں تو اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہم اتنے بے وقوف نہیں ہیں۔
اِس کے بعد مَیں دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہو ںکہ جیسا کہ مَیں نے اِس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر تحریک کی تھی ہر احمدی یہ ذمّہ لے کہ سال بھر میں کم سے کم ایک دو نئے احمدی ضرور بنائے گا۔ یہ تحریک اِس سے پہلے بھی میری طرف سے ہوتی رہی ہے لیکن چونکہ پہلے کبھی اِسے معیّن صورت میں پیش نہیں کیا گیا اِس لئے جماعت کے دوستوں نے بھی اِس سے فائدہ نہیں اُٹھایا اور اِسے ایک کان سے سُن کر دوسرے سے نکال دیتے رہے ہیں۔ خصوصاً قادیان کے لوگوں نے تو اِسے لطیفہ سے زیادہ وُقعت کبھی نہیں دی۔ اِس لئے مَیں چاہتا ہوں کہ اب اِسے منظّم صورت دی جائے اور دوست بھی منظم طور پر وعدے پیش کریں۔ اِن وعدوں کا پورا ہونا یا نہ ہونا تو سال کے بعد دیکھا جائے گا لیکن آج ہمیں یہ تو معلوم ہو جانا چاہئے کہ جماعت کے دوستوں کی کیا نیّتیںاور کیا ارادے ہیں۔ جب کوئی شخص صحیح طور پر وعدہ کرتا اور پھر اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُسے اِس وعدہ کو پورا کرنے کی توفیق بھی مل جاتی ہے لیکن جب کوئی شخص کسی تحریک کو محض وعظ کے رنگ میں سنتا ہے تو پھر اِس سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا کیونکہ اِس صورت میں وہ یا تو اِسے کسی دوسرے وقت کے لئے اُٹھا رکھتا ہے یا پھر یہ خیال کر لیتا ہے کہ یہ تحریک دوسروں کے لئے ہے میرے لئے نہیں اور دونوں صورتوں میں ناکام رہتا ہے۔ اگر وہ اِسے دوسروں کے لئے سمجھتا ہے تو بھی خود اِس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا اور اگر اِسے کسی دوسرے وقت پر اُٹھا رکھتا ہے تو بھی ناکام رہتا ہے۔ اِس لئے آج اِس تحریک کو معیّن صورت دینے کے لئے مَیں اعلان کرتا ہوں کہ سب سے پہلے قادیان کے مختلف محلوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹریان ایک ہفتہ کے اندر اندر تمام بالغ مردوں یعنی پندرہ سال سے زیادہ عمر کے احمدیوں کی فہرستیں تیار کر دیں جن میں یہ درج ہو کہ وہ سال میں کتنے لوگوں کو احمدی بنانے کی کوشش کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ تعداد معیّن کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ خواہ کوئی ہزار احمدی بنالے مگر ہم تو اقل ترین تعداد معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اِس طرح معیّن کرنے سے کام کرنے والے کا حوصلہ بھی قائم ہوتا ہے اور پھر اِس سے ہر شخص کے اخلاص کی حقیقت بھی معلوم ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص یونہی بہت سی تعداد لکھوا دیتا ہے جس کے لئے دورانِ سال میں کوئی کوشش نہیں کرتا تو اُس کے متعلق لوگوں کو علم ہو جائے گا کہ وہ یونہی بڑ مارنے والا ہے، دین سے اُسے کوئی غرض نہیں۔ پس اِس صورت میں ہم کو بھی لوگوں کے اخلاص کی حقیقت کا پتہ لگ سکے گا اور خود لوگوں کو بھی اپنے اخلاص کی حقیقت کا علم ہوسکے گا اور اِس طرح تعداد معیّن کرنے سے کام کرنے والوں کو بھی یہ خیال رہے گا کہ اُنہوں نے کتنا کام کرنا ہے اور وہ یہ بھی سوچ سکیں گے کہ وہ اتنی تعداد پوری کرنے کے لئے کہاں کہاں تبلیغ کر سکتے ہیں۔
پس قادیان کے عُہدیدار ایک ہفتہ کے اندر اندر ایسی فہرستیں تیار کر کے بھجوا دیں اور باہر کی جماعتیں ۲۸؍فروری یعنی فروری کے آخر تک ایسی لسٹیں بھجوا دیں٭ کہ ہر احمدی اِس اِس تعداد میں نئے احمدی بنانے کی کوشش کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور پھر ہر سہ ماہی کے بعد یہ اطلاع بھی دیتے رہیں کہ یہ کوششیں کس حد تک کامیاب ہو رہی ہیں۔
قادیان میں انتظام زیادہ ہے۔ یہ ایک ہی شہر ہے پھر یہاں کے لوگوں کے لئے اچھا نمونہ پیش کرنا بھی ضروری ہے۔ اِس لئے وہ ایک ہفتہ تک ایسی لسٹیں مکمل کریں۔ ہندوستان کی جماعتوں کے لئے مَیں نے قریباً دو ماہ کا وقت رکھا ہے اور ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے لئے قریباً تین ماہ رکھتا ہوں یعنی ۱۰؍اپریل تک دو تین ہفتہ میں ان کو اطلاع پہنچ جائے گی۔ دوتین ہفتہ جواب آنے کے لئے اور ایک ماہ فہرستیں تیار کرنے کے لئے۔ دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ احمدیت کی اشاعت نہ صرف اِس لئے ضروری ہے کہ خُدا کے دین کی اشاعت ہو بلکہ لوگوں کی اپنی تربیت کے لئے بھی یہ بہت ضروری ہے۔ جب وُہ تبلیغ کے لئے باہر نکلیں گے، دوسروں کے پاس جائیں گے تو اِن پر اعتراض ہوں گے۔ لوگ احمدیوں کے عیوب بیان کریں گے اور ممکن ہے اِن میں سے کوئی عیب خود اُن کے اپنے اندر پایا جاتا ہو۔ اِس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ اپنی اصلاح کی کوشش کریں گے، اپنے علوم بڑھانے کی جدوجہد کریں گے اور سلسلہ کی تعلیم کو سیکھنے کی سعی کریں گے اور اِس طرح یہ تحریک تبلیغ اور تربیت دونوں لحاظ سے مفید ثابت ہو گی۔ پس پندرہ سال سے اوپر عمر کے تمام نوجوانوں، ادھیڑ عمر والوں اور بوڑھوں کی فہرستیں تیار کی جائیں اور بتایا جائے کہ اُنہوں نے کِس کِس قدر احمدی سال میں بنانے کی کوشش کرنے کا وعدہ کیا ہے؟ اور کس کس مقام کے لوگوں کو مدّنظر رکھا ہے؟ اِس سال میں اِس تحریک کو صرف مردوں کے لئے ہی رکھتا ہوں۔ عورتیں بھی اگر چاہیں تو اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کرنے کے لئے اپنے نام لکھوا سکتی ہیں مگر اِن کے لئے یہ تحریک لازمی نہیں بلکہ اختیاری ہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ جب انسان ہمت اور ارادہ کر لیتا ہے تو اﷲ تعالیٰ ضرور اِسے کامیابی عطا کرتا ہے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر مَیں نے عام رنگ میں یہ تحریک کی تھی اور اگرچہ یہ تحریک
باقاعدہ نہ تھی مگر بعض لوگوں کی بیعت کے خطوط بعض دوست بھجوا رہے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ہم نے
٭ چونکہ خطبہ دیر سے شائع ہو رہا ہے۔ اِس مدت کو ۸؍مارچ تک بڑھا دیتا ہوں۔
وعدہ کیا تھا کہ ضرور نئے احمدی بنائیں گے۔ چنانچہ ان وعدوں کے مطابق یہ بیعت کے خطوط بھجوا رہے ہیں۔ اِسی طرح اگر سب دوست توجہ کریں اور ہمت کریں تو یہ کوئی مُشکل کام نہیں مگر جب یہ خیال کر لیا جائے کہ یہ دوسرے کا فرض ہے ہمارا نہیں تو پھر کامیابی کی کوئی صورت نہیں۔
قادیان کے جو لوگ اپنے نام لکھوائیں تو چونکہ یہاں دوسرے لوگ بہت تھوڑے ہیں اِس لئے وہ ساتھ ہی یہ ضرور لکھوائیں کہ کِس کِس گاؤں میں سے وہ احمدی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اِس سے ایک تو ہمیں یہ پتہ لگ جائے گا کہ کون کون سے گاؤں دوستوں کے مدّنظر ہیں اور پھر پروگرام بناتے وقت ہم یہ بھی دیکھ سکیں گے کہ کسی جگہ ضرورت سے زیادہ لوگوں کا وقت ضائع نہ ہواور کام کو تقسیم کرنے کا اندازہ بھی کیا جاسکے گا اور اِس میں بہت سہولت رہے گی۔ اِس لئے مَیں نے یہ رکھا ہے کہ دوست تعداد کے ساتھ جگہیں بھی بتادیں ۔ ہاں اگر کوئی خاص جگہ کسی کے ذہن میں نہ ہو تو وہ کہہ سکتا ہے کہ مَیں عام طور پر کوشش کروں گا یا مثلاً تصنیف کا کام کرنے والے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا حلقہ اثر زیادہ وسیع ہو گا۔ کیونکہ ہمیں براہِ راست لوگوں کے ساتھ ملنے جُلنے کا موقع نہیں ملتا۔
مبلغین کے دورہ کے احمدی شمار نہیں کئے جائیں گے کیونکہ وہ ان کے نہیں بلکہ سلسلہ کے ہیں ان کا فرض ہو گا کہ وہ اپنی رخصت حاصل کر کے جس کا انہیں حق ہو تبلیغ کے لئے جائیں اور پھر اِس عرصہ میں احمدی بنا کر اپنا وعدہ پورا کریں۔ اگر اُن کے دَورہ کے احمدیوں کو اُن کے وعدہ میں شمار کر لیا جائے تو یہ بالکل بے معنے بات ہو گی۔ کیونکہ اِس کے یہ معنے ہوں گے کہ مختلف مقامات کے احمدی لوگوں کو تیار کرتے رہیں لیکن ہمارا ایک مبلّغ وہاں جاکر ایک آخری تحریک کے بعد ان سے بیعت کا خط لکھادے اور کہہ دے کہ دیکھو! مَیں نے پچاس احمدی بنائے ہیں۔ ایسے احمدیوں پر اُن کا کوئی حق نہیں۔ بلکہ یہ اُن جماعتوں کا حق ہے جو اُن کو تیار کرتی ہیں۔ مبلّغ تو ایسے موقع پر صرف پوسٹ آفس کے افسر کا کام کرتے ہیں کہ بیعت کے خطوط لے کر بھجوا دیتے ہیں۔ اِس لئے ان کو اپنے حق کی رخصت لے کر اپنے وعدے پورے کرنے چاہئیں۔
مَیں اُمید کرتا ہوں کہ اگر صحیح طریق پر جماعت نے اِس طرف توجہ کی تو عنقریب نیک نتائج پیدا ہوں گے۔ ہندوستان میں بھی اور ہندوستان سے باہر بھی اور اگر اِس طرح ہر سال باقاعدہ کوشش کی جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے قریبی عرصہ میں ہی نمایاں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ اِس وقت تک تو چونکہ معیّن طور پر کام نہیں ہؤا اِس لئے دوستوں نے بھی بے توجہی کی ہے مگر مَیں اُمید کرتا ہوں کہ اب یہ کام معیّن صورت میں شروع کیا جارہا ہے۔ قادیان کے دوست بھی اور باہر کے دوست بھی اِس کی اہمیت کا احساس کریں گے اور جلد از جلد اپنے وعدے بھجوائیں گے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص اپنے وعدہ کو پورا کر سکے۔ بعض ایسے بھی ہوں گے جو اسے ٹھیک طرح پورا نہ کر سکیں گے مگر بعض ایسے بھی ہوں گے جو وعدہ سے زیادہ احمدی بنا سکیں گے اور عین مُمکن ہے کہ بعض ایسے دوست جنہوں نے ایک یا دو کا وعدہ کیا ہو اﷲ تعالیٰ ان کو دس بیس احمدی بنانے کی توفیق دے دے۔ یہ خُدا تعالیٰ کی دین ہے۔ جیسی کسی کی نِیّت ہو وَیسا ہی اﷲ تعالیٰ اِس پر فضل کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص زیادہ کوشش کرے تو اﷲ تعالیٰ اِسے کامیابی بھی زیادہ عطا کرتا ہے۔
تبلیغ کے لئے نفسیات کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ بہت سے لوگ تبلیغ کرتے وقت دوسرے کے خیالات کا احساس نہیں رکھتے اور اندھا دُھند باتیں کرتے جاتے ہیں۔ ان کی مثال اُس نابینا شخص کی ہوتی ہے جو لٹھ لے کر دُشمن پر حملہ کرنے کے لئے سیدھا چلتا جاتا ہے۔ کمرہ کے اندر جو لوگ ہوتے ہیں وہ ایک کونہ میں کھڑے ہوتے ہیں اور نابینا اپنے سامنے لٹھ گھماتا رہتا ہے۔ اِسی طرح یہ لوگ بغیر سوچے سمجھے تبلیغ کرتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات وفاتِ مسیح کا مسئلہ ہی رَٹتے جاتے ہیں۔ حالانکہ اگلا شخص اِس کا پہلے ہی قائل ہوتا ہے اور کبھی یہ ختم نبوت کے دلائل دیتے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ اگلا خدا تعالیٰ کی ہستی کا بھی قائل نہیں ہوتا یہ اِس بحث میں پڑے رہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد نبی آسکتا ہے۔ حالانکہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی نبی نہیں مانتا۔
پس ہمیشہ مخاطب کے دماغ کو پڑھ کر بات کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مخاطب کے حالات کا مطالعہ کرنے اور اِس کی بات کو سمجھنے کے بغیر تبلیغ کرنا لغو بات ہے۔ غیب کا علم صرف اﷲ تعالیٰ ہی کو ہے باقی کوئی نبی ہو، خلیفہ ہو، ولی ہو یا کوئی مومن، متقی ہو ہر ایک کے لئے ضروری ہے کہ دوسرے کے حالات پہلے معلوم کرے اور پھر تبلیغ کرے۔ بسا اوقات لوگ دِلی عقائد ڈر کی وجہ سے بیان ہی نہیں کرتے مثلاً مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہونے والا حتی الوسع کبھی یہ بات نہیں کہے گا کہ مَیں خُدا تعالیٰ کو نہیں مانتا۔ بظاہر وہ مسلمان نظر آئے گا۔ سُبْحَانَ اللّٰہ اور اَلْحَمْدُ ِﷲ بھی کہے گا مگر دل میں اﷲ تعالیٰ کی ہستی کا بھی قائل نہ ہو گا۔ ایسے لوگوں کے ساتھ پہلے بات چیت کر کے اِن کا اندرونہ معلوم کرنا چاہئے مثلاً ان کے ساتھ احمدیت کا ذکر شروع کیا اور کہا کہ یہ ہے تو صداقت مگر کئی لوگ اِس کو اِس واسطے نہیں مانتے کہ اِن کا خُدا تعالیٰ پر ایمان ہی نہیں ہوتا۔ پھر کئی اِس واسطے نہیں مانتے کہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد کسی نبی کی آمد کے قائل نہیں۔ کسی کو جماعت کے بعض کاموں پر اعتراض ہے، اِس لئے نہیں مانتا۔ پھر کئی سیاسی لحاظ سے اِس جماعت کو مُضِر سمجھتے ہیں اِس لئے صداقت کو قبول نہیں کرتے اور اِس طرح باتیں کرکے پہلے اِس کا اندرونہ معلوم کرنا چاہئے اور پھر اِس کا مرض معلوم کرکے علاج کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اِس طرح صحیح طریق پر تبلیغ کرنی چاہئے۔
پھر جو لوگ اَن پڑھ ہیں اور زیادہ علمی باتیں نہیں جانتے وہ جہاں تک خود بات چیت کرسکتے ہیں کریں اور پھر زیرِ تبلیغ اشخاص کو قادیان لے آئیں اور یہاں کسی عالِم سے ملائیں۔ اِس کے بعد اگر وہ لوگ احمدی ہوںگے تو یہ انہی کا کام سمجھا جائے گا۔ اِس عالِم کا نہیں جس نے ان کی تسلی کی۔ علماء کا کام وہ سمجھا جائے گا جو وہ رخصت کے ایام میں خاص پروگرام کے ماتحت کریں گے اور جس میں ابتدا بھی ان کی طرف سے ہو گی۔
مَیں اُمید کرتا ہوں کہ قادیان کے عُہدہ دار ایسی فہرستیں مکمل کر کے ایک ہفتہ کے اندر اندر بھجوا دیںگے۔ ایک قسم کی فہرستیں میں پہلے بنوا چُکا ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ پانچ سال سے اُوپر عمر کے تینتیسسَو احمدی مرد یہاں ہیں اور اِس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پندرہ سال سے بڑی عمر کے قریباً پچیس سَو مرد ہوں گے۔ پھر مدارس والے طالب علموں کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔ اِن کے علاوہ ننگل، بھینی، کھارا، بسرا وغیرہ دیہات ہیں جو اوپر کی فہرست میں شامل نہیں ان کو بھی اگر شامل کر لیا جائے تو چار پانچ ہزار بالغ احمدی مرد قادیان اور اِس کے نواحی میں ہوں گے اور اگر یہ سب اپنا فرض ادا کریں تو ایک سال میں تیس چالیس ہزار نئے احمدی اِسی علاقہ میں بن سکتے ہیں کیونکہ ہر احمدی دو نئے احمدی بنائے تو صرف قادیان کے گردنَو دس ہزار نیااحمدی ہو جاتا ہے۔ ان کے بیوی بچوں کو شامل کیا جائے تو تعداد تیس چالیس ہزار تک جاپہنچتی ہے۔ ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ توجہ سے کام کیا جائے اور محبت و پیار اور سنجیدگی سے تبلیغ کی جائے، تا محنت رائیگاں نہ جائے۔ تمسخر اور استہزا سے پرہیز کرنا چاہئے۔ آج کل تمسخر اوراِستہزا کی عادت بہت ہو گئی ہے اور لوگ ہنسی مذاق میں بات کے اثر کو ضائع کر دیتے ہیں۔ ہنسی مذاق بھی ایک حد تک اچھا ہوتا ہے مگر یہ تو کھانے میں نمک کے طور پر ہو سکتا ہے۔ کھانے میں نمک تواچھا ہوتا ہے مگر نمک کی روٹی پکا کر نہیں کھائی جاسکتی۔ زیادہ ہنسی مذاق روحانی کمزوری اور تبلیغ میں روک کا موجب ہوتا ہے۔ اِس لئے تبلیغ سنجیدگی سے کرنی چاہئے۔ مجھے بعض غیرلوگوں نے یہ اطلاع دی ہے کہ بعض احمدی تبلیغ کو جاتے ہیں تو راستہ میں شکار کرتے ہیں۔ اِس میں شُبہ نہیں کہ رستہ میں اگر شکار کر لیں تو یہ ناجائز نہیں مگر دیکھنے والوں پر اِس کا یہ اثر ضرور ہوتا ہے کہ یہ لوگ دراصل شکار کوآئے ہیں اور تبلیغ ایک بہانہ ہے۔ اگر وہ سنجیدگی سے تبلیغ کریں اور کوئی اور کام خواہ وہ کتنا ہی بے ضرر ہو نہ کریں تو بہت زیادہ اثر ہو سکتا ہے۔ بعض لوگ نہر پر چلے جاتے ہیں کہ وہاں سے جو لوگ گزریں گے ان کو تبلیغ کریں گے۔ وہاں وہ خود نہاتے اور کھاتے پیتے بھی ہیں اور گو ساتھ تبلیغ بھی کریں مگر دیکھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ اُنہوں نے ٹرپ کیا ہے اور سنجیدگی چاہتی تھی کہ وہ کوئی اور کام جس کا تعلق ان کی خواہشات و لذّت سے ہوتا نہ کرتے تو دیکھنے والوں پر ضرور زیادہ اثر پڑتا۔
مَیں اُمید کرتاہوں کہ قادیان کے دوست خصوصاً اور باہر کے عموماً محنت، جانفشانی اور دُعاؤں کے ساتھ اِس کام میں لگ جائیں گے اور معیّن صورت میں کوشش کریں گے اور پھر معینہ میعاد کے اندر فہرستیں مکمل کر کے بھجوا دیں گے۔‘‘ (الفضل ۲۴؍جنوری ۱۹۳۹ئ)
۱؎ مکاشفہ باب ۱۰ آیت ۱ تا ۴۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ئ
۲؎ ترمذی ابواب الدعوات باب ماجاء فی القوم یجلسون و لا یذکرون اﷲ۔
۲
۱۹۳۹ء ،۱۹۴۰ء مالی لحاظ سے امتحان کے سال
اور عظیم الشان برکات کے موجب ہیں
(فرمودہ ۲۰؍جنوری۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مجھے تاحال کھانسی کی شکایت ہے۔ گو آگے سے کسی قدر کمی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے مَیں خطبہ پڑھانے کے لئے آگیا ہوں لیکن ابھی اتنا آرام نہیں آیا کہ مَیں متواتر بول سکوں یا یہ کہ میری آواز بلند ہو سکے۔
میں پہلے تو تحریک جدید کے چندہ کے متعلق دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اب وعدوں کی میعاد ختم ہونے کے قریب آرہی ہے لیکن بہت سی جماعتیں ابھی ایسی ہیں جنہوں نے ابھی تک جوابات نہیں دیئے۔ گو جن جماعتوں کے جواب آئے ہیں یا جن دوستوں نے اِس چندہ میں شمولیت اختیار کی ہے اُنہوں نے گزشتہ سالوں سے زیادہ حصہ لیا ہے لیکن پھر بھی ابھی تین سَو کے قریب جماعتیں ایسی ہیں جن کی طرف سے جوابات موصول نہیں ہوئے۔ گو یہ اِطلاعات آرہی ہیں کہ وہ فہرستیں تیار کر رہی ہیں اور جلد ہی تیار ہونے کے بعد بھیج دیں گی۔ اِسی طرح قادیان میں بھی محلہ جات کی فہرستیں ابھی مکمل نہیں ہوئیں۔
جیسا کہ مَیں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چُکا ہوں قادیان کے لوگوں کے لئے خصوصاً اور بیرونجات کے لوگوں کے لئے عموماً ۱۹۳۹ء اور ۱۹۴۰ء مالی لحاظ سے امتحان کے سال معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اِس میں اتنی چندہ کی تحریکیں ہوئی ہیں کہ شائد اِس سے پہلے جماعت میں کبھی بھی اتنی تحریکیں نہیں ہوئیں۔ ماہانہ چندوں کی باقاعدہ ادائیگی بلکہ ان میں زیادتی کا اعلان مرکزسلسلہ کی طرف سے کیا جاچُکا ہے اور بہت سے دوست اِس میں زیادتی کی طرف مائل ہیں گو بہت سے سُست بھی ہیں۔
اِسی طرح تحریکِ جدید کا چندہ علاوہ ان ماہانہ چندوں کے ہے۔ پھر جماعت نے اپنی مرضی سے ایک خلافت فنڈ کھولا ہے جس کا زور بھی اِسی سال پر پڑنا ہے۔ اِس کے علاوہ اﷲ تعالیٰ نے ایک امتحان کی یہ صورت بھی پیدا کر دی ہے کہ مہینوں مہینے گزر چکے ہیں مگر بارش نہیں ہوئی۔ ہماری جماعت کا اسّی فیصدی حصّہ زمینداروں کا ہے اور زمینداروں کے لئے یہ ایّام بڑے ہی ابتلاکے ایّام ہیں۔ اُن کی خریف کی آمدنیاں صفر کے برابر رہی ہیں۔ سوائے ان کے جن کی زمینیں نہری علاقوں میں ہیں۔ اِسی طرح اُن کی فصلِ ربیع بھی تباہ ہوتی نظر آتی ہے اور اگر خداتعالیٰ کا فضل بارش کی صورت میں نازل نہ ہو تو اِس کی صورت بھی بہت خطرناک ہے۔
مَیں چونکہ خود زمیندار ہوں اِس لئے مَیں زمینداروں کی اِس حالت کو خوب سمجھتا ہوں۔ شہری لوگ اِس بات کا اندازہ نہیں کر سکتے کہ زمینداروں کی پچھلی فصل کیسے گزری ہے اور آگے اُن کے لئے کِس قسم کے خطرات ہیں۔ میری اپنی ایک جگہ اڑتالیس ایکڑ زمین کاشت تھی اوردوکنویں بھی اس میں تھے مگر کل آمد اسّی روپے ہوئی ہے اور اِسی آمد میں سے ہی سرکاری لگان بھی ادا کرنا ہے جو سُنا گیا ہے کہ سَو سے بھی زائد ہے۔ حالانکہ کنوئیں بھی اِس زمین میں ہیں اور مَیں سمجھتا ہوں اگر اِس زمین میں یہ دو کنوئیں نہ ہوتے تو کل آمد چار آنے یا دو آنے فی ایکڑ بنتی۔
تو بارانی زمینوں والے آج کل نہایت خطرناک حالت میں ہیں۔ گورداسپور ،سیالکوٹ اور گجرات کا علاقہ جہاں ہماری جماعتیں زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہیں بارانی علاقہ ہے۔ اِس کے مقابلہ میں لائل پور اور سرگودھا گو چندہ کے لحاظ سے ان ضلعوں سے بڑھ جائیں یا جلسہ سالانہ پر ان علاقوں کے لوگ زیادہ تعداد میں آجائیں کیونکہ نہری علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے زمینداروں کی مالی حالت عموماً اچھی ہے مگر اصل جماعت کا پھیلاؤ گورداسپور، سیالکوٹ، ہوشیارپور، جالندھر اور گجرات کے ضلعوں میں ہے۔ یہ گویا پانچ ضلعے ہیں جہاں جماعت اچھی خاصی تعداد میں پھیلی ہوئی ہے۔ باقی اضلاع جس قدر ہیں وہ ان سے اُترکر ہیں۔
اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اَور بھی ایسے اضلاع ہیں جہاں احمدی معقول تعداد میں پائے جاتے ہیں مثلاً شیخوپورہ اور گوجرانوالہ۔ یہاں اچھی جماعتیں ہیں مگر بہرحال یہ اِن پانچ ضلعوں سے اتر کر ہی ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جماعت کے افراد کی کثرت جالندھر میں بھی نہیں۔ صرف جالندھر کے اتنے حصہ میں ہماری جماعت کے لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں جو ہوشیار پور سے ملتا ہے۔ اِس لحاظ سے جماعت کا اصل پھیلاؤ ہوشیار پور میں ہی ہے جالندھر میں نہیں۔ گویا گورداسپور، ہوشیارپور، گجرات اور سیالکوٹ یہ چار ضلعے ایسے ہیں جہاں ہماری جماعتیں کثرت سے پائی جاتی ہیں اور یہ چاروں ضلعے ایسے ہیں جن کے زمینداروں کا تمام تر انحصار بارش پر ہے اور اب ایک لمبے عرصہ تک بارش نہ ہونے کی وجہ سے مالی طور پر ان کی حالت اتنی خطرناک ہے کہ انسان یہ بھی نہیں سمجھ سکتا کہ وہ روٹی کہاں سے کھا رہے ہیں۔ گویا جہاں اور کئی قسم کے ابتلا تھے وہاں ایک آسمانی ابتلا بھی آگیا۔ بعض دفعہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کا امتحان لینا چاہتا ہے اور وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ میرا بندہ کس قدر برداشت کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہے۔ جب انسان اِس ابتلا کو برداشت کر لیتا ہے اور دنیا پر ظاہر کر دیتا ہے کہ اِس کی محبت اپنے رب سے اور اِس کا ایمان اپنے خدا پر اتنا مضبوط ہے کہ وہ کسی ابتلا سے نہیں ٹوٹ سکتا تو اﷲ تعالیٰ کے فضل اِس پر بارش کی طرح برسنے لگ جاتے ہیں۔ گویا ابتلا کی مثال ایسی ہی ہے جیسے مائیں بعض دفعہ اپنے بچے کو ڈراتی ہیں اور جب وہ ڈر کر رونے لگتا ہے تو اسے گلے سے لپٹا کر آپ بھی رونے لگ جاتی ہیں۔
مؤمن کے ابتلا کی بھی ایسی ہی مثال ہے۔ بعض دفعہ اﷲ تعالیٰ اپنے مومن بندے کو ڈراتا ہے مگر جب وہ ابتلاؤں سے گھبراتا نہیں بلکہ قربانی کرتا چلا جاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو اِسی طرح اپنے گلے سے لپٹا لیتا ہے جس طرح ماں اپنے بچے کو گلے سے لپٹا لیتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی محبت اپنے بندہ سے اتنی شدید اور اتنی عظیم الشان ہوتی ہے کہ انسانی محبتیں اِس کے مقابلہ میں کوئی ہستی ہی نہیں رکھتیں بلکہ جس نے خدا تعالیٰ کی محبت کو نہیں دیکھا صرف انسانی محبت کو ہی دیکھا ہے وہ اِس کی محبت کا قیاس بھی نہیں کر سکتا۔ تو یہ ابتلا اپنے اندر ایک عظیم الشان برکت رکھتاہے۔ بشرطیکہ جماعت اِس امتحان میں پوری اُترے۔ مَیں نے بتایا ہے کہ اِس سال کے ابتلا کا اثر صرف اِس سال تک ہی محدود نہیں بلکہ اگلا سال بھی اِس کے اندر شامل ہے۔ کیونکہ ایک سال کا اثر لازماً دوسرے سال پر پڑتا ہے ۔ جو لوگ ایک سال بہت زیادہ قربانیاں کریں اُنہیں دوسرے سال بھی قربانی میں دقّتیں محسوس ہوتی ہیں اور کہیں تیسرے سال جاکر اُن کا اثر دُور ہوتا ہے۔ تو علاوہ اِن ابتلاؤں کے جو جماعتی نظام کے ماتحت ہیں یا اپنی مرضی کے مطابق اختیار کئے گئے ہیں خدا تعالیٰ نے بھی اپنا حصّہ ابتلاؤں میں شامل کر دیا ہے۔ گویا یہ ابتلا چارگوشوں کا ابتلا ہے اور نہایت ہی مکمل اور لطیف ابتلا ہے۔
چندہ عام جو ہے یہ جماعت کی طرف سے چندہ ہے یعنی ایک جماعتی اور نظامی فیصلہ کے ماتحت لوگ چندہ دیتے ہیں اور یہ جماعت کے افراد کی ایک آزمائش ہے۔ جماعت کہتی ہے آؤ ہم اپنے اندر شامل ہونے والوں کی آزمائش کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کہاں تک قُربانی کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔
تحریکِ جدید خود خلیفہ کی طرف سے ہے۔ گویا دُوسری آزمائش خلیفہ کی طرف سے شروع ہے اور اِس نے کہا ہے کہ آؤ میں بھی اِس سال جماعت کی آزمائش کروں۔ خلافت جوبلی کی تحریک نہ جماعت کی طرف سے ہے اور نہ خلیفہ کی طرف سے۔ بعض دوستوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہؤا اور جماعت کے باقی دوستوں نے اِس خیال کے ساتھ اتفاق کا اظہار کر دیا۔ پس یہ ایک ایسی تحریک ہے جس میں ہر شخص اپنا آپ امتحان لیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ کس قدر قُربانی کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہے۔ غرض ہماری جماعت کے تمام دوستوں نے اپنے آپ کو انفرادی طور پر اِس امتحان کے لئے پیش کر دیا۔ اُنہوں نے کہا ہمارا امتحان نظام سلسلہ نے بھی لیا، ہمارا امتحان خلیفہ نے بھی لیا۔ آؤ ہم آپ بھی اپنا امتحان لیں۔ تب اﷲ تعالیٰ نے عرش سے کہا ہم بھی اِس امتحان میں اپنی طرف سے ایک سوال ڈال دیتے ہیں۔ پس یہ کیسا عظیم الشان ابتلا ہے جو اِس سال ہماری جماعت پر آیا ہے۔ خُدا نے بھی ہماری جماعت کا ایک امتحان لیا ہے، خلیفہ نے بھی جماعت کا ایک امتحان لیا ہے، نظام سلسلہ نے بھی جماعت کا ایک امتحان لیا ہے اور ہر فرد نے بھی انفرادی طور پر اپنا اپنا امتحان لیا ہے۔گویا چاروں گوشے جو تکمیل کے لئے ضروری ہیں وہ اِس امتحان میں پائے جاتے ہیں۔ آخر انسان کے تعلقات کی کیا نوعیت ہے۔ اِس کے چار ہی قسم کے تعلقات ہوتے ہیں یا اِس کا اپنے نفس کے ساتھ تعلق ہوتا ہے یا دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے یا روحانی یا جسمانی حاکم سے اِس کا تعلق ہوتا ہے اور یا پھر خداتعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے۔ اِس سال یہ چاروں ہی ابتلا آگئے۔
جماعتی امتحان بھی جاری ہے، خلیفہ کا امتحان بھی جاری ہے، خود اپنے نفس کے امتحان کے لئے بھی جماعت کے ہر فرد نے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے۔ صرف اﷲ تعالیٰ کا ایک امتحان رہتا تھا سو یہ تینوں ابتلا دیکھ کر اﷲ تعالیٰ نے کہا آؤ ہم بھی اُن کے سامنے ایک امتحانی پرچہ رکھ دیتے ہیں۔ پس اِس نے بھی جماعت کا ایک امتحان لیا اور اِس طرح ہمارے امتحان کے چار پرچے ہو گئے۔ اب وہ شخص جو اِن چاروں پرچوں میں پاس ہو جائے اُس سے زیادہ خوش نصیب اور کون شخص ہو سکتا ہے؟
پس آج ہماری جماعت میں سے ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ جماعتی امتحان میں بھی کامیاب ہو، خلیفہ کے امتحان میں بھی کامیاب ہو، نفس کے محاسبہ کے امتحان میں بھی کامیاب ہو اور خُدا تعالیٰ کے امتحان میں بھی کامیاب ہو۔ بے شک یہ امتحان سخت ہے۔
ایک نہیں چار امتحان ہیں لیکن پھر اِن چاروں امتحانوں کے بعد کوئی قسم امتحان کی باقی نہیں رہ جاتی۔ الٰہی امتحان بھی اِس سال ہو رہا ہے، ملّی امتحان بھی اِس سال ہو رہا ہے، ذاتی امتحان بھی اِس سال ہو رہا ہے اور خلیفہ کی طرف سے بھی امتحان اِس سال ہو رہا ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا یہ دو سال مالی لحاظ سے بہت سخت ہیں اور آثار بتاتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اِن کو اور بھی زیادہ سخت کر دیا ہے مگر خُدا تعالیٰ کے امتحان کی شمولیت بڑی برکتیں رکھتی ہے۔ دُنیا میں بھی بعض لوگ جب کسی امتحان میں شامل ہو جائیں تو بعد میں اُن کی ترقی کے بڑے بڑے سامان پیدا ہو جاتے ہیں اور کئی خرابیاں برکتوں کا موجب بن جاتی ہیں۔ جب جنگِ عظیم ہوئی ہے اُس وقت انگریزوں اور فرانسیسیوں کی فتح کے آثار جب جرمن حکومت نے دیکھے تو اُنہوں نے بے تحاشا امریکن جہازوں پر حملے کر دیئے جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ آخر امریکہ بھی لڑائی میں کُود پڑا۔ بعد میںلوگوں کو جرمن والوں کی اِس چالاکی کا علم ہؤا کہ اُنہوں نے کیوں امریکن جہازوں پر حملے کئے تھے۔
اصل بات یہ ہے کہ جرمن والوں نے یہ سمجھا کہ فرانسیسیوں اور انگریزوں سے ہمارے پشتینی ۱؎جھگڑے چلے آتے ہیں اور یہ بقول پنجابی زمینداروں کے ہمارے ’’بنّے‘‘ کے شریک ہیں۔ اگر صرف یہی لڑائی میں شامل رہے تو یہ صلح کے وقت اتنی کڑی شرطیں رکھیں گے کہ ہمیں پیس ڈالیں گے لیکن اگر اِس جنگ میں امریکہ بھی شامل ہو گیا تو امریکہ کو چونکہ ہم سے نہ کوئی شراکت ہے اور نہ کوئی پُرانی دُشمنی، اِس کے علاوہ ایک کروڑ کے قریب وہاں جرمن بھی رہتے ہیں جن کا امریکہ والوں پر اثر ہے اِس لئے اگر وہ جنگ میں شامل ہو گیا تو صُلح میں بھی لازماً شامل ہو گا اور جب وہ صلح میں شامل ہو گا تو وہ صلح کے وقت اتنی کڑی شرائط نہیں رکھنے دے گا اور وہ ضرور کچھ نہ کچھ نرمی کرے گا۔ چنانچہ واقع میں ایسا ہی ہؤا۔ اِس جنگ میں امریکہ کی شمولیت کی وجہ سے صلح کے وقت بہت نرم شرطیں طَے ہوئیں۔ ورنہ پہلے ان کے جو کچھ ارادے تھے اُس کا پتہ اِس امر سے لگ سکتا ہے کہ مسٹر لائڈ جارج نے ایک تقریر میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہم سیب کو اتنا نچوڑیں گے کہ اِس کے بیج بھی چیخ اُٹھیں گے۔ یعنی ہم جرمنی کو اتنا ذلیل کریں گے اور اِس سے اتنا روپیہ وصول کریں گے کہ اس کی ہڈیاں کھوکھلی کر دیں گے۔ تو بندوں کے ابتلاؤں کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے ابتلا کا شامل ہو جاناایک بہت بڑی برکت کا پیش خیمہ ہے کیونکہ بندوں کو دوسرے بندوں پر رحم آئے یا نہ آئے۔ کیونکہ کِسی انسان کو کیا پتہ کہ دُوسرے کو کیا تکلیف ہے اور اِس نے کِن مخالف حالات میں قربانی کی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کو ضرور رحم آجاتا ہے کیونکہ وہ عالم الغیب ہے اور وہ جب کوئی ابتلا اپنے بندوں پر وارد کرتا ہے تو ساتھ ساتھ عالِم الغیب ہونے کی وجہ سے اُن کے حالات بھی دیکھتا جاتا ہے اور جب اُسے رحم آتا ہے تو وہ اگلی پچھلی تمام کسریں نکال دیتا ہے۔ جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں ایک بادشاہ کو یہ خواب دکھایا گیا کہ سات سال قحط پڑے گا مگر جب سات سال گزر جائیں گے تو اﷲ تعالیٰ کو رحم آئے گا اور وہ پچھلے سارے نقصانات پورے کر دے گا۔۲؎ تو اگر صرف بندوں کے امتحان ہوتے تو وہ تم کو بدلہ نہیں دے سکتے تھے۔ مثلاً جماعت چندوں کے مقابلہ میں تمہیں کیا دے سکتی ہے؟ یا مَیں تحریک جدید کے بدلہ میں تمہیں کیا دے سکتا ہوں؟ یا خلافت جوبلی فنڈ میں حصہ لینے کی وجہ سے وہ لوگ تمہیں کیا بدلہ دے سکتے ہیں جنہوں نے یہ تحریک کی۔ انسانوں میں سے کوئی ان چیزوں کا بدلہ نہیں دے سکتا۔
پس جب کوئی انسان اِس کا بدلہ نہیں دے سکتا تو اﷲ تعالیٰ نے خود اپنا حصّہ اِس میں ڈال دیا اور خدا تعالیٰ جب لیا کرتا ہے تو وہ دیا بھی کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے کہا جماعت پر اِس وقت تین ابتلا ہیں۔ آؤ میں بھی اِن ابتلاؤں میں اپنی طرف سے ایک اورابتلا کا اضافہ کر کے شامل ہوجاؤں تاکہ اِن کی قُربانیاں بے بدلہ کے نہ رہیں اور میری طرف سے اِنہیں اتنا کثیر بدلہ مل جائے جو باقی کی تین قربانیوں کے بدلہ پر بھی حاوی ہو جائیں۔
پس گو بظاہر قحط کے آثار نہایت خطرناک نظر آتے ہیں مگر روحانی نقطۂ نگاہ سے اِس میں بہت بڑی برکات پوشیدہ ہیں اور اب جماعت کے ابتلا ایسے نہیں رہے جو بے بدلہ کے رہ جائیں۔ اب خدا خود اِس امتحان میں شامل ہو گیا ہے اور جب خدا کسی امتحان میں شامل ہو جائے تو رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ ۳؎کے مطابق ابتلاؤں کا انجام رحمت ہی ہؤا کرتا ہے۔
چونکہ میرا گلا بیٹھتا چلا جارہا ہے اِس لئے میں کوئی اور بات نہیں کر سکتا ورنہ ایک دو باتیں اَور بھی مَیں نے کہنی تھیں۔ اب میں اِسی پر اپنے خطبہ کو ختم کرتا ہوں اور اﷲ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے ہمیں کسی ایسے ابتلا میں نہ ڈالے جو ہماری تباہی کا موجب ہو بلکہ ہمارے سارے ابتلا خواہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں یا خلیفہ کی طرف سے، نظام کی طرف سے ہوں یا افراد کی طرف سے۔ جماعت کی بہتری اور اس کی ترقی کا موجب ہوں اور وہ نہ صرف ہمیں روحانی اور ایمانی برکات کا وارث بنانے والے ہوں بلکہ مالی اور جسمانی طور پر بھی ہر قسم کے فوائد سے ہمیں متمتع کرنے والے ہوں اور ہماری قُربانیاں اُس بیج کی طرح ہوں جو بہتر سے بہتر ہوتا ہے، بہتر سے بہتر زمین میں ڈالا جاتا ہے اور بہتر سے بہتر کوشش اور محنت کے بعد صحیح موسم میں اچھے سے اچھا پانی لے کر پیدا ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ ان قربانیوں کے بدلہ میں اگر ہمیں انعامات عطا فرمائے تو ہمیں توفیق بخشے کہ ہم اِس کے احسانات کی شکرگزاری کرتے ہوئے اِن نعمتوں کو بھی اِس کے راستہ میں قربان کر دیں اور اپنے ایمان کا دنیا کو زیادہ سے زیادہ بہتر نمونہ دکھائیں۔‘‘ (الفضل ۸؍فروری ۱۹۳۹ئ)
۱؎ پشتینی : موروثی ، خاندانی، قدیمی
۲؎
(یوسف: ۴۴)
۳؎ الاعراف : ۱۵۷
۳
تبلیغِ احمدیت کے متعلق اوقات وقف کرنے کا مطالبہ
(فرمودہ ۲۷؍جنوری۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے پچھلے سے پچھلے جمعہ میں قادیان کی جماعت کو تبلیغ احمدیت کے لئے اپنے آپ کو بطور والنٹیر پیش کرنے کی تحریک کی تھی اور اِس کے مطابق واقفین کی لسٹیں میرے پاس پہنچ گئی ہیں۔ مَیں نے تحریک جدید اور نظارت دعوت و تبلیغ کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ وہ پہلے ایسے علاقوں کے لئے جہاں تبلیغ کے لئے خاص طور پر ضرورت ہے آدمی چُن لیں اور پھر بقیہ لوگوں کو اِن علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دے دیں جن کو وہ خود ترجیح دیتے ہیں۔
تبلیغ ایک ایسا ضروری فرض ہے کہ جو الٰہی جماعتوں کے ابتدائی زمانہ میں سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے کیونکہ وہ پروگرام جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے الٰہی جماعتوں کو دیا جاتا ہے اُس کو تفصیلی طور پر پورا کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ بعض علاقوں یا مُلکوں میں اس جماعت کی اکثریت ہو۔ خالی شہروں کی اکثریت کافی نہیں ہوتی۔ بلکہ وسیع علاقوں اور مُلکوں میں ہی وہ احکام نافذ کئے جاسکتے ہیں جو سوسائٹی کے ساتھ بحیثیت جماعت تعلق رکھتے ہیں۔
پس اسلام کی وہ تشریح جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں ملی ہے اور اسلام کا وہ دور جو دُنیا میں آج سے تیرہ سَو سال قبل گزرا ہے اِس تشریح پر عمل اور اِس دَور کا قیام اِسی صورت میں مُمکن ہے کہ جبکہ ہم وسیع علاقہ میں اپنی اکثریت پیدا کرلیں اور پھر باہمی اتحاد اور فیصلہ کے ساتھ اِس قانون اور شریعت کو رائج کریں جس کو اسلام نے ہم میں رائج کرنا چاہاہے۔ افراد کی کثرت اگر وہ مختلف ممالک میں پھیلے ہوں گو مالی لحاظ سے اور سیاسی لحاظ سے مفید ہو سکتی ہے مگر اجرائے قانون کے لحاظ سے مفید نہیں ہو سکتی۔ اگر دس کروڑ افراد ساری دُنیا میں پھیلے ہوئے ہوں تو وہ اجرائے قانون کے لحاظ سے اتنے مفید نہیں ہو سکتے جتنے ایک کروڑ اگر ایک جگہ جمع ہوں۔
پس قرآن کریم کی تعلیم کو عملی صورت میں کسی علاقے میں ظاہر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی وسیع علاقہ ایسا ہو جہاں جماعت احمدیہ کُلّی طور پر موجود ہو یا بہت بڑی اکثریت رکھتی ہو اور یہ غرض پوری نہیں ہو سکتی جب تک کہ منظم صورت میں تبلیغ نہ کی جائے۔ مختلف علاقے لے لئے جائیں اور اِن میں منظم طور پر پورے زور کے ساتھ تبلیغ کی جائے یہاں تک کہ وہ علاقہ ظاہر ہو جائے جسے اﷲتعالیٰ نے اِس سعادت کے لئے مقدر فرمایا ہو۔
مجھے افسوس ہے کہ ابھی ہماری جماعت نے اِس ذمّہ داری کو پورے طور پر نہیں سمجھا اور مجھے بہت ہی زیادہ افسوس ہے کہ اِس بارہ میں سب سے زیادہ غفلت قادیان کے لوگوں کی ہے جہاں اور خدمات میں قادیان کی جماعت دوسروں سے بڑھی ہوئی ہے وہاں تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے میں یہ سب سے پیچھے ہے۔ امن نے ان کے دماغوں میں غلط اطمینان پیدا کر دیا ہے۔ شائد کوئی کہے کہ یہاں امن کہاں ہے۔ روز احرار کی طرف سے فتنے پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن فتنہ کا ہونا اور چیز ہے اور قلبی اطمینان اور ہے۔ جہاں ایک احمدی دس مخالفوں میں گھِرا ہو وہاں فتنہ اس کے دل میں یہ خلش پیدا کر سکتا ہے کہ شاید میں تباہ نہ ہو جاؤں ۔ مگر جہاں دس بھلے مانسوں میں ایک شرارت کرنے والا ہو وہاں نفس مطمئن ہوتا ہے اور گو تکلیف ہو مگر یہ گھبراہٹ نہیں ہوتی کہ میں تباہ ہو سکتا ہوں۔ یہی حال قادیان اور باہر کے فتنوں کا ہے۔ باہر کے فتنے خواہ کتنے تھوڑے ہوں چونکہ وہ اکثریت کی طرف سے ہوتے ہیں۔ جماعت کے لوگوں میں ایک قسم کی بے اطمینانی ہوتی ہے مگر قادیان کے فتنے خواہ کتنے بڑے کیوں نہ ہوں جماعت کے دلوں میں یہ اطمینان ہوتا ہے کہ ہم یہاں طاقت اور تعداد کے لحاظ سے زیادہ ہیں۔ یہ اطمینان کی صورت ایسی ہے جو نظر انداز نہیں کی جاسکتی اور مجھے افسوس ہے کہ اس نے قادیان کی جماعت کے دماغوں میں امن کا غلط خیال پیدا کر دیا ہے اور جماعت کی مثال اُس کبوتر کی سی ہے جس پرجب بلّی حملہ کرتی ہے تو وہ آنکھیں بند کر لیتا اور خیال کر لیتا ہے کہ اب بلّی مجھے دیکھ نہیں سکتی اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ایک چھوٹے سے قصبہ میں ان کی اکثریت ہونے سے حقیقی امن قائم نہیں ہو سکتا اور اگر ہو بھی جائے تو سوال یہ ہے کہ کیا اُنہوں نے احمدیت اپنے امن کے لئے اختیار کی ہے؟ جس کی جدوجہد اپنے نفس کے لئے امن پر ختم ہو جاتی ہے اس نے احمدیت کو نفس کے لئے ہی اختیار کیا ہے اگر دین کے لئے اختیار کیا ہوتا تو اپنے نفس کے لئے آرام حاصل کرنے پر اس کی جدوجہد ختم نہ ہو جاتی۔ ہمارا امن تو دین کے لئے امن پر منحصر ہے۔ اگر دین کے لئے امن نہیں تو ہمارے امن کے کیا معنی؟ اگر دنیا میں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے امن نہیں تو قادیان میں اگر ہم طاقتور بھی ہوں یہاں کوئی بھی فتنہ کرنے والا آدمی باقی نہ رہے، احراری فتنے بھی مٹ جائیں تو کیا فائدہ؟ اس کے معنی زیادہ سے زیادہ یہ ہوں گے کہ ہمیں نجات حاصل ہو گئی مگر یہ نجات تو غیر احمدی ہونے کی صورت میں ہمیں پہلے ہی حاصل تھی۔ یہ سب فتنے تو پیدا ہی اِس لئے ہوئے تھے کہ ہم نے احمدیت کو قبول کیا تھا اور ہم نے تو احمدیت اِس لئے قبول کی تھی کہ چاہے ہمارے لئے فتنہ پیدا ہو مگر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے امن حاصل ہو جائے۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ساری دنیا میں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے امن قائم ہو جائے۔ کم سے کم شروع میں ایسا ایک علاقہ ہی ہو جہاں آپ کی تعلیم کو زندہ کر کے جاری کیا جاسکے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو آپ کے جھنڈے تلے لے آئیں اور اگر ہم کسی وقت اِس لئے کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں کہ جس علاقہ میں ہم رہتے ہیں اِس میں امن قائم ہو گیا ہے تو یہ ہمارے ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔ جہاں دوسری اکثر اچھی باتوں میں قادیان کے لوگ اچھا نمونہ دکھانے کے عادی ہیں، یہاں کے احمدیوں کی اکثریت چندہ باقاعدہ ادا کرتی ہے، دین سیکھنے کی طرف بھی وہ زیادہ توجہ کرتے ہیں اور وعظ وغیرہ شوق سے سُنتے ہیں اِسی طرح اور کئی خوبیاں اِن میں ہیں وہاں مجھے سخت افسوس ہے کہ تبلیغ کے معاملہ میں وہ دوسروں سے بہت پیچھے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چند کارکنوں کو چھوڑکر اِس نیکی کے خانوں میں باقی لوگوں کے لئے صفر لکھا ہؤا ہے۔ اگر قادیان کے لوگ اپنی ذمّہ داری کو سمجھتے، اُن میں حقیقی بیداری پیدا ہوتی اور وہ سمجھتے کہ احمدیت کو اﷲ تعالیٰ نے کیوں قائم کیا ہے تو آج تک لاکھوں آدمی قادیان اور اِس کے اِردگِرد احمدی ہو چکے ہوتے۔ ایک یادو لوگوں کو ہر سال احمدی بنا لینا کوئی مُشکل کام نہیں اور اتنے بنا لئے جائیں تو آپ غور کر سکتے ہیں کہ دس سال میں ہی جماعت کتنی ترقی کر سکتی ہے۔ آپ لوگ اندازہ کر لیں کہ آج سے آٹھ سال قبل قادیان میں احمدیوں کی تعداد باون سَو کے قریب تھی۔ اگر اِس میں سے چالیس فیصدی مردتبلیغ کرنے کے قابل سمجھ لئے جائیں تو وہ دو ہزار ہوتے ہیں اور اگر یہ دو ہزار احمدی اپنی ذمّہ داری کو محسوس کرتے اور ایک ایک احمدی ہی اور بناتے تو ۱۹۳۱ء میں یہ چار ہزار ہو جاتے اور اگر پھر وہ بھی ایک ایک اور بناتے تو ۱۹۳۲ء میں آٹھ ہزار ہو جاتے اور اگر یہ بھی محنت کے ساتھ کام کرتے تو ۱۹۳۳ء میں یہ تعداد ۱۶ ہزار ہو جاتی اور اگر وہ اِسی محنت کو قائم رکھتے تو ۱۹۳۴ء میں بتیس ہزار اور ۱۹۳۵ء میں چونسٹھ ہزار ۱۹۳۷ء میں ۱۲۸۰۰۰ اور ۱۹۳۸ء میں ۲۵۶۰۰۰ ہو جاتے۔ پھر اگر اِن کے بیوی بچوں کو ساتھ شامل کر لیا جائے تو جماعت کئی لاکھ کی ہو سکتی تھی۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ شیخ چلی والی باتیں ہیں اور یہ وہی بات ہے جسے خیالی پلاؤپکانا کہتے ہیں مگر حقیقتاً یہ بات نہیں۔ جن لوگوں نے اپنی ذمّہ داری کو سمجھا ہے اُنہوں نے عملاً ایسا کر کے دکھا دیا ہے۔
صحابہ کرام کی جدوجہد سے پچاس سال کے عرصہ میں تین کروڑ مسلمان بن چکے تھے اور سپین کے ساحلوں سے لے کر چین کی حدود تک بلکہ تمام معلومہ دُنیا میں اسلام کا پیغام پہنچ چُکا تھا اور اُس وقت کی متمدن دُنیا کے اسّی فیصدی علاقہ پر اِن کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ پس یہ باتیں ناممکن نہیں ہیں۔ بشرطیکہ لوگ اپنی ذمّہ داریوں کو سمجھیں اور جو شخص احمدی ہو جائے وہ سمجھ لے کہ میں کوئی نئی مخلوق ہو گیا ہوں۔ اگر وہ صرف یہ خیال کرتا ہے کہ میں نے چند عقائد بدل لئے ہیں باقی میں ویسا کا ویسا ہی زمیندار ہوں، ویسا ہی لوہار یا ترکھان ہوں جیسا پہلے تھا تو وہ کیا تبدیلی اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے۔ ہاں اگر وہ خیال کرتا ہے کہ مَیں کوئی نئی جنس ہو گیا ہوں، نئی مخلوق بن گیا ہوں، خدا تعالیٰ کی آواز بن گیا ہوں تو دیکھو اﷲ تعالیٰ اِسے کتنی ہمت، قوت اور حوصلہ عطاکردیتا ہے۔ مَیں اُمید کرتا ہوں کہ آئندہ قادیان کے لوگ خصوصاً اپنی سُستی کو دُور کر کے عملی طور پر اپنے اخلاص اور ایمان کا ثبوت دیں گے۔ صرف نام لکھوا دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ضروری ہے کہ نام لکھوانے کے پیچھے ایک مضبوط ارادہ، عزم اور ہمت ہو۔ پختہ عزم اور مضبوط ارادہ کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور اِس نیّت کے ساتھ کہ خود بھی احمدی بننا ہے اور دوسروں کو بھی بنانا ہے۔ اِس صورت میں تمہیں لازماً احمدیت کو سیکھنا پڑے گا، اپنے اعمال درست کرنے پڑیں گے اور اِس طرح ایک طرف تمہارا اپنا ایمان اور اخلاق ترقی کرے گا اور دوسری طرف جماعت ترقی کرے گی اور تم ایسے الٰہی فضل مشاہدہ کرو گے جو روحانیت کے ساتھ ہی تعلق رکھتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے والوں کی کوئی حد بندی نہیں ہو سکتی بلکہ اِس کے دربار میں سب کے لئے گنجائش ہے۔ دنیوی حکومتیں تو کچھ آدمی ملازم رکھ کر کہہ دیتی ہیں کہ اور گنجائش نہیں لیکن اﷲ تعالیٰ کی درباری خواہ ساری دُنیا ہو جائے اور اُسے ساری دنیا کو بھی معجزے دکھانا پڑیں اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آسکتی۔ پس چاہئے کہ ہم میں سے ہر فرد کوشش کرے کہ اﷲ تعالیٰ کے معجزوں کا مورد ہو۔ یہ نہ ہو کہ تم میں سے ایک غریب زمیندار کو بھی دیکھ کر لوگ انگلیاں اُٹھائیں اور کہیں کہ یہ بے کَس ہے جو سلوک چاہو اِس کے ساتھ کر لو بلکہ یہ ہو کہ اگر کوئی احمدی کہیں اکیلا ہو تو لوگ اِس کی طرف انگلیاں اُٹھائیں اور کہیں کہ یہ اکیلا ہے مگر اِسے چھیڑنا نہیں کیونکہ اِس کو تکلیف دینے سے خدا تعالیٰ کا قہر نازل ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کے دربار میں جتنے لوگ چاہیں یہ مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ وہاں ساری دُنیا کے لوگوں کے لئے گنجائش ہے بغیراِس کے کہ اِس میں کوئی کمی ہو۔
پس اِس ایمان پر تسلی نہ پا جاؤ جس پر تمہاری عقلیں تسلی پاتی ہیں بلکہ وہ اخلاق دکھاؤ کہ جس سے خدا تعالیٰ کے پیارے بن جاؤ اور خوب یاد رکھو کہ اِس کے لئے علم کی ضرورت نہیں، روپے کی ضرورت نہیں، طاقت کی ضرورت نہیں، بلکہ صرف نیّت کی ضرورت ہے اور اِس عزم کی ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ کی حکومت تمہارے دلوں پر ہو۔ دل کی پاکیزگی اور صفائی اور رُوح کے فرمانبردار ہونے کی ضرورت ہے۔
اِس کے بعد میں بیرونی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد از جلد واقفین کی فہرستیں تیار کر کے بھجوادیں تا ان کے علاقوں میں بھی تبلیغ کے نظام کو مکمل کیا جائے۔ شروع میں کام کرنے والوں کے لئے بے شک دقّتیں ہوں گی لیکن اگر ہمت اور ارادہ ہو تو مُشکلات خودبخود دُور ہو جایا کرتی ہیں۔
۱۹۲۳ء میں جب ملکانوں کا فتنہ شروع ہؤا اُس وقت جماعت کے اندر ایک جُوش پیدا ہؤا اور سینکڑوں احمدیوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ پھر اُنہوں نے وہاں جاکر تبلیغ کی اور ثواب بھی حاصل کئے مگر انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ان کے کاروبار بھی ویسے ہی رہے جیسے پہلے تھے، نوکریاں بھی ویسی ہی رہیں اور اِس موقع پر جن لوگوں نے جی چُرایا کئی دفعہ ان کو خیال آتا ہو گا کہ کاش ہم بھی ثواب حاصل کر لیتے۔ غور کرو یہ کتنا عظیم الشان کارنامہ تھا کہ ایک مٹھی بھر جماعت کا مقابلہ تمام ہندوقوم کے ساتھ تھا اور یہ کتنا شاندار نتیجہ تھا کہ جب اس جماعت کے کام کی وجہ سے ہندوؤں کے لئے مُشکلات پیدا ہوئیں اور ادھر ہندو مسلم اختلاف وسیع ہونے لگا تو گاندھی جی نے بَرت رکھا اور کہا کہ جب تک ہندو مسلمانوں میں صلح نہ ہو میں بَرت نہیں کھولوں گا۔ پھر وہ کیا عجیب وقت تھا کہ دہلی میں ہندوستان کے بڑے بڑے ہندو مُسلم لیڈر جمع ہوئے کہ صلح کی تجویز کریں مگر جن کو بُلایا گیا ان میں جماعت احمدیہ کا نام ہی نہ تھا۔ یہی شیخ عبدالرحمن مصری جو اِس وقت ہماری مخالفت میں حصّہ لے رہے ہیں، یہ گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہا کہ ہمارا تو نام ہی نہیں۔ ان کو توجہ دلانی چاہئے۔ مَیں نے کہا کہ مجھے تو توجہ دلانے کی ضرورت نہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ خود توجہ کرنے پر مجبور ہوں گے اور دوسرے ہی روز حکیم اجمل خان صاحب اور ڈاکٹر انصاری صاحب کا تار میرے نام آیا کہ اپنے نمائندے جلد بھیجئے صلح کے کام میں تاخیر ہو رہی ہے۔ بات یہ ہوئی کہ جب ہندو مسلم لیڈر صلح کے لئے بیٹھے تو شردھانند صاحب نے کہاکہ لڑائی تو احمدیوں کے ساتھ جاری ہے کیونکہ تبلیغ وہی کررہے ہیں۔ یہاں اُن کے نمائندے ہی نہیں ہیں تو صلح کی بات چیت کِس سے کی جائے۔ آخر وہ لوگ جنہوں نے پہلے کِبر اختیار کیا اور کہا تھا کہ احمدیوں کو بُلانے کی کیا ضرورت ہے، مجبور ہو گئے کہ مجھ سے تار کے ذریعہ نمائندے بھجوانے کی درخواست کریں اور جب ہمارے نمائندے جانے لگے تو میں نے ان سے کہا کہ وہاں جو گفتگو ہو گی وہ میں ابھی سے بتا دیتا ہوں۔ آریہ سماجی کہیں گے کہ چونکہ گاندھی جی نے بَرت رکھا ہؤا ہے ہمیں چاہئے کہ ان کا بَرت کھلوانے کے لئے باہم صلح کرلیں اور وہ اِس طرح کہ ہم بھی وہاں اپنا کام بند کر دیتے ہیں اور آپ بھی کریں۔ بظاہر یہ خوشنما تجویز ہے اِس سے مسلمان نمائندے اِسے قبول کرنے کے لئے فوراً تیار ہو جائیں گے مگر تم کہنا کہ آپ لوگوں نے ہمارے گھر پر قبضہ کر لیا ہے اور اِس وقت اب صلح کرنے میں آپ کو فائدہ ہے مگر ہمارا سراسر نقصان ہے۔ ملکانے مسلمان تھے۔ ان میں سے آپ لوگ بیس ہزار کو مرتد کر چکے ہیں اور اب صلح کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ ان سب کو کلمہ پڑھوا دو۔ ورنہ اِس وقت تک ہمیں تبلیغ کی اجازت ہونی چاہئے جب تک ان کو مسلمان نہ بنا لیں۔ اس کے بعد اگر باقی مسلمان کہیں گے تو ہم بھی وہاں کام بند کر دیں گے اور کہیں اور کام شروع کر دیں گے۔
جب ہمارے نمائندے وہاں پہنچے تو بعینہٖ ایسی ہی صورت وہاں پیش آئی۔ سوامی شردھانند صاحب نے کہا کہ گاندھی جی کو ممنون کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم بھی وہاں کام بند کر دیں اور مسلمان بھی بند کر دیں۔ اِس پر میرے نمائندوں نے کہا کہ آریہ بیس ہزار مسلمانوں کو اپنے ساتھ مِلا چکے ہیں اور ہم تو ان کے پیچھے محض اصلاح کے لئے گئے ہیں۔ صلح مساوی شرائط پر ہی ہو سکتی ہے۔
اِس لئے یہ وہ بیس ہزار آدمی واپس کر دیں اور یا پھر ہمیں اتنی دیر وہاں کام کرنے کی اجازت ہو جب تک کہ ہم اتنے آدمیوںکو مسلمان نہ بنا لیں ورنہ مساوات نہیں قائم ہو سکتی۔ ہم فی الحال وہاں کام کریں گے اور جب ان لوگوں کو اسلام میں داخل کر لیں گے جو مرتد ہو چکے ہیں تو چونکہ یہ لوگ احمدی نہیں، عام سُنّی ہیں اِس لئے اگر مسلمانوں نے چاہا ہم اِس طریق کی تبلیغ وہاں بند کر دیں گے اور اپنے کام کے لئے دوسرا علاقہ چُن لیں گے۔ اِس جواب کو سُن کر مسلمانوں کے نمائندوں نے کہا کہ احمدی ہمیشہ فساد ہی کرتے رہے ہیں۔ اِن کی نیّت ہی یہ ہے کہ مُلک میں امن نہ ہو۔ چلو ہم صلح کرتے ہیں۔ یہ مٹھی بھر جماعت کیا کر سکتی ہے، ان کو شور مچانے دو۔ مگر سوامی شردھانند صاحب نے کہا کہ تم لوگوں کا تو کوئی آدمی وہاں ہے ہی نہیں۔ تمہارے ساتھ مَیں صلح کیا کروں۔ جب تک احمدیوں کے ساتھ صلح نہ ہو صلح نہیں ہو سکتی اور اِس طرح ان بے شرم علماء کو جو مَلکانوں کے ارتداد پر اپنی رضا کی مُہر لگانے کو تیار ہو گئے تھے منہ کی کھانی پڑی اور وہ اپنی ذلّت و رسوائی دیکھ کر خاموش ہو گئے۔ ہمارا مطالبہ تو آریہ منظور کرہی نہیں سکتے تھے اور اِس طرح یہ صلح بیچ ہی میں رہ گئی اور ہم نے کہا کہ ہم اِس وقت تک اِس میدان کو نہیں چھوڑیں گے جب تک اتنے لوگوں کو واپس نہیں لے آتے۔ آخر وہ جوش کے دن گزر گئے۔ ہمارے مبلغ بھی واپس آگئے مگر ایک دو آدمی ہم نے اب تک وہاں رکھے ہوئے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں وہاں کامیابی ہو رہی ہے۔ چنانچہ کچھ ہی عرصہ ہؤا فتح پور قصبہ جو ساندھن کے پاس ہے اور پہلے سارا کا سارا مرتد ہو چُکا تھا اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مبلّغوں کی تبلیغ سے پندرہ سال بعد پھر اسلام میں داخل ہو گیا ہے اور آریہ لوگ اپنا بوریا بستر وہاں سے اُٹھا کر چل دیئے ہیں۔
دیکھو کتنی طاقتور قوم سے مقابلہ تھا۔ اُس وقت ہندو امراء کہہ رہے تھے کہ ہم کروڑوں روپیہ اِس کام پر لگا دیں گے اور یہاں تک کہتے تھے کہ ایک ایک آدمی کے بدلے ہزار ہزار روپیہ دیں گے۔ دولت اور طاقت کا سر نیچا ہؤا اور مٹھی بھر جماعت کو فتح حاصل ہوئی اور یہ نتیجہ تھا اُس قربانی کا جو جماعت نے دکھائی۔ اس وقت ایک قربانی کی رَو تھی جو جماعت میں چل رہی تھی۔ آج تک اس علاقہ میں بعض واقعات اس زمانہ کے مشہور ہیں بلکہ میرے گزشتہ سفر میں بھی بعض لوگ ملے جنہوں نے مندرجہ ذیل واقعہ کا ذکر کیا کہ وہاں ایک گاؤں سب کا سب آریہ ہو چکا تھا صرف ایک عورت مائی جمیا تھی جو مرتد نہ ہوئی تھی۔ اس کے لڑکے بھی آریہ ہو گئے تھے۔ آریوں نے کہا کہ اِس کا بائیکاٹ کیا جائے تو پھر یہ آریہ بنے گی۔ آخر اِس کا بائیکاٹ ہؤا حتّٰی کہ اس کے لڑکوں نے اس کے حصّہ کی فصل کو بھی کاٹنے سے انکار کر دیا۔ اِس وقت شاید چوہدری نصراﷲ خان صاحب یا خان بہادر شیخ محمد حسین صاحب ریٹائرڈ سیشن جج علی گڑھ والے وہاں انچارج تھے۔ مائی جمیا ان کے پاس آئی اور کہا کہ میں نے مزدوروں سے اپنی فصل کٹوانے کی کوشش کی ہے مگر وہ بھی نہیں کاٹتے اور کہتے ہیں کہ شُدھی کرو اؤ تو کاٹیں گے نہیں تو جاؤ مولویوں سے کٹواؤ۔ ہمارے آدمی بوجہ تعلیم یافتہ ہونے کے وہاں مولوی کہلاتے تھے۔ اِس لئے اُنہوں نے بطور طنز کہا کہ جاؤ مولویوں سے کٹواؤ۔ ان کا خیال تھا کہ یہ لوگ اِس کام میں اِس کی کیا مدد کر سکیں گے؟ مائی جمیا نے کہا کہ میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ بے شک کھیت خراب ہو جائے پرواہ نہیں مگر میں شُدھ نہیں ہوں گی۔ جو دوست وہاں انچارج تھے اُنہوں نے مجھے اطلاع دی اور میں نے انہیں لکھا کہ بے شک آریوں نے جو کچھ کہا ہے ویسا ہی ہو گا اور مولوی ہی اس کے کھیت کو کاٹیں گے۔ آپ اپنے تعلیم یافتہ آدمیوں کو لے کر جائیں اور اس کا کھیت کاٹیں۔ چنانچہ کئی گریجوایٹ اور سرکاری ملازم، سرکاری خطاب یافتہ لوگ وہاں گئے اور جاکر کھیت کاٹ دیا۔ ان کے ہاتھ لہو لہان ہو گئے، چھالے پڑ گئے مگر اِس علاقہ کے لوگوں پر اِ س بات کا اتنا اثر ہؤا کہ اِسی دن سے آریوں نے سمجھ لیا کہ اِس جماعت کا مقابلہ آسان نہیں۔ اِس علاقہ کے رؤساء اب بھی اِس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گو اِس پر پندرہ سال گزر گئے مگر اِس کا اثر دلوں سے محو نہیں ہؤا۔ اور وہ آج بھی اقرار کرتے ہیں کہ یہ احمدیوں کا ہی کام تھا، مسلمانوں میں سے کوئی اور جماعت ایسا نہیں کر سکتی۔ وہی روح اگر آج بھی پیدا ہو تو اِس سے شاندرا نتائج ظاہر ہو سکتے ہیں کیونکہ آج جماعت اُس وقت سے کئی گُنا زیادہ ہے۔ تین چار گُنا سے بھی زیادہ ہے۔ صرف ضرورت ارادہ کی ہے اور اخلاص کی۔ پس میں بیرونی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمّہ داری کو سمجھیں اور ہر بالغ مرد (عورتوں کو میں ابھی مجبور نہیں کرتا۔ گو وہ اپنی خدمات پیش کریں تو شکریہ کے ساتھ قبول کی جائیں گی مگر ان کی یہ خدمت طوعی ہو گی) لیکن ہر بالغ مرد احمدی سے میں اُمید کرتا ہوں کہ وہ اپنا وقت اِس کام کے لئے دے گا اور یہ ذمّہ داری لے گا کہ خواہ کتنا وقت کیوں نہ دینا پڑے وہ ایک دو یا تین یا ان سے زیادہ احمدی سال میں ضرور بنائے گا۔ پس تمام جماعتیں ایسی فہرستیں تیار کر کے جلد بھجوادیں تا ان کے لئے کام کی سکیم بنا دی جائے اور اگر اِس سکیم کی اہمیت کو مدّنظر رکھا جائے تو چند سال میں ہی ہندوستان کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ احمدیوں میں زیادہ تر اَن پڑھ لوگ ہیں۔ یعنی زمیندار طبقہ زیادہ ہے۔ یوں نسبتی لحاظ سے تو احمدیوں میں تعلیم زیادہ ہے مگر باہر کے جلسوں میں تعلیم یافتہ لوگ آتے ہیں اور ہمارے زمیندار آتے ہیں۔ ان کے عوام نہیں سُنتے مگر ہمارے عوام دوسروں کی نسبت زیادہ سُنتے ہیں۔ گویا ہمارے مخاطبین میں زیادہ تر عوام ہوتے اور دوسروں کے جلسوں کی نسبت ہمارے جلسوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کم ہوتا ہے۔ اِس لئے وہ سیاسی لحاظ سے بات کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی طور پر اسلام اِس وقت نہایت نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ایسے نازک دَور سے کہ اگر اِس وقت اِس کی حفاظت کے لئے کوئی جماعت کھڑی نہ ہو گی تو اِس کے مِٹ جانے میں کوئی شُبہ نہیں۔ یوں تو مسلمان بیشک دنیا میں رہیں گے مگر نام کے مسلمانوں سے اسلام کو کیا فائدہ؟ قرآن دُنیا میں اِس لئے نہیں آیا تھا کہ اسے جز دانوں میں بند کر کے رکھا جائے اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم دُنیا میں اِس لئے نہیں آئے تھے کہ لوگ مُنہ سے آپ کو خدا کا رسول تسلیم کر لیں بلکہ اِس لئے آئے تھے کہ خدا تعالیٰ کی تعلیم کو دُنیا میں قائم کریں۔ اگر یہ نہیں تو مسلمانوں کا وجود تعداد میںخواہ کتنا کیوں نہ بڑھ جائے بے فائدہ ہے۔ سفید چیز کو کالا کر دینے سے وہ کالی نہیں ہو جاتی اور کالی کو سفید کہہ دینے سے وہ سفید نہیں ہو جاتی۔ اِسی طرح جس کا دل کافر ہو اُس کا نام مسلمان ہونے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اِس نازک موقع پرایک جماعت احمدیہ ہی ہے جس سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمّہ داری کو سمجھتے ہوئے مقابلہ کے میدان میں آگے آئے گی اور جلد اسلام کے حقیقی پیروؤں کی اتنی تعداد پیدا کر لے گی کہ جو دُنیا کا مقابلہ آسانی سے کر سکے۔ گو باہر سے بھی اطلاعات آنی شروع ہو گئی ہیں مگر اِس کے لئے آخری تاریخ ۸؍مارچ مقرر ہے۔٭ دعوۃ و تبلیغ کو چاہئے جس طرح تحریک جدید کا عملہ محنت کر کے سب جماعتوں سے وعدہ لکھوا چُکا ہے وہ بھی خاص زور دے کر فہرستیں مکمل کریں اور سلسلہ کے اخبار اِس کام میں ان کی پوری مدد کریں اور اِس لحاظ سے وقت بہت کم ہے اِس لئے میں پھر دوستوں کو توجّہ دلاتا ہوں کہ اِس سے بہت زیادہ جدوجہد کی ضرورت ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ قادیان سے فہرستیں آچکی ہیں اور ان کو بہت جلد تحریک جدید اور نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے ان کے فرائض سے مطلع کر دیا جائے گا اور میں ہر ایک احمدی سے اُمید رکھتا ہوں کہ وہ پوری محنت، ہمت اور کوشش سے کام کرے گا اور اس سال کے آخر تک ہر وہ شخص جو کوتاہی کرے گا میں مجبور ہوں گا یہ قرار دینے پر کہ اُس نے احمدیت کا اچھا نمونہ نہیں دکھایا اور کہ وہ محض نام کا احمدی ہے حقیقتاً ہمارے ساتھ شامل نہیں۔
اِس کے بعد مَیں قادیان کے دوستوں کو بھی اور باہر والوں کو بھی تحریک جدید کے مالی حصّہ
٭ یہ خطبہ دیر سے چھپ رہا ہے اِس لئے میں ہندوستان کے لئے ۸؍اپریل کی تاریخ مقرر کر
دیتا ہوں۔
کی طرف متوجہ کرتا ہوں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ دس فروری کے بعد کوئی وعدے قبول نہیں کئے جائیں گے۔ مَیں نے کل دفتر سے لسٹ منگوائی تھی اور مجھے افسوس ہے کہ قادیان میں بھی ابھی بہت سے ایسے دوست ہیں جنہوں نے توجّہ نہیں کی وہ ایسے نہیں کہ ہم خیال کریں کہ مالی مُشکلات کی وجہ سے حصّہ نہیں لے سکے بلکہ ایسے ہیں کہ جو کسی نہ کسی صورت میں حصّہ لے سکتے ہیں۔ باہر کی بعض بڑی جماعتوں کی فہرستیں بھی تاحال نہیں آئیں۔ جیسا کہ دفتر کی اطلاعات سے معلوم ہؤا ہے مَیں جانتا ہوں کہ وعدوں کا زور آخری دنوںمیں بہت ہوتا ہے۔ جو مخلص ہیں وہ تو پہلے دنوں میں ہی توجّہ کرتے ہیں پھر درمیان میں رَو کم ہو جاتی ہے اور پھرجب آخری دن ہوتے ہیں تو پھر رَو تیز ہو جاتی ہے کیونکہ دوستوں کو خیال ہوتا ہے کہ اب وقت ختم ہونے کو ہے مگر ان کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ دس فروری کے بعد یا باہر کے جس خط پر گیارہ فروری کے بعد کی مُہر ہو گی ایسا کوئی وعدہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی سے ثابت ہے کہ اﷲ تعالیٰ ایک جماعت خدمت کرنے والوں کی تیار کرنا چاہتا ہے اور کئی لوگوں کے خوابوں سے اِس کی تائید ہو چکی ہے۔ سینکڑوں لوگوں کو اس کے متعلق الہامات ہو چکے ہیں تو پھر پیچھے رہنا کس قدر بد نصیبی ہے۔
پس ہر ایک شخص جو تھوڑا بہت بھی حصّہ لے سکتا ہے مگر نہیں لیتا اس کی بد قسمتی میں کوئی شُبہ نہیں۔ کئی لوگ محض اِس لئے ہچکچاتے ہیں کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ پہلے ہم نے زیادہ حصّہ لیا تھا اب کم کس طرح لیں۔ حالانکہ شرائط کے مطابق ایسا کرنا جائز ہے۔ اِس سے زیادہ حماقت اور کیا ہو سکتی ہے کہ جو شخص سابقون میں شامل نہ ہو سکے وہ دوسرے درجہ میںبھی نہ ہو۔ ایسا خیال کرنا نادانی اور ثواب کی ہتک ہے۔ ثواب خواہ کتنا ہی تھوڑا کیوں نہ ہو ضرور حاصل کرنا چاہئے۔ اگر کسی نے پچھلے سال سَو روپیہ دیا مگر اِس سال وہ سمجھتا ہے کہ مَیں پانچ ہی دے سکتا ہوں اور اِس لئے چندہ لکھوانے سے رُکتا ہے کہ اِس سے میری ہتک ہو گی تو وہ عزّت کو ثواب پر مقدم کرتا ہے۔ حالانکہ ثواب کو عزّت پر مقدم کرنا چاہئے۔ اگر تو وہ واقعی معذور ہے تو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اِس کے پانچ بھی پانچ سَو کے برابر ہیں اور اگر وہ معذور نہیں تو جو درجہ وہ ایمان کا اپنے لئے تجویز کرتا ہے اُسی کے مطابق اﷲ تعالیٰ سے اَجر پائے گا۔
پس قادیان کے دوستوں کو بھی اور باہر والوں کو بھی میں پھر ایک دفعہ متوجّہ کرتا ہوں کہ بہت تھوڑے دن باقی رہ گئے ہیں۔ بعد میں بیسیوں لوگ خطوط لکھتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی، معاف کر دیں اور وعدہ قبول کر لیں۔ حالانکہ جب ہم نے ایک قانون بنا دیا تو معافی کے کیامعنے؟ پس جنہوں نے بعد میں معافی مانگنی ہے وہ ابھی ہوشیار ہو جائیں۔
اِس سال چونکہ اِس سکیم کی پوری پوری وضاحت کر دی گئی ہے اِس لئے آئندہ کوئی نیا وعدہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ سوائے اُن کے جو ثابت کر دیں گے کہ وہ نئے احمدی ہوئے ہیں یا بیکار تھے۔ مثلاً کوئی اب طالبعلم ہے اور اگلے سال کام پر لگے یا جن کو اِس تحریک کا پہلے علم نہیں ہؤا تھا۔ بیسیوں ایسے لوگ ہیں جو اِس سال لکھتے ہیں کہ پہلے ہم نے حصّہ نہیں لیا تھا مگر اب اِس سکیم کی اہمیت ہم پر واضح ہو گئی ہے اِس لئے شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اِس سال تو مَیں نے ایسے لوگوں کو اجازت دے دی ہے مگر آئندہ سال نہیں دی جائے گی کیونکہ اب اِس کی پوری وضاحت کر چُکا ہوں۔ سوائے ان کے جو ثابت کر دیں گے کہ وہ نئے احمدی ہوئے ہیں یا پہلے کوئی آمد نہ رکھتے تھے یا اُن کو اس تحریک کا علم ہی نہیں ہؤا، ایسے لوگوں کے سوا کسی احمدی کا وعدہ قبول نہ کیا جائے گا۔ خواہ وہ کتنی مِنّتیںکیوں نہ کرے۔ جو اِس سال شامل ہو گا وہی آئندہ شامل ہو سکے گا کیونکہ وہی اِس قابل ہے کہ اُس کا نام تاریخ میں محفوظ رہے۔
پس یہ آخری اعلان ہے جس سے دوستوں کو پورا فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ ممکن ہے بعض جماعتوں کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ سُستی کر رہے ہوں اور دوست سمجھتے ہوں کہ ہمارے وعدے پہنچ چکے ہیں۔ دفتر کو چاہئے کہ ایسے مقامات پر کئی لوگوں کو اطلاع بھیج دے کہ ان کے وعدے تاحال نہیں پہنچے۔ اور جن کو وعدوں کی منظوری کی اطلاع دفترسے نہیں پہنچی ان کو بھی چاہئے کہ اچھی طرح اطمینان کر لیں۔ ایسا نہ ہو کہ رہ جائیں۔ ابھی وقت ہے کہ وہ اصلاح کرا لیں۔ لیکن اگر انہوں نے نہ کرائی تو پھر یہ عذر نہیں سُنا جائے گا کہ ہم نے تو وعدہ بھیج دیا تھا سیکرٹری یا پریذیڈنٹ پر ذمہ داری ہے۔یہ تحریک چونکہ طوعی ہے اِس لئے ہر فرد براہ راست ذمّہ دار ہے۔
پس ہر فرد کو یہ اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ صرف انہی کے وعدے قبول کئے جائیں گے جو وقت پر پہنچا دیں گے۔ اگر کسی جماعت کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ سُستی کرتے ہیں تو دوستوں کو چاہئے کہ خود براہ راست وعدے بھیج دیں اور اگر اُنہوں نے خود بھی نہ بھیجے تو ہم یہی سمجھیں گے کہ عُہدیداران کی سُستی میں وہ خود شامل ہیں۔٭‘‘ (الفضل ۳؍مارچ ۱۹۳۹ئ)
٭ خطبہ تاریخ گزرنے کے بعد شائع ہو رہا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے
مخلصین غیر معمولی اخلاص کا ثبوت دے چکے ہیں اور وعدے گزشتہ سال سے بڑھ گئے ہیں۔ اَلْحَمْدُﷲِ عَلٰی ذَالِکَ۔ مَیں اِس خطبہ کی شرائط میں اِس قدر اصلاح کرتا ہوں کہ جنہوں نے سیکرٹریوں سے وعدہ لکھنے کو کہا اور اُنہوں نے وعدہ نہ بھجوایا اگر وہ بعد میں اِس کا علم ہونے پر نام لکھوانا چاہیں تو لکھوا سکتے ہیں۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ چونکہ اب دس سالہ میعاد مقرر ہے اور حقیقی طور پر الٰہی فوج کے سپاہی وہی کہلا سکتے ہیں جو دسوں سال حصّہ لیتے رہے ہیں۔ اِس لئے جن لوگوں نے سابق میں معافی لے لی تھی وہ اگر ان کامل سپاہیوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو انہیں گزشتہ رقوم بھی ادا کرنی چاہئیں ورنہ وہ دس سالہ قربانی کرنے والوں میں شامل نہیں ہو سکتے۔ ہاں اپنی قربانی کے مطابق ثواب ضرور حاصل کر لیں گے۔ پس جنہوں نے کسی سابق سال کا چندہ نہیں دیا یا معافی لے لی تھی اور اب وہ دس سالہ سکیم میں شامل ہونے کی تڑپ رکھتے ہیں انہیں اب گزشتہ کی تلافی کر لینی چاہئے۔ ہاں ان کی سابقہ رقوم کی ادائیگی کے لئے محکمہ مناسب سہولت دے سکتا ہے جس کا فیصلہ وہ محکمہ سے بذریعہ خط و کتابت کرلیں۔
۴
مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اﷲ
قائم کرنے کی غرض و غایت
(فرمودہ ۳؍فروری ۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے پہلے بھی متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ قوموں کی کامیابی کے لئے کسی ایک نسل کی درستی کافی نہیں ہوتی۔ جو پروگرام بہت لمبے ہوتے ہیں وہ اُسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جبکہ متواتر کئی نسلیں ان کو پورا کرنے میں لگی رہیں۔ جتنا وقت ان کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہو اگر اُتنا وقت ان کو پورا کرنے کے لئے نہ دیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ کسی صورت میں مکمل نہ ہوسکتے اور اگر وہ مکمل نہ ہوں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ پہلوں نے اِس پروگرام کی تکمیل کے لئے جو محنتیں ، کوششیں اور قُربانیاں کی ہیں وہ بھی سب رائیگاں گئیں۔ مثلاً ایک جھونپڑا ہے اُس کے بنانے کے لئے مہینہ کا وقت درکار ہے۔ اب اگر کوئی شخص پندرہ دن کام کر کے اُسے چھوڑ دیتا ہے تو یہ لازمی بات ہے کہ وہ جھونپڑا نامکمل رہے گا اور رفتہ رفتہ بالکل خراب ہو جائے گا۔ اِسی طرح اگر ایک مکان ہے جس کی تعمیر کے لئے تین مہینوں کی ضرورت ہے۔ اگراس پر کوئی شخص مہینہ ڈیڑھ مہینہ خرچ کر کے چھوڑ دیتا ہے تو وہ بھی کبھی مکمل نہیں ہو سکتا اور گو پہلے آدمی سے اس نے زیادہ وقت صرف کیا ہو گا۔ مگر جس کام کے لئے وہ کھڑا ہؤا تھا وہ چونکہ تین مہینے کا تھا اِس لئے باوجود ڈیڑھ مہینہ خرچ کرنے کے وہ ناکام رہے گا۔ اِس کے مقابلہ میں اگر ایک بہت بڑا محل ہے جو دو تین سال میں تیار ہو سکتا ہے تو اس پر اگر کوئی شخص سال بھی خرچ کردیتا ہے تو نتیجہ اچھا نہیں نکل سکتا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ پہلے کا جب مہینہ میں کام ختم ہو سکتا تھا اور دوسرے کا تین مہینہ میں تو مَیں سال بھر کام کر کے بھی اپنے کام کو کیوں ختم نہیں کر سکتا۔ اِس لئے کہ جو کام اِس نے شروع کیا تھا وہ تین سال کی مدّت چاہتا تھا۔اگر یہ سال یا دو سال لگاتا بھی ہے اور پھر کام کو چھوڑ دیتا ہے تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ اِس نے اپنے دو سال ضائع کردیئے۔ پھر بعض کام ایسے ہوتے ہیں جو تکمیل کے لئے پندرہ بیس بلکہ تیس سال چاہتے ہیں۔ اگر بیس تیس سال میں تکمیل کو پہنچنے والا کام کوئی شخص پندرہ سال کرتا اور پھر اسے چھوڑ دیتا ہے تو وہ کام یقینا خراب ہو جائے گا کیونکہ اِس کام کے لئے بیس یا تیس سال کی ضرورت تھی۔ اِسی طرح بعض کام ایسے ہوتے ہیں جو سینکڑوں سال چاہتے ہیں۔ اگر ان سینکڑوں سال چاہنے والے کاموں کو کوئی شخص پچاس، ساٹھ یا سَو سال کر کے چھوڑ دے تو لازماً وہ خراب ہو جائیں گے۔
اﷲ تعالیٰ نے ہمیں یہ نکتہ سکھانے کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ بعض چیزوں کی تکمیل وقت کے ساتھ مقیّد ہوتی ہے اپنے کاموں کے لئے بھی مختلف اوقات مقرر کر دیئے ہیں۔ بعض نادان اعتراض کیا کرتے ہیں کہ جب خدا ۱؎ کہنے والا ہے تو اِس کے لئے یہ کیا مُشکل ہے کہ وہ ایک سیکنڈ میں تمام کام کرے۔ یہ درست ہے کہ خدا اگر چاہے تو ایک سیکنڈ میں ہی تمام کام کرے لیکن اگر خدا ایک سیکنڈ میں تمام کام کر دیتا تو انسان میں استقلال کا مادہ پیدا نہ ہوتا اور اِس کے سامنے کوئی ایسی مثال نہ ہوتی جس سے وہ سمجھ سکتا کہ استقلال کیا چیز ہے۔ مگر اﷲ تعالیٰ کو دیکھو کوئی کام ایسا ہے جو وہ بیس اکیس دن میں کرتا ہے۔ مثلاً مُرغی کے بچے پیدا کرنے کے لئے تین ہفتے کافی ہوتے ہیں۔ پھر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کو وہ چھ مہینے میں کرتا ہے۔ جیسے بکری کا بچہ ہے اِس کے پیدا کرنے میں اﷲ تعالیٰ چھ مہینے لگا دیتا ہے۔ پھر کچھ کام ایسے ہیں جن کو وہ نو مہینے میں کرتا ہے۔ جیسے انسان کا بچہ ہے اِس کام کو وہ نو مہینے میں کرتا ہے۔ پھر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو سال چاہتے ہیں۔ جیسے گھوڑی کا بچہ ہے کہ وہ سال میں پیدا ہوتا ہے۔ پھر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو پانچ دس بلکہ بعض بیس سال میں مکمل ہوتے ہیں۔ جیسے پھلدار درخت ہیں کوئی اِن میں سے تین چار سال میں پھل دیتا ہے کوئی سات سال میں پھل دیتا ہے ، کوئی دس سال میں پھل دیتا ہے، کوئی پندرہ سال میں پھل دیتا ہے۔ گویا یہ کام خدا تعالیٰ کئی سالوں میں جاکر کرتا ہے۔ اِسی طرح وہ اپنے اوقات کی لمبائی کو بڑھاتا چلا گیا ہے یہاں تک کہ بعض کام اﷲ تعالیٰ لاکھوں سالوں میں کرتا ہے۔ جیسے پتھر کا کوئلہ ہے۔ پہلے عام طور پر لوگ پتھر کے کوئلہ سے واقف نہیں ہوتے تھے مگر اب تو دیہات میں بھی مشینیں لگ جانے کی وجہ سے گاؤں کے لوگ بھی پتھر کے کوئلہ سے واقف ہو گئے ہیں اور چونکہ پتھر کے کوئلہ کے استعمال میں خرچ کی کفایت ہوتی ہے اِس لئے کئی لوگ پتھر کا کوئلہ استعمال کرنے لگ گئے ہیں۔ اب یہ پتھر کا کوئلہ انہی درختوں سے بنا ہے جن کی لکڑیاں کاٹ کاٹ کر جلائی جاتی ہیں مگر یونہی نہیں بلکہ کئی لاکھ سال تک یہ درخت زمین میں دفن رہے اور کئی لاکھ سال تک زمین میں دفن رہنے کے بعد یہ درخت پتھر کے کوئلہ کی شکل میں بدل گئے۔ تو اﷲ تعالیٰ نے پتھر کا کوئلہ بنانے کے لئے کئی لاکھ سال لگا دیئے۔ اِس میں اﷲ تعالیٰ نے درحقیقت یہی بتایا ہے کہ وقت کی لمبائی یا چھوٹائی بھی چیزوں کی خوبصورتی اور عُمدگی کے لئے ضروری ہے۔ طب ہی کو دیکھو بعض اعلیٰ ادویہ ایسی ہیں کہ ان کے اجزاء بالعموم وہی ہیں جو ہمیشہ استعمال میں آتے رہتے ہیں لیکن ان کو کچھ عرصہ تک دفن کرنے کی وجہ سے ان ادویہ کی حالت ہی بدل جاتی ہے۔ مثلاً برشعشا ایک دوائی ہے جو نزلہ کے لئے نہایت مفید ہے۔ اب اگر برشعشا کے اجزاء کو ملا کر فوری طور پر استعمال کر لیا جائے تو وہ کوئی نفع نہیں دیں گے۔ برشعشا کا پورا نفع انسان کو اِسی صورت میں حاصل ہو گاجبکہ اسے چالیس دن تک غلّہ میں دفن رکھا جائے۔ اب دوائیں وہی ہوں گی جو چالیس دن پہلے ہوںگی مگر جو نفع چالیس دن غلّہ میں دفن کرنے کے بعد حاصل ہو گا وہ پہلے حاصل نہیں ہو گا۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ کیا حماقت ہے۔ جب دوائیں وہی ہیں تو مزید چالیس دن غلّہ میں دبانے سے کیا فائدہ؟ سو اصل بات یہ ہے وقت اپنی ذات میں بعض چیزوں کا ضروری جزو ہے۔ جب تک دواؤں کے ساتھ وقت کو نہ ملایا جائے دوا اچھی نہیں بنے گی۔ پس صرف دوائیں نہیں بلکہ دوائیں مع وقت اِس کا جزو بنتی ہیں۔ پھر بعض دوائیں ایسی ہیں جنہیں چھ ماہ کے لئے دفن کرنا پڑتا ہے اور اگر اُنہیں چھ ماہ بند کر کے نہ رکھا جائے تو کبھی فائدہ نہیں دیتیں۔ اِسی طرح بعض دوائیں سال سال اور بعض دو دو سال کے بعد کھانے کے قابل بنتی ہیں۔ وہی اجزا اگر اِسی وقت باہم ملا کر کھا لو تو ایسا فائدہ نہیں دیں گے لیکن اگر دو سال کے بعد کھاؤ تو تریاق بن جائیں گے۔تو بعض دوائیں اکیلی فائدہ نہیں دیتیں بلکہ وقت بھی اُن کے ساتھ شامل کیا جاتا ہے اور ایسی ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں اشیاء ہیں جن کا وقت خود ایک اہم جزو ہوتا ہے۔ کوئی نئی چیز ان میں داخل نہیں کی جاتی۔ صرف وقت ان کے ساتھ شامل کر لیا جاتا ہے اور وہ کچھ سے کچھ ہو جاتی ہیں اور جب وقت شامل نہیں ہوتا تو وہ مفید نہیں ہوتیں۔ یہی حال اﷲ تعالیٰ کی تعلیمات کا ہے۔ اِس کی بعض تعلیمیں بھی تبھی پختہ ہوتی ہیں اور تبھی اِن کا قوام عُمدہ اور اعلیٰ ہوتا ہے جب متواتر کئی نسلیں ان کو اختیار کرتی چلی جائیں۔ جب مسلسل کئی نسلیں ان تعلیموں پر عمل کرتی چلی جاتی ہیں تب وہ ایک نئی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور دُنیا کے لئے حیرت انگیز طور پر مفید بن جاتی ہیں۔ خصوصاً جو جماعت اور جو نظام جمالی رنگ میں ہو یعنی عیسوی سلسلہ کے اصول کے مطابق وہ ایک لمبے عرصہ کے بعد پختہ ہوتا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ دو دو تین تین سَو سال کے بعد اِسے پختگی حاصل ہوتی ہے۔ گویا اِس کی مثال ان اعلیٰ درجہ کی معجونوں یا برشعشا کی قسم کی دواؤں کی سی ہوتی ہے جو ایک ایسے عرصہ کے بعد اپنی خوبی ظاہر کرتی ہیں۔
ہمارا سلسلہ بھی عیسوی سلسلہ ہے اور اِس کی خوبیاں بھی تبھی ظاہر ہو سکتی ہیں جب ایک لمبے عرصہ تک انتظار کیا جائے۔ جس طرح بعض دواؤں کو ایک لمبے عرصہ تک دفن رکھ کر انہیں مفید بننے کا موقع دیا جاتا ہے اور اگر یہ موقع نہ دیا جائے تو اِس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ہم عمداً اِس دوائی کو خراب کرتے ہیں۔ اِسی طرح ضروری ہوتا ہے کہ جمالی تعلیموں کے نیک نتائج کا بھی لمبے عرصہ تک انتظار کیا جائے۔ مگر دواؤں میں سے تو کوئی دوائی زمین میں دفن کی جاتی ہے، کوئی جَو میں دفن کی جاتی ہے، کوئی گیہوں میں دفن کی جاتی ہے۔ مگر جمالی تعلیم ایک لمبے عرصہ تک اپنے دلوں میں دفن کی جاتی ہے۔ جب ایک لمبے عرصہ تک اِس تعلیم کو اپنے دلوں میں جگہ دی جائے تو یہ اعلیٰ درجہ کی معجون بن جاتی ہے۔ ایسی معجون جو تریاق ہوتی ہے اور جو مُردہ کو بھی زندہ کر دیتی ہے۔
پس قانونِ قدرت کا یہ نکتہ ہمیں بھُلا نہیں دینا چاہئے۔ نادانی کی وجہ سے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب اجزاء وہی ہیں تو وقت کی کیا ضرورت ہے۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے قانونِ قدرت میں ایسی کئی مثالیں رکھ دی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض چیزوں کے لئے وقت کی لمبائی بھی ایک جُزو ہوتی ہے۔ اِسی لئے میں نے جماعت میں مجلس خدام الاحمدیہ کی بُنیاد رکھی ہے۔ میری غرض اِس مجلس کے قیام سے یہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے دلوں میں دفن ہے اُسے ہوا نہ لگ جائے بلکہ وہ اِسی طرح نسلاً بعد نسلٍ دلوں میں دفن ہوتی چلی جائے۔ آج وہ ہمارے دلوں میں دفن ہے تو کل وہ ہماری اولاد کے دلوں میں دفن ہو اور پرسوں اُن کی اولاد کے دلوں میں۔ یہاں تک کہ یہ تعلیم ہم سے وابستہ ہو جائے اور ہمارے دلوں کے ساتھ چمٹ جائے اور ایسی صورت اختیار کر لے جو دُنیا کے لئے مفید اور بابرکت ہو۔ اگر ایک یا دو نسلوں تک ہی یہ تعلیم محدود رہی توکبھی ایسا پختہ رنگ نہ دے گی جس کی اِس سے توقع کی جاتی ہے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر مجالس خدام الاحمدیہ کا جو اجتماع ہؤا تھا اس میں مَیں نے خدام الاحمدیہ کو خصوصاً اور باقی جماعت کو عموماً اِس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ اِس کام میں خدام الاحمدیہ کی مدد کی جائے۔ پھر جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی مَیں نے دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ اِس جماعت کی مالی امداد کرنا یہ بھی ایک ثواب کا کام ہے۔ اور جن کو اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی ہوئی ہے اُن کا فرض ہے کہ وہ تھوڑی بہت جس قدر بھی مدد کر سکتے ہوں ضرور کریں تاکہ خدام الاحمدیہ عمدگی اور سہولت کے ساتھ اپنا کام کر سکیں۔ کئی نادان ہیں جو اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ انگریزوں کے فلاں کام تو خوب چلتے ہیں مگر ہمارے کام اِس طرح نہیں چلتے اور وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ ان کے کام کے تسلسل کے پیچھیباقاعدہ دفتر ہوتے ہیں، باقاعدہ کام کرنے والے ہوتے ہیں، باقاعدہ خط و کتابت، سفر اور اجتماعات وغیرہ کے لئے روپیہ ہوتا ہے اور جب سب چیزیں انہیں میسّر ہوں تو اُن کے کام کیوں نہ چلیں۔ مگر ہمارے ہاں نہ سرمایہ ہوتا ہے، نہ پورے وقت کے ایسے کارکن ہوتے ہیں جو تجربہ کارہوں اور نہ عام ضروریات کے لئے روپیہ ہوتا ہے اور پھر اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ لوگ متواتر کام نہیں کرتے۔
جب نیشنل لیگ قائم ہوئی تو اُس وقت بھی مَیں نے انہیں یہ نصیحت کی تھی کہ اب تو تم جوش میں یہ خیال کر لو گے کہ ہم سارا کام خود ہی کر لیں گے مگر کاموں کو جب بڑھایا جائے تو ضروری ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے مستقل عملہ ہو جو رات دن کام کرتا رہے تاکہ تسلسل قائم رہے۔ مگر انہوں نے میری بات کو اچھی طرح نہ سمجھااور نتیجہ یہ ہؤا کہ ان کے کام میں خرابی پیدا ہو گئی۔ قادیان میں اگر نیشنل لیگ کور کا کام کچھ لمبا چلا ہے تو اِس کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں ایک مستقل آدمی مقرر ہے جس کا فرض یہی ہے کہ وہ نیشنل لیگ کور کا کام کرے اور چونکہ مستقل طور پر یہ کام اس کے سپرد ہے اِس لئے لازماً اِسے اپنی توجہ اُس کام کی طرف رکھنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں نیشنل لیگ کور زیادہ کامیاب رہی ہے۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ ہر جگہ مستقل آدمی نہیں رکھے جاسکتے لیکن اگر بعض سرکل اور دائرے مقرر کردیئے جاتے اور ان میں نیشنل لیگ کے آدمی دَورہ کرتے رہتے تو یقینا ان کی کوششوں کے بہت زیادہ شاندار نتائج نکلتے مگر انہوں نے چونکہ اِس پہلو کو نظر انداز کر دیا اور اپنی قربانی اور ایثار پر حد سے زیادہ انحصار کر لیا اِس لئے ان کے کام میں خرابی واقع ہو گئی۔ حالانکہ بعض چیزیں اخلاص سے نہیں بلکہ نظام سے تعلق رکھتی ہیں اور جب تک نظام کی پابندی نہ ہو اُس وقت تک کامیابی نہیں ہوتی۔
تو مذہبی تعلیموں کی اشاعت کے لئے خصوصاً عیسوی نقش پر آنے والی اور جمالی رنگ اپنے اندر رکھنے والی تعلیموں کے لئے ایک لمبے عرصہ تک مسلسل اور متواتر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تسلسل تبھی قائم رہ سکتا ہے جب آئندہ اولادوں کی اصلاح کی جائے۔ جس شخص کے دل میں اخلاص پیدا ہو جائے وہ تو اپنی موت تک اِس راستہ کو نہیں چھوڑتا اور چاہے اُس کی گردن پر تلوار رکھ دی جائے وہ اپنی اولاد کی اصلاح کے خیال سے غافل نہیں رہتا۔ ہاں جب مر جائے تو پھر وہ اپنی اولاد کی اصلاح کا ذمّہ دار نہیں۔ ذمّہ داری صرف زندگی تک عائد ہوتی ہے۔ ورنہ جس دن کوئی شخص مر جائے اسی دن وہ اپنی ذمہ داری سے سُبکدوش ہو جاتا ہے اَور تو اَور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو خدا تعالیٰ کے ایک نبی ہیں اُن سے بھی قیامت کے دن جب اﷲ تعالیٰ پوچھے گا کہ کیا تُو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کا شریک ٹھہرایا جائے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہی جواب دیں گے کہ حضور جب تک مَیںزندہ رہا لوگوں کا ذمّہ دار رہا لیکن جب آپ نے مجھے وفات دے دی تو پھر مجھے کیا پتہ کہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔۲؎ اب دیکھو!حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک نبی ہیں مگر موت کے بعد لوگوںمیں کسی خرابی کے پیدا ہونے کی اُن پر بھی ذمہ داری نہیں لیکن اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد اُن کا کوئی مثیل کھڑا ہو جاتا جو لوگوں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جاتا یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کام اُن کے حواریوں کی اولادوں کی طرف منتقل ہو جاتا تو یقینا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی اِس قدر خرابی رونما نہ ہوتی جس قدر کہ خرابی رونما ہوئی۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اگر اسلا م میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی تو اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں میں سے آپ کو ایسی اولادیں عطا کی تھیں جنہوں نے اپنے باپ دادا کے کام کو سنبھال لیا اور وہ سلسلہ چلتا چلا گیا۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا اور یہی وعدہ ہے جو درحقیقت آپ کی سب سے بڑی فضیلت ہے کہ ۳؎ کہ ہم نے ہی اِس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ہمیشہ اِس کی حفاظت کریں گے اور تمہاری اولادوں میں سے ہی ایسے لوگ کھڑے کر دیں گے جو اسلام کے گرتے ہوئے جھنڈے کو سنبھال لیں گے اور اسلام کو ترقی اور عروج کی منزلوں تک لے جائیں گے۔ یہی وعدہ ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر عظمت اوربڑائی ثابت کرتا ہے۔ انبیاء سابقین کے کاموں کے تسلسل کے قیام کا کوئی ذریعہ نہیں تھا مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے نہ صرف خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا کہ قریب کے زمانہ میں تیری جماعت دین کی خدمت کرے گی بلکہ یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر آئندہ بھی کوئی خرابی پیدا ہو گئی تو تیری روحانی اولاد میں سے ہم کسی شخص کو کھڑا کر دیں گے اور وہ پھر تیری عظمت کو دُنیا میں قائم کر دے گا۔۴؎ چنانچہ اِس زمانہ میں جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو لوگوں نے بالکل بھُلا دیا، جب تعلیم اسلام سے وہ کوسوں دور جا پڑے، جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اولاد کہلانے والے اپنے آبائی مذہب کی تحقیر و تذلیل پر اُتر آئے تو مسلمانوں میں سے ہی ایک شخص کو اﷲ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا روحانی بیٹا قرار دے کر کھڑا کر دیا اور اُس نے پھر اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ قائم کر دیا۔ اب اگر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کی حفاظت کا یہ سامان نہ ہوتا اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت نہ ہوتی تو آج اسلام کی کونسی چیز باقی رہ گئی تھی؟ مگر اِس کامل تباہی میں سے زندگی کے آثار کس طرح پیدا ہوئے؟ اِسی طرح پیدا ہوئے کہ اﷲ تعالیٰ نے اُمتِ محمدیہ میں سے ایک شخص کو کھڑا کیا اور اُسے وہ تمام قوتیں دیں جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک روحانی بیٹے میں موجود ہونی چاہئیں۔ وہ آیا اور اُس نے اسلام کو اِس رنگ میں مذاہبِ عالم پر غالب اور برتر ثابت کیا کہ اب بجائے بڑھاپے کے اِس میں جوانی کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں اور دُنیا اِن جوانی کے آثار کو محسوس کر رہی ہے۔ کُجا تو وہ زمانہ تھا کہ لوگ کہتے تھے اب اسلام مٹا کہ مٹا اور کُجا یہ زمانہ ہے کہ اب لوگ تسلیم کررہے ہیں کہ اسلام حملہ آور ہو رہا ہے اور وہ مذاہب عالَم کی طرف بڑھتا چلا آرہا ہے۔
ہٹلر جو جرمنی کا ڈکٹیٹر ہے اُس نے کئی سال ہوئے جبکہ ابھی وہ برسرِ اقتدار نہیں آیا تھا ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ہے ’’میری جدوجہد‘‘ اِس کتاب میں اُس نے اپنے اغراض اور اپنی کوششوں کے مقاصد بیان کئے ہیں۔ یہ ایک نہایت عجیب اور لطیف کتاب ہے۔ مَیں مدت سے اِس کی تلاش میں تھا مگر مجھے ملتی نہ تھی۔ اب تو دو تین سال سے یہ کتاب ہندوستان میں آئی ہوئی ہے مگر اتفاق یہ ہے کہ یہ کتاب مجھے نہ ملی۔ اب کے جو مَیں لاہور گیا تو یہ کتاب مجھے مل گئی اور مَیں نے اسے پڑھا۔ مجھے اِس کتاب کے ایک فقرہ سے گو وہ حقیقت کو ذہن میں رکھ کر لکھا گیا معلوم نہیں ہوتا، مجھے بہت ہی مزہ آیا۔ کیونکہ اِس میں احمدیت کی طاقت کا اقرار کیا گیا ہے۔ ہِٹلر اِس کتاب میں عیسائیوں کے متعلق لکھتا ہے کہ وہ سخت غلط راستہ پر چل رہے ہیں اور وہ حکومتوں کو اِس بات پر مجبور کر رہے ہیں کہ وہ گرجاؤں کے معاملہ میں دخل دیں کیونکہ گرجا کے ارباب عقل سے کام نہیں لے رہے اور خواہ مخواہ حکومتوں کے معاملات میں دخل دے رہے ہیں۔ وہ لکھتا ہے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مذہب کو سیاست کا ہتھیار کیوں بنایا گیا ہے اور بجائے اِس کے کہ وہ مذہب کو مذہب کی حدود میں رکھتے اُنہوں نے اِسے سیاسی قوت کے حصول کا ایک ذریعہ بنالیا ہے اور انہی اغراض کے ماتحت لاکھوں مشنری ایشیا اور افریقہ میں پھیلا رکھے ہیں تاکہ ان کو سیاسی اقتدار حاصل ہو اور اس امر کا خیال نہیں کیا جاتا کہ کروڑوں عیسائی خود یورپ میں دہریہ ہیں۔ اِس سے صاف معلوم ہوتا ہے انہیں سچے مذہب کی اشاعت کی فکر نہیں بلکہ سیاسی طاقت کے حصول کی فکر ہے۔ اگر انہیں یہی خواہش ہوتی کہ لوگوں کو سچے مذہب کا راستہ بتایا جائے تو انہیں چاہئے تھا کہ بجائے غیروں کے وہ اپنوں کی فکر کرتے۔ مگر وہ اپنوں کی تو فکر نہیں کرتے اور دوسروں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مذہب ان کے مدّنظر نہیں۔ پھر اِس کے ساتھ ہی وہ لکھتا ہے کہ گویہ ایشیا اور افریقہ میں اپنا مذہب پھیلانے کی جدوجہد کر رہے ہیں مگر ایشیا اور افریقہ میں بھی ان کی کوششیں ناکام ہورہی ہیں کیونکہ وہاں مسلمان مشنری لوگوں کو اسلام میں واپس لا رہے ہیں اور عیسائی مشنریوں سے زیادہ کامیاب ہیں۔ اب وہ مشنری جو اسلام کی صحیح خدمت کر رہے ہیں اور عیسائیوں کا مقابلہ کر کے لوگوں کو پھر اسلام میں واپس لا رہے ہیں سوائے احمدیوں کے اَور کون ہیں؟
پس اِس فقرہ میں گو احمدیہ جماعت اس کے ذہن میںنہیں پھر بھی اُس نے جماعت احمدیہ کی طاقت کا اقرار کیا ہے اور وہ لکھتا ہے کہ ایشیا اور افریقہ میں جو لوگ اسلام کو پھیلا رہے اور لوگوں کو پھر اسلام میں واپس لا رہے ہیں اُن کی جدوجہد کے مقابل پر مسیحی مشنری ناکام ہو رہے ہیں۔ تو حق یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ظہور کے بعد جو تسلسل اسلام میں اﷲ تعالیٰ نے قائم کر دیا ہے اُس کا دنیا کے قلوب پر نہایت گہرا اثر ہے۔ یا تو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اسلام مٹا اور یا اب یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسلام میں دوبارہ زندگی پیدا ہو گئی ہے اور وہ پھر دوسرے مذاہب کا مقابلہ کرنے لگ گیا ہے۔ اِس عظیم الشان تغیّر پر جہاں ہمارا حق ہے کہ ہم خوش ہوں وہاں ہمیں یہ امر بھی کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ اگر ہم نے اِس تسلسل کو قائم نہ رکھا تو یہ ہماری موت کی علامت ہوگی۔ پس ضروری ہے کہ ہم اِس تسلسل کو قائم رکھیں۔ مصلح انبیاء ہمیشہ فاصلہ فاصلہ پر آیا کرتے ہیں اور یہ کام ان کی اُمتوں کا ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولادوں کی اصلاح کریں اور ان کے دلوں میں انبیاء کی تعلیمات کو مضبوطی سے گاڑ دیں اور اِس طرح مذہب کی طاقت کو بڑھاتے چلے جائیں۔ ایک لمبے عرصہ کے بعد جب عالمگیر تنزل ہو جائے تو اس وقت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مصلح نبی مبعوث ہؤا کرتا ہے اِس سے پہلے نہیں۔ہمارا جو زمانہ ہے یہ بھی ایسا نہیں کہ اِس میں جلدی ہی کوئی اور نبی مبعوث ہو۔ ہم اﷲ تعالیٰ کی طاقتوں کو محدود نہیں کرتے۔ اِس سے یہ کوئی بعید بات بھی نہیں کہ وہ کسی اَور نبی کو بھیج دے لیکن بظاہر یہ ایسا زمانہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس میں جماعت کو ایک نئے نبی کی قیادت میں کام کرنے کی بجائے خلفاء موعود وغیر موعود کی قیادت کے ماتحت کام کرنا ہو گا۔
پس ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں تک اسلام کی تعلیم کو محفوظ رکھتا چلا جائے اور درحقیقت اِسی غرض کے لئے مَیں نے خدام الاحمدیہ کی انجمن قائم کی ہے تا جماعت کو یہ احساس ہو کہ اولاد کی تربیت ان کا اہم ترین فرض ہے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ نکتہ ایسے اعلیٰ طور پر بیان فرمایا ہے کہ اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ یہ امر ہر شخص جانتا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی اصلاح میں سے مقدم اصلاح لڑکیوں کی ہوتی ہے کیونکہ وہ آئندہ نسل کی مائیں بننے والی ہوتی ہیں اور ان کا اثر اپنی اولاد پر بہت بھاری ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو قوم عورتوں کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتی اُس قوم کے مردوں کی بھی اصلاح نہیں ہوتی اور جو قوم مردوں اور عورتوں دونوں کی اصلاح کی فکر کرتی ہے وہی خطرات سے بالکل محفوظ ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِس نکتہ کو کیا ہی لطیف پیرایہ میں بیان فرمایا ہے۔ آپ ایک دفعہ مجلس میں بیٹھے تھے، صحابہ ؓ آپ کے گرد حلقہ باندھے تھے۔ آپ نے فرمایا جس مسلمان کے گھر تین لڑکیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرے تو اُس مسلمان کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جنت واجب ہو جاتی ہے۔۵؎ اب بظاہر کوئی ایسا شخص جو قومی ترقی کے اصول سے ناواقف ہو کہہ سکتا ہے کہ یہ کونسی بات ہے۔ بھلا تین لڑکیوں کی اصلاح سے جنت مل سکتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ تین لڑکیوں کی تربیت کوئی ایسی اہم بات نہیں حالانکہ جو شخص تین لڑکیوں کی اچھی تربیت کرتا ہے وہ صرف تین کی ہی تربیت نہیں کرتا بلکہ ہزاروں لاکھوں اسلام کے خادم پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ وہ لڑکیاں اچھے لڑکے پیدا کرنے کا موجب بنیں گی اور وہ لڑکے اسلام کے لئے اچھے قربانی کرنے والے ثابت ہوں گے۔ آجکل لوگوں کی یہ عادت ہے کہ وہ ایک کان سے بات سُنتے اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔ مگر صحابہ ؓ پر اﷲ تعالیٰ بے انتہا کرم نازل فرمائے اُن میں یہ ایک ایسی خوبی تھی کہ اِسے دیکھ کر دل عش عش کر اُٹھتا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے چھوٹے سے چھوٹے فقرہ کی بھی بڑی قدر کرتے تھے۔ اب یہی روایت جو مَیں نے بیان کی ہے اِس زمانہ کے لوگ اسے سُنیں تو اکثر ایک کان سے سُن کر دوسرے سے باہر نکال دیں گے۔ گویا کوئی بات ہی نہیں ہوئی بلکہ ممکن ہے بعض یہ اعتراض شروع کر دیں کہ بھلا تین لڑکیوں کا جنت سے کیا تعلق؟ اور جو اِس حدیث سے لذّت بھی پائیں گے، وہ اِس کی حقیقت پر غور نہیں کریں گے۔ مگر صحابہ ؓ جو اِس بات کے مُشتاق رہا کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی چھوٹی سے چھوٹی بات سے بھی فائدہ اُٹھائیں اُنہوں نے جب یہ بات سُنی تو وہ جن کی تین لڑکیاں تھیں وہ اِس خوشی سے بیتاب ہو گئے کہ ان کی اچھی تربیت کر کے جنت کے حق دار بن جائیں گے۔ مگر وہ جن کی تین لڑکیاں نہیں تھیں بلکہ دو تھیں اُن کے چہروں پر افسردگی چھا گئی اور اُنہوں نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اﷲ! اگر کسی کی دو لڑکیاں ہوں ۔ آپ نے فرمایا اگر کسی کی دو لڑکیاں ہوں اور وہ اِن دونوں کی اچھی تربیت کرے تو اُس کے لئے بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جنت واجب ہو جاتی ہے۔۶؎ جب آپ ؐ نے یہ بات فرمائی تو وہ لوگ جن کی صرف ایک لڑکی تھی وہ افسردہ اور مغموم ہو گئے اور اُنہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اﷲ! اگر کسی کی دو لڑکیاں نہ ہوں بلکہ صرف ایک لڑکی ہو تو وہ کیا کرے۔ آپ ؐ نے فرمایا اگر کسی کی ایک ہی لڑکی ہو اور وہ اُسے اچھی تعلیم دے اور اُس کی اچھی تربیت کرے تو اُس کے لئے بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جنت واجب ہو جاتی ہے۔۷؎ گویا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِس حدیث کے ذریعہ یہ نکتہ ہم کو بتایا کہ قومی نیکیوں کے تسلسل کو قائم رکھنا انسان کو جنت کا مستحق بنا دیتا ہے۔ کیونکہ جو قومی تسلسل قائم رکھتا ہے وہ دُنیا میں ہی ایک جنت پیدا کرتا ہے اور یہی قرآن کریم نے بتلایا ہے کہ جسے اِس دنیا میں جنت ملی اُسے ہی اگلے جہان میں جنت ملے گی۔۸؎ جو اِس جہان میں اندھا رہا وہ اگلے جہان میں بھی اندھا رہے گا۔ ۹؎اور جو اِس جہان میں آنکھوں والا ہے وہی اگلے جہان میں بھی بینا آنکھوں والا ہے۔تو جو شخص اپنی لڑکی کی اچھی تربیت کرتا ہے اُس میں دین کی محبت پیدا کرتا ہے اور اُسے خدا تعالیٰ کے احکام کا فرمانبردار بناتا ہے وہ ایک لڑکی کی تربیت نہیں کرتا بلکہ ہزاروں نیک اور پاک خاندان پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پس چونکہ وہ دُنیا میں نیکی کا ایک محل تیار کرتا ہے اِس لئے اﷲ تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ چونکہ اِس نے اسلام کے مکان کی حفاظت کا سامان مہیّا کیا ہے اِس لئے مَیں بھی قیامت کے دن اِس کے لئے ایک عُمدہ محل تیار کروں گا۔ تو اپنی اولادوں کی مسلسل تربیت کو جاری رکھنا ایک اہم سوال ہے اور لڑکوں اور لڑکیوں میں سے لڑکیوں کی تربیت کا سوال زیادہ اہمیت رکھتا ہے مگر چونکہ لڑکیوں نے نوکریاں نہیں کرنی ہوتیں اِس لئے بالعموم لوگ اُن کی تعلیم و تربیت سے غافل رہتے ہیں یا اگر توجہ بھی کرتے ہیں تو زیادہ توجہ نہیں کرتے حالانکہ انہی لڑکیوں نے آئندہ نسلوں کی ماں بننا ہوتا ہے اور چونکہ یہ کل کو مائیں بننے والی ہوتی ہیں اِس لئے ضروری ہوتا ہے کہ اِن کی تعلیم و تربیت کی طرف زیادہ توجہ کی جائے۔ اگر مائیں درست ہوں گی تو لڑکے آپ ہی درست ہو جائیں گے اور اگر ماؤں کی اصلاح نہ ہو گی تو لڑکوں کی بھی اصلاح نہیں ہو گی۔ اِسی ضرورت کو مدّنظر رکھتے ہوئے مَیں نے مدرسہ بنات کی تعلیم کے متعلق خاص طور پر زور دیا تھا اور مَیں نے کہا تھا کہ اِس کے نصاب کو بدل دینا چاہئے اور لڑکیوں کو ایسی تعلیم دینی چاہئے جس کے نتیجہ میں اِن میں قومی روح پیدا ہو اور اسلام کی محبت اِن کے قلوب میں موجزن ہو۔ شروع شروع میں تو کچھ لوگوں نے میری مخالفت کی یا ان کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا چاہئے کہ اُنہوں نے اِسے پسند نہ کیا اور کئی سال تک مجلس شوریٰ کے پروگرام سے یہ معاملہ پیچھے ہٹتا چلا گیا مگر آخر جب مَیں نے زیادہ زور دیا تو اس وقت جماعت میں یہ احساس پیدا ہؤا کہ مدرسۂ بنات میں اصلاح ہونی چاہئے۔ چنانچہ وہ اصلاح کی گئی اور اس کا نہایت ہی خوشگوار نتیجہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اب نظر آنے لگ گیا ہے اور لڑکیوں میں دینی تعلیم بہت حد تک ترقی کر گئی ہے بلکہ بعض دفعہ لڑکیوں کے مضامین دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے کیونکہ وہ بہت سے لڑکوں کے مضامین سے بھی اچھے ہوتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور کارکنان نے میری اِس سکیم کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف اپنی زیادہ سے زیادہ توجّہ مبذول رکھی تو اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اِس کے نہایت ہی خوشکن نتائج پیدا ہوں گے لیکن ابھی تک یہ تعلیم قادیان تک ہی محدود ہے اور بیرونجات کی احمدی لڑکیاں اِس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتیں۔ اِس کے لئے ضروری ہے کہ قادیان میں لڑکیوں کے لئے جلد سے جلد ایک بورڈنگ ہاؤس قائم کیا جائے جس میں بیرونجات کی لڑکیاں آکر ٹھہرسکیں اور وہ مدرسہ بنات سے دینی تعلیم حاصل کر سکیں۔ دوسرے یہ بھی ضروری ہے کہ اِس مدرسہ کی بیرونجات میں شاخیں کھولی جائیں تاکہ اُن میں بھی انہی اصول پر تعلیم کا سلسلہ جاری ہو جن اصول پر قادیان میں جاری ہے تاکہ وہ اچھی مائیں بنیں اور اچھی نسلیں پیدا کر کے ان کی احمدیت کے نقطۂ نگاہ سے پرورش کر سکیں۔ اِسی طرح لڑکوں کی تربیت کے لئے مَیں نے مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے یہ جماعت اچھا کام کر رہی ہے گو اتنا اچھا نہیں جتنا قومی وسعت کے لحاظ سے ضروری ہے بلکہ اِس کا سینکڑواں حصّہ بھی نہیں۔
ابھی سینکڑوں ایسی جماعتیں ہیں جہاں مجالس خدام الاحمدیہ قائم نہیں اور سینکڑوں کام ہیں جو ابھی اُنہوں نے کرنے ہیں، ابھی تک صرف بیسیوں جماعتیں بنی ہیں اور وہ بھی پوری طرح کام نہیں کر رہیں اور جو کر رہی ہیں وہ اپنے کام کی اہمیت کو نہیں سمجھیں۔ درحقیقت اِس وقت تک صرف دس پندرہ جماعتیں ہی ہیں جو اچھا کام کر رہی ہیں لیکن بہرحال اِس کام کی بنیاد پڑ گئی ہے اور جب کسی کام کی بنیاد پڑ جائے تو ضرورت پر اسے زیادہ وسیع بھی کیا جاسکتا ہے۔
مَیں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی اور اب پھر جماعتوں کے پریذیڈنٹوں، سیکرٹریوں اور دوسرے تمام افراد کو توجّہ دلاتا ہوں کہ وہ خدام الاحمدیہ کے ساتھ تعاون کریں اور نوجوانوں کو اِس بات پر مجبور کریں کہ وہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہوں۔ اِسی طرح ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اِس میں داخل کریں تا اُن کی اچھی تربیت ہو۔ جب تک ماں باپ اور جماعتوں کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اِس طرف توجّہ نہیں کریں گے، جب تک وہ خدام الاحمدیہ کو کوئی اور چیز سمجھیں گے اور اپنے آپ کو کوئی اور چیز سمجھیں گے اس وقت تک پوری کامیابی نہیں ہو سکتی۔ پس ضروری ہے کہ ماں باپ بھی اپنی ذمّہ داری کو سمجھیں اور جماعتیں بھی اپنے فرض کو سمجھیں اور جو لوگ اِس میں داخل نہیں انہیں مجبور کریں کہ وہ اِس میں داخل ہوں اور جو داخل ہو چکے ہیں ان کی نگرانی کریں کہ آیا وہ پروگرام کے مطابق عمل کرتے ہیں یا نہیں؟
عورتوں کی تربیت کے لحاظ سے مَیں نے اِس کی دوسری شاخ لجنہ اماء اﷲ کے نام سے قائم کی ہوئی ہے۔ یہ لجنہ صرف دو جگہ اچھا کام کر رہی ہے ایک قادیان میں دوسرے سیالکوٹ میں۔ قادیان میں لجنہ کا زیادہ تر کام جلسے کرانا سلسلہ کے کاموں سے عورتوں کو واقف رکھنا، صنعت و حرفت کی طرف غریب عورتوں کو متوجہ کرنا اور انہیں کام پر لگانا ہے۔ یہ کام گو آہستہ آہستہ ہو رہا ہے لیکن اگر استقلال اور ہمت سے اِس کام کو جاری رکھا گیا تو مَیں اُمید کرتا ہوں کہ وہ بیواؤں اور یتامیٰ کا مسئلہ حل کرنے میں کسی دن کامیاب ہو جائیں گی۔ لجنہ کے اِس کام میں تاجروں کی امداد کی بھی ضرورت ہے۔ انہیں چاہئے کہ لجنہ جو چیزیں بنوائے وہ انہیں بیچ دیا کریں۔ اِس میں ان کا بھی فائدہ ہو گا کیونکہ آخر وہ نفع ہی پر بیچیں گے اور غرباء کا بھی فائدہ ہے کہ ان کے گزارہ کی صورت ہوتی رہے گی۔ مَیں چاہتا ہوں کہ اس کام کو اتنا وسیع کیا جائے کہ نہ صرف قادیان میں بلکہ بیرونی جماعتوں میں بھی کوئی بیوہ اور غریب عورت ایسی نہ رہے جو کام نہ ملنے کی وجہ سے بھوکی رہتی ہو۔ ہمارے مُلک میں یہ ایک بہت بڑا عیب ہے کہ وہ بھوکا رہنا پسند کریں گے مگر کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جس کی اصلاح ہونی چاہئے اور یہ اصلاح اِسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ہر شخص یہ عہد کرے کہ وہ مانگ کرنہیں کھائے گابلکہ کما کر کھائے گا۔ اگر کوئی شخص کام کو عیب سمجھتا اور پھر بھوکا رہتا ہے تو اس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں لیکن اگر ایک شخص کام کے لئے تیار ہو لیکن بوجہ کام نہ ملنے کے وہ بھوکا رہتا ہو تو یہ جماعت اور قوم پر ایک خطرناک الزام اور اِس کی بہت بڑی ہتک اور سُبکی ہے۔ پس کام مہیّا کرنا جماعتوں کے ذمّہ ہے لیکن جو لوگ کام نہ کریں اور سُستی کر کے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالیں ان کی ذمہ داری جماعت پر نہیں بلکہ ان کے اپنے نفسوں پر ہے کہ اُنہوں نے باوجود کام ملنے کے محض نفس کے کَسل کی وجہ سے کام کرنا پسند نہ کیا اور بھوکا رہنا گوارا کر لیا۔
میرا پروگرام یہ ہے کہ لجنہ کا کام جب یہاں کامیاب ہو جائے تو باہر بھی اِسے جاری کیا جائے یہاں تک کہ کوئی بیوہ اور یتیم عورت ایسی نہ رہے جو خود کام کر کے اپنی روزی نہ کماتی ہو۔ اِس جدوجہد میں اگر ہم کامیاب ہو جائیں تو پھر انہی لوگوں کا بار جماعت پر رہ جائے گا جو بالکل ناکارہ ہیں۔ جیسے اندھے ہوئے یا لُولے اور اپاہج ہوئے۔گو ہر اندھا ناکارہ نہیں ہوتا بلکہ کئی اندھے بھی بڑے بڑے کام کر سکتے ہیں۔ بہرحال جس حد تک اندھوں وغیرہ کے لئے بھی کام مہیّا ہو سکتا ہو اس حد تک ہمیں ان کے لئے بھی کام مہیا کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ وہ خود کام کر کے کھائیں مگر اِس معاملہ میں محلّوں کے پریذیڈنٹوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اگر محلّوں کے پریذیڈنٹ مختلف مقررین سے اپنے اپنے محلہ میں وقتاً فوقتاً ایسے لیکچر دلاتے رہاکریں کہ نکمّا بیٹھ کر کھانا نہایت غلط طریق ہے۔ کام کر کے کھانا چاہئے اور کسی کا م کو اپنے لئے عار نہیں سمجھنا چاہئے۔ تو اُمید ہے کہ لوگوں کی ذہنیت بہت کچھ تبدیل ہو جائے۔ مَیں نے دیکھا ہے قادیان میں بھی ایک اچھا خاصا طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جنہیں جب کوئی کام دیا جاتا ہے توکہتے ہیں کہ اِس کام کے کرنے میں ہماری ہتک ہے۔ حالانکہ ہتک کام کے کرنے میں نہیں بلکہ نکمّا بیٹھ کر کھانے میں ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ لوگوں سے مانگ کر کھانا ایک *** ہے۔ایک دفعہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے کچھ مانگا (بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم کسی غیر سے تھوڑا مانگتے ہیں۔ ہم تو سلسلہ سے مانگتے ہیں۔ اِس کا جواب اِسی واقعہ میں آجاتا ہے۔ جو مَیں بیان کرنے لگا ہوں کیونکہ اِس نے بھی کسی غیر سے نہیں بلکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے مانگا تھا) آپ نے اِسے کچھ دے دیا۔ وہ لے کر کہنے لگا یَارَسُوْلَ اﷲ! کچھ اَور دیجئے۔ آپ نے پھر اِسے کچھ دے دیا۔ وہ پھر کہنے لگا۔ یَارَسُوْلَ اﷲ! کچھ اَور دیجئے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُسے فرمایا کیا مَیں تم کو کوئی ایسی بات نہ بتاؤں جو تمہارے اِس مانگنے سے بہت زیادہ بہتر ہے؟ اس نے کہا کیوں نہیں یَارَسُوْلَ اﷲ فرمائیے کیا بات ہے۔ آپ نے فرمایا سوال کرنا خدا تعالیٰ کو پسند نہیں۔ تم کوشش کرو کہ تمہیں کوئی کام مل جائے اور کام کر کے کھاؤ۔ یہ دوسروں سے مانگنے اور سوال کرنے کی عادت چھوڑ دو۔ اِس نے کہا یَارَسُوْلَ اﷲ! مَیں نے آج سے یہ عادت چھوڑ دی۔۱۰؎ چنانچہ واقع میں پھر اِس نے اِس عادت کو بالکل چھوڑ دیا اور یہاں تک اِس نے استقلال دکھایا کہ جب اسلامی فتوحات ہوئیں اور مسلمانوں کے پاس بہت سا مال آیا اور سب کے وظائف مقرر کئے گئے تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسے بلوایا اور کہا یہ تمہارا حصہ ہے تم اِسے لے لو۔ وہ کہنے لگا مَیں نہیں لیتا مَیں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے یہ اقرار کیا تھا کہ مَیں ہمیشہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاؤں گا۔ سو اِس اقرار کی وجہ سے مَیں یہ مال نہیں لے سکتا کیونکہ یہ میرے ہاتھ کی کمائی نہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا یہ تمہارا حصّہ ہے، اِس کے لینے میں کوئی حرج نہیں۔ وہ کہنے لگا خواہ کچھ ہو مَیں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے اقرار کیا ہؤا ہے کہ مَیں بغیر محنت کئے کوئی مال نہیں لوں گا۔ مَیں اب اِس اقرار کو مرتے دم تک پورا کرنا چاہتا ہوں اور یہ مال نہیں لے سکتا۔ دوسرے سال حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ نے پھر اِسے بُلایا اور فرمایا کہ یہ تمہارا حصّہ ہے اِسے لے لو۔ مگر اِس نے پھر کہا مَیں نہیں لوں گا۔ مَیں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے اقرار کیا ہؤا ہے کہ مَیں محنت کر کے مال کھاؤں گا۔ یونہی مُفت میں کسی جگہ سے مال نہیں لوں گا۔ تیسرے سال اُنہوں نے پھر اُس کا حصّہ دینا چاہا مگر اُس نے پھر انکار کر دیا۔ پھرحضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ فوت ہو گئے تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ خلیفہ ہوئے۔ اُنہوں نے بھی ایک دفعہ اُسے بُلایا اور کہا یہ تمہارا حصّہ ہے لے لو۔ وہ کہنے لگا مَیں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے عہد کیا تھا کہ مَیں کبھی سوال نہیں کروں گا اور ہمیشہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاؤں گا یہ مال میرے ہاتھ کی کمائی نہیں اِس لئے مَیں اِسے نہیں لے سکتا اور مَیں ارادہ رکھتا ہوں کہ اپنی موت تک اِس اقرار کو نباہتا چلا جاؤں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے بہت اصرار کیا مگر وہ انکار کرتا چلا گیا۔ آخر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا اے مسلمانو! مَیں خدا کے حضور بری الذّمہ ہوں۔ مَیں اِس کا حصّہ اِسے دیتا ہوں مگر یہ خود نہیں لیتا۔ ۱۱؎
اِسی صحابی کے متعلق یہ ذکر آتا ہے کہ ایک جنگ میں یہ گھوڑے پر سوار تھے کہ اچانک اُن کا کوڑا اِس کے ہاتھ سے گر گیا۔ ایک اَور شخص جو پیادہ تھا اُس نے جلدی سے کوڑا اُٹھا کر اُنہیں دینا چاہا تو اُنہوں نے کہا اے شخص! مَیں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کہ تو اِس کوڑے کو ہاتھ نہ لگائیو کیونکہ مَیں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ اقرار کیا ہؤا ہے کہ مَیں کسی سے سوال نہیں کروں گا اور خود اپنا کام کروں گا۔ چنانچہ عین جنگ کی حالت میں وہ اپنے گھوڑے سے اُترے اور کوڑے کو اُٹھا کر پھر اِس پر سوار ہو گئے۔ ۱۲؎
تو لوگوں کو بتانا چاہئے کہ مانگ کر کھانا ایک بہت بڑا عیب ہے تاکہ اِس نقص کی اصلاح ہو۔ بعض نادان اِس موقع پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم غرباء کی مدد سے گریز کرتے ہیں حالانکہ یہاں گریز کا کوئی سوال ہی نہیں۔ ہمارے پاس حکومت تو ہے نہیں کہ جبراً لوگوں پر ٹیکس عائد کرکے اپنے خزانے بھر لیں اور پھر اِنہیں لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو ذمّہ داریاں خلفائے اوّل پر عائد تھیں وہ ہم پر نہیں۔ اُن کے پاس اموال قانونی طور پر آتے تھے مگر ہمارے پاس اِس رنگ میں اموال نہیں آتے بلکہ ایسے اموال حکومتِ ہند کے خزانہ میں جاتے ہیں۔ پس ہم مجبور ہیں کہ مال کی تقسیم میں احتیاط سے کام لیں لیکن اگر بالفرض اِس رنگ میں اموال آتے بھی ہوں تو سوال یہ ہے کہ کیا مَیں نے وہ مال کھا لینا ہے؟ اِس مال نے تو بہرحال سلسلہ پر خرچ ہونا ہے تو مجھے اِس بات کا کیا شوق ہے کہ مَیں زید کو دُوں اور بکر کو نہ دوں یا مجھے اِس سے کیا ہے کہ وہ روپیہ ریویو آف ریلیجنز پر خرچ ہوتا ہے یا کسی غریب شخص پر خرچ ہوتا ہے۔ اگر اسلام کا فائدہ اِس میں ہے کہ سلسلہ کا روپیہ ایک غریب کو مل جائے تو اِس میں مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ میری غرض تو اِس قسم کی نصائح سے یہ ہے کہ ہماری جماعت کے اخلاق بلند ہو جائیں اور اِس میں عزّتِ نفس کا مادہ پیدا ہو جائے اور لوگ یہ سمجھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے نفس کو بھی کوئی شرف بخشا ہؤا ہے اور اِن کا فرض ہے کہ وہ اِس کی قدر و قیمت کو سمجھتے ہوئے بِلا وجہ اِس کی تحقیر نہ کریں۔یہ رُوح ہے جو مَیں جماعت میں پیدا کرنا چاہتا ہوں اور یہی وہ تعلیم ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی۔
پسیہ روپیہ مجھے تو نہیں ملتا کہ مجھے یہ فکر ہو کہ فلاں کو نہ ملے اور فلاں کو مل جائے۔ اگر یہ روپیہ مجھے ملتا تو کسی کو بد ظنی کا موقع مل سکتا تھا اور وہ خیال کر سکتا تھا کہ شاید مَیں نے اپنے ذاتی فائدہ کے لئے دوسروں کو اِس سے محروم کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ مگر جب یہ روپیہ میرے پاس نہیں آتا نہ میری ضروریات پر خرچ ہوتا ہے تو مجھے اِس میں ذاتی دلچسپی کیا ہو سکتی ہے؟
پس مجھے ذاتی دلچسپی اِس میں کوئی نہیں ہاں اتنی دلچسپی ضرور ہے کہ مَیں چاہتا ہوں جماعت کے اخلاق بہت بُلند ہوں اور وہ دوسروں سے مانگنے کی عادت ترک کر دیں۔ پس پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کو چاہئے کہ وہ جماعت کے دوستوں کے سامنے یہ مسائل واضح کرتے رہا کریں۔ مَیں نے دیکھا ہے اِسی نقص کی وجہ سے کہ لوگوں کو مسائل بتائے نہیں جاتے۔ قادیان میں مردوں اور عورتوں کو بِلا وجہ سوال کرنے کی عادت ہے اور بجائے کام کرنے کے وہ مانگ کر کھا لینا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں حالانکہ ہمیشہ کام کر کے کھانے کی عادت ڈالنی چاہئے اور یہی عادت ہے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ ہاں جہاں کام نہ ملتا ہو وہاں کام مہیّا کرنا پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کا کام ہے لیکن جب کام مل جائے تو پھر اِس کے کرنے میں کوئی عذر نہیں ہونا چاہئے۔
پس کام مہیا کرنا ہمارا کام ہے۔ گو پھر حکومت نہ ہونے کی وجہ سے ہم پوری طرح اِس فرض کو سر انجام نہیں دے سکتے مگر پھر بھی ہمارا فرض ہے کہ جس حد تک ہم کام مہیا کر سکتے ہوں اُس حد تک جماعت کے دوستوں کے لئے کام مہیّا کریں۔ مَیں نے بتایا ہے کہ لجنہ اِس سلسلہ میں عورتوں کے متعلق مفید کام کر رہی ہے اور مَیں چاہتا ہوں کہ آہستہ آہستہ مجلس خدام الاحمدیہ بھی یہ کام اپنے لائحہ عمل میں شامل کر لے اور بے کار مَردوں کے متعلق اِن کا یہ فرض ہو کہ وہ ان کے لئے کام مہیا کریں۔ بظاہر یہ کام مُشکل ہے لیکن اگر وہ سمجھ سے کام لیں گے اور غور کرنے کی عادت ڈالیں گے تو وہ کئی ایسی سکیمیں بنا سکیں گے جن کے ماتحت بیکاروں کو کام پر لگایا جاسکے گا۔ جب اِس قسم کے بے کار لوگ کام پر لگ جائیں گے تو اِس سے نہ صرف بے کاروں کو فائدہ پہنچے گا بلکہ سلسلہ کو بھی مالی لحاظ سے فائدہ پہنچے گا کیونکہ وہ چندے دیں گے اور اِس طرح سلسلہ کو مضبوطی حاصل ہو گی۔
پس یہ اِس شخص کا ہی نہیں بلکہ سلسلہ کا بھی فائدہ ہے۔ یہ ایک اہم کام ہے جس کی طرف جماعتوں کے پریذیڈنٹوں، سیکرٹریوں اور مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبران کو توجّہ کرنی چاہئے۔ اِسی طرح مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبران کو چاہئے کہ وہ ایک پروگرام بنا کر اِس کے ماتحت کام کیا کریں۔ یونہی بغیر سوچے سمجھے کام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ وہ اب بھی ہاتھ سے کام کرتے ہیں مگر وہ کام کسی پروگرام کے مطابق نہیں ہوتا۔ حالانکہ جس طرح بجٹ تیار کئے جاتے ہیں اِسی طرح انہیں اپنے کام کے پروگرام وضع کرنے چاہئیں مثلاً ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے اِس بارہ میں یونہی بغیر پروگرام کے اِدھر اُدھر کام کرتے پھرنے کی بجائے اگر وہ کسی ایک سڑک کو لے لیں اور اپنے پروگرام میں یہ بات شامل کر لیں کہ اُنہوں نے اِس سڑک پر بھرتی ڈال کر اِسے ہموار کرنا اور اِس کے گڑھوں کو پُر کرنا ہے یا اِسی طرح کا کوئی اَور کام اپنے ذمہ لے لیں اور اِسے وقت معیّن کے اندر مکمل کریں تو یہ بہت عُمدہ نتیجہ پیدا کرے گا بہ نسبت اِس کے کہ بغیر ایک معیّن پروگرام کے وہ کام کرتے جائیں۔ مگر یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ بھرتی کے کیا معنے ہیں۔ گزشتہ سال جلسہ سالانہ پر چوہدری ظفراﷲ خان صاحب آئے تو اُنہوں نے مجلس خدام الاحمدیہ کے اراکین سے کہا کہ اب کی دفعہ جب کام کرو تو مجھے بھی بُلالینا۔ چنانچہ اُنہوں نے اِنہیں بُلالیا اور وہ بھی ہاتھ سے کام کرتے رہے مگر چوہدری صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کے ساتھ مل کر کام کرنے میں مجھے معلوم ہؤا کہ ان کے کام میں ایک نقص بھی ہے اور وہ یہ کہ سڑک پر جب وہ مٹی ڈال رہے تھے تو سڑک کے پاس ہی ایک گڑھا کھود کر وہاں سے مٹی لے آتے تھے۔ مَیں نے انہیں کہا کہ اِس کا تو یہ مطلب ہے کہ آج آپ سڑک کے گڑھے پُر کریں اور کل آپ اُن گڑھوں کو پُر کرنے لگ جائیں جو اِس سڑک پر مٹی ڈالنے کے لئے آپ نے کھودلئے ہیں۔ تو یہ ایک نقص ہے جو خدا م الاحمدیہ کے کام میں ہے اور اِسے دور کرنا چاہئے مگر اِس کے علاوہ ضروری بات یہ ہے کہ وہ ایک سڑک یا ایک گلی لے لیں اور اِس کی صفائی اور مرمّت اِس حد تک کریں کہ اِس سڑک یا گلی میں کوئی نقص نہ رہے۔ مثلاً وہ ایک سڑک کو درست کرنا چاہتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ انجینئروں سے مشورہ لیں اور ان سے پوچھیں کہ یہ سڑک کس طرح درست ہو سکتی ہے۔ پھر جو طریق وہ بتائیں اور جو نقشہ انجینئر تجویز کریں اُس کے مطابق وہ اِس سڑک کی درستی کریں اور چھ مہینے یا سال جتنا وقت بھی اِس پر صرف ہو اتنا وقت اِس پر صرف کیا جائے اوراِس سڑک کو انجینئر کے بتائے ہوئے نقشہ کے مطابق درست کیا جائے مگر اب یہ ہوتا ہے کہ چند مٹی کی ٹوکریاں ایک گڑھے میں ڈال دی جاتی ہیں اور چند دوسرے گڑھے میں اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ کوئی کام ہؤا ہے۔ پس پہلی ہدایت تو یہ ہے کہ کوئی ایک کام شروع کیا جائے اور اُسے ایسا مکمل کیا جائے کہ کوئی انجینئر بھی اِس میں نقص نہ نکال سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مَیں نے دیکھا ہے کہ دوسرے آدمیوں سے کوئی کام نہیں لیا جاتا حالانکہ خدام الاحمدیہ کے کام کرنے کے یہ معنی نہیں کہ دوسروں کے لئے اِس میں حصّہ لینا ممنوع ہے۔ جو لوگ میرے خطبات سُنا کرتے ہیں وہ اِس بات کو جانتے ہیں کہ مَیں نے امور عامہ کو بار بار ہاتھ سے کام کرنے کے پروگرام کی طرف توجہ دلائی ہے۔ بلکہ بعض دفعہ مَیں نے اتنی سختی سے کام لیا ہے کہ مَیں سمجھتا ہوں اگر اِن میں ذرا بھی حِس ہوتی تو وہ اِس کام کی طرف ضروری توجہ کرتے۔ مگر سال گزر گیا اور ابھی تک وہ ایسی نیند سوئے پڑے ہیں کہ اُٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ امور عامہ کی غفلت کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ہم لوگ جن کا دل چاہتا ہے کہ رفاہِ عام کے کاموں میں حصّہ لیں اِس سے محروم رہتے ہیں اور کوئی کام نہیں کر سکتے۔ پس چونکہ امور عامہ سویا پڑا ہے اِس لئے مَیں مجلس خدام الاحمدیہ کو توجّہ دلاتا ہوں کہ وہ صرف ممبران سے ہی کام نہ لیا کریں بلکہ بعض دنوں میں وہ عام اعلان کر کے باقی جماعت کے دوستوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا کریں بلکہ وہ کام کرنے کے لئے مجھے بھی بُلا لیا کریں۔ آخر اگر ہاتھ سے کام کرنا ثواب ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم دوسروں کو تو کہیں کہ اِس ثواب میں حصّہ لیں مگر خود اِس ثواب میں شامل نہ ہوں۔ یہ تو منافقت ہو گی کہ ہم دوسروں کو تو کہیں کہ فلاں کام بڑا اچھا ہے مگر خود گھر میں بیٹھ رہیں۔ ہاں اگراِس کام سے زیادہ بہتر اور زیادہ ضروری کام ہم کوئی کر رہے ہوں تو اِس صورت میں بے شک اِس کام میں حصّہ نہ لینا حرج کی بات نہیں لیکن اگر اَور کوئی ایسا ضروری کام نہ ہو تو میرے نزدیک اِس وقت ہر چھوٹے بڑے کو اِس کام میں حصّہ لینا چاہئے اور مَیں چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کے ممبران اپنے کام میں ہمیں بھی شمولیت کا موقع دیں اور یہ مَیں اِس لئے کہہ رہاہوں کہ امور عامہ سویا ہؤا ہے اور اُسے اِس طرف کوئی توجہ نہیں۔ میرے نزدیک مجلس خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ مہینہ دو مہینہ میں ایک دن ایسا مقرر کر دیں جس میں ساری جماعت کو شمولیت کی دعوت دیں بلکہ میرے نزدیک شاید یہ زیادہ مناسب ہو گا کہ بجائے ایک گھنٹہ کام کرنے کے سارا دن کام کے لئے رکھا جائے۔ ایک گھنٹہ کا تجربہ کوئی ایسا مفید ثابت نہیں ہؤا۔
پس آئندہ کے لئے بجائے ایک گھنٹہ کے سارا دن رکھا جائے اور کوشش کی جائے کہ مہینہ دو مہینہ میں ایک دن تمام لوگ اِس کام میں شریک ہوں بلکہ میرے نزدیک لوگوں کی سہولت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ زیادہ مناسب ہو گا کہ دو مہینہ میں ہی ایک دن ایسا رکھا جائے جس میں تمام لوگ صبح سے شام تک اپنے ہاتھ سے کام کریں۔ اِس طرح سال میں چھ دن بن جاتے ہیں۔ اِس کے لئے یا تو جمعہ کا دن رکھ لیا جائے کہ اِس دن دفاتر میں چھٹی ہوتی ہے اور یا پھر آخری جمعرات کا دن رکھا جائے کہ اُس دن بھی مدرسوں اور دفتروں وغیرہ میں چھٹی ہوتی ہے۔ تاجروں کے لئے تو کوئی مُشکل ہے ہی نہیں، وہ ہر دن چھٹی کر سکتے ہیں۔ پس دو مہینہ میں ایک دن ایسا مقرر کیا جائے اور اُس میں سارا دن کام کیا جائے شاید سارا دن کام کرنا نتائج کے لحاظ سے زیادہ مُفید ثابت ہو۔ اِس طرح سال میں چھ دن بن جاتے ہیں اور اگر ایک دن میں ایک ہزار آدمی بھی صبح سے لے کر شام تک کام کریں تو چھ ہزار مزدور کا کام بن جاتا ہے اور چھ ہزار مزدور کا کام کوئی معمولی کام نہیں ہوتا بلکہ بہت اہم اور شاندار ہوتا ہے۔ بلکہ میرے نزدیک قادیان میں ہاتھ سے کام کرنے والے کم از کم چار ہزار افراد ہیں اور اگر چار ہزار کی نسبت رکھی جائے توچوبیس ہزار مزدور بن جاتے ہیں اور چوبیس ہزار مزدوروں کا کام اگر ایک پروگرام کے ماتحت ہو تو بہت بڑا تغیر پیدا کر سکتا ہے۔ بے شک ہم لوگ جو کام کے عادی نہیں مزدوروں جتنا کام نہیں کر سکتے لیکن اگر ہم مزدوروں کے کام کا دسواں حصّہ بھی کریں تو اِس کے یہ معنی ہوں گے کہ سال میں اڑھائی ہزار مزدوروں نے کام کیا اور اڑھائی ہزار مزدوروں کا کام بھی کوئی معمولی کام نہیں ہوتا۔ اگر چھ آنے ہر مزدور کی یومیہ اُجرت فرض کی جائے تو قریباً ایک ہزار روپے کا کام ہم سال میں صرف چھ دن دے کر کر سکتے ہیں۔
پس خدام الاحمدیہ کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کا کام صرف اپنے تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہئے بلکہ بعض کام جن میں ساری جماعت کی شمولیت مُفید نتائج پیدا کر سکتی ہو ان میں ساری جماعت کو شمولیت کا موقع دینا چاہئے۔
پس قادیان کے خدام الاحمدیہ کو توجّہ دلاتا ہوں کہ وہ سال میں چھ دن ایسے مقرر کریں جن میں یہاں کی تمام جماعت کو کام کرنے کی دعوت دی جائے بلکہ مناسب یہی ہو گا کہ وہ ابتدا میں چھ دن ہی رکھیں اور جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں دو مہینہ میں ایک دن کام کر لینا کوئی بڑی بات نہیں۔آخری جمعرات ہو تو اُس دن عام اعلان کر دیا جائے کہ آٹھ دس سال کے بچوں سے لے کر اُن بوڑھوں تک جو چل پھر سکتے اور کام کاج کر سکتے ہیں، فلاں جگہ جمع ہو جائیں ان سے فلاں کام لیا جائے گا۔ پھر پہلے سے پروگرام بنایا ہؤا ہو کہ فلاں سڑک پر کام کرنا ہے، فلاں جگہ سے مٹی لینی ہے، اتنی بھرتی ڈالنی ہے، اِس اِس ہدایت کو مدّ نظر رکھنا ہے اور جماعت کے انجینئر اِس تمام کام کے نگران ہوں اور ان کا منظور کردہ نقشہ لوگوں کے سامنے ہو اور اِس کے مطابق سب کو کام کرنے کی ہدایت دی جائے۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر پہلے سے ایک سکیم مرتّب کر لی جائے تو آسانی سے بہت بڑا کام ہو سکتا ہے۔ غرض سکیم اور نقشے پہلے تیار کر لیں اور اُس دن جس طرح فوج پریڈ کرتی ہے اِسی طرح ہر شخص حکم ملنے پر اپنے اپنے حلقہ کے ماتحت پریڈ پر آجائے۔ دیکھو قیامت کے دن بھی اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن اور کافر اپنے اپنے لیڈروں کے پیچھے آئیں گے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ اُس دن ہر نبی اپنا اپنا جھنڈا اُٹھائے ہوئے ہوگا اور ہر نبی کے ساتھ اُس کی اُمت ہو گی۔یہ نہیں ہو گا کہ قیامت کے دن شور پڑا ہؤا ہو اورکوئی کدھر جارہا ہو اور کوئی کدھر بلکہ ہر شخص اپنے اپنے لیڈر کے جھنڈے کے نیچے ہو گا۔ اِس میں درحقیقت اﷲ تعالیٰ نے یہی بتایا ہے کہ جب بہت بڑے اجتماع ہوں تو اس وقت حلقوں اور دائروں کا مقرر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً ہر محلہ والے اپنے اپنے محلہ کے پریذیڈنٹ یا کسی اَور افسر کی ہدایات کے ماتحت کام کریں یا لوگوں کے حلقوں کی کوئی اور تقسیم ہو سکتی ہو تو وہ کر لی جائے۔ بہرحال ہر شخص کسی نہ کسی حلقہ میں ہو اور کام شروع کرنے سے دو دن پہلے ہر شخص کو بتا دیا جائے کہ تم نے فلاں حلقہ میں فلاں کام کرنا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اِس طریق پر اگر کام کیا جائے تو ایک تو لوگوں کو اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہو جائے گی دوسرے اِس مشترکہ جدوجہد کے نتیجہ میں کوئی مُفید کام بھی ہو جائے گا۔ اب دارالرحمت ، دارالفضل اور دوسرے محلوں کو دیکھ لو اُن کی گلیاں کس قدر گندی ہیں۔ پھر اُن محلّوں میں کئی گڑھے ہیں، اونچی نیچی جگہیں ہیں اور جب بارش ہوتی ہے تو ان گڑھوں میں پانی جمع ہو جاتا ہے جس کے نتیجہ میں نہ صرف ملیریا اور ٹائیفائڈ پھیلتا ہے بلکہ بعض دفعہ انسانی جانیں بھی تلف ہو جاتی ہیں۔
تھوڑا ہی عرصہ ہؤا ایک خطرناک حادثہ یہاں ہؤا اور وہ یہ کہ حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی کی آخری بیوی کا اکلوتا لڑکا ایسے ہی ایک پانی سے بھرے ہوئے گڑھے میں گر کر ڈوب گیا۔ یہ ہماری غفلتوں کا ہی نتیجہ ہے اگر ہم غفلت نہ کرتے اور گڑھوں کو اب تک پُر کردیتے تو یہ واقعہ کیوں ہوتا؟ کہا جاتا ہے کہ جس زمین میں یہ واقعہ ہؤا ہے اِس میں ہندوؤں کا بھی دخل ہے لیکن اگر اِس کے گرد دیوار ہی بنا دی جاتی تب بھی یہ واقعہ نہ ہوتا اور اِس ایک واقعہ کے بعد اب یہ کب اطمینان ہو گیا ہے کہ آئندہ ایسا واقعہ کوئی نہیں ہو گا مگر اِس دن تو جس نے یہ واقعہ سُنا افسوس کر دیا لیکن دوسرے ہی دن اثر جاتا رہا اور یہ خیال بھی نہ رہا کہ ہمیں اِس قسم کے گڑھوں کو پُر کرنے کا فکر کرنا چاہئے تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ اِسی طرح پانی کی گندگی کی وجہ سے ہر سال ملیریا آتا ہے اور دس دس پندرہ پندرہ دن ایک شخص بیمار رہتا ہے۔ ملیریا کی بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ گڑھوں میں پانی جمع رہتا ہے اور اِس کی سڑاند کی وجہ سے مچھر پیدا ہو جاتے ہیں جو انسانوں کو کاٹتے اور ملیریا میں مُبتلا کر دیتے ہیں۔ اِس بخار کی وجہ سے لوگ پندرہ پندرہ دن تک بیمار رہتے ہیں اور اگر دس دن بھی ایک شخص کے بیمار رہنے کی اوسط فرض کر لی جائے اور ایک گھر کے پانچ افراد ہوں تو سال میں ان کے پچاس دن محض ملیریا کی وجہ سے ضائع چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ چھ دن بھی کوشش کرتے تو ملیریا کو جڑ سے نابود کردیتے مگر لوگ دوائیوں پر پیسے الگ خرچ کرتے ہیں، تکلیف الگ اُٹھاتے ہیں، طاقتیں الگ ضائع کرتے ہیں، عمریں الگ کم ہوتی ہیں، موتیں الگ ہوتی ہیں اور پھر سال میں پچاس دن بھی ان کے ضائع چلے جاتے ہیں۔ مگر تھوڑا سا وقت خرچ کر کے قبل از وقت ان باتوں کا علاج نہیں کرتے۔ وہ کام جو مَیں بتاتا ہوں اگر دوست کرنے لگ جائیں تو ان کی صحتیں بھی درست رہیں گی، ان کے پیسے بھی بچیں گے، ان کے محلّوں کی شکل و صورت بھی اچھی ہو جائے گی، ان کا نیک اثر بھی لوگ قبول کریں گے اور ان کے پچاس دن بھی بچ جائیں گے۔ گویا خدا بھی راضی ہو جائے گا، لوگ بھی تعریف کریں گے اور خود بھی فائدہ اُٹھائیں گے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لوگ اس بات کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ وہ عدمِ صفائی کی وجہ سے جانی قُربانیاں بھی کرتے ہیں، اپنے بیوی بچوں کو بھی تکلیف میں ڈالتے ہیں اور اپنے روپیہ کو بھی برباد کرتے ہیں مگر اِس آسان سادہ اور صحت بخش طریق کو اختیار کرنے کے لئے شوق سے تیار نہیں ہوتے۔ حالانکہ ملیریا ایسا خطرناک اثر انسانی طبیعت پر چھوڑ جاتا ہے کہ وہ بچے جو ملیریازدہ ہوتے ہیں جب بڑے ہوتے ہیں تو ان کے دل بالکل مُردہ ہوتے ہیں، ان کی اُمنگیں کوتاہ ہوتی ہیں اور ان کے خیالات نہایت پَست ہوتے ہیں اور جوان ہونے سے پہلے ہی وہ بوڑھے ہو چکے ہوتے ہیں حالانکہ اِس کا علاج ان کے بس میں ہوتا ہے اور وہ اگر چاہیں تو آسانی سے ملیریا کا قلع قمع کر سکتے ہیں۔ یہی حال صفائی کا ہے۔ ہمارے مُلک کے لوگ گندگی اور غلاظت کو دور کرنے کا خیال تو نہیں کرتے مگر بیماری کے ذریعہ اپنے اوقات اور اپنے اموال اور اپنی صحت کی بربادی قبول کر لیتے ہیں۔ ٹائیفائڈ ہمیشہ اُس گند اور پاخانہ کی وجہ سے پھیلتا ہے جو گلیوں میں جمع رہتا ہے اور جس میں ایسے مریضوں کے پاخانے بھی شامل ہوتے ہیں۔ وہ پاخانہ پہلے تو گلیوں میں ہوتا ہے پھر جب بارش ہوتی ہے تو زمین میں جذب ہو جاتا ہے اور پھر کنوؤں کے پانی میں مل کر لوگوں کے پینے میں استعمال ہونے لگتا ہے اور اِس طرح تمام شہر میں ٹائیفائڈ پھیل جاتا ہے۔ قادیان کی نئی آبادی نہایت کھلے مقامات میں ہے اور بڑے بڑے شہروں کی آبادی کے مقابلہ میں نہایت پُر فضا اور صحت بخش ہے اور اگر ظاہری حالت کو دیکھا جائے تو یہاں کے لوگوں کی صحت بہت اعلیٰ ہونی چاہئے مگر واقعہ یہ ہے کہ یہاں ٹائیفائڈ بڑی کثرت سے ہوتا ہے۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ وہ پاخانہ اور گندجو گلیوں میں جمع ہوتا ہے، بارش کے دنوں میں زمین کے اندر جذب ہو جاتا ہے اور پھر کنوؤں کے پانی میں مل کر لوگوں کو مرض میں مُبتلا کر دیتا ہے۔ پس ہم لوگ بِلا وجہ قُربانی کرتے ہیں اور بِلا وجہ بیماریوں پر روپیہ ضائع کرتے اور پھر پچاس دنوں کا ضیاع بھی کرتے ہیں مگر وہ طریق اختیار نہیں کرتے جس میں خدا تعالیٰ کی بھی خوشنودی ہے اور اپنا فائدہ بھی ہے۔ اگر خدام الاحمدیہ کے ممبران یہ کام کریں اور پوری تندہی اور محنت کے ساتھ اِس طرف توجہ کریں تو مَیں سمجھتا ہوں ایک سال کے اندر ہی وہ قادیان میں ایسا عظیم الشان تغیر پیدا کر سکتے ہیں کہ جلسہ سالانہ پر آنے والے لوگ حیران ہو جائیں اور وہ کہیں کہ یہ قادیان پہلا قادیان نہیں۔ اور پھر ایک سال کے بعد ہی وہ دیکھیں گے کہ بیماریاں بھی مٹ گئی ہیں، لوگوں کی صحتیں بھی درست ہو گئی ہیں اور ان کا روپیہ بھی بچ گیا ہے۔ یوں تو بیماریاں دُنیا میں رہتی ہی ہیں کیونکہ بعض کمزور طبع لوگ ہوتے ہیں جو امراض کا جلد شکار ہو جاتے ہیں لیکن کم سے کم لوگ ان بیماریوں سے بچ سکتے ہیں جو وبائی صورت میں ایک مُہلک رنگ اختیار کر لیتی ہیں۔
یہ مَیں نے ایک مثال دی ہے ورنہ اصل مضمون میں یہ بیان کر رہا تھا کہ سلسلہ کے ہر محکمہ کو کام ایک پروگرام کے ماتحت کرنا چاہئے تا ہر وقت وہ آنکھوں کے سامنے رہے اور اِس کے پورا کرنے کا خیال رہے ورنہ دن بہت نازک آرہے ہیں اور اگر اس وقت اپنی اصلاح کی طرف توجّہ نہ کی گئی تو پھر اصلاح کا وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اگر اﷲ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو مَیں اِس مضمون کو اگلے جمعہ میں بیان کروں گا۔ سرِ دست مَیں اصولی طور پر بتا دیتا ہوں کہ دُنیا میں ایک سخت نازک زمانہ اور لڑائیوں اور فسادات کے خطرے ہر روز بڑھتے چلے جارہے ہیں اور اِس بات کا امکان ہے کہ اِس سال کے اندر اندر ہی کوئی ایسی خطرناک لڑائی چھڑ جائے جس سے دُنیا کی آبادی نصف سے بھی کم رہ جائے۔ ایسے ایسے تباہیوں کے سامان پیدا ہو چکے ہیں کہ اِن کا ذکر سُن کر حیرت آتی ہے۔ تم اِن تباہی کے سامانوں کا صرف اِس امر سے ہی اندازہ لگاسکتے ہو کہ پہلے امریکہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اگر کوئی جنگ ہوئی تو ہم اِس میں حصّہ نہیں لیں گے کیونکہ ہم بالکل الگ ہیں اور بہت بڑے فاصلہ پر ہیں۔ ہم پر اِس جنگ کا کیا اثر ہو سکتا ہے؟ امریکہ یورپ سے چار ہزار میل دُور ہے۔ پس امریکہ والے سمجھتے تھے کہ ہمیں اِس جنگ سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے مگر اب سامانِ حرب میں جو ترقی ہوئی ہے اور نئی نئی قسم کے ہوائی جہاز بنے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے امریکہ کے پریذیڈنٹ نے بھی اعلان کر دیا ہے اور آج کے اخبارات میں ہی وہ اعلان چھپا ہے کہ آج محاذِ جنگ اتنا بدل چُکا ہے کہ امریکہ کو الگ سمجھنا بالکل بیوقوفی ہے۔ آج ہماری سرحد امریکہ پر نہیں بلکہ فرانس پر ہے اور ہم بھی اِسی طرح جنگ کے خطرہ میں ہیں جس طرح یورپ کی دوسری طاقتیں۔ (اِس کی مُبہم الفاظ میں تردید ہوئی ہے مگر وہ تردید قانونی ہے حقیقی نہیں۔) ایسے ایسے ہوائی جہاز ایجاد ہو چکے ہیں کہ بالکل ممکن ہے کہ صبح کے وقت جرمنی سے ایک ہوائی جہاز اُڑے اور شام کے وقت امریکہ پر لاکھوں بم برسا کر واپس آجائے۔
ساڑھے چار سَو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُڑنے والے ہوائی جہاز ایجاد ہو چکے ہیں۔ ہندوستان جرمنی سے ساڑھے پانچ ہزار میل دور ہے۔ اگر چار سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُڑنے والا ہوائی جہاز جرمنی سے چلے تو ایک ہزار میل وہ اڑھائی گھنٹے میں طے کر سکتا ہے۔ اِس کے معنے یہ بنے کہ چودہ گھنٹے کے اندر اندر جرمنی سے ہوائی جہاز چل کر ہندوستان پر بمباری کرسکتا اور یہاں کے لوگوں کو تباہ کر سکتا ہے بلکہ اب تو جرمنی سے بھی چلنے کی ضرورت نہیں۔ اٹلی جرمنی کے ساتھ ہے اور ایبے سینیا اٹلی کے قبضہ میں ہے اور ایبے سینیا سے ہندوستان دو ہزار میل کے فاصلہ پر ہے۔ گویا ابی سینیا سے ایک ہوائی جہاز پانچ گھنٹے میں ہندوستان آسکتا اور پانچ گھنٹے یہاں گولہ باری کر کے شام کا کھانا اِس کے چلانے والے ایبے سینیا میں واپس جاکر کھا سکتے ہیں۔ غرض ایسے ایسے خطرناک سامان جنگ تیار ہو چکے ہیں کہ انسان ان کا ذکر سُن کر دنگ رہ جاتا ہے۔ کئی لوگ غلط فہمی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ایسے خطرناک سامان ایجاد ہو چکے ہوتے تو موجودہ جنگوں میں جو آجکل ہو رہی ہیں کیوں وہ ظاہر نہ ہو جاتے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سامان تو ایجاد ہو چکے ہیں مگر ان جنگوں میں انہوں نے اِن سامانوں کو ظاہر نہیں کیا۔ وہ سمجھتے ہیں اگر ہم نے ابھی سے اِن سامانوں کو ظاہر کر دیا تو لوگوں کو یہ پتہ لگ جائے گا کہ ہمارے پاس کیاکیا سامان ہیں اور وہ اِن کا علاج سوچ لیں گے۔ پس وہ اِن سامانوں کو ابھی چھُپائے بیٹھے ہیں اور اندر ہی اندر اور زیادہ سامان تیار کئے جارہے ہیں۔ بعض انجینئروں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اُنہوں نے ایسی ایجادیں کر لی ہیں کہ خاص قسم کی شعاعوں کے ذریعہ وہ ہزاروں میل سے شہروں کو دیکھ سکیں گے اور پھر ہزاروں میل کے فاصلہ سے ہی بجلی کی شعاعیں پھینک کر ان کو برباد کر دیں گے۔ معلوم نہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں اور لوگوں کو ڈرانے کے لئے ایسا کہتے ہیں یا اِس میں کچھ سچائی بھی ہے مگر اِن کا دعویٰ یہ ضرور ہے کہ اُنہوں نے ایسی شعاعیں ایجاد کر لی ہیں جن کی مدد سے وہ ہزاروں میل پر بیٹھے ہی شہروں کو برباد کر سکیں گے۔ ایسے نازک اوقات میں قوموں کا خاموشی سے بیٹھا رہنا بہت بڑی بیوقوفی ہوتی ہے۔ پس سب کو اِس نازک وقت کے آنے سے قبل ہوشیار ہو جانا چاہئے۔
مَیں اِس موقع پر یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ گزشتہ سالوں میں گورنمنٹ پنجاب کے بعض افسروں سے ہمارا جو اختلاف ہؤا تھا اُس کو مدّنظر رکھتے ہوئے بعض لوگوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ اگر جنگ ہو جائے تو اُس وقت ہماری جماعت کا کیا رویّہ ہو گا اور آیا وہ حکومت برطانیہ کا ساتھ دے گی یا نہیں؟ مَیں نے جو بات اُن دوستوں کو پرائیویٹ طور پر بتائی تھی اُس کا آج اعلان بھی کر دیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ ہمارا جھگڑا حکومت برطانیہ کے ساتھ نہیں تھا بلکہ حکومت پنجاب کے بعض نادان افسروں اور درحقیقت حکومتِ برطانیہ کے دُشمن افسروں کے ساتھ تھا۔ پس اگر جنگ ہو جائے (گو ہم چاہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اِس خطرناک جنگ سے دنیا کو بچالے) تو اُس وقت ہماری کامل تائید حکومت برطانیہ کے ساتھ ہو گی کیونکہ ہمارا حکومتِ برطانیہ کے ساتھ کوئی جھگڑا نہ تھا بلکہ حکومت پنجاب کے بعض افسروں کے ساتھ تھا۔ پچھلے دنوں لارڈ ہیلی نے بھی جو پنجاب کے گورنر رہ چکے ہیں اور ہماری جماعت کے بھی دوست ہیں ایک تقریر میں کہا تھا کہ جماعت احمدیہ کو یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اِس کی لڑائی ہمارے ساتھ نہیں بلکہ اگر ہے تو حکومت پنجاب کے بعض افسروں کے ساتھ ہے اور مَیں بھی اِن کے اِس خیال سے متفق ہوں۔ حقیقت یہی ہے کہ حکومت انگریزی کے ساتھ ہمارا کوئی جھگڑا نہیں بلکہ جب حکومت پنجاب کے بعض افسروں کے ساتھ ہمارا جھگڑا شروع ہؤا تھا تو اُس وقت برطانوی حکومت نے ہماری تائید میں پنجاب گورنمنٹ پر زور دیا اور اِسے لکھا کہ جماعت احمدیہ کی شکایات کا ازالہ ہونا چاہئے۔ انگلستان میں جو ہمارے مبلّغ ہیں وہ بھی نہایت خوش ہیں اور انہیں حکومت کی طرف سے کسی قسم کی تکلیف نہیں۔ پس ایسے معاملات میں جہاں برطانوی ایمپائر کا سوال آجائے ہمارے مقامی جھگڑے قطعاً کوئی روک نہیں بن سکتے اور اگر جنگ ہو گئی تو ہم پورے طور پر حکومت برطانیہ کے ساتھ تعاون کریں گے بلکہ پہلے سے زیادہ تعاون کریں گے۔ پس اگر کسی کے دل میں یہ شُبہ ہو کہ ایسے موقع پر ہماری جماعت کا کیا رویہ ہو گا تو اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری جماعت کا یہی رویہ ہو گا کہ وہ حکومت برطانیہ کی تائید کرے گی۔ درحقیقت یہ سخت تھُڑ دلی اور تنگ دلی ہوتی ہے کہ انسان مقامی جھگڑوں کو بڑھا کر وسیع کر دے۔ ہماری اگر حکومت پنجاب کے چند افسروں کے ساتھ لڑائی ہو تو اِس کی وجہ سے ہم اِن عظیم الشان فوائد کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو حکومت برطانیہ کی وجہ سے اِس حکومت کے ماتحت رہنے والے لوگوں کو حاصل ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کانگرسی بھی اپنے دل میں یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی وقت جنگ کا خطرہ ہؤا اور اُنہوں نے دیکھا کہ حکومت کی رسّی برطانیہ کے ہاتھ سے جارہی ہے تو وہ بھی حکومت برطانیہ کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور ہوں گے اور واقعہ یہ ہے کہ اگر کسی حکومت کے ماتحت رہنے کا سوال ہو تو اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ انگریزوں کی حفاظت ہمارے مُلک کے لئے بہت بڑی رحمت کا باعث ثابت ہوئی ہے۔
مگر یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری جماعت ایک بین الاقوامی جماعت ہے۔ کچھ اٹلی کے ماتحت ہیں، کچھ جرمنی کے ماتحت ہیں کچھ امریکہ کے ماتحت ہیں، کچھ برطانیہ کے ماتحت ہیں۔ پس مَیں جو اعلان کر رہا ہوں یہ اپنی جماعت کے صرف اُسی حصّہ کے متعلق اعلان ہے جو برطانوی حکومت کے ماتحت رہتا ہے۔ ہماری جماعت کا ایسا تمام حصّہ حکومتِ برطانیہ کی مدد کرے گا اور ہم ہرگزاِس لڑائی جھگڑے کی پرواہ نہیں کریں گے جو بعض مقامی افسروں کے ساتھ ہمارا چل رہا ہے کیونکہ یہ جنگ مقامی نہیں بلکہ نہایت وسیع اثرات رکھنے والی ہو گی اور وہ شخص سخت احمق ہوتا ہے جو ایک چھوٹی بات کی وجہ سے بڑی بات میں بھی حصّہ نہ لے بلکہ مَیں تو سمجھتا ہوں اب ہمارے پاس حکومتِ برطانیہ کی مدد کے اِس سے بہت زیادہ سامان ہیں جتنے ۱۹۱۴ء میں ہمارے پاس سامان تھے اور اگر جنگ چھِڑ گئی تو مَیں جماعت کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہمارا فرض ہو گا ہم برطانوی حکومت کے ساتھ پورے طور پر تعاون کریں اور ہر قُربانی کر کے اپنے آپ کو ایک اچھا شہری ثابت کریں تاکہ وہ برکت جوتبلیغ میں سہولت کی وجہ سے ہمیں حاصل ہے وہ جاتی نہ رہے۔ بیسیوں ممالک ایسے ہیں جن میں تبلیغ کے راستہ میں سخت مُشکلات حائل ہیں صرف برطانوی حکومت ہی ایسی ہے جس کی طرف سے تبلیغ پر کوئی پابندی عائد نہیں۔ اِس لئے نہیں کہ برطانوی حکومت دل میں مسلمان ہے بلکہ اِس لئے کہ اُس کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ وہ مذہب کے معاملہ میں دخل دینا نہیں چاہتی۔ پس ہماری دوستی کی خاطر نہیں بلکہ اپنے مقررہ اصول کی وجہ سے انگریزوں نے تبلیغِ مذہب کے متعلق کسی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی اور نہ کسی قسم کی پابندی وہ عائد کرنا چاہتے ہیں اور یہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے جو حکومتِ برطانیہ کی وجہ سے مختلف مذاہب کو حاصل ہے۔ ایک ہندو بھی آزادی سے تبلیغ کر سکتا ہے، ایک عیسائی بھی آزادی سے تبلیغ کر سکتا ہے، ایک سکھ بھی آزادی سے تبلیغ کر سکتا ہے اور ایک مسلمان بھی آزادی سے تبلیغ کر سکتا ہے۔ پس چونکہ حکومت برطانیہ کی وجہ سے تبلیغ کا دروازہ کھلا ہے اور یہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے جو مذہبی جماعتوں کو حاصل ہے اِس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم حتّی المقدور مصیبت پر اِس کی مدد کریں اور اپنے تمام ذرائع کو استعمال میں لاکر اِس کے ساتھ تعاون کریں۔ بعض لوگ نادانی سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے ساتھ حکومتِ برطانیہ خاص طور پر مراعات کیا کرتی ہے۔ یہ بالکل جھوٹ ہے اور کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ ہمیں اُن فوائد سے زیادہ کوئی فائدہ حاصل ہؤا ہو جو ہندوؤں ، سکھوں، عیسائیوں اور دوسرے مذاہب والوں کو حکومتِ برطانیہ کے زیر سایہ حاصل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے اندر خدا تعالیٰ نے شکر گزاری کا مادہ رکھا ہے اور اُن کا دل اِس نے سیاہ کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری ناک بیشک کٹ جائے مگر دُشمن پر کسی طرح الزام آجائے اور ہم کہتے ہیں کہ ہماری ناک بھی نہ کٹے اور حکومت کے احسانات کی ناشکرگزاری بھی نہ ہو۔ اِس لئے وہ باوجود فائدہ اُٹھانے کے حکومت کی بغاوت کرتے ہیں مگر ہم جب فائدہ اُٹھاتے ہیں تو حکومت کی تعریف بھی کر دیتے ہیں۔ پس فرق صرف شکر گزاری اور ناشکرگزاری کے جذبات کا ہے۔ ورنہ کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ انگریزی حکومت نے ہمیں کوئی ایسا فائدہ پہنچایا ہو جو ہندوؤں کو نہ پہنچا ہو یا سکھوں کو نہ پہنچا ہو یا یہودیوں کو نہ پہنچا ہو۔ جو سلوک حکومتِ برطانیہ دوسروں کے ساتھ کرتی ہے وہی ہم سے کرتی ہے بلکہ اُن کے ساتھ کچھ زیادہ ہی سلوک کرتی ہے کیونکہ وہ اکثریت میں ہیں اور ہم اقلیت ہیں اور طبعاً اکثریت کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ بہرحال چونکہ حکومتِ برطانیہ نے ہمیں تبلیغ کی عام اجازت دے رکھی ہے اور ایک مذہبی جماعت ہونے کی وجہ سے اِس اجازت کا ہمیں بہت بڑا فائدہ ہے اِس لئے ہم ہرقُربانی کر کے بھی حکومت کا ساتھ دیں گے تاکہ ہماری اِس تبلیغ کی آزادی میں کوئی روک واقع نہ ہو اور اگر یہ جنگ میری زندگی میں ہوئی تو یقینا میں اپنا پورا زور اِس بات پر صَرف کروں گا کہ جس حدتک جماعت احمدیہ اِس نظام کے قیام کے لئے قُربانی کر سکتی ہے اُس حد تک قُربانی کر کے دکھائے تاکہ وہ امن جو تبلیغ کے راستہ میں ہمیں حاصل ہے اِس میں کوئی خلل نہ آئے۔ ہم بے شک اِ س الزام کو ردّ کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ انگریزوں کی ایجنٹ ہے۔ ہم انگریزوں کے ایجنٹ کس طرح ہو سکتے ہیں جب کہ ہم اٹلی میں بھی رہتے ہیں، امریکہ میں بھی رہتے ہیں، چین میں بھی رہتے ہیں، جاپان میں بھی رہتے ہیں اور مصر، شام اور فلسطین وغیرہ میں بھی رہتے ہیںاور ہر جگہ کے احمدی وہاں کی حکومتوں کے ساتھ کامل تعاون کرتے اور ان کے احکام کی اِسی طرح اطاعت اور فرمانبرداری کرتے ہیں جس طرح ہم حکومتِ برطانیہ کی یہاں اطاعت کرتے ہیں۔ ہم یہ کبھی پسند نہیں کر سکتے کہ جرمنی کے ماتحت رہنے والے احمدی جرمنی کی غدّاری کریں یا اٹلی کے ماتحت رہنے والے احمدی اٹلی کی غدّاری کریں یا امریکہ کے ماتحت رہنے والے احمدی امریکہ کی غدّاری کریں۔ ہم ہر جگہ کے احمدیوں کو یہی ہدایت کریں گے کہ وہ اپنی اپنی حکومتوں کے احکام کے تابع رہیں اور جب تک وہ دن نہیں آتا کہ ہر حکومت کے ماتحت رہنے والے احمدی اپنی اپنی حکومتوں کو اِس بات پر مجبور کر سکیں کہ وہ لڑائی نہ کریں اور صلح کے ساتھ رہیں تو اُس وقت تک جس نظام کے ماتحت بھی ہماری جماعت کے افراد رہتے ہوں اُن کا فرض ہے کہ اُس نظام کی اطاعت کریں اور اِسی رنگ میں ہم حکومت برطانیہ کی ہر وقت اطاعت کرتے اور ہر وقت اِس کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ پس ہم انگریزوں کے ایجنٹ نہیں بلکہ ہم اپنی مذہبی تعلیم کی وجہ سے اِس بات پر مجبور ہیں کہ جس حکومت کے ماتحت رہتے ہوں اُس کے احکام کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کریں۔ خواہ وہ حکومت انگریزوں کی ہو اور خواہ اٹلی اور جرمنی والوں کی ہو۔
جب حکومتِ پنجاب کے بعض افسروں کے ساتھ جھگڑا شروع ہؤا تھا اُسی وقت مَیں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ جب مصیبت کا کوئی وقت آیا اُس وقت ہم دکھا دیں گے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کی جو ہماری پالیسی ہے یہ دکھاوے کی نہیں اور نہ کسی دُنیوی غرض کے ماتحت ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے ماتحت ہم حکومت کی اطاعت کرتے ہیں اور چونکہ اب خطرات روز بروز بڑھ رہے ہیں اور اِس بات کا امکان ہے کہ جلدی کوئی جنگ ہو جائے اِس لئے ۱۹۳۴ء میں مَیں نے جو اعلان کیا تھا اُس کے مطابق مَیں آج پھر یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اِس جنگ کے موقع پر ہم جو برطانوی حکومت کے ماتحت رہتے ہیں ہمارا تعاون حکومتِ برطانیہ کے ساتھ ہو گا اور ہم اپنے عمل سے دُنیا پر یہ بات ثابت کر دیں گے کہ ہمارا حکومتِ برطانیہ سے تعاون کسی خوشامد یا لالچ کی وجہ سے نہیں بلکہ مذہبی تعلیم کی وجہ سے ہے کیونکہ اِس وقت اِس کے نمائندے پنجاب میں ہم سے نہایت کمینہ اور ذلیل سلوک کر رہے ہیں جس کی موجودگی میں اگر ہم اِس حکومت سے دُشمنی بھی کریں تو دُنیا کا کوئی اعتراض ہم پر نہیں ہو سکتا لیکن ہم بتانا چاہتے ہیں کہ ہم نے اِس وقت بھی حکومت کی اطاعت کی جب اِس کے شائستہ اور مہذب اور دیانتدار افسروں نے ہم کو لوگوں کے ظلم سے بچایا اور اُس وقت بھی اِس کے ساتھ تعاون کیا جب کہ اِس کے بعض افسروں نے ہمیں اپنے مذہبی مرکز میں دِق کیا اور ہمارے دُشمنوں کو چاروں طرف سے جمع کر کے ہم پر چڑھا لائے اور اُنہوں نے چاہا کہ اپنی طاقت اور اپنے جتھے کے زور سے ہم کو کُچل دیں اور ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں اور انشاء اﷲ ثابت کر دیں گے کہ ہمارا یہ معاملہ کسی دُنیوی غرض کے لئے نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاق اور مذہبی اصول کی پابندی کی وجہ سے ہے۔
مگر اِس کے یہ معنے نہ ہوں گے کہ ہم اپنے حقوق کو بھُول جائیں۔ مَیں احمدیت کی عزّت کی خاطر مقامی افسروں سے اگر وہ اپنے بُرے رویّہ کو ترک نہ کریں گے برابر لڑتا رہوں گا اور جب تک احمدیہ جماعت کی عزّت کو قائم نہ کر لوں گا ان سے صلح نہ کروں گا کیونکہ میرے نزدیک احمدیہ جماعت کی عزّت برطانیہ کی عزّت سے بہت زیادہ ہے اور جو افسر یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنی طاقت کے ساتھ جماعت احمدیہ کو ڈرا لیں گے وہ ایک دن ذلیل ہو کر اپنی غلطی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے۔ مَیں احسان کے ساتھ اِن سے بدلہ لوں گا اور خود اِن کی قوم سے اِن کے خلاف ملامت کا اظہار کروا کے چھوڑ وں گا اِنْشَائَ اﷲُ تَعَالیٰ۔
وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ الَّذِیْ ھُوَ مِرْفَقِیْ وَ مُؤَیِّدِیْ وَ نَاصِرِیْ۔‘‘
(الفضل ۱۷؍فروری ۱۹۳۹ئ)
۱؎ البقرہ: ۱۱۸
۲؎
…(المائدۃ:۱۱۷،۱۱۸)
۳؎ الحجر:۱۰
۴؎ بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الجمعۃ باب قولہٖ و اٰخرین منھم… (الخ)
۵؎ ابو داؤد کتاب الادب باب فی فضل من عال یتامٰی
۶؎ ، ۷؎ ترمذی ابواب البروالصلۃ باب ما جاء فی النفقۃ علی البنات
۸؎ (الرحمٰن :۴۷)
۹؎ (بنی اسرائیل:۷۳)
۱۰؎ ، ۱۱؎ بخاری کتاب الزکوٰۃ باب الاستعفاف عن المسألۃ
۱۲؎ ابن ماجہ کتاب الزکٰوۃ باب کراھیۃ الْمسئلۃ
۵
جماعت میں قومی اور ملّی روح پیدا کریں
تعلیمِ دین پھیلائیںاور جسمانی و دماغی آوارگی کو روکیں۔
(فرمودہ ۱۰؍فروری۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے پچھلے خطبہ میں اِس امر کا ذکر کیا تھا کہ خدام الاحمدیہ جیسی جماعت کا وجود ایک نہایت ہی ضروری اور اہم کام ہے اور نوجوانوں کی درستی اور اصلاح اور اِن کا نیک کاموں میں تسلسل ایک ایسی بات ہے جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مَیں نے بتایا تھا کہ مستورات کی اصلاح کے لئے لجنہ اماء اﷲ کا قیام اور مردوں کی اصلاح کے لئے خدام الاحمدیہ کا قیام گویا دونوں ہی قومی تحریک کے دو بازو ہیں اور تربیت کی تکمیل کے لئے نہایت ضروری امور میں سے ہیں۔ مَیں نے خدام الاحمدیہ کو توجّہ دلائی تھی کہ اُن کو اپنے کام ایک پروگرام کے ماتحت کرنے چاہئیں۔ یہ نہیں کہ بغیر پروگرام کے کام کرتے رہیں کیونکہ اِس طرح بغیر پروگرام کے کام کرنے سے چنداں فائدہ نہیں ہوتا۔
آج مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کو اپنے قریب مستقبل میں اور بعید میں بھی بعض باتیں اپنے پروگرام میں شامل کرنی چاہئیں۔ ممکن ہے ان کے سوا بعد میں بعض اور باتیں بھی شامل ہوتی جائیں لیکن مستقبل قریب میں اِنہیں مندرجہ ذیل باتوں پر خاص توجہ کرنی چاہئے۔ اِن میں سے بعض تو ایسی ہیں کہ وہ ہمیشہ ہی اِن کے کام کے ساتھ وابستہ رہنی چاہئیں اور بعض ایسی ہیں جو مختلف زمانوں میں مختلف شکلیں بدل سکتی ہیں۔ ان کے فرائض میں سے پہلا فرض یہ ہونا چاہئے کہ اپنے ممبروں میں قومی رُوح پیدا کریں۔
’’قوم‘‘ کا لفظ آجکل اتنا بد نام ہو چُکا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اِس سے چِڑ جایا کرتے تھے۔ جب کوئی شخص آپ کے سامنے کہتا کہ ’’ہماری قوم‘’ تو آپ فرماتے کہ ’’ہماری قوم‘‘ کیا ہوتی ہے؟ ’’ہمارا مذہب‘‘ کہنا چاہئے لیکن درحقیقت بات یہ ہے کہ جہاں یہ لفظ نسلی امتیاز پر دلالت کرتا ہے وہاں مذہبی امتیاز پر بھی دلالت کرتا ہے۔۔ چنانچہ خود قرآن کریم میں بھی اِس کی مثال موجود ہے۔ جیسا کہ فرمایا ۱؎ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا اعتراض بوجہ اِس غلط استعمال کے تھا جو آجکل اِس لفظ کا ہو رہا ہے اور جب کسی لفظ کا اِس طرح غلط استعمال عام ہو جائے تو بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب قوم کا لفظ نسلی یا سیاسی جتّھے کے معنوں میں استعمال ہونے لگے اور مذہب کا جتھہ اِس سے مُراد نہ ہو تو اِس کا یہ استعمال قابلِ اعتراض ہے کیونکہ دُنیا میں اسلام کی غرض یہ ہے کہ تمام سیاسی، نسلی اور اقتصادی جتھّوں کو مٹا دے اور بنی نوع انسان میں ایک عام اخوّت کی تعلیم رائج کرے۔ پس اِس لفظ کے غلط استعمال کی وجہ سے اگر کبھی اِس لفظ کو استعمال سے خارج کردیا جائے تو یہ کوئی بُری بات نہیں لیکن اپنے وسیع معنوں میں یہ لفظ بُرا نہیں۔
غرض خدام الاحمدیہ کو یاد رکھنا چاہئے کہ قومی اور ملی رُوح کا پیدا کرنا ان کے ابتدائی اصول میں سے ہے۔ اِس سال جلسہ سالانہ پر میں نے جو تقریر کی تھی اِس میں بتایا تھا کہ نبوت کی پہلی غرض ملّی رُوح کا پیدا کرنا تھا۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کی نبوت اور شریعت کا مرکزی نقطہ ملّی روح کا پیدا کرنا ہی تھا۔ اُس وقت لوگ گناہ سے واقِف نہ تھے اور نہ ہی ثواب کی زیادہ راہیں ابھی تک کھلی تھیں۔
اُس وقت حضرت آدم کی نبوت کی غرض یہی تھی کہ تعاون کی روح جو ایک حد تک اُبھر چکی تھی اُسے مکمل کریں اور اِس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملی رُوح کا سبق وہ سبق ہے جو ہمارے پہلے روحانی باپ نے دیا اور سب سے پہلا الہام جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہؤا وہ ملّی رُوح کے لئے ہی تھا۔ یعنی یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ ۲؎ اے آدم تُو اور تیرے ساتھی جنت میں رہو یعنی اکٹھے مل کر تعاون کے ساتھ رہو اور ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہ کرو۔زَوج کے معنی بیوی کے بھی ہوتے ہیں۔ ۳؎ مگر ساتھی کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ۴؎ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں جہاں یہ لفظ بیوی کے معنوں میں استعمال ہؤا ہے وہاں کئی الہام ایسے ہیں جن میں یہ جماعت کے معنوں میں آیاہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات دراصل قران کریم کی تفسیر ہیں اور الفاظِ قرآنی کے جو معنی اِس زمانہ میں مخفی تھے اﷲ تعالیٰ نے آپ کے الہامات میں اِن کا استعمال کر کے وہ معانی ظاہر فرما دیئے ہیں اور اگر کوئی شخص آپ کے الہامات کا مطالعہ کرتا ہے تو قرآن کریم کی تفسیر میں اُس کا علم بہت وسیع ہو سکتا ہے اور آپ کے الہاموں میں زَوج کا لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہؤا ہے۔ کہیں اِس کے معنی بیوی کے ہیں اور کہیں مخلص جماعت کے اور زَوج کے معنوں میں یہ امتیاز معلوم کرنے کے بعد جب اِسے قرآن کریم کی اِس آیت پر چسپاں کریں تو وسیع مطالب کھل جاتے ہیں۔ غرض یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃ کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ آدم اور اُس کی بیوی جنت میں رہیں۔ مگر اِس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ آدم اور اُس کے مخلص صحابی ایک جگہ مل کر رہیں اور محبت سے رہیں۔ تعاون کا مفہوم جنت کے لفظ سے نکلتا ہے۔ جنت کی تشریح اسلام نے یہ کی ہے کہ دلوں سے کینہ و بُغض نکال دیا جائے گا اور جب یہ حکم ہو کہ جنت میں رہو تو اِس کے یہ معنی ہوں گے کہ اپنی زندگی میں جنت کی کیفیات پیدا کرو اور باہم تعاون کے ساتھ رہو۔ ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ سے بچو، جماعتی نظام کو نمایاں کرو اور شخصی وجود کو اِس کے تابع رکھو اور دراصل اِس کے بغیر حقیقی تعاون کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ حقیقی تعاون کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ انسان شخصی آزادی کو قُربان کر دے۔ دو شخص اکٹھے چل رہے ہیں۔ ایک تیز چلنے والا ہے اور دوسرا کمزور۔ اب دونوں کے اکٹھا چلنے کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ تیز چلنے والا اپنی رفتار کو کم کردے اور آہستہ چلنے لگے کیونکہ کمزور تو تیز نہیں چل سکتا۔ ایک بوڑھا جو لاٹھی ٹیک کر چلتا ہے اور ایک تیز چلنے والا نوجوان اکٹھے چلیں اور بوڑھا یہ اُمید رکھے کہ نوجوان آہستہ چلے اور نوجوان یہ کہ بوڑھا تیز چلے تا دونوں اکٹھے چل سکیں تو تم سمجھ سکتے ہو کہ دونوں میں سے کس کی اُمید جائز سمجھی جائے گی۔ یقینا بوڑھے کی کیونکہ بوڑھا اگر کوشش بھی کرے تو بھی تیز نہیں چل سکتا لیکن نوجوان آہستہ چل سکتا ہے اور اگر چاہے تو اپنی رفتار کو سُست کر کے بوڑھے کو ساتھ لے جاسکتا ہے اور اِس لئے دونوں میں سے وہی مطالبہ صحیح ہو سکتا ہے جو ممکن ہے۔ نوجوان اگر یہ مطالبہ کرے کہ بوڑھا تیز چل کر اِس کے ساتھ ملے تو اِس کا یہ مطالبہ بے وقوفی کا مطالبہ سمجھا جائے گا کیونکہ تیزچلنا بوڑھے کے لئے ممکن ہی نہیں۔ ہاں وہ خود تیز چلنے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی آہستہ چل سکتا ہے لیکن جب یہ ایسا کرتا ہے تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ اپنی آزادی پر قید لگاتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے اِسے طاقت دی ہے کہ چار پانچ میل ایک گھنٹہ میں طے کر جائے مگر چونکہ اِس کا ساتھی بوڑھا ہے اور پون میل سے زیادہ نہیں چل سکتا اِس لئے یہ بھی اپنی رفتار اِتنی ہی کر لیتا ہے اور اتنا ہی چلتا ہے۔ اِس کا اتنی کم رفتار سے چلنا اس کی اپنی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اِس وجہ سے ہے کہ اپنے بوڑھے اور کمزور ساتھی کو بھی ساتھ لے جاسکے اور یہی حقیقی تعاون ہے کہ انسان کو اختیار اور طاقت حاصل ہو، رُتبہ حاصل ہو، روپیہ موجود ہو مگر وہ اُن کے متعلق اپنے اختیارات پر خود قیدیں لگا دے۔ روپیہ خرچ کرنے کے لئے موجود ہو مگر کم خرچ کرے یا اُسے دوسروں کے لئے خرچ کرنے لگے۔موجود ہونے کے باوجود کم خرچ کرنے کی مثال روزہ ہے اور دوسروں کی خاطر خرچ کرنے کی مثال صدقہ ہے۔ روزہ میں کم خرچ کیا جاتا ہے۔ ایک امیر آدمی بھی سب کچھ موجود ہونے کے باوجود اپنی شکل غریبوں کی سی بناتا ہے۔ دراصل سحری کی غرض یہی ہے کہ انسان جو بھی کھاتا ہے چوری چھُپے کھاتا ہے اور جب لوگوں کے سامنے آتا ہے تو ایسی حالت میں کہ اِس کے چہرہ سے فاقہ کشی اور غربت کے آثار ہویدا ہوتے ہیں اور اِس طرح وہ جسے کھانے کو ملتا ہے اور وہ بھی جسے نہیں ملتا سب یکساں نظر آتے ہیں۔ جو کچھ کھانا ہوتا ہے وہ سحری کے وقت ہی کھا لیا جاتا ہے اور ایک دوسرے کے سامنے آنے کے وقت سب کی شکلیں غربت ظاہر کر رہی ہوتی ہیں۔ حج کی بھی یہی صورت ہے سب کے لئے حکم ہے کہ ایک چادر لپیٹ لو اور اِس طرح لباس میں سب تکلفّات، کوٹ، صدری، قمیص، بنیان وغیرہ اُڑ گئیں۔ پھر اِس چادر کی سلائی کو بھی روک دیا کیونکہ سب فیشن دراصل سلائی سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ صرف ایک کپڑاپہننے کی اجازت ہے اور سب کے لئے یہی حکم ہے۔ اِس طرح ہماری شریعت نے دونوں رنگ رکھے ہیں۔ کہیں تو کم خرچ کرنے کو کہا ہے اور کہیں دوسروں کے لئے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔ روپیہ موجود ہے مگر انسان اس کا استعمال نہیں کر سکتا اِس لئے کہ اپنے غریب یا نادار بھائی کے مشابہہ نظر آسکے۔ یا چیز موجود ہے مگر اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دوسرے کو دے دو اور اِسی کا نام ملّی روح ہے۔ یعنی اپنی طاقتوں کو اور ذرائع کو مقیّد اور محدود کر دیا جائے اور اِس ملّی روح کے کمال کا نقطہ یہ ہے کہ انسان کے اندر یہ بات پیدا ہو جائے کہ جہاں میری ذات کا مفاد میری قوم کے مفاد سے ٹکرائے وہاں قومی مفاد کو مقدّم کروں گا اور اپنی ذات کو نظر انداز کردوں گا اور جب کسی جماعت میں یہ بات پیدا ہو جائے تو وہ کسی سے ہارتی نہیں۔ صحابہ کرام ؓکی حالت ہمارے سامنے ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کے لئے صحابہ جو قُربانیاں کرتے تھے وہ بھی دراصل اسلام کے لئے ہی تھیں کیونکہ وہ آپ کو اسلام کا مکمل نمونہ خیال کرتے تھے اور اِس لئے آپ کے مقابلہ میں اپنی شخصیتوں کو بالکل نظر انداز کر دیتے تھے۔مذہبی جماعتوں میں تو رُوح بہت بڑی ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دُنیوی قوموں میں بھی جب یہ بات پیدا ہو جائے تو وہ بہت ترقی کر جاتی ہیں۔ آج کل دیکھ لو انگلستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی یہ موضوع زیر بحث آتا رہتا ہے کہ عورت کا کام کیا ہے؟ بڑے بڑے لوگ ہمیشہ اِس پر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں مگر کیا مجال جو کوئی یہ کہنے کی جرأت کر سکے کہ عورت کا کام یہ ہے کہ وہ گھر کی چاردیواری میں بیٹھے۔ اگر کوئی شخص ایسی بات کہہ دے تو ایک طرف عورتیں اِس کے پیچھے پڑ جائیں گی کہ یہ ہماری آزادی کا دُشمن ہے اور دوسری طرف اخبارات میں مرد اُسے غیر مہذب اور غیر متمدن کہیں گے لیکن جرمنی میں ہٹلر نے کہہ دیا کہ عورت کا کام یہ ہے کہ اپنے گھر میں بیٹھے اور سب نے اِسے تسلیم کر لیا۔ جو بات یہاں ہندوستان میں جو ایک غلام مُلک ہے کہنے کی کوئی جُرأت نہیں کرتا وہ ایک آزاد مُلک میں کہی گئی اور سب نے اِسے بِلاچُون و چرا تسلیم کر لیا۔ حالانکہ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ یورپ میں اِس کا سمجھنا بِالکل ناممکن ہے کہ عورت گھر میں کس طرح رہ سکتی ہے مگر ہٹلر نے جو حکم دیا اُسے سب نے تسلیم کیا اور عمل کیا۔ اگرچہ کوئی ایسا طبقہ ہو سکتا ہے جو دل سے اِس خیال کے ساتھ متفق نہ ہو مگر یہ جُرأت کسی کو نہیں ہوئی کہ مقابلہ پر آئے۔ یہاں بڑے بڑے شہروں مثلاً لاہور، دہلی شملہ میں آئے دن عورت مرد کی مساوات کا شور رہتا ہے۔ مساوات کے یوں تو سب ہی قائل ہیں مگر یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ مساوات ہے کس معاملہ میں؟ حضرت خلیفہ اوّل سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ جموں میں ایک جج اِسی موضوع پر اُن سے بحث کرنے لگا کہ مرد عورت میں مساوات ہونی ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پچھلی مرتبہ آپ کی بیوی کے لڑکا ہؤا تھا اب کے آپ کے ہونا چاہئے۔ یہ جواب سُن کر وہ کہنے لگا کہ مَیں نے سُنا ہؤا تھا مولوی بد تہذیب ہوتے ہیں مگر مَیں آپ کو ایسا نہ سمجھتا تھا لیکن اب معلوم ہؤا کہ آپ بھی ایسے ہی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اِس میں بد تہذیبی کی کوئی بات نہیں۔ مَیں نے تو ایک مثال دی تھی اور آپ کو بتایا تھا کہ جب فطرت نے دونوں کو الگ الگ کاموں کے لئے پیدا کیا ہے تو اِس مساوات کے شور سے کیا فائدہ؟ تھی تو یہ سچائی مگر ایسے ننگے طور پر پیش کی گئی کہ اُسے بُری لگی اور شائد اُس کے حالات کے لحاظ سے حضرت خلیفہ اوّل کے لئے اِس کے سِوا چارہ نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مساوات بے شک ہے مگر دونوں کے کام الگ الگ ہیں۔ اِس بات کو پیش کرنے کی کسی کو جُرأت نہیں ہوتی کیونکہ قومی رُوح موجود نہیں۔ ہر شخص اپنی ذات کو دیکھتا ہے۔ اگر عورتوں کے لئے یہ قُربانی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں تو مرد کے لئے بھی اِس کے مقابلہ میں یہ بات ہے کہ میدانِ جنگ میں جاکر سر کٹوائے لیکن چونکہ قومی اور ملّی رُوح موجود نہیں اِس لئے اِن باتوں کو کوئی پیش کرنے کی جُرأت نہیں کرتا۔
پس خدام الاحمدیہ اِس بات کو اپنے پروگرام میں خاص طور پر ملحوظ رکھیں کہ قومی اور ملّی روح کا پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اصولی طور پر ہر ایک سے یہ اقرار لیا جائے اور اِسے بار بار دُہرایا جائے۔ محض اقرار کافی نہیں ہوتا بلکہ بار بار دُہرانا اشد ضروری ہوتا ہے۔ آج علم النّفس کے ماہر اِس بات پر بڑا زور دیتے ہیں کہ دوہرانے سے بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جاتی ہے لیکن اِن کی یہ بات جب مَیں پڑھتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح آج سے چودہ سَو سال قبل اسلام نے اِسی بات کو پیش کیا ہے۔ اسلام ہی ہے جس نے نہایت مختصر الفاظ میں مذہب کا خلاصہ پیش کر دیا۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْ لُ اﷲِ کیا ہے؟ یہ اسلامی تعلیم کا خلاصہ ہے اور جب مَیں علم النفس کا یہ مسئلہ پڑھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ یہ لوگ آج تحقیقاتیں کر رہے ہیں۔ ہِٹلرآج کہتا ہے لیکن محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے چودہ سَو سال قبل یہ نکتہ بتا دیا تھا۔ ہٹلر نے اپنی تصنیف میں لکھا ہے کہ مَیں نے قومی ترقی کے ذرائع پر بڑا غور کیا اور آخر مَیں اِس نتیجہ پر پہنچا کہ قومی ترقی کے اسباب کو تھوڑے سے تھوڑے لفظوں میں بیان کرنا چاہئے جو بار بار لوگوں کے سامنے آتے رہیں اور وہ انہیں بار بار دُہراتے رہیں۔ اِس طرح وہ انسانی دماغ میں جذب ہو جائیں گے لیکن اسلام میں یہ بات پہلے ہی سے موجود ہے۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْ لُ اﷲِکیا ہے؟ یہ اسلام کی تعلیم کا خلاصہ ہے۔ اِسے نمازوں میں اذانوں میں، اسلام لانے کے وقت غرضیکہ بار بار دُہرانے کا حکم ہے اور اِس طرح بار بار جو چیز دُہرائی جائے وہ زیادہ سے زیادہ پختہ وہ جاتی ہے۔
پس خدام الاحمدیہ کو بھی چاہئے کہ اِن کو چھوٹے سے چھوٹے فقروں میں لائیں اور پھر ہر میٹنگ کے موقع پر بار بار اِن کو دُہرایا جائے۔ مثلاً یہ فقرہ ہو سکتا ہے کہ مَیں اپنی جان کی اسلامی اور ملّی فوائد کے مقابلہ میں کوئی پرواہ نہیں کروں گا۔ جب کوئی مجلس ہو ہر شخص باری باری پہلے اِسے دُہرائے اور پھر کام شروع ہو۔ اِسی طرح جب ختم ہو تو بھی اِسے دُہرایا جائے اور اِس طریق سے یہ بات دماغ میں جذب ہو سکتی ہے۔ بعض نادان خیال کر لیتے ہیں کہ قواعد میں کوئی بات رکھ دینا ہی کافی ہوتا ہے اور اِس طرح وہ دل میں داخل ہو جاتی ہے۔ حالانکہ یہ بات فطرت انسانی کے بالکل خلاف ہے۔ اگر ایسا ہو سکتا تو اسلام کی تعلیم کے خلاصہ کے بار بار دُہرائے جانے کا حکم دینے کی کیا ضرورت تھی؟
پس اِس قسم کا کوئی فقرہ بنایا جائے اور ایسا انتظام کیا جائے کہ وہ بار بار دُہرایا جاتا رہے مثلاًیہ کہ میں جماعتی اور ملّی ضرورتوں کے مقابلے میں اپنی جان و مال اور کسی چیز کی کوئی پروا نہ کروں گا۔ اور پھر ایسا انتظام ہو کہ اِسے بار بار دُہرایا جائے۔ ایسے فقروں کو بار بار دُہرانے سے ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ذہنیتوں میں ایسی تبدیلی ہو جائے گی کہ بعض اوقات مخلصوں میں بھی بغاوت کا جو مادہ پیدا ہو جاتا ہے اُس کا احتمال نہیں رہے گا۔ دیکھو اسلام نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْ لُ اﷲِکو بار بار دُہرانے کا جو حکم دیا ہے اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ کبھی کوئی مسلمان یہ نہیں کہے گا کہ مَیں خدا کو نہیں مانتا یا میں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو نہیں مانتا۔ آپ کو کئی ایسے مسلمان ملیں گے جو کہہ دیں گے کہ جاؤ مَیں روزہ نہیں رکھتا، مَیں نماز نہیں پڑھتا مگر ایسا کوئی شخص جو اپنے آپ کو مسلمان بھی سمجھتا ہو نہیں ملے گا جو کہے کہ مَیں خدا کو نہیں مانتا یا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہیں مانتا۔ اِس لئے کہ نماز اور روزہ کی تعلیم بار بار اِس کے سامنے دُہرائی نہیں گئی مگر لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْ لُ اﷲِ بار بار دُہرایا جاتا رہا ہے۔ پس خدام الاحمدیہ انفرادی رُوح کی ملّی روح پر قُربان کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے تمام ذرائع استعمال کریں اور اِس کے لئے کوئی موزوں فقرہ بھی بنایا جائے جو کام شروع کرتے وقت بھی اور ختم کرتے وقت بھی دُہرایا جائے اور نعرے بھی لگائے جائیں لیکن ایک بات کا خیال رکھا جائے کہ قومی رُوح توحیدِ باری کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔اِس لئے ایسے فقرہ میں توحید کا اقرار بھی ہو اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کا بھی اور پھر وہ چھوٹا بھی ہو اور ہر موقع پر اُسے باربار دُہرانے کا انتظام بھی کیا جائے۔ پھر جب بھی کوئی جماعتی تحریک ہو وہ اپنے نوجوانوں کا جائزہ لیتے رہیں کہ اِس میں اُنہوں نے کیا حصّہ لیا ہے۔ سب اپنے اپنے ہاں کام کریں مگر ان سب سے رپورٹ لی جائے کہ کیا کیا ہے؟ اِس طرح بھی کام کرنے کی ایک رَو پیدا ہوتی ہے اور پہلے جو غفلت کر رہے ہوتے ہیں اُن کوبھی توجّہ پیدا ہو جاتی ہے۔
دوسری بات جو اُنہیں اپنے پروگرام میں شامل کرنی چاہئے وہ اسلامی تعلیم سے واقفیت پیدا کرنا ہے۔ یہ ایک مذہبی انجمن ہے سیاسی نہیں اور اِس لئے اصل پروگرام یہی ہے باقی چیزیں تو ہم حالات اور ضروریات کے مطابق لے لیتے یا ملتوی کر دیتے ہیں لیکن ہمارا اصل پروگرام تو وہی ہے جو قرآن کریم میں ہے۔ لجنہ اماء اﷲ ہو، مجلس انصار ہو، خدام الاحمدیہ ہو، نیشنل لیگ ہو، غرض کہ ہماری کوئی انجمن ہو اس کا پروگرام قرآن کریم ہی ہے اور جب ہر ایک احمدی یہی سمجھتا ہے کہ قرآن کریم میں سب ہدایات دے دی گئی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی مُضِرّنہیں تو اس کے سِوا اَور کوئی پروگرام ہو ہی کیا سکتا ہے؟ حقیقت یہی ہے کہ اصل پرگرام تو وہی ہے۔ اِس میں سے حالات اور اپنی ضروریات کے مطابق بعض چیزوں پر زور دے دیا جاتا ہے لیکن جب روزے رکھے جا رہے ہوں تو اُس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ حج منسوخ ہو گیا بلکہ چونکہ وہ دن روزوں کے ہوتے ہیں اس لئے روزے رکھے جاتے ہیں۔ جب ہم کوئی پروگرام تجویز کرتے ہیں تو اِس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ اِس وقت یہ امراض پیدا ہو گئے ہیں اور اِن کے لئے یہ قرآنی نسخے ہم استعمال کرتے ہیں اور یہ اِسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ سارا پروگرام سامنے ہواور اِس میں سے حالات کے مطابق باتیں لے لی جائیں لیکن اگر سارا پروگرام سامنے نہ ہو تو اس کا ایک نَقص یہ ہو گا کہ صرف چند باتوں کو دین سمجھ لیا جائے گا۔
پس خدام الاحمدیہ کا اہم فرض یہ ہے کہ اپنے ممبروں میں قرآن کریم باترجمہ پڑھنے اور پڑھانے کا انتظام کریں اور چونکہ وہ خدام الاحمدیہ ہیں صرف اپنی خدمت کے لئے ان کا وجود نہیں۔ اِس لئے جماعت کے اندر قرآن کریم کی تعلیم کو رائج کرنا اِن کے پروگرام کا خاص حصّہ ہونا چاہئے۔ تیسری بات جو اِن کے پروگرام میں ہونی چاہئے وہ آوارگی کا مٹانا ہے۔ آوارگی بچپن میں پیدا ہوتی ہے اور یہ سب بیماریوں کی جڑ ہوتی ہے اِس کی بڑی ذمّہ داری والدین اور استادوں پر ہوتی ہے۔ وہ چونکہ احتیاط نہیں کرتے اِس لئے بچے اِس میں مُبتلا ہو جاتے ہیں۔ دیکھو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِس کے مٹانے کے لئے کتنا انتظام کیا ہے کہ فرمایا بچے کے پیدا ہوتے ہی اِس کے کان میں اذان اور تکبیر کہی جائے۵؎ اور اِس طرح عمل سے بتا دیا کہ بچہ کی تربیت چھوٹی عمر سے شروع ہونی چاہئے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ بچوں کو مساجد اور عیدگاہوں میں ساتھ لے جانا چاہئے۔۶؎ خود آپ کا اپنا طریق بھی یہی تھا۔ آجکل تو یہ حالت ہے کہ سترہ اٹھارہ سال کے نوجوان بھی بیہودہ حرکت کریں تو والدین کہہ دیتے ہیں کہ ابھی ’’نیانا‘‘ یعنی کم عمر ہے لیکن ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عباسؓ حدیثیں سُناتے ہیں جبکہ اُن کی عمر صرف تیرہ سال کی ہے۔ امام مالک کے درس میں امام شافعی شریک ہونے کے لئے گئے اُن کے درس میں بیٹھنے کے لئے یہ ضروری شرط تھی کہ طالبعلم قلم دوات لے کر بیٹھے اور جو کچھ وہ بتائیں نوٹ کرتا جائے۔امام شافعی کی عمر اُس وقت صرف نو سال کی تھی۔ امام مالکؒ ۸؎نے اِنہیں بیٹھے دیکھا تو کہا بچے تم کیوں بیٹھے ہو؟ امام شافعی نے جواب دیا کہ درس میں شامل ہونے کے لئے آیا ہوں۔ آپ نے پوچھا کہ اب تک کیاپڑھا ہے؟ اُنہوں نے بتایا کہ یہ یہ پڑھ چُکا ہوں۔ اِس پر امام مالکؒ نے کہا کہ تم بہت کچھ پڑھ چکے ہو مگر میرے درس میں بیٹھنے کا یہ طریق نہیں۔ یہاں تو قلم دوات لے کر بیٹھنا چاہئے۔ امام شافعی نے کہا کہ مَیں کل بھی بیٹھا تھا آپ دوسرے طلباء سے مقابلہ کرالیں۔ امام صاحب نے سوال کیا اور اُنہوں نے ٹھیک جواب دیا۔ امام صاحب کی عادت تھی کہ اگلے روز نوٹوں کو سُنتے اور کوئی غلطی ہوتی تو اُس کی اصلاح کر دیتے تھے۔ اس دن جو اُنہوں نے گزشتہ نوٹ سُننے شروع کئے تو جب پڑھنے والا غلطی کرتا امام شافعی جھٹ اس کو ٹوک دیتے کہ امام صاحب نے یوں نہیں بلکہ یوں فرمایا تھا۔ چنانچہ امام مالک نے اُن کو بغیر قلم دوات کے اپنے درس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی حالانکہ اَور کسی کو اِس کی اجازت نہ تھی۔ یہ بات کیوں تھی؟ اِس لئے کہ ماں باپ نے شروع میں ہی اِن کو علم کے حصول میں لگا دیا تھا مگر ہمارا ’’نیانا پن‘‘ یعنی بچپن اٹھارہ بیس سال تک نہیں جاتا۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مُلک میں عمر کے دو ہی حصّے سمجھے جاتے ہیں۔ ایک وہ جب بچہ سمجھا جاتا ہے اور ایک وہ جب وہ بے کار بوڑھا ہوتا ہے اور اِس طرح کام کا کوئی وقت آتا ہی نہیں۔ ایک دفعہ ایک عورت جس کی عمر کوئی پینسٹھ سال کی ہو گی مجھ سے کوئی بات کر رہی تھی اور بار بار کہتی تھی کہ ’’ساڈے یتیماں تے رحم کرو‘‘ یعنی ہم یتیموں پر رحم کریں۔ یہ کوئی پانچ سات سال کی بات ہے اور اِس وقت اِس کی عمر ۶۵ سال کی ہو گی تو گویا ہمارے ہاں یا تو آدمی بچہ ہوتا ہے اور یا پِیرفرتوت جسے پنجابی میں سترا بہترا کہتے ہیں۔ یہ بہت حماقت کی بات ہے کہ بچوں کو چھوٹا سمجھ کر انہیں آوارہ ہونے دیا جائے۔ اگر بچوں سے صحیح طور پر کام لیا جائے تو وہ کبھی آوارہ ہو ہی نہیں سکتے۔ اگر انہیں گلیوں اور بازاروں میں آوارہ پھرنے کی بجائے مجلسوں میں بٹھایا جائے تو بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ میری تعلیم کچھ بھی نہ تھی لیکن یہ بات تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں جا بیٹھتا تھا، حضرت خلیفۂ اوّل کی مجلس میں چلا جاتا تھا، کھیلا بھی کرتا تھا ۔ مجھے شکار کا شوق تھا، فٹ بال بھی کھیل لیتا تھا لیکن گلیوں میں بیکار نہیں پھرتا تھا بلکہ اُس وقت مجلسوں میں بیٹھتا تھا اور اِس کا نتیجہ یہ تھا کہ بڑی بڑی کتابیں پڑھنے والوں سے میرا علم خدا تعالیٰ کے فضل سے زیادہ تھا۔ علم گدھوں کی طرح کتابیں لاد لینے سے نہیں آجاتا۔ آوارگی کو دور کرنے سے علم بڑھتا ہے اور ذہن میں تیزی پیدا ہوتی ہے۔
پس اَساتذہ ،افسران تعلیم اور خدام الاحمدیہ کا یہ فرض ہے کہ بچوں سے آوارگی کو دُور کریں یہ آوارگی کا ہی اثر ہے کہ اِدھر ہم نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں اور اُدھر گلی میں بچے گالیاں بک رہے ہوتے ہیں۔ اگر تو وہ نماز ہی نہیں پڑھتے تو دُہرے مُجرم ہیں۔ نہیں تو یہی جُرم کافی ہے، فحش گالیاں ماں بہن کی وہ بکتے ہیں اور کسی شریف آدمی کو خیال نہیں آتا کہ اُن کو روکے۔ مسجدمبارک کے سامنے کھیلنے والے بچے ۹۰،۹۵ فیصدی احمدیوں کے بچے ہی ہو سکتے ہیں۔ تھوڑے سے غیروں کے بھی ہوتے ہوں گے مگر مَیں نے اپنے کانوں سے سُنا ہے احمدیوں کے بچے گالیاں دے رہے ہوتے ہیں اور اُن کے ماں باپ اور اساتذہ کو احساس تک نہیں ہوتا کہ اُن کی اصلاح کریں۔ پھر مَیں نے دیکھا ہے مدرسہ احمدیہ کے طلباء گلیوں میں سے گزرتے ہیں تو گاتے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ وقار کے سخت خلاف ہے اور اِس کے یہ معنے ہیں کہ شرم و حیا جو دین کا حصّہ ہے بالکل جاتی رہی ہے۔ پھر مَیں نے دیکھا ہے نوجوان ایک دوسرے کی گردن میں باہیں اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلے جارہے ہیں۔ حالانکہ یہ سب باتیں وقار کے خلاف ہیں۔ مجھے یاد ہے میرا ایک دوست تھا بچپن میں ایک دفعہ ہم دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے بیٹھے تھے کہ حضرت خلیفہ اوّل نے دیکھا۔ میری تو آپ بہت عزّت کیا کرتے تھے اِس لئے مجھے تو کچھ نہ کہا لیکن اُس کو اِس قدر ڈانٹا کہ مجھے بھی سبق حاصل ہو گیا۔ ہمارے مُلک میں کہتے ہیں کہ ’’تی اے نی مَیں تینوں کہاں نُو ایں نی تُوں کَن رکھ‘‘۔ یعنی بات تو مَیں اپنی لڑکی سے کہتی ہوں مگر بہو اِسے غور سے سُنے۔ اِسی طرح حضرت خلیفہ اوّل نے اُسے ڈانٹا مگر مجھے بھی سبق ہو گیا کہ یہ بری بات ہے۔
مَیں نے دیکھا ہے کہ نوجوانوں کو اسلامی آداب سکھانے کی طرف توجہ ہی نہیں کی جاتی۔ نوجوان بے تکلفّانہ ایک دوسرے کی گردن میں بانہیں ڈالے پھر رہے ہوتے ہیں حتّٰی کہ میرے سامنے بھی ایسا کرنے میں انہیں کوئی باک نہیں ہوتا۔ کیونکہ اُن کو یہ احساس ہی نہیں کہ یہ کوئی بُری بات ہے۔ اِن کے ماں باپ اور اَساتذہ نے اِن کی اصلاح کی طرف کبھی کوئی توجہ ہی نہیں کی۔ حالانکہ یہ چیزیں انسانی زندگی پربہت گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کی بچپن میں تربیت کا اب تک مجھ پر اثر ہے اور جب وہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیار اُن کے لئے دل سے دُعا نکلتی ہے۔ ایک دفعہ میں ایک لڑکے کے کندھے پر کُہنی ٹیک کر کھڑا تھا کہ ماسٹر قادر بخش صاحب نے جو مولوی عبدالرحیم صاحب دردؔ کے والد تھے اِس سے منع کیا اور کہا کہ یہ بہت بُری بات ہے۔ اُس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہو گی لیکن وہ نقشہ جب بھی میرے سامنے آتا ہے اُن کے لئے دِل سے دُعا نکلتی ہے۔
اِسی طرح ایک صوبیدار صاحب مُراد آباد کے رہنے والے تھے اُن کی ایک بات بھی مجھے یاد ہے۔ ہماری والدہ چونکہ دلّی کی ہیں اور دلّی بلکہ لکھنؤ میں بھی ’’تم‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ بزرگوں کو بے شک آپ کہتے ہیں لیکن ہماری والدہ کے کوئی بزرگ چونکہ یہاں تھے نہیں کہ ہم اِن سے ’’آپ‘‘ کہہ کر کسی کو مخاطب کرنا بھی سیکھ سکتے۔ اِس لئے مَیں دس گیارہ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ’’تم‘‘ ہی کہا کرتا تھا۔ اﷲ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے اور ان کے مدارج بلند کرے۔ صوبیدار محمد ایوب خان صاحب مُراد آباد کے رہنے والے تھے۔ گورداسپور میں مقدمہ تھا اور مَیں نے بات کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تم کہہ دیا۔ وہ صوبیدار صاحب مجھے الگ لے گئے اور کہا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ہیں اور ہمارے لئے محلِّ ادب ہیں لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ ’’تم‘‘ کا لفظ برابر والوں کے لئے بولا جاتا ہے بزرگوں کے لئے نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے اِس کا استعمال مَیں بالکل برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ پہلا سبق تھا جو اُنہوں نے اِس بارہ میں مجھے دیا۔ پس بڑوں کا فرض ہے کہ چھوٹوں کو یہ آداب سکھائیں۔ اگر ایک ہی شخص کہے تو ان پر اثر نہیں ہوتا۔ بچے سمجھتے ہیں یہ ضدی سا آدمی ہے یونہی ایسی باتیں کرتا رہتا ہے۔ اگر باپ کہے اور ماں نہ کہے تو سمجھتے ہیں باپ ظالم ہے۔ اگر یہ اچھی بات ہوتی تو ماں کیوں نہ کہتی۔ اگر ماں باپ کہیں اور اُستاد نہ کہے تو سمجھتے ہیں اگر یہ اچھی بات ہوتی تو اُستاد کیوں نہ کہتا اور اگر اُستاد بھی کہے اور دوسرا کوئی نہ کہے تو سمجھتے ہیں اگر یہ اچھی بات ہوتی تو کوئی دوسرا شخص کیوں نہ کہتا لیکن اگر ماں باپ بھی کہیں، اُستاد بھی کہیں اور دوسرے لوگ بھی کہتے رہیں تو وہ بات ضرور دِل میں راسخ ہو جاتی ہے۔
ایک چھوٹا سا ادب خطبہ کو توجہ سے سُننا ہے اور مَیں کئی بار اِس کی طرف توجہ بھی دِلا چُکا ہوں مگر مَیں نے دیکھا ہے لوگ برابر باتیں اور اشارے کرتے رہتے ہیں اور اَساتذہ یا دوسرے لوگ کوئی اخلاقی دباؤ نہیں ڈالتے کہ جس سے اصلاح ہو۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ عادت ہمیشہ ہی چلتی چلی جاتی ہے۔ ایک دفعہ مَیں نے دیکھا مَیں خطبہ پڑھ رہا تھا۔ ایک شخص کو مَیں قریباً پندرہ منٹ تک دیکھتا رہا کہ وہ اپنے ایک بعد میں آنے والے دوست کو برابر اشارے کرتا رہا کہ آگے آجاؤ۔ اگر بچپن میں ماں باپ یا اُستاد یا دوسرے لوگ اُسے یہ بتاتے کہ یہ ناجائز ہے اور کہ جب تمہاری اپنی ہدایت کا سوال پیدا ہو جائے تو دوسرے کو گمراہی سے بچانے کا موقع نہیں ہوتا تو وہ اِس گناہ کا مُرتکب نہ ہوتا۔ یہ اِس جوش کی وجہ سے کہ دوست آگے آجائے اور خطبہ سُن لے اُسے اشارے کرتا تھا لیکن وہ شرم کی وجہ سے آگے نہ بڑھتا تھا اور اگر یہ مسئلہ بچپن سے ہی اِس کے ذہن نشین ہوتا تو کبھی دوسری طرف اِس کی نظر ہی خطبہ کے دوران میں نہ اُٹھتی اور اِس طرح کسی کو اشارے کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا اور یہ دوسرے کی ہدایت کے جوش میں خود گمراہی کا مُرتکب نہ ہوتا۔ یہ تربیت سے تعلق رکھنے والے مسائل ہیں اور اِن سے آوارگی دور ہوتی ہے۔ پھر بچہ کو بر وقت کسی نہ کسی کا م میں لگائے رکھنا چاہئے۔ مَیں کھیل کو بھی کام ہی سمجھتا ہوں یہ کوئی آوارگی نہیں۔ آوارگی میرے نزدیک فارغ اور بیکار بیٹھنے کا نام ہے یا اِس چیز کا کہ بانہوں میں بانہیں ڈال لیں اور گلیوں میں پھرتے رہے۔ اِس بات کا اچھی طرح خیال رکھنا چاہئے کہ بچے یا پڑھیں یا کھیلیں یا کھائیں اور یا سوئیں، کھیل آوارگی نہیں۔ اِس لئے اگر وہ دس گھنٹے بھی کھیلتے ہیں تو کھیلنے دو۔ اِس سے ان کا جسم مضبوط ہو گا اور آوارگی بھی پیدا نہ ہو گی۔ پس کھیلنا بھی ایک کام ہے جس طرح کھانا اور سونا بھی کام ہے مگر خالی بیٹھنا اور باتیں کرتے رہنا آوارگی ہے۔ اِس لئے خدام الاحمدیہ کو کوشش کرنی چاہئے کہ جماعت کے بچوں میں یہ آوارگی پیدا نہ ہو۔ کسی کو یونہی پھرتے دیکھیں تو اِس سے پوچھیں کہ کیوں پھر رہا ہے۔ اگر باز نہ آئے تو محلہ کے پریذیڈنٹ کو رپورٹ کریں اور ان سب باتوں کے لئے اصول وضع کریں جن کے ماتحت کام ہو۔ مَیں نے دیکھا ہے کئی لوگ گھنٹوں دکانوں پر بیٹھے فضول باتیں کرتے رہتے ہیں حالانکہ اگر اُسی وقت کو وہ تبلیغ میں صرف کریں تو کئی لوگوں کو احمدی بنا سکتے ہیں لیکن فضول وقت ضائع کر دیتے ہیں اور اگر کام کے لئے پوچھا جائے تو کہہ دیتے ہیں کہ فُرصت نہیں۔ حالانکہ اگر فُرصت نہیں ہوتی تو دکانوں پر کس طرح بیٹھے باتیں کرتے رہتے ہیں؟ ایک اَور ذریعہ اصلاح کا یہ بھی ہے کہ بیٹھ کر علمی اور دینی باتیں کی جائیں۔اچھے انداز میں گفتگو کرنا بھی ایک خاص فن ہے۔ ایسی مجلسوں میں علمی اور دینی باتیں ہوں لیکن بحث مباحثہ نہ ہو۔ اس چیز کو بھی مَیں آوارگی سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک یہ بات سب سے زیادہ دل پر زنگ لگانے والی ہے۔ مباحثہ کرنے والوں کے مدّنظر تقویٰ نہیں بلکہ مدّمقابل کو چُپ کرنا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مَیں ہمیشہ مباحثات سے بچتا ہوں اور میری تو یہ عادت ہے کہ اگر کوئی مباحثانہ رنگ میں سوال کرے تو ابتدا میں ایسا جواب دیتا ہوں کہ کئی لوگوں نے کہا ہے کہ اُنہوں نے کسی سوال پر پہلے پہل میرا جواب سُن کر یہ خیال کیا کہ شائد میں جواب نہیں دے سکتا اور دراصل ٹالنے کی کوشش کرتا ہوں مگر جب کوئی پیچھے ہی پڑجائے تو مَیں جواب کی ضرورت محسوس کرتا ہوں اور پھر خداتعالیٰ کے فضل سے ایساجواب دیتا ہوں کہ وہ بھی اپنی غلطی محسوس کر لیتا ہے۔ یاد رکھو سچائی کے لئے کسی بحث کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مَیں نے ہمیشہ ایسی باتوں سے روکا ہے۔ ڈیبیٹنگ کلبیں بھی میرے نزدیک آوارگی کی ایک شاخ ہے اور مَیں اِس سے ہمیشہ روکتا رہتا ہوں لیکن یہ چیز بھی کچھ ایسی راسِخ ہو چکی ہے کہ برابر جاری ہے حالانکہ اِس سے دل پر سخت زنگ لگ جاتا ہے۔ ایک شخص کسی چیز کو مانتا نہیں مگر اِس کی تائید میں دلائل دیتا جاتا ہے تو اِس سے دِل پر زنگ لگنا لازمی امر ہے۔ مجھے ایک واقعہ یاد ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طریق ایمان کو خراب کرنے والا ہے۔ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سُنایا کہ مولوی بشیر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت مؤیِّد اور مَیں مخالف تھا۔ مولوی بشیر صاحب ہمیشہ دوسروں کو براہین احمدیہ پڑھنے کی تلقین کرتے اور کہا کرتے تھے کہ یہ شخص مجدد ہے۔ آخر مَیں نے ان سے کہا کہ آؤ مباحثہ کر لیتے ہیں مگر آپ تو چونکہ مؤیِّد ہیں، آپ مخالفانہ نقطۂ نگاہ سے کتابیں پڑھیں اور مَیں مخالف ہوں اِس لئے موافقانہ نقطہ نگاہ سے پڑھوں گا۔ سات آٹھ دن کتابوں کے مطالعہ کے لئے مقرر ہو گئے اور دونوں نے کتابوں کا مطالعہ کیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ مَیں جو مخالف تھا احمدی ہو گیا اور وہ جو قریب تھے بالکل دُور چلے گئے۔ اِن کی سمجھ میں بات آگئی اور اِن کے دل سے ایمان جاتا رہا۔ تو علم النفس کے رو سے ڈیبیٹس کرنا سخت مُضِر ہے اور بعض اوقات سخت نقصان کا موجب ہو جاتا ہے۔ یہ ایسے باریک مسائل ہیں جن کو سمجھنے کی ہر مدرِّس اہلیت نہیں رکھتا۔ ابھی تھوڑا عرصہ ہؤا یہاں ایک ڈیبیٹ ہوئی اور جس کی شکایت مجھ تک بھی پہنچی تھی اِس میں اِس امر پر بحث تھی کہ ہندوستان کے لئے مخلوط انتخاب چاہئے یا جُداگانہ؟ حالانکہ مَیں اِس کے متعلق اپنی رائے ظاہر کر چکا ہوں اور یہ سُوئِ ادبی ہے کہ اِس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ مَیں ایک امر کے متعلق اپنی رائے ظاہر کر چُکا ہوں پھر اِس کو زیر بحث لایا جائے۔ جن امور میں خدا تعالیٰ یا اُس کے رسول یا اُس کے خلفاء اظہار رائے کر چکے ہوں ان کے متعلق بحث کرنا گستاخی اور بے ادبی میں داخل ہے۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ تو محض کھیل ہے لیکن کیا کوئی کھیل کے طور پر اپنے باپ کے سر میں جوتیاں مار سکتا ہے۔ تو ڈیبیٹس سے زیادہ حماقت کی کوئی بات نہیں۔ ہر احمدی وفاتِ مسیح کا قائل ہے مگر ڈیبیٹ کے لئے بعض حیاتِ مسیح کے دلائل دینے لگتے ہیں۔ مَیں تو ایسے شخص سے یہی کہوں گا کہ بے حیا خدا تعالیٰ نے تجھے ایمان دیا تھا مگر تو کُفر کی چادر اوڑھنا چاہتا ہے۔ پس یہ ڈیبیٹس بھی آوارگی میں داخل ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ نے تمہیں یہ توفیق دی ہے کہ حق بات کو تم نے مان لیا تو اُس کا شکریہ ادا کرو نہ کہ خواہ مخواہ اُس کی تردید کرو۔ بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ اِس سے عقل بڑھتی ہے لیکن اِس عقل کے بڑھانے کو کیا کرنا ہے جس سے ایمان جاتا رہے۔ دونوں باتوں کا موازنہ کرنا چاہئے۔ اگر ساری دُنیا کی عقل مل جائے اور ایمان کے پہاڑ میں سے ایک ذرّہ بھی کم ہو جائے تو اِس عقل کو کیا کرنا ہے۔ یہ کوئی نفع نہیں بلکہ سراسر خُسران اور تباہی ہے۔ پس یہ بھی آوارگی میں داخل ہے اور مَیں نے کئی دفعہ اِس سے روکا ہے۔ مگر پھر بھی ڈیبیٹس ہوتی رہتی ہیں۔ جس طرح کوڑی کو خارش ہوتی ہے اور وہ رہ نہیں سکتا اِسی طرح اِن لوگوں کو بھی کچھ ایسی خارش ہوتی ہے کہ جب تک ڈیبیٹ نہ کرالیں چین نہیں آتا اور پھر دینی اور مذہبی مسائل کے متعلق بھی ڈیبیٹیں ہوتی رہتی ہیں۔ حالانکہ وہ تمام مسائل جن کی صداقتوں کے ہم قائل ہیں یا جن میں سلسلہ اظہار رائے کر چُکا ہے ان پر بحث کرنا دماغی آوارگی ہے اور حقیقی ذہانت کے لئے سخت مُضِر ہے۔ مَیں نے سَو دفعہ بتایا ہے کہ اگر اِس کی بجائے یہ کیا جائے کہ دوست اپنی اپنی جگہ مطالعہ کر کے آئیں اور پھر ایک مجلس میں جمع ہو کر یہ بتائیں کہ فلاں مخالف نے یہ اعتراض کیا ہے۔ بجائے اِس کے کہ یہ کہیں کہ مَیں یہ اعتراض فلاں مسئلہ پر کرتا ہوں۔ اگر مولوی ثناء اﷲ صاحب یا مولوی ابراہیم صاحب یا کسی اور مخالف کے اعتراض پیش کئے جائیں اور پھر سب مل کر جواب دیں اور خود اعتراض پیش کرنے والا بھی جواب دے تو یہ طریق بہت مُفید ہو سکتا ہے مگر ایسا نہیں کیا جاتا بلکہ ڈیبیٹوں کو ضروری سمجھا جاتا ہے اور انگریزوں کی نقل کی جاتی ہے کہ ’’ہاؤس‘‘ یہ کہتا ہے۔ ہماری مجلس شوریٰ میں بھی یہ ’’ہاؤس‘‘ کا لفظ داخل ہو گیا تھا مگر مَیں نے تنبیہہ کی اِس پر وہاں سے تو نکل گیا ہے مگر مدرسوں میں رواج پکڑ رہا ہے۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ اِس طرح کہنے سے اِس بات میں کون سا سُرخاب کا پر لگ جاتاہے۔۷؎ سیدھی طرح کیوں نہیں کہہ دیا جاتا کہ جماعت کی یہ رائے ہے۔ اِس کے یہ معنے ہیں کہ دماغ کو کُفر کی کاسہ لیسی میں لذّت اور سرور حاصل ہوتا ہے۔
پس خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ اِس قسم کی آوارگیوں کو خواہ وہ دماغی ہوں یا جسمانی روکیں اور دُور کریں۔ کھیلنا آوارگی میں داخل نہیں۔ ایک دفعہ مجھے رؤیا میں بتایا گیا ایک شخص نے خواب میں ہی مجھے کہا کہ فلاں شخص ورزش کر کے وقت ضائع کرتا ہے اور مَیں رؤیا میں ہی اِسے جواب دیتا ہوں کہ یہ وقت کا ضیاع نہیں۔ جب کوئی اپنے قویٰ کا خیال نہیں رکھتا تو دینی خدمات میں پوری طرح حصّہ نہیں لے سکتا۔ اِس میں اﷲ تعالیٰ نے مجھے سبق دیا تھا کیونکہ مجھے ورزش کا خیال نہیں تھا تو ورزش بھی کام ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مونگریاں اور مُگدَر پھیرا کرتے تھے۔ بلکہ وفات سے سال دو سال قبل مجھے فرمایا کہ کہیں سے مونگریاں تلاش کرو جسم میں کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ مَیں نے کسی سے لا کر دیں اور آپ کچھ دن انہیں پھیراتے رہے بلکہ مجھے بھی بتاتے تھے کہ اِس اِس رنگ میں اگر پھیری جائیں تو زیادہ مُفید ہیں۔ پس ورزش انسان کے کاموں کا حصّہ ہے۔ ہاں گلیوں میں بے کار پھرنا، بے کار بیٹھے باتیں کرنا اور بحثیں کرنا آوارگی ہے اور ان کا انسداد خدام الاحمدیہ کا فرض ہے۔ اگر تم لوگ دُنیا کو وعظ کرتے پھرو لیکن احمدی بچے آوارہ پھرتے رہیں تو تمہاری سب کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ پس تمہارا فرض ہے کہ ان باتوں کو روکو، دکانوں پر بیٹھ کر وقت ضائع کرنے والوں کو منع کرو اور کوئی نہ مانے تو اُس کے ماں باپ ، اُستادوں کو اور محلہ کے افسروں کو رپورٹ کرو کہ فلاں شخص آوارہ پھرتا یا فارغ بیٹھ کر وقت ضائع کرتا ہے۔ پہلے پہل لوگ تمہیں گالیاں دیں گے، بُرا بھلا کہیں گے اور کہیں گے کہ آگئے ہیں خدائی فوجدار اور طنزیہ رنگ میں کہیں گے کہ بس پکے احمدی تو یہ ہیں ہم تو یونہی ہیں لیکن آخر وہ اپنی اصلاح پر مجبور ہوں گے اور پھر تمہیں دُعائیں دیں گے۔ جیساکہ مَیں نے بتایا ہے جن لوگوں نے میری تربیت میں حصّہ لیا اور کوئی اچھی بات بتائی جب بھی وہ یادآتی ہے میرے دل سے اُن کے لئے دُعا نکلتی ہے۔ پس آوارگی کو مٹانا بھی خدام الاحمدیہ کے فرائض میں سے ہے۔ اب چونکہ دیر ہو گئی ہے اِس لئے باقی باتیں پھر بیان کروں گا۔‘‘
(الفضل ۱۱؍مارچ ۱۹۳۹ئ)
۱؎ الفرقان: ۳۱ ۲؎ البقرہ: ۳۶ ، الاعراف: ۲۰
۳؎ المنجد عربی اُردو صفحہ ۴۴۶ مطبوعہ کراچی ۱۹۹۴ء
۴؎ المنجد عربی اُردو صفحہ ۴۴۶ مطبوعہ کراچی ۱۹۹۴ء
۵؎ ابو داؤد کتاب الادب باب فی المولود یُؤذن فی اُذنِہ (مفہوماً)
۶؎ ابو داؤد کتاب الصلٰوۃ باب مَتٰی یُؤْ مَرُالْغُلامُ بالصلٰوۃ میں عید گاہوں کا ذکرنہیں۔
۷؎ ایک آبی پرندہ جسے عربی میں نخام ، فارسی میں خرچال اور ہندی میں چکوا چکوی کہتے ہیں۔ رنگ سُرخ ہوتا ہے جو رات کو اپنی مادہ سے جُدا رہتا ہے۔ ایک دوسرے کو پکارتا ہے اور اِس کی آواز کے پیچھے جاتا ہے مگر ملاقات سے محروم اور مضطرب رہتا ہے۔ ’’سرخاب کا پر لگ جانا‘‘ ایک محاورہ ہے جو دولت پر غرور اور متکبر ہونے یا شان و شوکت میں کسی کو برابر نہ سمجھنے پر بولا جاتا ہے۔ (فرہنگ آصفیہ)
۶
خدّام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے اندر
قومی ، تجارتی اور اخلاقی دیانت پیدا کریں
(فرمودہ ۱۷؍فروری۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’میرا آج کا خُطبہ بھی گزشتہ دو خطبات کے سلسلہ میں ہی ہے۔ مگر پیشتر اِس کے کہ مَیں اصل مضمون کو شروع کروں مَیں قادیان کے خدام الاحمدیہ کو اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ مختلف مساجد کے مؤذِّنوں کی اذانیں دُرست کرائیں۔ بعض جگہ پر بِلا وجہ مؤذن عربی عبارت کا ایسا ستیاناس کر دیتے ہیں کہ واقف آدمی کے کانوں پر وہ بہت ہی گِراں گزرتا ہے۔ مَیں نے کئی دفعہ اِس طرف توجّہ دلائی ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک اِس طرف توجّہ ہوئی نہیں۔ جن حروف کا ادا کرنا ہمارے لئے مُشکل ہے اُن کے متعلق ایک پنجابی سے یہ اُمید رکھنا کہ وہ اہلِ عرب کے لہجہ کو ادا کرے بِالکل غلط ہے اور مَیں اِس پر زور نہیں دیتا۔ مَیں صرف اِس حصّہ کی درستی کا مُطالبہ کرتا ہوں جس حصّہ کی درستی ہمارے اختیار میں ہے اور باوجود اختیار میں ہونے کے اُس کی درستی کی طرف توجّہ نہیں کی جاتی۔ تو خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ اپنے میں سے پانچ سات نوجوانوں کو جو عربی تعلیم سے واقف ہوں اذان کے الفاظ اچھی طرح واقفیت کرا دیں، اِس کے بعد مختلف مساجد میں (اورکوشش کرنی چاہئے کہ یہ لوگ ایسے ہی ہوں جن کا تعلق مختلف مساجد سے ہو)ان کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ جو باقاعدہ مؤذن ہیں ان کی اذانوں کی اصلاح کریں اور دوسرے لوگ بھی جو باقاعدہ مؤذن نہیں اگر اُن کی کوئی غلطی دیکھیں تو انہیں ٹوک دیا کریں تاکہ انہیں اپنی اصلاح کا خیال پیدا ہو۔ مثلاً ابھی جو اذان ہوئی ہے اِس میں مؤذن نے حَیَّ کے بعد اتنا لمبا الف استعمال کیا ہے جو نہ تو جائز ہے اور نہ ہی اِس کی کوئی ضرورت ہوتی ہے مگر عام پنجابی لہجہ یہی طریق اختیار کرتا ہے اور پنجابی مؤذن حَیَّ نہیں بلکہ حَیَّا کہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے شائد اِس طرح آخر میں الف زائد کر دینے اور اِسے لمبا کر دینے سے آواز اونچی ہو جاتی ہے حالانکہ عرب لوگ بھی اذان دیتے ہیں اور وہ بغیر حَیَّا کہنے کے کام چلا لیتے ہیں۔ بایں ہمہ اُن کی آوازیں اتنی بلند ہوتی ہیں اور اُن کی اذان میں اپنی ذات میں ایسی مسرّت انگیز آواز کی حامل ہوتی ہے کہ وہ ایک شیریں راگ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ مکّہ مکرمہ میں چونکہ مؤذّن مقرر کئے جاتے ہیں اور مَیں نے دیکھا ہے اذان دیتے وقت اُن کی آوازیں اتنی دلکش اور لطیف ہوتی ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسان اِس آواز کے ساتھ ہی زمین سے اُٹھ کر آسمان کی طرف جارہا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ اِس لفظ کی خوبصورتی الِف چھوڑ دینے میں ہے اِس کے استعمال کرنے میں نہیں۔ اور جب الف اِس لفظ میں ہے ہی نہیں تو اِس کے استعمال کرنے کے کوئی معنی ہی نہیں ہو سکتے۔ پس اگر وہ آئندہ کے لئے حَیَّ کے بعد الف استعمال نہ کریں تو مَیں سمجھتا ہوں ان کی اذان پہلے سے بہت زیادہ خوبصورت ہو جائے۔ اِسی طرح اور بھی بہت سے نقائص ہیں جو ہمارے پنجاب میں بوجہ عربی زبان کی ناواقفیت کے اصرار سے چلتے چلے جاتے ہیں اور مَیں خدّام الاحمدیہ کو توجّہ دلاتا ہوں کہ وہ اِس نقص کی اصلاح کی کوشش کریں۔
اِس کے بعد مَیں آج کے مضمون کو لیتا ہوں۔ گزشتہ خُطبہ میں مَیں نے خدّام الاحمدیہ کے مقاصد میں سے تین ضروری مقاصد کو لیا تھا اور بتایا تھا کہ ان کی طرف خصوصیت سے ان ایّام میں انہیں توجّہ کرنی چاہئے اور وہ یہ تھے۔
اوّل۔ انہیں اپنے ممبروں کے اندر اور دوسری جماعت کے اندر بھی قومی رُوح پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جماعتی کاموں کے لئے قُربانی کا مادہ پیدا کرنا چاہئے۔ یہ پہلا مقصد ہے جو اِنہیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔
دوسری بات مَیں نے یہ کہی تھی کہ اسلامی تعلیم سے واقفیت پیدا کی جائے۔
تیسری بات مَیں نے یہ کہی تھی کہ آوارگی اور بیکاری کا ازالہ کیا جائے۔
اب مَیں چوتھی بات بیان کرتا ہوں جو یہ ہے کہ اچھے اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
اچھے اخلاق میں سے مَیں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے بہترین اخلاق جن کا پیدا کرنا کسی قوم کی زندگی کے لئے نہایت ضروری ہے وہ سچ اور دیانت ہیں۔ اَور بھی بہت سے اخلاق ہیں مگر سچ اور دیانت نہایت اہمیت رکھنے والے اخلاق ہیں۔ جس قوم میں سچ پیدا ہو جائے اور جس قوم میں دیانت آجائے وہ قوم نہ کبھی ذلیل ہو سکتی ہے اور نہ کبھی غلام بنائی جاسکتی ہے۔ سچائی اور دیانت دونوں کا فقدان ہی کسی قوم کو ذلیل بناتا اور اُن دونوں کا فقدان ہی کسی قوم کو غلام بناتا ہے۔ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ ہندوستان کی غلامی کا ہمیشہ رونا روتا رہتا ہے لیکن اگر تم غور سے دیکھو تو تمہیں معلوم ہو کہ ہندوستان کی غلامی کا موجب انہی دو چیزوں کا فقدان ہے۔ تم ہندوستان کی تاریخ کو پڑھ جاؤ اتنے بڑے وسیع مُلک کا انگریزوں کے ماتحت آجانا محض بد دیانتی کی وجہ سے تھا۔ انگریزی فوجیں جو شروع زمانہ میں بعض دفعہ سینکڑوں کی تعداد سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں کبھی ہندوستان پر غالب نہیں آسکتی تھیں اگر ہندوستانیوں میں دیانت پائی جاتی۔ بعض دفعہ تو تاریخ پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ ساری بات ہی جھوٹی ہے اور عقل تسلیم نہیں کرتی کہ مدراس کے ایک چھوٹے سے علاقہ میں اقامت پذیر چند سَو انگریز ہندوستان کی بڑی بڑی طاقتوں اور حکومتوں کو زیر کرتے چلے جائیں۔ عقل اِس کے باور کرنے سے انکار کرتی ہے کیونکہ انسانی فطرت اِس حد تک اخلاق کی گراوٹ کو تسلیم کرنا برداشت نہیں کرتی جس قسم کی گراوٹ اِس زمانہ میں ہندوستانیوں میں پائی جاتی تھی۔ کسی جگہ پر تو شہزادوں کو رشوت دے دی جاتی ہے کہ اگر تم اپنے باپ یا بھائی سے بغاوت کرو تو ہم تم کو اِس کی جگہ گدّی پر بٹھادیں گے اور وہ بد دیانت اور ذلیل انسان اِس رشوت کو قبول کر لیتے ہیں۔
کسی جگہ وزراء کو یہ اُمید دلا دی جاتی ہے کہ ہم تمہاری ایک ریاست قائم کر دیں گے یا تم کواُس ریاست کا قبضہ دے دیں گے یا اَور کوئی بڑا عُہدہ دے دیں گے اور وہ ننگِ انسانیت اِس رشوت کو قبول کر لیتے ہیں اور انہی چالبازیوں کے ساتھ اور انہی رشوتوں کے ذریعہ یورپین اقوام جو نہایت قلیل تعداد میں ہندوستان میں آئیں، ہندوستان کے ایک گوشہ سے بھرے ہوئے بادل کی طرح بڑھنا شروع کر دیتی ہیں اور سارے مُلک پر چھا جاتی ہیں۔ مرہٹوں کی طاقت یا نظام حیدر آباد کی طاقت کے مقابلہ میں مدر اس میں انگریزوں کی دسویں حصّہ کے برابر بھی طاقت نہیں تھی۔ اِسی طرح سراج الدولہ کی طاقت کے مقابلہ میں بنگال میں انگریزوں کی طاقت دسویں حصّہ کے برابر بھی نہ تھی مگر باوجود اِس کے مقابلہ میں وہ ہار جاتے ہیں اور انگریز جیت جاتے ہیں۔ اِس تمام فتح اور شکست کی تہہ میں ایک ہی وجہ نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ بڑے بڑے وزراء اور افسر یا رشوت خور تھے یا وہ کسی اور لالچ میں آجاتے تھے۔ اگر یہ بددیانتی نہ ہوتی تو کبھی ہندوستان پر انگریزی حکومت قائم نہ ہو سکتی لیکن اِس بد دیانتی کی موجودگی میں اگر انگریزی حکومت نہ ہوتی تو فرانسیسی حکومت ہوتی۔ اگر فرانسیسی حکومت نہ ہوتی تو پُرتگیزی حکومت ہوتی، اگر پُرتگیزی حکومت نہ ہوتی تو کوئی اور حکومت ہوتی۔ بہرحال یہ مُلک اِس قابل نہ تھا کہ اپنا بوجھ آپ اُٹھا سکتا۔
بد دیانتی کے بوجھ نے اِن لوگوں کی کمریں خَم کر دی تھیں اور لالچ کے مارے اِن لوگوں کو ایسا جھُکا دیا تھا کہ وہ شریف لوگوں میں سیدھا چلنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ وہ شکار تھے دُنیا کا۔ اگر انگریز نہ آتے تو کوئی اَور آتا۔ بہرحال وہ خود اپنی حکومت سنبھالنے کے ناقابل تھے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک سب جگہ بد دیانتی پائی جاتی تھی۔ پھر وسطِ ہند میں آکر لکھنؤ اور اِس کے بعد دہلی میں جو کچھ ہؤا وہ بھی اِسی بد دیانتی کا کرشمہ ہے۔ غدر کی بغاوت جب ہوئی تو اُس وقت ہندوستانیوں نے چاہا کہ اپنے آپ کو انگریزوں کے تسلّط سے آزاد کر لیں اور ایسے کئی مواقع آئے جبکہ دہلی کی حکومت غالب آنے کے بِالکل قریب تھی لیکن خود مُلک کے اندرونی غدّاروں اور بد دیانتوں نے اِن مواقع کو ضائع کر دیا۔
یہ مشہور تاریخ واقعہ ہے کہ ایک موقع پر انگریزی فوج پر نہایت آسانی کے ساتھ گولہ باری کی جاسکتی تھی۔ مَیں نے خُود دہلی میں وہ موقع دیکھا ہے مگر زینت محل جو بادشاہ کی چہیتی ملکہ تھی اور اُسے کہا تھا کہ اگر تم ہمارا ساتھ دو گی تو تمہارے بیٹے کو تخت مل جائے گا۔ جب دہلی کے فوجی افسروں نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ قلعہ پر توپیں رکھ کر چلادی جائیں اور بادشاہ نے بھی اِن کے مشورہ کو قبول کر لیا تو انگریزی فوج کی طرف سے زینت محل کو پیغام پہنچا کہ اگر تم نے اِس موقع پر توپیں چلنے دیں تو تمہاری تمام اُمیدیں ہوا ہو جائیں گی۔ تِریا چرِتّر ۱؎تو ہمارے مُلک میں مشہور ہی ہے۔ جب بادشاہ نے توپیں چلانے کا حکم دیا تو بیگم کو بناوٹی طور پر غش پر غش آنے لگ گئے اور اُس نے بادشاہ سے کہا کہ توپ کی آواز سے میرا دل دہل جاتا ہے۔ اگر آپ نے توپوں کا چلنا بند نہ کیا تو مَیں مر جاؤں گی۔ پس خدا کے لئے توپوں کا چلنا بند کرائیں اور اگر توپیں چلانا ضروری ہی ہیں تو اپنے ہاتھ سے پہلے مجھے قتل کر دیں تاکہ مَیں اِن کی آواز نہ سُن سکوں۔ بادشاہ بھی دھوکے میں آگئے اور گولہ باری کا حکم منسوخ کر دیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ ایک ہی مقام جہاں سے کامیابی کے ساتھ انگریزی فوجوں پر حملہ ہو سکتا تھا اُس پر سے گولہ باری بند کر دی گئی اور انگریزی فوجیں غالب آگئیں۔ خود بادشاہ کا وزیر اعظم اندر سے انگریزوں کے ساتھ ملا ہؤا تھا اور انگریزوں کو باقاعدہ اندرونی خبریں پہنچتی رہتی تھیں۔
اودھ کی حکومت بھی اِسی طرح تباہ ہوئی وہاں کے لوگوں کا تمام روپیہ کلکتہ کے انگریزی بینک میں جمع تھا۔ جب انگریزوں نے اِس علاقہ پر حملہ کیا تو اُنہوں نے لوگوں کو کہلا بھیجا کہ اگر تم نے ذرا بھی ہمارے خلاف آواز اُٹھائی یا مقابلہ کیا تو تمہارا تمام روپیہ ضبط کر لیا جائے گا۔ جب تک ان کے روپے جمع نہیں تھے اُس وقت تک تو انہیں یہ لالچ دیا گیا کہ اگر تم اپنے روپے ہمارے بنک میں جمع کرو گے تو تمہیں بہت کچھ سُود ملے گا اور جب روپیہ جمع ہو گیا اور اودھ پر اُنہوں نے حملہ کی تیاری کی تو سب کو نوٹس دے دیا کہ اگر تم نے ہمارا مقابلہ کیا تو سب روپیہ ضبط کر لیا جائے گا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جب انگریزی فوج اندر داخل ہوئی تو ایک شخص بھی اُن کے مقابلہ کے لئے کھڑا نہ ہؤا۔
اب اِس میں بھلا انگریزوں یا کسی اَور قوم کا کیا قصور ہے؟ یہ خود اپنی قوم کا قصور ہے کہ لوگ اپنے اخلاق کی اصلاح کی طرف توجّہ نہیں کرتے۔ جب کبھی ہندوستان میں کانگرس کا شور بُلند ہؤا ہے مَیں نے ہمیشہ انہیں یہی کہا ہے کہ تم اُس وقت تک حکومت نہیں کر سکتے جب تک لوگوں کے اندر بد دیانتی پائی جاتی ہے۔ ہاں اگر قومی طور پر تم دیانت کو لوگوں کے اندر قائم کردو تو پھر مَیں اِس بات کا ذمّہ دار ہوں کہ انگریز آپ ہی آپ تم سے صلح کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے۔ اب بھی دیکھ لو کیا ہو رہا ہے۔ گو کئی صوبوں میں کانگرسی وزارتیں قائم ہو چکی ہیں مگرانہی صوبوں میں خطرناک طور پر رشوتیں چل رہی ہیں اور اب تو گاندھی جی نے بھی اپنے اخبارمیں لکھا ہے کہ بعض واقعات میرے سامنے ایسے آئے ہیں جن سے یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔
تو جب تک کسی قوم میں دیانت نہیں اُس وقت تک نہ اُس قوم میں حکومت رہ سکتی ہے نہ وہ حکومت لے سکتی ہے اور اگر بالفرض وہ کبھی اپنی کثرتِ تعداد کی بِناء پر حکومت لے بھی لے تو وہ حکومت کو سنبھال نہیں سکتی مگر یہ چیز صرف حکومت سے تعلق نہیں رکھتی کہ یہ کہا جائے کہ آپ حکومتوں کی بات لے بیٹھے ہیں جماعت احمدیہ کی بات کیوں نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ طاقت اور جتّھا حکومتوں سے ہی وابستہ نہیں ہوتا بلکہ قوموں سے بھی وابستہ ہوتا ہے اور بعض قومیں تو تلوار سے جیتتی ہیں اور بعض نظام اور تبلیغ سے جیتتی ہیں۔ ہماری جماعت تلوار سے جیتنے والی نہیں بلکہ نظام اور تبلیغ سے جیتنے والی ہے اور نظام اور تبلیغ سے جیتنے والی جماعتوں کو دیانت کی اُن جماعتوں سے بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کہ جن قوموں کے پاس تلوار ہو وہ تو بد دیانتوں کا تلوار سے سر اُڑا سکتی ہیں مگر جن کے پاس تلوار نہ ہو اُنہیں بد دیانتی بہت زیادہ نقصان پہنچایا کرتی ہے کیونکہ اُن کے پاس بد دیانتوں کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ انگریزوں میں یا فرانسیسیوں میں یا جرمنوں میں جب کوئی شخص غدّاری کرتا ہے تو انگریز، فرانسیسی اور جرمن اِس پر مقدمہ کرتے اور مجرم ثابت ہونے پر اُسے مار ڈالتے ہیں مگر جن کے پاس حکومت نہیں ہوتی اور جو تلوار سے کامیاب نہیں ہونا چاہتے بلکہ نظام اور تبلیغ سے کامیاب ہونا چاہتے ہیں اُن میں جب کوئی غدّار پیدا ہو جاتا ہے تو وہ اُس کا سوائے اِس کے اَور کیا علاج کر سکتے ہیں کہ دلائل سے اُس کا مقابلہ کریں۔ مگر اِس رنگ میں مقابلہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ غدّار شور مچاتا رہتا ہے اور اِس کو دیکھ کر بعض اور لوگ بھی جن کی فطرت میں غدّاری کا مادہ ہوتا ہے یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ ان کے پاس طاقت تو ہے نہیں چلو ہم بھی ذرا شور مچادیں۔ چنانچہ وہ بھی جماعت کو بد نام کرنے لگ جاتے ہیں۔ اِس قسم کے مفاسد کو دور کرنے کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ غدّاری کا قلع قمع اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک قوم میں ایسی رُوح پیدا نہ ہو کہ اس کا ہر فرد موت کو غدّاری پر ترجیح دے اور وہ کہیں کہ ہم مر جائیں گے مگر غداری نہیں کریں گے۔ یہ بددیانتی کبھی انفرادی ہوتی ہے اور کبھی قومی۔ انفرادی بد دیانتی اقتصادیات کو بِالکل تباہ کر دیتی ہے۔ مَیں جب کشمیر گیا تو مجھے معلوم ہؤا کشمیر کے تاجروں کی صرف چاندی کے کام کی ایک کروڑ روپیہ کی تجارت یورپ والوں سے تھی۔ اب ایک کروڑ روپیہ کی تجارت کے یہ معنی ہیں کہ بیس پچیس لاکھ روپیہ انہیں بطور منافع حاصل ہوتا تھا کام کی مزدوری الگ تھی لیکن مجھے بتایا گیا کہ اب یہ تجارت سولہ لاکھ روپیہ تک رہ گئی ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ کے لوگ کہتے ہیں یہاں کے مال کا کوئی معیار نہیں کبھی کوئی چیز بھیج دیتے ہیں اور کبھی کوئی۔ کبھی تو نہایت اعلیٰ مال روانہ کریں گے اور کبھی اِس میں کھوٹ ملا دیں گے۔ حالانکہ اگر وہ دیانتداری سے کام کرتے تو آج وہ ایک کروڑ کی تجارت تین چار کروڑ روپیہ تک پہنچی ہوئی ہوتی۔ پہلے زمانہ میں تو تجارتیں بہت کم تھیں۔ تجارت میں زیادتی اِسی زمانہ میں ہوئی ہے۔ پھر اگر اُس زمانہ میں جبکہ تجارت کا رواج بہت کم تھا ان کی ایک کروڑ روپیہ کی تجارت ہو سکتی تھی تو لازماً اب وہ تجارت تین چار کروڑ روپیہ کی ہو جاتی مگر بجائے اِس کے کہ ان کی تجارت تین چار کروڑ روپیہ تک ترقی کرتی اور کروڑ ڈیڑھ کروڑ روپیہ انہیں نفع حاصل ہوتا پہلی تجارت بھی گر گئی اور وہ ایک کروڑ سے اُتر کر سولہ لاکھ روپیہ تک آگئی۔ اگر وہ تھوڑے سے نفع کی خاطر بد دیانتی کر کے اپنے کام کو نقصان نہ پہنچاتے تو نتیجہ یہ ہوتا کہ ان کی یہ تجارت خوب چلتی مگر چونکہ اُنہوں نے بد دیانتی کی اِس لئے تجارت میں نقصان ہو گیا تو انفرادی اعتبار بھی دیانت سے ہی قائم رہتا ہے۔ انگریزوں کو ہی دیکھ لو اُن کے کئی لوگ دُشمن ہیں مگر وہ دُشمن بھی یہ اقرار کرتے ہیں کہ تجارت کے معاملہ میں انگریزوں پر زیادہ اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ وہ اتنا اعتبار جرمنوں پر نہیں کریں گے، وہ اتنا اعتبار جاپانیوں پر نہیں کریں گے جتنا اعتبار وہ انگریزوں پر کریں گے کیونکہ انگریزوں نے دیانتداری کے نتیجہ میں اعتماد پیدا کر لیا ہے۔ میں نے دیکھا ہے جاپانیوں پر بھی لوگ زیادہ اعتبار نہیں کرتے اور جاپان سے تجارت کرنے والوں کے ہمیشہ دیوالے نکلتے رہتے ہیں۔ مَیں نے ایک دفعہ کلکتہ کے چند تاجروں سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے جاپانی تجارت کرنے والے دیوالے کیوں نکالتے رہتے ہیں تو اُنہوں نے بتایا کہ جاپانی تاجر عجیب قسم کی حرکت کرتے ہیں وہ پہلے اپنی ایک چیز کی ایک رقم معیّن کر کے اطلاع دے دیتے ہیں مثلاً وہ بوٹ بناتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ اِس کی قیمت ایک روپیہ فی جوڑا ہے۔ اب اتنا سستا بوٹ دیکھ کر بڑے بڑے تاجر اُنہیں آرڈر دے دیتے ہیں۔ کوئی ایک لاکھ کا آرڈر دے دیتا ہے، کوئی دو لاکھ کا آرڈر دے دیتا ہے، کوئی تین لاکھ کا آرڈر دے دیتا ہے اور کوئی چار لاکھ کا آرڈر دے دیتا ہے۔ ابھی وہ مال پہنچتا نہیں کہ اطلاع آجاتی ہے اب اِسی بوٹ کے بارہ آنے ہو گئے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ تاجر جنہوں نے پہلی دفعہ مال نہیں منگوایا تھا کئی لاکھ کا آرڈر دے دیتے ہیں مگر اُن کا مال بھی ابھی اُن تک نہیں پہنچتا کہ اطلاع آجاتی ہے اِس بوٹ کی قیمت آٹھ آنے ہو گئی ہے اِس قدر سستا بوٹ دیکھ کر پھر اَور لوگ انہیں آرڈر دے دیتے ہیں۔ اب گو اِس طرح ان کا مال زیادہ بِک جاتا ہے مگر وہ پہلا تاجر جس نے پانچ لاکھ روپیہ کا مال منگوایا تھا اُس کو اڑھائی لاکھ کا نقصان ہو جاتا ہے اور اِس طرح آئندہ کے لئے وہ جاپانی تاجروں سے مال منگوانے میں بہت زیادہ احتیاط سے کام لینے لگتا ہے۔ گو چیزوں کے زیادہ سستا ہونے اور اُن کی زیادہ بِکری ہو جانے کی وجہ سے جاپانی تاجروں کو ابھی یہ محسوس نہیں ہؤا کہ وہ ایک غلط راستہ پر چل رہے ہیں مگر انجام کار ایسی عادت مُفید ثابت نہیں ہوتی اور وہ نقصان پہنچا کر رہتی ہے۔ گو جاپانی مال میں بد دیانتی نہیں کرتے مگر چونکہ وہ قیمتوں کو بڑھاتے گھٹاتے رہتے ہیں اِس لئے گو ابھی اپنی چیزوں کو زیادہ سستا فروخت کرنے کی وجہ سے انہیں نقصان نہیں پہنچا مگر جب بھی برابر کی قیمت کا سوال آجاتا ہے اُس وقت واقف تاجر انگریزی مال کو جاپانی مال پر ترجیح دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جاپانی ٹھگی کر لیتے ہیں مگر انگریز ٹھگی نہیں کرتے۔ انگریزوں سے اُتر کر امریکہ اور جرمنی کے لوگ ہیں اور اُن سے اُتر کر اَور ممالک کے لوگ۔ مگر ہندوستانی تجارت میں اتنا خطرناک طور پر بدنام ہے کہ کوئی قوم اِس پر اعتبار نہیں کرتی۔ مکّہ مکرمہ میں سب سے زیادہ حج کے لئے جانے والے ہندوستانی ہی ہوتے ہیں مگر جانتے ہو وہاں ہندوستانی کا کیا نام ہے؟ وہاں ہندوستانی کو بَطّال کہا جاتا ہے یعنی وہ سخت جھوٹا اور بد دیانت ہوتا ہے۔ جب بھی کسی ہندوستانی کا ذکر ان کے سامنے آجائے گا وہ کہیں گے ’’ہندی بطّال‘‘ یعنی ہندوستانی سخت جھوٹا اور دھوکے باز اور چور ہوتا ہے۔ وہ جاوی پر اعتبار کرلیںگے، وہ چینی پر اعتبار کر لیں گے، وہ افغان پر اعتبار کر لیں گے، وہ مصری پر اعتبار کر لیں گے، وہ ایرانی پر اعتبار کر لیں گے، وہ روسی پر اعتبار کر لیں گے مگر جس وقت کسی ہندوستانی کا سوال ان کے سامنے آئے گا وہ کہیں گے ہندی بَطّال، ہندی بڑا جھوٹا اور چور ہوتا ہے۔
ہندوستانی ہی سب سے زیادہ مکّہ مکرمہ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے۔ ہندوستانی ہی مقامات مقدسہ کی حفاظت میں سب سے زیادہ حصّہ لیتا ہے اور ہندوستانی ہی سب کے آگے رہنے کی کوشش کرتاہے مگر وہاں کے لوگوں پر اِس نے کیا اثر ڈالا ہے یہی کہ ہندی بَطّال۔ اگر اِن کے اخلاق اچھے ہوتے تو جس طرح انہوں نے باہر کے لوگوں کے لئے قُربانیاں کی تھیں اُسی طرح کوئی ان کے لئے بھی تو قربانی کرتا۔ مگر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ تُرکوں کی خلافت پر حملہ ہوتا ہے تو ہندوستانی مسلمان اس کی حفاظت کے لئے آگے بڑھتے ہیں، مصر پر انگریزوں کے دانت تیز ہوتے ہیں تو ہندوستان کے مسلمان اِس کے مقابلہ کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیتے ہیں، افغانستان پر حملہ ہوتا ہے تو ہندوستانی مسلمان مضطرب ہو جاتے ہیں، ایران خطرہ میں ہوتا ہے تو ہندوستانی مسلمان چیخ اُٹھتے ہیں۔ گویا دُنیا جہاں کا درد ہندوستان کے مسلمان کے سینہ میں ہے اور جہاں کہیں کسی مسلمان کو تکلیف پہنچتی ہے وہ اِس کے اثر سے مضطرب اور بے چین ہو جاتا ہے مگر جب ہندوستان کے مسلمانوں پر کوئی مصیبت آتی ہے تو مصر کے لیڈر بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان بڑے احمق ہیں جب اُنہیں آزادی مل رہی ہے تو وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر کام کیوں نہیں کرتے، ترک بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان بڑے احمق ہیں انہیں عقلمندی کے ساتھ کام کرنا نہیں آتا، ایرانی بھی کہتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان بیوقوف ہیں اور افغانی بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان عقل و سمجھ سے عاری ہیں۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ اِن کے کیریکٹر کا بُرا اثر اِن لوگوں کے دلوں پر ہے اور اِسی کیریکٹر کے بد اثر کی وجہ سے وہ ان کی قُربانی کی بھی قدر نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی قُربانی بھی اِن کی کمزوری کی حالت ہے جس طرح ایک کمزور انسان بعض دفعہ جوش میں آجاتا ہے مگر اُس کا جوش کسی نیکی کی وجہ سے نہیں بلکہ طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے اِسی طرح وہ خیال کرتے ہیں کہ ہندوستان کے مُسلمانوں کی قُربانی بھی کسی نیکی کی وجہ سے نہیں بلکہ کمزوری کی وجہ سے ہے۔ اگر یہاں کے آٹھ کروڑ مسلمانوں کے اندر صحیح اخلاق ہوتے تو یہ آٹھ کروڑ مسلمان بھی ہندوستان کو بچا سکتا تھا۔ بلکہ آٹھ کروڑ کیا اگر چار کروڑ با اخلاق مسلمان بھی ہندوستان میں موجود ہوتا تو کوئی غیر حکومت اِس ملک کی طرف اپنی آنکھ نہیں اُٹھا سکتی تھی۔ بھلا چار کروڑ مسلمانوں کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتے تھے چند ہزار انگریز یا چند ہزار فرانسیسی یا پُرتگیزی۔ پھر چار کروڑ ہی نہیں اگر دو کروڑ دیانت دار مسلمان بھی ہندوستان میں موجود ہوتے تب بھی یہ مُلک دوسروں کا غلام نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر اُس وقت مسلمانوں کی حکومت میں دو کروڑ ایسے مسلمان موجود ہوتے جو اپنی جانیں قُربان کرنے کے لئے تیار ہوتے تو کس کی طاقت تھی کہ وہ ہندوستان کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھ سکتا۔ بلکہ مَیں کہتا ہوں اگر ایک کروڑ بھی دیانتدار مسلمان ہوتا، ایک کروڑ نہیں پچاس لاکھ ہی ہوتے، پچاس لاکھ نہیں پچیس لاکھ ہی ہوتے، پچیس لاکھ نہیں بارہ لاکھ ہی دیانتدار مسلمان موجود ہوتے تو بھی آج ہمارے مُلک کی وہ حالت نہ ہوتی جو نظر آرہی ہے۔
بارہ لاکھ دیانتدار مسلمانوں کی موجودکی کے معنے یہ تھے کہ ایک لاکھ جاں نثار سپاہی میسّر آسکتا تھا اور اگر ایک لاکھ جان نثار سپاہی اُس وقت موجود ہوتا تو انگریزوں اور فرانسیسیوں کی مجموعی طاقت بھی اُن کا مقابلہ نہ کر سکتی۔ کسی مُلک کی آبادی کے آٹھ فیصدی حصّہ کا سپاہی ہونامعمولی بات ہے۔ جو جنگی قومیں ہوتی ہیں اُن میں بعض دفعہ سولہ فیصدی تک سپاہی ہوتے ہیں اور جب انتہائی خطرہ کا وقت آتا ہے تو تیس بلکہ چالیس فیصدی آبادی بھی لڑائی کے لئے تیار ہوجاتی ہے۔ بہرحال کسی مُک کا جو ادنیٰ سے ادنیٰ فوجی معیار ہے اگر وہی ہمارے مُلک میں قائم ہوتا تو بارہ لاکھ مسلمانوں میں سے ایک لاکھ سپاہی ضرور مل جاتا اور اعلیٰ معیار کے رُو سے پونے پانچ لاکھ مسلمان انگریزوں کے مقابلہ کے لئے تیار ہوتے۔ اب اگر اتنی بڑی تعداد ہندوستان میں موجود ہوتی تو کونسی قوم تھی جو ہندوستان کو فتح کر سکتی۔ یقینا نہ انگریز ہندوستان کو فتح کر سکتے نہ فرانسیسی اِسے فتح کرنے کی طاقت رکھتے اور نہ پرتگیزی اسے فتح کرنے کی طاقت رکھتے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت صرف چند ہزار یا چند سو ایسے لوگ تھے جو دیانتدار تھے اور جو مُلک کے لئے قُربانی کرنے کی رُوح اپنے اندر رکھتے تھے۔ باقی جس قدر تھے وہ ٹھگ تھے، وہ فریبی تھے، وہ دھوکے باز تھے، وہ رشوت خور تھے، وہ نمک ّ*** کرتے تھے اور غیروں سے رشوتیں لے لے کر اپنے مُلک کی حکومت کو آپ تباہ و برباد کرنے کے درپے ہو رہے تھے۔
کیا ہی بد قسمت وہ مُلک ہے جس میں ۳۳ کروڑ کی آبادی ہو مگر مُلک کی خاطر چار پانچ ہزار آدمی بھی اِس میں وفادار نہ ہو۔ اِس سے زیادہ بد قسمتی کی مثال اَور کیا ہو سکتی ہے؟ پھر مُلک کو جانے دو عقل کے ساتھ تو اُنہوں نے اپنے ساتھ بھی وفادار ی نہیں کی۔ حکومت تو گئی ہی تھی، تجارت کیوں گئی؟ مگر اِن کے ہاتھ سے تجارت کا نکل جانا بھی بتاتا ہے کہ یہ اپنے نفس اور اپنی ذات کے بھی وفادار نہیں۔ اگر اِن میں اپنے نفس کے ساتھ وفاداری کا ہی مادہ ہوتا تو اِن کے ہاتھ سے تجارت کبھی نہ جاتی۔ تو بد دیانتی ایسی چیز ہے جو قوموں اور افراد دونوں کو تباہ کر دیتی ہے مگر جس قوم میں دیانت آجائے اُسے ہر جگہ عزّت حاصل ہوتی ہے اور کوئی اُسے ذلیل نہیں کر سکتا۔
اِسی طرح انفرادی دیانت جب کسی قوم میں پیدا ہو جاتی ہے تو وہ اقتصادی طور پر بڑھتی چلی جاتی ہے مگر یہ انفرادی دیانت دو قسم کی ہوتی ہے ایک تجارتی دیانت اور ایک اخلاقی دیانت۔ جن قوموں میں اخلاقی دیانت نہ ہو مگرتجارتی دیانت ہو وہ بھی نہیں گرتیں۔ چنانچہ ہندوؤں کو ہی دیکھ لو بنیے ہیں اخلاقی دیانت نہیں مگر تجارتی دیانت ہے اور اِس وجہ سے وہ تجارت میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے، یہودیوں میں بھی اخلاقی دیانت نہیں لیکن تجارتی دیانت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِن کی تجارت روز بروز بڑھ رہی ہے اِسی طرح جس قوم میں اخلاقی دیانت پیدا ہو جائے اُس کا اخلاقی طور پر دوسروں کے قلوب پر سکّہ بیٹھ جاتا ہے اور اِس قوم کے افراد جہاں جاتے ہیں لوگ ان سے مشورہ لیتے اور ان کی باتوں پر اپنے کاموں کا انحصار رکھتے ہیں لیکن جس قوم میں قومی دیانت بھی ہو، تجارتی دیانت بھی ہو اور اخلاقی دیانت بھی ہو وہ قوم تو ایک پہاڑ ہوتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ہمالیہ پہاڑ کو اُڑایا جاسکے مگر یہ ممکن نہیں کہ اِس قوم کو برباد کیا جاسکے۔ ایسی قوم نہ صرف خود محفوظ ہوتی ہے بلکہ اور لوگوں کی حفاظت کا بھی موجب ہوتی ہے اور اِس کے ذریعہ اور قومیں حوادث اور مصائب سے بچائی جاتی ہیں اور وہ دُنیا کے لئے ایک تعویذ ہو جاتی ہے۔
پس میں خدام الاحمدیہ سے کہتا ہوں کہ یہ تینوں قسم کی دیانتیں تم لوگوں کے اندر پیدا کرو۔ جس کا ذریعہ تمہارے پاس موجود ہے کیونکہ نوجوانوں کی باگ تمہارے ہاتھ میں دی گئی ہے۔ تم نوجوانوں میں قومی دیانت بھی پیدا کرو، تم نوجوانوں میں تجارتی دیانت بھی پیدا کرو اور تم نوجوانوں میں اخلاقی دیانت بھی پیداکرو۔ تجارتی دیانت کے معنے صرف تجارت اور لین دین کے معاملات میں ہی دیانت دارانہ رویّہ اختیار کرنے کے نہیں بلکہ نوکری بھی اِسی میں شامل ہے کیونکہ نوکر اپنا وقت دوسرے کو دیتا ہے۔
پس جس طرح ہر تاجر کا فرض ہے کہ وہ تجارت میں دیانتداری سے کام لے اُسی طرح ہرملازم کا بھی فرض ہے کہ وہ دیانتداری کے ساتھ کام کرے۔دیانتدار نوکر کی ہر کوئی قدر کرتا اور اُسے بُلا بُلا کر رکھتا ہے لیکن اگر کسی کے متعلق ثابت ہو جائے کہ وہ دیانتداری کے ساتھ کام نہیں کرتا تو اُس کی قدر دلوں سے اُٹھ جاتی ہے۔
پس قومی دیانت، تجارتی دیانت اور اخلاقی دیانت اپنے اندر پیدا کرو۔ اخلاقی دیانت کے معنے یہ ہیں کہ باوجود اِس کے کہ اپنے قول کی پَچ کرنے پر تم کو نقصان پہنچتا ہو۔ اپنے قول کی پَچ کرتے ہوئے نقصان اُٹھا کر بھی اپنے قول کو پورا کرو اور اُسے ضائع نہ ہونے دو۔
ایک قصّہ مشہور ہے جو گو ہماری ہی قوم کا ہے مگر افسوس ہے کہ ہماری روائتیں بھی ہمارے ذریعہ محفوظ نہیں بلکہ انگریزوں کے ذریعہ محفوظ ہیں۔ جب ہم مدرسہ میں پڑھا کرتے تھے اُس وقت ریڈروں میں ایک یوسف ہسپانوی کا قصّہ آتا تھا جو اخلاقی دیانت کی بہترین مثال ہے۔ یوسف سپین کا ایک مشہور تاجر اور رئیس تھا۔ ایک دفعہ کسی شخص نے اُس کے اکلوتے لڑکے کو قتل کر دیا۔ یوسف کو اُس کا علم نہیں تھا کہ اُس کا لڑکا مارا گیا ہے۔ پولیس اُس قاتل کے پیچھے بھاگی اور وہ قاتل آگے آگے بھاگا۔ دوڑتے دوڑتے وہ شخص اُسی مکان کے اندر آگیا جہاں یوسف رہتا تھا اور اُس سے کہنے لگا کہ مجھے پناہ دو پولیس میرے تعاقب میں آرہی ہے۔ اُسے معلوم نہ تھا کہ مَیں نے اِسی شخص کے بیٹے کو قتل کیا ہے اور یوسف کو بھی معلوم نہ تھا کہ یہ میرے بیٹے کا قاتل ہے۔ عربوں کا یہ ایک خاص قومی کیریکٹر ہے کہ جب اُن کے گھر میں کوئی شخص آکر اُن سے پناہ کا طلب گار ہو تو وہ انکار نہیں کر سکتے اور اُسے ضرور پناہ دے دیتے ہیں۔ یوسف نے بھی کہا کہ بہت اچھا تم میری پناہ میں ہو۔ تھوڑی دیر کے بعد پولیس والے آئے اور اُنہوں نے پوچھا کہ یہاں کوئی شخص دوڑتے دوڑتے آیا ہے؟ وہ ایک شخص کا قاتل ہے اور ہم اُسے گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ یوسف نے کہا یہاں تو کوئی نہیں۔ دراصل یوسف نے اُسے اِدھر اُدھر کہیں کھسکا دیا تھا۔ اِس طرح اُس نے اپنی بات بھی سچی کر لی اور واقعہ بھی ظاہر نہ ہونے دیا۔ چنانچہ پولیس واپس چلی گئی تھوڑی دیر گزری تھی کہ نوکر اس کے لڑکے کی لاش اُٹھا کر پہنچ گئے اور اُنہوں نے کہا کہ اِسے ابھی کسی شخص نے قتل کر دیا ہے۔ وہ اپنے لڑکے کی لاش دیکھتے ہی ساری حقیقت سمجھ گیا اور بھانپ گیا کہ جس شخص کو مَیں نے پناہ دی ہے وہی میرے لڑکے کا قاتل ہے مگر اُس کے اندر کوئی لغزش پیدا نہ ہوئی اور اُس نے پھر بھی پولیس کو یہ نہ بتایا کہ جس شخص نے میرے بیٹے کو قتل کیا ہے اُسے میں نے فلاں جگہ چھپا رکھا ہے۔ جب لوگ اِدھر اُدھر ہو گئے تو وہ اُس شخص کے پاس گیا اور اُسے کہا کہ جس شخص کو تم نے مارا ہے وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے مگر چونکہ مَیں تمہیں پناہ دینے کا وعدہ کر چُکا ہوں اِس لئے مَیں تجھے کچھ نہیں کہتا بلکہ مَیں خود تجھے بھاگنے کا سامان دیتا ہوں۔ یہ میری اونٹنی لے اور یہ سامان اِس پر لاد اور یہاں سے کسی دُوسری طرف کو نکل جا۔ چنانچہ وہ اونٹنی پر سوار ہؤا اور بھاگ کر کسی اور علاقہ کی طرف نکل گیا یہ اخلاقی دیانت ہے۔ اس میں اِس کا اپناکوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان تھا مگر چونکہ وہ قول دے چُکا تھا اور اس میں کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی بھی نہیں تھی اِس لئے اس نے اپنا قول نہ چھوڑا اور گو دوسرے شخص نے اس کے اکلوتے بیٹے کو مار دیا تھا مگر پھر بھی اِس کی جان کو بچا دیا۔
تو فردی دیانت بھی نہایت اہم ہوتی اور دلوں کو ہِلا دیتی ہے۔ اِسی طرح ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں ایک شخص قتل کے جرم میں پکڑا گیا۔ اُس نے کہا کہ مجھے کچھ مُہلت دیجئے کیونکہ میرے پاس بعض یتامیٰ کی امانتیں ہیں اور مَیں چاہتا ہوں کہ گھر جاکر وہ امانتیں انہیں واپس کر دوں۔ وہ ایک بدوی تھا اور بدویوں کا پکڑنا نہایت مُشکل ہوتا ہے کیونکہ سینکڑوں میل کا صحرا ہوتا ہے جس میں وہ رہتے ہیں اور آج اگر یہاں ہوتے ہیں تو کل وہاں، کوئی ایک مقام اُن کا ہوتا نہیں کہ وہاں سے انہیں تلاش کیا جاسکے اور اگر ہاتھ سے نکل جائیں تو پھر اُن کا ڈھونڈنا بہت مُشکل ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ تم کوئی ضمانت دو تو ہم تمہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ بغیر ضمانت کے ہم تمہیں چھوڑ نہیں سکتے۔ اِس نے اِدھر اُدھر نظردوڑائی تو ایک صحابی کی طرف جو ابو ذرؓیا ابو الدردائؓ تھے، مجھے اِس وقت صحیح نام یاد نہیں، اشارہ کر کے کہا یہ میرے ضامن ہیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ ضمانت دیتے ہیں؟ اُنہوں نے کہا ہاں مَیں اِس کی ضمانت دیتا ہوں۔ اب ایک قاتل کی ضمانت دینے کے معنے یہ تھے کہ اگر وہ مقررہ وقت پر نہ پہنچے تو مجھے مار ڈالنا۔ اُن کی ضمانت پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اُسے چھوڑ دیا اور وہ چلا گیا۔ جب وہ دن آیا جو اُس کی سزا کے لئے مقرر تھا تو لوگ اُس بدوی کا انتظار کرنے لگے کہ کب آتا ہے مگر وقت گزرتا جائے اور اُس کی آمد کا کوئی پتہ نہ لگے۔ آخر اِس صحابی کے دوستوں کے دلوں میں تشویش پیدا ہوئی اور اُنہوں نے اُس سے پوچھا کہ آپ جانتے بھی ہیں وہ ہے کون؟ اُنہوں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں وہ کون تھا۔ وہ کہنے لگے تو پھر آپ نے ضمانت کیوں دی؟ اُنہوں نے کہا اُس نے جو مجھ پر اعتبار کیا تھا تو مَیں اُس پر کیوں اعتبار نہ کرتا۔ خیر اُن کے دوستوں کے دلوں میں بڑی بے چینی پیدا ہو گئی کہ نہ معلوم اب کیا ہو گا۔ مگر جب عین وہ وقت پہنچا جو اُس کی سزا کے لئے مقرر تھا تو لوگوں نے دیکھا کہ دُور سے ایک غبار اُڑتا چلا آرہا ہے سب لوگوں کی آنکھیں اُس طرف لگ گئیں۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ اُنہوں نے دیکھا ایک سوار نہایت تیزی سے گھوڑا دوڑاتا چلا آرہا ہے۔ یہاں تک کہ گھوڑے کا پیٹ زمین سے لگ رہا ہے۔ جب وہ قریب پہنچا تو اُدھر وہ گھوڑے سے اُترا اور اِدھر اِس گھوڑے نے دم دے دیا اور مر گیا۔ یہ سوار وہی شخص تھا جس کی اِس صحابی نے ضمانت دی تھی۔ وہ کہنے لگا میرے پاس امانتیں کچھ زیادہ تھیں اُن کو واپس کرنے میں مجھے دیر ہو گئی اور مَیں اپنے گھوڑے کو مارتا اور اُسے نہایت تیزی سے دوڑاتا ہؤا یہاں پہنچا تاکہ میرے ضامن کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔۲؎
تو دیانت ایسی چیز ہے کہ باوجود اس کے ان واقعات پر سینکڑوں سال گزر گئے آج بھی ہم اِن واقعات کو پڑھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اِس گناہ سے بھری ہوئی دُنیا میں نہیں بلکہ ایک ایسی جنت میں ہیں جو خوبیاں ہی خوبیاں اپنے اندر رکھتی ہے۔ حالانکہ یہ انفرادی واقعات ہیں کروڑوں اور اربوں میں سے کسی ایک انسان کا واقعہ ہے مگر یہ ایک واقعہ بھی انسانیت کو اتنا خوبصورت کر کے دکھا دیتا ہے کہ دُنیا کے سارے گناہ نگاہوں سے پوشیدہ ہوجاتے ہیں۔ اِسی طرح تجارتی دیانت کی بھی ہمارے آباء میں مثالیں پائی جاتی ہیں چنانچہ تاریخوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص گھوڑے کو فروخت کرنے کے لئے بازار میں لایا اور اُس نے کہا کہ اِس کی پانچ سو درہم قیمت ہے۔ ایک صحابی نے اُس گھوڑے کو دیکھا اور اُسے پسند کیا اور کہا کہ مَیں یہ گھوڑا لیتا ہوں مگر اِس کی قیمت میں پانچ سَو نہیں بلکہ دو ہزار درہم دوں گا کیونکہ یہ گھوڑا نہایت اعلیٰ قسم کا ہے اور اِس کی قیمت اتنی تھوڑی نہیں جتنی تم بتاتے ہو۔ اِس پر گھوڑا بیچنے والا اصرار کرنے لگا کہ مَیں پانچ سَو درہم لوں گا اور گھوڑا خریدنے والا اصرار کرنے لگا کہ مَیں دو ہزار درہم دوں گا۔ ایک کہتا کہ اے شخص تجھے گھوڑے کی پہچان نہیں یہ گھوڑا زیادہ قیمت کا ہے اور دوسرا کہتا کہ مَیں صدقہ لینا نہیں چاہتا۔ مَیں اپنے گھوڑے کو جانتا ہوں اِس کی قیمت پانچ سَو درہم ہی ہے۔ ۳؎ اِس کے کتنا اُلٹ نظارہ آج دُنیا میں نظر آتا ہے۔ وہاں تو یہ تھا کہ چیز خریدنے والا قیمت بڑھاتا تھا اور چیز بیچنے والا قیمت گراتا تھا اور یہاں یہ حال ہے کہ دو دو آنے کی چیز بعض دفعہ دس دس روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔ بمبئی میں مَیں نے اِن دو سفروں میں جو حال ہی میں مَیں نے کئے ہیں نہیں دیکھا لیکن آج سے ۱۵، ۲۰ سال پہلے میں نے جو سفر کئے تھے اُن میں دو دفعہ خود میرے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ ہؤا۔ بمبئی میں چونکہ عام طور پر نَووارد لوگ آتے رہتے ہیں اور وہ قلموں کی شناخت کا مادہ اپنے اندر نہیں رکھتے اس لئے بعض لوگوں نے وہاں یہ طریق اختیار کیا ہؤا ہے کہ جب کسی اجنبی شخص کو دیکھیں گے اُسے آملیں گے اور کہیں گے کہ مَیں مسافر ہوں فلاں جگہ جانا چاہتا ہوں مگر کرایہ کم ہو گیا ہے، میرے پاس یہ قلم ہے اِس کی پندرہ روپے قیمت ہے مگر آپ دس روپے ہی دے دیں تو میرا کرایہ بن جائے گا۔ اب وہ قلم چھ سات پیسے کا ہوتا ہے مگر بعض دفعہ کوئی ایسا اناڑی بھی انہیں مل جاتا ہے جو اِس ملمّعکو دیکھ کر جو ٹِین کے خول پر چڑھا ہؤا ہوتا ہے سمجھتا ہے کہ یہ سَودا بڑا سستا ہے اور وہ دس روپے پر اِس سے قلم لے لیتا ہے حالانکہ وہ پانچ سات پیسے کا قلم ہوتا ہے۔ پھر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو جھگڑا شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قیمت زیادہ ہے ذرا کم کرو۔ اِس طرح وہ دس روپے سے نو روپے پر آتا ہے، پھر نو سے آٹھ پر، آٹھ سے سات پر، ساتھ سے چھ پر، چھ سے پانچ پر، پانچ سے چار پر حتّٰی کہ بعض دفعہ وہی قلم جس کی قیمت وہ پہلے پندرہ روپے بتلاتے ہیں چھ سات آنے پر دے دیتے ہیں اور لینے والا سمجھتا ہے کہ مَیں نے خوب لُوٹا۔ حالانکہ پھر بھی وہی شخص انہیں لُوٹ کر لے گیا ہوتا ہے کیونکہ وہ قلم چند پیسوں کا ہوتا ہے اور وہ کئی آنے بٹور لیتا ہے۔ خود میرے ساتھ بھی ایک دفعہ ایسا ہی ہؤا مگر مجھے چونکہ بعض دوستوں نے یہ بات بتا دی تھی اِس لئے مَیں نے فوراً کہہ دیا کہ مجھے ضرورت نہیں۔ مگر وہ کہنے لگا دس نہ سہی نو ہی دے دیں، نو نہ سہی آٹھ ہی دے دیں، آٹھ نہ سہی سات ہی دے دیں، سات نہ سہی چھ ہی دے دیں، اچھا پانچ روپے ہی دے دیں۔ جب مَیں نے کہا مَیں کہہ چُکا ہوں کہ مجھے اِس کی ضرورت نہیں تو کہنے لگا اچھا چار ہی دے دیجئے، تین ہی دے دیجئے، دو ہی دے دیجئے ،چلئے ایک روپیہ ہی دے دیں۔ پھر وہ اُس سے بھی نیچے اُترا اور کہنے لگا آٹھ آنے ہی دے دیں، سات آنے ہی دے دیں، چلو چھ آنے ہی دے دیں۔ مگر مَیں نے کہا جب مَیں نے کہہ دیا ہے کہ مَیں نے نہیں لینا تو مَیں چھ آنے بھی کیوں دوں؟ اِسی طرح کشمیر میں مَیں نے دیکھا ہے وہاں لوگ مُشک کا نافہ لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اِس کے اندر ایک تولہ مُشک ہے اور اِس کی اصل قیمت بتیس روپے ہے مگر چونکہ ہمیں روپے کی سخت ضرورت ہے اِس لئے ہم آپ کو چوبیس پچیس روپے میں نافہ دے سکتے ہیں۔ پھر وہی نافہ جس کی وہ پچیس روپے قیمت بتاتے ہیں بعض دفعہ آٹھ آنہ میں بھی دے دیتے ہیں اور جب تم آٹھ آنہ میں مُشک کا نافہ لے کر یہ سمجھتے ہو کہ دُنیا کے سب سے بڑے ماہر تاجر تم ہو کیونکہ تم نے ایک شخص سے مُشک کا نافہ آٹھ آنے میں لے لیا تو اس وقت بھی تم دھوکا خوردہ ہوتے ہو کیونکہ جب اسے کھول کر دیکھا جاتا ہے تو اِس میں سے کبوتر کے جمے ہوئے خون کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا اور تمہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ بڑے ماہر تم نہیں بلکہ بڑاٹھگ وہی تھا جو تمہیں لُوٹ کر لے گیا۔ وہ نافہ کے باہر تھوڑی سی مُشک مل دیتے ہیں اور اندر کبوتر کا خون بھر دیتے ہیں۔ کبوتر کے خون کی بعض دوائیوں سے بالکل مُشک کی سی شکل ہو جاتی ہے اور ناواقف آدمی سمجھتا ہے کہ آج مَیں نے بڑا سستا سودا کیا ۔ مَیں نے آٹھ آنہ میں مُشک کا نافہ خرید لیا۔ حالانکہ اس میں صرف کبوتر کا خون ہوتا ہے اور کبوتر کے خون کی قیمت تو ایک پیسہ بھی نہیں ہوتی۔
پھر قومی دیانت کو لے لو۔ یا تو یہ حال ہے کہ کم سے کم آٹھ کروڑ مسلمان ہندوستان میں موجود ہیں اور چند سَو انگریز اِس مُلک پر قبضہ کر لیتے ہیں اور یا یہ حال نظر آتا ہے کہ بدر کے میدان میں عرب کا ایک ہزار نہایت تجربہ کار سپاہی مکّہ کی طرف سے لڑنے آتا ہے اُن کے مقابلہ میں صرف ۳۱۳ آدمی ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جنہوں نے کبھی تلوار چلائی ہی نہیں اور دو تو ان میں پندرہ پندرہ سال کے لڑکے ہیں اور سپاہی کہلانے کے مستحق صرف دو سَو کے قریب آدمی ہیں اور یہ بھی کوئی بڑے پائے کے سپاہی نہ تھے سوائے چند کے مثلاً حضرت حمزہؓ، حضرت علی ؓ ، حضرت ابوبکر ؓ، حضرت عمر ؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیر ؓ۔ یہ ایسے خاندانوں میں سے تھے جن میں بچپن سے ہی فنونِ جنگ سکھائے جاتے تھے اور یہی چند آدمی تھے جو خاص طور پر ماہرِفن سمجھے جاتے تھے باقی سب معمولی سپاہی تھے۔ مگر مکّہ کی طرف سے آنے والے لشکر میں ایک ایک آدمی ایسا تھا جو ہزار ہزار پر بھاری سمجھا جاتا تھا اور وہ تمام کے تمام فنونِ جنگ میں نہایت ماہر تھے۔ جب مسلمانوں اور کفار کا لشکر آمنے سامنے ہؤا تو اُس وقت کسی نے سوال پیدا کر دیا کہ اِس لڑائی کا فائدہ کیا ہے؟ وہ تھوڑے سے آدمی ہیں اور ہیں بھی قریباً سب مکّہ کے۔ انصاری اِس جنگ میں بہت ہی کم ہیں۔ پس یہ سب ہمارے بھائی بند ہیں اگر ہم مارے گئے تب بھی اور اگر یہ مارے گئے تب بھی دونوں صورتوں میں مکّہ میں ماتم ہو جائے گا۔ اِس کی بات کو تو لوگوں نے نہ سُنا مگر اُنہوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو یہ پتہ لگانے کے لئے بھیجا کہ مسلمان کتنے ہیں اور ان کے سازوسامان کا کیا حال ہے؟ معلوم ہوتا ہے وہ آدمی نہایت ہی ہوشیار تھا۔ جب وہ آیا تو اُس نے پہلے تو وہ جگہ دیکھی جہاں مسلمانوں کا کھانا تیار ہو رہا تھا۔ پھر اُس نے سواریوں کا اندازہ لگایا اور واپس جاکر کہا کہ میرا اندازہ یہ ہے کہ مسلمان تین سَو، سَوا تین سَو کے قریب ہیں۔ یہ کیسا صحیح اندازہ تھا جو اُس نے لگایا۔ مسلمان واقعہ میں ۳۱۳ ہی تھے مگر اُس نے کہا اے میرے بھائیو! میرا مشورہ یہ ہے کہ تم لڑائی کا خیال چھوڑ دو۔ ابوجہل یہ سُن کر جوش میں آگیا اور اُس نے کہا کیوں ڈر گئے؟ وہ کہنے لگا مَیں ڈر گیا ہوں یا نہیں اِس کا پتہ تو میدانِ جنگ میں لگ جائے گا مگر مَیں یہ مشورہ تمہیں اِس لئے دے رہا ہوں کہ مَیں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر آدمیوں کو چڑھے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ مَیں نے موتیں دیکھی ہیں جو اُن اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار تھیں۔ اِن میں سے ہر شخص اِس نیّت اور اِس ارادے کے ساتھ آیا ہؤا ہے کہ مَیں مِٹ جاؤں گا مگر ناکام و نامراد واپس نہیں جاؤں گا۔ اِن میں سے ہر شخص کا چہرہ بتا رہا ہے کہ وہ سب کے سب یا تو خود فنا ہو جائیں گے یا تم کو فنا کر دیں گے۔ پس یہ مت خیال کرو کہ یہ لڑائی ویسی ہی ہو گی جیسے عام لڑائیاں ہوتی ہیں بلکہ ایک نہایت ہی اہم اور فیصلہ کُن جنگ ہو گی اور یا تو وہ تمہیں فنا کر دیں گے اور اگر وہ تمہیں فنا نہ کر سکے تو وہ خود سب کے سب ڈھیر ہو جائیں گے مگر میدانِ جنگ سے اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے اور ایسی قوم کو دبانا ہی مُشکل ہوتا ہے جس کا ہر فرد مرنے کے لئے تیار ہو۔۴؎
یہ کیسا شاندار فقرہ ہے جو اُس کی زبان سے نِکلا کہ مسلمانوں میں سے ہر شخص اپنے گھر سے اِسی نیت اور اِسی ارادہ کے ساتھ نِکلا ہے کہ مَیں فتح یا موت میں سے ایک چیز کو حاصل کئے بغیر واپس نہیں لوٹوں گا۔ کیا مختصر سے فقرہ میں اُس نے اِن تمام قلبی جذبات کا اظہار کر دیا ہے جو مسلمانوں کے قلوب میں موجزن ہو رہے تھے۔ یہ فقرہ اِن تاریخی فقرات میں سے ہے جو ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہیں کہ اے میرے بھائیو! مَیں نے آدمی نہیں دیکھے بلکہ موتیں دیکھی ہیں جو اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار تھیں۔
پھر دیکھ لو وہی ہؤا جو اُس نے کہا تھا۔ وہ واقع میں موتیں بن کر ظاہر ہوئے یا تو وہ مَر گئے یا اُنہوں نے کفار کو مار دیا جن کے لئے موت مقدر تھی وہ تو مر گئے اور جن کے لئے موت مقدر نہیں تھی اُنہوں نے مکّہ والوں کا ایسا تہس نہس کیا کہ مکّہ کے ہر گلی کوچہ میں ماتم برپا ہو گیا۔
ہزار آدمی کا ایک ایسے شہر میں سے نکل کر لڑائی کے لئے تیار ہو جانا جس میں دس پندرہ ہزار آدمی رہتے ہوں معمولی بات نہیں۔ ہر بارہ آدمی کے پیچھے ایک آدمی کا مارا جانا یا زخمی ہونا کوئی کم صدمے والی بات نہیں ہوتی لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ جو آدمی مارے گئے وہ چوٹی کے آدمی تھے تو ہم اور بھی زیادہ آسانی کے ساتھ اِس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مکّہ والوں کی کیا حالت ہوئی ہو گی؟ اِن مارے جانے والے لیڈروں میں سے ایک ایک آدمی ایسا تھا جس پر ہزاروں کا گزارہ تھا۔ ابو جہل عتبہ اور شیبہ یہ سب مکّہ کے لیڈر تھے۔ بیسیوں ان کے نوکر تھے، بیسیوں ان کے غلام تھے، بیسیوں ان کی تجارت پر کام کرتے تھے اور بیسیوں کی حفاظت کے یہ ذمّہ دار تھے۔ پس ان میں سے ایک ایک آدمی تہائی یا چوتھائی شہر کا ذمّہ دار تھا اور اِس ایک آدمی کا مرنا صرف اِس کے رشتہ داروں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہزاروں اَور لوگوں کے لئے بھی ماتم کا موجب تھا۔ اِس جنگ میں شکست کھانے کے بعد مکّہ والوں کی ایسی دردناک کیفیت ہو گئی کہ اُنہوں نے سمجھا اگر آج ماتم کیا گیا تو مکّہ کی تمام عزت خاک میں مل جائے گی۔ پس عرب کے ان لیڈروں نے جو زندہ تھے آپس میں مشورہ کر کے فیصلہ کر دیا کہ کوئی شخص بدر کے مقتولین کا ماتم نہ کرے اور اگر کوئی شخص ماتم کرے تو اُسے قوم سے نکال دیا جائے، اُس کا بائیکاٹ کیا جائے اور اُس پر جرمانہ کیا جائے۔ عرب ایک قبائلی قوم ہے اور جو قبائلی قومیں ہیں اُن میں قومی روح انتہاء درجہ کی شدید ہوتی ہے۔ پس اِس حکم کی خلاف ورزی اِن کے لئے ناممکن تھی۔ مائیں اپنے کلیجوں پر سِل رکھ کر، باپ اپنے دلوں کو مسُوس کر اور بچے اپنی زبانوں کو دانتوں تلے دبا کر بیٹھ گئے اور اُن کے لبوں سے آہ بھی نہیں نکلتی تھی کیونکہ ان کی قوم کا یہ فیصلہ تھا کہ آج رونا نہیں تا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور اُس کے ساتھی خوش نہ ہوں اور وہ یہ نہ کہیں کہ دیکھا ہم نے مکّہ والوں کو کیسی شکست دی۔ مگر دل تو جل رہے تھے، سینوں میں سے تو شعلے نکل رہے تھے، جِگر تو ٹکڑے ٹکڑے ہو رہے تھے۔ وہ دروازے بند کر کے تاریک گوشوں میں بیٹھتے اور دبی ہوئی آواز کے ساتھ روتے تا کسی کو یہ پتہ نہ لگے کہ وہ رو رہا ہے مگر یہ رونا ان کی تسلی کا موجب نہیں تھا کیونکہ انسان غم کے وقت دوسرے سے تسلی چاہتا ہے۔ بیوی چاہتی ہے کہ خاوند مجھ سے دُکھ درد کرے اور خاوند چاہتا ہے کہ بیوی مجھ سے دُکھ درد کرے، باپ چاہتا ہے کہ بیٹا میرے غم میں حصّہ لے اور بیٹا چاہتا ہے کہ باپ میرے غم میں حصّہ لے۔ اِسی طرح ہمسایہ چاہتا ہے کہ ہمسایہ والے میرا غم بٹائیں اور اگر کوئی ایسا ماتم ہو جائے جس کا اثر سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں پر ہو تو اس وقت سب لوگ چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کریں اور اس طرح اپنے دُکھ درد کو کم کریں۔ پس تنہائی کے گوشوں میں ان کا بیٹھ کر رونا ان کی تسلّی کا موجب نہیں تھا۔ مہینہ گزر گیا اور برابر یہ حکم نافذ رہا۔ اِس عرصہ میں وہ آگ جو اُنہوں نے اپنے سینہ میں دبارکھی تھی سُلگتی رہی آخر مہینہ کے بعد ایک دن ایک مسافر وہاں سے گزرا اُس کی ایک اونٹنی تھی جو راہ میں ہی مر گئی۔ وہ اُس اونٹنی کے غم میں چیخیں مار کر روتا جا رہا تھا اور کہتا جارہا تھا ہائے میری اونٹنی مر گئی، ہائے میری اونٹنی مر گئی۔ تب مکّہ کا ایک بوڑھا شخص جو اپنے مکان کے دروازے بند کر کے اندر بیٹھا ہؤا تھا اُس نے اپنے مکان کے دروازے کھول دیئے اور بازار میں آکر زور زور سے اُس نے پیٹنا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ اِس شخص کو اپنی اونٹنی پر رونے کی تو اجازت ہے مگر میرے تین جوان بیٹے مارے گئے اور مجھے رونے کی اجازت نہیں دی جاتی یہ ایک نعرہ تھا جو اُس نے لگایا جس نے مکّہ میں ایک شعلہ کا کام دیا۔ اِس کے بعد نہ کسی کو قانون کا خیال رہا، نہ قوم اور برادری سے اخراج کی دھمکی کا خیال رہا، معاً مکّہ کے گھروں کے تمام دروازے کھل گئے اور چوکوں اور بازاروں میں عورتیں اور بچے پیٹنے لگ گئے۔۵؎ یہ وہ موتیں تھیں جو ۳۱۳ جانباز صحابہ کی شکلوں میں ظاہر ہوئیں۔ جب ایک مَلَکُ الموت ساری دُنیا کی جان نکال لیتا ہے تو اگر انسان بھی مَلَکُ الموت کا نمائندہ بن جائے اور کہے کہ مَیں مر جاؤں گا مگر اپنے کام سے نہیں ہٹوں گا تو اُسے کون مار سکتا ہے۔ اسلام ظلم کی اجازت نہیں دیتا، اسلام قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا مگر اسلام اِس معاملہ میں کوئی استثنیٰ نہیں کرتا کہ اگر کوئی مسلمان ڈر کر یا غدّاری سے کام لے کر میدانِ جنگ سے بھاگ آئے تو سوائے جہنم کے اُس کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲ پڑھنے والا ہو گا، وہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ کہنے والا ہو گا، وہ نمازیں پڑھنے والا ہوگا اور زکوٰۃ دینے والا ہو گا، وہ سارے ہی احکامِ اسلام کی پابندی کرنے والا ہو گا مگر خدا اُسے فرمائے گا کہ تمہارا ٹھکانا دوزخ کے سوا اَور کہیں نہیں کیونکہ تم قومی غدّاری کے مجرم ہو۔ تو قومی غدّاری ایک نہایت ہی خطرناک جُرم ہے۔ صحابہ ؓ کو ہی دیکھ لو اُنہوں نے قومی دیانت کا کیسا شاندار نمونہ دکھایا۔ ایسا اعلیٰ نمونہ کہ شدید ترین دُشمن بھی ان کی اِس خوبی کا اعتراف کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا پر غالب آئے اور یہی وہ چیز ہے جسے ہم اپنے اندر پیدا کر کے دُنیا پرغلبہ حاصل کر سکتے ہیں۔ یقینا یاد رکھو جو قوم مرنے مارنے پر تُلی ہوئی ہو اُسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ اگر اِس پر کوئی حملہ بھی کرے تو مٹتی نہیں بلکہ اُبھرتی ہے اور گرتی نہیں بلکہ ترقی کرتی ہے۔
تو تمہارا ایک کام یہ ہے کہ تم نوجوانوں میں قومی دیانت پیدا کرو۔ اِسی طرح ان میں تجارتی دیانت پیدا کرو یا زیادہ وسیع لفظ اگر استعمال کیا جائے تو اِس کے لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ تم معاملاتی دیانت پیدا کرو اور اخلاقی دیانت کے پیدا کرنے سے بھی غافل نہ ہو۔
اگر تم بار بار نوجوانوں کو یہ سبق دو، اگر تم دیکھتے رہو کہ تم میں سے کسی میں دیانت کا فقدان تو نہیں ہو رہا اور اگر تم اپنے دوستوں، اپنے ہمسایوں، اپنے رشتہ داروں، اپنے اہلِ محلہ اور اہلِ شہر میں یہ روح پیدا کرنے کی کوشش کرو تو یقینا تم ایک ایسا کام کرتے ہو جو احمدیت کو زندگی بخشنے والا ہے۔
باقی رہا سچ، سو سچ بھی ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے بغیر دُنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ سارے فساد اور لڑائی جھگڑے محض جھوٹ سے پیدا ہوتے ہیں۔ لوگوں کو اگر ایک دوسرے پر اعتبار نہیں آتا یا تعلّقات میں کشیدگی ہوتی ہے تو محض اِس لئے کہ وہ سچ نہیں بولتے مگر جس کی سچائی پر لوگوں کو یقین ہو اُس کے متعلق وہ ایسی باتیں بھی ماننے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں جن باتوں کو وہ کسی دوسری صورت میں تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا، وہ معلوم ہوتا ہے کوئی موٹی عقل کا آدمی تھا جس نے اسلام پر غور کیا مگر اسلام کی صداقت اُس پر کسی طرح منکشف نہ ہوئی مگر پھر اُس کے دل میں شُبہ بھی پیدا ہو جاتا کہ اگر اسلام سچا ہی ہؤا تو مَیں خدا تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا؟ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم چونکہ صدوق مشہور تھے اور ہر شخص اِس بات کو تسلیم کرتا تھا کہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے اِس لئے اُس نے فیصلہ کیا کہ اِس امر کا بھی آپ سے ہی فیصلہ کرائے اور اُسی شخص سے جو مدعی ہے دریافت کرے کہ کیا وہ اپنے دعوے میں سچا ہے یا نہیں؟ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جو شخص مُدعی ہے اُسی سے وہ پوچھنے آتا ہے کہ کیا آپ واقع میں مُدعی ہیں یا یونہی کہہ رہے ہیں؟ وہ چونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کا قائل نہیں تھا اِس لئے اُس نے آتے ہی کہا کہ اے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) مَیں تجھ سے ایک سوال کرتا ہوں تُو خدا کی قسم کھا کر مجھے اُس کا جواب دے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا جو بات تم دریافت کرنا چاہتے ہو دریافت کرو۔ اُس نے کہا آپ خدا کی قسم کھا کر بتائیں کہ کیا آپ نے جو دعویٰ کیا ہے یہ خدا کے حکم کے مطابق کیا ہے اور کیا واقع میں خدا نے آپ کو رسول بنایا ہے؟ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے خدا نے ہی رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اُس نے کہا اگر یہ بات ہے تو ہاتھ لائیے مَیں ابھی آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں۔۶؎ اب مُدعی وہی ہے اُس کے سچ اور جھوٹ پر بحث ہے مگر چونکہ دُنیوی زندگی میں وہ آپ کی سچائی کا قائل تھا اِس لئے اُس نے اپنی آخرت بھی آپ کے سپرد کر دی اور فیصلہ کر لیا کہ جب یہ دنیوی معاملات میں جھوٹ نہیں بولتا تو یہ ممکن ہی نہیں کہ دینی معاملات میں جھوٹ بولے۔
تو سچائی ایک ایسی چیز ہے کہ وہ انسان کے رُعب کو قائم کر دیتی ہے۔ تم اگر سچ بولو اور نوجوانوں کو سچ بولنے کی ہمیشہ تلقین کرتے رہو تو تمہارا ایک ایک فرد ہزاروں کے برابر سمجھا جائے گا۔ لوگ تبلیغ کرتے اور بعض دفعہ شکایت کرتے ہیں کہ اِس تبلیغ کا اثر نہیں ہوتا لیکن اگر سچائی کامل طور پر ہماری جماعت میں پھیل جائے اور لوگ بھی یہ محسوس کرنے لگ جائیں کہ اِس جماعت کا کوئی فرد جھوٹ نہیں بولتا تو چاہے آج کے لوگ نہ مانیں مگر ان کی اولادیں اِس بات پر مجبور ہوں گی کہ احمدیت کی صداقت کو تسلیم کریں کیونکہ جب ان کی اولاد یں سُنیں گی کہ فلاں شخص تھا تو بڑا سچا مگر ہمیشہ جھوٹ کی طرف لوگوں کو بُلاتا رہا تو وہ حیران ہوں گی اور یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں گی کہ جنہوں نے اِن لوگوں کو غلط عقائد میں مُبتلا سمجھا اُنہوں نے غلطی کی۔
تو نوجوانوں کو سچ بولنے کی عادت ڈالو اور خدّامِ احمدیہ کے ہر ممبر سے یہ اقرار لو کہ وہ سچ بولے گااگر وہ کسی وقت سچ نہ بولے تو تم خود اِسے سزا دو۔ مَیں نے بار ہا جماعت کو توجّہ دلائی ہے کہ یہ طوعی نظام ہے اور طَوعی نظام والے کو سزا دینے کا بھی اختیار ہوتا ہے۔پس اگر تم سزا دو تو تمہیں کوئی قانون اس سے نہیں روکتا۔قانون تمہیں اس بات سے روکتا ہے کہ تم جبراً کسی کو سزا دو لیکن جو شخص آپ ایک نظام میں شامل ہوتا اور آپ کہتا ہے کہ مجھے بیشک سزا دے لو اُسے سزا دینے میں کوئی قانونی روک نہیں۔ بیشک بعض قسم کی سزائیں ایسی ہیں جنہیں قانون نے روک دیا ہے۔ مثلاً قتل ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے بھی کہے کہ مجھے قتل کر لو تو دوسرا شخص اُسے قتل نہیں کر سکتا۔ یہ صرف حکومت کا ہی کام ہے کہ وہ مُجرم کو قتل کی سزا دے لیکن اِس سے اُتر کر جو معمولی سزائیں ہیں وہ طُوعی نظام میں دی جاسکتی ہیں۔ مدرِّس روز لڑکوں کو پیٹتے ہیں مگر کوئی قانون انہیں اس سے نہیں روکتا۔ اِس لئے کہ طالبعلم اپنی مرضی سے سکول میں جاتا اور وہ اپنی مرضی سے ایک نظام کا اپنے آپ کو پابند بناتا ہے۔ پس جب وہ اپنی خوشی اور مرضی سے ایک نظام کو قبول کرتا ہے تو اُس کا فرض ہے کہ سزا کو بھی برداشت کرے۔ پس تم اپنے اندر اُسی شخص کو شامل کرو جو تمہارے نظام کی پابندی کرنے کے لئے تیار ہو اور جب کوئی شخص اِس اقرار کے بعد تمہارے نظام میں شریک ہوتا ہے اور پھر کسی عہد کی خلاف ورزی کرتا ہے تو تمہارا اختیار ہے کہ تم اُسے سزا دو۔ پس اگر کوئی جھوٹ بولے تو تم خود اُسے سزا دواور جس طرح مُرغی اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے اُسی طرح تم سچائی کی حفاظت کرو۔ مُرغی کس قدر کمزور جانور ہے لیکن جب اُس کے بچوں پر کوئی بلّی یا کُتّا حملہ کر دے تو وہ بلّی اور کُتّا کا بھی مقابلہ کر لیتی ہے۔ پس جس طرح وہ اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے اُسی طرح تم سچ کی حفاظت کرو اور کوشش کرو کہ تمہاراہرممبر سچا ہو اور سچائی میں تمہارا نام اِس قدر روشن ہو جائے کہ خدّام الاحمدیہ کا ممبر ہونا ہی اِس بات کی ضمانت ہو کہ کہنے والے نے جو کچھ کہا ہے وہ صحیح ہے اور جب بھی لوگ ایسے شخص کے مُنہ سے کوئی روایت سُنیں وہ کہیں کہ یہ روایت غلط نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اِس کا بیان کرنے والا خدّام الاحمدیہ کا ممبر ہے۔ جب تم اِس مقام کو حاصل کر لو گے تو تمہاری تبلیغ کا اثر اتنا وسیع ہوجائے گا کہ اِس کی کوئی حد ہی نہیں اور تم ہزاروں عیوب قوم میں سے دُور کرنے کے قابل ہوجاؤ گے۔ پس دیانت اور سچائی کو خاص طور پر اخلاقِ فاضلہ میں سے چُن لو اور بھی بہت سے ضروری اخلاق ہیں مگر اِن دو اخلاق کو مَیں نے خصوصیت کے ساتھ چُنا ہے۔ اِن کو ہمیشہ انپے مدّنظر رکھو اور اِن کے علاوہ بھی جس قدر نیک اخلاق ہیں وہ اپنے اندر پیدا کرو۔ مثلاً اعلیٰ اخلاق میں سے ایک ظلم نہ کرنا ہے مگر چونکہ خدّام الاحمدیہ کے اساسی اصول میں خدمتِ خلق بھی شامل ہے اِس لئے میں نے علیحدہ اِس کو بیان نہیں کیا کیونکہ وہ شخص جس کا فرض یہ ہو کہ وہ دوسروں کی خدمت کرے وہ کسی پر ظلم نہیں کر سکتا۔ پس مَیں نے اِس کو اِسی لئے چھوڑ دیا ہے کہ یہ بات تمہارے نام اور تمہارے اساسی اصول کے اندر شامل ہے لیکن بہرحال اور جس قدر اچھے اخلاق ہیں وہ سب اپنے اندر پیدا کرو۔ انسان اگر تلاش کرے تو اُسے بیسیوں اخلاق معلوم ہوسکتے ہیں لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے یہ دو اہم اخلاق ہیں جن کا اپنے اندر پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ ایک دیانت اور دوسرا سچ۔
ان کے علاوہ ایک اَور بھی اہم خلق ہے مگر اِس کا ذکر انشاء اﷲ پھر کروں گا۔ بہرحال اخلاقِ فاضلہ میں سے سچ اور دیانت کو اپنے اندر پیدا کرنے کی خاص طور پر کوشش کرو اگر تم ان دو اخلاق کو جماعت کے اندر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاؤ تو تم جماعت کی اتنی بڑی خدمت کرتے ہو کہ اِس کی قیمت کوئی انسان نہیں لگا سکتا۔ صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات ہی جو عالم الغیب ہے اور جو وسیع سے وسیع گہرائیوں کو ناپ سکتی ہے تمہاری اِس خدمت کا اندازہ لگا سکتی اور تمہیں بڑے سے بڑا بدلہ دے سکتی ہے۔
چونکہ اب وقت زیادہ ہو گیا ہے اِس لئے مَیں اِسی بات کے بیان پر اکتفا کرتا ہوں۔‘‘
(الفضل ۱۵؍مارچ ۱۹۳۹ئ)
۱؎ تِریا چرتّر (چلتّر) : عورتوں کے مکروفریب
۲؎ ارشیف ملتقی اھل الحدیث جز ۱ صفحہ ۶۱۴۳ ، موسوعۃخطب المنبر جز ۱
صفحہ ۱۳۵ شاملہ C.D
۳؎
۴؎ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۲۷۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۵؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد ۲ صفحہ ۲۰۰، ۲۰۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء (مفہوماً)
۶؎
۷
جماعت کے افراد میں ہاتھ سے کام کرنے کی
عادت پیدا کی جائے
(فرمودہ ۲۴؍فروری۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’خدّام الاحمدیہ کے مقاصد میں سے چار کے متعلق مَیں اِس وقت تک توجّہ دِلا چُکا ہوں اور آج پانچویں امر کے متعلق توجّہ دلاتا ہوں اور وہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ہے۔ یہ معاملہ بظاہر چھوٹا سا نظر آتا ہے لیکن دراصل یہ اپنے اندر اتنے فوائد اور اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ اِس کا اندازہ الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا۔ دراصل دُنیا کی اقتصادی حالت اور اخلاقی حالت اور اِس کے نتیجہ میں مذہبی حالت جو ہے اِس پر علاوہ دینی مسائل کے جو چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں اُن میں سے یہ مسئلہ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے۔ اقتصادی اور اخلاقی حالت کی تباہی بہت کچھ مبنی ہے اِن دو باتوں پر کہ دُنیا میں بعض لوگ کام کرنا چاہتے ہیں اور ان کو کام ملتا نہیں اور بعض ایسے لوگ ہیں کہ انہیں کام کرنے کے مواقع میسّر ہیں مگر وہ کام کرتے نہیں۔ یہ تمام آجکل کی لڑائیاں ، یہ بالشوازم، یہ فیسی ازم کی تحریکیں، سوشلزم اور کیپٹلزم کے دُنیا پر حملے یہ سب درحقیقت اِسی چھوٹے سے نقطہ کے اِرد گِرد گھوم رہے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں انسان ہیں جو چاہتے ہیں کہ کام کریں مگر اِنہیں کام میسّر نہیں آتا اور لاکھوں کروڑوں انسان ایسے ہیں جو کام کر سکتے ہیں مگر کرتے نہیں۔ جو لوگ کام کرنا چاہتے ہیں مگر اُنہیں ملتا نہیں اِس کی بنیاد بھی درحقیقت اِسی مسئلہ پر ہے کہ کچھ لوگ دُنیا میں ایسے ہیں کہ جو کام کر سکتے ہیں اُنہیں مواقع میسّر ہیں مگر وہ کرتے نہیں۔ یہ لوگ آگے پھر دو گروہوں میں تقسیم شُدہ ہیں۔ ایک وہ جن کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ باقی دُنیا کو ہماری خدمت کرنی چاہئے اور ہم گویا ایک ایسا وجود ہیں جو دُنیا سے خدمت لینے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ یہ گروہ فطرتی طور پر اِس ہتھیار کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اِسے لوگوں سے زیادہ سے زیادہ خدمت لینے کے قابل کر دے اور وہ دولت ہے۔ جب انسان یہ سمجھے کہ اِس کی عزت اور امن و راحت کا انحصار دولت پر ہے تو وہ لازمی طور پر اپنی دولت کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ایک طبعی چیز ہے۔ ہم اِس اصول کو غلط کہہ سکتے ہیں کہ دُنیا میں دولت سے عزت اور راحت حاصل ہوتی ہے مگر یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ جو شخص یہ سمجھتا ہے وہ اُسے بڑھانے میں غلطی کرتا ہے۔ وہ اپنے نقطۂ نگاہ سے بِالکل صحیح کرتا ہے۔ مومن یہ سمجھتا ہے کہ اِس کی ساری عزت خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں ہے اور کیا ہم اِسے روکیں گے کہ یہ تعلق نہ بڑھا، یا اگر وہ یہ کوشش کرے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ غیر طبعی فعل کرتا ہے۔ جب اِس کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام عزّتیں اور رحمتیں خدا تعالیٰ سے تعلق کے ساتھ وابستہ ہیں تو وہ قدرتی طور پر کوشش کرے گا کہ اِس تعلق کو بڑھائے۔ اِسی طرح جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اِس کی ساری عزت اور راحت و امن دولت میں ہے تو ضرور ہے کہ وہ دولت کو بڑھانے کی کوشش کرے گا اور اِس کی اِس کوشش پر ہم کوئی اعتراض نہیں کر سکتے کیونکہ یہ طبعی تقاضا ہے۔ ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اِس کا یہ خیال غلط ہے کہ ساری عزّت اور راحت دولت سے وابستہ ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے دولت میں اضافہ کی کوشش کرنا غیر طبعی فعل ہے۔ جس طرح ہم اِس شخص کو جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ عزّت اور راحت تعلق بِاﷲ میں ہے اِس سے باز نہیں رکھ سکتے کہ وہ خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھائے۔ دُنیا میں ہزاروں لاکھوں انبیاء آئے ہیں جن کی زندگی کا دارومدار اور انحصار ہی تعلق باﷲ پر ہوتا ہے اور پھر اِن کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کا اِسی تعلیم پر یقین ہوتا ہے۔ لوگوں نے کِس طرح کوششیں کیں کہ اِن کو اِس راستہ سے ہٹا دیں مگر کیا اُنہوں نے اِس کو چھوڑا؟ اِن کو طرح طرح کے عذاب دیئے گئے، دُکھ پہنچائے گئے مگراُنہوں نے اپنا راستہ نہ چھوڑا کیونکہ ان کا یہی عقیدہ تھا کہ تمام عزّت اور راحت اِسی سے ہے۔ اِس طرح جس شخص کو یہ یقین ہو کہ اُس کی ساری عزّت و راحت دولت جمع کرنے میں ہے خواہ کتنی کوشش کی جائے وہ دولت جمع کرنا کبھی نہیں چھوڑے گا۔
دوسری طرف جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو اِس میں دولت کمانے سے منع نہیں کیاگیا۔ قرآن کریم میں مومن اور خالص مومنوں کے لئے بعض احکام ہیں اور اِن میں ڈھیروں ڈھیر مال کا ذکر ہے۔ چنانچہ حکم ہے کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو ڈھیروں ڈھیر مال بھی دیا ہو تب بھی یہ جائز نہیں کہ طلاق دیتے وقت اُسے واپس لے ۱؎ اور ظاہر ہے کہ ڈھیروں ڈھیر مال کسی کے پاس ہو گا تو دے گا نہیں تو کہاں سے دے گا؟ کنگال آدمی ڈھیروں ڈھیر مال کہاں سے دے سکتا ہے؟ اگر دولت کمانا منع ہوتا تو ایسی مثالیں بھی قرآن کریم میں نہ ہوتیں۔ پھرقرآن کریم میں زکوٰۃ کا حکم ہے جو مال پر ہی دی جاتی ہے۔ پھر تقسیم ورثہ کا حکم ہے۔ اگر دولت کمانا جائز نہ ہوتا تو پھر تقسیم ورثہ کا حکم ہی نہ ہوتا اور اِسی طرح صدقہ خیرات کے حکم بھی قرآن کریم میں نہ ہوتے اگر یہ احکام یونہی تھے تو یہ کیوں نہ بتایا کہ اگر کسی کے گھر میں شراب کا مَٹکا ہو تو اُسے یوں تقسیم کیا جائے یا یہ کہ کسی مسلمان کے گھر میں سُؤر کا گوشت ہو تو اُسے یوں تقسیم کیا جائے۔ پس اگر دولت کمانا اسلام میں منع ہوتا تو ایسے احکام بھی نہ ہوتے۔ اسلام نے دولت کمانے سے منع نہیں کیا بلکہ جس چیز کو منع کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اِس دولت کو محفوظ کر کے ایسے رنگ میں رکھ لیتا ہے کہ دُنیا کو اِس کے فائدہ سے محروم کرتا ہے۔ روپیہ کو بنکوں میں جمع رکھا جاتا ہے یا خزانوں میں دفن کر دیا جاتا ہے اور اِس طرح خود تو اِس سے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے مگر وہ دولت دوسروں کے کام نہیں آسکتی۔ جس چیز سے اسلام روکتا ہے وہ یہ ہے کہ اِس طرح دولت کو محفوظ نہ کر لو کہ دوسرے اِس کے فائدہ سے محروم رہ جائیں اور یہ کہ سُود نہ لو کیونکہ اِس سے دولت چند لوگوں کے ہاتھوں میں جمع ہو جاتی ہے اور باقی لوگ محروم رہ جاتے ہیں۔ جس دولت سے دُنیا کو فائدہ پہنچے اِس سے اسلام نے نہیں روکا، جس کا فائدہ صرف مالک کو ہو اُس سے روکتا ہے۔ جو لوگ سُود پر روپیہ لیتے ہیں لوگ اُن کو کروڑوں روپیہ دے دیتے ہیں کہ نفع ملے گا۔ اِسی طرح وہ روپیہ سمیٹ لیتے ہیں اور روپیہ چند ہاتھوں میں جمع ہو جاتا ہے۔ پہلے تو لوگ ان کو اِس لئے روپیہ دیتے ہیں کہ سُود ملے گا لیکن آخر کار اِن کے دستِ نگر ہو جاتے ہیں اور اِس طرح جو روپیہ جمع کرتے ہیں وہ کوشش کرتے ہیں کہ روپیہ جمع کرتے چلے جائیں تا دوسروں سے غلامی کروا سکیں اور خدمت کراسکیں۔ اِس چیز سے قرآن کریم نے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں قیامت کے دن اِسے جلا کر اِن کے بدن کو داغ دیا جائے گا۔۲؎ اِس سونا چاندی سے مُراد استعمال والا سونا چاندی نہیں جو جائز طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں زکوٰۃ کا حکم ہے اور حدیثوں میں یہ تفاصیل بیان کی گئی ہیں کہ اتنے سونے اور اتنی چاندی پر اتنی زکوٰۃ دینی چاہئے۔ اگر سونا چاندی پاس رکھنا ہی منع ہوتا تو اُس پر زکوٰۃ کے کوئی معنے ہی نہ تھے۔ کیا شراب پر بھی کوئی زکوٰۃ ہے؟ تو یہ درمیانی رستہ ہے جو اسلام نے بتایا ہے اور ایسی دولت سے منع کیا ہے جس کے فائدہ سے دوسرے لوگ محروم رہ جائیں۔ جو لوگ اِس طرح دولت جمع کرتے ہیں وہ آرام طلب ہو جاتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہاتھ سے کام نہیں کرتے۔ اِن کے مدّنظر ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اِن کے پاس روپیہ ہو تو لوگوں سے کام لیں۔ خود چار پائی پر بیٹھے ہیں اور دوسرے کو حکم دیتے ہیں کہ پاخانہ میں لوٹا رکھ آؤ اور اِس قدر نکمّے ہو جاتے ہیں کہ پاخانہ سے واپس آتے ہوئے لوٹا وہیں چھوڑ آتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ او کمبخت کہاں گیا جا لوٹا اُٹھا لا۔ اِن کو کوئی کام کرنا نصیب ہی نہیں ہوتا اور چونکہ اِن کو دوسروں سے کام لینے کی عادت ہو جاتی ہے اِس لئے یہی لوگ ہیں جو دُنیا میں غلامی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں بلکہ اِن کا وجود غلامی کا منبع ہوتا ہے اور دُنیا میں اِن کے ذریعہ غلامی اِس طرح پھیلتی ہے جس طرح طاعون کے کیڑوں سے طاعون پھیلتی ہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ دُنیا کی حالت ایسی رہے کہ اِس میں ایک طبقہ ایسے لوگوں کا رہے جو اِن کی خدمت کرتے رہیں اور وہ اِس کے لئے کوشش بھی کرتے رہتے ہیں جس طرح حکومت کو گھوڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اِس کے لئے وہ زمینداروں کو مربعے دیتی ہے کہ گھوڑے پالیں اِسی طرح جو لوگ اِس بات کے عادی ہوتے ہیں کہ ہاتھ سے کام نہ کریں یا بعض کاموں میں اپنی ہتک سمجھیں وہ لازماً کوشش کرتے ہیں کہ دُنیا کا کچھ حصّہ غریب رہے اور اِن کی خدمت کرتا رہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر دُنیا کی حالت اچھی ہو جائے تو وہ کام کس سے لیں گے۔ یہ باریک باتیں شاید زمینداروں کی سمجھ میں نہ آسکیں اِس لئے مَیں اِسے ایک موٹی مثال سے واضح کر دیتا ہوں جس سے ہر شخص اِس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ ایک دفعہ مجھے اطلاع ملی کہ شکر گڑھ کی تحصیل میں بعض ادنیٰ اقوم ہیں جن کو آریہ ہندو بنا رہے ہیں اور مجھے اطلاع ملی کہ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اگر مسلمان ہم کو اپنے ساتھ ملا لیں تو ہم مسلمان ہو جائیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہندو ہو کر بھی ہماری حالت اچھی نہ ہو گی۔ کئی پیغام مجھے آئے اور مَیں نے ایک دو مبلّغ وہاں بھیج دیئے کہ جاکر اِن میں تبلیغ کریں اور پھر ہم اِن کے لئے انتظام کرنے کی کوشش کریں گے۔ پہلے پہل تو مجھے رپورٹ ملتی رہی کہ وہاں بڑا اچھا کام ہو رہا ہے اور اُمید ہے کہ سینکڑوں ہزاروں لوگ اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔ مگر دس بارہ روز کے بعد یہ رپورٹیں آنی شروع ہو ئیں کہ سخت مخالفت ہو رہی ہے اور ہمارے مبلّغوں کو لوگ اپنے گاؤں میں ٹھہرنے تک نہیں دیتے۔ یہ رپورٹیں سُن کر مجھے بہت حیرانی ہوئی کیونکہ وہ سارا علاقہ مسلمانوں کا ہے اور مجھے اُمید تھی کہ مسلمان ضرور مددکریں گے لیکن مجھے بتایا گیا کہ اِس علاقہ کے ذیلدار نے جو مسلمان ہے سب کام چھوڑ چھاڑ کر ہماری مخالفت شروع کر رکھی ہے اور بعض نمبرداروں کو ساتھ لے کر وہ ہمارے آدمیوں کے پیچھے پیچھے پھرتا اور ہر گاؤں میں پہنچ کر لوگوں سے کہتا ہے کہ اِن کو یہاں ٹکنے نہ دو اور اِس کی وجہ وہ یہ بتاتا ہے کہ اگر اُنہوں نے ان لوگوں کو مسلمان بنا لیا تو پھر ہمارے جو جانور مر جایا کریں گے اُنہیں کون اُٹھا کرلے جایا کرے گا اور اُن کی کھالیں کون اُتارا کرے گا؟ اگر ان لوگوں میں یہ عادت نہ ہوتی کہ ایک خاص قسم کے کام نہیں کرنے تو اِن کو اِس مخالفت کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ تو بعض قسم کے کام کرنا امراء اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔ زمینداروں میں بھی یہ عادت ہے کہ وہ بعض خاص قسم کے کام خود کرنا ہتک سمجھتے ہیں اور اِن کو کمیوں کے کام سمجھتے ہیں۔ اِن کمیوں کی اصلاح کا سوال جب بھی پیدا ہو گا زمیندار فوراً لڑائی پر آمادہ ہو جائیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اِس طرح ہمارے کام رُک جائیں گے۔
جب قادیان میں چوہڑوں کو اسلا م میں داخل کرنے کا سوال پیدا ہؤا تو میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی کہ بعض احمدیوں نے مجھ سے کہا کہ اگر یہ لوگ مسلمان ہو گئے تو ہمارے گھروں کی صفائی کون کرے گا؟ یہ دقّت ان کو صرف اِس وجہ سے نظر آئی کہ ان کو ایک خاص قسم کا کام کرنے کی عادت نہ تھی اور جسے بِالکل ہی کام کرنے کی عادت نہ ہو اُسے غصّہ آئے گا۔ جب وہ یہ محسوس کرے گا کہ اب اِس کی خدمت کرنے والے نہیں رہیں گے۔ اگر زمینداروں کو یہ عادت ہوتی کہ اپنے مُردہ جانوروں کو خود ہی باہر پھینک دیں تو شکر گڑھ کی تحصیل کے زمیندار ہماری مخالفت نہ کرتے۔ تو میرا مطلب یہ ہے کہ ایک تو کام کرنے کی عادت پیدا کی جائے اور دوسرے کسی کام کو ذلیل نہ سمجھا جائے۔ ہاں نوکر رکھ لینا اَور بات ہے۔ اگر کسی کا کام زیادہ ہو جسے وہ خود نہ کر سکتا ہو تو وہ کسی کو مددگار کے طور پر رکھ سکتا ہے۔ بعض بڑے زمیندار بھی اپنے ساتھ ہالی رکھ لیتے ہیں لیکن اِس کے یہ معنے نہیں کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے ہل نہیں چلاتے۔ وہ خود بھی چلاتے ہیں اِس لئے ان کو یہ فکر نہیں ہوتا کہ اگر ہالی نہ رہے تو وہ کیا کریں گے۔ کیونکہ وہ خود بھی ہل چلانے میں عار نہیںسمجھتے لیکن جن کاموں کو لوگ اپنے لئے عار سمجھتے ہیں اُن کے کرنے والوں کی اصلاح کا اگر سوال پیدا ہو تو وہ ضرور ناراض ہوتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اِس کے بعد یہ ہتک والا کام ہمیں خود کرنا پڑے گا اور اِس لئے جب میں کہتا ہوں کہ ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے تو اِس میں دونوں باتیں شامل ہیں یعنی یہ بھی اِس میں شامل ہے کہ کسی کام کو اپنے لئے عار نہ سمجھا جائے۔ یوں تو سارے ہی لوگ ہاتھ سے کام کرتے ہیں مَیں جو لکھتا ہوں یہ بھی ہاتھ سے ہی کام ہے۔ کیا ہاتھ سے نہیں تو زبان سے لکھا جاتا ہے؟
پس ہاتھ سے کام کرنے کو جب مَیں کہتا ہوں تو اُس کے معنے یہ ہیں کہ وہ عام کام جن کو دُنیا میں عام طور پر بُرا سمجھا جاتا ہے اُن کو بھی کرنے کی عادت ڈالی جائے۔ مثلاً مٹی ڈھونا یا ٹوکری اُٹھانا ہے ،کہی چلانا ہے۔ اَوسط طبقہ اور امیر طبقہ کے لوگ یہ کام اگر کبھی کبھی کریں تو یہ ہاتھ سے کام کرنا ہو گا ورنہ یوں تو سب ہی ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔ یہ کام ہمارے جیسے لوگوں کے لئے ہیں کیونکہ ہمیں اِن کی عادت نہیں۔ اگر ہم نے اِس کی طرف توجّہ نہ کی تو ہو سکتا ہے کہ ہماری عادتیں ایسی خراب ہو جائیں یا اگر ہماری نہ ہوں تو ہماری اولادوں کی عادتیں ایسی خراب ہو جائیں کہ وہ اُن کو بُرا سمجھنے لگیں اور پھر کوشش کریں کہ دُنیا میں ایسے لوگ باقی رہیں جو ایسے کام کیا کریں اور اِسی کا نام غلامی ہے۔
پس جائز کام کرنے کی عادت ہر شخص کو ہونی چاہئے تا کسی کام کے متعلق یہ خیال نہ ہو کہ یہ بُرا ہے۔ ہمارے مُلک کی ذہنیت ایسی بُری ہے کہ عام طور پر لوگ لوہار ، ترکھان وغیرہ کو کمیں سمجھتے ہیں اور جس طرح یہ لوہار، ترکھان اور چوہڑوں کو ذلیل سمجھتے ہیں اِسی طرح دوسرے لوگ اِن کو ذلیل سمجھتے ہیں۔ اگر کسی شخص کا لڑکا پولیس یا فوج میں سپاہی ہو جائے اور سترہ روپیہ ماہوار تنخواہ پانے لگے تو اِس پر بہت خوشی کی جاتی ہے لیکن اگر وہ پچاس ساٹھ روپیہ ماہوار کمانے والا ترکھان یا لوہار بن جائے تو تمام قوم روئے گی کہ اِس نے ہماری ناک کاٹ ڈالی کیونکہ اِسے کمیوں کا کام سمجھا جاتا ہے۔ تو میرا مطلب یہ ہے کہ اِس قسم کے کاموں کی جماعت میں عادت ڈالی جائے۔ ایک طرف تو کام کرنے کی عادت ہو اور دوسری طرف ایسے کاموں کو عیب نہ سمجھنے کی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جماعت کا کوئی طبقہ ایسا نہیں رہے گا کہ جو کسی حالت میں بھی یہ کوشش کرے کہ دُنیا میں ضرور کوئی نہ کوئی حصّہ غلام رہے اور اگر کبھی اِس کی اصلاح کا سوال پیدا ہو تو اِس میں روک بنے۔ جیسے جب یہاں چوہڑوں کو داخلِ اسلام کرنے کا سوال پیدا ہؤا تو بعض لوگ گھبرانے لگے تھے۔ جماعت کے کچھ لوگ بڑھئی بنیں، کچھ لوہار بنیں، کچھ ملازمتیں کریں غرضیکہ کوئی خاص کام کسی سے منسوب نہ ہو، تا وہ ذلیل نہ سمجھا جائے۔ اِس تحریک سے دو ضروری فوائد حاصل ہوں گے: ایک تو نکمّا پن دُور ہو گا اور دوسرے غلامی کو قائم رکھنے والی رُوح کبھی پیدا نہ ہو گی۔ یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ فلاں کام بُرا ہے اور فلاں اچھا ہے۔ بُرا کام کوئی نہ کرے اور اچھا چھوٹے بڑے سب کریں۔ بُرا کام مثلاً چوری ہے،یہ کوئی بھی نہ کرے اور جو اچھے ہیں اُن میں سے کسی کو عار نہ سمجھا جائے تا اُس کے کرنے والے ذلیل نہ سمجھے جائیں اور جب دُنیا میں یہ مادہ پیدا ہو جائے کہ کام کرنا ہے اور نکمّا نہیں رہنا اور کسی کام کو ذلیل نہیں سمجھنا تو اِس طرح کوئی طبقہ ایسا نہیں رہے گا جو دُنیا میں غلامی چاہتا ہو۔ اِسی لئے مَیں نے کوشش کی تھی کہ ملازموں کی تنخواہیں بڑھ جائیں تا لوگ ملازم کم رکھیں اور اپنے کام خود کریں۔
اب تو یہ حالت ہے کہ نوکر دو چار روپے میں مل جاتے ہیں اِس لئے ذرا کِسی کے پاس پیسے ہوتے ہیں تو جھَٹ وہ نوکر رکھ لیتا ہے اور اِس طرح اِس میں سُستی اور غفلت پیدا ہو جاتی ہے۔ ہمارے مُلک میں یہ سُستی اور غفلت اِس حد تک ترقی کر گئی ہے کہ معمولی لوگ بھی اپنااسباب اُٹھانا ہتک سمجھتے ہیں حالانکہ ولایت میں بڑے بڑے لکھ پتی خود اپنے اسباب اُٹھالیتے ہیں۔ جب مَیں ولایت میں گیا تو میرے ساتھی باوجودیکہ غرباء کے طبقہ میں سے ہی تھے امراء تو ہم میں ہیں ہی نہیں سب غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنا اسباب اُٹھانے سے گھبراتے تھے۔ جب مَیں فرانس میں سے گزرا تو امریکہ کے کچھ لوگ میرے ہم سفر تھے وہ دس بارہ آدمی تھے جو یورپ کی سیر کرنے کے لئے آئے تھے۔ ان کے تموّل کا اندازہ اِس سے ہو سکتا ہے کہ وہ ایسے ہوٹلوں میں ٹھہرتے تھے جہاں پندرہ بیس روپیہ روزانہ فی کَس خرچ ہوتا ہے اور اِس طرح میرا اندازہ ہے کہ اُن کا کھانے پینے کا خرچ چار پانچ ہزار روپیہ ماہوار ہو گا، کرائے الگ تھے۔ وہ فرسٹ کلاس میں سفر کرتے تھے اور اِس طرح پندرہ بیس ہزار روپیہ ان کا کرایوں وغیرہ پر بھی خرچ ہؤا ہو گا اور اِس طرح میرا اندازہ ہے کہ ان کا کل خرچ ساٹھ ستّر ہزار روپیہ ہؤا ہو گا جس سے ان کے تموّل کا حال معلوم ہو سکتا ہے لیکن جب وہ گاڑی سے اُترے تو مَیں نے دیکھا کہ ان میں سے ہر ایک دو دو تین تین گٹھڑیاں اور بکس اُٹھائے جا رہا ہے مگر ہمارے دوستوں کی یہ حالت تھی کہ مجھے تو اُنہوں نے کہہ دیا کہ آپ چلئے ہم اسباب لاتے ہیں۔ مَیں ان کی باتوں میں آگیا اور آگے چلا آیا مگر بہت دیر ہو گئی اور کوئی نہ آیا۔ جہاز کے افسر نے بھی مجھے کہا کہ آپ سوار ہوں جہاز بِالکل روانہ ہونے کے لئے تیار ہے مگر مَیں نے کہا کہ ابھی تو میرے ساتھی اور اسباب نہیں آیا۔ آخر مَیں واپس آیا اور وجہ دریافت کی تو معلوم ہؤا کہ اسباب اُٹھانے کے لئے قُلی نہیں ملتے اور ہمارے دوست حیران تھے کہ کیا کریں؟ اِس وقت اتفاقاً کچھ آدمیوں کا انتظام سٹیشن والوں نے کر دیا اور کچھ سامان ہمارے بعض دوستوں نے اُٹھایا اور اِس طرح جہاز پر پہنچے۔ جب ہم لنڈن پہنچے تو دوسرے روز ہی مجھے معلوم ہؤا کہ ہماری پارٹی میں اختلاف ہے۔ بعض چہروں سے بھی ناراضگی کے آثار دکھائی دیتے تھے۔ مَیں نے تحقیقات کی کہ اِس کی وجہ کیا ہے تو معلوم ہؤا کہ جب گاڑی سے اُترے تو یہ سوال پیدا ہؤا کہ سامان مکان کی چھت پر پہنچانے کے لئے قُلیوں کی ضرورت ہے مگر قلی ملتے نہیں۔ چوہدری سر ظفراﷲ خان صاحب اُن دنوں وہاں تھے اور ہمارے ساتھ ہی ٹھہرے تھے اور مکان کے انتظام کے لئے پہلے سے مکان میں آگئے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ جب اُنہوں نے یہ حال دیکھا تو اپنے ایک جرمن معززدوست کے ساتھ مل کر اُنہوں نے اسباب اوپر پہنچانا شروع کیا جس پر بعض اَور دوست بھی شامل ہو گئے اور چونکہ چودہری صاحب نے ملامت کی کہ آپ لوگ خود کیوں اسباب نہیںاُٹھاتے؟ بعض ساتھیوں نے اِسے بُرا منایا اور رنجش پیدا ہوئی۔ جن صاحب کو یہ امر سب سے زیادہ بُرا لگا وہ ہماری جماعت کے تازہ باغیوں کے سردار صاحب تھے لیکن یورپ کے لوگ اِس بات میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ وہاں بھی ایسے لوگ ہیں جو دوسروں سے کام لیتے ہیں مگرسفر وغیرہ کے مواقع پر اسباب اُٹھانے میں وہ بھی تأمل نہیں کرتے۔ غرض کام نہ کرنے کی عادت انسان کو بہت خراب کرتی ہے۔ کسی مُلک میں جو مثالیں بنی ہوئی ہوتی ہیں وہ دراصل اِس مُلک کی حالت پر دلالت کرتی ہیں اور قوم کا کیریکٹر اِن میں بیان ہوتا ہے۔ ہمارے مُلک میں یہ مشہور ہے کہ کوئی سپاہی سفر پر جارہا تھا کہ اُسے آوازیں آنی شروع ہوئیں کہ میاں سپاہی! ذرا اِدھر آنا اور جلدی آنا بڑا ضروری کام ہے۔ وہ ایک ضروری کام سے جارہا تھا اور پچاس ساٹھ گز کے فاصلہ سے اُسے یہ آواز آرہی تھی مگر خیر وہ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ دو آدمی لیٹے ہوئے ہیں ان میں سے ایک اِسے کہنے لگا کہ میاں سپاہی یہ میری چھاتی پر بیر پڑا ہے اُسے اُٹھا کر میرے مُنہ میں ڈال دو۔ یہ سُن کر اُسے بہت غصّہ آیا اور اُس نے اسے گالیاں دیں اور کہا کہ تُو بڑانالائق ہے مَیں ضروری سفر پر جارہا تھا تم نے مجھے پچاس ساٹھ گز کے فاصلہ سے بُلایا۔ تمہاری چھاتی پر بیر تھا جسے تم خود اُٹھا کر کھا سکتے تھے تم کوئی لولے لنگڑے تو نہ تھے کہ مجھے اتنی دور سے بُلایا۔ اِس پر دوسرے شخص نے کہا کہ میاں سپاہی جانے دو کیوں اِتنا غصّہ کرتے ہو۔ یہ شخص تو ہے ہی ایسا۔ یہ کسی کام کا نہیں اور اِس قابل نہیں کہ اِس کی اصلاح ہو سکے۔ اِس کی سُستی کی تو یہ حالت ہے کہ ساری رات کُتّا میرا مُنہ چاٹتا رہا اور اِس سے اتنا نہ ہو سکا کہ اِسے ہشت ہی کر دے۔ اِس مثال میں ہمارے مُلک کی بے عملی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اِس میں شک نہیں کہ ہر مُلک میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں مگر یہاں بہت زیادہ ہیں یہاں جو کام کرنے والے ہیں وہ بھی سُست ہیں۔ مَیں نے کئی دفعہ سُنایا ہے کہ یہاں جو مزدور اینٹیں اُٹھاتے ہیں وہ اِس طرح ہاتھ لگاتے ہیں کہ گویا وہ انڈے ہیں آہستہ آہستہ اُٹھاتے ہیں اور پھر اُٹھاتے اور رکھتے وقت کمرسیدھی کرتے ہیں۔ پھر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کہتے ہیں کہ لاؤ ذرا حُقّہ کے تو دو کَش لگالیں لیکن ولائت میں مَیں نے دیکھا ہے کہ حالت ہی اَور ہے۔ حافظ روشن علی صاحب مرحوم کو مَیں نے ایک دفعہ توجہ دلائی اُنہوں نے کہا کہ میرا بھی خیال اِسی طرف تھا ۔ گویا ایک ہی وقت دونوں کو اِس طرف توجہ ہوئی۔ حافظ صاحب نے کہا کہ اِن لوگوں کو دیکھ کر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کام کررہے ہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آگ لگی ہوئی ہے اور یہ اِسے بجھا رہے ہیں کوئی سستی ان میں نظر نہیں آتی۔ ایک دفعہ ہم گھر میں بیٹھے تھے کھڑکی کھلی ہوئی تھی کہ گلی میں چند عورتیں نظر آئیں جو لباس سے آسودہ حال معلوم ہوتی تھیں مگر نہایت جلدی جلدی چل رہی تھیں مَیں نے حافظ صاحب سے کہا کہ ان کو کیا ہو گیا ہے؟ حافظ صاحب ذہین آدمی تھے سمجھ گئے اور کہنے لگے کہ مَیں نے یہاں کسی کو چلتے دیکھا ہی نہیں سب لوگ یہاں دوڑتے ہیں۔ غرض وہاں کے لوگ ہر کام ایسی مُستعدی سے کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے لیکن ہمارے مُلک میں جدھر دیکھو سخت غفلت اور سُستی چھائی ہوئی ہے۔ کسی کو چلتے دیکھو تو سُستی کی ایسی *** ہے کہ چاہتا ہے ہر قدم پر کیلے کی طرح گڑ جائے یہاں جو کام کرنے والے ہیں وہ بھی گویا نکمّے ہی ہیں اور جو سُست ہیں اور کام کرتے ہی نہیں ان سے تو اﷲکی پناہ۔ ان کی حالت تو وہی ہے کہ بیر اُٹھا کر مُنہ میں نہیں ڈال سکتے بلکہ اِس سے بھی بڑھ کر اِس کے ساتھی کی جس نے کہا تھا کہ ساری رات کُتّا میرا مُنہ چاٹتا رہا اور اِس نے ہشت تک نہ کی۔ کمبخت تُو نے آپ ہی کیوں نہ ہشت کہہ دیا؟ حضرت خلیفہ ٔ اوّل ایک شخص کے متعلق سُنایا کرتے تھے ۔ وہ ایک گاؤں کا رہنے والا اور اچھا مخلص احمدی تھا۔ زمین وغیرہ اچھی تھی اور باپ نے کچھ روپیہ بھی چھوڑا تھا۔ وہ یہاں آیا اور شہری لوگوں سے اُس کے تعلقات ہوئے تو دماغ بگڑ گیا اور لگا روپیہ اُڑانے۔ جس کے نتیجہ میں روپیہ میں کمی آنے لگی۔ حضرت خلیفہ اوّل نے ایک دفعہ اُسے کام کرنے کی طرف توجہ دلائی تو اُس نے کہا کہ میری تو یہ حالت ہے کہ اگر لاہور جاؤں اور میرے پاس کوئی ٹرنک یا اسباب نہ ہو تو اپنا رومال قلی کو پکڑا دیتا ہوں تا دیکھنے والے یہ تو سمجھیں کہ کوئی شریف آدمی جارہا ہے۔ شریف بننا کوئی آسان کام تو نہیں۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ اُس نے اپنی ساری دولت لُٹا دی اور آخرلڑکیوں کو ساتھ لے کر عیسائی ہو گیا۔ اِس کی لڑکیاں بھی اب عیسائی ہیں۔ گویا ان میں سے بعض دل میں سمجھتی ہوں کہ عیسائیت سچا مذہب نہیں مگر بہرحال وہ عیسائی ہیں۔ تو کام کرنے کی عادت ڈالنا نہایت ہی اہم چیز ہے اور اِسے جماعت کے اندر پیدا کرنا نہایت ضروری ہے تا جو لوگ سُست ہیں وہ بھی چُست ہو جائیں اور ایسا تو کوئی بھی نہ رہے جو کام کرنے کو عیب سمجھتا ہو۔ جب تک ہم یہ احساس نہ مٹا دیں کہ بعض کام ذلیل ہیں اور اِن کو کرنا ہتک ہے یا یہ کہ ہاتھ سے کما کر کھانا ذلت ہے اُس وقت تک ہم دُنیا سے غلامی کو نہیں مِٹا سکتے۔ لوہار، بڑھئی، دھوبی، نائی غرضیکہ کسی کا کام ذلیل نہیں۔ یہ سارے کام دراصل لوگ خود کرتے ہیں۔ ہر شخص تزئین کرتا ہے، اپنی داڑھی اور مونچھوں کی صفائی کرتا ہے۔ یہی حجام کا کام ہے۔ بچہ پیشاب کر دے تو امیر غریب ہر ایک اِسے دھوتا ہے جو دھوبی کا کام ہے تو یہ سب کام انسان کسی نہ کسی رنگ میں خود کرتا ہے مگر اِس طرح کہ کسی کو پتہ نہ لگے اور خود بھی محسوس نہ کرے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وہ ایسے رنگ میں کرے کہ وہ سمجھتا ہو کہ گو یہ کام بُرا سمجھا جاتا ہے مگر دراصل بُرا نہیں اور اس کے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہر انسان اپنی طہارت کرتا ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہی چوہڑوں والا کام ہے اور جب تک کوئی شخص یہ چوہڑوں والا کام نہ کرے لوگ اِسے پاگل سمجھتے ہیں اور اِس سے زیادہ غلیظ اور کوئی ہوتا نہیں تو جب تک ایسے تمام کام کرنے کی عادت نہ ہو اِن کے کرنے والوں کی اصلاح بُری لگتی ہے۔ جیسے یہاں چوہڑوں کی اصلاح پر بعض لوگوں کو گھبراہٹ ہوئی تھی۔ حالانکہ مکّہ اور مدینہ میں کوئی چوہڑے نہ ہوتے تھے۔ آخر وہاں گزارہ ہوتا ہی تھا اور اب تو ولایت میں بلکہ ہندوستان میں بمبئی اور کلکتہ وغیرہ میں بھی ایسے پاخانے بنادیئے گئے ہیں کہ چوہڑوں کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ لاہور میں بھی اِس کا انتظام زیر تجویز ہے۔ پاخانہ میں جاؤ تو نلکے لگے ہوئے ہیں، فارغ ہونے کے بعد نلکا کھول دو۔ زمین کے نیچے سرنگیں بنی ہوئی ہیں جن میں سے پاخانہ بہہ کر جنگل میں چلا جاتا ہے اور وہاں کھاد کے کام آتا ہے۔ بہرحال کسی جماعت کا یہ خیال کرنا کہ اِس کے بعض افراد گندے ہیں اور بعض اچھے ہیں ایسا ذلیل خیال ہے کہ اِس سے زیادہ ذلیل اور نہیں ہو سکتا۔ اگر واقعی کسی کے اندر گند ہے تو اِس کی اصلاح کرنی چاہئے لیکن اگر وہ اچھے ہیں تو ان سے نفرت کرنا اپنے اوپر اور اپنی قوم کے اوپر ظلم ہے۔
چونکہ اپنے اپنے طور پر ہاتھ سے کام کرنے کی نگرانی نہیں ہو سکتی اِس لئے مَیں نے تحریک کی تھی کہ قومی طور پر یہ کام کیا جائے اور سڑکیں بنائی اور نالیاں درست کی جائیں تانگرانی ہو سکے اور دوسروں کو بھی تحریک ہو۔ اِس کے سوا بھی اِس میں کئی فائدے ہیں مثلاً جس قوم میں یہ عادت پیدا ہو جائے اُس کی اقتصادی حالت اچھی ہو جائے گی، اِس سے سوال کی عادت دُور ہو جائے گی، اِس کے افراد میں سُستی نہیں پیدا ہو گی۔ پھر جن لوگوں کی اقتصادی حالت اچھی ہو گی وہ چندے بھی زیادہ دے سکیں گے، بچوں کو تعلیم دِلا سکیں گے اور اِس طرح اِن کی اخلاقی حالت درست ہو گی تو اِس کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں۔ مگر سب سے اہم امر یہ ہے کہ اِس سے مذہب کو تقویت ہوتی ہے اور دُنیا سے غلامی مٹتی ہے۔ جب تک دُنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کو ہاتھ سے کام کرنے کی عادت نہیں وہ کوشش کریں گے کہ ایسے لوگ دُنیا میں موجود رہیں جو اِن کی خدمت کرتے رہیں اور دُنیا ترقی نہ کرے۔ میری غرض یہ ہے کہ اِس کام کو نہایت اہمیت دی جائے اور پورے اہتمام سے شروع کیا جائے۔ افسوس ہے کہ اِس وقت تک کوئی مستعدی نہیں دکھائی گئی۔ یہاں بھی خدّام الاحمدیہ کو یہ کام شروع کر دینا چاہئے اور پھر دوسرے گاؤں اور شہروں میں بھی شروع ہونا چاہئے۔ گاؤں کے لوگوں کو صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ گاؤں میں بہت گند ہوتا ہے اور گاؤں کا تو کیا کہنا مجھے خود کئی لوگوں نے یہ طعنے دئے ہیں کہ سب سے زیادہ گند یہاں احمدیہ چوک میں ہوتا ہے۔ چوہدری ظفراﷲ خان صاحب اپنے ساتھ بعض انگریز دوستوں کو یہاں لاتے رہے ہیں، وہ سب اِس بات کی تو تعریف کرتے ہیں کہ محلے بہت اچھے ہیں، سڑکیں چوڑی ہیں مگر صفائی نہ ہونے کی شکایت وہ بھی کرتے ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ رستہ سے کانٹا ہٹا دینا بھی نیکی ہے ۳؎ اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو رستہ پر پاخانہ پھرتا ہے اُس پر *** ہوتی ہے ۴؎ مگر شاید لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ راستہ پر پاخانہ کرنا ہی *** کا موجب ہے گھر میں سے خواہ دس آدمیوں کا پاخانہ اُٹھا کر گلی میں پھینک دو یہ کوئی بُری بات نہیں۔ مَیں پوچھتا ہوں کیا قادیان کی کوئی بھی گلی ہے جو صاف رہتی ہو؟ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے گلی میں پاخانہ بیٹھنے سے کیوں منع فرمایا ہے؟ اِس لئے کہ اِس سے گندگی پھیلتی ہے، وبائیں اور بیماریاں پھیلتی ہیں۔ آپ نے ایک کے پاخانہ کرنے کو منع فرمایا ہے مگر تم ہو کہ دس کا پاخانہ گلی میں پھینک دیتے ہو اور پھر سمجھتے ہو کہ اِس سے تم پر کوئی *** نہیں پڑتی۔ پھر مَیں نے دیکھا ہے جانور ذبح کر کے بال و پَر ،اوجھڑیاں اور ان کا پاخانہ وغیرہ سب گلی میں پھینک دیا جاتا ہے۔ مُرغیاں آکر اِن کو نوچتی ہیں، آنت توڑ کر الگ کر لیتی ہیں اور پاخانہ الگ ہو جاتا ہے اِس پر پھر مکھیاں بیٹھ کر دوسری کھانے کی چیزوں پر آکر بیٹھتی ہیں اور وہی پھر آٹے اور کھانے کی چیزوں پر بیٹھتی ہیں۔ پھر لوگ اِسے کھا کر پاخانہ کرتے ہیں اور پھر اِس پر مکھیاں بیٹھتی ہیں اور جس طرح بادل سمندر سے بنتے اور پھر پانی بن کر سمندر میں چلے جاتے ہیںاِسی طرح اِس گندگی کا بھی حال ہے۔ بعض لوگ تو ایسے احمق ہیں کہ وہ گندہ رہنے کو نیکی سمجھتے ہیںاور کہتے ہیں کہ یہ صفائیاں کرنا انگریزوں کا کام ہے ہم مومن اور مخلص ہیں ہمیں اِن باتوں سے کیا؟ وہ مومن مخلص اِسے سمجھتے ہیں جو زیادہ گندہ ہو۔ زمانہ کتنا بدل جاتا ہے۔ مَیں سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی کے حالات ایک تاریخ کی کتاب میں پڑھ رہا تھا گو اِس زمانہ میں مسلمانوں میں تنزل کے آثار شروع ہو گئے تھے مگر پھر بھی میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب مَیں نے دیکھا کہ اِس میں صفحوں کے صفحے اِس موضوع پر لکھے ہوئے ہیں کہ ایک یورپین عیسائی اور شامی مسلمان میں کیا فرق ہے؟ اور فرق یہ بتائے گئے ہیں کہ مسلمان صاف ستھرا ہوتا ہے اِس کا بدن اور اِس کے کپڑے اور مکان صاف ہوتا ہے لیکن یورپین گندہ ہوتا ہے اِس کے بال اور ناخن بڑھے ہوئے ہوتے ہیں، اِس کا بدن اور لباس غلیظ ہوتا ہے۔ یہ اُس زمانہ کے مسلمانوں کی حالت تھی مگر آج کیا ہے؟ آج ایشیا کا مسلمان غلیظ اور یورپین عیسائی صاف ستھرا ہوتا ہے۔ پھر وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ عجیب بات یہ ہے کہ عیسائیوں کو سمجھاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں تصوّف یہی ہے اور بعینہٖ آج یہ حالت مسلمانوں کی ہے۔ آج مسلمان ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ وہی چیزیں جو عیسائیوں میں تھیں آج اِن میں آگئی ہیں اور جو ان میں تھیں وہ عیسائیوں میں چلی گئی ہیں۔ بالکل اُلٹ معاملہ ہو گیا ہے۔ جس طرح بچے کھیلتے ہیں اور ایک دوسرے کی پیٹھ پر سوار ہو جاتا ہے۔ جو نیچے ہوتا ہے وہ کہتا ہے میرے کوٹھے کون چڑھی؟ یعنی میرے مکان کی چھت پر کون چڑھا ہے۔ اوپر والا جواب دیتا ہے کانٹو۔ نیچے والا کہتا ہے اُتر کانٹو میں چڑھاں۔ یعنے کانٹو اُترو اب میری باری چڑھنے کی ہے۔ اس پر جو گھوڑا تھا وہ سوار ہو جاتا ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں یوروپین عیسائیوں اور ایشیائی مسلمانوں میں بِالکل ایسا ہی کھیل کھیلا گیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب کہا جاتا تھا کون غلیظ ہے؟ تو جواب ملتا تھا عیسائی اور جب کہا جاتا تھا کون صاف ہے؟ تو جواب ملتا تھا مسلمان۔ مگر آج جب کہا جاتا ہے کون صاف ہے؟ تو جواب ملتا ہے عیسائی۔ اورجب کہا جاتا ہے کون غلیظ ہے؟ تو جواب ملتا ہے مسلمان۔ مگر اِس تجویز پر عمل کر کے ہر جگہ کے احمدی اِس حالت کے برعکس نقشہ دکھا سکتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ابھی یہاں بھی عمل شروع نہیں ہؤا۔ خدّام الاحمدیہ کو چاہئے کہ اِس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لیں اور دوسروں کو سمجھائیں اور عملاً کام کریں۔ مَیں نے جو اعلان عملی کام کے متعلق کیا تھا مجھے معلوم ہؤا ہے کہ خدّام الاحمدیہ اِس سے غافل نہیں ہیں۔ جو کام اِن کے سپرد کیا گیا تھا اُس کے لئے انجینئروں کے مشورے کی ضرورت ہے جو لیا جارہا ہے اور اِس کے بعد کام شروع کر دیا جائے گا مگر اِن کا صرف یہی کام نہیں بلکہ اَور بھی کئی کام ہیں۔ جب تک یہ شروع نہیں ہوتا وہ یہ دیکھیں کہ لوگ گلیوں میں گند نہ پھینکیں اور اگر کوئی پھینکے تو سب مل کر اُسے اُٹھائیں۔ تھوڑی سی محنت سے صفائی کی حالت اچھی ہو سکتی ہے۔ گاؤں میں رہنے والے احمدیوں کو بھی صفائی کی طرف خاص توجہ چاہئے۔ مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض زمیندار عورتیں بیعت کے لئے آتی ہیں کسی کے بچہ نے فرش پر پاخانہ کر دیا تو اُس نے ہاتھ سے اُٹھا کر جھولی میں ڈال لیا اور سمجھ لیا کہ بس صفائی ہو گئی۔ اِن کے جانے کے بعد ہم اِسے دھوتے ہیں لیکن وہ اپنی طرف سے سمجھ لیتی ہیں کہ بس صفائی ہو چکی۔ یہ حالت مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے اور ایک دفعہ نہیں بیسیوں دفعہ۔ اب غور تو کرو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جو فرماتے ہیں کہ رستہ میں پاخانہ کرنے والے پر خدا کی *** ہوتی ہے۔ کیا وہ اِس نظّارہ کو برداشت کر سکتے تھے۔ پھر یہی نہیں مَیں نے بعض زمیندار عورتوں کو اپنے دوپٹہ سے بچہ کی طہارت کرتے دیکھا ہے۔ وہ یہ سمجھ لیتی ہیں کہ بس بچہ کی صفائی ہو گئی اور یہ خیال بھی نہیں کرتیں کہ بچہ کا پاخانہ اپنے سر پر رکھ رہی ہیں۔ ہمارے مُلک میں گندگی کا مفہوم ہی بِالکل بدل گیا ہے اور یہ ہاتھ سے کام نہ کرنے کا ہی نتیجہ ہے۔ یہ سب کَسل اور سُستی ہے کہ کون اُٹھے اور کون دھوئے اور کون صفائی کرتا پھرے؟
مَیں نے خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی تھی کہ وہ اِس کام کو خاص طور پر شروع کریں اور اب بھی جب تک وہ سکیم نہ بنے ہر محلہ کے ممبر ذمہ دار سمجھے جائیں اِس محلہ کی صفائی کے۔ پہلے لوگوں کو منع کرو اور سمجھاؤ کہ گلی میں گندگی نہ پھینکیں اور اگر وہ پھر بھی باز نہ آئیں تو پھر خود جا کر اُٹھائیں۔ جب وہ خود اُٹھائیں گے تو پھینکنے والوں کو بھی شرم آئے گی اور جب عورتیں دیکھیں گی کہ وہ جو گندگلی میں پھینکتی ہیں وہ ان کے باپ یا بھائی یا بیٹے کو اُٹھانی پڑتی ہے تو وہ سمجھیں گی یہ بُرا کام ہے اور وہ اِس سے باز رہیں گی۔ لوگ ہزار یا پانچ سو یا کم و بیش روپیہ لگا کر مکان بنا لیتے ہیں مگریہ نہیں کرتے کہ چند فٹ کا ایک چھوٹا سا گڑھا گلی میں بنوا لیں اور اِس گلی کے سب مکانوں والے اِسی میں گندی چیزیں پھینکیں اور پھر صفائی کرنے والے آکر وہیں سے لے جائیں۔ یورپ میں مَیں نے دیکھا ہے سب سڑکوں پر ایسے گڑھے ہوتے ہیں جن کے اوپر ڈھکنے پڑے رہتے ہیں۔ لوگ اِس میں گندی چیزیں پھینک جاتے ہیں اور سرکاری آدمی آکر اُٹھاتے جاتے ہیں۔ اگر یہ طریق یہاں بھی اختیار کر لیا جائے تو بہت مُفید ہو گا۔ اگر ہر گلی والے صفائی کے خیال سے ایسا گڑھا بنوائیں تو اِس پر زیادہ سے زیادہ چار پانچ روپیہ خرچ ہو گا اور میرے نزدیک پانچ چھ سال تک کام دے سکتا ہے۔ اِس کے بعد بھی اگر مرمت کی ضرورت پیش آئے تو اِس پر روپیہ دو روپیہ سے زیادہ خرچ نہ ہو گا اور اگر گلی میں دس گھر ہوں تو آٹھ آٹھ آنہ ہر ایک کے حصّہ میں آئیں گے اور پھر اِس خرچ کو پانچ سال پر لے جایا جائے تو سات پیسے فی سال کا خرچ ہو گا۔ اگر اِس خرچ سے صفائی کی حالت اچھی ہو جائے تو کتنا سستا ہے۔ اِس سے انسان آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی *** سے بھی بچ سکتا ہے۔ اِس قسم کی صفائی اگر سب جگہ جاری کی جائے تو یہ ایک بڑی نیکی ہو گی۔ دیہات میں بھی اِس کی طرف توجّہ کی جانی چاہئے وہاں لوگ گندگی کو رُوڑی کے نام سے محفوظ رکھتے ہیں۔ حالانکہ گورنمنٹ کی طرف سے بار ہا اِس حقیقت کا اعلان کیا گیا ہے کہ اِس طرح کھاد کا مُفید حصّہ ضائع ہو جاتا ہے۔ نوشادر وغیرہ کے جو اجزاء اِس میں ہوتے ہیں وہ سب اُڑ جاتے ہیں۔ کھاد تبھی اچھی ہو سکتی ہے جب زمین میں دفن ہو، ننگی رہنے سے سورج کی شعاعوں کی وجہ سے اِس کی طاقت کا مادہ اُڑ جاتا ہے۔ اِس لئے اچھی کھاد وہ ہے جو زمین میں دفن رہے۔ تو جو رُوڑیاں دیہات میں رکھی جاتی ہیں وہ گند ہوتا ہے کھاد نہیں۔ پھر اِس میں رُوڑی کے علاوہ زمینداروں کے مدّنظر ایک اور سوال اُپلوں کا ہوتا ہے جو وہ جلاتے ہیں حالانکہ یہ کتنی غلیظ بات ہے کہ پاخانہ سے روٹی پکائی جائے۔ مانا کہ وہ پاخانہ جانور کا ہے مگر کیا جانور کا پاخانہ کھانے کے لئے کوئی تیار ہو سکتا ہے؟ اِس پر رکھ کر پھُلکے سینکتے ہیں اور پھر انہیں کھاتے ہیں۔ بائیبل میں یہود کی سزا کے متعلق آتا ہے تم انسان کے پاخانہ سے روٹی پکا کر کھاؤ گے۔۵؎ گو وہاں انسانی پاخانہ کا ذکر گندی شے ہے۔ خواہ نسبتاً کم ہو اِس سے روٹی پکانی بھی یقینا ایک سزا ہے۔ مگر دیہات میں اِس کی آگ جلائی جاتی ہے اور اِس سے کھانا پکایا جاتا ہے حالانکہ اگر درخت لگانے کی عادت ڈالی جائے تو یہ کئی لحاظ سے مُفید ہو۔ جلانے کے لئے لکڑی بھی مل جائے، سایہ بھی ہو اور پھر ایسے درخت لگائے جاسکتے ہیں جن کا فائدہ بھی ہو۔ مثلاً شہتوت کے درخت ہیں ان پر اگر ریشم کے کیڑے چھوڑ دیئے جائیں تو ایک ایک درخت پر دس روپیہ کا ریشم تیار ہو سکتا ہے اور اگر دو چار درخت ہی اِس کے لگا لئے جائیں تو گھر والوں کے کپڑے ہی اِس کی آمد سے تیار ہو سکتے ہیں اور لکڑی بھی جلانے کے لئے کافی مل سکے گی۔ پھر جس جگہ درخت ہوں وہاں بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں اور جہاں درخت نہ ہوں وہاں بارش کم ہوتی ہے اور جب ہو تو مٹی بہہ بہہ کر وہ جگہ نشیب بن جاتی ہے۔ غرضیکہ بیسیوں فوائد ہیں مگر اُپلوں کے استعمال کی وجہ سے زمیندار ان سے محروم رہتے ہیں۔ اِس کی وجہ سے درخت کی ضرورت بہت کم محسوس کی جاتی ہے۔ اِس لئے لوگ لگاتے ہی نہیں صرف ہَل وغیرہ کے لئے لکڑی کی ضرورت اُن کو پیش آتی ہے۔ باقی کھانا وغیرہ گوبر سے پکا لیتے ہیں۔
ہاتھ سے کام میں جو صفائی کا حصّہ ہوتا ہے اِس کے ضمن میں مَیں نے یہ مثال دی ہے۔ اِس تحریک کو عام کرنا چاہئے اور ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ اِسے اِس طرح پھیلائیں کہ اِس کا اثر نمایاں طور پر نظر آنے لگے۔ کوئی کام اِس وقت تک مُفید نہیں ہو سکتا جب تک قوم پر اِس کا اثر نہ ہو۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دودھ پینے کے لئے دیا۔ اُس نے پیا تو آپ نے فرمایا اور پیو اُس نے اَور پیا تو آپ نے فرمایا اَور پیو، اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اﷲ! اب تو میرے مساموں میں سے دودھ بہنے لگا ہے۔۶؎ آپ کا مطلب یہ تھا کہ خدا تعالیٰ جو نعمت دے اُس کے آثار چہرہ پر ظاہر ہونے چاہئیں۔ پس ہمارے سب کام اِس رنگ میں ہونے چاہئیں کہ اِن کا اثر ظاہر ہو جائے۔
مَیں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ مَیں اِس صفائی کا بھی قائل نہیں ہوں جیسی بعض انگریز کرتے ہیں کہ ذرا سا دھبہ کپڑا میں لگ گیا تو اُسے اُتار دیا یا جیسا کہ آجکل کے بعض نوجوان کرتے ہیں کہ بالوں کو برش کرتے رہے۔ کئی کئی گھنٹے بالوں اور چہرہ کی صفائی میں لگا دیتے ہیں۔ میرا مطلب صرف اِس صفائی سے ہے جو صحت پر اثر ڈالتی ہے۔ یہ کوئی صفائی نہیں کہ داڑھی اور مونچھوں کو مونڈھتے اور بالوں کو کنگھی اور برش کرتے رہتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اِس عورت کی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ یہ صفائی نہیں بلکہ لغویت اور بے ہودگی ہے۔ ہاں جہاں گندگی اور غلاظت ہو اُسے دور کرنا چاہئے۔ اگر اِس سنگار کا نام صفائی ہے تو پھر تو لندن کے چند کروڑ پتی ہی صفائی رکھ سکیں گے۔ جو یو ڈی کولون پانی میں ڈال کر نہاتے ہیں۔ اگر ہمارے غریب زمیندار ایسی صفائی رکھنے لگیں تو ہر سال ایک گھماؤں زمین بیچ کر نہانے کا ہی انتظام کر سکتے ہیں مگر یہ کوئی صفائی نہیں بلکہ تعیّش ہے۔ وہ صفائی جو اسلام چاہتا ہے یہ ہے کہ گند نظر نہ آئے اور صحت خراب نہ ہو۔ پھر بعض لوگ ایسے صفائی پسند ہوتے ہیں کہ مصافحہ بھی کسی سے نہیں کرتے کہ اِس طرح کیڑے لگ جاتے ہیں۔ یہ بھی صفائی نہیں بلکہ جنون ہے۔ ایسی صفائی جو اخلاق کو تباہ کر دے جائز نہیں۔ بعض لوگ کسی کے ساتھ برتن میں کھانا نہیں کھاتے یہ بھی ان کے نزدیک صفائی ہے مگر ایسی صفائی سے اسلام منع کرتا ہے۔ جو صفائی اُخوت اور محبت میں روک ہو وہ بے دینی ہے۔ پس ہر کام کے وقت اُس کی خوبی اور بُرائی کا موازنہ کر کے دیکھنا چاہئے اور مصافحہ کرنے سے اگر فرض کرو کوئی بیمار بھی ہو جائے یا سال میں آٹھ دس آدمی اِس طرح مر بھی جائیں تو اس محبت اور پیار کے مقابلہ میں جو اِس سے پیدا ہوتا ہے اور ان دوستیوں کے مقابلہ میں جو اِس سے قائم ہوتی ہیں اِس کی حقیقت ہی کیا ہے؟ اگر محبت کے ذریعہ لاکھوں آدمی بچیں اور آٹھ دس مر بھی جائیں تو کیا ہے؟ دیکھنا تو یہ چاہئے کہ نقصان زیادہ ہے یا فائدہ؟ اور جو چیز زیادہ ہو اُس کا خیال رکھنا چاہئے۔ کیونکہ ہر بڑی چیز کے لئے چھوٹی قُربانی ہوتی ہے۔ پس ایسی صفائی جس سے تعیّش اور وقت کا ضیاع ہو یا جو محبت میں روک ہو اُسے مٹانا چاہئے۔ ہندوؤں میں یہ صفائی ہوتی ہے کہ بیوی ایک پتہ لے کر الگ بیٹھ جاتی ہے اور خاوند الگ اور برہمن ہر ایک کی طرف کتّے کی طرح روٹی پھینکتا جاتا ہے۔ مجھے بھی ایک دفعہ ایک ایسی دعوت کھانے کا اتفاق ہؤا جو آریہ پرتی ندھی سبھا کے مرکز میں تھی۔ سب کے آگے علیحدہ علیحدہ پتے اور ان پر کچوریاں وغیرہ رکھ دی گئیں۔ یہاں تک تو خیر تھی لیکن اِس کے بعد کی ذلّت کو کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔ رسوئیا ۷؎آکر دروازہ میں کھڑا ہو گیا اور پوچھنے لگا کہ کس کو کتنی کچوریاں چاہئیں۔ دو چاہئیں ایک یا پونی یا آدھی یا پاؤ؟ اتنی احتیاط تھی کہ جسے پاؤ کی ضرورت ہے اُسے آدھی نہ چلی جائے تا باقی پاؤ ضائع نہ ہو اور پھر وہ وہیں سے ہر ایک کے آگے جتنی وہ مانگتا پھینک دیتا تھا اور نشانہ اُس کا واقعی قابل تعریف تھا۔ مَیں نے تو کہہ دیا کہ مجھے تو کوئی ضرورت نہیں۔ تو جس صفائی سے وقت ضائع ہو یا محبت میں فرق آئے یا انسانی تعلّقات میں فرق آئے وہ جائز نہیں اور یہ پہلو مَیں نے اِس لئے واضح کر دیا ہے کہ کوئی غُلو میں اِس طرف نہ نکل جائے اور تیل، کنگھی ،چوٹی اور سرمہ کے استعمال کو ہی صفائی نہ سمجھ لیا جائے۔ یہ صفائی نہیں ہے۔‘‘
(الفضل ۱۷؍مارچ ۱۹۳۹ئ)
۱-
(النسائ:۲۱)
۲-
(التوبہ :۳۴،۳۵)
۳- بخاری کتاب المظالم باب مَنْ أَخَذَ الْغُصْنَ (الخ)
۴- مسلم کتاب الطہارۃ باب النَّھْیُ عَنِ التَّخَلِی فِی الطُّرُقِ (الخ)
۵- حزقی ایل باب ۴ آیت ۱۲ تا ۱۵۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء
۶- بخاری کتاب الرِّقاق باب کَیْفَ کَانَ عَیْشُ النَّبِیّ صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ اَصْحَابِہٖ
۷- رسوئیا: باورچی ۔ کھانا پکانے والا۔ برہمن
۸
خدّام الاحمدیہ نوجوانوں میں
ذہانت پیدا کرنے کی کوشش کریں
(فرمودہ ۳؍مارچ۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’آج مَیں خدّام الاحمدیہ کو اُن کے بعض اَور فرائض کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اِس وقت تک مَیں :-
۱- قومی رُوح کا اپنے اندر پیدا کرنا جماعتی کاموں میں دِلی شوق کے ساتھ حصّہ لے کر ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہنا اور تنظیم کا مادہ اپنے اندر پیدا کرنا۔
۲- اسلامی تعلیم سے واقفیت۔
۳- آوارگی اور بیکاری کا ازالہ۔
۴- اچھے اخلاق خصوصاً سچ اور دیانت کا پیدا کرنا ۔
۵- ہاتھ سے کام کرنا۔
اِن پانچ امور کی طرف اِنہیں توجہ دِلا چُکا ہوں۔ آج میں اِسی سلسلہ میں ایک اَور ضروری امر کی طرف اِنہیں توجہ دلاتا ہوں جو میرے نزدیک نہایت ہی اہم ہے مگر اِس کی طرف توجہ بہت ہی کم کی جاتی ہے۔ مجھے اِن لوگوں کے ساتھ کام کرنے کے بعد جن سے کام کرنے کا موقع مِلا ہے اور وہ جو ان بھی ہیں اور بوڑھے بھی، وہ پڑھے لکھے بھی ہیں اور اَن پڑھ بھی۔ ہندوستانیوں کے متعلق ایک نہایت ہی تلخ تجربہ ہؤا ہے جو ہمیشہ میرے دل پر ایک پتھر کی طرح بوجھ ڈالے رکھتا ہے اور وہ یہ کہ ایک لمبے عرصہ کی غلامی کے بعد ہندوستانی عقل اور ذہانت کو بالکل کھوچکے ہیں۔ وہ جب بھی کوئی کام کریں گے اُس کے اندر حماقت اور بیوقوفی ضرور ہوگی۔ اِلا مَا شَائَ اﷲُ۔ چند لوگ اگر مستثنیٰ ہوں تو اور بات ہے لیکن ایسے لوگ بھی ایک فیصدی سے زیادہ ہیں۔ اب سَو میں سے ایک کی آبادی سَو کا بوجھ کس طرح اُٹھا سکتی ہے۔ اگر سَو میں سے ساٹھ ستّر آدمی فرض شناس اور ذہین ہوں تو وہ بقیہ تیس چالیس کا بوجھ اُٹھا سکتے ہیں لیکن جس مُلک کے سَو آدمیوں میں سے ننانوے ذہانت سے عاری ہوں اور سَو میں سے صرف ایک شخص ذہین ہو تو اُس کے متعلق جس قدر بھی مایوسی ہو کم ہے۔ کوئی کام دے دیا جائے اُس میں ضرور کچھ نہ کچھ حماقت اور بیوقوفی دکھانا ہندوستانی شاید اپنے لئے ضروری سمجھتا ہے اور جب وہ بیوقوفی کرتا ہے اور اُسے سمجھایا جاتا ہے کہ وہ ایسی بیوقوفی نہ کیا کرے تو وہ اِس سے اُلٹا نتیجہ نکالتا ہے اور جو اُسے تعلیم دی جائے اُسے وہ ہمیشہ اپنے لئے گالی اور ہتک سمجھتا ہے اور جس طرح بچھو نیش لگاتا ہے اُسی طرح وہ اِس نصیحت کے بدلے دوسرے کو نیش لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ایک نہایت ہی تلخ بات ہے جو میرے تجربہ میں آئی ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے ایک عزیز نوجوان نے مجھ سے ذکر کیا کہ فوج میں جہاں کہیں مخلص احمدی دیکھے گئے ہیں وہ ہمیشہ دوسروں سے زیادہ ہوشیار ہوتے ہیں اور اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ سچا ایمان اور سچا اخلاص ذہانت ضرور پیدا کر دیتا ہے کیونکہ عدم ذہانت دراصل توجہ کی کمی کا نام ہے اور کامل توجہ کا نام ہی ذہانت ہے۔ جب انسان کسی امر کی طرف کامل توجہ کرتا ہے تو اُس کے چاروں کونے اُس کے سامنے آجاتے ہیں مگر جب کبھی وہ پوری توجہ نہیں کرتا اُس کے کئی گوشے اُس کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ چار پانچ ہندوستانی اکٹھے سفر کر رہے ہوں اور اُن کے سامنے کوئی معاملہ پیش آجائے تو وہ کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگ جائیں گے۔ ایک کہے گا یوں کرنا چاہئے، دوسرا کہے گا یوں نہیں ووں کرنا چاہئے۔ اب وقت گزر رہا ہے کام خراب ہو رہا ہے مگر وہ بیوقوفی کی بحثیں کرتے رہیں گے۔ کبھی اِن کے دماغ میں یہ بات نہیں آئے گی کہ اِس بحث سے زیادہ حماقت کی بات اور کوئی نہیں۔ تم اپنے میں سے ایک شخص کو آگے کرو اور اس کے فیصلہ کو تسلیم کرلو مگر یہ حماقت یہاں تک بڑھی ہوئی ہے کہ جس شخص کے فیصلہ کو وہ تسلیم کرنے کا دعویٰ بھی کریں گے اُس کے فیصلوں پر بھی جھَٹ اعتراض کر دیں گے اور اگر اعتراض نہیں کریں گے تو کم از کم اِس کے معاملات میں دخل دینے کی ضرور کوشش کریں گے۔ مَیں خلیفہ ہوں اور جماعت میری اطاعت کا اقرار کئے ہوئے ہے مگر میرا قریباً نوّے فیصدی تجربہ ہے کہ جب بھی مَیں کوئی کام کرنے لگوں ہر شخص مجھے مشورہ دینے لگ جاتا ہے۔ اب ساری سکیم سوچی ہوئی میرے ذہن میں موجود ہوتی ہے مگر وہ خواہ مخواہ دخل دے کر کام کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ وہی احمقانہ عادت ہے جو تمام ہندوستانیوں کے اندر پائی جاتی ہے کہ وہ کبھی بھی صحیح لیڈری کو تسلیم نہیں کریں گے۔ بھلا ایک شخص جو لڑائی کے لئے لوگوں کو جمع کر کے لے جارہا ہو دُشمن سر پر کھڑا ہو اور حالت ایسی ہو کہ ایک لمحہ کا ضیاع بھی سخت نقصان پہنچانے والا ہو اس وقت اگر تم راستہ روک کر کھڑے ہو جاؤ اور اِسے مشورہ دینے لگ جاؤ تو اِس کا سوائے اِس کے اور کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ تم اپنے لوگوں کو تباہ کرانا چاہتے ہو۔ پس یہ مشورہ نہیں بلکہ اپنی حماقت اور نادانی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ کسی بیمار کے پاس دو ہندوستانی ڈاکٹر چلے جائیں وہ بجائے اِس کے کہ متفقہ طور پر اِس کے لئے کوئی علاج تجویز کریں آپس میں لڑنا شروع کر دیں گے۔ وہ کہے گا یہ دوا دینی چاہئے، یہ کہے گا وہ دوا دینی چاہئے۔ بیمار مر رہا ہو گا اور یہ آپس میں بحث کر رہے ہوں گے۔ غرض کبھی بھی ضرورت اور محل کے موقع پر وہ اِس امر کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے کہ اپنے میں سے ایک شخص کو آگے کر دیں اور جو کچھ وہ کہے اِس کے مطابق کام کریں۔ استثنائی طور پر اگر بعض دفعہ کوئی لطیف بات کسی کو سوجھ جائے تو اِس کے بتانے میں کوئی حرج نہیں ہوتا مگر ہندوستانی ذہنیت یہ ہے کہ وہ ہر بات میں خواہ مخواہ دخل دیں گے اور بجائے کسی کی صحیح لیڈری پر اعتماد کرنے کے اپنی بات پر زور دیتے چلے جائیں گے اور کہیں گے کہ یوں کرنا چاہئے۔ خواہ ان کی بات کس قدر ہی احمقانہ کیوں نہ ہو اور خواہ اس شخص کی سکیم سے وہ کتنے ہی ناواقف کیوں نہ ہوں۔ تو یہ مادہ ہندوستانیوں کے دلوں میں نہایت ہی گہرے طور پر راسخ ہو چُکا ہے اور چونکہ اکثر احمدی ہندوستانی ہیں وہ بھی ایک حد تک اِس مرض میں مُبتلا ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا فضلہے کہ میرے دل میں کبھی مایوسی پیدا نہیں ہوئی لیکن اگر کبھی میرے دل میں مایوسی کے مشابہہ کوئی کیفیت پیدا ہوئی ہے تو وہ اِسی حالت پر ہوئی ہے جو ہندوستانیوں میں عام طور پر پائی جاتی ہے اور جس سے احمدی بھی مستثنیٰ نہیں کہ وہ چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی کبھی نظام کے مطالبہ کو پورا نہیں کر سکتے۔
مَیں نے ہمیشہ سفروں میں دیکھا ہے باوجود اِس کے کہ عملہ کے ۷،۸ آدمی ساتھ ہوتے ہیں اور معمولی سَو پچاس کے لگ بھگ چیزیں ہوتی ہیں۔ وہ ضرور کچھ نہ کچھ سامان پھینک کر آجاتے ہیں اور جب پوچھا جاتا ہے تو ایک کہتا ہے مَیں نے سمجھا تھا اِس کا دوسرے نے خیال رکھا ہو گا اور دوسرا کہتا ہے مَیں نے سمجھا تھا اِس کا خیال فلاں نے رکھا ہو گا۔ یہ عجیب نادانی ہے کہ ہر شخص دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ جب تم اتنا کام بھی نہیں کر سکتے تو تم ساری دُنیا کو کہاں سنبھال سکو گے؟ مگر اِس کی وجہ محض بے توجہی ہے اور پھر مَیں نے دیکھا ہے جب انہیں نصیحت کی جائے تو وہ ایک دوسری نادانی کے مُرتکب ہو جاتے ہیں اور خیال کرنے لگتے ہیں کہ شاید اپنے نقصان کی وجہ سے انہیں غصّہ چڑھا ہؤا ہے حالانکہ مجھے غصّہ ان کی ذہانت کے فقدان پر آرہا ہوتا ہے۔
ہماری جماعت میں ایک شخص ہؤا کرتا تھا اب تو وہ مر گیا ہے اور مرا بھی بُری حالت میں ہے۔ اِس نے ایک دفعہ کچھ اَور دوستوں سمیت میرے پہرے کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا۔ مَیں خود تو کسی کو پہرہ کے لئے نہیں کہتا لیکن جب کوئی پہرہ کے لئے اپنی خوشی سے آجائے تو اُسے روکتا بھی نہیں۔ اِس وقت ہم نہر پر گئے ہوئے تھے اور ہمارا خیمہ ایک طرف لگا ہؤا تھا اُس نے کہا کہ ہم آپ کا پہرہ دیں گے۔ گرمیوں کے دن تھے مجھے تھکان محسوس ہوئی اور مَیں خیمہ میں جاکر سَو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب مَیں اُٹھا تو مَیں نے گھر والوں سے دریافت کیا کہ خیمہ میں جو میری چھتری لٹک رہی تھی وہ کہاں گئی؟ اُنہوں نے کہا کہ ہم لوگ تو باہر گئے ہوئے تھے اور ابھی واپس آئے ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں کہ کون لے گیا۔ خادمہ سے دریافت کیا تو وہ کہنے لگی کہ ایک آدمی خیمہ کے پاس آیا تھا اور اُس نے کہا تھا کہ حضرت صاحب کی چھتری دے دو چنانچہ مَیں نے چھتری اُٹھا کر اُسے دے دی۔ مَیں نے جب باہر جا کر دریافت کیا تو ہر ایک شخص نے لا علمی ظاہر کی کہ ہمیں نہیں معلوم کون خیمہ کے پاس گیا اور چھتری مانگ کر لے گیا۔ غرض کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون شحص تھا؟ کوئی چور تھا یا کوئی دُشمن تھا جو صرف یہ بتانے کے لئے اندر آیا تھا کہ تمہارے پہروں کی کوئی حقیقت نہیں۔ کیونکہ ایسے شخص کو چھتری لینے سے کیا حاصل ہو سکتا تھا۔ اِس کی غرض محض یہ بتانا ہو گی کہ تم اتنے غافل ہو کہ مَیں تمہارے گھر کے اندر داخل ہو کر ایک چیز اُٹھا سکتا ہوں۔ اگر کسی مصلحت یا اخلاق کی وجہ سے مَیں نے تم پر حملہ نہیں کیا تو اَور بات ہے ورنہ مَیں اندر ضرور داخل ہو گیا ہوں اور تمہاری ایک چیز بھی اُٹھا کر لے آیا ہوں مگر تمہیں اِس کی خبر تک نہیں ہوئی۔ بہرحال مجھے جب یہ بات معلوم ہوئی تو مَیں نے اِس پر اظہارِ ناراضگی کیا اور کہا کہ ایسے پہرے کا فائدہ کیا ہے؟ اِس پر وہی آدمی جس کا مَیں نے ذکر کیا ہے کہنے لگا کہ اگر مجھے پتہ لگ جائے کہ آپ نے وہ چھتری کہاں سے خریدی تھی تو مَیں ویسی ہی چھتری خرید کر آپ کی خدمت میں پیش کر دوں۔
اب دیکھو یہ کتنی کمینہ اور ذلیل ذہنیت تھی اِس شخص کی کہ اِس نے میری ناراضگی کی حقیقت کو سمجھنے کی تو کوشش نہ کی اور یہ سمجھا کہ میری ناراضگی چھتری کے نقصان کی وجہ سے ہے۔ حالانکہ میری ناراضگی کی وجہ تو یہ تھی کہ جب تم ایک ذمہ داری کا کام لیتے ہو تو تمہارا فرض ہے کہ اِس کام کو پُوری تندہی اور خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دو اور اگر تم وہ کام نہیں کر سکتے تو تمہارا اِس کی بجاآوری کے لئے ذمہ داری قبول کرنا حماقت ہے مگر اِس نے سمجھا کہ میری خفگی اِس لئے ہے کہ میری چھتری گُم ہو گئی ہے اور وہ کہنے لگا کہ اگر مجھے پتہ لگ جائے کہ آپ نے چھتری کہاں سے خریدی تھی تو مَیں ویسی ہی چھتری خرید کر آپ کو دے دوں۔ اب یہ اتنی کمینہ ذہنیت ہے کہ مجھے اِس کا خیال کر کے اب بھی پسینہ آجاتا ہے اور مَیں حیران ہوتا ہوں کہ کیا اِتنا ذلیل اور کمینہ انسان بھی کوئی ہو سکتا ہے۔ وہ احمدی تھا گو بعد میں عملاً مرتد ہو گیا مگر بہرحال وہ کہلاتا احمدی تھا۔
تو ہندوستانیوں میں یہ ایک نہایت ہی احمقانہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ کبھی بھی چاروں طرف نگاہ نہیں ڈالیں گے۔ مَیں اگر مثالیں دوں تو چونکہ بہت سے لوگوں پر زد پڑتی ہے اِس لئے فوراًپتہ لگ جائے گا کہ یہ فلاں کی بات ہو رہی ہے اور یہ فلاں کی۔ پس میں مثالیں نہیں دیتا۔ یہ جو مثال مَیں نے پیش کی ہے یہ بہت ہی پُرانی ہے اور وہ آدمی خاص عملے کا بھی نہ تھا اور اب تو وہ مَر چُکا ہے۔ اِس لئے مَیں نے یہ مثال دے دی ورنہ مَیں اِس مہینہ کی دس بیس ایسی مثالیں دے سکتا ہوں جو نہایت ہی احمقانہ ہیں اور جن کو مَیں اگر بیان کروں تو تم میں سے ہر شخص انہیں سُن کر ہنسے گا لیکن جب خود تمہارے سپرد وہی کام کیا جائے گا تو تم بھی وہی حماقت کرو گے جو دوسروں نے کی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں ذہانت کی کوئی قیمت نہیں سمجھی جاتی۔ ہمارے سکولوں اور کالجوں میں طالب علموں کی ذہانت کی ترقی کے لئے قطعی طور پر کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ اُستاد اور پروفیسر محض کتابیں پڑھا دیتے ہیں اور طالب علموں کو الفاظ رٹا دیتے ہیں لیکن خالی لفظوں کو لے کر کسی نے کیا کرنا ہے۔ اگر ایک پڑھا لکھا شخص ہو لیکن ذہین نہ ہو تو اِس سے بہت زیادہ کام وہ شخص کر سکتا ہے جو گو پڑھا ہؤا نہ ہو مگر ذہین ہو۔
کیا ہٹلر جرمنی کا سب سے زیادہ پڑھا ہؤا شخص ہے؟ کیا مسولینی اٹلی کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ انسان ہے؟ کیا اتا ترک ٹرکی کا سب سے زیادہ عالم تھا؟ کیا لینن رَشْیا کا سب سے زیادہ پڑھا ہؤا شخص تھا؟ یہ سارے ہی اپنی اپنی جگہ معمولی تعلیم حاصل کئے ہوئے تھے۔ مسولینی کی تعلیم مڈل تک ہے، ہٹلر کی تعلیم انٹرنس جتنی ہے۔ اتاترک گو ایک کالج میں پڑھا مگر وہ نہایت ہی چھوٹے درجہ کا کالج تھا اور اِس کی تعلیم بھی انٹرنس جتنی ہے مگر کیا چیز ہے جس نے ہٹلر، مسولینی، اتاترک اور لینن کو اپنے ملکوں کا لیڈر بنا دیا۔ وہ ذہانت ہے جس نے اِن لوگوں کو اپنے مُلک کا لیڈر بنایا، علم نہیں۔ جب علم والے اپنی کتابوں پر نگاہ ڈالے بیٹھے تھے اُس وقت یہ لوگ ساری دُنیا پر نگاہ ڈالے ہوئے انسانی فطرت کی گہرائیوں کے مطالعہ میں مشغول تھے اور آخر وہاں سے وہ اپنی قوم کی مُراد کا وہ موتی لے آئے جس کے لئے وہ بے تابانہ جستجو کر رہے تھے۔ پس ذہانت بالکل اَور چیز ہے اور عِلم اَور چیز۔ عِلم بھی اچھی چیز ہے مگر ذہانت کے بغیر عِلم کسی کام کا نہیں ہوتا۔
مَیں نے بتایا ہے کہ مَیں اِس کے متعلق مثالیں نہیں دے سکتا کیونکہ مَیں اگر مثالیں دوںتو وہ لوگ بِالکل ننگے ہو جائیں جن کے وہ واقعات ہیں اور سب کو اِن کا پتہ لگ جائے۔ اِس لئے مَیں بعض پُرانے لوگوں کے قصّے یا لطائف بیان کر دیتا ہوں جن سے ذہانت اور علم کا فرق ظاہرہو سکتا ہے۔
کہتے ہیں کوئی بادشاہ تھا اُس نے اپنے مُلک کے ایک مشہور جوتشی کو بُلایا اور اپنا لڑکا اُس کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ اِسے علمِ جوتش سکھا دو۔ چنانچہ وہ اُسے لے گیا اور مدّت تک سکھاتا رہا۔ جب اُس نے تمام علم اُسے سکھا دیا تو وہ بادشاہ کے پاس اسے لایا اور کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت مَیں نے جوتش کا تمام علم اِسے پڑھا دیا ہے اب آپ چاہیں تو اِس کا امتحان لے لیں۔ بادشاہ نے اپنی انگوٹھی کا نگینہ اپنے ہاتھ میں چھپا کر لڑکے سے پوچھا کہ تم علمِ جوتش سے بتاؤ کہ میرے ہاتھ میں کیا ہے؟ لڑکے نے حساب لگایا اور کہا چکّی کا پاٹ۔ بادشاہ نے اِس جوتشی کی طرف دیکھا اور کہا تم نے اسے کیا پڑھایا ہے؟ وہ کہنے لگا حضور! چکی کا پاٹ بھی پتھر کا ہوتا ہے اور نگینہ بھی پتھر کا ہے۔ پس میرا علم تو صحیح ہے باقی اگر آپ کے لڑکے میں ذہانت نہ ہو اور وہ اتنی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ چکی کا پاٹ ہاتھ میں نہیں آسکتا تو مَیں کیا کر سکتا ہوں؟ میرا علم تو بالکل صحیح ہے۔
اِسی طرح مَیں نے یہ لطیفہ کئی دفعہ سُنایا ہے جو دراصل حضرت خلیفۂ اوّل سے مَیں نے سُنا ہؤا ہے کہ کوئی لڑکا تھا اُسے گاؤں کے بعض بڑے بڑے لوگوں نے کسی دوسرے علاقہ میں طِب پڑھنے کے لئے بھیجا۔ کیونکہ اِن کے ہاں کوئی طبیب نہیں تھا۔ اُنہوں نے خیال کیا کہ اگر یہ لڑکا طب پڑھ گیا تو ہماری ضرورت پوری ہو جائے گی اور آئے روز جو ہمیں طبیب کے نہ ہونے کی وجہ سے تکلیف رہتی ہے یہ رفع ہو جائے گی۔ وہ لڑکا دوسرے علاقہ کے ایک مشہور طبیب کے پاس پہنچا اور کہنے لگا مجھے اپنے علاقہ کے رؤسا نے آپ کے پاس طب پڑھنے کے لئے بھیجا ہے کیونکہ ہمارے ہاں کوئی طبیب نہیں۔ وہ کہنے لگا بڑی اچھی بات ہے اِس سے زیادہ نیکی کا کام اور کیا ہو سکتا ہے ؟ طب سے خدمت خلق ہوتی ہے اور لوگوں کو نفع پہنچتا ہے۔ پس یہ بہت ہی ثواب کا کام ہے تم میرے پاس رہو مَیں تمہیں تمام طب سکھا دوں گا چنانچہ وہ اُن کے پاس رہنے لگ گیا۔ دوسرے ہی دن وہ کسی مریض کو دیکھنے کے لئے چلے گئے اور اُنہوں نے اِس لڑکے کو اپنے ساتھ لے لیا۔ جب مریض کے پاس پہنچے تو وہ اُس کے پاس بیٹھ گئے، نبض دیکھی، حالات پوچھے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ آپ نے کل کہیں چنے تو نہیں کھائے؟ وہ کہنے لگا ہاں کچھ چنے کھائے تھے۔ وہ کہنے لگے آپ کا معدہ کمزور ہے ایسی ثقیل چیز آپ کو ہضم نہیں ہوسکتی پیٹ کا درد اِسی وجہ سے ہے۔ آپ ایسی چیزیں نہ کھایا کریں۔ پھر ایک نسخہ لکھ کر اُسے دے دیا اور واپس آگئے۔ جب گھر پہ پہنچے تو لڑکا کہنے لگا کہ مجھے اجازت دیجئے مَیں اب واپس جانا چاہتا ہوں۔ وہ کہنے لگے ہیں! اتنی جلدی تم طب پڑھنے کے لئے آئے تھے۔ وہ کہنے لگا بس طب مَیں نے سیکھ لی ہے۔ ذہین آدمی کے لئے تو کوئی دِقّت ہی نہیں ہوتی۔ وہ کہنے لگے مَیں نے تو تمہیں ابھی ایک سبق بھی نہیں دیا۔ تم نے طب کہاں سے سیکھ لی؟ وہ کہنے لگا ذہین شخص کو بھلا سبقوں کی کیا ضرورت ہے؟ مَیں خدا کے فضل سے ذہین ہوں مَیں نے تمام طب سیکھ لی ہے۔ اُنہوں نے بہتیرا سمجھایا کہ یہاں رہو اور مُجھ سے باقاعدہ طب پڑھو مگر وہ نہ مانا اور واپس آگیا۔ لوگ اُسے دیکھ کر بڑے متعجب ہوئے اور کہنے لگے اتنی جلدی آگئے؟ وہ کہنے لگا ذہین آدمی کے لئے طب سیکھنا کوئی مُشکل امر نہیں۔ مَیں تو جاتے ہی تمام طب سیکھ گیا۔ خیر اُنہی دنوں کوئی رئیس بیمار ہو گیا اور اُس نے اُس لڑکے کو علاج کے لئے بُلایا یہ گیا نبض دیکھی ، حالات پوچھے اور پھر کہنے لگا آپ رئیس آدمی ہیں بھلا آپ کو ایسی چیزیں کہاں ہضم ہو سکتی ہیں۔ اچھا بتائیے کیا آپ نے کل گھوڑے کی زین تو نہیں کھائی ؟ وہ کہنے لگا کیسی نامعقول باتیں کرتے ہو گھوڑے کی زین بھی کوئی کھایا کرتا ہے؟ وہ کہنے لگا آپ مانیں یا نہ مانیں کھائی آپ نے گھوڑے کی زین ہی ہے۔ نوکروں نے جو دیکھا کہ یہ ہمارے آقا کی ہتک کر رہا ہے تو اُنہوں نے اُسے خوب پیٹا۔ وہ مار کھاتاجائے اور کہتا جائے کہ تشخیص تو مَیں نے ٹھیک کی ہے۔ اب تم میری بات نہ مانو تو مَیں کیا کروں؟ آخر اُنہوں نے پوچھا تیرا اِس سے مطلب کیا ہے؟ اِس نے جواب دیا کہ بات یہ ہے کہ جس طبیب سے مَیں نے طب سیکھی ہے وہ ایک دن مجھے ساتھ لے کر ایک مریض دیکھنے کے لئے گئے مَیں اِن کی حرکات کو خوب تاڑتا رہا۔ مَیں نے دیکھا کہ حکیم صاحب نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی اور چند چنے کے دانے جو چار پائی کے نیچے گرے ہوئے تھے وہ اُٹھالئے اور پہلے تو اِن دانوں سے کھیلتے رہے پھر مریض سے کہنے لگے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے چنے کھائے ہیں اور اِس نے اقرار کیا کہ واقع میں مَیں نے چنے کھائے ہیں۔ مَیں اِس سے فوراً سمجھ گیا کہ جب کسی مریض کو دیکھنے کے لئے جانا پڑے تو جاتے ہی اس کی چار پائی کے نیچے نظرڈالنی چاہئے اور جو چیز اس کی چار پائی کے نیچے ہو اُس کے متعلق یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کے کھانے سے مریض بیمار ہؤا ہے۔ اب مَیں جو یہاں آیا تو آتے ہی مَیں نے ان کی چار پائی کے نیچے نظر ڈالی تو مجھے گھوڑے کی زین نظر آئی۔ پس مَیں سمجھ گیا کہ یہ گھوڑے کی زین کھا کر ہی بیمار ہوئے ہیں۔
اب دیکھو جس چیز کا نام اِس نے ذہانت رکھا ہؤا تھا وہ ذہانت نہیں تھی بلکہ حماقت اور بیوقوفی تھی اور گو اِس مثال پر تم سب ہنس پڑے ہو مگر اِس قسم کی بیوقوفیاں تم بھی کرتے رہتے ہو اِلا مَاشَائَ اﷲُ۔ جیسے مَیں نے بتایا ہے سَو میں سے ایک ممکن ہے ذہین ہو لیکن سَو میں سے ننانوے یقینا ذہانت سے عاری ہوتے ہیں۔
ہندوستان کی ۳۳ کروڑ آبادی ہے اور سَو میں سے ایک کے ذہین ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اِس مُلک میں صرف ۳۳ لاکھ آدمی ذہین ہیں۔ اب ۳۳ لاکھ بھلا ۳۳ کروڑ کا بوجھ کس طرح اُٹھا سکتا ہے؟ گو مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک فیصدی کی نسبت بھی خاص ہوشیار جماعتوں میں پائی جاتی ہو گی۔ عام جماعتوں میں ایک فیصدی کی نسبت بھی نہیں اور اِس کا احساس مجھے اِسی وقت ہؤا ہے۔ کیونکہ جب میں نے ۳۳ کروڑ کا سواں حصّہ ۳۳ لاکھ نکالا تو میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ یہ اندازہ غلط ہے کیونکہ ہندوستان میں ہر گز ۳۳ لاکھ ذہین آدمی نہیں ہیں۔ اگر اتنے ذہین آدمی ہوتے تو اِس مُلک کی کایا پلٹ جاتی۔ ممکن ہے ہماری جماعت میں جسے ہر وقت علمی باتیں سُنائی جاتی ہیں ایک فیصدی کی نسبت سے ذہین آدمیوں کا وجود پایا جاتا ہو لیکن اور جماعتوں میں ایک فیصدی کی نسبت بھی نہیں۔ وہ کبھی بات کو چاروں گوشوں سے نہیں دیکھیں گے اور ہمیشہ غلط نتیجہ پر پہنچیں گے۔
ابھی پچھلے سفر میں جب مَیں کراچی گیا تو وہاں بغداد سے ہماری جماعت کے ایک دوست میرے پاس آئے اور اُنہوں نے کھجوروں کا ایک بکس پیش کیا اور کہا کہ یہ کھجوریں بغداد کی جماعت نے بھجوائی ہیں۔ ہم کراچی میں ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اور اس کے دو کمرے کرایہ پر ہم نے لئے ہوئے تھے۔ ایک مردانہ تھا، ایک زنانہ۔ مَیں نے وہ کھجوروں کا بکس اسی جگہ رکھوا دیا جہاں باقی اسباب پڑا تھا اور پھر مجھے اِس کا خیال بھی نہ رہا۔ جب ہم بمبئی پہنچے تومیری ہمشیرہ نے کسی موقع پر کھانا کھانے کے بعد کہا کہ اِس وقت کچھ میٹھے کو جی چاہتا ہے۔ مَیں چونکہ کھجوروں کا ان سے ذکر کرچُکا تھا اِس لئے اُنہوں نے پوچھا کہ وہ کھجوریں کہاں گئیں۔ اس پر مجھے ان کا خیال آیا اور مَیں نے اپنے ہمراہیوں سے پوچھا کہ وہ کھجوروں کا بکس کہاں گیا؟ جن صاحب سے پوچھا تھا اُنہوں نے جواب دیا کہ ایک بکس تو ہمارے کمرہ میں ضرور تھا مگر چونکہ ہم قادیان سے وہ بکس نہیں لے گئے تھے اِس لئے مَیں نے اور میرے ہمراہی نے وہ بکس اسباب سے الگ کر کے رکھ دیا کہ شاید کسی اَور کا ہو۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ یہ بکس بغداد کی جماعت کی طرف سے بطور تحفہ آیا تھا اور میں نے اسباب میں رکھوا دیا تھا۔ جب کمرہ ہمارا تھا اور اسباب بھی ہمارا تھا تو آپ لوگوں کو یہ کیونکر خیال ہؤا کہ اِسے الگ نکال کر رکھ دیں کسی اَور کا ہوگا۔ آخر دوسرے کسی شخص کو یہ خیال کیونکر پیدا ہو سکتا تھا کہ وہ اپنا اسباب اُٹھا کر ہمارے کمرہ میں آکر رکھ جائے۔ لوگ تو دوسروں کا اسباب اُٹھایا کرتے ہیں۔ اپنا اسباب دوسرے کے گھر میں تو کوئی آکر رکھ کر جاتا نہیں۔ اس پر اُنہوں نے کہاکہ ہم نے سمجھا کہ کسی احمدی کا بکس ہو گا۔ مَیں نے کہا اگر یہ خیال تھا تب بھی اُسے ساتھ رکھنا چاہئے تھا کیونکہ اِس وقت ہم تو وہ کمرہ خالی کر رہے تھے اور احمدی ہماری وجہ سے ہی وہاں آتے تھے۔ وہاں اسے چھوڑ دینے کے یہ معنی تھے کہ اپنے بھائی کا اسباب ضائع ہونے دیا جائے کیونکہ کمرہ خالی کر دینے کے بعد کون اس کی حفاظت کر سکتا تھا؟ اِس صورت میں بھی آپ کا فرض تھا کہ بکس ساتھ رکھ لیتے اور جب ساحل سمندر پر دوست رخصت کرنے کے لئے آتے تو اُن سے پوچھتے کہ اگر کسی دوست کا یہ سامان رہ گیا ہو تو وہ لے لیں مگر سب سے مقدّم یہ امر تھا کہ مجھ سے پوچھتے کہ یہ زائد سامان کیسا ہے؟ کوئی چیز یہاں سے تو نہیں خریدی۔ اس کو سُن کر وہ دونوں دوست جن کے ذمّہ سامان کی حفاظت تھی مُسکرا پڑے کہ یہ خیال ہی نہیں آیا۔ اب یہ کتنی بڑی سادگی ہے۔ ایک کمرہ کرایہ پر لیا جاتا ہے۔ اِس میں اپنا تمام اسباب رکھا جاتا ہے مگر روانگی کے وقت ایک بکس اسی جگہ چھوڑ دیا جاتا ہے اور سالارِ کارواں سے پوچھا تک نہیں جاتا کہ یہ صندوق بھی ہمارا ہی ہے یا کسی اَور کا؟ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ مَیں نے خود کوئی وہاں سے سَودا منگوایا ہو؟ اور اسے اِس صندوق میں بند کردیا گیا ہو مگر محض اِس لئے اِسے چھوڑ دیا گیا کہ قادیان سے چلتے وقت ہم اِس صندوق کو اپنے ہمراہ نہیں لائے تھے اور یہ خیال ہی نہیں آیا کہ دریافت تو کر لیا جائے یہ صندوق ہے کس کا؟
اگر وہ ذہانت سے کام لیتے تو اُنہیں چاہئے تھا کہ وہ اُس صندوق کو بھی اُٹھاتے اور مجھ سے پوچھتے کہ یہ کس کا ہے؟ جب وہ میرے کمرہ میں پڑا ہؤا تھا تو بہرحال میرا ہی ہو سکتا تھا۔ اگر وہ مسافروں کا وہاں سامان ہوتا تب تو شُبہ ہو سکتا تھا کہ یہ سامان شاید میرا ہے یا اس کا مگر جب ان کمروں میں ہم ہی ہم تھے تو کسی کی عقل ماری ہوئی تھی کہ وہ اپنا اسباب اُٹھا کر ہمارے کمرہ میں رکھ دے یا گھر سے ٹرنک لا کر ہمارے ٹرنکوں میں مِلا دے۔ پھر وہ کہنے لگے ہم نے سمجھا شاید یہ جماعت والوں کا اسباب ہے۔ حالانکہ اوّل تو ہم ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اور وہاں جماعت کا سامان کسی طرح نہیں آسکتا تھا لیکن اگر بالفرض ان کے نزدیک یہ کسی جماعت کے دوست کا ہی صندوق تھا تو بہرحال انہیں یہ تو سمجھنا چاہئے تھا کہ اب ہم نے دوبارہ اِس ہوٹل کے کمرہ میں نہیں آنا۔ پس انہیں چاہئے تھا وہ اِس صورت میں بھی اُس صندوق کو اُٹھاتے اور جہاز تک لا کر دریافت کرتے کہ یہ کس احمدی کا صندوق ہے؟ اِس طرح بات بھی کھل جاتی اور چیز بھی ضائع نہ ہوتی کیونکہ اگر بالفرض وہ کسی احمدی بھائی کا سامان ہوتا تو بھی اُس کی حفاظت ہمارے ذمہ تھی کیونکہ وہ ہمارے کمرہ میں تھا اور انہیں چاہئے تھا کہ دونوں صورتوں میں وہ اسباب اُٹھاتے اور ساتھ لے جاتے مگر جب مَیں نے ناراضگی کا اظہار کیا تو کہنے لگے خیال ہی نہیں آیا اور یہی جواب ہے جو ہر ہندوستانی غلطی کے موقع پر دیا کرتا ہے اور جب اِس سے بھی زیادہ ناراضگی کا اظہار کیا جائے تو دوسرا قدم وہ یہ اُٹھاتا ہے کہ کہہ دیتا ہے غلطی ہو گئی معاف کردیجئے۔
مَیں چاہتا ہوں کہ خدّام الاحمدیہ اپنے کام میں اِس امر کو بھی مدّ نظر رکھیں اور نوجوانوں کے ذہنوں کو تیز کریں۔
ہم نے بچپن میں جو سب سے پہلی انجمن بنائی تھی اُس کا نام تشحیذ الاذہان تھا۔ یعنی ذہنوں کو تیز کرنے کی انجمن۔ اِس کے نام کا تصور کر کے بھی میرا ایمان تازہ ہو جاتا اور میرا دل خوشی سے بھر جاتا ہے کہ انبیاء کے ذہن کیسے تیز ہوتے ہیں اور کس طرح وہ معمولی باتوں میں بڑے بڑے اہم نقائص کی اصلاح کی طرف توجہ دلا دیتے ہیں کہ آج ایک وسیع تجربہ کے بعد جو بات مجھ پرظاہر ہوئی ہے اُس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہایت سادگی کے ساتھ صرف دو لفظوںمیں توجہ دلادی تھی کیونکہ جب ہم نے ایک انجمن بنانے کا ارادہ کیا تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اِس کا کوئی نام تجویز فرمائیں توآپ نے اِس انجمن کا نام ’’تشحیذ الاذہان‘‘ تجویز فرمایا یعنی ذہنوں کو تیز کرنا۔رسالہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ بعد میں اِسی وجہ سے اِس نام پر جاری ہؤا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انجمن کا نام ’’تشحیذ الاذہان‘‘ رکھا تھا اور چونکہ اِسی انجمن نے یہ رسالہ جاری کیا اِس لئے اِس کا نام بھی ’’تشحیذ الاذہان‘‘ رکھ دیا گیا۔
پس ہماری انجمن کا نام ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’تشحیذ الاذہان‘‘ رکھا تھا۔ یعنی وہ انجمن جس کے ممبران کا یہ فرض ہے کہ وہ ذہنوں کو تیز کریں اور درحقیقت بچپن میں ہی ذہن تیز ہو سکتے ہیں اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اِس لحاظ سے بہت بڑی ذمّہ داری اُستادوں پر عائد ہوتی ہے مگر افسوس ہے کہ ہم اپنے بچوں کے بہت سے اوقات کتابوں میں ضائع کر دیتے ہیں اور وہ حقیقی فائدہ جس سے قوم ترقی کرتی ہے اِس کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ہمارا فرض ہے کہ ہماری کھیلیں اِس رنگ کی ہوں جن سے ہمارے ذہن تیز ہوں، ہماری تعلیم اِس رنگ کی ہو جس سے ہمارے ذہن تیز ہوں، ہماری انجمنوں کے کام اِس رنگ کے ہوں جن سے ہمارے ذہن تیز ہوں اور یہ چیز علم سے بھی مقدم ہونی چاہئے کیونکہ تھوڑے علم سے انسان نجات پاسکتا ہے لیکن ذہن کے کُند ہونے کی وجہ سے خواہ انسان کے پاس کتنا بڑا علم ہو نجات سے محروم رہ جاتا ہے۔
ہم یورپین قوموں کو دیکھتے ہیں ایک لمبے تجربہ کی وجہ سے اُن میں ذہانت کا نہایت بُلند معیار قائم ہے حالانکہ وہ شراب نوش قومیں ہیں، وہ سُور کھاتی ہیں مگر باوجود شراب نوش اور مُردارخوار ہونے کے اُن کے ذہن نہایت تیز ہوتے ہیں کیونکہ ایک وسیع تجربہ نے اُن کے دماغوں میں نہایت صفائی پیدا کر دی ہے۔
پچھلے دنوں جب جنگ کا خطرہ پیدا ہؤا تو انگریز مدبرین نے ہر طرح کی کوشش کر کے اِس جنگ کو روکا مگر جیسا کہ بعد میں معلوم ہؤا اِس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ لڑائی میں کُود نا پسند نہیں کرتے تھے یا بزدلی اس کی محرک تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے سارے مُلک کے انتظام پر نگاہ ڈالی اور اُنہوں نے محسوس کیا کہ ابھی ہمارے اندر کئی قسم کی خامیاں ہیں اور اگر ہم اِس وقت لڑ پڑے تو ہماری شکست کا خطرہ ہے۔ پس وہ بزدلی یا بے غیرتی کی وجہ سے پیچھے نہیں ہٹے جیسا کہ غلطی سے سمجھا جاتا ہے بلکہ اُنہوں نے جب اپنے انتظام پر نگاہ دوڑائی تو اُنہیں اپنے انتظام میں بعض نقائص اور خلل نظر آئے اور اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ اِس وقت لڑنا ٹھیک نہیں۔ بے شک اِن کے پاس جنگ کا سامان بھی کم تھا مگر جیسا کہ بعض مدبرین نے کہا ہے اگر جنگ میں وہ کُود پڑتے تو وقت پر تمام سامان مہیا کیا جاسکتا تھا مگر اُنہوں نے سمجھا کہ اگر ہم نے تمام سامان مہیا بھی کر لیا تب بھی ہمارا نظام ابھی ایسا مکمل نہیں کہ ہم اِس سامان سے پورا فائدہ اُٹھا سکیں۔
پس اُنہوں نے دانائی سے کام لے کر جنگ کے خطرہ کو دُور کر دیا لیکن اگر کوئی ایشیائی ہوتا تو وہ ایسے موقع پر سوائے اِس کے اَور کچھ نہ کہتا کہ غیرت، غیرت، کود پڑو اور مر جاؤ۔ حالانکہ قوم کا صرف مرجانا ہی کام نہیں ہوتا بلکہ فتح پانا بھی کام ہوتا ہے۔
تو ہمارے نوجوانوں کو ذہین بننا چاہئے اور اُن کی نظر وسیع ہونی چاہئے۔ وہ جب بھی کوئی کام کریں اُنہیں چاہئے کہ اِس کے سارے پہلوؤں کو سوچ لیں اور کوئی بات بھی ایسی نہ رہے جس کی طرف اُنہوں نے توجہ نہ کی ہو۔ یہی نقص ہے جس کی وجہ سے مَیں نے دیکھا ہے کہ روحانیات میں بھی ہمارے آدمی بعض دفعہ فیل ہو جاتے ہیں اور وہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں مگر ہمیں خدا تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں ہوتی حالانکہ مَیں نے بار ہابتایا ہے کہ صرف نمازیں پڑھنے سے خدا تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا نہیں ہو سکتی اور نہ اُس کا قُرب انسان کو حاصل ہو سکتا ہے۔ حقیقی دین تو ایک مکمل عمارت کا نام ہے مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم مکمل عمارت کا فائدہ صرف ایک دیوار سے حاصل کرنا چاہتے ہو۔ تم خود ہی بتاؤ، اگر کسی قلعہ کی تین دیواریں توڑ دی جائیں اور صرف ایک دیوار باقی رہنے دی جائے تو کیا اُس دیوار کی وجہ سے اُس قلعہ کے اندر رہنے والا محفوظ رہ سکتا ہے یقینا جب تک اُس کی چاروں دیواریں مکمل نہیں ہوں گی اُس وقت تک اُس قلعہ کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ اِسی طرح اﷲ تعالیٰ کا قُرب محض نمازوں کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اور جس قدر احکامِ اسلام ہیں اُن سب پر عمل کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ اگر تم نمازیں تو پڑھتے ہو لیکن تم میں جھوٹ کی عادت ہے یا نمازیں تو پڑھتے ہو مگر روزے نہیں رکھتے یا روزے تو رکھتے ہو مگر زکوٰۃ نہیں دیتے یا زکوٰۃ تو دیتے ہو مگر مالدار ہونے کے باوجود اور سفر کی سہولت ہونے کے باوجود حج نہیں کرتے یا تم نمازیں بھی پڑھتے ہو، روزے بھی رکھتے ہو، حج بھی کرتے ہو مگر کسی غریب کا مال ظالمانہ طور پر کھا جاتے ہوتو تمہارا یہ اُمید کرنا کہ تمہاری نمازیں، تمہارے روزے اور تمہارا حج تمہیں فائدہ دے نادانی ہے۔ کیونکہ تم اپنی روحانی عمارت کو چاروں گوشوں سے مکمل نہیں کرتے۔ تم اگر ایک طرف پچاس فٹ چوڑی دیوار بھی کھڑی کر دیتے ہو تو وہ تمہیں فائدہ نہیں پہنچا سکتی لیکن اگر تم چار انچ کی دیوار چاروں طرف بنا کر اُس پر چھت ڈال لو تو وہ عمارت تمہیں سردی گرمی سے محفوظ رکھ سکتی اور خطرات سے بچا سکتی ہے بلکہ چار انچ موٹی دیوار کیا اگر تم سرکنڈے لے کر اُن کا ایک جھونپڑا بنا لو یا بانس کی تیلیوں سے ایک جھونپڑی بنا لو تو گو وہ مضبوط نہیں ہو گی مگر تم اُس میں امن سے رہ سکو گے۔ تم سَو فٹ چوڑی صرف ایک دیوار کھڑی کر کے فائدہ حاصل نہیں کر سکتے لیکن اگر تم آدھ انچ کی سرکنڈے کی دیواریں چاروں طرف کھڑی کر دو جیسا کہ عام طور پر بیٹ کے علاقہ میں زمیندار لوگ بناتے ہیں تو تم اِس سے وہ تمام فائدے اُٹھا لو گے جو ایک مکمل عمارت سے اُٹھائے جاسکتے ہیں کیونکہ تم اِس جھونپڑی میں وہ تمام شرائط پوری کر دو گے جو ایک مکان کی تعمیر کے لئے ضروری ہیں۔ تم اِس میں رات کو سو بھی سکو گے، تم سردی سے بھی بچ سکو گے، تم بارش سے بھی محفوظ رہو گے اور چوروں سے بھی بچ رہو گے کیونکہ چور آخر ان سرکنڈوں کو توڑ کر اندر داخل ہو گا اور جب وہ اندر داخل ہونے کے لئے سرکنڈے توڑے گا تو تمہاری آنکھ کھل سکتی اور تم اُس کا مقابلہ کر سکتے ہو۔ اِسی طرح تم اِس جھونپڑی میں بیٹھ کر پردہ قائم رکھ سکتے ہو اور اگر میاں بیوی اندر بیٹھے اِختلاط کر رہے ہوں تو کوئی اُن پر نظر نہیں ڈال سکتا لیکن اِس کی بجائے اگر تم سَو فٹ چوڑی دیوار ایک طرف کھڑی کر دو اور باقی اطراف کو خالی رہنے دو تو تمہیں اِن فوائد میں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اِس طرح اگر تم نمازیں پڑھتے ہو اور اِس قدر تعہّد اور احتیاط کے ساتھ پڑھتے ہو کہ ایک نماز کا بھی ناغہ نہیں ہونے دیتے لیکن تم روزوں میں سُست ہو یا اگر روزوں میں تو اِس قدر چُست ہو کہ سال میں سے چھ مہینے روزے رکھتے ہو مگر زکوٰۃ نہیں دیتے یا زکوٰۃ میں تو چُست ہو مگر صدقہ خیرات دینے میں سُست ہو یا صدقہ و خیرات دینے میں تواِس قدر چُست ہو کہ اپنا سارا مال خدا تعالیٰ کی راہ میں غریبوں اور مسکینوں کو دے دیتے ہو لیکن جھوٹ بول لیتے ہو تو تمہاری مثال اس شخص کی سی ہے جو صرف ایک طرف دیوار کھڑی کر کے اِس سے پورے مکان کا فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے لیکن اِس کے مقابلہ میں اگر تم تھوڑا سا مال صدقہ و خیرات کر دیتے ہو اور زیادہ صدقہ نہیں کرتے، نمازیں صرف پانچ وقت کی پڑھتے ہو، نوافل اور تہجد ادا نہیں کرتے، رمضان کے صرف تیس روزے رکھتے ہو لیکن نفلی روزوں کے رکھنے کا خیال نہیں کرتے، صدقہ و خیرات میں بھی کچھ ایسے دلیر نہیں لیکن تھوڑا بہت دے دیتے ہویا کم سے کم اگر زکوٰۃ تم پر فرض ہو تو تم اِس کی ادائیگی میں تساہل سے کام نہیں لیتے تو تم یقینا اﷲ تعالیٰ کا قُرب حاصل کر لو گے کیونکہ گو تم نے محل تیار نہیں کیا مگر تم نے سرکنڈوں کی دیواریں بنا کر ایک چھت ڈال لی ہے اور اِس وجہ سے تم اِس بات کے مستحق ہو گئے ہو کہ تم مکان کا فائدہ حاصل کر لو۔ یہی وہ چیز ہے جس کو ذہانت کہتے ہیں یعنی اپنے علم کو ایسے طرز پر کام میں لانا اور اِس سے فائدہ اُٹھانا کہ انسان کی چاروں طرف نگاہ رہے اور کوئی گوشہ اِس کی نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے اِسی ذہانت کا یہ کرشمہ ہے کہ جب کسی ذہین آدمی سے بات کی جائے تو وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ بات مجھ سے کیوں کہی جارہی ہے؟ کہنے والے کا مقصد کیا ہے؟ کن حالات میں یہ مجھ سے بات کر رہا ہے؟ اِس میں کہنے والے کا کیا فائدہ ہے اور میرا اِس میں کوئی فائدہ ہے یا نقصان؟ اورکیوں میرے ساتھ بات کی جارہی ہے؟ اِس کا کیا مقصد اور کیا مُدعا ہے؟ مگر دوسراآدمی بیوقوفی کر کے کچھ کا کچھ نتیجہ نکال لیتا ہے۔ پس ذہین وہ شخص ہے جو چاروں گوشوں پر نگاہ رکھے مگر وہ جو صرف علم کی حد تک محدود رہتا ہے اور بات کی تہہ تک نہیں پہنچتا اُسے ہم ذہین نہیں کہہ سکتے۔ جیسا کہ مَیں نے اپنے بعض سفروں کا حال بیان کیا ہے اب اگر میرے ساتھ سفر کرنے والے ذہین ہوتے تو وہ کہتے کہ ہمیں کوئی ایسا پہلو اختیار نہیں کرنا چاہئے جو بعد میں کسی خِفّت اور بد نامی کا موجب ہو اور انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ جب سفروں میں چیزوں کے گُم ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے تو وہ ایسا طریق اختیار کریں جس سے کسی قسم کی غلطی نہ ہو۔
انگریزوں نے اِسی ذہانت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ریکارڈ اور سٹیٹسٹکس کا طریق ایجاد کیا ہے۔ اگر ریکارڈ نہ ہو تو گزشتہ امور سے فائدہ اُٹھانے میں سخت دقت پیش آتی ہے۔ اب سب دُنیا میں دفتر موجود تھے، رجسٹر موجود تھے، خطوط موجود تھے، کاغذات موجود تھے مگر ریکارڈ اور سٹیٹسٹکس( STATISTICS) نہ رکھے جاتے تھے۔ انگریزوں نے جب ان چیزوں کو دیکھا تو اُنہوں نے ذہنی طور پر فیصلہ کیا کہ اپنے کاموں سے تجارت حاصل کرنے کے لئے کوئی طریق ایجاد کیا جائے۔ چنانچہ اُنہوں نے ریکارڈ رکھنے اور سٹیٹسٹکس کا طریق ایجاد کیا۔ گویا علم موجود تھا مگر لوگ ذہانت سے کام نہ لینے کی وجہ سے اِس کی حفاظت سے غافل تھے۔ انگریزوں نے اِسی علم کو ذہانت سے کام لیتے ہوئے اپنے تجربوں سے فائدہ اُٹھانے کا ایک ذریعہ نکال لیا۔ اِسی طرح روزانہ ہمارے مشاہدہ میں بات آتی ہے کہ دو شخص ہیں دونوں کے پاس کتابیں ہیں مگر ایک نے اِن کتابوں کا انڈیکس بنایا ہؤا ہوتا ہے اور دوسرے نے انڈیکس نہیں بنایا ہوتا۔ اب وہ جس نے انڈیکس بنایا ہؤا ہوتا ہے وہ اپنی ذہانت کی وجہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا لیتا ہے مگر دوسرا عدم ذہانت کی وجہ سے باوجود اِس کے کہ علم اُس کے پاس بھی موجود ہے اِس طرح فائدہ نہیں اُٹھا سکتا جس طرح ذہین شخص اُٹھاتا ہے۔
تو نوجوانوں کو ذہین بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ ہم اِنہیں ذہین کس طرح بنا سکتے ہیں؟ کئی ہیں جو سخت کُند ذہن ہوتے ہیں اور انہیں ہزار بار بھی کوئی بات سمجھائی جائے تو وہ اُن کی سمجھ میں نہیں آتی، پھر سب کو ہم کس طرح ذہین بنا سکتے ہیں؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ گو انسانی طاقتیں محدود ہیں مگر جس قسم کی قوتیں اﷲ تعالیٰ نے انسانی دماغ میں رکھی ہوئی ہیں وہ ایسی ہیں کہ محنت اور دباؤ سے وہ تیز ہو جاتی ہیں اور عقل اور فطانت کی جنس تھوڑی بہت اﷲ تعالیٰ نے ہر دماغ میں رکھی ہوئی ہے سوائے اس کے جو پاگل ہو۔ اور ایسا شخص ہزاروں میں سے کوئی ایک ہوتا ہے۔ باقی جس قدر اوسط دماغ رکھنے والے انسان ہیں اُن کے اندر ہر قسم کا مادہ موجود ہوتا ہے، وہ ذہانت بھی رکھتے ہیں، وہ فطانت بھی رکھتے ہیں، وہ عقل بھی رکھتے ہیں، وہ فکر بھی رکھتے ہیں، وہ علم بھی رکھتے ہیں، وہ شعور بھی رکھتے ہیں، وہ احساس بھی رکھتے ہیں اور جب کوئی شخص اُن قوتوں کو ترقی دینا چاہے تو وہ ترقی دے سکتا ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ انتہادرجہ کا فطین نہ بنے، وہ انتہا درجہ کا ذکی نہ بنے، وہ انتہا درجہ کا ذہین نہ بنے ، وہ انتہا درجہ کا حسّاس نہ بنے، وہ انتہا درجہ کا باشعور نہ بنے، وہ انتہا درجہ کا فقیہہ نہ بنے، وہ انتہا درجہ کا مُفکر نہ بنے مگر وہ ایک اوسط درجہ کا فطین، ایک اوسط درجہ کا ذہین اور ایک اوسط درجہ کا مُفکر اور فقیہہ بن سکتا ہے اگر کوشش کرے۔
پس خدّام الاحمدیہ کا کام اِس طرز پر ہونا چاہئے کہ نوجوانوں میں ذہانت پیدا ہو ممکن ہے وہ کہیں ہمیں یہ باتیں نہیں آتیں اور ہم سمجھ نہیں سکتے کہ کس طرح اِس کام کو چلائیں۔ سو وہ میرے پاس آئیں اور مجھ سے مشورہ لیں مجھے اﷲ تعالیٰ کے فضل سے یہ تمام باتیں آتی ہیں۔ مَیں اُنہیں باتیں بتاؤں گا آگے عمل کرنا اُن کا کام ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر وہ میری باتوں پر عمل کریں تو نوجوانوں میں بہت جلد ذہانت پیدا ہو سکتی ہے۔ ذہانت دراصل نتیجہ ہے کامل توجہ کا۔ اگر ہم کامل توجہ کی عادت ڈال لیں تو لازماً ہمارے اندر ذہانت پیدا ہو گی اور یہ ذہانت پھر ایک مقام پر ٹھہر نہیں جاتی بلکہ ترقی کرتی رہتی ہے۔ مَیں نے اِسی اصول کو مدّ نظر رکھتے ہوئے خدّام الاحمدیہ کے کارکنان کو نصیحت کی ہے کہ اگر اُن میں سے کوئی اپنے فرائض کی بجاآوری میں غفلت سے کام لیتا ہے تو اُسے سزا دو کیونکہ توجہ پیدا کرنے کے مختلف سامانوں میں سے ایک سامان ڈر بھی ہے۔ یعنی انسان کو یہ خیال ہو کہ اگر میں ناکام رہا تو مجھے سزا ملے گی۔ یورپین لوگوں میں ذہانت کی ترقی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ مجرم کو سزا دینے میں سخت سنگدل ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ جب کسی سے کوئی قصور سرزد ہو اور اُسے سزا دی جائے تو وہ اپنے قصور کے ازالہ کے لئے صرف اتنا کافی سمجھتا ہے کہ پیسے کے دسویں حصّہ کا کاغذ لیا اور پیسے کی بیسویں حصّہ کی سیاہی اور لکھ دیا حضور میری توبہ! میرا قصور معاف فرمائیں۔ آپ سے زیادہ رحیم بھلا کون ہو سکتا ہے۔ آپ رحیم کریم، اﷲ کے نمائندے ہیں اور اگر چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اُسے جواب نہ دیا جائے کہ اچھا تمہیں معاف کر دیا گیا ہے تو تمام معززین کی چٹھیوں پر چٹھیاں آنی شروع ہو جائیں گی کہ فلاں شخص بڑا پشیمان ہے، وہ اب توبہ کرتا ہے، اُسے معاف کیا جائے۔ تم اِس قسم کا تمسخر کسی زندہ قوم میں نہیں دیکھ سکتے۔ تم چلے جاؤ انگلستان میں، تم چلے جاؤ جرمنی میں ، تم چلے جاؤ امریکہ میں، تم چلے جاؤ اٹلی میں، تم چلے جاؤ فرانس میں تم کسی ایک جگہ بھی ایسا تمسخر ہوتے نہیں دیکھو گے۔ تم سَو میں سے ایک احمق بھی ایسا نہیں دیکھو گے جو قصور کے بعد کاغذ اور قلم دوات لے کے بیٹھ جائے اور معافی کی درخواست لکھنا شروع کر دے اور تم کوئی ایسا احمق نہیں دیکھو گے جو ایسے شخص کی سفارش کرے مگر ہمارے ہندوستان میں یہ عام بات ہے اور یہ مرض اِس قدر بڑھا ہوا ہے کہ اِس کے نتیجہ میں عجیب عجیب نظارے بعض دفعہ دیکھنے میں آئے ہیں۔ چنانچہ اِس سلسلہ میں ایک امر کا میرے دل پر بہت گہرا اثر ہے۔ جب تشحیذ الاذہان کی انجمن قائم ہوئی تو اس وقت ہم میں سے ایک شخص سے ایک غلطی ہوئی اُس نے بعد میں توبہ بھی کی، قربانی بھی کی اور نقصان بھی اُٹھایا مگر اُس وقت اُس سے غلطی ہو گئی، اُس شخص کے اخلاص کا تم اِس سے اندازہ کر لو کہ وہ ایک معقول تنخواہ چھوڑ کر یہاں صرف دس روپیہ ماہوار پر ہماری انجمن میں ملازم ہو گیا تھا۔ یہ شخص ہماری انجمن کے ابتدائی ممبروں سے تھا۔ ضمناً میں یہ بتا دیتا ہوں کہ جس وقت مَیں نے یہ انجمن قائم کی تھی اُس وقت ہم صرف سات لڑکوں نے اِسے اپنے خرچ پر جاری کیا تھا۔ اِس وقت تحریک جدید کے ایک سو چالیس لڑکے ہیں مگر وہ اُن سات جیسا کام کر کے بھی نہیں دکھا سکتے۔ ہم کل سات لڑکے تھے مگر ہم نے دس روپیہ ماہوار کا ایک نوکر بھی رکھا ہؤاتھا۔ ہماری مالی حالت اُس وقت جو کچھ تھی اُس کا اندازہ اِس سے لگ سکتا ہے کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے تین روپیہ ماہوار وظیفہ مِلا کرتا تھا جو قلم دوات کا غذ اور دوسری ضروریات پر مَیں خرچ کیا کرتا ۔ مگر اِن تین روپوں میں سے بھی مَیں ایک روپیہ ماہوار اِس انجمن پر خرچ کرتا تھا۔ اِسی طرح باقی لڑکوں کا حال تھا۔ اِسی سرمایہ سے آہستہ آہستہ ہم نے رسالہ جاری کیا اور چونکہ رسالہ پر ہم خود محنت کیا کرتے تھے اِس لئے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اچھا سرمایہ جمع ہو گیا اور ہمارا کام عُمدگی سے چلنے لگا اور ہم نے کام کی سہولت کے لئے دس روپیہ ماہوار پر ایک آدمی رکھنے کا فیصلہ کیا اور اِس دوست نے اپنے آپ کو اِس کام کے لئے پیش کر دیا۔ وہ آدمی بہت نیک تھا، غریبوں کی مدد کیا کرتا، رفاہِ عام کے کاموں میں حصّہ لیتا اور نماز روزہ کا بھی پابند تھا مگر بعض دفعہ آدمی سے کوئی کوتاہی ہو ہی جاتی ہے اِس سے بھی ایک دفعہ یہ کوتاہی ہوئی کہ انجمن کا کچھ روپیہ اس نے اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کر لیااور خیال کر لیا کہ اگلی تنخواہوں سے آہستہ آہستہ ادا کر دوں گا۔ اِس امر کا جب ہمیں علم ہؤا تو یہ معاملہ ہماری کمیٹی میں پیش ہؤا۔ اُس وقت ہم میں سے کچھ کالج کے سٹوڈنٹس بھی تھے کیونکہ ہم سات لڑکوں میں سے کچھ انٹرنس پاس کر کے جلدی ہی کالج میں داخل ہو گئے تھے۔ جب یہ معاملہ ہماری کمیٹی میں پیش ہؤا تو جو کالج کے سٹوڈنٹ تھے اُنہوں نے اِس امر پر زور دینا شروع کیا کہ اِس شخص کو سخت سزا دینی چاہئے کیونکہ اِس نے بد دیانتی کی ہے اور اِسے بد دیانتی کے جُرم میں علیحدہ کر دینا چاہئے۔ مَیں نے اِس کے مقابلہ میں کہا کہ اِس میں کوئی شُبہ نہیں اِس شخص سے قانونی بد دیانتی ضرور ہوئی ہے لیکن فیصلہ کرتے وقت ہمیں یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ اِس شخص کا ماحول کیا ہے اور آیا اُس سے جو بد دیانتی سرزد ہوئی ہے یہ ناسمجھی کی وجہ سے سرزد ہوئی ہے یا شرارت کی وجہ سے سرزد ہوئی ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ بد دیانتی اس نے شرارت کے طور پر کی اور انجمن کو نقصان پہنچانے کے لئے کی ہے تو اُسے واقع میں سخت سزا ملنی چاہئے لیکن اگر یہ ثابت ہو کہ اس نے شرارتاً ایسا نہیں کیا محض غفلت کی وجہ سے اِس نے ایسا کیا ہے اور یہ خیال کر کے کچھ روپیہ خرچ کر لیا ہے کہ اگلی تنخواہ میں سے دے دوں گا تو گو بد دیانتی یہ بھی ہے مگر یہ شرارت والی بد دیانتی سے مختلف ہے اور ہمیں سزا میں نرمی کرنی چاہئے۔ چنانچہ مَیں نے کہا اِس شخص نے ہماری خاطر ایک اچھی نوکری چھوڑی اور یقینا وہ نوکری جو ہماری ہے یہ اِس کی پہلی نوکری کا قائمقام نہیں ہوسکتی۔ پس جب اِس کی ہماری خاطر قُربانی ثابت ہے تو گو اِس کا فعل بد دیانتی ہی قرار دیا جائے مگر یقینا وہ اِس حد تک نہیں جس حد تک شرارتی بد دیانتی ہوتی ہے۔ ہمارے ساتھیوں میں سے ایک دوست یہ تمام تقریریں سُنتے رہے اور خاموشی سے بیٹھے رہے اور اُنہوں نے اِس میںکوئی دخل نہ دیا مگر جب بحث لمبی ہو گئی تو وہ جُوش سے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ لوگ کیا بیوقوفی کی باتیں کر رہے ہیں؟ نہ کالج والوں کی بات میری سمجھ میں آتی ہے اور نہ (میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) اِن کی۔ یہ دونوں کہتے ہیں کہ اِس شخص نے بد دیانتی کی۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک فریق کہتا ہے اِس نے شرارت والی بد دیانتی کی اور دوسرا کہتا ہے یہ نادانی کی بد دیانتی ہے، ایک کہتا ہے سزا زیادہ دینی چاہئے اور دوسرا کہتا ہے سزا نرم دینی چاہئے۔ مگر دونوں اِس کو بد دیانت قرار دیتے اور اِس کے فعل کو قابلِ سزا قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ بات دونوں کی غلط ہے اور خواہ مخواہ اِس مجلس میں بُلا کر ہمارا وقت ضائع کیا گیا ہے۔ آپ لوگ مجھے یہ بتائیں کہ یہ جو مجلس ’’تشحیذ الاذہان‘’ کا روپیہ ہے یہ آپ کا ہے یا خدا کا؟ ہم نے کہا خدا کا۔ وہ کہنے لگے جب خدا کا ہے تو اگر خدا کے بندے نے کچھ روپیہ لے لیا تو تم ہو کون جو اُسے بد دیانت اور خائن قرار دو۔ ہم نے اِس پر اُنہیں بہتیرا سمجھایا اور دلیلیں دیں کہ آپ کی یہ بات درست نہیں مگر وہ یہی کہتے چلے گئے کہ مال بھی خدا کا اور بندہ بھی خدا کا میری سمجھ میں تو اَور کوئی بات آتی ہی نہیں۔ ہم نے کہا اِس کا تو یہ مطلب ہے کہ دینی خزانہ میں سے جو روپیہ کسی کے ہاتھ آئے وہ اُٹھا کر چلتا بنے۔ مثلاً صدر انجمن احمدیہ میں مال آتا ہے تو محاسب صاحب سیف اُٹھا کر گھر لے جائیں اور کہیں خدا کا مال اور خدا کا بندہ۔ جب مال خدا کا ہے تو میرا اِسے اپنے نفس پر خرچ کرنا کہاں گناہ ہؤا؟ اور جب ہم اُنہیں پکڑیں تو وہ کہیں اچھا بتاؤ تم نے خدا کی خاطر مال دیا تھا یا نہیں؟ اور جب ہم کہیں کہ ہاں دیا تھا تو وہ کہیں کہ بس پھر میں بھی اُس کا بندہ ہوں اور خدا کا بندہ خدا کا مال لے جا رہا ہے۔ وہ کہنے لگے اگر کوئی لے جاتا ہے تو لے جائے ہمیں اِس میں دخل نہیں دینا چاہئے۔ ہم نے اُنہیں بہت ہی سمجھایا مگر یہ مسئلہ کچھ اِس طرح اُن کے دماغ میں مرکوز تھا کہ آخر تک ہماری بات اُن کی سمجھ میں نہ آئی کیونکہ وہ ایسے معاملات میں سزا کے قائل ہی نہ تھے۔ اِس واقعہ سے تم سمجھ سکتے ہو کہ ایسے معاملات میں ہماری ذہنیتیں کس قسم کی ہو رہی ہیں؟ حالانکہ حق یہ ہے کہ سزا ذہن کو تیز کرتی ہے اور جس طرح دُنیوی انتظامات میں سزا دینا ضروری ہے اور اِس سے قوم میں ایسا احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ لوگ غلطی سے حتّی الوسع بچنے لگ جاتے ہیں اور ذہن تیز ہو جاتے ہیں ہمارے ملک میں عام طور پر یہ خیال کرتے ہیں کہ سزا دینا ایک ظلم ہے اور جن لوگوں سے غلطی ہوتی ہے خصوصاً جبکہ وہ اعزازی کارکن ہوں وہ اور اُن کے دوست خیال کرتے ہیں کہ ایسے موقع پر صرف اظہارِ ندامت کافی ہونا چاہئے لیکن اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے کاموں میں اپنے دماغوں کو پوری طرح نہیں لڑاتے اور آہستہ آہستہ قوم کے ذہن کُند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اگر وہ اِن کاموں میں سزا کو ضروری قرار دیتے تو ضرور احتیاط سے کام کرنے کے عادی ہو جاتے اور ذہن تیز ہوتے جاتے۔
مَیں نے دیکھا ہے کہ جب کسی سے غلطی ہو اور اُسے سزا دینے کی تجویز ہو تو بڑے بڑے لوگ فوراً اِس کی سفارشیں لے کر میرے پاس پہنچ جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اﷲ تعالیٰ سے زیادہ کون رحیم ہے۔ مگر وہ بھی ایسے موقع پر سزا دیتا ہے۔ ذرا غور تو کرو اگر یہ اصول درست ہو اور قیامت کے دن بھی ایسا ہی ہو تو قرآن کریم میں جو کچھ آخرت کے متعلق آیا ہے وہ کس طرح مضحکہ انگیز طور پر ایک تماشہ بن جائے مثلاً اگر فرعون کو سزا ملنے لگے اور حضرت موسیٰ کے ساتھی کھڑے ہو کر کہیں کہ حضور اِس سے غلطی ہو گئی ہے اب یہ معافی طلب کرتا ہے اِسے اب معاف کر دیا جائے تو کیا خدا تعالیٰ اُسے معاف کر دے گا؟ اور کیا اِس قسم کی معافی اُس روحانیت کی تکمیل کا موجب ہو گی جو اﷲ تعالیٰ پیدا کرنا چاہتا ہے؟ یا مثلاً جب ابو جہل کو سزا ملنے لگے تو رقعوں کا ڈھیر خدا تعالیٰ کے سامنے لگ جائے اور پندرہ بیس محضر نامے پیش ہو جائیں جن پر لوگوں کی طرف سے یہ درخواست ہو کہ اِسے معاف کیا جائے تو کیا خدا تعالیٰ اُسے معاف کر دے گا؟ اگر اِس قسم کے رقعے آنے لگیں تو پھر تو خدا تعالیٰ کہے گا جب سب فیصلے تم نے خود ہی کرنے ہیں تو میں کس لئے یہاں بیٹھا ہوں؟ اُٹھاؤ دوزخ اور سب کو معاف کرو۔ پس اگر خدا تعالیٰ کا کسی کو سزا دینا ظلم نہیں اور کسی کا کوئی حق نہیں کہ اُس کے سامنے سفارش کرے تو کیا مَیں یا تم خدا تعالیٰ سے زیادہ رحم اپنے اندر کھتے ہیں کہ ہم سزا کو ایک بَلا اور عذاب تصوّر کرتے ہیں۔ یہ یقینا دماغ کی کمزوری اَور ذہانت کی کمی کی علامت ہے اور یہ یقینا اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہم سمجھتے ہی نہیں کہ سزا کیوں مقرر کی گئی ہے؟ سزا ایک بہت بڑے فائدہ کی چیز ہے۔ سزا بنی نوع انسان کے لئے ایک رحمت کا خزانہ ہے۔ اگر یہ فائدہ کی چیز نہ ہوتی تو ہمارا خدا کبھی نہ بنتا۔ ہمارا خدا کبھی قہار نہ بنتا، وہ صرف رحیم اور کریم ہی ہوتا۔ مگر وہ رحیم اور کریم ہی نہیں بلکہ شَدِیْدُالْعِقَاب اور شَدِیْدُ الْبَطْش بھی ہے۔ پھر کیا تم سمجھتے ہو کہ صرف میں منصف ہوں یا تم منصف ہو لیکن ہمارا خدا ظالم ہے۔ کیونکہ وہ بنی نوع انسان کو سزا بھی دیتا ہے۔ اِس سے زیادہ بے حیائی کا عقیدہ اور کون سا ہو سکتا ہے اور اِس سے زیادہ بے ہودہ بات اَور کیا ہو سکتی ہے؟ پس یقینا مجرم کو سزا دینا ضروری ہے۔ یقینا سزا کے بعد قوم ترقی کرتی ہے اور یقینا سزا کے بغیر صحیح ذہانت پیدا نہیں ہوتی۔ جب کسی کو علم ہو کہ اگر مَیں نے فلاں کام خراب کیا تو مجھے سزا ملے گی تو وہ اپنے دماغ پر زور ڈال کر ہوش سے کام کرے گا تاکہ اُسے سزا نہ ملے اور جب وہ ہوش سے کام لے گا تو وہ سزا سے بھی بچ جائے گا اور اُس کا ذہن بھی تیز ہو جائے گا۔
اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ ذہانت پیدا کرنے کا پہلا ذریعہ محبت ہے۔ چنانچہ دیکھ لو ماں کس طرح ہر وقت اپنے بچہ کی فکر رکھتی ہے۔ اِس کا یہ فکر ہی اس کی ذہانت کا موجب ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اِس کی ذہانت محدود ہوتی ہے اور ذہین شخص کی ذہانت وسیع ہوتی ہے۔ ورنہ بیوقوف شخص بھی بعض دفعہ ایسے معاملہ میں آکر بڑا ذہین بن جاتا ہے جس میں اس کا ذاتی فائدہ ہوتا ہے لیکن وہ ذہین نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ اُس کی ذہانت محدود اور وقتی ہوتی ہے اِسی طرح ماں بھی اپنے بچہ کے متعلق بڑی ذہانت سے کام لیتی ہے اور اُس کی ہر ضرورت کا فکر رکھتی ہے لیکن اس کی یہ ذہانت محدود ہوتی ہے۔ بہرحال ذہانت یا محبت سے پیدا ہوتی ہے یا خوف سے پیدا ہوتی ہے۔ خوف کے وقت بھی انسانی ذہن خوب تیز ہو جاتا ہے یا پھر تجربہ سے انسانی ذہن تیز ہو جاتا ہے۔ یہی چند امور ہیں جن کا ذہانت کے پیدا کرنے میں بہت بڑا دخل ہے مگر جو محدود ذہانت ہو اُس کا کسی خاص پہلو میں تو فائدہ ہو سکتا ہے مگر باقی امور میں نہیں۔ ایسا شخص گو اپنے فائدہ یا اپنے بچے کے فائدہ کے لئے بڑی ذہانت کا ثبوت دے گا مگر قوم کے لئے وہ مفید نہیں ہوگا کیونکہ اُس کی ذہانت محدود ہے۔ انہی محدود ذہینوں میں سے مَیں نے ماں کو پیش کیا ہے۔ وہ عام طور پر اپنے بچہ کے متعلق ایسی ایسی فکریں رکھتی ہے کہ دوسرے حالات میں ویسی فکریں انسان کو نہیں سوجھ سکتیں۔ وہ بعض دفعہ اپنے بچہ کے متعلق اتنا سوچتی ہے کہ کہتی ہے مَیں دس سال کے بعد یہ کروں گی اور وہ کروں گی تو اِس ذہانت کی محرک محبت ہے۔ اِسی طرح کبھی خوف ذہانت کا مُحرک ہو جاتا ہے۔ مَیں اِس وقت جس ذہانت کی طرف توجہ دلا رہا ہوںوہ عام ذہانت ہے۔ محبت بیشک پہلی چیز ہے جو ذہانت پیدا کرتی ہے مگر یہ محبت تو ایمان پہلے ہی پیدا کررہا ہے اور خصوصاً جب قومی کاموں میں نوجوان حصّہ لیں گے اور قومی روح اپنے اندر پیدا کریں گے جس کا پیدا کرنا میں ان کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد قرار دے چُکا ہوں تو لازماً محبت بھی پیدا ہو گی اور محبت کے نتیجہ میں جو ذہانت پیدا ہوتی ہے وہ بھی ان میں رونما ہو گی مگر دوسرا حصّہ ذہانت کا سزا سے مکمل ہوتا ہے۔ اِسی لئے مَیں نے فیصلہ کیا ہے کہ خدّام الاحمدیہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ہر ممبر سے یہ اقرار لیں کہ اگر اِس نے اپنے مفوضہ فرض کی ادائیگی میں غفلت یا کوتاہی سے کام لیا تو وہ ہر سزا برداشت کرنے کے لئے تیار رہے گا اور خدّام الاحمدیہ کے ممبران کا فرض ہے کہ وہ خود اس کے لئے سزا تجویز کریں۔ اگر وہ سزا بھگتنے کے لئے تیار نہ ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ خدّام الاحمدیہ میں شامل رہنے کے قابل نہیں اور اگر وہ سزا بھگت لے گا تو یقینا وہ اگلی دفعہ پہلے سے زیادہ اچھا کام کرے گا۔ اگر کوئی اِس پر معترض ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ کیوں سزا دی جاتی ہے؟ تو اُسے کہنا چاہئے کہ کیوں اُس نے محبت کے جذبہ کے ماتحت پہلے ہی کام ٹھیک نہ کیا؟ اگر وہ محبتِ کامل سے کام لیتا تو اُس کے کام میں کوئی خرابی پیدا نہ ہوتی اور اُسے سزا بھی نہ ملتی مگر جب محبت والا ذریعہ اُس نے چھوڑ دیا اور محبت کی کتاب سے اُس نے سبق نہیں لیا تو اب ضروری ہے کہ اُسے سزا کی کتاب سے سبق دیا جائے۔ بہرحال اگر وہ سبق قیمتی ہے جس کے سیکھنے کے لئے وہ اِس مجلس میں شامل ہؤا تھا تو جو جائز ذریعہ بھی اُس کے لئے اختیار کیا جائے وہ اچھا ہے اور اگر سبق اچھا نہیں تو پھر اِس کے لئے کسی قُربانی کی ضرورت نہیں خواہ وہ کِس قدر معمولی اور حقیر کیوں نہ ہو۔ تو خدّام الاحمدیہ کو نوجوانوں کے اندر ذہانت پیدا کرنی چاہئے۔ مَیں ذہانت پیدا کرنے کے ذرائع بتانے کے لئے ہر وقت تیار ہوں صرف ایک بات ہے جس کے لئے انہیں تیار رہنا چاہئے اور وہ یہ کہ جب کسی سے کوئی قصور سرزدہو تو وہ اِس کی سزا برداشت کرنے کے لئے ہر وقت آمادہ رہے کیونکہ اِس کے بغیر کبھی ذہانت پیدا نہیں ہو سکتی۔ جب یہ ذہانت کسی انسان کے اندر پیدا ہو جائے تو پھر اِس کا علم اور زیادہ ترقی کرتاہے اور جب انسان بہت زیادہ ذہین ہو جاتا ہے تو اُس کا علمِ لَدُنی بڑھنے لگتا ہے۔ کتابی علم صرف کتابیں پڑھنے سے بڑھتا ہے مگر لدنی علم ذہانت سے بڑھتا ہے۔ جس طرح ذہین آدمی اگلے شخص کی ہر بات سے صحیح نتیجہ نکالتا ہے اُسی طرح جس شخص کا ذہانت کے بعد علمِ لَدُنی بڑھنے لگتا ہے وہ خداتعالیٰ کے ارادہ اور اُس کے منشاء کو اِس کی صفات سے پہچان جاتا ہے۔ وہ زمین کو دیکھ کر ، وہ آسمان پر نظر دوڑا کر، وہ پہاڑوں کی طرف نگاہ اُٹھا کر، وہ ذرّے ذرّے اور پات پات کو دیکھ کر فوراً تاڑ جاتا ہے کہ الٰہی منشا کیا ہے اور رفتہ رفتہ ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اُس کی دُعائیں بہت زیادہ قبول ہونے لگتی ہیں اور گو خدا تعالیٰ کے لئے تو اُس لفظ کا استعمال مناسب نہیں مگر انسانی حالت کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا مزاج دان ہو جاتا ہے جس طرح وہ شخص جو کسی دوسرے کا مزاج دان ہوتا ہے اِس سے بہت جلد اپنی بات منوا لیتا ہے۔ اِسی طرح یہ بھی خدا تعالیٰ کا مزاج دان ہو جانے کی وجہ سے اُس سے وہ باتیں منوا لیتا ہے جو دوسرے لوگ منوا نہیں سکتے۔
دیکھو! مَیں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ دُعا کرتے وقت صفات الٰہیہ کو مدّنظر رکھنا چاہئے اور جس قسم کی دُعا کی جائے اُس قسم کی صفاتِ الٰہیہ کو جُنبش میں لانے کی کوشش کی جائے مگر مَیں نے ایک شخص کو ایک دفعہ دیکھا وہ دُعا کر رہا تھا، اِس قدر سوز اور اِس قدر تضرع سے کہ اُس کے آنسو بہہ رہے تھے اور اُس کا جسم کانپ رہا تھا مگر وہ دُعا یہ کر رہا تھا کہ اے رحیم وکریم تو میرے فلاں دُشمن کو تباہ کر دے۔ اب بتاؤ رحیم و کریم کسی دُشمن کو کیوں تباہ کرنے لگا وہ تو جب بھی یہ سُنے گا کہ اے رحیم و کریم فلاں دُشمن کو ہلاک کر دے تو وہ کہے گا کہ مَیں تو رحیم و کریم ہوں مَیں اُسے معاف کرتا ہوں۔ تو اِس قسم کی دُعا مانگنا اﷲ تعالیٰ کی مزاج دانی کے خلاف ہے کہ خدا کی اِس صفت کو حرکت میں لانا جو لوگوں پر رحم کرنے والی ہے اور کہنا یہ کہ وہ دوسرے کو عذاب دے۔ کیا جب کسی نے کسی دوسرے شخص کے بچہ کو باپ سے سزا دلوانی ہو تو وہ اُس سے جاکر یہ کہا کرتا ہے کہ آپ کے بچے نے فلاں قصور کیا ہے اُسے سزا دیں یا وہ یہ کہا کرتا ہے کہ اپنے پیارے بچے کو تھپڑ مار دیں وہ تو جب کہے گا کہ اے مہربان باپ اپنے پیارے بچے کو تھپڑ مار دیں تو اُس کا باپ بجائے اُسے مارنے کے اُسے پیار کرنے لگ جائے گا کیونکہ اُس نے پیار کے جذبہ کو برانگیختہ کرنے والے الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ تو ذہانت کی وجہ سے ہی انسان دُنیا میں ترقی کرتا ہے۔ ذہانت کی وجہ سے ہی انسان اِس مقام پر پہنچتا ہے جب اُس کی دُعائیں دوسروں کی نسبت زیادہ قبول ہونے لگتی ہیں اور ذہانت کی وجہ سے ہی اگر ہم انسانی اصطلاح استعمال کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کا مزاج دان ہو جاتا ہے اور اِس طرح وہ ہر روز اپنے علم اور اپنے عرفان میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی مَیں ایک اور بات کہہ دینا چاہتا ہوں مگر مَیں اِسے لمبا نہیں کروں گا بلکہ مختصر الفاظ میں ہی اِس کی طرف توجّہ دلا دیتا ہوں اور وہ یہ کہ خدّام الاحمدیہ کا ساتواں فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اندر استقلال پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ استقلال اِس بات کو کہا جاتا ہے کہ کسی کام کی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے انسان برابر اپنے کام میں لگا رہے۔ بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمارے سپرد جو کام کیا گیا ہے ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیوںہمارے سپرد کیا گیا ہے؟ حالانکہ استقلال کے معنے ہی یہ ہیں کہ انسان جس کام پر مقرر کیاجائے خواہ اُس کام کی غرض اِس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے اُسے کرتا چلا جائے۔ اِس مادہ کو بھی خدام الاحمدیہ مختلف تجارب سے بڑھا سکتے ہیں مثلاً روزانہ یا ہفتہ وار خدّام الاحمدیہ کی حاضری لیں اور جو نہ آئیں یا کبھی آجائیں اور کبھی نہ آئیں اُن کے نام نوٹ کریں اور سمجھ لیں کہ اُن میں استقلال کا مادہ نہیں۔ پھر ان غیر مستقل مزاج ممبروں کو توجّہ دلاؤ کہ اپنے نقص کو رفع کریں اور اپنے اندر استقلال پیدا کریں اور جب دیکھیں کہ وہ پھر بھی توجہ نہیں کرتے تو اپنے افسروں کے پاس ان کی شکایت کریں۔ وہاں بھی اگر اصلاح نہ ہو تو پھر ان سے اعلیٰ افسروں کے پاس اور پھر اُن سے اعلیٰ افسروں کے پاس یہاں تک کہ ہوتے ہوتے خلیفۂ وقت کے سامنے بھی ان کے ناموں کو رکھا جاسکتا ہے مگر ضروری ہے کہ پہلے خود اِن کا علاج سوچا جائے اور اِن سے عدمِ استقلال کا مرض دور کرنے کے لئے کوئی مناسب تجویز کی جائے مثلاً ایک علاج یہی ہو سکتا ہے کہ روزانہ کوئی کام انہیں کرنے کے لئے دیا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ وہ باقاعدہ اس کام کو کرتے ہیں یا نہیں؟ یہ ضروری ہے کہ وہ کام ایسا ہو جو سب کو نظر آتا ہو خواہ کتنا ہی حقیر نظر آنے والا کیوں نہ ہو۔ مثلاً یہ کام بھی ہو سکتا ہے کہ اسے کہہ دیا جائے کہ روزانہ دس بجے اپنے گھر سے باہر نکل کر پانچ منٹ اپنے مکان کا پہرہ دے۔ بظاہر یہ ایک بیوقوفی کی بات دکھائی دے گی مگر تمہیں تجربہ کے بعد معلوم ہو جائے گا کہ اِس بظاہر بیوقوفی والی بات پر عمل کرنے کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ اِس میں استقلال کی عادت پیدا ہو جائے گی اور درحقیقت کسی ایک کام کا بھی باقاعدگی کے ساتھ کرنا انسان کے اندر استقلال کا مادہ پیدا کر دیتا ہے۔ ہم پانچ وقت جو روزانہ نمازیں پڑھتے ہیں یہ بھی استقلال پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ اِسی لئے مَیں کہا کرتا ہوں کہ جس نے ایک نماز بھی چھوڑی اُس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے سب نمازیں چھوڑ دیں مگر جو شخص پانچوں وقت کی نمازیں باقاعدہ پڑھنے کا عادی ہے اُس کی طبیعت میں ایک حد تک ضروری استقلال پایا جاتا ہے مگر جو شخص دس سال کے بعد بھی ایک نماز چھوڑ دیتا ہے وہ عدمِ استقلال کا مریض ہے۔ پس اپنے اندر استقلال پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ چاہے کسی چھوٹی سی چھوٹی بات پر مداومت کے ذریعہ کیوں نہ ہو۔ تم کہہ سکتے ہو کہ جب کوئی شخص نماز پڑھتا ہے تو ہمیں کوئی اور ایسا کام اِس کے سپرد کرنے کی کیا ضرورت ہے جو استقلال پیدا کرنے والا ہو مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ تم اس کی نمازوں کی نگرانی نہیں کر سکتے لیکن جو کام تم اس کے سپرد کرو گے اُس کی نگرانی تم ضرور کروگے۔ پھر ممکن ہے وہ نمازیں پڑھتا ہی نہ ہو یا پانچ میں سے تین نمازیں پڑھتا ہو اور دو چھوڑ دیتا ہو یا چار پڑھتا ہو اور ایک چھوڑ دیتا ہو یا مہینہ میں سے کوئی ایک نماز چھوڑ دیتا ہو تو اِس بات کا تمہیں پتہ نہیں لگ سکتا کہ وہ نمازوں میں باقاعدہ ہے یا نہیں کیونکہ وہ ذاتی عبادت ہے اور ذاتی عبادت کی دوسرا شخص مکمل نگرانی نہیں کر سکتا لیکن وہ حکم جو تم خود دوسرے کو دو گے اُس کی نگرانی بھی کرو گے اور اِس طرح اس کے اندر استقلال کا مادہ پیدا ہوتا چلا جائے گا۔ مَیں اِس کے لئے بھی مناسب قواعد تجویز کر کے خدّام الاحمدیہ کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوں۔ انہیں چاہئے کہ وہ ان تمام باتوں کو جو خطبات میں مَیں نے بیان کی ہیں بار بار لیکچروں کے ذریعہ خدّام الاحمدیہ کے سامنے دُہراتے رہیں۔ کبھی دیکھا کہ کوئی شخص استقلال اپنے اندر نہیں رکھتا تو اس کو استقلال پر لیکچر دینے کے لئے کہہ دیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اِس کے نفس میں شرمندگی پیدا ہو گی اور وہ آئندہ کے لئے اِس نقص کو دُور کرنے کی کوشش کرے گا یا دوسرے لوگ جن کی زبانوں میں اﷲ تعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے ان سے لیکچر دلائے جائیں۔ پس لیکچروں کے ذریعہ سے، حاضری لگانے کے ذریعہ سے، اپنی سوسائٹی میں بار بار ایسے ریزولیوشنز پاس کرنے کے ذریعہ سے نگرانی کے ذریعہ اور ایسے کام دینے کے ذریعہ سے جن کو روزانہ باقاعدگی کے ساتھ کرنا پڑے نوجوانوں کے اندر استقلال کا مادہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور مَیں خدّام الاحمدیہ کو اِس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں۔ مَیں باوجود اِس کے کہ کئی خطبات پڑھ چُکا ہوں ابھی تک وہ باتیں ختم نہیں ہوئیں جو خدّام الاحمدیہ کے میں ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں۔ اب تک مَیں سات فرائض کی طرف خدّام الاحمدیہ کو توجہ دِلا چُکا ہوں اور دو باتیں ابھی رہتی ہیں انہیں اِنْشَائَ اﷲ تَعَالٰی اگلے جمعہ مَیں بیان کروں گا۔ اب مَیں خدّام الاحمدیہ سے صرف اِس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ باتیں تو بہت کچھ بیان ہو چکی ہیں اب انہیں کوئی عملی قدم بھی اُٹھانا چاہئے۔ میرا خیال تھا کہ مَیں جلدی ہی تمام باتیں بیان کر لوں گا مگر خطبے بہت لمبے ہو گئے ہیں ۔ اِن خطبوں کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ بعض دفعہ پچھلی باتیں انسان بھُول جاتا ہے اور جب اِن کی طرف توجہ کرتا ہے تو پہلی باتیں اِن کے ذہن سے اُترجاتی ہیں۔ پس اب جس قدر جلدی ہو سکے کام کو عملی رنگ میں شروع کر دینا چاہئے کیونکہ تازہ بتازہ علم انسان جلد استعمال کر لیتا ہے اور جس قدر پُرانا ہو جائے اتنا ہی اس پر عمل کرنا مُشکل دکھائی دیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ آپ لوگوں کا مدد گار ہو۔‘‘ (الفضل ۳؍مارچ ۱۹۳۹ئ)
۱؎ سٹیٹسٹکس ( STATISTICS ) : فن اعداد و شمار ، شماریات
۹
ورزش کے شُعبہ کو مفید سے مفید تر بنایا جائے
اور ہر چھوٹے بڑے احمدی کو لکھنا پڑھنا سکھایا جائے
(فرمودہ ۱۰؍مارچ۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’آج مَیں اپنے گزشتہ خطبات کے سلسلہ میں خدّام الاحمدیہ کے قریب کے پروگرام کے متعلق دو اَور ضروری امور بیان کرتا ہوں۔ سات امر میں پہلے بیان کر چُکا ہوں۔ آٹھواں امر یہ ہے کہ انسانی صحت دماغ پر خاص اثر کرتی ہے۔ ہزاروں کام دُنیا کے ایسے ہیں جو صحتِ جسمانی سے تعلق رکھتے ہیں گو وہ دین کا حصّہ نہیں۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ خالص دماغی کا م انسان چارپائی پر لیٹے ہوئے بھی کر سکتا ہے لیکن بعض قسم کی صحت کی خرابی دماغ کے اندر بھی خرابی پیدا کر دیتی ہے۔ ہر انسان ایسا نہیں ہوتا کہ بیماری کی حالت میں بھی اُس کا دماغ کام کر رہا ہو۔ یہ ایک باریک مضمون ہے اور اِس کے بیان کا یہاں موقع نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو حقیقی صحت ہوتی ہے وہ جسم کے اعضاء کی بیماریوں کے ساتھ اتنا تعلق نہیں رکھتی جس قدر کہ اُس کی اندرونی طاقتوں کے ساتھ۔ انسانی جسم کی طاقت دو قسم کی ہوتی ہے ایک اعضاء کی ظاہری بیماری اور ایک جسم کی قوتِ برداشت یا حقیقی صحت۔ کبھی کبھی یہ قوتِ برداشت قدرتی طور پر اتنی زبردست ہوتی ہے کہ ظاہری بیماریاں آکر بھی اِسے توڑ نہیں سکتیں۔ ایسی صورت میں انسانی دماغ ہرحالت میں کام کر سکتا ہے۔ مگر بعض حالات میں قوتِ برداشت بھی کمزور ہوتی ہے اور ظاہری عوارض بھی لگے ہوتے ہیں ایسا انسان بیماری کے ساتھ دماغی قابلیت بھی کھوتا چلا جاتا ہے۔ عام قانون یہی ہے کہ جو اوسط درجہ کی قوت برداشت کا انسان ہو اُس کی خرابیٔ صحت کے ساتھ دماغ پر بُرا اثر ضرور پڑتا ہے۔ کم سے کم سُستی، کسل اور ہمت کی کمی ضرور پیدا ہو جاتی ہے اور کسل، سُستی اور ہمت کی کمی بھی ایسے امور ہیں کہ اگر کسی قوم میں پیدا ہو جائیں تو خطرناک نتائج ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ یہ بات ظاہر ہی ہے کہ خواہ قوتِ برداشت کیسی ہو بیماری میں انسان بعض کام نہیں کر سکتا مثلاً اگر نظر کمزور ہو تو خواہ دماغی قابلیت کتنی ہی زبردست کیوں نہ ہو انسان لڑائی کے قابل نہیں ہوتا اور وہ فوج میں بھرتی کے لئے موزوں نہیں سمجھا جاتا کیونکہ فوج کے لئے جس قسم کی قوت کی ضرورت ہے وہ اُسے حاصل نہیں ہوتی اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کا خصوصاً بچپن میں لحاظ رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ورزشوں کی عادت جو ڈالی جاتی ہے وہ اِسی لئے ہوتی ہے کہ انسان کے جسم میں چُستی اور پھرتی پیدا ہو اور اُس کے اعضاء درست رہیں اور اس کی ہمت بڑھے۔ ورزش سے پسینہ آتا ہے جس سے بہت سے زہر دور ہوتے ہیں اور اِس لئے ورزش کو نظر انداز کر کے کُلّی طور پر بچہ کو دماغی کا م میں لگانا دماغ کو کمزور کرنے کا موجب ہوتا ہے۔ بچپن میں کھیل کُود اور ورزش انسان کی فطرت میں اِسی لئے رکھی گئی ہے تا کہ اُس کی جسمانی قوتِ برداشت بڑھ جائے۔ اِسی لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اَلصَّبِیُّ صَبِیٌّ وَ لَوْ کَانَ نَبِیًّا یعنی بچہ بچہ ہی ہے خواہ وہ آئندہ نبی ہونے والا ہو۔بے شک وہ چند سالوں کے بعد نبی بن جائے گا مگر بچپن کی حالت میں اُس کی خواہشات ضرور ایسی ہی ہوں گی جو بچپن سے مناسبت رکھتی ہوں گی۔ وہ کھیلے گا بھی، کُودے گا بھی اور اُن تمام حالات سے گزرے گا جن میں سے بچے عام طور پر گزرتے ہیں۔ بچپن کی حالت کے لئے جو لوازم مخصوص ہیں کوئی بچہ خواہ بڑا ہو کر نبی ہونے والا ہو وہ بھی اُن میں سے ضرور گزرے گا اور اُس کی یہ حالت بعد کی زندگی میں اُس کے لئے کسی اعتراض کا موجب نہیں ہو سکتی۔ پس اِس عمر میں ورزش کے ذریعہ بچہ کی تربیت اشد ضروری ہوتی ہے اور اُسے کلی طور پر دماغی کام میں لگا دینا خطرناک ہوتا ہے۔ اِس زمانہ میں اُس کی صحیح تربیت کا طریق وہی ہے جو اُسے کھیل کُود سکھائے۔ پہلے تو جب وہ بہت چھوٹا ہو کہانیوں کے ذریعہ اس کی تربیت ضروری ہوتی ہے۔ بڑے آدمی کے لئے تو خالی وعظ کافی ہوتا ہے لیکن بچپن میں دلچسپی قائم رکھنے کے لئے کہانیاں ضروری ہوتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ کہانیاں جھوٹی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں کہانیاں سُنایا کرتے تھے کبھی حضرت یوسف ؑ کا قصّہ بیان فرماتے، کبھی حضرت نوح ؑ کا قصّہ سُناتے اور کبھی حضرت موسیٰ ؑکا واقعہ بیان فرماتے مگر ہمارے لئے وہ کہانیاں ہی ہوتی تھیں گو وہ تھے سچے واقعات۔ ایک حاسد و محسود کا قصہ الف لیلیٰ میں ہے وہ بھی سُنایا کرتے تھے۔ وہ سچا ہے یا جھوٹا بہرحال اِس میں ایک مُفید سبق ہے۔ اِسی طرح ہم نے کئی ضربُ ا لْاَمثال جو کہانیوں سے تعلق رکھتی ہیں آپ سے سُنی ہیں۔ پس بچپن میں تعلیم کا بہترین ذریعہ کہانیاں ہیں گو بعض کہانیاں بے معنی اور بے ہودہ ہوتی ہیں مگر مُفید اخلاق سکھانے والی اور سبق آموز کہانیاں بھی ہیں اور جب بچہ کی عمر بہت چھوٹی ہو تو اِس طریق پر اُسے تعلیم دی جاتی ہے۔ پھر جب وہ ذرا ترقی کرے تو اس کے لئے تعلیم و تربیت کی بہترین چیز کھیلیں ہیں۔ کتابوں کے ساتھ جن چیزوں کا علم دیا جاتا ہے کھیلوں سے عملی طور پر وہی تعلیم دی جاتی ہے مگر کہانیوں کا زمانہ کھیل سے نیچے کا زمانہ ہے لیکن کوئی عقلمند کبھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے بچوں کو کہانیاں سُنانا کہانیاں بتانا کلی طورپرکسی جاہل کے سپرد کر دیا جائے یا بچوں ہی کے سپرد کر دیا جائے بلکہ اِس کام پر ہر قوم کے بڑے بڑے ماہرین فن لگے رہتے ہیں۔ دُنیا کے بہترین مصنّف جو لاکھوں روپے سالانہ کماتے ہیں وہ کہانیاں ہی لکھتے ہیں گو اب بہت سی کہانیاں بڑے لوگوں کو مدّنظر رکھ کر لکھی جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کہانیاں اگر بڑے لوگوں کے لئے ہوں تو وہ بھی بچپن ہی سے تعلق رکھتی ہیں کیونکہ درحقیقت وہ انسان کی بچپن کی حالت سے ہی تعلق رکھتی ہیں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان پر بڑی عمر میں بھی بچپن کے زمانہ کے دَورے آتے رہتے ہیں اور اُسی وقت وہ کہانیوں کی طرف راغب ہوتا ہے یعنی اُس کا دماغ تھک کر سنجیدہ اور مُشکل طریق پر دُنیا سے سبق حاصل کرنے کے قابل نہیں رہتا اور اس وقت وہ چاہتا ہے کہ کہانیوں کے ذریعہ سے دُنیا کے تجارب اور علوم حاصل کرے۔
پس وہ بھی بچپن کے مشابہ ایک حالت ہے اور اِس کام کے لئے قوموں کے بہترین دماغ لگے رہتے ہیں اور یہ کافی نہیں سمجھا جاتا کہ کم علم اور جاہل لوگ اِس کام کو کریں لیکن تعجب ہے کہ اِس کے بعد کے زمانہ کی تعلیم کے انتظام کے لئے جو کھیل کا زمانہ ہے اور جس میں کھیل کے ذریعہ علم کا سکھانا ضروری ہوتا ہے اور اِس عمر کے لئے جب بچہ علم کی سب سے مضبوط بنیاد قائم کر رہا ہوتا ہے ایسے جاہلوں پر بچوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے جو انسانی فطرت کا مطالعہ کرنے کی قابلیت ہی نہیں رکھتے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنے بچہ کے لئے جب وہ بہت چھوٹی عمر کا ہو اعلیٰ درجہ کے درزی سے سوٹ سلوائے مگر جب وہ بڑا ہو کر سوسائٹی میں ملنے جلنے لگے تو اُس کے کپڑے کسی گاؤں کی درزن سے سلوائے حالانکہ چھوٹا بچہ تو جیسے بھی کپڑے پہن لے کوئی حرج نہیں ہوتا لیکن بڑا ہو کر کپڑوں کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ بعض پابندیاں بڑے آدمیوںکے لباس کے لئے قانون کی طرف سے ہوتی ہیں، بعض اصولِ صحت کی طرف سے اور بعض سوسائٹی کی طرف سے اور وہ اُن کا خیال رکھنے کے لئے مجبور ہوتا ہے مگر کِس قدر عجیب بات ہو گی کہ اس زمانہ کا لباس تو کسی اناڑی کے سپرد کر دیا جائے مگر جب وہ بہت چھوٹا بچہ ہو تو اُس کے لئے اعلیٰ درجہ کے درزی سے سوٹ سلوائے جائیں۔ بچپن کے زمانہ میں پہلا زمانہ وہ ہوتا ہے جب بچے کوکہانیوں کے ذریعہ دلچسپی پیدا کی جاتی اور تعلیم دی جاتی ہے۔ اِس زمانہ کے متعلق دُنیا کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کی دماغی قابلیت رکھنے والوں کے سپرد یہ کام ہونا چاہئے اور اِس بات کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے اور اِس بات کو نہایت ضروری اور مناسب سمجھتے ہیں کہ کہانیوں کو ایسے رنگ میں بچہ کے سامنے پیش کیا جائے کہ جس سے وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکے اُسے ایسی کہانیاں سُنائی جائیں جو اُس کے اخلاق کو بُلند ، نظر کو وسیع اور اس کے اندرہمت پیدا کرنے والی ہوں اور اُس کے اندر قومی ہمدردی کا مادہ پیدا کریں مگر اِس کے بعد کا زمانہ جو زیادہ اہم ہوتا ہے اور جو کھیل کُود کا زمانہ ہے۔ حیرت ہے کہ بنی نوع نے اِس کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس ہی نہیں کیا کہ وہ بھی اِسی طرح اعلیٰ درجہ کے لوگوں کی نگرانی میں ہونا چاہئے۔ کہانیوں کے متعلق تو یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ کے دماغوں اور فاضل لوگوں کی تیار کردہ ہوں اور ایسے رنگ کی ہوں کہ جس سے بچوں کو فائدہ پہنچے مگر کھیل کے زمانہ کا کوئی خیال ہی نہیں رکھاجاتا اور یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ کھیل کُود بچوں کا کام ہے بڑوں کا اِس میں دلچسپی لینا مناسب نہیں۔ حالانکہ اگر کھیل کُود بچوں کا کام ہے تو کہانیاں بھی تو بچوں سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔ پھر جب ابتدائی عمر کی کھیل یعنی کہانیوں کے متعلق احتیاط کی جاتی ہے تو کیوں بڑی عمر کی کھیل میں اِس سے زیادہ احتیاط نہ برتی جائے اِس زمانہ میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ تو کہانیوں کے زمانہ سے بہت زیادہ اہم ہے۔
پس مَیں خدّام الاحمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ بچوں کے کھیل کُود کے زمانہ کو وہ زیادہ سے زیادہ مُفید بنانے کی کوشش کریں اور کوشش کریں کہ کھیلیں ایسی ہوں کہ جو نہ صرف جسمانی قوتوں کو بلکہ ذہنی قوتوں کو بھی فائدہ پہنچانے والی ہوں اور آئندہ زندگی میں بھی بچہ اِن سے فائدہ اُٹھا سکے۔ اِن میں تین باتوں کا خیال رکھا جائے۔ ایک تو جسم کو فائدہ پہنچے، دوسرے ذہن کو فائدہ پہنچے اور تیسرے وہ آئندہ زندگی میں ان کے کام آسکیں۔ جس کھیل میں یہ تینوں باتیں ہوں گی وہ کھیل کھیل ہی نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم بھی ہو گی اور وہ طالب علم کے لئے ایسی ہی ضروری ہو گی جیسی کتابیں۔ جب مَیں یہ کہتا ہوں کہ کھیلیں ایسی ہوں جو ذہنی تربیت کے لئے مُفید ہوں تو میرا مطلب یہ ہے کہ اِن کے ساتھ بچوں کی دلچسپی بھی قائم رہے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ایک فلسفہ بن جائے اور بچوں کو زبردستی کھلانی پڑیں۔ ایسی کھیل ذہنی نشوونما کا موجب نہیں ہو سکتی اور نہ ہی جسم اِس سے پورا فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ مَیں نے بار ہا اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ یہ کام نہایت آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور ورزش کے شُعبہ کو مُفید بلکہ مُفید ترین بنایا جاسکتا ہے بشرطیکہ اِس میں تین باتوں کا خیال رکھا جائے۔ ایک تو یہ کہ وہ آئندہ زندگی میں بھی مُفید ثابت ہونے والی ہوں نہ صرف بچپن میں بلکہ بڑے ہو کر بھی فائدہ دینے والی ہوں۔ بچپن میں کھیل کا جو فائدہ ہوتا ہے وہ بھی حاصل ہو، جسم بھی مضبوط ہو اور ذہن بھی ترقی کرے۔ بچپن میں جو کہانیاں بچوں کو سُنائی جاتی ہیں اُن کا مقصد ایک تو یہ ہوتا ہے کہ بچہ شور نہ کرے اور ماں باپ کا وقت ضائع نہ کرے لیکن اگر وہ کہانیاں ایسی ہوں جو آئندہ زندگی میں بھی فائدہ دیں تو یہ کتنی اچھی بات ہے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں کہانیاں سُنایا کرتے تھے۔ کہانیاں سُنانے کا جو فائدہ اس وقت ہوتا ہے وہ بھی ان سے حاصل ہوتا تھا۔ اگر اُس وقت آپ وہ کہانیاں نہ سُناتے تو پھر ہم شور مچاتے اور آپ کا م نہ کر سکتے۔ پس یہ ضروری ہوتا کہ ہمیں کہانیاں سُنا کر چُپ کرایا جاتا اور یہی وجہ تھی کہ رات کے وقت ہماری دلچسپی کو قائم رکھنے کے لئے آپ بھی جب فارغ ہوں کہانیاں سُنایا کرتے تھے۔ تاہم سو جائیں اور آپ کام کر سکیں۔ بچہ کو کیا پتہ ہوتا ہے کہ اِس کے ماں باپ کتنا بڑا کام کر رہے ہیں۔ اُسے تو اگر دلچسپی کا سامان مہیا نہ کیا جائے تو وہ شور کرتا ہے اور کہانی سُنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچے سوجاتے ہیں اور ماں باپ عُمدگی سے کام کر سکتے ہیں اور کہانیوں کی یہ ضرورت ایسی ہے جسے سب نے تسلیم کیا ہے گو وہ عارضی ضرورت ہوتی ہے اُس وقت اِس کا فائدہ صرف اتنا ہوتا ہے کہ بچہ کو ایسی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ محو ہو کر سو جاتا ہے۔ ماں باپ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمارا وقت ضائع نہ ہو اِس لئے وہ اُسے لٹا کر کہانیاں سُناتے ہیں یا اُن میں سے ایک اسے سلاتا ہے اور دوسرا کام میں لگا رہتا ہے یا پھر ایک سُناتا ہے اور باقی خاندان آرام سے کام کرتا ہے اگر اِس وقت فضول اور لغو کہانیاں بھی سُنائی جائیں تو یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے مگر ہم اِس پر خوش نہیں ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ایسی کہانیاں اُسے سنائیں کہ اُس وقت بھی فائدہ ہو یعنی ہمارا وقت بچ جائے اور پھر وہ آئندہ عمر میں بھی اُسے فائدہ پہنچائیں اور جب کہانیوں کے متعلق یہ کوشش کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کھیل کے معاملہ میں بچوں کو یونہی چھوڑ دیں کہ جس طرح چاہیں کھیلیں۔ اگر یہ طریق کھیلوں کے متعلق درست ہے تو کہانیوں کے متعلق کیوں اِسے اختیار نہیں کیا جاتا اور کیوں نہیں بچوں کو چھوڑ دیا جاتا کہ جیسی بھی کہانیاں ہوں سُن لیں۔ جب کہانیوں کے متعلق ہمارا یہ نظریہ ہے کہ وہ ایسی ہوں جو اُسے سُلا بھی دیں اور عُمدہ باتیں بھی سکھائیں تو کھیلوں کے متعلق یہی نظریہ کیوں پیش نظر نہ رکھا جائے کیوں نہ بچوں کو ایسی کھیلیں کھلائی جائیں جن سے اُن کا جسم بھی مضبوط ہو، ذہن بھی ترقی کرے اور پھر وہ آئندہ زندگی کے لئے سبق آموز بھی ہوں۔ مثلاً مَیں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی بتایا تھا کہ تیرنا ہے یہ کھیل کی کھیل ہے اِس میں مقابلے کرائے جائیں تو بہت دلچسپی پیدا ہو سکتی ہے، غوطہ زنی میں لوگ مقابلے کرتے ہیں اور ایسی دلچسپی پیدا ہوتی ہے کہ مقابلہ کرنے والے اس وقت یہی سمجھتے ہیں کہ گویا زندگی کا مقصد یہی ہے۔بچوں کے لئے تیرنا بھی ایسی ہی دلچسپی کا موجب ہو سکتا ہے جیسا فٹ بال، کرکٹ یا ہاکی وغیرہ اور پھر یہ ان کے لئے آئندہ زندگی میں مُفید بھی ہو سکتا ہے۔ کبھی کشتی میں آدمی سفر کر رہا ہو، کشتی ڈوب جائے تو وہ اپنی جان بچا سکتا ہے یا کنارے پر بیٹھا کوئی کام کر رہا ہو اور کوئی ڈوبنے لگے تو اُسے بچا سکتا ہے۔ تو تیرنا صرف اس زمانہ کے لئے کھیل ہی نہیں بلکہ آئندہ زندگی میں اسے فائدہ دینے والی چیز ہے۔ وہ بحری فوج میں آسانی سے داخل ہو سکتا ہے، جہاز رانی میں اِس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ گویا یہ تمام عمر میں اِسے فائدہ پہنچانے والا ہُنر ہے اور اِس لئے ایسی کھیل کی بجائے جو صرف بچپن میں کھیل کے ہی کام آئے یہ ایک ایسی کھیل ہے جو ساری عمر اس کے کام آسکتی ہے۔ اِسی طرح تیراندازی ہے، غلیل چلانا ہے اِس سے ورزش بھی ہوتی ہے، بچے شکار کے لئے باہر جاتے ہیں اور دور نکل جاتے ہیں اور اِس طرح تازہ ہوا بھی کھاتے ہیں۔ بدن بھی مضبوط ہوتا ہے، غلیل چلانے سے جسم میں طاقت آتی ہے۔ اِس کے مقابلے کرائے جاسکتے ہیں کہ کون زیادہ دور تیر پھینکتا ہے یا غلیلہ پھینک سکتا ہے۔ غلیل جتنی زیادہ سخت ہو مگر لچکنے والی ہو اُتنا ہی غلیلہ زیادہ دُور جاتا ہے۔ مگر اِس لچکانے کے لئے طاقت ضروری ہوتی ہے جتنا کوئی زیادہ مضبوط ہو اُتنا ہی زیادہ دُور غلیلہ پھینک سکتا ہے کیونکہ وہ اتنا ہی غلیل کو زیادہ کھینچ کر لچکا سکتا ہے۔ یہ چیز ورزش کا بھی موجب ہے۔ شکار کے لئے زیادہ چلنا پڑتا ہے، تازہ ہوا کھانے کا بھی موقع ملتا ہے اور پھر یہ ساری عمر کام آتی ہے۔ غلیل چلانے والا بندوق کا نشانہ بندوق پکڑتے ہی سیکھ سکتا ہے۔ ہم بچپن میں غلیل چلایا کرتے تھے اور مجھے یاد نہیں کہ کسی نے کبھی مجھے بندوق کا نشانہ سکھایا ہو۔ پہلی دفعہ شیخ عبدالرحیم صاحب کہیں سے بندوق مانگ کر لائے۔ مَیں اُس وقت بہت چھوٹا تھا اور وہ پہلا نشانہ تھا اُنہوںنے پیچھے سے پکڑ رکھا اور مَیں نے بندوق چلائی۔ گو مَیں خود بھی گر پڑا مگر جس جانور کا نشانہ کیا تھا وہ بھی گر گیا۔ اِدھر میں گرا اور اُدھر وہ۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ جو سپاہیوں میں بھرتی ہوتے ہیں وہ مدتوں اِس وجہ سے افسروں کی جھڑکیاں کھاتے ہیں کہ ٹھیک نشانہ نہیں کر سکتے اور اِس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ بچپن میں کوئی ایسا کام نہیں کیا ہوتا کہ نشانہ کی مشق ہو سکے۔ اگر بچپن میں تیر یا غلیلہ چلانے کی مشق ہو تو جب بھی بندوق چلانے لگیں فوراً نشانہ درست ہو سکتا ہے اور پھر اِس سے بچپن میں صحت بھی درست ہو سکتی ہے۔ اچھی ہوا سے تروتازگی بھی حاصل کر سکتے ہیں، ذہنوں میں بھی روشنی پیدا ہو سکتی ہے اور پھر بڑے ہو کر یہی کھیل ان کے لئے ایک ہُنر ثابت ہوسکتا ہے۔ اِسی طرح دوڑنا ہے جو اپنی ذات میں بہت دلچسپ کھیل ہے اِس کے بھی مقابلے کرائے جاتے ہیں جن سے لاتوں کو بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ لوگ ایسی ورزشیں کرتے ہیں کہ جن سے جسم کا ایک حصّہ تو مضبوط ہوتا ہے مگر باقی کمزور ہو جاتے ہیں لیکن دوڑنا لاتوں کے لئے بھی مُفید ہے اور پیٹ کے لئے بھی۔ جو لوگ دوڑنے کے عادی ہوں اُن کا پیٹ نہیں بڑھتا۔ یہ کھیل بھی ہے اور آئندہ زندگی میںبھی بڑے کام کی چیز ہے۔ اگر انسان سپاہی ہو تو دُشمن کے تعاقب کے لئے یا اگر کسی وقت پیچھے ہٹنا پڑے تو اپنی جان بچانے کے کام آسکتا ہے۔ آئے دن ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ چور مال لے کر بھاگ جاتے ہیں کیونکہ اُن کو بھاگنے کی مشق ہوتی ہے مگر گاؤں والے ہانپتے ہوئے پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ اُن کو مشق نہیں ہوتی۔ اگر بھاگنے کی مشق ہو تو چوروں کو پکڑ سکتے ہیں۔ اِسی طرح بیسیوں مواقع زندگی میں ایسے آتے ہیں کہ اگر انسان کو بھاگنے کی مشق ہو تو کام سُدھر جاتے ہیں۔ اِسی طرح اَور بیسیوں ایسی کھیلیں ہیں جو مُفید ہو سکتی ہیں۔ دو تین روز ہوئے بورڈنگ ہائی سکول میں ایک جلسہ ہؤا تھا جس میں مَیں نے ایسی کھیلیں تفصیل سے بیان کی تھیں جن سے ذہنی ترقی کا کام لیا جاسکتا ہے اور وہ کھیلوں کا کام بھی دے سکتی ہیں اور پھر آئندہ زندگی میں بھی مُفید ہو سکتی ہیں۔ اِس وقت مَیں وہ ساری تو بیان نہیں کر سکتا صرف مثال کے طور پر چند ایک بیان کر دیتا ہوں مثلاً مَیں نے بتایا تھا کہ ہمارے مُلک میں بعض ایسی کھیلیں ہیں جو ذہنی ترقی کے لئے مُفید ہو سکتی ہیں مگر اُن سے پورا فائدہ نہیں اُٹھایا جاتا۔ بچپن میں ایک کھیل یہ کھیلی جاتی ہے کہ ایک بچہ آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتا ہے۔ لاتیں لمبی کر لیتا ہے، ایک اس کے پیچھے بیٹھ کر اِس کی آنکھوں پرہاتھ رکھ دیتا ہے پھر ایک ایک کر کے دوسرے لڑکے اُس کی ٹانگوں پر سے گزرتے ہیں اور پیچھے بیٹھنے والا پوچھتا ہے کہ کون گزرا؟ اُسے اجازت نہیں ہوتی کہ گزرنے والے کے جسم کو ہاتھ لگائے۔ صرف لباس کی آواز سے وہ پہچانتا ہے کہ کون گزرا؟ اگر وہ ٹھیک بتا دے تو کامیاب سمجھا جاتا ہے اور دوسرا ہار جاتا ہے۔ اِس کھیل سے شنوائی کی طاقت اور توجہ کا مادہ بڑھتا ہے۔ یہ کھیل چھوٹے بچوں کی ہے مگر اِسے بنانے والے نے اِس میں بہت حکمت رکھی ہے جس کے کان عادی ہو جائیں کہ کپڑے کی آواز سے آدمی کو پہچان لے یا خیال سے معلوم کرے کہ کون گزرا ہے تو وہ پولیس اور سکاؤٹ میں کتنا مُفید ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسا شخص اگر پولیس میں جائے گا تو یقینا بہت ترقی کرے گا۔ پھر ایک کھیل یہ ہوتا ہے کہ پیچھے سے آکر آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا جس کی آنکھیں اِس طرح بند کر دی جائیں اُس کا حق ہوتا ہے کہ پہچانے اور ہاتھ کو ہاتھ لگا کر پہچانے۔ اِس طرح ہاتھوں کے لمس سے پہچاننے کی مشق ہوتی ہے۔ یہ کھیل رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی بہت بد صورت اور کریہہ المنظر تھے، قد چھوٹا تھا اور جسم پر بال بڑے بڑے تھے۔ ایک دفعہ وہ بازار میں مزدوری کر رہے تھے پسینہ بہہ رہا تھا اور گرمی کی وجہ سے سخت گھبرائے ہوئے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی لڑ پڑیں گے۔ پیچھے سے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم آئے۔ آپ کو اُن کی حالت پر رحم آیا اور اُن کی دلجوئی کرنا چاہی اور اُن کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے جس کے معنے یہ تھے کہ بتاؤ کون ہے؟ اُنہوں نے ہاتھ پر ہاتھ پھیرا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا جسم بہت نرم تھا اِس لئے وہ پہچان گئے اور مذاق کے لئے آپ کے جسمِ مُبارک کے ساتھ اپنا پسینہ والا جسم ملنے لگے اور کہا یَارَسُوْلَ اﷲ! مَیں نے پہچان لیا ہے۔۱؎
یہ کھیل بھی درحقیقت اپنے اندر ایک عُمدہ مشق رکھتی ہے۔ بشرطیکہ بچوں کو عُمدگی سے کھِلائی جائے اور کوشش کی جائے کہ پورا پورا فائدہ حاصل ہو۔ یہ کھیلیں ایسی ہیں کہ ان سے اتنی مشق ہو جاتی ہے کہ انسان بڑے بڑے کمالات ظاہر کر سکتا ہے۔ مَیں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے کہ امریکہ کی ایک قوم ہے جسے ریڈ انڈین یعنی سُرخ ہندوستانی کہا جاتا ہے کیونکہ جب یورپ والے پہلے پہل امریکہ گئے تو اُن کا خیال تھا کہ ہندوستان یہی ہے بعد میں معلوم ہؤا کہ ہندوستان اور ہے۔ ان لوگوں کا رنگ سُرخی مائل ہوتا ہے اِس لئے اِن کو ریڈ اِنڈین کہتے ہیں۔ اُنہوں نے کانوں کی مشق میں بہت کمال حاصل کیا ہوتا ہے۔ لوگ پہلے زمانہ میں اِن کو مزدوری پر جنگلوں میں راہنمائی کے لئے لے جاتے تھے یا جب چور یا ڈاکو لوٹ مار کر کے بھاگتے تھے تو اِن میں سے کسی کو لالچ دے کر ساتھ لے جاتے تھے اور جنگل میں چھُپ جاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ زمین پر کان لگا کر دو تین میل کے فاصلہ پر سے بتا دیتے تھے کہ گھوڑے فلاں جہت سے دوڑے آرہے ہیں اور یہ کوئی معجزہ نہیں نہ ہی وہ کوئی غیر معمولی انسان ہوتے ہیں بلکہ یہ صرف مشق کی بات ہے۔ اِس قوم نے کانوں کی مشق سے ایسے اصول دریافت کر لئے ہیں کہ ایسی باتیں معلوم کر لیتے ہیں جو دوسروں کو معلوم نہیں ہو سکتیں اور اِس طرح چوریا ڈاکو اِن کی اطلاع پر وہاں سے بھاگ کر دوسری جگہ جا چھُپتے۔ اگر آنکھوں سے دیکھ کر چھُپنے کی کوشش کی جائے تو بچنا محال ہو جاتا ہے کیونکہ سوار پکڑ سکتے ہیں مگر جب وہ تین میل کے فاصلہ پر سے ہی اطلاع مل جائے تو اُن کے وہاں پہنچنے تک وہ آگے نکل کر جاسکتے ہیں۔ اِس طرح زبان، ناک ، ہاتھ اور کان کی مشق بہت کام آنے والی چیزیں ہیں۔ ان سے ذہانت میں بھی ترقی ہوتی ہے۔ ذہانت حواسِ خمسہ کی تیزی کا نام ہے اور حواس کی تیزی کے لئے ایسی کھیلیں ایجاد کی جا سکتی ہیں بلکہ ہمارے بزرگوں نے ایجاد کی ہوئی ہیں۔ جو کھیل کی کھیل ہیں اور آئندہ زندگی کے فوائد بھی اُن میں مخفی ہیں۔خدّام الاحمدیہ کو چاہئے کو اِس بات کو اپنی سکیم میں شامل کر یں اور جماعت میں اِن کو رائج کریں۔
مَیں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی کہا تھا کہ جماعت ورزش جسمانی کی طرف خاص طور پر زور دے اور اب مَیں یہ کام بھی خدّام الاحمدیہ کے سپرد کرتا ہوں کیونکہ یہ نوجوانوں سے تعلق رکھتا ہے۔ پس خدّام الاحمدیہ اِسے قادیان میں بھی اور باہر بھی شروع کریں۔ مجھ سے مشورہ کرکے وہ ایسی سکیمیں تیار کر سکتے ہیں کہ جن کے ذریعہ ایسی کھیلیں جماعت میں جاری کی جاسکیں جو آئندہ زندگی میں کام آنے والی ہوں۔
نویں بات جس کی طرف میں خدّام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں وہ علم کا عام کرنا ہے۔ مَیں پہلے اِن کو توجہ دِلا چُکا ہوں کہ اِن کا فرض ہے کہ علم سیکھیں لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کسی شخص کا نیکی حاصل کرنا اُسے بچا نہیں سکتا جب تک اُس کے ارد گرد بھی نیکی نہ ہو۔ آپ اپنے بچے کو کتنا سچ بولنے کی عادت کیوں نہ ڈالیں وہ کبھی سچا نہیں ہو سکتا جب تک اُس کے محلہ میں دوسرے بچے جھوٹ بولتے ہیں۔ پس ان کا اپنا علم حاصل کر لینا کام نہیں آسکتا جب تک کہ دوسروں میں تعلیم کی اشاعت نہ کریں۔ کچھ عرصہ سے مَیں نے ان کے سپرد یہ کام کیا ہؤا ہے کہ قادیان میں کوئی اَن پڑھ نہ رہے اور جب یہاں یہ کام ہو جائے گا تو پھر باہر بھی اِسے شروع کیا جائے گا۔ اِنہوں نے کچھ عرصہ سے اِس کے متعلق کوئی رپورٹ مجھے نہیں بھیجی۔ اِس لئے مَیں نہیں کہہ سکتا کہ یہ کام ہو رہا ہے یا نہیں۔ یہ کام اتنا اہم تھا کہ اِن کو یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ اِس کے متعلق ہفتہ واری رپورٹ ضروری ہے مگر آج مَیں یہ کام پھر خصوصیت کے ساتھ اِن کے سپرد کرتا ہوں اور ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ اِسے پہلے یہاں شروع کریں اور پھر باہر۔ اور کوشش کریں کہ سال دو سال کے عرصہ میں کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو پڑھا ہؤا نہ ہو۔ خواہ احمدی عورت ہو یا مرد ، بچہ ہو یا بوڑھا سب پڑھے ہوئے ہونے چاہئیں۔ اِس کے لئے چھوٹے سے چھوٹا معیار مقرر کر لیا جائے اور پھر اِس کے مطابق سب کو تعلیم دی جائے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک علم عام نہ ہو جماعت پورا فائدہ نہیں اُٹھا سکتی۔ اِس زمانہ میں علم کتابی ہو گیا ہے مگر پہلے زمانہ میں زبانی ہوتا تھا۔ پہلے زمانہ میں علم کانوں کے ذریعہ سکھایا جاتا تھا مگر اب کتابوں کے ذریعہ۔ اِس لئے خدّام الاحمدیہ کو کوشش کرنی چاہئے کہ ہر احمدی لکھنا پڑھنا سیکھ جائے۔ عربوں میں زبانی حفظ کرنے کا رواج تھا اور اِس کا یہاں تک اثر ہے کہ صرف و نحو کی بعض کتابیں وہ ہر طالب علم کو حفظ کراتے ہیں۔ پُرانے زمانہ میں علماء کے لئے قرآن کریم کو حفظ کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا، حدیثوں کو یاد کرنا محدّثین کے لئے ضروری ہوتا، شاعروں میں شعر زبانی یاد کرنے کا رواج تھا، صرفی نحوی صرف و نحو کی کتابیں یاد کرتے تھے۔ فقہاء فقہی کتابیں حفظ کرتے تھے مگر آج کل تو قرآن کریم کا حفظ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ کتابیں عام ہیں جب ضرورت ہوئی دیکھ لیا مگر اُس زمانہ میں کتابیں عام نہ تھیں اِس لئے حفظ کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اس زمانہ میں کتاب لکھنا یا پڑھنا موجبِ عار سمجھا جاتا تھا اور اِس کے یہ معنی سمجھے جاتے تھے کہ حافظہ کمزور ہے۔ وہ شاعر، شاعرہی نہیں سمجھا جاتا تھا جس کے شعر لکھے جائیں۔ اِس کے یہ معنے ہوتے تھے کہ گویا اس کی قوم نے اس کی قدر نہیں کی۔ اگر قوم قدر کرتی تو اس کے شعر حفظ کرتی۔ اِسی واسطے جو بڑے بڑے شُعراء ہوتے تھے ان کے ساتھ ایسے لوگ رہتے تھے جو اُن کے شعر حفظ کرتے۔ ان کو راویہ کہاجاتا تھا اور توجہ اور مشق سے حافظے اتنے تیز ہو جاتے تھے کہ بعض کو لاکھ لاکھ، دو دو لاکھ اور تین تین لاکھ شعر زبانی یاد ہوتے تھے۔ ایران کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک بادشاہ تھا اُس زمانہ میں وہاں عربی کا زیادہ رواج تھا۔ اسلامی ممالک میں زیادہ تر یہی زبان رائج ہوتی تھی۔ بادشاہ کو سخاوت کی عادت تھی۔ شعراء آتے شعر سُناتے اور بڑے بڑے انعام پاتے تھے۔ وزیر نے اس سے کہا کہ شعراء تو اِس طرح لُوٹ کر لے جائیں گے اور خزانہ میں کمی آجائے گی۔ اِس لئے آپ ہر ایک کو انعام نہ دیا کریں بلکہ قید لگا دیں کہ صرف اُسی شاعر کو انعام دوں گا جو کم سے کم ایک لاکھ شعر سنا سکتا ہو۔ بادشاہ نے یہ مان لیا اور اعلان ہو گیا کہ جب تک کسی شاعر کو کم سے کم ایک لاکھ شعر یاد نہ ہو وہ دربار شاہی میں بار یابی حاصل نہ کر سکے گا۔ اب لاکھ شعر کا یاد کرنا ہر ایک کے لئے تو مُشکل ہے کسی کو پانچ ہزار، دس ہزار یاد ہوتے، کسی کو بیس ہزار، کسی کو تیس یا چالیس ہزار اور اِس اعلان کا نتیجہ یہ ہؤا کہ عام اُدباء اور شعراء کو موقع نہیں مل سکتا تھا اور وہ بھوکے مرنے لگے۔ ان کو خیال آیا کہ اِس طرح تومُلک کے علم ادب کو نقصان پہنچے گا اِس زمانہ میں وہاں ایک بہت بڑے اور مشہور ادیب تھے۔ سب اکٹھے ہو کر اُن کے پاس پہنچے اور کہا کہ اِس سے مُلک کے علم ادب کو بہت نقصان پہنچے گا اِس لئے آپ بادشاہ سے ملیں اور اِس بات پر آمادہ کریں کہ ایک لاکھ کی تعداد میں کمی کر دے۔ وہ بالکل الگ تھلگ رہتے تھے۔ بادشاہ نے ان کو بعض دفعہ بلوایا بھی تھا مگر اُنہوں نے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ اپنی ذات میں اپنے آپ کو ادب کا بادشاہ سمجھتے تھے مگر یہ چونکہ ایک ادبی خدمت تھی اِس لئے وہ بادشاہ سے ملنے کے لئے تیار ہو گئے۔ چنانچہ وہ گئے اور اطلاع کرائی۔ دربانوں نے نام پوچھا مگر اُنہوں نے نام بتانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ایک شاعر ملنا چاہتا ہے۔ دربانوں نے کہا کہ شاعروں کے لئے یہ شرط ہے کہ انہیں کم سے کم ایک لاکھ شعر یاد ہونا چاہئے پہلے درباری امتحان لیں گے اور اگر کوئی ایک لاکھ شعر سُنا سکے تو اُسے باریابی کا موقع دیا جائے گا ورنہ نہیں۔ اُنہوں نے پیغامبر سے کہا کہ جاکر بادشاہ سے پوچھو کہ وہ کون سے ایک لاکھ شعر سُننا چاہتا ہے؟ اسلام کے زمانہ کے یا زمانۂ جاہلیت کے؟ مردوں کے یا عورتوں کے؟ مَیں ہر قسم کے ایک ایک لاکھ شعر سُنانے کو تیار ہوں۔ جب بادشاہ کو یہ اطلاع پہنچی تو وہ سمجھ گیا۔ اِنہی کا نام لیا اور کہا کہ وہی ہوں گے۔ ننگے پاؤں بھاگ آیا اور کہا کہ فرمائیے کیا خدمت ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ کے اِس حکم سے مُلک پر یہ ظلم ہورہا ہے کہ اِس کے ادب کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اِس شرط کے ہوتے ہوئے کوئی خاص شاعر ہی باریاب ہو سکتا ہے اور جو اتنا بڑا ادیب ہو اُسے آپ کی مدد کی کیا احتیاج ہو سکتی ہے اور وہ دربارمیں کیوں آئے گا؟ اِسے تو گھر بیٹھے ہی روزی ملے گی اِس لئے اِسے منسوخ کر دیں۔ بادشاہ نے کہا بہت اچھا مَیں اِسے منسوخ کرتا ہوں اور جب یہ شرط لگائی تھی تو میرا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ شاید آپ اِسے منسوخ کرانے کے لئے آئیں۔ تو حافظہ پر زور دینے کی وجہ سے پُرانے زمانہ میں ایسے ایسے لوگ بھی ہوتے تھے جو لاکھوں شعر زبانی یاد رکھتے تھے۔ کہتے ہیں امام شافعی نے پانچ سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کر لیا تھا۔ بوجہ حافظہ پر عام طور پر زور دینے کے اِس زمانہ میں لوگوں کے حافظے بہت تیز ہوتے تھے۔ ایک دو دفعہ ہی بات سُن کر یاد کر لیتے تھے مگر اب کتابوں کے عام ہو جانے کی وجہ سے حافظہ کی تیزی کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اِس لئے خدّام الاحمدیہ کو ضمنی طور پر اِس طرف بھی توجہ دینی چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک قوم کی عام رغبت اِس طرف نہ ہو ایک دو کی کوشش سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ پہلے زمانہ میں حافظہ کے ذریعہ لوگ عالم ہوتے تھے مگر آجکل کتابیں پڑھنے سے ہوتے ہیں۔ اِس لئے جماعت کے ہر فرد کو کچھ نہ کچھ لکھنا پڑھنا آنا چاہئے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اِس کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ بدر کی جنگ میں جو کفار قید ہوئے ان میں سے جو فدیہ ادا نہ کر سکتے تھے آپ نے اُن کے لئے یہ شرط لگائی کہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں اورجب اُنہوںنے سکھا دیا تو اُن کو چھوڑ دیا ۲؎ تو خدّام الاحمدیہ کے تعلیم کے عام کرنے کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے۔ اگر وہ یہ کر لیں تو جماعت کے اخلاق بھی بُلند ہو سکتے ہیں، پڑھنا آتا ہو تو وہ حضرت صاحب کی کُتب بھی پڑھ سکیں گے، دینی کُتب کا مطالعہ کریں گے، تصوف کی کوئی کتاب پڑھیں گے اور اُن کا وقت بھی ضائع نہ ہو گا۔ کتابیں پڑھنے سے ان کا ذہن صیقل ہو گا اور پھر اخلاق بُلند ہوں گے۔
یہ نو چیزیں ہیں جو مَیں خدّام الاحمدیہ کے لئے پیش کرتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ ان کو خصوصیت سے سامنے رکھ کر وہ کام کریں گے اور ان کو اپنا قریبی مقصد قرار دیں گے اور پھر اِس کے حصول کے لئے پوری پوری کوشش کریں گے۔ اِس کے ساتھ کچھ اور مضامین بھی ہیں مگر اب چونکہ کافی وقت ہو گیا ہے اِس لئے اِسی پربس کرتا ہوں۔
اِسی ہفتہ میں خدّام الاحمدیہ کی طرف سے مجھے ایک درخواست آئی تھی کہ وہ تفصیلی ہدایات کے لئے مجھے ملنا چاہتے ہیں وہ مل کر مجھ سے ہدایات لے سکتے ہیں۔
عملی سکیم اور کام کرنے کا طریق یہ ایک علیحدہ مضمون ہے جو صرف اُن سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ اِس لئے جب وہ ملیں گے تو اُن کے سامنے ہی اِسے بیان کروں گا۔ مَیں اُمید کرتا ہوں کہ وہ استقلال اور ہمت سے کام کریں گے اور ایسے رنگ میں کریں گے کہ ساری جماعت کو شامل کر سکیں اور مَیں نے اِسی غرض سے یہ خطبات پڑھے ہیں۔ چند افرادکی حیثیت ایسی نہیں ہوتی کہ ان کے لئے اتنے خطبے پڑھے جائیں اِس لئے اِن کو ایسے رنگ میں کام کرنا چاہئے کہ وہ ساری جماعت پر حاوی ہو اور مستقل حیثیت اختیار کر سکے۔‘‘ (الفضل ۲۸؍مارچ ۱۹۳۹ئ)
۱؎ شمائل الترمذی باب مَا جاء فِی صِفَۃِ مزاحِ رَسُوْلِ اﷲ صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
۲؎ زرقانی جلد ۲ صفحہ ۳۲۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء
۱۰
خدّام الاحمدیہ کا قیام اُس فوج کی روحانی ٹریننگ ہے
جس نے احمدیت کے مخالفین کا مقابلہ کرنا ہے
(فرمودہ ۱۷؍مارچ۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے خدّام الاحمدیہ کو گزشتہ پانچ چھ خطبات میں ایسے امُور کی طرف توجہ دلائی ہے جن کی طرف توجہ کر کے وہ جماعت کے لوگوں میں بیداری اور دینداری پیداکر سکتے ہیں اور نوجوانوں کا گروہ ہی ایک ایسا گروہ ہے جس کی زندگی پر قومی زندگی کا انحصار ہوتا ہے کیونکہ کسی اگلی پود کا درست ہونا قومی عمر کو نہایت لمبے عرصہ تک پھیلادیتا ہے۔ مثلاً اگر انسان کی اوسط عمر ساٹھ سال سمجھی جائے اور نوجوانوں کی جماعت درست ہو جائے تو اُس کے معنے یہ ہوں گے کہ اگر نوجوانوں کو بیس سال کا بھی فرض کر لیا جائے تو اِس قوم کی عمر مزید چالیس سال تک لمبی ہو سکتی ہے۔ ایک ساٹھ سالہ بوڑھے کی درستی صرف ایک یا دو سال تک قوم کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، ایک پچاس سالہ عمر والے انسان کی درستی اوسطاً دس سال تک قوم کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، ایک چالیس سالہ شخص کی درستی اندازاً بیس سال تک قوم کو فائدہ پہنچا سکتی ہے اور تیس سالہ عمر والے کی درستی قوم کو اندازاً تیس سال تک فائدہ پہنچا سکتی ہے لیکن اگر بیس سالہ نوجوانوں کی درستی کر دی جائے تو وہ چالیس سال تک قوم کو فائدہ پہنچا سکتے اور اس کی خصوصیات اور روایات کو قائم رکھ سکتے ہیں اور چالیس سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں ہوتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چونکہ انسان کی اوسطاً عمر ساٹھ ستّر سال کے درمیان ہے اور اِدھر دس گیارہ سال کا لڑکا جوانی کے قریب پہنچ جاتاہے۔ اِس لئے درحقیقت اگر نوجوانوں کی درستی کر لی جائے تو وہ چالیس سال ہی نہیں بلکہ پچاس سے ساٹھ سال تک قوم کی حفاظت کا موجب بن جاتے ہیں اور پچاس ساٹھ سال تک کسی قوم کو نشوونما کا موقع مل جانا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔ اگر وہ قوم ہمت والی ہو، اگر وہ مُشکلات اور مصائب سے گھبرانے والی نہ ہو، اگر خدا کے وعدے اور اُس کی نصرتیں اُس کے ساتھ ہوں اور اگر اُس قوم کے نوجوان اور بوڑھے درست ہوں اور اُن کا اخلاقی اور مذہبی معیار بہت بُلند ہو تو وہ پچاس ساٹھ سال کے اندر اندر تمام دُنیا پر چھا جانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
درحقیقت اُتار چڑھاؤ ہی ہے جو قوموں کو نقصان پہنچایا کرتا اور اُن کی ترقیات کو روک دیتا ہے یعنی ایک وقت تو وہ جُوش میں آجاتی اور بڑے زور شور سے کام شروع کر دیتی ہیں مگر دوسرے وقت گر جاتی ہیں۔ ایک وقت تو اُن کی ہمتیں نہایت بُلند ہوتی ہیں اور وہ مردانہ وار مصائب کے مقابلہ کا تہیّہ کر کے ترقی کی طرف بڑھنا شروع کر دیتی ہیں مگر دوسرے وقت بالکل دَب جاتی اور پَستی کی طرف گرنا شروع کر دیتی ہیں۔ ایسی صورت میں اس قوم کی پَستی کا زمانہ اس کے اِن فوائد کو کمزور کر دیتا ہے جو اس نے اپنی ترقی کے ایّام میں حاصل کئے ہوتے ہیں مگر جب تمام قوم کا قدم یکساں طور پر آگے کی طرف بڑھتا چلا جارہا ہو تو پچاس ساٹھ سال دُنیا بھر میں تغیّر پیدا کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ پس نوجوانوں کو درست کرنے اور اُن کے اخلاق کو سُدھارنے سے جماعت کو عظیم الشان فائدہ پہنچ سکتا ہے اور مَیں خدّام الاحمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اُنہیں اپنے کام کی عظمت کبھی بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے۔ خدّام الاحمدیہ دوسری انجمنوں کی طرح ایک انجمن ہے۔ وہ ہر گز اِس قابل نہیں کہ انہیں اِس میں شامل رکھا جائے۔ اِسی طرح وہ ممبر جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایک کمیٹی بنا کر سلسلہ کی خدمت کا جزوی طور پر کچھ کام کریں گے وہ بھی اپنے کام کی اہمیت اور اُس کی عظمت سے بالکل نا واقف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی قوم کے نوجوانوں کی درستی ہی اصل کام ہؤا کرتا ہے اور یہی کام ہے جو قوموں کی ترقی کے راستہ میں مُمِد اور معاون ہؤا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر ابتدائے زمانہ میں ایمان لانے والے زیادہ تر نوجوان ہی ہوتے ہیں کیونکہ اﷲ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ بوڑھے بوڑھے اِس کے سلسلہ میں شامل ہوں اور چند روز خدمت کر کے وہ وفات پا جائیں اور سلسلہ کی تعلیم کو آئندہ نسلوں تک پہنچانے والے کوئی نہ رہیں۔ پس وہ بوڑھوں کی بجائے زیادہ تر نوجوانوں کو اپنے سلسلہ میں شامل کرتا ہے اور نوجوانوں کی جماعت کو ہی نبی کی تربیت میں رکھ کر درست کرتا ہے تاکہ وہ نبی کی وفات کے بعد ایک لمبے عرصہ تک اِس کے لائے ہوئے نور کو دُنیا میں پھیلا سکیں اور اِس کی تعلیم کی اشاعت اور ترویج میں حصّہ لے سکیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم جب مبعوث ہوئے تو آپ کے مُقرب ترین صحابہ قریباً سارے ہی ایسے تھے جو عمر میں آپ سے چھوٹے تھے۔ حضرت ابو بکرؓ آپ سے اڑھائی سال عمر میں چھوٹے تھے، حضرت عمر ؓ آپ سے ساڑھے آٹھ سال عمر میں چھوٹے تھے اور حضرت علیؓ آپ سے ۲۹ سال عمر میں چھوٹے تھے۔ اِسی طرح حضرت عثمان ؓ ، حضرت طلحہ ؓ اور حضرت زبیر ؓبھی ۲۰ سال سے لے کر ۲۵ سال تک آپ سے عمر میں چھوٹے تھے۔ یہ نوجوانوں کی جماعت تھی جو آپ پر ایمان لائی اور اِس جوانی کے ایمان کی وجہ سے ہی مسلمانوں کی جماعت کو یہ فائدہ پہنچا کہ چونکہ یہ ایک لمبے عرصہ تک رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی تربیت میں رہے تھے اور پھر ان کی عمریں چھوٹی تھیں اِس لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد بھی یہ لوگ ایک عرصۂ دراز تک لوگوں کوفیض پہنچاتے رہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم دعویٰ نبوت کے بعد ۲۳ سال کے قریب زندہ رہے ہیں۔ اب اگر ساٹھ سالہ بوڑھے ہی آپ پر ایمان لاتے اور نوجوان طبقہ اِس میں شامل نہ ہوتا تو نتیجہ یہ ہوتا کہ اِن میں سے اکثر مکّہ میں ہی وفات پا جاتے اور مدینہ کے لوگوں کے لئے نئی ٹریننگ شروع کرنی پڑتی کیونکہ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ پہنچتے تو پہلی تمام جماعت ختم ہو چکی ہوتی اور آپ کو ضرورت محسوس ہوتی کہ ایک اور جماعت تیار کریں جو اسلام کی باتوں کو سمجھے اور آپ کے نمونہ کو دیکھ کر وہی نمونہ دوسروں کو اختیار کرنے کی تلقین کرے۔ اگر ایسا ہوتا تو اسلام کے لئے کس قدر مُشکلات ہوتیں مگر اﷲ تعالیٰ نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اِس لئے ایسا انتظام فرمایا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم جب مکّہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو بجائے کسی نئی جماعت کی ٹریننگ کے وہی نوجوان جو مکّہ میں آپ پر ایمان لائے تھے اِس قابل ہو چکے تھے کہ فوجوں کی کمان اپنے ہاتھ میں لیں۔ چنانچہ گیارہ سال کا علیؓ مدینہ پہنچتے وقت چوبیس سال کا جوان تھا اور ۱۷ سال کا زبیر مدینہ جاتے وقت تیس سال کا جوان تھا۔ یہی حال باقی نوجوان صحابہ ؓ کا بھی تھا۔ کوئی ان میں سے تیس سال کا تھا، کوئی چونتیس سال کا تھا اور کوئی پینتیس سال کا تھا۔ پس بجائے اِس کے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو نئے سرے سے ایک جماعت بنانی پڑتی جب آپ مدینہ میں پہنچے اور کام وسیع ہو گیا تو آپ کو انہی نوجوانوں میں سے بہت سے مدرِّس مل گئے جنہوں نے مکّہ میں آپ سے سبق حاصل کیا تھا اور پھر اَور دس سال تک مدینہ میں بھی انہیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شاگردی میں رہنے کا موقع مل گیا اور جب آپ کی وفات کا وقت آیا تو اُس وقت چوبیس سال کا علیؓ چونتیس سال کا جوان تھا اور ابھی ایک لمبا عرصہ کا م کا اُن کے سامنے پڑا تھا۔ اِسی طرح وہ زبیر ؓ جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لاتے وقت ۱۷ سال کا تھا وہ اُس وقت چالیس سال کا جوان تھا تو یہ نوجوانوں کی ایک ایسی جماعت تھی کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں باوجود ۲۳ سال آپ کے ساتھ کام کرنے کے جب آپ فوت ہوئے تو ابھی اُن کے سامنے ان کی زندگی کے بیس تیس سال کا م کرنے کے لئے پڑے تھے اور پھر ہر ایک نے آپ کی وفات کے بعد اپنی اپنی عمر کے مطابق کام کیا۔ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اڑھائی سال کام کرنے کا موقع مِلا، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد ساڑھے آٹھ سال کام کرنے کا موقع مِلا اور حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد بیس سال کام کرنے کا موقع مِلا اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد چھبیس سال کام کرنے کا موقع مِلا۔ یہی حال طلحہ ؓ اور زبیر ؓکا بھی ہؤا۔ حتّٰی کہ بعض صحابہ اِس قسم کے بھی تھے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد پچاس پچاس سال تک زندہ رہے اور بعض ایسے بھی تھے گو اُن کی تعداد بہت کم ہے کہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد ستّر ، اسّی سال زندہ رہے۔ یہ نتیجہ تھا اِس بات کا کہ نوجوانوں کے دلوں میں اﷲ تعالیٰ نے ہدایت ڈالی اور وہی نوجوان درست ہو کر ایک لمبی عمر تک خدمتِ اسلام کرتے رہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم جب مدینہ پہنچے تو اُس وقت حضرت انسؓ کی عمر کل دس سال کی تھی۔ دس سال وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے اور جب بیس سال کے ہوئے تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم وفات پاگئے مگر خود حضرت انس ؓ کی وفات ایک سَو دس سال میں جاکر ہوئی۔۱؎ گویا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے نوّے سال بعد تک انہیں لوگوں کو اسلام کی تعلیم سکھانے کا موقع مِلا۔ بوجہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے وقت بہت نوجوان ہونے اور بہت لمبی عمر پانے کے یہ سب سے آخر میں فوت ہونے والے صحابی تھے۔ اب دیکھ لو اﷲ تعالیٰ نے اِس سلسلہ کو کہاں تک ممتد کر دیا مگر بہرحال اِس سلسلہ کا امتداد نوجوانوں کے ذریعہ ہی ہؤا۔ اگر ستّر اسّی سال کے بوڑھے ہی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لاتے تو وہ کہاں کام کر سکتے تھے۔ اوّل تو اُن کی حالتوں کا سُدھرنا ہی مُشکل تھا اور اگر وہ درست بھی ہو جاتے تو اُن میں سے اکثر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں ہی فوت ہو جاتے اور اگر چند لوگ زندہ بھی رہتے تو پانچ سات سال کے بعد وہ بھی ختم ہوجاتے اور جماعت میں کوئی ایسا شخص نہ رہتا جو اسلام کی تعلیم سے پوری طرح واقف و آگاہ ہوتا۔
پس ابتدائی زمانہ میں نوجوانوں کا اسلام میں داخل ہونا اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت تھی اور یہی وہ تدبیر تھی جس کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ نے دُشمن کا مقابلہ کیا اور اُس نے نوجوانوں کی ایک ایسی جماعت تیار کر دی جس نے آپ کی شاگردی میں رہ کر آپ سے تعلیم حاصل کی حتّٰی کہ بعض نے تو اپنا بچپن آپ کی نگرانی میں ہی گزارا۔ جیسے حضرت علی رضی اﷲ عنہ ہیں کہ وہ گیارہ سال کی عمر میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔ اِس طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد بھی ایک لمبے عرصہ تک آپ کا تربیت یافتہ گروہ دُنیا میں موجود رہا اور اِس نے اپنی تعلیم اور تربیت سے ایک اور نئی اور اعلیٰ درجہ کی جماعت پیدا کر دی جو ان کی وفات کے بعد اسلام کے جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں تھامے رہی۔
پس خدّام الاحمدیہ کا کام کوئی معمولی کام نہیں۔ یہ نہایت ہی اہمیت رکھنے والا کام ہے اور درحقیقت خدّام الاحمدیہ میں داخل ہونا اور اِس کے مقررہ قواعد کے ماتحت کام کرنا ایک اسلامی فوج تیار کرنا ہے۔ مگر ہماری فوج وہ نہیں جس کے ہاتھوں میں بندوقیں یا تلواریں ہوں بلکہ ہماری فوج وہ ہے جس نے دلائل سے دُنیا پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔ ہماری تلواریں اور ہماری بندوقیں وہ دلائل ہیں جو احمدیت کی صداقت کے متعلق ہماری طرف سے پیش کئے جاتے ہیں، ہماری بندوقیں اور ہماری تلواریں وہ دعائیں ہیں جو ترقیٔ احمدیت کے متعلق ہم ہر وقت مانگتے رہتے ہیں اور ہماری بندوقیں اور ہماری تلواریں وہ اخلاقِ فاضلہ ہیں جو ہم سے صادر ہوتے ہیں۔
پس دلائل، مذہبی دُعائیں اور اخلاقِ فاضلہ یہی ہماری توپیں اور یہی ہماری تلواریں ہیں۔ اِنہی توپوں اور انہی تلواروں سے ہم نے دُنیا کے تمام ادیان کو فتح کر کے اسلام کا پرچم لہرانا اور اُن پر غلبہ وا قتدار حاصل کرنا ہے اور اگر نوجوانوں میں یہ مُہم جاری رہی تو ہم اﷲ تعالیٰ کے فضل سے بہت جلد ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی مسلّح فوج تیار کر لیں گے جس کے مقابلہ میں کوئی دُشمن نہیں ٹھہر سکے گا اور واقع میں اگر ہماری جماعت کے نوجوان مذہب کی تعلیم سے واقف ہو جائیں، اگر وہ اِن دلائل سے واقف ہو جائیں جو غیر مذاہب کے مقابلہ میں ہماری طرف سے پیش کئے جاتے ہیں اور اگر وہ دُعاؤں سے کام لیں تو دُنیا کا کون سا انسان ہے جو اِن کے مقابلہ میں ٹھہر سکتا ہو۔
بچپن سے مَیں نے مباحثات کے میدان میں قدم رکھا ہؤا ہے۔ گو مجھے اِس قسم کے مباحثات سے نفرت ہے جو مولوی کیا کرتے ہیں مگر دوسروں سے علمی تبادلۂ خیالات مَیں بچپن کے زمانہ سے کرتا چلا آرہا ہوں۔ پس اِس بارے میں میرا پینتیس سالہ تجربہ یہ ہے کہ مَیں نے آج تک دُنیا میں ایک انسان بھی ایسانہیں دیکھا جو کوئی ایسی بات پیش کر سکے جو قرآنی اور احمدی تعلیم کے مقابلہ میں معقول بھی قرار دی جاسکے۔ ہر مذہب کے پیروؤں سے میں نے باتیں کیں اور ہر قسم کے علوم رکھنے والوں سے میری گفتگوئیں ہوئیں مگر اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ایسا ہؤا کہ یا تو ان کے اپنے ساتھیوں نے اقرار کیا کہ ہمارے آدمی کو جواب نہیں آیا اور یا اُنہوں نے کہا کہ ہمارے آدمی نے تعصب اختیار کر لیا ہے۔ ورنہ آپ کے مقابلہ میں جو بات پیش کی جارہی ہے یہ کوئی معقول نہیں۔ دُنیا کا کوئی اعتراض ایسا نہیں جو قرآن مجید پر پڑتا ہو اور اِس کا کافی اور شافی جواب ہمارے پاس موجود نہ ہو یا اﷲ تعالیٰ خود ایسے موقعوں پر مجھے جواب سمجھا نہ دیتا ہو بلکہ مَیں نے دیکھا ہے بعض دفعہ اﷲ تعالیٰ ایسے سوالوں کے جواب بھی سمجھا دیتا ہے جو درحقیقت خارج از ضرورت ہوتے ہیں اور جنہیں پیش کرنا کوئی معقولیت نہیں ہوتی۔ دُنیا میں ایسی کئی باتیں ہوتی ہیں جن کا دریافت کرنا کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا۔ اب اگر کوئی شخص ایسا سوال کرے اور اس کا جواب نہ دیا جائے تو اِس میں کوئی حرج نہیں ہو گا۔ مثلاً اگر کوئی پوچھے کہ ظہر کی چار رکعتیں کیوں مقرر ہیں اور مغرب کی تین کیوں؟ اِسی طرح عشاء کی چار رکعتیں کیوں ہیں اور فجر کی دو کیوں؟ تو اِس بات کا جواب دینا ہمارے لئے کوئی ضروری نہیں۔ اگر ہم نماز پڑھنے والے کا خدا تعالیٰ سے تعلق ثابت کر سکتے ہیں، اگر ہم نماز کے متعلق یہ دلائل سے ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ روحانی ترقی کا صحیح ذریعہ ہے تو اس کے بعد کسی کا یہ کہنا کہ مغرب کی تین رکعتیں کیوں ہیں اور فجر کی دو کیوں یا ظہر، عصر اور عشاء کی فرض نماز کی چار چار رکعتیں کیوں ہیں ایک غیر ضروری سوال ہے۔ خدا تعالیٰ کی ان رکعتوں کے مقرر کرنے میں باریک درباریک حکمتیں ہیں جو ضروری نہیں کہ انسان کی سمجھ میں آسکیں اور اس کا ان حکمتوں کی دریافت کے پیچھے پڑنا نادانی ہے۔ اِس کا کام صرف یہ ہے کہ جب اِس پر یہ بات کھل گئی ہے کہ نماز پڑھنا خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور اِس کے نتیجے میں اﷲ تعالیٰ کا قُرب حاصل ہوتا ہے تو وہ نماز پڑھے۔ اُسے اِس سے کیا کہ تین رکعتیں کیوں ہیں اور چار کیوں؟
مَیں نے پہلے بھی ایک دفعہ بتایا تھا کہ ایک دفعہ میں باہر سفر میں تھا کہ میرے لئے ایک دوائی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ قریب ہی ہسپتال تھا ڈاکٹر حشمت اﷲ صاحب وہاں دوا لینے گئے۔ سِول سرجن صاحب جو اُس وقت ہسپتال میں موجود تھے اُنہوں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ انہیں ہسپتال میں لے آئیں۔ میری مدّت سے یہ خواہش ہے کہ اِنہیں دیکھوں۔ اِس طرح مَیں اپنی خواہش کو بھی پورا کر سکوں گا اور انہیں دیکھ کر کوئی نسخہ بھی تجویز کر دوں گا۔ چنانچہ مَیں گیا اور اُس نے دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب کو ایک نسخہ لکھوایا۔ اِس میں صرف تین دوائیں پڑتی تھیں۔ ایک ٹنکچر نکس وامیکا تھی، دوسرا سوڈا بائیکارب اور تیسری دوائی مجھے یاد نہیں رہی۔ اُس نے کہا یہ نسخہ ہے جو تیار کر کے انہیں استعمال کرایا جائے۔ پھر وہ ڈاکٹر حشمت اﷲ صاحب کی طرف مخاطب ہؤا اور ان سے کہنے لگا مَیں نے فلاں دوائی کے اتنے قطرے لکھے ہیں اور فلاں دوائی کی مقدار اتنے گرین(GRAIN) لکھی ہے۔ مَیں بوڑھا ہونے کو آگیا ہوں اور چند مہینوں میں ریٹائر ہونے والا ہوں مَیں نہیں بتا سکتا کہ ایک دوا کے اتنے قطروں میں کیا حکمت ہے اور دوسری دوا کے اتنے گرین (GRAIN) ہونے میں کیا حکمت ہے مگر یہ یاد رکھیئے کہ اگر آپ میرے نسخہ سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں تو قطروں اور گرینوں میں کوئی فرق نہ کیجئے۔ یہ نسبت اگر قائم رہے گی تو نسخہ فائدہ دے گا اور اگر آپ نے نسبت قائم نہ رکھی تو پھر مَیں اِس نسخہ کے مُفید ہونے کا ذمہ دار نہیں۔ آپ اگر پوچھیں کہ اِن دواؤں کی مختلف نسبتوں میں کیا حکمت ہے تو یہ مَیں بتا نہیں سکتا مگر میرا ہمیشہ کا تجربہ ہے کہ یہی نسبت اگر اِس نسخہ میں قائم رکھی جائے تو فائدہ ہوتا ہے ورنہ نہیں ہوتا۔ اب اِس نسخہ کی دواؤں کے اور اِن کی نسبت میں کوئی حکمت ضرور تھی اور اُس ڈاکٹر کا وسیع تجربہ یہی بتا رہا تھا کہ اگر اِس نسبت کو قائم رکھا جائے تو فائدہ ہوتا ہے اور اگر قائم نہ رکھا جائے تو فائدہ نہیں ہوتا مگر وہ بتا نہیں سکتا تھا کہ اِس میں کیا حکمت ہے اور اُس نے ڈاکٹر صاحب کو بار بار کہا کہ اِس نسخہ کے اجزاء کے اَوزان میں کمی بیشی نہ ہوکیونکہ اِسی نسبت سے ہزاروں لوگوں نے فائدہ اُٹھایا ہے اور اگر اِس نسبت کو قائم نہ رکھا جائے تو فائدہ نہیں ہوتا۔ اِسی طرح اﷲ تعالیٰ کی بعض باتوں کی حکمت انسانی سمجھ میں نہیں آتی مگر بہرحال جب ان باتوں کے فوائد ظاہر ہوں تو انسان حکمت معلوم کرنے کے جنون میں فائدہ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا ہی لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ تم نے کبھی کسی باپ کو نہیں دیکھا ہو گا جس کی اپنے بیٹے سے اِس لئے محبت کم ہو گئی ہو کہ اُسے معلوم نہیں اس کی تِلی کہاں ہے اور اس کا معدہ کہاں ہے اور اس کا جگر کہاں ہے اور اس کے پھیپھڑے کہاں ہیں؟ ہزاروں لاکھوں زمیندار ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ انسان کا دل کہاں ہوتا ہے اور اُس کا گردہ، جگر ، معدہ اور پھیپھڑے کہاں ہوتے ہیں؟ شاید تم میں سے کئی اپنے دل میں کہتے ہوں گے کہ یہ کونسی بڑی بات ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ دل کہاں ہوتا ہے اور جگر کہاں ہوتا ہے اور تلی کہاں ہوتی ہے اور معدہ کہاں ہوتا ہے؟ مگر مَیں تمہیں بتاؤں اگر تم کسی ڈاکٹر کے سامنے کہو کہ جگر یہاں ہوتا ہے اور معدہ یہاں تو وہ فوراً تمہیں بتا دے گا کہ تم غلط سمجھتے ہو۔ پھر اِن لوگوں کو جانے دو جو جانتے ہی نہیں کہ معدہ تلی، جگر، گردہ اور پھیپھڑے وغیرہ کہاں ہوتے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمیں اِن باتوں کا علم ہے مَیں نے دیکھا ہے اِن میں سے دس میں سے نو ہمیشہ انتڑیوں کی جگہ کو معدہ سمجھتے ہیں یعنی جو قولن کی بڑی انتڑی ہوتی ہے ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ ہمیشہ اُسی کو معدہ سمجھتا ہے اور دل میں یہ خیال کر کے خوش رہتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ڈاکٹری مَیں بھی جانتا ہوں وہ ہمیشہ انتڑیوں کی جگہ کو معدہ سمجھتا ہے اور ہاتھ لگا کر کہتا ہے کہ میرے معدے میں درد ہو رہا ہے حالانکہ وہ درد معدہ میں نہیں بلکہ انتڑی میں ہوتا ہے۔ تو تعلیم یافتہ طبقہ کو بھی صحیح طور پر اِن اعضاء کا علم نہیں ہوتا۔ کُجا یہ کہ غیر تعلیم یافتہ طبقہ کو اِن باتوں کا علم ہو مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ کیا تم نے کبھی دیکھا کہ اِس علم کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ کہہ دے کہ مَیں اس وقت تک اپنے بیٹے سے محبت نہیں کر سکتا جب تک اِس کا پیٹ چاک کر کے یہ دیکھ نہ لوں کہ اس کا معدہ کہاں ہے اور جگر کہاں ہے اور تلی کہاں ہے اور پھیپھڑے کہاں ہیں؟ پھر جب اپنے بیٹے کے متعلق انسان ایسی بحثوں میں نہیں پڑتا تو خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق وہ کیوں اپریشن کرنا چاہتا ہے اور کیوں یہ خیال کرتا ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق میرا فلاں فلاں سوال حل نہ ہو جائے اُس وقت تک میرا دل اِس سے محبت نہیں کر سکتا۔ اگر خداتعالیٰ کے بے شمار احسانات انسانوں پر ثابت ہو جائیں، اگر یہ واضح ہو جائے کہ انسان کو ہرلمحہ خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کی رضا کی ضرورت ہے، اگر اس کے قُرب کی راہیں انسان پر کھل جائیں، اگر عرفان اور محبتِ الٰہی کی ضرورت انسان پر واضح ہو جائے اور اگر یہ بات کھل جائے کہ ہر انسان اِس بات کا محتاج ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے تو پھر انسان کو اِس سے کیا کہ خدا ازلی ابدی کیونکر ہو گیا؟ وہ غیر محدود کس طرح ہو گیا؟ اُس نے نیست سے ہست کس طرح کر دیا؟ تم اِن باتوں کو چھوڑ دو کہ ان کا محبت الٰہی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ کسی انسان کی یہ طاقت ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے بے انتہاء اندرونی اَسرار کو معلوم کر سکے تو ہر بات کی حکمت سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ محبت کے لئے صرف اِس قدر معرفت ضروری ہے کہ انسان کو وہ محاسن اور خوبیاں معلوم ہو جائیں جو اس کے محبوب کے اندر ہوں۔ اُسے اِس بات کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ یہ بھی دیکھے کہ اِس کے محبوب کا جگر کہاں ہے اور معدہ اور گردے اور پھیپھڑے کہاں ہیں؟ مگر پھر بھی بعض دفعہ اﷲ تعالیٰ ایسی باتوں کی حکمتیں سمجھا دیتا ہے جن کی حکمتیں معلوم کرنے کی محبت اور معرفت کے لئے ضرورت نہیں ہوتی اور نہ اِن حکمتوں کا اِس سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔
تھوڑے ہی دن ہوئے ایک دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ مغرب کی فرض نماز کی تین رکعتیں کیوں مقرر ہیں اور اِن رکعتوں کی تعداد تین مقرر کرنے میں کیا حکمت ہے؟ مَیں چونکہ بعض خطبات اور خطوط وغیرہ میں نماز کی رکعتوں کی حکمت کے متعلق وقتاً فوقتاً بعض باتیں بیان کر چُکا ہوں اِس لئے مَیں نے انہیں کہا کہ بعض دوستوں کے خطوں کے جوابات اور خطبوں وغیرہ میں ایسی باتیں چھپ چکی ہیں آپ اگر معلوم کرنا چاہیں تو انہیں تلاش کر کے دیکھ لیں۔
وہ ایک دعوت کا موقع تھا جب یہ سوال میرے سامنے پیش ہؤا اور پھر اِس کے بعد اور باتیں شروع ہو گئیں اور اِس سوال کا خیال میرے ذہن سے بالکل جاتا رہا۔ اِس کے بعد ایک دن گزرا، پھر دوسرا دن گزرا اور پھر تیسرا دن شروع ہو گیا۔ تیسرے دن مغرب کی نماز کے بعدسُنتیں پڑھ کر مَیں تشہد میں بیٹھا تھا اور سلام پھیرنے کے قریب تھا کہ یکدم اﷲ تعالیٰ نے مغرب کی نماز کی تین رکعتیں مقرر کرنے کی ایک جدید حکمت میرے دل میں ڈال دی اور عین سلام پھیرنے کے قریب جس طرح بجلی کی رَو جسم میں سرایت کر جاتی ہے اُسی طرح وہ علم میرے دل پر نازل ہؤا اور وہ یہ تھا کہ نمازیں اﷲ تعالیٰ نے دو قسم کی بنائی ہیں۔ کچھ فرض نمازوں کا تو وہ حصّہ جو دن میں ادا کیا جاتا ہے اور کچھ فرض نمازوں کا وہ حصّہ ہے جو رات کے وقت ادا کیا جاتا ہے۔ کیونکہ دن اور رات کی نمازوں کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ بنی نوع انسان کو اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے کہ انہیں خوشی کی حالت میں بھی اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہئے اور مصیبتوں کے وقت میں بھی اس کی عبادت میں مشغول رہنا چاہئے۔ ترقی کے زمانہ میں بھی اس کی طرف جھکنا چاہئے اور تنزل کے زمانہ میں بھی اِس کے دروازہ پر گرا رہنا چاہئے تو اِس حکمت کے پیش نظر اﷲ تعالیٰ نے اپنی عبادت کو دو حصّوں میں منقسم کر دیا اور ایک حصّہ تو دن میں رکھا اور دوسرا حصّہ رات میں۔ اِس طرح پانچ نمازیں چوبیس گھنٹوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں اور تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد انسان کو نماز پڑھنی پڑتی ہے۔ دوسری طرف ہمیں اﷲ تعالیٰ کا یہ قانون نظر آتا ہے کہ وہ طاق چیزوں کو پسند کرتا ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ طاق چیزوں کو پسند کرتا ہے وہ خود بھی ایک ہے اور دوسری اشیاء کے متعلق بھی وہ یہی پسند کرتا ہے کہ وہ طاق ہوں۔۲؎ چنانچہ یہ حکمت ہمیں ہر جگہ نظر آتی ہے مگر یہ ایک الگ اور وسیع مضمون ہے جس کو اِس وقت بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تمام قانونِ قدرت میں اﷲ تعالیٰ نے طاق کو قائم رکھا ہے اور اس کے ہر قانون پر طاق حاوی ہے۔
قرآن کریم کے محاوروں اور سول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے محاوروں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سات کے عدد کو تکمیل کے ساتھ خاص طور پر تعلق ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے دُنیا کو سات دن میں بنایا۔اِسی طرح انسان کی روحانی ترقیات کے سات زمانے ہیں۔ پھر آسمانوں کے لئے بھی قرآن کریم میں سَبْعَ سَمٰوات ۳؎کے الفاظ آتے ہیں اور یہ طاق کا عدد ہے۔ تو طاق کا عدد اﷲ تعالیٰ کے حضور خاص حکمت رکھتا ہے اور اِس کا مظاہرہ ہم تمام قانونِ قدرت میں دیکھتے ہیں۔
اب اِس قانون کے مطابق اگر فرض نمازوں کی رکعات کو جمع کرو تو وہ طاق ہی بنتی ہیں۔ چنانچہ ظہر کی چار ،عصر کی چار، مغرب کی تین، عشاء کی چار اور فجر کی دو۔ کُل ۱۷ رکعات ہوتی ہیں اور اِس طرح فرض نماز کی رکعتوں میں بھی اﷲ تعالیٰ نے طاق کی نسبت کو قائم رکھا ہے۔
پس چونکہ اﷲ تعالیٰ کے تمام کاموں میں طاق مدّنظر رکھا گیا ہے اِس لئے پانچ نمازوں میں سے ایک فرض نماز کی رکعتیں تین کر دی گئیں تاکہ طاق کے متعلق اﷲ تعالیٰ کا جو قانون ہے وہ نمازوں میں بھی آجائے۔ اِسی طرح وتروں کی نماز کو طاق اِس لئے بنایا گیا ہے کہ نوافل بھی طاق ہو جائیںاور اِسی وجہ سے وتروں کو معمولی سنتوں سے زیادہ وقعت دے دی گئی ہے تاکہ مسلمان انہیں ضرور ادا کرے اور اِس کے نوافل طاق ہو جایا کریں اور یہی وجہ ہے کہ وتروں کے سوا اور کوئی نفل طاق نہیں ہوتا۔ تا دو طاق مل کر جفت نہ ہو جائیں اور یہی حکمت ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اگر کبھی عشاء کے وقت وتر پڑھ لیتے تو تہجد کے وقت ایک رکعت پڑھ کر انہیں جفت کر دیتے ۴؎تاکہ تہجد کے آخر میں آپ وتر پڑھ سکیں اور اِن کے پڑھنے سے نوافل جفت نہ ہو جائیں۔
اب اِس پر سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ مغرب کی نماز کی ہی تین رکعتیں کیوں مقرر کی گئی ہیں؟ کسی اور نماز کی تین رکعتیں کیوں مقرر نہیں کر دی گئیں؟ تو اﷲ تعالیٰ نے مجھے اِس سوال کا بھی جواب سمجھایا اور وہ یہ کہ دن کی نمازوں کی رکعات ہیں آٹھ اور رات کی فرض نمازوں کی رکعات ہیں نَو۔ چنانچہ دیکھ لو! مغرب کی تین، عشاء کی چار اور فجر کی دو کُل ۹ رکعت بنتی ہیں۔ چونکہ مغرب کی نماز سورج ڈوبنے کے بعد پڑھی جاتی ہے اور فجر کی نماز سورج نکلنے سے پہلے پڑھی جاتی ہے اِس لئے یہ دونوں نمازیں بھی دراصل رات کی ہی نمازیں ہیں اور ان نمازوں کی ایک رکعت زیادہ کرنے میں ایک حکمت یہ ہے کہ انسان کو تکلیفوں اور مصیبتوں کے وقت میں اﷲ تعالیٰ کی طرف زیادہ جھکنا چاہئے تاکہ وہ اِس کے فضلوں کو جذب کر سکے۔ اِسی لئے دن کے وقت اﷲ تعالیٰ نے آٹھ رکعات نماز کی رکھیں اور رات کے وقت نَو۔ باقی رہا مقام کا سوال کہ اﷲ تعالیٰ نے یہ ایک رکعت کی زیادتی مغرب میں کیوں کی ہے؟ کسی اور نماز میں کیوں نہیں کر دی؟ تو اِس کا جواب بھی اﷲ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا اور وہ یہ کہ صبح کے وقت اﷲ تعالیٰ کے فرشتے خاص طور پر نازل ہوتے ہیں کیونکہ وہ اﷲ تعالیٰ کو بندوں کی تلاوتِ قرآن کی خبر دیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جب انسان سو کر اُٹھتا ہے تو اُس وقت اُس کی زندگی کا ایک نیا دَور شروع ہوتا ہے اور نئے دَور کے ابتداء کے وقت ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنے اندر بُلند ارادے پیدا کرے اور کہے کہ مَیں یوں کروں گا، مَیں ووں کروں گا اور یہ تمام باتیں چونکہ قرآن کریم میں موجود ہیں اِس لئے جب سو کر اُٹھنے کے بعد انسان کی زندگی کا نیا دَور شروع ہوتا ہے اُسے اِس کے روحانی پروگرام کی طرف توجہ دلانے کے لئے اسلام نے اس وقت قرآن کریم کی لمبی تلاوت مقرر کر دی اور حکم دیا کہ فجر کی نماز میں قرآن کریم کی لمبی تلاوت کی جائے اور چونکہ خدا تعالیٰ کا معاملہ احکام میں یُسر کا ہے عسر کا نہیں اِس لئے فجر کی نماز اس نے باقی تمام نمازوں سے چھوٹی کر دی تاکہ لمبی تلاوت کی جاسکے۔ پس فجر کی نماز کو تو اس نے چھوٹا کیا لیکن تلاوتِ قرآن کو لمبا کر دیا۔ کیونکہ اس وقت اِس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ قرآن کریم کے مضامین بار بار سامنے آئیں۔ پس فجر کی نماز کو چھوٹا کرنا ضروری تھا تا تلاوت کو لمباکیا جاسکے۔ یہ نماز درحقیقت عصر کی نماز کے مقابل پر ہے اور ظاہر میں اِس کے عدد کو عصر کے ساتھ اِس طرح بھی مشابہت ہوجاتی ہے کہ عصر کے ساتھ کوئی سُنت مؤکّدہ نہیں ہیں اور صبح کے ساتھ دو سنتیں ایسی ہیں جو عام مؤکّدہ ہیں۔ اِس طرح صبح کی رکعتیں بھی چار ہو جاتی ہیں اور عصر کی بھی چار ہوتی ہیں۔ اس کے مقابل پر عشاء کی نماز ظہر کے مقابل پر ہے اور اِس میں دو سنتیں اور تین وتر لازمی ہیں۔ وتر کی رکعت نکال دی جائے تو چار نوافل ہو جاتے ہیں۔ یہ ظہر کی دو دو سنتیں فرض کر کے ظہر کی سُنتوں کے برابر ہو جاتی ہیں لیکن اگر چھ یا آٹھ سنتیں قرار دی جائیں تو پھر یہ کم رہ جاتی ہیں لیکن جب دیکھا جائے کہ اِس کے بعد تہجد پر زور دیا گیا ہے تو ظہر کے نوافل کی کمی کا ازالہ اِس سے ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں وتروں کے بعد بھی دو نفل رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خاص تعہّد سے بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔۵؎ اِس سے بھی ظہر اور عشاء کی رکعات برابر ہو جاتی ہیں مگر یہ ایک وسیع مضمون ہے۔ مَیں نے اشارۃً اس کی طرف توجہ دلائی ہے۔
غرض عشاء کی نماز جو عصر کی نماز کے مقابلہ میں تھی اِس میں کسی زیادتی کی گنجائش نہیں تھی۔ صرف مغرب کی نماز ہی رہتی تھی جسے طاق بنانے کے لئے اِس میں ایک رکعت کی زیادتی کی جاسکتی تھی۔ اِسی حکمت کے ماتحت خدا تعالیٰ نے مغرب کی نماز کی تین رکعتیں مقرر کر دیں کیونکہ کسی نماز کا تین رکعت پر مشتمل ہونا نمازوں کے طاق بنانے کے لئے ضروری تھا اور اِدھر ضروری تھا کہ یہ زیادتی رات کی نمازوں میں کی جائے۔ یہ جتانے کے لئے کہ مصیبت کے وقت انسان کو اﷲ تعالیٰ کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے مگر رات کی نمازوں میں سے فجر میں یہ زیادتی نہیں کی جاسکتی تھی کیونکہ وہاں لمبی تلاوت قرآن کا حکم دے دیا گیا تھا۔ عشاء کی نماز میں بھی یہ زیادتی نہیں ہو سکتی تھی صرف مغرب کی نماز رہتی تھی۔ سو خُدا نے مغرب کی نماز میں مسلمانوں کو تین رکعت پڑھنے کا حکم دے دیا۔ اب بظاہر اِس حکمت کے بتانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ ایسا معاملہ ہے جس پر اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا کہنا چاہئے نہ یہ کہ تفصیلات میں پڑ کر انسان باریک در باریک حکمتیں معلوم کرنے کی کوشش کرے اور اگر ایسی ہی باتوں میں انسان مصروف ہو جائے تو کہہ سکتا ہے کہ پہلے رکوع کیوں رکھا اور سجدہ بعد میں کیوں رکھا؟کیوں نہ سجدہ پہلے رکھ دیا اور رکوع بعد میں؟ اور گو اِس میں بھی حکمتیں ہیں مگر تمہارا کا م یہ نہیں کہ تم اِن باتوں میں اپنا وقت ضائع کرو۔ تمہیں جب رکوع کرنے کو کہا جاتا ہے تو تم رکوع کرو، جب سجدہ کرنے کو کہا جاتا ہے تو سجدہ کرو۔ تم پر جب نماز کی حقیقت منکشف ہو چکی ہے تو تمہارا یہ کام ہے کہ جس طرح خدا نے نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے اِسی طرح تم نمازیں پڑھو نہ یہ کہ چھوٹی چھوٹی بات کی حکمت دریافت کرنے کے پیچھے لگ جاؤ۔ تو ضروری نہیں ہوتا کہ اِن باتوں کی حکمتیں سمجھائی جائیں ۔ مگر بعض دفعہ اﷲ تعالیٰ سمجھا بھی دیتا ہے اور اِس طرح قرآنی علوم کھولتا رہتا ہے۔
بہرحال مباحثات کے باب میں میرا وسیع تجربہ یہ ہے کہ قرآنی علوم ایسے ہیں کہ ان کا مقابلہ کوئی دُشمن نہیں کرسکتا۔ اگر ہماری جماعت کے نوجوان اِن قرآنی علوم کو سیکھ لیں تو جو دلائل اور براہین کی لڑائی ہے اس میں کوئی بڑے سے بڑا لشکر بھی ان کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا۔دوسری چیز عمل ہے۔ اگر نوجوان اخلاقِ فاضلہ سیکھ لیں اور پھر عملی طور پر بھی ان کا قدم ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتا چلا جائے تو دُنیا کیا بڑے بڑے دینوں پر بھی وہ غالب آسکتے ہیں۔ تیسری چیز سامانوں کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کامیابی سے محروم رہ جاتا ہے۔ اِس کے لئے مَیں نے دُعا کا طریق بتایا ہے تاکہ اﷲ تعالیٰ کے فضل نازل ہوں اور ہمارے سامانوں کی کمی کو پورا کر دیں اور یقینا اگر ہماری جماعت کے نوجوان نہ صرف دلائل سے کام لینے والے ہوں ، نہ صرف اخلاقِ فاضلہ کے مالک ہوں بلکہ دُعاؤں سے بھی کام لینے کے عادی ہوں تو ان کے مقابلہ میں کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی۔
مَیں نے خدّام الاحمدیہ کے سامنے ایک پروگرام پیش کر دیا ہے اور مَیں انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اِن باتوں کو یاد رکھیں جو مَیں نے بیان کی ہیں اور ہمیشہ اپنے آپ کو قومی اور مُلکی خدمات کے لئے تیار رکھیں۔ دُنیا میں قریب ترین عرصہ میں عظیم الشان تغیرات رونما ہونے والے ہیں اور درحقیقت تحریک جدید ایک ہنگامی چیز کے طور پر میرے ذہن میں آئی تھی اور جب مَیں نے اِس تحریک کا اعلان کیا ہے اُس وقت خود مجھے بھی اِس تحریک کی کئی حکمتوں کا علم نہیں تھا۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ ایک نیّت اور ارادہ کے ساتھ مَیں نے یہ سکیم جماعت کے سامنے پیش کی تھی کیونکہ واقعہ یہ تھا کہ جماعت کی اُن دنوں حکومت کے بعض افسروں کی طرف سے شدید ہتک کی گئی تھی اور سلسلہ کا وقار خطرے میں پڑ گیا تھا۔ پس مَیں نے چاہا کہ جماعت کو اِس خطرے سے بچاؤں مگر بعض اوقات اﷲ تعالیٰ کی رحمت انسانی قلب پر تصرف کرتی اور روح القدس اُس کے تمام ارادوں اور کاموں پر حاوی ہو جاتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں میری زندگی میں بھی یہ ایسا ہی واقعہ تھا۔ جبکہ روح القدس میرے دل پر اُترا اور وہ میرے دماغ پر ایسا حاوی ہو گیا کہ مجھے یوں محسوس ہؤا گویا اس نے مجھے ڈھانک لیا ہے اور ایک نئی سکیم، ایک دُنیا میں تغیر پیدا کر دینے والی سکیم میرے دل میں نازل کردی اَور مَیں دیکھتا ہوں کہ میری تحریک جدید کے اعلان سے پہلے کی زندگی اور بعد کی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ قرآنی نکتے مجھ پر پہلے بھی کھلتے تھے اور اب بھی کھُلتے ہیں مگر پہلے کوئی معیّن سکیم میرے سامنے نہیں تھی جس کے قدم قدم کے نتیجہ سے مَیں واقف ہوں اور مَیں کہہ سکوں کہ اِس اِس رنگ میں ہماری جماعت ترقی کرے گی مگر اب میری حالت ایسی ہی ہے کہ جس طرح انجینئر ایک عمارت بناتا اور اسے یہ علم ہوتا ہے کہ یہ عمارت کب ختم ہو گی، اِس میں کہاں کہاں طاقچے رکھے جائیں گے؟ کتنی کھڑکیاں ہوں گی، کتنے دروازے ہوں گے؟ کتنی اونچائی پر چھت پڑے گی؟ اِسی طرح دنیا کی اسلامی فتح کی منزلیں اپنی بہت سی تفاصیل اور مُشکلات کے ساتھ میرے سامنے ہیں۔ دُشمنوں کی بہت سی تدبیریں میرے سامنے بے نقاب ہیں۔ اِس کی کوششوں کا مجھے علم ہے اور یہ تمام امور ایک وسیع تفصیل کے ساتھ میرے آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ تب مَیں نے سمجھا کہ یہ واقعہ اور فساد خدا تعالیٰ کی خاص حکمت نے کھڑا کیا تھا تا وہ ہماری نظروں کو اُس عظیم الشان مقصد کی طرف پھرا دے جس کے لئے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا۔ پس پہلے میں صرف اِن باتوں پر ایمان رکھتا تھا مگر اب مَیں صرف ایمان ہی نہیں رکھتا بلکہ مَیں تمام باتوں کو دیکھ رہا ہوں۔ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ کو کس رنگ میں نقصان پہنچایا جائے گا؟ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ سلسلہ پر کیا کیا حملہ کیا جائے گا؟ اور مَیں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری طرف سے ان حملوں کا کیا جواب دیا جائے گا۔ ایک ایک چیز کا اجمالی علم میرے ذہن میں موجود ہے اور اِسی کا ایک حصّہ خدّام الاحمدیہ ہیں اور درحقیقت یہ روحانی ٹریننگ اور روحانی تعلیم و تربیت ہے اُس فوج کی جس فوج نے احمدیت کے دُشمنوں سے مقابلہ میں جنگ کرنی ہے، جس نے احمدیت کے جھنڈے کو فتح اور کامیابی کے ساتھ دُشمن کے مقام پر گاڑنا ہے۔ بے شک وہ لوگ جو ان باتوں سے واقف نہیں وہ میری اِن باتوں کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ہر شخص قبل از وقت اِن باتوں کو نہیں سمجھ سکتا۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی دین ہے جو وہ اپنے کسی بندے کو دیتا ہے۔ مَیں خود بھی اس وقت تک اِن باتوں کو نہیں سمجھا تھا جب تک اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر ان امور کا انکشاف نہ کیا۔ پس تم اِن باتوں کو نہیں سمجھ سکتے اور بیشک تم کہہ سکتے ہو کہ ہمیں تو کوئی بات نظر نہیں آتی لیکن مجھے تمام باتیں نظر آرہی ہیں۔ آج نوجوانوں کی ٹریننگ اور ان کی تربیت کا زمانہ ہے اَور ٹریننگ کا زمانہ خاموشی کا زمانہ ہوتا ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو رہا مگر جب قوم تربیت پاکر عمل کے میدان میں نکل کھڑی ہوتی ہے تو دُنیا انجام دیکھنے لگ جاتی ہے۔ درحقیقت ایک ایسی زندہ قوم جو ایک ہاتھ کے اُٹھنے پر اُٹھے اورایک ہاتھ کے گرنے پر بیٹھ جائے دُنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا کرتی ہے اور یہ چیز ہماری جماعت میں ابھی پیدا نہیں ہوئی۔ ہماری جماعت میں قربانیوں کا مادہ بہت کچھ ہے مگر ابھی یہ جذبہ اُن کے اندر اپنے کمال کو نہیں پہنچا کہ جونہی ان کے کانوں میں خلیفۂ وقت کی طرف سے کوئی آواز آئے اُس وقت جماعت کو یہ محسوس نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہو کہ فرشتوں نے ان کو اُٹھا لیا ہے اور صورِ اسرافیل اُن کے سامنے پھُونکا جا رہا ہے۔ جب آواز آئے کہ بیٹھو تو اُس وقت انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ کوئی انسان بول رہا ہے بلکہ یوں محسوس ہو کہ فرشتوں کا تصرف ان پر ہو رہا ہے اور وہ ایسی سواریاں ہیں جن پر فرشتے سوار ہیں۔ جب وہ کہے بیٹھ جاؤ تو سب بیٹھ جائیں، جب کہے کھڑے ہو جاؤ تو سب کھڑے ہو جائیں۔ جس دن یہ روح ہماری جماعت میں پیدا ہو جائے گی اُس دن جس طرح بازچڑیا پر حملہ کرتا اور اُسے توڑمروڑ کر رکھ دیتا ہے اِسی طرح احمدیت اپنے شکار پر گرے گی اور تمام دنیا کے ممالک چڑیا کی طرح اِس کے پنجہ میں آجائیں گے اور دُنیا میں اِسلام کا پرچم پھر نئے سرے سے لہرانے لگ جائے گا۔‘‘(الفضل ۷؍اپریل ۱۹۳۹ئ)
۱؎ اسد الغابۃ جلد ۱ صفحہ ۱۲۸ مطبوعہ ریاض ۱۳۸۴ ھ
۲؎ بخاری کتاب الدعوات باب ﷲ مائۃ اسم
۳؎ البقرۃ : ۳۰
۴؎ مصنَّف ابن ابی شیبۃ کتاب الصلٰوۃ باب فی الرجل یوتِرُ ثم یقوم بعد ذٰلک۔
کے مطابق روایات سے حضرت عثمان ؓ ، حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ اور حضرت سعد بن مالک ؓ کے متعلق
ثابت ہے کہ وہ اسی طرح کیا کرتے تھے۔
۵؎ السنن الکبری بیہقی کتاب الصلٰوۃ باب فی الرکعتین بعدالوتر۔
۱۱
مومن کو ہمیشہ جھوٹے وعدوں سے بچنا چاہئے کہ
یہ قوم کی تباہی کا موجب ہوتے ہیں
(فرمودہ ۷؍اپریل۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’جسمانی نشوونما اور روحانی نشوونما میں ایک عجیب فرق نظر آتا ہے جس کی طرف بہت ہی کم لوگوں نے توجّہ کی ہے اور وہ یہ ہے کہ جسمانی نشوونما کی ابتدا میں انسان کا ذہن زیادہ تر اپنی طاقت اور قوت کی طرف جاتا ہے اور جوں جوں انسانی جسم میں طاقت اور قوت پیدا ہوتی ہے اور وہ ہوش سنبھالتا ہے اُس کی نظر نہایت ہی محدود ہوتی چلی جاتی ہے یا محدود ہوتی ہے اور وہ اپنی طاقتوں اور قوتوں پر ایسا گھمنڈ رکھتا ہے کہ خیال کرتا ہے دُنیا کا ہر کام میری ہی مرضی اور منشاء کے ماتحت ہوتا ہے۔ پھر جب انسانی جسم کی نشوونما کا وقت ختم ہونے کو ہوتا ہے۔ اضمحلال اور کمزوری پیدا ہونے لگتی ہے اس کی نظر اپنے سوا دوسری چیزوں پر بھی پڑنے لگتی ہے۔ اس کے دماغ میں ایک تبدیلی پیدا ہوتی ہے جسے لوگ تجربہ کہتے ہیں اِس تجربہ کے ماتحت آہستہ آہستہ اسے دوسری قوتوں اور طاقتوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے دُنیا میں تغیرات صرف میرے یا میرے دوستوں کے ذریعہ ہی نہیں ہو رہے بلکہ اِس کے اسباب اور بھی ہیں جو بعض دفعہ نظر بھی نہیں آتے مگر دُنیا کے تغیرات پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں اور آخر جب آہستہ آہستہ انسان کی طاقتیں بالکل ہی کمزور ہو جاتی ہیں اور اُس کا جسم ڈھل جاتا ہے وہ کمزور ہو جاتا ہے، بے طاقت ہو جاتا ہے تو پھر اُس کی نگاہ دُنیوی اسباب سے ہٹ کر اُن باریک اسباب کی طرف متوجہ ہوتی ہے جو کہ اُس کی زندگی میں تغیر پیدا کرنے والے ہوتے ہیں یا کم سے کم وہ خیال کرتا ہے کہ اُن تغیرات میں اِن کا دخل ہے بلکہ بعض اوقات تو وہ سمجھنے لگتا ہے کہ دُنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس میں انسان کا کوئی دخل ہی نہیں بلکہ ایک بالا ہستی سب کچھ انسان سے کرا رہی ہے۔ اِس کے مقابلہ میں رُوحانی نشوونما میں ایک عجیب فرق ہے۔ وہ قومیں جن کے اندر روحانیت ہوتی ہے اور جو دُنیا کی روحانیت کا سبق دینے کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کھڑی کی جاتی ہیں اُن کے اندر جوانی میں وہ چیز پیدا ہوتی ہے جو جسمانی نشوونما میں بڑھاپے میں ہوتی ہے۔ ان کے اندر انکسار بڑھا ہؤا ہوتا ہے اور اُن کی نگاہیں ہمیشہ بالا ہستی کی طرف اُٹھتی ہیں اور اُن کو یقین ہوتا ہے کہ وہی اِس کارخانے کو چلانے والا ہے۔ جوانی کا جوش ان کے اندر خود رائی اور خود پسندی پیدا کرنے کے بجائے خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کی طرف توجہ پیداکرتاہے اور یہ ایسا نمایاں فرق ہے جو دُنیا میں ہر جگہ اور ہر زمانہ میں ہمیں نظر آتا ہے۔ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ جسمانی نشوونما میں جوانی میں انسان کی نگاہیں کس طرح اپنی جسمانی طاقتوں تک ہی محدود ہوتی ہیں اور پھر بڑھاپے کے ساتھ کس طرح دماغ میں وہ تجربہ پیدا ہوتا ہے جو بیرونی اثرات اور تاثیروں کی طرف اسے متوجہ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ انسان کی طاقت کچھ بھی نہیں۔ تم روزانہ نوجوانوں اور بوڑھوں کو باتیں کرتے سُنتے ہو ۔ایک فریق کہتا ہے کہ مَیں یوں ماروں گا، کوٹوں گا، یہ کردوں گا وہ کر دوں گا مگر دوسرا کہتا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے دُنیا میں مل کر رہنا چاہئے، اِتنا جُوش نہیں دکھانا چاہئے۔ ہر جگہ ، ہر گھر، ہر خاندان، ہر حکومت اور ہر جتھے میں یہ باتیں نظر آتی ہیں۔ جوانوں کے دل میں یہ خیالات ہوتے ہیں کہ دُنیا میں کوئی ہمارے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا۔ بسا اوقات مقابل کی طاقتوں کو وہ حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں حالانکہ انہیں حقیقی طاقت حاصل نہیں ہوتی۔ مجرم کس لئے حکومتوں سے ٹکراتے ہیں؟ اِسی لئے کہ ان کی نگاہیں اپنے سے اوپر جاتی ہی نہیں نہ وہ پولیس کی پرواہ کرتے ہیں، نہ مجسٹریٹ کی اور نہ حکومت کے دوسرے اداروں اور اُس کی فوجوں کی۔ وہ جُوش میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا مقابلہ کون کر سکتا ہے؟ ایک جنون کی حالت اُن کے اندر پیدا ہوتی ہے ۔ اُن کے اندر جب جوانی کے آثار پیدا ہوتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری طاقت ساری دُنیا کو تباہ کر دے گی لیکن جب جوانی کی یہ حالت نہیں رہتی تو ہوش آتا ہے اور وہ پچھتاتے ہیں۔ لوگ آپس میں لڑتے ہیں ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں۔ کوئی روکتا ہے تو کہتے ہیں کہ نہیں ہمیں چھوڑ دو ہم مریں گے یا ماردیں گے لیکن جب کوئی قتل ہو جاتا ہے اور مقدمات بنتے ہیں تو پھر وکیلوں کے آگے ناک رگڑتے ہیں، جائدادیں فروخت کر کے مقدمات کی پیروی پر لگا دیتے ہیں۔ جس وقت کوئی ایسا شخص لڑنے کے لئے جارہا ہوتا ہے اُس وقت اُس کی دماغی کیفیت اَور ہوتی ہے مگر جب پکڑا جاتا ہے اُس وقت اَور ہوتی ہے۔ لڑائی کے وقت تو وہ کہتا ہے کہ مَیں کسی کی پروا نہیں کرتا۔ وہ کس قدر غصّہ کے ساتھ ہر نصیحت کو ٹھکرا دیتا ہے لیکن جب پکڑا جاتا اور حوالات میں بند ہوتا ہے تو پھر بے انتہا مِنّت سماجت کرتا اور پوچھتا ہے کیوں وکیل صاحب مَیں بچ جاؤں گا؟ وہ رشتہ داروں کی مِنتیں اور خوشامدیں کرتا ہے اور اُن سے کہتا ہے کہ جھوٹے گواہ بناؤ اور جس طرح بھی ہو سکے مجھے بچاؤ۔ دیکھو! اِن دونوں کیفیات میں کتنا فرق ہے۔
تو جسمانی نشوونما میں بڑھاپے کے وقت جو کیفیت ہوتی ہے وہ روحانی نشوونمامیں جوانی کی حالت میں ہوتی ہے۔ روحانی جماعت پر جب جوانی کی حالت ہو اُس وقت اس میں زیادہ انکسار ہوتا ہے اور جب اس میں اضمحلال پیدا ہو اُس وقت اس کے اندر خود پسندی اور خود رائی پیدا ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت کو دیکھ لو، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جماعت کو دیکھ لو، رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہ کو دیکھ لو، سب کی یہی حالت تھی۔ جب وہ اپنے انبیاء کی صحبت میں اپنے اندر وہ قوتیں پیدا کر رہے تھے جن سے وہ دنیاکو کھا جانے والے تھے اُس وقت ان میں غیظ و غضب کے بجائے انکسار اور فروتنی پائی جاتی تھی جو جسمانی نشوونما کے وقت میں نہیں پائی جاتی۔ وہ خدا تعالیٰ سے ڈرتے تھے اورخیال کرتے تھے کہ نہ معلوم انجام کیا ہونے والا ہے۔ انہیں خدا تعالیٰ کے وعدوں پر اعتبار تھا مگر یہ ان میں تکبر اور بڑائی پیدا نہ کرتا تھابلکہ اِس کی وجہ سے اُن کی قربانیاں بڑھتی تھیں، اُن کی زبانیں زیادہ دعوے نہیں کرتی تھیں اور اُن کے دل نڈر نہیں تھے بلکہ خدا تعالیٰ کے خوف سے بھرے ہوئے تھے اور یہی ثبوت تھا اِس بات کا کہ وہ خدا تعالیٰ کی جماعت تھے۔ جسمانی جوانی کے وقت انسان دوسری طاقتوں کو بھُول جاتاہے اور متکبر اور خود پسند ہو جاتا ہے لیکن روحانی طاقت جتنی بڑھتی ہے اُتنا ہی زیادہ انکسار بڑھتا ہے۔ روحانیت کی جوانی عرفان سے وابستہ ہوتی ہے اِس لئے وہ انسان کے اندر انکسار کو بڑھاتی ہے۔ اِس کا تجربہ جوانی میں بڑھتا ہے مگر جسمانی نشوونما کا تجربہ بڑھاپے میں بڑھتا ہے۔ روحانیت میں وہ کیفیتیں جوانی میں پیدا ہوتی ہیں جو جسمانیت میں بڑھاپے میں ہوتی ہیں۔ جسمانی طور پر جو شخص جوان ہو اُس کے اندر خود پسندی اور تکبر پیدا ہوتا ہے لیکن روحانی طور پر جو جماعت بوڑھی ہو جائے اُس کے اندر یہ کیفیتیں پیدا ہوتی ہیں۔ جسمانی طور پر جو کمزور ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ دُنیا میں اور اثرات بھی ہیں جو دُنیا میں کام کر رہے ہیں۔ کوئی بالا طاقت ہے جو کام کر رہی ہے اور دُنیا میں جو نتائج پیدا ہو رہے ہیں وہ صرف میرے کاموں سے ہی نہیں اِس میں میرے دوستوں بلکہ دُشمنوں کا بھی دخل ہے۔ اِس میں اتفاقات کا بھی خواہ وہ صحیح ہوں یا غلط دخل ہے، سورج اور چاند کے اثرات کا بھی دخل ہے، ماحول کا بھی اثر ہے، حکومت کا بھی اثر ہے لیکن جوان اِن سب باتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جو مَیں چاہوں گا وہی ہوجائے گا مگر روحانی سلسلوں کی حالت اِس سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ جوانی کے وقت میں ان کی نظریں وسیع ہوتی ہیں۔ خدا تعالیٰ پر ان کا توکّل بڑھا ہؤا ہوتا ہے، انہیں اپنی قوتوں کا صحیح اندازہ ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری کوششوں سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ دُنیا میں جو تغیر پیدا ہوسکتے ہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہو سکتے ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کی حالت ایسی انکساری کی تھی کہ اُن کے نفس بالکل مرے ہوئے تھے لیکن جب یزید کے وقت میں ان کے اندر اضمحلال کے اثرات پیدا ہوئے تو اُن کے مُنہ سے ایسے ایسے اقوال سُننے میں آئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی روحانی جماعتوں میں بھی ایسے دَورے ہوتے ہیں مگر وہ عارضی ہوتے ہیں۔ مکّہ کے لوگ اسلام میں نئے نئے داخل ہوئے تھے اِس لئے اُن پر ابھی روحانی لحاظ سے جوانی نہ آئی تھی اور وہ اِس سے کورے تھے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو جنگ پیش آگئی اُنہوں نے کہا کہ ہم بھی اِس میں شریک ہوں گے اور بتائیں گے کہ ہم کیسے بہادر ہیں لیکن جب جنگ شروع ہوئی اور دُشمن نے دو طرف سے تیر برسانے شروع کئے تو وہ سرپر پاؤں رکھ کر ایسے بھاگے کہ اُن کو پتہ ہی نہ رہا کہ کدھر جا رہے ہیں؟ اُن کے بھاگنے کی وجہ سے صحابہ کے اونٹ اور گھوڑے بھی ڈر کر ایسے بھاگے کہ بے قابو ہو گئے اور اِس لئے صحابہ بھی بغیر ارادہ کے بھاگنے لگے۔ ۱؎ یہ نظارہ اﷲ تعالیٰ نے اِس لئے دکھایا کہ تا بتائے کہ روحانی جوانی اور بڑھاپے میں کیا فرق ہے؟ نئے داخل ہونے والوں میں بَڑ مارنے کی عادت تھی مگر صحابہ میں یہ بات نہ تھی۔ مُنہ کی بکواس اُن لوگوں میں ہوتی ہے جن میں روحانی جوانی نہیں ہوتی۔ ایسے ہی لوگوں میں اپنی طاقت پر گھمنڈ اور غرور ہوتا ہے۔
پس ہماری جماعت میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اِس معیار کے مطابق اپنی ایمانی حالت کا اندازہ کر سکتا ہے جو دیکھے کہ اس کے اندر غرور اور تکبّر ہے، وہ سمجھ لے کہ اُس کی روحانیت کمزور ہے اور اُس پر بڑھاپے کی کیفیت ہے۔ بڑھاپے میں عقل خراب ہو جاتی ہے، جسمانیت میں بعض اوقات ایسے بوڑھے لوگ بھی جن کے ہاتھ رعشہ سے کانپ رہے ہوتے ہیں، طاقت بالکل جواب دے چکی ہوتی ہے مگر غصّہ آتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم بتا دیں گے، ہڈیاں چبالیں گے۔ حالانکہ ان سے کھڑا بھی نہیں ہؤا جاتا ۔ یہ جنون کی حالت ہے جس کے اندر یہ حالت پیدا ہو وہ سمجھ لے کہ اُس کے اندر روحانی زندگی باقی نہیں۔جس کے اندر زندگی موجود ہو وہ کام کیا کرتا ہے، زبانی دعوے نہیں کیا کرتا۔ اس کے اندر انکسار ہوتا ہے وہ اپنی طاقت اور اُس کی حدود کو سمجھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ جو کچھ کرنا ہے اﷲ تعالیٰ نے ہی کرنا ہے میرے اندر جو طاقت ہے وہ بھی دراصل اﷲ تعالیٰ کی طاقت کا انعکاس ہے۔ کیا پتہ ہے کہ اگر مَیں کام کرنے لگوں تو اﷲ تعالیٰ اپنا مُنہ مجھ سے پھیر لے اور مَیں اُس کے مقابل نہ رہوں۔ اِس لئے وہ کبھی گھمنڈ اور غرور نہیں کرتا کیونکہ گھمنڈ اپنی چیز پر ہوتا ہے لیکن جو سمجھتا ہے کہ جو کچھ ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ گھمنڈ کیسے کر سکتا ہے؟
پس مومن کو ہمیشہ جھوٹے وعدوں سے بچنا چاہئے کہ یہ قوم کی تباہی کا موجب ہوتے ہیں۔ اِن کی وجہ سے بسا اوقات قوم ایسا اقدام کر بیٹھتی ہے کہ جو اِس کی طاقت سے باہر ہوتا ہے۔ ایسے لوگ ہمیشہ کام کو خراب کرنے والے ہوتے ہیں۔ مَیں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ مجلس شوریٰ کے موقع پر یا جب میں تحریک جدید کا اعلان کرتا ہوں تو بعض لوگ ایسے وعدے کر دیتے ہیں اورایسے ایسے دعوے کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔
ایک دفعہ مجلس شوریٰ میں ایک شخص نے تقریر کی کہ جماعت میں فلاں فلاں کمزوریاں پائی جاتی ہیں ہمیں ان کا اِس اِس طرح مقابلہ کرنا چاہئے۔ ہمیں یہ کرنا چاہئے، وہ کرنا چاہئے۔ اُس وقت اس جماعت کے جس کا وہ فرد تھا ایک بزرگ وہاں بیٹھے تھے اُس شخص کے بعض سوالات تھے جن کے متعلق مَیں نے اس بزرگ سے پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ اس شخص نے چھ سال سے کوئی چندہ نہیں دیا۔
تو ایسے دعوے ایمانی کمزوری کی علامت ہوتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل طب کے متعلق ایک لطیفہ سُنایا کرتے تھے کہ ایک مشہور طبیب کے پاس ایک دفعہ ایک بوڑھا شخص آیا اور اُس نے کہا کہ مجھے کھانسی کی شکایت ہے۔ وہ شخص بہت بوڑھا تھا۔ ایسا بوڑھا جسے گور کے کنارے کہا جاتا ہے۔ طبیب نے اُسے کہا کہ آپ کی یہ کھانسی عمر کا تقاضا ہے کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اب اُس کی کھانسی کے علاج کا وقت نہیں۔ اِس پر اُس نے کہا کہ کچھ حرارت بھی رہتی ہے۔ طبیب نے کہا یہ بھی تقاضائے عمر ہے۔ اُس نے کہا کہ قبض بھی رہتی ہے۔ طبیب نے کہا کہ یہ بھی عمر کا تقاضا ہے۔ پھر اُس نے کہا کہ مجھے کھانا نہیں ہضم ہوتا اور اِس پر بھی طبیب نے یہی کہا کہ یہ بھی عمر کا تقاضا ہے۔ اِس نے کہا نیند نہیں آتی اور طبیب نے پھر یہی کہا کہ یہ بھی عمر کا تقاضا ہے۔ اس نے اِسی طرح پانچ سات بیماریاں بتائیں اور طبیب نے ہر ایک کے متعلق یہی جواب دیا۔ اِس پر بوڑھا بے تحاشا گالیاں دینے لگا اور کہنے لگا کہ بڑے طبیب بنے پھرتے ہو طبیب عقلمند تھا اُس نے اُن گالیوں پر بھی یہی جواب دیا کہ یہ بھی تقاضائے عمر ہے۔ تو اِس قسم کی حالتیں انسانی کمزوری کی دلیل ہوتی ہیں۔ مُنہ کے دعوے اپنے اندر کوئی خوبی نہیں رکھتے۔ ایسے دعوؤں سے بسااوقات لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ بڑا مفید وجود ہے لیکن یہ صحیح نہیں۔ حقیقتاً ایسے دعوے کمزوری کی علامت ہوتے ہیں طاقت کی علامت نہیں۔ اِس بوڑھے کا حکیم کو گالیاں دینا اِس کی کسی طاقت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ بڑھاپے کی کمزوری کی وجہ سے تھا۔ روحانی جماعتوں میں جو لوگ ایسے دعوے کرتے ہیں اُن میں بھی روحانی طور پر بڑھاپا ہوتا ہے یا پھر اُن پر جوانی آئی ہی نہیں ہوتی۔ وہ ہمیشہ بچے ہی رہتے ہیں۔ بعض لوگ ہمیشہ بچّے ہی رہتے ہیں اور اُن پر جوانی آتی ہی نہیں اوربعض بوڑھے ہو چکے ہوتے ہیں اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے ۲؎کی دُعا سکھائی ہے کہ یا اﷲ روحانی جوانی آنے کے بعد پھر بڑھاپا نہ آئے۔ کیونکہ جو اچھے دن دیکھ چُکا ہو اُس کے لئے خرابی کے دن بہت تکلیف کا موجب ہوتے ہیں۔ اِسی طرح خدا تعالیٰ سے ایک دفعہ تعلق ہونے کے بعد اِس سے دوری بہت زیادہ افسوس کا موجب ہوتی ہے۔ مجھے جماعت کے ایک آدمی کا علم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت اچھا مخلص تھا اور قربانی کا بھی اِسے موقعہ مِلا مگر اِس کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی شامت مقدر تھی اور اِس نے آخری زمانہ میں چندہ بلکہ نمازیں بھی چھوڑ دیں اور اگر کوئی نصیحت کرتا تو کہتا کہ ہم نے بڑی قُربانیاں کی ہیں اب کوئی ضرورت نہیں۔ تو یہ رُوحانی بڑھاپا ہوتا ہے اور زبانی دعوے کرنے والے دراصل اپنی روحانی کمزوری کا اظہار کرتے ہیں۔ مومن جو کچھ مُنہ سے کہتا ہے اُس سے زیادہ کر کے دکھاتا ہے مگر مَیں نے دیکھا ہے کہ مجلس شوریٰ یا تحریک جدید میں بعض لوگ بڑی بڑی باتیں بناتے ہیں مگر بعد میں ایسے خاموش ہو جاتے ہیں کہ کوئی وجہ بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ بعض تو بے شک اخلاص سے جو قُربانی کرنی ہوتی ہے کر دیتے ہیں اور جو وعدہ کرتے ہیں اُس کے ایسے پابند ہوتے ہیں کہ یا ددہانی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی لیکن بعض زبانی دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن انہیں پورا نہیں کرتے۔
پس مومن کو چاہئے کہ اپنے نفس کا مطالعہ کرتا رہے اگر تو اُس کے زبانی دعوے زیادہ ہیں اور عمل سُست ہے تو وہ سمجھ لے کہ روحانی بڑھاپا شروع ہو چکا ہے یا جوانی آئی ہی نہیں اور ایسے لوگ یاد رکھیں کہ وہ جماعت کی طاقت کا موجب نہیں ہوتے بلکہ اُس کی کمزوری کا موجب ہوتے ہیں۔ ہر سال مجلس شوریٰ اور تحریک جدید کے اعلان کے موقع پر مَیں نے تجربہ کیا ہے کہ کچھ لوگ زبانی دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر عمل میں بہت کمزوری دکھاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے دعووں کی وجہ سے بسا اوقات اندازے غلط ہو جاتے ہیں۔مجلس شوریٰ جب ختم ہوتی ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب تمام مالی مُشکلات دُور ہو جائیں گی مگر اُن کے جانے کے بعد کچھ پتہ ہی نہیں رہتا کہ وہ وعدے کہاں گئے؟ اور وعدے کرنے والے کہاں گئے؟ اِسی طرح تحریک جدید میں مَیں دیکھتا ہوں ایک بڑا حصّہ تو بے شک اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے لیکن ایک حصّہ ایسا بھی ہے جو اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرتا اور وعدہ کرنے کے بعد ایسا خاموش ہو جاتا ہے کہ گویا اُس نے کوئی وعدہ کیا ہی نہ تھا اور جب مَیں سیکرٹریوں سے پوچھتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ دس دس خط لکھے ہیں لیکن کسی کا جواب نہیں آیا۔ جب مَیں دوبارہ اعلان کرتا ہوں تو پھر ان کی چِٹھیاں آنے لگتی ہیں کہ ہمارا وعدہ قبو ل کر لیا جائے اور گزشتہ وعدوں کے متعلق بعض تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے کسی نے مانگا ہی نہیں یا بعض کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں کسی نے یاد نہیں کرایا، بعض کہتے ہیں کہ پچھلی مرتبہ بڑی غلطی ہو گئی اب ہم پچھلا بھی پورا کریں گے اور اِس سال کا بھی۔ حالانکہ جب مَیں کہتا ہوں کہ جو چاہے وعدہ کرے اور جو چاہے نہ کرے تو خواہ مخواہ گنہگار بننے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر وہ وعدہ کرتے وقت تو کہتے ہیں کہ اگر یہ قبول نہ کیا گیا تو ہم صدمہ سے ہی مَر جائیں گے اور اِس قدر اِصرار کرتے ہیں کہ ہم بھی دھوکے میں آجاتے ہیں اور خیال کر لیتے ہیں کہ شاید اِن کے اندر ندامت پیدا ہو چکی ہے مگر اگلے سال پھر وہی حالت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ ساری زندگی وعدہ کرنے میں ہی سمجھتے ہیں ان کے پورا کرنے میں نہیں۔ تو مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ صرف وعدے کرنا اور جُوش دکھانا روحانی بڑھاپے کی علامت ہے یا اِس امر کی کہ ان پر جوانی آئی ہی نہیں بلکہ بچپن ہی کا زمانہ لمبا ہو رہا ہے اور اِس حالت پر ان کو خوش نہیں ہونا چاہئے۔قُربانی کے مطالبہ پر ان کے اندر ایک جوش پیدا ہوتا ہے اور وعدے کر لیتے ہیں مگر پورا کرنے کے وقت کئی مُشکلات اُن کے سامنے آجاتی ہیں۔ یہ خطرناک علامت ہے اور اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بیمار ہیں انہیں چاہئے کہ اپنا علاج کریں ورنہ ایسے گڑھے میں گریں گے کہ جہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہو گی اور اگرچہ ان کی طبیعت میں جوش تو آتا ہے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ایسی بات کہنی چاہئے جسے پورا کر سکیں اور پھر جب وعدہ کر لیتے ہیں تو خواہ کیسی مُشکلات پیش آئیں اُسے پورا کر کے چھوڑتے ہیں۔ تو سمجھ لیں کہ ان کے اندر روحانیت موجود ہے جسے بڑھانے سے وہ اِس مقام پر پہنچ سکتے ہیں کہ جہاں پہنچ کر انسان کا اﷲ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو سکتا ہے۔
اِس سال مَیں جماعت کو خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں آج مجلس شوریٰ کا آغاز ہو گا اور انہیںیہ بات مدّ نظر رکھنی چاہئے کہ جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چُکا ہوں یہ ایک دو سال جماعت پر خاص بوجھ کے ہیں۔ اِس لئے دوستوں کو خاص طور پر قُربانی کرنی چاہئے اور اِس کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ عورتوں اور بچوں میں جلسے کئے جائیں اور اُن کو سلسلہ کی ضروریات اور مُشکلات بتا کر اپنا ہم خیال بنایا جائے کیونکہ جب تک وہ ہم خیال نہ ہوں گے دوست اپنے وعدے پورے اور اپنے فرض ادا نہیں کر سکیں گے۔ مجھے سخت تعجب ہے کہ گو تحریک جدید کا یہ دَور نہایت اہم تھا اور ایک ایسا دَور تھا جس میں نئی زندگی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اور اِس مضمون کو مَیں نے اچھی طرح واضح کر دیا تھا مگر میرے تعجب کی کوئی حد نہ رہی جب مَیں نے دیکھا کہ وعدوں پر چار ماہ گزرنے کے باوجود اب تک صرف سولہ ہزار روپیہ وصول ہؤا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ صرف چار ہزار روپیہ ماہوار آرہا ہے حالانکہ وعدے ایک لاکھ چھبیس ہزار کے ہیں اور ابھی بیرونی ممالک کے وعدے آئے نہیں جنہیں مِلا کر اُمید ہے کہ ایک لاکھ تیس ہزار کے وعدے ہوجائیں گے مگر اِس وقت تک وصول صرف سولہ ہزار ہؤا ہے حالانکہ سال کا تیسرا حصّہ گزر چُکا ہے۔ مجھے معلوم ہؤا ہے کہ جماعتیں کہتی ہیں کہ اِس وقت خلافت جوبلی فنڈ اور بجٹ پورا کرنے کی طرف متوجہ ہیں مگر جب مَیں نے بجٹ کے اعداد و شمار منگوا کر دیکھے تو معلوم ہؤا کہ ۳۰؍مارچ کو ختم ہونے والے ہفتہ میں ساڑھے تین ہزار کی آمدہوئی ہے جس میں گزشتہ سال کی نسبت تین ساڑھے تین ہزار کی کمی ہے اور جوبلی فنڈ میں گزشتہ ماہ میں صرف پانچ ہزار کی آمد ہوئی ہے اور اِس میں سے اگر وہ تین ہزار نکال دیئے جائیں جو چندہ میں سے کم ہیں تو گویا جوبلی فنڈ کی وصولی دو ہزار کی رہ جاتی ہے اور اِسے اگر تحریک جدید کی آمد میں کمی کے مقابلہ پر رکھا جائے تو اِس کے یہ معنی ہوں گے کہ جماعت نے آٹھ دس ہزار روپیہ کم دیا ہے اور کہہ یہ دیا کہ ہم وصولی کر رہے ہیں اور کام میں لگے ہوئے ہیں لیکن کام یہ کیا ہے کہ ایک مدّ میں کمی کر کے دوسری میں دے دیا۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص ایک جیب سے نکال کر دوسری میں ڈال دے۔
مَیں نے آج سے چار سال پہلے بھی یہ بتایا تھا کہ عورتوں اور بچوں کی مدد کے بغیر یہ قُربانی نہیں کی جاسکتی۔ جب تک وہ کفایت شعاری اور سادہ زندگی کا وعدہ نہ کریں کبھی کامیابی نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے اٹھنّی میں سے روپیہ نکالنے کا تو کوئی گُر نہیں بنایا۔ آٹھ آنہ میں سے آٹھ آنہ خرچ کر کے بھی کوئی شخص اگر یہ چاہے کہ دو آنہ کسی اور کو بھی دے دے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کسی کو دو آنے دینے والا جب تک اپنے خرچ میں کمی کر کے اُسے چھ آنہ پر نہیں لے آتا اپنے وعدہ کو پورا نہیں کر سکتا اور آٹھ آنہ میں سے آٹھ آنہ ہی خرچ کرنے کے بعد بھی جو کسی کو دو آنہ دینے کا وعدہ کرتا ہے وہ جھوٹا اور فریبی ہے مخلص نہیں۔ وہ خدا تعالیٰ کو بھی اور سلسلہ کو بھی دھوکا دیتا ہے۔ پس قُربانی کے لئے یہ امر اشد ضروری ہے کہ عورتوں اور بچوں کو اپنا ہم خیال بنایا جائے۔ مَیں نے اِس امر کی طرف کئی بار توجہ دلائی ہے مگر افسوس کہ اِس طرف توجہ نہیں کی گئی بلکہ ان کو یہ تحریک پہنچائی ہی نہیں گئی۔ حتّٰی کہ اِس سال ایک اچھی بڑی اور مخلص جماعت کی عورتوں نے حلفیہ بیان کیا کہ پچھلے سالوں میں ہمارے مردوں نے ہمیں بتایا ہی نہیں کہ ایسی تحریک جاری ہے۔ یہ اچھی بڑی جماعت ہے اور سَو ڈیڑھ سَو افراد پر مشتمل ہے مگر اِس کی عورتوں نے حلفاً بیان کیا ہے کہ انہیں اِس تحریک سے آگاہ ہی نہیں کیا گیا۔ تو جو لوگ ایسے سُست ہوں وہ کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں؟ کامیابی اِسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ عورتیں اور بچے ہمارے ہم خیال ہوں۔ جب تک ہمیں پیچھے کھینچنے والی کوئی چیز ہے ہم آگے کس طرح جاسکتے ہیں۔ ہم جب آگے قدم اُٹھائیں گے ہمارے بیوی بچے پیچھے سے کھینچیں گے کہ اِدھر آؤ مگر افسوس ہے کہ میری اِس تجویز پر عمل نہیں کیا گیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے دوست ایسی گھبراہٹ میں ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ اگر وہ وعدے کریںتو مُشکل ہے اور نہ کریں تو مُشکل ہے۔ حالانکہ یہ سب باتیں مَیں نے شروع میں ہی بتا دی تھیں اور اِس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے بتائی تھیں کہ آئندہ ہمارے لئے قُربانیوں کا وقت آنے والا ہے اور اِسی لئے مَیں نے امانت کی بھی تحریک کی تھی اور جن لوگوں نے اِس پر عمل کیا ۔ وہ اپنے وعدے اچھی طرح پورے کر سکے ہیں۔ مَیں جانتا ہوں کہ ایک غریب دوست نے جن کی آمد بارہ چودہ روپیہ ماہوار سے زیادہ نہیں سَو روپیہ چندہ دے دیا اور یہ اس طرح کہ وہ ہر ماہ تین روپیہ امانت فنڈ میں جمع کراتے گئے اور اِس طرح چار سال میں سَو سے اوپر روپیہ جمع کر لیا اور اب بھی کئی لوگ جو امانت فنڈ میں روپیہ جمع کراتے رہے چندے آسانی سے ادا کرنے کے قابل ہو گئے ہیں جبکہ ان سے کئی گُنا زیادہ تنخواہیں پانے اور آمد رکھنے والے ابھی اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہیں۔ کئی دوستوں نے مجھے لکھا ہے کہ ہم دس دس اور پندرہ پندرہ سال سے مکان بنانا چاہتے تھے مگر نہ بناسکے تھے لیکن اب اِس تحریک کے ذریعہ مکان بنانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ تو چندوں کی ادائیگی میں آسانیوں کے علاوہ اِس کے اور بھی فوائد تھے لیکن دوستوں نے اِس کی طرف پوری توجہ نہیں کی اور خیال کر لیا کہ وقت پر کچھ نہ کچھ انتظام ہو ہی جائے گا اور خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی صورت پیدا کر دے گا لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ بھی اُنہی کی مدد کرتا ہے جو خود اپنی مدد کرتے ہیں۔ جو تلعُّب کرتا ہے خدا تعالیٰ اُس کی مدد کبھی نہیں کرتا۔ پس مَیں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ غلط وعدے نہ کیا کریں اور دوسرے آج کا کام کَل پر کبھی نہ چھوڑا کریں۔ یہ نہایت ہی خطرناک بات ہے۔ بعض لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ کل کر دیں گے مگر وہ کل کبھی نہیں آتا اور چندہ ادا ہی نہیں ہوتا۔ ابھی پچھلے سال کے وعدوں میں سے بارہ ہزار کے قریب قابلِ ادا ہیں۔ حالانکہ مارچ ختم ہوچُکا ہے اور اپریل شروع ہے اور یہ بقایا معافیوں کو نکال کر ہے۔ نیز ان وعدوں کو نکال کر جن کے کرنے والے فوت ہو چکے ہیں۔ ورنہ یہ رقم بہت بڑھ جاتی ہے۔ جس رفتار سے اب گزشتہ سال کے وعدے پورے ہو رہے ہیں اس سے تو دو تین سال میں بھی یہ بقایا پورا ہونا مُشکل ہے۔ آجکل گزشتہ بقایا کی آمد دس پندرہ روپیہ روزانہ کی ہے اور کسی دن کچھ بھی نہیں ہوتی۔ اِس حساب سے یہ وعدے دو تین سال میں بھی پورے ہونے مُشکل ہیں اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ آخر میں ادا کر دیں گے حالانکہ بقایا ہمیشہ ان لوگوں کے ذمہ ہی رہتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ آخر میں دے دیں گے۔ مَیں نے یہ واقعہ پہلے بھی کئی دفعہ سُنایا ہے کہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک جنگ پر جانے کا اعلان فرمایا تو ایک صحابی نے جو مالدار تھے خیال کیا کہ مَیں مالدار ہوں تیاری جب چاہوں گا کر لوں گا۔ آخر کوچ کا دن آگیا اور اُنہوں نے دیکھا کہ سامان تیار نہیں تو پھر دل کو تسلی دے لی کہ مَیں کل تیاری کر کے جاملوں گا مگر دوسرے دن اور مُشکل پیش آگئی اور بات تیسرے دن پر جاپڑی۔ تیسرے دن تیارہؤا تو اُدھر آنے والے قافلوں سے معلوم ہؤا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کئی کئی منزلوں کا کوچ کرتے ہوئے دور تک نکل گئے ہیں اور اب آپ سے ملنا نا ممکن ہے اور وہ سفر سے رہ گئے اور اِس وجہ سے وہ اِس سزا کے مستحق ہوئے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں غیر معمولی تھی۔ یعنی اِن کا مقاطعہ ہؤا۔ حتّٰی کہ ان کی بیوی کو بھی ان سے کلام کرنے کی ممانعت کر دی گئی۔ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو جواب طلبی کے لئے اُن کو بُلایا۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے میرے نفس نے مجھے دھوکا دینا چاہا اور مَیں نے خیال کیا کہ کوئی بہانہ بنا دوں مگر جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس گیا تو اُن لوگوں سے جو پہلے سے وہاں موجود تھے دریافت کیا کہ مجھ سے پہلے کن کن لوگوں کی جواب طلبی ہوچکی ہے؟ اُنہوں نے بتایا کہ فلاں فلاں کی۔ اُنہوں نے پوچھا کہ پھر اُن سے کیا سلوک ہؤا ہے ؟ اُنہوں نے بتایا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن میں سے دو کو تو ٹھہرا لیا اور فرمایا ہے کہ تمہارا فیصلہ بعد میں ہو گا اور باقیوں کے لئے ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگی ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمہیں معاف کرے۔ وہ صحابی کہتے ہیں کہ جن کو ٹھہرایا گیا تھا وہ مومن تھے اور جن سے فرمایا کہ جاؤ اﷲ تعالیٰ تمہیں معاف کرے وہ منافق تھے۔ اِس پر مَیں نے کہا کہ خواہ کوئی سزا ملے مَیں اپنے آپ کو منافقوں میں شامل نہیں کروں گا۔ اِس لئے مَیں نے جاکر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور اقرار کر لیا کہ میرا قصور ہے اور مجھ سے سُستی ہوئی۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے بھی فرمایا کہ ٹھہرو تمہارا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ پھر آپ نے مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ کوئی شخص ان سے کلام نہ کرے۔ پھر کچھ دنوں کے بعد اس حُکم کو اَور بھی سخت کر دیا اور فرمایا کہ ان کی بیویاں بھی اِن سے کلام نہ کریں اور ظاہر ہے کہ ایک ایسے شہر میں جہاں مسلمان ہی مسلمان بستے تھے یہ سزا کتنی بڑی سزا تھی۔ مدینہ میں یہودی بھی تھے مگر اُن کی بستیاں مدینہ سے کچھ فاصلہ پر الگ تھیں۔ یہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ مَیں اپنے ایک رشتہ دار کے پاس گیا جو میرا چچیرا بھائی تھا اور ہماری باہمی محبت بہت زیادہ تھی حتّٰی کہ کھانا بھی اکٹھا ہی کھایا کرتے تھے۔ مَیں اُن کے پاس گیا وہ باغ میں کام کر رہے تھے۔ مَیں وہاں گیا اور جا کر کہا کہ مجھے جو سزا ملی ہے وہ تو ملی ہی ہے مگر تم یہ تو جانتے ہی ہو کہ مَیں منافق نہیں ہوں اور جو کچھ ہؤا ہے غلطی سے ہؤا ہے لیکن بجائے اِس کے کہ وہ مجھے کوئی جواب دیتا اُس نے آسمان کی طرف مُنہ اُٹھا کر کہا اﷲ اور اُس کا رسول بہتر جانتا ہے۔ یہ دیکھ کر مجھ پر ایک جنون کی سی کیفیت طاری ہو گئی اور مَیں وہاں سے چلا آیا۔ دروازہ کی طرف جانے کا بھی خیال نہ رہا اور دیوار سے کُود کر ہی باہر آگیا اور شہر کی طرف آیا۔ ابھی شہر میں داخل ہو رہا تھا کہ ایک شخص نے کسی اجنبی کو میری طرف اشارہ کر کے بتایا وہ اجنبی میرے پاس آیا اور مجھے ایک خط دیا۔ مَیں نے کھولا تو وہ غسّان قبیلہ کے بادشاہ کا تھا اور اُس میں لکھا تھا کہ تم اپنی قوم کے بڑے معزز آدمی ہو اور مَیں نے سُنا ہے کہ تمہارے سردار محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم)نے تمہارے ساتھ بُرا سلوک کیا ہے اور بے عزتی کی ہے۔ دراصل وہ شریفوں سے سلوک کرنا جانتے ہی نہیں تم میرے پاس آجاؤ اور یہاں تمہاری شان کے مطابق تم سے سلوک کیا جائے گا۔ مَیں نے اپنے نفس سے کہا کہ یہ شیطان کی طرف سے آخری امتحان ہے۔ پاس ایک تنور جل رہا تھا مَیں نے وہ خط اُس میں ڈال دیا اور اُس سے کہاکہ جاکر اپنے آقا سے کہہ دینا کہ تمہارے خط کا یہ جواب ہے۔ ان کی شاید یہی ادا اﷲ تعالیٰ کو پسند آگئی، رات کو سوئے، سویرے اُٹھے، نماز پڑھنے گئے اور پڑھ کر واپس آگئے۔ ان سے کوئی بولتا تو تھا نہیں اِس لئے نماز کے بعد مسجد میں بیٹھنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ رات آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو الہام ہؤا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان تینوں کی سزا معاف کر دی۔ فجر کی نماز کے بعد آپ بیٹھ گئے اور اِن تین سزا یافتوں کے متعلق دریافت فرمایا کہ کیا وہ موجود ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ فلاں ہے اور فلاں نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ رات مجھے اﷲ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اِن تینوں کو اس نے معاف کر دیا۔ یہ سُنتے ہی ایک شخص گھوڑے پر سوار ہو کر اِن کی طرف دوڑ پڑا کہ خوشخبری سُنائے مگر ایک اور زیادہ ہوشیار نِکلا۔ پاس ہی ایک ٹیلہ تھا اُس نے اُس پر چڑھ کر زور سے آواز دی کہ مالک تم کو اﷲ تعالیٰ نے معاف کر دیا۔۳؎ ان کی غلطی منافقت کی وجہ سے نہ تھی اِس لئے توبہ بھی ایسی کی کہ کہا مجھ سے یہ غلطی مال کی زیادتی کی وجہ سے ہوئی تھی اِس لئے اﷲ تعالیٰ مجھے معاف کرے گا۔ مَیں اپنا سارا مال اس کی راہ میں دے دوں گا اور اِس دیانت کے ساتھ اِس وعدہ کو نباہا کہ جب معافی کی آواز آئی تو آپ نے کہا کہ مَیں یہ خوشخبری سُنانے والے کو کپڑوں کا ایک جوڑا تحفہ کے طور پر دوں گا۔ جیسا کہ ہمارے مُلک میں کہتے ہیں کہ مُنہ میٹھا کراؤں گا مگر بعد میں خیال آیا کہ مَیں نے تو سارا مال خداتعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرنے کا وعدہ کیا ہؤا ہے۔ اِس لئے اِسے کپڑوں کا جوڑا کسی دوست سے قرض لے کر دیا اور کہا کہ مَیں دوبارہ کما کر یہ قرض ادا کر دوں گا لیکن اپنے سابق مال میں سے نہ دیا کیونکہ وہ سب کا سب خدا تعالیٰ کی راہ میں دے چکے تھے۔ تو ان کو یہ سزا محض اِس لئے برداشت کرنی پڑی کہ اُنہوں نے خیال کر لیا کہ مَیں کل چلا جاؤں گا۔ اگر وہ پہلے ہی دن چلے جاتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا بلکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رضا اور ثواب حاصل کر سکتے توبہت سے لوگ اِس لئے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ خیال کر لیتے ہیں کہ کل کر لیں گے۔ حالانکہ کون کہہ سکتا ہے کہ کل موقع ملے یا نہ ملے۔ اِس لئے جب بھی موقع ملے فوراً اِس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ پس مَیں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وعدے سوچ کر کیا کریں اورجب وعدہ کیا کریں تو اُس کے پورا کرنے میں دیر نہ کیا کریں۔ نماز کے بعد اب وہ شوریٰ میں بیٹھیں گے پھر بجٹ پیش ہو گا اور پھر کئی کہیں گے کہ یہ کیا مُشکل ہے؟ مگر اِس کے بعد وہ چُپ چاپ گھروں کو چلے جائیں گے اور اِس کے پورا کرنے کے لئے کوئی حقیقی جدوجہد نہ کریں گے۔
اِس کے علاوہ تحریک جدید کے متعلق بھی مَیں پھر توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اِس سے سلسلہ کی ترقی اور اشاعت کی ایک عظیم الشان بنیاد رکھی جا رہی ہے اور جو اِس میں حصّہ لیں گے وہ ہمیشہ کے لئے عظیم الشان ثواب کے مستحق ہوں گے۔ اِس لئے اِس کے وعدوں کو بھی پورا کریں لیکن یہ یاد رکھیں کہ جب تک عورتوں اور بچوں کو ساتھ نہ ملایا جائے گا قُربانی مُشکل ہے۔ اِس لئے ضرورت ہے کہ اِن کو بھی واقف کیا جائے تا وہ تمہارا ہاتھ بٹاسکیں اور ہر فرد کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جلد از جلد وعدہ پورا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کل پر ڈال دیا جائے اور اِس طرح یہ کبھی بھی پورا نہ ہو سکے۔ نیت اور ارادہ کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ہو تو پھر شوریٰ بھی بابرکت ہو سکتی ہے اور تحریک جدید بھی مُفید نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ مومن کی نیت خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کا موجب ہوتی ہے۔ پس دل میں پختہ ارادہ کر لو کہ اﷲ تعالیٰ مومن کے ارادوں کے پورا ہونے کے سامان خود بخود کر دیتا ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک دفعہ ایک مقدمہ پیش ہؤا۔ ایک عورت سے دوسری کا دانت ٹوٹ گیا تھا جس سے دانٹ ٹوٹا وہ ایک مخلص اور قُربانی کرنے والی عورت تھی۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی سفارش کی اور دوسرے شخص سے جو اپنی پھوپھی کی طرف سے پیروی کر رہا تھا فرمایا کہ اِسے معاف کر دو۔ مگر اِس نے کہا کہ یَارَسُوْلَ اﷲ! ہماری پھوپھی کا دانت توڑا گیا ہے ہم صبر نہیں کر سکتے جب تک توڑنے والی کا دانت نہ توڑا جائے۔ ہاں اگر آپ حکم دیں تو علیحدہ بات ہے ہم مان لیں گے مگر آپ نے فرمایا کہ نہیں مَیں حکم نہیں دیتا۔ یہ بات سُن کر دوسری عورت کا بھتیجا جو اُس کی طرف سے پیروی کر رہا تھا جوش میں آگیا اور کہنے لگا خدا کی قسم میری پھوپھی کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ اس کے مُنہ سے یہ الفاظ ایسے جُوش، یقین اور توکل کے ساتھ نکلے کہ دوسرے فریق کے دل میں گھر کر گئے۔ وہ کانپ گئے اور کہا یَارَسُوْلَ اﷲ! ہم معاف کرتے ہیں۔ یہ الفاظ کہنے والا غریب آدمی تھا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کے بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، کپڑے پھٹے ہوتے ہیں، جسم گرد آلود ہوتا ہے مگر جب وہ خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کوئی بات کہہ دیں تو خدا تعالیٰ اسے ضرور پورا کر دیتا ہے ۴؎تو دیکھو یہ کتنا بڑا تصرف ہے کہ جو بات وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سفارش سے ماننے پر آمادہ نہ ہوئے وہ اُس کے مُنہ سے یہ الفاظ نکلنے پر کہ خدا کی قسم میری پھوپھی کا دانت نہیں توڑا جائے گا مان گئے۔ نہ معلوم یہ الفاظ کس توکل اور اﷲ تعالیٰ سے تعلق کی بنا پر اور یقین کے ساتھ کہے گئے ہوں گے کہ اﷲ تعالیٰ کی غیرت بھی جوش میں آگئی اور اُس نے کہا کہ جب میرے بندے نے میری قسم کھاکر کہا ہے کہ میری پھوپھی کا دانت نہیں توڑا جائے گا تو مَیں بھی یہی کہتا ہوں کہ نہیں توڑا جائے گا اور جب خدا تعالیٰ کوئی بات کہے تو کس کی طاقت ہے کہ انکار کرے۔ اِس لئے دوسرے فریق نے بھی کہہ دیا کہ مَیں نے معاف کیا۔ تو مومن کی نیت بہت بڑی چیز ہے۔ پس اگر تم مومن ہو تو ایک پختہ عزم اور ارادہ اپنے اندر پیدا کرو پھر دیکھو گے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایسا فضل نازل ہو گا کہ تمام مُشکلات خود بخود دُور ہو جائیں گی۔ تمہارے ارادوں کو پورا کرنے کے لئے یا تو وہ نئے سامان پیدا کر دے گا یا پھر تمہارے حوصلے بڑھا دے گا اور تمہارا مقصد دونوں طرح حل ہو جائے گا۔ ایک بھوکے شخص کی تکلیف دور کرنے کے دو ہی علاج ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ اُس کی بھوک اُڑا دی جائے اور دوسرے یہ کہ اُسے کھانا دے دیا جائے۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا آخری سال تھا یا آپ کے بعد خلافت اولیٰ کا کوئی رمضان تھا۔ بہرحال موسم کی گرمی کے سبب یا اِس لئے کہ مَیں سحری کے وقت پانی نہ پی سکا تھا مجھے ایک روزہ میں شدید پیاس محسوس ہوئی تھی کہ مجھے خوف ہؤا کہ مَیں بے ہوش ہو جاؤں گا اور دن غروب ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ مَیں نڈھال ہو کر ایک چار پائی پر گر پڑا اور مَیں نے کشف میں دیکھا کہ کسی نے میرے مُنہ میں پان ڈالا ہے۔ مَیں نے اُسے چوسا تو سب پیاس جاتی رہی۔ چنانچہ جب وہ حالت جاتی رہی تو مَیں نے دیکھا کہ پیاس کا نام و نشان بھی نہ باقی رہا تھا۔ تواﷲ تعالیٰ نے اِس طریق سے میری پیاس بجھا دی اور جب پیاس بُجھ جائے تو پانی پینے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ غرض تو یہ ہوتی ہے کہ ضرورت پوری کر دی جائے خواہ مناسب سامان مہیا کر کے ہو خواہ اِس سے استغناء کی حالت پیدا کر کے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک شخص نے لکھا کہ دُعا کریں فلاں عورت کے ساتھ میرا نکاح ہو جائے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم دُعا کریں گے مگر نکاح کی کوئی شرط نہیں، خواہ نکاح ہو جائے خواہ اُس سے نفرت پیدا ہو جائے۔ آپ نے دُعا کی اور چند روز بعد اُس نے لکھا کہ میرے دل میں اُس سے نفرت پیداہو گئی ہے۔ اِسی طرح مجھے بھی ایک شخص نے ایسا لکھا تھا اور مَیں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سُنت میں اُسے یہی جواب دیا اور اُس نے مجھے بعد میں اطلاع دی کہ اُس کے دل سے اُس کا خیال جاتا رہا۔ پس اﷲ تعالیٰ دونوں صورتوں میں مدد کر دیتا ہے۔
پس اپنے اندر ایک پُختہ عزم پیدا کر لو اور جھوٹے وعدوں سے بچو کہ یہ یا تو روحانی بڑھاپے اور یا پھر بچپن کی علامت ہوتے ہیں۔ روحانی جوانی کے وقت انسان کے اندر انکسار، فروتنی، توکل اور معرفت پیدا ہوتی ہے اور وہ کبھی مُنہ سے ایسی بات نہیں نکالتا جسے پورا کرنے کا اُس کے دل میں عزم نہ ہو اور جب وہ کوئی بات کردیتا ہے تو ایسی پُختہ کرتا ہے کہ چاہے ہمالیہ پہاڑ اُڑ جائے مگر اُس کی بات نہیں بدلتی۔‘‘ (الفضل ۱۵؍اپریل ۱۹۳۹ئ)
۱؎ سیرت ابن ہشام جلد ۴ صفحہ ۸۴، ۸۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ئ
۲؎ الفاتحہ : ۷
۳؎ بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک
۴؎ بخاری کتاب الصلح باب الصُّلْحُ فِی الدِّیَّۃِ
۱۲
قادیان میں کوئی مرد یا عورت اَن پڑھ نہ رہے
کتابی علم کے ساتھ کوئی نہ کوئی پیشہ بھی سیکھنا چاہئے
(فرمودہ ۲۱؍اپریل۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے خدّام الاحمدیہ کے متعلق جو خطبات پڑھے تھے اُن میں ایک بات مَیں نے یہ بیان کی تھی کہ تعلیم کو عام کیا جائے۔ اِس بارہ میں مَیں نے خدّام الاحمدیہ کو کچھ عرصہ پہلے بعض ہدایات دی تھیں اور مجھے بتایا گیا ہے کہ قادیان کے دو محلّوں میں کام شروع ہے مگر مَیں چاہتا ہوں کہ یہ کام ساری قادیان میں شروع کر دیا جائے۔ دو محلّوں میں دو ماہ تک کام کرنے سے خدّام الاحمدیہ کو اِس کا تجربہ ہو چُکا ہو گا اور قادیان میں اتنے پڑھے ہوئے لوگ موجود ہیں کہ اگر یہاں کے تمام اَن پڑھوں کی تعلیم کا ہم انتظام کریں تو یہ کوئی مُشکل کام نہیں ہو گا۔ مُشکل وہاں ہوتی ہے جہاں پڑھانے والے کم اور پڑھنے والے زیادہ ہوں مگر یہاں پڑھنے والے پڑھانے والوں کا دسواں حصّہ ہیں۔ مَیں نے یہاں کے اَن پڑھوں کا جو اندازہ کرایا ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک ایک اَن پڑھ احمدی کو پڑھانے کے لئے نو نو آدمی موجود ہیں اور اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ اِن میں سے ایک حصّہ پڑھانے کے قابل نہیں کیونکہ اُن میں بچے بھی ہیں اور نوجوان بھی جن کو پڑھانے کا تجربہ نہیں ہوتا تب بھی اِس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ ایک ایک اَن پڑھ کو پڑھانے کے لئے ایک ایک آدمی بڑی آسانی سے میسّر آسکتا ہے اور ایسی صورت میں انتظار کی صرف ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ جس محکمہ کے سپرد یہ کام کیا جائے اُسے تجربہ نہ ہو مگر مَیں سمجھتا ہوں خدّام الاحمدیہ کے لئے دو تین ماہ کا تجربہ کافی ہو گا اور اِس لئے اب کوئی وجہ نہیں کہ ہم اِس کام میں تأخیر کریں۔
پس آج مَیں اعلان کرتا ہوں کہ خدّام الاحمدیہ تین دن کے اندر اندر میرے سامنے ایک سکیم پیش کرے کہ کس طرح قادیان کے سب محلوں میں ایک ہی وقت میں تعلیم کو عام کیا جاسکتا ہے؟ جیسا کہ مَیں بتا چُکا ہوں تعلیم سے میرا مقصد یہ ہے کہ قرآن ناظرہ پڑھنا آتا ہو اور لکھ پڑھ سکے اور دستخط کر سکے یعنی تھوڑا بہت لکھنا آجائے اور یہ کوئی مُشکل بات نہیں لیکن جہاں مَیں خدّام الاحمدیہ کے سپرد مَردوں کی تعلیم کا کام کرتا ہوں وہاں مَیں لجنہ کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اِس سکیم کو عورتوں میں رائج کریں اور کوشش کریں کہ ہر عورت لکھنا پڑھنا سیکھ جائے اور اِس کام میں انہیں جس قسم کی مدد کی بھی ضرورت ہو گی وہ ہم مہیا کریں گے جہاں عورتوں میں تعلیم اتنی عام ہے کہ اَن پڑھ عورتوں کو پڑھانے کے لئے انہیں مَردوں کی امداد کی ضرورت نہیں ہو گی۔ البتہ انتظامی لحاظ سے ان کو ضرورت ہو سکتی ہے جو ہم مہیاکر دیں گے لیکن اگر تعلیم کے لئے بھی ان کو ضرورت محسوس ہو تو ایسے معمَّر اور قابلِ اعتماد مردوں کا انتظام کیا جاسکتا ہے جو پس پردہ تعلیم دے سکیں مگر مَیں سمجھتا ہوں اِس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
پس مَیں خدّام الاحمدیہ کے سامنے یہ بات رکھتا ہوں کہ وہ کسی ایسی سکیم پر غور کریں جس سے تین ماہ کے اندر اندر تمام مَردوں کو تعلیم دینے کا مقصد پورا ہو سکے۔٭ اپریل کے باقی دن اگر تیاری کے لئے بھی سمجھ لئے جائیں تو مئی، جون، جولائی تین ماہ کام کے لئے ہو سکتے ہیں۔ وہ مجھے بتائیں کہ کوئی ایسی کوشش کی جاسکتی ہے یا نہیں کہ جس سے یکم اگست کو قادیان میں کوئی ایک مَرد اور کوئی عورت بھی اَن پڑھ نظر نہ آئے۔ ٭٭
جیسا کہ مَیں بتا چُکا ہوں عورتوں کی ذمّہ داری اِن پر نہیں بلکہ لجنہ پر ہے۔ اِن کے ذمہ مردوں اور دس سال سے زیادہ عمر کے بچوں کی تعلیم ہے اوروہ کوشش کریں کہ یکم اگست٭ کو کوئی مَرد اور دس سال کی عمر کا بچہ اَن پڑھ نہ رہے۔ یکم اگست ٭٭کو ہم قادیان کا عام امتحان لیں گے اور مَیں خود اِس کی نگرانی کروں گا۔ اگست *کے پہلے ہفتہ میں باری باری سب کا امتحان ہو گا اور اِن کو ثابت کرنا ہو گا کہ یہاں کوئی اَن پڑھ باقی نہیں۔ ممکن ہے بعض آدمی اِس وقت میں پڑھنا نہ سیکھ سکیں اور ایسے لوگوں سے ہم درخواست کریں گے کہ وہ پندرہ بیس روز یا مہینہ اپنا کام چھوڑکر پڑھائی میں لگے رہیں اور پڑھائی کے مقابلہ میں یہ کوئی بڑی قُربانی نہیں بلکہ بہت فائدہ بخش ہے۔ قُربانی تو دراصل پڑھانے والے کرتے ہیں پڑھنے والوں کا اپنا فائدہ ہے۔ اِس لئے جو لوگ سمجھیں کہ وہ اِس عرصہ میں لکھنا پڑھنا نہ سیکھ سکیں گے اُن کو چاہئے کہ وہ کچھ وقت اِس کے لئے وقف کر دیں اور اِس عرصہ میں کوئی اَور کام نہ کریں۔ مجھے اِس وجہ سے جلدی ہے کہ مَیں چاہتا ہوں کہ قادیان سے فارغ ہو کر ہم گاؤں کی طرف توجہ کریں۔ وہاں کام زیادہ مُشکل ہو گا کیونکہ وہاں پڑھنے والے زیادہ اور پڑھانے والے کم ہوں گے اور ضرورت ہو گی کہ ہم قادیان سے پڑھانے والے لے جاکر اِردگرد کے دیہات میں تعلیم عام کریں اور اگر ہم دو سال میں بھی اِس امر میں کامیاب ہو جائیں کہ اس وقت تک جو لوگ احمدی ہو چکے ہوں اُن میں کوئی اَن پڑھ نہ رہے۔ تو یہ ایک ایسا شاندار کام ہو گا کہ جس کی مثال ہندوستان میں نہ مل سکے گی۔ آجکل ہندوستان میں تعلیم عام کرنے کا چرچا ہو رہا ہے اور کانگرس وغیرہ ادارے بھی اِس کی طرف متوجہ ہیں۔ پہلے ہماری جماعت تعلیمی لحاظ سے سب سے آگے تھی لیکن اب چونکہ دوسرے لوگوں میں بھی تعلیم کو عام کرنے پر بہت زور دیا جارہا ہے اِس لئے خطرہ ہے کہ وہ آگے نہ نکل جائیں اور وہ مقام جو سالہاسال سے اﷲ تعالیٰ نے ہم کو عطا کر رکھا ہے وہ ہم سے چھینا نہ جائے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ ہم اِس معاملہ میں بھی دوسروں سے آگے ہی رہیں۔ کئی سال ہوئے مَیں نے تحقیقات کرائی تھی تو معلوم ہؤا کہ قادیان میں پڑھنے کے قابل لڑکیاں سوفیصدی لکھ پڑھ سکتی ہیں۔ مگر اب جو تحقیقات کرائی تو چونکہ یہاں باہر سے آکر لوگ آباد ہوتے رہتے ہیں اِس لئے اب کئی لڑکیاں اَن پڑھ موجود ہیں۔ پہلے مَرد یہاں پچاسی فیصدی تعلیم یافتہ تھے مگراب نوّے فیصدی ہیں گویا مَردوں کی تعلیم کے لحاظ سے ہم نے ترقی کی ہے لیکن لڑکیوں کی تعلیم کے لحاظ سے تنزّل ہے۔ پہلے یہاں کوئی اَن پڑھ لڑکی نہ تھی مگر اب ہیں اور مَیں چاہتا ہوں کہ ایک طرف تو ہم لڑکیوں کی تعلیم کی طرف متوجہ ہوں اور دوسری طرف مَردوں کی تعلیم کی طرف۔ اور کوشش کریں کہ دونوں سوفیصدی تعلیم یافتہ ہو جائیں۔ پہلے ہندوستا ن میں دوسرے لوگوں میں صرف دس، پندرہ یا بیس فیصدی لوگ تعلیم یافتہ تھے مگر ہمارے اسّی نوّے فیصدی تھے اب دوسروں کو تعلیم دینے کی طرف بہت توجہ کی جارہی ہے اور اگر وہ سوفیصدی تعلیم یافتہ ہوجائیں اور ہم میں جو کمی تھی وہ بدستور رہے تو یہ کتنے افسوس کی بات ہو گی۔ مومن کے اندر اﷲ تعالیٰ نے جو غیرت پیدا کی ہے وہ اِس امر کی مقتضی ہے کہ ہم سوفیصدی تعلیم والی تحریک میں پہلے نمبر پر رہیں جس طرح پہلے تھے اور کوشش کریں کہ دوسری قومیں ہم سے آگے نہ بڑھ سکیں لیکن اِس تحریک میں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک وہ لوگ ہماری مدد نہ کریں جو اَن پڑھ ہیں۔ اگر وہ خود کوتاہی کریں تو اِس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا اور مَیں نے خطبہ میں اِس کے لئے اپیل کرنے کی ضرورت اِسی لئے سمجھی ہے کہ تا سب دوستوں کو علم ہو جائے کہ ہمیں تعلیم عام کرنے کی نئی جدوجہد میں بھی اپنے پہلے مقام کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور چاہئے کہ سارے ہندوستان میں ہم لوگ ہی پہلے ہوں جن میں سو فیصدی تعلیم ہو۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری جماعت تبلیغی جماعت ہے۔ دوسری قوموں میں جب ایک دفعہ سو فیصدی تعلیم ہوجائے گی تو اِن میں نئے اَن پڑھ داخل نہیں ہوں گے۔ آئندہ انہیں صرف بچوں کی تعلیم کا انتظام کرنا ہو گا مگر ہمارے اندر ہر وقت نئے لوگ آتے رہیں گے۔ وہ اگر ایک دفعہ سَو فیصدی تعلیم کر دیں تو اِن کے لئے پھر اِس میعاد کو قائم رکھنا بہت آسان ہو گا مگر ہمارے اندر دوسری قوموں میں سے جو اَن پڑھ آتے رہیں گے اُن کے لئے ہمیشہ فکر رکھنی پڑے گی لیکن یہ چیز ہمارے لئے کسی گھبراہٹ کا موجب نہیں ہونی چاہئے۔ اِس لئے کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کو جو قوتِ عملیہ حاصل ہے گو ہمیں اِس پر تسلی نہیںلیکن وہ دوسروں سے بہت زیادہ ہے اور اُس کی موجودگی میں یہ کوئی ایسا بوجھ نہیں جو ہم اُٹھا نہ سکیں اِس کام میں جماعت کے دوسرے تجربہ کار لوگوں سے مدد لی جاسکتی ہے۔ گو چونکہ اِس کی ابتدا خدّام الاحمدیہ نے کی ہے اِس لئے مَیں چاہتا ہوں کہ اِسے ختم کر نے کا سہرا بھی اِنہی کے سر ہو مگر جماعت کے تجربہ کار لوگوں کو چاہئے کہ اِن کو مدد دیں اور مختلف علاقے مختلف لوگوں کے سپرد کر دیئے جائیں۔ مثلاً حلقہ مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ وغیرہ مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر میرمحمداسحاق صاحب کے سپرد کیا جاسکتا ہے وہ اِس معاملہ میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور کئی مرتبہ مجھ سے اِس کے متعلق گفتگو بھی کر چکے ہیں۔
اِسی طرح بعض علاقے مولوی ابو العطاء صاحب کے سپرد کئے جاسکتے ہیں اور بھی تجربہ کار لوگوں کے سپرد مختلف حلقے کر کے اِن کو کام کرنے کے لئے کارندے دے دیئے جائیں تو یہ کام سہولت سے ہو سکتا ہے۔
اِس کے علاوہ ایک زائد بات بھی میرے خیال میں ہے میرے خیال میں خالی پڑھنا لکھنا کافی نہیں بلکہ کتابی تعلیم کی نسبت عملی تعلیم کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور اِسی لئے مَیں نے تحریک جدید میں یہ بات بھی رکھی تھی کہ کوئی شخص بے ہُنر نہ رہے۔ ہر احمدی کو کوئی نہ کوئی پیشہ آنا چاہئے اور اِس لئے مَیں صرف لفظی تعلیم پر بس نہیں کروں گا بلکہ کوشش کروں گا کہ ہر فرد کوئی نہ کوئی پیشہ جانتا ہو، کوئی نجاری ، کوئی لوہار کا کام، کوئی موچی کا کام، کوئی کپڑا بُننا اور کوئی معماری وغیرہ جانتا ہو۔ غرضیکہ ہر شخص کوئی نہ کوئی پیشہ اور فن جانتاہو۔
اِسی طرح بعض اَور باتیں جو عملی زندگی میں کام آنے والی ہیں وہ بھی سیکھنی چاہئیں۔ مَیں انہیں کھیلیں نہیں بلکہ کام ہی سمجھتا ہوں مثلاً گھوڑے کی سواری، تیرنا، کشتی چلانا اور تیر اندازی وغیرہ ہیں۔ ہر احمدی کوشش کرے کہ اِن میں سے کوئی نہ کوئی کام سیکھے اور ہو سکے تو سب سیکھے۔
حضرت خلیفۂ اوّل کئی بار یہ واقعہ سُنایا کرتے تھے اور اُن سے سُن کر مَیں نے بھی کئی دفعہ سُنایا ہے کہ حضرت اسماعیل شہید ایک دفعہ دہلی سے اپنے پیر حضرت سیّد احمد بریلوی صاحب سے جو افغانستان کی سرحد پر سکھوں کے ساتھ لڑنے کی تیاری کر رہے تھے ملنے کے لئے جارہے تھے۔ جب وہ اٹک پہنچے تو اُنہیں بتایا گیا کہ یہاں ایک سکھ ایسا اچھا تیراک ہے کہ کوئی اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اُنہوں نے پوچھا کہ کیا کوئی مسلمان بھی اِس کا مقابلہ نہیں کر سکتا؟ اُنہیں بتایا گیا کہ نہیں۔ یہ سُن کر باوجودیکہ وہ ایک نہایت اہم کام پر جا رہے تھے وہیں ٹھہر گئے، تیرنے کی مشق کی، اس سِکھ سے مقابلہ کیا اور پھر اُسے شکست دے کر آگے بڑھے۔ یہ ایمانی غیرت ہے۔ پہلے مسلمان یہ گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی شخص کسی فن میں بھی ان سے آگے بڑھ جائے لیکن اب تو یہ حالت ہے کہ جب مسلمان کسی کو اپنے سے آگے بڑھتا ہؤا دیکھتے ہیں تو بجائے اِس کے کہ اِن میں کوئی غیرت پیدا ہو وہ کندھے ہلاتے ہوئے گزر جاتے ہیں کہ ہمیں کیا۔ مومن میں یہ غیرت ہونی چاہئے کہ کسی فن میں بھی کوئی اس سے آگے نہ بڑھنے پائے۔
پس ہر احمدی کو کوئی نہ کوئی پیشہ اور فن ضرور سیکھنا چاہئے اور اِس کے لئے جماعت کے پیشہ ور دوست اپنے نام لکھوائیں کہ وہ کس حد تک اپنا کام دوسروں کو سکھا سکتے ہیں اِس سکیم کو عملی صورت دینے کے لئے مَیں بعد میں کمیٹیاں مقرر کر دوں گا۔ میرا مطلب یہ ہے کہ یہ پیشے اِس حد تک ہر شخص کو آجائیں کہ وہ اپنے گھر میں بطور شغل اِن کو کر سکے اور پھر انہیں ترقی دے سکے۔ جب کوئی پیشہ معمولی طور پر آجائے تو پھر رغبت سے اِسے بڑی ترقی دی جاسکتی ہے۔ پیشوں کے علاوہ بعض فنون بھی ایسے ہیں جو سیکھنے چاہئیں۔ جنگِ عظیم کے زمانہ میں ولایت میں ایک شخص بارکر نامی تھا اِس کے متعلق بہت شور پڑا کہ وہ ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑ دیتا ہے۔ وہاں یہ بات خلافِ قانون ہے کہ کوئی شخص بغیر سرٹیفکیٹ حاصل کئے سرجری کا پیشہ اختیار کرے۔ اِس لئے اِس پر مقدمہ چلایا گیا مگر سینکڑوں فوجیوں نے شہادتیں دیں کہ اِس شخص نے ہماری ایسی ہڈیاں جوڑ دی ہیں جن کو ڈاکٹر لا علاج قرار دے چکے تھے۔ آخر گورنمنٹ کو اُسے سرٹیفکیٹ دینا پڑا۔ یہاں قادیان میں بھی بعض لوگ ایسے فن جانتے ہیں اور باہر بھی ہیں۔ بعض نائی یا اَور لوگ ہیں جو ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑ دیتے ہیں یا بڑے بڑے خراب زخم اچھے کر دیتے ہیں۔ مجھے خود یاد ہے بچپن میں میرے پاؤں میں ایک دفعہ سخت چوٹ لگی تھی اور وہاں کبھی کبھی شدید درد ہوتا تھا۔ یہاں ایک دوست کی بیوی کو یہ فن آتا تھا کہ ایسی چوٹوں کا علاج کر سکے۔ ایک دفعہ میاں بیوی میں جھگڑا ہؤا اور بیوی میرے پاس شکایت لے کر آئی کہ میرا خاوند مجھے اِس کام سے روکتا ہے اور کہتا ہے کہ غیر مَردوں کی چوٹوں پر مالش وغیرہ نہیں کرنے دوں گا یہ ناجائز ہے ۔ مَیں نے کہا کہ یہ بات تو صحیح نہیں۔ احادیث سے تو ثابت ہے کہ صحابہ میں عورتیں ہی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔۱؎ اِس وقت تو مجھے خیال نہ آیا مگر بعد میں جب ایک دفعہ اِس درد کا حملہ ہؤا تو مَیں نے پتہ کرایا وہ عورت تو فوت ہو چکی تھی مگر مجھے بتایا گیا کہ اس نے اپنی لڑکی کو وہ فن سکھایا ہؤا ہے۔ مَیں نے اُسے بلواکر پاؤں پر مالش کرائی۔ اِس نے کہہ دیا تھا کہ پہلے یہاں وَرم ہو جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔ دو تین روز تو بہت ورم رہا پھر آرام آگیا اور اب دس سال کے قریب ہو چکے ہیں وہاں درد نہیں ہؤا حالانکہ پہلے مَیں ہمیشہ علاج کرتا رہتا تھا۔ کئی مرہمیں لگا چُکا تھا اور آیوڈین وغیرہ بھی لگاتا رہتا تھا۔ تو یہ فن جسے ہڈی ٹھیک کرنا کہتے ہیں کئی لوگ جانتے ہیں۔ یہ مجھے معلوم نہیں کہ طبی اصطلاح میں اِسے کیا کہا جاتا ہے مگر بعض اَن پڑھ لوگ اِس کے ایسے ماہر ہوتے ہیں کہ ڈاکٹروں سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ بعض نائیوں کے پاس ایسی مرہمیں ہیں کہ جن سے ڈاکٹروں کے لاعلاج زخم اچھے ہو جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک دفعہ ایک شخص نے لکھا کہ میری لات پر ایک زخم ہے اور ڈاکٹر کہتے ہیں کہ لات کٹوانی پڑے گی۔ حضور نے اُسے لکھا کہ بعض جراح بھی اپنے فن میں بڑے ماہر ہوتے ہیں اور خطرناک زخم اچھے کر دیتے ہیں۔ آپ کٹوانے سے پیشتر کسی جراح سے بھی علاج کرا کر دیکھ لیں۔ بعد میں اس دوست نے لکھا کہ مَیں نے ایک نائی کو دکھایا تھا جو اس علاقہ میں جراحی کے لئے مشہور تھا۔ اِس نے علاج کیا اور اب مَیں اچھا ہوں اور ڈاکٹر بھی اِس پر حیران ہیں تو ایسے فنون ابھی زندہ ہیں۔ سیّد احمد نور صاحب کابلی کے ناک پر زخم تھا اُنہوں نے کئی علاج کرائے، لاہور کے میو ہسپتال میں گئے، ایکسرے کرا کر علاج کرایا مگر زخم اَور بھی خراب ہوتا گیا۔ آخر وہ پشاور گئے اور وہاں ایک نائی سے علاج کرایا۔ اس نے صرف تین روز دوائی استعمال کرائی اور زخم اچھا ہو گیا۔ تو اب بھی ایسے ماہرینِ فن موجود ہیں جن کو ایسے ایسے پیشے آتے ہیں کہ اگر انہیں زندہ رکھا جائے تو ان سے آگے کئی نئے پیشے جاری ہو سکتے ہیں لیکن ان کے جاننے والے چونکہ انہیں زندہ رکھنے کی کوشش نہیں کرتے اِس لئے وہ ترقی نہیں کر رہے۔ اگر ان کی طرف لوگوں کو توجہ ہو تو اُن سے آگے کئی فنون نکل سکتے ہیں۔ مثلاً یہی ہڈیوں کا ٹھیک کرنا ہے پہلوان اور نائی اِسے جانتے ہیں اور اِس سے پرانی دردوں اور ٹیڑھی ہڈیوں کو درست کیا جاسکتا ہے۔ اِسے سیکھ کر پھیلانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پُرانے زمانہ میں لوگ ان پیشوں کے اظہار میں بہت بخل سے کام لیتے تھے اور کوئی کسی کو بتاتا نہ تھا اِس لئے وہ مِٹ گئے۔ یورپ والے ایسا نہیں کرتے بلکہ اپنے فن عام کر دیتے ہیں اِس سے وہ روپیہ بھی زیادہ کما سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سُنایا کرتے تھے کہ ایک نائی تھا جسے ایسی مرہم کا علم تھا جس سے بڑے بڑے خراب زخم اچھے ہو جاتے تھے۔ لوگ دُور دُور سے اُس کے پاس علاج کرانے کے لئے آتے تھے۔ اُس کا بیٹا اِس کا نسخہ پوچھتا تو وہ جواب دیتا کہ اِس کے جاننے والے دُنیا میں دو نہیں ہونے چاہئیں۔ آخر وہ بوڑھاہو گیا سخت بیمار ہؤا تو اُس کے بیٹے نے کہا کہ اب تو بتا دیں وہ کہنے لگا کہ اچھا اگر تم سمجھتے ہو مَیں مرنے لگا ہوں تو بتا دیتا ہوں مگر پھر کہنے لگا کہ کیا پتہ مَیں اچھا ہی ہو جاؤں اور اِس لئے پھر بتانے سے رُک گیا۔ چند گھنٹوں بعد اُس کی جان نکل گئی اور اُس کا بیٹا اِس فن سے محروم رہ گیا۔ وہ آرام سے بیٹھا تھا اور مطمئن تھا کہ گھر میں فن موجود ہے لیکن وہ اِس کے کسی کام نہ آسکا۔ تو بخل ترقی کا نہیں بلکہ ذلت و رسوائی کا موجب ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ خاندانوں کی تباہی کا موجب ہو جاتا ہے تو ان پیشوں اور فنون کا سکھانا مضر نہیں بلکہ مفید ہے۔ اِس سے علم ترقی کرتا ہے اور مَیں چاہتا ہوں کہ یہ فنون خصوصاً مُردہ فنون کو ترقی دی جائے۔ بچپن میں ہم بعض باتیں بڑی بوڑھیوںسے سُنتے تھے اور خود چونکہ انگریزی طرز کی تعلیم حاصل کر تے تھے اِس لئے سمجھتے تھے کہ یہ غلط باتیں ہیں۔ مثلاً یہ کہ بنگال میں اِتنی باریک ململ تیار ہوتی تھی کہ سارا تھان انگوٹھی میں سے گزرجاتا تھا۔ اِسی طرح اَور بھی نہایت اعلیٰ کپڑے تیار ہوتے تھے۔ ہم سمجھتے تھے کہ یہ باتیں مُلکی غیرت کی وجہ سے ہیں مگر جب ادھورا علم مکمل ہؤا تو پتہ لگا کہ وہ سب باتیں صحیح تھیں۔ مَیں نے ایک انگریز کی کتاب پڑھی ہے جس میں اُس نے گورنروں اور سرکاری افسروں کی رپورٹوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ بنگال میں بہت سی ایسی صنعتیں تھیں جنہیں انگریزوں نے مٹا دیا یہاں کا تیارکردہ سامان ولایت کے تاجر لے جاتے تھے اور انگلستان کے امراء کے تعیُّش کا سامان یہاں سے جاتا تھا بلکہ جب مَیں نے زیادہ تحقیق کی تو معلوم ہؤا کہ انگریزوں کے کپڑوں کے نام بھی ایشیائی ہیں مثلاً ململ کو انگریزی میں Muslin کہتے ہیں۔ یہ لفظ دراصل موصلین ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اُس زمانہ میں ہندوستان کی تمام تجارت عرب کے رستہ ہوتی تھی اور عربوں کے ہاتھ میں تھی جیسے آجکل انگلستان کے ہاتھ میں ہے۔ بعض چیزوں کے متعلق ہم پہلے سمجھتے تھے کہ وہ انگریز بناتے ہیں مگر جب جنگ شروع ہوئی اور وہ آنی بند ہو گئیں تو ہم حیران ہوتے تھے کہ یہ کیوں نہیں آتیں حالانکہ وہ انگلستان میں تیار ہوتی ہیں مگر بعد میں معلوم ہؤا کہ وہ دراصل انگلستان میں نہیں بلکہ جرمنی اور بیلجیئم میں بنتی تھیں۔ خصوصاً بعض دوائیاں ایسی تھیں جو جرمنی میں بنتی تھیں۔ ہندوستان میں چالیس ہزار تھان بڑا مشہور ہے یہ بیلجیئممیں بنتا ہے۔ انگریزتاجر وہاں سے لاکر ہندوستان میں بیچتے تھے اور لوگ سمجھتے تھے کہ انگلستان میں ہی بنتے ہیں۔ غرض جنگ کے دنوں میں جب ایسی اشیاء آنی بند ہوئیں یا کم ہو گئیں تو معلوم ہؤا کہ یہ دوسرے مُلکوں کی تھیں۔ اِسی طرح پُرانے زمانہ میں تجارت عربوں کے ہاتھ میں تھی۔ وہ ہندوستان سے خرید کر لے جاتے تھے اور پھر مختلف ممالک میں پہنچاتے تھے۔ اِسی طرح ایک مشہور کپڑا ڈمَسکس ہے۔ یہ دراصل دمشق سے جاتا تھا۔ ایک اور کپڑا ٹَفٹ ہے یہ دراصل طافتہ ہے۔ گویا تمام مشہور کپڑوں کے نام یا تو عربی شہروں یا عربی الفاظ سے اخذ کردہ ہیں مگر آج ہمیں یہ خیال تک بھی نہیں آتا کہ یہ چیزیں ہماری ہیں اور یہاں سے جاتی تھیں۔ اِس زمانہ میں تمام تجارت عربوں اور ایرانیوں کے ہاتھ میں تھی مگر ایشیائیوں کے بخل کی وجہ سے یہ یورپ کے ہاتھ میں چلی گئی۔ یورپ میں ایک آدمی کوئی چھوٹی سی چیز لیتا ہے اور اُسے ایسی طرح پھیلاتا ہے کہ ہر شخص اُسے خریدنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ یہ بچوں اور بیماروں کے لئے جوغذائیں ولایت سے آتی ہیں جیسے بیلنس فوڈ وغیرہ یہ یہی جَو اور جوار کا آٹا وغیرہ ہیں۔ کسی شخص کو علم ہو گیا اس نے خوبصورت ڈبوں میں بند کیا لیبل لگائے، ساری دُنیا میں اشتہار دیا اور اِس طرح فائدہ اُٹھایا لیکن ہمارے مُلک میں اگر کسی کو علم ہوتا تو وہ اگر اس کی ذات تک نہیں تو اُس کے خاندان تک محدود رہتا یا زیادہ سے زیادہ اس گاؤں تک محدود رہتا مگر وہ لوگ اپنے علم کو عام کر دیتے ہیں۔ جرمنی میں تو یہ قانون ہے کہ ہر دوائی کے ساتھ نسخہ بھی لکھ دیا جائے۔ اُنہوں نے ایسا قانون بنایا ہؤا ہے کہ کِسی نئی دوا کا دریافت کرنے والا ہی چند سالوں تک اِسے تیار کر سکتا ہے۔ اِس عرصہ میں اگر کوئی اَور تیار کرے تو اُسے سزا دی جاتی ہے۔ اِس عرصہ کے بعد جس کا جی چاہے تیار کرے اور اِس طرح دریافت کرنے والے کو بھی کافی فائدہ پہنچ جاتا ہے اور علم بھی محدود نہیں رہتا۔ وہ لوگ چھپاتے نہیں بلکہ عام کرتے ہیں اور یہی اُن کی کامیابی کا راز ہے۔ یہی مرہمیں جو یہاں کے نائیوں کے پاس ہیں اگر اُن لوگوں کے پاس ہوتیں تو وہ اِس سے لاکھوں کروڑوں روپیہ کماتے اور اُن کی اشاعت بھی کر دیتے۔ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے لاکھوں روپوں کے کارخانے جاری کر لیتے ہیں۔ کونین ہی ہے یہ جزائر بحرالہند یا اُن کے قریب کے علاقوں میں پیدا ہوتی ہے۔ وہاں کے لوگ اِس کے درخت سے بیماریوں کا علاج تو کرتے تھے مگر کوئی تجارتی فائدہ نہ اُٹھا سکتے تھے۔ وہاں کوئی انگریز ڈاکٹر آیا اُسے علم ہؤا تو اُس نے پہلے اِس سے ٹنکچر سنکونا تیار کی اور پھر کسی اَور نے کونین بنالی اور اِس طرح اِس صنعت نے اِس حد تک ترقی کی کہ اب وہ لوگ جن کے پاس سے یہ جاتی ہے وہ بھی یورپ سے ہی خریدتے ہیں۔ اگر وہ خود اِس کام کو جاری کرتے اور اُسے وسعت دینے کا خیال کرتے تو خود فائدہ اُٹھا سکتے تھے۔ تو جو قومیں پیشوں کے اظہار میں بخل سے کام نہیں لیتیں وہ غالب ہو جاتی ہیں اور اُن میں سے ایسے ماہر پیدا ہو جاتے ہیں کہ گو لوگ جانتے ہیں کہ یہ کام کس طرح کیا جاتا ہے مگر وہ اُن سے ہی کراتے ہیں کیونکہ فائدہ خالی علم سے نہیں ہوتا بلکہ مہارت سے ہوتا ہے۔
پس مَیں صرف یہ نہیں کہتا کہ کتابی علم عام کئے جائیں بلکہ حِرفہ اور فنون کی تعلیم کو بھی عام کیا جائے۔ یہ صرف غرباء کے لئے ہی نہیں بلکہ امراء کے لئے بھی مفید ہیں۔ پھر اِس لحاظ سے بھی یہ مفید ہوتی ہیں کہ بعض اوقات بڑے بڑے لوگوں کی بھی نوکریاں چھُوٹ جاتی ہیں۔ چار پانسو بلکہ ہزار ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پانے والے RETRENCHMENT۲؎ کی وجہ سے بے کار ہو جاتے ہیں یا اُن پر کوئی الزام لگتا ہے اور وہ برخاست ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر کوئی فن آتا ہو تو وہ تجارت وغیرہ شروع کر کے گزارہ کر سکتے ہیں لیکن کتابی علم والا صرف نوکری ہی کر سکتا ہے اور اِس وجہ سے جب وہ چھوٹ جائے تو گھر میں بیٹھ کر تمام اندوختہ کھا لیتا ہے اور پھر بچے بھی خراب ہوتے ہیں اور خود بھی آخری عمر میں تکلیف اُٹھاتا ہے۔
پس میری تجویز یہ ہے کہ پہلے تو تین ماہ٭کے عرصہ میں سب کو کتابی تعلیم دے دی جائے اِس کے بعد حِرفہ کی طرف توجہ کی جائے اور جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ مجھے لکھیں کہ وہ کیا کیا پیشے جانتے ہیں اور کتنے لوگوں کو کتنے عرصہ میں سکھا سکتے ہیں اور کیا کیا انتظامات ضروری ہیں؟ مَیں چاہتا ہوں کہ سب لوگ کوئی نہ کوئی پیشہ سیکھ جائیں۔ کوئی نجاری، کوئی معماری اور کوئی لوہار کا کام اور کوئی موچی کا کام۔ یہ کام اتنے اتنے سیکھ لئے جائیں کہ گھر میں بطور شغل اختیار کئے جاسکیں اور اگر کوئی مہارت پیدا کرے تو وہ اختیار بھی کر سکے۔ اِس سے قومی رنگ میں بھی کئی فوائد ہو سکتے ہیں مثلاً اگر موچی کا کام آتا ہو تو ایک دن مقرر کر کے غرباء کے لئے جوتے تیار کئے جاسکتے ہیں۔ چمڑا جماعت کی طرف سے دے دیا جائے اور سب بیٹھ کر جوتے تیار کردیں یا معمار ، نجار اور لوہار وغیرہ مل کر ایک دن کسی غریب کا مکان بنا دیں۔ یہ خدمت ہو گی جس سے ثواب حاصل ہو گا اور غریب کا مکان بھی بغیر خرچ کے تیار ہو جائے گا۔ یہ اِسی صورت میں ممکن ہے کہ اِن پیشوں کو عام کر دیا جائے ورنہ اگر پیشہ ور ایسا کرنے لگیں تو وہ سارا سال مُفت ہی کرتے رہیں گے جس طرح سب مل کر مٹی ڈالتے ہیں اِسی طرح سب مل کر کسی غریب کا مکان بنا دیں ۔ ماہر اور کاریگر معمار اور نجار وغیرہ نگرانی کرتے رہیں اور دوسرے کام کریں۔ اِس طرح قومی عمارتیں بھی تیار ہو سکتی ہیں۔
پس مَیں کتابی تعلیم سے زیادہ عملی تعلیم کی وسعت چاہتا ہوں۔ بے شک کتابی علم مُفید ہے مگر اِس سے بڑھ کر فنون اور پیشوں کا علم مُفید ہے اور اِس سے قوم کا اقتصادی معیار بُلند ہوتاہے۔
مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ خدّام الاحمدیہ تین دن کے اندر اندر ایسی سکیم پیش کردیں گے کہ جس سے تین ماہ ٭کے اندر اندر قادیان میں کوئی شخص اَن پڑھ نہ رہے اور ایک ہفتہ کے اندر اندر وہ لوگ جو پیشے اور فنون جانتے ہیں مجھے اطلاع دے دیں گے کہ وہ کیا کیا پیشے جانتے اور کتنے کتنے لوگوں کو سکھا سکتے ہیں؟
بعض فن ایسے ہیں جنہیں عام لوگ جانتے بھی نہیں۔ ہم تو یہ عام معمار، نجار، لوہار، موچی وغیرہ کے پیشوں کو ہی جانتے ہیں۔ اِس کے علاوہ بھی بہت سے پیشے ہیں جو ہم نہیں جانتے۔
مَیں نے ایک دفعہ پتہ کرایا تھا تو معلوم ہؤا کہ ایک دوست کلاہ بنانا جانتے ہیں اور جو دوست ایسے پیشے اور فنون جانتے ہوں وہ بھی مجھے اطلاع دیں۔ اگر ان کو جاری کر دیا جائے تو کئی لوگوں کے گزارہ کی صورت پیدا ہو سکتی ہے اور کئی ایک کی آمد میں ترقی ہو سکتی ہے۔
پس جِسیکوئی پیشہ آتا ہو وہ مجھے اطلاع دے تا دوسروں کو سکھانے کا انتظام کیا جاسکے۔
مَیں تو چاہتا ہوں کہ مدرسوں میں بھی ایسے فنون سکھانے کا انتظام کیا جائے اور طالب علم جب ہمارے مدرسہ سے انٹرنس پاس کر کے نکلے تو وہ صرف انٹرنس پاس نہ ہو بلکہ موچی، معمار یا لوہار بھی ہو اور اگر یہ سکیم کامیاب ہو جائے تو جماعت کی اقتصادی حالت میں بہت اصلاح ہوسکتی ہے اور اِس کے علاوہ ایسے نوجوانوں کے لئے بھی کام کا انتخاب کرتے وقت وسیع میدان ہو سکتا ہے۔ اب تو انٹرنس پاس کرنے والے نوجوان کے لئے دائرہ بہت محدود ہے وہ صرف کلرکی ہی کر سکتا ہے مگر کوئی پیشہ جاننے کی صورت میں یہ دائرہ بہت وسیع ہو گا۔ مثلاً لوہار کا کام جاننے والا انٹرنس پاس ریلوے میں آسانی کے ساتھ فورمین ہو سکتا ہے اور اڑھائی تین سو روپیہ ماہوار تک تنخواہ پا سکتا ہے مگر کلرک پندرہ بیس سال کی ملازمت کے بعد بمشکل پچہتر روپیہ تک پہنچتا ہے۔تعلیم یافتہ پیشہ ور کے لئے ترقی کا بہت موقع ہوتا ہے سندھ میں مجھے ایک شخص نے جو وہاں اسسٹنٹ انجینئر تھے سُنایا کہ مَیں لوہار ہوں۔ اُن میں یہ خوبی تھی کہ وہ اپنی گزشتہ حالت کو چھُپاتے نہ تھے۔ بعض لوگ بہت چھُپاتے ہیں۔ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ مَیں پہلے بیس تیس کا مستری تھا لیکن جس وقت مَیں انہیں مِلا ہوں وہ خان بہادر اور اسسٹنٹ انجینئر تھے اور اُنہوں نے لوہار کے کام سے ہی ترقی کی تھی۔ محنتی آدمی تھے، رات دن محنت کرنے والے اور خطرہ سے نہ ڈرنے والے تھے۔ اُنہوں نے سُنایا کہ ایک دفعہ دریائے سندھ کا پُل ٹوٹنے لگا، اِس زور سے طغیانی آئی کہ سب لوگ بھاگ گئے۔ اِس کے ایک حصّہ کی نگرانی میرے سپرد تھی۔ مَیں نے سمجھا کہ میری ملازمت کا سارا ریکارڈ آج تباہ ہو جائے گا۔ مَیں نے سوچا کہ اگر مَیں خود پیچھے رہا تو کوئی آگے نہ بڑھے گا اِس لئے مَیں خود پانی میں کُود پڑا اور ساتھیوں سے کہا کہ کم بختو بھاگتے کہاں ہو؟ اور کچھ نہیں تو مٹی کے بورے بھر بھر کر ہی میرے آگے ڈالتے جاؤ۔ چنانچہ وہ ساری رات مٹی ڈالتے رہے نتیجہ یہ ہؤا کہ صبح کے وقت وہ شگاف بند ہو گیا اور اس طرح مُلک بھی تباہی سے بچ گیا اور بیراج پر جو کروڑوں روپیہ خرچ ہو چُکا تھا وہ بھی ضائع ہونے سے بچ گیا۔ اِن کی اِس خدمت کی گورنمنٹ نے بہت قدر کی۔ وائسرائے نے بھی خوشنودی کی چِٹھی بھجوائی۔ خان بہادر بنا دیا گیا اور عُہدہ میں بھی ترقی ہوئی۔ تو محنت کرنے والا انسان ہمیشہ ترقی کر کے بڑھتا جاتا ہے۔ ولایت میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اِسی طرح ترقی کی ہے۔ ایڈیسن جس نے فونو گراف ایجاد کیا ہے وہ پہلے ایک کارخانہ میں چِٹھیاں پہنچانے پر ملازم تھا مگر اُسے محنت کی عادت تھی۔ جب وہ ایک چٹھی پہنچا کر آتا تو دوسرا آرڈر ملنے تک بیٹھا سائنس کے تجربے کرتا رہتا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جب وہ جوانی کو پہنچا تو سائنس سے بخوبی واقف ہو چُکا تھا اور مرنے تک اُس نے ایک ہزار ایک ایجادات کیں اور ہر کارہ سے کروڑ پتی ہو کر مرا۔ ایسے واقعات ہزار ہا ہیں کہ لوگ معمولی مزدور کی حیثیت سے ترقی کر کے بڑے آدمی بن گئے جس کی وجہ یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی تعلیم کو جاری رکھا لیکن ہمارے مُلک میں یہ ذہنیت ہے کہ لوہار ترکھان وغیرہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں تعلیم کی کیا ضرورت ہے؟ اور تعلیم حاصل کرنے والے خیال کرتے ہیں کہ ہمیں کوئی پیشہ سیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ حالانکہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی مُمِد ہیں اور مُفید ہیں لیکن یہاں جو شخص پڑھے وہ کہتا ہے مَیں لوہار یا بڑھئی کیوں بنوں اور جو لوہار یا بڑھئی ہو وہ کہتا ہے کہ مَیں پڑھوں کیوں؟ حالانکہ جو پیشہ ور تعلیم یافتہ ہو وہ روپیہ ڈیڑھ روپیہ روزانہ کمانے کے بجائے چار پانچ روپے کما سکتا ہے اور تعلیم یافتہ آدمی اگر پیشہ جانتا ہو تو وہ بھی زیادہ ترقی کر سکتا ہے۔ پس طالب علموں کے لئے بھی میرا ارادہ ہے کہ ان کو پیشے سکھانے کا انتظام کیا جائے۔ گواِس کے متعلق ابھی کوئی سکیم میرے ذہن میں نہیں کہ جس سے تعلیم کو نقصان پہنچائے بغیر یہ کام سکھائے جاسکیں اور مَیں سمجھتا ہوں اگر جماعت اِس میں کامیاب ہو جائے تو پہلا لڑکا جسے نوکری ملے وہ ہمارے سکول کا طالب علم ہو گا اور ملازم رکھنے والوں کی نظر انتخاب سب سے پہلے اِسی سکول سے پڑھ کر نکلنے والوں پر پڑے گی۔
پس پیشہ ور احباب اپنے اپنے نام اور پیشے مجھے لکھیں کہ جو دوسروں کو سکھا سکتے ہیں اور خدّام الاحمدیہ تین دن کے اندر اندر مجھے اطلاع دے کہ تعلیم کو عام کرنے کے لئے ان کی کیا سکیم ہے؟ اور اِسی طرح لجنہ دو ہفتہ کے اندر ایسی سکیم پیش کرے کہ جس سے قادیان کی ہر عورت کو تعلیم یافتہ بنایا جاسکے۔‘‘ (الفضل ۲۹؍اپریل ۱۹۳۹ئ)
۱؎ ابو داؤد کتاب الجہاد باب فِی النساء یَغْزُوْنَ
۲؎ RETRENCHMENT: The Reduce the amount of cost یعنی مہنگائی کی وجہ سے تنخواہ/آمد اتنی کم ہو جانا کہ گزارہ نہ ہو سکے۔ معاشی مشکلات کی وجہ سے کوئی ادارہ اپنے ملازمین کو تنخواہ نہ دے سکنے کی وجہ سے اُن کو فارغ کر دے اور اُن کی ضرورتیں پوری نہ ہو سکیں۔
۱۳
قادیان میں کسی احمدی کو اَن پڑھ نہ رہنے دیا جائے
(فرمودہ ۲۸؍اپریل۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے گزشتہ ہفتہ میں قادیان کی تعلیم کا کام خدّام الاحمدیہ کے سُپرد کیا تھا اور مَیں نے انہیں نصیحت کی تھی کہ وہ اِس کام کو اپنے سے باہر جو تجربہ کار لوگ ہیںاُن کی مدد سے شروع کریںاور تین دن کے اندر اندر لسٹ بنا کر میرے سامنے پیش کر دیں۔ چنانچہ اِس کے مطابق خدّام الاحمدیہ نے تین دن کے اندر اندر لسٹ بنا کر میرے سامنے پیش کر دی جس کے دوسرے دن بُلا کر مَیں نے اُن سے بھی اور میر محمد اسحاق صاحب اور مولوی ابو العطاء صاحب سے بھی مشورہ کر کے ایک سکیم تجویز کر دی۔ وہ سکیم یہ تجویز ہوئی ہے کہ ہر احمدی مرد جو دس سال سے اوپر ہے اُسے ایک تو قرآن پڑھنا آتا ہو، دوسرے نماز باترجمہ آتی ہو، تیسرے وہ اُردو پڑھ اور لکھ سکتا ہو اور چوتھے سَو تک کے ہندسے اُسے آتے ہوں۔ غور کرنے کے بعد یہ بھی فیصلہ ہؤا کہ تین مہینہ میں یہ کورس ختم نہیں ہو گا اِس لئے تین ماہ کی بجائے چھ مہینے تجویز کئے گئے اور ساتھ ہی چار امتحان بھی تجویز کئے گئے ہیں۔ چنانچہ پہلا امتحان یکم جون کو ، دوسرا یکم جولائی کو، تیسرا یکم ستمبر کواور چوتھا یکم نومبر کو ہو گا۔ پڑھانے والوں کی تعداد خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر محلہ میں کافی ہے سوائے دارُالصحت کے۔ اور دارُالصحت ہی ایک ایسا محلہ ہے جو اپنے اندر ایک خصوصیت رکھتا اورہماری بہت زیادہ توجہ چاہتا ہے۔ یہ قومیں جو ہندو تہذیب و تمدن کے ماتحت کسی وقت سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے اچھوت قرار دی گئی تھیں درحقیقت مُلک کی قدیم باشندہ ہیں اور آرین نسلوں کے آنے سے پہلے ہندوستان میں حکومت کرتی رہی ہیں۔
چنانچہ جغرافیہ والے ان کو ڈریویڈینز ( DRAVADIANS) کہتے ہیں۔ یہ لوگ سیاسی طور پر کسی زمانہ میں مغلوب ہوئے پھر ذلیل سے ذلیل تر ہوتے چلے گئے۔ پہلے حکومت گئی ،پھر تجارت گئی، پھر صنعت و حرفت گئی، پھر علم گیا، پھر عزت گئی گویا وہ ساری چیزیں جو دنیا میں انسان کی عزت اور ترقی کے لئے اﷲ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہیں ان سے یہ محروم ہو گئیں اور سینکڑوں نہیں ہزاروں سالوں سے محروم چلی آتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے کہ ’’کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے‘‘ ۱؎ اور مَیں سمجھتا ہوں اِس الہام میں اِس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ قومیں جو ادنیٰ کہلاتی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ان کو ادنیٰ حالت سے نکال کر ترقی کی طرف لے جایا جائے گا۔ آج سیاسی طور پر دُنیا میں ایسے حالات پیدا ہیں کہ ہندو اور مسلمان دونوں یہ چاہتے ہیں کہ ان قوموں کو وہ اپنے اندر شامل کریں مگر ان کو شامل کرنا محض سیاسی ہے اور اِن کی غرض صرف اتنی ہی ہے کہ یہ لوگ آئندہ ہندو یا مسلمان کہلائیں اور اپنے ووٹ ان کو دے دیں اور اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ جو قوم جس کے ساتھ شامل ہو گئی اپنے ووٹ بھی اسی کو دے گی مگر میرے نزدیک اِن سے صرف اتنی ہی ہمدردی کرنا کہ ان کا نیا نام رکھ دیا جائے اور ان کے ووٹوں سے خود فائدہ اُٹھا لیا جائے نہایت کمینہ اور اخلاق سے گری ہوئی بات ہے۔ اگر ہم اِن قوموں کو حقیقی فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اِن میں تعلیم پھیلائیں، اِن میں پیشوں کی ترویج کریں، انہیں صنعت و حِرفت کے کام سکھائیں۔ یہاں تک کہ ان کا معیارِ زندگی بلند ہو جائے، ان کا معیارِ عقل بلند ہو جائے، اِن کا معیارِ علم بلند ہو جائے۔ مَیں نہیںسمجھ سکتا کہ سانسی، چوڑھے اور بھیل قوم کے افراد جو ذلیل سمجھے جاتے ہیں یا بعض اَور قومیں جو اِس ملک میں ادنیٰ اور حقیر سمجھی جاتی ہیں اگر اُن میں تعلیم آجائے، اگر اُن میں سے بھی بی۔اے اور ایم۔اے بننا شروع ہو جائیں ، اگر وہ بھی مولوی فاضل کی ڈگریاں حاصل کر لیں، اگر وہ بھی مساجد کے منبر پر کھڑے ہو کر وعظ کریں، اگر اُن کی زبان سے بھی ایسی باتیں نکلیں جنہیں سُن کر پُرانی نسلوں کے مسلمان واہ واہ اور سبحان اﷲ کہیں اگر وہ بھی مدرسوں کی کرسیوں پر بیٹھیں، اگر وہ بھی کالج کے پروفیسر بنیں، اگر وہ بھی اپنی قوم کے لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم دلائیں تو وہ اِس ذلت کے نام کو اپنے ساتھ رہنے دیں گے یقینا یہ نام پیچھے رہ جائے گا اور وہ قوم ترقی کی منزلوں کی طرف بڑی سُرعت سے قدم بڑھاتی ہوئی چلی جائے گی۔
پس ہماری جماعت کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ اپنے لوگوں کو صرف نام کا مسلمان نہ بنائے بلکہ ان کے لئے علمی، اخلاقی، تمدنی اور اقتصادی ترقی کے سامان مہیا کرے کیونکہ سب سے زیادہ تعلیم کے یہی لوگ مستحق ہیں اور سب سے زیادہ مجبور بھی یہی ہیں۔ اِن میں اتنے لکھے پڑھے لوگ نہیں کہ یہ دوسروں کی مدد کے بغیر اپنی قوم کے افراد کو پڑھا سکیں۔ پس ہمیں سب سے پہلے ان کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ خدّام الاحمدیہ کی طرف سے مجھے بتایا گیا ہے کہ ان کے زیادہ قریب دارالرحمت والے ہیں اور وہ محلہ دارالرحمت کے رہنے والوں سے خواہش کر رہے ہیں کہ وہ اِس معاملہ میں اِن کی مدد کریں اور دارالصحت والوں کو پڑھائیں۔ مَیں بھی اِس موقع پر دارالرحمت کے لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں بلکہ مَیں سمجھتا ہوں دارالرحمت کے لوگوں کی تخصیص کی اِس میں ضرورت نہیں۔ یہ ایک ثواب کا کام ہے اور ثواب کے کام کے لئے دور سے بھی لوگ آسکتے ہیں۔ پس دوسرے محلوں سے بھی جو دوست یہ ثواب حاصل کرنا چاہتے ہوں اُنہیں چاہئے کہ وہ اپنی خدمات پیش کر کے یہ عظیم الشان ثواب حاصل کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اِس پیشگوئی کو پورا کرنے والے بن جائیں کہ ’’کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے‘‘ یہ قومیں نام کے لحاظ سے بیشک آزاد ہیں مگر حقیقتاً غلام ہیں اور غلاموں کو آزاد کرانا مومنوں کے عظیم الشان فرائض میں سے ایک فرض ہے۔
پس مَیں خدّام الاحمدیہ کو بھی توجہ دلاتا ہوں اور جماعت کے دوسرے دوستوں کو بھی کہ وہ اِس محلہ کی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ کریں مگر اس تعلیم کے علاوہ جو دوسری تعلیم ہے یعنی اعلیٰ مذہبی اور دُنیوی تعلیم اِس کی طرف بھی ہمیں توجہ کرنی چاہئے اور مَیں اِس کے لئے صدر انجمن احمدیہ کوتوجہ دلاتا ہوں کہ وہ بعض خاص وظیفے ایسے مقرر کرے جن سے اِس قوم کے لڑکوں کو زیادہ اعلیٰ تعلیم دلائی جاسکے۔ خالی پڑھنا لکھنا سکھا دینا کافی نہیں بلکہ اِس قوم کی مجموعی حالت کو درست کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان میں اعلیٰ تعلیم رائج کی جائے۔ جب ان لوگوں میں سے بعض نوجوان ایف اے اور بی اے ہو جائیں گے، بعض مذہبی لحاظ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیں گے اور وہ اپنے گھر کے افراد اور اپنی قوم کے افراد پر اثر ڈالیں گے تو لازماً ان کی حالت پہلے سے بہت سُدھر جائے گی، وہ اپنے گھروں کو اچھا بنائیں گے، وہ ان میں صفائی کا زیادہ خیال رکھیں گے، وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں گے اور اس طرح قوم کا علمی، عقلی اور تمدنی معیار بہت بُلند ہو جائے گا مگر یہ کام خدّام الاحمدیہ کا نہیں۔ مَیں اِس کے متعلق صدر انجمن احمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اِن کے لئے بعض وظائف مقرر کرے اور اگر اِس سال زیادہ وظائف مقرر نہ کئے جاسکیں تو کم از کم ایک وظیفہ اِس سال دارالصحت کے کسی بچے کو تعلیم دلانے کے لئے ضرور جاری کر دینا چاہئے۔ چاہے اُس بچے کو بورڈنگ میں ہی رکھنا پڑے تاکہ اُس کا اخلاقی معیار بھی بُلند ہو اور اُس کی ذہنی ترقی بھی ہو۔
پس وہ ایک سے تجربہ شروع کریں اور جوں جوں اِس میں کامیابی ہوتی چلی جائے ان وظائف کو زیادہ کرتے چلے جائیں۔ اگر صدر انجمن احمدیہ یہ کام شروع کر دے تو تھوڑے عرصہ میں ہی عظیم الشان تغیر پیدا ہو سکتا ہے اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو مَیں سمجھتا ہوں یہ بہت بڑی کمینگی ہو گی کہ ہم نام میں تو ان لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیں مگر ان خوبیوں میں شامل نہ کریں جو قومی طور پر خدا تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہیں۔
پھر مَیں اُن تمام لوگوں سے خواہش کرتا ہوں جن کے متعلق ہمیں یہ معلوم ہؤا ہے کہ وہ پڑھے ہوئے نہیں کہ وہ اِس کام میں حصّہ لیں اور ہماری مدد کریں۔ یہ محض ان کے فائدہ کی سکیم ہے جو جاری کی گئی ہے۔ اگر اِن کے اوقات کا حرج بھی ہو تو وہ اِس حرج کو گوارا کر کے اپنی تعلیم مکمل کر لیں۔ چھ مہینے انسان کی زندگی میں سے کوئی بڑا عرصہ نہیں۔ لوگ ہر سال دو دو تین تین مہینوں کے لئے تبدیلی ٔ آب و ہوا کے لئے باہر چلے جاتے ہیں اور اِس عرصہ میں لازماً اُن کے کاموں کو نقصان پہنچتا ہے مگر وہ کوئی پروا نہیں کرتے۔ قادیان سے ہی ہر سال پانچ سات آدمی گرمی کے ایّام میں کشمیر یا پالم پور چلے جاتے ہیںاور وہ اِس عرصہ میں جب تک باہر رہتے ہیں کوئی خاص کام نہیں کرتے۔ اگر اُن کی یہاں تجارت ہوتی ہے تو تجارت چھوڑ جاتے ہیں، ملازمت ہوتی ہے تو رخصت لے لیتے ہیں، بہرحال وہ تفریح طبع کے لئے اوقات نکال لیتے ہیں اور یہاں تو روزانہ صرف ایک یا دو گھنٹے وقت صَرف کرنا ہے جس میں کوئی مُشکل بات نہیں۔ ہاں ممکن ہے کہ بعض کا ذہن ایسا تیز نہ ہو اور انہیں پندرہ بیس دن اِس کام کے لئے کلیۃً اپنے آپ کو فارغ کرنا پڑے۔ اِس صورت میں انہیں پندرہ بیس دنوں کے لئے اپنے آپ کو فارغ بھی کرنا پڑے گا اور مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی شخص ایسا ہو جو اپنی عمر میں سے پندرہ بیس دن اِس کام کے لئے فارغ نہ کر سکے جس میں نہ صرف اس کا اپنا فائدہ ہے بلکہ اسلام اور احمدیت کا بھی فائدہ ہے۔
پس سب کو چاہئے کہ اِس کام کو اپنا کام سمجھ کر اور سلسلہ کا کام سمجھ کر کریں اور اگر اِس کام کے لئے انہیں اپنے وقت کی قربانی کرنی پڑے تو شوق اور خوشی کے ساتھ یہ قربانی کریں جب ان میں تعلیم آجائے گی تو لازماً وہ اپنے بچوں کو زیادہ تعلیم دلائیں گے اور پھر تعلیم کی قدر بھی انہیں معلوم ہو جائے گی۔ مثلاً نماز با ترجمہ ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اِس کے بغیر عبادت میں کبھی لذّت نہیں آسکتی۔ مَیں نے دیکھا ہے یورپ کے لوگ اکثر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اُس نماز کا فائدہ کیا جس میں محض الفاظ رٹے جاتے ہیں اور کہنے والے کو یہ پتہ تک نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ یہ اعتراض ہے تو غلط مگر اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ نماز کا پورا فائدہ بغیر ترجمہ کے حاصل نہیں ہو سکتا اور اگر ہم اِس سوال کا جواب دیں تو صرف دو طرح ہی دے سکتے ہیں۔ یاتو ہم یہ کہیں کہ باوجود ترجمہ نہ جاننے کے نماز سے ہم پورا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور یا یہ کہیں کہ یہ بالکل غلط بات ہے کہ مسلمان نماز کا ترجمہ نہیں جانتے۔مسلمانوں میں سے ہر شخص نماز کا ترجمہ جانتا ہے اور اِس وجہ سے وہ نماز سے پورا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ انہی دو جوابوں سے ہم دُشمن کو خاموش کرا سکتے ہیں مگر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ دونوں جواب بالکل غلط ہیں۔ ہم ہر گز نہیں کہہ سکتے کہ ترجمہ کا کوئی فائدہ نہیں اور بغیر اِس کا علم رکھنے کے بھی نماز سے پورا فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے اور ہم یہ جواب بھی قطعاً نہیں دے سکتے کہ ہر مسلمان نماز کا ترجمہ جانتا ہے کیونکہ یہ بھی قطعی طور پر غلط ہے۔
پس دُشمن کے اعتراض سے بچنے کے لئے ہمارے لئے ایک ہی راستہ کھلا ہے اور وہ یہ کہ سب مسلمانوں کو نماز کا ترجمہ سکھا دیں۔ پھر دُشمن کا اعتراض بھی باطل ہو جائے گا اور ہماری قوم کی مذہبی اور علمی حالت بھی ترقی کر جائے گی اور کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ ہم ایک ایسا کام کرتے ہیں جس کا فائدہ ہمیں اتنا بھی نہیں پہنچتا جتنا فائدہ وہ قومیں اُٹھا رہی ہیں جو اصل زبان کی بجائے اِس کا ترجمہ نماز میں پڑھنے کی عادی ہیں۔ یورپین قوموں میں جس قدر دُعائیں اور عبادت کے کلمات رائج ہیں وہ اصل زبان میں نہیں بلکہ اُن کا ترجمہ ہے۔ اصل زبان عبرانی تھی مگر بعد میں اِس کا یونانی میں ترجمہ ہؤا اور اس سے انگلستان والوں نے انگریزی میں ترجمہ کر لیا، جرمنی والوں نے جرمن میں ترجمہ کر لیا، فرانس والوں نے فرانسیسی زبان میں ترجمہ کر لیا اور روس والوں نے روسی زبان میں ترجمہ کر لیا۔ اِس طرح گو اصل زبان اُن کے سامنے نہیں آتی مگر وہ اِس کا مطلب اور مفہوم خوب سمجھتے ہیں مگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ عربی زبان میں ہی نماز ہونی چاہئے پنجابی یا اُردو یا کسی اَور زبان میں نماز جائز نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اگر ایک پنجابی آدمی جو عربی نہیں جانتا نماز میں کھڑے ہو کر یوں نماز دُہراتا ہے کہ ’’مَیں اس اﷲ کا ناں لیکے نماز شروع کردا ہاں۔ جو بڑی مہربانیاں تے احسان کرن والا ہے۔ مَیں اس اﷲ دی تعریف کردا ہاں جیہڑا رب ہے سارے جہاناں دا، جیہڑا بڑا مہربان تے رحیم ہے۔‘‘تو فوراً اس کے دماغ میں ایک مضمون پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں جُوش مارنے لگ جاتی ہے لیکن اگر وہ کہتا ہے ۲؎اور وہ نہیں جانتا کہ کے کیا معنے ہیں تو اُس کا دماغ بالکل خالی رہتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ نامعلوم کیا چیز ہے؟ اور نا معلوم کسے کہتے ہیں؟ پھر جب وہ کہتا ہے ۳؎تو پھر حیران ہوتا ہے کہ حمد کیا ہوئی؟ اور کے کیا معنے ہوئے ؟ اِسی طرح جب وہ کہتا ہے ۴؎تو وہ یہ نہیں جانتا کہ کے کیا معنے ہیں؟ بے شک اُسے یہ تو خیال آئے گا کہ یہ جو کچھ مَیں کہہ رہا ہوں میرے مذہب کی تعلیم ہے اور مَیں ان الفاظ کے ذریعہ اﷲتعالیٰ کی عبادت کر رہا ہوں مگر اِس نماز کا جو علمی فائدہ ہے وہ اُسے حاصل نہیں ہو گا لیکن اگر جیسا کہ بائیبل کی دُعاؤں کا ترجمہ عیسائی کرلیتے ہیں وہ کہنے کی بجائے یہ کہے کہ اے میرے رب مَیں تیری ہی عبادت کرداں ہاں اور تیرے کولوں ہی مدد منگدا ہاں، تو اِس وقت وہ ایک ربودگی کی حالت میں ہو گا اور جب وہ یہ کہہ رہا ہو گا کہ خدایا مَیں تیرے کولوں ہی مدد منگداہاں تیرے سوا مینوں مدد دینے والا ہور کوئی نہیں، تو خود ہی سوچ لو اِس پر کتنی رقت طاری ہو گی؟ اور کس قدر اﷲ تعالیٰ کی خشیت اِس کے دل میں موجزن ہو گی لیکن اگر وہ عربی الفاظ کا مفہوم نہیں جانتا تو اِس کے لئے ایسا ہی ہو گا جیسے پتھر اُٹھا کر کسی کو مار دیا۔ پس ہر مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ اسے نماز کا ترجمہ آتا ہو ورنہ ہم نماز سے وہ فائدہ ہر گز نہیں اُٹھا سکتے جو عیسائی وغیرہ اُٹھا رہے ہیں کیونکہ وہ ترجمہ کی وجہ سے اپنی زبان میں اپنی دعاؤں کا مطلب خوب سمجھتے ہیں مگر مسلمان عربی زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے نماز کے مفہوم کو نہیں سمجھ سکتے۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں نماز پڑھنے کے باوجود اتنی روحانیت نہیں ہوتی جتنی روحانیت بعض جھوٹے مذاہب کے پیروؤں میں دکھائی دیتی ہے اِس لئے کہ وہ اپنی روزانہ عبادت کے کلمات ان زبانوں میں ادا کرتے ہیں جن کو وہ سمجھتے ہیں مثلاً سِکھ ہیں ان کا گرنتھ ایسی زبان میں ہے جس کو وہ سمجھتے ہیں۔ اب ایک سِکھ جب گرنتھ کا کوئی شعر پڑھ رہا ہوتا ہے تو اس کا دل جوش اور محبت سے بھرا ہؤا ہوتا ہے لیکن ایک مسلمان جو قرآن کا ترجمہ نہیں جانتا وہ بعض دفعہ عبارتوں کی عبارتیں پڑھ جاتا ہے اور اس کے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ کوئی منتر کر رہا ہے لیکن اگر وہ قرآن کے معنی سمجھنے لگ جائے تو اس کے اندر بھی ویسا ہی جوش پیدا ہو جائے جیسے سکھوں اور عیسائیوں میں پایا جاتا ہے بلکہ چونکہ اس کی تعلیم زیادہ اعلیٰ ہے اس لئے اِس کے اندر ان سے زیادہ جوش پیدا ہو گا، اس کا علم ان سے زیادہ بڑھے گا اور اس کا عرفان ان کے عرفان سے بہت اعلیٰ ہو گا لیکن جب یہ معنی نہیں جانتا تو دوسرے سے اس کا علم اور عرفان کم نہیں ہوتا بلکہ ہوتا ہی نہیں۔ پس دو باتوں میں سے ایک بات ہمیں ضرور کرنی پڑے گی یا تو ہمارے لئے ضروری ہوگا کہ ہم اپنے میں سے ہر شخص کو نماز کا ترجمہ سکھا دیں تاکہ وہ نماز کی برکات سے مستفیض ہو یا ہمیں اسلام کی بتائی ہوئی عربی دُعائیں اور قرآن کریم کی عبارتیں چھوڑنی پڑیں گی اور ان کی بجائے اُردو یا پنجابی میں نمازیں ڈھالنی پڑیں گی اور ہمیں کہنا پڑے گا کہ بجائے عربی کے پنجابی اور اُردو کے کلمات پڑھ لئے جائیں مگر یہ دوسری چیز بڑی خرابیاں پیدا کرنے والی ہے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اِس طریق سے افراد کو فائدہ ہوتا ہے مگر قومیں اس سے بالکل تباہ ہو جاتی ہیں اور ترجمے بدلتے بدلتے کہیں کے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ آخر وہ ترجمے ہی تھے جن کی وجہ سے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بجائے خدا تعالیٰ کا برگزیدہ رسول تسلیم کرنے کے خدا اور خدا کا بیٹا بنا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہرزبان میں بعض ایسے محاورے ہوتے ہیں جن کا دوسری زبان میں اگر لفظی ترجمہ کیا جائے تو مفہوم بالکل بدل جاتا ہے۔ اب یہ ایک عبرانی محاورہ ہے کہ جب کسی کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہا جائے تو اس کے معنی خدا تعالیٰ کے پیارے کے ہوتے ہیں۔ جب تک عیسائی عبرانی سے تعلق رکھتے رہے جہاں اس قسم کا کوئی فقرہ آتا وہ فوراً سمجھ جاتے کہ اس کے معنی خدا تعالیٰ کے پیارے کے ہیں مگر جب یونانی میں انجیل کا ترجمہ ہؤا تو ترجمہ کرنے والوں نے اس محاورہ کا ترجمہ بجائے خدا کے پیارے کے خدا کے بیٹے کردیا اور نتیجہ یہ ہؤا کہ بعد میں آنے والے عیسائیوں نے یہ سمجھ لیا کہ حضرت مسیح سچ مُچ خداتعالیٰ کے بیٹے تھے۔ اس خرابی کو اِس امر سے اَور بھی مدد ملی کہ یونانی لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ حضرت مسیح (سچ مُچ اس کے بیٹے) کا سابق مذہب ایسا تھا کہ اس میں بعض لوگوں کو خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دیاجاتا تھا۔
پس اُنہوں نے حضرت مسیح کے متعلق جب یہ لکھا ہؤا دیکھا کہ وہ خدا کے بیٹے تھے تو اُنہوں نے کچھ اپنے پُرانے عقائد کی بناء پر اور کچھ لفظی غلطی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انہیں حقیقی معنوں میں خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دے دیا۔ اب اگر اصل کتاب عبرانی میں ہی رہتی تو چونکہ عبرانی محاورہ میں اس کے معنی پیارے کے ہیں اس لئے ان الفاظ سے کسی کو دھوکا نہ لگتا اور نہ شرک کا عقیدہ پھیلتا۔ اسی طرح ہندوؤں میں اوتار کا لفظ ہے یہ بھی ہندوؤں کا ایک محاورہ ہے لیکن اگر اس کا اُردو یا پنجابی میں ہم لفظی ترجمہ کریں تو اس کے معنی یقینا نبی کے نہیں رہ سکتے بلکہ ایسے معنی بن جاتے ہیں جس میں خدا تعالیٰ کے نزول اور حلول کو بعض اجسام میں تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ تو تراجم کا ایک بہت بڑا نقص یہ ہے کہ زمانہ کے تغیرات کے ساتھ ساتھ مذاہب میں بھی تغیر آجاتا ہے اور عقائد تک بدل جاتے ہیں اور اس کی وجہ جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں یہ ہے کہ بعض محاورے ایک مُلک میں ہوتے ہیں مگر دوسرے میں نہیں۔ اُردو میں ہی محاورہ ہے کہتے ہیں فلاں شخص کی آنکھ بیٹھ گئی۔ اب جب بھی کوئی شخص یہ محاورہ سُنتا ہے وہ ہر گز یہ خیال نہیں کرتا کہ کسی شخص کی آنکھ کے پیر اور گھٹنے تھے اور وہ ان گھٹنوں کو تہہ کر کے زمین پر بیٹھ گئی بلکہ آنکھ بیٹھنے کے معنی ہر اُردو دان یہی سمجھتا ہے کہ آنکھ ضائع ہو گئی لیکن اگر اِس محاورہ کا انگریزی میں ہم لفظی ترجمہ کریں تو یا تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ ہم پاگل ہو گئے یا یہ کہیں گے کہ یہ ان کا کوئی خاص عقیدہ ہو گا مثلاً اگر ہم اس کی آنکھ بیٹھ گئی کا ترجمہ انگریزی میں یہ کریں کہ ہز آئی سیٹ (His eye sat) تو لوگ یا تو یہ سمجھیں گے کہ یہ ان کا عقیدہ معلوم ہوتا ہے کہ آنکھیں آدمی ہوتی ہیں اور وہ بیٹھ بھی جایا کرتی ہیںیا یہ کہیں گے کہ کہنے والے پاگل ہیں ان کے اندر اتنی بھی عقل نہیں کہ یہ سمجھ سکیں آنکھیں بیٹھا نہیں کرتیں مگر اُردو جاننے والا کوئی شخص اِس غلطی میں مُبتلا نہیں ہو گا وہ یہ فقرہ سُنتے ہی کہہ دے گا کہ اِس کے معنے یہ ہیں کہ آنکھ جاتی رہی۔تو ترجمے میں مفہوم چونکہ کچھ کا کچھ بدل جاتا ہے اِس لئے اصل کو نظر انداز کر کے ترجمہ رائج کر دینا مذہب کو بگاڑ دینے کا موجب ہو جاتا ہے۔
پس خالی ترجمے پر ایسی صورت میں انحصار رکھنا جبکہ اصل الفاظ ساتھ نہ ہوں ایک نہایت خطرناک بات ہے اور خالی اصل الفاظ کو رٹنا جب کہ اِس کا ترجمہ انسان کو نہ آتا ہو یہ بھی کوئی مُفید بات نہیں۔ مکمل فائدہ انسان کو اِسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جبکہ اُسے عربی بھی آتی ہو اور اِس عربی کا ترجمہ بھی آتا ہو۔ جب وہ قرآن کو عربی میں پڑھے اور اپنی زبان میں اِس کا مطلب سمجھے، نماز کو عربی میں ادا کرے اور ساتھ ہی نماز کا مفہوم بھی سمجھتا جائے اور ذکر الٰہی بھی عربی میں کرے مگر ذکرِ الٰہی کے ساتھ ساتھ اِس کے مطالب سے بھی آگاہ ہوتا چلا جائے ۔ اگر ہم اپنی اِس کوشش میں کامیاب ہو جائیں تو دُشمن کا اعتراض بھی جاتا رہتا ہے اور قوم کو فائدہ بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ اِس صورت میں ہم دشمن سے کہہ سکتے ہیں کہ تمہارا یہ اعتراض کہ مسلمان محض الفاظ کو رٹتے ہیں حقیقت سے آگاہ نہیں ہوتے درست نہیں۔ کیونکہ ہم میں سے ہر شخص نماز کا ترجمہ جانتا ہے اور جو کچھ وہ نماز میں کہہ رہا ہوتا ہے اُس کے مفہوم کو وہ خوب سمجھ رہا ہوتا ہے اِس کے مقابلہ میں صرف ترجمے سے تم کو دھوکا لگ سکتا ہے مگر ہمیں اِس قسم کا کوئی دھوکا نہیں لگ سکتا کیونکہ اصل زبان بھی قائم رہتی ہے اور اگر ترجمہ میں کوئی غلطی ہو تو اصل زبان کو دیکھ کر اِس غلطی کو دُور کیا جاسکتا ہے۔
پس عربی زبان کا رواج خواہ نماز میں ہو، خواہ تلاوت قرآن میں مذہب کو اِس کی اصل صورت میں قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے اور نماز اور قرآن کے ترجمے کا رواج روحانیت کے قیام کے لئے ضروری ہے۔ اگر ہم خالی ترجمہ لے لیں تو علم بے شک بڑھتا رہے گا لیکن مذہب گھٹ جائے گا اور اگر خالی لفظ لے لیں تو مذہب بے شک محفوظ رہے گا مگر علم گھٹ جائے گا۔ کامل فائدہ تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب مذہب بھی محفوظ ہو اور علم بھی قائم ہو اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب لفظ بھی قائم رہیں اور ان کا ترجمہ بھی انسان کو آتا ہو۔ جب یہ دونوں چیزیں حاصل ہو جائیں تو مذہب اور اہل مذہب دونوں محفوظ ہو جاتے ہیں اور ان لوگوں کا نہ تو وہ قومیں مقابلہ کر سکتی ہیں جو ترجمہ ہی ترجمہ جانتی ہیں اصل الفاظ کو بھُلا بیٹھی ہیں اور نہ وہ قومیں مقابلہ کر سکتی ہیں جو اصل الفاظ کو تو رٹتی رہتی ہیں مگر معانی اور مفہوم سے بے خبر ہوتی ہیں۔
غرض یہ ایک اہم سوال ہے جس کا خیال رکھنا ہمارے لئے ضروری ہے اور مَیں اُمید کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اِس کی طرف خاص طور پر توجہ رکھیں گے۔ جب وہ یہ قدم اُٹھا لیں گے اور نماز باترجمہ سیکھ جائیں گے تو بہت سے مخلصین کو اﷲ تعالیٰ سارا قرآن باترجمہ پڑھنے کی توفیق دے دے گا کیونکہ انسان جب نیکی کے راستہ میں ایک قدم اُٹھاتا ہے تو ہمیشہ اُسے دوسرا قدم اُٹھانے کی بھی توفیق دی جاتی ہے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں ہم پڑھ ہی نہیں سکتے۔ مَیں ایسے دوستوں سے کہتا ہوں کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے جو اُن کے دل میں پیدا ہؤا ہے بے شک اِس قسم کی بات کہنے والے پانچ دس سے زیادہ آدمی نہیں مگر مَیں کہتا ہوں زندہ قوموں میں ایک آدمی بھی ایسی غلطی میں مُبتلا نہیں ہونا چاہئے۔
یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ دوسرا تو اپنے کام کا حرج کر کے پڑھانے آتا ہے مگر پڑھنے والا کہتا ہے کہ مجھے اِس کی ضرورت نہیں یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی سرد مُلک کا رہنے والا شخص جیٹھ ہاڑ کے دنوں میں سخت دھوپ میں بیٹھا ہؤا تھا اور پاس ہی مکانات تھے قریب سے کوئی شخص گزرا تو اُس نے کہا میاں تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ سایہ میں کیوں نہیں بیٹھ جاتے؟ یہ سُن کر اُس نے ہاتھ پھیلا دیئے اور کہا مَیں بیٹھ تو جاتا ہوں مگر تم مجھے دو گے کیا؟ یہ بھی ایسی ہی حماقت ہے۔ پڑھنے میں آخر تمہارا ور تمہاری نسلوں کا فائدہ ہے کسی اَور کا اِس میں کیا فائدہ ہے؟ جب تم پڑھ جاؤ گے تو تم اِس بات پرتیار ہو جاؤ گے کہ اپنی آئندہ نسلوں کو تعلیم دلاؤ اور اگر تم انہیں تعلیم نہ بھی دلاؤ گے تب بھی وہ کہیں گے کہ ہمارا باپ اتنا پڑھا ہؤا تھا ہمیں بھی اِس قدر ضرور تعلیم حاصل کرنی چاہئے اِس طرح علم کا تسلسل قائم رہے گا اور جن نقائص کی طرف لوگ انہیں توجہ دلائیں گے اُن کو دُور کرنے کے لئے وہ تیار رہیں گے۔
پس مَیں اُمید کرتا ہوں کہ ہم میں سے ایک آدمی بھی ایسا نہیں ہو گا جو یہ کہے کہ مَیں پڑھنا نہیں چاہتا اور اگر کوئی شخص ایسا کہتا ہے تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ اس کا ذہن بالکل مُردہ ہے اور یہ حالت ہمارے اندر نہیں ہونی چاہئے۔
مَیں چونکہ لاہور سے ابھی آرہا ہوں اور مسجد میں پونے تین بجے کے قریب پہنچا ہوں اِس لئے مَیں اِس سے زیادہ خطبہ نہیں پڑھ سکتا مگر مَیں اُمید کرتا ہوں کہ دوست اِس قدر مضمون سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اِس پر جوش سے عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ مَیں نے ایک تو یہ کہا ہے کہ دارالصحت والوں کو پڑھانے کے لئے دوستوں کی خدمات کی ضرورت ہے۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ اِس غرض کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں ۔ دوسرے مَیں نے تعلیم و تربیت والوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ اِس سال کم سے کم ایک وظیفہ دارالصحت کے کسی بچہ کو تعلیم دلانے کے لئے جاری کر دیں اور جب تک اُسے اعلیٰ تعلیم حاصل نہ ہو جائے اُس وقت تک یہ وظیفہ جاری رکھیں۔
پھر مَیں نے نماز کا ترجمہ اور قرآن ناظرہ پڑھانے کے متعلق اپنی سکیم کا ذکر کیا ہے اور مَیں نے توجہ دلائی ہے کہ جنہوں نے اپنے آپ کو پڑھانے کے لئے پیش کیا ہے وہ ہمت اور استقلال سے پڑھائیں اور جنہوں نے پڑھنا ہے وہ بھی استقلال سے پڑھیں کیونکہ اِسی پر اُن کی روحانیت کا دارومدار ہے۔ اِسی طرح مَیں نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ وہ نہیں پڑھ سکتے یااپنی پڑھائی کے لئے وہ وقت نہیں نکال سکتے اُنہیں اپنی ضد چھوڑ دینی چاہئے اور خداتعالیٰ پر توکل کر کے اِس کام کو شروع کر دینا چاہئے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا حافظہ کمزور ہے تو اپنی طرف سے وہ بہرحال کام شروع کر دیں خدا اُن کی مدد کرے گا اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں اور بہت سے دُنیوی کام ہیں اور اگر وہ اِس طرف توجہ کریں گے تو اُن کاموں کو نقصان پہنچے گا تو بھی انہیں چاہئے کہ وہ خدا پر توکل کر یں اور اُس کی مدد پر بھروسہ رکھتے ہوئے یہ کام شروع کر دیں یہ ایک نیک کام ہے اِس میں کسی کو پیچھے نہیں رہنا چاہئے۔‘‘
(الفضل ۴؍مئی ۱۹۳۹ئ)
۱؎ تذکرہ صفحہ ۳۵۹ ۔ ایڈیشن چہارم
۲؎ الفاتحہ: ۱ ۳؎ الفاتحہ :۲ ۴؎ الفاتحہ : ۵
۱۴
مساجد کی توسیع کے متعلق چندہ کا اعلان
تحریک جدید کے وعدے جلد پورے کئے جائیں
(فرمودہ ۵؍مئی۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’آج مَیں صدر انجمن احمدیہ اور جماعت کو دو امور کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں اِن میں سے ایک کا تعلق صدر انجمن احمدیہ سے ہے اِس لئے مَیں نے اِس کا نام لیا ہے۔ دوسرے کا تعلق جماعت سے ہے اور پہلے کا جماعت سے بھی ہے۔ پہلا امر جس کا تعلق دونوں سے ہے وہ ہماری مساجد کی توسیع کا سوال ہے۔ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ جب سے گرمی تیز ہوئی ہے مسجد کا ایک گوشہ سائبان نہ ہونے کی وجہ سے خالی پڑا رہتا ہے۔ دُھوپ کی وجہ سے لوگ وہاں بیٹھ نہیں سکتے۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اسلام جس قسم کی مشقت کی برداشت کی عادت پیدا کرنا چاہتا ہے اور صحابہ جن حالات سے گزرتے تھے ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس خالی جگہ میں نہ بیٹھ سکنا اسلام کے معیار کے مطابق نہیں۔ عرب کے شمالی حصّہ میں گو سردی بھی پڑتی ہے مگر بالعموم وہاں شدید گرمی پڑتی ہے، ایسی شدید کہ لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے مگر اِس کے باوجود صحابہ مسجدنبوی کے کھلے صحن میں آکر نمازیں پڑھتے تھے۔ ایسی کڑکتی دھوپ میں جو یہاں سے زیادہ تیز ہوتی تھی اور ایسی گرمی میں جو یہاں سے زیادہ شدید ہوتی تھی صحابہ آکر بغیر کسی سائبان کے کھلے صحن میں نماز پڑھتے تھے۔ سوائے ان چند ایک کے جن کو چھت کے نیچے جگہ مل جاتی تھی باقی سب کے سب کھلے میدان میں دھوپ میں کھڑے ہوتے تھے اور صحن میں اِس قدر کنکر ہوتے تھے کہ صحابہ ؓ کا بیان ہے ہم چار پانچ بار ہاتھ مارتے تھے تب بھی سجدہ کے لئے جگہ صاف نہ ہوتی تھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ دیکھا تو فرمایا کہ تین بار تک تم ہاتھ مار سکتے ہو اِس سے زیادہ مرتبہ نہیں اور اِس معیار کے مطابق تو صدر انجمن احمدیہ اور منتظمین کہہ سکتے ہیں کہ یہاں تو دھوپ اور گرمی نہیں ہوتی اِس لئے بغیر سائبان کے اگر بیٹھنا پڑے تو کیا حرج ہے لیکن ہرزمانہ کے حالات مختلف ہوتے ہیں اور پھر جب باقی لوگ سائبان کے نیچے بیٹھے ہوں تو دوسروں کو بھی دُھوپ میں بیٹھنے میں تأمل ہوتا ہے۔ ہاں اگر سائبان بالکل ہی ہٹا دیں اور اُسی قسم کے حالات سے گزریں جن میں سے صحابہ گزرتے تھے تو یہ جواب صحیح ہو سکتا ہے لیکن جب کچھ لوگ تو آرام سے بیٹھے ہوں تو بعض سے یہ توقع رکھنا کہ وہ دُھوپ میں ہی بیٹھ جائیں ٹھیک نہیں۔ اِس میں شُبہ نہیں کہ جن کو سائبان میں جگہ نہیں ملتی اُن کو یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ تمہیں کس نے کہا تھا کہ پہلے نہ آؤ؟ اگر پہلے آجاتے تو ضرور اچھی جگہ مل جاتی اور یہ جواب بھی معقول ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جب انسان کے اندر کمزوری ہو تو ایسے موقع پر اس کا نفس اسے یہ جواب نہیں دیتا کہ دھوپ میں بیٹھنے کی ذمہ داری مجھ پر ہی ہے۔ اگر پہلے آجاتا تو سایہ میں جگہ مل جاتی اور چونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص نماز کے لئے پہلے آتا اور امام کے انتظار میں بیٹھتا ہے اُسے ثواب ملتا ہے۔ ۱؎ ثواب بھی حاصل کر سکتا اور اس طرح ظاہری آرام کے ساتھ ثواب بھی حاصل ہوتا مگر ہر انسان کا نفس اتنا مکمل نہیں ہوتا کہ اس کے دماغ کو صحیح مشورہ دے اور صحیح راہ پر چلائے۔ اِس لئے بالعموم انسانی دماغ غلط راہ پر لگاتا ہے اور یہی سمجھتاہے کہ میں کیوں تکلیف اُٹھاؤں ؟ اِس لئے جہاں اتنے سائبان بنوائے گئے ہیں وہاں اِس خالی جگہ کے لئے بھی بنوائے جاسکتے تھے بلکہ لاہور سے تو دو تین روز میں خریدے جاسکتے تھے اوراگر تیار نہ ملتے تو ہفتہ دو ہفتہ میں تیار کرائے جاسکتے تھے مگر مجھے افسوس ہے اس کی طرف توجہ نہیں کی گئی۔
اِس کے علاوہ ایک اَور سوال بھی ہے اور وہ مسجد مبارک کا ہے اِس کی توسیع کے لئے زمین خریدی جاچکی ہے مگر باوجود اِس کے کہ اِس پر دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اِس کی توسیع کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی پھر مسجد اقصیٰ کی موجودہ وسعت کے باوجود اگر اِس خالی جگہ میں سائبان بھی ہوں تو بھی مَیں سمجھتا ہوں یہ ابھی ناکافی ہے۔ سردیوں کے دنوں میں جب سب جگہ لوگ بیٹھے ہوتے تھے مَیں نے دیکھا ہے کہ پھر بھی بعض لوگ گلیوں میں کھڑے ہوتے تھے جس کے معنی یہ ہیں کہ ابھی اِس کی وسعت کی آواز بُلند ہو رہی ہے۔ اِس کے علاوہ عورتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں وہ جمعہ کے ثواب سے بالکل محروم رہتی ہیں۔ ایک عرصہ سے وہ جمعہ اور خطبہ سے محروم رہتی ہیں اب لاؤڈ سپیکر لگ جانے کی وجہ سے وہ اُم طاہر کے صحن میں جمع ہو کر شامل ہو جاتی ہیں لیکن مسجد میں آکر نماز پڑھنا جو ثواب رکھتا ہے وہ کسی کے گھر میں بیٹھ کر پڑھنے سے بہت زیادہ ہے۔ پس میرے نزدیک مسجد اقصیٰ میں توسیع کی بھی ابھی ضرورت ہے اور مسجد مبارک کی بھی۔ اِسی لئے کچھ عرصہ ہؤا مَیں نے تحریک کی تھی اگر صدر انجمن احمدیہ اور ذمہ دار افسر اِس پر توجہ کرتے اور اپنی ذمہ داری کو سمجھتے تو اب تک یہ کام ہو چُکا ہوتا۔ مَیں نے جب اِس کے متعلق خطبہ پڑھا تو باوجود یکہ مَیں نے کہہ دیا تھا کہ اِس تحریک میں دس روپیہ سے زیادہ کسی سے نہیں لیا جائے گا پھر بھی ایک عورت نے اپنی دو سو روپیہ کے قریب مالیت کی چوڑیاں اِس فنڈ میں داخل کرنے کے لئے مجھے بھیج دیں جو مَیں نے بہ زور واپس کیں اور کہا کہ آپ اِس میں دس روپیہ تک ہی دے سکتی ہیں اس خطبہ کے بعد طبائع میں ایک جوش پیدا ہؤا تھا باہر سے بھی اِس کے متعلق مجھے کئی خطوط آئے تھے اور مَیں سمجھتا ہوں اگر صدر انجمن احمدیہ کام کرتی تو اِس خطبہ کا افراد پر اِس قدر اثر تھا کہ اب تک یہ کام ہو چُکا ہوتا لیکن اِس نے نہ تو اِس آواز کو سب کے کانوں تک پہنچانے کی ضرورت سمجھی نہ اپنی کوئی ذمہ داری محسوس کی، نہ اِس کے متعلق کوئی ریزولیوشن پاس کیا اور نہ بیت المال نے اِس تحریک سے فائدہ اُٹھایا۔ اُنہوں نے بس خطبہ سُنا اور مُسکرا کر چل دیئے اور سمجھ لیا کہ تحریک ہو چکی۔ حالانکہ ہر تحریک کامیابی کے لئے پروپیگنڈا چاہتی ہے۔ ضروری ہوتا ہے کہ لوگوں تک اِسے پہنچایا جائے اور وصولی کا انتظام کیا جائے۔ آواز کان میں پڑی اور سُن کر چلے گئے یہ علامت تو قرآن کریم نے منافقوں کی بتائی ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کوئی بات فرماتے تو مومن اُسے سُن کر ذہن نشین کر لیتے تھے اور عمل پر مستعد ہو جاتے تھے لیکن منافق باہر نکلتے ہی کہتے تھے کہ مَا ذَا قَالَ انِفاً ۲؎ابھی ابھی یہ کیا کہہ رہے تھے ؟ ہماری جماعت اِس بات کی دعویدار ہے کہ وہ خلافت کا احترام کرتی ہے اگر یہ صحیح ہے تو سب سے زیادہ احترام مرکزی انجمن کی طرف سے ظاہر ہونا چاہئے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہی سب سے زیادہ میری ہدایات کو نظر انداز کرتی ہے۔ اِس کی مثال بالکل ’’من چہ سرائم و طنبورۂ من چہ مے سرائد‘‘ والی ہے۔ طنبورہ کچھ اور کہتا ہے اور بجانے والا کچھ اور بجاتا ہے اور اِس کے باوجود ناظر شکایت کرتے ہیں کہ آپ پبلک میں ہمارے خلاف ریمارکس کرتے ہیں اِس سے پبلک میں ہماری عزت قائم نہیں ہوتی مگر مَیں کہتا ہوں کہ خالی عزت کس کام کی جس سے اسلام کو کچھ فائدہ نہ پہنچے۔ تم لوگ اپنے طریق کو بدلو پھر خودبخود تمہاری عزت قائم ہو جائے گی جب تک تم اُس ہستی سے اپنے آپ کو وابستہ نہیں کرتے جسے اﷲ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اور (امام)بنایا ہے مَیں کتنا ہی کیوں نہ کہوں لوگ تمہاری عزت نہیں کریں گے کیونکہ عزت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور خدا تعالیٰ اس شخص کی عزت کس طرح کر سکتا ہے جو اس کے مقرر کردہ خلیفہ کی عزت نہیں کرتا۔ جب تک آپ لوگ گوش بَر آواز نہیں رہتے اور یہ خیال نہیں رکھتے کہ کیا آواز (امام) کی طرف سے آئی ہے اور پھر اِس پر عمل کرنے کے لئے مستعدی سے دوڑ نہیں پڑتے اُس وقت تک آپ لاکھ سرپٹکیں اپنی عزت قائم نہیں کر سکتے۔ جس دن آپ لوگ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں گے اسی دن لوگوں میں بھی آپ کی عزت قائم ہو جائے گی۔
اب کہ صدر انجمن احمدیہ اِس کام میں ناکام ہو چکی ہے مَیں اِسے جہاں تک قادیان اور اِس کے گردونواح کے دیہات کا تعلق ہے خدام الاحمدیہ کے سپرد کرتا ہوں اور نیشنل لیگ سے بھی خواہش کرتا ہوں کہ وہ اِس کام میں اِس کی مدد کرے۔ گو ایسی باتیں اِس کے پروگرام میں شامل نہیں لیکن رفاہِ عامہ کا کام کرنا اِس کا فرض ہے۔ پس نیشنل لیگ والے بھی اپنی خدمات اِن کے سپرد کر دیں اور وہ تین دن کے اندر اندر ساری قادیان، بھینی، کھارا، ننگل، احمد آباد اور قادرآباد سے وصولی کے لئے حلقے مقرر کر کے آنے والی جمعرات کے روز ہر احمدی گھر کے تمام مرد و عورت اور بچہ سے ایک آنہ فی کس کے حساب سے توسیع مساجد کے لئے چندہ وصول کریں۔ بچوں کی طرف سے ان کے ماں باپ ادا کریں۔ اِس سے زیادہ جو دینا چاہے بیشک دے لیکن دس روپیہ سے زیادہ کسی سے نہ لیا جائے۔ ایک آنہ سے کم کسی سے نہ لیا جائے اور دس روپیہ سے زیادہ۔ اور جو لوگ ایک آنہ بھی نہ دے سکیں ان کی طرف سے وہ لوگ ادا کریں جو دس روپے سے زیادہ دینا چاہتے ہیں۔ ہم تو کسی سے دس روپیہ سے زیادہ نہیں لیں گے لیکن جو زیادہ دینا چاہیں وہ اپنے غریب بھائیوں کی طرف سے دے دیں یہ بھی ثواب حاصل کرنے کا ایک طریق ہے۔ اِس طرح جو غریب نہیں دے سکتا اُسے بھی ثواب مل جائے گا اور ان کو خدا تعالیٰ کے بندہ کا دل رکھنے کا ثواب بھی مل جائے گا۔
پس جو لوگ گھر کے ہر فرد کی طرف سے ایک آنہ دے سکیں وہ دے دیں مگر جو زیادہ دینا چاہیں وہ دس روپیہ تک دے سکتے ہیں اور جو اِس سے بھی زیادہ دینا چاہیں وہ اپنے غریب بھائیوں کی طرف سے دے دیں۔ جو لوگ ایک آنہ بھی نہ دے سکیں ان کی بھی ایک فہرست بنا لی جائے اور پھر جو زیادہ دینا چاہیں وہ ایسے لوگوں کی طرف سے دے دیں۔ قادیان اور اس کے اردگرد کی احمدی آبادی دس بارہ ہزار ہے۔ ضروری نہیں کہ اُن میں سے ہر شخص ایک آنہ ہی دے بہت سے ایسے ہیں جو زیادہ دیں گے جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے میرے خطبہ کو سُن کر ایک عورت نے دو سو روپیہ کا زیور دے دیا تھا۔ بعض مردوں نے بھی اصرار کیا تھا کہ ان سے دس روپیہ سے زیادہ منظور کیا جائے اور باہر سے بھی بعض نے دس روپیہ سے زیادہ بھیج دئے تھے اور جب اُن کو لکھا گیا کہ اِس تحریک میں دس روپیہ سے زیادہ نہیں لئے جاسکتے تو اُنہوں نے لکھا کہ ہمارے خاندان کے اتنے افراد ہیں ان کی طرف سے محسوب کر لیا جائے تو مَیں سمجھتا ہوں جماعت میں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے جوش ہے ان مقامات مقدسہ کی وسعت میں حصّہ لینے کا جنہیں اﷲ تعالیٰ نے دُنیا کے لئے دائمی برکات کا موجب بنایا ہے۔ جماعت ان کی قدر و منزلت کو بخوبی سمجھتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ اس تحریک میں اپنے حوصلہ اور ہمت کے مطابق ضرور حصّہ لے گی۔ پس قادیان اور ملحقہ جماعتوں سے آئندہ جمعرات کے روز چندہ اکٹھا کیا جائے اور باہر کی جماعتوں سے بھی، خدام الاحمدیہ ، انصار اﷲ یا دوسرے لوگ کوشش کریں پہلے اپنی اپنی جماعت کے تمام افراد کا اچھی طرح جائزہ لے لیں اور پھر ایک ہی دن سب جماعت نکل کھڑی ہو اور ہر ایک سے کم سے کم ایک آنہ وصول کرے حتّٰی کہ بچوں سے بھی لیا جائے خواہ کوئی بچہ ایک دن، ایک گھنٹہ یا ایک سیکنڈ کا ہی کیوں نہ ہو اُس کے والدین اُس کی طرف سے بھی ادا کریں اور جو ایک آنہ بھی نہ دے سکتے ہوں اُن کی طرف سے دوسرے جو زیادہ دینا چاہتے ہوں دے دیں۔ جو آسودہ حال لوگ خواہش رکھتے ہوں کہ زیادہ دیں اُنہیں اِس قانون سے تو مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا ہاں وہ اپنے غریب بھائیوں کی طرف سے دے سکتے ہیں۔
پس قادیان، ننگل، بھینی، کھارا، احمد آباد، قادر آباد میں سے اگلی جمعرات کو چندہ وصول کیا جائے۔ اِس کام کے لئے وفد مقرر کر دیئے جائیں۔
ایک وفد تو وصولی کے لئے ہو اور دوسرا یہ دیکھنے کے لئے کہ وصولی صحیح طور پر ہو گئی ہے اور جو نہ دے سکے اُسے چھوڑیں نہیں بلکہ اُس کا نام بھی ضرور لکھ لیں اور ساتھ لکھ دیں کہ غربت کی وجہ سے نہیں دے سکا یا نہیں دینا چاہتا۔ تاہم اس کی طرف سے ادا کرا دیں اور اِس طرح وہ لوگ بھی جو نہیں دے سکتے یا جنہوں نے نہیں دیا ثواب سے محروم نہ رہ جائیں۔ جس شخص کو توفیق ہے اور وہ نہیں دیتا وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور اگر ہم اس کی طرف سے دے دیں گے تو اﷲ تعالیٰ اس کا گناہ معاف کر کے آئندہ اسے نیکی کے کام میں شامل ہونے کی توفیق دے دے گا۔ پس جو نہیں دیتا یا نہیں دے سکتا دونوں کے نام لکھ لئے جائیں اور ہم کوشش کریں گے کہ دوسروں کی طرف سے وہ کسر پوری ہو جائے اور ان کا خانہ خالی نہ رہے۔
یہ تو مساجد کے متعلق پہلی بات تھی دوسرا امر جو خالص جماعت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ تحریک جدید کا چندہ ہے اِس کے اعلان پر چھ ماہ گزر چکے ہیں نومبر، دسمبر، جنوری، فروری، مارچ، اپریل۔ اِس وقت تک ایک لاکھ چھبیس ہزار سے زیادہ کے وعدے آچکے ہیں اور ہندوستان سے باہر کی جماعتیں ابھی باقی ہیں۔ خیال ہے کہ کُل وعدے ایک لاکھ اُنتیس،تیس ہزار کے ہو جائیں گے اس چھ ماہ کے عرصہ میں اگر باہر کے چندے نکال بھی دیئے جائیں تو ایک لاکھ دس ہزار کے قریب ہندوستان کے وعدے ہوں گے جس میں سے نصف یعنی پچپنہزار کے قریب اب تک وصول ہو جانا چاہئے تھا مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اِس وقت تک صرف چوبیس ہزار کے قریب روپیہ آیا ہے۔ جو گویا وعدوں کا پانچواں حصّہ ہے حالانکہ چھ ماہ گزر چکے ہیں اگر مجھے معلوم ہوتا کہ جوبلی فنڈ میں چندے دینے کی وجہ سے یہ تاخیر ہو رہی ہے تو مَیں سمجھتا یہ معمولی بات ہے کسی کا پہلے وصول ہو گیا اور کسی کا بعد میں مگر افسوس یہ ہے کہ جوبلی فنڈ کا چندہ بھی اِس رفتار سے وصول نہیں ہو رہا کہ سمجھا جائے وہ تحریک جدید کے چندوں کی وصولی کے رستہ میں روک بن رہا ہے البتہ صدر انجمن احمدیہ کے چندہ میں گزشتہ دو ماہ میں خوشکن زیادتی ہوئی ہے جس میں شوریٰ کے مقرر کردہ چندہ سے دو ہزار روپیہ زائد آیا ہے۔ چندہ عام اور حصّہ آمد کی رقم دو لاکھ تیس ہزار تھی مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے دو لاکھ بتیس ہزار پانچ یا چھ سَو وصول ہؤا ہے۔ گویا جماعت نے چندہ عام اور وصایا کی طرف زیادہ توجہ کی ہے اور یہ بتاتا ہے کہ جوں جوں بچے جوان ہوتے اور بے کار کام حاصل کرتے ہیں اور آمد رکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے جماعت کا قدم ترقی کی طرف اُٹھ رہا ہے اور اگر یہی حالت رہی تو اسراف سے بچنے کے لئے جو مَیں نے ہدایات دی ہیں ان پر عمل کرتے ہوئے مالی لحاظ سے جو دقتیں اس وقت در پیش ہیں وہ دُور ہو جائیں گی مگر صدر انجمن احمدیہ کے چندوں میں یہ اتنی ترقی نہیں جتنی کمی تحریک جدید کے چندوں میں ہے۔ یہ کمی دراصل اِس وجہ سے ہوتی ہے کہ انسان سمجھتا ہے کل دے دوں گا۔ یہ بھی نفس کا دھوکا ہوتا ہے۔ انسان سمجھتا ہے آج نہیں کل دے دیں گے اور کل کہہ دیتا ہے کہ پرسوں دے دیں گے۔ پھر بعض اوقات وہ سمجھتا ہے یہ بھی دینا ہے اور وہ بھی دینا ہے اور وہ گھبرا کر بجائے اِس کے کہ کوشش کو زیادہ کرے ہمت ہار بیٹھتا ہے اور جب بوجھ زیادہ ہو جاتا ہے تو وہ پھر بالکل ہی کوشش چھوڑ دیتا ہے۔ پنجابی کی ایک ضرب المثل ہے جس کے صحیح معنی تو مَیں نہیں جانتا مگر مفہوم سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ چڑھیا سَوتے لتھا بھو۔ بھو کے لفظی معنی تو میں نہیں جانتا لیکن اِس کامطلب میرے نزدیک یہ ہے کہ جب کسی انسان پر سَو روپیہ قرض ہو جاتا ہے تو وہ بے باک ہو جاتا ہے اور قرضے کا خوف جاتا رہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے سَو کون ادا کرے جب تک دس بیس یا تیس چالیس قرض ہو وہ جدوجہد کرتا ہے کہ اُتر جائے مگر جب سَو ہو جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ اب یہ اُترنا تو ہے نہیں جانے دو کیا کوشش کرنی ہے تو بعض کمزور طبع لوگ جب ان پر زیادہ بوجھ ہو جائے تو بجائے اِس کے کہ ذمہ داریاں ادا کرنے کی زیادہ جدوجہد کریں چپ بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک بزدل انسان کے نقطۂ نگاہ سے تو ممکن ہے یہ حالت تسلی بخش ہو لیکن یہ ایسی بات ہے جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا اور سمجھتا ہے کہ اب مَیں چونکہ اسے دیکھ نہیں سکتا اِس لئے میرے واسطے کوئی خطرہ بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جدوجہد کرنے والے کے لئے اگر ایک فی صدی امکان بھی باقی ہو تو وہ اِس سے فائدہ اُٹھاتا ہے نناوے فیصدی امکانات تباہی کے ہوں اور ایک بچاؤ کا ہو تو بھی وہ ضرور کوشش کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ممکن ہے یہی ایک میرے لئے مقدر ہو اور مَیں بچ جاؤں۔
مَیں نے بتایا تھا کہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے ذرائع کی طرف بھی توجہ کرنا ضروری ہے اور جب تک ہم عورتوں اور بچوں کو ساتھ نہ ملائیں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ عورتیں اور بچے ہی ہیں جن کی محبت کی وجہ سے انسان اپنے اوپر بوجھ اُٹھانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ بچہ جب بِلبَلا کر ایک چیز کی خواہش کر رہا ہو تو انسان کا دل رنجیدہ ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ چاہے مجھ پر بوجھ ہی کیوں نہ ہو جائے اس کی خواہش پوری کر دوں یا اگر بیوی اصرار کے ساتھ کسی چیز کی خواہش کرے تو مرد کہتا ہے کہ چلو اِس کا دل کیا دکھانا ہے۔ یہ تعلق چونکہ محبت کے ہوتے ہیں اِس لئے یہ مردوں پر زیادہ بوجھ کا باعث ہو جاتے ہیں۔ یورپ میں تو ایسا نہیں ہوتا وہاں تو بوجھ کلبوں اور شرابوں کی وجہ سے ہوتا ہے وہاں تو لوگ شادیاں کرتے ہی نہیں لیکن ہمارے مُلک میں لوگ زیادہ تر بیوی بچوں کی وجہ سے زیرِ بار ہوتے ہیں۔ اِس لئے جب تک وہ مدد نہ کریں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ بعض اوقات ایک انسان نیک ہوتا ہے اور سچی خواہش رکھتا ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے لیکن اِس کی بیوی اتنی سخت اور شَدِیْدُ الْبَطْش ہوتی ہے کہ وہ سمجھتا ہے اگر مَیں نے روپیہ اِس کے کہنے کے مطابق خرچ نہ کیا تو وہ لڑائی دنگا کرے گی اور اِس طرح میری بے عزتی بھی ہو گی۔ تو بچوں کی محبت اور عورتوں سے بعض ڈر اور بعض محبت کی وجہ سے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکتے لیکن مَیں نے بتایا تھا کہ ہماری عورتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے اخلاص میں اتنی بڑھی ہوئی ہیں کہ بہت ہی کم ایسی ہیں کہ اگر ان کے سامنے دین کی ضرورت کو رکھا جائے تو وہ تعاون کرنے اور ہاتھ بٹانے کے لئے تیار نہ ہوں۔ سینکڑوں عورتیں ایسی ہیں جو مردوں سے بھی زیادہ دین کا جوش رکھتی ہیں اور ایسی بھی ہیں جو مردوں کو مجبور کرتی ہیں کہ اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ دوسری قوموں میں ایسی مثالیں بہت ہی کم ہیں۔ کئی سال ہوئے مَیں نے تحریک کی تھی کہ عورتوں کو تحریک کی جائے کہ وہ چندوں کی وصولی میں مدد کریں۔ اِس پر ایک جماعت نے لکھا کہ ان کے ہاں ایک دوست تھے جو بہت سُست تھے وہاں کے دوستوں نے جاکر ان کی بیوی سے کہا کہ اِس دین کے کام میں آپ ہماری مدد کریں اِس دوست نے جب تنخواہ لاکر بیوی کو دی تو اُس نے پوچھا کہ آپ چندہ دے آئے ہیں اُس نے جواب دیا کہ نہیں چندہ تو نہیں دیا سیکرٹری مِلا نہیں تھا پھر دے دوں گا مگر بیوی نے کہا کہ مَیں تو ایسے مال کو ہاتھ لگانے کے لئے تیار نہیں ہوں جس میں سے خدا تعالیٰ کا حق ادا نہ کیا گیا ہو۔ مَیں تو نہ اِس سے کھانا پکاؤں گی اور نہ کسی اَور کام میں صَرف کروں گی۔ مرد نے کہا کہ چندہ میں صبح دے دوں گا اِس وقت دیر ہو چکی ہے رکھو مگر بیوی نے کہا کہ پہلے چندہ ادا کرآؤ پھر مَیں ہاتھ لگاؤں گی اور اگر اِس وقت جاکر ادا نہیں کرسکتے تو ابھی اپنے ہی پاس رکھو۔ اِس پر وہ شخص اُسی وقت گیا اور جاکر سیکرٹری سے کہا کہ پتہ نہیں تم لوگوں نے کیا جادو کر دیا ہے کہ میری بیوی تو روپیہ کو ہاتھ نہیں لگاتی اور کہتی ہے کہ جب تک چندہ ادا نہ ہو مَیں اِسے خرچ ہی نہیں کروں گی۔ اُسی وقت چندہ ادا کیا اور کہا کہ آئندہ تنخواہ کے ملنے کے دن ہی مجھ سے چندہ لے لیا کرو تا گھر میں جھگڑا نہ ہو۔ تو وہ عورت تھی مگر مرد سے زیادہ ہمت اور جُوش رکھتی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اِس مرد کے دل میں دینے کی خواہش تو ہو مگر چونکہ خرچ بیوی کرتی تھی اِس لئے وہ ڈرتا ہو کہ کہیں گھر میں جھگڑا نہ ہو اور جب اسے معلوم ہو گیا کہ اِس کی بیوی کی بھی یہی خواہش ہے تو اُس نے بھی آگے قدم بڑھا لیا ہو۔ تو ہماری عورتوں میں خداتعالیٰ کے فضل سے ایسا اخلاص اور جوش موجود ہے کہ اگر ان کو دین کی ضرورت سے آگاہ کردیا جائے تو ساٹھ فیصدی ان میں سے تعاون کے لئے تیار ہو جائیں گی اور جب ان کو معلوم ہو گا کہ ان کے مرد اس لئے چندے ادا نہیں کر سکتے کہ گھر کے اخراجات زیادہ ہیں تو وہ ان کو کم کر کے مدد کریں گی۔ اِس کے لئے مَیں نے ایک تجویز یہ کی ہے کہ مَیں عورتوں کے نام ایک چِٹھی لکھوں گا جو ہر عورت کو بھیجی جائے گی اور اِس میں ان کو تحریک کی جائے گی کہ وعدہ کریں کہ وہ ہماری مدد کریں گی اور اقتصادی کفایت کر کے اور اپنے خاوندوں کو یاد دلا کر انہیں ذمہ داریوں کے ادا کرنے کے قابل بنا دیں گی اور جو عورتیں یہ وعدہ کریں وہ اپنے دستخط کر کے بھیج دیں ممکن ہے اِس تحریک میں پہلے پہل زیادہ کامیابی نہ ہو لیکن اگر مسلسل جاری رکھا جائے تو عورتوں میں ایسی بیداری پیدا ہو جائے گی اور وہ ایسی ہوشیار ہو جائیں گی کہ پھر یاد دہانی کی بھی ضرورت نہ رہے گی اَور ایسی عورتوں کی گود میں پرورش پانے والی اولاد بھی ایسی مخلص اور دین دار ہو گی کہ جو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر پوری طرح ادا کرے گی۔ اِس وقت تک ہماری طرف سے عورتوں میں بیداری پیدا کرنے کی پوری پوری جدوجہد نہیں ہوئی۔ ایک طرف تو یورپ نے ان کے اندر ایسی بیداری پیدا کر دی ہے کہ وہ سارا دن اِدھر اُدھر پھرتی اور ناچتی ہیں اور رات کو جب مرد تھکا ہؤا آتا ہے تو انہیں اِس کا علم ہی نہیں ہوتا اور وہ بھی شراب پی کر سو جاتا ہے۔ اُنہوں نے عورتوں کو ایسا بیدار کیا ہے کہ ان کی نیند ہی اُڑ چکی ہے اور خود سو گئے ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں کہ ان کی بیداری کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ حالانکہ اسلام نے عورتوں کو خاص احکام اور ذمہ داریاں دی ہیں اور پھر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے کام لیا ہے۔ دُنیا اس وقت دو ضدّوں کی طرف جارہی ہے۔ یورپ نے تو ان کو ایسا بیدار کر دیا ہے کہ موت کے قریب پہنچا دیا ہے۔ کیونکہ جب نیند نہ آئے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور ہم نے ان کو ایسا سُلایا ہے کہ دیکھنے والا سمجھتا ہے شاید وہ مر چکی ہیں۔ ہم نے ان کی طاقتوں سے کام لینا بالکل ہی چھوڑ دیا ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خَیْرُ الْاُمُوْرِ اَوْسَطُھَا ۳؎ اور قرآن کریم میں بھی امتِ مسلمہ کو امتِ وُسطیٰ ۴؎کہا گیا ہے۔ پس ہمارا قدم بھی درمیانی رستہ پر ہونا چاہئے۔ نہ تو اتنی آزادی دے دیں کہ ہر قسم کی قیود کو چھوڑ دیں اور نہ ایسی پابندیاں عائد کر دیں کہ گردنوں میں طوق و اغلال اور پاؤں میں زنجیر و سلاسل ڈال دیں بلکہ چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی مقرر کردہ قیود اور پابندیوں کا ان کو پابند بناتے ہوئے زیادہ سے زیادہ آزادی دیں تا مرد اور عورتیں دونوں اپنے اپنے حلقہ میں مفید کام کر سکیں کیونکہ جب تک عورتوں میں بیداری اور دینی جوش نہ ہو ہم خود بھی پورے طور پر بیدار ہو کر کام نہیں کر سکتے۔ مرد کا کام گھر سے باہر ہی سہی اور عورت کاگھر میں لیکن جب مرد دیکھے کہ گھر میں اس کی بیوی بیمار اور بے ہوش پڑی ہے تو وہ باہر جا کیسے سکتا ہے مگر جب گھر میں بیوی تندرست اور ہوش میں ہو تو وہ آزادی کے ساتھ باہر جائے گا اور شوق سے ہرکام کرے گا۔ اِسی طرح اگر مردوں کو یہ معلوم ہو کہ ہماری بیویاں ہوشیار ہیں تووہ یہ نہیں سوچیں گے کہ ہم اگر کوئی کام کر کے گھر گئے تو بیوی لڑے گی بلکہ ہمارے ساتھ شریک ہوگی تو وہ خوش دلی سے کام کریں گے۔ صحابہ کی عورتیں اِسی رنگ میں دینی امور میں تعاون کرتی تھیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک مقرب صحابی تھے دینی خدمات کا اُن کو بہت شوق تھا اور ہمیشہ اِس سلسلہ میں اِدھر اُدھر بھیجے جاتے تھے۔ ایک موقع پر اُن کا بیٹا بیمار تھا لیکن اُنہیں کوئی دینی کام پیش آگیا اور وہ اُسے بیمار ہی چھوڑ کر صبح گھر سے نکل گئے بعد میں لڑکا فوت ہو گیا۔ وہ شام کو گھر آئے۔ ہمارے زمانہ کی کوئی عورت ہوتی تو آتے ہی ایک دو ہتڑ خاوند کے رسید کرتی اور ایک اپنے آپ کو مارتی کہ کمبخت تجھے کچھ پتہ ہی نہیں بچہ کا کیا حال ہے اور یا پھر برقعہ اوڑھ کر نکل کھڑی ہوتی کہ مَیں ایسے منحوس گھر میں رہوں گی ہی نہیں مگر اِس عورت کا خاوند جب گھر آیا تو جانتے ہو اُس نے کیا کیا؟ اُس نے آگے بڑھ کر استقبال کیا، ہنسی خوشی کھانا کھلایا اور جب خاوند نے پوچھا کہ بچہ کا کیا حال ہے؟ تو کہا کہ پہلے سے اچھا ہے کیونکہ وہ فوت ہو چُکا تھا اور تکلیف کی حالت سے نکل چُکا تھا۔ جب مرد کھانا کھا چُکا تو اُس نے چار پائیاں بچھائیں، بستر کئے اور جب سونے لگے تو کہا کہ اگر محلہ کی کوئی عورت میرے پاس کوئی امانت چھوڑ جائے اور پھر کچھ عرصہ بعد آکر واپس مانگے تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟ خاوند نے کہا کہ یہ کیا بے ہودہ سوال ہے؟ امانت امانت والے کے حوالہ کرنی چاہئے اور کیا کرنا چاہئے؟ تب اُس نے کہا کہ اچھا ہمارے پاس بھی اﷲ تعالیٰ کی ایک امانت تھی جو اُس نے واپس لے لی ہے۔ ۵؎اِس کی بجائے اگر وہ روتی پیٹتی تو ممکن تھا اگلے روز خاوند کی توجہ ہی خدمتِ دین سے ہٹ جاتی اور وہ کہتا کہ خدمت تو کی مگر گھر میں چَین نہیں اب کچھ توجہ گھر کی طرف بھی کرنی چاہئے مگر اُس نے ایسا نمونہ پیش کیا کہ اُس کا یہی خیال ہؤا ہو گا کہ مَیں جتنی بھی خدمت کروں کوئی ڈر نہیں۔ گھر میں ایک محافظ موجود ہے۔ پس عورتیں اگر اندرونی ذمہ داریاں برداشت کریں تو مرد آزادی کے ساتھ باہر جاسکتا اور خدمت کر سکتا ہے اور عورتوں میں بیداری اور دینی روح کا پیدا کرنا اشد ضروری ہے۔ وہ مرد کبھی کامل نہیں ہو سکتا جس کی بیوی اُس کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہو لیکن ایک کمزور بھی زیادہ قُربانی کر سکتا ہے اگر اُس کی بیوی اُس کا ہاتھ بٹانے والی اور دل بڑھانے والی ہو اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اس کے لئے مَیں نے تجویز کی ہے کہ عورتوں کے نام ایک خط لکھوں اور وہ وعدہ کریں کہ دینی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں وہ اپنے خاوندوں کے ساتھ تعاون کریں گی اور اِس کے ساتھ مَیں یہ بھی چاہتا ہوں کہ لجنہ اماء اﷲ یا جہاں لجنہ نہ ہو وہاں مرد جلسے کر کے ان کو توجہ دلائیں اور بتائیں کہ اب وقت آچُکا ہے کہ جماعت کے دونوں حصّے مضبوط ہو کر دین کی خدمت میں لگ جائیں۔
مَیں اﷲ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں عورتوں کی بیداری کی اہم ذمہ داری صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق دے جو اس کے اور اس کے رسول کے منشاء کے مطابق ہو اور ایک طرف تو ہماری عورتوں میں بیداری اور کام کی روح پیدا ہو اور دوسری طرف وہ مغربی آزادی بلکہ مادرپدر آزادی سے محفوظ رہیں اور ہمارے مرد اور ہماری عورتیں دونوں ہی اِس کے منشاء کو پورا کرنے والے ہوں۔‘‘ (الفضل ۱۳؍مئی ۱۹۳۹ئ)
۱؎ بخاری کتاب الاذان باب مَنْ جَلَسَ فِی الْمَسْجِدِ یَنْتَظِرُ الصَّلٰوۃَ (الخ)
۲؎ محمد :۱۷
۳؎ تذکرۃ الموضوعات الفتنصفحہ ۱۸۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۵ء میں الفاظ ’’اَوْ سَاطُھَا‘‘ ہیں۔
۴؎ (البقرۃ :۱۴۴)
۵؎ مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب فضائل ابو طلحۃ الأنصاری
۱۵
نماز باجماعت کی ادائیگی کی اہمیت
(فرمودہ ۱۲؍مئی۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’نیکیوں میں ترقی اور تنزّل بتدریج ہؤا کرتا ہے۔ جب کوئی شخص نیکی کے میدان میں ترقی کرتا ہے تو آہستہ آہستہ کرتا ہے اور جب تنزّل کرنے لگتا ہے تو اُس وقت بھی آہستہ آہستہ کرتا ہے نہ یکدم ترقی کرتا ہے نہ یکدم تنزّل میں گر جاتا ہے۔ چھوٹا چھوٹا فرق ہوتا ہے جو بتدریج بڑھتے بڑھتے بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ انسان بعض دفعہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کر رہا ہوتا ہے اور اُسے معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ ترقی کر رہا ہے مگر ایک دن کیا دیکھتا ہے کہ وہ ترقی کے میدان میں بہت آگے نکل چُکا ہے۔ اِسی طرح وہ بعض دفعہ بظاہر معمولی باتوں کو نظر انداز کر رہا ہوتا ہے کہ یکدم اسے معلوم ہوتا ہے وہ بہت نیچے گر گیا ہے۔ ہمارے مُلک میں ایک لطیفہ مشہور ہے۔ کہتے ہیں کوئی شخص تھا اُس کو یہ خیال ہو گیا کہ وہ بہت بڑا پہلوان ہے آہستہ آہستہ یہ خیال اُس پر غالب آگیا اور وہ سمجھنے لگ گیا کہ مَیں دُنیا کا سب سے بڑا بہادر اور طاقت ور انسان ہوں اور کوئی شخص بہادری اور جرأت میں میرا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اِس پر اُسے خیال آیا کہ اپنی بہادری کا کوئی نشان بھی قائم کرنا چاہئے۔ چنانچہ اُس نے خود بھی سوچا اور اپنے دوستوں سے بھی مشورہ لیا کہ وہ کونسی چیز ہے جس کے ذریعہ بہادری کا نشان قائم کیا جاسکتا ہے۔ آخر اُس کو معلوم ہؤا کہ جانوروں میں سے شیر ایک ایسا جانور ہے جس کو لوگ بہادری کی مثال میں بیان کیا کرتے ہیں۔
پس اس نے فیصلہ کیا کہ مجھے شیر کی شکل اپنے جسم پر گدوانی چاہئے۔ یہ فیصلہ کر کے وہ کسی گودنے والے کے پاس گیا اور اُسے شیر کی شکل گودنے کو کہا۔ گودنے والے نے جب رنگ بھرنے کے لئے سوئی ماری تو اُسے درد محسوس ہؤا اور پوچھنے لگا میاں کیا کرنے لگے ہو؟ اُس نے کہا شیر گودنے لگا ہوں۔ اِس پر اُس نے دریافت کیا کہ شیر کا کونسا حصّہ؟ نائی نے کہا شیر کا دایاں کان گودنے لگا ہوں اُس نے پوچھا کہ اچھا یہ بتاؤ اگر شیر کا دایاں کان نہ ہو تو شیر رہتا ہے یا نہیں؟ نائی نے کہا رہتا تو شیر ہی ہے اِس پر اُس نے کہا اچھا پھر دایاں کان چھوڑ دو اور آگے چلو۔ جب نائی نے بایاں کان گودنے کے لئے سوئی ماری تو پھر اُس کو درد محسوس ہؤا اور اُس نے پھر پوچھا میاں اب کیا گودنے لگے ہو؟ اُس نے کہا اب بایاں کان گودنے لگا ہوں۔ وہ کہنے لگا اچھا یہ بتاؤ اگر شیر کا بایاں کان نہ ہو تو شیر رہتا ہے یا نہیں؟ نائی نے جواب دیا کہ رہتا تو شیر ہی ہے اِس پر اُس نے کہا اچھا اِس کو بھی چھوڑو اور آگے چلو۔ اِس کے بعد جب نائی نے دُم بنانے کے لئے سوئی ماری تو پھر وہ کہنے لگا اب کیا بنانے لگے ہو؟ گودنے والے نے کہا دُم ۔ کہنے لگا اچھا یہ بتاؤ اگر کسی شیر کی دُم نہ ہو تو وہ شیر رہتا ہے یا نہیں؟ نائی نے کہا رہتا تو شیر ہی ہے۔ کہنے لگا اچھا پھر اِس کو بھی چھوڑو اور آگے چلو۔ اِس طرح اِس نے چار پانچ مرتبہ جو کیا تو نائی سوئی رکھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ایک دو چیزوں کے نہ ہونے سے تو شیر رہ سکتاہے لیکن سب چیزوں کے نہ ہونے سے تو شیر کا کچھ بھی نہیں رہتا۔
بظاہر یہ ایک مضحکہ خیز مثال معلوم ہوتی ہے لیکن درحقیقت یہ نہایت سبق آموز حکایت ہے اور یہ نصیحت اپنے اندر پنہاں رکھتی ہے کہ تھوڑا تھوڑا چھوڑنے سے سب کچھ چھوٹ جاتا ہے اور کچھ بھی ہاتھ میں نہیں رہتا۔
اسلام کے نہایت ہی اہم اور مہتم بِالشّان اصول میں سے ایک اصل نماز باجماعت ادا کرنا ہے اور یہ ایک بہت بڑا حُکم ہے۔ ایک پہاڑ ہے نیکی کا جس طرح پہاڑ کی بُلند چوٹیوں کے آنے سے قبل کئی چھوٹی چھوٹی چوٹیاں آتی ہیں پہلے چھوٹے چھوٹے ٹیلے آتے ہیں پھر اُن سے اونچے ٹیلے پھر اُن سے اونچے پھر جھاڑیوں والے ٹیلے آنے شروع ہو جاتے ہیں پھر پہاڑ آنے شروع ہوتے ہیں اُس کے بعد چِیڑودیار کے بلند و بالا درختوں والی اونچی پہاڑیاں آتی ہیں اور آخر میں برف سے ڈھکی ہوئی نہایت اونچی پہاڑیوں پر یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے۔ ان بُلند چوٹیوں کے بعد پہاڑ پھر نیچا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ سب سے اونچے پہاڑ کے بعد اس سے چھوٹا اور اس کے بعد اِس سے چھوٹا پہاڑ آتا ہے پھر ٹیلے آتے ہیں پھر ناہموار زمین آتی ہے اور اس کے بعد ہموار زمین آنی شروع ہو جاتی ہے۔ اِسی طرح نماز کا بھی حال ہے یہ بھی ایک پہاڑ ہے جو انسان کو نیکی کی بُلند ترین چوٹی تک پہنچاتا ہے۔ اب یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ اِس پہاڑ کی چوٹی پر انسان بغیر ابتدائی مراحل طے کئے پہنچ جائے؟ یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے اِس کے متعلق بعض احکام دیئے۔ مثلاً سب سے پہلے اذان دیئے جانے کا حکم ہے اِس کے بعد وضو کیا جاتا ہے اور پھر سُنتیں پڑھی جاتی ہیں اِس کے بعد فرض آتے ہیں جو پہاڑ کی چوٹی کے مقابل پر ہیں۔ فرضوں کے بعد پھر سُنتیں ادا کی جاتی ہیں اور تب انسان کو نماز سے فراغت حاصل ہوتی ہے۔ اِس کے علاوہ ذکرِ الٰہی بھی ہے جو نماز سے پہلے اور نماز کے بعد کیا جاتا ہے اور جو بہت ہی ضروری چیز ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ذکر الٰہی انسان کے لئے بہت بڑی برکات کا موجب ہوتا ہے اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے وہ ایسا ہی ہے گویا جہاد میں مشغول ہے ۱؎ لیکن آجکل کے احمق نام نہاد تعلیم یافتہ نوجوانوں کے نزدیک مسجد میں نماز کے انتظار کے لئے بیٹھنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے حالانکہ وہ اتنا نہیں سمجھتے کہ اگر انسان کی پیدائش کی غرض حصول دُنیا ہی تھی تو نماز کے لئے وقت خرچ کرنا بھی تو وقت ضائع کرنا ہے۔ وقت ضائع کرنے والی چیز خواہ کم ہو یا زیادہ ایک ہی بات ہے۔ اب یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ جو شخص مثلاً پچیس منٹ نماز کے انتظار میں بیٹھے وہ تو وقت ضائع کرنے والا ہو لیکن دوسرا شخص جو دس منٹ نماز میں خرچ کرے وہ وقت ضائع کرنے والا نہ ہو۔ کوئی عقلمند اور سمجھدار آدمی اِس کیلے کو نہیں کھائے گا جو سڑا ہؤا اور گندا ہو بلکہ وہ اُسے پھینک دے گا یہ نہیں ہو گا کہ وہ کچھ حصّہ کھائے اور باقی کے متعلق کہہ دے کہ مَیں یہ نہیں کھاتا یا ایک خربوزہ جس میں کیڑے پڑے ہوئے ہوں اور جس میں سے بد بو آرہی ہو اُس کے متعلق وہ یہ کبھی نہیں کرے گا کہ اُس کی پانچ چھ کیڑوں والی پھانکیں تو کھالے اور باقی پھینک دے اور کہے کہ مَیں گندا خربوزہ نہیں کھا سکتا وہ یقینا چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا بھی ایسے خربوزے کا کھانے کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ کُجا یہ کہ وہ زیادہ حصّہ کھا لے اور تھوڑا چھوڑ دے۔ پس یہ احمقانہ خیال ہے کہ نماز کے انتظار میں بیٹھنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ نقص بعض احمدیوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ وہ نماز تو پڑھتے ہیں لیکن ذکرِ الٰہی کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور نماز پڑھنے کے لئے وہ ایسی ہی مسجد کی تلاش کرتے ہیں جس میں نماز جلدی پڑھائی جاتی ہو اور پھر امام ایسا ڈھونڈتے ہیں جو دو تین ٹھونگیں مار کر نماز پڑھا دے اور مقتدیوں کو جلد فارغ کر دے اور ان کو زیادہ وقت نماز کے لئے صرف نہ کرنا پڑے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز اپنے اپنے محلہ کی مسجد میں ادا کرو۔ ۲؎ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا اُس وقت یہ بے حکمت سا نظر آتا تھا لیکن انبیاء علیہم السلام کی فراست غیر معمولی طور پر تیز ہوتی ہے اور وہ انسانی نفس کی تمام کمزوریوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے احکام دیتے ہیں۔ چنانچہ موجودہ زمانہ کے نقائص کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اِس حُکم میں ایک بہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ جب تم اپنے محلہ کی مسجد چھوڑ کر دوسری جگہ جاتے ہو تو دراصل آرام طلبی کے لئے جاتے ہو کیونکہ تمہیں خیال ہوتا ہے کہ وہاں نماز جلدی ہو جائے گی۔ تم جانتے ہو کہ وہاں امام کس قسم کی نمازپڑھاتا ہے اور تم اپنے محلہ میں نماز اِس لئے نہیں پڑھتے کہ تم جانتے ہو وہاں تم کو انتظار کرنا پڑے گا اور نماز بھی ادا کرنی ہو گی۔
پس یہ ایک نہایت ہی پُر حکمت حُکم ہے جس کی حکمت اب نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہے۔ پھر بعض لوگ ایسی مسجد میں جاکر نماز پڑھتے ہیں جہاں بچوں کو نماز پڑھائی جاتی ہے چونکہ اِس جگہ نماز گھنٹی بجنے کے ساتھ ہوتی ہے اور بچوں کے لئے جلدی پڑھا دی جاتی ہے اِس لئے وہ بھی اِسی مسجد میں جاکر نماز پڑھتے ہیں لیکن محلہ کی مسجد میں چونکہ انہیں انتظار کرنا پڑتا ہے اِس لئے وہ محلہ کی مساجد میں نماز نہیں پڑھتے۔ حالانکہ امام کا انتظار اور ذکرِ الٰہی میں مشغول رہنا یہ بہت بڑی نیکیاں ہیں اور یہی نیکیاں انسان کو نیکیوں کے پہاڑ کی چوٹی تک پہنچاتی ہیں۔ اگر اِس پہاڑ تک پہنچنے کے لئے ابتدائی نیکیوں کی ضرورت نہ ہوتی جو ٹیلوں وغیرہ سے مشابہت رکھتی ہیں تو نماز کے لئے اذان کیوں دی جاتی؟ پھر امام کے انتظار کا کیوں حُکم دیا جاتا جس میں ذکر الٰہی کیا جاتا ہے اور پھر سُنتیں پڑھنے کا حُکم کیوں دیا جاتا ؟ اِسی طرح نماز باجماعت کا حکم کس لئے دیاجاتا؟ یہ سب احکام اِسی لئے ہیں کہ انسان ان پر عمل کرتے ہوئے آہستہ آہستہ نیکی کے بُلند پہاڑ پر چڑھے مگر جو شخص بغیر اِن بلندیوں کو عبور کرنے کے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھنا چاہتا ہے وہ احمق اور نادان ہے وہ نہیں جانتا کہ اﷲ تعالیٰ نے روحانی ترقی کے لئے کونسے اصول اور ذرائع مقرر کئے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دین کی تکمیل کے لئے ان تمام ذرائع کا استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے جو اِس کو حاصل کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے مقرر کئے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کے حاصل کئے بغیر دین کی تکمیل قطعاً نہیں ہو سکتی۔ یہی مغربی تہذیب سے متاثر نوجوان جو ہر بات میں وجہ اور حکمت تلاش کرنے کے عادی ہیں اُن کو دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی جگہ ڈنر پر جانا ہوتا ہے تو کالے کوٹ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں کبھی کسی سے پوچھتے ہیں کبھی کسی سے اور اگر کالا کوٹ نہ ملے تو وہ اسے اپنے لئے سخت ذلت کا باعث سمجھتے ہیں۔ اب بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ کالے کوٹ کا ڈنر کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ کیا کالے کوٹ کے ساتھ روٹی کاٹنی ہوتی ہے یا پھل کاٹنے ہوتے ہیں یا ہڈی چبانے کا کام لینا ہوتا ہے؟ لیکن باوجود اِس بات کے کالے کوٹ کے ساتھ ڈنر کا کوئی تعلق نہیں وہ کالاکوٹ پہننا ضروری سمجھتے ہیں مگر اسلام کے حُکموں پر اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں حُکم کیوں ہے فلاں کیوں ہے؟ وضو کرنے کی حکمت ان کی سمجھ میں نہیں آتی، نماز سے پہلے ذکرِ الٰہی کرنے کی حکمت ان کی سمجھ میں نہیں آتی اور وہ گھبرا جاتے ہیں لیکن ڈنر کے لئے کالا کوٹ یا سوٹ کے ساتھ ٹائی پہننے یا بوٹ کے ساتھ جراب پہننے کی حکمت سمجھنے کی انہیں کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ خیال رکھتے ہیں کہ پتلون میں کوئی کریز (CREASE) نہ پڑے اور وہ بغیر اِس کی حکمت سمجھنے کے اِس کو ضروری سمجھتے ہیں غرض شیطان کی پیدا کی ہوئی تمام پابندیوں کو اختیار کرتے اور اس کی پیدا کردہ یک جہتی کے لئے کوشاں رہتے ہیں مگر خدا کی مقرر کردہ پابندیوں کی مخالفت کرتے ہیں اور اِس کی یک جہتی کی تدبیروں کو لغو قرار دیتے ہیں۔ اِسی طرح بعض لوگ ایسے ہیں جو اپنی دکانوں میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب تکبیر ہو تو نماز میں جا شامل ہوں۔ ایسی ہی ایک دکان فخرالدین ملتانی کی تھی جو اِس قسم کے لوگوں کا اڈّا تھا اِس جگہ بڑے بڑے لوگ جو معزز سمجھے جاتے ہیں بیٹھے رہتے تھے اور اِس انتظار میں رہتے تھے کہ کب تکبیر ہو تو مسجد میں جائیں۔ اب گو اِس دکان کے نہ ہونے کی وجہ سے اِس میں ایک حد تک کمی آگئی ہے مگر پھر بھی بعض لوگ ابھی تک ایسا کرتے ہیں اور تکبیر پر ہی مسجد میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے خاندان کے بعض افراد میں بھی یہ سُستی آگئی ہے اور ہمارے گھر کے بعض بچے بھی اِس مرض میں مُبتلا ہیں۔ مَیں نے ان کے متعلق دیکھا ہے کہ جب مَیں مسجد میں آتا ہوں تو وہ شاذ ہی مجھے یہاں نظر آتے ہیں بلکہ گھر میں سُنتیں پڑھ کر انتظار کرتے رہتے ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ مَیں گھر میں سے ہو کر مسجد میں چلا گیا ہوں تو اُس وقت وہ دوڑتے ہوئے نماز میں آشامل ہوتے ہیں۔ آج تو ان کو بیشک یہ سہولت میسّر ہے مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ مَیں ہمیشہ رہنے والی ہستی نہیں، ہمیشہ رہنے والی ہستی تو حیّ و قیوم خُدا ہی کی ہے۔ میرے بعد جو خلیفہ ہو گا کون کہہ سکتا ہے کہ وہ کِس گھر کا فرد ہو گا؟ اُس وقت اِنہیں کیونکر علم ہو گا کہ امام مسجد میں نماز کے لئے آگیا ہے۔ اُس وقت ان کو جو تیس تیس سال سے عادت پڑی ہوئی ہو گی وہ کیسے دُور ہو گی؟ اور وہ کیسے باجماعت نماز ادا کریں گے؟ اگر اِس وقت اِنہوں نے اپنی حالت کی اصلاح نہ کی تو پہلے ان کی جماعت کی پہلی رکعت جاتی رہے گی پھر دوسری رکعت جاتی رہے گی پھر تیسری رکعت جاتی رہے گی اور آہستہ آہستہ وہ باجماعت نماز ادا کرنے سے ہی محروم ہو جائیں گے اور خیال کرلیں گے کہ چلو گھر پر ہی نماز پڑھ لیں اور بعد میں ممکن ہے وہ گھر میں بھی نماز پڑھنا چھوڑ دیں۔ مَیں ان کو اِس حدیث کے مطابق کہ کسی کا نقص لوگوں کے سامنے بیان نہیں کرنا چاہئے ۔اشاروں میں توجہ دلا چُکا ہوں لیکن جب ان پر میرے اشاروں کا کوئی اثر نہیں ہؤا تو مَیں نے ضروری سمجھا کہ اب زیادہ وضاحت سے کام لے کر ان کو توجہ دلاؤں تاکہ وہ اپنی اِس غفلت کی عادت کو ترک کر دیں۔ جو لوگ گھروں میں نماز پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں وہ آہستہ آہستہ نماز پڑھنا باکل چھوڑ دیتے ہیں۔ چنانچہ مَیں نے آج تک کبھی نہیں دیکھا کہ گھر پر نماز پڑھنے والا کوئی شخص ہمیشہ نماز کا پابند رہا ہو وہ بالآخر نماز کا تارک ہی ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی نماز رسمی ہوتی ہے محبت اور ایمانی روح اس میں نہیں ہوتی وہ پہلے توگھر میں نماز پڑھتا رہتا ہے مگر جس دن کسی عقلمند اور سمجھدار آدمی سے اس کی ملاقات ہو (مَیں نے عقلمند کا لفظ اِس لئے استعمال کیا ہے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک عقلمند وہی ہوتا ہے جو نماز کو بے فائدہ سمجھے اور اسلام کی عائد کردہ پابندیوں کو بُرا قرار دے) اور وہ کہے کہ میاں اِس نماز کا تم کو کیا فائدہ؟ تو اِسی روز سے وہ نماز پڑھنا چھوڑ دے گا اور کہے گا کہ واقع میں اِس نماز کا کوئی فائدہ نہیں حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ وہ نماز جس کا اُسے کوئی فائدہ نظر نہیں آیا وہ اِس کی اپنی بنائی ہوئی نماز تھی۔ خدا کی نماز تو وہ پڑھتا ہی نہیں تھا۔ اگر وہ خدا کی نماز پڑھتا اور ان شرائط کے ساتھ ادا کرتا جو اس کے لئے مقرر ہیں تو اِس کا اُسے فائدہ بھی پہنچتا اِس کے بغیر اس کی نماز محض ایک رسم تھی جس میں ایمان نہیں تھا اور نہ وہ رُوح اِس کے اندر تھی جس رُوح کا نماز کے اندر پایا جانا ضروری ہے۔ نماز اپنی ان قیود اور پابندیوں کے ساتھ جو اﷲ اور اُس کے رسُول نے مقرر کی ہیں ایک حسین ترین چیز ہے لیکن اگر کسی حسین کی ناک کاٹ دی جائے آنکھ پھوڑ دی جائے گالوں پر نشان لگا دیئے جائیں اور کان کاٹ لئے جائیں تو کون شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ وہی حسین ہے۔ یہی حال نماز کا ہے کہ نماز اپنی تمام قیود اور پابندیوں کے ساتھ ایک انتہا درجہ کی خوبصورت چیز ہے مگر جب ہم اپنی غفلت اور نادانی کی وجہ سے اِس کو چھانٹتے چلے جائیں تو وہ بے فائدہ اور لغو چیز بن جاتی ہے اور ایسی نماز کبھی بابرکت نہیں ہو سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ لوگ نماز اِس طرح پڑھتے ہیں جس طرح مرغ ٹھونگے مار کر دانے چُگتا ہے ایسی نماز یقینا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی بلکہ بعض دفعہ ایسی نماز *** کا موجب بن جاتی ہے جیسے قرآن کریم میں ہی اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ۳؎کہ نماز گرفت ہے مگر کن کے لئے ہے ۴؎ ان کے لئے جن کی نماز قشر رہ جاتی ہے جس کے اندر مغز نہیںہوتا جو اس کو کاٹ کر اور اس کی شکل کو بگاڑ کر ادا کرتے ہیں۔ انسان تبھی اِس *** سے بچ سکتا ہے جب وہ نماز کو اس کی قیود اور پابندیوں کے ساتھ ادا کرے اور پھر اِس سے فائدہ اُٹھائے لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو بجائے ثواب کے ایک *** مول لیتا ہے اور اگر وہ ضد کی وجہ سے کہتا ہے کہ ہاں فائدہ ہے اور درحقیقت اُسے فائدہ کوئی نہیں ہوتا تو اس وقت وہ جھوٹا بھی ہوتا ہے اور *** بھی کیونکہ وہ خدا اور رسول اور اپنے مذہب کو عملی طور پر جھوٹا کہتا ہے۔ ہاں اگر وہ نماز کو ان قیود اور پابندیوں کے ساتھ ادا کرتا ہے جو خدا اور رسول نے مقرر کی ہیں تو اس کو اس کا ضرور فائدہ ہوتا ہے اور اس کے دل پر خدا تعالیٰ کی محبت غلبہ کر لیتی ہے بلکہ نماز سے بھی پہلے جب یہ ذکر الٰہی کرتااور نماز کے لئے انتظام کرتا اور سُنتیں وغیرہ پڑھتا ہے تو اس وقت اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ دست در کار دل بایار۔ دیکھو نماز کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی کی دعوت کرے اور کہے کہ کھانا اکٹھا نہیں کھایا جائے گا ہر شخص اپنا برتن بھجوا دے اِس میں کھانا ڈلوا دیا جائے گا، اب جو شخص برتن لے کر جائے گا اُسے کھانا مل جائے گا مگر جو برتن لے کر نہیں جائے گا وہ محروم رہے گا۔ اِسی طرح نماز کیا ہے؟ نماز ایک روحانی کھانے کی تقسیم کا وقت ہے جو شخص اس وقت برتن لے کر جائے گا وہ اُس میں کھانا ڈلوا لائے گا مگر جو خالی ہاتھ جائے گا اُس کو وہاں سے خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑے گا کیونکہ وہ برتن لے کر ہی نہیں گیا۔ گو جانے میں وہ برتن لے جانے والوں کے برابر ہی رہا لیکن ان کو تو کھانا مل جائے گا جن کے پاس برتن ہوں گے مگر اُس کو کچھ نہیں ملے گا کیونکہ اس کے پاس برتن نہیں تھا یا پھر فرض کرو یہ برتن تو لے جاتا ہے مگر پاخانہ سے بھرا ہؤا ہے جیسے پاخانہ کا پاٹ اُٹھا کر کوئی لے جائے تو اُس میں جو کھانا ہی ڈالا جائے گا وہ کھانے کے قابل نہیں ہو گا بلکہ پھینک دینے کے قابل ہو گا۔
ایک لطیفہ مشہور ہے کہتے ہیں کوئی لڑکا اپنے مُلّا اُستاد کے لئے گھر سے کھیر لے کر گیا چونکہ اس کے گھر سے کھیر چھوڑ پہلے کبھی باسی روٹی بھی نہیں آئی تھی اِس لئے اُستاد بہت ہی حیران ہؤا اور اُس نے لڑکے سے دریافت کیا کہ بیٹا آج تیری ماں کو کھیر بھیجنے کا خیال کیسے آگیا؟ اس نے جواب دیا کہ مُلّا جی بات دراصل یہ ہے کہ اماں نے کھیر پکائی تھی اِس میں کُتّا مُنہ ڈال گیا اِس پر ماں مجھے کہنے لگی کہ جا مُلّا جی کو دے آ۔ اُس کو یہ سُن کر سخت غصّہ آیا اور اُس نے برتن زمین پر دے مارا جو گرتے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور کہنے لگا کمبخت کیا کُتّے کا جھوٹا میرے لئے ہی رکھا تھا؟ لڑکے نے جب دیکھا کہ برتن ٹوٹ گیا ہے تو وہ رونے لگ گیا اُس پر مُلّا نے کہا کہ تو روتا کیوں ہے؟ برتن میں کُتّا مُنہ ڈال گیا تھا اور وہ کھانے کے لئے استعمال کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ لڑکا کہنے لگا مجھے ڈر ہے کہ گھر جاؤں گا تو اماں خفا ہو گی کیونکہ یہ برتن جس میں مَیں کھیر ڈال کر لایا تھا اِس میں میری ماں چھوٹے بھائی کو پیشاب کرایا کرتی تھی اب چونکہ یہ برتن ٹوٹ گیا ہے اِس لئے وہ ناراض ہو گی۔ یہی حال بغیرقیود اور شرائط کے نماز ادا کرنے کا ہے۔ حقیقی نماز تو بندے اور خُدا میں تعلق قائم کرتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ نماز کو اُن تمام آداب کے ساتھ ادا کیا جائے جو خدا اور اُس کے رسُول نے اس کی ادائیگی کے لئے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان شرائط کو پوری طرح ملحوظ نہیں رکھتا تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کھانا لینے کے لئے گندا برتن لے جائے اور اگر وہ کسی امر کی بھی نگہداشت نہیں رکھتا جیسے بعض لوگ نہ ذکرِ الٰہی کرتے ہیں نہ سُنتیں پڑھتے ہیں اور نماز کے لئے انتظار کرنے کو تضیعِ اوقات سمجھتے ہیں۔ ان کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جو کھانا لینے کے لئے تو جائے مگر برتن اس کے پاس نہ ہو دونوں صورتوں میں دعوت کا فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا کیونکہ جو نماز بھی ان قیود کے بغیر پڑھی جائے گی وہ گندے برتن میں چیز ڈلوانے کے مترادف ہو گی اور اِس قسم کی نماز پڑھنے والے کو نماز کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ نماز کے وقت محبتِ الٰہی کی غذا تقسیم ہو رہی ہوتی ہے اور اس کو وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو نہ صرف برتن لے کر جائے بلکہ پاک اور صاف برتن لے کر اس کے حضور حاضر ہو۔
پس مَیں دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں خصوصاً اپنے خاندان کے بعض بچوں کو (شاید ان میں سے بعض بچوں کو یہ بُرا لگے اور طبعاً بُرا محسوس بھی ہوتا ہے اِسی لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ سلم نے فرمایا ہے کہ جب کسی کو کوئی نصیحت کرنی ہو تو علیحدگی میں کرو ۵؎مگر چونکہ مَیںان لوگوں کو الگ بھی سمجھا چُکا ہوں اور مَیں دیکھتا ہوں کہ میرے اِس سمجھانے کا کوئی خاطرخواہ اثر اُن پر نہیں ہؤا اِس لئے مَیں نے چاہا کہ اب ان کا نام لے کر اِس بات کو بیان کردوں۔)یہ بات یاد رکھو کہ موجودہ تہذیب اور تعلیم ان چیزوں کو حقیر کر کے دکھاتی ہے مگر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے وہ اپنی چیزوں کو حقیر کر کے نہیں دکھاتی۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں مگر ان کے خلاف چلتے ہوئے ان کی جان نکلتی ہے۔ جیسے مَیں نے بتایا ہے کہ ڈنر کے موقع پر ہر شخص کے لئے کالاکوٹ پہن کر جانا ضروری سمجھا جاتا ہے اور وہ اِس بات کو بڑی مصیبت اور ہتک سمجھتے ہیں کہ ان کی مجلس میں کوئی ایسا شخص شریک ہو جائے جس نے کالا کوٹ پہنا ہؤا نہ ہو۔
ایک دعوت مجھے بھی اِس وقت یاد آگئی وہ بھی ڈنر تھا جس میں شمولیت کے لئے مجھے بُلایا گیا۔ مَیں نے کہلا بھیجا کہ مَیں ڈنر کے موقع پر کالاکوٹ نہیں پہن سکتا اب وہ ایک طرف دعوت میں مجھے شریک بھی کرنا چاہتے تھے اور دوسری طرف ان کے لئے یہ بھی بڑی بھاری مصیبت تھی کہ مَیں ایسی حالت میں شامل ہوں جبکہ مَیں نے کالاکوٹ پہنا ہؤا نہ ہو اور اس طرح ان کی ذلّت و رُسوائی ہو۔ تنگ آکر اُنہوں نے یہ فیصلہ کر دیا کہ کوئی شخص کالاکوٹ پہن کر نہ آئے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ بڑی ذلت کی بات ہو گی کہ اَور لوگوں کے تو کالے کوٹ ہوں گے اور ان کا کالاکوٹ نہیں ہو گا تو اُنہوں نے سرے سے یہ قید ہی اُڑا دی محض اِس لئے کہ یہ محسوس نہ ہو کہ قانون ٹوٹ گیا ہے اور اُنہوں نے کسی شرط کی خلاف ورزی کی ہے۔
پھر یورپین لوگوں نے خود اپنے اوپر کئی قسم کی قیود عائد کر رکھی ہیں چنانچہ امریکہ کے ایک رسالہ میں مَیں نے ایک دفعہ ایک مضمون پڑھا وہاں مَرد عورت ناچتے ہیں اور اِس میں کوئی شرم اور حیا محسوس نہیں کی جاتی۔ غیر عورت کا غیر مَرد کے ساتھ ناچ یورپ میں بالکل جائز ہے مگر اُنہوں نے یہ شرط رکھی ہوئی ہے کہ اس ناچ میں تین اُنگلی کا مرد اور عورت کے درمیان فرق رہنا چاہئے۔ اب مَرد اور عورت ناچتے چلے جائیں گے اور اُسے بالکل جائز اور درست سمجھیں گے لیکن ساتھ ہی یہ ضروری ہو گا کہ ان میں تین اُنگل کا فرق رہے۔ اگر تین انگل سے کم فرق ہوجائے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ درست نہیں۔ اِس مضمون میں یورپین لوگوں کے اِس طریق عمل پر مضمون نویس نے جو ہمارے نقطۂ نگاہ میں تو سمجھدار تھا مگر اپنی قوم کے نزدیک بیوقوف اور احمق تھا بڑی ہنسی اُڑائی اور لکھا کہ یہ تین انگل کا کونسا فرق ہے جس میں زور دیا جاتا ہے اور وجہ کیا ہے کہ تین اُنگلی کا فرق ہو تو تہذیب قائم رہتی ہے اور اگر اڑھائی اُنگلی کا فرق ہو جائے تو تہذیب اُڑ جاتی ہے مگر ان میں یہ ایک قاعدہ ہے۔ وہ اِس کی پابندی کرتے ہیں اور ہر شخص خیال کرتا ہے کہ یہ بڑا اہم معاملہ ہے۔ اِسی طرح تیرہ کا عدد انگریزوں میں منحوس سمجھا جاتا ہے کیونکہ حضرت مسیح ؑ کے بارہ حواری تھے اور تیرھویں آپ خود تھے لیکن پھر انہی میں سے ایک نے حضرت مسیح کو چند روپوں کے بدلے گرفتار کرادیا۔ بس اُس وقت سے تیرہ کا عدد انگریزوں میں منحوس سمجھا جاتا ہے۔ ان میں بڑے بڑے فلاسفر، بڑے بڑے پروفیسر، بڑے بڑے مدبر، بڑے بڑے سائنسدان اور بڑے بڑے عقلمند اور دانا لوگ ہیں مگر جہاں تیرہ کا اجتماع دیکھیں گے ان کے چہرے زرد پڑجائیں گے اور کوشش کریں گے کہ کسی طرح اِس دعوت سے بھاگ جائیں جس میں تیرہ آدمی جمع ہیں اور یا تو وہ تلاش کر کے کسی چودھویں آدمی کو اپنے اندر شامل کر لیں گے اور اگر کسی چودھویں کو شامل نہ کر سکیں تو ایک ان میں سے ضرور کھِسک جائے گا تاکہ تیرہ کی نحوست اُن پر نہ آئے۔
ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ کسی دعوت میں تیرہ انگریز شریک ہوگئے۔ اب ان میں سے ہرایک نے چاہا کہ مَیں اِس دعوت سے کسی طرح کھِسک جاؤں تاکہ بارہ پیچھے رہ جائیں اورنحوست جاتی رہے۔ لیکن چونکہ وہ یہ بات کھلے طور پر کہہ نہیں سکتے تھے اِس لئے ہر ایک نے اپنے اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیا کہ مَیں اِس مجلس سے کھِسک جاؤں گا۔ چنانچہ ایک ایک کر کے سب اِس مجلس سے اُٹھ گئے اور صرف میزبان ہی پیچھے رہ گیا مہمان کوئی نہ رہا۔ تو یہ لوگ اوّل درجہ کی احمقانہ باتوں کے پیچھے چلتے ہیں مگر جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی احکام نازل ہوں تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ اِس میں یہ شرط ہے، وہ قید ہے، فلاں پابندی ہے اور فلاں سختی ہے۔ حالانکہ وہ خود دُنیوی امُور میں ان پابندیوں سے بہت زیادہ خطرناک پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ پس یاد رکھو نماز باجماعت اسلام کے اہم اصول میں سے ایک اصل ہے جو شخص بغیر بیماری اور بغیر کسی ایسی تکلیف کے نماز چھوڑتا ہے جس میں اس کا نماز باجماعت سے محروم رہنا مجبوری قرار دی جا سکے وہ نماز کو عمداً ضائع کرتا ہے اور جو قوم نماز ضائع کر دیتی ہے وہ اﷲ تعالیٰ کے فضل کو کبھی حاصل نہیں کر سکتی۔‘‘ (الفضل ۲۰؍مئی ۱۹۳۹ئ)
۱؎ کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۳۲۳ ۔ مطبوعہ حلب ۱۹۷۱ئ
۲؎
۳؎ الماعون :۵ ۴؎ الماعون :۶
۵؎
۱۶
توسیع مساجد کے لئے چندہ کی تحریک
اور قادیان سے ناخواندگی کو دُور کرنے کی سکیم
(فرمودہ ۱۹؍مئی۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے گزشتہ سے گزشتہ خطبہ جمعہ میں مساجد احمدیہ کے لئے چندہ کا اعلان کیا تھا اور خدام الاحمدیہ کے یہ کام سپرد کیا تھا۔ قادیان میں اُنہوں نے چندہ جمع کرنے کی تو کوشش کی ہے مگر اتفاقاً ان کی ایک لسٹ جو ہمارے گھر میں پہنچی اُسے دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ گو وہ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں اور میرے خطبات کا مضمون بھی واضح تھا یہ چندہ ایسی نادانی سے جمع کیا گیا ہے کہ تحریک کو ہی ضائع کر دیاہے۔ اتفاقاً ان کی ایک لسٹ میرے ہاتھ آگئی جو کسی آدمی نے ہمارے ہاں بھجوائی تھی اِس میں ہر ایک کے نام کے آگے ایک ایک آنہ لکھا تھا حالانکہ مَیں نے یہ کہا تھا کہ ایک آنہ سے لے کر دس روپیہ تک اِس میں دیا جاسکتا ہے مگر ان لوگوں نے غالباً نادانی اور ناتجربہ کاری سے یہ خیال کر لیا کہ خطبہ تو ہر ایک شخص کو یاد ہی ہو گا اور پھر جس کا ارادہ زیادہ دینے کا ہو گا وہ زیادہ دے دے گا۔ ان کی پہلی غلطی تو یہ تھی کہ انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ خطبہ سب کو یاد ہی ہو گا اور دوسری یہ کہ انہوں نے خیال کر لیا کہ جس نے زیادہ دینا ہو گا خود ہی دے دے گا۔ ان کا یہ خیال انسانی فطرت سے ناواقفی کی دلیل ہے۔ جب کسی سے ایک آنہ مانگا جائے تو اُس سے یہ امید رکھنا کہ وہ خود بخود دس روپے دے دے گا انسانی فطرت سے ناواقفی ہے۔ شاید سَو میں سے ایک آدمی ایسا ہو گا کہ جو ایک آنہ مانگنے پر بھی دس روپیہ دے دے مگر ننانوے ایسے ہوں گے جو کہیں گے کہ اچھالے لو ایک آنہ اور ان کی اِس نادانی کا نتیجہ یہ ہؤا ہے کہ سوائے دو چار آدمیوں کے باقی سب نے ایک ایک آنہ ہی دیا ہے۔ حالانکہ جس روز مَیں نے تحریک کی تھی قادیان میں ہی کئی لوگ بیس بیس اور تیس تیس روپیہ دینے کے لئے تیار تھے بلکہ بعض تو سَوسَو دینے پر آمادہ تھے اور جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا ایک عورت نے اپنی دو سَو روپیہ کی چوڑیاں دے دی تھیں اور اصرار کے باوجود واپس نہیں لیتی تھیں مگر چندہ میں سب نے ایک ایک آنہ ہی دیا ہے۔ جب وہ فہرست ہمارے گھر پہنچی تو مَیں نے کہا کہ تمہارا وعدہ دس روپیہ کا تھا اِس ایک ایک آنہ سے دھوکا نہ کھانا۔
دوسری غفلت انہوں نے یہ کی کہ بارہ ایک بجے تک مجھ سے کوئی چندہ لینے نہ آیا آخر مَیں نے خود ہی دفتر والوں کو بُلا کر دس روپے بھجوائے اور ساتھ کہا کہ ان کو ملامت کی جائے کہ جب مجھ سے کوئی مانگنے کے لئے نہیں آیا تو مَیں کس طرح سمجھ سکتا ہوں کہ دوسروں سے مانگا گیا ہو گا۔
پس اِس کام میں خدام الاحمدیہ کا طریقِ عمل ناپسندیدہ ہے گو اُنہوں نے چندہ تو کیا ہے مگر معلوم ہوتا ہے دل سے کام نہیں کیا۔ یہ ان کا پہلا کام ہے جو میرے سامنے آیا ہے اور افسوس ہے کہ یہی صحیح طور پر نہیں ہؤا۔ اِس لئے آئندہ مجھے ان کی بہت سی رپورٹوں پر ڈسکاؤنٹ لگانا پڑے گا۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ باہر کی جماعتیں اِس غلطی کا ارتکاب نہیں کریں گی۔ چاہئے کہ ہرگھر کے افراد کی فہرست تیار کر لی جائے اور پھر کہا جائے کہ آپ اتنے کَس ہیں اور ایک آنہ سے لے کر دس روپیہ فی کس تک چندہ میں دے سکتے ہیں۔ اب آپ اپنے نام کے آگے لکھ دیں کہ کتنا دیں گے اِس طرح تو لوگ زیادہ بھی دینے کے لئے آمادہ ہو سکتے ہیں لیکن جب مانگا ہی ایک آنہ جائے اور پہلے ہی سب کے آگے ایک آنہ لکھ کر بھیج دیا جائے تو ہر شخص یہی کہے گا کہ جب سلسلہ کی طرف سے مانگا ہی ایک آنہ گیا ہے تو مَیں زیادہ کیوں دوں؟ مَیں نے تو دس روپیہ یعنی ایک سو ساٹھ آنہ تک کی تحریک کی تھی مگر انہوں نے ایک آنہ کر دیا اور اِس طرح گویامیری نصیحت کا ایک سو انسٹھ حصّہ تلف کر دیا اور صرف ایک حصّہ پر عمل کیا۔ پس مَیں بیرونی جماعتوں کو ہوشیار کرتا ہوں کہ وہ ایسی نادانی کا ارتکاب نہ کریں بلکہ چاہئے کہ ہر فرد جماعت سے دریافت کریں کہ وہ کتنا چندہ دے گا؟ ایک آنہ سے لے کر ایک سو ساٹھ آنہ تک کوئی جتنا چاہے دے سکتا ہے اِسی طرح اس حد تک وہ اپنے اور اپنے بیوی بچوں کی طرف سے بھی چندہ دے سکتا ہے پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنی طرف سے مثلاً دس روپے بیوی کی طرف سے پانچ اور بچوں کی طرف سے چار چار آنہ دے دے۔ غرض یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنا زیادہ اور بیوی بچوں کا کم چندہ دے دے۔ بہرحال جب ایک آنہ سے لے کر دس روپے تک کی تحریک تھی تو خدّام الاحمدیہ کا فرض تھا کہ لوگوں کو موقع دیتے کہ کوئی جتنا چاہے لکھوا دے انہیں خود ہی ایک آنہ چندہ لکھ کر لوگوں کو نہیں بھجوانا چاہئے تھا لیکن انہوں نے خود تو ہر ایک کے نام کے آگے ایک آنہ لکھ دیا اور پھر امید یہ رکھی کہ لوگ زیادہ دے دیں گے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ عام طور پر لوگوں نے ایک ایک آنہ ہی دیا ہے۔ مَیں نے یہ چندہ کی لسٹ دیکھی ہے اِس سے مَیں اندازہ کرتا ہوں کہ زیادہ دینے والے پانچ سات سے زیادہ نہیں ہیں۔ حالانکہ میری تجویز پر اگر عمل کیا جاتا تو کئی گُنا زیادہ چندہ ہو سکتا تھا اور میرا اندازہ ہے کہ وہ پچاس ساٹھ آدمی جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار مجھ پر کیا تھا ان سے ہی ایک ہزار تک وصول ہو سکتا تھا۔ گو ہم نے ان لوگوں سے زیادہ چندہ لیا نہیں تھا مگر پھر بھی لوگوں کے خیالات کا تو علم ہو سکتا ہے لیکن خدّام الاحمدیہ نے سب کے نام کے آگے ایک ایک آنہ لکھ کر گویا اِس تحریک کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی یا یوں کہو کہ خالی ہڈی رہنے دی مگر اِس میں سے مغز نکال دیا۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کئی بار توجہ دلائی ہے مجھے افسوس ہے کہ جماعت کا نوجوان طبقہ عقل و ذہانت سے بہت کم کام لیتا ہے اور انسانی فطرت کا بہت کم مطالعہ کرتا ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں جب موقع ملے گپیں مارتے رہتے ہیں اور غور وفکر کی عادت نہیں ڈالتے اور زیادہ گپیں مارنے اور باتیں کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سوچ نہیں سکتے کیونکہ جب زبان بولتی ہے تو دماغ کام نہیں کر سکتا۔ اسلام نے ذکرِ الٰہی کا حُکم اسی لئے دیا ہے کہ جب انسان خاموش ہو تو دماغ کام کرتا ہے۔ جس وقت انسان باتیں کر رہا ہو اُس وقت اس کے مدّنظر یہ بات ہوتی ہے کہ سُننے والوں کے لئے زیادہ سے زیادہ دلچسپی کا سامان ہو۔ اِس لئے دماغ کو سوچنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی لیکن ذکرِ الٰہی کے وقت چونکہ لوگوں کی طرف توجہ نہیں ہوتی اِس لئے دماغ کو سوچنے کی طرف توجہ ہوتی ہے اور ذہن ترقی کرتا ہے۔ تو زیادہ باتیں کرنا فکر کی عادت کو کم کرتا ہے اور ہمارے نوجوان چونکہ یا تو باتیں کرتے ہیں اور یا پھر سوتے اور کھاتے ہیں اِس لئے دماغ کی طاقت کو بڑھانے کا ان کو بہت کم موقع ملتا ہے اور انسانی فطرت کا گہرا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔ وہ اِس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ کس طرح کسی کو نیکی کی تحریک کرنا زیادہ مُفید ہو سکتا ہے؟ کس طرح انسانی ذہن کو سلسلہ کی ضروریات کی طرف زیادہ سے زیادہ متوجہ کیا جاسکتا ہے؟ کس طرح اصلاح کے لئے آسانی سے تیار کیا جاسکتا ہے؟ وہ صرف باتیں ہی کرنا جانتے ہیں اور باتیں کرنے سے ہی سمجھ لیتے ہیں کہ کام ہو جائے گا۔ حالانکہ دُنیا میں کام باتیں کرنے والے نہیں بلکہ سوچنے والوں نے کیا ہے۔ پس ذکرِ الٰہی کی عادت، مراقبہ اور فکر سے کام لینا انسانی دماغ کو طاقت دینے اور کام میں خوبصورتی پیدا کرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ سوچنے اور فکر کرنے سے کام میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ دیکھو وہ بھی معمارہی تھے جنہوں نے تاج محل کا روضہ تعمیر کیااور وہ بھی معمار ہی ہیں جنہوں نے دارالصحت کے مکان بنائے ہیں اُنہوں نے بھی اینٹ پر اینٹ رکھی اور اِنہوں نے بھی مگر ایک نے فکر سے کام لے کر تحسینِ عمل پیدا کی اور تاج محل بنا دیا اور دوسرے نے غور وفکر سے کام نہ لے کر اپنے کام کو خوبیوں سے عاری کر دیا۔ کام تو دونوں کا ایک ہی ہے مگر ایک نے فکر سے کام لے کر اِس میں خوبصورتی پیدا کی اور دوسرے نے ایسا نہ کیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ دونوں کے کاموں میں اتنا ہی فرق ہو گیا جتنا دارالصحت کے مکانات اور تاج محل میں ہے۔ ایک نے ایسا مکان بنایا کہ اگر مُفت بھی رہنے کو دیا جائے تو انسان پسند نہیں کرے گا کہ اِس میں رہے لیکن دوسرے نے اِس میں ایسی خوبصورتی پیدا کی کہ اگر صرف دیکھنے کے لئے پانچ دس روپے ٹکٹ ہو تو لوگ شوق سے دیکھیں گے۔ بعض لوگ یورپ اور امریکہ سے اِسے دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ وہاں وہ رہ نہیں سکتے صرف دس پندرہ منٹ پھرتے ہیں یا ایک دو فوٹو لے لیتے ہیں مگر صرف اس کے لئے وہ ہزار ہا روپیہ خرچ کرتے ہیں کہ تاج محل کو نگاہ بھر کر دیکھ سکیں۔ تو یہ حُسنِ کار کا نتیجہ ہے۔ معمار نے فکر کر کے اِس ترتیب سے اینٹیں رکھیں کہ دیکھنے والوں کو آنکھوں کی لذت اور دل کا سرور حاصل ہوتا ہے۔ یہ کام بھی معمار کا ہی ہے اور دوسرا بھی معمار کا ہی ہے۔ جس کے پاس سے انسان چپ چاپ گزر جاتا ہے اور اسے خیال بھی نہیں ہوتا کہ اِسے دیکھے۔ ہر فن کا یہی حال ہے۔ کاتب ہیں جو کتابت کرتے ہیں ان کی انگلیاں بھی ویسی ہی ہیں جیسی دوسرے لوگوں کی لیکن وہ اتنا خوبصورت لکھتے ہیں کہ خواہ مخواہ پڑھنے کو دل چاہتا ہے مگربعض دوسرے لوگ ایسا گندا لکھتے ہیں کہ ہزار کوشش کے باوجود نہیں پڑھا جاتا۔ اِس کی وجہ صرف یہی ہے کہ کاتب لکھتے وقت سوچتا ہے ہر لفظ اور ہر نقطہ کو دیکھتا ہے کہ یہ مجھے اچھا لگتا ہے یا نہیں۔ اگر میری آنکھوں کو اچھا نہیں لگتا تو پڑھنے والوں کو کیونکر اچھا لگے گا وہ ہر لفظ پر غور کر کے اِس میں ایک حُسن پیدا کرتا ہے۔ دِلّی کے ایک کاتب میر پنجہ کش گزرے ہیں جن کا ہر حرف ایک روپیہ قیمت پاتا تھا وہ اگر کسی فقیر پر مہربان ہوتے تو اسے ایک حرف لکھ دیتے تھے کسی کو ب کسی کو ت کسی کو ج اور فقیر اِسے لے جاکر جامع مسجد کے نیچے بیچ دیتے تھے۔ لوگ بڑے شوق سے ایک ایک حرف ایک ایک روپیہ میں خرید کر گھروں میں بطور زینت لگاتے تھے اور پھر ایسے بھی لکھنے والے دُنیا میں موجود ہیں کہ جن کا خط دیکھ کر ہی سر میں درد شروع ہو جاتا ہے اور یہ بھی پتہ نہیں لگتا کہ یہ کسی آدمی نے لکھا ہے یا کوئی کیڑا سیاہی میں سے گزرگیا ہے۔ لاکھ سر پٹکو وہ پڑھا ہی نہیں جاتا بلکہ درد سر سے بھی بڑھ کر زحمت اُٹھانی پڑتی ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض خطوط ایسے آتے ہیں کہ گھنٹوں لگے رہتے ہیں پھر بھی کچھ پتہ نہیں لگتا پہلے میں پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں پھر دفتر والوں سے کہتا ہوں کہ اِس کا مطلب نکالو اور پھر بعض اوقات سارے زور لگاتے ہیں مگر لفظ پڑھا نہیں جاتا۔ اگرچہ لکھنے والے نے اپنی طرف سے بڑی محنت سے لکھا ہوتا ہے۔
تو کوئی چیز دُنیا میں ایسی نہیں کہ جسے حسنِ تفکر سے تزئین حاصل نہ ہو اور خدّام الاحمدیہ نے اس کام میں جو غلطی کی ہے وہ بھی اِسی وجہ سے ہے کہ انہوں نے حُسنِ تفکر سے کام نہیں لیا اور مَیں اِس بات کو پبلک میں بیان نہ کرتا اگر بیرونی جماعتوں سے بھی ایسی ہی غلطی کا ڈر نہ ہوتا اور اگر اِس واقعہ سے نصیحت کا کام نہ لینا ہوتا۔ مَیں نے خدّام الاحمدیہ کو پہلے بھی نصیحت کی تھی کہ ذہانت پیدا کریں اور پھر مرکزی مجلس کو تو سب سے زیادہ اِس کا ثبوت دینا چاہئے لیکن اِس کام میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی عہدیداروں نے دخل ہی نہیں دیا محلّہ والوں پر ہی چھوڑ دیا ہے۔
اِس موقع پر مَیں پھر اِن کو توجہ دلاتا ہوں کہ ذہانت اور عقل سے کام لینا انتہائی قومی ضرورتوں میں سے ہے اِس لئے ذہانت کو تیز کریں اور جب ذہانت پیدا ہو جائے اور عقل تیز ہو تو ہزار ہا نئے رستے نکل سکتے ہیں۔ دُنیا میں کئی قومیں ہیں اور سب کے ایک ہی جیسے ہاتھ اور مُنہ اور آنکھیں وغیرہ ہیں مگر بعض ان میں سے حاکم ہیں اور بعض محکوم ۔ حاکم وہی ہیں جو ذہانت سے کام لیتی ہیں۔ شدّتِ ذہانت ایک ایسی طاقت ہے جو قو م کو غالب کر دیتی ہے اور جب اِس کے ساتھ قوتِ عملیہ بھی شامل ہو جائے تو ایسی قوم کا دُنیا کی حاکم بن جانا یقینی ہو جاتا ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے ہندوستانی ہمیشہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ انگریز صرف چار کروڑ ہیں اور چھ ہزار میل سے آکر ہمارے مُلک پر حکومت کر رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ انگریزوں کو اِس کی توفیق کیسے ملی؟ آخر کوئی چیز تو ان میں ایسی تھی جس کی وجہ سے انہیں یہ فضیلت حاصل ہوئی۔ یونہی تو اﷲ تعالیٰ ایک قوم کی آزادی چھین کر دوسری کو اس کا حاکم نہیں بنادیتا۔ آخر اِس کی وجہ ہونی چاہئے۔ ہندوستانی سپاہی ہمیشہ برطانوی سپاہیوں کو بُرا بھلا کہتے اور گالیاں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ بُزدل ہوتے ہیں۔ ہمارے برابر لڑائی نہیں لڑ سکتے۔ صوبوں کے گورنر اور دوسرے افسر بھی ہندوستانی سپاہیوں کی تعریف میں بڑی دھواں دھار تقریریں کرتے اور کہتے ہیں کہ وہ بہت وفادار ہوتے ہیں، بہادر ہوتے ہیں اور بے شک وہ تنخواہ لیتے اور لڑتے ہیں اور مرتے بھی ہیں لیکن ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر گورا سپاہیوں کو گالیاں دیتے ہیں اور یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ جنگ کے موقع پر صابن پی لیتے ہیں تا بیمار ہو جائیں اور لڑائی میں شریک ہونے سے بچ جائیں مگر ہم دلیری کے ساتھ لڑتے ہیں۔ یہ باتیں ہمیشہ سے سُننے میں آتی ہیں اور ہم بھی بچپن میں یہ سُنا کرتے تھے اور آج تک سُن رہے ہیں مگر مَیں نے جونہی ہوش سنبھالا یعنی دس گیارہ سال کی عمر سے ہی یہ سوال کرنا شروع کر دیا کہ اگر وہ ایسے ہی بُزدل ہیں تو تم پر حکومت کس طرح کرتے ہیں؟ ان کے اندر کونسی ایسی خاص بات ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے مُلک پر قابض ہیں؟
اصل بات یہ ہے کہ وہ بُزدل ہوں یا کچھ ہوں اِس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے اندر ذہانت ضرور موجود ہے اور یہ بھی ایک قسم کی بہادری ہے۔ دُنیا میں مختلف قسم کی بہادریاں ہیں اور مُشکل وقت پڑنے پر نہ گھبرانا اور اِس کے حل کا کوئی نہ کوئی رستہ تلاش کر لینا یہ بھی ایک قسم کی بہادری ہے۔ پھر ہندوستانی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہمارا مُلک اتنا وسیع ہے یہاں سب چیزیں بکثرت پیدا ہوتی ہیں۔ غلہ اور کپاس وغیرہ خام اشیاء انگریز یہیں سے لے جاتے ہیں اور پھر ان سے مختلف چیزیں تیار کر کے ہمیں کو لُوٹتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ان کو اِس طرح لوٹنے کی طاقت کیسے حاصل ہوئی؟ یہ تو ہؤا نہیں کہ فرشتوں نے آکر ہندوستانیوں کے ہاتھ پیر باندھ کر انہیں انگریزوں کے آگے پھینک دیا ہو یا اگر فرشتوں سے ایسی بات منسوب نہ کی جاسکے تو شیطانوں نے ہندوستان فتح کر کے انگریزوں کے حوالے کر دیا ہو۔ ہندوستان نہ فرشتوں نے حوالے کیا اور نہ شیطانوں نے بلکہ انگریزوں نے خود اسے حاصل کیا اور ہم یہ مان لیتے ہیں کہ انہوں نے لڑائی سے اسے فتح نہیں کیا مگر عقل سے تو کیا ہے۔ انہوں نے عقل سے ہی اپنی فوقیت اور برتری ثابت کر دی اور اس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ گو ہمارے ہاتھ سے ان کا ہاتھ اچھا نہیں مگر ہمارے دماغ سے ان کا دماغ ضرور اچھا ہے۔ یہ بھی ایک زبردست فضیلت ہے۔ ہندوستانی کہتے ہیں کہ انگریز چالاکی سے جیت جاتے ہیں مگر چالاکی کیا ہے؟ ذہن کی تیزی کا نام چالاکی ہے اور ہاتھ کی تیزی زیادہ اچھی ہے یا ذہن کی؟ ایک شخص اچھا گورنر ہے مُلک کو قابو رکھ سکتا ہے، مقدمات کا اچھا فیصلہ کر سکتا ہے اور ایک شخص اچھا دبا سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں میں سے کس کی قیمت زیادہ ہو گی؟ اچھے گورنر، اچھے فلاسفر، اچھے جج کی یا اچھے دبانے والے کی؟ اگر تو دبانے والا زیادہ قیمتی وجود ہے تو بے شک ہم کہہ سکتے ہیں کہ انگریز اچھی تلوار نہیں چلا سکتے اِس لئے ہم ان سے افضل ہیں لیکن اگر دماغی قابلیت کی قیمت زیادہ ہے تو جب ہم کہتے ہیں کہ انگریز کا ہاتھ ہمارے ہاتھ سے اچھا نہیں اور پھر یہ حقیقت ہے کہ وہ ہمارے حاکم ہیں تو اِس کے صاف معنے یہ ہیں کہ ہم ان کی ایسی فضیلت کا اعتراف کرتے ہیں جو وہ خود بھی بیان نہیں کرتے مگر تم یہ کہہ کر کہ انگریز بُزدل ہیں بہت خوش ہوتے ہو کہ انگریزوں پر حملہ کر دیا۔ حالانکہ جب تم یہ کہتے ہو کہ فلاں قوم لڑائی میں اچھی ہے مگر ذہین نہیں تو یہ بہت کم تعریف ہے لیکن جب یہ کہتے ہو کہ لڑائی میں اچھی نہیں مگر ذہین بہت ہے تو اِس کی بہت زیادہ تعریف کرتے ہو۔ اگر کوئی کہے کہ فلاں شخص کے ساتھ پچاس ساٹھ آدمی تھے وہ ان کو لے کر میرے مکان پر آیا مجھے باندھ دیا اور مال اسباب لے کر چلا گیا تو اِس میں گھر والے کی کوئی ذلّت نہیں اور جس نے لُوٹا اُس کی کوئی عزت اور خوبی نہیں سوائے اِس کے کہ اِس کے ساتھ ایک جتھا تھا لیکن اگر وہ اِس طرح کہے کہ میرے ساتھ پچاس ساٹھ آدمی تھے اور وہ اکیلا تھا مگر چالاکی کے ساتھ ہمیں شکست دے گیا تو اِس میں حملہ آور کی عزت ہو گی ذلت نہیں۔ اِسی طرح انگریزوں کا بہت تھوڑی تعداد کے باوجود ہندوستان کو فتح کر لینا ان کی ذہانت کا ثبوت ہے اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ غیرمعمولی ذہانت نے ہی انگریزوں کو غلبہ دلوایا ہے اور اب یہی جرمنی کو آگے بڑھا رہی ہے۔ اِسی کی وجہ سے جاپان ترقی کر رہا ہے اور اِسی کے طفیل تُرکوں نے ترقی کی۔ ان میں ایک ذہین آدمی اﷲ تعالیٰ نے پیدا کیا جس نے تمام قوم کو اوپر اُٹھادیا تو ذہانت قومی ترقی کے لئے بہت ضروری چیز ہے۔ اِس لئے ہر کام سوچ اور فکر سے کرنا چاہئے اور سوچ لینا چاہئے کہ کس طرح کسی کام سے زیادہ بہتر اور مفید نتائج پیدا ہو سکتے ہیں؟
دوسری بات جس کی طرف مَیں توجہ دلانا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ مَیں نے قادیان میں ناخواندگی کو دُور کرنے کی تحریک کی تھی جو رپورٹیں اِس کے متعلق مجھے پہنچی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ پڑھنے سے گریز کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے پڑھ کر کیا نوکریاں کرنی ہیں؟ خدّام الاحمدیہ کو ایسی باتوں سے گھبرانا نہیں چاہئے دُنیا میں کبھی کوئی ایسی سکیم نہیں ہوئی جسے سب کے سب لوگ قبول کر لیں۔ کچھ نہ کچھ مخالف ضرور ہوتے ہیں اور اِس تحریک میں تھوڑی سی مخالفت برکت کاموجب ہوتی ہے۔ حضرت خلیفۂ اوّل سُنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے ایک نیک تحریک کی کچھ روز کے بعد آپ اس سے ملے تو دریافت کیا کہ کیا اس تحریک کو کامیابی ہو رہی ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں کئی لوگوں کی طرف سے اس کی پسندیدگی کے خطوط آرہے ہیں لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی برکت والی تحریک نہیں۔ آپ نے پوچھا کہ کیوں؟ تو اُس نے کہا کہ کسی نے اِس کی مخالفت نہیں کی۔ حالانکہ خداتعالیٰ کی طرف سے جو بھی باتیں ہوتی ہیں ان کے پیش کرنے والوں کو لوگ گالیاں دیتے ہیں۔ تھوڑے دنوں کے بعد وہ شخص آپ کو پھر ملا اور کہنے لگا کہ اب مَیں اِس تحریک کو بابرکت سمجھتا ہوں کیونکہ مغلّظات سے بھرا ہؤا ایک خط آیا ہے۔ تو کسی نیک تحریک میں مخالفت برکت کا موجب ہوتی ہے اور اس تحریک کی جو مخالفت ہوئی ہے یہ ثبوت ہے اِس امر کا کہ جماعت میں مرض پیدا ہو رہا ہے جس کے علاج کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے اور وقت پر مرض کا علم ہو جانا بھی برکت ہے۔ کیونکہ اِس صورت میں علاج ممکن ہوتا ہے۔ بہت سی بیماریوں کا علاج اِس لئے نہیں ہو سکتا کہ بروقت علم نہیں ہوتا اور اِس مخالفت کا پیدا ہونا ہمیں اِس طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہمیں زیادہ محنت اور کوشش سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پس خدّام الاحمدیہ بجائے اِس مخالفت سے گھبرانے کے زیادہ شوق اور محنت سے کام کریں۔ ایسے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کریں، پہلے محلوں کے ممبر سمجھائیں اگر اُن کا اثر نہ ہو تو عہدہ دار ایسے لوگوں کے پاس جائیں یہ بھی بے اثر ہو تو دوسرے بزرگوں کے وفد خدّام الاحمدیہ والے لے جائیں جو ان لوگوں کو سمجھائیں اور ان کو چھوڑیں نہیں جب تک کہ قائل نہ کر لیں۔ اگر اپنے آدمیوں کو بھی ہم قائل نہیں کر سکتے تو اِس کے یہ معنی ہیں کہ ہم اپنی کمزوری کا خود اعتراف کرتے ہیں۔ کمزور لوگ ہر وقت اور ہر زمانہ میں ہوتے ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں بھی منافق لوگ موجود تھے۔ پھر بعض لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو چھوڑ دینا چاہئے لیکن یہ بھی صحیح نہیں۔ کمزوروں کو دیکھ کر گھبرانا غلطی ہے مگر اِس بات پر مطمئن ہو جانا کہ ایسے لوگ ہر زمانہ میں ہوتے ہیں اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں بھی تھے اِس سے بھی بڑی غلطی ہے اگر پہلے سلسلوں میں کمزور لوگ رہے ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی تو ہے کہ اِس زمانہ کے بزرگوں نے کبھی ان کے وجود کو اطمینان کے ساتھ گوارا نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ان کی اصلاح میں لگے رہتے تھے اِسی طرح ہمیں بھی اِس کوشش میں لگے رہنا چاہئے کہ وہ بچ جائیں۔
پس تعلیمی سکیم کی مخالفت سے خدّام الاحمدیہ کو گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ مخالفوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پہلے خدّام خود سمجھائیں اگر اس کا اثر نہ ہو تو پھر پریذیڈنٹ اور سیکرٹری وغیرہ ان کے پاس جائیں اور سمجھائیں۔ اِس سے بھی فائدہ نہ ہو تو سلسلہ کے دوسرے بزرگ جائیں اور پھر بھی اگر نتیجہ خاطر خواہ نہ پیدا ہو تو مجھے لکھا جائے کیونکہ اتنی کوشش کے باوجود بھی جس کی اصلاح نہ ہو اس کی نسبت سمجھنا چاہئے کہ اس کی بیماری اِس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ جماعت سے الگ کیا جانے کے قابل ہے۔ پس مخالفت کی وجہ سے مایوس نہیں ہونا چاہئے اور نہ اِس بات سے مطمئن ہونا چاہئے کہ کمزوروں کا وجود لازمی ہے۔ بے شک ان کا وجود لازمی ہے مگر ان کی اصلاح کی کوشش اِس سے بھی زیادہ ضروری اور لازمی ہے۔‘‘ (الفضل ۲۴؍مئی ۱۹۳۹ئ)
۱۷
قادیان میں احرار کی تبلیغی کانفرنس اور حکومت
سورۂ فاتحہ سے ایک اَور رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت
(فرمودہ ۹؍جون۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مجھے قادیان سے دورانِ سفر میں برابر اطلاعیں ملتی رہی ہیں کہ قریب ہی احرار قادیان میں ایک اور جلسہ کرنے والے ہیں اور یہ کہ جماعت کے وہ افراد جن تک یہ خبریں پہنچ رہی ہیں ان میں ایک ہیجان اور بے چینی پیدا ہے۔ احرار کے جلسہ کے کئی پہلو ہیں۔ ایک تو یہ ہے جو مجھے حیرت میں ڈال رہا ہے کہ چند سال پہلے یعنی قریباً چار ساڑھے چار سال قبل ۱۹۳۴ء میں بھی احرار کی طرف سے ایک جلسہ یہاں منعقد کیا گیا تھا وہ جلسہ جس رنگ میں ہؤا اور اس کے جو نتائج پیدا ہوئے وہ گورنمنٹ کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتے اور پوشیدہ نہیں ہیں کیونکہ وہ سارا معاملہ اسی کے ساتھ تعلق رکھتا تھا بلکہ جیسا کہ بعد کے واقعات سے معلوم ہؤا اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کا بہت سا دخل اس جلسہ کے انعقاد میں تھا اور اسی کے اثر کے ماتحت زمین وغیرہ حاصل کی گئی تھی۔ جس وقت اُس جلسہ کے انعقاد کا اعلان ہؤا ہم نے گورنمنٹ پر یہ واضح کر دیا تھا کہ یہ جلسہ تبلیغی نہیں ہے بلکہ محض جماعت احمدیہ کو مرعوب کرنے کی غرض سے ہے اور ایک سیاسی رنگ رکھتا ہے اور اس جماعت کے مرکز میں جو اِس کے نزدیک بہت مقدس جگہ ہے باہر سے جتھوں کو لا کر ڈال دینا اور مظاہرے کرنا کسی صورت میں بھی اچھے نتائج پیدا نہیں کر سکتا مگر گورنمنٹ نے یہی جواب دیا کہ یہ تبلیغی جلسہ ہے اِس لئے ہم اسے نہیں روک سکتے لیکن جب وہ منعقد ہؤا تو مقامی افسروں کے اپنے رویّہ سے معلوم ہو گیا کہ وہ اسے تبلیغی جلسہ قرار دنہیں دیتے تھے۔ اِس لئے کہ سرکاری افسروں نے ہم سے اقرار لیا کہ احمدی اِس جلسہ میں نہ جائیں اور یہ ظاہر ہے کہ قادیان میں اب قریباً نوّے فیصدی جماعت احمدیہ کے افراد ہی آباد ہیں اور جس جگہ ایک جماعت کی کثرت ہو وہاں تبلیغ کی غرض صرف یہی ہو سکتی ہے کہ دوسرے کو اپنے خیالات پیش کرکے اپنا ہم خیال بنایا جائے لیکن جن لوگوں کو جلسہ کرنے والے تبلیغ کر سکتے تھے ان کو افسروں نے وہاں جانے سے روک دیا۔ پس اِس جلسہ کو تبلیغی جلسہ قرار دینا محض عناد اور ضد تھا۔ اِس معاملہ میں اتنا تعہّد کیا گیا کہ ستکوہا کا ایک احمدی جو راستہ پر سے گزر کر اپنے گاؤں کو جارہا تھا اُسے پولیس کے آدمی گرفتار کر کے سپرنٹنڈنٹ پولیس کے پاس لے گئے کہ یہ احمدی اس رستہ سے گزر رہا تھا جس کے قریب احرار جلسہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ رستوں پر گزرنا کوئی جُرم نہیں خصوصاً جن کا رستہ وہی ہو۔ پھر اِس جلسہ کے دوران میں اِس قدر سختی کی گئی کہ حُکم دے دیا گیا کہ احمدی اپنا لٹریچر ان دنوں میں تقسیم نہ کریں اور اِسے اِس انتہاء تک پہنچایا گیا کہ ایک تھانیدار نے خود پہرہ داروں کے داروغہ کو بھیج کر بعض ٹریکٹ منگوائے چونکہ کہا گیا تھا کہ پولیس مانگتی ہے اس نے دے دیئے جس پر وہ ٹریکٹ سپرنٹنڈنٹ کے سامنے پیش کئے گئے کہ دیکھئے یہ ٹریکٹ احمدی تقسیم کرتے ہیں اور جب ان کو اصل حقیقت بتائی گئی تو اِسے سُن کر بھی اُنہوں نے یہ کہا کہ خواہ پولیس والے مانگنے آئے تھے انہیں یہ ٹریکٹ نہیں دینے چاہئیں تھے۔ اِس کے بعد گورنمنٹ کی طرف سے مقدمہ چلایا گیا اور اِس بارہ میں حکومت کو جو رویّہ اختیار کرنا پڑا اِس سے بھی ثابت ہو گیا کہ ان کے نزدیک یہ جلسہ تبلیغی نہیں تھا بلکہ محض فتنہ و فساد کی غرض سے تھا مگر اِس کے انعقاد سے قبل گورنمنٹ کی طرف سے ہمیشہ یہی کہا جاتا رہا کہ یہ تبلیغی جلسہ ہے ہم اِسے کس طرح روک سکتے ہیں لیکن بعد میں سر ایمرسن گورنر پنجاب خود مان گئے کہ یہ تبلیغی جلسہ نہیں تھا اور کہ آئندہ ایسا جلسہ نہیں ہو گا۔ گویا گورنمنٹ کے نقطۂ نگاہ سے سب سے بڑا افسر یعنی گورنر خود اقرار کر چُکا ہے کہ یہ جلسہ تبلیغی نہیں تھا اور کہ آئندہ ایسا جلسہ قادیان میں ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اب اگر باوجود اِس اقرار کے ایسا جلسہ ہو تو اِس سے سمجھا جائے گا کہ گورنمنٹ برطانیہ کے کسی بڑے سے بڑے افسر کی زبان کا بھی کوئی اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔کہا جاسکتا ہے کہ سرایمرسن آئندہ کے لئے کوئی وعدہ نہیں کر سکتے تھے لیکن یہ سوال تو ہر گورنر کے متعلق ہو سکتا ہے۔ موجودہ گورنر بھی آئندہ کے لئے کوئی وعدہ نہیں کر سکتے اور ان کے بعد آنے والا بھی اگر اِس عذر کو درست تسلیم کیا جائے تو آئندہ کسی کو سرکاری حکام سے بات چیت کرتے وقت یقین نہیں ہو سکتا کہ وہ جو بات کر رہا ہے اُس کا کوئی مفید نتیجہ نکلے گا اور لوگ گورنر جیسے جلیل القدر عُہدہ پر فائز حاکم کے متعلق بھی مجبور ہوں گے کہ ان کے وعدہ کو بھی تسلیم نہ کریں کیونکہ خوف ہو گا کہ دوسراگورنر بِلاحالات کی تبدیلی کے پہلے گورنر کی بات کو ردّ کر دے گا۔ پس اگر اِس جلسہ کی اجازت دے دی گئی تو ہم جن کے ساتھ یہ گفتگوئیں ہوئیں مجبور ہوں گے یہ کہنے پر کہ پنجاب میں گورنمنٹ برطانیہ کے سب سے بڑے نمائندہ نے جو وعدہ ہم سے کیا تھا اُسے موجودہ گورنمنٹ نے توڑ دیا ہے۔
دوسرا نقطۂ نگاہ جو ہے وہ تبلیغی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ جلسہ تبلیغ کے لئے کیا گیا جیسا کہ احراری اعلان کرتے ہیں۔ اگر یہ واقعی تبلیغی ہے تو پھر اِس میں شمولیت سے ہمیں نہیں روکا جاسکتا۔ یہ عجیب دوغلی بات ہے کہ ایک طرف تو کہتے ہیں احمدی یہاں نہ آئیں اور دوسری طرف یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم نے قادیان کو فتح کر لیا ہے جن کو مرعوب کرنے یا تبلیغ کرنے کے لئے یہاں جلسہ کیا جاتا ہے ان کو تو روک دیا جاتا ہے کہ وہاں نہ جائیں اور پھر ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ احمدی مقابلہ پر نہیں آئے۔ ایسی صورت میں یہ ہر گز جائز نہیں ہو گا کہ ہمیں شمولیت سے روکا جائے اور پھر اگر کوئی ہمیں چیلنج دے تو ہر گز کسی کا حق نہیں ہو گا کہ ہمیں اِس کے قبول کرنے سے روکے۔ اگر کوئی لیکچرار ہمیں کوئی چیلنج دے گا تو ہمارا حق ہو گا کہ کھڑے ہو کر اِسے قبول کرلیں اور اِس کا جواب دیں۔ اگر گورنمنٹ اِس میں دخل دے گی اور ہمیں روکے گی تو آج اپنی طاقت سے وہ بے شک ہمیں روک دے لیکن تاریخ ضروراِس بات کو محفوظ کرے گی کہ اس زمانہ کے افسر دیانت دار نہیں تھے اور حکومت کا نظام صحیح طور پر چلانے والے نہیں تھے۔ کمزور کو زور سے چُپ کرالینا اور بات ہے مگر انصاف اور ہے۔ اِس کی ایک دلچسپ مثال ہمارے مُلک میں مشہور ہے کہ ایک بھیڑیا کسی نالے پر پانی پی رہا تھا اور کچھ فاصلہ پر کوئی بکری بھی پانی پی رہی تھی۔ بھیڑیے نے چاہا کہ اُسے کھا جائے اور اس کے لئے اس نے کوئی بہانہ تلاش کرنا چاہا وہ اوپر کی طرف تھا اور بکری نیچے کی طرف آخر اُسے اَور کوئی بہانہ نہ مِلا تو اُس نے بکری سے ڈانٹ کرکہا کہ ہمارا پینے کا پانی کیوں گدلا کر رہی ہو بکری نے عاجزی سے جواب دیا کہ مَیں تو نیچے کی طرف ہوں آپ کے ذریعہ گدلا ہو کر پانی میری طرف آرہا ہے نہ کہ میری طرف سے گدلاہوکرآپ کی طرف جارہا ہے۔ اِس پر بھیڑیے کو اور تو کوئی بہانہ نہ سوجھا اِس نے کہا کہ گستاخ ، بے حیا سامنے بولتی ہے اور اِسے چیر پھاڑ کر کھا گیا۔ اِس میں شُبہ نہیں کہ گورنمنٹ کے پاس فوج ہے، پولیس ہے، مجسٹریٹ ہیں، جیل خانے ہیں، وہ جسے چاہے پکڑ کر قید کر سکتی ہے مگر جس چیز پر اس کا قبضہ نہیں وہ بے انصافی کو انصاف قرار دینا ہے۔ بڑے بڑے بادشاہ دُنیا میں گزرے ہیں ہمارے وزراء اور افسروں سے بہت بڑے لیکن آج تاریخ ان کے کاموں پر سختی سے فیصلہ لکھ رہی ہے۔ سکولوں کے مدرّس اور کالجوں کے پروفیسر کس طرح دیدہ دلیری سے آج اورنگزیب پر اعتراض کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ اتنا بڑا بادشاہ تھا کہ ان مصنّفوں کی حیثیت اِس کے مقابلہ میں ایسی بھی نہیں جیسی کہ ایک نمبردار کے مقابلہ میں چوہڑے کی ہوتی ہے مگر وہ زمانہ گزر گیا اور بعد میں آنے والوں میں سے بعض نے اِس کے افعال کو ظالمانہ اور بعض نے منصفانہ کہا۔ اِس پر بہت بحثیں ہوئیں اور آج ہندو مؤرخ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اورنگزیب پر جو الزام لگائے جاتے ہیں ان میں سے اکثر غلط ہیں مگر بعض بادشاہوں کے متعلق تحقیقات صحیح تھی اور اس بات کو دُنیا نے آہستہ آہستہ تسلیم کر لیا اور آج روم کے بادشاہ نیرو اور ہلاکو خان کو ظالم قرار دیا جارہا ہے۔ وہ ایک دو افراد تھے مگر ان کی وجہ سے ساری قوم بدنام ہوئی۔
پس انصاف کا تقاضا تو یہی ہے کہ اگر جلسہ ہو اور خالص تبلیغی ہو تو احمدیوں کو ایسے تبلیغی جلسہ میں جانے سے نہ روکا جائے اور اگر کوئی ہمیں چیلنج دے تو احمدی اِسے قبول کر لیں اور حکومت کی طرف سے انہیں اسے قبول کرنے سے ہر گز نہ روکا جائے لیکن اگر روکا گیا جیسا کہ پچھلی مرتبہ کیا گیا تھا تو ایسا کرنے والے تاریخی طور پر ظالم قرار پائیں گے اور ان کا اِس وقت کا زور اور طاقت ان کی قوم کو بدنامی سے نہ بچا سکے گی۔ اُس زمانہ میں جب پہلی دفعہ یہاں جلسہ ہؤا جو ڈپٹی کمشنر تھا حکومت اس کی ہر بات کی تصدیق کرتی تھی اور ہر موقع پر یہی جواب دیتی تھی کہ ہمارامقامی افسر یُوں کہتا ہے مگر تھوڑے دنوں کے بعد اسے اقرار کرنا پڑا کہ وہ غلطی پر تھی۔ مَیں منالی میں تھا کہ مجھے گورنر کی چٹھی ملی کہ مَیں آپ سے باتیں کرنا چاہتا ہوں آپ مجھے ملیں۔ مَیں مِلا اور متواتر چار گھنٹہ گفتگوہوئی مجھے انہوں نے کہا کہ آپ ناراض کیوں ہیں؟ اور کس سے آپ کو شکایت ہے؟ مَیں نے کہا کہ پہلے تو آپ سے شکایت ہے۔ انہیں یہ اُمید نہ تھی کہ مَیں کہوں گا آپ سے شکایت ہے۔ اِس کے بعد گفتگو ہوتی رہی اور جب ہوتے ہوتے مَیں نے ڈپٹی کمشنر کے متعلق واقعات پیش کئے تو کئی جگہ اُنہیں تسلیم کرنا پڑا کہ اس نے غلطی کی ہے۔ مَیں نے کہا یہ عجیب بات ہے کہ پہلے تو آپ اِس کی ہر بات تسلیم کرتے گئے اور اب مانتے ہیں کہ بعض دفعہ اسے غلط فہمی ہوگئی اور بعض دفعہ حکومتِ بَالا نے اُسے مجبور کر دیا۔ اڑھائی سال کے بعد اِس ضلع میں ایک اَور ڈپٹی کمشنر مسٹر اِنزآئے ان کی یہ خواہش تھی کہ مَیں گورنمنٹ سے جماعت احمدیہ کی صلح کراؤں۔ وہ قادیان میں آئے اور مجھ سے ملے۔ بڑی لمبی چوڑی گفتگو ہوئی اور بعض باتیں اُن سے طے ہوئیں مثلاً ایک یہ کہ وہ پُرانا ریکارڈ نکال کر دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ جماعت احمدیہ کی غلطی تھی یا حُکام ضلع کی؟ اُنہوں نے پہلے تو کہا تھا کہ یہ اتنا بڑا طومار ہے کہ اِس کا پڑھنا مُشکل ہے مگر جب مَیں نے کہا کہ بہرحال آپ اسے دیکھیں اور ان واقعات کے متعلق اپنی رائے قائم کریں اس کے بغیر ہماری تسلی نہیں ہو سکتی تو اُنہوں نے وعدہ کیا کہ آہستہ آہستہ وہ ان مِسلوں کو پڑھیں گے۔ بعض حالات کی وجہ سے ان کو جلد یہ ضلع چھوڑنا پڑا مگر ہمارے ایک ذمّہ دار افسران کے جانے سے پہلے جب ان سے ملے تو انہوں نے ان سے کہا کہ مَیں نے اِس وقت تک تین چار کیس پڑھے ہیں ان کے متعلق میری رائے یہی ہے کہ اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر کی غلطی تھی اور آپ حق پر تھے۔ افسوس ہے کہ وہ زیادہ دیر اِس ضلع میں نہ ٹھہر سکے ورنہ اُنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ مَیں باقی کاغذات بھی پڑھ کر اپنی رائے دوں گا۔ تو سرکاری حکام نے ہی بعد میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کی تردید کی مگر اُس زمانہ میں حکومت اُس کی ہر بات کو صحیح تسلیم کرتی تھی اِس قسم کی غلطی کی ایک اَور موٹی مثال ہے اُس وقت کی پنجاب گورنمنٹ کے بعض افسروں نے یہ مشہور کر دیا تھا کہ احمدی فساد کرتے ہیں مگر جب گورنمنٹ برطانیہ کی طرف سے اِس سے دریافت کیا گیا کہ احمدیوں پر یہ الزام کس بناء پر لگایا جاتا ہے؟ تو اُنہوں نے نہایت صفائی کے ساتھ جواب دیا کہ نہیں ہم تو احمدیوں کو بڑا وفادار سمجھتے ہیں اور وہ جو کہتے تھے کہ ہم احمدیوں کو فسادی سمجھتے ہیں اُنہوں نے ہی جب یہ کہا کہ ہم تو اُنہیں بہت اچھا سمجھتے ہیں تو ہم نے اپنے دل میں کہا کہ یہ بڑے جھوٹے آدمی ہیں۔ اِس بارہ میں یاد رکھنا چاہئے کہ اِس قسم کا مخفی سرکلر جو جاری ہؤا تھا اُس وقت کے گورنر سر ایمرسن صاحب نے مجھ سے بھی کہا اور دوسرے سلسلہ کے نمائندوں سے بھی کہا کہ اِس کا انہیں کوئی علم نہیں اور مَیں کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ ان کی بات کو غلط قرار دوں۔ اِس لئے ماننا پڑتا ہے کہ یہ سرکلر کسی ماتحت افسر کا تھا۔ ہمیں اس سرکلر کا علم اِس طرح ہؤا کہ ایک ڈپٹی کمشنر نے ہمارے ایک دوست کو جو اس کا بھی دوست تھا اس کی اطلاع دے دی کہ ایسی چِٹھی آئی ہے کہ جماعت احمدیہ اب خراب ہو گئی ہے۔ اِس کا خیال رکھا جائے مگر جب ہم نے گورنمنٹ سے اِس بارہ میں دریافت کیا تو اُس نے انکار کر دیا کہ ایسا کوئی سرکلر نہیں گیا مگر خدا تعالیٰ جب پکڑتا ہے تو ایسا پکڑتا ہے کہ کوئی جواب نہیں بَن پڑتا۔ اس نے ہمارے لئے یہ سامان کر دیا کہ راولپنڈی کے ایک تھانہ کی پولیس کا ایک ہیڈکانسٹیبل ایک احمدیہ جماعت کے ہاں گیا اور کہا کہ جن لوگوں نے قادیان جانا ہے (یہ جلسہ کا موقع تھا) وہ اپنے نام لکھوائیں۔ حکومت کی طرف سے یہ ہدایت آئی ہے کہ جو لوگ قادیان جانا چاہیں اُن کی نگرانی کی جائے۔ (گویا جس طرح چوہڑوں اور سانسیوں کی نگرانی کی جاتی ہے اس طرح قادیان آنے والے احمدیوں کی نگرانی کا فیصلہ کیا گیا تھا) اس جماعت نے مجھے اِس کی اطلاع دی اور ہم نے حکومت کو لکھا کہ اب بتاؤ اِس کا کیا جواب ہے؟ مگر اِس کا کوئی جواب اس کے پاس نہ تھا وہ صرف یہ کہتے رہے کہ ہم نے کوئی ایسا آرڈر نہیں دیا اور آخر میں کہا کہ آپ اِس معاملہ پر زیادہ زور نہ دیں اور بات ختم کر دیں۔ ہم نے اِس بارہ میں ضلع میں بھی تحقیق کی اور معلوم ہؤا کہ اِس تھانہ میں خفیہ آرڈر آیا تھا۔ تھانیدار اتفاق سے چھُٹی پر تھا اور حوالدار انچارج تھا وہ شراب کا عادی تھا اور نشہ کی حالت میں تھا، ہدایت پر کانفیڈنشل لکھا ہؤا تھا لیکن اُس نے نشہ کی حالت میں اِس کا خیال نہ کیا اور جھٹ پروانہ لے کر وہاں جا پہنچا آخر جب ہم نے بار بار اِس کا جواب مانگا تو چیف سیکرٹری نے کہا کہ بس اب اِس بات کو چھوڑ دیں، زیادہ تنگ نہ کریں اور اب اِس سوال کا جواب نہ مانگیں۔ تو اﷲ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ہماری ایسی مدد فرمائی کہ بار بار حکومت کو اپنی غلطی تسلیم کرنی پڑی۔ خود گورنرانِ کونسل کی چٹھی میرے پاس محفوظ ہے اور اگر یہ جلسہ ہؤا تو شاید مجھے اسے شائع کرنا پڑے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح بعض ذمہ دار افسروں نے اِس موقع پر صریح جھوٹ سے کام لیا تھا کہ ایک چِٹھی میں تو لکھا ہے کہ آپ کی فلاں چِٹھی کی وجہ سے یہ کارروائی کی گئی تھی اور دس دن کے بعد ایک اَور چِٹھی آئی کہ اگر آپ کی فلاں چِٹھی کا ہمیں پتہ ہوتا تو ایسا نہ کیا جاتا۔ تو یہ واقعات ایسے ہیں جن سے صاف پتہ لگتا ہے کہ اس زمانہ میں گورنمنٹ کو دھوکا دیا گیا اور اسے بھی اس دھوکا کی وجہ سے اپنے افسروں پر اعتبار کرکے بعض ایسی باتیں کہنی پڑیں جو غلط تھیں اور جن کی وجہ سے بعد میں اسے ندامت اُٹھانی پڑی۔ انہی دنوں میں پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس چھٹی پر ولایت گئے ہوئے تھے۔ مَیں نے دردؔ صاحب کو لکھا کہ آپ اِن سے ملیں اور پوچھیں کہ یہ کیا باتیں آپ لوگ کر رہے ہیں؟ قادیان کا جلسہ اور اِس موقع پر امام جماعت احمدیہ کو نوٹس آخر کس عقلمندی کا نتیجہ تھا؟ درد صاحب ان سے ملے تو اُنہوں نے بتایا کہ اصل میں ہمیں دھوکا دیا گیا تھا۔ پہلے ڈپٹی کمشنر نے چیف سیکرٹری کو فون کیا کہ احمدی لوگوں کو باہر سے بُلوا رہے ہیں اور ضرور فساد ہو جائے گا۔ اِس پر گورنر نے سی۔آئی۔ڈی سے دریافت کیا اس کے پاس آپ کی وہ چِٹھی پہنچ چکی تھی جس میں لکھا تھا کہ لوگوں کو باہر سے بلانے والی چِٹھی منسوخ کر دی گئی ہے۔ آئی۔جی نے دردؔ صاحب سے بیان کیا کہ سی۔آئی۔ڈی والوں نے وہ چِٹھی مِسل کے ساتھ شامل کر دی مگر جو افسر وہ مِسل دینے کے لئے آیا وہ زبانی یہ کہہ گیا کہ احمدیوں نے آدمی بلوانے والی چِٹھی کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا۔ حکومت نے اِس مسل کو دیکھے بغیر اِس افسر کی زبان پر اعتبار کر کے نوٹس جاری کر دیا بعد میں جب آپ نے احتجاج کیا اور اِس چِٹھی کو دیکھا گیا تو اس میں یہ لکھا ہؤا تھا کہ پہلی چٹھی منسوخ کر دی گئی ہے۔ اس زمانہ میں بعض افسروں نے ہمیں بھی اور حکومت کو بھی دھوکا دینا چاہا۔ ہمارے تو وہ مخالف تھے اِس لئے دینا ہی تھا اور ہم ان کے دھوکا میں آئے بھی نہیں لیکن مُشکل گورنمنٹ کے لئے تھی۔ ایک طرف تو وہ ان دھوکا دینے والے افسروں کی حفاظت کرنا چاہتی تھی اور دوسری طرف ان کے جھوٹوں کی وجہ سے اسے ندامت اُٹھانی پڑتی تھی اور وہ ایسی مصیبت میں مُبتلا تھی کہ کوئی جواب نہ بن پڑتا تھا اور اب اگر جلسہ ہو تو معلوم نہیں حکومت اب کیا جواب دے سکے گی؟ اس وقت کے لئے تو یہ جواب تھا کہ ایسے افسر تھے جو غلط رپورٹیں کرتے تھے اور اس لئے اس نے کہہ دیا کہ ہمیں دھوکا دیا گیا مگر اِس دفعہ اگر جلسہ ہو تو ہم کیا سمجھیں گے جب ایک دفعہ اِس جلسہ کا تجربہ ہو چُکا او راِس کے فسادات ظاہر ہو چکے، نتائج کا علم ہو چُکا اور گورنمنٹ کو اپنی غلطی کو تسلیم بھی کرنا پڑا اور سب سے بڑے افسر نے خود یہ وعدہ کیا کہ آئندہ یہاں اِس قسم کا جلسہ نہیں ہو گا تو اگر اب یہ ہو تو لازماً اِس کے یہ معنی ہوں گے کہ اب حکومت دیدہ دانستہ اِس رائے پر چل رہی ہے جس پر چار سال قبل اس نے غلطی سے قدم مارا تھا۔ اُس وقت کی غلطی کو تو ماتحت افسروں کی دھوکا دہی کی طرف منسوب کر دیا گیا تھا اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ اس نے دیدہ دانستہ ایسا کیا لیکن اگر اب ہو تو اس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ وہ دیدہ دانستہ فساد چاہتی ہے۔ مجھے گورنمنٹ کی طرف سے ابھی کوئی اطلاع نہیں ملی کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ آیا یہ جلسہ ہونے دے گی یا نہیں؟ ٭لیکن میں حیرت میں ہوں کہ جیسا کہ مَیں نے سُنا ہے بعض مقامی حُکام نے کہا ہے کہ اِسے روکنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اگر یہ جلسہ ہو تو گورنمنٹ کیا جواب دے گی ہم کو اور دوسرے شرفاء کو؟
تیسرا نقطۂ نگاہ اِس کے متعلق ہماری جماعت کے لحاظ سے ہے اگر تو یہ تبلیغی جلسہ ہے تو ہمارے لئے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں اگر کوئی تبلیغ کے لئے آتا ہے تو بیشک آئے وہ ہمیں تبلیغ کرے ہم اُسے کریں گے اور اگر وہ تبلیغ کی حد تک محدود رہیں تو یقینا ان کا آنا آخر کار ہمارے لئے مُفید ہو گا۔ ہمارے پاس سچائیاں ہیں اور موٹی سے موٹی دلیلیں ایسی ہیں جن سے ان کے اعتراضات ہوا میں اُڑ جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اﷲ تعالیٰ نے ایسے ثبوت اور براہین عطا کئے ہیں اور ایسے نشانات آپ کی تائید کے ظاہر فرمائے ہیں کہ ہم یہ خیال بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی دُشمن ہمارے خیالات کو مشتبہ یا مشوَّش کر سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص ان تقریروں سے مشوَّش ہو سکتا ہے تو ان کے معنے یہ ہیں کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درجہ کو سمجھا ہی نہیں۔ پس ان تقریروں سے کسی احمدی کو گھبرانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور ان کی تردید نہایت معمولی دلائل سے ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص دن کو کہہ دے کہ رات ہے تو ہر شخص آسمان کو دیکھے گا اور کہہ دے گا کہ یہ غلط کہتا ہے۔ ہے تو یہ ایک لغو سا لطیفہ مگر نقشہ اِس میں اچھا کھینچا گیا ہے۔ کہتے ہیں کسی کو گانجا کھانے یا پینے کی عادت تھی مجھے پتہ نہیں اِسے کھاتے ہیں یا پیتے ہیں۔ ایک دن موسم اچھا تھا اور وہ اپنے دل میں سرور اور لذت محسوس کر رہا تھا۔ وہ اس دکاندار کے پاس گیا جس سے گانجا لیا کرتا تھا اور اُسے کہا کہ دیکھو مَیں دس بارہ سال سے تمہارا خریدار ہوں اور تم جانتے ہو تم گانجا اچھا دو یا بُرا مَیں نے کبھی شکایت نہیں کی لیکن آج مَیں تم سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ ایسا اچھا گانجا دو کہ جس سے بہت ہی نشہ ہو۔ آج میرا دل سرور چاہتا ہے۔ دکاندار نے گانجا دیا جسے اُس نے استعمال کیا اُس کے بعد وہ حمام میں گیا اور وہاں غسل کیا اور اُسے بہت غصّہ آیا کہ مجھے دکاندار نے میری تاکید کے باوجود ایسا گانجا دیا کہ جس سے کوئی نشہ نہیں ہؤا۔ چنانچہ وہ دکاندار کے پاس گیا اور کہا کہ مَیں نے تمہیں پُرانا خریدار ہونے کا واسطہ دے کر سوال کیا تھا اور اتنی تاکید کی تھی مگر پھر بھی تم نے ایسا گانجا دیا کہ جس سے کوئی نشہ نہیں ہؤا۔ دکاندار نے جواب دیا کہ میری زبان کا تو تمہیں اعتبار نہیں ہو گا اِس لئے مَیں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ ذرا سر جھُکا کر اپنے جسم کو دیکھو نشہ ہؤا ہے یا نہیں۔ اُس نے دیکھا تو معلوم ہؤا کہ نشہ کی حالت میں وہ حمام سے ننگا ہی نِکل آیا ہے اور جب اُس نے نگاہ ڈالی تو شرمندہ ہو کر وہاں سے بھاگا۔ تو سچائی پر کون پردہ ڈال سکتا ہے؟ کوئی ہزار باتیں بنائے صداقت کو نہیں چھپا سکتا۔
اِسی سفرِ سندھ میں ایک دن کسی بات پر مجھے سخت تکلیف اور رنج تھا اور سارا دن میری طبیعت پر اُس کا اثررہا۔ شدید گھبراہٹ تھی، رات کو مَیں نے بہت دُعا کی اور جب سویا تو ایک رؤیا دیکھا۔ مَیں نے دیکھا کہ جیسے مَیں کسی غیر مُلک میں ہوں اور وہاں سے دوسرے مُلک کو واپسی کا سفر اختیار کرنے والا ہوں۔ میرے ساتھ خاندان کی بعض مستورات بھی ہیں اور بعض مَرد بھی۔ خواب میں مَیں سمجھتا ہوں جیسا کہ مَیں انگلستان میں ہوں اور فرانس سے ہو کر مشرق کی طرف آرہا ہوں ہم ریل پر سوار ہونے کے لئے پیدل جا رہے ہیں۔ ریل کے سفر کے بعد جہازپر چڑھنے کا خیال ہے۔ چلتے ہوئے ہم ایک خوبصورت چوک میں پہنچے جہاں ایک عالیشان مکان ہے اور اُس کا مالک کوئی انگریز ہے۔ مجھے کسی نے آکر کہا کہ اُس کا مالک اور اُس کی بیوی آپ سے چند منٹ بات کرنا چاہتے ہیں اگر آپ تھوڑی سی تکلیف فرما کر وہاں چلیں تو بہت اچھا ہو۔ مَیں نے اُس سے ملنا منظور کر لیا اور مَیں بھی اور میرے ساتھ کی مستورات بھی اُس مکان میں گئیں۔ عورتیں جاکر اُس کی بیوی کے پاس بیٹھ گئیں اور باتیں کرنے لگیں اور مَیں اُس آدمی کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔ مختلف علمی باتیں ہوتی رہیں۔ گفتگو کوئی مذہبی نہیں تھی بلکہ علمی تھی۔ مثلاً یہ کہ مستشرقین یعنی عربی دان انگریز کون کون سے ہیں؟ نیز بعض تمدنی تحقیقاتوں کے متعلق باتیں ہوتی رہیں۔ باتوںباتوں میں اُس نے عبدالمحییٖ عرب کا ذکر کیا اور کہا کہ اُس نے فلاں انگریز کو عربی پڑھائی ہے۔ مَیں نے کہا کہ مَیں عبدالمحییٖ کو جانتا ہوں وہ بوجہ عرب ہونے کے خراب شُدہ عربی بول لیتے ہیں مگر عربی کے کوئی عالم نہیں ہیں۔ اس نے کہا کہ خیر کتاب پڑھانا کیا مُشکل ہوتا ہے؟ لغت کی کتابیں دیکھ کر پڑھایا جاسکتا ہے جب وہاں سے چلنے لگے ہیں تو مَیں اپنے دل میں ڈرا ہوں کہ اُس کی بیوی اب مُجھ سے مصافحہ کرے گی اور مَیں اُسے کہتا ہوں کہ آپ بُرا نہ منائیں ہمارا مذہبی حکم ہے کہ عورتوں سے مصافحہ جائز نہیں۔ یہ سُن کر اُس کے چہرہ پر تو تغیر پیدا ہؤا مگر اُس نے جواب دیا کہ اگر آپ کے مذہب کا یہ حُکم ہے تو پھر بُرا منانے کی کیا بات ہے؟ اور پھر اس خیال سے کہ مجھے یہ خیال نہ ہو کہ اُس نے بُرا منایا ہے اُس نے ہنس کر کہا کہ اﷲ تعالیٰ آپ کے اِس سفر کو کامیاب کرے۔ مَیں وہاں سے چلا اور مستورات کے ساتھ نیچے آیا ہوں تو بعض دوست نیچے کھڑے ہیں جن میں میر محمد اسمٰعیل صاحب اور دردؔ صاحب بھی ہیں۔ مَیں ان سے بات چیت کرتا اور کہتا ہوں کہ اب ہمیں چلنا چاہئے مگر وہ کہتے ہیں کہ شاید آپ کو خیال نہیں رہا کہ بڑی دیر ہو گئی ہے۔ رات کے دس بج چکے ہیں اور اب تو گاڑی جاچکی ہو گی۔ پھر وہ مجھے پوچھتے ہیں کہ آپ نے کھانا کھالیا؟ مَیں کہتا ہوں کہ نہیں ابھی کھانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اہلِ خانہ نے بعض مہمانوں کو دو چار مرتبہ پیغام بھیجا تھا کہ آجاؤ تا کھانا کھاسکیں اِس لئے ہمارا خیال تھا کہ آپ بھی کھا چکے ہیں۔ مَیں نے کہاممکن ہے اِس کا خیال ہو کہ وہ آجائیں تو کھا لیں مگر نہ وہ مہمان آئے اور نہ کھانا کھلایا گیا۔ پھر مَیں کہتا ہوں کہ اب کیا کِیا جائے؟ اور وہ کہتے ہیں کہ ہوائی جہاز میں جاکر جہاز کو پکڑ سکتے ہیںمگر مَیں کہتا ہوں کہ اس میں خرچ بہت زیادہ ہو گا کل کیوں نہ چلے جائیں؟ اُس وقت خواب میں مَیں محسوس کرتا ہوں کہ گویا ہم مصر میں ہیں اور حج کے لئے جارہے ہیں۔ میری یہ بات سُن کر غالباً دردؔ صاحب نے کہا کہ ہمارا بھی یہی خیال تھا کہ کل چلے جائیں تو اچھا رہے گا۔ اِس پرمَیں نے کہا کہ ہمیں ایک دن مل گیا ہے کیوں نہ قاہرہ مستورات کو دکھا لیں؟ گویا اس وقت ہم کسی ساحلِ بحر کے شہر میں ہیں۔ اُنہوں نے میری اس رائے کی تصدیق کی ہے مگر معاً مجھے خیال آیا کہ قاہرہ تو مَیں نے دیکھا ہؤا ہے (اور واقعی دیکھا ہؤا ہے)اسکندریہ نہیں دیکھا وہاں چلے چلیں۔ مستورات نے تو نہ قاہرہ دیکھا ہے اور نہ اسکندریہ اِس لئے ان کے واسطے تو برابر ہے خواہ کہیں چلے جائیں۔ بہرحال اس وقت میں وہ ایک ہی شہر دیکھ سکتی ہیں مگر مجھے اسکندریہ دیکھنے کا موقع مل جائے گا اس پر مولوی ابوالعطاء صاحب جو اس وقت سامنے بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں کہتے ہیں کہ مجھے بھی یہی خیال آرہا تھا کہ آپ سے کہوں کہ آپ اسکندریہ ہو آئیں۔ اتنے میں ذوالفقار علی خان صاحب نظر آئے اور وہ کہتے ہیں کہ یہاں کے تجار کے بعض لیڈر جو گویا ان کی مجلس اعلیٰ کے ممبر ہیں آپ سے ملنا چاہتے ہیں، ایک دو منٹ ہی لیں گے۔ مَیں کہتا ہوں کہ وقت بہت ہو گیا ہے ابھی ہم نے کھانا بھی نہیں کھایا اور صبح روانہ ہونا ہے مگر خیر آپ ان کو لے آئیں۔ چنانچہ وہ لے آئے اور ایک نیم دائرہ کی صورت میں کھڑے ہو گئے۔ ان میں بعض ترکی لباس میں ہیں اور بعض عربی میں ہیں ان سے مصافحہ کرتا ہوں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ جہاں ہم ہیں وہاں سنگ مرمر کا اچھا فرش ہے اِس پرکپڑے بچھا دیئے گئے اور ہم اِس پر بیٹھ گئے۔ مَیں ان سے کہتا ہوں کہ ہمیں ہندوستان میں عربی میں گفتگو کرنے کی مشق نہیں ہوتی اس لئے اگر مَیں آہستہ آہستہ بات کروں تو آپ گھبرائیں نہیں۔ آپ کا جواب بہرحال آجائے گا۔ اِس پر ان میں سے ایک نے نہایت خطرناک بگڑی ہوئی گنواری عربی زبان میں کوئی بات کی مَیں نے اُسے کہا کہ ہم تو قرآن کریم کی زبان ہی جانتے ہیں آپ لوگوں کی بگڑی ہوئی زبان نہیں سمجھتے۔ بلکہ ہم میں سے بعض تو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی عربی عربی ہی نہیں اِس پر ایک شخص ان میں سے کہتا ہے کہ ہاں ہماری زبان بہت خراب ہو گئی ہے اور قرآنی زبان سے بہت دُور جاچکی ہے۔ اِس کے بعد ان میں سے ایک شخص جس نے ترکی لباس پہنا ہؤا ہے مجھے کہتا ہے کہ کیا مَیں انگریزی میں گفتگو کروں؟ اس کے بعد کوئی وجہ تو مجھے معلوم نہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس جگہ کو چھوڑ کر تھوڑے فاصلہ پر ہی دوسری جگہ پر جا بیٹھے ہیں۔ اس جگہ کی تبدیلی کی کوئی وجہ مجھے معلوم نہیں۔ شاید اندھیرا تھا اور ہم روشنی میں آنا چاہتے تھے خیر اس جگہ ان لوگوں میں سے ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عربی پر اعتراض کرنے شروع کئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ یہ شخص مامور کس طرح ہوسکتا ہے؟ اِس وقت مجھے یہ احساس ہے کہ ان میں سے ایک شخص احمدیت سے متاثر ہو چُکا ہے اور یہ لوگ اِس لئے نہیں آئے کہ خود تحقیق کریں بلکہ اُن کی غرض یہ ہے کہ اُسے خراب کریں اور ان میں سے ایک ہنس کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب لُجۃ النور یا شاید کسی اَور کتاب کا نام لیتا اور کہتا ہے کہ وہ کتاب ہو تو ہم اس میں سے حوالہ پڑھ کر بھی سُنا سکتے ہیں۔ ان کے سوال کے جواب میں مَیں نے عربی زبان میں جواب دینا شروع کیا اور اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایک اہلِ زبان قادر ہوتا ہے مَیں بے تکلفی سے عربی زبان میں باتیں کر رہا ہوں اور کوئی حجاب معلوم نہیں ہوتا۔ مَیں نے ان سے کہا کہ اعتراض تو ہر بڑی سے بڑی سچائی پربھی ہو سکتا ہے کوئی ایسی صداقت نہیں جس پر لوگوں نے اعتراض نہ کئے ہوں اور یہ سوال بے شک آپ کے نزدیک وقیع ہوں مگر مَیں تو اس وقت چند منٹ سے زیادہ آپ لوگوں کو نہیں دے سکتا۔ ہم نے ابھی کھانا بھی نہیں کھایا اور پھر صبح اسکندریہ جانا ہے اور وہاں سے واپس آکر حج کے لئے روانہ ہونا ہے۔ اگر دو چار منٹ میں مَیں آپ کے سوالات کا جواب دوں تو اوّل تو آپ کی تسلی نہیں ہو سکے گی اور اگر ہو بھی جائے تو آپ کہیں گے ابھی فلاں سوال رہ گیا اور اگر مَیں ان کا جواب نہ دوں گا تو آپ کہیں گے آتا نہیں تھا۔ پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان پر اَور اعتراض پڑتے ہوں پھر ان کا جواب دینا ضروری ہو گا اور اتنا وقت میرے پاس نہیں۔ اس کا حل مَیں ایک آسان ترکیب سے کر دیتا ہوں ہر صداقت کے متعلق کچھ گُر ہوتے ہیں جن سے اس کو پرکھا جاسکتا ہے۔ پس قرآن کریم نے جو گُر بیان کئے ہیں اگر تو ان کے رو سے یہ ثابت ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ سچا ہے تو پھر اعتراضات کا یہ مطلب ہو گا کہ ہمارے خیال کی غلطی ہے کیونکہ قرآن کریم غلط نہیں ہو سکتا اور اگر ان گُروں کے رو سے آپ سچے ثابت نہ ہوں تو خواہ ایک بھی اعتراض آپ پر نہ پڑے آپ جھوٹے ہوں گے۔ پھر مَیں ان سے کہتا ہوں کہ مَیں آپ لوگوں کو قرآن کریم کا ایک گُر بتاہوں جو سورۂ فاتحہ میں بیان ہے اور یہ بیان کرنے سے پہلے مَیں نے جو فقرے کہے وہ مجھے ابھی تک یاد ہیں۔ مَیں نے کہا کہ وہ گُر ایسی سورۃ میں بیان کیا گیا ہے جو قرآن کریم کی ابتدا میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ایک ہے اور جسے نماز کی ہر رکعت میں پڑھا جاتا ہے اور وہ سورۂ فاتحہ ہے۔ اس کے بعد مَیں نے سورۂ فاتحہ پڑھی اور کہا کہ اِس سورۃ میں اﷲ تعالیٰ نے تین گروہ بیان کئے ہیں ، اور اور بتایا ہے کہ دُنیا میں یا تو وہ لوگ ہیں جن پر اﷲ تعالیٰ کے انعام نازل ہوئے یا جن پر اس کا غضب بھڑکا اوریا ضَآلَ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے راستہ کو چھوڑ دیا اور بندوں کو خدا کی جگہ دے دی۔
غرض یہ تین گروہ ہی قرآن کریم نے بیان کئے ہیں منعم علیہ، مغضوب اور ضال۔ اگر تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام منعم علیہ گروہ میں شامل ہیں تو خواہ ان پر کتنے اعتراض ہوں آپ جھوٹے نہیں ہو سکتے اور اگر مغضوب یا ضال میں سے ہیں تو پھر خواہ ایک بھی اعتراض نہ ہو آپ سچے نہیں ہو سکتے۔ یہ ایک چھوٹا سا نکتہ ہے جس کے ماتحت ہم دیکھ لیتے ہیں کہ آپ کس گروہ میں ہیں۔ مَیں جس وقت یہ تقریر کر رہا ہوں تو مَیں نے دیکھا کہ مصریوں میں سے ایک شخص اس طرح سَر ہلا رہا ہے کہ گویا اس سے متاثر ہے اس پر اُس کے ساتھی ڈرے ہیں اور اُنہوں نے خیال کیا کہ پہلے جو شخص متاثر تھا ہم تو اُسے بگاڑنے کے لئے آئے تھے مگر اب تو یہ ڈر ہے کہ اِسے بگاڑنے کے بجائے اور بھی متاثر نہ ہو جائیں۔ اِس لئے جو اشد مخالف ہیں وہ ہنس کر کہتے ہیں کہ اجی ان باتوں سے کیا ہوتا ہے؟ آپ اصل سوال کا جواب دیں۔ مَیں پھر کہتا ہوں کہ سوالات تو ہزاروں ہیں اگر مَیں آپ کے اس سوال کا جواب دوں تو اوّل تو اتنے تنگ وقت میں آپ کی تسلی ممکن نہیں اور اگر ہو بھی جائے تو باقی سوال رہ جائیں گے اور آپ کو ہدایت کا موقع نہیں مل سکے گا اگر آپ کو اپنی ہدایت مقصود ہے تو آپ یہ طریق کیوں اختیار نہیں کرتے؟ یہ کہہ کر میں اس شخص کی طرف دیکھتا ہوں جس کے متعلق مجھے خیال ہے کہ اس کے دل میں ہدایت ہے اور جسے بگاڑنے کے لئے وہ لوگ گفتگو کرنے آئے ہیں اور اس کے چہرہ کو دیکھ کر اندازہ کرتا ہوں کہ یہ شخص بھی کہیں یہ نتیجہ تو نہیں نکال رہا کہ مَیں بات ٹال رہا ہوں لیکن مَیں نے دیکھا کہ اس کے چہرہ پر یقین اور سرور کے آثار ہیں۔ جب اس کی نظر میری نظر سے ملی تو اس نے ہاتھ اُٹھا کر کہا کہ اچھا آپ سورۂ فاتحہ پڑھ کر دُعا کریں اور مَیں دُعا شروع کرتا ہوں۔ وہ لوگ بھی میرے ساتھ دُعا میں شریک ہوتے ہیں مگر کچھ دیر کے بعد ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ مَیں نے جب دُعا ختم کی تو وہ شخص میرے سامنے آیا اور اپنا سر زمین پر اس طرح رکھ کر کہ ایک کلّہ نیچے اور دوسرا اوپر کی طرف ہے زمین پر لیٹ گیا۔ وہ رو رہا ہے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر پھیرتا ہے گویا برکت حاصل کر رہا ہے۔ اِس پر میری آنکھ کھل گئی۔
مجھے یاد نہیں کہ سورۂ فاتحہ کا یہ مضمون مَیں نے پہلے کبھی بیان کیا ہو۔ یہ ایک قرآنی نکتہ ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ ہم نے بنالیا ہے۔ ایسی موٹی دلیل ہے کہ کوئی شخص سچائی سے گریز نہیں کرسکتا۔ تین ہی گروہ اﷲ تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں۔ کوئی مغضوب اور ضال اور منعم علیہ نہیں ہو سکتا اور کوئی آیت قرآن کریم کی ایسی نہیں جو ثابت کرے کہ خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور افترا کرنے والا مغضوب اور ضال نہیں ہوتا اور اس پر خدا تعالیٰ خوش ہو سکتا ہے۔ یہ ایسا زبردست نکتہ ہے کہ کہیں پیش کرو اس کا کوئی جواب کسی سے نہیں بن پڑے گا۔ اس کے علاوہ سینکڑوں ایسے نکتے ہیں کہ جن کو سامنے رکھ کر اگر حضرت مرزا صاحب کو جھوٹا کہا جائے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی اور قرآن کریم کو بھی جھوٹا کہنا پڑتا ہے اور سینکڑوں ایسے نکتے ہیں کہ جن کو سامنے رکھ کر اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور قرآن کریم کو سچا تسلیم کیا جاہے تو مجبوراً حضرت مرزا صاحب کو سچا ماننا پڑتا ہے۔ پس ایسے جلسوں سے ہمیں کیا گھبراہٹ ہو سکتی ہے؟ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں ایسے دلائل دیئے ہیں اور ہمارے ہاتھ میں ایسا زندہ قرآن دیا ہے کہ ہمارے دلوں میں کوئی شُبہ پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر ان سب باتوں کے علاوہ تازہ الہام اور رویا و کشوف ہیں جن کی جماعت میں اتنی کثرت ہے کہ کوئی شخص انکار کر ہی نہیں سکتا اور ان باتوں کی موجودگی میں احرار کا جلسہ ہمارے لئے کسی گھبراہٹ کا موجب نہیں ہو سکتا۔ باقی رہ گیا سوال رُعب کا تو یاد رکھو کہ تم زندہ خُدا کی جماعت ہو۔ بے شک تم میں کمزور بھی ہیں بعض ایسے بھی ہیں جو جھوٹ بول لیتے ہیں، بعض ایسے بھی ہیں جو مَیں نے سُنا ہے کہ پولیس کے ایجنٹ ہیں، بعض ایسے بھی ہیں جوچوریاں بھی کر لیتے ہیں مگر ایسے لوگ جماعت کا حصّہ نہیں ہیں ان کا احمدی کہلانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی بھیڑیا بھیڑ کی کھال پہن لے۔ ایسے خبیث الطبع لوگ احمدیت سے دور ہیں۔ احمدی وہی ہیں جو سچائی پر قائم ہیں جو اپنے اخلاص، تقویٰ اور رضائِ الٰہی کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ ایسی پاکبازوں کی جماعت کو دُنیا میں کوئی ڈرا نہیں سکتا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر ؓ غارِ ثور میں موجود تھے کہ دُشمن سر پر پہنچ گیا اور کھوج لگانے والے نے کہا کہ یا تو آپ اِس غار میں ہیں اور یا آسمان پر چلے گئے ہیں اس سے آگے نہیں گئے۔ حضرت ابو بکر ؓ اِس موقع پر گھبراتے ہیں مگر آپ فرماتے ہیں لَا تَحْزَنْ اِنَّ اﷲَ مَعَنَا ابو بکر ڈرو نہیں اﷲ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔۱؎ پس ان بزدلوں، بد گہروں اور شریر النفسوں کو چھوڑ کر جو احمدیت کی ہتک کرنے والے اور اپنے بُرے نمونہ سے اِسے بدنام کرنے والے ہیں۔ مخلصین سے میں کہتا ہوں کہ ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں اﷲ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ یہ احراری اور گورنمنٹ کے وہ عہدیدار جن کے دلوں میں ہمارا بُغض ہے بلکہ اگر کسی وقت دُنیا کی ساری گورنمنٹیں بھی اکٹھی ہو کر آئیں تو احمدیت کا بال بیکا نہیں کر سکتیں وہ طاقتیں اور حکومتیں خود تباہ ہو جائیں گی مگر احمدیت کامیاب اور مظفر و منصور ہو کر رہے گی۔‘‘
اِس کے بعد حضور نے نماز پڑھائی اور سلام پھیرنے کے ساتھ ہی فرمایا کہ سب دوست اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہیںاور فرمایا کہ:-
’’ نماز کے اختتام کے موقع پر اﷲ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ خواب میں جو دلیل بیان کرنے لگا تھا اور جس کے بیان کرنے سے خواب والے معترضین نے مجھے روک دیا تھا وہ مَیں اب اختصار کے ساتھ بیان کردوں۔
وہ دلیل یہ ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب سورۃ فاتحہ بہت دفعہ سکھائی تو متواتر سکھانے پر ایک دفعہ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ کون ہیں؟ اور ضَآلّ کون؟ آپ نے فرمایا کہ سے مراد یہودی اور ضَآلّ سے مراد نصاریٰ ہیں۔۲؎ اب دیکھو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دونوں کی تشریح فرما دی۔ یہودیت اپنی ذات میں کوئی بُری چیز نہیں۔ یہودی حضرت موسیٰ ؑکی قوم ہیں اور آپ کے لائے ہوئے مذہب پر چلنے والے۔ وہ ان خرابیوں کی وجہ سے قرار پائے جو بعد میں ان میں پیدا ہوئیں اور ان خرابیوں میں سے سب سے بڑی جو قرآن کریم نے بیان فرمائی وہ یہ ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا اور ضَآلّ کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اُنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خُدابنا دیا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریح کے مطابق یہ گروہ کون بنتے ہیں؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو کام تو بہت نمایاں ہیں ایک یہ کہ آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اور دوسرا یہ کہ حضرت مسیح ناصری ؑ فوت ہو چکے ہیں اور ان کی طرف جو ایسے معجزے منسوب کئے جاتے ہیں جو الوہیت کی شان رکھتے ہیں وہ غلط ہیں اور یہ دونوں کام آپ کو زمرہ وضَآلّ سے باہر ثابت کرتے ہیں۔ کیونکہ تو وہ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح ؑ کا انکار کیا اور آپ نے تو خود مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور سب سے پہلے اس دعویٰ پر ایمان لائے اور ضَآلّ وہ ہیں جو حضرت عیسیٰ ؑکی طرف خُدائی صفات منسوب کرتے ہیں اور آپ نے حضرت عیسیٰ کی خدائی کی گویا ٹانگ توڑ دی ہے۔ کیپٹن ڈگلس (جو اَب کرنیل ہیں) جب اِس ضلع کے ڈپٹی کمشنر ہو کر آئے تو چونکہ وہ متعصب عیسائی تھے اُنہوں نے یہاں آتے ہی کہا کہ یہ شخص ہمارے خدا کو مارتا ہے اِسے کوئی کچھ نہیں کہتا۔ گو بعد میں اﷲ تعالیٰ نے ان کو ہدایت دی اور اُنہوں نے حضرت مسیح موعود کے ایک مقدمہ میں جو ایک پادری کی طرف سے تھا اعلیٰ انصاف سے کام لیا اور اب تک اس نشان کا خود ذکر دوسروں سے کرتے رہتے ہیں۔ تو آپ نے الوہیت مسیح پر ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ خود عیسائی بھی اِس کو تسلیم کرتے ہیں۔ اِسی سال کا ایک لطیفہ ہے کہ ہماری لاہور کی جماعت نے انگریزی میں ایک ٹریکٹ شائع کیا جس میں حضرت مسیح کی قبر کا فوٹو اور حالات درج تھے۔ وہ ٹریکٹ ایک دوست انگریزوں میں تقسیم کررہے تھے کہ ایک دس بارہ سال کی لڑکی آواز سُن کر ٹریکٹ لینے کے لئے اپنے گھر سے باہر آگئی اور ٹریکٹ لے کر جب اُسے دیکھا تو زور سے چھلانگ لگائی اور زور سے چِلّا کر کہا۔ ابّا امّاں ہمارا خدا مر گیا یہ اس کی قبر ہے تو جس شخص نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کر کے الوہیت مسیح کے عقیدہ کو باطل ثابت کر دیا ہے وہ ضَآلّ کس طرح ہو سکتا ہے؟ اور جو خودمدعیٔ مسیحیت ہو وہ میں سے کس طرح ہو سکتا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ دونوں کارنامے آپ کو قطعی طور پر اور ضَآلّ کے زمرہ سے باہر نکالتے ہیں۔ اب تیسری بات کی رہ گئی سو اس بارہ میں یاد رکھنا چاہئے کہ آپ نے شروع میں ہی اﷲ تعالیٰ سے یہ الہام پایا کہ ’’دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی کو دُنیا پر ظاہر کر دے گا۔‘‘ ۳؎ ایک اکیلا شخص جو بالکل گمنام تھا یہ دعویٰ کرتا ہے اور آج اس کے نام کی برکت سے اس گاؤں کو جس کے متعلق خود حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ یہ ایک کور دیہہ تھا۔ اتنی ترقی ہوئی ہے کہ آج یہاں جمعہ کی نماز میں اتنے لوگ ہیں کہ بہت کم شہروں میں ہوتے ہوں گے۔ ہندوستان میں ایک لاکھ سے زیادہ آبادی رکھنے والے شہر پچاس سے زیادہ ہیں اور ہزاروں کی آبادی والے تو سینکڑوں ہیں مگر ان شہروں میں سے سوائے تین چار ایسے شہروں کے جن کی آبادی دو تین لاکھ سے زیادہ ہے کسی جگہ بھی اتنے آدمی جمعہ کے لئے ایک مسجد میں جمع نہیںہوتے جتنے قادیان میں ہوتے ہیں اور پھر یہ سب کے سب باہر سے آئے ہوئے ہیں۔ اِلَّا مَا شَائَ اﷲ۔ کوئی صوبہ سندھ کا ہے، کوئی بمبئی کا اور کوئی سرحد کا ۔ پھر پنجاب کے مختلف حصوں کے لوگ ہیں، عرب ، سماٹری جاوی اور افریقی ہر قوم کے آدمی موجود ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اِس پیشگوئی کو پورا کر رہے ہیں کہ جس میں اﷲ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ ’’میں تیری تبلیغ کودُنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ ۴؎ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ حَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۵؎یعنی اب وقت آگیا ہے کہ خدا تیری مدد کرے اور تجھے لوگوں میں معروف کرے اور آج اِس گاؤں کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ احراری سارے پنجاب کو چھوڑ کر یہاں جلسہ کے لئے آتے ہیں اور جیسا کہ اخبار الفضل میں ان کے ایک مولوی کی تقریر چھپی تھی اُس نے کہا کہ اگر مکّہ پر بھی حملہ ہو تو بھی مَیں قادیان میں رہنا زیادہ ضروری سمجھوں گا۔ گویا ایک اکیلا شخص جس نے دعویٰ کیا تھا آج اتنا طاقتور ہو چُکا ہے کہ بعض مولوی کہلانے والے مکّہ کو خطرہ میں چھوڑ دینا آسان سمجھتے ہیں مگر بقول ان کے قادیان کے فتنہ کے مدّ نظر وہ اِس حالت میں بھی قادیان کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے۔ یہ دُشمن کی گھبراہٹ ہی ثابت کررہی ہے کہ آپ کو کس قدر قوت حاصل ہو چکی ہے۔ یہاں احرار کی طرف سے جلسہ کے انعقاد کی کوشش ہی اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ہیں اور دُشمن اور ضَآلّ کے زمرہ میں شامل ہے۔ حضرت مسیح کے منکر ہیں اور یہ لوگ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکارکرتے ہیں۔ یہ کوئی بات نہیں کہ جھوٹا سمجھ کر انکار کرتے ہیں۔ یہودی بھی تو حضرت مسیح علیہ السلام کو جھوٹا سمجھ کر ہی انکار کرتے ہیں اور ضَآلّ حضرت عیسیٰ کی طرف خدائی صفات منسوب کرتے ہیں اور یہ بھی آپ کی طرف خدائی صفات منسوب کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح پرندے پیدا کرتے تھے اور غیب کی خبریں بتا دیتے تھے اور اب تک آسمان پر بغیر کھانے پینے کے زندہ ہیں اور مردہ زندہ کیا کرتے تھے اور یہ سب خدائی صفات ہیں جو یہ آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ باقی رہا یہ امر کہ یہ حضرت عیسیٰ کو خدا کہتے نہیں یہ کوئی بات نہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے جرمنی کا ایک بادشاہ ولیم تھا۔ اُس کا ایک سفید رنگ کا گھوڑا تھا جس سے اُسے بے حد رغبت تھی وہ ایک دفعہ بیمار ہو گیا۔ بادشاہ نے ڈاکٹروں اور درباریوں کو بُلایا اور حُکم دیا کہ اس کا علاج کرو، اگر یہ مَر گیا تو مَیں تم کو قتل کر دوں گا۔ اُنہوں نے بہت کوشش کی لیکن آخر گھوڑا مَر گیا۔ اب سب حیران تھے کہ بادشاہ کو خبر کون دے؟ اس نے کہا ہؤا تھا کہ جس نے مجھے اِس کی موت کی خبر سب سے پہلے دی اُسے فوراً قتل کر دوں گا اور اگر نہ دی تو سب کو مروا دوں گا۔ سب مشورہ کرنے لگے کہ کس کو بھیجا جائے؟ اِس کا ایک چہیتا نوکر تھا سب نے اُسے تجویز کیا اور اُسے کہا کہ تم جاؤ اور کسی ایسے انداز میں بات کرو کہ جس سے سب کی جانیں بچ جائیں۔ وہ بہت زیرک آدمی تھا جب بادشاہ کے سامنے پہنچا تو اُس نے پوچھا گھوڑے کا کیا حال ہے؟ نوکر نے جواب دیا کہ حضور بالکل آرام میں ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ کیا حالت ہے؟ اُس نے کہا حضور آنکھیں بند ہیں، آرام سے لیٹا ہے، حتّٰی کہ دُم تک بھی نہیں ہلاتا کامل سکون کی حالت ہے نہ اُس کا پیٹ ہلتا ہے اور نہ سینہ۔ بادشاہ نے یہ سُن کر کہا کہ اِس کے معنے ہیں کہ وہ مَرگیا۔ اُس نے کہا حضور یہ الفاظ مَیں نے نہیں کہے حضور ہی نے کہے ہیں۔ تو یہی حال ان لوگوں کا ہے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام پرندے پیدا کرتے تھے، اندھوں کو آنکھیں بخشتے تھے، مردے زندہ کیا کرتے تھے، غیب کی باتیں جانتے تھے، اُنیس سَو سال سے آسمان پر بغیر کھانے کے زندہ بیٹھے ہیں مگر ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ خدا تھے یہ تو عیسائی کہتے ہیں۔ گویا جس امر کو اپنے عقیدہ سے ثابت کر رہے ہیں مُنہ سے اُس کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ مُنہ کا انکار ان کو ضَآلّ ہونے سے نہیں بچا سکتا اور پھر ان کا عمل بتاتا ہے کہ وہ ایک مدعیٔ مسیحیت کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں جس کی وجہ سے اگر وہ سچا ہے تو یہ قرار پاتے ہیں۔ پھر ان کا قادیان پر اس قدر حملے کرتے رہنا اِس بات کی دلیل ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب جیت گئے۔
پس ان امور سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ اور ضَآلّ کے گروہ میں ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام منعم علیہ گروہ ہیں۔‘‘ (الفضل ۱۶؍جون ۱۹۳۹ئ)
۱؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد ۲ صفحہ ۴۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ئ
۲؎ ترمذی ابواب تفسیر القران تفسیر سورۃ فاتحۃ الکتاب
۳؎ تذکرہ صفحہ ۱۰۴ ۔ ایڈیشن چہارم
۴؎ تذکرہ صفحہ ۳۱۲ ۔ ایڈیشن چہارم
۵؎ تذکرہ صفحہ ۶۶ ۔ ایڈیشن چہارم
۱۸
اَن پڑھ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں
اور پڑھے ہوئے دوسروں کو پڑھائیں
(فرمودہ ۲۳؍جون۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مجھے کچھ عرصہ سے نقرس کی تکلیف ہے جس کی وجہ سے مَیں پچھلا جمعہ نہیں پڑھاسکا تھا اور دل میں یہ خواہش تھی کہ یہ جمعہ خود پڑھاؤں۔ اِسی لئے دو دن پہلے مَیں نے باہر نکلنا شروع کردیا تھا کیونکہ بعض دفعہ جب نقرس کے دَورے کا آخر ہوتا ہے تو آہستہ چلنے پھرنے سے فائدہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ دو سال ہوئے جب مجھے اِس درد کا پہلا دَورہ ہؤا تو اُس وقت آخری حصّہ دَورہ میں چلنے پھرنے سے مجھے آرام آگیا تھا مگر اِس دفعہ یا تو کوئی بد پرہیزی ہو گئی یا یہ دورے کا آخری حصّہ نہیں تھا کہ دو دن باہر نکلنے کے سبب سے کل شام کو پھر مجھے نقرس کی تکلیف ہو گئی۔ ورم بھی ہو گیا اور بخار بھی شروع ہو گیا مگر چونکہ مَیں نے یہ تکلیف جمعہ کے لئے اُٹھائی تھی اِس لئے مَیں نے اپنے دل میں کہا کہ اب مجھے اِس کا بدلہ لے لینا چاہئے اور باوجود تکلیف کے جمعہ خود ہی پڑھانا چاہئے بعد میں جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
مَیں اِس وجہ سے کہ ورم کی وجہ سے زیادہ دیر کھڑا نہیں ہو سکتا اور اِس وجہ سے بھی کہ درد کی وجہ سے مَیں اپنی توجہ پوری طرح قائم نہیں رکھ سکتا اختصار کے ساتھ ایک ایسے امر کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کے متعلق قادیان کی جماعت کوشش کر رہی ہے اور جس کے نمونہ کو دیکھتے ہوئے باہر کی جماعتوں نے ابھی کوشش کرنی ہے اور وہ تعلیم عامہ کا سوال ہے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے تعلیم کو اتنا ضروری قرار دیا ہے کہ مکّہ کے لوگ جن میں پڑھنا لکھنا عیب سمجھا جاتا تھا اُنہیں بھی آپ نے آہستہ آہستہ تعلیم کی طرف متوجہ کر دیا۔ مکّہ کے لوگوں میں پڑھنا لکھنا اِس قدر عیب سمجھا جاتا تھا کہ جب ان میں سے کسی شخص کو کوئی کہتا کہ تم پڑھے ہوئے ہو؟ تو وہ جواب میں کہتا کہ کیا تمہارے خیال میں مَیں شریف خاندان میں سے نہیں ہوں۔ گویا شرافت کا معیار ان میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ انسان پڑھا ہؤا نہ ہو۔ ان میں سے وہی لوگ تعلیم کی طرف توجہ کیا کرتے تھے جنہیں سرکاری کام کے لئے لکھنا پڑھنا سیکھنا پڑتا تھا۔ چنانچہ ہر بڑے خاندان میں سے چند افراد کو چُن لیا جاتا تھا اور انہیں لکھنا پڑھنا سکھا کر ان کے سپرد اِس قسم کا کام کیا جاتا جس میں تحریر کی ضرورت ہوتی مثلاً رؤساء کی باہمی خط و کتابت ہوئی یا تجارتی معاہدات ہوئے یا لڑائیوں کے متعلق قانون اور ہدایتیں ہوئیں یا کعبہ کے متعلق کوئی بات تحریر میں لانی ہوئی یا شہر کے متعلق کسی قسم کے قانون کا نفاذ کرنا ضروی ہؤا تو جن خاندانوں کے سپرد یہ کام ہؤا کرتا تھا وہ اپنے میں سے ایک ایک دو دو کو ان کاموں کے لئے معمولی تعلیم دلا دیتے تھے۔ اس قسم کے چند لوگوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے باقی تمام لوگ فخریہ کہا کرتے تھے کہ چونکہ ہم پڑھے ہوئے نہیں اِس لئے ہم شریف ہیں۔ ایسی قوم میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پیدا ہوئے اور انہیں لوگوں کے درمیان آپ نے پرورش پائی جس کے نتیجہ کے طور پر ظاہری حالات کے لحاظ سے آپ کے نزدیک علم کی کوئی قدر نہیں ہونی چاہئے تھی مگر چونکہ آپ کے تمام کام اﷲ تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت تھے اِس لئے آپ نے اِس بارہ میں بھی رائج الوقت خیالات کے خلاف قدم اُٹھایا اور صحابہ کو بار بار لکھنے پڑھنے کی تاکید کی۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو تعلیم کا اِس قدر فکر تھا کہ بدر کے موقع پرجو کفار قید ہوکر آئے باوجود اس بات کے کہ وہ اسلام کے شدید ترین دُشمن تھے، باوجود اِس بات کے کہ وہ وہی لوگ تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف تمام عرب میں دُشمنی کی آگ بھڑکائی اور باوجودیکہ اُس وقت کے تمدن کے لحاظ سے یہ بالکل جائز ہوتا اگر آپ ان تمام کفار کو قتل کر کے اُس شورش کا خاتمہ کر دیتے جو اسلام کے خلاف جاری تھی۔ آپ نے ان سے کہا کہ اگر تم چاہو تو اپنے جُرم کے بدلہ میں جرمانہ ادا کر دو اور آزاد ہو جاؤ۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے مومنوں کو یہی حُکم دیا ہے کہ قیدیوں کے متعلق دو ہی صورتیں ہیں۔ ۱؎ یا تو تم انہیں احسان کر کے چھوڑ دو یا فدیہ لے کر رہا کر دو ان دوباتوں میں سے تم کو اختیار ہے جسے چاہو اختیار کر لو۔ کوئی تیسرا طریق تمہارے لئے جائز نہیں۔اِس پر آپ نے ان قیدیوں سے فرمایا اگر تم چاہو تو تم فدیہ دے کر چھوٹ سکتے ہو مگر فرمایا ایک اور صورت بھی ہے جس کے نتیجہ میں تمہارا روپیہ بھی تمہارے گھر میں رہے گا اور تم اپنے فدیہ سے بھی سبکدوش سمجھے جاؤ گے اور وہ یہ کہ تم میں سے ہرپڑھا لکھا شخص مدینہ میں دس دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے۔۲؎ یہ تعلیم پرائمری جتنی بھی نہیں تھی بلکہ معمولی نوشت خواندتھی۔ چنانچہ بہت سے کفّار نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی اِس بات کو مان لیا اور وہ مدینہ میں رہ کر بچوں اور بڑوں کو پڑھاتے رہے اور جب اُنہوں نے لکھنا پڑھنا سکھا دیا تو وہ رہا کر دیئے گئے۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ کفّار کا اِس پر چھ مہینے سے لے کر ڈیڑھ دو سال کا عرصہ لگا۔ اِس دوران میں ان کا کھانا اور کپڑا مسلمانوں کے ذمّہ رہا۔ گویا انہیں تنخواہ بھی ملتی رہی، اُن کا روپیہ بھی گھر میں رہا اور اُن کی طرف سے فدیہ بھی ادا ہوگیا۔
تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تعلیم کو اس قدر اہم قرار دیا ہے کہ آپ نے مسلمانوں کو تعلیم دلانے کے لئے کافروں کو اپنے گھروں میں رکھ لیا۔ حالانکہ بالکل ممکن تھا مسلمانوں میں شامل رہنے کی وجہ سے انہیں مسلمانوں کی بعض کمزوریوں کا علم ہو جاتا، ان کے سامانِ حرب کی کمی کا انہیں پتہ چل جاتا، ان کی تعداد کی قلت انہیں معلوم ہو جاتی اور اس طرح بعد میں وہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا دیتے مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ آپ نے ڈیڑھ دو سال تک کفّار کو اپنے اندر رکھا اور چاہا کہ مسلمان لکھنا پڑھنا سیکھ لیں خواہ بعد میں کفّار کی طرف سے بعض نقصانات ہی کیوں نہ پہنچ جائیں۔
تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے جس چیز کی اتنی قیمت قرار دی ہے اگر ہم اِس چیزکی کم قیمت قرار دیں تو دراصل ہم اس محبت کی کمی کا اقرار کرتے ہیں جو ہمیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات سے ہونی چاہئے۔ صحابہ کو تو ہر بات میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اقتدا کرنے کا اِس قدر شوق تھا کہ ایک دفعہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ ایک جگہ پیشاب کرنے کے لئے بیٹھ گئے۔ چونکہ تھوڑے ہی فاصلہ پر پڑاؤ آنے والا تھا اِس لئے کسی نے ان سے کہا کہ آپ نے خواہ مخواہ قافلے کو روکا اور وقت ضائع ہؤا۔ جب تھوڑی ہی دیر میں پڑاؤ آنے والا تھا تو آپ کو چاہئے تھا کہ وہاں پہنچ کر حوائج سے فارغ ہوتے۔ دوسرے اگر آپ نے قافلہ کو روکنا ہی تھا تو فلاں جگہ بھی تو اوٹ تھی آپ وہاں کیوں نہ بیٹھ گئے؟ اتنی دُور جاکر آپ کیوں بیٹھے؟ حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ نے جواب دیا خدا کی قسم مجھے پیشاب تو نہیں آیا تھا بات دراصل یہ ہے کہ مَیں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایک دفعہ اِسی جگہ پیشاب کے لئے بیٹھتے دیکھا تھا۔ پس مَیں نے چاہا کہ آپ کی سُنت میں مَیں بھی اِس جگہ تھوڑی دیر کے لئے بیٹھ جاؤں۔۳؎ تو اُن کا رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہر حرکت کی اقتداء میں خواہ وہ طبعی ہی کیوں نہ ہو وہ ایک لذت اور سرور محسوس کرتے تھے۔ کُجا یہ کہ وہ احکام جو شرعی اور قومی حیثیت رکھتے ہیں ان میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی اقتداء نہ کی جائے۔ ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ ہر مسلمان پڑھا لکھا ہؤا کرتا تھا اور عیسائی اپنے متعلق اِس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ ہم اَن پڑھ ہیں چنانچہ مسلمانوں کی پُرانی تاریخیں پڑھ کر حیرت آتی ہے کہ اب زمانہ میں کس قدر اُلٹ انقلاب پیدا ہو گیا ہے۔ اُن تاریخوں میں جہاں عیسائیوں کا ذکر آتا ہے وہاں لکھا ہؤا ہے کہ عیسائی وہ ہوتا ہے جو اَن پڑھ ہو، جس کے کپڑے نہایت غلیظ ہوں، جس کے جسم سے بد بو آتی ہو، جس نے نہ کبھی غسل کیا ہو نہ خوشبو لگائی ہو، اس کے بال بڑھے ہوئے ہوں، ان میں جوئیں پڑی ہوئی ہوں اور ناخنوں میں بھی میل جمی ہوئی ہو اور مسلمان وہ ہوتا ہے جو پڑھا لکھا ہو، صاف ستھرا ہو، غسل باقاعدہ کرتا ہو، بال کٹے ہوئے ہوں، ناخن ترشوائے ہوئے ہوں، کپڑے صاف اور دُھلے ہوئے ہوں اور خوشبو لگی ہوئی ہو مگر آج اس کے بالکل اُلٹ نظارہ نظر آتا ہے۔ چنانچہ جتنی باتیں اُس وقت عیسائیوں میں پائی جاتی تھیں وہ آج مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں اور جتنی باتیں مسلمانوں میں پائی جاتی تھیں وہ آج عیسائیوں میں پائی جاتی ہیں۔
مَیں نے اِس کے متعلق جو کتاب پڑھی ہے وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے سات سو سال بعد کی لکھی ہوئی ہے۔ اگر اُس وقت کا مصنف آج دُنیا میں آجائے اور ہمارے مُلک میں پھرے تو وہ دیکھتے ہی کہنے لگ جائے گا کہ یہ عیسائیوں کا مُلک ہے اور اگر وہ عیسائیوں کے مُلک میں پھرے تو ان کو دیکھتے ہی کہنے لگ جائے گا کہ یہ مسلمانوں کا مُلک ہے کیونکہ جونقائص اُس وقت عیسائیوں میں پائے جاتے تھے وہ آج مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں اور جو خوبیاں اُس وقت مسلمانوں میں پائی جاتی تھیں وہ آج عیسائیوں میں پائی جاتی ہیں۔
تو مَیں نے خدّام الاحمدیہ کے سپرد یہ کام کیا تھا کہ وہ اَن پڑھوں کو پڑھائیں اور ان کی تعلیم کا انتظام کریں۔ مجھے معلوم ہؤا ہے کہ بعض دوست اخلاص سے تعلیم میں حصّہ لے رہے اور شوق اور تندہی سے اَن پڑھوں کو پڑھا رہے ہیں اور پڑھنے والے بھی دلچسپی سے پڑھ رہے ہیں مگر اس کے مقابلہ میں بعض ایسے لوگ بھی معلوم ہوئے ہیں جو پڑھنے سے جی چُراتے ہیں اور بعض وہ لوگ بھی معلوم ہوئے ہیں جو پڑھانے میں حصّہ نہیں لے رہے۔ حتّٰی کہ بعض محلّوں کے پریذیڈنٹ بھی اِس بارہ میں خدّام الاحمدیہ کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔ اُنہوں نے مجھے ریکارڈ بھجوایا ہے جس کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض محلّوں کے پریذیڈنٹوں کو توجہ دلائی گئی مگر اُنہوں نے پرواہ ہی نہیں کی اور بعضوں نے تو جواب تک دینے کی ضرورت نہیں سمجھی حالانکہ اگر وہ کام نہیں کر سکتے تو ان کا دیانتداری کے ساتھ یہ فرض ہے کہ وہ اپنا کام دوسروں کے سپرد کر دیں اور خود پریذیڈنٹی سے الگ ہو جائیں سلسلہ کے عُہدے نام کے لئے نہیں بلکہ خدمت کے لئے ہوتے ہیں اور جتنا زیادہ کوئی شخص کام کرتا ہے اسی قدر زیادہ وہ عزت کا مستحق سمجھا جاتا ہے اور جتنا کوئی شخص کم کام کرتا ہے اُسی قدر اس کی عزت دلوں میں سے کم ہو جاتی ہے۔ پس مجھے تعجب بھی ہؤا اور افسوس بھی کہ بعض محلّوں کے پریذیڈنٹوں نے اپنی ذمہ داری کو قطعاً نہیں سمجھا اور باوجود اِس بات کے کہ جس امر کی طرف انہیں خدّام الاحمدیہ کی طرف سے توجہ دلائی گئی تھی وہ ان کے محلہ کے فائدہ کی تھی پھر بھی اُنہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ اُن کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی ٹھنڈے ملک کا رہنے والا جیٹھ ہاڑ کے دنوں میں دھوپ میں بیٹھا تھا اور قریب ہی اِس کے سایہ تھا۔ کسی راہ گزر نے اُسے کہا کہ میاں دھوپ میں کیوں بیٹھے ہو سائے میں کیوں نہیں آجاتے؟ وہ کہنے لگا سائے میں بیٹھ تو جاؤں مگر مجھے دو گے کیا؟ آخروہ محلہ کے پریذیڈنٹ ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے محلہ والوں کی تکالیف کو دُور کریں اور اُن کی ترقی کا کوئی سامان اگر اُن کے امکان میں ہو تو اُسے ان کے لئے مہیا کریں کیونکہ پریذیڈنٹ بننے کی غرض خدمت کرنا ہے نہ کہ ایک نام اور عُہدے کو حاصل کر کے بیٹھ رہنا۔
پس جب خدّام الاحمدیہ کے ممبر اُن کے پاس آئے تھے اور اُنہوں نے کہا تھا کہ ہم اپنے آپ کو ثواب کے لئے آپ کے محلہ کے لوگوں کی خدمت کے لئے پیش کرتے ہیں تو ان کو چاہئے تھا کہ وہ ان کے ممنونِ احسان ہوتے اور سمجھتے کہ یہ ہمارا کام تھا جو خدّام الاحمدیہ سر انجام دینے لگے ہیں مگر بجائے اس کے کہ وہ ان کے ساتھ تعاون کرتے اُنہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب خدّام الاحمدیہ ہم پر حکومت جتانے لگ گئے ہیں۔ گویا ان کی مثال بالکل اُس ٹھنڈے مُلک والے آدمی کی سی ہے جسے کہا گیا کہ تو سائے میں آجا تو وہ کہنے لگا مجھے دو گے کیا؟ خدّام الاحمدیہ نے بھی کہا کہ آئیے ہم آپ کی خدمت کرتے ہیں اور محض اِس لئے کہ ہمیں اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ اَن پڑھوں کی تعلیم کا انتظام کر دیتے ہیں۔ ہم خود تعلیم دلائیں گے خود معلمین کی نگرانی کریں گے اور انہیں سکھا پڑھا کر آپ کے حوالے کر دیں گے مگر بعض پریذیڈنٹوں نے یہ کیا کہ انہیں جواب تک نہیں دیا۔ گویا اُنہوں نے اپنے عمل سے کہہ دیاکہ ہمارا اِس بات سے کوئی تعلق نہیں۔ تو جہاں مخلصین نے اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اخلاص کا ثبوت دیا ہے وہاں بعض نے غفلت اور سُستی بھی دکھائی ہے۔ چنانچہ بعض کو جب لوگ پڑھانے کے لئے جاتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے پڑھ کے کیا لینا ہے؟ کیا پڑھنے کے بعد نوکری مل جائے گی؟ یہ ویسا ہی جواب ہے جیسے نماز کے متعلق بعض نادان مسلمان دیا کرتے تھے۔ اب تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل مسلمانوں میںبیداری پیدا ہو چکی ہے اور وہ نماز روزہ کی اہمیت کو سمجھنے لگ گئے ہیں مگر آپ کی بعثت سے پہلے جب انہیں نماز پڑھنے کے لئے کہا جاتا تو وہ جواب میں کہا کرتے کہ نماز پڑھ کر ہم نے کیا لینا ہے؟ کیا نماز پڑھنے سے روٹی مل جائے گی؟ یاکپڑا مل جائے گا یا روپیہ پیسہ مل جائے گا؟ گویا نماز کا بدلہ وہ روٹی اور کپڑے کی شکل میں ڈھونڈا کرتے تھے۔ اِسی قسم کا جواب اب بعض احمدیوں نے دے دیا ہے کہ ہم نے پڑھ کر کیا لینا ہے؟کیا پڑھ کر نوکریاں مل جائیں گی؟ حالانکہ صرف نوکری ہی انسان کے لئے قیمتی شے نہیں بلکہ عقل اور فہم و فراست کی تیزی اِس سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔ اگر کسی کو ذہنی ارتقاء حاصل ہو جائے، اس کا علم بڑھ جائے، اس کی عقل تیز ہو جائے اور اس کے فہم و فراست میں زیادتی ہو جائے تو کیا یہ کوئی کم فائدہ ہے؟ روپیہ تو ایک ادنیٰ سے ادنیٰ چیز ہے اور پھر روپیہ بھی وہی شخص کماتا ہے جو عالم و ذہین ہو۔ آخر وجہ کیا ہے کہ ایک شخص کروڑوں کروڑ روپیہ کما لیتا ہے اور دوسرابھوکوں مرتا ہے۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ ایک میں علم و فہم کی زیادتی ہوتی ہے اور دوسرے میں علم و فہم نہیں ہوتا۔ پس علم بذاتِ خود ایک نہایت قیمتی اور مُفید چیز ہے۔ پھر جو شخص علم والا ہو گا وہ اگر فوج میں جائے گا تو اعلیٰ جرنیل بن جائے گا، طب سیکھے گا تو اعلیٰ درجہ کا طبیبِ حاذق بن جائے گا، قانون سیکھے گا تو اعلیٰ درجہ کا بیرسٹر بن جائے گا۔ گویا علم اُسے ہر میدان میں ترقی بخش دے گا تو روپیہ سے کسی چیز کی قیمت لگانا نہایت ادنیٰ اور گِرا ہؤا تخیل ہے۔علم اپنی ذات میں ایک نہایت قیمتی چیز ہے خواہ اس کے بعد کسی کو روپیہ حاصل ہو یا نہ ہو۔ دُنیا میں جس قدر ادنیٰ اقوام ہیں یہ کیوں ادنیٰ اقوام کہلاتی ہیں؟ اِسی لئے کہ ان میں علم نہیں۔ اگر وہ بھی علوم سیکھ لیں تو اچھوت ، ہریجن اور چوہڑے چمار کے الفاظ ہی متروک ہو جائیں اور ان کے ماضی پر ایسا پردہ پڑ جائے کہ کسی کو معلوم تک نہ ہو کہ وہ بھی کبھی چوہڑے چمار رہ چکے ہیں۔ ہمیشہ نیچ اقوام جب ترقی کرتی ہیں تو رفتہ رفتہ وہ دوسری قوموں میں ملنا شروع ہو جاتی ہیں اور اس طرح وہ نئی قوموں کا حصّہ بن کر ایک نئی شکل اختیار کر لیتی ہیں جو ان کی پہلی شکل کے مقابلہ میں بدرجہا بہتر ہوتی ہے جس طرح پانی دودھ میں مل جاتا ہے اور انسان یہ شناخت نہیں کر سکتا کہ دودھ میں پانی مِلا ہؤا ہے یا نہیں یا جس طرح پھل اور سبزیاں جب انسان کھاتا ہے تو وہ انسان کا جُزو بن جاتی ہیں اِسی طرح وہ قومیں دوسری قوموں میں مل کر ان کا ایک حصّہ اور جزو بن جاتی ہیں۔ کہیں دوسری قوم کے لڑکوں سے ان کی لڑکیاں بیاہی جاتی ہیں، کہیں جب لوگ ان کو علم اور تقویٰ میں بڑھا ہؤا دیکھتے ہیں تو وہ اپنی لڑکیاں انہیں دے دیتے ہیں اور اِس طرح جب آپس میں رشتے ناطے ہونے لگتے ہیں تو جیسے دودھ میں شکر مل جاتی ہے اسی طرح قومیں آپس میں مل جاتی ہیں اور ادنیٰ اور اعلیٰ کا امتیاز جاتا رہتا ہے مگر اِس کا پہلا قدم تعلیم ہی ہے۔ جب تک تعلیم نہ ہو نہ عقل بڑھتی ہے نہ ذہن میں تیزی پیدا ہوتی ہے، نہ فہم و فراست میں زیادتی ہوتی ہے، نہ اُٹھنے بیٹھنے کے آداب معلوم ہوتے ہیں، نہ گفتگو کا طریق معلوم ہوتا ہے، نہ بڑوں سے ملنے کا سلیقہ آتا ہے، نہ چھوٹوں سے سلوک کرنا آتا ہے مگر جب انسان تعلیم حاصل کرلے تو ان تمام باتوں میں وہ ہوشیار ہو جاتا ہے اور گو بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں مگر قلوب پر ان کا نہایت گہرا اثر پڑتا ہے۔ جب انسان تعلیم حاصل کر لے تو تعلیم سے اسے گفتگو اور نشست برخاست کے وہ تمام آداب معلوم ہوجاتے ہیں جو شرفاء میں رائج ہیں۔
مرزا مظہر جان جاناں ایک بزرگ گزرے ہیں۔ ایک دفعہ ان سے ملنے کے لئے بادشاہ آیا اُس کے ساتھ اس کا وزیر بھی تھا۔ وزیر کو پیاس جو لگی تو اُس نے صراحی سے جو پاس ہی پڑی ہوئی تھی پانی لیا اور پی کر صراحی پر آبخورہ بجائے سیدھا رکھنے کے لا پرواہی سے ذرا ٹیڑھا رکھ دیا۔ وہ اتنی نازک طبیعت کے تھے کہ اسے برداشت نہ کر سکے اور بادشاہ کی طرف دیکھ کر کہنے لگے اسے کس بے وقوف نے وزیر بنایا ہے؟ اِسے تو کوزہ بھی سیدھا رکھنا نہیں آتا۔ گویابادشاہ پر بھی چوٹ کر گئے اور وزیر کو بھی انہوں نے ملامت کر دی۔ تو اُٹھنے بیٹھنے اور کام کاج کرنے کے طریق طبائع پر بڑا اثر ڈالتے ہیں۔ ایک ہی کا م ہوتا ہے جسے ایک تو خوب سلیقہ اور ہوشیاری کے ساتھ سر انجام دیتا ہے مگر دوسرا ایسے بھونڈے طریق سے کرتا ہے کہ اس سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ تو آداب اور طریق بات کو کہیں کا کہیں پہنچا دیتے ہیں اور یہ اصول صرف اہم باتوں سے مخصوص نہیں۔ چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی جب کوئی شخص عقلمندی سے کام لیتا ہے تو اس کا وہ کام نہایت خوبصورت دکھائی دیتا ہے لیکن جب دوسرا اُسے تہذیب و تمدن کے اصول کے مطابق سر انجام نہیں دیتا تو وہ بدصورت نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر چائے کو دیکھ لو انگریز بھی چائے پیتے ہیں اور ہندوستانی بھی مگر انگریزوں میں یہ رواج ہے کہ وہ چائے پیتے وقت ہونٹوں کی آواز نہیں نکالتے لیکن ہندوستانی جہاں چائے پی رہے ہوں قریباً سب چائے پیتے وقت یہ آواز نکال رہے ہوں گے۔ اس فرق کی وجہ نہایت ہی معمولی ہے اور وہ یہ کہ ہندوستانی چائے پیتے وقت زیادہ گھونٹ لے لیتا ہے مگر انگریز چھوٹے چھوٹے گھونٹ پیتا ہے اور اِس طرح آواز پیدا نہیں ہوتی لیکن باوجود اِس کے کہ ایک معمولی بات ہے انگریزوں کی مجلس میں کوئی چائے پیتے وقت آواز نکالے تو سب کنکھیوں سے اُسے دیکھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ وحشی کہاں سے آگیا؟ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی اِس قسم کے کئی آداب سکھائے ہیں مثلاً آپ نے فرمایا کھانا اطمینان اور وقار سے کھاؤ،۴؎ دائیں ہاتھ سے کھاؤ، ۵؎ بائیں ہاتھ سے نہ کھاؤ۔ اِسی طرح اِدھر اُدھر سے کھانا نہ کھاؤ بلکہ ہمیشہ اپنے آگے سے کھانا شروع کرو اور کھانا اِس طرح نہ کھاؤ گویاتمہیں اِس کی شدید حرص ہے۔۶؎ اب دائیں ہاتھ یا بائیں ہاتھ سے کھانا کھانے میں کیا فرق ہے؟ کوئی بہت زیادہ فرق نہیں۔ دائیں سے نہ کھایا بائیں سے کھا لیا یا اس میں کیا حرج ہے اگر کسی نے سامنے سے لقمہ لینے کی بجائے اِدھر اُدھر سے کھانا کھانا شروع کر دیا کیا ان آداب کو اگر ملحوظ نہ رکھا جائے تو ہیضہ ہو جاتا ہے؟ یا کھانا زہر والا بن جاتا ہے؟ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جس طرح ایک شخص کا پیٹ بھر تا ہے اسی طرح دوسرے کا پیٹ بھر جاتا ہے۔ تم کوئی ایسی دلیل نہیں دے سکتے جس سے تم یہ واضح کر سکو کہ اس میں یہ فائدہ ہے اور اس میں وہ۔ صرف یہ ایک تہذیب کی علامت ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے مقرر فرمائی۔ بے شک ان میں فوائد بھی ہیں مگر وہ اتنے باریک ہیں کہ ہر شخص ان کو سمجھ نہیں سکتا لیکن ان پر عمل کرنے سے ایک تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا متبع بن جاتا ہے اور دوسرا جو عمل نہیں کرتا وہ نافرمان بن جاتا ہے۔ اِسی طرح یہ سوال کہ لقمہ دوانگلیوں سے لینا چاہئے یا تین یا چار سے اِس میں بھی سُنت کے حوالوں سے بڑی بھاری فرق نظر آتا ہے بلکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ ہر مُلک میں مُنہ میں لقمہ ڈالنے کا الگ الگ رواج ہے۔ کوئی سامنے سے مُنہ میں ڈالتا ہے اور کوئی پہلو سے۔ جولوگ سامنے سے لقمہ ڈالتے ہیں۔ وہ جب ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جو پہلو سے لقمہ ڈال رہے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں یہ کیسے بد تہذیب ہیں اِنہیں مُنہ میں لقمہ ڈالنا بھی نہیں آتا اور جو لوگ پہلو سے لقمہ ڈالنے کے عادی ہیں وہ جب ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جو سامنے سے لقمہ ڈالتے ہیں تو انہیں تہذیب و تمدن سے ناآشنا قرار دینے لگ جاتے ہیں۔
تو ان باتوں پر رسم و رواج کا بڑا اثر ہوتا ہے مگر جہاں شریعت کی پسندیدگی کا سوال بھی پیدا ہو جائے وہاں اس کی اہمیت کا انکار کرنا سخت بیوقوفی ہوتی ہے کیونکہ شریعت کی تمام باتوں میں حکمت ہوتی ہے چاہے وہ حکمت کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے تو یہ سب باتیں تعلیم سے آتی ہیں اور تعلیم کے نتیجہ میں ہی صحیح تمدن پیدا ہوتا ہے سوائے اس کے کہ اﷲ تعالیٰ غیب سے کسی کو علم دے دے۔ سو اگر کوئی شخص ایسا ہو تو پھر اِسے کسی دُنیوی اُستاد سے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ جیسے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم تھے کہ آپ نے کسی انسان سے علم نہیں سیکھا مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ لوگ کہنا شروع کر دیں کہ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پڑھے ہوئے نہیں تھے تو ہم کیوں تعلیم حاصل کریں؟ اگر کوئی شخص ایسا کہتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرح تم بھی یہ دعویٰ کرو کہ تمہارے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ تمہیں خود پڑھائے گا تو ہم تمہیں کبھی لوگوں سے پڑھنے کے لئے نہ کہیں گے اور سمجھ لیں گے کہ جس طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے تمام علوم سکھادیئے تھے اُسی طرح وہ تمہیں تمام علوم سکھا دے گا۔ اِس صورت میں اگر تم خدّام الاحمدیہ کو یہ جواب دو کہ ہم تمہارے مقرر کردہ اُستادوں سے نہیں پڑھتے۔ ہمارے ساتھ خُدا کا یہ وعدہ ہے کہ وہ آپ ہمیں پڑھائے گا تو ہم تمہارے اِس عُذر کو تسلیم کر لیں گے اور کہیں گے کہ واقع میں تمہیں کسی انسان سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تم کو جو اُستاد مِلا ہے اُس سے بڑا اور کوئی اُستاد ہے ہی نہیں لیکن جب خُدا تعالیٰ کا تمہارے ساتھ کوئی وعدہ نہیں اور تم نقل محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی کرنا چاہتے ہو جن کو خدا نے تمام علوم سکھائے تو تمہاری مثال بالکل وہی بن جاتی ہے کہ کوّا ہنس کی چال چلا اور اپنی بھی بھُول گیا۔ تم بھی اپنی چال چھوڑ دیتے ہو اور محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس بات میں نقل کرتے ہو جس میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان پر امتیاز بخشا ہے۔ پس تم دونوں طرف سے ناکام رہتے ہو نہ تم اپنی کوشش سے کسی علم کو حاصل کرتے ہو اور نہ خُدا تمہیں علم دیتا ہے کیونکہ اس کا تمہارے ساتھ کوئی وعدہ نہیں ہوتا۔
پس یاد رکھو ایسے معاملات میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی نقل کرنا نادانی اور حماقت ہے اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اَن پڑھ تھے مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اَن پڑھ ہونے کے یہ معنے نہیں کہ آپ کو کوئی علم نہیں آتا تھا بلکہ صرف یہ معنے ہیں کہ آپ نے کسی انسان سے علم نہیں پڑھا۔ ورنہ وہ کون سا علم ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو حاصل نہیں تھا اور کونسی وہ نئی بات ہے جس کی مذہب و اخلاق کے لئے ضرورت ہو اور جسے آج تحقیق جدید نے پیش کیا ہو اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیم میں وہ پہلے سے موجود نہ ہو۔
ہم بیسیوں صدی میں پیدا ہوئے ہیں اس زمانہ میں ہوئے ہیں جو علم کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ کتابیں ہمارے مطالعہ میں آتی ہیں جو علوم کے لحاظ سے چوٹی کی کتب سمجھی جاتی ہیں اور وہ لوگ ہمارے دائیں بائیں ہیں جن کا مشغلہ ہر وقت علم پڑھنا اور دوسروں کو پڑھانا ہی ہے مگر میں نے تو آج تک نہ کوئی ایسی کتاب دیکھی اور نہ مجھے کوئی ایسا آدمی ملا جس نے مجھے کوئی ایسی بات بتائی ہو جو قرآن کریم کی تعلیم سے بڑھ کر ہو یا قرآن کریم کی کسی غلطی کو ظاہر کر رہی ہو یا کم از کم قرآن کریم کی تعلیم کے برابر ہی ہو تو محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو خدا تعالیٰ نے وہ علم بخشا ہے جس کے سامنے تمام علوم ہیچ ہیں۔
چودھویں صدی علمی ترقی کے لحاظ سے ایک ممتاز صدی ہے اِس میں بڑے بڑے علوم نکلے، بڑی بڑی ایجادیں ہوئیں اور بڑے بڑے سائنس کے عقدے حل ہوئے مگر یہ تمام علوم محمدصلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے علم کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکے۔ تو ان امور میں محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی نقل کرنا محض نادانی اور حماقت ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا آپ سے ایک امتیازی سلوک تھا اور اِس امتیازی سلوک میں کوئی دوسرا آپ کا شریک نہیں ہو سکتا۔ اِسی طرح اگر کسی دوسرے سے خداتعالیٰ کسی اور امتیازی سلوک کا وعدہ کر دے تو اِس سلوک میں بھی کوئی اور اس کا شریک نہیں ہو سکتا۔
کہتے ہیں ایک بزرگ تھے جو توکّل کر کے گھر میں بیٹھے رہتے تھے روزی کمانے کے لئے کوئی کام نہیں کیا کرتے تھے جو کچھ خدا انہیں بھیج دیتا وہ کھالیتے۔ جب لوگ انہیں کہتے کہ آپ سارا دن بے کار رہتے ہیں یہ ٹھیک بات نہیں آپ کو چاہئے کہ آپ اپنی روزی کے لئے جدوجہد کریں تو وہ کہا کرتے کہ مَیں اﷲ تعالیٰ کا مہمان ہوں اور مہمان کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ خود روٹی پکائے۔ اﷲ تعالیٰ مجھے روٹی بھیج دیتا ہے اور مَیں کھا لیتا ہوں۔ بعض لوگ جو اِن کی حقیقت کو نہیں سمجھتے تھے وہ خیال کرتے کہ شاید سُستی کی وجہ سے وہ کام نہیں کرتے۔ آخر لوگوں نے اُن کے ایک دوست کو جو خود بھی ولی اﷲ تھے تحریک کی کہ آپ انہیں سمجھائیں کہ یہ اپنی زندگی برباد نہ کریں اور کچھ کما کر کھایا کریں سارا دن توکّل کر کے بیٹھ رہنا اور جدوجہد نہ کرنا یہ اچھی بات نہیں۔ چنانچہ انہوں نے اِس بزرگ کو کہلا بھیجا کہ آپ اپنی زندگی کیوں رائیگاں کھو رہے ہیں؟ بہتر ہے کہ آپ کوئی شغل اختیار کریں اور روزانہ تھوڑا بہت کام کر لیا کریں۔ جو کمائیں اس سے اپنا گزارہ کیا کریں۔ اُنہوں نے جواب میں پیغام بھیجا کہ مَیں اﷲ تعالیٰ کا مہمان ہوں اور میرے لئے یہ بالکل ناجائز امر ہے کہ مَیں کوئی کام کروں۔ جب معمولی رئیس کے گھر میں بھی اگر کوئی مہمان ٹھہرے تو وہ یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اُس کا مہمان اپنا کھانا اپنے لئے خود تیار کرے تو مَیں بھی اگر کھانا پکانے لگوں تو میری اِس حرکت کو خدا کب پسند کرے گا؟ وہ یقینا ناراض ہو گا اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی برداشت کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ وہ بھی ذہین آدمی تھے اُنہوں نے جب یہ بات سُنی تو کہلا بھیجا کہ آپ بیشک مہمان ہوں گے مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ مہمانی تین دن ہوتی ہے اِس کے بعد کوئی مہمانی نہیں اور اگر کوئی مہمان بنا رہتا ہے تو وہ دراصل سوال کرتا ہے۔۷؎ پس آپ اگر مہمان بھی تھے تو آپ کی مہمانی کب کی ختم ہو چکی ہے اور اب تو آپ سائل ہیں۔ ان کو چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ مل چُکا تھا کہ مَیں خود تیرا متکفّل ہوں تجھے اپنے لئے کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں اِس لئے جب ان کے پاس یہ پیغام پہنچا تو اُنہوں نے پیغام پہنچانے والے سے کہا کہ میرے بھائی سے کہہ دینا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان سر آنکھوں پر مگر مَیں جس کے گھر کا مہمان ہوں اُس کا ایک دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔ پس پہلے مجھے تین ہزار سال تک مہمان بنے رہنے دو اِس کے بعد اگر میری مہمانی کے ایّام بڑھ گئے تو بیشک اعتراض کرنا۔
اب جس شخص کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا اُس نے تو یہ دعویٰ کر دیا مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ واقعہ سُن کر تم بھی کام کرنا چھوڑ دو اور کہہ دو کہ جب اُس بزرگ کو اﷲ تعالیٰ بغیر کام کاج کئے روزی پہنچا دیتا تھا تو ہمیں کیوں نہیں پہنچائے گا؟ اِسی طرح بے شک محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے نہیں پڑھا اور آخر عمر تک نہیں پڑھا (بعض مؤرخ لکھتے ہیں کہ آخری عمر میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا مگر میری تحقیق یہی ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے آخر عمر تک لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا) مگر اِس لئے کہ خُدا نے خود آپ کو تمام علوم سکھا دیئے تھے اور آپ کو اس امر کی ضرورت نہیں تھی کہ اور لوگوں کی شاگردی اختیار کریں لیکن اور کسی شخص کے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں۔ پس دوسروں کا اِس امر میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی نقل کرنا بالکل بے معنی بات ہے۔ بیشک ہمیں یہ حُکم ہے کہ ہم رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی کامل فرمانبرداری کریں مگر اُنہی امور میں جو شرعی اور تمدنی ہیں لیکن وہ جو شرعی اور تمدنی امور نہیں بلکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کے ساتھ وہ امور مخصوص ہیں ان میں اگر کوئی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی نقل کرتا ہے تو وہ حد درجہ کی گستاخی اور بے ادبی کرتا ہے مثلاً رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کاطریق تھا کہ آپ نمازیں پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے، زکوٰۃ دیتے تھے اور حج کرتے تھے۔ ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم نمازیں بھی پڑھیں، ہم روزے بھی رکھیں، ہم زکوٰۃ بھی دیں اور اگر ہم میں استطاعت ہو تو ہم حج بھی کریں مگر ہمارے لئے یہ جائز نہیں کہ ہم نَو بیویاں کریں کیونکہ یہ امر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے مخصوص تھا اور جو شخص اِس مخصوص امتیاز میں بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی نقل کرتا ہے وہ اوّل درجہ کا گستاخ ہے اور اپنے عمل سے اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی گرفت اس پر نازل ہو۔ تو اﷲ تعالیٰ نے الگ الگ قسم کے احکام دیئے ہوئے ہیں جو نقل والے ہیں وہ اَور ہیں اور جو نقل والے نہیں وہ اَور ہیں۔ اور لوگوں سے علم نہ سیکھنا بھی انہی امور میں سے ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے مختص تھا اور جس میں کوئی دوسرا آپ کی نقل نہیں کر سکتا۔ پس مَیں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جو لوگ پڑھے ہوئے نہیں وہ علم حاصل کرنے کی طرف توجہ کریں اور جن کو خدا تعالیٰ نے علم دیا ہؤا ہے وہ دوسروں کو پڑھائیں۔ اِس وقت علم حاصل کرنے کا خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایک نہایت ہی اعلیٰ موقع عطا کیا ہؤا ہے۔ اگر کسی شخص نے اپنی غفلت سے اِس موقع کو کھو دیا تو اُس کی بد قسمتی میں کوئی شُبہ نہیں ہو گا۔ دوسری قوموں میں یہ بات بھلا کہاں پائی جاتی ہے کہ ان میں سے علم والے اپنے اوقات کی قربانی کر کے دوسروں کو پڑھائیں۔ علم سیکھنا اور علم سکھانا بڑی برکت کا موجب ہوتا ہے۔ اگر ہمای جماعت اِس موقع کو کھو دے تو یہ ایسا ہی ہو گا جیسے بادشاہ کسی کو خِلعت دے اور وہ اُسے پھاڑ کر پھینک دے۔ جو شخص خِلعت کی قدر نہیں کرتا اُسے آئندہ کے لئے خِلعت دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ اِسی طرح اﷲ تعالیٰ جب ثواب کے مواقع پیدا کرتا ہے تو جو لوگ اِن مواقع کی قدر نہیں کرتے وہ ثواب سے محروم رکھے جاتے ہیں۔ یہ دن بڑی برکتوں اور رحمتوں کے دن ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ہماری جماعت کو حاصل ہیں۔ دوسری قوموں کو یہ قُربانیوں اور ثواب کے موقعے حاصل نہیں۔ صرف ہماری جماعت ہی ہے جسے مالی ، جانی، وقتی، ملی اور علمی قُربانیوں کے پے در پے مواقع ملتے چلے جاتے ہیں اور دراصل یہی وہ خزانے ہیں جن کے متعلق رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسیح موعود خزانے لُٹائے گا مگر لوگ قبول نہیں کریں گے۔۸؎ اس پیشگوئی سے مراد مسیح موعود کی جماعت نہیں بلکہ عام لوگ ہیں اور مطلب یہ ہے کہ وہ خزانے ایسے نہیں جن سے روٹی ملے بلکہ ایسے ہوں گے جو لوگوں کو روحانی برکات سے مالا مال کر دیں گے اور جو مالی اور جانی قُربانی کا لوگوں سے مطالبہ کریں گے مگر لوگ انہیں قبول نہیں کریں گے۔ یہاں لوگوں سے مراد آپ کے مرید نہیں بلکہ غیر لوگ ہیں اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ ان کو ردّ کر دیں گے مگر وہ لوگ جو آپ کا حصّہ اور آپ کی جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے آپ کا جزو ہوں گے وہ قبول کریں گے اور ہر قسم کی قُربانیوں میں حصّہ لے کر روحانی خزانوں سے مالا مال ہو جائیں گے۔
غرض یہ اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی رحمت کے نزول کے ایّام میں ان دنوں کی قدر کرو اور انہیں رائیگاں کھو کر اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ خلعت کی بے حُرمتی مت کرو۔ اگر آج ان ثواب کے موقعوں سے تم فائدہ نہیں اُٹھاؤ گے تو یاد رکھو یہ زمانہ گزر جائے گا اور پھر نہ ثواب کے یہ مواقع پیدا ہوں گے اور نہ لوگوں کو قُربانیوں کی ضرورت محسوس ہو گی۔ ہر قسم کے سامان حکومت کی طرف سے میسر ہوں گے، مدرسے جاری ہوں گے، یونیورسٹیاں قائم ہوں گی اور ہر اَن پڑھ شخص کو تعلیم دلانے کا حکومت خود انتظام کر رہی ہو گی۔ اُس وقت اگر تم کسی کو کہو گے کہ آؤ میں تمہیں پرائمری تک تعلیم دلا دوں تو وہ کہے گا تم بیوقوف ہوئے ہو جب سرکاری طور پر ایم اے کی تعلیم حاصل کرنے کا انتظام ہے تو مجھے تمہارا ممنونِ احسان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر اب کیسا مبارک زمانہ ہے کہ اگر کوئی شخص صرف دستخط کرنا جانتا ہے تو وہ دوسرے کو دستخط کرنا سکھا کر ہی ثواب حاصل کر سکتا ہے اور جسے اُردو کے دو حرف آتے ہیں وہ دوسرے کو دو حرف پڑھا کر ہی معلِّم بن سکتا ہے اور معلم کوئی معمولی عُہدہنہیں بلکہ بہت بڑا عُہدہ ہے لیکن آج یہ عُہدہ صرف دو حرف پڑھا کر مل سکتا ہے اور ہر شخص کی زبان سے وہ معلِّم اور اُستاد کہلا سکتا ہے۔ پس اِس نہایت ہی قیمتی اور ثواب کے موقع کو ہاتھ سے جانے دینا سخت نادانی کی بات ہے۔‘‘
(الفضل ۳۰؍جون ۱۹۳۹ئ)
۱؎ محمد : ۵
۲؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد ۲ صفحہ ۴۵۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۳؎
۴؎ بخاری کتاب الاطعمۃ باب التَّسمِیَۃُ علی الطعام
۵؎ بخاری کتاب الاطعمۃ باب التَّسمِیَۃُ علی الطعام و الأکل بِالیمین
۶؎ بخاری کتاب الاطعمۃ باب الأکل ممایلیہ
۷؎ سنن ابو داؤد کتاب الاطعمۃ باب ما جاء فِی الضِیافۃ
۸؎ صحیح بخاری کتاب البیوع باب قتل الخنزیر
۱۹
تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق جلسے کئے جائیں
(فرمودہ ۳۰؍جون ۱۹۳۹ئ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’مَیں نے تحریک جدید کے متعلق گزشتہ سال بھی اس زمانہ میں ایک جلسہ مقرر کیا تھا اور اس سال پھر مَیں اس کے متعلق ایک جلسہ کا اعلان کرنا چاہتا ہوں اور اس کے لئے ۱۵؍اگست ۱۹۳۹ء کی تاریخ مقرر کرتا ہوں۔۱؎ جیسا کہ مَیں نے پہلی دفعہ بیان کیا تھا ایسے جلسوں کو کامیاب بنانے کے لئے پہلے مختلف محلّوں میں اور مختلف مقامات پر چھوٹے چھوٹے جلسے کرنے ضروری ہیں اور ایسے کم سے کم تین جلسے ہونے چاہئیں۔ ایک عورتوں کا، ایک نوجوانوں کا اور ایک بڑی عمر کے آدمیوں کا۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ تینوں جلسے اس طرح ہوں کہ ایک طبقہ کو دوسرے طبقہ کے جلسہ میں شریک ہونے کی اجازت نہ ہو بلکہ ہر جلسہ میں دوسرے لوگ بھی شامل ہوں۔ مثلاًنوجوانوں کے جلسہ میں یا بڑوں کے جلسہ میں علماء کی جو تقریریں ہوں اگر پس پردہ عورتیں بھی ان کو سُن سکیں تو یہ نا مناسب نہیں بلکہ پسندیدہ ہے لیکن چونکہ ہر طبقہ کے لئے اس کے حالات کو دیکھتے ہوئے بعض مخصوص خیالات کا سُننا اور سُنوانا ضروری ہوتا ہے اس لئے علیحدہ علیحدہ جلسوں کی تجویز مَیں نے کی ہے اور ان جلسوں کے آخر میں ۱۵؍اگست کو ایک بڑا جلسہ ہو جس میں سب مرد، عورتیں، جوان، بچے، بوڑھے شریک ہوں بلکہ شہر کے علاوہ علاقہ کے احمدی بھی شامل ہوں اور اس تحریک سے پوری طرح آگاہ ہوں۔
مَیں یہ بھی اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ بہت سے دوستوں کے وعدے تھے کہ وہ جون یا جولائی تک اپنے وعدے پورے کر دیں گے اس کے لئے سب جماعتیں تحریک کریں کہ سب وعدے ۱۵؍اگست تک ادا ہو جائیں تا وہ ثواب میں چھ ماہ آگے بڑھ جائیں۔ آخر جو رقم دینی ہے وہ دینی ہی ہے اور جو وقت پر یا وقت سے پہلے ادا کر دے وہ ثواب کا زیادہ مستحق ہوجاتا ہے۔ مَیں نے کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ جو لوگ اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ آخری وقت پر وعدہ پورا کر دیں گے وہ کبھی اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ وہ بالعموم ناکام رہتے ہیں اور ان کے کاموں میں سُستی پیدا ہو جاتی ہے جس طرح وہ لوگ جو اس انتظار میں رہتے ہیں کہ آخری وقت پر نماز ادا کر لیں گے۔ بسا اوقات محروم رہ جاتے ہیں وہ انتظارہی کرتے رہتے ہیں اور سورج چڑھ آتا ہے یا عصر کا وقت ہوتا ہے تو سورج غروب ہو جاتا ہے۔ پس کوشش کرنی چاہئے کہ نیکی کو وقت پر ادا کیا جائے اور نیکی کے معاملہ میں تعجیلسے کام لیا جائے ۔ مَیں نے بارہا وہ مثال دی ہے کہ جب ایک مخلص صحابی باوجود تیاریٔ جنگ کی طاقت رکھنے کے اِس خیال سے تاخیر کرتے رہے کہ بعد میں تیاری کر لوں گا لیکن بعد میں ایسے مواقع پیش آگئے کہ نہ کر سکے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ جہاد کے ثواب سے الگ محروم رہے اور خدا اور رسُول کی ناراضگی کے مورد علیحدہ ہوئے حتّٰی کہ ایسے تین صحابہ کا رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حُکم سے بائیکاٹ کیا گیا۔ ان کے عزیز ترین دوستوں نے ان کا بائیکاٹ کر دیا بلکہ بعض کی بیویوں نے بھی بائیکاٹ کر دیا اور مسلمانوں کا ان سے بات چیت کرنا تو الگ رہا وہ ان کے متعلق کوئی اشارہ کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے ۲؎اور یہ سب کچھ اس وجہ سے ہؤا کہ انہوں نے نیکی کرنے میں سُستی سے کام لیا حالانکہ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس سامان موجود تھا مگر صرف سُستی سے کام لیا اور کہا کہ مَیں تیاری کر لوں گا۔ سب سامان میرے پاس موجود ہے تو جب کوئی شخص نیکی میں تاخیر کرتا ہے تو اگر اس کے اندر کبر اور خودپسندی کا مادہ پیدا ہو جائے تو بعد میں اﷲ تعالیٰ اسے ثواب سے بھی محروم کر دیتا ہے اوراگر یہ نہ بھی ہو تو بھی کم سے کم ثواب کے اتنے دن تو گئے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے رستہ میں خرچ کرتے اور اُسے قرض دیتے ہیں خدا تعالیٰ ان کو بڑھا کر ہی واپس کرتا ہے۔۳؎ یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے اور اسے زیادہ نہ ملے جس طرح کھیت میں بیج ڈالا جاتا ہے تو اس کے ایک ایک دانے سے ستّر ستّر دانے نکلتے ہیں اسی طرح جو شخص دین کی راہ میں قُربانی کرتا ہے اُسے ایک ایک کے ستّر ستّر بلکہ اس سے بھی زیادہ ملتے ہیں ۴؎مگر بعض نادان اس اُمیدمیں رہتے ہیں کہ انہیں ایک کے ستّر اسی دُنیا میں مل جائیں حالانکہ اس دُنیا کی نعماء کی اُخروی نعمتوں کے مقابلہ میں کوئی بھی حیثیت نہیں۔ اگر یہاں ایک کے ستّر بلکہ سات سَو بھی مل جائیں تو وہ اتنے مُفید نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کا اثر محدود ہو گا۔ اگر انسان کی اوسط عمر ستّر سال بھی فرض کرلی جائے جو اس زمانہ میں ناممکن ہے۔ ہندوستان میں اوسط عمر تیس بلکہ ۲۷ سال سمجھی جاتی ہے لیکن اگر بفرض محال ستّر سال بھی تسلیم کر لی جائے تو یہ عرصہ اس لمبے اور غیر محدود عرصہ کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں جو موت کے بعد شروع ہوتا ہے۔ یہاں یہ نعمتیں کس کام آسکتی ہیں اور اس محدود عرصہ میں ان سے کیا فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے اِس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی شخص سے کہا جائے کہ تمہیں اس پڑاؤ پر آرام مل سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب تم منزل مقصود پر پہنچ جاؤ تو تمہارے اور تمہارے بیوی بچوں کے لئے عمر بھر کے واسطے آرام کا انتظام ہو جائے۔ ان دونوں میں سے تمہیں کونسا آرام پسند ہے تو ہر معقول انسان منزل پر پہنچ کر عمر بھر کے آرام کو ترجیح دے گا اور جب انسان کو ایک ایسی زندگی کے دَور سے گزرنا ہے جس کے متعلق قرآن کریم نے خَالِداً اور اَبَداً کے الفاظ استعمال کئے ہیں تو ایسی ابدی اور خلود کی زندگی کے آرام پر اس چند روزہ زندگی کے آرام کو ترجیح دینا نادانی نہیں تو اور کیا ہے مگر پھر بھی بعض نادان قُربانی کرنے کے بعد یہ اُمید رکھتے ہیں کہ انہیں اسی زندگی میں مالی صورت میں نفع ملے اور جب وہ اس سے محروم رہتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ثواب کے کاموں سے بھی محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ ایسی چیز کو بدلہ قرار دیتے ہیں جو دراصل بدلہ نہیں ہوتا۔ حقیقت یہی ہے کہ اگر کسی عاقل کے سامنے یہ بات رکھی جائے کہ وہ اس چند روزہ زندگی کے بدلہ کو پسند کرتا ہے یا آخرت کے غیرمحدود انعامات کو تو وہ ضرور آخرت کے انعامات کو ترجیح دے گا۔ جو لوگ اس دنیا کے بدلہ کو ترجیح دیتے ہیں اُن کی مثال عقل کے معاملہ میں اس میراثی کی ہے جو کسی واعظ کا وعظ سُننے کے لئے چلا گیا۔ واعظ یہ کہہ رہا تھا کہ نماز پڑھنی چاہئے۔ اُس نے یہ بات سُنی تو واعظ سے کہا کہ آپ نے وعظ تو بڑا کیا ہے مگر یہ تو بتاؤ کہ اگر نماز پڑھیں تو کیا ملے گا؟ واعظ کو جلدی میں اَور تو کوئی جواب نہ سوجھا اُس نے کہہ دیا کہ نماز پڑھنے سے نور ملتا ہے۔ اس پر اس نے نماز شروع کر دی اور چار نمازیں پڑھیں۔ صبح کی نماز کے وقت سردی بہت تھی۔ اس نے سوچا کہ واعظ نے کوئی تیمم کا مسئلہ بھی بیان کیا تھا سو اِس وقت میں تیمم کر کے ہی نماز پڑھ لیتا ہوں۔ اس نے تیمم کے لئے ہاتھ مارا تو اتفاقاً اس کے ہاتھ توے پر پڑے اور اس نے وہی مُنہ اور ہاتھ پر پھیر لئے اور یہ پانچ نمازیں پڑھنے کے بعد اس نے خیال کیا کہ اب مجھے نور مل گیا ہو گا۔ ذرا روشنی ہوئی تواس نے اپنی بیوی کو جگایا اور کہا کہ دیکھو کوئی نور آیا ہے یا نہیں ؟ بیوی نے اس کے چہرے کودیکھا تو کہا یہ تو مَیں جانتی نہیں کہ نور کیا ہوتا ہے ہاں اگر وہ کوئی کالی کالی چیز ہوتی ہے تو پھر تو بہت ہے۔ میراثی نے اپنے ہاتھو ںکو دیکھا اور وہ چونکہ براہ راست توے پر پڑے تھے اس لئے وہ بہت زیادہ سیاہ تھے اس نے کہا کہ اگر تو نور کالا ہی ہوتا ہے تو پھر تو گھٹائیں باندھ کر آیا ہے۔ یہی مثال ان لوگوں کی ہوتی ہے جو خدا کی راہ میں قُربانی کر کے اسی دُنیا میں بدلہ کے منتظر رہتے ہیں۔ وہ پانچ نمازیں پڑھنے کے بعد توقع رکھتے ہیں کہ ان کے چہرہ پر نور کے آثار ظاہر ہوں اور یہ خیال نہیں کرتے کہ اس دُنیا میں تو کسی نہ کسی طرح گزارا ہو ہی جاتا ہے مگر وہ غیر محدود زندگی جہاں تمام رشتے ناطے ٹوٹ جاتے ہیں ماں کو بیٹے سے اور بیٹے کو ماں سے، بیوی کو خاوند سے ، خاوند کو بیوی سے، بھائی کو بھائی سے اور بہن کو بہن سے کسی مدد کی اُمید نہیں ہو سکتی۔ وہاں کس طرح کام چلے گا جب ہر انسان خوف سے لرز رہا ہو گا۔ وہ وقت ایسا ہو گا جب کوئی کسی کا ساتھ نہ دے گا۔ اس وقت انسان کہے گا کہ کاش! کوئی چیز میرے خزانہ میں ہوتی اور آج میرے کام آتی۔ جب انسان ترساں ولرزاں ہو گا، گھبرایا ہؤا ہو گا ایسے وقت میں اگر خدا تعالیٰ کے فرشتے آکر کسی سے کہیں کہ یہ زادِ راہ تمہارے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے تو یہ انعام زیادہ ہے یا یہ کہ یہاں دین کی راہ میں خرچ کئے ہوئے مال کے بدلہ میں ایک ایک کے ستّر سترّ مل جائیں۔ ہماری جماعت کے جو لوگ چندہ دیتے ہیں اس کی اوسط تین روپے فی کس بنتی ہے جسے ستّر سے ضرب دی جائے تو دو سَو دس روپیہ سال کے ہوتے ہیں اور سترہ روپیہ چند آنے ماہوار ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی بڑا مال نہیں۔ بمبئی اور کلکتہ میں ایسے ایسے ہندوستانی موجود ہیں جو لاکھ لاکھ اور دو دو لاکھ روپیہ ماہوار کماتے ہیں حالانکہ ہندوستان ایک گرا ہؤا مُلک ہے۔ اس کے مقابلہ میں سترہ روپیہ کی حیثیت ہی کیا ہے لیکن اگر اس معمولی سی رقم کی بجائے وہ چیز مل جائے جس کی قیمت کا اندازہ ہی نہیں ہو سکتا اور ایسی تکلیف کے وقت میںملے جب کہ ہر شخص ایک مصیبت میں مُبتلا ہو گا اور کہے گا کہ کاش میری دولت کا چوتھا حصّہ لے لیا جائے، کاش نصف لے لیا جائے بلکہ ساری دولت میری لے لی جائے اور اس انعام میں سے مجھے کچھ حصّہ مل جائے تو غور کرو یہ کتنا بڑا انعام ہے۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے روز کافر کہیں گے کہ کاش ہماری ساری دولت لے لی جائے اور ہمیں کوئی ثواب بے شک نہ ملے مگر اس عذاب سے نجات مل جائے ۵؎اور جن لوگوں کو ایک معمولی سی قُربانی کے بدلہ میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس ثواب کا وعدہ ہے وہ اگر اس پر اس دُنیا کے معمولی نفع کو ترجیح دیں تو ان کی نادانی میں کیا شک ہے مگر کئی ایسے نادان ہیں جو معمولی سی قُربانی کرنے کے بعد چاہتے ہیں کہ اسی دُنیا میں ان کو نفع پہنچے اور جب نہیں پہنچتا تو سمجھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ دھوکا ہؤا۔ ہم سے قُربانی کرالی گئی مگر بدلہ کوئی نہیں مِلا۔ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ استاد نے مجھ سے چار روپیہ فیس تو لے لی مگر اس کے عوض مجھے دیا کچھ نہیں اور یہ نہیں سمجھتا کہ اس نے جو علم سکھایا ہے وہ چار کروڑ روپیہ سے بھی زیادہ قیمتی ہے جو طالب علم فیس کے بدلہ میں اُمید رکھتا ہے کہ اسے استاد کی طرف سے روپیہ ملے گا وہ کبھی خوش نہیں ہو سکتا اور اطمینان حاصل نہیں کر سکتا لیکن جو یہ سمجھتا ہے کہ اس فیس کے بدلہ میں جو روپے ملتے ہیں وہ جیب میں نہیں بلکہ دل میں ڈالے جاتے ہیں۔ وہ شوق سے علم حاصل کرتا ہے اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کہ دُنیا میں جو نفع حاصل ہوتا ہے وہ اس نفع کے مقابلہ میں جو آخرت میں ملتا ہے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔
پھر دُنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بینک کو قبل از وقت ادائیگی کر دیتا ہے تو اسے ڈسکاؤنٹ ملتا ہے مثلاً اگر ۳۰ ؍جولائی کو رقم واجب الادا ہے اور وہ ۳۰؍جون کو ہی ادا کر دیتا ہے تو بینک اسے آٹھ آنے یا چار آنے سینکڑہ ڈسکاؤنٹ کے بھیج دے گا۔ گویا اسے قبل از وقت ادائیگی کا منافع دے گا۔ یہی حال اﷲ تعالیٰ کا ہے جو شخص بروقت اور جلدی اپنا وعدہ پورا کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کا ڈسکاؤنٹ اس کو ضرور دیتا ہے۔ اگر بینک اپنے محدود مال کے ساتھ ڈسکاؤنٹ ادا کرتا ہے تو یہ کیونکر قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص وقت سے پہلے اپنا وعدہ پورا کرے تو اﷲ تعالیٰ اسے ڈسکاؤنٹ نہیں دے گا۔ وہ دے گا اور ضرور دے گا مگر وہ چاندی یا سونے کے سکّے میں نہیں ہو گا بلکہ نُور اور برکت کی صورت میں ہو گا۔
حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے پاس لوگ گئے اور کہا کہ رو م کا بادشاہ ہم سے جزیہ مانگتا ہے۔ دیں یا نہ دیں؟ ان کا مقصد اس سوال سے فتنہ پیدا کرنا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر آپ کہیں گے کہ نہ دو تو ان کو شرارت کا موقع مل جائے گا اور کہہ سکیںگے کہ یہ حکومت کا باغی ہے اور اگر کہیں گے کہ دے دو تو پھر کہہ سکیں گے کہ تم جو کہتے ہو کہ مَیں خدا تعالیٰ کا نبی اور یہود کا بادشاہ ہوں یہ کیونکر صحیح ہے۔ اپنی طرف سے انہوں نے بڑی چالاکی کی اور سمجھا کہ اس طرح آپ پکڑے جائیں گے مگر آپ نے کہا کہ قیصر کیا مانگتا ہے؟ اُنہوں نے سکّہ نکال کر دکھایا کہ یہ مانگتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے اس وقت بھی سکّہ پر بادشاہ وقت کا کوئی نشان ضرور ہوتا ہو گا۔ آپ نے اس سکّہ پر قیصر کی تصویر یا نشان دیکھا تو فرمایا یہ قیصر کا ہے اس لئے اُسے دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو ۶؎یعنی یہ روپیہ تو بنا ہؤا ہی قیصر کا ہے یہ اسے دو اور اﷲ تعالیٰ کا ٹیکس اطاعت کا ہے وہ اُسے دو۔اﷲ تعالیٰ کے سکّے اور ہیں اور وہ انہی میں بدلہ ادا کرتا ہے۔ ہاں یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ اپنے بندوں کی مشکلات کو دیکھ کر کبھی دُنیوی نفع بھی ان کو دے دیتا ہے اور اس دُنیا میں بھی فضل کر دیتا ہے۔ جیسا کہ ہزار ہا احمدیوں نے اس کا تجربہ کیا ہے۔
حضرت خلیفہ اوّل سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں مکّہ میں تھا اور کچھ روپیہ کی ضرورت پیش آئی۔ اُس وقت آپ طالب علم تھے۔ طالب علموں کی ضروریات بھی محدود ہوتی ہیں چنانچہ اُس وقت آپ کو دس پندرہ روپیہ کی ہی ضرورت تھی آپ فرماتے تھے کہ مَیں نے دل میں کہا کہ کسی سے مانگوں گا نہیں اور مصلّٰی بچھا کر نماز پڑھنے لگ گیا۔ نماز کے بعد جب مصلّٰی اُٹھا کر چلنے لگا تو دیکھا کہ مصلّٰی کے نیچے ایک پونڈ پڑا ہؤا تھا۔ اب چاہے وہ پہلے ہی وہاں پڑا ہؤا ہو، چاہے اس وقت کسی کی جیب سے اُچھل کر وہاں جاپڑا ہو اور چاہے فرشتوں نے رکھ دیا ہو۔ بہرحال اﷲ تعالیٰ نے آپ کی مُشکلات کو دیکھ کر اس رنگ میں آپ کی مدد فرمادی۔
مَیں نے اپنا ایک واقعہ بھی کئی دفعہ سُنایا ہے۔ ایک دفعہ مَیں سفر پر تھا اور کسی روحانی تحریک کے ماتحت جس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں مَیں نے خیال کیا کہ یہاں ایک روپیہ مجھے ملے۔ ہم لوگ چلے جارہے تھے اور بعض احمدی میرے ساتھ تھے۔ سامنے ایک گاؤں تھا اور کچھ لوگ کھڑے نظر آرہے تھے۔ میرے ساتھیوں نے بتایا کہ اس گاؤں کا نمبردار شدید مخالف ہے اور وہی اپنے ساتھیوں سمیت کھڑا ہے۔ یہ لوگ احمدیوں کو مارتے ہیں حتّٰی کہ اپنے گاؤں میں سے کسی احمدی کو گزرنے بھی نہیں دیتے۔ میرے بعض ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ گاؤں کے باہرباہر چلنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ کوئی گالی گلوچ کریں۔ ابھی یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ گاؤں نزدیک آگیا جب مَیں اس نمبردار کے مکان کے قریب پہنچا تو وہ دوڑ کر آگے آیا اور ایک روپیہ پیش کیا۔ پہلے اﷲ تعالیٰ نے جماعت کو سبق دلانے کے لئے ایک بات میرے دل میں پیدا کی اور اپنی محبت کا تجربہ کرانے کے لئے میرے مُنہ سے سوال کرا دیا کہ روپیہ ملے اور دوسری طرف جماعت کے دوستوں کو اس کا احساس کرایا کہ یہ دشمنوں کا گاؤں ہے اور پھر اس نشان کو اسی گاؤں کے سب سے بڑے مخالف کے ذریعہ پورا کرا دیا۔ یہ خدا تعالیٰ کا ایک نشان تھا اور اس نے بتایا کہ ہم جبچاہیں اور جہاں سے چاہیں دلوا سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب آپ باغ میں فروکش تھے ایک دفعہ آپ نے جبکہ مَیں بھی پاس تھا والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ آجکل مالی تنگی بہت ہے لنگر خانہ کا خرچ بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ میراخیال ہے کہ بعض دوستوں سے قرض لیا جائے۔ اسی روز جب آپ ظہر یا جمعہ کی نماز کے لئے باہر گئے اور پھر نماز کے بعد واپس تشریف لائے تو فرمایا کہ ایک غریب آدمی جس کے کپڑے بھی پھٹے ہوئے تھے اس نے میرے ہاتھ میں ایک پوٹلی دی تھی اس کے کپڑے اتنے پھٹے ہوئے اور بوسیدہ تھے کہ مَیں نے سمجھا اس پوٹلی میں چند پیسے ہوں گے لیکن دراصل اس میں سوا دو سَو روپے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ابھی میرے دل میں قرضہ لینے کا خیال تھا مگر خدا تعالیٰ نے خود ہی ضرورت کو پورا کر دیا تو بعض اوقات اﷲ تعالیٰ دُنیا میں بھی بندوں کی ضرورتوں کے لئے روپیہ مہیا کر دیتا ہے۔
چند سال ہوئے مجھے ایک مکان کی تعمیر کے لئے روپیہ کی ضرورت پیش آئی۔ مَیں نے اندازہ کرایا تو مکان کے لئے اور اس وقت کی بعض اَور ضروریات کے لئے دس ہزار روپیہ درکار تھا۔ مَیں نے خیال کیا کہ جائداد کا کوئی حصّہ بیچ دوں یا کسی سے قرض لوں۔ اتنے میں ایک دوست کی چِٹھی آئی کہ مَیں چھ ہزار وپیہ بھیجتا ہوں اس کے بعد چار ہزار باقی رہ گیا۔ ایک تحصیلدار دوست نے لکھا کہ مَیں نے خواب دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہمیں دس ہزار روپیہ کی ضرورت تھی۔ اس میں سے چھ ہزار تو مہیا ہو گیا ہے باقی چار ہزار تم بھیج دو۔ مجھے تو اس کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آیا اگر آپ کو کوئی ذاتی ضرورت یا سلسلہ کے لئے درپیش ہو تو میرے پاس چار ہزار روپیہ جمع ہے مَیں بھیج دوں۔ مَیں نے انہیں لکھا کہ واقعی صورت تو ایسی ہے۔ بعینہٖ اسی طرح ہؤا ہے۔ گویا ضرورت مجھے تھی لیکن اﷲ تعالیٰ نے میرے مُنہ سے کہلوانے کی بجائے اس دوست کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مُنہ سے کہلوادیا۔ نہ اسے علم تھا کہ مجھے دس ہزار کی ضرورت ہے اور یہ کہ اس میں سے کسی نے چھ ہزار بھیج دیا اور اب صرف چار ہزار باقی ہے اور نہ مجھے علم تھا کہ اس کے پاس روپیہ ہے مگر اﷲ تعالیٰ نے اس کے لئے خود ہی تمام انتظام فرما دیا۔ تو بعض اوقات ایسے مواقع اﷲ تعالیٰ خود ہی بہم پہنچا دیتا ہے۔ اس کے خاص بندوں کے لئے یہ صورت عام ہوتی ہے اور عام بندوں کے لئے شاذ کے طور پر لیکن سب ہی کے لئے حقیقی نصرت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے جو روحانی طور پر آتی ہے۔ وہ اس دُنیا میں معرفت کے رنگ میں اور آخرت میں روحانی نصرت کی صورت میں آتی ہے ۔ گو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا میں بھی بدلے ملتے ہیں مگر وہ اصل بدلہ کے مقابلہ میں بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ اکثر حصّہ اگلے جہان میں ہی ملتا ہے اور اگلے جہان کے بدلہ کی قیمت وہی جانتا ہے جو اسے سمجھتا ہے دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ نادان کی نگاہ میں وہ حقیر چیز ہے مگر جو اس کی قیمت کو سمجھتے ہیں ان کے نزدیک اس سے زیادہ قیمتی چیز اور کوئی نہیں ہوتی۔ یہی صحابہ جن کا مَیں نے ذکر کیا ہے کہ جنگ میں شامل ہونے سے رہ گئے تھے ان میں سے ایک جنہیں مالی توفیق تو تھی مگر شامل نہ ہوئے تھے ان کے نزدیک رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ناراضگی کے مقابلہ میں دولت کی کوئی قیمت باقی نہ رہ گئی تھی اور اُنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اﷲ تعالیٰ مجھے معاف کر دے تو مَیں اپنی ساری دولت خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دوں گا اور جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی معافی کا اعلان فرمایا تو اُنہوں نے سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیا۔ حتّٰی کہ تن کے کپڑے بھی دے دیئے اور خود قرض لے کر اَور کپڑے بنوا کر پہنے۔۷؎رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی خوشنودی کے مقابلہ میں ان کے نزدیک ساری دولت کی کوئی حقیقت نہ تھی۔
پس مَیں تحریک کرتا ہوں کہ دوست کوشش کریں کہ وقت سے پہلے تحریک جدید کے وعدے پورے ہو جائیں۔ پھر اس کے دوسرے حصوں کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے کہ وہ بھی بہت اہم اور ضروری ہیں اور قومی کیرکٹر کو بنانے میں بہت ممد ہیں۔ مثلاً ایک ہی کھانا کھانا سوائے دعوت کے موقع کے یا جمعہ یا عیدین کے موقع کے۔ تو جن حدود کے ساتھ اس کے دوسرے حصّے مشروط ہیں ان کو بھی پورا کرنے کی طرف جماعت کو توجہ دلانی ضروری ہے۔ اس تحریک کے دوسرے حصوں میں ایک کھانا کھانا اتنا اہم حصّہ ہے کہ اس پر عمل کرنے والے جانتے ہیں کہ یہ اپنے اندر کس قدر وسیع فوائد رکھتا ہے۔ یا درکھنا چاہئے کہ بعض چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی نہایت اہم اثر پیدا کرنے والی ہوتی ہیں۔ جب کانگرسیوں پر مقدمات دائر ہونے لگے اور گاندھی جی بھی گرفتار ہوئے تو اُنہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ اپنا کوئی ڈیفنس پیش نہیں کریں گے اور سب کانگرسیوں کو ایسا ہی کرنا چاہئے۔ عام لوگوں حتّٰی کہ انگریزوں نے بھی سمجھا کہ وہ ضد کرتے ہیں حالانکہ یہ ضد نہ تھی بلکہ اتنی چھوٹی سی بات اپنے اندر بہت سے فوائد رکھتی تھی لیکن میرا خیال ہے بہت سے کانگرسیوں نے بھی اسے نہیں سمجھا ہو گا۔ بات یہ تھی کہ اگر دفاع کی اجازت ہوتی تو گاندھی جی کے لئے تو مُلک کے بہترین وکلاء مثلاً سر سپرہ اور مسٹر جیکر وغیرہ سب جمع ہو جاتے لیکن جو غرباء گرفتار ہوتے ان کے دفاع کے لئے کوئی نہ جاتا۔ گاندھی جی نے خیال کیا کہ اس طرح بے چینی پیدا ہو گی اور غرباء خیال کریں گے کہ بڑے بڑے لوگوں کے لئے تو اس قدر انتظامات اور سامان مہیا ہو جاتے ہیں مگر غرباء کو کوئی نہیں پوچھتا اور اگر سب کے لئے بڑے بڑے وکلاء پیش ہونا بھی چاہتے تو نہ ہو سکتے۔ مقدمات تو سارے مُلک میں چل رہے تھے وہ ہر جگہ کس طرح پیش ہو سکتے تھے اور اس طرح ان کی خواہش اور ارادہ کے باوجود شکوہ کا موقع باقی رہتا۔ گو وہ شکوہ کتنا ہی غیر معقول اور خلافِ عقل کیوں نہ ہوتا مگر لوگ یہی کہتے کہ غرباء کو کوئی نہیں پوچھتا اور کثیراخراجات کے باوجود شکایت باقی رہتی۔
ہم نے یہاں اپنے مقدمات میں دفاع کی اجازت دی تھی اور گو ہم نے غلطی نہیں کی بلکہ مصلحتاً ایسا کیا تھا مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ اس پر ہمارا کتنا روپیہ خرچ ہوتا رہا ہے۔ کسی میں سَو کسی میں دو سَو اور کسی میں چار سَو روپیہ خرچ ہوتا رہا ہے۔ ہر مقدمہ میں کئی کئی گواہ پیش ہوتے ہیں کئی کئی پیشیاں ہوتی ہیں لیکن اگر ہم دفاع پیش نہ کرتے تو ایک بھی پیسہ خرچ نہ ہوتا۔ پیش ہوتے اور کہہ دیتے کہ جو کرنا ہے کر لو۔ گاندھی جی نے بھی یہی کیا اور اس سے سارے مُلک میں شور مچ گیا۔ عام لوگوں نے خیال کیا کہ بائیکاٹ کے لئے ایسا کیا ہے حالانکہ ان کی غرض یہ تھی کہ چھوٹے بڑے اور امیر و غریب کا کوئی سوال نہ پیدا ہو اور روپیہ نہ خرچ ہو۔ ہزاروں لاکھوں مقدمات تھے اگر روپیہ خرچ کیا جاتا تو بے شمار خرچ ہو جاتا اور پھر مُلک میں بیداری بھی پیدا نہ ہوتی۔
اِسی طرح کھدّر پوشی ہے۔ یہ بھی ایسی ہی باتوں میں سے ایک ہے۔ کوئی کہے کہ اگر کھدّر مُفید ہے اور یہ بھی سادہ کپڑوں کی تحریک کا حصّہ ہے تو تم اس تحریک پر کیوں عمل نہیں کرتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا قانون اَور ہے اور ہماری شریعت اَور ہے۔ گاندھی جی نے وہ تحریک کی جو ان کے خیال کے مطابق مُلک کے لئے مُفید ہو سکتی تھی اور مَیں نے جو تحریک کی وہ اسلام اور سلسلہ کے فائدہ کو مدّ نظر رکھ کر کی ہے۔ اس لئے ہماری تجاویز میں فرق لازمی ہے۔ میرے مدّنظر اسلام کی شوکت اور سلسلہ کی ترقی ہے اور گاندھی جی کے نزدیک ہندوستان کی ترقی ہے۔ دونوں کا علاج علیحدہ علیحدہ ہے۔ مَیں نے ایک کھانا کھانے، سادہ کپڑے پہننے اور ہاتھ سے محنت کرنے کی جو تحریک کی ہے یہ کوئی چھوٹی باتیں نہیں ہیں۔ یہ اپنے اندر اس قدر فوائد رکھتی ہیں کہ ہر ایک پر اگر مفصل تقریر کی جائے تو سینکڑوں گھنٹے کی جاسکتی ہے اور اگر جماعت ان کو مدّنظر رکھے تو قریب ترین عرصہ میں حیرت انگیز انقلاب پیدا ہو سکتا ہے اور جماعت اس پر جتنا عمل کرتی ہے اس کے اثرات بھی مشاہدہ کر رہی ہے۔ مجھے کئی رپورٹیں آتی رہتی ہیں کہ دوسرے لوگ بھی اسے اختیار کر رہے ہیں ، کئی غیر احمدی امراء کے گھرانوں کی عورتیں ان تحریکات کو اپنے ہاں رائج کر رہی ہیں اور اسے بہت پسند کرتی ہیں۔
پچھلے دنوں جب چیف جسٹس صاحب یہاں تشریف لائے تو اُنہوں نے اس تحریک کا ذکر سُن کر بہت پسند کیا اور کہا کہ آپ کو چاہئے تھا میرے لئے بھی ایک کھانا تیار کراتے ۔ مَیں نے کہا مجھے آپ کی عادات کا علم نہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ مَیں تو سادگی کو بہت پسند کرتا ہوں۔ تو یہ تعلیم اتنی مفید ہے کہ غیروں کو بھی اس کے فوائد نظر آرہے ہیں اور ہندوؤں ، سکھوں، عیسائیوں، ایشیائیوں اور غیر ایشیائیوں سب کی توجہ خود بخود اس طرف مبذول ہوتی جارہی ہے مگر تجربہ سے یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ لوگ زیادہ کھانے چھوڑنے کے لئے تیار ہیں، سادہ کپڑے بھی پہن سکتے ہیں مگر سینما چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ میری ہمشیرہ شملہ گئیں تو اُنہوں نے سُنایا کہ بعض امراء کی عورتیں اس تحریک کو بہت پسند کرتی ہیںمگر صرف یہ کہتی ہیں کہ سینما چھوڑنا مشکل ہے۔ تو عام طور پر لوگوں میں یہ تحریک شروع ہے۔ حتّٰی کہ مختلف کمیٹیوں اور مجلسوں میں یہ سوال آنا شروع ہو گیا ہے لیکن افسوس ہے کہ جماعت نے ابھی اسے سمجھنے اور اس پر پورے طور پر عمل کرنے کی طرف توجہ نہیں کی۔ دراصل کامل فرمانبرداری کامل علم سے پیدا ہوتی ہے اس لئے ان جلسوں میں واعظ اچھی طرح لوگوں کو اس کے فوائد سے آگاہ کریں اور کھول کھول کر سمجھائیں اور کوشش کریں کہ ہر سال کی تقریروں میں نئے نئے مضامین اور نئے نئے مسائل پیدا ہوں۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ پچھلی باتیں بیان نہ کی جائیں اور ان کو نظر انداز کر دیا جائے۔ ان باتوں کو چھوڑنا خود کشی کے مترادف ہے۔ ان کو بھی ضرور بیان کیا جائے اور ان کے علاوہ نئے مضامین پیدا کئے جائیں۔ نئے مضامین سے نئی روح پیدا ہوتی ہے اس لئے دونوں کو مدّ نظر رکھنا چاہئے۔ یعنی نئے مضامین بھی اور پُرانے بھی بیان کئے جائیں۔
مَیں اُمید کرتا ہوں کہ تمام جماعتیں خصوصاً قادیان کی جماعت کہ یہ جگہ سلسلہ کا مرکز اور خدا تعالیٰ کے رسول کی تخت گاہ ہے اور اس لحاظ سے ان کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔ اپنے فرائض کو پوری طرح محسوس کریں گی۔ قادیان والوں کو دوسروں کے لئے نمونہ بننا چاہئے اور خود علم حاصل کرنا اور دوسروں کو سکھانا چاہئے اور پھر اس تحریک پر عمل کرنے میں بھی ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ باہر والے ان سے سبق حاصل کریں۔ نیک نمونہ کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ آج ہی لاہور سے چلنے کے وقت ایک خاتون مجھ سے ملنے آئیں وہ پنجاب کے ایک سابق لیڈر کی والدہ ہیں۔ وہ کہنے لگیں کہ میرا بیٹا ایک دوبار قادیان ہو آیا ہے اور واپس آکر مجھ سے کہا کہ قادیان کا آسمان بھی اَور ہے اور زمین بھی اَور، وہاں کے آدمی بھی اَور ہیں۔ایک دفعہ اُنہوں نے کسی سے یہ ذکر بھی کیا کہ مَیں تو چاہتا ہوں کہ قادیان میں مکان بنا لوں۔ یہ شخص پہلے ایک بڑے عُہدہ پر ملازم تھے۔ اب ریٹائر ہو چکے ہیں اور مشہور لیڈر ہیں۔ تو نیک نمونہ کا اثر انسان پر ضرور ہوتا ہے۔ نیکی، دیانتداری اور راستبازی کو دیکھ کر ہر شخص یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ انسان ہی اَور ہیں اور جس نے یہ جماعت بنائی ہے وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ پس مَیں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس وقت کی اہمیت کو سمجھو۔ جو فسادات دُنیا میں پیدا ہونے والے ہیں اور جو تباہیاں آنے والی ہیں پیشتر اس کے کہ وہ آئیں اپنے محل کو محفوظ اور دیواروں کو مکمل کر لو تاجب شیطان اس محل پر حملہ کرنا چاہے تو اس سے پہلے ہی اس کے دروازے لگ چکے ہوںاور دیواریں مکمل ہو چکی ہوں۔‘‘ (الفضل ۱۱؍جولائی ۱۹۳۹ئ)
۱؎ جمعہ میں اعلان ۳۰ جولائی کا کیا تھا مگر اس تاریخ کو دعوت و تبلیغ کا مقرر کردہ جلسہ تھا اس
لئے تاریخ بدل دی گئی۔
۲؎ بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک و قول اﷲ عزوجل
و علی الثلاثۃ الذین خلفوا
۳؎ (البقرۃ : ۲۴۶)
۴؎ تفسیر الخازن زیر آیت
(البقرۃ :۲۶۲)
۵؎ المائدۃ :۳۷
۶؎ لوقا باب ۲۰ آیت ۳۸ تا ۴۳ مطبوعہ ۱۸۸۰ء
۷؎ بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک و قول اﷲ عزوجل
و علی الثلاثۃ الذین خلفوا