• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 24

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 24



1
اس سال احمدیت کی ترقی کے لئے دنیا میں اہم تغیرات ہونے والے ہیں
(فرمودہ یکم جنوری 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’خداتعالیٰ کی حکمت کے ماتحت اس دفعہ حج بھی جمعہ کو ہؤا۔ ہمارا جلسہ سالانہ بھی جمعہ کو شروع ہؤا۔ اور آج نیا سال بھی جمعہ کے دن شروع ہو رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش بھی جمعہ کے دن کی ہے۔ جمعہ کا دن ساتواں دن ہے اور سورۂ فاتحہ میں غَيْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ 1بھی ساتویں آیت ہے جس میں آخری زمانہ کے مفاسد کے دور ہونے کے لئے دعا سکھائی گئی ہے۔ سو اس سال جمعہ کے ساتھ تعلق رکھنے والی کئی مناسبتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ اور ان کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان چار مناسبتوں کو اس پانچویں مناسبت کے ظہور کے لئے جمع کیا ہے جس کی طرف غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ آسمانی تغیرات جب بھی ظاہر ہؤا کرتے ہیں اچانک ظاہر ہؤا کرتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ جب کبھی بھی آسمانی تغیرات پیدا ہوئے ہیں دنیا آخر دم تک یہی کہتی رہی ہے کہ اس کے ظہور کے کوئی سامان نظر نہیں آتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اب مذہب کے طور پر عیسائیت مٹا دی جائے گی اور عیسائی قومیں زیادہ تر اسلام کو قبول کر لیں گی مگر آج تک آپ کے مخالف بالعموم اور مولوی ثناء اللہ صاحب بالخصوص ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ اس کے کوئی آثار نظر نہیں آتے بلکہ عیسائیت پہلے سے زیادہ ترقی پر نظر آتی ہے۔
مسلمانوں کا نوتعلیم یافتہ گروہ جو مولویوں کا متبع نہیں اور جس کی نگاہ مذہب پر نہیں بلکہ جو سیاسیات کو دیکھنے والا ہے وہ بھی یہی کہہ رہا ہے کہ سیاسی طور پر جماعت احمدیہ نے دنیا یا مسلمانوں کی ترقی کے لئے کیا کِیا ہے کہ یہ سمجھا جا سکے کہ مستقبل اس جماعت کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن پہلے زمانوں میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ رسول کریم ﷺ کی ہجرت کے زمانہ میں کون شخص تھا جو یہ یقین رکھتا تھا کہ مکہ میں رہنے والے چند ایک غریب لوگ تھوڑے ہی عرصہ میں سارے عرب پر چھا جانے والے ہیں۔ لیکن ہجرت کے معاً بعد یعنی دوسرے ہی سال مکہ کے وہ رؤساء جو اسلام کی ہستی کو مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے اور جو غریب مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم و ستم کرتے تھے بدر کے میدان میں اس طرح ذبح کر دئیے گئے جس طرح باؤلے کتے گاؤں کی گلیوں میں مروا دئیے جاتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں طوفان آیا مگر طوفان آنے سے قبل آخری وقت تک آپ کی قوم ہنستی رہی اور یہی کہتی رہی کہ ہاں ہم غرق ہو جائیں گے اور تم بچ جاؤ گے۔ اگر ہم غرق ہو گئے تو وہ جگہ کہاں ہے جہاں تم بھاگ جاؤ گے لیکن سالہاسال کی ہنسی کے بعد جسے بائبل نے شاعرانہ رنگ میں سینکڑوں سال یعنی چھ سو سال کا زمانہ کہا ہے یکدم طوفان آیا اور وہ لوگ غرق ہو گئے جو آپ پر ہنسی کیا کرتے تھے اور آپ کی کشتی پہاڑ کی چوٹی پر جا ٹھہری۔
قرآن کریم اور بائبل دونوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر سے بھاگے تو آخر وقت تک ان کی قوم کے لوگ بھی یہ نہیں سمجھتے تھے کہ ہماری نجات کا وقت آ گیا ہے اور فرعون نے بھی کہا کہ یہ تھوڑے سے لوگ ہیں فوراً فوجیں جمع کرو ۔ یہ ہم سے بھاگ کر کہاں جا سکتے ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے لوگوں کو فرعون کا لشکر نظر آیا تو انہوں نے کہااِنَّا لَمُدْرَكُوْنَ 2 ۔ہم ضرور پکڑے جائیں گے۔ لیکن وہی لوگ جو آدھ گھنٹہ پہلے یہ سمجھتے تھے کہ ہم اب فرعون کے ہاتھ سے بچ نہیں سکتے آدھ گھنٹہ بعد انہوں نے دیکھا کہ بادشاہ کے وہ وزراء اور فوجیں جن پر اس کی شوکت کا مدار تھا غوطے کھاتے ہوئے سمندر کی تہہ میں جا رہے تھے۔
آج مخالف کہتے ہیں کہ محمد ﷺ کے زمانہ میں حالات ہی ایسے تھے کہ آپ کا غالب آنا یقینی تھا مگر ہم کہتے ہیں کم بختو! آج تیرہ سو سال بعد تمہیں وہ حالات نظر آتے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کا غالب آنا لازمی تھا مگر ان لوگوں کو وہ حالات کیوں نہ نظر آتے تھے جن کے ساتھ وہ حالات گزر رہے تھے۔ اسی طرح آج جہاں مولوی یہ کہہ رہے ہیں کہ مذہباً عیسائیت ابھی غالب ہے وہاں سیاستدان یہ کہہ رہے ہیں کہ احمدیت نے دنیا کے تغیرات کے لئے کیا کِیا ہے؟ لیکن وقت آئے گا کہ جب لوگ کہیں گے کہ اس زمانے کے حالات ہی ایسے تھے کہ احمدیت کا غالب آ جانا لازمی تھا۔ اُس زمانہ میں سیاسی تغیرات ایسے ہو رہے تھے ، تمدنی حالات ایسے تھے کہ احمدیت جیت جاتی۔ مذہبی خرابی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ اس کا ردعمل احمدیت کی تائید میں ہونا ضروری تھا۔ مگر وہ حالات آج کہاں ہیں۔ اگر کوئی حالات ایسے ہیں تو دشمن کو چاہیئے کہ اب ان کا اعلان کرے۔ اب تو سب یہی کہتے ہیں کہ حالات ایسے نہیں ہیں کہ احمدیت جیت سکے۔ اس کے غلبہ کے کوئی آثار نظر نہیں آتے اور واقعہ بھی یہی ہے۔ حالات بظاہر ایسے نہیں ہیں کہ احمدیت غالب آ سکے۔ دن بدن مخالفت بڑھتی جاتی ہے ۔ ہماری مخالفت ادنیٰ طبقہ سے اٹھی اور آہستہ آہستہ بڑے بڑے لوگوں تک جا پہنچی۔ پہلے صرف مذہبی مخالفت تھی مگر اب اقتصادی اور سیاسی مخالفت بھی شروع ہو چکی ہے۔ پہلے صرف رعایا تک محدود تھی مگر اب بادشاہ بھی مخالف ہو چکے ہیں اور مخالفت پہلے سے بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ ترقی کی طرف ہمارا قدم اتنا نہیں اٹھتا جتنی مخالفت میں ترقی ہو رہی ہے۔ اور حالات ایسے ہیں کہ ہر شخص یہی سمجھ رہا ہے کہ اس جماعت کے بانی کا اور جماعت کا یہ دعویٰ کہ احمدیت ترقی کر جائے گی ایک خام خیال ہے۔ لیکن وہ وقت ضرور آئے گا کہ دنیا کے تمام نظام تہ و بالا ہو جائیں گے اور مٹ جائیں گے اور ان کی جگہ احمدیت کا جھنڈا لہرائے گا اور اس وقت سب یہی کہیں گے کہ ایسا ہونا لازمی تھا۔ حالات ہی ایسے تھے کہ جن کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ نکل سکتا تھا۔
پس جمعہ کے دنوں کا یہ اجتماع بتا رہا ہے کہ احمدیت کی ترقی کی کوئی مخفی بنیاد 1943ء میں پڑنے والی ہے۔ اب کے حج بھی جمعہ کے روز تھا۔ ہمارا جلسہ سالانہ بھی جمعہ کے روز شروع ہؤا۔ اس سال کا پہلا دن بھی جمعہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش کا دن بھی جمعہ ہے۔ جمعہ ساتواں دن ہے اور سورۂ فاتحہ کی جس آیت میں عیسائیت کی تباہی کی خبر دی گئی ہے۔ وہ بھی ساتویں آیت ہے اور اس مبارک اجتماع سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سال احمدیت کی ترقی کے لئے دنیا میں اہم تغیرات ہونے والے ہیں۔ ممکن ہے یہ تغیرات ابھی بیج کی صورت میں ہوں مگر خداتعالیٰ کی قدرت کی انگلی اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ یہ سال احمدیت کی ترقی کے لئے تغیرات لے کر آ رہا ہے اور اس لئے مَیں جماعت کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس سال اپنی قربانیوں میں زیادتی کرے۔ تنظیم میں ترقی کرے اور اپنی اصلاح پر بہت زیادہ زور دے۔ اور 1943ء کو گزرنے نہ دے جب تک کہ احمدیت ہر لحاظ سے پہلے سے زیادہ مضبوط نہ ہو اور پہلے سے زیادہ ترقی نہ کر جائے۔ اور ہماری قربانیاں ان امور کی بنیاد نہ رکھ دیں جو اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہیں۔ 1943ء میں ہی تحریک جدید کا آخری سال شروع ہو گا اور دوستوں کو چاہیئے کہ اس میں بھی پہلے سے زیادہ جوش کے ساتھ حصہ لیں۔
پھر مَیں چاہتا ہوں کہ اس سال خاص طور پر تبلیغ پر زور دیا جائے اور ہر علاقہ کے لوگ اپنے اپنے ہاں تبلیغ کریں اور ہر ماہ رپورٹ بھجوائیں کہ انہوں نے کہاں کہاں تبلیغ کی ہے۔ اور کتنے لوگوں کو سلسلہ میں داخل کیا ہے۔ مَیں قادیان کے لوگوں کو بھی اور سلسلہ کے مرکزی صیغہ دعوۃ و تبلیغ کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ پہلے سے زیادہ سرگرمی کے ساتھ کام کریں۔ جو پہلے سستی سے کام لیتے رہے ہیں وہ چست ہو جائیں اور جو پہلے ہی چست ہیں وہ اور زیادہ چست ہو جائیں۔ اور یاد رکھیں کہ جب خداتعالیٰ کی تقدیر کی انگلی اٹھتی ہے تو جو بھی اس کے خلاف جاتا ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
پس ہر احمدی اپنی جدوجہد کو بڑھا دے اور ہر جگہ کے دوست تبلیغ پر خاص زور دیں۔ عام چندوں میں بھی اور تحریک جدید کے چندوں میں بھی زیادتی کریں تا کام میں روک نہ پیدا ہو اور ترقی کی طرف جلد قدم اٹھایا جا سکے۔
چونکہ میرا گلا خراب ہے اس کے علاوہ کھانسی اور پیچش کی بھی تکلیف ہے اس لئے اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ نیز اس لئے بھی خطبہ لمبا نہیں کرتا کہ بارش اور کیچڑ ہے۔ بعض مہمان جانے والے ہیں ان کو تکلیف نہ ہو۔‘‘ (الفضل 14 فروری 1943ء)

1 الفاتحة: 7
2 الشعراء:62


2
اسلام اور احمدیت کے غلبہ کا ظہور جلد ہونے والا ہے
(فرمودہ 8 جنوری 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مَیں پاؤں کے درد اور شدید کھانسی کی وجہ سے زیادہ تو نہیں بول سکتا لیکن مَیں مختصر طور پر دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ خطبہ میں جس مضمون کی طرف مَیں نے اشارہ کیا تھا اس کی ایک اور کَڑی آج پیدا ہو گئی ہے۔ اور وہ کڑی یہ ہے کہ گو مجھے پہلے سے اس کا علم تھا مگر پہلا علم قیاسی تھا اور ہو سکتا تھا کہ واقعات اس کے خلاف ہو جاتے۔ اس لئے مَیں نے اب تک اس کا ذکر نہیں کیا تھا۔ جلسہ سالانہ کے دنوں میں مَیں اپنے خطبہ میں یہ کہنے والا تھا کہ قمری سال بھی اس سال جمعہ سے شروع ہونے والا ہے لیکن چونکہ قمری سال یقینی نہیں ہوتا مہینہ 29 کا بھی ہو سکتا ہے اور 30 کا بھی ۔ اور اس فرق کی وجہ سے جمعہ کے ساتھ بھی اگلا سال شروع ہو سکتا تھا اور ہفتہ کے ساتھ بھی۔ اس وجہ سے مَیں نے اس کا ذکر نہیں کیا تھا۔ گو بعض دوستوں نے مجھے پہلے بھی اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے مگر آج جبکہ چاند نکل آیا ہے لوگوں نے دیکھ لیا ہے کہ یہ امر خداتعالیٰ کے فضل سے یقینی ہو گیا ہے کہ اس دفعہ قمری سال کی ابتدا بھی جمعہ سے ہو رہی ہے ۔ اب گویا چار جمعے خاص خاص ایسے ایام کے جو اپنی ذات میں بہت بڑی اہمیت رکھتے ہیں اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اس سال حج جمعہ کے دن ہؤا۔ اس سال ہمارا جلسۂ سالانہ جو حج کا ظل ہے باوجود اس کے کہ وہ جمعہ کے دن نہیں ہوناچاہیئے تھا جمعہ کے دن سے ہی شروع ہؤا۔ اور یہ بات ہمارے اختیار سے نہیں ہوئی کہ کوئی کہہ دے ہم نے جان بوجھ کر جلسہ کو جمعہ سے شروع کر دیا۔ بلکہ گورنمنٹ کے ایک فیصلہ کی رُو سے جس میں رخصتوں کو اس سال محدود کر دیا گیا تھا ہمیں جمعہ کے دن سے اپنا جلسہ شروع کرنا پڑا۔ پھر شمسی سال بھی اس دفعہ جمعہ سے شروع ہؤا اور آج قمری سال بھی جمعہ سے شروع ہو رہا ہے۔
پھر اس میں ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ بالکل ممکن تھاکہ قمری سال گو جمعہ سے ہی شروع ہوتا مگر کسی اور مہینہ سے شروع ہوتا اور شمسی سال بھی گو جمعہ سے شروع ہوتا مگر اس کا آغاز اور مہینہ سے ہوتا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس دفعہ قمری اور شمسی دونوں سالوں کو ایک ہی مہینہ سے شروع کیا ہے۔ یہ کوئی ضروری بات نہیں تھی کہ دونوں سال ایک ہی مہینہ سے شروع ہوتے ۔ہو سکتا تھا کہ گو قمری سال جمعہ کے دن سے شروع ہوتا مگر وہ مئی میں شروع ہوتا یا جون میں شروع ہوتا یا جولائی اور اگست میں شروع ہوتا لیکن اس سال کی خصوصیت یہ ہے کہ شمسی سال اور قمری سال قریباً قریباً برابر شروع ہو رہے ہیں۔ شمسی اور قمری سالوں میں دس گیارہ دن کا فرق ضرور ہوتا ہے۔ یعنی شمسی سال دس گیارہ دن بڑا ہوتا ہے اور قمری سال دس گیارہ دن چھوٹا ہوتا ہے۔ مگر اس دفعہ قمری سال ایسی تاریخ سے شروع ہؤا ہے کہ وہ شمسی سال کے اندر اندر ختم ہو جائے گا۔ اگر شمسی سال سے دو تین روز پہلے قمری سال کا آغاز ہو جاتا تو باوجود اس کے یہ قمری سال 19، 20 دسمبر کو ختم ہو جاتا۔ پھر بھی دو شمسی سالوں پر تقسیم ہو جاتا مگر اب جبکہ 8تاریخ سے شروع ہؤا ہے یہ سال 29،30دسمبر کو ختم ہو گا۔ اور اس شمسی سال کے اندر ہی شروع ہو کر اندر ہی ختم ہو جائے گا۔ اس کا کوئی حصہ شمسی سال کے باہر نہیں جائے گا۔ اس لئے یہ دونوں درحقیقت ایک سال ہی سمجھے جائیں گے۔ نہ صرف اس لحاظ سے کہ دونوں جمعہ کو شروع ہوئے بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ دونوں ایک وقت کے اندرشروع ہوئے اور ایک وقت کے اندر ہی ختم ہو جائیں گے۔ سوائے اس وقت کے فرق کے جو قمری اور شمسی سالوں میں ہوتا ہے۔ میں نے بتایا ہے کہ 10،11 دن کا فرق دونوں سالوں میں ہمیشہ پایا جاتا ہے۔ اس فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی سمجھا جائےگا کہ دونوں ایک وقت میں شروع ہوئے اور ایک وقت میں ہی ختم ہوں گے۔
پس اس سال کو نہ صرف یہ خصوصیت حاصل ہے کہ شمسی سال بھی جمعہ کے دن سے شروع ہؤا اور قمری سال بھی جمعہ کے دن سے شروع ہؤا ۔ بلکہ ایک زائد بات یہ بھی ہے کہ قمری اور شمسی دونوں سال ایک ہی زمانہ میں آ گئے ہیں۔ اور دونوں سالوں میں لگاتار کئی مہینوں کا جو فرق تھا وہ جاتا رہاہے۔ اور ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے۔ کم سے کم 33،34سال کے بعد ایک سال ایسا آتا ہے جس میں قمری اور شمسی دونوں سال اکٹھے شروع ہوتے اور قریباً اکٹھے ہی ختم ہوتے ہیں۔ مثلاً اس سے اگلا قمری سال ہی لے لو وہ دسمبر میں شروع ہو جائے گا اور پھر اگلے دسمبر کے ابتدائی ایام میں ختم ہو جائے گا اور دو سالوں پر مشتمل ہو گا۔
پس یہ بات کہ ایک ہی سال میں قمری اور شمسی دونوں سالوں کا آغاز ہو اور اسی سال کے اندراندر دونوں ختم ہو جائیں ایسا بہت ہی کم واقع ہوتا ہے۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے 33،34 سال کے بعد ایک سال ایسا آتا ہے۔ پس اس سال کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قمری اورشمسی دونوں سال اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اور دونوں کی ابتدا جمعہ سے ہوئی ہے۔ گویا اس طرح چار جمعے اکٹھے ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک پانچواں جمعہ بھی میں نے بتایا تھا اور وہ جمعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے۔ اور پھر آپ کی پیدائش کا دن بھی جمعہ ہی ہے۔ علاوہ ازیں یہ ساتواں ہزار سال ہے۔ اور ساتواں دن اسلامی اور مذہبی اصطلاح میں جمعہ کو کہتے ہیں۔ چنانچہ بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کرنے کا کا م جمعہ کو ختم کیا۔ ہفتہ پہلا دن ہوتا ہے۔ اتوار دوسرا، سوموار تیسرا، منگل چوتھا، بدھ پانچواں، جمعرات چھٹا اور جمعہ ساتواں ۔ پس یہ ساتواں ہزار سال ہے اور ساتویں ہزار سال کے موعود کی پیدائش جمعہ کو ہی ہوئی ہے۔ پھر اس دفعہ کا حج ساتویں دن کو ہوا۔ اس دفعہ کا جلسہ احمدیہ بھی ساتویں دن شروع ہؤا۔ اس سال کی ابتدا شمسی سال کے لحاظ سے بھی ساتویں دن کو ہوئی۔ اور اس دفعہ کے قمری سال کی ابتدا بھی ساتویں دن سے ہی ہو رہی ہے۔ پھر یہ دونوں شمسی اور قمری سال متوازی چل رہے ہیں۔ اور ایک دوسرے سے الگ نہیں۔ بلکہ ایک سال دوسرے سال کے اندر ہی ختم ہو جائے گا۔یہ ایک بہت بڑا اجتماع ہے نہایت مبارک ایام کا اور اس کو دیکھتے ہوئے ہم ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ یہ اجتماع کوئی معمولی اجتماع ہے۔
مَیں نے آج ایک رؤیا بھی دیکھا ہے جس کے متعلق مَیں سمجھتا ہوں وہ اسی سلسلہ میں ہے۔ چنانچہ میں اس کو بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں۔ مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ مَیں یکدم قادیان سے کسی سفر کے ارادہ سے چل پڑا ہوں۔ چند آدمی میرے ساتھ ہیں مگر ایسے نہیں جو سیکرٹری وغیرہ کے طور پر کام کرتے ہیں بلکہ ایسے لوگ ساتھ ہیں جو عام طور پر جب کسی سفر پر جانا ہو تو ساتھ نہیں ہوتے۔ میرا ارادہ کسی لمبے سفر کا معلوم ہوتا ہے مگر قادیان سے رخصت ہونا یاد نہیں۔ بس ارادہ کیا اور ارادہ کرتے ہی چل پڑے۔ کچھ دور جا کر ہم ایک جگہ ٹھہر گئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی اور ملک ہے ۔ اور جیسے راستہ میں پڑاؤ کیا جاتا ہے اسی طرح ہم نے بھی وہاں پڑاؤ کیا ہے۔ وہاں کسی کے مکان کے سامنے ایک چبوترہ سا بنا ہؤا ہے۔ وہ چبوترہ برابر ایک سا نہیں چلا جاتا بلکہ کچھ حصہ کم چوڑا ہے، کچھ اس سے کم چوڑا ہے اور کچھ حصہ زیادہ چوڑا ہے۔ عام طور پر جیسے شہروں میں لوگ بیٹھنے کے لئے چبوترے بنا لیتے ہیں اسی طرح وہ بھی ایک چبوترہ بنا ہؤا ہے مگر اس کا جو اگلا حصہ ہے وہ چوڑا کم ہے اور لمبا زیادہ ہے مگر اس کے پیچھے جو جگہ ہے وہ اگلے حصہ سے کچھ چوڑی ہے۔ اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولوی محمد ابراہیم صاحب جو بقاپوری کہلاتے ہیں وہاں جماعت میں بطور مبلغ کے کام کرتے ہیں۔ مَیں مولوی صاحب پر کسی قدر خفا ہوتا ہوں کہ آپ کی طبیعت میں عجیب لاابالی پن ہے کہ آپ جماعت کے دوستوں کو مجھ سے ملاتے نہیں اور میرے ساتھ ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ اس طرف آپ کی ذر ابھی توجہ نہیں کہ جماعت کے دوستوں کو مجھ سے ملائیں اور میری ان سے واقفیت پیدا کرائیں۔ انہی باتوں میں نماز کا وقت آ گیا اور میں وہاں نماز کے لے دو تین آدمیوں کو کھڑا دیکھتا ہوں۔ اس وقت میں ان سے کہتا ہوں کہ جماعت کے امیر کہاں ہیں، پریذیڈنٹ کہاں ہیں اور کیوں ایسی بے توجہی سے کام لیا گیا ہے کہ ان کو اس بات کا موقع ہی نہیں دیا گیا کہ وہ یہاں آئیں اور مجھ سے ملیں۔ مولوی صاحب اس کے جواب میں کہتے ہیں وہ اس وجہ سے خفا ہیں کہ مَیں اویس کی اولاد میں سے ہوں اور مجھے ملاقات میں مقدم نہیں کیا گیا۔ مَیں نے کہا وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ آپ کا فرض تھا کہ آپ مقامی آدمیوں کو ملاقات کا موقع سب سے پہلے دیتے۔ آپ تو ہمیشہ ملتے ہی رہتے ہیں۔ پھر مَیں نے انہیں کہا کہ آپ نے یہ ٹھیک نہیں کیا کہ انہیں ناراض کر دیا ہے۔ آپ ان کو بلوائیں تاکہ میں ان سے ملوں۔ چنانچہ مولوی صاحب نے ان کو بلایا ۔ جب وہ آئے تو میں نے دیکھا کہ ان کا لباس بالکل ایسا ہی ہے جیسے عربوں کا لباس ہوتا ہے اور سانولا سا رنگ ہے۔ خیر مَیں ان سے بڑے تپاک سے ملا ہوں اور ان سے باتیں کرتا ہوں تاکہ ان کی دلجوئی ہو جائے۔ اس کے بعد میری نظر تین چار اور دوستوں پر پڑی ان کا لباس بھی بالکل عربوں جیسا ہے۔ مَیں نے کہا مولوی صاحب مجھے ان سے بھی ملائیں۔ چنانچہ مولوی صاحب مجھے ان کے پاس لے گئے اور پھر بتانے لگے کہ یہ فلاں شہر کے ہیں، یہ فلاں شہرکے ہیں۔تین چار ہی آدمی ہیں اس سے زیادہ نہیں۔ اس کے بعد میں نے ایک اور نظارہ دیکھا اور درحقیقت اسی لئے مَیں نے تفصیل بیان کی تھی کہ اس چبوترے کے پیچھے جو جگہ ہے وہ اگلے حصہ سے نسبتاً چوڑی ہے اور جہاں ہم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہیں وہاں سے وہ چبوترہ خم کھا کر ایک طرف مڑتا ہے۔ (وہ چبوترے اس شکل کے ہیں)





جگہ جگہ اس کا پہلا خم ہے جس پر نقشہ میں نمبر 1 لکھا ہے وہاں سے دو تین فٹ جگہ چوڑی ہو گئی ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس دو تین فٹ جگہ کے کونے میں دو ننگے آدمی جو بہت ہی موٹے تازے ہیں اور ان کے جسم ایسے ہی ہیں جیسے پہلوانوں کے جسم ہوتے ہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے لنگوٹیاں کَسی ہوئی ہیں اور باقی تمام جسم ننگا ہے۔ اسی طرح انہوں نے سر مونڈا ہؤا ہے اور تالو کی جگہ انہوں نے عجیب قسم کے کناروں والے بال رکھے ہوئے ہیں جیسے تبتی وغیرہ لوگ ہوتے ہیں۔ اسی طرز کے وہ معلوم ہوتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا کہ وہ کنارہ کی طرف پیٹھ کر کے اور مُنہ دوسری طرف کر کے چھپے بیٹھے ہیں۔ مولوی صاحب سے کہتا ہوں کہ مولوی صاحب ان سے کیوں نہیں ملاتے۔ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ یہ جاپانی ہیں۔ مَیں حیران ہوتا ہوں کہ جاپانی ہی سہی مگر یہ چھپے کیوں بیٹھے ہیں۔ ان دونوں میں سے ایک لمبے قد کا آدمی ہے اور اس کا جسم نسبتاً پتلا ہے۔ یوں تو وہ بھی موٹا ہے مگر دوسرے کے مقابلہ میں پتلا معلوم ہوتا ہے اور دوسرا بہت ہی موٹا ہے اور اس کا جسم ایسا ہی ہے جیسے غلام پہلوان اور اسی طرح دوسرے بڑے پہلوانوں کے جسم بتائے جاتے ہیں۔ غرض مولوی صاحب مجھ سے کہتے ہیں کہ یہ جاپانی ہیں اور میں ان سے مذاقاً کہتا ہوں کہ کیا جاپانیوں سے مصافحہ کرنا منع ہے۔ چنانچہ اس کے بعد مَیں نے ان میں سے ایک کے سر پر اس کے بالوں والی جگہ پر ہاتھ رکھا اور اس نے بہت ہی شرماتے ہوئے اور لجاتے ہوئے جیسے کوئی سخت شرمسار ہوتا ہے میری طرف اپنا ہاتھ مصافحہ کے لئے بڑھایا اور مَیں نے اس سے مصافحہ کیا۔ پھر مَیں دوسرے جاپانی کو کہتا ہوں کہ تم بھی مصافحہ کر لو۔ وہ بھی اسی طرح سر چھپائے بیٹھا ہے۔ اس کا دوسرا ساتھی بھی اسے کہتا ہے کہ کر لو، کر لو۔ چنانچہ اس نے اسی طرح بیٹھے بیٹھے اپناہاتھ ٹیڑھا کر کے آگے کیا۔ مَیں خواب میں سمجھتا ہوں کہ شاید ان کے ہاں مصافحہ کا رواج نہیں اس لئے اسے معلوم نہیں کہ مصافحہ کس طرح کیا جاتا ہے۔ اس پر اس کا دوسرا ساتھی اسے کہتا ہے کہ اس طرح مصافحہ نہیں کیا کرتے اس طرح کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ اس نے اس کے ہاتھ کو مروڑا اور مَیں نے بھی اپنے ہاتھ کو چکر دے کر اس سے مصافحہ کیا۔ اس وقت مجھے ایسا معلوم ہؤا کہ گو اس کا مُنہ دوسری طرف ہے مگر وہ بھی چوری چوری کنکھیوں سے ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اس کے بعد مَیں وہاں سے نماز کی طرف آتا ہوں اور میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ اب میں انگلستان کی طرف جانے والا ہوں۔ چونکہ وہاں انگریزوں سے ملنا ہے اس لئے کم سے کم درد صاحب کو مَیں تار دے دوں کہ وہ رستہ میں ہی مجھے آ کر ملیں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
اس خواب میں بھی مختلف ممالک کے آدمیوں کو میں نے دیکھا ہے۔ عربوں کو دیکھا ہے، جاپانیوں کو دیکھا ہے۔ ان سے مصافحہ کیا ہے، ان کے حالات معلوم کئے ہیں۔ پھر اپنے آپ کو ایک سفر پر جاتے دیکھا ہے اور آخر میں انگلستان جانے کاا رادہ کیا ہے۔ یہ تمام امور تبلیغ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ممکن ہے جاپانیوں کی جو شرمندگی اور ندامت مجھے دکھا ئی گئی ہے اس کا مفہوم یہ ہو کہ ہمارے دو مبلغ جاپان میں رہے ہیں اور دونوں کے کام کے نتیجہ میں سوائے ایک شخص کے جو مشتبہ سا تھا اور کوئی احمدی نہیں ہؤا۔ گویا جاپانیوں نے مذہب کی طرف بالکل توجہ نہیں کی مگر اس رؤیا سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر اس قوم میں بھی ندامت پیدا ہو گی اور جب ان میں تبلیغ پر زور دیا جائے گا اور انہیں اسلام اور احمدیت کی طرف کھینچا جائے گا تو کچھ حصہ تو دلیری سے مصافحہ کر لےگا یعنی احمدیت کو قبول کر لے گا مگر کچھ حصہ اس شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے دیر لگائے گا۔
بہرحال اللہ تعالیٰ کی مشیت میں جو کچھ ہے اس کا کسی قدر اجمالی علم ان جمعوں کے اجتماع سے حاصل ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کے بعض نئے رستے کھلنے والے ہیں اور ہمیں ان رستوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے۔ یہ علم تو خداتعالیٰ کو ہی ہے کہ کب اور کس کس رنگ میں اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے رستے کھلیں گے۔ اس بات کو سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا۔ البتہ ایک اور مضمون ہے جس کو مَیں ابھی بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتا اور جس کی بناء پر مَیں سمجھتا ہوں کہ غالباً 1945ء اسلام اور احمدیت کے لئے کسی خاص ظہور کا سال ہو گا اور 1943ء اس ظہور کی بنیاد کا موقع ہو گا۔ لیکن ابھی مَیں اس مضمون پر غور کر کے صحیح طور پر نتائج اخذ نہیں کر سکا۔ اگر یہ نتیجہ صحیح نکل آیا تو تحریک جدید کا اختتام اس خاص ظہور والے سال سے اِنْشَاءَ اللہُ تَعَالٰی مل جائے گا۔ اب تحریک جدید کا نواں سال ہے۔ 1944ء تحریک جدید کا دسواں سال ہو گا اور 1945ء اس کا خاتمہ ہے جو ایسا ہی ہوگا جیسے رمضان کے بعد عید آتی ہے۔ پس مَیں سمجھتا ہوں کہ 1945ء اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک خاص سال ہو گا اور اس میں اسلام اور احمدیت کے غلبہ کا ظہور شروع ہو جائے گا۔ مگر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے مَیں ابھی قطعی طور پر اس نتیجہ پر نہیں پہنچا۔ اگر یہ نتیجہ نکل آیا اور بعض اَور امور جو میرے ذہن میں ہیں ان کو سامنے رکھ کر اور آپس میں ان کا مقابلہ کر کے یہی نتیجہ نکلا تو پھر یہ ایک اور شہادت اس بات کی مہیا ہو جائے گی کہ 1945ء ہمارے سلسلہ کے لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے اور اگر یہ نتائج صحیح نکل آئے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض پیشگوئیاں جو ابھی تک نہیں سمجھی جا سکیں ان کا حل بھی نکل آئے گا۔ مگر ابھی ہم یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ہم اس وقت جو کچھ کر سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں کہ اس نئے سال میں جو بھی ظہور ہونے والا ہے۔ چاہے ظہور ہونے والا ہو یا اس کی بنیاد رکھی جانے والی ہو اللہ تعالیٰ اس بنیاد میں ہمارا بھی حصہ رکھے اور ہمیں اس ظہور کی برکات سے محروم نہ کرے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی حقیر اور ناتوان خدمت کے ساتھ اس بنیاد میں ایسا حصہ لینے والے ہوں جو ہماری یاد کو ہمیشہ کے لئے خداتعالیٰ کے دفتر میں قائم رکھے۔ اٰمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔‘‘
(الفضل7 فروری 1943ء)

3
کمیّت اور کیفیّت دونوں لحاظ سے ترقی ضروری ہے
(فرمودہ 15 جنوری 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ کسی جماعت کی ترقی کے لئے دو قسم کی ترقیات ضروری ہوتی ہیں۔ ایک تو اس کی کمیّت کی ترقی یعنی ایک سوال اس کی تعداد بڑھانے کا ہوتا ہے کیونکہ اگر کسی اچھی سے اچھی قوم کی تعداد نہ بڑھے تو اس کی برکات و فوائد سے دنیا فائدہ نہیں اٹھاسکتی۔ دوسری ترقی کیفیت کی ترقی ہوتی ہے۔ تعداد خواہ کتنی زیادہ ہو اگر اس قوم کی حالت اچھی نہ ہو تو اس کا بڑھنا بھی خرابی ہی کا موجب ہوتا ہے۔ دنیا کے لئے آرام و فائدہ کا موجب نہیں ہو سکتا۔ خالی پڑی ہوئی زمینوں میں بعض اوقات آک اُگ آتے ہیں اور ان کے بیج پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ بظاہر وہ ایک کھیتی ہے جو بڑھتی جاتی ہے مگر اس کا اتنا بھاری نقصان ہوتا ہے کہ وہ ملک جس میں آک پیدا ہو جائیں بعض اوقات صدیوں تک قحط کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ آک کو مار دینا اور اس کی جڑوں کو زمین سے نکال دینا آسان کام نہیں ہوتا۔ پس بظاہر گویہ ایک زیادتی ہوتی ہے مگر فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک کمی ہے۔ انسانی جسم کتنا قیمتی سمجھا جاتا ہے لیکن اگر کسی کے جسم میں پانچ کی بجائے چھ انگلیاں پیدا ہو جائیں تو وہ خوش نہیں ہوتا کہ میری چھ انگلیاں ہیں بلکہ اسے ایک عیب سمجھتا اور اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب کسی کے ماتھے پر یا سینے پر یا پیٹ پر یا رانوں پر یا ہاتھ پر رسَولی نکل آئے تو وہ اس پر خوش نہیں ہوتا کہ میرے گوشت میں زیادتی ہو گئی بلکہ اسے نکلوانے پر سینکڑوں ہزاروں روپیہ خرچ کر دیتا ہے کیونکہ یہ زائد گوشت مفید نہیں بلکہ مضر ہوتا ہے۔ اس طرح جب کسی کی ہڈیوں میں خم پیدا ہو جائے ، وہ بڑھ جائیں اور انسان کُبڑا ہو جائے تو وہ اس پر خوش نہیں ہوتا کہ میرا حجم بڑھ گیا بلکہ ہڈیوں کے خم اور ان کی زیادتی کو دور کرنا چاہتا ہے۔ تو بڑھنا ہر حالت میں اچھا نہیں ہوتا۔ اس وقت بڑھنا اچھا ہوتا ہے جب بڑھوتی انسان کے اپنے لئے اور دوسروں کے لئے مفید ہو رہی ہو۔ اگر وہ بڑھوتی اس کے لئے اور اس کے ہم جنسوں کے لئے مفید نہیں تو وہ خود بھی اور اس کے ہم جنس بھی یہی کوشش کریں گے کہ اسے روک دیں۔
جن جماعتوں کی زیادتی دنیا کے لئے مفید ہو اللہ تعالیٰ بھی ان کی بڑھوتی پر خوش ہوتا ہے اور بنی نوع انسان بھی ان کے بڑھنے کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ صحابہؓ نے جس وقت رومی حکومت کے ساتھ مقابلہ کیا اور بڑھتے بڑھتے یروشلم پر جو عیسائیوں کی مذہبی جگہ ہے قابض ہو گئے اور پھر اس سے بھی آگے بڑھنا شروع ہوئے تو عیسائیوں نے یہ دیکھ کر کہ ان کا مذہبی مرکز مسلمانوں کے ہاتھ آ گیا ہےان کو وہاں سے نکالنے کے لئے آخری جدوجہد کا ارادہ کیا اور چاروں طرف مذہبی جہادکا اعلان کر کے عیسائیوں میں ایک جوش پیدا کر دیا گیا۔ اور بڑی بھاری فوجیں جمع کر کے اسلامی لشکر پر حملہ کی تیاری کی۔ ان کے اس شدید حملہ کو دیکھ کر مسلمانوں نے جو ان کے مقابلہ میں نہایت قلیل تعداد میں تھے عارضی طور پر پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا اور اسلامی سپہ سالار نے حضرت عمرؓ کو لکھا کہ دشمن اتنی کثیر تعداد میں ہے اور ہماری تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ اس کا مقابلہ کرنا اس لشکر کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس لئے آپ اگر اجازت دیں تو جنگی صف بندی کو سیدھا کرنے اور محاذ جنگ کو چھوٹا کرنے کے لئے اسلامی لشکر پیچھے ہٹ جائے تا تمام جمعیت کو یکجا کر کے مقابلہ کیا جا سکے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ ہم نے ان علاقوں سے جو فتح کر رکھے ہیں لوگوں سے ٹیکس بھی وصول کیا ہوا ہے۔ اگر آپ ان علاقوں کو چھوڑنے کی اجازت دیں تو یہ بتائیں کہ اس ٹیکس کے متعلق کیا حکم ہے۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ محاذ کو چھوٹا کرنے اور اسلامی طاقت کو یکجا کرنے کے لئے پیچھے ہٹنا اسلامی تعلیم کے خلاف نہیں لیکن یہ یاد رکھو کہ ان علاقوں کے لوگوں سے ٹیکس اس شرط پر وصول کیا گیا تھا کہ اسلامی لشکر ان کی حفاظت کرے گا اور جب اسلامی لشکر پیچھے ہٹے گا تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ ان علاقوں کی حفاظت نہیں کر سکے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ جس سے جو کچھ وصول کیا گیا ہے وہ اسے واپس کر دیا جائے۔ جب حضرت عمرؓ کا یہ حکم پہنچا تو اسلامی سپہ سالار نے ان علاقوں کے زمینداروں اور تاجروں اور دوسرے لوگوں کو بلا بلا کر ان سے وصول شدہ رقوم واپس کر دیں اور ان سے کہا کہ آپ لوگوں سے یہ رقوم اس شرط پر وصول کی گئی تھیں کہ اسلامی لشکر آپ لوگوں کی حفاظت کرے گا مگر اب جب کہ ہم دشمن کے مقابلہ میں اپنے آپ کو کمزور پاتے ہیں اور کچھ دیر کے لئے عارضی طور پر پیچھے ہٹ رہے ہیں اور اس وجہ سے آپ لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکتے ان رقوم کو اپنے پاس رکھنا درست نہیں۔ یہ ایسا نمونہ تھا کہ جو دنیا کی تاریخ میں اور کسی بادشاہت نے نہیں دکھایا۔ بادشاہ جب کسی علاقے سے ہٹتے ہیں تو بجائے وصول کردہ ٹیکس وغیرہ واپس کرنے کے ان علاقوں کو اور بھی لوٹتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب تو یہ علاقے دوسرے کے ہاتھ میں جانے والے ہیں ہم یہاں سے جتنا زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اٹھا لیں ۔ پھر چونکہ انہوں نے وہاں رہنا نہیں ہوتا اس لئے بدنامی کا بھی کوئی خوف ان کو نہیں ہوتا اور اگر کوئی اعلیٰ درجہ کی منظم حکومت ہو تو وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرتی ہے کہ خاموشی سے فوجوں کو پیچھے ہٹا دیتی ہے اور زیادہ لوٹ مار نہیں کرنے دیتی۔ لیکن اسلامی لشکر نے جو نمونہ دکھایا جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے صرف حضرت عمؓر کے زمانہ میں ہی نظر آتا ہے۔ بلکہ افسوس ہے کہ بعد کے زمانہ کو بھی اگر شامل کر لیا جائے تو اس کی کوئی اور مثال دنیا میں نہیں ملتی کہ کسی فاتح نے کوئی علاقہ چھوڑا ہو تو اس علاقہ کے لوگوں سے وصول کردہ ٹیکس اور جزیے اور مالیے واپس کر دیے ہوں۔ اس کا عیسائیوں پر اتنا اثر ہؤا کہ باوجودیکہ ان کی ہم مذہب فوجیں آگے بڑھ رہی تھیں ، حملہ آور ان کی اپنی قوم کے جرنیلوں ، کرنیلوں اور افسروں پر مشتمل تھے اور سپاہی ان کے بھائی بند تھے اور باوجود اس کے کہ اس جنگ کو عیسائیوں کے لئے مذہبی جنگ بنا دیا گیا تھا اور باوجود اس کے کہ عیسائیوں کا مذہبی مرکز جو ان کے قبضہ سے نکل کر مسلمانوں کے ہاتھ میں جا چکا تھا اب اس کی آزادی کے خواب دیکھے جا رہے تھے۔ عیسائی مرد اور عورتیں گھروں سے باہر نکل نکل کر روتے اور دعائیں کرتے تھے کہ مسلمان پھر واپس آئیں۔1 یہ وہ حکومت تھی جس کے لئے لوگوں کے دلوں سے دعائیں نکلتی تھیں۔ آسمان کے فرشتوں نے بھی کہا کہ ان لوگوں کو لمبی حکومت کرنے کا موقع دیا جائے۔ یہ حکومت تو صرف تیس سال تک ہی رہی جو اسلامی اصول کے مطابق قائم تھی مگر اس کی جڑیں اتنی مضبوط تھیں کہ بڑے بڑے ظالم بادشاہوں نے بھی اس کی جڑیں اکھیڑنے کا کام ایک ہزار سال میں کیا اور اتنے طویل عرصہ کے بعد اس کا خاتمہ کر سکے ۔ دنیا میں بہت کم کسی قوم نے اتنی لمبی حکومت کی ہے جتنی مسلمانوں نے کی۔ عیسائی حکومتوں کا زور اٹھارہویں صدی کے آخر میں شروع ہوا ہے مگر ابھی ان پر ڈیڑھ پونے دو سو سال کا عرصہ ہی گزرا ہے کہ وہ لڑکھڑا رہی ہیں مگر مسلمانوں نے قریباً ایک ہزار سال تک نہایت شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی ہے۔ اور یہ اثر اس تیس سالہ اسلامی حکومت کا تھا ۔ بعد میں گو مسلمانوں میں بھی بعض ظالم اور جابر بادشاہ ہوئے مگر نیکی کی جڑیں قائم رہیں اور ان سے نیک پودے بھی پیدا ہوتے رہے۔ جس طرح بعض درخت گو کٹ جاتے ہیں مگر ان کی جڑوں سے نئی روئیدگی پیداہوتی رہتی ہے۔ اس روئیدگی میں سے صدیوں بعد ایک بادشاہ پیدا ہؤا جس کا ذکر عیسائی مؤرخ گبن نے کیا ہے وہ عیسائی مؤرخوں میں سے نسبتاً کم متعصب مؤرخ ہے اور عیسائیت کا بڑا مؤرخ مانا جاتا ہے۔ اس نے رومی حکومت کی ترقی اور تنزل پر ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ ایک اسلامی بادشاہ ملک ارسلان کا ایک واقعہ بیان کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ وہ 18، 19 سال کی عمر کا ایک نوجوان شہزادہ تھا جب اس کا باپ فوت ہؤا وہ ولی عہد تھا مگر چھوٹی عمر کا تھا۔ اس لئے کئی لوگوں نے بغاوت کر کے ملک کو تقسیم کرنا چاہا۔ اس کا چچا بھی صاحب اثر ورسوخ تھا۔ اس نے الگ بادشاہی کا دعویٰ کر دیا اور بہت سے لوگ اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ ایک اس کا سوتیلا بھائی تھا جس کے ماموں بہت طاقتور تھے وہ اسے بادشاہ بنانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنے اس بھانجے کے نام پر بغاوت کر دی۔ ادھر سے اس نے بھی کچھ فوجیں جمع کیں ۔ گویا تین فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے پر تھیں۔ جس دن جنگ ہونے والی تھی اس نوجوان کے وزیر نے جو شیعہ تھا اور جس کا نام نظام الدین طوسی تھا اس سے کہا کہ آپ کے چچا کی طاقت بہت بڑی ہے اور آپ کے بھائی کے ماموں بھی بہت طاقتور ہیں اور انہوں نے بھی بڑی فوج جمع کر لی ہے اور وقت ایسا نازک ہے کہ ظاہری تدابیر سب ہیچ نظر آتی ہیں۔ اس وقت علاوہ فوجی طاقت کے آسمان کی مدد بھی آپ کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس لئے آپ میرے ساتھ حضرت موسیٰ رضا کی قبر پر چل کر دعا کریں کہ ان کے طفیل اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے۔ اس کی غرض اس سے یہ تھی کہ اس کے دل پر شیعیت کا اثر ڈالوں۔ گبن کہتا ہے کہ مسلمان بے شک کافر ہیں اور بڑی وحشی قوم ہے مگر اس واقعہ کو دیکھ کر شرم کے مارے میرا سر ندامت کے مارے جھک جاتا ہے کہ جو عدل وانصاف کا نمونہ اس قوم سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے دکھایا ہماری قوم کے کسی بوڑھے بادشاہ کی زندگی میں بھی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کا وزیر اسے موسیٰ رضا کی قبر پر لے گیا اور وہ دونوں وہاں جا کر خداتعالیٰ کے حضور سجد ہ میں گر گئے اور خداتعالیٰ سے دعا مانگنی شروع کی۔ دونوں نے اپنے اپنے رنگ میں دعا کی اور دعا کے بعد جب کھڑے ہوئے اور آنسو پونچھے تو اس نوجوان شہزادہ نے وزیر سے سوال کیا کہ تم نے کیا دعا مانگی۔ اس نے کہا میں نے یہ دعا مانگی ہے کہ اے خدا تو جانتا ہے کہ یہ شہزادہ تخت و تاج کا حقدار ہے، ولی عہد ہے ، اس کا باپ مر گیا ہے اور لوگوں نے اس کے خلاف بغاوت کر دی ہے تو اسی بزرگ کے طفیل اس پر رحم کر۔ یہ سن کر اس نوجوان شہزادے نے کہا کہ میں نے تو یہ دعا نہیں مانگی۔ وزیر نے عرض کیا کہ پھر آپ نے کیا دعا مانگی ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے تو یہ دعا مانگی ہے کہ اے خدا مجھے معلوم نہیں کل کو مَیں ملک و وطن کے لئے کیسا ثابت ہوں۔ ممکن ہے ظالم ثابت ہوں اور ممکن ہے میری ذات سے ملک کو اور اسلام کو کوئی صدمہ پہنچے اور ممکن ہے میرے چچا یا بھائی کے ہاتھوں سے ملک کو اور اسلام کو کوئی فائدہ پہنچے۔ اس لئے کل کی جنگ میں تُو اسے فتح دیجیو جس کے ہاتھ سے ملک اور اسلام کو فائدہ پہنچنے والا ہو۔ یہ وہ لوگ تھے جن کو اس تیس سالہ دور عدل و انصاف کی جڑوں سے پھوٹنے والی نئی کونپلیں کہا جا سکتا ہے اور جن کی وجہ سے مسلمانوں کو اتنی لمبی حکومت کا موقع ملا۔ آج اسلام کی ترقی کے لے ہم جتنی کیفیت میں ترقی کریں گے تقویٰ ، نیکی، دیانتداری راستبازی اور عدل و انصاف میں ترقی کریں گے اتنی ہی دنیا کی دعائیں ہمارے حق میں بڑھتی جائیں گی اور خداتعالیٰ کے عرش سے فضل کو ہمارے لئے کھینچیں گی۔ لیکن اگر یہ دعائیں ہمارے لئے نہ ہوں گی تو نہ زمین سے ہماری ترقی کے سامان ہوں گے نہ آسمان سے۔
دوسری طرف کمیّت میں ترقی بھی ضروری ہے۔ اگر ہم تعداد میں ترقی نہ کریں تو بھی دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ آنحضرت ﷺ کتنے عظیم الشان انسان تھے لیکن اگر آپ غارِ حرا ہی میں ساری عمر دعائیں کرتے کرتے فوت ہو جاتے تو آپ کی جڑوں سے ابوبکر، عمر، عثمان، علی اور طلحہ، زبیر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ جیسے لوگ کبھی نہ پیدا ہو سکتے اور اس صورت میں دنیا آپ کی برکات سے کس طرح حصہ لے سکتی۔ آپؐ کی ذات میں بے شمار خوبیاں تھیں۔ مگر آپ کی مثال ایک جڑکی تھی اور اس جڑ کے خوشبودار پھول ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وغیرہ تھے۔ اگر اس جڑ سے یہ خوشبودار پھول پیدا نہ ہوتے تو دنیا اس سے زیادہ فائدہ نہ اٹھا سکتی۔ آم کتنا اچھا پھل ہے لیکن اگر دنیا میں ایک ہی آم ہوتا تو دنیا اس سے کیا فائدہ اٹھا سکتی۔ مشک اور عنبر وغیرہ کتنی مفید چیزیں ہیں لیکن اگر دنیا میں ایک دو ہرن ہی ایسے ہوتے جن سے مشک حاصل ہو سکتا یا ایک دو مچھلیاں ہوتیں جن سے عنبر حاصل ہوتا تو سوائے ایک دو بڑے بڑے بادشاہوں کے کوئی اس سے فائدہ نہ اٹھا سکتا۔ جب تک کوئی مفید اور اچھی چیز عام لوگوں کو میسر نہ آ سکے اس کی اچھائی کسی کام کی نہیں۔ گندم، چاول اور گوشت کتنی اچھی چیزیں ہیں لیکن اگر دنیا میں صرف دو چار ہی بکرے ہوتے، اگر دوچار من ہی گندم یا چاول دنیا میں ہوتے تو لوگ ان سے کیا فائدہ اٹھا سکتے۔ ان کی کثرت ہی ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر کثرت نہ ہوتی تو خوبی اندر ہی اندر مر جاتی۔ اسی طرح جب تک کسی جماعت کی تعداد نہیں بڑھتی وہ دنیا کو نفع نہیں پہنچا سکتی۔ دنیا کو نفع پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ تعداد بڑھے ۔ قرآن کریم نے کلمہ کی مثال اس درخت سے دی ہے جس کی جڑیں زمین میں ہوں اور شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں اور لوگ اس کے سایہ میں آرام کر سکیں۔2 کیفیت کی مضبوطی جڑ پر دلالت کرتی ہے اور صرف جڑ کی مضبوطی کافی نہیں۔ عمدہ سے عمدہ درخت کا اوپر کا جھاڑ اگر کاٹ دیا جائے تو دنیا اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ اسی طرح کسی عمدہ سے عمدہ درخت کی جڑ اگر مضبوط نہ ہو تو وہ بھی دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ یہ دونوں چیزیں نہایت ضروری ہیں۔
پس ایک طرف ہماری جماعت کو نیکی ، تقویٰ، عبادت گزاری، دیانت ، راستی اور عدل و انصاف میں ایسی ترقی کرنی چاہیئے کہ نہ صرف اپنے بلکہ غیر بھی اس کا اعتراف کریں۔ اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ کی تحریکات جاری کی ہیں۔ گو میں نہیں کہہ سکتا کہ ان میں کہاں تک کامیابی ہو گی۔ بہرحال یہی ایک ذریعہ مجھے نظر آیا جو میں نے اختیار کیا اور ان سب کا یہ کام ہے کہ نہ صرف اپنی ذات میں نیکی قائم کریں بلکہ دوسروں میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اور جب تک حتمی طور پر جبروظلم تعدی، بددیانتی، جھوٹ وغیرہ کو نہ مٹا دیا جائے اور جب تک ہر امیر غریب اور چھوٹا بڑا اس ذمہ داری کو محسوس نہ کرے کہ اس کا کام صرف یہی نہیں کہ خود عدل و انصاف قائم کرے بلکہ یہ بھی کہ دوسروں سے بھی کرائے، خواہ وہ افسر ہی کیوں نہ ہو، ہماری جماعت اپنوں اور دوسروں کے سامنے اچھا نمونہ قائم نہیں کر سکتی۔ اسی طرح اگر جماعت تعداد کے لحاظ سے بھی ترقی نہ کرے تو دنیا فوائد حاصل نہیں کر سکتی۔ وہ بادل جو صرف ایک گاؤں پر برس جائے اتنا مفید نہیں ہو سکتا ۔ اگر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا بادل قادیان یا زیادہ سے زیادہ چند بستیوں پر برس جائے اور چند کھیت ہی اس سے فائدہ اٹھائیں تو یہ امر یاد رکھے جانے کے قابل نہیں ہو گا لیکن اگر وہ دنیا کے تمام ممالک پر اپنی بارانِ رحمت کے چھینٹے برسا کر شاداب کر دے تو دنیا اس کے نام کو عزت اور احترام سے یاد رکھے گی۔ پس ہمارا سب سے اہم فرض یہ ہے کہ اس پیغام کو جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ذریعہ نازل ہؤا دنیا کے کناروں تک پہنچائیں۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارا محکمہ تبلیغ بھی اس کام کی اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھتا۔ اس کا زور اتنا ہی ہے جتنا تین چار گاؤں کی پنچائت کا ہوتا ہے۔ نہ محکمہ تبلیغ میں وہ جوش ہے ، نہ مبلغوں میں اور نہ جماعتوں میں۔ ابھی چند لوگوں کو جماعت میں داخل کر کے ہم خوش ہو جاتے ہیں۔ میں نے الفضل میں پڑھا کہ پیغامیوں کے ساتھ سارے سال میں صرف دو سو اشخاص شامل ہوئے ہیں اور ہماری جماعت میں دو ہزار ۔ مگر کیا کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ سال میں دو ہزار کے معنے ہیں ایک صدی میں دو لاکھ۔ ایک سو صدی یعنی دس ہزار سال میں دو کروڑ اور یہ بھی کوئی تعداد ہے۔ ہمارے لئے سال میں دو تین بلکہ چار ہزار احمدی بنانا تو افسوس کی بات ہونی چاہیے۔ جب تک جماعت کے ہر فرد کے اندر یہ آگ نہ ہو کہ اس نے ہر ایک اپنے قریب بلکہ بعید کے شخص کو بھی جماعت میں داخل کرنا ہے اور جب تک لوگ افواج در افواج احمدیت میں داخل نہ ہوں ہماری حیثیت محفوظ نہیں ہو سکتی اور ذمہ دار ی ختم نہیں ہو سکتی۔
پس میں ان دونوں امور کی طرف پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں۔ ہر ضلع میں ہمارے جلسے ہونے چاہئیں۔ متواتر انفرادی تبلیغ بھی نہایت ضروری ہے مگر تجربہ سے معلوم ہؤا ہے کہ جلسوں کے بغیر وہ جوش جماعت میں پیدا نہیں ہوتا جو انفرادی تبلیغ کے لئے ضروری ہے۔ پس کوشش کی جائے کہ کم سے کم ہر سال ہر تحصیل میں ہمارا جلسہ ضرور ہو۔ پھر اس کے ساتھ انفرادی تبلیغ کوبھی منظم کیا جائے خصوصیت سے اضلاع گورداسپور، سیالکوٹ اور گجرات میں۔ ان تینوں اضلاع کی طرف خصوصیت سے توجہ دی جائے۔ گوداسپور کے ضلع میں قادیان جو احمدیت کا مرکز ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قادیان میں پیدا کیا ، گجرات کا ضلع سب سے پہلے احمدیت میں آگے بڑھا۔ ایک وقت تھا جب گجرات کے احمدی سب سے زیادہ تھے اور سیالکوٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دوسرا وطن ہے۔ ان اضلاع کی آبادی کثرت سے اضلاع سرگودھا، منٹگمری، لائلپور اور ملتان کے اضلاع میں جا کر آباد ہوئی۔ اس لئے ان اضلاع کی طرف بھی زیادہ توجہ کرنی چاہیئے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ سالوں پر سال گزرتے چلے جاتے ہیں اور ان میں نہ کوئی جلسہ ہوتا ہے اور نہ تبلیغ۔ جو نہایت افسوسناک بات ہے۔ پس چاہئے کہ دوست سستی اور غفلت کو دور کریں۔ تین چار ماہ کے اندر اندر ہر تحصیل یا اپنے علاقہ کے مرکزِ احمدیت میں جلسہ کر کے غور کیا جائے کہ کس طرح اور کن ذرائع سے اس علاقہ میں تبلیغ کو وسیع کیا جا سکتا ہے۔ اگر دوست اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں تو ایک ہی سال میں ہر جگہ بیس تیس چالیس لوگ آسانی سے جماعت میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اور صرف پنجاب میں ہی چند ماہ میں بیس تیس ہزار احمدی ہو جاتے ہیں۔ گو یہ بھی بہت تھوڑی تعداد ہے لیکن اگر یہ سلسلہ شروع ہو جائے تو جوں جوں جماعت بڑھتی جائے گی ترقی میں مزید اضافہ ہوتا جائے۔ پھر دیگر اضلاع کی تحصیلوں کو بھی اس تجویز میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ (ایسے اضلاع پنجاب میں سولہ سترہ ہوں گے) ان کی ہر تحصیل یا اس علاقہ کے مرکز احمدیت میں جلسہ کیا جائے۔ اور ایسی سکیم بنائی جائے کہ ہر جماعت تبلیغ میں حصہ لے سکے۔ اور ایسی تدابیر لوگوں کو بتائی جائیں کہ وہ کس طرح اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو تبلیغ کر سکتے ہیں۔
مَیں تحریک جدید کے نوجوانوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں ۔ وہ اگرچہ خود تو فارغ نہیں ہیں اور تعلیم حاصل کر رہے ہیں مگر اس خیال کو دوسروں میں زندہ رکھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ وہ اپنے اپنے وطن میں خط و کتابت کے ذریعہ دوستوں اور رشتہ داروں کو تحریک کر سکتے ہیں کہ جلسے منعقد کریں اور تبلیغ میں پورے جوش سے حصہ لیں۔ خدام الاحمدیہ مبلغوں پر اور تبلیغ کے دفتر پر اس کام کے لئے زور دے سکتے ہیں اور نوجوانوں کے اندر یہ روح پیدا کر سکتے ہیں کہ وہ بیداری کی زندگی اختیار کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو اس کام کے لئے رستہ تیار کرنے والے ہوں گے جس پر وہ آئندہ زندگی میں چلنے والے ہیں۔‘‘
(الفضل 21 فروری 1943ء)
1 : فتوح البلدان از بلاذری صفحہ 144,143 مطبوعہ قاہرہ 1319ھ
2 : اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِي السَّمَآءِ تُؤْتِيْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِيْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَا۔ (ابراہیم: 26,25)


4
تمام جماعتیں 31 جنوری تک اپنے وعدوں کی لسٹیں مکمل کر کے یکم فروری کو وعدے پوسٹ کر دیں
(فرمودہ22 جنوری1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘مَیں نے تحریک جدید سالِ نہم کا اعلان کرتے ہوئے ہندوستان کے اُن علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی یا سمجھی جاتی ہے 31 جنوری آخری تاریخ مقرر کی تھی۔ جہاں تک اُن لوگوں کا تعلق ہے جو ہمیشہ اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں شامل ہونے کی کوشش کیا کرتے ہیں اس سال جماعت کے بہت سے حصہ نے جلسہ سالانہ سے پہلے ہی اپنے وعدے بھجوانے کی کوشش کی تھی اور گزشتہ سالوں کی نسبت جلسہ سالانہ تک وعدوں کی جو آمد تھی وہ پہلے سے بہت زیادہ تھی لیکن جلسہ سالانہ کے بعد جو لوگ باقی رہ گئے تھے اُن کے وعدوں کی آمد کی رفتار نہایت ہی سست ہو چکی ہے اور اب صرف نو دن وعدوں کی روانگی میں باقی رہ گئے ہیں۔ اِ س لے مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں خصوصاً کارکنوں کو کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنی اپنی جماعت کی لسٹوں کو جلد سے جلد مکمل کر کے بھجوا دیں۔
مجھے اطلاع ملی ہے کہ قریباً پانچ سو پچاس افراد اور چھیاسٹھ جماعتیں ایسی ہیں جن کے وعدے ابھی تک مرکز میں نہیں پہنچے۔ گو یہ جماعتیں بالعموم گاؤں کی ہیں جن کے چندے بہت کم ہوتے ہیں اور جن کے لئے لسٹوں کا فوری طور پر پُر کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ زمیندار آخری وقت تک اپنی آمد کا صحیح اندازہ لگانے کے انتظار میں رہتا ہے تاکہ اسے علم ہو سکے کہ وہ قربانی میں کتنا حصہ لے سکتا ہے۔ مگر بہرحال جو مدت اس غرض کے لئے مقرر ہے اس میں وعدوں کی لسٹوں کا آ جانا ضروری ہے۔ پس مَیں ان تمام جماعتوں کو جن کی طرف سے وعدوں کی لسٹیں ابھی تک نہیں پہنچیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ 31 جنوری تک اپنی لسٹیں مکمل کر کے یکم فروری کو وعدے پوسٹ کر دیں۔ اسی طرح جو افراد باقی رہ گئے ہیں وہ اور جنہوں نے اب تک تحریک جدید کے چندہ کے سلسلہ میں اپنا کوئی وعدہ نہیں لکھوایا ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اب وعدہ لکھوانے کی میعاد میں بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں۔ ممکن ہے اُن میں سے کسی نے اپنا وعدہ تو بھجوا دیا ہو مگر مرکز میں نہ پہنچا ہو۔ اس لئے وہ دیکھ لیں کہ انہیں وعدوں کی وصولی کی رسید پہنچ گئی ہے یا نہیں۔ اگر انہیں رسید نہ پہنچی ہو تو وہ دوبارہ اپنے وعدے بھجوا دیں تاکہ وہ دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔
اِس کے علاوہ جن جماعتوں نے شروع میں ہی اپنے وعدوں کی لسٹیں فوری طور پر مرتّب کر کے بھجوا دی تھیں اور جن کی جماعتوں کے سارے افراد اس میں حصہ لے چکے ہیں اُن کو بھی مَیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اُن لسٹوں پر دوبارہ نظر ڈال لیں اور جو دوست اس میں پہلے حصہ لے چکے ہیں مگر انہوں نے اپنی طاقت اور وسعت سے کم حصہ لیا ہے اُن کو دوبارہ تحریک کریں۔ اسی طرح اگر کوئی دوست رہ گیا ہو تو اسے بھی تحریک کریں اور اس طرح وہ بھی اپنی لسٹیں ہر لحاظ سے مکمل کر کے 31 جنوری تک مرکز میں پہنچا دیں۔
ان کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں ہماری جماعت میں ایسے لوگ ہیں جنہیں جنگ کی وجہ سے نئی ملازمتیں ملی ہیں یا اُن کے عہدوں میں ترقی ہوئی ہے جس حد تک لسٹیں یہاں آ چکی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اِس تحریک میں حصہ لیا ہے اُن میں سے ایک اچھی تعداد نے خداتعالیٰ کے فضل سے کوشش کی ہے کہ وہ اپنی زیادہ آمدنیوں کے مطابق چندہ لکھوائے مگر کچھ لوگ اب بھی ایسے ہیں جنہوں نے اپنی آمدنی کے مطابق چندے نہیں لکھوائے۔ اُن کو بھی مَیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے وعدے اپنی آمدنیوں کے مطابق کر لیں۔ مَیں نے اس کے متعلق کوئی حد بندی نہیں کی کیونکہ ہر شخص کی آمدن اُس کے حالات کے ماتحت مختلف ہوتی ہے۔ کسی شخص کی آمد تھوڑی ہوتی ہے مگر اُس کے اخراجات اُس تھوڑی آمد سے بھی بہت کم ہوتے ہیں۔ اور کسی شخص کی آمد بظاہر زیادہ ہوتی ہے مگر اس کے اخراجات اس آمد سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ پس ہم نہیں کہہ سکتے کہ کوئی شخص کس حد تک قربانی کر سکتا ہے۔ اس بارہ میں ہر شخص اپنے ایمان اور اپنے اخلاص کے مطابق خود ہی فیصلہ کر سکتا ہے اور اسی پر اس فیصلہ کا چھوڑ دینا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ پس مَیں ان تمام احمدیوں کو جن کی آمدن جنگ کی وجہ سے بڑھ گئی ہے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس تحریک میں اپنی اپنی آمدن کے مطابق حصہ لیں۔ ایسا نہ ہو کہ آمدن کی زیادتی کے باوجود وہ ثواب میں دوسروں سے پیچھے رہ جائیں۔ مثلاً آجکل تاجروں کا کام بڑھ جانے کی وجہ سے اُن کی آمدنیوں میں غیرمعمولی زیادتی ہو رہی ہے۔ سینکڑوں تاجر ہماری جماعت میں ایسے ہیں جن کی آمدنی آجکل کے حالات کی وجہ سے سینکروں سے اُٹھ کر ہزاروں تک پہنچ گئی ہے۔ پس وہ اگر اپنے گزشتہ سالوں کے چندہ کے مقابلہ میں زیادتی کریں تو وہ بہت تھوڑی ہو گی لیکن اگر اپنی گزشتہ اور موجودہ آمدنی کا مقابلہ کرتے ہوئے اُس نسبت سے چندے میں اضافہ کریں تو یہ اضافہ بالکل اور ہو گا۔ مَیں جانتا ہوں کہ ہماری جماعت میں خداتعالیٰ کے فضل سے ایسے مخلصین موجود ہیں جو اپنی ماہوار آمد سے بھی زیادہ چندہ تحریک جدید میں دے رہے ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہیں جن کی قربانی اُن کی ماہوار آمد سے دو دو تین تین گُنا زیادہ ہے اور وہ خوشی سے یہ قربانی کر رہے ہیں۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تاجروں میں بالعموم وہ اخلاص نہیں پایا جاتا جو ملازمت پیشہ لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ شاید اس لئے کہ ملازمت پیشہ لوگوں میں تعلیم زیادہ ہے۔ یا شاید اس لئے کہ ان کی مقررہ آمدنیاں ہوتی ہیں اور ان کے دلوں میں گھبراہٹ پیدا نہیں ہوتی کہ آج کیا ہو گا اور کل کیا ہو گا مگر بہرحال تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ملازمت پیشہ لوگ قربانی میں بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح زمیندار دوست بھی تاجر پیشہ لوگوں سے زیادہ قربانی کرتے ہیں۔ سب سے کم قربانی کرنے والی تاجر پیشہ لوگوں کی جماعت ہے۔ اُن میں سے بعض کی سالانہ آمد پچیس پچیس، تیس تیس، چالیس چالیس ہزار روپیہ ہے مگر اُن کا چندہ دیکھا جائے تو کسی کا پچاس روپیہ ہوتا ہے، کسی کا ساٹھ، کسی کا سو اَور کسی کا دو سو۔ گویا وہ اپنی ایک مہینہ کی آمد کا دسواں حصہ بلکہ بعض دفعہ پچاسواں حصہ خداتعالیٰ کی راہ میں دیتے ہیں۔ جو درحقیقت ان لوگوں کے چندے کی نسبت جو ملازم پیشہ ہیں قربانی کے لحاظ سے سواں حصہ ہوتا ہے یعنی ایک ملازم جس رغبت اور اخلاص اور محبت سے قربانی میں حصہ لیتا ہے تاجر اس کے مقابلہ میں خداتعالیٰ کے رجسٹر میں سواں بلکہ دوسواں حصہ لیتا ہے۔ بے شک ہماری جماعت میں ایسے تاجر بھی ہیں جو اپنی آمدنیوں کے مطابق بلکہ بعض دفعہ اپنی آمدنی سے بہت زیادہ قربانی کرتے ہیں مگر وہ مستثنیٰ ہیں۔ زیادہ تر ہماری جماعت میں ایسے ہی تاجر ہیں جو اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے اور توکل کی کمی کی وجہ سے وہ اِسی خیال میں رہتے ہیں کہ اگر آج خداتعالیٰ کی راہ میں کچھ دے دیاتو کَل کیا ہو گا۔ حالانکہ جو شخص خداتعالیٰ کے لئے قربانی کرتا ہے اُس کی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور اسے خداتعالیٰ دین اور دنیا دونوں میں بدلہ دے دیتا ہے۔ پس جو لوگ تاجر ہیں یا نئے ملازم ہوئے ہیں مگر اب تک انہوں نے اس تحریک میں حصہ نہیں لیا ان کو مَیں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اب دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں۔ تحریک جدید کا یہ دَور اب اپنے آخری مقام تک پہنچنے والا ہے۔ یہ نواں سال ہے۔ اگلا سال تحریک جدید کا دسواں اور آخری سال ہو گا۔ اس کے بعد یہ تحریک اپنی موجودہ شکل میں ختم ہو جائے گی اور ہم خداتعالیٰ سے کسی اور راستہ کے امیدوار ہوں گے جو قربانی اور اخلاص اور ایمان کا رستہ ہو گا۔ اور جس پر چل کر ہر مومن اپنے رب کی رضا حاصل کر سکے گا۔ مگر بہرحال اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس قسم کی تحریک صدیوں میں کوئی ایک تحریک ہی ہؤا کرتی ہے اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دَور ایک یادگارِ زمانہ دَور ہے جس کی تمام انبیاء و مرسلین نے حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر رسول کریم ﷺ تک خبر دی ہے اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آپ کے کام کو مضبوط کرنے اور اشاعت اسلام اور اشاعت احمدیت کی بنیادوں کو پختہ کرنے میں جو شخص حصہ لیتا ہے وہ اپنے آپ کو اس تاریخی دَور میں شامل کرتا ہے جو قیامت کے دن بہت سی جماعتوں پر جو آج نظر آ رہی ہیں ہماری جماعت کو زیادہ اہمیت دینے اور زیادہ عزت کا مستحق بنانے والا ہے۔ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اس تحریک میں حصہ لے اور اس طرح اسلام اور احمدیت کی جڑوں کو مضبوط کر دے۔
رسول کریمﷺ نے یونہی نہیں فرمایا کہ خداتعالیٰ نے یہودیوں سے ظُہر تک کام لیا اور انہیں ایک بدلہ دے دیا۔ اس کے بعد عیسائیوں سے عصر تک کام لیا اور انہیں ایک بدلہ دے دیا۔ پھر مسلمانوں سے شام تک کام لیا اور انہیں یہودیوں اور عیسائیوں دونوں سے زیادہ بدلہ دیا۔ اس پر یہودیوں اور عیسائیوں کے دل میں حسد پیدا ہؤا کہ انہوں نے کام تو تھوڑا کیامگر بدلہ زیادہ لیا۔1 حقیقت یہ ہے کہ زمانہ کی نزاکت کے لحاظ سے کام کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ یہودیوں نے بے شک کام کیا مگر اُن کے کام کا اثر بنی اسرائیل تک ہی جا سکتا تھا۔ اسی طرح عیسائیوں نے بے شک کام کیا مگر ان کے کام کا اثر بھی بنی اسرائیل تک ہی جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے اپنے مذہب کو غیرقوموں میں بھی پھیلایا مگر انہوں نے جو کچھ کیا اپنے مذہب کے خلاف کیا۔ اپنی مذہبی تعلیم کے مطابق وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے بعد محمدﷺ مبعوث ہوئے اور آپ کے سپرد اللہ تعالیٰ نے اشاعت دین کا کام کیا مگر ساتھ ہی کہا اب تمہارا کام کسی ایک قوم یا کسی ایک نسل کو خدتعالیٰ کے آستانہ پر جُھکانا نہیں بلکہ تمہارا کام یہ ہے کہ ساری دنیا کو وحدت کی رسی میں پرو کر اسے اللہ تعالیٰ کے آستانہ کی طرف کھینچ لاؤ۔ یہ وہ کام ہے جو آپ سے پہلے کسی نبی نے نہیں کیا بلکہ کسی نبی کے واہمہ میں بھی وہ عظیم الشان کام نہیں آ سکتا تھا جو محمدﷺ نے کیا۔ پس اس کام کی عظمت کے لحاظ سے ہر شخص جو اس میں حصہ لیتا ہے وہ بہت بڑے ثواب کا مستحق بنتا ہے۔
دیکھ لو ڈاکوؤں اور چوروں سے جب لڑائی کی جاتی ہے تو اس لڑائی میں بھی کئی قسم کے خطرے ہوتے ہیں ۔ جب کہیں آگ لگ جاتی ہے تو اس آگ کو بُجھانے میں بھی کئی قسم کے خطرے ہوتے ہیں۔ پُرانے مکانات گرائے جاتے ہیں تو اُن مکانات کے گراتے وقت بھی کئی قسم کے خطرے ہوتے ہیں اور بعض مزدور ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح انسان جب لڑائی میں شامل ہونے کے لئے جاتا ہے تو اس وقت بھی اسے کئی قسم کے خطرے ہوتے ہیں۔ مگر کیا تم سمجھتے ہو دنیا کی عظیم الشان لڑائیوں میں حصہ لینے والوں کی عزت اور شہرت ویسی ہی ہوتی ہے جیسے چوروں اور ڈاکوؤں کامقابلہ کرنے والوں کی ہوتی ہے یا آگ بجھانےوالوں کی ہوتی ہے۔ حالانکہ خطرہ دونوں مول لیتے ہیں مگر ایک کا کام چونکہ اپنے نتائج کے لحاظ سے زیادہ اہم ہوتا ہے اس لئے اسے زیادہ عزت حاصل ہوتی ہے اور دوسرے کا کام چونکہ اپنے نتائج کے لحاظ سے زیادہ اہم نہیں ہوتا اس لئے اسے زیادہ عزت حاصل نہیں ہوتی۔ پس عظیم الشان نتائج کو اپنے ذہن میں رکھنا اور ان کے مطابق قربانی کرنا خود اپنی ذات میں ایک بہت بڑا کام ہوتا ہے اور جو شخص اس کام میں حصہ لیتا ہے وہ تھوڑا کام کرنے کے باوجود بہت بڑے اجر کا مستحق ہوتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو تنگ ظرف ہوتے ہیں جن کی نظر نہایت محدود ہوتی ہے جو چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف دیکھتے اور عظیم الشان نتائج کو نظر انداز کر دیتے ہیں اتنے ثواب کے مستحق نہیں ہوتے جتنے ثواب کے مستحق وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی نظر بہت دور تک چلی جاتی ہے۔
مَیں سمجھتا ہوں ہمارے ملک میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کے دلوں میں موجودہ لڑائی کی کوئی اہمیت نہیں لیکن اگراُن کے گاؤں پر چند ڈاکو حملہ کر دیں تو وہ ان سے لڑنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ حالانکہ جانتے ہوں گے کہ اگر ہم لڑے تو جان ضائع ہو جانے کا خطرہ ہے۔ اسی طرح اگر ایک کھیت کی منڈیر پر جھگڑا ہو جائے تو وہ کٹ مرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ بہت ہی معمولی بات ہوتی ہے۔ لیکن باوجود اس کے کہ ایک منڈیر کا جھگڑا کوئی زیادہ اہم نہیں ہوتا ہمارے ملک میں ہر سال سینکڑوں آدمی ان جھگڑوں میں مارے جاتے ہیں اور پھر جو لوگ مارنے والے ہوتے ہیں ان کو گورنمنٹ پھانسی دے دیتی ہے۔ اب دیکھ لو جان کا خطرہ یہاں بھی موجود ہے۔ ایک شخص کلہاڑی سے مرتا ہے اور دوسرا پھانسی کے تختہ پر جان دے دیتا ہے۔ مگر زمیندار اس کے لئے فوراً تیار ہو جائے گا کیونکہ اس کی نظر محدود ہوتی ہے۔ وہ ساری دنیا کو اپنے کھیت کی منڈیر میں محدود کرنا چاہتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ایک اَور شخص ہوتا ہے جو لڑائی کے لئے جاتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ اسے پندرہ یا بیس یا پینسٹھ روپے تنخواہ ملے گی بلکہ اس لئے کہ دنیا پر اس وقت ایک بہت بڑا ابتلاء آیا ہؤا ہے اور میرے ملک کی عزت خطرہ میں ہے۔ میرا فرض ہے کہ مَیں فوج میں شامل ہو جاؤں اور اپنے ملک کو دشمن کے حملہ سے بچاؤں۔ اب یہ بھی اپنی جان کو خطرہ میں ڈالتا ہے بلکہ دوسروں کے مقابلہ میں کم خطرے میں ڈالتا ہے۔ کیونکہ کھیت کی منڈیر پر جب کلہاڑی سے لڑائی ہوتی ہے تو پانچ پانچ سات سات آدمیوں میں سے دو تین آدمی ضرور مر جاتے ہیں۔ گویا چالیس فیصدی موت ان میں واقع ہو تی ہے لیکن فوج میں اتنی موت نہیں ہوتی مگر باوجود اس کے کہ اسے کم خطرہ ہوتا ہے اس کی عزت بہت زیادہ کی جاتی ہے۔ اس لئے کہ اس نے صرف ایک نیک کام ہی نہیں کیا بلکہ اپنی نظر کو دور تک پھیلایا۔ اس نے صرف اپنے رشتہ داروں یا عزیزوں یا دوستوں کے لئے کام نہیں کیا بلکہ ملک اور قوم کی عزت بچانے کے لئے آگے بڑھا۔ اس لئے وہ ان لوگوں سے بہت زیادہ عزت کا مستحق ہوتا ہے جو ڈاکوؤں سے لڑائی کرتے ہوئے یا کھیت کی منڈیر پر لڑتے ہوئے یا آگ بُجھاتے ہوئے اپنی جانیں دے دیتے ہیں۔
موجودہ دَور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دَور ہے یہ بھی ایک عظیم الشان دَور ہے اور اُس کے کاموں کا اثر قیامت تک باقی رہنے والا ہے۔ اس لئے جو شخص آج اس دَور کے کسی اہم کام میں حصہ لیتا اور اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق قربانی کرتا ہے وہ خداتعالیٰ سے بہت بڑا اجر پانے کا مستحق ہے۔
پس مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے وعدوں کی لسٹیں مکمل کر کے بھجوا دیں۔ میں اس موقع پر قادیان والوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اگر اُن سے اب تک اس بارہ میں کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو وہ اس کوتاہی کا اب جلد ازالہ کر لیں اور ہر محلہ والے اپنے اپنے وعدوں کی لسٹوں کو اچھی طرح دیکھ لیں اور اس امر کا جائزہ لیں کہ کوئی شخص اس میں حصہ لینے سے محروم تو نہیں رہا۔ جس طرح عورتیں کنگھی کر کے اپنے بالوں کو صاف کرتی اور اُن میں سے جوئیں نکالتی ہیں اسی طرح تمہارا فرض ہے کہ تم بار بار اپنی لسٹوں کو دیکھو اور اگر کوئی کوتاہی ہو چکی ہو تو اس کو دُور کر کے اپنی لسٹوں کو مکمل کرو۔ کئی لوگ بار بار کی تحریک کے محتاج ہوتے ہیں اس لئے ایسے لوگوں کے پاس بار بار جاؤ اور اپنی لسٹوں کو زیادہ سے زیادہ مکمل کرو۔ کیا بلحاظ اس کے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں نے اس میں حصہ لیا ہواور کیا بلحاظ اس کے کہ انہوں نے پہلے سے زیادہ چندہ لکھوایا ہو اور کسی نے اپنی طاقت سے کم حصہ نہ لیا ہو۔ مگر جیسا کہ مَیں نے بار بار بتایا ہے کسی کو مجبورمت کرو کہ وہ اس تحریک میں ضرور حصہ لے۔ تم اس سے درخواست کرو کہ وہ اس میں حصہ لے۔ تم اس تحریک کی اہمیت اس پر واضح کرو اور اسے سمجھاؤ کہ خدمتِ دین کے یہ مواقع بار بار میسر نہیں آیا کرتے۔ نسلیں مٹ جاتی ہیں مگر وہ لوگ جنہوں نے خداتعالیٰ کے دین کے لئے قربانیاں کی ہوئی ہوتی ہیں اُن کے نام کو زمانہ نہیں مٹا سکتااور نہ اس ثواب کو مٹا سکتا ہے جو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والا ہوتا ہے۔
آج کتنے صحابی ہیں جن کی نسلوں کا بھی ہمیں پتہ نہیں کہ وہ کہاں گئیں اَور تو اَور حضرت ابوبکرؓ کی نسل کا پُورا پتہ ہمیں نہیں ملتا۔ حضرت عمرؓ کی نسل کا پُورا پتہ ہمیں نہیں ملتا۔ کرید کرید کر خاندان نکالے جاتے ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ خاندان حضرت ابوبکرؓ کی نسل میں سے ہے۔ یہ خاندان حضرت عمرؓ کی نسل میں سے ہے مگر ابوبکرؓ اور عمرؓ نے جو قربانیاں رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں کی تھیں وہ آج بھی ظاہر ہیں اور زمانہ ان کو لوگوں کی نگاہ سے مخفی نہیں کر سکا۔ گویا اُن کی جسمانی نسل مخفی ہو گئی مگر اُن کی روحانی نسل یعنی اُن کے وہ کارنامے جو انہوں نے کئے آج بھی ظاہر ہیں اور قیامت تک ظاہر رہیں گے۔ اور آخرت میں اُن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ثواب ملنا ہے اُس کا تو ہم اندازہ اور قیاس بھی نہیں کر سکتے ۔ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی عظمت اور اس کے قرب کا اندازہ لگا سکے۔ معمولی معمولی مٹھائی کی دکانیں ہوتی ہیں مگر لوگ ان مٹھائیوں کے مزے میں بھی فرق کرتے ہیں اور کہتے ہیں فلاں حلوائی سے مٹھائی لی جائے کیونکہ اس کا مزہ اچھا ہوتا ہے۔ لوگ دلّی جاتے ہیں تو اپنے دوستوں سے پوچھ لیتے ہیں کہ انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دیں اور وہ کہتے ہیں کہ اگر دلّی گئے تو فلاں مٹھائی والے سے مٹھائی لے آنا کیونکہ اس کی مٹھائی کا مزہ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے۔ اگر یہ گندی تہبند باندھنے والے حلوائی جو مٹھائی بناتے بناتے باہر پیشاب کرنے چلے جاتے ہیں اور پھر بغیر ہاتھ دھوئے اور طہارت کئے مٹھائی بنانے لگ جاتے ہیں اُن کی تیار کی ہوئی مٹھائیوں کے مزہ میں فرق ہوتا ہے تو تم خود ہی سوچ لو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے محبت کا جام جن لوگوں کو ملے گا وہ کیسا لذیذ ہو گا اور کون سی قربانی ہے جو اس کے مقابلہ میں اہم کہلا سکتی ہے۔’’
(الفضل 26 جنوری 1943ء)
1۔ بخاری کتاب الاجارة باب الاجارة الٰی نصف النہار


5
دیہات میں تبلیغ کرنے کی نئی سکیم کو کامیاب بنایا جائے
(فرمودہ 29جنوری 1943ء)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مَیں نے ایک گزشتہ خطبہ میں جماعت کو تبلیغ کی طرف زیادہ توجہ کرنے کی ہدایت کی تھی اور ساتھ ہی تربیت کی طرف بھی زیادہ توجہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ مَیں نے اس امر پر کچھ عرصہ سے بہت غور کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہماری مبلغین کلاس اور وہ انتظام جو مبلغوں کے پیدا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے موجودہ ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کافی نہیں۔ مَیں اس امر کو تسلیم کرتا ہوں کہ صرف مبلغین کلاس کے پاس شدہ نوجوانوں کو ہی بطور مبلغ مقرر کرنے کی ہدایت میری ہی طرف سے تھی اور مَیں نے صدر انجمن اور ناظردعوت و تبلیغ کو حکماً اس امر سے باز رکھا تھا کہ جو لوگ مبلغین کلاس کے پاس شدہ نہ ہوں ان کو مبلغ رکھا جائے اور اس ہدایت کے دینے کا موجب یہ باتیں تھیں۔ اول یہ کہ اگر دوسرے لوگ بھی تبلیغ کے کام پر لگائے جائیں تو مبلغین کلاس پاس شدہ نوجوانوں کے لئے گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے اور اس طرح ان کی تعلیم وغیرہ پر جو اخراجات سلسلہ نے کئے ہوتے ہیں وہ ضائع ہو جاتے ہیں۔ دوسرے اس لئے کہ اگر کوئی اصل مقرر نہ کیا جائے تو ہمارے ملک کے اخلاق و تمدن کے لحاظ سے فرض شناسی اور ذمہ داری کی ادائیگی کا مادہ یہاں چونکہ بہت ہی کم ہے اس لئے ایسے لوگ مبلغ رکھ لئے جائیں گے جو تبلیغ کی غرض کو پورا کرنے والے نہ ہوں اور صرف ناظر یا ان کے مددگاروں پر بعض اثر والے احباب کے زور دینے یا لحاظ کی وجہ سے رکھ لئے جائیں۔ اس قسم کا لحاظ کرنا بھی ایک قسم کا گناہ ہے۔ مگر اس گناہ پر ابھی ہندوستان کے لوگ غالب نہیں آ سکے۔ دوسرے تو بالکل ہی نہیں آ سکے اور احمدیوں کا بیشتر حصہ بھی اس گناہ پر اچھی طرح ابھی غالب نہیں آ سکا ۔ اگر کوئی ناظر کے پاس آ کر اپنی حالتِ زار بیان کرے اور کہے مَیں بھوکا مَر رہا ہوں ، بال بچوں کے گزارہ کی کوئی صورت نہیں ۔تبلیغ کا بھی جوش ہے اور پانچ سات آدمی آ کر کہہ دیں کہ آپ کا بڑا احسان ہو گا ہمارے اس آدمی کو نوکر رکھ لیں تو بسا اوقات اس دباؤ کو وہ برداشت نہ کر سکے گا۔ وہ یہ خیال نہیں کرے گا کہ سلسلہ کی دنیا میں تبلیغ کا وہ خداتعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ پانچ سات آدمیوں کی سفارش پر یا کسی امیدوار کے گڑگڑانے اور منتیں کرنے پر کسی کو مبلّغ رکھ لینے کا یہ نتیجہ بھی ہو سکتا ہے کہ مبلغین کلاس کا پاس شدہ نوجوان جس پر تعلیم دینے کے لئے سلسلہ نے سینکڑوں روپیہ خرچ کیا ہو جب تعلیم پا کر فارغ ہو تو اسے جواب دینا پڑے ۔ اس لئے کہ بجٹ میں گنجائش نہیں یا جتنے مبلغ رکھنے چاہئیں اتنے رکھے جا چکے ہوں۔ پس اگر مَیں یہ اصول مقرر نہ کرتا تو اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہوتا کہ مبلغین کلاس پاس شدہ نوجوان کام سے محروم رہ جاتے اور اُن پر جو روپیہ خرچ ہو چکا تھا وہ ضائع چلا جاتا اور پھر بعض ایسے لوگ بھی مبلغ رکھے جا سکتے جو درحقیقت تبلیغ کی قابلیت نہ رکھتے بلکہ محض اس وجہ سے رکھ لئے جاتے کہ انہوں نے الحاح سے درخواست کی ہوتی یا پانچ سات دوستوں نے ان کی سفارش کی ہوتی کہ یہ ہمارا آدمی بھوکا مر رہا ہے اس کے لئے روزگار کا ضرور کوئی انتظام کیا جائے۔
اسلامی حکومت میں ہر فرد کے لئے روٹی کا انتظام کرنا حکومت کے ذمہ ہوتا ہے۔ اور بے شک جس حد تک ہم سلسلہ کے نظام کو اپنے ملکی حالات کے لحاظ سے اسلامی نظام کا قائم مقام بنا سکتے ہیں اس حدتک ہر فرد کے لئے روٹی کا انتظا م کرنے کا نظام سلسلہ ذمہ دار ہے مگر ہمارا موجودہ نظام ابھی ایسی حکومت کا قائم مقام نہیں جو ٹیکس وغیرہ لگا کر یا دوسرے ذرائع سے روپیہ حاصل کرنے کا حق رکھتی اور اس کے وصول کرنے کے لئے رعب اور طاقت رکھتی ہے۔ ہمیں ابھی یہ حق اور اختیار حاصل نہیں ۔ اس لئے شرعاً بھی اور قانوناً بھی ہم ان اُمور کو ادا کرنے کے ابھی ذمہ دار نہیں ہیں جیسا کہ حکومت حاصل ہونے کی صورت میں ہوتے۔ پس جہاں تک قانونِ شریعت کا سوال ہے مرکزِ سلسلہ ابھی ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور بوجھوں کو اٹھانے کا ذمہ دار نہیں جن کو اٹھانا اس وقت ضروری ہوتا اگر ہمارے ہاتھ میں حکومت ہوتی ۔ پس ان باتوں کے پورا نہ کرنے کی صورت میں ہم پر کوئی اعتراض نہیں آ سکتا جن کو پورا کرنا اسلامی حکومت کا فرض ہوتا ہے مگر جہاں تک تعاون اور اخلاقی مدد کا سوال ہے سلسلہ ایسی باتوں میں حصہ لیتا ہے اور جہاں تک ممکن ہو مدد دیتا ہے مثلاً آجکل گندم کی دِقّت ہے امورِ عامہ الگ اسے مہیا کرنے کی کوشش میں لگا ہؤا ہے اور مَیں اس کے لئے الگ کوشش کر رہا ہوں ۔علاوہ اس گندم کے جو دوستوں سے جمع کر کے تقسیم کی گئی جو قیمتاً خریدنا چاہتے تھے ان کے لئے بھی انتظام کیا گیا۔ بعض لوگوں کے لئے قرض کا انتظام بھی کیا گیا۔ اب پھر جو دِقّت درپیش ہے اسے رفع کرنے کی بھی پوری کوشش جا ری ہے۔ مختلف مقامات پر آدمی بھیجے گئے ہیں۔ اخبار میں بھی اعلان کیا جا رہا ہے۔ یہ ذمہ داری ہم پر فرض نہیں زائد ہے۔ اگر اسے کریں تو اچھا ہے۔ جو فائدہ لوگوں کو پہنچایا جا سکتا ہے وہ پہنچانا چاہیئے اور پہنچایا جا رہا ہے۔ مگر یہ ہم پر فرض نہیں ۔ ہا ں جو اچھا کام کیاجا سکتا ہو وہ کرنا چاہیئے خواہ وہ فرض نہ بھی ہو۔ دنیا میں لوگ صرف وہی کام نہیں کرتے جو فرض ہوں۔ بیوی بچوں کے لئے، دوستوں کے لئے کئی ایسے کام کرتے ہیں جو اُن پر فرض نہیں ہوتے۔ بیوی کے لئے زیور بناتے ہیں، یہ فرض نہیں لیکن جو جائز حد تک بیویوں کو خوش کرنے کے لئے یہ کام کر سکتے ہیں وہ کریں تو اچھا ہے اور کرتے ہیں۔ باپ اگر بچہ کو سیر کے لئے لے جا سکے تو لے جاتا ہے۔ یہ فرض تو نہیں مگر لوگ کرتے ہیں ۔اسی طرح جو دوسرے کام فرض نہیں اور جن کا کرنا ہم پر واجب نہیں مگر کئے جائیں تو اچھا ہے۔ لوگ انہیں کرتے ہیں اور ہم بھی کرتے ہیں مگر نفل کے طور پر اور طوعاً کرتے ہیں ۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے یہ فرض نہیں اور نہ ہماری ذمہ داری ہے۔ ہاں کئے جائیں تو اچھا ہے مگر ایسے کاموں کو فرض پر مقدم کرنا اور ان کے لئے فرض کو ترک کر دینا جائز نہیں۔ یہ فرض ہے کہ کسی کام پر دیانتداری کے ساتھ ایسے آدمی مقرر کئے جائیں جو اُس کے اہل ہوں۔ لیکن کسی غریب کی مدد کرنا اچھا ہے اور خداتعالیٰ کی طرف سے بھی اس مدد کی ہدایت ہے مگر فرض نہیں۔ لیکن یہ فرض ہے کہ کسی کام پر کسی کو لگانے کا اختیار ہو تو صرف ایسا آدمی رکھا جائے جو واقع میں اس کام کا اہل اور مستحق ہو۔ کسی کی مدد کرنا اور اس کے لئے روزگار کا مہیا کرنا نفل ہے مگر کسی کام پر اس کے لئے موزوں اور اہل آدمی کو مقرر کرنا فرض ہے۔ اور اگر کوئی نفل کے لئے فرض کو ترک کر دے تو یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ مگر بعض اوقات ہوتا یہ ہے کہ کسی کی مدد کے خیال سے اسے ایسے کام پر لگا دیا جاتا ہے جس کا وہ صحیح معنوں میں اہل نہیں ہوتا۔ اس لئے مَیں نے یہ اصول مقرر کیا تھا کہ مبلغ صرف اسی کو رکھا جائے جو مبلغین کلاس پاس شدہ ہو۔
جہاں تک میری اپنی زندگی کا تعلق ہے مَیں بغیر فخر کے کہہ سکتا ہوں کہ مَیں نے خداتعالیٰ کے فضل سے اہل آدمی کو کسی کام پر مقرر کرنے کے متعلق فرض میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ مجھے اس وجہ سے گالیاں بھی دی گئیں۔ بعض اوقات دوست دشمن بن گئے۔ مجھے اس وجہ سے بُرا بھلا بھی کہا گیا مگر لِلّٰہِ الْحَمْدُ کہ مَیں نے کبھی اس فرض کو ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔ غلطی مَیں بھی کر سکتا ہوں اور ممکن ہے مَیں نے کبھی انتخاب میں غلطی کی ہو مگر دیدہ دانستہ میں نے کبھی اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کی۔ لیکن مَیں جانتا ہوں کہ میرے مددگار اور نائب بعض اوقات ایسا کر لیتے ہیں۔ اس لئے مَیں نے یہ قاعدہ بنا دیا تھا کہ مبلغین کلاس پاس شدہ ہی مبلغ رکھے جائیں مگر کچھ عرصہ سے مَیں اِس بات کو محسوس کر رہا ہوں کہ ایک تو ہمارے یہ مبلغ دیہات میں کام کرنے کے قابل نہیں ہیں اِن کی تعلیم اور قادیان کا شہری تمدن کو اختیار کر لینا ان مبلغین کے دیہات میں تبلیغ کرنے کے رستہ میں روک بن گیا ہے۔ یہ مبلغ بوجہ اس کے کہ قادیان ایک شہر بن چکا ہے دیہات میں جانے اور وہاں تبلیغ کرنے سے گھبراتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے ملک کی کثیر آبادی دیہات میں بستی ہے۔ دس فیصدی لوگ شہروں میں رہتے ہیں اور نوے فیصدی دیہات میں بستے ہیں۔ اور ہمارے ملک کا جو حصہ زیادہ ہے اسے تبلیغ میں نظر انداز کر دینا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ پس ایک تو مَیں نے یہ نقص دیکھا کہ ہمارے مبلغین بوجہ شہری زندگی اختیار کر لینے کے گاؤں میں جا کر تبلیغ نہیں کر سکتے۔ دوسرا نقص مجھے یہ نظر آیا ہے کہ ان مبلغین کا علمی مذاق اتنا اعلیٰ ہوتا ہے کہ گاؤں کے لوگوں میں بیٹھ کر ان کی مرضی اور سمجھ کے مطابق یہ تبلیغ نہیں کر سکتے۔ پھر ان مبلغین کو ہم جو گزارہ دیتے ہیں اور دینا چاہیئے اور ان کی تعلیم اور اخراجات کے لحاظ سے ان کو جو گزارہ دیا جاتا ہے وہ ایسا ہے کہ اسے برداشت کر کے زیادہ تعداد مبلغوں کی نہیں رکھی جا سکتی۔ اور لازماً مبلغین کی تعداد کم رکھنی پڑتی ہے۔ چنانچہ پانچ چھ سال سے کوئی نیا مبلغ نہیں رکھا جا سکا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ مبلغین کو جو اخراجات دینے پڑتے ہیں وہ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی تعداد بڑھائی نہیں جا سکتی۔ وہ دراصل تو کم ہیں مگر سلسلہ کی مالی حالت کے لحاظ سے ایسے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے زیادہ مبلغ رکھنے کی گنجائش نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہؤا ہے کہ دیہات کے لوگ تبلیغ اور مبلغوں سے استفادہ سے عام طور پر محروم رہ جاتے ہیں۔ حالانکہ دیہات کے لوگوں کو ہی مبلغوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ وہ کمی تعلیم کی وجہ سے بعض اوقات دشمن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دیہات کے لوگ جتھوں کی صورت میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں اور اس وجہ سے دیہات کے احمدی بھی اپنے غیراحمدی رشتہ داروں سے تعلقات رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ شہروں میں اہلی زندگی بہت کمزور ہے۔ یہاں تک کہ اگر شہر میں کسی کا کوئی رشتہ دار آ جائے تو بعض اوقات انہیں دھتکار دیا جاتا ہے مگر دیہات میں یہ حالت نہیں۔ وہاں رشتہ دار کو لوگ کھینچ کر بھی اپنے گھر لے جاتے اور مہمان نوازی کرتے ہیں۔ شہروں میں تو عام طور پر یہ حالت ہے کہ اگر کسی کا بھتیجایا بھاوج بھی آ جائے چند دن اس کے ہاں رہے تو اسے کہہ دیتے ہیں کہ جا کر اپنا انتظام کرو۔ مگر دیہات کی یہ حالت نہیں اور خدا کرے کہ کبھی ایسی حالت نہ ہو۔ دیہاتی عام طور پر مہمان نواز ہوتے ہیں اور تکلیف کے وقت میں رشتہ داروں کی مدد کرتے ہیں اور عام طورپر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے قریب بلکہ بعید کے رشتہ داروں کے بھی ذمہ دار ہیں۔ کسی پر کوئی مشکل وقت آن پڑے تو اس کے رشتہ دار اسے اپنے ہاں لے جاتے ہیں اور اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ گو اس طرح انہیں کام میں مدد دینے والے ہاتھ بھی میسر آ جاتے ہیں مگر ان کی نیت یہ نہیں ہوتی کہ یہ کام میں ہماری مدد کریں بلکہ نیت ان کی مدد کرنے کی ہوتی ہے۔ اس لئے دیہات کے احمدی اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کے اثرات سے بچے نہیں رہ سکتے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی احمدی فوت ہو جائے تو اس کے غیراحمدی رشتہ دار اس کے بیوی بچوں کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اور وہ بھی ان کے ساتھ جانے میں جھجک محسوس نہیں کرتے کیونکہ وہ اپنے خاوند یا باپ کی زندگی میں بھی ان کے ہاں آنے جانے کے عادی ہوتے ہیں اور ان کو یہ خیال بھی نہیں آتا کہ ہمیں ان کے پاس اس حالت میں نہ جانا چاہئے کہ ان کا اثر قبول کرنا پڑے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ ایسا نہیں کرنا چاہیئے اور غیراحمدی رشتہ داروں سے تعلقات نہ رکھنے چاہئیں بلکہ احمد ی ہو کر آدمی کو اپنے رشتہ داروں سے زیادہ اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ دیہات کے احمدی غیراحمدی رشتہ داروں کے اثر کو قبول کرنے کے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور بعض اوقات کر لیتے ہیں اور اس وجہ سے وہ زیادہ مستقل تربیت کے محتاج ہوتے ہیں۔ اور ہمارے موجودہ مبلغ نہ تو دیہات میں تبلیغ کے اہل ہیں اور نہ دیہاتیوں کا مذاق رکھتے ہیں اور نہ ہی ہمارے مالی حالات ایسے ہیں کہ ہم اتنے زیادہ مبلغ رکھ سکیں کہ وہ دیہات میں جگہ جگہ تبلیغ کر سکیں۔
ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مَیں نے فیصلہ کیا ہے کہ دو قسم کے مبلغ ہونے چاہئیں۔ ایک تو وہ جو بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں جا کر تبلیغ کر سکیں، لیکچر اور مناظرے وغیرہ کر سکیں۔ اپنے ماتحت مبلغوں کے کام کی نگرانی کر سکیں اور ایک ان سے چھوٹے درجہ کے مبلغ دیہات میں تبلیغ کے لئے ہوں۔ جیسے دیہات کے پرائمری سکولوں کے مدرس ہوتے ہیں۔ ایسے مبلغ دیہات کے لوگوں میں سے ہی لئے جائیں۔ ایک سال تک ان کو تعلیم دے کر موٹے موٹے مسائل سے آگاہ کر دیا جائے اور پھر ان کو دیہات میں پھیلا دیا جائے اور جس طرح پرائمری مدرّس اپنے اردگرد کے دیہات میں تعلیم کے ذمہ دار ہوتے ہیں اس طرح یہ اپنے اپنے علاقہ میں تبلیغ کے ذمہ دار ہوں۔ پرائمری مدرّسوں کی تنخواہ 15،20 روپیہ ماہوار ہوتی ہے اور اتنی تنخواہ ہم ان مبلغوں کو دیں گے۔ میرا خیال ہے کہ ایسے مدرس پنجاب میں 15،20 ہزار ہوں گے اور کوئی وجہ نہیں کہ ایسے ہی درجہ اور اتنی ہی تعلیم کے نوجوانوں کو دینی مسائل سکھا کر ہم انہیں تبلیغ کے لئے مقرر نہ کریں۔ انہیں ایک سال میں موٹے موٹے دینی مسائل مثلاً نکاح ، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جنازہ وغیرہ کے متعلق احکام سکھا دئیے جائیں۔ قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا دیا جائے۔ کچھ احادیث پڑھا دی جائیں۔ سلسلہ کے ضروری مسائل پر نوٹ لکھا دیے جائیں۔ تعلیم و تربیت کے متعلق ان کو ضروری ہدایات دی جائیں۔ اور انہیں سمجھا دیا جائے کہ بچوں کو کس قسم کے اخلاق سکھانے چاہئیں۔ اور اس غرض سے انہیں ایک دو ماہ خدام الاحمدیہ میں کام کرنے کا موقع بہم پہنچایا جائے اور یہ سارا کورس ایک سال یا سوا سال میں ختم کرا کے انہیں دیہات میں پھیلا دیا جائے۔ ایک ایک ضلع میں دو دو تین تین مقرر کئے جائیں۔ جہاں احمدی زیادہ ہوں وہاں کچھ زیادہ اور جہاں کم ہوں کم رکھے جائیں۔ اور ہر ایک کو اردگرد کے پندرہ بیس دیہات میں تبلیغ کا کام سپرد کر دیا جائے۔ مگر یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ایسے نوجوان تبلیغ کرنے کے لئے جوش رکھتے ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اس قسم کے 15،20 ہزار آدمی محکمہ تعلیم میں ملازم ہیں اور اگر وہ تعلیم کے لئے ایسا کر سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کے درجہ کے احمدی نوجوان تبلیغ کی خاطر اپنی زندگیاں وقف نہ کریں۔ اگر وہ اتنی تنخواہ پر تعلیم کا کام کر سکتے ہیں تو احمدی نوجوان اسی تنخواہ پر تبلیغ کا کام کیوں نہیں کر سکتے۔
پس مَیں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس سکیم کو کامیاب بنانے کی کوشش کرے اور اپنے اپنے ہاں کے ایسے نوجوانوں کے جو پرائمری یا مڈل پاس ہوں اور لوئر پرائمری کے مدرّسوں جتنا ہی گزارہ لے کر تبلیغ کا کام کرنے پر تیار ہوں ان کے نام فوراً بھجواد یں تا اُن کے لئے تعلیم کا کورس مقرر کرکے انہیں تبلیغ کے لئے تیار کیا جا سکے اور پھر مختلف علاقوں میں تبلیغ کے لئے مقرر کیا جا سکے۔ ممکن ہے اس تجویز پر غور کر کے سال سے کچھ زیادہ کا کورس مقرر کیا جا سکے اور کچھ طب بھی ان کو سکھا دی جائے تا وہ تبلیغ بھی کریں اور مطب بھی۔
اس تجویز کے ماتحت پہلے تو تھوڑے آدمی لئے جائیں گے۔ جنگ کا زمانہ ہے اور گرانی بہت ہے۔ ابھی انجمن پچھلا قرض بھی پورا اتار نہیں سکی۔ گو بہت سا حصہ اتارا جا چکا ہے۔ اس لئے میرا ارادہ ہے کہ پہلے صرف 15،20 آدمی ہی لئے جائیں اور تین چار اضلاع میں تجربۃً کام شروع کیا جائے۔ ہر تحصیل میں ایک ایک مبلغ مقرر کیا جائے اور اس طرح تجربہ کیا جائے کہ اُن کے اثر کے نیچے کس طرح جماعت ترقی کرتی ہے۔
پس آج کے خطبہ کے ذریعہ مَیں تمام جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اپنے ہاں کے ایسے نوجوانوں کو جن کی تعلیم معمولی ہو۔ صرف پرائمری پاس یا مڈل پاس یا مڈل فیل ہی ہوں۔ اور بجائے کوئی اَور کام کرنے کے جس میں اُنہیں اتنا ہی گزارہ مل سکے گا جتنا ہم دیں گے تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے پر آمادہ ہوں۔ ان کے نام ارسال کریں۔ ایسے نوجوانوں کو ہم اتنا ہی گزارہ دیں گے جتنا وہ کسی جگہ کما سکتے ہیں اور جتنا اُن کی قابلیت اور تعلیم کے دوسرے لوگ لے رہے ہیں۔ اور تبلیغ کا ثواب ان کو الگ ہو گا۔ گویا وہ ہم خُرما و ہم ثواب کے مصداق ہوں۔ خُرمے کے خُرمے کھا سکیں گے اور ثواب الگ ہو گا۔ ایسے نوجوان اگر محکمہ تعلیم میں مدرّس مقرر ہوں تو زیادہ سے زیادہ 15،20 روپے سے شروع کر کے ترقی کرتے کرتے 25،30 تک تنخواہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اور اگر سلسلہ کی خدمت میں بھی ان کو اتنی تنخواہ مل سکے اور تبلیغ کا ثواب علیحدہ ملے تو اُن کو کیا گھاٹا ہے۔ اِس جہان کا سُکھ بھی اُن کو حاصل ہو گا اور اگلے جہان کا بھی اور اس سے زیادہ بابرکت کام اُن کے لئے اَور کون سا ہو سکتا ہے؟ ہزاروں لوگ جن کو ان کے ذریعہ تبلیغ ہو گی اُن کا ثواب اُن کو ملے گا اور جو اُن کے ذریعہ سلسلہ میں داخل ہوں گے اُن کا ثواب بھی اُن کو ملے گا۔ جتنے لوگ اُن کی وجہ سے تقویٰ میں ترقی کریں گے اور جتنے لوگوں میں اُن کی وجہ سے احمدیت کی روح ترقی کرے گی ان سب کی نیکیاں اُن کے نام بھی لکھی جائیں گی۔ پس ان کے لئے یہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔ وہ دنیا کے لحاظ سے تو جہاں بھی جائیں اتنا ہی کما سکیں گے جو ان کو سلسلہ کی طرف سے ملے گا اور ثواب الگ ہو گا۔ آخر ایک پرائمری پاس یا مڈل تک تعلیم رکھنے والے نوجوان کو کوئی ڈپٹی کمشنر یا تحصیلداریا تھانیدار تو بنا نہیں دے گا۔ ان کی کامیابی تو زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتی ہے کہ کسی پرائمری سکول میں مدرس ہو جائیں۔ پہلے ایسے لوگ پٹواری بھی ہو سکتے تھے مگر اَب تو کسی مڈل پاس کو بڑی سفارش سے پٹواری لے لیا جائے تو شاید لے لیا جائے ورنہ انٹرنس پاس کو لیا جاتا ہے اور پٹواریوں کی تنخواہ بھی زیادہ سے زیادہ 25،30 ہی ہوتی ہے۔ اور جب لوگ دنیا کے لئے ایسے کام کرتے ہیں اور اتنی تنخواہ لیتے ہیں تو دینی کام میں کیوں ایسا نہیں ہو سکتا۔ پس جو نوجوان اتنی تعلیم رکھتے ہوں اور جن کے سامنے دنیوی لحاظ سے کوئی بڑی نوکری نہ ہو وہ تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں۔ پہلے اپنے اخلاق درست کریں، تعلیم حاصل کریں اور پھر دوسروں کو فائدہ پہنچائیں۔ ان کی تعلیم اور قابلیت کے لوگوں کو جو سرکاری کام مل سکتے ہیں وہ تو دوسری قوموں کے لوگ بھی کر سکتے ہیں۔ ہندو، سِکھ، غیر احمدی سب پرائمری مدرّس اور پٹواری وغیرہ ہو سکتے ہیں مگر تبلیغ کا کام صرف احمدی ہی کر سکتے ہیں۔
پس مَیں جماعتوں اور عہدیداروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جگہ میرا یہ خطبہ سنا کر تحریک کریں کہ ایسے نوجوان جو اِس درجہ اور اس قابلیت کے ہوں اور تیار ہوں کہ سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں ان کے نام ارسال کریں۔ ہاں یہ مدنظر رہے کہ وہ دیندار، نمازوں میں باقاعدہ اور دین میں ترقی کرنے کے خواہشمند ہوں۔ لڑاکے نہ ہوں۔ جھوٹ سے کُلّی طور پر بچنے والے ہوں، دیانتدار ہوں اور محنتی بھی۔ انہیں ایسی دینی تعلیم دے کر جو دیہات میں کام آ سکتی ہو اور کچھ طب بھی سکھا کر باہر بھیجا جائے گا اور اس طرح وہ پریکٹس کر کے اپنی آمد بھی بڑھا سکیں گے ۔ا گر یہ دونوں قسم کے مبلغ ہوں ، ایک ایسے جیسے پرائمری سکولوں کے مدرس ہوتے ہیں اور دوسرے ایسے جیسے کالجوں اور سکولوں کے ہوتے ہیں تو تبلیغ کا کام بہت اچھی طرح ہو سکتا ہے۔ بڑے مبلغ دورے کر کے ان کے کام کی نگرانی کریں گے۔ بڑے بڑے شہروں میں لیکچر دیں گے اور تبلیغ کریں گے، کتابیں لکھیں گے اور دیہات میں دیہاتی مبلّغ ہی کام کریں گے کیونکہ دیہاتیوں کے لئے وہی زیادہ مؤثر باتیں کر سکتے ہیں۔ وہ اگر کسی جگہ جائیں تو یہ امید نہیں رکھتے کہ ہمارے لئے بہت زیادہ صاف ستھرے برتن لائے جائیں، عُمدہ دسترخوان بچھایا جائے بلکہ جیسے برتن وغیرہ زمینداروں کے ہاں ہوتے ہیں اُن میں بے تکلفی سے کھا سکتے ہیں۔ اور بالکل اُن جیسے ہی نظر آتے ہیں۔ اس لئے دیہاتی ان کی باتوں کو زیادہ اچھی طرح سُن سکتے ہیں۔ شہری لوگوں کا مذاق اَور ہوتا ہے اور وہ گاؤں والوں کی تسلی کا موجب نہیں ہو سکتا۔ میرا خیال ہے کہ اِنْشَاءَ اللہ یہ طریق بہت مفید ہو گا۔ مگر ضرورت ہے کہ اسے جلد از جلد شروع کیا جا سکے۔ جتنی جلدی ایسے نوجوان میسر آ سکیں اتنی ہی جلدی ان کی تعلیم کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ سرِدست میرا ارادہ ہے کہ ضلع گورداسپور میں تو مقامی تبلیغ کے شعبہ کے ماتحت گجرات، سرگودھا ،سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے اضلاع میں کام شروع کیا جائے۔ ان علاقوں میں جماعتیں زیادہ ہیں ۔ پہلے ان اضلاع کے لئے ایسے مبلغوں کا انتظام کیا جائے اور پھر اُسے سارے پنجاب اور دوسرے صوبوں میں پھیلا دیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے طریق اختیار کرنے کی توفیق دے کہ جلد سے جلد اس کی تبلیغ دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیل جائے۔ آمین۔‘‘ (الفضل 4 فروری 1943ء)

6
اسلام کی نئی اور مضبوط دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں
(فرمودہ 5فروری 1943ء)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’اِس ہفتہ میں ایک ایسا واقعہ ہؤا ہے جس نے ہندوستان میں ایک ہیجان پیدا کر دیا ہے۔ اور وہ واقعہ وہ سوال و جواب ہیں جو تُرکی وفد اور ہندوستانی پریس کے نمائندوں کے درمیان لاہور میں ہوئے۔ ترکی وفد نے جو جوابات دئیے ہیں یا جن جوابات کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے دئیے ہیں وہ ایک طرف تو اسلام کے دشمنوں کے لئے خوشی کا موجب ہوئے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کے ایک حصہ کے لئے افسوس اور دوسرے حصہ کے لئے پریشانی کا موجب ہوئے ہیں۔ ہندو اخبارات نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ تُرک اسلام سے بیزار ہیں اور دوسرے یہ کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی سیاست سے اُن کو اختلاف ہے۔ جہاں تک سیاست کا تعلق ہے ہمیں اس سے زیادہ دلچسپی نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک سیاسیات میں جس رنگ میں اِس وقت حصہ لیا جا رہا ہے، خواہ ہندوؤں کی طرف سے ہو اور خواہ مسلمانوں کی طرف سے، خواہ ہندوستان کے لوگوں کی طرف سے ہو اور خواہ ہندوستان سے باہر رہنے والے لوگوں کی طرف سے، وہ سب کا سب غیرمعقول اور خطرناک ہے۔ اگر سیاست دنیا میں کوئی مفید چیز ثابت ہونا چاہتی ہے تو ضروری ہے کہ سیاسی لوگ سیاست میں بھی اخلاق کا اتناہی حصہ تسلیم کریں جتنا کہ انفرادی زندگی میں اس کا حصہ تسلیم کرتے ہیں۔ مَیں نے تسلیم کرنے کے الفاظ اس لئے استعمال کئے ہیں کہ اِس زمانہ میں گو اِنفرادی زندگی میں بھی لوگ اخلاق کا اتنا خیال نہیں رکھتے جتنا خیال اُنہیں رکھنا چاہیئے۔ مگر کم سے کم مُنہ سے ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری شخصی زندگی پر اخلاق کی حکومت ہے۔ لیکن جب ایک طرف وہ اس انفردایت کی حالت میں اعلیٰ اخلاق کی ضرورت کو تسلیم کرتے اور انہیں جامۂ عمل پہنانے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں وہاں دوسری طرف علی الاعلان علمی بحثوں میں بھی اور عملی حالتوں میں بھی تمام سیاسی لوگ اعلیٰ اخلاق کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ حالانکہ جس طرح ایک شخص اپنی فردی زندگی میں اخلاق کی حکومت کو تسلیم کرتا ہے۔ اسی طرح اگر سیاسیات میں بھی اعلیٰ اخلاق کو اپنے اوپر حاکم قرار دیا جائے تو بہت سے جھگڑے اور فسادات جو آج نظر آ رہے ہیں بالکل دور ہو جائیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ جن باتوں کو فرد اپنی شخصی زندگی میں ناجائز قرار دیتا ہے انہی باتوں کو سیاستدان اپنے سیاسی کاموں میں جائز سمجھتے ہیں۔ یہ روزمرہ کے فسادات جو ملک میں دکھائی دیتے ہیں کہ کہیں گاؤکُشی پر جھگڑا ہو جاتا ہے، کہیں مسجد کے سامنے باجا بجانے پر کُشت و خون شروع ہو جاتا ہے۔ یہ زندہ مثالیں ہیں اس بات کی کہ کس طرح ایک دوسرے کے حقوق کو ہمارے ملک میں پامال کیا جاتا ہے۔ ان تمام جھگڑوں اور مناقشات کی اصل وجہ یہی ہے کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ قوم کی ترقی کے لئے اگر جھوٹ بول لیا جائے یا فساد برپا کر دیا جائے یا قتل و غارت کا ارتکاب کر لیا جائے تو یہ بالکل جائز ہوتا ہے۔ حالانکہ جس طرح ایک فرد کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے کو مارے یا اس کے حقوق کو تلف کرے اسی طرح کسی قوم کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی ترقی کے لئے دوسروں کو مارے یا اُن کے حقوق کو تلف کرے۔ جس طرح ایک فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ اگر اس پر کسی نے ظلم کیا ہو تو وہ ظالم کو اس ظلم کی خود ہی سزا دینی شروع کر دے۔ اگر کوئی قاتل ہو تو اسے قتل کر دے یا چور ہو تو اسے اپنے ملک کے دستور اور قانون کے مطابق سزا دے۔ اسی طرح ایک قوم کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ اگر اس پر ظلم کیا جائے تو اس ظلم کے ازالہ کے لئے جو قانونی علاج مقرر ہو اس کو ترک کر کے ظالم کو خود ہی سزا دینی شروع کر دے۔ مگر دیکھا یہی جاتا ہے کہ دھینگا مُشتی سے ، زور سے، آپ ہی آپ بغیر اس کے کہ قانونی طور پر جھگڑوں کا تصفیہ کرایا جائے اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لئے ایسی جدوجہد کی جاتی ہے جو شرعاً اور اخلاقاً جائز نہیں ہوتی۔ حالانکہ اخلاق کی پابندی فرد اور قوم دونوں کے لئے ضروری ہے۔ جس طرح ایک فرد کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ اگر زید نے اس کے باپ کو مارا ہو تو وہ خود ہی اٹھ کر زید کو قتل کر دے یا زید کے علاوہ اس کے رشتہ داروں کو بھی جوشِ انتقام میں قتل کرنا شروع کر دے۔ اسی طرح ایک قوم کے لئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ اگر اس پر حملہ ہو تو وہ جوشِ عداوت میں اخلاق کو نظر انداز کر دے اور حملہ آور کی قوم کے لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دے۔ مگر ہم دنیا میں روزانہ دیکھتے ہیں کہ اگر کسی قومی مُناقشہ کی بِناء پر کسی مسلمان کے ہاتھ سے کوئی ہندو مارا جاتاہے تو اس محلہ میں جو بھی مسلمان گزرتا دکھائی دے اسے ہندو مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی ہندو کے ہاتھ سے کوئی مسلمان ایسے موقع پر مارا جائے تو ان کے محلہ میں سے جو ہندو بھی گزر رہا ہو اس پر حملہ کر دیتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہی قانون افراد کے متعلق نافذ کیا جاسکتا ہے اور کیا افراد کو اس بات کی اجازت دی جا سکتی ہے کہ اگر ان میں سے کسی فرد کو دوسری قوم کا کوئی شخص مار دے تو اُنہیں اس بات کا حق حاصل ہے کہ اس قوم کا انہیں جو شخص بھی دکھائی دے اسے قتل کر دیں۔ اگر افراد کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی تو قوم کو اس بات کی اجازت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ اور اگر افراد اخلاق کے پابند ہیں تو قوم کیوں اخلاق کی پابند نہیں سمجھی جا سکتی۔ مگر باوجود اس کے کہ اخلاق کی جس طرح فردی زندگی میں ضرورت ہے اسی طرح قومی زندگی بھی اخلاق کے بغیر درست نہیں ہو سکتی۔ سیاسیات میں اس بات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور صراحتاً اپنے مفاد کے لئے جھوٹ بولا جاتا ہے۔ جنگیں ہوتی ہیں تو ایسی ایسی خبریں ایک دوسرے کے متعلق شائع کی جاتی ہیں جن میں ذرا بھی اصلیت نہیں ہوتی۔ ہم ہندوستان میں رہتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یہاں کی کیا حالت ہے۔ ملک میں فسادات ہو رہے ہیں یا نہیں ہو رہے مگر حالت یہ ہے کہ ہم جب اپنے آپ کو بالکل امن میں دیکھ رہے ہوتے ہیں اس وقت دشمن اس قسم کی خبریں پھیلا رہا ہوتا ہے کہ ہندوستان میں بڑے بھاری فسادات ہو رہے ہیں۔
مَیں نے خود ایک دفعہ جرمن ریڈیو کو یہ اعلان کرتے سنا کہ آجکل ہندوستان میں سخت فسادات برپا ہیں اور گورنمنٹ کے خلاف لوگ بغاوت کر رہے ہیں۔ اب یہ ایک صریح جھوٹ تھا جو جرمن ریڈیو پر بولا جا رہا تھا مگر باوجود اس کے کہ یہ کھلا اور بیّن جھوٹ تھا۔ جرمن ریڈیو پر بولنے والا اور جرمن حکومت دونوں یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہے تو جھوٹ مگر سچ سے زیادہ قیمتی ہے کیونکہ اس سے ان کی قوم کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جبکہ ابھی گاندھی جی پکڑے نہیں گئے تھے اور ملک میں فسادات شروع نہیں ہوئے تھے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ صرف جرمن والے ایسا کرتے ہیں، مقابل کی حکومتیں بھی ایسا ہی کرتی ہیں۔ نہ مَیں اس سے انگریزوں اور امریکنوں کو بَری سمجھتا ہوں، نہ جرمنوں اور اطالویوں کو بَری خیال کرتا ہوں۔ یہ ساری قومیں سیاسیات میں اخلاق کو نظرانداز کر دیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ اگر کسی خبر سے ملک کو فائدہ پہنچتا ہو تو گو وہ غلط ہی ہو اُسے بیان کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ لیکن دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک اس رویہ کو نہ بدلا جائے۔ دنیا میں امن کے قیام کا ذریعہ صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنے سامنے چند اصول رکھیں جو بالکل صحیح اور درست ہوں اور پھر اپنی قومی، اخلاقی اور فردی زندگی کو اُن اصول کے تابع کر دیں۔ تا ہم میں سے ہر شخص جانتا ہو کہ دوسرا شخص کس قسم کا معاملہ کرے گا اور اس کے دل میں کسی قسم کی گھبراہٹ نہ پیدا ہو۔ اگر ہر شخص جانتا ہو کہ دوسرے لوگ ضابطۂ اخلاق کے پابند ہیں اور وہ ان اصول کو کبھی نظرانداز نہیں کریں گے جو اس غرض کے لئے مقرر ہیں تو دشمن کے ملک میں بھی رہ کر اس کا دل مطمئن ہو گا اور وہ سمجھے گا کہ یہ لوگ مجھ پر کوئی جھوٹا الزام نہیں لگا سکتے۔ لیکن اگر ہر شخص اپنے دل میں ڈر رہا ہو کہ گو مَیں نے کوئی جرم نہ کیا ہو لیکن چونکہ مَیں فلاں ملک میں رہتا ہوں جو میرے ملک کا دشمن ہے یا فلاں قوم کے درمیان آ بسا ہوں جو میری قوم کی دشمن ہے اس لئے مجھ پر ہر قسم کے جرم کا الزام لگایا جا سکتا ہے تاکہ مجھے نقصان پہنچے۔ تو اس صورت میں امن کہاں حاصل ہو سکتا ہے اور کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ دنیا مہذب و متمدّن ہو گئی ہے۔
غرض سیاسی لحاظ سے ہمیں ساری دنیا سے اختلاف ہے۔ کسی سے کم اور کسی سے زیادہ۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بعض زیادہ ظلم کرتے ہیں اور بعض کم ظلم کرتے ہیں لیکن بہرحال اپنی سیاست اور قانون پر اخلاق کو حاوی کر لینے کا دستور ہم نے اس وقت تک کسی قوم میں نہیں دیکھا۔ باقی رہا مذہب، سو مذہب کے معاملہ میں انہوں نے جو کچھ کہا یا جو کچھ ان کے متعلق کہا جاتا ہے میرے نزدیک اس میں کچھ غلط فہمیاں ہیں اور کچھ غلطیاں۔ مثلاً کہا گیا ہے کہ تُرکی وفد نے اس سوال کے جواب میں کہ آپ پہلے مسلمان ہیں یا تُرک یا پہلے تُرک ہیں اور پھر مسلمان۔ یہ کہا کہ ہم پہلے تُرک ہیں اور بعد میں مسلمان ہیں۔ اس کے متعلق ہندو اخباروں نے بھی اور مسلمان اخباروں نے بھی اپنے اپنے خیالات ظاہر کئے ہیں۔ ہندو خوش ہیں کہ تُرکوں نے فیصلہ کر دیا کہ قومیت پہلے ہے اور مذہب بعد میں۔ اسی طرح ہندوستان میں قومیت کو مقدم رکھنا چاہیئے اور مذہب کو مؤخر سمجھنا چاہیئے۔ اور بعض نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ تُرک مذہب سے بیزار ہیں۔ میرے نزدیک اس جواب کے سمجھنے میں کچھ غلط فہمی ہوئی ہے اور اگر تُرکی وفد سے دوبارہ پوچھ لیا جائے تو مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی اس خیال کا اظہار کرے گا کہ ان کا جواب سمجھنے میں ہندوستان کے لوگوں سے غلطی ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض محاورے ایسے ہوتے ہیں جو خاص خاص ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ محاورے ان ممالک کے رہنے والے لوگ تو سمجھتے ہیں لیکن انہی محاوروں کو اگر دوسرے ممالک کے لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ ان کو نہیں سمجھ سکتے۔ جس طرح ہر زبان میں بعض محاورے پائے جاتے ہیں اسی طرح بعض قوموں میں یہ دستور اور رواج پڑ جاتا ہے کہ وہ خاص قسم کے محاورات استعمال کرتے اور اُن سے خاص مفہوم مراد لیتے ہیں۔ یہ جو محاورہ ہے کہ مَیں پہلے کیا ہوں اور بعد میں کیا ہوں۔ یہ ہندوستان میں یہاں کی ضرورتوں کی وجہ سے ایجاد کر لیا گیا ہے۔ بیرونی ملکوں میں یہ محاورہ نہیں پایا جاتا اور اس محاورے کا کہ مَیں پہلے ہندوستانی ہوں اور بعد میں ہندو یا پہلے ہندو ہوں اور بعد میں ہندوستانی یا پہلے مسلمان ہوں اور بعد میں ہندوستانی یا پہلے ہندوستانی ہوں اور بعد میں مسلمان۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ دونوں چیزیں آپس میں ٹکرا جائیں تو پھر ہم کس کے پیچھے چلیں گے۔ جو لوگ مذہب کے دلدادہ ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر مذہب اور سیاست آپس میں ٹکرا جائے تو ہم مذہب کے پیچھے چلیں گے اور جو لوگ سیاسیات کے دلدادہ ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مذہب کا سیاست کے ساتھ کیا تعلق؟ اول تو ان دونوں کو ٹکرانا نہیں چاہیئے لیکن اگر ٹکرا جائیں تو ہم سیاسی عقیدہ کو مذہب پر مقدم رکھیں گے مگر اِس قسم کا جھگڑا اور فساد اور کہیں نہیں۔ ہندوستان میں چونکہ مختلف مذاہب پائے جاتے ہیں اور لوگ آپس میں مذہبی اختلاف کی وجہ سے لڑتے جھگڑتے ہیں اس لئے ہندوستان میں یہ محاورہ نظر آتا ہے کہ تم پہلے کیا ہو اور بعد میں کیا ہو۔ بہرحال جب یہ الفاظ استعمال کئے جائیں گے تو ہندوستان میں اس کے اور معنی لئے جائیں گے اور بیرونی آدمی اس کا اور مفہوم لے گا۔ وہ اگر کہے گا کہ مَیں پہلے تُرک ہوں اور پھر مسلمان تو اس کا مقصد ان الفاظ سے صرف اتنا ہی ہو گا کہ اگر کوئی غیرملکی جتھا صرف مذہب کی بنیاد پر بنانے کا سوال ہو تو پھر مَیں اس کا حامی ہوں گا یا نہیں ۔ یعنی اگر سارے مسلمان بلحاظ مسلمان ہونے کے قطع نظر اس سے کہ ان میں کس قدر اختلافات ہوں آپس میں اشتراک کرنا چاہیں تو ایسی صورت میں مَیں اپنے ملک کے مسلمانوں کے مفاد کا خیال رکھوں گا یا ان کے مفاد کو قربان کرتا ہؤا باہر کے مسلمانوں سے اشتراک عمل کر لوں گا۔ یہی احساس عیسائیوں میں بھی رہا ہے۔ چنانچہ کرو سیڈز (Crusades)یعنی صلیبی جنگیں اسی خیال کی بناء پر ہوئی ہیں۔
پس میرے نزدیک جب ترکوں سے یہ پوچھا گیا کہ آپ پہلے مسلمان ہیں یا تُرک اور اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ ہم پہلے تُرک ہیں اور پھر مسلمان۔ تو اس کا مفہوم محض یہ تھا کہ ہمیں باقی مسلمان قوموں سے بے شک ہمدردی ہے لیکن اگر ہم کسی وقت دیکھیں گے کہ ہماری قوم کو نقصان پہنچنے والا ہے تو اس وقت ہم اپنی جان پہلے بچائیں گے اور دوسروں کا فکر بعد میں کریں گے۔ یہ معنے نہیں تھے کہ ہم تُرک نسل کو مقدّم کریں گے اسلام کو مقدّم نہیں کریں گے کیونکہ وہاں تو کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔ سب لوگ مسلمان ہیں۔ یہ اختلاف تو ہندوستان میں ہی پایا جاتا ہے کیونکہ یہاں مختلف مذاہب کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ تُرک تو سب کے سب مسلمان کہلاتے ہیں۔ اُن کا ذہن ان معنوں کی طرف جا ہی کس طرح سکتا ہے کہ ہم قومیت کو مقدّم کریں گے اور مذہب کو مؤخر کریں گے۔ پس ان کا جواب سیاسی جواب ہے اور یہ سیاسی جواب نیا تو نہیں۔ جب اُن میں خلافت قائم تھی اُس وقت بھی ان کی طرف سے یہی بات پیش کی جاتی تھی اور آج بھی یہی بات پیش کی جاتی ہے۔ یہ عادت تو صرف ہندوستانیوں میں ہی پائی جاتی ہے کہ وہ دنیا کے ہر جھگڑے میں دخل دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ جس کا اپنا کوئی گھر نہ ہو وہ ہر گھر کو اپنا گھر سمجھنے لگ جاتا ہے۔ چونکہ ہندوستانیوں کا اپنا کوئی گھر نہیں اس لئے وہ ہر گھر کو اپنا گھر خیال کرنے لگ جاتے ہیں۔ تُرک کسی مشکل میں مبتلا ہوں تو تُرکی لوگ تو اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہوں گے مگر ایک ہندوستانی مُلّا یا سیاسی لیڈر کے مُنہ میں ان کی حمایت میں تقریریں کرتے ہوئے جھاگ آ رہی ہو گی۔ عرب کسی ابتلاء میں آئیں تو وہ تو اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے روٹی کھا رہے ہوں گے اور ہندوستان کے مولوی سٹیج پر کود رہے ہوں گے کہ عرب کے لوگ بڑی مصیبت میں مبتلا ہیں ان کی مدد کی جائے۔ یہی حال مصریوں کا ہے۔ مصری اس بات پر غور کر رہے ہوتے ہیں کہ انگریزوں سے سمجھوتہ کر لیں اور ہندوستانی مولوی جس کے پاس تلوار چھوڑ ایک کوڑا تک نہیں ہوتا وہ سٹیج پر ناچ رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے ہم اس معاملہ میں کسی صورت میں انگریزوں سے سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ نحاس پاشا 1غور کر رہا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح سمجھوتہ کرے اور لاہور کا ایک مولوی جس کا ان امور سے نہ کوئی واسطہ ہوتا ہے، نہ تعلق اور جسے کوئی پوچھتا بھی نہیں وہ یونہی کُودتا پھرتا ہے اور کہتا ہے سمجھوتہ ہرگز نہیں ہو گا۔ تو یہ صرف ہندوستان ہی ہے جس نے اپنے اوپر ساری دنیا کی ذمہ داری سمجھ رکھی ہے۔ باقی ممالک کی یہ حالت نہیں۔ وہ اپنے حالات کو دیکھتے، غور کرتے اور ان سے نتائج اخذ کرتے ہیں اور پھر جیسا موقع ہو ویسا ہی کرتے ہیں۔ مگر ہندوستان کا بے اصولا لیڈر یہ سمجھتا ہے کہ دنیا میں کوئی کام اس کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ صلح اس کے بغیر نہیں ہوسکتی، سمجھوتہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا، امن اس کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا، ترقی اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ وہ سولہ آنے اپنی رائے کو درست سمجھتا اور اپنے بے اصولے پن کو صحیح طریقِ عمل قرار دیتا ہے۔ حالانکہ نہ اسے کوئی اہمیت حاصل ہوتی ہے نہ اس نے دشمن کے پاس جانا ہوتا ہے نہ اس نے لڑائی کرنی ہوتی ہے اور نہ ہی اسے کوئی پوچھتا ہے۔ مگر وہ گھر بیٹھے سولہ آنے اپنی رائے کو درست قرار دے رہا ہوتا ہے۔ ترک بلغاریہ سے لڑتے ہیں اور پھر آپس میں صلح کی شرائط طے کرتے ہیں مگر یہ ہندوستانی گھر بیٹھے شور مچاتےچلے جائیں گے کہ ہم بلغاریوں کو مار ڈالیں گے، انہیں پیس ڈالیں گے اور کبھی ان سے صلح نہیں کریں گے۔ حالانکہ یہ اپنے گھر میں بیٹھا ہؤا ہے اور یہ دشمن پر تلوار اور گولی تو کیا مٹی کی ایک مُٹھی بھی نہیں پھینک سکتا مگر شور مچانے میں سب سے آگے ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں تُرکوں کی یہ حالت ہے کہ جب ہندوستان میں غدر ہؤا تو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے انگریزی فوج کو اپنے علاقہ میں سے گزرنے کی اجازت دینے پر آمادگی ظاہر کر دی اور اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہ کی کہ یہ فوج ایک مسلمان ہندوستانی حکومت کے مقابلہ کے لئے جائے گی۔ انہوں نے انگریزوں کو لکھ دیا کہ اگر انگریزی فوج کیپ ٹاؤن سے دیر میں پہنچے گی تو ہم اس فوج کے گزرنے کے لئے اپنے ملک سے رستہ دینے کے لئے تیار ہیں اسی طرح فلسطین اور شام میں مسلمانوں سے جو کچھ ہوتا ہے تُرکوں کو اس کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں چندے بھی ہوتے ہیں، لیکچر بھی ہوتے ہیں، اخباروں میں مضامین بھی لکھے جاتے ہیں مگر تُرک جو اُن کے ہمسایہ ہیں ان کو کچھ بھی احساس نہیں ہوتا۔ ممکن ہے ان کے دلوں میں کبھی ہمدردی کا کچھ جذبہ بھی پیدا ہوتا ہو اور وہ کہہ دیتے ہوں کہ ہمیں ان تکالیف میں فلاں فلاں علاقہ کے مسلمانوں سے ہمدردی ہے مگر وہ جوش و خروش جو ہندوستان میں پایا جاتا ہے وہ ان میں نظر نہیں آتا۔ تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ تُرک ہمیشہ سے ایسا کرتے چلے آئے ہیں۔ اس لئے ان کا یہ جواب تعجب کا باعث نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح یہ سوال کہ اسلامی نقطۂ نگاہ سے کیا ہونا چاہیئے مَیں اس کو بھی نہیں چھیڑتا کیونکہ یہ باتیں موجودہ ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ مثلاً اسلامی نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان ایک ہاتھ پر جمع ہوں۔ جب وہ ایک ہاتھ پر جمع ہوں گے تو ایک دوسرے کی مدد کا سوال ہی پیدا نہیں ہو گا۔ اب تو یہ حالت ہے کہ مصر کے مسلمان الگ ہیں ، شام کے الگ ہیں، فلسطین کے الگ ہیں عرب کے الگ ہیں، ایران کے الگ ہیں، افغانستان کے الگ ہیں اور جب کسی جگہ کے مسلمانوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسرے مسلمان ان کی کیا مدد کریں گے لیکن جب تُرک اور عرب اور ایران اور فارس سب ایک ہاتھ پر جمع ہو جائیں تو انہیں کہا جائے گا کہ الگ الگ مت رہو بلکہ اکٹھے ہو جاؤ۔ اور جب وہ اکٹھے ہو جائیں گے تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہو گا کہ عرب ایران کی مدد کرتا ہے یا نہیں یا افغانستان تُرکوں کی مدد کرتا ہے یا نہیں۔ کیونکہ وہ سب ایک ہوں گے، الگ الگ نہیں ہوں گے۔ پس جو کچھ اسلام کہتا ہے اس کا یہاں سوال نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ آج کل مسلمانوں کی جو کچھ حالت ہو گئی ہے اس میں کیا ہونا چاہیئے اور یہ ظاہر ہے کہ یہ غیراسلامی حالت ہے۔ ہر قوم اپنے اپنے مفاد کے متعلق ایک پالیسی اختیار کر لیتی ہے اور اس پالیسی کو وہ دوسرے کاموں پر ترجیح دیتی ہے۔ پس جہاں تک آزاد قوموں کا سوال ہے ، جن کا گھر ہے وہ لازماً اپنے گھر کی حفاظت کو مقدم سمجھتی ہیں اور دوسروں کے گھروں کی حفاظت کو مؤخر قرار دیتی ہیں اور جن کا اپنا کوئی گھر نہیں وہ ہر قوم سے ہمدردی ظاہر کرتے ہیں جیسے ہندوستانی۔
پس یہ کوئی نیا انکشاف نہیں جس پر ہندوؤں نے شور مچایا ہے۔ مسلمان ایک صدی سے یہ تماشا دیکھتے چلے آئے ہیں۔ اگر اس سے مسلمانوں کی کمزور حالت ثابت ہوتی ہے تو یہ کمزور حالت آج ثابت نہیں ہو رہی ۔ آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے بھی یہی حالت تھی اور اس سے کچھ بھی ظاہر نہیں ہوتا تو پھر اس پر رنج کا کون سا مقام ہے۔ ہاں ایک بات ہے جو اہمیت رکھتی ہے اور اگر وہ سچ ہے تو واقع میں افسوسناک ہے۔ اور وہ یہ کہ ایک سوال وفد سے یہ بھی کیا گیا کہ کیا آپ روزانہ نماز ادا کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ سفر میں نماز کیا پڑھنی ہے۔ یہ جواب بتاتا ہے کہ اگر یہ بات سچی ہے تو تُرکوں کا وہ وفد جو ہندوستان میں آیا ہے اس کے دل میں اسلام کی تعلیم نے پوری طرح گھر نہیں کیا۔ ہم اس سے یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے کہ ساری تُرکی قوم ایسی ہے کیونکہ بہرحال یہ چند افراد کا جواب ہے اور وہ اپنے فعل کے آپ ذمہ دار ہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ تُرکوں کے منتخب نمائندے ہیں۔ پس بے شک ان کا فعل ایک قوم کا فعل قرار نہیں دیا جا سکتا مگر چونکہ تُرکوں نے انہیں اپنا نمائندہ منتخب کر کے بھیجا ہے اس لئے یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ تُرکوں کی طرف سے جو نمائندے چُن کر بھیجے گئے ہیں اُن کے دلوں میں نماز کی جو اسلام کے ارکان میں سے ایک بہت بڑا رُکن ہے کوئی عظمت نہیں۔ پس یہ سوال ہے جو درحقیقت اہمیت رکھتا ہے مگر میرے نزدیک اس میں بھی ہندوؤں کے لئے خوش ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔
مَیں نے خود ایک دفعہ ایک ہندو اخبار میں یہ لکھا ہؤا دیکھا تھا کہ ہمارے ہاں سندھیا یعنی صبح کی عبادت کا جو طریق رائج ہے اس کا ہم میں سے ایک بھی پابند نہیں ہے۔ جس قوم کی اپنی یہ حالت ہو اور جس قوم کا ایک فرد بھی عبادت کا پابند نہ ہو اسے اس بات پر کیا خوشی ہو سکتی ہے کہ دو کروڑ تُرکوں میں سے چھ تُرک ایسے ہیں جو سفر کی حالت میں نماز نہیں پڑھتے۔ جس قوم کے تیس کروڑ افراد میں سے ایک فرد بھی اپنے مذہب کی بتائی ہوئی عبادت کو نہیں بجا لاتا اسے اس بات کی کیا خوشی ہو سکتی ہے کہ دو کروڑ میں سے چھ شخص ایسے ہیں جو نماز نہیں پڑھتے ۔ مگر یہ اعتراض بھی تب ہوتا جب یہ تسلیم کیا جاتا کہ اسلام اپنی عملی صورت میں اس وقت دنیا میں موجود ہے۔ مگر جہاں تک غیراحمدیوں کا سوال ہے وہ بھی یہ نہیں کہتے کہ اسلام اپنی اصل شکل میں دنیا میں موجود ہے۔ اور احمدیوں کا تو سوال ہی نہیں۔ ہمارے تو دعویٰ کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے دنیا میں بھیجا ہے تاکہ آپ اسلام کو اس کی اصل شکل و صورت میں پھر قائم کریں۔
پس اگر تُرکوں نے یہ کہا کہ سفر میں نماز کیا پڑھنی ہے تو اس کے معنے صرف اتنے ہیں کہ انہوں نے اپنے اس جواب سے ایک اور تصدیق اس امر کی بہم پہنچا دی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کی اصلاح کے لئے ضرور کوئی مامور مبعوث ہونا چاہیئے کیونکہ آج خود مسلمانوں کی یہ حالت ہو رہی ہے کہ وہ اسلامی تعلیم پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ پس مسلمانوں کو اس جواب پر پریشان ہونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے گریبانوں میں مُنہ ڈالیں اور سوچیں کہ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کی نگاہیں خداتعالیٰ کی طرف اُٹھیں اور اسے پکار کر کہیں کہ الٰہی ہماری حالت کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ہم تیرے رحم کے طالب اور تیرے فضل کے خواستگار ہیں۔ تُو آپ ہمارے دلوں پر روشنی نازل فرما اور ہمیں اپنے نور سے منوّر کر ۔ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور وہ اس طرح مضطربانہ رنگ میں دعائیں کریں تو اللہ تعالیٰ اُن کی ہدایت کے سامان پیدا کر دے گاکیونکہ واقعہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روشنی تو پیدا کر دی ہے مگر وہ تاریک کونوں میں چُھپے بیٹھے ہیں اور اس نور سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے۔ ایک سَو سال سے زیادہ عرصہ گزرا کہ اسلام کے نام لیوا دنیا کی نگاہوں میں ذلیل ہو گئے تھے اور تمام مسلمان خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے، عالِم ہوں یا جاہل، مہذّب ہوں یا غیرمہذّب، تعلیم یافتہ ہوں یا غیرتعلیم یافتہ، سیاسی ہوں یا غیرسیاسی، مشرقی ہوں یا مغربی، کسی ملک اور کسی علاقہ میں بستے ہوں اُن کے دلوں میں اسلام کی تعلیم کی کوئی عظمت باقی نہیں رہی تھی۔ چنانچہ آج سے پچاس سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ تمام نقشہ کھینچ کر رکھ دیا تھا۔ تُرکی وفد نے کون سی نئی بات بتائی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا ع
ہر کسے در کارِ خود با دینِ احمدؐ کار نیست2
ہر شخص کو اپنے اپنے کام سے تعلق ہے مگر رسول کریم ﷺ کے دین سے کسی کو کوئی واسطہ نہیں۔ اسی طرح آپؑ نے فرمایا تھا ع
بیکسے شد دینِ احمدؐ ، ہیچ خویش ویار نیست3
دینِ اسلام بے کس ہو گیا ہے اور کوئی اس کا دوست و مددگار نہیں رہا۔ یہ وہ چیز ہے جسے سلسلہ احمدیہ پچاس سال سے پیش کر رہا ہے اور ہم تسلیم کر چکے ہیں کہ آج مسلمانوں کی یہی حالت ہو رہی ہے۔ پھر اس کو اسلام کی ایک نئی شکست کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بیماری تو وہ ہے جس کا اعلان آج سے پچاس سال پہلے بلکہ اس سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کر دیا تھا۔ پس یہ کوئی نئی بیماری نہیں جو ہمارے سامنے پیش کی جائے ۔ دشمنانِ اسلام کو جو کچھ دیکھنا چاہیئے وہ یہ ہے کہ کیا اس بیماری کے علاج کا کوئی شفا خانہ دنیا میں قائم ہو چکا ہے یا نہیں۔ اگر دنیا میں اس بیماری کے علاج کا شفاخانہ قائم ہو چکا ہے تو پھر اس میں ان کے لئے خوشی کا کون سا موقع ہے۔ آج دوبارہ اسلام کی ترقی کے سامان خداتعالیٰ نے پیدا کر دئیے ہیں اور دوبارہ اسلام کی بنیادوں کی تعمیر کے لئے قادیان میں اس نے اپنا ایک انجینئر بھیج دیا ہے۔ اس انجینئر نے اسلامی بنیادوں کو مضبوط کر کے اس پر اسلام کے رفیع الشان محل کی عمارت کو کھڑا کرنا شروع کر دیا ہے۔
پس اگر کوئی دشمنِ اسلام اسلام کی گرتی ہوئی بنیاد کو دیکھ رہا ہے تو وہ اُن اُٹھتی ہوئی بنیادوں کو بھی دیکھے جس کے عظیم الشان محل میں دنیا کی تمام پاکیزہ روحوں کو لا کر اکٹھا کر دیا جائے گا۔ اُن کو وہ چھ شکست خوردہ ذہنیت کے مالک مسلمان نظر آتے ہیں مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اُن کے گھروں کے سامنے خداتعالیٰ کی یہ آواز بلند کی جا رہی ہے کہ ‘‘ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔’’ کیا یہ آواز اُن کے کانوں میں نہیں آتی۔ وہ محل جس کی دیواریں ایک طرف گر رہی ہوں اور دوسری طرف اس کی نئی اور مضبوط دیواریں کھڑی کی جا رہی ہوں اس محل کی دیواریں گرنے پر کسی دشمن کو کیا خوشی ہو سکتی ہے۔ اگر ایک طرف اسلام کی کوئی دیوار گر رہی ہے تو دوسری طرف اس کی نئی اور مضبوط دیواریں خداتعالیٰ کے فضل سے کھڑی کی جا رہی ہیں۔ پس دشمن کے لئے خوشی کا کوئی موقع نہیں۔ بے شک یہ ایک کمزوری ہے اور ہم اس کمزوری کو تسلیم کرتے ہیں۔ مگر ہمارے لئے یہ کمزوری کوئی نئی چیز نہیں۔ آج سے تیرہ سَوسال پہلے رسول کریم ﷺ نے اس کی خبر دے دی تھی۔ اور آپ بتا چکے تھے کہ ایک زمانہ میں مسلمانوں کی کیا حالت ہو جائے گی۔
مجھے اس وقت ایک مرحوم دوست کا واقعہ یاد آ گیا۔ مَیں ایک دفعہ دہلی میں گیا ہؤا تھا۔ میری مرحومہ بیوی سارہ بیگم اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم نے امتحان پاس کیا تھا اور مَیں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ امتحان کے پاس کرنے کے بعد میں تمہیں آگرہ اور دہلی وغیرہ کی سیر کراؤں گا۔ مَیں انہیں دہلی کا قلعہ دکھانے لے گیا۔ جب سیر کرتے کرتے ہم قلعہ کی مسجد کے پاس پہنچے تو میں نے اپنی بیوی اور بچی سے کہا کہ اب تو قلعہ فوج کے قبضہ میں ہے ۔ نہ معلوم یہاں خداتعالیٰ کا ذکر کبھی کسی نے کیا ہے یا نہیں۔ آؤ ہم یہاں نماز پڑھ لیں۔ چنانچہ ہم نے وہاں پانی منگوایا، وضو کیا اور نماز پڑھی۔ میری بیوی اور بچی تو جلدی نماز سے فارغ ہو گئیں مگر میں بہت دیر تک نماز میں مشغول رہا اور دعائیں کرتا رہا۔ جب نماز سے فارغ ہؤا تو مَیں نے دیکھا کہ دو اور عورتیں میری بیوی اور بچی سے باتیں کر رہی ہیں۔ مَیں ایک طرف ہو گیا۔ اس کے بعد میری بیوی میرے پاس آئی اور اس نے بتایا کہ یہ سرحد کی طرف کی عورتیں ہیں۔ ان میں سے ایک کا باپ اور ایک کا چچا بھی ساتھ ہی ہیں۔ اور لڑکی دریافت کرتی ہے کہ میرا باپ اور چچا آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ ان سے مل سکتے ہیں؟ مَیں نے کہا مجھے ان سے ملنے میں کوئی روک نہیں۔ تم ذرا پیچھے ہٹ جاؤ۔ مَیں ٹہلتے ٹہلتے آگے چلا جاتا ہوں اور کچھ دور جا کر ان سے ملاقات کر لیتا ہوں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لڑکی کہتی ہے ہم نے ابھی نوکر اپنے باپ اور چچا کی طرف بھجوایا ہے اور وہ آپ سے ابھی ملنے کے لئے آتے ہیں۔ چنانچہ مَیں آگے چل پڑا اور میری بیوی اور بچی دوسری مستوارات کے ساتھ پیچھے رہیں۔ جب مَیں دیوانِ خاص یا کسی اور مقام کے قریب پہنچا تو مجھے اپنے پیچھے سے آواز آئی کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ۔ مَیں نے مُڑ کر دیکھا تو دو آدمی کھڑے تھے۔ رسمی گفتگو کے بعد ان میں سے ایک نے کہا کہ میری لڑکی نے کسی طرح آپ کی مستورات کو دیکھ لیا اور گفتگو کے بعد جب اسےمعلوم ہؤا کہ آپ قادیان سے آئے ہیں تو اس نے مجھے کہلا بھیجا کہ امام جماعت احمدیہ یہاں آئے ہوئے ہیں آپ ان سے ضرور ملیں۔ اسی وجہ سے مجھے آپ سے ملنے کا خیال پیدا ہؤا۔ مَیں نے کہا لڑکی کو یہ خیال کس طرح پیدا ہؤا۔ اور اس نے آپ کو یہ کس طرح تحریک کر دی کہ آپ مجھ سے ملیں۔ وہ کہنے لگے مَیں چارسدّہ کا ہوں اور میرا بھائی احمدی ہے۔ اور میری یہ لڑکی ان کے لڑکے سے بیاہی ہوئی ہے۔ اس وجہ سے اس کے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ مَیں اپنے باپ سے کہوں کہ وہ بھی آپ سے ملاقات کر لے۔ مَیں نے ان سے کہا کہ چارسدّہ میں خان محمد اکرم خاں صاحب ہمارے ایک احمدی دوست ہیں۔ کہنے لگے وہ میرے بڑے بھائی ہیں اور مَیں اگزیکٹو انجینئر ہوں۔ فقیر محمد خاں میرا نام ہے اور میں ولایت جا رہا ہوں۔ میری بیوی اور بیٹی بھی میرے ساتھ ہی ہوں گی۔ کچھ عرصہ وہاں ٹھہرنے کا ارادہ ہے۔ سیر کرنے کے بعد واپس آ جائیں گے۔ ان کی طبیعت کچھ مذاقی تھی۔ باتوں باتوں میں ہنس کر کہنے لگے کہ ہم نے اپنے خاندان سے اٹھنّی آپ کو دے دی ہے۔ ہم دو ماؤں سے چار بھائی ہیں۔ ایک ماں کا ایک بیٹا محمد اکرم اور دوسری ماں کا ایک بیٹا غلام سرور یہ تو احمدی ہیں مگر میں اور میرا دوسرا بھائی احمدی نہیں۔ میں نے بھی انہیں مذاقیہ رنگ میں کہا کہ ہمارا سلسلہ اٹھنّی پر راضی نہیں ہوتا ۔ ہم تو پورا روپیہ لے کر راضی ہوتے ہیں۔ کہنے لگے محمد اکرم نے مجھے بڑی تبلیغ کی ہے اور مَیں ان کا بڑا ادب بھی کیا کرتا ہوں کیونکہ وہ میرے بڑے بھائی ہیں مجھے ان سے محبت بھی بہت ہےمگر اب تک تو مجھ پر اثر نہیں ہؤا۔ اور مَیں تو اس بات کی ضرورت ہی نہیں سمجھتا کہ اس سوال پر غور کروں کہ دنیا کی اصلاح کے لئے کسی مامور کو آنا چاہیئے یا نہیں۔ مَیں نے کہا آخر بات کیا ہے کہ آپ کی اس طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی۔ کیا نبوت کا مسئلہ روک ہے یا کفر و اسلام کے مسئلہ کی وجہ سے طبیعت میں اطمینان پیدا نہیں ہوتا۔ ان کا تعلق سر عبدالقیوم صاحب سے بھی تھا۔ کہنے لگے نبوت کا مسئلہ تو میری راہ میں کوئی روک نہیں۔ سر عبدالقیوم صاحب کی مجلس میں کئی دفعہ اس موضوع پر گفتگو ہوئی ہے اور مَیں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ نبوت کا مسئلہ میرے رستہ میں حائل نہیں۔ اگر خداتعالیٰ کی طرف سے آج دنیا کی اصلاح کے لئے کسی شخص کے آنے کی ضرورت ہے تو پھر نبی بھی آ سکتا ہے مگر مَیں تو اس بات کا قائل ہی نہیں کہ رسول کریم ﷺ کے بعد کسی مصلح کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک آپؐ کے بعد کسی مامور ، کسی مصلح اور کسی مدّعی کی حاجت نہیں۔ خیر یہ گفتگو ہوئی اور اس کے بعد وہ چلے گئے۔ تین مہینے گزرے تھے کہ لنڈن سے مجھے ایک خط ملا جس کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی تھی کہ آپ کو یاد ہو گا دو آدمی آپ کو دلّی کے قلعہ میں ملے تھے اور ان میں سے ایک نے آپ سے کہا تھا کہ ہم نے آپ کو روپیہ میں سے اٹھنّی دے دی ہے اور ایک اٹھنّی ہمارے پاس ہے۔ وہ مَیں ہی تھا جس نے یہ الفاظ کہے تھے لیکن آج مَیں لنڈن سے اس خط کے ذریعہ اس بقیہ اٹھنّی میں سے ایک اور چونّی آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اور اپنے آپ کو آپ کی بیعت میں شامل کرتا ہوں۔ یہ وہی خان صاحب فقیر محمد خاں صاحب تھے ، اب فوت ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے لکھا کہ میری احمدیت میں شمولیت کی بھی عجیب صورت ہوئی۔ جب مَیں ہندوستان سے روانہ ہونے لگا تو میرے بھائی صاحب نے زبردستی میرے ٹرنک میں دو تین کتابیں رکھ دیں۔ مَیں نے ان سے کہا بھی ان کتابوں کا کیا فائدہ ہے۔ مَیں وہاں سیر کرنے چلا ہوں کتابیں پڑھنے تو نہیں چلا مگر انہوں نے مانا نہیں اور دو تین کتابیں زبردستی ٹرنک میں رکھ دیں ۔ جب اس سفر میں مَیں یورپ کے ملکوں میں سے گزرا اور عیسائیوں کی طاقت ، ان کی قوت اور ان کی عظمت و شوکت کو دیکھا تو میرے دل پر مایوسی طاری ہوتی چلی گئی اور مَیں نے کہا کہ اب اسلام کی ترقی کی کوئی صورت باقی نہیں رہی اور کوئی ایسا شاندار مستقبل نہیں جس کی اسلام کے متعلق توقع کی جا سکے۔ انہوں نے لکھا میرے دل پر یہ حالات دیکھ کر اس قدر مایوسی طاری ہوئی کہ مَیں گھبرا گیا اور مَیں نے یقین کر لیا کہ اب ہمارے لئے دنیا میں کوئی ٹھکانا باقی نہیں۔ ہندوستان میں بیٹھے ہوئے تو ہم خیالی پلاؤ پکاتے رہتے اور اپنی ترقی کی خوابیں دیکھتے رہتے ہیں مگر یہاں جو کیفیت دکھائی دے رہی ہے اس کا نتیجہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے سوائے موت اور تباہی کے اور کچھ نہیں۔ اسی گھبراہٹ کی حالت میں مَیں نے آپ کی ایک کتاب نکالی اور اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ ’’دعوۃ الامیر ‘‘ یا ’’احمدیت‘‘ ان دونوں میں سے کوئی ایک کتاب تھی جس کا انہوں نے ذکر کیا۔ غالباً وہ دعوۃ الامیر ہی تھی۔جب مَیں نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو اس میں مجھے اس موضوع پر بھی بحث ملی کہ لوگ کہتے ہیں اسلام کے تنزل کا وقت آ گیا مگر وہ ایسا کیونکر کہہ سکتے ہیں جبکہ اس تنزل کی تمام تفصیلات کی خبر آج سے تیرہ سو سال پہلے رسول کریم ﷺ دے چکے ہیں۔ جس شخص نے آج سے تیرہ سو سال پہلے ان تمام واقعات کی خبر دے دی تھی ان واقعات کو دیکھ کر انہیں اس کی شکست قرار دینا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس شخص کا خداتعالیٰ سے نہایت پاک تعلق تھا کہ جو باتیں ایک لمبے زمانہ کے بعد رونما ہونے والی تھیں وہ اس نے اپنی روحانی آنکھ سے تیرہ سو سال پہلے دیکھ لیں اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب اس کی یہ باتیں پوری ہو گئیں تو اس کی وہ باتیں بھی ضرور پوری ہو کر رہیں گی جو اسلام کی ترقی کے متعلق اس کی زبان پر جاری ہوئیں اور جن میں اس نے مسلمانوں کو خوشخبری دی ہے کہ اسلام مغلوب ہونے کے بعد پھر غالب آئے گا۔ پھر کفر کو دنیا سے مٹا دیا جائے گا اور پھر خدائے واحد کی پرستش کو دنیا میں قائم رکھا جائے گا۔ انہوں نے لکھا کہ مَیں جوں جوں ان پیشگوئیوں کو پڑھتا جاتا تھا میری آنکھیں کھلتی جاتی تھیں کہ عیسائیوں کی ترقی کا کیسا صحیح نقشہ رسول کریم ﷺ نے کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ مَیں نے تو آج یورپ میں پھر کر عیسائیوں کی حالت کو دیکھا مگر محمد ﷺ آج سے تیرہ سو سال پہلے رؤیا و کشوف کے ذریعہ یہ تمام حالات دیکھ چکے تھے۔ اس کے بعد جب مَیں نے یہ مضمون پڑھا کہ کس طرح رسول کریم ﷺ نے اس تنزل اور ادبار کے بعد اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کی خبر دی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح اسلام کا دوبارہ احیاء ہو گا تو میرا دل خوشی سے لبریز ہو گیا اور مَیں نے کہا ہمارے لئے اپنے مستقبل سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ ہماری ہی سستی ہے کہ ہم اس کھڑکی میں داخل نہیں ہوتے جو اس آفتاب کی روشنی کے لئے خداتعالیٰ نے کھول رکھی ہے۔ چنانچہ اس وقت کہ رات کے دو تین بجنے کے قریب ہیں پیشتر اس کے کہ مَیں چارپائی پر لیٹوں مَیں اپنی بیعت کا خط آپ کی طرف بھیج رہا ہوں۔
تو دشمن کے لئے خوش ہونے کا کوئی موقع نہیں۔ اسلام کی دیواریں اگر ایک طرف گر رہی ہیں تو ساتھ ہی ایک نئی بنیاد اسلام کی ترقی کے لئے اٹھائی جا رہی ہے۔ اگر دشمن یہ دیکھتا ہے کہ محمد ﷺ کے قلعہ میں سے آپ کے نام کی طرف منسوب ہونے والے چند شکست خوردہ لوگ ایک دروازہ سے نکلتے ہوئے اپنے ہتھیار پھینک رہے ہیں تو وہ آنکھیں اٹھا کر دیکھے کہ دوسری طرف ایک اور قوم جس کی رگوں میں جوانی، امید اور امنگوں کا خون تیزی سے دورہ کر رہا ہےفتح کے جھنڈے اڑاتی ہوئی محمد ﷺ کے نام کو بلند کرنے اور اس کی حکومت کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے ایک دوسرے دروازے سے محمدی قلعہ میں داخل بھی ہو رہی ہے۔‘‘ (الفضل 28 فروری 1943ء)
1. نحاس پاشا: (مصطفیٰ نحاس) مصر کا مشہور سیاسی راہنما ۔سعد زاغلول پاشا کے بعد وفد پارٹی کا سربراہ چُنا گیا ۔ کئی بار مصر کا وزیر اعظم رہا۔ 1952ء کے انقلاب کے بعد خانہ نشین ہوگیا (اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 2صفحہ 1713مطبوعہ لاہور 1988ء)
2،3: درثمین فارسی صفحہ 147 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ

7
اپنے ارادوں کی باگ ڈور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف پھیرنی چاہیئے
(فرمودہ 12 فروری 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’اس دنیا کے کارخانہ میں بھی عجیب عجیب نظارے نظر آتے ہیں اور انسان جو اپنے علم اور اپنی عقل اور اپنے فہم پر اس قدر مغرور ہے کہ وہ خداتعالیٰ اور اس کی قدرتوں پر بھی اعتراض اور جرح اور تنقید سے نہیں رُکتا ۔ اگر اس کے اعمال اور اس کی زندگی کے سفر پر ایک مجموعی نگاہ ڈالی جائے تو وہ ایسا پریشان اور حواس باختہ نظر آتا ہے کہ اس کی ان دونوں حالتوں کا مقابلہ نہایت ہی تعجب انگیز ہو جاتا ہے۔ ایک وقت میں تو وہ کہیں خداتعالیٰ کے قانونِ قدرت پر معترض ہوتا ہے۔ کہیں خداتعالیٰ کے قانونِ شریعت کو قابلِ تبدیل قرار دیتا ہے۔ کہیں خداتعالیٰ کی صفات میں اصلاح کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرے وقت میں وہ بالکل ایک پَر کی طرح جو پانی میں تیر رہا ہو نظر آتا ہے۔ اور اس کے اندر کسی مقابلہ اور مقاومت1 کی طاقت نہیں ہوتی۔ وہ صرف پھڑپھڑاتا ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ آج ایک چیز کسی رنگ میں نظر آتی ہے تو کل وہ بالکل ہی شکل بدل لیتی ہے۔ ایک طاقتور اور قوی انسان جس سے دنیا ڈر رہی ہوتی ہے چند گھنٹوں میں ایک بے جان لاشہ ہو جاتا ہے۔ لوگ اس کو مٹی کے نیچے دفن کر کے گھروں میں واپس آ جاتے ہیں۔ اور انسان تو انسان چھوٹے چھوٹے کیڑے بھی اس سے نہیں ڈرتے۔ بلکہ کیڑے اسے اپنی غذا بنا لیتے ہیں۔ ایک حقیر اور کمزور انسان جس کا ادب اور احترام کسی کے دل میں بھی نہیں ہوتا وہ یکدم ایسی نمایاں ہستی بن جاتا ہے کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی اس کا اندازہ نہیں ہوتا۔ یہ تمام باتیں اور نظارے جو ہمیں روزانہ نظر آتے ہیں جن کی صداقت پر دنیا کے تمام ممالک کی تاریخوں کے صفحات گواہ ہیں ہمیں اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ ہمیں اپنے فیصلوں اور کاموں میں اپنی عقل اور سمجھ پر کلی طور پر انحصار کی عادت چھوڑ دینی چاہیئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف جو تمام غیبوں کو جاننے والا ہے ہمیشہ اپنے ارادوں اور خیالات کی باگ ڈور پھیرنی چاہیے کیونکہ اسی کے پاس جا کر اور اور اسی کے قرب میں رہ کر انسان ان چیزوں کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے جن کی حقیقت عام طور پر انسان کی نگاہ سے پوشیدہ ہوتی ہے۔
یہی جنگ جو آجکل جاری ہے اسی کو دیکھ لو کس طرح تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اس میں مختلف دور آتے ہیں۔ کبھی اس پر یہ دور آیا کہ یوں معلوم ہوتا تھا اب جرمنی تباہ ہونے لگا۔ پھر دوسرا دور آیا جس میں فرانس کی طاقت چند دنوں کے اندر اندر اس طرح کچلی گئی جس طرح کوئی بڑا بیل دیوار پر لٹکائی ہوئی یا کسی جھاڑی پر لٹکائی ہوئی رضائی کے پرزے اڑا دیتا ہے یا روئی دھنکنے والا روئی کو دھنک کر رکھ دیتا ہے۔ وہ طاقت جو اکیلی ہی اپنے آپ کو جرمنی کا مدّمقابل سمجھتی تھی جس نے آج سے بیس سال پہلے جرمنی کے بعض علاقوں پر سالوں تک حکومت کی تھی اور جس کا جرمن لوگوں پر اس رنگ میں اقتدار چھایا ہؤا تھا کہ گویا وہ اس حکومت کے مقابلہ میں بالکل بے کس اور بے بس تھے۔ وہ بیس سال کے بعد سالوں میں نہیں ، مہینوں میں نہیں دنوں میں اس طرح اُڑ گئی کہ اس کا نام و نشان تک نہ رہا۔ اور دنیا نے یہ خیال کیا کہ اب جرمنی نہ معلوم کیا کر دے گا۔ پھر اس کے بعد جنگ پر دوسرا دور آیا اور جرمنی کے ایک ساتھی کو مصر میں اتنی بڑی اور عظیم الشان شکست ہوئی کہ یہ خیال کر لیا گیا کہ اب انگریزی لشکر آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا اور غالباً اٹلی کے ساحلوں پر ہی جا کر دم لے گا۔ اور پھر اس میں تغیر پیدا ہؤا اور دشمن نے آگے بڑھنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے خیال کیا کہ شاید انگریزی حکومت آخری دموں پر ہے۔ یہی حال روس میں بھی ہؤا کہ ہر ششماہی کے بعد نقشہ الٹ گیا۔ پہلی ششماہی میں روس کے متعلق یہ خیال کیا گیا کہ وہ بالکل تباہ ہو جائے گا۔ دوسری ششماہی میں یہ خیال کیا گیا کہ اس کی فوجیں جرمنی میں داخل ہو جائیں گی ۔ تیسری ششماہی میں یہ خیال کیا گیا کہ روس بچتا نظر نہیں آتا۔ اور اب چوتھی ششماہی میں پھر لوگ یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ روسی فوجیں جرمنی میں داخل ہو جائیں گی۔ کبھی ایک لمحہ کے لئے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال طاری ہو جاتا ہے کہ فیسی ازم دنیا میں قائم ہو جائے گا اور کبھی دوسرے لمحہ وہ اس شبہ میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ شاید بالشویک اب دنیا میں حکمران ہو جائیں گے۔ مگر کون یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے سوائے اُس کے جسے خداتعالیٰ کی طرف سے اطلاع ملی ہو کہ آئندہ زمانہ میں کیا ہونے والا ہےا ور کون کہہ سکتا ہے کہ اِس طرف یا اُس طرف سے دنیا کو کیا فائدہ یا کیا نقصان پہنچنے والا ہے۔
جہاں تک خداتعالیٰ کا خانہ ہے وہ تو دونوں طرف سے خالی ہے۔ نہ اتحادیوں کو خداتعالیٰ سے کوئی جوڑ ہے اور نہ ان محوریوں کو خداتعالیٰ سے کوئی تعلق ہے۔ نہ وہ چاہتے ہیں کہ خدا کا مذہب دنیا میں پھیلے اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ خدا کا مذہب دنیا میں پھیلے۔ نہ وہ توحید کے قائل ہیں نہ یہ توحید کے معترف ہیں۔ پس جہاں تک مذہب کا تعلق ہے وہاں تک تو ایک مومن شاید یہ کہنے کے لئے تیار ہو جائے گا کہ ؂
ما را چہ ازیں قصہ کہ گاؤ آمد و خر رفت
یعنی مجھے اس سے کیا واسطہ کہ گائے آئی اور گدھا گیا۔ جو آئے یا جو جائے مجھے اس سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ لیکن جہاں تک سیاسیات کا تعلق ہے قدرتی طور پر ہر جماعت جس کی کسی حکومت سے وابستگی ہے وہ اس سے ہمدردی رکھتی ہے۔ جن جماعتوں کو اپنی آئندہ بہتری انگریزوں یا امریکنوں کے ساتھ تعلق رکھنے میں نظر آتی ہے وہ قدرتی طور پر خواہشمند ہیں کہ انگریزوں اور امریکنوں کو اس جنگ میں فتح حاصل ہو۔ اور جن جماعتوں کا فائدہ جرمنوں اور جاپانیوں کی فتح میں ہے وہ قدرتی طور پر یہ آس لگائے بیٹھی ہیں کہ اس جنگ میں جرمنوں اور جاپانیوں کو فتح حاصل ہو گی۔ یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ انگریزوں اور امریکنوں کے ہمدرد تو موجود ہیں مگر جرمنوں اور جاپانیوں کے ہمدرد نہیں۔ ہندوستان میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو جرمنوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ بلکہ آجکل کوئزلنگ (Quisling) 2کی ایک نئی اصطلاح جو دنیا میں رائج ہے وہی بتاتی ہے کہ جرمنوں کے ہمدرد ہر ملک میں موجود ہیں۔ فرانس میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو جرمنوں سے ہمدردی رکھتے ہیں بلکہ ان کا موجودہ وزیراعظم تو بار بار اصرار سے یہ اعلان کر رہا ہے کہ دنیا میں امن کا قیام اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب جرمنوں کو فتح حاصل ہو۔ اسی طرح ایسے لوگ رومانیہ میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ہنگری میں بھی پائے جاتے ہیں۔ بیلجئم میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ڈنمارک میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ہالینڈ میں بھی پائے جاتے ہیں۔ سپین میں بھی پائے جاتے ہیں۔ امریکہ میں بھی پائے جاتے ہیں اور ہندوستان میں بھی پائے جاتے ہیں۔ بلکہ عرب کی بغاوت نے بھی بتا دیا کہ وہاں بھی جرمنوں سے ہمدردی رکھنے والا عنصر موجود ہے۔ اور ایران کی بغاوت نے بتا دیا کہ وہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو جرمن قوم کی فتح کو پسند کرتے ہیں۔ پس ایسے لوگ دنیا میں موجود ہیں جو جرمن فتوحات کو اپنے ممالک کے لئے بہتر سمجھتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں دنیا میں ایسی جماعتیں بھی ہیں جو انگریزی فتح کو اپنے لئے زیادہ مفید خیال کرتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس جس کے فائدے جس جس حکومت سے وابستہ ہیں وہ اس حکومت کی فتح کو اپنے لئے بہتر خیال کرتا ہے۔ ہندوستان چونکہ ایک لمبے عرصہ تک انگریزوں کے ماتحت رہ چکا ہے اور اس کا انگریزی حکومت سے خیالات اور علوم میں اتحاد ہو چکا ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جس قوم کے ماتحت کوئی شخص ایک لمبے عرصہ تک رہے اس کے جذبات ، احساسات اور افکار اس پر اثر کر جاتے ہیں۔ اس لئے ہندوستان کے رہنے والے ، انگریزی پڑھنے ، انگریزی لٹریچر کو اپنے مطالعہ میں رکھنے اور ایک لمبے عرصہ تک انگریزوں کے ماتحت رہنے کی وجہ سے جس حد تک انگریزی جذبات اور احساسات سے متاثر ہو سکتے ہیں اس حد تک جرمن جذبات اور احساسات سے متاثر نہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ اس جنگ میں انگریزی حکومت کو فتح حاصل ہو۔ اسی طرح انسان جس کے ساتھ ایک لمبے عرصہ تک ر ہے اس کے عیبوں سے واقف ہو جاتا ہے، اس کی خوبیوں سے آگاہ ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ اس کا معاملہ آسان ہو جاتا ہے۔ بہ نسبت اس کے کہ اس کا کسی دوسرے کے ساتھ معاملہ پیش آئے۔ ان وجوہ کی بناء پر قدرتی طور پر ہندوستان کا سمجھدار طبقہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ انگریز ہندوستان میں رہیں کیونکہ وہ سمجھتا ہے میرے لئے ان کے ساتھ معاملہ کرنا آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ جرمنوں کے ساتھ میرے معاملات طے ہوں۔ اسی طرح ہندوستانیوں میں قدرتی طور پر یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ انگریزوں نے ایک لمبے عرصہ تک حکومت کر لی ہے جس کی وجہ سے اب وہ حکومت سے سیر ہو چکے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں ہمیں انگریزوں کے ماتحت جتنی اپنی آزادی کی امید ہو سکتی ہے اتنی امید جرمنوں یا جاپانیوں کے ماتحت نہیں ہو سکتی۔ ان تمام امور کی بناء پر ہندوستان کا وہ طبقہ جو سمجھدار ہے اور جو جذبات کو عقل پر حاکم نہیں ہونے دیتا انگریزوں سے ہمدردی رکھتا ہے۔ مگر ایسی ہی ہمدردی جرمن یا جاپان والوں سے ان کے علاقہ کے رہنے والوں کو ہے۔ پھر اگر ایک طرف ہمیں ایک ایسی رَو نظر آتی ہے جو ظلم اور استبداد پر مبنی ہے تو دوسری طرف گو ایک حصہ مذہب کا پابند اور دین کا قائل ہے مگر ان کے اتحادیوں میں سے ایک دہریہ جماعت بھی نظر آتی ہے جو مذہب کو دنیا سے مٹانے کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔
ان سارے حالات میں ایک مومن کس یقینی رائے پر قائم ہو سکتا ہے اور وہ کون سی رَو اور کون سی تحریک پر اعتماد کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ وہ کلی طور پر دین کے لئے مفید ہو گی۔ جہاں کہیں ایک پھول نظر آتا ہے وہاں اس کے ساتھ دس کانٹے بھی اُگے ہوئے ہیں اور جہاں کہیں صحت کے لئے کوئی عمدہ اور کارآمد دوائی نظر آتی ہے وہاں بیماریوں کے دس سامان بھی نظر آ جاتے ہیں۔ پس کون سی چیز ہے جس پر ایک مومن اعتماد اور اعتبار کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ نتیجہ نکلے تو اسلام کے لئے اچھا ہو گا۔ اگر جرمن جیتے تو یقیناً فیسزم جو مذہب اور آزادیٔ ضمیر کو کچل دیتی ہے انسان کو مدتوں تک اپنا غلام بنائے رکھے گی اور اگر اتحادی جیتیں تو گو ان کا ایک حصہ مذہب کا پابند ہے مگر انہی کے دامن کے ساتھ لٹکا ہؤا ہمیں روس دکھائی دیتا ہے جو دہریت اور الحاد کی تائید کر رہا ہے۔
پس اس وقت مومن کی مثال درحقیقت ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی عورت تھی۔ جس کی ایک لڑکی مالی کو بیاہی ہوئی تھی اور دوسری لڑکی ایک کمہار سے بیاہی ہوئی تھی۔ جب کبھی بادل آتا تو وہ گھبرا کر ادھر سے ادھر پھرنا شروع کر دیتی۔ اس کی ہمسائیاں اس سے پوچھتیں کہ بی بی تم اتنا گھبرا کیوں رہی ہو اور کس لئے فکر سے ادھر ادھر ٹہل رہی ہو۔ تو وہ جواب دیتی کہ میری دو بیٹیوں میں سے ایک کی خیر نہیں۔ وہ پوچھتیں کس طرح۔ تو وہ کہتی اب بادل آیا ہؤا ہے۔ مَیں حیران ہوں کہ کیا کہوں بادل برسے یا نہ برسے۔ اگر بادل نہ برسے گا تو میری مالن لڑکی مر جائے گی اور اگر بادل برسے گا تو میری کمہار لڑکی تباہ ہو جائے گی۔
پس ان حالات میں جہاں ایک مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ دنیوی سامانوں کے ماتحت جس حد تک اپنی آئندہ بہتری کا انتظام کر سکتا ہے کرے۔ وہاں اس کا ایک بڑا ضروری کام یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور بڑے فکر اور توجہ سے دعائیں کرے اور کہے خدایا مجھے اپنے چاروں طرف بلائیں ہی بلائیں نظر آتی ہیں اور اگر ایک سُکھ نظر آتا ہے تو دس دُکھ اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں یہ میرے بس کی بات نہیں کہ مَیں دُکھ سے بچ سکوں اور سُکھ کو حاصل کر سکوں کیونکہ وہ آپس میں اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ مَیں انہیں جدا جدا نہیں کر سکتا۔ یہ تیرا ہی کام ہے اور مَیں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ تُو اپنے فضل سے خود ہی یہ کام میری طرف سے کر دے اور مجھے وہ چیز دے جو میرے لئے ہر لحاظ سے مفید اور بابرکت ہو۔ مثلاً جیسے مَیں نے ابھی بتایا ہے جہاں تک ہمارا تعلق ہے اور جہاں تک ملکی فوائد کا تعلق ہے ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ انگریزوں کی کامیابی اور فتح ہمارے لئے مفید ہے۔ مگر انگریزوں کی کامیابی کے ساتھ ہی روس کی کامیابی بھی آ جاتی ہے جو دہریت کو قائم کرنے والی اور مذہب کو برباد کرنے والی حکومت ہے۔ اور ادھر سے اگر جرمن کامیاب ہو جائیں تو اس میں بھی دنیا اور دین کی تباہی نظر آتی ہے۔ گویا ہر طرف مصیبت دکھائی دیتی ہے اور ہر بات میں آفت نظر آتی ہے۔ ہم اپنے ملکی اور سیاسی حالات کی وجہ سے اور اس تعلق کی بناء پر جو ہمارا انگریزوں کے ساتھ ہے یہ سمجھتے ہیں اور اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان کی کامیابی میں ہی ہمارے لئے ترقی اور سہولت کی راہیں ہیں۔ اسی لئے ہم انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعائیں کرتے ہیں مگر نہ معلوم اللہ تعالیٰ نے کس حکمت کے ماتحت روسیوں کو بھی انگریزوں کے پلّے باندھ دیا ہے۔ شاید اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی نئے تغیر کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے۔
بہرحال ان دنوں میں ہمیں دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ کرنی چاہیئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت ہی عاجزی اور انکساری کے ساتھ عرض کرنی چاہیئے کہ یا اللہ! اسلام کا خانہ پھر بھی خالی نظر آتا ہے۔ اگر ایک کامیابی میں ایک ایسے گروہ کو طاقت ملتی ہے جو مذہب اور عقیدہ کا دشمن ہے تو دوسرے گروہ کی کامیابی میں جو گو مذہب اور عقیدہ کا دشمن نہیں یہ خطرہ موجود ہے کہ اس کے ساتھیوں میں سے ایک ساتھی ایسا ہے جو مذہب اور دینی عقائد کا شدید دشمن ہے۔ بے شک ہمارے اندر یہ طاقت نہیں کہ ہم لوگوں کے دلوں کو بدل سکیں مگر ہمارے خدا میں تو یہ طاقت ہے کہ وہ دلوں کو بدل دے۔ پس گو ہم کچھ نہ کر سکیں مگر خداتعالیٰ ایسے سامان کر سکتا ہے کہ بظاہر اس جنگ میں گو ایک بات ہمارے مخالف نظر آتی ہے مگر اللہ تعالیٰ اسی میں سے ہمارے لئے بہتری کے سامان پیدا کر دے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْـًٔا وَّ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۔ 3قریب ہے کہ ایک چیز ایسی ہو جس کو تم ناپسند کرتے ہو مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں تمہارے لئے بھلائی کے سامان رکھے ہوئے ہوں۔ پھر فرماتا ہے عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَيْـًٔا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۔ 4قریب ہے کہ ایک چیز ایسی ہو جس کو تم پسند کرتے ہو مگر اس کا نتیجہ تمہارے لئے بُرا نکلے۔
پس بے شک ہمارے اندر کو ئی طاقت نہیں مگر خداتعالیٰ کی طاقت اور قوت میں یہ بات ہے کہ وہ ایسے سامان پیدا کر دے کہ جو چیز ہمیں بُری نظر آتی ہے اسی میں ہمارے لئے خیر پیدا ہو جائے۔ مثلاً اگر ہم اس نقطۂ نگاہ سے دیکھیں کہ گو روسی دہریہ ہیں مگر وہ اب تک ساری دنیا سے الگ رہے ہیں اور مذاہب کو اپنے قریب آنے سے ہمیشہ روکتے رہے ہیں مگر اس دوستی کی وجہ سے جو روسیوں اور انگریزوں میں پیدا ہو گئی ہے ممکن ہے وہ آئندہ اپنے ملک کے دروازے زیادہ کھلے رکھیں اور ممکن ہے وہ غیرلوگوں کو اپنے ملک میں آنے دیں اور اُن کے ذریعہ مذہبی خیالات کا تبادلہ ہو۔ اور اس کے نتیجہ میں قوم کی ایسی اصلاح ہو جائے جو ہمارے لئے مفید ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس جنگ کے نتیجہ میں وہ ایسے نڈھال اور کمزور ہو جائیں کہ وہ اس امر پر خود ہی غورو فکر کرنا شروع کر دیں کہ ہم نے مادی ذرائع کا استعمال کر کے تو دیکھ لیا مگر ہمیں سچی خوشحالی نصیب نہیں ہوئی۔ آؤ ہم پھر مذہب کی طرف رجوع کریں۔ شاید اسی ذریعہ سے ہمیں سچی راحت اور اطمینان حاصل ہو جائے۔
اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ پیشگوئی موجود ہے کہ روس کے اندر احمدیت پھیل جائے گی۔ پس ہم جانتے ہیں کہ خداتعالیٰ ضرور ایسے سامان پیدا کر دے گا جن کے نتیجہ میں روس میں احمدیت پھیل جائے گی۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’ مَیں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ زارِ روس کا سونٹا میرے ہاتھ میں آ گیا ہے۔‘‘ 5
اس میں بھی ایک بہت بڑی پیشگوئی ہے جس کی تفصیلات کا یہ وقت نہیں مگر ایک بات جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے اور جو اس پیشگوئی سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ روس کے ملک میں احمدیت کا غلبہ ہو جائے گا۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض دوسرے الہامات میں اس کا رستہ اور ترکیبیں بھی بتائی گئی ہیں مگر افسوس ہے کہ ہم نے اب تک ان سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ یا شاید اب تک ہم ان سے فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں ہوئے اور ہمیں ایسے ذرائع میسر نہیں ہوئے جن سے یہ کام کیا جا سکے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پیشگوئی ہے کہ اسلام اس ملک میں پھیلے گا اور احمدیت کو ترقی حاصل ہو گی۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ان سامانوں کو نہ دیکھیں جو اس وقت ظاہر ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے اس سے دعائیں کریں کہ وہ ان غیبی سامانوں کو جو اس پیشگوئی کے محرک ہیں اپنے فضل سے نمایاں کر دے اور ان کو بڑھائے۔ یہاں تک کہ اسلام اور احمدیت کی ترقی اور اس کے قیام کے سامان پیدا ہو جائیں۔
پس ہمارا کام اس وقت یہی ہے کہ ہم دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ انگریزوں اور ان کے اتحادیوں کو فتح دے اور وہ سیاسی تغیرات جو ہمارے ملک کے لئے مضر ہیں ان کو دور کرے اور وہ سیاسی تغیرات جو ہمارے ملک کے لئے مفید ہیں ان کے جلد پیدا ہونے کے اسباب مہیا فرمائے۔ اسی طرح دوستوں کا فرض ہے کہ وہ رات اور دن جب بھی انہیں موقع ملے یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان تمام تغیرات میں اسلام اور احمدیت کی ترقی کے سامان پیدا فرمائے اور اگر کوئی تغیر اس ترقی کے مخالف ہو تب بھی اس کے فضل سے ایسا بیج بویا جائے جو بڑا ہو کر ایک دن لوگوں کو اسلام اور احمدیت کے جھنڈے کے نیچے لے آئے۔
غرض جہاں تک ظاہری سامانوں کا تعلق ہے جس طرف نظر اٹھتی ہے اسلام اور احمدیت کے مخالف سامان نظر آتے ہیں۔ مگر جہاں تک خداتعالیٰ کے سامانوں کا تعلق ہے وہ ہمارے حق میں ہے اور درحقیقت یہی وقت ہوتا ہے جب بندے کی دعائیں اس کے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی برکت کا باعث ہوتی ہیں۔ جب خداتعالیٰ کا فیصلہ بھی خلاف ہو اور دنیوی سامان بھی مخالف ہوں اس وقت وہی لوگ دنیا میں بس رہے ہوتے ہیں جو خداتعالیٰ کے غضب کے مورد ہوتے ہیں۔ بغداد کی جب تباہی ہوئی تو لوگ ایک بہت بڑے مشہور بزرگ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ بغداد میں مسلمانوں کو مغلوں کے حملوں سے بچائے۔ انہوں نے کہا مَیں دعا تو کرتا ہوں مگر کیا کروں جب مَیں اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھاتا ہوں مجھے آسمان سے فرشتوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی ہے جو بڑے زور سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یٰٓاَیُّھَا الْکُفَّارُ اقْتُلُوا الْفُجَّارَ۔ اے کافرو! بغداد کے ان فاسق و فاجر لوگوں کو قتل کر دو۔ تو دیکھو اس وقت زمین کے حالات بھی خلاف تھے اور آسمان کے حالات بھی خلاف تھے۔ اس لئے گو بعض دعائیں کرنے والے دعائیں کرتے تھے مگر اُن کی دعائیں ردّ کر دی جاتی تھیں کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت فسق و فجور میں مبتلا ہو چکی تھی۔ اور جب زمین کے حالات بھی موافق ہوں اور آسمان کے حالات بھی موافق ہوں تو اس وقت دعا صرف نام کی چیز ہوتی ہے۔ وہ دعا بھلا لوگوں کے دلوں پر کیا اثر ڈال سکتی ہے اور خداتعالیٰ کی طاقت اور قدرت کو وہ کیا ظاہر کر سکتی ہے۔ ریل کا انجن جا رہا ہے۔ ایک شخص کا پاؤں پھسلتا ہے اور وہ انجن کے آگے جاپڑتا ہے۔ اس وقت اگر کوئی دشمن پاس سے گزر رہا ہو اور وہ دعا کرنے لگ جائے کہ یا اللہ! یہ شخص مر جائے تو بے شک وہ مر جائے گا مگر اس دعا کا لوگوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔ اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ کوئی معجزہ ظاہر ہؤا ہے۔ ہر کوئی کہے گا کہ پاگل تجھے دعا کرنے کی کیا ضرورت تھی وہ تو پہلے ہی مر رہا تھا۔ ایک شخص کو ہیضہ ہو جاتا ہے، طاعون ہو جاتی ہے۔ لوگ ان مرضوں سے بچ بھی جاتے ہیں۔مگر اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں جو مَر جاتے ہیں۔ اب اگر کسی شخص کو طاعون یا ہیضہ ہو جائے اور اس کا کوئی دشمن ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگ جائے کہ یااللہ! میرے دشمن کو ہلاک کر دے تو سب لوگ اسے کہیں گے کہ تیری اس دعا کا کیا فائدہ ہے وہ تو پہلے ہی مَر رہا ہے۔ تو جب آسمان کا فیصلہ بھی مخالف ہو اور زمین کے حالات بھی مخالف ہوں تب بھی دعا کا فائدہ نہیں ہوتا اور جب آسمان کے حالات موافق ہوں اور زمین کے حالات بھی موافق ہوں تب بھی دعا کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ وہ عبادت تو ہوتی ہے مگر اسے دنیا میں تغیر پیدا کرنے والی دعا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ خداتعالیٰ کا فیصلہ پہلے ہی اس کے حق میں ہوتا ہے مگر جب زمین کے حالات موافق ہوں اور آسمان کے مخالف ہوں یا آسمان کے موافق ہوں اور زمین کے مخالف ہوں تب دعا حقیقی معنوں میں دعا کہلاتی ہے۔ اور وہی دعا ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں خداتعالیٰ کے نشانات ظاہر ہوتے ہیں۔ خصوصاً جب زمین کے حالات مخالف ہوں اور آسمان کے حالات موافق ہوں۔ کیونکہ اس وقت دعا سننے والا دعا سننے پر تیار ہوتا ہے جب زمین کے حالات موافق ہوں اور آسمان کے مخالف تب دعا سننے والا اتنا تیار نہیں ہوتا جتنا اس وقت ہوتا ہے جب زمین کے حالات تو مخالف ہوں مگر آسمان کے حالات موافق ہوں۔
اِس وقت ہماری بھی یہی حالت ہے کہ زمین کے حالات ہمارے مخالف ہیں مگر آسمان کا فیصلہ ہمارے حق میں ہے۔ ظاہری سامانوں کے لحاظ سے ایک طرف دہریت اپنا مُنہ کھولے کھڑی ہے۔ ایک طرف فیسزم دنیا پر غالب آنا چاہتی ہے۔ ایک طرف موجودہ فلسفہ اسلام اور احمدیت کے خلاف لوگوں کے دلوں میں زہر پیدا کر رہا ہے۔ اور اگر ہمارے کان ہوں اور ہم زمانہ کی عملی آواز کو سن سکتے ہوں تو وہ ہمیں ہر وقت یہی کہتا نظر آ رہا ہے کہ اسلام ختم ہؤا، احمدیت برباد ہوئی۔ مگر اس کے ساتھ ہی دوسری طرف آسمان سے ایک اور آواز ہمارے دوسرے کان میں آ رہی ہے کہ دہریت ختم ہوئی، اسلام قائم کیا گیا، احمدیت غالب کی گئی اور خداتعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اس کی مدد کے لئے اتر رہے ہیں۔ پس ہمارا ایک کان اگر ایک آواز سنتا ہے تو ہمارا دوسرا کان دوسری آواز سنتا ہے اور مَیں نے بتایا ہے کہ یہی دعا کا بہترین وقت ہوتا ہے۔ اس وقت خداجب بندے کی دعا کو سنتا ہے تو وہ صرف بندے پر ہی فضل نہیں کر رہا ہوتا بلکہ اپنا کام بھی کر رہا ہوتا ہے۔ بندے کا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ضرورتوں کو پورا کر لیتا ہے اور اپنے لئے ترقی اور کامیابی کے رستے تلاش کر لیتا ہے اور خداتعالیٰ کا فائدہ اس میں یہ ہوتا ہے کہ اس کا مقصد پورا ہو جاتا ہے اور اس کی قدرت اور شان دنیا پر ظاہر ہو جاتی ہے۔
پس جب دنیا مخالف ہو لیکن خداتعالیٰ کا ارادہ اور ہو تو اس وقت خدا جب اپنے ارادے کو پورا کرتا ہے تب دنیا سمجھتی ہے کہ واقع میں کوئی زندہ خدا موجود ہے۔ گویا صرف بندے کا ہی کام نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ کا بھی کام ہوتا ہے۔ اور صرف بندے کی ہی شان ظاہر نہیں ہوتی خداتعالیٰ کی شان بھی ظاہر ہوتی ہے۔ پس ایسے وقت میں دعائیں ایک خاص اثر رکھتی ہیں اور ہمیں چاہیئے کہ ہم ہمیشہ اپنی دعاؤں میں اس نکتہ کو ملحوظ رکھیں ۔ مجمل دعائیں تو انسان کرتا ہی ہے مگر وہ اتنا فائدہ نہیں دیتیں جتنا فائدہ وہ تفصیلی دعائیں دیتی ہیں جو حقیقت کو پوری طرح سمجھ کر کی جاتی ہیں۔
پس صرف دنیوی سامانوں کو دیکھ کر دعائیں نہ کرو بلکہ روحانی بصیرت سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر گِرو اور اس سے کہو کہ الٰہی! ہمیں چاروں طرف سے گمراہی نظر آتی ہے۔ جو چیزیں ہمارے ملک یا ہمارے مذہب کے لئے مفید ہیں ان کے ساتھ اتنی خرابیاں ملی ہوئی ہیں کہ ہم اپنی طاقت سے ان خرابیوں سے بچ نہیں سکتے۔ تیرے حضور ہم التجا کرتے ہیں کہ ہمیں ان خرابیوں سے بچا لینا اور جو اچھی باتیں ہیں اُن سے حصہ دینا۔ یہ تیرے اختیار کی بات ہے ہمارے اختیار کی نہیں۔ اس لئے ہم تجھ سے ہی درخواست کرتے ہیں کہ جو چیزیں ہمیں اچھی نظر آ تی ہیں اُن کے ساتھ جو تاریک پہلو ہیں اُن کی تاریکی اور ظلمت سے ہمیں بچا لے اور خوبیوں سے ہمیں حصہ دے۔
رسول کریم ﷺ اور آپؐ کے خاندان کی ایک دفعہ مکہ والوں نے بڑی ہتک کی۔ انہوں نے اشعار کے ذریعہ آپؐ کی ہجو کہنی شروع کر دی۔ اسی طرح وہ اشعار میں آپؐ کے خاندان کی بھی ہتک کرتے۔ جب ان کی شرارت بہت بڑھ گئی تو حسّان بن ثابت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اب تو حد ہو گئی ہے۔ ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم بھی کفار کی ہجو کہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مَیں اجازت تو دے دوں مگر حسّان تجھے معلوم ہے کہ جو لوگ مجھ پر حملہ کر رہے ہیں ان کے باپ دادا اور میرے باپ دادا ایک ہی ہیں۔ اگر ان کے باپ دادا کی تُو نے ہجو کی تو وہ میرے باپ دادا کی ہی ہجو ہو گی۔ اس لئے مَیں اس کی کیسے اجازت دے سکتا ہوں۔ حضرت حسّان بن ثابت ؓکہنے لگے یارسول اللہ! یہ خیال جانے دیجئے۔ مَیں آخر شاعر ہوں۔ میں اس طرح آپ کے باپ دادا کو ان کے باپ دادا سے الگ کر لوں گا جس طرح مکھن میں سے بال نکال لیا جاتا ہے۔ 6 حسّان اگر اپنے فن میں کمال رکھنے کی وجہ سے ایسا کر سکتے تھے کہ مکہ والوں کی ہجو کرتے ہوئے وہ اس طرح ہجو کریں کہ رسول کریم ﷺ کے آباءو اجداد پر کوئی حملہ نہ ہو اور وہ آپ کے آباء و اجداد اور ان کفار کے آباء و اجداد کو الگ کر لیں تو کیا وہ کام جو حسّان نے کیا وہ ہمارا خدا نہیں کر سکتا۔ یقیناً جو کام حسّان نے کیا تھا ہمارا خدا اس سے بہت زیادہ کر سکتا ہے۔ اور وہ یقیناً ایسے سامان پیدا کر سکتا ہے کہ گو بظاہر شراور خیر ملا ہؤا ہو مگر وہ پھٹک پھٹک کر دونوں کو اس طرح الگ کر دے کہ خیر الگ ہو جائے اور شرالگ ہو جائے۔ اور پھر شرکو فنا کر دے اور خیر کو قائم کر دے۔ اے میرے خدا تُو ایسا ہی کر۔‘‘ (الفضل 6 اپریل 1943ء)

1: مقاومت: مقابلہ ، برابری
2: Quisling: اپنے قابض حلیف کے ساتھ تعاون کرنا
3،4: البقرة: 217
5: تذکرہ صفحہ 458 ایڈیشن چہارم
6: مسلم کتاب فضائل الصحابة باب فضائل حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ


8
انسانی اعمال کا مغز اور چِھلکا
(فرمودہ 26 فروری 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے جس قدراشیاء دنیا میں پیدا کی ہیں ان میں سے ہر ایک کا ایک چِھلکا ہوتا ہے اور ایک مغز ہوتا ہے۔ دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو بغیر چھلکے کے ہو اور نہ کوئی خالی چھلکا ہے اور نہ کوئی خالی مغز ہے۔ یہاں تک کہ بظاہر جو چیزیں ایسی نظر آتی ہیں کہ ان کا محض چھلکا ہے غور سے سوچا جائے تو ان کے اندر بھی مغز ہوتا ہے۔ گو وہ مغز علیحدہ نہیں ہوتا بلکہ چھلکے کے ساتھ ملا ہؤا ہوتا ہے۔ مثلاً بعض قسم کی لکڑیاں ہیں یا بعض درخت ہیں جن کو پھل نہیں لگتے لیکن ان کی لکڑیاں یا اُن کے پتے، جڑیں یا چھال اپنے اندر خاص خاصیتیں رکھتی ہیں اور وہی خاصیت ان کا مغز ہوتا ہے۔ جیسے سنکونا ہے کہ اس کی لکڑی میں ہی کونین ہوتی ہے جسے الگ کیا جا سکتا ہے باقی فُضلہ رہ جاتا ہے۔ مگر اکثر حصہ اشیاء کا ایسا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مغز اور چھلکا الگ الگ دکھایا ہے جیسے کہ پھل ہیں۔ سب میں مغز الگ ہوتا ہےاور چھلکا الگ جیسے آم، خربوزہ وغیرہ۔ شاذونادر بعض میں مغز اور چھلکا ملا ہؤا بھی ہوتا ہے اور بعض پھلوں میں چھلکا باریک جھلّی کی شکل میں ہوتا ہے جو نظر تو نہیں آتا لیکن اس کا رَس اگر چوس لیا جائے تو فُضلہ رہ جاتا ہے اوراگرچہ بعض لوگ اس فُضلہ کو بھی کھا جاتے ہیں لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ چھلکا ہے ہی نہیں۔ جس طرح حیوانی مغز کے اوپر جھلّی ہوتی ہے اور مغز اس کے اندر ہوتا ہے اور وہ جھلّی اس قدر باریک ہوتی ہے کہ بظاہر نظر نہیں آتی لیکن اگر کوئی شخص الگ کر کے دیکھنا چاہے تو دیکھ بھی سکتا ہے۔ اسی طرح بیدانہ و شہتوت وغیرہ پھلوں کا حال ہے کہ اس میں رَس چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں رکھا ہوتا ہے جو دبانے سے باہر نکل آتا ہے۔ یہی حال حیوانات کا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا ایک جسم ہوتا ہے اور ایک روح ہوتی ہے۔ جسم بمنزلہ چھلکا کے اور روح اس کی جگہ ہوتی ہے۔
یہ تو چیزوں کا حال تھا۔ اب ہم انسانی اعمال کو دیکھتے ہیں تو ان میں بھی یہی سلسلہ نظر آتا ہے کہ اعمال میں ایک چھلکا ہوتا ہے اور ایک مغز۔ خداتعالیٰ کے احکام کا بھی ایک چھلکا ہے اور ایک مغز۔ مثلاً ہماری نماز ہے اس میں ہمارے قیام کا ایک مغز ہے اور ایک چھلکا ۔ ہمارے رکوع کا ایک مغز اور ایک چھلکا ہے۔ ہمارے سجدے کا ایک مغز اور ایک چھلکا ہے۔ ان ہمارے رکوع و سجود سے خداتعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں ، دنیا کوکوئی فائدہ نہیں، خود ہمیں کوئی فائدہ نہیں سوائے اس غرض کے کہ ان قیام رکوع سجود کی کیفیتوں سے ہماری قلبی کیفیت کو ڈھالنے کے لئے مدد مل جائے کیونکہ کئی جسمانی کیفیتیں قلب انسانی پر اثر ڈالتی ہیں۔ انسان کی بعض حالتیں ہیں کہ ان سے خود خشیّت پیدا نہیں ہوتی بلکہ دوسرے پر رُعب پڑتا ہے ۔ اور بعض حالتوں میں اپنے اندر خشیّت پیدا ہوتی ہے دوسرے پر رعب نہیں پڑتا۔ مثلاً اگر ایک شخص دوسرے کے سامنے گھونسہ تان کر آنکھیں سرخ کر کے آستینیں چڑھا کر کھڑا ہو جائے تو خود اس شخص کے اندر کوئی خشیّت پیدا نہیں ہو گی بلکہ غصہ پیدا ہو گااور دوسرے شخص پر رعب ہو گا۔ یا اسی طرح کوئی شخص سجدے میں پَڑ جائے یا ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جائے تو اس کیفیت سے اس کے اندر کوئی غصہ پیدا نہیں ہو گا، خشیّت پیدا ہو گی۔ اسی وجہ سے خداتعالیٰ نے قیام، رکوع، سجود مقرر کیا ہے۔ یہ حرکات دنیا کے کسی کام کی نہیں، خود ہمارے کام کی نہیں، ہمارے رکوع سے کوئی فائدہ نہیں، ہمارے سجدہ سے کوئی فائدہ نہیں۔ صرف خداتعالیٰ کو ہماری قلبی کیفیت کی ضرورت ہے۔ ہمارا سجدہ، ہمارا رکوع تو نماز کے بعد پیچھے رہ جاتا ہے لیکن اگر ہم نے نماز کے وقت سچا سجدہ کیا تھا اور سچی تسبیح کی تھی اور سچے دل سے خداتعالیٰ کے علوّ کا اقرار کیا تھا تو اس کا روحانی اثر ہمارے دل میں قائم رہ جائے گا۔ پس ہر نماز کے بعد دیکھنا چاہیئے کہ جو اثر اس سجدہ کا ہونا چاہیئے اور جو نچوڑ اس تسبیح کا ہونا چاہیئے وہ ہمارے قلب کے اندر پیدا ہو گیا ہے یا نہیں؟ اگر ہمارے دل میں خداتعالیٰ کی حقیقی خشیّت اور خداتعالیٰ سے سچی محبت پیدا ہو گئی ہے تو وہی مغز سمجھی جائے گی اور یہی چیز ہو گی جو قائم ہونے والی ہو گی۔ جس طرح کہ گنّے کا رس ایک مدت تک محفوظ نہیں رکھا جا سکتا لیکن شکّر بنا کر کئی سال تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہم نماز کی حرکات کو ہمیشہ قائم نہیں رکھ سکتے کیونکہ دوسرے کام بھی ہوتے ہیں اور سونا بھی انسان کے لئے ضروری ہے۔ ہاں ہم اس کے مغز کو اپنے دل میں بھر کر اسی طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں جس طرح شکّر کو محفوظ کر لیتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے اعمال کی حالت ہے۔ ان میں سے ایک چیز ساتھ جاتی ہےاور ایک پیچھے رہ جاتی ہے۔ مثلاً ہمارا روزہ ہے کہ اس میں بھوک کی کیفیت ایک وقت تک رہتی ہے اور جب شام ہوتی ہے اور ہم پانی یا کھجور یا اور کسی چیز سے روزہ افطار کرتے ہیں تو بھوک تکان کی کیفیت جاتی رہتی ہے لیکن دوسری کیفیت جو سچے طور پر روزہ رکھنے سے پیدا ہوتی ہے وہ ساتھ چلتی ہے اور یہ کیفیت حسبِ حالات صائم بعض دفعہ چند گھنٹے، بعض دفعہ چند دن، بعض اوقات چند مہینے، بعض دفعہ کئی سال اور بعض مرتبہ آخر دم تک ساتھ رہتی ہے۔ جس قدر اخلاص ہو گا اسی قدر عرصہ وہ انسان کے ساتھ رہے گی۔ اگر معمولی اخلاص سے کسی نے روزہ رکھا تو شاید یہ کیفیت روزہ کھولنے کے بعد سے سونے کے وقت تک قائم رہے اور اگر اس سے زیادہ اخلاص سے روزہ رکھا تھا تو شاید دوسرے دن وہ کیفیت قائم رہے۔ اور اگر اس سے زیادہ اخلاص سے روزہ رکھا تو مہینہ بھر اور اگر اس سے زیادہ اخلاص سے رکھا تھا تو شائد سال بھر بلکہ بعض دفعہ ساری عمر کے لئے اللہ تعالیٰ اس کی حالت کو بدل دے۔ اسی طرح لوگ حج کو جاتے ہیں ، وہاں دعائیں کرتے ہیں، طواف کرتے ہیں، قربانیاں کرتے ہیں۔ یہ ساری رسمیں وہاں ہی رہ جاتی ہیں۔ طواف کے بعد وہ طواف وہیں رہ جاتا ہے۔ منیٰ میں ٹھہرا ، وہاں دوتین دن گزارے تو یہ اس کا ٹھہرنا عارضی چیز تھی وہیں رہ گئی کیونکہ جب ہم کسی کو حاجی کہتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اس وقت بھی طواف کر رہا ہے یا عرفات میں جا رہا ہے یا منیٰ میں ٹھہرا ہؤا ہے۔ بلکہ ممکن ہے کہ وہ حاجی ان مقامات کو بھول بھی گیا ہو کہ وہ کہاں اور کس طرف واقع ہیں اور ان کا کیا نقشہ ہے۔ لیکن اگر کسی نے حج سچی خشیّت سے کیا ہو گا تو وہ اس کے ساتھ رہے گا۔ چھلکا بے شک پیچھے رہ جائے گا لیکن حج کا مغز انسان کے ساتھ چلا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے مغز کو فوقیت دی ہے مگر بعض لوگ چھلکے کے پیچھے چلتے ہیں۔ مغز کی طرف خیال نہیں کرتے۔ بعض احمدی بیعت کر لینے سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نےبیعت کر لی تو سب کچھ معلوم ہو گیا ۔ہم جو چاہیں کریں بیعت جو کر لی لیکن اگر کسی نے بیعت کی اور احمدیت کا مغز اس کے اندر داخل نہیں ہؤا تو وہ یہ سمجھ لے کہ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو پانی میں غوطہ مار کر نکل آئے اور دوسرے دن مٹی میں لوٹنے لگے اور اگر کوئی اسے روکے تو اسے جواب دے کہ کل جو مَیں نے نہر میں چھلانگ لگائی تھی۔ نادان نہیں جانتا کہ اس چھلانگ مارنے کا اثر تو اتنی ہی دیر تھا جتنی دیر وہ پانی میں تھا۔ ہاں اس نہانے کا مغز یعنی قوت اور نشاط اس کے اندر رہے گا۔ جس طرح کوئی شخص ورزش کرے تو اس کا اٹھنا، بیٹھنا، دوڑنا، ڈنٹر پیلنا تو ختم ہو جائے گا مگر اس فعل سے جو اس کے اندر طاقت پیدا ہو گی وہ ایک لمبے عرصہ تک قائم رہے گی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص احمدیت میں داخل ہو اور وہ سمجھ لے کہ میرے لئے مغفرت مقدر ہو گئی تو اس کا خیال غلط ہو گا۔ کیونکہ جب تک احمدیت کا مغز اسے حاصل نہیں ہو گا وہ مغفرت کا اہل نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ ۔ 1 یعنی تم جو جانور خدا کی راہ میں ذبح کرتے ہو ان کے گوشت اور خون ہرگز خداتعالیٰ تک نہیں پہنچتے بلکہ تمہارا تقویٰ خدا تک پہنچتا ہے۔ اس لئے کہ قربانی کرنے والے کا خداتعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق نہیں کہ وہ گوشت وغیرہ خداتعالیٰ کے ہاتھ میں پکڑا دے۔ بے شک خداتعالیٰ انسان کے پاس ہے اور اس کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے مگر انسان ظاہری حواس سے محسوس نہیں کر سکتا ۔ ہاں مرنے کے بعد خداتعالیٰ سے ایسا تعلق ہو گا کہ اسے محسوس بھی ہو گا کہ میں خداتعالیٰ کو ملتا ہوں۔ گو یہ ملنا ایسا ہے جس کی ہم تعبیر نہیں کر سکتے لیکن بہرحال ایسی کیفیت ہو گی۔ جس طرح کہ کشف یا خواب کے وقت ہوتی ہے۔ خواب یا کشف میں جسم ساتھ نہیں ہوتا لیکن انسان محسوس یہی کرتا ہے کہ اس کا جسم ساتھ ہے اور وہ خالص روحانی اشیاء کو جسموں کے اندر دیکھتا ہے۔ اور جس طرح مادی دنیا میں انسان کسی چیز کو چُھوتا ہے یا دیکھتا ہے یا کسی سے ملتا ہے اور باتیں کرتا ہے اسی طرح کشف اور خواب میں یہی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن اس وقت انسان کے ظاہری حواس کام نہیں کر رہے ہوتے بلکہ ایک چھٹی حِسّ پیدا ہو کر غیرمحسوس چیزوں کو دیکھنے لگ جاتی ہے۔ اسی طرح مرنے کے بعد انسان میں ایک چھٹی حِسّ پیدا ہو گی جس سے کہ دور ہونے کے باوجود خداتعالیٰ قریب نظر آئے گا اور باوجود وراء الورا ہونے کے انسان اپنے آپ کو اسے دیکھنے یا چھونے یا اس سے باتیں کرنے کے قابل پائے گا۔ یہی حِسّ اگر ہمیں خواب میں نہ ملتی تو قیامت پر شاید لوگ ایمان نہ لاتے۔ کشف اور خواب میں ان نظاروں کے دیکھنے سے ہم قیاس کر لیتے ہیں کہ جو طاقت بینائی خواب میں خداتعالیٰ ہمیں عارضی طور پر دیتا ہے کیا اس میں یہ طاقت نہیں کہ وہ مرنے کے بعد مستقل طور پر دے دے اور جو طاقت ہمیں ایک گھنٹہ کے لئے ملتی ہے وہ ہمیشہ کے لئے عطا کر دے۔
پس چونکہ قربانی کے گوشت پوست یہیں رہ جائیں گے اس لئے فرمایا يَنَالُهُ التَّقْوٰى۔ اس وقت جب تم خدا سے ملو گے تو یہ دُنبہ یا مینڈھا یا گائے جو تم نے ذبح کی ہے وہ تو چھلکا ہے وہ یہیں رہ جائے گا۔ ہاں قربانی جس ارادہ سے کی تھی، جس اخلاص اور سچے دل سے کی تھی اس کا ایک نشان دل پر رہ جائے گا اور گنّے کے رَس کی طرح رہ جائے گا۔ پھر اس رَس کو لے کر خدا کے حضور پیش کرے گا۔ وہ ظاہری گوشت پوست تو دنیا میں رہ جائے گا ، کہیں کھاد بن جائے گا اور فنا ہو جائے گا مگر اس کا رَس جو اخلاص ہے وہ قائم رہے گا اور قیامت کے دن اپنے دل کے پیالے سے مثلاً ایک قطرہ نکالو گے اور کہو گے کہ حضور یہ میرے روزے ہیں۔ پھر ایک اور قطرہ نکال کر پیش کرو گے اور کہو گے کہ یہ میری نمازیں ہیں۔ پھر ایک اور قطرہ نکال کر کہو گے کہ یہ میرا حج ہے۔ غرض وہ چیزیں ایک ایک کر کے پیش کرو گے۔ نماز، روزہ اور حج کا چھلکا ساتھ نہ ہو گا بلکہ ان کا محفوظ کیا ہؤا مغز ایک نئی شکل میں پیش کرو گے۔ جس طرح گنّے کو کھانڈ کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے ۔ بظاہر گنّا سال بھر نہیں رہ سکتا لیکن اس سے بنی ہوئی کھانڈ دس، بیس ،پچاس سال بلکہ ہزار سال تک بھی رہ سکتی ہے۔ اسی طرح خداتعالیٰ نے انسانی قلب میں ایک برتن رکھا ہے جس میں عمل کا رَس ٹپکتا ہے۔ اس کا عمل صالح ، اس کا تقویٰ اس میں پڑتا رہتا ہے اور گو انسان کو یہ طاقت نہیں کہ وہ دنیا میں اس رَس کو نکال لے مگر قیامت کے دن جب انسان کو یہ طاقت ملے گی کہ وہ خدا کو دیکھ سکے تو اسے یہ طاقت بھی مل جائے گی کہ وہ اپنے دل سے اعمال کا رَس نکال کر خداتعالیٰ کے حضور پیش کرے اور کہے کہ یہ میری نماز کا رَس ہے۔ یہ میرے روزہ کا رَس ہے۔ یہ میرے حج کا رَس ہے۔ پس انسان کو ہر وقت یہ دیکھتے رہنا چاہیئے کہ جو عمل وہ کرتا ہے اُس کا کیا نتیجہ ہو گا اور کونسا رَس اور نچوڑ اس کے قلب کے برتن میں گرتا ہے۔ بعض لوگ اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور بیعت کر لینے سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم احمدی ہو گئے ۔ حالانکہ بعض دفعہ یہ بیعت بجائے فائدہ دینے کے *** بن کر رہ جاتی ہے۔ پس مومن کو اپنے اعمال پر نظر رکھنی چاہیئے اور اس طرح نیک نمونہ قائم کرنا چاہیئے جس طرح کہ صحابہ کرام تھے کہ ایمان نے ان کی کایا پلٹ دی اور اس کی وجہ سے ہم ان کے نام کے ساتھ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ پڑھا کرتے ہیں۔ مگر کیا تم سمجھتے ہو کہ دس سال کے بعد بھی تمہارے نام کے ساتھ آئندہ آنے والے لوگ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کہیں گے۔ بعض دفعہ تو تمہارا ہمسایہ تمہارے سلوک کی وجہ سے لَعْنَتُ اللہُ عَنْہُ کہنے لگ جاتا ہے اور جب تمہارا اپنا ہمسایہ اور دوست بھی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کہنے کو تیار نہیں تو کس طرح امید کر سکتے ہو کہ وہ لوگ جنہوں نے تمہیں دیکھا نہیں وہ تمہیں رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کہیں گے۔ یہ صحابہ ہی تھے جن کی نہ ہم نے شکل دیکھی ، نہ ان کے رشتہ داروں کو دیکھا، نہ ان کی اولاد سے واقف ہیں۔ سوائے چند ایک کے کہ ان کی اولاد کو ہم جانتے ہیں۔ باقی صحابہؓ میں سے کہ ان کی ایک لاکھ تعداد تھی کسی کی اولاد کو بھی نہیں جانتے۔ مگر اس کے باوجود ان کے کام کو دیکھ کر ہم بے اختیار ان کے لئے رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْکہنے لگتے ہیں۔ اگر ہم بھی ایسا کام کریں کہ ہمارے اندر تقویٰ پیدا ہو تو آج ہی نہیں، کل ہی نہیں، پرسوں ہی نہیں بکہ اگر ہماری موت پر ہزاروں سال بھی گزر جائیں گے تب بھی لوگوں کے دلوں سے ہمارے لئے دعا نکلے گی۔ خواہ لوگ ہم سے واقف نہ بھی ہوں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ایک مسافر کسی کنویں سے پانی پیتا ہے۔ وہ اس کنویں کے لگانے والے کو نہیں جانتا۔ اس کے نام سے واقف نہیں ہوتا پھر بھی وہ پانی پیتا ہے اور اس کنویں کے لگانے والے کے لئے دعا کرتا ہے کہ خدا اسے جزائے خیر دے جس نے اس رہ گزر پر کنواں لگایا۔ یہ دعا اس کنواں لگانے والے نے اسی وجہ سے حاصل کی کہ اس کے عمل کا نشان قائم رہ گیا اور یہی چیز اصل توجہ کے قابل ہے۔
ہر احمدی کو چاہیئے کہ اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرے جو اسے خداتعالیٰ کے قریب کر دے۔ اگر ایک شخص نماز پڑھتا ہے اور اس کے دل میں ہمدردی نہیں پیدا ہوتی تو سمجھ لیا جائے گا کہ اس نے دل سے نماز نہیں پڑھی۔ کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص سچے دل سے نماز ادا کرے اور اس کے دل میں بنی نوع کی ہمدردی پیدا نہ ہو۔ پھر ایسی نماز سے کیا فائدہ۔ ناقص چیز کسی کے سامنے پیش کرنا تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تم کسی کو بادام دو اور وہ کڑوا ہو تو وہ تم پر ناراض ہو گا کہ اس نے میرے ساتھ شرارت کی۔ اگر تم نہ دیتے تو ناراض نہ ہوتا لیکن جب تم خراب چیز دو گے تو وہ خفا ہو گا۔ اسی طرح خداتعالیٰ کے سامنے اگر تم اچھی چیز پیش کرو تو وہ خوش ہو گا۔ کچھ نہ پیش کرو گے تو رحم کرے گا لیکن اگر گندی چیز پیش کرو گے تو وہ ناراض ہو گا۔ پس مومن کو اس حالت سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے کہ اس سے بجائے فائدہ کے اُلٹا نقصان کا اندیشہ ہو۔‘‘ (الفضل 31 مارچ 1943ء)
1: الحج: 38


9
انسانی اعمال کو پاکیزہ بنانے کے دو ذرائع۔علم اور نگرانی
(فرمودہ 5 مارچ 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ صحابہ کے ایک حصہ کو مخاطب کر کے قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وَ كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ اٰيٰتُ اللّٰہِ وَ فِيْكُمْ رَسُوْلُهٗ ۔1یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تم کفر سے کام لیتے ہو حالانکہ تمہارے سامنے اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور پھر اس کا رسول بھی تم میں موجود ہے۔
جتنی نیکی انسان میں آتی ہے وہ درحقیقت دو ہی ذریعوں سے آتی ہے ۔ یا تو اس بات کی وجہ سے نیکی آتی ہے کہ انسان سمجھتا ہے جس کام کو مَیں اختیار کرتا ہوں وہ اچھا ہے، فائدہ بخش ہے۔ اس میں میری بھلائی ہے۔ اس سے دوسرے لوگوں کو آرام ہو گا۔ اس سے میرے اور خدا کے درمیان محبت بڑھے گی۔ مثلاً انسان سچ بولتا ہے تو اس لئے بولتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے اگر مَیں نے سچ بولا تو لوگوں میں اعتبار قائم ہو گا۔ اور جب مَیں بات کروں گا تو اس امر کی ضرورت نہ ہو گی کہ مَیں کوئی گواہ لاتا پھروں۔ میری بات سن کر لوگ آپ ہی مان لیں گے۔ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی راستباز آتا ہے اور وہ آ کر کہتا ہے کہ بات یوں ہے تو بغیر شبہ اور خلش کے لوگ اس کی بات مان لیتے ہیں۔ لیکن جتنا کسی کی بات میں پیچ ہو ، دغا ہو، فریب ہو وہ اگر سچی بات کہہ بھی دے اور دوسرے کو خیال بھی ہو کہ ایسا ہو سکتا ہے غالباً ایسا ہی ہو گا تب بھی وہ کہتا ہے کیوں نہ مَیں کسی اور سے بھی پوچھ لوں۔ مگر سچ بولنے والے کا اتنا اعتبا رہوتا ہے کہ کتنی ہی غیرمعمولی بات کیوں نہ ہو لوگ کہتے ہیں کہ یہ راستباز آدمی ہے۔ سچ ہی کہا ہو گا۔ لیکن اگر جھوٹا آدمی سچ بھی کہہ دے تب بھی یقین نہیں آتا۔ مثلاً اگر وہ یہ کہے کہ مَیں کھانا کھا کر آیا ہوں ۔ یہ روزمرہ کی بات ہے انسان کھانا کھاتا ہی ہے مگر تب بھی لوگ ہنس پڑیں گے کہ یہ ضرور دھوکا دے رہا ہے۔ مگر سچا آدمی جس کی عمر راستبازی میں گزری ہو اگر وہ یہ کہہ دے کہ مَیں آسمان سے آیا ہوں تب بھی لوگ سمجھیں گے کہ ہم نے دیکھا ہؤا ہے کہ یہ ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ اب بھی جو کہتا ہے ٹھیک ہو گا۔
دیکھو حضرت رسول کریم ﷺ نے جب دعویٰ فرمایا۔ جو لوگ آپ کی سچائی کے معتقد تھے وہ سنتے ہی ایمان لے آئے۔ یہ آپ کے اعتبار کا ہی نتیجہ تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کو ہدایت ہوئی۔ حضرت ابوبکرؓ کہیں باہر گئے ہوئے تھے واپس آئے تو مکہ میں داخل ہوتے وقت آپ ایک جگہ اپنے ایک دوست کے گھر میں آرام کے لئے ٹھہر گئے اور اپنی چادر اوپر کے دھڑ سے اتار کر لیٹنے کا ارادہ کیا۔ اس زمانہ میں کپڑوں کا اتنا رواج نہ تھا۔ اب تو گاؤں والے بھی دو دو ، تین تین کپڑے رکھتے ہیں۔ مگراُس وقت یہ رواج کم تھا۔ اس زمانہ میں جیسے عورتیں ساڑھی پہنتی ہیں ویسی ہی ایک چادر سے لباس کا کام لیتے تھے۔ اگر کوئی بہت زیادہ تمدن سے متاثر ہوتا تو و ہ دو تین کپڑوں والا ہوتا تھا۔ یہ نہیں کہ پہلے کپڑے نہ ہوتے تھے۔ کپڑے تو تھے مگر تکلف کم تھا۔ غرض حضرت ابوبکرؓ نے چادر کا وہ حصہ جو اوپر کے دھڑ کو ڈھانپے ہؤا تھا اتار کر لیٹنا چاہا ہی تھا کہ ان کے دوست کی ایک لونڈی آئی۔ عورتوں میں بات بنا کر کرنے کا شوق زیادہ ہوتا ہے۔ وہ عجیب طریق سے بات کرتی ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ چونکہ باہر گئے ہوئے تھے کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے اپنا دعویٰ پیش کر دیا۔ لوگوں میں ایک شور پڑ گیا اور ایک آگ لگ گئی۔ اس لونڈی نے بھی یہ شور سنا۔ چونکہ اسے معلوم تھا کہ حضرت ابوبکرؓ آپؐ کے دوست ہیں اس سے برداشت نہ ہو سکا کہ خاموش رہے اور مزے لے لے کر آپ کو سنانا شروع کیا۔ ہائے ہائے، بیچارہ تیرا دوست پاگل ہو گیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا کون؟ اس نے کہا کون کیا؟ محمد اور کون؟ حضرت ابوبکرؓ لیٹ رہے تھے فوراً اٹھے ، چادر کندھے پر ڈالی اور پوچھا وہ کیا کہتا ہے؟ لونڈی نے کہا وہ کہتا ہے آسمان سے مجھ پر فرشتے اترتے ہیں۔ آپ اٹھ کھڑے ہوئے ۔ دوست کو کہنے لگے اب مَیں آرام نہیں کر سکتا۔ فوراً مجھے جانا چاہیئے۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چل پڑے۔ بغیر اپنے گھر میں ٹھہرے سیدھے آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچے۔ دروازہ پر دستک دی۔ حضرت رسول کریمﷺ دروازہ پر تشریف لائے اور دروازہ کھولا۔ دیکھا تو ابوبکرؓ کھڑے تھے۔ آپ کو دیکھتے ہی حضرت ابوبکرؓ نے کہا۔ میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور خدا کے فرشتے میرے پر اترتے ہیں؟ رسول کریم ﷺ نے اس خیال سے کہ ان کو ٹھوکر نہ لگے سمجھانے کی کوشش کرنی چاہی کہ نبوت کے دعویٰ سے کیا مراد ہے اور فرشتوں سے کیا مطلب ہوتا ہے۔ اور فرمایا ابوبکرؓ سنو! ساری بات یوں ہے۔ ابوبکر نے آپ کو روک کر کہا دیکھو مَیں خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں اور کوئی بات نہ بتائیں۔ صرف یہ بتائیں کہ کیا آپؐ نے کہا ہے کہ آپؐ خداتعالیٰ کے مامور ہیں اور آپؐ پر آسمان سے فرشتے آتے ہیں؟ پھر بھی حضرت رسول کریم ﷺ نے اپنے پرانے دوست کی ہمدردی کا خیال کر کے مناسب نہ سمجھا کہ مختصر جواب دیں۔ آپؐ نے فرمایا ابوبکر سنو تو سہی۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا مَیں نے آپ کو خدا کی قسم دی ہے اور کوئی بات نہ کہیں۔ صرف یہ بتائیں کیا آپؐ نے خداتعالیٰ کی طرف سے آنے اور اس کے کلام کے اترنے کا دعویٰ کیا ہے؟ حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہاں۔ اس پر حضرت ابوبکرؐ نے کہا آپؐ گواہ رہیں مَیں آپؐ کی اس بات کو تسلیم کرتا ہوں۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے کہا کیا آپؐ میرے ایمان کو دلیلوں سے ضائع کرنا چاہتے تھے۔ جب مَیں نے دیکھا ہؤا ہے کہ آپؐ ہمیشہ سچ بولتے ہیں تو مجھے کسی دلیل کی ضرورت نہ تھی۔ دلیلیں کافروں کو سنائیں کہ فرشتے ایسے ہوتے ہیں، اس طرح آتے ہیں۔ اصل سوال تو یہی تھا کہ کیا آپؐ نے یہ بات کہی ہے۔ جب آپؐ نے اقرار کیا تو ہم نے آپؐ کی بات مان لی۔ 2حضرت ابوبکرؓ کا ایمان حضرت رسول کریم ﷺ کی سچائی کا نتیجہ تھا۔ اگر حضرت ابوبکرؓنے آپؐ کی سچائی کا اعلیٰ نمونہ نہ دیکھا ہوتا تو ان کو یقین کس طرح پیدا ہوتا۔
اسی واقعہ کی طرف رسول کریم ﷺ نے ایک دوسرے موقع پر اشارہ فرمایا ہے۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ کی حضرت ابوبکرؓ سے تکرار ہو گئی۔ حضرت عمرؓ جوشیلے آدمی تھے۔ آپ نے ابوبکرؓ سے کچھ سختی کی۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے وہاں سےٹلنا چاہا۔ حضرت عمرؓ نے سمجھا کہ یہ درمیان میں بات چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔ گوحضرت ابوبکرؓ کا مطلب ان کا جوش ٹھنڈا کرنے کا تھا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے کہا کہاں جاتے ہو اور آگے بڑھ کر آپ کا کپڑا پکڑ لیا۔ کپڑا پھٹ گیا مگر آپ چلتے گئے کہ عمرؓ غصہ کی حالت میں ہے۔ اب ان سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ حضرت عمرؓ نے سمجھا یہ میری شکایت کرنے حضرت رسول کریم ﷺ کے پاس گئے ہیں اور ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہؤا کہ غلطی تو میری ہی ہے۔ رسول کریم ﷺ ناراض ہوں گے۔ میں بھی چلتا ہوں۔ حضرت عمر وہاں پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ کو وہاں نہ پایا۔ انہوں نے سمجھا شکایت کر کے واپس چلے گئے ہوں گے۔ آپ نے حضرت رسول کریمؐ کے پاس جا کر عرض کیا یا رسول اللہ! میری غلطی تھی ابوبکرؓ کا قصور نہ تھا بلکہ میرا تھا۔ جب وہ اپنے قصور کا اقرار کر رہے تھے تو اس وقت کسی نے دوڑ کر حضرت ابوبکرؓ کو بتا دیا کہ حضرت عمرؓ گئے ہیں۔ شاید یہ واقعہ بیان کریں گے اور آپ کی شکایت کریں۔ جس سے آپ کو بدظنی پیدا ہو۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ بھی چل پڑے۔ حضرت عمر وہاں سے اس خیال سے چلے تھے کہ رسول کریم ﷺ کو حضرت ابوبکرؓ کی بات سن کر تکلیف نہ پہنچے مَیں براءت کر آؤں۔ جب حضرت ابوبکرؓ مجلس میں پہنچے تو دیکھا کہ گو شبہ یہ کیا گیا تھا کہ عمرؓ حضرت ابوبکرؓ کی شکایت کرنے گئے ہیں مگر وہ اس کی بجائے اپنے قصور کا اقرار کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یا رسول اللہ! غلطی میری تھی۔ مجھ سے ابوبکرؓ کے حق میں سختی ہو گئی ہے۔ میں معافی چاہتا ہوں۔ یہ بات سنتے ہی رسول کریم ﷺ کا چہرہ متغیر ہو گیا اور آپؐ نے فرمایا: اے لوگو! تم مجھے اور ابوبکرؓ کو کیوں نہیں چھوڑتے۔ جب تم لوگ انکار کرتے تھے یہ شخص آگے آیا اور کہا مَیں ایمان لایا۔ مَیں نے اس میں کبھی کجی اور انکار کا مادہ نہیں دیکھا۔ 3
لوگ اختلافِ رائے رکھتے ہیں کہ پہلے ایمان لانے والا کون تھا۔ حضرت خدیجہؓ بے شک پہلے ایمان لائیں آخر وہ رسول کریم ﷺ کی بیوی تھیں۔ خاوند کا بیوی پر اثر بھی ہوتا ہے۔ حضرت علیؓ بے شک ایمان لائے مگر وہ بچہ تھے، آپؐ کے بھتیجے تھے، آپؐ کے گھر میں رہتے تھے۔ اس کا بھی اثر ہوتا ہے۔ زید ؓبھی پہلے ایمان لا چکے تھے جبکہ حضرت ابوبکرؓ باہر ہی تھے مگر زیدؓ غلام تھا، آپؐ کے گھرمیں رہتا۔ غلام کھانے اور کپڑے کا محتاج ہوتا ہے ان کا ایمان محتاجوں والا ایمان تھا۔ حضرت خدیجہؓ کا ایمان بیوی ہونے کی وجہ سے ، حضرت علیؓ کا بچے اور بھتیجا ہونے کے سبب اور زیدؓ کا نوکر ہونے کی حیثیت سے وہ درجہ نہیں رکھتا جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ کا۔ کیونکہ جس شخص کا آزادی کا ایمان تھا ، نہ کسی دنیاوی احسان کے سبب تھا اور نہ کسی چیز کی احتیاج تھی، وہ ابوبکرؓ ہی تھا۔ علماء میں بحث ہوتی ہے کہ ابوبکرؓ پہلا مومن تھا؟ کوئی کہتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ پہلے ایمان لائی تھیں۔ کوئی کہتا ہے کہ حضرت علیؓ ایمان لائے تھے مگر سچی بات یہی ہے کہ حضرت خدیجہؓ بیوی تھیں، حضرت علیؓ بچہ تھے ، زیدؓ غلام تھا اور جب رسول کریم ﷺ نے دعویٰ کیا حضرت ابوبکرؓ گھر نہ تھے۔ دوسرے تیسرے دن آئے۔ اس لئے جوان، بالغ مَردوں میں سے پہلا ایمان لانے والا ابوبکرؓ ہی تھا۔ عورتوں سے حضرت خدیجہؓ، بچوں سے حضرت علیؓ، نوکروں میں سے زیدؓ۔ مگر اس لحاظ سے کہ جس پر کوئی حکومت نہ تھی ، کوئی دبدبہ نہ تھا اور نہ کوئی احسان وغیرہ تھا وہ ابوبکرؓ ہی تھے جو سب سے پہلے ایمان لائے۔ اسی لئے آپؐ نے فرمایا کہ اے لوگو! مجھے اور ابوبکرؓ کو کیوں نہیں چھوڑتے۔ جب تم سب لوگ مجھے جھوٹا کہتے تھے جس نے کہا مَیں ایمان لایا وہ ابوبکر ہی تھا۔ پھر ابوبکرؓ کا تقویٰ دیکھو۔ یہ خیال کر کے کہ حضرت رسول کریم ﷺ حضرت عمرؓ پر ناراض نہ ہوں اپنے بھائی کی سب غلطی بھول گئے اور اس کے غم کو اپنا غم سمجھتے ہوئے فوراً رسول کریم ﷺ کے سامنے دو زانو ہو گئے اور عرض کیا نہیں یا رسول اللہ! غلطی میری تھی عمرؓ کا قصور نہ تھا۔
غرض جیسا کہ مَیں نے اوپر بتایا ہے کہ سچائی میں فائدہ ہوتا ہے ۔ رسول کریم ﷺ کو سچائی کا یہ فائدہ پہنچا کہ ابوبکرؓ جیسا انسان سچائی کی وجہ سے آپؐ کو ملا۔ پہلا شکار آپؐ کی تعلیم کا جو نشانات دیکھنے کی وجہ سے نہیں، دلیلوں کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس بات سے ہؤا تھا کہ انہوں نے حضرت رسول کریم ﷺ کو دیکھا ہؤا تھا کہ آپؐ جھوٹ نہیں بولتے۔ اَور باتوں کو جانے دو یہی دیکھو کہ سچائی کی وجہ سے آپؐ کو ایسا سچا دوست مل گیا کہ پھر کبھی کوئی ایسا موقع نہیں آیا کہ قربانی کا موقع ہو اور ابوبکرؓ پیچھے رہے ہوں۔ ہر موقع پر آپؓ نے اپنے آپ کو آگے ڈالا۔ یہ ثمر تھا، پھل تھا حضرت رسول کریم ﷺ کی سچائی کا۔
اسی طرح دیانت ہے، امانت ہے۔ ان میں اگر انسان ثابت قدمی دکھاتا ہے تو اس لئے کہ وہ سمجھتا ہے کہ مجھے فائدہ پہنچے گا، تعلقات درست ہو جائیں گے۔ پھر کچھ نیکیاں انسان ضرر سے بچنے کے لئے کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر جھوٹ بولوں گا تو لوگ میری مانیں گے نہیں۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ پھر بھی بعض لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ جھوٹ کی وجہ سے رحم کا جذبہ کمزور ہو جاتا ہے۔ مثلاً دیکھو جب کوئی سنتا ہے کہ فلاں کو فاقہ ہے تو دل چاہتا ہے کہ قربانی کرے۔ مگر پھر شبہ پڑتا ہے نہ معلوم سچ کہتا ہے یا جھوٹا ہے۔ جھوٹ ایک بولتا ہے تکلیف دوسرا اٹھاتا ہے۔ اگر لوگ جھوٹ نہ بولتے تو مصیبت کیوں ہوتی۔ لوگ بھوکے نہ مرتے۔ جھوٹوں نے ڈرا دیا ہے۔ اس لئے جب کوئی اپنی مصیبت بیان کرتا ہے تو سننے والا خیال کرتا ہے شاید یہ بھی جھوٹ بولنے والوں میں سے نہ ہو۔ اسےہمدردی بھی ہوتی ہے، چیز بھی پاس موجود ہوتی ہے مگر شک پڑ جاتا ہے اور قربانی نہیں کرتا۔
پھر بعض لوگ اس لئے بُرائی سےبچتے ہیں کہ نقصان ہو گا اور اللہ ناراض ہو گا۔ تو دنیا میں یہ نظارے جو نظر آتے ہیں بتاتے ہیں کہ لوگ بدیوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ابوبکرؓ کو سچائی کا پورا علم تھا، وہ ایمان لے آیا اور ہر موقع پر قربانی کا اعلیٰ نمونہ دکھایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ اٰيٰتُ اللّٰهِ وَ فِيْكُمْ رَسُوْلُهٗ۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم نافرمانی میں مبتلا ہو ۔ حالانکہ اللہ کے نشانات دیکھتے ہو۔ پھر بھی نافرمانی کرتے ہو۔ تمہیں ہو کیا گیا ہے۔ جس کو پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ سچائی ہے وہ تو کوتاہی نہیں کرتا نیکی کو اختیار کر لیتا ہے اور بُرائی سے بچتا ہے۔ مگر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ باوجود نشانات دیکھنے کے اور پتہ لگ جانے کے کہ فلاں بات سے یہ یہ نقصان ہوتا ہے پھر بھی انہیں نہیں چھوڑتے۔
دوسری سستی کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کوئی نگران نہ ہو۔ مگر تم میں تو اللہ کا رسول موجود ہے جو اللہ کے نشان دکھاتا ہے اور اچھی اور بُری باتوں کی تمیز سکھاتا ہے۔ پھر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ نافرمانی کرتے ہو۔ جب کوئی نگران نہ ہو تو لوگ سستی کر جاتے ہیں۔ مثلاً لوگ شہر میں چلتے پھرتے ہیں۔ نالیوں میں کوچوں میں گند بھی ہوتا ہے مگر اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا۔ یا سپاہی کی وردی صاف نہیں یا افسر وقت پر کام پر حاضر نہیں ہوتے۔ لیکن اگر پتہ لگ جائے کہ گورنر صاحب دَورہ پر آنے والے ہیں تو سپاہی فوراً اپنی وردیاں ٹھیک کرنے لگ جائیں گے۔ شہر کی صفائی بھی ہونے لگ جائے گی کہ گورنر صاحب آ رہے ہیں۔ غرض دوسری چیز سستی کو روکنے والی یہ ہوتی ہے کہ نگران ہو۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ فِيْكُمْ رَسُوْلُهٗ تم میں تو اللہ کا رسول موجود ہے۔ جہاں تمہارے علم کا سوال تھا وہ مہیا کر دیا، پھر نگرانی کا طریق مقرر کر دیا۔ تم پراگندہ قوم نہیں ہوخدا نے نگران مقرر کر دیا ہے۔ پھر کیوں ایسا کرتے ہو۔ یہ حیرت انگیز چیز ہے۔ مثلاً دیکھو بچہ کھیل رہا ہو، بالکل چھوٹا نہیں آٹھ، دس سال کا ہو۔ اس کو یہ بھی علم ہو کہ ایک پُڑیا میں زہر ہے اور اس کے کھانے سے آدمی مر جاتا ہے۔ پیاس بہت لگتی ہے ، خون کے دست آتے ہیں، سخت درد پیٹ میں ہوتا ہے تو وہ اسے نہیں کھاتا۔ اور اگر اسے کوئی روکنے والا موجود ہو تو اور بھی محتاط ہو جاتا ہے۔ لیکن ان دونوں باتوں کے باوجود اگر کوئی بچہ زہر کھا جائے تو کتنے تعجب کی بات ہے لوگ اس بچہ کو یہی سمجھیں گے کہ پاگل ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ تم علم اور نگران کے ہوتے ہوئے نافرمانی کرتے ہو۔ جب تم خود یہ کہتے ہو کہ وہ بچہ جس کو علم تھا کہ یہ زہر ہے اور جسے روکا بھی گیا تھا وہ زہر کھا گیاتو معلوم ہؤا اس کا دماغ خراب تھا۔ تو اپنے بارہ میں کیوں غور نہیں کرتے۔ بچہ تو کمزور تھا مگر تمہاری یہ کیفیت ہے کہ اس سے بڑھ کر فعل کرتے ہو اور اپنے آپ کو پاگل نہیں سمجھتے ۔
جو مثال صحابہؓ کی تھی وہی آج ہماری ہے۔ قرآن کریم بے شک رسول کریم ﷺ پر نازل ہؤا مگر آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو قرآن کریم کے معنی کئے ہیں ان کی وجہ سے ہمارے لئے وہ ایسا ہی ہے جیسے آج دوبارہ نازل ہؤا ہے۔ ہم میں وہی روح پیدا ہونی چاہیئے ۔ پھر ہم میں خدا کا رسول بھی موجود ہے۔ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہو گئے ہیں مگر کوئی سال نہیں گزرتا کہ ہم آپ کے الہامات اور پیشگوئیاں پوری ہوتی نہ دیکھیں۔ پھر انتظامِ خلافت بھی ہے ، مرکز ہے، جواب طلبی بھی کرتاہے، نگرانی کی جاتی ہے، مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ خداتعالیٰ کے عہدوں کو توڑتے ہیں اور پھر احمدی بھی کہلاتے ہیں۔ كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ اٰيٰتُ اللّٰہِ ۔اللہ تعالیٰ کے نشان دیکھ کرپھر کس طرح نافرمانی کرتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ اس انکار کی حقیقت کو جانتا ہے مگر پھر تعجب کا اظہار کرتا ہے کہ یہ بات عقل میں نہیں آتی کہ نگران کھڑا ہے، روک رہا ہے، ہاتھ پکڑ رہا ہے پھر بھی لوگ نافرمانی کرتے رہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انسان اگر غور کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ یہ اس کا فعل عقل کے خلاف ہے۔
یہ آیت جس طرح صحابہ پر چسپاں ہوتی ہے ، دوسری صدی، تیسری صدی یا اور کسی صدی کے لوگوں پر چسپاں نہیں ہوتی۔ صرف ہم پر ہی چسپاں ہوتی ہے۔ کیونکہ ہم میں اللہ کا رسول آیا مگر باوجود نشانات دیکھنے کے ہم میں بعض احمدی ایسے ہیں کہ سچ بولتے وقت کمزوری دکھاتے ہیں۔ انصاف نہیں کرتے، عدل نہیں کرتے، ہمدردی نہیں کرتے۔ سمجھ نہیں آتی کہ باوجود نشانات دیکھنے اور سمجھ لینے اور باوجود نگرانی کے وہ کیوں ایسا کرتے ہیں۔ ’’
(الفضل 17 مارچ 1943ء)

1: آل عمران:102
2:السیرة الحلبیةجلد 1 صفحہ 309,308 مطبوعہ مصر 1932ء
3: بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ باب قول النبی ﷺ لو کنت
متخذاخلیلا۔۔۔





10
اللہ تعالیٰ پر صحیح معنوں میں توکّل کرو اور کبرو غرور کی بجائے عجزوانکسار کو اپنا شعار بناؤ
(فرمودہ 12 مارچ 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’سورۂ فاتحہ وہ دعا ہے جسے ہر مسلمان (جو اپنے آپ کو اسلامی تعلیم پر عمل پیرا کرنے کی کوشش کرتا ہے) دن میں 30،40 مرتبہ ہر روز پڑھتا ہے۔ کم سے کم فرائض اور سنن مؤکدہ (یعنی وہ سنتیں جو رسول کریم ﷺ ضرور پڑھا کرتے تھے اور اپنے متبعین کو پڑھنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے) ملا کر ایک مسلمان دن میں 30،35 مرتبہ سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے۔ یعنی چار رکعتیں فجر کی اور 12 ظہر کی ملا کر 16 ہوئیں۔ پھر 4 عصر کی ملا کر بیس اور 5 مغرب اور 9 عشاء کی یہ کُل 34 رکعتیں ہوئیں۔ لیکن اگر ظہر کی سنتیں بجائے چار چار کے دو دو پڑھی جائیں تو چار رکعتیں کم ہو ہر 30 ہو جائیں گی۔ اس طرح گویا 30 سے 34 دفعہ ایک مسلمان کے لئے لازمی ہے کہ وہ سورۂ فاتحہ پڑھے۔ اور اگر فرائض اور سنن کے علاوہ وہ نوافل بھی پڑھے تو پھر جیسا موقع ہو گا اس تعداد میں زیادتی ہو جائے گی۔ مثلاً رمضان میں تراویح پڑھی جاتی ہے۔ اگر انسان آٹھ تراویح پڑھے یا اٹھارہ تراویح پڑھے تو پھر 38 سے 48 دفعہ تک سورۂ فاتحہ پڑھے گا۔
غرض جس نے نماز پڑھی اس کو 48 دفعہ یا کم از کم 30 دفعہ سورۂ فاتحہ پڑھنی پڑتی ہے۔ اور اس کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں۔ سوائے اس کے کہ اسے سورۂ فاتحہ نہ آتی ہو۔ مگر ایک مسلمان کے لئے یہ کہنا بھی درست نہیں کہ مجھے سورۂ فاتحہ نہیں آتی۔ ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ سیکھے۔ ہاں اگر یہ حالت ہو کہ اسے آ ہی نہ سکتی ہو تو علیحدہ بات ہے۔ مثلاً ایک شخص بڈھا ہو اور اس کی عقل ماری گئی ہو یا آخری عمر میں وہ اسلام لایا ہو یا پاگل ہو یا بچہ ہو تو ایسے معذوروں کو الگ کر کے باقی سب کے لئے لازمی ہے کہ 30 سے لے کر 48 مرتبہ تک سورۂ فاتحہ کو نماز میں دہرائے۔
اس سورۃ میں ایک مومن خدا کے حضور کھڑے ہو کر علاوہ اور باتوں کے دو باتیں اپنی طرف سے کہتا ہے۔ یہ دو باتیں اس کے دو دعوے ہوتے ہیں جو خداتعالیٰ کے حضور کھڑے ہو کر کرتا ہے۔ باقی باتیں دعوے نہیں ہوتے بلکہ یا تو وہ حقائق بیان کرتا ہے مثلاً کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ 1سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو رَبُّ الْعٰلَمِیْن ہے۔ اس میں وہ خداتعالیٰ کے متعلق ایک واقعہ بیان کرتا ہے۔ اس کا اپنا کوئی کام نہیں۔ اسی طرح الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ 2 یہ سب واقعات اور حقائق ہیں۔ اور یا پھر وہ خداتعالیٰ سے مانگتا ہے۔ مثلاً کہتا ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ 3اے خدا ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ یہ بھی اس کا اپنا کام نہیں۔ وہ اپنی طرف صرف دو دعوے منسوب کرتا ہے اور کہتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ 4اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ان دو دعووں کے سوا سورۂ فاتحہ میں انسان کی طرف سے اور کوئی دعویٰ نہیں۔ مثلاً خداتعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار ہے۔ سو انسان کہے نہ کہے اللہ تعریف والا ہے۔ وہ کہے نہ کہے اللہ رحمٰن ہے۔ وہ کہے نہ کہے اللہ رحیم ہے۔ وہ کہے نہ کے اللہ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ہے۔ اس کے نہ کہنے سے خدا کی ربوبیت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ وہ اگر نہ کہے کہ تُو رحمٰن ہے تو اس کی رحمانیت میں کیا فرق پڑ جائے گا۔ خداتعالی کے بادل اسی طرح برسیں گے جس طرح پہلے برستے تھے۔ اس کا سورج بدستور چڑھتا رہے گا۔ اس کی ہوا بغیر روک کے چلتی رہے گی ۔انسان کے ہاتھ جن سے پکڑتا ہے، اس کے پاؤں جن سے وہ چلتا ہے ، اس کے کان جن سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھیں جن سے وہ دیکھتا ہے۔ غرضیکہ باقی سب اعضاء جن سے وہ کام لیتا ہے وہ اس نے کہیں سے خریدے نہیں بلکہ مفت ملے ہیں۔ اگر کوئی اس سے پوچھے کہ ایک مٹی کا ڈھکنا زیادہ قیمتی ہے یا ہاتھ تو کوئی پاگل ہی ہو گا جو یہ کہے گا کہ مٹی کے ڈھکنے کی قیمت زیادہ ہے۔ یقیناً ہر عقلمند یہی کہے گا کہ ہاتھ زیادہ قیمتی ہے۔ گورنمنٹ کے قانون میں بھی ایسا ہی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کا ہاتھ کاٹ لے یا پاؤں یا ناک وغیرہ کاٹ لے تو گورنمنٹ اس کاٹنے والے کو قید کرتی ہے۔ اور اگر اتفاقی حادثہ سے مثلاً موٹر کی ٹھوکر وغیرہ سے کسی عضو کو نقصان پہنچ جائے تو جیسی اس مجروح کی حیثیت ہوتی ہے اس کے حسب حالات نقصان پہنچانے والے سے ہرجانہ دلایا جاتا ہے۔ بہرحال گورنمنٹ کے نزدیک بھی ہاتھ اور پیر کی قیمتیں ہیں جن کی وجہ سے بعض حالات میں زخمی کرنے والے کو قید میں ڈالا جاتا ہے اور اتفاقی حادثہ میں مجروح کی حیثیت کے مطابق بعض دفعہ ہزار بعض دفعہ دو ہزار بلکہ پچاس پچاس ہزار روپیہ تک ہرجانہ دلایا جاتا ہے۔ مثلاًاگر ایک ڈاکٹر ہو جس کی آمد ہزار بارہ سو روپیہ ماہوار ہو اور کوئی شخص اتفاقی حادثہ سے اس کا ہاتھ یا پاؤں توڑ دے تو اس ڈاکٹر کو ہزار دو ہزار روپے حرجانہ دلانا کافی نہیں ہو گا بلکہ اس کے گزارہ کے مطابق دلایا جائے گا۔ عدالت کہے گی کہ جبکہ یہ شخص بے کار ہو گیا تو اب یہ اپنے بیوی بچوں کو کس طرح کھلائے گا۔ اس لئے ایسی صورت میں وہ پچاس پچاس ہزار بلکہ لاکھ لاکھ روپے تک ہرجانہ دلا دیتی ہے۔ اب دیکھو کہ اس قدر قیمتی ہاتھ ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو مفت دیا ہے اس کے لئے اس پر کوئی قیمت خرچ نہیں کی ۔ وہ ایسا قیمتی ہے کہ اسے نقصان پہنچ جائے تو گورنمنٹیں بھی کسی کو ایک ہزار کسی کو دو ہزار کسی کو دس ہزار کسی کو بیس ہزار کسی کو پچاس ہزار اور کسی کو لاکھ لاکھ روپے تک دلا دیتی ہیں۔ یعنی اگر اس کے مٹی کے ڈھکنے کو کوئی توڑ ڈالے اور پھر مالک جا کر عدالت میں دعویٰ کرے کہ فلاں شخص نے میرا مٹی کا ڈھکنا توڑ دیا ہے تو اول تو کوئی وکیل ایسے مقدمہ کو لینے کے لئے تیار نہ ہو گا۔ اور اگر کوئی لالچ کے مارے لے بھی لے تو عدالت اس کی بیوقوفی پر مقدمہ خارج کر دے گی۔ غرض وہ ہاتھ جس کی قیمت ہزار دو ہزار یا لاکھ مقرر کی گئی تھی اس پر تم نے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا وہ تمہیں مفت ملا ہے مگر وہ ڈھکنا جس کے توڑے جانےپر پولیس کا چالان تو کجا تم خود بھی جا کر عدالت میں دعویٰ کرو تو عدالت توجہ کے قابل نہیں سمجھے گی۔ وہ تمہیں مفت نہیں مل سکتا۔ وہ تم خریدنا چاہو تو پیسے دے کر ہی ملے مگر اب یہ تمہارے ہاتھ، پاؤں، ناک، کان وغیرہ خدا کی رحمانیت کا ثبوت نہیں تو اَور کیا ہے۔ اس ثبوت کی موجودگی میں اگر بندہ خدا کو الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ نہ بھی کہے تب بھی کوئی حرج نہیں بلکہ اگر ساری دنیا کہنے لگ جائے کہ رحمٰن کوئی نہیں تو اس کا یہ قول ہی خدا کی رحمانیت کی دلیل ہو گا کیونکہ جب کوئی شخص کہہ رہا ہو گا کہ کوئی خدا نہیں تو یہ کس زبان سے بول رہا ہو گا۔ یہ زبان اس نے کہاں سے لی ہو گی۔ یقیناً خدا نے اسے مفت دی ہے اور رحمٰن مفت دینے والے کو ہی کہتے ہیں۔ پس اس کا تو خدا کو گالیاں دینا بھی خدا کی رحمانیت کا ثبوت ہو گا۔
پھر بندہ کہتا ہے خدا مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ہے۔ اب اگر یہ کہتا تب بھی خدا مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ تھا اگر یہ نہ کہتا تب بھی وہ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ تھا۔ اس کے بعد کہتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتےہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔ پس ساری سورۃ میں یہی دو فقرے اس نے اپنی طرف منسوب کئے ہیں۔ ان سے پہلے وہ صداقت کا اظہار کرتا ہے اور ان کے بعد خدا سے کچھ مانگتا ہے کہ اے خدا مجھے کچھ دے دے۔ لیکن درمیان میں وہ دو دعوے کرتا ہے۔ ایک تو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مَیں خدا کا عبد ہوں اور کسی کا عبد نہیں لیکن اگر اس کا عمل دیکھو تو کتنے ہیں جو اس دعوے پر سچے طو پر عمل کرتے ہیں۔ ہزاروں ہیں جو ایک طرف اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتے ہیں اور دوسری طرف چوریاں کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، غیبت کرتے ہیں اور ذرا ہاتھ میں طاقت آئے تو دوسرے کو کچھ چیز ہی نہیں سمجھتے۔ وہ اپنے کمزور بھائی کو کہتا ہے کہ مَیں تھپڑ مار کر تیرے سارے دانت توڑ ڈالوں گا۔ وہ نادان اتنا بھی نہیں جانتا کہ یہ زور اس کے ہاتھ میں کہاں سے آیا۔ دولت آ جائے تو وہ لوگوں کو کہتا ہے کہ مَیں تمہیں یوں ذلیل کر دوں گا، مَیں تمہیں سیدھا کر دوں گا۔ چنانچہ دیکھ لو نبیوں کے مخالف کس گھمنڈ کے ساتھ نبیوں کو چیلنج دیتے تھے کہ باز آ جاؤ ورنہ ہم تم کو اپنی زمین سے نکال دیں گے۔ ہمارے ملک میں بھی زمیندار اپنے کمزور ہمسایہ کو کہتے ہیں کہ ہم تمہارا پاخانہ بند کر دیں گے۔ دیہات میں ٹٹیوں کا یا ان کی صفائی کرنے والوں کا انتظام تو ہوتا نہیں کھیتوں میں جانا ہوتا ہے تو وہ زمیندار ذرا سی بات پر اتنا اُچھلتا ہے کہ گویا زمین و آسمان کی طاقت اسی کے پاس ہے۔ خداتعالیٰ کو تو حقیقی حکومت حاصل ہے مگر اس کے باوجود وہ بندوں پر حکومت نہیں جتاتا بلکہ ناز اٹھا رہا ہے اور محبت کے ساتھ اپنے بندوں سے احسان کر رہا ہے۔ کہیں بندہ روٹھا ہؤا ہے اور خدا اس کو منا رہا ہے۔
حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانیؒ لکھتے ہیں کہ لوگ مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ مَیں اعلیٰ کپڑے پہنتا ہوں (کیونکہ ان کے متعلق آتا ہے کہ وہ بہت قیمتی کپڑا پہنتے تھے جو آجکل کی قیمت کے لحاظ سے 2 ¼ ہزار روپیہ فی گز کا کپڑا بنتا ہے) اسی طرح شاہ ولی اللہ صاحب (جو دہلی کے ایک بہت بڑے بزرگ تھے) ان کے متعلق بھی آتا ہے کہ ان کا لباس نہایت اعلیٰ ہوتا تھا اور وہ روزانہ نیا جوڑا پہنتے تھے۔ جب اس پر لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ قیمتی کپڑے پہنتا اور قیمتی کھانے کھاتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ مَیں تو کبھی کپڑا نہیں پہنتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات کی قسم تُو کپڑا پہن۔ اور مَیں کوئی کھانا نہیں کھاتا جب تک مجھے خداتعالیٰ نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات کی قسم تُو یہ کھانا کھا۔
اب دیکھو کہ کہا ں خداتعالیٰ کی ذات اور کہاں عبدالقادر جیلانیؒ ۔ دونوں میں اتنی بھی تو نسبت نہیں جتنی ایک انسان اور چیونٹی میں ہوتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنی محبت کی وجہ سے بندے کی منتیں کر کے اسے مناتا ہے۔ خداتعالیٰ کا یہ سلوک بندے کو شرم دلانے کے لئے ہے کہ خدا تعالیٰ تو عرش پر ہو کر یوں منتیں کرتا ہے مگر یہ اتنا چھوٹا ہو کر کبر و غرور میں آتا ہے اور کہتا ہے کہ مَیں یوں کر دوں گا اور مَیں وُوں کر دوں گا۔
مجھے یہاں کے کارکنوں کے متعلق رپورٹیں پہنچتی رہتی ہیں جن کی تحقیق کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ گو ان میں سے بعض جھوٹی رپورٹیں بھی ہوتی ہیں مگر بعض دفعہ سچی بھی ہوتی ہیں۔ اور وہ رپورٹیں اس قسم کی ہوتی ہیں کہ ایک افسر اپنے ماتحتوں سے کہتا ہے کہ میں تیرا پانی بند کر دوں گا۔ میں تیری فصل سکھا دوں گا۔ حالانکہ وہ صرف کارندہ ہوتا ہے، مالک بھی نہیں ہوتا۔ مگر پھر بھی وہ اس قدر دعوے کرتا ہے کہ حیرت آتی ہے ۔ گویا ادھر تو وہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ میں خداتعالیٰ کے سامنے کہتا ہے کہ مَیں کچھ بھی نہیں، مَیں تو آپ کا غلام ہوں، مَیں تو ذلیل ہوں، میرا کوئی ٹھکانا نہیں مگر نماز سے نکل کر ایک اپنے جیسے بندے کو جس کی ویسی ہی آنکھیں ہیں جیسی اس کی ہیں ۔ ویسی ہی ناک ہے جیسی اس کی، ویسے ہی ہاتھ اور پاؤں ہیں جیسے اس کے ۔ کہتا ہے کہ مَیں تجھے نکال دوں گا، میں تجھے جوتوں سے سیدھا کروں گا، مَیں تجھے بتا دوں گا کہ مَیں کون ہوں۔ تعجب ہے کہ پچاس دفعہ خداتعالیٰ کے سامنے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہنے والا کہتا ہے کہ مَیں وہ چیز ہوں اور مَیں یہ چیز ہوں اور اتنے بڑے دعوے کرتا ہے ۔ مسجد میں تو وہ کہتا ہے کہ خدا ہی سب کچھ ہے مگر باہر آ کر آپ ہی رب بن جاتا ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ یہ شخص اتنا جھوٹ بولنے والا ہے کہ جس کی مثال ہی نہیں۔ اور پچاس دفعہ دعوے کر کے جھوٹ بول جاتا ہے۔ ایسے شخص کے قول کی کیا قیمت رہ جاتی ہے جو ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں بلکہ پچاس دفعہ کہتا ہے کہ مَیں تیرا بندہ ہوں، مَیں نہایت ذلیل غلام ہوں تُو ہی سب سے بڑا ہے مگر باہر نکل کر کہتا ہے کہ مَیں ہی سب کچھ ہوں۔ بھلا ایسے شخص کے دل میں ایمان پیدا ہی کیسے ہو سکتا ہے جو باوجود کمزور ہونے کے دعوے کرتا ہے کہ مَیں یوں کر دوں گا اور مَیں وُوں کر دوں گا۔ اس کے مقابلہ میں خدا کو سب طاقتیں حاصل ہیں مگر پھر بھی وہ ایسا نہیں کہتا بلکہ اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے۔
بعض منافق لوگ جب جماعت سے الگ ہوتے ہیں تو بلند بانگ دعاوی کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں ہم یوں کر دیں گے، ہم ایسا کر دیں گے لیکن مَیں نے باوجود جماعت کا اِمام ہونے کے کبھی نہیں کہا کہ مَیں ایسا کر دوں گا بلکہ یہی کہتا رہا ہوں کہ جو کچھ خدا کی مرضی ہو گی وہی ہو گا۔ انسان کو تو چاہیئے کہ اگر اس کے دل میں ایسا گندہ خیال آئے تو بجائے دوسرے کو مارنے کے کہے کہ مَیں اس خیال کو کچل دوں گا اور اپنے دل کو سنوارنے کی کوشش کرے۔ اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہنے والا اگر غرور اور تکبر سے کام لے تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس قسم کی غلامی ہے۔
دوسری بات جو وہ بطور دعویٰ کے پیش کرتا ہے اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ہے کہ اے خدا مَیں نے تجھ ہی سے لینا ہے اور کسی بندے سے نہیں مانگنا۔ مگر عملاً ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں ایک بندہ کہتا ہے کہ مَیں ذلیل ہوں، مَیں حضور کا غلام ہوں۔ ادھر سجدے سے سر اٹھاتے ہی لاٹھی لے کر کھڑا ہو جاتا ہے ۔ وہاں یہ دوسرا شخص اسی کی شکایت لے کر خدا کے حضور میں کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ خدایا یہ جو تیرا بندہ بنتا تھا بالکل جھوٹ کہتا تھا۔ تیرے سامنے تو کہتا تھا کہ مَیں نے کسی پر ظلم نہیں کرنا، مَیں نے کسی کا حق نہیں دبانا مگر باہر جا کر ڈنڈا لے کر کھڑا ہو جاتا ہے اور ہم پر ظلم کرتا ہے اور ہمارے مالوں کو ناجائز طور پر دباتا ہے۔ یہ تو تیرے سامنے جھوٹ بول گیا مگر ہم سچ کہتے ہیں کہ ہم تجھ سے ہی مدد مانگیں گے اور کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔ لیکن ظالم تو یہ کہہ کر کہ مَیں تیرا غلام ہوں، ذلیل ہوں، کسی کو کیا کہہ سکتا ہوں، جھوٹ بول گیا اور یہ مظلوم بن کر جھوٹ بول گیا کیونکہ ادھر تو خدا تعالیٰ کے سامنے کہا کہ مَیں نے تجھ سے ہی مانگنا ہے اور پھر سلام پھیرتے ہی بندوں کے آگے ہاتھ جوڑنے شروع کر دیتا ہے کہ حضور ہمارے مائی باپ ہیں، حضور ہی مدد کر سکتے ہیں۔ اگر اس کا اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہنا صحیح ہے تو پھر یہ گھبراتا کیوں ہے۔ اگر واقع میں خدا ہے تو وہ ضرور اس کی مدد کرے گا۔ بندوں سے کس لئے مددمانگتا پھرتا ہے۔ بہرحال اس کا اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہنا تبھی صحیح ہو سکتا ہے جب دوسرے بندوں سے ذلت آمیز مدد نہ مانگے۔ ہاں تعاون والی مدد مانگے تو یہ درست ہو گا۔ یہ نہ ہو کہ انسانی کوشش پر ہی سارا انحصار رکھے۔ ایک شخص جب کسی سے سفارش کرانا چاہتا ہے اور اسی سفارش پر سارا انحصار رکھتا ہے تو اس کی یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر اس کی سفارش نہ ہوئی تو وہ کہیں کا بھی نہ رہے گا۔ حالانکہ جب ایسا شخص نماز میں کہتا ہے کہ مجھےکسی کی پرواہ نہیں تو فارغ ہو کر کیوں ہر دروازے پر ماتھا رگڑتا ہے اور منتیں کرتا پھرتا ہے کہ مجھ پرفلاں مصیبت ہے میری مدد کرو۔ غرض ایک طرف تو ظالم کہتا ہے کہ میرے جیسا ذلیل کوئی نہیں اور میرے جیسا غلام کوئی نہیں لیکن نکلتے ہی یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس جیسا نمرود کوئی نہیں۔ اس جیسا شدّاد کوئی نہیں۔ دوسری طرف یہ مظلوم کہتا ہے کہ مَیں نے تو کسی سے مدد نہیں مانگنی تجھ سے ہی مانگنی ہے۔ اور پھر نکلتے ہی ہر ایک کے آگے ناک گھساتا ہے۔ حیرت آتی ہے کہ کس طرح دونوں فریق جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں۔ پہلا اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتا ہے اور ہر ایک پر ظلم کرنے پر تُلا رہتا ہے اور دوسرا اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہہ کر ہر ایک سے مانگتا پھرتا ہے۔ ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں بلکہ روزانہ پچاس دفعہ خدا کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کرتا ہے کہ مَیں تیرا بندہ ہوں، میں تیرا غلام ہوں، مجھ سے ذلیل اور کوئی نہیں لیکن فارغ ہوتے ہی فرعون سے بڑا بنتا ہے ۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ مجھے ان فرعونوں کی پرواہ نہیں۔ مَیں نے تجھ سے ہی مانگنا ہے۔ تیرے ہوتے ہوئے مجھے کسی اور سے کیا ڈر ہو سکتا ہے۔ مگر سلام پھیرنے کے بعد ہر ڈیوڑھی پر جا کر ناک رگڑتا ہے۔ حالانکہ نماز کے اندر کہہ رہاتھا کہ مَیں نے تو اے خدا تجھ سے ہی مانگنا ہے۔ مَیں نے کسی اور کے پاس جانا ہی نہیں، نہ مجھے کسی کی پرواہ ہے۔ ایک دفعہ تیرے ساتھ جو تعلق جوڑ لیا تو بھلا اب مَیں کسی کو کیا جانوں اور ادھر مسجد سے نکلتے ہی آوازیں دینی شروع کرتا ہے کہ اے چوہدری جی تسیں ای میری مدد کرو۔ اے مولوی جی تسیں ہی میری کہانی سن لو۔ غرض ہر جگہ سے مددمانگتا پھرتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس جیسا ذلیل دنیا میں کوئی نہیں۔
پھر دوسری اذان ہوتی ہے۔ یہ پھر مسجد میں آتا ہے اور خدا کے آگے کھڑے ہو کر عرض کرتا ہے کہ مَیں نے کسی سے نہیں مانگنا۔ اگر مانگنا ہے تو تجھ سے۔ تیسرے سوا بھلا مَیں جا کہاں سکتا ہوں۔ پھر نماز سے علیحدہ ہوتا ہے تو تم اس نالائق کو دیکھتے ہو کہ کس طرح ہر دروازے پر جا کر مانگتا پھرتا ہے۔ اگر اس کے اندر ذرا بھی وفا ہوتی ، اگر وہ واقع میں سمجھتا کہ اس کا خدا موجود ہے تو اسے اس طرح مانگنے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک کمزور ایمان والے کا مانگنا جس کے اندر طاقت نہیں اَور رنگ رکھتا ہے۔ وہ تو نرگدا کی طرح ہوتا ہے کہ اگر اسے مل جائے تو خیر ورنہ خدا پر توکل کر کے آگے چلا جاتا ہے۔ مگر یہ بالکل جھوٹ بولتا ہے اور خدا سے مانگنے کا اقرار کر کے ہر ایک کے سامنے لجاجت کرتا ہے اور ہر بندے کو خدا سمجھتا ہے۔ کیا یہ عجیب تماشہ نہیں کہ ظالم اور مظلوم دونوں جھوٹ سے کام لے رہے ہیں۔ ایک خدا کے سامنے جا کر کہتا ہے کہ میرے جیسا ذلیل دنیا میں کوئی نہیں۔ میرے جیسا نکما دنیا میں کوئی نہیں اور جب باہر نکلتا ہے تو طرح طرح کے ظلم و ستم سے کام لینا شروع کر دیتا ہے۔ دوسرا کہتا ہے مجھے کسی ظالم کی کیا پرواہ ہے مَیں کب کسی سے ڈرتا ہوں۔ جب تیرے جیسا رحیم و کریم خدا میرے سامنے ہو تو مجھے کس کا خوف ہو سکتا ہے۔ بھلا مَیں کسی سے ڈرتا ہوں؟ مجھے پتہ ہے کہ جو مجھے مارنا چاہے گا تُو اسے مار دے گا اور جو مجھے ذلیل کرنا چاہے گا تُو اسے ذلیل کرے گا۔ مَیں تیرا دروازہ چھوڑ کر کہاں جا سکتا ہوں؟ مگر جس طرح پہلا شخص نماز کے بعد ظلم کو شیوہ بنا لیتا ہے اسی طرح یہ دوسرا شخص پانچ مرتبہ خدا سے مانگنے کا اقرار کر کے جاتا ہے اور پانچ پہر لوگوں سے مانگتا پھرتا ہے۔ ایسا اقرار کرنے والے پر خداکا فضل نازل کس طرح ہو سکتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک بزرگ کا واقعہ سنایا کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے رزق کے لئے ایک ذریعہ مقرر کیا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ براہ راست فرشتے آسمان سے لا کر اس کے سامنے رکھ دیں بلکہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کے دل میں ڈال دیتا ہے کہ فلاں بندے کو ضرورت ہے اسے فلاں چیز دے دو یا خواب میں دکھا دیتا ہے کہ فلاں جگہ سے تیری ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔ یا کہیں اچھی بارش برسا دیتا ہے اور فصلیں اچھی ہو جاتی ہیں۔ غرض ہزاروں ذریعے رزق پہنچانے کے اس نے مقرر کئے ہیں لیکن خداتعالیٰ بعض دفعہ کسی بندے کو کہہ دیتا ہے کہ تُو تلاش بھی نہ کر بلکہ ایک جگہ بیٹھ جا ہم تیرے لئے رزق پہنچا دیں گے۔ چنانچہ وہ بیٹھ جاتا ہے اور پھر خداتعالیٰ بندوں کے دل میں الہام کرتا ہے کہ فلاں شخص کےلئے کھانا لے جاؤ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو کہا کہ تُو پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ جا اور اسے وہاں کئی سال تک اللہ تعالیٰ کھانا پہنچاتا رہا۔ آخر ایک دن اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اس بندے کو دیکھا جائے کہ اس کا ایمان کیسا ہے؟ چنانچہ اس دن لوگوں کو اس کے متعلق الہام کرنا بند کر دیا۔ ادھر اس بزرگ کو فاقہ آنا شروع ہؤا۔ ایک وقت کا فاقہ آیا دوسرے وقت کا آیا ، پھر تیسرے وقت کا آیا۔ آخر اس سے بھوک برداشت نہ ہوئی اس نے سوچا کہ اس طرح بیٹھ رہنا تو ٹھیک نہیں شہر میں جا کر کسی سے کھانا لانا چاہیئے۔ قریب ہی شہر تھا وہاں گئے اور ایک امیر کے دروازے پر جا کر کھانا مانگا۔ جہاں سے انہیں تین روٹیاں اور کچھ سالن ملا۔ جب وہ لے کر واپس چلے تو اس امیر کے دروازے پر ایک کتا بیٹھا تھا۔ اس کتے کے دل پر اللہ تعالیٰ نے الہام نازل کیا۔ وہ کُتا ان کے پیچھے چل پڑا۔ کچھ دور جا کر ان کو خیال آیا کہ یہ کتا جو میرے پیچھے آ رہا ہے شاید بھوکا ہے یہ سوچ کر انہوں نے ایک روٹی اور تیسرا حصہ سالن کا اس کے آگے ڈال دیا۔ کُتا جلدی سے وہ روٹی اور سالن کھا کر ان کے پیچھے چل پڑا۔ تھوڑی دور جا کر انہوں نے یہ خیال کر کے کہ اس کُتے کا حق زیادہ ہے دوسری روٹی اور ایک حصہ سالن اور ڈال دیا۔ کُتا وہ بھی جھٹ پٹ کھا کر پیچھے ہو لیا۔ اب ان کے دل میں خیال آیا کہ کیسا ڈھیٹ جانور ہے۔ انسان کی عادت ہے کہ وہ غصے میں آ کر جانوروں سے باتیں کرنی شروع کر دیتا ہے۔ تم نے کئی دفعہ دیکھا ہو گا کہ کسان چلتے ہوئے بیلوں سے بھی باتیں کرتا جاتا ہے اور اسے کہتا جاتا ہے کہ تجھے کیا ہو گیا ہے حالانکہ وہ بیل سنتا نہیں ،سمجھتا نہیں۔ اسی طرح غصے میں آ کر انہوں نے کُتے سے کہا کہ ‘‘بے حیا کہیں کا دو روٹیاں ڈال دیں اب بھی جانے کا نام نہیں لیتا۔’’ اُدھر انہوں نے یہ کہا اور معاً اللہ تعالیٰ نے ان پر کشف کی حالت طاری کی اور وہ کُتا بولا (کشف میں جانور بھی بولا کرتے ہیں اور دیواریں بھی بولا کرتی ہیں) کہ بے حیا تم ہو یا مَیں ہوں؟ مجھے اس امیر کے دروازے پر سات سات وقت کا فاقہ آیا ہے مگر اس کے باوجود مَیں اس دروازے سے کہیں نہیں گیا لیکن خدا تم کو اتنی مدت سے وہیں بیٹھے کھانا پہنچاتا رہا اور تم تین فاقوں سے گھبرا کر مانگنے آ گئے ہو۔ اب خود ہی سوچو کہ بے حیا تم ہو کہ مَیں ہوں۔ کُتے نے یہ کہا اور ادھر ان کی کشفی حالت جاتی رہی۔ تب انہیں سمجھ آ گئی اور انہوں نے آخری روٹی اور سالن بھی وہیں پھینکا اور اپنے مقام پر واپس آ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے تو امتحان لینا تھا اور ان پر ظاہر کرنا تھا کہ تمہارا ایمان ابھی مضبوط نہیں ہؤا۔ گھر پہنچے تو دیکھا کہ پانچ چھ آدمی کھانا لئے کھڑے ہیں۔ ایک معذرت کر رہا تھا کہ حضور غلطی ہوئی، معاف کیجئے مجھےیاد نہیں رہا تھا۔ دوسرا یہ کہہ رہا تھا کہ حضور میری بیوی بیمار تھی معاف کریں آپ کو تکلیف ہوئی۔ غرض ہر ایک معافی مانگ رہا تھا اور کھانا پیش کر رہا تھا۔ تو خداتعالیٰ کے ایسے بھی بندے ہوتے ہیں کہ انہیں اسباب سے کام لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ انہیں خود کہتا ہے کہ ایک جگہ بیٹھ جاؤ، ہم تمہارا رزق تمہیں خود پہنچائیں گے۔ اور کبھی اللہ تعالیٰ اتنا رزق دیتا ہے کہ سید عبدالقادر جیلانیؒ کی طرح ہزار ہزار روپے گز والا کپڑا پہننے کا حکم دیتا ہے اور کبھی اتنی تنگی ہوتی ہے کہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام رِضْوَانُ اللہِ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنَ کی طرح وہ پیٹ پر پتھر باندھے پھرتا ہے۔
غرض کسی کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے کہ تھوڑا تھوڑا رزق دیتا ہے اور کسی کو بغیر حساب کے دیتا ہے جیسا کہ حضرت سلیمان اور حضرت داؤد علیہما السلام کو دیا۔ بہرحال یہ حکم ہوتا ہے کہ بندوں کے پاس نہ جائیں۔ یہ جائز ہوتا ہے کہ وہ کوشش کرے، کھیتی باڑی کرے لیکن اگر وہ اپنی حالت کو یہاں تک گرائے کہ مانگنے کے پیچھے پڑا رہے اور ذرا سی تکلیف پر بندوں کے آگے ہاتھ جوڑنا شروع کر دے تو یہ کسی طرح جائز نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ ایک مظلوم ظلم کی شکایت کرے مگر یہ کہ ہر ایک کے ساتھ اسی طرح چمٹ جائے جس طرح جونک چمٹتی ہے اور یہ خیال کرے کہ اگر میری مدد نہ کی تو مَیں مر گیا۔ کسی طرح درست نہیں۔ یہ تو پانچ وقت کہتا ہے کہ اے خدا! مَیں نے تیرے سوا کسی سے نہیں مانگنا۔ اور پھر ہر دروازہ سے چمٹا نظر آتا ہے ۔ اگر یہ خدا سے مانگتا تو کیا خدا اسے چھوڑ دیتا؟ ہم تو معمولی معمولی باتوں میں دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ خداتعالیٰ ایسے طور پر دشمن سے بدلہ لے لیتا ہے کہ حیرت آتی ہے۔ ایک شخص تم کو مار کر جاتا ہے یا تمہارے بیٹے کو مارتا ہے اور گھر جاتا ہے تو اس کے بیٹے کو قولنج ہو جاتا ہے ۔ ایسے بیسیوں واقعات ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مگر خداتعالیٰ کا منشاء ہے کہ جب بدلہ لینے لگو تو میرے بندوں کے متعلق رحم کا خیال رکھو۔ لیکن کئی لوگ جب بدلہ لینا چاہتے ہیں تو بد دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا بیڑا غرق ہو تو اچھا ہے۔ بلکہ بعض تو مجھے خط لکھتے ہیں کہ فلاں نے ہمیں دکھ دیا ہے دعا کریں کہ اس کا بیڑا غرق ہو۔ مَیں انہیں لکھتا ہوں کہ تمہیں تو اس سے غرض ہے کہ تمہارا فائدہ ہو جائے۔ اس بات سے کیا فائدہ کہ دوسرے کا بیڑا غرق ہو مگر وہ اس پر ضرور مصر رہتے ہیں کہ ہم تو تب خوش ہوں گے جب دشمن کا بیڑا غرق ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک کُبڑی کی مثال سنایا کرتے تھے کہ اس سے کسی نے پوچھا کہ آیا تُو یہ چاہتی ہے کہ تیری کمر سیدھی ہو جائے یا باقی لوگ بھی کُبڑے ہو جائیں۔ تو جیسا کہ بعض طبیعتیں ضدی ہوتی ہیں اس نے آگے سے یہ جواب دیا کہ مدتیں گزر گئیں مَیں کُبڑی ہی رہی اور لوگ میرے کُبڑے پَن پر ہنستے اور مذاق کرتے رہے ۔ اب یہ تو سیدھا ہونے سے رہا۔ مزہ تو جب ہے کہ یہ لوگ بھی کُبڑے ہوں اور مَیں بھی ان پر ہنس کر جی ٹھنڈا کروں۔
اسی طرح بعض حاسد طبیعتیں ہوتی ہیں کہ انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ ان کی تکلیف دور ہو جائے بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ دوسرا تکلیف میں مبتلا ہو جائے حالانکہ اگر نادان سوچیں تو انسان سے ہزاروں غلطیاں روزانہ ہوتی ہیں اور اس کے دل میں بُغض اور کینہ کپٹ نہ ہو تو ہزاروں لاکھوں گناہ جو یہ روز کرتا ہے مثلاً کبھی جھوٹ بولتا ہے، کبھی بدظنی کرتا ہے، کبھی کسی سے درشت کلامی کرتا ہے، کبھی کسی سے ہنس کر نہیں بولتا، کسی وقت بچوں کی تربیت سے غفلت کرتا ہے، بعض دفعہ بیوی کا حق ادا نہیں کرتا۔ ایسی صورت میں جب قیامت کے دن ان غلطیوں کا طومار اس کے سامنے رکھا جائے گا تو اس وقت اس کے پاس کیا چیز ہو گی جو اس کے بدلہ میں دے گا۔ اس وقت صرف ایک ہی چیز ہو گی جو بدلہ میں پیش کر سکے گا۔ یعنی جو اس نے اپنے بھائیوں کے گناہ معاف کئے ہوں گے ۔ اس وقت خداتعالیٰ کہے گا کہ میرا بندہ دنیا میں دوسروں کے گناہ معاف کرتا رہا ہے اور جب یہ بندہ ہو کر اپنے جیسے بندوں کے گناہ معاف کرتا رہا ہے تو مَیں رب العالمین ہو کر اس کے گناہ کیوں نہ معاف کروں۔ مجھے تو اسے سزا دیتے ہوئے شرم آتی ہے۔ لیکن بعض لوگ اس قانون سے یہ ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں کہ قانون شکنی کو جرم نہیں سمجھتےا ور خودبخود خیال کر لیتے ہیں کہ وہ قابل معافی ہیں۔ مثلاً جب نظام سلسلہ کے خلاف بعض لوگ حرکت کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ خدا اتنے گناہ معاف کرتا ہے آپ بھی معاف کر دیں۔ حالانکہ وہ اتنا نہیں سوچتے کہ اس فعل کی اصلاح ہونی چاہیئے اور معاف کرنا تو اس کے اختیار میں ہوتا ہے جس کا جرم کیا جائے۔
رسول کریم ﷺ کے پاس بعض لوگ ایک عورت کا مقدمہ لائے جس نے چوری کی تھی ۔ چونکہ وہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ بعض لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اسے معاف کر دیا جائے۔ رسول کریم ﷺ یہ سن کر جوش میں آ گئے اور آپؐ نے فرمایا: خدا کی قسم! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو مَیں اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں۔5
تو معافی کے یہ معنے نہیں کہ اس سے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے اور نہ مجرم کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ بطور حق کے معافی مانگے۔ معافی دینا اصل میں خدا کا کام ہے اور اس نے بندہ کے گناہ معاف کرنے کی نیکی کو اس کی معافی کا ذریعہ بنایا ہے۔ اور یہی چیز ہے جو خدا کے سامنے ان گناہوں کے طومار کی سزا دینے سے اسے بچاتے ہیں۔
دیکھو خداتعالیٰ کی تعلیم کس طرح حکمت سے پُر ہے۔ ایک طرف حاکم کو کہتا ہے کہ تُو نیچا ہو کر بات کر اور دوسری طرف ماتحت کو کہتا ہے کہ اگر کوئی تجھ پر ظلم کرتا ہے تو مجھ سے مدد مانگ ۔ تُو اور کسی کے پاس جاتا ہی کیوں ہے۔ تُو اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ پڑھتا ہے کہ اے خدا مَیں نے کسی کے پاس جا کر کیا لینا ہے جبکہ تجھ سا محسن خدا موجود ہے۔ مگر جب انسان کی یہ حالت ہو کہ ادھر وہ یہ عہد کر کے ہر دروازہ سے بھیک مانگتا پھرے اور خداکا عہد توڑ دے تو اسے مدد کیا ملنی ہے لیکن اگر بندہ اللہ تعالیٰ کا ہو جائے تو پھر وہ یقیناً ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے نقصان کی تلافی ہو جائے کیونکہ جو شخص خداتعالیٰ سے مدد مانگتا ہے خدا اس کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا۔’’ (الفضل 2 اگست 1961ء)

1: الفاتحة: 2
2: الفاتحة: 4,3
3: الفاتحة: 6
4: الفاتحة: 5
5: بخاری کتاب الحدود باب کراھیة الشفاعة فی الحد اذا رفع الی السلطان


11
احمدیت کے دنیا میں غالب آ جانے کے حقیقی معنی کیا ہیں؟
(فرمودہ 2 اپریل 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’یہ زمانہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک غیرمعمولی زمانہ ہے جس کی مثال پہلے زمانوں میں کسی جہت میں بھی نہیں ملتی۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں تک سیاست کا تعلق ہے اس سے پہلے کبھی بھی دنیا سیاسی مقاصد کے لئے ایک جگہ پر جمع نہیں ہوئی۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی لحاظ سے اتحاد خیال کبھی نہیں ہوا۔ یہ تو آج بھی نہیں۔ بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ سیاسی گتھیوں کو سلجھانے کے لئے کبھی اس سے پہلے ساری دنیا کے نمائندے اکٹھے نہیں ہوئے تھے۔ کسی زمانہ میں ایشیا میں سیاست کا زور رہا ہے اور ایشیائیوں نے دنیا پر حکومت کی ہے۔ مگر اس وقت امریکہ ابھی دریافت ہی نہ ہؤا تھا۔ افریقہ کے قبائل وحشی تھے۔ یورپ کا اکثر حصہ بھی جاہل اور وحشی تھا۔ اور جو حصہ کسی قدر علم سے واقف اور بہرہ ور تھا اسے ایشیا سے کسی قسم کی ہمدردی او رتعلق نہ تھا۔ پس ایشیا کے لوگ جب کبھی کسی سیاسی مسئلہ کو حل کرنا چاہتے تو آپس میں ہی مشورہ کر لیتے تھے۔ نہ یورپ اور افریقہ والوں سے پوچھتے اور نہ امریکہ والوں کو جانتے تھے۔ مگر جہاں تک ایشیا کا تعلق ہے سارے کے سارے ایشیائی ممالک بھی مشورہ میں شامل نہ ہوتے تھے بلکہ اس زمانہ میں جو بھی مرکز سیاست ہوتا وہی سیاسی امور کو طے کر لیتا۔ جس زمانہ میں ہندوستان ترقی پر تھا جب کبھی کوئی سیاسی گتھی سلجھانے کا موقع آتا یہاں کے راجے آپس میں ہی مشور ہ کر لیتے تھے۔ اور پھر کہا یہ جاتا تھا کہ ہم نے دنیا کے مسائل کو حل کر لیا۔ حالانکہ نہ انہیں باقی دنیا سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی باقی دنیا کو ان سے۔ جب ایران برسرِاقتدار تھا تو ایسے مشوروں میں ہندوستان کے کنارہ پر رہنے والے لوگوں میں سے کسی کو شامل کر لیا جاتا ہو گا یا بخارا و سمرقند کے رہنے والوں کو یا عراق سے کوئی نمائندہ آ جاتا ہو گا اور خیال کر لیا جاتا تھا کہ دنیا کی سیاسی گتھیاں اس مجلس میں سلجھا دی گئی ہیں۔ حالانکہ دنیا کے بہت قلیل حصہ کا اس سے تعلق ہوتا تھا ۔ اور جب مصر میں مرکز سیاست تھا تو خود مصر کے علاوہ اس کے اردگرد کے ممالک مثلاً شام، سوڈان، ابی سینیا وغیرہ کو مشورہ میں بلا لیا جاتا تھا۔ اور جب مشورہ کر کے کوئی بات طے کر لی جاتی تو یہ سمجھا جاتا کہ ساری دنیا اس مشورہ میں شامل ہوئی ہے۔ وہ زمانہ آج کی طرح بالکل نہ تھا۔ جب قریباً ہر ملک کے نمائندے سیاسی مسائل کے سلجھانے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ اس قسم کی مثال کہ تمام دنیا کے لوگ جمع ہوئے ہوں پہلے نہیں ملتی۔
اقتصادی لحاظ سے بھی یہ زمانہ بالکل نرالا ہے۔ جس طرح آج ساری کی ساری دنیا تجارت میں شریک ہے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ پہلے زمانہ میں تو کئی ممالک کی دولت کا دوسروں کو علم ہی نہ تھا مگر آج چپہ چپہ کے حالات معلوم ہو چکے ہیں اور دنیا کی دولت کو بڑھانے کے لئے ہر گوشۂ عالم اپنا حصہ دے رہا ہے۔ امریکہ گندم، تیل اور دوسری چیزوں کے ذخائر دنیا کے لئےپیش کر رہا ہے ۔ جنوبی امریکہ اپنی لکڑیاں اور غلّے وغیرہ دنیا کو مہیا کر رہا ہے۔ اسی طرح وہ ممالک جو پہلے معلوم بھی نہ تھے برابر حصہ لے رہے ہیں۔ جاپان، چین ، فارموسا اور فلپائن وغیرہ جنہیں پہلے کوئی جانتا بھی نہ تھا حتّٰی کہ سائبیریا کے برفانی علاقے بھی جو برف کی وجہ سے بالکل جم جاتے ہیں وہ بھی اپنی اقتصادی دولت دنیا کے آگے رکھ رہے ہیں اور لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح افریقہ کے اندر جو ذخائر ہیں وہ باہر نکل رہے ہیں اور اس کا ایک ایک حصہ یا تو خود متمدن ہو چکا ہے اور یا متمدن ممالک کے ماتحت ہے۔ یورپ کے وحشی لوگ جو پہلے کپڑے پہننا بھی نہ جانتے تھے آج تہذیب و تمدن کا جھنڈا ا ٹھائے ہوئےہیں اور صرف اپنے آپ کو ہی مہذب و متمدن قرار دیتے ہیں۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی کے جزائر کہ جہاں پہلے کوئی جہاز نہ پہنچ سکتا تھا اور جو پہنچنے کی کوشش کرتا برفانی تودوں سے ٹکرا کر غرق ہو جاتا تھا۔ وہ بھی اپنی دولت اور ذخائر آج دنیا کی منڈیوں میں بھیج رہے ہیں اور دنیا کی چیزیں وہاں پہنچ رہی ہیں۔ پس کہنا پڑتا ہے کہ اقتصادی لحاظ سے بھی یہ زمانہ بالکل نرالا ہے۔
پھر اگر علمی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو بھی یہ زمانہ بالکل عجیب ہے۔ پہلے زمانہ میں علم صرف چند لوگوں تک محدود ہوتا تھا۔ اسلام نے چونکہ علم حاصل کرنے کی تاکید کی ہے اس لئے اسلامی ممالک میں پڑھے لکھے لوگوں کی کثرت تھی باقی دنیا میں تعلیم بالکل نہ تھی۔ ہر جگہ چند ایک لوگ ہی لکھنے پڑھنے سے واقف تھے بلکہ لوگ لکھنا پڑھنا ضروری نہ سمجھتے تھے۔ عرب کو دیکھ لو ، رسول کریم ﷺ سے پہلے کے زمانہ میں اہل عرب لکھنا پڑھنا ہتک سمجھتے تھے۔ امراء میں سے چند لوگ لکھنا پڑھنا سیکھتے تھے۔ تا سیاسی و تجارتی معاہدات اور خط و کتابت کی جا سکے۔ اور آٹھ دس آدمیوں کو مقرر کر دیا جاتا تھا کہ وہ لکھنا پڑھنا سیکھ لیں باقی اسے ہتک سمجھتے تھے اور اس بات پر فخر کیا جاتا تھا کہ ہم لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔ مگر آج علم حاصل کرنے کی خواہش اتنی ترقی کر گئی ہے لوگ اس کے لئے قیمتی سے قیمتی چیز قربان کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ہماری جماعت کا ایک خاندان بہت مخلص تھا اور اسے لڑکوں لڑکیوں کو تعلیم دلانے کا اتنا شوق تھا کہ بعض دفعہ مجھے کہنا پڑتا تھا کہ آپ لوگوں نے کتابی علم کو اتنی وقعت دے رکھی ہے کہ اس کے لئے آپ لوگوں کو اگر عیسائی بھی ہونا پڑے تو شاید ہو جاؤ گے۔ میری ان تنبیہات سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا اور گو عیسائی نہیں ہوئے مگر پیغامی ہو گئے ہیں۔ ان کی لڑکیاں جب زیادہ پڑھ گئیں تو انہوں نے غیراحمدیوں سے ان کے رشتے کئے اور جب ہم نے اس پر گرفت کی تو ان کے لئے سوائے اس کے کوئی ٹھکانا ہی نہ تھا کہ پیغامیوں سے جا ملیں۔ تو آج علم نہ صرف یہ کہ دنیا میں پھیل گیا ہے بلکہ اسے حاصل کرنے کا شوق اتنا بڑھ گیا ہے کہ کوئی چیز اس سے زیادہ قیمتی نہیں سمجھی جاتی حتّٰی کہ بعض لوگ مذہب کو بھی اس کی خاطر چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔
یہ میرا آج کا مضمون نہیں مگر مَیں ضمناً ذکر کر دینا چاہتا ہوں کہ ابھی ہماری جماعت میں بعض اور بھی ایسے خاندان ہیں کہ جو دنیوی علم یا نوکری کے لئے اپنی لڑکیوں کو پڑھانا اتنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ وہ خواہ بے پردہ ہو جائیں، خواہ وہ غیراحمدیوں سےشادی کر لیں اس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ وہ بس اسی بات پر ناز کرتے ہیں کہ ان کی لڑکی ڈاکٹر بن گئی بی۔اے پاس کر لیا اور -/150 ماہوار کی نوکری حاصل کر لی۔ ان کا اور ان کے خاندان کا نام خواہ احمدیت سے کٹ جائے اس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں۔ وہ اسی پر بہت خوش ہیں کہ ان کی لڑکی -/150 ماہوار تنخواہ پا رہی ہے اور یہ بھی بالکل نیا نمونہ ہے جس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔
پھر مذہبی نقطۂ نگاہ سے بھی یہ عجیب زمانہ ہے۔ ایسا عجیب کہ اس کی کوئی مثال پہلے نہیں ملتی۔ پہلے انبیاء کے زمانہ میں یہ مثالیں ملتی ہیں کہ ایک نبی آیا، بعض اوقات لوگوں نے اسے تلوار اٹھانے پر مجبور کیا اور اس نے تلوار اٹھائی۔ پھر یہ بھی ہؤا ہے کہ ایک نبی آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کہا کہ تلوار نہیں اٹھانی ۔ کچھ زمانہ تک امن کی صورت اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دی مگر پھر وقت آیا جب اس نبی کی قوم اٹھی اور اس نے دنیا میں تغیر پیدا کر دیا مگر اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک نبی بھیجا اسے اور اس کے ساتھیوں کو حکم دیا کہ تم نے تلوار نہیں اٹھانی اور اس کا نام مسیح رکھ دیا اور کہا کہ تم مسیح ہو اس لئے تلوار نہیں اٹھانی مگر ایک متضاد بات جیسی کہ اور بہت سی متضاد باتیں اس زمانہ میں ہو رہی ہیں یہ کر دی کہ اس کا دوسرا نام کرشن رکھ دیا جس کا زمانہ اس بات کے لئے مشہور ہے کہ اس میں ایک عالمگیر جنگ ہوئی تھی۔ جس کے متعلق ہند کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس میں کروڑوں لوگوں نے حصہ لیا۔ ہندو قوم میں مبالغہ کی بہت عادت ہے۔ اس لئے ممکن ہے ہزاروں یا لاکھوں سپاہی ہوں جنہیں کروڑوں بنا دیا گیا۔ مگر خداتعالیٰ نے اس مبالغہ کو قائم رکھا تا جب دوسرے کرشن کے زمانہ میں کروڑوں لوگ جنگوں میں شریک ہوں تو ایک مشابہت دونوں میں پیدا ہو جائے۔ پس اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے ایک نبی کو امن کی اتنی تعلیم دی ہو اور دوسری طرف اس کے زمانہ کو ایسا جنگوں کا زمانہ بنا دیا ہو۔ کوئی نبی پہلے ایسا نہیں گزرا کہ اس کے زمانہ میں ایسی جنگیں ہوئی ہوں اور پھر اسے صلح کی تعلیم دے کر بھیجا گیا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنگ بالکل نہیں کرنی۔ اور فرمایا کہ اپنی جماعت کو بھی یہی حکم دو بلکہ دوسرے مسلمانوں میں بھی اعلان کر دو کہ آج مذہب کے لئے جنگ کرنے کی اجازت نہیں اور فرمایا کہ یہ مسیح صلح کا مسیح ہے ۔1 وہاں اسے کرشن کہہ کر یہ بھی قرار دیا کہ وہ جنگ کا پیغامبر ہے۔ 2 گویا دو متضاد باتیں جمع کر دیں۔ ایک طرف اسے صلح کا عظیم الشان پیغام دیا اور دوسری طرف جنگ کا۔ گو زمانہ کے تقدم و تأخر سے یہ دونوں باتیں جمع ہو سکتی ہیں مگر اس کی مثال پہلے کوئی نہیں ملتی کہ ایک نبی کے دو نام ہوں۔ ایک تو صلح پر دلالت کرے اور دوسرا عظیم الشان جنگوں کی خبر دینے والا ہو۔ ایک ہی زمانہ میں دو روئیں زور کی جاری ہوں۔ ایک طرف تو جنگ ، جنگ، جنگ کی آوازیں آ رہی ہوں اور دوسری طرف صلح، صلح، صلح کی۔ دنیا اس سے پہلے کبھی اس طرح دو کیمپوں میں تقسیم نہیں ہوئی۔ ایک کیمپ تو جنگ کی تائید میں اور دوسرا صلح کی تائید میں ہے۔ پہلے بے شک کبھی کبھی سکولوں میں طلباء اس قسم کی بحثیں کیا کرتے تھے کہ تلوار اچھی ہے یا قلم مگر آج تمام دنیا کے فلاسفر دو حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ ایک زور دے رہا ہے کہ صلح کے اصول مقرر کرنے چاہئیں اور دوسرا یہ کہہ رہا ہے کہ اس زمانہ کے معاملات صلح سے ہرگز طے نہیں ہو سکتے۔ یہ صرف تلوار سے طے ہوں گے۔ یہ بھی تضاد کی ہی حالت ہے اور تضاد کی حالت انسان کو ہمیشہ حیران کر دیتی ہے۔ ایک جیسے حالات اگر ہوں تو انسان حیران نہیں ہوتا۔ دو قسم کے ہوں اور امتیاز مشکل ہو جائے تو انسان ضرور حیران ہو جاتا ہے۔ ایک شخص کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ وہ ہمارا دوست ہے ، اس سے معاملہ کرتے وقت ہم حیران نہیں ہوں گے۔ ایک اور کے متعلق پتہ ہے کہ وہ دشمن ہے اس سے معاملہ کرتے وقت بھی ہم حیران نہ ہوں گے۔ مگر ایک شخص ہے جس کے متعلق دس آدمی ہمارے پاس آ کر بیان کرتے ہیں کہ وہ تمہارا بڑا دوست ہے، ایسا دوست کہ شاید کوئی دوسرا نہ ہو گا مگر دوسرے دس آدمی آ کر کہتے ہیں کہ وہ تمہارا اتنا سخت دشمن ہے، سخت مخالف اور کینہ ور ہے۔ اس حالت میں ہم حیران ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ متضاد باتیں ہیں۔ تو اس زمانہ میں اس قدر متضاد باتیں پیدا ہو چکی ہیں کہ حیرت کا سامان اتنی کثرت سے پہلے کبھی نہیں ہؤا۔
مگر یہ سارے سامان جیسا کہ قرآن کریم، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور ان خبروں سے جو اللہ تعالیٰ بعد میں آپ کی جماعت کے بعض لوگوں کو دیتا رہا ہے ، معلوم ہوتا ہے جماعت احمدیہ کی ترقی کی تکمیل اور اس کے غلبہ کے لئے کئے جا رہے ہیں اور جب ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانہ کے حالات ہماری قوت سے باہر ہیں اور دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ ہمارے لئے ہیں تو بالکل حیران رہ جاتے ہیں۔ ہماری مثال بالکل اس شخص کی سی ہے کہ جسے کہا جائے کہ یہ جو ہزاروں عورتیں ہیں ان میں سے تمہارے لئے دلہن منتخب کی جائے گی مگر انتخاب تم نے نہیں کرنا بلکہ اس میں تم دخل بھی نہیں دے سکتے۔ تم چُپ کر کے بیٹھے رہو ہم خود چُنیں گے۔ اب وہ شخص بیٹھا ہے ، کبھی کوئی ایسی عورت تجویز کی جاتی ہے جو اُسے پسند نہیں اور کبھی کسی ایسی کوچھوڑ دیا جاتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے اور ان سب باتوں کو دیکھ کر و ہ دل ہی دل میں کُڑھتا ہے ۔ اس کی رائے کو اس میں کوئی دخل نہیں حالانکہ فیصلہ اس کے لئے کیا جا رہا ہے ۔ آج بعینہٖ یہی حالت ہماری ہے۔ یہ سارے انقلابات ہمارے لئے ہو رہے ہیں مگر ہمیں خداتعالیٰ کا یہی حکم ہے کہ چُپ کر کے بیٹھے رہو اور دنیا کو یہ سب کچھ کرنے دو اور ظاہر ہے کہ ان حالات میں ہمارے لئے سوائے حیرت کے کچھ نہیں۔
مَیں نے اس سوال پر بہت غور کیا کہ خداتعالیٰ نے ایسا کیوں کیا؟ ایک طرف تو یہ سارے حالات ہمارے لئے ہیں اور دوسر ی طرف ہم بالکل بے بس ہیں بلکہ حکم ہے کہ بولنا نہیں۔ مَیں نے ان حالات پر غور کیا تو یہ بات سمجھ میں آئی کہ یہ زمانہ ایسا ہے کہ خداتعالیٰ کی محبت دلوں میں بہت کم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ احمدیوں کے لئے ایسے حالات پیدا کر دے کہ ان کے دل مجبوراً خداتعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں۔ ان احمدیوں کے لئے جو صحیح معنوں میں احمدی ہیں۔ احمدیوں میں بعض تو ایسے ہیں کہ جو صرف احمدیوں سے مشابہت رکھتے ہیں جیسے انسان نما حیوان ہوتے ہیں ۔ ان لوگوں کی حالت بالکل یہی ہے کہ کھایا، پیا اور سو رہے۔ یا زیادہ سے زیادہ کوئی چندہ لینے آیا تو کچھ دے دیا۔ ان کی روحیں مُردہ ہیں اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے مشن سے اس سے زیادہ دلچسپی کوئی نہیں۔ وہ بالکل مُردے ہیں۔ گویا غیراحمدیوں کے قبرستان سے بعض مُردے اٹھا کر احمدیوں کے قبرستان میں ڈال دئیے گئے ہیں۔ پس جب مَیں احمدیوں کا ذکر کرتا ہوں تو میری مراد ایسے احمدیوں سے نہیں ہوتی۔ پھر احمدیوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے عظیم الشان کام کے لئے پیدا کیا ہے مگر ایسا سمجھنے والوں کے بھی آگے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ تو وہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ احمدیت کا مقصد صرف یہ ہے کہ دوسروں کے ہاتھوں سے حکومت لے کر احمدیوں کے حوالہ کر دی جائے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ نتھو کی جگہ خیرو کو بادشاہ بنا دیا جائے۔ ایسا خیال کرنے والے لوگ پوری طرح مُردہ تو نہیں ، ہیں تو زندہ مگر ان کی امیدیں اس سے زیادہ نہیں ہیں۔ پس ایسے لوگ بھی درحقیقت مُردہ ہی ہیں اور انہوں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصل مقام کو نہیں سمجھا۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ نتھو کو تخت سے ہٹا کر خیرو کو اس کی جگہ بٹھا دینے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء نہیں آیا کرتے۔ ایسی حکومتیں جو دین سے بے بہرہ ہیں اور جن کے حکمران جاہل اور ظالم ہیں ان کو مٹا کر ان کی جگہ ویسے ہی ظالم اور جاہل احمدیوں کو حکمران بنا دینا احمدیت کا مقصد نہیں۔ اور ایسے مقاصد کے لئے اللہ تعالیٰ کے انبیاء مبعوث نہیں ہؤا کرتے۔
ایک تیسرا گروہ احمدیوں کا ہے جو سمجھتا ہے کہ احمدیوں کے لئے بادشاہت مقدر نہیں بلکہ ایک عظیم الشان انقلاب مقدر ہے اور جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کو دنیا میں پھیلا دے گا اور طاقت احمدیوں کے ہاتھ میں آ جائے گی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت اسی طرح جس طرح کہ اب دوسروں کے ہاتھ میں ہے احمدیوں کے ہاتھوں میں منتقل ہو جائے گی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک ڈاکٹر جسم کے گندے پھوڑے کو چیر پھاڑ کر صاف کرتا اور گندہ مواد نکال کر اسے دھوتا ہے اس طرح ایک وقت آنے والا ہے جب احمدیوں کے ہاتھ میں نشتر دیا جائے گا اور وہ سر سے لے کر پیر تک جسم انسانی کو پھاڑیں گے اور ہر جگہ سے پیپ اور گندے مواد کو خارج کر کے اور دھو دھا کر صاف کر کے ٹانکے لگائیں گے اور صحیح معنوں میں احمدی وہی ہے جو اس بات کو سمجھتا ہے۔ ایسا احمدی معلوم کرتا ہے کہ قرآن کریم دنیا میں کس قسم کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے ۔ اور خوب سمجھتا ہے کہ میرے اخلاق کیسے ہونے چاہئیں۔ رسول کریم ﷺ کا مقصد کیا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کیا مشن لے کر آئے تھے اور کس قسم کا تغیر دنیا میں پیدا کرنا چاہتے تھے اور اس تغیر کو پیدا کرنے کے صحیح ذرائع کیا ہیں؟ اقتصادی طور پر کیا ذرائع اختیار کرنے چاہئیں کہ دنیا سے اس اقتصادی نظام کو منوایا جا سکے جو اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے۔ وہ کون سے علوم ہیں جو مَیں سیکھوں تاکہ دنیا کو بھی اسی طرح سکھا سکوں۔ وہ سائنس، اخلاق، فلسفہ غرضیکہ ہر شعبہ علم کے متعلق سوچتا ہے کہ انہیں اسلامی تعلیم کے مطابق کرنے کے لئے کیا تبدیلیاں ضروری ہیں۔ وہ قرآن کریم، احادیث ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور آپ کی کتب کا مطالعہ کرتا ، ان پر غور کرتا اور ان میں سے ہیرے اور جواہرات نکال کر ایک خوبصورت ہار تیار کر کے پہلے اپنی گردن کو اس سے مزیّن کرتا ہے اور پھر ان لوگوں کے لئے جن کی تربیت اس کے سپرد ہونے والی ہے مزیّن کرنے کا سامان مہیا کرتا ہے۔ ایسا شخص مُردہ نہیں ہو سکتا جس نے کانیں کھود کر اور سمندر میں غوطہ لگا کر ہیرے اور موتی نکالنے ہیں۔ سست اور غافل شخص ایسا نہیں کر سکتا۔ ایک ہَل چلا کر اپنے کام کو ختم سمجھنے والا زمیندار سکول میں کَیٹ (cat)پڑھا دینے والا مدرّس یا دکان پر دو سیر آٹا اور ایک سیر نمک فروخت کرنے والا دکاندار کانیں کھود کر اور سمندر میں غوطہ لگا کر یہ موتی نہیں نکال سکتا بلکہ ایسا انسان بالکل ناکارہ وجود ہے۔ کام کا وجود وہ ہے جو گو ہَل چلاتا ہے۔ مگر جب اس کا ہاتھ ہَل پر ہوتا ہے اس کا دل یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ جب دنیا بدلے گی اور لوگوں کو پڑھانے کا کام میرے سپرد ہو گا تو مَیں اسے کس طرح سرانجام دوں گا۔ وہ خیال کرتا ہے کہ مَیں تو خود پڑھا ہؤا نہیں ہوں دوسروں کو کیسے پڑھاؤں گا۔ پھر یہ سوچ کر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو پڑھنا شروع کرتا اور بار بار پڑھتا ہے۔ اور ان میں بیان فرمودہ تفسیر القرآن کو سیکھتا ہے اور اس طرح اطمینان حاصل کرتا ہے کہ اب میں دوسروں کو پڑھانے کے قابل ہو سکوں گا۔
اس وقت تو بعض احمدیوں کی مثال اس پٹھان کی سی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے ایک ہندو کو پکڑا اور تلوار نکال کر کہنے لگا کہ کلمہ پڑھ۔ اس نے پروٹسٹ کیا اور کہا کہ مَیں تو ہندو ہوں مجھ سے کلمہ نہ پڑھوائیں۔ مجھے اپنے مذہب پر قائم رہنے دیں مگر پٹھان پر کوئی اثر نہ ہؤا۔ اس نے کہا جو مسلمان کسی کافر کو مسلمان کرے وہ جنت میں جاتا ہے۔ اس لئے مَیں ضرور تمہیں کلمہ پڑھاؤں گا۔ ہندو نے بہت منت سماجت کی مگر اس نے ایک نہ سنی اور کہا کہ ایسا موقع بار بار نہیں مل سکتا۔ مَیں کلمہ پڑھا کر چھوڑوں گا۔ آخر جب اس ہندو نے سمجھا کہ اپنے دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے اتنا احتجاج کافی ہے تو اس نے کہا اچھا خان صاحب پڑھاؤ کلمہ۔ تو پٹھان نے کہا کہ خو تمہارا قسمت خراب ہے ، کلمہ مجھے بھی نہیں آتا ورنہ آج تم مسلمان ہو جاتے۔ اس پٹھان جیسے احمدی کسی کام نہیں آ سکتے۔
صحیح معنوں میں احمدی وہی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ احمدیت کے دنیا میں غالب آ جانے کے معنی یہ ہیں کہ یورپ ، امریکہ، جاپان، چین، غرضیکہ دنیا کے ہر ملک کے بڑے بڑے مؤرخ، فلاسفر، سائنسدان لائے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ تمہارے شاگرد ہیں ان کو پڑھاؤ اور پھر اس کے لئے تیاری کرتے ہیں۔ تم میں سے ہر ایک کو سوچنا چاہیئے کہ کتنے ہیں جو ان لوگوں کو پڑھا سکیں گے۔ بے شک ان کے اور تمہارے علوم میں فرق ہے مگر کیا تم لوگوں نے قرآن کریم، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور کتب کو اس طرح پڑھ اور سمجھ لیا کہ ان پر ان کی خوبیاں ایسی اچھی طرح واضح کر سکو اور ان کو دلائل سے قائل کر سکو کہ ان سے بہتر تعلیم کوئی نہیں ہو سکتی اور ان کو ایسے رستے پر چلا سکو کہ جس کی عظمت سے وہ مرعوب ہو سکیں اور کہہ سکیں کہ واقعی درست راستہ یہی ہے ہم اب تک جس راستہ پر چلتے رہے وہ صحیح نہ تھا۔ اگر ایسا ہے تو بے شک یہ خوشی کی بات ہے لیکن جو لوگ اپنے دل میں سمجھتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے تو انہیں یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ یہ پیشگوئیاں ان کے ذریعہ پوری نہ ہوں گی اور ایسے لوگوں کے لئے کیا خوشی ہو سکتی ہے۔ ایسے لوگوں کے دلوں میں تو کوئی احساس ہی نہیں ہو سکتا کہ دنیا میں کوئی تغیر ہو رہا ہے۔ انہیں صرف اتنا ہی پتہ ہے کہ لڑائی ہو رہی ہے اور آٹا مہنگا ہو رہا ہے یا یہ کہ یہ لڑائیاں اس لئے ہو رہی ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کی حکومتیں احمدیوں کے ہاتھ میں آ جائیں ۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں وہ بھی بہت ہی بے وقوفی کی بات کرتے ہیں۔ کیا نتھو کی جگہ خیرو کو بادشاہ بنا دینا ہی وہ انقلاب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہونا حقدار ہے۔ گویا ایک جاہل اور ظالم بادشاہ کو ہٹا کر اس کی جگہ ایک ظالم اور جاہل احمدی کو بٹھا دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے نبی کو مبعوث کیا ۔ ایسے بے وقوفوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ تختوں کو بدلنے کے لئے دنیا میں نبی نہیں آیا کرتے۔ یہ تو جرنیلوں اور فوجی افسروں و سپاہیوں کا کام ہے۔ یہ خیال کرنا کہ نبی اس لئے آیا ہے کہ تخت نشینوں کو بدل دے اور بعض ناکارہ بادشاہوں کو الگ کر کے ان کی جگہ اور ایسے ہی ناکارہ لوگوں کو دے دے جن کے سامنے نہ کوئی پروگرام ہو اور نہ جن کا کوئی مشن ہو سخت بے وقوفی کی بات ہے۔ اور یہ خیال کرنا بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے یہ خیال کر لیا جائے کہ نبی اس لئے آیا ہے کہ پاخانہ صاف کر دے۔ بلکہ میرے نزدیک تو پاخانہ صاف کرنے کا کام اس کی نسبت زیادہ بہتر ہے۔ پس یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اس غرض کے لئے نبی آئیں۔ یہ خداتعالیٰ کی ہتک ہے اور جو احمدی ایسا خیال کرتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت نہیں کرتا بلکہ خداتعالیٰ کی اور آپؑ کی دونوں کی سخت ہتک کرتا ہے کیونکہ جو ایسا سمجھتا ہے وہ گویا یہ سمجھتا ہے کہ نَعُوْذُ بِاللہِ اللہ تعالیٰ بھی اور اس کا رسول بھی بے وقوف ہے کہ جو ایک نبی سے ایسا کام کرانا چاہتے ہیں جس کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ، رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت کرنے والا وہی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ آپ کی بعثت کی غرض یہ ہے کہ دنیا کے خیالات، عقائد اور مذاہب میں ایسا انقلاب پیدا کر دیا جائے کہ جسے پیدا کرنا اسلام کا مقصد ہے۔ اور یہی ایک ایسی چیز ہے جسے تسلیم کر کے ہم دنیا کے سامنے گردنیں بلند کر سکتے ۔ اور کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک ایسے مقصد کو لے کر کھڑے ہوئے ہیں جو دنیا میں اور کسی کا نہیں۔ ایسا ہی احمدی جو ان باتوں پر غور کرتا ہے، ان حالات اور واقعات سے متاثر ہو سکتا ہے جو دنیا میں رونما ہوتے رہے ہیں خواہ وہ میدان جنگ سے دس ہزار میل کے فاصلہ پر کیوں نہ ہو خواہ وہ ہمالیہ کی چوٹی پر سادھو بن کر کیوں نہ بیٹھا ہؤا ہو اتنے فاصلہ پر بھی ان حالات کے اس پر ایسے اثرات ہو رہے ہوں گے جو اس سپاہی پر بھی نہ ہوں گے جو گو میدانِ جنگ میں ہے مگر صرف اتنا ہی جانتا ہے کہ انگریز دس قدم بڑھے ہیں اور جرمن بیس قدم پیچھے ہٹے ہیں لیکن جو ان باتوں کو سمجھتا ہے جو میں نے بیان کی ہیں وہ خواہ میدانِ جنگ سے کتنی دور کیوں نہ ہو وہ خوب سمجھتا ہے کہ ہر شر انگیز طاقت کے بڑھنے سے اسلام پیچھے ہٹتا اور اس کے پیچھے ہٹنے سے اسلام آگے بڑھتا ہے۔ باوجود ہمالیہ کی چوٹی پر بیٹھا ہونے کے ہر شرارت کے آگے بڑھنے پر اس کا دل اس سپاہی کی نسبت بہت زیادہ زور کے ساتھ دھڑکتا ہےجو گو میدانِ جنگ میں ہے مگر حقیقت سے آگاہ نہیں اور ہمالیہ کی چوٹی پر بیٹھے ہونے کے باوجود اس کا دل زیادہ خوش ہوتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ کفر کی طاقت پیچھے ہٹی ہے۔
پس اس وقت دنیا میں جو حالات و واقعات رونما ہو رہے ہیں جب تک کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہمیت کونہ سمجھے ان سے متاثر نہیں ہو سکتا اور صحیح نتائج بھی اخذ نہیں کر سکتا۔
اللہ تعالیٰ کے اس کلام سے جس کے ذریعہ وہ اپنے فضل و کرم سے وقتاً فوقتاً اطلاع دیتا رہتا ہے یہی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں اس وقت جو حالات رونما ہو رہے ہیں وہ احمدیت کے نقطۂ نگاہ سے بہت اہم ہیں۔ اسی سفر میں مَیں نے ایک رؤیا دیکھا ہے جس سے مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ جنگ اب کئی شکلیں تبدیل کرنے والی ہے۔ جن میں سے بعض شکلیں اسلام کے لئے بہت خطرناک ہوں گی۔ اسی قسم کے اور رؤیا مَیں نے پہلے بھی دیکھے تھے مگر مَیں ان کو دو الگ الگ واقعات نہ سمجھتا تھا لیکن اس رؤیا نے بتا دیا ہے کہ وہ ایک ہی واقعہ کی دو شکلیں نہیں بلکہ آگے پیچھے آنے والے الگ الگ واقعات ہیں۔ اس تازہ رؤیا کو میں عام طور پر بیان نہیں کر سکتا اور شاید اس کا بیان کرنا حکومت کی مصلحت کے بھی خلاف ہو۔ اشارۃً صرف اتنا بتاتا ہوں کہ مَیں نے دیکھا ہے کہ یورپ کی دو طاقتیں ہیں اور ایک ایشیائی طاقت ہے۔ ایشیائی طاقت کا سردار ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سمجھتا ہے کہ اس کے ملکی معاملات کے بارہ میں میرا مشورہ بھی مفید ہو سکتا ہے یا شاید اسے احمدیت سے کوئی دلچسپی ہے۔ وہ اپنے ملک کے حالات بیان کر کے مجھ سے مشورہ پوچھتا ہے کہ ان حالات میں ہم کیا کریں۔ مَیں نے نے اسے کوئی مشورہ دیا ہے مگر یہ یاد نہیں کہ اس نے کیا پوچھا اور مَیں نے کیا بتایا۔ صرف اتنا احساس ہے کہ اس نے کوئی مشورہ پوچھا ہےاور مَیں نے دیا ہے۔ پھر مَیں دیکھتا ہوں کہ ان دو یورپین حکومتوں میں سے ایک کے نمائندہ اور اس ایشیائی حکومت کے سردار کے درمیان کمیٹی ہوئی ہے ۔ دونوں جمع ہوئے ہیں کہ صورتِ حالات پر غور کریں اور سوچیں کہ کیا کارروائی کرنی چاہیئے۔ میں بھی وہاں گیا ہوں اور پرے ہٹ کر کھڑا ہوں ۔ اس مغربی حکومت کا نمائندہ ایک کھلے میدان میں کسی پتھر پر یا ایسی کرسی یا کوچ پر جس کی پشت نہیں بیٹھا ہے اور ایشیائی حکومت کا سردار کھڑا ہے اور اس سے بات کرتا ہے کہ ہمارے ملک کے یہ حالات ہیں۔ ہمیں کیا کرنا چاہیئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اجتماع کسی معاہدہ کی بات چیت کے لئے یا آئندہ کے لئے کوئی سکیم بنانے کے لئے ہے۔ دس بارہ گز ہٹ کر مَیں بھی کھڑا ہوں اور گفتگو سن رہا ہوں۔ ایشائی حکومت کا نمائندہ اس مغربی حکومت کے نمائندہ کو بتاتا ہے کہ ہمارے ملک کے فلاں فلاں علاقوں میں فلاں یورپین ملکوں کی فوجیں موجود ہیں جسے ہم پسند نہیں کرتے۔ ہمارا ملک آزاد ہے۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ اس کی فوجیں وہاں موجود رہیں۔ اس پر وہ یورپین حکومت کا نمائندہ پوچھتا ہے کہ کیا تم نے اس پر احتجاج نہیں کیا۔ تمہیں چاہیئے تھا کہ اس پر احتجاج کرتے۔ وہ جواب دیتا ہے کہ ہم نے احتجاج تو کیا ہے مگر وہ حکومت جواب دیتی ہے کہ یہ فوجیں ہم نے تمہارے فائدہ کے لئے رکھی ہیں۔ جب وہ یہ بات بیان کرتا ہے تو مغربی حکومت کا نمائندہ حقارت کے ساتھ مسکراتا ہے جس کا مطلب گویا یہ ہے کہ یہ کیسا بے وقوفی کا جواب ہے، اسے کون مان سکتا ہے۔ اس موقع پر وہ ایشیائی حکومت کا سردار اس سے کہتا ہے کہ میں نے ان سے (مجھ سے) بھی مشورہ لیا ہے اور انہوں نے (یہ) مشورہ دیا ہے مگر مجھے پھر پتہ نہیں کہ اس نے کیا بتایا کہ اس نے کیا مشورہ پوچھا تھا اور مَیں نے کیا دیا۔ اس پر اس مغربی حکومت کے نمائندہ نے حیرت کا اظہار کیا کہ اچھا ان سے بھی تم نے مشورہ لیا ہے۔ پھر وہ آپس میں بحث کرتے ہیں کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ اس وقت مَیں صورت حالات کو پوری طرح معلوم کر کے گھبراتا ہوں اور خیال کرتا ہوں کہ ہمیں بھی اب کسی اقدام کی ضرورت ہے۔ جونہی یہ خیال میرے دل میں آتا ہے ایک صورت میرے سامنے نمودار ہوتی ہے جو معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کا فرشتہ ہے اور وہ کہتا ہے ‘‘ دعا سے کام لینا ہی اچھا ہے، آخر وقت تو معلوم ہو گیا ہے۔‘‘ اور مَیں معاً خیال کرتا ہوں کہ درحقیقت دعا سے کام لینا ہی اچھا ہے۔
اس رؤیا کے بعض حصے جو مَیں نے بیان نہیں کئے اور ان سے بعض دوسرے حصوں کی تشریح ہو جاتی ہے ۔ بہرحال جو باتیں بتائی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ بعض فتنے بہت زیادہ خطرناک آنے والے ہیں اور وہ اسلام کے لئے بہت زیادہ مضر ہوں گے۔ مگر یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔ جیسا کہ رؤیا میں فرشتہ نے بتایا ہے دعا سے کام لینا ہی اچھا ہے۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ آخر وقت تو معلوم ہو گیا ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ ابھی وقت ہے اور دعا کی قبولیت کا موقع ہے۔ دعا کی قبولیت کے بھی مواقع ہوتے ہیں ۔ ایک شخص کے لئے ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے بیٹا دے۔ اب ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ سو فیصدی یہ دعا ضرور قبول ہو جائے گی مگر یہ بھی نہیں کہ اس کا پورا ہوناممکن نہیں ہے۔ کئی ایسے لوگوں کے ہاں جن کے پہلے لڑکے نہیں ہوتے دعا سے ہو جاتے ہیں مگر یہ بھی اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ ایک مہینہ سے چالیسویں دن تک لڑکی یا لڑکے کی شکل معین ہوتی ہے اور اس اثناء میں وہ تبدیلی کر دیتا ہے لیکن اگر ہم نویں مہینہ میں جبکہ جنین کے تمام زنانہ اعضاء مکمل ہو چکے ہیں یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ لڑکا دے تو یہ وقت اس دعا کی قبولیت کا نہیں ہو گا یا کسی آدمی کا آخری وقت آ پہنچا ہو۔ اسے فرشتے سامنے نظر آ رہے ہوں، غرغرہ شروع ہو چکا ہو تو اس وقت اگر یہ دعا کی جائے کہ یہ بچ جائے تو یہ دعا کی قبولیت کا وقت نہیں ہو گا۔ لیکن اگر آدھ گھنٹہ پہلے دعا کی جائےتو بچ سکتا ہے ۔ گو لوگ یہ سمجھ بھی نہیں سکتے کہ یہ دعا سے بچا ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اس نے بچنا ہی تھا۔ تو ایک وقت دعا کی قبولیت کا نہیں ہوتا اور ایک ہوتا ہے۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ آخر وقت تو معلوم ہو گیا ہے ۔ اس کے معنے یہی ہیں کہ جو وقت بتایا گیا ہے اس کے فاصلہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی دعا کا وقت ہے۔ جس سے اللہ تعالیٰ ان فتنوں کو دور کر سکتا ہے۔ یا ان کی ایسی شکل بدل سکتا ہے کہ وہ اسلام اور احمدیت کے لئے مضر نہ رہیں۔ اس رؤیا کے بعض حصے مَیں نے بیان نہیں کئے جن سے مضمون بالکل واضح ہو جاتا ہے مگر بہرحال اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ایسے تغیرات ہونے والے ہیں کہ جو عقلمند اور دردمند دلوں کو دہلا دینے والے ہوں گے۔ اور گو وہ دنیوی اور جنگی نوعیت کے ہوں گے مگر احمدیت اور اسلام کے لئے اتنا خطرناک اثر رکھنے والے ہوں گے کہ جسے دیکھ کر جنون کی کیفیت طاری ہو جائے مگر جو شخص نہ پیشگوئیوں کو پڑھتا یا سنتا ہے نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقاصد سے واقف ہے، نہ قرآن کریم یا احادیث کو کبھی پڑھتا اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اس کے لئے کوئی فرق نہیں۔ وہ صرف اتنا ہی جانتا ہے کہ لڑائی ہو رہی ہے اور لوگ مر رہے ہیں مگر وہ جو جانتا ہے کہ یہ لڑائی صرف انگریزوں و جرمنوں کی نہیں یا اتحادیوں اور محوریوں کی نہیں بلکہ اس کے ہر ایک واقعہ سے وہ اثر قبول کرتا ہے جو اسلام اور احمدیت پر پڑ سکتا ہے۔ وہ اس نگاہ سے اس کو نہیں دیکھتا کہ دنیا کی قومیں لڑتی ہیں اور کوئی آگے بڑھتی ہے یا پیچھے ہٹتی ہے بلکہ اس نظر سے دیکھتا ہے کہ ان قوموں کے پیچھے پیچھے خداتعالیٰ کے فرشتے چلے آ رہے ہیں۔ ان تمام تغیرات کو وہ آسمان کی طرف لے جاتا اور ان میں ایک روحانی جنگ کو مشاہدہ کرتا ہے اور اس سے بہت زیادہ متأثر ہوتا ہے۔ نادان انسان اسے دیکھتا اور حیران ہوتا ہے کہ یہ اتنا کیوں متأثر ہورہا ہے کیونکہ وہ ان امور کو نہیں دیکھ سکتا جو دوسرا خدا کا بندہ دیکھ رہا ہے اور اس کی آنکھوں پر وہ دور بین نہیں جو دوسرے کی آنکھوں پر ہے۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دعاؤں پر بہت زور دیں ، بہت دعائیں کریں کیونکہ دنیا میں بہت بڑے انقلاب پیدا ہونے والے ہیں۔ اپنے لئے بھی بہت دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اندر بھی انقلابی روح پیدا کر دے تا ہم اس انقلاب کی اہمیت کو سمجھ سکیں جو ہمارے ذریعہ علمی، اقتصادی ، سیاسی اور مذہبی لحاظ سے دنیا میں پیدا کیا جانا مقدر ہے۔ خوب یاد رکھو کہ دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان ، فلاسفر اور دیگر علوم کے ماہر تمہارے سامنے لائے جائیں گے ۔ وہ تمہارے شاگرد ہونے والے ہیں۔ پس اس وقت کے لئے تیاری کرو ایسا نہ ہو کہ تم بھی پٹھان کی طرح کا کلمہ پڑھانے والے ثابت ہو۔ وہ وقت آنے سے پہلے اپنے اندر ایسا تغیر پیدا کرو کہ ایسا کلمہ پڑھانے کے اہل بن سکو جس قسم کا کلمہ پڑھانا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ مُنہ سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہہ دینے کی تو کوئی حقیقت ہی نہیں۔ مُنہ سے کلمہ پڑھ لینا تو وہی بات ہے جو پیغامی کہتے ہیں کہ جب کسی نے مُنہ سے کلمہ پڑھ دیا تو وہ کافر کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر محض مُنہ سے کلمہ پڑھ لینے سے انسان مسلمان ہو سکتا ہے تو یہ تو کوئی مشکل بات نہیں۔ مگر یاد رکھو مُنہ سے کوئی لفظ ادا کر دینا کوئی بات نہیں ۔ جس کلمہ سے انسان مسلمان بن سکتا ہے وہ کلمہ کی اصل حقیقت ہے جسے اگر تم سمجھتے ہو تو تم دنیا کے استاد بن سکتے ہو لیکن اگر خود نہیں سمجھتے تو دوسروں کو کیا سکھاؤ گے۔ صرف مُنہ سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ تو مصری اور عرب اور دوسرے اسلامی ممالک کے عیسائی بھی تم سے بہت اچھا کہہ سکتے ہیں کیونکہ عربی ان کی مادری زبان ہے مگر مُنہ سے کہہ دینا کوئی بات نہیں۔ اصل چیز تو اس کی حقیقت کو پہچاننا ہے۔ پس اسے سیکھو اور دوسروں کو سکھانے کی تیاری کرو۔ اور بہت دعائیں کرو تا جب دنیا میں تغیر پیدا ہو تو تم سوئے ہوئے نہ پائے جاؤ بلکہ جاگتے اور مستعد پائے جاؤ۔‘‘ (الفضل 14 اپریل 1943ء)

1:ضمیمہ تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 77
2: تذکرہ صفحہ 381 ایڈیشن چہارم

12
غلّہ کے متعلق جماعت کو بعض نہایت ضروری نصائح
(فرمودہ 9 اپریل 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’پچھلا سال غلّہ کے لحاظ سے لوگوں کے لئے جس طرح تکلیف سے گزرا ہے خصوصاً غیراحمدیوں کے لئے وہ آئندہ ہمارے ملک کے لوگوں کے لئے ایک سبق کا موجب ہونا چاہیئے۔ مَیں نے گزشتہ سال بلکہ گزشتہ سے گزشتہ سال غلہ کے متعلق کچھ ہدایات جماعت کے احباب کو دی تھیں جن لوگوں نے ان پر عمل کیا وہ بہت آرام سے رہے اور جنہوں نے ان پر عمل نہ کیا ان کو تکلیف کا مُنہ دیکھنا پڑا۔ اور ایسا وقت بھی آیا جب غلّہ میسر آنا بہت مشکل ہو گیا۔ بلکہ ایسا وقت بھی ہمارے ملک پر آیا جب غلّہ کی قیمت دس روپے سے بڑھ کر یکدم سولہ روپیہ من تک پہنچ گئی جس کے معنے یہ تھے کہ اگر گھر کے چار افراد ہوں تو ان چار افراد کو سولہ روپیہ کا صرف غلّہ چاہیئے تھا کیونکہ اگر ایک مَن غلہ ان کی خوراک سمجھ لیا جائے تو سولہ روپیہ کا انہیں اپنے لئے صرف غلّہ ہی چاہیئے تھا۔ پھر اس میں پسائی وغیرہ شامل نہیں بلکہ پسائی انہیں الگ خرچ کرنی پڑتی تھی۔ اسی طرح روٹی پکانے کے لئے لکڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور لکڑی کے اخراجات بھی غلّہ کے اخراجات کے علاوہ تھے۔ ہمارے ملک میں عام طور پر مزدور اور چپڑاسی قسم کے لوگوں کی ماہوار آمد پندرہ روپیہ ماہوار ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے وہ تمام لوگ جن کی پندرہ روپیہ ماہوار آمد تھی وہ اس روپیہ سے صرف خشک روٹی بھی نہیں کھا سکتے تھے بلکہ انہیں صرف خشک روٹی کے لئے دو روپےماہوار قرض لے کر گزارہ کرنا پڑتا تھا۔ اور جن گھروں میں چار کی بجائے پانچ پانچ چھ چھ سات سات افراد تھے ان کے لئے تو اس قسم کا انتظام بھی ناممکن تھا ۔ ہمارے ملک میں گندم کی جو اوسط قیمت ہونی چاہیئے وہ سوا تین روپے مَن ہے۔ یعنی اگر روپے کا بارہ سیر غلّہ لوگوں کو مل جائے تو یہ ملک کے باقی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے غلّہ کی مناسب قیمت ہے۔ اس سے کم قیمت پر غلّہ چلا جائے تو زمیندار کو نقصان ہوتا ہے بلکہ سوا تین روپے سے کم بیچنا اس کے لے تباہی کا موجب بن جاتا ہے اور اس حالت کو ایسا ہی سمجھنا چاہیئے جیسے کسی مزدور کو تین یا چار آنے بطور مزدوری دے دئیے جائیں لیکن غلّہ کی جو قیمتیں گزشتہ دنوں چڑھ گئی تھیں وہ بہت زیادہ تھیں۔ اس معاملہ میں گورنمنٹ سے بھی بعض غلطیاں ہوئیں جیسا کہ مَیں نے جلسہ سالانہ کی تقریر میں ذکر کیا تھا اور پبلک سے بھی غلطیاں ہوئیں۔ بلکہ ہماری جماعت نے بھی باوجود پوری طرح توجہ دلائے جانے کے میری ہدایات سے پوری طرح فائدہ نہ اٹھایا۔ بہرحال وہ سال تو گزر گیا اور اب نیا سال شروع ہونے والا ہے۔ تھوڑے دنوں تک ہمارے ملک میں کٹائیاں شروع ہو جائیں گی اور مہینہ ڈیڑھ مہینہ تک نیا غلّہ آنا شروع ہو جائے گا۔ مجھ سے جو لوگ گزشتہ ایام میں مشورہ لیتے رہے ہیں ان میں سے جس دوست نے بھی بیع سَلم کے متعلق مجھ سے مشورہ لیا مَیں نے اسے یہی کہا کہ اگر پانچ روپے تک بیعِ سَلم ہو جائے تو تم سمجھو کہ یہ بڑے فائدہ کی بات ہے لیکن بہت سے دوستوں نے اپنے خیال میں یہ سمجھتے ہوئے کہ تین یا ساڑھے تین روپے پر بیعِ سَلم ہوجائے تو اچھا ہے ایسا نہ کیا۔ اب اس وقت ہمارے ملک میں جو حالات رونما ہیں ان میں اگر کوئی خاص تغیر پیدا نہ ہو جائے تو میرے نزدیک اب اگر چھ روپیہ تک بیعِ سَلم ہو جائے تو اس کو بھی غنیمت سمجھنا چاہیئے۔ گو ابھی پورے طور پر نہیں کہا جا سکتا لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس دفعہ پنجاب کی گندم کی حالت بہت بہتر نظر آتی ہے۔ مگر جہاں ایک طرف پنجاب میں گندم کی حالت گزشتہ سال سے بہتر ہے وہاں دوسری طرف بنگال اور بمبئی میں اتنا سخت قحط ہے اور وہاں غلّہ کی اس قدر کمی ہے کہ جس وقت نئی فصل تیار ہوئی یہ صوبے بے تحاشا غلّہ منگوانے کے لئے پنجاب پر ٹوٹ پڑیں گے۔ پنجاب چونکہ ان علاقوں میں سے ہے جو دوسروں کو غلّہ بھجواتے ہیں خود نہیں منگواتے اس لئے یہاں کے رہنے والے باہر کے صوبوں کی حالت کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ میرے پاس جو رپورٹیں بنگال سے پہنچی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ ہؤا وہاں چھبیس ستائیس روپے من چاول کا بھاؤ تھا اور اس چاول سے مراد وہ موٹا چاول ہے جو یہاں آٹھ آٹھ نو نو اور دس دس سیر فروخت ہؤا کرتا تھا۔ جن علاقوں میں لوگوں کی غذا ہی چاول ہے وہ پلاؤ والے چاول استعمال نہیں کیا کرتے بلکہ موٹے چاول استعمال کیا کرتے ہیں۔ کشمیر میں مَیں نے دیکھا ہے وہاں یہ چاول پندرہ پندرہ سولہ سولہ سیر مل جایا کرتا تھا مگر اب ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ ہؤا بنگال میں اس کا بھاؤ چھبیس ستائیس روپے مَن تھا۔ تین چار دن ہوئے ایک دوست نے مجھ سے بیان کیا کہ اب بنگال سے یہ اطلاع آئی ہے کہ وہاں تیس روپے مَن کے حساب سے چاول ملتا ہے اور کل پرسوں ایک اور دوست مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو انہوں نے بتایا کہ ہم جہاں تھے وہاں اگر چالیس روپے من چاول میسر آ جاتا تو ہم اسی کو بڑی غنیمت سمجھتے تھے۔ اس سے آپ لوگ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جن علاقوں میں لوگوں کی غذا ہی چاول ہے انہیں کس قدر مشکلات درپیش ہیں۔ کشمیریوں کی بھوک تو اچھی ہوتی ہے لیکن بنگالی چونکہ دبلے پتلے ہوتے ہیں اس لئے اگر ان کی تین چھٹانک خوراک بھی فرض کر لی جائے اور ایک گھر کے پانچ آدمی ہوں تو ان کے صرف ایک وقت پر ایک روپیہ کے چاول خرچ ہو جاتے ہیں۔ پنجابی اور کشمیری چونکہ زیادہ مضبوط ہوتے ہیں اس لئے ان کی خوراک اگر پانچ چھٹانک فرض کر لی جائے اور ایک گھر کے تین افراد ہوں تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ تین آدمیوں کی خوراک پر ایک وقت ایک روپیہ کے چاول خرچ ہو جاتے ہیں اور صبح شام کا اندازہ لگایا جائے تو تین آدمیوں کے لئے روزانہ دو روپے کے چاولوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ گویا بغیر سالن یا ترکاری وغیرہ کے اخراجات کے ایک چار پانچ آدمی کے گھرانے میں وہاں دو روپے روزانہ کے صرف چاول خرچ ہوتے ہیں۔ جب ان علاقوں کی حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے اور یہ حالت اس وقت ہے جب چاول کی فصل پر ابھی بہت تھوڑا عرصہ گزرا ہے تو تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ کچھ عرصہ بعد وہاں کے لوگوں کی کیا حالت ہو جائے گی۔ چاول اکتوبر ، نومبر میں پیدا ہوتا ہے اور دسمبر تک منڈیوں میں آ جاتا ہے اور یہ قریب ترین زمانہ ہے اس پر کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ دسمبرمیں چاول کی نئی فصل نکلنے کے معنے یہ ہیں کہ ابھی صرف اس فصل پر تین مہینے گزرے ہیں مگر باوجود اس کے کہ نئی فصل پر اتنا قلیل عرصہ گزرا ہے اور قریب ترین زمانہ میں چاولوں کی فصل تیار ہوئی ہے پھر بھی یہ حالت ہے کہ وہاں چالیس روپے مَن چاول فروخت ہو رہا ہے۔ جب آجکل وہاں یہ حالت ہے تو تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ آئندہ چند ماہ میں وہاں کیا حالت ہو جائے گی۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہمارے ملک میں اگر اگست ستمبر میں ہی گندم کے ریٹ بڑھ جائیں تو قیاس کیا جا سکتا ہے کہ نومبر، دسمبر اور جنوری میں گندم کے ریٹ کا کیا حال ہو گا کیونکہ جولائی، اگست میں گندم کی نئی فصل منڈیوں میں چلی جاتی ہے۔ اسی طرح بنگال میں چاولوں کی موجودہ گرانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آگے چل کر یہ گرانی کس قدر خطرناک صورت اختیار کر لے گی۔ جس طرح ہمارے ملک میں مئی، جون گندم کی نئی فصل کے گھر میں لانے کے مہینے ہوتے ہیں اسی طرح اکتوبر، نومبر اور دسمبر چاولوں کی نئی فصل کے گھر لانے کے مہینے ہوتے ہیں۔ پس ہمارے ہاں گندم کے نرخ کی جو کیفیت اگست، ستمبر میں ہوتی ہے وہی مارچ، اپریل میں بنگال میں چاولوں کے نرخ کی کیفیت ہونی چاہیئے۔ ہمارے ہاں جولائی ، اگست اور ستمبر میں ریٹ بہت گرے ہوئے ہوتے ہیں اور نومبر، دسمبر میں بڑھ جاتے ہیں مگر وہاں آجکل ہی جبکہ چاول کی فصل پر تین مہینے گزرے ہیں یہ حالت ہو گئی ہے کہ بعض جگہ چالیس روپے مَن چاول اگر میسر آ جائیں تو لوگ اسی کو غنیمت سمجھتے ہیں۔ پس وہ یقیناً غیر صوبوں سے غلّہ لے جانے کی کوشش کریں گے کیونکہ جب انہیں چاول نہیں ملے گا تو آخر اپنا پیٹ بھرنے کے لئے گندم خریدیں گے اور گندم خریدنے کے لئے پنجاب کی طرف ہی آئیں گے۔
مَیں نے جہاں تک لوگوں سے دریافت کیا ہے ان کی بناء پر میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر غیرمعمولی حالات پیدا ہو جائیں تو اور بات ہے ورنہ شروع میں سات آٹھ روپیہ کے درمیان گندم کا ریٹ رہے گا۔ بعد میں شاید 9، 10 روپے تک بھی پہنچ جائے۔ گورنمنٹ نے اس نقص کو دور کرنے کے لئے آسٹریلیا سے گندم منگوائی ہے مگر وہ ایسی نہیں کہ اس ریٹ پر اثر ڈال سکے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آسٹریلیا سے گندم آ جانے کے نتیجہ میں اس ظالمانہ ریٹ پر اثر ضرور پڑا ہے جو اس سے پہلے بعض لوگوں نے گندم کا مقرر کر دیا تھا ۔ جیسے مَیں نے بتایا ہے کہ ہمارے ملک میں یکدم لوگوں نے سولہ روپے بھاؤ کر دیا تھا مگر جب آسٹریلیا سے گندم آ گئی تو وہ لوگ جنہوں نے سولہ سولہ روپیہ بھاؤ مقرر کیا ہؤا تھا یکدم نو اور دس پر آ گئے۔ پس جس حد تک غیرمعمولی اضافۂ قیمت ہے اس پر اس گندم نے ضرور اثر ڈالا ہے مگر یہ اثر ایسا نہیں جس کی وجہ سے گندم مناسب نرخوں پر پہنچ جائے۔ جہاں تک میرا اندازہ ہے اور مَیں اس سفرِ سندھ میں بھی دیکھتا چلا آیا ہوں گندم کی فصلیں اس دفعہ بہت اچھی ہوئی ہیں۔ پس مَیں سمجھتا ہوں گندم اچھی ہو جانے کی وجہ سے نئی فصل کا ریٹ سات، آٹھ روپیہ ہو گا اور اگر فصل اچھی نہ ہوئی تو شروع میں ہی دس گیارہ روپے تک پہنچ جائے گی۔
جہاں تک زمینداروں کا تعلق ہے ان کے لئے پریشانی کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ گندم ان کے گھر کی چیز ہے۔ ان کے لئے ہدایت صرف اتنی ہی ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق گندم روک لیں۔ مجھے نہایت ہی تعجب ہؤا کہ گزشتہ سال باوجود میری سخت ہدایتوں کے کہ ہر شخص کو اپنی ضرورت کے لئے گندم جمع رکھنی چاہیئے۔ قادیان کے اردگرد کے بعض دیہات کے احمدیوں نے ہمیں درخواستیں دینی شروع کر دیں کہ ہمارے لئے غلّہ مہیا کیا جائے۔ انہیں تو یہ چاہیئے تھا کہ وہ ہمیں غلّہ مہیا کر کے دیتے کیونکہ ہمیشہ گاؤں والے غلّہ مہیا کرتے اور شہروں والے کھایا کرتے ہیں مگر انہوں نے الٹا ہم سے غلّہ مانگنا شروع کر دیا۔ اگر وہ میری ہدایت کے مطابق کام کرتے تو وہ نہ صرف اپنی ضرورت کے لئے گندم جمع رکھتے بلکہ بیس پچیس فیصدی زائدگندم بھی محفوظ رکھتے اور سمجھتے کہ قادیان ہمارے قریب ہے ممکن ہے دورانِ سال قادیان والوں کو گندم کی ضرورت پیش آ جائے۔ ایسی صورت میں ہم اپنی زائد گندم انہیں دے سکیں گے۔ مگر انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ اردگرد کے دیہات والوں نے ہمیں درخواستیں دینی شروع کر دیں کہ ہمارے لئے غلّہ مہیا کیا جائے۔ اس کے معنے یہ تھے کہ انہوں نے میری ہدایات کو نہ پڑھا، نہ سوچا اور نہ ان پر غور کیا۔ ہاں باہر کے بعض لوگوں نےاس موقع پر قادیان والوں کی مدد کی ہے اور انہوں نے میری ہدایات پر نہایت اخلاص سے عمل کیا ہے۔ چنانچہ میں اس کی ایک مثا ل پیش کرتا ہوں جس کی کوئی اور نظیر مجھے ساری جماعت میں نہیں ملی اور وہ چودھری عبداللہ خان صاحب داتہ زیدکا والوں کی مثال ہے۔ انہوں نے گزشتہ سال شروع میں ہی اپنی ضرورت سے زائد گندم محفوظ کر لی تاکہ اگر قادیان والوں کو دورانِ سال ضرورت پیش آ جائے تو وہ دے سکیں۔ چنانچہ اس کے بعد جب گندم کی قیمتیں بہت زیادہ چڑھ رہی تھیں انہوں نے گورنمنٹ کے مقرر کردہ ریٹ پر اڑھائی سو مَن غلّہ ہمیں مہیا کر دیا حالانکہ وہ اگر چاہتے تو اس سے پہلے چھ بلکہ سات روپے پر منڈی میں اسے فروخت کر سکتے تھے مگر انہوں نے غلّے کو روکے رکھا اور جلسہ سالانہ پر مجھ سے کہا کہ ہم نے آ ج تک اپنے غلّہ کو اسی لئے روک رکھا ہے کہ اگر قادیان والوں کو ضرورت ہو تو ہم انہیں دے دیں۔ تم خود سوچ لو کہ ایک زمیندار کی یہ کس قدر قربانی ہے کہ وہ اپنے غلّے کو اچھے داموں پر فروخت نہیں کرتا محض اس لئے کہ اگر قادیان والوں کو ضرورت پیش آ گئی تو ان کا کیا انتظام ہو گا۔ غرض یہ ایک ایسے اخلاص کی مثال ہے جس کے مقابلہ میں اس معاملہ میں مجھے کوئی دوسری مثال اپنی جماعت میں سے نہیں ملی۔ گو ایسی جماعت میں جو خداتعالیٰ کی جماعت ہو اس قسم کی سینکڑوں مثالیں ہونی چاہئیں۔ بعض جماعتوں نے بے شک اچھا نمونہ دکھایا ہے۔ چنانچہ قادیان میں جب غلّہ کی سخت قلت ہو گئی تو سرگودھا کی جماعت نے تمام جماعتوں سے بڑھ کر غلّہ مہیا کر کے دیا مگر یہ ایک جماعت کی مثال ہے۔ اور چودھری عبداللہ خان صاحب کی مثال ایک فرد کی ہے۔ سرگودھا کی جماعت نے اس موقع پر ہمیں 822 مَن غلّہ مہیا کر کے دیا۔ اسی طرح شیخوپورہ کے ضلع والوں نے قریباً 80 مَن غلّہ دیا۔ بعض اور دوستوں نے بھی اپنے طور پر بعض واقف غیراحمدیوں سے غلّہ لے کر بھجوایا۔ ضلع منٹگمری کی طرف سے 440 مَن غلّہ پہنچا اور اس طرح ان سب جماعتوں نے اپنے اپنے درجہ کے مطابق اخلاص اور محبت کا ثبوت دیا ۔ بہرحال ان دنوں میں اپنی ضرورت پوری کرنے کےلئے قادیان والوں کو جو سہولتیں میسر آ سکتی تھیں وہ باہر کی جماعتوں کی قربانی کی وجہ سے میسر آ گئیں۔ بیرونی شہروں میں ان دنوں غلّہ کی وجہ سے لوگوں کو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ جو لوگ اخبارات پڑھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ لوگوں کو آٹے کے لئے کس قدر تکلیف اٹھانی پڑی۔ انقلاب اخبار میں بھی کئی دفعہ یہ بات چھپی ہےکہ تھوڑے سے آٹے کے لئے لوگوں کو کئی کئی گھنٹے ڈپو کے سامنے کھڑا رہنا پڑتا تھا مگر قادیان میں خداتعالیٰ کے فضل سے ایسا کوئی دن نہیں آیا۔ جب کسی شخص کو آٹے کے لئے اس قدر تکلیف ہوئی ہو سوائے اس کے کہ کسی نے بہت ہی نادانی کر کے اپنے حق کو زائل کر دیا ہو کیونکہ یہاں یا تو لوگوں کو غلّہ کے لئےبطور قرض روپے دے دئیے گئے تھے یا غرباء میں غلہ مفت تقسیم کر دیا گیاتھا یا پھر باہر کی جماعتوں نے قادیان والوں کے لئے غلّہ مہیا کر دیا تھا جو قادیان والوں کو باہر کے ریٹوں سے بہت سستا دیا جاتا رہا۔ جب باہر سوا چھ اور سات روپے گندم کا بھاؤ تھا ہم قادیان میں سوا پانچ روپے پر دیتے رہے اور جب باہر آٹھ اور نو روپیہ ریٹ تھا ہم سات روپیہ پر دیتے رہے اور جب باہر گندم سولہ روپے پر بک رہی تھی ہم نے جو انتظام کیا اس کے مطابق قادیان والوں کو آٹھ روپے پر گندم ملتی رہی۔ گویا باہر کے بھاؤ میں اور اس بھاؤ میں جس پر ہم نے قادیان میں گندم دی دوگنا فرق تھا۔ اس وقت بھی ہمارے پاس کچھ گندم باقی تھی مگر باوجود اس کے کہ اس وقت امرتسر میں ساڑھے نو اور دس روپیہ قیمت ہے مَیں نے دفتر والوں سے کہا کہ اعلان کر دو کہ جن لوگوں نے روپیہ جمع کرا دیا ہؤا ہے وہ آٹھ روپیہ کے حساب سے گندم لے لیں اور وہ نہ لیں تو دوسروں کو اسی قیمت پر گندم دے دو۔ درحقیقت یہ قیمت بھی اس لئے مقرر کرنی پڑی کہ جب گندم بہت گراں ہو گئی تو اس وقت بعض جگہ ساڑھے نو اور پونے دس دس روپے پر گندم خریدی گئی۔ مگر اس کے مقابلہ میں بعض احمدیوں نے ہمیں سستی گندم دے دی۔ اس لحاظ سے ہمیں اوسطاً آٹھ روپے قیمت مقرر کرنی پڑی ورنہ جو گندم ہم نے آٹھ روپے پر فروخت کی ہے اس کا کچھ حصہ ایسا ہے جو ساڑھے نو اور دس پر خریدا گیا ہے۔ مگر چونکہ اس کے مقابلہ میں بعض احمدیوں سے سستی گندم مل گئی اس لئے تمام اخراجات ملا کر ایک اوسط قیمت مقرر کر دی گئی اور اس طرح قادیان والوں کو باہر کے مقابلہ میں پھر بھی سستی گندم مل گئی۔
بہرحال اب پھر وہ دن آنے والے ہیں جب سال بھر کے لئے ہم میں سے ہر شخص کو تیاری کر لینی چاہیئے ۔ سب سے پہلے تو مَیں زمینداروں کو ہدایت کرتا ہوں کہ اب کے وہ یہ غلطی نہ کریں کہ تمام گندم فروخت کر دیں اور اپنی ضروریات کے لئے کچھ نہ رکھیں۔ بلکہ جہاں تک ہو سکے اپنی ضرورت اور بیس فیصدی زائد گندم کا حساب کر کے اسے محفوظ کر لیا جائے۔ یاد رکھو غلّے کو بعض دفعہ کیڑا لگ جاتا ہے، بعض دفعہ غلّہ گیلا ہو جاتا ہے، پھر چھان وغیرہ میں بھی کچھ حصہ نکل جاتا ہے۔ اسی طرح غلّہ میں کچھ مٹی وغیرہ بھی شامل ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے انسان جسے مَن سمجھتا ہے وہ بعض دفعہ 38 سیر رہ جاتا ہے کیونکہ کچھ حصے کو کیڑے کھا جاتے ہیں اور وہ اس طرح سیر ڈیڑھ سیر نکل جاتا ہے۔ کچھ دھوپ لگانے کے لئے جب گندم کو باہر نکالا جاتا اور پھر اندر رکھا جاتا ہے تو اس طرح گر جاتی ہے، کچھ گِل کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہے۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مَن بھر گندم کو دراصل 36 سیر ہی سمجھنا چاہیئے۔ بلکہ پچھلے سال تو گندم کی خرابی کی وجہ سے بعض لوگوں کی ایک مَن گندم تیس سیر رہ گئی تھی کیونکہ کیڑے نے بہت سی گندم ضائع کر دی تھی۔ گورنمنٹ کا اندازہ یہ ہے کہ سولہ سیر فی شخص گندم کافی ہوتی ہے اور میرا اندازہ یہ ہے کہ چھوٹے بڑے سب ملا کر شہری آبادی میں 12 سیر فی شخص کافی ہے اور اگر تنگی تُرشی سے گزارہ کیا جائے تو دس سیر فی آدمی بھی غلّہ کافی ہو جاتا ہے۔ مگر ایسا اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب چھوٹے بچے بھی شامل ہوں اور تنگی تُرشی کے ساتھ گزارہ کیا جائے۔ ایسی صورت میں دس سیر غلّہ بھی کفایت کر جاتا ہے لیکن اگر ایک آدمی ہو یا سب بڑے ہوں بچے نہ ہوں تو 12 سیر فی شخص کے حساب سے گندم شہریوں کے لئے کافی ہوتی ہے ۔ یہ تو شہری آبادی کے متعلق میرا اندازہ ہے۔ گاؤں کے لحاظ سے 14 اور 15 سیر فی کَس گندم کافی سمجھی جاسکتی ہے بشرطیکہ بچےبھی ساتھ شامل ہوں ورنہ 16سیر فی کس کے حساب سے اندازہ لگانا چاہیئے۔ پس سال بھر کے لئے گندم کا اندازہ لگانے کے لئے اس اصول کو مدنظر رکھ لو اور گھر کے جس قدر افراد ہوں خواہ بچے ہوں یا بڑے سب کی مجموعی تعداد معلوم کر کے گندم کے خرچ کا اندازہ لگا لو۔ گھر میں چونکہ چھوٹے بڑے سب ہوتے ہیں اس لئے بچوں کو بھی اس تعداد میں شامل کرنا چاہیئے۔ خواہ کوئی تین سال کا ہو اور خواہ پانچ سات سال کا۔ اسی طرح میاں بیوی ، باپ بیٹا، بھائی سب کو شامل کر کے 14 کے ساتھ ضرب دے لو اور سمجھ لو کہ اتنے سیر غلّہ ایک مہینہ کی خوراک ہے۔ پھر اس کو بارہ سے ضرب دے کر سال بھر کی خوراک کا اندازہ لگا لو۔ شہر والے اگر سہولت سے گزارہ کرنا چاہتے ہوں تو وہ بارہ سیر فی کس کے حساب سے اندازہ لگائیں اور اگر تنگی اور غربت کے ساتھ گزارہ کرنا چاہیں تو دس سیر کا اندازہ لگا لیں اور اس طرح اپنے گھر کے تمام آدمیوں کی مجموعی تعداد کو دس یا بارہ کے ساتھ ضرب دے لی جائے۔ مگر یہ گندم صرف گھر کے لوگوں کے لئے کافی ہو گی۔ مہمان اس میں شامل نہیں۔ اسی طرح بعض دفعہ کوئی ہمسایہ مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کی مدد کرنی پڑتی ہے۔ اس مدد کے لئے بھی اس اندازہ میں کوئی گنجائش نہیں۔ پھر بعض دفعہ غریبوں کی مدد کرنی پڑتی ہے مگر اس اندازہ کے ماتحت غرباء کی مدد بھی نہیں ہو سکتی۔ یہ اندازہ صرف گھر کے افراد کے لئے ہے اور چونکہ میری ہدایات کا تعلق زیادہ تر احمدیوں سے ہے اور وہی میری بات ماننے کے لئے تیارہو سکتے ہیں اس لئے گو یہ بات ساروں کے فائدہ کی ہے۔ مَیں احمدیوں کو خصوصیت کے ساتھ مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ جہاں جہاں احمدی جماعتیں ہیں وہاں کی جماعت کے افراد اپنی ضرورت سے زائد اس قدر غلّہ محفوظ رکھیں کہ اگر ان کے شہر میں دوسرے بھائیوں کو ضرورت پیش آ جائے تو وقت پر وہ ان کی مدد کر سکیں۔ میرے نزدیک اگر وہ اپنی ضرورت سے بیس فیصدی زائد غلّہ محفوظ رکھیں تو اس قسم کی تمام ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں اور اپنی ضرورت کا اندازہ لگانے کا طریق مَیں بتا چکا ہوں کہ شہری آبادی کے لحاظ سے 12 سیر اور گاؤں والوں کے لحاظ سے 14 سیر فی کس کے حساب سے غلّہ کا اندازہ لگانا چاہیئے۔ فرض کرو ایک گھر کے چار افراد ہیں تو چار کو 14 سے ضرب دی جائے گی۔14x4 : 56 یعنی ایک مَن سولہ سیر ان کے ایک مہینہ کا خرچ ہو گا۔ سال بھر کے خرچ خوراک کا اندازہ لگانے کے لئے اسے بارہ سے ضرب دی جائے تو قریباً 17 مَن غلّہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس طرح ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اگر ایک گھر کے چار افراد ہوں تو انہیں سال بھر کے لئے سترہ مَن غلّہ چاہیئے۔ اس کے اوپر بیس فیصدی اضافہ کا یہ مطلب ہے کہ اگر وہ ساڑھے بیس مَن غلّہ جمع کر یں تو چار آدمیوں والا خاندان اپنی ضروریات بھی پوری کر سکتا ہے۔ اپنے ہمسایوں کو بھی مدد دے سکتا ہے۔ اپنے شہر کے دوسرے بھائیوں کو بھی اگر وہ تکلیف میں ہوں تو مدد دے سکتا ہے بلکہ اگر وہ چاہے تو سال کے آخر حصہ میں غلّہ ان کے پاس فروخت کر کے نفع بھی اٹھا سکتا ہے۔ اسی طرح ہر چھوٹا بڑا خاندان اپنے اپنے غلّہ کے متعلق اندازہ لگا سکتا ہے۔
پس ایک تو مَیں گاؤں والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ آئندہ اس اصول پر غلّہ جمع کریں تاکہ کچھ غلّہ ان کے پاس ایسا رہے جو دوستوں کی مصیبت کے وقت ان کے کام آئے یا وہ اسے ان کے پاس فروخت کر کے انہیں آرام پہنچا سکیں۔ اور اگر انہیں ضرورت نہ ہوئی تو منڈی کی قیمت تو بہرحال اس وقت تک کچھ نہ کچھ بڑھ جائے گی۔ وہ اس غلّہ کو فروخت کر کے نفع اٹھا سکتے ہیں۔ البتہ یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ غلّہ کو اطمینان کے ساتھ فروخت کرنا چاہیئے۔ گھبراہٹ کے ساتھ بیچنا بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ یہ تو میری زمینداروں کو نصیحت ہے۔ شہر والوں کو نصیحت یہ ہے کہ وہ بھی اندازہ کے مطابق سال بھر کے لئے غلّہ جمع کر لیں اور ہو سکے تو بیس فیصدی زائد غلّہ وہ بھی اس نقصان کو مدنظر رکھتے ہوئے جو غلّہ میں ہو جاتا ہے یا مہمانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے محفوظ کر لیں۔ کسی کو کیا علم ہے کہ کب اس کے ہاں مہمان آ جائیں۔ اگر اس کے پاس زائد غلّہ ہو گا تو وہ ایسے موقع پر کام دے سکتا ہے۔
پچھلے سال میں نے قادیان کے غرباء کے لئے غلّہ کی تحریک کی تھی۔ اس سال بھی مَیں جماعت کے دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ جتنا غلّہ وہ اپنے لئے جمع کریں اس کا چالیسواں حصہ قادیان کے غرباء کی امداد کے لئے دے دیں۔ مَیں نے گزشتہ سال پچاس مَن غلّہ دیا تھا۔ اس سال مَیں ایک سو مَن غلّہ کا وعدہ کرتا ہوں۔ گزشتہ سال اس فنڈ میں 1500 مَن غلّہ جمع ہؤا تھا۔ ایک سو مَن غلّہ اِنْشَاءَ اللہُ مَیں دے دوں گا باقی چودہ سو مَن کا جماعت کے دوستوں کے لئے مہیا کرنا کوئی ایسی چیز نہیں جو مشکل ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے چند شہروں والے ہی اگر دیانتداری کے ساتھ اپنے اپنے غلّے کا چالیسواں حصہ دے دیں تو بغیر کسی خاص قربانی کے یہ مطالبہ پورا ہو سکتا ہے۔ چالیسواں حصہ دینے کے معنے یہ ہیں کہ وہ چالیسویں دن ایک فاقہ کر لیں اور اس دن کی روٹی غرباء کو دے دیں یا چالیس دن کی غذا ایک ایک دو دو لقمے کر کے اس طرح کم کریں کہ غرباء کا حصہ خودبخود نکل آئے۔ دو چار لقمے کم کرنے کے یہ معنے ہیں کہ جو شخص تین پُھلکے کھایا کرتا ہے وہ آئندہ یہ عہد کر لے کہ مَیں تین نہیں کھاؤں گا بلکہ تیسرے پُھلکے کا کچھ حصہ چھوڑوں گا۔ اس سے اس کی صحت پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑے گا بلکہ اچھا اثر ہی ہو گا۔ پس چالیسویں حصہ کی قربانی ہرگز کوئی بڑی قربانی نہیں۔ اس کے معنے صرف اتنے ہیں کہ جو شخص چار روٹیاں کھاتا ہے وہ ایک روٹی کا دسواں حصہ چھوڑ دے یعنی تین روٹیاں اور ایک روٹی کے نو حصے خود کھائے اور دسواں حصہ غرباء کے لئے چھوڑ دے۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر جماعت کا ہر فرد اس تحریک میں حصہ لے تو وہ بغیر کسی قسم کی دقت اور بغیر قربانی کے احساس کے اپنے غلّے کا چالیسواں حصہ غرباء کے لئے نکال سکتا ہے۔ اسی طرح باہر کی جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ جہاں تک ہو سکے اپنے اپنے مقام پر اپنے شہر کے غرباء کا خیال رکھیں اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام کریں۔ جہاں تک مجھے اطلاعات ملتی ہیں اُن کے لحاظ سے گزشتہ سال صرف سیالکوٹ کی جماعت نے ایسا انتظام کیا تھا اور وہاں کے امراء نے زائد غلّہ خرید لیا تھا تاکہ وقت پر غرباء کے پاس فروخت کر سکیں۔ مجھے معلوم نہیں انہوں نے بعد میں ایسا کیا یا نہیں مگر شروع میں میرے پاس یہ رپورٹ پہنچی تھی کہ انہوں نے ایسا انتظام کیا ہے۔ پس باہر بھی جہاں کہیں یہ انتظام ہو سکتا ہو وہاں کی جماعت کو یہ انتظام کرنا چاہیئے مگر قادیان کی جماعت بہرحال سب سے مقدم ہے کیونکہ قادیان جماعت کا مرکز ہے اور اس میں جو خرابی پیدا ہو وہ دنیا کو نمایاں طور پر نظر آ جاتی ہے۔ پس قادیان کے غرباء کا باقی تمام شہروں سے زیادہ حق ہے کیونکہ یہ ایک ہی شہر ہے جس میں ہماری اکثریت ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم یہاں کے غرباء کو کوئی تکلیف نہ ہونے دیں تاکہ ہم کہہ سکیں کہ کم سے کم قادیان میں ہر شخص کو روٹی مل رہی ہے۔ جب باقی دنیا میں ہمارا غلبہ ہو گا تو پھر ساری دنیا کے متعلق ہم پر یہ فرض عائد ہو جائے گا کہ ہم سب غرباء کا خیال رکھیں اور کسی شخص کو بھوکا نہ رہنے دیں مگر جب تک ایسا نہیں ہوتا ہمیں کم از کم یہ نمونہ تو دکھانا چاہیئے کہ قادیان جہاں ہماری جماعت کی اکثریت ہے وہاں ہر شخص کو روٹی مل رہی ہو اور کوئی شخص بھوکا نہ رہے۔ پھر جوں جوں جماعت وسیع ہو گی اس نظام کو بھی اِنْشَاءَ اللہُ وسیع کرنا پڑے گا۔
پس ہر شخص جو اپنے خاندان کے لئے غلّہ جمع کرتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ غلّے کا چالیسواں حصہ قادیان کے غرباء کے لئے وقف کر دے۔ قادیان کے اردگرد جس قدر جماعتیں ہیں ان کا بھی اور باہر والوں کا بھی فرض ہے کہ جس نرخ پر وہ غلّہ اکٹھا کریں اس کا چالیسواں حصہ نکال کر قادیان بھیج دیں۔ مَیں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ دوستوں کو اپنے جمع شدہ غلّے کا ہی چالیسواں حصہ دینا چاہیئے یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ الگ غلّہ خرید کر اس مَد میں بھجوا دیں۔ کیونکہ اگر وہ اپنے غلّہ میں سے چالیسواں حصہ بھجوائیں گے تو اس قربانی کا انہیں ایسا احساس ہو گا جو ان کے لئے سارا سال نیکی کا محرک رہے گا۔ اگر کوئی شخص اپنے لئے چالیس روپے کا غلّہ خریدتا ہے اور بعد میں قادیان کے غرباء کے لئے ایک روپیہ کا اور غلّہ خرید لیتا ہے تو ایسے شخص کے اندر نیکی کا وہ احساس نہیں ہو سکتا جو احساس اس شخص کے اندر ہو گا جس نےاپنے لئے چالیس روپے کا غلّہ جمع کیا اور پھر اس غلّہ میں سے اس نے محض غرباء کے لئے ایک روپیہ کا غلّہ نکال کر دے دیا۔ ایسا شخص جب بھی روٹی کھائے گا اسے یہ احساس ہو گا کہ مَیں کم روٹی کھاؤں تاکہ میری روٹی کا کچھ حصہ غرباء کے کام آئے اور اس طرح ہر روز وہ نیکی کے احساسات سے پُر رہے گا مگر جو شخص زائد چندہ دے کر یہ ضرورت پوری کر دیتا ہے اسے یہ احساس نہیں ہو سکتا۔
پس میری تحریک یہ ہے کہ ہر شخص جو غلّہ اپنے اور اپنے خاندان کے لئے جمع کرے اس کا چالیسواں حصہ قادیان کے غرباء کے لئے نکال لے۔ اس طرح ان کے غریب بھائیوں کو صرف روٹی ہی نہیں ملے گی بلکہ یہ قربانی کا احساس ان کے اندر سال بھر تقویٰ پیدا کرنے کا موجب بنتا رہے گا۔
مَیں فی الحال اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔ میری طبیعت آج خراب ہے اور مَیں آیا بھی اسی لئے دیر سے ہوں۔ مجھے ضعفِ دل کی تکلیف ہے اور سر چکراتا ہے جس کی وجہ سے میں زیادہ بول نہیں سکتا۔ بعض پہلو اس کے رہ گئے ہیں مگر انہیں اِنْشَاءَ اللہُ اگلے خطبہ میں بیان کر دوں گا۔ مَیں نے آج جو کچھ کہا ہے اسے پھر خلاصۃً بیان کر دیتا ہوں۔ مَیں نے آج یہ بتایا ہے کہ زمینداروں کو چاہیئے کہ وہ نئی فصل پر اپنی ضرورت کے مطابق غلّہ اکٹھا کر لیں۔ اور نہ صرف ضرورت کے مطابق اکٹھا کریں بلکہ بیس فیصدی زائد غلّہ جمع کر لیں۔ اندازہ کرنے کا طریق مَیں نے یہ بتایا ہے کہ گاؤں والوں کے لحاظ سے چودہ سیر فی کَس غلّہ کافی ہوتا ہے اور اگر کوئی اکیلا ہو یا فراغت سے گزارہ کرنا چاہے اور چھوٹے بچے نہ ہوں تو سولہ سیر غلّہ کافی ہوتا ہے۔ اگر اس نسبت سے وہ غلّہ جمع کر لیں تو سال بھر انہیں اِنْشَاءَ اللہُ کسی قسم کی تکلیف نہیں ہو گی۔ شہر والوں کے متعلق جہاں تک میرا اندازہ ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ بہت صحیح اندازہ ہے بارہ سیر فی کَس غلّہ کافی ہوتا ہے۔ اگر کوئی خاندان زیادہ وسعت سے گزارہ کرنا چاہتا ہے تو تیرہ سیر غلّہ کا اندازہ کر لے۔ اگر کوئی خاندان چھوٹا ہے اور وہ تنگی سے گزارہ کر سکتا ہے تو دس گیارہ سیر فی کَس کے حساب سے گندم جمع کر لے اور پھر دس یا بارہ یا چودہ یا سولہ سیر کو گھر کے افراد کی مجموعی تعداد سے ضرب دے کر ایک مہینہ کا خرچ خوراک نکال لیاجائے اور پھر بارہ سے ضرب دے کر سال بھر کے خرچ کا اندازہ نکال لیا جائے۔ فرض کرو کوئی شخص اکیلا ہے اور وہ شہری ہے تو 12 سیر کے لحاظ سے 12x12: 144 سیر بنیں گے۔ یعنی تین مَن چوبیس سیر اس کے سال بھر کے خرچ کا اندازہ ہو گا۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیئے شہریوں کو بارہ سیر سے زیادہ خرچ خوراک کا اندازہ نہیں لگانا چاہیئے کیونکہ کوئی شخص سارا سال صرف روٹی نہیں کھاتا۔ بعض دفعہ انسان سفر پر چلا جاتا ہے ۔ کبھی اس کی دعوت ہوتی ہے اور کبھی چاول پکا لئے جاتے ہیں ۔ یوں انسان ایک شخص کے لئے دس بارہ سیر غلّے کا اندازہ لگائے تو وہ خیال کرتا ہے کہ یہ اندازہ بہت تھوڑا ہے مگر دنیا میں کوئی شخص روزانہ روٹی نہیں کھاتا۔ کبھی دعوت میں چلا جاتا ہے اور کبھی چاول یا کسی اور چیز پر گزارہ کر لیتا ہے۔ اس لئے اس اندازہ کو کم نہیں سمجھنا چاہیئے۔ یہ اندازہ پورا ماپ تول کر کیا گیا ہے۔ جیسے درزی ماپ کر کپڑا لیتا ہے اسی طرح ماپ تول کر یہ اندازہ لگایا گیا ہے۔ اس کے مطابق دس سیر میں تنگی سے اور بارہ سیر میں خوب اچھی طرح ایک شخص کا گزارہ ہو سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے خاندان میں چار افراد اور ہوں۔ اگر شہری ہو تو اس کے لئے بارہ سیر غلّہ کافی ہوتا ہے اور اگر گاؤں والا ہو تو اس کے لئے چودہ یا سولہ سیر کافی ہو گا۔ پس ایک تو میری یہ نصیحت ہے۔
دوسری نصیحت گاؤں والوں کو میری یہ ہے کہ وہ اپنی ضرورت سے بیس فیصدی زیادہ غلّہ اپنے پاس جمع رکھیں۔ اور شہریوں کو نصیحت یہ ہے کہ وہ اپنی ضرورت سے کچھ زیادہ غلّہ اپنے پاس رکھیں۔ اگر بیس فیصدی زائد نہیں رکھ سکتے تو پانچ یا آٹھ فیصدی غلّہ ضرور اپنے پاس زائد رکھیں کیونکہ بعض دفعہ مہمان بھی آ جاتے ہیں اور اُن پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔
پھر تیسری نصیحت مَیں نے یہ کی ہے کہ بیرونی جماعتیں اپنے غریب بھائیوں کی امداد کا خیال رکھیں۔ خصوصاً قادیان میں جو اصحاب الصفہ رہتے ہیں ان کے متعلق ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ جس قدر غلّہ اپنے لئے جمع کرے اس کا چالیسواں حصہ ان کے لئے نکال کر بھیج دے۔ مگر جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی بتایا ہے وہ یہ غلّہ صدقہ سمجھ کر نہ دیں بلکہ ایک اسلامی بھائی چارہ کے لئے قربانی سمجھ کر دیں۔ وہ یہ خیال کر لیں کہ جیسے انسان اپنی بیوی کو کھلاتا ہے ، اپنے بچوں کو کھلاتا ہے اور ان کو کھلانا انسان کا فرض ہوتا ہے اسی طرح جماعت کے غرباء کی امداد کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر فرض عائد کیا گیا ہے۔ اور وہ اس فرض کی ادئیگی کے لئے یہ غلّہ دے رہے ہیں۔ پس وہ اسے صدقہ نہیں بلکہ اپنے فرض کی ادائیگی سمجھیں۔
یہ تین ہدایتیں ہیں جو آج میں نے دی ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ قادیان میں ہی اب خداتعالیٰ کے فضل سے اتنی آبادی ہو گئی ہے کہ اگر وہ غرباء کا حق اپنے غلّہ میں سے صحیح نسبت سے نکالیں تو آدھی ضرورت قادیان والے ہی پوری کر سکتے ہیں۔ باقی آدھی ضرورت بیرونی جماعتیں بڑی آسانی سے پوری کر سکتی ہیں ۔ پھر مَیں نے یہ بھی بتایا ہے کہ باہر والوں کو بھی مقامی غرباء کی مدد مدنظر رکھنی چاہیئے۔ گاؤں والے بالخصوص اگر اس کا خیال رکھیں تو وہ آسانی سے ایسا کر سکتے ہیں۔ ‘‘ (الفضل 20 اپریل 1943ء)

13
غلّہ کے متعلق جماعت کو بعض ضروری ہدایات
(فرمودہ 16 اپریل 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مَیں نے گزشتہ جمعہ آئندہ سال کے لئے گندم کے انتظام کے متعلق جماعت کو کچھ نصیحتیں کی تھیں۔ اب مَیں اسی سلسلہ میں کچھ اور باتیں کہناچاہتا ہوں۔
ہماری جماعت کے کارکنوں کی تنخواہوں سے گزشتہ چند سالوں میں بوجہ مالی تنگی کےکچھ کٹوتیاں ہوتی رہی تھیں اور فیصلہ یہ کیا گیا تھا کہ یہ کٹوتیاں جب سلسلہ کی مالی حالت اچھی ہو تو ان لوگوں کو واپس کر دی جائیں۔ گزشہ سال انجمن کی طرف سے مجھ پر یہ زور دیا گیا کہ اب چونکہ سلسلہ کی مالی حالت اچھی ہے اس لئے یہ کٹوتیاں ان لوگوں کو واپس کر دینی چاہئیں۔ لیکن مَیں نے انسانی فطرت کی کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ بجائے اس کے کہ ان کو یکدفعہ یہ تمام کٹوتیاں واپس کر دی جائیں اور ان تنگی کے ایام میں وہ اپنی خیالی یا حقیقی ضرورتوں کی وجہ سے اس رقم کو خرچ کر دیں ۔ چونکہ یہ قحط کا زمانہ ہے اور ان ایام میں اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے گندم اکٹھی خریدنے کا سوال پیدا ہوتا ہے اس لئے بجائے اس کے کہ یکدم تمام کٹوتیاں واپس کر دی جائیں۔ ہر سال ان کے لئے ایک سال کی کٹوتی واپس کی جائے تاکہ ہر سال وہ اس کٹوتی کی رقم کے ذریعہ گندم خرید سکیں۔ چنانچہ اس فیصلہ کے مطابق گزشتہ سال کارکنوں کو اُن کے ایک سال کی کٹوتی کی رقم دے دی گئی تھی اور انہوں نے اس کی مدد سے گندم خرید لی تھی۔ جن لوگوں کی کوئی کٹوتی نہیں تھی ان کے متعلق مَیں نے یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ اگر ان کا پراویڈنٹ فنڈ موجود ہے تو پراویڈنٹ فنڈ کی ضمانت پر اور اگر پراویڈنٹ فنڈ نہیں تو ان سے کوئی اور ضمانت لے کر انہیں اتنی رقم دے دی جائے جس سے وہ سال بھر کے لئے گندم خرید سکیں۔ چنانچہ ہماری جماعت کا یہ حصہ جو کارکنوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ان کو اس دفعہ بھی گزشتہ کٹوتیوں کی رقم مل جائے گی۔ اور اس کے ذریعہ اگر وہ چاہیں تو اکٹھی گندم خریدنے کی کوشش کر سکیں گے۔ جو کارکن ایسے ہیں جن کی پہلی کوئی کٹوتی نہیں اور وہ بعد میں کام پر مقرر ہوئے ہیں ان کے متعلق مَیں اس دفعہ پھر صدر انجمن احمدیہ کو ہدایت دیتا ہوں کہ اگر ان کے پراویڈنٹ فنڈ کی ضمانت موجود ہے تو اس ضمانت پر ، ورنہ کسی اور ضمانت پر انہیں اتنی رقم دے دی جائے جس سے وہ سال بھر کے لئے اکٹھی گندم خرید سکیں۔ اور جسے ایک سال کے اندر اندر وہ اپنی تنخواہوں میں سے کٹوا سکیں۔ باقی صرف وہ لوگ رہ جاتے ہیں جو کسی صورت میں بھی اکٹھی گندم خرید نہیں سکتے۔ ان کے لئے گزشتہ خطبہ میں مَیں نے تحریک کر دی ہے کہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی ان کے لئے گندم جمع کی جائے۔ جب یہ گندم جمع ہو جائے گی تو سال کے پچھلے پانچ ماہ کے اخراجات کے لئے اس سال بھی انہیں اِنْشَاءَ اللہُ گندم دے دی جائے گی تاکہ سال کے پچھلے حصہ میں جب گندم کی فراہمی میں سخت دقت پیش آتی ہے انہیں کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ ہو۔ مگر گزشتہ سال کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ بعض لوگوں نے باوجود اس تاکید کے کہ یہ غلّہ ہم انہیں اس وقت کے لئے نہیں دے رہے بلکہ سال کے آخری پانچ مہینوں میں استعمال کرنے کے لئے دے رہے ہیں ۔ انہوں نے اس غلّے کو استعمال کر لیا اور اس طرح بعد میں انہیں پریشانی اٹھانی پڑی۔
مَیں اس دفعہ پھر دوستوں کو یہ تاکید کر دینا چاہتا ہوں کہ ہماری طرف سے یہ انتظام سال کے آخری پانچ مہینوں کے لئے ہو گا اور سال سے مراد غلّے کا سال ہے۔ یعنی دسمبر، جنوری، فروری، مارچ اور اپریل کے اخراجات کے لئے یہ غلّہ ہو گا۔ پہلے استعمال کرنے کے لئے نہیں ہو گا۔
پس جن جن دوستوں کو غلّہ دیا جائے گا ان سے یہ امید کی جائے گی اور عہد لیا جائے گا کہ وہ اسے پہلے خرچ نہیں کریں گے بلکہ سال کے آخری پانچ مہینوں کے لئے محفوظ رکھیں گے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ غلّہ سال کے آخری پانچ مہینوں کے لئے ہے تو وہ پہلے کہاں سے کھائیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر سلسلہ ان کی امداد نہ کرتا تو جس طرح وہ بارہ مہینے گزارہ کر سکتے تھے اس سے زیادہ عمدگی کے ساتھ وہ سال کے سات ماہ میں گزارہ کر سکتے ہیں۔ آخر سلسلہ کی طرف سے مدد نہ ہونے کی صورت میں وہ اس بات پر مجبور ہوتے کہ اپنے بارہ ماہ کے اخراجات کے لئے کوئی مناسب انتظام کریں مگر موجودہ صورت میں ان کی وہی طاقت جس نے بارہ مہینے خرچ ہونا تھا سات ماہ خرچ ہو گی اور اس طرح وہ نسبتاً آسانی اور سہولت کے ساتھ ان مہینوں کے اخراجات کا انتظام کر سکیں گے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ ہمیں زیادہ غلّہ دے دے تو ہم بجائے پانچ ماہ کے اخراجات کے انہیں چھ یا سات ماہ کے اخراجات کے لئے گندم دے دیں مگر چونکہ نومبر تک غلّہ سستا رہتا ہے اور نومبر کے بعد گراں ہونا شروع ہوتا ہے اور دوسری طرف غلّہ اتنا زیادہ جمع نہیں ہوتا جو چھ یا سات ماہ کے اخراجات کے لئے لوگوں میں تقسیم کیا جا سکے۔ اس لئے اس وقت تک میرا فیصلہ یہی ہے کہ سال کے آخری پانچ مہینوں کے لئے لوگوں کو امداد دی جائے۔ مگر ایک حصہ جماعت کا ایسا بھی ہے جو صدر انجمن احمدیہ کے کارکنوں میں شامل نہیں اور وہ ایسا غریب بھی نہیں کہ گندم خرید نہ سکے مثلاً پنشنر ہیں ان کی پنشن آتی ہے اور وہ اس پر عمدگی سے گزارہ کرتے ہیں یا تاجر ہیں وہ تجارت کے ذریعہ روپیہ کماتے ہیں یا پیشہ ور ہیں جو اپنے پیشہ اور صنعت کے ذریعہ اپنے گزارہ کا معقول انتظام رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے طور پر گندم خرید سکتے ہیں۔ مگر گزشتہ سال ان میں سے بھی بعض نے غلّہ نہیں خریدا اور اس وجہ سے انہیں مشکلات برداشت کرنی پڑیں۔ اسی لئے مجھے دوبارہ جماعتوں میں تحریک کر کے غلّہ جمع کرنا پڑا اور ایک ہزار مَن غلّہ جمع کر کے انہیں سستے نرخوں پر دے دیا۔ یہ سستے نرخ ویسے نہیں تھے جیسے شروع میں گندم کا نرخ تھا مگر مقابلۃً پھر بھی ارزاں تھا۔ اگر میری تحریک پر وہ شروع میں ہی گندم خرید لیتے تو پونےچار ،پانچ یا پانچ روپے چھ آنے پر انہیں گندم مل جاتی مگر چونکہ انہوں نے یہ وقت ضائع کر دیا اس لئے ان کے لئے بعد میں غلّہ جمع کرنا پڑا جو کسی کو ساڑھے پانچ، کسی کو چھ، کسی کو سات اور کسی کو آٹھ روپیہ پر دیا گیا کیونکہ جس نرخ پر غلّہ ملتا گیا اسی نرخ پر ہم لوگوں کو دیتے چلے گئے۔ یہ بھاؤ بے شک شروع کے نرخ کے مقابلہ میں گراں تھا مگر وقتی نرخ کو مدنظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ صرف جماعتی جدوجہد اور نظام کی وجہ سے انہیں مقابلۃً سستا مل گیا۔ بہرحال جن لوگوں نے میری متواتر ہدایات کے باوجود غلّہ نہ خریدا انہیں گزشتہ سال کافی پریشانی اٹھانی پڑی تھی کیونکہ قدرتی طور پر انسان بعض دفعہ یہ خیال کر لیتا ہے کہ یہ مصیبت چند دن کی ہے پھر فراخی کے ایام آ جائیں گے اور اس دھوکے میں وہ اپنے لئے مناسب انتظام نہیں کرتا مگر جو حصہ ایسا تھا جس نے میری تحریک کے ماتحت غلّہ خریدا اس میں بھی اس قسم کی بدانتظامی پائی جاتی تھی جو نرخ کو بڑھانے کا موجب بن گئی اور اس بدانتظامی اور گھبراہٹ کی وجہ سے ہی قادیان کے اردگرد گندم کے ریٹ عام حالات کی نسبت زیادہ ہو گئے۔ قادیان کے رہنے والوں کو اردگرد کے گاؤں میں لوگ مولوی کہا کرتے ہیں۔ میرے پاس ان دنوں کئی لوگوں نے بیان کیا کہ مولویوں نے سائیکلوں پر بوریاں رکھی ہوئی ہوتی ہیں اور ایک ایک گاؤں میں دس دس پندرہ پندرہ بیس بیس آدمی پہنچ جاتے ہیں اور غلّہ تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ جب اس طرح ایک ایک گاؤں میں کئی کئی لوگ پہنچ جاتے تو زمیندار یہ سمجھتے کہ قادیان میں گندم کا قحط پڑ گیا ہے اب جس بھاؤ چاہو ان کے پاس گندم فروخت کر دو۔ چنانچہ اس بھاگڑ کے نتیجہ میں بعض زمینداروں نے تو اپنے اپنے غلّے چھپا دئیے اور انہوں نے سمجھا کہ غلّہ اور زیادہ گراں ہو گا تو ہم فروخت کریں گے اور بعض نے گراں قیمت پر غلّے فروخت کئے۔ پس اس قسم کی بدانتظامی بھی غلّے کا ریٹ بڑھانے کا موجب بن جاتی ہے۔
مَیں نے دیکھا ہے بعض احمدی ایسی ایسی بے احتیاطیاں کرتے ہیں جو نہایت تعجب انگیز ہوتی ہیں ۔ابھی پرسوں یا ترسوں ایک دوست نے ننگل کا ایک واقعہ سنایا ۔ وہاں کوئی احمدی ہیں انہوں نے انہیں بتایا کہ یہاں ایک دفعہ لکڑیوں کا ایک گڈا آیا جو مَیں نے خرید لیا مگر بعد میں مجھے خیال آیا کہ یہ سودا مہنگا ہؤا ہے۔ چنانچہ میں نے تھوڑے سے منافع پر وہی لکڑیوں کا گڈا ایک اور شخص کے پاس بیچ دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ چند گھنٹوں کے بعد ہی قادیان کے دو آدمی وہاں گئے اور انہوں نے وہی گڈا اس شخص سے ڈیوڑھی قیمت پر خرید لیا اور ان میں سے ایک دوسرے کو مخاطب کر کے کہنے لگا اَلْحَمْدُ لِلہ ہمیں بڑی سستی لکڑیاں مل گئی ہیں۔ تو اس قسم کی حرکات سے بھاؤ ناواجب طور پر بڑھ جایا کرتا ہے اور چونکہ گزشتہ سال کا تلخ تجربہ ہمارے سامنے ہے اس لئے آئندہ اس بدانتظامی کو روکنے کے لئے اور غلّہ کی فراہمی کے لئے مَیں نے کچھ تجاویز سوچی ہیں جن کا آج میں اظہار کرتا ہوں۔ چونکہ ان باتوں کا باہر کی جماعتوں سےعموماً اور ضلع گورداسپور کی جماعتوں سے خصوصاً تعلق ہے اس لئے مَیں ان تجاویز کو خطبہ جمعہ میں بیان کرتا ہوں۔
میری ایک تجویز تو یہ ہے کہ قادیان اور اس کے اردگرد آٹھ دس میل کے علاقہ کے اندر اندر رہنے والے احمدی زمیندار اپنا غلّہ صرف احمدیوں کے پاس فروخت کریں اور کسی شخص کے پاس فروخت نہ کریں۔ انہوں نے تو بہرحال اپنا غلّہ فروخت کرنا ہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ رام ناتھ کے پاس فروخت کریں یا شودیال کے پاس۔ پس میری تجویز یہ ہے کہ جس قدر ضلع گورداسپور کی احمدی جماعتیں ہیں وہ اپنا غلّہ صرف احمدیوں کے پاس فروخت کریں اور کسی کے ہاتھ فروخت نہ کریں۔ اس غرض کے لئے صدر انجمن احمدیہ کو چاہیئے کہ تمام جماعتوں سے یہ پوچھ لیا جائے کہ اپنی ضروریات کو پورا کر لینے کے بعد ان کے پاس کس قدر غلّہ بچے گا۔ پھر جس قدر غلّہ باقی رہے اسے بجائے منڈیوں میں فروخت کرنے کےیا انفرادی رنگ میں زید بکر کے پاس بیچنے کے وہ جماعت کے پاس فروخت کریں۔ اس طرح وہ بھاگڑ پیدا نہیں ہو گی جو گزشتہ سال پیدا ہوئی تھی۔ اس وقت خداتعالیٰ کے فضل سے گورداسپور کے ضلع میں تیس ہزار سے چالیس ہزار احمدی ہیں۔ اگر ہم چار آدمیوں کا ایک خاندان تصور کر لیں تو دس ہزار مرد کمانے والے بنتے ہیں۔ ان دس ہزار میں سے اگر ہم ایسے لوگ نکال دیں جو مزدور پیشہ ہیں یا ملازم ہیں یا زمینداری نہیں کرتے اور ہم یہ سمجھ لیں کہ دو حصے وہ لوگ ہیں تو 3/1 حصہ زمینداروں کا رہ جاتا ہے۔ اور میرے نزدیک یہ اندازہ غلط نہیں۔ اس سے زیادہ تو زمیندار ہو سکتے ہیں مگر کم نہیں۔ اور 3/1 کے لحاظ سے میرے نزدیک تین ہزار کے قریب احمدیوں کا ہَل ضلع گورداسپور میں چلتا ہے۔ اگر ہر شخص کی زمین کی اوسط تین ایکڑ فرض کی جائے تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ سارے ضلع گورداسپور میں ہماری جماعت کے افراد 9ہزار ایکڑ زمین کاشت کرتے ہیں۔ اور چونکہ سارے گاؤں قادیان کے قریب نہیں بلکہ دور دور بھی ہیں اس لئے اگر چار ہزار ایکڑ زمین اس میں سے نکال دی جائے اور چار مَن فی ایکڑ کے حساب سے غلّہ کی پیداوار کا اندازہ لگایا جائے تو بیس ہزار مَن غلّہ بنتا ہے۔ یہ چار من فی ایکڑ کا اندازہ اوسطاً لگایا گیا ہے کیونکہ کسی کا تین مَن غلّہ پیدا ہوتا ہے ، کسی کا چار مَن، کسی کا پانچ مَن، کسی کا چھ مَن، کسی کا سات اور کسی کا آٹھ مَن۔ بہرحال بیس ہزار مَن غلّہ ایسے احمدیوں کا بنتا ہے جو اپنی ضرورت سے زائد غلّہ آسانی کے ساتھ قادیان پہنچا سکتے ہیں۔ اگر دس ہزار مَن غلّہ وہ اپنی ضروریات کے لئے رکھ لیں تو دس ہزار مَن غلّہ ایسا رہ جاتا ہے جسے وہ باہر منڈی میں فروخت کیا کرتے ہیں۔ مگر اس دفعہ میری طرف سے یہ ہدایت ہے کہ بجائے منڈی میں اپنا غلّہ فروخت کرنے کے وہ جماعت کے پاس غلّہ فروخت کریں۔ منڈی کی قیمت روزانہ معلوم کر لیا کریں اور منڈی کا جو بھی بھاؤ ہو اس پر وہ جماعتی انتظام کے ماتحت قادیان میں اپنا غلّہ لا کر فروخت کر دیں۔ اس غرض کے لئے مَیں سب سے پہلے اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں۔ میرا جس قدر غلّہ آئے گا اس میں سے سوائے اس غلّہ کے جو گھر کی ضروریات کے لئے رکھ لیا جائے گا اور سوائے اس غلّہ کے جس کا چندہ کے طور پر دینے کا مَیں پہلے اعلان کر چکا ہوں باقی سب غلّہ مَیں اس کمیٹی کے سپرد کر دوں گا جو اس کام کے لئے مقرر ہو گی۔ وہ منڈی کی قیمت معلوم کر کے مجھے دے دے اور غلّہ اپنے پاس رکھ لے۔
مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ اس طریق کو اختیار کرنے میں احمدی زمیندار کسی قسم کا حرج سمجھیں یا اس میں کسی قسم کی تکلیف محسوس کریں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس میں کسی تکلیف کا خیال تک بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے بہرحال اپنا غلّہ بیچنا ہے اور جب غلّہ بیچنا ہے تو انہیں اس میں کیا فائدہ ہے کہ وہ کسی غیر کے پاس فروخت کریں۔ وہی غلّہ وہ احمدیوں کے پاس فروخت کر دیں اور منڈی کی قیمت لے لیں اور یہاں کے احمدیوں نے بھی جب غلّہ خریدنا ہے تو انہیں اس میں کیا تکلیف ہے کہ وہ کسی غیر سے نہ خریدیں بلکہ احمدی زمینداروں سے ہی خریدیں۔
پس ایک تو یہ تجویز ہے جس سے مَیں سمجھتا ہوں کہ دس بارہ ہزار مَن غلّہ بغیر کسی گھبراہٹ اور تکلیف کے اکٹھا ہو سکتا ہے۔ گاہک موجود ہیں اور انہوں نے بہرحال اپنے لئے گندم خریدنی ہے۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ احمدی زمینداروں سے نہ خریدیں۔ دوسری طرف احمدی زمیندار ہیں انہوں نے بہرحال گندم فروخت کرنی ہے ۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ وہ احمدیوں کے پاس فروخت نہ کریں۔ اس کے لئے مَیں ایک کمیٹی تجویز کر دوں گا مگر مَیں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس غرض کے لئے جو کمیٹی بنائی جائے گی اسے یہ حق حاصل نہ ہو گا کہ وہ نفع حاصل کرے۔ اس کا کام صرف یہ ہو گا کہ وہ غلّہ فراہم کر کے جو لاگت ہو اس پر لوگوں کو غلّہ دے دے اور چونکہ بہت سے گاہک ہوں گے اس لئے کمیٹی کو یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہیئے کہ جو پہلے غلّہ آئے وہ ان لوگوں میں فروخت کیا جائے جنہوں نے گند م کے لئے پہلے روپیہ جمع کرایا ہو اور جو بعد میں غلّہ آئے وہ اسی ترتیب سے بعد کے گاہکوں کو دیا جائے۔ اس کے لئے ایک طرف تو مَیں نظامِ جماعت کو توجہ دلاتا ہوں ۔ صدر انجمن احمدیہ کو چاہئیے کہ وہ امانت میں سے قرض لے کر پندرہ بیس ہزار روپیہ اس مقصد کے لئے الگ کر لے تاکہ اس روپیہ کے ذریعہ اردگرد کے احمدیوں سے ان کی ضرورت سے زائد غلّہ خریدا جا سکے۔ جو دوست اس انتظام کے ماتحت غلّہ خریدنا چاہتے ہوں انہیں چاہیئے کہ وہ اس کمیٹی کے پاس اپنا نام لکھوا دیں۔ ہم کسی کو روکتے نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہو کہ اپنے طور پر وہ زیادہ سستا غلّہ خرید سکتا ہے تو وہ اپنے طور پر خرید لے۔ ہم اسے منع نہیں کرتے ۔ مگر دوسرے تمام لوگوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے نام اس کمیٹی کے پاس لکھوا دیں۔ جوں جوں غلّہ آتا جائےگا دوستوں کو ملتا جائے گا مگر یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ جو لوگ اپنے نام پہلے لکھوائیں گے انہیں مقدم سمجھا جائے گا اور جو بعد میں لکھوائیں گے انہیں لازماً بعد میں غلّہ ملے گا۔ اس تقسیم میں تاریخ اور ترتیب کو مدنظر رکھا جائے گا۔ جس ترتیب سے لوگوں نے اپنے نام لکھوائے ہوں گے اور ساتھ ہی روپیہ خزانہ صدر انجمن احمدیہ میں جمع کرایا ہو گا اسی ترتیب سے انہیں غلّہ دیا جائے گا۔ جب تک یہ کمیٹی تجویز نہیں ہوتی اس وقت تک دوستوں کو چاہیئے کہ وہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں اپنے نام لکھوا دیں اور جتنے روپوں کی وہ گندم خریدنا چاہیں اس قدر روپیہ صدر انجمن احمدیہ کے خزانہ میں جمع کرا دیں۔
میری دوسری تجویز یہ ہے کہ علاوہ احمدیوں کے جو دوسرے زمیندار ہیں ان سے بھی گندم خریدی جائے اور یہی کمیٹی اس گندم کے خریدنے کا انتظام کرے۔ صدر انجمن احمدیہ کو یہ بھی چاہیئے کہ وہ فوراً اپنی ضرورتوں کا اندازہ کر لے۔ اسے بھی بہت سی گندم کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً جلسۂ سالانہ کے لئے گندم کی ضرورت ہوتی ہے۔ لنگر کے لئے گندم کی ضرورت ہوتی ہے۔ بورڈوں کے لئے گندم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس قسم کے تمام اخراجات کا اندازاہ لگا کر وہ کمیٹی کے سپرد کر دے اور اسے کہے کہ اتنا غلّہ صدر انجمن احمدیہ اپنی ضرورتوں کے لئے خریدے گی۔ میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ سال بھر کے لئے قادیان میں ہماری جماعت کو بیس پچیس ہزار مَن غلّہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ قادیان کی آبادی اب خداتعالیٰ کے فضل سے بارہ ہزار کے قریب ہے۔ دس سیر فی شخص کے حساب سے اگر ہم گندم کے خرچ کا اندازہ لگائیں تو 36 ہزار مَن غلّہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جلسہ سالانہ کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ مہمان جو انفرادی طور پر لوگوں کے ہاں آتے رہتے ہیں ان کا خرچ بھی اس میں شامل نہیں مگر جیسا کہ مَیں گزشتہ خطبہ میں بیان کر چکا ہوں لوگ ہمیشہ غلّہ نہیں کھاتے بلکہ کبھی چاول بھی استعمال کر لیا کرتے ہیں۔ پھر کبھی کسی دعوت میں شریک ہونا پڑتا ہے ۔ اسی طرح ایک حصہ آبادی کا ایسا بھی ہے جو احمدی نہیں۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میرا اندازہ یہ ہے کہ بیس پچیس ہزار مَن گندم سال بھر کے لئے کافی ہے۔ مگر چونکہ اس میں کچھ حصہ زمینداروں کا ہے جو اپنے غلّے کا آپ انتظام کرتا ہے اور وہ دوسروں کی مدد کا محتاج نہیں ہوتا۔ اسی طرح بعض لوگوں کی تاجروں اور زمینداروں سے دوستیاں ہوتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں ہمیں اس دوستی کی وجہ سے سستا غلّہ مل جائے گا۔ پھر بعض لوگوں کی رشتہ داریاں ہوتی ہیں اور وہ رشتہ داریوں کی وجہ سے سستا غلّہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ان وجوہ کی بناء پر میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر کمیٹی چودہ پندرہ ہزار مَن غلّے کا انتظام کرے تو قادیان والوں کی سال بھر کی ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں۔ کمیٹی کو چاہیئے کہ وہ گندم کی فراہمی کے لئے ساہوکاروں کو کمیشن دے دے اور ان کے ذریعہ گندم اکٹھی کرنے کی کوشش کرے تاکہ گزشتہ سال گندم کی فراہمی کے لئے لوگوں میں جو بھاگڑ مچی تھی وہ اس سال پیدا نہ ہو۔ بعض معمولی اخراجات ہوتے ہیں مگر ان کا فائدہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اگر بجائے اس کے کہ دس بیس آدمی ایک گاؤں میں گندم خریدنے کے لئے پہنچ جائیں اور گندم جو سات روپیہ پر بک رہی تھی یکدم ساڑھے سات پرپہنچ جائے۔ساہوکار کو کہا جائے کہ ہم تمہیں ایک آنہ یا دو آنہ فی مَن کمیشن دیں گے تم ہم سے روپیہ لیتے جاؤ اور گندم اکٹھی کر کےد یتے جاؤ۔ تو ایک آنہ یا دو آنے فی مَن کمیشن پر زیادہ خرچ بھی نہیں ہو گا اور گندم بھی آسانی سے جمع ہو جائے گی۔ کیونکہ ساہوکار یہ کام روزانہ کرتے ہیں اور ان کے گماشتے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ زمیندار بھی جانتے ہیں کہ ان کا روز کا یہ کام ہے۔ پس انہیں کسی ساہوکار کے جانے پر تعجب نہیں ہوتا مگر جب غیرآدمی ان کے پاس گندم خریدنے کے لئے جاتے ہیں تو یکدم تین چار آنے بھاؤ بڑھ جاتا ہے۔ بظاہر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ساہوکار کو ایک یا دو آنے کمیشن کیوں دیں ہم خود گندم لائیں گے مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اگر وہ خود جائیں گے تو پانچ سات آنے ریٹ بڑھ جائے گا اور انہیں غلّہ سستا نہیں بلکہ مہنگا ملے گا۔ صرف فرق یہ ہو گاکہ اگر وہ ساہوکار کی معرفت غلّہ خریدتے تو سات روپے ایک آنہ یا سات روپے دو آنے یا سات روپےتین آنے پر غلّہ مل جاتا مگر جب آپ جاتے ہیں تو وہی غلّہ سات روپیہ پانچ آنہ یا سات روپیہ آٹھ آنہ پر لے آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے کسی کو کمیشن نہیں دیا۔ حالانکہ اگر وہ کمیشن دیتے تو انہیں اتنا نقصان نہ ہوتا جتنا کمیشن نہ دینے کی صورت میں انہیں ہؤا۔ تاجر ہمیشہ سستا سودا خریدنا جانتا ہے۔ پس اگر اچھا تاجر مل جائے تو وہ کمیشن کے لالچ میں تمام کام کر دیتا ہے اور کسی قسم کی گھبراہٹ پیدا نہیں ہوتی۔
پس میری دوسری تجویز یہ ہے کہ قادیان کے اردگرد جو مختلف ساہوکار ہیں ، کمیٹی ان سے مل کر گندم کی فراہمی کا انتظام کرے اور انہیں مناسب کمیشن دے دیا جائے۔ دنیا میں کروڑوں مَن غلّے خریدے جاتے ہیں مگر کبھی گھبراہٹ پیدا نہیں ہوتی۔ ہم نے بیس تیس یا پچاس ہزار مَن غلّہ خریدنا ہوتا ہے اور لوگ گھبرا جاتے ہیں۔ حالانکہ منڈیوں میں دس دس، بیس بیس، تیس تیس لاکھ مَن غلّہ کے سودے ہو جاتے ہیں اور لوگوں کو پتہ تک نہیں لگتا کہ اتنا بڑا سودا ہو گیا ہے۔ درحقیقت وہ ساہوکار جن کا روزانہ یہ کام ہوتا ہے کہ ان کے منڈیوں میں آنے جانے اور گندم خریدنے کی وجہ سے کسی کو یہ خیال تک نہیں آتا کہ لوگوں کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ مگر جب غیرآدمی گندم خریدنے کے لئے چلے جاتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں کوئی خاص تغیر پیدا ہو گیا ہے اور وہ گندم کا بھاؤ بڑھا دیتے ہیں۔ یہ تجاویز ہیں جو اس سال گندم کی فراہمی کے لئے مَیں جماعت کے سامنے رکھتا ہوں۔ صدر انجمن احمدیہ کو چاہیئے کہ وہ پندرہ بیس ہزار روپیہ فوراً الگ کر دے۔ کمیٹی کے ممبروں کے نام مَیں بعد میں تجویز کر دوں گا جب گاہک آنے شروع ہو جائیں اور روپیہ بھی وصول ہونے لگ جائے۔ تو وہ یہ روپیہ امانت میں واپس کر سکتی ہے۔ سوائے اتنے روپیہ کے جتنے روپیہ کی گندم کی خود صدر انجمن احمدیہ کو ضرورت ہے اور مَیں سمجھتا ہوں صدر انجمن احمدیہ کو اپنی ضروریات کے لئے بھی آٹھ دس ہزار روپیہ کی گندم ضرور خریدنی پڑے گی۔ بہرحال روپیہ اِنْشَاءَ اللہُ جلد آنا شروع ہو جائے گا۔ پچھلی دفعہ مَیں نے دیکھا ہے جب غلّہ کی قلت ہو گئی اور ہم نے سات آٹھ روپیہ مَن پر غلّہ دینے کا اعلان کیا تو گیارہ ہزار روپیہ چند دن میں ہی جمع ہو گیا۔ اس میں سے پہلے پچاس فیصدی تک لوگوں کو گندم دی گئی۔ پھر ہم بعض لوگوں کو ساٹھ اور ستر فیصدی تک بھی گندم مہیا کر کے دے سکے اور جو روپیہ باقی رہتا تھا وہ لوگوں کو واپس کر دیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی مَیں ایک دفعہ پھر بیرونی جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جیسا کہ مَیں نے پچھلے خطبہ میں بھی کہا ہے وہ اپنی ضرورت سے کچھ زائد غلّہ اپنے پاس محفوظ رکھیں تاکہ اگر قادیان والوں کو غلّہ کی ضرورت ہو اور گردونواح کی جماعتوں سے ضرورت پوری نہ ہو سکے تو ان سے غلّہ منگوایا جا سکے۔ انہیں بھی اپنا غلّہ انتطامیہ کمیٹی کے سپرد کرنا پڑے گا اور اس وقت جو بھی منڈی میں گندم کی قیمت ہو گی وہ انہیں دے دی جائے گی۔ اب چونکہ گندم کے ریٹ پر گورنمنٹ کی طرف سے کوئی کنٹرول نہیں اس لئے یہ دیکھ لیا جائے گا کہ منڈی کا کیابھاؤ ہے۔ پھر جو بھاؤ منڈی کا ہؤا اسی پر ان سے گندم خریدی جائے گی۔ اگر باہر کی جماعتیں اپنی ضرورت سے زائد گندم اپنے پاس محفوظ رکھیں اور دو تین مہینہ تک انتظار کریں تو میرے نزدیک 15،20 ہزار مَن غلّہ بیرونی جماعتوں سے بھی آسانی کے ساتھ جمع ہو سکتا ہے۔ بڑی جماعتوں میں سے جو غلّہ جمع کر سکتی ہیں سیالکوٹ ہے، سرگودھا ہے، لائلپور ہے، منٹگمری ہے، شیخوپورہ ہے، امرتسر ہے، لاہور ہے۔ لاہور میں تو زمیندار کم ہیں۔ اسی طرح امرت سر میں بھی زمیندار کم ہیں لیکن سیالکوٹ، شیخوپورہ، گجرات، سرگودھا، لائلپور، منٹگمری میں جماعتیں کافی ہیں۔ وہ مقامی ضروریات کا خیال رکھ کر زائد گندم اپنے پاس محفوظ رکھیں تاکہ جب قادیان میں گندم کی ضرورت ہو تو ان سے منگوائی جا سکے۔
یہ تو لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ظاہری تدابیر ہیں۔ سب سے بڑی ضرورت جو میرے نزدیک ان ایام میں ہے وہ یہ ہے کہ ان مشکلات کے ایام میں ہر شخص اپنے رب پر توکل کرے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان پر جب بھی ابتلاء آتے ہیں اس کے ایمان کی آزمائش کے لئے آتے ہیں۔ مگر یہ ابتلاء کبھی تو ایسی حالت میں آتے ہیں جب انسان سمجھتا ہے کہ میرے ایمان کی آزمائش ہو رہی ہے اور کبھی ایسی حالت میں آتے ہیں جب اسے اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ اس کے ایمان کی آزمائش کی جا رہی ہے۔ جب انسان کو علم ہو کہ میرے ایمان کی ابتلاؤں کے ذریعہ آزمائش کی جا رہی ہےتو اس وقت فیل ہو جانا اور اللہ تعالیٰ کی آزمائش میں پورا نہ اترنا بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ مَیں نے بتایاہے کہ بعض دفعہ اکیلے اکیلے شخص پر ابتلاء آتا ہے اور اسے یہ پتہ نہیں لگتا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے اس کے ایمان کی آزمائش ہو رہی ہے مگر بعض دفعہ اجتماعی رنگ میں ابتلاء آتا ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ یہ ابتلاء خداتعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ اس وقت اگر کوئی شخص کوتاہی کر جاتا اور آزمائش میں پورا نہیں اترتا تو یہ بہت زیادہ افسوسناک ہوتا ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ خدا ایک ہے جو اپنے بندوں کو رزق مہیا کرتا ہے۔ اگر اس ابتلاء کے نتیجہ میں بعض کی تباہی مقدر ہے اور اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ انہوں نے فاقہ سے مر جانا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے اس فیصلہ سے بچ نہیں سکتے اور اگر کسی کے لئے معمولی تکلیف مقدر ہے تو اسے بھی تکلیف پہنچ کر رہے گی مگر دونوں صورتوں میں جماعت کے لئے ثواب حاصل کرنے کا دروازہ کھلا ہے۔ اس کے لئے بھی ثواب حاصل کرنے کا موقع ہے جس کے پاس غذا ہے اور اس کے لئے بھی ثواب حاصل کرنے کا موقع ہے جس کے پاس کوئی غذا نہیں ۔ جس کے پاس کوئی غذا نہیں اگر وہ بھوک سے گھبراتا نہیں، اللہ تعالیٰ پر بدظنی سے کام نہیں لیتا اور صبر سے مصیبت کو برداشت کرتا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ثواب کو حاصل کرتا ہے اور جس کے پاس غذا تو ہے مگر تھوڑی لیکن جیسا کہ قرآن کریم میں مومنوں کے متعلق آتا ہے وہ خود بھوکا رہتے اور دوسروں کو کھانا کھلاتے ہیں اسی طرح وہ یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ خود تو کھائے لیکن اس کا ہمسایہ بھوکا رہے۔ اگر اس کے پاس صرف دو روٹیاں ہیں تو وہ ایک روٹی پر خود گزارہ کرتا اور ایک اپنے بھوکے ہمسایہ کو دے دیتا ہے۔ تو وہ بھی ایسا ثواب حاصل کر لیتا ہے جو دوسرے دنوں میں اسے میسر نہیں آ سکتا۔ یہی مواقع ایمان کی آزمائش کے ہوتے ہیں، یہی وہ مواقع ہوتے ہیں جب اللہ تعالیٰ انسان کے دس دس، بیس بیس، تیس تیس، چالیس چالیس سال کے گناہوں کو ایک ابتلاء کے ذریعہ معاف کر دیتا ہے۔ انسان گناہ کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے۔ ایک سال نہیں، دو سال نہیں، متواتر تیس چالیس سال تک وہ گناہ کرتا چلا جاتا ہےا ور اس کے گناہوں کا خداتعالیٰ کے پاس ایک کافی ذخیرہ ہو جاتا ہے تب اللہ تعالیٰ اس پر ایک ابتلاء وارد کرتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ اگر میرا بندہ اس ابتلاء میں کامیاب ہو گیاتو مَیں اس کے سارے گناہ معاف کر دوں گا۔ پس وہ ابتلاء درحقیقت خداتعالیٰ کی طرف سے ایک رحمت کا دروازہ ہوتا ہے مگر اسی موقع پر بہت سے لوگ بجائے پاس ہونے کے فیل ہو جاتے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے ہم نے تو اپنے اس بندے کے دس بیس سال کے گناہ معاف کرنے کا ایک راستہ نکالا تھا مگر اس نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اب جاؤ اور اس سزا میں اس کے گناہوں کو دگنا کر دو۔
رسول کریم ﷺ کی ایک حدیث ہے۔ آپ کے پاس مہمان آتے۔ مہمان خانہ آپ کے پاس کوئی تھا نہیں۔ آپ تمام مہمان صحابہ میں تقسیم کر دیتے کہ وہ انہیں اپنے اپنے گھر لے جائیں اور کھانا کھلائیں۔ آپ کا طریق یہ تھا کہ جب مہمان آتے تو آپ مسجد میں اعلان فرما دیتے کہ اتنے مہمان آئے ہوئے ہیں ان کو کون کون شخص اپنے گھر لے جائے گا۔ ایک کہتا یا رسول اللہ! مجھے دو مہمان دے دیجئے۔ دوسرا کہتا یا رسول اللہ! مجھے تین مہمان دے دیجئے۔ یہی اس وقت کا لنگرخانہ اور یہی مہمان خانہ تھا۔ اکثر دفعہ رسول کریم ﷺ بھی بعض مہمانوں کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ ایک دفعہ ایک مہمان آیا اور رسول کریم ﷺ نے اعلان فرمایا کہ کون اس مہمان کو اپنے گھر لے جائے گا۔ ایک صحابی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یارسول اللہ! مجھے دے دیجئے۔ چنانچہ وہ اس مہمان کو ساتھ لے کر گھر پہنچے اور بیوی سے پوچھا کہ کیا گھر میں کچھ کھانا ہے۔ اس نے کہا صرف ایک روٹی ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ یہ روٹی بچوں کو کھلا دوں اور مَیں اور تم دونوں فاقہ کریں۔ انہوں نے کہا چلو جہاں ہم فاقہ کریں گے وہاں آج ہمارے بچے بھی فاقہ کر لیں گے۔ ایک مہمان رسول کریم ﷺ نے میرے سپرد فرمایا ہے اور اسے بہرحال کھانا کھلانا ہے۔ بیوی کہنے لگی بہت اچھا۔ بچوں کو مَیں کسی بہانے سلا دوں گی اور یہ روٹی ہم اسے کھلا دیں گے۔ وہ صحابی کہنے لگے بات تو ٹھیک ہے مگر ایک مشکل ابھی باقی ہےا ور وہ یہ کہ ہمارا مہمان الگ روٹی نہیں کھائے گا۔ اگر اسے الگ روٹی دی گئی تو اسے پتہ لگ جائے گا کہ ہم نے اپنی روٹی اسے دے دی ہے اور شاید اس وجہ سے وہ خود بھی نہ کھائے۔ اس کےازالہ کی کوئی صورت ہونی چاہیئے۔ بیوی کہنے لگی تم اس کا بھی فکر نہ کرو۔ بچوں کو مَیں کسی طرح سُلا دوں گی اور ہم خود مہمان کے ساتھ کھانا کھانے کے لئے بیٹھ جائیں گے۔ جب ہم بیٹھ جائیں تو مجھے کہنا کہ روشنی درست نہیں ، بتّی اونچی کر دو۔ مَیں بتّی کو اونچا کرنے کے بہانے سے اس کے گل کو ہاتھ کی انگلیوں سے اس طرح پکڑوں گی کہ وہ بُجھ جائے گا۔ تم نے کہنا کہ کسی ہمسایہ کے گھر سے روشنی لاؤ اور مَیں یہ کہوں گی کہ ہمسائیوں کو اِس وقت تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے اندھیر ے میں ہی روٹی کھا لو اور مہمان بھی قدرتاً یہی کہے گا کہ تکلیف کرنے کی کیا ضرورت ہے مَیں اندھیرے میں ہی کھا لیتا ہوں۔ اس کے بعد مَیں اور آپ دونوں اس کے ساتھ بیٹھ جائیں گے (پردے کا حکم اس وقت تک نازل نہیں ہؤا تھا) اور خالی مچاکے مارتے چلے جائیں گے۔ یعنی کھانے کی آواز مُنہ سے نکالتے جائیں گے۔ مہمان یہ سمجھے گا کہ ہم اس کے ساتھ روٹی کھا رہے ہیں۔ اور اس طرح ہم اپنا کھانا مہمان کو کھلا دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ بچوں کو سُلا دیا اور جب کھانا کھانے کے لئے سب دستر خوان پر بیٹھے تو اس صحابیؓ نے اپنی بیوی سے کہا کہ روشنی مدھم ہے ذرا دیے کی بتّی تو اونچی کر دو۔ وہ اٹھی اور اس نے دونوں انگلیوں سے پکڑ کر اس کے گل کو جو کھینچا تو وہ بجھ گیا۔ خاوند کہنے لگا اب اندھیرے میں ہم روٹی کس طرح کھائیں جاؤ کسی ہمسایہ سے روشنی لے آؤ۔ بیوی کہنے لگی اس وقت ہمسائیوں کو تکلیف ہو گی آپ اندھیرے میں ہی روٹی کھا لیں۔ مہمان بھی بول اٹھا کہ روشنی کی کوئی ضرورت نہیں مَیں اندھیرے میں ہی روٹی کھا لوں گا۔ چنانچہ دونوں میاں بیوی اس کے ساتھ بیٹھ گئے اور اندھیرے میں انہوں نے زور زور سے مچاکے مارنے شروع کر دئیے۔ مہمان نے سمجھا کہ یہ بھی میرے ساتھ کھا رہے ہیں۔ مگر دراصل وہ کھا نہیں رہے تھے ۔ جب مہمان کھانے سے فارغ ہؤا تو انہوں نے دسترخوان اٹھایا اور سو گئے۔ جب صبح وہ صحابیؓ رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول کریم ﷺ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا۔ رات کو تم نے اپنے مہمان سے کیا کیا۔ وہ ڈرے کہ معلوم نہیں کوئی ایسی بات ہو گئی ہو جو رسول کریمﷺ کی ناراضگی کا موجب ہوئی ہو۔ یہ دیکھ کر رسول کریم ﷺ ہنسے اور فرمایا آج رات تم میاں بیوی نے ایسی حرکت کی ہے جسے دیکھ کر خدا بھی عرش پر ہنس پڑا۔ پھر آپ نے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے الہام سے تمہارا سب واقعہ بتا دیا ہے۔ 1
اب دیکھو ہزاروں دفعہ ایسا ہو جاتا ہے کہ انسان کو فاقہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ غرباء پر ہی نہیں بڑے بڑے امراء پر بھی بعض دفعہ یہ حالت آ جاتی ہے۔ وہ جنگلوں میں جاتے ہیں تو وہاں انہیں کھانے کے لئے روٹی تک میسر نہیں آتی۔ ایسی صورت میں بادشاہوں پر بھی فاقہ آ جاتا ہے۔ وزیروں پر بھی فاقہ آ جاتا ہے۔ کمانڈر انچیف پر بھی فاقہ آ جاتا ہے۔ پھر گھروں میں بعض دفعہ فاقہ کرنا پڑتا ہے۔ عیاش امراء جن کے دسترخوان پر بیسیوں کھانے ہوتے ہیں ان کو مستثنیٰ کرتے ہوئے عام طور پر گھروں میں ایک ہی کھانا تیار ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ سالن میں نمک زیادہ ہوتا ہے یا مرچیں زیادہ ہوتی ہیں اور انسان کھانا نہیں کھاتا بلکہ فاقہ کر لیتا ہے یا روکھی روٹی کھا لیتا ہے اور سالن استعمال نہیں کرتا۔ بہرحال یہ حالتیں انسان پر گزر جاتی ہیں اور بلاوجہ گزر جاتی ہیں۔ پھر اگر انسان کو خداتعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کبھی فاقہ کرنا پڑے تو اس میں مشکل یا ناقابلِ عمل کون سی بات ہے۔ درحقیقت انسان کی طبیعت میں بخل ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ شاید اگر مَیں نے دوسروں کے لئے فاقہ کیا تو مجھے روزانہ ایسا کرنا پڑے گا حالانکہ روزانہ ایسا نہیں کرنا پڑتا بلکہ کبھی کبھی کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایک شخص کا ہمسایہ بھوکا ہے تو وہ اسے روٹی کھلانے کے لئے ایک دن کا فاقہ کر سکتا ہے مگر دوسرے دن اس کے لئے فاقہ کرنا ضروری نہیں۔ دوسرے دن اس کا دوسرا ہمسایہ فاقہ کر سکتا ہے۔ تیسرے دن تیسرا اور چوتھے دن چوتھا۔ پھر اگر محلّے میں بیس پچیس اور بھی گھر ہوں اور وہ سب ایک ایک دن کا فاقہ کریں تو مہینہ میں ہر شخص کو صرف ایک دن فاقہ کرنا پڑے گا اور یہ کوئی مشکل چیز نہیں۔ اول تو روزانہ کوئی شخص دوسرے کی روٹی کا محتاج نہیں ہوتا۔ وہ خود بھی اپنی روزی کے لئے جدوجہد کرتا ہے۔ لیکن اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ کوئی شخص ایسا ہے جسے روزانہ روٹی کی ضرورت ہے تو اس صورت میں بھی کسی ایک شخص کو ہمیشہ فاقہ نہیں کرنا پڑتا بلکہ کئی لوگوں پر تقسیم ہو کر یہ بوجھ بہت ہلکا ہو جاتا ہے اور اس طرح ہر شخص ہمسایہ کی مدد کر کے ثواب حاصل کر سکتا ہے۔ پس غریب یہ نہ سمجھے کہ مَیں غریب ہوں اور اس وجہ سے اپنی ذمہ داریوں سے آزاد ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ غریب پر بھی ذمہ داریاں ہیں اور امیر پر بھی ذمہ داریاں ہیں۔ نہ امیر اپنی ذمہ داریوں کو ترک کر سکتے ہیں نہ غریب اپنی غربت کی وجہ سے اپنی ذمہ داریوں کو ترک کرنے میں حق بجانب سمجھے جا سکتے ہیں۔ جب قوم پر اجتماعی رنگ میں تکلیف کا وقت آئے تو اس وقت ہر شخص کا فرض ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کی مدد کرے۔ امیرکا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی وسعت کے مطابق مدد کرے اور غریب کا فرض ہوتاہے کہ اپنے دائرہ کے مطابق مدد کرے۔ غریب یہ نہیں کہہ سکتا کہ مَیں چونکہ غریب ہوں اس لئے مدد نہیں کرتا۔ اگر مدد نہ ملنے کی وجہ سے کسی شخص کی ہلاکت ہو جائے تو اس کی ذمہ داری غرباء پر بھی ہو گی اور امراء پر بھی ۔ ایک امیر شخص جس کے دس نوکر ہوں اگر اس کا کوئی بچہ کوئیں میں گر جائے اور سب نوکر اس وقت موجود ہوں تو آقا صرف اس بچے کو کھلانے والے خادم کو سزا نہیں دے گا بلکہ جس قدر نوکر اس وقت موجود ہوں گے ان سب کو سزا دے گا۔ باغبان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا کام تو شاخ تراشی اور بیج لگانا اور درختوں کو پانی دینا ہے۔ میرا یہ کام نہیں تھا کہ میں بچہ کی جان بچاتا۔ سائیس یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا کام گھوڑے کو دانہ کھلانا اور اس کی رکھوالی کرنا ہے۔ میرا یہ فرض نہیں تھا کہ مَیں بچہ کی جان بچاتا۔ فرّاش یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا کام تو آپ نے فرش بچھانا اور اسے صاف رکھنا مقرر کیا ہؤا ہے۔ میرا فرض یہ کہاں تھا کہ مَیں بچہ کی بھی جان بچاتا۔ دربان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا کام تو آپ نے دربانی مقرر کیا ہؤا ہے مَیں نے اگر بچے کی جان نہیں بچائی تو اس میں میرا کیا قصور ہے بلکہ وہ ساروں سے خفا ہو گا اور سب اس قصور کی سزا پائیں گے۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کے کسی بندے پر مصیبت آتی ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ فلاں امیر تھا اور فلاں غریب، بلکہ وہ کہتا ہے جب مصیبت آ گئی تو ہر ایک کا فرض تھا کہ اس کی مدد کرتا ، خواہ وہ امیر تھا یا غریب، نادار تھا یا زَردار۔ اپنی اپنی نسبت سے اس کی مدد کرنے میں سب کی ذمہ داری برابر ہو گی۔ ہاں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر غریب کسی شخص کی جان بچائے گا تو وہ امیر سے زیادہ ثواب کا مستحق ہو گا کیونکہ غریب کے پاس کم طاقت تھی اور امیر کے پاس زیادہ طاقت تھی۔ ایک امیر آدمی اگر کسی کو دو آنے کے پیسے دیتا ہے تو بے شک وہ بھی ثواب کا مستحق ہے مگر ایک غریب جو دو آنے کے پیسے دیتا ہے وہ اس سے زیادہ ثواب کا مستحق ہے کیونکہ اس نے دو آنے کے پیسے بھی دئیے اور ایک فاقہ بھی برداشت کیا، اپنا بھی اور اپنے بیوی بچوں کا بھی۔گویا اس نے علاوہ مال کے تین یا چار جانوں کی بھی قربانی کی۔ مگر امیر نے صرف پیسے دیئے۔ پس صاف بات ہے کہ امیر کو کم ثواب ملے گا اور غریب کو زیادہ ثواب ملے گا۔ گو دوسرے کی جان بچانے میں بظاہر دونوں برابر ہوں گے۔ اسی طرح جو لوگ مالدار ہیں ان کی ذمہ داریاں بھی بہت بڑی ہیں۔ درحقیقت مال اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور امانت آتا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ انسان اس مال کو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق خرچ کرتا ہے یا اس مال کو خرچ نہیں کرتا۔ اگر وہ اس مال کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق خرچ کرتا ہے تو وہ امانت کو عمدگی سے خرچ کرنے والا قرار پاتا ہے اور اگر مناسب مقامات پر خرچ نہیں کرتا تو وہ امانت میں خیانت کرنے والا قرار پاتا ہے۔ اسلام نے اسی لئے مال جمع کرنے کی اجازت دی ہے کہ انسان اس مال کو ضرورتِ حقہ پر خرچ کرے۔ اگر وہ خرچ نہیں کرتا تو وہ مال ایسا ہی ناجائز ہو جاتا ہے جیسے بولشوزم والے کہتے ہیں کہ مال کا افراد کے پاس رہنا جائز نہیں۔ اسلام نے اگر مال جمع کرنے سے منع نہیں کیا اور بولشوزم کے اصول کو ناجائز قرار دیا ہے تو اسی لئے کہ وہ کہتا ہے ہم نے یہ ذمہ داری امراء کے سر ڈال دی ہے کہ وہ اپنے اموال غرباء کی ضروریات کے لئے خرچ کریں۔ اگر وہ خرچ نہیں کرتے تو خیانت سے کام لیتے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنتے ہیں۔ پس تکلیف کے ایام میں امیر اور غریب دونوں کو اپنی اپنی ذمہ داریاں سمجھنی چاہئیں اور ان فرائض کو ادا کرناچاہیئے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عائد کئے گئے ہیں۔ اگر امراء اپنے فرائض کو ادا کریں تو وہ یقیناً اس بات کے حقدار ہیں کہ اپنے فرض کو عمدگی سے ادا کریں اور غرباء کا خیال رکھیں اور غرباء کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ اگر وہ دوسروں کی مدد کریں گے تو امراء سے بہت زیادہ ثواب حاصل کریں گے۔ ان تمام امور کا نقطۂ مرکزی درحقیقت ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ ہے۔ گویا اصل سوال یہ ہے کہ ان فرائض کی ادائیگی یا عدم ادائیگی سے ہم اس بات کا ثبوت مہیا کرتے ہیں کہ ہمارا خدا اور بعث بعد الموت پر کس قدر ایمان ہے۔ اگر ہمارا خداتعالیٰ پر سچا ایمان ہو اور ہم یقین رکھتے ہوں کہ مرنے کے بعد ایک ابدی زندگی ہے جس میں ہمارے اعمال کا ہمیں بدلہ ملے گا تو نیکی کے کرتے وقت یہ سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا کہ یہ کام امیر کرے یا غریب ۔ صحابہؓ میں ہم یہ بات دیکھتے ہیں کہ ان میں بجائے اس کے کہ آپس میں امیر اور غریب کی کشمکش ہوتی وہ ایک دوسرے سے ثواب میں آگے نکل جانے کی کوشش کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ جس قدر ثواب حاصل ہو انہیں ہی حاصل ہو۔
ایک دفعہ بعض غرباء رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! امراء چندے دیتے ہیں، زکوٰتیں دیتے ہیں، صدقہ دیتے ہیں مگر ہم ان باتوں میں سے کوئی بات نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیں اسی طرح وہ پڑھتے ہیں، جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں اسی طرح وہ رکھتے ہیں۔ جس طرح ہم جہاد میں شامل ہوتے ہیں اسی طرح وہ ہوتے ہیں۔ گویا جس قدر نیکی کے کام ہم کرتے ہیں وہ تمام کام وہ بھی کرتے ہیں مگر جن نیکی کے کاموں میں وہ حصہ لیتے ہیں ان میں ہم اپنی غربت کی وجہ سےحصہ نہیں لے سکتے۔ یا رسول اللہ! ہمیں بھی کوئی ایسی ترکیب بتائیے جس سے ہم ثواب میں اپنے امیر بھائیوں سے کم نہ رہیں۔ حقیقت یہ تھی کہ امراء کو ثواب کا کوئی زیادہ موقع نہیں ملتا تھا۔ غریب اپنی غربت میں جو تھوڑا بہت چندہ دیا کرتے تھے خداتعالیٰ کے نزدیک اس کا اتنا ہی ثواب تھا جتنا امراء کے بڑے بڑے چندوں گا مگر نیک کاموں میں حصہ لینے کا انہیں اس قدر شوق تھا کہ وہ سمجھتے تھے شاید مقدار میں بھی پورا نہ اترنا ثواب کی کمی کا موجب ہو جاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے ان کی دلجوئی کی اور فرمایا تم ہر نماز کے بعد 33 دفعہ سُبْحَانَ اللہ ، 33 دفعہ اَلْحَمْدُ لِلہ اور 34 دفعہ اَللہُ اَکْبَر کہہ لیا کرو۔ تم ثواب میں امراء کے برابر ہو جاؤ گے اور جنت میں ان سے پہلے داخل ہو گے۔ چنانچہ ہر نماز کے بعد انہوں نےتحمید، تسبیح اور تکبیر کہنی شروع کر دی۔ آخر ہوتے ہوتے امیروں کو بھی پتہ لگ گیا کہ رسول کریم ﷺ نے انہیں اس طرح تسبیح، تحمید اور تکبیر کہنے کا ارشاد فرمایا ہے اور وہ بھی نماز کے بعد تسبیح، تحمید اور تکبیر کہنے لگ گئے۔ یہ دیکھ کر غرباء پھر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان امراء کو روکیے یہ کیوں تسبیح و تحمید اور تکبیر کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا میں کسی کو نیکی سے نہیں روک سکتا۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو کریں۔2 تو دیکھو اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے لئے ثواب حاصل کرنے اور نیکی میں بڑھنے کے رستے کھول رکھے ہیں۔ صحابہؓ میں چونکہ نیکی کے کاموں میں مقابلہ ہؤا کرتا تھا اس لئے وہ ترقی کرتے چلے گئے مگر اس زمانہ میں لوگ نیکی کے کاموں میں مقابلہ نہیں کرتے ۔ اس زمانہ کی ساری مصیبتوں کی وجہ یہی ہے کہ لوگ کہتے ہیں فلاں اپنا حق کیوں ادا نہیں کرتا۔ یہ فکر نہیں کی جاتی کہ انہوں نے خود دوسروں کے حقوق کو کہاں تک ادا کیا ہے ۔اُس زمانہ میں لوگوں کی یہ ذہنیت تھی کہ ہم اپنا حق ادا کر دیں ۔ دسرا شخص اگر حق ادا نہیں کرتا تو اس کی ذمہ داری اس پر ہے۔ مگر مغربی ذہنیت یہ ہے کہ تُو اپنا حق لے یہ نہ دیکھ کہ دوسرے کے حق کو تُو نے ادا کیا ہے یا نہیں۔ مگر اسلام اس کے بالکل الٹ سبق دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دوسرے کا حق دو اور اس بات کو نظرانداز کر دو کہ دوسرا تمہارا حق تمہیں دیتا ہے یا نہیں۔ جب تک بنی نوع انسان کی ذہنیتوں میں یہ فرق رہے گا اس وقت تک دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ایسا کبھی نہیں ہؤا کہ سب لوگ یکساں روپیہ کمائیں۔ لازماً کوئی کم کمائے گا اور کوئی زیادہ کمائے گا۔ کوئی امیر ہو گا اور کوئی غریب ہو گا مگر اس مشکل کا حل یہ نہیں کہ امیروں سے روپیہ چھین کر غریبوں کو دے دیا جائے بلکہ اصل علاج یہ ہے کہ ذہنیتوں میں تبدیلی پیدا کی جائے اور ہر شخص اپنے اپنے فرائض کو پہچانے۔ وہ یہ نہ دیکھے کہ دوسرے نے اس کے حق کو ادا کیا ہے یا نہیں بلکہ یہ دیکھے کہ اس نے دوسرے کے حق کو کہاں تک ادا کیا ہے۔ جس دن یہ ذہنیت پیدا ہو گئی اُس دن تمام جھگڑے اور فسادات آپ ہی آپ مٹ جائیں گے اور دنیا امن و آرام کا سانس لینے لگ جائے گی۔
پس یہ ایام ہیں جن میں خداتعالیٰ نے تمہیں اس بات کا موقع دیا ہے کہ تم اپنے اپنے گناہوں کی معافی کا سامان پیدا کر لو اور ان مصیبت کے دنوں میں صبر کرکے اور قربانیوں میں پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر لو تاکہ پچھلے دس بیس تیس چالیس یا پچاس سال کے گناہ معاف کر کے اللہ تعالیٰ تمہارے دل کے تختہ کو بالکل صاف کر دے اور آئندہ اس پر نیکیاں ہی نیکیاں لکھنے کا تمہیں موقع دے۔ گندم کی فراہمی اور اس کے لئے انتظام یہ سب عارضی چیزیں ہیں ۔ ہم اگر ان امور میں حصہ لیتے ہیں تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے دین کے علاوہ جماعت کی دنیوی ضرورتوں کو پورا کرنا بھی خلفاء کے ذمہ عائد کیا ہؤا ہے۔ ورنہ ہماری اصل غرض یہی ہے کہ قلوب میں صفائی پیدا ہو اور مَیں نے بتایا ہے کہ قلوب میں صفائی اسی طرح پیدا ہو سکتی ہے کہ ہم اپنا فرض ادا کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں۔ یہ خیال نہ رکھیں کہ دوسروں نے ہمارے حقوق کو کیوں ادا نہیں کیا۔ جس دن ہم اپنا حق ادا کرنے لگ جائیں گے اور لوگوں کا شکوہ ترک کر دیں گے اس دن ہمارے قلوب کی آپ ہی آپ اصلاح ہو جائے گی۔ دوسروں کا شکوہ کرنا اور یہ دیکھنا کہ انہوں نے اپنے حقوق کو ادا کیا ہے یا نہیں یہ ہر شخص کا کام نہیں۔ یہ انہی کا کام ہے جنہیں خدا حکماً اس غرض کے لئے کھڑا کرتا ہے۔ باقی لوگوں کا یہی کام ہوتا ہے کہ وہ اپنی اپنی فکر کریں۔ جیسے کسی شاعر نے کہا ہے ع
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو
پس اصل نقطہ جس پر تمام امن کی بنیاد ہے یہی ہے کہ لوگ اپنے اپنے فرائض کو ادا کریں اور اس ذہنیت کو بدل ڈالیں کہ دوسروں کی نگرانی کی جائے اور اپنے نفس کی خبر نہ لی جائے۔ مَیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے اپنے فرائض کو ادا کریں۔ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور اپنا وقت بجائے دوسروں پر نکتہ چینی کرنے کے اپنے نفس کی اصلاح میں صرف کریں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضااور اس کی خوشنودی حاصل کریں۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔‘‘
خطبہ ثانیہ میں فرمایا:۔
’’ ایک شخص نے لکھا ہے کہ کارکنوں کو جو کٹوتیاں ملیں گی وہ سال بھر کا غلّہ خریدنے کے لئےکافی نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے کارکن جن کی کٹوتیاں غلّہ کے لئے کافی نہ ہوں وہ میرے اس دوسرے حکم کے ماتحت آ جاتے ہیں جس میں مَیں نے کہا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ ضمانت لے کر انہیں روپیہ دے سکتی ہے۔ انہیں جس قدر روپیہ کی ضرورت ہو صدر انجمن احمدیہ انہیں ضمانت پر دےدے گی۔ ‘‘ (الفضل 30 اپریل 1943ء)

1: بخاری کتاب مناقب الانصار باب قول اللہ عزوجل ویؤثرون علی
انفسھم (الخ)
2: مسلم کتاب المساجدباب استحباب الذکر بعدالصلٰوة (الخ)


14
جماعت احمدیہ کا اصل مقصد اور اس کے حصول کا طریق
(فرمودہ 23 اپریل 1943ء)
تشہد، تعوّذ ، سورۃ فاتحہ اور سورة اخلاص کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’اسلام کی تعلیم کا نقطۂ مرکزی ایک خدا ہے یعنی نہ صرف یہ کہ اسلام ہمیں خداتعالیٰ کی طرف لے جاتا ہے بلکہ وہ اس خدا کی طرف لے جاتا ہے جو اَحَد ہے ۔ یہی وہ نقطۂ مرکزی ہے جس کے متعلق تمام انبیاء نے جو شروع سے لے کر اب تک مبعوث ہوئے ہیں دنیا سے جنگ کی ہے اور یہی وہ نقطۂ مرکزی ہے جو آج بھی اسلام اور دوسرے ادیان کے درمیان موجبِ مخاصمت ہو رہا ہے۔ اَحَد کا لفظ عربی زبان میں واحد سے مختلف معنے رکھتا ہے۔ واحد بھی اللہ کا نام ہے مگر اَحَد اور مضمون بیان کرتا ہے اور واحد اور مضمون بیان کرتا ہے۔ اَحَد کا لفظ خداتعالیٰ کی ذات کی وحدانیت کو بیان کرتا ہے اور واحد کا لفظ خداتعالیٰ کی صفات کی وحدانیت کو بیان کرتا ہے۔ جب ہم واحد کہتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں کامل ہے اور اس کے سوا اور کوئی وجود نہیں جو صفات کے لحاظ سے کامل ہو۔ گویا ہم جب واحد کا لفظ بولتے ہیں تو اس کے ساتھ دو ، تین، چار یا کم و بیش دوسرے افراد کے وجود کا بھی اقرار کرتے ہیں، انکار نہیں کرتے۔ گو ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ باقی جو چیزیں ہیں وہ اسی سے نکلی ہیں۔ جس طرح دو، تین، چار وغیرہ سب عدد ایک سے ہی نکلے ہیں اس طرح دنیا میں جس قدر بھی اشیاء ہیں وہ سب کی سب اللہ تعالیٰ سے ہی نکلی ہیں اور ہر چیز اپنے کمال کے لئے اس کے پرتَو کی محتاج ہے۔ جس طرح سورج کی روشنی کے بغیر اور کہیں نور نہیں اسی طرح خداتعالیٰ کے فضل کے بغیر اور کوئی وجود نہیں ہو سکتا۔ یہ تو مفہوم ہے واحد کا۔
احد کا لفظ یہ مضمون بیان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں یکتا ہے۔ یہ دو قسم کی نفی کرتا ہے۔ پہلی یہ کہ وہ دو سے ایک نہیں ہؤا۔ اور دوسری یہ کہ وہ ایک سے بھی دو نہیں ہؤا۔ واحد ایک سے دو بھی بنتا ہے اور دو سے ایک بھی ہوتا ہے۔ جہاں تک خداتعالیٰ کی صفات کا تعلق ہے ان کے ساتھ دنیا میں اشتراک پایا جاتا ہے۔ اس کے پرتَو کے ماتحت دوسری اشیاء میں ایک حد تک وہ صفات مل سکتی ہیں ۔ گویا واحد کہنے کے ساتھ ہم اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ دنیا میں دوسرے وجود بھی موجود ہیں۔ واحد کے لفظ سے ہم دوسرے کسی وجود کی طرف جا سکتے ہیں مگر احد کے لفظ سے نہیں۔اسی طرح عربی زبان میں وَاحِدُ اثْنَیْنِ کہتے ہیں ، اَحَدُ اثْنَیْنِ نہیں کہتے۔ تو مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی صفات میں اشتراک ہے ، ذات میں نہیں۔ اللہ تعالیٰ سنتا ہےاور اس کے پرتَو سے ہمیں بھی سننے کی توفیق حاصل ہوتی ہے۔ کئی نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ کہنا کہ ہم بھی سنتے ہیں اور خداتعالیٰ بھی سنتا ہے یہ شرک ہے۔ لیکن یہ شرک نہیں کیونکہ ہم جو سنتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی صفت کا پرتَو ہے۔ تو مَیں بتا رہا تھا کہ جب ہم واحد کا لفظ بولتے ہیں تو گویا اقرار کرتے ہیں دوسرے وجود بھی دنیا میں ہیں۔ ایک سے آگے دو تین چار پانچ وغیرہ ہیں اور پھر اگر واپس چلیں تو ایک پر ہی پہنچ جاتے ہیں۔ مگر احد کا لفظ بتاتا ہے کہ نہ اس ایک سے آگے دو تین چار کی طرف جا سکتے ہیں اور نہ واپس ایک کی طرف آ سکتے ہیں۔ اور اصل بناءِ مخاصمت یہی ہے۔ بہت سی قومیں ہیں جو ایک سے دو تین چار کی طرف لے جاتی ہیں اور پھر واپس ایک کی طرف لاتی ہیں۔
عیسائیوں میں یہ دونوں باتیں موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ باپ، بیٹا اور روح القدس مل کر احد ہؤا۔ گویا وہ کثرت سے وحدت کی طرف لے جاتے ہیں کہ تینوں مل کر ایک ہو گئے۔ اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ تینوں مل کر ایک ہو گئے ۔اور یہ سورة جس کی مَیں نے اِس وقت تلاوت کی ہے اسی غلطی کی تردید کرتی ہے جو خصوصیت کے ساتھ آخری زمانہ میں پیدا ہونے والی تھی۔
فرمایا قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ 1تُو کہہ دے اللہ ایک ہی ہے۔ وہ نہ تو ایک سے بیٹا اور روح القدس بن سکتا ہے اور نہ یہ تینوں واپس ایک ہو سکتے ہیں۔ وہ نہ تو تنوع اختیار کر سکتا ہے اور نہ اس تنوع کو مٹانے سے پھر ایک ہوتا ہے۔ یہ سورۃ اس آخری زمانہ میں خداتعالیٰ کی احدیت کو ثابت کرنے کے لئےہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آخری زمانہ میں ایک ایسے مامور کو پیدا کیا جس کے لئے سارے مذاہب میں پیشگوئیاں رکھ دیں اور اس طرح سب مذاہب میں پیشگوئیاں رکھ کر تمام لوگوں کو ایک نقطہ پر لا کر جمع کر دیا کیونکہ احدیت بھی ایک ہی نقطہ پر جا کر ثابت ہو سکتی ہے۔ پہلے مختلف انبیاء مختلف اقوام میں آتے تھے اور مختلف نام اللہ تعالیٰ کے دنیا میں بولے جاتے تھے۔ کوئی گاڈ کہتا اور کوئی پرمیشور، کوئی یزدان بولتا اور کوئی الوہیم۔ اس طرح دنیا نے خداتعالیٰ کے مختلف نام رکھے ہوئے تھے ۔ یہ سب کے سب ایک ہی ذات کی طرف اشارہ کرتے تھے اور لوگوں کو دھوکا ہوتا تھا کہ یہ ہندوؤں کا خدا ہے، یہ زرتشتیوں کا خدا ہے اور یہ یہودیوں کا خدا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان مختلف ناموں سے دھوکا ہوتا تھا اور اس طرح اللہ تعالیٰ بھی قومی خدا بن کر رہ گیا تھا ۔ آخر اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کے ذریعہ تمام دنیا کے لئے ایک دین بھیج کر سب کو ایک خدا کی طرف متوجہ کیا۔ خداتعالیٰ کے کلام کو ہم سمجھتے دماغ کی روشنی سے ہیں۔ ہم قرآن کریم کی عظمت کتنی مانیں مگر کیا ایک پاگل اسے سمجھ سکتا ہے۔ اسے ایک مجنون ہرگز نہیں سمجھ سکتا۔ خداتعالیٰ کے کلام کو سمجھنا دماغ سے متعلق ہے۔ دماغ ایک آئینہ ہے جس میں خداتعالیٰ کے نور کی روشنی پڑتی ہے اور اگر آئینے مختلف قسم کے ہوں تو وہ اشکال بھی مختلف قسم کی دکھاتے ہیں۔ کئی آئینے ایسے ہوتے ہیں جو شکل کو بگاڑ کردکھاتے ہیں۔ کئی ایسے ہوتےہیں جو قدکو لمبا ظاہر کرتے ہیں۔ کئی ہوتے ہیں جو چِپٹا ظاہر کرتے ہیں۔ اور کئی ایک ایسے ہوتے ہیں جن میں گولائی نظر آتی ہے۔ آئینے مختلف زاویوں پر کاٹے جاتے ہیں اور زاویہ کے ماتحت وہ مختلف شکلیں دکھاتے ہیں۔
بچپن میں ہم کھیلا کرتے تھے۔ ایک شیشہ بازار میں ملتا تھا جس کے اگر ایک طرف دیکھیں توقد کوئی دس گز لمبا نظر آتا تھا اور دوسری طرف دیکھیں تو بہت چھوٹا اور چوڑا و موٹا دکھائی دیتا تھا۔ تو بعض آئینے ایسی طرز کے بنائے جاتے ہیں کہ وہ مختلف اشکال دکھاتے ہیں۔ مَیں ایک دفعہ ریل میں سفر کر رہا تھا ۔ ریلوے میں ملازم ایک احمدی دوست بھی پاس بیٹھے تھے۔ مَیں غسلخانہ میں گیا۔ وہ جو چلمچی ہوتی ہے وہ بہت روشن اور شفاف ہوتی ہے ۔اس پر میری نظر پڑی تو مَیں نے دیکھا کہ اس میں پیٹ گھڑے کی طرح بہت بڑا سا دکھائی دیتا ہے اور آگے نکلا ہؤا نظر آ رہا ہے۔ مَیں نے واپس آ کر مذاق کےطور پر کہا کہ ریل والے بہت جھوٹے ہوتے ہیں۔ اس دوست نے سمجھا کہ شاید ان سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔ وہ دریافت کرنے لگے کہ کیا بات ہے۔ مَیں نے کہا کہ بس ریلوے والے بڑے جھوٹے ہوتے ہیں۔ وہ بہت پریشان ہوئے مگر مَیں نے کہا کہ مَیں نے جو بات اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے اس کو کس طرح غلط کہہ سکتا ہوں۔ وہ دوست بہت حیران ہو رہے تھے۔ اس پر مَیں نے چودھری فتح محمد صاحب اور میاں بشیر احمد صاحب سے جو میرے ہمسفر تھے کہا کہ آؤ بات سنو۔ انہیں لے جا کر مَیں نے اس چلمچی کے آگے کھڑا کر دیا۔ انہوں نے بھی جب دیکھا کہ ان کا پیٹ گولا سا بنا ہؤا آگے نکلا ہؤا نظر آ رہا ہے تو مَیں نے ان سے کہا کہ کیا ریل والے سچ بولتے ہیں ۔انہوں نے کہا نہیں۔ اس پر اس دوست کو اور بھی فکر ہؤا۔ تب مَیں نے انہیں لا کر سامنے کھڑا کیا تو انہیں معلوم ہؤا کہ مَیں مذاق کے طور پر بات کر رہا تھا۔ تو آئینے بھی مختلف اشکال ظاہر کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک پریشان دماغ بھی ایک نقشہ کھینچ لیتا ہے اور خداتعالیٰ کو ایک رنگ دے لیتا ہے۔ اور پھر سمجھتا ہے کہ وہی ٹھیک ہے جو وہ دیکھ رہا ہے حالانکہ اس کی مثال اس بچہ کی ہوتی ہے جسے کسی ایسے شیشہ کے سامنے اگر لا کر کھڑا کر دیا جائے جو شکل ٹھیک نہیں دکھاتا اور وہ اس میں کسی شخص کی شکل کو دیکھے تو وہ یہی سمجھے گا کہ جس شخص کی شکل وہ دیکھ رہا ہے اس کی توند بہت موٹی ہے۔ اور اگر اس نے اسے پہلے نہ دیکھا ہؤا ہو تو وہ سمجھے گا کہ اس شخص کی شکل واقعی ایسی ہے۔ تو مختلف مذاہب نے اللہ تعالیٰ کے مختلف نام تجویز کئے ہوئے تھے جس سے دنیا میں عجیب تشویش پیدا ہو گئی تھی اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے دماغ میں اللہ تعالیٰ کی عجیب شکلیں اختیار کر رکھی تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ خداتعالیٰ کی احدیت میں فرق پڑنے لگا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مبعوث فرمایا اور آپ کے ذریعہ سب قسم کی اصطلاحوں اور ناموں کو ایک ذات میں جمع کر دیا ۔ گویا اللہ تعالیٰ نے باقی سب آئینے توڑ کر صرف ایک لے لیا اور اسی میں دیکھناشروع کیا جو چونکہ صحیح تھا اس لئے اس میں صرف ایک ہی شکل نظر آتی تھی اور اس طرح ہر ایک اس کا صحیح اندازہ کرنے کے قابل ہو گیا۔ گو بعض نے پھر بھی دھوکا کھایا مگر یہ دھوکا نظر کی کمزوری کی وجہ سے ہے۔ تو آئینہ کی صحت بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔
دنیا کے لئے ایک مذہب پیش کر کے اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کو مضبوط کیا لیکن اس توحید کوقائم رکھنے کے لئے قلب کی صفائی بہت ضروری ہے۔ مجھے یاد ہے مَیں بہت چھوٹا تھا جب میں نے رؤیا دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے سامنے آیا اور اس نے ایک تقریر شروع کی۔ جس میں کہا کہ انسان کا دل خداتعالیٰ کے لئے بطور آئینہ کے ہے۔ وہ اس میں اپنی شکل دیکھتا اور پتہ لگاتا ہے کہ اس میں نقص ہے یا خوبی ہے۔ اور جیسی اسے اس میں شکل نظر آتی ہے ویسا ہی وہ آئینہ کو سمجھتا ہے۔ جس طرح عورتیں سنگار کے لئے اور شکل دیکھنے کے لئے آئینہ استعمال کرتی ہیں مگر اسی وقت تک جب تک وہ صحیح صحیح شکل دکھاتا ہے مگر جب وہ خراب ہو جاتا ہے ، چاندی اتر جاتی ہے اور وہ شکل کو بگاڑ کر دکھاتا یا بالکل نہیں دکھاتا اور بجائے حسن ظاہر کرنے کے بدصورت اور بدنما کر کے دکھاتا ہے تو وہ اسے اٹھا کر زمین پر مارتی ہے (یہ کہتے ہوئےفرشتہ نے بھی اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا اور اس آئینہ کو جو اس کے ہاتھ میں تھا زمین پر دے مارا۔ وہ چھن کر کے چکنا چور ہو گیا اور وہ چھن کی آواز بھی میرے کان میں پڑی) اور اس فرشتہ نے کہا کہ وہی آئینہ جسے عورت اپنا حسن دیکھنے کے لئے استعمال کرتی ہے مکدّر ہو جانے پر وہ اسے چور چور کر دیتی ہے۔ یہی حال بندہ اور اللہ تعالیٰ کا ہے ۔ جب انسان کا دل صاف آئینہ کی طرح نہیں رہتا اور اللہ تعالیٰ کی شکل اس میں خراب نظر آتی ہے تو وہ اسے بے پروائی سے زمین پر پھینکتا اور چکناچور کر دیتا ہے۔ پس قلب انسانی ایک آئینہ ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنا جمال دیکھتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے تمام آئینوں کو ایک رنگ میں ڈھال دیا۔ ایران، عرب، ہندوستان، افریقہ، امریکہ، یورپ سب کے لئے ایک ہی قسم کی اصطلاحیں دیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی توحید کو صحیح رنگ میں قائم کیا۔
یہ توحید کا پہلا مقام ہے۔ دوسرا مقام یہ ہے کہ تبلیغ کو اس قدر وسیع کیا جائے کہ دنیا کی کثرت توحید پر قائم ہو جائے۔ توحیدکا دوسرا حصہ اشاعت کا ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ یہ خیالات کی جو یکسوئی پیدا کی گئی ہے اسے پھیلایا جائے اور سب انسانوں کو اس کے حلقہ میں لے لیا جائے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے سب انبیاء سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں پیشگوئیاں کرا دیں تا لوگ یہ پتہ لگا سکیں کہ اس زمانہ میں نجات اس شخص سے وابستہ ہے اور اسی لئے یہ سورۃ بھی قرآن کریم کے آخر میں رکھی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ صحیح توحید کو اس رنگ میں دنیا پر قائم کرنا ہماری جماعت کا کام ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متبعین کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی احدیت کو دنیا میں ثابت کریں اور یہ ایسا کام ہے جو اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ دل کے آئینے صاف نہ ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی تصویر ان میں نظر آئے۔ اگر ہمارے دل کے آئینے صاف نہ ہوں اور وہ مختلف اقسام کی شکلیں دکھائیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ جو اور لوگ اس جماعت میں آئیں گے وہ بھی نئی نئی شکلیں ہی دکھائیں گے۔ تو توحید کامل کے لئے قلب کی صفائی بہت ضروری ہے۔ خداتعالیٰ کی صفات کا ظہور ہمارے ہی ذریعہ سے دنیا کے سامنے آتا ہے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہمارے قلب کے آئینے بالکل صاف ہوں۔ توحید الٰہی کو انسان کا قلب ہی ظاہر کر سکتا ہے۔ قلب انسانی جب پاک ہونے لگتا ہے تو ساتھ ہی وہ بلند بھی ہوتا جاتا ہے حتّٰی کہ اس مرکز اور منبع تک پہنچتا ہے جہاں سے یہ دریا چلتا ہے اور وہ ہر چیز میں خداتعالیٰ کا ہاتھ کام کرتا ہؤا دیکھنے لگ جاتا ہے۔ پہلے تو وہ سمجھتا ہے کہ یہ مخلوق آپ ہی آپ ہو گئی ہے مگر پھر وہ بلند ہو کر دیکھتا ہے کہ خداتعالیٰ کے ہاتھ ہر چیز کو پیدا کرتے ہیں ۔ پہلے وہ سمجھتا ہے کہ یہ ہوا جس میں وہ سانس لے رہا ہے خودبخود ہی موجود ہو گئی مگر جب وہ بلندی تک پہنچتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ دراصل ایک قادر خدا ہے جو پھونکیں مارتا اور اس طرح ہوا پیدا ہوتی ہے اور اس مقام پر پہنچ کر اسے احدیت کا احساس ہوتا ہے۔ ورنہ جہاں تک انسان کا علم ہے وہ تو صرف علّت تک ہی جاتا ہے۔ علّت و معلول اور سبب و مسبّب کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کی طاقت انسان میں نہیں حتّٰی کہ دل کی آنکھیں کھلیں اور وہ محسوس کر لے کہ اللہ تعالیٰ کی احدیت ہی دراصل دنیا کو پیدا کرنے والی ہے ۔ علت و معلول علیحدہ چیز ہے اور مخلوقات علیحدہ چیز ہے۔ مگر یہ مقام قلب کی صفائی سے حاصل ہوتا ہے۔
پس مَیں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہم اس مقصد کو جو اس سورۃ میں بیان کیا گیا ہے تب تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ اپنے دلوں کو اتنا صاف نہ کر لیں اور روحوں کو اتنا بلند نہ کر لیں کہ خداتعالیٰ کا وجود مخلوق سے بالکل جدا ہو کر نظر آنے لگے۔ اسی صورت میں دنیا میں خالص توحید کا قیام ہو سکتا ہے۔ ہم دنیا میں جو کچھ کانوں سے سنتے اور آنکھوں سے دیکھتے ہیں وہ سب ہمیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت تک لے جاتا ہے، احدیت تک نہیں۔ یہی دھوکا ہے وحدانیت کا جس سے بعض مسلمان یہ سمجھنے لگے کہ آنحضرت ﷺ بھی خداتعالیٰ کی صفات رکھتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک صاحب یہاں بڑا آتے تھے ۔ وہ روزانہ یہ بحث کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ عالم الغیب تھے۔ ان کے سر پر رومی ٹوپی تھی۔ ایک دن ایک شخص نے اسے بلایا اور کہا کیاتم سمجھتے ہو کہ آنحضرت ﷺ کو اس کا علم ہؤا اس شخص نے بغیر کوئی شرم محسوس کئے کہہ دیا ہاں ضرور ہؤا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ لوگ وحدانیت تک جاتے ہیں احدیت تک نہیں پہنچتے کہ جس پر پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ بے شک انسان بھی ایک حد تک خالق ہے، رازق ہے مگر پھر بھی خداتعالیٰ الگ ہے اور مخلوق الگ ہے۔ دونوں میں کوئی اتحاد ذاتی ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں تو اشتراک ہے اور واحد ہونے کا لفظ ہم دوسروں کے لئے بھی بول سکتے ہیں۔ ہم رسول کریم ﷺ کے متعلق کہتے ہیں کہ آپ نے تنِ تنہا دنیا کا مقابلہ کیا۔ ہم کہتے ہیں فلاں شخص اکیلا گھر میں ہے ان فقروں کا اگر عربی میں ترجمہ کریں تو واحد کا لفظ استعمال کریں گے، احد نہیں کہہ سکتے۔ احد کے معنے یہ ہیں کہ دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ توحید ہے جسے ہم نے دنیا میں قائم کرنا ہے اور یہ اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک ایمان کامل نہ ہو اور یہ بات اچھی طرح ذہن نشین نہ ہو جائے کہ خداتعالیٰ کا اصل مقام احدیت کا ہے اور انسان کو جیسا اتحاد باللہ وحدانیت کے لحاظ سے ہے احدیت سے نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جو انبیاء کو ان کے مقام پر رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ بعض لوگ احدیت کے اس مقام کو نہیں سمجھتے اور دھوکا کھا جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بعض نیک بندوں نے اس مقام کی وجہ سے بڑی بڑی تکالیف اٹھائی ہیں۔ حضرت اسماعیل شہیدؒ کو بعض لوگ بُرا بھلا کہہ دیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے جو غلوّ سے کام لیا تو آپ نے کہا کہ خداتعالیٰ کے مقابلہ میں نبیوں کی حیثیت ایسی ہوتی ہے جیسی شریف النسب انسان کے مقابلہ میں ایک چوہڑے کی۔ 2 لوگوں نے اسے کفر قرار دیا ہے حالانکہ انہوں نے یہ احدیت کا مقام بیان کیا ہے جو بہت بلند ہے ۔ اگر انسان اس مقام کو سمجھ لے تو یہ سب مدارج اسے ایک جداگانہ چیز نظر آنے لگتے ہیں او وہ اچھی طرح سمجھنے لگتا ہے کہ اس مقام کے مقابل پر نبی اور ولی کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے ان کے مدارج کا تعلق وحدانیت سے ہے احدیت سے نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی صفات کا خاص پرتَو ڈالتا ہے ۔ دنیا میں مختلف لوگ اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات کے مظہر ہوتے ہیں۔ کوئی صفتِ رزاق کا، کوئی ستار اور کوئی غفار کا مظہر ہوتا ہے مگر یہ سب مظاہر اللہ تعالیٰ کی صفات کے ہیں، ذات کے نہیں۔
پس توحیدِ کامل کے لئے قلبی صفائی کی سخت ضرورت ہے۔ اگر قلبی آئینے صاف نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کی مختلف اشکال دکھاتے ہیں۔ جس سے اس کی صفات کے متعلق غلطی لگ جاتی ہے اور اس کی حقیقی شان ظاہر نہیں ہو سکتی اور قلبی صفائی کے لئے یہ چیز ضروری ہے کہ ہم اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اتنی بڑھائیں کہ احدیت کا مقام صاف نظر آنے لگے ۔ اگر وہ خود ہمیں نظر آئے تو ہم دنیا کو بھی دکھا سکتے ہیں لیکن اگر ہمیں خود بھی نظر نہ آئے تو ہم ناقص توحید پھیلانے والے ہوں گے اور ہمارے دعوے صرف مُنہ کے دعوے ہوں گے حالانکہ مُنہ سے تو عیسائی بھی اللہ تعالیٰ کو ایک ہی کہتے ہیں اور اسی طرح اگر ہم بھی مُنہ سے کہہ دیں تو اس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکل سکتا۔
پس ہماری جماعت کے جو دوست شوریٰ کے لئے جمع ہوئے ہیں وہ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ ہمارا اصل مقصد یہی ہے کہ خداتعالیٰ کی احدیت کو محسوس کریں اور اسے پہچانیں اور پھر دوسروں کو دکھائیں اصل مقام احدیت کا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سورہ کو قرآن کریم کے آخر میں رکھ کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں توحید کامل کو دنیا میں پیش کیا جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کو ثابت کر کے توحید کامل کے رستہ میں جو روک تھی اسے دور کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اس مسئلہ پر بہت زور دیا کرتے تھے۔ رات دن یہی ذکر فرماتے رہتے تھے مجھے یاد ہے ایک دفعہ کسی نے کہا کہ حضور اس مسئلہ کو اب چھوڑ بھی دیں تو حضور کو جلال آ گیا اور فرمایا کہ مجھے تو اس کے متعلق بعض اوقات اتنا جوش پیدا ہوتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں شاید جنون نہ ہو جائے۔ اس مسئلہ نے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور ہم جب تک اسے پیس نہ ڈالیں گے آرام کا سانس نہیں لے سکتے۔ اب بھی بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ کیا مسئلہ ہے؟ مگر یہ احدیت کے رستہ میں روکیں ہیں جنہیں دور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس قدر جوش تھا اور یہی وہ جوش تھا جس نے خداتعالیٰ کے فضل کو کھینچا اور صداقت کے لئے بنیاد قائم کر دی اور ہم میں سے ہر ایک جسے اسلام سے محبت ہے سمجھ سکتاہے کہ یہ محض ایک چنگاری ہے اُس آگ کی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں تھی۔ اگر کوئی محسوس کرتا ہے کہ اس کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت اور اسلام کو پھیلانے کی تڑپ ہے تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ محض ایک چنگاری ہے اُس آگ کی جو حضور علیہ السلام کے دل میں تھی۔ پس ہماری تمام تر کوششیں اس نقطہ پر گھومنی چاہئیں اور اسی میں محصور ہونی چاہئیں۔ لیکن اگر ہم اس بات کو نہیں سمجھ سکتے تو جو کام ہم کریں گے وہ گو بظاہر توحید ہو گا مگر دراصل وہ کسی شرک کا پیش خیمہ ہوگا۔‘‘ (الفضل 18 مئی 1943ء)

1. الاخلاص:2
2. تقویۃ الایمان مع تذکیر الاخوان از حضرت محمد اسمٰعیل شہید مطبوعہ کراچی صفحہ 21میں اِس مفہوم کی یہ عبارت ہے ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہے۔ حاشیہ صفحہ 21،22 پر ہے ’’ جس طرح ایک بادشاہ کی شان کے سامنے چمار کی شان ہے اس سے بہت زیادہ ہر مخلوق کی شان خدا کی شان کے آگے کم ہے۔‘‘

15
تحریک جدید کی غرض کو سمجھو اور اپنی زندگیوں کو سادہ بنانے کی کوشش کرو
(فرمودہ 30 اپریل 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے ذریعہ ہمیں ایک ایسا کامل مذہب بخشا ہے جو ہر زمانہ اور تمام حالات کے لئے اپنے اندر رہنمائی کا سامان رکھتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ہر چیز اس کے اندر بیان کر دی ہے۔ بعض نادان اس پر یہ اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ آیا فلاں مسئلہ اس میں بیان ہے ، آیا فلاں مسئلہ اس میں بیان ہے؟ وہ یہ نہیں جانتے کہ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے انسائیکلو پیڈیا قرار نہیں دیا بلکہ انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا قرار دیا ہے۔ انسان اپنے لئے ایک غیر ضروری چیز اگر تجویز کرے تو اس کا نگران اور محافظ اس الزام کے نیچے نہیں آ سکتا کہ اس کی اس خواہش کو اس نے کیوں پورا نہیں کیا۔ باپ اپنے بیٹے کے متعلق ہمیشہ کہا کرتا ہے کہ مَیں نے اس کی سب ضرورتوں کو پورا کر دیا ہے مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ اس نے اپنے بیٹے کے لئے عیاشی کے تمام سامان بھی مہیا کر دیے ہیں۔ اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کے متعلق اوپر کے الفاظ کہے اور اس کا بیٹا یہ کہے کہ میرے باپ نے میری سب ضرورتوں کو کہاں پورا کیا ہے مَیں افیون کھانا چاہتا تھا مگر اس نے مجھے افیون مہیا کر کے نہیں دی۔ مَیں بھنگ پینا چاہتا تھا مگر اس نے مجھے بھنگ مہیا کر کے نہیں دی۔ مَیں کوکین استعمال کرنا چاہتا تھا مگراس نے مجھے کوکین مہیا کر کے نہیں دی۔تو کیا دنیا کا کوئی بھی معقول انسان اس نالائق اور بے وقوف لڑکے کی تائید کرے گا اور کہے گا کہ ہاں ٹھیک ہے۔ تمہارے باپ نے واقع میں تمہاری ضرورتوں کو پورا نہیں کیا۔ ہر شخص اسے ملامت کرے گا اور کہے گا کہ جن چیزوں کو تم اپنی ضرورتیں کہہ رہے ہو وہ یاتو زہر ہیں اور یا پھر غیرضروری چیزیں ہیں۔ ان کو ضرورتیں قرار دینا تمہاری اپنی غلطی اور بے وقوفی ہے۔ تو قرآن کریم کا دعویٰ یہ نہیں کہ وہ انسان کے لئے ہر زہریلی یا غیرمتعلق چیز مہیا کرتا ہے ۔ وہ خود کہتا ہے وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ۔ 1مومن وہ ہوتے ہیں جو لغو سے اعراض کرتے ہیں۔ پس جو چیزیں لغو ہیں وہ اس کی ضرورتیں نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح جو چیزیں مضر ہیں وہ اس کی ضرورتیں نہیں ہو سکتیں۔ اس کی ضرورتیں وہی ہیں جو جسم اور روح کی ترقی اور ان کے بقاء اور تحفظ کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور جو دنیا و آخرت میں اس کی جسمانی اور روحانی ترقیات کے لئے ضروری ہیں۔ اور جب ہم اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں تو پھر کوئی ایسی ضرورت کی بات نہیں نکل سکتی جس کا قرآن کریم میں ذکر نہ ہو اور اس نے وہ چیز بنی نوع انسان کے لئے مہیا نہ کی ہو۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ اس وقت جنگ نے ایک ایسی کیفیت دنیا میں پیدا کر دی ہے کہ جس کی وجہ سے سب لوگ حیران و پریشان ہیں اور اس مجبوری کی وجہ سے وہ پہلے جن چیزوں کو اپنی ضرورتیں قرار دیتے تھے ان کو زیادہ سے زیادہ مقید اور محدود کر رہے ہیں لیکن اسلام نے اس کا پہلے سے سامان کر دیا تھا۔ چنانچہ اس نے حکم دیا تھا کہ كُلُوْا کھاؤ بھی، وَ اشْرَبُوْا اور پیو بھی، وَ لَا تُسْرِفُوْا ۔2 لیکن اسراف مت کرو۔ اب اسراف کے صرف یہی معنے نہیں ہیں کہ اگر تمہارے لئے دو چھٹانک کھانا کافی ہو تو تم تین چھٹانک مت کھاؤ بلکہ اس کا ایک یہ مفہوم بھی ہے کہ کھانا جس غرض کے لئے ہے اس کے باہر مت جاؤ۔ کھانے کی غرض جسم کی حفاظت کرنا اور اسے وہ طاقتیں بخشنا ہوتی ہے جن سے انسان دنیا میں کام کر سکے۔
پس اگر کوئی شخص ایسا کھانا کھاتا ہے جس سے اس کے جسم کی حفاظت ہو جاتی ہے تو وہ کُلُوْا کے حکم کا پورا کرنے والا ہے لیکن اگر وہ کھانا تو اتنا ہی کھاتا ہے جتنی اسے بھوک ہوتی ہے لیکن وہ ایسی چیزیں اپنے کھانے میں شامل کر لیتا ہے جن کی جسم کو ضرورت نہیں ہوتی یا مضر ہونے کے لحاظ سے ان کا استعمال بے وقوفی ہوتا ہے تو وہ اسلامی احکام کے ماتحت اسراف کرنے والا قرار پائے گا کیونکہ اس نے کھانا زیادہ نہیں کھایا مگر اس نے کھانے کی ضروری قسموں پر زیادتی کر دی۔ اسی طرح پینا ہے دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں کے رہنے والوں کو پینے کے لئے پانی میسر نہ آ سکے۔ پانی ایسی چیز ہے جو ہر جگہ مل جاتا ہے اور دنیا کے کسی علاقہ میں اگر مسلمانوں کو پینے کے لئے پانی میسر آ جائے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ضرورت پوری ہو گئی۔ ہر مسلمان کے گھر میں ٹھنڈا پانی موجود ہوتا ہے اور یہ ایسی چیز ہے جو اسے بغیر کسی محنت اور مشقت کے مل جاتی ہے۔ اگر گھر میں پانی نہ ہو اور کنواں پاس ہو تو وہ کنوئیں سے پانی لے لیتا ہے یا جھجریاں بھر کر گھر میں رکھ لیتا ہے اور ذرا بھی محسوس نہیں کرتا کہ اس کی پینے کی ضرورت پوری نہیں ہوئی۔ لیکن یورپ کے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ اگر انہیں پینے کے لئے شراب میسر نہ آئے تو خواہ ان کے گھروں میں پانی کے گھڑے بھرے ہوئے ہوں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ انہیں پینے کی چیز نہیں ملی۔ اب بظاہر یہ بھی ایک ضرورت ہے مگر اس کے ذمہ دار خدا اور اسکے رسول نہیں ہو سکتے کیونکہ انہوں نے اس چیزکو انسانی صحت اور اس کی روح کے لئے مضر ہونے کی وجہ سے ناجائز قرار دے رکھا ہے مگر یورپین لوگوں کو اس کی یہاں تک عادت ہو گئی ہے کہ بغیر شراب کے ان کا گزارہ ہی نہیں ہو سکتا اور وہ پانی پینا یوں سمجھتے ہیں جیسے کسی کو قید کر دیا جائے ۔تو وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کی آزادی میں فرق آ گیا ۔ جس طرح ایک قیدی قید کو اپنی آزادی میں فرق لانےوالا سمجھتا ہے اسی طرح یورپین لوگوں کو اگر شراب نہ ملے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی آزادی میں فرق پیدا ہو گیا۔
مفتی محمد صادق صاحب جب ولایت گئے تو انہوں نے وہاں سے ایک قصہ لکھا ،یا یہاں واپس آ کر انہوں نے سنایا کہ ان کا انگلستان یا امریکہ میں ایک ہمسایہ بیمار ہو گیا اور انہوں نے اس کی کچھ خدمت کی۔ مفتی صاحب کے اس سلوک کا اس پر بہت ہی اثر ہؤا اور وہ بڑا ممنون ہؤا۔ جب وہ اچھا ہو گیا تو اس نے مفتی صاحب سے کہا کہ میں آ پ کا بڑا ممنون ہوں کہ آپ نے میری خدمت کی۔ اب مَیں آپ کے اس احسان کو اتارنے کے لئے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ آپ یہاں پانی بالکل نہ پیا کریں۔ میرے باپ نے صرف ایک دفعہ پانی پیا تھا اوروہ اسی وقت مر گیا ۔ اس کے بعد مَیں نے آج تک کبھی پانی نہیں پیا۔ صرف شراب پیتا ہوں۔ آپ بھی یہاں پانی استعمال نہ کیا کریں ۔ اب دیکھو اس کے نزدیک شراب ایسی ضروری چیز تھی کہ شراب کے بغیر اس کا گزارہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ مگر کون کہہ سکتاہے کہ یہ ایک طبعی ضرورت ہے۔ یہ طبعی ضرورت نہیں بلکہ بعد میں اسے اپنی ضرورت بنا لیا گیا ہے۔ ہم ہمیشہ پانی پیتے ہیں اورہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ ہمیں پانی پی کر کتنا آرام اور کس قدر راحت حاصل ہوتی ہے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کو ٹھنڈے پانی کی بڑی خواہش ہؤا کرتی تھی اور ان کا پانی پینے کا نظارہ بھی ایسا ہوتا تھا جو ہمیشہ میری آنکھوں کے سامنے رہتا ہے۔ مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے ہوئے ہوتے تھے۔ آپ کے صحابہ آپ کے اردگرد ہوتے اور آپ مختلف باتیں بیان فرما رہے ہوتے۔ جب با ت زیادہ لمبی ہو جاتی تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم فرماتے کہ بھئی کوئی بڑی مسجد کے کنوئیں سے جا کر پانی لے آئے۔ ان دنوں اس مسجد کے کنوئیں کا پانی بہت ٹھنڈا سمجھا جاتا تھا ۔ اس پر کوئی نوجوان اٹھتا اور وہ اس بڑی مسجد سے پانی لے کر پہنچ جاتا۔ مولوی عبدالکریم صاحب لوٹے کو ہی مُنہ لگا دیتے اور پانی پینا شروع کر دیتے۔ ان کا پانی پینا خود اپنی ذات میں ایک بڑا خوشکن نظارہ ہوتا تھا اور جس لطف سے وہ پانی پیتے تھے وہ مجھے آج تک نہیں بھولتا۔ وہ پانی کے بڑے بڑے گھونٹ بھرتے اور غڑپ غڑپ کی آواز سنائی دیتی اور بار بار اَلْحَمْدُ لِلہ اَلْحَمْدُ لِلہ کہتے۔ دو چار گھونٹ پی لیتے تو کہتے اَلْحَمْدُ لِلہ۔ پھر دو چار گھونٹ پیتے اور کہتے اَلْحَمْدُ لِلہ۔ غرض وہ پانی پینے میں ایسی راحت محسوس کرتے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کی ساری نعمتیں اس کنوئیں کے پانی میں شامل کر دی گئی ہیں۔ یہ نتیجہ تھا اس قناعت کا جس کو جسم کی صحت کے متعلق قرآنی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے اپنا معیار مقرر کر لیا تھا۔ اب ایسے علاقوں میں جہاں لوگ پانی پینے کے عادی ہوتے ہیں اگر شراب نہیں ملتی تو کسی کو خیال بھی نہیں آ سکتا کہ کوئی تکلیف پہنچ رہی ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یورپین قومیں باوجود اس کے کہ جنگ ہو رہی ہےاور چیزوں میں تو کمی کر رہے ہیں مگر شراب کے متعلق اب تک ان کا یہی خیال ہے کہ سپاہیوں کو شراب ضرور ملنی چاہیئے۔ بلکہ مجھے حیرت ہوئی کہ پچھلے دنوں پنجاب گورنمنٹ نے اعلان کیا کہ اگر گھر میں چوبیس خالی بوتلوں سے زیادہ رکھی جائیں گی تو یہ جرم ہو گا کیونکہ سپاہیوں کے لئے شراب مہیا کرنے کے لئے بوتلوں کا ذخیرہ کافی نہیں ہے۔ اب دیکھو یہ نتیجہ اس بات کا ہے کہ پینے میں اسراف سے کام لیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو گو شراب نہیں پیتے مگر اور منشّی اشیاء کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان میں تنزل اور ادبار کے زمانہ میں بھنگ پینے کا رواج بہت زور پکڑ گیاتھا۔ سندھ میں اب تک یہ رواج پایا جاتا ہے۔ چنانچہ بعض دوستوں نے سنایا کہ جس طرح پنجاب میں پولیس والے جب کہیں جاتے ہیں تو لوگوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے لئے شربت شیرہ کا انتظام کرو اسی طرح سندھ میں پولیس والوں کی طرف سے پہلا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے لئے سردائی لاؤ۔ مطلب یہ ہوتاہے کہ بھنگ گھوٹ کر پلاؤ۔ چنانچہ ان کے لئے بھنگ گھوٹی جاتی ہے اور انہیں پلائی جاتی ہے۔ یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جو اسراف میں شامل ہیں۔ لَا تُسْرِفُوْا کا صرف یہ مطلب نہیں کہ اگر تم پانی پیو اور تمہیں ایک گلاس کی پیاس ہو تو تم دو گلاس نہ پیو ۔ یہ بھی معنے ہیں لیکن اس کے ایک اور معنے بھی ہیں اور وہ یہ کہ ہم نے تمہارے پینے کے لئے پانی مقرر کر دیا ہے یہ اور بات ہے کہ کبھی ذائقہ کی درستی یا کسی اور طبعی ضرورت کے ماتحت شربت پی لیا جائے یا بوتل کا استعمال کر لیا جائے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ خداتعالیٰ کا پیدا کردہ پانی ہمارے پینے کے لئے کافی نہیں۔ یوں تو ہم میں سے ہر شخص کبھی لیمونیڈ استعمال کر لیتا ہے ، کبھی شربت بنا کر پی لیتا ہے مگر یہ نہیں ہوتا کہ اگر لیمونیڈ یا شربت نہ ملے اور انسان سفر پر ہو یا کسی ایسے علاقہ میں ہو جہاں یہ چیزیں میسر نہ آ سکتی ہوں تو ہم تکلیف محسوس کریں ہمیں اگر لیمونیڈ نہ ملے گا یا شربت نہ ملے گا تو ہمیں اس سے ذرہ بھی تکلیف نہیں ہو گی کیونکہ ہم پینے کے لئے پانی کافی سمجھیں گے لیکن شرابی کی یہ حالت نہیں ہوتی ۔ بھنگ والے کو جب تک بھنگ نہ پلائی جائے ، شراب والے کو جب تک شراب نہ ملے اور اس کا نشہ پورا نہ ہو اسے تکلیف ہی تکلیف رہتی ہے اور کسی چیز میں مزا نہیں آتا۔
غرض اسلام نے ہمارے لئے زندگی کا ایک ایسا معیار مقرر کر دیا ہے جس سے ہر زمانہ اور ہر قسم کے حالات میں ہمیں آرام رہتا ہے ۔ دیکھو اس وقت لڑائی ہو رہی ہے اور شاذونادر کے طور پر ایسا موقع بھی آ جاتا ہے جب پینے کے لئے پانی میسر نہ آئے لیکن عام طور پر ہر جگہ پینے کے لئے پانی میسر آ جاتا ہے۔ پس مومن کہیں چلا جائے اسے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہو سکتی کیونکہ پانی ہر جگہ موجود ہو گا اور وہ اسے پی کر اپنی ضرورت کو پورا کر سکے گا۔ اسی طرح پیٹ بھرنے کے لئے ہر جگہ غذائیں موجود ہوتی ہیں۔ پس انسان کو چاہیئے کہ وہ ایسی عادتیں نہ ڈالے اور ایسی غذائیں اپنے لئے تجویز نہ کر لیا کرے جن کے نہ ملنے کی وجہ سے اسے اپنے علاقہ میں یا کسی اور علاقہ میں دکھ اور تکلیف محسوس ہو۔
مَیں نے تحریک جدید کو جاری کرتے وقت اسی اصل کو مدنظر رکھا تھا۔ اور میں نے کہا تھا کہ ہمیشہ ایک کھانا کھاؤ۔ میرا مطلب یہ تھا کہ جب انسان ایک کھانا کھائے گا تو لازمی طور پر وہ ایسا ہی کھانا کھائے گا جس سے اس کا پیٹ بھرے۔ یہ تو نہیں کر سکتاکہ وہ ایک کھانا بھی کھائے اور پھر وہ کھانا ایسا ہو جو صرف زبان کے ذائقہ کے لئے ہو پیٹ بھرنے کے لئے کافی نہ ہو۔ مثلاً چٹنیاں اور مربے ایسی چیزیں ہیں جن پر انسان گزارہ نہیں کر سکتا۔ یہ صرف زبان کے ذائقہ کے لئے ہوتی ہیں۔ پس میری غرض یہ تھی کہ جب ہماری جماعت کے لوگ ایک کھانا کھانے پر آ جائیں گے تو لازماً وہ ایسا ہی کھانا کھائیں گے جو ان کا پیٹ بھرے۔ ان کھانوں کو چھوڑتے چلے جائیں گے جو محض ذائقہ کی درستی کے لئے ہوتے ہیں۔ جو لوگ کئی کھانوں کے عادی ہوتے ہیں وہ بعض ایسے کھانے بھی اپنے دسترخوان پر لے آتے ہیں جن کا پیٹ بھرنے سے تعلق نہیں ہوتا۔ صرف زبان کے چسکہ سے تعلق ہوتا ہے۔ ورنہ ایک کھانا کھانے والے ہمیشہ ایسا ہی کھانا کھاتے ہیں جن سے ان کا پیٹ بھر جائے۔ زبان کے ذائقہ کے لئے وہ کسی اور کھانے کی طرف نہیں جاتے۔ صرف مُلّا لوگوں کے متعلق مَیں نے سنا ہے کہ وہ بعض دفعہ خالی فرنی پر گزارہ کر لیتے ہیں اور اتنا کھاجاتے ہیں کہ انہیں کسی اورکھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن عام طور پر خالی فرنی پر لوگ گزارہ نہیں کر سکتے۔ اس لئے لازمی طور پر انہیں روٹی سالن یا چاول سالن تیار کرنا پڑتا ہے اور بقیہ کھانوں سے وہ بچ جاتے ہیں۔ کیونکہ روٹی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کا پیٹ بھرنے کے لئے کافی ہے۔ خواہ گیہوں کی روٹی ہو یا جَو کی، باجرے کی ہو یا مکّی کی، بہرحال روٹی پیٹ بھرنے کے لئے کافی ہوتی ہے اور اس طرح ایک کھانا کھانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان ان کھانوں کو چھوڑ دیتا ہے جو محض زبان کے ذائقہ کے لئے ہوتے ہیں، پیٹ بھرنے کے لئے نہیں ہوتے اور ان کھانوں کو اختیار کرتاہے جو پیٹ بھر دیتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں آج کل یورپ میں بڑا شور اس بات پر ہے کہ لوگوں کو ہوٹلوں میں دو دو تین تین کھانوں سے زیادہ کھانے نہیں ملتے اور ان کے لئے یہ امر بڑی تکلیف کا موجب ہے لیکن ہمیں خداتعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید کے ماتحت جو درحقیقت احیاء تھا رسول کریم ﷺ کی تعلیم کا ایک کھانا کھانے میں ذرا بھی گھبراہٹ اور تکلیف محسوس نہیں ہوتی کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک کھانا کھانے سے ہماری ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ تعیّش کے سامان ہم نے اپنے لئے پیدا ہی نہیں کئے کہ ان کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں تکلیف محسوس ہو۔
غرض اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے ہمارے لئے ایسی آسانی پیدا کر دی ہے کہ جو بات ان کے لئے تکلیف کا موجب ہے وہ ہمارے نزدیک نہ صرف تکلیف کا موجب نہیں بلکہ ہم اسے بھی تعیّش قرار دیتے ہیں۔ آج کل اخبارات میں بڑے بڑے لوگوں کی دعوتوں کا ذکر چھپتا ہے اور لکھا ہوتا ہے کہ یہ دعوت اتنی سادہ تھی، اتنی سادہ تھی کہ حد ہو گئی۔ صرف شوربا تھا، پنیر تھا، کچھ کباب تھے اور کچھ سیلڈ تھا۔ اس طرح وہ تین چار کھانے گن دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ سادگی کی حد ہو گئی۔ فلاں بادشاہ یا فلاں پریذیڈنٹ کے ہاں دعوت ہوئی اور اس دعوت میں صرف تین چار کھانے تیار ہوئے۔ حالانکہ اگر ہم اسلامی طریق پر چلیں تو اتنے کھانے ہمارے نزدیک زمانۂ امن کی بڑی بھاری دعوتوں میں ہونے چاہئیں۔ روزانہ استعمال کے لئے اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ دال روٹی یا سالن روٹی یا دال یا سالن کے ساتھ چاول ہوں اور وہ کھانے کے لئے مل جائیں بلکہ ہمارے ملک میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اس سے بھی محروم رہتے ہیں۔ انہیں نہ دال میسر آتی ہے اور نہ گوشت ۔ وہ صرف اچار سے روٹی کھا لیتے ہیں یا لسّی کے ساتھ روٹی کھا لیتے ہیں۔ چنانچہ جن جن علاقوں میں اسلامی تمدن زیادہ عرصہ تک جاری رہا ہے وہاں یہی پرانا طریق اب تک جاری ہے۔ سندھ میں چونکہ ایک لمبے عرصہ تک اسلامی حکومت رہی ہے اس لئے وہاں اب تک یہ دستور ہے کہ غرباء لسّی کے ساتھ باجرے کی روٹی کھا لیتے ہیں اور اُمراء دودھ کے ساتھ باجرے کی روٹی کھا لیتے ہیں۔
ایک دفعہ مَیں نے کچھ زمین خریدنے کے لئے ایک افسر کو مقرر کیا۔ وہ افسر زمین خریدنے کے لئے میر خاندان کے اس فرد کے پاس پہنچا جس سے سودا ہونا طے ہؤا تھا۔ (میر خاندان سندھ پر ایک لمبے عرصہ تک حکومت کر چکا ہے اور اب بھی اس خاندان کے افراد اچھے بڑے زمیندار ہیں)۔ اتفاق ایسا ہؤا کہ میر صاحب اس وقت گھر پر نہیں تھے اور گو وہ ایسے بڑے زمینداروں میں سے نہیں مگر گورداسپور کے علاقہ کے لحاظ سے وہ اچھے بڑے زمیندار ہیں اور ان کی پندرہ سولہ سو ایکڑ نہری زمین ہے ۔ وہ چونکہ گھر پر نہیں تھے اس لئے یہ ان کی بیٹھک میں جا کر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک لڑکی آئی ۔ اس کے ہاتھ میں کٹورا تھا اور کٹورا ایک کپڑے سے ڈھکا ہؤا تھا جس کے اندر کوئی چیز تھی۔ وہ کہتے ہیں مَیں نے سمجھا کہ یہ تھال ہے اورانہوں نے تھال پر کپڑا لپیٹ کر کٹورے کو ڈھانکا ہؤا ہے۔ لڑکی کٹورا رکھ کر اندر چلی گئی۔ مَیں نے دیکھا تو اس میں دودھ تھا۔ مَیں نے سمجھا کہ شاید گھر والوں نے ناشتہ کے طور پر دودھ بھجوایا ہے۔ چنانچہ مَیں نے دودھ پی لیا۔ میر صاحب کو آنے میں دیر ہو گئی اور وہ دو تین گھنٹہ کے بعد پہنچے۔ آتے ہی انہوں نے کہا کہ مولوی صاحب آپ نے کھانا کھا لیا ہے۔ مَیں نے کہا نہیں۔ کہنے لگے کیا ابھی تک کھانا نہیں آیا۔ مَیں نے کہا نہیں آیا۔ خیر وہ اندر گئے اور انہوں نے گھر والوں سے کہا کہ اب تک کھانا کیوں نہیں بھجوایا اور خواہ مخواہ مجھے شرمندہ کروایا ہے۔ وہ دوست کہتے ہیں کہ میں بھی ان کی آپس کی باتیں سن رہا تھا۔ گھر والوں نے کہا کہ کھانا تو دو تین گھنٹے ہوئے ہم بھجوا چکے ہیں۔ وہ کہنے لگے بھجوایا کہاں ہے۔ میں ابھی پوچھ کر آیا ہوں اور وہ کہتے ہیں کہ کھانا نہیں آیا۔ بیوی کہنے لگی کہ مَیں نے فلاں لڑکی کے ہاتھ کھانابھجوایاتھا اور وہ ان کے پاس چھوڑ کر آ گئی تھی۔ خیر وہ پھر واپس آئے اور انہوں نے کٹورے کو پڑا ہؤا دیکھا۔ کٹورا چونکہ ڈھکا پڑا تھا اس لئے انہوں نے کپڑا اٹھا کر دیکھا تو کٹورا خالی تھا۔ کہنے لگے مولوی صاحب آپ نے دودھ پیا ہے۔ میں نے کہا دودھ تو پی لیا ہے مگر کھانا نہیں کھایا۔ انہوں نےاس کپڑے کو جوکٹورے پر رکھا ہؤا تھا کھولا تو میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی کہ جسے مَیں تھال سمجھ رہا تھا وہ باجرے کی روٹی نکل آئی۔ گویا گھر والوں نے کھانے کے لئے باجرے کی روٹی اور ساتھ دودھ کا کٹورا بھیج دیا اور سمجھ لیا کہ ان کو اس سے زیادہ اور کس چیز کی ضرورت ہے۔ آخر میر صاحب بھی سمجھ گئے کہ کیا بات ہوئی ہے اور انہوں نے گھر جا کر کہا کہ یہ لوگ اس کھانے کے عادی نہیں ہیں ان کے لئے چاول پکوا کر بھجواتے تو وہ سمجھتے کہ ان کے لئے کھانا آیا ہے۔ اب دیکھو کہ ان کی سندھ میں پندرہ سو ایکڑ زمین ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ ساٹھ مربعوں کے مالک ہیں۔ اگر کسی پنجابی کے پاس ساٹھ مربعے ہوں تو اس کا دماغ پھر جاتا ہے۔ عام طور پر ہمارے ہاں زمینداروں میں یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں صاحب بڑے رئیس ہیں ان کے پاس چار مربعے ہیں یا پانچ مربعے ہیں مگر ان کے پاس ساٹھ مربعے تھے اور زمین بھی نہری تھی۔ مگر باوجود اس کے ان کی غذا یہی تھی کہ دودھ کے ساتھ باجرے کی روٹی کھا لی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ سندھ میں دیر تک اسلامی حکومت رہی ہے اور چونکہ سندھ ایک اسلامی ملک تھا اس لئے کھانے پینے کے معاملہ میں مسلمان اس قدر اسراف سے کام نہیں لیتے تھے جس قدر اسراف سے وہ لوگ کام لیا کرتے تھے جو غیرممالک میں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے لوگ بڑے مہمان نواز ہیں اور ان میں مہمان نوازی کی عادت بہت حد تک پائی جاتی ہے۔ اور یہ صرف سندھ پر منحصر نہیں۔ جس جس ملک میں مسلمان زیادہ ہیں وہاں مہمان نوازی کی عادت لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اسراف نہیں کرتے۔ مہمان گھر پر آ جائے تو انہیں ذرا بھی گھبراہٹ محسوس نہیں ہوتی اور جو کچھ گھر میں پکا ہو وہ اس کے سامنے لا کر رکھ دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں غیرمذاہب کے اثر کے نیچے مہمان نوازی کا جذبہ بہت کم ہو گیا ہے اور ہر شخص خواہ اسے کتنی بڑی تنخواہ ملتی ہو یہ سمجھتا ہے کہ میرا گزارہ اس تنخواہ میں نہیں ہو سکتا۔ کسی کو اگر ہزار روپیہ تنخواہ ملتی ہے تو وہ فوراً حساب لگا لیتا ہے کہ ڈیڑھ سو روپیہ کوٹھی پر خرچ آئے گا، ڈیڑھ دو سو ملازموں کی تنخواہوں پر صَرف ہو جائے گا۔ پھر اپنا دھوبی رکھنا پڑے گا جو کپڑے دھوئے گا، اپنا نائی رکھنا پڑے گا جو روزانہ ڈاڑھی مونڈے گا۔ پھر اتنا روپیہ بیوی کے عطروں اور پوڈروں اور فیتوں پر خرچ آئے گا اور اس قدر روپیہ فرنیچر پر صَرف ہوگا۔ غرض اسی طرح وہ حساب لگاتا چلا جاتا ہے اور آخر میں اسے معلوم ہوتا ہے کہ آمد تو ہزار روپیہ ہے مگر میرا خرچ گیارہ بارہ سو روپیہ ہے یا آمد پانچ سو روپیہ ہے تو خرچ سات سو روپیہ ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ہاں جب کوئی مہمان آ جاتا ہے اسے دیکھتے ہی اس کی جان نکل جاتی ہے کہ میں تو آگے ہی مقروض ہوں اسے کھانا کہاں سے کھلاؤں۔ اسی وجہ سے خصوصاً شہر بہت ہی بدنام ہیں۔ لاہو کے متعلق تو عام لطیفہ مشہور ہے کہ جب کسی کے ہاں مہمان آتا ہے تو وہ پہلے اس سے یہ دریافت کرتا ہے کہ آپ کس گاڑی سے واپس جائیں گے اور جب ریل کا وقت قریب آتا ہے تو میزبان کھانا لانے میں عمداً دیر کر دیتا ہے اور جب بہت ہی تھوڑا وقت رہ جاتا ہے تو وہ آ کر کہتا ہے کہ صاحب کھانا بھی تیار ہے اور ریل بھی تیار ہے۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ریل کا وقت سن کر کھانا کہاں کھائے گا۔ یہی کہے گا کہ اگر ریل کا وقت ہو گیا ہے تو پھر مَیں کھانا نہیں کھاتا۔ ایسا نہ ہو میں رہ جاؤں۔ غرض لاہور کے متعلق یہ لطیفہ عام طور پر مشہور ہے مگر اس سے مراد لاہور کے اصلی باشندے ہیں۔ باہر سے آنے جانے والے جو وہاں ٹھہرتے ہیں ان میں کچھ مدت تک مہمان نوازی کی عادت قائم رہتی ہے۔ ایسے موقعوں پر بعض لوگ ڈھیٹ بن کر کہہ دیا کرتے ہیں کہ بہت اچھا آپ کھانا لے آئیں ہم کسی اور گاڑی پر روانہ ہو جائیں گے۔ یہ سن کر وہ اس وقت کھانے کے انتظام کے لئے دوڑتے ہیں کیونکہ درحقیقت انہوں نے پہلے کھانا تیار نہیں کیا ہوتا۔ گو اس لطیفہ میں مبالغہ ہو گا اور یقیناً ہے کیونکہ کسی ملک یا کسی شہر کے تمام افراد کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ جذبۂ مہمان نوازی سے عاری ہیں۔ مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شہریوں نے اپنی ضرورتیں اتنی بڑھا لی ہیں، اتنی بڑھا لی ہیں کہ نیک کاموں پر خرچ کرنے کے لئے انہیں اپنی تنخواہوں میں گنجائش ہی نظر نہیں آتی مگر جن لوگوں نے تحریک جدید کے مطالبات پر عمل کیا ہے انہیں جنگ کے باوجود خداتعالیٰ کے فضل سے کوئی تکلیف نہیں۔ مَیں لوگوں سے کئی دفعہ سنتا ہوں کہ سونا اب سو روپے تولہ ہو گیا ہے، اب ہم زیورات کس طرح بنوائیں۔ مگر مَیں نے آج تک کسی احمدی کو اس رنگ میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ اس بات پر تو افسوس کا اظہار کر دیتے ہیں کہ جب سونا ساٹھ روپے تولہ تھا اس وقت ہم نے فلاں زیور کیوں فروخت کیا۔ اب فروخت کرتےتو زیادہ روپیہ مل جاتا مگر مَیں نے کسی احمدی کے مُنہ سے یہ نہیں سنا کہ اب سونا سخت مہنگا ہو گیا ہے، نئے زیورات کس طرح بنوائیں۔ یہ اسی لئے ہے کہ تحریک جدید کے ماتحت ہماری جماعت کے قلوب سے اسراف کی عادت خداتعالیٰ کے فضل سے نکل گئی ہے۔ مگر آج جس مضمون کی طرف مَیں خصوصیت کے ساتھ توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پہلے تو جماعت نے اس تحریک کو محض میری اطاعت کے طور پر مانا تھا مگر اب مَیں چاہتا ہوں کہ دوست اس بات کو دیکھیں کہ کس طرح خداتعالیٰ نے تحریک جدید کے زمانہ میں ہی ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں جن کے نتیجہ میں لوگ اس بات پر مجبور ہو رہے ہیں کہ اپنے حالاتِ زندگی میں تغیر پیدا کریں اور کھانے اور پینے کی چیزوں میں کمی کریں۔
پس انہیں سمجھ لینا چاہیئے کہ دنیا میں اس قسم کے زمانے بھی آتے رہتے ہیں ۔ اس لئے انہیں نہ عارضی طور پر بلکہ مستقل طور پر اپنی عادتوں میں ایسا تغیر پیدا کرنا چاہیئے اور اپنے حالات زندگی میں ایسی سادگی اختیار کرنی چاہیئے کہ زمانہ کا رنگ کیسا ہی بدل جائے انہیں کوئی دکھ اور تکلیف محسوس نہ ہو۔ مَیں نے بتایا ہے کہ جن حالات میں ہم روزانہ اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہمیں ذرا بھی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ وہ یورپین لوگوں کے لئے شدید مشکلات کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ بلکہ آج کل بھی جن حالات میں سے وہ گزر رہے ہیں وہ ہمارے نزدیک تعیّش کے سامان اپنے اندر رکھتے ہیں۔ پس دنیا کے حوادث ایک سچے مومن کے لئے کسی تکلیف کا موجب نہیں ہو سکتے۔ آخر رسول کریمﷺ سے بڑھ کر دنیا میں اور کون ہے جو اس بات کا مستحق ہو سکتا ہے کہ اسے آرام اور راحت پہنچے۔ اگر کوئی چیز فائدہ کا موجب ہو سکتی ہے ، اگر کوئی چیز ہماری زندگی کے لئے ضروری سمجھی جا سکتی ہے ، اگر کوئی چیز ایسی ہے جس سے ہم راحت اور آرام محسوس کر سکتے ہیں تو ہر مومن جس کے دل میں ایک ذرہ بھر بھی ایمان ہو وہ ہر راحت اور آرام کی چیز کو استعمال کرتے وقت اس امر کی خواہش کرے گا کہ کاش اسے اس امر کی توفیق ہوتی کہ وہ اس راحت اور آرام کی چیز کو رسول کریم ﷺ کی ذات کے لئے مہیا کر سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں جن لوگوں کے دلوں میں سچی محبت تھی انہوں نے عملی طور پر اس بات کا ثبوت دے دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق تاریخ میں آتا ہے کہ جس وقت سب سے پہلے ہوائی چکیاں آئیں اور مدینہ میں ان چکیوں کے ذریعہ میدے کی طرح نہایت باریک آٹا تیار ہونے لگا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ سب سے پہلا آٹا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا جائے تاکہ سب سے پہلے وہ اس آٹے کو استعمال کریں۔ پھر کسی اور کو استعمال کرنے کے لئے دیا جائے گا۔ وہ میدے کی طرز کا باریک آٹا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں تحفۃً بھیجا گیا اور عرض کیا گیا کہ سب سے پہلے آپ اس کی روٹی پکا کر کھائیں۔ اس کے بعد اور لوگوں کو کھانے کی اجازت دی جائے گی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آٹا پکوایا اور اس کی روٹی کھانے لگیں۔ اردگرد کی عورتیں یہ سن کر کہ ایک نئی قسم کا آٹا آیا ہے اور وہ نہایت ہی باریک ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں جمع ہو گئیں۔ ہم اس بات کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے کہ عورتیں کیوں جمع ہوئیں کیونکہ ہم مدتوں سے باریک آٹا استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں اور ہمارے لئے اس میں کوئی حیرت اور تعجب کی بات نہیں رہی۔ مگر شروع شروع میں گاؤں کے لوگ بھی بڑے حیران ہوتے تھے اور جب مشینوں سے آٹا پِس کر جاتا تو وہ اردگرد سے اس کو دیکھنے کے لئے اکٹھے ہو جاتے تھے۔ اس طرح کا ایک مجمع حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں جمع ہو گیا۔ اور محلہ کی سب عورتیں اکٹھی ہو گئیں۔ وہ پھلکوں کو ہاتھ لگاتیں اور کہتیں واہ واہ کیسے نرم پُھلکے ہیں۔ آخر وہ خادمہ جس نے پھلکے پکائے تھے اس نے ایک دو پھلکے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے رکھ دیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک لقمہ لیا اور مُنہ میں ڈالا مگر مُنہ میں لقمہ ڈالتے ہی آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ خادمہ کو شبہ پیدا ہؤا کہ کہیں روٹی میں کوئی نقص نہ رہ گیا ہو۔ وہ کہنے لگی بی بی روٹی تو بڑی نرم ہے اور بغیر سالن کے آپ ہی گلے سے اترتی جاتی ہے مگر آپ کی حالت سے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ لقمہ آپ کے گلے میں پھنس گیا ہے۔ کیا روٹی میں کوئی نقص تو نہیں رہ گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تمہارا ا س میں کوئی قصور نہیں۔ روٹی بڑی نرم ہے مگر یہ واقع میں میرے گلے میں پھنس گئی ہے کیونکہ مُنہ میں روٹی کا لقمہ ڈالتے ہی مجھے خیال آیا کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں چکیاں نہیں ہؤا کرتی تھیں اور ہم بعض دفعہ پتھر پر پتھر رکھ کر گیہوں پیس لیتے اور بسااوقات رسول کریم ﷺ کے سامنے میں ایسے ہی موٹے اور بے چھنے آٹے کی روٹی رکھا کرتی تھی۔ آج اس روٹی کا نرم نرم لقمہ میرے مُنہ میں جاتے ہی مجھے خیال آیا کہ اگر یہ چکیاں اس وقت ہوتیں تو مَیں اس آٹے کی روٹی پکا کر رسول کریم ﷺ کو کھلایا کرتی۔ یہی خیال ہے جس کے آنے سے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور یہ لقمہ میرے گلے میں پھنس گیا۔
اب دیکھ لو یہ سچے عشق کا نتیجہ ہے۔ روٹی کی نرمی میں کوئی شبہ نہیں۔ آٹے کے اچھا ہونے میں کوئی شبہ نہیں مگر جب اس نعمت کے استعمال کا وقت آیا تو جو محبوب ترین وجود تھا اس کی طرف خیال چلا گیا کہ کاش یہ نعمت ہم اس کے سامنے رکھ سکتے۔
مَیں نے کئی دفعہ اس زمانہ کے ایک عاشق کا بھی قصہ سنایا ہے۔ منشی اروڑا صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عشاق میں سے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ وہ کوشش کرتے تھے کہ ہر جمعہ یا اتوار کو قادیان پہنچ جایا کریں۔ چنانچہ انہیں جب بھی چھٹی ملتی یہاں آ جاتے اور کوشش کرتے کہ اپنے سفر کا ایک حصہ پیدل طے کریں تاکہ کچھ رقم بچ جائے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیش کر سکیں۔ ان کی تنخواہ اس وقت بہت تھوڑی تھی۔ غالباً پندرہ بیس روپے تھی اور اس میں وہ نہ صرف گزارہ کرتے بلکہ سفر خرچ بھی نکالتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھی نذرانہ پیش کرتے۔ مَیں نے ان کا ہمیشہ ایک ہی کوٹ دیکھا ہے دوسرا کوٹ پہنتے ہوئے میں نے ان کو ساری عمر میں نہیں دیکھا۔ انہوں نے تہہ بند باندھا ہؤا ہوتا تھا اور معمولی سا کرتہ ہوتا تھا۔ ان کی بڑی خواہش یہ ہوتی تھی کہ وہ آہستہ آہستہ کچھ رقم جمع کرتے رہیں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں نذرانہ عقیدت کے طور پر پیش کر دیں۔ رفتہ رفتہ وہ اپنی دیانت سے ترقی کرتے چلے گئے اور تحصیلدار ہو گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے کچھ مہینوں یا ایک سال کے بعد وہ قادیان میں آئے اور مجھے اندر کسی نے آ کر کہا کہ منشی اروڑا صاحب دروازہ پر آپ کو ملنے کے لئے آئے ہیں۔ مَیں باہر گیا انہوں نے جلدی سے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جیب میں سے (مجھے اچھی طرح یاد نہیں) تین یا چار پونڈ سونے کے نکالے اور نکال کر میرے سامنے کئے۔ جونہی انہوں نے پونڈ دینے کے لئے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا ان پر اتنی رقت طاری ہوئی کہ وہ چیخیں مار کر رونے لگ گئے اور انہوں نے اس طرح تڑپنا شروع کر دیا جس طرح ذبح کیا ہؤا بکرا تڑپتا ہے۔ میری عمر اس وقت چھوٹی تھی۔ انیس سال عمر تھی۔ میں انہیں اس حالت میں دیکھ کر گھبرا گیا کہ نہ معلوم انہیں کیا ہو گیا ہے۔ مگر میں چُپکا کھڑا رہا اور وہ روتے رہے، روتے رہے اور روتے رہے۔ کئی منٹ رونے کے بعد جب وہ اپنے نفس کو قابو کر سکے یعنی اتنا قابو کہ ان کے گلے میں سے آواز نکل سکے تو نہایت ہی کرب اور اندوہ سے انہوں نے مجھے کہا کہ میری بدقسمتی دیکھو کہ ساری عمر میرے دل میں یہ خواہش رہی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے سونا تحفہ کے طور پر پیش کروں مگر اس کی توفیق نہ ملی۔ مگر اب جو میں سونا پیش کرنے کے قابل ہؤا تو وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔ یہ کہہ کر ان پر پھر وہی حالت طاری ہو گئی اور ذبح کئے ہوئے بکرے کی طرح تڑپنے لگے اور مَیں جو اَب ان کے جذبات سے واقف ہو چکا تھا اپنے جذبات کو بصد مشکل دبا کر ان کے سامنے کھڑا رہا۔
تو اگر واقع میں دنیا کی یہ نعمتیں کوئی نعمتیں ہیں اور اگر واقع میں ان سے ہمیں کوئی حقیقی آرام پہنچ سکتا ہے تو ایک مومن کا دل ان کو استعمال کرتے وقت ضرور دکھتا ہے کہ اگر یہ نعمتیں ہیں تو پھر یہ اس قابل تھیں کہ رسول کریم ﷺ کو ملتیں۔ اور پھر آپؐ کے بعد آپؐ کے ظل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ملتیں۔
مَیں چھوٹا ہی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مجھے شکار کا شوق پیدا ہو گیا۔ ایک ہوائی بندوق میرے پاس تھی جس سے مَیں شکار مار کر گھر لایا کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام چونکہ کھانا کم کھایا کرتے تھے اور آپ کو دماغی کام زیادہ کرنا پڑتا تھا اور مَیں نے خود آپ سے یا کسی اور طبیب سے یہ سنا ہؤا تھا کہ شکار کا گوشت دماغی کام کرنے والوں کے لئے مفید ہوتا ہے اس لئے مَیں ہمیشہ شکار آپ کی خدمت میں پیش کر دیا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہی نہیں کہ اس زمانہ میں مَیں نے خود کبھی شکار کا گوشت اپنے لئے پکوایا ہو۔ ہمیشہ مَیں شکار مار کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دے دیا کرتا تھا۔ تو جب انسان کو اپنے محبوب سے محبت کامل ہوتی ہے تو پھر یا تو وہ کسی چیز کو راحت ہی نہیں سمجھتا اور یا اگر راحت سمجھتا ہے تو کہتا ہے یہ اس کے محبوب کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآن علوم کے بڑے بڑے معارف اپنے فضل سے کھولے ہیں مگر بیسیوں مواقع مجھ پر ایسے آئے ہیں جبکہ خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی نکتہ مجھ پر کھولا گیا تو میرے دل میں اس وقت بڑی تمنا اور آرزو یہ پیدا ہوئی کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یا حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے زمانہ میں یہ نکتہ مجھ پر کھلتا تو میں ان کے سامنے پیش کرتا اور مجھے ان کی خوشنودی حاصل ہوتی۔ اصل مقام تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی ہے۔ حضرت خلیفہ اول کا خیال مجھے اس لئے آیا کرتا ہے کہ انہوں نے مجھے قرآن شریف پڑھایا اور انہیں مجھ سے بے حد محبت تھی اور ان کی یہ خواہش ہؤا کرتی تھی کہ مَیں قرآن پر غور کروں اور اس کے مطالب نکالوں۔ تو یہ چیزیں جو ہیں ہمارے لئے حقیقی راحت کا موجب نہیں ہو سکتیں بلکہ اگر ہمارے عشق وابستہ ہیں بعض ایسی ہستیوں سے جو اب دنیا میں موجود نہیں تو یہ نعمتیں بجائے راحت کے ہمارے لئے تکلیف کا موجب ہو جاتی ہیں۔ جب بھی جلسہ ہوتا ہے اور لوگ دور دور سے جمع ہوتے ہیں میرے قلب پر اس وقت رقت طاری ہو جاتی ہے اس خیال سے کہ سلسلہ کی یہ عظمت اور یہ شان او راس کی یہ ترقی ہم لوگ جن کا اس ترقی میں کوئی بھی ہاتھ نہیں وہ تو دیکھ رہے ہیں مگر وہ شخص جس کے ذریعہ سے یہ سب کام ہؤا اور جس نے اس کی خاطر سب دنیا سے تکلیفیں سہیں وہ انہیں نہیں دیکھ رہا۔ تو سچی بات یہ ہے کہ محبت اور عشق کے ہوتے ہوئے یہ چیزیں کہ کہیں تعیّش کے سامان ہیں، کہیں دنیوی سامانوں کی بہتات ہے انسان کے لئے راحت کا موجب نہیں ہوسکتیں اور اس وجہ سے ان کا چھوڑنا بھی انسان کے لئے زیادہ تکلیف کا موجب نہیں ہو سکتا۔ پس ہم اگر ان چیزوں کو چھوڑ دیں تو ہمارے لئے ان کا چھوڑنا ذرہ بھی تکلیف کا موجب نہیں ہو سکتا لیکن اگر ہم ان کو چھوڑ دیں تو دنیا کے لئے جنت کی کیفیت پیدا کرنے میں ممد ہو سکتے ہیں۔ آخر یہ غربتیں اور تکلیفیں اسی وجہ سے ہیں کہ کچھ لوگ زیادہ عیاشی میں مبتلا ہوتے ہیں اور وہ کروڑوں مَن غلہ اور کروڑوں مَن انگور شرابوں کے بنانے میں صَرف کر دیتے ہیں۔ اگر وہ لوگ بھی پانی پرکفایت کرتے تو کروڑوں مَن غلہ اور انگور لوگوں کے پیٹوں میں جاتا اور اس طرح ان کو ایک مقوّی غذا بھی ملتی۔ ان کے دل کو بھی طاقت حاصل ہوتی اور ان کے دماغ کو بھی ترووتازگی حاصل ہوتی مگر انہوں نے ایک ایسی ضرورت پیدا کر لی ہے جو حقیقی ضرورت نہیں اور اس کی وجہ سے وہ دنیا کے ایک معتد بہ حصہ کو غلہ سے اور پھلوں سے محروم کر رہے ہیں ورنہ وہی غلہ اور وہی پھل کروڑوں لوگوں کی صحت اور ان کی راحت کا موجب ہوتا۔ یہی حال باقی اشیاء کا ہے۔ جتنا جتنا انسان زیادہ تکلفات اختیار کرتا ہے اتنا اتنا خود اس کی زندگی قربانی سے محروم ہوتی جاتی ہے اور دوسرے انسانوں کو بلاوجہ اس کے لئے قربانی کرنی پڑتی ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ جس کے پاس زیادہ روپیہ ہوتا ہے وہ اپنے روپیہ کے زور سے دوسروں کا حق چھیننے کی کوشش کیا کرتا ہے مثلاً گندم اور چاول ہیں یہ عام ملنےوالی چیزیں ہیں لیکن اگر کوئی شخص ایک سیر گندم کو ایک چھٹانک نشاستہ کی شکل میں تبدیل کر دیتا ہے اور وہ نشاستہ اپنے استعمال میں لاتا ہے یا کسی اور طرز پر اس کی کمیت کو کم کر دیتا ہے تو دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے 15 چھٹانک غلہ سے دنیا کو محروم کر دیا ۔ اسی طرح وہ شخص جس نے ایک سیر جَو کی شراب بنا کر ایک گلاس پی لیا اس نے ایک آدمی کو صبح اور شام کے کھانے سے محروم کر دیا۔
پس تحریک جدید درحقیقت اسلام کے احیاء کا نام ہے۔ جدید وہ صرف ان معنوں میں ہے کہ دنیا اس سے ناواقف ہو گئی تھی ورنہ درحقیقت وہ تحریک قدیم ہی ہے۔ مَیں ایک دفعہ ایک دعوت میں شامل ہؤا جو ایک انگریز افسر کے اعزاز میں دی گئی تھی۔ مَیں عموماً ایسی دعوتوں میں نہیں جایا کرتا مگر لوگوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس دعوت میں ضرور شریک ہوں۔ مَیں نے کہا مَیں نہیں جاتا کیونکہ عموماً ایسی دعوتوں میں عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں اور انگریز عورتیں مصافحہ کرنے کی کوشش کیا کرتی ہیں اور میں چونکہ اسلامی تعلیم کے ماتحت عورتوں سے مصافحہ کرنا ناجائز سمجھتا ہوں اس لئے انہیں تکلیف محسوس ہوتی ہے اور وہ اس بات میں اپنی ہتک محسوس کرتی ہیں مگر لوگوں نے کہا کہ آپ ضرور چلیں۔ ہم آپ کو الگ بٹھا دیں گے۔ خیر مَیں چلا گیا۔ یہ دعوت ایک جرنیل کی تھی۔ جب اس جرنیل کو معلوم ہؤا کہ مَیں بھی وہاں آیا ہؤا ہوں تو وہ بڑے شوق سے مجھ سے ملنے کے لئے آیا اور اپنے ساتھ اپنی بیوی کو بھی لے آیا۔ آتے ہی اس کی عورت نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اس سے طبعی طور پر اسے تکلیف ہوئی کیونکہ انگریز عورتیں اسے اپنی بڑی ہتک سمجھتی ہیں اس کے خاوند کو بھی تکلیف ہوئی اور اس نے مجھے کہا کہ مَیں تو آپ کی جماعت کے متعلق یہ سمجھتا تھا کہ یہ ایک نئی تحریک ہے اسی لئے میں اپنی بیوی کو بھی اپنے ساتھ لایا تھا۔ میں نے کہا یہ آپ کی غلطی ہے یا ہماری غلطی ہے کہ ہم آپ کو صحیح طور پر سمجھا نہیں سکے۔ ہماری تحریک تو درحقیقت پرانی ہے اور ہم تعلیم کے لحاظ سے تیرہ سو سال پیچھے جاتے ہیں۔ تو تحریک جدید اس کا نام صرف اس لئے ہے کہ دنیا اس سے ناواقف ہو چکی تھی اور یہ ہماری بدقسمتی تھی کہ ہمیں ایک پرانی چیز کو نئی کہنا پڑا کیونکہ لوگ اس سے ناواقف ہو چکے تھے اور وہ جدید نہیں بلکہ قدیم ہے۔ رسول کریمﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ نے جس طرز پر زندگی بسر کی ہم تحریک جدید کے ذریعہ اسی کے قریب قریب لوگوں کو لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آجکل دنیا کے حالات ایسے رنگ میں بدل چکے ہیں کہ ہم اپنی طرز زندگی کی بالکل وہی شکل نہیں بنا سکتے جو رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کے طرز زندگی کی شکل تھی مگر اس کے قریب قریب جس حد تک زمانہ کے حالات ہم کو اجازت دیتے ہیں ہم لوگوں کو لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے اور یہی تحریک جدید کی غرض ہے۔
پس ان ایام میں جبکہ خداتعالیٰ نے جبراً ساری دنیا میں تحریک جدید کو جاری کر دیا ہے مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ حالات جو رونما ہو رہے ہیں ان کو دیکھو، غور کرو اور سمجھو کہ اسلام کی تعلیم کس قدر رحمت کا موجب ہے۔ اگر ہمیشہ ہم اپنی زندگی رسول کریم ﷺ کے احکام کے مطابق سادہ رکھیں تو اس قسم کے حوادث ہمیں ذرا بھی تکلیف نہ پہنچا سکیں۔ آج یورپ اور امریکہ کے لوگ چلّا چلّا کر کہہ رہے ہیں کہ ہم مر گئے۔ مگر وہ جو اپنے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مر گئے ہم پہلے بھی ان سے کم کھا رہے تھے مگر باوجود اس کے ہمیں کوئی تکلیف نہ تھی اور آج بھی ان سے کم کھا رہے ہیں اور ہمیں کوئی تکلیف نہیں۔ پس اگر ایسے واقعات ہم پر آ جائیں تو ہمارے لئے کیا تکلیف کا موجب ہو سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ کوئی اندھا تھا جو رات کے وقت کسی دوسرے سے باتیں کر رہا تھا۔ ایک اور شخص کی نیند خراب ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگا حافظ جی سو جاؤ۔ حافظ صاحب کہنے لگے ہمارا سونا کیا ہے چپ ہی ہو جانا ہے۔ مطلب یہ کہ سونا آنکھیں بند کرنے اور خاموش ہو جانے کا نام ہوتا ہے۔ میری آنکھیں تو پہلے ہی بند ہیں اب خاموش ہی ہو جانا ہے اور کیا ہے۔ تو مومن کے لئے یہ حالات تکلیف کا موجب نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ کہتا ہے مَیں تو پہلے ہی ان حالات کا عادی ہوں جیسے مومن کو دنیا مارنا چاہتی ہے تو وہ کہتا ہے مجھے مار کر کیا لو گے۔ مَیں تو پہلے ہی خداکے لئے مَرا ہؤا ہوں۔ دنیا موت سے گھبراتی ہے مگر ایک مومن کو جب دنیا مارنا چاہتی ہے تو وہ کچھ بھی نہیں گھبراتا اور کہتا ہے مَیں تو اسی دن مَر گیا تھا جس دن میں نے اسلام قبول کیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ آگے میں چلتا پھرتا مُردہ تھا اور اب تم مجھے زمین کے نیچے دفن کر دو گے میرے لئے کوئی زیادہ فرق پیدا نہیں ہو گا۔
پس اگر لوگ اسلام کے احکام کے ماتحت اپنی زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں تو وہ یقیناً اس قسم کے حالات کے مقابلہ کے لئے پہلے سے تیار رہیں اور اول تو تکلیفیں آئیں ہی نہ کیونکہ یہ تکلیفیں اسی لئے آتی ہیں کہ لوگ دوسروں کا حق غصب کر لیتے ہیں ۔اگر دنیا میں کوئی شخص دوسرے کے حق کو غصب نہ کرے تو اس قسم کی تکلیفیں کبھی نہ آئیں۔ پس اول تو ایسے حالات میں تکالیف آئیں ہی نہ اور اگر آ جائیں تو سادہ زندگی کی وجہ سے لوگ اس بات کے عادی ہوں گے کہ تکالیف کو برداشت کر سکیں۔ اور اس وجہ سے باوجود تکلیف دہ ایام کے ان کو تکلیف کا کوئی احساس نہ ہو گا۔ جیسے آج کل ہم دیکھ رہےہیں کہ یورپ کے لوگوں کے نزدیک جو مشکلات ہیں وہ ہمارے لئے روزمرہ زندگی کا مشغلہ ہیں۔ اور جن کو وہ آفتیں اور مصیبتیں خیال کرتے ہیں وہ ہمارے نزدیک راحت اور آرام ہیں۔ اس لئے ان تکلیفوں کا ہمیں پتہ تک نہیں لگتا ۔ آخر لوگ آجکل کیا کہہ رہے ہیں۔ یہی کہہ رہے ہیں کہ بڑی مصیبت آ گئی پہننے کے لئے اچھے کپڑے نہیں ملتے مگر ایک مومن کے لئے یہ چیز ذرا بھی پریشانی کا باعث نہیں ہو سکتی۔ تھوڑے ہی دن ہوئے بعض نے مجھ سے کہا کہ اب کپڑوں کا ملنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ میں نے کہا پھر کیا ہؤا۔ مومن کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر کپڑا مل جائے تو وہ پہن لیتا ہے نہ ملے تو نہ سہی، پرانے کپڑوں سے پیوند لگا کر ہی گزارہ کر لیتا ہے۔ پھر میں نے کہا رسول کریم ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کے کپڑوں کو پیوند لگے ہؤا کرتے تھے۔ کیا ہم ان سے بڑے ہیں کہ اپنے کپڑوں کو پیوند نہ لگا سکیں بلکہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے پاس کپڑے بہت کم ہؤا کرتے تھے، قمیص ہوتی تھی تو پاجامہ نہیں ہوتا تھا، پاجامہ ہوتا تھا تو قمیص نہیں ہوتی تھی۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک لڑکا تھا جس نے قرآن کریم کا بہت سا حصہ حفظ کیا ہؤا تھا۔ ایک دفعہ بعض لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ فلاں جگہ لوگوں کو نماز پڑھانے کے لئے امام کی ضرورت ہے آپ نے اس لڑکے کو ہی امام مقرر کر دیا۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اگلی صفوں میں مَرد ہؤا کرتے تھے اور پچھلی صفوں میں عورتیں ہؤا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ اس نے جماعت کرتے ہوئے سجدہ سے سر اٹھاتے وقت اَللہُ اَکْبَر کہا تو ایک عورت نے اپنا سر پہلے اٹھا لیا۔ اس لڑکے کا کرتہ چھوٹا تھا اور پاجامہ کوئی تھا نہیں۔ اس عورت کی اتفاقاً نظر جا پڑی اور اس نے دیکھا کہ وہ ننگا ہو رہا ہے ۔ شروع شروع کا زمانہ تھا اس نے شور مچانا شروع کر دیا کہ ارے لوگو اپنے امام کا ستر تو ڈھانکو۔ آخر لوگوں نے چندہ کر کے اسے تہبند بنوا کر دیا۔ اب کیا تم سمجھتے ہو کہ اس لڑکے کی عزت تہبند نہ ہونے کی وجہ سے کم تھی۔ آج جو دنیا میں بڑے بڑے مالدار اور معزز لوگ دکھائی دیتے ہیں ان سے یقیناً اس لڑکے کی عزت زیادہ تھی بلکہ خدا کے نزدیک وہ ہر ایسے مالدار سے جو تقویٰ میں اس سے کم درجہ پر تھا زیادہ معزز تھا۔ ہم کسی بڑے سے بڑے مالدار کو بھی آج رضی اللہ عنہ نہیں کہتے بلکہ اگر کوئی ہمیں رضی اللہ عنہ کہنے پر مجبور بھی کرے تو ہم نہیں کہیں گے مگر اس لڑکے کے نام پر ہم سب رضی اللہ عنہ کہنے پر مجبور ہیں۔ اگر آج کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی کوئی شخص گالی دے تو ایک مومن کا دل نہیں دُکھتا لیکن اگر اس لڑکے کو کوئی شخص گالی دے تو ایک مومن کا دل زخمی ہو جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ لڑکا ہمارے محبوب آقا کا صحابی تھا۔ اس لئے ہمارے نزدیک دنیا کے کسی بادشاہ کی بھی وہ عزت نہیں جو اس لڑکے کی ہے۔
پس مَیں نے ان دوستوں کو جواب دیا کہ تم کپڑے نہ ملنے کا افسوس نہ کرو۔ صرف خداتعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہو کہ ہمارے ملک میں غلہ کم نہ ہو۔ اگر غلہ لوگوں کو میسر آتا رہے تو اسلام جو زندگی پیش کرتا ہے اس کے لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر کوئی آفت نہیں آئی۔ روٹی ایسی چیز ہے جو انسان کی زندگی کے قیام کے لئے ضروری ہے۔ اس میں کمی نہ آئے تو کوئی تکلیف انسان کو نہیں ہو سکتی ۔باقی جس قدر چیزیں ہیں وہ سب زوائد ہیں ملیں یا نہ ملیں کوئی بات نہیں۔ آجکل ولایت میں ایک کالی روٹی کہلاتی ہے جس میں کچھ غلہ اور کچھ دوسری چیزیں ملی ہوئی ہوتی ہیں اور وہ بڑا شور مچاتے ہیں کہ ہمیں کھانے کے لئے کالی روٹی ملتی ہے حالانکہ ہمارے ہاں لوگ باجرے کی خالص روٹی کھاتے ہیں اور انہیں ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ کسی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ ان کے ہاں آٹے میں اگر ذرا سی بھی ملاوٹ ہو جائے تو وہ شور مچا دیتے ہیں کہ ہم پر آفت آ گئی، ہم مر گئے، ہمیں کالی روٹی کھانے کے لئے مل رہی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں کروڑوں کروڑ لوگ ایسے ہیں جو باجرہ اور جوار کھاتے ہیں بلکہ بعض علاقوں میں مَڈّھل3 کی روٹی کھائی جاتی ہے۔ میں نے خود مڈھل کی روٹی استعمال کی ہے، بڑی سخت ہوتی ہے۔ اس کا دانہ اتفاقاً پیدا ہو جاتا ہے اور قحط کے زمانہ میں لوگ اسے استعمال کیا کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں باجرہ یا جوار یا مڈھل کھا کر لوگ شور نہیں مچاتے کہ ان کے لئے کس قدر مصیبت کا سامان پیدا ہو گیا لیکن یورپ کے لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ آج بھی ہم سے بہتر کھانے کھاتے ہیں مگر شور یہ مچا رہے ہیں کہ سخت مصیبت آ گئی۔ یہ تکلیف ان کو اسی وجہ سے ہے کہ انہوں نے اسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کیا۔ اگر وہ عمل کرتے تو وہ اپنی روٹی کو زیادہ سے زیادہ سادہ بناتے، اپنے لباس کو زیادہ سے زیادہ سادہ بناتے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف محسوس نہ ہوتی بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ لڑائی بھی نہ ہوتی کیونکہ لڑائی اسی لئے ہو رہی ہے کہ بعض قومیں دوسروں کا مال چھیننا چاہتی ہیں
پس تحریک جدید کی غرض کو سمجھو اور اپنی زندگیوں کو اور بھی سادہ بنانے کی کوشش کرو۔ اور اس امر کو اچھی طرح سمجھ لو کہ تعیّش کے سامان خواہ کس قدر کم ہوں یقینی طور پر وہ امیر اور غریب میں دوری پیدا کر دیتے ہیں ۔ہمارے ہاں عام طور پر زیادہ قیمتی قالین استعمال نہیں کئے جاتے۔ امراء کے ہاں ہوتے ہیں لیکن ایسے امراء بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ عام طور پر لوگ فرش پر دریاں یا چادریں وغیرہ بچھا دیتے ہیں لیکن باوجود اس کے کہ ان کے ہاں کوئی قیمتی قالین نہیں ہوتے۔ اگر گاؤں کی کوئی عورت آ جائے اور وہ اس فرش پر بیٹھ جائے تو وہ بُرا مناتے ہیں کہ اس کے بیٹھنے کی وجہ سے ہمارا فرش میلا ہو گیا۔ اب دیکھو یہ ایک بُعد ہے جو اس معمولی سے سامان کی وجہ سے امیر اور غریب میں پیدا ہو گیا۔ اگر یہ فرش نہ ہوتا تو اس غریب عورت کی تحقیر دل میں پیدا نہ ہوتی۔ پس ہماری کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ ہم اس بُعد کو دنیا سے مٹا دیں اور ایسے رنگ میں مٹائیں کہ جب کوئی غریب آدمی کسی امیر کے کمرے میں داخل ہو تو اس غریب کا وہاں آنا اس پر گراں نہ گزرے بلکہ اس کا دل خوش ہو کہ وہ اپنے ایک بھائی سے مل رہا ہے۔ لیکن اگر اس بُعد کو دور نہیں کیا جائے گا ، اگر امیر اور غریب میں امتیاز قائم رہے گا تو جب تمہارے گھر میں پندرہ سو ، دو ہزار یا تین ہزار کے قیمتی قالین بچھے ہوئے ہوں گے اور ایک غریب تم سے ملنے کے لئے آئے گا تو گو تم اسے تکلّف سے کہہ دو گے کہ وہ قالین پر بیٹھ جائے مگر اس کا دل اندر سے دھڑک رہا ہو گا کہ کہیں میرے بیٹھنے کی وجہ سے قالین میلا نہ ہو جائے اور یہ امیر دل میں ناراض نہ ہو جائے اور تم اپنے دل میں اس پر اور سب غرباء پر لعنتیں کر رہے ہو گے کہ یہ بدتہذیب اس امر کا بھی خیال نہیں کرتے کہ اپنے میلے کپڑوں اور میلے پاؤں سے ہمارے گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور خدا کے فرشتے یہ کہہ رہے ہوں گے کہ *** ہو ایسے قالینوں پر اور *** ہو ان قالین والوں پر جو خدا کے بندوں میں دوئی ڈال رہے ہیں۔ پس تعیّش کے سامانوں کو مٹاؤ ، اپنی زندگیوں کو سادہ بناؤ اور اس امر کو سمجھ لو کہ سادہ زندگی دلوں میں محبت پیدا کرتی اور فسادوں اور لڑائیوں کو دنیا سے دور کرتی ہے۔ مَیں پھر کہتا ہوں اپنی زندگیوں کو سادہ بناؤ اور اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرو تاکہ دنیا تمہارے لئے بھی جنت بن جائے اور تمہارے دوسرے بھائیوں کے لئے بھی جنت بن جائے۔ اے میرے رب تُو ہمیں اس کی توفیق دے۔‘‘ (الفضل 23 مئی 1943ء)

1: المؤمنون:4
2: الاعراف: 32
3: مَڈّھل:ایک اناج جس کے دانے باریک ہوتے ہیں(پنجابی اردو لغت صفحہ 1401مطبوعہ لاہور 1989ء)


16
اسلام اور احمدیت کی ترقی کا ایک ہی گُر
(فرمودہ 6 اگست 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’تین مہینے سے غالباً کچھ زیادہ عرصہ ہو گیا ہے جبکہ مجھے یہاں خطبۂ جمعہ دینے کا موقع ملا تھا۔ اس کے بعد ایک لمبی بیماری کی وجہ سے میں خطبہ نہیں پڑھ سکا۔ جہاں تک بیماری کا تعلق ہے گو اس کی شدت نہیں رہی لیکن اب بھی بخار اور کھانسی کی شکایت باقی ہے اور گلے کی شکایت بھی پائی جاتی ہے۔ جس کے متعلق ڈاکٹروں کا تو یہ خیال ہے کہ یہ زیادہ سخت بیماری نہیں لیکن میرا اپنا احساس یہ ہے کہ سب سے زیادہ گلے میں ہی تکلیف ہے اور اب بھی معمولی گفتگو یا معمولی سے کلام کے بعد آواز بہت بھرّا جاتی اور بعض دفعہ تو قریباً بیٹھ ہی جاتی ہے۔ ان حالات میں گو ڈاکٹر اس گلے کی تکلیف کو کوئی بڑی مرض قرار نہیں دیتے لیکن جو گلے کے امراض کے ماہرین ہیں ان کی اور بعض دوسرے ڈاکٹروں کی بھی یہ ہدایت رہی ہے کہ مجھے کلّی طور پر بولنے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ یعنی ایسی خاموشی کہ سلام کا جواب تک نہ دوں اور اگر کوئی چیز مانگوں تو اشارے سے مانگوں اور اشارے سے ہی بات کروں لیکن ان کی اس ہدایت پر میں عمل نہیں کر سکا اور شاید وہ یہی کہیں کہ اسی وجہ سے گلے کی تکلیف ابھی دور نہیں ہوئی مگر باوجود اس وجہ کی موجودگی کے مَیں ڈلہوزی سے اسی نیت کے ساتھ واپس آیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے تو مَیں جمعہ کا ایک خطبہ وہاں پڑھا کر آؤں۔ خواہ وہ چند فقرے کا ہی کیوں نہ ہو اور اس خواہش کے پورا ہونے پر مَیں اللہ تعالیٰ کا بے انتہاء شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میری اس آمد اور میرے اس خطبہ کے ارادہ سے بہت سے دوستوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ اب میں پوری طرح کام کرنے کے قابل ہو گیا ہوں۔ چنانچہ قادیان میں آتے ہی نکاحوں کے پڑھانے کی متواتر درخواستیں آنی شروع ہو گئیں حالانکہ میں جو یہ خطبہ پڑھ رہا ہوں اپنی صحت اور ڈاکٹروں کی رائے کے بالکل خلاف پڑھ رہا ہوں اور حقیقت یہ ہے کہ اس بیماری کے ایام میں بعض اوقات میں نے بڑے بڑے لمبے عرصہ تک دعائیں کی ہیں کہ مجھے ایک دفعہ اپنے بعض خیالات کے تحریری طور پر یا تقریری طور پر بیان کرنے کا موقع مل جائے بلکہ بعض وقت ایسے بھی آئے ہیں کہ مجھے چند الفاظ کے تحریر کرنے کی بھی توفیق نہیں تھی۔ اور اس وقت یہ خیال کرتے ہوئے کہ شاید بیماری کا حملہ زیادہ ہو کر میں اس قابل بھی نہ رہوں میں نے اپنی وصیت لکھ کر محفوظ کر دی تھی۔ مجھ میں اتنی طاقت تو ابھی نہیں کہ میں اپنے خیالات کو مسلسل طور پر اور اپنی خواہش کے مطابق بیان کر سکوں۔ لیکن میں بعض باتیں اس موقع پر کہہ دیناچاہتا ہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی تو دوسرے موقع پر اور دوسری باتوں کو بیان کر سکوں گا۔
جہاں تک سلسلہ کی تنظیم کا تعلق ہے اور جہاں تک شریعت کے احکام کے نفاذ کا تعلق ہے مَیں سمجھتا ہوں میرے ہی زمانۂ خلافت میں یہ انتظام جاری ہؤا ہے اور مجھے اپنی زندگی میں بارہا یہ بات سننے کا موقع ملا ہے کہ تم کو اس مصیبت میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے کیوں نہ تم لوگوں کو صرف نصیحت کرنے پر ہی اکتفاء کرو اور شریعت کے احکام کے نفاذکے لئے کسی سزا یا کسی اصلاحی تدبیر کے فکر میں مبتلا نہ ہو۔ میرے کانوں میں مختلف وقتوں میں یہ آوازیں بھی آئی ہیں کہ یہاں ظلم کیا جاتا ہے اور شریعت کے احکام کے توڑنے پر لوگوں کو سزائیں دی جاتی ہیں حالانکہ یہ کام انگریزی قانون کا ہے۔ ان کو اس میں دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ بعض دفعہ میرے کانوں میں یہ آواز بھی آئی ہے کہ گو شریعت کے احکام کے توڑنے پر یہ سزا تو دے سکتے ہیں لیکن جو سزا دی جاتی ہے اس میں سختی سے کام لیا جاتا ہے۔ جب انسان مو ت کے قریب ہوتا ہے تو اس کے اعمال اس کی آنکھوں کے سامنے پھرنے شروع ہو جاتے ہیں۔ جوں جوں میری حالت کمزور ہوتی گئی یہ سارے واقعات اپنی زندگی کے واقعات بھی اور وہ نقطہ نگاہ جو دوسروں نے میرے اعمال کے متعلق اختیار کیا یا سمجھا وہ بھی۔ سب ایک ایک کر کے میری آنکھوں کے سامنے آنے شروع ہو گئے اور میں نے اپنے نفس سے پوچھا کہ میں نے یہ جو کچھ کیا ہے کیا اس وقت جبکہ میں ظاہری حالات کے لحاظ سے موت کے قریب پہنچ چکا ہوں اور اپنے خدا کے سامنے جواب دینے کے لئے جا رہا ہوں یہ سمجھتا ہوں کہ سلسلہ میں اسلامی احکام کے نفاذ کے خیال سے جو کچھ میں نے کیا ہے اس میں کسی قسم کی غلطی نہیں کی یا اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ میں نے جماعت کے لوگوں سے سختی کا معاملہ کیا ہے؟ مگر باوجود اس کے کہ میں اس وقت اپنے آپ کو زندگی سے موت کے بہت زیادہ قریب سمجھتا تھا ، میرے نفس نے ایک منٹ کے لئے بھی مجھے ملامت نہیں کی۔ اور میں نے ان سارے امور کا جائزہ لیتے ہوئے یہی فیصلہ کیا کہ اگر مجھے دوبارہ جوانی کی عمر دی جائے اور دوبارہ مجھے اتنا ہی عرصہ خلافت کرنے کے لئے دیا جائے تب بھی میں وہی کام کروں گا جو اس بارہ میں گزشتہ 26 سال مَیں کرتا رہا ہوں۔ میں نے اپنے نفس کو باوجود اس کے ہزاروں، لاکھوں بلکہ ان گنت گناہوں کے اس بارہ میں اتنا طاقت ور محسوس کیا کہ میں نے سمجھا مَیں خدا کے عرش کے سامنے کھڑے ہو کر اس بارہ میں ہرگز شرمندہ نہیں ہوں گا۔ میں نے جو کچھ کیا اسلام اور سلسلہ کی عظمت کے لئے کیا ہے۔ اور جو کچھ کیا ہے ان لوگوں کی بھلائی کے لئے کیا ہے جن کو سزائیں دینے کا مجھے موقع ملا۔ اور میرے نفس نے مجھے یہی جواب دیا کہ اس بارہ میں ندامت ان لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونی چاہیئے جن کو سزائیں دی گئی ہیں نہ کہ میرے دل میں کیونکہ مَیں نے اپنا قدم کبھی شریعت سے آگے نہیں بڑھایا۔ میں نے کبھی کوئی ایسی سزا نہیں دی جو میرے نزدیک شریعت کے منشاء کے خلاف ہو اور نہ کبھی کسی کو میں نے اس لئے سزا دی ہے کہ اس کی طرف سے میرے نفس کو یا میرے مال یا جان کو نقصان پہنچا ہے۔ ہر سزا جو مَیں نے دی خداتعالیٰ کی عزت، اسلام کی عزت، قرآن کریم کی عزت، محمد ﷺ کی عزت، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عزت اور احمدیت کی عزت کے لئے دی۔ اور ہر وہ کام جس میں خدا اور اس کے رسولوں اور اس کے دین کی عظمت کا سوال ہووہ کسی صورت میں بھی ایک مومن کے لئے ندامت اور شرمندگی کا موجب نہیں ہو سکتا۔
یہ ہے میرے دل کی وہ کیفیت جو اس وقت پیدا ہوئی جبکہ مَیں سمجھتا تھا کہ میرا ہر قدم کمزوری کی طرف جا رہا ہے اور بظاہر میرے سنبھلنے کی کوئی امید نہیں اور اس وقت میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اگر خدا مجھے توفیق دے تو میں ایک دفعہ جماعت کے سامنے اس حقیقت کو پوری طرح واضح کر دوں۔ چنانچہ آج میں آپ لوگوں کو اپنے ان خیالات سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ ممکن ہے جب بھی میری موت کا وقت آئے تم میں سے وہ لوگ جنہیں اسلام اور احمدیت کے لئے سزائیں دی گئی ہیں یہ سمجھیں کہ اب تو ضرور اس کے دل میں شرمندگی پیدا ہوئی ہو گی کہ اس نے ہمارے ساتھ زیادتی کی تھی مگر اس حالت میں سے ایک دفعہ میں پھر ہو کر آیا ہوں اور میں آپ لوگوں کو بتاتا ہوں کہ میرے دل میں ہرگز کوئی شرمندگی نہ تھی بلکہ میرے دل میں یہ احساس تھا کہ میں نے کم سے کم اس بارہ میں خداتعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔
یاد رکھو کوئی دین اور کوئی سلسلہ دین اور سلسلہ کہلانے کا مستحق نہیں ہوتا جب تک اس کے آئین اور قوانین کی پابندی جس طرح دلوں میں ہے اسی طرح ظاہر میں بھی نہ کی جائے۔ اگر ہم دنیا کے سامنے اسلام کی ایک آئندہ حکومت کا نقشہ کھینچتے چلےجاتے ہیں لیکن جہاں جہاں خدا نے ہمیں اس آئین اور قانون کو دنیا میں جاری کرنے کی طاقت بخشی ہے وہاں ہم اس آئین اور قانون کو جاری نہیں کرتے تو ہم ہرگز اپنے دعویٰ میں سچے نہیں کہلا سکتے اور نہ لوگوں کی نگاہ میں کسی عمدہ پروگرام کو جاری کرنے والے قرار پا سکتے ہیں۔ صرف ایک ہی ذریعہ ہے جس سے ہم دنیا کو مسلمان کر سکتے ہیں اور وہ ذریعہ دنیا پر اس بات کو ثابت کر دینا ہے کہ ہم اپنے دعووں میں سنجیدہ اور سچے ہیں۔ اگر دنیا کو یہ یقین پیدا ہو جائے کہ یہ جماعت اپنے دعویٰ میں سچی اور سنجیدہ ہے اور اس کو پورا کرنے کے لئے وہ ہر قربانی کرنے پر تیار ہے تو دنیا کی وہ مخالفت ، وہ دشمنی اور وہ شوخی اور شرارت جو ہمارے مقابلہ میں اختیار کی جاتی ہے ریت کی دیوار کی طرح گر جائے کیونکہ صداقت ہمارے پاس ہے۔ اور صداقت کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکتی۔ اگر دنیا کو کسی بات کی امید ہے تو وہ یہ کہ ہم صداقت کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ پس وہ اس لئے دلیر نہیں ہے کہ صداقت ہمارے پاس نہیں بلکہ وہ اس لئے ہماری مخالفت میں دلیر ہے کہ یہ صداقت کے مدعی اپنے دعویٰ میں دیانتدار نہیں ہیں۔ وہ لوگ اسلام اور احمدیت کی سچائی میں متشکّک نہیں ہیں۔ ان کو صرف اس بات میں شک ہے کہ اس سچائی کے علمبردار اتنی ہمت بھی رکھتے ہیں یا نہیں کہ دنیا میں پھیل کر اسلامی حکومت کو قائم کر سکیں۔ پس اگر ہم مُنہ سے اس سچائی کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں لیکن ہماری عملی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جب اس سچائی کو قائم کرنے کے لئے جدوجہد کی جائے تو ہم کہتے ہیں اس کو رہنے دو جس کا دل چاہے قرآن کے حکموں کو مانے جس کا دل چاہے قرآن کے حکموں کو ردّ کر دے ، جس کا دل چاہے مرزا صاحب کے حکموں کو مانے اور جس کا دل چاہے ان کے حکموں کو توڑ دے یا جب کوئی شخص ہم میں سے کسی اسلامی حکم کی خلاف ورزی کرے اور اسے سزا دی جانے لگے تو تم کہو کہ تمہیں اس سے کیا۔ اگر کوئی شخص کسی حکم کو توڑتا ہے تو بے شک توڑے۔ جب دنیا ہمارے دل کی اس کیفیت سے آگاہ ہو گی تو وہ یقیناً اسے احمدیت کی موت کی علامت قرار دے گی۔ اور وہ کبھی بھی ان سچائیوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہو گی جو ہماری طرف سے پیش کی جاتی ہیں۔ لیکن اگر تم دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے دو اور یقین کر لینے دو کہ اسلام اور احمدیت کی جس تعلیم کو یہ پیش کرتے ہیں اسے دنیا میں قائم کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں ۔ اگر ان کے بیٹے، ان کی بیویاں، ان کے بھائی، ان کی مائیں، ان کے باپ اور ان کے عزیز ترین دوست بھی اس کے احکام کو توڑنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو وہ ان کو ایسا ہی ذلیل کرتے اور ایسی ہی انہیں سخت سزائیں دیتے ہیں جیسے اپنے اشدّ ترین دشمنوں کو اور ان کے دلوں میں کوئی رأفت اور رحم پیدا نہیں ہوتا۔ تو تم یاد رکھو دنیا اسی دن مرعوب ہو جائے گی۔ نہ صرف اس تعلیم سے جو ہماری طرف سے پیش کی جاتی ہے ، اس سے تو ہر شخص مرعوب ہو ہی جائے گا بلکہ اس حربہ اور اس آلہ سے بھی جو اس سچائی کو پھیلانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے یعنی جماعت احمدیت کا نظام۔
پس یہ ایک ہی گُر ہے جو اسلام اور احمدیت کی ترقی کاہے۔ ہر شخص جو اس گُر کے استعمال کرنے میں کمزوری دکھاتا ہے ، ہر شخص جو لوگوں سے ڈر کر اس طریقِ عمل کو ترک کرتا ہے ، ہر شخص جو اس بارہ میں بزدلی دکھاتا اور دُون ہمتی سے کام لیتا ہے ، ہر شخص جو اس طریق پر معترض ہوتاہے وہ اس انسان پر معترض نہیں جو اس کام کو کر رہا ہے وہ معترض ہے اس جذبہ پر جو اس کے پیچھے کارفرما ہے۔ وہ معترض ہے اس سچائی پر جو خدا نے بھیجی ہے۔ وہ معترض ہے اسلام کی آئندہ فتوحات اور غلبہ پر۔ وہ معترض ہے اسلام کی اس حکومت پر جو آئندہ قائم ہونے والی ہے۔ پس وہ اسلام اور احمدیت کا ہرگز دوست نہیں وہ اسلام اور احمدیت کا دشمن ہے، وہ سچائی کا دشمن ہے، وہ دنیا کی آئندہ ترقی کا دشمن ہے۔ وہ اس کارآمد چیز کا دشمن ہے جس سے بہترین انتظام قائم کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اپنی بزدلی سے لوگوں کو سچائی کے مقابلہ کی دعوت دیتا ہے۔ وہ اپنے عمل سے دشمنوں کے حوصلوں کو بڑھاتا ہے۔ وہ اپنے طریق سے خداتعالیٰ کی کتابوں اور اس کے احکام کو ردّ کرنے والوں کی پیٹھ ٹھونکتا ہے۔
پس میرے دل میں اس بیماری کی حالت میں یہ خواہش اٹھی کہ خدایا ممکن ہے لوگ یہ سمجھیں کہ آج تیرے سامنے میں اپنے سلوک کی وجہ سے شرمندہ ہوں گا تُو میرے قلم کو تھوڑی دیر کے لئے چلنے کی توفیق عطا فرما یا میری زبان کو بولنے کی توفیق دے تاکہ دنیا کو میں یہ بتا سکوں کہ میں اپنے اس طریقِ عمل کی وجہ سے ہرگز شرمندہ نہیں ہوں بلکہ اگر خدا مجھے پھر زندگی دے اور پھر مجھے جوانی عطا فرمائے تو میں پھر اسی کام کو کرنے کے لئے تیار ہوں جو میں نے اس بارہ میں آج تک کیا کیونکہ میں نے وہ کام کسی کی دشمنی کی وجہ سے نہیں کیا، کسی کی عداوت کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ شاید جن لوگوں کو سزائیں دی گئی ہیں ان کو اتنا دکھ نہیں پہنچا جتنا دکھ ان کو سزا دینے کی وجہ سے مجھے پہنچا۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ مجھے زندگی دے تو میں پھر بھی یہی کام کرنے کے لئے تیار ہوں اور میں اس پر ہرگز شرمندہ نہیں بلکہ فخر کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ نے مجھے احکامِ شریعت کے نفاذ کی توفیق عطا فرمائی۔ مگر ساتھ ہی میں ا فسوس کرتا ہوں کہ جو تلوار خداتعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی تھی وہ مجھے اپنے ہی بعض بھائیوں کی گردن پر چلانی پڑی لیکن پھر بھی میں نادم نہیں ہوں اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی ہو یا نہ ہو خداتعالیٰ احمدیت میں ہمیشہ ایسے لوگوں کو قائم رکھے جو اسلام اور احمدیت کے مقابلہ میں اپنے باپ، اپنی ماں، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیوی، اپنے رشتہ دار اور اپنے کسی عزیز سے عزیز ترین دوست کی بھی پروا نہ کریں اور ان کے معاملہ میں کسی قسم کی رعایت سے کام نہ لیں۔ ان کا غصہ بھی خداتعالیٰ کے لئے ہو اور ان کی محبتیں بھی خداکے لئے ہوں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ احمدیت میں ان لوگوں کو بھی قائم رکھے جودنیا میں عدل اور انصاف کو قائم کرنے کے لئے ہر اس سزا کو برداشت کرنے کے لئے تیا رہوں جو اسلام میں ان لوگوں کے لئے مقرر ہے جو اس کے احکام کو توڑنے والے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر میں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ہم پر فضل کر کے ایسے لوگوں کی اصلاح ہی کر دے جو اسلام اور احمدیت کے قانون کو توڑنے والے ہوں تاکہ جس طرح ہم اس کے احکام کو نافذ کر کے اس کی خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ہم کو یہ خوشی بھی عطا کر دے کہ ہمارے دوست اور عزیز اس کے احکام کو توڑنے والے نہ بنیں بلکہ اس کے کامل فرمانبردار بندے بن جائیں تاکہ ہم کو نہ سزا دینے کا خیال پیدا ہو اور نہ شریعت ہم سے اس کا تقاضا کرے۔‘‘ (الفضل 11 ستمبر 1943ء)

17
غیراحمدیوں کے قبرستانوں میں احمدیوں کے مُردوں کے دفن ہونے کا سوال
بحث و مباحثہ کا طریق چھوڑ کر دُکھ اور درد کے ساتھ تبلیغ کی جائے
(فرمودہ 27 اگست 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ اس ہفتے میں ڈلہوزی میں ایک افسوسناک واقعہ جماعت کے متعلق ہؤا ہے۔ خان صاحب عبدالمجید صاحب کی لڑکی کی وفات ہوئی۔ اپنی ذات میں کسی دوست اور عزیز کی وفات صدمے والی بات ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ زائد بات کہ غیراحمدیوں نے اپنے مقبرے میں دفن کرنے سے روکا اور مقابلہ کیا وفات کو زیادہ افسوسناک بنا دیتی ہے۔
جہاں تک اس خیال کا تعلق ہے کہ احمدی چونکہ کافر ہیں اس لئے وہ ان کے مقبروں میں دفن نہیں ہو سکتے۔ میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہتا کیونکہ یہ بات ان کے لیڈروں کی آراء کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں کافر کیوں کہتے ہو اور ہمارے پیچھے نمازیں کیوں نہیں پڑھتے۔ اگر احمدیوں کے مُردے ان کے مقبروں میں دفن نہیں ہو سکتے تو پھر ان کا یہ کہنا کہ ہمیں کافر کیوں کہتے ہو اپنی بات کی آپ ہی تردید کرنا ہے۔ جو تعلیم یافتہ لوگ ہیں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ اعتراض حق ہے تو انہیں اپنی قوم کو مجبور کرنا چاہیے کہ احمدیوں کو اپنے مقبروں میں دفن کرنے سے نہ روکیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو وہ گویا اقرار کر لیں گے کہ جب وہ اعتراض کر رہے ہوتے ہیں تو کسی اصل کی پابندی نہیں کر رہے ہوتے ۔ اگر وہ اسی رویہ کو پھر بھی اختیار کریں تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ ان کا عقیدہ معقولیت سے خالی ہے کیا ان میں سے کوئی بھی جو عقل سے کام لے رہا ہو یہ بات ذہن میں لا سکتا ہے کہ وہ مُردہ جو زندہ ہونے کی حالت میں ان کے عقیدہ کے رو سے ان کے زندوں کے قابل تھا جب وہ مر گیاتو مُردوں کے پاس اسے اس واسطے دفن نہ ہونے دیا جائے کہ وہ مُردوں کو خراب کرے گا۔ اگر وہ ایسا کہتے ہیں تو یہ ایک مجنونانہ خیال ہے۔ وہ شاید ایک جواب دیں کہ تم ہمیں کافر کہتے ہو اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ تمہارے مُردے ہمارے قبرستانوں میں دفن نہیں ہو سکتے۔ لیکن یہ بات بھی غلط ہے۔ اول کفر کا فتویٰ ہماری طرف سے نہیں ان کی طرف سےشائع ہؤا۔ پس جن کے اندر دیانت ہے وہ یہ ثابت کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے لکھا ہو کہ میں ان کو کافر قرار دیتا ہوں۔ لیکن آج تک ایک انسان بھی ان میں سے نہیں نکلا جو یہ ثابت کر سکا ہو لیکن جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان پر ابتداء کرنے کا الزام لگایا ہے وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ جو ان میں سے سچے طور پر یہ خیال رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو کافر نہیں کہنا چاہیئے ان کا فرض ہے کہ اس صورت میں ان علماء کے کافر ہونے کا نام بنام اعلان کریں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اور آپ کی جماعت کو کافر قرار دیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا لازمی نتیجہ یہ قرار دیا ہے کہ اگر وہ ان کو کافر قرار دیں گے تو ان کو یہ ماننا پڑے گا کہ میں مفتری نہیں ۔ کیونکہ افتراء کرنے والا کافر ہوتا ہے اس اعلان کے بعد اگر وہ مجھے نہ مانیں گے تو وہ خداتعالیٰ کے کھلے نشانات کے منکر قرار پائیں گے اور ایک دوسری وجہ اپنے کفرکی پیدا کریں گے۔ ہاں اس کے بعد ایک راہ ان کے لئے رہ جائے گی کہ وہ ثابت کریں کہ بانیٔ سلسلہ احمدیہ پاگل تھے کیونکہ پاگل پر کفر کا فتویٰ نہیں لگتا۔ کئی پاگل ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ عورت ہو گئے ہیں، وہ نمک کا ڈلا ہو گئے ہیں، پہاڑ ہو گئے ہیں۔ لیکن کوئی اعتراض نہیں کرتا وہ اپنے دعویٰ کی وجہ سے کافر ہو گئے ہیں اور نہ وہ اپنے دعووں کی وجہ سے اسلامی حقوق سے محروم کئے جاتے ہیں۔ لیکن اگر وہ پاگل قرار نہ دے سکیں تو پھر ان کے پاس ایک ہی چارہ ہے کہ وہ یہ کہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو وحی ہوتی تھی وہ سچی تھی لیکن باوجود اس کے ہم نہیں مانتے۔ جب وہ اس مقام پر پہنچیں گے تو لازماً ہمارا مقبرہ اور ہماری نمازیں ان سے جدا ہو جائیں گے۔
الغرض ان کا اس قسم کا سوال اٹھانا ہی آپ اپنی تردید کرنا ہے۔ باقی رہا مقبروں میں دفن ہونا تو میں تو ایک مسلمانوں کے مقبرے میں ایک عیسائی کا دفن ہونابھی اگر اس کے لئے اور کوئی جگہ نہ ہو درست سمجھتا ہوں۔ غیراحمدی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ تم اپنے مقبروں میں غیراحمدیوں کو دفن نہیں ہوتے دیتے۔ مجھے یاد نہیں کہ کوئی غیراحمدی مرا ہو اور اس کے دفن کرنے کی کوئی جگہ نہ ہو اور احمدیوں کی طرف سے اسے دفن ہونے سے روکا گیا ہو۔ ہماری طرف سے جہاں دفن کرنے کی ممانعت ہے وہ بہشتی مقبرہ ہے۔ لیکن وہاں تو ہر احمدی بھی دفن نہیں ہو سکتا۔ ہمارے مقبرے میں اگر کسی کو دفن کرنے سے اس وقت روکا جائے جبکہ دوسرے کے پاس جگہ نہ ہو تو میں اسے ظلم کہوں گا۔ قادیان میں اگر کوئی غیراحمدی مرے اور اس کے لئے جگہ نہ ہو تو میں لوگوں کو مجبور کروں گا کہ وہ اسے دفن کریں۔ اگر ایک عیسائی مر جائے اور اس کے دفن ہونے کے لئے جگہ نہ ہو تو میرے نزدیک اس کے لئے جگہ کا انتظام کرنا اور اس کو دفن کرنے کا انتظام کرنابھی ہماری جماعت کا فرض ہوگا۔ اگر ایسا کرنا ان کی طاقت میں ہو ۔ لطیفہ یہ ہے کہ ایک زندہ ہمارے گھر میں آتا ہے۔ ہمارے میز پر کھانا کھاتا ہے لیکن جب وہ زندگی سے جدا ہو جاتا ہے اور مَر جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ وہ مقبرے میں دفن نہیں ہو سکتا حالانکہ مقبرہ جنت کا نام نہیں۔ مقبرہ نام ہے جسم کے دفن ہونے کی جگہ کا تاکہ اسے چیل نہ کھائے، کتے نہ کھائیں۔ روحانی مقبرہ اور ہوتا ہے۔
غیراحمدیوں کے مقبرے میں کنچنی بھی دفن ہوتی ہے، چور بھی، ڈاکو بھی۔ پس کسی کو مقبرے میں دفن ہونے سے روکنا درست نہیں۔ کوئی غیرمذہب کا آدمی اگر اس کے پاس جگہ نہ ہو اور اس پر یہ حالت ہو کہ اس کو دفن کرنے کے لئے جگہ نہ ملے تو میں جماعت کو یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو دفن کرنے سے روکیں اور میں حکماً اس کو دفن کرواؤں گا۔ ہاں قوم کا حق ہے کہ وہ شرارت کو روکے۔ مثلاً قادیان کے مقبرے کے لئے غیراحمدیوں کے پاس جگہ ہے۔ وہ وہاں دفن کر سکتے ہیں۔ اگر وہ وہاں مردہ دفن نہ کریں تو یہ ان کی شرارت ہو گی۔ پھر بعض دوسری جگہوں پر تو زمین پر کچھ خرچ بھی آتا ہے لیکن ڈلہوزی میں تو کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا کیونکہ ان کو کمیٹی کی طرف سے مفت زمین ملی ہوئی ہے۔
پس یہ جو واقعہ ہؤا ہے انسانیت کے خلاف ہے۔ اس سے ہماری جماعت کی آنکھیں بھی کھلنی چاہئیں اور تبلیغ کی طرف توجہ کرنی چاہیئے۔ اس وقت ایک لاکھ کے قریب گورنمٹ کے اندازہ کے مطابق پنجاب میں جماعت ہے اور ہمارے اندازے کے مطابق تین چار لاکھ۔ اگر ایک ایک آدمی ہر سال جماعت میں داخل کیا جاتا تو 10،11 سال کے اندر اند سارا پنجاب احمدیت میں داخل ہو جاتا۔ جو لوگ تبلیغ کرتے ہیں وہ بے موقع بحث کرتے ہیں۔ یہاں ایک سکھوں کے گُرو آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے میرے پاس شکایت کی ہے کہ ان کے پاس ہمارے نوجوان گئے اور انہوں نے ان سے بحث کی اور یہ کہ ان کا طریق بحث کرنے کا نہیں کیونکہ وہ صوفیوں کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ (وہ یہ کہتے ہیں کہ پہلے ہمارے اندر شامل ہو جاؤ پھر گُرو تم کو اوپر لے جائیں گے۔) اس لئے ان کو شکایت ہے کہ احمدی نوجوانوں نے ان کے مذہب کو کوئی نیا مذہب سمجھا ۔ حالانکہ یہ بات نہ تھی۔ وہ تو ایک صوفیا کی طرح فرقہ اپنے کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہماری جماعت کے ایک طبقہ کے اندر یہ بات پیدا ہو گئی ہے کہ وہ جا و بے جا بحث شروع کر دیتا ہے۔ حالانکہ بحث مباحثہ تبلیغ نہیں۔ تبلیغ تو ایک جذبہ کا نام ہے۔ انسان سوچتا ہے کہ میرا بھائی جہنم میں جائے گا۔ وہ اپیل کرتا ہے اچھے جذبات سے، اچھے خیالات سے۔ اس میں دکھ اور درد اور سیدھی سادی سچائی ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ مجھے خداتعالیٰ نے بحث مباحثے سے روکا ہے۔1 اگر مباحثہ اچھی بات تھی تو روکا کیوں گیا۔ ہاں اگر کوئی پیچھے پَڑ جائے تو اور بات ہے۔
پس اپنی بات سچائی کے ساتھ دکھ اور درد کے ساتھ پیش کریں۔ ہماری آواز میں اور دل میں دکھ ہو۔ تب وہ سچائی نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ میں نے شروع سال میں جماعت کو کہا تھا کہ اس سال تبلیغ پر خاص زور دینا چاہیئے۔ اور ہر فرد کو تبلیغ کرنی چاہیئے۔ لیکن چونکہ میں بیمار ہو گیا اور جماعت کو جگا نہ سکا اس لئے نتائج پچھلے سال سے کم ہیں ۔اب تک آٹھ سو آدمیوں نے بیعت کی ہے حالانکہ گزشتہ سال اس سے دوگنے سے زیادہ بیعت ہوئی تھی۔ گویا 40 فیصدی تبلیغ رہ گئی ہے۔ حالانکہ زمانہ کے حالات اس سُرعت سے بدل رہے ہیں کہ اگر ہم نے جلدی سے جماعت کو مضبوط نہ کیا تو آئندہ جماعت کو پہلی جماعتوں کے مصائب کے نظارے دیکھنے پڑیں گے اور اس کی ذمہ داری ان ماں باپ پر ہوگی جو آج ہیں اور آئندہ آنے والی نسلیں ان کو ہی کوسیں گی جبکہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو ادا نہ کیا۔ پس جہاں اس واقعہ کی شناعت 2 کا اظہار کیا ہے وہاں میں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جماعت کے لوگ اپنے فرض کو سمجھیں اور اس جذبہ سے کام کریں کہ اگر ہم نے جلدی نہ کی تو ہم ہلاک ہو جائیں گے۔‘‘ (الفضل 28 ستمبر 1943ء)

1: انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 282 حاشیہ
2: شناعت: بدی،برائی


18
انسان کو چاہیئے کہ تدبیر سے کام لے مگر تقدیر پر بھی نظر رکھے
(فرمودہ3 ستمبر 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ انسانی تدابیر ایک وقت تک کام آ سکتی ہیں۔ اور ایک جگہ پر جا کر رُک جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ اس میں غلطی کرتے ہیں کہ تدبیر کو تقدیر کا نام دے چھوڑتے ہیں اور تدبیر کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کے لئے دو قانون بنائے ہیں۔ ایک قانون تدبیر کا ہے اور ایک تقدیر کا۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہاتھ دیے ہیں، کان دیے ہیں، ناک دیا ہے۔ پھر خدا نے عقل دی ہے، فراست دی ہے۔ ان سب کا دینا بتا تا ہے کہ انسان کو تدبیر سے کام لینا چاہیئے مگر ان سے کام لینے کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ پھر بھی ضروری نہیں کہ نتیجہ بھی ٹھیک نکلے۔ مثلاً آگ ہے ، ہم جانتے ہیں کہ اس میں کپڑا ڈالا جائے تو جل جائے گا۔ کپڑا اس میں ڈالنے سے پہلے اس کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے کہ آگ جلا دے گی۔ آگ پر ایک مقدار میں پانی ڈالا جائے تو گو ہم نے اس پر پانی نہیں ڈالا مگر ہم یہ قبل از وقت جانتے ہیں کہ آگ پر پانی ڈالنے سے آگ بُجھ جائے گی یا پھر رنگ ہیں۔ سرخ ہے، سبز ہے، زرد ہے۔ پیشر اس کے کہ ان میں کوئی کپڑا ڈالا جائے ہم اس کے نتیجہ کو قبول کر لیتےہیں کہ کپڑا ڈالیں گے تو وہ سرخ یا زرد یا سبز ہو جائے گا۔ اس میں نہ بتانے کی ضرورت ہے اور نہ شک کرنے کی۔ اس کا نتیجہ ہم کو پہلے سے ہی نظر آ رہا ہوتا ہے مگر انسانی اعمال کے نتیجہ کے متعلق ہم یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ بُرا نکلے گا یا اچھا۔ مثلاً بچے کو ماں باپ پڑھانے بٹھاتے ہیں۔ اس کے متعلق کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ پڑھ کر مولوی بنے گا یا ڈاکٹر بنے گا، یا کوئی اور افسر بن جائے گا کیونکہ درمیان میں بیسیوں روکیں ہیں۔ ہو سکتا ہے بچہ تعلیم کے درمیان میں مر جائے یا درمیان میں کسی وجہ سے پڑھائی ہی چھوڑ دے یا پھر کُند ذہن ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بیسیوں بچے کُند ذہنی کی وجہ سے پڑھائی نہیں کر سکتے یا آوارہ گردی میں مبتلا ہو کر پڑھائی چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ تو جس طرح رنگ میں کپڑا ڈالتے وقت ہم یہ یقینی خبر دے سکتے ہیں کہ سرخ ، زرد یا اور کوئی رنگ ہو جائے گا۔ ہم کسی لڑکے کی پڑھائی کے متعلق نہیں کہہ سکتے کہ وہ بی۔ اے ہو جائے گا۔ اس کے راستہ میں موت ہے۔ وہ اپاہج ہو سکتا ہے۔ یا اسے اور کوئی بیماری لگ سکتی ہے۔ اس کے لئے کندذہنی بھی حائل ہو سکتی ہے۔ پس بیسیوں اسباب ایسے ہیں جو اس چیز کو روک سکتے ہیں۔ اس لئے ہم یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ اس کی تعلیم کا نتیجہ یہ نکلے گا۔ یہی حال انسان کے دوسرے اعمال کا ہے حتّٰی کہ بیماریاں اور علاج بھی ایسے ہیں کہ ان کے متعلق بھی ہم جس طرح رنگ کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ کپڑا سرخ ہو جائے گا نہیں کہہ سکتے کہ فلاں دوائی سے مریض ضرور اچھا ہو جائے گا۔ بعض دفعہ دوائی طبیعت کے موافق نہیں پڑتی یا نسخہ بناتے وقت غلطی ہو جاتی ہے۔ بعض دفعہ موت کا وقت آیا ہوتا ہے ، دوائی اثر ہی نہیں کرتی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی اعمال کا نتیجہ اللہ تعالیٰ نے پوشیدہ رکھا ہے اور تدبیر کے ساتھ ایک اور جُز لگائی ہے جس کا نام شریعت نے تقدیر رکھا ہے جو انسانی تدبیر کے ساتھ ساتھ کام کرتی ہے۔ بسا اوقات انسان کوئی کام کرتا ہے تو نتیجہ اس کی امید کے خلاف نکلتا ہے اور بسا اوقات اس کی امید کے خلاف اچھا نکل آتا ہے۔ کبھی کوشش کرتا ہے تو اسے وہ چیز مل جاتی ہے اور کبھی کوشش کرتا ہے تو نہیں ملتی۔ جسے دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ بعض اوقات کوئی امید نہیں ہوتی مگر نتیجہ موافق نکل آتا ہے۔ مثلاً کسی کا کوئی مقدمہ عین آخری منزل میں ہوتا ہے اور اسکے خلاف فیصلہ ہونے والا ہوتا ہے کہ ادھر سےمجسٹریٹ کی تبدیلی کی اطلاع آ جاتی ہے۔ دوسرا نیا مجسٹریٹ آتا ہے ، وہ اس کا ہمدرد ہوتا ہے اور فیصلہ اس کے موافق ہو جاتا ہے۔ تو اب نہ تبدیلی اس کے اختیار میں تھی اور نہ ہی اس نے کوئی کوشش کی مگر نتیجہ اس کی امید کےخلاف اس کے حق میں نکل آیا۔ اسی طرح ایک دکاندار ہے وہ کوئی چیز بارہ آنے یا دس آنے کو فروخت کرتا ہے مگر جب اس کی چیز پرانی ہوتی یا خراب ہونے لگی ہے تو وہ گاہک کو کہتا ہے اچھا لے جاؤ آٹھ آنے ہی دے دو۔ مگر گاہک اس قیمت پر بھی نہیں لیتا مگر اچانک جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ اب دکاندار اسی چیز کو دو تین بلکہ چار روپے پر بھی نہیں دیتا اور پھولا نہیں سماتا۔ کہتا ہے ابھی اور مہنگی ہو گی۔ دیکھو لڑائی اس کے اختیار میں نہ تھی جس کی وجہ سے چیزوں کی قیمت اتنی بڑھ گئی۔ پس بسااوقات انسان ناامید ہوتا ہے مگر امید کے سامان ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے سورۃ فاتحہ میں کہا گیا ہے مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ 1 یعنی جزا سزا کا نتیجہ اسی کے اختیار میں ہے۔ سنکھیا ایک نہ بدلنے والی شے ہے مگر انسانی اعمال کا نتیجہ بدلنے والی چیز ہے۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ بسااوقات ایک آدمی دوسرے سے دل لگی کرتا ہے مگر دوسرا اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔ اور بسااوقات ایک آدمی دوسرے کو گالی دیتا ہے مگر وہ ہنس چھوڑتا ہے اور بعض اوقات انسان دوسرے سے پیار کرتا ہے مگر وہ کہتا ہے کہ جا پرے ہٹ۔ تو معلوم ہؤا کہ اس کے اندر سے نئے تغیرات اور نئی حالتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کے عمل کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ اسی لئے فرماتا ہے مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ جزا سزا اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ بعض دفعہ انسان تدبیر کرتا ہے مگر تقدیر پر نظر نہیں رکھتا۔ بعض اوقات تقدیر پر نظر رکھتا ہےتو تدبیر کو بھول جاتا ہے مگر یہ دونوں حالتیں غلط ہیں کیونکہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ سے پہلے رحمٰن اور رحیم کی صفات بیان ہوئی ہیں۔ رحمٰن کے معنی ہیں ہم جزا سزا دیتے ہیں۔ رحیم کے معنی ہیں ہم اچھے اور بُرے نتائج نکالتے ہیں۔ رحمانیت کہتی ہے کہ کوشش کرو اور تدبیر سے کام لو۔ رحیمیت کہتی ہے کہ بے شک کوشش کرو مگر نظر خدا پر رکھو۔ نتیجہ اسی نے نکالنا ہے۔ تو مومن کو دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔ یہ نہ ہو کہ کبھی تدبیر کا پہلو لے اور تقدیر کے پہلو کو بھول جائے اور کبھی تقدیر کو لے تو تدبیر کے پہلو کو بھول جائے۔ وہ کوشش کرے مگر مغرور نہ ہو کہ میں نے تدبیر کر لی۔ بلکہ تقدیر کو بھی مدنظر رکھے۔ آخر نتیجہ اللہ تعالیٰ نے ہی نکالنا ہے۔
یہ دونوں ہی چیزیں ایسی ہیں کہ انسانی اعمال کی تکمیل کے ساتھ دونوں کا ہونا لازم ہے کہ انسان تدبیر بھی کرے اور تقدیر پر بھی نظر رکھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سلطان عبدالحمید صاحب کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ جب یونان پر حملہ ہؤا تو مشورہ کے لئے معاملہ وزیروں کے پیش ہؤا۔ وہ چونکہ لڑنا نہیں چاہتے تھے اس لئے انہوں نے کہا یہ بھی کر لیا ہے اور یہ بھی انتظام ہو گیا ہے مگر فلاں بات نہیں ہو سکی۔ وہ بادشاہ کو یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہم دشمن سے لڑنا نہیں چاہتے۔ انہوں نے کوئی بہانہ ہی بنانا تھا۔سو اس طرح اس کے دل کو جنگ سے پھرانے کی کوشش کی۔ سلطان نے کہا اچھا تم نے یہ بھی کر لیا ہے اور یہ بھی کر لیا ہے۔ جب تم نے سارا انتظام کر لیا ہے صرف ایک انتظام نہیں کیاتو اسے خدا پر چھوڑ دو۔ آخر کچھ تو خدا پر بھی چھوڑناچاہیئے۔ آخر چھ ماہ میں ہی وہ جنگ جیت گئے اور اس عرصہ میں یورپ کی فوجیں جن کا یونان سے وعدہ تھا اس کی مدد کو بھی نہ پہنچ سکیں۔
پس انسان کو چاہیئے کہ کوشش کرے تدبیر سے کام لے مگر تقدیر پر بھی نظر رکھے۔ خدا نوکر تو نہیں ہے کہ انسان اپنے ہاتھ باندھ کر بیٹھ جائے تو بھی تقدیر اس کا نتیجہ اس کے حق میں نکالے۔ خدا بادشاہ ہے وہ نتیجہ نکالے گا مگر انسان کو چاہیئے کہ کوشش کرے اور پھر توکل سے کام لے۔ پس مومن کو اپنے کام میں تدبیر کو بھی اور تقدیر کو بھی نہیں بھولنا چاہیئے بلکہ چاہیئے کہ وہ اپنی تدبیروں میں لگا رہے اور تقدیر کو بھی مدنظر رکھے۔ جو آدمی تدبیر کو بھولتا ہے اور تقدیر پر نظر رکھتا ہے وہ خداتعالیٰ کا امتحان لیتا ہے اور جو تقدیر کو بھول کر تدبیر ہی پر نظر رکھتا ہے وہ خداتعالیٰ کو چیلنج دیتا ہے۔ اور یہ دونوں حالتیں خطرناک ہیں۔ مگر وہ شخص جو دونوں کام کرتا ہے خداتعالیٰ کا فضل بھی اور اس کا ازلی قانون بھی اس کی تائید میں لگ جاتے ہیں۔ ‘‘
(الفضل 30 ستمبر 1943ء)

1: الفاتحۃ:4


19
جوں جوں جنگ خاتمہ کی طرف آ رہی ہے ہماری ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں
(فرمودہ 10 ستمبر 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ کل کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جنگ میں اہم تغیرات پیدا ہونے کے سامان ہو گئے ہیں۔ ریڈیو کی خبر ہے کہ کل صبح اٹلی نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ ایک لحاظ سے خوشی ہے۔ ایک خوشی تو اس لحاظ سے ہے کہ 1940ء میں مَیں نے رؤیا دیکھی تھی جس میں دشمن کی فوجیں پیچھے ہٹتی ہوئی اور اٹلی کی شکست دیکھی گئی تھی جو پوری ہو گئی۔ دوسری خوشی اس لحاظ سے ہے کہ جس ملک میں ہمارا مبلغ ٹھہرا ہؤا تھا گو اب ہمارااس سے مشنری کے طور پر تعلق نہ تھا کیونکہ ہم اسے کام سے فارغ کر چکے تھے مگر پھر بھی جب تک وہ واپس نہ آ جاتا انتظام کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی تھی اس جنگ کے خاتمہ کی وجہ سے اس کی بھی واپسی کے سامان اللہ تعالیٰ نے کر دیئے ہیں یا ممکن ہے آئندہ کے لئے تبلیغ کا راستہ ہی کھل جائے۔ جنگ کی وجہ سے حالات ایسے ہو گئے تھے کہ وہ واپس نہ آ سکتے تھے۔ اس سے ایک فائدہ بھی ہو گیا کہ انہوں نے زبان اچھی طرح سیکھ لی ہوگی جو دوسرے مبلغوں کے سکھانے میں مُمد ہو سکتی ہے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس واقعہ نے ہماری ذمہ داریوں کو اہم کر دیا ہے۔
یوں تو تغیرات ہوتے ہی رہتے ہیں۔ انسان کبھی کام عجلت سے کرتا ہے، کبھی ڈر سے کرتا ہے، کبھی جلدی کرتا ہے اور کبھی انتظار کر لیتا ہے مگر ہمارے لئے ایک ایک دن کی دیر زہر قاتل ہے۔ دنیا میں اس قسم کے تغیرات ہو رہے ہیں کہ اگر ان کی طرف جلد توجہ نہ کی گئی تو پھر ہمیں ترقی کے لئے کئی سو گنے قربانی کرنی پڑے گی۔ خصوصاً اس وقت سستی کرنا جبکہ خشیت پیدا ہو چکی ہے حد درجہ کی غفلت ہو گی۔ اب مثلاً جرمنی میں، انگلستان میں، روس میں لاکھوں موتیں ہوئی ہیں۔ صرف اٹلی میں پانچ فیصدی موتیں ہو چکی ہیں۔ بعض ملکوںمیں دس فیصدی اور بعض میں پندرہ فیصدی بلکہ بعض میں تو بیس فیصدی تک پہنچ گئی ہیں۔ ممکن ہے بعد میں قتل کا بازار اور بھی گرم ہو۔ غرض لڑائی میں لوگ الگ قتل ہوتے ہیں اور جاسوسوں کو الگ قتل کیا گیا ہے۔ اور آزادی کی کوشش کرنے والے مزید برآں مارے گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ ہزاروں لاکھوں تک مر چکے ہوں۔ پھر قحط سے بھی مرے ہوں گے۔ تو جس ملک کی آبادی بیس فیصدی مر جاتی ہے اس کا خیال کر کے بھی دل دہل جاتا ہے۔
قادیان کی آبادی چودہ ہزار کے قریب ہے۔ اس میں سات آدمیوں کو ہیضہ ہؤا تھا ان میں سے پانچ مر گئے ہیں۔ ان پانچ کی وجہ سے خطوں میں، تاروں میں اور فون پر جو گھبراہٹ کا اظہار کیا جاتا رہا ان سے بے حد پریشانی پائی جاتی تھی مگر چودہ ہزار کی آبادی میں سے پانچ کا مر جانا اس کا صرف یہ مطلب بنتا ہے کہ سوا دو ہزار میں سے ایک آدمی مرا۔ اور سو میں سے 22/1 آدمی۔ جس کی وجہ سے اس قدر شورو شر ہؤا۔ کجا یہ کہ سو میں سے 22/1 اور کجا یہ کہ 100/10۔ بلکہ بعض جگہ اس سے بھی زیادہ۔ تو جس ملک میں ایسی تباہی آئی ہو کہ کام کرنے والی آبادی کا بیشتر حصہ مر چکا ہو ان کا کیا حال ہوگا کیونکہ جہاں 20 فیصدی تباہی ہوئی ہے اس کا تو یہ مطلب بنتا ہے کہ ہر پانچ میں سے ایک آدمی۔ دیکھو ہر پانچویں کا تباہ ہو جانا کتنی دہشت پیدا کرتا ہے۔ اس کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ پانچواں حصہ تباہ ہؤا ہے یا دسواں تباہ ہؤا ہے کیونکہ وہ حصہ جو کام کرنے ولا ہوتا ہے وہ تو کُل آبادی کا 20،25 فیصدی ہی ہوتا ہے۔ پس اس تباہی کا مطلب یہ ہے کہ بعض ملکوں کے کام کرنے والوں میں سے 85 فیصدی مر گئے ہیں۔ خیر کچھ بوڑھے بھی کام کرنے والے ہوتے ہیں اگر ان کو نکال دیا جائے تو وہاں 70 فیصدی تباہ ہو گئے ہیں۔ 100 میں سے 85 کا مر جانا یا 70 خاندانوں کا لاوارث رہ جانا یہ ایسی چیز ہے کہ اس سے کوئی بھی اقتصادی صورت باقی نہیں رہ جاتی۔
یورپ جیسے ملک میں جو عیش پرستی اور نشہ میں مبتلا ہے جنگ کے بعد ہی ایسا موقع ہے کہ وہ اس ہولناک تباہی سے ڈر کر توجہ کرے۔ باقی وقتوں میں تو وہ دین کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں کرتے۔ اس ملک میں جب کوئی تقریر کرتا ہے تو وہ اس لئے نہیں سنتے کہ ان کو کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔ اول تو وہ سنتے ہی نہیں لیکن اگر سنیں بھی تو وہ نہ اعتراض دل سے کر رہے ہوتے ہیں اور نہ پسندیدگی کا اظہار دل سے کر رہے ہوتے ہیں۔ ان ساری باتوں کو وہ خیالی اور جھوٹی خیال کرتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں یہ کوئی پاگل ہے اور محسوس بھی نہیں کر رہے ہوتے کہ ہم بھی مان لیں لیکن اب ان کی زندگی کا پہلو ہی بدل گیا ہے اور ان کے دل مرعوب ہو رہے ہیں۔
مولوی محمد الدین صاحب نے جب وہ یورپ سے واپس آئے۔ ایک دفعہ ذکر کیا کہ وہاں آدمی گھر سے نکلتا ہے تو گلی کی نکڑ تک اسے سات دفعہ جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ کوئی ملنے والا اسے کہتا ہے کہ آج موسم خراب ہے تو وہ کہتا ہے ہاں خراب ہے۔ آگے چلتا ہے ۔ پھر دوسرا شخص ملتا ہے اور وہ کہتا ہے کیسی اچھی ٹھنڈک ہے تو یہ بھی ساتھ کہتا ہے ہاں کیا ہی اچھی ٹھنڈک ہے۔ آگے چل کر کسی اور سے ملتا ہے جو بادل کو پسند کرتا ہے۔ وہ پوچھتا ہے کیسا اچھابادل آیا ہے وہ بھی اس کی ہاں میں ہاں ملا کر کہتا ہے ہاں خوب بادل آیا ہے۔ اسی طرح ہر اس شخص سے مل کر جو بھی کوئی بات کرتا ہے خواہ اس کا دل دوسرے کی تائید کر رہا یا نہ کر رہا ہو مگر ایک شہری ہونے کی حیثیت سے وہ اپنا فرض سمجھتا ہے کہ دوسرے کی بات کی تصدیق کرے۔ اگرچہ دل سے وہ گالیاں دے رہا ہو مگر تائید ضرور کرتا ہے ۔ اگر کوئی کہے کہ آج اولے پڑیں گے تو خواہ اس کا خیال اس کے خلاف ہو اسے کہنا یہی پڑتا ہے کہ ہاں اولے پڑنے کا احتمال ہے۔ موسم کے متعلق سوال کی عادت انگریزوں میں اس قدر راسخ ہے کہ تم جس بھی انگریز سے ملنے جاؤ خواہ دھوپ نکلی ہوئی ہو یا بارش ہو رہی ہو وہ تم سے ضرور پوچھے گا کہ علاقہ میں موسم کیسا ہے۔ حالانکہ ہمارے ملک میں موسم ایک سا ہوتا ہے۔ انگلستان کی طرح دن میں دو تین دفعہ نہیں بدلتا۔ پس اس قسم کے شہر میں ہر شہری اپنا فرض سمجھتا ہے کہ میں اس کی تصدیق کروں۔ دل سے خواہ اسے غلط ہی سمجھتا ہو۔ مگر جنگ کی وجہ سے دلوں میں نیک تبدیلی کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے سال دو سال میں اپنی تیاری کر لینی چاہیئے تاکہ جنگ کے بعد ہم تبلیغ کے ذرائع سے پورا فائدہ اٹھا سکیں۔ لیکن اگر اب تیاری نہ کریں اور جنگ کے بعد کریں اور کہیں اب کیا فائدہ ہو سکتا ہے تو نہ معلوم جنگ کے بعد جب تک ہماری تیاری مکمل ہو اس وقت تک ان کے دل سخت ہو چکے ہوں اور تبلیغ مشکل ہو جائے کیونکہ اس وقت لوگ حادثات کو بھول چکے ہوں گے وہ نئے منصوبے کر رہے ہوں گے اور نئی شرارتیں سوچ رہے ہوں گے۔ وہ نہیں چاہیں گے کہ فضول بحثوں میں پڑیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت وہ یہ اثر لیں کہ جس طرح کوئی بندر نچانے والا چند منٹ کے لئے دل بہلا دیتا ہے یہی حال مذہبی مبلغوں کا ہے۔
پس ہم کو روپیہ سے اور لٹریچر سے اس موقع پر یکدم دھاوا بولنے کے لئے تیار ہو جانا چاہیئے تا جنگ کے بعد دو چار سال میں ہی ان کو دین کی طرف لے آئیں کیونکہ اب ان کے دل کمزور ہو چکے ہیں ۔ وہ ڈرے ہوئے ہیں اور ان کے دل خوف محسوس کرتے ہیں اور ایک رغبت پیدا ہو چکی ہے۔ چاہئے کہ ہم اس وقت سے پہلے فائدہ اٹھا لیں اور سچائی کا پیغام ان تک پہنچا دیں۔ پیشتر اس کے کہ پھر ان کے دل سخت ہو جائیں۔ جب ان میں سے کچھ لوگ مان لیں گے وہ پھر یہ نہ کہہ سکیں گے کہ یہ لوگ پاگل ہیں۔ بے شک ایشیائی لوگوں کے متعلق ان کا یہی خیال ہے کہ یہ مذہبی دیوانے ہیں مگر جب ان ہی کی قسم کے لوگ مان لیں گے وہ ہم حالات ہم پیشہ ہوں گے ۔ جب وہ ان سے بات کریں گے تو وہ نسبتاً زیادہ توجہ سے بات سنیں گے۔ اگر اس وقت وہ کسی کو پاگل سمجھیں گے بھی تو چھوٹی قسم کا۔ اگر اب وہ 90 فیصدی کو پاگل کہتے ہیں تو پھر شاید دس فیصدی کے متعلق خیال کریں گے کیونکہ ان کو نظر آ رہا ہو گا کہ وہ ان کے ہی ہم خیال ، ہم مذہب و ملت تھے۔
غرض جوں جوں جنگ خاتمہ کی طرف آ رہی ہے ہماری ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں اور جو میدان تبلیغ کے لئے خالی کیا جا رہا ہے وہ شاید چار پانچ سال تک ہی رہے گا۔ 1914ء کی جنگ جو 1918ء میں ختم ہوئی جب اس کے بعد مَیں 1924ء میں لنڈن گیا تو گو اس کا لوگوں کے دلوں پر اثر تھا مگر وہ حالت نہ تھی جو 1918ء میں تھی۔ اس میں کمی آ گئی تھی اور اتنا ڈر نہ رہا تھا ۔ پھر ایک اور بات بھی ہے۔ پہلی جنگ کے بعد لوگوں کے دلوں میں عام طور پر مذہب کی طرف توجہ پیدا نہ ہوئی تھی بلکہ یہ خیال پیدا ہو گیاتھا کہ یہ تھوڑے دنوں کی زندگی ہے اس سے زیادہ سے زیادہ لطف اٹھانا چاہیئے۔ پس وہ زیادہ عیش اور آزادی کی زندگی گزارنے لگ گئے تھے۔ مگر اس جنگ کے بعد یورپ کچھ عرصہ کے لئے مذہب کی طرف مائل رہے گا۔ اس دفعہ جو خرچ ہو رہا ہے وہ بھی پہلے سے زیادہ ہے۔ ان کو مالی لحاظ سے صدمہ بھی زیادہ ہے کیونکہ انگریزوں کا خرچ گزشتہ جنگ سے دو چند ہوچکا ہے۔ شاید آخر تک تین چار گنا ہو جائے۔ امریکہ کا تو دس گنا ہو گیا ہے۔ خرچ کے ہندسے پڑھتے ہوئے ڈر آتا ہے کہ دنیا کی مالی حالت کیسی ہو جائے گی۔ عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ اربوں کے الفاظ صرف اندازہ کے لئے ہیں۔ عملی دنیا میں ان کا کوئی کام نہیں مگر اب تو خرچ اربوں نہیں بلکہ کھربوں میں جاتا ہے۔ یہ سب خرچ کام کرنے والی آبادی کی تباہی اور حادثات یہ چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے ان کی کچھ عرصہ دین کی طرف توجہ رہے گی۔
پس یہ دن ایسے ہیں کہ خداتعالیٰ نے داغ بیل ڈال دی ہے۔ ہم کو پہلے سے ہی توجہ کرنی چاہیئے۔ قبل اس کے کہ اس کے نشان مٹ جائیں۔
پس جماعت کی ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں۔ نوجوانوں کو چاہیئے کہ اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کریں۔ تحریک جدید میں جنہوں نے حصہ لیا ہے وہ اور بڑھ کر حصہ لیں۔ اس سال کے جن کے بقائے ہیں وہ ادا کریں۔ اب نیا سال آنے والا ہے اور وہ اس دور کا آخری سال ہے۔ اس کے لئے کیا ذمہ داریوں کے لحاظ سے اور کیا آخری منزل کے لحاظ سے زیادہ زور لگانا چاہیئے۔ پھر نہ معلوم نئی تحریک کس قسم کی ہو گی۔ بہرحال اسے تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ وہ آپ بہتر سمجھا دے گا مگر ہمیں ابھی سے کیا مالی لحاظ سے اور کیا وقتی لحاظ سے تیاری شروع کر دینی چاہئے۔ نوجوانوں میں دین کا شوق پیدا کیا جائے اور وہ پہلے سے تیاری کر لیں تاکہ جب سلسلہ کے پھیلانے کے دن آئیں یہ تیاری ہمارے کام آ سکے اور جس جس قربانی کی بھی اشاعت اسلام کے لئے ضرورت ہو۔ ہم اس سے دریغ نہ کریں اور ہم پہلی قوموں سے اچھا نمونہ دکھانے کی کوشش کریں۔ ایک اور خیال بھی اس امر کی تائید کرتا ہے کہ اس جنگ کے پیچھے کوئی برکت پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ اٹلی کے متعلق رؤیا میں نے ستمبر 1940ء میں جبکہ مَیں چودھری ظفراللہ خان صاحب کے ہاں شملہ ٹھہرا ہؤا تھا دیکھا اور اب اٹلی کی شکست کا واقعہ بھی ستمبر میں ہی پیش آیا۔‘‘ (الفضل 31 اکتوبر 1943ء)

20
تبلیغِ احمدیت کا موسم معلوم نہیں کب ختم ہو جائے اس لئے جلد از جلد اپنا کام ختم کرو
(فرمودہ 17 ستمبر 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ ہر ایک چیزکا ایک وقت ہوتا ہے اور اس وقت کے آگے یا پیچھے ہو جانے سے وہ کام جو ٹھیک وقت پر ہونا ہوتا ہے رُک جاتا ہے۔ وہی کام جو اپنے وقت پر سہولت سے اور احسن طور پر ہو سکتا ہے اس کے لئے وقت گزر جانے کے بعد بڑی مشکلات پیش آ جاتی ہیں۔ اور بعض اوقات کوئی کام بالکل بے وقت بھی ہو جاتا ہے مگر اس کے پورا کرنے کے لئے بڑی قربانی کی ضرورت پیش آ جاتی ہے۔ پھر بھی اس قربانی کے بعد جو نتیجہ نکلتا ہےوہ خرچ کے مقابل میں بہت ہی کم ہوتا ہے۔ دیکھو سونا بنانے والے کتنی کوشش کرتے ہیں۔ سالہا سال خرچ کئے جاتے ہیں اور لاکھوں روپے سونا بنانے میں کامیاب ہونے کے لئے خرچ کر دیتے ہیں۔ پھر ان میں سے بعض لوگ کہہ دیتے ہیں ہم نے گُٹھلی بَھر سونا بنا لیا ہے۔ اول تو یہ جھوٹ ہوتا ہے۔ مگر ہم فرض کر لیتے ہیں کہ صحیح ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ غیر طبعی طریق کیوں اختیار کیا گیا؟ غیرطبعی طریق اختیار کرنے سے کیا فائدہ حاصل ہؤا؟ اگر وہ اتنا ہی وقت جو اُس نے سونا بنانے میں کامیاب ہونے میں لگایا کسی تجارت پر لگاتا، صنعت و حرفت پر لگاتا اور وہ طریق اختیار کرتا جو خدا نے مقرر کیا تو اس سے بہت زیادہ فائدہ حاصل ہوتا جو ایک گٹھلی برابر سونا بنا کر اسے حاصل ہؤا۔ غیرطبعی طریق اختیار کر کے اس نے دوستوں کی مجالس کو چھوڑا ، تنہائی اختیار کی، سرمایہ لگایا اور لاکھوں روپے اس میں کامیاب ہونے کے لئے خرچ کئے۔ سالہا سال آگ کے آگے بیٹھنا پڑا، دھوئیں اور راکھ میں پھونکیں مارتا رہا۔ ان سارے اوقات اور لاکھوں روپے خرچ کے بعد جو اسے حاصل ہؤا وہ ایک گٹھلی برابر سونا ہے۔ اگر وہ صحیح طریق اختیار کرتا اور اس رقم کو جو سونا بنانے کی دُھن میں اس نے خرچ کی بازار سے سونا خریدتا تو شاید 15،16 سَو گُنا زیادہ خرید سکتا۔
مکہ مکرمہ میں درخت نہیں اُگ سکتے۔ وہاں بعض نے باغ لگانے کی کوشش کی ہے مگر اس غیرطبعی طریق اختیار کرنے والے کی عقل پر تعجب ہے۔ وہ ہزاروں ہزار روپیہ خرچ کر کے طائف سے مٹی لایا، گڑھے کھدوا کے ان میں مٹی ڈالی اور پھر ان گڑھوں میں وہ درخت بونے میں کامیاب ہؤا مگر اس نے مٹی منگوا کر ڈلوانے اور گڑھے کھودنے میں کس قدر خرچ کیا اور اس قدر خرچ کرنے کے بعد جو پھل اُترا وہ نہایت ہی تھوڑا تھا۔ پس جو نتیجہ نکلا اسے اس سے کیا حاصل ہؤا لیکن اگر وہ اس ہزار یا لاکھ روپے کو جائز اور صحیح طور پر استعمال کرتا تو ممکن ہے کہ اتنی ہی رقم کو خرچ کر کے سو گُنا فائدہ اٹھا لیتا۔ جتنا اس نے غیرطبعی طریق پر خرچ کر کے اٹھایا۔ یوں تو لوگ کمروں میں بھی درخت لگا لیتے ہیں۔ بعض لوگ شیشے کے کمرے بنا کر پودے لگاتے ہیں ۔ ان کا باغبان بھی مقرر ہوتا ہے۔ ماہر فن مقرر کئے جاتے ہیں۔ تجربے کئے جاتے ہیں۔ ان سے درخت اُگ بھی آتا ہے ۔ بعض اوقات دوسرے کسی غیرطبعی طریق سے بعض سامان کر دیئے جاتے ہیں تو گرم ملک کا درخت سرد ملک میں اور سرد ملک کا درخت گرم ملک میں اُگ آتا ہے۔ مگر اس سے جو پھل ملتا ہےوہ خرچ کے مقابلہ میں کم ہوتا ہے ۔ کیونکہ سرد ملک کا درخت گرم علاقے میں بوئیں یا گرم کا سرد میں بوئیں تو اس پر جو خرچ آئے گا اس کا نتیجہ نقصان کی صورت میں ہی نکلے گا۔ اگر وہ درخت پھل دے گا تو وہ پھل بہت ہی کم ہو گا۔ ہندوستان میں سینکڑوں آدمی اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ بے موسم کا آم پیدا کیا جائے۔ انہوں نے بیسیوں قسم کے آم پیدا کئے ہیں اور مختلف موسم میں پھل دینے والے آموں کا تجربہ کیا ہے۔ نتیجہ کیا ہے؟ یہی کہ کسی پر چار دانے ہوتے ہیں، کسی پر پانچ۔ وہ سارے سال میں اس کا دسواں حصہ بھی نہیں بنتے جتنا دوسرا درخت اپنے اصل موسم میں پھل دے دیتا ہے۔
یہی حال ان تحریکات کا ہوتا ہے جو الٰہی تحریکات ہوتی ہیں۔ یعنی جس طرح آموں کے پھل دینے کا وقت ہوتا ہے اور خربوزوں کے پکنے کا وقت مقرر ہے ، گندم کے پکنے کا موسم ہے۔ اگر اس موسم میں جو ان کے بونے کا ہے ان کی کاشت کی جائے تو کثیر غلّہ پیدا ہو جاتا ہے اور انسان نفع اٹھا لیتا ہے۔ اسی طرح الٰہی تحریکات کے کامیاب کرنے پر اگر وقت پر کوشش ہو تو نتائج بہت شاندار نکلتے ہیں۔ مگر دوسرے وقت نتیجہ ایسا خوش کُن نہیں ہوتا۔ جب رسول کریم ﷺ نے دعویٰ کیا تو لوگوں نے بڑی بڑی قربانیاں کیں اور اسلام کی تعلیم کو لے کر اکنافِ عالم میں پھیل گئے اور قرآن کریم کو ہاتھ میں لے کر تبلیغ کے میدان میں نکل کھڑے ہوئے۔ قربانیاں کیں اور اس کی تعلیم کو پھیلایا۔ اس وقت قرآن کے اور حدیث کے الفاظ وہی تھے جو آج ہیں۔ اور لغت کے لحاظ سے اس کا وہی مفہوم نکالا جاتا تھا جو آج نکالا جاتا ہے۔ لیکن وہ اسلام کی ترقی کا موسم تھا۔ صحابہؓ نے تبلیغ کی اور اسلام پھیلتا چلا گیا ۔ لیکن جب قرآن کریم کے پھیلنے کا وقت گزر گیا اور اسلام کی ترقی کا وقت ختم ہؤا تو لوگ قرآن کریم کو پڑھتے تھے مگر وہ دلوں میں نہیں اترتا تھا۔ یہی قرآن تھا جس کو کافر بھی سنتے تھے اور سر دُھنتے تھے کہ واہ واہ کمال کردیا اور اب یہی قرآن ہے جس کو سن کر لوگ قہقہہ لگاتے ہیں اور کہتے ہیں اس میں دَھرا ہی کیا ہے؟ اس سے فائدہ ہی کیا ہے؟ یہ تو مسجدوں کے ملّانوں کے پڑھنے کے لئے ہے یا بے کاروں کا کام ہے کہ اسے پڑھیں۔ اس قرآن سے نہ ہماری سیاست کو کوئی فائدہ ہے، نہ صنعت کو ۔ ہمیں وہ کتابیں پڑھنی چاہئیں جن سے ہمارے پیشے ترقی کریں، سیاست ترقی کرے اور ہمیں یورپ کا فلسفہ پڑھنا چاہیئے ۔ دیکھو یہی قرآن پہلے بھی تھا جس کو سن کر دشمن بھی سر دُھنتا تھا مگر اب لوگ کہتے ہیں کہ ہم کیوں اس کو پڑھنے میں وقت ضائع کریں۔ اس سے تو بہتر ہے کہ ہم غالب کے شعر پڑھیں اور اگر کوئی قرآن کریم پڑھنا شروع کر دے تو سارے جسم پر چیونٹیاں رینگنی شروع ہو جاتی ہیں۔
تو ہر چیز کا ایک موسم ہوتا ہے۔ جب وہ موسم گزر جائے تو پھر وہ اتنا اثر پیدا نہیں کرتا۔ اسی قرآن کریم نے جو اثر حضرت ابوبکرؓ پر کیا، حضرت عمرؓ پر کیا، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ پر کیا۔ اور اسی طرح ثعبان ثوری ، احمد بن حنبلؒ اور امام ابوحنیفہؒ پر کیا۔ جب اس کی اشاعت کا موسم گزر گیا تو قرآن کریم نے بے موسم اُگنابند کر دیا۔ یہی قرآن تھا جس کا بیج ان بزرگوں کے دلوں میں لگا اور ایسے پھل دیئے کہ جن کو دیکھ کر عقل محوِ حیرت ہو جاتی تھی۔ اور دوست اور دشمن کو تعجب کا اظہار کرنا پڑتا تھا کہ یہ کیا چیز ہے اور پہلے دنیا میں ایسی چیز کہاں میسر آتی تھی۔ مگر اب وہی چیز لوگوں کو بے معنی نظر آتی ہے، بے مغز نظر آتی ہے اور صرف اس لئے رہ گیا ہے کہ غلافوں میں بند پڑا رہے۔ مسجدوں میں رکھا جائے اور ریشم کے غلافوں میں لپیٹا جائے۔ اب کان اس کو سننے کی بھی کوشش نہیں کرتے اور اگر سنتے ہیں تو خیالات اس کے آگے ایک دیوار بن کر حائل ہو جاتے ہیں اور جن خیالات کو سوچتے ہوئے لوگ مسجد میں آتے ہیں اسی دُھن میں نکل جاتے ہیں۔ ان دل کے خیالات کی وجہ سے باہر سے کان میں پڑنے والی آیتوں پر کوئی کان نہیں دَھرتا۔ ایسا کیوں ہؤا؟ اسی لئے کہ یہ ایک بے موسم کی چیز ہو گیا۔ اس کی اشاعت کا موسم گزر گیا۔
پس دینی تحریکات کے لئے بھی ایک موسم ہوتا ہے۔ خدا کا نبی جب دنیا میں آتا ہے تو وہ موسم دین کے پھیلنے کا ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ کے نشان لوگوں پر اثر کرتے یں۔ عقلی دلیلیں نتیجہ خیز ہوتی ہیں اور عظیم الشان تغیرات پیدا ہو جاتے ہیں لیکن جب وہ موسم گزر جاتا ہے تو پھر وہ تعلیم لوگوں کے دلوں میں کوئی اثر نہیں کرتی۔ جس طرح نومبر یا اکتوبر میں بوئی ہوئی گندم پھل دے جاتی ہے اور جون اور مئی میں بوئی ہوئی گندم کوئی پھل نہیں دیتی۔ مثلاً موسم میں اگر کسی جگہ سے دس یا بیس مَن نکلنی ہوتی ہے تو دوسرے موسم میں بونے سے فائدہ تو الگ رہا بیج بھی واپس نہیں آتا۔ اسی طرح الٰہی تحریکات کے پھیلنے کا موسم جب گزر جاتا ہے تو جدوجہد جو اس کی اشاعت میں کی جاتی ہے وہ فضول ضائع جاتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کا زمانہ ایک ایسا زمانہ تھا کہ جس کی تاریخ محفوظ ہے۔ ایسا نہ تھا جس طرح حضرت زرتشت یا رامچندر کا زمانہ تھا کہ ان کے زمانوں کی تاریخ محفوظ نہیں۔ یعنی آنحضرت ﷺ کی ایک ایک حرکت محفوظ ہے۔ اور لوگوں نے نقل کر دی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ کیا فضول بات ہے کہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتیں نقل کر دی ہی کہ آپ لقمہ اس طرح پکڑتے تھے، پگڑی اس طرح باندھتے تھے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ تفصیلات اسلامی شریعت کے لئے ایک Back Ground کا کام دیتی ہیں۔ اور دنیا میں ہر چیز جو اپنے ماحول میں اثر کرتی ہے۔ وہ اثر ویسے بغیر ماحول کے پیدا نہیں ہو سکتا۔ کوئی تصویر بھی اپنی Back Ground کے بغیر خوبصورت معلوم نہیں ہوتی۔ اور اس کی مثال اسی طرح ہے جیسے تھیٹر (Theatre) میں سینری (Scenery) ہوتی ہے۔ اسی طرح شریعت اسلامیہ کے ساتھ ساتھ آنحضرت ﷺ کی زندگی کی تفصیلات ہیں۔ آپ کا اٹھنا بیٹھنا، آپ کا لباس، بات کرنے کی طرز، لوگوں کی طرف متوجہ ہونا، سوال کا جواب دینا وغیر ہ سب باتیں بیان ہوئی ہیں اور ان سب تفصیلات کو ملا کر جو شکل اور جو تصویر آنحضرت ﷺ کی ہمارے ذہنوں میں آتی ہے وہ جو اثر رکھتی ہے وہ ان تفصیلات کے بغیر نہیں رکھتی۔ اس سے صحابہؓ نے آپ کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ مثلاً آپ کی پگڑی کیسی تھی؟ قد کتنا لمبا تھا؟ آپ کے رات دن کا پروگرام کیا تھا؟ مجالس میں آپ کس طرح بات کرتے تھے؟ آپ کو کیا کیا مشکلات پیش آئیں؟ اگرفرض بھی کرلیں کہ شریعتِ اسلامیہ سے ان باتوں کو دور کا تعلق بھی نہیں ہے لیکن جس چیز کا تعلق ہے وہ بھی ان کے بغیر اتنا اثر پیدا نہیں کر سکتی جتنا ان کے ساتھ کرتی ہے۔ یہ تمام باتیں بطور ایک Back Ground کے ہیں جس کے ذریعہ سے ہم حقیقت کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔ ورنہ مذہب ایک فلسفیانہ خیال اور ایک شاعر کی بات رہ جاتا ہے۔ مسلمانوں نے وہ زمانہ بھی دیکھا جبکہ لوگ قرآن کریم کی ایک ایک آیت پڑھتے ہوئے ساری ساری رات گزار دیتے تھے ۔ اور وہ زمانہ بھی دیکھا کہ اسی کے ماننے والوں نے اسے حقارت سے پھینک دیا۔ اور یہ قرآن ہر ملک کے سامنے پیش ہؤا اور ہر ایک نے اسے ٹھکرا دیا۔ ایک مصری عالم نے اپنے ایک مضمون میں قرآن کریم کے بہت سے کام گنوائے ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ قرآن پچاس کام آتا ہے لیکن اگر مسلمان اس سے کوئی کام نہیں لیتے۔ تو صرف وہ جو اس کا اصل کام ہے یعنی اس کو پڑھ کر اس پر عمل کرنا۔ جو کام اس سے لئے جاتے ہیں اور اس نے گنوائے ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں۔ اول جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے کے لئے قسم کھانا، قبر پر پڑھنا وغیرہ۔ چنانچہ اسی طرح اس نے پچاس گھناؤنے اور قابلِ نفرت کاموں کا ذکر کیا ہے۔
پس کیا وجہ تھی کہ اب قرآن کی تعلیم نے وہ اثر نہ کیا ؟ اس کی یہی وجہ تھی کہ اب اس کی شاعت کا موسم نہ رہا تھا۔ اس کی وہ Back Ground نہ رہی تھی۔ اس کی اشاعت کا موقع جاتا رہا تھا۔ جس طرح گیہوں کو اگر نومبر اور دسمبر میں بوئیں تو اچھا غلّہ دے دیتا ہے لیکن جون میں غلّہ نہیں پیدا کرتا۔ اسی طرح قرآن کریم نے اپنے موسم میں خوب پھل دیا ۔ لیکن موسم گزر جانے کے بعد یہی بیج جب دوبارہ لوگوں کے دل میں بویا گیا تو اس نے کوئی پھل نہ دیا اور اندر باہر سے اسے دھکے ملے اور وہ کوئی نتیجہ خیز تبدیلی پیدا نہ کر سکا۔
اس کے بعد پھر ہمارا زمانہ آیا۔جس میں ایک شخص پیدا ہؤا ۔ اس نے کہا کہ قرآن کے بیج کو بویاگیا ۔ اس نے پھل دیا۔ پھر وہ موسم گزر گیا لیکن اب پھر اسی بیج کو دوبارہ بونے کا موقع آ گیا ہے۔ تم نے چاہا تھا کہ موسم گزرنے کے بعد پھر فصل اُگاؤ ۔ لیکن موسم کے گزرنے کی وجہ سے تم ایسا نہ کر سکے لیکن وہ موسم زمانہ چکر کھا کے پھر اسی وقت پر آ گیا ہے اور اب دوبارہ اس کے بونے کا موسم ہے۔ پہلے زمانوں میں ایک فصل اُگائی جاتی، اس کےبعد دوسری فصل اُگائی جاتی۔ پہلے چاول بوئے گئے ، پھر چنے بوئے گئے لیکن محمد رسول اللہ ﷺ نے دنیا کو آ کر وہ بیج دیا جو تمام گزشتہ بیجوں سے اعلیٰ تھا اور اب کسی نئے بیج کی ضرورت نہ رہی۔ ہاں یہ فیصلہ ہؤا کہ یہی بیج بار بار بویا جائے گا۔ اب کوئی مزید تجربہ نہیں ہو گا۔ اب اچھی فصل معلوم ہو گئی ہے۔ جیسے تجربے کے بعد جب ہمیں معلوم ہو جائے کہ فلاں بیج سب سے اچھا ہے اس کے بعد پھر کسی اور بیج کو بونا حماقت ہے۔ اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ نے سب سے اعلیٰ اور آخری بیج دنیا کو دیا تو پہلے بیجوں کی حاجت نہ رہی اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ پہلے ادنیٰ بیج اپنے اپنے زمانوں کی ضرورتوں کے موافق کافی تھے لیکن سب ضرورتوں کے لئے کافی نہ تھے۔ جیسا آنحضرتﷺ نے آخری بیج دے دیا تو آئندہ فیصلہ ہؤا کہ جب کبھی بیج بونے کا موسم آئے پھر وہی بیج بویا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے پھر اسی بیج کےبونے کے موسم کو پیدا کر دیا ۔ ہمیں خوشی ہے کہ پھر موسم آ گیا لیکن اس بات کی ہمیں خبر نہیں دی گئی کہ یہ موسم کب تک رہے گا۔ پس ہمیں فکر کرنی چاہیئے کہ ہم اس موسم سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا لیں۔ ایسا نہ ہو کہ جس طرح پہلے موسم گزرنے کے بعد اثر زائل ہو گیاتھا۔ اب بھی ویسا ہی ہو جائے۔
احمدیت کی تبلیغ کے لئے ابھی وقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت کی حد ہمیں نہیں بتائی۔ اگر وہ بتا دیتا مثلاً یہ بتا دیتا کہ 300 سال ہے تو ہم کہتے ابھی بہت سا وقت باقی ہے۔ اگر ہم نے تبلیغ نہیں کی تو کیا ہؤا ہماری اولادیں اس کام کو کر لیں گی۔ اس کے بعد اگر ہماری اولادیں بھی اس کام کو پیچھے ڈال دیں تو آخری لوگ ہی پھر دوڑ دھوپ کرنے کے لئے رہ جاتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ آخری حد 10 سال ہے یا 100 سال ہے۔ صرف اتنا بتایا ہے کہ بونے کا موسم آ گیا ہے۔ اور اسی طرح یکدم اس موسم کے ختم ہونے کا وقت بھی آ جائے گا اور اگر تم وقت کے اندر بوؤ گے تو کھیتی اُگے گی ورنہ نہیں۔ اور اگر تم وقت کے اندر فصل نہ اُگاؤ گے تو تمہارا حال قحط زدہ علاقوں کے انسانوں کی طرح ہو گا جو بھوکے مر جاتے ہیں۔ مثلاً جیسے آجکل بنگال کا حال ہے کہ روزانہ سو سو آدمی گلیوں میں بھوکے مرے ہوئے ملتے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں انسان کا مقصد حیات نہیں بلکہ موت ہے۔ پس ہمیں فکر کرنی چاہیئے ۔ ایسا نہ ہو کہ احمدیت کے ذریعہ اسلام کی اشاعت کا موسم ختم ہو جائے۔ پس ہمیں اس بیج کو بونے میں لگ جانا چاہیئے تاکہ ہم وقت پر فصل کاٹ سکیں۔ اور ایسا نہ ہو کہ فصل کاٹنے سے پہلے ہی اس پر تباہی اور خزاں آ جائے۔ ہماری زندگی کا ہر لمحہ جو گزر جاتا ہے وہ ہمیں دہشت دلاتا ہے کہ شاید بونے کا یہی آخری گھنٹہ تھا اور یہی وقت موسم کا آخری وقت تھا۔ اور شاید کل کو ہماری کاشت گیارھویں بارھویں صدی کی طرح بے سود رہے گی۔ خداتعالیٰ نے ہمارے کام میں وسعت اور گرمی پیدا کرنے کے لئے وقت کے علم کو اپنے پاس محفوظ رکھا ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے پاس وہ کتاب ہے جس میں وہ وقت محفوظ رکھا جاتا ہے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ روحانی اشاعت کا زمانہ اسی کے علم میں ہے۔ اس کے متعلق ہمیں نہیں بتایا گیا کہ اس کی فصل کا کتنا وقت باقی ہے تاکہ نہ حد سے زیادہ امید ہو اور نہ حد سے زیادہ مایوسی ہو۔ جس دن یہ موسم ختم ہو جائے گا قوم اٹھے گی، گلے پھاڑے گی، پمفلٹ تقسیم کرے گی مگر کوئی اثر نہ ہو گا۔ یہی علم کی اور پُرحکمت باتیں ہنسی اور پاگل پَنے کی باتیں ہو جائیں گی۔ حالانکہ وہ باتیں وہی ہوں گی جنہوں نے پہلے دنیا میں تغیر پیدا کیا ہو گا۔ آج وہ موسم ہے کہ ادھر ہم گٹھلی بوتے ہیں اُدھر لہلہاتا ہؤا پودا نکل آتا ہے۔ پھر موسم آئے گا کہ اس پودے کو کیڑا کھا جائے گا کیونکہ اس کے وقت پر اس کی کاشت نہیں کی گئی۔ پس جتنا جتنا ہم وقت پر بیج بوئیں گے اتنا ہی زیادہ پھل پائیں گے اور اگر اس کام میں دیر کریں گے تو نہ صرف اپنا بلکہ آئندہ دنیا کا بھی نقصان کریں گے۔‘‘ (الفضل 2 نومبر 1943ء)



21
انسان کو اپنے اعمال کی حقیقت معلوم ہونی چاہیئے
(فرمودہ 24 ستمبر 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’انسانی قلوب مختلف حالات کے ماتحت مختلف تاثرات کو اختیار کرتے ہیں اور یہی ایک ایسی چیز ہے جو کہ انسان کو بسااوقات خطرہ سے بچاتی ہے۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات انسان ایسا ہوتا ہے کہ وہ نیکی میں اتنا بڑھتا ہے کہ اس کے جنتی ہونے میں کسی کو شک نہیں رہتا اور وہ جنت کے عین دروازے پر جا پہنچتا ہے مگر اس کے اندر کوئی ایسی بات مخفی ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے اس کا جنت میں جانا بالکل انصاف کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ پس آخری وقت میں اسے دوزخ کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔
پھر فرمایاکہ بعض اوقات انسان ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنی نافرمانی کی وجہ سے ایک خوفناک شرارت کانمونہ بن جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا اس کے متعلق یہ خیال کرتی ہے کہ یہ دوزخ کی طرف جا رہا ہے لیکن اس کے اندر بھی ایک ایسی نیکی مخفی ہوتی ہے جو اس کو جھٹکا لگا کر آخرکار نیکی کی طرف مائل کر کے جنت میں پہنچا دیتی ہے۔ 1نبی کریم ﷺ کے اس فرمان سے ہمیں ایک سبق حاصل ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے کسی کام پر تکبر اور خودپسندی نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ انسانی اعمال کو بعض ناموں سے بھی غلطی لگ جاتی ہے اور انسان یہ خیال کرتا ہے کہ یہ کام مَیں نے کئے ہیں ، مَیں نے نیکی کی ہے، مَیں نے احسان کیا ہے، مَیں نے ایثار کیا ہے، مَیں نے خدا کی عبادت کی ۔ حالانکہ ان تمام چیزوں کے متعلق توفیق خداتعالیٰ کی عنایت کردہ ہوتی ہے اور یہ خداتعالیٰ خود کرتا ہے۔ لیکن چونکہ بعض دفعہ انسان کے ساتھ دلجوئی کا معاملہ کیا جاتا ہے اس لئے ان کے نام انسان کی طرف منسوب کر دیئے جاتے ہیں تو جہاں تک بھی ہم غور کرتے ہیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے معاملات کے نام معنوی ہیں حقیقی نہیں کیونکہ حقیقت میں فاعل تو خداتعالیٰ کی ذات ہی ہوتی ہے اور ان کا نام عبادت محض انسان کی دلجوئی کے لئے رکھا جاتا ہے۔ ورنہ نہ خدا اور بندے کے تعلقات میں کوئی ایثار پایا جاتا ہے اور نہ کوئی نیکی اور نہ کوئی عبادت۔ اگر ہم ذرا بھی غور کر کے دیکھیں تو ایثار ایک قرضے کے جزو کی ادائیگی کا نام ہے۔ خدا نے تو ہماری دلجوئی اور مایوسی کو دور کرنے کے لئے ان کے نام اچھے اچھے رکھ دیئے ہیں۔ کہیں اس کا نام اخلاق رکھا ہے، کہیں نیکی رکھا ہے، کہیں تقویٰ۔ غرض محض ہمارے دلوں میں ڈھارس بندھانا ہوتی ہے۔ پس ہماری ان نیکی اور بدی کے حالات کو دیکھتے ہوئے جو ہمارے اندر مایوسی طاری ہونی تھی خداتعالیٰ ان اچھے ناموں سے اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ تاہم اس کو دیکھتے ہوئے حوصلہ کریں۔ لیکن یہ امر بیوقوفی کی حد تک پہنچ جاتا ہے ۔ جب ہم یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ یہ نیک کام ہم نے کیا ہے اور وہ نیک کام ہم نے کیا ہے۔ حالانکہ سب نیک کام خداتعالیٰ خود کرتا ہے۔ البتہ اس حد تک لطف اٹھانا کہ ہم نے تو کوئی کام نہیں کیا لیکن آقا نے اس کو کام کہا ہے، جائز ہے۔ الف لیلہ میں سند باد جہازی اور ایک سند باد برّی ایک مزدور کا واقعہ بیان ہؤا ہے۔ لکھا ہے کہ مزدور تھک گیا اور اس کے دروازے کے آگے اس نے بوجھ اتار دیا۔ وہ بہت بھوکا تھا۔ دل میں خیال کرنے لگا کہ یہ عجیب زندگی ہے سارا دن بوجھ اٹھاتا ہوں لیکن شام کو پیٹ بھر کر کھانا بھی میسر نہیں آتا۔ سامنے کے محل پر اس نے سندباد جہازی لکھا دیکھا۔ دل میں خیال کیا کہ یہ بھی ایک سندباد جہازی ہے جس کے محل میں دعوتیں اڑ رہی ہیں۔ غرباء کا ہجوم ہو رہا ہے، صدقہ و خیرات ہو رہے ہیں۔ اور ایک مَیں سندباد ہوں کہ بھوکا مر رہا ہوں۔ اسی اثناء میں سندباد جہازی نے اس کو بلایا اور کہا کہ بھوکے ہو؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ اس نے اس کے لئے دسترخوان لگوایا۔ اور عجیب قسم کی تھالیاں لگائی گئیں۔ اور نوکروں کو کھانا لانے کے لئے کہا۔ لیکن ساتھ ہی تاکید کر دی کہ ڈش خالی لائے جائیں۔ جب تمام برتن لگ گئے تو اس نے مزدور سندباد برّی کو کھانے کے لئے کہا اور کھانے کی تعریف کرنی شروع کی۔ اور کہنے لگا کہ یہ مرغ چکھو نہایت ہی لذیذ پکا ہے۔ یہ پلاؤ کھاؤ بہت ہی اعلیٰ ہے۔ حالانکہ ڈش بالکل خالی تھے۔ وہ بیچارا آگے ہی بھوکا تھا اور اس طرح خالی تعریف کئے جانے سے اس کی بری حالت ہو گئی مگر وہ بھی اس کی طرح خوش مزاج تھا۔ اس لئے اسی کی طرح تعریف کرتا رہا کہ ہاں صاحب نہایت ہی عمدہ کھانا ہے، بہت لذیذ ہے۔ جب اس سندباد جہازی نے معلوم کر لیا کہ یہ خوش مذاق آدمی ہے تو اس کو اصل کھانابھی کھلایا۔ اس مزدور کا اس کھانے کی تعریف کرنا اس کی خوش مذاقی کی دلیل تھا۔ لیکن اگر وہ اس کو سچ مچ کھانا سمجھتا تو ہم اسے پاگل کہتے۔ اسی طرح اگر ہم بھی خداتعالیٰ کے سامنے اپنے کام گننے لگیں تو ہماری بیوقوفی ہوگی۔ جہاں تک خوش مذاقی کا سوال ہے ہم سچے ہیں ورنہ ہمارے قرضے کی ادائیگی کے نام خدا نے شکر، احسان، عبادت رکھ دیئے ہیں اور جہاں تک ہم اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ باوجود آپ کر کے پھر وہ کہتاہے کہ یہ کام تم نے کیا ۔ اس حد تک تو ہم سچے ہیں لیکن اگر یہ وہم ہونے لگ جائے کہ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا، ہم نے نیکی کی، ہم نے خدا کی عبادت کی۔ تو یہ جنون ہے۔ یہ تو محض خدا کی دین اور فضل ہے۔ وہ خود اس کے لئے سامان مہیا کرتا ہے اور پھر اس کا نام لوگوں کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ جیسے بعض لوگ ہمارے سامنے ہدیہ پیش کرتے ہیں اور بعض لوگ اپنے بچوں کے ہاتھ میں کوئی چیز دے کر کہتے ہیں کہ یہ تم پیش کرو۔ تو دراصل وہ کام باپ کا ہوتا ہے بچہ کا نہیں۔ اسی طرح خداتعالیٰ نے جو اِيَّاكَ نَعْبُدُ2 فرمایا وہ تو صرف خدا نے ہمیں سکھایا ہے۔ جیسے ہدیہ دینے میں خوبی اور کمال کا تعلق بچہ کے ساتھ نہیں اسی طرح عبادت کے اخلاص کے ساتھ انسان کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب کچھ خدا نے سکھایا تھا۔ ہم نے تو صرف ان کو دہرایا ہے اور دہرانا کوئی اپنی ذات میں خوبی نہیں۔ خوبی اسی میں ہے جو اس کو پہلے بیان کرتا ہے۔
تو انسانی اعمال ایسے ہیں کہ انسان بسا اوقات ان سے دھوکہ کھا جاتا ہے اور اسی جوش میں بعض اوقات آ کر کہتا ہے کہ میں نے جائداد کو چھوڑا۔ میں نے رشتہ داروں کو چھوڑا۔ بھلا بتاؤ تو سہی کہ یہ چیزیں اس کے پاس کہاں سے آئیں۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ میں نے ماں باپ کو چھوڑا تو اس کے پاس وہ کہاں سے آئے تھے۔ اسی وہم میں مبتلا ہوتے ہوئے میں نے ایک شخص کو دیکھا ہے۔ جو نمازوں کے تارک تھے اور زکوٰۃ بھی ادا نہیں کرتے تھے مگر کہتے تھے کہ میں نے پہلے زمانہ میں حضرت صاحب کی بڑی خدمت کی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ عبادت کو قبول کرنے کی طاقت ہم نے کہاں سے لی تھی۔ مٹی نقش کو اس لئے قبول کرتی ہے کہ خدا نے اسے ایسا بنایا ہے۔ مٹی کے اندر تو خدا نے طاقت دی ہے وہ اثر قبول کر لیتی ہے لیکن لوہا کیوں نہیں قبول کر لیتا؟ اس لئے کہ اس کے اندر خود کوئی طاقت نہیں۔ اور خدا نے اس کو قبول کرنے کی طاقت عطا نہیں فرمائی۔ ایک بزرگ نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ
خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گل کوزہ
خود بر سر بازار خریدار بر آمد
اگر اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ خدا ہی مٹی ہے اور وہی بناتا ہے تو یہ بیہودہ ہو گا اور اگر یہ مفہوم کہ خدا ہی سب کچھ دیتا ہے اور بناتا ہے اور پھر لے لیتا ہے اور دیتا ہے اور پھر خود ہی کہتا ہے کہ مَیں تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں تو یہ درست ہے۔ تو انسانی اعمال اور خدمات سارے خداتعالیٰ کے ہی کئے ہوئے کام ہیں۔ بعض دفعہ وہ تحفہ دے کر کہتا ہے کہ یہ تم خود کھا لو اور بعض دفعہ وہ ہمیں تحفہ دے کر کہتا ہے کہ یہ میرے سامنے پیش کرو۔
خداتعالیٰ بندے کے ساتھ جس قسم کی تجارت کا معاملہ کرتا ہے وہ عجیب ہے۔ وہ پہلے ایک چیز بندہ کو دیتاہے ۔ پھر کہتا ہے کہ اسے میرے پاس بیچو۔ حالانکہ آپ ہی وہ چیز دیتا ہے اور آپ ہی اس کا خریدار بن جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ۔ 3حالانکہ مال اور جان سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کا دیا ہؤا ہے۔ بعض بندے بھی خداتعالیٰ کی نقل کرتے ہیں لیکن نقصان دہ طور پر۔ ہندوستان میں بعض تاجر زکوٰۃ عجیب طور سے نکالتے ہیں۔ زکوٰۃ کی اشرفیاں یا روپے وغیرہ نکال کر گھڑے میں ڈال دیتے ہیں اور اوپر گندم ڈال کر ملاں کو بلا کر کہتے ہیں کہ یہ زکوٰۃ لے لو۔ جب وہ لے جانے لگتا ہے تو کہتے ہیں کہ تم کہاں گھڑے کو اٹھائے پھرو گے۔ ہم تمہیں اس گھڑے کی زیادہ قیمت ادا کر دیتے ہیں۔ ان کو ہمارے پاس ہی رہنے دو۔ اس ملاں کو اس حقیقت کا علم ہوتا ہے لیکن وہ اس خیال سے کہ میرے جیسے اس کو اَو ر بہت سے ملاں مل سکتے ہیں ۔اگر مَیں نے یہ قیمت نہ لی تو یہ اَور کسی کو دے دے گا۔ وہ تاجر کی بتائی ہوئی قیمت پر ہی وہ گھڑا اسے دے دیتا ہے۔ تو اس قسم کے فعل کے بعد یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ زکوٰۃ ادا ہو گئی۔ یہ تو خدا کے فعل کی بھونڈی نقل ہے۔ اللہ تعالیٰ تو پہلے بندہ کو تحفہ دیتا ہے پھر اس کو زیادہ قیمت پر خریدتا ہے۔ مگر یہ لوگ خدا کا مال دوسرے کو اپنا کر کے دیتے ہیں اور پھر ادنیٰ قیمت پر اسے خریدتے ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ کی تجارت کی عجیب کیفیت ہے۔ وہ خود ہی چیز دیتا ہے اور پھر اس کو خود ہی خریدتا ہے۔ اور پھر فرماتا ہے ۔ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَ لَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ ۔4 یعنی اگر تم ہماری اس تجارت پر شکرگزار ہو گے تو اس شکرگزاری کے نتیجہ میں ہم تم کو مزید قیمت دیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ بندہ کو تحفہ دیتا ہے اور پھر خریدتا ہے۔ اور پھر جب بندہ شکرگزار ہوتا ہے تو دوسری دفعہ اس کی قیمت دیتا ہے۔ پھر وہ شکرگزار ہوتا ہے تو تیسری دفعہ اس شے کی قیمت دیتا ہے۔ اسی طرح بار بار ہوتا رہتا ہے۔ غرضیکہ خداتعالیٰ کے تحائف بے شمار ہیں۔ جو کبھی ختم ہونے میں نہیں آتے۔ ایران کے ایک بادشاہ کا یہ قاعدہ تھا کہ جب وہ کسی کام پر خوش ہوتا تو زِہ کہتا۔ اور جس کے متعلق زِہ کہتا اسے تین ہزار درہم انعام دیتا۔ ایک دفعہ وہ ایک بڈھے کے پاس سے گزرا جو ایک درخت لگا رہا تھا۔ بادشاہ نے کہا کہ تمہاری تو عمر بھی بہت ہو گئی ہے اور درخت وہ لگا رہے ہو جس کے پھل کھانے کی تمہیں امید نہیں۔ بڈھے نے کہا کہ بادشاہ ہمارے اگلوں نے لگائے، ہم نے کھائے۔ ہم لگائیں گے ، ہمارے بچے کھائیں گے۔ بادشاہ نے کہا زِہ اور اس کے بعد انعام دیا۔ بڈھے نے کہا کہ بادشاہ آپ نے کہا تھا کہ میں پھل نہیں کھاؤں گا مَیں نے تو اپنے درخت کا پھل وقت سے پہلے کھا لیا۔ بادشاہ نے کہا زِہ اور پھر انعام دیا۔ بڈھے نے کہا دیکھئے بادشاہ اور لوگ تو اپنے درخت کا پھل سال میں ایک دفعہ کھاتے ہیں لیکن مَیں نے ابھی ابھی دو دفعہ کھا لیا۔ بادشاہ نے کہا زِہ اور انعام دے کر کہا کہ اس بڈھے کے پاس سے چلو ورنہ یہ ہمیں لوٹ لے گا۔ یہ تو انسانی خزانے والے کا حال تھا لیکن اللہ تعالیٰ ہر بندے کے ساتھ اسی طرح کرتا ہے۔ اس کو کہتا ہے کہ اگر تم شکر کرو تو تم کو زیادہ دیں گے اور پھر جب تم کہتے رہو گے کہ خدا نے ہم پر نعمت کی تو ہم تم کو اور دیں گے۔ تو انسان کو اپنے اعمال کی اصل حقیقت معلوم کرنی چاہیئے کہ وہ تو کچھ بھی نہیں۔ صرف خدا نے نام اچھے رکھ دیئے ہیں۔ جس طرح بچہ کو ہم اٹھا لیتے ہیں ۔ اس وقت بچہ بھی مزا اٹھا رہا ہوتا ہے کہ میں اونچا ہو گیا اور ہم بھی۔ اگر اس وقت بچہ حقیقتاً اپنے آپ کو اونچا سمجھے یا ہم اس کو واقعی بلند خیال کریں تو یہ جنون ہو گا۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم نے نماز پڑھی، جہاد کیا، تبلیغ کی لیکن جہاں تک اس کی اصلیت کا سوال ہے حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نماز پڑھواتا ، وہی جہاد کرواتا اور وہی تبلیغ کرواتا ہے۔‘‘ (الفضل 3 نومبر 1943ء)

1: بخاری کتاب القدر باب ماجاء فی القدر ، کتاب بدء الخلق باب ذکر الملٰئکۃ صلوٰت اللہ علیھم
2 : : الفاتحۃ: 5
3 : التوبۃ: 111
4 :ابراہیم: 8


22
نوجوانانِ جماعت سے دین کے لئے زندگیاں وقف کرنے کا مطالبہ
(فرمودہ یکم اکتوبر 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ میں نے آج عید کے خطبہ میں اس امر کی طرف جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ موجودہ جنگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کا قطعی فیصلہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی دنیوی طاقتوں کو جو اسلام سے اختلاف رکھتی ہیں تلوار سے مٹانا ظاہری سامانوں کے لحاظ سے ناممکن ہے لیکن تبلیغ اور روحانیت سے مٹانانہ صرف ممکن ہی ہے بلکہ خداتعالیٰ کی طرف سے موعود بھی ہے۔ اس زمانہ میں اسلحہ جنگ کی کثرت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تلوار جہاں تک اسلام کی ترقی اور غلبہ کا تعلق ہے قطعی طور پر ناکام رہے گی اور تبلیغ کامیاب ہو گی اور ہم دیکھتے ہیں کہ ظاہری علامتیں بھی ایسی ہیں جو اسی بات پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ دشمنان اسلام جہاں ہتھیاروں اور مادی طاقتوں پر زیادہ سے زیادہ بھروسہ کر رہے ہیں وہاں ان میں مذہبی یقین کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر ایک طرف مادی طاقت پر بھروسہ بڑھتا جاتا ہے تو دوسری طرف روحانی طاقت پر بھروسہ کم ہوتا جاتا ہے اور ہشیار مخالف کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ مخالف کے قلعہ پر اس جگہ سے حملہ کرتا ہے جہاں دیوار سب سے زیادہ کمزور ہو اس وقت اسلام کے دشمنوں کے قلعہ کی مادی دیواریں زیادہ سے زیادہ مضبوط ہیں۔ البتہ روحانی دیوار میں خطرناک رخنے ہیں۔ اور کسی نادان کا ہی یہ کام ہو سکتا ہے کہ مضبوط چٹانوں اور دیواروں کے ساتھ سر پھوڑتا رہے اور جہاں سے دیوار گری ہوئی ہو وہاں سے اندر داخل نہ ہو۔ آج دشمن کا قلعہ مذہبی نقطۂ نگاہ سے گر رہا ہے اور اس جہت سے بہت کمزور ہو چکا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ الٰہی منشاء ازل سے یہی تھا کہ اس زمانہ میں دونوں طاقتوں کو جمع کر کے ایک ایسا مضبوط قلعہ تیار کرے کہ جو ہر طرح مکمل ہو۔ دنیوی طاقت تو خود ان قوموں نے قائم کر لی ہے اور روحانی طاقت احمدیت کے ذریعہ ان کو مل جائے اور اس طرح ایک ایسا قلعہ تیار ہو جائے جس کی کوئی بھی دیوار کمزور نہ ہو۔
اس کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ جماعت کا ہر فرد تبلیغ کرے وہاں ایک خاص جماعت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ جو اسلام کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کر دے۔ اس کی طرف میں نے جماعت کو متواتر توجہ دلائی ہے۔ کچھ نوجوان آگے آئے بھی ہیں مگر جس حد تک ضروری ہے اس حد تک نہیں۔ پچھلے سالوں میں مالی قربانی کے لحاظ سے جماعت نے نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔ ایسا نمونہ کہ جس پر فخر کیا جا سکتا ہے اور پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں او رکوئی قوم ایسی نہیں جو دلی جوش اور ارادہ کے ساتھ ایسی قربانی کرے ۔ بغیر کسی جبر یا قانون کے اور بغیر کسی ایسے محکمہ کے جو لوگوں کی آمدنیوں کا حساب کر کے ان پر ٹیکس لگائے۔ محض اپنے ارادہ سے اتنی قربانی کرنے والی اور کوئی قوم دنیا میں نہیں۔ جنگ کے زمانہ میں چونکہ ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے اس لئے لوگ زیادہ قربانی کرتے ہیں۔ مگر جو قربانی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کرتی ہے ویسی جنگ کے زمانہ میں بھی دوسری قومیں بہت کم کرتی ہیں۔ ہماری جماعت کو کوئی ظاہری جنگ درپیش نہ تھی۔ روحانی جنگ تھی اور وہ جاری ہےا ور جاری رہے گی مگر ظاہری جنگ کے نہ ہونے کے باوجود جماعت کے بڑے حصہ نے قربانی کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔ اس سے زیادہ لوگ اس لئے شامل نہیں ہو سکے کہ تحریک جدید میں شامل ہونے کے لئے یہ شرط لگا دی گئی تھی کہ کم سے کم اتنی رقم دے کر اس میں شمولیت اختیار کی جا سکتی ہے۔ اس لئے باقی لوگ مجبوراً شریک نہ ہو سکے۔ ان کا شامل نہ ہو سکنا اس وجہ سے نہ تھا کہ ان کے دل میں شوق نہ تھا بلکہ یہ وجہ تھی کہ ان میں شامل ہو سکنے کی طاقت نہ تھی۔ پس جن میں شامل ہونے کی طاقت تھی ان کا اندازہ کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسّی نوے فیصدی دوستوں نے مالی قربانی کا قابلِ یادگار نمونہ پیش کیا ہے لیکن تبلیغ کے لئے وقفِ زندگی کا نمونہ ایسا شاندار نہیں جو جماعت نے مالی قربانی کے لحاظ سے دکھایا ہے۔ ابھی بہت سے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اپنے اوقات کو کلی طور پر دین کی خدمت میں لگانے کے لئے تیار ہوں۔ پھر میں نے ایک اور نقص دیکھا ہے کہ دوستوں میں کام کرنے میں سستی کی عادت ہے۔ جسے کسی کام پر مقرر کیا جائے وہ غفلت کرتا ہے۔ یہ عادت اہم مہمات کے سر کرنے کے لئے سخت مضر ہے اور فتح کے وقت کو پیچھے ڈال دینے والی عادت ہے۔ اس کی اصلاح بھی اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ اپنی زندگیوں کو وقف کرنے والوں کی ایک ایسی جماعت ہو جو ایک خاص پروگرام کے ماتحت تعلیم و تربیت حاصل کرے اور پھر وہی روح دوسروں میں پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اس لئے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اپنی زندگیوں کو دین کے لئے وقف کریں۔
اس سلسلہ میں مَیں جماعت کے دوستوں کو ایک او رامر کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔ جس کی طرف پہلے توجہ نہیں اور پہلے میں نے اسے بیان بھی نہیں کیا۔ ہر شخص جو اپنی زندگی وقف کرتا ہے اس کے وقف کرنے کے یہ معنے نہیں کہ اس کا وقف ضرور قبول کر لیا جائے ۔ پیش کرنے والوں میں سے جو کام کے لئے موزوں سمجھتے جاتے ہیں ان کو لے لیا جاتا ہےاور باقی کو چھوڑ دیا جاتا ہے لیکن جو شخص ایک دفعہ اپنی زندگی وقف کرتا ہے وہ خدا کے ہاں ہمیشہ ہی واقف سمجھا جاتا ہے۔ میرے اسے ردّ کرنے کے یہ معنے نہیں کہ وہ خداتعالیٰ کے ہاں بھی ردّ ہو گیا۔ چاہے ہم اسےقبول نہ کریں وہ خداتعالیٰ کے ہاں واقف ہے۔ چاہے وہ باہر جا کر کوئی اور نوکری ہی کر رہا ہو جب بھی وقفِ زندگی کے لئے جماعت سے مطالبہ کیا جائے اس کا فرض ہے کہ پھر اپنے آپ کو پیش کرے۔ خواہ پھر ردّ کر دیا جائے اور ردّ کرنے کی صورت میں اگر وہ کوئی اور کام بھی کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت وہ دین کی خدمت میں صَرف کرے۔ ورنہ وہ شدید وعدہ خلافی کا مرتکب سمجھا جائے گا۔ جب ایک شخص خداتعالیٰ کے ساتھ وعدہ کرتا ہے کہ وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرتا ہے اور پھر امام جماعت بلکہ نبی کے ردّ کر دینے پر بھی وہ سمجھتا ہے کہ مجھے چونکہ قبول نہیں کیا گیا اس لئے مَیں آزاد ہوں۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وعدہ خلافی کا مرتکب سمجھا جائے گا۔ بلکہ اپنے آپ کو پیش کر دینا تو درکنار جو شخص اپنے دل میں بھی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں خداتعالیٰ کے لئے وقف ہوں تو پھر کسی وقت بھی اس کا اپنے آپ کو وقف کی ذمہ داریوں سے آزاد سمجھنا شدید وعدہ خلافی ہے۔ کسی کا اسےقبول کرنے سے انکار اس کے وقف کو نہیں بدل سکتا۔ اس کے ردّ کرنے کے معنے تو صرف یہ ہیں کہ وہ اس خاص جماعت میں شامل نہیں ہو سکتا جس سے اس وقت کوئی کام لیا جاتا ہے اور یہ عدمِ شمولیت اس کے وقف کو بدل نہیں سکتی۔ بلکہ جس دن سے کوئی وقف کا ارادہ کرتا ہے وہ چاہے اس ارادہ کا اظہار بھی کسی کے سامنے نہ کرے وہ خداتعالیٰ کےہاں واقف ہے۔ اور اس سے کسی صورت میں بھی اپنےآپ کو آزاد سمجھنا وعدہ خلافی ہے۔ کامل مومن وہ ہے جو دل کے ارادہ پر بھی پختہ رہے۔ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص صدقہ کا ارادہ کرے اس کے لئے صدقہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ جو شخص نفل پڑھنے کا ارادہ کرے اس کے لئے پڑھنا ضروری ہے۔ پس کامل مومن کا ارادہ بھی اسے باندھ دیتا ہے اور پابندکر دیتا ہے ۔ لیکن اگر کوئی ادنیٰ مومن ہے تو جب وہ ایک بار اپنے آپ کو وقف کر چکا تو خواہ اسے قبول نہ بھی کیا جائے وہ آزاد نہیں ہوسکتا۔ دینی خدمت کے لئے قبول نہ کئے جانے کی صورت میں اگر وہ مثلاً ڈاکٹری کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ ڈاکٹری کے کام کو کم سے کم وقت میں محدود کرے اور باقی وقت دین کی خدمت میں لگائے۔ اگر کوئی انجینئر ہے تو چاہیئے کہ کم سے کم وقت انجینئرنگ کے کام پر صَرف کرے اور زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت پر۔ اگر وہ کوئی ملازمت اختیار کرتا ہے تو چاہئیے کہ ملازمت کے لئے جتنا وقت دینا اس کے لئے لازمی ہے اس کے سوا باقی وقت کا کثیر حصہ دینی خدمت میں گزارے۔ اور پھر اس تاک میں رہے کہ کب دینی خدمت کے لئے آگے بڑھنے کا مطالبہ ہوتا ہے۔ اور جب بھی ایسی آواز اس کے کان میں پڑے اسے چاہیئے کہ پھر اپنے آپ کو پیش کرے اور کہے کہ میں واقف ہوں۔ پہلے فلاں وقت مجھے نہیں لیا گیاتھا اب مَیں پھر پیش کرتا ہوں۔ اور خواہ وہ ساری عمر بھی نہ لیا جائے مگر اس کا یہ فرض ہے کہ ہمیشہ اپنے آپ کو واقف ہی سمجھے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو خداتعالیٰ کے نزدیک وہ وعدہ خلاف اور غدّار سمجھا جائے گا۔ پس جس نے کسی وقت بھی اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کیا وہ اس سے کبھی آزاد نہیں ہو سکتا۔ میرا یا کسی اور کا اسے کسی وقت قبول نہ کرنا اسے وقف کی ذمہ داریوں سے آزاد نہیں کر سکتا کیونکہ وقف تو ایک عہد ہے، خداتعالیٰ اور بندے کے درمیان، اور کوئی قبول کرے یا نہ کرے یہ عہد ہرگز نہیں ٹوٹ سکتا۔ بلکہ اگر صرف دل میں ہی وقف کا ارادہ کیا جائے ، چاہے اظہار نہ ہو تو بھی نہیں ٹوٹ سکتا۔
پس وقف قبول کئے جانے یا نہ کئے جانے کا کوئی سوال نہیں۔ جو شخص وقف کرتا ہے اس کا وقف ہمیشہ قائم رہتا ہے اور خدمتِ دین کی ایک صورت کے لئے اسے قبول نہ کئے جانے کے یہ معنے نہیں کہ وہ دین کی کسی اور رنگ میں خدمت کرنے کی ذمہ داری سے بھی سبکدوش ہو گیا۔ اگر ایک شخص کی آنکھیں خراب ہیں اور اسے فوج میں بھرتی نہیں کیا جاتا تو اس کے یہ معنے نہیں کہ اب وہ ہمیشہ کے لئے ملک کی خدمت کے فرض سے آزاد ہو گیا۔ کیونکہ اگر وہ باقاعدہ لڑنے والی فوج میں شامل نہیں کیا گیا تو کئی اور صورتوں میں خدمتِ ملک کر سکتا ہے۔ کلرک بن سکتا ہے، زخمیوں کے لئے پٹیاں بنانے کا کام کر سکتا ہے۔ ایسی تحریکیں کر سکتا ہے جن سے فوجی بھرتی میں امداد مل سکے۔ اور نہیں تو عوام میں بے چینی پیدا کرنے والی غلط افواہوں کی تردید کر کے ایک اہم خدمت سرانجام دے سکتا ہے۔
غرض جو شخص کسی خاص وقف کی تحریک میں نہ لیا جانے کی صورت میں یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ اب وقف کی ذمہ داری سے وہ آزاد ہو گیا ہے وہ ایسا ہی احمق ہے جیسا وہ والنٹیر احمق ہے جو فوج میں بھرتی ہونے کے لئے گیا اور اسے فوج کے قابل نہ سمجھ کر آزاد کر دیا گیا۔ اور اس نے ملک کی خدمت کی ذمہ داری سے اپنے آپ کو آزاد سمجھ لیا۔ اگر وہ کامل مومن ہے تو صرف دل میں ارادہ کرنے سے اور اگر ادنیٰ مومن ہے تو اپنے آپ کو پیش کر دینے کے بعد وہ ہمیشہ کے لئے خداتعالیٰ کے ہاں وقف ہے۔ خواہ اسے کوئی قبول کرے یا نہ کرے۔
پس جو نوجوان اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ قیامت تک وقف ہیں۔ اور جو اَب میری اس تحریک پر یا کبھی آئندہ اپنے آپ کو پیش کریں وہ بھی اس بات کو یاد رکھیں کہ وقف کی بڑی اہمیت ہے۔ اس لئے جواپنے آپ کو پیش کرے اچھی طرح سوچ سمجھ کر کرے ۔ یہ بات اب تک میں نے واضح نہیں کی تھی۔ اور اب ایک واقف کی ایک تحریر سے مجھے یہ خیال پیدا ہؤا کہ یہ مضمون مَیں نے پہلے بیان نہیں کیا۔ اس لئے اب اسے بیان کر دیا ہے۔ تا جو لوگ اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں وہ گنہگار نہ ہوں۔ اور جو آئندہ پیش کریں سوچ سمجھ کر کریں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ جب اسلام کو سپاہیوں کی ضرورت ہو تو جو شخص طاقت اور اہلیت رکھنے کے باوجود آگے نہیں آتا وہ گنہگار ہے۔ اس لئے جو نوجوان اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہوں اور اس ذمہ داری کو نباہ سکتے ہوں وہ پیش کریں۔ ایسے نوجوانوں کے لئے خدمتِ دین اور ثواب حاصل کرنے کا یہ نادر موقع ہے۔ ایسا نادر موقع کہ جو شاید آئندہ نہ مل سکے۔ انبیاء کے قریب کے زمانہ میں ایسے مواقع مل سکتے ہیں مگر جب ترقیات حاصل ہو جائیں تو پھر ایسے مواقع نہیں مل سکتے۔ ‘‘
(الفضل 19 اکتوبر 1943ء)


23
جماعت احمدیہ تبلیغِ احمدیت کس رنگ میں کرے
(فرمودہ 8 اکتوبر 1943ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو مخاطب فرمایا ہے اور جن الفاظ میں مخاطب فرمایا ہے وہ ہمارے لئے اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں کہ حضرت نوحؑ ان نبیوں میں سے سمجھتے جاتے ہیں جو دنیا پر بہت بڑا عذاب لائے تھے۔ ایسا عذاب لانے والا نبی بھی اگر ہمارے لئے ہدایت و رشد کا ایسا سبق پیش کرتا ہے جو نرمی اور عفو پر مبنی ہے تو وہ انبیاء جن کی تعلیم عفو اور رحم پر زیادہ مشتمل ہے ان کی امتوں کی ذمہ داری تو اور بھی بہت بڑھ جاتی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّيْ وَ اَنْصَحُ لَكُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔1 اس آیت میں انہوں نے اپنی تبلیغ کا طریق بیان فرمایا ہے۔ اور وہ ہتھیار اور حربہ بھی بیان فرمایا ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے مخالفوں پر غالب آنے کی امید رکھتے ہیں۔ اس آیت میں تین باتیں ہیں جن کے متعلق وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ذریعہ مَیں اپنے مخالفین کا مقابلہ کروں گا۔ گویا یہ تین ہتھیار ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ملے تھے۔ پہلا ہتھیار یہ ہے۔ اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّيْ مَیں تمہارے سامنے وہ تعلیم پیش کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے مجھے ملی ہے۔ رب کا لفظ عربی زبان میں ایسی ہستی کے لئے بولا جاتا ہے کہ جو ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر کمال تک پہنچاتی ہے۔ گویا زندگی کے تمام شعبوں کے ساتھ اس کا واسطہ ہوتا ہے۔ ہم مٹی کا ایک کھلونا بناتے ہیں۔ جہاں تک اس کی ظاہری شکل کا تعلق ہے اس کی تیاری کی کیفیتوں سے ہم واقف ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کے پیٹ میں کتنا خلا ہے۔ اس کا سر ٹھوس ہے یا اندر سے خالی ہے۔ لیکن ہمارا علم اس کے متعلق اس وقت سے شروع ہؤا جب کھلونابنانے کے لئے ہم نے مٹی کو گیلا کیا۔ اس سے قبل مٹی پر جو جو حالات گزرے اور وہ جن جن کیفیتوں سے گزری ہے ان سے ہم واقف نہیں ہو سکتے۔ مٹی کو گیلا کرنے کے بعد سے اس کا کھلونا بنانے تک کی حالتوں سے تو ہم آگاہ ہو سکتے ہیں مگر اس سے پہلے کی حالتوں کے بارہ میں ہمیں کوئی علم نہیں۔ جو حالت ہمارے ہاتھ سے اس پر وارد نہیں ہوئی اس کے متعلق ہم نہ تو کچھ کہہ سکتے ہیں اور نہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن جو ہستی پہلی حالتوں کی بھی واقف ہو۔ وہ ساری کی ساری کیفیات کو جان سکتی ہے۔ ایک بڑھئی لکڑی کی کوئی چیز بناتا ہے۔ وہ بتا سکتا ہے کہ یہ اس طرح بنائی گئی ہے۔ مگر لکڑی کے اندر اگر کوئی مخفی کیڑا ایسا ہو جسے انسان نہیں جانتا اور ایسا باریک ہو کہ نظر بھی نہ آتا ہو اور وہ چند ہی روز میں اس لکڑی کو کھا لے اور اس چیز کو برباد کر دے تو اس بڑھئی پر اس کی ذمہ داری نہیں ہو سکتی کیونکہ لکڑی کی تمام حالتوں اور کیفیتوں کا اسے کوئی علم نہیں ہو سکتا۔ تمام وہ حالتیں جو شروع سے آخر تک کسی چیز پر گزری ہیں ان کا علم رب کو ہی ہو سکتا ہے۔ اور حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّيْ کہ میں تمہیں وہ رسالات پہنچاتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے ہیں۔ اور رب وہ ہے جو میری تمام طاقتوں اور قوتوں کو جانتا ہے۔ اور اس لئے وہ مجھے کوئی ایسا حکم نہیں دے سکتا جو میری طاقت اور قوت سے باہر ہو۔ اگر اس نے ان پیغاموں کو پہنچانے کا مجھے حکم دیا ہے تو وہ یہ بھی جانتا ہے کہ میں ان کو پہنچا سکوں گا اور تمہیں زیر کر سکوں گا۔ ایک ناواقف شخص تو کسی کی طاقت سے زیادہ بوجھ اس پر لاد سکتا ہے اور اسے حکم دے سکتا ہے کہ اسے اٹھا کر فلاں مقام پر لے جاؤ۔ حالانکہ ممکن ہے اس میں اتنا بوجھ اٹھا کر وہاں تک پہنچنے کی ہمت نہ ہو۔ اور وہ پہلی منزل پر پہنچ کر ہی رہ جائے۔ مگر خداتعالیٰ جو میری طاقتوں سے پوری طرح واقف ہے۔ وہ جب کوئی پیغام مجھے دیتا ہے تو وہ یقیناً ایسا ہی ہے جو میں پہنچا سکتا ہوں۔ تو حضرت نوح علیہ السلام نے رِسٰلٰتِ رَبِّيْ کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ میں ضرور کامیاب ہوں گا۔ کیونکہ یہ اس کا پیغام ہے۔ اور جو ادنیٰ حالت سے اعلیٰ تک پہنچاتا ہے وہ اس حالت سے بھی واقف ہے جو باپ کے نطفہ میں تھی اور پھر وہ ماں کے رحم میں رہنے کے حالات سے بھی واقف ہے۔ میں جب پیدا ہؤا تو اس کے حکم سے ہؤا۔ ماں کی چھاتیوں میں میرے لئے دودھ اسی کے حکم سے پیدا ہؤا۔ جتنے بھی تغیرات لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں سالوں سے ہوتے آئے ہیں وہ اس کے حکم اور اس کے علم سے ہوئے ہیں ۔اس لئے وہ میری طاقتوں اور قوتوں سے جتنا واقف ہے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ بلکہ میں خود بھی اتنا واقف نہیں ہو سکتا ۔ اور جب وہ مجھے کہتا ہے کہ یہ پیغام پہنچا دو تو اس کے معنے یہ ہیں کہ میں یقیناً اسے پہنچا سکوں گا۔ وہ میری طاقتوں کو خوب جانتا ہے۔ اور پھر جو پیغام اس نے دیا ہے وہ اپنے اندر ایسی خوبیاں رکھتا ہے کہ وہ ضرور پہنچایا جاتا ہے۔ اور جس قوم کو وہ پیغام دیا جاتا ہے وہ بھی یہ طاقت رکھتی ہے کہ اسے سن سکے کیونکہ یہ پیغام ان کے رب کی طرف سے ہے جو ان کی طاقتوں سے خوب واقف ہے۔ اس سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ غلط پیغام دے گا یا اسے دے گا جس میں اسے پہنچانے کی طاقت نہ ہو۔ دوسرا لفظ اس جملہ میں رِسٰلٰت کا ہے۔ اس سے بتایا کہ میرے رب نے یہ باتیں مجھے بطور پیغام دی ہیں۔ یعنی اس کام میں دوسروں کی طاقت کا بھی لحاظ رکھا ہے۔ تمہاری طاقت کا بھی لحاظ رکھا ہے۔ اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس پیغام کو ماننے کی تم میں طاقت نہیں ہے۔ غرض رِسٰلٰت کا لفظ استعمال کر کے گویا حضرت نوحؑ یہ بتاتے ہیں کہ مجھے بھی خداتعالیٰ نے یہ توفیق دی ہے کہ میں اسے پہنچا سکوں۔ اور تمہارے اندر بھی یہ طاقت رکھی ہے کہ اسے قبول کر سکو۔ تیسرا اشارہ حضرت نوحؑ کے اس جملہ میں اُبَلِّغُكُمْ کے لفظ میں پایا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں میں خوب اچھی طرح اس پیغام کو پہنچا رہا ہوں اور پہنچاؤں گا۔ بعض دفعہ ایک انسان کوئی کام کرنے کے قابل تو ہوتا ہے مگر وہ اپنی تمام طاقتیں استعمال نہیں کرتا مگر تبلیغ کے لفظ نے بتا دیا ہے کہ جہاں حضرت نوحؑ اپنی قابلیت کا اعتراف کرتے ہیں اور پیغام ایسا ہے کہ پہنچایا جا سکے اور سننے والے اسے سننے اور قبول کر لینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ وہاں وہ اس امر کابھی دعویٰ کرتے ہیں کہ میں اپنے فرض کو کماحقہٗ ادا کرتا ہوں۔ اور پیغام کو پوری طرح پہنچا رہا ہوں۔
یہ تینوں امر کسی تعلیم کو دوسرے تک پہنچانے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔
1۔ اسے ایسے شخص کے ذریعہ دوسروں تک پہنچانے کا انتظام کیا جائے جو پہنچانے کی طاقت رکھتا ہو۔
2۔ جن کو وہ پہنچائی جائے وہ اس کے ماننے کی قابلیت رکھتے ہوں۔
3۔ یہ کہ جن کے سپرد اس تعلیم کا پہنچانا ہو وہ اسے پوری طرح پہنچا بھی دیں۔
غرض رب کا لفظ کہہ کر یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ کو جو اس کام پر مقرر فرمایا تو اسے اس کام کے کرنے کے قابل سمجھ کر مقرر فرمایا ہے۔ پھر رِسٰلٰت کا لفظ رکھ کر بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو بھی اس قابل سمجھا کہ وہ اس پیغام کو سن لیں۔ اگر وہ اس قابل نہ ہوتے تو اس پیغام کے لئے رِسٰلٰت کا لفظ استعمال نہ کیا جا سکتا تھا۔ حضرت نوحؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے اندر یہ طاقت رکھی ہے کہ میں اس پیغام کو پہنچا سکوں اور تمہارے اندر یہ طاقت رکھی ہے کہ اسے قبول کر سکو۔ تیسری بات اُبَلِّغُكُمْ کے لفظ سے یہ بیان فرمائی اور بتایا کہ حضرت نوحؑ اس پیغام کو خوب اچھی طرح پہنچاتے ہیں اور آئندہ پہنچائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ باوجود بیماری کے آپ رات دن لگے رہتے تھے۔ اور اشتہار پر اشتہار دیتے رہتے تھے۔ لوگ آپ کے کام کو دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے۔ ایک اشتہار دیتے تھے اس کا اثر دور نہیں ہوتا تھا اور اس کی وجہ سے مخالفت میں جو جوش پیدا ہوتا تھا وہ ابھی کم نہ ہوتا تھا کہ دوسرا اشتہار آپ شائع کر دیتے تھے۔ حتٰی کہ بعض لوگ کہتے تھے کہ ایسے موقع پر کوئی اشتہار دینا طبائع پر بُرا اثر ڈالے گا مگر آپ اس کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ لوہا گرم ہی کوٹا جا سکتا ہے۔ اور ذرا جوش ٹھنڈا ہونے لگتا تو فوراً دوسرا اشتہار شائع فرما دیتے تھے ۔اس کی وجہ سے پھر مخالفت کا شور بپا ہو جاتا۔ آپ نے رات دن اسی طرح کام کیا۔ اور یہی ذریعہ کامیابی کا ہے۔ اگر یہ ذریعہ ہم اختیار کریں تو کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس بات کا خیال نہ کرناچاہیئے کہ مخالفت کم ہونے دی جائے۔ جماعت کا ایک حصہ جو پیغامی اعتراضات سے ڈر جاتا ہے۔ یہ سمجھتا ہے کہ بعض اوقات خواہ مخواہ جوش دلایا جاتا ہے اور ناواجب طور پر مخالفت کی آگ کو بھڑکا لیاجاتا ہے۔ مگر یہ خیال درست نہیں۔ اُبَلِّغُكُمْ میں یہی سبق دیا گیا ہے کہ رات دن ایک کر کے کام کرناچاہیئے اور تبلیغ کے کام میں کسی وقت سستی نہ آنے دینی چاہیئے۔ اُبَلِّغُكُمْ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ میں تبلیغ کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھتا ہوں۔
اس سے آگے ایک اور ضروری سبق دیا گیا ہے۔ حضرت نوحؑ فرماتے ہیں وَ اَنْصَحُ لَكُمْ۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ اخلاص کے ساتھ تبلیغ کرنی ضروری ہے۔ وہ شخص جسے تبلیغ کی جائے وہ محسوس کرے کہ اسے تبلیغ کرنے والا دن رات اس کی خیرخواہی میں لگا ہؤا ہے۔ عملاً اس سے ایسی ہمدردی ہونی چاہیئے کہ اسے ہمدردی کا یقین ہو جائے ۔ یہ خیرخواہی اور ہمدردی ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے تبلیغ مؤثر ہو سکتی ہے۔ پرانے اطباء نے لکھا ہے کہ جب کوئی دوائی بے اثر ہو جائے اور طبیعت کے ساتھ مل جائے تو اس کے ساتھ دارچینی ملا دینی چاہیئے۔ اس سے وہ پھر نفوذ پیدا کرتی ہے۔ گویا دارچینی اثر کو بڑھا دیتی ہے۔ اسی طرح جو تعلیم خداتعالیٰ کی طرف سے آتی ہے ہمدردی اور خیرخواہی اس کے اثر کو بڑھانے کے لئے بمنزلہ دارچینی ہے۔ نُصْحٌ خیرخواہی کو کہتے ہیں۔ جب تک خداتعالیٰ کی تعلیم کے ساتھ خیرخواہی کی دارچینی نہ ملائی جائے اثر پوری طرح نہیں ہو سکتا۔ خداتعالیٰ کی طرف سے جو تعلیم آتی ہے وہ بے شک نہایت اعلیٰ ہوتی ہے مگر پھر بھی اسے لوگوں کے دلوں میں داخل کرنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اسے پہنچانے والے اخلاص سے کام لیں۔ اور اپنی ہمدردی کا یقین دلائیں۔ یہ نہ ہونا چاہیئے کہ وہ کہتے رہیں وہ مارا، وہ تباہی آئی بلکہ ایسی ہمدردی اور خیرخواہی ہونی چاہیئے کہ لوگ سمجھیں کہ یہ ہمارے باپ اور ماں سے بھی زیادہ ہمدرد اور خیرخواہ ہیں۔ بلکہ تکلیف دینے اور مخالفت کرنے والوں کے ساتھ بھی ہمدردی ضروری ہے۔
رسول کریم ﷺ کی مثال ہمارے سامنے ہیں۔ طائف کے لوگوں نے جب آپ پر پتھر برسائے تو جس وقت آپ واپس آ رہے تھے جبریل آئے اور کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں اس زمین کا تختہ الٹا دوں۔ مگر آپ نے فرمایا نہیں۔ اِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔2 ان لوگوں کو سزا نہ دی جائے کیونکہ ان کو علم نہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق بھی مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی روایت ہے۔ مولوی صاحب اوپر کے کمرہ میں تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نچلے کمرہ میں دعا فرما رہے تھے۔ مولوی صاحب کی روایت ہے کہ مجھے یوں معلوم ہؤا کہ جیسے کوئی عورت دردِ زہ کی وجہ سے کراہ رہی ہے۔ میں نے غور کیا تو معلوم ہؤا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دعا فرما رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ الٰہی لوگ طاعون سے مرتے جا رہے ہیں۔ اگر دنیا اس طرح تباہ ہوتی گئی تو ایمان کون لائے گا۔ حالانکہ طاعون آپ کی صداقت کا ایک نشان تھی مگر اس کے ساتھ ہی ایسی شفقت آپ کے دل میں تھی کہ طاعون سے ہلاک ہونے والوں کے متعلق آپ اس طرح تکلیف محسوس کرتے تھے جیسے کوئی اپنے کسی عزیز کی موت پر تکلیف محسوس کرتا ہے۔ حالانکہ مرنے والے زیادہ تر وہی لوگ تھے جو آپ کی مخالفت کرتے تھے۔
تو یہ چیز ہے جو دوسرے پر اثر کرتی ہے۔ خالی مُنہ کا وعظ خواہ وہ خداتعالیٰ کی باتوں پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو اتنا اثر نہیں کرتا۔ جیسے کوئی غذا خواہ کتنی اعلیٰ اور کتنی مفید کیوں نہ ہو جو شخص بیمار ہے ، جس کے اندر صفراء ہے وہ اسے ہضم نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو تعلیم آتی ہے۔ روحانی بیمار اسے ہضم نہیں کر سکتے۔ جب تک کہ اس کے ساتھ نُصْحٌ نہ ہو۔ اگر تبلیغ کرنے والے کے دل میں ہمدردی اور خیرخواہی ہو۔ وہ یہ خیال کرے کہ اگر یہ مرا تو ہم بھی ساتھ ہی مریں گے۔ تو اس سے دشمن کا روحانی صفراء دور ہو جاتا ہے اور دل میں خشیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ اور تبلیغ کی دوا اثر کرنے لگتی ہے۔ اور بیمار اس تعلیم کو ہضم کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
ایک اور بات جو حضرت نوحؑ نے بیان فرمائی یہ ہے کہ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔ یعنی اول تو ایسی تعلیم تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں جو خداتعالیٰ نے بھیجی ہے۔ جس کے متعلق مجھ میں یہ قابلیت ہے کہ اسے پہنچا سکوں اور میں پہنچا بھی رہا ہوں۔ اور میرے اس پہنچانے میں ایسی محبت، اخلاص اور خیرخواہی بھری ہے کہ ممکن نہیں کہ تم میں سے شریف الطبع لوگ پیچھے ہٹ سکیں۔ ہر شریف انسان میری محبت اور اخلاص کو دیکھ کر ضرور غور کرے گا۔ اور جب غور کرے گا تو فائدہ بھی اٹھائے گا۔ لیکن جو غور نہیں کریں گےا ور فائدہ نہ اٹھائیں گے تو اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔ایسے لوگوں کے بارہ میں مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ بات معلوم ہے جو تمہیں معلوم نہیں۔ یعنی ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب آنے والا ہے جو ان کو تباہ کر دے گا۔ جہاں باقی باتیں پہلے بیان کی ہیں وہاں یہ عذاب کی بات بعد میں رکھی ہے۔ اور پھر اس کی وضاحت نہیں کی بلکہ اسے مخفی رکھا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ جو نہیں مانیں گے ان کا سر کچل دیا جائے گا، وہ تباہ ہو جائیں گے بلکہ فرمایا کہ نہ ماننے کی صورت میں مجھے کچھ ان باتوں کا علم ہے جو تمہیں نہیں۔ بعض لوگ تو تبلیغ و رسالت سے متاثر ہو کر مان لیتے ہیں لیکن جن کے قلوب میں کوئی مرض ہو اور معمولی مرض ہو وہ نُصح سے دور ہو جاتا ہے۔ مگر جن کے دلوں میں ایسا مرض ہو کہ وہ کسی طرح نہ ماننے والے ہوں تو ان کے بارہ میں مجھے ایسی بات معلوم ہے جو تمہیں معلوم نہیں۔ اس میں انذار کا پہلو ہے اور انذار بھی کبھی مفید ہوتا ہے۔
پس ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہیئے کہ اس رنگ میں تبلیغ کریں کہ خداتعالیٰ کی باتوں کو پیش کریں۔ اپنے نفس کی باتیں نہ کریں۔ وہ علم دنیا کے سامنے پیش کریں جو ان کے رب کی طرف سے آیا ہے۔ اور پھر اسے ساری طاقت کے ساتھ پیش کریں۔ دن رات ایک کرکے تبلیغ کریں۔ ہر شخص کے سامنے اس کی عقل اور سمجھ کے مطابق دلائل کو پیش کریں۔ اور سادہ رنگ میں بات کو پیش کیا جائے۔ اور اپنے اوپر وہ بوجھ نہ ڈالاجائے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی نہیں کیا۔ بعض یونہی اپنے اوپر کوئی ذمہ داری لے لیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ بات بیان فرمائی کہ عربی ام الالسنہ ہے تو بٹالہ کے ایک شخص نبی بخش نے یہ سمجھ لیا کہ آپ نے جو یہ نکتہ بیان فرمایا ہے اس کا ثابت کرنا اب میرے ذمہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہنا شروع کیا کہ میں ہر بات قرآن شریف سے ثابت کر سکتا ہوں۔ اس زمانہ میں بوروں3 کی لڑائی ہو رہی تھی۔ کسی نے پوچھا قرآن شریف میں اس کا ذکر ہے؟ تو جھٹ کہہ دیا کہ قَوْمًا بُوْرًا جو آیا ہے ۔ گویا انہوں نے اپنے سر پر وہ بوجھ اٹھا لیا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا نہ کیا تھا۔ پس چاہیئے کہ تبلیغ میں جہاں دوسرے کی قابلیت کا خیال رکھا جائے اپنی قابلیت کا بھی رکھا جائے۔ یہ نہیں ہوناچاہیئے کہ جس شخص کو قرآن نہیں آتا وہ بھی ضرور تفسیر بیان کرنا اپنا فرض سمجھے۔ یا عربی نہ آتی ہو تو بھی ضرور عربی دان ثابت کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے حسب حال دلائل رکھے ہیں۔ وہی پیش کرنے چاہئیں۔ یہ غلطی ہے کہ دوسرے کے کام کو اپنے ذمہ لے لیا جائے۔ ایک اور غلطی بعض لوگ تبلیغ میں یہ کرتے ہیں کہ خواہ مخواہ کی کج بحثی شروع کر دیتے ہیں اور ملنٹوں کی طرح سارا سارا دن لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ یہ طریق بالکل غلط ہے۔ چاہیئے کہ جسے تبلیغ کی جائے وہ محسوس کرے کہ اس مبلغ کے دل میں میرے لئے حقیقی درد اور سچی ہمدردی ہے۔ اس طرح بھی اگر اثر نہ ہو تو مومن کو یہ یقین رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو ضرور پھیلانا ہے۔ اس لئے جو بھی اس کی راہ میں روک بنے گا اور مقابلہ پر آئے گا وہ ضرور تباہ ہو گا۔ یہ یقین بھی کئی دلوں کوپھیر دیا کرتا ہے۔ مگر یہ بات سب سے آخر میں ہونی چاہیئے کیونکہ جو گُڑ سے مَر سکے اسے زہر دینے کی کیا ضرورت ہے۔ ہاں جو محبت، اخلاص اور خیرخواہی سے نہیں مانتے۔ عذابِ الٰہی انہیں تباہ کر دیتا ہے۔
ہمارا فرض صرف اتنا ہے کہ یہ بھی بتا دیں کہ نبیوں کے ساتھ خداتعالیٰ کی تلوار بھی ہوتی ہے اور جو لوگ نرمی اور محبت سے نہیں مانتے اللہ تعالیٰ کی تلوار انہیں کاٹ دیا کرتی ہے۔‘‘ (الفضل 9 نومبر 1943ء)

1: الاعراف: 63
2: صحیح مسلم کتاب الجہاد باب غزوة احد وباب ما لقی النبی ﷺ من
اذی المشرکین والمنافقین
3: بَوروں: ایک قوم کا نام


24
قرآن کریم دنیا کے ہر ذہنی تغیر کے لئے کافی ہے
(فرمودہ15 اکتوبر 1943ء بمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
’’ وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ١ؕ فَيُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ يَّشَآءُ وَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۔ 1
یہ مختصر سی آیت قرآن کریم میں ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے اعتراض اور بہت سے غلط خیالات جو لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں دور ہو جاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ ۔ کہ ہم نے جب کبھی کوئی رسول بھیجا تو اسی زبان میں کلام کرنے والا بھیجا جو اس کی قوم کی زبان تھی۔ اس کے عام طور پر یہ معنی کئے جاتے ہیں اور وہ صحیح معنے ہیں کہ ہر نبی جو آتا ہے اسی زبان میں اپنی قوم کو تبلیغ کرتا ہے۔ اور اسی زبان میں اس پر الہام نازل ہوتا ہے جو زبان اس کی قوم کی ہوتی ہے۔ یہ معنے بھی اپنے رنگ میں مفید ہیں۔ کیونکہ یہ اصولی مسئلہ ہے کہ نبی کی بعثت کی غرض لوگوں کو سمجھانا اور ان کی اصلاح کرنا ہوتی ہے۔ اگر اس کے اوپر مثلاً ایسا کلام نازل ہو یا وہ کسی ایسی زبان میں بات چیت کرے جسے لوگ سمجھ ہی نہ سکیں تو نبی کی بعثت کی غرض کس طرح پوری ہو سکتی ہے۔ پھر یہ تو ہم مانتے ہیں کہ نبی کی صداقت کی یہ دلیل ہوتی ہے کہ وہ راستبار ہوتا ہے مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک شخص راستباز بھی ہو اور کم عقل یا پاگل بھی ہو۔ اس لئے کوئی مدعیٔ الہام یا مدعیٔ نبوت صرف راستباز ہونے سے خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو سکتا۔ اور اس کا پیغام اور کلام جسے وہ خداتعالیٰ کی طرف منسوب کرے یہ یقین نہیں دلایا جا سکتا کہ وہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص بیوقوف ہو مگر راستباز ہو ۔ یا راستباز ہو مگر پاگل ہو۔ پس یہ ضروری ہے کہ مدعی جو کلام پیش کرے اور پھر اس کے جو معنی کرے وہ لوگ سمجھ سکیں۔ ورنہ کیا پتہ ہے کہ جو معنی مدعی نے اپنے الہام کے کئے ہیں اگر اصل الفاظ ایسی زبان میں ہوں جو سمجھ میں نہ آئے تو وہ درست ہیں۔ پس چاہے وہ الفاظ پیش کرنے والا راستباز ہی ہو ، ہو سکتا ہے کہ وہ بھولے پن اور بے علمی سے ایسے معنی کرے جو غلط ہوں۔ احمدی کہلانے والے جو دعویٔ نبوت کرتے ہیں بالعموم وہ راستباز ہوتے ہیں۔ بعض جھوٹے بھی ہیں۔ مگر بالعموم وہ راستباز ہوتے ہیں۔ ہم نے ان کی زندگیوں کو دیکھا ہے کہ وہ سچ بولتے تھے۔ ان کا چال چلن ایسا نہیں تھا کہ جو قابلِ اعتراض سمجھا جاتا۔ اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ فریبی اور جھوٹے تھے۔ اب اگر الہام کے الفاظ کسی ایسی زبان میں خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے جائز ہوتے جسے کوئی نہ سمجھ سکتا تو ایسے لوگ کچھ چٹ چٹ کر کے کہہ دیتے کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ان پر نازل ہؤا ہے۔ اور اس کا یہ مفہوم ہے۔ ایسی صورت میں کوئی ایسا معیار نہ ہوتا جس سے معلوم ہو سکتا کہ فی الواقع وہ الفاظ خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں یا نہیں۔ مگر خدا کی کلام کے الفاظ اسی زبان میں نازل ہوتے ہیں جسے نبی کی قوم سمجھے اور اندازہ لگا سکے کہ مدعی پر خداتعالیٰ کی طرف سے کلام نازل ہؤا ہے اور نہ ہو سکتا ہے کہ کوئی مدعی ویسے الفاظ گھڑ لے جو کسی کی سمجھ میں نہ آئیں اور وہ کہہ دے ان کا یہ مطلب ہے۔
حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک شخص محمد بخش تھا۔ ایک دفعہ اس نے سنایا کہ مجھے الہام ہؤا ’’آئی وٹ وٹ۔‘‘ وہ تھاتو راستباز مگر اس کے دماغ میں جو خرابی تھی اس نے اسے ایسے بے معنی الفاظ سکھا دیے کہ ان الفاظ سے اندازہ لگا لیا گیا کہ اس کا دماغ خراب ہے۔
پھر قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ نبی اسی زبان میں گفتگو کرتا ہے اور اسی میں اس پر الہام نازل ہوتا ہے جو اس کی قوم کی زبان ہوتی ہے۔ مذاہب کی صداقت کے متعلق فیصلہ کرنے کے لئے بھی ضروری بات ہے۔ مثلاً آریہ کہتے ہیں کہ وید ایسی زبان میں نازل ہوئے جسے کوئی نہ جانتا تھا۔ یہ آیت اس کا ردّ بتاتی ہے۔ فرمایا وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ۔ ہم کسی رسول کو نہیں بھیجتے مگر اس کی قوم کی زبان میں تاکہ وہ اس کے سامنے اپنے دعویٰ کی وضاحت کر سکے اور لوگوں کو خدا کا کلام اور تعلیم سمجھا سکے۔
اس آیت کے معنی مفسرین یہ کرتے ہیں کہ نبی کی زبان ہی وہ زبان نہیں ہوتی جو اس کی قوم کی زبان ہوتی ہے بلکہ اس پر نازل ہونے والے کلام کی بھی وہی زبان ہوتی ہے جو اس کی قوم کی ہو۔ اس لحاظ سے اس آیت کا یہ مفہوم نکلے گا کہ جو زبان اس قوم کی ہوتی ہے جس کی طرف کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے اسی میں وہ نبی کلام کرتا ہے تاکہ لوگ اندازہ لگا سکیں اس کے سچے اور جھوٹے ہونے کا۔ اور اسی زبان میں اس پر خدا کا کلام نازل ہوتا ہے تاکہ لوگ سمجھ سکیں، اس پر عمل کر سکیں۔ مگر وید کی زبان توایسی زبان تھی جسے لوگ جانتے ہی نہ تھے۔ ایسی صورت میں اس کی خوبصورتی، اس کے باریک اشارات، اس کے وسیع مفہوم اور اس کے بلیغ مطالب کو وہ کس طرح سمجھ سکتے تھے۔ وید کے متعلق ایک شخص کا جس پر کہا جاتا ہے کہ وید نازل ہوئے بیان تھا کہ یہ خدا کا کلام ہے۔ ایسی صورت میں اسے یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ وید الہام ہے۔ وہ خود ہی لوگوں سے کہہ سکتا تھا کہ یوں کرو اور یوں نہ کرو۔ الہام کے معنے تو یہ ہیں کہ دوسرے بھی اسے سمجھ سکیں اور اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ لیکن اگر وہ ایسی زبان میں نازل ہو کہ نہ اس کے الفاظ کوئی جانتا ہو ، نہ اس کے محاورات سے کوئی واقف ہو، نہ اس کے استعارات کا کسی کو پتہ ہو، نہ اس کے محکمات کی واقفیت ہو، نہ اس کی فصاحت کو کوئی جانتا ہو تو ایسی زبان کے الہام سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔
اس آیت کے یہ معنی بھی ٹھیک ہیں کہ نبی اسی زبان میں کلام کرتا اور اسی زبان میں اس پر الہام نازل ہوتا ہے جو اس کی قوم کی زبان ہوتی ہے۔ مگر لسان کے معنی عربی میں صرف یہ نہیں کہ جو زبان بولی جاتی ہے بلکہ اَور بھی ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں فلاں کی زبان بڑی اچھی ہے، فلاں کی زبان بہت فصیح ہے۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ زبان زبان میں بھی فرق ہوتا ہے۔ اور استعمال اور محاورات کے فرق کے لحاظ سے ایک ہی زبان مختلف زبانیں کہلا سکتی ہے۔
پس دوسرا مفہوم اس آیت کا یہ ہے کہ جو نبی آتا ہے وہ ایسی زبان میں کلام کرتا ہے جو اس زمانہ کے محاورات کے مطابق ہوتی اور اعلیٰ معیار پر پوری اترتی ہے۔ کیونکہ ایسی زبان کا قلوب پر بہت اثر ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات سے بہت فائدہ حاصل کیا ہے۔ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق پیشگوئی تھی کہ وہ تمثیلوں میں کلام کرے گا۔ ان تمثیلوں کے معنی زبان کے محاورہ کے مطابق کرنے سے کئی باتیں حل ہو گئیں۔ مثلاً حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا ہے۔2 یہ اس وقت اس زبان کا محاورہ تھا جس میں حضرت مسیح علیہ السلام باتیں کرتے تھے کہ مقربِ خدا کو خدا کا بیٹا کہتےتھے۔ اس محاورہ کی رو سے معلوم ہو گیا کہ حضرت مسیح ؑ نے جو اپنے آ پ کو خدا کا بیٹا کہا تو اس کا کیا مطلب تھا۔
پس اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ کا یہ مطلب ہے کہ نبی اپنے ملک کی زبان بولتا ہے اور اس کے محاورات میں کلام کرتا ہے۔ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام میں ’’شراب‘‘ یا ’’محبوب‘‘ کا جو ذکر آ جاتا ہے ان الفاظ کے معنی لِسَانِ قَوْمِهٖ کے مطابق کئے جائیں گے نہ کہ شراب سے مراد وہ شراب لی جائے گی جسے پی کر لوگ مدہوش ہو جاتے ہیں بلکہ خداتعالیٰ کی معرفت کی شراب مراد ہے۔ اور نہ محبوب سے مراد کوئی انسان لیا جائے گا بلکہ خداتعالیٰ کی ذات مراد ہے۔ کوئی پاگل ہی ان الفاظ کے یہ معنی لے سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام میں شراب سے عام شراب مراد ہے اور محبوب سے کوئی انسان مراد ہے۔
غرض نبی اپنے کلام میں اس زمانہ کے محاورے اور استعارات استعمال کرتا ہے اور ایسی زبان میں کلام کرتا ہے جو اعلیٰ معیار پر پوری اترتی ہے۔ ہاں اگر کبھی وہ عام محاورہ کو ترک کرے تو اس کے معنے بھی وہ خود ہی بتا دیتا ہے تاکہ دھوکا نہ لگے۔ مثلاً اس زمانہ میں نبی کے ایک ایسے معنی لئے جاتے تھے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ردّ کیا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ نبی وہ ہوتا ہے جو نئی شریعت لائے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ نبی کے لئے ضروری نہیں کہ نئی شریعت لائے۔ اب آپ کے کلام میں اگر نبوت کا دعویٰ پایا جائے تو نبی کے وہ معنی درست نہیں ہو سکتے جو پہلے لوگ کرتے تھے بلکہ وہی معنی درست ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمائے ۔ یہ طریق استدلال بالاولیٰ کے طور پر تو استعمال ہو سکتا ہے مگر یہ نہیں کہ کسی لفظ کے ایسے معنی کئے جائیں جو عام تعلیم، لغت اور محاورہ کے خلاف ہوں۔ ہاں جس لفظ کے متعلق تشریح کر دی جائے اس کے وہ معنی لئے جائیں گے جو اس تشریح کے مطابق ہوں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نبی کی یہ تشریح فرما دی ہے کہ
من نیستم رسول نیا ور دہ ام کتاب
یعنی میں ایسا رسول نہیں ہوں جو نئی شریعت لایا ہوں۔ اس تشریح کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ نبی کا لفظ اس زمانہ میں نئی شریعت لانے والے کے متعلق بولا جاتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسے نبی نہ تھے اور ساری عمر آپ نے ایسا نبی ہونے سے انکار کیا۔ چونکہ یہ مفہوم اس زمانہ کے محاورہ کے خلاف تھا اس لئے آپ نے اس کی تشریح فرما دی۔ تو نبی جس بات کی اصلاح کریں یا جسے کسی ضرورت کے ماتحت بدلیں اس کی ساتھ ہی تشریح کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ نبی کے لفظ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی۔ تو اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ کے اس مفہوم کے ساتھ پرانی الہامی کتابوں کے سمجھنے میں بڑی آسانی پیدا ہو گئی۔ حضرت موسیٰ ؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت عیسیٰؑ اور دوسرے انبیاء کا جو کلام موجود ہے ۔ اگر ان کے زمانوں کے شاعروں ، مصنفوں اور زبان دانوں کی کتابیں دیکھیں تو بآسانی حل ہو جاتا ہے اور معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کی فلاں بات کا مفہوم کیا ہے۔ پس وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ دوسری کتابوں اور دوسرے مذاہب کے پرکھنے کا ایک بہت اعلیٰ معیار ہے۔
مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ نبی اس زبان میں بات کرتا ہے جسے اس زمانہ کے لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت کے لوگوں کی جو عقلی،علمی اور ذہنی حالت ہوتی ہے اس کے مطابق نبی کلام کرتا ہے۔ ہر زمانہ میں لوگوں کی علمی اور عقلی حالت بدلتی رہتی ہے۔ باقی نبیوں کے لئے تو اس میں کوئی مشکل نہ تھی کیونکہ ان کا کلام اسی زمانہ کے لئے ہوتا تھا جس میں نبی مبعوث کئے جاتے تھے اور اس زمانہ کے لوگوں کی عقلی اور ذہنی حالت کے مطابق ہوتا تھا۔ لیکن اسلام کے لئے یہ امر مشکل تھا کیونکہ اسلام نے قیامت تک جانا تھا۔ اور اس وقت تک لوگ کئی زبانیں بولنے والے تھے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ قرآن کریم کے سات بطن ہیں۔3 عام طور پر لوگوں نے اس حدیث کو پوری طرح نہیں سمجھا۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مختلف زبانوں کے تغیرات کے مطابق قرآن کریم کی آیات کے معنی کھلتے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے لوگوں کو قرآن کریم کی کئی آیات کے وہ معنی نظر نہ آئے جو بعد میں تغیر آنے والے زمانہ کے لوگوں کو نظر آئے۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کے جو نکات اور معارف نکالے وہ قرآن کریم میں نئی آیات داخل کر کے نہیں نکالے۔ آیات وہی تھیں۔ ہاں آپ پر اس زمانہ کے مطابق ان کا بطن ظاہر ہؤا۔ چونکہ زمانہ کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور موجودہ زمانہ مذہب کے متعلق امن اور صلح کا زمانہ تھا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم سے امن کے احکام اور صلح کی تعلیم پیش فرمائی۔ یہ دوسرا بطن تھا جو اس زمانہ کے حالات کے مطابق آپ پر کھولا گیا۔
پس رسول کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ قرآن کے سات بطن ہیں اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ دنیا میں سات بڑے تغیرات آئیں گے اور ہر تغیر کے زمانہ میں لوگوں کے وقت بدل جائیں گے۔ اس وقت خداتعالیٰ قرآن کریم کے ایسے معنی کھول دے گا جو لوگوں کے اس وقت کے ذہنوں اور قلوب کو تسکین اور تسلی دینے والے ہوں گے۔ اس زمانہ میں بیسیوں مسائل ایسے ہیں جو ایسے رنگ میں کھلے ہیں کہ پہلے ان کی ضرورت اور اہمیت محسوس نہیں کی جا سکتی تھی۔ مثلاً آیات قرآنی کے نسخ کا مسئلہ ہے ۔ پہلے ایسے وقت میں نسخ کا سوال پیدا ہؤا کہ اس وقت کے لوگوں کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہ تھی کیونکہ ان کے سامنے رسول کریم ﷺ کا عمل تھا۔ پس باوجود نسخ کے عقیدہ کے یہ بات قرآن کریم کی سچائی کے معلوم کرنے پر روک نہ بن سکتی تھی لیکن جب ایسا زمانہ آیا کہ لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ سے دور ہوئے اور دنیا کے ذہنی اور علمی تغیر کے مطابق قرآن کریم کی آیات کے معنی نہ کر سکے تو کہنے لگے یہ آیت بھی منسوخ ہے اور وہ آیت بھی منسوخ۔ اس وقت خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کھڑا کیا اور آپ نے ثابت کیا کہ قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہے اور جن آیات کو منسوخ قرار دیا جاتا تھا ان کے ایسے معنی بیان فرمائے جنہیں لوگوں کی عقلیں بآسانی قبول کر سکتی ہیں اور جو بآسانی ان کے ذہنوں میں آ سکتے ہیں۔ یہ ان آیات کا دوسرا بطن تھا جو خداتعالیٰ نے آپ پر کھولا۔
تو قرآن کریم کے سات بطن سے مراد سات عظیم الشان ذہنی اور عقلی اور علمی تغیرات ہو سکتے ہیں اور اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہر ایسے تغیر میں قرآن کریم قائم ہی رہے گا۔ کوئی یہ نہ کہہ سکے گا کہ ہمارے زمانہ کی ضروریات کو قرآن پورا نہیں کرتا۔ باقی الہامی کتابیں ایسی ہیں کہ جن کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ جب زمانہ بدلا اور دنیا میں تغیر آیا تو ان کتب میں جو کلام تھا اس کے وہ معنی نہ نکلے جو اس زمانہ کے ذہنوں کے مطابق ہوتے۔ اس لئے وہ قابلِ عمل نہ رہیں۔ مگر قرآن کریم کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جوں جوں دنیا میں تغیر آتے جائیں گے اور لوگ قرآن پڑھیں گے تو اس زمانہ کی ضروریات کو پورا کرنے والا مفہوم اس میں سے نکلتا آئے گا۔ اور لوگ تسلیم کریں گے کہ ہاں قرآن کریم ہی اس زمانہ کے لئے بھی کافی ہے۔ اور محمد رسول اللہ ﷺ ہی اس زمانہ کے لئے بھی رسول ہیں۔
پھر اَور تغیر ہو گا جس میں آج جو تفسیریں ہم لکھتے ہیں ان کے متعلق اس وقت کے لوگ کہیں گے یہ کیسی فرسودہ باتیں ہیں۔ تب خداتعالیٰ کا کوئی بندہ کھڑا ہو گا اور قرآن کریم سے ہی بتائے گا کہ قرآن اب بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح پہلے زمانوں میں قائم تھا۔ اور قرآن کریم کے ایسے حقائق بیان کرے گا کہ یا تو پہلے مفسروں کی غلطی ثابت ہو جائے گی یا پھر اعتراض کرنے والوں کی غلطی نکل آئے گی۔
پھر رسول کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ قرآن کے سات بطن ہیں اس سے ضروری نہیں کہ یہی مراد ہو کہ سات ہی بطن ہیں۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ دس، بیس، پچاس، سو، ہزار، دو ہزار بطن ہوں کیونکہ عربی میں سات کا لفظ تعدد پر دلالت کرتا ہے۔ خصوصاً کثرت پر۔ تو فرمایا قرآن کو ہم نے ایسا نازل کیا ہے کہ یہ ہر زمانہ کے لئے کافی ہو گا۔ اس میں ہر زمانہ کے خیالات پر بحث موجود ہو گی۔ اگر اس زمانہ کے لوگوں کے خیالات غلط ہوں گے تو ان کی تردید کی جائے گی اور اگر صحیح ہوں گے تو تائید کی جائے گی۔ تو قرآن کریم ہر زمانہ کے انکشافات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
یہ آیت رسول کریم ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا بھی ایک ثبوت ہے۔ اگر کوئی ایسا زمانہ آئے جب قرآن کریم (نعوذ باللہ) دنیا کی اصلاح کے قابل نہ رہے تو یہ رسول کریم ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا (نعوذ باللہ) ردّ ہو گا۔ لیکن جب قرآن کریم ہر زمانہ کے لئے ہوگا تو رسول کریم ﷺ کی صداقت بھی ہر زمانہ میں ثابت ہوتی رہے گی۔
پھر خداتعالیٰ کا عزیز حکیم ہونا بھی انہی معنی کی تائید کرتا ہےنہ کہ ان معنوں کی کہ خداتعالیٰ نے عربوںمیں نبی بھیجا جو انہی کی زبان میں ان سے کلام کرتا تھا۔ کیونکہ عزیز حکیم کا یہ مفہوم نہیں ہو سکتا کہ خداتعالیٰ نے وہی بولی بولنے والا نبی بھیجا جو عرب بولتے تھے کیونکہ وہ عزیز حکیم ہے۔ بے شک یہ حقیقت ہے اور ضروری بات ہے کہ نبی وہ زبان بولے جو اس کی قوم کی زبان ہو مگر یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔ مثلاً کسی پشتو بولنے والے کے ساتھ مَیں گفتگو کرنے کے لئے میاں خان میر یا نیک محمد صاحب کو بھیج دوں تو گو یہ کہنا صحیح ہو گا کہ مَیں نے پشتو بولنے والے کے پاس پشتو بولنے والا ہی بھیجا۔ مگر میں اس پر فخر نہیں کر سکتا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مَیں خطبہ پڑھوں اور اس میں کہوں لوگو سنو مَیں ایسا سمجھدار انسان ہوں کہ یہاں ایک پٹھان آیا تھا مَیں نے اس سے گفتگو کرنے کے لئے پشتو بولنے والے کو بھیجا ۔ اگر مَیں یہ کہوں گا تو سب لوگ ہنس پڑیں گے کہ یہ کون سی بیان کرنے والی بات تھی۔ ہر شخص ایسا ہی کرتا ہے۔ غرض صرف پہلے معنی کرنے اس جگہ درست نہیں کیونکہ وہ معنی خداتعالیٰ کے عزیز حکیم ہونے پر دلالت نہیں کرتے۔ عزیز اور حکیم کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اس فعل میں دو باتیں پائی جانی چاہئیں۔ ایک تو حکمت۔ اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے حکمت یہ ہے کہ ہر زمانہ کے مطابق اس کلام میں مفہوم پایا جائے گا اور دوسری بات ہے غلبہ۔ کیونکہ عزیز کا لفظ بتاتا ہے کہ وہ غالب ہستی ہے اور یہ غلبہ میرے بیان کردہ تیسرے معنوں کے رو سے ہی ظاہرہوتا ہے۔ یعنی خداتعالیٰ ہی غالب حکمت والا ہے کیونکہ وہی دنیا میں تغیرات آنے سے ہزار دو ہزار ،چار ہزار سال پہلے جانتا تھا کہ یہ یہ تغیر پیدا ہو گا۔ اس لئے اسی نے اپنی حکمت کے ماتحت ایک ہی دفعہ ایسے الفاظ نازل کر دئیے جن سے ہر تغیر کے مطابق مفہوم نکلتا رہے گا۔ اور وہ الفاظ چار ہزار سال ، دس ہزار سال بلکہ قیامت تک کے لئے کافی ہوں گے۔
پس ہر تغیر کے مطابق کلام میں مفہوم پیدا کرنا چونکہ ایک عزیز ہستی کا ہی کام ہو سکتا ہے اور قرآن کریم میں یہ خوبی پائی جاتی ہے۔ اس لئے معلوم ہؤا کہ وہ عزیز و حکیم ہستی کی طرف سے نازل ہؤا ہے۔ اور انسانی کلام نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک معیار ایسا بیان فرمایا ہے جس کے ذریعہ ہم پہلے انبیاء کے کلام کو سمجھ سکتے ہیں۔ اور پہلی نبوتوں کے حالات سمجھ سکتے ہیں۔ اورقرآن کریم کی اس عظیم الشان خوبی کو سمجھ سکتے ہیں کہ ہر تغیر افکار کے وقت اس میں سے نیا مفہوم نکلے گا جو اس زمانہ کے لوگوں کے قلوب کی تسلی اور روحانیت کی ترقی کا باعث ہو گا۔ آج ہم نے دیکھا ہے کہ پرانی تفسیریں جن کو پڑھ کر پہلے لوگ سر دُھنتے تھے (اور ان میں اچھی باتیں بھی ہیں) مگر صفحے کے صفحے ان میں ایسے ملتے ہیں کہ جن کو پڑھ کر کہنا پڑتا ہے کہ کیا رطب و یابس بھر دیاگیا ہے۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آ کر وہ آیات جن کے معنی ایسے کئے جاتے تھے جو موجودہ زمانہ میں لوگوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بن رہے تھے ان کے ایسے معنی پیش فرمائے جو ہمارے ذہن کے مطابق اور دنیا کے ذہن کے مطابق ہیں۔ اور دنیا کے موجودہ مفاسد کودور کرنے والے ہیں۔ مگر ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ آخری معنی ہیں۔ بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آخری خلیفہ ہیں۔ مگر دنیا میں ذہنی تغیرات ختم نہیں ہو سکتے۔ آج سے دو ہزار سال بعد ایسا تغیر ہو سکتا ہے کہ خداتعالیٰ کسی ایسے انسان کو کھڑا کرے جو اس تغیر کے مطابق قرآن کریم کی آیات کے معنی پیش کرے۔
پس یہ آیت ایک عظیم الشان مسئلہ پر دلالت کرتی ہے۔ اس کے صرف یہ معنی نہیں ہیں کہ نبی اسی زبان میں بولتے ہیں جس زبان میں ان کی قوم بولتی ہے کیونکہ یہ تو معمولی سی بات ہے۔ اور خداتعالیٰ کے لئے یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔ اس لئے لازماً اس آیت کے وہ معنی بھی ہوں گے جن میں خداتعالیٰ کا غلبہ اور حکمت پائی جائے۔ اور وہ معنی وہی ہیں جو مَیں نے بیان کئے ہیں۔ ان میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں مگر ان معنوں کی بھی تردید نہیں کرنی چاہیئے جو پہلے لوگ کرتے رہے ہیں ان کو بھی ماننا چاہیئے۔ کیونکہ ان میں بھی صداقت پیش کی گئی ہے۔ ‘‘ (الفضل 11 نومبر 1943ء)

1: ابراہیم: 5
2: یوحنا باب 9 آیت 35 تا 37
3: تفسیر الطبری الجزء الاول صفحہ 30تا 34 ۔ مطبوعہ مصر 1954ء

25
جماعت احمدیہ میں خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور
لجنہ اماء اللہ کے قیام کی ضرورت اور اہمیت
(فرمودہ 22 اکتوبر 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے کام کو چلانے کے لئے دو قوتیں پیدا کی ہیں۔ اور ان دو قوتوں کے پیدا کرنے کا سبب یہی ہے کہ ایک قوت دوسری قوت کی نگران ہوتی ہے۔ جب ایک میں کوئی کمزوری پیدا ہو جاتی ہے خواہ جان کر یا نہ جانتے ہوئے تو دوسری طاقت اپنے آپ کو نمایاں کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ان دو قوتوں میں سے ایک قوت تقدیر کی ہے اور ایک قوت تدبیر کی ہے۔ خداتعالیٰ کا کوئی فعل نہ جانتے ہوئے نہیں ہوتا۔ اس لئے تقدیر خاص تو جب بھی دنیا سے اپنا پرتَو ہٹاتی ہے کسی مصلحت کے ماتحت ہٹاتی ہے لیکن تدبیر کبھی جانتے ہوئے ہٹ جاتی ہے اور کبھی نہ جانتے ہوئے ہٹ جاتی ہے۔ اور اس طرح دنیا کا کام صحیح طور پر چلتا چلا جاتا ہے۔ کبھی دنیا پر ایسا زمانہ آتا ہے کہ لوگ تدبیر کو روحانیت کی ترقی اور اس کی درستی کے لئے بالکل چھوڑ دیتے ہیں۔ مثلاً روحانیت کی درستی کے لئے نماز کی ضرورت ہے مگر لوگ یا تو بہت ہی کم نمازیں پڑھتے ہیں اور جو پڑھتے ہیں وہ بھی ریاء اور ظاہرداری کے لئے پڑھتے ہیں۔ خداتعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کی محبت کو حاصل کرنے کے لئے نمازیں نہیں پڑھتے۔ روحانیت کی درستی کے لئے روزوں کی ضرورت ہے مگر لوگ یا توروزہ رکھنے میں سست ہو جاتے ہیں یا دکھاوے کےلئے روزے رکھتے ہیں یا روزے تو رکھتے ہیں مگر ان کے روزے صرف بھوک اور پیاس کی تکلیف ہی کہلا سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ روزوں کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ روزہ رکھنے کے باوجود وہ جھوٹ بول لیتے ہیں۔ وہ لڑائی جھگڑوں میں حصہ لیتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں۔ وہ فساد کرتے ہیں۔ وہ غیبت میں حصہ لیتے ہیں اور اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا روزہ، روزہ ہے۔ وہ باوجود روزہ رکھنے کے خداتعالیٰ کے حضور روزہ دار نہیں ہوتے۔ اور یا پھر لوگ روزہ رکھتے ہی نہیں۔ زکوٰۃ انسان کے نفس کی پاکیزگی اور اس کے قلب کے تزکیہ کے لئے ایک نہایت ہی ضروری چیز ہے مگر ایک زمانہ ایسا آ جاتا ہے جبکہ لوگ یا تو زکوٰۃ دیتے ہی نہیں اور اگر دیتے ہیں تو اسے اپنے دنیوی مقاصد کو پورا کرنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ اور یہ دونوں صورتیں ایسی ہیں جو ان کو نیکی سے محروم رکھتی ہیں۔ یعنی یا تو وہ ایسا کرتے ہیں کہ اپنے مال کو زکوٰۃ دینے کے بغیر حرام مال بنا لیتے ہیں اور یا اگر دیتے ہیں تو اس زکوٰۃ کو ایسی طرز پر تقسیم کرتے ہیں جس میں ان کی نفسانی خواہشات کا دخل ہوتا ہے۔ مثلاً کسی سکول کے لئے چندہ کی تحریک ہوئی تو ہزار دو ہزار روپیہ دے دیا۔ اس پر لوگ بڑے جوش سے اعلان کرتے ہیں کہ فلاں سکول کے لئے فلاں تاجر صاحب نے دو ہزار روپیہ چندہ دیا۔ حالانکہ وہ زکوٰۃ کا روپیہ ہوتا ہے۔ اور ان کا کوئی حق ہی نہیں ہوتا کہ وہ اسے اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ بنائیں۔ وہ غرباء کا مال ہوتا ہے اور غرباء کی طرف ہی لوٹائے جانے کا اسلام حکم دیتا ہے تاکہ مال کو پاکیزگی حاصل ہو اور ان کا نفس تزکیہ حاصل کرے۔ مگر بجائے اس کے کہ وہ زکوٰۃ کو اپنے مال یا اپنے قلب کی پاکیزگی کا ذریعہ بنائیں وہ اسے اپنی عزت بڑھانے کا ایک ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ یا زکوٰۃ کا مال تو الگ کر لیتےہیں مگر ان کے دل میں یہ ارادہ مخفی ہوتا ہے کہ کبھی ڈپٹی کمشنر سے ملے اور اس نے چندہ کی تحریک کی۔ تو اس موقع پر اس روپیہ میں سے ایک خاص رقم دے دیں گے اور اس طرح عزت اور شہرت میں اضافہ ہو گا۔ حالانکہ زکوٰۃ غرباء کے لئے ہوتی ہے ۔ اس لئے نہیں ہوتی کہ اس روپیہ کو انسان اپنی ذاتی اغراض کے لئے استعمال کرے مگر انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ ڈپٹی کمشنر تحریک کرتا ہے اور وہ چندہ میں ایک بہت بڑی رقم دینے کے بعد اس سے یہ درخواست کر دیتے ہیں کہ حضور ہماری ’’خان صاحب‘‘ یا ’’خان بہادر‘‘ کے خطاب کے لئے یا فلاں ٹھیکہ کے لئے سفارش کر دی جائے۔ ہم نے گورنمنٹ کی اس قدر خدمت سرانجام دی ہے۔ حالانکہ وہ روپیہ جس کی بناء پر گورنمنٹ کی خدمت کا انہیں دعویٰ ہوتا ہے ان کا ہوتا ہی نہیں غرباء کا روپیہ ہوتا ہے اور یا پھر اس روپیہ کو وہ پبلک میں اپنی عزت بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً کہیں کوئی انجمن اسلامیہ ہوئی اور اس کے پریذیڈنٹ یا سکرٹری یا مربی بننے کا سوال زیرِ غور ہؤا تو زکوٰۃ کے روپیہ میں سے دو ہزار روپیہ اس انجمن اسلامیہ کو دے دیا۔ اور پھر مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ ہمیں اسلام کی خدمت کا کس قدر احساس ہے۔ ہم نے اپنے دن رات کی محنت سے کمایا ہؤا روپیہ انجمن کے سپرد کر دیا۔ حالانکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ پبلک میں ان کی عزت بڑھے اور لوگ یہ کہنا شروع کر دیں کہ فلاں میر صاحب یا فلاں مرزا صاحب یا فلاں چودھری صاحب نے دو ہزار روپیہ انجمن اسلامیہ کو دے دیا۔ حالانکہ وہ روپیہ اس میر یا مرزا یا چودھری کا تھا ہی نہیں۔ وہ تو بہرحال اس نے دینا ہی تھا۔ اور دینا بھی غرباء کو تھا۔ مگر بجائے اس کے کہ اسے اس مقام پر خرچ کیا جاتا جس مقام پر خرچ کرنے کااسلام نے حکم دیا ہے وہ اس روپیہ کو دنیوی وجاہت اور اعزاز حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور یا پھر دیتے ہی نہیں۔ اور یا اس قسم کی ٹھگیاں کرتے ہیں جو نہایت ہی قابلِ شرم ہوتی ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح اول فرمایا کرتے تھے کہ ایک سیٹھ صاحب تھے۔ مَیں ان کے متعلق یہ سمجھا کرتا تھا کہ وہ زکوٰۃ دیا کرتے ہیں مگر مجھے لوگوں نے بتایا کہ وہ زکوٰۃ کہاں دیتا ہے وہ تو دھوکابازی کرتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بتایا کہ جب زکوٰۃ دینے کا وقت آتا ہے تو وہ زکوٰۃ کا تمام روپیہ ایک گھڑے میں بھر دیتا ہے۔ مثلاً دو ہزار یا تین ہزار یا چار ہزار زکوٰۃ کا روپیہ ہؤا تو وہ سب روپیہ ایک گھڑے میں بھر دیا۔ اور اس کے اوپر دانے ڈال دیئے۔ اس کے بعد وہ کسی غریب طالبعلم کو بلاتا، اسے نہایت اچھا کھانا کھلاتا اور جب وہ کھانا کھا کر فارغ ہو جاتا تو اسے کہتا اس گھڑے میں جو کچھ ہے یہ مَیں نے آپ کی ملکیت میں دے دیا ہے۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد کہتا آپ یہ گھڑا اٹھا کر کہاں لے جائیں گے ۔اسے واپس میرے پاس ہی فروخت کر دیجئے۔ فرمائیے آپ اس کی کیا قیمت لیں گے۔ طالبعلم بھی اپنے ذہن میں اندازہ لگا لیتا کہ کتنی قیمت مانگوں گا تو مل جائے گی اور کتنی قیمت مانگوں گا تو مجھے دھکے دے کر باہر نکال دیا جائے گا۔ اسے علم ہوتا کہ اس گھڑے میں ہزاروں روپے ہیں مگر وہ کیا کر سکتا تھا۔ آخر یہی کہتا کہ میں پانچ یا دس روپے میں یہ گھڑا آپ کے پاس فروخت کرتا ہوں۔ چنانچہ پانچ یا دس جتنے روپے وہ مانگتا اتنے روپے اسے دے دیتا اور گھڑا اٹھا کر گھر میں رکھ لیتا۔ اور جب کوئی کہتا کہ آپ نے زکوٰۃ کا مال تو پھر اپنے گھر میں رکھ لیا ہے تو وہ کہتا یہ مال تو میں نے خریدا ہے۔ زکوٰۃ میں نے دے دی تھی۔ تو وہ تمام ذرائع جو اللہ تعالیٰ نے قومی پاکیزگی کے لئے یا دل کی پاکیزگی کے لئے یا دماغ کی پاکیزگی کے لئے یا خیالات کی پاکیزگی کے لئے یا افکار کی پاکیزگی کے لئے مقرر کئے ہیں ان کو لوگ چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ اور اپنے نفس کی خرابی اور گندگی کی وجہ سے خداتعالیٰ سے دور ہو جاتے ہیں۔ تب خداتعالیٰ کی تقدیر جوش میں آتی ہے اور وہ اپنے کسی مامور اور مرسل کو لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث فرماتا ہے۔ وہ مامور اور مرسل دنیا میں آتا اور تقدیر کے ماتحت لوگوں کو کھینچ کر خداتعالیٰ کے پاس لے جاتا ہے۔ تب ایک نیا تعلق خدا اور اس کے بندوں کے درمیان پیدا ہو جاتا ہے۔ اس تغیر کے ماتحت پھر دنیا اٹھتی ہے اور تدبیر میں منہمک ہو جاتی ہے۔ مگرمیری مراد اس تدبیر سے دنیوی کام نہیں ، نہ تجارت، زراعت یا صنعت وحرفت کے کام مراد ہیں بلکہ میری مراد تدبیر سے یہ ہے کہ نبی کی بعثت کے بعد لوگ روحانی تدابیر کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور پھر ہمیں یہ نظارہ نظر آنے لگتا ہے کہ لوگ قوم کی اصلاح میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ ان کے افکار کو درست کرتے ہیں۔ وہ ان کے اعمال کو درست کرتے ہیں۔ وہ ان کے اخلاق کو درست کرتے ہیں۔ وہ انہیں ضبطِ نفس کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ کے نشانات اور اس سے تعلق رکھنے کی برکات ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے اندر دین کی محبت پیدا کرتے ہیں ۔اور انہیں اخلاص اور ایمان کا ایک نمونہ بناتے ہیں ۔ اسی طرح یہ نظارہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ لوگ نمازوں میں مشغول ہوتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، حج کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، چندوں کی ادائیگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کا ہر قدم پہلے قدم سے آگے ہو۔ ان کا ہر دن انہیں پچھلے دن سے زیادہ ترقی کے میدان میں بڑھانے والا ہو۔ غرض پھر تدبیر کا زور شروع ہو جاتا ہے۔ اور اس تدبیر کے نتیجہ میں دنیا میں ایک عام بیداری پیدا ہو جاتی ہے۔ گویا پہلے تقدیر بیداری پیدا کرتی ہے اور پھر تدبیر بیداری پیدا کرتی ہے۔ پہلے تقدیر جوش میں آ کر بندوں اور خدا میں اتصال پیدا کرتی ہے اور پھر تدبیر جوش میں آ کر خالق اور مخلوق کو ملا دیتی ہے۔ اس تدبیر کے زمانہ میں بھی گو خدا کے فضل نازل ہوتے ہیں مگر اس دور میں فضل کی بنیاد نیچے سے شروع ہوتی ہے اور اس طرح خدا اور بندوں کے تعلق کی مثال وہی ہو جاتی ہے جو ماں اور بچے کے تعلق کی ہوتی ہے۔ کسی وقت بچہ ماں کو یاد کرتا ہے اور کسی وقت ماں بچہ کو یاد کرتی ہے۔ کبھی بچہ ماں کو آ کر چمٹ جاتا ہے۔ وہ کھیل رہا ہوتا ہے کہ کھیلتے کھیلتے یکدم اس کے دل میں ماں کی محبت پیدا ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھے اپنی ماں سے ملے دیر ہو گئی چنانچہ وہ کھیلتا کھیلتا دوڑتے ہوئے آتا ہے اور اپنی ماں کے گلے میں محبت سے ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بچے کو احساس نہیں ہوتا مگر ماں کو احساس ہو جاتا ہے وہ کام کرتی کرتی یکدم اسے چھوڑ دیتی ہے اور ادھر ادھر تلاش کرتی پھرتی ہے کہ اس کا بچہ کہاں گیا اور جب وہ ملتا ہےتو اسے اپنی چھاتی سے چمٹا لیتی ہے۔ یہی مثال عالَم روحانی کی ہے۔ کبھی خدا کے دل میں بندوں کی محبت کا جوش پیدا ہوتا ہے اور کبھی بندوں کے دلوں میں خدا کی محبت کا جوش پیدا ہوتا ہے۔ خدا کی محبت کو تقدیر کہا جاتا ہے اور بندے کی محبت کو تدبیر کہا جاتا ہے۔ جس طرح ماں بعض دفعہ محبت سے بے تاب ہو کر بچے کی طرف دوڑتی اور اسے اپنے سینہ سے لگا لیتی ہے اسی طرح کی محبت جب خداتعالیٰ کی طرف سے ہو تو اسے تقدیر کہا جاتا ہے اور جب ویسی ہی محبت لوگوں کے دلوں میں خداتعالیٰ کی پیدا ہو جیسے بچہ کے دل میں بعض دفعہ اپنی ماں کی محبت جوش میں آتی ہے تو اسے روحانی دنیا میں تدبیر کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ چلتا اور چلتا چلا جاتا ہے۔ کبھی اس طرف سے اور کبھی اُس طرف سے۔ کبھی تقدیر کے زور سے اور کبھی تدبیر کے زور سے ۔ اور اس طرح بندوں اور خدا کے تعلق میں کمی واقع ہونے میں نہیں آتی۔ جب انسان خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہےتو خداتعالیٰ کی تقدیر جوش میں آ جاتی ہے۔ اور جب خداتعالیٰ اپنی تقدیر کسی مامور اور مرسل کے ذریعہ ایک دفعہ ظاہر کر دیتا ہے تو گو وہ بندوں کو بھولتا نہیں مگرا س کی بعض صفات میں ایک قسم کا سکون واقع ہو جاتا ہے۔ اس وقت بندوں کی طرف سے تدبیر شروع ہو جاتی ہے۔ یہ قانون دنیوی قانون میں ڈیماکریسی سے ملتا ہے۔ یعنی حکومت ہوتی تو ویسی ہی ہے جیسے اَورحکومتیں۔ اس حکومت کے جو ذمہ دار افراد ہوتے ہیں وہ بھی ویسے ہی قانون بناتے ہیں جیسے اَور حکومتیں قانون بناتی ہیں۔ وہ بھی اپنے قوانین کا ویسی ہی سختی سے نفاذ کرتے ہیں جیسے اور افراد ِحکومت اپنے قوانین کا سختی سے نفاذ کرتے ہیں۔ غرض ظاہری لحاظ سے قانون کی تشکیل اور اس کے نفاذ کے لحاظ سے اس حکومت کو دوسری حکومتوں سے کوئی امتیاز حاصل نہیں ہوتا ۔ اگر کوئی امتیاز ہوتا ہے تو یہ کہ عوام یہ نہیں سمجھتے کہ یہ کسی غیر کی حکومت ہے بلکہ وہ سمجھتے ہیں یہ ہماری حکومت ہے۔ اور اس کی خرابی ہماری خرابی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ادھر حاکم دن رات ایسی تدابیر میں مشغول رہتے ہیں جن کے ماتحت ان کے قوم کے افراد کی ترقی ہو۔ انہیں عزت حاصل ہو۔ ان کے رتبہ اور ان کی وجاہت میں زیادتی ہو۔ اور دوسری طرف عوام اس بات کے نگران ہوتے ہیں کہ کہیں ان کے حاکم سست نہ ہو جائیں۔ اور اس طرح ان کی حکومت ان کے لئے فائدہ رساں ہونے کی بجائے مہلک اور ضرر رساں نہ ہو جائے۔ غرض دونوں ایک دوسرے کے نگران ہوتے ہیں۔ حکام عوام کے نگران ہوتے ہیں اور عوام حکام کے نگران ہوتے ہیں۔ اگر کبھی حاکموں میں سے کوئی حاکم غافل ہو جائے یا سست ہو جائے یا ایسا حاکم مقرر ہو جو حکومت کے لحاظ سے اس کا اہل نہ ہو تو عوام میں شور پڑ جاتا ہے کہ ہماری حکومت یوں کیوں کر رہی ہے۔ یوں کیوں نہیں کرتی ۔ اور جب عوام سست ہو جائیں تو حکام ان کی سستی کو دور کرنے کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ یہ نظارہ بھی وہی ہوتا ہے جسے روحانی دنیا میں تقدیر اور تدبیر کا نام دیا جاتا ہے۔ جیسے کبھی تدبیر کا زور ہوتا ہے اور کبھی تقدیر کا زور ہوتا ہے۔ اسی طرح چونکہ ایسی حکومت درحقیقت عوام کی حکومت ہوتی ہے اس لئے جب حکومت میں کوئی نقص پیدا ہو جاتا ہے تو عوام الناس میں جوش پیدا ہو جاتا ہے اور جب عوام میں کوئی نقص پیدا ہو تو حکومت اس نقص کے ازالہ کے لئے مستعد ہو جاتی ہے۔ اس طرح وہ دونوں ایک دوسرے کو جگانے اور بیدار رکھنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اور درحقیقت یہ تقدیر اور تدبیر کا ہی ایک مظاہرہ ہے جو دنیا میں اس رنگ میں دکھائی دیتا ہے۔
اسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے مَیں نے جماعت میں خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے قیام کی تحریک کی تھی۔ یوں تو جماعت کی اصلاح خلیفہ کے ذمہ ہے اور یا پھر خلیفہ کے نائب جو ناظر وغیرہ ہیں ان کے ذمہ ہے مگر دنیا میں یہ ہمیں قانونِ قدرت دکھائی دیتا ہے کہ کبھی ایک پر نیند آ جاتی ہے اور کبھی دوسرے پر نیند آ جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام بھی اس حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے۔ آپ کا الہام ہے۔ اُفْطِرُ وَاَصُوْمُ۔1 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں کبھی افطار کرتا ہوں اور کبھی روزہ رکھتا ہوں۔ اب واقع یہ ہے کہ خدا نہ روزہ رکھتا ہے اور نہ افطار کرتا ہے مگر الہام یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ روزہ بھی رکھتا ہے اور افطار بھی کرتا ہے۔ پس درحقیقت اس الہام کا بھی وہی مفہوم ہے جس کی طرف میں نے ابھی اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کبھی ایسا زمانہ آتا ہے کہ میری صفات جوش میں آ جاتی ہیں اور مَیں خود لوگوں کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کرنے کے لئے تقدیر کو عمل میں لاتا ہوں۔ اور کبھی ایسا زمانہ آتا ہے کہ مَیں اپنی ان صفات کو ٹھہرا دیتا ہوں اور بندہ جوش میں آ کر میری ملاقات کے لئے تدابیر اور جدوجہد میں مشغول ہو جاتا ہے۔ اسی طرح انسانی حکومتوں میں بھی کبھی ایک طرف غفلت طاری ہو جاتی ہے۔ تب جو حصہ بیدار ہوتا ہے وہ غافل حصہ کو چست اور ہوشیار کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے اور جب کسی دوسرے وقت وہ چست اور ہوشیار حصہ غافل ہو جاتا ہے تو جو حصہ بیدار ہو چکا ہوتا ہے وہ اس کی غفلت کو دور کرنے میں حصہ لینے لگ جاتا ہے۔ جب تک کسی قو م میں یہ دونوں حصے متوازی اور ایک دوسرے کے بالمقابل نہ ہوں اس وقت تک وہ قوم کبھی لمبی زندگی حاصل نہیں کر سکتی۔ زندگی تو اسے ملتی ہے مگر دو متوازی اور متقابل حصوں کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ بہت جلد مر جاتی ہے۔ مثلاً جس قوم میں سارا انحصار حاکموں پر ہو اس قوم کے افراد بھی بہت جلد مَر جاتے ہیں۔ کیونکہ کبھی عوام بھی غافل اور سست اور لاپرواہ ہو جاتے ہیں اور ان کو بیدار کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی نیند مبدّل بہ موت ہو جاتی ہے۔ لیکن جب کوئی قوم یا جماعت یہ سمجھتی ہو کہ ایسے حکام مقرر ہونے چاہئیں جو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھنے والے ہوں اور دوسری طرف افراد یہ سمجھتے ہوں کہ ان پر قومی لحاظ سے کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہیں اور یہ کہ بعض افراد کو اگر حکومت کا کام سپرد کیا گیا ہے تو اس لئے نہیں کہ حکومت ان کا حق ہے بلکہ اس لئے کہ وہ حکومت کے دوسروں کی نسبت زیادہ اہل ہیں۔ پس ان کی حکومت اپنے اندر نیابتی رنگ رکھتی ہے۔ اور ہمارا فرض ہے کہ اگر کسی وقت وہ غافل ہو جائیں تو ہم ان کو بیدار کریں کیونکہ حکومت ہماری ہے۔ تو ایسی صورت میں وہ قوم زندہ رہتی ہے اور موت کا دن اس سے زیادہ سے زیادہ دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ عوام سست ہوں تو حکام ان پر نگرانی کے لئے موجود ہوتے ہیں اور حکام سست ہوں تو عوام ان پر نگرانی کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ اسی نکتہ کو مدنظر رکھ کر مَیں نے جماعت میں خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دو الگ الگ جماعتیں قائم کیں۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں ایسا ہو سکتا ہے کہ کبھی حکومت کے افراد سست ہو جائیں اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کبھی عوام سست ہو جائیں ۔ عوام کی غفلت اور ان کی نیند کو دور کرنے کے لئے جماعت میں ناظر وغیرہ موجود تھے۔ مگر چونکہ ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ کبھی ناظر سست ہو جائیں اور وہ اپنے فرائض کو کماحقہٗ ادا نہ کریں۔ اس لئے ان کی بیداری کے لئے بھی کوئی نہ کوئی جماعتی نظام ہونا چاہیئے تھا۔ جو ان کی غفلت کو دور کرتا اور اس غفلت کا بدل جماعت کو مہیا کرنے والا ہوتا۔ چنانچہ خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ اور لجنہ اماء اللہ اسی نظام کی دو کڑیاں ہیں اور ان کو اسی لئے قائم کیا گیا ہے تاکہ وہ نظام کو بیدار رکھنے کا باعث ہوں۔ میں سمجھتا ہوں اگر عوام اور حکام دونوں اپنے اپنے فرائض کو سمجھیں تو جماعتی ترقی کے لئے خداتعالیٰ کے فضل سے یہ ایک نہایت ہی مفید اور خوش کن لائحہ عمل ہو گا۔ اگر ایک طرف نظارتیں جو نظام کی قائمقام ہیں عوام کو بیدار کرتی رہیں اور دوسری طرف خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ جو عوام کے قائم مقام ہیں نظام کو بیدار کرتے رہیں تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کسی وقت جماعت کُلی طور پر گر جائے۔ اور اس کا قدم ترقی کی طرف اٹھنے سے رک جائے۔ جب بھی ایک غافل ہو گا دوسرا اسے جگانے کے لئے تیار ہو گا۔ جب بھی ایک سست ہو گا دوسرا اسے ہوشیار کرنے کے لئے آگے نکل آئے گا کیونکہ وہ دونوں ایک ایک حصہ کے نمائندہ ہیں۔ ایک نمائندہ ہیں نظام کے اور دوسرے نمائندہ ہیں عوام کے۔ بعض دفعہ اگر نظام کے نمائندے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں غفلت اور کوتاہی سے کام لیں گے تو عوام کے نمائندے ان کو بیدار کر دیں گے۔ اور جب عوام کے نمائندے غافل ہوں گے تو نظام کے نمائندے ان کی بیداری کا سامان پیدا کریں گے۔ مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ اس وقت تک پورے طور پر اس حقیقت کو سمجھا نہیں گیا۔ اور خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ میں وہ بیداری پیدا نہیں ہوئی جس بیداری کو پیدا کرنے کے لئے ان دونوں جماعتوں کو معرضِ وجود میں لایا گیا تھا۔ خدام الاحمدیہ میں کسی قدر زیادہ بیداری ہے مگر انصار اللہ میں بیداری کے آثار بہت ہی کم دکھائی دیتے ہیں۔ گزشتہ ایام میں مجھے ان کی بعض رپورٹوں سے یہ محسوس ہؤا تھا کہ ان میں بیداری پیدا ہو رہی ہے۔ مگر یہ کہ انہوں نے واقع میں کوئی ایسا کام بھی کیا ہے یا نہیں جس کی بناء پر انہیں بیدار سمجھا جا سکے اس کا ابھی تک مجھے کوئی ثبوت نہیں ملا۔ حالانکہ کام کرنے والی جماعت تو جس جگہ موجود ہو وہاں اس کا وجود خودبخود نمایاں ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اور وہ کسی کو بتائے یا نہ بتائے ہر شخص کو محسوس ہونے لگ جاتا ہے کہ یہاں کوئی زندہ اور کام کرنے والی جماعت موجود ہے اور درحقیقت کام کرنے والی جماعت کی علامت بھی یہی ہے کہ بغیر لوگوں کو بتائے اور ان کا علم دینے کے وہ خودبخود معلوم کر لیں کہ یہاں کوئی کام کرنے والی جماعت موجود ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک بِھڑ گھر میں آ جائے تو کس طرح گھر کے ہر فرد کو معلوم ہو جاتا ہے کہ گھر کے اندر کوئی بِھڑ آ گئی ہے ۔وہ کبھی ایک کی طرف ڈسنے کے لئے جاتی ہے اور کبھی دوسرے کی طرف ڈسنے کے لئے بڑھتی ہے اور گھر بھر میں شور مچ جاتا ہے کہ اس بِھڑ کو مارو۔ یہ کسی کو کاٹ نہ لے۔ ایک شہد کی مکھی گھر میں آ جائے تو چاروں طرف اس سے بچنے کے لئے پگڑیاں اور ہاتھ اور پنکھے اور رومال وغیرہ ہلنے لگ جاتے ہیں۔ ایک پھول کسی گھر میں لگا ہؤا ہو تو تمام گھر کے افراد کو اس کے وجود کا احساس ہو جاتا ہے۔ اور ہر شخص کے ناک میں جب ہوا داخل ہوتی ہے وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس گھر میں گلاب لگا ہؤا ہے یا موتیا لگا ہؤا ہے یا چنبیلی کا پودہ لگا ہؤا ہے۔ تو زندگی کے آثار ہونے ضروری ہیں۔ ان آثار کے بغیر کوئی شخص زندہ نہیں کہلا سکتا۔ چاہے بظاہر وہ زندہ ہی دکھائی دے۔ جب کوئی شخص اس دنیا میں آتا ہے تو اسے دنیا میں اپنی زندگی کا کوئی ثبوت دینا چاہیئے۔ اور ایسے نقوش چھوڑنے چاہئیں جن سے دنیا اس کی زندگی کا احساس کر سکے اور اسے معلوم ہو کہ اس دنیا میں فلا ں شخص آیاتھا اور اس نے فلاں فلاں کام کیا۔
پس کام کرنے والی جماعت وہ نہیں ہو سکتی جو چند رپورٹیں شائع کر دے۔ بلکہ کام کرنے والی جماعت وہ کہلا سکتی ہے کہ جب کوئی غیر شخص قادیان میں آئے تو بغیر اس کے کہ اسے کوئی بتائے کہ یہاں خدام الاحمدیہ یا انصاراللہ کی جماعتیں ہیں اسے خودبخود محسوس ہونے لگے کہ یہاں کوئی کام کرنے والی جماعت موجود ہے۔ جب کوئی لاہور میں جائے یا امرتسر میں جائے یا کسی اَور شہر میں جائے تو اس شہر میں داخل ہوتے ہی اسے یہ محسوس ہونے لگ جائے کہ وہ کسی ایسے شہر میں آیا ہے جہاں کوئی نمایاں کام کرنے والی زندہ جماعت موجود ہے۔ مگر جہاں جا کر یہ پتہ نہ لگے اور دوسروں کو خود اس بات کی ضرورت محسوس ہو کہ وہ اسے بتائیں کہ یہاں انصاراللہ یا خدام الاحمدیہ کی جماعت ہےتو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ لوگ مُردہ ہیں۔ اور اپنے اندر زندگی کے کوئی آثار نہیں رکھتے۔ یہ چیز ہے جو مَیں انصار اللہ میں پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ مگر مَیں نہیں دیکھتا کہ یہ چیز اُن میں پیدا ہو گئی ہے۔ سوائے اس کے کہ کبھی کبھی میرے پاس ان کی طرف سے رپورٹ آ جاتی ہے۔ حالانکہ رپورٹوں کی مثال تو ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ہماری پنجابی زبان میں کہتے ہیں۔ ‘‘آپے میں رجی پُجی آپے میرے بچے جِیون’’۔ بھلا رپورٹوں میں یہ لکھ لینا کیا مشکل ہے کہ فلاں صاحب نے یہ کام کیا اور فلاں صاحب نے وہ کام کیا۔ اگر اس طرح کی خدمات ہم گننے لگ جائیں تو ہر شخص اپنی خدمات کی تعداد جتنی چاہے بڑھا لے گا اور یہ سمجھے گا کہ اس نے بہت بڑا کام کیا ۔ حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو وہ کام ایسا ہو گا جسے کسی صورت میں بھی خدمت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثلاً ہر قدم جو تم اٹھاتے ہو اس کے اٹھاتے وقت تمہارے پیروں کے نیچے ضرور چیونٹیاں آ جاتی ہیں۔ آجکل کے موسم میں تو خصوصیت سے چیونٹیاں زیادہ پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس لئے آجکل تو بالعموم ہر شخص کے پاؤں کے نیچے کچھ نہ کچھ چیونٹیاں ضرور آجاتی ہیں۔ پھر یہ بھی ایک ثابت شدہ بات ہے کہ تم قدم پاس پاس نہیں رکھ سکتے ۔ ہر دو قدم کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے اور اس فاصلہ کے اندر آنے والی چیونٹیاں نہیں مرتیں۔ پس جب تم چلتے ہو تو کچھ چیونٹیاں مر جاتی ہیں اور کچھ بچ رہتی ہیں۔ اب اگر اسی قسم کی خدمات کا رپورٹوں میں ذکر ہونے لگے تو ایک شخص کہہ سکتا ہے مَیں نے مخلوقِ خدا کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔ آج میں نے اتنے ہزار یا اتنے لاکھ چیونٹیوں کی جانیں بچائیں۔ حالانکہ یہ صاف بات ہے کہ جس قدر چیونٹیاں چلتے ہوئے ملیں گی ان میں سے ساری تو مریں گی نہیں۔ کچھ مریں گی اور زیادہ تر بچ جائیں گی۔ چاہے کسی کا چیونٹیوں سے سارا گھر بَھرا ہؤا ہو پھر بھی یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اس کے پاؤں کے نیچے سب کی سب چیونٹیاں آ جائیں اور مَر جائیں۔ لازماً کئی ہزار بلکہ کئی لاکھ چیونٹیاں بچ جائیں گی۔ اب اگر اسی قسم کے کاموں کو خدمتِ خلق قرار دے دیا جائے تو کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے بڑھ کر اور کس نے خدمتِ خلق کی ہے۔ مَیں نے آج اتنے لاکھ چیونٹیوں کی جان بچائی ہے۔ اگر اس رنگ کی خدمات شمار میں آنے لگ جائیں تو ہر شخص کی خدمات کی ایک بڑی بھاری فہرست روزانہ تیار ہو سکتی ہے اور وہ رپورٹ میں اپنا کام ظاہر کرنے کے لئے کافی سمجھی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے مقابلہ میں اگر ہم گناہ گننے لگ جائیں توان گناہوں کی بھی ایک لمبی فہرست روزانہ تیار ہو سکتی ہے۔ پس یہ رپورٹیں کچھ چیز نہیں ۔ اصل چیز وہ بیداری ہے جو ہر شخص کو نظر آ جائے۔
کسی شخص نے یہ کیا ہی لطیف مثل بنا دی ہے جو آج ساری دنیا میں نقل کی جاتی ہے کہ؂
مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطّار بگوید
مُشک پہچاننے کے لئے اگر عطّار کی تعریف کی ضرورت ہو اور وہ کہے کہ یہ مُشک فلاں جگہ سے آیا ہے اس کا نافہ ایسا عمدہ ہے لیکن ناک میں خوشبو نہ آئے تو ایسے مُشک کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ مُشک تو وہی ہے کہ عطّار چُپ کر کے بیٹھ جائے اور خریدار مُشک کی خوشبو سونگھ کر ہی بے تاب ہو جائے اور کہے کہ یہ مُشک نکالو۔ مَیں اسے خریدنا چاہتا ہوں۔ یہ بڑا اعلیٰ مُشک ہے۔ تو اصل خوبی کام کی یہی ہوتی ہے۔ اگر ایک غیر اور اجنبی شخص بھی آ جائے تو اسے پتہ لگ جائے کہ یہاں کوئی فعال اور کام کرنے والی جماعت موجود ہے۔ باقی کسی کا اپنی ہفتہ وار یا ماہوار یا سالانہ رپورٹ شائع کر دینا کوئی بڑی بات نہیں۔ اور نہ اس سے کام کے متعلق کوئی صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اگر ہم دنیا میں یہ اعلان کرنا شروع کر دیں کہ اس دنیا کے پردہ پر ایک احمدیہ جماعت بھی موجود ہے تو یہ اعلان بالکل مضحکہ خیز ہو گا لیکن اگر جہاں جہاں بھی ہماری جماعتیں موجود ہیں وہ اپنے وجود کو نمایاں کرنا شروع کر دیں ۔ یہاں تک کہ ہر شخص کہے کہ ہمارے شہر میں ایک عجیب جماعت پیدا ہو گئی ہے اس کے افراد لوگوں کو تبلیغیں کرتے ہیں، تعلیمیں دیتے ہیں، بڑی بڑی نیک اور اچھی اچھی باتیں بتاتے ہیں، لوگوں سے کہتے رہتے ہیں کہ دیکھو تم نمازیں پڑھو، روزے رکھو، زکوٰۃ دو، حج کرو، سچ بولو، امن سے رہو۔ تو بے شک یہ تعریف صحیح تعریف ہو گی اور بے شک اس اشتہار سے بڑھ کر جماعت کی نیک نامی کا اَور کوئی اشتہار نہیں ہو گا۔ لیکن اگر ہم ایسا تو نہ کریں اور صرف ہفتہ وار، ماہوار یا سالانہ یہ اعلان کر دیں کہ احمدیہ جماعت بھی دنیا پر موجود ہے تو اس کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ پس میرا مقصد ان جماعتوں کے قیام سے ہر فرد کے اندر ایک بیداری پیدا کرنا تھا مگر یہ بیداری ابھی تک پیدا نہیں ہوئی۔ خدام میں ایک حد تک بیداری کا رنگ پایا جاتا ہے مگر وہ رنگ بھی تھوڑا بلکہ بہت ہی تھوڑا ہے۔ شاید دس فیصدی بیداری ہے جو ابھی تک خدام میں پیدا ہوئی ہے۔ لیکن انصار میں ابھی تک صرف ایک فیصدی بیداری پیدا ہوئی ہے۔ پس جتنی بیداری خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ کے ذریعہ جماعت میں پیدا ہوئی ہے وہ ہرگز کافی نہیں بلکہ کافی کا ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انصاراللہ خصوصیت کے ساتھ اپنے کام کی عمدگی سے نگرانی کریں تاکہ ہر جگہ اور ہر مقام پر ان کا کام نمایاں ہو کر لوگوں کے سامنے آجائے۔ اور وہ محسوس کرنے لگ جائیں کہ یہ ایک زندہ اور کام کرنے والی جماعت ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں جب تک انصار اللہ اپنی ترقی کے لئے صحیح طریق اختیار نہیں کریں گے اس وقت تک انہیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔ مثلاً مَیں نے انہیں توجہ دلائی تھی کہ وہ اپنے کام کی توسیع کے لئے روپیہ جمع کریں اور اسے مناسب اور ضروری کاموں پر خرچ کریں مگر میری اس ہدایت کی طرف انہوں نے کوئی توجہ نہیں کی۔ اب مَیں دوسری بات انہیں یہ کہنا چاہتا ہوں۔ گو غالباً مَیں ایک دفعہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر انہیں مالی مشکلات ہوں تو سلسلہ کی طرف سے کسی حد تک انہیں مالی مدد بھی دی جا سکتی ہے مگر بہرحال پہلے انہیں خود عملی قدم اٹھانا چاہیئے اور روپیہ خرچ کر کے اپنے کام کی توسیع کرنی چاہیئے۔ مَیں سمجھتا ہوں بڑی عمر کے لوگوں کو ضرور یہ احساس اپنے اندر پیدا کرنا چاہیئے کہ وہ شباب کی عمر میں سے گزر کر اب ایک ایسے حصہ عمر میں سےگزر رہے ہیں جس میں دماغ تو سوچنے کے لئے موجود ہوتا ہے مگر زیاد ہ عمر گزرنے کے بعد ہاتھ پاؤں محنت و مشقت کے کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ اس وجہ سے ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے کاموں کے سرانجام کے لئے کچھ نوجوان سیکرٹری (چالیس سال کے اوپر کے مگر زیادہ عمر کے نہ ہوں) مقرر کریں جن کے ہاتھ پاؤں میں طاقت ہو اور وہ دوڑنے بھاگنے کا کام آسانی سے کر سکیں تاکہ ان کے کاموں میں سستی اور غفلت کے آثار پیدا نہ ہوں۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر وہ چالیس سال سے پچپن سال کی عمر تک کے لوگوں پر نظر دوڑاتے تو انہیں ضرور اس عمر کے لوگوں میں سے ایسے لوگ مل جاتے جن کے ہاتھ پاؤں بھی ویسے ہی چلتے جیسے ان کے دماغ چلتے ہیں۔ مگر انہوں نے اس طرف توجہ نہ کی اور صرف انہی کو سیکرٹری مقرر کر دیا جن کا نام میں نے ایک دفعہ لیا تھا۔ حالانکہ ہر سیکرٹری کے ساتھ انہیں ایسے آدمی لگانے چاہیئے تھے جو اپنی عمر کے لحاظ سے گو خدام الاحمدیہ میں شامل نہ ہو سکتے تھے مگر اپنے اندر نوجوانوں کی سی ہمت اور طاقت رکھتے۔ دوڑنے بھاگنے کی قوت ان میں موجود ہوتی۔ محنت و مشقت کے کام وہ بآسانی کر سکتے۔ لوگوں کو بار بار جگاتے اور بار بار انہیں بیدار کرنے کی کوشش کرتے۔ اگر اب بھی وہ ایسا کریں اور جوان ہمت انصار اللہ کو سیکرٹریوں کے نائب مقرر کر دیں تو مَیں امید کرتا ہوں کہ ان کے اندر وہ بیداری پیدا ہو سکتی ہے جس بیداری کو پیدا کرنے کے بغیر محض نام کا انصاراللہ ہونا کوئی معنے نہیں رکھتا۔ یہ ایک الٰہی قدرت کا کرشمہ ہے کہ ایک زمانہ انسان پر ایسا آتا ہے جب اس کے جسمانی قویٰ تو نشوونما پاتے ہیں مگر اس کے دماغی قویٰ ابھی پردہ میں ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہتا کہ ان میں انحطاط واقع ہو جاتا ہے۔ انحطاط نہیں بلکہ قوائے دماغیہ ایک پردہ کے اندر رہتے ہیں۔ یہ زمانہ وہ ہوتا ہے جو پچیس سال سے چالیس سال تک کی عمر کا ہے لیکن پھر اس کے بعد ایک زمانہ ایسا آتا ہے جب جسم میں نشووارتقاء کی طاقت تو نہیں رہتی مگر اسے جو کمال حاصل ہو چکا ہوتا ہے وہ قائم رہتا ہے۔ جیسے کسی چیز میں جب ابال شروع ہو تو جب اس کا اُبلنا بند ہو جائے مگر ابھی وہ اُبال بیٹھے نہیں۔ جو کیفیت اس وقت ہوتی ہے وہی کیفیت چالیس سال سے اوپر عمر والوں کی ہوتی ہے کہ ان کا اُبال تو بند ہو جاتا ہے مگر ان کی بلندی میں کمی نہیں آتی۔ یہی وہ زمانہ ہے جس میں خداتعالیٰ عام طورپر نبیوں کو اصلاحِ خلق کے لئے کھڑا کیا کرتا ہے۔ گویا یہ زمانہ بَلَغَ اَشُدَّہٗ کا زمانہ ہوتا ہے۔ طاقتیں اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہیں مگر جو اُبال کی صورت ہوتی ہے وہ مٹا دی جاتی ہے۔
پس جب مَیں نے انصار اللہ میں شمولیت کے لئے چالیس سال سے اوپر کی شرط رکھی تو اس کے معنے یہ تھے کہ کام کرنے کا بہترین زمانہ انہیں حاصل تھا۔ بشرطیکہ اس عمر والوں سے فائدہ اٹھایا جاتا مگر مجھے افسوس ہے کہ انہوں نے اس حکمت کو نہ سمجھا او رکام اُنہی لوگوں کے سپرد رکھا جو زیادہ عمر کے ہیں۔ حالانکہ اگر سارے کے سارے کام اُنہی لوگوں کے سپرد کر دیئے جائیں جو ساٹھ سال سے اوپر اور ستر سال کے قریب ہوں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ اُن لوگوں کے پاس دماغ تو ہو گا مگر چونکہ کام کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں نہیں ہوں گے اس لئے وہ کام خراب ہو جائے گا، مفید نتائج کا حامل نہیں ہو گا۔ پس انہیں چاہیئے تھا کہ وہ ہر محکمہ کے ہر سیکرٹری کے ساتھ نائب سیکرٹری ان لوگوں کو مقرر کرتے جو تیزی کے ساتھ کام کرنے کی ہمت رکھتے اور ان کے پاس صرف دماغ ہی نہ ہوتے بلکہ کام کرنے والے ہاتھ اور پاؤں بھی ان کے پاس ہوتے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب تک انسان کے اندر دماغی انحطاط پیدا نہیں ہو جاتا اس کا دماغ ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ خواہ اس کی عمر کس قدر زیادہ ہو۔ اس لئے زیادہ عمر کے لوگ تجربہ کار، صائب رائے رکھنے والے اور نفع و نقصان کو عمدگی کے ساتھ سمجھنے والے ہوتے ہیں اور ضروری ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کے تجربہ، اصابت رائے اور خوبیٔ دماغ سے فائدہ اٹھایا جائے مگر بہرحال وہ نگران یا سیکرٹری ہی مقرر ہو سکتے ہیں ۔ سوائے ایسی عمر کے جسے رسول کریم ﷺ نے ارزل العمر قرار دیا ہے اور جس میں جسمانی قویٰ کے انحطاط کے ساتھ دماغی انحطاط بھی شروع ہو جاتا ہے۔ ایسی عمر میں انسان کسی کام کا بھی نہیں رہتا مگر جب تک کسی کا دماغی انحطاط شروع نہ ہو جائے اس وقت تک ایسے آدمی کی رائے صائب ہوتی ہے۔ اس کے تجربہ سے دوسرے لوگ بہت کچھ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اور اس کی رہنمائی لوگوں کے لئے مفید ہو سکتی ہے لیکن بہرصورت ایسے لوگ نگران ہی مقرر ہو سکتے ہیں۔ نائب سیکرٹری وہی لوگ مقرر ہونے چاہئیں جو دوڑ سکتے ہوں، بھاگ سکتے ہوں، جلدی جلدی کام کر سکتے ہوں لوگوں کو یاددہانیاں کرا سکتے ہوں۔ ان کی نگرانی کا کام کر سکتے ہوں۔ اگر انصاراللہ اس طرح کام کرتے تو ان کا کام یقیناً اب تک نمایاں ہو چکا ہوتا مگر انہوں نے بجائے یہ طریق اختیار کرنے کے جن لوگوں کا نام مَیں نے اپنے ایک پہلے خطبہ (26 جولائی 1940ء) میں لیا تھا انہی کے سپرد تمام کام کر دیا۔ حالانکہ مَیں نے وہ نام اس لئے لئے تھے کہ میرے نزدیک وہ اچھا دماغ رکھنے والے تھے، ان کی رائے صائب اور سلجھی ہوئی تھی اور وہ مفید مشورہ دینے کی اہلیت رکھتے تھے۔ اس لئے نام نہیں لئے تھے کہ ان میں کام کرنے کی ہمت اور قوت بھی نوجوانوں والی موجود ہے اور وہ دوڑ بھاگ بھی سکتے ہیں۔ ان کا کام صرف نگرانی کرنا تھا اور ضروری تھا کہ ان کے ماتحت ایسے نوجوان لگائے جاتے جو دوڑنے بھاگنے کا کام کر سکتے۔ اب بھی اگر وہ اچھا کام کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سابق سیکرٹریوں کے ساتھ بعض نوجوان مقرر کر دینے چاہئیں۔ چاہے نائب سیکرٹری بنا کر یا جائنٹ سیکرٹری بنا کر تاکہ انصار اللہ میں بیداری پیدا ہو اور ان پر غفلت اور جمود کی جو حالت طاری ہو چکی ہے وہ دور ہو جائے۔ ورنہ یاد رکھیں عمر کا تقاضا ایک قدرتی چیز ہے۔ بے شک بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر عمر میں خداتعالیٰ کی حفاظت کے نیچے ہوتے ہیں مگر عام طور پر دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ جوں جوں عمر بڑھتی جاتی ہے ہاتھ پاؤں رہ جاتے ہیں۔ البتہ دماغ موجود ہوتا ہے جو ہر وقت سوچنے کا کام کرتا رہتا ہے ۔ گویا اس عمر والوں کی ایسی ہی حالت ہوتی ہے جیسے بھاگنے والے کی حالت ہوتی ہے۔ جب کوئی شخص مکان میں سے نکل کر بھاگنا چاہےتو پہلے وہ ایک پیر نکالتا ہے پھر دوسرا پیرنکالتا ہے۔ پھر دھڑ نکالتا ہےا ور پھر بھاگنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی طرح روح جب طبعی موت کے ذریعہ انسانی جسم میں سے بھاگتی ہے تو یہی طریق اختیار کرتی ہے۔ پہلے وہ انسان کے ہاتھوں اور پاؤں سے نکلتی ہے۔ انسان زندہ ہوتا ہے مگر اچھی طرح نہ ہاتھ ہلا سکتا ہے، نہ پاؤں ہِلا سکتا ہے اور اس کی آخری حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ دل اور دماغ میں سے بھی نکل جاتی ہے اور انسان اگلے جہان میں چلا جاتا ہے۔ پس یہ بھاگنے کا سا وقت ہوتا ہے اور انسان دنیا کو چھوڑ رہا ہوتا ہےا ور جو شخص دنیا کو چھوڑ رہا ہو اسے دوسروں کی اصلاح کا اتنا فکر نہیں ہوتا جتنا اسے اپنے نفس کا فکر ہوتا ہے۔ وہ سوچتا بے شک ہے کیونکہ اس نے اپنا ماضی بھی دیکھا ہؤا ہوتا ہے، اس نے دوسروں کا ماضی بھی دیکھا ہؤا ہوتا ہے، لوگوں کی خوبیاں اور برائیاں اور ان خوبیوں اور برائیوں کے نتائج سب اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں، اس کے اپنے حالاتِ زندگی بھی ایک ایک کر کے اس کے سامنے آتے ہیں اور دوسروں سے گزرے ہوئے واقعات بھی اس کی آنکھوں کے سامنے چکر لگاتے ہیں۔ اور وہ ان سب حالات کو دیکھ کر سوچتا ، غور کرتا ، ان سے نتائج اخذ کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے اَب مَیں جانے کے لئے تیار ہوں۔ اب میرا کام یہی ہے کہ میں نے جو کچھ کیا ہے اس کا حساب کر لوں۔ پس اس وقت وہ حساب کر رہا ہوتا ہے اور جو شخص حساب کر رہا ہو اس کی توجہ کسی اور طرف نہیں ہوتی۔ رات کو سوتے وقت جب بَنیا اپنے تمام دن کی آمد کا حساب کر رہا ہو اس وقت اگر تم بَنیے سے سودا مانگو تو تم دیکھو گے کہ وہ اس وقت سخت چڑچڑا ہوتا ہے کیونکہ وہ اس وقت حساب کر رہا ہوتا ہے۔ سودا دینے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس وقت اس کی جگہ کوئی اور آدمی دکان پر ہو۔ پس ایسے آدمی جہاں تک حساب کا تعلق ہے بے شک مفید ہوتے ہیں مگر ایسی عمر والوں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کبھی لاہور جائیں، کبھی پشاور جائیں، کبھی انبالے جائیں، کبھی گوجرانوالہ جائیں اور سب لوگوں سے کہتے پھریں کہ اٹھو اور بیدار ہو جاؤ اسلام پر بڑا نازک وقت آیا ہؤا ہے۔ جماعت پر بڑی بھاری ذمہ داری ہے۔ اگر تم اس ذمہ داری کو ادا نہ کرو گے تو خداتعالیٰ کے حضور کیا جواب دو گے۔ یہ کام وہ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا یہ زمانہ گزر چکا ہوتا ہے۔
پس مَیں نے انصار اللہ کے لئے جو چالیس سال سے اوپر عمر کی شرط لگائی تھی اس کی وجہ یہی تھی کہ مَیں چاہتا تھا ان کو کام کرنے کے لئے وہ جواں ہمت لوگ بھی مل جائیں جن پر ابھی جوانی جیسا ہی زمانہ ہوتا ہے اور جو اپنے اندر کام کرنے کی کافی طاقت رکھتے ہیں اور ایسے آدمی بھی میسر آ جائیں جن کے دماغ اعلیٰ درجہ کے ہوں اور جو لوگوں کی نگرانی کا کام پوری احتیاط کے ساتھ کر سکیں مگر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ اور صرف ایسے ہی لوگوں کو لے لیا گیا جن کا نام مَیں نے لیا تھا۔ حالانکہ مَیں نے وہ نام اس لئے لئے تھے کہ میرے نزدیک وہ نگران اور محافظ بن سکتے تھے۔ نہ اس لئے کہ وہ دوڑنے بھاگنے کا کام بھی کر سکتے تھے۔ اس قسم کے کام کرنے کے لئے انہیں چاہیئے تھا کہ وہ ایسے لوگ سیکرٹریوں کے ساتھ مقرر کر دیتے جن کے قویٰ میں طاقت ہوتی، جن کے ہاتھوں اور پاؤں میں چلنے پھرنے اور دوڑنے بھاگنے کی ہمت ہوتی تاکہ وہ اپنے مفوضہ فرائض کو عمدگی سے سرانجام دے سکتے۔
مَیں سمجھتا ہوں انصاراللہ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ وہ اپنی عمر کے آخری حصہ میں سے گزر رہے ہیں اور یہ آخری حصہ وہ ہوتا ہے جب انسان دنیا کو چھوڑ کر اگلے جہان جانے کی فکر میں ہوتا ہے اور جب کوئی انسان اگلے جہان جا رہا ہو تو اس وقت اسے اپنے حساب کی صفائی کا بہت زیادہ خیال ہوتا ہے اور وہ ڈرتا ہے کہ کہیں وہ ایسی حالت میں اس دنیا سے کوچ نہ کر جائے کہ اس کا حساب گندہ ہو ، اس کے اعمال خراب ہوں اور اس کے پاس وہ زادِ راہ نہ ہو جو اگلے جہان میں کام آنے والا ہے۔ جب احمدیت کی غرض یہی ہے کہ بندے اور خدا کا تعلق درست ہو جائے تو ایسی عمر میں اور عمر کے ایسے حصہ میں اس کا جس قدر احساس ایک مومن کو ہونا چاہیئے وہ کسی شخص سے مخفی نہیں ہو سکتا۔ نوجوان تو خیال بھی کر سکتے ہیں کہ اگرہم سے خدمتِ خلق میں کوتاہی ہوئی تو انصار اللہ اس کام کو ٹھیک کر لیں گے مگر انصار اللہ کس پر انحصار کر سکتے ہیں ۔ وہ اگر اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیں گے ، وہ اگر دین کی محبت اپنے نفوس میں اور پھر تمام دنیا کے قلوب میں پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوں گے ، وہ اگر احمدیت کی اشاعت کو اپنا اولین مقصد قرار نہ دیں گے اور وہ اگر اس حقیقت سے اغماض کر لیں گے کہ انہوں نے اسلام کو دنیا میں پھر زندہ کرنا ہے تو انصاراللہ کی عمر کے بعد اور کون سی عمر ہے جس میں وہ یہ کام کریں گے۔ انصاراللہ کی عمر کےبعدتو پھر ملک الموت کا زمانہ ہے اور ملک الموت اصلاح کے لئے نہیں آتا بلکہ وہ اس مقام پر کھڑا کرنے کے لئے آتا ہے جب کوئی انسان سزا یا انعام کا مستحق ہو جاتا ہے۔ پس مَیں ایک دفعہ پھر انصاراللہ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھیں۔ ایک دفعہ پہلے بھی مَیں نے انہیں کہا کہ وہ بھی خدام الاحمدیہ کی طرح سال میں ایک دفعہ خاص طور پر باہر سے لوگوں کو بلوایا کریں تاکہ ان کے ساتھ مل کر اور گفتگو اور بحث و تمحیص کر کے انہیں دوسروں کی مشکلات کا احساس ہو اور وہ پہلے سے زیادہ ترقی کی طرف قدم اٹھا سکیں۔ پھر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوسروں کے مشورہ سے انسان بہت کچھ فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ غالباً ایک سال ہؤا جب مَیں نے اس امر کی طرف انہیں توجہ دلائی تھی مگر اب تک انصاراللہ کا کوئی جلسہ نہیں ہؤا۔ یہ بات بھی ان کی مُردنی پر دلالت کرتی ہے۔ پچھلی دفعہ جب خدام الاحمدیہ کا جلسہ ہؤا تو مَیں نے بعض انصاراللہ کی آوازیں سنیں کہ ہم کو بھی آئندہ ایسا جلسہ کرنا چاہیئے۔ مگر عمر کا تقاضا تھا کہ انہوں نے کہنے کو تو یہ بات کہہ دی لیکن چونکہ ان کے ہاتھ پاؤں چلتے نہیں تھے اس لئے وہ کوئی عملی قدم نہ اٹھا سکے۔
حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ کوئی بوڑھا شخص کسی طبیب کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے یہ تکلیف ہے، وہ تکلیف ہے، یہ عارضہ ہے ، وہ عارضہ ہے۔ طبیب نے دیکھا کہ اس کی عمر بڑی ہو چکی ہے اور یہ تکلیفیں اب مستقل شکل اختیار کر چکی ہیں، دواؤں سے جانے والی نہیں۔ اس لئے جب بھی وہ کوئی تکلیف بیان کرتا طبیب کہہ دیتا ہاں ٹھیک ہے۔ تقاضائے عمر ہے۔ پانچ سات دفعہ اس نے شکایتیں بیان کیں اور پانچ سات دفعہ ہی طبیب یہی کہتا رہا کہ آپ درست کہتے ہیں مگر عمر کا تقاضا ہی ایسا ہے۔ جب بار بار طبیب نے ایسا کہا تو اسے غصہ آ گیا کہ یہ عجیب طبیب ہے۔ اور اسے گالیاں دینے لگ گیا کہ تُو بڑا خبیث اور بے ایمان ہے۔ تیرا کام نسخہ لکھ کر دینا ہے یا ہر بات پر یہ کہہ دینا ہے کہ یہ تقاضائے عمر ہے۔ جب وہ اپنا جوش نکال چکا تو طبیب کہنے لگا یہ بھی تقاضائے عمر ہے۔ تو ان کے اندر جوش تو پیدا ہؤا مگر جلسہ نہ ہؤا۔ یہ بھی تقاضائے عمر ہی تھا۔ مگربہرحال میں نے جان بوجھ کر انصاراللہ میں ایک طبقہ ایسے لوگوں کا بھی رکھا تھا جن کا تقاضائے عمر کام کرنا ہو۔ تقاضائے عمر کام نہ کرنا نہ ہو۔ میں نے چالیس سال سے اوپر عمر والوں کو انصاراللہ میں شامل کیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ ایک بڑا طبقہ ایسے لوگوں کا ان کے پاس موجود ہے جو اپنے اندر کام کرنے کی روح رکھتا ہے اور طاقت و قوت کے لحاظ سے بھی وہ نوجوانوں سے کم نہیں۔ ساٹھ سال سے اوپر جا کر انسان کے قویٰ میں انحطا ط شروع ہوتا ہے بلکہ رسول کریم ﷺ کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تریسٹھ سال سے اوپر کی عمر والوں کے متعلق بھی یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ اب اس عمر والوں کا بیٹھنے کا زمانہ ہے، کام کرنے کا نہیں۔ اس سے نیچے نیچے ہر شخص سوائے کسی معذور یا بیمار کے اپنے اندر کام کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ پس جو عمر ان کے لئے رکھی گئی ہے اس کے لحاظ سے ایک بہت بڑا حصہ جواں ہمت لوگوں کا ان کے اندر پایا جاتا ہے۔ اور وہ اگر چاہیں تو اچھی طرح کام کر سکتے ہیں۔ اگر ایسے لوگوں کو آگے آنے اور کام کرنے کا موقع دیا جاتا اور زیادہ عمر کے لوگ صرف نگرانی اور محافظت کا کام کرتے تو اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ ایک طرف تو نوجوان بڑوں کی نگرانی میں کام کرنے کاطریق سیکھ جاتے اور دوسری طرف وہ جوش سے کام لے کر لوگوں کے اندر بیداری بھی پیدا کر دیتے مگر چونکہ ایسے لوگوں کو آگے آنے کا موقع نہیں دیا گیا اس لئے ’’تقاضائے عمر‘‘ سمجھ کر ہی بات ختم کر دی گئی اور انصاراللہ میں بیداری نہ پیدا ہوئی۔
پس مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کے مخلصین کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے۔ یاد رکھو! اگر اصلاحِ جماعت کا سارا دارومدار نظارتوں پر ہی رہا تو جماعت احمدیہ کی زندگی کبھی لمبی نہیں ہو سکتی۔ یہ خدائی قانون ہے جو کبھی بدل نہیں سکتا کہ ایک حصہ سوئے گا اور ایک حصہ جاگے گا۔ ایک حصہ غافل ہو گا اور ایک حصہ ہوشیار ہو گا۔ خداتعالیٰ نے دنیا کو گول بنا کر فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے قانون میں یہ بات داخل ہے کہ دنیا کا ایک حصہ سوئے اور ایک حصہ جاگے ۔ کبھی دنیا کا ایک حصہ جاگتا ہے اور دوسرا سوتا ہے۔ کبھی دوسراجاگتا ہے اور پہلا سوتا ہے۔ چاہے تم ساری دنیا کو فرشتوں سے بھی لا کر بھر دو پھر بھی ایسا ہی ہو گا کہ آدھی دنیا سوئے گی اور آدھی دنیا جاگے گی۔ ایسی صورت میں کام کو زندہ اور جاری رکھنے کا بہترین طریق یہ ہؤا کرتا ہے کہ کام دونوں کے سپرد کر دیا جائے۔ اس دنیا کے بھی سپرد کر دیا جائے جو ایک طرف ہے اور اُس دنیا کے بھی سپرد کر دیا جائے جو دوسری طرف ہے۔ اگر ایک طرف سوئے گی تو دوسری طرف جاگے گی اور اگر دوسری طرف سوئے گی تو پہلی طرف اس کام کو زندہ رکھے گی۔ یہی تقدیر اور تدبیر کا باریک نکتہ ہے ۔ خداتعالیٰ سوتا نہیں۔ مگر خدا کبھی سونے والے کی طرح ہو جاتا ہے جیسے فرمایا اُفْطِرُ وَاَصُوْمُ۔ تاکہ دنیا کو بیداری کا موقع دے۔ اور جب دنیا تھک جاتی ہے تو خدا اپنا کام شروع کر دیتا ہے۔ یہی نظام اور عوام کے کام کا تسلسل دنیا میں دکھائی دیتا ہے۔ کبھی عوام سوتے ہیں اور نظام جاگتا ہے اور کبھی نظام سوتا ہے اور عوام جاگتے ہیں۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نظام بھی جاگتا ہے اور عوام بھی جاگتے ہیں۔ اور وہ وقت بڑی بھاری کامیابی اور فتوحات کا ہوتا ہے۔ وہ گھڑیاں جب کسی قوم پر آتی ہیں جب نظام بھی بیدار ہوتا ہے اور عوام بھی بیدار ہوتے ہیں تو وہ اس قوم کے لئے فتح کا زمانہ ہوتاہے۔ وہ اس قوم کے لئے کامیابی کا زمانہ ہوتا ہے۔ وہ اس قوم کے لئے ترقی کا زمانہ ہوتا ہے۔ وہ شیر کی طرح گرجتی اور سیلاب کی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہر روک جو اس کے راستہ میں حائل ہوتی ہے اسے مٹا ڈالتی ہے۔ ہر عمارت جو اس کے سامنے آتی ہے اسے گرا دیتی ہے۔ ہر چیز جو اس کے سامنے آتی ہے اسے بکھیر دیتی ہے اور اس طرح وہ دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف اس طرف بھی اور اس طرف بھی بڑھتی چلی جاتی ہے اور دنیا پر اس طرح چھا جاتی ہے کہ کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ مگر پھر ایک وقت ایسا آ جاتا ہے جب نظام سو جاتا ہے اور عوام جاگتے ہیں یا عوام سو جاتے ہیں اور نظام جاگتا ہے۔ اور پھر آخر میں وہ وقت آتا ہے جب نظام بھی سو جاتا ہے اور عوام بھی سو جاتے ہیں۔ تب آسمان سے خداتعالیٰ کا فرشتہ اترتا ہے اور اس قوم کی روح کو قبض کر لیتا ہے۔ یہ قانون ہمارے لئے بھی جاری ہے، جاری رہے گا اور کبھی بدل نہیں سکے گا۔ پس اس قانون کو دیکھتے ہوئے ہماری پہلی کوشش یہی ہونی چاہیئے کہ ہمارا نظام بھی بیدار رہے اورہمارے عوام بھی بیدار رہیں اور درحقیقت یہ زمانہ اسی بات کا تقاضا کرتا ہے ۔ خدا کا مسیحؑ ہم میں ابھی قریب ترین زمانہ میں گزرا ہے۔ اس لئے اس زمانہ کے مناسبِ حال ہمارا نظام بھی بیدار ہونا چاہئے اور ہمارے عوام بھی بیدار ہونے چاہئیں مگر چونکہ دنیا میں اضمحلال اور قوتوں کا انکسار انسان کے ساتھ ساتھ لگا ہؤا ہے اس لئے عوام کی کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ وہ نظام کو جگاتے رہیں اور نظام کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ عوام کو جگاتا رہے تا خدانخواستہ اگر ان دونوں میں سے کوئی سو جائے ، غافل ہو جائے اور اپنے فرائض کو بھول جائے تو دوسرا اس کی جگہ لے لے۔ اور اس طرح ہم زیادہ سے زیادہ اس دن کو بعید کر دیں جب نظام اور عوام دونوں سو جاتے ہیں۔ اور خدائی تقدیر موت کا فیصلہ صادر کر دیتی ہے۔ پس دونوں کو اپنے اپنے فرض ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اگر دونوں نہ جاگیں تو کم از کم ایک تو جاگے۔ اور اس طرح وہ دن جو موت کا دن ہے ہم سے زیادہ سے زیادہ دور رہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ سب کام خدا کے اختیار میں ہے اور انسان اگر کامیاب ہونا چاہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ عجز اور انکسار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرے مگر دعاؤں کے ساتھ انسان کا اپنا ارادہ اور اس کی امنگ بھی شامل ہونی چاہیئے۔ تب دعاؤں کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جیسے مَیں نے ابھی بتایا ہے کہ جب تقدیر اور تدبیر جمع ہو جاتی ہیں تو اس وقت حرکات کا ظہور اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے یا جیسے میں نے بتایا ہے کہ عوام اور نظام دونوں بیدار ہوں تو وہ وقت قوم کی فتح کا اور وہ گھڑیاں اس کی کامرانی کی گھڑیاں ہوتی ہیں۔ محمد ﷺ کا زمانہ ایسا ہی تھا کہ تقدیر بھی آسمان سے جاری تھی اور زمین پر تدبیروں کا ڈھیر لگایا جا رہا تھا۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ سے ملاقات کرنے کے لئے ایک وفد آیا۔ وفد ابھی پیچھے ہی تھا کہ ان میں سے ایک شخص آگے بڑھ کر رسول کریم ﷺ سے ملنے کے لے آ گیا۔ رسول کریم ﷺ نے اس سے فرمایا تم بہت جلدی آ گئے تمہاری قوم نہیں آئی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ وہ کہنے لگا یا رسول اللہ! وہ اپنے اونٹ باندھ رہے ہیں مگر مَیں اپنے اونٹ کو خدا کے سپرد کر کے آ گیا۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جاؤ اور اپنے اونٹ کی رسی باندھو۔ اس کے بعد اپنے رب پر توکل کرو۔2 تو وہ زمانہ ایسا تھا جب تقدیر اور تدبیر دونوں اپنے انتہاء کو پہنچی ہوئی تھیں۔ چنانچہ اس کے نتیجہ میں اسلام کو وہ فتوحات اور کامیابیاں حاصل ہوئیں جن کی مثال نہ پہلے کسی زمانہ میں ملتی ہے اور نہ بعد میں کسی زمانہ میں نظر آتی ہے۔ اس وقت آسمان سے خداتعالیٰ کے فرشتے ہی دشمنوں پر حملہ نہیں کر رہے تھے بلکہ زمین پر مسلمانوں کے ہاتھ سے بھی کفار مارے جا رہے تھے اور جب دو طرف سے حملہ ہو تو تم جانتے ہو کہ درمیان میں آنے والی کوئی چیز بچ نہیں سکتی۔ پس جب خدا کی تقدیر اور بندے کی تدبیر جمع ہو جاتی ہےتو اس وقت ہر چیز جو درمیان میں آتی ہے مٹتی چلی جاتی ہے اور ہر کامیابی اور ہر فتح حاصل ہوتی جاتی ہے۔
پس اصل کامیابی تو اسی بات میں ہے کہ ہم کوشش کریں کہ آسمان سے خدائی تقدیر بھی ہمارے حق میں جاری رہے اور زمین پر ہماری تدبیریں بھی ہمیں کامیابی کے قریب تر کرتی رہیں ۔ لیکن اگر یہ نہ ہو تو کم سے کم اتنا تو ہونا چاہیئے کہ اگر ہمارے نظام میں خرابی آ جائے تو عوام بیدار ہوں جو اس خرابی کو دور کر سکیں اور اگر عوام میں کوئی خرابی واقع ہو جائے تو نظام اس کی اصلاح کے لئے جاگ رہا ہو۔ یہ کم سے کم توقع ہے جو ہم سے ہر شخص کو رکھنی چاہیئے تاکہ ہماری قومی اور جماعتی زندگی موت کے دن سے زیادہ سے زیادہ دور رہے۔
پس مَیں اس نصیحت کے ساتھ انصاراللہ کو بھی بیدار کرنا چاہتا ہوں اور خدام الاحمدیہ کو بھی بیدار کرنا چاہتا ہوں۔ خدام الاحمدیہ بے شک نسبتاً زیادہ بیدار ہیں مگر مَیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ بھی قشر کی طرف زیادہ متوجہ ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ کوئی خوبی نہیں کہ کسی قوم کے تین یا چار پانچ آدمی مل کر اچھا مارچ کر سکتے یا کوئی اور دنیوی کام کر سکتے ہیں بلکہ خوبی یہ ہے کہ جماعت میں ایسے تین یا چار یا پانچ آدمی پیدا کر دیئے جائیں جن کی روحیں اکٹھی ہوں اور جو روحانی میدان میں مل کر قدم اٹھا سکتے ہوں۔ مذہبی دنیا میں کبھی قدموں کو ملا کر چلنے سے کامیابی نہیں ہؤا کرتی بلکہ مذہبی دنیا میں روحوں کے متحد ہونے سے کامیابی حاصل ہؤا کرتی ہے۔ مگر اس میں ابھی بہت بڑی کوتاہی پائی جاتی ہے۔ ہر شخص دوسرے پر اعتراض کرتا اور اعتراض کرنے کو ہی اپنی خوبی اور کمال سمجھتا ہے۔ ایک افسر دوسرے افسر کی جگہ مقرر کیا جاتا ہے تو ہمیشہ اس کا یہ طریق نظر آتا ہے کہ وہ کہتا ہے مَیں نے یہ کام کیا مگر دوسرے کے کام میں یہ یہ نقص تھا۔ اسے کبھی یہ خیال ہی نہیں آتا کہ میں اس قسم کے الفاظ کہہ کر اپنے نقص کا آپ اظہار کر رہا ہوں۔ بے شک دوسرے افسر کے کام میں کوتاہی ہو گی مگر جب یہ اس کا نقص بیان کرتا اور اپنی خوبیاں شمار کرتا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت بہم پہنچا رہا ہوتا ہے کہ اگر پہلے افسر کا کوئی عمل ناقص تھا تو اس کا ایمان ناقص ہے۔ پس مادی حالات کی درستی نہیں بلکہ روحوں کی درستی سے مذہبی جماعتیں دنیا میں کامیاب ہؤا کرتی ہیں۔ مگر اس طرف خدام کی توجہ ابھی کم ہے ۔ لیکن بہرحال انصاراللہ سے وہ کچھ زیادہ بیدار ہیں۔ اگر یہ دونوں یعنی خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ مل کر جماعت میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی وقت ہمارا نظام سو جائے تو یہ لوگ اس کی بیداری کا باعث بن جائیں گے اور اگر یہ خود سو جائیں گے تو نظام ان کو بیدار کرتا رہے گا۔
مَیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ہماری مدد فرمائے۔ اور ہمیں ایسی توفیق عطا فرمائے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے ذاتی فرائض کو ادا کرتے ہوئے اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی اٹھانے اور ان کو بیدار کرنے کا باعث ہو تاکہ ہم خداتعالیٰ کے سامنے بیدار اور ہوشیار سپاہیوں کی صورت میں پیش ہوں۔ مُردار اور بے کار لوگوں کی صورت میں پیش نہ ہوں۔‘‘ (الفضل 17 نومبر 1943ء)

1: تذکرہ صفحہ نمبر 420 ایڈیشن چہارم
2: ترمذی کتاب الزھد باب حدیث اعقلھا و توکّل (مفہومًا)

26
دعوتوں وغیرہ میں میرا وقت ضائع نہ کیا جائے
(فرمودہ5 نومبر 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’آج کے خطبہ میں مَیں بعض ایسی باتیں کہنا چاہتا ہوں جو میری ذات سے تعلق رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو خواہ وہ نبی ہو ، رسول ہو، خلیفہ ہو، شیخ ہو، مجدد ہو۔ کچھ بھی ہو، جس کو اس نے پیدا کیا ہے انسانی قویٰ اور دیگر بشریت کے تقاضے لگا کر ہی پیدا کیا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں بچپن کا بھی محتاج ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کی طرف ایک حدیث منسوب کی جاتی ہے کہ آپ نے فرمایا اَلصَّبِیُّ صَبِیٌّ وَلَوْ کَانَ نَبِیًّا۔ یعنی بچہ بچہ ہی ہے خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو۔ بچپن کا زمانہ بشریت کا ایک حصہ ہے۔ اس میں نبیوں اور رسولوں کو بھی شریک ہونا پڑتا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی ۔ اس کے بعد جوانی کا زمانہ آتا ہے جو تعلیم اور تجربہ کا زمانہ ہے۔ اس میں بھی سب انسان شریک ہوتے ہیں۔ پھر ادھیڑ عمر کا زمانہ ہے۔ اس میں بھی سب شریک ہوتے ہیں۔ پھر بڑھاپا آتا ہے اس میں بھی سب شریک ہوتے ہیں اور کسی کو بھی کسی حالت سے استثناء حاصل نہیں۔ کافرو مومن، شریف اور غیرشریف، دنیا کی خدمت کرنے والا یا نفسانفسی کرنے والا، سب کے سب انسان ان دوروں میں سے گزرتے ہیں۔ ان اثرات کو قبول کرتے اور ان حالات کو بُھگتتے ہیں۔ اور اس بارہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کے ساتھ کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جاتا۔ پس کسی انسان کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ انسانی اور بشری طاقتوں سے زیادہ کام کر سکتا ہے یا انسانی اور بشری دماغوں سے زیادہ بوجھ اٹھا سکتا ہے بالکل غلط خیال ہوتا ہے جو فرق نظر آئے گا وہ صرف اس حد تک ہو گا کہ ایک انسان اپنے دماغ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے والا اور دوسرا کم سے کم استعمال کرنے والا ہو گا۔ ایک پاگل اور اس کے مقابلہ میں ایک بڑے فلسفی مثلاً افلاطون کو لے لو۔ ان میں انسانیت اور غیرانسانیت کا فرق نہیں ہو گا۔ صرف اتنا فرق ہو گاکہ دماغ کی جو قوتیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیں ایک نے انہیں ادنیٰ طور پر استعمال کیا اور دوسرے نے اعلیٰ طور پر۔ یا روحانی دنیا میں رسول کریم ﷺ اور ابوجہل کی مثال لے لو۔ ابراہیمؑ اور نمرود، موسیٰؑ اور فرعون، عیسیٰ ؑ اور ان کے مخالف فریسیوں کو لے لو۔ ان میں یہ فرق نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ یا حضرت ابراہیمؑ ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے دماغ ابوجہل، نمرود، فرعون اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے دشمن فریسیوں کے دماغوں سے علیحدہ تھے۔ یا دوسرے انسانوں سے کوئی علیحدہ دماغ تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ ، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام نے ان قوتوں کو جو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملیں اس روشنی کے ماتحت جو اللہ تعالیٰ سے حاصل ہوئی، زیادہ سے زیادہ استعمال کیا مگر ابوجہل، نمرود اور فرعون وغیرہ نے اس روشنی کو رد کیا اور دماغ کی روحانی طاقتوں کو کم سے کم استعمال کیا۔ صرف اتنا ہی فرق ہے۔ یہ نہیں کہ تفاوت کی وجہ سے کوئی وجود انسانوں کے حلقہ سے باہر نکل گیا۔ یا کوئی عام انسانوں سے کسی بالا درجہ میں چلا گیا۔ جنہوں نے ان طاقتوں کو اچھی طرح استعمال کیا وہ انسانوں سے بالا نہیں ہو گئے اور جنہوں نے بُری طرح استعمال کیا وہ انسانوں کے حلقہ سے باہر نہیں نکلے۔ ادنیٰ رنگ میں ان طاقتوں کو استعمال کرنے والے انسانوں سے بالا ہستی نہیں بن گئے۔ جہاں تک ان کی قوتوں کے استعمال کا سوال ہے دونوں انسان ہی رہے۔ غرض انسانیت سے بالا طاقتیں نہ کبھی کسی انسان کو ملیں اور نہ مل سکتی ہیں۔
میں دیکھتا ہوں کہ کچھ عرصہ سے خصوصاً اس سال میری صحت زیادہ سے زیادہ گرتی جا رہی ہے اور اب یہ حالت ہے کہ اگر میں مہینہ بھر بیمار رہوں تو ایک دن ایسا آتا ہے کہ میں اپنے آپ کو تندرست کہہ سکوں۔ اور پندرہ بیس دن ایسے ہوتے ہیں کہ جو نیم بیماری اور نیم تندرستی کے دن کہلا سکتے ہیں۔ تفسیر کبیر کا جو کام 4019ء میں مَیں نے کیا اور جس میں راتوں کو بعض اوقات تین تین، چار چار بجے تک کام کرنا پڑتا۔ اس میں روزانہ 17،18 گھنٹے کام کرنے کا عمل میری جدوجہد کی زندگی کا آخری دَور ثابت ہوا۔ اور اس کے بعد قویٰ مضمحل ہو گئے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں ابھی یہ احساس پیدا نہیں ہؤا کہ یہ سمجھ سکیں اور یہی سمجھانے کے لئے مَیں نے یہ تمہید بیان کی ہے کہ ہر انسان انسان ہی ہوتا ہے خواہ اس کا مرتبہ کچھ بھی ہو اور وہ ایک حد تک ہی بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ اس سے زیادہ بوجھ اگر اس پر ڈالنے کی کوشش کی جائے تو وہ ٹوٹ تو سکتا ہے مگر بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر انسان کی دو حیثیتیں ہوتی ہیں۔ ایک انسانی حیثیت اور دوسرے فرض منصبی کی حیثیت۔ میرے تعلقات جماعت کے ساتھ دونوں رنگ کے ہیں۔ ایک تمدنی اور سوشل تعلقات اور دوسرے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے سلسلہ کے کاموں کے متعلق۔ میرا جو مقدم فرض ہے وہ سلسلہ کے کاموں سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر ان سے کوئی کام کا وقت بچ سکے تو دوسرے مصرف میں لایا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر بچ ہی نہیں سکتا تو دوسرے کام میں استعمال نہیں ہو سکتا۔ مگر یہ احساس ابھی تک ہمارے احباب میں باوجود اس کے کہ میں پہلے بھی اشارةً اس طرف توجہ دلا چکا ہوں پیدا نہیں ہؤا۔ خصوصاً قادیان کے احباب میں یہ پیدا نہیں ہو سکا۔
ہر انسان کی تین ہی حالتیں ہو سکتی ہیں۔ یا وہ اچھا ہو گا یا بیمار یا نیم بیمار اور نیم درست۔ یہی تین جواب انسان اپنی حالت کے بارہ میں دے سکتا ہے۔ مجھ سے بھی جب کوئی یہ پوچھتا ہے کہ حال کیسا ہے تو میں ان میں سے ایک جواب ہی دے سکتا ہوں یا تو کہوں گا اَلْحَمْدُ لِلہ اچھا ہے یا یہ کہ اَلْحَمْدُ لِلہ پہلے سے اچھا ہوں یا یہ کہ بیمار ہوں ۔ اور میں نے دیکھا ہےاور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں میں اپنی جو بھی حالت بیان کروں دوست مجھ پر زائد بوجھ ڈالنے سے گریز نہیں کرتے۔ میں نے پہلے بھی یہ امر خطبہ میں اشارةً بیان کیا ہے اور بہت غور کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسے اخلاص نہیں کہا جا سکتا۔ عدمِ علم اور نادانی کہا جا سکتا ہے۔ تم سے بہت زیادہ مخلص رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں گزرے ہیں اور مجھ سے بے انتہاء شان کا زیادہ آدمی ان میں موجود تھا مگر ان کے اخلاص کا یہ رنگ نہ تھا اور نہ وہ لوگ آنحضرتﷺ سے اس قربانی کا مطالبہ کرتے تھے جس کامجھ سے کیا جاتا ہے میں اسے اخلاص نہیں بلکہ عدمِ علم اور دین کی ناواقفیت سمجھتا ہوں۔
رسول کریم ﷺ کے پڑھے ہوئے نکاح بہت ہی محدود ہیں مگر اب مَیں دیکھتا ہوں کہ ذہنیت یہ ہو رہی ہے کہ اسلام زندہ رہے یا مرے ، اسلامی علوم پر کتابیں لکھی جا سکیں یا نہ لکھی جا سکیں مگر یہ ضروری ہے کہ ہمارا نکاح خلیفہ پڑھے۔ تم میں کون سا ایسا مخلص ہے جو اپنے آپ کو کسی ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی پر ترجیح دے سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میری جماعت میں کئی ایسے ہیں جو صحابہ کا رنگ رکھتے ہیں اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں۔ مگر قربانی کا جو موقع آپ لوگوں کو ملا اس کے پیش نظر کون کہہ سکتا ہے کہ اس نے ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی سے زیادہ قربانی کی اور اپنی قوتوں اور طاقتوں کے استعمال کے لحاظ سے کوئی پاگل ہی کہہ سکتا ہے کہ مَیں رسول کریم ﷺ سے زیادہ ہوں۔ حدیثوں میں رسول کریمﷺ کے پڑھائے ہوئے نکاح پانچ دس سے زیادہ نہیں ہیں اور عام دعوتوں کو تو جانے دو۔
عشرہ مبشرین میں سے ایک رسول کریم ﷺ کا عزیز اور ایسا عظیم الشان انسان کہ جس کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تک عبدالرحمٰن بن عوف زندہ ہے اسلام برباد نہیں ہو سکتا۔ اس کی شادی ہوتی ہے اور رسول کریم ﷺ اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم نے ولیمہ کیا ۔1 اگر کسی ایسے شخص سے جس کی کوئی بھی اسلامی خدمت نہیں۔ آج میں یہ سوال کروں تو وہ فوراً یہی جواب دے گا کہ اگر مَیں ولیمہ کرتا تو آپ کو نہ بلاتا۔ مگر احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اس پایہ کے صحابہ بھی رسول کریم ﷺ کو ولیمہ کی دعوتوں میں نہ بلاتے تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رسول کریم ﷺ کے عزیز تھے، ہم وطن تھے، ہم ہجرت تھے۔ پھر عشرہ مبشرین میں سے تھے اور جن کا پایہ اتنا بلند تھا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تک عبدالرحمٰن بن عوف زندہ ہے اسلام پر تباہی نہیں آ سکتی۔ شادی کرتے ہیں اور رسول کریم ﷺ ان کی شادی کا حال پوچھتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس تقریب میں شریک نہ تھے اور پھر دریافت فرماتے ہیں کہ کیا تم نے ولیمہ کیا۔ انہوں نے جواب دیا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا کر دینا چاہیئے خواہ ایک بکری ہی ذبح کر کے کردیا جائے مگر اس وقت حالت یہ ہے کہ خواہ کتنا ضروری کام کیوں نہ ہو، خلیفہ کی صحت اجازت دے یا نہ دے ، خرابیٔ صحت کی وجہ سے اس کی عمر 10 سال کم ہوتی ہے تو ہو جائے مگر یہ ضروری ہے کہ اسے ولیمہ کی دعوت میں آنا چاہیئے۔ ایک وقت تک مَیں نے اس بات کو برداشت بھی کیا جبکہ میرا ایسا کرنا اسلام کی خدمت کے راستہ میں روک نہ بن سکتا تھا مگر اب میری صحت ایسی نہیں رہی کہ سوائے اس کام کے جو خدمتِ اسلام کا میرے ذمہ ہے یا کسی ایسے کام کے جو صحت کو درست کرنے والا ہو کوئی اور کام کر سکوں۔ اگر مَیں ایسا کروں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ مَیں اس کے لئے اسلام کے کام کو قربان کروں اور اس کے لئے مَیں تیار نہیں ہوں۔ مجھ سے جب بھی صحت کے متعلق کوئی سوال کرتا ہے تو جیسا کہ مَیں بیان کر چکا ہوں تین جواب ہی مَیں دے سکتا ہوں۔ یا کہوں گا اچھا ہوں، یا بیمار ہوں اور یا یہ کہ نیم بیمار اور نیم تندرست ہوں۔ مگر جب مَیں کہتا ہوں کہ اچھا ہوں تو اس کے معنی یہی ہوتے ہیں جیسے چراغِ سحری ٹمٹماتا ہے۔ اگر ایک دن بیچ میں حالت اچھی ہو جاتی ہےتو اس کے معنی یہ نہیں کہ مَیں تندرست ہو گیا ہوں۔ مُردہ بھی تو مرنے سے پہلے سانس لے لیتا ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ اگر ایک دن طبیعت اچھی رہتی ہے تو دوسرے دن پھر خراب ہو جاتی ہے۔ مومن کا کام ہے کہ ایک دن کے لئے بھی تکلیف میں کمی ہو تو کہے اَلْحَمْدُ لِلہاچھا ہوں۔ مگر حالت یہ ہے کہ ایک دوست آتے ہیں ، پوچھتے ہیں کیا حال ہے۔ مَیں کہہ دیتا ہوں۔ اَلْحَمْدُ لِلہ اچھا ہوں تو وہ جَھٹ کہہ دیں گے اچھا پھر شام کو دعوت ہمارے ہاں ہے یا اگر میری حالت کچھ اچھی ہے تو مَیں کہتا ہوں اَلْحَمْدُ لِلہ پہلے سے اچھا ہوں تو وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ فضل کرے گا کل تک بالکل صحت ہو جائے گی اور کل دوپہر ہمارے ہاں آپ دعوت قبول فرمائیں۔ ایک حصہ دوستوں کا بے شک ایسا ہے کہ اگر مَیں بیمار ہوں اور کہوں کہ بیمار ہوں تو افسردگی کا اظہار کر کے خاموش ہو جاتا ہے مگر ایک حصہ تو ایسا ہے کہ جب مَیں کہوں میں بیمار ہوں تو کہتے ہیں کہ کوئی حرج نہیں، ہم سواری کا انتظام کر کے لے چلیں گے اور آپ کو ہرگز کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ گویا وہ اپنی دعوت کو نماز سے بھی زیادہ ضروری سمجھتے ہیں۔ مَیں بعض اوقات کہتا ہوں کہ نماز تو مجھے ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے مسجد میں جا کر ادا کرنا معاف کر دیا ہے مگر آپ کی دعوت معاف نہیں ہو سکتی۔ آخر تنگ آ کر مَیں نے اعلان کر دیا کہ مَیں ایک سال تک نہ کوئی نکاح پڑھاؤں گا اورنہ کسی دعوت میں شریک ہوں گا۔ اس میں مَیں نے ایک سال کی شرط رکھی ہے۔ مَیں نہیں چاہتا کہ ہمیشہ کے لئے یہ پانبدی کر دوں۔ اگر اللہ تعالیٰ ایک سال میں مجھ پر فضل کر دے ، میری صحت کو درست کر دے اور مَیں دوستوں کو خوش کر سکوں تو کیا حرج ہے۔ تو مَیں نے ایک سال کے لئے یہ اعلان کیا تھا۔ اس میں استثنیٰ کی گنجائش تھی اور اب مَیں دیکھتا ہوں کہ بعض دوستوں کی طرف سے کہا جانے لگا ہے کہ ہم استثنیٰ کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں اور اعلان کے بعد استثنیٰ کے طور پر بیس پچیس نکاحوں کے پڑھانے اور دس پندرہ دعوتوں میں شریک ہونے کی اطلاع آ چکی ہے۔ ایسی صورت میں میرے لئے کیا چارہ ہے۔ میں تو اَلْحَمْدُ لِلہ حال اچھا ہے کہتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں کیونکہ مَیں سمجھتا ہوں کہ ادھر مَیں نے یہ بات کہی اور ادھر یہ مطالبہ ہو گا کہ دعوت میں چلیں یا نکاح کا اعلان کر دیں۔
ڈاکٹر مجھے سالہاسال سے یہ کہتے ہیں کہ میری صحت کے لئے چلنا پھرنا اور اکسرسائز کرنا ضروری ہے۔ بیماری کی وجہ سے طبیعت میں یوں بھی کچھ کسل پیدا ہو جاتا ہے جو ورزش میں مانع ہوتا ہے مگر سیر وغیرہ کرنے سے مَیں یوں بھی ڈرتا رہتا ہوں کہ لوگ پیچھے پَڑ جائیں گے اور سمجھیں گے اب تو سیر کرتے ہیں اس لئے کوئی شبہ نہیں کہ تندرست ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ سیر تندرسی کی علامت نہیں بلکہ کونین کی گولی کی طرح ہے جو ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق کی جاتی ہے۔ مجھے جتنی بیماریاں ہیں وہ سب ایسی ہیں کہ جن کے متعلق طبیبوں کی یہ رائے ہے کہ ان کا باعث زیادہ دماغی کام اور بیٹھے رہنا ہے۔ مثلاً نقرس ہے۔ اب ایگزیما ہؤا ہوا ہے، کھانسی ہے، یہ سب بیٹھے رہنے اور زیادہ دماغی کام کرنے سے ہوتی ہے ۔اور چلنا پھرنا ، سیر کرنا، ورزش کرنا ان کا علاج ہے۔ اور ڈاکٹر مجھے ہمیشہ یہی مشورہ دیتے ہیں مگر انہیں میری مصیبت کا پتہ نہیں۔ مَیں تو باہر نکلتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں کہ دعوتیں ہونے لگیں گی اور اس ڈر سے مَیں علاج بھی نہیں کر سکتا۔
پس مَیں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ابھی اسلام کے بہت سے کام کرنے والے ہیں۔ ابھی بہت کام باقی ہیں۔ گو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کہ جس نے تیرہ سو سال کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا۔ یہ امید بھی کی جا سکتی ہے کہ وہ ان کاموں کی تکمیل کے لئے اور مامور بھی بھیج سکتا ہے مگر اس خیال سے کہ اللہ تعالیٰ اور بھی بھیج سکتا ہے جو چیز ہمیں حاصل ہے اسے ضائع نہ کرنا چاہیئے۔ خداتعالیٰ اور مامور بھیج سکتا ہے۔ اس خیال کی بناء پر جو علوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں عطا ہوئے ہیں ان کو ضائع کر دینا مناسب نہیں۔ اور انہیں پوری طرح محفوظ کر لینا ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بہت سے صحابہ فوت ہو چکے ہیں۔ اب بہت تھوڑے باقی ہیں اور ان میں سے بھی وہ جن کو حضور علیہ السلام کی صحبت نصیب ہوئی اور جن کو حضور علیہ السلام کی دعاؤں کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم ، حدیث اور اسلامی علوم عطا کئے وہ تو اب بہت ہی تھوڑے ہیں۔ مخالفین نے اسلام کے ہر پہلو پر اور نئے نئے رنگ میں اعتراضات کئے ہیں۔ اور اس لئے ضرورت ہے کہ اسلام کے تمام پہلوؤں پر نئے سرے سے روشنی ڈالی جائے۔ ورنہ خطرہ ہے کہ پھر وہی گمراہی دنیا میں نہ پھیل جائے جسے دور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دنیا میں تشریف لائے۔ پس ان کاموں سے جو دوست مجھ سے ہی کرانا ضروری سمجھتے ہیں بہت بڑا کام باقی ہے اور شاید اس کام کا ابھی چوتھا حصہ بھی مکمل نہیں ہؤا۔ اور ضرورت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم میں جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحبت یافتہ ہیں اور جنہوں نے حضور کی دعاؤں سے حصۂ وافر پایا ہے یا جن پر آپ کا علم بذریعہ الہام اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے ان کی موجودگی میں یہ کام مکمل کر سکیں تا آئندہ صدیاں اسلام سے قریب تر ہوں دُور تر نہ ہوں۔ یہ اس کام کے کرنے کا زمانہ ہے مگر موجودہ حالت یہ ہے کہ میں اس سال کا اکثر حصہ بیمار رہا ہوں اور کوئی کام نہیں کر سکا۔ لیٹے لیٹے ڈاک دیکھ لی یا بعض خطوط کے جواب نوٹ کرا دیئے۔ تو یہ کوئی کام نہیں ہے۔ اصل کام اسلام کی اس روشنی میں توضیح و تشریح ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ نازل فرمائی اور یہ میں اس سال خطبات میں بھی بیان نہیں کر سکا۔
سال میں چھ ماہ مَیں بیمار رہا ہوں اور چھ ماہ نیم بیمار۔ گویا آدھا وقت تو یوں ضائع ہو گیا۔ اور اب تو صحت بھی ایسی ہوتی ہے کہ پورا کام نہیں ہو سکتا۔ پہلے جہاں 17 ،18 گھنٹے کام کر لیتا تھا اب 6، 7 گھنٹے بھی نہیں کر سکتا۔ اور اس طرح سال کے تین ماہ ہی رہ جاتے ہیں۔ اور وہ بھی نیم بیمار کے۔ اور اس قلیل وقت میں سے بھی اگر اَور ضائع ہو تو کام کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔
اچھی طرح یاد رکھو کہ اسلام پر ایسا دور آنے والا ہے جب اسلام کُفر سے آخری ٹکر لے گا اور یہ زمانہ ان سامانوں کے جمع کرنے کا ہے جن سے عیسائیت اور دوسرے مذاہب کو پاش پاش کر دیا جائے گا۔ اگر یہ سامان جمع نہ ہوئے تو لڑائی کا یہ پہلو نمایاں طور پر کمزور ہو جائے گا۔ گو اللہ تعالیٰ معجزانہ فتح دے دےتو اور بات ہے۔ پس اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ جس جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کی جتنی جتنی سمجھ دی ہے اس کے مطابق اسلامی علوم کو محفوظ کر دیا جائے۔ ورنہ جو جو لغویات اسلام کی طرف منسوب کی گئی ہیں ان سے بہت زیادہ گمراہی پھیلنے کا اندیشہ ہے اور آنے والی نسلیں اس صداقت سے محروم رہ جائیں گی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ظاہر کی ہے۔
پس مَیں پھر ایک دفعہ احبابِ جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اب یہ حالت ہے کہ میرا نصف سے زیادہ وقت بیماری میں ضائع ہو جاتا ہے اور جو نصف وقت رہتا ہے اس میں کمزوری کی وجہ سے زیادہ کام نہیں کر سکتا۔ اس لئے دوستوں کو چاہیئے کہ ان باتوں میں عقل و خِرد سے کام لیں اور اسلام سے محبت کا ثبوت دیں اور میرے وقت کو خواہ مخواہ ضائع ہونے سے بچائیں۔ ورنہ یہ مت سمجھیں کہ یہ باتیں برکت دینے والی ہیں۔ ایسی باتیں برکت دینے والی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو جایا کرتی ہیں۔ یہ میرے ساتھ محبت کا اظہار نہیں بلکہ تکلیف دینے والی باتیں ہیں۔ یہ تو ایسی ہی محبت ہے کہ ایک پٹھان دوست نے سنایا کہ ایک پٹھان کسی پیر کا مُرید تھا اور بڑے دور دراز مقام سے چل کر سال میں ایک دوبار اس کی زیارت کے لئے آیا کرتا تھا اور ہمیشہ اس سے عرض کرتا تھا کہ کبھی ہمارے ہاں تشریف لائیے۔ ہمارا علاقہ بہت سرسبزوشاداب ہے۔ بڑے اعلیٰ نظارے ہیں۔ آخر ایک دفعہ پیر صاحب راضی ہو گئے اور اس کے گاؤں میں چلے گئے۔ وہ انہیں ایک پہاڑی پر لے گیا اور کہنے لگا دیکھئے یہ کیسی خوبصورت جگہ ہے۔ کیسے عمدہ عمدہ نظارے ہیں۔ پیر صاحب بھی دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ان پر ایسا اثر ہؤا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے کا خیال ان کے دل میں آیا۔ اتنے میں پٹھان نے پوچھا کہ کیوں حضرت یہ جگہ کیسی ہے۔ انہوں نے کہا بہت اچھی ہے۔ اس نے پوچھا آپ کو پسند آئی ہے۔ پیر صاحب نے کہا ہاں بہت پسند ہے۔اس نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ مَیں آپ کو مار کر یہاں آپ کی قبر بناؤں ۔ پیر صاحب گھبرا گئے اور پوچھنے لگے کہ یہ کیوں؟ تو اس نے کہا میں غریب آدمی ہوں۔ اتنی دور آپ کی زیارت کے لئے جانا مشکل ہے۔ یہیں آپ کی قبر ہو گی تو مَیں اور میری بیوی صبح شام اس سے برکت حاصل کر سکیں گے۔ پھول بھی چڑھا جایا کریں گے اور برکت بھی ملتی رہے گی۔ پیر صاحب نے کہا کہ یہ برکت والی بات تو نہیں۔ اس سے تو تم *** مول لے لو گے۔ اس نے کہا کہ نہیں پیر صاحب کی قبر سے زیادہ برکت والی چیز اور کون سی ہو سکتی ہے۔ آپ مجھے معاف فرمائیں یہ کام تو میں ضرور کروں گا۔ آخر پیر صاحب نے اس سے وعدہ کیا کہ مَیں خود ہی سال میں ایک دو بار یہاں آ جایا کروں گا۔ اور پھر ان کی جان چھوٹی۔ تو یہ نادانی ہے محبت نہیں۔ مَیں نے بتایا ہے کہ تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیں جو اخلاص میں تم سے بہت بڑھ کر تھے اور اُن میں ایک ایسا سردار تھا کہ جو مجھ سے اَن گنت گُنا زیادہ شان رکھتا تھا مگر ان کے باہم ایسے تعلقات نہ تھے جو تم میرے ساتھ رکھنا چاہتے ہو۔ خوب یاد رکھو کہ اُن کا رویہ بالکل ٹھیک تھا اور حکمت سےخالی نہ تھا۔ کوئی موقع استثنائی بھی آ سکتا ہے اور ایسے مواقع بھی آئے ہیں جب صحابہ رسول کریم ﷺ کو دعوت پر اپنے ہاں بلا کر لے گئے ہیں مگر وہ اَور مواقع تھے۔ ایک دعوت کا ذکر احادیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنا پیٹ کَس کر باندھا ہؤا ہے۔ عربوں کے رواج کے مطابق اس کا یہ مطلب تھاکہ آپ کو سخت بھوک لگ رہی ہے۔ اس کے گھر میں ایک ہی بکری تھی۔ وہ فوراً گھر آیا اور بیوی سے کہا کہ آج موقع ہے۔ رسول کریم ﷺ بھوکے ہیں اور اس بکری کے استعمال کا اس سے بہتر موقع کیا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے بکری ذبح کی، شوربا پکایا اور پھر جا کر رسول کریم ﷺ کو دعوت دی کہ اتنے آدمیوں سمیت تشریف لا کر میرے ہاں کھانا تناول فرمائیں۔2 چنانچہ آپؐ تشریف لے گئے اور کھانا کھایا۔اس نے عقل سے کام لیا اور برکت حاصل کی لیکن وہ رسول کریم ﷺ کو محض برکت حاصل کرنے کے لئے اپنے ہاں لے کر نہ گیا تھا بلکہ آپ کو اس حالت میں دیکھ کر کہ بھوک کی وجہ سے پیٹ باندھ رکھا ہےاپنی ایک ہی بکری کو ذبح کیا اور آپ کو کھانے پرمدعو کیا۔ یہ دعوت اس لئے نہ تھی کہ وہ اور اس کا گھر برکت حاصل کر سکے۔ اپنے گھر میں جو اس نے دعوت کی تو اس لئے کہ رسول کریم ﷺ کو یہ علم نہ ہو کہ اسے آپ کے بھوکا ہونے کا علم ہے۔ ورنہ وہ بکری ذبح کر کے آپ کے گھر بھیج دیتا۔ اُس نے جو آپ کی دعوت اپنے گھر میں کی تو آپ کے جذبات لطیف کو ٹھیس سے بچانے کے لئے ۔ تو یہ رنگ اَور ہے۔
پس ہمارے دوستوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ دعوتوں وغیرہ میں میرا وقت ضائع نہ کیا جائے۔ بعض مجھے یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ آپ نہ مانا کریں مگر وہ اس بات کو ذہن میں نہیں رکھتے کہ جماعت کے دوستوں کے ساتھ میرے جو تعلقات ہیں ان کے لحاظ سے کسی کی دعوت کو ردّ کرنا بھی تو مشکل ہوتا ہے۔ وہ جو مشورہ دیتے ہیں وہ بھی صحیح ہے مَیں ردّ کر سکتا ہوں مگر دوستوں کے ساتھ میرے محبت کے جو تعلقات ہیں اُن کی موجودگی میں ردّ کرنے سے بھی تو مجھے تکلیف ہو گی۔
پس دوستوں کو چاہیئے کہ ان باتوں میں رسول کریم ﷺ کی سنت اور صحابہؓ کے طریقِ عمل کے مطابق چلیں اور مَیں سمجھتا ہوں کہ جو دوست اس بات کو سمجھتے ہوئے اپنی اس خواہش کو خود ہی ردّ کر دے گا یا پیچھے ڈال دے گا اسے ضرور ثواب ہو گا۔ اور اس کے لئے برکت کا موجب ہو جائے گا۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہے کہ اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔3 اور ایسے شخص کی نیت اور ارادہ اس کے لئے برکت کا موجب ہو جائے گا۔ صحابہؓ ایک جنگ میں شریک ہونے کے لئے جا رہے تھے۔ رستہ ایک کانٹوں کے جنگل میں سے گزرتا تھا۔ کیکر کے بڑے بڑے لمبے کانٹے تھے جن کی وجہ سے دو قدم بھی چلنا محال ہو رہا تھا۔ تمام صحابہؓ کے پاؤں سے خون بہہ رہا تھا اور پگڑیاں پھاڑ پھاڑ کر پٹیاں باندھ رکھی تھیں۔ دو قدم چلتے اور پھر بیٹھ جاتے اور یوں نظر آتا تھا کہ یہ کوئی فوج نہیں جو لڑائی کے لئے جا رہی ہے بلکہ کسی ہسپتال کے مریض ہیں۔ جب ایک مقام پر جا کر قیام کیا تو بعض صحابہ کے دل میں خیال گزرا کہ آج ہم نے اتنی تکلیف اللہ تعالیٰ کی راہ میں اٹھا لی ہے آج ہمیں بہت ثواب حاصل ہو گا۔ رسول کریم ﷺ نے اس بات کو اُن کے چہروں سے پڑھ لیا اور فرمایا اے عزیزو! مدینہ میں کچھ لوگ ہیں، تم کسی وادی سے نہیں گزرے کہ وہ تمہارے ساتھ نہ گزرے ہوں اور کوئی ایسا ثواب نہیں جو تم کو ملا اور ان کو نہ ملا ہو۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! پیدل ہم چلتے رہے، کانٹوں سے ہمارے پاؤں چھلنی ہوئے، خون ہمارا بہا اور ثواب مدینہ میں بیٹھے ہوئے لوگ لے جائیں۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ وہ لنگڑے ، اپاہج اور اندھے یا کم استطاعت لوگ ہیں جن کے دل اس جہاد میں شریک ہونے کے تم سے کم خواہشمند نہ تھے مگر وہ اپنی اس خواہش کو اپنی معذوریوں کی وجہ سے پورا نہ کر سکے اور اپنی نیات کی وجہ سے ثواب حاصل کر رہے ہیں۔ 4
پس یہ ایسا وقت ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو یہ دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ اسلام کی خدمت کے کام کو بہترین رنگ میں مکمل کرا دے اور جب وقت آئے تو وہ ہم کو سوتا ہؤا نہ پائے بلکہ تیار اور تجربہ کار پائے اور ایسا نہ ہو کہ ہم عدمِ تیاری یا ناتجربہ کاری کے باعث اس لڑائی میں شریک نہ ہو سکیں یا ہوں تو بجائے اسلام کو کوئی فائدہ پہنچانے کے اس کے لئے ایک ایسا بار بن جائیں جو سمندر میں پھینکے جانے والے آدمی کی گردن میں باندھ دیا جاتا ہے۔ یہ دن خشیت اور خوف کے دن ہیں۔ آج ہماری تمام آرزوئیں اور خواہشات اسلام کی زندگی اور آنحضرتﷺ کی عزت کے لئے وقف ہونی چاہئیں۔ ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہونا چاہیئے کہ وہ سوچے اور خوب غور کرے۔ شاید اسی کے دل میں کوئی ایسی بات آجائے جو اسلام کے لئے مفید ہو اور شاید اسی کے دل میں کوئی ایسی بات آ جائے جو اسلام پر سے اس اعتراض کو دور کر سکے جو صداقت کے قبول کئے جانے میں روک بن رہا ہے۔ اور ہر ایک کو چاہئیے کہ دعاؤں میں لگا رہے کہ شاید اسی کی دعا اللہ تعالیٰ کے رحم کو جذب کرنے والی ہو اور دنیا کو تباہی سے بچانے کا موجب بن جائے۔ یہ دن ایسے بھیانک ہیں کہ اس سے پہلے ایسے بھیانک دن پہلے نہیں آئے اور یہ راتیں ایسی تاریک ہیں کہ اس سے قبل ایسی تاریک راتیں نہیں آئیں مگر خوب یاد رکھو کہ خداتعالیٰ کا سورج رات کی تاریکی کے بعد ہی نمودار ہوتا ہے۔ لیکن یہ سورج وہ نہیں کہ جو رات کی وجہ سے طلوع کرے بلکہ رات کی دعاؤں کے نتیجہ میں طلوع کرتا ہے۔ پس اس کے طلوع کرنے کے لئے دعائیں کرو۔ جتنے زور کی ہماری دعائیں ہوں گی اتنی ہی جلدی اللہ تعالیٰ کا یہ سورج نکلے گا۔ پس یہ دن ایسے نہیں کہ رسمی باتوں میں ضائع کئے جائیں۔ اور دوستوں کو چاہیئے کہ معمولی باتوں کا خیال چھوڑ کر اس حقیقی امر کی طرف متوجہ ہوں جو اسلام کی زندگی اور آنحضرت ﷺ کی عزت سے وابستہ ہے۔‘‘ (الفضل 14 نومبر 1943ء)

1: بخاری کتاب النکاح باب کیف یدعی للمتزوج
2: بخاری کتاب المغازی باب غزوة خندق وھی الاحزاب
3: بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی۔۔۔۔ الخ
4: بخاری کتاب المغازی باب نزول النبی ﷺ الحجر

27
اس زمانہ میں اسلام کی فتح اور مسلمانوں کا غلبہ محض تبلیغ سے وابستہ ہے
(فرمودہ 12 نومبر 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ انسانی دماغ کچھ اس قسم کا بنا ہؤا ہے اور یہ بے حکمت بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں کئی حکمتیں رکھی ہیں کہ جب انسان کو جوش آ جاتا ہے اس وقت اپنی طاقت اور اپنے مخالف کی طاقت کا موازنہ نہیں کیا کرتا۔ بسااوقات ایک چھوٹا بچہ ایک بڑے آدمی پر غصہ میں کُود پڑتا ہےا ور سمجھتا ہے کہ گویا وہ اس کو مار کر گرا دے گا حالانہ وہ اس کے ایک تھپڑ کو برداشت کرنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا۔ بعض مواقع اس حالت کے ایسے ہوتے ہیں کہ اس میں انسان کا اپنی جان کو قربان کر دینا اور مخالف حالات اور خطرات کی پرواہ نہ کرنا غیرت کہلاتا ہے اور بعض مواقع قوموں پر یا انسانوں پر ایسے بھی آتے ہیں جب اس قسم کے حالات میں دشمن پر حملہ کر دینا تہوّر اور دیوانگی کہلاتا ہے۔ گویا ایک ہی فعل بعض حالات میں غیرت بن جاتا ہے اور بعض دوسرے حالات میں دیوانگی اور تہوّر کہلاتا ہے۔ جب یہ حملہ اور مقابلہ کسی ایسی چیز کے لئے ہو جس کے متعلق انتظار کرنا یا نہ کرنا بے فائدہ بات ہو اور جب یہ حملہ کسی ایسی چیز کے لئے ہو جسے کسی صورت میں کسی حد تک بھی قربان نہ کیا جا سکتا ہو اس وقت اس قسم کی حالت غیرت کہلاتی ہے۔ لیکن جب ایسا ہی فعل کسی انسان سے اُس وقت صادر ہو جب اس امر کے متعلق انتظار اس کے لئے یا اس کی قوم کے لئے مفید ہو اور اس انتظار میں کسی بہتری کی امید ہو اور جبکہ وہ چیز جس کے لئے اسے غصہ آیا ہے ایسی ہو کہ اس میں انسان کسی قسم کا سمجھوتہ کر سکتا ہے اور ایک حد تک یا کلی طور پر تو اس صورت میں یہ مقابلہ تہوّر اور دیوانگی کہلاتا ہے۔ اس لئے کہ پہلی صورت میں جب انتظار کرنا یا نہ کرنا اس کے لئے برابر تھا ۔ اگر وہ انتظار کرتا تب بھی اور اگر انتظار نہ کرتا تب بھی اسے کسی ایسی چیز کی قربانی دینی پڑتی تھی جسے قربان کرنا کسی صورت میں بھی کوئی انسان برداشت نہیں کر سکتا۔ تو ایسی صورت میں اگر وہ دب جاتا ہے اور دشمن کا مقابلہ نہیں کرتا تو یقیناً وہ بے غیرت کہلائے گا کیونکہ گو وہ کمزور تھا مگر اس کے دب جانے سے اس کی قوم کو کیا فائدہ ہؤا۔ اگر وہ باوجود اپنی کمزوری کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو جاتا اور اس مقابلہ میں اپنی جان دے دیتا تو کم سے کم دنیا میں اپنا نام چھوڑ جاتا اور لوگ یہ سمجھتے کہ اس نے مرنا قبول کر لیا مگر ذلت اور رسوائی کی زندگی کو برداشت نہیں کیا۔ ان امور میں سے سب سے اہم چیز دین ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی بڑی بھاری طاقت یا حکومت ہو اور وہ ایک کمزور اور ضعیف انسان کو پکڑ کر کہے کہ تو خداتعالیٰ کی عبادت چھوڑ دے یا مثلاً مذہب اور عقیدہ جسے انسان کسی قیمت پر بھی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا اسے کوئی حکومت چھوڑنے کے لئے مجبور کرے تو چونکہ مذہب یا عقیدہ ایسی چیز نہیں جسے انسان ایک دن بلکہ ایک منٹ کے لئے بھی چھوڑ سکے اور نہ یہ ایسی چیز ہے جس کے متعلق انتظار اسے کوئی فائدہ دے سکے بلکہ ہر گھڑی جو مذہب کے بغیر گزرتی ہے وہ کفر میں گزرتی ہے۔ ہر گھڑی جو مذہب کے بغیر گزرتی ہے وہ ظلمت اور تاریکی میں گزرتی ہے۔ اس لئے ایسی صورت میں چاہے مقابل والا کیسا ہی زبردست ہو اور جس نے مقابلہ کرنا ہے وہ چاہے کتنا ہی کمزور اور ناطاقت ہو جیسے کہا جاتا ہے چنا پہاڑ سے ٹکرا گیا اسی طرح اگر اس کے دل میں غیرت ہو گی ، اگر اس کے دل میں ایمان ہو گا تو وہ چنا پہاڑ سے ٹکرانے سے گریز نہیں کرے گا۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کمزور تھے، ناطاقت تھے، کوئی دنیوی طاقت ان کے پاس نہ تھی، لڑنے کے سامان ان کے پاس موجود نہ تھے۔ اُدھر نمرود جس سے مقابلہ کے لئے وہ کھڑے ہوئے وہ بادشاہ تھا، بڑی طاقت اور قوت رکھنے والا تھا اور اس وقت کی مہذب دنیا میں اپنے سازوسامان اور اپنی طاقت و قوت کی وجہ سے ایک بڑا رتبہ رکھتا تھا مگر باوجود اپنی کمزوری اور نمرود کی طاقت کے اور باوجود اس کے کہ اُن کی قوم بھی ان کی مخالف تھی وہ نمرود کے مقابلہ میں کھڑے ہو گئے اور اپنے مذہب اور عقیدہ کو پیش کرنے سے باز نہ آئے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہؤا۔ فرعون ان کے مقابلہ کے لئے نکلا اور مصری حکومت نے انہیں تباہ و برباد کرنا چاہا۔ مصری حکومت اپنے زمانہ میں اعلیٰ درجہ کی مہذب حکومتوں میں سے سمجھی جاتی تھی اور لوگوں کے لئے مَلجا و ماویٰ تھی۔ علوم و فنون سیکھنے کے لئے لوگ مصری تہذیب کے محتاج تھے۔ تہذیب و تمدن میں وہ مصری حکومت کے نمونہ کو اپنے سامنے رکھتے تھے اور ہر بات میں مصری قوم کی اقتداء اپنے لئے ضروری سمجھتے تھے۔ لوگ دور دور سے مصر جاتے اور ان کی قوم سے علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کے سبق سیکھتے۔ اس کی فوجوں نے لڑائی میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے کئی قسم کی نئی باتیں دریافت کی ہوئی تھیں جو دوسری حکومتوں کی افواج کو معلوم نہیں تھیں۔ لڑائی میں گاڑیوں سے کام لینا سب سے پہلے مصریوں نے ہی ایجاد کیا اور پھر ان کو دیکھ کر دوسرے لوگوں نے کام لینا شروع کر دیا۔ غرض مصری حکومت اپنے زمانہ میں نہایت نامور حکومت تھی اور اس کا بادشاہ اپنی طاقت و قوت پر ناز رکھتا تھا۔ ایسے بادشاہ کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی مگر باوجود اس کے جب وہ بادشاہ کے پاس گئے تو گو بادشاہ نے ان کو ڈرایا دھمکایا اور انہیں اور ان کی قوم کو تباہ و برباد کر دینے کا ارادہ ظاہر کیا اور کہا کہ اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں بھی مٹا دیا جائے گا اور تمہاری قوم کو بھی مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام باز نہ آئے اور انہوں نے کہا کہ جو پیغام مجھے خدا نے دنیا کے لئے دیا ہے وہ میں ضرور پہنچاؤں گا۔ دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس سے روک نہیں سکتی۔ یہی حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تھا۔ یہی حال محمدﷺ کا تھا اور ایسی ہی حالت ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دیکھی۔ ساری قومیں آپ کی مخالف تھیں، حکومت بھی ایک رنگ میں آپ کی مخالف ہی تھی۔ گو آخری زمانہ میں یہ رنگ نہیں رہا۔ بہرحال قومیں آپ کی مخالف تھیں۔ تمام مذاہب کے پیرو آپ کے مخالف تھے۔ مولوی آپ کے مخالف تھے۔ گدی نشین آپ کے مخالف تھے۔ عوام آپ کے مخالف تھے۔ اور امراء اور خواص بھی آپ کے دشمن تھے۔ غرض چاروں طرف مخالفت کا ایک طوفان برپا تھا۔ لوگوں نے آپ کو بہت کچھ سمجھایا۔ بعض نے دوست بن بن کر کہا کہ آپ اپنے دعووں میں کسی قدر کمی کر دیں۔ بعض نے کہا کہ اگر آپ فلاں فلاں بات چھوڑ دیں تو سب لوگ آپ کی جماعت میں شامل ہو جائیں گے مگر آپ نے ان میں سے کسی کی بھی پرواہ نہ کی اور ہمیشہ اپنے دعویٰ کو پیش فرماتے رہے۔ اس پر شور ہوتا رہا، ماریں پڑتی رہیں، قتل ہوتے رہے مگر باوجود ان تمام تکالیف کے اور باوجود اس کے کہ آپ کا مقابلہ ایک ایسی دنیا سے تھا جس کا مقابلہ کرنے کی ظاہری سامانوں کے لحاظ سے آپ میں قطعاً طاقت نہ تھی پھر بھی آپ نے اپنے مقابلہ کو جاری رکھا بلکہ مجھے خوب یاد ہے میں نے متعدد بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سنا کہ نبی کی مثال تو ویسی ہی ہوتی ہے جیسے لوگ کہتے ہیں کہ ایک گاؤں میں ایک پاگل عورت رہتی تھی جب بھی وہ باہر نکلتی چھوٹے چھوٹے لڑکے اکٹھے ہو کر اسے چھیڑنے لگ جاتے، اس کے ساتھ مذاق کرتے، اسے دق کرتے اور اسے بار بار تنگ کرتے۔ وہ بھی مقابلہ میں ان لڑکوں کو گالیاں دیتی اور بددعائیں دیتی۔ آخر ایک دن گاؤں والوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ یہ عورت مظلوم ہے اور ہمارے لڑکے اسے ناحق تنگ کرتے رہتے ہیں ۔ مظلومیت کی حالت میں یہ انہیں بددعائیں دیتی ہے کہیں ایسا نہ ہو اس کی بددعائیں کوئی رنگ لائیں ۔ ہمیں چاہیئے کہ اپنے لڑکوں کو روک لیں تاکہ نہ وہ اسے تنگ کریں اور نہ یہ بددعائیں دے۔ چنانچہ اس مشورہ کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ کل سے سب گاؤں والے اپنے لڑکوں کو گھروں میں بند رکھیں اور انہیں باہر نہ نکلنے دیں۔ چنانچہ دوسرے دن سب لوگوں نے اپنے اپنے لڑکوں سے کہہ دیا کہ آج سے باہر نہیں نکلنا اور مزید احتیاط کے طور پر انہوں نے باہر کے دروازوں کی زنجیریں لگا دیں۔ جب دن چڑھا اور وہ پاگل عورت حسبِ معمول اپنے گھر سے نکلی تو کچھ عرصہ تک وہ ادھر ادھر گلیوں میں پھرتی رہی ۔ کبھی ایک گلی میں جاتی اور کبھی دوسری میں مگر اسے کوئی لڑکا نظر نہ آیا۔ پہلے تو یہ حالت ہؤا کرتی تھی کہ کوئی لڑکا اس کے دامن کو گھسیٹ رہا ہے، کوئی اسے چٹکی کاٹ رہا ہے، کوئی اسے دھکا دے رہا ہے، کوئی اس کے ہاتھوں کے ساتھ چمٹا ہؤا ہے اور کوئی اسے مذاق کر رہا ہے۔ مگر آج اسے کوئی لڑکا دکھائی نہ دیا۔ دوپہر تک تو اس نے انتظار کیا مگر جب دیکھا کہ اب تک بھی کوئی لڑکا اپنے گھر سے نہیں نکلا تو وہ دکانوں پر گئی اور ہر دکان پر جا کر کہتی آج تمہارا گھر گر گیا ہے، بچے مَر گئے ہیں۔ آخر کیا ہؤا کیا ہے کہ وہ نظر نہیں آتے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اس طرح اس نے ہر دکان پر جا کر کہنا شروع کیا تو لوگوں نے کہا گالیاں تو اس طرح بھی ملتی ہیں اور اُس طرح بھی۔ چھوڑو بچوں کو ، ان کو قید کیوں کر رکھا ہے۔ آپ یہ حکایت بیان کر کے فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء علیہم السلام کا حال بھی اپنے رنگ میں ایسا ہی ہؤا کرتا ہے۔ دنیا ان کو چھیڑتی ہے، تنگ کرتی ہے، ان پر ظلم و ستم ڈھاتی ہے اور اس قدر ظلم کرتی ہے کہ ان کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے اور ایک طبقہ کے دل میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ لوگ ظلم سے کام لے رہے ہیں انہیں نہیں چاہیئے کہ ایسا کریں مگر فرمایا وہ بھی دنیا کو نہیں چھوڑ سکتے۔ جب دنیا ان کو نہیں ستاتی تو وہ خود اس کو جھنجھوڑتے اور بیدار کرتے ہیں تاکہ دنیا ان کی طرف متوجہ ہو اور ان کی باتوں کو سنے ۔ تو دنیا نے ہر قسم کی مخالفت کی مگر باوجود اس کے آپ خداتعالیٰ کا پیغام پہنچانے سے باز نہ آئے اور ہر قوم اور ہر ملت کو آپ نے وہ پیغام پہنچایا جس پیغام کا پہنچانا خداتعالیٰ نے آپ پر فرض کیا ہؤا تھا۔ یہاں اپنے آپ کو ہلاکت اور خطرے میں ڈالنا یقیناً مفید تھا کیونکہ اس کے متعلق ایک دن کا انتظار بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک دن بھی اپنے دعویٰ کو نمرود کی خاطر نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ نہ صرف اس وجہ سے کہ یہ ایک گناہ تھا اور اس کا ارتکاب ان کے لئے کسی صورت میں بھی جائز نہیں تھا بلکہ اس لئے بھی کہ ابراہیمؑ کو کیا معلوم تھا کہ شاید وہی دن ان کی قوم کی ہدایت کا دن ہو یا وہی دن ان کی موت کا دن ہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دن کے لئے بھی اپنے دعویٰ کو ملتوی نہیں کر سکتے تھے۔ نہ صرف اس وجہ سے کہ یہ سراسر ناجائز اور گناہ تھا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ موسیٰ ؑ کو کیا معلوم تھا کہ شاید وہی دن فرعون کی ہدایت کے لئے مقدّر ہو یا وہی دن ایسا ہو جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی موت مقدّر ہو۔ یہی حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تھا۔ یہی حال رسول کریم ﷺ کا تھا اور یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھا۔ یہ بھی اپنے اپنے دعووں کو ایک دن کے لئے بھی نہیں چھوڑ سکتے تھے کیونکہ یہ نہیں جانتے تھے کہ شاید وہی دن ان کی قوموں کے لئے ہدایت کا دن ہو یا شاید وہی دن ایسا ہو جس میں ان کا وفات پاجانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہو۔ پس انہوں نے اپنے دعووں کو پیش کیا اور پیش کرتے چلے گئے۔ بے شک مخالفتیں ہوئیں اور شدید مخالفتیں ہوئیں مگر انہوں نے ایک دن کے لئے بھی اپنے دعووں کو ملتوی نہیں کیا اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے وہ ملتوی نہیں کر سکتے تھے مگر دنیا میں بعض ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں جنہیں ملتوی کیا جا سکتا ہے جیسے دنیوی جھگڑے ہیں۔ انسان ان کے متعلق یہ خیال بھی کر سکتا ہے کہ اگر میں نے ان جھگڑوں کو ملتوی کر دیا اور مَیں مر گیا تو بھی کوئی بڑا نقصان نہیں ہو گا۔ یہی خیال دوسرا فریق کر سکتا اور اس طرح اپنے جھگڑوں کو ملتوی کر سکتا ہے تو جس جگہ پر کوئی چیز ایسی ہوتی ہے جسے کسی صورت میں بھی ملتوی نہیں کیا جا سکتا یا ایسی ہوتی ہے جسے کسی صورت میں بھی قربان نہیں کیا جا سکتا۔ اس جگہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا یا اپنی قوم کو خطرے میں ڈال دینا غیرت کہلاتا ہے۔ یا عقل کسی کامیابی کی یقینی طور پر امید دلاتی ہو، چاہے وہ دینی امر نہ ہو تو وہاں بھی اپنی جان کو یا اپنی قوم کی جانوں کو خطرے میں ڈالنا غیرت کہلاتا ہے۔ اور ایسا فعل دوراندیشی پر مبنی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب بات ایسی ہو جسے چھوڑا جا سکتا ہو یا بات ایسی ہو جس کے متعلق انتظار کیا جا سکتا ہو اور اس انتظار میں اپنا اور اپنی قوم کا فائدہ ہو لیکن انسان پھر بھی مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑا ہو اور مقابلہ بھی ایک ایسے دشمن کا کرے جس کے ساتھ لڑنے کی طاقت انسان کے اندر نہ ہو تو یہ تہوّر اور جنون ہوگا۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسلمانوں کو جہاد کے متعلق تعلیم دی۔ آپ نے فرمایا اب کافروں سے جنگ کے لئے جانا دین نہیں کہلا سکتا اور نہ موجودہ زمانہ میں کافروں سے جنگ کرنا غیرت کہلا سکتا ہے۔ اس لئے کہ دشمن کے مقابلہ کے لئے جو چیزیں ضروری ہیں وہ تم میں موجود نہیں۔ تم میں عزم نہیں۔ تم میں استقلال نہیں۔ تم میں ہمت نہیں۔ تمہارے پاس جتھا نہیں۔ تمہارے پاس دولت نہیں۔ تمہارے پاس حکومت نہیں۔ غرض جو چیزیں کسی قوم کو کامیاب کیا کرتی ہیں وہ تمہارے پاس موجود نہیں ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ انسان کے پاس وہ چیزیں بھی نہیں ہوتیں جو مقابلہ کے لئے ضروری ہوتی ہیں مگر پھر بھی اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو قربانی میں ڈال دے۔ آخر موسیٰ علیہ السلام کے پاس ان میں سے کونسی چیز موجود تھی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس ان میں سے کونسی چیز موجود تھی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس ان میں سے کونسی چیز موجود تھی، رسول کریم ﷺ کے پاس ان میں سے کونسی چیز موجود تھی۔ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو یہ نصیحت کر رہے تھے ان کے پاس اس میں سے کونسی چیز موجود تھی۔ آپ جن باتوں کا ذکر کر رہے تھے اور مسلمانوں سے فرما رہے تھے کہ چونکہ یہ چیزیں تمہارے پاس نہیں ہیں اس لئے غیرقوموں سے لڑائی کرنا تمہارے لئے جائز نہیں۔ تمہارے پاس دولت نہیں، تمہارے پاس جتھا نہیں، تمہارے پاس تلوار نہیں، تم میں طاقت اور ہمت نہیں۔ اس لئے اے مسلمانو! تم غیرقوموں کے مقابلہ کے لئے مت نکلو۔ یہ چیزیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس کب تھیں۔ عزم و استقلال تو انبیاء میں ہوتا ہی ہے۔ دولت ، حکومت، جتھا اور ظاہری طاقت و قوت میں سے کون سی چیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس تھی یا کب یہ چیزیں محمد ﷺ کے پاس تھیں۔ کب یہ چیزیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس تھیں۔ کب یہ چیزیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس تھیں۔ کب یہ چیزیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس تھیں۔ کب یہ چیزیں حضرت نوح علیہ السلام کے پاس تھیں۔ مگر باوجود اس کے کہ ان سامانوں میں سے کوئی سامان بھی ان کے پاس نہ تھا پھر بھی وہ دشمنوں کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہو گئے اور اس مقابلہ میں وہ ہرگز قابلِ الزام نہ تھے، وہ ہرگز قابلِ ملامت نہ تھے بلکہ وہ قابلِ تعریف تھے۔ اس لئے کہ جس چیز کی حفاظت کے لئے وہ کھڑے ہوئے تھے اور جس لڑائی میں وہ حصہ لے رہے تھے اس میں گو ظاہری حفاظت کے سامان ان کے پاس موجود نہیں تھے مگر ان دنیوی سامانوں سے بڑھ کر ایک اور امید دلانے والی چیز ان کے پاس موجود تھی۔ اور وہ خدا کا وعدہ تھا جس کے بھروسہ پر مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ نوح علیہ السلام کے پاس یہ سامان نہیں تھے مگر پھر بھی وہ اس لئے دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے کہ خدا کی طرف سے یہ وعدہ تھا کہ ہم ان سامانوں کی بجائے اپنی نصرت اور مدد تمہارے شاملِ حال رکھیں گے۔ پس انہوں نے دشمن کا مقابلہ کیا مگر ان سامانوں کی بناء پر نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے وعدہ کے برتے اور بھروسے پر۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس بھی یہ سامان نہ تھے مگر ان سے بڑھ کر ان کے پاس سامان موجود تھا اور وہ خدا کا وعدہ تھا جو انہیں حاصل تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھی ان سامانوں میں سے کوئی سامان موجود نہ تھا مگر ان سے بڑھ کر ایک اور سامان ان کے پاس تھا اور وہ خدا کا اپنی مدد اور نصرت نازل کرنے کا وعدہ تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس بھی ان سامانوں میں سے کوئی سامان موجود نہ تھا۔ مگر ایک چیز تھی جس کے بھروسہ پر وہ تن تنہا دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے اور وہ خدا کا وعدہ تھا۔ رسول کریم ﷺ کے پاس بھی کامیابی کے ان ظاہری سامانوں میں سے کوئی سامان نہ تھا مگر ان سے بڑھ کر ایک اَور چیز آپ کے پاس تھی اور وہ خدا کی مدد اور اس کی نصرت کا وعدہ تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس بھی ان سامانوں میں سے کوئی سامان موجود نہ تھا مگر ان سے بڑھ کر ایک اَور سامان آپ کے پاس تھا اور وہ خدا کا وعدہ تھا کہ میں تجھے ضرور کامیاب کروں گا۔ لیکن وہ مسلمان جو اس زمانہ میں جنگ کے لئے جانا چاہتے تھے ان کے ساتھ خدا کا کون سا وعدہ تھا کہ وہ انہیں کامیاب کرے گا بلکہ ہمیں تو الٹا یہ دکھائی دیتا ہے کہ خداتعالیٰ کا وعدہ ان کے خلاف تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے بھی کہا کہ رسول کریم ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ مسیح موعود جنگوں کا التوا کر دے گا۔ پس خداتعالیٰ کا وعدہ جنگ کرنے والے مسلمانوں کی تائید میں نہیں بلکہ اس کے مخالف ہے۔ اسی وجہ سے مسلمان اگر ان حالات میں دشمن کا مقابلہ کریں تو اسے تہوّر کہا جائے گا کیونکہ ان کے پاس وہ سامان نہیں جو مقابلہ کے لئے ضروری ہیں۔ لیکن ویسے ہی حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو خداتعالیٰ کے فرستادوں میں سے ایک عظیم الشان فرستادہ تھے جب دشمن کا مقابلہ کیا تو ان کے فعل کو تہوّر نہیں کہا جائے گا ، جنون نہیں کہا جائے گا بلکہ ایک لازمی اور ضروری فرض کہا جائے گا جو انہوں نے ادا کیا کیونکہ آپ کے پاس ان سامانوں سےبہتر سامان موجود تھا ۔ صرف فرق یہ ہے کہ آپ کے پاس مادی سامان موجود نہ تھے، روحانی سامان آپ کے پاس تھے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسلمانوں کو بتایا کہ تمہارے پاس تو دونوں سامان موجود نہیں۔ نہ مادی سامان تمہارے پاس موجود ہیں اور نہ روحانی سامان تمہارے پاس موجود ہیں۔ پس خدا کا حکم یہ ہے کہ تم ان حالات میں دشمن سے ہرگز جنگ نہ کرو۔ اگر کرو گے تو شکست کھاؤ گے کیونکہ فتح اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ظاہری سامان تمہارے پاس ہوں یا روحانی سامان تمہارے پاس ہوں۔ جب تمہارے پاس نہ روحانی ہتھیار ہیں اور نہ جسمانی ہتھیار ہیں تو تم ان دونوں کی عدم موجودگی میں دشمن سے یقیناً شکست کھاؤ گے۔
مَیں اس وقت دنیا کی حالت پر جتنا بھی غور کرتا ہوں مجھے زیادہ سے زیادہ اس بات پر یقین ہوتا چلا جاتا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام کی فتح اور مسلمانوں کا غلبہ محض تبلیغ سے وابستہ ہے۔ تبلیغ کے بغیر اسلام اور مسلمانوں کے غلبہ کی کوئی صورت نہیں۔ ابھی کل سے لبنان کے متعلق عجیب و غریب خبریں آ رہی ہیں۔ شام اور لبنان وہ ملک ہیں جو کسی زمانہ میں ترکوں کے ماتحت تھے اور ترکوں کی طرف سے انہیں ہر قسم کی وہ آزادی حاصل تھی جو کسی ماتحت قوم کو دی جاتی ہے۔ ان میں سے جرنیل بنائے جاتے تھے۔ انہیں بڑے بڑے عہدے سپرد کئے جاتے تھے یہاں تک کہ وزراء بھی انہیں میں سے بنائے جاتے تھے۔ گویا جس قدر بڑے بڑے عہدے ہیں خواہ وہ وزارتوں سے تعلق رکھتے ہوں یا اَور محکموں سے وہ سب کے سب ان کو دئے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی انہیں ہر قسم کی سہولتیں حاصل تھیں اور ترکوں کا ان سے سلوک نہایت اچھا تھا۔ ترک اپنوں اور عربوں میں قطعاً کوئی فرق نہیں کرتے تھے اور ہرگز یہ خیال نہیں کرتے تھے کہ ہم ترک ہیں اور یہ عرب ۔ اس لئے عہدے ہماری قوم کو ملنے چاہئیں عربوں کو نہیں ملنے چاہئیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ترکی حکومت کی طرف سے جو گورنر مقرر ہؤا کرتے تھے وہ اکثر عادل نہیں ہوتے تھے مگر وہ گورنر بھی اپنے ظلم میں یہ امتیاز نہیں کیا کرتے تھے کہ فلاں ترک ہیں اور فلاں عرب۔ صرف اتنا ہوتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے اور رعایا کو خواہ ترک ہو یا عرب چھوٹا سمجھتے تھے اور ان پر ظلم کرتے تھے۔ گویا عرب اور ترک میں ان کو کوئی امتیاز نہ تھا۔ صرف چھوٹے اور بڑے کا فرق تھا۔ جب گزشتہ جنگ ہوئی تو ان اقوام کو یورپ کی حکومتوں نے کہا کہ ہم تمہیں آزادی دے دیں گے تم اپنے حاکموں کے خلاف کھڑے ہو جاؤ۔ چنانچہ یہ قومیں کھڑی ہو گئیں اور انہوں نے اپنے حکام کے ساتھ غدّاری کی اور ان سے جنگ پر آمادہ ہو گئے اور سمجھا کہ اس کے نتیجہ میں ہم کو آزادی مل جائے گی مگر جب جنگ ختم ہو گئی اور ان کے خون سے عرب اور شام کے میدان رنگے گئے تو انہیں یہ آزدی دی گئی کہ کچھ حصہ پر انگریزوں کو نگرانی دی گئی اور کچھ حصہ فرانسیسیوں کے سپرد کر دیا گیا۔ اب پھر یہ دوسری جنگ آئی اور اس جنگ کے شروع میں ہی فرانس کو شکست ہو گئی ۔ چونکہ شام اور لبنان کے علاقے اس فرانسیسی حکومت کے ماتحت تھے جس کا جرمنی کے ساتھ تعلق تھا اس لئے اتحادیوں کو یہ فکر پیدا ہوئی کہ کہیں ایسا نہ ہو جرمنی اور اس کے فرانسیسی ساتھی ان ممالک کو اڈہ بنا لیں اور ہمارے علاقوں میں شرارت پھیلانا شروع کر دیں۔ چنانچہ انہوں نے یہ نہایت اچھی جنگی چل چلی کہ ان ممالک پر حملہ کر دیا اور آزاد فرانسیسی دستوں کے کمانڈر نے اعلان کیا کہ تم مدت سے آزادی کے طالب تھے مگر تمہیں فرانسیسی گورنمنٹ آزادی نہیں دیتی تھی اب وقت آ گیا ہے کہ تمیں آزاد کر دیا جائے اور تمہارا شمار بھی دنیا کے آزاد ممالک کی صف میں ہو۔ تم اس وقت ہماری مدد کرو۔ تم کو عملاً آزادی دے دی جائے گی اور جنگ کے ختم ہونے پر تمہیں ہم پوری آزادی دےدیں گے۔ اس اعلان پر پھر وہ لوگ جو ایک عرصہ سے آزادی کے خواب دیکھ رہے تھے میدان میں نکل آئے اور انہوں نے کہیں سڑکیں توڑنی شروع کر دیں، کہیں ریلوں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا اور اس طرح ملک کے اندرونی حصوں میں بغاوت پیدا کر دی تاکہ انہیں آزادی حاصل ہو۔ باہر سے انگریزوں نے آزاد فرانسیسی دستوں کے ساتھ مل کر حملہ کر دیا اور چند دنوں میں ہی شام اور لبنان وغیرہ پر قبضہ کر لیا۔ جب جنگ ختم ہوئی اور قبضہ مکمل ہو گیا تو آزاد فرانس کے نمائندہ کی طرف سے اعلان کر دیا گیا کہ لو اب تم آزاد ہو ۔ کچھ عرصہ تک تو وہ خاموش رہے۔ آخر انہوں نے سوچا کہ ہماری آزادی کا اعلان تو کر دیا گیا ہے مگر ہم آزاد ہیں کس طرح۔ انہوں نے کہا بے شک آپ نے کہہ دیا ہے کہ ہم آزاد ہیں مگر ہم کس طرح سمجھیں کہ ہم آزاد ہیں۔ فوج تمہاری ہے، گورنر تمہارے ہیں، پولیس تمہاری ہے، تمام طاقت کے عہدے تمہارے پاس ہیں۔ پھر ہم کس طرح آزاد ہو گئے؟ ہم بہتیری کوشش کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو آزاد سمجھیں مگر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس آزادی کے معنے کیا ہیں۔ اس کشمکش کا نتیجہ یہ ہؤا کہ ان کی کمیٹی نے یہ فیصلہ کر دیا کہ جب حکومت کے اپنے اعلان کی رو سے ہم آزاد ہیں تو لو آج سے ہم اپنے لئے آپ قانون بناتے ہیں۔ چنانچہ اس غرض کے لئے پارلیمنٹ میں بھی ایک بل پیش کر دیا گیا۔ یہ دیکھ کر فرانس کی وہ آزادی کی کمیٹی جس کے ماتحت وہ آ گئے تھے اس نے ان کو دبانا شروع کر دیا کہ تمہیں اپنے ملک کا قانون بنانے کا کس نے اختیار دیا ہے اور تمہارا حق ہی کیا ہے کہ تم اس قسم کی باتیں کرو۔ بے شک ہمارے اعلان کے مطابق تم آزاد ہو مگر اس آزادی کی تعبیر بتانا ہمارا کام ہے۔ تمہارا حق نہیں کہ آپ ہی آپ آزادی کا ایک مفہوم لے لو اور اس کے مطابق اپنے ملک کا آئین مرتب کرنے لگ جاؤ۔ تمہاری آزادی کی تعبیر ہمارے سپرد ہے۔ تم کہاں سے یہ حق لے کر آ گئے ہو کہ اپنے متعلق آپ قانون بناتے پھرو۔
پھر ہم نے کل ایک اَور خبر پڑھی جو عجیب قسم کی ہے۔ دنیا کے تمام آزاد ممالک کا یہ طریق ہے کہ ان کی طرف سے ہمیشہ اس قسم کے اعلانات ہوتے ہیں کہ وزیراعظم نے یا وزارت نے اتنے لوگوں کو قید کر لیا۔ وہ قید کرنا جائز ہوتا ہے یا ناجائز اس پر یہاں بحث نہیں۔ کبھی وزارتوں کی طرف ظلم بھی ہوتا ہےا ور کبھی عدل و انصاف کے ماتحت وہ مجرموں کو قید کرتے ہیں لیکن بہرحال اعلانات یہ ہوتے ہیں کہ وزیروں نے اتنے لوگوں کو پکڑ لیا یا فلاں وزارت نے اتنے لوگ گرفتار کر لئے۔ مگر کل ہم نے یہ عجیب خبر پڑھی کہ آزاد لبنان کے وزیروں کو پکڑ کر قید کر لیا گیا ہے۔ بے شک یہ مضحکہ خیز باتیں ہیں مگر یہ ساری کی ساری اسی امر کی طرف توجہ دلاتی ہیں جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان الفاظ میں پیش کیا کہ ؂
یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا1
آج مسلمانوں اور ایشیائیوں کے لئے دنیا کے پردہ پر قطعاً لڑائی کا وقت نہیں (لبنانی اکثر مسیحی ہیں لیکن مسلمانوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ان پر بھی مسلمانون ہی کا قانون چسپاں ہوتا ہے وہ اکیلے نہیں جیت سکتے۔ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ہی جیت سکتے ہیں) آج ایک ہی ذریعہ ان کے لئے باقی ہے کہ وہ دشمن کے قلب پر حملہ کر کے اسے فتح کریں یعنی تبلیغ اور دعاؤں اور انابت کے زور سے وہ ان غالب اقوام کے مذہب کو بدل ڈالیں اور انہیں اپنابھائی بنا لیں۔ پس ان پر غلبہ پانے کی یہی راہ نہیں کہ توپ اور تفنگ سے کام لیا جائے یا تلوار اور موجودہ زمانہ کے اسلحہ سے انہیں مغلوب کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ تمام ہتھیار آج بے کار اور لغو ہیں۔ ان ہتھیاروں سے کام لینے والا کبھی فتح کا منہ نہیں دیکھ سکتا۔ صرف ایک ہی چیز آج مسلمانوں کے پاس ہے کہ وہ اس سچائی کو جو خدا نے ان کی طرف نازل کی۔ ان لوگوں تک پہنچائیں ، ان کے دلوں میں خدا کا خوف پیدا کریں، ان کے قلوب میں ایمان کی چنگاری روشن کریں اور انہیں تبلیغ کے زور سے اسلام میں داخل کر لیں۔ جب تک وہ اس ذریعہ سے کام نہیں لیتے ، جب تک وہ خداتعالیٰ کے اس بتائے ہوئے ہتھیار کو نہیں چلاتے، جب تک وہ قرآن اور اسلام کی تلوار سے کفر و شرک کو نہیں کاٹتے اس وقت تک وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اور نہ اس وقت تک ان کی غلامی کی زنجیریں کبھی کٹ سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے آج تک اپنی آزادی کے لئے جس قدر کوششیں کیں ان میں وہ ناکام ہوئے۔ صرف اس قدر تغیر ہؤا کہ ایک وقت میں وہ غلام کہلاتے تھے دوسرے وقت میں خادم کہلانے لگ گئے۔ اب تیسرے وقت میں وہ آزاد بھی کہلا سکتے ہیں مگر یہ ساری چیزیں ایک ہی ہوں گی۔ جب وہ غلام کہلاتے تھے تب بھی ماتحت تھے۔ جب وہ خادم کہلاتے تھے تب بھی ماتحت تھے۔ اور جب وہ آزاد کہلائیں گے تب بھی ماتحت ہی ہوں گے۔ انہوں نے اپنی غفلت اور کوتاہی سے وہ زمانہ کھو دیا جب وہ آزادی حاصل کر سکتے تھے۔ اور خود انہوں نے اپنے آپ کو غیرقوموں کے سپرد کر دیا۔ کتنی بڑی سپین کی حکومت تھی، کتنی بڑی ترکوں کی حکومت تھی، کتنی بڑی ہندوستان کی حکومت تھی، جب خود ان لوگوں نے غفلتیں کیں، نالائقیاں کیں، تعیش میں مبتلا ہو گئے ،علم پڑھنا ترک کر دیا، جرأت اور بہادری کے وصف سے عاری ہو گئے، دیانت و امانت کا مادہ ان میں نہ رہا، غداری، دھوکے بازی اور فریب کاری ان کا شیوہ بن گیا، غریبوں سے نیک سلوک کرنا ان کا وصف نہ رہا اور انہوں نے ایک ایک کر کے تمام خوبیاں اپنے اندر سے مٹا ڈالیں اور دلوں میں شیطان کے پورے غلام بن گئے تو خدا نے ان کو ظاہر میں بھی غیرقوموں کا غلام بنا دیا۔ اس میں کسی کو کیا گلہ ہو سکتا ہے ۔ یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے رسول کریم ﷺ سے کسی نے پوچھاکہ یا رسول اللہ! گری پڑی چیز کے متعلق کیا حکم ہے۔ آپ نے فرمایا اگر تمہیں کہیں کوئی مرغی مل جائے یا بکری مل جائے تو اسے لے لو اور اِدھر اُدھر آواز دو تاکہ تمہیں اس کا مالک مل جائے۔ اگر مل جائے تو وہ چیز اس کے حوالے کر دو۔ نہیں تو خود لے جاؤ کیونکہ اگر تم نہیں لے جاؤ گے تو بھیڑیا اسے لے جائے گا۔ لیکن اگر کوئی تھیلی پڑی ہوئی تمہیں مل جاتی ہے یا کوئی ایسا مال ملتا ہے جو معین صورت میں پہچانا جا سکتا ہے تو اس کو ایک عرصۂ دراز تک بطور امانت اپنے پاس رکھو۔ اور جب بھی کسی مجلس میں جاؤ اعلان کر دیا کرو کہ مجھے ایک تھیلی ملی ہے یا کچھ مال ملا ہے جس کا ہو وہ پتہ بتا کر لے جائے۔ مثلاً تھیلی ہو تو مالک اس کا رنگ بتائے گا، رقم کی مقدار بتائے گا۔ اسی طرح اور کوئی علامت بتائے گا جس سے یہ علم ہو سکے گا کہ تھیلی اس کی ہے یا نہیں اور جب تمہیں اس کا مالک مل جائے تو وہ تھیلی یا مال اس کے حوالے کر دو۔ اس نے کہا یا رسول اللہ! اگر اونٹ مل جائے تو کیا حکم ہے۔ آپ نے فرمایا تجھے اونٹ سے کیا؟ وہ آپ اپنی حفاظت کر لیتا ہے۔ یہی قوموں کا حال ہے ۔ جو اونٹ بنتا ہے اس کو کوئی پکڑ نہیں سکتا مگر وہ جنہوں نے اپنے آپ کو بھیڑوں اور بکریوں کی طرح بنا لیا انہیں اگر انگریز نہ لیتے تو فرانسیسی لے لیتے۔ فرانسیسی نہ لیتے تو پرتگیزی لے لیتے۔ پرتگیزی نہ لیتے تو امریکن لے لیتے۔ جو حالت ہندوستان کی تھی اسے دیکھتے ہوئے کون اسے چھوڑ سکتا تھا۔ جہاں مالک کا پتہ ہی نہ لگتا ہو کہ کون ہے اور کہاں ہے اس ملک پر اگر کوئی غیرقوم قبضہ کر لے تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ پس یہ کہنا کہ ہندوستان پر انگریزوں نے کیوں قبضہ کر لیا بالکل غلط ہے۔ ہندوستان پر انگریز قابض نہ ہوتے تو فرانسیسی قابض ہوتے۔ فرانسیسی قابض نہ ہوتے تو پرتگیزی قابض ہوتے۔ پرتگیزی قبضہ نہ کرتے تو ولندیز قبضہ کرلیتے۔ ولندیز قبضہ نہ کرتے تو جرمن قبضہ کر لیتے۔ جرمن قبضہ نہ کرتے تو امریکن قبضہ کر لیتے۔ بہرحال کسی نہ کسی قوم نے ہندوستان پر ضرور قبضہ کرنا تھا۔ پس اس میں انگریزوں کا کیا قصور ہے۔ انہیں ایک گری پڑی چیز ملی اور اس کو انہوں نے اٹھا لیا۔ جب ہم نے خود اپنے آپ کو ایک زمین پر گری پڑی چیز کی طرح بنا لیا، جب ہم نے خود اپنے آ پ کو تباہ کر لیا، جب اپنے اتحاد کو ہم نے مٹا دیا، جب علم کو ہم نے کھو دیا، جب انسانیت کو ہم نے خیرباد کہہ دیا، جب انانیت کو ہم نے فنا کر دیا،جب تک نیک اخلاق اور حکومت کے قابل بنانے والے اوصاف کو ہم نے ضائع کر دیا تو اس کے بعد میرے نزدیک کوئی وجہ نہیں رہتی کہ یہ اعتراض کیا جائے کہ انگریزوں نے ہندوستان لے لیا۔ انہوں نے ہندوستان لے لیا تو اس وجہ سے کہ ہم ایک گری پڑی چیز تھے۔ انہیں یہ چیز نظر آئی اور اس کو انہوں نے اٹھا لیا۔ پس یہ سوال ہی بالکل غلط ہے کہ انہوں نے ہندوستان کو ناجائز طور پر لے لیا۔ یہ ایک خدائی قانون ہے کہ جب کوئی قوم اپنے آپ کو گری پڑی چیز ہی کی طرح بنا لیتی ہے تو اس وقت کوئی نہ کوئی اسے ضرور اٹھا لیتا ہے۔ اور سب سے مقدم حق اس کا ہوتا ہے جو اس چیز کو سب سے پہلے دیکھے یا سب سے پہلے اسے اٹھا لے۔ جیسے اگر کسی گری پڑی چیز کو چار پانچ آدمی دیکھیں تو جو شخص دوڑ کر پہلے اٹھا لے گا وہ چیز اس کی ہو جائے گی اور جو بعد میں آئے گا اسے اس سے محروم رہنا پڑے گا۔ جیسے ہندوستان میں انگریز بھی آئے اور بعض دوسری قومیں بھی مگر انگریزوں نے ہندوستان پر پہلے قبضہ کر لیا اور دوسری قومیں اس سے محروم ہو گئیں۔ تو قانون یہی ہے کہ گری پڑی چیز جسے مل جائے وہ اسے اٹھا کر اپنے قبضہ میں کر لے۔ ہم بچے تھے تو ایک کھیل کھیلا کرتے تھے کہ جب کوئی چیز اتفاقاً ہمیں مل جاتی تو ہم دوڑ کر اسے اٹھا لیتے اور کہتے ‘‘ لبھی چیز خدا دی نہ دھیلے دی نہ پا دی۔’’ یعنی جو چیز پڑی ہوئی ملے نہ وہ دھیلے سے حاصل ہوتی ہے نہ پائی سے بلکہ وہ تو خدا کی ہے۔ یعنی مفت کا مال ہے۔ اس ‘‘خدا دی’’ کا مطلب یہ نہیں ہؤا کرتا تھا کہ یہ صرف خدا کی ہے ہماری نہیں بلکہ مطلب یہ ہؤا کرتا تھا کہ چونکہ یہ چیز خدا کی ہے اور ہم خدا کے بندے ہیں اس لئے یہ چیز ہماری ہے۔ تو بات یہ ہے کہ گری پڑی چیز جسے مل جائے وہ اسے اٹھانے کا حق رکھتا ہے۔ اگر چار پانچ شخص اکٹھے کسی چیز کو دیکھیں تو جو دوڑ کر پہلے اٹھا لے وہی اس کا مالک ہوتا ہے۔ جیسے ہندوستان میں فرانسیسی بھی آئے، پرتگیز بھی آئے، انگریز بھی آئے اور سب کی ہندوستان پر اکٹھی نظر پڑی مگر چونکہ انگریزوں نے دوڑ کر ہندوستان کو پہلے لے لیا اس لئے وہ اس کے مالک بن گئے۔ پس یہ اعتراض بے وقوفی کا اعتراض ہے۔ تفصیلات میں بے شک اعتراض ہو سکتا ہے مگر اس بات میں پڑنا بالکل بے وقوفی ہے کہ ہندوستان پر انگریزوں نے کیوں قبضہ کر لیا۔ اصل چیز جو ہمارے مدنظر رہنی چاہئے اور جسے ہر وقت ہمیں آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ جس خدا نے ہم کو اپنی غفلتوں کی وجہ سے یہ سزا دی ہے کہ ہمیں انگریزوں کا غلام بنا دیا اسی خدا نے ایک چمکتا ہؤا روشن ستارہ قرآن کی صورت میں ہمارے ہاتھ میں دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جاؤ اور اس قرآن کے ذریعہ سے تم اپنے آقا کو غلام بنا لو۔ جاؤ اور تم قرآن کے جادوکے زور سے اپنے حاکموں کو اپنا تابع فرمان بنا لو۔ اگر آج تم قرآن کے جادو سے اپنے آقا کو غلام نہیں بناتے تو یہ تمہاری دوسری غفلت اور کوتاہی ہو گی۔ پہلے بھی تم اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے غلام بنے اور اب بھی تم اگر قرآن کے ذریعہ ان کو اپنا غلام نہیں بناؤ گے تو یہ تمہاری دوسری جہالت ہو گی اور تم پھر ان کی غلامی میں ہی رہو گے۔ یہ وہ ہتھیار ہے جو خدا نے ہم کو دیا۔ یہ وہ نور ہے جس کے ذریعہ اس نے کفر کی طاقتوں کو نیچا دکھانے کا فیصلہ کیا مگر مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ہم سونٹے کے ذریعہ آقا کو غلام بنائیں گے۔ حالانکہ پہلا سونٹا جو مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا اس سے انہوں نے خود کام نہ لیا۔ دوسرا سونٹا انہوں نےدشمنوں کے ہاتھ میں دے دیا۔ اب یہ تیسرا سونٹا قرآن کے ذریعہ انہیں ملا تھا مگر وہ اس سونٹے سے بھی کام نہیں لیتے اور کہتے ہیں ہم ظاہری سونٹے اور ظاہری سامانوں سے ان کو اپنا غلام بنائیں گے مگر وہ یاد رکھیں اپنے ان ارادوں میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یہ سونٹا اب ان کے سر پر ہی پڑے گا۔ ان کے آقا کے سر پر نہیں پڑے گا۔ پس وہ لوگ جو اس سونٹے سے کام لینا چاہتے ہیں وہ اپنا سر آپ پھوڑنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی کامیابی کو آپ پیچھے ڈالنا چاہتے ہیں۔ آج صرف ایک ہی چیز ہے جو مسلمانوں کو کامیاب بنا سکتی ہے اور وہ وہی چیز ہو سکتی ہے جو دلوں کو مسخر کر لے اور دلوں کو مسخر کرنے کے لئے سوائے تبلیغ کے اور کوئی ہتھیار نہیں۔ یہی تبلیغ کا ہتھیار ہے جو خدا نے ہمیں دیا۔ جتنی جلدی مسلمان اس ہتھیار کو استعمال کریں گے اتنی ہی جلدی انہیں غیر اقوام سے آزادی حاصل ہو گی۔ اور جتنی دیر وہ اس ہتھیار کے استعمال کرنے میں لگائیں گے اتنی ہی ان کی غلامی کی زنجیریں لمبی اور ممتد ہوتی چلی جائیں گی۔(اَلْعِیَاذُ بِاللہِ)‘‘ (الفضل 20 نومبر 1943ء)
1: درثمین اردو صفحہ 59، ضمیمہ تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 78


28
رفقاءحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی
عزت و احترام کو ملحوظ رکھنا ہمارا فرض ہے
(فرمودہ 19 نومبر 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’میں آج ایک دو ضروری امور کے متعلق کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن رات سے یکدم نزلہ کا حملہ ہؤا ہے اس وجہ سے گلے میں خراش کی تکلیف ہے اور کھانسی ہے اور ضعف بھی ہے اس لئے صرف ایک امر کے متعلق کچھ بیان کرنے پر اکتفا کروں گا۔ مجھے معلوم ہؤا ہے کہ کسی دوست سے کسی مجلس میں یہ سوال کیا گیا کہ مفتی محمد صادق صاحب نے ذکرِ حبیبؑ کے متعلق جو کتاب لکھی ہے اس کے بارہ میں اس کی کیا رائے ہے اور مفتی صاحب کو ایک مؤرخ کی حیثیت سے وہ کیا سمجھتا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ میں ایک مؤرخ کی حیثیت سے مفتی صاحب کو سند نہیں مانتا۔ ان کا حافظہ اس قسم کا نہیں کہ کسی کے سوانح لکھنے کے وہ قابل ہوں۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ مفتی صاحب نے اپنی کتاب ذکر حبیبؑ میں جو باتیں لکھی ہیں کیا وہ سب کی سب میرے لئے یا دوسرے احمدیوں کے لئے قابلِ تسلیم ہیں تو میں کہوں گا کہ ہرگز ساری کی ساری باتیں قابلِ قبول نہیں ہیں۔ لیکن جہاں تک سند ہونے کا سوال ہے مفتی صاحب کو جو لمبی صحبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی میسر آئی ہے اور جس طرح انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت کا زمانہ پایا ہے اس کے پیش نظر ایک نوجوان کا جسے اس کا کروڑواں حصہ بھی میسر نہیں آیا اس قسم کا فقرہ کہنا قابلِ شرم بات ہے۔ اس جواب سے صرف اتنا ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں تک تاریخ دانی کا سوال ہے اس نوجوان کو علم تاریخ سے کوئی واقفیت نہیں اور جب کسی شخص کو کسی علم کی واقفیت نہ ہو تو جب اس سے کوئی ایسا سوال کیا جائے جس کا تعلق اس علم سے ہو تو اس کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ کہہ دے کہ میں اس میدان کا سوار نہیں ہوں۔ جب کوئی شخص اپنے آپ کو ہر فن مولا ظاہر کرنا چاہے اور تیس مارخان بننا چاہے اور یہ بتانا چاہے کہ اس سے جو بھی سوال کیا جائے وہ اس کا جواب دے سکتا ہے تو بڑی مشکل پیش آ سکتی ہے۔ واقعات اور چیز ہیں اور علم دوسری چیز ہے۔ واقعات میں تو جھوٹے سچے کا فرق معلوم ہو سکتا ہے۔ ایک واقعہ ہوتا ہے ایک شخص اسے صحیح طور پر بیان کر دیتا ہے اور دوسرا اسے غلط رنگ میں پیش کرتا ہے۔ مگر علم ایسی چیز ہے کہ چونکہ اس کا تعلق واقعات سے نہیں ہوتا اس لئے یہ جائز نہیں ہوتا ہم اپنی مرضی سے جو رائے چاہیں قائم کر لیں۔ اسی لئے رسول کریم ﷺ نے تفسیر بالرائے سے منع فرمایا ہے۔ بعض نادان خیال کرتے ہیں کہ اس ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ جو تفسیر رسول کریم ﷺ نے بیان فرمائی ہے اس پر اکتفا کیا جائے اور جو تفسیر احادیث میں آئی ہے صرف وہی بیان کی جائے مگر یہ صحیح نہیں۔ اگر صرف اس تفسیر پر اکتفا کیا جائے جو احادیث میں بیان شدہ ہے تو قرآن کریم کا نصف سے زیادہ حصہ بغیر تفسیر کے رہ جائے گا کیونکہ نصف سے زیادہ حصہ قرآن کریم کا ایسا ہے جس کی کوئی تفسیر آنحضرت ﷺ سے مروی نہیں اور جن حصوں کی تفسیر مروی ہے وہ بھی تمام پہلوؤں کے متعلق نہیں۔
پس اگر تفسیر بالرائے کی ممانعت کے حکم کے یہی معنی لئے جائیں کہ جو تفسیر رسول کریم ﷺ نے بیان کی ہے صرف وہی بیان کی جائے آگے نہ کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم قرآن کریم کی تفسیر کسی کے آگے بیان کر ہی نہیں سکتے۔ اگرچہ ہم واقعات سے ثابت کر سکتے ہیں کہ قرآن کریم کا نصف سے زیادہ حصہ ایسا ہے جس کی کوئی تفسیر رسول کریم ﷺ سے مروی نہیں مگر میں کہتا ہوں جانے دو اس بات کو، اور فرض کرو کہ صرف ایک آیت ہی ایسی ہے جس کی تفسیر رسول کریم ﷺ سے مروی نہیں تو ہم جب بھی اس آیت پر پہنچیں گے ہمیں کہنا پڑے گا کہ اس کا مطلب ہمیں معلوم نہیں۔ صاف عربی الفاظ ہوں گے، لغت میں وہ موجود ہوں گے لیکن اگر تفسیر بالرائے کی ممانعت کا مطلب یہ لیا جائے کہ جو تفسیر آنحضرت ﷺ سے مروی نہیں وہ بیان نہ کی جائے تو اس آیت پر پہنچ کر ہمیں کہنا پڑے گا کہ اس کا مطلب ہمیں معلوم نہیں۔ اور اگر کوئی ایک آیت بھی ایسی ہو تو اسلام اور ایمان کا کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ مگر واقع یہ ہے کہ قرآن کریم کا نصف سے زیادہ حصہ ایسا ہے جس کی کوئی تفسیر آنحضرت ﷺ سے مروی نہیں۔ پس لازماً تفسیر بالرائے کی ممانعت کے حکم کے اور معنے کرنے پڑیں گے اور وہ معنی یہ ہیں کہ سیاق سباق اور دوسری سب چیزیں جو قرآن کریم کے معانی کو حل کرنے کے لئے ضروری ہیں مثلاً لغت، نحو، صرف، عقل، مشاہدہ، خداتعالیٰ کا قانون اور قرآن کریم کی دوسری آیات سب کو ملحوظ رکھتے ہوئے معنے کئے جائیں۔ اس طرح جو تفسیر کی جائے گی وہ تفسیر بالرائے نہیں کہلا سکتی۔ خواہ وہ معنے رسول کریم ﷺ نے نہ کئے ہوں اور پھر یہ اصول بھی تو درست نہیں کہ جو معنے کسی نے رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب کئے ہوں ان کو ضرور مان لیا جائے خواہ وہ لغت، نحو، صرف، عقل ، مشاہدہ اور قرآن کریم کی دیگر آیات کے خلاف ہوں۔ آخر جھوٹے راوی بھی تو ہوتے ہیں۔ فرض کرو کوئی راوی رسول کریم ﷺ کی طرف ایسے معنے منسوب کرتا ہے جو لغت کے مطابق نہیں تو کیا محض اس لئے کہ وہ روایت میں آ گئے ہیں ہم انہیں مان لیں گے ۔ ہرگز نہیں بلکہ ایسی صورت میں ہم صرف یہ کہیں گے کہ یہ راوی جھوٹا ہے۔ خود رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص میری طرف کوئی ایسی بات منسوب کرتا ہے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنی جگہ آگ میں سمجھے۔1 پس تفسیر بالرائے کے معنے سوائے اس کے کچھ نہیں کہ جو معنے کئے جائیں وہ لغت کے مطابق ہوں۔ اگر کوئی راوی آنحضرت ﷺ کی طرف کوئی ایسے معنی منسوب کرتا ہے جو لغت کے خلاف ہیں تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ آپؐ نے جو معنے کئے وہ غلط ہیں بلکہ یہ کہیں گے کہ راوی جھوٹا ہے اور اس نے آپؐ کی طرف غلط معنے منسوب کئے ہیں۔ آپؐ عرب تھے اور آپؐ پر قرآن کریم جیسا فصیح کلام نازل ہؤا۔ پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ آپؐ کوئی ایسے معنے بیان فرمائیں جو لغت کے مطابق نہ ہوں۔ دنیا میں لوگ اچھے شاعروں کے اشعار یاد کرتے ہیں تو ان کی زبان فصیح ہو جاتی ہے۔ پھر کون احمق کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ پر قرآن کریم جیسا فصیح کلام نازل ہو اور آپؐ کی زبان فصیح نہ ہو۔ ہندوستان میں لوگ غالب اور ذوق کے اشعار یاد کرتے ہیں۔ مولوی نذیر احمد صاحب دہلوی کی کتابیں پڑھتے ہیں اور ان کی زبان فصیح ہو جاتی ہے۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ آنحضرت ﷺ کی زبان 23 سال تک اللہ تعالیٰ سے عربی میں کلام حاصل کرنے کےباوجود فصیح نہ ہو۔ پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ آپ عربی سے ناواقف تھے وہ یا تو پاگل ہےا ور یا ایمان سے خالی ہے اور جو آپؐ کی طرف کوئی ایسے معنے منسوب کرتا ہے جو لغت کے مطابق نہ ہوں وہ یا تو جھوٹ بولتا ہے اور یا نادان ہے۔ اس نے بات کو سمجھا نہیں۔ بعض اوقات ایک آدمی سمجھدار ہوتا ہے مگر کسی وقت بات سمجھنے میں غلطی کرتا ہے۔ پس رسول کریم ﷺ کی طرف اگر کوئی غلط معنے منسوب کرتا ہے تو اسے ہم تفسیر من الرسولؐ نہیں کہیں گے بلکہ کہیں گے کہ یہ آپؐ پر افتراء ہے اور جو معنے لغت، نحو، صرف ، علم معانی اور علم بیان ، عقل ، مشاہدہ اور انبیاء گزشتہ کے طریق کے مطابق ہوں، قرآن کریم کی دوسری آیات کے مطابق ہوں وہ گو رسول کریم ﷺ سے مروی نہ ہوں وہ تفسیر بالرائے نہیں ہوگی بلکہ اصلی اور حقیقی تفسیر ہو گی۔ اور آنحضرت ﷺ کی بیان فرمودہ ہی سمجھی جائے گی۔ روایتوں میں انسان غلطیاں بھی کرتے ہیں۔ ایسے راوی بھی جو بڑے واقف اور سمجھدار ہوتے ہیں بعض اوقات غلطی کر جاتے ہیں۔ بعض باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ لیکن یہ اور بات ہے۔ بہرحال جہاں تک علوم کا تعلق ہے ہر شخص ان کا اتنا واقف نہیں ہوتا کہ کسی کے متعلق فیصلہ کر سکے ۔ تاریخ ایک پیچیدہ علم ہے۔ اس کے لئے علم النفس اور قومی رسوم و رواج سے واقفیت ضروری ہوتی ہے۔ پھر جس شخص کو اس ماحول کا علم نہ ہو جس میں وہ باتیں ہو رہی ہیں یا جسے ان باتوں کا پتہ نہ ہو جو کسی واقعہ کے پس پردہ ہیں اس کا تاریخ کے بارہ میں کوئی فیصلہ کرنا درست نہیں ہو سکتا۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں کتابیں نہ ہؤا کرتی تھیں اور حافظہ سے کام لینے کا رواج تھا۔ لوگ دس دس، بیس بیس ہزار بلکہ لاکھ لاکھ اور دو دو لاکھ اشعار زبانی حفظ کر لیا کرتے تھے۔ آج کون ہے جسے دو چار ہزار اشعار بھی یاد ہوں۔ اس زمانہ میں جو قرآن کریم حفظ کر لے اسے حافظ کہتے ہیں۔ لیکن رسول کریمﷺ کے کسی صحابی کو کوئی حافظ نہیں کہتا۔ حالانکہ اس زمانہ میں لوگ اس کثرت سے قرآن کریم حفظ کیا کرتے تھے کہ ایک لڑائی میں پانچ سو حافظ شہید ہوئے تھے ۔ مگر حافظ کسی کو نہیں کہا جاتا۔ آجکل تو اگر کسی کو سارا قرآن حفظ نہ ہو تو بھی اسے حافظ کہہ دیتے ہیں۔ اگر پوچھو کیا آپ نے قرآن کریم حفظ کیا ہے تو جواب ملتا ہے کہ نہیں سارا تو حفظ نہیں پانچ پارے کئے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کو بھی آج کل حافظ کہا جاتا ہے جن کو قرآن کریم کا کچھ حصہ ہی یاد ہو۔ یہ حافظہ کی کمزوری کی علامت ہے۔ آجکل کتابوں اور نوٹ رکھنے کا رواج عام ہو گیا ہے۔ لوگ حفظ کرنے پر زور نہیں دیتے۔ مگر آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں حفظ کرنے کا بہت رواج تھا۔ شاعروں کے ساتھ بعض لوگ ہوتے تھے جن کو راویہ کہتے تھے۔ ان کو ان کے سب اشعار یاد ہوتے تھے۔ گویا دس دس، بیس بیس ہزار اشعار یاد ہوتے تھے اور چونکہ مقابلہ میں بھی اشعار پڑھنے پڑتے تھے اس واسطے دوسرے شاعروں کے اشعار بھی ان کو یاد ہوتے تھے۔ اور اس طرح ان کو لاکھ لاکھ ، دو دو لاکھ اشعار زبانی یاد ہوتے تھے۔
ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک بادشاہ شاعروں پر بہت دادودہش کیا کرتا تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ ان کے ذریعہ زبان زندہ رہتی ہے۔ اس کے وزراء نے خیال کیا کہ اس طرح تو یہ تمام خزانہ لٹا دے گا۔ اور اس سے روکنے کے لئے اسے مشورہ دیا کہ کوئی شرط انعام کے لئے ہونی چاہیئے تا بڑا شاعر ہی انعام حاصل کر سکے۔ اس طرح تو ہر ایک انعام لے جاتا ہے۔ یہ شرط ہونی چاہئے کہ آپ کے سامنے صرف وہی شاعر آئے جسے ایک لاکھ شعر زبانی یاد ہوں۔ چنانچہ اس شرط کا اعلان کر دیاگیا نتیجہ یہ ہؤا کہ شاعروں کا آنابند ہو گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حفظ کرنے کا رواج کم ہو چکا تھا۔ ایک بڑا شاعر تھا لوگوں نے ان سے ذکر کیا کہ بادشاہ نے ایسا حکم جاری کر دیا ہے۔ جس سے ملک کے ادب اور زبان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ آپ بادشاہ کے پاس جائیں ۔ انہوں نے کہا بہت اچھا۔ چنانچہ وہ بادشاہ کے دربار میں گئے اور اطلاع کرائی کہ ایک شاعر بادشاہ سے ملنا چاہتا ہے۔ وزراء کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ آپ ملنا تو چاہتے ہیں مگر آپ کو معلوم ہے بادشاہ سے ملنے کی شرط کیا ہے؟ دربار کا ایک افسر یہ پیغام لے کر ان کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو معلوم ہے بادشاہ سے ملنے کی شرط کیا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں مجھے معلوم ہے کہ ایک لاکھ شعر یاد ہونے چاہئیں مگر آپ جا کر بادشاہ سے کہیں کہ یہ شرط نامکمل ہے۔ یہ بھی بتائیں کہ کیا ایک لاکھ شعر جاہلیت کے زمانہ سے آپ سننا چاہتے ہیں یا اسلام کے زمانہ کے اور پھر یہ بھی کہ عورتوں کے یا مردوں کے۔ بادشاہ کو اس بات کا علم ہؤا تو وہ سمجھ گیا کہ فلاں شخص ہو گا۔ پہلے بادشاہ نے بہت کوشش کی تھی کہ وہ بھی ملنے آئیں مگر وہ نہ آتے تھے۔ جب بادشاہ کو علم ہؤا کہ وہ آئے ہیں تو وہ ننگے پاؤں ان کے پاس آیا اور پوچھا آپ فلاں شخص ہیں۔ انہوں نے کہا ہاں۔ اور پھر انہوں نے کہا یہ آپ نے کیا شرط لگا دی ہے جس سے علم ، ادب کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ بادشاہ نے کہا وزراء کا تو اس شرط سے یہ منشاء تھا کہ شاعر انعام نہ حاصل کر سکیں مگر میرا مطلب اسے منظور کرنے سے صرف اس قدر تھا کہ کسی طرح آپ آئیں۔ آج سے یہ شرط منسوخ ہے۔ تو پرانے زمانوں میں حفظ پر بڑا زور دیا جاتا تھا مگر باوجود اس کے احادیث میں کتنا اختلاف ہے۔ کیا بخاری کی کوئی ایسی حدیث نہیں جو مسلم کے خلاف ہو اور کیا مسلم کی کوئی ایسی حدیث نہیں جو بخاری کے خلاف ہو۔ یہی حال ابن ماجہ اور ترمذی وغیرہ کا ہے۔ ہر ایک میں دوسری سے مختلف احادیث ہیں مگر کیا اس اختلاف کی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ غیرمستند ہیں یا بخاری اور مسلم قابلِ اعتبار نہیں ہیں۔ ناقابلِ اعتبار صرف اسے کہا جاتا ہے جس کا طریقہ ہی قابلِ اعتبار نہ ہو۔ یوں تو روایت میں ہر کسی سے غلطی ہو سکتی ہے میں کسی مجلس میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں کہ یوں ہؤا مگر ایک شخص کہہ دیتا ہے کہ یوں نہیں یہ واقعہ دراصل یوں ہؤا تھا مگر اسکے باوجود وہ مجھے اپنے سے زیادہ سچا سمجھتا ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ ان کوبھی غلطی لگ سکتی ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کے نزدیک میری سند باطل ہو گی۔ نہ مجھے اس پر کوئی گلہ ہوتا ہے بلکہ میں بھی کہتا ہوں کہ ہاں یہی بات ٹھیک ہے جو آپ نے بیان کی۔تو کسی واقعہ میں ہر شخص کو غلطی لگ سکتی ہے۔ مگر اس کی بناء پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ناقابلِ اعتبار ہے۔ اس وقت صرف چند لوگ ایسے ہیں جن کے ذریعہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی باتیں مل سکتی ہیں۔ مفتی صاحب ہیں، شیخ یعقوب علی صاحب ہیں۔ بڑے تو یہی ہیں جو ایڈیٹر بھی تھے اور جن کو کثرت سے آپؑ کی باتیں سننے کا موقع ملا۔ تیسرے پیر سراج الحق صاحب مرحوم تھے ان کو بھی خوب باتیں یاد تھیں۔ مفتی صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب بدر اور الحکم کے ایڈیٹر تھے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان پر بعض دفعہ ناراضگی کا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے ۔ آپ فرماتے تھے کہ یہ تو ہمارے لئے اس طرح ہیں جس طرح مُردہ کے لئے منکرنکیر ہوتے ہیں۔ ہم یونہی بات کرتے ہیں اور یہ چھاپ دیتے ہیں اور دشمن پیچھے پَڑ جاتے ہیں۔ مگر باوجود اس کے آپ ان کی بہت قدر کرتے تھے۔ مفتی صاحب کو تو آپ اپنے خاص صحابہ میں شمار کیا کرتے تھے۔ اسی طرح شیخ یعقوب علی صاحب بھی آپ کے بڑے مقرب اور پیارے تھے۔ پس ان لوگوں کے متعلق یہ کہنا کہ یہ غیرمستند ہیں علمِ تاریخ سے ناواقفی کی بات ہے۔ یہ ٹھیک نہیں کہ کسی روایت کو غلط دیکھ کر ان لوگوں کی ذات پر حملہ کیا جائے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ اگر بخاری کی کوئی حدیث سمجھ میں نہ آئے تو امام بخاری پر حملہ کیا جائے۔ مسلم کی کوئی حدیث سمجھ میں نہ آئے تو امام مسلم پر حملہ کردیا جائے۔ پرانے مفسرین کی تفاسیر پر ہم آج سو سو جرح کرتے ہیں مگر یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ مفسرین ناقابلِ اعتبار ہیں۔ وہ لوگ اتنا کام کر گئے ہیں کہ اگر وہ یہ کام نہ کرتے تو ہماری عمریں اس کام کی تکمیل میں صرف ہو جاتیں۔ انہوں نے ہر لفظ پر صرفی اور نحوی بحثیں کی ہیں۔ ہر عبارت پر معانی اور بیان کے لحاظ سے بحث کی ہے۔ ایک ایک واقعہ پر تاریخ کے لحاظ سے بحث کی ہے۔ ان میں بعض باتیں غلط بھی ہیں اور ٹھیک بھی ہیں۔ مگر اس قدر ذخیرہ وہ لوگ جمع کر گئے ہیں کہ اگر وہ یہ کام نہ کرتے تو آج ہم یہ کام نہ کر سکتے جو کر رہے ہیں۔ پس یہ کیسی حماقت اور ناشکری کی علامت ہے کہ کہا جائے کہ فلاں مفسر نے فلاں بات غلط لکھ دی۔ اس لئے وہ ناقابلِ اعتبار ہے۔ ابنِ حیان کی یہ بات صحیح نہیں، درمنثور کی یہ روایت غلط ہے۔ اس لئے وہ ناقابلِ اعتبار ہیں۔ ایسا کہنا بڑا ظلم اور تعدی ہے۔ ان کی ہزار باتوں میں سے اگر دو غلط ہیں تو کیا اگر وہ 998 باتیں جمع نہ کرتے تو ہم آج یہ کام کر لیتے جو کر رہے ہیں۔ اگر وہ لوگ اس زمانہ میں ہوتے تو وہ ضرور اس علم میں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا ہے ہماری شاگردی اختیار کرتے لیکن اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمیں بھی ان کی شاگردی حاصل ہے۔ وہ ضرور ہمارے شاگرد ہوتے مگر ہم بھی ان کے شاگرد ہیں۔ ان کی تحقیقات کی وجہ سے جو انہوں نے ہمارے لئے کیں اگر کوئی بات انہوں نے غلط لکھ دی تو کیا ہؤا۔ کیا انسان سے غلطیاں نہیں ہوتیں۔ کیا کوئی غلط بات لکھی جانے کی وجہ سے سند ہی اڑ جاتی ہے۔ ہمارے پاس یہی دو تین آدمی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی تاریخ سے واقف ہیں۔ اگر یہ سچے نہیں تو معترض جسے سچا سمجھتا ہے اس کا نام پیش کرے۔ میں اس کی روایات میں غلطی ثابت کر دوں گا مگر غلطی کی وجہ سے کسی کو غیرمستند اور ناقابلِ اعتبار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ میرے سامنے کی بات ہے حضرت خلیفہ اول نے قاضی امیر حسین صاحب کو ان سوالات کے بارہ میں جو پیغامیوں سے تعلق رکھتے تھے فرمایا کہ فلاں فلاں سے مشورہ کریں کہ ان کا کیا جواب دیا جائے۔ قاضی صاحب ابھی پوچھ ہی رہے تھے کہ یہ لوگ حضرت خلیفہ اول کے پاس پہنچے اور معافی مانگ لی۔ کچھ عرصہ بعد جب قاضی صاحب جوابات لے کر حضرت خلیفہ اول کے پاس آئے تو حضرت خلیفہ اول نے قاضی صاحب سے کہا کہ آپ کو کس نے کہا تھا کہ یہ باتیں لوگوں سے کریں۔ حالانکہ قاضی صاحب کو آپ نے میرے سامنے فرمایا تھا مگر آپ بھول گئے۔ اب اس کے یہ معنے نہیں کہ آپ نَعُوْذُ بِاللہ بے اعتبار ہیں کیونکہ انسان بھول بھی جاتا ہے۔ پھر بعض اوقات انسان بات کا مطلب غلط سمجھ لیتا ہے مگر اس وجہ سے اسے غیرمستند نہیں کہا جا سکتا ۔ غیرمستند اور ناقابلِ اعتبار اسے کہا جاتا ہے جو غلط طریق اختیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل اور سمجھ دی ہے اگر کوئی ایسی بات کسی روایت میں ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چلن اور کیریکٹر کے خلاف ہو، آپ کی عام تعلیم کے خلاف ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ راوی کو غلطی لگی ہے ۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ غیرمستند ہے۔ تو انسان کو اس علم کے بارہ میں جسے وہ جانتا نہیں بات کرتے وقت بہت احتیاط کرنی چاہیئے۔ ایسی بات کرنے والا شخص علم تاریخ سے قطعاً ناواقف ہے۔ تاریخ کا علم بڑا پیچیدہ علم ہے۔ کسی تاریخی بات کو سمجھنے کے لئے اس زنجیرکو سمجھنا بھی ضروری ہوتا ہے جس سے وہ بات چلتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے علم میں دسترس رکھتا ہے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ تاریخ کے علم کا بھی ماہر ہے۔ ایک بڑے سے بڑے فلاسفر کا ڈاکٹری کے علم میں ماہر ہونا ضروری نہیں۔ اسی طرح ایک بڑے سے بڑا ڈاکٹر لازماً فلاسفر نہیں ہو سکتا۔ اور جس علم سے واقفیت نہ ہو اس میں دخل دینا غلط طریق ہے۔ اور ایسی باتیں کرنا آداب کے خلاف ہے۔ مَیں بھی یہ مانتا ہوں کہ مفتی صاحب کی روایات میں غلطی ہو سکتی ہے اور اگر کہنے والے کے علم میں ایک بات غلط ہے تو ممکن ہے میرے نزدیک دس باتیں غلط ہوں لیکن اس کے باوجود ان لوگوں کی خدمات اور اس احسان میں جو تاریخ لکھ کر انہوں نے جماعت پر کیا ہے کوئی فرق نہیں آ سکتا۔ غلطیاں شاید میں دوسروں سے زیادہ جانتا ہوں مگر ان کی بناء پر ان کو ناقابل اعتبار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جس طرح میں نے بتایا ہے کہ پرانے مفسرین کی کسی غلط بات کی بنیاد پر ان کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بعض نادان مجھ سے یہ بات سن کر کہ پرانے مفسرین نے فلاں بات غلط لکھی ہے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ان تفسیروں میں کیا رکھا ہے مگر مَیں جس سے کسی غلط بات کا علم حاصل کر کے وہ یہ الفاظ کہتے ہیں ان کے احسان کو مانتا ہوں اور میری گردن ان کے بارِ احسان سے اٹھ نہیں سکتی۔ اگر وہ لوگ لغوی، صرفی، نحوی بحثیں نہ کرتے اور وہ ذخائر جمع نہ کر جاتے ، اگر وہ اس قدر وقت صرف نہ کرتے تو آج ان باتوں پر ہمیں وقت لگانا پڑتا۔ پھر اگر ہم ان کے ممنون نہ ہوں تو یہ غداری اور ناشکری ہو گی۔ انہوں نے قرآن کریم کی ایسی خدمت کی ہے کہ اگر وہ آج ہوتے تو بے شک وہ اس احسان کی بھی قدر کرتے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذریعہ کیا ہے مگر اس حصہ میں جو خدمت قرآن میں ان کا ہے ہم بھی ان کی شاگردی سے دریغ نہ کرتے۔
پس ہمارے نوجوانوں کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی عزت و احترام میں فرق نہ لانا چاہیئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ جو کچھ کہیں اسے مان لیں۔ میں خود بھی ہر بات کو نہیں مانتا مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ ناقابل اعتبار ہیں۔ اگر کوئی بات غلط ہے تو اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ممکن ہے اس وقت راوی کی توجہ کسی اور طرف ہو ممکن ہے اس نے ساری بات سنی ہی نہ ہو۔ پھر یہ بھی ممکن ہے ساری بات سنی تو ہو مگر غلط سمجھی ہو۔ مگر اس کی وجہ سے اسے ناقابلِ اعتبار نہیں کہا جا سکتا۔ ایسا کہنا فطرت کے مطالعہ کا فقدان ہےکہ جو بات بھی کوئی کرے دوسرا اسے ضرور سمجھتا ہے اور اگر وہ اسے درست طور پر بیان نہیں کر سکتا تو وہ یا جھوٹا ہے یا جاہل۔ بڑے سےبڑا عالم اور بڑے سے بڑا راستباز بھی بعض اوقات کسی بات کو غلط سمجھ سکتا ہے اور اس پر ایسے وقت آ سکتے ہیں جب اس کی توجہ دوسری طرف ہو اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ توجہ ہونے کے باوجود کوئی انسان کسی بات کو غلط سمجھے۔
اس جگہ اس بات کا بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم میں بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی تصانیف میں بھی دو چار مقام ایسے ہیں کہ جو عربی کے عام مروجہ قواعد کے خلاف ہیں۔ مگر قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے قادر الکلام بنایا تھا۔ اس لئے ایسی عبارات کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔ جو قادر الکلام ہو اس کا حق ہوتا ہے کہ جہاں چاہے کوئی دوسرا قاعدہ جاری کر دے۔ مگر یہ استثناء کے طور پر ہے۔ اس کے بالمقابل بہاء اللہ نے عربی میں جو کتابیں لکھی ہیں وہ ادبی لحاظ سے بہت غلط ہیں۔ وہ اس استثناء کے ماتحت نہیں آ سکتیں۔ اسی طرح اس زمانہ کے بعض ملہم ہیں وہ بھی اپنے غلط عربی الہامات کے متعلق یہی استثناء پیش کر دیتے ہیں مگر ان کا یہ حق نہیں کہ کوئی نیا قاعدہ جاری کریں۔ قادرالکلام کی غلطی اور ہے اور جاہل کی اور۔ ایک ڈاکٹر کے ہاتھ سے بھی لوگ مر جاتے ہیں اور عطائی کے ہاتھ سے بھی مگر ڈاکٹر جسے مارتا بھی ہے سائنس سے مارتا ہے اور عطائی جہالت سے مارتا ہے۔ کوئی ڈاکٹر یا کسی بھی طب کا واقف شخص اگر غلطی بھی کرے گا تو وہ سائنس کے ماتحت ہو گی مگر عطائی کی غلطی جہالت کے ماتحت ہو گی۔ ڈاکٹر کے ہاتھ سے کسی کا مرنا اتفاقی امر ہو گا لیکن ناواقف کے ہاتھ سے کسی کا صحتیاب ہونا اتفاقی امر ہو گا۔ تو جن لوگوں کو انبیاء کی محبت حاصل ہوتی ہے ان سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر وہ اتفاقی ہوتی ہیں۔ اور غلطی کے امکان کے باوجود یہ کام وہی لوگ کر سکتے ہیں۔ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہی نہیں اسے اگر کہا جائے کہ آپؑ کے زمانہ کی تاریخ لکھو تو وہ کیا لکھ سکتا ہے۔ وہ بھی لازماً ان لوگوں کے پاس ہی جانے پر مجبور ہو گا۔ پس کسی بات کی وجہ سے انہیں غیرمستند اور ناقابلِ اعتبار قرار دینا درست نہیں۔ غلطی کا ہونا اور بات ہے اور غلط کار ہونا اور بات ہے۔ ہم کسی بڑے سے بڑے موقع کے متعلق بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ کفر کی بات ہے مگر اس کی وجہ سے اسے کافر نہیں کہہ سکتے۔ اسی طرح کسی بات کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ واقعات اس کی تصدیق نہیں کرتے مگر اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ مصنف ناقابلِ اعتبار اور غیرمستند ہے۔ ‘‘
(الفضل 24 اگست 1943ء)
1: بخاری کتاب الجنائز باب مایکرہ من النیاحة علی المیت

29
تحریک جدید کے دسویں سال کا اعلان
(فرمودہ 26 نومبر1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’گزشتہ چند دنوں سے مجھ پر پھر اسی قسم کے مرض کا حملہ ہو گیا ہے جس قسم کا مرض مجھے مئی کے مہینہ میں ہؤا تھا اور گو یہ حملہ اتنا شدید نہیں ہے مگر پھر بھی نہایت سخت اور تکلیف دہ کھانسی کی شکایت پیدا ہو گئی ہے۔ پچھلی دفعہ جب مرض کا آغاز ہو رہا تھا مجھے بجٹ کی مجلس میں شامل ہونا پڑا۔ جس کے بعد میری بیماری لمبی اور تکلیف دہ صورت اختیار کر گئی۔ اور آج بھی بیماری کے شروع میں ہی جمعہ کا دن آ گیا ہے۔ مگر چونکہ اب وقت آ گیا تھا کہ نئے سال کے چندہ تحریک جدید کے متعلق جماعت کے سامنے اعلان کر دیا جائے ۔اس لئے گو گزشتہ تجربہ کی بناء پر مجھے خطرہ معلوم ہوتا تھا کہ میری بیماری پھر خدانخواستہ لمبی شکل اختیار نہ کر لے مگر میرے دل نے برداشت نہ کیا کہ جس دس سالہ تحریک کی ابتداء میں نے کی تھی اس کے آخری سال کی تحریک کرنے کے فخر سے مَیں محروم رہوں۔
نتائج سب اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتے ہیں اور مستقبل کا علم بھی اسی کو ہے۔ بہت کوششیں دنیا میں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر انسان کو مستقبل کا علم ہو تو وہ ان کو ترک کرنے پر مجبور ہو جائے اور بہت کوششیں دنیا میں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر انسان کو مستقبل کا علم ہو تو وہ کسی صورت میں بھی ان کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو۔ ہزاروں افعال انسان آئندہ کی بہتری کے لئے کرتا ہے مگر ان کا نتیجہ نہایت خراب نکلتا اور اس کی تمام کوششیں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔ اس کے مقابلہ میں ہزاروں کامیابیاں جو اس کو ، اس کے خاندان کو اور اس کی قوم کو چار چاند لگانے والی ہوتی ہیں اور تھوڑی سی کوشش سے حاصل ہو سکتی ہیں مستقبل کا علم نہ رکھنے کی وجہ سے انسان ان کو ضائع ہونے دیتا ہے اور محض تھوڑی سی کوشش نہ کرنے کی وجہ سے اس کی آئندہ نسلیں سینکڑوں سال تک ان عزتوں اور کامیابیوں سے محروم ہو جاتی ہیں جو تھوڑی سی کوشش ، تھوڑی سی جدوجہد اور تھوڑی سی قربانی سے اس کو یا اس کے خاندان کو یا اس کی قوم کو حاصل ہو سکتی تھیں۔
ہم نے بھی ایک کوشش کی ہے، خدائی اشاروں کے ماتحت کی ہے، خدائی حکمتوں کو سمجھتے ہوئے کی ہے اور خدائی پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے کی ہے۔ ہماری یہ کوشش نہایت حقیر، نہایت معمولی اور نہایت ہی محدود ہے مگر ہمارے ارادے بہت بڑے ہیں، نیتیں وسیع ہیں اور ہماری امنگیں کوئی انتہاء نہیں رکھتیں۔ مگر نتائج کو پیدا کرنا ہمارے اختیار میں نہیں صرف خدا کے اختیار میں ہے۔ وہ اگر چاہے تو ان ارادوں، ان نیتوں اور ان امنگوں سے بھی زیادہ برکت پیدا فرما دے جو ہمارے دل میں ہیں اور اگر چاہے تو ہماری کسی غفلت، کسی نادانی، کسی بے وقوفی اور کسی حماقت کی وجہ سے ہماری قربانیوں کے اس حقیر ہدیہ کو ٹھکرا دے جیسے ایک ہیرا لاکھوں روپے کی مالیت کا ہوتا ہے مگر جب ایک ماہرِ فن اس ہیرے کو شیشے کا ایک معمولی ٹکڑا قرار دے دیتا ہے تو اس کی لاکھوں کی قیمت کوڑیوں تک آ جاتی ہے اور ایک معمولی چیز سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔
وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو پانچ ہزار سپاہی دئیے جانے کی خبر دی گئی تھی اور واقعات بھی اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس طرح کشف میں دیکھا تھا کہ آپ کو پانچ ہزار سپاہی دیا گیا ہے یہی نظارہ ہمیں اس تحریک میں نظر آتا ہے۔
ہماری جماعت خداتعالیٰ کے فضل سے لاکھوں کی جماعت ہے مگر تحریک جدید میں حصہ لینے والوں کی تعداد شروع سے پانچ ہزار کے اردگرد گھوم رہی ہے۔ کبھی یہ تعداد ساڑھے چار ہزار ہو جاتی ہے، کبھی ساڑھے پانچ ہزار ہو جاتی ہےا ور کبھی پانچ ہزار ہو جاتی ہے۔ جو لوگ اس تحریک میں حصہ لینے کا وعدہ کرتے ہیں چونکہ سال کے آخر تک ان میں سے کچھ پیچھے ہٹ جاتے اور اپنے وعدوں کو پورا نہیں کر سکتے اس لئے جب وعدوں کا وقت آتا ہے تو یہ تعداد پانچ ہزار سے اوپر چلی جاتی ہے لیکن جب ادائیگی کا وقت آتا ہے تو یہ تعداد کبھی پانچ ہزار ہو جاتی ہے اور کبھی پانچ ہزار سے بھی نیچے چلی جاتی ہے۔ اس وقت تک وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق خداتعالیٰ کے سپاہی کہلانے کے مستحق ہیں وہ پینتالیس سو اور پانچ ہزار کے درمیان ہیں۔ شاید وہ جو ابھی تک اپنے وعدے پورے نہیں کر سکے یا وہ جو اب تک اپنی سستی اور غفلت کی وجہ سے اس میں حصہ نہیں لے سکتے مگر اب وہ اس میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتے ہوں یا وہ جو نئے سال سے اس تحریک میں شامل ہو جائیں ان سب کو ملحوظ رکھتے ہوئے شاید یہ تعداد پوری ہو جائے بلکہ شاید نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقیناً یہ سب مل کر اس تعداد کو پورا کر دیں گے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیشگوئی میں معیّن کی گئی ہے اور اس طرح ایک اور ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا مل جائے گا کہ کس شان اور عظمت کے ساتھ آپ کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ آخر یہ کس بندے کی طاقت میں تھا کہ وہ اسلام کی خدمت کے لئے جماعت میں سے پانچ ہزار نفوس کو کھڑا کر دیتا۔ اگر ہمیں دس ہزار آدمی چندہ دیتے تو ہم نے ان کے چندوں کو اس بناء پر رد نہیں کر دینا تھا کہ پیشگوئی میں صرف پانچ ہزار آدمیوں کا ذکر آتا ہے اور اگر میری اس تحریک کے نتیجہ میں جماعت کے دلوں میں ایسا جوش اور اخلاص پیدا نہ ہوتا کہ پانچ ہزار آدمی چندہ دینے کے لئے کھڑے ہو جاتے بلکہ صرف دو یا تین ہزار آدمی اس تحریک میں حصہ لیتے تو ہمارے پاس اس تعداد کو پانچ ہزار تک پہنچانے کا کیا ذریعہ تھا۔ ہم نے یہ تحریک طوعی رنگ میں کی تھی اور اس میں شامل ہونا ہر شخص کی اپنی خوشی اور مرضی پر منحصر رکھا تھا۔ مار کر، پیٹ کر اور سزا دے کر اس میں کسی کو شامل نہیں کرنا تھا۔ پس اگر یہ خدائی ہاتھ نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک دس سالہ تحریک کا آغاز کیا جاتا ہے اور اعلان کیا جاتا ہے کہ جو شخص اپنی مرضی اور خوشی سے اس میں شامل ہونا چاہے وہی شامل ہو۔ کسی پر جبر اور اکراہ نہیں مگر باوجود اس کے کہ جماعت بہت زیادہ ہے۔ دس سال کے طویل عرصہ میں اس میں شامل ہونے والوں کی تعداد پانچ ہزار کے اردگرد ہی چکر لگاتی رہتی ہے۔ جس طرح گھڑی کا پنڈولم ایک خاص مقام پر حرکت کرتا ہے اور مرکز کے اردگرد چکر لگاتا رہتا ہے اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس تحریک میں حصہ لینے والوں کی تعداد کبھی پانچ ہزار سے اوپر چلی جاتی ہےاور کبھی پانچ ہزار سے نیچے چلی جاتی ہے۔ گویا چکر پانچ ہزار کے اردگرد ہی لگاتی رہتی ہے۔ بھلا کس انسان کی طاقت میں تھا کہ وہ ایسا کر سکے اور کون شخص اپنی تدبیر سے تعداد کو اسی محور پر رکھ سکتا تھا۔ یہ محض خدا کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ اور اس واقعہ نے نہایت صفائی اور وضاحت کے ساتھ اس امر کو ثابت کر دیا ہے کہ درحقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس پیشگوئی کے مطابق اسلام کی فتح کی بنیاد ، احمدیت کے غلبہ کی بنیاد، محمد ﷺ کے نام کو دوبارہ زندہ کرنے کی بنیاد ازل سے تحریک جدید کے ساتھ وابستہ قرار دے دی گئی ہے۔ ان پانچ ہزار سپاہیوں کی قربانیاں آئندہ دنیا میں کیا انقلاب پیدا کریں گی یا آئندہ یہ تحریک کیا شکل اختیار کرے گی اور اس تحریک کے کیا کیا نتائج رونما ہوں گے ان سب باتوں کو اللہ ہی جانتا ہے۔ ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ اخلاص سے، محبت سے، انابت سے، اطاعت کا کامل نمونہ دکھاتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف پورے تضرع اور ابتہال کے ساتھ جھکتے ہوئے قربانیاں کرتے چلے جائیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم نے اس فرض کو ادا کر دیا ہے جو اس کی طرف سے ہم پر عائد کیا گیا تھا یا اپنے فرض کو ادا کرنے کی بجائے خدانخواستہ اپنی غفلت اور نادانی سے اس کے عذاب کے مستحق ہو گئے ہیں۔ ان سب باتوں کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہم اس کی رحمت اور فضل کے امیدوار ہیں۔ اور ہم اس سے یہی دعا کرتے ہیں کہ اب جبکہ یہ تحریک اپنے پہلے دور میں ختم ہونے والی ہے وہ ہماری ان کوتاہیوں کو معاف فرما دے جو اس تحریک کے دوران میں ہم سے سرزد ہوئی ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کی وفات کے وقت کسی شخص نے کہا کہ آپ کو تو بہت بڑے اجر ملیں گے کیونکہ آپ نے اسلام کے لئے بڑی بھاری قربانیاں کی ہیں۔ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اَللّٰھُمَّ لَا عَلَیَّ وَلَا لِیْ۔1 اے میرے خدا مَیں اپنے اعمال کی کمزوریوں کی بناء پر تجھ سے کسی ثواب کا طلبگار نہیں میں تجھ سے صرف یہ التجا کرتا ہوں کہ تُو میری کوتاہیوں کو معاف کر کے مجھے اپنی سزاؤں سے بچا لے۔
اللہ تعالیٰ کے جو احسانات ہم پر ہیں اس کے جو بے انتہا فضل ہم پر ہیں ان کو دیکھتے ہوئے ان کی قدر کرنے کا دعویٰ ہم نہیں کر سکتے۔ درحقیقت ہم میں سے بہتوں نے ابھی تک تحریک جدید کو سمجھا ہی نہیں جو خدا کی طرف سے دنیا کی کایا پلٹنے کے لئے جاری کی گئی ہے۔ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو ابھی نام کے احمدی ہیں۔ احمدیت کی روح کو انہوں نے نہیں سمجھا۔ بہت سے ایسے ہیں جو اخلاص تو رکھتے ہیں مگر ان کے دلوں میں یہ تڑپ نہیں کہ وہ باریکیوں کو سوچتے رہیں اور احمدیت کی طرف سے ان پر جو ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں انہیں ادا کریں۔ بہت ایسے ہیں جو اخلاص بھی رکھتے ہیں، سوچتے بھی ہیں مگر ان کے دماغوں کی قابلیت ایسی نہیں کہ وہ اس کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ بہت ایسے ہیں جن کے دلوں میں اخلاص بھی ہے، غور اور فکر کا مادہ بھی اپنے اند ر رکھتے ہیں ، ان کے دماغ بھی اچھے ہیں۔ سوچتے اور غوروفکر سے بھی کام لیتے ہیں اور پھر سوچنے اور غوروفکر سے کام لینے کے بعد ذمہ داریوں کو سمجھتے بھی ہیں مگر پھر بھی ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی پوری طاقت نہیں رکھتے۔ پھر بہت سے ایسے ہیں جن کو خداتعالیٰ نے اخلاص بھی عطا فرمایا ہے، جو سوچنے کی توفیق بھی رکھتے ہیں، جن کے دماغوں میں سمجھنے کا مادہ بھی پایا جاتا ہے، جو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق بھی رکھتے ہیں اور جو ہر وقت اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے مستعد اور تیار کھڑے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی ان پر برکتیں رہیں گی اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔ اس دنیا میں بھی خدا ان کے ساتھ ہو گا اور اگلے جہان میں بھی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو جماعت احمدیہ کے لئے ستون کا کام دے رہے ہیں۔ یہی وہ دیواریں ہیں جن پر وہ چھت قائم ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے امن کے لئے قائم فرمایا ہے۔ اور مَیں سمجھتا ہوں وہ لوگ جنہوں نے دیانتداری اور پورے تقویٰ کے ساتھ اس تحریک میں حصہ لیا ہے ان میں سے اکثر ایسے ہی لوگ ہیں اور وہ خدا کے حضور انہی لوگوں میں شامل کئے جائیں گے۔
میری آواز اور میری صحت میرا ساتھ نہیں دیتی۔ اس لئے مَیں اس مختصر تمہید کے ساتھ دسویں سال کے چندہ تحریک جدید کا اعلان کرتا ہوں کہ اے میرے عزیزو! میرے بھائیو! میرے رفیقو! اور میرے ساتھیو! اسلام کی ترقی کی وہ بنیاد جو آج سے دس سال پہلے نہایت نیک ارادوں اور پاکیزہ خواہشات کے ساتھ رکھی گئی تھی اس بنیاد کی بھرتی کا اب آخری سال آ رہا ہے۔ تم نے نو سال تک خداتعالیٰ کے دین کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کیں بلکہ شاید بعض نے قربانیاں بھی نہیں کیں صرف لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہو گئے ہیں مگر بہرحال ہر شخص کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔ آج اس تحریک کا دسواں سال شروع ہو رہا ہے جو پہلے دور کی آخری تحریک ہے اور جسے اسلامی بنیادوں کی بھرتی سمجھنا چاہیئے۔ تم میں سے وہ جن کو خداتعالیٰ نے قربانی کی توفیق عطا فرمائی ہے میں ان سب سے کہتا ہوں کہ آج پھر تمہارے لئے خداتعالیٰ کی طرف سے قربانی کا ایک موقع پیدا کیا گیا ہے۔ اور اس تحریک کا دسواں سال شروع ہو رہا ہے۔ تم قربانی کا نمونہ پیش کر کے اپنے اعمال کو زیادہ سے زیادہ سنوار لو اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھنے کی کوشش کرو۔ وہ لوگ جنہیں گزشتہ سالوں میں اس تحریک میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا مگر اب ان کی مالی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ وہ اس تحریک میں حصہ لے سکتے ہیں ۔ میں ان سے بھی کہتا ہوں کہ یہ تحریک جدید کے آخری سال کے ایام ہیں۔ ان دنوں میں وہ اس تحریک میں حصہ لے کر خداتعالیٰ کے بہادر سپاہیوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جن کو اس تحریک میں حصہ لینے کی توفیق تو تھی مگر بوجہ کمزوریٔ ایمان یا صحبتِ بد کی وجہ سے انہیں اس میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا تھا ان کے لئے بھی یہ ایک آخری موقع پیدا ہو گیا ہے۔ جس میں وہ اپنے دلوں کو ان گندوں اور ان زنگوں سے صاف کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں جو کمزوریٔ ایمان یا بُری صحبت کی وجہ سے ان کے دلوں پر لگ چکے ہیں۔ اور خداتعالیٰ کے حضور اس کے سپاہیوں میں شامل ہونے کی درخواست کر سکتے ہیں۔ غرض میں ان سب کو جو اس تحریک میں حصہ لے رہے ہیں یا حصہ لے سکتے ہیں یا اگر پہلے انہوں نے حصہ نہیں لیا تو اب وہ اپنی گزشتہ کوتاہیوں کے ازالہ کا ارادہ رکھتے ہیں خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے بلاتا ہوں اور مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس سال کی تحریک میں پہلے تمام سالوں سے بڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کریں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کے مخلصین اللہ تعالیٰ کے فضل سے چندوں میں ہمیشہ نمایاں حصہ لیا کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کا قدم ہمیشہ آگے بڑھے۔ مگر یہ سال چونکہ تحریک جدید کے پہلے دور کا آخری سال ہے اس لئے میری خواہش ہے کہ وہ لوگ جو اپنے دلوں میں اخلاص رکھتے اور خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کا شوق رکھتے ہیں وہ اس سال ایسی نمایاں قربانی کریں جو اس سے پہلے انہوں نے سلسلہ اور اسلام کے لئے کبھی نہ کی ہو۔ میں کسی کو کوئی ایسا بوجھ اٹھانے کے لئے نہیں کہتا جسے وہ اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے اب تک پورا بوجھ نہیں اٹھایا اور قربانی کو اس کے صحیح اور حقیقی معیار تک نہیں پہنچایا وہ اس سال ایسے رنگ میں قربانی کریں جس کی مثال پہلے کسی سال میں نہ مل سکے۔
مَیں اپنے متعلق یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ چونکہ یہ تحریک جدید کا آخری سال ہے اور میرا جماعت کے مخلصین سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ اس سال پہلے تمام سالوں کے مقابلہ میں زیادہ قربانی کریں اس لئے میں نے بھی اپنے پچھلے سال کے چندہ سے ساڑھے تین گُنا زیادہ چندہ لکھوا دیا ہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ یہ تحریک جس طرح اپنے دور میں ایسا نرالا رنگ رکھتی ہے جس کی مثال جماعت کے پہلے دوروں میں نہیں ملتی اس لئے کہ یہ تحریک ان چندوں کے علاوہ ہے جو جماعت کو علیحدہ طور پر دینے پڑتے ہیں اور گو تحریک جدید کے چندہ کی مقدار جماعت کے دوسرے سال بھر کے چندوں سے کم دکھائی دیتی ہے مگر یہ چندہ دوسرے چندوں کے ساتھ مل کر جماعت کی مالی قربانی کی ایسی شاندار مثال پیش کرتا ہے جس کی نظیر اور کہیں نظر نہیں آتی۔ اسی طرح میں چاہتا ہوں کہ تحریک جدید کا یہ آخری سال جماعت کی مالی قربانی کے لحاظ سے ایک غیرمعمولی سال ہو اور جس طرح تحریک جدید کی مثال اور کسی تحریک میں نہیں ملتی اسی طرح تحریک جدید کے آخری سال کی مالی قربانی کی مثال جماعت کی سابقہ قربانیوں کے لحاظ سے کسی اور سال میں نظر نہ آئے۔ بے شک آجکل لوگوں کو مالی تنگیاں ہیں، قحط پڑا ہؤا ہے اور ضروریاتِ زندگی نہایت گراں ہو گئی ہیں مگر ہماری جماعت کا اسّی فیصدی حصہ زمینداروں پر مشتمل ہے۔ اور آجکل کے قحط کے ایام سے زمیندار متأثر نہیں ہوئے بلکہ ان کے پاس پہلے سے زیادہ روپیہ موجود ہے۔ اس لئے زمینداروں کا وہ طبقہ جو پہلے اس تحریک میں حصہ نہیں لے سکا یا پہلے اس تحریک میں نمایاں حصہ نہیں لے سکا اس کے لئے موقع ہے کہ وہ آج اپنے اخلاص اور ایمان کا ثبوت دے کر ایسا مقام حاصل کر لے جو ایمان اور سلوک کے راستہ میں اسے پہلے حاصل نہیں ہؤا۔ مجھے بہت کم ایسے مواقع دیکھنے کا اتفاق ہؤا ہے جیسے میلوں وغیرہ کے مواقع ہوتے ہیں۔ مگر بہرحال مجھے اپنی عمر میں ایک دو موقعے ابتدائی ایام میں ایسے ضرور ملے ہیں جبکہ میں نے بعض مواقع دیکھے اور میں جانتا ہوں کہ ایسے موقع پر کس کس قسم کی کوششیں لوگ ایک ایک انچ آگے بڑھنے کے لئے کیا کرتے ہیں۔ کبھی وہ بڑے زور سے اپنا گھٹنا آگے کھڑے ہونے والوں کے درمیان داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جب انہیں گھٹنا داخل کرنے کا موقع مل جائے تو وہ ایک دو انچ پہلوانوں کی کشتی یا میچ کا نظارہ دیکھنے کے لئے اور آگے بڑھ جائیں۔ کبھی وہ پاؤں کی انگلیاں آگے گھسیڑتے ہیں، کبھی کہنیوں سے رستہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی کمزوروں کو دھکا دے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اور یہ ساری کوششیں صرف اس غرض کے لئے ہوتی ہیں کہ وہ چند منٹ کا کھیل دیکھنے کے لئے دوسروں سے ایک دو انچ آگے بڑھ جائیں۔ جب دنیوی کھیلوں میں لوگ ایک ایک انچ آگے بڑھنے کے لئے اس قدر کوششیں کرتے ہیں تو ایک مومن کو غور کرنا چاہیئے کہ اسے روحانی میدان میں دوسروں سے آگے نکل جانے کے لئے کس قسم کی کوششیں کرنی چاہئیں۔
آج وہ دن ہے کہ ہمارا خدا اپنے جاہ و جلال کے ساتھ آسمان پر پھر دنیا کو اپنا دیدار کرانے کے لئے جلوہ فرما ہے۔ آج اس کا حسن دنیا پر ظاہر ہونا چاہتا ہے۔ اس کی طاقتیں دنیا کو اپنا جلوہ دکھانا چاہتی ہیں۔ پس آج اس خدا کا دیدار کرنے اور دوسروں کو اس کا دیدار کرانے کے لئے ہمیں جس قدر کوشش، جس قدر سعی اور جس قدر جدوجہد کرنی چاہیئے اس کے مقابلہ میں وہ دنیوی میلے حیثیت ہی کیا رکھتے ہیں جن میں لوگ پہلوانوں کی کُشتی دیکھنے کے لئے یا کرکٹ وغیرہ کا میچ دیکھنے کے لئے ایک ایک یا دو دو انچ دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کیا کرتے ہیں۔ دنیا کی وہ کون سی چیز ہے جو خداتعالیٰ کے قرب سے زیادہ قیمتی ہو۔ دنیا میں بڑی سے بڑی چیز بادشاہت ہے ، دولت ہے، لوگوں پر غلبہ و اقتدار ہے، طاقت و قوت ہے مگر ان میں سے کون سی چیز ہے جس کو قربان کر کے اگر ہمیں خداتعالیٰ کے قرب میں ایک انچ نہیں، ایک انچ کا ہزارواں حصہ بھی آگے بڑھنے کا موقع مل سکے اور ہمیں اس کی محبت حاصل ہو جائے تو ہم یہ سمجھیں کہ ہم نے کوئی قربانی کی ہے یا ہم یہ خیال کریں کہ ہم نے کسی اعلیٰ چیز کو اپنے ہاتھ سے کھو دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت، اللہ تعالیٰ کا پیار اور اللہ تعالیٰ کا تعلق ایسی قیمتی چیزیں ہیں کہ دنیا کی کوئی چیز خواہ وہ کتنی بڑی ہو اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور دنیا کی کوئی چیز خواہ بظاہر کتنی قیمتی ہو خداتعالیٰ کے قرب کے ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کے مقابلہ میں بھی بالکل ہیچ اور بے حقیقت ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے قُرب میں آگے بڑھنے کا تحریک جدید کے ذریعہ جو عظیم الشان موقع عطا فرمایا ہے اس کو ضائع مت کرو۔ آگے بڑھو اور خداتعالیٰ کے ان بہادر سپاہیوں کی طرح جو جان اور مال کی پرواہ نہیں کیا کرتے اپنا سب کچھ خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کر دو۔ اور دنیا کو یہ نظارہ دکھا دو کہ بے شک دنیا میں دنیوی کامیابیوں اور عزتوں کے لئے قربانی کرنے والے لوگ پائے جاتے ہیں لیکن محض خدا کے لئے قربانی کرنے والی جماعت آج دنیا کے پردہ پر سوائے جماعت احمدیہ کے اور کوئی نہیں۔ اور وہ اس قربانی میں ایسا امتیازی رنگ رکھتی ہے جس کی مثال دنیا کی کوئی اور قوم پیش نہیں کر سکتی۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ موقع ہے ان لوگوں کے لئے جنہیں اس تحریک میں پہلے شامل ہونے کی توفیق نہیں تھی مگر اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں شمولیت کی توفیق مل چکی ہے۔ اسی طرح یہ موقع ہے ان لوگوں کے لئے جو گو اس تحریک میں پہلے شامل ہو سکتے تھے مگر کسی بداثر کے ماتحت وہ اس میں شامل ہونے سے محروم رہے۔ آج وہ بھی اپنے مَیلے کپڑے دھو لیں اور خداتعالیٰ کی اس صاف ستھری جماعت میں شامل ہو جائیں جس صاف ستھری جماعت میں شامل ہوئے بغیر وہ خداتعالیٰ کے قرب میں نہیں بڑھ سکتے۔
مَیں اپنی بیماری کی وجہ سے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اور میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس دعا سے نئے سال کی تحریک کا آغاز کرتا ہوں کہ اےخدا ! تُو ہماری جماعت کے قلوب میں آپ قربانی کی تحریک پیدا فرما۔ اے خدا! تُو اپنے فرشتوں کو نازل فرما جو لوگوں کو زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنے پر آمادہ کریں۔ اور اے ہمارے خدا! اس آمادگی کے بعد پھر تُو اپنے فرشتوں کو اس بات پر مامور فرما کہ جو لوگ قربانیوں کے وعدے کریں وہ اپنے ان وعدوں کو جلد سے جلد پورا کر دیں۔ اے میرے رب! تُو ہمیں توفیق عطا فرما کہ اس ذریعہ سے جو مال ہمارے پاس جمع ہو اسے ہم نیک نیتی اور اخلاص سے خرچ کریں۔ ہم اپنی کسی بدی، غفلت اور نادانی کی وجہ سے اس مال کے استعمال کرنے میں کوئی خرابی پیدا نہ کریں اور اے ہمارے رب! ہم نے تیری محبت اور تیرے قرب کو حاصل کرنے کے لئے اسلام کی عمارت کی جو بنیاد رکھی ہے تو اپنے فضل سے اس بنیاد پر ہمیں ایک ایسی عظیم الشان عمارت بنانے کی توفیق عطا فرما جس کی بنیادیں تو زمین میں ہوں مگر اس کی چھت عرشِ بریں کے پائے کو بوسہ دے رہی ہو تاکہ دنیا کے دُکھیا اور مصیبت زدہ اس عمارت میں آرام کا سانس لیں اور تیرے رسول، تیرے محبوب، تیرے پیارے خاتم النبیینؐ کے نام پر درود بھیجیں کہ اسی کی تحریکوں کے ذریعہ دنیا نے امن کا پیغام سنا۔ وہی ایک رسول ہے جس کی تعلیم پر عمل کر کے انسان اور نفس کی لڑائی، انسان اور ہمسایہ کی لڑائی جو ہمیشہ دنیا کے امن کو برباد کرنے کا موجب رہی ہے ختم ہو سکتی اور دنیا راحت و آرام کا سانس لے سکتی ہے۔ پس اے خدا! تُو ہمیں اس پاک رسول کے نام کو بلند کرنے اور اس کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کی توفیق عطا فرما تا بندے اور اس کے ہمسایہ کی لڑائی، بندے اور اس کے نفس کی لڑائی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے۔ اور بندے اور خدا کے درمیان دائمی صلح ہو جائے۔ جس صلح میں دائمی خوشی اور جس تعلق میں دائمی راحت ہے ۔ اور اس طرح دنیا کی تمام غلاظتیں اور دنیا کے تمام گناہ مٹ جائیں اور تیرا نور چاروں طرف پھیلتا ہؤا نظر آئے۔
مَیں یہ بھی اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ وہ مخلصین جو دوسروں سے آگے رہنے کے خواہشمند ہؤا کرتے ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ دسمبر کے مہینہ کے اندر اندر اپنے وعدے لکھوا دیں۔ اسی طرح وہ جماعتیں جو اچھا نمونہ دکھانا چاہتی ہیں انہیں بھی چاہیئے کہ وہ اپنی فہرستیں مکمل کر کے 31 دسمبر تک بلکہ ہو سکے تو جلسہ سالانہ سے پہلے ہی مرکزی دفتر تحریک جدید میں بھجوا دیں۔ یہ میعاد صرف ان مخلصین کے لئے ہے جو نیکی کے میدان میں آگے رہنے کے خواہشمند ہوتے ہیں ورنہ یوں وعدوں کے لحاظ سے 7فروری آخری تاریخ ہو گی۔ یعنی جو وعدے 7فروری تک یہاں پہنچ جائیں گے یا اپنے اپنے مقام سے 31 جنوری کو روانہ ہوں گے وہی قبول کئے جائیں گے باقی نہیں۔ سوائے ہندوستان کے ان علاقوں کے کہ جہاں اردو زبان بولی یا سمجھی نہیں جاتی اور سوائے بیرونی ممالک کے کہ ان کے لئے اپریل اور جون کی وہی تاریخیں مقرر ہیں جو پہلے مقرر ہؤ ا کرتی تھیں۔
مَیں امید کرتا ہوں کہ انصاراللہ اور خدام الاحمدیہ یہ دونوں اپنے وقت کی قربانی کر کے زیادہ سے زیادہ کانوں تک اس آواز کو پہنچانے کی کوشش کریں گے اور اس غرض کے لئے خاص طور پر جلسے منعقد کر کے لوگوں کو تحریک کریں گے کہ وہ اس چندہ میں حصہ لیں۔ اس طرح وہ ہر جگہ ایسے آدمی مقرر کر دیں جو ہر احمدی تک یہ آواز پہنچا دیں اور اسے دین کی اس خدمت میں حصہ لینے کی تحریک کریں مگر جبر سے نہیں، زور سے نہیں، محبت اور اخلاص سے تحریک کرو اور کسی کو اس میں شامل ہونے کے لئے مجبور مت کرو۔ جو شخص محبت اور اخلاص سے اس تحریک میں حصہ لیتا ہے وہ خود بھی بابرکت ہے اور اس کے روپیہ میں بھی برکت ہو گی۔ لیکن وہ جو مجبوری سے اور کسی کے زور دینے پر اس تحریک میں حصہ لیتا ہے اس کے دیئے ہوئے روپیہ میں کبھی برکت نہیں ہو سکتی۔ پس کسی کو جبراً اس تحریک میں شامل کر کے اس برکت کو کم مت کرو بکہ اگر تمہیں ایسا روپیہ ملتا بھی ہے تو اسے دور پھینک دو کہ وہ ہمارے لئے نہیں بلکہ شیطان کے لئے ہے۔ ہمارے لئے وہی روپیہ ہو سکتا ہے جو خدا کے لئے دیا جائے اور جسے ہم خدا کے سامنے پیش کرنے میں فخر محسوس کر سکیں۔‘‘
(الفضل یکم دسمبر 1943ء)

1: بخاری کتاب الجنائز باب ماجاء فی قبر النبی ﷺ

30
خدا کے لئے اپنے جذبات کی قربانی کرنا جسم اور آرام کی قربانی کرنے سے کم نہیں
(فرمودہ 24 دسمبر 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ ایک طرف میری آواز آج دور نہیں جا سکتی اور دوسرے مجھے ابھی معلوم ہؤا ہے کہ لاؤڈ سپیکر بھی خراب ہو گیا ہے جس کی وجہ سے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ دوستوں کو معلوم ہے کہ مَیں نے چند دن ہوئے اخبار میں اعلان کرایا کہ اس دفعہ سوائے ایسے لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی مقدرت بخشی ہو کہ وہ سفر کے لئے سہولت کے سامان مہیا کر سکتے ہوں یا سوائے ایسے دور کے علاقوں کے رہنے والے لوگوں کے جن کو قادیان آنے کا بہت کم موقع ملتا ہے باقی لوگوں میں سے کمزور، ضعیف ، بچے اور عورتیں جہاں تک ہو سکے اس سال جلسہ سالانہ پر آنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ بیماریاں تمام دنیا میں اور ہندوستان میں بھی پھیل رہی ہیں اور موسم بھی سخت خراب ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت اس سال بارش بہت پیچھے ہو گئی ہے۔ اور پنجاب میں قحط کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں ۔ لوگ کہتے ہیں بنگال کے قحط زدگان کی امداد میں پنجاب نے بہت کم حصہ لیا ہے ۔ مَیں نہیں کہہ سکتا یہ بات کہاں تک درست ہے۔ جہاں تک غلّہ کی فروخت کا سوال ہے گورنمنٹ ہند کہتی ہے کہ پنجاب گورنمنٹ نے اس میں کافی حصہ لیا ہے مگر بہرحال دنیا میں پنجاب پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے۔ ممکن ہے اس میں کوئی صداقت ہو اور اللہ تعالیٰ پنجابیوں کو بتانا چاہتا ہو کہ قحط کی تکلیف کیسی سخت ہوتی ہے اور یہ کہ جو ہمسائیوں پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔ بہرحال بارش نہ ہونے کی وجہ سے گردوغبار اس کثرت سے اُڑ رہا ہے کہ اکثر لوگوں کو نزلہ ، کھانسی اور اس قسم کی اور بیماریاں شدت سے لاحق ہو رہی ہیں۔ پھر اس دفعہ ریلوں کے متعلق بھی بہت دقت ہے اور سفر کی سہولتیں لوگوں کو میسر نہیں آ سکتیں۔ ان حالات میں مَیں نے یہ اعلان کرنا مناسب سمجھا کہ جماعت کے دوست اس دفعہ اپنے نفسوں پر جبر کرتے ہوئے زیادہ تر کوشش یہ کریں کہ عورتیں اور بچے اور کمزور مرد جلسہ سالانہ پر نہ آئیں۔ سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاص سہولتیں میسر ہوں۔
مَیں جانتا ہوں کہ طبائع پر اس قسم کے اعلان کا بُرا اثر پڑتا ہے۔ یعنی وہ دکھ اور تکلیف محسوس کرتی ہیں کیونکہ جہاں عشق اور محبت ہو وہاں لوگ موت کی تکلیف بھی پسند کر لیتے ہیں مگر پیچھے رہنے کو پسند نہیں کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دفعہ بہت ہجوم تھا اور لوگ مصافحہ کرنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس وقت کسی دوست نے اپنے کسی عزیز سے پوچھا کہ کیا تم نے مصافحہ کر لیا ہے؟ اس نے کہا نہیں ہجوم بہت ہے۔ وہ کہنے لگا یہ دن پھر تمہیں کہاں نصیب ہوں گے جاؤ اور اگر تمہارے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں تب بھی ایک دفعہ مصافحہ ضرور کر لو۔ تو جہاں محبت ہوتی ہے وہاں لوگ اس قسم کی چیزوں کی پرواہ نہیں کیا کرتے۔ اور درحقیقت محبت کا پتہ ہی ایسی قربانیوں اور ایثار سے لگتا ہے ۔ مگر جہاں محبت کرنے والے کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی محبت کا اظہار کرے بلکہ اس نے کیا اظہار کرنا ہے محبت آپ اپنے وجود کو ظاہر کیا کرتی ہے۔ انسانی ارادے کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا۔ وہاں وہ لوگ جن کو خداتعالیٰ نے ذمہ داری کے کام پر مقرر کیا ہؤا ہوتا ہے ان کا بھی فرض ہوتا ہے کہ ایسے دین کے شیدائیوں اور اس پر قربان ہونے والوں کی جانوں کی سوائے اس صورت کے کہ مذہب جانوں کو قربان کرنے کا مطالبہ کرے زیادہ سے زیادہ حفاظت کریں۔ پس جہاں مخلصین کے دلوں میں اس خواہش کا پیدا ہونا ایک طبعی امر ہے کہ خواہ انہیں کس قدر قربانی کرنی پڑے انہیں اس مقدس تقریب پر حاضر ہونا چاہیئے۔ وہاں ہمارا بھی فرض ہے کہ جہاں ہم دیکھیں کہ اس قسم کی قربانی کا اسلام نے کافی طور پر مطالبہ نہیں کیا وہاں ہر مومن کی جان بچانے کی کوشش کریں۔
ابھی مَیں لاہور میں ہی تھا کہ وہاں مجھے معلوم ہؤا کہ گورنمنٹ اپنی مجبور ی کی وجہ سے اس دفعہ سپیشل ٹرینوں کا انتظام نہیں کر سکی اور مَیں نے خاص طور پر دوستوں کو ہدایت کی کہ وہ اخبار میں نمایاں طور پر اس کی اشاعت کرتے رہیں مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس کی پوری اشاعت نہیں ہوئی۔ مَیں نے ایک افسر سے اس کا ذکر کیا تو اس نے کہا اس محبت کی وجہ سے جو لوگوں کو سلسلہ سے ہے وہ خودبخود اخلاص اور شوق سے آتے ہیں۔ میں نے اسے جواب دیا کہ جماعت کی زندگی کی یہی علامت ہے کہ دینی مواقع پر حاضر ہونے کے لئے وہ ہرممکن قربانی کرے اور اسے اس راہ میں جتنی بھی تکلیف پہنچے اسے برداشت کرے ۔ جب تک یہ مادہ جماعت میں نہیں پایا جاتا ، جب تک یہ مادہ جماعت میں قائم نہیں رہتا اس وقت تک جماعت صحیح معنوں میں جماعت نہیں کہلا سکتی مگر جس طرح یہ ضروری ہے کہ جماعت کے تمام افراد میں قربانی اور اخلاص کا مادہ پایا جائے اسی طرح ہم لوگوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے جن کو خداتعالیٰ نے جماعت کی خدمت کے لئے مامور کیا ہے کہ ہم بھی یہ دیکھیں کہ کسی مومن کی جان بے فائدہ اور بے غرض ضائع نہ ہو۔ پس ذمہ داری صرف ایک حصہ پر نہیں بلکہ دوسرے حصہ پر بھی ہے۔ ایک حصہ پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایک عاشق جانباز کی طرح اپنی جان قربان کرنے کےلئے ہر وقت آگے بڑھے اور دوسرے کا یہ فرض ہے کہ وہ عقل اور فہم سے کام لیتے ہوئے عشق کو ایسے رنگ میں ظاہر نہ ہونے دے کہ اس میں اسلام کا تو کوئی فائدہ نہ ہو اور مومنوں کی جانیں ضائع ہو جائیں۔ پس گو یہ بات احباب پر گراں گزری ہو گی مگر میں سمجھتا ہوں جن کے دلوں میں اخلاص اور محبت ہے اور جنہوں نے میرے اس حکم کی تعمیل کر کے تکلیف اٹھائی ہے اللہ تعالیٰ ان کو ثواب کے زیادہ موقعے بہم پہنچا کر ان کی اس کمی کو پورا کر دے گا اور ان کا میرے حکم کے ماتحت قادیان میں نہ آنابھی زیادتی ایمان اور زیادتی اخلاص کا موجب ہو گا کیونکہ وہ اس لئے نہیں آئے کہ ان کا دل قادیان آنے کو نہیں چاہتا تھا بلکہ وہ اس لئے رُکے کہ ان کے امام کی طرف سے جماعت احمدیہ کے افراد کی جانوں کی حفاظت کے لئے ایسا حکم دیا گیا تھا۔
میں سمجھتا ہوں یہی ایک حقیقی تعلق ہے جو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ہوتا ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے جو انسانوں کے دلوں کو اطمینان اور یقین سے پُر رکھتا ہے مگر اللہ تعالیٰ جہاں ایک طرف مومنوں کو عاشقانہ قربانیوں کی طرف بلا تا ہے وہاں ایسی حالت پر بھی وہ ان کو قائم کرنا چاہتا ہے جہاں اطاعت اور فرمانبرداری کا جذبہ ان کے سارے جذبات پر غالب آ جائے۔ وہ قوم جس میں یہ مادہ پایا جاتا ہے کہ وہ دین کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتی۔ نہ اس کے مرد نہ اس کی عورتیں، نہ اس کے بوڑھے نہ اس کے بچے، نہ اس کے امیر نہ اس کے غریب اور پھر ساتھ ہی اس قوم میں یہ مادہ پایا جاتا ہے کہ وہ ایک آواز پر اٹھتی ہے، ایک آواز پر بیٹھتی ہے، ایک آواز پر بڑھتی ہے اور ایک آواز پر رکتی ہے وہی قوم خدا کی قوم کہلاتی ہے اور وہی قوم ایسی ہوتی ہے جس کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی۔ وہ حلم اور انکسار میں کمزور ترین وجود نظر آتے ہیں اور دنیا ان کو دیکھ کر خیال کرتی ہے کہ ان کے پاؤں تلے چیونٹی بھی نہیں آتی ۔ ان کے ہاتھ سے ایک مکھی بھی گزند نہیں پاتی مگر جب خدا کی آواز اس قوم کے کانوں میں پڑتی ہے وہ بھوکے شیر کی طرح دھاڑتی ہوئی دشمن پر لپکتی ہے اور جب تک خدا کے حکموں کو پورا نہیں کر لیتی اس کی حرکت میں سکون پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا دل اطمینان نہیں پاتا۔ پس مَیں سمجھتا ہوں یہ قربانی جو دوستوں کو اس سال کرنی پڑی ہے یہ بھی ان کے ایمان کا ایک نمونہ اور ثبوت ہو گی۔ اور گو ہمارے قادیان کے بعض دوستوں پر یہ بات گراں گزر رہی ہے اور اس لئے میرے احکام کی اشاعت میں انہوں نے پورا حصہ نہیں لیا مگر بہرحال اس قسم کا حکم دینا میرے لئے ضروری تھا۔ وہ سمجھتے ہیں اگر جلسہ پر تھوڑے آدمی آئے تو لوگ کیا کہیں گے حالانکہ جو نادان اور اندھے ہیں ان کے کچھ کہنے یا نہ کہنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہو سکتا۔ اور نہ وہ کوئی ایسی حیثیت رکھتے ہیں کہ ان کی بات کی طرف توجہ کی جائے مگر جن کی آنکھیں ہیں اور جنہیں خداتعالیٰ نے سمجھنے والا دل دیا ہے وہ کہیں گے دیکھو اس قوم کو کہ جب اسے حکم دیا جاتا ہے بڑھو تو یہ بڑھتی ہے اور جب اسے حکم دیا جاتا ہے کہ ٹھہرو تو یہ ٹھہرتی ہے۔ پس یہ چیز ان کے ایمانوں کو بڑھانے کا موجب ہو گی بجائے اس کے کہ ان کے دل میں کوئی اعتراض پیدا ہو۔
باقی مجھ سے بعض دوستوں نے دور سے آنے والوں کے متعلق پوچھا کہ کیا ہم تاریں دے کر ان کو روک دیں۔ میں نے انہیں کہا کہ نہیں دور سے آنے والے پہلے ہی مستثنیٰ ہیں۔ اس لئے جن کو توفیق ہو اور جنہیں سفر کی سہولتیں میسر ہوں وہ اس موقع پر آ سکتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس کافی روپیہ ہوتا ہے اور اس وجہ سے انہیں سفر میں بھی اتنا آرام رہتا ہے جتنا عام لوگوں کو حضر میں میسر نہیں آتا۔ ایسا شخص اگر آتا ہے تو وہ اس قسم کی تکلیف نہیں اٹھاتا جو اس کی صحت اور اس کی جان کے لئے خطرہ کا موجب ہو۔ اگر واقع میں ایسے لوگوں کے دلوں میں اخلاص ہو گا تو خداتعالیٰ ان کو یہاں آنے کی توفیق دے دے گا اور وہ اس جلسہ میں شمولیت سے محروم نہیں رہیں گے۔ میری ہدایت صرف ایسے لوگوں کے لئے ہے جو کمزور ، ضعیف اور ناطاقت ہیں اور جن کے لئے سفر کرنا ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ خصوصاً ایسے حالات میں جیسے آجکل پیدا ہیں۔ دوستوں کو معلوم ہے کہ قادیان آنے کے لئے صرف دو ٹرینیں مقرر ہیں اور ان کے اوقات بھی اس قسم کے ہیں جو آرام دہ نہیں۔ ایک گاڑی تو دوپہر کو آ جاتی ہے مگر دوسری گاڑی رات کے گیارہ بجے بلکہ بعض دفعہ ایک اور دو بجے آتی ہے۔ بہرحال گورنمنٹ کا فعل کسی شکایت کا موجب نہیں۔ جہاں تک ہماری جماعت کے لئے حکام انتظام کر سکتے تھے وہ انہوں نے کیا اور ہم ہر صورت میں ان کے ممنون ہی ہیں۔
اب مَیں خطبہ کو ختم کرتے ہوئے دوستوں سے یہ خواہش کرتا ہوں کہ وہ عورتیں ، بچے اور ضعیف مرد جو میری ہدایت کے ماتحت پیچھے رہے ہیں دوستوں کو چاہیئے کہ تمام جلسہ بھر ان کے لئے دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے جذبات کی اس قربانی کو قبول فرمائے اور اس ثواب میں انہیں شریک کرے جو اس جلسہ میں شامل ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے مقدر کیا گیا ہے کیونکہ ہر شخص جو خداتعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے جذبات کی قربانی کرتا ہے وہ اس سے کم نہیں جو اپنے جسم اور آرام کی قربانی اس کے لئے کرتا ہے۔ ‘‘
(الفضل 5 فروری 1944ء)


31
مومن کو ترقیات کی خبر سن کر قربانی میں پہلے سے زیادہ ترقی کرنی چاہیئے
(فرمودہ 31 دسمبر 1943ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ پیشتر اس کے کہ مَیں خطبۂ جمعہ کا اصل مضمون شروع کر دوں مَیں توجہ دلاتا ہوں ناظمینِ جلسہ کو کہ انہوں نے عورتوں کے لئے پردہ کا کوئی انتظام نہیں کیا اور یہ ایک نہایت ہی معیوب بات ہے۔ جبکہ اسلام اس امر کو پسند فرماتا ہے کہ جن مجالس میں وعظ و نصیحت ہؤا کرے ان مجالس میں عورتیں ضرور جایا کریں تو ان کے لئے انتظام بھول جانا نہایت حیرت انگیز ہے۔ عورتوں کا اس طرح بغیر کسی انتظام کے باہر بیٹھنا طبیعت پر نہایت گراں گزرتا ہے۔ اور ہر لمحہ ایسے وقت کا ہمارے لئے ایک تنبیہہ ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے فرض کے سمجھنے میں غلطی کی ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام نے عورت کے لئے جس قسم کا پردہ رکھا ہے وہ برقع یا چادر سے پورا ہو جاتا ہے مگر باوجود اس کے عورتوں کی طبیعت میں جو حیا ہوتی ہے اور جس قسم کی حیا اسلام پیدا کرتا ہے وہ پسند نہیں کرتی کہ بلاطبعی ضرورت کے برقع میں بھی عورت اس طرح سامنے بیٹھی ہوئی ہو۔ یہی وجہ ہے قرآن کریم نے عورتوں سے مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ 1 باتیں کرنے کا حکم دیا ہے اور باوجود اس کے کہ وہ پردہ میں ہوں عام حالات میں اسلام یہ ہدایت دیتاہے کہ ایک پردہ لٹکا ہؤا ہو جس کے پیچھے بیٹھ کر مرد باتیں کریں یا وعظ وغیرہ کریں۔ مجبوری کی بات اور ہوتی ہے مگر اب خداتعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایسے سامان عطا فرمائے ہوئے ہیں کہ ہم آسانی سے اس بات کا انتظام کر سکتے ہیں ۔ اور جس بات کا ہم انتظام کر سکتے ہوں اس کو نہ کرنا افسوسناک ہوتا ہے۔
اس کے بعد میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے جلسہ کے کام سے ہم کو بخیروخوبی فارغ فرمایا۔ جیسا کہ احباب کو معلوم ہے پہلے دن دعا کے موقع پر جب میں کھڑا ہؤا تو میری صحت ایسی تھی کہ مَیں سمجھتا تھا جلسہ میں مَیں پوری طرح تقریریں نہیں کر سکوں گا اور ضعف کی حالت تو ایسی تھی کہ میرے لئے بولنا تو الگ رہا خالی کھڑا رہنا بھی دُو بھر تھا۔ مگر بجائے اس کے کہ جلسہ کے کام کی وجہ سے مجھے تکلیف محسوس ہوتی اللہ تعالیٰ نے اپنےفضل سے مجھے ایسی طاقت عطا فرما دی کہ مَیں جلسہ کے تمام کاموں میں پوری طرح حصہ لے سکا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گزشتہ سالوں کی نسبت کام میں کسی قدر کمی کر دی گئی تھی مگر پھر بھی آٹھ ، دس بلکہ بارہ گھنٹہ مجھے ان ایام میں روزانہ کام کرنا پڑا۔ ملاقاتیں ہی تین سوا تین گھنٹے تک ہوتی رہتی تھیں اور عورتوں کی بیعتیں شامل کر کے تو پانچ گھنٹے اس میں صرف ہو جاتے تھے۔ پھر نمازوں کے لئے آنا اور دوستوں سے مصافحہ کرنا الگ تھا۔ اس طرح روزانہ آٹھ نو گھنٹے کا کام ہو جاتا تھا مگر بجائے اس کے کہ اتنا بڑا کام میرے اعصاب پر کوئی بُرا اثر ڈالتا مَیں نے محسوس کیا کہ بجائے کمزور ہونے کے میرے جسم میں زیادہ طاقت آتی جاتی ہے اور آخری دن تو سوائے آواز کے بھرّا جانے کے مجھے کوئی ایسی کمزوری محسوس نہیں ہوتی تھی۔ جس سے مَیں یہ سمجھتا کہ مَیں اپنے فرض کو ادا نہیں کر سکوں گا۔ بلکہ آخری تقریر میں میرا دل مجھے یہ لالچ دلا رہا تھا کہ میں اپنی تقریر کو مکمل کر لوں اور میں سمجھتا تھا اگر گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی میں چار پانچ گھنٹے تقریر کر لوں تو یہ کوئی ایسا بوجھ نہ ہو گا جو میرے لئے ناقابلِ برداشت ہو۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا جو نازل ہؤا۔ ورنہ جو عام قانون ہے اس کے لحاظ سے اگر ایک کمزور اور بیمار آدمی محنت و مشقت کا کام کرے تو وہ اور زیادہ کمزور اور زیادہ بیمار ہو جاتا ہے۔ یہ خداتعالیٰ کا خاص قانون ہی ہوسکتا ہے اور ا س کا خاص قانون ہی تھا کہ ایک بیمار آدمی نے جب اپنی بیماری کی حالت میں محنت کی اور ایک کمزور آدمی نے جب اپنی کمزوری کی حالت میں مشقت برداشت کی تو بجائے اس کے کہ وہ اور زیادہ بیمار اور زیادہ کمزور ہوتا وہ اپنے اندر پہلے سے زیادہ طاقت اور قوت محسوس کرنے لگ گیا۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے اسی قسم کے انعامات ہی ہیں جو ہمارے دلوں میں اس کی محبت کا زیادہ سے زیادہ یقین پیدا کرتے ہیں اور ہم اس کے اتنے قریب ہو جاتےہیں کہ انبیاء کے برابر ہونے کا دعویٰ تو ہم نہیں کر تے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کے نتیجہ میں ایسا یقین ہمارے دلوں میں پیدا ہو جاتا ہے کہ دنیا کا کوئی ابتلاء ، دنیا کی کوئی ٹھوکر، دنیا کی کوئی مصیبت، دنیا کا کوئی خطرہ اور دنیا کی کوئی دھمکی ہمارے ایمان میں تذبذب پیدا نہیں کر سکتی ۔ بلکہ ہمارا یقین اور وثوق ان دھمکیوں، ان مصیبتوں اور ان خطرات سے اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اور ہم ایمان کے جس درجہ پر ہوتے ہیں ان خطرات، دھمکیوں اور مصیبتوں کے بعد ایمان کے اس سے اوپر کے درجہ میں پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔
میں نے جلسہ سے دو چار دن پہلے ایک رؤیا دیکھا تھا جس میں مجھے اپنی جماعت کا ایک نوجوان نظر آیا۔ وہ نوجوان مجھے ملا اور میں نے اس سےکہا کہ میں نے ایسا رؤیا دیکھا ہے ۔ وہ کہنے لگا مَیں تو آ گیا ہوں ۔ میں نے کہا اس سے یہ مراد نہیں ہو سکتی بلکہ اس سے یقیناً کچھ اور مراد ہے۔ مَیں جس وقت لاہور سے قادیان آنے لگا ہوں تو مَیں اپنی طبیعت پر یہ بوجھ محسوس کر رہا تھا کہ مَیں کس طرح جلسہ کے کام کا بار اٹھا سکوں گا۔ اسی طرح میری طبیعت پر اس امر کی وجہ سے بھی بڑا بوجھ تھا کہ جبکہ پہلے قادیان آنے کے لئے چار پانچ گاڑیاں چلتی تھیں اور پھر بھی مسافر ان میں سما نہیں سکتے تھے۔ تو اب صرف دو گاڑیوں کی وجہ سے کس قدر شدید تکلیف ہماری جماعت کے دوستوں کو برداشت کرنی پڑے گی ۔ اسی اثنا میں مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ ہماری جماعت کے ایک نوجوان جو پہلے قادیان میں ہی پڑھا کرتے تھے اور جن کا نام عبدالحمید ہے آئے ہیں اور انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ تم کہاں؟ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ یہ دوست جلسہ سالانہ پر ہمیشہ آیا کرتے ہیں۔ اس سال بھی جب آئے اور مجھے ملے تو مَیں نے انہیں بتایا کہ میں نے اس طرح رؤیا دیکھا ہے۔ وہ کہنے لگے مَیں تو آ گیا ہوں۔ میں نے کہا اس سے یہ مراد نہیں ہو سکتی۔ آپ تو ہمیشہ ہی آیا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ عام حالات میں نظر آنے والا کوئی ایسا شخص ہی ہو سکتا ہے جس سے خاص واقفیت ہو۔ وہ نوجوان قادیان میں پڑھتے رہے ہیں اور ان کے والد بھی مخلص ہیں مگر پھر بھی ان کا یا ان کے والد کا مجھ سے ایسا گہرا تعلق نہیں کہ وہ نوجوان مجھے یونہی خواب میں نظر آ جائے۔ اور اب تو کبھی سال دو سال میں ایک دفعہ انہیں دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ بہرحال مَیں اس رؤیا سے یہ سمجھتا تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا فعل صادر ہو گا جس کی بناء پر اس کی حمد کرنے کی ہمارے دلوں میں تحریک پیدا ہو گی۔ حمید کے معنے ہیں وہ خدا جو سچی حمدوں کا مالک ہے اور جس کی تمام دنیا تعریف کرتی ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لو کہ وہ خدا جس کے انعامات کو دیکھ کر لوگ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ 2کہنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ پس عبدالحمید کے معنے یہ ہوئے کہ وہ بندہ جو خدا کی حمدکرتا ہے اور حمد خدا کے کسی عظیم الشان انعام پر ہؤا کرتی ہے۔ پس میں سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہم پر کوئی ایسا انعام نازل کرنے والا ہے کہ ہمارے دل اس کے شکر کے جذبات سے اور زیادہ بھر جائیں گے اور جس طرح اس کے اَن گنت انعامات اور اَن گنت نشانات ہم پہلے دیکھ چکے ہیں اسی طرح اس کا کوئی اور انعام یا کوئی اور نشان عنقریب دیکھنے والے ہیں۔ سواَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کہ ایسا ہی ہؤا۔
اب مَیں احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ موجودہ سال آج کی تاریخ کو ختم ہو جائے گا اور گزشتہ سال کہلانے لگ جائے گا۔ اور اس کے بعد ایک نیا سال ہم پر چڑھے گا۔ چونکہ اس نئے سال کے جمعہ کا موقع سات دنوں کے بعد آئے گا اور اس لئے بھی کہ مَیں کل اِنْشَاءَ اللہُ اپنی بیوی کی علالت کی وجہ سے لاہور جا رہا ہوں۔ ممکن ہے اگلے جمعہ کا دن مَیں لاہور میں ہی گزاروں۔ اور اس طرح قادیان میں خطبہ پڑھنے کا موقع نہ ملے۔ اس لئے مَیں ابھی سے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اگلے سال اپنے اندر خاص تبدیلی پیدا کرنی چاہیئے۔ گزشتہ سال کئی مبارک اور اہم دن، ایسے دن جن کا ہماری زندگیوں پر گہرا اثر پڑتا تھا جمعہ کے دن آئے تھے اور مَیں نے بتایا تھا کہ ان اہم ایام کا جمعہ کے دن آنا بے حکمت نہیں۔ جمعہ کے دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش ہوئی تھی۔ اور اس وجہ سے گزشتہ سال اپنے اندر ایسا بیج رکھتا تھا جس سے اسلام کی آئندہ ترقیات کا پودا پھوٹنے والا ہے۔ اسی دوران میں اللہ تعالیٰ نے بعض نشانات اور حالات ایسے ظاہر فرمائے جن سے میرے اس خیال کی زیادہ سے زیادہ تصدیق ہو گئی۔ اب آئندہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے 1944ء اور 1945ء اس بیج کے ماحول کو درست کرنے اور اس کے اثرات کو بڑھانے کے لئے خصوصیت رکھتے ہیں۔ مَیں ابھی ان امور کو ظاہر کرنا پسند نہیں کرتا۔ جب یہ امور کھلیں گے اس وقت دنیا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض عظیم الشان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا نظارہ نظر آنے لگ جائے گا مگر ہر چیز اپنے وقت پر کھلتی ہے۔ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ ان امور کا اپنے بندوں کو بھی علم نہیں دیتا جن کو اس نے کام پر مقر رکیا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ علم تو دے دیتا ہے مگر ان کے دل میں تحریک پیدا نہیں کرتا کہ وہ اس کو ظاہر کریں۔ اور بعض دفعہ علم تو دے دیتا ہے مگر ساتھ ہی منع کر دیتا ہے کہ ابھی ان باتوں کو ظاہر نہ کریں۔ پس جب وقت آئے گا اور بات کھل جائے گی اس وقت اللہ تعالیٰ کے بعض عظیم الشان نشانات سے مومنوں کے ایمانوں میں بہت زیادتی ہو گی۔ لیکن اس حقیقت سے کسی صورت میں بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام ہم سے ایک بہت بڑی قربانی چاہتا ہے۔ اگر ہماری جماعت اس قسم کی پیشگوئیوں کو دیکھ کر یہ سمجھ لے کہ اب ہمیں آرام سے بیٹھنے کا موقع مل جائے گا تو یہ اس کی شدید ترین غلطی ہو گی۔ میں نے دیکھا ہے جماعت میں چونکہ ایک حصہ کمزور لوگوں کا ہوتا ہے اور کچھ ایسے لوگ بھی جماعت میں شامل ہوتے ہیں جنہیں دین کی پوری واقفیت نہیں ہوتی اس لئے جب بھی اس قسم کی کوئی خبر دی جاتی ہے یا کوئی ایسا نشان ظاہر ہوتا ہے جس سے اسلام کی ترقی ہوتی یا اس کی ترقی کا امکان پیدا ہوتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں اب تو ہمیں ترقی حاصل ہو گئی۔اب قربانیوں کی کیا ضرورت ہے۔ جس دن کسی قوم میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ اسے قربانیوں کی ضرورت نہیں رہی اسی دن وہ تباہی اور بربادی کے راستہ پر چل پڑتی ہے۔ یاد رکھو کوئی وقت ہم پر ایسا نہیں آ سکتا جب ہمیں دین کے لئے قربانیوں کی ضرورت نہ رہے۔ اگر دنیا کا ہر شخص مسلمان ہو جائے، اگر دنیا کا ہر شخص احمدی ہو جائے ، اگر دنیا کا ہر شخص خداپرست ہو جائے، اگر دنیا کا ہر شخص محبوبِ الٰہی ہو جائے تب بھی محنت اور قربانی کا دروازہ بند نہیں ہو سکتا۔ حقیقی عشق تو چاہتا ہی قربانی ہے۔ کوئی عشق نہیں ہو سکتا جس میں قربانی کا مادہ نہ پایا جائے اور کوئی عشق نہیں ہوسکتا جس میں قربانی کا مادہ ہمیشہ بڑھتا نہ رہے۔ رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ سے جو عشق تھا اس کا کون انکار کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کامیابیاں دیں ہمیں ان کا عُشر عشیر بھی حاصل نہیں ہؤا۔ آپ ایسے وقت میں فوت ہوئے جب اس ملک پر آپ کا قبضہ ہو چکا تھا جس میں آپ پیدا ہوئے اور وہ قوم آپ کی غلامی میں داخل ہو چکی تھی جس کی طرف آپ مبعوث ہوئے۔ شریعت کے نفاذ کا پورا حق اور تصرف آپ کو حاصل ہو گیا تھا اور قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے اور اس پر عمل کرنے اور کرانے کے لئے جتنے سامانوں کی ضرورت تھی وہ سب اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرما دئیے تھے۔ ایسے خدام بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرما دئیے جو اپنی جانیں قربان کر کے قرآن کریم کی اشاعت میں حصہ لیتے رہے۔ اور اس کے احکام پر عمل کرتے اور دوسروں سے عمل کراتے رہے۔ مگر باوجود اس کے دیکھو کیا رسول کریم ﷺ پر کوئی بھی دن ایسا آیا جب آپ نے قربانی نہ کی ہو۔ بخاری میں حضرت عائشہؓ روایت فرماتی ہیں۔ جب رسول کریم ﷺ بوڑھے ہو گئے۔ تب بھی آپ عبادت کے لئے جب رات کو اٹھتے تو اتنی عبادت کرتے اور اس قدر گریہ و زاری سے کام لیتے کہ کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں سوج جاتے۔ حضرت عائشہؓ روزانہ یہ نظارہ دیکھتیں اور دل ہی دل میں کڑھتیں کہ رسول کریم ﷺ اس قدر تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں۔ آخر ایک دن ان سے برداشت نہ ہو سکا اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ! آپ اتنی تکلیف کیوں برداشت کرتے ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل نازل نہیں کر دیا۔ اور کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی اور پچھلی تمام بشری کمزوریوں کے پورا کرنے کے سامان نہیں کر دیئے۔ پھر آپ کیوں اس قدر تکلیف اٹھاتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اَلَّا اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا۔3 عائشہؓ تو کہتی ہے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فضل کئے پھر کیا تو چاہتی ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا شکریہ ادا نہ کروں۔ فرمایا عبادت تو لازمی نتیجہ ہے ان فضلوں کا جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے اور جس کو تُو قربانی کہتی ہے وہ تو ایک پھل ہے اس بیج کا جسے اللہ تعالیٰ نے ایک درخت کی صورت میں ظاہر فرما دیا۔ وہ شخص جسے اس کی قربانیوں کا پھل نہ ملا جس نے کوششیں کیں مگر ان کا کوئی نتیجہ اس نے نہ دیکھا وہ شخص اگر عبادت میں سستی کر جائے تو غلطی میں مبتلا سمجھا جا سکتا ہے مگر وہ جس نے دیکھا کہ اس پر فضل نازل ہوئے ، جس نے دیکھا کہ ہر قسم کی بدنامی اور الزام سے اللہ تعالیٰ نے اسے بچا لیا، جس نے دیکھا کہ اسے زمین سے اٹھا کر اللہ تعالیٰ نے عرشِ بریں تک پہنچا دیا، جس نے دیکھا کہ ایک مُشتِ خاک کو اس نے اپنے پیاروں میں شامل کر لیا وہ اگر قربانی نہیں کرے گا تو اَور کون کرے گا۔ پس مت خیا ل کرو کہ جب کوئی ترقی کی پیشگوئی پوری ہو یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نشان ظاہر ہو تو اس کے بعد تمہیں قربانیوں کی ضرورت نہیں رہ سکتی۔ کسی پیشگوئی یا نشان کا پورا ہونا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ایک بیج بویا جاتا ہے۔ اس کے بعد اگر تم یہ سمجھ لو کہ اب تمہیں قربانی اورمحنت کی ضرورت نہیں یا تمہارےدل میں موت سے پہلے کسی وقت بھی یہ خیال پیدا ہوجاتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ تمہارے ایمان میں کمزوری پیدا ہوچکی ہے اورکسی خفیہ بدعملی نے تمہاری اس طاقتِ ایمان کوسلب کر لیاہے جوتمہارےاندرپائی جاتی تھی۔ ورنہ ایک مومن تو جب یہ سنتا ہے کہ اسے خداتعالیٰ نے کوئی کامیابی دی ہے یا برکت دی ہے یا ترقی دی ہے تو وہ قربانی میں اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کے تین صحابی تھے۔ قرآن کریم میں ان کا خاص طور پر ذکر آتا ہے۔ وہ کسی غفلت کی وجہ سے ایک عظیم الشان جنگ میں شامل ہونےسے رہ گئے۔ جس کا خداتعالیٰ کے خاص منشاء کے ماتحت ارادہ کیا گیا تھا۔ اورجو اپنے ا ندر بہت بڑی برکات رکھتی تھی۔ چنانچہ منافقوں کی تباہی اسی جنگ کے نتیجہ میں ہوئی۔ جب رسول کریم ﷺ جنگ سے واپس آئے تو منافقوں نے آ آ کر معذرتیں کرنی شروع کر دیں کہ ہم اس اس وجہ سے شامل نہیں ہوئے۔ رسول کریم ﷺ ہاتھ اٹھاتے ، ان کے لئے دعا کرتے اور وہ واپس چلے آتے۔ یہ تین صحابی جو اس جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے ان میں سے ایک کے پاس ان کا ایک دوست گیا ۔ انہوں نے پوچھا کیا ہو رہا ہے۔ اس نے کہا معاملہ تو سہولت سے طے ہو رہا ہے۔ لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں یارسول اللہ! اس وجہ سے غلطی ہو گئی اور آپؐ کہتے ہیں آؤ میں تمہارے لئے استغفار کروں۔ چنانچہ آپ ہاتھ اٹھاتےاور دعا کرتے ہیں اور وہ خوش خوش واپس چلے جاتے ہیں۔ تم بھی رسول کریم ﷺ کے پاس جا کر معذرت کر دو تاکہ ناراضگی سے بچ جاؤ۔ اس صحابی کا بیان ہے کہ مَیں نے کہا اچھا ہؤا کہ معاملہ اس طرح آسانی سے طے ہو رہا ہے مگر معاً مجھے خیال آیا کہ جن کا اس دوست نے ذکر کیا ہے وہ تو سب منافق ہیں۔ مَیں نے اس سے کہا تم یہ بتاؤ کہ فلاں فلاں شخص جن کو میں مومن سمجھتا ہوں کیا وہ بھی آئے تھے؟ اس نے کہا ہاں آئےتھے۔ میں نے پوچھا تو پھر انہوں نے کیا کہا ؟ وہ کہنے لگا انہوں نے تو کہا ہے کہ یارسول اللہ ہمارا قصور تھا کہ ہم پیچھے رہ گئے۔ اور رسول کریمﷺ نے ان سے فرمایا کہ جاؤ اور خدا کےفیصلہ کا انتظارکرو۔ اس پر میں نے کہا معافی مجھے ملے یا نہ ملے میں وہ کام تو ہرگز نہیں کروں گا جو منافقوں نے کیا ہے۔ چنانچہ یہ گئے اور انہوں نے کہا یارسول اللہ! سارے سامان میسر تھے۔ میرا گناہ تھا کہ میں شامل نہ ہؤا اور سستی کی وجہ سے ثواب کے اس عظیم الشان موقع سے محروم رہا۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جاؤ اور اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کاانتظار کرو۔ دوسرے دن اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آپؐ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ان تینوں سے کوئی شخص کلام نہ کرے اور نہ ان سے کسی قسم کا تعلق رکھے۔ وہ کہتے ہیں رسول کریم ﷺ کے اس حکم کے نتیجہ میں ہم سے کلام سلام بند ہو گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد رسول کریم ﷺ نے فرمایاان کے بیوی بچے بھی ان سے الگ ہو جائیں۔ چنانچہ وہ بھی الگ ہو گئے۔ چند دن گزرے تو میری بیوی نے مجھے کہا کہ فلاں صحابی نے رسول کریم ﷺ سے خواہش کی تھی کہ میں بوڑھا اور کمزور ہوں میری بیوی کو میری خدمت کرنے کی اجازت دی جائے اوررسول کریم ﷺ نے اس کو اجازت دےدی ہے تم بھی جاؤ اور رسول کریم ﷺ کی خدمت میں درخواست کرو کہ میری بیوی کو میری خدمت کرنے کا موقع دیا جائے۔میں نے اس سے کہا یہ شیطان کا وسوسہ ہے۔ وہ تو بڈھا ہے اور اسے بیوی کی خدمت کی ضرورت ہے۔ میں جوان ہوں مجھے خدمت کی کیا ضرورت ہے۔ پس میں نے اس سےصاف کہہ دیا کہ میں کوئی ایسا کام کرنے کے لئے تیار نہیں جس سے مجھے سزامیں کمی محسوس ہو۔ مگر وہ کہتے ہیں باوجود اس جذبہ کے میرے دل میں یہ درد تھا کہ لوگ کہیں مجھے بھی منافقوں میں شامل نہ سمجھ لیں۔ ان کے ایک دوست تھے جو رشتہ میں بھائی بھی تھے ۔ یہ دونوں ہمیشہ اکٹھے رہتے اور اکٹھے ہی کھانا کھایا کرتےتھے۔وہ کہتے ہیں جب میں اس کو دیکھتا کہ نہ صرف وہ مجھ سے کلام نہ کرتا بلکہ اس کی آنکھوںمیں محبت اور پیار کانشان مجھے نظر نہ آتاتومیرےدل کو سخت دکھ محسوس ہوتا۔ ایک دفعہ وہ اپنے باغ میں کا م کر رہاتھا کہ مَیں اس کے پاس گیا اور میں نے اسے کہا تم کو پتہ ہے کہ مَیں منافق نہیں اور تم کو پتہ ہے کہ یہ خطا جو مجھ سے ہوئی اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام کے لئے قربانی کا مادہ میرے اندر نہیں پایا جاتا۔ یہ ایک قصور ہے جو سُستی کی وجہ سے مجھ سے سرزد ہوگیا ۔ مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے پھر اسے توجہ دلائی۔ مگر اس نے پھر کوئی جواب نہ دیا۔ پھر توجہ دلائی مگر پھر کوئی جواب نہ دیا۔ آخر چوتھی بار مَیں نے توجہ دلائی تو اس نے بغیر میری طرف دیکھنے کے آسمان کی طرف اپنا سر اٹھایا اور کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اس کا مجھے اتنا صدمہ ہؤا، اتنا صدمہ ہؤا کہ شدتِ غم کی وجہ سے باغ کا رستہ بھی مجھے نہ ملا اور مَیں دیوار پھاند کر پاگلوں کی طرح شہر کی طرف چل پڑا۔ رستہ میں مجھے ایک شخص ملا اور اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم فلاں شخص ہو۔ میں نے کہا ہاں۔ اس نے ایک خط نکالا جو ایک ہمسایہ بادشاہ کا تھا اور جو میرے نام لکھا ہؤاتھااُس چٹھی کا مضمون یہ تھا کہ تم عرب کےرئیس ہو اور تمہاری لوگوں کے دلوں میں بہت بڑی عزت ہے مگر ساتھ ہی رسول کریم ﷺ کا نام لے کر لکھا تھا کہ وہ نہیں جانتا شریفوں کی کس طرح قدر کیا کرتے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ اس نے تمہیں سزا دی ہے ۔ تم میرے پاس چلے آؤ میں ہر طرح تمہارا اعزاز و اکرام کروں گا اور تمہاری شان کے مطابق تم سے سلوک کروں گا۔ وہ کہتے ہیں مَیں نے جب اس خط کو پڑھا تو سمجھا کہ یہ شیطان کی آخری تدبیر ہے۔ چنانچہ میں نے اس شخص کو اشارہ کیا کہ میرے ساتھ آ جاؤ۔ آگے تنور جل رہاتھا۔ میں نے وہ خط اس تنور میں ڈال دیا۔ اور اسے کہا جاؤ اپنے بادشاہ سے کہہ دو کہ یہ تمہارے خط کا جواب ہے۔ وہ رسول کریم ﷺ کا واقعہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اور تو سب چیزیں برداشت ہو جاتی تھیں مگر رسول کریم ﷺ کی ناراضگی برداشت کرنے کی طاقت نہیں تھی۔ میرا کام یہ تھا کہ جب رسول کریم ﷺ باہر آتے تو مَیں آپ کی مجلس میں پہنچتا اور زور سے کہتا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ۔ پھر مَیں رسول کریم ﷺ کے مُنہ کی طرف دیکھنے لگ جاتا کہ آیا آپ کے ہونٹ جواب میں ہلے ہیں یا نہیں۔ مگر وہ تو خدا کا حکم تھا کہ ان لوگوں سے تعلق نہ رکھا جائے۔ اس خدائی حکم کے بعد رسول کریم ﷺ کے ہونٹ بھلا کس طرح ہل سکتے تھے۔وہ کہتے ہیں جب مَیں دیکھتا کہ رسول کریم ﷺ کے ہونٹ نہیں ہلے۔ تو مجھے ایک جنون کا سا دورہ ہوتا اور مَیں اٹھ کر باہر چلا جاتا اور دل میں کہتا رسول کریم ﷺ تو بڑے مہربان ہیں۔ معلوم ہوتا ہے آپ نے میرے سلام کی آواز نہیں سنی ۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد میں پھر مجلس میں آتا اور کہتا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ ۔ اور پھر رسول کریم ﷺ کے ہونٹوں کی طرف دیکھتا ۔ مگر جب وہ مجھے ہلتے نظر نہ آتے تو تھوڑی دیر بیٹھ کر پھر باہر چلا جاتا اور کہتا رسول کریم ﷺ تو بڑے شفیق ہیں یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ سلام کی آواز سنیں اور جواب نہ دیں۔ چنانچہ میں پھر باہر جاتا اور پھر واپس آ کر اسی طرح اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا۔ اور روزانہ ایسا ہی کیا کرتا لیکن رسول کریم ﷺ کبھی سلام کا جواب نہ دیتے مگر وہ کہتے ہیں کبھی کبھی یکدم رسول کریم ﷺ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا تو آپؐ کی نگاہ مجھ پر نہایت شفقت سے پڑ رہی ہوتی تھی۔ اس سے میرے دل کو تسلی ہو جاتی تھی۔ آخری دن میں اپنے گھر میں لیٹا ہؤا تھا کہ مجھے زور سے ایک شخص کی آواز سنائی دی کہ اے مالک تمہارا گناہ خدا نے بخش دیا۔ وہ کہتے ہیں مَیں باہر آیا تو ایک شخص گھوڑا دوڑاتے ہوئے میرے پاس پہنچا اور اس نے کہا کہ آج نمازِ صبح کے بعد رسول کریم ﷺ نے یہ اعلان فرما دیا ہے کہ تینوں کو خدا نے معاف کر دیا۔ (یہ نماز پڑھ کر جلدی آ گئے تھے) تب ایک شخص گھوڑے پر چڑھ کر یہ خبر دینے کے لئے دوڑ پڑا۔ مگر دوسرے نے زیادہ ہوشیاری سے کام لیا اور اس نے ایک اونچی جگہ پر چڑھ کر آواز دے دی کہ اے مالک خدا نے تجھے معاف کر دیا۔ اس پر انہوں نے کپڑوں کا ایک جوڑا قرض لیا اور جس شخص نے انہیں سب سے پہلے یہ خوشخبری سنائی تھی انہیں تحفہ کے طور پر دے دیا اور کہا مَیں نے یہ منت مانی ہوئی تھی کہ جو شخص میری معافی کی خبر مجھے سب سے پہلے سنائے گا اسے ایک جوڑا تحفہ کے طور پر دوں گا۔ وہ خود چونکہ مالدار تھے اس لئے انہوں نے کہا مَیں جو مانگ کر تمہیں یہ جوڑا دے رہا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ مَیں نے نیت کر لی تھی کہ جب خدا مجھ پر فضل کرے گا اور مجھے معافی مل جائے گی اُس وقت میں اپنی ساری جائداد خدا کے رستہ میں دے دوں گا۔ چنانچہ اب میرے پاس کچھ نہیں۔ سب جائداد مَیں نے خداتعالیٰ کو دے دی ہے۔
تو دیکھو مومن فضلوں کے وقت بجائے قربانی کم کرنے کے قربانیوں کے میدان میں اَور بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ جب تک رسول کریم ﷺ کی ناراضگی کی وجہ سے تکلیف رہی قربانی کی نیت رکھی اور جب معافی مل گئی اور آرام اور سکون حاصل ہو گیا تو قربانی کو فراموش کر دیا بلکہ جب انہیں معافی ملی انہوں نے اپنی ساری جائداد خداتعالیٰ کے رستہ میں دے دی۔
تو مومن کو ترقیات کی خبریں سن کر کبھی سست نہیں ہونا چاہیئے بلکہ قربانی میں پہلے سے زیادہ بڑھنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا ہی اسی لئے کیا ہے۔ دیکھو رسول کریم ﷺ سے بڑھ کر اور کون محنتی ہو سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں آپؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ۔4 اب تمہاری محنت کے دن ختم ہو گئے ہم نے تمہارے بوجھ تم سے دور کر دئیے اور کامیابیاں تمہیں عطا فرما دیں۔ ۔ پس اب جبکہ تم فارغ ہو گئے ہو تو خوب محنت کرو۔ اگر فراغت کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ کام نہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کہا جاتاکہ اب تم خوب سوؤ کیونکہ کام ختم ہو گیا مگر یہ نہیں فرماتا بلکہ فرماتا یہ ہے کہ خوب محنت کرو۔ گویا مومن کی مثال مدرسہ کے اس طالبعلم کی سی ہوتی ہے جو چھٹی جماعت پاس کر لیتا ہے تو ساتویں جماعت میں داخل ہو جاتا ہے۔ ساتویں پاس کر لیتا ہے تو آٹھویں میں داخل ہو جاتا ہے۔ آٹھویں پاس کر لیتا ہے تو نویں میں داخل ہو جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بندوں کے علم محدود ہوتے ہیں۔ اس لے چودہ یا سولہ سال کے بعد وہ کہتے ہیں ہم نے تمہیں جتنا پڑھانا تھا پڑھا دیا مگر اللہ تعالیٰ کا علم چونکہ غیرمحدود ہے اس لئے مومن اس جہان میں بھی کا م کرتا چلا جاتا ہے اور اگلے جہان میں بھی کام کرتا چلا جائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی کامیابیوں پر یقین رکھو مگر دل میں یہ ارادہ کر لو کہ جب وہ کامیابیاں تمہیں حاصل ہوں گی۔ تم سست نہ ہو گے ، غافل نہ ہو گے بلکہ پہلے سے زیادہ قربانیاں کرتے چلے جاؤ گے۔ تا اللہ تعالیٰ تمہاری موت کے وقت تم سے خوش ہو اور اگلے جہان میں تمہیں وہ مقام عطا کرے جس پر چل کر ہمیشہ تمہارا قدم ترقیات کے میدان میں آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے۔ اَللّٰہُمَّ اٰمِیْن۔‘‘
دوسرے خطبہ میں فرمایا:
’’ مَیں کل اِنْشَاءَ اللہُ لاہور جاؤں گا۔ مَیں سمجھتا ہوں اُمِّ طاہر بھی آپ لوگوں کی دعاؤں کی اس لئے مستحق ہیں کہ باوجود تکلیف کے اور باوجود اس بات کے کہ آپریشن کا موقع قریب تھا انہوں نے مجھے آنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ فون کیا کہ آپ دو دن اور ٹھہر جائیں تاکہ جلسہ کے کام سے فارغ ہو کر آ سکیں۔ ڈاکٹری رپورٹ ابھی تک یہی ہے کہ جہاں تک انسانی عقل کا سوال ہے آپریشن کرانا ضروری ہو گا۔ مگر میرے جانے پر ہی اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ غیرمعمولی طور پر کوئی اور سامان پیدا فرما دے۔ بہرحال مَیں کل لاہور جاؤں گا اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہاں سے کب واپس آنے کا موقع ملے۔‘‘
(الفضل 5 اپریل 1944ء)

1 : الاحزاب:54
2 : الفاتحة: 2
3 : صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین واحکامہم باب اکثار الاعمال والاجتہاد
فی العبادة میں ’’اَفَلَا اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا‘‘کے الفاظ ہیں۔
4 : الانشراح: 8
 
Top